Qaid E Ishq By Yaman Eva New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Qaid E Ishq By Yaman Eva Complete Romantic Novel |
Novel Name: Qaid E Ishq
Writer Name:Yaman Eva
Category: Complete Novel
وہ روڈ پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چل رہی تھی، ہاتھ فضا میں اٹھاٸے جیسے ہوا میں کچھ ٹٹول رہی ہو۔۔ قریب سے گزرتے لوگوں نے تاسف سے اس مکمل اور خوبصورت لڑکی کو دیکھا۔۔
اس نے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھنا چاہا۔۔
”سیدھی چلتی رہو۔۔ پیچھے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔“ کان میں لگے اٸیر پیس سے آواز ابھری تو جلدی سے سیدھی ہوٸی اور اسی پل ایک طرف روڈ کے پاس موباٸل کان سے لگا کر ٹہلتے ہوٸے لڑکے سے ٹکراٸی اور ٹکر ایسی زور دار تھی کہ اس کا موباٸل روڈ پر گرا۔
سیاہ گاڑیوں کے پاس کھڑے گارڈز نے یوں چوکنا ہو کر نشانہ باندھا جیسے وہ کوٸی دہشت گرد ہو۔۔
”دیکھ کر چلیں۔۔ اندھی ہیں کیا۔۔“ وہ لڑکا اسے گھور کر سخت لہجے میں بولا اور جھک کر موباٸل اٹھایا جس کی سکرین بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔۔
”جی۔۔ جی اندھی۔۔ ہوں۔۔ سوری۔۔“ وہ گڑبڑا کر ایک قدم پیچھے ہوٸی تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
بلیو جینز پر پلین براٶن کرتا اور ہم رنگ سٹالر چہرے کے گرد لپیٹے وہ لڑکی کوٸی نو عمر کالج گرل لگ رہی تھی، شفاف گلابیاں چھلکاتے چہرے پر سیاہ گلاسز لگے ہوٸے تھے۔۔ چہرے پر اس وقت کچھ کچھ پریشانی کے ساتھ خوف ظاہر ہوا تو وہ کچھ نرم پڑا۔
”اٹس او۔کے۔۔ بی کٸیر فُل۔۔“ وہ ایک متاسف نظر اپنے موباٸل کو دیکھتا گاڑی کی طرف بڑھا۔۔ گارڈ نے جلدی سے گاڑی کا ڈور کھولا اور وہ بیٹھ گیا۔۔
سیاہ پراڈو کے آگے پیچھے ایک ایک سیاہ جیپ تھیں جن میں گن مینز سوار تھے۔ کسی سیاسی شخصیت جیسا پروٹوکول تھا، وہ اچھی خاصی مرعوب ہوتی اسی طرح فضا میں بازو سیدھے کیے ٹٹول ٹٹول کر چلتی واپس روڈ پر کھڑی گاڑی کے پاس پہنچی، جہاں تین اور لڑکیاں کھڑی تھیں۔۔
”ڈیٸر ڈن۔۔ میں نے کر لیا۔۔ اٹ واز ایزی۔۔“ وہ سیاہ گلاسز اتار کر خوشی سے چہک کر بولی، مگر ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھتی لڑکی نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم نے بات کی۔۔ تمہیں اندھا اور گونگا بننا تھا۔۔ مگر تم نے ٹکرا کر بات کی ہان۔۔ ڈیٸر ڈن نہیں ہوا۔۔“
گاڑی سٹارٹ کرتی ریما نے منہ بنا کر یاد دلایا۔
”میں نے بات نہیں، تم لوگ اتنی دور تھیں، کیسے سنا۔۔؟ میں نے تو بس اشارہ کر کے معذرت کی۔۔“
وہ صاف مکر گٸی، بلنڈر تو کر چکی تھی، پکڑی جاتی تو پینالٹی میں اور ڈیٸر مل جانا تھا۔۔
”بات تو تم نے کی۔۔ کیا بولی یہ نہیں سنا کیونکہ واقعی بہت دور تھیں تم۔۔ اب مکرو مت۔۔“
پچھلی طرف کا ڈور کھول کر اس کے ساتھ بیٹھتی مرحا نے بھی اسے گھور کر کہا، جبکہ منال کسی سوچ میں گم خالی روڈ کی مخالف سمت دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ سیاہ گاڑیاں طوفان کی سی تیز رفتاری سے روانہ ہوٸی تھیں۔
”سنو۔۔ مجھے کیوں لگتا ہے جس سے تم ٹکراٸی ہو وہ۔۔ ”وہ کسی سیاسی بندے کا بیٹا تھا، میں نے اس کا مہنگا موباٸل توڑ دیا شکر ہے اندھی بنی ہوٸی تھی اس نے کچھ نہیں کہا، نرمی سے جانے دیا۔۔“
وہ جھرجھری لے کر بول رہی تھی اس کے آخری جملہ پر منال مایوسی سے سر ہلا کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گٸی، نرمی سے بات کی مطلب کوٸی اور ہی تھا۔۔ اسے لگا تھا حدیر ہے مگر حدیر جیسا سرد مزاج انسان تو کسی اندھی لڑکی کو بھی نا بخشے۔۔
”اچھا سنو آج شاپنگ پر چلو میرے ساتھ، بھاٸی کی شادی سر پر ہے اور تم لوگ نے بھی آنا ہے اینڈ ایم شیور کہ شاپنگ نہیں کی ہو گی۔۔“ منال نے ان تینوں کو مخاطب کیا تو وہ متفق ہوٸیں۔۔
”پہلے کچھ کھاتے ہیں مجھے بھوک لگ رہی ہے اور ہان تم یاد رکھنا پینالٹی میں اور ڈٸیر ملے گا یہ پورا نہیں کیا۔۔ ہر بار نہیں کرتی ہو ڈرپوک بلی۔۔“ مرحا نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوٸے ساتھ بیٹھی پریہان کو گھورا تو وہ منہ بنانے لگی۔۔ پینالٹی کا ڈیٸر یقیناً مشکل ہونے والا تھا۔۔ اسی لیے وہ ڈیٸر کی نسبت پرانک گیم پسند کرتی تھی مگر اس کی بچپن کی تین شیطان دوستیں ہر دوسرے مہینے ڈیٸر گیم نکال لاتی تھیں۔۔
وہ چاروں یونی ورسٹی میں فاٸن آرٹ ڈیپارٹمنٹ فسٹ اٸیر کی سٹوڈنٹس تھیں۔ ہلہ گلہ کرتی زندہ دل اور شوخ مزاج۔۔ چاروں ہی اچھی فیملیز سے بی لانگ کرتی تھیں، سکول میں دوستی اتنی گہری ہوٸی کہ اس کے بعد سبجیکٹس سے لے کر کالج، یونی تک مل کر ایک جیسے سلیکٹ کیے تاکہ ساتھ رہیں۔۔
آج یونی میں بس دو لیکچرز تھے، اس کے بعد وہ نکل کر آوارہ گردی کرتی رہیں اور اب قریبی ریسٹورنٹ میں لنچ کے لیے جا رہی تھیں۔۔
پریہان عرف ہان کی پینالٹی کے بارے میں سوچ سوچ کر بھوک اڑ چکی تھی، وہ اچھی خاصی کانفیڈنٹ لڑکی تھی مگر باقی تین کی نظر میں اس سے بڑا بزدل اور ڈرپوک اس دنیا میں کوٸی نہیں تھا کیونکہ ہر بار اس سے آسان ترین ڈیٸرز بھی نہیں ہوتے تھے، لوگوں سے سامنا ہوتے ہی وہ گھبرا جاتی تھی کہ کہیں پکڑی نا جاٸے اور ہر بار پکڑی جاتی تھی مگر اس بار اس کی ایکٹنگ اتنی اچھی تھی کہ وہ لڑکا اس کا ڈرامہ نہیں پہچان پایا لیکن اس بار وہ خود گڑبڑ کر گٸی تھی، اس لڑکے سے بات کر کے۔۔ معذرت کر کے۔۔
>>>>>------>>>----->>>----->
”آ جاٶ ہان۔۔ لیٹس ڈانس پاگل لڑکی۔۔۔“ ایک طرف بیٹھی وہ اپنی دوستوں کی اونچی آواز پر چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔۔ تیز چنگھاڑتا میوزک اور بری طرح بکھرے ہوٸے سب ڈانس کرتے کسی کلب کا منظر پیش کر رہے تھے مگر یہ میرج ہال میں مہندی کا فنکشن تھا۔۔ اس نے نفی میں سر ہلاتے کانوں کو ہاتھ لگاٸے۔
”خبردار کوٸی بکواس نہیں۔۔ چلو ڈانس کرو۔۔ اگر ایک جگہ مجسمہ بن کر ہی بیٹھنا تھا تو آٸی کیوں ہو۔۔“
اس کے پاس آتی ریما نے غصہ سے چیخ کر کہا تو وہ ناچار کھڑی ہوتی کنفیوز سی سب کو دیکھنے لگی۔۔
”ڈانس تو آتا نہیں مجھے۔۔ اور میں پریشان ہوں رات بہت ہو رہی ہے، جلدی گھر جانا ہے۔۔“
وہ سب کے درمیان آتی تھوڑی پریشانی سے بولی۔
”اور کسے آتا ہے ڈانس؟ دیکھو سب ہی بس جھوم رہے ہیں۔۔ آ ہی گٸے ہیں تو انجواٸے تو کریں۔۔ تھوڑی دیر تک اکٹھے چلتے ہیں ناں۔۔“ مرحا نے اس کے کان کے پاس آ کر اونچی آواز میں کہا تو ان کے پیچھے چھپ کر بازو ہلانے لگی۔۔ ڈانس کیا تھا بس بازو جھلا رہی تھی جیسے۔۔ دماغ گھر جانے پر اٹکا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ بھی کچھ پرجوش ہونے لگی تھی، دوستوں کے ساتھ کچھ ردھم میں گھوم کر ڈانس کر رہی تھی جب کسی سے بری طرح ٹکراٸی۔
”اندھے ہیں کیا۔۔ یہ کوٸی منڈی ہے جو ٹکریں مار رہے ہیں۔۔“ وہ اپنی غلطی مانے بنا غصے سی پلٹ کر بولی مگر سامنے والا اسے دیکھتا گنگ ہو چکا تھا۔۔ شفاف چمکتے گلابی سے چہرے پر سفید سٹالر نماز کے اندا سے چہرے کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔ ہلکا پھلکا میک اپ میں پرکشش نقوش واضح ہو رہے تھے۔ بھوری آنکھوں کاجل کی سیاہ لکیر سب کی توجہ کھینچ رہی تھی۔
”اوہ ایم سوری۔۔ غلطی سے ٹکرا گیا تھا۔۔۔“ وہ جھک کر شریر انداز سے بولا تو وہ ٹھٹک کر اسے دیکھتی ایک قدم پیچھے ہوٸی۔۔ لگتا تھا اس ٹکر کو اس نے بہت انجواٸے کیا تھا۔۔ وہ دانت کچکچا گٸی۔۔
”کیا ہوا رک کیوں گٸیں۔۔ آٶ ڈانس کریں۔۔“ وہ بےتکلفی سے ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچ کر بولا تو وہ گڑبڑا کر پیچھے ہٹی۔۔ وہ ڈھیٹ اور بےشرم انسان اس کو کنفیوز دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔
” نہیں میں اب بس۔۔ کافی لیٹ ہو گٸی ہوں تو۔۔“
وہ سارا اعتماد بھلاٸے ہکلا کر بولتی پلٹی۔۔ یہاں زیادہ زبان چلانے سے کوٸی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔۔ ریما اور مرحا سب میں گھسی خوب جھوم رہی تھیں، اس نے منال کو ڈھونڈنے کے لیے نظریں دوڑاٸیں وہ دور کچھ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھی، وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی تھی۔۔
”منا۔۔“ وہ پرجوش سی منال کو پکارتی ساتھ سے گزرتے شخص کو زور سے کندھا مارتی لڑکھڑا کر سنبھلی۔۔ جملہ ادھورا رہ گیا۔۔
”دھیان سے۔۔“ سنجیدہ آواز پر اس نے پلٹ کر اسے بھی کرارا جواب دینا چاہا مگر گھبرا کر نظریں چرانا پڑیں۔۔۔ وہ وہی لڑکا تھا جو روڈ پر ٹکرایا تھا، اس نے اب بھی اندھے پن کا ڈرامہ کرنا بہتر سمجھا۔۔
”ایم سوری میں جلدی میں تھی۔۔“ سامنے والے کی بارعب شخصیت کو دیکھ کر اس بار بھی وہ بلا ارادہ معذرت کر گٸی۔ سفید کاٹن کے کرتا شلوار پر براٶن واسکٹ پہنے وہ سرخ سفید رنگت والا سنجیدہ سا انسان اس کی معذرت پر بنا کچھ کہے پلٹ گیا۔۔
”عجیب انسان۔۔۔“ وہ بڑبڑا کر پلٹتی منال یا کسی کو بھی بتاٸے بنا باہر کی طرف بڑھ گٸی۔۔
اس کی کال پر ڈراٸیور گاڑی لے کر دروازے کے سامنے پہنچ گیا تھا۔۔ سر گھوم رہا تھا، اتنے شور اور ہنگامہ سے نکل کر سکون ملا تھا گھر پہنچی تو لان میں مسز شاٸستہ انتظار میں ٹہل رہی تھیں۔۔
”کیا ہوا آنی۔۔ آپ سوٸی نہیں۔۔۔“ وہ انجان بنتی ان کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگی۔۔
”اتنی دیر سے آٸی ہو۔۔ شکر کرو تمہارے انکل آج گھر نہیں آٸے۔۔“ اسے خشمگیں نظروں سے گھور کر اندر بڑھ گٸیں۔۔ وہ گہری سانس بھر کر اندر اپنے کمرے میں پہنچی تو بیڈ پر بےچین سی لیٹی پُروا اسے دیکھتے ہی اٹھی۔۔
”اپیا آپ آ گٸیں۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔۔“
وہ آنکھیں رگڑتی اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اپنا سٹالر اتار کر وہ بال کھولتی اس کے پاس آٸی۔۔
”اووو میری گڑیا۔۔ میری زندگی۔۔“ اسے کھینچ کر بےطرح چومتی گلے سے لگاتی اپنے ساتھ سلا گٸی۔۔
وہ جانتی تھی پروا تھکی ہوٸی ہے، نیند میں ہے مگر اس کا انتظار کرتی رہی تھی۔۔
پُروا بھی اس کے سینے سے لگ کر سکون سے سو گٸی۔
>>>>>------>>>----->>>>---->
رات کی سیاہی پھیلنے پر اس وقت خان حویلی کی پرشکوہ عمارت میں ڈھیروں ڈھیر روشنیاں جل رہی تھیں، گھر کی بڑی عورتوں کی نگرانی میں ملازماٶں نے کھانا تیار کر کے ٹیبل پر لگا دیا۔۔
سب ہی جانتے تھے خان حویلی کے بڑے فرد خان یوسف کو رات کا کھانا وقت پر او سب کے ساتھ مل کر ہی اچھا لگتا تھا اس لیے سب اس وقت ضرور پابندی سے حاضر ہو جاتے سواٸے ایک فرد کے۔۔ جو ناراض ہوتا تو کمرے میں بند ہو جاتا اور بالکل نہیں نکلتا تھا اور اس وقت بھی وہ غاٸب تھا۔۔
”خانزادہ کہاں ہے؟ کھانا نہیں کھاٸے گا۔۔؟“
خان یوسف صاحب نے کھانے کی ٹیبل پر اس کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہوٸے بےچینی سے پہلو بدلا۔
”وہ مردان خانے میں ہے۔۔ کھانے سے منع کر دیا۔۔“
خانی بیگم نے بتاتے ہوٸے ایک ناراض نظر اپنے خاوند خان آزر پر ڈالی تھی، وہ گڑبڑا گٸے۔۔ بیگم نارض تھی سو تھی اب باپ نے بھی ناراض ہو جانا تھا۔
”کیوں۔۔؟ کیوں منع کیا۔۔ کس بات پر ناراض ہے وہ۔۔“
خان صاحب نے دھاڑ کر چمچ زور سے پلیٹ میں پٹخا۔ ان کا خانزاد ناراض تھا اور وہ سب مزے سے کھانا کھانے آ گٸے تھے، غصہ تو بنتا تھا۔۔ شور اور دھاڑ پر سناٹا چھا گیا۔۔ ٹیبل پر موجود سب حویلی والوں کو سانپ سونگھ گیا۔
”آغا جان بس اسے۔۔ اسے صرف جرگہ میں غلط فیصلہ پر ٹوکا تھا۔۔ اتنی سی بات۔۔“ خان آزر کی بات ان کی گھوری پر درمیان میں ہی رہ گٸی۔
”اتنی سی بات؟ تم نے میرے خانزادہ کو پورے جرگہ کے سامنے ٹوکا اور تم اسے اتنی سی بات کہہ رہے ہو۔۔؟ کتنی مرتبہ سمجھاٶں گا تمہاری سرداری وقتی ہے۔۔ اس علاقے کا اصل سردار خانزادہ ہی ہے۔۔ وہ جو چاہے فیصلہ کرے کسی کی اتنی جرأت نہیں ہونی چاہٸیے کہ اسے ٹوکے۔۔“ خان صاحب نے طیش میں بولتے ہوٸے کرسی کھسکا کر پرے کی اور اٹھ کھڑے ہوٸے۔۔ اس وقت وہاں ان کے دونوں بیٹے اور ان بیٹوں کی بیویاں بچے سب موجود تھے مگر ان کا خانزادہ نہیں تھا تو کسی کی کوٸی اہمیت نہیں تھی۔۔ خان آزر نے سر جھکا لیا وہ جو اس علاقے کے سردار تھے اور ان کا رعب دبدبہ کوٸی کم نا تھا مگر دو انسان تھے جو ان پر بھی رعب جھاڑتے تھے۔۔ ایک ان کا باپ خان یوسف اور ایک ان کا بیٹا اور خان صاحب کا لاڈلا خانزادہ۔۔
خان یوسف سے نا صرف حویلی بلکہ علاقے میں بھی سب ڈرتے تھے، وہ کوٸی ظالم جابر نہیں تھے مگر انتہا کے غصیلے انسان تھے۔۔
خان یوسف اسی وقت مردان خانے میں پہنچے تھے، حویلی کے ملازموں نے جلدی سے راستہ دیا۔۔ وہ کتنی دیر خانزادہ کے کمرے کا دروازہ بجاتے رہے اور منتیں کرتے رہے تھے تب کہیں جا کر اس نے دروازہ کھولا۔
بلو ٹراٶزر شرٹ پہنے وہ رف سے حلیہ میں کھڑا تھا، ڈارک براٶن بال ماتھے پر بکھرے ہوٸے تھے اور نیلگوں ماٸل آنکھیں کچی نیند سے جاگنے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔
”کھانا کیوں نہیں کھایا خانزادہ۔۔؟ کیا ہوا ہے۔۔۔ کسی نے کچھ کہا؟“ وہ جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے بکھرے بال سمیٹ کر محبت سے ہوچھنے لگے۔۔
”سو رہا تھا میں۔۔ صبح صبح کھینچ کر بابا جرگہ میں لے گٸے جہاں میری بات کی کوٸی اہمیت ہی نہیں تھی۔۔ نیند پوری نہیں ہوٸی تھی، تھکاوٹ کی وجہ سے پورا دن مجھ سے کوٸی کام نہیں ہو پایا۔۔ آپ بس مجھے سردار بنانے کا خواب چھوڑ دیں۔۔“
وہ اکھڑے ہوٸے لہجہ میں بولتا واپس جا کر بیڈ پر گرتے ہوٸے لیٹا تھا۔۔ اس کی تان ایک ہی جملہ پر آ کر ٹوٹتی تھی کہ سردار نہیں بننا۔۔ خان یوسف بیڈ پر اس کے پاس بیٹھے۔۔
”کیسے چھوڑوں۔۔ میں چاہتا ہوں اس علاقہ میں سب سے زیادہ عزت تمہاری ہو۔۔ سب سے بڑا رتبہ تمہارا ہو۔۔ میری حویلی کے تم ہی وارث ہو۔۔ میں نے اپنی سرداری ضاٸع نہیں کرنی۔۔ میں دیکھتا ہوں آج کے بعد کس کی ہمت ہے تمہیں ٹوکے یا تمہارا فیصلہ نا مانے۔۔“
اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولتے نثار ہوتی نظروں سے اس کا وجیہہ دلکش چہرہ دیکھنے لگے۔ وہ اس دنیا میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔۔ دیوانے تھے وہ اس کے۔۔
”یار آغا جان پلیز۔۔ میں نے پہلے کہا تھا مجھے یہ سرداری یا اونچا رتبہ نہیں چاہٸیے۔۔ اور نا ہی مجھے اس حویلی کا وارث بننا ہے۔۔“ بےزاری سے بول کر چہرہ تکیہ میں چھپا لیا۔۔ وہ جو حویلی کے ہر فرد پر اپنا حق جماتا تھا وہ وارث بننے سے انکاری تھا۔
”آپ کے اور بھی پوتے ہیں ناں۔۔ اپنے شوق ان پر پورے کریں۔ مجھے بخش دیں، مجھے عام زندگی چاہٸیے۔۔“
اس نے اپنے بڑے بھاٸیوں اور اپنے چچا کے بیٹوں کا حوالہ دیتے ہوٸے ناک چڑھا کر چڑچڑے لہجے میں کہا۔
”میرے شیر جیسا کون ہے بھلا۔۔ چلو آٶ کھانا کھاٸیں تمہیں پتا ہے ناں تم بھوکے رہے تو تمہارے آغا جان بھی کچھ نہیں کھا پاٸیں گے۔۔“ اسے مناتے ہوٸے کہا تو وہ زچ ہو کر اٹھا۔۔ تکیہ بیڈ پر زور سے پٹخا۔ اس بلیک میلنگ پر انہیں ناراضگی سے دیکھا تھا۔۔ وہ لاپرواٸی سے نظر گھما گٸے۔۔
”آپ جاٸیں میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔ “
اسی طرح ناک چڑھا کر کپڑے نکالتا بولا، ان کے لبوں پر سکون بھری مسکراہٹ آ گٸی۔۔ جانتے تھے وہ ناراض ہے اسے جرگہ میں باپ نے بولنے کیوں نہیں دیا۔۔ وہ غلط فیصلہ لے رہا تھا یہ بھی خبر ملی تھی، اس کے الٹے فیصلہ پر حریف ان کی سرداری چھین لیتے مگر اس وقت یوسف خان کو صرف اس کی فکر تھی چاہے پورا ملک خلاف ہو جاٸے خانزادہ کو ناراض نا کرے کوٸی بس۔۔
اس کی ناراضگی وہ سہہ نہیں سکتے تھے۔۔ کیونکہ وہ بگڑ جاٸے تو سنبھلتا نہیں تھا۔۔ غصہ تھا جو اس کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔۔ انا تھی جو ایک بار آڑے آ جاٸے تو اپنی ہی سوچ سے بھی پیچھے ہٹنا گوارہ نہیں کرتا تھا۔۔ غرور تھا جو اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔۔ وہ خان صاحب کا سایہ ہی تھا۔۔ انہی جیسا ضدی اور نخریلا۔۔ اس لیے بس کبھی کبھی ان کی ہی بات مان جایا کرتا تھا۔۔
اس کے فریش ہو کر آنے تک وہ وہیں بیٹھے رہے، فریش نم چہرہ لیے وہ باہر آیا تو انہیں دیکھ کر نفی میں سر ہلایا، براٶن شلوار قمیض میں اس کا دراز وجاہت سے بھرپور سراپا بہت پرکشش لگ رہا تھا۔۔ ڈریسنگ کے سامنے رک کر بال برش کیے، پرفیوم سپرے کیا تیاری ایسی جیسے کسی پارٹی میں جانا ہو۔۔
آغا جان کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر پہنچا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔ خانی بیگم نے جلدی سے تازہ گرم کھانا اس کے لیے ڈالا۔۔ باپ کو اس نے سہی سے نظر انداز کیا تھا، اس کے بچگانہ انداز خان آزار نے مسکراہٹ دباٸی۔۔ وہ کچھ دن اسی طرح نخرے دکھانے والا تھا۔۔ سب ہنستے مسکراتے باتیں کرتے کھانا کھا رہے تھے، کھانا کھا کر وہ اٹھا تو کچن میں کھڑی گل جان پر ایک اداس نظر ڈالی اور پلٹ کر چلا گیا۔۔۔
>>>>>---->>>--->>>-->
”حدیر کے لیے تو میں نے اپنے بھاٸی اور ڈیڈی کے ساتھ کٸی بزنس پارٹیز اٹینڈ کیں۔۔ یہ بندہ جس شان سے اینٹر ہوتا ہے بس وہیں سب کچھ بیک گراٶنڈ ہو جاتا ہے۔۔ میرے ڈیڈی نے بہت زیادہ انسِسٹ کیا تو وہ مہندی پر آیا کیونکہ اسے بزنس کے سلسلہ میں فارن جانا تھا۔۔ یہ کوٸی عام بات نہیں تھی کہ وہ آیا۔۔“
منال چمکتی آنکھوں سے بولتی جا رہی تھی۔۔ ریما اور مرحا اس تبصرہ میں برابر کی شریک تھیں جبکہ ہان اس معاملہ میں بس سر ہلانے کا کام سرانجام یتی تھی۔۔ اس کی فیملی میں کوٸی بزنس مین نہیں تھا کہ وہ حدیر یا کسی بھی ایکس واٸی زی کو جانتی۔۔
وہ چاروں اس وقت کینٹین میں بیٹھی تھیں جب کوک پیتی منال کو پھر سے حدیر یاد آیا۔ وہ اس کا دوست اور پسندیدہ ٹاپک تھا، اسے اکثر ڈسکس کرتی تھی، یہ تو اب سب کے لیے عام بات تھی، خاص بات یہ تھی کہ اس کے بھاٸی کی شادی پر حدیر آیا تھا اور ان سب نے بھی دیکھا تھا۔۔
وہ نا کوٸی ایکٹر تھا، نا کرکٹر اور نا ہی سنگر۔۔ بس بزنس کی فریش ڈگری لیتے ہی اپنی فیملی کی بنی بناٸی بزنس ایمپاٸر پر خوامخواہ کِنگ بن چکا تھا۔۔
اسے بزنس کی فیلڈ میں آٸے کچھ ہی عرصہ ہوا ہو گا۔۔ عمر تقریباً چھبیس سال تھی، وہ جوان تھا، ذہین تھا، جدی پشتی رٸیس تھا اور خوبصورت بھی۔۔
یہ سب باتیں منال نے انہیں بتاٸی تھیں کیونکہ بقول اس کے وہ حدیر کی قریبی دوست تھی۔۔
”وہ۔۔ منال تمہارا جو پچھلا کرش تھا، وہ سنگر۔۔“
ہان نے کوک کا بڑا سا گھونٹ بھر کر اس سے پوچھنا چاہا جب وہ ایک تپتی گھوری سے نواز کر اس کی بولتی ادھوری بات پر ہی بند کروا چکی تھی۔
”اس کا اور حدیر کا کوٸی جوڑ ہے؟ اس کے پاس بس آواز ہے اور۔۔ ”مطلب حدیر کے پاس آواز نہیں۔۔ ویسے پچھلے سال تم نے ایسے ہی اس سنگر کے لیے کہا تھا۔۔ کہ اس کے جوڑ کا کوٸی اس دنیا میں نہیں۔ وہ ساحر ہے۔۔ جادوگر یے۔۔ چڑیل ہے۔۔ جن ہے بلا بلا۔۔“
ہان لمبی لمبی ہانکتی حقیقت کو کچھ زیادہ بیان کرنے میں لگی تھی جب منال نے اس کی گردن دبوچی۔
”وہ سب کرش تھے۔۔ آتے جاتے موسم۔۔ یہ حدیر ہے۔۔ اس سے میں شادی کروں گی۔۔ اب مزید بکواس نہیں۔۔“ منال نے اسے بولنے سے روکا۔ مرحا اور ریما نے بھی اسے شرم دلاتی نظروں سے گھورا۔۔
”خود تو تم منگنی شدہ ہو۔۔ ہمارا گھر نا بسنے دینا۔“
ریما کو ایسے دکھ پہنچا جیسے رشتہ ٹوٹ گیا ہو۔۔
”تو کیا تم سب حدیر صاحب کے گھر جاٶ گی۔۔؟“ ہان کا پریشانی سے برا حال ہو گیا۔۔ مرحا نے سر پیٹ لیا۔
”یار تم اپنی بکواس بند رکھو۔۔ یہ بتاٶ اپنے فیانسی سے بات ہوٸی تمہاری۔۔؟“ ریما نے اسے بریک لگانے کے لیے ٹاپک بدل دیا۔۔ وہ نفی میں سر ہلا گٸی۔۔
”کتنی بوگس لڑکی ہو۔۔ آج تک کبھی نا اسے دیکھا ہے نا بات کی۔ کہا تھا ناں اس کا نمبر لو اور بات کرو۔۔“ ریما نے اس کی ڈھٹاٸی پر سر پیٹ لیا۔
”آنی کہتی ہیں سٹڈیز پر فوکس کرو۔۔ بات کی تو بات بڑھ جاٸے گی۔۔ پھر یہ نا ہو لڑکا شادی پر اصرار کرنے لگے۔۔ “ وہ اپنی آنی کے الفاظ دہرا رہی تھی۔۔
”اپنی آنی کو سمجھا دو اتنی کوٸی حور نہیں ہو نا ہی تمہاری باتیں ایسی ڈھنگ کی ہیں کہ بات کرتے ہی بات بڑھا کر شادی کرنے کی ضد کرے۔۔“ منال نے ناک چڑھا کر حقیقت سے آگاہی دی تو وہ منہ بنا گٸی۔۔
”اور ہاں اچھا ہے اپنے فیانسی سے بات مت کرو۔۔ ایسا نا ہو وہ منگنی توڑ کر بھاگ جاٸے۔۔ تم جیسی فضول لڑکی سے بات کر کے کوٸی سمجھدار انسان شادی پر راضی نہیں ہو گا۔۔“ مرحا نے قہقہہ لگا کر کہا تو سب ہنسنے لگیں۔۔ وہ اس عزت پر تلملا گٸی۔۔
”سنو ہان کا پینالٹی ڈٸیر رہتا ہے ناں۔۔؟“
اچانک منال کسی خیال سے جاگی تھی ، وہ تینوں چونک گٸیں۔۔ ہان کا دل پہلے سے سہم گیا۔
”دیکھو اس بار مجھے فضول ڈٸیر مت دینا۔۔ میں نا روڈ پر بلاٸنڈ بن کر چلوں گی اس بار نا ہی کسی کی چوری کروں گی۔۔ ہر بار ایسے ڈٸیرز لے کر پھنس جاتی ہوں۔۔“ وہ ہاتھ جھلا کر ناراضگی سے بولی۔
”اور ہر بار پکڑی جاتی ہو۔۔ کبھی سہی سے اپنا ڈٸیر پورا نہیں کیا تم نے۔۔“ مرحا نے بھی جل کر کہا۔
”اس بار کچھ نیا ہے۔۔ میری کسی سے بیٹ لگی ہے اور تمہارا ڈٸیر یہی ہے کہ میری بیٹ پوری کرو۔۔“
منال نے پراسرار لہجے میں کہا اور قریب ہونے کا اشارہ دیا، تینوں چونک کر اس کے قریب ہوٸیں۔۔
”تمہیں کسی سے پیسے لینے ہیں۔۔ اور جتنے ہو سکیں لو گی۔۔ میری بیٹ لگی ہے فرینڈ سے۔۔۔ وہ رِچ ہے پھر بھی کہتا ہے پیسے نہیں ہیں۔۔ میں نے بیٹ لگاٸی ہے اس سے پیسہ نکلواٶں گی۔ وہ نہیں جانتا کیسے کروں گی یہ کام۔۔ اور یہ کام تم کرو گی۔۔۔“
منال کی بات پر اس کی آنکھیں پھیلیں۔۔
”پہلے مجھے چورنی بنایا اب بھکارن بنا رہی ہو۔۔ بالکل نہیں میں کسی سے پیسے نہیں لے سکتی۔۔“
ہان نے کانوں کو ہاتھ لگا کر نفی میں سر ہلاتے ہوٸے انکار کیا۔۔ منال بدمزہ ہوٸی۔۔
”کم آن یار۔۔۔ اٹس ڈٸیر۔۔ مزہ آٸے گا۔۔ کال پر بات کر لو۔۔ سامنے مت جانا بےشک۔۔“ ریما نے مشورہ دیا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ کال پر بات کرنا۔۔ خود کو بیچارہ بنا لینا۔۔ جو بھی کرو۔۔ اینڈ ڈونٹ وری تم بھیک نہیں مانگ رہی ہو گی۔۔ تم جیسے ہی پیسہ لو گی بیٹ پوری ہو گی۔۔ اور میں اسے پیسے واپس کر دوں گی۔۔
تم سامنے مت آنا۔۔“ منال نے بھی آسانی کی۔۔
وہ لب کاٹتی متذبذب بیٹھی رہی۔۔ اب گیم تو گیم تھی، وہ بھی ڈٸیرز دیتی تھی مگر اس بار کسی انجان سے پیسے مانگنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔۔
”او۔کے۔۔کون ہے وہ؟ کیا نمبر ہے۔۔ “ ان تینوں کے مسلسل دیکھنے پر ہار مانتی بولی۔۔
”وہی جس سے تم ٹکراٸی تھیں مہندی پر۔۔“ منال نے موباٸل پر نمبر نکالتے ہوٸے شوخی سے مسکراتے ہوٸے کہا۔ ہان کے گلے میں کوک کا گھونٹ پھنس گیا۔۔
”کس سے ٹکراٸی تھی۔۔؟“ ریما اور مرحا بھی متجسس ہوٸیں۔۔ جبکہ اپنی چیزیں سمیٹتی منال نے مسکرا کر موباٸل اس کے سامنے کیا۔۔
”فرسٹ نمبر فرام لاسٹ۔۔ نوٹ کر لو۔۔ مجھے آج جلدی جانا ہے بھاٸی اور بھابھی ہنی مون کے کیے سوٸٹزر لینڈ جا رہے ہیں ان کو سی آف کرنے جانا ہے۔۔“
منال نے بیگ کندھے پر رکھا، وہ سر جھٹکتی نمبر نوٹ کر گٸی۔۔ اس کا ارادہ نہیں بن رہا تھا اس ڈٸیر کا اور اس انسان سے پیسہ مانگنے کا کام تو بالکل نہیں۔۔
”اور سنو۔۔ اگر تم اپنا انٹرو دے دو تو زیادہ آسانی ہو گی اسے تم بہت پسند آٸی ہو۔۔ ڈٸیر آسانی سے پورا ہو جاٸے گا۔۔“ منال جاتے جاتے رک کر اسے آنکھ ونک کر کے بولی تو ریما مرحا نے لمبا اوووو کیا تھا۔۔
”اب تو بالکل نہیں کرونگی یہ ڈٸیر۔۔ وہ چیپ انسان چپک گیا پھر کیا کروں گی۔۔ آنی کو پتا چلا تو مار ڈالیں گی مجھے۔۔ یہ تو فلرٹ ہوا ناں۔۔“
منال جا چکی تھی، وہ دو ٹوک انکار کر گٸی۔
”فلرٹ کیوں۔۔ تم نے بس تھوڑا غریب لڑکی بن کر پیسہ مانگنا ہے۔۔ پہلے کچھ بہانے سے بات کرنا اور پھر ایک چھوٹا سا ڈرامہ۔۔ وہ بھی کچھ دن کیلیے۔۔
پھر تو منال نے پیسے واپس کر کے سب کلٸیر کر ہی دینا ہے۔۔ آنی کو کون بتاٸے گا پاگل لڑکی۔۔ اور بات سنو یہ ڈٸیر ہے انکار نہیں کر سکتیں تم۔۔ یاد ہے مجھے تم نے لاسٹ ٹاٸم جو ڈٸیر دیا تھا، اس عجیب سے لڑکے کو آٸی لو یو بلوایا اور کتنے دن وہ سٹاک کرتا رہا۔۔ اب تم بھی یہ کرو گی۔۔ یہ تو ایزی ہے۔“ مرحا نے اس کی بزدلی پر دانت کچکچا کراسے رُول یاد دلایا۔۔
”اور تم فکر مت کرو اگر نمبر چھپانا چاہو۔۔ میرے پاس ایکسٹرا سم ہے وہ یوز کر لینا۔۔ گیم اوور ہوتے ہی نمبر بند کر دینا۔۔ پیسہ تو وہ واپس لے چکا ہو گا پھر کیوں تنگ کرے گا۔۔۔“ ریما نے بھی اپنا بیگ کھولتے ہوٸے مشورہ دیا اور ایک سم نکال کر اسے پکڑا دی۔
گیم کے نام پر الٹے سیدھے ٹاسک پورے کرنے والی پریہان نے یہ ٹاسک بھی لے لیا۔۔ یہ سوچے بنا کہ یہ ٹاسک اس کی زندگی میں کیا عذاب لانے والا ہے۔۔
سلور گرے بوگاٹی تیز شور پیدا کرتی تیز رفتاری سے آ کر جھٹکے سے گراٶنڈ میں رکی تھی، لڑکے لڑکیاں ساٸیڈ پر ہوتے راستہ دیتے گٸے۔۔
گاڑی سے نکلنے والے لڑکے کو سب ہی جانتے تھے، وہ آٸی۔ٹی ڈیپارٹمنٹ کا سب سے سٹاٸلش اور ایروگینٹ سٹوڈنٹ عیسٰی خان تھا۔۔
بلٕو جینز جو گھٹنوں سے کٹی پھٹی ہوٸی تھی، واٸٹ ڈریس شرٹ اوپر بلیک لیدر جیکٹ پہنے وہ دراز قد سرخ و سفید رنگت والا لڑکا ہمیشہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔۔ بیگ اٹھا کر کندھے پر لٹکاتا مسکراتا ہوا اپنی طرف آتے دوستوں کو دیکھ رہا تھا۔۔
اپنے فرینڈز کے گروپ کے ساتھ کھڑی آٸرہ کی چور نظریں ساتھ سے گزرتے عیسٰی پر ہی ٹکی تھیں جب اچانک وہ رک کر اس کی طرف مڑا تو وہ گڑبڑا کر رخ پھیرتی انجان بن گٸی۔ وہ زمین پر جھکا تھا۔۔
”ایکسکیوزمی مس۔۔“ اس کی بھاری آواز پر وہ اچھلی۔ کیا وہ اس سے مخاطب تھا؟ حیرت سے وہ بےاختیار یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔۔
”ہیلو۔۔ یہ والٹ۔۔ کیا یہ آپ کا ہے؟“ اس کے ہاتھ میں پنک گرلز والٹ تھا جو اس نے زمین سے اٹھایا تھا۔۔
”اوہ۔۔ جی جی یہ میرا ہے۔۔“ وہ جلدی سے سر ہلا کر والٹ لینے لگی جب وہ ہاتھ پیچھے کر گیا۔
”آر یو شیور یہ آپ کا ہی ہے۔۔؟ کہیں دیکھ کر نیت تو نہیں بدل گٸی۔۔“ وہ ابرو اچکا کر بولتا والٹ کھولنے لگا۔ آٸرہ شاکڈ سی اسے دیکھنے لگی۔۔
”اگر آپ کو یقین نہیں تھا تو پوچھا کیوں ہے؟“
وہ حیرت سے پوچھنے لگی، اس کی فرینڈز منہ کھولے اسے اور عیسٰی کو سامنے کھڑا دیکھ رہی تھیں۔۔
”آٸرہ شاہ۔۔ فادر زمان شاہ۔۔ ایج ٹوٸنی ون۔۔“ والٹ سے آٸی۔ڈی۔کارڈ نکال کر وہ بلند آواز میں بول رہا تھا۔
آٸرہ نے اس کے ہاتھ سے اپنا کارڈ جھپٹا تو وہ چونکا۔
”میں ہی آٸرہ شاہ ہوں۔۔ میرا والٹ واپس کریں۔۔“
اس نے ضبط سے کہا، چہرہ سرخ ہو رہا تھا جو عیسٰی کو سمجھ نہیں آیا غصہ سے ہے یا شرمندگی سے۔۔
”لے لیں بھٸی۔۔ ناراض کیوں ہو رہی ہیں۔۔ میں نے چوری تھوڑی کر لینی تھی ویسے بھی اس میں۔۔“ وہ والٹ کھول کر نظر دوڑاتا رک کر پیسے دیکھنے لگا۔۔
”پانچ ہزار ہیں۔۔ اور بس۔۔“ شرارت سے مسکراتا والٹ اسے تھما گیا۔۔ وہ والٹ چھیننے کے انداز سے لیتی سرخ چہرہ لیے پلٹ کر چلی گٸی۔۔
”بڑے دانت نکل رہے ہیں۔۔ کیوں لڑکی شادی کے لیے تو نہیں کہہ گٸی۔۔“ کچھ فاصلہ پر کھڑے اس کے دوست آٸرہ کے جاتے ہی اس کے پاس آ کر بولے تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور ایک نظر دور جاتی آٸرہ کو دیکھا۔
”بریو لڑکی ہے۔۔ عیسٰی خان کو جواب دے رہی تھی۔۔ اٹریکٹو ایز اف اٹس لَو ایٹ فسٹ ساٸٹ۔۔۔“
عیسٰی کی چمکتی آنکھوں کو دیکھ کر اس کے دوست ٹھٹک گٸے۔۔
”وقتی کشش ہے میرے بھاٸی۔۔ پہلی نظر میں تو شرٹ پسند آ جاٸے بھی نہیں لینی چاہٸیے کیونکہ اس کی خامیاں زرا نظر میں نہیں آتیں۔۔ ہاں دوسری بار۔۔ بار بار غور سے دیکھو۔۔ پھر بتانا کیا بات ہے۔۔“
وہ کھلکھلا کر ہنستے آگے بڑھ گٸے تھے، کافی دور درخت کے پاس رک کر آٸرہ نے پلٹ کر اپنے دوستوں کے گھیرے میں چلتے عیسٰی خان کو دیکھا اور تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر سمٹ سی گٸی۔
سماعت میں اس کی بھاری آواز گونج رہی تھی، آج پہلی بار قریب سے اسے سنا تھا، اس کے کلون کی خوشبو حواس پر اب تک چھاٸی ہوٸی تھی۔۔
>>>>>------>>>----->>>>---->
وہ کافی دیر سے سامنے کینوس پر پینٹنگ کر رہی تھی، آخری ٹچ دے کر سیدھی ہوٸی، ایک تنقیدی نظر ڈال کر مسکراٸی۔۔ سامنے پھولوں کے پاس اڑتی تتلی کو پرشوق نظر سے دیکھتا دلکش سا چہرہ بنا ہوا تھا، بڑی بڑی آنکھوں میں پھولوں کے رنگ شامل تھے، چہرے کی نازکی واضح تھی، سرخ لب دانتوں تلے دبے تھے، چہرے کے گرد بکھری لٹیں۔۔ وہ پُروا تھی۔۔
ہر بار جب بھی وہ کوٸی پینٹنگ بناتی تھی، اس کی واحد ماڈل پُروا ہی ہوتی تھی۔۔
برش وہیں رکھ کر سٹول سے اٹھی لاٸٹ بند کر کے اپنے کمرے میں آ گٸی۔ یہ کمرے سے جڑا سٹور نما چھوٹا کمرہ وہ اپنے مطابق سیٹ کر کے وہاں پینٹنگ کرتی تھی، کمرے میں پروا بچوں کی طرح بیڈ پر آڑھی ترچھی بےترتیب سی سو رہی تھی۔۔ وہ مسکرا کر اس کے پاس بیٹھی۔
”میرا ٹوٸٹی۔۔ میرا بےبی۔۔“ جھک کر پروا کا بالوں سے ڈھکا چہرہ سیدھا کر کے دیوانہ وار چومتی سرخ کر گٸی۔۔ وہ اس پیار کی عادی تھی ہلکا سا کسمسا کر پھر سے سو گٸی۔ اس نے بال سمیٹ کر چادر کھینچی اور اس کا بکھرا لاپروا حلیہ ڈھک دیا۔۔
پاس ہی نیم دراز ہوتی موباٸل اٹھا کر ٹاٸم دیکھنے لگی، ابھی رات کے دس بج رہے تھے، پُروا کی ہمیشہ سے ہی جلدی سو جانے کی عادت تھی اور وہ شروع سے ہی دیر تک جاگ کر پڑھتی تھی اس لیے رات گٸے سونا معمول بن چکا تھا۔۔
آنی نے آج دن کے وقت پہلی بار اس کے فیانسی کا نمبر دیا تھا اسے۔۔ مگر اس کا کوٸی ارادہ نہیں تھا بات کرنے کا۔۔ اس کا نمبر دیکھتی وہ اس نمبر پر رکی جو آج اسے ڈیٸر کے لیے دیا گیا تھا۔۔
”چلو دیکھتے ہیں ان صاحب کو بھی۔۔ شکل سے تو لوفر ہی لگ رہا تھا، بات بھی ٹھرک پن سے کرتا ہے۔۔ یا اللّٰہ پھنسانا نہیں بس مجھے۔۔“ جھرجھری لے کر بڑبڑاتی وہ ڈاٸریکٹ کال ملا گٸی۔۔ بیل جا رہی تھی مگر رسپانڈ نہیں ہو رہی تھی کال۔۔ وہ ملاتی رہی۔۔
”جی فرماٸیے کون۔۔؟“ کال اٹینڈ ہوتے ہی سنجیدہ بےزار سی آواز اس کے کانوں سے ٹکراٸی تو سارا کانفیڈنس ہوا ہوتا محسوس ہوا۔۔
”ہے۔۔ہیلو۔۔ میں پریہان۔۔“ وہ گڑبڑا کر اپنا تعارف دینے لگی، پروا کی وجہ سے آواز دھیمی رکھی تھی۔۔
”کون پریہان۔۔؟۔“ وہی بےزار لہجہ۔۔ اکتایا ہوا انداز۔۔
پریہان کو پریشانی ہوٸی، وہ تو اسے کوٸی ایزی گوٸنگ سمجھ رہی تھی جو لڑکی کی آواز سنتے ہی مسکرا کر جواب دے گا اور منال نے یہ بھی تو کہا تھا اسے وہ اچھی لگی ہے تو کیا نام نہیں جانتا وہ۔۔؟
”پریہان۔۔ ہم مسٹر سرفراز ہاشم کی مہندی پر ملے تھے آٸی مین ٹکراٸے تھے، میں نے واٸٹ ڈریس۔۔۔“
وہ تفصیل سے اپنا تعارف دے رہی تھی جب وہ ٹوک گیا۔۔
”آپ نے یہ سب بتانے کے لیے کال کی مس پریہان۔۔؟ اور میرا نمبر کہاں سے لیا آپ نے۔۔؟“ اس کے ایٹیٹیوڈ پر اس کا دماغ گھوم گیا۔۔ عجیب بددماغ انسان تھا۔۔
جب سامنے تھا فلرٹ جھاڑ رہا تھا اور اب کال پر۔۔
”مجھے منال ہاشم نے آپ کا نمبر دیا ہے۔۔۔ معذرت کرنا چاہتی تھی۔۔ ایک تو آپ سے بری طرح ٹکراٸی پھر پراپر اپالوجاٸز نہیں کیا بلکہ۔۔“
”اٹ واز ایکسیڈنٹ مس پریہان۔۔ کال کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ اٹس اوکے ناٶ ایکسکیوزمی۔۔“
وہ ایک بار پھر بات کاٹ کر سنجیدگی سے بولا تھا۔
”آپ سجھتے کیا ہیں خود کو۔۔ میں نے شوق سے کال کی ہے؟ یا آپ کوٸی اتنی توپ چیز ہیں کہ میں بات کرنے کے لیے تڑپ رہی ہوں۔۔ ایٹیٹیوڈ کسے دکھا رہے ہیں، سامنا ہونے پر جیسے آپ شرافت کا مظاہرہ کر رہے تھے اچھے سے یاد ہے مجھے، اوور۔۔ عجیب انسان۔۔“
وہ دانت کچکچا کر بولنا شروع ہوٸی تو سانس پھول گیا۔۔ دل چاہا منال کے جا کر بال جڑ سے کھیچ لے جس نے جھوٹ بولا کہ اسے پریہان اچھی لگی ہے۔۔
کال کاٹ کر موباٸل ساٸیڈ ٹیبل پر پٹخا اور گہرے گہرے سانس بھرنے لگی، ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے، ایک تو کسی انجان سے یوں بات کرنے کا ڈر ستا رہا تھا اوپر سے اس کا نخرہ۔۔ پریہان کا دماغ کھول اٹھا۔
موباٸل پر کال آ رہی تھی، اسی نمبر سے۔۔ وہ گھبرا گٸی، کچھ زیادہ بول گٸی تھی یقیناً اب وہ اپنے نخرے پر پچھتا رہا ہو گا، معذرت کرے گا، سہی سے بات کرے گا۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔ جی چاہا آج ہی بس ڈیٸر پورا کر کے سم توڑے اور جان چھڑوا لے۔۔
”جی فرماٸیں۔۔“ کال اٹیڈ کرتے ہی وہ جل کر بولی۔۔
”سوری بولیں مس پریہان۔۔ ابھی اور اسی وقت اپنے وہ بےکار الفاظ واپس لیں جو مجھے بولے ہیں۔۔“
سرد سی آواز پر وہ خوفزدہ ہوٸی۔۔ موباٸل سامنے کر کے دوبارہ سے نمبر دیکھا۔ وہ انسان اتنا عجیب اور خوفناک برتاٶ کیوں کر رہا تھا۔۔ شکل سے تو۔۔
”آٸی سیڈ سے سوری ٹو می۔۔“ وہ دھاڑا۔ پریہان کے ہاتھ سے موباٸل چھوٹ کر گود میں گرا۔۔ دل زور سے دھڑکا، چہرے پر پسینہ آنے لگا۔ کون تھا آخر وہ۔۔
”دیکھیں۔۔ میں نے بہت مجبوری میں آپ کو کال کی ہے۔۔ مجھے۔۔“ وہ گڑبڑا کر جلدی سے بیچارے پن کی ناکام ایکٹنگ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
”سوری کریں مس پریہان۔۔“ اس کی پھنکارتی آواز پر اس کا حلق خشک ہوا۔۔ بری پھنسی تھی۔
”ایم سو۔۔ سوری۔۔“ ہکلا کر ابھی وہ یہی بول پاٸی تھی جب کال کٹ گٸی۔۔ وہ ساکت سی بیٹھی رہ گٸی۔
شاید وہ غلط کر بیٹھی تھی، وہ بظاہر ہنس مکھ انسان بہت سخت، سرد اور خطرناک لگ رہا تھا۔۔
اس نے جھرجھری لے کر ساتھ لیٹی پُروا کو گلے سے لگا کر کسی گڑیا کی طرح خود میں بھینچ لیا۔۔
>>>>>------>>>----->>>>---->
پریسہ، پریہان اور پُروا تین بہنیں تھیں۔۔ ان کے ماں باپ احسان اور شگفتہ دونوں ڈاکٹرز تھے۔۔ ڈاکٹر احسان ایک رات سوٸے تو صبح اٹھ نہیں پاٸے۔۔ ان کی اچانک خاموش موت نے ان کی فیملی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔ پریسہ تب ایف۔ایس۔سی کی سٹوڈنٹ تھی، پریہان ٹینتھ کی اور چھوٹی پروا سِکس کلاس میں تھی۔۔ ڈاکٹر شگفتہ نے خود کو بیٹیوں کے لیے بمشکل سنبھالا تھا۔۔ خاندان میں ان کی بس ایک ہی بہن تھیں شاٸستہ اور ایسے موقع پر انہوں نے بہت ساتھ دیا تھا۔۔ بیس سالہ پریسہ بی۔ایس۔سی کا امتحان دے کر فارغ ہوٸی تو ڈاکٹر شگفتہ کی ایک ساتھی ڈاکٹر ماریہ کے رشتہ مانگنے پر ان کے بیٹے کے ساتھ شادی کر دی۔۔ ان کی طبیعت انہیں ڈرانے لگی تھی ڈاکٹر احسان کے بعد ان کی زندگی کی ویرانی نے انہیں بہت ڈرا دیا تھا۔۔ وہ اپنی بیٹیوں کو زندگی میں ہی اپنے گھروں کا کر دینا چاہتی تھیں۔۔ وہ بہت خوبصورت تھیں اور ان کی بیٹیاں بالکل ان کا پرتو تھیں۔۔
شفاف گلابی سی رنگت اور شہد رنگ آنکھیں اور بال۔۔
وہ سب دیکھنے والوں کی توجہ کھینچ لیتی تھیں۔
پریہان جب کالج گرل تھی اس کی خالہ شاٸستہ کے سسرالی رشتہ داروں سے اس کا رشتہ آ گیا۔
لڑکا اچھا تھا، گھرانہ بھی بہت سلجھا ہوا تھا، لڑکا یونی ورسٹی سٹوڈنٹ تھا مسز شگفتہ نے کچھ سوچ بچار کے بعد پریہان کی منگنی کر دی۔
پریسہ کی طرح پریہان نے بھی نا کوٸی اعتراض کیا نا ہی لڑکے کو دیکھنے پرکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔۔
اس کی انگیجمنٹ کے تین ماہ بعد کسی آپریشن کے دوران زرا سی غلطی پر پیشنٹ کی طبیعت بگڑ جانے پر شدید ٹینشن کا شکار ہوتی ڈاکٹر شگفتہ کا بی۔پی شوٹ کر گیا۔۔ پیشنٹ کو تو ڈاکٹرز نے سنبھال لیا تھا مگر پہلے سے کمزور دل ڈاکٹر شگفتہ زندگی سے ہار بیٹھی تھیں۔۔
ان کی موت پر پریہان اور پُروا کے سر پر قیامت سی گزری تھی۔۔ پریسہ اپنے ہزبینڈ کے ساتھ کینیڈا ہوتی تھی ، وہ ماں کی موت پر آٸی تھی مگر وہ بہنوں کے لیے پریشان حال تھی۔۔ وہ انہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتی تھی نا ہی اکیلا چھوڑ سکتی تھی۔
مسز شاٸستہ جو بےاولاد تھیں اپنی خوشی سے ان دونوں کو اپنے گھر لے گٸیں۔۔۔ پریہان اور پروا کو یہاں پوری توجہ اور پیار ملا تھا، آنی تو ہمیشہ سے بہت پیار کرنے والی تھیں ان کے خالو وقار صاحب بھی اچھے سے پیش آتے مگر وہ ان کے زیادہ گھر سے باہر رہنے پر غصہ ہوتے تھے۔۔
پروا تو باپ کے بعد ماں کے بھی جانے پر پریہان کی بہت عادی ہو چکی تھی۔۔ وہ سولہ سال کی ہو چکی تھی مگر بہت خاموش سی رہتی تھی۔۔ گھر سے زیادہ باہر نہیں جاتی تھی نا زیادہ فرینڈز بناتی تھی وہ بس پریہان کے ارد گرد گھومتی تھی مگر پریہان کی فرینڈز تھیں جن کے ساتھ وہ باہر بھی جاتی تھی ہلہ گلہ بھی کرتی تھی اور ہر مستی کرتی تھی۔۔
وہ اب یونی سٹوڈنٹ تھی، فی الحال اس نے لمٹس یاد رکھی ہوٸی تھیں مگر شاٸستہ بیگم کو اس کا ہر وقت گھومنا پھرنا ڈراتا تھا اور وہ اس معاملہ میں بہت ضدی ثابت ہوٸی تھی۔۔
اس لیے انہوں نے جو ڈراٸیور ان بہنوں کے لیے رکھا تھا وہ خاص طور پر پریہان کی جاسوسی بھی کرتا اور مسز شاٸستہ کو سب تفصیل دیتا کہ وہ کب اور کہاں گٸی۔۔
>>>>>------>>>----->>>>---->
خان حویلی کے مردان خانے میں اس وقت خان یوسف بیٹوں کے ہمراہ بیٹھے تھے، دوسرے علاقے کے خان حاکم خٹک ان کے سامنے بیٹھے تھے۔۔
”ہم یہ دشمنی ختم کرنا چاہتے ہیں خان صاحب۔۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ آپ کے بیٹے کا قتل یعقوب خان نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا، لڑاٸی ہوٸی تھی خان صاحب گولی تو دونوں نے چلاٸی تھی، یعقوب خان کی زندگی تھی بچ گیا اور ارباز خان۔۔۔“
حاکم خان نے بات ادھوری چھوڑ دی، خان یوسف کا اپنے بیٹے کے زکر پر چہرہ سرخ ہو گیا تھا، آج بھی جوان بیٹے کی لاش یاد آتی تھی تو دل کٹ سا جاتا تھا اور حاکم خان گڑے مردے اکھاڑنے آ گٸے تھے۔۔
”میرے ارباز خان نے دل پر گولی نہیں ماری تھی حاکم خان۔۔ وہ مارنا نہیں چاہتا تھا۔۔ تمہارا بیٹا مارنے کے ہی ارادے سے کھڑا تھا وہاں۔۔ اب پرانی باتوں کا فاٸدہ نہیں۔۔“ خان یوسف نے ضبط سے جواب دیا۔۔
”خون بہا لے لیا، حساب برابر۔۔ میں چاہتا ہوں اب پرانی دشمنی کو ختم کیا جاٸے۔۔ میں اپنی بیٹی اور اس کی اولاد سے ملنا چاہتا ہوں خان صاحب۔۔“
حاکم نے درد بھری بھیگی آنکھوں سے سامنے بیٹھے اپنے جوان نواسوں کو دیکھا جو ایسے پتھر بنے بیٹھے تھے جیسے کوٸی رشتہ ہی نا ہو۔۔ خان یوسف نے یاور خان اور داور خان کو دیکھا۔۔
”ونی ہوٸی عورتیں بھلا کب اپنوں سے ملتی ہیں حاکم خان۔۔ اور کیسے کرو گے صلح۔۔؟ تمہیں کیا لگا یہاں آ کر یہ تقریر کرو گے اور میں سب بھلا دوں گا۔۔ اپنے جوان بیٹے کی موت بھلا دوں گا۔۔؟“
خان یوسف نے تیکھے لہجے میں کہتے ہوٸے تمسخر سے حاکم خان اور اس کے ساتھ آٸے بیٹے کو دیکھا۔
”خان صاحب ہم۔۔ پھر سے رشتہ داری کر لیتے ہیں۔۔ میں آپ کے خانزادہ کو۔۔“ ابھی حاکم خان کی بات درمیان میں تھی جب خان یوسف بپھر گٸے۔۔
”مجھے کوٸی صلح نہیں کرنی یہاں کوٸی نہیں ہے تمہارا۔۔ میرے خانزادہ کا نام بھی مت لینا۔۔ اس کا رشتہ ہو چکا ہے اور نا بھی ہوتا تو تمہارے ساتھ کبھی نا کرتا۔۔۔ ان کو باہر کا راستہ دکھا دو یاور خان۔۔“
خان یوسف کی دھاڑتی آواز پر مردان خانے میں اپنے کمرے سے نکلتے خانزادہ نے حیرت سے اپنے آغا جان کی غصیلی آواز سنی تھی، آگے بڑھ کر دیکھا تو حاکم خان اور ان کے بیٹے ایوب خان سر جھکاٸے، ڈھلکے ہوٸے شانے لیے باہر کی جانب جا رہے تھے جب یاور خان تیزی سے ان کے پیچھے گیا۔۔
”کیوں آٸے آپ لوگ یہاں۔۔؟ اندازہ بھی ہے آپ لوگ کو کہ اب اس بات پر ہماری مورے کے کتنے دن عذاب میں گزریں گے۔۔؟ دوبارہ مت آٸیے گا۔۔“ یاور خان کی بھیگی آواز پر خانزادہ لب بھینچے زنان خانے کی طرف بڑھ گیا۔۔ آغا جان اور اپنے باپ سے اسی بات پر گلہ رہتا تھا اسے مگر اس معاملہ میں اس کی کبھی نہیں سنی گٸی تھی۔۔
زنان خانے میں سامنے ہی رات کا کھانا تیار کرواتی گل جان بی۔بی براٶن چادر اوڑھے کھڑی تھیں۔۔ چہرہ بھی چادر میں مکمل چھپا ہوا تھا، وہ انہیں دیکھتا رہا۔۔
”خانزادہ۔۔ کیا بات ہے کچھ چاہٸیے تھا۔۔؟“ خانی بیگم کی آواز پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا۔۔ مہنگا بھاری لباس اور زیور سے لدی جوان اور خوش باش خانی بیگم کے حلیہ اور گل جان کے حلیہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔ اس کا دل برا ہونے لگا۔۔
”مجھے بھوک لگ رہی تھی مورے۔۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولتا ایک بار پھر گل جان بی۔بی کو دیکھنے لگا جو اس کی بات پر تیزی سے برتن اٹھانے لگی تھیں۔۔
”مینے خانزادہ کو کھانا دے دو۔۔ میں زرا لڑکیوں کو دیکھ آٶں پچھلے باغ کی طرف گٸی تھیں۔۔“
خانی بیگم نے کچن کی طرف منہ کر کے آواز لگاٸی اور اس سے کہہ کر باہر نکلیں وہ بس گل جان کو دیکھ رہا تھا جو اس کے لیے کھانا ڈال کر اب لا رہی تھیں۔۔
سالن میں قیمہ اور کوفتے، گرم نرم گول روٹی اور ساتھ سلاد سب کچھ ٹرے میں رکھا ہوا تھا۔
”اپنے لاڈلے کی پسند کا کھانا بناتی رہتی ہیں مورے۔۔ کبھی ہم غریبوں کو بھی پوچھ لیا کریں۔۔“ داور اسی وقت آیا تھا ٹرے میں سجے سالن دیکھ کر منہ بنایا۔۔ دونوں ہی خانزادہ کی پسند کے تھے۔۔
”یہ چھوٹا ہے۔۔ اس کا حق زیادہ ہے۔۔“ گل جان مسکرا کر خان زادہ کے بال سنوارتی محبت سے بولیں۔۔
وہاں آٸے خان آزر تن فن کرتے کمرے کی طرف چلے گٸے، گل جان کا ہاتھ کپکپایا تھا۔۔
”آپ پر سب سے زیادہ میرا حق ہے مورے گل۔۔ ان سب کو جلنے دیں۔۔ مجھے آپ کے ہاتھ کا کھانا بہت پسند ہے۔“ خانزادہ نے ان کا لرزتا ہاتھ تھام کر محبت سے چومتے ہوٸے کہا تو ان کی آنکھیں نم ہو گٸیں۔۔
داور نے چھوٹے بھاٸی کو مسکراتے ہوٸے دیکھا، وہ واحد تھا جو گل جان کو ان کا حق دلانے کی کوشش کرتا تھا وہ چاہے ناکام رہتا تھا مگر گل جان کو خوش کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا۔۔
لڑکیاں باغ سے لوٹ آٸی تھیں۔۔ سامنے خانزادہ اور داور کو دیکھ کر جلدی سے چادروں کو درست کیا۔
”سلام لالہ۔۔ آج تو آپ بھی گھر نظر آ رہے ہیں۔۔“ اس کی چھوٹی بہن پلوشے اس کے پاس آ کر بیٹھی۔ چچا کی بیٹیاں وہاں سے کمروں میں چلی گٸیں۔۔
”جی ہاں۔۔ آج جلدی آ گیا۔۔ آپ جا سکتے ہیں اپنی بیگم کے پاس لالہ۔۔“ وہ بہن کو جواب دے کر شرارت سے بولا تو اپنی بیوی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھتے داور نے چونک کر اسے دیکھا اور شرمندہ ہوا۔
”جانتا ہوں۔۔ تم باپ مت بنا کرو۔۔ ہر جگہ نظر گھومتی ہے تمہاری۔۔“ وہ اسے گھور کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔ وہ دونوں بہن بھاٸی ہنس پڑے۔
”لالہ میرا ایڈمیشن کروا دیں ناں یونی میں اور زرشے کا بھی۔۔ وہ بھی پڑھنا چاہتی ہے۔۔ پلیز آغا جان سے بات کریں ناں۔۔“ وہ منت بھرے لہجے میں بولی تو آخری نوالہ لے کر اس نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوٸے سر ہلایا۔۔ پلوشے نے جلدی سے پانی کا گلاس بھر کر اسے تھمایا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”کھانے کے فوراً بعد پانی نہیں پیتے۔۔ میں کروں گا آغا جان سے بات۔۔ اب مجھے اچھی سی چاٸے بنا کر پلاٶ اور خود مت بنانا زرشے کو کہنا۔۔ تم بہت بری چاٸے بناتی ہو۔۔“ اس کے خالی ہو چکے برتن ملازمہ نے آ کر اٹھا لیے مگر کھانا پینا وہ کبھی ملازماٶں کے ہاتھ کا پسند نہیں کرتا تھا۔۔ پلوشے کی ویسے بھی کام کرنے سے جان جاتی تھی، خوشی سے سر ہلا کر بھاگی۔۔
زرشے تو سب کام چھوڑ کر بھی خانزادہ کے لیے چاٸے بناتی تھی اور جانے کتنی لگن سے بناتی تھی کہ وہ بھی بس اسی کے ہاتھ کی چاٸے مانگتا تھا۔۔
”خان آزر اپنی اس بیوی سے کہہ دو اپنے گھر والوں کو اگر وہ پیغام بھیجوا رہی ہے صلح کے تو بھول جاٸے کہ وہ اپنی خوشی سے ونی کی ہوٸی بیٹی سے دوبارہ مل سکیں گے۔۔ سردار خان یوسف ابھی مرا نہیں کہ سب من مانیاں کرنے لگے ہیں۔۔“
آغا جان زنان خانے پہنچتے ہی دھاڑے۔۔ ان کی تیز آواز پر کچن میں کھڑی گل جان آج جوان بیٹوں کی ماں ہو کر بھی لرز کر رہ گٸی تھیں۔۔ سب وہاں جمع ہونے لگے، خان آزر نے بھی ایک متنفر نگاہ گل جان پر ڈالی تھی۔
”آغا جان صبر کریں۔۔ گل بھابھی کیوں بھجواٸیں گی پیغام، وہ خود آٸے ہوں گے۔۔“ خان زوار نے آگے ہو کر باپ کو غصہ کرنے سے روکنا چاہا۔۔
”تم چپ رہو خان زوار۔۔ تمہیں اپنے معصوم بھاٸی کے قتل کا کبھی دکھ ہوا ہی نہیں تھا، تم نے تو ونی لینے سے بھی صاف انکار کر دیا تھا۔۔ مجھے صبر کے سبق مت پڑھاٶ۔۔ حاکم خان کے بیٹے نے ایک نہیں دو قتل کیے تھے۔۔ اپنی ماں کی موت بھول گٸے ہو کیا؟ جو جوان بیٹے کی لاش دیکھتے ہی مر گٸی تھی۔۔“
خان یوسف کی آواز بری طرح کانپنے لگی۔ خانزادہ جو غصہ سے انہیں ٹوکنا چاہ رہا تھا ان کی زرد پڑتی رنگت دیکھ کر بوکھلا گیا۔۔ تیزی سے آگے بڑھ کر انہیں سنبھالنے لگا۔۔ خان زوار بھی آگے بڑھے۔۔
”وہ لوگ قاتل ہیں۔۔ میرے بیٹے کے۔۔ خان بیگم کے۔۔ میں کیسے۔۔ معاف کر دوں۔۔“ آغا جان صوفے پر خانزادہ کے سہارے بیٹھتے اسے تھام کر رو پڑے۔۔
خان آزر گل جان پر چیخ رہے تھے، خان یاور تو نانا کے جانے کے بعد ہی حویلی سے نکل گیا تھا، داور بےبسی سے باپ کا رویہ دیکھ رہا تھا جبکہ خانی بیگم اور خان زوار کی بیگم ثنا خاموش تماشاٸی بنی ہوٸی تھیں۔۔ لڑکیاں کمروں میں دبک گٸیں۔۔ خانزادہ اپنے دادا کو سینے سے لگاٸے بےچارگی سے چپ کروا رہا تھا۔۔ ہر بار ایسا کچھ ہو جاتا تھا وہ باپ کو روک سکتا نا دادا کو۔۔ اور گل جان ونی ہونے کی وجہ سے بنا قصور کے سزا کی حق دار ٹھہرتیں۔۔
”میں نہیں کر سکتی یہ فضول ڈیٸر۔۔ اتنا ایٹیٹیوڈ دکھا رہا تھا وہ۔۔ رُوڈ ہو رہا تھا۔۔“ پریہان اگلے ہی دن انہیں صاف انکار کر گٸی۔۔ وہ تینوں سر پکڑ کر بیٹھ گٸی تھیں۔۔
”تو تم کیا سمجھیں، لڑکی کی آواز سنتے ہی فلیٹ ہو جاٸے گا۔۔ بھٸی اچھا خاصہ لڑکا ہے، نخرہ تو کرے گا۔۔ اگر اتنا ایزی ہوتا تو ہم ڈیٸر کیوں دیتے تمہیں۔۔“
ریما نے اس کی کم عقلی پر اسے سمجھایا۔
”آج کل وہ اپنے ایگزامز کو لے کر بزی ہے شاید اس لیے تھوڑا ڈسٹرب ہو گا مگر محنت جاری رکھو۔۔ یاد رکھو تم نے بس پیسے ہی تو لینے ہیں۔۔“
منال نے اسے دوبارہ سے ہمت دلاٸی، پریہان کا سخت موڈ آف ہوا۔۔ وہ کیسے انہیں تفصیل بتاٸے کیسے اس لڑکے نے معافی تک منگوا لی۔۔ یہ بات خود اس کے لیے شرمندگی کا باعث تھی تبھی چھپا گٸی۔۔
”منال اگر کبھی وہ اسی بات کو لے کر مجھ سے فری ہوا تو۔۔؟ میں اس سے فیس ٹو فیس کبھی ملی تو اسے کہنا انجان بن کر رہے تو بہتر ہے۔۔ “ وہ پاگل لڑکی سمجھ رہی تھی ایسا کہہ دینا کافی ہوتا ہے۔۔ اسے لگتا تھا ایک لڑکا سامنا ہونے پر ان باتوں کا حوالہ نہیں دے گا۔ پیسوں کا زکر نہیں کرے گا۔۔ بےوقوف تھی وہ۔۔
”ڈونٹ وری وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔۔ ان فیکٹ میں نے سوچ لیا ہے ہم سب مل کر اس کے پاس جاٸیں گی اور پیسے لوٹاٸیں گی۔۔ ڈیٸر بھی ڈن۔۔۔ بیٹ بھی۔۔ اس کے بعد کبھی اس سے مت ملنا، یہ ضروری بھی نہیں“
منال نے اسے تسلی دی تو وہ بھی کافی حد تک ریلیکس ہوٸی۔۔ یہ اچھی بات تھی۔۔
”یار میرے دادا جان اس بار چاہتے ہیں میں چھٹیاں ان کے پاس گزاروں۔۔ بالکل دل نہیں میرا وہاں جانے کو۔۔“
مرحا منہ بناتی اپنا مسٸلہ لے آٸی۔۔ سب اس کی طرف متوجہ ہوٸیں۔۔ پریہان نے کچھ سوچ کر میسج لکھا۔
”کل کے لیے سوری۔۔ اس سے پہلے ہمارے ٹکراٶ کے لیے بھی سوری۔۔ میرے کانٹیکٹ کرنے کے لیے بھی سوری۔۔ سوری فار ایوری تھنگ۔“ میسج سینڈ کر کے منہ بگاڑا۔
”لو اب اس اتنی ساری سوری کی بریانی بنا کر ٹھونس لو۔۔ چین سکون مل جاٸے گا اب تو۔۔لوفر انسان۔۔“
وہ میسج بھیجتے ہی غصے سے بڑبڑانے لگی۔۔ جواب نہیں آیا تھا شاید وہ دیکھ نہیں پایا تھا یا پھر اگنور کر رہا تھا۔۔ وہ سارا دن بار بار میسج چیک کرتی مگر نو رسپانس۔۔ شام کے وقت جب وہ گھر پہنچی تو ایک میسج آیا ہوا تھا۔۔ اٹس او۔کے۔۔ بس اتنا ہی۔۔؟ وہ حیران ہوٸی اور غصہ بھی۔۔ ریما کو کال ملا لی۔۔
”آخر بات کیسے شروع کروں۔۔؟ کیا بس پیسے مانگ لوں ڈاٸریکٹ۔۔ کیا عذاب ہے ریم۔۔“ وہ چڑ گٸی۔
”کم آن۔۔ اسے کہہ دو اکیلی ہوں گھر پر۔۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔ پلیز تھوڑی دیر بات کریں۔۔ مجھے لگتا ہے میرے گھر کوٸی گھسنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔ یہ ایسی بات ہے کہ وہ فوراً متوجہ ہو گا اور نخرہ بھول جاٸے گا۔۔“
ریما کے مشورہ پر وہ چکرا گٸی، مگر کال اینڈ کرتے ہی اس نے یہی سب میسج لکھ کر بھیج دیا۔۔
آنی کے ساتھ باتیں کرنے لگی، پُروا کوچنگ سینٹر گٸی ہوٸی تھی، چاٸے پینے کے دوران اسے کال آ گٸی۔
وہ نمبر دیکھ کر اس کا دل دھڑک اٹھا۔۔ جھوٹ بولنا اور پھر جھوٹ کو سنبھالنا کتنا مشکل تھا یہ کوٸی اس وقت پریہان سے پوچھتا۔۔ اس نے کال اٹینڈ کی۔
”مس پریہان۔۔ کیا آپ ٹھیک ہیں۔۔؟ آپ کو اگر کوٸی خوف ہے تو آپ اپنی فیملی کو بتاٸیے۔۔ گھر کے کسی مرد کو بتاٸیں۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔“
وہ کال اٹینڈ ہوتے ہی بولا۔۔ اکتایا ہوا لہجہ آج قدرے فکرمندی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ اتنی جلدی چال میں پھنس گیا اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ جلدی سے اٹھ کر کمرے میں پہنچی تھی۔۔
”میں۔۔ میرے پیرنٹس نہیں ہیں۔۔ چھوٹی بہن۔۔۔ ہے وہ اس وقت کوچنگ۔۔ گٸی ہے۔۔ کسے بتاٶں۔۔“
کسی انجان سے بات کرنے، جھوٹ بولنے اور پکڑے جانے کا خوف اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر گیا۔ اس کی آواز میں نےساختہ کپکپاہٹ پیدا ہوٸی اور لڑکھڑاتے جملے باور کروانے لگے جیسے وہ واقعی ڈری ہوٸی ہو۔۔ کال پر موجود انسان اس پر یقین کرنے پر مجبور ہوا تھا۔
”آپ کہاں رہتی ہیں؟ کیا میں کوٸی سیکیورٹی کا انتظام کر دوں؟ کہیں تو میں آ جاٶں۔۔؟“
وہ پورا پورا جال میں پھنس گیا۔ پریہان کو شدید شرمندگی ہوٸی، اچھا انسان تھا۔ فکرمند ہو گیا تھا۔۔ اور وہ ڈرامہ کر رہی تھی، دھوکہ دے رہی تھی۔۔
ایک پل کو جی چاہا کال کاٹ دے، معذرت کر لے اور یہ جھوٹ یہیں ختم کر دے مگر وہ نہیں رکی۔۔
”ن۔۔نہیں۔۔ آپ نہیں آٸیں۔۔ میں سب کو۔۔ آٸی مین یہاں لوگوں کو کیا جواب دوں گی کہ۔۔ کون ہیں آپ۔۔“
وہ واقعی گڑبڑا گٸی۔۔ ہاتھ کی مٹھی بناٸے منہ پر رکھ گٸی۔ ضمیر اس دھوکہ پر لعن طعن کرنے لگا۔۔
”فکر مت کریں۔۔ میں کال پر ہوں۔۔ کچھ اَن ایزی فِیل کریں تو بتاٸیے میں پولیس کو بھیج سکتا ہوں۔۔“
اس نے تسلی دی اور پریہان کے پاس کوٸی جواب نہیں تھا۔۔ خاموش رہی اور وہ بھی خاموش ہو گیا۔۔
تو کیا وہ واقعی بس کال پر ہے؟ سہارا دینے کے لیے تاکہ وہ ڈرے نہیں۔۔؟ کتنی دیر گزر گٸی وہ کچھ نہیں بولا مگر کال چلتی رہی تھی۔۔
”سنیں۔۔ آپ بزی تو نہیں ہیں۔۔؟“ آخر پریہان کو عجیب سا محسوس ہوا تو پوچھ بیٹھی۔۔
”ہمم آٸی ایم۔۔ بٹ اٹس او۔کے۔۔“ وہ مصروف سی آواز میں بولا اور پھر سے خاموشی کا وقفہ طویل ہونے لگا۔۔ پریہان کو بےچینی محسوس ہونے لگی، کوٸی انسان کسی انجان کے لیے اتنی پرواہ کیسے ظاہر کر سکتا ہے۔۔ وہ بظاہر شوخ اور فلرٹی سا لڑکا اتنا کٸیرنگ تھا۔۔ نا وہ وقت پاس کر رہا تھا نا سویٹ ہو رہا تھا مگر وہ ایک لڑکی کی مجبوری میں اس کا ساتھ دے رہا تھا۔۔ ایک قابلِعزت انسان کی طرح۔۔
”او۔کے تھینکس اب کوٸی مسٸلہ نہیں۔۔ میری بہن آ گٸی اور انکل بھی۔۔“ وقار صاحب اور پُروا کے آنے پر وہ بےساختہ اس سے کہہ گٸی۔ ایسے انسان کو ڈیٸر کے طور پر بھی دھوکہ دینا برا لگ رہا تھا۔۔
”ٹیک کٸیر۔۔“ وہ دو لفظ کہہ کر کال کاٹ گیا۔۔ پریہان کتنی دیر ہاتھ میں موباٸل لیے بیٹھی رہ گٸی۔۔
”اپیا۔۔“ پروا اس کے پاس پہنچ کر پکار رہی تھی وہ چونکی اور مسکرا کر اس سے بیگ لیا۔۔
میلا پالا ٹوٸٹی۔۔“ وہ لاڈ سے پروا کے گال چومتی جا رہی تھی۔۔ پروا نے بمشکل اس سے جان چھڑواٸی۔۔
”آپ جانتی ہیں میں نیکسٹ اٸیر کالج گرل بن جاٶں گی۔۔ مجھے بیبی جیسا ٹریٹ کرنا چھوڑ دیں۔۔“
وہ اپنی پونی جھلا کر بولتی ناک چڑھا رہی تھی۔۔ پریہان اسے دیکھ کر کھلکھلاٸی، وہ واقعی بڑی ہو رہی تھی مگر پریہان کو اب بھی بچی ہی لگتی تھی۔۔ وہ بڑی بہن سے زیادہ ماں تھی پروا کے لیے۔۔ اور ماٶں کے لیے بچے کبھی بڑے نہیں ہوتے، اگلے ہی کچھ لمحات میں وہ سب بھلاٸے پروا کے لیے سینڈوچ اور چاٸے لے کر اس کے پاس بیٹھی تھی اور کچھ وقت پہلے اپنی بہن کو اپنے بڑے ہو جانے کی اطلاع دینے والی پروا کسی بچے کی طرح پونی جھلا کر چمکتی آنکھوں سے پورے دن کی روداد سنا رہی تھی۔۔۔
>>>>---->>>>----->>>>------>>>>----->>>>
خان حویلی میں حاکم خان کی آمد کے بعد پھر سے فضا میں سوگواری سی رچ بس گٸی تھی۔۔ آج تیسرا دن تھا، آغا جان کی طبیعت خراب تھی، گم صم سے ہو رہے تھے، گل جان کو بات بات پر طنز اور نفرت بھرے جملے سننے کو مل رہے تھے۔۔ داور اور یاور کمزور ڈھال بنے ماں کو بچانے کی کوشش میں ہر بار بات بدل دیتے یا ماں کو ساٸیڈ پر کر دیتے تھے۔۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جوان دو بیٹوں کی ماں ہونے کا ایک فاٸدہ یہ ہوا تھا کہ اب خانی بیگم انہیں نظرانداز کرتی تھیں، نا دوستی پالی نا نفرت قاٸم رکھی۔۔ مگر خان یوسف اور خان آزر آج بھی ان پر چیختے تھے۔۔
ایسے میں خانزادہ تھا جس نے ہمیشہ کی طرح اس ماحول کا اثر زیادہ لیا تھا، اس وقت بھی دلگرفتہ سا آغا جان کے سرہانے بیٹھا تھا۔۔
”میرے رشتہ کی بات حاکم خان کو ٹالنے کے لیے کہی تھی یا یہ سچ ہے؟“ وہ آغا جان کے زرا سنبھلتے ہی ماتھے پر بل ڈالے سوال کر رہا تھا، وہ مسکراٸے۔
”سچ ہے اور تمہارے لیے کوٸی ایسی ویسی لڑکی نہیں چنی۔۔ خاندانی اور۔۔۔” مجھ سے کب پوچھنے والے تھے؟ یا پھر بس مجھے نکاح کے وقت اطلاع دی جاتی؟“ اس نے ان کی بات درمیان میں ہی ٹوک دی۔۔ داور اور یاور نے پریشانی سے اسے بھڑکتے دیکھا، اسی میں ہی ہمت تھی خان یوسف کی بات کاٹنے کی۔۔
”وقت آنے پر پوچھ بھی لیتا، بتا بھی دیتا۔۔ جیسے ان دو کی خاندانی اور اچھی بیویاں آٸی ہیں۔۔ میں نے یہ فیصلہ تب ہی کر لیا تھا جب خان موسٰی نے وہ حرکت کر کے علاقہ میں ہماری ناک کٹوا دی۔۔ خیر مجھے یقین ہے تمہیں میرے فیصلہ سے اعتراض نہیں ہو گا۔۔“
وہ موسٰی کا زکر کرتے سر جھٹک گٸے اور مسکرا کر اپنی بات مکمل کی۔۔
”موسٰی نے جو بھی کیا میرا اس سے کوٸی لینا دینا نہیں آغا جان۔۔ میں آپ کے فیصلہ کو بھی تب مانوں گا۔۔ اگر میرا دل راضی ہوا تو۔۔ میرے ساتھ زبردستی کو سوچیے گا بھی نہیں۔۔“ وہ ان کی دواٸیوں کا جاٸزہ لینے کے بہانے نظریں چراتا دو ٹوک لہجے میں بولا۔۔ خان یوسف نے بےچارگی سے اسے دیکھا۔
”یار تمہارا دل راضی ہو جاٸے گا، تم ملے ہی کہاں ہو لڑکی سے ابھی۔۔ بلکہ آغا جان اس کی شادی کر ہی دیں اب۔۔“ داور نے شرارت سے بولتے ہوٸے بات کو سنجیدگی میں جانے سے روکا تھا، آغا جان تو اس کی شادی کی بات پر ہی پرجوش سے ہو گٸے۔۔
”جی ہاں اس گھر میں کوٸی رونق ہو، موسٰی بھی شاید لوٹ آٸے اس بہانے۔۔“ یاور کی بات پر آغا جان نے افسردگی سے سر اثبات میں ہلایا۔۔
”موسٰی کو بلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا پتا ہو وہ کہاں ہے۔۔ مجھے بنا سوچے سمجھے شادی نہیں کرنی۔“
وہ ان کی خوشیوں پر آرام سے پانی پھیرتا بولا۔۔
”خان زوار کی طرح شہری اور پڑھی لکھی لڑکی لانا چاہتے ہو؟ یا پھر موسٰی کی طرح مرضی کرنے کی چاہ میں نادانی کر کے ساری عمر کے لیے منہ چھپانا چاہتے ہو۔۔؟ یاد رکھنا خانزادہ تم میری سرداری اور اس حویلی کے وارث ہو۔۔ تمہاری ہر غلطی سر آنکھوں پر لیکن اپنے آغا جان کو مایوس مت کرنا۔۔ میں تمہاری زندگی کی بربادی نہیں دیکھ سکوں گا۔۔“
خان یوسف تڑپتے لہجے میں بولتے جذباتی وار کرنے لگے، خانزادہ جھنجھلا گیا۔۔ اس وقت وہ آغا جان اور خانزادہ کی بحث کو مسکرا کر انجواٸے کرتے بڑے بھاٸیوں کے سامنے انکار نہیں کر سکتا تھا، وہ جانتا تھا انکار کی صورت میں آغا جان اس کی برتری ظاہر کریں گے اور یہ بات ان دونوں کو ہرٹ کرے گی۔۔
خان یوسف کے تین بیٹے تھے، بڑے بیٹے خان یاسر کی ایک بار لڑاٸی حاکم خان کے بیٹے ایوب کے ساتھ ہوٸی، دونوں جوان تھے طیش میں ایک دوسرے پر گولی چلاٸی، ایوب خان کا نشانہ دل پر لگا جبکہ خان یاسر کا نشانہ چوک گیا تھا۔۔ جوان قتل ہو گیا، جرگہ بٹھایا گیا اور خون کے بدلے ونی میں حاکم خان کی چھوٹی بیٹی گل جان مانگ لی گٸی۔۔ خان زوار نے ونی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ وہ جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے، وہ شہری لڑکی ان رسم و رواج کو نہیں مانتی تھی وہ خان زوار کے ساتھ دوسری شادی کبھی نا کرتیں۔۔
مجبوراً خان آزر کے نکاح میں گل جان آٸی تھیں۔۔
کچھ ہی وقت بعد زوار کی شادی ثنا بیگم سے جبکہ خان آزر کی شادی خان یوسف کی اپنی بھتیجی خانی بیگم سے ہو گٸی، خان زوار کی پہلی بیٹی ہوٸی تھی، خانی بیگم کے ہاں بھی پہلی بیٹی ہوٸی جبکہ گل جان نے پہلا بیٹا پیدا کیا خان یاور اور ایک ہی سال بعد دوسرا بیٹا خان داور پیدا ہوا۔۔ آغا جان کو وارث مل گیا تھا مگر ونی کے بیٹوں کو وارث کے طور پر قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔۔ اور پھر کٸی منتوں اور مرادوں سے ثنا بیگم اور خانی بیگم کے ہاں ایک ساتھ بیٹے ہوٸے تھے۔۔ موسٰی اور خانزادہ میں چند ماہ کا فرق تھا، موسٰی بڑا تھا۔ آغا جان کو اپنی بھتیجی خانی بیگم کا بیٹا خانزادہ شروع سے عزیز رہا تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ فرق کرتے تھے یا باقی سب کو پیار نہیں کرتے تھے مگر ہمیشہ سے ہی خانزادہ کا جو مقام ان کے دل میں تھا وہ کسی کا نہیں ہو سکا۔۔
اور اس بات کا اظہار وہ اکثر سرعام کر جاتے تھے اور کسی کو برا نہیں لگتا تھا مگر خود خانزادہ کو یہ بات پریشان کرتی تھی۔۔ اور لڑکے ہونے کے باوجود خان یوسف ہر خواہش، ہر حسرت اسی کے وجود سے پوری کرتے تھے جس کی وجہ سے اسے وہ بھی کرنا پڑ جاتا جو وہ نہیں چاہتا تھا۔۔
اس وقت وہ موسٰی کے زکر پر اٹھ کر کمرے میں آ گیا، آغا جان نے تاسف سے اسے جاتے دیکھا سب حویلی والے ان دونوں کی دوستی اور موسٰی کے حولی چھوڑ کر جانے کے بعد خانزادہ کی اداسی کے بارے میں جانتے تھے۔۔ خود وہ لوگ بھی کہاں خوش تھے، موسٰی کا اچانک غاٸب ہو جانا سب کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث تھا۔۔
خان یاور آغا جان سے نٸی فصل کا حساب کتاب ڈسکس کرنے لگا، داور وہیں خاموش بیٹھا تھا۔
اپنے کمرے میں آ کر خانزادہ نے ساٸیڈ ٹیبل پر پڑی تصویر اٹھا کر دیکھی۔۔ دو شوخ شرارتی مسکراہٹ لیے اونچے لمبے پٹھان لڑکے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے۔۔ آنکھوں کا رنگ ایک جیسا نیلگوں ماٸل تھا مگر نقوش الگ تھے۔۔
”موسٰی لوٹ آٶ اب تو۔۔ کیا تین سال کم ہیں سنبھلنے کے لیے۔۔“ وہ تصویر میں اپنے ساتھ کھڑے لڑکے سے مخاطب ہوا۔۔ آنکھوں میں نمی بھر آٸی۔۔
تین سال پہلے اپنی جنونی اور شدت بھری محبت کی وجہ سے وہ اپنی ہی زندگی کی رونق چھین چکا تھا۔۔
پھر جب بےسکونی نے کہیں ٹکنے نہیں دیا تو سکون کی طلب میں اپنی یادوں سے پیچھا چھڑوا کر وہ حویلی چھوڑ کر کہاں گیا کوٸی نہیں جانتا تھا۔۔
>>>----->>>>---->>>>----->>>>>
عیسٰی لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں گاڑے مصروف بیٹھا تھا۔۔ انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر بنا رکے چل رہی تھیں۔۔ اچانک کال آنے لگی تو اس نے کان میں لگے اٸرپیس پر انگلی ٹچ کرتے یس کی۔۔
”عیسٰی کہاں ہو۔۔ آٶ یار چِل کرتے ہیں۔۔ جاز سے ریس کی بیٹ لگانے والا ہوں۔۔ “ اس کے دوست حسن کی پرجوش آواز اٸیرپیس سے گونجی تو اس نے منہ بنایا۔
”میری اساٸنمنٹ رہتی ہے۔۔ یہ تیرا باپ بناٸے گا۔۔“
عیسٰی نے اپنی مخصوص بدزبانی کا مظاہرہ کیا، حسن سمجھ گیا آج وہ پھر کام میں پھنسا ہونے کی وجہ سے بےزار ہو رہا ہے۔۔ اس کی نظریں اب بھی سکرین پر جمی تھیں، انگلیوں کی حرکت بھی بدستور اسی رفتار سے چل رہی تھی۔۔
”یار کل سنڈے ہے۔۔ پورا دن ہے۔۔ منڈے کو سبمِٹ کروانا ہے۔۔ ہم نے بھی نہیں بناٸی۔۔“ حسن نے اسے ریلیکس کرنا چاہا، اس کے بغیر مزہ جو نہیں آتا۔۔
”کل گھر جاٶں گا پچھلے دو ہفتوں سے گھر نہیں گیا۔۔ اب تو آغا جان کو ڈر لگنے لگا ہے کہ شادی کر بیٹھا ہوں۔۔“ وہ آغا جان کی بات کرتے ہوٸے مسکرایا تھا۔
”کم آن ابھی سے شادی اور وہ بھی تم۔۔؟ مجھے تو لگتا ہے کہ تمہاری لاٸف ایڈونچرز میں گزر جاٸے گی شادی نہیں کرو گے کبھی۔۔“ حسن کی بات پر اس نے مسکراہٹ دباٸی۔۔ دوست سے بہتر واقعی دنیا میں کوٸی آپ کو نہیں پہچان سکتا۔۔
”جانے دو ابھی۔۔ شادیوں میں کچھ نہیں رکھا، نا ہی آج کل لڑکیاں محبتوں کے قابل ہوتی ہیں۔۔“
اس نے سرد سے لہجے میں کہتے ہوٸے سر جھٹکا، ایسی باتوں پر اکثر موسٰی کی مثال اس پر بہت پڑتی تھی۔۔ موسٰی کا خیال آتے ہی وہ اداس ہوا۔۔
”لیو دا ٹاپک۔۔۔ تم آ رہے ہو یا نہیں۔۔اٹس سیٹرڈے ناٸٹ۔۔ اپنا کام تو تم سنڈے ناٸٹ بھی کر سکتے ہو۔۔“
حسن ہر حال میں اسے منانے کی کوشش میں تھا۔۔
”یار۔۔ تم لوگ جان چھوڑو میری، کچھ خود بھی کر لیا کرو۔۔ مجھ سے تو ایک بار مقابلہ کرتے ہوٸے تم جیت گٸے تھے۔۔ خود کرو اس بار بھی۔۔“ وہ زہن بٹ جانے پر بدمزہ ہوتا ناک چڑھا کر اس پر چڑھ دوڑا۔
”پلیز عیسٰی آ جاٶ۔۔۔جاز نے نیو لیمبرگینی لی ہے۔۔ تیسرا دن ہے اس کے شوآف نے دماغ کی دہی کر دی ہے۔۔ وہ اپنا منہ تب ہی گول کرے گا جب اسے ایک بار اچھی خاصی زلالت والی ہار دیں گے۔۔ آجا یار۔۔“
اس بار موباٸل جھپٹ کر احمر نے بات کی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا رو رو کر عیسٰی کا دل پگھال دے۔
” پتا نہیں کون سی منحوس گھڑی میں تم دو میرے پلے پڑے تھے۔۔ تم دونوں کا بس چلے تو شادی بھی مجھ سے ہی کر لو تاکہ ساری زندگی تمہاری ان فضول شوخیوں کو پورا کرتے گزار دوں۔۔ دفع ہو جاٶ۔۔“
وہ چیخ کر بولتا لیپ ٹاپ ایک طرف پھینک چکا تھا۔۔ وہ دونوں ہنسنے لگے، جانتے تھے اب چاہے وہ گالیاں دے یا مارے مگر آٸے گا ضرور۔۔ جاز سے خود اسے بھی خاص پرخاش تھی۔۔ وہ کال کاٹ کر بکھرے بالوں میں انگلیاں چلاتا بےچارگی لیپ ٹاپ کو دیکھنے لگا۔۔
جس توجہ سے وہ کام کر رہا تھا یقیناً ایک دو گھنٹوں میں پورا ہو جاتا اور وہ آرام سے کل چلا جاتا گھر مگر ان دو نے ساری توجہ کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔۔
دانت کچکچا کر اٹھا، رف سے ٹراٶزر شرٹ میں جا سکتا تو چلا جاتا لیکن وہ عیسٰی خان تھا سج دھج کر ہی باہر نکتا تھا۔۔
اگلے آدھے گھنٹے میں وہ شاور لے کر مکمل تیار اپنی سلور گرے بوگاٹی میں حسن کی بھیجی لوکیشن کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔۔
اسے دیکھ کر جاز گردن اکڑاٸے اپنی لیمبرگینی سے نکلا تو عیسٰی کے لبوں پر اس کی سیم سلور گرے کلر سپورٹس کار دیکھ کر تمسخر بھری مسکراہٹ ابھری۔۔
”ابے کلر سکیم سے کیا بنتا ہے۔۔ بوگاٹی کاٸرن لینی تھی ناں۔۔ یہ تو پاگل پن ہے لیمبرگینی اور بوگاٹی کا کیا مقابلہ۔۔ رزلٹ بنا ریس کیے سب جانتے ہیں۔۔“
عیسٰی کی ہنستی آواز پر جاز نے دانت پیس کر حسن کو دیکھا۔ جو ایک لیمبرگینی کے مقابلہ میں دنیا کی سب سے تیز رفتار گاڑی لانا چاہ رہا تھا۔
وہاں کھڑے سب لوگ ہی جانتے تھے کہ بوگاٹی کا مقابلہ لیمبرگینی نہیں کر پاٸے گی جب ڈراٸیور بھی عیسٰی جیسا ہو۔۔ اب وہ پیچھے بھی نہیں سکتا تھا۔
عیسٰی سینے پر بازو لپیٹے مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر آگے بڑھ کر اس کے قریب رکا اور اس کی کار کو جھک کر دیکھنے لگا۔۔
”ایک چانس دیتا ہوں۔۔ عزت سے بغیر مقابلہ کیے نکل جاٶ بس میرے ان بد دماغ دوستوں کے سامنے مت آنا۔۔
اگر آج یہاں ریس ہوٸی تو کہیں عزت نہیں رہے گی تمہاری اس مہنگی گاڑی کی۔۔“
گاڑی کا جاٸزہ لیتے ہوٸے جاز کے پاس جھک کر عیسٰی نے کہا تو وہ لب بھینچتا پیچھے ہو گیا۔۔
اگلے کچھ منٹ میں وہ اپنے دوستوں سمیت وہاں سے جا چکا تھا۔۔ احمر اور حسن کا منہ بن گیا تھا۔
”بزدلوں کی طرح بنا ریس کیے بھیج دیا ان کو۔۔“
احمر کی بات پر وہ کندھے اچکاتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا، پھر رک کر انہیں دیکھا۔
”کام کر رہا تھا، فارغ نہیں ہوں کہ آتے جاتے چوزوں کے سامنے اپنا آپ ثابت کرتا پھروں۔۔ تمہارے کہنے پر آ گیا اتنا بہت ہے۔۔ میدان خالی چھوڑ کر جانے والا بزدل ہوتا ہے اور میں کھڑا ہوں، گیا تو وہ ہے۔۔“
ان دونوں کو گھور کر کہا اور زن سے گاڑی بھگا گیا۔۔ اگر اس کا دل نہیں تھا ریس کا تو نہیں کی، چاہے یہ بات بتانے کے لیے اسے بذات خود چل کر آنا پڑا، وہ سرپھرا آیا اور چلا بھی گیا۔۔
پہلے روز کی اس لمبی کال کے بعد جیسے پریہان کے لیے گولڈن ڈور کھل گیا تھا، وہ وقتاً فوقتاً دوستوں کے سمجھاٸے جھوٹ اور بناوٹی مجبوریوں کو پیش کرتی اس سے اکثر بات کرنے لگی۔۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ سن بھی لیتا تھا اور ایسا لگتا جیسے توجہ سے سنتا ہے مگر جواب اتنا مختصر جیسے بےزار ہو رہا ہو۔۔
پریہان کو کٸی بار غصہ آنے لگتا تھا، وہ سہی سے جواب کیوں نہیں دیتا، اس کا رسپانس اتنا ٹھنڈا کیوں تھا اور وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اب تک بات کرنے کے بعد وہ اس اس قابل سمجھے گا کہ پیسہ دے یا نہیں۔۔
”یار ہان کہاں تک پہنچا کام؟ ڈیٸر کر بھی پاٶ گی یا نہیں۔۔ زندگی میں ایک بار تو کر جاٶ۔۔“
منال کو شاید جلدی تھی، پریہان کی خاموشی سے وہ تنگ آ کر جھنجھلا کر بول رہی تھی۔
”میں کیا کروں اتنا کولڈ سا لگتا ہے کبھی کبھی۔۔ پتا نہیں پیسے مانگنے پر مجھے فراڈ نا سمجھ لے۔۔“
وہ منہ اتار کر بولی، دھوکہ دیتی ہان کو اپنا آپ فراڈ نہیں کہلوانا تھا۔۔ وہ دنیا کا عجوبہ لگی تھی دوستوں کو۔۔ فراڈ ہی تو کر رہے تھے وہ لوگ۔۔
”وہ اب بھی اٹینشن سیکر سمجھ لے گا اگر زیادہ عرصہ اسی طرح اپنی نادیدہ مجبوریوں کا رونا روتی رہیں تو۔۔ اچھا ہے گیم ختم کرو۔۔ وہ حقیقت جان جاٸے گا پیسہ واپس ہونے پر۔۔“ مرحا نے اسے یاد دلایا کہ وہ کیوں بات کر رہی ہے۔۔ پریہان بوکھلا گٸی، یہ بات تو وہ بھول ہی چکی تھی کہ پیسہ واپس کرتے ہوٸے یہ سچ کھل جانا تھا کہ یہ سب ڈیٸر تھا اور کچھ نہیں۔۔ اور سچ جان کر وہ اچھا انسان اسے کیا سمجھے گا، اسےسوچ کر ہی شرمندگی ہوٸی۔۔
”اس لیے بہتر ہے زیادہ لمبا ڈرامہ نا کرو۔۔ کم سے کم جھوٹ ہو تاکہ سچاٸی کھلنے پر شرمندگی نا ہو۔۔ ہمارا مقصد پیسہ لے کر غاٸب ہونا نہیں ہے، بیٹ پوری ہو گی تو اس کو پیسہ واپس دیا جاٸے گا۔۔“
ریما اور منال کی آواز پر وہ چونکی، ان کے جملے سن کر سر پر ہاتھ مارا۔۔ یہ کیا کر بیٹھی تھی۔۔
اسے اپنی باتیں ساری یاد آنے لگیں۔۔
”مجھ سے ایک پرامس کریں کبھی حقیقت میں نہیں ملنے کا کہیں گے۔۔ اور نا ہم ملیں گے اگر کبھی سامنا ہوا تو آپ اجنبی بن کر گزر جانا۔۔“ پریہان نے اسے ایک بار ہدایت دی تھی جسے اس نے ہمیشہ کی طرح میسج دیکھتے ہی بس او۔کے کہا تھا۔۔
”میں شرمندہ نہیں ہونا چاہتی۔۔ میں آپ کو سب بتا دیتی ہوں سامنا ہونے پر آپ نے کبھی ترس کھایا تو مجھے دکھ ہو گا۔۔ بہتر ہے اجنبی بن جاٸیں۔۔“ یہ اس کا نہایت عقلمندانہ جملہ تھا جسے لکھ کر ہی اس نے خود کو داد دی تھی کہ کیسے بات سنبھال گٸی۔
اس پر بھی اس نے بس آل راٸٹ کہا تھا جیسے اس سب میں اسے دلچسپی ہی نا ہو۔۔ شاید وہ پریہان نامی اس غریب بےچاری لڑکی سے موباٸل پر ہی ہمدردی جتا کر پچھتا رہا تھا۔۔
”پریہان۔۔“ منال نے اسے جھنجھوڑا تو وہ اپنے خیالوں سے جاگ کر سوالیہ نظروں سے تینوں کو دیکھنے لگی۔
”کیا بات ہے بار بار کس کے خیالوں میں کھو رہی ہو۔۔“
ریما نے شوخی سے اسے دیکھتے ہوٸے پوچھا۔
”کہیں نہیں۔۔ کیا کہہ رہے تھے تم لوگ۔۔“ وہ نفی میں سر ہلا کر اپنی تمام توجہ ان پر کر گٸی۔۔
”میں بتا رہی ہوں کہ وہ اپنے ایگزامز سے فری ہوتے ہی اپنے فیملی بزنس میں اِن ہو چکا ہے، زیادہ لیٹ مت کرو کہ وہ مجھے کہے اب کمانے لگا ہے اس لیے پیسہ دیا، مجھے بیٹ جیتنی ہے۔۔ بس اب اس سے پیسے مانگ لو۔۔ اماٶنٹ میں بتاٶں گی کتنی ہو۔۔“
منال کی بات پر اس نے سر ہلا دیا، اب کرنا ہی تھا، اس بےوقت خوامخواہ کی جھوٹی اداکاری سے جان چھڑوانا ہی بہتر تھا۔۔ وہ ساری سوچیں جھٹک گٸی۔
سمیسٹر ایگزامز ہونے والے تھے، اس سب سے جان چھڑوا کر اسے ویسے بھی اب سٹڈیز پر فوکس کرنا تھا۔۔ وہ یونی سے جلدی گھر چلی گٸی
>>>>---->>>>---Y.E--->>>>------>>>>
”یہ کیا ہو گیا، اب کیا کروں گی۔۔“ وہ پریشان سی لیپ ٹاپ کی سکرین کو تک رہی تھی، اس کی فاٸلز کرپٹ ہو رہی تھیں، لیپ ٹاپ بار بار ہینگ ہو رہا تھا۔۔
”واٸرس آ گیا ہے۔۔ اس کو اینٹی واٸرس کرو ورنہ سب فاٸلز کرپٹ ہو جاٸیں گی اور پھر ریکور نہیں ہوں گی۔۔“ فضہ کی بات پر وہ گھبرا گٸی۔
اس کے سب لیکچرز اساٸنمنٹ اور اتنا ڈیٹا پڑا تھا، کچھ فاٸلز کرپٹ ہو چکی تھیں۔۔
”یہ کیسے کروں ابھی میں یہ سب نہیں کر سکتی۔۔“
وہ پریشانی سے سب اوپن فاٸلز کلوز کر کے بولی، فضہ نے ایک پرسوچ نظر اس پر ڈالی اور چونکی۔
”تم وہ سینٸیر عیسٰی خان سے اس دن کیا بات کر رہیں تھیں؟ کیا تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو۔۔“
فضہ کے اس موقع پر کیے جانے والے سوال پر وہ چڑ گٸی۔۔
”اس بات کا یہاں کیا زکر۔۔ میں اپنے کام کی وجہ سے پریشان ہوں تمہیں عیسٰی خان کی پڑی ہے۔۔“
وہ چڑچڑے لہجے میں بولتی لیپ ٹاپ بند کر گٸی۔
”ارے اسی کا ہی تو زکر ہے۔۔ تم جانتی ہو وہ آٸی۔ٹی ڈیپارٹمنٹ کا سب سے بریلینٹ سٹوڈنٹ ہے۔۔ ویسے تو وہ کافی ایروگینٹ ہے کسی کی ہیلپ کرتا نہیں بٹ کبھی کبھی موڈ میں ہو تو جونٸیرز کو ہیلپ آٶٹ کر دیتا ہے، یہ ایشو اس کے لیے بچوں کا کھیل ہے۔۔“
فضہ کی بات پر وہ لب کاٹتی عیسٰی کو سوچنے لگی، اگر اس نے مدد کرنے سے منع کر دیا تو شرمندگی ہو گی خوامخواہ۔۔ وہ متذبذب سی اپنی جگہ سے اٹھی۔
لیپ ٹاپ بیگ میں ڈال کر اسے تلاش کرنے لگی۔۔
یا وہ یونیورسٹی کی بلڈنگ کے باہر سرکل میں بنے گراسی پلاٹ میں بیٹھا ہوتا تھا یا لیب میں۔۔
وہ لیب سے نکلتا نظر آ گیا تو اس کی طرف بھاگی، اس کی اچھی بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے فرینڈز کے ساتھ نہیں گھومتا تھا ورنہ بات کرنا مشکل ہوتا۔
”عیسٰی بات سنیں۔۔“ اس کی پکار پر وہ رک کر پلٹا اور ابرو چڑھاٸی جیسے پکارنا ناگوار گزرا ہو۔۔
”عیسٰی خان۔۔ پورا نام لیں مس۔۔ ہمارے درمیان ایسی کوٸی فرینڈشپ نہیں کہ آپ میرا فرینکلی نام لیں۔۔“
وہ جیسے ناک چڑھا کر نخرے سے بولا تھا آٸرہ کو یقین ہو گیا وہ مدد بھی نہیں کرے گا۔۔
”جی سوری۔۔ وہ اگر آپ ماٸنڈ نا کریں تو مجھے ہیلپ چاہٸیے۔۔“ کوٸی اور وقت ہوتا تو وہ وہیں سے پلٹ جاتی مگر اس نک چڑھے خانزادے سے بات نا کرتی مگر اسے جلد اپنا لیپ ٹاپ ٹھیک کروانا تھا۔۔
”کیا ہیلپ۔۔؟“ اس نے بےزار سے لہجے میں پوچھا۔
”میرا لیپ ٹاپ ہینگ ہو رہا ہے، فاٸلز بھی کرپٹ ہو رہی ہیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں۔۔“ اپنی مشکل بتاتے ہوٸے اس کی واقعی رونی صورت بن گٸی تھی، عیسٰی نے کچھ سوچ کر سر ہلا دیا۔۔
”اوکے لیٹ می چیک۔۔ ریلیکس اٹس ناٹ آ بگ ڈیل۔۔“
وہ کچھ دیر پہلے بےزاری سے بولنے والا یکدم ایسے بن گیا جیسے بہت مہربان ہو۔۔ اس کے چلنے پر آٸرہ اس کے پیچھے ہو لی، اس کے ساتھ چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا، اپنا آپ اسے بہت اہم سا لگنے لگا۔۔ چور نظروں سے اسے دیکھا جو کندھے پر بیگ لٹکاٸے موباٸل پر کچھ ٹاٸپ کر رہا تھا۔۔ نیلگوں ماٸل آنکھوں کا رنگ کچھ الگ سا لگ رہا تھا۔۔ اس کا رنگ بہت پیارا تھا اور قد بھی دراز تھی پھر اس کی ڈریسنگ ہمیشہ شاندار ہوتی تھی، آٸرہ کو ڈھونڈنے سے بھی کوٸی خامی نظر نہیں آٸی تھی اس میں۔۔ ایک جگہ رک کر وہ اس کی طرف یکدم پلٹا تو وہ گڑبڑا گٸی۔
”بچپن سے سنتے آٸے ہیں نیچے دیکھ کر چلنا چاہٸیے، کیا تم اپنی نظروں کو قابو میں رکھ کر نہیں چل سکتیں، اب اپنا لیپ ٹاپ دو مجھے۔۔“
اس نے ایک نظر آٸرہ کے چہرے پر ڈالتے ہوٸے جتا کر کہا تو وہ بری طرح شرمندہ ہو گٸی۔
وہ نہایت بےشرم اور بدلحاظ تھا، آٸرہ نے جھرجھری لیتے ہوٸے لیپ ٹاپ بیگ سے نکال کر اس کے سامنے کیا۔ عیسٰی نے وہیں گراسی پلاٹ پر بیٹھتے ہوٸے تیزی سے ہاتھ چلاتے کچھ ہی وقت بعد سب ٹھیک کر کے لیپ ٹاپ اس کے سامنے کیا، وہ جو محو سی اسے تک رہی تھی حیرت سے سکرین کو دیکھا۔
”اٹس ڈن، واٸرس تھا جس کی وجہ سے سب کرپٹ ہو رہا تھا، ان نون ڈیواٸسز کنیکٹ نہیں کرنی چاہٸیں، ٹیک گڈ کٸیر آف یور تھنگز، میں ہر وقت موڈ میں نہیں ہوتا کہ ہیلپ کروں۔۔۔“ وہ مدد کر کے بھی بےمروتی ظاہر کرتا ضاٸع کر چکا تھا۔
آٸرہ نے آہستگی سے تھینکس کہا تو گاگلز لگاتے ہوٸے سر خم کرتا وہ مسکرا کر اسے ایک نظر دیکھ کر وہاں سے چلا گیا۔ عجیب دھوپ چھاٶں سا مزاج تھا۔۔
بات اور کرتا تھا، لہجہ اور ہوتا اور عمل بالکل الگ۔۔
>>>>>>-------Y.E------->>>>
وہ بےزار سا جرگہ میں بیٹھا تھا، جب تک یونی ہوتی تھی اس سب سے جان چھوٹی رہی، گھر میں ہی کم آتا تھا اور آغا جان نے بھی پڑھاٸی کا سوچ کر ان سب معاملات سے الگ رکھا ہوا تھا مگر اب۔۔
سامنے جرگہ کی سب معزز شخصیات اور خان آزر کے ساتھ خان یوسف بھی بیٹھے تھے، جس کا مطلب فیصلہ وہی کرنے والا تھا چاہے جو بھی کرے۔
ان کے ہی گاٶں کے کسی ایک لڑکے سے کسی مرد کا قتل ہو گیا تھا، لڑکے کے مطابق اس مرد سے جھگڑا بحث ہو جانے پر غصہ میں اس نے پتھر مارا جو اس کی کنپٹی پر لگنے سے موت واقع ہو گٸی تھی۔۔
خانزادہ نے اپنے خاص بندے ادب خان سے سارا معاملہ پتا کروا لیا تھا، مرنے والا زہنی طو پر نارمل نہیں تھا، پاگل تھا اور اس کی بلاوجہ بحث پر لڑکے نے پتھر دے مارا تھا۔۔ وہ مر گیا اور یہ گناہ لڑکے کے سر تھا۔
سامنے لڑکا زرد رنگت لیے باپ کے ساتھ سر جھکا کر کھڑا تھا۔۔ ارادہ قتل کا نہیں تھا مگر ہو گیا۔۔۔
”اب خون کا بدلہ یا لڑکی ہو گی یا زمین یا پیسہ۔۔“
جرگہ کے حساب سے خون کے بدلے خون کے علاوہ آسان حل بتایا جا رہا تھا، خان آزر کے جملہ پر وہ باپ بیٹا ان کے آگے جھک گٸے، خان یوسف کی نظر خانزادہ پر جمی تھیں وہ اس کے فیصلہ کے منتظر تھے، جاننا چاہتے تھے وہ کیا بہتر سمجھے گا۔
”سردار صاحب پیسہ یا زمین کی اوقات نہیں ہماری۔۔“
باپ پریشانی سے کپکپاتی آواز میں بولا۔۔
”تو بیٹی ونی کرو، مرنے والے کے دو بھتیجے موجود ہیں یہاں۔۔“ خان آزر نے اشارہ کر کے بتایا، سامنے جوان مرد کھڑے تھے، وہ شادی شدہ تھے جبکہ بچی دس سال کی تھی، خانزادہ نے لب بھینچے۔
”سردار صاحب رحم کریں، وہ بہت چھوٹی ہے دوسری اس سے بھی چھوٹی ہے۔۔“ باپ بےساختہ رو پڑا تھا، جانتا تھا یہی واحد حل ہے، بیٹا اکلوتا تھا، پیسہ، زمین بھی نا تھے، باقی بیٹیاں ہی بچتی تھیں۔
”خانزادہ کیا کہتے ہو، یہ فیصلہ سہی ہے ناں۔۔؟“ خان یوسف سے رہا نہیں گیا تو پوچھ بیٹھے، وہ جو پچھلی بار بات ٹوکی جانے پر آج ضبط کیے بیٹھا تھا چونک کر سیدھا ہوا سب کی نظریں اس پر جم گٸیں۔۔
”نہیں۔۔ بالکل سہی نہیں ہے۔۔“ اس نے اعتماد سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہتے سب کو حیران کیا۔
”خون کے بدلے پیسہ بہتر ہے۔۔ ہم سب جانتے قتل کس حال میں ہوا، ہاں لڑکا گناہگار ہے اور مرنے والا ناحق مارا گیا مگر ایسا مقصد نہیں تھا۔۔ مرنے والا کیسا انسان تھا یہ بھی سب جانتے ہیں، گھر والوں کے غم کو سمجھ سکتا ہوں۔۔ اور تم دونوں۔۔“
وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتا ان دو کی طرف مڑا جو مرنے والے کے بھتیجے تھے، وہ متوجہ ہوٸے۔۔
”شادی شدہ ہو۔۔ گھر بار والے ہو، بچے بھی ہیں اور وہ بچی تمہارے بچوں کی عمر کی ہے اس کو ونی کے طور پر لے کر غم میں کمی آٸے گی؟ یا مرنے والا لوٹ آٸے گا۔۔ میں بخوبی جانتا ہوں کتنا نقصان ہوا ہے مگر اس کا ازالہ یہ نہیں ہے۔۔ یا معاف کرو یا پیسہ لو۔۔“
وہ آخری جملوں پر سرد سا ہو گیا، مرحوم کے بھتیجے ہونق سے اس کا منہ تکنے لگے، وہ جانتا تھا اس گلی میں گھومنے والے نیم پاگل شخص کے مرنے سے ان کو زیادہ فرق نہیں پڑا پھر بھی ونی لینے کے لیے ان کو وہاں دیکھ کر اسے شدید غصہ آ رہا تھا۔۔
”حکم خانزادہ صاحب۔۔ ہمیں منظور ہے۔۔“ وہ دونوں کچھ توقف کے بعد مان گٸے۔۔ رقم بیس لاکھ طے پاٸی۔
”خانزادہ صاحب پیسہ کہاں سے آٸے گا۔۔ ہم غریب ہے“
لڑکے کا باپ پریشان گھبرایا ہوا خانزادہ کے سامنے ہاتھ جوڑتا رونے والا ہو گیا۔۔
”گھر اپنا ہے ناں؟ وہ بیچ دو۔۔ گھر میں کوٸی سامان ہے تو بیچ دو۔۔ کیا وہ سب بیٹی سے بڑھ کر ہے۔۔“
خانزادہ نے دھاڑ کر سوال کیا تو وہ چپ سا ہو گیا، اس بےحسی اور کم عقلی پر خانزادہ کا خون کھول رہا تھا۔ گھر سازو سامان کے ساتھ غریب کا بھی بیس لاکھ تو دے ہی جاتا ہے۔۔ مگر اسے بچا کر بیٹی ہی کیوں کم قیمت لگتی ہے کہ دے دی جاٸے۔۔
اس کے غضب ناک تاثرات نے جرگہ میں عجیب رعب سا پیدا کر دیا تھا، لڑکا اور اس کا باپ چپ ہو گٸے، خون کے بدلے پیسہ لینے والے بھی اسے دیکھ رہے تھے۔
اس نے فیصلہ سنایا نہیں تھا منوایا تھا، خان یوسف کو اس پر فخر سا ہونے لگا، گردن تن گٸی مگر خان آزر پریشان نظر آنے لگے۔۔ وہ فیصلہ سنا کر جھٹکے سے اٹھتا جرگہ سے نکل آیا، ادب خان سر جھکاٸے اس کے پیچھے بھاگتا ہوا اس تک پہنچا اور گاڑی کا ڈور کھولا۔
”ادب خان۔۔“ وہ کچھ سوچ کر اچانک ڈور بند کرتے ادب خان کو دیکھنے لگا۔ وہ رک گیا۔۔
”حکم خانزادہ۔۔“ ادب خان سر جھکا کر متوجہ ہوا۔
”اگر وہ گھر بیچ دے، چھوٹا گھر ہے مگر بیس لاکھ تو آ جاٸیں گے ناں؟ خون کے بدلے دے سکے گا، سب ایسا کیوں نہیں سوچتے؟ مشکل کیا ہے۔۔“
اس کے سوال پر ادب خان نے دو قدم اس سے دور کیے۔ تاکہ اس کے فیصلہ کو غلط بولنے پر سزا نا ملے۔
”خان جی غریب بندہ ہے، مزدوری کرتا ہے گھر بیچ دے گا تو رہنے کا آسرا چھین جاٸے گا۔۔ پھر اس کی دونوں بیٹیاں رلیں گی ساتھ میں ماں باپ اور بھاٸی بھی۔۔
تب بھی شاید انجام یہی ہو وہ بیٹی کسی پیسے والے کو دے کر پیسہ لے گا کہ رہنے کا آسرا پا سکے۔۔“
ادب خان نے آہستگی سے مٶدب لہجے میں حقیقت آشکار کی۔۔ اسے اب سمجھ آٸی خان آزر کیوں پریشان ہوٸے تھے۔۔ اس نے سر پکڑ لیا۔
”مگر ادب خان بیٹی کوٸی بےکار چیز تو نہیں کہ گناہ کوٸی کرے بھگتے کوٸی۔۔“ اسے شدت سے گل جان کی ویرانی یاد آٸی۔۔ کم عمری سے بےرنگ زندگی جی رہی تھیں شوہر کے گھر ملازمہ بن کر رہتی تھیں۔۔
”جی سہی فرمایا خان جی۔۔“ ادب خان نے مزید اختلاف سہی نہیں سمجھا تبھی سر ہلا یا۔
”انہیں تین دن بعد پیسہ دینا ہے ناں۔۔؟ میں دوں گا وہ رقم۔۔ پہنچا دینا اس لڑکے کے باپ کو۔۔“
یکدم حل سوچ کر وہ پرسکون سا مسکرایا، وجیہہ سرخیاں چھلکاتے سفید چہرے پر جوش سا بھر آیا تھا۔ کچھ وقت پہلے کا غصہ اور ٹینشن بھول گیا۔۔ اب نا کوٸی بچی زلیل ہونے والی تھی نا اس کا گھرانہ۔۔۔
ادب خان نے گہرا سانس بھر کر اپنے مالک کو دیکھا جو الٹے فیصلے لے کر پھر انہیں ٹھیک کرنے میں لگ جاتا تھا، وہ پوچھنا چاہتا تھا کیا ہر بار ہر قتل کے بدلے بیٹیاں بچا کر پیسہ دیتا رہے گا وہ۔۔؟ مگر چپ رہا۔۔
>>>>----------Y.E--------->>>>
”بہت مجبوری اور پریشانی میں قرض لیا تھا، کچھ ضروری مسٸلے سلجھانے تھے مگر اب قرض چکانا محال ہے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں۔۔“
ہمیشہ کی طرح دوستوں کے بھیجے مشوروں کو میسج میں لکھ لکھ کر وہ بھیجتی اصل بات تک پہنچی۔ اب رقم کا تقاضہ کرنا ضروی تھا۔۔
”اوہ بیڈ۔۔ وش یو گڈ لک۔۔“ کچھ توقف کے بعد جوابی میسج ملا تھا۔۔ اسے اندازہ نہیں ہو پایا وہ ترس کھا رہا ہے یا طنز کر رہا ہے۔۔ دل میں چور تھا تو ہر جملہ طنزیہ لگ رہا تھا۔۔
”کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں، میں جلد جاب سٹارٹ کر کے آپ کو پیسے واپس کر دوں گی۔۔“
اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا۔۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گٸی، شرمندگی سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
زندگی میں پہلی بار وہ یوں کسی سے پیسے مانگ رہی تھی وہ بھی بلاوجہ۔۔ بھکاری ہونا کیسا ہوتا ہے اس لمحے اچھے سے سمجھ آیا تھا۔۔
اس بار آگے خاموشی چھا گٸی۔۔ میسج سین ہو چکا تھا مگر جواب نہیں آ رہا تھا جیسے وہ بےیقین ہوا ہو اس کی ڈیمانڈ سے۔۔ یا شاید لالچی سمجھ رہا ہو گا، خفت سے اس کی ہتھیلیاں بھیگ گٸیں۔۔ جواب کے انتظار میں دھڑکن رک رک کر چلنے لگی۔۔ انکار یا اقرار دونوں ہی شرمندہ کرنے والے تھے۔
جواب کے انتظار میں اس کی دھڑکن رک رک کر چلنے لگی۔۔ انکار یا اقرار دونوں ہی شرمندہ کرنے والے تھے۔
وہ موباٸل پر منتظر نظریں گاڑے بیٹھی تھی جب آخر کار دو منٹ بعد کے شرمسار انتظار کے بعد میسج ملا۔
”ضرور۔۔ کتنے چاہٸیں۔۔؟“ تین لفظ اور وہ مزید شرمندہ سی ہو گٸی۔۔ دل چاہا یہیں رک جاٸے۔۔ کہہ دے مذاق تھا، نہیں چاہٸیں مگر اتنے آگے آ کر قدم روک لیتی تو ڈیٸر ہار جاتی۔۔
جلدی سے فرینڈز گروپ میں میسج فاروڈ کیا۔۔ منال وغیر نے دیکھتے ہی خوشی کا اظہار کیا۔۔
”اب جو جو ہم میسج کرتی جاٸیں وہ بھیجتی جاٶ۔۔“
منال نے کہا تو وہ او۔کے کہہ گٸی۔ رقم بتاٸی تو اس کی آنکھیں پھیل گٸیں۔۔ پورے پچاس لاکھ۔۔
”منال اٹس آ لاٹ۔۔ میں اتنے کیسے۔۔“ وہ بوکھلا گٸی۔
”کم آن ہان جلدی میسج بھیجو۔۔ ڈونٹ بی چاٸلڈ، پانچ سے آٹھ لاکھ تک تو نارملی ہوتا ہی ہے رچ لڑکوں کے پاس۔۔ یار اٹس جسٹ آ بیٹ، ڈزنٹ میٹر پچاس کہو یا ایک کروڑ کہو۔۔“ پریہان کی بوکھلاہٹ پر وہ تینوں پھر سے شروع ہو چکی تھیں اس کا سر چکرا گیا۔
دل کہہ رہا تھا رک جاٸے مگر دماغ ان کی باتوں پر مطمٸین ہو رہا تھا۔۔ اس نے میسج بھیج دیا جو فوراً سین ہوا اور اس بار فوراً ہی او۔کے کا رپلاٸی آیا۔۔
”ہی سیڈ او۔کے۔۔ سیرٸیسلی ہی از گیونگ می آ بگ اماٶنٹ۔۔ فار فری۔۔؟“ پریہان کی بےیقینی اتنی بڑھ گٸی کہ وہ اسے او۔کے کے بعد کچھ کہے بنا دوستوں کے ساتھ اپنی حیرت کا اظہار کرنے میں لگ گٸی۔
آخر کوٸی اتی بڑی رقم وہ بھی فری میں کیسے دے سکتا ہے۔۔
”او۔کے اب اس سے کہو کہاں دے گا۔۔؟ کہنا کیش میں چاہٸیے، جو جگہ کہے ہمیں بتانا سب ساتھ چلیں گی۔۔ وہ جیسے ہی پیسے نکالے گا میں بیٹ وِن کر جاٶں گی۔۔“ منال کی اگلی بات پر اس کا دل لرزا۔۔ وہ پیسے لینے خود جاٸے گی یہ تو سوچا نہیں تھا۔۔
”منال تم اپنے اکاٶنٹ میں لے لو ناں۔۔ جانا کیوں ہے۔۔“
وہ پریشانی سے بولی، اس کی بات پر پھر سے اس کی کم عقلی اور بےوقوفی پر ایک لمبی تقریر آٸی۔۔
”وہ پیسے بھیج کر مُکر جاۓ کہ بھیجنے والا وہ نہیں تھا پھر۔۔؟ منال لے کر مُکر جاٸے اور واپس نا کرے تو سب سیٹل کر لو گی؟ واٹ آ فولش گرل۔۔“
مرحا نے اسے ڈپٹ کر چپ کروایا تو اس کا بھی سویا ہوا دماغ جاگا تھا۔۔ اسے سب وہیں ختم بھی تو کرنا تھا۔۔ اس کے لیے یہ سب ضروری تھا۔۔۔ جانا بھی ضروری تھا، ان سب کا ہونا بھی ضروری تھا۔۔
”پیسے کہاں دیں گے؟ مجھے باٸے ہینڈ کیش چاہیے۔۔“
اس نے ہمت کر کے میسج بھیج دیا۔۔ ہاتھوں اور چہرے پر گھبراہٹ سے بےطرح پسینہ آ رہا تھا۔ بار بار پسینہ صاف کرتی وہ اپنا چہرہ سرخ کر چکی تھی۔۔
”میرے آفس آ جاٸیں۔۔ یا پھر کسی کیفے یا کلب میں اکیلے ملنا چاہیں گی آپ۔۔؟“
اتنے دن بعد یہ پہلا تفصیلی جملہ تھا، اس کے الفاظ پر پریہان کا رنگ اڑ گیا۔ کتنی دیر وہ جواب نہیں دے پاٸی، وہ اسے کیا سمجھ رہا تھا آخر۔۔ شرمندگی کے مارے اس کی آنکھیں بھر آٸیں۔۔ وہ اب اپنے آفس کی لوکیشن بھیج چکا تھا، منال لوگوں کے میسجز بھی آتے رہے، اس نے بد دلی سے موباٸل پٹخ دیا۔
”اپیا آنی کہتی ہیں وہ جلدی آپ کی شادی کر دیں گی اور آپ بھی پریسہ آپی کی طرح یہاں سے چلی جاٸیں گی۔۔“ پروا سانس پھولاٸے اس کے پاس آٸی تھی۔۔
اس نے چونک کر دیکھا، اس کے چہرے کی ہواٸیاں اڑ رہی تھیں، پریہان کو بےساختہ ہنسی آٸی۔۔
”شادی تو ہونی ہی ہے، ایک دن میرے ٹوٸٹی کی بھی ہو گی۔۔ افف پری تم دلہن بن کر کیسی لگو گی؟“
وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے سر تا پیر دیکھتی شرارت سے بولتی بات بدل گٸی۔۔
”اپیا۔۔ ابھی شادی مت کریں۔۔ میں اکیلی ہو جاٶں گی۔۔ یا پھر مجھے بھی ساتھ لے جانا وہاں۔۔“
وہ روہانسی صورت بنا کر بولی تو پریہان ہنس ہنس کر پاگل ہو گٸی۔۔ پروا ناراضگی سے اسے دیکھنے لگی، اس کی اپیا ہمیشہ اس کی باتوں پر ہنستی تھی بس۔۔
”او میلا ٹوٸٹی۔۔ میرے ساتھ رخصت ہونا ہے بیبی کو۔۔ میرے ان لاز جہیز میں اتنی بڑی لڑکی دیکھ کر پریشان ہو جاٸیں گے۔۔“ وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہنسی دبانے کی کوشش میں ہلکان سرخ پڑ رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے والی شرمندگی اور خفت بھول گٸی، پروا اس کے لیے ہر مشکل اور دکھ میں سکون کی دوا جیسی تھی۔۔ معصوم اور پیاری باتوں والی۔۔
”میں ان کے سب کام کروں گی وہ پریشان نہیں ہوں گے۔۔“ پُروا کی اگلی بات پر وہ دھک سے رہ گٸی۔
”کیوں ملازمہ ہو تم۔۔؟ پاگل مت بنو۔۔ ایسی بات پھر کبھی مت کرنا۔۔ تم میری چھوٹی سی پری ہو، کبھی کام نہیں کرنے، بس سٹڈی کرو اور پھر تمہاری اپیا تمہیں ساتھ رکھے گی چاہے مجھے اپنا گھر چھوڑنا پڑے۔۔“ وہ اسے خود سے لپٹاتی محبت سے بولی، پروا کا دل سکون میں ڈوب گیا۔ شہد رنگ آنکھیں چمکیں۔
”اپیا مجھے بال کٹوانے ہیں میں تنگ ہوتی ہوں۔۔“ وہ اپنے کمر کو چھوتے لمبے بال اس کے سامنے کر کے بےچارگی سے بولی۔۔ یہی موقع تھا بات منوانے کا۔۔
”بالکل نہیں پری۔۔ میں نے اتنی محنت کی ہے تمہارے بالوں پر۔۔ اور بھی بڑھانا چاہتی ہوں پھر تم رپانزل کی طرح لمبے بالوں والی گڑیا ہو گی جس کا شہزادہ بال پکڑ کر کمرے میں ملنے آٸے گا۔۔“ وہ پروا کے سلکی نرم لمبے بالوں کو سمیٹتی کہانی بنا کر خود ہی ہنس رہی تھی۔۔ پروا کی آنکھیں پھیل گٸیں۔۔
”شہزادے کے بال پکڑنے پر میں گنجی ہو جاٶں گی۔۔“
پروا نے جھرجھری لے کر بےساختہ بالوں پر ہاتھ رکھ کر جیسے انہیں بچایا تھا۔۔ پریہان نے ہنسی دباٸی۔۔
”بس ہم یہ پروگرام کینسل کر دیتے ہیں کوٸی ایسا شہزادہ ہونا چاہیے جو بال نا کھینچے۔۔“ ہان کے لیے مزید ہنسی دبانا مشکل ہو رہا تھا۔۔ پروا اس کی بات پر متفق ہوتی سر ہلا رہی تھی پھر سیدھی ہوٸی۔۔
”اپیا آپ کے جیسے بال کروا لوں۔۔؟ یہ اچھے ہیں۔۔“
اس نے اپنا گلابی چھوٹا ہاتھ بڑھا کر پریہان کے کندھوں کو چھوتے سلکی سیاہ بالوں کو چھوا۔۔
”نہیں پروا۔۔ میں نے کہا ناں تمہیں لمبے بال کرنے ہیں۔“
اس کے منع کرنے پر وہ منہ پھلا کر ناراض ہو گٸی، وہ اس کے گلابی پھولے گالوں کو چوم کر سرخ کرتی اس کو گدگدانے لگی۔۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں کھلکھلا رہی تھیں، پروا گدگدانے پر اور پریہان اسے دیکھ کر۔۔
ان کی آنی آوازوں پر کمرے میں آٸیں تو دونوں کو ہنستا دیکھ کر دل سے خوش رہنے کی دعا دیتیں مسکراٸیں اور پلٹ کر چلی گٸیں۔۔
>>>>----------Y.E---------->>>>
وہ شاور لے کر نکلا، ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر نم بالوں کر برش کرتا دوسرے فارغ ہاتھ سے شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوٸی۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازے پر زرشے کھڑی تھی۔
”زرشے آ جاٶ۔۔ کیا بات ہے۔۔“ وہ مسکرا کر پلٹا اور اسے اندر بلایا۔ وہ جھجکتی ہوٸی اس کے نم چہرے کو دیکھتی چند قدم آگے بڑھ کر بولی۔
”لالا آپ کو آغا جان نے بلوایا ہے۔۔“ وہ بڑی چادر میں لپٹی سر جھکا کر کھڑی تھی، خانزادہ نے لب بھینچے۔
”زرشے۔۔ میں تمہارا بھاٸی ہوں، مجھ سے اس طرح اجنبیوں والا رویہ اور جھجک مت رکھا کرو۔۔ نا ہی چھپا کرو۔۔ پلوشے اور تم میں کوٸی فرق نہیں۔۔“
اس کے پاس جا کر اپنے حصار میں لیتا اس کے چادر میں چھپے ماتھے کو چوما تو وہ سر اٹھا کر دیکھنے لگی۔ آنکھوں میں جھلملاتے آنسو اور حسرت تھی۔
جانے وہ کیوں اپنے ہی بھاٸی سے یوں دور دور رہتی تھی، خانزادہ نہیں سمجھ پایا تھا۔ مسکرا کر اس کی نم آنکھوں کو صاف کرتا سر تھپتھپا گیا۔
”آٶ آغا جان کے پاس چلیں۔۔ جانے پھر کیا عدالت لگا لی ہے میرے خلاف۔۔“ اسے ویسے ہی اپنے حصار میں لے کر باہر نکلا، وہ جو اندر اس کے حصار میں پرسکون کھڑی تھی، باہر نکلتے ہی اس سے دور ہوتی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گٸی، خانزادہ نے الجھی نظروں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔۔
”آپ نے بلوایا آغا جان۔۔؟“ وہ کمرے میں داخل ہوا تو تقریباً سب ہی موجود تھے۔۔ سب کے مسکراتے پُراسرار چہروں کو دیکھتا وہ ابرو اچکاٸے آگے بڑھا۔
”آٶ خانزادہ۔۔ ضروری بات کرنی ہے۔۔“ خان یوسف کے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھ کر وہ بھی متجسس ہوتا ان کے پہلو میں بیٹھا۔
”تمہاری شادی کرنے کا ارادہ ہو رہا ہے، پوچھنا تھا تاریخ کیا ہو، ویسے تو کل باقاعدہ بڑوں کے درمیان تاریخ طے کی جاٸے گی مگر میں چاہتا ہوں تمہیں جو سہی لگے۔۔“ خان یوسف کی بات پر وہ منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا۔ اسے یہ تک نہیں پتا تھا شادی کس سے کی جا رہی ہے اور یہ لوگ تاریخ سوچ رہے تھے۔
”آغا جان مناسب لگے تو زرا یہ بھی بتا دیجیے کس سے شادی کی جا رہی ہے یا یہ بات نکاح کے وقت ہی مجھے پتا چلے گی۔۔؟“ اس نے دانت کچکچا کر کہا تو سب ہنس پڑے۔۔ آغا جان نے قہقہہ لگا کر اس کی پشت تھپتھپا کر جو نام بتایا اس کے چہرے کے تاثرات یکدم بدلے تھے۔ جھٹکے سے کھڑا ہوا، بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔ سب اس کی طرف پریشانی سے دیکھنے لگے۔
”نہیں آغا جان۔۔ پلیز نہیں۔۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔۔“ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کا خون نچوڑ لیا ہو۔ خان یوسف نے سنجیدگی سے اسے گھورا۔
”وجہ بتاٶ۔۔ اس میں کیا کمی ہے؟ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، خاندانی ہے، تم اس سے زیادہ ملے نہیں ہو ورنہ بہت نرم مزاج اور سلجھی ہوٸی ہے۔۔“
خان یوسف کے لہجے سے ساری نرمی غاٸب ہو چکی تھی۔ اس نے ایک نظر کمرے میں موجود سب کو دیکھا، باپ، چچا ماں چچی دونوں بھاٸی اور بھابھیاں۔۔ ہر نظر میں سوال اور حیرت تھے۔۔
یعنی سب کو ہی یقین تھا لڑکی ہر لحاظ سے اس کے لیے بہتر ہے اور اس کا انکار حیران کن تھا۔۔
”وہ پرفیکٹ ہو یا حسن کی ملکہ۔۔ خاندانی ہے یا پڑھی لکھی۔۔ مجھے اس سے شادی نہیں کرنی آغا جان، پلیز مجھے فورس نہیں کریں آپ لوگ۔۔“
وہ بری طرح بےچین ہوا مگر آغا جان ڈٹے ہوٸے تھے۔
”کوٸی خاص وجہ نہیں، لڑکی زات کافی عرصے سے تمہاری منگ ہے اور تم کھڑے کھڑے انکار کر رہے ہو۔۔
جاٶ خانزادہ ہم خود تاریخ سوچ لیں گے، اس معاملہ میں کوٸی ڈھیل نہیں ملے گی۔۔“ خان یوسف کے اٹل جملوں پر وہ اس سے پہلے کہ ضبط کھوتا وہاں سے چلا گیا۔۔ پیچھے سب پریشان بیٹھے رہے۔۔
”آغا جان۔۔ بہت پریشان ہو گیا ہے وہ۔۔ فورس نہیں کریں، وقت دیں اسے۔۔ میں بات کروں گی۔۔“ خانی بیگم نے بےچینی سے پہلو بدلا، بیٹے کے چہرے پر دکھ جیسی کیفیت جو چھاٸی تھی ان کی آنکھوں میں ٹھہر سی گٸی تھی۔۔
”اس بار نہیں خانی۔۔ شادی کے بعد خود سنبھل جاٸے گا، بلاوجہ کا انکار میں آگے کیسے پہنچاٶں گا۔۔“
خان یوسف پہلی بار اپنے خانزادہ کی ناراضگی کی پروا کیے بنا فیصلہ لے چکے تھے۔۔
_________________
وہ کمرے میں آ کر گہرے گہرے سانس بھرتا اپنے اندر کا ابال نکالنے کے لیے اپنے بال کھینچنے لگا۔۔
وہ سب کو کیسے بتاتا موسٰی کی زندگی تباہ کرنے والی وہی تھی۔۔ وہی تھی جس کی وجہ سے موسٰی کی شادی شدہ زندگی میں کبھی سکون نہیں رہا تھا۔
وہ اسی لڑکی کو کیسے اپنی بیوی بنا کر لے آٸے جس نے اس کے دوستوں جیسے بھاٸی کو تباہ کیا تھا۔۔
نا وہ بتا سکتا تھا نا ہی برداشت کر سکتا تھا۔۔
پاگل ہو رہا تھا۔۔ خان یوسف لاکھ محبت جتا لیں مگر اس قسم کے خاندانی فیصلوں میں کبھی نرمی برتنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔
اس کا موڈ اتنا خراب ہوا کہ رات تک کمرے میں بند رہا، رات کے کھانے کے وقت پورا گھر باری باری دروازہ بجاتا منتیں کرتا رہا مگر اس نے گویا قسم کھا لی تھی کہ نا دروازہ کھولے گا نا کچھ کھاٸے گا۔۔
خان یوسف نے تھک ہار کر گل جان کو اس کے پاس بھیجا تھا، سب جانتے تھے ان کے احترام میں وہ انہیں ایسے نخرے نہیں دکھاتا تھا۔۔ گل جان کی مخصوص ہلکی دستک اور آواز پر اس نے فوراً دروازہ کھولا۔
”مورے گل۔۔ آپ رات کے اس وقت۔۔ سب ٹھیک ہے ناں۔۔“ اس کی پریشانی پر وہ مسکراٸیں۔
”کھانا نہیں کھایا آپ نے، کھانے سے کیسی ناراضگی۔۔“
ان کے نرم پریشان لہجے پر وہ بےچارگی سے پلٹ کر صوفہ پر جا بیٹھا۔ سمجھ گیا آغا جان نے بھیجا ہے۔
”بھوک نہیں ہے اس لیے نہیں کھایا آپ فکر نا کریں، سو جاٸیں جا کر۔۔“ بکھرے بال سنوار کر اس نے انہیں بھی ٹالا تھا۔۔ نیلی آنکھیں سرخ نمی سے بھر رہی تھیں، خان یوسف کی پہلی بار سختی نے اسے اچھا خاصہ اداس کر دیا تھا۔۔ گل جان نے آگے بڑھ کر جگ سے پانی ڈال کر گلاس اسے تھمایا۔
”پریشان نہیں ہوتے، شادی پوری زندگی کا فیصلہ ہے، اگر دل نہیں مان رہا تو خان صاحب کو آرام سے سمجھا دیں، آپ سے بہت پیار ہے انہیں، مان جاٸیں گے۔۔“ گل جان کے نرم الفاظ پر اس کو تسلی سی ہوٸی۔۔ پانی پی کر خشک ہوتا حلق تر کیا۔۔
”مججے فرق نہیں پڑتا وہ آرام سے مانیں یا نہیں۔۔ یہ شادی میں کسی صورت نہیں کر سکتا اگر کر لی تو سای زندگی خوشی کے لیے ترس جاٶں گا مورے گل۔۔“
وہ گلاس ٹیبل پر رکھتا جس سختی سے بولا گل جان نے لب کاٹے۔۔ وہ گھر میں طوفان لانے والا تھا۔
”زرشے نے آج آپ کے لیے خاص طور پر چاٸنیز راٸس بناٸے ہیں، آپ کو پسند ہیں ناں۔۔“ زرشے کو آتا دیکھ کر وہ جلدی سے بات بدل گٸیں، ان کی بات پر اس نے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا زرشے ٹرے لیے اندر آٸی۔۔ اس نے سرد آہ بھری یعنی اب کھانے سے انکار مشکل ہو گیا تھا۔۔ گل جان سنگل صوفہ پر بیٹھ گٸی تھیں زرشہ نے اس کے سامنے میز پر ٹرے رکھ دیا۔
”لالا آپ کی ناراضگی سے پہلے میں نے بناٸے تھے چاول۔۔ آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا ابھی تک۔۔“
اسی جھجک بھرے لہجے میں کہتی وہ ناراضگی ظاہر کرنا چاہ رہی تھی مگر ناکام رہی۔ خانزادہ نے اس کا ہات تھام کر اپنے پاس بٹھاتے ہوٸے سر چوما۔
”میری گڑیا نے بتایا نہیں تھا اس لیے۔۔ اب کھاٶں گا ناں، تم بیٹھو میرے پاس۔۔“ وہ اسے پاس بٹھا گیا۔
گل جان اس کے لیے پلیٹ میں چاول ڈالنے لگیں، زرشہ کی چھوٹی چھوٹی معصومانہ باتوں پر مسکراتا وہ کھانا کھانے لگا، کچھ ہی دیر میں پلوشے بھی آ گٸی۔
گل جان اس کے لیے چاٸے بنانے جا چکی تھیں، جب تک اس نے کھانا کھایا پلوشے اور رزشے پاس بیٹھی رہیں۔۔ مگر ایک بات جو وہ ہر بار کی طرح شدت سے محسوس کر رہا تھا پلوشے کے آنے کے بعد سے ہی زرشے کم بول رہی تھی اور جھجک زدہ بیٹھی تھی۔
وہ یہ بات ہر بار کی طرح محسوس کرتا الجھ رہا تھا زرشے پوچھنے پر بھی کچھ نہیں بتاتی تھی۔۔
>>>>>---------Y.E--------->>>>>>
”اس کے آفس چلے چلتے ہیں آج، اب اس گیم کو اینڈ بھی تو کرنا ہے، ورنہ وہ پریہان کو جانے کیا سمجھ لے گا۔۔“ یونی سے آف کے بعد منال نے کہا تو سب کو اس سے اتفاق ہوا۔۔ پریہان بھی اپنا آپ کلٸیر کرنا چاہتی تھی وہ اجنبی اسے غلط سمجھ رہا تھا شاید۔۔
”گڈ آٸڈیا۔۔ کیونکہ پیسے دینے پر تو وہ راضی ہو ہی چکا ہے۔۔ بیٹ تو منال تم جیت گٸیں۔۔“ ریما نے بھی جوش سے کہا، وہ سب منال کی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھیں جب پریہان نے منہ بگاڑا۔۔
سامنے ہی اس کا ڈراٸیور گاڑی سمیت اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ جانتی تھی اگنور کر کے چلی جاٸے تب بھی اس نے پیچھا کرنا تھا۔۔
”گاٸز۔۔ میرا ڈراٸیور آج وقت پر ہی پہنچ گیا، آنی کا جاسوس شاید جان گیا آج کہیں جانے والے ہیں ہم۔۔“
پریہان نے بےچارگی سے ان لوگوں کو اطلاع دی۔۔
”اٹس اوکے۔۔ ہم منال کی گاڑی میں جاتے ہیں تم اس کے ساتھ پیچھے آ جاٶ۔۔۔ آنی سے کہہ دینا کسی پروجیکٹ کے سلسلہ میں جانا پڑا اس کمپنی میں۔۔“
مرحا نے فوری بہانہ گھڑ لیا تھا۔ پریہان کی آنکھیں چمکیں، ویسے وہ بھی کم نا تھی مگر ان معاملات میں اس کی دوستیں دوگنا تیز چلتی تھیں۔۔
”افکوس۔۔ کوٸی کلب نہیں جا رہے کہ ڈر رہی ہو۔۔ آفس کی لوکیشن ہے یا بھیجوں۔۔؟“ منال نے بھی اسے اطمینان دلاتے ہوٸے پوچھا۔
”ہے میرے پاس۔۔ او۔کے سی یو۔۔ “ وہ ہاتھ ہلاتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گٸی۔۔ وہ تینوں پہلے ہی نکل کر جا چکی تھیں، پریہان نے ڈراٸیور کو وہی سب جھوٹ سنا کر لوکیشن بتاٸی تو وہ سر ہلا کر اسے اگلے ایک گھنٹہ میں اس جگہ پہنچا چکا تھا۔
”کب آٶ گی؟ ہم پہنچ چکیں، اتنی لیٹ کیوں ہو۔۔“ ان تینوں کے پچھلے دس منٹ سے میسجز پر میسجز آ رہے تھے، پریہان نے گاڑی سے نکل کر ایک نظر اس نہایت اونچی بلڈنگ کو دیکھا۔
”میں آ گٸی ہوں۔۔ تم لوگ کہاں ہو۔۔ “ اس نے میسج کرتے ہوٸے قدم اندر کی طرف بڑھاٸے۔۔
”آفس میں۔۔ ریسیپشن پر کہنا لڑکی پہنچا دے گی۔۔“
ریما کے میسج پر وہ گہرا سانس بھرتی ہمت کر کے ریسپیشن پر پہنچی۔
”سوری میم کیا آپ کی اپاٸنمنٹ ہے سر کے ساتھ؟ آپ کو ایسے ہی آفس میں نہیں جانے دے سکتے۔۔“
ریسیپشن پر موجود لڑکی نے معذرت کرتے ہوٸے کہا اور آنے والی کال کی طرف متوجہ ہو گٸی، اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا، منال اس کے سر کی دوست تھی تو آرام سے جانے دیا اب پریہان کو روکے بیٹھی تھی۔۔ اسے شدید غصہ آیا۔۔ وہ اس انسلٹ پر سب بھاڑ میں جھونک کر پلٹتی آٶٹ ڈور کی طرف بڑھی۔۔
”میم رکیں۔۔ سوری آپ آٸیں میں آفس دکھا دیتی ہوں۔۔“ لڑکی نے پکار کر جلدی سے آگے بڑھتے ہوٸے ایک جانب اشارہ کیا۔ پریہان سمجھ گٸی منال نے کہلوایا ہے، گردن اکڑا کر اس کے ساتھ چلنے لگی۔۔
اس پروٹوکول پر وہ یہ بھی بھول چکی تھی کیا کرنے آٸی ہے، وہ فیس ٹو فیس پیسے لینے آٸی ہوٸی تھی۔۔
وہ کسی انجان سے ایک شرط کے نام پر پچاس لاکھ لینے والی تھی، چاہے فوری واپس کر دیتی۔۔
لڑکی لفٹ کے زریعے فسٹ فلور پر پہنچی تو گراٶنڈ فلور کی نسبت یہاں قدرے چہل پہل کم تھی۔۔
سامنے ہی ایک شیشے کے آفس کے پاس وہ جا کر رک گٸی، پریہان نے یکدم گھبراہٹ کے حملہ آور ہونے پر پسینہ ہوتے ہاتھ آپس میں رگڑے۔۔
ہونٹوں کے پاس ہاتھ پھیرتی پسنے کی نمی صاف کرتے ہوٸے لبوں پر زبان پھیری اور کپکپاتے ہاتھوں سے ڈور کھول کر اندر قدم رکھا۔۔
نظر چاروں اطراف میں دوڑاٸی، منال وغیرہ وہاں نہیں تھیں، موباٸل پر آنے والے میسج کی بپ پر اس نے لرزتے ہاتھوں سے میسج کھولا جسے پڑھ کر اس کا رنگ فق ہوا۔ ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا تو سامنے کانچ کی بڑی ٹیبل کے دوسری جانب اونچی چٸیر پر بیٹھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ پریہان کا سر چکرانے لگا، وہ پلٹ کر جانا چاہتی تھی مگر اس کا جسم حرکت کرنے سے انکاری ہو گیا تھا۔۔
”ہان کہاں ہو تم ابھی تک پہنچی نہیں ہو۔۔ کھو تو نہیں گٸے تم لوگ؟ تمہیں بس رانا بلڈرز کے آفس آنا ہے یار۔۔ میں پھر سے لوکیشن بھیج رہی ہوں۔۔“
موباٸل پر آنے والے میسج کی بپ پر اس نے لرزتے ہاتھوں سے میسج کھولا.. منال کا میسج تھا، لوکیشن بھی الگ تھی، نام بھی الگ تھا۔۔ وہ کہاں پہنچ گٸی۔
پڑھ کر اس کا رنگ فق ہوا۔ ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا تو سامنے کانچ کی بڑی ٹیبل کے دوسری جانب اونچی چٸیر پر بیٹھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ پریہان کا سر چکرانے لگا، وہ پلٹ کر جانا چاہتی تھی مگر اس کا جسم حرکت کرنے سے انکاری ہو گیا تھا۔۔
”آ جاٸیے مس پریہان۔۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔“
وہ سنجیدگی سے بولتا اپنی سیٹ سے اٹھا اور کچھ ہی فاصلہ پر داٸیں طرف سٹنگ ایریا کی طرف قدم بڑھا گیا۔ وہ وہی تھا جو پہلی بار روڈ پر ٹکرایا تھا پھر شادی میں ٹکرایا اور آج وہ اس کے سامنے تھی۔۔
وہ کوٸی اور نہیں منال کا حدیر تھا۔۔ منال نے جب نمبر دیا تھا اس نے شاید فسٹ ہی کہا تھا اور وہ فسٹ نمبر لے چکی تھی۔۔ پھر کہاں گڑبڑ ہوٸی تھی آخر۔۔
فسٹ نمبر جس پر لاٸف لاٸن لکھا تھا اور یہ لفظ وہ حدیر کے لیے ہی یوز کر سکتی تھی، جو بات اسے تب سوچنی چاہیے تھی وہ اب سوچ رہی تھی۔۔ جس سے پہلی بار روڈ پر بات کر کے ہی وہ مکر گٸی تھی کیونکہ منال کو کسی کا بھی حدیر کے قریب ہونا پسند نہیں تھا، اس بندے کا نمبر نکال کر وہ اتنے دن بات کرتی رہی تھی۔۔ منال کو خبر ہوٸی تو مار ڈالے گی اسے۔۔۔ اس نے جھرجھری لی۔۔
وہ ایک سنگل صوفہ پر بیٹھ کر دروازے کے پاس اٹک کر سوچ میں گم کھڑی پریہان کو دیکھ رہا تھا۔۔
”مس پریہان کوٸی پریشانی ہے آپ کو؟“ اس کی سنجیدہ پکار پر وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوٸی۔ ہو سکتا ہے بات وہ اس سے نا کرتی رہی ہو بس آج غلطی سے آ گٸی ہو۔۔ یہ تسلی بخش سوچ آتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھ کر اپنا موباٸل اس کے سامنے کر گٸی۔
”کیا یہ۔۔ یہ نمبر آپ کا ہے۔۔؟ “ پریہان کے ہکلاتے سوال پر اس نے سکرین پر موجود نمبر کو دیکھا۔
منال کی لاٸف لاٸن۔۔ نمبر اس نام سے سیو تھا، نام پڑھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے مگر وہ سر ہلا گیا۔
”جی ہاں مس پریہان۔۔ یہ میرا ہی نمبر ہے۔۔“ اس کے کہنے پر وہ دھپ سے صوفہ پر بیٹھی، صدمہ ہی صدمہ تھا۔۔ اس انسان سے پیسے لینے آ بیٹھی تھی۔۔؟
جھوٹ بولے، بےچاری بنی اور جانے کیا کیا۔۔
”ریسیپشن پر آپ کو روکا گیا ہو گا اس کے لیے معذرت کرتا ہوں، آپ مجھے انفارم کر کے آتیں تو کبھی نا روکا جاتا۔۔ میں نے گلاس وال سے آپ کو آتے دیکھ لیا تھا ورنہ مجھ سےاپاٸنمنٹ کے بنا ملنا مشکل ہو جاتا۔۔“
وہ اسی سنجیدگی سے ہی بتا رہا تھا، یعنی ریسیپشن پر کال منال نے نہیں اس نے کی تھی۔۔ پریہان سے شرمندگی اور گھبراہٹ سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔
”آپ کے میسجز دیکھ کر مجھے حیرت ہوٸی تھی کہ ایک بلاٸنڈ لڑکی ٹیکسٹ کیسے کر سکتی ہے۔۔ آپ نے یہ جھوٹ کیوں بولا اس پر بعد میں بات کروں گا۔۔ پہلے یہ بتاٸیے ریفریشمنٹ میں کیا لیں گی آٸی تھنک آپ یونی سے سیدھی یہیں آ رہی ہیں۔۔“ اس کا حلیہ دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا۔۔ کال پر مختصر بات کرنے والا سامنا ہونے پر مسلسل بات کر رہا تھا جیسے برسوں پرانی دوستی رہی ہو۔۔۔
”م۔۔میں کچھ نہیں۔۔ سوری۔۔ آپ سے اب تک جو بھی بات ہوٸی۔۔ میں نے غلطی سے آپ کا نمبر۔۔ “
پریہان کی اس وضاحت پر وہ یکدم ماتھے پر بل ڈال کر سیدھا ہوا تو وہ باقی بات بھول گٸی۔ خوف اور پریشانی سے حلق خشک ہو رہا تھا۔۔ میسج اب بھی آ رہے تھے، یقیناً منال لوگ اب بری طرح بھڑک چکی ہوں گی۔۔ لیکن وہ اس لڑکے کے پاس جا کر کیا کرتی جس سے بات تک نہیں کی تھی، جس سے بات کرتی رہی تھی اسے وضاحت دینا مشکل ہو رہا تھا۔۔
”آپ کا مطلب یہ باتیں آپ کو کسی اور سے کرنا تھیں جو مجھ سے کیں؟ یہ ہیلپ اور پیسے کسی اور سے مانگنے والی تھیں آپ۔۔؟“ وہ کیوں اس بات پر بھڑک اٹھا تھا پریہان سمجھ نہیں پاٸی مگر جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے لب بھینچ لیے۔۔
”آپ کو جتنی بھی ہیلپ چاہیے میں کروں گا۔۔ کسی سے بھی بات کرنے کی کوٸی ضرورت نہیں۔۔ آپ نے جو اماٶنٹ کہی تھی میں کیش میں دے دوں گا۔۔“
اس کی بات پر پریہان کی آنکھیں پھیلیں۔۔ شرمندگی سے چہرہ سرخ ہوا۔ وہ کانچ کے گلاس میں پانی ڈال کر اس کے سامنے رکھتا اسے دیکھنے لگا۔۔
”دیکھیں دراصل بات یہ ہے کہ۔۔” مس پریہان پہلے پانی پٸیں آپ۔۔“ وہ پریہان کے گھبراٸے ہوٸے چہرے پر پسینے کی نمی اور بوکھلاہٹ محسوس کر کے بات درمیان میں ٹوکتا گلاس اس کی طرف بڑھا گیا۔۔ موباٸل پر اب بھی میسجز آ رہے تھے پریہان روہانسی ہو گٸی، شاید اب تک وہ لڑکا منال وغیرہ کو آفس میں دیکھ کر حقیقت بتا چکا ہو گا۔۔ وہ اس دھوکہ پر پریہان سے ناراض ہو چکی ہوں گی۔۔ وہ سب گڑبڑ کر چکی تھی، اب ناصرف سامنے بیٹھے اجنبی کو وضاحت دینا تھی بلکہ دوستوں کو بھی۔۔
پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں اپنے اندر انڈیلتی ساتھ میں آنسو بھی پینے لگی، دل چاہا زور زور سے روٸے، توبہ کر لی پھر کبھی ایسی فضول گیمز نہیں کھیلے گی جس سے عزت کا فالودہ بن جاٸے۔
”مجھے پیسے نہیں چاہٸیں۔۔ کسی سے نہیں چاہٸیں۔۔“
وہ سر جھکا کر بولی، جواب میں خاموشی پا کر سر اٹھایا تو وہ سرد نظروں سے گھور رہا تھا۔
”م۔۔۔مطلب جو سب باتیں کیں۔۔” وہ سب جھوٹ تھا“
وہ بات کاٹ گیا۔ پریہان لب کاٹتی مزید سر جھکا گٸی۔
”میں جانتا ہوں مس پریہان۔۔ جب آپ نے کہا تھا کہ آپ اکیلی اور ڈری ہوٸی ہیں، میں نے پتا کروا لیا تھا کہ کتنی اکیلی اور بےچاری ہیں آپ۔۔۔“ اس کے طنزیہ جتاتے لہجے پر اس کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاٸے۔۔ نا وہ کچھ بولی نا سر اٹھایا۔۔
”میں نہیں جانتا آپ نے وہ سب جھوٹ کیوں بولے، اندھے ہونے کا، اکیلے ہونے کا اور ڈرنے کا۔۔ آپ کے پیرنٹس نہیں ہیں مگر خالہ اور خالو ہیں اور جہاں تک میں جانتا ہوں اچھے سے رکھا ہوا ہے۔۔“
آج شاید اس نے بس اپنی سنانے کے لیے ہی بٹھایا تھا پریہان کو اور وہ مجبور تھی کہ بیٹھی آج ڈھٹاٸی کے ریکارڈ قاٸم کرنے والی تھی، چپ چاپ اپنے سارے ڈراموں کے پول کھلتے سن رہی تھی۔۔
”پھر آپ نے پیسوں کی ڈیمانڈ کی۔۔ یا واقعی کسی مشکل میں آپ کو یہ اماٶنٹ چاہٸیے یا پھر آپ ایک لالچی لڑکی ہیں جو جھوٹ بول کر انجان لوگوں سے پیسہ لیتی ہیں۔۔“ وہ صاف گوٸی سے بولتا سوال کر رہا تھا، پریہان کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔
”اگر آپ کو میں اتنی گھٹیا لگتی ہوں تو کیوں کہا پیسے دیں گے۔۔ آپ نے سوچا بکاٶ لڑکی ہے تو پیسے دے کر۔۔ ”شٹ اپ۔۔“ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ سرد لہجے میں غصے سے ٹوک گیا۔۔
پریہان کی زلت سے آنکھیں بھر آٸیں۔۔ جھٹکے سے کھڑی ہوٸی، اس انسان سے اس کا کوٸی لینا دینا نہیں تھا کہ اسے وضاحت دے۔ اسے خود پر غصہ آیا وہ بیٹھی ہی کیوں تھی کہ ایسی بات سننے کو ملی۔
بنا پلٹے یا کچھ کہے وہ بھراٸی آنکھوں سے اس عالیشان آفس سے نکلی، اس بار پیچھے بیٹھے اس دلکش مگر ظالم انسان نے روکنے یا بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، پریہان کو اپنی اس انسلٹ پر بری طرح رونا آیا تھا۔۔ اس اونچی بلڈنگ سے نکلتے ہوٸے اس نے شکر کیا کہ وہ بالکل انجان انسان ہے، جس سے اس کا کوٸی لینا دینا نہیں، اس کے آگے شرمندہ ہو بھی گٸی ہے تو کیا ہوا، آج اس بلڈنگ سے نکل کر یہ قصہ یہیں ختم ہو جاٸے گا۔۔ ایسا اسے لگتا تھا کہ یہ ملاقات آخری تھی، شرمندگی کا باب ختم ہو چکا اور یہ کہ اس بےہودہ گیم کا راز رہ جاٸے گا۔۔ کون جانے ایسا ہو گا یا نہیں۔۔
>>>>>>>---------Y.E--------->>>>
وہ حسن اور احمر کے ساتھ جا رہا تھا کہ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کا راستہ روک گٸی۔
اس کے ہاتھ میں ہارٹ شیپ باکس دیکھ کر وہ حیران ہوا، باکس کو گفٹ کی طرح پیک کیا ہوا تھا۔۔
”یہ کیا ہے؟ آج ویلنٹاٸن تو نہیں ہے پھر۔۔؟“ عیسٰی نے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہوٸے حیرت سے کہا تو وہ لمحہ بھر کو گڑبڑاٸی پھر سنبھل کر بولی۔
”یہ۔۔ یہ بس تھینک فُل ہوں اس لیے سوچا پراپر تھینکس کروں، آپ نے اس دن میرا لیپ ٹاپ ٹھیک کیا، اٹ واز آ بگ ہیلپ۔۔ ورنہ میرا ضروری کام رہ جاتا۔۔“
وہ جھجک کر باکس اس کی طرف بڑھا کر بولی تو وہ کچھ دیر پر سوچ نظر سے اسے دیکھتا رہا۔۔ وہ دراز قد سنہری براٶن بالوں والی طرحدار حسین لڑکی تھی۔۔ اس کا ڈریسنگ سٹاٸل بہت سٹاٸلش تھا، ٹخنوں سے قدرے اوپر کیپری اور لانگ شرٹ۔۔ گلے میں مفلر کی طرح لپیٹ کر لیا ہوا سٹالر۔۔ وہ ایک مکمل لڑکی تھی۔۔
”مینشن ناٹ ویسے۔۔ باٸی دی وے یہ ہے کیا۔۔“ وہ باکس لے کر متجسس سا وہیں کھینچ کھینچ کر ریپر پھاڑ چکا تھا۔۔ پیکنگ ہٹا کر باکس کھولا تو چاکلیٹ سے بھرا ہوا تھا۔۔ وہ منہ بنا کر باکس دوستوں کو دیتا آٸرہ کی طرف متوجہ ہوا۔
”یور تھینکس از ناٹ ایکسیپٹڈ۔۔ تمہیں ایک راز بتاٶں مجھے چاکلیٹ سخت زہر لگتی ہے۔۔“ ناک چڑھا کر کہی بات پر وہ واقعی حیرت سے منہ کھول گٸی۔
بھلا چاکلیٹ کسے بری لگ سکتی ہیں، یا اسے واقعی نا پسند تھیں یا وہ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہا تھا۔۔
اس نے ایک نظر اس کے دوستوں پر ڈالی تو وہ مسکراہٹ دباٸے اسے ہی دیکھ رہے تھے، وہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہو گٸی۔
”دیکھو اگر اتنا ہی شوق ہے تو کافی پلا دینا کبھی۔۔ جلدی پلانا ورنہ میرا موڈ بدل گیا تو۔۔۔ ویسے یہ آفر میں ہر کسی کو نہیں دیتا۔۔“ وہ بولتا ہوا اس کے قریب آیا اور آخری جملہ کچھ سرگوشی میں ادا کیا۔
آٸرہ نے چونک کر اسے دیکھا جو پلٹ کر دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا۔۔ وہ جھینپ کر مسکراٸی۔۔
اس کے کلون کی خوشبو ارد گرد پھیل کر بری طرح اسے جکڑ رہی تھی، سرگوشی کان میں گونج رہی تھی۔۔ وہ بری طرح اس کی اسیر ہو رہی تھی۔۔
وہاں اپنی گاڑی کے پاس پہنچا عیسٰی خان رک گیا۔
”یار۔۔ یہ کیا سین ہے برو۔۔ لڑکی گفٹ تک دینے آ گٸی اور کون سا لیپ ٹاپ۔۔ سیکریٹ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں کیا۔۔ لے چیک تو کر چاکلیٹس بہت اچھی ہیں۔۔“
حسن اور احمر کی بےسروپا باتوں پر وہ پلٹا۔
”یار لڑکی اچھی ہے بس اس کا کانفیڈنس لیول لو ہے۔۔ عیسٰی خان سے کوٸی بھی آنکھ ملا کر بات کیوں نہیں کر سکتی۔۔ “ وہ نخرے سے بال سنوارتا سرد آہ بھر رہا تھا۔۔ حالانکہ یہی بات اسے اپیل کرتی تھی۔۔ اس کی وجاہت اور دلکشی کے آگے سب نروس ہو جاتی تھیں، اس سے بات کرتے ہوٸے بولڈ لڑکی بھی زرا ہچکچا جاتی تھی، اس کی نظر اور تاثرات میں ایسا عجیب تاثر ہوتا تھا کہ لڑکیاں جہاں دل ہارتی تھیں وہیں گھبراہٹ میں مبتلا بھی و جاتی تھیں۔ وہ بہت اچھا بن کر بھی کب سرد مزاجی سے پیش آجاٸے پتا نہیں چلتا تھا۔۔ وہ کب راضی ہے کب ناراض یہ بھی ہتا نہیں چلنے دیتا تھا۔۔ ایسی الجھی ہوٸی شخصیت تھا وہ۔۔
>>>>>>>------------------->>>>>
”یار یہ کیا بات کر رہی ہو۔۔ کون پریہان۔۔ کون سی باتیں کی ہیں میں نے۔۔؟ مجھ سے تو کسی لڑکی نے کال پر بات نہیں کی۔۔“ منال کا دوست موحد حیرت کا اظہار کرتا ان تینوں کو حیران پریشان کر گیا۔۔ منال نے پھر سے پریہان کو میسجز کیے، نا وہ پہنچ رہی تھی نا ہی میسج کا جواب دے رہی تھی۔۔
”اب مکرنے کی کیا بات ہے، ہم سب جانتی ہیں، ابھی آ جاٸے گی ہان تو سب کلٸیر ہو جاٸے گا۔۔“ ریما اب بھی اعتماد سے بولی تھی، اسے پریہان پر کچھ زیادہ ہی اعتبار تھا۔ اس کی بات پر وہ سر ہلا گیا۔
”فاٸن۔۔ آ جاٸے تو سچ پتا چل جاٸے گا۔ مگر وہ پچھلے ایک گھنٹہ سے ابھی تک آٸی کیوں نہیں؟“
اس کے جتاتے جملہ پر مرحا بھی کالز کرنے لگی، نو رسپانس پر بےچارگی سے تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پریہان اتنا بڑا دھوکہ کر گٸی تھی۔۔
”تم سچ کہہ رہے ہو نا موحد؟ اس سے بات کبھی نہیں ہوٸی؟“ منال نے آخری بار جانچتی نظر اس پر ڈال کر سوال کی۔۔ شاید کہ وہ مکر رہا ہو، شاید پریہان کی گاڑی خراب ہو گٸی ہو اس لیے لیٹ ہو۔۔۔
”یار ٹرسٹ می۔۔ انفیکٹ تم میرا موباٸل چیک کر لو۔۔
ویسے مجھے وہ اچھی لگی تھی، اگر بات کروانی ہے تو اب بھی نمبر دے دو میں خود بات کر لیتا ہوں۔۔“
وہ بول کر موباٸل منال کے سامنے کر گیا، منال نے نفی میں سر ہلاتے ہوٸے اسے گھورا، تینوں اٹھ کھڑی ہوٸیں، اسے حیران چھوڑ کر باہر نکلیں تو دانت کچکچا رہے تھے جیسے پریہان کو ہی دانتوں میں رکھ کر چبا رہی ہوں۔۔
”یہ ہان کی بچی گھر پہنچ گٸی ہو گی۔۔ کالز نہیں پِک کر رہی گھر چلتے ہیں۔“ منال نے کہتے ہوٸے گاڑی کی طرف قدم بڑھاٸے باقی دو بھی سر ہلا گٸیں۔۔
پریہان واقعی اس بلڈنگ سے نکل کر خفت زدہ پریشان سی سیدھی گھر پہنچی اور اب اپنے کمرے میں اندھیرا کیے آنکھیں میچ کر لیٹی ہوٸی تھی۔۔
اس آفس میں داخل ہونے سے لے کر نکلنے تک بار بار وہ مناظر کسی فلم میں طرح آنکھوں میں چلتے اسے خود پر غصہ دلا رہے تھے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ غنودگی میں جاتی کچھ سکون کی نیند لے لیتی، دروازہ دھڑام سے کھول کر وہ تینوں نا صرف کمرے میں پہنچیں بلکہ لاٸٹس آن کر کے اب خونخوار نظروں سے اسے گھور رہی تھیں جو انہیں وہاں زلیل ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ کر یہاں مزے سے سو رہی تھی۔۔
پریہان شرمندہ سی اٹھ کر بیٹھتی سر جھکا گٸی۔
”شرم نہیں آٸی ہمارے ساتھ یہ پرینک کرتے ہوٸے۔۔؟“
منال نے پھاڑ کھانے والے انداز میں سوال کیا۔ بیڈ پر اس کے ارد گرد بیٹھتی وہ سب اس کا گلا دبانے والی حالت میں تھیں اس وقت۔۔
”یار مجھ سے سب گڑبڑ ہو گٸی۔۔“ پریہان کی روتی آوا، بھراٸی آنکھوں اور لٹکے ہونٹ دیکھ کر وہ ٹھٹک گٸیں۔۔ جلدی سے سب کڑے تیور بھلا کر قریب ہوٸیں۔
”کیوں۔۔؟ کیا ہوا؟ کیا گڑبڑ کر دی؟ کیا تمہاری آنی کو پتا چل گیا۔؟ پکڑی گٸی ہو تم۔۔؟ ان کے ایک ساتھ آتی سوالوں کی بوچھاڑ پر وہ روتی ہوٸی نفی میں سر ہلا گٸی۔۔ کانپتے ہاتھوں سے موباٸل اٹھا کر نمبر نکالا اور ان کے سامنے کیا۔ ریما اور مرحا ناسمجھی سے دیکھ رہی تھیں جبکہ منال کا دماغ بھک سے اڑا۔
”یہ۔۔ حدیر کا نمبر۔۔ یہ تمہارے پاس کیسے۔۔؟“ منال نے بوکھلا کر سوال کرتے ہوٸے جلدی سے چیٹ کھولی تو آنکھوں کے سامنے زمین آسمان گھوم گٸے۔۔ ریما اور مرحا بھی اب ساری بات سمجھ چکی تھیں۔۔
”تم نے ہی دیا تھا فسٹ نمبر۔۔ لسٹ کا فسٹ یہی تھا“
وہ روتی ہوٸی الٹا منال سے لڑنے لگی۔۔
”واٹ؟ فسٹ نہیں میں فسٹ فرام لاسٹ نمبر کہا تھا ایڈیٹ۔۔ فولش لڑکی یہ کیا کر بیٹھی ہو۔۔“ منال نے موباٸل چھوڑ کر سر پکڑ لیا۔۔
”فسٹ فرام لاسٹ کیا بکواس ہے۔۔ سیدھا سیدھا نمبر نکال کر پکڑانا تھا ناں۔۔“ ریما نے منال کو گھورا۔
”جلدی میں تھی۔۔ مجھے خیال نہیں رہا یہ بدھوٶں کی سردار ہے، آج تک ایک بھی ڈیٸر اس نے سہی سے نہیں کیا۔۔ ہمیشہ الٹے کام کرتی ہے اور اس بار حد کر دی۔۔ کیا تم اس کے آفس گٸی تھیں؟“
منال کا جی چاہا اس روتی دھوتی پریہان کے بال کھینچ کر ہوش ٹھکانے لگا دے۔۔ گھور کر پوچھا تو پریہان نے روہانسی صورت لیے سر اثبات میں ہلایا۔۔
”وہ بہت برا انسان ہے آفس میں بٹھا کر انسلٹ کی۔۔ الٹی سیدھی باتیں کیں مجھ سے۔۔ بکاٶ سمجھ رہا تھا مجھے۔۔ “ پوری بات بتا کر اس نے کچھ جملے اپنی طرف سے ڈال لیے تھے۔۔ وہ تینوں شاکڈ بیٹھی تھیں۔
”یار۔۔ وہی میں کہوں ایٹ دا مومنٹ پچاس لاکھ پر اوکے۔۔ اس بندے سے تو ایک کروڑ مانگ لیتیں بھی کم تھا۔۔ وہ تو اتنا شریف اور اچھا لگتا تھا پھر۔۔ اس کا خاندان بھی اچھا ہے، پورا گھرانہ اتنا مشہور مہذب۔۔“ مرحا کو کچھ زیادہ بےیقینی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اس کی بات پر وہ تینوں ٹھٹک گٸیں، اکثر ہی مرحا کی باتوں سے لگتا تھا جیسے وہ قریب سے جانتی ہے۔
”تم اسے کیسے جاتی ہو آج یہ بتاٶ۔۔ گھنی لڑکی۔۔“
ان کے سوال پر مرحا بوکھلا کر اس سے پہلے کہ کچھ بولتی دروازے پر شاٸستہ بیگم نے دستک دی، وہ سب سنبھل کر بیٹھ گٸیں۔۔ پریہان نے جلدی سے آنسو صاف کرتے ہوٸے واش روم کی طرف دوڑ لگاٸی۔۔
”لنچ میں آج چکن پلاٶ اور کوفتے بناٸے تھے، پریہان کے فیورٹ ہیں کوفتے مگر وہ یونی سے آتے ہی کمرہ بند کیے پڑی تھی کہ بھوک نہیں۔۔ آپ سب کے ساتھ کھا لے گی وہ بھی۔۔ مجھے یقین ہے لنچ نہیں کیا ہو گا آپ سب نے بھی۔۔ “ ٹی ٹرالی سے انہوں نے شیٹ اٹھا کر بیڈ پر بچھاٸی اور کھانا لگانے لگیں۔ راٸتہ، سلاد اور پلاٶ، کوفتے اور میٹھے میں قلفہ۔۔ کھانے کی خوشبو سے ان کی بھوک چمک اٹھی۔۔ پریہان ابھی تک باتھ روم میں بند تھی۔
”پریہان کہاں ہے؟“ انہوں نے اسے نا پا کر پوچھا۔
”آنی واش روم میں ہے۔“ مرحا نے کھانا نکالتے ہوٸے بتایا تو وہ پرسوچ نظروں سے انہیں دیکھنے لگیں۔۔
”بیٹا سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟ پریہان کچھ اپ سیٹ لگ رہی ہے، یونی سے آتے ہی روم میں بند ہو گٸی، پروا کو بھی روم سے نکال دیا۔ وہ بےچاری بھوکی بیٹھی ہے ابھی تک۔۔ پریہان ایسا کبھی نہیں کرتی آج کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟“ ان کے سوالات پر وہ تینوں گڑبڑاٸیں۔۔
”نہیں آنی۔۔ آج لیکچرز بہت تھے، برڈن تھا کافی پھر کسی پروجیکٹ کے لیے ہمیں کچھ کمپنیز کا وزٹ کرنا تھا تو تھک گٸی ہو گی بہت۔۔“ منال نے ہی گلا کھنکار کر مناسب طریقے سے بات سنبھالی۔
پریہان بھی رویا ہوا چہرہ اچھے سے دھو کر نکل آٸی تھی، چہرے کے تاثرات میں تھکاوٹ نمایاں تھی۔
”کھانا کھا لو۔۔ پھر ریسٹ کر لینا۔۔ پروا کو بھیجوں؟ وہ کھانا نہیں کھا رہی تمہارے بغیر۔۔“
اسے پیار سے چومتے ہوٸے انہوں نے پوچھا تو پروا کا خیال آتے ہی وہ باہر کی طرف بھاگی۔ اس کی توقع کے عین مطابق وہ آنی کے روم میں منہ پھلاٸے ناراض بیٹھی پریسہ سے اس کی شکایات لگا رہی تھی۔۔ پریہان کو خود پر غصہ آیا۔۔ اس سے موباٸل لے کر کان سے لگایا تو پریسہ گھبراٸی ہوٸی تھی۔
”ہانو۔۔ پری کے ساتھ ایسا مت کیا کرو پلیز۔۔ شاید تم کسی بات سے اپ سیٹ ہو، کیا ہوا ہے مجھے بتاٶ۔۔“ پریسہ کی پریشان آواز پر وہ مسکراٸی۔
”کچھ بھی نہیں۔۔ تھکی ہوٸی تھی اب ٹھیک ہو۔۔ رات کو بات کروں گی، ابھی اپنے ٹوٸٹی کو منا لوں۔۔“ پریہان شرارت سے کہتی کال بند کر گٸی۔
”میرا بےبی ناراض ہے۔۔؟“ نرمی سے پوچھتے ہوٸے اس کے سامنے بیٹھی تو وہ رخ پھیر گٸی، آنکھیں بھر آٸی تھیں۔۔ پریہان نے اسے بھینچ کر گلے سے سے لگاتے اس کے نم نرم گال چومے تو وہ اس کے سینے میں منہ چھپاتی بچوں کی طرح رو پڑی۔۔
”آٶ کھانا کھاتے ہیں، ریما لوگ آٸی ہیں۔۔ تمہیں پتا ہے ناں وہ تم سے ملے بنا نہیں جاتیں کبھی۔۔ آ جاٶ۔۔“
اسے منا کر پیار سے کہا تو وہ اٹھ کر سرخ بھیگا چہرہ دھونے چلی گٸی۔ پریہان نے گہرا سانس بھرا۔
اگلے کچھ لمحات میں وہ ایک ساتھ کھانا کھاتی باتیں کر رہی تھیں، ان لوگوں نے حدیر والا معاملہ بعد میں ڈسکس کرنے کا سوچ لیا تھا، ابھی تو توجہ کا مرکز پروا تھی جو چند چمچ پلاٶ لے کر اب قلفہ کھانے میں مگن تھی۔۔ میٹھے کی دشمن۔۔ میٹھے کی بری طرح شوقین اور میٹھا ہی اس کا موڈ بحال کر دیتا تھا۔۔
>>>>>>>------------------->>>>>
”خانزادہ کی ضد ختم نہیں ہوٸی ناں۔۔؟“ کھانا لگاتی زرشے سے انہوں نے پوچھا، وہ نفی میں سر ہلا گٸی۔۔ خان یوسف تین دن سے اپنی بات پر قاٸم تھے اور آج تیسرا دن تھا جب خانزادہ بھی اپنی ضد پر قاٸم ان کے سامنے نہیں آیا تھا۔۔ آخر ان کی ہی انا ٹوٹی، اسے دیکھے بنا رہ نہیں سکتے تھے اور وہ سامنے نا آ کر خوب سزا دے رہا تھا۔۔
”آغا جان۔۔ لالا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔“ زرشے نے اداسی سے بتایا تو وہ بےچینی سے کھڑے ہو گٸے۔۔ بنا رکے اس کے کمرے کی طرف قدم بڑھاٸے۔۔
سامنے وہ بستر پر آنکھیں بند کیے سو رہا تھا، خانی بیگم سرہانے بیٹھی تھیں، خان آزر بھی بیڈ پر اس کے پاس بیٹھے تھے، سب ہی آ جا رہے تھے ایک لاعلم تھے تو خان یوسف۔۔ وہ اسے دیکھ کر تڑپ گٸے۔
”کیا ہوا میرے خان کو۔۔ ایسے کیوں لیٹا ہے۔۔“ پریشانی سے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ تھاما جو بخار کی حدت گرم تھا۔۔ خانی بیگم نے ہٹ کر انہیں جگہ دی تو وہ وہیں بیٹھ گٸے۔
”بخار ہے اتنا۔۔ ہاسپٹل لے جانا تھا۔۔ ڈاکٹر کو دکھایا؟ مجھے کیوں نہیں بتایا پہلے۔۔؟“ خان یوسف نے گھور کر بیٹے کو دیکھا تھا جو گڑبڑا گٸے۔
”یاور لے آیا تھا ڈاکٹر کو۔۔ میڈیسن دی ہے، کل ہوا تھا بخار میں آپ کو بتانے والا تھا اسی نے منع کر دیا۔۔“
خان آزر نے ان کے پہلو میں پڑے بگڑے خانزادے کا بتایا تو وہ بےچارگی سے لب بھینچ گٸے۔
”اب تو کافی بہتر ہے آغا جان۔۔ رات ساری بری طرح جلتا رہا بخار سے۔۔ میں بھی بتانا چاہتی تھی پر۔۔“
خانی بیگم نے بھی بات ادھوری چھوڑ کر بیٹے کو دیکھا تو وہ سمجھ گٸے۔
”دیکھو زندگی میں پہلی مرتبہ کوٸی فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا چاہ رہا ہوں تو اس کی انا کی عمارت مجھ سے بھی بڑی نکل آٸی۔۔ کیسی حالت کر لی ہے۔۔“
خان یوسف نے اس کے بال سنوارتے ہوٸے بےبسی سے اسے دیکھا۔ گل جان یخنی بنا کر کمرے میں لاٸیں تو اسے جگا کر سہارا دیتے بٹھایا گیا۔
زرا سنبھل کر بیٹھتے ہی وہ خان یوسف کو دیکھ کر منہ بنا گیا جس پر وہ اسے گھور کر رہ گٸے۔
”ان سے کہیں جا کر شادی کی تیاری کریں میرے پاس بیٹھ کر اپنا ٹاٸم کیوں ضاٸع کر رہے ہیں۔۔“ وہ خانی بیگم کو دیکھ کر بولتا ان تک اپنا پیغام پہنچا رہا تھا۔
”نہیں کرتا شادی تمہاری۔۔ ٹھیک ہو جاٶ بس۔۔ اس سے نہیں کرنی تو نا سہی، مگر جلدی شادی کرنی ہو گی، مجھے تم سے اپنا وارث چاہٸیے۔۔ تمہارا بیٹا دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں۔۔“ وہ اس کے گرد بازو پھیلا کر ہار مانتے ہوٸے بول رہے تھے۔ اسکے لبوں پر سکون بھری مسکان مچل اٹھی۔ نظر اٹھا کر اپنے آغا جان کو دیکھا تو وہ اسے خود سے لپٹا گٸے۔
”ہرا دیتے ہو اپنے آغا جان کو۔۔ بوڑھے آغا جان کو اس طرح تکلیف دے کر خوشی ملتی ہے کیا۔۔“ وہ بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے۔
”آغا جان۔۔۔ میں بس جلدی سے شادی کر کے آپ کو خوشی دوں گا۔۔ مجھے معاف کر دیں یار، اس بار بہت مجبور ہو کر یہ سب کیا ہے۔۔“ ان کے گرد بازو لپیٹ کر سینے پر سر ٹکاتا جیسے وہ لاڈ سے بولا تھا۔۔ خان یوسف کی ساری ناراضگی اور ضد بھاپ بن کر غاٸب ہو گٸی۔۔
>>>>>>---------------->>>
اپنی آنی کی بات پر وہ منہ کھول کر بیٹھی تھی۔
”میری شادی؟ یوں اچانک۔۔؟ نہیں آنی پلیز ایسا مت کریں مجھے ڈگری ہی کمپلیٹ کرنے دیں۔۔“
پریہان کا سانس اکھڑنے لگا، اچانک ہی مسز شاٸستہ نے شادی کا شوشہ چھوڑ دیا تھا۔
”ہانو مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی ، تمہارے انکل نے کہا ہے، شاید تمہارے ان لاز کو جلدی ہے۔۔“ آنی نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔ وہ جانتی تھیں ابھی پریہان شادی کے لیے تیار نہیں ہے، پُروا کی الگ روہانسی شکل بن گٸی تھی، وہ بھراٸی آنکھوں سے پریہان کو تکتی جا رہی تھی۔۔ پریہان کو اس کی فکر ستانے لگی، نا وہ آنی کی عادی تھی نا ہی پریہان کے بغیر رہنے کی عادت تھی اسے۔۔ آنی کو مزید کچھ کہے بنا اس نے مسٹر وقاص کا انتظار کرنا بہتر سمجھا۔۔ وہ شام کو آٸے تو پریہان ان کے سر پر پہنچ گٸی۔
”انکل ابھی شادی کی کیا جلدی ہے، میری ڈگری کمپلیٹ ہونے دیں۔۔ یہ بات تو پہلے ہی طے تھی۔۔“
وہ پریہان کی بات پر چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔
”بیٹا میں تو خود ان سے یہ بات کر چکا ہوں، وہ لوگ بضد ہیں، تمہاری سٹڈیز کا بھی کہا ہے لڑکے کا کہنا ہے بعد میں پڑھنے سے کوٸی منع نہیں کرے گا۔“
ان کی بات پر پریہان کا دماغ گھومنے لگا، کتنے جھوٹے لوگ تھے۔۔ رشتہ طے کرتے وقت ایسا کچھ نہیں طے ہوا تھا پھر اب یہ تبدیلی کیوں۔۔
”مما کی زندگی میں اتنے وعدے لیے اور اب مکر گٸے۔۔
ان سے پہلے ہی یہی طے ہوا تھا کہ میری سٹڈیز کے درمیان شادی کی ڈیمانڈ نہیں کی جاٸے گی۔۔ پھر پہلے کی تو بات اور تھی، اب پروا کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی، اس کا کالج کمپلیٹ ہو گا، تب تک میری ڈگری بھی ڈن ہو جاٸے گی، تب شادی کر سکتے ہیں۔۔“
وہ بنا رکے بولتی جا رہی تھی، اسے اچانک شادی کی ابھی تک کوٸی سمجھ نہیں آ رہی تھی کیوں بیٹھے بٹھاٸے شادی کا شوق چڑھ گیا تھا ان لوگ کو۔۔
”وقاص آپ بات کریں کہ یہ ممکن نہیں، ابھی مناسب عمر بھی نہیں اس کی۔۔ پروا میری عادی نہیں ہے، وہ ماں کے بعد پریہان سے ہی اٹیچ ہے، ابھی سکول گوٸنگ ہے کچھ وقت دینا چاہیے۔۔
سب سے بڑھ کر جو بات طے تھی اس پر قاٸم رہنا چاہیے ان کو۔۔ شگفتہ نے پہلے ہی کہا تھا کہ۔۔ ”شاٸستہ میں بات کر چکا ہوں۔۔ اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو بالکل ہی انکار کر دیتا۔۔ لڑکے کو ہی جلدی ہے، یہ ان کی امانت ہے اور ان کی ماں نے یہ رشتہ طے کیا تھا اس لیے میں یہ رشتہ ختم بھی نہیں کر سکتا۔۔ لیکن اگر پریہان چاہے تو میں ان سے دوٹوک بات کر لوں گا، اگر ان لوگوں کو اتنی ہی جلدی یے تو کہیں اور کر لیں، ہم معذرت کر لیتے ہیں۔۔ کیا کہتی ہو پریہان بیٹا۔“ وہ سنجیدگی سے بولے، سوالیہ نظروں سے پریہان کو دیکھا تو وہ متذبذب سی لب کچلنے لگی۔ اسے یاد تھا یہ رشتہ طے کر کے اس کی ماں بہت خوش تھی۔ اب وہ ان کا طے کیا رشتہ جھٹکے سے کیسے توڑ دے۔۔
”میں ایک بار بات کروں گی۔۔ سمجھاٶں گی ان کو۔۔ اگر نا سمجھیں تو ہانو سوچ لو کوٸی زبردستی نہیں، اگر دل نہیں مان رہا تو ہم ان کو ایکسکیوز کر لیں گے“
آنی کی بات پر وہ الجھن زدہ سی بیٹھی رہ گٸی۔ حل آسان تو تھا مگر اسے لگا جیسے وہ یہ من مانی کر کے اپنی ماں کو ناراض کر بیٹھے گی۔
”میں پریسہ آپی سے مشورہ کروں گی، پھر آپ کو بتا دوں گی کیا کرنا ہے۔۔“ وہ سنجیدگی سےکہتی اٹھ کر کمرے میں چلی گٸی، عجیب ٹینشن سی سوار ہو گٸی تھی، اپنے منگیتر پر غصہ آنے لگا جو بیٹھے بٹھاٸے سر پر سوار ہو گیا تھا۔۔ وہ اس کا نمبر دیکھتی سوچ میں گم تھی، دل چاہا اسی کو کال کر کے منع کر دے مگر سر جھٹک دیا۔۔ کبھی بات نہیں کی تھی جانے کیسا انسان ہو، ایسا نا ہو اس بات کو انا کا مسٸلہ بنا دے۔۔
کمرے میں سامنے بیڈ پر پروا بچوں کی طرح پورا بیگ پھیلاٸے منہ پھلا کر اپنی بکس پر جھکی ہوٸی تھی، صاف صاف ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی۔
”سنو پری۔۔ کیا تم نے میرا ٹوٸٹی دیکھا ہے کہیں۔۔ چھوٹا سا، کیوٹ سا، بیبی فیس، پنک پنک اور پھولی ہوٸی گالوں والا۔۔“ پریہان شرارت سے مسکراتی اس کے پاس بیٹھ کر بولی تو وہ مزید منہ بگاڑ گٸی۔
”اگر آپ نے شادی کی تو میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔ یہ بال بھی کٹوا دوں گی اپیا۔۔ سٹڈیز بھی نہیں کروں گی۔۔“ وہ انگلی اٹھاٸے دھمکا رہی تھی۔
”پری میں خود کہاں چاہتی ہوں۔۔ تم پریشان مت ہو، میں تمہیں ابھی چھوڑ کر نہیں جاٶں گی۔۔ مجھے پریسہ آپی سے مشورہ کرنا ہے۔۔“ وہ اس کے پھولے ہوٸے گال چوم کر تسلی دے رہی تھی، اس کے وعدے پر وہ خوش ہو گٸی۔۔
اس کے پاس بیٹھ کر اس کو پڑھاتی رہی جب فری ہوٸی تو پریسہ کو کال ملا لی۔۔ پروا کو وہ پرسکون کر چکی تھی مگر خود اب بھی پریشان تھی۔۔
کال ملتے ہی اس نے پریسہ کو سب بتا دیا۔۔
”ہانو بالکل غلطی مت کرنا انکار کی۔۔ مما نے اگر تمہارے لیے ان کو چنا تھا تو کوٸی بات ہو گی۔۔ مجھے بھی بہت شکوہ رہتا تھا میری جلدی شادی کیوں کی مگر اب آفان جیسے میری کٸیر کرتے ہیں، میری سٹڈیز کمپلیٹ کرواٸی، میں نے جاب بھی کی اور جب جاب چھوڑی تو اپنی مرضی سے۔۔ کبھی کوٸی برڈن نہیں ڈالا گیا۔۔ ہان اگر وہ لوگ جلدی کرنا چاہتے ہیں۔۔
اگر لڑکا سٹیبل ہو چکا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے تو کر لو۔۔ اس میں اتنی کوٸی غلط بات نہیں ہے۔۔“
پریسہ نے قدرے سختی اور سنجیدگی سے سمجھایا۔ پریہان جیسے پھنس کر رہ گٸی تھی۔۔
”مگر پروا۔۔ آپ جانتی ہیں وہ اپ سیٹ ہو جاٸے گی۔“
پریہان نے پروا کا سوچ کر فکرمندی سے کہا تھا۔۔
”پروا عادی ہے اور عادتیں وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں۔۔ وہ نیکسٹ اٸیر کالج چلی جاٸے گی۔۔ اس کی بھی شادی کرنی ہے کبھی۔۔ اس کی عادت بدلو۔۔ آنی ہیں ناں اس کے پاس۔۔ انفیکٹ میں سوچ رہی ہوں پروا کو اپنے پاس بلوا لوں گی۔۔ وہ بتا رہی تھی اس کے فاٸنل دو منتھ کے بعد ہیں۔۔ اس کا کالج یہیں سٹارٹ کرواٶں گی۔۔ ٹھیک ہے ناں؟“ پریسہ نے اسے اطمینان دلایا۔ پروا کے مستقبل کے لیے یہ بہترین فیصلہ تھا۔
”جی ہے تو ٹھیک لیکن وہ مان بھی جاٸے تو اچھا ہے۔“
پریہان کو کچھ نا کچھ اندازہ تھا ہی کہ پروا یہ بات نہیں مانے گی، وہ پریہان کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔
”میں بھی بہن ہوں کیوں نہیں مانے گی۔۔ میں تم دونوں کو بلوانا چاہتی تھی مگر آنی نہیں مانیں۔۔ اب پروا کو اکیلا نہیں رہنا تو کوٸی بات نہیں، یہاں دل لگ جاٸے گا۔۔ کیف اور عفرا کے ساتھ بہل جاٸے گی۔۔“
پریسہ نے اپنے بچوں کا حوالہ دیا تو وہ مسکراٸی، پروا کو سمجھانا مشکل تھا مگر وہ مل کر سجھا لیتے، اسے اپنی ڈگری کا غم ستا رہا تھا اور وہ پریسہ نے صاف الفاظ میں سمجھا دیا کہ وہ انکار نا کرے۔۔
اس کو لگتا تھا ان کی ماں کا فیصلہ سہی ہے مگر پریہان کے دل میں گرہ سی لگ گٸی تھی۔ فیصلہ سہی تھا یا غلط، یہ تو آنے والا وقت بتاتا مگر یہ جلد بازی بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی اسے۔۔
>>>>>>>---------Y.E---------->>>>
آفریدی حویلی میں اس وقت خان یوسف کے کمرے میں سب بڑے جمع تھے۔۔ سب پریشان تھے اور وجہ ایک طرف سنگل صوفہ پر بیٹھا وہ دراز قد لڑکا تھا جو سب کو نظر انداز کیے سکون سے بیٹھا تھا۔۔
”وہ لوگ ہتھے سے اکھڑ گٸے، یہ رشتہ کوٸی آج کل کا تھوڑی ہے جو معذرت کریں اور وہ مان جاٸیں۔۔“ خان آزر خفت زدہ سے بتا رہے تھے، خانزادہ کے انکار پر وہ بڑے بھاٸی خان زوار کے ساتھ گٸے تھے معذرت کرنے۔۔ وہاں سارا معاملہ جان کر بات جھگڑے تک پہنچ گٸی تھی۔ ان لوگوں نے اس بات کو اپنی انا کا مسٸلہ بنا لیا تھا۔۔ مگر خانزادہ اہنی بات پر جم چکا تھا۔۔
خان یوسف تو اس کے انکار کے بعد سے ہی چپ ہو گٸے تھے، ان کے پرانے دوست کی پوتی تھی وہ لڑکی۔۔۔
برسوں پرانی دوستی تھی، برسوں سے رشتہ داری جیسا حساب رہا تھا مگر اب خانزادہ کی ضد نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا تھا۔۔ اب شاید یہ دوستی بھی دشمنی میں بدل جانے والی تھی۔۔
”میں کیسے سامنا کروں مہروز خان کا۔۔ ان کی بچی اس گھر کے لیے بیٹھی رہی اور اب۔۔“ خان یوسف نے بولتے ہوٸے خانزادہ کو دیکھا جو اب بھی سکون سے سامنے صوفہ پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاٸے موباٸل پر مصروف تھا۔۔ سب اسی کو سنوایا جا رہا تھا کہ شاید وہ کچھ احساس کر لے مگر اسے فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا۔۔ وہ دانت پیستے اسے دیکھ کر رہ گٸے۔
”ان سے بات کرتے، خانزادہ نہیں مان رہا تو کیا ہوا، وہ اس گھر کی ہی بہو بنے گی۔۔ ہم اسے۔۔
”یہ بات بھی کر چکے ہم۔۔ حالانکہ یہ بھی رسک تھا مگر یہ بات بھی کی، وہ لوگ نہیں مانے آغا جان، لڑکی مذاق تھوڑی ہے۔۔ خانزادہ کو ہی منانے کا کہا ہے۔۔ معذرت سننے کو تیار نہیں۔۔“
خان زوار ان کی بات درمیان میں ہی مکمل کر گٸے۔
سب کی نظر بار بار اس پر اٹھ رہی تھیں جو ان سنی کیے مصروف بیٹھا تھا۔۔ اچانک سر اٹھا کر دیکھا۔
”میری بات سنیں یہ آپ ناں مجھے ایسی نظروں سے نا دیکھیں آغا جان۔۔ آپ مجھ سے وعدہ کر چکے ہیں اب اس ٹاپک پر بات نہیں ہوگی۔۔“ ان سب کی فریادی نظروں سے چونک کر وہ خان یوسف سے بولا۔
”کوٸی شرم نام کی چیز بچی بھی ہے تم میں یا سب بیچ کر کھا گٸے ہو۔۔؟ میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا اور تمہیں اب بھی اپنی پرواہ ہے۔۔ کیا کمی ہے لڑکی میں آخر۔۔“ خان یوسف بھڑک اٹھے تھے۔
”ناٹ اگین یار۔۔ تین دن بخار سے مرنے والا ہو رہا تھا تو پورا گھر مجھ پر ایسے نظر ٹکا کر بیٹھا رہا جیسے ہر حکم مانا جاٸے گا۔۔ اب پھر سے مزاج بدل گٸے۔۔“
وہ زچ ہو کر موباٸل بند کرتا ساٸیڈ پر پٹخ کر رکھ گیا۔
”تو ہم نے احساس کیا تمہارا۔۔ بیٹا ایک بار سوچ تو لو۔۔ ہمارے خاندان میں آج تک اس طرح نہیں ہوا۔۔ وہ تمہارے نام پر بیٹھی رہی ہے اب تک۔۔ اگر یہاں نا ہوا تو بیٹھی رہ جاٸے گی، کچھ خیال کرو تمہاری بھی بہنیں ہیں۔۔“ خان آزر بےچارگی سے بولتے اسے سمجھانے لگے۔۔ کچھ دن سکون کے میسر آٸے تھے، ان لوگوں کی انکار کے باوجود ڈھٹاٸی پر پھر سے وہی ٹاپک اور وہی زبردستی۔۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”خان ان کو سمجھاٸیں زبردستی لے بھی آٸیں تو کیا لڑکی خوش رہے گی۔۔ کیوں اسے فورس کر رہے ہیں آپ لوگ۔۔“ خانی بیگم نے اسے دیکھ کر جلدی سے طرفداری کی۔ مشکل سے ہی تو سیٹ ہوا تھا وہ۔۔
”افکوس یہی بات۔۔ رشتہ مجھ سے پوچھ کر کرنا چاہٸیے تھا۔۔ پوری زندگی کا سوال ہے آغا جان۔۔ میں کیسے ان چاہی لڑکی کے ساتھ پوری لاٸف گزار لوں۔۔ لاٸف پارٹنر کے لیے نو کمپروماٸز پلیز۔۔ “ وہ ایک بار پھر سے وہی التجا دوہراتا اندر سے بری طرح جھنجھلا اٹھا تھا۔۔ خان یوسف نے سرد آہ بھر کر خاموشی اختیار کر لی۔۔ وہ اس سب سے تنگ ہو رہا تھا۔ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، مزید بحث کا فاٸدہ نہیں تھا۔ وہ ان کی عزت رکھنے کے لیے بھی یہ ساری عمر کے لیے یہ سر دردی نہیں پال سکتا تھا۔۔ خان یوسف جانتے تھے وہ ضدی ہے اور صرف اپنی خوشی پر ہی قاٸم رہے گا تبھی خاموش رہے۔۔
”اور اس بار پھر سے وہی غلطی نہیں دوہراٸیے گا۔۔ صرف انکار کریں میری جگہ کسی اور کو بنا پوچھے، بنا بتاٸے پیش نہیں کیجیے گا۔۔“ وہ رک کر خان یوسف سے بولا تو وہ ناراضگی سے رخ پھیر گٸے۔
اسے برا لگا تھا انہیں ناراض کرنا مگر اس بار وہ مجبور تھا۔۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں جاتا زرشے اور پلوشے کو بلوا لیا۔ ڈریسنگ کی ڈرار سے انویلپ نکالا جس میں ایڈمیشن فامز تھے۔
”جی لالا آپ نے بلوایا۔۔“ پلوشے ہمشہ کی طرح پرجوش چہکتی آواز میں بولتی دھپ سے صوفہ پر اس کے پاس بیٹھی جبکہ زرشے جھجک کر کچھ فاصلہ پر رک سی گٸی۔
”زرشے وہاں کیوں رک گٸی ہو۔۔ یہاں آٶ۔۔“ وہ آگے ہوتا اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے اپنے پاس بٹھا گیا۔ اسے وہ جتنی پیاری تھی اتنا ہی وہ دور دور ہوتی تھی۔
”یہ ایڈمیشن فامز ہیں۔۔ فل کرو، اب تم دونوں یونی جاٶ گی۔۔ میں آغا جان سے بات کر چکا ہوں مگر مجھے رزلٹ بہت اچھا چاہیے۔۔ جیسے درخشاں اور دریہ کا ہوتا ہے۔۔“ وہ انہیں سمجھاتے ہوٸے خان زوار کی بیٹیوں کا حوالہ دے کر بولا جو ہاسٹل میں رہ کر پڑھتی تھیں اور کبھی کبھی ویک اینڈ پر گھر آتی تھیں۔۔ وہ دونوں ذہین تھیں، درخشاں انجنیرنگ اور دریہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی۔۔ ثنا بیگم کی بڑی بیٹی کی شادی تو یاور خان سے کر دی گٸی تھی مگر چھوٹی بیٹیوں کے لیے وہ ڈٹ گٸیں اور شہر پڑھاٸی کے لیے بھیج دیا۔۔ آغا جان خاموش ہو گٸے اور اب وہ کالج سے فارغ ہو چکی پلوشہ اور زرشے کی شادیاں کرنا چاہتے تھے مگر خانزادہ ان کا شوق دیکھ کر انہیں پڑھانا چاہ رہا تھا۔۔ ایک ساتھ دو فیصلوں میں مخالفت کرنے پر خان یوسف اس سے ناراض تھے مگر وہ بضد تھا۔۔ وہ جانتا تھا اس کے بعد بدلہ میں آغا جان اسے سرداری سونپیں گے جس پر انکار کرنا مشکل ہو جاٸے گا۔۔ اس نے گہرا سانس بھر کر ان دونوں کو دیکھا جو خوش بیٹھی فامز دیکھ رہی تھیں۔۔
وہ مسکرایا، نا وہ اپنی زندگی کو خاندانی فیصلوں کی نذر کر سکتا تھا نا ہی اپنی بہنوں کو۔۔ وہ نہیں جان پایا اس کے اس فیصلہ پر آغا جان کیوں خاموش ہوٸے، وہ کیا سوچ چکے تھے اسے اندازہ نہیں تھا۔
>>>>>>---------Y.E--------->>>>>
وہ فولڈر فاٸل سینے سے لگاٸے باہر آٸی، تھکن سے سر درد کر رہا تھا۔۔ پچھلے تین دن سے گروپ پروجیکٹ میں اس کا سونا اور کھانا پینا تک ڈسٹرب ہوا تھا۔۔بےزار چہرہ لیے ابھی موباٸل نکال کر ڈراٸیور کو کال کرنے ہی والی تھی جب اچانک عیسٰی سامنے آن رکا۔۔ چہرے کی بےزاری تیزی سے حیرت میں بدلی تھی۔۔۔
”کافی پلانی تھی ناں تم نے۔۔؟ کب پلاٶ گی؟ مُکرنے نہیں دوں گا۔۔ آج پلاٶ کافی۔۔“ عیسٰی کی حکم دینے جیسی فرماٸش پر وہ کچھ پل تو سمجھ نہیں پاٸی اس کی بات، اچانک ہی وہ پرانے دوستوں جیسا رویہ اپنا گیا تھا، وہ بےساختہ مسکراٸی۔
”میں نہیں مُکری۔۔ آپ بزی تھے اس لیے ڈسٹرب نہیں کیا۔۔“ وضاحت دیتی بمشکل خوشی سے پھٹتی آواز سنبھال کر بولی۔۔ ایسا لگتا تھا اس پر خاص مہربانی ہوٸی تھی اللّٰہ کی طرف سے۔۔ سامنے کھڑا وہ شخص اس کے مزاج کو یکدم بدلنے میں ماہر تھا۔۔ اسے لگا ساری تھکن اور بےزاری ہوا ہو گٸی ہے۔ عیسٰی کا فریش مسکراتا چہرہ عجیب سے احساس میں مبتلا کر گیا تھا۔ جسے بس دور سے دیکھ کر خوش ہوتی تھی وہ اب پاس آ کر بات کرتا تھا۔۔
عیسٰی نے اسے دیوانہ وار خود کو تکتے پا کر ابرو چڑھاٸے، وہ جلدی سے سنبھل کر اس کے ساتھ چلنے لگی۔ اس کے ہم قدم چلنے کا احساس اتنا خوشگوار تھا کہ اس کا بس چلتا تو ساری زندگی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم سے قدم ملاٸے چلتی رہتی۔۔
”خود کو لکی سمجھو کہ عیسٰی خان تمہارے ساتھ کافی پیے گا۔۔ میں یہ موقع سب کو نہیں دیتا۔۔“
اس کے ساتھ چلتا وہ خود پسندی سے جتا کر بولا، آٸرہ نے مسکراہٹ دبا کر سر ہلایا۔ اس سے پوچھنا چاہتی تھی یہ خاص مہربانی کیوں کر رہا ہے وہ مگر ڈر تھا وہ برا نا مان جاٸے۔۔ وہ ساتھ تھا یہی بہت تھا۔
اسے رکنے کا اشارہ کرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا، رنگ ٹون پر موباٸل نکال کر دیکھا۔۔ انجان نمبر تھا، وہ رک گیا۔ زیادہ تر وہ انجان نمبرز سے کالز اگنور کرتا تھا مگر اس مسلسل آتی کال کو اٹینڈ کر گیا۔
”عیسٰی۔۔“ مدھم پکار پر اس کے آگے بڑھتے قدم پتھر ہو گٸے۔۔ ساکت سا اپنی جگہ جم گیا۔۔ جانے کتنے وقت بعد یہ آواز سن رہا تھا وہ۔۔
”عیسٰی کیسے ہو؟ پلیز بات کرو مجھ سے۔۔“
وہ جو مجسم بےجان سا ہو گیا تھا اس جملہ پر دل بےیقینی سے دھڑک اٹھا۔۔
”ج۔۔جی۔۔ میں ٹھیک ہوں، اور آپ؟ کہاں ہیں آپ؟ واپس آ جاٸیں پلیز۔۔ اور کتنا انتظار کرنا ہو گا۔۔؟“
وہ ایک ساٸیڈ ہر ہوتا ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ یوں جیسے زرا رکا تو دیر ہو جاٸے گی۔۔ آنکھیں یکدم بھر آٸی تھیں۔ ایک ساتھ خوشی اور بےبسی محسوس کر رہا تھا وہ۔۔
”ابھی نہیں۔۔ بس اس سے کہو میری کال اٹینڈ کرے۔۔“ اداس مدھم آواز اور دلگرفتہ جملہ۔۔ اس التجا پر عیسٰی کو لگا کسی نے دل چیر کر رکھ دیا ہو۔۔
”تو آج بھی ان کے لیے ہی کال کی مجھے۔۔ میری ضرورت کبھی تھی ہی نہیں۔۔ کیوں، آخر کیوں آپ کو میری پرواہ نہیں ہوٸی کبھی۔۔ عیسٰی خان کی آپ کی نظر میں کبھی اہمیت تھی ہی نہیں۔۔ میں یہ بات ہر بار بھول جاتا ہوں، میں اپنی ہی قسم توڑ بیٹھتا ہوں۔۔“ وہ پاگل سا ہوتا دبا دبا چلایا۔ نیلی آنکھیں ضبط سے سرخ ہوٸیں۔۔ سسکیوں کا گلا گھونٹنے لگا۔۔
”ایسا کچھ نہیں جگر۔۔ میری بات۔۔“ وہ مزید کچھ بھی سنے کال کاٹ گیا۔ جی چاہ رہا تھا دھاڑیں مار مار کر روٸے، اپنے پیچھے آتی آٸرہ کو بنا دیکھے تیزی سے گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔۔
آٸرہ حیرت زدہ سی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا وہ رو رہا ہے، اس نے سسکی سنی تھی مگر بےیقینی تھی وہ ہر وقت کھلکھلانے والا انسان کس غم میں مبتلا تھا۔۔ وہ بےچین سی وہیں کھڑی رہ گٸی۔۔
وہ یونی سے نکلتا روڈ پر آ گیا تھا پھر ایک جگہ گاڑی روک کر سٹیرنگ پر سر رکھتا شدت سے رو پڑا۔۔
>>>>>>>-----------Y.E----------->>>>
وہ اپنے فیانسی کا نمبر دیکھتی تذبذب کا شکار رہی۔
کیا اسے بات کرنی چاہیے؟ وہ جو بنا ملے بیٹھے بٹھاٸے شادی کے لیے پرشوق ہو گیا تھا۔۔ اسے سمجھا دے تو شاید وہ سمجھ بھی جاٸے۔۔
پریسہ نے سمجھا دیا تھا، پروا کو بلوا لے گی، انکل بھی مجبوری ظاہر کر گٸے تھے، مگر اس کا کیا۔۔
وہ ان دیکھے لوگوں میں سٹڈیز چھوڑ کر چلی جاٸے، کیسے رہے گی وہاں اور کیسے لوگ ہوں گے۔۔
اسے پروا کی فکر تو تھی مگر اندر سے کہیں وہ خود بھی ڈری ہوٸی تھی۔ رات پوری طرح پھیل چکی تھی۔ وہ دبے پاٶں ٹیرس پر آٸی تاکہ کال کر سکے۔۔
ہمت کر کے کال ملاٸی، نروس سی لرزتے ہاتھوں سے موباٸل کان سے لگایا۔۔ بیل جا رہی تھی اس نے آنکھیں میچ لیں۔ آج وہ اپنے لیے ہمت کر رہی تھی۔۔
ہمیشہ ڈٸیرز کے لیے خطرناک کام کیے تھے مگر آج کی یہ کال سب سے خطرناک کام لگ رہا تھا۔
>>>>>--------->>>>---------->>>>
وہ بےچین سی ٹیرس پر ٹہل رہی تھی، کال جا رہی تھی مگر اٹینڈ نہیں ہوٸی۔۔ وہ لگاتار کوشش کرتی رہی اور جب وہ سوچنے پر مجبور ہوٸی کہ شاید وہ سو رہا ہو، اس کی کال کاٹ دی گٸی۔۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔ یعنی وہ جاگ رہا تھا اور کال جان بوجھ کر کاٹی گٸی تھی۔۔
دانت کچکچا کر وہ جی بھر کر غصہ ہوٸی، دو تین مرتبہ مزید کوشش کے بعد جب کال ملانے پر نمبر بزی ملا تو بےبسی سے وہ اپنی جگہ کھڑی خود کو کوستی رہی، پہلے ہی رابطہ کر لیتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا کہ اپنے منگیتر کے بارے میں ہی اسے کچھ علم نہیں، سرد آہ بھر کر پلٹتی وہ کمرے میں جانے کا ارادہ کر کے ابھی آگے بڑھی تھی کہ بالکونی سے کسی کے بولنے کی ہلکی آواز سنی۔ آنی اور انکل کے روم کی بالکنی ٹیرس کے داٸیں طرف زرا سے فاصلہ پر تھی، آواز ہلکی تھی مگر واضح تھی، پریہان نے رات کے اس وقت ایسی رازدارانہ آواز پر متجسس ہو کر کان لگاٸے۔
”بات کو سمجھو یہ ضروری ہے، حدیر صاحب کو ہی جلدی ہے ورنہ میں۔۔ دیکھو یہ مجھے بھی برا لگ رہا یے لیکن میں مجبور ہوں، کیا کروں میں۔۔ پریہان سے ضرور بات کر لیتا مگر وہ کبھی نہیں مانے گی۔۔“
انکل کی بات میں حدیر نام سن کر وہ ٹھٹکی۔۔ شاید وہ کال پر بات کر رہے تھے یا پھر آنی سے۔۔ وہ نہیں جان پاٸی، ایسا لگتا تھا کسی کو سمجھا رہے ہیں یا منا رہے ہیں۔۔ الجھی ہوٸی سی وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر گٸی۔۔
دماغ میں انکل کے کہے جملے گھوم رہے تھے، وہ کس بارے میں بات کر رہے تھے اور کس سے بات کر رہے تھے، کتنی دیر اسی بات کو سوچتی وہ سو نہیں پاٸی، کروٹ بدل کر پروا پر نظر پڑی جو اپنے ازلی مخصوص انداز میں الجھی بےترتیب سی ہوش و حواس سے بیگانہ سو رہی تھی، اس نے مسکرا کر اس پر کھینچ کر چادر پھیلاٸی اور جھک کر شدت سے اس کے گال چومے، وہ کسمسا کر کروٹ بدل گٸی۔۔
وہ بھی سب باتوں کو ذہن سے جھٹک کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔
>>>>>>----------Y.E---------->>>>>
وہ ان دونوں کو ہاسٹل لے جانے کے لیے تیار ہو کر باہر نکلا، پلوشے اور زرشے کا سامان ملازم گاڑی میں رکھ رہے تھے، پورا گھر ان کو روانہ کرنے کے لیے جمع ہو چکا تھا، نصیحتیں اور ہدایتیں جاری تھیں، وہ مسکرایا۔ دریہ او درخشاں کا بھی یہی حال ہوتا تھا شروع میں۔۔ اب ان دو کی باری تھی۔
سب سے ملتے ہوٸے دونوں خان آزر کے سامنے پہنچیں تو پلوشے کو سینے سے لگا کر انہوں نے زرشے کے سر پر سرسری سا ہاتھ ٹکا کر سر ہلایا، وہ سر جھکاٸے ایک قدم پیچھے ہٹ گٸی، داور اور یاور کے علاوہ گل جان ہی اس کو لپٹ کر مل رہی تھیں، اسے یہ بات بری طرح چبھی تھی، سرد نظروں سے باپ کو دیکھتا وہ آگے بڑھ کر زرشہ کو اپنے حصار میں لے کر گاڑی کی طرف بڑھا۔۔ اس کی محبت اور توجہ پر زرشہ کی آنکھیں جھلملاٸیں۔۔
”ہاسٹل کی کوٸی ضرورت نہیں۔۔ آج کل لڑکیاں ہاسٹل میں بھی محفوظ نہیں، دریہ اور درخشاں کے پاس چھوڑ دینا۔۔ وہاں پوری سیکیورٹی ہے، ایک ڈراٸیور اور گاڑی ان کے لیے وہاں رہنے دینا۔۔ میں وہی وارننگ دوہراٶں گا جو ان دو کے لیے تھی، مجھے اگر کبھی شکایت ملی تو گردن اتار کر زمین میں گاڑھ دوں گا۔۔ واپس نہیں لاٶں گا یہاں۔۔ “
آغا جان وہاں پہنچے، دونوں سے مل کر خانزادہ سے بولے، ان دونوں نے خوف سے آغا جان کو دیکھا۔
”آپ فکر نا کریں، یہ خانزادہ کی بہنیں ہیں، ان کو پتا ہے کہاں، کیسے رہنا ہے۔۔“ خانزادہ نے اعتماد سے جواب دے کر ان دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ڈراٸیور کو دوسری گاڑی میں بھیج کر خود ڈراٸیونگ سیٹ سنبھالی، پلوشہ آگے اس کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ ہمیشہ کی طرح زرشہ پوری چادر میں چھپی پیچھے سر جھکا کر بیٹھ گٸی۔
پورے راستے وہ اس کے لیے ہی پریشان ہوتا رہا، خان آزر کا اس سے رویہ، اس کی گھر والوں سے جھجک اور چھپنا اسے دکھ میں مبتلا کرتا تھا اور ایسا کرنے کی وجہ کہیں نظر نہیں آتی تھی۔۔
اس نے کٸی بار خان آزر سے اس بارے میں بات کی تھی مگر وہ اسے تمہارا وہم ہے کہہ کر ٹال گٸے مگر یہ اس کا وہم ہرگز نہیں تھا، گل جان ونی میں آٸی عورت تھیں تو ان کی بیٹی کا کیا قصور تھا۔۔؟ اپنے باپ کا گل جان اور زرشہ سے نفرت آمیز رویہ اسے اپنے باپ سے دور کر رہا تھا۔
دریہ، درخشاں کا ویسے تو ننھیال بھی شہر میں ہی تھا مگر آغا جان کی ہدایت پر انہیں خانزادہ نے اپنے پرسنل اپارٹمنٹ میں شفٹ کر دیا تھا، دو بیڈرومز کا لگژری اپارٹمنٹ ان دو کے لیے ضرورت سے بڑھ کر تھا۔ اس بلڈنگ میں سیکیورٹی کا ٹاٸٹ سسٹم ہونے کے باوجود الگ سے سیکیورٹی کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔
ان لوگوں کی بہت لوگوں سے دشمنیاں تھیں تبھی آغا جان کے علاوہ وہ خود بھی مطمٸین نہیں ہو پاتا تھا۔
انہیں وہاں پہنچا کر اس نے بمشکل ایک گھنٹہ تھکن اتاری اور وہاں سے واپس ہوا۔
”پلوشے مجھے یقین ہے تم دونوں اپنا خیال رکھو گی بس وعدہ کرو زرشے کا بھی خیال رکھنا۔۔“ آنے سے پہلے اس نے الگ سے پلوشہ کو سمجھایا تو وہ سر ہلا گٸی۔۔ اسے سب سے زیادہ زرشہ کی فکر ستاتی تھی۔
موباٸل پر میسج کی بپ پر اس نے میسج اوپن کیا۔۔
”پلیز کال اٹینڈ کرو۔۔ مجھے تم لوگوں کا رویہ تکلیف دے رہا ہے۔۔ معافی نہیں مل سکتی کیا۔۔؟“
اس میسج کو پڑھ کر بےساختہ لب بھینچ کر موباٸل سیٹ پر پھینکا اور سیٹ پر سر ٹکا کر آنکھیں بند کیں۔ اس کی تھکن کا خیال کر کے ڈراٸیور نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔۔
”نہیں موسٰی۔۔ اتنی آسانی سے نہیں معافی ملے گی۔۔“
وہ زیرلب بڑبڑایا، پہلی بار جب کال آٸی تھی تو وہ بےساختگی میں اٹینڈ کر گیا تھا مگر دوبارہ یہ غلطی نہیں دوہرانے والا تھا اسے اندازہ تھا کہ اگر اسے کال پر ہی سب میسر آ جاٸیں گے تو کبھی نہیں لوٹے گا۔
اسے وہ دن یاد آیا جب ہنستا مسکراتا زندگی سے بھرپور موسٰی یکدم چپ چپ سا ہو گیا تھا۔۔ جانے ایسا کیا ہوا تھا وہ بار بار پوچھنے پر بھی ٹالتا رہا اور ایک دن اچانک ہی سب کے درمیان شادی کی خواہش ظاہر کر بیٹھا تھا۔۔
”ہاں تو کرو شادی۔۔ ضرور کرو، میں نے تمہارے لیے پلوشے کا سوچا ہوا ہے۔۔“ آغا جان خوشی سے بولے، اسے اور موسٰی دونوں کو ہی جھٹکا لگا تھا۔۔ اسے اس لیے کہ وہ اس کی نظر میں ابھی چھوٹی تھی اور موسٰی کو اس لیے کہ وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا۔۔ جبکہ باقی سب خوش ہوٸے تھے، شاید پلوشہ بھی۔۔
”نہیں آغا جان۔۔ میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ میری یونی فیلو ہے، اچھے گھر کی لڑکی ہے اور۔۔
”تو نکلے ناں تم بھی باپ جیسے۔۔ تم لوگ اس لیے ہی تو پڑھنے جاتے ہو۔۔ غیرت مر گٸی ہے تم لوگوں میں۔۔ منہ اٹھا کر پسندیدگیاں بتانے بیٹھ جاتے ہو۔۔ اپنے باپ سے کہو لے جاٸے رشتہ۔۔ اسے تو ویسے بھی اعتراض نہیں ہو گا۔۔“ آغا جان بھڑک کر بولتے اٹھ کر چلے گٸے تھے، ثنا بیگم خفت سے سرخ چہرہ لیے ناراض نظر خان زوار پر ڈال کر اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔۔ کچھ وقت پہلے کا خوشگوار ماحول موسٰی کی بات نے سناٹے میں بدل دیا تھا۔۔ اسے خان زوار نے سمجھانا چاہا اور شاید وہ مان جاتا مگر ثنا بیگم اس کے لیے ڈٹ گٸیں۔۔ آغا جان نے بس طنزیہ نظر خان زوار پر ڈالی تھی، گویا جتاتے ہوں ایک شہری ماڈرن اور پڑھی لکھی بیوی لانے کا نقصان دیکھ لو۔۔ ثنا بیگم میں خانی بیگم جیسا رکھ رکھاٶ اور دبدبہ نہیں تھا نا ہی آغا جان کے فیصلوں پر سر جھکانا آتا تھا۔۔ وہ اپنے بچوں کے ہر فیصلہ کے لیے اسی طرح سب کے سامنے کھڑی ہو جاتی تھیں۔۔
اور پھر موسٰی کی شادی ہو گٸی تھی، آمنہ پیاری اور سلجھی ہوٸی لڑکی تھی مگر اسے اپنی مرضی سے لانے والے موسٰی کا رویہ اس سے عجیب سا تھا۔۔
ایسا کیوں تھا، کسی کو پرواہ نہیں تھی، ثنا بیگم کی انا جیت گٸی تھی، آغا جان کو غلط فیصلے کا نتیجہ جتانا تھا، خان زوار کو ناراضگی دکھانا مقصود تھی اور باقی سب کا اس کی زندگی سے لینا دینا نہیں تھا۔۔
لیکن خانزادہ کو پرواہ بھی تھی اور فکر بھی۔۔
”موسٰی محبت کرتے تھے ناں؟ اپنی مرضی سے پورے گھر کے خلاف جا کر لاٸے ہو اسے۔۔ پھر یہ سرد اور زلت بھرا رویہ کیوں رکھا ہوا ہے، یہ کیا مذاق ہے۔۔“
اس کے درشت لہجے میں پوچھے جانے والے سوال پر وہ تمسخر سے ہنستا اسے حیران کر گیا۔
”محبت؟ میں نے ایسا کب کہا تھا جگر۔۔؟ یہ بس شادی ہے، وہ بیوی ہے اور محبت تو کہیں نہیں ہے۔۔“
اس کے لہجے میں ازیت تھی، وہ ازیت میں تھا اور آمنہ کو بھی ازیت میں رکھے ہوٸے تھا۔۔ خانزادہ شاکڈ رہ گیا تھا اس بےحسی پر۔۔ وہ الجھ گیا تھا۔۔
گاڑی جھٹکے سے رکی تو وہ ماضی سے نکلا۔ شام کا سایہ پھیل چکا تھا۔ سامنے روشنیوں میں چمکتا خوبصورت مگر چھوٹا سا گھر تھا، ہارن پر گیٹ کھولا گیا، ایک جھٹکے سے گاڑی اندر جا کر رکی۔۔
گاڑی سے نکل کر اندر بڑھتے ہوٸے اسے آمنہ کا مرا ہوا چہرہ یاد آیا تھا جو بالکل ویسا تھا جو اس کی زندگی میں ہوا کرتا تھا، سرد۔۔ زرد۔۔ اور خالی خالی سا۔۔
>>>>>>----------Y.E---------->>>>>
”یار ایسے اچانک کیوں؟ کیا تم نے اپنے فیانسی سے بات کی یا اس سے ملی ہو۔۔؟ وہ سالوں سے سویا ہوا انسان اچانک جاگ کر شادی کرنا چاہ رہا ہے۔۔؟“
اس کی ساری بات سن کر ریما اور منال منہ کھولے بیٹھی تھیں، مرحا نے حیرت سے پوچھا۔۔
”پتا نہیں۔۔ میں نے کالز بھی کیں وہ اٹھاتا ہی نہیں ہے میری ڈگری کا بھی کہہ دیا بعد میں کمپلیٹ ہو جاٸے گی۔۔ آنی نے بات کی میرے ان لاز سے وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ لڑکا بضد ہے۔۔ آج یا کل شاید وہ لوگ آٸیں باقاعدہ تاریخ طے کرنے۔۔ اب کہا ہے آنی کو کہ ایٹ لیسٹ پُروا کے ٹینتھ کے ایگزامز کے بعد کی ڈیٹس رکھیں۔۔ میں تو گٸی بھاڑ میں۔۔“ وہ بےزاری سے بِنا سانس لیے بولتی چلی گٸی۔ آج کل اس کا مزاج ویسے ہی خراب رہنے لگا تھا، اچانک شادی اور اس پر منگیتر صاحب کا رویہ۔۔ اب تو پڑھنے سے بھی دل اٹھ رہا تھا۔
”یار سیرٸیسلی سیڈ فار یو بٹ۔۔ میں تو تم سے تفصیلی بات کرنے والی تھی کہ حدیر سے بات کیوں کی اور ملنے تک چلی گٸیں، جانتی ہو ناں میں اس کے لیے کیا فیلنگز رکھتی ہوں اینڈ ہی از جسٹ ماٸن۔۔“
منال نے بال جھٹک کر کہا تو پریہان نے ناک چڑھاٸی۔
”ایکسپلین کر چکی ہوں منال کہ وہ سب مس انڈرسٹیڈنگ تھی، میں نے انٹینشلی تمہارے مسٹر پرفیکٹ کا نمبر نہیں لیا تھا انفیکٹ میں خود شاکڈ تھی اسے سامنے دیکھ کر۔۔“ وہ چڑچڑے لہجے میں بولی، منال کا بار بار وہ سب کہنا زہر لگ رہا تھا۔
”آٸی نو۔۔ تبھی لڑاٸی نہیں ہوٸی ہماری۔۔ تم نہیں جانتیں وہ کون ہے سو ایم پوزیسو فار ہم۔۔ اینی ویز اب تو ٹینشن ہی نہیں تمہارا فیانسی جاگ ہی گیا سالوں بعد۔“ منال لاپرواٸی اور شرارت سے بولتی اسے مزید غصہ دلا گٸی تھی لیکن وہ خاموش رہی۔
وہ سب جانتی تھیں حدیر کے معاملے میں منال ایسے ہی اجنبی بن جاتی تھی۔۔ کچھ وقت سے اکلوتا کرش چلا آ رہا تھا۔۔ اس کے لیے تو پاگل ہو جاتی تھی اب بھی صرف شادی کا سن کر تھمی تھی۔
جبکہ پریہان کا دماغ اس رات انکل سے سنی باتوں پر جا رکا تھا، اسے گھبراہٹ ہوٸی کہ شاید حدیر کو انکل جانتے تھے اور اگر اس نے وہ سب بتا دیا تو۔۔
”پریہان۔۔ ہم کب سے کچھ پوچھ رہے ہیں ہوش میں آ جاٶ۔۔“ مرحا کے اونچی آواز میں پکارنے پر وہ خیال سے چونکی اور سوچیں جھٹک کر متوجہ ہوٸی۔
”یار کچھ بتاٶ تو سہی۔۔ اب دیکھا کیا فیانسی اپنا۔۔ کیسا دکھتا ہے، پرسنیلٹی کیسی ہے۔۔ نام کیا ہے۔۔؟“
ریما کے متجسس پرشوق سوالات پر وہ بھی چونک گٸی۔ اس نے تو اب بھی نا آنی سے نام پوچھا نا، دیکھا نا ہی ملی تھی۔۔
اچانک اس کے دماغ میں جھماکہ سا ہوا۔ انکل کا حدیر کی بات کرنا۔۔ اسے یکدم جیسے کوٸی خیال آیا۔۔
(حدیر صاحب کو ہی جلدی ہے ورنہ میں۔۔ دیکھو یہ مجھے بھی برا لگ رہا یے لیکن میں مجبور ہوں، کیا کروں میں۔۔ پریہان سے ضرور بات کر لیتا مگر وہ کبھی نہیں مانے گی۔۔)
اسے انکل کی بات یاد آٸی جو یقیناً وہ آنی سے کر رہے ہوں گے، حدیر کو کیا جلدی تھی؟ شادی کی۔۔ وہ چونکی۔ اسے ایک بار پھر سے خیالوں میں گم دیکھ کر وہ تینوں اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اٹھتی وہاں سے جا چکی تھیں۔۔
پریہان نے جلدی سے موباٸل نکال کر حدیر کا نمبر ڈھونڈا مگر وہ ڈیلیٹ ہو چکا تھا۔۔ اس نے اپنے فیانسی کے نمبر پر میسج لکھ کر سینڈ کیا۔
”کیا ہم مل سکتے ہیں اٹس ارجنٹ پلیز۔۔“ میسج سینڈ ہو چکا تھا وہ منتظر ہی رہی مگر جواب نہیں آیا۔۔ اس نے لب بھینچے عجیب رویہ تھا اس کا۔۔
شادی کی جلدی تھی مگر بات کرنے پر اعتراض تھا۔۔
وہ زچ ہو گٸی تھی۔۔ الجھ کر رہ گٸی تھی۔۔
”ڈیٹس فائنل کر دی ہیں، نیکسٹ منتھ کے مِڈ میں پروا کے ایگزیمز ہیں اور اس کے فوری بعد میری شادی۔۔“ پریہان کے کیے دھماکہ سے ریما کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ تین دن بعد وہ یونی آ رہی تھی اور ساتھ یہ بھی بتا رہی تھی کہ اب نہیں آئے گی۔۔
”اچانک شادی۔۔؟ اور ابھی سے کیوں لاس کر رہی ہو سٹڈیز کا۔۔ سب کیسے ریکور کرو گی، آلریڈی تین دن بعد آئی ہو اور اب کہہ رہی ہو آگے بھی نہیں آنا۔۔“
ریما کو لگا وہ مذاق کر رہی ہے مگر اس کا پھولا ہوا منہ بتا رہا تھا کہ سب سچ ہے۔۔
” آنی چاہتی ہیں یہ سمسٹر ابھی سٹارٹ ہوا ہے تو فریز کروں شادی کی وجہ سے۔۔“ وہ بےزاری سے ریما کو یونی نا آنے کی وجہ بتا رہی تھی۔
”واٹ۔۔ یار اٹس جسٹ سٹارٹ۔۔ ابھی تو پورا منتھ رہتا ہے، شادی کے لیے ون این ہاف ویک آف لے لینا، شادی کے بعد سب ریکور کر لینا سمسٹر کیوں فریز کروا رہی ہو۔۔“ ریما تو اس کی بات پر چیخ اٹھی تھی۔
”آنی سے کہہ کر دیکھنا کیوں کرنا ہے فریز۔۔ شی وانٹ می ٹو بی آ ٹیپیکل ہاٶس وائف۔۔ ان کے خیال میں شادی کے بعد بھی کافی ٹائم چاہیے ہوتا ہے نیو فیملی سٹائل اڈاپٹ کرنے میں۔۔ گھر میں جگہ بنانی ہے، ہزبینڈ کے دل میں جگہ بنانی ہے، بلا بلا۔۔“
وہ ناک چڑھا کر بتا رہی تھی۔۔ جب سے ڈیٹس فائنل ہوئی تھیں، زہنی طور پر وہ کافی ڈسٹربڈ تھی اور اوپر سے آنی روزانہ بٹھا کر ایسی باتیں سمجھا کر ڈرا رہی تھیں۔۔ اب تو اسے یقین ہونے لگا تھا سسرال بہت خطرناک جگہ ہوتی ہے، رہی سہی کسر اس بات نے پوری کر دی تھی کہ وہ اپنے ہی فیوچر ہزبینڈ سے انجان تھی۔۔ ریما خاموش ہو گئی۔۔
”تو ابھی سے یونی آنا کیوں چھوڑ دیا یار۔۔“ کچھ توقف کے بعد وہ پھر اسی بات پر آن رکی تھی، اسے تو پریہان کا یوں اچانک شادی کرنا اور اس پر اچانک سمسٹر فریز، یونی سے آف، یہ سب ٹھٹکا رہا تھا۔۔
”آنی اکیلی سب تیاریاں نہیں کر سکتیں، پُروا چھوٹی ہے اور اس کے ایگزیمز بھی ہیں سر پر۔۔ میرے لیے کافی شاپنگ کرنی ہے اور پروا کے لیے بھی۔۔ میں تو آج آئی تھی کہ تمہیں بتا دوں گی اور ہیلپ بھی چاہیے شاپنگ کے لیے۔۔ روزانہ آنی مجھے لے کر سارا دن مارکیٹس چھانتی ہیں، پروا اکیلی گھر پر ہوتی ہے۔۔
کافی ڈسٹرب ہو رہی ہے وہ اور میں ٹائم بھی نہیں دے پا رہی اسے۔۔ مرحا اور منال کہاں غائب ہیں۔۔“
وہ پریشانی سے بول رہی تھی، ریما نے سر ہلایا۔
”میں کروا دوں گی ہیلپ۔۔ ابھی سمسٹر کا سٹارٹ ہے اس لیے دونوں ایک ساتھ چلی گئیں ددھیال سے ملنے۔۔ ایریا بھی ایک ہی ہے ان کا۔۔ کچھ دن تک آ کر ہمیں جوائن کر لیں گی۔۔ ڈونٹ وری سب ہو جائے گا۔۔ آئی ونڈر اتنی کیا جلدی تھی کہ اچانک ہی شادی۔۔
آٸی تھنک کوٸی اور ہی بات ہے، تمہارے فیانسی نے یوں اچانک شادی میں ہی کیوں انٹرسٹ شو کیا جبکہ تم کبھی ملی بھی نہیں۔۔ میٹنگ ارینج کرتا یا کال۔۔“ ریما کی بات پر وہ سرد آہ بھر کر رہ گٸی۔ ذہن تو اس کا بھی الجھا ہوا تھا۔
”ایگری ریم۔۔ وہ میٹنگ کا کہہ دیتا، کال کرتا، بات کرتا اور میرے ان لاز نے بھی کبھی شادی کی بات نہیں کی انفیکٹ میرا تو ان سے ایک دو بار شادیوں پر ہی ملنا ہوا ہے۔۔ اب اچانک ہی ان لوگ نے انکل کو فورس کیا کہ شادی کریں آئی تھاٹ کوئی ایشو ہو گا بٹ کیا بات نکلتی ہے کہ لڑکے کی ضد ہے۔۔ کین یو بیلیو اٹ۔۔“
پریہان نے کھل کر ریما کو اپنی پریشانی بتائی۔
”یار تو تم لڑکے سے ہی بات کر لو۔۔ اپنے فیانسی کو سمجھاؤ کیا ہڑبڑی مچا دی ہے اس نے۔۔ حج کی تاریخ نکلی جا رہی ہے کیا جو جلدی ہے اسے۔۔“
ریما کے مشورہ پر اس کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔
”پہلے آنی کہتی تھیں تو میں نے بات نہیں کی، اب میں نے نام، نمبر، ورک پلیس وغیرہ کی انفو لینا چاہی تو آنی ٹال مٹول کر رہی ہیں، انہیں یہی شک ہے میں کوئی گڑبڑ کروں گی۔۔ نام سنا ہے سب ہادی کہہ رہے ہوتے ہیں اب اس نام سے کہاں ڈھونڈوں اسے۔۔ میسج کالز اگنور کر رہا ہے، پھنس گئی ہوں میں تو۔۔“
وہ سر پر اپنا سٹالر ٹھیک کرتی منہ بنا کر بول رہی تھی۔ ریما نے کندھے اچکائے گویا اب کیا کر سکتے ہیں۔
یونی سے فری ہونے تک دونوں یہی بات ڈسکس کرتی رہیں اور پریہان کا اتنے دن بعد پھر سے دماغ حدیر پر جا رکا مگر وہ یہ زکر ریما سے نہیں کر پاٸی۔
بغیر کسی ثبوت کے وہ حدیر کو اپنا فیانسی نہیں کہہ سکتی تھی اور منال کو زرا بھی اندازہ ہو جاتا تو وہ الگ سے عدالت لگا لیتی۔۔
ریما سے ہیلپ کی بار بار ریکوئسٹ کر کے وہ ریلیکس سی گھر پہنچی۔ آنی شاید مارکیٹ سے لوٹی تھیں، کھانا گرم کر کے دیتے ہی روم میں ریسٹ کرنے چلی گئیں۔۔ پروا کچھ دیر پہلے سکول سے آئی تھی مگر پچھلے کچھ دن سے وہ آتے ہی اکیلی کھانا کھا کر روم میں بند ہو جاتی تھی۔۔
اس نے بد دلی سے کھانا کھایا اور جا کر ریسٹ کے لیے سوئی اور آنکھ لگ گئی۔۔ کتنے دنوں کی بےچینی اور پریشانی سے سویا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔
>>>>>----------Y.E---------->>>>>
وہ عیسٰی کے ساتھ آئس کریم پالر آئی ہوئی تھی۔ آئسکریم کے پیالے سامنے پڑے تھے، وہ کسی سوچ میں گم تھا۔ آئرہ نے چور نظروں سے اس کا تفصیلی جائزہ لیا۔ جینز پر بلیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، گلے میں گلاسز لٹکا رکھے تھے، نیلی آنکھوں میں گہری سوچ کے سائے تھے۔۔ اس روز اچانک کسی کال کے بعد اس کا یوں چلے جانا کئی روز آئرہ کو پریشان رکھے رہا تھا مگر عیسٰی کافی دن غائب رہا اور پھر اچانک ایک دن یونی میں نظر آیا تو بظاہر نارمل تھا۔۔
مسکرا کر سب جاننے والوں کو ہائے فائیو دیتا، گاگلز لگائے بوگاٹی کو ڈرفٹ دے کر شور مچاتا ہوا شوخ، سٹاٸلش سا۔۔ جانے ایسا کیا چھپا رہا تھا جو اونچے اونچے قہقہے لگاتا وہ اپنے گرد اتنا شور کیے رکھتا کہ آٸرہ کو اسے پکارنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔
پھر آج کے دن وہ یونی آف ہوتے ہی اچانک اس کے سامنے آن رکا، آئسکریم کی آفر کی اور جواب سنے بنا ساتھ لیے آٸسکریم پالر پہنچ گیا اور تب سے اب تک وہ خاموش ہی بیٹھا تھا۔۔
”آٸسکریم پگھل رہی ہے آپ کی۔۔“ اس کی بات پر وہ چونک کر سیدھا ہوا اور مسکرایا۔
”ویسے آج یہ اچانک آٸسکریم۔۔“ آٸرہ نے مسکرا کر اسے خیالوں کی دنیا سے نکالنا چاہا، عیسٰی نے بےاختیار اس کے چہرے پر نظر جماٸی، خوبصورت چہرے پر نرم مسکراہٹ اور سنہری آنکھوں میں نرمی کے ساتھ ایک اور جذبہ بھی تھا۔۔ محبت کا، پسندیدگی کا۔۔ وہ اس بار کھل کر مسکرایا۔
”یہ سوری ہے، اس دن چھوڑ کر گیا تھا اچانک۔۔ خود پر غصہ کرنے کا حق تو نہیں دوں گا لیکن۔۔“
وہ مخصوص مغرر انداز سے بولتا آگے ہو کر ٹیبل پر بازو ٹکاتا ہاتھ جوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
”اگر غصہ آیا تھا تو سوری۔۔ میں ایسا ہی ہوں، تھوڑا بدتمیز اور تھوڑا بدلحاظ سا۔۔ میرا یہ انداز برا تو لگا ہو گا تمہیں۔۔“ اس نے سوالیہ نظر آٸرہ کی طرف دوڑاٸی تو وہ بےساختہ نفی میں سر ہلا گٸی۔ پھر رکی اور رک کر خود کو کوسا۔۔ عیسٰی کے معاملے میں اس کا ایٹیٹیوڈ ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔۔ وہ مسکراہٹ دبا گیا۔
”اگر برا لگا تھا تو۔۔ اگر یہ بات مزید قابل برداشت نہیں ہے تو یہ ہماری لاسٹ میٹنگ ہے، اپولوجاٸز ڈیو تھا سو ہو گیا۔۔ میں بدل ہی نہیں سکتا خود کو۔۔ اس لیے اتنا سوشل ہو کر بھی میرے پاس جسٹ احمر اور حسن بچے ہیں، وہ عادی ہیں، ڈھیٹ ہیں، کٸیرلیس ہیں واٹ ایور۔۔ مجھے تو میرے اپنے بھاٸی نے برداشت نہیں کیا۔۔“ آخری جملہ وہ تمسخر سے بولتا سر جھٹک گیا۔ آٸرہ سمجھ نہیں پاٸی اسے کیا کہے، وہ جواب مانگ ہی کب رہا تھا، بنا رکے بولتا جا رہا تھا۔
وہ جس پر نخرہ جچتا تھا وہ کہہ رہا تھا اس کا نخرہ ناقابل برداشت ہے، آٸرہ کسی ضروری بات کی طرح اس کے شکوے جیسی لاپرواہ باتیں سن رہی تھی۔
”نہیں ایسی بات نہیں۔۔ ہر انسان کا اپنا مزاج ہے۔۔“
عیسٰی کے رک کر خود کو دیکھنے پر وہ اسی نرمی سے بولتی اس انازادے کو متوجہ کر رہی تھی۔
”سنو یہ جیسے تم مجھے نرمی سے ڈیل کر رہی ہو اور کسی بات کا برا نہیں مان رہیں ناں۔۔ خوامخواہ پسند آ جاٶ گی۔۔“ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولتا آٸرہ کو حیران کر گیا، وہ سٹپٹا کر نظر گھما گٸی۔
” اگر آپ کو لگ رہا ہے میں فیکنگ کر رہی ہوں تو ایسا نہیں ہے عیسٰی۔۔ جو فیل کیا وہی کہہ دیا۔۔“
کچھ سنبھل کر اس نے پراعتماد لہجے میں کہا تو پگھل چکی آٸسکریم کا کپ ساٸیڈ پر کرتا وہ سر ہلا گیا۔
”عیسٰی خان کہو۔۔ اور اچھی بھی مت بنو۔۔ اچھی ہو تب بھی ناٸس شو نہیں کرو۔۔ آر یو ڈن۔۔؟“
وہ سنجیدگی سے بولتا آخر میں آٸسکریم کا پوچھ کر جانے کا اشارہ کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔ آسانی سے نا کھلنے والا انسان تھا، لڑکی زات پر اعتبار نہیں تھا اسے۔۔
آٸرہ کی نرمی اچھی لگ رہی تھی مگر ماضی کا ایک سبق کافی تھا سنبھل کر رہنے کے لیے۔۔
آٸرہ خفت زدہ سی اٹھ کر اس کے پیچھے ہو لی۔۔
”آٶ ڈراپ کر دیتا ہوں ناں۔۔“ آٸرہ کو گاڑی کی ساٸیڈ سے نکل کر آگے بڑھتا دیکھ کر وہ حیران ہوا۔
”نہیں تھینکس۔۔ جب آپ کسی کے ناٸس بی ہیوٸیر سے الرجک ہوں تو اس بات کا حل ہوتا ہے ڈسٹینس۔۔ ڈسٹینس رکھیں اور ریلیکس رہیں۔۔“ وہ مسکرا کر ہی بولی تھی مگر لہجہ بتا رہا تھا اسے عیسٰی کا مرضی سے دوستانہ رویہ اور پل میں اجنبیت والا انداز برا لگا تھا۔۔ وہ اس بار کندھے اچکا کر بےنیازی نہیں جتا پایا۔
”اور کبھی کبھی اس کا علاج ہوتا ہے کلوزنیس۔۔۔ کلوز رہو اور اچھے لوگوں کی عادت ڈال لو۔۔ باٸی دی وے میرے ساتھ آٸی ہو تو میرے ہی ساتھ جاٶ گی۔۔
گھر نہیں جانا تو یونی لے جاٶں گا۔۔ یہاں سے تم ایسے نہیں جا سکتیں۔۔“ وہ اپنی دھونس جما کر بولتا گاڑی میں بیٹھا۔ پارکنگ سے گاڑی نکال کر روڈ پر لاتا روک کر مرر نیچے کر گیا۔ انداز ایسا تھا کہ وہ مزید بحث نہیں کر پاٸی اور خاموشی سے جا کر بیٹھ گٸی۔
”یونی یا گھر۔۔؟“ گاڑی روڈ پر ڈالتے ہوٸے پوچھا۔
”میں بتاتی ہوں ایڈریس۔۔ اب اس ٹاٸم یونی میں جا کر کیا کروں گی، ڈراٸیور بھی جا چکا ہو گا۔۔“ اس نے بمشکل ناراضگی کو کنٹرول کر کے اسے ایڈریس بتایا۔
وہ بےنیازی سے باقی ساری بات اگنور کیے گاڑی کی سپیڈ بڑھا کر آدھے گھنٹے تک اسے گھر تک لایا۔
”تمہاری کافی ڈیو ہے۔۔ اگر پلانا چاہو تو پلا دینا ورنہ گڈ باٸے۔۔“ اس کے نکلنے کے بعد وہ اپنی وہی بات دوہراتا اسے جتا کر بولا اور جواب سنے بنا گاڑی ہوا کی سپیڈ سے آگے بڑھا گیا۔۔ آٸرہ روڈ پر آگے موڑ کاٹتی اس گاڑی کو تکتی اس کی الجھی شخصیت کو سوچ کر رہ گٸی، وہ جو قریب ہونے سے روکتا بھی تھا اور پھر بلاتا بھی تھا۔۔
>>>>>----------Y.E---------->>>>>>
وہ آندھی طوفان بنا حویلی میں داخل ہوتا مردان خانے میں پہنچا۔ سامنے خان یوسف کچھ لوگوں سے بات کر رہے تھے، اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر سمجھ گٸے پھر کوٸی بات اس کے مزاج کے برخلاف ہوٸی ہے۔
جلدی سے الوداعی کلمات کہتے سب کو رخصت کیا، ورنہ اس کا کوٸی بھروسہ نہیں تھا کب ضبط کھو کر سب کے درمیان چیخ اٹھے۔۔
”آپ نے ان کو صاف انکار نہیں کیا تھا آغا جان۔۔؟“ آخری فرد وہاں سے نکلا ہی تھا کہ وہ دبا دبا چلایا۔
”کیا ہوا ہے خان، آرام سے بیٹھو پر بات کرتے ہیں۔۔ دادبخش پانی پلاٶ خانزادہ کو۔۔ “ خان یوسف نے نرمی سے اسے کہتے ہوٸے ملازم کو آواز لگاٸی۔
اس کا حلیہ بتا رہا تھا وہ ابھی حویلی پہنچا ہے اور سیدھا یہیں آ گیا۔ وہ واحد تھا جو کبھی کبھی خان یوسف کو بھی گھبرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں مجھے جواب چاہیے۔۔ کیا آپ نے میرے کہنے کے باوجود انکار نہیں کیا اس رشتہ سے۔۔؟“
ایک طرف صوفہ پر بیٹھ کر وہ ضبط سے بولا۔ آنکھوں میں طیش کی سرخی نے خان یوسف کو ٹھٹکایا۔
دادبخش پانی کا گلاس لا کر اس کے سامنے کر گیا۔
”نہیں چاہیے پانی۔۔ شکل گم کرو۔“ وہ دھاڑا۔
دادبخش کے ہاتھ کپکپا گٸے، پھرتی سے پیچھے ہوا۔
”کیا ہو گیا ہے خان۔۔ اتنا غصہ کیوں کرنے لگے ہو۔۔“
خان یوسف اس کا سوال ٹال رہے تھے، پریشانی سے اسے دیکھا جو کچھ زیادہ بگڑتا جا رہا تھا۔
”آغا جان جواب دیں مجھے۔۔ غصہ کو چھوڑیں ڈیم اٹ۔۔ میرے آفس میں آ کر وہ لڑکی مجھے وقت دے رہی ہے کہ میں سٹریس نا لوں اور شادی کے لیے جتنا چاہے ٹاٸم لے سکتا ہوں۔۔ ہُو دا ہیل از شی۔۔ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا اور مجھے اس تھرڈ کلاس ٹیپیکل خاندانی لڑکی سے پتا چلا ہماری منگنی ابھی نہیں ٹوٹی اور نا ہی ٹوٹے گی۔۔ یہی ویلیو ہے میری۔۔“
وہ غصے سے چیختا پاگل ہو رہا تھا۔ اس نے تو کبھی خان یوسف کا حکم نہیں مانا تھا پھر ایک ناپسندیدہ لڑکی کا آ کر یہ سب کہنا آگ لگا گیا تھا۔۔ اس کے چیخنے چنگھاڑنے کی آواز زنان خانے تک پہنچتی سب کو پریشان کر گٸی۔ خان آزر جو طبیعت خراب کی وجہ سے اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے، پریشانی سے اٹھ کر وہاں پہنچے۔۔
”تم نے کہہ دیا وہاں شادی نہیں کرنی، بات ختم۔۔۔ اتنے لوگوں میں زبان دی تھی اب اچانک ہی رشتہ نہیں توڑ سکتا میری جان۔۔ میں سنبھال لوں گا اپنے آغا جان کو وقت تو دو۔۔ میں خان زوار کو کہہ دوں گا آٸندہ اسے تمہارے آفس میں نا جانے دے۔۔“
وہ نرمی سے بولتے اسے پرسکون کرنے لگے۔ دادبخش اب بھی پانی کا گلاس پکڑے کچھ فاصلہ پر کھڑا تھا، خان یوسف نے اس سے پانی کا گلاس پکڑ کر اس کے سامنے کیا جو سختی سے لب بھینچے بیٹھا تھا۔
خان آزر ایک طرف صوفہ پر ٹک گٸے، خانزادہ نے ایک نظر باپ کو دیکھا اور رخ موڑ لیا۔
پانی کا گلاس تھام کر ایک ہی سانس میں پی کر ٹیبل پر زوردار آواز سے رکھا اور گہرا سانس بھرا۔
”وہ میرے سامنے نا آٸے دوبارہ۔۔ میں بتا نہیں سکتا مگر میرے پاس وجہ ہے اس رشتہ سے انکار کی۔۔ ہینڈل دیم آر آٸی ول ہینڈل پراپرلی۔۔“ وہ غصہ دبا کر بولا ، خان یوسف نے سر ہلایا اور فکرمندی سے اسے دیکھا۔ رشتہ توڑنا ہی تو مشکل تھا، انہیں لگا وہ کچھ وقت تک قبول کر لے گا مگر اس کا مزاج بگڑ رہا تھا اب۔۔ داد بخش خالی گلاس پھر سے بھر لایا تھا۔
”کھانا نہیں کھاٶں گا کیا میں۔۔ بس پانی پلاتے رہو۔۔“
اس نے گھور کر اسے دیکھتے ہوٸے جھڑک دیا۔ اس بار وہ گلاس اٹھا کر واقعی شکل گم کر گیا۔۔
”سمجھا دوں گا۔۔ تم جانتے ہو مجھے یہ جلدی کیوں ہے، داور کی بیوی علاج کے بعد بھی بچوں سے محروم ہے، یاور کی بیوی کا جانے ڈاکٹر کیا کیا مسٸلہ بتاتا ہے وہ کہتا ہے ابھی بچے اس کی جان کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔۔ مجھے یہ سب باتیں سمجھ نہیں آتیں۔۔ ایک وہ گستاخ جس نے ہٹ دھرمی سے انجان لڑکی سے شادی بھی رچاٸی اور سنبھال نہیں پایا، لڑکی بچے سمیت مر گٸی اور وہ خود حویلی چھوڑ کر جانے کہاں جا چھپا ہے۔۔“ خان یوسف آہستگی سے بولتے اپنی مجبوری بیان کرنے لگے، موسٰی کے زکر پر تلخی سے سر جھٹکا، خانزادہ نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔۔
”میں اپنا وارث دیکھے بنا مر جاٶں کیا۔۔۔ بس یہی شوق کھاٸے جا رہا ہے، یہی مجبوری ہے مجھ بوڑھے کی جو تمہیں مناتا پھر رہا ہوں۔۔“ وہ گھما پھرا کر پسندیدہ ٹاپک پر آ ہی گٸے تھے۔۔
”آپ اور آپ کے شوق۔۔ اللّٰہ دے گا ان دونوں کو بھی ان شاء اللہ ۔۔ رہی بات میری تو میں نے شادی سے انکار نہیں کیا جو آپ یوں پریشان ہو گٸے۔۔“
وہ بےزاری سے بولتا جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہو۔۔ خان یوسف کے اندر جیسے نٸی امید جاگی تھی۔
”پھر دریہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ درخشان کا اپنی خالہ کے ہاں ہو چکا رشتہ۔۔ دریہ کا بھی ننھیال سے ہی رشتہ آیا ہے، مجھے تو بالکل نہیں پسند وہ خاندان، ایک لڑکی دے دی بہت ہے، دریہ کو تمہارے لیے۔۔۔“
ابھی وہ اتنا ہی بولے تھے کہ وہ ٹوک گیا۔
”آغا جان۔۔ اتنی پھرتی کی ضرورت نہیں، میرے لیے کیا دنیا کی ساری لڑکیاں حرام ہیں جو یہیں ارد گرد گھومتے رہتے ہیں۔۔ دریہ کا جو رشتہ آیا ہے وہیں کریں، بہتر جگہ ہے۔۔ “ ناک چڑھا کر بولتا وہ جانتا تھا لڑکا دریہ کا ماموں زاد اور کلاس فیلو ہے۔۔ دونوں ساتھ میڈیکل پڑھ رہے تھے، یقیناً دریہ بھی اس رشتہ میں انٹرسٹڈ ہو گی تبھی رشتہ آیا تھا۔۔ مگر خان یوسف کا دماغ گھوم جاتا تو چاہے کچھ ہو جاٸے وہ خانزادہ سے ہی شادی کر دیتے۔۔
”کر دوں گا۔۔۔ سب کا ہی کر دیتا ہوں۔۔ تم آزاد رہو۔۔ تم نے ہمیں ایسے ہی ٹالتے رہنا ہے۔۔ میرا وارث۔۔“
خان یوسف پھر سے شروع ہو چکے تھے، وہ ناک چڑھا کر وہاں سے چلا گیا۔۔ خان آزر کو اس نے نظرانداز کر دیا تھا، وہ نوٹس کر رہے تھے اس کا رویہ ان سے بدل رہا تھا۔۔ جانے کس بات پر ناراض تھا۔۔ اس سے بعد میں بات کرنے کا سوچ کر وہ خان یوسف کی بات سننے لگے، جن کے دو گھنٹے ، خانزادہ کا بیٹا اور وارث کی حسرت میں بات کرتے گزر جانے والے تھے۔۔
>>>>>>----------Y.E----------->>>>>>
اس کی آنکھ پروا کے جگانے پر کھلی تھی، باہر مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، پروا اسے اٹھا کر منہ پھلاٸے واپس کمرے سے نکل گٸی، اسے اس کی بچگانہ حرکت پر بےپناہ پیار آیا تھا۔ کندھوں تک آتے بالوں میں انگلیاں چلا کر وہ اٹھی، چینج کر کے شاور لیا اور نماز پڑھ کر کچن میں جھانکا، آنی کھانا بنا رہی تھیں جبکہ پُروا وہیں ٹیبل پر بیٹھ کر سیب کھاتی پیر جھلا رہی تھی۔ بالوں کی ڈھیلی پونی باندھی ہوٸی تھی، ٹراٶزر، شرٹ پہنے اپنی عمر سے بھی چھوٹی لگ رہی تھی۔۔ آنی کی بہت ساری ہدایات کے بعد ایک ہلکا سا سٹالر اب گلے میں لٹکا لیتی تھی۔
”آنی میں نے ریم سے بات کی ہے، کل وہ آٸے گی تو آپ نے جو کراکری کا سامان لینا ہو اس کے ساتھ لے لینا۔۔ فرنیچر کا ڈیزاٸن میں آن لاٸن دیکھ لوں گی، اب بس اپنے ٹوٸٹی کو وقت دیا کروں گی۔۔“ اس نے آنی سے کہہ کر خود سے دور دھکیلتی پروا کے زبردستی گال چوم کر اس کے گرد بازو پھیلا کر گھیرا تنگ کیا۔
”اچھی بات ہے، میں دیکھ لوں گی بس ڈریسز لینے کے لیے لاسٹ ڈیز میں ایک ساتھ چلیں گے۔۔۔“
آنی نے پیار سے مسکرا کر دونوں کو دیکھا۔ پروا رخ موڑ کر سیب کتر رہی تھی، چہرے پر ناراضگی کے ساتھ آنکھیں بھی نم کر چکی تھی۔۔
”میرے ٹوٸٹی نے ہر وقت ایپل کھا کھا کر گال بھی ویسے کر دٸیے ہیں۔۔“ پریہان نے شرارت سے ہنس کر کہا اور اسکے گال کھینچے۔
”مجھے تنگ نہیں کریں۔۔ آپ تو خوش ہیں ناں شادی ہو رہی ہے، کسی کو میری پروا نہیں ہے، میں پریسہ آپی کے پاس نہیں جاٶں گی۔۔ کہیں نہیں جاٶں گی۔“
وہ آدھا کھایا سیب وہیں ٹیبل پر پڑی ٹوکری میں رکھ کر پریہان کو پیچھے دھکیلتی ٹیبل سے اتری اور کچن سے نکل گٸی۔ پریہان نے پریشانی سے آنی کو دیکھا۔
”فکر مت کرو، اپ سیٹ ہے، ٹاٸم دو گی تو ٹھیک ہو جاٸے گی۔۔ ویسے بھی بہت دھکے کھا لیے مارکیٹس کے، اب اپنی سکن کٸیر کرو، ریسٹ کرو اور پُروا کو وقت دو۔۔“ آنی نے اس کا گال تھپھپا کر اطمینان دلایا۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر پُروا کا رکھا سیب اٹھا کر کترتی باہر نکلی، ٹی۔وی لاٶنج میں سامنے ٹیبل پر انکل کا موباٸل پڑا دیکھ کر اسے یکدم حدیر کے نمبر کا خیال آیا۔ انکل کے منہ سے زکر سننے کا مطلب وہ جانتے تو تھے ہی اور جانتے تھے تو نمبر بھی ہو گا۔۔
ویے تو اسے یقین ہونے لگا تھا اس کا فیانسی وہی تھا، کیوں اس نے انجان لڑکی کو وقت دیا، پیسے تک دینے کو تیار تھا۔۔ یہی وجہ ہو سکتی تھی۔۔
وقار صاحب مغرب پڑھنے مسجد تک جاتے تھے تو ملنے ملانے والوں کے ساتھ کافی ٹاٸم لگ جاتا تھا، اسنے موباٸل اٹھا کر اپنے موباٸل پر نمبر نوٹ کیا اور کھڑے کھڑے ہی میسج بھیج دیا۔
”آپ سے ملنا ہے مجھے، منڈے کو آٶں گی آپ کے آفس۔۔؟“ میسج بھیج کر اس نے کمرے کی طرف قدم بڑھاٸے۔ کل کا دن وہ پُروا کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی، سنڈے تھا وہ گھر ہوتی۔۔ کمرے میں سامنے ہی پُروا بیڈ پر پڑی رو رہی تھی۔۔ وہ دلگرفتہ سی اس کی طرف بڑھی۔۔ اس کے پاس بیٹھتی اس کے بکھرے بال سنوار کر چومنے لگی۔۔ اس کے رونے پر اس کی بھی آنکھیں بھر آٸی تھیں۔
”پُروا ایسے مت کرو ناں۔۔ اپیا مجبور ہے۔۔ اس نام کے فیانسی سے بھی بات کرنے کی کوشش کی تاکہ شادی رکوا سکوں۔۔ اب بتاٶ اور کیا کرتی میں۔۔“
پریہان کی نم آواز پر وہ اٹھ کر اس سے لپٹ گٸی۔
دونوں بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگی رو رہی تھیں، ماں باپ کی کمی محسوس ہو رہی تھی، بےبسی اور بےچارگی بھی چُبھ رہی تھی۔۔ اگر ان کی ماں ہوتی تو آج اس بےوقت اور جلدبازی کی شادی پر کبھی نا مانتیں۔۔ یا سمجھاتیں یا انکار کر دیتیں۔۔
کچھ دیر بعد وہ پروا کو منانے اور چپ کروانے میں کامیاب ہو گٸی تھی، عام لڑکیوں کی طرح پروا شادی کی تیاری، نیو ڈریسز یا فنکشنز کے لیے بالکل ایکساٸیٹڈ نہیں ہو رہی تھی اور یہی بات پریہان کو اداس کر رہی تھی۔ باتیں کرتے کرتے ہی کتنا وقت گزر گیا جب آنی نے ڈنر کے لیے دونوں کو بلایا۔
”جاٶ، اپنے منہ ہاتھ دھو لو۔۔ آنی پریشان ہوں گی۔۔“
پروا کے بھیگے چہرے اور نم شہد رنگ آنکھوں کو دیکھتے ہوٸے اسے واش روم میں بھیجا اور اپنی بھیگتی آنکھوں کو تھپتھپا کر آنسو روکے اور میسج کی بپ پر موباٸل اٹھا کر دیکھا۔۔
”ناٹ منڈے۔۔ میں بزی ہوں۔۔ ٹیوسڈے از گڈ۔۔“
جوابی میسج۔۔ کچھ ہی دیر بعد۔۔؟ اس کے دوغلے پن پر دانت پیسے۔۔ یا وہ انجان بن رہا تھا یا پھر آنی نے کوٸی اولڈ یا رونگ نمبر دے دیا تھا۔۔
><><><><><><><><><
وہ آج پھر سے اسی بلڈنگ کے سامنے تھی، اسے یقین تھا آج وہ جس سے مل رہی ہے وہ اس کا منگیتر ہی ہے، منال کا خیال آیا، وہ حقیقت جانے گی تو کیا کہے گی؟ ہرٹ ہو گی، شرمندہ یا پھر ناراض۔۔
قدم اندر بڑھاٸے، اس بار ریسیپشن پر نا وہ رکی تھی نا اسے روکا گیا، پہلے سے بتا کر آنے کا فاٸدہ۔۔ وہ سر جھٹکتی تیزی سے آگے بڑھی۔۔
آفس کے دروازے پر کھڑے ہو کر حالت پھر سے وہی ہو گٸی جو پہلی بار تھی، چہرے پر ہلکا پسینہ۔۔ نروس اتنی کہ ہاتھ لرز رہے تھے، پہلے اجنبی سے ملنے کا خوف تھا اس بار وہ اس سے اپنے اور اس کے درمیان موجود رشتہ کا سوال کرنے جا رہی تھی جبکہ اسے صرف شک تھا کہ شاید وہ اس کا منگیتر۔۔ وہ سوچوں کو جھٹکتی ایک قدم پیچھے ہوٸی، پھر آگے بڑھی، پھر رک گٸی۔۔ یہ تذبذب اس کی زندگی کا سب سے برا مسٸلہ تھا، کوٸی بھی کام کرتے ہوٸے آخری لمحہ تک اسے یہی خوف کھاتا تھا، کرنا چاہیے یا نہیں۔۔
آر یا پار۔۔ وہ جھٹکے سے گلاس ڈور کھول کر اندر داخل ہوٸی۔۔ سامنے ہی وہ اپنی چٸیر پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر نظریں گاڑھے مصروف سا بول رہا تھا اور اس کے سامنے ایک لڑکی کھڑی سر ہلا رہی تھی وہ شاید اس کی پی۔اے تھی۔۔
پریہان جھجک سی گٸی، اسے دن کے ساتھ ساتھ وقت بھی بتا کر آنا چاہیے تھا، بات کرتے کرتے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا تو زرا رکا اور پھر سے اس لڑکی کی طرف دیکھا جو بغور دروازے کے پاس اٹک کر کھڑی پریہان کو دیکھ رہی تھی، اسے پکار کر بولا۔
”مس مزنہ آپ یہ سب پواٸنٹس نوٹ کر لیں اور ڈیزاٸننگ کی برانچ سے آج سات بجے تک میٹنگ ارینج کرواٸیں۔۔ اب آپ جا سکتی ہیں اور فی الحال آفس میں کسی کو مت بھیجیے گا۔۔“
سنجیدگی سے ہدایت دے کر لیپ ٹاپ کے پاس پڑی فاٸل بند کر کے اسے پکڑاتے ہوٸے اٹھا، وہ لڑکی بھی تیزی سے فاٸل لیتی سر ہلا کر آفس سے نکلی مگر نکلنے سے پہلے ایک حیران نظر پریہان پر ڈالی تھی۔۔
ڈارک بلیو جینز پر گھٹنوں تک آتی ڈھیلی سی گرے کلر کی شرٹ اور سر پر ہم رنگ سٹالر لیا ہوا تھا۔
پیروں میں سنیکرز اور ہاتھ میں چھوٹا سا کلچ، وہ کہیں سے بھی نا جاب ہولڈر لگ رہی تھی نا ہی کوٸی فیملی میمبر لگتی تھی۔۔ بہت سے زیادہ سمپل، رف اور عام سی لڑکی۔۔ اس کی حیرت پریہان کو بخوبی سمجھ آٸی تھی تبھی ناک چڑھایا۔۔
”آٸیے مس پریہان۔۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں یا آپ آج بھی جلدی میں ہیں۔۔“ سِٹنگ ایریا میں پڑے صوفوں میں سے ایک صوفہ پر بیٹھ کر وہ بولا تو لہجے میں طنز یا تمسخر نہیں تھا مگر پھر بھی وہ شرمندہ ہوٸی۔ آگے بڑھ کر ایک سنگل صوفہ پر بیٹھ گٸی۔
اس بار الجھن بڑھ گٸی، وہ بات کیسے کرے۔۔ کیا سیدھا صاف کہہ دے کہ اس کا منگیتر ہے یا نہیں۔۔ یا پوچھے وہ ہیلپ کیوں کرتا رہا کیا رشتہ ہے۔۔ مگر وہ بات پرانی ہو چکی تھی اور شرمندگی کا باعث بھی تھی، اس بات کو پھر سے چھیڑنا سہی نہیں تھا۔۔
وہ بات شروع کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈتی سوچ میں گم ہوٸی۔۔ وہ ایک خاموش نظر اس پر ڈالتا انٹرکام پر سینڈوچ اور کافی کا آڈر دینے لگا۔۔
”کیا آپ کی وہ ضرورت پوری ہو گٸی جس کے لیے پیسے چاہیے تھے۔۔؟“ کچھ دیر کی خاموشی کو اس نے سوال کر کے توڑا تو وہ خیال سے جاگی۔۔
”جی۔۔۔ نہیں میرا مطلب آپ کو بتایا تھا ناں مجھے پیسے نہیں چاہیے تھے۔۔ ایکچوٸیلی وہ بس ایک۔۔۔“
پریہان جس بات پر پچھلی مرتبہ ناک چڑھا کر گٸی تھی، بات وہیں آن رکی تھی۔۔ وہ لب کاٹتی شرمندہ سی بولتے ہوٸے چپ ہوٸی اور اسے دیکھا۔
وہ اب بھی سوالیہ نظر سے دیکھتا بات پوری ہونے کا منتظر تھا، وہ اندر ہی اندر زچ ہوٸی آخر وہ گزری ہوٸی بات کے لیے اتنا متجسس کیوں ہے۔۔
”وہ بس ایک گیم تھی۔۔ آٸی مِین ڈٸیر تھا۔۔“ اس نے خفت سے جواب دیا تو وہ لب بھینچ گیا۔۔
”گیم تھی؟ کسی اجنبی سے پیسے لینا۔۔ اور آپ میرے آفس تک آ گٸیں۔۔ اکیلی۔۔۔ بس ایک ڈٸیر کے لیے۔۔“
اس کے الفاظ اور سنجیدہ لہجے پر وہ شرمندہ ہوتی سر جھکا گٸی۔ اچھا ہی تھا کہ یہ غلط فہمی آج دور کر دے۔۔ پیون آفس کے دروازے پر ناک کرتا اندر آیا۔
ٹی۔ٹرالی میں رکھی ٹرے سے سینڈوچ اور کافی کے کپ ٹیبل پر رکھے اور پلٹ کر چلا گیا۔
”میں نے لنچ نہیں کیا، اس لیے یہ منگواٸے، آٸی ہوپ آپ جواٸن کریں گی۔۔“ کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ کر سینڈوچ بھی اس کے سامنے کیے۔
”نہیں تھینک یو۔۔ میں کافی نہیں پیتی۔۔“ اس بار وہ تہذیب سے انکار کر گٸی تھی۔۔ اب تو رشتہ بدل رہا تھا تو۔۔ اس نے بار بار اپنے دماغ میں جاگتی اس بات پر خود کو کوسا اور سر جھٹکا۔
”میں پی رہا ہوں تو آپ کو بھی پینی ہو گی۔۔“ وہ کپ اس کے سامنے کر کے تحکم بھرے انداز سے بولا۔
”دیکھیے آپ کو غلط فہمی ہوٸی ہے کہ میں ایسی چِیپ گیمز کھیلتی ہوں اور اجنبیوں سے پیسہ لیتی یا ملتی ہوں۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔ میری فرینڈ نے جو نمبر دیا تھا وہ ایک جاننے والے کا تھا اور مجھ سے وہ نمبر پتا نہیں کیسے ایکسچینج ہوا اور میں غلطی سے آپ کو میسجز کرتی رہی۔۔ مجھے جہاں جانا تھا وہاں میری فرینڈز آلریڈی موجود تھیں، مگر میں آپ کی بتاٸی لوکیشن پر آ گٸی، غلطی سے۔۔ اور اس لیے یہ سب۔۔ میں اکیلی کسی آفس یا کہیں بھی ملنے نہیں جاتی۔ نا ہی یہ میرا ہوبی ہے۔۔“ وہ یکدم ہمت کرتی تیزی سے بولتی جا رہی تھی، ہر جملہ میں دو لفظ غلطی سے۔۔ پر زور دے کر جتاتی گٸی۔ وہ سینڈوچ سے انصاف کرتا خاموشی سے سن رہا تھا۔ اس کی یہ بات اچھی تھی کہ وہ بات پوری اور شاید توجہ سے سنتا تھا۔۔
”آپ نے مجھ سے ٹکرانے پر معذرت کی تھی، وہ بھی غلط تھا۔۔ یا آپ سب سے ٹکراتی پھرتی ہیں۔۔؟ “
اس کے سوال پر وہ چونکی، تو کیا وہ ہر بات یاد رکھے ہوٸے تھا۔ پریہان کو جواب سمجھ نہیں آیا تو چپ رہی۔۔ ہاں ٹکراٸی تو وہ اس سے بھی تھی۔۔
”اوکے۔۔ اور اس سے پہلے آپ روڈ پر نابینا بنی ہوٸی تھیں۔۔
”وہ بھی۔۔ وہ بھی ڈٸیر تھا بس۔۔“ پریہان نے جلدی سے بات مکمل کی تو وہ ابرو اچکا گیا۔
”مجھ سے ٹکرانا ڈٸیر تھا۔۔؟ “ کافی کا گھونٹ بھر کر اطمینان سے پوچھا تو اس کا دماغ بھک سے اڑا۔
”نہیں بس بلاٸنڈ لوگوں کی طرح روڈ پر چلنا تھا مجھے۔۔ آپ باٸے چانس ٹکرا گٸے۔۔“ وہ وضاحت دیتی روہانسی ہو گٸی، اس بار سب وضاحت دینا پڑی، رشتہ بن رہا تھا اور ایسا نازک رشتہ کہ اس سب کو بنیاد بنا کر وہ ساری زندگی مشکل کر سکتا تھا۔ رشتہ افف۔۔ اپنے دماغ پر دو حرف بھیجے۔۔
”آپ کو نہیں لگتا کافی ڈرامیٹک کوانسیڈینس ہے۔۔ اندھے پن کے ڈٸیر میں آپ غلطی سے مجھ سے ٹکراٸیں اور اگلی بار اسی غلطی سے نمبر ایکسچینج ہوا اور شاید آج بھی غلطی سے آٸی ہوں گی۔۔“
وہ کافی کے گھونٹ بھرتا سکون سے بولا اور پریہان کو لگا وہ مسکرایا ہے۔۔ وہ مسکرا رہا تھا مگر اس کے دیکھنے پر مسکراہٹ دبا گیا۔۔ کیا وہ شک کر رہا تھا۔؟
پریہان کو اپنا آپ سچا ثابت کرنا مشکل ہو گیا۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔ وہ سب غلطی سے ہوا۔۔“
وہ سر جھکا کر پھیکے لہجے میں بولی۔ کافی کا کپ سامنے پڑا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ حدیر نے ایک نظر اس پر ڈالی، جیسے کوٸی بچہ غلطی پر نادم ہو، اداس ہو اور اپنے کیے کی وضاحت دینے کی ناکام کوشش پر پریشان ہو۔۔ ایسی ہی لگی تھی وہ اسے۔۔
”او۔کے۔۔ بہت برے کھیل ہیں آپ کی فرینڈز کے اور آپ کے۔۔ آپ کو یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔۔ کافی پٸیں۔۔“
وہ بےساختگی میں نرم لہجہ اختیار کر گیا تھا۔۔ بات بدل کر شرمندگی سے نکالا۔۔
پریہان نے جلدی سے کافی اٹھا کر سِپ لیا، کریم کافی تھی، سویٹ تھی اس لیے اچھی لگ رہی تھی، چھوٹے چھوٹے سپ لیتی چور نظر سے اسے دیکھتی رہی جو اپنی کافی پی رہا تھا، پرسوچ نظر کپ پر جمی تھیں۔
”کیا آپ انگیجڈ ہیں۔۔؟“ پریہان نے کافی سوچ بچار کے بعد یہی سوال مناسب سمجھا۔ سیدھا پوچھنا عجیب ہی لگتا۔۔ جواب سے ہی جواب مل جانا تھا۔۔
”نہیں۔۔“ ایک لفظ۔۔ اور سختی سے تردید کی۔ پریہان کے حلق میں کافی اٹک سی گٸی۔ جلدی سے کپ ٹیبل پر رکھ کر گلا کھنکارا اور اسے دیکھا۔
”آپ کو اب بتا دینا چاہیے۔۔ میرا مطلب اگر انگیجڈ ہیں تو چھپانے کی کیا بات ہے۔۔“ وہ بےاختیاری میں کہے پہلے جملہ پر اس کی حیرت پر وضاحت دینے لگی۔۔
”انگیجڈ نہیں ہوں مس پریہان۔۔ اگر ہوتا تو واقعی چھپانے کی کوٸی بات نہیں تھی۔۔“
اس کے جواب پر پریہان کا سکون غارت ہوا۔ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا، چہرے پر صاف لکھا تھا وہ سچ بول رہا ہے۔۔ پریہان کا خفت سے چہرہ سرخ ہوا۔
وہ ایک شک کی بنیاد پر یہاں تک آٸی اور اتنی وضاحتیں دیں۔۔ کافی تک پی لی اور دماغ میں بار بار رشتہ، رشتہ کی رٹ۔۔ وہ وہی اجنبی نکلا۔۔ بلکہ وہ تو منال کا حدیر تھا۔ اس نے اپنی سوچ پر لعنت بھیجی۔
”کیا آپ مجھ میں انٹرسٹڈ ہیں مس پریہان؟“
اس کے چہرے کے اتار چڑھاٶ کا بغور جاٸزہ لیتا وہ اس کی طرف آگے ہو کر سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ ڈاٸریکٹ ہی پوچھ لیا، اتنا صاف گو۔۔ اتنا سیدھا۔۔
”ن۔۔نہیں۔۔ ایسا نہیں ہے میں تو۔۔ بس نارمل سوال۔۔“
پریہان نے نفی میں سر ہلایا، اپنی بےوقوفی پر آنکھیں بھرنے لگیں۔۔ چہرہ نم ہو گیا۔۔
”تو بس آپ یہی پوچھنے آٸی تھیں کہ میں انگیجڈ ہوں یا نہیں۔۔؟“ اس نے نتیجہ اخذ کر کے سر ہلایا۔ جیسے اوکے سہی سمجھ گیا۔۔ اور جانے کیا سمجھا تھا وہ۔۔
اس نے اتنی شرمندگی زندگی میں پہلی بار محسوس کی تھی۔۔ اسے لگ رہا ہوگا پریہان اسے پسند کرنے لگی ہے، وہ انگیجڈ تھی اور اب تو شادی ہونے والی تھی اور وہ کیا غلط فہمی پیدا کر گٸی۔۔ منال کو پتا چلا تو۔۔ اتنے دن بعد پھر سے منال کا خوف سر پر سوار ہوا۔۔ وہ تیزی سے اٹھی۔ اسے شادی کا بتانے کے لیے رکنا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آٸی رک کر کیا کہے۔۔ شادی کا بتاٸے یا انواٸٹ کرے یا پھر۔۔
”اب چلنا چاہیے مجھے۔۔ کافی۔۔لیٹ۔۔“ بوکھلاہٹ میں وہ بس اتنا ہی بول پاٸی تھی، وہ خاموش نظروں سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔ عجیب انسان تھا، بات کرتا تھا تو لگتا تھا بہت قدر کرتا ہے مگر جب وہ اٹھ کر آتی تھی تو پیچھے سے روکتا تک نہیں تھا۔۔
وہ تیزی سے باہر نکل گٸی، حدیر پرسوچ نظروں سے اس کے چھوڑے کافی کے آدھے کپ کو تکنے لگا۔
وہ آٸی کیوں تھی؟ اور انگیجڈ نا ہونے میں ایسا کیا برا تھا کہ وہ بھیگتی آنکھیں چھپا کر چلی گٸی۔۔
وہ اسے نہیں سمجھ پا رہا تھا مگر وہ اسے بہت الگ اور الجھی ہوٸی سی لڑکی لگتی تھی۔۔ پہلی ملاقات سے لے کر آج کی ملاقات تک۔۔ اچھی لڑکی تھی۔۔
سادہ۔۔ معصوم۔۔ الجھی ہوٸی اور کچھ پریشان سی۔۔ وہ اسے ہر بار متوجہ کر رہی تھی۔۔ ہر بار پہلے سے زیادہ دلچسپ لگ رہی تھی۔۔
>>>>>>>----------Y.E---------->>>>>>
”ایک لڑکی اچھی لگتی ہے مجھے۔۔ بہت پیاری لگتی ہے۔۔“ وہ نیلی چمکتی آنکھوں میں خوش نما تصور لیے بول رہا تھا۔ لیپ ٹاپ پر جھک کر اساٸنمنٹ تیار کرتے خانزادہ نے اس اچانک بےموقع بات پر منہ بنایا۔
”اچھا۔۔ شادی کر لو۔۔ پڑھ کر کیا کرنا ہے۔۔“ اس نے ویسے ہی بگڑے، سوجھے ہوٸے منہ کے ساتھ مشورہ دیا۔
”جگر وہ چھوٹی ہے تھوڑی۔۔۔“ اس نے سر کھجا کر تھوڑا شرمندگی سے بتایا۔
”کتنی چھوٹی۔۔؟ فیڈر پیتی ہے؟ یا ابھی بیٹھنا سیکھا ہے؟“ خانزادہ نے قہقہہ لگایا، مذاق اڑانے لگا۔۔
”مجھ سے۔۔ مجھ سے تو چھوٹی ہے کافی۔۔ “ اس نے سرد آہ بھری جیسے مایوس ہو مگر لبوں پر مسکراہٹ مچل رہی تھی، تصور میں جو چہرہ تھا وہ اداس ہونے ہی نہیں دیتا تھا۔۔ خانزادہ چونک گیا۔
”کوٸی بات نہیں۔۔ کتنی چھوٹی ہے۔۔؟ “ اس نے لیپ ٹاپ پرے کھسکا کر اس کے قریب ہوتے ہوٸے پوچھا۔
”بس اتنی تو ہے کہ تمہیں نہیں بتا سکتا۔۔“ وہ کندھے اچکا کر بات گھما گیا۔ خانزادہ نے اسے گھورا۔
”موسٰی۔۔ بتاٶ ناں کون ہے۔۔ منگنی کر لو شادی اس کے بڑے ہونے پر کر لینا۔۔“ اس سے پوچھتے ہوٸے شرارت سے مشورہ دیا۔ موسٰی کھلکھلایا۔
”بہت پیاری ہے۔۔ منگنی کی تو شادی کے لیے دل ضد کرے گا۔۔ بہت پیاری ہے جگر۔۔“ اس نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوٸے جیسے اسے سوچتے ہوٸے جوش سے آنکھیں میچیں۔۔ خانزادہ سمجھ نہیں پایا وہ اسے پیاری ہے یا شکل سے پیاری ہے۔۔ منہ بنا کر پیچھے ہوا۔
”ڈگری کمپلیٹ کر لو۔۔ پھر پیاری بچیوں سے دل لگانا۔۔ اور دیکھو ہماری بھی بہنیں ہیں تو پلیز یہ چھوٹی لڑکیوں کو گندی نظر سے دیکھنا چھوڑ دو۔۔“
خانزادہ نے ناک چڑھا کر اسے سمجھایا۔ وہ شاکڈ ہوا۔
”تمہیں لگتا ہے میں چھوٹی لڑکیوں کو۔۔ گندی نظر۔۔ دماغ خراب ہو گیا ہے، محبت کرتا ہوں، اور اس سے کہیں زیادہ عزت بھی۔۔ اس لیے ہونٹوں پر نام تک نہیں لایا۔۔ تم تو محبت سے بھی ناواقف ہو۔۔“
موسٰی کو صدمہ پہنچا تھا۔۔ بولنے پر آیا تو بولتا چلا گیا۔۔ مسکراہٹ دبا کر سنتے خانزادہ نے بےنیازی سے کندھے اچکاٸے اور موسٰی اسے دھکا دے کر بیڈ پر گراتا اوپر چڑھا۔۔ اگلے ہی لمحے مردان خانے میں ان کا شور گونج اٹھا تھا۔ خانزادہ کی مصنوعی چیخ و پکار پر آغا جان بیٹھک چھوڑ کر بھاگتے ہوٸے آٸے تو سامنے وہ موسٰی پر چڑھا اس کا حلیہ بگاڑ چکا تھا مگر اب بھی چیخ ایسے رہا تھا جیسے اس پر ظلم ہو رہا ہو۔۔
”یہ کیا ہو رہا ہے۔۔ کچھ عقل کرو خان۔۔“ آغا جان نے انہیں ٹوکتے ہوٸے خانزادہ کو موسٰی سے دور کیا۔
”آغا جان یہ چھوٹی لڑ۔۔“ وہ آغا جان کے سامنے منہ کھول رہا تھا جب موسٰی نے اس کا منہ سختی سے بند کرواتے اپنی طرف کھینچا۔۔
”سوری آغا جان۔۔ آپ جاٸیں اب آواز نہیں آٸے گی۔۔“
موسٰی کی معذرت پر وہ سر جھٹکتے لوٹ گٸے۔۔
”اوٸے خان کے بچے۔۔ خبردار تم نے کسی کو بھی یہ بات بتاٸی تو۔۔“ آغا جان کے جاتے ہی موسٰی نے گھور کر اسے وارن کیا اور وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔ چھوٹی لڑکی۔۔ پیاری لڑکی۔۔ آہ موسٰی خان آہ۔۔
اس نے جانے کتنے دن موسٰی کو ہر جگہ سب کے سامنے چھیڑا تھا، وہ شرمندہ سا کہانیاں گھڑتا اسے گھور کر رہ جاتا تھا۔۔
خانزادہ اسے اظہار پر اکساتا تھا، شاید وہ مان گیا تھا۔۔ شاید اظہار کیا تھا۔۔ شاید وہ چھوٹی لڑکی نہیں مانی یا جانے کیا ہوا تھا مگر ایک دن موسٰی بہت چپ چپ سا ہو گیا تھا اور پہلے جیسا نہیں ہو پایا تھا۔۔
----------
وہ دروازے پر ہوتی دستک پر ماضی سے نکلا تو آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔ آنکھوں کو مسل کر اس نے آنے والوں کو اجازت دی اور رخ موڑ کر ٹیبل پر پڑے کچھ کاغذات کو الٹ پلٹ کر مصروف ظاہر کیا۔
”ابھی تک جاگ رہے ہو خانزادہ۔۔“ خان آزر کی آواز پر وہ چونک کر پلٹا۔
”ہمم۔۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔۔ آپ کیوں آٸے؟“ اس کے سپاٹ لہجے پر خان آزر نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”تمہارے روم کی لاٸٹ آن دیکھی تو چلا آیا۔۔ دیر تک مت جاگا کرو بیٹا۔۔ سارا دن بزی رہتے ہو، نیند پوری نہیں کرتے۔۔ اپنی صحت دیکھو۔۔ کمزور ہو گٸے ہو۔۔“
ان کی فکر پر وہ سر جھٹک کر تمسخر سے مسکایا۔۔
”گھر میں سکون نہیں ملتا تو نیند کیسے آٸے گی۔۔ آپ کا ونی ہو کر آٸی بیوی سے بےجان چیز جیسا رویہ۔۔ اہنی ہی بیٹی کے ساتھ اجنبیت اور بےرخی۔۔
آغا جان کی مہربانی سے جڑا ایک ان چاہا رشتہ۔۔ ایک ہی دوست تھا موسٰی۔۔ وہ بھی بےحس نکلا۔۔
نیندیں سکون کی علامت ہیں یہاں سکون ہی نہیں۔۔“
وہ کاغذ پٹختا ان کے سامنے آ کر بولا، نیلی آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا۔۔ چہرے پر ضبط کی سرخی تھی۔
”خان۔۔ آغا جان نے کہا ہے ناں وہ سب سنبھال لیں گے۔۔ اور موسٰی پریشان تھا، غمزدہ تھا۔۔ اب رابطہ کیا ہے ایک دن لوٹ بھی آٸے گا۔۔ “ خان آزر نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر نرمی سے کہا۔ اس کی نم آنکھیں اور عجیب بکھرا ہوا سا حلیہ انہیں تڑپا گیا۔
”گل جان اور زرشے کا کیا۔۔؟ بہت فکر ہے ناں میری؟ وہ دونوں انسان نہیں ہیں کیا۔۔“ وہ بالکل نرم نہیں پڑ رہا تھا۔ سرد سا انہیں تکتا رہا۔
”کیا نا انصافی کی ہے ان کے ساتھ۔۔ زرشے پلوشہ کے ساتھ پڑھ رہی ہے، اچھا کھا پی رہی ہے اور کیا چاہیے خان۔۔ گل جان۔۔ گل جان میری بیوی ہے، بچوں کی ماں ہے اور۔۔ ”اور بس۔۔ نہیں ہے بیوی۔۔ میں سب جانتا ہوں، دو بیٹوں کے بعد بھی پورے گھر کا کھانا بنا کر زرا سی غلطی پر مار کھاتی تھیں۔۔ وہ بہروز خان۔۔
کون ہے آخر۔۔ بس آغا جان کا دوست۔۔ اس کی بیٹی کی شادی جس میں آپ کی خاندانی بیوی وی۔آٸی۔پی گیسٹ کی طرح گردن اکڑا کر بیٹھی تھیں وہاں وہ دو دن پہلے گٸیں تاکہ کام کرواٸیں۔۔ کیوں کہ ونی ہوٸی لڑکی تھیں۔۔ یہ ہوتی ہے بیوی۔۔؟ زرشہ کو دیکھ کر نخوت سے رخ موڑ لیتے ہیں اسے کہتے ہیں بیٹی۔۔؟“
وہ آج پھر ضبط کھو چکا تھا۔۔ بات بات پر لڑ رہا تھا، برسوں پہلے کی باتوں پر اب صبر نہیں کر پا رہا تھا۔۔
خان آزر ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگے، وہ جس شادی کا زکر کر رہا ہے تب تو وہ بس چند سال کا بچہ تھا۔۔
اسے کیسے خبر ہوٸی اور جانے کیا کیا جانتا تھا۔۔
”خانزادہ پرسکون رہو۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔ اب ایسا کچھ نہیں، پریشان مت ہو۔۔“ وہ اسے پرسکون کرنے لگے، وہ غصہ میں چیخ پڑا تو سب جاگ جاتے۔۔ آغا جان نے عدالت سجا لینی تھی، وہ بولنے پر آٸے تو رکتا ہی نہیں تھا، ایسا سر پھرا تھا وہ۔۔
”کیسا نہیں ہے۔۔ اندھا نہیں ہوں۔۔ گل جان کا خوف اور چھپنا۔۔ زرشہ کا سب سے الگ رہنا۔۔ سب دیکھ رہا ہوں۔۔ گل جان نے عمر گزار دی مگر میری بہن ہے زرشہ، اس کے ساتھ ناانصافی ہوٸی تو اس حویلی کے کسی ایک فرد کو جینے نہیں دوں گا چین سے۔۔“
اس کی سرد بھاری آواز پر خان آزر دو قدم پیچھے ہوٸے، اجنبی سا لگ رہا تھا وہ۔۔ جانے کیوں ضبط کھو بیٹھا تھا اب۔۔ انہیں فکر بھی ہوٸی اور ڈر بھی لگا۔۔
”چلے جاٸیں۔۔ یہاں سے جاٸیں آپ۔۔ اگر امن چاہتے ہیں تو میں دوبارہ کوٸی ناانصافی نا دیکھوں۔۔ بہت برداشت کر لیا اب اور نہیں۔۔۔ سب سکون سے رہیں تو میں بھی سکون سے رہوں گا ورنہ کوٸی بھی سکون سے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔۔
ایسے ہی چیخوں گا اور ایسے ہی سوال کروں گا۔۔“
وہ باپ کو وارن کر گیا۔ دھمکی دے رہا تھا۔۔ جھٹکے سے مڑا اور واش روم میں بند ہو گیا۔۔
خان آزر پریشان سے کمرے سے نکل گٸے، وہ شاور لے کر نکلا، اے۔سی کی کولنگ بڑھا کر بنا کمفرٹر کے بیڈ پر ترچھا گر گیا۔ نیند نے اب آ ہی جانا تھا اپنی بھڑاس جو نکال لی تھی، اب ٹھنڈا ہو گیا تھا۔۔۔
>>>>>>----------Y.E---------->>>>>
وہ شاپنگ مال میں بےمقصد سا گھوم رہا تھا، آیا تو شرٹس لینے تھا مگر اب یہاں آ کر دماغ خالی سا ہو رہا تھا۔ موباٸل پر آتی کالز نے اس کے ضبط کی دہی بنا دی تھی۔۔ ہاتھ میں سختی سے موباٸل دبوچے وہ کالز سن کر ان سنی کرتا یہاں وہاں گھومتا خود کو مصروف ظاہر کر رہا تھا۔۔
آٸرہ مال کے فوڈ کوٹ سے نکلی تو ساتھ سے گزرے لڑکے پر اسے عیسٰی خان کا گمان ہوا۔
پلٹ کر دیکھا تو وہ کچھ ہی آگے موباٸل کو خالی نظر سے دیکھتا لب بھینچے کھڑا تھا۔۔ سکاٸے بلو گھٹنوں سے کٹی ہوٸی جینز پر واٸٹ ٹی شرٹ پہنے وہ اچھا خاصہ قابل توجہ لگ رہا تھا۔۔
وہ مسکرا کر اس کی طرف بڑھتی اس سے ایک قدم دور رک گٸی۔ وہ موباٸل کان سے لگا چکا تھا۔
”بات کر لو اب تو۔۔ اتنے ظالم کب سے ہو گٸے ہو۔۔ مار ڈالو گے کیا اب مجھے۔۔ کس کس کو مناٶں میں۔۔ میری غلطی بس اتنی ہے کہ کچھ وقت خود کو سنبھالنے کے لیے لیا تھا بس۔۔“ بےتاب آواز سپیکر سے نکلتی اس کی سماعتوں میں گٸی تو وہ لب کاٹنے لگا۔
”وقت لیا کب تھا۔۔ سزا دی تھی۔۔ اپنی تکلیف کو دوسروں پر لوٹانا کوٸی آپ سے سیکھے۔۔ کوٸی آپ سے بچھڑے تو آپ سب سے بچھڑ جاٸیں، اچھی بات سکھاٸی ہے۔۔“ عیسٰی نے اجنبی لہجے میں بولتے ہوٸے آنکھوں کی نمی کو آنکھیں میچ کر چھپایا۔
”معاف کر دو۔۔ پلیز معاف کر دو۔۔ سکون کی تلاش میں نکلا تو پتا چلا سکون نہیں سزا لینے آیا ہوں۔۔
اکیلے نہیں رہا جا رہا۔۔ اندر سے خالی ہوتا جا رہا ہوں۔۔“
عیسٰی ان جملوں پر تڑپ سا گیا۔۔ بےچینی سے ٹہلتا خود کو لاپرواہ بنانے کی کوشش کرتا ٹوٹ سا گیا۔
”واپسی کا دروازہ کھلا ہے۔۔ یو مسٹ کم بیک ہوم۔۔“
وہ سپاٹ لہجے میں بولا، دل چاہا رو کر درخواست کرے مگر ابھی وہ غصہ تھا۔ ابھی ناراضگی باقی تھی۔۔ معافیاں اتنی آسانی سے کہاں ملتی ہیں۔۔
”آنا ہی ہے۔۔ بس کچھ وقت چاہیے۔۔ خود کو جو بگاڑا ہے سدھار لا کر لوٹنا زیادہ اچھا ہو گا۔۔ اجڑی ہوٸی پرانی شخصیت شاید سب کو تکلیف دے۔۔ شاید ناراضگی بڑھا بیٹھوں۔۔“ مدھم سے لہجے میں کہی بات نے عیسٰی کو اندر سے جیسے کاٹا تھا۔ اس تکلیف میں وہ ساتھ دینا چاہتا تھا، تسلی دیتا، دلاسہ دیتا، سہارا بنتا۔۔ غم اکیلے میں کب ختم ہوتے ہیں۔۔ اب اجاڑ پن کا سن کر اسے بےچینی ہوٸی جانے کیسے یہ سارا وقت اکیلے گزرا ہو گا۔۔ جب کسی اپنے کے تسلی بھرے دو بول تک نا سننے کو ملے ہوں، جب صرف اپنے پچھتاووں پر رونا ہو اور جب کوٸی یہ کہنے والا نا ہو کہ سب ٹھیک ہے، ہو جاتا ہے۔۔ تم نے کوشش کی تھی۔۔ تم غلط تھے مگر مداوا کیا تھا۔۔
”عیسٰی۔۔“ نرم پکار پر وہ ہمہ تن گوش ہوا، حالانکہ جانتا تھا یہ لب و لہجہ اور پکار کس فریاد کے لیے ہے۔
”اس سے کہو ناں بات کرے۔۔ ترس کھا لے مجھ پر۔۔ معافی مانگنی ہے۔۔ بہت سی باتوں کی، بہت غلطیوں کی۔۔ اس سے کہو معاف کر دے ورنہ شاید کبھی سنبھل نا پاٶں۔۔ دو لفظ تسلی کے بول دے۔۔“
اس فریاد پر عیسٰی چپ سا ہو گیا۔ پتھروں پر شاید قطرے گرتے رہنے سے سوراخ ہوتا ہو گا مگر انسان جب پھر ہو جاٸے تو وہی قطرہ بھی نہیں پڑنے دیتا۔۔
جو ایک بار ٹھان لے نرم نہیں پڑنا وہ پھر موقع بھی نہیں دیتا نرم پڑنے کا۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔۔
”آپ کے لیے ہمیشہ وہی پہلے نمبر پر ہیں۔۔ ہمیشہ سے ہی۔۔ آج بھی۔۔ اور آج کے بعد بھی۔۔ ہماری تسلی، ہماری پکار آپ پر اثر نہیں کرتی ناں۔۔؟ آپ کی درخواست پہنچاٸی تھی میں نے۔۔ جانتے ہیں پھر کیا ہوا؟ پھر یہ کہ مجھے بھی دیکھنا ملنا چھوڑ دیا گیا۔۔۔ پتھروں سے سر ٹکرانے والے آپ جیسے ہوتے ہیں موسٰی خان۔۔ ہماری ضرورت ہو تو آ جاٸیے گا ہو سکتا ہے اس کے بدلے معافی مل جاٸے۔۔ خداحافظ۔۔ “
وہ ہر بار ایسے ہی بھڑک جاتا تھا، آج بھی برداشت نہیں کر پایا۔۔ بھڑاس نکال کر کال کاٹ دی۔ اس سے پہلے کہ وہ غصے سے وہی موباٸل دیوار پر دے مارتا آٸرہ نے آہستگی سے پکارا، وہ ٹھٹک کر پلٹا۔
”تم یہاں کیسے۔۔“ وہ اتنی سنجیدگی سے بولا کہ آٸرہ کو لگا شاید ابھی اسے بھی ڈانٹ دے گا۔
”م۔۔ میں تو بس شاپنگ کے لیے آٸی تھی، آپ کو دیکھا تو۔۔ او۔کے میں چلتی ہوں۔۔“ وہ ہڑبڑا کر وضاحت دیتی جلدی سے بولی اور پلٹنے لگی۔
”آٸسکریم کھاٶ گی۔۔؟“ وہ اچانک بولا تو آٸرہ حیران ہوٸی۔۔ اسے ہر وقت آٸسکریم ہی کیوں چاہیے ہوتی ہے۔۔ تھینکس کے جواب میں دی چاکلیٹس ریجیکٹ کر کے کافی کی فرماٸش کی تھی اور ہر بار ملنے پر آٸسکریم کھا کر چل پڑتا تھا۔۔ وہ سر ہلا گٸی۔
وہ کافی کا نہیں کہہ پایا، کہہ دیتا تو بات ہی ختم ہو جاتی۔۔ پھر کوٸی ادھار نا رہتا اور عیسٰی خان بغیر کسی وجہ کے کیسے ملتا پھر۔۔۔۔؟
>>>>>----------Y.E---------->>>>>>
”ریم نے تمہاری شادی کا بتایا۔۔ ہم نے سوچا مل کر ہی پوچھیں۔۔ اتنی اچانک شادی؟ ایسا بھی کیا ہوا؟ کہیں پراٸیویٹ میٹنگ تو نہیں کی جو وہ پاگل ہوا جا رہا ہے شادی کے لیے۔۔“ منال ہنس کر آنکھ مارتی پوچھ رہی تھی، پریہان نے بےچارگی سے تینوں دوستوں کو دیکھا۔
وہ سپیشل گھر ملنے آٸی تھیں، ان کا آنا تو اچھا لگا تھا مگر اب ان کے سوالات اسے پریشان کر گٸے۔
”نہیں ایسا نہیں۔۔ پریسہ آپی نے کہا وہ سٹیبل ہے اس لیے شادی کرنا چاہ رہا ہے، میں سٹڈیز کانٹینیو رکھوں گی۔۔“ اس نے مناسب جواب دے کر وال کلاک میں ٹاٸم دیکھا۔ پروا کا آج پہلا پیپر تھا، اس کے آنے کی منتظر تھی وہ۔۔ جتنی وہ ڈسٹرب تھی جانے کیسا پیپر ہو اس کا۔۔ آنی اسے لینے گٸی ہوٸی تھیں۔۔
”چلو اچھا ہے۔۔ شادی کی تیاری ہو گٸی یا رہتی ہے۔۔؟“ مرحا نے سر ہلا کر بیڈ پر پھیلے ڈریسز دیکھتے ہوٸے سوال کیا۔
”بس یہی لیے ہیں، باقی سب ہو گیا ہے، براٸڈل اور مہندی کا ڈریس لینا ہے، شادی کے انتظامات تو انکل کر ہی چکے آلموسٹ۔۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے انکل نے ڈیٹس فاٸنل ہونے س بھی پہلے تیاری شروع کر دی تھی۔۔“ سب کی جلد بازی پر وہ بیزاری کا اظہار کرتی اپنے ڈریسز دیکھنے لگی، سٹاٸلش اور کچھ ہیوی سے۔۔
براٸٹ کلرز تھے، اس نے ایسی ڈریسنگ کبھی پسند نہیں کی تھی، اب جانے کیسے پہنے گی وہ۔۔
”سنو حدیر سے ملی ہو دوبارہ۔۔؟ “ منال نے اچانک سوال کیا تو وہ گڑبڑا گٸی۔ وہ دوست تھا منال کا، یقیناً بتایا ہو گا اس نے۔۔ اور نجانے کیا بتایا ہو۔۔
”عجیب ہو یار۔۔ وہ کیوں ملے گی، پہلے بھی غلطی سے ملی تھی، ہم سب جانتی ہیں اس پر تمہارا کسی مافیا جیسا قبضہ ہے تو تم پریشان مت ہو، ہان کو اس سے ملنے کی ضرورت نہیں۔۔ شی از انگیجڈ اینڈ ناٶ گوٸنگ ٹو بی میریڈ۔۔“ ریما نے چڑ کر جواب دیا۔۔ اس حدیر نامہ سے وہ کچھ زیادہ ہی اکتا چکی تھی۔ پریہان نے تشکر بھری نظر سے اسے دیکھا جو لاعلمی میں اسے مصیبت سے نکال چکی تھی۔۔
”کم آن ریم ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔۔ اتنا آکورڈ فیل کروا رہی ہو مجھے۔۔ خیر پریہان شاپنگ کے لیے ضرورت ہو تو مجھے کال کرنا۔۔ یو نو میں بہت اچھی ڈیزاٸنر کو جانتی ہوں۔۔“ منال نے ریما کو ناراضگی سے دیکھ کر کہا اور پریہان کی طرف متوجہ ہوٸی۔
”تم اتنی اپ سیٹ کیوں ہو۔۔ بس شادی ہی تو ہے، ریلیکس رہو۔۔ اتنی ڈل لگ رہی ہو، تم ایسے بی۔ہیو کرو گی تو پروا بھی انجواٸے نہیں کر پاٸے گی۔۔“
مرحا نے اسے نرمی سےسمجھایا تو وہ زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر لےآٸی، گاڑی کے ہارن پر پھرتی سے اٹھ کر بھاگی، دروازے پر پروا تھی جس کا جگمگاتا چہرہ بتا رہا تھا پیپر اچھا ہی ہوا ہے۔
شام تک منال وغیرہ گٸیں تو وہ کافی نارمل ہو چکی تھی۔۔
گھر میں پریسہ کے آنے سے رونق لگی ہوٸی تھی، اس کے بچوں نے دونوں خالاٶں کو ایسا مشغول کیا تھا کہ وہ سب بھول گٸیں، پُروا نے بہت مشکل سے ایگزامز کے دن نکالے تھے۔۔ فری ہوتے ہی وہ تھی اور بچے۔۔
اس وقت بھی وہ ایک سالہ عفرا کو گود میں بٹھاٸے تین سالہ کیف کی دنیا جہان کی باتیں چمکی آنکھوں سے سن رہی تھی، ایک نہیں دونوں اسے چاہیے تھے، وہ سارا دن ان دونوں کو لیے لیے پھرتی تھی۔ نا پریہان کو موقع دیتی تھی نا ان کی ماں کو۔۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ دونوں بھی اس چھوٹی سی خالا کے ساتھ کافی خوش تھے۔۔
”پریہان۔۔ خوش ہو ناں؟“ پریسہ نے مسکرا کر ان تینوں کی طرف دیکھتی پریہان کو دیکھ کر سوال کیا۔ ان کے پاس ہی آنی بیٹھی مایوں کا ڈریس دیکھ رہی تھیں جو آج ہی آیا تھا۔۔
”اب خوش ہی ہونا ہے، میری سٹڈیز اگر پوری ہونے دیتے تو حرج بھی نہیں تھا۔۔“ پریہان نے منہ بنا کر شکوہ کیا، آنی نے بےچارگی سے اسے دیکھا۔
”وہ لوگ پوری کرواٸیں گے ناں پریہان۔۔ اب اس بات کو وجہ بنا کر بیزار صورت بناٸے رکھو گی تو اچھا نہیں لگے گا ان سب کو۔۔ اور تمہارا کیا امپریشن پڑے گا۔۔“ پریسہ نے اسے خفگی سے ٹوکا۔
”اس کی ساس سے بات کی ہے وہ لوگ پڑھاٸیں گے، اتنے اچھے لوگ ہیں، نرم مزاج ساس ہے، اور نندیں اتنی دوستانہ رویہ رکھتی ہیں۔۔ بیٹا گھرانہ اور ماحول بہت میٹر کرتا ہے، صرف لڑکا سب کچھ نہیں ہوتا۔۔ اسی مجبوری کو لے کر میں نے بھی انکار نہیں کیا۔“ آنی نے نرمی سے اسے سمجھایا تو وہ سر ہلا گٸی۔ ہاں سسرال والے تو جیسے ملتے تھے لگتا تھا ساری عمر پلکوں پر ہی بٹھاٸے رکھیں گے، نرم مزاج اور خوش اخلاق۔۔
”یہی تو سمجھاتی ہوں۔۔ ماما نے کچھ تو دیکھا ہی تھا، میں شکر ہے اتنی پرسکون زندگی گزار رہی ہوں اب تو کوٸی گلٹ نہیں، میں تو اب بس پُروا کا سوچتی ہوں، میں نے سوچا تھا ساتھ لے جاٶں گی مگر پروا نے صاف انکار کر دیا ہے، آنی اب کالج جانے والی ہو جاٸے گی، ہو سکتا ہے پرپوزلز آٸیں تو پلیز ایسا نہیں کیجیے گا کہ پڑھ رہی ہے، چھوٹی ہے وغیرہ۔۔ اور نہیں تو انگیجڈ کر دیں گے۔۔“ پریسہ نے ایک بار پھر سامنے بیٹھی پروا کو دیکھا جو صرف پریہان کی وجہ سے اب تک لاپرواہ حلیہ اپناٸے بچی بنی رہتی تھی۔
”ایک منٹ۔۔ صبر رکھ لیں آپ۔۔ پروا کا نام بھی نا لیں ابھی۔۔ اتنی چھوٹی ہے وہ۔۔ ابھی سکول ختم ہوا ہے، اوہ گاڈ توبہ ہے آپ لوگ سے تو۔۔“ پریہان ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بل ڈالے آنی اور پریسہ کو منع کر گٸی۔
”ہاں تو شادی کون کر رہا ہے، بس رشتہ ہی کریں گے۔۔“
پریسہ نے بھی اسی کی طرح ناک چڑھا کر کہا اور آنی سے بات کرنے لگی جبکہ پریہان مزید بحث بھلاٸے حیران نظر سے موباٸل پر آتی کال کی طرف متوجہ ہوٸی۔۔ اس کے منگیتر کی کال تھی۔۔ وہ منگیتر جو اتنے وقت سے غاٸب تھا اور میسج کالز تک اگنور کرتا رہا تھا۔ اس کا جی چاہا اٹینڈ نا کرے مگر تجسّس کے ہاتھوں مجبور ہو کر موباٸل کان سے لگایا اور اٹھ کر ساٸیڈ پر ہو گٸی۔۔
”ہیلو۔۔ پریہان۔۔؟“ مردانہ سنجیدہ آواز پر وہ متوجہ ہوٸی۔
”جی میں بول رہی ہوں۔۔“ وہ بھی سنجیدگی سے بولی، لہجہ سپاٹ سا تھا۔۔
”آپ مجھ سے مل سکی ہیں پلیز۔۔ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔“ وہ اچانک ملتجی لہجے میں بولا۔
”ایکسکیوزمی۔۔ ایسی کیا ضروری بات ہے؟ جب میں آپ کو میسجز کرتی رہی تو آپ دیکھ کر بھی انجان بنے رہے، آج آپ کو ضروری بات کے لیے ملنا ہے وہ بھی شادی کے کچھ وقت پہلے۔۔ معذرت اب شادی کے بعد ہی بات ہو گی۔۔“ وہ دانت کچکچا کر بدلحاظی سے بولی۔۔ وہ جو حدیر سے نرم لہجے میں بولتی، وضاحت دیتی بس بننے والے رشتہ کا سوچتی رہی تھی اب سب بھلاٸے پھاڑ کھانے کو دوڑی۔۔
”میں تب آپ کو جواب دینے کے قابل نہیں تھا، اب ہوں۔۔ میری بات کو سمجھیں یہ بہت ضروری ہے۔۔ شادی سے پہلے پہ بتانا چاہتا ہوں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاٸے، پلیز انکار مت کیجیے گا۔۔“ وہ عجیب سے لہجے میں بول رہا تھا۔۔ پریہان کو چھٹی حس نے کچھ بہت غلط ہو جانے کا اشارہ دیا تھا۔
”او۔کے۔۔ کہاں ملنا ہے۔۔“ نا چاہتے ہوٸے بھی مان گٸی، دل بےچینی سے دھڑک اٹھا تھا۔ وہ ملنے کی جگہ بتا رہا تھا، کوٸی آٸسکریم پالر تھا۔۔ پریہان نے نوٹ کر کے کال بند کر دی۔ کل اس نے مایوں بیٹھ جانا تھا، آنی نے پہلے ہی منع کر دیا تھا کہ مایوں کے بعد نا وہ باہر جاٸے گی، نا زیادہ ملنا جلنا کرے گی۔۔
مگر اس ملاقات کے لیے حامی بھرنا پڑی، اسے ملنا ہی تھا اس سے۔۔ جانے وہ کیسا دکھتا ہو گا اور کیا کہنے والا تھا۔۔ جانے اب کیا ہو گیا تھا۔۔
وہ لب کاٹتی سوچ میں گم دوبارہ سے ان سب کے پاس جا کر بیٹھی۔۔ ننھا کیف ماں کے موباٸل پر انگلش سونگ لگاٸے ڈانس کر رہا تھا اور اس کے الٹے سیدھے عجیب سٹیپس پر پروا تالیاں پیٹ رہی تھی۔
وہ غاٸب دماغ سی سب کے درمیان بیٹھی رہی۔
>>>>>>-----------Y.E---------->>>>>>
”مورے۔۔ آپ سے ایک بات کہوں۔۔؟“ خانی بیگم کی گود میں سر رکھے خانزادہ نے اچانک سوال کیا۔ اس کے نرم بالوں میں پیار سے انگلیاں چلاتیں خانی بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا آپ مورے گل سے نفرت کرتی ہیں۔۔؟“ اس کے سوال پر ان کا ہاتھ رک گیا۔ وہ ان کا بیٹا تھا، اکلوتا اور لاڈلا بیٹا، انہیں دنیا میں سب سے زیادہ وہ عزیز تھا مگر ہر وقت وہ گل جان کی فکر میں گھلتا انہیں بےچین کرتا تھا۔۔
”ہممم۔۔۔ پسند کرنے کے قابل کیا ہے؟ مگر ہاں میں نفرت بھی نہیں کرتی۔۔“ وہ صاف گوٸی سے بولیں۔۔ اس نے آنکھیں کھول کر ان کا چہرہ دیکھا۔ بہت خوبصورت نقوش اور سفید چمکتا رنگ۔۔ حویلی میں سب سے زیادہ عزت اور خاندانی وقار، مہنگا لباس اور اچھے بیک گراٶنڈ کی رونق چہرے پر تھی۔۔
”آپ ویل ایجوکیٹڈ ہیں، اونچے خاندان کی بیٹی اور بہو ہیں، عزت بھی ہے، پھر بھی مورے۔۔ آپ کو گل جان مورے نا پسند ہیں؟ ان کے پاس نا اچھی تعلیم ہے نا ہی عزت اور نا خاندانی بیوی والا وقار۔۔ نا آپ کے برابر حسن نا ہی اچھا پہناوا۔۔ پھر بھی۔۔“
وہ تاسف اور دکھ سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ لب بھینچ کر رہ گٸیں۔ ناراضگی سے بیٹے کو دیکھا۔
”اس کے پاس میرا خانزادہ ہے جو مجھ سے زیادہ اس کی پرواہ کرتا ہے، اس کا خیال رکھتا ہے پھر بھی پوچھ رہے ہو۔۔“ ان کی بات پر وہ بےساختہ مسکرایا۔ جن کے پاس دنیا کی ہر چیز ہو وہ ایک چیز میں بھی بٹوارہ نہیں برداشت کرتا۔۔
”آپ کا خیال نہیں رکھتا کیا، پرواہ بھی کرتا ہوں۔۔ آپ کی گود میں سر رکھ کر جو سکون ملتا ہے وہ کہیں نہیں، مجھ پر سب سے زیادہ آپ ہی حق جتا سکتی ہیں یا پھر آپ کے بعد میری بیوی۔۔“ وہ آخر میں شرارتی لہجہ اختیار کرتا انہیں ہنسنے پر مجبور کر گیا۔ اس کے وجیہہ چہرے پر یہ شوخی اور مسکراہٹ انہیں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ بےساختہ نظر اتاری۔
”مورے۔۔ کیا آپ میرے لیے ویسے سٹینڈ نہیں لے سکتیں جیسے ثنا چچی لیتی ہیں۔۔ جیسے موسٰی کے لیے وہ آغا جان کے سامنے بھی ڈٹ گٸی تھیں، پلوشے کے رشتہ سے انکار کیا تھا ویسے آپ کیوں نہیں کرتیں میرے لیے۔۔“ وہ اٹھ کر بیٹھتا انہیں ناراض نظروں سے دیکھنے لگا۔ وہ حیران ہوٸیں۔ بال بکھرے ہوٸے تھے، کچھ وقت پہلے کی مسکراہٹ اور شوخی اب غاٸب تھی، نیلی آنکھوں میں دنیا جہاں کی سنجیدگی بھرے بیٹھا تھا۔۔ ایسا لگتا تھا ٹھان چکا ہے باری باری پورے گھر سے لڑے گا اور سب سے ناراض ہو گا۔۔
”پھر انجام بھی تو دیکھو کیا ہوا۔۔ پسند کی شادی کی مگر اس لڑکی سے کبھی نہیں بنی، بےسکون رہا، لڑتا رہا اور پھر جب خوش رہنا چاہا تو وہ اکھڑی اکھڑی رہتی تھی اور ایک دن ایسے ہی دنیا سے چلی گٸی۔۔ موسٰی آج تک گھر سے دور جانے کیسے اکیلے جی رہا ہے، یہ سب ثنا کی نا سمجھی اور ضد کی وجہ سے ہوا۔۔ میں اپنے بیٹے کو یہ زلالت دے دوں۔۔؟“
خانی بیگم نے سنجیدگی سے کہتے ہوٸے اسے دیکھا۔ وہ سر ڈالے متاسف سا بیٹھا تھا۔ یہ سچ تو وہ بھی جانتا تھا اور مانتا بھی تھا۔ موسٰی کے اجڑنے کا غم اسے بھی تھا مگر وہ غلط تھا، اپنی بیوی سے شادی کے تیسرے دن بری طرح لڑ پڑا تھا اور پھر کبھی رویہ اچھا نہیں کر پایا تھا اور اس سب کی وجہ صرف وہی تھی جس کو آغا جان اس کی زندگی میں شامل کرنا چاہتے تھے۔۔
موسٰی کا بہروز خان کے ہاں بہت آنا جانا تھا، بہروز خان کے ایک پوتے سے اس کی اچھی دوستی تھی، اسے آمنہ وہیں ملی تھی، شرارتی اور شوخ سی۔۔
وہ اپنی دوست سے ملنے آتی تھی، سامنا ہونے پر اکثر سلام دعا ہو جاتی تھی، ایک روز اس نے موسٰی سے اپنی بےپناہ محبت کا اظہار کیا۔۔ اور کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔ موسٰی حیران رہ گیا تھا۔
اتنا حیران کہ اس نے یہ سب گھر آ کر خانزادہ سے بھی شٸیر کیا تھا۔
وہ بےیقین تھا ایک لڑکی چند ملاقاتوں میں اتنی دیوانی کیسے ہو گٸی، وہ خاموشی سے کناہ کش ہو گیا تھا۔۔ نا انکار کیا نا اقرار۔۔ اس کا رویہ شاید اسے سمجھا گیا تھا تبھی خاموش ہو گٸی تھی۔۔
موسٰی بھی سب بھلا گیا، وہ جس سے محبت کرتا تھا اس سے فرصت کہاں تھی کہ آمنہ یا کسی بھی انجان کو سوچتا یا فکر کرتا۔۔ اسے آمنہ سے محبت نہیں تھی پھر اس نے آمنہ سے شادی کیوں کی؟ شاید اپنی محبت سے ریجیکٹ ہونے پر۔۔ خانزادہ نہیں سمجھ پایا تھا کبھی اور نا موسٰی نے بتایا تھا۔۔
”خان۔۔ کیا ہوا بیٹا۔۔؟“ ماں کی پکار پر وہ خیالوں سے جاگا۔ اور سر جھٹک کر گہرا سانس بھرا۔
”مورے بس اتنا یاد رکھیے گا میں موسٰی نہیں ہوں۔۔ آپ اس کی غلطی کی وجہ سے میرا ساتھ نہیں دے رہیں۔۔“ وہ بچوں کی طرح منہ بنا کر بولا۔
”آج جو بات تمہیں ناانصافی لگ رہی ہے وہ کل سمجھ جاٶ گے۔۔ بڑوں کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوا کرتے۔۔“
خانی بیگم کے سمجھانے پر وہ سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگا۔۔ سب گھر والے اسے انتہاٸی قدم اٹھانے پر مجبور کر رہے تھے، وہ انجان تھے خانزادہ اپنی من مانی پر آیا تو کیا کر جاٸے گا۔۔
ابھی وہ کوٸی جواب دیتا کہ ملازمہ نے آغا جان کا بلاوا دیا۔ وہ اٹھ کر مردان خانے پہنچا۔
”کیا ہوا سب خیریت ہے آغا جان۔۔؟“ وہاں آغا جان اور خان داور پریشان سے بیٹھے تھے۔۔ وہ ان کے پاس بیٹھتا فکر سے پوچھنے لگا۔
”خان زوار پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے، ہاسپٹل جانا ہے چلو گے۔۔ یا بعد میں آ جاٶ گے۔۔“ خان یوسف کی بات پر وہ گھبرا گیا۔ داور بھی لب بھینچے بیٹھا تھا۔
”میں بھی چلوں گا، وہ ٹھیک تو ہیں ناں؟ کب ہوا یہ۔۔ کس نے کیا۔۔“ اس نے پریشانی سے سوال کیا۔
”ہاں اب خطرے سے باہر ہے، حاکم خان ہی زلالت پر اتر آیا ہے، پہلے ایک بار خان آزر پر حملہ ہو چکا یے مگر گارڈز نے بچاٶ کیا۔۔ آج خان زوار۔۔ گھٹیا پن کی حد ختم کر رہا ہے وہ۔۔ اس بار میں چھوڑوں گا نہیں اسے۔۔“ وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے بیٹھے تھے، اس نے داور کو دیکھا جو بےبسی سے آغا جان کو دیکھا رہا تھا۔
”آغا جان ان کو یہ کر کے کیا ملے گا آخر۔۔ صلح تو ایک طرف مزید دشمنی ہو جاٸے گی۔۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے یہ مجھے کسی اور دشمن کی چال لگتی ہے۔۔“ داور کی بات پر خانزادہ نے بھی سر ہلایا۔
”تم اور یاور تو ویسے بھی دور رہو اس معاملہ سے۔۔ یہاں تم لوگ حاکم خان کو کبھی غلط کہو گے بھی نہیں، آخر نانا ہے تمہارا۔۔“ آغا جان کی سرد آواز پر داور نے لب بھینچ لیے۔
”میں پتا کروا لوں گا سارا معاملہ۔۔ آپ بغیر ثبوت کسی پر الزام مت لگاٸیں آغا جان۔۔ ہاسپٹل جانے کی تیاری کریں کیا فضول بحث لے بیٹھے ہیں یہاں۔۔“
خانزادہ نے انہیں ٹوک کر اپنا موباٸل اٹھا کر نمبر ملایا۔
”تم جا کر زنان خانے میں بتا دو ہم لوگ کسی جاننے والے کے ہاں جا رہے ہیں، حویلی میں کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے اس بات کی، رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔۔“ خان یوسف نے داور سے کہا تو وہ اٹھ کر زنان خانے کی طرف چلا گیا۔ خانزادہ کال اٹینڈ ہو جانے پر ایک طرف ہوتا بات کر رہا تھا۔
”ادب خان کہا مرے پڑے ہو اتنے دن سے تم۔۔“ وہ اپنے خاص بندے پر بھڑک اٹھا تھا۔
”خان صاحب آپ نے خود کہا تھا کچھ دن کے لیے آپ کے سامنے نا آٶں۔۔“ ادب نے منمناتے ہوٸے جواب دیا۔
”بکواس بند کرو۔۔ حویلی والوں پر دوسری مرتبہ حملہ ہوا ہے اور تم گھر بیٹھے ہو، مجھے خبر کیوں نہیں دی، تم سے کہا تھا ناں ہر طرف نظر رکھا کرو۔۔ پتا کرو کس کی جرأت ہوٸی ہے اور کیا وجہ ہے۔۔
ایک دن کے اندر اندر سب پتا کر کے آٶ۔۔“ حکم صادر کر کے وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور ڈریس چینج کیا۔ حویلی کی عورتوں کو بھنک نہیں پڑنے دی گٸی تھی، وہ لوگ خاموشی سے اپنی گاڑیوں میں شہر کی طرف روانہ ہو گٸے تھے۔۔
>>>>>>>-----------Y.E--------->>>>>>
وہ آٸی۔ٹی ڈیپاٹمنٹ کی لیب کے سامنے سے گزرتی کبھی ہر لیکچر روم میں جھانکتی کبھی ارد گرد بکھرے سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی تھی۔۔ عیسٰی دو دن سے غاٸب تھا، جانے پھر کیوں نہیں آ رہا۔۔
عجیب بات تھی اتنے وقت سے وہ مل رہا تھا نا نمبر کبھی دیا نا ہی اس سے لیا تھا۔۔ اس کے دوست بھی آج تو نہیں نظر آ رہے تھے کہ ان سے ہوچھتی۔۔
مایوس ہو کر وہ کینٹین میں جا بیٹھی، آج سوچا تھا اسے کافی پلاٸے گی، ہر بار وہ خود آٸسکریم کھلا دیتا تھا اب اسے بھی ادھار چکا دینا چاہیے۔۔
اس کی غیرموجودگی پر پریشانی بھی محسوس ہوٸی تھی۔ کچھ دن پہلے ہوٸی باتوں کا خیال آیا تو چونکی۔
”فیملی بزنس جواٸن کیا ہے میں نے۔۔ میرے بھاٸیوں نے فورس فُلی جواٸن کروایا ہے، کمپنی کی آٸی۔ٹی ٹیم کا ہیڈ چاہیے اور وہ چاہتے ہیں یہ پوسٹ میں سنبھالوں۔۔“ اس نے کچھ ہی دن پہلے چڑچڑے لہجے میں بتایا تھا۔۔
”یہ تو اچھا ہے، لوگ جابز کے لیے منتیں کرتے ہیں اور آپ کو بن مانگے مل گٸی۔“ وہ حیران ہوٸی تھی۔
”لوگ سٹڈیز کے بعد جاب مانگتے ہیں۔۔ میرا سیکنڈ لاسٹ سمسٹر ہے ابھی۔۔ اور وہ خود پڑھاٸی کے بعد بھی ایک سال ویسٹ کر کے بزنس میں اِن ہوٸے تھے، میں ابھی سے کیوں۔۔ چھوڑو تم نہیں سمجھو گی میرے گھر والے ظالم ہیں، ان کا بس نہیں چلتا مجھے ہر جگہ پھنسا کر میرے دن رات برباد کر دیں۔۔“
وہ گھر والوں کی شکایت لگاتا کوٸی ناراض بچہ لگ رہا تھا۔۔ جسے ہر بات پر اعتراض ہو۔۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی دباتی رہی اور عیسٰی نے دیکھتے ہی اس بری برح لتاڑا تھا کہ وہ ہنسنا بھول کر سچ مچ پریشان ہو گٸی۔ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور اگلے دن بھی ویسے ہی سامنا ہونے پر منہ پھیر گیا تھا۔۔
وہ کوک پیتی وہ سب باتیں یاد کر کے مسکراٸی۔۔
یقیناً وہ بچارا لڑکا اپنی ان چاہی جاب میں پھنسا ہوا ہو گا۔۔ بس کچھ وقت کے لیے اس کی کمپنی میں ضرورت تھی جب تک کوٸی قابل اعتماد ایمپلاٸے نہیں مل جاتا مگر اُس نے اتنی سی بات کو بھی ایسا بڑھاوا دیا تھا کہ واقعی اس کی فیملی ناانصاف لگنے لگی تھی۔۔
کچھ وقت پہلے تک وہ اس یونی میں پڑھنے آتی تھی، دوستوں کے ساتھ رہتی تھی مگر اب تو بس ڈیلی آ کر نظریں عیسٰی خان کو ڈھونڈتی تھیں جو بظاہر آج بھی ویسا ہی مغرور تھا مگر اب اس سے اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔۔ ہلکی پھلکی ہیلو ہاٸے بھی پورا دن سنوار دیتی تھی۔۔
جیسے وہ سپیشلی آٸرہ کو وقت دیتا تھا اسے یقین تھا عیسٰی اسے پسند کرنے لگا ہے اور یہ خیال آتے ہی اس کی رگ و پے میں عجیب کرنٹ سا دوڑ جاتا تھا۔
محبت جس انسان سے ہو جاٸے وہ لاجواب لگتا ہے اور اگر وہ لاجواب انسان بھی محبت کر بیٹھے تو۔۔
عیسٰی خان تو پھر بےشک لاجواب تھا، اس کے دن رات اس زعم میں گزرنے لگے تھے، وہ محبت کر بیٹھا ہے، پسند کرتا ہے وہ بھی آٸرہ کو۔۔ پوری یونی میں سب کو چھوڑ کر آٸرہ۔۔ وہ سب سے ہاٸے ہیلو کرتا تھا مگر صرف وہی تھی جس کے ساتھ آٸسکریم کھانے جاتا تھا۔۔ وہ مسکراتی جا رہی تھی۔
>>>>>>------------Y.E--------->>>>>
بڑی مشکل سے آنی کو منا کر وہ ریما کے ساتھ کچھ سامان لینے کا بہانہ کر کے آٸی تھی۔ آٸسکریم پارلر میں وہ مطلوبہ ٹیبل کی جانب بڑھی تو ریما رک گٸی۔
”کیا ہوا؟ “ اس نے چونک کر ریما کو دیکھ۔
”پاگل ہو کیا۔۔۔ میں ساتھ جا کر کیا کروں گی، تم جاٶ، بات کرو میں وہاں بیٹھی ہوں۔۔“ ریما نے دوسری جانب ٹیبل کی طرف اشارہ کر کے قدم بڑھاٸے تو وہ بھی سر ہلا کر آگے بڑھی۔۔
”پریہان۔۔؟“ مطلوبہ ٹیبل پر بیٹھا پرکشش سا لڑکا اسے دیکھ کر کھڑا ہوا تو وہ سر ہلا گٸی۔
سیٹ پر بیٹھ کر سرسری نظر سے اس کا جاٸزہ لیا۔ وہ کافی پرکشش اور ویل ڈریسڈ تھا۔۔
”جلدی بات کیجیے میں بہت مشکل سے آٸی ہوں۔۔ جلدی واپس جانا ہے۔۔“ اس سے پہلے کہ وہ تمہید باندھتا یا بات کا آغاز کرتا پریہان نے جلدی مچاٸی۔۔
”پریہان۔۔ دیکھیے مجھے غلط نہیں سمجھیے گا مگر میں آپ سے شادی نہیں کر سکتا۔۔“
اس نے پریہان کے سر پر دھماکہ کیا۔۔
”کیا۔۔ کیا کہا آپ نے۔۔؟“ وہ اتنے زور سے بولی کہ ارد گرد بیٹھے لوگ متوجہ ہوٸے، وہ سنبھل کر بیٹھتا شرمندگی سے سب کو دیکھتا معذرت کر رہا تھا جبکہ پریہان کی پھٹی پھٹی آنکھیں اس پر جمی تھی جو اس کا منگیتر تھا، جس سے وہ آج پہلی بار مل رہی تھی، جس نے شادی سے چند دن پہلے مل کر پہلی بات یہی کی کہ وہ شادی نہیں کرے گا۔۔ کتنا عجیب مذاق ہوا تھا اس کے ساتھ۔۔
”میں۔۔ میں شرمندہ ہوں۔۔ اتنی دیر سے بتانے پر مگر۔۔ میں جانتا ہوں شادی سر پر ہے، لیکن شادی کے بعد گھر ٹوٹنے سے اچھا ہے ابھی بتا دوں۔۔“
وہ شرمندہ لہجے میں بول رہا تھا، پریہان کو لگا شاید یہ کوٸی پرانک ہے، کچھ دن پہلے وہ جلدی مچا رہا تھا شادی کے لیے اور آج انکار کر رہا ہے۔۔
”تو یہ بکواس آپ نے پہلے کیوں نہیں کی مسٹر۔۔ شادی کرنے کی جلدی آپ کو ہی تھی، میری ڈگری کے درمیان یہ ڈسٹربنس پھیلا کر اب آپ۔۔۔ بلکہ اس مہربانی کی کیا ضرورت تھی، شادی کے دن بتا دیتے کال کر کے۔۔ میرا کیا تھا لوگوں سے معذرت کر لیتی کہ اب آپ کا ماٸنڈ بدل گیا ہے اس لیے یہ شادی شادی اب نہیں کھیلا جاٸے گا۔۔“ وہ سرد سپاٹ لہجے میں بولتی اسےکھڑے کھڑے گاڑھ رہی تھی۔۔
وہ حیران سا اسے تک رہا تھا، اس نے تو سنا تھا بہت شرمیلی اور کم گو لڑکی ہے، آج جب وہ آٸی تھی تو واقعی معصوم سی چھوٹی سی لڑکی لگی تھی مگر اپنی شکل سے برعکس وہ کافی زبان دراز تھی۔
”ایم سوری۔۔ شاید میں شادی کر لیتا یا پھر پہلے بتا دیتا، اس سب میں اکیلے میرا قصور نہیں، آپ کے خالو مسٹر وقار بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔۔“
اس کی بات پر پریہان ساکت ہوٸی۔۔ انکل کا کیا زکر تھا یہاں۔۔ ساری اکڑ اور غصہ جھاگ بن کر بیٹھا۔۔
”کیا مطلب۔۔۔؟“ اس کے لب پھڑپھڑاٸے تھے۔۔
کیا مطلب۔۔۔؟“ اس کے لب پھڑپھڑاٸے تھے۔۔
”دیکھیں میری بات تحمل سے سننا آپ۔۔ آپ کے خالو مسٹر وقار کو کسی کمپنی میں شٸیرز خریدنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ چاہیے جس میں سے ہاف ان کے پاس ہے مگر باقی ہاف کے لیے وہ آپ کی شادی کر رہے ہیں۔۔
آپ کے نام جو پلاٹ ہے اُس کی اس وقت قیمت پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔۔ آپ کا پلاٹ بیچنے کے لیے انہوں نے گھر میں بات کی تو آپ کی خالہ نے صاف منع کر دیا اور وہ آپ سے کہہ کر برے نہیں بننا چاہتے تھے۔۔ “
وہ آہستگی سے بولتا جا رہا تھا پریہان ساکت، بےیقین سی سن رہی تھی۔۔ انکل نے ان کے سامنے تو کبھی ہراپرٹی میں انٹرسٹ ظاہر نہیں کیا تھا۔۔ اسے شک ہوا سامنے بیٹھا اجنبی جھوٹ بول رہا تھا۔۔ الزام لگا رہا تھا۔۔
”انہوں نے مجھے لالچ دیا کہ آپ سے شادی کے بعد وہ پلاٹ آپ سے لے کر انہیں دوں اور شٸیرز میں سے دو پرسنٹ میرا حصہ ہو گا۔۔“ اس نے شرمندگی سے سر جھکا کر بتایا اور زرا رک کر بات جاری رکھی۔
”میں مان گیا۔۔ ایم سوری مگر میں نے سوچا آپ کو خاموشی سے دوبارہ پراپرٹی لے دوں گا۔۔ میں نے جو فرینڈز کے ساتھ بزنس سٹارٹ کیا تھا اس میں لاس ہو رہا تھا، مجھے بھی ضروت تھی تو لالچ میں آ گیا۔۔
اسی لیے میں نے شادی جلدی کرنے کا کہا۔۔ ہمیں جلد پیسہ چاہیے تھا۔۔“ پریہان جیسے سانس روکے سب سن رہی تھی، زلت کا شدید احساس ہوا۔۔ اس کی کہیں کوٸی ویلیو نہیں تھی۔۔ یہاں تو سارا زکر اس زمین کے ٹکڑے کا تھا جو ماں باپ نے مرنے سے پہلے تینوں بیٹیوں کے نام کیے تھے۔۔
”میرا ایک فرینڈ فارن سے آیا ہے، اس نے ہمارے کاروبار میں انویسٹمنٹ کی ہے جس سے ہمارا لاس کور ہو گیا ہے۔۔ میں نے آپ کے خالو سے اس کے بعد معذرت بھی کی، انہیں بہت سمجھایا کہ آپ سے کہہ دیں آپ خود وہ پلاٹ سیل کر کے پیسے دے دیں مگر وہ نہیں مانے، تب آپ کے مسجز اور کالز آتی تھیں اور میرے پاس سواٸے شرمندگی کے کوٸی جواب نہیں تھا۔۔
دیکھیے پریہان میرا آپ سے کوٸی لگاٶ نہیں۔۔ آپ کی بیزاری اور ناپسندیدگی کے بعد تو جو رہا سہا رشتے میں پسندیدگی کا عنصر تھا وہ بھی جاتا رہا۔۔ انگیجمنٹ کے بعد آپ نے نا کبھی بات کی نا ملیں، شروع میں کوشش کرتا تھا بات کرنے کی مگر آپ کی طرف سے کبھی پازیٹو رسپانس نہیں ملا۔۔
آپ کوٸی ٹیپیکل شاٸے مڈل کلاس لڑکی تو ہیں نہیں کہ اس سب کو آپ کی شرم سمجھتا۔۔ کانفیڈنٹ ہیں، کو ایجوکیشن میں پڑھتی ہیں، فرینڈز کے ساتھ گھومتی ہیں مگر صرف مجھے اگنور کرنا۔۔ آٸی نو آپ انٹرسٹڈ نہیں ہیں مجھ میں۔۔ میں رسکی ریلیشن نہیں چاہتا۔۔ پہلے لالچ میں سوچے سمجھے بنا شادی کر رہا تھا مگر اب میں یہ خودغرضی نہیں دکھا سکتا۔۔ اپنی ایک کزن سے فرینڈشپ ہے اور وہی مجھے شادی کے لیے سوٹ ایبل لگتی ہے۔۔ ایم سوری۔۔
بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے، اپنے گھر والوں سے بات کر لوں گا بس آپ کو پہلے بتانا ضروری سمجھا۔۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔۔“
وہ بنا رکے، بنا خیال کیے بولتا چلا گیا۔۔ پریہان کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا۔ چند دن پہلے مایوں بیٹھی دلہن کو کوٸی کہہ دے وہ شادی کے قابل نہیں۔۔
وہ انتظار نا کرے، شادی نہیں ہو گی۔۔ تو اس کا حال کیا ہوتا ہو گا آج یہ بات پریہان سے کوٸی پوچھتا۔۔
اس کا جسم بری طرح لرز رہا تھا، یوں لگا جیسے یخ پانی میں ڈبو کر فروری کی رات میں کسی نے کھلی ہوا میں کھڑا کر دیا ہے۔۔
وہ نادم تھا مگر سر سے بوجھ اتار کر اندر سے پُرسکون ہو چکا تھا، پریہان سے نظر چرانے لگا۔
”ہماری انگیجمنٹ کے کچھ ہی عرصہ بعد ماما کی ڈیتھ ہو گٸی تھی۔۔ آپ کو پتا تو چلا ہو گا۔۔“ اچانک وہ سرد سے لہجے میں بولی تو وہ چونک کر سر ہلاگیا۔
”میری مدر کی ڈیتھ پر میرے فیانسی کی طرف سے کوٸی تسلی بھرا میسج تک نہیں آیا۔۔ ہم دو بہنیں اکیلی ہو گٸی تھیں، آنی زبردستی اپنے پاس لے گٸیں، وقت دیا، بہلایا، آنسو صاف کیے۔۔ اس سارے عرصے میں آپ کی طرف سے کبھی کوٸی دلاسہ۔۔ کوٸی تسلی نہیں آٸی۔۔ نا کبھی ملنے کی ضرورت پڑی۔۔ کچھ عرصہ بعد اسی منگیتر کو میسجز، کالز اور ملاقاتوں کا شوق ہو، وہ انگیجمنٹ پیریڈ انجواٸے کرنا چاہے۔۔“
اس کے جملوں پر وہ خفت سے بیٹھا اسے دیکھنے لگا۔
”ایسے بےحس منگیتر میں مجھے لتنا انٹرسٹ ہو سکتا تھا؟ میں پھر بھی چھوڑ نہیں سکتی تھی کیونکہ میری ماما یہ رشتہ طے کر کے گٸی تھیں۔۔ میں آپ سے کبھی نہیں ملی، کیونکہ مجھے ڈر تھا اس بات کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی باتیں نا ہونے لگیں جن سے میرا دل بالکل ہی اکتا جاٸے۔۔ میں آپ سے نفرت کرنے لگوں جبکہ مجھے ہر حال میں شادی کرنا تھی۔۔ اس لیے سب کے کہنے پر بھی کبھی بات نہیں کی نا ملنے کا شوق ہوا۔۔ سوچا تھا جیسے بھی ہوں گے شادی کے بعد زندگی گزار ہی لوں گی۔۔“
اس کا چہرہ بالکل بھیگ چکا تھا۔ بھیگی آواز کانپ رہی تھی، سامنے بیٹھا لڑکا اب خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔۔ حدیر کو منگیتر سمجھ کر بھی شاید وہ اسی لیے مطمٸین ہوٸی تھی کہ وہ بس بےحس ہے مگر برا نہیں لیکن سامنے بیٹھا لڑکا بےحس بھی تھا برا بھی اور آج تو بےحسی کی حد ظاہر کر رہا تھا۔۔
”مگر شکریہ مجھے آزاد کرنے کا۔۔ میں اپنی ماں کے سامنے کم سے کم شرمندہ نہیں ہوں گی کہ میں نے من مانی کر کے رشتہ توڑا۔۔“
ہچکیوں سے روتی وہ مشکل سے بولی، وہ ندامت سے زرا آگے ہوا۔ ارد گرد لوگوں کو دیکھا اور پھر بچوں کی طرح سسکتی پریہان کو جس کی آواز زیادہ نہیں تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ قریب بیٹھے لوگ بآسانی سن پا رہے تھے۔۔ کچھ لوگوں نے تو ہادی کو عجیب نظروں سے دیکھا بھی تھا۔۔
”آپ نے بتا دیا، او۔کے اب آپ جا سکتے ہیں، باقی میں سنبھال لوں گی۔۔ آپ کے گھر سے اب کوٸی بندہ یا کال نا آٸے۔۔ اپنے گھر والوں سے کہہ دینا معذرت بھی نہیں چاہیے۔۔ کچھ نہیں۔۔ آج یہاں سے جا کر ہر رابطہ ختم کر لیجے گا اتنا تو کر ہی سکتے ہیں آپ۔۔“
وہ پتھر دلی سے بولتی یکدم لہجہ مضبوط ظاہر کرنے لگی۔۔ شکر تھا آج مایوں کے زرد لباس کی وجہ سے بڑی چادر اوڑھی ہوٸی تھی کہ بھرم رہ گیا۔۔ وہ پورا چہرہ چھپا گٸی ورنہ رنگت خطرناک حد تک زرد ہو رہی تھی اور آنکھوں سے بہتے مسلسل آنسو کسی قیامت کی نشاندہی کر رہے تھے۔۔ وہ ظاہر کر رہی تھی اسے فرق نہیں پڑا۔
مگر اس کی حالت بتا رہی تھی وہ بھی ایک عام لڑکی ہے، جس کو بخوبی فرق پڑا تھا۔۔ اس ریجیکشن کا۔۔
اس زلت سے اچھا تھا کاش وہ خود انکار کر دیتی۔۔
اپنی دوستوں کو کیا منہ دکھاٸے گی، خاندان والے۔۔ اور گھر والے جو تیاریوں میں مصروف تھے۔۔
پریسہ جو اتنی دور سے شادی کے لیے آٸی تھی، محلے والے جو آنی کے بلاوے پر ڈھولکی کے لیے آ رہے تھے۔۔
وہ اٹھ کر چلا گیا، پریہان وہیں بیٹھی حساب کتاب میں لگی ہوٸی تھی۔ اسے لگا سر اٹھا کر دیکھے گی تو یہاں موجود ہر انسان اسے ترحم بھری نظر سے دیکھ رہا ہو گا۔۔ یا ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس پر ہنس رہے ہوں۔۔ اس کا جسم بےجان ہوتا جا رہا تھا۔۔
”پریہان۔۔ ہان۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک ہے۔۔“ ریما شاید اسے اکیلا دیکھ کر اس تک آٸی تھی۔۔ پریشانی سے سر جھکاٸے چادر میں چھپی پریہان کا کندھا ہلایا۔۔
”پریہان۔۔“ ریما نے پریشانی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ وہیں چٸیر پر بیٹھی ایک طرف لڑھک گٸی۔ ریما کا سانس حلق میں اٹک گیا۔
”پریہان۔۔“ اس نے حواس باختگی سے پکارا۔۔
>>>>>>------------Y.E---------->>>>>
”ہممم بولو ادب خان۔۔“ وہ ہاسپٹل کے کوریڈ سے ہوتا بلڈنگ سے نکلا اور کھلی فضا میں گہرا سانس بھرا۔
”خان صاحب حملہ جس مقام پر ہوا وہ علاقہ تو حاکم خان کا ہے۔۔ پہلے بھی اسی علاقہ کے قریب ہی حملہ ہوا تھا مگر ایک بات قابل توجہ ہے۔۔“
ادب خان کی بات پر اسے خان یوسف کی بات یاد آٸی، ان کا بھی یہی اصرار تھا کہ یہ کام حاکم خان کا ہے۔
”کیا بات ہے جلدی بولو۔۔“ وہ پیشانی مسلتا آہستگی سے بولتا ٹہلنے لگا۔۔
”خان صاحب پہلے بھی سردار صاحب پر حملہ ہوا تھا اس بار بھی جس گاڑی پر حملہ ہوا ہے، وہ سردار صاحب کی ہے مگر اندر خان زوار صاحب تھے۔۔
لگتا ہے اس حملہ کا اصل نشانہ سردار صاحب۔۔
”لگتا ہے پر بات نہیں کرو ادب خان۔۔ پورا دن گزرا کر تم نے بس یہ مفروضے قاٸم کیے ہیں؟ حملہ کروانے والا کون تھا اور مقصد کیا تھا یہ پتا کرو۔۔
میں اس وقت فارغ نہیں ہوں کہ بیٹھ کر تمہارے اندازے سنوں۔۔“ وہ غراتے ہوٸے بولتا ادب خان کا حلق خشک کر گیا۔ طیش میں کال بند کر کے اس نے لب سختی سے بھینچے، ماتھے کی رگ ابھر آٸی تھی۔۔
اسے شدید پریشانی محسوس ہونے لگی، خان یوسف شاید کچھ جانتے ہوں اس لیے حاکم خان پر اصرار کیا ہو گا۔۔ مگر خان داور کی بات بھی سہی لگتی تھی کہ ایسا کر کے انہیں کچھ نہیں ملنے والا۔۔
پریشانی سے یہاں وہاں چل کر سوچتا وہ یکدم رک گیا۔۔ اگر واقعی یہ حملہ صرف خان آزر پر ہو رہا تھا تو ان کی نظر سرداری پر ہو سکتی تھی۔۔ اس سارے علاقہ میں سب سے زیادہ قابل احترام اور پاورفل آفریدی حویلی والے تھے، خان یوسف کا احترام پورے علاقہ میں کیا جاتا تھا اس لیے سرداری انہی کے حصہ میں آٸی تھی، مگر اس گدی کا دوسرا امیدوار حاکم خان تھا۔۔
کیا خبر خان آزر کو راستے سے ہٹا کر وہ لوگ سرداری کی گدی چاہتے ہو۔۔ اس نے پھٹتے ہوٸے سر کو دبایا۔
خان آزر سے لاکھ ناراضگی اور گلے سہی، وہ باپ تھے اسکے۔۔ اس بار تو خان زوار اس گاڑی میں ہونے کی وجہ سے نشانہ کی زد میں آٸے تھے مگر ہر بار ایسا نہیں ہونے والا تھا اور یہ بھی اچھی بات نا تھی کہ خان آزر کی جگہ گھر کا کوٸی اور فرد زخمی ہو یا مرے۔۔ لیکن وہ صرف شک کے تحت حاکم خان کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہر بار کیطرح گل جان بیگم پر سارا ملبہ گرتا۔۔
وہ سوچ میں مبتلا اندر کی طرف بڑھا، اگر اپنے باپ اور خاندان کو بچانا پڑا تو اس نے سوچ لیا وہ سردار بھی بن جاٸے گا۔۔
اور یہ تو طے تھا وہ سردار بنا تو کسی کی ہمت نہیں ہو گی اس کی حویلی یا وہاں کے مکینوں کی طرف نظر بھی اٹھا کر دیکھے۔۔ اندر پہنچا تو چونک گیا۔
کمرے میں بہروز خان اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ خانزادہ کو دیکھ کر پرجوش انداز سے ملے مگر وہ مشکل سے ماتھے پر پڑتے بلوں کو ظاہر ہونے سے روک پایا تھا۔
”ان کو کیسے خبر ملی چاچو کی؟ یہ بات تو چھپا لی گٸی تھی ناں۔۔؟“ وہ کچھ فاصلے پر کھڑے خان یاور کے پاس کھڑا ہو کر پوچھنے لگا۔۔
”ہوں۔۔ ہاں پتا نہیں شاید آغا جان نے بتایا ہے، ہر بات آغا جان سب سے پہلے بہروز خان کو ہی بتا دیتے ہیں۔۔“ یاور نے بھی بےزاری سے انہیں دیکھ کر سر جھٹکا۔ ابھی سے ان لوگوں کا گھر کے ہر معاملے میں گھسنا خان حویلی کے سب لڑکوں کو ہمیشہ سے زہر لگتا تھا سواٸے موسٰی خان کے۔۔ اس نے سر جھٹکا۔
”تاریخ گواہ ہے دنیا کا سب سے خطرناک دشمن گہرا دوست ہی ہوتا ہے۔“ خانزادہ نے ناک چڑھا کر بڑبڑاتے ہوٸے کہا تو خان یاور بری طرح ٹھٹک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”سنو۔۔ آغا جان پُریقین ہیں کہ یہ سب حاکم خان نے کیا ہے مگر ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ ان کو کیا ملے گا یہ کر کے۔۔ کیا تمہیں بھی ایسا لگتا ہے۔۔؟“
یاور نے بےچینی سے سامنے دیکھا جہاں خان یوسف آہستگی سے بہروز خان سے بات کر رہے مگر چرے پر نفرت اور غصہ تھا، یقیناً حاکم خان کے ہی خلاف بات کر رہے تھے۔
”فاٸدہ تو فاٸدہ لینے والوں کو پتا ہو گا۔۔ جب تک حقیقت سامنے نہیں آتی، سب ہی دشمن ہیں چاہے وہ حاکم خان ہوں یا پھر سامنے آغا جان کے پہلو میں بیٹھے بہروز خان۔۔“ وہ اکھڑ لہجے میں بول رہا تھا، خان یاور نے خاموشی اختیار کر لی۔ پریشانی میں اس کا دماغ ویسے ہی خراب ہو جاتا تھا، بہتر ہی تھا اسے چھیڑا نا جاٸے۔۔ خانزادہ کی نظریں اپنے باپ پر جا رکیں جو تاسف سے اپنے بھاٸی کی زخمی حالت دیکھ رہے تھے۔۔ وہ پریشانی سے باپ کو ہی تکتا گیا۔۔
>>>>>>>------------Y.E----------->>>>>>
”عیسٰی یار پچھلے تین دن سے تھرڈ سمسٹر کی آٸرہ زمان شاہ تیرا پوچھ رہی ہے، نمبر ہی دے دے اسے کم سے کم اگر اتنی دوستی کر لی ہے تو۔۔“ وہ تین دن بعد یونی آیا تو حسن نے شوخی سے بتاتے ہوٸے چھیڑا۔ آٸرہ کا نام لے کر اپنے دوستوں کا یوں چھیڑنا اور مسکرانا اسے سخت برا لگا تھا۔۔
”پوچھنے دے، جو بھی لڑکی میرا پوچھے گی سب کو نمبر دیتا جاٶں۔۔؟“ اس نے ناک چڑھا کر تیکھے لہجے میں کہا تو حسن گڑبڑا گیا جبکہ عیسٰی تو اس کے پیچھے کھڑی آٸرہ کو دیکھ کر رک گیا تھا۔۔
وہ تاسف سے عیسٰی کو دیکھتی پلٹ کر جانے لگی جب وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچ کر اسے روک گیا۔
”اگر ان سے ایسے بات نا کرتا تو تمہارے نام سے چھیڑتے رہتے اس لیے یہ بات کی ہے۔۔“ وہ سمجھ ہی نہیں پایا وہ صفاٸی دے رہا تھا۔ آٸرہ رک گٸی۔
”میں بس کافی پلانا چاہتی تھی جو ادھار تھی، اس لیے پوچھا تھا اگر اریٹیٹ ہوٸے ہیں تو سوری۔۔“
وہ سپاٹ لہجے میں بول رہی تھی، خوش فہمیوں کے محل تو اس کے اس بیزار لہجے اور جملے پر ہی دھڑام سے زمین بوس ہو چکے تھے۔۔
”اچھی بات ہے ادھار اتار دینا چاہیے۔۔ آٸسکریم کھاٶ گی۔۔؟“ اس کی وہی پرانی فرماٸش پر آٸرہ کا دماغ چکرا گیا۔۔ عجیب انسان تھا اس کا بس چلے تو آٸسکریم پالر خرید کر وہیں بیٹھا رہے۔۔ جب بھی کوٸی بات ہو وہ آٸسکریم نکال لاتا تھا۔۔
”نہیں شکریہ۔۔ جب کافی پینا چاہیں بتا دینا۔۔“ وہ ابھی بھولی نہیں تھی وہ کیسے کچھ دیر پہلے اپنے فرینڈ کے سامنے اس کا زکر کر رہا تھا۔
”بتا دوں گا۔۔ ابھی آٸسکریم کھانی ہے، گرمیوں میں کافی نہیں پیتا، جب بارش ہو یا سردی تب پیوں گا۔۔
آٶ چلیں۔۔ آج آٸسکریم تم کھلا دینا۔۔“ وہ دوستانہ لہجے میں بول کر آگے بڑھ گیا۔ آٸرہ منہ کھولے اسے دیکھتی رہی، شدت سے دل چاہ رہا تھا آج صاف انکار کر دے۔ وہ اپنی بوگاٹی کا ڈور کھول کر گلاسز لگاتا رک کر پلٹا اور گلاسز آنکھوں سے زرا ہٹا کر اسے دیکھا۔
پیر پٹختی وہ اپنی مروت کو کوستی آگے بڑھی۔۔
”آج کی آٸسکریم کو کافی سمجھ لیجیے گا۔۔ میرا ادھار آج ہی پورا ہو جاٸے گا۔۔“ گاڑی میں بیٹھ کر روڈ پر پہنچے تو آٸرہ نے سنجیدگی سے جتایا۔۔
”اوکے۔۔“ وہ یکدم ماتھے پر بل ڈال کر بولا اور لب بھینچ کر سپیڈ بڑھا دی۔۔ مزاج گرم ہو چکا تھا۔۔
روڈ پر آگے جا کر وہ یو ٹرن لے چکا تھا، وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی، وہ دوبارہ سے یونی کی طرف جا رہا تھا۔۔ اس کے چہرے کے سرد تاثرات پر وہ کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہیں کر پاٸی۔۔
یونی پہنچتے ہی گاڑی سے اترا اور آٸرہ کی طرف آ کر اسے نکالا، ہاتھ پکڑ کر سامنے لڑکوں کے ساتھ بات کرتے احمر اور حسن کو بلایا۔۔ آٸرہ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی آخر وہ کیا کرنے والا ہے۔۔
”کیا ہوا ابھی تو گٸے تھے واپس بھی آ گٸے۔۔“ احمر نے ایک نظر آٸرہ پر ڈال کر اس سے پوچھا۔ حسن اس بار خاموش کھڑا رہا تھا۔
”ہاں بس بتانے آیا ہوں کہ نمبر اس لیے نہیں دیا کیونکہ اس نے مانگا نہیں اور میں لڑکیوں سے نمبر مانگنے والا گھٹیا کام کرتا نہیں ہوں۔۔ “ انہیں اس بات کی وضاحت دینے لگا جو مذاقاً پوچھی تھی۔۔ آٸرہ کو شرمندگی سی محسوس ہوٸی۔
”اس بار ایمرجنسی میں یونی سے آف لیا نیکسٹ ٹاٸم جو بھی مسٸلہ ہوا، بتا کر جاٶں گا۔۔“
وہ آٸرہ کی طرف دیکھ کر بولا۔۔ احمر اور حسن ہونق سے سر ہلا گٸے، اب اس سے زیادہ کیا کہتے۔۔
عیسٰی نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا، وہ خفت زدہ سی پلٹ کر جانے لگی، کچھ ہی فاصلے پر تھی جب وہ پیچھے آ کر قدم ملاتا یکدم سنجیدگی سے بولا۔
”اگر تمہیں اچھا لگتا ہے میرے دوست مجھے تمہارے نام سے چھیڑیں اور تمہیں ڈسکس کریں۔۔ تو مجھے کوٸی اعتراض نہیں۔۔ اب ان کے سامنے جو سچ تھا سب کہہ دیا۔۔ شاید اب تمہیں اچھا محسوس ہو رہا ہو گا۔۔“ عیسٰی کی بات پر وہ جو کب سے شرمندگی محسوس کر رہی تھی، دانت کچکچا گٸی۔
”کیا سمجھا ہے آپ نے، یہ سب جو ابھی کیا اچھا لگا، مذاق اڑا رہے تھے آپ میرا۔۔ اب بھی اور پہلے بھی۔۔
میں غلط سمجھ بیٹھی تھی آپ کو۔۔“ وہ غصے سے بول رہی تھی، عیسٰی نے ابرو اچکاٸے۔۔
”اوہ گریٹ۔۔ اب اگر تم سب کے درمیان سب سے میرا پوچھو گی تو تب کوٸی مذاق نہیں اڑاٸے گا۔۔ کوٸی تمہارا نام لے کر مجھے چھیڑتا پھرے تب بھی او۔کے۔۔
اگر میں نے فرینڈز میں یہ ظاہر کر دیا کہ میری غلطی کی وجہ سے تم نے وہ سب کیا تو مذاق بن گٸیں تم۔۔
سیرٸیسلی تم لڑکیاں اوور رٸیکٹ کرنے میں ماہر ہوتی ہو۔۔ اچھی بات ہے جو تم نے مجھے غلط سمجھا تھا آج اپنی غلطی سدھار لی۔۔ نمبر دینے والا تھا اپنا، اچھا ہوا نہیں دیا خوامخواہ تمہیں مجھ جیسے فلرٹ کا نمبر بلاک کرنا پڑتا۔۔“ وہ سرد لہجے میں بولتا آٸرہ کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر گیا۔۔ ایک سخت نظر اس پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔ وہ خفت زدہ سی اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔
شاید وہ جو آج پھر سے اجنبی بن کر چلا گیا تھا اسے فرق نا پڑے مگر آٸرہ کو تو فرق پڑتا تھا اس کے ہونے سے بھی اور نا ہونے سے بھی۔۔ اسے عام لڑکا سمجھ کر عام لڑکیوں والا نخرہ دکھا بیٹھی تھی۔۔
اب سمجھ آیا ہر جگہ ایک ایٹیٹیوڈ نہیں چلتا۔۔ وہ عزت دیتا تھا تو بدلے میں بھی اسے عزت ہی چاہیے تھی نا کہ نخرہ اور ناراضگیاں۔۔
وہ اپنی جلدبازی اور جذباتی پن پر دل کھول کر اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی۔ اب جانے وہ مان جانے میں کتنا وقت لے گا۔۔ اور کیسے مانے گا یہ بھی تو نہیں جانتی تھی وہ۔۔
>>>>>>-----------Y.E------------>>>>>
اس کی آنکھ کھلی تو ایک کلینک کے بیڈ پر لیٹی تھی وہ۔۔ چکراتا سر سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کی تو ریما جلدی سے آگے بڑھی۔۔
”پریہان۔۔ کیا تم ٹھیک ہو؟ کیا ہوا تھا تمہیں؟ “ ریما کی پریشان آواز پر اس نے آنکھیں بند کر کے سب یاد کیا۔۔ کیا ہوا تھا۔۔ اسے کیسے بتاتی کیا ہو گیا تھا۔۔
اس کی آنکھیں پھر سے بھر آٸیں، اس سے اتنا پرانا رشتہ توڑ دیا گیا تھا، اس کی شرافت کو اور فرماں برداری کو اسی کے منہ پر مار دیا گیا تھا۔۔
کیا کچھ ہو گیا تھا، وہ کیسے بتاٸے گی سب کو۔۔
”پریہان۔۔“ اس کے تکلیف دہ تاثرات پر ریما گھبرا گٸی، پہلے ہی انہیں اتنی دیر ہو چکی تھی اور پریہان کی آنی اور بہن کالز پر کالز کرتی اس کا دماغ خالی کر چکی تھیں۔۔ ریما نہیں جانتی تھی اپنے منگیتر سے ملاقات کے بعد عام لڑکیوں کی طرح اس کے چہرے پر گلابی رنگ اور شرمیلی مسکراہٹ کی بجاٸے ایسی زردی کیوں چھا گٸی تھی۔۔ ایسی کیا بات ہوٸی تھی کہ اس کے اعصاب ہی جواب دے گٸے تھے۔
”یار کیا ہوا بتا دو ناں۔۔ انفیکٹ اگر تم اب ٹھیک ہو تو گھر چلیں۔۔ تمہارے گھر سے بار بار کالز آ رہی ہیں، ہم ایک گھنٹے کا کہہ کر نکلے تھے اور اب چار گھنٹے گزر گٸے ہیں، یہ پراٸیویٹ میٹنگ تھی اور میں تو تمہاری فیملی کو ایکسپلین تک نہیں کر سکتی تھی کیا ہوا ہے۔۔“ ریما پریشانی اور بوکھلاہٹ میں بولتی چلی گٸی۔۔ پریہان نے ختم ہو چکی ہمت کو جگایا اور اٹھ کر بیٹھ گٸی۔۔ ہاں ابھی تو گھر والوں کو بتانے کا مرحلہ باقی تھا، اس کے بعد لوگ۔۔
اس کی کہیں کوٸی غلطی نہیں تھی پھر بھی وہ شرمندہ تھی، وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ اس کا منگیتر اس سے شادی کرتا۔۔ اس کی ویلیو نہیں تھی اس کی پراپرٹی کی ویلیو تھی۔۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔ وہ میں نے اصل میں۔۔ صبح سے کچھ کھایا نہیں نا ہی نیند پوری کی۔۔ شاید اس لیے۔۔“
وہ نظریں چرا کر وضاحت دیتی بیڈ سے اتر کر اپنے شوز پہننے لگی۔۔ ریما نے سکون کا سانس بھرا۔۔
”اوہ اچھا۔۔ میں تو جانے کیا کیا سوچ بیٹھی۔۔ اتنا ڈر گٸی تھی میں، تمہارا فیانسی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا ایسے تیزی سے نکلا اور پھر پیچھے تمہاری اچانک سے اتنی بری حالت۔۔ میں تو ڈر گٸی جانے کیا ہوا ہو گا۔۔“ ریما سر جھٹک کر بولتی اسے سہارا دینے لگی۔۔ یقیناً اس نے خوف میں وہی سوچا ہو گا جو ہو چکا تھا۔۔ پریہان کا شدت سے جی چاہا کہیں چھپ جاٸے اور دھاڑیں مار مار کر روٸے۔۔ ریما کے سہارے گاڑی میں بیٹھ کر وہ آنکھیں موند گٸی۔۔ وہ تیز رفتاری سے اس کے گھر پہنچی تھی، آنی اور پریسہ سخت غصہ میں دونوں کو گھور رہی تھیں۔۔
”گاڑی خراب ہو گٸی تھی، اتنی پریشانی ہوٸی، کام تو ہمارا پانچ منٹ میں ہو گیا تھا۔۔ ورکشاپ پر اتنا ٹاٸم لگ گیا۔۔“ ریما کی بوکھلاہٹ کو دیکھ کر اس نے ہی سنجیدگی سے بہانہ گھڑا۔ ریما زور زور سے سر ہلاتی تاٸید کرنے لگی، انہیں خاموش ہونا پڑا۔۔
”میں اب چلتی ہوں پھر۔۔ کافی لیٹ ہو گٸی۔۔“ ریما نے کھڑے کھڑے معذرت کی اور تیزی سے نکل گٸ۔۔
پریہان بھی ان کے مزید سوالوں سے بچنے کے لیے جا کر اپنے کمرے میں بند ہو گٸی۔
باہر بچوں اور پروا کا شور شرابہ گونج رہا تھا۔۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتی گھٹ گھٹ کر روتی جا رہی تھی۔۔ اسے گھر والوں کو بتانا تھا۔۔ جو ہوا اور جو سچ تھا۔۔ بس صاف صاف بتا دینا تھا، وہ تو بس اتنی قصور وار تھی کہ بلانے پر ملنے چلی گٸی۔۔
مگر وہ چپ رہی، رات ہوٸی، دن گزر گیا اور اگلے دن کے بعد بہت دن تک۔۔۔ اس نے چپ سادھ لی۔۔
یہ جانتے ہوٸے بھی کہ جتنا لیٹ کرے گی اتنی بڑی رسواٸی اٹھاٸے گی۔۔ شادی کے قریب، شادی کے موقع پر اگر شادی رکواٸے گی تو بدنامی زیادہ ہو گی۔۔
شادی سے بیزاری تو پہلے ہی ظاہر کر چکی تھی، اس کا رونا بھی شادی سے جوڑ دیا گیا، اس نے منہ ہی نہیں کھولا۔۔ عجیب حالت میں پھنس گٸی تھی۔۔
ہادی نے اس کے کہنے پر شاید گھر والوں کو سمجھا بجھا کر روک لیا تھا، وہ تو ویسے بھی شرمندہ تھے سامنا کیسے کرتے، مہربانی ہی ہوٸی تھی کہ وضاحت سے بچا لیا گیا تھا مگر وہ اسے چپ کروا کر خود بھی چپ سادھ گٸی تھی۔۔
گھر میں رونقیں چلتی رہیں اور مہندی کا دن آن پہنچا۔ اپنے کمرے میں تیاری کے بہانے بند ہوتی پریہان اس بری طرح سے روٸی کہ ہوش حواس سے بیگانہ ہو گٸی۔۔ باہر سب گھر والے مہندی کے لیے میرج ہال جانے کی تیاریوں میں مشغول تھے۔۔ کوٸی نہیں جانتا تھا جس شادی کے لیے پرجوش ہیں وہ کب کی ختم ہو چکی تھی۔
ایک اور فرد تھا جو جانتا تھا۔۔ پریہان کے علاوہ، مسٹر وقار۔۔ ان کے خالو سب جانتے تھے، ہادی نے پریہان کے کہنے کے باوجود انہیں کال کر کے سب بتا دیا تھا۔۔ پھر بھی وہ اتنے دن خاموش رہے اور کسی کو شادی رکنے کی خبر تک نا دی تھی۔۔ پھر بھی انہوں نے سب ہونے دیا، نا شادی روکی نا انتظامات۔۔
کمرے کے دروازے پر ہوتی مسلسل تیز دستک پر بھی جب اندر سے کوٸی جواب نا آیا تو کمرے کی پچھلی جانب بالکونی میں کھلنے والی کھڑکی سے پُروا نے اندر جا کر دروازہ کھولا ، بیڈ کے قریب زمین پر بےہوش پڑی پریہان کو دیکھ کر سب کے حواس اڑ گٸے تھے۔۔ جلدی سے اسے سنبھال کر بیڈ پر لیٹاتے ہوٸے پریسہ رو پڑی۔۔
”اس کو بھی پتا چل گیا ہو گا۔۔ یہ سب کیا ہو گیا آنی۔۔ اتنا بڑا دھوکہ۔۔“ پریہان کی زرد صورت دیکھ کر پریسہ رو رہی تھی، کچھ ہی دیر پہلے وقار صاحب نے عین تیاری مکمل ہوتے ہی دھماکہ کیا تھا کہ دوسری طرف شادی سے انکار ہو چکا ہے۔۔
وہ لوگ اب کالز بھی نہیں ریسیو کر رہے تھے۔۔
پریہان کا خیال آنے پر پُروا اس کے پاس بھاگی تو دروازہ بند تھا، دروازہ کھول کر اسے چیک کیا تو وہ بےہوش تھی۔۔ شاٸستہ بیگم دکھ سے ساکت بیٹھی تھیں، انہیں یہی غم کھا رہا تھا، پریہان راضی نہیں تھی پھر بھی زبردستی کی جا رہی تھی اور نتیجہ کیا نکلا۔۔ لڑکے نے خود شادی کی جلدی مچاٸی اور خود ہی جلد شادی ختم کر دی۔۔ نا سوال نا جواب۔۔ فیصلہ کر لیا۔۔ بدنامی ان کے حصے میں آ رہی تھی۔۔
پریہان نے جب آنکھ کھولی تو پریسہ، پروا اور آنی اس کے ارد گرد بیٹھی رو رہی تھیں۔۔ کچھ فاصلے پر پڑی چٸیر پر انکل بھی بیٹھے تھے۔۔
مطلب انکار پہنچ گیا تھا، شرمندگی، زلت اور پریشانی چہروں پر رقم تھی، اس نے ضبط سے آنکھ میچیں۔ اٹھ کر بیٹھنے لگی تو پریسہ نے جلدی سے سہارا دیا اور سینے سے لگا لیا۔ کیف اور عفرا پریشان سے سب کے چہرے دیکھ رہے تھے۔
”گھٹیا پن کیا ہے اس نے، میں نے بہت سمجھایا مگر نا کوٸی وجہ بتاٸی نا ہی کوٸی جواب دیا۔۔ بیٹا آپ کو کچھ بتایا ہے اس نے؟“ انکل نے اسے دیکھ کر پوچھا تو وہ سمجھ گٸی ہادی نے انہیں انکار پہنچا دیا ہے۔۔
اور یہ بھی سمجھ گٸی اس نے صرف انکار پہنچایا ہے تفصیل نہیں بتاٸی ورنہ انکل اتنا اعتماد سے سب کے درمیان نا بیٹھے ہوتے، وہ سرد نظروں سے انہیں دیکھتی رخ موڑ گٸی مگر یہ بات نوٹس کرنے کے لیے کوٸی ہوش میں نا تھا۔۔
”اب کیا کریں گے۔۔ دو گھنٹوں بعد رسم ہے، لوگوں کو کیا جواب دیں گے، یہ مجھ سے کیا ہو گیا ہے، کاش جب وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے تب انکار کر دیتی میں۔۔ پریہان ایم سوری بیٹا۔۔ “
آنی روتی جا رہی تھیں، ان کو ہر طرف کی فکر ستا رہی تھی، پریہان کو دکھ سے دیکھتی معذرت کرنے لگیں۔
”دفع کرو، گھٹیا لوگ تھے، اب ایک راستہ تو ہے، فیضی کے لیے بھاٸی جان سے بات کی ہے مگر بھابھی صاحبہ نے شرط رکھ دی ہے۔“ انکل کی بات پر سب متوجہ ہوٸے، فیضان عرف فیضی ان کا بڑا بھتیجا تھا، پڑھا لکھا تھا اور اچھے اخلاق کا مالک تھا۔ اس موقع پر اس کا آپشن بہترین تھا۔۔
”کیا شرط؟ کوٸی ماننے کے قابل ہے تو مسٸلہ نہیں، فیضی تو میرا دیکھا بھالا ہے۔۔ پریہان کا ہادی سے کوٸی دلی لگاٶ نہیں تھا کہ پرابلم ہو۔۔“ شاٸستہ بیگم نے بیقراری سے پوچھتے ہوٸے ایک نظر چپ چپ سی پریہان کو دیکھا جب کہ وہ دانت پر دانت جماٸے وقتاً فوقتاً وقار صاحب کو گھور رہی تھی۔
”پریہان کا پلاٹ فیضی کے نام کرنے کا کہا ہے۔۔“ ان کے جملے پر سب کو چپ لگی، پریہان نے ان کے لالچ کی حد دیکھتے تکلیف سے سر جھٹکا۔
”فیضی کچھ عرصے تک واپس پریہان کو دے دے گا مگر فی الحال۔۔ تمہیں تو پتا ہے بھابھی کا۔۔ فیضی کو ایسا کوٸی لالچ نہیں۔۔“ وہ اب دلاٸل دیتے سب کو راضی کر رہے تھے، آنی اور پریسہ نے تذبذب سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”میں نے سوچا ہے کیوں نا ہم نکاح کے وقت لکھوا لیں کہ فیضی کچھ عرصہ تک یہی پلاٹ واپس کر دے پریہان کو۔۔ یہ سب اندر کی بات ریے گی، بھابھی کو اطمینان ہو جاٸے گا، بہترین رشتہ ہے اس وقت لوگوں کو جواب تو دے دیں گے مگر پریہان پر لگا یہ داغ۔۔“
انکل کی ادھوری بات پر پریسہ تڑپ کر سیدھی ہوٸی۔
”تو مسٸلہ کیا ہے انکل۔۔ آپ بات کریں، پلاٹ پراپرٹی عزت سے بڑھ کر تو نہیں۔۔“ پریسہ بول رہی تھی، آنی خاموش تھیں مگر متفق نظر آ رہی تھیں۔
” میرے لیے ہے۔۔“ پریہان نے اچانک منہ کھولا۔ آنی، انکل اور پریسہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”میرے لیے یہ پلاٹ میری عزت سے بڑھ کر ہے۔۔ آپ اپنے بھاٸی اور پیارے بھتیجے کو معذرت کر لیں۔“
وہ سپاٹ لہجے میں بدلحاظی سے بولی۔ پروا پریشان سی بچوں کو سنبھالے ایک ایک کا منہ دیکھ رہی تھی۔
” پریہان پاگل مت بنو۔۔ لوگوں کو کیا جواب دیں گے کیا وجہ تھی شادی سے دو دن پہلے انکار کیوں ہوا۔۔ وہ لوگ تمہارے لیے دل سے راضی ہیں اور کیا چاہیے، بھاڑ میں گٸی یہ پراپرٹی۔۔ انکل آپ بات کریں، میں اپنا پلاٹ دینے کو تیار ہوں۔۔ بس عزت اور احترام سے فکسڈ ڈیٹس میں شادی کر لیں اور بعد کی گارنٹی دیں کہ پریہان کو کبھی تنگی نا ہو۔۔“
پریسہ نے اسے جھڑک کر وقار صاحب سے کہا تو پریہان کا دل جل کر راکھ ہو گیا۔۔
”نہیں چاہیے یہ بھیک اور رحم کا رشتہ مجھے۔۔ نہیں کرنی مجھے کہیں بھی شادی۔۔ کیا ہوا ہے مجھے جو میں یوں ترس زدہ رشتے اپناٶں؟ معذور ہوں یا عیب لگ گیا ہے، طلاق نہیں ہو گٸی کہ آپ لوگ یوں منتیں کریں ایک ایک کی۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔۔ آپ یہ اچھاٸی کا ڈرامہ بند کر دیں اب۔۔“
وہ چیخ اٹھی تھی۔ وقار صاحب نے ٹھٹک کر اسے دیکھا جبکہ باقی سب شاکڈ تھے اس کے الفاظ پر۔۔
”پریہان بیٹا۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔ انکل ہیں تمہارے۔۔ ہم اپنے ہیں، تم اولاد ہو ہماری۔۔ ایسا مت کہو پلیز۔۔“
آنی نے دکھ سے اسے دیکھتے ہوٸے کہا۔ وہ سمجھ سکتی تھیں وہ اپ سیٹ ہو رہی ہے۔۔
”کوٸی نہیں ہے ہمارا۔۔ ہم جن کی اولاد تھے وہ مر گٸے اور بس۔۔ کہتی رہی تھی میں مجھے شادی نہیں کرنی مگر آپ لوگ کو جلدی تھی، پھر سے وہی کام کر رہے ہیں آپ۔۔ اور آنی آپ۔۔ انکل مجھے کسی بےجان چیز کی طرح ان لوگوں کو شراٸط پوری کر کے سونپنے کو تیار ہیں اور آپ کو لگتا ہے میں آپ کی اولاد ہوں۔۔“
وہ چیخ کر بولتی رو رہی تھی، آنی ساکت سی بیٹھی تھیں، انکل خشمگیں نظر سے اسے دیکھتے سمجھ نہیں پاٸے وہ کیوں ایسا بول رہی ہے، کیا وہ سب جان گٸی تھی یا پھر تھک گٸی۔۔ پریسہ نے پریہان کو ٹوکنا چاہا مگر وہ ان سنی کیے بیڈ سے اتری۔۔
”ختم کریں یہ سب ڈرامہ۔۔ میری جلدی شادی کا شوق پورا کر لیا اب بس۔۔ لوگوں سے کہہ دیجیے گا لڑکی بری تھی۔۔ اب مجھے شادی نہیں کرنی۔۔“
وہ سلیپر پہن کر اجنبیت سے بولتی کمرے سے نکل گٸی، سر چکرا رہا تھا، کتنے دن سے سہی کھا پی نہیں پا رہی تھی، اندر کا غبار نکال کر کچن میں گٸی۔
پیچھے سب شاکڈ بیٹھے تھے، وہ اتنی بدلحاظ اور بدتمیز کبھی نہیں تھی، ہر بات مان جاتی تھی ضد بھی کبھی نہیں کرتی تھی اور آج کیا حال ہو گیا تھا۔
”مجھ سے کیا ہو گیا۔۔ میں نے پریہان کی ڈسٹربنس دیکھی تک نہیں۔ اتنے دن سے اندر ہی اندر پریشان تھی اور آج یہ ذلت لے کر بیٹھ گٸی ہے، کتنی تکلیف میں ہے میری بچی۔۔ میں نے کیا کر دیا۔۔“ آنی پھپک کر رونے لگیں۔۔ پریہان کی تکلیف محسوس کر رہی تھیں، پریسہ جامد بیٹھی تھی۔۔
وہاں کچن میں، وہ فریج میں پڑی بریانی کا باکس اٹھا کر پلیٹ میں نکالتی اوون میں گرم کرنے لگی، آنسو مسلسل بہہ رہے تھے، دل کُرلا رہا تھا مگر وہ پتھر بنی کھڑی تھی۔ اسے پتا تھا سب کو فیس کرنا مشکل ہو گا مگر وہ اب طے کر چکی تھی، انکل کی حقیقت کے بعد تو وہ پُروا کو کبھی اکیلے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔
کیا خبر کبھی لالچ میں پلاٹ لینے کے لیے اس کے ساتھ بھی کچھ غلط کر جاٸیں، وہ سہم گٸی تھی، ڈر رہی تھی۔۔ اندر سے کمزور پڑ رہی تھی۔۔ اتنی بڑی تو وہ بھی نا تھی کہ معاملات سمجھ کر سنبھال سکتی۔۔
پانی کا گلاس بھر کر پیتے ہوٸے گلے میں گولے کی طرح اٹکتے آنسو پینے کی کوشش کی۔۔ ابھی گرم ہو چکی بریانی سے چند سپون لیے تھے جب کمرے سے عجیب آوازوں کے ساتھ رونے کی آواز سن کر اس کے ہاتھ لرزے۔ بھاگ کر وہاں پہنچی تو آنی بےحال سی بستر پر گری ہوٸی تھیں، انکل انہیں اٹھا کر تیزی سے باہر نکلے۔۔ پریسہ بھی پیچھے تھی جب پریہان اور پروا کو آتے دیکھ کر وہ پلٹی۔
”تم دونوں ابھی گھر رہو۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔ بچوں کو سنبھالنا اور فکر مت کرنا دو گھنٹوں تک آفان کی فلاٸٹ ہے، وہ پہنچ جاٸیں گے۔۔“ پریسہ تیزی سے بولتی ایک ناراض نظر پریہان پر ڈال کر باہر نکل گٸی۔
پروا بری طرح روتی خوفزدہ ہو رہی تھی، وہ اپنی جگہ شرمندہ سی کھڑی رہ گٸی، آنی کی محبت بےلوث تھی، اس نے انکل کو سنوانے کے چکر میں آنی کو ہرٹ کر دیا تھا۔۔ انہیں کچھ ہو جاتا تو کبھی خود کو معاف نا کر سکتی.. وہ سہم کر زمین پر بیٹھتی چلی گٸی۔۔۔
>>>>>----------YE--------->>>>>
وہ کینٹین میں بیٹھا تھا جب کینٹین بواٸے نے ایک ڈھیر آٸسکریم کا لا کر ٹیبل پر رکھا۔۔ اس نے چونک کر دیکھا، ہر پیک پر سوری لکھا ہوا تھا۔
عیسٰی نے نظر اٹھا کر ہر طرف گھماٸی اور پھر ایک جگہ رک گٸی، سامنے ہی وہ کان پکڑے کھڑی تھی۔
اس نے سر جھٹک کر ٹیبل پر پڑے سامان اور سامنے کھڑی آٸرہ دونوں کو اگنور کیا اور اٹھ کر باہر نکل گیا۔
آٸرہ تیزی سے اس کے پیچھے بھاگی، وہ لیب کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس نے زور سے پکارا۔
”عیسٰی خان پلیز میری بات سنیں۔۔ ایم سوری پلیز۔۔“
وہ روہانسی آواز میں بولی تو عیسٰی رک کر پلٹا۔
”سوری فار واٹ۔۔؟ یو ہیو ڈن نتھنگ۔۔“ وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ آٸرہ قدم بڑھا کر اس کے پاس پہنچی۔
”آٸی واز رونگ۔۔“ اس نے سر جھکا کر غلطی تسلیم کی۔ عیسٰی کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
”مطلب جان گٸی ہو کہ تم غلط تھیں۔۔ سمجھ آ گٸی ناں کہ مجھے بلا وجہ ایٹیٹیوڈ دکھانا اور زرا زرا سی بات پر نخرہ دکھانا غلط تھا۔۔“ وہ بولا تو آٸرہ نے شرمندگی سے جھکا سر جھٹکے سے اوپر کیا۔
وہ مسکراہٹ دباٸے کھڑا تھا، آٸرہ اسے دیکھ کر رہ گٸی۔ مطلب وہ کب سے صرف ڈرامہ کر رہا تھا۔۔؟
”کیا ہوا اب۔۔؟ جم کیوں گٸی ہو۔۔ سمجھ نہیں آٸی تو او۔کے کچھ دن اور منانے کی کوشش کر لو۔۔“
وہ کندھے اچکا کر پلٹ گیا تھا۔ وہ ہڑبڑا کر اس کے پیچھے ہو لی۔
”سمجھ گٸی ہوں کہ آپ کے سامنے کسی بھی غلطی کی گنجاٸش نہیں۔۔“ آٸرہ نے خفا نظر اس پر ڈالی تو وہ رک کر اسے دیکھتا اسے پھر سے بوکھلانے پر مجبور کر گیا۔ شاید یہ بات بھی بری لگی تھی اسے۔۔
”ہاں نہیں ہے۔۔ مگر مان گیا ہوں ناں جلدی۔۔ تو کیا چاہتی ہو پھر سے روٹھ جاٶں۔۔ اور دیکھو میں اس ٹاٸپ کا لڑکا نہیں ہوں کہ فرینڈز میں لڑکیوں کو ڈسکس کروں۔۔ تم میری فرینڈ ہو لیکن لڑکی ہو۔۔“
وہ صاف گوٸی سے سمجھاتا آٸرہ کو اٹکا گیا۔ فرینڈ؟ کیا وہ بس فرینڈ تھی۔۔ وہ تو جانے کیا کچھ سمجھ بیٹھی تھی۔ اس نے بےساختہ عیسٰی کو دیکھا۔
”کیا ہم فرینڈز ہیں؟“ آٸرہ نے رک کر سنجیدگی سے پوچھا تو وہ بھی اس کے سامنے رک گیا۔
”افکورس۔۔ اسی لیے تو ساتھ ہو۔۔ تمہیں کیا لگا ٹاٸم پاس کر رہا ہوں۔۔“ وہ مسکرا کر بول رہا تھا۔ بہت ہیارا مسکراتا تھا۔ یونی میں یہ بات مشہور تھی کہ عیسٰی خان کی مسکراہٹ بہت بےساختہ اور اٹریکٹیو ہے۔۔
آج وہ اس کے سامنے مسکرا رہا تھا مگر آٸرہ کو تو اس کے جملوں نے ساکن کر دیا تھا۔ تو کیا وہ یک طرفہ محبت میں مبتلا رہی تھی۔ اتنی خوش فہم ہوتی رہی تھی اور وہ سامنے کھڑا مسکرا کر فرینڈ کہہ رہا تھا۔
”اچھا سنو میں کچھ دن نہیں آٶں گا، بزی ہوں تو تم ویٹ مت کرنا او۔کے۔۔“ وہ پھر سے قدم آگے بڑھاتا بول رہا تھا آٸرہ وہیں کھڑی رہی تھی۔۔
”عیسٰی۔۔“ اس نے اچانک پکارا تو وہ حیرت سے رکا۔
”سنو پلیز مجھے عیسٰی خان کہا کرو۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔“ وہ پھر سے ٹوک گیا۔ اس بار وہ سمجھ گٸی کیوں ٹوک رہا یے۔۔ وہ حد میں رکھ رہا تھا۔۔
شروع سے ہی ایک لاٸن رکھی تھی درمیان میں اور ایک وہ تھی کہ سب بھلاتی جا رہی تھی۔۔
”میں آپ کو فرینڈ نہیں سمجھتی۔۔“ وہ اس کی بعد اگنور کیے بولی تو وہ ٹھٹکا اور ابرو چڑھاٸی۔
”میں تو پہلے دن سے۔۔ کبھی آپ کو فرینڈ نہیں سمجھتی تھی۔۔“ وہ مزید بولتی قریب آٸی۔ عیسٰی خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر گہری سجیدگی چھا چکی تھی۔۔
”میں آپ کو۔۔۔ پسند کرتی ہوں۔۔“ وہ اس کے عین سامنے آ کر رکی اور آہستگی سے بولی۔
عیسٰی کو اب بھی کوٸی جھٹکا نہیں لگا تھا، وہ اپنی بات کہہ کر جواب کے لیے منتظر رہی مگر وہ تیزی سے پلٹ کر چلا گیا۔۔ آٸرہ کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
وہ تیزی سے پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔ چہرہ سپاٹ ہو رہا تھا۔۔
”یار میں تو کبھی فرینک بھی نہیں تھا اتنا۔۔ خود میرے پاس آٸی تھی، خود مجھ سے کہا پسند کرتی ہے، شادی کرنا چاہتی ہے۔۔ میں نے جب پرپوز کیا تو مان گٸی شادی تک کر لی۔۔ اب پتا چلا وہ محبت کا اظہار اور شادی کی آفر سب پرینک تھا۔۔ میں بس ایک کھیل تھا اس کے لیے۔۔“
موسٰی کی اداس نم آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔۔ اس نے بال مٹھیوں میں جکڑ لیے۔۔
تو کیا آٸرہ بھی اس سے کھیل رہی ہے۔۔ پرینک کر رہی ہے، کیا لڑکے مذاق ہوتے ہیں بس۔۔ عیسٰی خان اب سب کو موسٰی کے تجربے کی آنکھ سے دیکھنے لگا تھا۔۔
>>>>>>----------Y.E--------->>>>
وہ ڈاکٹر سے خان زوار کے ڈسچارج ہونے کی بات کر کے خان یوسف کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھتا واپس جانے کی بات کر رہا تھا، ادب خان سے ساری معلومات لے کر یہ معاملہ بھی سنبھالنا تھا۔۔
”رکو میں بھی ساتھ چلوں گا تمہارے۔۔ تھکن سے برا حال ہے۔۔ شکر ہے زوار خان اب ٹھیک ہے۔۔“ وہ تھکن زدہ سے بولے تو اس نے سر ہلایا۔۔ رات سے ہی آغا جان کو بھیجنا چاہ رہا تھا مگر وہ خان زوار کے بالکل سنبھل جانے سے پہلے ہلنے کو تیار نا تھے۔۔
ان کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا جب وہ ایک کمرے کے کھلے دروازے کے سامنے رک گٸے۔ خانزادہ نے بھی ان کو رکتا دیکھ کر قدم روک لیے۔۔
”شاٸستہ۔۔ یہ میرے ارباز کی شاٸستہ۔۔“ آغا جان کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ چونکا اور سامنے دیکھا، بستر پر کمزور نڈھال سی جوان عورت تکیوں کے سہارے نیم دراز تھیں۔۔ وہ اس کے چچا ارباز خان کی کلاس فیلو تھیں۔۔ ارباز خان محبت کرتے تھے ان سے، خان یوسف سے بھی ملوا چکے تھے مگر خان یوسف نے صاف انکار کر دیا کہ وہ شہری اور کمتر خاندان سے کبھی ان کی دلہن نہیں لا سکتے۔۔ اس بات پر اباز خان کتنے دن افسردہ بھی رہے تھے اور اس بات کا ان کے قتل کے بعد خان یوسف کو بہت قلق رہا تھا۔۔ اتنا دکھ ہوا کہ وہ خان زوار کو اسی طرح شہری لڑکی سے شادی کرنے پر سختی سے روک نہیں پاٸے تھے۔۔
آغا جان تیزی سے اس کمرے میں داخل ہو چکے تھے، عورت کے پاس ایک جوان لڑکی بیٹھی تھی، خانزادہ نے گہرا سانس بھر کر قدم اندر بڑھاٸے اور دروازے کے قریب کچھ قدم پر رک گیا۔
”بچے۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟ میں خان یوسف ہوں خان ارباز کے والد۔۔“ آغا جان نے ان دونوں کی حیرت پر اپنا تعارف دیا تھا۔ شاٸستہ بیگم چونکیں۔
”جی جی پہچان لیا انکل۔۔“ انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔ لہجہ نقاہت بھرا تھا۔
”شاٸستہ مجھے معاف کردو بیٹا۔۔ ارباز نے جب تم سے ملوایا تھا، پسند کرتا تھا میرا بیٹا اور شادی کرنا چاہتا تھا مگر میں نے اس کے احساسات کی پروا کیے بنا آپ کو برا کہا۔۔ اپنا بیٹا کھونے کے بعد آج تک یہ خلش دل میں ہے، مجھے پتا ہوتا وہ کچھ وقت کا مہمان ہے، اسے کبھی انکار نا کرتا۔۔ “
وہ نم لہجے میں بیٹے کو یاد کرتے معافی مانگنے لگے، وہ چونک گٸیں، جب پہلی بار یونی میں وہ ملے تھے تو کافی سرد اور کرخت مزاج سے لگے تھے، شاید پیٹھ پیچھے غلط بھی کہا ہو گا مگر آج بہت شفقت سے بات کر رہے تھے، مسز شاٸستہ کو ان کا یوں پریسہ کے سامنے وہ سب بولنا شرمندہ کر گیا۔ وہ ارباز کو بس ایک کلاس فیلو ہی سمجھتی تھیں۔۔ انہیں فرق نہیں پڑا تھا خان یوسف جیسا بھی سمجھتے رہے انہیں۔۔
”کوٸی بات نہیں انکل۔۔ وہ سب گزر گیا، آپ معافی نہیں مانگیں۔۔“ وہ خفت زدہ سی بول رہی تھیں، ایک چور نظر بھانجی پر ڈالی جو خاموشی سے بیٹھی تھی۔ شکر تھا وقار صاحب ڈاکٹر سے بات کرنے گٸے ہوٸے تھے ورنہ زیادہ شرمندگی ہوتی۔
”کیا ہوا ہے؟ اتنی کمزور اور نڈھال کیوں لگ رہی ہو؟“
انہوں نے اب غور کیا تھا، وہ پیشنٹ بیڈ پر ہیں تبھی نرمی اور شفقت سے سوال کیا تو وہ پھیکا سا مسکرا کر سر ہلا گٸیں۔ خانزادہ کچھ فاصلہ پر کھڑا سب سن رہا تھا۔ آغا جان تو فرصت سے رک ہی گٸے تھے۔۔
”جی ٹھیک ہیں۔۔ انجاٸنا کا اٹیک ہوا تھا ان کو۔۔ مگر اب کافی سٹیبل ہیں۔۔“ قریب بیٹھی لڑکی نے آہستگی سے بتایا تو وہ پریشان ہوٸے، شاید مرے ہوٸے بیٹے کی نسبت سے انہیں وہ عزیز محسوس ہو رہی تھیں۔۔
”کوٸی پریشانی کی بات ہے؟ کوٸی مسٸلہ ہے تو مجھے بتاٶ، اپنا باپ ہی سمجھو مجھے۔۔“ وہ نرمی سے بولے، خانزادہ نے گہرا سانس بھر کر ہینڈ واچ میں ٹاٸم دیکھا اور ایک نظر سامنے اپنے آغا جان کو جو ایک سٹول پر اب ٹِک کر بیٹھ گٸے تھے۔
”نہیں کوٸی پریشانی نہیں۔۔“ ان کا لہجہ بھیگ گیا، پریہان کی پریشانی اب بھی سر پر سوار تھی۔
”پریشان کیوں لگ رہی ہو بچے۔۔“ آغا جان نے نرم لہجے میں استفسار کیا تو وہ رو پڑیں۔ پریہان کی ساری پریشانی بتا دی، پریسہ نے حیرت سے آنی کو دیکھا جو ایک اجنبی بزرگ کے سامنے سب بول گٸی تھیں۔۔
”فکر مت کرو۔۔ جو لوگ پراپرٹی مانگ رہے ہیں ان کا بعد میں کیا بھروسہ۔۔ بچی نے تو انکار کر کے اچھا کیا۔۔ میں کرواٶں گا اس بچی کی شادی فکر مت کرو۔۔“ آغا جان انہیں تسلی دلاسہ دیتے حیرت میں مبتلا کیے خانزادہ کے ساتھ روم سے باہر نکل گٸے۔۔
خان زوار کے روم کی طرف جاتے ہوٸے سوچ میں مبتلا جانے کیا فیصلہ کرنے والے تھے۔۔ خانزادہ خاموشی سے ان کے پیچھے چلتا مسز شاٸستہ کی باتوں کو سوچ رہا تھا۔۔
” خان ایسا کرو ادب خان کو کال کرو۔۔ اسے کہو جلد شہر پہنچے۔۔“ روم میں داخل ہو کر انہوں نے خیال سے جاگ کر اچانک خانزادہ کو ہدایت دی۔
” کیوں کیا ہوا آغا جان سب ٹھیک تو ہے۔۔“ روم میں موجود سب لوگ ٹھٹکے۔ خانزادہ ماتھے پر بل ڈالے کھڑا تھا۔ آغا جان بیٹوں کو سارا ماجرا سنا رہے تھے۔
”میں نے سوچا، ادب خان دیکھا بھالا ہے، ہمارے خان کے ساتھ رہ رہ کر شخصیت بھی سنوری ہوٸی ہے۔۔ وہ بہتر انتخاب ہو گا۔۔“ آغا جان کی بات درست تھی، سب کو اتفاق ہوا تھا مگر وہ نفی میں سر ہلا گیا۔۔
”ادب خان کی کیا ضرورت ہے، میں ہوں ناں۔۔“ وہ یکدم مسکرا کر بولا تو سب نے اس سرپھرے خانزادہ کو دیکھا جس کا دماغ پھر سے گھوم چکا تھا۔
”کیا بکواس کر رہے ہو۔۔ ادب خان کو بلاٶ، یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔۔“ خان یوسف نے اسے ڈپٹ کر خاموش کروانا چاہا مگر وہ سر ہلاتا آگے بڑھا۔
”بکواس نہیں سنجیدہ ہوں۔۔ آپ کو کافی جلدی تھی ناں میری شادی کی۔۔ تو ٹھیک ہے میں کر لیتا ہوں اس لڑکی سے شادی۔۔“ وہ اس بار سنجیدگی سے بولا۔
”بیٹا یہ وقت ضد کا ہرگز نہیں، لڑکی کو نا دیکھا ہے نا جانتے ہیں، جلدبازی میں فیصلہ مت کرو۔۔“ خان آزر نے نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”خان میں بہروز خان کو کیا جواب دوں گا۔۔ صرف اس رشتہ کی ضد میں ایسا کہہ رہے ہو ناں۔۔؟“ آغا جان پریشانی سے بولتے اس کے پاس آٸے، اپنی جتاٸی ہوٸی ہمدردی گلے پڑ رہی تھی۔ مدد کرنا چاہتے تھے مگر ایسا بھی نا تھا کہ اپنی حویلی کے سب سے قیمتی لڑکے کے ساتھ ان دیکھی لڑکی کو بیاہ دیتے مگر سامنے کھڑا وہ قیمتی لڑکا ضد پر اٹک چکا تھا۔
”بہروز خان سے کیا لینا دینا۔۔؟ آپ نے تو رشتہ سے انکار کرنا تھا یاد نہیں کیا؟ مجھے پتا تھا آپ ایسے ہی سوچتے رہیں گے اور وہ لوگ انکار سن کر بھی ڈھیٹ بنے رہیں گے۔۔ پھر کیا ہو گا کچھ دن بعد مجھے ایموشنل بلیک میل کر کے آپ شادی کروا دیں گے۔۔ نیور ایور۔۔“ وہ نفی میں سر ہلاتا بولتا جا رہا تھا۔ دونوں بڑے بھاٸی منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے جسے کھڑے کھڑے شادی کرنا تھی وہ بھی انجان لڑکی سے۔۔
باپ اور چچا نے پریشانی سے آغا جان کو دیکھا جن کا اس ضدی پن پر پارہ ہاٸی ہو رہا تھا۔۔
”دماغ گھوم گیا ہے تمہارا اور کچھ نہیں۔۔ بہروز خان کی پوتی کی ضد میں کسی بھی ایری غیری سے شادی کر لو گے۔۔ ان کے خاندان کا پتا ہے کچھ۔۔ کوٸی نام ہی نہیں ان کا۔۔“ آغا جان نے بمشکل ہاسپٹل کا لحاظ کر کے دبی دبی آواز میں اسے ڈانٹا تھا۔
”کچھ وقت پہلے آپ اپنے مرحوم بیٹے کو خالی ہاتھ لوٹانے پر نا صرف دکھی تھے بلکہ معافی بھی مانگی ان سے۔۔ اب پھر سے خاندان کی بات۔۔ مدد کر ہی رہے ہیں تو ٹھیک سے کریں آغا جان۔۔۔ یا مجھے بھی ایک دو گولیاں کھا کر بات منوانی ہو گی۔۔“ سینے پر بازو لپیٹتا جس بےنیازی سے وہ بولا، سب تڑپ اٹھے تھے۔۔ آغا جان اس کی بات پر دھک سے رہ گٸے۔۔ اس کے زخمی ہونے کا سوچ کر بھی ان کا دل دہل گیا۔۔ انہیں جتنا عزیز تھا اتنا ہی بےرحم تھا۔۔
موقع سے فاٸدہ اٹھانے میں ماہر اور اپنی منوانے کی ایک وہی بری عادت جس سے چوکتا نہیں تھا۔۔
”گھر والوں سے مشورہ کرنا سیکھو۔۔ یہ اب موجود ہیں پوچھو انہیں، یہ بات دل کو لگ رہی ہے کیا، بیٹھے بیٹھے کسی سے بھی تمہارا نکاح کروا دیں۔۔ خانی کا سوچا ہے؟ اسے کبھی یہ بات پسند نہیں آٸے گی، ماں کو بھی ناراض کرو گے۔۔؟“ آغا جان نے ضبط کرتے ہوٸے کہا۔ اسے سمجھانا یا کوٸی بات منوانا ہمیشہ سے مشکل ترین رہا تھا اور انہیں کوٸی ایسا موقع یاد نہیں آیا جب وہ مان بھی گیا ہو۔۔
”مورے کو میں سنبھال لوں گا اور رہی بات ان سب کی۔۔“ اس نے بات کرتے ہوٸے ایک نظر، باپ، چچا اور بھاٸیوں پر ڈالی تھی جو منہ کھولے اسے تک رہے تھے۔
”کسی نے دیکھا ہی نہیں لڑکی کو تو کیسا اعتراض۔۔“
خود ہی سب کی طرف سے جواب دیتا وہ کندھے اچکا کر بولتا خان یوسف کا ضبط آزما رہا تھا۔
”بس بہت سن لی تمہاری بات۔۔ اب تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو اچھا ہے۔۔ خان آزر ابھی کال کرو ادب خان کو اور اسے میرا پیغام دو۔۔ ابھی نکاح ہو گا اور طے شدہ وقت کے مطابق دو دن بعد رخصتی۔۔“
خان یوسف نے رعب دار لہجے میں کہتے ہوٸے خان آزر کو حکم دیا۔ اس معاملہ میں وہ خانزادہ کی ضد ہرگز ماننے والے نہیں تھے۔۔ مگر وہ بھول گٸے تھے ادب خان سب سے زیادہ خانزادہ کا ہی وفادار تھا اور اس کی اجازت کے بنا کچھ نہیں کرتا تھا چاہے علاقے کا سردار بھی حکم دے دے۔۔۔
وہ ناراضگی سےانہیں دیکھتا روم سے باہر چلا گیا۔
”یاور پیچھے جاٶ اس کے۔۔ ایسا نا ہو غصے میں گاڑی لے کر نکل جاٸے۔۔ دماغ خراب ہو گیا ہے اس لڑکے کا۔۔
میری ہی ڈھیل کا نتیجہ ہے، کوٸی رشتوں کا پاس نہیں رہا اسے۔۔“ خان یوسف نے یاور کو بھیج کر اپنے غصے پر قابو کیا۔ گھنٹے سے بحث کرتا وہ سر درد کر چکا تھا۔ الٹا ناراض بھی ان سے ہی ہو کر چلا گیا۔۔
”ڈاکٹر نے کہا ہے ابھی تفصیلی چیک اپ کر کے ڈسچارج کر دے گا۔۔ موسٰی خان کو کسی نے بتایا اس حملہ کا۔۔؟ بتا ہی دینا تھا شاید اب کوٸی لحاظ کر لے اور لوٹ آٸے گھر۔۔ غلطیاں بھی کرتے ہیں اور اکڑ بھی خود دکھاتے ہیں۔۔ سارے بد دماغ میرے گھر ہی پیدا ہونے تھے۔۔“ خان یوسف غصے سے بڑبڑاتے جا رہے تھے۔ سب خاموش ہی رہے۔ موسٰی کو خان داور نے بتا دیا تھا مگر اس کی طرف سے فی الحال کوٸی جواب نہیں آیا تھا اور یہ بات آغا جان کو بتانا مطلب ایک اور محاذ کھول دینا تھا۔۔
”آغا جان۔۔“ خان یاور کچھ دیر بعد بوکھلایا ہوا سا کمرے میں داخل ہوا تو سب نے پریشانی سے اسے دیکھا۔۔ جانے اب کیا ہو گیا تھا۔
”وہ۔۔ خانزادہ تو اس کمرے میں عورت کے پاس گیا ہے۔۔“ خان یاور کی بات پر آغا جان جھٹکا کھا کر اٹھے اور دانت کچکچانے لگے۔۔
خان زوار، خان آزر اور داور مسکراہٹ دبا گٸے۔۔ ناکوں چنے چبوانے کی پوری مثال تھا خانزادہ۔۔
ڈاکٹر آ کر خان آزر کا چیک اپ کر کے اطمینان ظاہر کرتا ضروری ہدایات دے رہا تھا جبکہ خان یوسف کمرے میں ٹہلتے خانزادہ کا انتظار کر رہے تھے، جانے وہ وہاں کیا بات کر رہا ہو گا، ادب خان نے تو کال اٹینڈ ہی نہیں کی تھی۔۔ اور وہ وہاں جا کر خانزادہ کی بات کا حصہ نہیں بن سکتے تھے، بہتر تھا بعد میں کوٸی بھی بات کر کے سب سنبھال لیں۔۔ وہ کچھ دیر بعد لوٹا تو ان سے گھر چلنے کی بات کرنے لگا۔۔
”کیا بکواس کی ہے وہاں جا کر۔۔؟“ آغا جان کے سخت لہجے پر وہ لب بھینچ کر انہیں دیکھنے لگا۔
”حویلی چل کر بات ہو گی آغا جان۔۔“ وہ ناراض لہجے میں بولتا باہر نکلا، انہیں خاموش ہونا پڑا، سب گاڑیوں میں حویلی کی طرف روانہ ہوٸے، پہنچنے تک رات کا ایک بج رہا تھا۔ خان زوار کے زخمی ہونے کی اطلاع پہنچ چکی تھی تبھی حویلی کی عورتیں ابھی تک جاگتی پریشان تھیں، وہ پہنچے۔۔ خان زوار کی خطرے سے باہر حالت دیکھ کر سب کو سکھ کا سانس آیا ہی تھا کہ خانزادہ نے سب کے سر پر بم پھوڑا۔
”میں نے مسز شاٸستہ سے بات کر لی ہے، کل کا دن چھوڑ کی ان کی بھانجی کی رخصتی تھی اور اب بھی طےشدہ وقت پر ہی ہو گی۔۔ میرے نکاح کی تیاری کر لیجیے گا سب۔۔“ وہ اطمینان سے بول رہا تھا۔ مرد سر پکڑ بیٹھے اور عورتیں تو تھی ہی انجان۔۔ آخر وہ بات کیا کر رہا تھا۔۔ ہونق زدہ سب کے منہ دیکھنے لگیں، وہ لوگ ہاسپٹل گٸے تھے یا رشتہ کرنے۔۔
”یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا۔۔ کیسی شادی اور کس سے کر رہے ہو شادی۔۔“ خانی بیگم نے حواس باختگی سے اس سے سوال کیا۔ اس نے آغا جان کو دیکھا۔
”آغا جان کے جاننے والے ہیں وہاں میری شادی ہے۔۔ باقی تفصیل آغا جان دیں گے۔۔۔ مجھ سے کوٸی گلہ نا کرے اب۔۔ میں نے بہت بار کہا تھا کہ بات مان لیں میری۔۔ اگر میرا وہ نام نہاد رشتہ توڑ دیتے تو آج یہ قدم کبھی نا اٹھاتا۔۔ مورے آپ کو بھی کہا تھا میرے لیے بات کریں مگر آپ بھی اگنور کر گٸیں۔۔“
وہ سنجیدگی سے بولتا سارا الزام ان پر ڈال کر ہلکا پھلکا ہوا گیا۔۔ یعنی اس کی غلطی تو کہیں تھی ہی نہیں۔۔ سب کیا دھرا ان لوگوں کا ہی تو تھا۔۔
”دھمکاٶ مت خان۔۔ خاندانی لوگوں میں طے ہوٸے رشتے ایسے نہیں ٹوٹ جایا کرتے۔۔“ وہ زچ ہوٸے۔۔
”سمجھا لو اپنے بیٹے کو خانی، ہم اس لڑکی کو نا جانتے ہیں نا کبھی دیکھا ہے، خاندان بھی بہت اونچا نہیں اور یہ اس سے اپنا نکاح طے کر کے آ گیا یے۔۔“
آغا جان نے خانی بیگم کو بھی حقیقت بتا دی تھی۔ باقی سب تماشاٸی بنے خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔۔ خان زوار کو ثنا بیگم روم میں لے گٸیں، جو بھی فیصلہ ہوتا صبح سب کو پتا چل ہی جاتا۔۔ خان آزر نے داور، یاور اور ان کی بیویوں کو بھی سونے کے لیے بھیج دیا۔۔ رات کا دوسرا پہر تھا سب ہی تھکے ہوٸے تھے، آغا جان اور ماں باپ کی نیند تو وہ سر پھرا خانزادہ اڑا چکا تھا۔۔
”ایسے کیسے انجان لڑکی سے شادی کر رہا ہے۔۔ ایسی کیا مجبوری ہے خانزادہ۔۔ ایسا کیوں کر رہے ہو بیٹا۔۔“
خانی بیگم بےچارگی سے رونے والی ہو رہی تھیں۔ بےبسی سے اسے جم کر کھڑا دیکھا۔۔
”مورے میں نے کہا تھا مجھے بہروز خان کی پوتی سے شادی نہیں کرنی۔۔ اور مجھے لگتا ہے یہ بات اُنہیں بھی اسی طرح سمجھ آٸے گی جب میری شادی ہو گی۔۔ پلیز اب یہ ٹاپک بند کریں، تھک گیا ہوں میں۔۔“
وہ جھنجھلا کر بولا، خانی بیگم نے پریشانی سے خان آزر کو دیکھا تو وہ بھی بےچارگی سے کندھے اچکا گٸے، مطلب سب نے ہی سمجھانے کی اپنی سی کوشش کر لی تھی۔۔
”آغا جان آپ ابھی چچا بہروز خان کو کال کر کے منع کریں۔۔ کہہ دیں ان کی پوتی سے خانزادہ کی شادی نہیں ہو سکتی۔۔ اور خانزادہ ہم کوٸی خوبصورت خاندانی لڑکی ڈھونڈ کر تمہاری شادی کریں گے اب اس ضد کو ختم کر دو۔۔“ خانی بیگم نے آغا جان سے گزارش کی اور مڑ کر اسے بھی التجاٸیہ کہا۔
خان یوسف گہری سوچ میں مبتلا تھے، ان کا تیز دماغ اب کام کر رہا تھا، خانزادہ کو ہاتھ میں کرنے کا اچھا موقع مل رہا تھا۔۔ وہ اپنی بات منوانے پر اٹکا تھا اور اس کی بات مان کر بہت سے فاٸدے نظر آ رہے تھے۔
”چلو ٹھیک ہے شادی کر دیتے ہیں مگر کچھ باتیں ماننا ہوں گی پھر ہم یہ شادی کریں گے۔۔“ خان یوسف کی بات پر خان آزر اور خانی بیگم نے بےیقینی سے انہیں دیکھا، وہ اتنی جلدی کیسے مان گٸے۔۔ خانزادہ نے سوالیہ انداز سے ابرو چڑھاٸے۔۔
”تمہیں اس علاقے کا سردار بننا ہو گا جب بھی کہیں گے۔۔ اور اگر وہ لڑکی یہاں سہی سے ایڈجسٹ نا ہو پاٸی اور سب کو اچھی نا لگی تو تمہیں اسے چھوڑنا ہو گا۔۔ یہ باتیں مان لو تو ٹھیک ہے تمہاری طے کی ہوٸی بات پر ہم باقاعدہ بارات لے جاٸیں گے۔۔“
خان یوسف نے سنجیدگی سے کہا۔ اس نے ایک نظر ماں باپ کو دیکھا تو وہ بھی اسی کو دیکھ رہے تھے مطلب اس بات سے متفق تھے۔ انہیں لگتا تھا اب انکار کر دے گا وہ۔۔ مطمٸین تھے۔۔
”او۔کے۔۔ ڈن“ اس نے کندھے اچکاٸے، ان کا اطمینان غارت کیا اور مزید کچھ سنے یا بولے بغیر سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ خانی بیگم تو زلزلوں کی زد میں آٸیں۔
”آغا جان میں سب کو کیا جواب دوں گی؟ ایک عام سی لڑکی کو ہماری حویلی کی بہو کیوں بنایا گیا، کیا مجبوری تھی۔۔؟“ وہ تلملا کر رہ گٸیں۔۔
”فکر مت کرو بچے۔۔ وہ لڑکی کسی طور ہماری حویلی میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے گی۔۔ یہاں کا روایتی لباس تک نہیں پہن پاٸے گی۔۔۔ ایک بار بات مان کر اگر ہم خانزادہ سے اپنی باتیں منوا سکتے ہیں تو کوٸی بات نہیں۔۔ تھوڑا صبر کر لیتے ہیں۔۔
بہو کو یہاں کا رہن سہن سکھانا تمہاری زمہ داری ہو گی، زرا سختی کر لینا۔۔ “ خان یوسف نے آہستگی بولتے ہوٸے انہیں بہت کچھ سمجھا دیا، ان کا کس بات کی طرف اشارہ تھا وہ سمجھ رہی تھیں تبھی ناچاہتے ہوٸے بھی خاموش ہو گٸیں۔۔
”اب سو جاٶ بہت تھکاوٹ ہو گٸی ہے، کل انتظامات سنبھالنا ہوں گے۔۔ کچھ قریبی لوگوں کو دعوت نامہ بھیج دینا آزر خان۔۔ پرسوں صبح صبح نکلنا ہو گا، نکاح کا فریضہ بھی انجام دینا ہو گا اور واپسی بھی۔۔
ولیمہ کی رسم رخصتی سے دو دن بعد کی رکھ دو۔۔“
خان یوسف نے انہیں ہدایات دیں۔۔ وہ سر ہلا گٸے۔
”آپ فکر مت کریں آغا جان سب ہو جاٸے گا۔۔ بچوں کو بھی شہر سے بلوا لوں گا، کل پہنچ جاٸیں گی لڑکیاں۔۔
باقی کاموں کے لیے ادب خان پھرتیلا ہے اب اپنے خان صاحب کی شادی کے لیے تو بھاگا بھاگا آٸے گا۔۔“
خان آزر نے مسکرا کر جواب دیا۔ خانی بیگم بےزاری سے سر جھٹکتی کمرے میں چلی گٸیں، اتنا کچھ سوچا تھا، شادی دھوم دھام سے کرنا چاہتی تھیں کہ پورا خاندان اور علاقہ برسوں یاد رکھے مگر وہ اپنی شادی کی اتنی جلدی مچا چکا تھا اور سب سے بڑا غم کسی نے لڑکی کو نا دیکھا تھا نا ہی جانتے تھے۔۔ جانے کیسی تھی۔۔ پھر کمتر خاندان۔۔ خاندان اور علاقہ کے لوگوں کا سوچ سوچ کر ان کا برا حال ہو رہا تھا۔
خان یوسف بھی اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گٸے، بہروز خان کو سمجھانے کا سوچ لیا تھا اگر وہ واقعی چاہتا تھا کہ اس کی پوتی خانزادہ کی دلہن بنے تو اسے بھی صبر کرنا ہو گا۔۔
رات کے دو بجے سب سونے کے لیے بستر پر دراز ہو چکے تھے مگر آغا جان اور خانی بیگم بس کروٹیں بدلتے رہ گٸے تھے۔۔ ایک سوچ جو دماغ میں اٹک گٸی تھی، جانے لڑکی کیسی ہو گی۔؟
>>>>>>------------Y.E----------->>>>>
”پریہان مہندی والی لڑکی کو منع تو نہیں کیا تھا ناں؟ اور آنی بیوٹیشن کا نمبر دیں، اس سے زرا جلدی کا وقت لینا ہے۔۔“ پریسہ نے اس سے پوچھ کر آنی سے کہا تو انہوں نے قریب پڑا موباٸل اٹھا کر اسے تھما دیا۔ ”ہانو فرینڈز سے کوٸی ایسی ویسی بات تو نہیں کی تھی ناں۔۔؟“ پریسہ نے بیوٹی پالر کا نمبر نوٹ کرتے ہوٸے اسے دیکھ کر پوچھا۔ پریہان جو پہلے ہی آنی کے زرا سنبھلتے ہی ان کا یوں جلدبازی میں گھر آنے پر حیران پریشان تھی ان کی باتوں سے ٹھٹکی۔
”کیوں؟ اس سب کی کیا ضرورت ہے؟“ اس نے سب کو نظر اٹھا کر دیکھا۔ آنی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھیں۔
پریسہ تو کال اٹینڈ ہوتے ہی روم سےنکل چکی تھی، جانے کیا جلدی مچا رکھی تھی اس نے۔۔
”ارے گڑیا تمہاری شادی ہے تو اس سب کی ضرورت تو ہے ناں۔۔“ آفان بھاٸی نے نرمی سے کہتے ہوٸے ہنس کر اس کا ہونق چہرہ دیکھا۔ انکل بھی ایک طرف بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ وہ شاکڈ ہوٸی۔۔
”پریہان کو نہیں بتایا آپ لوگوں نے۔۔؟“ آفان بھاٸی نے اس کی ناسمجھی پر حیرت سے آنی اور انکل کو دیکھا، آنی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی پریسہ واپس کمرے میں آٸی۔۔
”بات ہو گٸی ہے تھینک گاڈ ٹاٸم مل گیا، پریہان تمہارے لیے جو سامان آیا تھا ہادی کے گھر سے وہ سب اکٹھا کر کے بیگ میں ڈالو تاکہ ان کو بعد میں واپس کیا جا سکے۔۔ دھیان سے سب رکھنا کچھ بھی یہاں نا رہے۔۔“ پریسہ نے اسے ہدایت دی تو اس کا سر چکرا گیا۔ ایسا لگا شادی ٹوٹنے کے غم میں سب پاگل ہو گٸے ہیں، کبھی سامان واپس کرنے کی بات تو کبھی شادی کی تیاری۔۔ یکدم وہ ٹھٹکی، تو کیا اس کی شادی فیضی کے ساتھ کی جا رہی تھی۔۔
”پریسہ آپی۔۔ ان کا سامان میں نے پہلے ہی سمیٹ کر رکھا ہوا ہے، کچھ نہیں چھیڑا۔۔ یہ بتاٸیں یہ سب بھاگ دوڑ کس لیے ہے؟ میری شادی کس سے ہو رہی ہے۔۔“
اس نے پریشانی سے پوچھا تو وہ مسکراٸی۔۔
”فکر مت کرو۔۔فیضی یا کسی بھی لالچی سے نہیں۔۔ بہت اچھے اونچے خاندان میں شادی ہو گی میری پیاری سی گڑیا کی۔۔“ آنی نے محبت سے اس کا حواس باختہ چہرہ دیکھا اور ہاتھ نرمی سے دبایا۔
”آنی۔۔وہ اونچا اچھا خاندان مجھ جیسی عام لڑکی کو کیوں لینے کو تیار ہے؟ کون ہیں وہ لوگ جو اچانک ہی مان گٸے۔۔ کہاں ملے وہ لوگ۔۔“ اس نے پریشانی سے سوال کیے، پریسہ نے آنی کو دیکھا۔۔
”بیٹا اچھے لوگ ہیں، جان ہہچان کے ہیں۔ ہاسپٹل میں میری تیمار داری کے لیے آٸے تو اپنی خوشی سے رشتہ کی بات کی۔۔ اور تم عام بالکل نہیں ہو۔۔“ آنی نے آہستگی سے اسے مناسب جواب دیتے ہوٸے تسلی دی۔
”خوشی سے مانے یا پھر آپ لوگوں نے منت کی۔۔؟ کیا آپ نے سوچا میری ان کی نظر میں کیا ویلیو رہ گٸی ہو گی یوں ہاسپٹل میں کھڑے کھڑے شادی طے کر دی آنی۔۔“ نم آنکھوں سے انہیں دیکھتے وہ بمشکل خود پر ضبط کر پاٸی تھی، دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر روٸے۔۔
کچھ ہی دن میں کیسے بوجھ بن چکی تھی وہ کہ کسی سے بھی اس کی شادی طے کرنے کو تیار تھے سب۔۔
”ہانو اب کوٸی ڈرامہ نہیں۔۔ تمہیں ایشو تھا پلاٹ پراپرٹی کی بات کوٸی نا کرے تو ایسا ہی ہے۔۔ ہم چاہتے ہیں اسی تاریخ میں عزت سے شادی ہو کہ کسی کو بولنے کا موقع نا ملے۔۔ مہندی کے ایونٹ کی معذرت کر لی ہے سب سے وجہ آنی کی اچانک بگڑ جانے والی طبیعت بتاٸی۔۔ بہت مشکل سے سب سنبھالا ہے اب تم کوٸی بحث یا ضد نہیں کرو گی۔۔“
پریسہ نے انداز میں کوٸی بھی لچک لاٸے بنا اسے دوٹوک جواب دیا تو اس نے بھراٸی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی انکل بھی پرسکون بیٹھے شفقت سے مسکرا رہے تھے۔۔ اسے لگا ہادی نے ان پر بھی الزام لگایا صرف اپنی جان بچانے کے لیے۔۔ الجھتی، پریشان ہوتی وہ کمرے میں چلی گٸی۔ بری طرح رونا آ رہا تھا۔۔ اسے اس طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھ کر سوٸے ہوٸے بچوں کے پاس لیٹی پُروا ڈر گٸی۔
”اپیا۔۔ کیا ہوا آپ کو۔۔ شادی نہیں کرنی تو کہہ دیں سب سے۔۔ کوٸی تنگ نا کرے آپ کو۔۔“ وہ رونی صورت لیے اٹھ کر پریہان کے پاس آتی نرمی سے اس کے بال سہلانے لگی۔۔
”میں کچھ نہیں کہہ سکتی پُروا۔۔ میں بس سکون چاہتی ہوں۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے اونچے خاندان کی لالچ نہیں ہے۔۔ مجھے خوف ہے مجھے رہنا نہیں آٸے گا سسرال میں۔۔ اگر میں کسی کے دل میں جگہ نا بنا پاٸی تو کیا ہو گا۔۔ مما ہوتیں تو کیا وہ بھی ایسا کرتیں میرے ساتھ۔۔؟“ وہ ہچکیوں سے روتی بری طرح کانپ رہی تھی۔ اس کے پیچھے آتی پریسہ نے دلگرفتگی سے چھوٹی بہن کو دیکھا۔ آگے بڑھ کر نرمی سے اسے سینے سے لگا کر تھپکنے لگی۔ اس کے لیے تو ابھی وہ بھی چھوٹی تھی۔۔ فورتھ اٸیر کی سٹوڈنٹ ہی تو تھی بس۔۔ اس کو یوں سٹڈی کے درمیان میں ہی اتنا الجھا دیا تھا۔۔
”ہانو میں کبھی اس طرح تمہاری شادی نا ہونے دیتی۔۔ مگر مجھے پتا ہے آج اگر شادی روک دی تو سب سوال کریں گے۔۔ تمہارے کریکٹر پر بات ہو گی۔۔ وہ غلطی اور عیب ڈھونڈا جاٸے گا جس کی وجہ سے تمہیں ریجیکٹ کیا گیا ہے۔۔ کیسے فیس کرو گی یہ سب۔۔۔“
نرمی سے اس کی پشت سہلاتے ہوٸے سمجھانے لگی، وہ خاموشی سے اس کے گلے لگی سسک رہی تھی۔۔
”مجھے ڈر لگتا ہے اگر ان لوگوں نے مجھ پر سختی کی، مجھے اگر پڑھنے نا دیا۔۔؟“ وہ بھیگا چہرہ لیے پریسہ کو تکنے لگی۔۔ اس نے مسکرا کر اس کے آنسو صاف کیے۔۔
”مجھے یقین ہے اپنی بہن پر۔۔ تم سب سنبھال لو گی، سب کو اچھی لگو گی، اتنی کیوٹ سی لڑکی بہو بنے تو کون کافر خوش نہیں ہو گا۔۔“ پریسہ نے اسے ہلکا پھلکا کرنے کے لیے لہجے میں شرارت سمو کر کہا۔۔
”اگر اچھی نا لگیں تو ہم واپس لے آٸیں گے۔۔“ پروا نے حصہ ڈالا تو پریسہ کا دل بیٹھ گیا۔۔
”اللہ نا کرے پاگل لڑکی۔۔ ایسا نہیں کہتے۔۔“ پریسہ کے ٹوکنے پر وہ منہ بنانے لگی، یعنی اچھی لگے یا نہیں اسے وہیں رہنا ہوگا، اس بار اس نے صرف سوچا تھا۔
”ہان سٹڈیز کے لیے جھگڑا یا ضد بالکل نہیں کرنا کچھ عرصہ صبر کرنا پھر آرام سے بات کرنا اپنے ہزبینڈ سے۔۔ وہ ضرور بات مانے گا۔۔ بہت نرم مزاج اور سلجھا ہوا لڑکا لگتا ہے۔۔“ پریسہ نے خانزادہ کو یاد کرتے ہوٸے بتایا جس نے مسکراتے ہوٸے نہایت اعتماد اور اطمینان بھرے لہجے میں شادی کی بات کی تھی۔۔ یعنی وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار تھا تو بیوی کو بھی سہی مقام دلوا سکتا تھا۔۔
پریہان خاموش ہو گٸی۔ پریسہ نے پریشان بیٹھی پروا کو دوسرے بازو کے حصار میں لیتے ہوٸے سب اچھا ہو جانے کی دل سے دعا کی۔۔
_______________
وہ اس وقت سولہ سنگھار کیے میرج ہال کے براٸڈل روم میں بیٹھی تھی، ڈل گولڈن لانگ شرٹ اور ریڈ بھاری لہنگا میں وہ نازک سی گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔ میک اپ نے اس کے نازک نقوش کو مزید ابھار کر دلکشی سونپ دی تھی، چہرے پر اداسی اور پریشانی کے رنگ، شہد رنگ آنکھوں میں بھاری میک اپ کی وجہ سے پھیلا گلابی پن اسے مزید حسین بنا رہا تھا۔
پروا بھاری پیروں تک آتا پیرٹ کلر فراک پہنے اس سے بھی کہیں زیادہ اداس صوفے پر ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھی تھی۔۔ پریسہ اور آنی کے بار بار بلانے پر بھی پریہان سے دور نہیں ہوٸی۔۔
ریما، مرحا اور منال باہر پریسہ کے ساتھ سب سنبھال رہی تھیں، اس لیے پروا کو فورس نہیں کیا گیا۔۔ وہ لمبے شہد رنگ بال ایسے ہی بےترتیب سے پشت پر پھیلاٸے بنا میک اپ کیے دھلا دھلایا منہ لے کر بیٹھی تھی۔۔ پریہان نے رخ موڑ کر اسے دیکھا اور نرمی سے پکارا تو وہ چونکی۔
”پُروا میں تمہیں ملنے آتی رہوں گی، ہر ایونٹ پر، ہر بار جب بھی تم یاد کرو گی یا بلاٶ گی۔“ اس نے دلاسہ دینے کے لیے کہا حالانکہ اندر سے وہ بھی سہمی ہوٸی تھی جانے کیسے لوگ ہوں، اتنا آنے جانے دیں گے بھی یا نہیں۔۔ پُروا کھسک کر اس کے پاس ہوٸی۔۔
”آنی کہتی ہیں وہ لوگ بہت اچھے ہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ میرے ساتھ رہیں۔۔“ وہ سرگوشی میں پوچھ رہی تھی، پریہان اس کا منہ دیکھنے لگی۔
”اگر ایسا ہوتا تو لوگ لڑکی کو رخصت کیوں کرواتے۔۔“ پریہان نے اداسی سے مسکراتے ہوٸے اسے عقل دلاٸی تو وہ بھی سوچ میں پڑ گٸی۔
”ظاہر ہے اس لیے تاکہ اسے اپنا گھر دکھا سکیں۔۔ لڑکیوں نے وہیں رہنا ہوتا ہے آٸی نو۔۔ میں آپ کی بات کر رہی ہوں۔۔ اگر آپ کچھ وقت مزید میرے پاس رہیں کیونکہ آنی کہتی ہیں، اچھے لوگ ہیں۔۔“ پروا نے اسے سمجھایا اور جیسے راز کی بات بتاٸی کہ وہ اچھے لوگوں میں جا رہی ہے۔۔
”پتا نہیں پری۔۔ کتنے اچھے ہیں یہ تو جا کر پتا چلے گا۔۔ اگر واقعی اچھے ہوٸے تو میں تمہارے پاس بہت سارا رہنے آیا کروں گی۔۔“ وہ بھی پُرامید ہوتی سر ہلا کر اتفاق کرنے لگی، پُروا سے باتیں کرتے ہوٸے دماغ سے پریشانی اور خوف جاتا رہا۔ دونوں بہنیں رازداری سے مستقبل کی پلاننگ کر رہی تھیں۔
اسی وقت میرج ہال کے باہر تیزی سے بڑی سیاہ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار آ کر رکنے لگی، جن میں سے شاہانہ انداز لیے عورتیں اور مرد نکلتے میرج ہال میں داخل ہونے لگے، پریسہ الرٹ ہو گٸی، بارات پہنچ چکی تھی اور ایسی شاندار بارات، اتنے شاندار لوگ اونچے چوڑے وجیہہ سرخ و سفید پٹھان مرد اور ویسی ہی دراز قد سفید رنگت کی حامل عورتیں۔۔ شاہانہ لباس میں دراز قد پرکشش اور رعب دار شخصیت کی حامل خانی بیگم نے اندر داخل ہوتے ہی طاٸرانہ نظر دوڑا کر گہرا سانس بھرا۔
جانے لڑکی کیسی ہو گی، دماغ میں کلبلاتا سوال اب تک ویسے ہی مچل رہا تھا۔ مختصر سی بارات تھی مگر ان میں کوٸی بھی فرد عام تو ہرگز نہیں لگ رہا تھا۔ انہیں احترام سے بٹھایا گیا۔
سٹیج پر بیٹھتے مغرور دلکش سے سفید کرتا شلوار پہنے دولہا کو دیکھ کر مرحا ساکت رہ گٸی۔۔
”تم کیوں جم گٸیں؟“ ریما نے اسے ٹہوکا مارا تو وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوتی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔
سب باراتیوں کو چور نظر سے دیکھتے ہوٸے اس نے ایک طرف بنے واش روم کی طرف تیزی سے قدم بڑھاٸے تھے۔۔ ریما نے کندھے اچکاٸے۔۔
”نکاح کی رسم جلد ادا کر لینی چاہیے پھر جلد واپسی ہو گی۔۔ بہت دیر ہو جاٸے گی ورنہ۔۔“ خان یوسف نے ریفریشمنٹ کا سامان سرو ہوتے ہی نکاح کا حکم دے دیا تھا، وقار صاحب اور آفان نے سر ہلایا۔
مولوی کا انتظام تو پہلے ہو چکا تھا، بارات ہی لیٹ پہنچی تھی اور پہنچتے ہی جانے کو بھی تیار تھی۔
خان حویلی کی لڑکیاں بمشکل ٹکی بیٹھی تھیں ورنہ اپنی اچانک اُگ آنے والی بھابھی کو دیکھنے کے لیے وہ خبر ملتے ہی بےتاب تھیں خاص طور پر پلوشہ اور زرشہ تو مچل رہی تھیں۔۔ ریما نے منال اور مرحا کو تلاشا مگر وہ غاٸب تھیں، وہ براٸڈل روم میں پریہان کے پاس جا بیٹھی۔۔
مرحا نے واش روم میں کھڑی منال کو دیکھتے ہوٸے سانس برابر کی، حواس اڑے ہوٸے تھے۔۔
”یار میرا سارا ڈریس برباد کر دیا اس ایڈیٹ بچے نے۔۔ کولڈ ڈرنک کا پورا گلاس الٹ دیا۔۔ اب کیا کروں۔۔“
منال ٹشو سے پیٹ کے پاس سے خراب ہوا ڈریس صاف کر رہی تھی، مزاج بگڑ رہا تھا۔۔ مہنگا بھاری لباس تھا جسے صاف کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔۔
مرحا خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہی، لب کاٹتی متذبذب سی بار بار بات شروع کرنے کے لیے الفاظ ترتیب دینے لگی۔۔
”آٸی تھنک مجھے ڈریس چینج کر لینی چاہیے، ویٹ لیٹ می کال۔۔“ اس نے کچھ سوچ کر اپنے ڈراٸیور کو کال ملاٸی، میرج ہال سے قریب گھر تھا اس کا۔۔ خود جانے کی بجاٸے اسے گھر سے ڈریس لانے کا کہہ کر کال بند کی، اور ناک چڑھا کر ڈریس کا جاٸزہ لیا۔۔
بھلا خراب ڈریس کے ساتھ وہ کیسے سب کے درمیان چلی جاتی، چاہے پیچھے اس کی دوست کا نکاح ہو جاٸے وہ پرفیکشن کے بغیر ہلنے کو تیار نا تھی۔۔
واش روم سے نکل کر نیم تاریکی میں پڑی چٸیر پر دھپ سے بیٹھی۔
”تمہیں کیا ہوا۔۔ ؟ بارات آٸی کیا۔۔؟ آخر آج جا کر ہمیں پریہان کا مسٹر راٸٹ دیکھنا نصیب ہو گا۔۔“
وہ فرصت سے ٹانگیں پسارے بیٹھی تھی، بالوں کا سٹاٸلش سا جوڑا بنا ہوا تھا۔۔ کرلی لٹوں کو نزاکت سے چہرے سے ہٹا کر تبصرہ کیا تھا۔ مرحا نے گہرا سانس بھرا۔ اسے بتا دینا چاہیے اور بتانے کے بعد یقیناً اسے ڈریس چینج کرنے کا بھی ہوش نہیں رہنا تھا۔۔
”منال۔۔ بارات۔۔ بارات ہمارے علاقے کی آفریدی حویلی سے۔۔ آٸی ہے۔۔“ مرحا نے ہمت بحال کرتے ہی ہکلا کر بتایا تو منال کا لٹوں کو سمیٹتا ہاتھ رک گیا۔
”آفریدی حویلی سے۔۔؟ کون مطلب کس کی شادی ہے؟“ منال نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“خان داور یا پھر خان یاور۔۔ افکورس ان کی اولاد نہیں شاید اس لیے مگر نہیں پریہان کو شادی شدہ مرد سے کیوں بیاہتے۔۔ ویٹ خان موسٰی تو کافی عرصہ سے حویلی ہی نہیں لوٹا تو یعنی عیسٰی خان سے۔۔ کیا وہ اس کی منگیتر تھی؟ اوہ گاش بتایا ہی نہیں اس گھُنی نے کبھی۔۔“ وہ خود سوال جواب کرتی یکدم چونکی اور حیرت کی زیادتی سے بولی۔۔
”خان۔۔۔زادہ۔۔“ اس نے زرا توقف کے بعد منال کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔
وہ جھٹکے سے سیدھی ہوٸی، آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو گٸی تھیں۔ نزاکت اور خراب ڈریس سب بھول گیا۔۔ اٹھ کر بھاگتے ہوٸے سٹیج کے پاس پہنچی، مرحا اس کے پیچھے ہی تھی۔۔ دونوں وہاں پہنچیں تو سامنے ہی سٹیج پر وہ نکاح کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاٸے بیٹھا تھا۔۔ وہ خانزادہ ہی تھا۔۔ شک کی کوٸی گنجاٸش ہی نا تھی۔۔ وہ سب سے الگ دکھتا تھا۔۔ اس جیسا کوٸی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔
وہ صدمے کی کیفیت میں گھری کھڑی رہ گٸی۔۔
>>>>>>-----------Y.E------------>>>>
نکاح کے بعد پریہان پتھر بنی ساکت سی بیٹھی تھی،
نکاح کے لیے بولا جانے والا نام دماغ میں اٹک گیا تھا، اس نے دل سے دعا کی تھی کہ کاش صرف نام کی مماثلت ہو اور کچھ نہیں۔۔ ریما خاموشی سے اس کا جاٸزہ کے رہی تھی، ابھی کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دھڑام سے دروازہ کھولتی منال اندر داخل ہوٸی۔
”پریہان۔۔ تم نے مجھے اتنا بڑا دھوکہ کیوں دیا۔۔ دوست ہو یا دشمن ہو میری۔۔“ منال نے اس کے کندھے سے پکڑ کر پوری قوت سے جھٹکا دے کر اپنی طرف موڑتے ہوٸے چیخ کر کہا تو وہ کراہ کر رہ گٸی۔ پُروا اس افتاد پر گھبرا گٸی۔
”یہ کیا کر رہی ہو منال۔۔ پریہان کو کچھ پتا نہیں تھا، اس کے ساتھ کتنی بڑی ٹریجڈی ہوٸی تم دونوں کو کیا پتا۔۔“ ریما نے آگے بڑھ کر اسے ٹوکتے ہوٸے ناراضگی سے اسے اور پیچھے دروازے کے پاس کھڑی مرحا کو گھورا تھا۔۔ پریہان ہولے ہولے لرز رہی تھی۔۔
”ٹریجڈی۔۔؟ اٹس فراڈ۔۔ دھوکہ دیا ہے اس نے۔۔ خانزادہ حدیر میرا فیانسے ہے جس کی دلہن بنی بیٹھی ہے۔۔“ منال چیخی تو ریما اور پریہان کی آنکھیں حیرت سے کھل گٸیں۔۔ مرحا کے تاثرات بتا رہے تھے وہ سب جانتی ہے۔۔ جھٹکا تو ان دو کو لگا تھا۔۔
”فیان۔۔۔سے۔۔“ پریہان کے لبوں سے ٹوٹ کر لفظ ادا ہوا۔ وہ جو پہلے ہی اندر سے شرمندہ اور گھبراٸی ہوٸی تھی کہ منال کی دیوانگی کی گواہ تھی وہ۔۔۔ اب تو مزید زمین میں گڑھ گٸی۔۔ پُروا پریشانی سے اس کے قریب ہوتی اس کے یخ ہاتھ تھام گٸی۔
”واٹ۔۔ رٸیلی۔۔ بٹ تم نے پہلے کبھی ایسا نہیں بتایا کہ تم حدیر کے ساتھ انگیجڈ ہو۔۔“ ریما بھی شاکڈ تھی۔۔
”نہیں بتایا کیونکہ میرے آغا جان نے منع کیا تھا کہ کہیں کوٸی دشمن چال نا چلے۔۔ بس وہ یہ بتانا بھول گٸے دوستوں سے بھی بچ کر رہنا ہے۔۔ ایسی دوستوں سے اچھا ہے انسان دشمن پال لے۔۔ تمہیں کوٸی امیر زادہ ہی چاہیے تھا تو پہلے بتا دیتیں۔۔ حد کر دی تم نے، میری جگہ چھین لی۔۔ کہاں گیا وہ منگیتر جو تمہاری ماں نے چنا تھا؟ کیا وہ سب ڈرامہ تھا یا شروع سے تمہاری نظر۔۔
”منال۔۔ سٹاپ اٹ۔۔“ ریما نے اسے مزید زہر اگلنے سے روکا، مرحا بھی بےساختہ آگے بڑھی۔۔ پروا فق چہرہ لیے ان دوست نما ظالم لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو پریہان کی حالت کی پروا کیے بنا بولتی جا رہی تھی۔
”یس افکورس۔۔ آٸی شُڈ سٹاپ انفیکٹ مجھے چلے جانا چاہیے۔۔ اپنی بربادی کا سوال تو میں اس انسان سے کر لوں گی جو آج میری ہی دوست سے نکاح کیے بیٹھا ہے۔۔ میں خوامخواہ معصوم سمجھتی تھی تمہیں پریہان۔۔ مجھے تب سمجھ لینا چاہیے تھا جب تم ڈیٸر کے بہانے اس سے ملنے اس کے آفس پہنچ گٸی تھیں۔۔ تم نے بس اہنی معصومیت کا جال بچھانا تھا۔۔“
منال سرد اجنبی لہجے میں بولتی جا رہی تھی اور شاید مزید بولتی کہ مرحا متاسف سی اسے کھینچ کر باہر لے گٸی۔۔
”ہان تم ٹھیک ہو ناں۔۔؟“ ریما نے پریشانی سے اسے دیکھا جو زرد پڑ رہی تھی۔۔ وہ بےساختہ اس کی تکلیف سمجھتی اسے اسے گلے لگا گٸی۔۔
”تمہارا کوٸی قصور نہیں پریہان۔۔ پلیز منال کی بکواس مت سننا۔۔ تمہارا کوٸی قصور نہیں۔۔“
ریما اس کی گھٹی گھٹی سسکیاں سنتی نرمی سے دلاسہ دینے لگی، وہ سب جانتی تھی پریہان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور یہ شادی اچانک طے کی ہوٸی تھی۔۔ وہ گواپ تھی کہ پریہان نکاح سے پہلے تک بالکل انجان تھی کہ اس کا نام کس کے ساتھ جوڑا جانے والا ہے۔۔
پریسہ روم میں آٸی تو ریما پریہان کے لیے پریشان سی بیٹھی تھی، پروا بھی خاموش سی تھی۔۔
”پریہان کو باہر لے جانا ہے ریما۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔“ پریسہ بولتی بولتی ٹھٹک کر رکی۔۔
”جی ہاں۔۔ سب ٹھیک ہے بس زرا ایموشنل ہو گٸی تھی اب ٹھیک ہے۔۔ چلیں چلتے ہیں باہر۔۔“ ریما نے جلدی سے بات سنبھال کر سرد بےجان مورت بن چکی پریہان کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور پریسہ کے ساتھ سہارا دیتی باہر لے گٸی۔۔
جب اسے خانزادہ کے پہلو میں بٹھایا گیا تو ہر آنکھ میں اس جوڑے کے لیے رشک تھا۔۔ وہ وجیہہ اور دلکشی کا منہ بولتا ثبوت تھا اور پریہان من موہنی صورت والی چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔
خانی بیگم نے تیکھی نظروں سے بغور جاٸزہ لیا اور دل میں قدرے اطمینان بھر آیا تھا۔۔ کم سے کم شکل کے لحاظ سے وہ دبتی ہوٸی نا تھی۔۔
جلد رخصتی کی تیاری باندھ لی گٸی تھی، وہ اتنی ساکت اور سرد پڑ چکی تھی کہ کب، کیسے اور کس نے گاڑی میں بٹھایا، کون ملا اور کون نہیں اسے کوٸی ہوش نہیں تھا۔۔
حویلی میں پہنچے تو پریہان کا دماغ تک سن ہو چکا تھا، طبیعت اور حالت پہلے ہی بگڑ رہی تھی اوپر سے اتنا لمبا سفر۔۔ اسے ایک نرم بڑے صوفہ پر بٹھا دیا گیا۔
اس کے ساتھ بیٹھتی لڑکیاں خوش ہو رہی تھیں، تصاویر بنا رہی تھیں، شاید کچھ لوگوں نے بات بھی کی مگر وہ گردن گراٸے یوں ہو رہی تھی جیسے گونگی ہے اور گردن کبھی اٹھا نہیں سکتی۔۔
خانی بیگم خاندان اور جان پہچان کی عورتوں میں گھِری بیٹھی تھیں جن کے تبصرے عروج پر تھے۔۔
”لڑکی اچھی لگ رہی ہے، اچانک شادی کا کیسے سوچ لیا خانی بیگم نے، وہ بھی انجان لوگ۔۔
ہم نے تو سنا تھا بہروز خان کی حویلی سے خانزادہ کی دلہن آنی ہے یہ تو کوٸی اور لڑکی ہے۔۔
لڑکی کا گھرانہ کچھ خاص نہیں تھا، انتظام اچھا تھا مگر خان حویلی والوں کی برابری نہیں تھی۔۔۔
خیر بہو تو پیاری ہے، من موہنی اور کم گو۔۔“
خانی بیگم خاموشی سے مسکراتی رہیں، نا جھوٹ بولا گیا نا سچ مناسب تھا۔۔ سارا مسٸلہ یہی تھا لڑکی تو اچھی تھی مگر خاندان اونچا نا تھا۔۔ مرحوم ماں باپ بس ایک معمولی سے ڈاکٹر تھے۔۔ خانزادہ کی ضد نے یہ وقت دکھایا تھا کہ وہ گردن اکڑا کر نہیں بیٹھ پا رہی تھیں، گل جان بیگم دلہن کو دیکھتی نہال ہو رہی تھیں، خانی بیگم نے نخوت سے سر جھٹکا۔۔
مردان خانے میں مردوں کے درمیان بیٹھا خانزادہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاٸے موباٸل میں مصروف تھا۔۔
”سردار صاحب ڈیرے پر بندہ قتل ہو گیا ہے۔۔“ خان آزر کا بندہ بھاگتا ہوا آیا اور بوکھلا کر ان کو آہستگی سے بتایا تو قریب بیٹھا خانزادہ بھی جھٹکے سے سیدھا ہوا۔ خان آزر پریشان ہو گٸے۔
”کب ہوا یہ۔۔؟ تم میری گاڑی نکلواٶ۔۔“ خان آزر نے ایک نظر سب کو دیکھ کر آہستگی سے بندے کو ہدایت دی۔
”نہیں رکیں۔۔ میں خود جا کر دیکھوں گا سب۔۔ تم جا کر وہ جگہ بند کرواٶ کسی چیز کو کوٸی نا چھیڑے۔۔“
خانزادہ نے موباٸل بند کر کے رکھتے ہوٸے اس بندے کو ہدایت دی، وہ سر ہلا کر نکل گیا۔
”خان رکو تم مت جاٶ، یاد ہو تو ابھی دلہن رخصت کروا کر آٸے ہو۔۔ اب اس معاملہ میں مت پڑو۔۔“ آزر خان نے نرمی سے اس کا بازو تھام کر اٹھنے سے روکا تو وہ ان کی گرفت سے بازو نکال گیا۔
”آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اس شادی کو مان لیا ہے، آپ لوگوں کے لیے تو یہ عارضی شادی ہے پھر اتنے اہتمام کیوں۔۔“ اس کے استہزاٸیہ جملوں پر خان آزر ساکت ہوٸے، یعنی وہ ان کی منصوبہ بندی سے آگاہ تھا۔۔ وہ اٹھ کر زنان خانے پہنچا۔ خان زوار کے بعد اب وہ کسی کو خطروں میں نہیں ڈال سکتا تھا۔۔ بیرونی دروازے کے پاس رک کر ادب خان کو بلایا۔
”ادب خان۔۔ گاڑی نکلواٶ۔۔“ اس کی بھاری آواز پر سب متوجہ ہوٸے تھے، ادب خان نے پھُرتی سے گاڑیاں تیار کرواٸیں، خانزادہ کی گاڑی اور گارڈز کی گاڑیاں بھی۔۔
وہاں سے پلٹ کر ایک سرسری نظر وہاں بیٹھی پریہان اور اس کے گرد بیٹھی اپنی بہنوں کزنوں کو دیکھا اور احتیاطاً اپنا ریوالور لینے کمرے کی طرف بڑھا۔
کمرے کا دروازہ کھولا تو بےساختہ ماتھے پر بل پڑے۔۔
ہر طرف پھولوں اور کینڈلز سے سجاوٹ کی ہوٸی تھی، سرخ گلاب اور موتیے کی خوشبو سے کمرہ معطر ہو رہا تھا، نیلگوں روشنی اور اے۔سی کی ٹھنڈک سے ماحول خوابناک بنا ہوا تھا۔ سلیپنگ ایریا میں سامنے بیڈ پر سرخ گلابوں سے دل بنا تھا جس پر چنبیلی کے سفید پھولوں سے(Love)لکھا ہوا تھا۔
”عیسٰی۔۔۔ عیسٰی۔۔“ اس نے کھڑے کھڑے جبڑے بھینچے، یہ عیسٰی کے علاوہ کوٸی نہیں کر سکتا تھا۔۔وہی سب سے لیٹ نکلا تھا بارات کے لیے۔۔ ثنا بیگم کی گود میں سر رکھ کر لاڈ اٹھواتے عیسٰی تک اس کی دھاڑ پہنچی تو جھٹکے سے اٹھ کر وہاں پہنچا۔
”کیا ہو گیا ہے لالا۔۔ آپ کی شادی ہو گٸی ہے اب آپ کو چاہیے اپنی بیوی کو پکارا کریں۔۔ عیسٰی کی جان چھوڑ دیں اب تو۔۔“ اس کے سامنے پہنچ کر اس نے بال سنوارتے ہوٸے نخرے سے ناک چڑھا کر کہا۔
”بکواس بند۔۔ یہ سب تم نے کیا ہے؟ کس نے کہا تھا کرنے کے لیے۔۔؟“ خانزادہ کے دماغ کی رگیں تن گٸی تھیں اس سب پر۔۔ پھول، کینڈلز اور یہ لَو والی امیچور رومانٹک حرکتیں اس پر ناگوار گزری تھیں۔
”افکورس میں نے کیا ہے۔۔ آٸی نو آپ جیسے کولڈ نیچر کو یہ برا لگا ہو گا بٹ لیٹ اِٹ بی۔۔ لڑکیاں ان چیزوں سے بہت انسپاٸر ہوتی ہیں اور جانے دیں اب ایسے ایکٹ نا کریں جیسے آپ کو برا لگا۔۔ یہ سجاوٹ۔۔“
عیسٰی بولتے ہوٸے دروازے سے منہ گھسا کر کمرے کا جاٸزہ لیتے ہوٸے کچھ آگے ہوا۔ خانزادہ نے دانت پر دانت جما کر اس کی حرکت دیکھیں۔۔
”اور یہ خوشبو۔۔ مجھ پر تو بہت اثر کرنے لگی تھی، میں تو بس اس سب میں کھونے ہی لگا تھا کہ یاد آیا میں سنگل ہوں ورنہ۔۔ ”شٹ اپ۔۔ سٹاپ دس ربش۔۔“
اس کے معنی خیز جملے پر وہ سختی سے ٹوک گیا، کندھے سے پکڑ کر تقریباً کمرے میں گھس چکے عیسٰی کو باہر دھکیلا اور ضبط کرتا اندر چلا گیا۔۔
”سارے ڈرامے ہیں بھٸی۔۔ دل میں اپنے بھی جوار بھاٹا جل اٹھا ہو گا۔۔ خیر غصہ بنتا ہے سب ان کی دلہن پر قبضہ جو جما بیٹھے ہیں۔۔۔“ عیسٰی بڑبڑاتا ہوا بھرپور انگڑاٸی لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
خانزادہ ریوالور لے کر تیزی سے باہر نکلا، خانی بیگم نے حیرت سے اسے شادی کے پہلے دن حویلی سے باہر جاتے دیکھا اور پھر لاپرواٸی سے سر جھٹک دیا۔
دلہن کی کیا قدر اور اہمیت ہے وہ جان گٸی تھیں۔۔
>>>>>>-----------Y.E------------>>>>>
اس کا بیٹھے بیٹھے برا حال ہو گیا تھا، گردن اور کمر اکڑ چکی تھی، جانے کسی بڑے نے ان لڑکیوں سے ابھی تک کیوں نہیں کہا کہ باتیں مذاق ختم کر دیں۔۔
”بھابھی کیا میں آپ کو روم میں لے جاٶں۔۔؟“ اس کی بےچینی اور روہانسی صورت دیکھ کر زرشہ نے کہا تو اس نے بھراٸی آنکھوں سے نرم چہرے والی لڑکی کو دیکھ کر بچوں کی طرح گردن لگاٸی۔۔
”اوہ سوری ہمیں یہ خیال آیا ہی نہیں، آپ سے مل کر اتنا اچھا لگا کہ سب بھول گٸے۔۔“ اب باقی بھی متوجہ ہو رہی تھیں، یہ سب اس کی نندیں تھیں۔ اس نے اس بار کوٸی جواب نہیں دیا، دو لڑکیوں نے ارد گرد سے بھاری لباس سنبھال کر اسے کھڑا کیا۔
”بات سنو۔۔“ ابھی وہ کچھ قدم آگے بڑھی تھیں کہ خانی بیگم نے روک کر اپنے پاس بلایا۔ عجیب بیگانہ اور لاپرواہ سا رویہ تھا، بھاری لباس پہنے تھکن سے نڈھال چہرہ لیے دلہن کے پاس آنے کی بجاٸے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے پاس بلا لیا۔۔
”خانزادہ کسی کام سے گیا ہے مگر اس کا انتظار کرنا، چینج مت کرنا بالکل۔۔ یہ بدتہذیبی ہوتی ہے۔۔ اور تم دونوں بس دروازے تک چھوڑنا۔۔ اندر جانے کی ضرورت نہیں۔۔ “ ان کے حکم پر ان دونوں نے جی کہا جبکہ وہ بس نظر جھکا گٸی، وہ رخ موڑ گٸیں اشارہ تھا کہ اب وہ جا سکتی ہیں۔۔
زرشہ اور دریہ کے سہارے وہ کمرے میں پہنچی، وہ دروازے کے پاس ہی چھوڑ کر پلٹ گٸیں، وہ لہنگا سنبھالتی آنسو روکتی خود اندر داخل ہو گٸی۔۔
نہایت بڑا کمرہ تھا۔۔ جس کی پچھلے باغ کی جانب گلاس ونڈوز تھیں، اس وقت رات کی وجہ سے وہاں گھپ اندھیرا عجیب سا منظر پیش کر رہا تھا، کمرے میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوٸی تھی اور کافی خنکی پھیلی ہوٸی تھی۔۔ اس نے بیڈ پر بنی سجاوٹ سے نظریں چرا کر بددلی سے کمرے کی خوابناکی دیکھی اور بےبسی سے ایک صوفہ پر سمٹ کر بیٹھ گٸی۔۔ زیورات اور لباس کا وزن پورے جسم کو بری طرح تھکا چکا تھا مگر چینج کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی اور وہ پہلے ہی دن نافرمانی کر کے بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔۔
حدیر کی حرکت سے دل ٹوٹ چکا تھا، وہ اپنی منگنی کے بارے میں تب بھی چھپا گیا جب اس نے سوال کیا تھا، وہ مان ہی نہیں سکتی تھی شادی سے پہلے وہ انجان ہو گا کہ لڑکی کون ہے۔۔ اس نے یہ کھیل کیوں کھیلا پریہان کے ساتھ۔۔ ایک منگیتر کے ہوتے اس نے اسی کی دوست سے شادی کیوں کی۔۔۔ وہ جو کبھی اسے اچھا انسان سمجھ بیٹھی تھی وہ سب خوش فہمی ہوا ہو گٸی۔۔ اوپر سے اس شاندار بڑی حویلی کے مکینوں کے لیے کتنی ان چاہی تھی وہ بھی نظر آ رہا تھا اور وہ خود بھی تو آتے ہی غاٸب ہو گیا تھا۔۔ کسی نے اسے کھانے کا بھی نہیں پوچھا۔۔
وہ صبح سے بھوکی تھی، گھر والوں سے تو ضد لگا کر منہ بناٸے رکھا تھا مگر یہاں والوں نے بھی زحمت نہیں کی۔۔ وہ نیم دراز ہو کر نرم صوفہ میں دھنسی تھکاوٹ سے چُور بمشکل آنکھیں کھولے پڑی تھی۔۔
گلے میں کب سے اٹکا آنسوٶں کا گولہ آنکھوں کے راستے رخساروں پر پھسلتا جا رہا تھا۔۔ وہ مہندی سے سجے ہاتھوں سے آنکھیں رگڑتی روتی چلی گٸی۔۔
اے۔سی کی مسلسل بڑھتی کولنگ سے کپکپاہٹ طاری ہو رہی تھی، وہ نہیں جانتی تھی ریموٹ کہاں ہو گا کہ کولنگ کم کر سکے نا ہی بلینکٹ کا پتا تھا۔۔ نقاہت اور تھکن سے حال ایسا تھا کہ اٹھ کر ڈھونڈنے کی ہمت بھی نہیں ہوٸی، وہ نا چاہتے ہوٸے بھی لرزتی کانپتی نیند میں جا چکی تھی۔۔
رات کو کافی دیر سے جب پولیس بلوا کر وہ لاش اور ارد گرد کا جاٸزہ کرواتے معاملہ سنبھال کر حویلی پہنچا تو رونق اور باتوں کی بجاٸے سناٹے گونج رہے تھے۔۔ کنپٹی سہلاتا کمرے کی طرف بڑھا، جلدی کرتے کرتے بھی کافی وقت گزر گیا تھا۔
دروازہ آہستگی سے کھول کر اندر داخل ہوا تو مدھم روشنی اور پھولوں کی خوشبو پر گہرا سانس بھر کر یہاں وہاں نظر دوڑاٸی۔۔ کچھ ان کے علاقے میں رات ویسے ہی ٹھنڈی ہو جاتی تھی اس پر صبح سے چلتے اے۔سی کی وجہ سے کمرے میں کولنگ بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔۔
بیڈ خالی تھا اور وہ صوفے پر بھاری لباس اور زیورات سے لاپرواہ گٹھڑی بنی سو رہی تھی۔۔
اس نے پہلی فرصت میں اے۔سی بند کیا اور صوفہ کے پاس پہنچ کر گہراٸی سے اس کا جاٸزہ لیا۔
”پریہان۔۔“ قریب ہو کر اسے پکارا تاکہ وہ اٹھ کر چینج کر سکے، ایزی ڈریس پہنے بنا وہ کیسے سو سکتی تھی، وہ حیران ہوا۔۔ اس پر اثر نا ہوتا دیکھ کر ہاتھ بڑھا کر کندھا ہلا کر اسے جگانا چاہا مگر بےسور رہا۔۔
وہ ٹیبل پر بیٹھا اسے دیکھنے لگا، میک اپ میں اس کے نازک نقوش بہت پیارے لگ رہے تھے، آنکھوں کے پاس میک اپ کچھ خراب تھا اور پلکوں کی نمی بتا رہی تھی وہ روتی رہی ہے۔۔ اس نے موباٸل نکال کر اس کی کچھ پکچرز لیں اور موباٸل ٹیبل پر رکھ کر مہندی بھرا ہاتھ تھاما تو چونک گیا۔ وہ بالکل سرد پڑ رہی تھی۔ وہ پریشان ہوا۔ کیا وہ اتنی پاگل ہے کہ نا چینج کیا، نا اے۔سی آف نا بلینکٹ۔۔ ایسے سو گٸی۔۔
اس کی طرف جھک کر اس کا نازک لرزتا وجود بازوٶں میں اٹھا لیا، بیڈ کے پاس جا کر اس کا دماغ جھنجھنا گیا۔۔
”عیسٰی۔۔۔“ اس نے دانت کچکاٸے۔۔ پھولوں سے بنا دل اور وہ لَو۔۔ افف۔۔ سر جھٹک کر ایک ساٸیڈ پر اسے لیٹا کر بیڈ شیٹ سے پھول سمیٹ کر ایک طرف نیچے ہی پھینک دٸیے۔۔ ڈریسنگ روم سے کمفرٹر اٹھا لایا۔
اس پر اوڑھایا اور خود جا کر چینج کیا۔ ابھی تو وہ سو رہی تھی، جانے جاگ کر سامنا ہونے پر کیا ری ایکشن دے گی۔۔ اپنی الجھی سوچوں کو جھٹک کر وہ بھی اس کے پاس جا کر لیٹ گیا۔۔ اس کے ملاٸم سرد ہاتھوں کو تھام کر اپنے ہاتھوں سے گرماٸش پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔۔ نیلگوں روشنی میں اس کا حسن تابناک لگ رہا تھا۔ دودھیا ہاتھوں پر لگی سرخ مہندی توجہ کھینچ رہی تھی مگر وہ نظر چرا گیا۔ یہ شادی اس کے لیے بھی اچانک اور غیرارادی تھی۔۔ اس کے ہاتھ کمفرٹر میں کر کے وہ کروٹ بدل گیا۔۔
>>>>>>>----------Y.E--------->>>>>
اس وقت سب گھر والے خانزادہ کے روم میں تھے، نٸی دلہن کی طبیعت خراب تھی، بخار اور بی۔پی بہت لو ہو رہا تھا۔ یا وہ اتنی نازک مزاج تھی کہ ایک دن سفر کر کے بیمار پڑ گٸی یا کوٸی اور وجہ تھی۔۔
خانی بیگم ایک طرف چٸیر پر بیٹھی اسے تک رہی تھیں، میک اپ سے پاک چہرہ اور نرم ہلکا لباس پہنے وہ کوٸی نوعمر لڑکی لگ رہی تھی۔ چہرے پر ملاحت، نقوش میں نرمی اور کسی بچے کے جیسی شفاف جلد تھی۔ شہد رنگ آنکھیں جیسے چمکتا کانچ ہو۔۔ بمشکل کندھوں تک پہنچتے بال بھی شہد رنگت تھے، بلاشبہ وہ پیاری تھی مگر یہ طے تھا وہ منال ہاشم خان کی جگہ نہیں لے سکتی، وہ اس جیسی تیکھے نقوش والی حسین، سرخ سفید رنگت اور دراز قد نہیں تھی۔۔ نا اس کے پاس اعلٰی خاندان تھا۔۔ وہ سر جھٹک کر سامنے اپنے بیٹے کو دیکھنے لگیں، وہ ٹھٹکا رہا تھا انہیں۔۔ صبح صبح علاقے کی لیڈی ڈاکٹر کو بلوا بھیجا تھا، چیک اپ کروایا، ملازمہ کو بلوا کر ڈریس چینج کروایا اور اب بھی وہ بنا فریش ہوٸے، اسی رف حلیہ میں کھاٸے پیے بغیر فکرمند سا کھڑا تھا۔ یہ انسانیت کے احساس یا رشتے کی فکر سے بڑھ کر کچھ تھا۔۔ کچھ ایسا جو چونکا رہا تھا جیسے وہ لڑکی کو نا صرف جانتا ہے بلکہ قریبی تعلق ہے۔۔ وہ الجھ کر رہ گٸی تھیں۔۔۔
کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ ایک ہی رات میں وہ اسے اتنی بھا گٸی تھی کہ اس کی بیماری پر سب بھول جاٸے۔۔
گل جان بیگم نے اسے گرم سوپ پلا کر میڈیسن دے دی تھی، اسے سلا کر وہ کھڑی ہوٸیں۔ باقی سب کمرے سے باہر جا چکے تھے، خانی بیگم بھی جانے کے لیے اٹھیں، اب تو سر میں درد ہو گیا تھا لڑکی بظاہر جتنی پیاری تھی ان کے دل کو لگ ہی نہیں رہی تھی۔۔
”ڈاکٹر نے کہا ویک نیس ہے، شاید کل سے کچھ کھایا نہیں تھا کیا رات کو کچھ کھلایا نہیں تھا مورے گل۔۔؟“ وہ گل جان بیگم سے سوال کر رہا تھا۔ اس کی فکر خانی بیگم کو بری لگی تھی۔
”یہ تو گھر والوں کو سوچنا چاہیے تھا بھوکا پیاسا کیوں رکھا۔۔ یہاں آ کر سب نے کھایا پیا۔۔ اس سے پوچھتے رہے عجیب گونگی لڑکی ہے، نا سر اٹھانے کی زحمت کی نا جواب دینے کی۔۔ بچی نہیں ہے خانزادہ کہ اسے زبردستی کھلاتے۔۔ ہو سکے تو طور طریقے سیکھا دینا یہ شہری زندگی کی نازکیاں بھول جاٸے۔۔“
خانی بیگم کے سپاٹ لہجے میں دٸیے جواب پر وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
”او۔کے اب یہ یہاں ہے تو ہماری زمہ داری ہے۔۔ ڈاکٹر کے سامنے کیا امپریشن پڑا ہو گا اس حویلی کا جہاں پہلے روز دلہن کو کچھ کھانے کو نہیں ملا۔۔؟ اختلافات گھر تک رہیں تو بہتر ہے مورے۔۔ لوگوں میں کہانیاں نہیں بننی چاہٸیں۔۔۔“ وہ کچھ توقف کے بعد سنجیدگی سے بولا تو انہیں خاموش ہونا پڑا۔
”مورے گل، اب سے آپ اس کے کھانے کا خاص خیال رکھیں گی۔۔ اگر دوبارہ کھانا نا کھاٸے یا طبیعت بگڑی تو اس کے ساتھ آپ سے بھی سوال کروں گا۔۔“
اس کے تحکم بھرے لہجے پر گل جان بیگم سر ہلا گٸیں، وہ جانتا تھا گل جان کو روکا گیا ہو گا، یہ بھی جانتا تھا گل جان اچھے سے خیال رکھیں گی، اسلیے خانی بیگم کے سامنے انہیں زمہ داری سونپ دی۔۔
اب کم از کم گل جان بیگم کو پریہان کا خیال رکھنے پر کوٸی روک ٹوک نہیں کرے گا۔۔ خانی بیگم بےزار تاثرات لیے وہاں سے چلی گٸیں۔۔
”دلہن بہت پیاری ہے خانزادہ۔۔ تمہارے لیے اسے ہی ہونا چاہیے تھا یہاں۔۔“ گل جان نے زرا رک کر دواٶں کے زیر اثر سوتی پریہان کو دیکھ کر مسکراتے ہوٸے کہا تو وہ سر خم کر گیا۔
”کیا آپ کو اچھی لگی۔۔؟ یا مجھے بہلا رہی ہیں۔۔ “
وہ نرم مسکراہٹ لیے دستانہ انداز میں ان سے پوچھنے لگا۔ کچھ پل پہلے والی سنجیدگی غاٸب تھی۔۔
”مجھے بہت اچھی لگی ہے، بس گھبراٸی ہوٸی ہے شاید اس لیے سب کو اسکا رویہ برا لگ رہا ہے، تم بےزار نا ہونا۔۔ کچھ وقت دینا ٹھیک ہو جاٸے گی۔۔“
انہوں نے اپنی طرف سے اس کا دل صاف کرنا چاہا تھا۔ ان کی سادگی پر وہ ہنس پڑا۔
”جی جانتا ہوں۔۔ آپ فکر نہیں کریں۔۔ عیسٰی سے کہیے گا اگر باہر جانے لگے تو گارڈز ساتھ لے کر جاٸے۔۔ میں جانتا ہوں ثنا چچی اور عیسٰی کو یہ سب اچھا نہیں لگتا مگر ابھی یہ ضروری ہے۔۔“
اس کی فکرمندی پر گل جان مسکرا کر سر ہلاتی باہر چلی گٸیں۔ اس نے گہرا سانس بھر کر بیڈ کے پاس جا کر پریہان کو دیکھا۔ وہ سکون سے سو رہی تھی۔
صبح فجر کے وقت جب وہ اٹھا تو اس کا ٹمپریچر بہت بڑھا ہوا تھا اور بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی، غیر آرام دہ لباس اور زیوارت کے چبھنے سے بھی تنگ ہو رہی تھی۔۔ اس نے زیورات اور بالوں میں سٹاٸل کے لیے جوڑے مصنوعی بال اور پنز الگ کر کے ساٸیڈ پر رکھ دیں۔ اس کا ڈریس چینج کروانے میں مدد کے لیے ملازمہ کو بلوا لیا تھا۔ جب اسے جگایا تو نیم وا سرخ آنکھیں لیے کچھ دیر تو وہ غاٸب دماغی سے ہر طرف دیکھنے لگی پھر چونک گٸی تھی۔
ایک ساٸیڈ پر پڑے ڈوپٹہ، زیور اور کھلے بالوں پر کنفیوز ہوتی خانزاہ سے نظریں چرا گٸی۔۔ اس نے سلام کیا مگر جواب نہیں ملا شاید سنا نہیں یا پھر اگنور کر گٸی تھی۔۔ ڈریس چینج کر کے آٸی تو ملازمہ کے جاتے ہی اس نے طبیعت کا بھی پوچھا مگر وہ تب بھی کمفرٹر اوڑھتی ان سنی کر گٸی تھی۔ اس کا رویہ عجیب تھا، وہ نظریں چرا رہی تھی، نظر انداز کر رہی تھی، وہ وجہ نہیں سمجھ پایا مگر اس کی طبیعت کا سوچ کر خاموش رہا تھا۔
وہ ڈریس لے کر شاور لینے چلا گیا، اس بار طبیعت کی وجہ سے اگنور کر رہا تھا مگر اسکا یہی رویہ رہا تو وہ اتنا نرم مزاج یا دیوانہ نہیں تھا کہ معاف کر دیتا۔۔
شاور لے کر باہر آیا تو موباٸل پر انون نمبر سے جانے کب سے کال آ رہی تھی، موباٸل ساٸلنٹ پر ہونے کی وجہ سے جان نہیں پایا۔ موباٸل اٹھا کر کال اٹینڈ کرتے کان سے لگایا اور بال برش کرنے لگا۔۔
”السلام علیکم۔۔۔ جی خانزادہ حدیر بات کر رہا ہوں۔۔“
لڑکی کی آواز اور سوال پر اس نے سنجیدگی سے سوالیہ انداز میں جواب دیا۔
”میں پریسہ ہوں۔۔ پریہان کی بڑی بہن۔۔ کیا وہ ٹھیک ہے۔۔؟“ پریسہ کے تعارف اور سوال پر اس نے ڈریسنگ مرر سے نظر آتے پریہان کے عکس کو دیکھا۔
”جی ہاں۔۔ ٹھیک ہے۔۔ رات کو ٹمپریچر ہو گیا تھا شاید تھکن سے بٹ شی از مچ بیٹر ناٶ۔۔“ وہ صاف گوٸی سے بتانے لگا۔ بات گھمانے یا چھپانے کا اسے نا طریقہ آتا تھا نا ضرورت محسوس ہوٸی تھی۔۔
”اوہ۔۔ وہ ایکچوٸیلی کافی ڈسٹرب بھی تھی، آپ جانتے ہیں کن حالات سے گزر کر شادی ہوٸی۔۔ کل سارا دن سہی سے کچھ کھایا پیا نہیں۔۔ مجھے یہی پریشانی تھی طبیعت نا بگڑ جاٸے۔۔
ریسیپشن تو پرسوں ہے اگر برا نا لگے تو ملنے آ جاٸیں ہم۔۔ چھوٹی بہن اٹیچ ہے بہت زیادہ تو وہ سو نہیں پاٸی ساری رات۔۔ “ پریسہ نے سنبھل کر پریشانی سے وضاحت دیتے ہوٸے اجازت مانگی تھی۔
”آپ کو یہاں آنے کے لیے پرمیشن کی ضرورت نہیں۔۔ مگر یہ کافی بڑا سفر ہے اگر چاہیں تو ویڈیو کال پر بات کروا دوں گا۔۔ پریہان ٹھیک ہے، میڈیسن لے کر سو رہی ہے۔۔ “ اس نے نرمی سے جواب دیتے ہوٸے پریسہ کی آدھی پریشانی حتم کر دی تھی۔۔
”ٹھیک ہے، ہم سے رہا نہیں جاٸے گا ایک بار مل لیں گے تو اچھا لگے گا۔۔ اوکے اللہ حافظ۔۔“ پریسہ اطمینان سے کال کاٹ چکی تھی۔ وہ ہینڈ واچ پر ٹاٸم دیکھنے لگا۔
ابھی دن کے دس بج رہے تھے۔ پرفیوم سپرے کرتا پریہان کے پاس جا کر رک گیا۔
جھک کر پیشانی پر ہاتھ رکھتے ٹمپریچر چیک کیا، اب پہلے کی نسبت قدرے کم بخار تھا۔ وہ پلٹ کر کمرے سے نکلا اور کچن کی طرف بڑھا۔ گل جان بیگم ہمیشہ کی طرح ملازماٶں کے ساتھ کچن سنبھالے کھڑی تھیں۔ آج زرشہ بھی انہی کے ساتھ موجود تھی۔
”مورے گل ان کو اچھا سا مینیو سمجھا دیں لنچ کے لیے پریہان کی فیملی آ رہی ہے۔۔ اور آپ دونوں کچن سے نکلیں۔۔ باہر نہیں بیٹھنا تو روم میں جا کر ریسٹ کریں۔۔ سارا دن یہیں گزار دیتی ہیں۔۔“
اس نے دروازے پر کھڑے کھڑے ماتھے پر بل ڈال کر ہاتھ ہلاتی ملازماٶں کو گھورا تو وہ جلدی سے گل جان بیگم اور زرشہ کا کام سنبھالنے لگیں۔ اس سے بحث کا فاٸدہ نہیں تھا اس لیے زرشہ کو بھیج کر وہ لنچ کا مینیو ترتیب دینے لگیں۔
”لالا۔۔ میں بھابھی کے پاس چلی جاٶں۔۔ ان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے ناں۔۔“ کچن کے باہر ٹہلتی زرشہ نے جھجک کر اجازت مانگی۔۔ اور اجازت مانگنے کا مطلب وہ جانتا ہی تھا، اس سے خانزادہ کے روم میں بیٹھے رہنے پر بھی سوال ہوتا۔۔ وہ مسکرایا۔
”مجھے خوشی ہو گی اگر تم میرے لیے اسکا خیال رکھو گی۔۔“ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپناٸیت سے بولا تو زرشہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ بھاگ کر اس کے کمرے کی طرف گٸی۔ وہ محبت سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اسے زرشہ کی فکر پر واقعی خوشی ہوٸی تھی، بڑی بہنیں فیملیز والی تھیں، یہاں آ کر بھی بچوں کے ساتھ بزی تھیں اور پلوشہ کا رویہ اسے عجیب لگا تھا۔ وہ خوش ہوٸی تھی مگر زیادہ وقت کے لیے نہیں۔۔ آج پریہان کے لیے رسماً سب گھر والے روم میں آٸے تھے مگر پلوشہ غاٸب تھی۔۔ شاید اسے بھی منال کی جگہ پریہان کا آنا برا لگا تھا۔ وہ سوچ میں گم ڈراٸنگ روم میں بیٹھے سب گھر والوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔
”تمہاری دلہن آج کمرے میں ہی رہنے والی ہے کیا۔۔؟ حویلی کی نٸی بہو دیکھنے کے لیے لوگ بےچین ہیں۔۔ صبح سے کتنے لوگ آ چکے ہیں۔۔“ خان یوسف کی بات پر وہ انہیں دیکھتا کندھے اچکا گیا۔
”جلدی کیا ہے، وہ یہیں ہے لوگ مل لیں گے۔۔“ اس کی لاپرواٸی پر وہ اسے دیکھ کر رہ گٸے۔ ایسے خیال کیوں رکھ رہا تھا جیسے من چاہی بیوی ہو۔۔
”بات سنیں لالا۔۔“ عیسٰی کھسک کر اس کے پاس ہو کر بیٹھتا رازداری سے بولا تو اس نے چونک کر دیکھا۔
”سب کہہ رہے ہیں یہ ضد میں کی جانے والی شادی ہے۔۔ مجھے ایسا کیوں نہیں لگ رہا۔۔“ عیسٰی نے آنکھیں گھما کر معنی خیزی سے کہا۔
”اور تمہیں کیا لگتا ہے۔۔“ خانزادہ نے ابرو چڑھا کر پوچھا تو وہ کندھے اچکا کر سیدھا ہوا۔
”ضد ہی ہو گی مگر لگتا ہے دیکھ کر نیت بدل گٸی ہے۔۔“ عیسٰی کی بات پر اس کا دماغ گھوما۔ وہ جب سے آیا تھا اس کے مزاج کے خلاف کام کر رہا تھا۔
ویسے بھی وہ مزاجاً کافی خانزادہ سے مشابہ ہونے کے باوجود اس کے دماغ کی دہی کیے رکھتا تھا۔ حویلی میں سب سے چھوٹا لڑکا تھا مگر ایک حرکت بھی ایسی نہیں تھی کہ نرمی سے ڈیل کیا جاٸے۔۔
خان داور کا لاڈلا تھا اور اسی لاڈ کا فاٸدہ اٹھاتا تھا۔
ابھی وہ اس کی کل سے مسلسل کی جانے والی بکواس باتوں اور حرکات پر کوٸی کرارا جواب دیتا کہ بیرونی دروازے داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھ کر سب کی باتیں یکدم بند ہوٸیں۔۔
وقت جیسے تھم گیا ہو، سناٹا سا چھا گیا تھا۔
” موسٰی۔۔“ سب سے پہلے ثنا بیگم جھٹکا کھا کر اٹھی تھیں۔ چہرے پر زمانوں کی تھکن سمیٹے وہ کافی کمزور لگ رہا تھا۔ بلیک ڈریس پینٹ اور گرین شرٹ پہنے وہ کہیں سے بھی پرانا موسٰی نہیں لگ رہا تھا۔
مگر وہ لوٹ آیا تھا آخر کار۔۔ جانے باپ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع پر یا پھر اپنے جگری دوست کی شادی پر۔۔
مگر پورے تین سال بعد وہ لوٹ آنے کی ہمت کر گیا تھا۔۔
وہ سب سے ملتا خانزادہ کے سامنے آ کر رکا تو اس نے پرجوش انداز سے اسے گلے لگا لیا۔۔
”تم نے اپنی آواز کے لیے بہت ترسایا ہے حدیر۔۔۔ گھر کے ایک ایک فرد سے کال پر منتیں کرتا تھا کہ تمہاری آواز سنا دیں، تم سے کہیں تم مجھ سے بات کر لو۔۔“
موسٰی اس کے گلے لگ کر نم آواز میں بولا تھا۔
”اگر کال پر مل جاتا تو کیا لوٹ کر آتے تم۔۔“ وہ الگ ہو کر سکون سے بولا تو موسٰی نے گھور کر دیکھا۔
حویلی والوں کا جوش دیکھنے کے قابل تھا، خان یوسف کو بھی اطمینان ہوا تھا، نظر کے سامنے سب رہیں ان کے لیے بس یہ بہت تھا۔۔
موسٰی، خان زوار کی حالت دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا، ثنا بیگم جیسے آج ہی کھل کر مسکرا رہی تھیں، جب سے موسٰی گیا تھا اس کی کمی تو ستاتی ہی تھی عیسٰی نے بھی گھر آنا کم کر دیا تھا۔ ان کی زندگی کی اصل رونق تو ان کے دونوں بیٹے ہی تھے۔۔
سب سے فری ہو کر وہ اپنے روم میں خانزادہ کے ساتھ بیٹھا تھا اور بیٹھتے ہی شکوہ کر دیا۔۔
”شادی کر لی میرے بغیر۔۔ یہی ویلیو ہے میری۔۔“ بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر سیدھا لیٹا خانزادہ کہنی کے بل اٹھ کر موسٰی کو دیکھنے لگا جو روٹھی بیویوں والا منہ بناٸے بیٹھا تھا۔
”تم بھی تو تین سال میرے بغیر رہ لیے، میں بھی شکوہ کروں کیا۔۔ خیر چھوڑو۔۔ شادی نہیں بس نکاح ہوا ہے ولیمہ پرسوں ہے، مجھے یقین تھا تم آ جاٶ گے۔۔ نا آتے تو پھر سوال کرنا تھا میں نے۔۔“ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولتا پھر سے سیدھا لیٹ گیا۔
”اچانک شادی کیوں کی؟ کیا محبت کرتے ہو؟“ موسٰی نے سب بھلا کر متجسّس لہجے میں سوال کیا۔
”نہیں۔۔ بس اتنا پتا ہے منال ہاشم خان سے بہتر ہے۔۔“
وہ گہری سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
”میرے والی غلطی مت دوہرانا حدیر۔۔ محبت نہیں تھی تو شادی کیوں کی۔۔“ موسٰی پریشان ہو گیا۔
”اور اتفاق دیکھو موسٰی۔۔ میری بیوی بھی ایک ڈٸیر کرتے ہوٸے ملی مجھے۔۔ ایک بار۔۔ دوبار۔۔ اور شاید ہر بار ہی۔۔ مگر فکر مت کرو میں خان موسٰی نہیں ہوں۔۔
میں خانزادہ حدیر ہوں۔۔ میرا ظرف بڑا ہے۔۔“
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا، موسٰی چپ ہو کر رہ گیا۔ دروازہ دھاڑ سے کھلا اور خونخوار تیور لیے عیسٰی قدم آگے بڑھاتا بیڈ کے پاس آیا۔
”کہا تھا ناں میں نے۔۔ آپ کو میری یا گھر والوں کی کوٸی پرواہ نہیں۔۔ آپ کے لیے بس حدیر لالا امپورٹنٹ ہیں۔۔“ وہ موسٰی کے سر پر سوار ہو گیا تھا۔ خانزادہ نے خاموشی سے اس کا ڈرامہ ملاحظہ کیا۔
”مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمہیں بھی میری توجہ نہیں چاہیے۔۔ تمہیں بھی سب سے زیادہ اپنے حدیر لالا کی توجہ چاہیے۔۔“ موسٰی نے مسکرا کر اپنے چھوٹے بھاٸی کو دیکھا جو ان تین سالوں میں ہی اچھا خاصہ ہینڈسم اور بڑا لگ رہا تھا۔
”اور ایک بھی کام ایسے نہیں کہ دل جیتے۔۔ بس مہنگی گاڑی کے شو ہیں اور لڑکی کے ساتھ آٸسکریم پالرز کے چکر۔۔“ خانزادہ نے اسی طرح سیدھے لیٹے ایک نظر عیسٰی کو دیکھ کر طنزیہ کہا تو وہ سٹپٹا گیا۔
”یونی فیلو ہے میری۔۔ بس کبھی کوٸی کام ہو تو۔۔ آپ نے میرے پیچھے سپاٸے چھوڑ رکھے ہیں کیا۔۔“ عیسٰی وضاحت دیتا دیتا رک کر ناراضگی سے بولتا دھپ سے وہیں بیٹھ چکا تھا۔
”اتنا فری نہیں ہوں۔۔ فار یور کاٸنڈ انفرمیشن تم جن روڈز پر گھومتے ہو ہمارے آنے جانے کے لیے بھی وہی یوز ہوتے ہیں۔۔“ خانزادہ نے جتاتے ہوٸے اس کی روہانسی شکل پر مسکراہٹ دباٸی۔۔
”آپ کو بتانے آیا تھا، آپ کے ان لاز آٸے ہیں اور آپ سے ملنے کے لیے بےتاب ہیں۔۔ ویسے آپ صبح سے بھابھی کے پاس گٸے نہیں۔۔ میں ہوتا تو سارا وقت اپنی واٸف کے پاس بیٹھا رہتا۔۔“ عیسٰی کی چمکتی نیلی آنکھوں میں شوخی تھی۔ موسٰی اس کی بات پر خانزادہ کو تکنے لگا، وہ بیزار تھا اپنی بیوی سے یا کوٸی اور بات تھی۔۔؟
”ویسے جب سے میری شادی ہوٸی ہے تم کچھ زیادہ ترسے ہوٸے کنوارے بن گٸے ہو۔۔ ابھی تمہارا وقت دور ہے، کیونکہ آغا جان اس بار تم دونوں کی شادی خاندان میں بلکہ حویلی میں ہی کرنے کا سوچ چکے ہیں اور لڑکیاں ابھی پڑھ رہی ہیں۔۔“ بیڈ سے اٹھ کر کپڑے جھاڑ کر ایک گہری نگاہ دونوں بھاٸیوں پر ڈال کر بولتا وہ باہر نکل گیا جبکہ وہ دونوں پیچھے منہ کھولے بیٹھے تھے۔
موسٰی کو لگا اسکا دم گھٹ جاٸے گا، پورے تین سال بعد وہ لوٹا تھا مگر وقت شاید وہیں کھڑا تھا۔۔ اس بار پلوشہ کے لیے انکار کی وہ کیا وجہ دے گا۔۔
خانزادہ نے اسے ایک دن بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا، آتے ہی بےسکونی کا تحفہ تھما دیا۔۔
”میری بہنیں ہیں دونوں۔۔ میں گھر سے بھاگ جاٶں گا زبردستی کی تو۔۔ خانزادہ لالا اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، آپ کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔۔
میں یہاں سے جا کر واپس ہی نہیں آٶں گا۔۔“
عیسٰی کی بڑبڑاہٹیں جاری تھیں، موسٰی نے بےچارگی سے اسے دیکھا جو گہرے صدمہ میں تھا۔
وہ بیڈ پر گرتا اپنے بال کھینچنے لگا۔۔ خانزادہ نے شاید ٹھان لی تھی گھر کے کسی فرد کو سکون سے چند دن نہیں گزارنے دے گا۔۔
>>------------->
وہ لوگ حویلی پہنچے تو ان سے اچھے سے ملے تھے سب لوگ۔۔ کچھ دیر بٹھا کر خانی بیگم نے انہیں خانزاد کے روم میں ہی بھیج دیا تھا۔
پریہان میڈیسن کے بعد اچھی نیند لے کر اور تھکن اترنے کے بعد کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔ خانزادہ کی ہدایت پر زرشہ نے اسے فیملی کے آنے کی خبر دینے کے ساتھ اچھے سے تیار ہونے میں مدد بھی کر دی۔ گہرے جامنی رنگ کی گھٹنوں سے زرا نیچے تک شرٹ جس کے ہاف سیلوز سے اس کے مخملیں بازو نظر آ رہے تھے۔ ڈارک گرے ٹراٶزر جس پر بھاری کام ہوا تھا، ہم رنگ ڈوپٹہ بھی کام سے بھرا تھا۔
زرشہ نے ہلکا میک اپ کر دیا، نفیس سی جیولری پہن کر وہ غضب ڈھانے لگی تھی، چہرے پر ازلی معصومیت کے ساتھ مسکراہٹ بھی سجا لی۔۔
ابھی تیار ہو کر نیچے جاتی کہ سب روم میں آ گٸے۔
انکل اور آفان بھاٸی مردان خانے میں تھے، آنی، پریسہ اور پروا سے مل کر وہ جذباتی ہو گٸی۔ کیف اور عفرا کو پیار کرتی کچھ پل کے لیے وہ سب بھول گٸی۔
پروا کے پاس بہت دکھڑے تھے رونے کے لیے جبکہ آنی اور پریسہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”خوش ہو ناں ہانو۔۔؟ حدیر بھاٸی اچھے ہیں ناں۔۔“
پریسہ نے نرمی سے پوچھا تو وہ سر ہلاتی مسکراٸی۔
”سب اچھے ہیں، میں تو تھکن سے بیمار ہو گٸی تھی اپیا۔۔ گل جان آنٹی نے بہت اچھا سوپ بنا کر پلایا مجھے۔۔ اور زرشہ میری بہت اچھی فرینڈ بن گٸی ہے، آپ کو پتا ہے ہماری ڈیٹ آف برتھ سیم ہے۔۔“ وہ حدیر کے زکر کو گول کرتی مسکرا کر بتا رہی تھی پھر آنی کو دیکھا جن کا چہرہ شاید تھکن سے زرد ہو رہا تھا۔
”آنی آپ نے اتنا لمبا سفر کیوں کیا۔۔ آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔ پلیز یہاں آ کر لیٹ جاٸیں۔۔“ وہ فکرمندی سے بولتی ان کے نا نا کرنے کے باوجود سہارا دے کر بیڈ پر تکیوں کے سہارے نیم دراز کر گٸی۔
”پریہان۔۔“ آنی نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھایا۔
”مجھے امید ہے حدیر اچھا انتخاب ٹھہرے گا مگر پھر بھی اگر کبھی پریشانی ہو یا کوٸی مشکل ہو تو چھپانا مت۔۔ مجھے ضرور بتانا بیٹا۔۔ لڑکیوں کی شادی ہو جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنوں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر ازیتیں سہتی رہیں۔۔“
آنی کے نرم محبت بھرے لہجے پر وہ ان کے سینے سے لگ گٸی۔ کچھ روز پہلے کی بدتمیزی پر دل کھول کر شرمندگی ہوٸی۔ آنی پیار سے اس کے بال سہلا رہی تھیں جب دروازے پر ہوتی ہلکی دستک پر سب متوجہ ہوٸے۔۔ حدیر کمرے میں داخل ہوا تھا۔
سکن کلر کاٹن کے شلوار قمیض میں مردانہ وجاہت سے بھرپور دراز قد اور دلکش چہرے پر سجی نرم مسکراہٹ پر آنی اور پریسہ نے بےساختہ پریہان کی قسمت پر رشک کیا تھا۔۔ اتنا مکمل اور خوبصورت انسان ملا تھا اسے جو یقیناً اچھا بھی تھا۔
وہ سب سے حال احوال لیتا ایک طرف پڑی چٸیر پر بیٹھ چکا تھا۔ پریہان پر نظر پڑی تو کچھ پل کے لیے مبہوت ہوا تھا مگر اگلے ہی پل جبڑے بھینچ گٸے۔
عریاں بازو، فٹ شرٹ اور گلا بھی آگے پیچھے سے گول اور قدرےگہرا تھا یوں کہ کندھے بھی آدھے نظر آ رہے تھے۔ اس کی نظر میں نہایت بےہودہ لباس پہنے بیٹھی تھی وہ۔۔ بمشکل خود پر کنٹرول کیا تھا اس نے۔۔
”کیا آپ کی طبیعت اب ٹھیک ہے۔۔؟ دوبارہ چیک اپ کروایا؟“ وہ پریہان کو نظرانداز کر کے مسز شاٸستہ سے مخاطب تھا۔ وہ مسکراٸیں۔
”اب ٹھیک ہوں۔۔ نہیں چیک اپ نہیں کروایا۔۔ مجھے نہیں لگتا اس کی اب ضرورت ہے۔۔ میری صحت تو میری بیٹیوں کی مسکراہٹ سے جڑی ہے۔۔ پریہان کو خوش دیکھ کر میری آدھی بیماری ختم ہو گٸی ہے۔۔“
آنی نے نرم لہجے میں کہتے ہوٸے پریہان کو دیکھا جو نروس سی ڈوپٹہ سنبھالنے کے چکر میں ہلکان تھی۔۔
”وش یو گڈ ہیلتھ۔۔ آپ کو ایک بار چیک اپ بھی کروا لینا چاہیے۔۔“ اس نے اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی۔۔
”کیا ہم پریہان آپی کو ساتھ لے جا سکتے ہیں۔۔“
کب سے اسے نرم لہجے میں بات کرتا دیکھ کر پروا نے ہمت کر کے سوال کیا تو وہ چونکا جبکہ آنی اور پریسہ نے سر پکڑ لیا۔ گھر سے گھنٹہ سمجھا کر لاٸے تھے یہ بات وہاں مت کرنا یہاں پہنچے گھنٹہ بھر ہی ہوا تھا وہ پھر وہی بات کر رہی تھی۔۔ ننھا کیف حدیر کے پاس پہنچ کر اس کا چہرہ دیکھتا بغور جاٸزہ لینے میں مصروف تھا، حدیر نے ہنسی دبا کر چھوٹے ساٸز کے انسپکشن آفیسر کے نرم گال سہلاٸے تو وہ شرما گیا۔
”میں رات کو سو نہیں پاٸی۔۔ میری عادت آہستہ آہستہ ختم ہو گی، میں پریہان آپی کو بہت مِس کرتی ہوں مجھے آنی کے پاس بھی مزہ نہیں آیا۔“ پروا اپنی مجبوریاں بیان کرتی بس رونے ہی والی تھی، اس تمام عرصہ میں وہ پہلی بار کھل کر مسکرایا تھا۔
”ایم سوری میں آج یہ ہیلپ نہیں کر پاٶں گا بٹ آٸی پرامس ریسیپشن کے بعد کچھ دن کے لیے پریہان آپ کے پاس سٹے کر سکتی ہے۔۔“ وہ نرمی سے بولا تو اس کے پہلے جملہ پر مایوس ہوتی پُروا کی آنکھیں اگلی بات پر چمکیں۔۔ جینز پر پلین گرے شارٹ فراک اور اوپر ہم رنگ سٹالر لیے وہ بچی سی لگ رہی تھی۔
کیف اب چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے حدیر کی ہینڈواچ کا معاٸنہ کر رہا تھا۔ حدیر نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔
وہ چھوٹے ساٸز کا زمہ دار آدمی کافی گہراٸی سے اپنی آنی کے ہزبینڈ کو جانچ رہا تھا۔۔
”او۔کے تھینک یو بھاٸی۔۔ اٹس آ بگ ہیلپ۔۔“ وہ سر ہلاتی اس کی وضاحت قبول کر گٸی۔
وہ کچھ دیر مزید بیٹھ کر باہر کھانا لگوانے جا چکا تھا۔ پیچھے آنی، پریسہ اور پروا اس کے نرم لہجے اور اعلا پرسنیلٹی کے قصیدے پڑھ رہی تھیں، پریہان ایسے بیٹھی رہی جیسے کچھ سناٸی نا دیتا ہو۔۔
کھانا لگتے ہی سب کو باہر بلوایا گیا، چھوٹا سا سٹالر لینے والی پریہان ڈوپٹہ سنبھالتی زچ ہو چکی تھی۔ سب کے پیچھے روم سے نکلنے ہی لگی تھی کہ سامنے سے آتا خانزادہ کلاٸی تھام کر کمرے میں لے گیا۔
”ڈریس چینج کریں۔۔ “ گھبرا کر اسے دیکھتی پریہان کی کلاٸی چھوڑ کر اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”جی۔۔؟ کیا مطلب۔۔“ وہ واقعی نہیں سمجھ پاٸی تھی، سر جھکا کر اپنا جاٸزہ لیا، اچھا خاصہ پیارا ڈریس تھا۔ اسے اس عجیب انسان کی سمجھ نہیں آٸی۔
”آٸی سیڈ چینج یور ڈریس۔۔ یہی بیہودہ ڈریس رہ گیا تھا پہننے کے لیے۔۔“ وہ سخت لہجے میں بولتا گھور کر بولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر وارڈروب کی جانب بڑھا۔
پریہان اس کے مضبوط ہاتھ میں قید اپنا ہاتھ دیکھتی گھبراہٹ میں مبتلا ہوٸی مگر وہ متوجہ نہیں تھا۔
”واٹ دا ہیل۔۔ کوٸی مکمل لباس نہیں کیا۔۔“ اس کے ڈریسز کا جاٸزہ لیتا وہ پریشان ہوا۔
اسے ایسی ڈریسنگ میں باہر جانے دیتا تو پوری حویلی میں مذاق بن جاتی۔۔ وہ جو پہلے ہی ان چاہی تھی اب وجہ دے دیتی کہ بےحیا بھی ہے۔۔ سب سے بڑھ کر ایسا نامکمل اور بیہوہ لباس خود خانزادہ کو بھی سخت ناپسند تھا، آفریدی حویلی کی عورتیں چاہے وہ مالکن ہوں یا کام کرنے والی، مکمل لباس پر بھی بڑا سا ڈوپٹہ لے کر رکھنے کی عادی تھیں، یہی ایک مسلمان عورت کی پہچان ہے، یہی تحفظ اور حیا کا بہترین زریعہ ہے مگر آج کل لڑکیاں فیشن کے نام پر ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن کر جانے کیسی تسکین حاصل کرتی ہیں۔۔ وہ جھنجھلایا۔
پلٹ کر اسے گھورا تو وہ سہم گٸی۔۔ آخر کیسا لباس چاہتا ہے وہ۔۔ اس کے لباس میں کیا کمی تھی۔۔
وہ پوچھ نہیں پاٸی، اتنا اجنبی اور سرد لگ رہا تھا۔
بازوٶں پر رکھا ڈوپٹہ جو زمین کو سلامی دے رہا تھا، خانزادہ نے وہ سنبھال کر اس کے سر پر جمایا۔ اسکے اتنا قریب ہونے پر، اسکے پرفیوم کی خوشبو پریہان کے اعصاب پر سوار ہونے لگی۔ اسے خود پر غصہ آیا وہ اتنی کمزور تھی کہ زرا سی قربت اور لمس پر۔۔ اس کی پکار پر تپتے رخسار لیے پریہان نے سر اٹھایا۔
”ڈوپٹہ سہی سے لپیٹیں۔۔ یہ بازو اور گلا نظر نہیں آنا چاہیے۔۔ یہاں ایسا لباس نا پہنا جاتا ہے نا ہی پسند کیا جاتا ہے، اگر یہ عریاں وجود حویلی والوں کی نظر میں آیا تو مشکل بڑھ جاٸے گی۔۔ اس لیے بہتر ہے کہ۔۔۔“
وہ آہستگی سے سمجھاتا اسے ڈوپٹہ کروانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا جب وہ اچانک اس سے دور ہوٸی۔
”میں حویلی والوں کی پسند نہیں ہوں یہ تو پہلے روز مجھے پتا چل گیا تھا۔۔ اپنی منگیتر کو چھوڑ کر مجھ سے شادی کر کے مشکل تو آپ میری بڑھا چکے ہیں، اب مزید کیا ہونا باقی ہے۔۔“ وہ فاصلہ قاٸم کر کے اس کی قربت سے شل ہوتے اعصاب کو قابو کرنے کے لیے بددلی سے بولی اور ڈوپٹہ پھیلا کر سر پر رکھتی خود کو چھپانے لگی۔
”ابھی بہت کچھ باقی ہے۔۔ پہلے ہی دن اتنی مایوسی مسز پریہان۔۔ ابھی تو اس حویلی میں اپنا مقام بنانے کے لیے بہت مشکل آنے والی ہے۔۔“ وہ معنی خیزی سے بولا تھا جس کی سمجھ پریہان کو بالکل نہیں آٸی۔
”اور میں کیوں مقام بناٶں یہاں؟ یہ سب میری چاہ نہیں ہے۔۔ آپ، آپ کی حویلی اور یہ جگہ میرے نہیں ہیں اور میں پراٸی چیزوں کو چھیننے والی نہیں ہوں۔۔“ اس کے جملوں پر خانزادہ نے بغور اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جسے غیرارادی طور پر وہ اپنی زندگی میں شامل کر چکا تھا۔۔ جو ناراض ناراض سی لگ رہی تھی۔۔
”کون اپنا تھا؟ وہ منگیتر۔۔؟ وہ رشتہ۔۔ جو جڑنے سے پہلے ٹوٹ گیا۔۔؟“ وہ استہزاٸیہ لہجے میں بولا تو پریہان کی بولتی بند ہو گٸی۔ خفت اور شرمندگی سے اس کی آنکھیں نم ہوٸیں۔ یعنی جو رشتہ ٹوٹ چکا اس کا طعنہ اسے یہاں دیا جاٸے گا۔۔ اس کے پاس الفاظ گم ہو گٸے۔۔ جواب باقی نہیں رہا۔۔
بازو ڈھیلے چھوڑتی ساکت سی کھڑی تھی، ہار ماننے جیسا انداز تھا اس کا۔۔ خانزادہ نے آگے بڑھ کر نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ لیے باہر نکلا۔۔
وہ اس کے ساتھ یوں چلتی جا رہی تھی جیسے اس کے رحم و کرم پر ہو۔۔ اب جو چاہے کرے۔۔
اسے لے کر وہ سب کے درمیان بیٹھا۔ کھانے پر لیٹ پہنچنے پر معذرت کرتا اس کے لیے کھانا ڈالتا سب سے ہلکی ہھلکی باتیں کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔
کھانا کھا کر پریسہ وغیرہ بس کچھ دیر مزید رکے تھے، ان کے جانے کے بعد بھی وہ جب تک باہر بیٹھی رہی وہ ساتھ رہا اور پھر کسی کام سے باہر جاتے ہوٸے پہلے اسے روم میں بھیج دیا۔
وہ نہیں سمجھ پاٸی کیوں۔۔ وہ اب کچھ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی، وہ جان ہی نہیں پاٸی کہ وہ اس کی ڈھال بنا رہا تھا اس تمام وقت میں جب حویلی والوں کی جاٸزہ لیتی، جانچتی نظریں اس پر جمی تھیں۔۔ وہ ساتھ رہا کیوں کہ اسکے سامنے کوٸی بھی سوال کرنے یا کچھ کہنے کی ہمت کسی میں نا تھی۔۔
*********
وہ بےزار سی بیڈ ہر ترچھی لیٹی گلاس وال کے باہر ڈھلتی شام دیکھ رہی تھی۔۔ گھنے سبز درختوں کا ڈھیر وسیع علاقے پر پھیلا بہت پیارا لگ رہا تھا۔ جھولتی شاخیں اور لرزتے پتے بتا رہے تھے کہ تیز ہوا چل رہی ہے، اسکا دل مچلا وہاں جانے کے لیے۔۔
ابھی وہ اٹھ کر وہ گلاس ڈور کھول کر باہر جاتی کہ کمرے میں ہلکی سی دستک کے بعد خانی بیگم داخل ہوٸیں، پیچھے دو ملازماٸیں تھیں۔
وہ جلدی سے بیڈ پر پھیلا ڈوپٹہ اٹھا کر اوڑھنے لگی، مگر تب تک خانی بیگم اس کے لباس کا تنقیدی نگاہ سے جاٸزہ لے چکی تھیں۔ وہ سامنے سر جھکا کر کھڑی ہوٸی، خانی بیگم کی شخصیت میں عجیب رعب سا تھا کہ وہ گھبراہٹ میں مبتلا ہوٸی۔۔ ماں بیٹا ایک جیسے ہی ہیں، اس نے بےچارگی سے سوچا۔۔
”اندازہ تھا کہ تمہارا لباس اس قابل نہیں ہو گا کہ خان حویلی میں پہنا جاٸے مگر شادی اتنی جلدبازی میں ہوٸی کہ جلد لباس تیار نہیں کروا پاٸی۔۔“
انہوں نے کھڑے کھڑے ہی اس کو تنقید بھری نظر سے دیکھتے ناک چڑھا کر سنجیدہ سرد سے لہجے میں کہا تو پریہان شرمندہ سی عریاں بازو چھپانے لگی۔
”کچھ جوڑے تیار ہو کر آ گٸے ہیں۔۔“ خانی بیگم نے بولتے ہوٸے ملازماٶں کو اشارہ کیا تو انہوں نے بڑھ کر کچھ روایتی جوڑے اور زیورات کے کچھ باکسز بیڈ پر اس کے سامنے رکھے۔
”ابھی ان میں سے ایک پہن لو، رات کا کھانا سب کے ساتھ کھایا جاٸے گا اور اس لباس میں تم سامنے گٸی تو کسی کو اچھا نہیں لگے گا۔۔“ انہوں نے سپاٹ لہجے میں تاکید کی تو وہ ایک نظر جوڑے دیکھ کر رہ گٸی۔
”جی شکریہ۔۔“ آہستگی سے کہا تو جانے کے لیے پلٹتی وہ رک کر اسے دیکھنے لگیں۔ وہ زرشہ، پلوشہ کی ہم عمر تھی مگر قد کاٹھ اور چہرے سے کافی کم عمر لگتی تھی۔ کاش ایک قد تو منال جیسی ہوتی۔۔ انہوں نے سرد آہ بھری۔۔
”یہاں کا رہن سہن تھوڑا الگ ہے۔۔ وقت لگے گا مگر سب سمجھ جاٶ گی۔۔ کوشش کرنا باہر سب کے ساتھ بیٹھو یہاں کمروں میں رہنے کا رواج زرا کم ہے۔۔
اور ہاں پہلے روز کی دلہن ہو، یہ زیورات ہیں ان میں سے کچھ پہن لینا۔۔ خاص طور پر یہ کنگن۔۔“ ایک اور ہدایت دی گٸی، پریہان سر جھکاٸے کھڑی رہی۔۔ بس تنقید تھی اور سخت نظر۔۔ ہدایت پر ہدایت۔۔ کیسے سب یاد رکھے گی۔۔ کیسے رہے گی یہاں۔۔
خانی بیگم اس کے یوں خاموش سر جھکا کر رکھنے پر بےزار ہوٸیں، اعتماد کی کمی۔۔ بچوں جیسا رویہ۔۔ چہرے پر چھلکتی نوعمری اور عجیب بیگانہ انداز۔۔
کیا وہ خان حویلی کے خانزادہ کی بیوی بننے کے قابل تھی۔۔ خانی بیگم کے دل سے انکار نکلا تھا۔۔
وہ پلٹ کر چلی گٸیں اور وہ انہیں بیٹھنے کا بھی نہیں کہہ پاٸی۔۔ ایسی ڈرپوک اور بدتہذیب تو وہ کبھی نہیں تھی، نا ہی اتنی کم اعتماد کہ سر نا اٹھا سکے۔۔
انجان لوگ اور ان کی ناپسندیدگی اسے ہراساں کر رہی تھی، یوں جیسے سرد مزاج اجنبیوں کی بھیڑ میں بچہ کھو جاٸے اور کوٸی اس کھوٸے ہوٸے خوفزدہ بچے کو دلاسہ تک دینے کو تیار نا ہو۔۔
بس اسے بتایا جاٸے اس بھیڑ میں کیسے چلنا ہے اور کہا جاٸے کہ اب ایسا کرنا ہی آخری چارہ ہے۔۔
کچھ ایسا حال ہو رہا تھا اس کا۔۔
اس نے لب کاٹتے ہوٸے وہ لباس چیک کیے۔۔ روایتی بھاری کشیدہ کاری والے فراک نما جوڑے۔۔ اس نے زندگی میں بس ہلکا پھلکا سادہ لباس ہی پہنا تھا۔ اس وقت پہنا ڈریس جس کی شرٹ بالکل سمپل تھی وہ بھی اس کے لیے زیادہ تھا مگر سامنے پڑے کپڑے۔۔
اس کا دل چاہا گھٹنوں میں چہرہ چھپا کر ناراض بچے کی طرح روٸے شاید کسی کو ترس آ جاٸے۔۔
براٶن کلر۔۔ بلو کلر۔۔ ڈارک گرین کلر۔۔ بلڈ ریڈ کلر۔۔ اورنج کلر۔۔ میرون کلر۔۔ یلو کلر۔۔ ان سب رنگوں کے جوڑے مگر ایک ہی انداز اور ڈیزاٸن کے بھرے ہوٸے۔۔
اس کی آنکھیں پھیل گٸیں۔۔ یہ چند ڈریسز تھے۔۔؟
زیورات کے ڈبوں میں بی اچھے خاصے بھاری سونے کے زیور تھے۔ وہ بےچارگی سے سب سے ہلکے والا سیٹ نکال کر دیکھنے لگی۔
یلو کلر کا ڈریس لیا، کچھ ٹھنڈا اور ہلکا رنگ تھا، کپڑے تو بھاری تھے کم سے کم رنگ تو ہلکا ہو۔۔ واش روم میں جا کر شاور لیا، دماغ کو ٹھنڈا کیا، کچھ چھپ کر آنسو بھی بہا لیے اور چینج کر کے باہر آٸی۔۔ کندھے لٹک گٸے تھے، اتنا کھلا اور تقریباً پیروں کو پہنچتا فراک۔۔ یقیناً ساٸز بڑا تھا۔ شہد رنگ بال کندھوں کو چھو رہے تھے، برش کرتی وہ پہلے ہی دن حویلی سے، اس کے مکینوں سے اور اس انسان سے جس سے رشتہ جڑا تھا، تھک گٸی۔۔ اکتا گٸی تھی۔۔
سونے کا سیٹ اٹھا کر سفید گردن میں سجا کر وہ بھاری کنگن بھی پہن لیے۔۔
شام ڈھل چکی تھی جب خانزادہ اسی قتل کے کیس کی ساری معلومات لیتا گھر پہنچا، قاتل کا پتا چل گیا تھا، قاتل اور مقتول دونوں ہی ان کے ڈیرے پر ہوتے تھے، اس نے کیوں قتل کیا یہ بتانے کو تیار نہیں تھا، خانزادہ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود مقتول کے گھر والوں نے جرگہ بٹھانے کا کہہ دیا تھا، وہ جانتا تھا اب پھر سے ونی لینے کی بات ہو گی، کتنی دیر پولیس سٹیشن کے باہر مقتول کے گھر والوں کو سمجھانے میں وقت ضاٸع کیا وہ الگ۔۔ گرمی سے اس کا حلیہ خراب ہو گیا اور اس کا موڈ بھی بری طرح خراب ہو چکا تھا۔۔
گھر پہنچ کر بھی بنا کسی کو دیکھے یا بات کیے وہ سیدھا کمرے میں آیا۔۔ سامنے ہی وہ اپنے ساٸز سے بھی بڑے کھلے لباس میں کھڑی تھی، پیلا رنگ اسے ہمیشہ سے سخت ناپسند تھا مگر وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا یہ رنگ بھی کسی کے ساتھ اتنا جچ سکتا ہے۔۔
پیلے رنگ میں اس کا شفاف رنگ دمک رہا تھا، چہرے کی ملاحت دھلے میک اپ کے بغیر نمایاں ہو رہی تھی،
لبوں پر گلاب رنگ لپ اسٹک لگی تھی۔۔ ناک چڑھا ہوا تھا ، چہرے پر بےزاری تھی مگر پھر بھی وہ فریش سی جلتی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا کام کر رہی تھی۔۔ وہ اس سے نظریں ہٹاتا آگے بڑھا اور اپنا ڈریس لے کر فریش ہونے چلا گیا۔۔
پریہان شیشے میں اپنا عجیب حلیہ دیکھ کر مٹھیاں بھینچتی بمشکل خود پر کنٹرول کر رہی تھی، وہ ایسے حلیہ میں سب کے سامنے جاٸے گی تو کتنا مذاق بنے گا۔۔ وہ انکار کر کے خانی بیگم کو غصہ بھی نہیں دلا سکتی تھی، بےبسی سے رونا آیا۔۔
وہ باہر نکل کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہوتا بال برش کر کے پرفیوم سپرے کرنے لگا۔
”میں یہ ڈریسز نہیں پہن سکتی۔۔ یہ اچھے نہیں ہیں اور ساٸز بھی بڑا ہے۔۔ اور یہ زیور بھی۔۔ مجھے مذاق نہیں بننا۔۔ میں نہیں پسند، میرا پہناوا نہیں پسند، جب میں اتنی بری لگتی تھی تو آپ سب مجھے یہاں لاٸے ہی کیوں۔“
اس کے اچانک بولنے پر وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔۔ بھینچی مٹھیاں اور بھراٸی ہوٸی آنکھیں۔۔ وہ کمزور پڑ رہی تھی مگر مضبوطی ظاہر کر رہی تھی۔۔ بند کمرے میں اس کے سامنے اپنے لیے بول کر یہ بتا رہی تھی وہ ناانصافی برداشت نہیں کر سکتی۔۔
وہ خاموشی سے پلٹا، ڈریسنگ کی ڈرار سے ایک باکس نکالا اور اس کی طرف بڑھا، پریہان پیچھے ہوتی اس سے دور ہونے لگی۔ وہ باکس کھول کر اندر سے نفیس باریک سی واٸٹ گولڈ کی چین نکال چکا تھا۔
” یہ منہ دکھاٸی ہے۔۔ رات کو لیٹ پہنچا، صبح ڈریس نے موڈ آف کر دیا تو نہیں دی۔۔ بٹ ناٶ یو ڈیزرو۔۔“
اس کی کلاٸی سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے اسے پہنانے لگا۔ پریہان کا منہ کھلا رہ گیا۔ ہک بند کر کے وہ سامنے ہو کر دیکھنے لگا۔ صراحی دار سفید گردن پر سجے بھای گولڈن ہار سے اوپر جیسے چمکتی ہوٸی ایک لاٸن لگ رہی تھی۔۔
”آٸی نو یہ چینج اپ سیٹ کر رہا ہے۔۔ اٹس نیچرل۔۔
Its okay If you ar not okay today but tomorrow will be fine and the other next day will be best day for you.. Trust me.."
نرمی سے کہہ کر اس کا گال تھپتھپایا۔۔ وہ تھک رہی تھی وہ جانتا تھا تبھی دلاسہ دیا۔ پھر سے اسی طرح بیڈ پر پھیلا بھاری ڈوپٹہ اٹھا کر اسے اوڑھایا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ باہر لے گیا۔۔
اس بار بھی وہ بولنا بھول گٸی تھی، اس کے الفاظ پر۔۔ تحفہ پر۔۔ نرم لہجے اور اپناٸیت پر۔۔
سب کے درمیان وہ ڈوپٹہ کچھ زیادہ پھیلا کر بیٹھی تھی وجہ صرف وہ کھلا عجیب سا ڈریس تھا۔۔
خان یوسف سرسری سا مل کر اس کے بعد دوبارہ اسے دیکھنے سے گریز کرتے رہے تھے اور باقی سب ان کی موجودگی میں لیے دیے ہی رہے تھے۔۔
خانی بیگم نے اس کو پیلا ڈریس پہنے دیکھا اور ساتھ بیٹھے خانزادہ پر نظر ڈالی، وہ نارمل تھا۔۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس نے وہ رنگ پہننے کیسے دیا اسے۔۔ یعنی وہ اس کے لیے اتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی کہ اسے جی بھر کر دیکھے اور ناپسندیدہ رنگ سے تنگ ہو۔۔ وہ اپنی ماں بہنوں اور حتٰی کہ گل جان بیگم تک کو یہ کلر نہیں پہننے دیتا تھا۔۔ چِڑ جاتا تھا اتنا ناپسندیدہ رنگ تھا۔۔
آج اس کے پہلو میں بیٹھی وہ لڑکی جو بظاہر اس کی بیوی بن کر آٸی تھی مگر اس قابل نا تھی کہ ناپسندیدہ رنگ پہننے پر اسے منع کرتا، وہ مسکراٸیں۔
”کیا تم منال کی فرینڈ ہو۔۔؟ منال ہاشم کی۔۔؟“ اچانک خانی بیگم کے پوچھے سوال پر نوالہ اس کے حلق میں پھنس گیا تھا، سب نے ہی اس بےموقع بات پر خانی بیگم کو دیکھا تھا جو اطمینان سے پریہان کو دیکھ رہی تھیں۔ خانزادہ نے پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا اور ایک خاموش نظر ماں پر ڈالی۔
”جی۔۔ جی ہاں۔۔“ وہ کسی مجرم کی طرح سر جھکا کر بتا رہی تھی، خانی بیگم نے سر ہلایا۔
”آج مسز ہاشم کی کال آٸی تھی، مبارک دے رہی تھیں اس شادی کی۔۔ منال ہاسپٹلاٸز ہے اس کا بتاتے ہوٸے تمہارا زکر ہوا تو پتا چلا کلوز فرینڈز ہو۔۔“
ان کی تفصیلی بات پر پریہان کا دل دھک سے رہ گیا۔ منال ہاسپٹلاٸز تھی، شاید اسی لیے مرحا یا ریما نے کال نہیں کی تھی۔۔ اسے اپنا آپ مجرم محسوس ہوا۔
”میں بالکل نہیں جانتی تھی کہ۔۔ کہ یہ منال کے ان لاز۔۔ کی فیملی ہے۔۔ بالکل اندازہ نہیں تھا۔۔“ وہ خوامخواہ صفاٸی دینے لگی، سب دم سادھے ساس بہو کی باتیں سن رہے تھے، خانزادہ نے لب بھینچے۔۔
وہ خانی بیگم کو ٹوک نہیں سکتا تھا انہوں نے اس انداز سے بات کی تھی کہ لگا وہ بات براٸے بات کر رہی ہیں، چاہے مقصد جو بھی تھا۔۔ پریہان کا صفاٸی دینا اسے غلط ثابت کر رہا تھا، اس نے کانچ کا گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ بھرا اور زور سے ٹیبل پر پٹخا۔ چھناکے کی آواز پر خان یوسف نے خشمگیں نظر خانی بیگم پر ڈالی، اشارہ واضح تھا، انہیں جو بات کرنا تھی اکیلے میں کرتیں نا کہ خانزاہ کا مزاج بگاڑا جاٸے، خانی بیگم نے بیٹے کا ضبط سے سرخی چھلکاتا چہرہ دیکھا اور خاموشی سادھ لی۔۔۔
پریہان کی بھوک اڑ چکی تھی، پہلے ہی دن اس نے ایک ساتھ اتنی ساری زلت اٹھا لی تھی کہ آگے کا سوچ کر ہی سانس رکنے لگا تھا۔ شاید اس کی ساری زندگی روتے، زلیل ہوتے ہوٸے گزر جانی تھی۔۔
اپنے سے اونچے خاندان میں شادی۔۔ اور ان چاہی بہو بننا کتنا مشکل تھا اسے پہلے ہی دن پتا چل گیا۔۔
رات کو کمرے میں جاتے ہی اس نے وہ کپڑے بدل کر اپنے سامان سے ہلکی سی ٹراٶزر شرٹ نکال کر پہنی، ڈوپٹہ پھینک دیا، بازوٶں میں پہنے بھاری کنگن بھی اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکے اور بیڈ پر تکیہ میں منہ چھپاتی بری طرح رو دی۔۔
اس کے پاس بھڑاس نکالنے کے لیے بس یہی ایک جگہ بچ گٸی تھی۔۔ یہ کمرہ جو اب اس کا تھا۔۔
خانزادہ کتنی دیر مردان خانے میں اسی قتل کے کیس کو خان یوسف اور خان آزر کے ساتھ ڈسکس کرتا رہا جب فری ہو کر روم میں پہنچا تو وہ نرم ہلکے ٹراٶزر شرٹ میں سواٸے اس کی دی چین کے ہر زیور سے آزاد بیڈ پر سو رہی تھی۔ آج بھی پلکیں بھیگی تھیں، سفید ملاٸم چہرے پر آنسوٶں کے نشانات تھے۔۔
وہ اس سب کی حق دار نہیں تھی جو ہو رہا تھا اور جو آگے ہونا تھا، اسے اس عذاب میں ڈالنے والا وہی تھا۔۔ اسے پورا احساس تھا اور یہ احساس اسے پچھتاوے میں مبتلا کر رہا تھا۔۔
اس کے قریب لیٹ کر اسے دیکھنے لگا، سر تکیے سے لڑھکا ہوا تھا، گردن ٹیڑھی ہو رہی تھی، آگے ہو کر اس کا سر سنبھال کر تکیہ پر ٹکایا اور اسے اپنے حصار میں لے کر سینے سے لگاتا ہولے ہولے تھپکنے لگا۔۔
ایک خاموش دلاسہ۔۔ جیسے تسلی دے رہا ہو۔۔
اس کا نرم لمس اس پر عجیب طرح سے اثرانداز ہونے لگا تھا، سرور سا دوڑا تھا جسم میں۔۔ جیسے نشہ ہو۔۔
وہ بےساختہ اسے خود میں بھینچ کر اس پر جھکا اور اس کے نم گالوں پر لب رکھ گیا۔۔ ایک بار۔۔ دو بار۔۔ وہ خود سے باندھ رہی تھی، سحر پھونک رہی تھی۔۔ اس کا چہرہ اپنے تپتے لمس سے جلاتا چلا گیا۔
اس کے کسمسانے پر ہوش میں آتا یکدم دور ہوا۔
اپنی بےخودی پر حیرت ہوٸی۔۔ صنف نازک سے وہ کبھی ایسا برتاٶ نہیں کرتا تھا، اس کے قریب ہونے کی بہت لڑکیاں کوشش کرتی تھیں، سٹوڈنٹ لاٸف میں اور پھر بزنس ورلڈ میں بھی۔۔
اسے اچھے سے یاد تھا وہ جھٹک دیتا تھا سب کو۔۔ شاید یہ نکاح کا اثر تھا، حق رکھتا تھا یا شاید وہ تھی ہی نشے جیسی۔۔ رگوں میں اتر کر مفلوج کرنے والی۔۔
وہ اس سے دور ہوا، تفکر سے دیکھا، نم چہرہ اب سرخی چھلکا رہا تھا۔ اس نے خود کو کوسا اور کروٹ بدل کر آنکھیں موند گیا۔۔ وہ نرم لمس اب بھی اندر کہیں سکون بن کر محفوظ رہ گیا تھا۔۔
ولیمہ کے پروگرام کا انتظام خان حویلی کے فرنٹ لان میں کیا گیا تھا۔ وہ گراسی پلاٹ اتنا وسیع تھا کہ ساٸیڈ پر بنے ڈراٸیو وے پر پانچ منٹ میں گاڑی حویلی کی عمارت تک پہنچتی تھی۔
ارد گرد لگے درختوں اور چھوٹی پتھریلی دیواروں کو ٹمٹماتی روشنیوں سے بھرا ہوا تھا۔ حویلی کی جانب اونچا سٹیج بنا ہوا تھا جس کی بیک پر پھولوں کے گلدستوں سے سجاوٹ کی ہوٸی تھی۔۔
اتنا بہترین اور مکمل انتظام تھا کہ واقعی دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گٸی تھیں۔
ہر طرف پھول اور روشنیوں سے سجاوٹ کی بھرمار تھی۔ پریہان نے اپنے ولیمہ کے لیے تیار ہو کر آیا ڈریس دیکھا تو چہرے پر بارہ بجنے لگے۔۔
گہرے میرون کلر کی میکسی تھی جو گلے سے لے کر پیروں تک بھاری نگینوں کے کام سے بھری ہوٸی تھی، ڈوپٹے کا بارڈر اتنا بھاری اور بڑا تھا کہ سر پر رکھتے ہی اسے لگا وہ سر اٹھا نہیں پاٸے گی۔۔
رنگ اتنا گہرا تھا کہ سیاہ جیسا لگ رہا تھا، ہم رنگ لپ اسٹک اس کے سفید مومی چہرے پر جچ رہی تھی۔
اسے وہ ڈریس دے کر بتایا گیا تھا کہ وہ جس اونچے گھرانے کی بہو بنی ہے وہاں کمتر چیز پہننا توہین سمجھی جاتی ہے۔ بھاری زیور سے اسے بھر دیا تھا۔
میکسی کے بازو مکمل تھے اور گلا بھی گہرا بالکل نہیں تھا۔ اس پر لدا سونے کا زیور۔۔ پیٹ تک جاتی بھاری مالا اور گلوبند۔۔ ماتھا پٹی نے اس کے آٸیبرو تک چھپا دٸیے تھے۔۔ بازوٶں میں موٹے کنگن اور انگلیوں میں باریک نگوں سے جڑی انگوٹھیاں۔۔
”اس حویلی کی بہو کا قد کاٹھ اتنا تو ہونا چاہیے تھا کہ یہ سب پہن کر وہ خود کو سنبھال کر سر اٹھا سکے۔۔ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ سب پہنا کر شیشے کے صندوق میں سلا دیا جاٸے۔۔“
خانی بیگم نے اسے لڑکھڑاتے دیکھ کر جھنجھلاتے کر کہا، قدم قدم پر مایوسی کا سامنا ہو رہا تھا۔ ان کی بہو بھی ان جیسی دراز قد اور کچھ مضبوط شانوں والی تو ہونی چاہیے تھی جو ایسے بھاری لباس اور زیور میں سر اٹھا کر مضبوط قدم اٹھا سکتی۔۔
سامنے کھڑی لڑکی اتنی نازک سی تھی کہ سہارے سے کھڑی نڈھال ہو رہی تھی۔ ہاٸی ہیل پہن کر وہ فلیٹ شوز پہنے پلوشہ اور زرشہ کے برابر پہنچ رہی تھی۔۔
یہ سب اچھی قد کاٹھ کے پٹھان اس کا دل دہلا رہے تھے، پلوشہ نے آج لوگوں کے لیے موڈ کچھ بہتر کیا ہوا تھا جب کہ زرشہ اس کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔
اسے حیرت تو تب ہوٸی جب گل جان بیگم اسی سفید لباس اور سفید چادر میں حویلی کے اندر کے انتظامات سنبھال رہی تھیں، کیا وہ اس حویلی کی بہو نہیں تھیں پریہان کو حیرت ہوٸی۔۔ تو کیا وہ بھی ان چاہی بہو ہیں، کیا اس کے ساتھ بھی آگے جا کر ایسا ہو گا۔۔
وہ پریشان سی سوچوں میں گم باہر نکلی تھی۔۔
سٹیج پر جا کر میرون نرم پشم کے کور والے شاہانہ طرز کے تخت پر پڑے گاٶ تکیوں کا سہارا لے کر وہ بیٹھی تو کمر کو کچھ سہارا ملا تھا مگر اس کی شان و شوکت اور لباس و زیورات پر رشک بھری نگاہیں جمی تھیں۔ نازک مہندی لگے پیروں میں پاٸل پہنی ہوٸی تھیں اور پیر تخت کے مخملیں گدے پر اوپر کر کے رکھ لیے تھے۔
خاموش نظروں سے سر اٹھا کر سب سے ملتی وہ بس سر ہلا رہی تھی، نہیں جانتی تھی، کس کا کیا رشتہ ہے اور کون کس رتبہ کا حامل ہے۔۔ منتظر نظروں سے انٹرینس کو تک رہی تھی جانے کب اس کے گھر والے پہنچیں گے اور آخر اس کا انتظار ختم ہوا، سب بوجھ بھلاٸے سیدھی ہو کر جگمگ کرتی آنکھوں سے اپنی بہنوں اور آنی کے ساتھ آتی ریما کو دیکھا۔
انہیں مل کر سیدھا سٹیج پر ہی لایا گیا تھا، تخت کے ارد گرد پڑے صوفے ان کے لیے رکھے تھے۔
”یا اللّٰہ میری گڑیا اتنی پیاری لگ رہی ہے، دیکھیں تو آنی۔۔“ پریسہ اس کے پاس آتے ہی لپٹ کر ملتی دیوانہ وار چومتی پرجوش سی آنی کو متوجہ کر گٸی۔
”ماشاءاللہ بہت پیاری۔۔ اللہ نظر بد سے بچاۓ۔“ آنی نے بھی سینے سے لگا کر بلاٸیں لیں۔ ریما اور پروا بھی آنکھیں پوری سے زیادہ کھول کر اسے دیکھ رہی تھیں۔۔ بھاری گہرے رنگ لباس میں اس کا نازک سراپا دمک رہا تھا، معصوم سے چہرے پر اس وقت رنگوں کی بہتات تھی۔۔
”ریما کیا مرحا نہیں آٸی۔۔“ اس نے اپنے پاس بیٹھی ریما سے آہستگی سے سوال کیا۔
”نہیں آٸی ڈونٹ نو کیا ایشو ہے اسے۔۔ کہہ رہی تھی تم گھر آٶ گی تو ملے گی۔۔ حویلی نہیں آ سکتی۔۔“
ریما نے بیزاری سے منہ بنا کر بتایا اچھی خاصی دوستی خراب ہوتی جا رہی تھی، پریہان پھیکا سا مسکراٸی، شاید مرحا بھی منال کی وجہ سے۔۔
”ریما کیا منال ٹھیک ہے؟ میں نے سنا ہے وہ ہاسپٹل۔۔“ پریہان نے جملہ ادھورا چھوڑا تھا، چہرے پر تشویش کے تاثرات تھے۔ یہ بات اسے اندر سے پریشان کر رہی تھی۔
”ہممم۔۔ منال ہاسپٹل میں ہے، بی۔پی شوٹ کر گیا تھا کافی۔۔ پریہان دیکھو بی پریکٹیکل ہم سب جانتے تھے وہ حدیر کے لیے کیا فیلنگز رکھتی تھی اور اس کی وجہ تو اب سامنے آٸی ہے کہ وہ انگیجڈ تھی۔۔
میں انڈرسٹینڈ کر سکتی ہوں کہ تمہارا قصور نہیں مگر اس کی کنڈیشن ایسی نہیں کہ اس بات پر ریلیکس کر جاٸے۔۔ تو تم پلیز ویٹ کرو۔۔ وہ ٹھیک ہو جاٸے گی، تمہیں حدیر نے چنا ہے تو ڈیفینڈ بھی کرے گا۔۔ گلٹی مت ہو۔۔“ ریما نے دوستی کا حق نبھاتے ہوٸے نرمی سے اسے سمجھایا۔ پریہان اداس سی سر ہلانے لگی۔
”بٹ ریما۔۔ حدیر، منال سے اٹیچڈ تھے۔۔ منال کے پاس ان کا نمبر تھا وہ لوگ بات کرتے تھے۔۔ انہوں نے کیوں اپنی فیانسی کو چھوڑ کر مجھ سے شادی کی۔۔ میں نہیں جانتی تھی کس سے شادی ہو رہی ہے وہ تو جانتے ہوں گے ناں۔۔ پھر کیوں کیا یہ سب۔۔۔“ اس کے سوالات پر ریما نے چونک کر اسے دیکھا اور سر پکڑ بیٹھی۔۔
”پریہان۔۔ یہ سوال مجھ سے نہیں اپنے ہزبینڈ سے کرو، اس نے کیوں تم سے شادی کی۔۔ کیوں منال کو چھوڑا۔۔ تمہیں لاٸف گزارنی ہے تو سب کلٸیر کرو اور جو وہ کہے اس پر یقین رکھنا۔۔ باٸی دی وے ان صاحب نے رونماٸی میں کیا گفٹ دیا تمہیں۔۔“
ریما نے اسے سمجھا کر شرارتی انداز میں پوچھا تو پریہان جھینپ کر اپنی گردن میں چمکتی اس نفیس سی چین پر ہاتھ رکھ گٸی۔
”اوہ واٶ۔۔ اٹس مِین موصوف کو ڈیلیکیٹ چیزیں پسند ہیں، جیسے تم۔۔“ ریما کی شوخی پر اس کی گالوں پر سرخی پھیل گٸی۔ دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا کیا ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ وہ خانزادہ حدیر جیسے شاندار انسان کو پسند آٸی ہو۔۔۔
”ویسے کیا تم جانتی ہو اس دن آٸسکریم پالر میں جب تم بےہوش ہو گٸی تھیں۔۔ تمہیں کون اس کلینک تک لے گیا تھا۔۔؟“ ریما نے اچانک اس کے قریب ہو کر سرگوشی کی۔۔ لب مسکرا رہے تھے۔۔
”تم۔۔ میرے ساتھ تم ہی تھیں ناں۔۔“ پریہان نے متحیر اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ نفی میں سر ہلا گٸی۔
”میں ساتھ تھی بٹ بہت پینک کر گٸی تھی۔ تمہیں اکیلے کبھی نا سنبھال سکتی، اس روز خانزادہ حدیر نے ہی تمہیں کلینک پہنچایا تھا، تمہارا چیک اپ کروایا، بِل پے کیا اور پھر چلا گیا۔۔ امیزنگ ناں؟
مے بی ہی لاٸکس یو۔۔ فرام سٹارٹ۔۔ تھنک اباٶٹ اٹ۔۔“ ریما شوخی سے بول رہی تھی اور وہ شاکڈ بیٹھی تھی۔۔ یہ بالکل نیا انکشاف تھا۔۔
”آپ آج ہمارے ساتھ جا رہی ہیں ناں۔۔؟ بھاٸی نے پرامس کیا تھا۔“ پُروا اچانک اٹھ کر اس کے سر پر پہنچتی سوال کرنے لگی تو خیال میں گم پریہان چونکی۔
”ہاں اگر کہا تھا تو۔۔ مطلب میں آج تمہارے ساتھ ہی جاٶں گی ناں۔۔۔“ گھر جانے کا سوچ کر ہی اس کا چہرہ یکدم کھِل اٹھا۔ پُروا بھی مطمٸین سی ایک طرف پریسہ کے پاس بیٹھ کر تھری پیس پہنے کیف سے باتیں کرنے لگی۔۔ پریہان یہ بات بعد میں اس سے پوچھنے کا سوچ رہی تھی۔۔
”سنو لڑکی۔۔ یہ ولیمہ پر گھر کون جاتا ہے۔۔ تمہیں چاہیے پروا کو سمجھاٶ تم خود بھی تیار ہو گٸیں۔۔
کل جانا اپنے ہزبینڈ کے ساتھ۔۔ مکلاوے کی رسم کا بھی کوٸی طریقہ ہوتا ہے یہ کیا ولیمہ پر آٸے گھر والوں کے ساتھ ہی منہ اٹھا کر چل پڑو۔۔“ ریما تو آج شاید پوری پوری اس کی ماں بن بیٹھی تھی۔
”یہاں کوٸی رسم نہیں۔۔ اگر انہوں نے پرامس کیا تھا تو پھر جاٶں گی میں۔۔“ وہ منہ بنا کر بول رہی تھی۔
ریما نے اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا۔۔
وہ گیسٹس سے ملتی، ہلکی پھلکی باتیں کرتی کچھ دیر کے لیے سب الجھنیں پیچھے رکھ گٸی۔۔
فیملی کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور بس ایک ہی جوش بھر گیا تھا اندر کہ وہ ان کے ساتھ گھر جا رہی ہے۔۔ دو دن میں ہی یہاں حویلی میں اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔
رات گٸے وہ لوگ فری ہوٸےتو خانی بیگم نے خانزادہ کے پیغام پر پریہان کی فیملی کو اندر ڈراٸنگ روم میں بٹھوا کر خانزادہ کو بلوایا، اب ان کا بیٹا ایسے لوگوں کو امپورٹنس دے گا؟ وہ بددلی سے اپنے روم میں جا چکی تھیں، ایک ملازمہ کو چاٸے بنا کر لانے کا حکم دیا۔۔
پریہان ابھی تک باہر کے خوشگوار موسم میں زرشہ اور پلوشہ کے ساتھ ان کی فرینڈز اور کچھ خاندان کی لڑکیوں سے ملتی پہلو بدل رہی تھی۔۔ اسے گھر جانے کے لیے چینج کر کے تیار ہونا تھا۔۔ اسے خوف تھا اس بار بھی خانی بیگم اسے روک نا لیں۔۔
”اگر آپ لوگ ماٸنڈ نا کریں تو میں اندر چلی جاٶں۔۔“ اس نے نرمی سے اجازت مانگی۔۔ ویسے ہی سسرال نامی جگہ خوفناک لگتی تھی پھر یہاں تو کچھ زیادہ سنبھل کر بات کرنا پڑتی تھی۔۔
”اوہ جی جی۔۔ آپ تھک گٸی ہوں گی۔۔ میں ساتھ چلتی ہوں۔۔“ زرشہ نے اس کا تھکن زدہ چہرہ دیکھ کر جلدی سے کہا۔ پلوشہ ایک نظر پریہان کو دیکھ کر سر ہلا گٸی۔ بڑوں کو چاہے وہ پسند آٸے یا نہیں مگر آج کی تقریب میں موجود لڑکیوں کو بہت پیاری لگی تھی۔۔ وہ سب لڑکیاں تھیں جنہیں نازک سی پریہان منال جیسی کسی بھی دراز قد لڑکی کی نسبت زیادہ اٹریکٹ کر رہی تھی، خانزادہ حدیر جیسے وجیہہ ڈیشنگ لڑکے کے ساتھ پریہان کا گڑیا جیسا سراپا ان سب کو کافی رومینٹک کپل لگا تھا۔
”نہیں آپ انجواٸے کریں۔۔ میں چلی جاٶں گی۔۔“ وہ زرشہ کو مزید اپنے ساتھ مصروف نہیں کرنا چاہتی تھی تبھی نرمی سے بولتی خود اٹھی۔
سہج سہج کر قدم اٹھاتی بمشکل اپنا ڈریس سنبھال کر وہ سنبھل کر سیڑھیوں کے پاس پہنچی اور گہرا سانس بھر کر اوپر تک جاتی لمبی سیڑھیوں کو دیکھا۔
اگر وہ اوپر جاتے ہوٸے گر گٸی تو۔۔ یہاں وہاں دیکھا کوٸی موجود نا تھا، سب بزی تھے یا ریسٹ کر رہے تھے۔۔ وہ ایک سٹیپ پر بیٹھ کر اپنے پاٶں ہاٸی ہیلز سے آزاد کر کے جوتے ہاتھ میں لے کر اٹھی تو نیا مسٸلہ درپیش تھا۔ لمبی میکسی پیروں میں آ رہی تھی۔ روہانسی ہو کر سینڈلز ایک طرف زمین پر رکھے اور جھک کر میکسی کا بھاری گھیرا ہاتھوں میں سنبھال کر تھوڑا اوپر کیا اور سکون کا سانس لیا۔
کچھ فاصلہ پر سفید بڑے پلر کے ساتھ کھڑے خانزادہ نے یہ ساری حرکات ملاحظہ کیں اور نفی میں سر ہلا کر مسکراہٹ دباٸی۔۔ کیا چیز تھی وہ۔۔ یعنی بس سیڑھی چڑھنا ہی مسٸلہ کشمیر تھا اس کے لیے۔۔
”اگر ہیلپ چاہیے تو میں بھی روم میں ہی جا رہا تھا۔۔“
اچانک پیچھے آ کر وہ بولا تو پریہان جھٹکا کھا کر لڑکھڑاٸی اور ریلنگ کو تھام کر سنبھلی۔
”ن۔۔۔نہیں، میں اتنی ہیلپ لیس نہیں ہوں جتنا آپ سب نے مجھے سمجھ لیا ہے۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے یہ بھاری ڈریسز پہن کر میں معذور ہو گٸی ہوں۔۔“ سنبھل کر ناک چڑھاتے ہوٸے اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ گھیرا ہاتھوں سے نکل کر پھر سے فرش پر پھیل چکا تھا۔
پہلے سٹیپ پر سینڈلز الٹے سیدھے پڑے تھے۔ بھاری ڈوپٹہ کی وجہ سے گردن جھک رہی تھی مگر خانزادہ کے سامنے وہ کانفیڈنس شو کر رہی تھی۔۔
”ایسا لگنے کی ضرورت نہیں۔۔ ہم سب کو نظر آتا ہے۔۔“ وہ ابرو چڑھا کر جتاتے ہوٸے بولا، آگے بڑھ کر زمین سے سینڈلز اٹھا کر اسے پکڑاٸے اور اسے مزید بولنے کا موقع دٸیے بنا بانہوں میں سمیٹ کر اوپر اٹھا لیا۔
”یہ۔۔ کیا۔۔ کر رہے ہیں آپ۔۔ چھوڑیں مجھے۔۔ نیچے اتاریں۔۔ “ وہ بوکھلا کر یہاں وہاں دیکھتی دبی دبی آواز میں بولی۔ وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔
اوپر روم میں جا کر اسے ایک صوفہ پر بٹھا دیا۔
پریہان کا چہرہ خفت سے سرخ ہو رہا تھا، جھجک کر چور نظروں سے اسے دیکھا۔ سیاہ کرتا شلوار پہنے وہ سرخ و سفید رنگت کا حامل دراز قد خانزادہ بلا کا پرکشش اور ہینڈسم لگ رہا تھا۔ پریہان کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا اس جیسا شاندار انسان پریہان جیسی عام لڑکی کو کیسے مل گیا۔۔
”مجھے پرمیشن چاہیے۔۔ گھر جانے کی، آنی لوگوں کے ساتھ۔۔“ وہ اپنا ناٸٹ ڈریس لے کر ابھی واش روم کی طرف بڑھا تھا کہ وہ جلدی سے بولی۔۔ وہ رک کر پلٹا اور اسے دیکھنے لگا۔ نظر جھکاٸے بھاری زیور سے الجھ رہی تھی۔
”تم تو کافی بدتہذیب میزبان ہو مسز پریہان۔۔“ اس کے جملے پر پریہان نے جھٹکے سے سر اٹھا کر حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھا۔
”کافی رات ہو گٸ ہے، تمہیں چاہیے تھا ان کو روکتیں کہ صبح جاٸیں تم خود تیار ہو گٸیں۔۔ تمہاری آنی پیشنٹ ہیں اور سسٹر کے چھوٹے چھوٹے دو بچے۔۔ جانتی ہو ناں کتنا فاصلہ ہے یہاں سے شہر تک کا۔۔۔؟“
وہ اسے احساس دلا رہا تھا، شرم ایسے دلا رہا تھا جیسے اس گھر میں اس کی مرضی چلتی ہو۔۔
”میں کیسے۔۔ میں اپنی مرضی سے یہاں کیسے ان کو روک سکتی ہوں۔۔ اگر کسی کو برا لگتا تو۔۔“
وہ شرمندگی سے ہکلا کر بولی، وہ سرد آہ بھر گیا۔
”یہ تمہارا گھر ہے۔۔ اپنے گیسٹس کو خود سنبھالنا ہو گا یہاں۔۔ کوٸی برا نہیں مانے گا، اپنی جگہ پہچان لو۔۔
ان کے لیے میں نے گیسٹ روم سیٹ کروا دیا ہے، وہ ریسٹ کر رہے ہیں۔۔ صبح جا سکتی ہو ان کے ساتھ۔۔“
وہ سنجیدگی سے بول کر پلٹتا واش روم میں چلا گیا۔۔
پریہان اپنی غلطی مان کر شرمندگی سے سر نفی میں ہلاتی زیور اتار کر پنز سے سر کے ساتھ جُڑا ڈوپٹہ اتارنے لگی، پیروں سے پاٸل اتار کر اٹھی اور ڈریسنگ روم میں جا کر چینج کیا۔ دماغ میں ریما کی بات بار بار ابھر رہی تھی تبھی اپنی جگہ پر لیٹتے ہی اس نے آنکھوں پر بازو رکھ کر سوتے حدیر کو دیکھا۔
”کیا آپ پہلے سے جانتے تھے میری شادی ٹوٹ چکی ہے؟ ہاسپٹل میں آنی کے بتانے سے پہلے۔۔؟“ پریہان کے آہستگی سے پوچھے سوال پر اس نے بازو ہٹا کر نیلگوں روشنی میں اس کا چہرہ دیکھا مگر چپ رہا۔۔
”ریما نے بتایا اس دن آٸسکریم پالر میں جب میں بےہوش ہوٸی تو آپ وہیں تھے۔۔ تو کیا آپ۔۔۔“
ابھی وہ بول رہی تھی جب وہ اٹھ کر بیٹھتا اسے ابرو چڑھا کر دیکھنے لگا۔
”میں اس دن وہیں تھا۔۔ یعنی میں نے تمہارے ایکس فیانسے کو تھریڈ کیا، بلیک میل کیا اور یہ شادی ختم کرواٸی۔۔ پھر موقع سے فاٸدہ اٹھا کر آخری دنوں میں اپنا آپ پیش کر کے تم سے شادی کر لی۔۔“
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا، پریہان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔ جلدی سے اٹھ کر اس کے سامنے بیٹھی، آنکھوں میں بےیقینی تھی اور حیرت۔۔
وہ گہرا سانس بھر کر سر اپنے ہاتھوں پر گرا گیا۔۔
********
وہ شاور لے کر بال سلجھاتا بیڈ پر لیٹا، موباٸل پر الارم لگا لیا، صبح صبح ہی نکلنے کا ارادہ تھا اس کا۔۔
پہلے خان زوار اور پھر خانزادہ کی شادی کی وجہ سے یونی سے کافی گیپ لے چکا تھا۔۔ الارم لگا کر میسجز چیک کرنے لگا، حسن اور احمر کے علاوہ کسی نمبر سے بھی میسج آیا ہوا تھا۔ تجسس سے اوپن کیا۔
”آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ آٸرہ“ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ آٸرہ کے پاس اس کا نمبر کہاں سے آیا اور کیا بات کرنی ہو گی۔۔ میسج رات کے سات بجے کا تھا اور اس وقت دس بج رہے تھے۔ بنا سوچے سمجھے اس نے کال ملا لی۔۔
”ہیلو۔۔ عیسٰی خان۔۔؟“ کچھ بیلز کے بعد اس نے کال پِک کر کے سوال کیا۔
”یس۔۔ کیا بات کرنا تھی؟ نمبر کس سے لیا۔۔؟“ وہ بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر سہولت سے بات کرنے لگا۔۔
”حسن سے نمبر لیا ہے، آپ کے بابا کا پتا چلا کہ وہ ہاسپٹل میں تھے اور کافی سیرٸیس کنڈیشن تھی۔۔۔
کیا ہوا ان کو۔۔ کیا اب وہ ٹھیک ہیں۔۔؟“
وہ پریشان لہجے میں سوال کر رہی تھی۔ اس کی فکر بھانپ کر عیسٰی مسکرایا۔
”ہی از فاٸن۔۔ گھر میں ہیں۔۔ سٹیبل ہیں۔۔ بڑے بھاٸی کی شادی تھی اس وجہ سے گھر آیا ہوا ہوں۔۔“
وہ جانتا تھا اس کے اتنے دن سے غاٸب ہونے پر وہ فکرمند ہے۔۔ تبھی تفصیل سے آگاہ کیا۔
”اوہ کانگریجولیشن۔۔ مجھے آج صبح حسن اور احمر کی باتوں سے آپ کے بابا کی کنڈیشن کا پتا چلا تو میں نے نمبر لے لیا۔۔ سوچا آپ سے خیریت پوچھ لوں۔۔“ وہ بار بار وضاحت دے رہی تھی۔ عیسٰی جیسے سرپھرے کا کچھ پتا بھی تو نا تھا کب بگڑ جاٸے۔۔
”حالانکہ تمہیں چاہیے تھا ایڈریس لے کر تیمارداری کے لیے آتیں میرے گھر۔۔“ وہ شرارتی لہجے میں بولا۔
”اتنی پاگل نہیں ہوں۔۔ میں آپ کے گھر آتی اور آپ مجھے دروازے سے ہی چلتا کر دیتے۔۔“ وہ خفگی جتا کر بولی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”ویل۔۔ اب ایسا بھی بدتہذیب نہیں ہوں۔ گیسٹس کو تو بہت اچھے سے ریسیو کیا جاتا ہے ہمارے ہاں۔۔“
وہ ہنس کر بول رہا تھا، آٸرہ نے شکر کیا کہ آج اس کا موڈ خوشگوار ہے۔۔
”کبھی دیکھ لوں گی آپ کے ہاں کی مہمان نوازی۔۔“ وہ مسکرا کر بولتی بالوں میں ہاتھ چلانے لگی۔
”اپنی شادی پر بلاٶں گا۔۔ ضرور آنا اور پھر انجواٸے کرنا۔۔“ وہ پھر سے شرارت پر ماٸل ہوا۔ آٸرہ چپ سی ہو گٸی۔
”کیا ہوا۔۔ وہ ایونٹ نہیں پسند۔۔“ وہ ہنسی دباتا سرخ ہو رہا تھا۔ آٸرہ نے گلا کھنکارا۔
”نہیں۔۔ میں اس سے پہلے کبھی چکر لگا سکتی ہوں۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولی۔۔ دل چاہ رہا تھا کال کاٹ دے، اب تو وہ جذبات سے کھیلنے والا کام کر رہا تھا۔
”بعد میں بھی آ سکتی ہو۔ اس بار میری انگیجمنٹ بھی تھی، سوری میں نے تم فرینڈز کو انواٸٹ نہیں کیا، سوچ رہا ہوں وہاں آ کر پارٹی دے دوں۔۔“
وہ سنجیدگی سے بولتا آٸرہ کا دل بند کر گیا۔ وہ تو اس امید پر بیٹھی تھی کہ شاید کبھی وہ ماٸل ہو جاٸے اور وہ اتنے آرام سے منگنی کی خبر دے رہا تھا۔۔
یعنی اس کا موڈ اسی لیے خوشگوار تھا۔
وہ ایک لفظ بھی نہیں بول پاٸی۔۔ نا مبارک نا اچھا۔۔
بےساختہ کال کاٹ کر ساکت سی بیٹھی رہ گٸی، عیسٰی نے کال بند ہونے پر موباٸل کی سکرین کو گھورا۔
”کہا تھا ہم صرف فرینڈز ہیں تو تم باز نہیں آٸیں ناں۔۔“ وہ بڑبڑا کر موباٸل پٹختا اس کا رویہ سوچنے لگا۔ کیا وہ غصہ ہو گٸی ہو گی؟ یا پھر اداس یا کیا پتا امید ٹوٹتے ہی اجنبی بن جاٸے۔۔ کیا ہوتی ہیں لڑکیاں۔۔
کیا سوچتی ہیں، کیا کرتی ہیں۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔ مگر سمجھنا چاہتا تھا، جمپ لگا کر بیڈ سے اتر اور ساتھ والے روم میں موجود موسٰی کے سر پر پہنچا۔۔
اس کا کندھا ہلا کر جگاتا اس سے سوال کرنے لگا۔۔
”لالا۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔؟“ نیند میں گم موسٰی نے ہڑبڑا کی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو بےچین سا اس کے سر پر کھڑا تھا۔
”عیسٰی کیا بات ہے؟ سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔“ وہ بکھرے بال نیلی آنکھوں میں سرخ ڈورے لیے پریشان سا اٹھ بیٹھا۔
”لالا اگر لڑکی آپ کی شادی پر خاموش ہو جاٸے، یا شادی کی بات سن کر کال کاٹ دے اس کا کیا مطلب ہوا۔۔؟ وہ غصہ ہے، اکتا گٸی یا اداس ہو گٸی۔۔؟“
رات کے اس پہر نیند سے جگا کر وہ بھاٸی سےسوال کر رہا تھا۔ موسٰی کا جی چاہا دیوار میں اپنا سر مارے۔
”مجھے پتا ہوتا تو اپنی شادی روک لیتا۔۔ جیسے عقل سے پیدل تم ہو ویسا ہی میں ہوں۔۔ اس لیے مزید کوٸی بکواس کیے بِنا دفع ہو جاٶ یہاں سے۔۔۔“
وہ نیند سے بھاری ہوتی آواز میں دھاڑا۔
”آپ کی شادی۔۔؟ کیا مطلب۔۔؟ آپ نے وہ شادی اپنی محبت سے نہیں کی تھی۔۔؟“ عیسٰی پر تو اس انکشاف پر شاکڈ ہوا تھا۔۔ منہ کھولے حیرت سے بھاٸی کو تکنے لگا۔
”عیسٰی ہم پھر کبھی یہ بات ڈسکس کریں گے پلیز جاٶ یہاں سے۔۔ میں سو رہا تھا یار۔۔“ موسٰی رونے والا ہو رہا تھا۔۔ بمشکل خود پر کنٹرول کیا۔
”آپ کو پتا ہے رات کے دوسرے پہر بھی کچھ یاد آ جانے پر میں حدیر لالا کے پاس جا کر پوچھتا تھا تو وہ نیند سے جاگ کر مجھے آرام سے جواب دیتے تھے۔۔“ عیسٰی نے اسے جتایا، وہ تکیہ میں منہ دیے اگنور کر گیا۔ اس کے اندر خانزادہ جیسی برداشت نہیں تھی کہ آدھی رات کو چونچلے اٹھاتا۔۔ اگر وہ پرانا موسٰی ہوتا تو اس وقت عیسٰی کو دھکے دے کر کمرے سے نکال چکا ہوتا۔۔
”حدیر لالا کو کیا جلدی تھی شادی کی۔۔ بیٹھے بٹھاٸے شادی کر لی۔۔ اتنی اچانک۔۔ پراٸیویٹ لاٸف ہو گٸی ہے۔۔ اب تو حق بھی نہیں جما سکتا۔۔ خیر بھابھی لگتی تو کافی سویٹ ہیں، اس منال سے تو اچھی ہی ہیں اس کے ہوتے تو ہم شاید بات کرنے سے بھی جاتے۔۔“ عیسٰی وہیں کھڑا افسوس کرنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے میں لگا تھا۔۔ موسٰی جانتا تھا وہ اسے جان بوجھ کر زچ کر رہا ہے تبھی ضبط کیے پڑا رہا۔۔
”ویسے ہو سکتا ہے آغا جان اب بہروز دادا سے تعلقات بناٸے رکھنے کے لیے منال ہاشم کی شادی آپ سے۔۔
”شٹ اپ عیسٰی۔۔ دفع ہو جاٶ یہاں سے۔۔“ عیسٰی کی بات پر وہ جھٹکے سے اٹھتا غصے سے دھاڑا۔
”ہو جاتا ہوں دفع۔۔ مگر یہ آپشن دماغ میں رکھیے گا آسانی ہو گی۔۔ ایسا نا ہو اچانک جھٹکا لگے تو آپ سہہ نا پاٸیں۔۔ حدیر لالا تو لکی رہ گٸے اور ایک سیکریٹ بتاٶں ؟ یہ جو سب کو پاگل بنا رہے ہیں ناں کہ اچانک لڑکی سے ضد میں شادی کی۔۔ جھوٹ۔۔ وہ اس لڑکی کو پہلے سے ہی جانتے ہیں۔۔۔
جب بابا ہاسپٹل میں تھے وہ مجھے آٸسکریم کھلانے لے گٸے تھے وہاں ایک لڑکی موجود تھی جس کی طبیعت خراب ہونے ہر حدیر لالا خود اٹھا کر اپنی گاڑی میں لے گٸے تھے۔ مجھے ہنڈرڈ اینڈ ٹین پرسنٹ یقین ہے وہ بھابھی ہی تھیں یہی قد کاٹھ تھی۔۔ “
عیسٰی مزے لے کر بولتا جواب نا ملنے پر بدمزہ ہو کر کمرے سے چلا گیا۔ موسٰی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ثنا بیگم کی بتاٸی بات یاد آٸی۔۔
”جب سے خانزادہ کو پتا چلا بہروز خان کی پوتی اس کی فیانسی ہے اسی دن سے انکار کر رہا تھا مسلسل، میرے اندر امید جاگی تھی کہ شاید وہ دریہ یا درخشاں میں سے کسی ایک کے لیے راضی ہو جاٸے۔۔
مگر نا آغا جان نے سوچا نا خانی بیگم نے۔۔ اور دیکھو وہ ضد میں کیسی بیبی فیس انجان لڑکی کو اٹھا لایا گھر۔۔“ ثنا بیگم اور گھر کے ہر فرد کو یہی علم تھا کہ ضد میں ہاسپٹل کے اندر کھڑے کھڑے رشتہ کر گیا۔۔
”اتفاق دیکھو موسٰی۔۔ میری بیوی بھی ایک ڈٸیر کرتے ہوٸے ملی مجھے۔۔ ایک بار۔۔ دوبار۔۔ اور شاید ہر بار ہی۔۔“ اسے خانزادہ کا جملہ یاد آیا تو مسکرا اٹھا۔۔
یعنی وہ اپنی بیوی سے پہلے ہی مل چکا تھا۔۔ ایک بار بھی نہیں کافی بار۔۔ وہ جانتا تھا اسے۔۔
”پوری چیز ہے تو جگر۔۔ پورے گھر کو پاگل بنا لیا۔۔ واہ یعنی یہاں الٹا سب خود کو کُوس رہے ہیں کہ کاش تم سے ضد نا کرتے۔۔ اور تم چپ چاپ اپنی محبت کو گھر لے آٸے۔۔“
موسٰی دوبارہ سے لیٹ کر ہنسنے لگا۔۔ حدیر کی قسمت پر رشک بھی آیا اور اس کے پلانز سے مرعوب بھی ہو رہا تھا۔۔ انسان ایسا ہوشیار ہو تو کسی میدان میں پیچھے نہیں رہتا۔۔ چاہے وہ گھر ہو۔۔ باہر ہو یا پھر محبت کا میدان ہو۔۔ وہ معرکہ سر انجام دے چکا تھا۔
موسٰی یہ بات گھر والوں کے سامنے کبھی نہیں کرنے والا تھا اور عیسٰی تو حدیر لالا کی ہر بات اپنے اندر دفن کرنے والوں میں سے تھا۔۔
انہیں یقین تھا خانزادہ موقع سے فاٸدہ اٹھا کر یہ شادی کر چکا ہے۔۔ پریہان کو بھی ایسا ہی کچھ لگا تھا مگر۔۔۔ سچ کوٸی نہیں جان پایا۔۔
پریہان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جلدی سے اٹھ کر اس کے سامنے بیٹھی، آنکھوں میں بےیقینی تھی اور حیرت۔۔
وہ گہرا سانس بھر کر سر اپنے ہاتھوں پر گرا گیا۔۔
"کیا یہاں کوئی ڈرامہ چل رہا ہے یا فلم۔۔ تمہیں لگتا ہے میں ایسی امیچور اور غیراخلاقی حرکات کروں گا۔۔
مسز پریہان مجھے تم سے شادی کرنی ہوتی تو پہلے رشتہ بھیج دیتا جب تم مجھے ملنے آتی تھیں یا بات کرتی تھیں۔۔ میں نے تم سے شادی کرنا ہوتی تو میں تمہارے خالو سے بات کر لیتا اور وہ کبھی انکار نا کرتے جانتی ہو کیوں۔۔۔؟"
وہ یہ بول کر اسے آسمان سے زمین پر پٹخ چکا تھا، پریہان گم صم سی اسے تکتی سن رہی تھی، اس کے رکنے پر یا سوال کرنے پر بھی کوئی رسپانس نا دیا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔۔
"کیونکہ وہ میں ہوں جو اپنی نیو کمپنی کے لیے انویسٹرز کو انوائٹ کرتا رہا ہوں اور تمہارے انکل بھی سب کی طرح اس موقع سے فائدہ اٹھانے کو بےتاب ہیں۔۔ اگر میں انہیں پارٹنر شپ آفر کرتا تو اس کے بدلے کبھی اس رشتہ سے انکار نا کرتے، جانتی ہو ناں۔۔؟"
اس کی بات پر پریہان کو وہ رات یاد آئی جب انکل کی کال میں حدیر کا نام سن کر وہ جانے کیا کچھ سمجھ بیٹھی تھی۔ وہ محبت کرتا ہے اس بات پر پہلے بھی کوئی یقین نہیں تھا اسے اور اب تو وہ بھی غلط فہمی دور کر رہا تھا۔ وہ چپ سی ہو گئ۔۔
"میں نے شادی کرنی ہوتی تو جب شادی ٹوٹنے کے غم میں تم کیفے میں بےہوش ہوئی تھیں، تب رشتہ بھیج دیتا۔۔ اٹس ناٹ لَو پریہان اینڈ ناٹ پری پلینڈ میرج۔۔" وہ نفی میں سر ہلا کر سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
"پھر یہ شادی کیوں کی۔۔ اس وقت ہاسپٹل میں ہی کھڑے کھڑے شادی کا پیغام کیوں دیا آپ نے۔۔؟
ترس کھایا؟ اس ہمدردی کا کس نے کہا تھا۔۔؟" وہ اس بات پر دل کھول کر غصہ ہوئی تھی، وہ شادی کر کے کہہ رہا تھا محبت نہیں۔۔ پسند نہیں، عجیب تھا۔۔
"ضرورت کہہ سکتی ہوں۔۔ ضرورت تھی، تمہاری بھی میری بھی۔۔ تمہاری عین وقت پر شادی ٹوٹ گئی تھی اور مجھے اپنی سوکالڈ انگیجمنٹ سے جان چھڑوانی تھی۔۔" وہ صاف گوٸی سے بول رہا تھا اور اس کی یہ صاف گوٸی پریہان کو اندر س دکھی کر گٸی تھی۔
جانے کیوں وہ یہ سننے کی منتظر تھی کہ وہ محبت کرنے لگا ہے یا کہہ دے پسند کرتا ہے۔۔ اسے ریما کا خیال خوشنما سا لگا تھا۔۔ اسے حدیر کی محبت ہونے پر فخر سا محسوس ہوا تھا مگر وہ انکار کر کے عجیب دکھ دے گیا تھا ۔ وہ سچ بول رہا تھا مگر پریہان کو یہ سچ برا لگ رہا تھا اس سے اچھا تھا وہ جھوٹ بول دیتا۔۔
شادی کر ہی بیٹھا تھا تو محبت بھی کر لیتا۔۔
اس نے ایسا کچھ محسوس ہی نہیں کیا، وہ مشکل وقت میں مدد کر کے سب لالچیوں اور دھوکے بازوں سے بچا لایا تھا پھر بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔
”آپ کو اس انگیمجنٹ سے جان چھڑوانے کے لیے میں ہی ملی تھی کیا؟ کیا میں نے آپ سے مدد مانگی تھی۔۔۔ میں ناپسند تھی تو شادی کیوں کی، خوامخواہ اس حویلی میں قیدی بنا کر لے آٸے مجھے۔۔“ وہ غصے سے بولتی سسک پڑی۔۔ نا منگیتر کو محبت ہوئی نا اب خاوند محبت میں مبتلا ملا تھا اور اندر کہیں عام لڑکیوں کی طرح وہ بھی محبت کی چاہ رکھے بیٹھی تھی۔۔۔
خانزادہ نے حیرت سے اسے دیکھا، اس نے کب کہا تھا ناپسند ہے۔۔ اور وہ حویلی کو قید خانہ سمجھ رہی تھی۔۔ وہ لب بھینچے اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔
”میں محبت کر سکتا تھا کیا؟ جب تم ایک ڈٸیر کے لیے مجھ سے کال پر بات کرو اور جھوٹ بولو۔۔ پھر اسی جھوٹ کا سہارا لے کر پیسے مانگو۔۔ میں اس بات پر تم سے محبت کرنے لگوں گا۔۔؟ ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا پریہان۔۔ ہماری گنی چنی ملاقاتیں ہوئیں اور ان سب میں جھوٹ شامل تھا یہ بات مجھے نہیں بھولتی۔۔
یہ بات مجھے بہت بری لگی تھی جب تم میرے آفس تک آ گٸیں اور علم نہیں تھا کس سے ملنے جا رہی ہو۔۔ تم جس سے ملنے جا رہی تھیں اس کا یقین تھا کہ وہ اچھا ہے۔۔ کیا واقعی تمہیں لگتا تھا وہ فری میں پیسے اٹھا کر تمہیں دے دیتا۔۔؟ پورے پچاس لاکھ۔۔؟ اس دنیا میں کچھ بھی فری نہیں ملتا۔۔ تمہیں اندازہ نہیں اس رقم کے بدلے جانے کیسی قیمت وصول کی جاتی۔۔"
وہ تاسف سے اسے دیکھ کر بولتا اس کے رونگٹے کھڑے کر چکا تھا۔
جو بات سے خود سوچنی چاہیے تھی آج وہ اس کا خیال دلا رہا تھا تو وہ ساکن سی ہو گئی۔۔
"اگر آپ کو اتنا خیال تھا تو مجھے روکا کیوں نہیں۔۔ اپنے آفس کیوں بلایا تھا۔۔؟" وہ اسے شرمندہ کرنا چاہ رہی تھی مگر آواز میں پہلے جیسی دھمک نہیں رہی تھی۔ اس کے الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔۔
"کیونکہ مجھے لگا کہ شاید واقعی ضرورت ہو۔۔ میں نہیں جانتا تھا یہ بس ایک گیم ہے۔۔ جب مجھے پتا چلا تو تم میرے آفس میں بیٹھی تھیں۔۔
اگر میری جگہ کسی اور کے آفس میں چلی جاتیں؟ جانتی ہو کیا ہو سکتا تھا؟ تم اچھی لڑکی ہو مگر ایک بات طے ہے کہ تم گیمز کھیلنے والی لڑکیوں کے لیے عزت اور احساسات بس کھیل ہوتے ہیں۔۔۔"
وہ بات ختم کر کے دوبارہ لیٹتا آنکھوں پر بازو رکھ چکا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا پریہان کو احساس ہو وہ کتنا غلط کر چکی ہے اور یہ کہ وہ کوئی بڑا نقصان بھی اٹھا سکتی تھی۔۔ وہ مانتا تھا وہ بری لڑکی نہیں، اس نے جب تک کال پر باتیں کی ہمیشہ حدود کا خیال رکھا تھا، اس کی باتیں بچگانہ تھیں مگر بےحیائی نہیں تھی، ہاں وہ کسی انجان کے آفس میں اکیلی پہنچ گئی تھی مگر ایسا غلطی سے ہوا تھا۔۔ وہ نقصان اٹھا سکتی تھی اس نے یہ کیوں نہیں سوچا۔۔
وہ معذرت کر چکی تھی، وہ پیچھے نہیں لگی، اسے پیسے دینے کو تیار تھا اس نے پیسے نہیں لیے۔۔ وہ نادان تھی اسی لیے ہاسپٹل میں اس کی کنڈیشن کا پتا چلنے پر وہ اس سے شادی کرنے کا سوچ بیٹھا تھا۔۔ وہ پریہان حسن تھی جو خانزادہ کی بیوی بننے کے لیے منال ہاشم سے لاکھ درجے بہتر تھی۔۔۔
"مجھے یہ ہمدردی کا رشتہ نہیں چاہیے۔۔ آپ مجھے میری ماضی کی غلطیوں پر طعنہ نہیں دے سکتے۔۔ میں یہ سب قبول نہیں کروں گی۔۔ اپنی فیانسی کے ساتھ اتنا عرصہ ریلیشن رکھ کر لاتعلق ہونے والے انسان کی مجھے کوئی گارنٹی نہیں کہ میری بھی غلطیوں پر کل کو مجھے زلیل کر کے طلاق دے دے۔۔"
وہ روتے ہوئے بولتی جا رہی تھی، انداز میں غصہ، ناراضگی اور دکھ شامل تھا۔۔ شادی کے دوسرے دن اسے وہ سب یاد دلایا گیا تھا جو وہ کر چکی تھی، جو بہت غلط تھا۔۔ اس لگا اس کے لیے گنجائش نہیں نکالی گئی۔۔ اسے لگا وہ اسے صرف اپنی ضرورت کے تحت لایا ہے۔۔ خانزادہ نے اس کے جملوں پر آنکھوں سے بازو ہٹا کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ وہ روتے ہوئے تکیہ اور چادر اٹھاتی بیڈ سے اتر چکی تھی، دور صوفہ پر جا کر تکیہ پھینکا اور چادر اوڑھ کر لیٹ گئی۔۔ ہچکولے کھاتا وجود بتا رہا تھا وہ رو رہی ہے۔۔
وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا۔ اسے بتانا چاہتا تھا اب رشتہ دل سے بنانا چاہتا ہے ۔ اس کی غلطی معاف کرنے کے لیے تیار ہے، اسے دل سے اپنانے کے لیے بھی تیار ہے، اسے مجبوری میں لایا تھا مگر اب وہ اس کے لیے ضروری ہے، اسے مطمئین کر رہی تھی۔۔ وہ اچھی لگتی ہے تو محبت بھی بن جائے گی ایک دن۔۔
شاید منال نے سب فرینڈز میں غلط فہمی پھیلا رکھی تھی کہ وہ اس سے بات کرتا ہے۔۔ اس نے منال کے میسج یا کال کا کبھی جواب نہیں دیا تھا، یہ بات وہ اپنی بیوی کو ایکسپلین کرنا چاہتا تھا مگر شاید ابھی یہ وضاحتیں اسے بہلاوا لگتیں۔۔ وہ دوبارہ لیٹ کر آنکھیں موندے بےچارگی سے پریہان کی سسکیاں سنتا رہا اور پھر کچھ دیر بعد وہ بالکل خاموش ہو گئی۔۔
اس نے اٹھ کر چیک کا تو وہ سو چکی تھی، تھکن اور دکھ کے بعد اعصاب کے لیے یہ پرسکون نیند بہت ضروری تھی۔ اس نے چادر سینے تک کر کے بکھرے بال نم چہرے سے ہٹا کر سمیٹے اور جھک کر اس کی پیشانی پر نرمی سے لمس بکھیرتا واپس اپنی جگہ پر جا کر سو گیا۔۔
وہ اپنی زندگی کا آغاز سچائی سے کرنا چاہتا تھا، اس نے جو محسوس کیا، جو گلہ تھا جو بھی برا لگا سب کہہ دیا۔۔ اب کچھ نہیں بچا تھا اب یقیناً ان کے رشتہ میں ساری جگہ محبت کی ہونے والی تھی۔۔
°°°°°°• Y҉a҉m҉a҉n҉E҉v҉a҉ •°°°°°°
اگلی صبح وہ خانزادہ سے ملے بنا آنی وغیرہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔ رات کی باتوں سے اس کا منہ اب تک پھُولا ہوا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر آگے بڑھا اور اس کی طرف جھکا۔
"جب واپس آنا ہو کال کر دینا۔۔ میں لینے آ جاؤں گا۔۔؟" اس نے نرمی سے کہہ کر پریہان کا چہرہ دیکھا جو ویسے ہی سپاٹ تھا۔ نفی میں سر ہلاتا پیچھے ہو گیا۔
آنی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے خانزادہ سے بہت پیار سے ملی تھیں، جیسے وہ احترام دے رہا تھا، رات کو دیر ہونے پر زبردستی روکا ان کے دل میں جگہ بنا گیا تھا۔۔ آتے ہوئے جانے کتنی مرتبہ انہوں نے خانی بیگم سے ان کی شاندار تربیت کی تعریف کی تھی جس پر ان کی گردن اکڑ گئی تھی۔۔
انکل سے ملتے ہوئے جب پریہان نے اس کے تاثرات نارمل دیکھے اور انکل کو اتنا خوش دیکھا تو اندر تک جل گئی۔۔ اب وہ یقیناً انکل کو اپنے بزنس میں انویسٹر کے طور پر قبول کرنے والا تھا۔۔ پریہان کو یہ سب ہرگز قبول نہیں تھا۔۔ ایک تیکھی نظر خانزادہ پر ڈالتی وہ سوچ چکی تھی انکل کو بزنس میں شامل نا کرنے کے لیے چاہے جیسے کرنا پڑا وہ خانزادہ کو منائے گی۔۔
اس کے جانے کے بعد وہ بھی شہر کے لیے روانہ ہوا تو موسٰی ساتھ تھا۔۔
"سب ٹھیک ہے ناں جگر۔۔ بھابھی کے ساتھ خوش ہو ناں۔۔؟" موسٰی کی فکر پر وہ مسکرایا۔
"سہی کہتے ہیں انسان کوئی سنگین غلطی کر گزرے تو ساری عمر ڈرتا رہتا ہے ویسا دوبارہ نا ہو۔۔
تم ڈرے ہوئے ہو موسٰی مگر یقین کرو میں واقعی مطمئین ہوں۔۔ میں نے سب جانتے ہوئے اس کا انتخاب کیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے وہ چاہے جتنی نادان یا غیر سنجیدہ ہو خانزادہ کی بیوی بننے کے قابل تھی اس لیے وہ اس حویلی میں قدم رکھ پائی ہے۔۔
اور میں اسے اب کبھی نہیں چھوڑوں گا۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولتا موسٰی کو دیکھ کر مسکرایا۔
"میری غلطی اتنی تھی کہ میں اس سے انجان تھا، میں نہیں جانتا تھا میرے ساتھ گیم کھیلی تھی اس نے۔۔
اور جب مجھے بتایا گیا تو میں یہ نہیں جان پایا وہ ایک چھوٹی سی گیم کھیلنے کے بعد واقعی محبت کر بیٹھی تھی، میں نے بتانے والوں کا یقین کر لیا تھا اس کا نہیں کر پایا۔۔" وہ کرب سے اپنا ماضی سوچتا گاڑی کی سیٹ سے پشت ٹیک گیا۔ خانزادہ نے تاسف سے اسے دیکھا۔
"کیا ارادہ ہے بزنس سنبھالو گے یا گاؤں میں رہنا چاہتے ہو۔۔؟"۔ اس نے نرمی سے پوچھتے ہوئے بات بدل دی۔۔
"بزنس ٹھیک ہے یار۔۔ گھر میں رہ کر بور ہو جاؤں گا۔۔ اب پریکٹیکل لائف چاہتا ہوں۔۔" وہ سر جھٹک کر بولا۔۔
"اچھا فیصلہ ہے۔۔ ایجوکیشن بھاڑ میں جھونکنے سے اچھا ہے اسکا اچھا یوز کیا جائے۔۔ میں نے عیسٰی کو بھی کافی حد تک انوالو کر لیا ہے بزنس میں۔۔
ذہین ہے اور آئی ٹی ٹیم کے لیے بیسٹ لیڈر ہے۔۔ تھوڑا نخرے کرتا ہے آفس آنے میں مگر کام اچھا کر لیتا ہے۔۔"
وہ ہنستے ہوئے عیسٰی کی کارکردگی بیان کر رہا تھا۔
" سچ کہہ رہے ہو؟ وہ اتنا بڑا ہو گیا ہے کیا۔۔۔ آج اسے آفس میں بلانا۔۔ میں اسے کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔" موسٰی کے اندر جوش بھر آیا تھا۔ وہ جب یہاں سے گیا تھا عیسٰی بس ایک کالج بوائے تھا جو بچہ بنا رہتا تھا ۔ جسے گھر والے بڑا ہونے بھی نہیں دیتے تھے۔
"شیور کیوں نہیں۔۔ یونی سے فری ہو گا تو بلاؤں گا۔۔
لوکیشن چیک کرتا رہتا ہوں اس کی۔۔۔ ایک دو بار کلبز جانے کی کوشش کی ہے تب سے زرا نظر رکھنی پڑتی ہے۔۔ دوست تو بہت اچھے ہیں مگر ان کو بھی ایسے راستے دکھانے والا عیسٰی ہوتا ہے۔۔
اب تو بس یونی، آئسکریم پالر اور کبھی کبھی روڈز پر آوارہ گردی کرتا ہے۔۔ وہ کچھ وقت کے لیے میرا دھیان بٹا رہا ہے تاکہ میں اس کی طرف سے ریلیکس ہو جاؤں تو وہ پھر سے اپنے شوق پورے کرے۔۔"
خانزادہ نے اپنے موبائل پر سیٹ ہوئی عیسٰی کے موبائل کی لوکیشن دکھائی تو موسٰی قہقہہ لگا اٹھا۔۔ یعنی عیسٰی سخت پکڑ میں تھا اور اسے شاید اندازہ بھی نہیں تھا۔۔
وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے خوشگوار موڈ میں شہر پہنچے تھے۔۔ آفس والوں نے اپنے باس کی اچانک شادی پر ایک چھوٹی سی سرپرائز سیلیبریشن رکھی ہوئی تھی۔۔ وہ مسکرا کر سب سے بوکے لیتا، مبارک قبول کرتا مطمئین تھا۔ موسٰی نے اس کے مسکراتے چہرے سے اخذ کر لیا کہ وہ کافی زیادہ خوش ہے ۔ وہ مطمئین ہوا، اسے یقین ہونے لگا عیسٰی سہی کہتا ہے، حدیر اپنی بن چکی بیوی سے محبت کرتا ہے۔۔
"آج چاچو کے آفس میں بیٹھو۔۔ میں تمہارے لیے آفس ریڈی کروا لوں گا ایک دو دن تک۔۔"
اس نے خان زوار کا آفس کھول کر اسے دیتے ہوئے کہا۔
خان داور اور یاور اپنے باپ خان آزر کے ساتھ گاؤں کا سارا انتظام سنبھالتے تھے۔۔ زمین جائداد اور فصل وغیرہ کے حساب کتاب۔۔ جبکہ خان آزر کے ساتھ خانزادہ نے شروع سے ہی بزنس سنبھال لیا تھا۔۔
"سنو حدیر۔۔ میں چاہتا ہوں اب بابا کو بس ریسٹ دوں۔۔ تم یہاں ہو، میں ہوں اور عیسٰی بھی ہو گا۔۔
ہم اچھے سے ہیندل کر سکتے ہیں ناں۔؟"
موسٰی کی بات پر وہ رک کر اسے دیکھتا پرسوچ انداز سے سر ہلا گیا۔۔
"اگر وہ یہ بات مان لیں تو بہت اچھا ہے۔۔ ورنہ فورس نہیں کر سکتے انہیں ایسا نا محسوس ہو کہ وہ کسی کام کے نہیں رہے۔۔ تم نے دیکھا ہے ناں ہمارے علاقے کو بابا نے کافی طریقے سے سنبھالا ہوا ہے مگر اب بھی آغا جان ہر جگہ جاتے ہیں اور آگے آگے رہتے ہیں، انہیں یہی لگتا ہے ان جیسا کام کوئی نہیں کر سکتا۔۔"
خانزادہ نے آغا جان کی سوچ بتاتے ہوئے مسکراہٹ دبائی اور ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے پلٹ کر اپنے آفس کی جانب بڑھا۔۔
"ایکچوئلی کریکٹ یور سینٹینس۔۔ انہیں لگتا ہے ان کے جیسا کام صرف ان کا خانزادہ کر سکتا ہے۔۔"
موسٰی کے شرارتی جملہ پر اس کے قدم زرا رکے پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔۔
یہی سچ تھا جو وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔
°°°°°°• Y҉a҉m҉a҉n҉E҉v҉a҉ •°°°°°°
یونی میں تین دن بعد پھر سے عیسٰی خان کی سپورٹس کار کا شور گونجا تو آئرہ کے دل کی دھڑکن بےترتیب ہوئی۔۔ وہ کہہ چکا تھا وہ فرینڈز ہیں اور یہ بھی کہ وہ انگیجڈ ہو چکا ہے۔۔ وہ دکھی تو ہوئی تھی مگر اچانک اس سے دوری اختیار بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔ سنبھلنے تک ساتھ چاہیے تھا۔۔
سارا دن اس نے مسکراتے ہوئے گزارا، یونی سے آف ہوتے ہی وہ اس کے سامنے تھی۔ عیسٰی نے ابرو چڑھا کر خفگی سے اسے دیکھا۔
"میری بات کے دوران بنا جواب دئیے کال بند کرنے کے بعد بھی کچھ رہتا ہے جو سامنے آئی ہو۔۔؟"
وہ سنجیدہ لہجے میں بولتا اسے جتا گیا کہ اس دن والی حرکت اسے گراں گزری ہے۔۔
"سوری۔۔ اس دن۔۔ آپ کی بات نے تھوڑا شاکڈ کیا تو۔۔ مجھے جواب سمجھ نہیں آیا اس لیے۔۔ بائی دی وے کانگریجولیشنز۔۔" وہ اپنی فیلنگز چھپا کر پھیکا سا مسکراتی مبارک دے رہی تھی۔ وہ آنکھیں چھوٹی کیے غور سے اسے دیکھتا نفی میں سر ہلا گیا۔
محبت ہو تو ایسی کہ کھونے کے احساس سے مسکراہٹ چہرے سے روٹھ جائے اور آنکھیں لاکھ ضبط پر بھی بھیگتی جائیں۔۔ وہ کیسے ضبط کر گئی آخر۔۔
وہ مسکرائی کیسے۔۔۔ وہ مایوس ہوا تھا۔ وہ محبت نہیں کرتی، وہ صرف پسند کرتی ہے۔۔
"تھینکس۔۔ آئسکریم کھاؤ گی۔۔؟" عیسٰی کے جملے پر وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ وہ انسان آئسکریم کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ اس نے آج کے دن اس موقع پر منگنی کی مبارک کے جواب میں اس آفر کا سوچا تک نہیں تھا۔ وہ آفر کرنے کے بعد اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا، وہ اتنا نارمل ہے یعنی منگنی سے خوش ہے، وہ آئرہ کا عادی نہیں ہوا اور شاید پسند تک نہیں کرتا، اسے فرق ہی نہیں پڑا اس کے اظہار سے۔۔ اس نے سوچا تک نہیں منگنی کا سن کر وہ کیوں بول نہیں پائی۔۔؟اسے جاتا دیکھ کر وہ اداس ہوئی اور پہلی بار آئرہ اس کے پیچھے نہیں جا پائی۔
گاڑی میں بیٹھتا عیسٰی اس کے نا آنے پر کندھے اچکا کر گاڑی سٹارٹ کرتا وہاں سے جا چکا تھا۔
آئرہ کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور آنکھیں تیزی سے نم ہوئیں۔۔ آج جب وہ اس کے سامنے گیا تو ایسا لگا بس وہ اسے کھو چکی ہے۔ اس کے چہرے پر اس وقت وہی تاثرات تھے جنہیں عیسٰی محبت میں شمار کرتا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا لڑکی میں جب انا ہو تو وہ اپنی کمزوری بالکل عیاں نہیں کرتی۔۔ اس کے سامنے خاص طور پر نہیں، جس سے محبت ہو مگر وہ محبت کو پہچانتا نا ہو نا ہی محبت کرتا ہو۔۔
گاڑی میں بیٹھے عیسٰی نے سپیڈ تیز کرتے ہوئے پرسکون گہری سانس بھری۔ اچھا ہی تھا کہ وہ محبت نہیں کرتی۔۔ ورنہ عیسٰی اسے انکار نا کر پاتا شاید۔۔
اگر وہ محبت کر بیٹھتی تو شاید عیسٰی کبھی پیچھے نا ہو سکتا۔۔۔
اپنے باپ کے بعد موسٰی اور اب حدیر کی خاندان سے باہر شادی کرنے پر آغا جان کو بہت صدمہ پہنچا تھا۔۔
وہ آغا جان سے بہت محبت کرتا تھا۔۔
اتنی قدر کرتا تھا کہ بظاہر ناراضگی اور غصہ ظاہر کرنے کے باوجود اس نے دل میں مان لیا تھا آغا جان کا طے کیا رشتہ وہ قبول کر لے گا۔۔
چاہے وہ پلوشہ ہو یا زرشہ۔۔ اسے فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ سمجھوتے میں یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہاں ڈیمانڈ نہیں ہوتی، جو مل جائے وہی قبول ہوتا ہے۔۔
محبت ہوتی تو دونوں کی لاکھ خوبیوں کے بعد بھی وہ قبول نا کر پاتا اور محبت ہی تو نہیں تھی کہیں۔۔
اطمینان سے گاڑی اپنے پسندیدہ آئسکریم پالر کے آگے روک کر اندر داخل ہوا۔ براؤن ٹی شرٹ اور بلیک جینز پہنے وہ انتہا کا دلکش لگ رہا تھا۔۔ لوگوں کی خود پر جمی نظروں سے محظوظ ہوتا وہ آئسکریم کھا رہا تھا جب موبائل پر خانزادہ کی کال دیکھ کر منہ بگاڑا۔
"کبھی سکون کے دو پل نصیب ہونے دیا کریں لالا۔۔"
کال اٹینڈ کرتے ہی اس نے ناراضگی سے کہا۔۔
"آئسکریم کھانے کے بعد جا کر ریسٹ کرنا۔۔ آج
شام سات بجے تک میری میٹنگ ہے اور مجھے اس سے پہلے کچھ کام کروانا ہے تم سے۔۔ پانچ بجے تم آفس پہنچ جانا۔۔" وہ ہدایت دے کر کال کاٹ چکا تھا۔
وہ اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔؟ ادھر ادھر ہر طرف نظر دوڑاتا عیسٰی جیسے وہ آنکھ ڈھونڈنے لگا جس سے خانزادہ اسے دیکھتا ہے مگر کچھ نہیں تھا، وہ اسی لیے گارڈز اپنے ساتھ نہیں رکھتا تھا کہ وہ سب خانزادہ حدیر کے چمچے ایک ایک حرکت اسے بتاتے تھے، وہ بدمزہ ہوا۔
آئسکریم کا سارا مزہ خراب ہو گیا تھا، اٹھ کر اپنے اپارٹمنٹ پہنچا اور اسی حالت میں بیڈ پر گرتا آنکھیں بند کر گیا۔۔
اس کی آنکھ دوبارہ کال پر ہی کھلی تھی، اس نے سرخ آنکھوں میں نیند کا نشہ بھرے موبائل سکرین پر نظر ڈالی تو خانزادہ کی کال تھی، جلدی سے اٹھ کر وقت دیکھا۔ پانچ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔
"جی لالا۔۔ میں بس پہنچنے والا ہوں آفس۔۔" اس نے کال اٹینڈ کر کے جھوٹ کا سہارا لیا۔
"آفس تمہادے اپارٹمنٹ کے دوسرے روم میں نہیں ہے عیسٰی خان۔۔۔ جھوٹ بولنے سے بہتر ہے تم جلدی سے تیار ہو کر پہنچو۔۔" اس کی بات پر عیسٰی کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔۔ وہ انسان ہے یا جن۔۔
"اور سنو خبردار تم جینز پہن کر آئے۔۔ جاب پر جانے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں جن میں پہلا طریقہ آفیشل ڈریسنگ ہے۔۔ اس لیے ڈریس پینٹ اور ڈریس شرٹ پہن کر آنا۔۔ اور بال جیل سے سر پر جما لینا۔۔ ماتھے پر نا لہرا رہے ہوں۔۔" اس کی تاکید پر عیسٰی ٹھنڈی آہ بھر کر اٹھا۔۔ اس نے جلدی پہنچنے کا کہہ کر تیاری بھی پوری بتائی تھی۔۔
رونی صورت بنا کر لڑکیوں کی طرح بڑبڑاتے، کوسنے دیتے عیسٰی کو اندازہ نہیں تھا ہر بار خانزادہ حدیر اسے لوگوں سے ملاتا بھی ضرور تھا اور ہر بار ملوا کر شرمندہ ہوتا تھا۔ وہ جو آفس کے عام گارڈز اور پیون سے لے کر سینئیر ورکرز تک کی ڈریسنگ اور بنے ہوئے بالوں پر کڑی نظر رکھتا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی سپورٹس کار میں شور کرتے آتا تھا تو گھٹنوں سے پھٹی جینز سے جھانکتے برہنہ گھٹنے اور ٹی شرٹس کے ہاف بازو اور گلے میں لٹکے گلاسز اور پیشانی پر بکھرے بال خانزادہ حدیر جیسے مین ٹین رہنے والے انسان کو کتنا شرمندہ کروا دیتے تھے۔
آج مجبور ہو کر اس نے سختی سے تاکید کی تھی۔۔
اس کی بتائی تیاری میں جب عیسٰی آفس میں پہنچا تو بےساختہ سب کی نظریں اس پر اٹھی تھیں۔
اس پروفیشنل ڈریسنگ میں وہ کافی میچور اور ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔ موسٰی تو اسے دیکھ کر محبت سے گلے لگا گیا، چھوٹے بھائی کو اپنے برابر دیکھ کر اس کی آنکھیں جھلملا گئی تھیں۔
عیسٰی کو سب سے زیادہ اپنے حدیر لالا کی آنکھوں میں ستائش دیکھ کر اطمینان محسوس ہوا تھا۔۔ وہ پل بھر میں چہرے پر کچھ زیادہ سنجیدگی طاری کرتا بالکل ہی پروفیشنل بن گیا تھا۔۔
پریسہ کو ائیرپورٹ چھوڑ کر وہ لوگ واپس گھر پہنچے تو شام کا وقت ہو رہا تھا۔ آنی کو زبردستی ریسٹ کے لیے روم میں بھیج کر وہ پُروا کو لیے کچن میں آ گئی۔۔
آج اسے یہاں تیسرا دن تھا، نا اس نے حدیر کو کال کی نا ہی وہ جانے کا نام لے رہی تھی اور اس بات کی پُروا کو سب سے زیادہ خوشی تھی۔۔
"مان جائیں ناں اپیا۔۔ مجھے بھی بال کٹوانے دیں۔۔ اب آپ نہیں ہیں تو تنگ ہوتی ہوں، ان کو باؤنڈ کرنا الگ مسئلہ ہو جاتا ہے۔۔ شولڈر تک ہونے چاہئیں کہ میں برش آرام سے کر سکوں اور پونی بھی بن سکے۔۔"
جس روز سے وہ آئی تھی پُروا بس ایک ہی ضد کیے جا رہی تھی، پریہان نے پلٹ کر تنقیدی نظروں سے اسے دیکھا اور گہرا سانس بھرا۔
"اوکے فائن۔۔ کرو جو بھی کرنا ہے۔۔ میرے بال بھی اس شادی کے چکر میں کافی بڑے ہو گئے ہیں۔۔ ایسا کرتے ہیں کل چلتے ہیں ایک ساتھ۔۔ کٹنگ کروا لیں گے۔۔
اب تم جلدی سے دال صاف کر دو ناں پری، ایسے مت بیٹھو۔۔" وہ چاول بھگوتی بول رہی تھی۔۔
"اپیا مجھے دال چاول نہیں کھانے۔۔ آپ اچھے نہیں بناتیں۔۔" وہ ناک چڑھا کر بول رہی تھی مگر پریہان کے گھورنے پر بد دلی سے ٹرے میں دال نکالی اور ہاتھ مارتی یہاں وہاں کرنے لگی۔۔
پریہان نے چاول چولہے پر رکھ کر موبائل اٹھایا جس پر کافی دیر سے مسلسل کالز آ رہی تھیں، حدیر کا نمبر دیکھ کر چونکی۔ وہ کیوں کال کرتا رہا۔
کال بیک کرنے کی بجائے وہ کندھے اچکاتی موبائل واپس رکھ چکی تھی۔ پروا سے باتیں کرتی وہ بھول چکی تھی، وہ اب شادی شدہ ہے اور اسے واپس بھی جانا ہے۔۔
انکل کا ڈنر کسی فرینڈ کے ہاں تھا، وہ دال چاول تیار کر کے کھانا لگاتی آنی کو بلانے چلی گئی جبکہ پروا ڈور بیل کی آواز پر گیٹ کی طرف بڑھی۔
دروازہ کھولا تو سامنے خانزادہ حدیر کھڑا تھا۔۔ وہ اسے اندر آنے کا راستہ دیتی حواس باختگی سے سلام کر رہی تھی۔۔ خانزادہ نے رک کر اسے دیکھا اور مسکرا کر جواب دیا۔
"آپ۔۔ آپ کیا اپیا کو لینے آئے ہیں۔۔؟"
اسے اندر لاتی پُروا نے پریشانی سے سوال کیا تو وہ ایک بار پھر رک کر پلٹا۔۔
"بچے مجھے لگتا ہے آپ اور آپ کی اپیا شادی کا مطلب نہیں جانتیں۔۔ اسی لیے وہ یہاں آ کر ڈیرہ جما گئی اور آپ میرے آنے پر سوال کر رہی ہیں۔۔"
اس نے نرمی سے جتایا تو پُروا ہڑبڑا گئی، شاید تین دن کے انتظار کے بعد اس کا صبر جواب دے چکا تھا۔
"ایسی۔۔ بات نہیں ہے بھائی۔۔ میں تو بس اپیا کے جانے کا سوچ کر اداس ہو جاتی ہوں۔" وہ معصوم صورت پر اداسی سجا کر اسے دیکھتی مجبوری بیان کر رہی تھی۔۔ وہ اسے دیکھتا بےساختہ ہنس پڑا۔۔
جسے چھوٹی سی گڑیا سمجھ رہا تھا پوری ڈرامہ باز تھی، یعنی وہ آج بھی اسی کوشش میں تھی کہ وہ پریہان سے مل کر اکیلا واپس جائے۔
"اوہو۔۔ بٹ ایم سوری لٹل گرل میں آج آپ کی ہیلپ نہیں کر سکتا۔۔ اب گھر تو جانا ہو گا ناں آپ کی اپیا کو۔۔" وہ نرمی سے بولا تو پروا نے منہ بسور کر سر ہلایا۔۔ اندر داخل ہوئے تو پریہان اور آنی ٹیبل پر بیٹھ رہی تھیں، اسے دیکھ کر چونکیں۔۔
""حدیر بیٹا۔۔ آپ نے آج آنا تھا، بتایا کیوں نہیں آپ نے۔۔" آنی نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے خوشدلی سے کہا۔ ایک چور نظر کھانے پر ڈالی۔ آج وہ لوگ ہلکا پھلکا کھانے کا سوچ کر دال چاول بنا گئے تھے اور آج ہی داماد پہلی بار گھر آ گیا تھا۔
"اٹس اوکے، پریہان کو لینے آیا تھا، زرا جلدی میں ہوں اگر آپ برا نا مانیں تو۔۔" اس نے ہینڈ واچ میں ٹائم دیکھتے ہوئے کھڑے کھڑے کہا تو آنی کے ساتھ ساتھ پریہان بھی بوکھلا گئی۔
"میں نے کھانا۔۔۔" وہ ایسے بوکھلائی جیسے آخری کھانا ہو جو کھانا ضروری ہو۔۔
خانزادہ نے ایک نظر اس پر ڈالی، رف سا حلیہ تھا اور کپڑوں کا وہی پرانا انداز تھا، کیپری اور کرتا۔۔ کندھوں سے زرا نیچے آتے بالوں کی ڈھیلی سی پونی جس میں سے بال نکل کر چہرے کے گرد پھیلے ہوئے تھے۔
میک اپ سے پاک شفاف ملائم چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
"بیٹا بس تھوڑی دیر بیٹھو، میں کھانا بناتی ہوں، مجھے خوشی ہو گی اگر کھانا کھا کر جاؤ گے۔۔"
آنی جلدی سے کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھی تھیں۔
"رکیں۔۔ کھانا بنائیں گی کیوں، یہ رکھا ہے ناں۔۔"
اس نے انہیں روک کر ٹیبل کی طرف اشارہ کر کے کہا، ڈھکے ہوئے برتنوں کی طرف دیکھتی آنی گھبرا گئیں۔
پہلی بار گھر آئے داماد کو دال چاول کیسے کھلا دیں۔
"یہ تو دال چاول ہیں ناں۔۔ آج پریسہ آپی واپس چلی گئیں، انکل کا ڈنر باہر تھا اور ہم تھکے ہوئے تھے تو پریہان اپیا نے بنائے اور ان کو یہی بنانے آتے ہیں اس لیے بس یہی بنے ہوئے ہیں۔۔" آنی کچن میں جا چکی تھیں، پروا نے پریہان کے اشاروں کو دیکھے، سمجھے بنا پوری تفصیل خانزادہ کو بتا دی۔
پریہان کا چہرہ خفت سے سرخ پڑ رہا تھا، دانت کچکچاتی کھا جانے والی نظروں سے پروا کو گھور رہی تھی، خانزادہ نے اسے دیکھا تو ہنسی دبا کر سر ہلا گیا۔۔
"اٹس او۔کے۔۔ آپ اپنی آنی کو بلائیں۔۔ میں بس ٹیسٹ کروں گا۔ میں نے آج لنچ لیٹ کیا تھا بھوک نہیں مجھے۔۔" اس کی معذرت پر پُروا سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ وہ پریہان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی تک ٹیبل کے ساتھ مجسمہ بنی کھڑی تھی۔
"بیٹھ جاؤ پریہان۔۔" وہ ایک طرف چئیر پر بیٹھ کر اس سے بولا۔۔
"جی اوہ ہاں۔۔" پریہان جیسے ہوش میں آئی، جلدی سے سامنے چئیر پر بیٹھ کر بال کانوں کے پیچھے اڑستی اپنے حلیہ پر شرمندہ سی ہونے لگی۔
"میں نے کہا تھا جب آنا ہو کال کرنا، اس کا مطلب تھا واپس آنا ہے، کال کیوں نہیں کی؟ گھر نہیں جانا کیا؟"
اسے دلچسپی سے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔
"اگر کہوں نہیں جانا تو کیا آپ مان جائیں گے۔۔" وہ بالکل ہی پُروا جیسا حربہ آزماتی بولی تو وہ مسکرایا۔
"اس جوک پر گھر جا کر بات کرتے ہیں، ابھی ڈنر کرو اور جا کر حلیہ بہتر کرو، حویلی میں ایسے حلیہ میں جاؤ گی۔۔؟" اس کے یوں نا جانے کی بات کو اگنور کرنے پر پریہان منہ بگاڑ گئی، کچن کی طرف دیکھا آنی یقیناً اس کے منع کرنے کے باوجود انتظام کرنے میں لگ گئی تھیں۔
"اپنی آنی کو بلاؤ، ہم زیادہ دیر نہیں رک سکتے، حویلی پہنچنے تک بہت زیادہ لیٹ ہو جائیں گے، جلدی سے کھانا کھا کر تیار ہو جانا۔۔" اس نے کچن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا تو وہ اچھے بچوں کی طرح اٹھ کر اندر چلی گئی۔۔
ولیمہ کی رات پریسہ اور آنی نے خانزادہ سے کہا تھا، پریہان ضدی بالکل نہیں، اپ سیٹ ہے کچھ وقت دینا ایڈجسٹ کر جائے گی۔۔۔ اسے یقین ہو گیا، وہ واقعی ضدی یا زیادہ تر لڑکیوں کی طرح بحث یا نافرمانی نہیں کرتی تھی۔ اسے سمجھانا یا منانا آسان ثابت ہو رہا تھا۔
آنی پریہان کے سمجھانے پر باہر آ چکی تھیں مگر مسلسل ایک ہی فکر میں مبتلا تھیں کہ کاش اچھا انتظام کر سکتیں۔۔ وہ پھر کبھی آنے کا کہہ کر انہیں اطمینان دلا گیا۔
انہیں جوائن کرنے کے لیے پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ڈال چکا تھا، ایک چمچ لیا تو آنکھیں پھیل گئیں، نمک اچھا خاصا تیز تھا، نمک ہلکا کرنے کے لیے تھوڑی سی دال ڈالی تو اس میں مرچ تیز تھی۔۔
ایک نظر سامنے بیٹھی تینوں خواتین کو دیکھا جو مزے اور سکون سے کھا رہی تھیں، وہ اندر ہی اندر آہ بھرتا پلیٹ میں موجود کچھ چمچ حسرت سے دیکھنے لگا، کاش وہ کھانے سے انکار کر سکے۔ جیسے تیسے کھا کر پانی کے دو گلاس پی کر منہ کا زائقہ تھیک کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"بیٹا آپ بتا کر آتے تو میں کچھ اور بنا لیتی، پریہان ایسے ہی تیکھا بناتی ہے، پہلی مرتبہ کھانے والوں کے لیے مشکل ہوتی ہے۔۔"۔ آنی اس کے چہرے کے تاثرات سے شاید اندازہ لگا چکی تھیں۔ گلاس میں کولڈرنک ڈال کر دیتے ہوئے شرمندگی سے وضاحت دی۔۔
بتا کر آنے والی بات پر اس نے پریہان کو دیکھا جو شام سے مسلسل کی جانے والی کالز کے بعد بھی کال بیک کرنے کی بجائے اگنور کر گئی تھی۔ وہ شرمندہ ہوئی۔۔
"اٹس او۔کے۔۔ میں نے آج کچھ بزی شیڈول کی وجہ سے لنچ کافی لیٹ کیا تھا تو بھوک نہیں۔۔" وہ انہیں اطمینان دلاتا اب کولڈرنک کے گھونٹ بھر رہا تھا۔۔
پریہان اٹھ کر تیاری کرنے جا چکی تھی، واپس آئی تو ایک پشتون روایت کا ڈارک براؤن خوبصورت سا فراک پہن رکھا تھا، گھٹنوں سے زرا نیچے جاتا گھیرا تھا۔
یہ ڈریس مرحا نے شادی کے گفٹ کے طور پر سپیشل بنوا کر دیا تھا، سائز اسی کا تھا اس لیے زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔ ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی، خانزادہ نے ستائشی نظر سے اسے دیکھا تھا، خانی بیگم کی دی سفید کڑھائی والی چادر پہن کر وہ اس بار اس کے کہنے سے پہلے ہی ویسے تیار ہوئی جیسے ہونا چاہیے تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
وہ اوپن کچن میں کھڑا برتن دھو رہا تھا، ٹراؤزر شرٹ پہنے رف سے حلیہ میں منہ بنا بنا کر کام کرتا عیسٰی بری طرح بیزار تھا، اپنے گنے چنے برتن دھونا بھی اس کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا تھا۔۔
برتن دھو کر شیلف کپڑے سے صاف کر کے گیلا پن ختم کیا۔ ڈور بیل ہونے پر فریج کھول کر کوک کا کین نکال کر باہر نکلا اور ڈور کھول ڈیلیوری بوائے سے پیزا لے کر لاؤنج میں صوفہ پر پھیل کر بیٹھ گیا۔
سامنے لگی لارج سائز ایل۔ای۔ڈی پر انگلش مووی لگا کر کوک کے ساتھ پیزا کھاتا وہ پرسکون سا بیٹھا تھا۔
مووی لگا کر اب دیکھ کم اور سن زیادہ رہا تھا۔
آئرہ یونی میں کچھ دن سے روزانہ بلاناغہ ہائے ہیلو کرنے آتی تھی، وہ جانتا تھا وہ عیسٰی کو اپنا عادی کرنا چاہ رہی ہے، وہ کافی سکون سے اپنا کام کر رہی تھی، اسے سوچتا بےساختہ ہنسا۔
"پاگل لڑکی، اگر ڈیلی ملنے سے عادتیں بنا کرتیں تو میں یونی کے پروفیسرز کو بھی اپنے گھر شفٹ کر لیتا۔ یہ لڑکیاں بھی ناں۔۔۔" سر جھٹک کر کوک کا گھونٹ بھرتا موبائل پر آتی کال کی طرف متوجہ ہوا۔
" ہیلو۔۔۔؟" کان میں ائیر برڈ لگا کر وہ سوالیہ انداز سے بولا کیونکہ نمبر انجان تھا۔
"السلام علیکم موسٰی لالا۔۔؟ میں پلوشے بات کر رہی ہوں۔۔"۔ پلوشے کے مدھم جملہ پر وہ چونکا۔ جلدی سے ریموٹ اٹھا کر مووی میوٹ کی۔
"ہممم۔۔" گلا کھنکار کر لہجے میں بھاری پن پیدا کیے وہ بس اتنا ہی بولا، اس کی اور موسٰی کی آواز میں بس اتنا ہی فرق تھا، موسٰی کی آواز اس کی نسبت بھاری تھی۔۔
"لالا وہ۔۔۔ گھر والے میرا آپ کے ساتھ رشتہ کرنا چاہتے ہیں۔۔ میں راضی نہیں ہوں، مورے میری بات نہیں مان رہیں اور سختی سے منع کیا ہے خانزادہ لالا سے یہ بات نا کروں۔۔ آپ انکار کر دیں میں شادی نہیں کر سکتی۔۔"
اس کے جملوں پر عیسٰی سیدھا ہو کر بیٹھا۔ چہرے پر سنجیدہ تاثرات ابھر آئے۔۔
"کیوں نہیں کرنی۔۔ وجہ بتاؤ۔۔؟" وہ یکدم سنجیدہ، سپاٹ لہجے میں بولتا پلوشے کو گھبراہٹ میں مبتلا کر چکا تھا۔
"جب آپ نے انکار کر کے کہیں اور شادی کی تھی تو کیا مجھے وجہ دی تھی؟" پلوشے کے گھبرائے ہوئے لہجہ میں بھی بولا جانے والا اتنا بااعتماد جملہ عیسٰی کو حیران کر گیا۔
"یہ وجہ ہی تھی کسی اور سے شادی۔۔ اب تم وجہ بتاؤ۔۔" اطمینان سے صوفہ کی پشت سے ٹیک لگاتا وہ پیزا کا پیس اٹھا کر کھانے لگا۔
"مجھے بھی کسی اور سے شادی کرنی ہے۔۔" وہ تیزی میں بولتی یکدم چپ ہوئی، عیسٰی کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔ اب معاملہ اس کی سمجھ میں آ رہا تھا۔
"تم نے نمبر کہاں سے لیا میرا۔۔؟" وہ بات بدل گیا۔
"خانزادہ لالا کے موبائل سے۔۔" وہ آہستگی سے بتا رہی تھی، عیسٰی کو اس پھرتیلی کی چالاکیوں پر ہنسی آئی تھی۔۔ سب جانتے تھے موسٰی کا نمبر خانزادہ کے موبائل میں جگر کے نام سے سیو ہے جو موسٰی نے خود کیا تھا، آخری بار آفس میں اس کا موبائل اٹھا کر عیسٰی نے اپنا نام جگر کر دیا تھا اور موسٰی کا نمبر اس کے نام سے۔۔ شاید خانزادہ کو اس سے فرق نہیں پڑا تھا مگر اس کی بہن پاگل بن گئی تھی۔۔
"تمہارے لالا موبائل پر لاک نہیں لگاتے تو اس کا مطلب کوئی بھی نمبر چوری کر کے کالز کرو گی۔۔؟
شرم کرو اور رکھو اب موبائل، میں کرتا ہوں کچھ۔۔"
اس نے شرم دلاتے ہوئے کہا اور کال کاٹ کر ہنسنے لگا۔
موسٰی اس شادی کے جھنجھٹ کو لے کر کافی فکرمند تھا، خانزادہ نے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں۔
عیسٰی آخری گھونٹ بھر کر اٹھا، بچے ہوئے پیزا کے پیسز فریج میں رکھے اور کین ڈسٹبِن میں۔۔
لاؤنج میں آ کر مووی بند کی اور موبائل اٹھا کر اپارٹمنٹ سے نکل کر بلڈنگ سے نیچے پہنچا۔۔
روڈ کے ساتھ بنے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے موسٰی کو کال ملا لی۔۔ اب ساری تفصیل اسے بتا کر اس کی آج کی رات پرسکون کرنا بھی تو ضروری تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
حویلی پہنچنے تک کافی رات ہو چکی تھی انہیں، سب لوگ رات کا کھانا کھا چکے تھے، خانزادہ کی دیر سے واپسی کا سبب پریہان کو دیکھ کر سمجھ آ گیا تھا۔۔
"کھانا لگوائیں خانزادہ۔۔؟" خانی بیگم نے ان کے مل کر بیٹھتے ہی ایک نظر پریہان پر ڈال کر پوچھا۔ اس نے پریہان کو دیکھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
وہ سرد آہ بھر گیا اب اگر وہ کہہ دے کہ وہ ڈنر کرے گا تو خانی بیگم نے پریہان کو جتا جتا کر ہی آدھا کر دینا تھا کہ وہ خود کھا آئی خانزادہ کو نہیں پوچھا۔
"کھا کر آئے ہیں مورے۔۔ چائے پلوا دیں بہت تھک گیا ہوں۔ تم پیو گی پریہان۔۔؟" اس نے اپنا کہہ کر پھر سے پریہان کو دیکھا تو خانی بیگم نے ضبط سے لب بھینچے۔۔ پریہان جلدی سے نفی میں سر ہلا گئی۔۔
"ابھی تھکے ہوئے ہو تو آرام کرو۔۔ کل شہر جلدی مت جانا مجھے کچھ معاملات پر بات کرنی ہے۔۔"
خان یوسف اسے تاکید کر کے اپنے کمرے میں جا چکے تھے، لڑکیاں یقیناً شہر واپس جا چکی تھیں، باقی سب باتیں کر رہے تھے، پریہان خاموشی سے سب کو سنتی رہی، گل جان بیگم چائے بنا کر لائیں تو پریہان کا کپ بھی موجود تھا۔۔
"سفر کر کے آئی ہو، پی لو اچھا لگے گا۔۔" اسے کپ پکڑواتے ہوئے نہایت مدھم لہجے میں کہا تو وہ مسکرا کر کپ لیتی سر ہلا گئی۔۔
"میری ایک بات دھیان سے سن لو پریہان۔۔" خانی بیگم نے اچانک اسے سنجیدگی سے مخاطب کیا تو وہ سیدھی ہوتی متوجہ ہوئی۔۔
"مجھے بات گھما کر کرنے کی عادت نہیں سیدھی سی بات کہوں گی۔۔ تم اب اس حویلی کی بہو ہو۔۔ یہاں مہمانوں جیسا رویہ رکھنے کی ضرورت نہیں، جو چاہئیے لے سکتی ہو۔۔ جب تک سب سے تکلف رکھو گی کبھی یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پاؤ گی۔۔
یاد رکھنا جن حالات میں شادی ہوئی ہے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے یہاں تمہیں اپنی جگہ خود بنانی ہو گی اور جگہ بنانے کے لیے رویہ میں زرا لچک پیدا کرو اور سب سے بات کیا کرو۔۔"
خانی بیگم نے سنجیدگی سے کہا اور ایک نظر کچن میں جاتی گل جان بیگم کو دیکھا۔ وہ دیکھ رہی تھیں پہلے روز سے پریہان صرف ان کے ہی ساتھ ہنستی مسکراتی ہے تبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں جتایا۔۔
"جی میں۔۔ کوشش کروں گی۔۔" وہ سر جھکا کر کپ کو گھورتی آہستگی سے بولی اور ایک چور نظر خانزادہ پر ڈالی جو چائے پیتے ہوئے اپنے چچا سے بات کر رہا تھا۔۔ وہ خاموشی سے چائے کی چسکیاں لیتی واقعی سکون محسوس کر رہی تھی۔ خانزادہ چائے پیتے ہی اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔
"تم نے بلوایا تھا یا خانزادہ خود لینے گیا تھا تمہیں۔۔"
اس کے جاتے ہی خانی بیگم نے سوال کیا، وہ بوکھلا گئی۔
"م۔۔ میں کال کرنے والی تھی مگر۔۔ حدیر خود لینے آ گئے تھے۔۔" وہ آہستگی سے بولی تو خانی بیگم کے ماتھے پر بل آ گئے۔
"حدیر نہیں خان صاحب بلایا کرو۔۔ وہ تمہارا شوہر ہے دوست نہیں کہ تم نام لے رہی ہو۔۔ حویلی میں اور کسی عورت کو اپنے شوہر کا نام لیتے سنا ہے کیا۔۔"
ان کی بات پر وہ منہ کھولے انہیں دیکھتی چلی گئی۔۔
اس نے تو ابھی یہ بھی نہیں سنا تھا کہ کوئی عورت اپنے ہزبینڈ کی بات بھی کر رہی ہے۔۔ اس کے حلق میں خان صاحب لفظ اٹک گیا تھا۔ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔
"بس ایک بات تم میں اچھی ہے زبان نہیں چلاتی ہو۔۔ تھک گئی ہو تو کمرے میں جا سکتی ہو۔۔" خانی بیگم نے اس بار کچھ نرم لہجے میں کہا تھا۔۔
وہ جلدی جلدی حلق میں بچی ہوئی چائے انڈیلتی کمرے میں چلی گئی۔۔
وہ ڈریس چینج کر کے لیٹ چکا تھا پریہان کے آنے پر اسے دیکھا۔ وہ اس روایتی لباس میں اسے کچھ زیادہ اٹریکٹ کر رہی تھی۔
"پریہان چینج مت کرو ابھی۔۔ اچھا لگ رہا ہے یہ ڈریس۔۔" اس کی فرمائش پریہان کو حکم جیسی محسوس ہوئی تھی، ناک چڑھا کر پلٹی۔
"پھر آپ نے کیوں کیا چینج۔۔ آپ کا ڈریس بھی برا نہیں لگ رہا تھا ویسے۔۔ آپ خود جب بھی چاہیں چینج کر لیتے ہیں، میں ہر وقت بھاری کپڑوں میں گھومتی رہوں۔۔" وہ کمر پر ہاتھ رکھے جانے کس بات کا غصہ اتار رہی تھی، آواز دھیمی تھی مگر لہجہ غصیلا تھا۔
"کیا بات ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔؟" وہ اٹھ کر اس کے مقابل ٹھہرتا نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
"اگر میں آپ کے گھر والوں کی شکایت لگاؤں تو کیا کیا یقین کر لیں گے؟ ان کو ڈانٹیں گے۔۔؟"
وہ سینے پر بازو لپیٹتی ابرو چڑھا کر بولی تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔
"تمہیں یہاں کے طور طریقے سیکھانے کے لیے مورے کا انداز تھوڑا سخت ہے مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ وہ تمہیں نا پسند کرتی ہیں۔۔ گھر میں نئے انجان فرد کو اچانک سے قبول کرنا سب کے لیے مشکل ہوتا ہے، وہ لوگ نہیں جانتے تم کس قسم کی لڑکی ہو یا تمہاری عادات کیسی ہیں۔۔
جب وہ جان جائیں گے اور جب تم یہاں کے طور طریقے سیکھ جاؤ گی پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
وہ نرمی سے سمجھا رہا تھا۔ پریہان تھوڑی ڈھیلی پڑی۔
آج خانی بیگم نے بھی اس کی کم بولنے والی خوبی کا اعتراف کیا تھا، اسے حدیر کی بات پر یقین آنے لگا۔
واقعی سب ٹھیک ہو سکتا تھا اگر وہ کچھ صبر کرے۔۔
"میں آپ کو خان صاحب کیسے کہوں گی، یہ عجیب لگتا ہے۔۔"۔ بےچارگی سے بولتی وہ اسے ہنسنے پر مجبور کر گئی، ہنسی دبا کر اس کا ہاتھ تھامتا سر ہلانے لگا۔۔
"اور ہماری تو مجبوری میں شادی ہوئی ہے، ضرورت کی شادی اور ضرورتیں جلد ہوری ہو جایا کرتی ہیں۔۔ پھر کیا ضرورت ہے عادت بنانے کی یا ایڈجسٹ ہونے کی۔۔" اس کی باتیں یاد آنے پر پریہان نے یکدم اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
"یہ کسی "چیز" کی ضرورت نہیں ہے کہ پوری ہو جائے گی۔۔ یہ رشتہ ہے اور جو رشتے ضرورت ہوتے ہیں وہ ساری عمر کے لیے ہوتے ہیں۔۔ یہ رشتہ ختم ہونے کی سوچ اپنے دماغ سے نکال دو۔۔"
اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولتا اس کے گرد حصار قائم کر گیا۔
"کیوں آپ شاید بھول گئے میں گیم کھیلنے والی لڑکی ہوں جس کے لیے عزت اور احساس کھیل ہے۔۔"
اس کے حصار میں وہ شرم سے سرخ گال کیے اس کی باتیں یاد دلا رہی تھی، وہ باتیں پریہان کے اندر ابھی تک گڑھی ہوئی تھیں۔۔
"کوئی بات نہیں، میرے لیے رشتے اور احساس کھیل نہیں ہیں اور میں تمہیں بھی ایسا بنا دوں گا۔"
وہ مسکرا کر بولتا اس پر جھُکا اور سرخیاں چھلکاتے رخساروں کو چھوا۔ اس کے لمس پر پریہان کا دل پھڑپھڑایا تھا، لرزتی ہوئی اس کا حصار توڑنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
"کیا ہوا۔۔ دور کیوں ہوتی ہو۔۔ میں نے دنیا کے لیے تمہیں وائف نہیں بنایا، میں دل سے اس رشتہ کو قبول بھی کر چکا ہوں۔۔" اس کے کندھوں سے ڈھلکتے نرم بالوں کو سمیٹ کر وہ جس لہجے میں بولا پریہان ساکت سی اسے دیکھنے لگی۔
" نہیں۔۔ م۔۔ میں نے قبول نہیں کیا، یہ رشتہ۔۔ مطلب۔۔"
پریہان ہکلا کر بولتی بری طرح گھبرا چکی تھی، دل اتنی شدت سے دھڑک رہا تھا کہ اسے لگا آج پھٹ ہی جائے گا، بھینچی ہوئی مٹھیاں پسینے سے بھیگ چکی تھیں۔۔ خانزادہ نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
"کیا تمہیں گھر والوں نے فورس کیا تھا اس شادی کے لیے۔۔۔؟" اس نے پیچھے ہوتے ہوئے سوال کیا۔
پریہان پریشان ہو گئی، شاید وہ غصہ ہو رہا تھا۔۔
"پریہان۔۔ ریلیکس ہو کر مجھے بتاؤ، کیا فیملی نے فورس کیا تھا تمہیں۔۔؟" خانزادہ نے فاصلہ قائم کر کے نرمی سے سوال دوہرایا۔۔
"میں شادی کے لیے تیار نہیں تھی، آئی مِین۔۔ مینٹلی پریپئیر نہیں تھی، ایکس فیانسے نے اچانک ہی شادی کا کہا اور پھر خود ہی۔۔ انکار کر دیا۔۔ میں ابھی سٹڈیز کرنا چاہتی تھی۔۔ کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔" وہ سر جھکا کر بولتی ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی۔۔ خوف تھا وہ برا نا مان جائے مگر سچ یہی تھا جو وہ کہہ رہی تھی۔۔
"اوکے ریلیکس۔۔ تم پر کوئی پریشر نہیں، جاؤ چینج کر لو۔۔" وہ اس کی پریشانی سمجھ کر خوشدلی سے بولا تو پریہان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
جب سے مل رہی تھی اس کے مزاج پر حیران ہو رہی تھی، وہ مزاج میں بہت لچک رکھتا تھا۔ شاید اسے یہ بات بری لگی ہو مگر وہ اس بار بھی ظاہر کیے بنا نرمی سے بات ختم کر گیا۔ پریہان جلدی سے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔
چینج کر کے جب نکلی تو لائٹس آف تھیں، دبے پاؤں بیڈ کے پاس جا کر اپنے لیے تکیہ اور چادر اٹھائی۔
"بیڈ پر سو جاؤ پریہان، تم نے کہہ دیا میں نے سمجھ لیا، اتنی بے اعتباری اور احتیاط کی ضرورت نہیں۔۔"
اس کے پلٹنے سے بھی پہلے وہ بولا تھا، پریہان شرمندہ ہوتی دونوں چیزیں دوبارہ سے رکھتی کنارے پر ٹک کر سونے لگی۔۔ تاریکی میں اس کی حرکات کا جائزہ لیتے خانزادہ نے مسکرا کر بازو بڑھایا اور اسے کھینچ کر اپنے حصار میں لے لیا۔۔
پریہان کا دل دھک سے رہ گیا، وہ اسے کیسے سمجھاتی اس کی قربت سے پریشانی ہوتی ہے، اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگی تھیں، اس کے پرفیوم کی خوشبو اعصاب پر سوار ہو رہی تھی، وہ آنکھیں میچ کر اس کے سینے میں منہ چھپائے پڑی تھی۔ اسے لگتا تھا وہ اس کی حالت سے ناواقف ہے، وہ غلط تھی۔۔ وہ سب سمجھ رہا تھا۔۔
اس کے نازک وجود کو خود میں سمیٹے اس کے دل کی تیز دھڑکن سے لے کر لرزش تک۔۔ وہ سب جانتا تھا۔۔
اسے وقت دینا تھا مگر ایسے نہیں کہ وہ دور رہ کر محبت ہی نا کرے۔۔ وہ اسے اپنی محبت میں بھی مبتلا کرنا چاہ رہا تھا۔۔ اس کا خیال رکھ کر۔۔ اسے قریب رکھ کر۔۔
خانزادہ حدیر کے لیے یہ رشتہ عمر بھر کا تھا اور وہ اس میں علٰیحدگی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔۔
"میں تم سے محبت کروں گا اور تمہیں بھی اپنی محبت میں مبتلا کروں گا پریہان، مجھے تم سُوٹ کرتی ہو۔۔" سرگوشی میں بولتے ہوئے وہ جھک کر اس کے سر پر لب رکھتا سکون سے آنکھیں بند کر گیا۔۔
"مورے۔۔۔" خانزادہ کی بےیقینی سے بھری دھاڑ پر ان کا پھر سے پریہان پر اٹھا ہاتھ اس بار فضا میں ہی رک گیا تھا۔۔ وہ تیز قدموں سے چلتا ان کے سامنے آیا۔۔
"مورے آپ میری بیوی پر ہاتھ کیسے اٹھا سکتی ہیں۔۔" اس کا بھاری لہجہ سرد ہو رہا تھا، خانی بیگم کا بازو پیچھے ہو گیا۔ وہ پلٹ کر پریہان کو دیکھنے لگا۔
سر بالکل نیچے جھکائے وہ ساکت کھڑی تھی، ڈوپٹے کے بھاری پلو میں چہرہ چھپا ہوا تھا۔
"صندل انہیں کمرے میں لے جاؤ۔۔"۔ اس نے پیچھے پلٹ کر ایک ملازمہ کو کہا اور ایک سرد نظر وہاں موجود سب افراد پر ڈالی تو سب کھسک کر یہاں وہاں ہونے لگے۔۔ موسٰی جو خانزادہ کے ساتھ ہی وہاں آیا تھا، ایک متاسف نظر خانی بیگم پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔
مردان خانے سے ہمیشہ کی طرح اس کے آنے کا سن کر آغا جان اور خان آزر بھی وہاں آ چکے تھے۔۔
"پوچھو اپنی بیوی سے آج کیا حرکت کی اس نے۔۔ بیگم ہاشم اس سے ملنے آئی تھیں اپنی بیٹی کے ساتھ، وہ میرے بار بار بلوانے پر بھی باہر نہیں نکلی۔۔"
خانی بیگم کا چہرہ پریہان کی حرکت پر ابھی تک توہین سے سرخ ہو رہا تھا۔۔
ان کی بات پر خان یوسف اور آزر بھی چونکے۔۔
"تو اس بات پر آپ ہاتھ اٹھائیں گی۔۔؟ کون ہے بیگم ہاشم اور ان کی بیٹی۔۔ میرے لیے ان کی اتنی اوقات نہیں کہ میری بیوی کا ان سے ملنا ضروری ہو۔۔ اسے گل جان سمجھنے کی غلطی نہیں کریں مورے۔۔ وہ میری بیوی ہے۔۔ اس کے ساتھ میری ہی حویلی میں ایسا سلوک میری توہین ہے۔۔" وہ طیش زدہ لہجے میں بول رہا تھا۔ خانی بیگم نے لب بھینچے۔
"آرام سے بات کرتے ہیں خانزادہ۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔ اور اگر تمہاری بیوی لوگوں کے سامنے شرمندہ کروائے گی تو کیا سوال بھی نا کیا جائے۔۔؟" آغا جان نے نرم لہجے میں کہتے ہوئے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"ہاتھ اٹھا کر سوال کیا جائے گا۔۔؟ میں نا آتا تو کیا دوسرا تھپڑ بھی اس کے چہرے پر مار دیتیں آپ۔۔؟"
اس کے تیکھے سوال پر خانی بیگم نے نظر چرائیں۔۔
وہ اس تھپڑ سے اندر تک جل اٹھا جو پریہان کے چہرے پر پڑ چکا تھا۔
"ہاتھ اس کی گستاخی پر اٹھا ہے خانزادہ۔۔۔ تمہاری ماں ہوں میں، اتنی ناانصاف ہوتی تو پہلے روز ہاتھ اٹھا لیتی۔۔ وہ آج باہر نہیں آئی، مجھے شرمندہ کروایا بتاؤ کیسا لگے گا مجھے جب تیسرے لوگ میری حویلی میں میری بہو سے ملنے آئیں اور وہ بہو میرے بلاوے پر کمرے سے ہی باہر نا نکلے، آج تک حویلی میں کسی لڑکی کی یہ جرات نہیں ہوئی۔۔"
خانی بیگم بھڑک اٹھی تھیں، پریہان نے ان کی نفی کی تھی۔ ذن کا یہ غم جا نہیں رہا تھا۔
"پریہان نے غلط کیا۔ میں سمجھ گیا، مگر اس حرکت کا جواب تھپڑ نہیں تھا مورے۔۔"۔ وہ ابھی بھی اسی تھپڑ پر اٹکا تھا۔ آج اس تھپڑ کی گونج اس کی سماعتوں میں ازیت بن کر اتری تھی۔۔
"میں تھپڑ نا مارتی۔۔ سوال ہی کر رہی تھی مگر اس نے کہا تم اسے ضرورت کے تحت لائے ہو۔۔ اس نے ملازموں کے سامنے میرے بیٹے کی زات کا مذاق بنایا۔۔۔ "
خانی بیگم نے ضبط سے بتایا۔ پریہان کا یہ جملہ ابھی تک چبھ رہا تھا انہیں۔۔ آغا جان کا چہرہ سرخ ہوا۔
"تو اس میں کیا غلط ہے؟ اس نے کیا جھوٹ کہا؟ میں نے خود اسے کہا ہے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے لایا ہوں۔۔ آپ سب کی بےجا ضد کی وجہ سے یہ شادی کی ہے میں نے۔۔۔ اس نے کہہ دیا تو کیا غلط کہا۔۔۔"
وہ دھاڑا۔۔ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، نیلی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ لگتا تھا آج جیسے حویلی میں آگ ہی لگا دے گا۔۔
"ٹھیک ہے بات ختم کرو خان۔۔ بات نہیں بڑھاؤ۔۔"
خان آزر نے اسے چپ کروانا چاہا۔ خان یوسف ایک طرف صوفہ پر بیٹھ کر اس کا یہ روپ بغور دیکھ رہے تھے۔۔ وہ گل جان بیگم کے لیے بھی ایسے ہی بولتا تھا مگر آج کچھ الگ تھا۔۔ وہ آج کوئی توجیہہ سننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔
"بات بڑھ چکی ہے۔۔ آج میری تذلیل کی گئی ہے، میری بیوی کو آج بتایا گیا ہے کہ میں اتنا کمزور مرد ہوں جس کے نکاح میں ہونے کے باوجود اسے زلیل کیا جا سکتا ہے۔۔ یہاں سب ملازمین کھڑے تھے۔ حویلی کا ہر فرد کھڑا تھا یہاں اور سب کے سامنے اسے زلیل کیا گیا۔۔ یہ میری توہین ہے۔۔ یہ ہے میری اوقات۔۔؟"
وہ دھاڑ رہا تھا۔ خانی بیگم نے پریشانی سے بیٹے کو دیکھا جو ان سے ناراض نظر آ رہا تھا، خان یوسف بھی اس کی بات سمجھ کر اب خشمگیں نظر سے خانی بیگم کو دیکھ رہے تھے۔۔
خان آزر کو جیسے چابک سا لگا تھا، ان کے نکاح میں موجود گل جان بیگم ساری زندگی ان کے ساتھ ساتھ حویلی کے دوسرے لوگوں سے بھی مار کھاتی آئی تھیں اور سامنے کھڑا انکا بیٹا آج ایک تھپڑ پر غیرت سے بلبلا اٹھا تھا۔ وہ واقعی حقیقی مرد تھا۔
"خانزادہ بچے ناراض مت ہو۔۔ مجھے غصہ آ گیا تھا ہاتھ اٹھ گیا۔۔ اس نے بھی تو غلط کیا۔۔"۔
وہ دلگرفتگی سے بیٹے کی ناراضگی دیکھتی وضاحت دے رہی تھیں، وہ گہرے سانس لیتا ضبط کرنے لگا۔
"آج کے بعد اس کی کسی بات پر غصہ آئے یا کوئی حرکت بری لگے، مجھے بتائیں گے آپ لوگ۔۔ جو سوال کرنا ہو مجھ سے کریں گے۔۔ میری بیوی سے اب آپ سب کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔"۔ وہ سرد لہجے میں کہتا وہاں سے چلا گیا اس بار کوئی اسے روک نہیں پایا۔
"کتنی مرتبہ سمجھایا ہے خانی، خانزادہ کو غصہ مت دلایا کرو۔۔۔ ہاتھ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ ونی میں آئی لڑکی نہیں کہ کوئی بھی ہاتھ اٹھائے اس پر۔۔ اب کون منائے گا اسے۔۔؟ اس حرکت سے تم اسے اس لڑکی کے قریب اور خود سے متنفر کر رہی ہو۔۔ "
خان یوسف بپھرے ہوئے لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔
خان آزر اپنی جگہ چپ سے بیٹھے تھے، خانی بیگم سر پکڑ بیٹھیں، مسز ہاشم نے آج جو پریہان کی حقیقت بتائی تھی انہیں بری طرح تپا گئی تھی۔۔ پریہان خانزادہ کے پیچھے کافی عرصہ سے لگی ہوئی تھی۔۔ وہ فکرمند ہوئیں ان کے بیٹے کو پیسے کی خاطر اپنانے والی لڑکی آخر کتنی باوفا ہو سکتی تھی۔۔
وہ ایک ماں بن کر سوچ رہی تھیں، گل جان بیگم نم آنکھیں لیے کچن میں کام کرتی مسکرائیں، جہاں خانزادہ جیسے غیرت مند مرد ہوں، وہاں مائیں، بیٹیاں ہوں یا بیوی۔۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو سکتی۔۔
وہ تیزی سے آگے بڑھتا کمرے کی طرف جا رہا تھا جب موسٰی اس کے راستے میں آیا۔
"حدیر تم کچھ وقت کے لیے بھابھی کو شہر لے جاؤ۔۔ گھر میں کچھ زیاد حالات بگڑ رہے ہیں اب۔۔"
موسٰی کی فکرمندی پر وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"موسٰی اسکو آج یہاں سے لے گیا تو وہ یہی سمجھے گی میں یہاں اسے پروٹیکٹ نہیں کر سکتا، یہ اس کا گھر ہے گھر میں زیادتی ہو تو حل گھر سے چلے جانا نہیں ہوتا۔۔ گھر میں رہ کر جگہ بنانا ہوتا ہے۔۔
اگر یہاں سے جا کر اس نے واپس آنے سے منع کر دیا تو اس بار میں کچھ نہیں کر پاؤں گا۔۔"
اس کی بات پر موسٰی نے سر ہلایا اور مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
اپنی گاڑی پارک کر کے وہ مخصوص انداز سے نکلتا دوستوں کی طرف بڑھا۔ احمر اور حسن سے مل کر باتیں کرتا آگے بڑھ رہا تھا۔
دلکش چہرے پر بےزاری اور تھکن کے ساتھ ڈارک گلاسز لگے ہوئے تھے جنہیں آج اتارا نہیں تھا۔۔
”کیا بات ہے برو۔۔ آج گلاسز نہیں اتارنے۔۔“
بلڈنگ میں داخل ہو کر بھی وہ گلاسز لگاٸے رہا تو احمر نے حیرت سے سوال کیا۔۔ وہ گہرا سانس بھر کر منہ بنا گیا۔۔
”ابے یار۔۔۔ ساری رات پریزینٹیشن تیار کرتا رہا۔۔ آنکھوں کا ستیاناس ہو گیا ہے۔۔ “ گلاسز اتار کر اس نے فکرمندی سے کہا۔۔ اس کی نیلی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوٸی تھیں۔۔ وہ بیوٹی کانشس بندہ اتنی سی بات پر پریشان ہو رہا تھا۔۔
”اوٸے پرنس۔۔ ایسا لگ رہا ہے ڈرنک کرتا رہا ہے ساری رات۔۔ بہانہ تو نہیں بنا رہا ناں ۔؟
وہ دیکھ سامنے آ رہی ہے تیری پرنسز۔۔“
حسن نے جانچتی نظر سے اسے دیکھا اور قہقہہ لگا کر بتاتے ہوٸے اس کی توجہ سامنے سے آتی آئرہ کی طرف کرواٸی۔ سٹاٸلش ڈریسنگ کیے دراز قد طرح دار حسین سی آٸرہ شاہ اسی کی طرف آ رہی تھی۔۔ عیسٰی ہنسی دبا کر سامنے دیکھنے لگا۔۔
”اس کو پہلے ہی شک ہے کہ مجھ جیسا شریف انسان ڈرنک یا سموکنگ کرتا ہے، آج یقین ہو جائے گا۔۔ “
وہ گاگلز آنکھوں پر لگاٸے آہستگی سے بڑبڑایا۔۔ اس کے دوست اس پر ہنستے آگے نکل گٸے۔ آٸرہ پاس آ کر رک گٸی۔
”ہاٸے عیسٰی۔۔ ہاٶ آر یو۔۔“ وہ نرمی سے مسکرا کر پوچھنے لگی جبکہ وہ ایک قدم پیچھے ہوتا گہری نظروں سے اس کا جاٸزہ لینے لگا۔۔
گرین کیپری ٹخنوں سے کافی اوپر تھا جس سے سڈول شفاف پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں، لانگ پیرٹ گرین شرٹ پر گلے میں جھولتا سٹالر اور کرلی کیے ہوٸے گولڈن بال اس کی گندمی رنگت اور تیکھے نقوش پر جچ رہے تھے۔۔ وہ ستاٸشی نظروں سے دیکھتا سیٹی کے انداز میں منہ گول کرتا اسے جھینپنے پر مجبور کر گیا۔۔
”ایسے مت کیا کریں۔۔“ وہ نروس سی اسے ٹوک گٸی۔
”کیسے نا کروں۔۔؟“ وہ ہنسی دبا کر پوچھنے لگا۔
”کچھ نہیں۔۔ یہ بتاٸیں آج گاگلز کیوں لگاٸے ہوٸے ہیں۔۔؟“ وہ بات بدل کر پوچھنے لگی۔ وہ سنجیدہ ہوا۔
”تاکہ میری تم پر جمی نظروں کو کوٸی نوٹس نا کرے، بات سنو آٸرہ یہ اتنا تیار ہو کر کیوں آتی ہو۔۔ کیا چاہتی ہو تمہیں دیکھتا رہوں۔۔؟“
وہ اس سے نظر ہٹاتا سنجیدہ آواز میں بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ محبت، محبت نا کرے خیر توجہ دے تو خوشی بنتی ہے۔۔ وہ بھی خوش تھی۔۔
”تو دیکھتے رہیں، منع کس نے کیا ہے۔۔“ ادا سے اپنے سنہری بالوں کو جھٹکا دے کر بولی۔
”دیکھوں گا اور پورے حق سے دیکھوں گا۔۔ بس تم زرا اپنا حلیہ اس قابل کر لو کہ عیسٰی خان اعتماد سے دیکھ سکے۔۔۔“ وہ اس کے ساتھ قدم بڑھاتا آہستگی سے سمجھانے لگا۔۔ جیسے لڑکیوں کی نظر اس کے گرد گھومتی تھیں وہ بخوبی دیکھتا تھا لڑکے اسی طرح آئرہ کو دیکھتے تھے۔۔ یہ بات اسے بہت چبھتی تھی مگر آئرہ سمجھتی نہیں تھی۔۔
”آپ جس دن مجھے اپنا بنائیں گے ناں عیسٰی اسی دن خود کو بدل لوں گی۔۔ ابھی یہ حق نہیں جتائیں۔۔“
وہ خفگی سے بولتی اس کا ہاتھ تھام گٸی، وہ ہنس پڑا، بس اس کے نام سے اپنا نام جوڑنے کے لیے بہانے بنا رہی تھی۔۔ وہ سب جانتا تھا۔۔
”بنا لوں گا اپنا بھی۔۔ بس میرا لاسٹ ائیر کمپلیٹ ہونے دو۔۔“ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر مسکراتے ہوئے بولا اور بائے کرتا دوسری طرف نکل گیا۔۔
وہ چمکتی آنکھوں سے اپنا ہاتھ دیکھنے لگی، جہاں اس کا نرم لمس اب بھی محسوس ہو رہا تھا۔۔ عجیب انسان تھا ویسے تو خوب گھل مل گیا تھا مگر نا کبھی خود چھُوتا تھا نا چھُونے دیتا تھا۔۔
وہ اس بات پر اور بھی زیادہ مر مٹتی تھی اس پر مگر رہ نہیں سکتی تھی، کبھی کبھی حق سے اس کا ہاتھ تھامنا اچھا لگتا تھا اسے۔۔
اب تو کچھ وقت سے وہ آئرہ کے ساتھ کافی فرینک ہو گیا تھا، شاید موقع دے رہا تھا اسے۔۔
وہ اتنے میں ہی خوش تھی۔ اس کی مرضی کے برعکس ڈریسنگ کر کے وہ اسے آزماتی تھی کہ جلد رشتہ بھیجے مگر وہ کافی تحمل سے کام لے رہا تھا۔
آئرہ سارا دن اپنا ہاتھ دیکھتی مسکراتی رہی جانے کب وہ وقت آئے گا جب خود عیسٰی خان آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھامے گا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی، لب سختی سے بھینچے ہوئے تھے، گال پر شدید جلن ہو رہی تھی اس سے کہیں زیادہ جلن دل میں ہو رہی تھی۔۔ اپنی تزلیل اور بےعزتی پر۔۔ بھیگی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
کپکپاتے ہاتھوں سے سائیڈ ٹیبل ٹٹول کر موبائل اٹھایا اور بہتی آنکھوں سے آنی کا نمبر تکتی جا رہی تھی، انہیں کال کر کے کہہ دے تو کیا ہو گا۔۔ وہ ڈر جائیں گی، پریشان ہو جائیں گی، وہ اب ہارٹ پیشنٹ تھیں وہ بھی پریہان کی وجہ سے بنی تھیں۔
نفی میں سر ہلا کر پریسہ کا نمبر نکالا، وہ کیا کر سکتی تھی، وہ تو پاکستان میں بھی نہیں تھی۔
اس کا جی چاہا دھاڑیں مار مار کر روئے اور حویلی والوں کو ان کی بداخلاقی پر آئینہ دکھائے مگر وہ ضبط کیے بیٹھی تھی، لڑے اور جواب دے۔۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہ لوگ دھکے مار کر نکال دیں گے۔۔
وہ ریما کو کال ملا گئی۔۔ بیڈ کے پاس نیچے زمین پر بیٹھی سسک رہی تھی، بھوک اور مسلسل رونے سے اب سر شدید درد کرنے لگا تھا۔۔ ریما نے کال اٹھائی۔
"ہان کیسی ہو؟ کیا کر رہی ہو، بہت مس کیا یار۔۔"
ریما کی مسکراتی آواز پر اس کا دل بھر آیا، روتے ہوئے اسے منال کی ساری بات بتانے لگی۔
"ہان تم ہی پاگل ہو، میں تو جانتی تھی منال خانزادہ حدیر کے لیے ایسی ہی پاگل ہے۔۔ حیرت تو یہ ہے اس نے تمہارے ساتھ آرام سے بات کیسے کر لی۔۔"
ریما نے ساری بات کے جواب میں تاسف بھری سانس بھر کر کہا۔
"ریما میں خانی بیگم کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ سب بس ایک ڈئیر تھا جو منال نے ہی دیا تھا۔۔"
وہ روتے ہوئے بول رہی تھی، خانی بیگم کے الفاظ اس کے دل کو چیر رہے تھے، تھپڑ نے اوسان خطا کر دئیے تھے مگر اب وہ اپنی زات کو کلئیر کرنا چاہتی تھی۔۔
"پریہان۔۔ منال نے حدیر کے لیے ڈئیر نہیں دیا تھا۔۔" ریما نے اس ہوش کی دنیا میں پٹخا، وہ ڈھیلی پڑ گئی۔
"منال کو یہی لگتا ہے تم نے جان بوجھ کر حدیر سے بات کی، اس کے آفس میں گئیں۔۔ اسے واقعی یہی لگتا ہے۔۔ اس نے تمہیں حدیر کا نمبر دیا ہی نہیں تھا۔۔۔
وہ یہ بات قسم کھا کر کہہ سکتی ہے۔۔ کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے کہ تم نے وہ سب غلطی سے کیا۔۔۔؟
مجھے یقین ہے تم پر، تمہاری فیملی بھی یقین کر سکتی ہے کیونکہ ہم تمہیں جانتے ہیں، باقی سب نہیں جانتے تم کون ہو اور کیسی ہو۔۔"
ریما نرمی سے سمجھانے لگی، پریہان ساکت بیٹھی تھی، اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ حد تو یہ تھی کہ وہ اپنی شادی طے ہونے کے بعد بھی حدیر کے آفس جا چکی تھی، اس بار نا کوئی ڈئیر تھا نا غلط فہمی۔۔
وہ غلطی پر غلطی دوہرا کر خود کو غلط بنا چکی تھی۔۔ وہ کال کاٹ کر گھٹنوں میں منہ دئیے شدت سے رو دی۔۔ ریما کالز کر رہی تھی، وہ اگنور کر گئی۔۔
خانزادہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ کے پاس نیچے قالین پر بیٹھی آواز سے رو رہی تھی۔
"پریہان۔۔"۔ وہ اس کے پاس آتا نرمی سے پکار رہا تھا۔
ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھا تو وہ پوری قوت سے اس کا ہاتھ جھٹکتی پیچھے ہوئی۔۔
"مجھے ہاتھ مت لگائیں۔۔ میں آپ جیسے شریف انسان کو ڈیزرو نہیں کرتی۔۔ آپ کا اتنا احسان کافی ہے کہ آپ نے مجھ سے شادی کر کے مجھے اس جہنم میں دھکیلا۔۔"۔ وہ سرد بھیگے لہجے میں بول رہی تھی۔۔ وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ سرخ بھیگا ہوا چہرہ، پانی سے بھری سرخ سوجی آنکھیں اور بری طرح اجڑے بکھرے سے بال۔۔ وہ لب بھینچ گیا۔
"ایم سوری مورے نے جو کیا غلط تھا۔۔ آئندہ نہیں ہو گا۔۔"۔ نرمی سے بولتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اس کا بری طرح لرزتا وجود تھامنا چاہا۔
"آئندہ کس نے دیکھا ہے، بس میری ایک ریکوئسٹ ہے، جتنا زلیل کرنا ہے ابھی کر کے فارغ کریں مجھے۔۔
آپ کی یہ عالیشان حویلی اور اعلا خون آپ سب کو مبارک ہو۔۔ میں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔"
وہ اس وقت نرم مزاج پریہان نہیں لگ رہی تھی۔ بکھرے ہوئے حلیہ میں پتھر بنی وہ کوئی اور لڑکی تھی۔ وہ اس کی تکلیف پر اپنا دل بند ہوتا محسوس کر رہا تھا۔ اس کا دل اپنی ماں سے مزید ناراض ہوا۔
"جیسا چاہو گی ویسا ہو گا۔۔ ریلیکس ہو جاؤ۔۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی پریہان۔۔"۔ وہ نرمی سے کہنے لگا۔ اسکی حالت پر پریشان ہوا ایسا لگتا تھا ابھی حواس کھو دے گی، اتنی بری طرح لرز رہی تھی جیسے زلزلوں کی زد میں ہو۔۔
"میری طبیعت آج ٹھیک کر دی ہے ناں خانی بیگم نے۔۔
مجھے بتا دیا ہے میری جگہ کیا ہے۔۔ ایک لالچی لڑکی جو پیسوں کے لیے آپ کے آفس جاتی رہی اور پھر گھر آ گئی۔۔ آپ کو لوٹنے کے لیے۔۔۔ پیسہ لینے کے لیے۔۔"
وہ چیخ کر بولتی حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔
خانزادہ نے زبردستی کھینچ کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور پانی کا گلاس بھر کر اس کی طرف بڑھایا، پریہان ہاتھ مار کر وہ گلاس دور پھینک چکی تھی، دبیز قالین پر پانی پھیل چکا تھا۔ وہ ضبط کر گیا۔
گیلا ہاتھ جھٹک گلاس اٹھایا اور ٹیبل پر رکھ کر پلٹا اور بیڈ پر اس کے پاس بیٹھتا کھینچ کر اسے سینے سے لگا گیا۔ وہ کچھ دیر اس کے حصار سے نکلنے کے لیے مزاحمت کرتی رہی مگر جلد تھک کر ہار مانتی سسکنے لگی۔
"ایم سوری۔۔۔ دوبارہ نہیں ہو گا ایسا۔۔ آج کے بعد کوئی سوال نہیں ہو گا تم سے۔۔ تمہیں کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔۔ میں سب جانتا ہوں۔۔"
اسے نرمی سے تھپکتے ہوئے وہ بول رہا تھا۔ پریہان کے جلتے دماغ کو جیسے سکون آور دوا میسر آئی تھی۔
"پریہان چپ ہو جاؤ۔۔ ایسے روتی رہو گی تو طبیعت بگڑ جائے گی۔۔"۔ اس کا چہرہ سامنے کرتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولا، نم ہوتے بال سمیٹ کر پیچھے کیے تو اس کا سوجا ہوا گال واضح ہو گیا۔
خانی بیگم کے بھاری ہاتھ کا پوری قوت سے مارا گیا تھپڑ اس کے نرم گال پر نشان بنا گیا تھا۔
وہ نرمی سے وہ گال سہلاتا جھک کر نرمی سے چومنے لگا۔ نڈھال ہو چکی پریہان نے کسمسا کر خود کو اس سے دور کرنا چاہا مگر وہ شدت سے اسے خود میں بھینچ گیا۔ اس کے نم چہرے پر بےتابانہ لمس بکھیرتا وہ جیسے اس ظلم کا مداوا کر رہا تھا۔
شاید وہ واحد زات تھی جس کا لمس اسے دنیا سے بیگانہ کر دیتا تھا۔ اس کے نازک وجود کی نرمی ساری تھکن اور پریشانی ختم کر دیتی تھی۔۔
اس کا سوجا ہوا گال نرمی سے چھوتا مرہم رکھ رہا تھا۔ پریہان حواس باختگی کا شکار اس کے پرحدت حصار میں قید تھی۔۔
حویلی والوں کی دی تزلیل اپنی جگہ۔۔ وہ غم تو بےعزتی کے احساس سے روشناس کرواتا ہی تھا۔۔
مگر خانزادہ کی دیوانگی، اس کا بےتاب لمس اور نرم حصار اسے جیسے سب سے نایاب بنا دیتا تھا۔۔
یوں جیسے اس سے زیادہ اس دنیا میں کوئی قیمتی نا ہو۔۔ جیسے وہ نایاب کانچ ہو۔۔
اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ پیچھے ہوتی گہرے سانس بھرنے لگی، خانزادہ نے فاصلہ قائم کر کے اس کے کندھوں کو تھام کر اسے اپنے سامنے کیا۔
"پریہان میری بات سنو۔۔ آج سے تم کسی کو کوئی جواب نہیں دو گی۔۔ اپنی مرضی سے رہنا جیسے رہنا چاہتی ہو۔۔ کچھ بھی ہو مجھے ضرور بتانا۔۔ او۔کے؟"
نرمی سے سمجھاتے ہوئے اس کا گال سہلایا تو وہ گم صم سی شہد رنگ آنکھوں سے اسے تکنے لگی۔
"آج ہاشم خان کی فیملی سے ملنے کیوں نہیں گئیں۔۔؟"
اس کے سوال پر وہ رخ پھیرتی اس کے ہاتھ خود پر سے ہٹا کر پیچھے ہو گئی۔
"میں جا رہی تھی پھر منال آ گئی، اس نے مجھے شیشہ دکھایا کہ میری یہ سب کوششیں بیکار ہیں۔۔
یہ بھاری اور اپنے سائز سے بڑے لباس پہن کر، سر پر ڈوپٹہ جما کر بھی میں کسی کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی۔۔ اس نے سہی کہا جب مجھے اتنا کچھ کر کے اپنی ساس کو باقی سب کی طرح مورے کہنے کی بجائے ملازموں کی طرح خانی بیگم کہنے کا حکم ملے تو مجھے اپنی جگہ پہچان لینی چاہئے۔۔۔"
وہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بہت کچھ جتا رہی تھی۔ اس کے معصومانہ انداز سے ناراضگی جتانے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرایا۔ پریہان اس کی مسکراہٹ پر غصے سے مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔
"جا کر فریش ہو جاؤ۔۔ میں کھانا لاتا ہوں، میں نے لنچ نہیں کیا، میں چاہتا ہوں تمہارے ساتھ کھاؤں۔۔"
اس کے بھینچے ہاتھ کھول کر لبوں سے لگا کر پیار سے کہا۔ پریہان نے ہاتھ پیچھے کھینچ کر اسے دیکھا مگر چاہ کر بھی انکار نہیں کر پائی، خاموشی سے اٹھ کر واش روم میں بند ہو گئی، اس کے جاتے ہی وہ پتھریلے تاثرات لیے کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا گل جان کے پاس ان کے کمرے میں پہنچا۔۔
"مورے کیا کچھ کھانے کے لیے پڑا ہے؟ کیا پریہان نے لنچ کیا تھا۔۔؟"۔ اس کے فکرمند لہجے پر وہ مسکرا کر اٹھیں اور اس کے بکھرے بال پیشانی سے سمیٹ کر نرمی سے بوسہ دیا۔
" اس نے لنچ نہیں کیا، سب موجود ہے، میں ابھی کھانا گرم کرتی ہوں اپنے بیٹے کے لیے۔۔ تم پریشان مت ہونا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"۔ ان کے نرم لہجے پر وہ گہری سانس بھر کر سر ہلا گیا۔ وہ جانتا تھا مشکل صرف پریہان کے لیے نہیں حویلی والوں کے لیے بھی تھی۔
نا وہ پریہان کو سمجھ پا رہے تھے نا وہ ان سب کو۔۔
وہی سب ٹھیک کر سکتا تھا اور وہ ہر حال میں ٹھیک کرنا چاہتا تھا، وہ پریہان کو چھوڑ نہیں سکتا تھا۔۔
اب تو بالکل نہیں۔۔ وہ عادت بن گئی تھی، ضروری ہو گئی تھی۔۔
گل جان نے کھانا گرم کر کے سلاد تیار کیا اور خانزادہ کو پکڑایا۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھیں جو خود پانی نہیں پیتا تھا اج سب پر ناراضگی ظاہر کرتا اپنے کمرے میں خود کھانا لے جا رہا تھا۔
پریہان کمرے میں منہ دھوئے بیٹھی تھی، اسے کھانا کھلا کر وہ برتن ایک طرف رکھ چکا تھا، وہ بیڈ کے دوسرے کنارے ہو کر لیٹتی آنکھیں بند کیے سر ہاتھوں میں پکڑ کر دبا رہی تھی۔۔
خانزادہ اس کے پاس نیم دراز ہوتا اسے اپنے قریب کر کے نرمی سے سر دبانے لگا، وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ اس کے یوں یک ٹک دیکھنے پر خانزادہ مسکرا کر جھکا تو وہ تیزی سے منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔
"سو جاؤ۔۔"۔ اسے گھور کر مصنوعی ناراضگی سے بولتا بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔
پریہان سمٹ کر کروٹ کے بل سونے لگی۔ اس کے نیند پڑنے تک وہ ویسے ہی بیٹھا سر دباتا رہا تھا۔۔
گل جان بیگم کچن میں دوپہر کا کھانا تیار کروا رہی تھیں، پریہان حویلی میں بےوجہ یہاں وہاں گھومتی تھک کر انہی کے پاس آ کر بیٹھ گئی، سیب منہ سے لگا کر خرگوش کی طرح کترتی سوچوں میں گم تھی۔۔ خانزادہ کا رویہ پچھلے کچھ دن سے اسے پریشان کر رہا تھا، وہ صبح کا گیا رات کو ہی آتا تھا، شام کی چائے اب وہ گھر والوں کے ساتھ پیتی تھی اور جبراً بیٹھی بھی رہتی تھی، رات کو جب وہ آتا تھا اپنی نظروں کے سامنے ہی رکھتا تھا۔۔ وہ اسے انکل کو شئیرہولڈر نا بنانے کی بات کر چکی تھی۔ اسے لگا تھا وہ بحث کرے گا، حیران ہو گا وجہ پوچھے گا مگر وہ فوری مان گیا۔۔ پریہان کو اس کا رویہ اور انداز بوکھلانے پر مجبور کر رہے تھے۔۔ وہ ایسے کیوں بن رہا تھا جیسے ان کے درمیان سب اچھا ہے اور بہت محبت ہے۔۔ سر جھٹک کر سوچوں کو پرے دھکیلتی گل جان بیگم کو دیکھنے لگی۔
"گل جان آنٹی، کیا آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔؟" اس نے آدھا سیب کھا کر یونہی پھینک دیا۔ گل جان بیگم نے اس کی حرکت دیکھ کر تاسف سے سر ہلایا۔۔۔
"بچے مجھے خانزادہ کی طرح مورے کہا کرو۔۔ اور رزق کی اس طرح بےقدری نہیں کرتے، اللّٰہ ناراض ہوتا ہے۔۔"
انہوں نے نرمی سے سمجھایا تو وہ شرمندہ ہوئی۔
"اوہ اوکے مورے۔۔ میری یوں آدھا کھا کر پھینکنے کی بہت بری عادت بن گئی ہے، میری دیکھا دیکھی پُروا بھی ایسے کرنے لگی ہے، آپ کو پتا ہے میری فرینڈ مرحا کو بھی میری یہ عادت سخت نا پسند ہے۔۔ "
وہ مرحا اور پروا کا زکر کرتی اداس ہو گئی۔۔
"اچھا یہ بتاؤ کیا پوچھنا ہے۔۔؟" انہوں نے نرمی سے سوال کرتے ہوئے اس کا موڈ اچھا کرنا چاہا۔۔
"آپ کو پتا ہے خانی بیگم نے مجھے مورے بلانے پر سختی سے ٹوکا اور کہا خانی بیگم بلایا کروں۔۔
وہ تو ملازمائیں بلاتی ہیں ان کو۔۔ اس کا کیا مطلب ہوا بھلا۔۔؟۔ " اس نے دلگرفتگی سے بتایا تو گل جان بیگم کا دل دکھا تھا۔۔ وہ جانتی تھیں ان چاہی ہے وہ۔۔ اسے حویلی میں مہمان ہی سمجھا جا رہا ہے۔۔۔
"کیا آپ بھی میری طرح ناپسند ہیں سب کو۔۔ آپ کی بھی میری طرح شادی ہوئی تھی؟
مورے اگر ایسا ہے تو کیا میں آپ کی طرح کچن تک محدود ہو جاؤں گی؟ مجھے یہ سب کام بھی نہیں آتے اور میں یہ سب برداشت بھی نہیں کر سکوں گی۔۔"
پریہان کا خوف لبوں پر آیا تھا، نم آنکھوں میں سراسیمگی لیے پوچھ رہی تھی، وہ بچی نہیں تھی سب دیکھ بھی رہی تھی اور حویلی کی دوسری بہوؤں کی نسبت اس کے ساتھ رکھا جانے والا اجنبی رویہ بھی اسے محسوس ہو رہا تھا۔۔
"اللّٰہ نا کرے بچے۔۔ تم کچھ نہیں جانتیں، تم میری طرح نہیں ہو۔۔ میں ابھی تمہیں یہ فرق نہیں بتا سکتی مگر اتنا یاد رکھنا، تمہارے ساتھ تمہارا شوہر ہے، وہ تمہاری حفاظت بھی کر سکتا ہے، تمہارا مقام بھی دلوا سکتا ہے، اس گھر کا سب سے قیمتی لڑکا تمہارے حصہ میں آیا ہے بیٹا۔۔ وہ واحد ہے جو ناراضگی مول لے کر بھی انصاف اور حق کی بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔۔"
گل جان بیگم نے اس کی باتوں پر تڑپ کر اسے سینے سے لگا کر سمجھایا۔ پریہان ان کے گرد بازو باندھتی اداس سی ان کے حصار میں بیٹھی تھی۔
"گل جان بیگم، آپ کو خانی بیگم نے بلوایا ہے اور چھوٹی دلہن آپ کو خانی بیگم نے کہلوایا ہے کہ اچھے سے تیار ہو کر باہر آئیں، ہاشم خان صاحب کے گھر والے آئے ہیں۔۔"۔ ملازمہ نے کچن میں داخل ہو کر کہا۔
"منال۔۔" پریہان چونک کر سیدھی ہوئی۔۔
"جی چھوٹی دلہن منال بی بی بھی آئی ہیں۔" ملازمہ نے سر ہلا کر کہا۔ پریہان اٹھ کر کمرے کی طرف بھاگی، شادی کے بعد آج پہلی بار منال آئی تھی اس سے ملنے۔۔
گل جان ٹھنڈی آہ بھر کر خانی بیگم کے پاس گئیں، جو مہمانوں کے لیے لنچ کا مینیو بتانا چاہتی تھیں۔۔
پریہان نے اپنی وارڈروب میں ڈریسز دیکھے، اس کے گھر سے آئے سب ڈریسز وہی تھے جو دیکھ کر ہی حدیر کا پارہ ہائی ہو جاتا تھا اور خانی بیگم کے دئیے وہی کھلے ملنگوں جیسے کپڑے، اس کا منہ اتر گیا۔
بد دلی سے بلڈ ریڈ کلر کا فراک اٹھایا، جا کر شاور لیا اور ڈریس پہن کر ہلکا سا میک اپ کرنے لگی، خانی بیگم کے دئیے کنگن اور خانزادہ کی دی نفیس چین پہن رکھی تھی، بالوں کو خشک کر کے کیچر لگا لیا۔
پلٹ کر ڈوپٹہ اٹھایا اور کندھے پر رکھ کر دروازے کی طرف مڑتی چونک کر رکی۔ منال دروازے میں ہی ٹھہری تھی۔۔ چہرے پر سنجیدگی تھی۔
کمرے میں اندر کی جانب قدم بڑھاتی وہ چاروں اطراف نظر دوڑا رہی تھی، شاندار نہایت بڑا کمرہ جس کا پینٹ سکائے بلو اور وائٹ کمبی نیشن میں تھا، عالیشان فرنیچر کریم کلر کا اور بھاری پردے اور بیڈ کی چادر سے لے کر صوفوں کی نرم فوم سب نیوی بلو کلر کا تھا۔۔ کمرے کی سیٹنگ اور کلر سکیم آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والی اور روشن تھی۔۔
"منال۔۔" پریہان نے آہستگی سے ڈرتے ڈرتے پکارا۔۔
"آج پہلی بار یہ روم دیکھ رہی ہوں، مجھے لگا تھا رخصت ہو کر آؤں گی تو دیکھوں گی، قسمت دیکھو آج اپنی دوست سے ملنے اسی کمرے میں آنا پڑا۔۔"
منال نے بید کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی خانزادہ کی تصویر کو تکتے ہوئے کہا، پریہان اسے دیکھتی رہی۔
"منال ایم سوری۔۔ ٹرسٹ می مجھے نہیں پتا تھا کس سے شادی ہو رہی ہے۔۔" پریہان نے دھیمے لہجے میں وضاحت دی، منال کی حسرت پر شرمندہ ہو رہی تھی۔
"اب تو جانتی ہو ناں۔۔ کیا چھوڑ سکتی ہو اسے میرے لیے۔۔؟"۔ منال اس کے سامنے آ کر رک گئی۔۔
آج اس کے لہجے میں نا نفرت تھی نا ہی اجنبیت۔۔ سپاٹ چہرہ، سپاٹ لہجہ۔۔ اس کے سوال پر پریہان ساکن سی کھڑی رہ گئی۔۔
"جانتی ہو پریہان اس وقت مجھے تم سے نفرت نہیں ہو رہی نا غصہ آ رہا ہے۔۔ صرف ترس آ رہا ہے، وجہ بتاؤں۔۔؟" پریہان کو اس کے جملوں سے خوف محسوس ہوا، وہ کیا کہنے والی تھی۔۔ وہ اتنے سکون سے کیوں کھڑی تھی، اب ٹھیک بھی لگ رہی تھی۔۔
"منال میں۔۔" ایم سوری پریہان۔۔ " پریہان نے کچھ کہنا چاہا جب منال نے درمیان میں یہ جملہ کہہ کر اسے حیران ہونے پر مجبور کیا۔
"خانزادہ نے مجھ سے جان چھڑوانے کے لیے تم سے شادی کی، ایم سوری۔۔ حویلی والوں نے تمہیں قبول نہیں کیا۔۔ جانتی کو اس شادی کی شرط کیا رکھی گئی تھی۔۔؟"۔ منال بول رہی تھی، پریہان ساکت آنکھیں لیے اسے دیکھتی رہی، دل سکڑ رہا تھا۔۔
"اگر تم یہاں ایڈجسٹ نا کر پائیں تو حدیر تمہیں چھوڑ دے گا، وہ مان گیا۔۔ اور جانتی ہو مجھے کیوں صبر آیا۔۔؟"۔ پریہان اس بار بھی جواب میں کچھ نہیں بول پائی۔۔ یہ کیسی شرط رکھی گئی تھی۔۔
"حدیر نے حویلی والوں کی شرط مان لی، شاید اسے لگا ہو گا تم یہاں ایڈجسٹ کر جاؤ گی، ایسا کر سکتی ہو تم۔۔ ماحول میں ڈھل سکتی ہو۔۔
یا وہ جانتا نہیں حویلی والے ٹھان لیں تو انہیں وجہ بنانا بھی آتی ہے، یا پھر اس کے لیے یہ بات غیراہم ہے۔۔
میں تمہیں راستے سے ہٹانے کے لیے شاید دوستی بھلا کر دشمنی پر اتر آتی۔۔ شاید ہر حربہ آزما لیتی مگر حویلی والوں نے مجھے اس سب سے بچا لیا۔۔"
منال کے جملوں پر وہ ٹھٹکی۔۔
"یوسف خان صاحب نے میرے آغا جان سے کہا ہے کہ خانزادہ کی بیوی خاندانی لڑکی ہی بنے گی۔۔ اور یقین کرو پریہان مجھے جب بھی موقع دیا جائے گا میں حدیر سے شادی کروں گی، میں تمہاری شادی شدہ زندگی کا لحاظ نہیں کروں گی۔۔" منال سنجیدگی اور صاف گوئی سے بولی۔۔ پریہان کی آنکھیں بھر آئیں۔۔
"تم جانتی ہو میں جھوٹ نہیں بولتی، میں ٹیپیکل لڑکیوں کی طرح بھڑکانے والے کام نہیں کرتی۔۔۔
میں دشمنی کرتی تو سامنے آ کر کرتی، اب نہیں کرونگی کچھ۔۔ حدیر کو جھکانے اور اپنی بات منوانے کے لیے تم سے شادی کرنے دی گئی ہے ، جس روز وجہ بنا کر تمہیں یہاں سے نکالا جائے گا وہ اپنی ضد پر شرمندہ ہو کر ہر بات مانے گا، مجھ سے شادی بھی کرے گا۔۔"
پریہان کا رنگ فق ہو گیا تھا، منال کا چہرہ بتا رہا تھا وہ سچ بول رہی ہے، پرانا ساتھ تھا پریہان جانتی تھی وہ واقعی ڈھکا چھپا کام نہیں کرتی۔۔۔
"تم سے دوستی رہی ہے، اب نہیں مانتی دوست۔۔ میری جگہ لی ہے تم نے۔۔ دوستی کے صدقے اتنا کر سکتی تھی جو کیا ہے، سچ بتا دیا ہے تاکہ دل نا لگاؤ یہاں۔۔
عادت مت بنانا اپنی، ایسا نا ہو یہاں سے نکلو تو تم میں زندگی باقی نا رہے۔۔
نکالے جانے سے پہلے نکل جاؤ گی تو زیادہ آسانی ہو گی، اگر رک کر انتظار کرنا چاہو تب بھی تمہاری مرضی۔۔ عزت سے جاؤ یا رسوا ہو کر۔۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔"۔ منال نے بےرحم لہجے میں اس کی حقیقت جتائی تھی، پریہان کی زات جیسے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔۔ ہارے ہوئے جواری کی طرح ہاتھ پہلو میں گر گئے تھے۔۔ منال پلٹ کر جانے لگی۔
"اور اگر لگے میں نے یہ سب جھوٹ کہا ہے، بھٹکایا ہے، تمہارا رشتہ توڑنے کی کوشش کی ہے تو میرا یقین مت کرنا۔۔ بس اپنی آنکھیں کھول کر سب کے رویے دیکھ لینا۔۔ سمجھدار ہو پریہان سب نظر آ جائے گا۔۔"
دروازے پر رک کر منال نے آخری جملہ کہا اور ایک الوداعی نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گئی۔۔
نظر تو اسے سب آ رہا تھا، وہ تو اس بھول میں تھی کہ شاید وقت کے ساتھ سب اچھا ہو جائے گا۔۔
یہاں تو سب طے شدہ تھا، اس کی شادی، اس کی زلالت۔۔ مشکلات اور پھر یہاں سے بےدخل ہونا۔۔
سب طے تھا، سب اپنے وقت پر ہونے والا تھا اور وہ بےخبری میں امیدوں کے سہارے وقت برباد کر رہی تھی۔۔ بستر پر گرنے کے انداز سے بیٹھتی وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔
اس نے یہ شادی نہیں چاہی تھی پھر اسے کیوں یہاں گھسیٹا گیا تھا، وہ کیوں سب کے دل میں جگہ بنانے کی تگ و دو میں تھی۔۔
مہمان کب تک بیٹھے رہے، کب گئے، ملازماؤں نے جانے کتنی مرتبہ اسے باہر آنے کا، کھانا کھانے کا پیغام دیا۔۔
وہ ساکت آنکھیں لیے بستر پر پڑی رہ گئی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
مسز شائستہ ساکت سی بیٹھی تھیں، پریہان کا ایکس فیانسے ہادی ان کے گلہ کرنے اور ناراض ہونے پر وضاحت دینے آیا تھا اور مسٹر وقار کی ساری حقیقت بتانے کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی مانگ رہا تھا۔۔ وہ بذات خود ان کے پاس آیا تھا۔
اپنے شوہر کی حقیقت جان کر وہ بےجان سی ہو رہی تھیں، ہادی سے کیا گلہ کرتیں گھر کا فرد مجرم نکلا تھا۔۔ ہادی اٹھ کر جا چکا تھا۔۔
وہ اپنی جگہ پتھر ہو گئیں، پریہان اور پروا کو اپنی بیٹیوں کی طرح ہی سمجھتی تھیں وہ۔۔ اتنے سال پاس رکھ کر اب تو بھولنے لگی تھیں کہ وہ ان کی بہن کی بیٹیاں ہیں، اپنی ہی لگتی تھیں۔۔۔
انہیں غلط فہمی تھی کہ وقار صاحب بھی ایسی سوچ رکھتے ہیں، وہ چاہے جتنا خیال رکھتے تھے مگر اپنی اولاد نہیں سمجھا تھا شاید۔۔
"السلام علیکم آنی۔۔۔"۔ پروا کی آواز پر وہ گم صم سی اسے دیکھتی وال کلاک پر نظر لے گئیں۔۔
"پُروا۔۔ آج اتنی دیر سے کیوں آئی ہو۔۔۔"۔ گھڑی پر سوئی چار کے ہندسے پر دیکھ کر وہ چونکیں۔۔
"انکل کو کسی فرینڈ سے کام تھا، مجھے کالج سے ریسیو کر کے وہاں گئے، تھوڑی دیر وہاں ہو گئی۔۔"
پروا بیگ صوفہ پر پھینکتی وہیں ساتھ گر گئی۔۔
سفید یونیفارم میں ملائم گلابی سا چہرہ تھکاوٹ اور گرمی سے سرخی چھلکا رہا تھا، بال جو پچھلے دنوں شوق سے کٹوائے تھے، چھوٹی سی پونی میں مقید گردن کے گرد بکھرے ہوئے تھے، چھوٹا سا سٹالر گلے کے گرد لپٹا تھا، اس کا پرکشش نازک سا سراپا یونیفارم میں واضح ہو رہا تھا، مسز شائستہ بےساختہ گھبرا گئیں۔۔ وہ اتنے کھلے لاپروا حلیہ میں باہر نکلتی ہے تو کتنی غلیظ نظریں اس کا طواف کرتی ہونگی۔۔؟
"پروا اب بڑی ہو گئی ہو۔۔ کل سے بڑی چادر پہن کر جانا کالج۔۔ اور کس فرینڈ کے ہاں گئے جو اتنی دیر لگ گئی، انکل کہاں ہیں تمہارے۔۔؟
وہ ٹھنڈا پانی ڈال کر لائیں اور پروا کو پکڑاتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔۔ وہ سیدھی ہو کر گلاس تھامتی منہ سے لگا گئی۔
"آنی مجھ سے بڑی چادر نہیں سنبھلتی۔۔ پریہان اپیا کہتی ہیں، میں چھوٹی ہوں مجھے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔" پریہان کے پڑھائے سبق دوہراتی وہ منہ بسور کر بول رہی تھی، وہ پریشان ہوئیں۔۔
"اور انکل کے فرینڈ۔۔ اممم۔۔ وہ ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر نام سوچنے لگی پھر سر جھٹکا۔
"مجھے ان کا نیم نہیں پتا بٹ ہی از ناٹ گڈ مین۔۔
آپ کو پتا ہے وہ اتنا گھور رہے تھے مجھے۔۔"
پروا نے ناک چڑھا کر ناگواری کا اظہار کیا، شائستہ بیگم کے اوسان خطا ہونے لگے۔۔ گھبرا کر پروا کا معصوم چہرہ اور لاپرواہ حلیہ دیکھا۔۔
"میری بات سنو پروا۔۔ آج کے بعد تمہیں میں خود کالج لے جاؤں گی اور واپس بھی خود لاؤں گی، میرے علاوہ تم کسی کے ساتھ کہیں نہیں جاؤ گی چاہے وہ تمہارے انکل بھی کیوں نا ہوں۔۔
اور اب تم بچی نہیں ہو، کل سے چادر اوڑھ کر جاؤ گی باہر۔۔ "آنی پلیز۔۔"۔ پروا نے احتجاج کرنا چاہا۔۔
"نو مور ارگیومنٹ۔۔ جاؤ فریش ہو کر آؤ، میں نے تمہارے لیے آج کیک بنایا ہے تمہیں پسند ہے ناں۔۔"
اسے ٹوک کر پیار سے کہا، پروا میٹھے کی بہت شوقین تھی اب بھی آنکھوں میں چمک لیے تابعداری سے سر ہلاتی اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔۔
مسز شائستہ پریشانی سے سوچ میں مبتلا کچن میں گئیں، انہوں نے سوچ لیا پروا کو نظر کے سامنے رکھیں گی اور وقار صاحب پر نظر رکھیں گی۔۔
اب یہی ایک راستہ بچا تھا کسی بھی مشکل سے بچنے کا۔۔۔ اس سے پہلے کہ کچھ برا ہو مگر وہ نہیں جانتی تھیں وہ کافی لیٹ ہو چکی ہیں۔۔۔
احتیاط کرنے میں۔۔ خبردار ہونے میں۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
آئرہ نے آئسکریم پالر کے سامنے گاڑی رکوائی اور اتر کر گلاس وال سے اندر دیکھا، اس کی توقع کے عین مطابق عیسٰی خان آئسکریم کا بڑا سا کپ سامنے رکھے بیٹھا تھا، ایک ہاتھ سے چمچ بھر بھر کر منہ میں ڈال رہا تھا جبکہ نظریں دوسرے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سکرین پر جمی ہوئی تھیں ۔۔
وہ مسکرا کر اندر کی طرف بڑھی اور خاموشی سے اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی، وہ دنیا سے غافل انسان مزے سے بیٹھا تھا، بال جیل سے بنائے ہوئے تھے، بلو ٹی شرٹ میں اس کی شفاف رنگت توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔۔ آئرہ نے گلا کھنکار کر اسے متوجہ کیا تو چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
"تم یہاں کیسے۔۔؟"۔ موبائل بند کر کے ٹیبل پر رکھتا وہ ابرو چڑھا کر بولا۔ وہ کندھے اچکا گئی۔۔
"میں بھی آئسکریم کھانے آئی تھی، کوئی پرابلم تو نہیں ناں میرے یہاں بیٹھنے سے۔۔"۔ اس کی بات پر عیسٰی نے ایک جتاتی نظر اس پر ڈالی جیسے سب سمجھتا ہو اور مسکرا کر سر جھٹکا۔
وہ اپنی آئسکریم لے کر اسی کے سامنے بیٹھی کھانے لگی۔۔ وہ اپنا کپ ختم کر چکا تھا اور اب یقیناً اٹھ کر چلا جاتا۔۔
"آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہا کہ آپ کی منگنی ہو گئی ہے۔۔۔؟" آئرہ اپنے مطلب کی بات پر آئی۔۔
"اور تمہیں یہ سچ کس نے بتایا کہ میری منگنی نہیں ہوئی۔" وہ سوال پر سوال کرتا اسے گڑبڑانے پر مجبور کر گیا۔
"ظاہر ہے آپ کے فرینڈز نے۔۔ کیا نہیں بتانا چاہئیے تھا۔۔؟"۔ وہ سنجیدگی سے سوال کرنے لگی۔۔
"ایک بات بتاؤ میرے فرینڈز سے اتنی فرینڈشپ کب ہوئی کہ وہ ہر بات بتانے لگے ہیں۔۔؟"۔ وہ اب بھی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر گیا۔ آئرہ کو چپ ہونا پڑا۔
"کیا تم مجھے واقعی پسند کرتی ہو آئرہ۔۔؟" خاموشی سے کپ میں آئسکریم سے کھیلتی آئرہ نے اس کے سوال پر جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔
𝓘`𝓂 𝒶𝓈𝓀𝒾𝓃𝑔 𝒾𝒻 𝓎𝑜𝓊 𝓁𝑜𝓋𝑒 𝓂𝑒 𝒶𝒾𝓇𝒶 𝓏𝒶𝓂𝒶𝓃 𝓈𝒽𝒶𝒽..?
اس نے سوال دوہرایا تو وہ سیدھی ہوتی تیزی سے سر اثبات میں ہلا گئی۔۔
"پھر مجھے پسند آنے کے لیے ضروری ہے میری پسند میں ڈھل جاؤ۔۔۔ میرے فرینڈز کے ساتھ کلوز ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میری جاسوسی بھی مت کیا کرو۔۔"
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا، آئرہ نے قیمتی اور ضروری بات کی طرح اسے سنا اور یاد کر لیا۔
"ٹھیک ہے۔۔ میں آئندہ آپ کے فرینڈز سے کانٹیکٹ نہیں کروں گی۔۔" وہ اس کے یوں فوری مان جانے پر مسکرایا اور موبائل اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"پھر ملتے ہیں۔۔ انجوائے کرو۔۔۔ اللّٰہ حافظ۔۔"
ہاتھ ہلا کر وہ باہر نکل گیا۔ آئرہ کی آنکھیں جگمگانے لگیں۔ وہ اپنے دل تک آنے کا راستہ دکھا کر بتا چکا تھا کہ امید اب بھی باقی ہے۔۔ محبت ہوئی نہیں ہے مگر ہو بھی سکتی ہے۔۔
"مہمانوں سے ملنے باہر کیوں نہیں آئیں؟ جانتی ہو ناں تم سے ہی ملنے آئے تھے وہ لوگ۔۔۔"۔
خانی بیگم نے سرد لہجے میں سوال کیا۔
منال اور اس کی مدر کے جاتے ہی اسے بلوا کر اب وہ کلاس لے رہی تھیں، پریہان سر جھکائے چپ کھڑی تھی۔۔ آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ خانی بیگم کو اس کا رویہ اور حلیہ ٹھٹکا رہا تھا۔۔
"تہذیب نہیں سیکھی کہ گھر آئے مہمان سے ملتے بھی ہیں؟ تم جانتی ہو منال کی جگہ لی ہے تم نے تو کیا ان لوگوں کو یہ دکھانا ضروری تھا کہ تم اس جگہ کے قابل بھی نہیں تھیں۔۔" اس کے مسلسل خاموش رہنے پر انہیں اس کی ڈھٹائی پر غصہ آ رہا تھا۔
مسز ہاشم نے جاتے ہوئے کافی کھلے الفاظ میں جتا دیا تھا کہ منال ہاشم کی جگہ آئی ہوئی لڑکی اگر اتنی سی تمیز سے بھی ناواقف ہے کہ اسی کے لیے آئے مہمانوں سے سلام تک نا کرنے آئے تو خان حویلی کا سمجھ لیا جائے ان کی روایات اور تہذیب میں دراڑ پڑ چکی ہے۔۔ یہ خانی بیگم کے لیے طمانچہ تھا کہ ان کے بار بار بھیجے جانے والے پیغامات کے باوجود بھی
باہر نہیں آئی تھی۔۔
"ایم سوری۔۔۔ میری طبیعت تھوڑی خراب ہو رہی تھی۔۔؟۔" ان کے کرخت جملوں اور اونچی آواز پر وہ سراسیمہ سی وضاحت دینے لگی۔
"مسز ہاشم بتا رہی تھیں تم خانزادہ کو پہلے سے جانتی ہو اور ایک دو بار اس کے آفس بھی جا چکی ہو۔۔ کیا یہ سچ ہے۔۔؟"۔ اس بار لہجہ کچھ زیادہ سرد تھا اور انداز سخت ترین۔۔۔ پریہان خوفزدہ ہوئی۔۔
"ج۔۔جی مگر میں۔۔ "بس مزید ایک لفظ نہیں۔۔"
خانی بیگم کی دھاڑ نے پریہان کی بولتی بند کروا دی۔
حویلی کی عورتیں اور ملازمین وہاں پہنچ کر یہ سب تماشہ حیرت سے دیکھ رہے تھے۔۔
کچن کے باہر کھڑی گل جان بیگم کی آنکھیں بھیگنے لگیں، وہ جانتی تھیں سب کے درمیان عدالت سجنے اور اس عدالت میں مجرم کی طرح سر جھکا کر کھڑنے کی زلت۔۔۔ وہ خوب جانتی تھیں۔
"ایک لفظ نہیں سننا۔۔ سب سمجھ گئی میں۔۔ تم نے اور تمہارے گھر والوں نے خوب کھیل کھیلا ہے۔۔ ایک نرم دل رئیس زادہ پھنسانے کا اچھا طریقہ تھا۔۔۔
پہلے پیسے مانگنے اس کے آفس تک گئیں اور جب کم پڑے تو باقاعدہ گھر آ گئیں۔۔ بہت خوب۔۔"
خانی بیگم کے جملوں نے پریہان کا وجود جیسے کسی ٹرین کے نیچے دھکیل دیا تھا۔۔۔ وہ سکتہ زدہ سی ان کی صورت دیکھنے لگی، منال نے پورے زمانے کو ہی وہ ڈئیر، حقیقت بنا کر بتا دیا۔۔
"ایسا نہیں ہے خانی بیگم۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔۔ میں ان کے آفس ضرور گئی تھی مگر میں نے آج تک ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔۔"۔ وہ تزلیل کے احساس سے بری طرح کپکپاتی رندھی آواز میں صفائی پیش کر رہی تھی۔۔ سب کی نظریں حیرت سے اس پر گڑھی تھیں۔
وہ معصوم صورت لڑکی لالچی تھی؟ حیرت سب کی آنکھوں میں امڈ آئی تھی مگر اس کی صفائی پر کسی کو یقین نہیں آیا تھا۔۔
"تم کہو گی اور ہم مان لیں گے۔۔۔؟ خانزادہ کو بےوقوف بنا سکتی ہو وہ ہمیشہ سے ہی ہمدرد دل رکھتا ہے۔۔
مگر میں زمانے کی چالاکیوں سے بخوبی واقف ہوں۔۔"
خانی بیگم کے ترش جملوں پر وہ انہیں دیکھنے لگی۔
"وہ ہمدرد دل رکھنے والا انسان مجھے ضرورت کے تحت یہاں لایا ہے۔۔ صرف اپنی ضرورت کے لیے۔۔"
پریہان کا ضبط جواب دے رہا تھا، الفاظ میں بےبسی تھی، لہجہ دھیما تھا مگر سچائی کہنے کی بےضرر کوشش کی۔ اس طرح مجرم بننا آسان نہیں تھا۔
"تمہاری اتنی جرات۔۔"۔ خانی بیگم کی دھاڑ کے ساتھ بھاری ہاتھ اٹھا اور پریہان کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوئی، جبڑا جیسے جگہ سے ہل چکا تھا۔۔ کان سُن پڑ گیا۔۔
وہ بےیقین سی اپنی جگہ جم گئی۔ یہ اس کی زندگی کا بالکل پہلا تھپڑ تھا جو پوری شدت اور زلت سے اس کے چہرے پر پڑا تھا وہ بھی اتنے لوگوں کے درمیان۔۔
"اتنی ہمت کہ خانزادہ پر الزام لگاؤ۔۔ جانتی ہو آغا جان نے سنا تو زندہ گاڑھ دیں گے یہیں۔۔"
وہ دھاڑ رہی تھیں، افسوس ہوا تھا سب کو مگر کوئی آگے نہیں بڑھا اور پریہان جیسے کھڑے کھڑے دفن ہو چکی تھی۔
"مورے۔۔۔" خانزادہ کی بےیقینی سے بھری دھاڑ پر ان کا پھر سے پریہان پر اٹھا ہاتھ اس بار فضا میں ہی رک گیا تھا۔۔
وہ آغا جان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا، ناراض تھا مگر بلوانے پر چلا بھی آیا تھا۔۔
"خان تمہاری دادی کے گزر جانے کے بعد میں نے خانی کو یہاں بہو بن کر آتے ہی پوری حویلی کی زمہ داری سونپ دی تھی۔ جو اس نے اتنے بہتریں طریقے سے سنبھالی کہ پورے علاقے میں ہماری حویلی کا نظام سب سے مشہور ہے۔۔۔ یہاں کا رہن سہن۔۔ اطوار اور تہذیب۔۔ ایک بھی فرد یا چیز یہاں سے وہاں نہیں ہونے دی۔۔ اس نے یہاں حکومت کی ہے کسی کی آج تک جرات نہیں ہوئی اس کی بات سے انکار کرے۔۔
تمہاری بیوی کو مہمانوں کے سامنے بلوایا تو عزت دی ناں۔۔ اس قابل سمجھا کہ اپنی بہو کے طور پر ہاشم خان کی فیملی کو ملواتی۔۔ مگر وہ نہیں آئی۔۔
بار بار بلوانے پر بھی نہیں آئی، طبیعت بھی خراب تھی تو آ جاتی مل کر چلی جاتی۔۔ ایسی بدتہذیبی آج تک یہاں کسی بیٹی بہو نے نہیں دکھائی۔۔"
وہ آہستگی سے بولتے ضبط کر رہے تھے ورنہ یہ بات انہیں بھی کافی گراں گزری تھی۔ خانزادہ نے گہرا سانس بھرا مگر کچھ بولا نہیں۔۔
"اگر وہ ایسا رویہ رکھے گی تو ہم کبھی قبول نہیں کریں گے۔۔ اسے کبھی یہاں کی بہو والا احترام نہیں ملے گا۔۔۔ ملازماؤں نے خانی کی ڈانٹ سے پہلے اس کی بغاوت بھی ملاحظہ کر لی ہے۔۔ خوب عزت کروا رہی ہے وہ تمہاری بھی اور ہماری بھی۔۔"
آغا جان نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔
"آئندہ نہیں کرے گی ایسا۔۔ سمجھا دیا ہے اور آئندہ بہروز خان کے گھر والوں سے اسے ملوانے کی ضرورت بھی نہیں۔۔ میں منع کر چکا ہوں اسے۔۔"
وہ اس کی طرف سے صفائی دیتا آدھا الزام خود پر لے گیا۔ آغا جان نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔
"ٹھیک ہے، اپنی مورے سے ناراضگی ختم کرو، کل سے کمرے میں بند ہے اسے خوف ہے تم حویلی چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔۔" آغا جان کی بات پر وہ بےچین ہوا۔
"ایسے کیسے حویلی چھوڑ دوں گا۔۔ وہ بیوی ہے میری، ہمارے رشتہ کو ایک ماہ ہو گیا ہے اسے نہیں چھوڑ سکتا تو پھر اس حویلی اور اس کے مکین تو ستائیس سال سے ساتھ ہیں، ہر رشتے کی اپنی ضرورت ہے، میں نا اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا ہوں نا حویلی والوں کو۔۔"
وہ نرمی سے بولتا ان کے سب خوف زائل کر گیا۔ ان کی گردن فخر سے تن گئی۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔
"وارث کی خوشی کب دے رہے ہو۔۔؟۔ تمہاری خاطر اتنا کر سکتے ہیں کہ ہمارے وارث کی ماں کو اس حویلی میں احترام دیا جائے۔۔ اسے یہاں مقام دلوانا ہے تو ہمیں وارث دو۔۔ پورا مہینہ ہو گیا ہے شادی کو۔۔
منہ سے کہنا پڑا، تم بچے تو نہیں کہ ہم سب کی خواہش نا سمجھ سکو۔۔"۔ آغا جان کی بات پر وہ انہیں دیکھتا نظریں چرا گیا۔ یہاں ہر آئے دن نئی مصیبت پر پریہان لڑنے مارنے پر تل آتی تھی اور انہیں وارث کی پڑی تھی۔ وہ آہ بھر کر رہ گیا۔
"ہمیں یہ خوشخبری اگر تم سے بھی نا ملی تو ہم داور اور یاور کی طرح تمہیں ایسے بےنام نہیں گھومنے دیں گے۔ دس شادیاں کروانی پڑیں، کروائیں گے۔۔"
ان کی بات پر وہ ماتھے پر بل ڈالے انہیں گھورنے لگا۔
"بلیک میل کر ریے ہیں مجھے؟؟ دھمکا رہے ہیں؟"
خانزادہ کے بپھرے ہوئے لہجے پر وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے سکون سے اسے دیکھنے لگے۔
"دھمکی سمجھنا چاہو تو وہی سمجھ لو۔۔ زیادہ وقت نہیں تمہارے پاس۔۔" اس بار وہ بھی مدھم نہیں پڑے۔۔ اسی رعب سے بول رہے تھے۔ وہ اٹھ کر کپڑے جھاڑ کر تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا۔ خان یوسف پیچھے سے قہقہہ لگا اٹھے۔ خانزادہ کو ہاتھ میں کرنے کا یہی حل تھا۔
پچھلے ایک سال سے حویلی کے وارث کی چاہ میں وہ خانزادہ کو شادی کرنے پر زور دے رہے تھے، جب وہ شادی کر چکا تھا تو خاموش گھوم رہا تھا۔۔
مگر خان یوسف کا صبر اب جواب دینے لگا تھا۔۔
خانزادہ سر جھٹکتا خانی بیگم کے کمرے میں گیا تو وہ اندھیرا کیے خاموش سی پڑی تھیں۔
"مورے۔۔ آپ ٹھیک ہیں ۔؟"۔ اس نے قریب جا کر نرمی سے مخاطب کیا تو وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھیں۔
"خانزادہ، میرا بیٹا۔۔ مورے قربان۔۔" ان کے تڑپتے الفاظ اور نم لہجے نے ہی ظاہر کر دیا کہ وہ خانزادہ کے غصہ سے کتنی پریشان ہو گئی تھیں۔ انہیں سینے سے لگاتا وہ پیشانی چوم گیا۔
"مورے کل کے لیے معاف کر دیں۔۔ آپ کا خانزادہ بیوی کے معاملے میں تھوڑا زیادہ جذباتی ہے۔۔۔ اس کے چہرے پر پڑا تھپڑ مجھے اپنے اوپر محسوس ہوا تھا تبھی تکلیف سے سمجھ نہیں پایا کسے کیا کہا ہے۔۔۔"
ان سے معافی مانگتے ہوئے وہ اپنی کیفیت بھی بیان کر گیا۔ وہ خاموشی سے اس سینے سے لگائے بیٹھی رہیں۔
"میں آپ سب کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا مورے۔۔ میں ان بزدل بیٹوں میں سے نہیں ہوں جو بیوی کی محبت میں ماں کی ساری عمر کی محبت بھلا دے۔۔"
وہ ان کا خوف دور کرنا چاہ رہا تھا تاکہ وہ پہلے جیسی ہو جائیں۔ رعب دار اور طرحدار۔۔
خانی بیگم خوف سے آزاد ہوتیں مسکرا دیں۔۔
"اپنی بیوی سے کہہ دینا میرے سامنے نا آیا کرے۔۔ اپنی مرضی سے رہے اب میں اسے کچھ نہیں کہوں گی۔۔
شہر کی لڑکی ہے شاید ہمارے طور طریقوں میں فرق ہے اور وہ فرق اسے سیکھنا بھی نہیں ہے۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولتیں پریہان سے دستبرداری اختیار کر رہی تھیں۔ وہ چپ سا ہو گیا۔ وہ ایسا کبھی نہیں چاہتا تھا پریہان حویلی میں سب سے الگ اور اکیلی رہے مگر فی الحال یہی مناسب حل تھا۔
اس نے خاموشی اختیار کر لی مگر پریہان کے ساتھ جانے کتنے روز حویلی والے ایک نا نظر آنے والے فرد کی طرح پیش آنے لگے تھے۔۔ وہ گل جان بیگم سے بات کرتی یا پھر کمرے میں بند اکیلی پڑی چڑچڑی ہونے لگی تھی۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
"عیسٰی یار کیا مسئلہ ہے، تم یہاں آئے کیوں ہو۔۔ تمہارے حدیر لالا صاحب آج لیٹ ہو گئے ہیں ان کا ویٹ کرو، ان کے روم میں بیٹھ کر۔۔" موسٰی عادت کے عین مطابق بھڑک کر بول رہا تھا۔ وہ آفس میں بیٹھا تھا جب عیسٰی اس کے پاس وہیں پہنچا تھا اور کب سے مسلسل سر کھا رہا تھا۔۔
"لالا کہا ناں کام ہے ضروری۔۔ رسی جل گئی بل نا گیا۔۔"
وہ ناک چڑھا کر بولتا موسٰی کا دماغ خراب کر گیا۔
"شٹ اپ۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔ ایک گھنٹے کا کام لے کر بیٹھا تھا تمہاری مہربانی سے دو گھنٹوں میں بھی نہیں کر پایا۔۔"۔ وہ دانت کچکچا کر بولتا لیپ ٹاپ پٹاخ کی آواز سے بند کر گیا۔ عیسٰی یوں بیٹھا رہا جیسے وہ دیوار سے بات کر رہا ہو۔
"مجھے لگتا ہے حدیر لالا نے واقعی لالچی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔۔ منال ہاشم ملی تھی مجھے کل مال میں۔۔ اس نے جو مجھے بتایا۔۔۔ مطلب ڈئیر کے بہانے انہوں نے جان بوجھ کر حدیر لالا کا نمبر لیا، باتیں کیں، ان کے آفس گئیں۔۔ اور ایک بات جو شاید لالا نے ابھی کسی کو نہیں بتائی۔۔"
عیسٰی سنجیدہ ہو کر بولتا موسٰی کو چونکا گیا۔
"کیا بات؟ عیسٰی تم اس معاملے سے دور رہو بس۔۔"
موسٰی نے اسے سختی سے باز رکھنا چاہا۔
"وہ یہ کہ ان کی شادی سے کچھ دن پہلے بھی وہ لالا کے آفس گئیں۔۔ پھر وہ آئسکریم پالر میں ملیں۔۔
𝒲𝒽𝒶𝓉 𝒾𝒻 𝒾𝓉 𝓌𝒶𝓈 𝓅𝓁𝒶𝓃𝓃𝑒𝒹 𝑔𝒶𝓂𝑒, 𝒻𝒾𝓇𝓈𝓉 𝑜𝒻𝒻𝒾𝒸𝑒 𝓉𝒽𝑒𝓃 𝓅𝒶𝓇𝓁𝑒𝓇 𝓃𝒹 𝓉𝒽𝑒𝓃 𝒽𝑜𝓈𝓅𝒾𝓉𝒶𝓁.."
اس نے پرسوچ لہجے میں کہا تو موسٰی نے آہ بھری۔
"اسے بچہ مت سمجھو جو پاگل بن رہا ہے۔۔ تمہیں کیا پتا اس منال ہاشم کی لگائی آگ کی وجہ سے کچھ دن پہلے خانی مورے نے اس بچاری لڑکی کو سب کے درمیان تھپڑ مارا، انسلٹ کی۔۔
اور جانتے ہو حدیر نے کیا ری ایکشن دیا۔۔ شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا وہ۔۔ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، مورے سے بھی لڑا آغا جان تک کو سنا دی تھیں۔۔"
موسٰی کے بتانے پر عیسٰی کی انکھیں پھیل گئیں۔ "مطلب یہاں بولنا منع ہے۔" وہ جھرجھری لے کر سیدھا ہوتا توبہ کرنے لگا۔۔ سارے شک بھاپ بن کر اڑ گئے۔
"سوری فار لیٹ موسٰی۔۔ کیا سب ٹھیک ہے۔۔؟"
اسی وقت خانزادہ نے دروازہ کھول کر کہتے ہوئے عیسٰی کو بھی وہیں دیکھا تو سوال کیا۔
"آپ کا ویٹ کر رہا ہوں کب سے۔۔ بات کرنی ہے۔۔"
عیسٰی نے پلٹ کر خفگی سے کہا تو وہ قدم بڑھاتا اندر آیا اور اس کے سامنے والی چئیر پر بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
"آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔ سب ٹھیک ہے ناں؟"
عیسٰی نے بغور اس کی آنکھوں میں سرخی دیکھی۔
"سب کہاں ٹھیک ہے۔۔ حویلی کے معاملات نے گھما کر رکھ دیا ہے، پریہان اور مورے کے درمیان سب الجھ گیا ہے، پریہان کو ابھی اس کی آنی کے گھر چھوڑ کر آ رہا ہوں شاید کچھ سنبھل جائے کافی دن سے اپ سیٹ اور چپ چپ سی رہنے لگی ہے۔۔۔
اوپر سے ہماری فصلوں کو کسی نے آگ لگانے کی کوشش کی ہے، ادب خان نے سب سنبھال لیا جس کی وجہ سے نقصان زیادہ نہیں ہوا مگر کون ہو سکتا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔۔ خیر یہ سب تو دیکھ لوں گا۔۔ معمول کا کام ہے، تم بتاؤ کیا کہنا ہے۔۔"
وہ پیشانی مسلتے ہوئے ان دونوں کے سامنے کھل کر بول رہا تھا۔ موسٰی بھی فکرمند ہوا۔
"یار تم حویلی والوں کو کچھ وقت کے لیے ان کے حال پر چھوڑ دو۔۔ بھابھی اور مورے خود ہی کچھ دن تک نارمل ہو جائیں گی۔۔ ادب خان کچھ پتا کر کے بتائے تو دیکھتے ہیں جو بھی کر رہا ہے ہم جوابی کاروائی کریں گے تب ہی اوقات میں آئیں گے سب۔۔۔"
موسٰی نے جبڑے بھینچ کر اپنے مزاج کے عین مطابق مشورہ دیا تو وہ خاموشی سے سر ہلا کر عیسٰی کو دیکھنے لگا۔
"یار آئی نو آپ لوگ پریشان ہیں اور مجھے یہ بات بعد میں کرنی چاہیے مگر مزید لیٹ کیا تو بات زیادہ گربڑ ہو جائے گی۔۔"۔ عیسٰی نے گہرا سانس بھر کر کہا۔
"پلوشے نے کال کی تھی مجھے۔۔۔ وہ موسٰی لالا سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔" عیسٰی کی بات پر جہاں موسٰی نے دانت کچکچا کر اسے گھورا جو بیٹھے بیٹھے وہ بات لے آیا تھا، حدیر کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اسکی بہن کو یہ بات اس سے کرنی چاہیے تھی اور وہ کسی اور سے سن رہا تھا۔
"شی واز اپ سیٹ۔۔ وہ آپ کے ماموں زاد صالح کو پسند کرتی ہے، دیکھیے حدیر لالا وہ آپ سے بات کرنا چاہتی تھی مگر خانی مورے نے سختی سے منع کیا۔
آغا جان ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے مگر یہ زبردستی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔۔ میں آپ سے ابھی بات نا کرتا مگر وہ دو تین مرتبہ کال کر چکی ہے کیونکہ آغا جان اب باقاعدہ شادی کا سوچ رہے ہیں۔۔
وہ میری بھی بہن ہے اور مجھے اس کی پسندیدگی سے کوئی اعتراض محسوس نہیں ہوا۔۔"
عیسٰی نے حدیر کے بگڑتے تاثرات پر وضاحت دی۔
"یار اونیسٹلی صالح خان زیادہ بہتر چوائس ہے۔۔ میں میریڈ ہوں اور کافی بڑا ہوں اس سے۔۔ میرا تجربہ بھی اچھا نہیں رہا تو۔۔۔"۔ موسٰی نے بھی آہستگی سے اپنا خیال ظاہر کیا تو وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا۔
"دونوں کے مشورے کا شکریہ۔۔ اب اپنے کام سے کام رکھنا۔۔"۔ وہ سختی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔
دونوں بھائی گہرا سانس بھر کر ریلیکس ہوئے۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
"آنی بدل گئی ہیں، ہر وقت نظر رکھتی ہیں، اپنی طبیعت ٹھیک نا ہو تو مجھے بھی کالج نہیں جانے دیتیں۔۔ آئی تھنک وہ مجھ پر شک کرنے لگی ہیں،
ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔۔ ان کو ہر وقت بی پی پرابلم رہنے لگی ہے۔۔"
پُروا اس کے سینے سے لگی رو پڑی تھی۔ دل کا سارا غبار وہ ایک ساتھ نکال دینا چاہتی تھی شاید۔۔
پریہان کے ہاتھ پیر پھول گئے، وہ تو آنی سے بات کرنے آئی تھی، حویلی چھوڑنے کی، اس رشتہ سے جان چھڑوانے کی مگر یہاں کے حالات تو شاید وہاں سے بھی زیادہ خراب چل رہے تھے۔۔
"آنی آپ ٹھیک تو ہیں ناں۔۔؟ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں۔۔"۔ وہ آنی کے پاس بیٹھتی فکرمندی سے پوچھنے لگی۔ وہ پھیکا سا مسکرائیں مگر پریہان کو ان کی صحت گری گری سی محسوس ہو رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں میری جان۔۔ بس مجھے تم لوگوں کی فکر رہتی ہے۔۔ تم اپنے گھر میں خوش ہو ناں۔۔"
ان کے سوال پر وہ بد دلی سے سر ہلا گئی۔ اپنی وہ سب زلالت اور وہ تھپڑ تک چھپانا پڑا۔۔
"شکر ہے، بس میرے لیے اتنا بہت ہے، اب پری کی زمہ داری رہ گئی ہے، میں چاہتی ہوں کسی اچھی جگہ انگیجڈ کر دوں اسے۔۔۔" آنی کی بات پر پُروا کے ہوش اڑ گئے۔ پریہان بھی گھبرا گئی۔
"آنی پروا کو ابھی رہنے دیں۔۔ اس کی کیا ایج ہے کہ آپ کو اس کے رشتوں کی فکر ہونے لگی۔۔۔"
پریہان نے ہمیشہ والی بات دوہرائی۔ اس کی نظر میں آج بھی پروا وہی ایٹتھ لیول کی بچی تھی۔
"پریہان اب یہ بچی نہیں ہے۔۔ کالج گوئنگ ہے اور میں بس رشتہ کرنے کی بات کر رہی ہوں۔۔ اچھے لوگ ڈھونڈنے میں بھی وقت لگے گا۔۔ اور ابھی صرف انگیج کروں گی۔۔ کل کو میں مر بھی گئی تو پروا کو اچھے لوگوں کو سونپ جاؤں۔۔۔" آنی کی بات پر پروا روتے ہوئے ان کے سینے سے لگ گئی۔ آنی کی حالت اور باتیں اسے آج کل سہمائے رکھتی تھیں۔۔
"آنی پلیز ایسی باتیں مت کریں۔۔ مما کے بعد ہمارے پاس اب آپ ہی ہیں، اللّٰہ نا کرے آپ کو کچھ ہو۔۔۔
اور اچھے لوگوں کا کیا، میرے لیے بھی تو مما اچھے لوگ چن کر گئی تھیں اور دیکھیں کیا ہوا، بات طے تھی کہ سٹڈیز کے بعد شادی ہو گی پھر بھی ان کے بیٹے نے شادی کا شوشہ چھوڑا اور مجھے آخری دنوں میں زلیل کروانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔
بےشک میری شادی ہو گئی مگر یہ بات ساری زندگی ایک حقیقت رہے گی کہ میں ان کی پسند کردہ بہو نہیں تھی۔۔ میں بس اچانک سے تھوپی گئی لڑکی ہوں، جسے ان کے بیٹے نے جانے کیا سوچ کر چن لیا۔۔"
وہ بات کرتے کرتے آخر میں رو پڑی۔۔ ان چاہا ہونے کا احساس آج کل کچھ زیادہ کچوکے لگا رہا تھا۔ ایسے رشتہ میں بندھ گئی تھی جسے نا توڑ پا رہی تھی نا نبھا پا رہی تھی۔۔۔
حویلی اسے ایک عالیشان زندان کی طرح لگتی تھی۔
تھک رہی تھی وہ اور یہ بات نا وہ خانزادہ کو کہہ پائی نا اب آنی کے سامنے کھول پا رہی تھی۔۔
"پریہان میری گڑیا۔۔ ایسا کیوں بول رہی ہو۔۔ کیا وہاں سب ٹھیک نہیں ہے؟ ان لوگوں نے کچھ کہا ہے تم سے۔۔
بڑے لوگ ہیں وہ، تھوڑا وقت لگے گا ان سے گھلنے ملنے میں۔۔ بس کچھ عرصہ صبر سے گزار لینا میری جان۔۔ تمہاری چپ اور فرمانبرداری ان سب کا دل جیت لے گی۔۔ حدیر تو اچھا ہے ناں۔۔؟"
آنی کی گھبراہٹ اور فکرمندی پر وہ بےچارگی سے تھک کر سسکنے لگی۔ چپ رہنا اور ہر بات پر سر جھکا لینا۔۔ ہر برا رویہ سر جھکا کر سہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شاید کوئی تحمل مزاج لڑکیاں ایسا کر جاتی ہوں مگر اس سٹیج تک پہنچنے کے کیے بھی جانے کتنا کچھ سہنا پڑتا ہے، اپنا آپ مارنا پڑتا ہے، خود کو بھول جانا پڑتا ہے اور وہ اتنی صبر والی نہیں تھی۔۔۔
"پریہان میرا دل مت دہلاؤ۔۔ کچھ ہوا ہے تو بتا دو میں حدیر سے بات کر لوں گی۔۔ اپنی آنی کو بتاؤ تو سہی ناں۔۔"۔ آنی کی کپکپاتی آواز پر وہ ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ پروا پریشان سی اسے تک رہی تھی۔
وہ پہلے آنی کے رویہ کو لے کر گھبرائی ہوئی تھی اوپر سے آج پریہان کا اس طرح رونا ڈرا رہا تھا۔۔۔
"ٹھیک ہوں بس۔۔ آپ دونوں کی یاد آتی ہے، اتنا دور بھیج دیا مجھے۔۔ حویلی والے سب ویسے ہی ہیں جیسے ولیمہ پر تھے، نا بہت زیادہ محبت لٹانے والے اور نا ہی نفرت کرنے والے۔۔ اب تو تھوڑی بہت دوستی ہو گئی ہے سب سے۔۔ گل جان مورے تو بالکل آپ کی طرح میرا خیال رکھتی ہیں۔۔" وہ نم آواز میں آنسو صاف کر کے جھوٹ سچ کی ملاوٹ کرتی دونوں کو بتا رہی تھی۔۔ بیٹیاں چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر رو دینے کی عادت رکھتی ہوں تب بھی جب سسرال میں بیاہ جائیں تو شاید ایسے ہی اپنا بھرم رکھ کر بڑے سے بڑا دکھ اندر اتار جاتی ہیں۔۔ پریہان کو آج سمجھ آیا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔ سچ بتانے سے بھی بس نصیحت ملتی ہے یا صبر کی تلقین۔۔ ان چاہے رشتوں سے چھٹکارا کبھی نہیں ملا کرتا کہ رو کر سب کہہ دیں۔۔
وہ بھی سب تکلیف اندر اتار کر آنی اور پروا کو بہلانے کی کوشش کرتی رہی، انہیں دلاسہ دیتی رہی۔۔
رات کے کھانے کے بعد باتوں باتوں میں پروا نے انکل کے اس برے فرینڈ کا زکر کیا تو وہ بری طرح سہم گئی۔۔
آنی کی پریشانی کا جیسے سرا مل گیا تھا، ان کی سختیوں کا ایک ساتھ جواب مل گیا تھا۔۔ پروا کو آنی کے ساتھ ساتھ رہنے کی سختی سے تاکید کرتی وہ اندر سے خود بھی ڈر گئی تھی۔۔
وہ جو سوچ کر آئی تھی آنی سے بات کر کے حویلی واپس نہیں لوٹے گی، اب آنی سے بات کیے بنا اپنے فیصلہ پر ڈٹ گئی۔۔ پروا کو اب وہ کسی حال میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
پروا اور اپنے مشترکہ کمرے میں وہ الماری کھولے اپنے پرانے ڈریسز کا جائزہ لے رہی تھی۔
ویسے تو حویلی سے ہی اس بار وہ جہیز کا ایک جوڑا پہن کر آئی تھی مگر اب وہ بھی بوجھ لگ رہا تھا۔
ایک ہلکا سا پیچ کلر کرتا اور کیپری لے کر شاور لینے چلی گئی۔ چینج کر کے آئی تو یکدم ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا۔ موسم کافی بدل گیا تھا فین آف ہونے کے باوجود شاور لینے پر یکدم کپکپاہٹ کا احساس ہوا تھا۔ بال شادی کے بعد اس ڈیڑھ ماہ میں ہی کمر تک آ رہے تھے۔۔
"مجھے سب سے پہلے ان بالوں سے جان چھڑوانی چاہیے۔۔" برش کرتے ہوئے اس نے بالوں کو غور سے دیکھ کر ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔۔ نم بالوں کو ایسے ہی کھلا رہنے دیا۔ پروا دودھ کا گلاس لیے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ چکی تھی۔۔ وہ بھی پیروں میں پڑا بلینکٹ کھینچ کر خود پر ڈالتی اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔
"یار میرے ٹوئٹی کا دل نہیں اکتاتا یہ ہر وقت دودھ پی پی کر۔۔ اتنا بڑا گلاس۔۔" وہ اس کے ہاتھ میں بڑے سائز کا مگ دیکھ کر ہنسی دباتی اس کے گال سہلانے لگی۔ پروا ایک ہی سانس میں سارا دودھ اپنے اندر انڈیلتی ایسے چمکتی آنکھیں لیے مسکرائی جیسے معرکہ سر انجام دیا کو۔۔
کندھوں سے زرا ڈھلکے بال کھلے ہوئے تھے، ٹراؤزر شرٹ میں نازک سا سراپا چھپا ہوا تھا۔
"مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے۔۔ کبھی کبھی سارا پی جاتی ہوں انکل کی چائے کے لیے بھی نہیں بچاتی۔۔"
وہ منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی دبا کر اپنا کارنامہ بتا رہی تھی۔۔ پریہان ہنس کر اس کے گرد بازو لپیٹتی اس کے پھولے پھولے گال چومتی سب بھُلا گئی تھی۔
"مجھے اپنے ٹوئٹی کی بہت یاد آتی تھی۔۔"۔ پروا کے گال سرخ کر کے وہ اس کے کندھے پر گال ٹکا کر اداسی سے مسکرائی۔۔ پروا بھی بچوں کی طرح ہونٹ لٹکا کر سر ہاں میں ہلانے لگی کہ وہ بھی یاد کرتی رہی ہے۔۔
"پریہان۔۔"۔ وہ پروا کی معصوم صورت دیکھ کر ہنس رہی تھی جب آنی اسے پکارتی ہوئی وہاں پہنچیں۔۔
"جی آنی۔۔"۔ وہ دونوں متوجہ ہوئیں۔۔
"پریہان تمہیں حدیر لینے آیا ہے۔۔ تم نے بتایا نہیں آج ہی واپس جانا ہے۔۔ حد کرتی ہو لڑکی۔۔ مجھے بتا ہی دیتیں میں اسے ڈنر پر انوایٹ کر لیتی۔۔"
آنی کے بولنے پر وہ منہ کھولے انہیں دیکھنے لگی، ساتھ بیٹھی پروا کا مسکراتا چہرہ بجھ گیا۔ خفگی سے بڑی بہن کو گھورا جو خود بھی شاکڈ تھی۔۔۔
"مگر آنی میں۔۔ "بیٹا لاپرواہ ہو بہت۔۔ وہ بتا رہا ہے تم نے جلدی آنے کا کہا تھا وہ لیٹ ہو گیا۔۔ اسے آنے کا کہہ دیا اور یہاں مجھے نہیں بتایا۔۔ اٹھو اب چادر اوڑھ کر باہر آؤ وہ جلدی میں ہے۔۔"۔ آنی نے اسے خفگی سے ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔۔
"حد ہے آج پھر وہ بنا کچھ کھائے پیے جانے کو تیار ہے۔۔ کیا کہے گا کیسے بدتہذیب لوگ ہیں۔۔"
آنی بڑبراتی ہوئی نکل گئیں۔ پریہان کا جی چاہا جا کر سب کے سامنے کہہ دے اسے اب حویلی واپس نہیں جانا۔۔ اور سب کے درمیان اس جھوٹے انسان کی اصلیت بھی بتا دے جو اپنی مرضی سے لینے پہنچ گیا تھا وہ بھی جھوٹ بول کر۔۔
وہ بےزاری سے پروا کی رونی صورت سے نظر چراتی بالوں کو میسی جوڑے میں قید کرتی چادر اوڑھنے لگی۔۔ پروا کو زبردستی گلے سے لگا کر پیار کیا۔۔
"ایم سوری پروا۔۔ میں جلد بہت سارا رہنے کے لیے آؤں گی تمہارے پاس۔ بس انتظار کرنا۔۔"۔
وہ مضبوط لہجے میں بولتی الگ ہوئی تو پروا پھر سے خوش ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ یقین دلانے والے انداز میں سر ہلا کر باہر نکلی۔۔ سامنے دیکھا تو صوفے پر کروفر سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر مسکراتا ہوا وہ دلکش انسان اسے شدید برا لگا تھا۔۔
"چلیں۔۔؟"۔ اس دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے دیکھ کر مسکرا کر بولا تو پریہان نے سرد نظروں سے اسے گھورا مگر پرواہ کسے تھی۔۔
نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر آنی اور انکل سے ملتا گھر سے نکل آیا تھا۔۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی پریہان نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑوایا اور خونخوار نظروں سے اسے دیکھا جو ہاتھ چھڑوانے پر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔ نا ہی مجھے حویلی جانا ہے۔۔ جتنا رہنا تھا رہ لیا۔۔ میری برداشت بس اتنی ہی ہے مسٹر حدیر۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنا رہی تھی۔۔۔
وہ سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنا رہی تھی۔۔۔
حدیر نے گہرا سانس اپنے اندر اتار کر ضبط سے اس کے جملے سنے اور اس کا ہاتھ پھر سے تھام لیا، اس بار گرفت سخت تھی۔۔
"گھر چل کر بات ہو گی۔۔ ابھی گاڑی میں بیٹھو۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتا اسے گاڑی کے پاس لایا تھا۔
"مجھے حویلی۔۔" وہ پھر سے بولنا چاہ رہی تھی جب خانزادہ نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی نیلی آنکھوں میں چھائی عجیب سی سرخی نے اسے سہما دیا۔
"ہم حویلی نہیں جا رہے کیونکہ کافی دیر ہو چکی ہے، کل جائیں گے حویلی۔۔ ابھی بیٹھو۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتا اسے باور کرا چکا تھا حویلی وہ جائے گی۔
اس کے اونچے لمبے باڈی بلڈر گارڈز کو سر پر تنا دیکھ کر تو ویسے ہی وہ سہم جاتی تھی پھر آج تو وہ جو نرم حصار میں رکھتا تھا اس کے بھی تیور بدلے ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی۔
خانزادہ کے بیٹھتے ہی اس کے گارڈز بھی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے، گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی تھی، گھر کی گلی سے نکل کر جیسے ہی روڈ آیا گاڑیوں کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔
وہ لب بھینچے خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا، پریہان کی سراسیمہ نظروں کا بار بار اپنی طرف اٹھنا بھی محسوس کر رہا تھا۔ حویلی والوں کی خاموشی اور پریہان کی ختم ہو چکی برداشت کے بعد اب اسے ایک ہی حل نظر آ رہا تھا۔
اس کے شہر والے گھر کے آگے گاڑی رکی، گاڑی کے ہارن پر گیٹ وا ہوا تھا، تقریباً شیشے کا بنا گھر نیلی روشنیوں میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
اندر جاتے ہی وہ گاڑی سے اترا اور پریہان کے دروازہ کھولنے سے پہلے اس تک پہنچتا اسے گاڑی سے اتار کر ویسے ہی ہاتھ تھامے گھر کے اندر داخل ہوتا سامنے کانچ جیسی شفاف سیڑھیاں چڑھتے سیکنڈ فلور کے ایک روم میں پہنچا اور ہاتھ چھوڑ گیا۔۔
"ڈنر کیا تھا؟" وہ وارڈروب کی طرف بڑھ کر ایزی ڈریسنگ نکالتے ہوئے اپنے ازلی نرم انداز میں بولا۔
"ج۔۔جی۔۔" پریہان نے ہچکچا کر آہستگی سے جواب دیا۔ آج جیسے وہ پھر سے اجنبی لگ رہا تھا۔
"اوکے آج رات ہم یہیں رکیں گے، ریلیکس ہو جاؤ۔۔"
وہ اتنا کہہ کر واش روم میں بند ہو گیا۔
پریہان طائرانہ نظروں سے کمرے کا جائزہ لیتی بیڈ پر جا کر بیٹھی۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے تھے، جانے بدلے موسم میں رات کے وقت شاور لینے سے یا پھر حدیر کے آج بدلے ہوئے سخت تاثرات کی وجہ سے۔۔۔
بیڈ پر نرم کمفرٹر سیدھا ڈلا ہوا تھا، وہ چادر اتار کر ایک طرف رکھتی کمفرٹر میں سمٹ کر ایک کنارے پر ایسے اٹک بیٹھی جیسے ابھی واپس جانا ہو۔۔ پانچ منٹ کے بعد وہ باہر آیا تو نم بالوں کو برش سے سلجھا کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
"کیا کہہ رہی تھیں تم۔۔؟ اب بولو۔۔" کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھتا توجہ سے اسے دیکھنے لگا۔ پیچ کلر پلین کرتا میں وہ نازک سی گڑیا جیسی لگ رہی تھی، سفید رنگت میں کپڑوں کا رنگ گھُلا ہوا تھا، دھلے ہوئے چہرے پر نرم نقوش اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔۔
"مجھے۔۔ میں حویلی۔۔۔ آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔۔"
وہ جو اپنے گھر کے دروازے پر اتنے کانفیڈنس سے بول گئی تھی اب وہی بات کہتے ہوئے زبان لڑکھڑا گئی۔۔
"وجہ۔۔؟" وہ سنجیدگی سے بولا مگر اس بار لہجہ نرم تھا۔۔ پریہان نے شکوہ بھری نظر سے اسے انجان بنتے دیکھا۔ میسی جوڑے سے نکلی نرم بالوں کی لٹیں چہرے کے گرد بکھری تھیں، حدیر نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے ہاتھ تھامے تو چونک گیا۔ وہ بالکل ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔
"میں حویلی میں مس فٹ ہوں۔ ویسا لائف سٹائل
اپنانا مشکل ہے میرے لیے اور۔۔۔"۔ وہ کہتے کہتے رکی۔
ہاتھ چھڑوانے چاہے مگر ناکام رہی۔ وہ اسے گہری نظروں کے حصار میں لیے بیٹھا تھا۔۔
"میری فیملی میں کچھ ایسے ایشوز ہیں کہ میں پروا کی زمہ داری خود سنبھالنا چاہتی ہوں۔۔"
وہ سر جھکا کر کہہ رہی تھی جب ماتھے پر اس کا جلتا لمس محسوس ہوا، سٹپٹا گئی۔ وہ آج کچھ بدلا ہوا سا لگ رہا تھا۔۔ کچھ زیادہ ہی بدلا ہوا۔۔۔
"پروا کے لیے کوئی ہیلپ چاہیے تو مجھے بتاؤ تمہاری نسبت سے وہ میری بھی زمہ داری ہے۔۔ اور رہی بات اس رشتہ کی تو او۔کے میری ایک شرط ہے۔۔"
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ پریہان نے سوالیہ نظر سے اسے دیکھا۔ اس کی شہد رنگ شفاف آنکھوں میں نیلی آنکھیں گاڑھ کر وہ اسے مزید قریب کر گیا۔
"مجھے تم سے اپنا وارث چاہئیے۔۔" اس کا جملہ تھا یا بم۔۔ پریہان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔۔
"ک۔۔کیا مطلب ہے آپ کا۔۔ یہ کیسا مذاق ہے۔۔۔" وہ سرخ چہرہ لیے سٹپٹا کر بولتی اسے پیچھے کرنے لگی مگر وہ اس کے گرد بازو پھیلاتا اسے سینے سے لگا گیا۔
"اس میں کیا ایسا ہے جو سمجھ نہیں آیا۔۔ اور اگر تمہیں اس مشکل وقت سے چھٹکارا چاہئیے تو یہی آخری حل ہے۔۔ اور بات سنو میں نے پہلے کہا تھا دنیا کے لیے شادی نہیں کی دل سے قبول بھی کیا ہے۔۔"
وہ اب نرمی سے بول رہا تھا۔
پریہان نفی میں سر ہلاتی اس کے حصار سے نکلنے کے لیے کسمسائی۔ وہ آج اچانک سے کیسے پینترا بدل گیا، شہد رنگ آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔۔
"پروا کا کیا مسئلہ ہے؟"۔ نرمی سے اسے حصار میں لیے وہ اپنے پہلو میں لیٹاتا سوال کر رہا تھا۔
"ک۔۔کچھ نہیں۔۔ وہ بس میرے بغیر نہیں رہ پا رہی اور آنی بھی۔۔ اب ٹھیک نہیں رہتیں۔۔"۔ وہ اس کے پرحدت حصار میں لرزتی بات بنا گئی۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ نرمی سے کہتا اس کے بال کھول گیا۔ اس کی جھلملاتی آنکھوں کا رنگ حیرت میں کچھ زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔
وہ جھک کر اس کی آنکھوں پر لب رکھتا پریہان کو گھبراہٹ کا شکار کر گیا تھا۔
"𝒫𝓇𝒾𝒽𝒶𝓃 𝒾𝓉 𝒻𝑒𝑒𝓁𝓈 𝓁𝒾𝓀𝑒 𝓘 𝒶𝓂 𝒾𝓃 𝓁𝑜𝓋𝑒 𝓌𝒾𝓉𝒽 𝓎𝑜𝓊...
حدیر اس کے نم بالوں میں چہرہ چھپائے سرگوشی میں بولا، اس کی بھاری آواز اور خود پر اس کی گرم سانسیں محسوس کرتی سمٹ گئی۔۔
وہ شاید کوئی خوشنما خواب دکھا رہا تھا۔
شاید جال بچھا رہا تھا، پریہان کا دماغ اسے خبردار کرنے لگا، کسی بھی چال میں نا آنے کے لیے۔۔ دماغ حقیقت میں زندہ رہنے کی ترغیب دے رہا تھا مگر اس کا دل زوروں سے دھڑکتا اس کے حواس اڑا گیا۔۔
اس کی دھڑکنیں جیسے حلف اٹھانے کو تیار تھیں کہ وہ لہجہ، وہ لمس اور وہ آنکھیں سچ کہہ رہی ہیں۔
"حدی۔۔۔ر۔۔خا۔۔۔ن صاحب۔۔۔میں۔۔"۔ اس کے جذبوں سے چُور لمس پر سٹپٹائی ہوئی سی بولنے کی کوشش کر رہی تھی، اس کے خان صاحب کہنے پر خانزادہ بےساختہ مسکرایا۔
"تم مجھے اکیلے میں حدیر بلا سکتی ہو۔۔ تم کچھ بھی کہہ سکتی ہو۔۔"۔ وہ اس کی مشکل آسان کر گیا، اس کے نازک وجود کو خود میں کسی قیمتی متاع کی طرح سمیٹتا اس کے سرخ پڑتے چہرے پر تپتا لمس بکھیرتا اس کی بولتی بند کروا گیا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
وہ نہا کر نکلی تو کمرے میں چلتے فین کی ہوا سے کپکپا گئی۔ جلدی سے فین آف کر کے جھرجھری لی۔
نم بالوں کو برش کر کے سلجھایا اور کمرے میں نظر دوڑائی۔۔ خانزادہ کہیں نہیں تھا اس کا رات والا روپ یاد کر کے اس کا چہرہ شرم سے سرخ پڑ گیا۔
عجیب انسان تھا وہ۔۔ جب اسے لگا تھا وہ محبت ہے تو وہ ضرورت کہہ گیا تھا، اب جب وہ خود کو ضرورت سمجھتی تھی اچانک ہی وہ محبت کا دعوٰی کرنے لگا تھا، پریہان کا سر گھوم رہا تھا، کیا تھا آخر وہ انسان۔۔
جانے اب بھی محبت تھی یا ضرورت مگر اس کے حصار اور نرم مہربان لمس نے پریہان کو جیسے باور کروایا تھا وہ دنیا کی قیمتی ترین ہستی ہے۔۔
وہ بہت عقیدت اور محبت سے چھو رہا تھا، ضرورت کہنے اور سمجھنے والے ایسے تو نہیں ہوتے۔۔۔
اس بار دل کے ساتھ دماغ بھی دلیلیں دے رہا تھا۔۔ وہ اس کی محبت میں مبتلا ہو رہی تھی، پہلے سے زیادہ۔۔
ہر بار۔۔ جب وہ پیار جتاتا تھا، خیال رکھتا تھا دل اس کی طرف تب بھی مائل ہوتا تھا۔۔ مگر اب۔۔
وہ لڑکی تھی، توجہ اور محبت پر پگھلنے لگتی تھی مگر اب وہ محبت کر رہا تھا۔۔ جتا رہا تھا وہ مجبور کر رہا تھا وہ بھی محبت کرے، وہ مرر کے سامنے بیٹھی اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔۔ گالوں پر بکھرا گلال اور شرمیلی مسکان سے سجے ہونٹ۔۔ لگا وہ کوئی اور ہے۔۔
"𝒢𝑜𝑜𝒹 𝓜𝑜𝓇𝓃𝒾𝓃𝑔 𝓛𝑜𝓋𝑒...
اس کی بھاری آواز پر وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی، ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر رکھ کر وہ تفصیلی نظروں سے اسے دیکھتا اس کی طرف بڑھا۔
"جواب نہیں دو گی۔۔" وہ ہنسی دباتا اس کے قریب پہنچا، کل تک جو اتنا بول رہی تھی، آج بولتی بند تھی۔۔ اس نے نرمی سے جھک کر اسے سینے سے لگا لیا۔
"نہیں میں۔۔ گھر کے لیے پریشان۔۔"۔ وہ بہانہ بنا رہی تھی، اس کا ذہن بٹا رہی تھی، وہ مسکرایا۔
"میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔ مجھ پر یقین رکھو سب پریشانیاں ختم ہو جائیں گی، بس تھوڑا صبر کرو۔۔"
اس کے نم بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ جس مہربان لہجے میں بولا، پریہان بےساختہ اس کے سینے میں چہرہ چھپائے پرسکون سی ہو گئی۔۔
"آؤ ناشتہ کریں۔۔ تمہارے جاگنے کا انتظار کرتے کرتے لیٹ ہو گیا۔۔" وہ مسکرا کر کہتا اسے اوپر اٹھا چکا تھا۔
"میں چل سکتی ہوں۔۔ نیچے اتاریں۔۔" پریہان شرم سے تپتے گال لیے آہستگی سے بولی۔ وہ خاموشی سے چل کر صوفے پر احتیاط سے بٹھاتا ساتھ بیٹھ گیا۔
"اچھا لگتا ہے مجھے۔۔ یوں۔۔ ایسے اٹھانا اور اپنی مرضی کی منزل پر بنا رکاوٹ پہنچانا۔۔ اچھا لگتا ہے۔۔"
وہ معنی خیزی سے کہتا اس کے گلابی گال اپنے شدت بھرے لمس سے سرخ کر گیا۔
پریہان کے لیے نظر اٹھانا مشکل ہو گیا، گھبراہٹ کے مارے اس نارمل موسم میں بھی پسینے آنے لگے۔
وہ کچھ زیادہ من مانیوں پر اتر آیا تھا۔ ہر بات میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے والا اس معاملہ میں کافی مرضیاں چلانے والا ثابت ہو رہا تھا۔
جیسے چاہ رہا تھا ویسے کر رہا تھا۔ محبت جتانے کے معاملے میں وہ بالکل ہلکا ہاتھ نہیں رکھ رہا تھا۔۔
سامنے ٹرے میں ٹوسٹ، چیز اوملیٹ، فریش جوس اور کانچ کے باؤل میں کٹا ہوا فروٹ رکھا ہوا تھا۔
"اپنے ہاتھ سے کھلاؤ مجھے۔۔"۔ خانزادہ کی اچانک فرمائش پر وہ حیران ہوئی، یہ کیسی امیچور حرکتیں کر رہا تھا وہ۔۔
"اس سے پیار بڑھتا ہے پاگل لڑکی۔۔ ٹرائی کرو۔۔"
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا، نیلی آنکھوں میں شوخی کی چمک تھی اور لبوں پر مچلتی مسکان۔۔
پریہان اس کی باتوں پر نظریں جھکائے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تبھی فورک میں کٹا ہوا سیب لینے لگی مگر وہ روک گیا۔
"آہاں۔۔ ہاتھ سے کہا ہے، ایسے نہیں۔۔"۔ خانزادہ نے بمشکل سنجیدگی اختیار کی، ہنسی دبانا مشکل ہو رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آیا وہ اتنی پاگل ہے۔۔ وہ اس کی باتوں میں آ رہی تھی، وہ پیار بڑھانا چاہ رہی تھی۔۔؟
وہ ہاتھ میں ٹکڑا اٹھا کر اس کی طرف بڑھا گئی، حیرت سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہو رہا تھا۔
وہ اس کے ملائم ہاتھ سے وہ ٹکڑا منہ میں لیتا اس کا ہاتھ تھام کر قہقہہ لگا گیا۔ پریہان اس کی شرارت سمجھ کر خفت زدہ ہوتی ہاتھ کھینچنے لگی۔
"مجھے پتا تھا آپ مذاق کر رہے ہیں میں بس ویسے ہی۔۔" وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے بہانہ گھڑ رہی تھی۔
وہ اس کے خفت زدہ چہرے سے محظوظ ہوتا اس کے ملائم ہاتھ کی ہتھیلی پر لب رکھ گیا۔ پریہان جھینپ کر ہاتھ کھینچ گئی۔ ہتھیلی پر جیسے جلتا ہوا لمس ٹھہر گیا تھا۔۔ ہاتھ کپکپا اٹھا تھا۔
"بریک فسٹ کرو۔۔ میں آفس میں کچھ کام کر کے واپس آؤں گا تو حویلی واپس چلیں گے۔۔" اس نے نرمی سے گال تھپتھپا کر کہا تو پریہان حویلی کا سن کر چپ سی ہو گئی۔ وہ محسوس کر گیا۔۔
"پریہان میں اپنوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، حویلی میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ تمہیں وہاں اپنا مقام ملے۔۔ وہی عزت ملے جو میری ہے۔۔
اور دیکھنا ایسا جلد ہو گا۔۔" نرمی سے سمجھاتے ہوئے ناشتہ کروایا، اس بار وہ مان گئی، چپ رہی۔۔ شادی ہو گئی تھی تو ایک بار اور یہ رشتہ بچانے کی کوشش میں حرج بھی کیا تھا۔۔
وہ اسے ناشتہ کروا کر آفس کے لیے تیار ہونے لگا۔
"میں آنی کے پاس چلی جاتی ہوں۔۔ اکیلی کیا کروں گی یہاں۔۔" پریہان نے اسے جاتے دیکھ کر گھبراتے ہوئے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"تم یہاں بیٹھ کر مجھے سوچو گی۔۔ چاہو تو لنچ کے لیے دال چاول بنا لینا مگر اس بار زرا نمک مرچ کم رکھنا۔۔" اس نے مسکرا کر کہا تو پریہان شرمندہ ہو گئی۔۔ وہ دال چاول کے چند چمچ کھا کر ابھی تک یاد رکھے ہوئے تھا۔۔
وہ جاتے جاتے پھر سے رک کر پلٹا اور بھینچ کر پریہان کو سینے سے لگا لیا، دل ہی نہیں بھر رہا تھا جیسے۔۔۔
"میں جانتا ہوں میں نے اپنی مرضی تھوپی ہے تم پر۔۔ میں چاہتا ہوں مر بھی جاؤں تو میرا کوئی وارث اس دنیا میں ہو جسے دیکھ کر لوگ مجھے یاد رکھیں۔۔"
وہ نرمی سے کہہ کر الگ ہوتا پلٹ کر چلا گیا، پریہان اس کے الفاظ پر ساکت سی آنکھیں پھیلائے کھڑی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
وہ آفس میں موسٰی کے ساتھ کافی دیر بزنس کے معاملات ڈسکس کرتا رہا پھر فائل بند کر کے سوچ میں گم ہوا۔
"کیا ہوا کوئی پریشانی ہے۔۔؟" موسٰی نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا وہ سر جھٹک گیا۔
"موسٰی میں بزنس اور اپنے علاقے کے معاملات اب سنجیدگی سے سنبھالنا چاہ رہا ہوں۔۔ چھپا ہوا جو بھی دشمن ہے اس کے مسلسل چھوٹے بڑے حملوں سے کبھی بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔۔۔
میں اس سے پہلے یہ سب روکنا چاہتا ہوں، مجھے شک یے یہ سب حاکم خٹک نہیں بہروز خان کروا رہا ہے۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولتا موسٰی کو چونکا گیا۔
"تمہیں یہ شک کیسے ہوا۔۔؟۔ کوئی سراغ ملا ہے۔۔؟"
موسٰی نے تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"ہممم ایسا ہی سمجھو۔۔ ادب خان کو ثبوت اکٹھا کرنے کے کام پر لگا دیا ہے۔۔ لیٹس سی۔۔"
موسٰی نے بغور اسے دیکھا، وہ کچھ زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا آج۔۔ شاید کوئی بات اسے اندر سے پریشان کر رہی تھی۔۔ جانے کیا فکر ستا رہی تھی۔۔
"بھابھی کو گھر لے گئے تھے کیا؟ وہ راضی ہوئی۔۔؟"
موسٰی نے کھوجنا چاہا، شاید وہ پریہان کو لے کر پریشان ہے۔۔ خانزادہ پریہان کے زکر پر مسکرایا۔
"وہ زیادہ وقت ناراض نہیں رہ سکتی۔۔ اسے غصہ کرنا نہیں آتا۔۔ ساحرہ ہے وہ تو مجھے بالکل اپنے سحر میں جکڑ چکی ہے، موسٰی یار وہ میرا سکون بن گئی ہے۔۔ زندگی بن گئی ہے۔۔ اپنی حویلی میں قید کر لینا چاہتا ہوں اسے۔۔ عشق ہو گیا ہے اس سے۔۔ اور اس عشق کے حصار میں قید کر لینا چاہتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے محبت کرے، بس میرے سامنے رہے، مجھے یاد رکھے۔۔"
وہ اس کے زکر پر سب پریشانیاں بھول جاتا تھا۔۔۔ پریہان کے لیے شاید وہ گھنٹوں بیٹھ کر اپنی فیلنگز بیان کرنے کے لیے بولتا بھی کم تھا۔۔ اس کے چہرے کی دلکشی میں آج انوکھے رنگ تھے، نیلی آنکھیں جگمگا رہی تھیں۔۔ موسٰی نے اسے دیکھ کر نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے مسکراہٹ روک کر نفی میں سر ہلایا۔
"او میرے مجنوں جگر۔۔ عشق نکما بنا رہا ہے تجھے۔۔ دیکھو زرا بغیر سانس لیے بولتے چلے گئے تم تو۔۔۔"
موسٰی کی شوخی پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
"اچھا سنو موسٰی خان۔۔ میں جبکہ باقی معاملات کو وقت دینا چاہتا ہوں، اس لیے تم ایسا کرو کسی اچھے ہارٹ سپیشلسٹ سے پریہان کی آنی کے لیے ٹائم لو اور ان کا سہی سے چیک اپ کرواؤ۔۔"
اس کی فکرمندی پر موسٰی نے سر ہلایا۔
"ڈونٹ وری کل ہی یہ کام کرتا ہوں۔۔ اور کچھ۔۔"
موسٰی ریوالونگ چئیر پر جھولتا اسے دیکھ رہا تھا۔
"اور بھی ایک کام ہے پلیز۔۔ اک چھوٹی سی گڑیا ہے بس اس کا خیال رکھنا ہے، مسٹر وقار از ناٹ آ گڈ مین۔۔ تم اس پر نظر رکھواؤ۔۔"
خانزادہ کی بات پر وہ حیران ہوتا سیدھا ہوا۔
"کون سی گڑیا۔۔؟ کس کی بات کر رہے ہو۔۔" موسٰی کو لگا وہ شاید پاگل ہو گیا ہے۔۔
"پریہان کی چھوٹی بہن۔۔ پُروا کی بات کر رہا ہوں۔۔ اس کا خیال رکھنا ہے، پریہان کے انکل اچھے انسان نہیں۔۔"۔ خانزادہ نے کہتے ہوئے سنجیدگی سے وہ بات موسٰی کو بھی بتا دی جو آئسکریم پالر میں پریہان کے ایکس فیانسے کے منہ سے وہ بھی سن چکا تھا۔۔ جو بات سن کر وہ تب تاسف سے سر ہلا گیا تھا آج سوچ کر پریشانی ہو رہی تھی۔۔ پریہان اس کے پاس محفوظ تھی مگر پروا اب بھی ان کے پاس ہی تھی۔۔
"او۔کے بےفکر ہو جاؤ۔۔ کہو تو اس گڑیا کو اپنے پاس رکھ لوں گا اس کی ساری زمہ داری اٹھا لیتا ہوں۔۔"
موسٰی کے شریر لہجے پر وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
"موسٰی وہ پریہان سے زیادہ چھوٹی نہیں ہے پھر بھی وہ اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھتی ہے، وہ میرے لیے بھی ویسی ہی ہے۔۔ تو بس جتنا رکھ سکتے ہو خیال رکھو۔۔"۔ وہ سنجیدگی سے کہہ کر موسٰی کو مزید مذاق کرنے سے ٹوک گیا۔ وہ سیرئیس ہوا۔
کچھ دیر مزید ضروری باتیں ڈسکس کرتے کافی دیر بیٹھے رہے۔ خانزادہ نے وقت دیکھا تو پانچ بج رہے تھے۔
"اب میں چلتا ہوں، اٹس ٹائم ٹو گو۔۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
موبائل اٹھا کر پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا اور کوٹ کندھے پر رکھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔۔
"اچھا سن تو جگر۔۔۔" موسٰی نے اسے پکار کر روکا اور جلدی سے اٹھ کر اس کے گلے لگ گیا۔
"کیا ہوا خیر تو ہے۔۔"۔ حدیر نے ابرو چڑھائے۔
"آج پیار آ رہا ہے بہت تجھ پر۔۔" موسٰی کے مزاحیہ انداز پر وہ مسکرا کر دور ہوا۔
"اب میں کسی اور کا ہو چکا ہوں موسٰی خان۔۔ زرا سنبھل کر حق جتایا کرو۔۔" اس نے وارننگ دی اور دونوں ہی اس کے انداز پر بےساختہ ہنس پڑے۔۔
وہ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھا، پریہان کا گلابی شرمیلا من موہنا سا روپ سوچ کر اس کے دل میں عجیب بےتابی سی بھر گئی تھی۔۔
جی چاہا ابھی جا کر اس کے نازک سے وجود کو خود میں سمیٹ کر پوری دنیا بھُلا دے۔۔ نا ہوش میں رہے نا فکروں میں گھُلے۔۔
قدرے غیر آباد علاقے میں پہنچے تو ان کے پیچھے آتی گارڈز کی گاڑیوں میں ہلچل سی ہونے لگی۔۔ یکدم تین مزید گاڑیاں آ کر ان میں شامل ہوئیں۔۔ ترتیب بدلتے وہ آگے پیچھے سے ان کی گاڑی کو گھیر چکے تھے۔۔ اس سے پہلے کہ ڈرائیور اسے یہ بات بتاتا یا کچھ بولتا۔۔
فائرنگ کی بوچھاڑ پر گاڑیاں روڈ پر لہرا کر رہ گئیں۔
وہ چونک کر سیدھا ہوا، اس کے گارڈز بھی برابر حملہ کر رہے تھے۔۔ ڈرائیور کے سر میں اچانک لگنے والی گولی سے اسے جھٹکا سا لگا اور سٹئیرنگ سے ہاتھ چھوٹ کر نیچے گرے، اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملا، دائیں طرف سے ایک گولی اس کے وجود میں پیوست ہوئی اور گاڑی روڈ سے اترتی موٹے درخت سے جا ٹکرائی اور اس ٹکر سے جھٹکا کھا یکدم دھماکہ سا ہوا۔ کھلتی بند ہوتی آنکھوں میں سرخ خون گھلتا چلا گیا۔
کچھ ہی دیر میں لوگ اس جگہ جمع ہونے لگے۔۔ گاڑی کی مضبوط باڈی ہلکی آگ کی لپیٹ میں تھی، پولیس اور ایمبولینس وہاں پہنچ کر سب سنبھالنے لگے، گاڑی میں خون سے لت پت وجود سنبھال کر ایمبولینس میں ڈالے۔۔
"یہ مر چکے ہیں۔۔ ہاسپٹل لے جانا بیکار ہے۔۔" ایمبولینس میں فوری امداد دینے والے اہلکار ان باڈیز کو چیک کر کے تاسف سے بولے تھے۔
اس حادثہ سے دور روشن کانچ کے جگمگاتے گھر میں وہ نازک سی لڑکی کھانے میں پہلی بار دال چاول کی بجائے نیٹ سے ریسیپی دیکھ کر جیسی تیسی بریانی بنائے منتظر بیٹھی تھی۔ اس نے خیال رکھا تھا اس بار نمک اور مرچ کی مناسب مقدار ہو۔۔ مسرور سی مسکراتی ہوئی وہ نہیں جانتی تھی زندگی کی خوشیاں کبھی کبھی کھانے کے مصالحوں کی طرح بےترتیبی کا شکار ہو جاتی ہیں۔۔ کبھی ایک ساتھ زیادہ مل جاتی ہیں کبھی ان خوشیوں کی زیادتی سے زندگی گھبرا کر یکدم کمی لے آتی ہے۔۔۔
اس کی مسکراہٹ شام ڈھلنے پر کم ہوتی جا رہی تھی، ٹیبل پر پڑی وہ پھیکی بریانی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
گھر کے بیرونی طرف لگے نیلگوں بلب جل اٹھے تھے۔
وہ منہ بناتی ناراض ہو گئی، اب وہ آ بھی گیا تو مسکرائے گی نہیں۔۔ اس بار مانے گی بھی نہیں۔۔ یہ جو وہ اپنے حصار میں لے کر من مانیاں کرنے لگا تھا وہ قریب نہیں آنے دے گی۔۔ وہ بہت سے فیصلے کر چکی تھی، سب پورا ہونے کو تھا۔۔
نا وہ آیا۔۔ نا حصار میں لے کر منایا اور نا ہی پیار جتایا۔
محبت، عشق کا روپ دھار کر دفن ہو گئی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
"کہاں ہے پرویز خان۔۔ اسے کہا تھا سردار آزر خان کو راستے سے ہٹائے۔۔ یہ کیا کر دیا ہے اس نے۔۔۔"
بہروز خان دھاڑ رہا تھا۔ اس کے بندے سر جھکائے کھڑے تھے۔ بہروز خان کا بوڑھا وجود غصے سے کپکپا رہا تھا۔۔
"خان صاحب پرویز خان نا کال اٹھا رہا ہے نا واپس لوٹا ہے۔۔" اس کے بندے نے آہستگی سے جواب دیا۔
"کیا ہو گیا ہے خان بابا۔۔۔ اچھی بات ہے وہ لڑکا مر گیا۔۔ ویسے بھی سرداری اسی کے حصہ میں آ رہی تھی، خان یوسف کی کمزوری تھا وہ۔۔۔ دیکھا نہیں تھا اس کی لاش گھر پہنچنے پر خان یوسف کو ایسا دل کا دورہ پڑا کہ ابھی تک ہسپتال میں پڑا ہے۔۔"
ہاشم خان نے تمسخر بھرے لہجے میں کہا۔
"ہسپتال تو تمہاری بیٹی بھی پہنچ گئی ہے ہاشم خان۔۔
لگتا ہے مر جائے گی۔۔" بہروز خان نے دبی دبی آواز میں جتایا تو ہاشم خان کا چہرہ غیرت سے سرخ ہوا۔
"پاگل ہے، سنبھل جائے گی۔۔" وہ مدھم پڑ گیا۔
"پتا کرو پرویز خان کا۔۔ گردن سے پکڑ کر لاؤ اس نمک حرام کو۔۔"۔ بہروز خان نے پیچھے کھڑے اپنے بندوں کو دھاڑ کر حکم دیا تو وہ سر جھکا کر باہر بھاگے۔۔
"کیا ملتا خان آزر کو مار کر۔۔ اس کا بیٹا مار دیا اچھا کیا۔۔ سرداری کے قابل تو کیا جینے کے قابل بھی نہیں رہا۔۔ سمجھیں اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔۔ کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہا وہ۔۔" ہاشم خان نے متنفر لہجے میں کہا۔ بہروز خان بپھرے ہوئے سے ایک طرف صوفہ پر بیٹھ گئے۔۔
"میرا سرداری یا اس کے بیٹے سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔ خان آزر کو ازیت دے دے کر مارنا چاہتا ہوں، وہ مرے گا تو سکون ملے گا اور تم جانتے ہو کیا وجہ ہے۔۔"
بہروز خان کی نفرت میں ڈوبی آواز پر ہاشم خان نے سر ہلایا۔ اسے اچھے سے یاد تھا وہ دن جب۔۔
آج سے تیس سال پہلے وہ ایک جوان لڑکا تھا شکار کے دوران ماری گئی گولی غلطی سے حاکم خان کے بیٹے کو جا لگی تھی۔۔ جرگہ بیٹھا اس وقت خان یوسف سردار تھے، بہروز خان کی منت پر بہروز خان کی بیٹی ونی میں دینے کے فیصلہ کو رد کر رہے تھے کہ آزر خان نے باپ کو منصف ہونے کا کہہ دیا تھا۔۔
پورے علاقے میں قتل کے بدلے زر، زمین، زن کا فیصلہ مقتول کے گھر والوں پر چھوڑا جاتا تھا۔۔
اب بھی حاکم خٹک نے ونی پر زور دیا تھا وہ نا زمین لینے کو تیار تھے نا زر۔۔ خان آزر کے درمیان میں بولنے پر جرگہ کے دوسرے بڑوں نے بھی یہی فیصلہ دیا۔۔
بہروز خان کی بیٹی حاکم خٹک کے گھر ونی بن کر چلی گئی۔۔ بہروز خان کے دل میں آزر خان کے لیے شدید نفرت پیدا ہوئی تھی۔۔
بہروز خان نے بدلے میں خان یوسف کے بیٹے خان ارباز اور حاکم خٹک کے بیٹے یعقوب کے درمیان لڑائی کا فائدہ اٹھا کر ارباز خان کا قتل کروا دیا۔۔
اس بار حاکم خٹک کو بیٹی دینا پڑی۔۔ علاقے کی فرسودہ رسم و راج کی وجہ سے بیٹیاں بےجان چیز کی طرح قتل کے بدلے سونپ دی جاتی تھیں۔
مگر ان کو نا کبھی عزت دی جاتی نا ہی سکون۔۔ ساری زندگی زلت اور مار کھا کر ونی کی ہوئی بیٹی سسک سسک کر جان دے دیتی ہیں اور گناہ کرنے والے مرد گردن اکڑائے ویسے ہی زندگیاں جیتے رہتے ہیں۔۔
گل جان کے ساتھ نا صرف خان یوسف کی حویلی میں ناروا سلوک ہوتا بلکہ بہروز خان کے گھر شادی بیاہ کے موقع پر اسے ملازمہ کی حیثیت سے کام کروایا جاتا تھا۔۔ حاکم خٹک یہ سب جان کر تڑپتا رہ جاتا تھا۔
حد تب ہوئی جب بہروز خان حویلی میں اس کی بیٹی کی شادی پر ملازمہ کی حیثیت سے گئی ہوئی جوان خوبصورت گل جان کی عزت پر بہروز خان کے بیٹے نے ہاتھ ڈالا تھا۔۔ خان آزر گل جان کو حویلی تو واپس لے آیا تھا مگر نا اس سے سچائی جاننے کی کوشش کی نا ہی صفائی دینے کا موقع دیا۔۔ اسے ہی بدکردار ٹھہرا کر نفرت کا نشانہ بنائے رکھا۔۔ یہ بات کسی طرح حاکم خٹک تک پہنچی تو بہروز خان کی بیٹی پر ظلم مزید بڑھ گیا تھا۔۔
گل جان کی اس واقعہ کے نو ماہ بعد بیٹی پیدا ہوئی تھی، زرشہ خان نے ناجائز بیٹی ہونے کے جرم میں کبھی خان آزر سے محبت نہیں پائی تھی، خان آزر نے بس اتنی مہربانی کی تھی کہ یہ بات حویلی میں اور کسی کو خبر نہیں ہونے دی تھی۔۔
بیٹیاں مردوں کے کیے کی سزا بھگت رہی تھیں اور بہروز خان سبق لینے کی بجائے نفرت کو بڑھاوا دیتا رہا کہ آج سے پانچ سال پہلے اس کی ونی کی ہوئی بیٹی کینسرکے مرض میں مبتلا ایسے ہی ظلم سہہ سہہ کر جان دے بیٹھی۔۔۔
بہروز خان کی نفرت خان آزر کے لیے مزید بڑھ چکی تھی، وہ حاکم خٹک اور خان یوسف کی دشمنی بڑھاتا رہا، اس نے اپنی پوتی منال کا خان آزر کے بیٹے سے رشتہ بھی اسی سوچ سے کیا کہ بیٹے کو اپنے ہاتھ میں کر کے باپ کے خلاف کر سکے مگر خانزادہ اس ۔معاملہ میں اس سے دو ہاتھ آگے رہا تھا۔ اس کا اصل نشانہ خان آزر ہی تھا جو قسمت سے بچتا رہا مگر اس بار اس کا اپنا بیٹا اس کے حصہ کی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا۔۔
بہروز خان اپنے بیٹے ہاشم کی بات پر غور کرتا قدرے پرسکون ہوا۔۔ سچ ہی تھا خان آزر کو اولاد کا غم ہی مار دینے والا تھا۔۔ بدلہ اتنا کافی تھا۔۔
وہ اس وقت خانزادہ حدیر کے روم میں بیٹھی تھی، وہی پیچ کرتا بکھرے بال اور رو رو کر پورا چہرہ سوج گیا تھا۔ آنکھیں تو لگتا تھا جیسے کسی نے سرخ انگارے رکھ دئیے ہوں۔۔
آج خانزادہ کو مرے پانچ دن ہو گئے تھے، نہیں اس کا دل تو یہ بھی ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ مرا ہے۔۔۔
اس کے دل میں یہ گمان گڑھ گیا تھا وہ زندہ ہے، وہ لوٹ کر آئے گا، وہ منتظر تھی۔۔۔
اس کے سامنے جنازہ اٹھا تھا، وہ جھلسی ہوئی لاش کو خانزادہ ماننے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔ کسی نے اسے یقین دلانے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔ حویلی والوں کو جیسے کسی نے جادو کی چھڑی سے بت بنا دیا تھا۔
خانی بیگم کا سارا رعب دبدبہ خاک ہو چکا تھا، خالی خالی نظروں سے دیواروں کو تکتی تھیں۔۔
یہ شاندار محل نما بڑی حویلی جس میں بآسانی دس خاندان رہ لیں، خانزادہ کی پیدائش پر ہی خان یوسف نے اس کے نام لکھ دی تھی، ان کا بس چلتا تو اس نیلی انکھوں والے سفید گُڈے کے نام پورا علاقہ لکھ دیں۔۔ اپنی سرداری اور عزت۔۔ سب اسے دینے کو تیار تھے، کئی بار اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹے تھے۔۔
اب دل کا درد لیے تین دن ہاسپٹل میں رہے اور پھر ضد کر کے گھر آ گئے مگر ان کے بھی ہونٹوں پر وہی ایک چپ تھی جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی تھی۔۔۔
پریہان رو رو کر تھک گئی، دل نہیں مانتا تھا وہ مرا ہے لیکن آنکھوں نے سفید چادر میں لپٹا وجود دیکھا تھا، وہ پاگل ہونے والی ہو گئی تھی۔۔
حویلی چھوڑ کر گئی تھی کاش وہ واپس لینے ہی نا آتا نا اس سے محبت کا اظہار کرتا نا اپنی محبت میں مبتلا کرتا۔۔ اس کا وہ نرم مہربان لمس اس میں اب بھی جاگتا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔۔ وہ اس ہاتھ کی ہتھیلی تکتی جاتی تھی جہاں وہ انگارہ لب رکھ کر ہنسا تھا۔۔ وہ تھک کر رونے لگی، کوئی اسے یقین کیوں نہیں دلا رہا کہ وہ زندہ ہے۔۔ سب کیوں مان گئے۔۔
باہر اچانک ہوتے شور پر وہ جھٹکے سے اٹھی، خان آزر چیخ رہے تھے، وہ تیزی سے چادر سنبھالتی باہر نکلی۔
باہر سب ملازمین سہمے ہوئے کھڑے تھے۔
"اس کے باپ نے مروایا ہے میرے بیٹے کو۔۔ کیا دشمنی تھی میرے بیٹے سے؟" خان آزر نے گل جان کو مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔ یاور سرخ آنکھیں لیے باپ کو دیکھ رہا تھا، داور روکنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ تنفر سے گل جان بیگم کو ہی دیکھ رہے تھے۔
شور کی آواز پر خانی بیگم بھی کمرے سے نکل آئی تھیں اب بھرائی آنکھوں سے گل جان کو دیکھ رہی تھیں۔
"کیا دشمنی ہو سکتی ہے، چاہتے ہوں گے یہ حویلی اور سرداری ان کے نواسوں کو ملے۔۔ اس بات سے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے آپ لوگ سمجھدار ہیں۔۔"
ثنا بیگم تنفر سے بولتے ہوئے جلتی پر تیل چھڑکا تھا۔
یاور جھٹکے سے مڑا اور حویلی سے نکلتا چلا گیا۔ عیسٰی جو کمرے میں تین دن سے بند تھا، بھاگا بھاگا نکل کر باہر آتا سب سمجھنے کی کوشش میں لگا تھا، خان آزر نے داور کو دھکا دے کر پیچھے ہٹاتے ہوئے گل جان بیگم کو زوردار تھپڑ دے مارا۔۔ وہ منہ کے بل زمین پر جا گریں۔
"ہم سے مانگ لیتی گل جان۔۔ یہ حویلی بھی دے دیتے اور سرداری بھی۔۔ سب دے دیتے ہمارے بیٹے کو مار کر کیا لگتا ہے اب سب تمہارے بیٹوں کو مل جائے گا۔۔؟"
خانی بیگم دکھ اور نفرت کے ملے جلے تاثرات لیے سرد لہجے میں بولیں۔ داور نے کرب سے انکھیں میچیں، بھائی کے جانے کا غم جان لیوا تھا اس پر یہ زلت۔۔ پریہان سہمی ہوئی سی سب دیکھ رہی تھی۔ یہ سب نیا تھا اس کے لیے۔۔ ایسا جانوروں جیسا سلوک۔۔ اتنے پتھر دل لوگ۔۔ وہ خوف سے بھر گئی۔۔
"پلیز ایسا نہیں کریں، پلیز وہ مر جائیں گی۔۔" خان آزر کا پھر سے ہاتھ اٹھا، گل جان کے سر سے نکلتا خون اور خاموشی کی چادر اوڑھے سفید ہونٹ دیکھتی پریہان بری طرح ڈر کر ان کی طرف بھاگی تھی، خان آزر کا اٹھا ہوا ہاتھ فضا میں معلق رہ گیا۔۔ پریہان کو دیکھتے ہی انہیں اپنا بیٹا یاد آیا تھا، اس لڑکی کے لیے وہ سب سے لڑ پڑا تھا۔۔ وہ دو قدم پیچھے ہوئے۔۔
"بھار میں گئی حویلی اور یہ جائداد۔۔ ہمارا بھائی تھا وہ جو مرا ہے۔۔ اگر حاکم خٹک نے مارا ہے تو وہ ہمارے لیے بھی صرف دشمن ہے۔۔ اس کا بدلہ لینا ہے تو حاکم خٹک سے لے لیں گے۔۔ ہماری ماں کو مار کر بزدلی کا مظاہرہ نا کریں۔۔ ایک کمزور عورت جو خود بھی برسوں سے اپنے گھر والوں سے دور ہے اسے مار کر آپ کو کیا تسکین ملے گی۔۔" داور بھیگی آواز میں دھاڑا۔۔
خان آزر حقارت بھری نظر زمین پر بےہوش پڑی گل جان پر ڈالتے وہاں سے چلے گئے۔۔ خان داور جھک کر ماں کو بازوؤں میں اٹھا کر وہاں سے لے گیا۔۔ اپنے کمرے سے یہ سب دیکھتی پلوشے پلٹ کر پھر سے کمرے میں بند ہو گئی جبکہ زرشے ماں اور بھائی کے ہیچھے بھاگی۔۔
"اب ان معاملات سے کیا لینا دینا تمہارا۔۔ تم منحوس ہو۔۔ جب سے میرے بیٹے کی زندگی میں آئی ہو وہ سکون بھول گیا تھا۔۔ پورے گھر کے خلاف ہو گیا تھا۔۔ تم نے جان لے لی میرے بیٹے کی۔۔"
خانی بیگم پرہہان کو وہیں جما دیکھ کر ہذیانی ہو کر چیخی تھیں، پانچ دن سے حویلی میں چکراتی خاموشی دور کونے میں کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی، پریہان ان کی بات پر لڑکھڑا کر پیچھے ہوئی۔۔
"خانی مورے پلیز۔۔" عیسٰی بےساختہ آگے ہو کر خانی بیگم کو سنبھالتا انہیں مزید بولنے سے روک گیا۔
"عیسٰی یہ منحوس ہے۔۔ پوچھو اس سے جب سے آئی ہے کبھی میرے بیٹے کو سکون سے رہنے دیا اس نے۔۔؟
اس سے شادی کر کے یہاں آ گئی اور اس کا کہتی رہی کہ وہ ضرورت کے لیے لایا ہے۔۔ پوچھو اس سے کیوں میرے بیٹے پر الزام لگایا تھا۔۔ کیوں اس کی خوشیاں چھینیں اس نے۔۔" خانی بیگم عیسٰی کے گلے لگ کر روتی جا رہی تھیں، وہ لب بھینچ گیا۔ نیلی آنکھوں میں سرخی اور بھیگا پن ٹھہرا تھا۔۔ پلٹ کر ایک خاموش نظر پریہان پر ڈالی۔ وہ بھرائی آنکھوں سے نفی میں سر ہلاتی خانی بیگم کو دیکھ رہی تھی۔۔
ثنا بیگم ایک چبھتی نظر پتھر بنی پریہان پر ڈال کر وہاں سے چلی گئیں۔
پریہان خالی ہال میں ساکت کھڑی تھی، ہاں اس نے حدیر کو کبھی خوشی نہیں دی، وہ ایک ایک کو سنبھالتا، مناتا تھک رہا تھا مگر وہ کبھی اس کا سہارا نہیں بنی تھی، وہ خیال رکھتا تھا ڈھال بنا رہتا تھا اور پریہان نے اس سب کے بدلے کیا کیا تھا۔۔؟
وہ اپنا محاسبہ کرتی انسو بہاتی وہیں کھڑی تھی۔۔ چاہے اب وہاں کھڑے کھڑے مر بھی جاتی تو کسی کو کیا فرق پڑتا تھا، جسے فرق پڑتا تھا وہ ایک سخت نظر بھی نہیں ڈالنے دیتا تھا، اسے سمجھنے میں دیر کر دی تھی پریہان نے۔۔ آج اس کی اہمیت سمجھ آ رہی تھی۔۔
"آپ ابھی تک حویلی میں کیوں ہیں۔۔ واپس کیوں نہیں گئیں۔۔" آواز پر اس نے سر اٹھایا تو سامنے عیسٰی کھڑا تھا، سینے پر بازو لپیٹے، سرد تاثرات سے اسے گھورتا ہوا۔۔
"خان۔۔زادہ۔۔ چاہتے تھے۔۔ میں حویلی میں رہوں۔۔"
وہ اٹک اٹک کر بھرائی آواز میں بولی تھی۔
"ان کے لیے۔۔ وہ چاہتے تھے آپ ان کے ساتھ۔۔ ان کے لیے رکیں۔۔ کیا اپ نے ان کی بات ان کے سامنے مان لی تھی۔۔؟" عیسٰی نے ابرو چڑھا کر سوال کیا۔ ایسا لگا جیسے عدالت سجائے کھڑا ہے، پریہان اس کی نظر میں بھی مجرم تھی۔۔ گناہ گار تھی۔۔
وہ روتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی۔۔ چادر کو مٹھیوں میں جکڑتی۔۔ روتی ہوئی۔۔ کمزور لگ رہی تھی۔۔۔
وہ پہلی بار اس کے لیے متاسف ہوا، وہ عمر میں اس سے بھی سال بھر چھوٹی تھی، عمر کے اس حصہ میں وہ بیوگی کی چادر اوڑھے حویلی میں قید ہو چکی تھی۔۔۔ قابلِ رحم تھی۔۔
"آپ دیکھ رہی ہیں ناں یہاں آپ کی جگہ نہیں۔۔ کسی کو پرواہ نہیں اپ کی یہاں۔۔ جس کی وجہ سے آپ یہاں تھیں وہ نہیں رہے۔۔" وہ کرب سے آنکھیں میچ کر بولتا اس جملہ پر رک سا گیا۔ دل بھی رک کر دھڑکا تھا۔ کہنا آسان نہیں تھا، جھیلنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔ پریہان خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔
"اب۔۔ کسی کو آپ کی پرواہ بھی ہو تو کوئی ہوش میں نہیں۔۔ غمزدہ ہیں اور الجھے ہوئے ہیں۔۔"
وہ آہستگی سے بولتا شاید یہی کہنا چاہ رہا تھا وہ یہاں سے چلی جائے۔۔۔
"یہاں اب ایسا چیخنا چلانا جاری رہے گا۔۔ گل جان مورے پر غصہ اترتا رہے گا۔
ہو سکتا ہے ایک بار پھر حاکم خٹک کے اس فعل کے بدلے ایک اور ونی بھینٹ چڑھے گی۔۔
آپ کے لیے یہ سب نیا ہے اور آپ سہہ نہیں پائیں گی۔۔
زہنی مریضہ بننے سے اچھا نہیں کہ آپ چلی جائیں۔۔"
وہ اس پر حقیقت واضح کر رہا تھا۔۔ اسے آگاہ کر رہا تھا یہاں رہ کر اس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔۔
ونی لفظ پر پریہان کی آنکھیں خوف سے پھیلیں، مرحا اور منال نے ونی رسم کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا، آج کے اس دور میں بھی بیٹیوں کو قتل کے بدلے قربانی کا بکرا بنایا جاتا تھا، باپ بھائی کے جرم کے بدلے وہ ساری زندگی سزا جھیلتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔۔ محبت، عزت اور احترام انہیں کبھی نہیں ملتے۔۔
اسے آج سمجھ آئی تھی گل جان کا ملازموں سے بدتر حال کیوں تھا۔۔ وہ بےبس سی ہو گئی۔۔۔
"م۔۔مجھے یہیں رہنا ہے، حدیر کے کمرے میں۔۔ پلیز مجھے یہاں سے مت بھیجیں۔۔ وہ لوٹ کر آئے اور میں یہاں نا ملی تو ناراض ہو جائیں گے۔۔۔"
پریہان التجائیہ لہجے میں کہہ رہی تھی، عیسٰی کو اس کی دماغی حالت کا ادراک ہوا تو ساکن رہ گیا۔۔
وہ پاگل ہو رہی تھی، ابھی پانچ دن گزرے تھے اور وہ اس حال میں تھی، آگے کیا ہو گا اس کا۔۔۔
وہ بری طرح پریشان ہوتا اسے دیکھنے لگا۔۔
"تب تک رہوں گی جب تک حویلی والے دھکے دے کر نا نکالیں۔۔ ماریں گے تب بھی چپ رہوں گی۔۔ شکایت نہیں کروں گی۔۔ حدیر کہتے تھے صبر کروں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں صبر کروں گی اب۔۔ نہیں جاؤں گی یہاں سے۔۔ وہ آئیں گے تو میں یہیں ملوں گی۔۔۔"
وہ بڑبراتی ہوئی پلٹ گئی، بڑی سی چادر کا پلو زمین پر گھسیٹتا جا رہا تھا، ننگے پاؤں وہ خود سے باتیں کرتی کمرے میں جا رہی تھی۔۔
عیسٰی پریشان نظروں سے اسے دیکھتا رہا، کیا وہ پاگل ہو گئی ہے۔۔؟ اگر وہ پاگل ہو گئی تو۔۔۔؟
اسے یہاں کون سنبھالنے والا ہے، کوئی نہیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
آج حدیر کے جانے کے دس دن بعد موسٰی خود کو سنبھال کر مسز شائستہ کے پاس آیا تھا اور اب ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
"پریہان اب ٹھیک ہے ناں؟ کچھ کھاتی پیتی ہے کیا۔۔"
آنی فکرمندی سے پوچھ رہی تھیں، وہ لب بھینچ گیا۔ کیا بتاتا وہ کمرے میں خود کو قید کیے پڑی رہتی ہے، ملازموں کے ہاتھ کھانا پہنچتا ہے جو کبھی کھا لیتی ہے کبھی ویسا ہی واپس آ جاتا ہے۔۔ اور گھر میں کوئی اتنا سنبھلا نہیں تھا کہ اس کا خیال رکھے، گل جان بیگم ہر آئے دن مار کھاتی شدید بخار کی لپیٹ میں تھیں، سب سے زیادہ نقصان ان کا ہی ہوا تھا۔۔
اگر وہ ٹھیک اور زندہ بچ گئیں تو پریہان کو سنبھال لیں گی ورنہ کون جانے کیا ہونے والا تھا۔۔
"اس کی حالت بہت خراب تھی، اسے یہاں لانا چاہتی تھی، وہ مانی ہی نہیں۔۔ بس ایک ہی ضد ہے اس کی، حدیر کے کمرے میں رہنا یے۔۔ بیمار کر دے گی ایسے تو خود کو۔۔" آنی کی بھیگی آواز پر وہ سرد آہ بھر گیا۔
آنی کے پاس ایک طرف بیٹھی پُروا بھی رونی صورت لیے بیٹھی تھی، جب وہ آیا تھا تب آنی سے پوچھا تھا یہ کون ہے، انہوں نے کہہ دیا حدیر کا بھائی ہے، تمہارا بھی بڑا بھائی ہے۔۔ وہ تب سے یک ٹک اداس بیٹھے بڑے بھائی کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔ موسٰی نے سر اٹھا کر دونوں کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔
"سنبھل جائیں گی، وہیں رہنے دیں اگر انہیں سکون ملتا ہے وہاں تو۔۔ حدیر کی یہی خواہش تھی کہ وہ حویلی میں رہے۔۔ بس یہی کہتا رہتا تھا۔۔ ہم کوشش کریں گے ان کا خیال رکھ سکیں۔۔"
اس کی آواز بھاری ہو رہی تھی، آنکھیں نمی میں ڈوبی ہوئی تھیں، آنی چپ سی ہو گئیں۔۔
"آپ کے لیے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔۔ سوری لیٹ ہو گیا ہوں، حدیر چاہتا تھا جلد از جلد آپ کا علاج ہو۔۔ کل صبح کا ٹائم لیا ہے، چیک اپ کے بعد دیکھتے ہیں جیسے بھی علاج کہا گیا کروا لیں گے۔۔"
وہ اتنا کہہ کر ایک بار پھر سر ڈالے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں الجھائے بیٹھ گیا۔
رک رک کر بولتا تھا اور بولتے بولتے رک جاتا تھا۔۔ غم کی شدت ایسی شدید تھی کہ کمی آتے آتے شاید سالوں لگ جاتے ابھی تو پھر چند دن گزرے تھے۔۔
"بیٹا کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں، اپنی فکر کرو۔۔ طبیعت خراب لگ رہی ہے تمہاری۔۔ کچھ کھایا پیا ہے؟"
آنی نے نرمی سے سوال کیا تو وہ انہیں دیکھتا سوچ میں گم ہوا، اسے یاد نہیں تھا کچھ کھایا بھی تھا یا نہیں۔۔ آخری بار گھر میں ثنا بیگم نے زبردستی کھانا کھلایا تھا اور اس بات کو چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔۔ اس کے بعد پتا نہیں۔۔
"میں نے قیمہ بنایا ہے، ابھی روٹی بناتی ہوں، ہمارے ساتھ کھانا کھا کر جانا۔۔" اس کی غائب دماغی پر آنی نے تاسف سے اسے دیکھا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔۔ پروا نے ترحم سے اس اونچے چوڑے انسان کو دیکھا جو ساکت سا بیٹھا تھا۔
وہ شاکڈ تب ہوئی جب اس کی آنکھ سے آنسو گرا، وہ تیزی سے رخ پھیر گیا تھا مگر وہ دیکھ چکی تھی۔
"آپ رو رہے ہیں۔۔؟ کیا آپ کو قیمہ نہیں پسند۔۔؟"
وہ گھبرا کر اس کے پاس آ کر نرمی سے پوچھنے لگی، اس کے سوال پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا، کیا وہ یہ سمجھ رہی ہے وہ قیمہ ناپسند ہونے کی وجہ سے رو رہا ہے۔۔؟۔ کوئی اتنا معصوم کیسے ہو سکتا ہے۔
"اگر مجھے قیمہ نا پسند ہوا تو کیا کرو گی۔۔؟"
وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرا دیا۔۔ پروا اس کے پاس صوفہ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔
"میں آپ کو سمجھاؤں گی کہ آپ ٹیسٹ کریں، آنی بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔۔ مجھے تو کچھ بنانا بھی نہیں آتا۔۔" وہ جواب کے ساتھ معذرت بھی کر گئی۔
موسٰی اسے دیکھ کر رہ گیا، حدیر نے اس کے بارے میں سہی کہا تھا چھوٹی سی گڑیا ہی تھی وہ۔۔
سکائے بلو ٹراؤز شرٹ کے ساتھ گلے میں سٹالر لٹکائے وہ قد کاٹھ سے بھلے بڑی لگ رہی تھی مگر چہرے پر بالکل بچوں جیسی ملاحت اور نرمی تھی، رنگت میں گلابی پن گھُلا ہوا تھا۔
"میں جانتی ہوں آپ ہرٹ ہیں۔۔ اپیا کہتی ہیں جب وہ اپنے ٹوئٹی کو ہگ کرتی ہیں تو تکلیف بھول جاتی ہیں، کیا آپ ٹرائی کرنا چاہیں گے۔۔؟" وہ اپنائیت سے پوچھ رہی تھی۔۔ سامنے بیٹھا انسان اگر اس کی آنی کی زمہ داری لے رہا ہے، علاج کروا رہا ہے تو یقیناً اس قابل تھا کہ اس کے غم میں شریک ہوا جائے۔۔ پروا نے اس بات کو بس یہیں تک سوچا تھا۔۔
"شیور۔۔ کہاں ہے تمہاری اپیا کا ٹوئٹی۔۔"۔ وہ آہستگی سے مسکرایا اور سوال کیا۔ پروا آگے بڑھی اور جھجک کر اس کے ساتھ لگتی اس کے گرد بازو پھیلا گئی، موسٰی ساکت رہ گیا۔ کچن کے دروازے سے سلاد کے لیے پروا کو بلانے آئی آنی کا جی چاہا دیوار میں سر مار لیں۔۔ انہیں شدید شرمندگی محسوس ہوئی۔
"ںچے ایک منٹ۔۔ " موسٰی نے نرمی سے دور ہو کر اسے دیکھا، سادہ سی نظر اور معصوم چہرہ۔۔
"ایم سوری مجھے نہیں پتا تھا وہ ٹوئٹی آپ ہو۔۔ اپنی اپیا اور آنی کے علاوہ کسی کو ہگ مت دیا کرو۔۔"
اس نے خفت سے سمجھاتے ہوئے سر تھپتھپایا۔
"آنی نے کہا آپ میرے بڑے بھائی ہیں، اس لیے ہگ کیا ہے۔۔" وہ شرمندہ ہونے کی بجائے خفگی سے کہہ کر دور ہو گئی۔۔
"ہاں بھائی ہوں۔۔ پھر بھی۔۔" موسٰی کا غم بھک سے اڑ چکا تھا، فکرمندی سے اسے سمجھانے لگا۔ حدیر کہہ رہا تھا اسے کسی قسم کا خطرہ ہے اور یہاں تو وہ خود خطرہ بنی گھوم رہی تھی۔
"کیا آپ اب ٹھیک ہیں۔۔؟" پروا نے اپنی کمر پر ہاتھ ٹکا کر اس سے پوچھا، وہ گہری سانس بھرتا سر ہلا گیا۔
"پھر تھینکس کہیں۔۔ کیا آپ میرے بڑے بھائی نہیں ہیں؟"۔ وہ چکرا کر رہ گیا۔ اسے یہ چابی والی گڑیا لگی تھی، اس میں تو اچھی خاصی زبان بھی تھی۔
"افکورس بھائی ہوں۔۔ مگر میں آپ کا سگا بھائی نہیں۔۔"۔ وہ بےچارگی سے بولا۔ زندگی میں پہلی بار وہ کسی کو بہن بنانے پر ہچکچا رہا تھا۔
"سگا بھائی کیا ہوتا ہے۔۔ بھائی تو بھائی ہوتا ہے۔۔"
وہ اپنے کہے پر قائم تھی۔ موسٰی کو چپ ہو جانا ہی بہتر لگا۔ پروا نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی۔ وہ کچھ دیر پہلے اچھا خاصہ قابل رحم لگ رہا تھا مگر اب بحث کرتا ہوا نا بھائی لگ رہا تھا نا قابل رحم۔۔
"پروا۔۔ یہاں آؤ۔۔"۔ ان کی بحث سنتی آنی نے دانت کچکچا کر پروا کو بلایا تو وہ سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔ موسٰی بےساختہ سر تھام گیا۔
"حدیر۔۔ تمہاری اس گڑیا کا واقعی خیال رکھنا ہو گا۔۔ مجھے لگتا ہے خطرہ اس کے قریب بعد میں آتا ہو گا یہ پہلے اس تک پہنچ جاتی ہو گی۔۔ اسے باپ بھائی کا رشتہ بنا کر یعنی جیسے بھی ہمدردی بٹورتے پھرو۔۔۔"
وہ فکرمند ہونے لگا۔ ابھی وہ سہی سے تفصیل نہیں جان پایا تھا مگر اتنا جان گیا تھا، وہ غیر معمولی حسین اور چھوٹی سی لڑکی عقل سے بالکل پیدل ہے۔
وہ بہت لوگوں کی نظر میں بھی آتی ہو گی اور اسے نقصان بھی بہت آرام سے پہنچایا جا سکتا ہے۔۔
ان لوگوں نے کھانا لگا کر زبردستی اسے بھی ساتھ گھسیٹ لیا تھا، پروا اس کے بعد نا اس سے بولی نا قریب آئی، یعنی وہ ناراض ہو چکی تھی۔۔
اس نے شکر ادا کیا، وہ ناراض ہی اچھی ہے۔۔
"آپ کل ریڈی رہیں گی، میں زیادہ دیر نہیں رک سکوں گا یہاں ۔۔" اس نے روانہ ہونے سے پہلے آنی کو سمجھایا۔ پروا کھانا کھاتے ہی روم میں جا چکی تھی۔
"بیٹا پروا کی حرکت کا برا مت ماننا۔۔ وہ سب سے ایسے کلوز نہیں ہوتی۔۔ نا ہی لڑکوں سے فری ہوتی ہے، اس کی بس دو کمزوریاں ہیں، باپ اور بھائی۔۔
اسے ان دو رشتوں کی شدت سے چاہ ہے اور اسی لیے آج وہ تمہیں روتا بھی نہیں دیکھ پائی۔۔ اب تم نے کہہ دیا بھائی نہیں ہو تو تمہارے قریب نہیں آئے گی کبھی۔۔"۔ آنی نے شرمندگی سے وضاحت دی۔۔
وہ اپنی بلاارادہ کی گئی حرکت پر خود کو کوسنے لگا۔
بس ایک بچی ہی تو تھی، اسے اتنا اوور ری ایکٹ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ وہ گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے رکا اور سر اٹھایا تو سامنے پروا ٹیرس پر کھڑی اس ہی دیکھ رہی تھی، اس کے دیکھتے ہی پلٹ کر اندر چلی گئی، وہ بےساختہ مسکرا دیا۔
"پنک ٹوئٹی۔۔" زیرلب بڑبڑاتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
ثنا بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، بھاری پردے ونڈو پر پھیلے روشنی کا راستہ بند کیے ہوئے تھے۔۔ وہ بیڈ پر آڑھا ترچھا سو رہا تھا۔
"عیسٰی۔۔ اٹھ جاؤ لڑکے۔۔ یہ کیا تم نے خود کو کمرے میں قید کر لیا ہے۔۔" ثنا بیگم کو عجیب وحشت سی ہونے لگی تھی کمرے کے ماحول سے۔۔
موسم کافی بدل گیا تھا، اب کوئی فینز آن نہیں کرتا تھا مگر اس کے روم کا فین فُل سپیڈ میں آن تھا۔
انہوں نے جلدی سے فین آف کیا اور پردے ہٹا کر کمرے کو تھوڑا روشن کیا۔ بیڈ پر وہ ایسے پڑا تھا جیسے مجسمہ ہو جو ہلنے کے قابل نا ہو۔۔
"عیسٰی۔۔ یااللّٰہ تمہیں تو اتنا تیز بخار ہے۔۔" وہ اس کا چہرہ چھو کر ہی دہل گئی تھیں۔ وہ جل رہا تھا بخار سے۔۔ ثنا بیگم نے موسٰی کو بلوایا، قسمت سے وہ ابھی حویلی میں ہی تھا ورنہ حویلی میں رہنا تو اس نے چھوڑ ہی دیا تھا۔
"کیا ہوا عیسٰی کو۔۔ میں نے ڈاکٹر کو کال کر دی ہے۔۔ ابھی آ جائے گا۔۔ "۔ موسٰی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے ماں کو بتایا اور اسے کھینچ کر سیدھا کرتے ہوئے پریشانی سے اس کی اجڑی بکھری حالت دیکھی۔
اس کا چہرہ بالکل سرخ ہو رہا تھا اور جسم آگ کی طرح جل رہا تھا۔
"بخار ہے، فین آن تھا۔۔ دو بھائی ہو تم لوگ۔۔ ایک دوسرے کا خیال تک نہیں رکھ سکتے۔۔
مانتی ہوں خانزادہ کے مرنے کا دکھ ہے، مجھے بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی ساتھ مر جائیں۔۔
پوری حویلی ایسے ہو گئی ہے جیسے وہ جاتے جاتے زندگی ساتھ لے گیا ہے۔۔ جسے دیکھو کمرے میں بند پڑا رو رہا ہے، بیمار ہے۔۔ لگتا ہے خانزادہ ہی سب کو سانس دے رہا تھا بس۔۔
موسٰی میں کہہ رہی ہوں، سنبھالو خود کو تم بھی اور اپنے اس بھائی کو بھی توجہ دو زرا۔۔"
ثنا بیگم بھری بیٹھی تھیں جیسے، پھٹ ہی پڑیں۔۔
موسٰی نے بےچارگی سے ماں کو دیکھا پھر عیسٰی کو۔۔
"باقی کا نہیں پتا لیکن مجھ سے اس کے بغیر نہیں
جیا جا رہا۔۔۔ مجھے سب میسر تھے کال پر پھر بھی اس کے بغیر مرنے والا ہو رہا تھا اس لیے واپس آ گیا۔۔
اب یہاں سے کہاں جاؤں کہ وہ مل جائے مجھے۔۔۔"
وہ عیسٰی کے بال سنوارتا بول رہا تھا، آواز بھرا گئی تھی، ثنا بیگم کا اس کی حالت پر کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا۔
"شاید یہ بھی اسی وقت سے گزر رہا ہے۔۔ شاید عیسٰی کو واقعی حدیر سانسیں دیتا تھا۔۔
لیکن فکر مت کریں، ہم سب سنبھل جائیں گے۔ سنبھلنے میں وقت تو لگتا ہے ناں۔۔ وہی وقت دے دیں ہمیں مورے۔۔ یہ بہت مشکل وقت ہے گزرتے گزرتے بھی آدھا مار رہا ہے۔۔۔"۔ وہ نرمی سے بولتا جھلملاتی آنکھوں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ وہ بول نہیں پائیں۔
اب کوئی جواب نہیں تھا جو دیتیں۔۔
ڈاکٹر آ گیا تھا، ثنا بیگم ایک طرف ہو گئیں۔۔
"ڈپریشن ہے اور موسم بدل رہا ہے، ٹھنڈ بھی لگی ہے ان کو۔۔احتیاط کریں یہ سردی زیادہ بڑھ جائے تو یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔۔"۔ ڈاکٹر نے تفصیلی چیک اپ کے بعد پیشہ ورانہ انداز میں بتایا اور میڈیسنز کے ساتھ کچھ ہدایات دیتا باہر نکل گیا۔
موسٰی نے ملازم کو بھیج کر میڈیسن منگوائیں تو اسے بےساختہ ادب خان کا خیال آیا۔۔
خانزادہ کا بہت قریبی بندہ تھا وہ، نا جنازے میں تھا نا اس کے بعد نظر آیا۔۔ موسٰی کو تشویش ہوئی۔۔
وہ اچانک کہاں عائب ہو گیا، حویلی کے ارد گرد تو منڈلاتا رہتا تھا وہ۔۔ اس کا گھر، فیملی، دوست اور وارث سب کچھ تو خانزادہ تھا۔۔ پھر وہ کہاں گم ہوا۔۔
وہ پرسوچ انداز میں عیسٰی کو دیکھ رہا تھا۔ ثنا بیگم سوپ بنانے چلی گئی تھیں۔۔
گل جان بیگم بہت زیادہ زخمی حالت میں تھیں زرشے سارا وقت ان کے پاس ان کا خیال رکھتی تھی۔۔
خانی بیگم اور آغا جان نے تو سب سے ناطہ توڑ لیا تھا، دنیا سے کٹ کر بیٹھ گئے تھے۔۔ خان زوار بزنس سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے اور خان آزر مردان خانے میں تعزیت کے لیے آتے لوگوں سے ملتے رہتے۔۔۔
پریہان جانے کس حال میں تھی، وہ فکرمند ہوا۔
پوری حویلی کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔۔
"حدیر یار۔۔ تم نے کیسے سب کو سنبھال رکھا تھا۔۔ جاتے جاتے بکھیر کر چکے گئے سب کو۔۔"۔ وہ دلگرفتگی سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔
ثنا بیگم سوپ لائیں تو عیسٰی کو جگا کر اس نے سنبھالتے ہوئے زبردستی اٹھایا اور نیم دراز کر کے سر اونچا کیا، ثنا بیگم اسے سوپ پلانے لگیں۔۔
"مورے۔۔ پریہان ٹھیک ہیں ناں۔۔؟ کھاتی پیتی ہیں کچھ۔۔؟"۔ موسٰی نے بےچینی سے پوچھا۔
"مجھے کچھ نہیں پتا۔۔ زرشے کھانا بھیجتی ہے، پتا نہیں اس لڑکی کو کیا ڈرامے سوجھ رہے ہیں، نا کمرے سے نکلتی ہے نا سامنے آتی ہے، اب وہ زرشہ ماں کی خدمت کرے یا اس کی۔۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی وہ یہاں کر کیا رہی ہے۔ کوئی اسے گھر بھیجے، اب کیا بچا ہے اسکا یہاں۔۔۔" ثنا بیگم بھڑاس نکالتیں موسٰی کو پچھتاوے میں مبتلا کر گئیں۔۔ وہ ان کو تاسف سے دیکھ کر رہ گیا۔
"کیوں جائیں یہاں سے۔۔۔ وہ میرے لالا کی محبت ہیں۔۔ وہ یہیں رہیں گی۔۔ خبردار کسی نے یہاں سے نکالا۔۔
یہیں رہیں گی۔۔ جب تک چاہیں یہیں رہیں، وہ امانت ہیں حدیر لالا کی۔۔"۔ عیسٰی نے ان کے ہاتھ میں موجود سوپ کے باؤل کو ہاتھ مار کر گستاخانہ انداز میں کہا۔
ثنا بیگم کے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
"تمہارا کیا لینا دینا ہے عیسٰی۔۔ اس معاملے سے دور رہو۔۔"۔ ثنا بیگم نے پریشانی سے کہا، وہ کیوں طرفداری کر رہا تھا آخر۔۔ پہلے حدیر اب عیسٰی۔۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔۔ وہ لڑکی تھی ہی جادوگرنی۔۔
"میرا لینا دینا ہے۔۔ وہ حدیر لالا کی وائف ہیں۔۔ میں کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔ لالا کا کمرہ اب ان کا ہی ہے۔۔"۔ وہ سرد بھاری لہجے میں بولتا کروٹ بدل کر سو گیا۔ موسٰی خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"دیکھو اسے۔۔ لڑکی بیوہ ہو چکی ہے، بےاولاد ہے پھر کس کے لیے رہے یہاں۔۔ جوان ہے، کم عمر ہے گھر جا کر نئی زندگی گزارے، کیا ساری عمر یہاں قید رہے گی۔۔"
اس بار ثنا بیگم نے لہجے میں نرمی سمو کر موسٰی کو دیکھتے ہوئے عیسٰی کو بھی سمجھایا۔۔
"ابھی یہ سب باتیں رہنے دیں مورے۔۔ وہ سنبھل جائیں تو چلی جائیں گی۔۔ عیسٰی ٹھیک کہتا ہے، وہ حدیر کی امانت ہیں، اس سلوک کی حقدار نہیں کہ یہاں سے نکالا جائے۔۔ حدیر کے کمرے پر ان کا ہی حق ہے جتنا چاہیں، رہیں۔۔ آپ بس عیسٰی کا خیال رکھیں۔۔ ملازم دوائی لائے گا تو اسے وقت پر دیں اور ٹھنڈ سے بچا کر رکھنا ہے۔۔ میں پتا کروں گل جان مورے اب کیسی ہیں۔۔" موسٰی نے ماں کو سمجھا بجھا کر وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔
"ٹھیک ہے وہ بھی۔۔ بیٹے ہاسپٹل لے گئے تھے، علاج کروایا،۔۔ اب ٹھیک تو ہونا ہی ہے۔۔
سب کام سے بچنے کے بہانے۔۔ ظاہر ہے کیسے سنبھالتی یہ سب انتظامات۔۔ ملازموں کو دیکھنا، صفائی اور کھانا بنوانا۔۔ داور اور یاور کی بیویاں ہی سنبھال رہی ہیں اب۔۔" وہ پھر سے شروع ہو چکی تھیں۔
موسٰی سر جھٹک کر نکل گیا، عیسٰی بد دلی سے کروٹیں بدلتا رہ گیا۔۔ ثنا بیگم بڑبراتی ہوئی چپ ہو گئیں۔۔
وہ آفس میں بیٹھا تھا جب مسز شائستہ کے نمبر سے کال آئی، پچھلے دنوں ان کا چیک اپ کروا کر آیا تھا۔
چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز نے ان کو ٹینشن فری رکھنے پر زور دیا تھا۔۔ ان کا دل کافی کمزور ہو رہا تھا۔۔ مائنر اٹیک کے بعد اب ان کو دوبارہ ہارٹ اٹیک کا خطرہ تھا۔۔ موسٰی پریشان ہوا تھا، انہیں کوئی فکر تھی، کوئی پریشانی تھی جو نارمل نہیں ہونے دے رہی تھی۔۔
پریہان کی فکر کے علاوہ کیا ہوسکتا تھا، موسٰی نے سر جھٹک کر کال اٹینڈ کی۔۔
"آنی۔۔ آنی گر۔۔۔ گئی ہیں، بےہوش۔۔۔ ہو گئی ہیں۔۔"
پروا کی روتی آواز میں کہا ٹوٹا پھوٹا جملہ سن کر وہ اپنی جگہ سے جھٹکا کھا کر اٹھا۔
"پریشان مت ہو بچے۔۔۔ میں ابھی آ رہا ہوں۔۔" وہ اسے تسلی دیتا تیزی سے باہر نکلا۔۔ ڈرائیور نے گاڑی کا ڈور کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، ہوشیار کھڑے گارڈز جلدی سے اپنی گاڑیوں پر سوار ہو کر اس کے پیچھے ہو لیے۔۔ وہ پوری رفتار سے ان کے گھر پہنچا تھا۔ مسز شائستہ زمین پر گری ہوئی تھیں اور پروا کا رو رو کر برا حال تھا۔۔ اس نے آنی کو سنبھال کر گاڑی میں ڈالا تو سہمی ہوئی پروا پر نظر پڑی۔۔
"آ جاؤ۔۔۔ بیٹھ جاؤ ساتھ۔۔"۔ اس کا سر تھپتھپا کر ساتھ بٹھایا اور ہاسپٹل پہنچا۔۔
ڈاکٹر سے پہلے بات کر لی تھی، مسز شائستہ کو شدید قسم کا ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔ فوری پہنچنے کی وجہ سے بچا لیا گیا تھا مگر انڈر اوبزرویشن رکھا گیا۔۔
وہ ڈاکٹرز سے بات کر کے مسز شائستہ کو ایک وی آئی پی روم میں شفٹ کروا کر باہر نکلا تو پُروا کا خیال آیا۔۔ جلدی سے بھاگ کر اسے تلاشا تو وہ کوریڈور میں بنچ پر اکیلی بیٹھی مل گیی، بھیگی آنکھوں سے آتے جاتے لوگوں کو تک رہی تھی۔۔ اسے بےساختہ ترس آیا تھا۔۔
"تمہاری آنی ٹھیک ہیں، کچھ دن یہاں رکھیں گے ڈاکٹرز.. پھر سنبھل جائیں گی۔۔"۔ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے تسلی دی تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ موسٰی کو محسوس ہوا وہ ذہنی طور پر حاضر نہیں تھی۔۔ اس نے لب بھینچے۔۔
"پروا۔۔۔" نرمی سے پکار کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تو وہ متوجہ ہوئی۔۔
"میں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔۔ تم میری بیبی سِسٹر ہو۔۔ مجھ سے بات کر سکتی ہو۔۔ کیا تم ٹھیک ہو۔۔؟"
اسے نرمی سے کہتا وہ اپنائیت سے پوچھنے لگا۔۔
"میں پریشان ہوں، آپ میرے بڑے بھائی ہیں کیا میں آپ کو ہگ کر سکتی ہوں۔۔"۔ پروا اس کی نرمی اور تسلی پر یکدم رو کر بولی۔۔ وہ کتنی ڈری ہوئی اور اکیلی تھی۔ موسٰی کو شدت سے محسوس ہوا۔
اس کے سامنے بانہیں پھیلا دیں، وہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر رو پڑی۔۔ اس کا سر تھپتھپاتے موسٰی کو اپنے دل میں اتنی نرمی اور گنجائش شاید اپنی سگی بہنوں کے لیے بھی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی وہ اس وقت پُروا کے لیے محسوس کر رہا تھا۔۔ کبھی کبھی رشتوں کے لیے خون سے زیادہ احساس ضروری ہوتا ہے۔۔ وہ سگی بہن نہیں تھی مگر اس وقت اس چھوٹی سی لڑکی کے لیے وہ دل سے بڑا بھائی بن گیا تھا۔۔
"آپ کو پتا ہے آنی کیوں بیمار ہوئیں۔۔ کیونکہ وہ انکل سے جھگڑا کرتی ہیں۔۔ ان کی بات نہیں مانتیں۔۔"
وہ سسکتے ہوئے بولی تو وہ ٹھٹکا۔۔
"کیوں لڑتی ہیں۔۔ کیا کہتے ہیں انکل جو وہ نہیں مانتیں۔۔؟"۔ اس نے پروا کے بکھرے بال سمیٹ کر نرمی سے سوال کیا، وہ بھیگی آنکھیں رگڑنے لگی۔۔
"آنی کہتی ہیں مجھے صرف وہ خود کالج لے جائیں گی، وہ ٹھیک نہیں ہیں میں لاسٹ تھری ڈیز سے کالج نہیں جا رہی ان کی وجہ سے۔۔ انکل تو بس یہ چاہتے ہیں میرا لاس نا ہو، وہ پہلے بھی مجھے کالج لے جاتے تھے، آنی نہیں مانتیں۔۔ لڑتی ہیں، مجھے گھر سے نکلنے بھی نہیں دیتیں، کالج بھی نہیں بھیجتیں۔۔"
وہ اپنے غم سناتی پھر سے رو پڑی۔۔ یعنی اس کی نظر میں سارا قصور آنی کا ہی تھا۔ موسٰی کو حدیر کی بات یاد آئی، اس نے یہی کہا تھا مسٹر وقار اچھا انسان نہیں، کچھ ایسا تھا جو وہ جان گئی تھیں اور اب پروا کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔
"پروا میری ایک بات دماغ میں بٹھا لو۔۔ آنی تمہاری مما جیسی ہیں بٹ انکل تمہارے فادر بالکل نہیں۔۔
تمہاری آنی جو بھی کہیں وہ بات مانتی رہنا۔۔ اپنے انکل سے کلوز ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"۔ وہ سختی سے منع کرتا پروا کو پریشان کر گیا۔
"مگر انکل اچھے ہیں، وہ میری پرواہ کرتے ہیں۔۔ میری سٹڈی۔۔ "پُروا۔۔ انکل تمہارے فادر نہیں۔۔ "
موسٰی نے اس کی بات کاٹ کر سختی سے کہا۔
"آج کے بعد اپنی آنی اور بہنوں کے علاوہ کسی کے قریب مت ہونا، نا کسی کی بات ماننا اور نا ہی کوئی اچھا ہے۔۔ مارک مائی ورڈز۔۔۔"۔ موسٰی نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔ وہ غور سے اس کی بات سنتی سر ہلا گئی۔
"آپ بھی نہیں۔۔۔؟" اس نے سوال کیا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔ پھر نفی میں سر ہلاتا اٹھا اور اس کے پاس بنچ پر بیٹھ گیا۔
"ہاں اب میں بھی شامل ہوں۔۔ تمہاری آنی، بہنیں اور میرے علاوہ اور کوئی اچھا نہیں۔۔"۔ اس بار ردوبدل کے ساتھ جملہ ادا کیا تو وہ پرسکون ہوئی۔۔
موسٰی نے اسے سیدھا کر کے اپنے سامنے کیا تو اس کے حلیہ پر نظر پڑی۔
سٹالر بھی غائب تھا، ٹراؤزر شرٹ اور پیروں میں چپل۔۔ کافی بدل گیا تھا موسم۔۔ اسے ٹھنڈ بھی لگ سکتی تھی اور وہ اپنے نوخیز حسن کی وجہ سے سب کی نظروں کا مرکز بھی بن رہی تھی۔۔
اس نے جلدی سے اپنا کوٹ اتار کر اسے پہنایا تو وہ بالکل ہی چھپ گئی۔ وہ مطمئین ہو کر اٹھا۔۔
"اب آؤ تمہاری آنی کے روم میں چلیں۔۔ اب تم ان کے پاس سے کہیں مت ہلنا۔۔ مجھے تھوڑا کام ہے۔۔
آفس جاؤں گا لیکن فکر مت کرنا جلدی آ جاؤں گا، کوئی بھی پریشانی ہو تو مجھے کال کرنا اور تمہارے انکل گھر لے جانا چاہیں تب بھی مت جانا، تب تک نہیں جب تک میں نا آ جاؤں۔۔"۔ اسے اپنے ساتھ لیے سمجھاتے ہوئے وہ اس روم میں لے گیا جہاں مسز شائستہ پڑی تھیں۔۔ وہ ابھی ہوش میں نہیں تھیں۔۔
پروا ہونٹ لٹکائے پھر سے رونے کی تیاری کرنے لگی۔۔
"اب ٹھیک ہیں، بس سو رہی ہیں۔۔ یہ سسٹر یہیں رہیں گی کوئی ایشو ہو گا تو سنبھال لیں گی۔۔" موسٰی نے ایک نرس کی طرف اشارہ کیا جو مسز شائستہ کے سرہانے کھڑی تھی ۔ موسٰی کو دیکھ کر الرٹ ہو گئی۔۔
بلو ڈریس پینٹ پر وائٹ شرٹ، سنہری مائل بال اور نیلی آنکھیں، دراز قد سرخ و سفید رنگت والا وہ پرکشش انسان اس وقت نرس کی پوری پوری توجہ کا مرکز بنا تھا۔ پروا اس کی بات پر سر ہلا گئی۔۔
"پُروا۔۔ کہیں مت جانا۔۔ یہیں رہنا۔۔ کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے کال کرنا۔۔" جاتے جاتے پھر پلٹ کر پروا کے پاس آیا اور وہی ہدایت پھر سے دوہرائی۔ وہ سر ہلاتی رہی، موسٰی اس کی غائب دماغی محسوس کر کے سرد آہ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔
"سنو۔۔ وہ کون ہیں تمہارے۔۔؟" نرس نے اسے موسٰی کا کوٹ پہنے دیکھ کر تجسّس سے پوچھا۔
"میں ان کی بیبی ہوں تو مطلب وہ میرے بابا ہیں۔۔"
پروا کو اس کی ساری باتوں میں بس بیبی سسٹر کہنا یاد رہا تھا، اپنی مرضی سے سسٹر ہٹا کر بیبی بتاتی کندھے اچکا گئی، نرس کی آنکھیں پھیل گئی۔۔
اتنی بڑی لڑکی کا اتنا جوان باپ۔۔
پروا سٹول کھینچ کر آنی کے پاس بیٹھ چکی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°
وہ واش روم سے نکل کر بیڈ پر جا گری، کچھ دن سے طبیعت کافی بگڑ چکی تھی، نا وہ سہی سے کھا پی رہی تھی نا سنبھل رہی تھی۔۔۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ پورا پورا دن کھائے پیے بنا گزار دیتی ہے اسی لیے اس کی طبیعت بگڑ رہی ہے مگر اب حالت کچھ زیادہ خراب ہو رہی تھی۔۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور وومٹ کر کر کے آنتیں باہر آنے کو تھیں ۔۔
ملازمہ نے دروازہ بجا کر دوپہر کا کھانا لا کر رکھا۔۔
"سنو۔۔۔ مجھے۔۔ کچھ ہلکا پھلکا لا دو۔۔ جوس چاہئیے اور یہ لے جاؤ۔۔" پریہان کا گوشت والے سالن کی سمیل سے ہی جی متلانے لگا تو جلدی سے ٹرے سے دور ہوتی بول پڑی۔ ملازمہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
"جی بہتر چھوٹی دلہن۔۔ ابھی لائی۔۔"۔ ملازمہ ٹرے لے کر واپس مڑتی تیزی سے نکل گئی۔۔ چھوٹی دلہن سن کر اس کا دل ڈوب سا گیا تھا، آنکھوں سے لگاتار آنسو بہتے چلے گئے۔ آج پورا ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔
دل اب اس کی واپسی کی ضد کرنا چھوڑ چکا تھا، اس نے وقت کے دھارے پر خود کو چھوڑ دیا تھا۔۔
خانی بیگم کے دئیے وہ کھلے لباس پہنے رکھتی تھی۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ایک سیاہ شال اب ہر وقت اس کے وجود سے لپٹی رہتی تھی۔
پچھلے ایک ہفتہ سے زرشہ کبھی کبھی اسے وقت دینے لگی تھی، مگر اب کچھ دن سے وہ بھی پڑھائی کی وجہ سے شہر لوٹ گئی تھی۔۔
گل جان بیگم کو اس نے دوبارہ نہیں دیکھا تھا، نا اتنی ہمت تھی کہ اٹھ کر ان کا پتا کرتی۔۔
اس کی سفید شفاف رنگت میں زردی گھلنے کے باوجود کشش سی بڑھ گئی تھی۔
ملازمہ جب کمرے میں جوس اور فروٹ چاٹ کا باؤل بنا کر پہنچی تو وہ پھر واش روم سے نکل رہی تھی، زرد ہو چکا چہرہ بھیگ رہا تھا۔۔ ملازمہ کی نظریں اس کے سوگوار چہرے پر جم سی گئی تھیں۔
"چھوٹی دلہن۔۔ گل جان نے یہ بھیجا ہے۔۔ وہ کھانا بنا کر فارغ ہوں گی تو خود آئیں گی، کہا ہے آپ یہ سب ضرور کھائیں۔۔" ملازمہ کی ہدایت پر وہ سر ہلا گئی۔۔
گل جان بیگم کی حیثیت بدل چکی تھی، اب وہ صرف گل جان تھیں۔ پریہان نے دکھ سے بیڈ کراؤن کے پاس بیٹھتے ہوئے ٹیک لگائی اور جوس کے گھونٹ حلق سے اتارنے لگی۔۔ فروٹ چاٹ کے ساتھ چھوٹی سی کانچ کی پلیٹ میں چاٹ مصالحہ رکھا تھا، سارا انڈیل کر اچھا خاصہ چٹ پٹا کرنے کے بعد وہ پورا باؤل کھا گئی۔ پیٹ میں کچھ جانے کے بعد کافی بہتر محسوس ہوا تھا، پشت پر پھیلے شہد رنگ بال سمیٹ کر پھر سے بستر پر دراز ہو گئی۔۔ پچھلی کچھ راتیں بھوک اور طبیعت خراب کی وجہ سے بےچین گزری تھیں اس لیے وہ کچھ ہی دیر میں سو چکی تھی۔۔
گل جان فارغ ہو کر کمرے میں آئیں تو وہ سو رہی تھی، معصوم سے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی۔
وہ دکھ بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں، ان کے اپنے وجود پر ان گنت زخموں کا اصافہ ہو چکا تھا، ایک ماہ میں ہی بوڑھی نظر آ رہی تھیں، کپکپاتے ہاتھوں سے اس کے بکھرے بال سمیٹے۔۔
ملازمہ نے کچھ وقت پہلے کچن میں جا کر رازدارانہ سرگوشی میں اپنے شک کا اظہار کیا تھا۔
"مجھے لگتا ہے چھوٹی دلہن ماں بننے والی ہے۔۔ گوشت سے ابکائی آ رہی تھی، بار بار واش روم جا رہی تھی۔۔"
اس کی بات پر گل جان سہم گئیں، خانزادہ زندہ ہوتا تو یہ بات یقیناً پریہان کی عزت میں اضافے کرنے کا باعث بنتی مگر اب یہ بات سب کو پتا چلی تو۔۔
بچہ ہوا تو چھین کر اسے حویلی سے نکال دیا جاتا یا پھر ساری عمر وہ اس کم عمری میں ہی حویلی میں بیوگی کی زندگی گزرا دیتی۔۔
ان کا دل کٹنے لگا، ابھی وہ غم میں ہے جب سنبھلے گی تو اپنوں سے ملنا چاہے گی، چاہتی تو جا بھی سکتی تھی مگر وہ واقعی وارث دینے والی ہوئی تو اسے کہیں جانے نہیں دیا جائے گا۔۔۔
گل جان نے ملازمہ کو ڈپٹ کر چپ کروا دیا تھا مگر خود سوچ لیا تھا، خاموشی سے پریہان کا خیال رکھیں گی اور ہو سکا تو سمجھا کر واپس بھیج دیں گی۔۔
وہ اس پر بلینکٹ ٹھیک کرتیں واپس نکل گئیں۔۔
رات کے کھانے میں پریہان نے پھر سے وہی مانگا تھا۔
کھٹاس اور چٹ پٹے مصالحہ سے بھرا فروٹ چاٹ۔۔
گل جان بیگم نے مسکراہٹ چھپا کر باؤل تیار کیا۔۔
وہ رات کے کھانے کے لیے باہر نکل آئی تھی، کھانے کی ٹیبل پر اسے دیکھ کر یکدم سناٹا چھا گیا۔۔
سیاہ شال اوڑھے زرد رنگت پریہان کا وجود خوف سے کپکپا رہا تھا مگر وہ اب سب کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہ رہی تھی، وہ اب وہی کر رہی تھی جو خانزادہ چاہتا تھا۔۔
"میں۔۔ یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔۔؟"۔ اس نے جھجک کر نرمی سے سوال کرتے ہوئے سب کو دیکھا۔ ثنا بیگم نے نخوت سے سر جھٹکا، داور اور یاور کی بیویاں خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"تمہارا یہاں کیا کام ہے۔۔ تم ابھی تک حویلی میں ہی کیوں ہو۔۔ تمہیں میرا بیٹا زبردستی لایا تھا ناں؟ تو اب جاؤ وہ نہیں رہا تم آزاد ہو۔۔"۔ خانی بیگم نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ اسے اس کا کہا جملہ لوٹایا۔۔
"آپ کے بیٹے کی آخری نشانی ہے، اس کی امانت ہے یہ۔۔۔ آپ اسے حویلی سے نکال رہی ہیں۔۔؟"
خان داور نے بےچینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ خان آزر پریہان کو تک رہے تھے۔۔ وہ خانزادہ کی چاہ تھی اب اس کے لیے وہ دل میں نفرت نہیں رکھ پا رہے تھے ۔
داور کی بات پر خانی بیگم نے خاموشی اختیار کی۔
"بیٹا یہ کیا حماقت ہے۔۔ نشانی اور امانت جیسا کچھ نہیں۔۔ عدت پوری کر کے وہ جا سکتی ہے، اس کی عمر اتنی بڑی نہیں کہ وہ بیوگی میں تنہا زندگی گزارے۔۔"
خان زوار نے داور کو ٹوک کر پریہان کو دیکھا۔ فیصلے کے لیے منتظر کھڑے مجرم کی طرح وہ اپنی جگہ کھڑی ایک ایک کا منہ تک رہی تھی۔۔
"میرے خانزادہ کی بیوی ہے۔۔ اب اس کی بیوہ بن کر ہی رہے گی۔۔ اور تم۔۔" خانی بیگم یکدم بول کر اس کی طرف مڑیں۔۔ وہ متوجہ ہوئی جانے اب کیا حکم ملے۔
"عدت کا مطلب جانتی ہو۔۔؟ نامحرم کے سامنے نہیں آنا اب تم نے۔۔ نا تم سنگھار کرو گی نا باہر نکلو گی۔۔
چار ماہ دس دن۔۔ اپنے کمرے میں رہو جیسے اب تک رہتی آئی ہو۔۔ کھانا پانی مل جایا کرے گا۔۔۔۔"
خانی بیگم کے حکم پر اس کا دل سکڑا۔۔ قید کی سزا جیسا فیصلہ لگا تھا۔۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا خاموشی سے پلٹ کر چکی گئی۔۔
"بھابھی بیگم جوان لڑکے ہیں اس حویلی میں، آپ اسے یہاں جگہ دے رہی ہیں۔۔"۔ ثنا بیگم نے دبے دبے الفاظ میں خدشہ ظاہر کیا تھا، وہ سر جھٹک گئیں۔
"وہ کمرے میں رہے گی۔۔ اسے باہر نکلنے کی اجازت اب کبھی نہیں ملے گی۔۔ خانزادہ کا کمرہ اس کا آخری ٹھکانہ ہے۔۔ فکر مت کرو اب وہ کسی کے نکاح میں نہیں جائے گی۔۔ وہ میرے بیٹے کے نام رہے گی تاعمر۔۔"
خانی بیگم سکون سے بول رہی تھی، خان زوار نے خشمگیں نظروں سے داور کو دیکھا جو خود بوکھلا گیا تھا یہ فیصلہ سن کر۔۔۔ اس نے ایسا کب چاہا تھا وہ تو بس پریہان کے لیے آسانی کرنا چاہ رہا تھا۔۔
سب کو خاموش ہونا پڑا مگر ثنا بیگم کے لیے مشکل بڑھ چکی تھی، ان کے دونوں بیٹے کچھ زیادہ طرفداری کرتے تھے پریہان کی۔۔ وہ اسے حویلی میں عدت کے بعد برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔۔
پریہان تاریک کمرے کے پچھلی جانب گلاس وال سے نظر آتے سنسان تاریک باغ پر نظر جمائے جانے کتنی دیر بیٹھی رہ گئی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی اپنے اپارٹمنٹ میں اس وقت اکیلا بیٹھا تھا، بیماری اور اپنے لالا کی جدائی کے غم سے سنبھل کر آج پہلی بار یونی گیا تھا وہاں سب جاننے والے سٹوڈنٹس اور سٹاف تک نے اس سے خانزادہ حدیر کی موت کا افسوس کیا تھا۔۔
"تمہارے بھائی کی موت کا افسوس ہوا عیسٰی خان۔۔۔ وہ بہت جوان تھا، اللّٰہ تمہیں صبر دے۔۔ صبر کرو جانے والے لوٹ کر نہیں آتے۔۔ اللّٰہ کی امانت تھی لے لیا۔۔"
اس کی زندگی کے بدترین جملے تھے جو آج وہ سن کر آ رہا تھا۔۔ کبھی کبھی اپنوں کے مرنے پر دیا جانے والا دلاسہ اور تسلی غم کی شدت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔۔ اس کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔
وہ یہ جملہ بار بار سن کر مرنے والا ہو رہا تھا کہ حدیر مر گیا ہے اب نہیں لوٹے گا۔۔۔
اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر سب سے کہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے، اسے تسلی اور تعزیت نہیں چاہئیے۔۔ اسے تنہائی چاہئیے تھی۔۔
اس نے سنا تھا اللّٰہ برداشت سے بڑا غم نہیں دیتا اور جب وہ غم دیتا ہے تو صبر بھی عطا کرتا ہے۔۔
اسے جلدی تھی صبر پانے کی، غم سے نجات پانے کی۔۔
یہ وقت کٹ جائے کسی طرح مگر دل کہیں اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا تھا، وقت تو کٹ جائے گا، صبر بھی آ جائے گا مگر حدیر لالا کہاں سے لائے وہ۔۔۔
وہ گھٹنوں میں سر دئیے سسک رہا تھا۔ اپارٹمنٹ میں ہر وقت جلنے والی روشنیاں اور ایل۔ای۔ڈی جس کی آواز لاؤڈ رکھتا تھا۔ آج سب بند تھا اور خاموشی تھی۔
رنگ بیل پر وہ کچھ دیر بےحس بنا بیٹھا رہا مگر شاید آنے والے ڈھیٹ تھے۔۔ اس نے اٹھ کر کچن کے ہی سنک سے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے اور چہرہ صاف کر کے دروازہ کھولا۔۔
سامنے حسن اور احمر کھڑے تھے، ان کے پیچھے آئرہ بھی موجود تھی، وہ ٹھٹک گیا۔
"آؤ لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں یار۔۔ " حسن نے مسکرا کر کہا، وہ آئرہ کو دیکھتا نفی میں سر ہلا گیا۔
"سوری موڈ نہیں۔۔ اور نہیں کا مطلب نہیں۔۔۔"۔ بھاری نم آواز میں بول کر صاف انکار کر گیا۔۔ بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
اس کا حلیہ اور چہرہ بتا رہے تھے وہ ابھی روتا رہا ہے۔۔
"اچھا باتیں کر لیتے ہیں، بےمروتی مت دکھاؤ۔۔۔"
اسے وہیں دروازے پر جما دیکھ کر احمد نے دھکا دے کر ایک طرف کیا اور حسن کے ساتھ اندر گھس گیا۔
"تم کیوں آئی ہو یہاں؟"۔ عیسٰی نے دروازے پر موجود آئرہ سے سوال کیا۔ لہجہ سخت تھا۔
"تمہارے لیے۔۔۔ اپ سیٹ تھے تم۔۔ میں ان دو کے ساتھ نہیں آئی، اپنی گاڑی میں آئی ہوں۔ اندر نہیں آنے دو گے۔۔؟"۔ وہ بےتکلفی سے بولتی آپ سے تم تک کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ عیسٰی نے خاموش نظر اس پر ڈالی۔
"نہیں۔۔ تم اندر نہیں آ سکتیں، میں غم میں ہوں مگر عورت نہیں بن گیا کہ تم منہ اٹھا کر میرے دوستوں اور میرے ساتھ تنہا آ کر بیٹھ جاؤ۔۔۔"۔ وہ سرد لہجے میں بولتا دروازہ بند کرنے لگا جب آئرہ آگے ہوئی۔۔
"خود پر یقین نہیں ہے کیا۔۔ مجھے تم پر یقین ہے۔۔"
آئرہ یقین بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔۔
"بات سنو۔۔ میں مرد ہوں۔۔ مجھے واقعی خود پر یقین نہیں۔۔ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو پارسائی کے دعوے کرتے کرتے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔۔ میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یاد رکھوں، مرد ہوں اور مجھ پر شیطان غالب آ سکتا ہے۔۔
جس گاڑی پر اکیلی آئی ہو اسی پر واپس چلی جاؤ۔۔ تم یہاں تک آج آئی ہو، دوبارہ مت آنا۔۔"
وہ سرد اجنبی لہجے میں کہتا دھڑ سے دروازہ بند کر چکا تھا۔۔ آئرہ اپنی جگہ جم کر رہ گئی۔۔
"کیا ہوا، آئرہ اندر نہیں آئی۔۔" احمر نے حیرت سے دروازے کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
"نہیں۔۔ چلی گئی۔۔"۔ وہ بس اتنا بولا۔۔
"چلی گئی یا بھیج دیا۔۔؟"۔ حسن نے ابرو چڑھائے۔
"تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔۔؟
میرے لیے آئے ہو تو میں یہیں ہوں۔۔ اس کے لیے آئے تھے تو وہ دروازہ ہے جا سکتے ہو۔۔"
وہ دھاڑ کر بولتا دونوں کو چپ کروا گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
رات کا پچھلا پہر تھا، یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، رات میں خنکی کافی بڑھی ہوئی تھی، اونچا لمبا پٹھان لڑکا مردانہ شال اوڑھے خاموشی سے چلتا ہوا ایک چھوٹے سے کلینک کے سامنے رک گیا۔ دروازہ ہلکے سے بجایا، رات کے سناٹے میں دور کہیں سے کبھی کبھی بھیڑئیوں کی آواز گونجتی اور پھر خاموشی چھا جاتی، چاند پورے جوبن پر تھا، جس کی روشنی سے زمین دودھیا روشنی سے نہائی ہوئی تھی۔
کلینک کا دروازہ کھلا تو وہ مردانہ شال میں پوری طرح چھپا ہوا لڑکا اندر داخل ہوا۔۔
"یہ رہا سامان۔۔ جو تم نے منگوایا تھا۔ کیا پروگریس ہے؟" بھاری رعب دار آواز پر سامنے کھڑا ادھیڑ عمر ڈاکٹر کپکپا گیا۔
"ک۔۔کچھ امید نہیں لگ رہی۔۔۔ خو۔۔خون بہت ضا۔۔"
ابھی اس کی بات درمیان میں تھی جب وہ لڑکا خونخوار تیور لیے اس کی گردن دبوچ گیا۔
"ڈاکٹر تمہارا کام علاج ہے۔۔ تم وہ کرو۔۔ شفا اللّٰہ نے دینی ہے وہ دے دے گا۔۔ تم نے ایک بھی غلطی کی تو یہیں زندہ دفن کر دوں گا۔۔"
وہ غرا کر بولتا ڈاکٹر کے چھکے چھڑا گیا۔ اس کے چھوڑتے ہی جھٹکا کھا کر سنبھلتا ڈاکٹر سامنے بیڈ پر پڑے نیم مردہ وجود کی جانب بڑھ گیا۔۔
لڑکے کی خون رنگ آنکھیں اس وجود پر جمی بھیگتی چلی جا رہی تھیں۔۔
وہ آفس سے رات کو فری ہو کر سیدھا ہاسپٹل پہنچا، آج کل ویسے بھی خانزادہ کے شہر والے گھر میں اس کی رہائش تھی، وہاں کوئی منتظر نہیں تھا کہ جلد واپسی کی کوشش کرتا۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ ہاسپٹل پہنچ گیا تھا، سارا دن پروا نے ایک بار بھی کال نہیں کی تھی، اس نے کال کی تو آنی کے جاگ جانے کا بتا کر ایسے جلدی بند کی جیسے ٹرین چھوٹ رہی ہو۔۔
اس کی آنی کی آنکھ کھل چکی تھی، اب گویا اسے کسی ایکس وائی زی کی پروا بھی نہیں تھی۔۔
عجیب لاپرواہ اور دنیا سے انوکھی لڑکی تھی۔
وہ نفی میں سر ہلاتا کمرے کے دروازے پر پہنچا تھا جب وہی نرس دروازے سے نکلتی اس سے ٹکرائی۔
"سر آپ کی پیشنٹ کافی بہتر ہیں، میری ڈیوٹی ختم ہے ابھی کچھ دیر تک اور نرس آ جائیں گی۔۔"
وہ بنا سانس لیے تیزی سے بولی تو موسٰی نے سر ہلایا۔
تھکن چہرے پر واضح تھی، سر پر جیل سے جمائے بال اب کافی بکھر چکے تھے۔۔ اس وقت اس نے بلیک ٹو پیس پہن رکھا تھا، کوٹ بازو پر رکھے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ کسی کا بھی دل دھڑکا سکتا تھا، نرس نے دل مسوس کر اسے دیکھا تھا، بھلا وہ ایک جواں بیٹی کا باپ لگتا تھا۔۔
"اینڈ سر پیشنٹ کو میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق سوپ دے دیا تھا بٹ آپ کی بیٹی نے سارا دن کچھ نہیں کھایا پیا۔۔" نرس کی بات پر سر ہلاتے خان موسٰی کی آنکھیں خطرناک حد تک پھیلیں۔۔
"ایکسکیوزمی۔۔۔ میری بیٹی۔۔؟" وہ بےساختہ رک کر پوچھنے لگا، نرس نے پلٹ کر کمرے میں موجود پُروا کو دیکھا جو سٹول پر بیٹھی نیند میں جھوم رہی تھی، وہ خجل سا ہوا۔۔
"تھینکس یو مے گو ناؤ۔۔"۔ وہ سخت لہجے میں کہتا کمرے کا دروازہ بند کر کے وہیں سے پلٹا اور ہاسپٹل کی کینٹین سے ہی کھانے کا سامان لے کر واپس کمرے کی طرف آیا۔۔ اندر داخل ہو کر پہلے مسز شائستہ کو چیک کیا وہ سکون سے سو رہی تھیں ۔
"پروا۔۔۔؟" آہستگی سے پروا کو پکارا، وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔۔
"یہ لو کچھ کھا لو۔۔ یہاں آ کر سہی سے بیٹھو۔۔۔"
اسے نرمی سے بلا کر بیڈ سے کچھ دور پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر اس کے پاس بیٹھی اور پیکٹس لے کر کھولنے لگی۔۔
"یہ بتاؤ تم نے نرس سے کہا کہ میں تمہارا فادر ہوں۔۔؟"
اسے گھور کر سوال کیا تو وہ آہستگی سے گھومتی اس کی طرف پشت کر کے بیٹھ گئی، یعنی وہ ایسا کہہ چکی تھی مگر اب کیا کر سکتی تھی۔۔
"بیڈ گرل۔۔ میں تمہارا بڑا بھائی ہوں، تمہیں ایک ینگ سنگل لڑکے کو فادر بناتے ہوئے شرم نہیں آئی۔۔؟"
وہ تاسف سے سر ہلاتے کہہ رہا تھا، پروا نے زرا سا چہرہ موڑ کر چور نظر اس پر ڈالی۔۔
"وہ آپ کو بہت زیادہ گھور رہی تھی پھر مجھ سے پوچھنے لگی آپ میرے کیا لگتے ہیں، وہ بڑی ہیں میں ان کو شٹ اپ کال نہیں دے سکی میں نے کہہ دیا آپ میرے بابا۔۔"۔ وہ وضاحت دیتی آخری بات پر شرمندگی سے سر جھکا گئی، موسٰی کو حیرت ہوئی وہ چھوٹا سا ٹوئٹی کافی تیز تھا۔ اسے گھورتے کوئے یکدم وہ ہنس پڑا۔۔ پریشان بیٹھی پُروا کی آنکھیں چمکیں یعنی وہ ناراض نہیں۔۔
"دوبارہ کسی سے ایسا مت کہنا۔۔ ورنہ میں سنگل رہ جاؤں گا اور سکینڈل بن جائے گا کہ میری چھپی ہوئی اتنی بڑی بیٹی ہے۔۔"۔ موسٰی نے ہنستے ہوئے سمجھایا۔
"میری فرینڈ کے جو بڑے بھائی ہیں وہ اس کو بیٹا کہتے ہیں، آپ بھی تو میرے بڑے بھائی ہیں۔۔"
وہ اسے دیکھتی سمجھانا چاہ رہی تھی کہ اس نے کوئی اتنی انہونی بات نہیں کی۔ موسٰی سر پکڑ بیٹھا۔
وہ خاموشی سے ہاتھ میں پکڑے کپ کیک کو کترتی موسٰی کو دیکھتی جا رہی تھی۔ اسے اپنا بڑا بھائی بہت زیادہ پسند آیا تھا جو کسی بات پر ڈانٹ نہیں رہا تھا، آنی کا خیال بھی رکھ رہا تھا۔۔
"اچھا یہ بتاؤ تمہارے انکل نہیں آئے ہاسپٹل۔۔؟"۔ موسٰی نے خیال آنے پر حیرت سے پوچھا۔
"آنی نے منع کیا ان کو نا بتاؤں ہم ہاسپٹل میں ہیں۔۔ اپیا کو بھی بتانے سے منع کر دیا۔۔ میں چاہتی تھی اپیا آ جاتیں تو آنی اور میرا خیال رکھتیں۔۔"
وہ اداسی سے بولتی منہ بنا کر اپنی آنی کو دیکھنے لگی، موسٰی نے سکھ کا سانس بھرا۔
"اپیا کیوں۔۔ تم اپنا اور آنی کا خود خیال رکھ سکتی ہو پُروا۔۔ میں بھی یہیں ہوں۔۔ اپنی اپیا کو مت بتانا۔۔"
وہ نرمی سے منع کر گیا، اسے پتا چلا تھا پریہان کو عدت میں بٹھایا ہوا ہے، اس کو کبھی آنے نہیں دیا جائے گا۔۔ پروا سر ہلا گئی۔۔
"آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔؟"۔ پروا نے آہستگی سے جھجکتے ہوئے سوال کیا تو وہ سر ہلا گیا۔۔
"حدیر بھائی بہت اچھے تھے، وہ بہت پیار سے بات کرتے تھے، کیا وہ بھی مجھے اپنی چھوٹی بہن سمجھتے تھے؟ وہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔۔"
پروا کی آنکھیں پل بھر میں بھیگ گئی تھیں، موسٰی کا دل رک سا گیا، شاید ہی کوئی ہو گا جسے حدیر خانزادہ سے پیار نہیں تھا۔۔ اس کا دل بھر آیا۔۔
"جانتی ہو میں کیوں یہاں ہوں؟ کیونکہ مجھے اسی نے کہا تھا کہ ایک چھوٹی سی گڑیا ہے اس کا خیال رکھنا۔۔ اس تم بہت عزیز تھیں۔۔"
موسٰی نے مدھم نم لہجے میں بتایا تو وہ یکدم ٹانگیں سمیٹ کر گھٹنوں میں چہرہ چھپاتی رو پڑی۔
موسٰی بوکھلا گیا، مسز شائستہ کو دیکھا کہیں وہ آواز پر جاگ نا جائیں۔ ہولے سے پروا کا سر سہلایا۔
"وہ مجھے یاد آتے ہیں بہت۔۔ ایسا لگتا ہے کہیں سے آ جائیں گے اور کہیں گے وہ سب جھوٹ تھا وہ زندہ ہیں۔۔"۔ وہ بھیگی آنکھوں سے موسٰی کو دیکھتی وہی بات کر رہی تھی جیسا اکثر اوقات ہم اپنے مر جانے والے پیاروں کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔ موسٰی کے دل نے شدت سے دعا کی اس کا کہا سچ ہو جائے، حالانکہ وہ جانتا تھا ایسا نہیں ہو سکتا پھر بھی۔۔
کبھی کبھی حقیقت سے نظر چرانا سکون دیتا ہے۔۔
پروا کو تسلی دیتے ہوئے اسے بےساختہ پریہان کا خیال آیا، پروا بہت کم ملی تھی حدیر سے۔۔
پریہان کا رشتہ الگ تھا، قریبی تعلق تھا، اس کا کیا حال ہو گا۔۔؟ اسے کسی نے ایسے سنبھالا بھی تھا جانے یا نہیں۔۔۔ اکیلے کمرے میں دن رات اپنے غم کو اپنے اندر دبا کر اس کا کیا حال ہو گا۔۔
حدیر ہوتا تو یہ سب کبھی برداشت نا کر سکتا۔۔
موسٰی کو شدت سے بےبسی کا احساس ہوا، وہ پریہان کی فکر کرے، ہمدردی جتائے تو پریہان کے لیے ہی مسئلہ کھڑا ہونا تھا۔ حویلی والوں کی ذہنیت کب بدل جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔۔
اس نے سوچ لیا گل جان سے بات کرے گا، ان کا بھی خیال بھی وہ نہیں رکھ پا رہے تھے، خانزادہ حدیر جیسی جرات اور ہر ایک سے بات منوانے کی ہمت ان میں سے کسی میں نا تھی۔۔ عیسٰی سب سے چھوٹا تھا لاڈلا تھا مگر کچھ لاپرواہ تھا، وہ حویلی میں ہی کم ٹکتا تھا۔۔ لاپرواہ تو کچھ عرصہ پہلے تک وہ بھی تھا۔۔
حدیر نے جاتے جاتے سب کی فکر اس میں ڈال دی تھی۔۔
کندھے پر بوجھ محسوس ہونے پر وہ سوچوں کے گرداب سے نکلا تو پروا کو اپنے کندھے پر سر رکھے سوتا پایا۔۔ بچوں کی طرح بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتی تھی، گہرا سانس بھرا۔۔
اس کا سر سنبھال کر پکڑتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے وہیں صوفے پر سلا دیا۔۔ اپنا کوٹ اس پر پوری طرح سے پھیلا دیا۔
وہ دونوں ہاتھوں میں چاکلیٹس دبوچے سو رہی تھی۔
وہ بےساختہ نم آنکھوں سے مسکرایا۔۔
اتنی کم عمر نہیں تھی جتنی حرکتوں سے بچی تھی۔
"اللّٰہ سے دعا ہے تمہارا نصیب تمہاری اپیا جیسا نا ہو لٹل پنک ٹوئٹی۔۔"۔ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اس نے دل سے دعا دی۔۔ پلٹ کر مسز شائستہ کو دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ اس کے نکلنے پر رات کی ڈیوٹی والی نرس کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔۔ وہ گھر پہنچا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔۔
موبائل پر صبح چھ بجے کا الارم لگا کر وہ چند گھنٹوں کے لیے بستر پر دراز ہو گیا۔۔
حدیر کیسے شہر میں بزنس اور حویلی کے معاملات ایک ساتھ سنبھال لیتا تھا۔۔ موسٰی کچھ دن میں تھک رہا تھا وہ کیسے پچھلے چار پانچ سالوں سے سب سنبھالے مسکراتا پھرتا تھا۔۔
موسٰی کو سونے سے پہلے بھی اسی جانے والے کا ہی خیال آ رہا تھا ۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
روڈ پر سلور گرے بوگاٹی اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی۔۔ گاڑی میں اونچی آواز میں سیڈ سونگ گونج رہا تھا۔۔
دور منزل ہے راہ گزر تنہا۔۔
راستہ ختم ہی نہیں ہوتا۔۔
ریزہ ریزہ ہیں خواب آنکھوں میں۔۔۔۔
کیسے کہہ دوں کہ غم نہیں ہوتا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا۔۔
کیا کروں درد کم نہیں ہوتا۔۔
لوگوں نے گانے کے بول پر اسے کوئی مجنوں، ناکام عاشق کا خطاب دیا تھا،۔ گاڑی میں ارد گرد کی پرواہ کیے بِنا بےمنزل راستے پر جاتے عیسٰی خان نے آستین سے آنکھیں رگڑ کر آنسو صاف کرتے ہوئے سامنے کا منظر واضح کیا جو بار بار دھندلا رہا تھا۔۔ اس پر ویسے تو پچھلے ڈیڑھ ماہ سے غم کی کیفیت ہی چھائی رہتی تھی مگر آج اس کا برتھ ڈے تھا۔۔
اس کی پیدائش کا خاص دن اور زندگی کی اب تک گزری تمام پچھلی برتھ ڈیز پر سب سے پہلے خانزادہ حدیر کی وشز ملتی تھیں اس کو۔۔
وہ کوشش کرتا تھا مصروفیت سے وقت نکال کر سامنے بیٹھ کر وش کرتا تھا۔۔ اسے سامنے بیٹھا کر کیک کٹ کرواتا تھا۔۔
عیسٰی ویسے تو میچور ہو گیا تھا مگر اپنے حدیر لالا کے سامنے بچہ بنے رہنا اسے پسند تھا۔۔
کیک کاٹتے ہی وہ ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیتا تھا۔۔
گفٹ اور گفٹ بھی مہنگا ترین۔۔ سب کو لگتا تھا امیر باپ کا بیٹا تھا اس لیے اس کا اس عمر میں ہی زاتی فلیٹ، مہنگی ترین گاڑی اور ہر بار بدلتا نیا مہنگا موبائل تھا مگر نہیں۔۔ یہ سب تو اسے ہر بار اس کے حدیر لالا کی طرف سے تحفہ ملتا تھا۔۔
اسے عیسٰی بہت پیارا تھا، عزیز ترین تھا اور یہ بات عیسٰی جانتا بھی تھا اور کیش بھی کرتا تھا۔۔
اس نے لب بھینچ کر خود پر ضبط کے کڑے پہرے بیٹھانے چاہے، کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جن کی شدت تو وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے مگر تشنگی بڑھتی جاتی ہے۔۔ جیسے اس میں حسرت سلگ رہی تھی خانزادہ کو چھونے کی، سینے سے لگنے کی تشنگی۔۔
زندگی کے اداس لمحوں میں،
تیزی یادوں کا سائبان تو ہے۔۔
تیرا احساس تیری خوشبو ہے ۔
میرے اپنوں کا ایک مان تو ہے۔۔
یہ چراغوں کو کیا بجھائیں گی۔
کہ ہواؤں میں دم نہیں ہوتا۔۔
وہ ٹریفک سے گاڑی نکالتا ویرانے روڈ پر لا چکا تھا، گاڑی میں سنگر کی دھیمی آواز نے عجیب ٹینشن زدہ ماحول کیا ہوا تھا۔
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا۔۔
کیا کروں درد کم نہیں ہوتا۔۔
وہ ایک جگہ جھٹکے سے گاڑی روک کر سٹیرنگ پر سر رکھے تھک کر سسکنے لگا، موبائل پر گھر والوں کی اور موسٰی کی کالز آتی رہی تھیں، مگر وہ حدیر کے بغیر اپنی برتھڈے کی کوئی وش بھی سننا نہیں چاہتا تھا۔۔
گاڑی میں اس کے دوستوں کے دئیے گفٹس اور موبائل پر میسجز ابھی تک ان دیکھے پڑے تھے۔۔
آئرہ نے آج کافی کی آفر کی تھی، وہ خیال رکھنا چاہتی تھی، وہ پرواہ کرتی تھی۔۔ اچھی تھی۔۔
مگر عیسٰی کا دل اکتا گیا تھا سب سے۔۔ سب کی فکر سے اور پرواہ سے۔۔ اسے دلاسے مذاق لگتے تھے۔۔
وہ کتنی دیر خالی روڈ پر اکیلا گاڑی میں بیٹھا رہا۔۔
نا گارڈز ساتھ تھے نا کوئی سیکیورٹی۔۔ ان کے دشمن شاید خانزادہ کو مار کر اب ان کی روز ملنے والی موت کا تماشہ دیکھتے تھے۔۔ کہتے ہیں بدترین موت گولی سے نہیں دی جاتی، کسی پیارے کو چھین کر تڑپنے کے لیے چھوڑ دو، سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دو۔۔ اس سے بدتر موت کچھ نہیں۔۔ آفریدی حویلی والوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا دشمنوں نے۔۔۔
وہ رات گئے تک وہیں بیٹھا رہا پھر تھک کر اونگھنے لگا، سر جھٹک کر آنکھوں کو زبردستی کھولے جیسے تیسے واپس اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچا تو رات کے تین بج رہے تھے، ڈور کھول کر اندر آیا تو چونک گیا، موسٰی وہیں لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں لالا۔۔" عیسٰی نے شرمندگی سے پوچھا تو نیم غنودگی میں صوفے کی پشت پر سر تکا کر بیٹھے موسٰی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"ملنے آیا تھا۔۔ کہاں تھے تم۔۔؟"۔ موسٰی کی سنجیدہ سخت آواز پر وہ سر جھکائے اس کے سامنے آ بیٹھا۔
"وہ دوستوں کے ساتھ۔۔۔ تھوڑا ڈرائیو پر۔۔"۔ عیسٰی کو بہانہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ ہکلا کر بےمطلب ادھورے جملے بولتا موسٰی کو غصہ دلا گیا۔۔
"رات کے تین بجے تک۔۔؟"۔ موسٰی نے وال کلاک پر ٹائم دیکھتے ہوئے غصیلے لہجے میں سوال کیا تو وہ سر ڈال گیا۔۔
"اگر یہ عیاشیاں کرنی ہیں تو میرے مرنے کا بھی انتظار کرو عیسٰی خان۔۔ آج کے بعد رات کو وقت پر گھر پہنچو گے۔۔۔ یونی ختم ہوتے ہی بزنس جوائن کرو، کافی انجوائے کر لیا تم نے۔۔"۔ موسٰی تیکھے لہجے میں کہتا وارننگ دے رہا تھا۔ جانے کہاں کہاں گھومتا تھا وہ پوری رات۔۔ غم کے نام پر وہ اسے یوں ڈھیل نہیں دے سکتا تھا۔ وہ اب بھی سر ڈالے بیٹھا تھا۔۔
"میں جانتا ہوں تم دکھ میں ہو عیسٰی۔۔ مگر خود کو خود سنبھالو گے تب ہی یہ غم کچھ کم ہو گا۔۔
مرد ہو یار۔۔ ایسے کیوں ہمت ہارے پھر رہے ہو۔۔"۔
موسٰی کو اس کے یوں سر ڈال کر بیٹھے رہنے سے تکلیف ہوئی تو نرمی سے سمجھایا اور آگے بڑھ کر اس کا کندھا تھپکا۔
عیسٰی یکدم اٹھ کر اس کے سینے سے لگ گیا۔۔
"کبھی کبھی بہت زیادہ یاد آتے ہیں وہ۔۔۔ آج ان کی کمی بہت محسوس کر رہا ہوں۔۔ بہت مشکل سے دن گزرا ہے لالا۔۔"۔ عیسٰی بھیگی آواز میں بولتا موسٰی کو پریشان کر گیا۔ وہ بےساختہ اسے خود میں بھینچ کر اس کی پشت سہلانے لگا۔۔
تسلی، دلاسہ، بہلاوا۔۔ سب الفاظ ختم تھے۔۔ وہ جانتے تھے کبھی کبھی الفاظ ںےمعنی ہوتے ہیں۔۔ بس سہارا کافی ہو جاتا ہے۔۔ اس لیے گلے لگ کر چپ چاپ آنکھیں بھگو کر بیٹھے رہے۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
آج اسے اس کمرے میں بند ہوئے مزید بیس دن گزر چکے تھے اور بیوہ ہوئے تقریباً دو ماہ۔۔ وہ انگلیوں پر دن گنتی تھی، پھر گھنٹوں کا حساب لگاتی تھی۔۔
سیاہ شال کے نیچے خانی بیگم کا بھیجا سفید اور بالکل سادہ لباس پہنا ہوا تھا۔۔
بال اب کمرے سے نیچے تک جاتے تھے اور بکھرے ہی رہتے تھے۔۔ لوگوں سے ملنا جلنا بند تھا، اپنے گھر والوں سے کال پر بات کر لیتی تھی، ملنا تو ابھی ممکن نا تھا، پریسہ دور تھی ڈیلی کال کر لیتی تھی، وہ اور پروا جانے کیا بولتی رہتی تھیں پریہان پوری کوشش کر کے بھی نا سن پاتی تھی نا سمجھ پاتی تھی۔۔۔
دماغ خالی خالی سا ہو چکا تھا سوچیں بھی نہیں تھیں پھر بھی بات سمجھنا مشکل ہو گیا تھا۔۔
آنی نے پچھلے کچھ دنوں سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا شاید تھک گئی تھیں دلاسے دے دے کر۔۔۔ جب سے انہوں نے بات کرنا چھوڑا تھا پریہان نے اب رونا چھوڑ دیا تھا ایسا نا ہو باقی سب بھی تھک جائیں۔۔
پچھلی جانب باغ پر نظر رکھ کر گلاس وال سے سر ٹکائے خلاؤں میں تکتی رہتی، کبھی کبھی خانزادہ کے پرفیوم اپنی شال پر چھڑک کر اسے محسوس کر لیتی تھی۔۔ عجیب انسان تھا جاتے جاتے اپنی محبت اس کے اندر گہری کر گیا تھا۔ نا وہ جینے کی رہی تھی نا مر رہی تھی۔۔
گل جان کبھی کبھی آ جاتی تھیں، زیادہ تر ان سے حویلی کے کام کروائے جاتے تھے، وہ بھی وقت نہیں نکال پاتی تھیں۔۔ اس کی طبیعت بوجھل کی بوجھل ہی تھی۔۔ جو کھاتی تھی وومٹ کر دیتی تھی۔۔
اپنے اندر تبدیلی محسوس ہوتی تھی مگر سر جھٹک دیتی تھی۔۔۔ بس ایک کام کرنے لگی تھی اب کھاتی ڈٹ کر تھی، بھوک پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی تھی۔۔ اسے گل جان کی بات یاد آنے لگی۔۔
"پریہان اگر تم ماں بننے والی ہو تو اپنا خود خیال رکھو۔۔ اچھی خوراک لو اور سوچوں سے آزاد رہو۔
حویلی والوں کو مت بتانا، عدت پوری ہو جائے تو خاموشی سے گھر واپس چلی جانا۔۔
یہ بچہ حویلی والوں کا وارث بعد میں پہلے تمہاری اولاد ہو گا۔۔ اسے اپنے پاس رکھنا۔۔"
وہ بولتی رہی تھیں، پریہان سنتی رہی، پھر خود پر پھیلی شال مزید پھیلا کر خود کو چھپا کیا۔۔
"ایسا کچھ نہیں، مجھے ٹینشن میں کھانا ڈائجسٹ نہیں ہوتا۔۔"۔ وہ بونگی دلیل دیتی مُکر گئی۔۔
جانے کیوں وہ یہ بات محسوس تک نہیں کر پا رہی تھی، خوشی یا غم کے تاثرات تو بعد میں آتے۔۔
گل جان بیگم سر ہلا گئی تھیں۔۔ بات ختم ہو گئی۔۔
"آپ تھک جاتی ہوں گی۔۔ میری عدت ختم ہو جائے گی تو آپ کے ساتھ سب کام کرواؤں گی۔۔۔
میرے خیال میں اب تو ہم برابر حیثیت کی عورتیں ہیں مورے گل۔۔ آپ ونی میں آئی عورت اور میں ان چاہی بہو جو اب بیوہ ہو چکی ہے۔۔"
اس کے الفاظ بےرحم ہو چکے تھے، گل جان ساکت سی اسے دیکھنے لگیں، نازک سی لڑکی جو کل تک یہاں اپنا دم گھٹتا محسوس کرتی تھی، آج ایسے بیٹھی تھی جیسے اس کے اندر زندگی ختم ہو چکی ہو۔۔
اب چاہے ایک کمرے میں بیٹھے بیٹھے زندگی جی لے یا ملازمہ بن کر دن رات کام کر کے جیے۔۔۔
گل جان خاموشی سے پلٹ کر چلی گئی تھیں، وہ بستر پر بیٹھتی باہر ہونے والا شور سن رہی تھی ۔
آج حویلی میں خانی بیگم کی اونچی روتی آواز گونج رہی تھی، آج ان کے میکے والے آئے تھے۔۔
ان کے بھائی بھابی اپنے بیٹے صالح خان کا رشتہ پلوشے کے لیے لائے تھے۔۔ ان کا کہنا تھا خانزادہ خود صالح سے کہہ چکا تھا اگر وہ پلوشے سے شادی کرنا چاہتا ہے تو رشتہ بھیجے اور پھر کچھ دن بعد تو وہ حادثہ میں مر گیا، موقع نہیں ملا صالح خان کو اس کا کہا پورا کرنے کا۔۔
پریہان کو یاد تھا اپنے مرنے سے کچھ روز پہلے اس نے حویلی میں یہ بات چھیڑی تھی اور اچھی خاصی بحث کر چکا تھا۔۔ موسٰی خان نے صاف انکار کر دیا تھا کہ وہ شادی شدہ مرد ہے پلوشے اس سے بہتر ڈیزرو کرتی ہے، ثنا بیگم نے بیٹے کی بات پر پہلی بار اسے بےنقط سنائی تھیں، وہ خود کو کمتر کیوں کہہ رہا تھا آخر۔۔
خان یوسف نے اس بات پر بھی خانزادہ سے جھگڑا کیا اور ڈانٹا بھی تھا کہ وہ ناصرف خود بغاوت کر چکا ہے بلکہ دوسروں میں بھی بغاوت ڈال رہا ہے۔۔۔
وہ ایک ایک سے بحث کرتا حویلی سے چلا گیا تھا۔۔
اور آج اس کی موت کے چالیس دن گزر جانے کے بھی کافی دن بعد وہ لوگ رشتہ لائے تھے۔۔
"لالا کچھ تو صبر کیا ہوتا۔۔ میرے خانزادہ کے قبر کی ابھی مٹی بھی نہیں خشک ہوئی آپ یہاں شادیانے بجانے کی تیاری میں ہیں۔۔" خانی بیگم کا بین جاری تھا، پھپک پھپک کر رو رہی تھیں اور سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ خان یوسف تو گم صم سے پڑے رہتے تھے۔
اب فیصلہ خود خان آزر اور خانی بیگم نے ہی کرنا تھا۔
"چالیس روز کب کے گزر چکے خانی۔۔ اسی کی خواہش کے احترام میں آئے ہیں۔۔ شادی کون کر رہا ہے ابھی۔۔
میرا بھانجا تھا، جگر کا ٹکڑا تھا سال بھر شادی کا نام نہیں لوں گا۔۔ سادگی سے نکاح کر دو بس۔۔"
صالح خان کا باپ فاخر خان دھیمے لہجے میں بول رہے تھے۔ معذرت کے ساتھ مجبوریوں کی ایک لمبی داستان تھی، ان کے خاندان میں صالح کے لیے ان کی حویلی کی کسی لڑکی کے ساتھ رشتے پر زور دیا جا رہا تھا۔
انہیں اعتراض نہیں تھا مگر صالح کی ضد کے ساتھ خانزادہ کی خواہش کا سن کر وہ یہاں چلے آئے تھے۔
پریہان کمرے میں سر جھکائے باہر کی آوازیں سن رہی تھی۔ روتی دھوتی خانی بیگم کو سمجھایا جا رہا تھا۔
بالآخر بات طے پائی تھی۔۔ اگلے ماہ کی آخری تاریخوں میں سادگی سے نکاح طے ہوا تھا۔۔
پریہان کا صبح سے بھاری ہوتا سر شدید درد میں مبتلا ہو رہا تھا۔ وہ اکیلی بیٹھی بیٹھی تیزی سے آنکھیں بھگوتی چلی گئی۔۔ سر کا درد بڑھ رہا تھا۔۔
(پریہان چپ ہو جاؤ۔۔ ایسے روتی رہو گی تو طبیعت بگڑ جائے گی۔۔)
ارد گرد اس کی آواز بکھری ہوئی تھی، وہ سینے پر بازو لپیٹتی بستر پر گٹھڑی بنتی لیٹ گئی۔۔
(مجھے تم سے اپنا وارث چاہئیے۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔
میں چاہتا ہوں مر بھی جاؤں تو میرا کوئی وارث اس دنیا میں ہو جسے دیکھ کر لوگ مجھے یاد رکھیں۔۔)
(𝒫𝓇𝒾𝒽𝒶𝓃 𝒾𝓉 𝒻𝑒𝑒𝓁𝓈 𝓁𝒾𝓀𝑒 𝓘 𝒶𝓂 𝒾𝓃 𝓁𝑜𝓋𝑒 𝓌𝒾𝓉𝒽 𝓎𝑜𝓊...)
ارد گرد اس کی سرگوشیاں بکھری ہوئی تھیں، اس کا نرم لمس اور اسکی خوشبو۔۔
وہ آج بھی اکیلی پڑی اپنی زہنی ازیت اور جسمانی تکلیف کو سہارتی سر درد سے نڈھال ہوتی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی۔۔
باہر اب سادگی سے رکھے جانے والے نکاح کی باتیں ہو رہی تھیں، زندگی ہر جگہ چل رہی تھی، زندگی تو بس اندر اس لڑکی کے گرد رک گئی تھی۔۔
باہر سب ایک دوسرے کے غم میں سہارا بنے بیٹھے تھے، وہ اکیلی اندر نیم اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی تھی۔۔ اس کا انسان ہونا غیرضروری تھا۔۔
وہ بس خانزادہ حدیر کی بیوہ تھی، جس پر زندگی اور اس کی خوشیاں حرام کر دی گئی تھیں۔
✓وہ عجیب شخص تھا اے زندگی،
میں سمجھ کر بھی نا سمجھ سکی۔۔
مجھے چاہتا بھی غضب کا تھا،
مجھے چھوڑ کر بھی چلا گیا۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ تاریکی میں باہر دہوار کے ساتھ ٹیک لگائے سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔ کچھ وقت پہلے مسجد سے لوٹا تھا، عشاء ڈے لے کر تہجد تک، روتا رہا سجدے کرتا رہا۔۔
وجود میں بے چینی سی بھری ہوئی تھی۔ جی چاہ رہا تھا اپنا آپ بھی اس دھویں کی طرح فضا میں اڑا دے ۔۔ نا احساسات بچیں نا تکلیف ہو، انتظار کرنا کتنا مشکل امر ہے اس نے ان دو ماہ سمجھ لیا تھا۔۔
جب کوئی چلتی سانسوں کے باوجود موت کے در پر پیر رکھے پڑا ہو، نا زندگی کی طرف لوٹ رہا ہو نا آپ اسے مرنے دے رہے ہوں۔۔
کھلے علاقے میں اب سردی کی شدت بڑھ چکی تھی مگر وہ ایک شال اوڑھے جل رہا تھا اندر سے۔۔
سگریٹ کی ایک ڈبی پھونک کر دوسری کھولنے لگا۔
"صاحب ادھر آئیں۔۔" پیچھے سے وہ سفید قدرے پرانا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر نے پورے جوش سے اسے پکارا تھا۔۔ وہ چونک کر پلٹا۔۔ ڈبی واپس جیب میں بھی ڈالنے کا خیال نہیں آیا وہیں پھینک کر اندر کی طرف بھاگا۔۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔
"ان کی سانسیں اب نارمل ہونے لگی ہیں، ابھی آنکھ بھی کھولی تھی۔۔ رکیے زرا۔۔"۔ ڈاکٹر اس نیم مردہ وجود کی دھڑکن اور نبض ٹٹولتا خوشی سے بول رہا تھا۔۔ وہ ایسے تھم گیا جیسے سانس بھی لیا تو گربڑ ہو جائے گی۔۔۔ نظر اس وجود پر ٹکائے ہولے ہولے قریب جانے لگا جب اس کے سامنے وہ زندگی کا سب سے خوش نما منظر دوہرایا گیا تھا۔
اس نے آنکھ کھول کر جھپکی اور بہت دھیرے سے سر اس کی جانب موڑتے ہوئے اسے دیکھا۔۔
کچھ دیر دیکھتے رہنے کے بعد اس کی نیلگوں آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"ا۔۔دب۔۔۔خا۔۔۔ن۔۔"۔ اس کے لبوں سے لفظ ٹوٹ کر ادا ہوئے اور ادب خان وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا بچوں کی طرح رو پڑا تھا۔۔
دور فضا میں فجر کی اذان گونج رہی تھی، ادب خان زمین پر سجدہ ریز تھا۔۔
اس نے ان دو ماہ میں بہت منتیں مانگی تھیں، مزاروں پر گیا، چادریں چڑھائیں، خیراتیں دیں۔۔
کل رات وہ تھک کر مسجد میں جا بیٹھا تھا، رات کے دوسرے پہر جس وقت کو تہجد کہا جاتا ہے۔۔
یہ وہ وقت تھا جب ادب خان نے سجدے میں گر کر روتے ہوئے اللّٰہ سے فریاد کی تھی۔۔ وہ تھک رہا تھا، گر رہا تھا اور کیا ایسا ممکن تھا انسان تھک کر گرنے لگے اور اس کا اللّٰہ اسے نا تھامے۔۔؟
وہ وقت جب وہ اللّٰہ خود منتظر ہوتا ہے۔۔
کوئی ہے جو مانگے مجھ سے اور میں عطا کروں۔۔
کوئی ہے جو پکارے مجھے اور میں جواب دوں۔۔
پھر جو مانگ لیتا ہے، جو پکارتا ہے، اللّٰہ اسے تھام لیتا ہے، عطا کر دیتا ہے۔۔ وہ سنتا بھی ہے جواب بھی دیتا پے ۔۔ وہ سب دیتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہو۔۔
ادب خان نے بھی جان لیا تھا، دو ماہ وہ ناسمجھ بچے کی طرح بھٹکتا رہا تھا، دینے والا تو وہ تھا جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔۔ جو زندگی دینے پر قادر ہے۔۔
°°°°°°°°°°°°
حویلی میں آج خوشی کا سماں تھا، خان یاور کی بیوی مومنہ ماں بننے والی تھی، جب سے یہ خبر سب کو ملی تھی، سب جی اٹھے تھے۔۔
"میرا خانزادہ آنے والا ہے۔۔ میرا وارث آئے گا۔۔" خان یوسف پہلی بار کمرے سے نکل کر باہر آئے تھے۔۔ آنکھیں نم تھیں مگر لبوں پر مسکان تھی۔۔
سب کو یہی انتظار تھا اور یقین تھا وارث آئے گا جس کا نام خانزادہ حدیر ہی رکھا جائے گا۔۔
یاور کی بیوی مومنہ ایک طرف بیٹھی تھی، چہرے پر ماں بننے کی خوشی کا نور تھا، گلابی پن تھا۔۔
علاقے کے ہاسپٹل سے اس کے لیے باقاعدہ ڈاکٹر بلوائی تھی خانی بیگم نے۔۔ کچھ وجوہات کی بنا پر اس کے لیے یہ پریگنینسی مشکل ترین دور ہو سکتا تھا۔۔
اس کے لیے لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی جو اس کی کنڈیشن کا ساتھ ساتھ خیال رکھ سکے۔۔
کچن میں کھڑی گل جان بیگم کے لبوں پر مسکان تھی، یاور کی اولاد ان کے لیے بھی خوشی کا باعث تھی فرق اتنا تھا کہ باقی حویلی والوں کی طرح ان کے لیے بیٹی یا بیٹا ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا، انہیں بس خوشی تھی۔۔ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر پلٹیں تو خان یاور کھڑا تھا۔ ان کے پلٹنے پر قدم بڑھا کر ان کے سامنے نا کھڑا ہوا۔ ملازمائیں خان یاور کے آنے پر جلدی سے کچن سے باہر چلی گئیں تھیں۔۔
"مورے آپ دادی بننے والی ہیں۔۔ میں یہ بات سب سے پہلے آپ کو بتانا چاہتا تھا مگر مومنہ نے۔۔ میں جانتا ہوں آپ سے زیادہ خوشی کسی کو نہیں ہو گی۔۔ اور سب سے پہلے آپ کا حق تھا یہ جاننے کا۔۔"
وہ آہستگی سے بولتا ان کا دل ٹھنڈا کر گیا تھا، ان کے ہاتھ تھام کر عقیدت سے چومتا آنکھوں سے لگائے کھڑا تھا۔۔۔ اس کی شرمندگی پر وہ مسکرائیں۔۔
"خان یاور جیسے تم مجھے بتانے آئے ہو میرے لیے اتنا بہت ہے۔۔" وہ محبت سے بولیں۔۔ ان کا ظرف بڑا تھا۔۔
ان کا دل بھی بڑا تھا، یاور کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔
"مورے آپ کے ساتھ جو ناانصافی ہوتی ہے۔۔ کاش آپ کے بیٹے بزدل نا ہوتے۔۔ کاش ہم اپنے باپ کے سامنے کھڑے ہو سکتے، جیسے خانزادہ کھڑا ہوتا تھا۔۔ بیٹا ہونے کا حق ادا کرتا تھا وہ۔۔ اسے اتنے جلدی نہیں جانا چاہئیے تھا۔۔" وہ بھیگی آواز میں بول رہا تھا، بہت جذباتی انسان تھا، گل جان جانتی تھیں ان کے دونوں بیٹے ان کی وجہ سے کبھی با اعتماد اور دل سے خوش نہیں رہ پائے۔۔ پہلے خانزادہ سہارا بنا رہتا تھا تو وہ بھی مطمئین تھے اب وہ نہیں تھا تو بےسکونی ہر طرف پھیلی رہتی تھی۔۔
"میں خوش ہوں۔۔ میرے پاس میری اولاد ہے۔۔ اللّٰہ نے ہم سے خانزادہ لے لیا، اب اللّٰہ تم سب کو سلامت رکھے۔۔" ان کی آنکھیں خانزادہ کے زکر پر نم ہوئیں۔۔ یہ طے تھا ہر موقع پر وہ انہیں یاد آئے گا، یاد رہے گا۔۔ جانے والوں پر صبر تو آ جاتا ہے مگر یادیں باقی رہتی ہیں۔۔ بہت تکلیف دیتی ہیں۔۔
"مورے۔۔" اسی وقت خان داور انہیں پکارتا کچن میں داخل ہوا۔۔ جوش سے اس کا چہرہ سرخیاں چھلکا رہا تھا۔۔ گل جان اور یاور چونک گئے۔۔
"مورے۔۔۔ ابھی مومنہ کو چیک کرنے جو ڈاکٹر آئے گی آپ جانتی ہیں وہ کون ہے۔۔؟" داور نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے رازداری سے کہا۔
"زرقا آ رہی ہے۔۔ مورے آپ کی بھانجی زرقا۔۔" داور کے بتانے پر ان کی آنکھیں جھلملائیں۔۔ ایک عرصہ بعد اپنے میکے سے کسی کو مل رہی تھیں وہ۔۔
زرقا ان کی بھانجی جو ڈاکٹری کی تعلیم کے لیے فارن رہتی تھی، شاید اب آ گئی تھی اور یقیناً حویلی والے ایک اچھی لیڈی ڈاکٹر کے لیے ہاسپٹل میں کہلوا چکے تھے جس کی وجہ سے باہر سے پڑھ کر آئی زرقا کا انتخاب کیا گیا ہوگا، زرقا کو حویلی والے نہیں جانتے نہیں تھے ورنہ خٹک خاندان کا کوئی فرد ان کی حویلی میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔
"داور اسے پریہان کے کمرے میں بھیجنا۔ اس بچی کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔ اتنا تو کر سکتے ہو ناں بچے۔۔"
گل جان نے دونوں بیٹوں کو منت بھرے لہجے میں کہا۔ انہیں ہمہ وقت پریہان کی فکر رہتی تھی۔۔ شاید وہ حویلی کی واحد فرد تھیں جو پریہان کو ناصرف خانزادہ کی امانت سمجھ رہی تھیں بلکہ امانت سمجھ کر ویسا ہی برتاؤ بھی کر رہی تھیں جیسا کسی قیمتی انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔۔
"آپ فکر مت کریں مورے۔۔ اتنا کر سکتے ہیں ہم۔۔ وہ اس حویلی کی فرد ہے، ہمارے چھوٹے بھائی کی عزت ہے۔۔ آپ اس کے کمرے میں رہنا میں زرقا کو بھیج دوں گا وہاں۔۔۔" یاور نے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ مطمئین ہو گئیں۔۔ داور اور یاور وہاں سے جا چکے تھے۔
پریہان دو دن سے بخار میں جل رہی تھی۔
وہ جلدی سے کام نبٹا کر سب کا کھانا تیار کرتے ہی پریہان کے لیے گرم یخنی تیار کر کے اس کے کمرے میں لے گئیں۔۔۔ وہ سرخ تپتا چہرہ لیے بستر پر پڑی تھی۔
"پریہان۔۔" گل جان نے نرمی سے پکارا، وہ بھاری ہوتی آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے لگی۔۔
"یہ گرم یخنی پی لو۔۔ طاقت ملے گی۔۔" انہوں نے ممتا بھری نرمی سے کہا تو پریہان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
"آپ جانتی ہیں مورے جب بھی اللّٰہ سے شکوہ کرنے لگتی ہوں کہ میں اکیلی ہوں، آپ سامنے آ جاتی ہیں۔۔" وہ ان کے سہارے اٹھ کر بیٹھتی دھیرے سے بولی۔۔
"اللّٰہ صبر دے گا۔۔ یہ وقت گزر جائے گا بچے۔۔ غم کی بھی ایک مدت ہوتی ہے۔۔ تاعمر انسان ایسا نہیں رہتا۔۔"
گل جان نرمی سے سمجھاتے ہوئے اسے یخنی پلانے لگیں، خان زوار کے کہنے پر اب گل جان بیگم اچھی سے اچھی خوراک پریہان کو دیتی تھیں اور اس کا خیال بھی رکھ رہی تھیں۔۔ خانی بیگم نے اب گل جان یا پریہان پر پابندی لگانا یا نظر رکھنا چھوڑ دی تھی۔۔
وقت واقعی بدل جاتا ہے، کوئی کب تک ظلم کرے۔۔ ظالم کبھی مظلوم کے صبر سے نہیں جیت سکتا۔۔
"مورے آپ ٹھیک ہیں۔۔؟ اب کوئی آپ پر تشدد تو نہیں کرتا ناں۔۔ اسے میں محبت سے زیادہ خود غرضی کہوں گی مورے، مجھے آپ کی فکر رہتی ہے، میرے پاس اب آپ کے سوا کوئی نہیں، دیکھیں آنی نے بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔۔ دوبارہ ملنے بھی نہیں آئیں، پروا میرے بنا نہیں رہ سکتی تھی اب اسے میری یاد تک نہیں آتی۔۔" وہ سسک رہی تھی، اس قید نے اسے تھکا دیا تھا، اپنی طبیعت اور بگڑتی حالت سے وہ پریشان تھی۔۔ گل جان نے بےساختہ اس کے کمزور نڈھال وجود کو سینے سے لگا لیا۔۔ وہ جانتی تھیں پریہان کس حال سے گزر رہی ہے، جہاندیدہ تھیں وہ چاہے نا مانے مگر وہ پہچان چکی تھیں اور یہ بھی کہ یہ وقت کتنا مشکل ہوتا ہے۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔ سردار صاحب اور بڑے خان صاحب میرے خان بابا حاکم کے خلاف ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں، ان سب کو لگتا ہے خانزادہ کو میرے باپ بھائیوں نے
مارا ہے۔۔ اس بات کا غصہ بھی اتارا مجھ پر مگر یہ بات جرگہ تک نہیں لے جا پا رہے کیونکہ کوئی بھی ثبوت ان کے ہاتھ نہیں۔۔ گواہی بھی کمزور ہے۔۔
یہ لوگ خاموش ہیں اور اندر ہی اندر ثبوتوں کی تلاش میں ہیں۔۔ جانے کب کیا ہو جائے۔۔ تمہاری آنی اور بہنیں چاہے رابطہ کم کریں مگر وہ تمہارے اپنے ہیں پریہان۔۔
تمہاری عدت میں بس ایک ڈیڑھ ماہ رہ گیا ہے۔۔
یہاں سے چلی جانا بچے۔۔ میں داور اور یاور سے کہوں گی تمہاری مدد کریں۔۔ یہاں رہ کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا، جیتے جی مر جاؤ گی۔۔"
اسے کسی بچے کی طرح تھپکتے ہوئے نرمی سے سمجھا رہی تھیں، پریہان نے تیزی سے بھیگتی آنکھیں میچ کر ان کے سینے میں پناہ لی۔۔ جیسے ڈرا ہوا بچہ ماں کے حصار میں چھپ رہا ہو۔۔ جیسے دھوپ میں کھڑا مسافر چھاؤں کی تلاش کرے۔۔
دروازے پر ہوتی دستک پر دونوں چونکیں۔۔
ایک ملازمہ ڈاکٹر زرقا کو دروازے پر چھوڑ کر جا چکی تھی، وہ اندر داخل ہوئی تو گل جان تیزی سے کھڑی ہوتیں اس تک پہنچیں اور دونوں گلے لگ کر رو پڑیں۔۔
پریہان خاموشی اور پریشانی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی، گل جان کافی دیر کھل کر ملنے کے بعد پریہان کی طرف مڑی تھیں۔ ان کے ساتھ گرم چادر اوڑھے سٹائلش شلوار قمیض میں وہ دراز قد نہایت خوبصورت پٹھان لڑکی تھی۔
"یہ ہمارے ہسپتال میں نئی ڈاکٹر آئی ہے، یاور کی بیوی کے لیے آئی تھی، سوچا تمہارا چیک اپ بھی کروا لیں۔۔"۔ گل جان اسے لیے بستر کے قریب آئیں۔۔ وہ ایک چئیر کھینچ کر بیڈ کے قریب بیٹھ چکی تھی۔
"یہ میری بھانجی بھی ہے مگر اس بات کا علم کسی کو نہیں۔۔" گل جان نے آہستگی سے پریہان کو بتایا۔۔
"آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔۔" پریہان نے اپنا تپتا کپکپاتا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"مجھے بھی۔۔ اوہ ان کو تو کافی تیز بخار ہے.."۔ زرقا نے ہاتھ ملاتے ہوئے چونک کر کہا اور نبض تھام لی۔
"زرقا۔۔ اس کی حالت کافی روز سے خراب ہے۔۔ چکر آتے ہیں اور جی متلاتا ہے۔۔ کمزور بھی ہو رہی ہے۔۔"
گل جان کی بات پر زرقا چونکی۔۔ یہ حالت جس طرف اشارہ کر رہی تھی وہ متوجہ ہوئی۔۔
"ان کا لباس دیکھیں، ٹھنڈ بڑھ گئی ہے، گرم کپڑے پہنا کریں، یہ شال بھی زیادہ گرم نہیں۔۔ سردی اور کمزوری سے بخار ہوا ہو گا۔۔۔" زرقا نے تاسف سے سر ہلایا اور اپنا بیگ کھول کر بیٹھتی تفصیلی چیک اپ کرنے لگی۔ پریہان بیڈ کراؤن سے سر ٹیکے نڈھال سی بیٹھی تھی۔۔ سفید سادہ لباس پر سیاہ شال اوڑھے وہ کافی کمزور ہو رہی تھی، چہرے کی رونق اور شادابی کہیں کھو گئی تھی۔۔ گل جان نے پرسوچ نظروں سے اس کا لباس دیکھا۔ وہ صرف ان کپڑوں کے اوپر شال لیے رکھتی تھی، اب موسم کافی سرد ہو چلا تھا۔۔ اسے گرم کپڑوں اور سویٹرز کی ضرورت تھی۔۔
"مبارک ہو تم ماں بننے والی ہو گڑیا۔۔ اب اپنا اور اپنے بیبی کا بہت خیال رکھنا۔۔"
چیک اپ کے بعد ڈاکٹر زرقا نے مسکرا کر بتایا۔۔ اس کے مبارک دینے پر وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ عام حالات میں یہ یقیناً خوشی کی خبر ہو سکتی تھی مگر اب تو سن کر ہی پریہان گم صم سی ہو گئی۔ گل جان اپنا شک یقین میں بدلتا دیکھ کر سمجھ نہیں پائیں خوش ہوں یا اس پر ترس کھائیں۔۔
"میرے خیال میں مسز مومنہ کے ساتھ ان کو بھی ہاسپٹل لے آئیں، یہ ویک ہیں اور ڈپریسڈ بھی۔۔ اس کنڈیشن میں یہ ڈپریشن ٹھیک نہیں، نقصان ہو سکتا ہے۔۔ ان کا پراپر چیک اپ ہونا ضروری ہے جس کے بعد ان کو پراپر ڈائٹ پلان بنا دوں گی۔۔"۔ زرقا اور بھی کافی تفصیلات بتا رہی تھی۔۔ پریہان خلاؤں میں گھور رہی تھی، اسے لگا تھا اس کے اندر زندگی ختم ہو رہی ہے، وہ غلط تھی۔۔۔
"زرقا۔۔ یہ بات کسی کو مت بتانا۔۔ نام بھی مت لینا اور یہ ہاسپٹل نہیں آ سکتی۔۔ یہ عدت میں ہے۔۔ خانزادہ حدیر کی بیوہ ہے یہ۔۔" گل جان کے آخری جملہ پر زرقا ٹھٹکی، خانزادہ حدیر کو تو پورا علاقہ جانتا تھا۔ وہ چھوٹی سی پرکشش لڑکی جو سیاہ شال اوڑھے سر جھکا کر بیٹھی تھی، وہ بیوہ تھی۔۔؟ اس نے متاسف اور ہمدرد نظر پریہان پر ڈالی تھی۔۔
"مومنہ کے لیے کبھی آؤ تو یہیں ضروری سامان لا دینا۔۔ کوئی دوا جو ضروری ہو۔۔ بچے اتنی مہربانی کر دو اس بچی پر۔۔ عدت کے بعد یہاں سے جائے گی تو اپنا علاج سہی سے کروا لے گی۔۔" گل جان کسی ماں کی طرح اس وقت اس پر چھاؤں بن گئی تھیں۔۔ پریہان جیسے وہاں تھی ہی نہیں، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا خوش ہو یا روئے۔۔
(مجھے تم سے اپنا وارث چاہئیے۔۔ )
حدیر کا جملہ ضربِ مسلسل کی طرح کان میں گونج رہا تھا۔۔ اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر بتائے کون جانے یہ سن کر ہی وہ لوٹ آئے، کتنی عجیب بات تھی وہ ایک مر جانے والے کے پلٹ آنے کا سوچ رہی تھی،، اس نے سر جھٹکا، اپنے آپ پر ترس آیا تھا۔
ڈاکٹر زرقا مزید کچھ ضروری باتیں گل جان سے ڈسکس کرتی وہاں سے جا چکی تھی، گل جان نے زرشے کی موٹی شال اور گرم جرسی لا کر پریہان کو پہنا دی تھی۔۔
اسے لیٹا کر بلینکٹ اوڑھاتی وہاں سے چلی گئیں، پریہان نئے سرے سے اپنے دکھ پر روتی نڈھال ہو رہی تھی۔۔ آج اس کے دل میں پہلی بار حدیر کے لیے شکوہ امڈ رہا تھا۔۔ آج وہ اندر کی اندر اس سے ناراض ہو گئی جو جاتے جاتے اپنے عشق میں مبتلا کر گیا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
مسز شائستہ گھر آ چکی تھیں، طبیعت کافی سنبھل گئی تھی، موسٰی نے لاکھ ہدایات دی تھیں۔۔
ڈاکٹرز نے ڈسچارج کر دیا تھا مگر احتیاط کا کہا تھا۔
پروا کالج جانے لگی تھی، موسٰی کا ڈرائیور ہی آ کر اسے لے جاتا اور چھوڑ جاتا۔۔
اس بات پر مسٹر وقار نے جتنا ہو سکا ہنگامہ کیا تھا مگر سنوائی نا ہوئی تو خاموش ہو گئے۔۔
یہ معمول کا ہی دن تھا، وقار صاحب اب مسز شائستہ سے کم بات کرتے تھے مگر رویہ بہتر کر لیا تھا، خیال رکھتے تھے اور میڈیسن بھی وقت پر دے رہے تھے، پروا کالج کے بعد کوچنگ سینٹر گئی ہوئی تھی۔۔۔
شام کا وقت ہو رہا تھا، مسٹر وقار نے کمرے میں جھانک کر ان کے سونے کی تسلی کی اور آہستگی سے دروازہ بند کرتے باہر نکلے۔۔ پیچھے کافی دیر سے سوئی مسز شائستہ کال آنے پر جاگ چکی تھیں۔۔
پریہان کی کال تھی، اتنے دن بعد خود وہ کال کر رہی تھی، انہوں نے جلدی سے کال اٹینڈ کی۔۔
"پریہان کیسی ہو میری جان۔۔ سب خیریت ہے وہاں۔۔؟"
اپنی آنی کی پریشان آواز پر وہ کچھ دیر چپ رہی، وہ جانتی تھیں وہ رو رہی ہے۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔
"میں ٹھیک ہوں، کیا آپ مجھے بھول گئیں آنی۔۔ کیا آپ نے مجھے بھی مرا ہوا سمجھ لیا آنی۔۔"
وہ بات کرتے کرتے رو پڑی تھی۔۔ قبط کرنا تب بہت مشکل ہوتا ہے جب آپ کسی بہت اپنے سے بات کر رہے ہوں، ان کا دل اس کی سسکیوں پر بیٹھ سا گیا۔۔
اس نے اتنی سی عمر میں بیوگی کا پہاڑ جیسا غم دیکھ لیا تھا، وہ کس حال میں ہو سکتی تھی وہ اچھے سے جانتی تھیں۔۔
"نہیں پریہان۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔۔" کمزور آواز میں وہ بےساختہ صفائی دینے لگیں تو پریہان چپ سی ہو گئی۔ آواز پر اب غور کیا تو کافی کمزوری محسوس ہوئی تھی۔۔
"آنی آپ کو کیا ہوا۔۔؟"۔ وہ گھبرا گئی، آنی نے اس کے لہجے کی تکلیف دل پر محسوس کی تھی۔۔
"اب بالکل ٹھیک ہوں۔۔ پریہان وہاں سب ٹھیک ہے۔۔؟" وہ پھر سے سوال دوہرا رہی تھیں، کیسی بےبسی تھی وہ اب اسے اپنے پاس بھی نہیں بلا پا رہی تھیں۔۔ جانے وہ وہاں کس حال میں ہو گی۔۔
"سب ٹھیک ہے، میں عدت میں ہوں۔۔ ورنہ آپ کے پاس ضرور آتی۔۔ اپنا خیال رکھیے گا آنی۔۔" وہ لفظوں کی جوڑ توڑ میں لگی تھی۔۔ اس کا بھیگا لہجہ بتا رہا تھا کس ضبط سے بول رہی ہے۔ وہ کہنا چاہتی تھی اکیلی ہوں مگر یہ کہنا آسان نہیں تھا۔۔ وہ کال بند کر گئی۔۔
مسز شائستہ کا رنگ زرد سا پڑنے لگا۔۔ جب بھی دکھوں کے آغاز کو شروع سے سوچنا چاہا تو ان دونوں بہنوں کی اس الٹ پلٹ ہو چُکی زندگی میں سارا ہاتھ وقار صاحب کا ہی نکلتا تھا۔
"مجھے خود کو سنبھالنا چاہئیے، پروا کے لیے، پریہان کے لیے۔۔ مجھے انہیں سنبھالنا چاہئیے۔۔"۔ وہ گہرے گہرے سانس بھرتی اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔ ہمت اور طاقت ختم تھی مگر وہ ساری ہمت جمع کرتی اٹھیں۔۔
پروا کے لیے کچھ اچھا بنانے کا سوچ کر کچن کی طرف بڑھیں، ڈرائنگ روم سے آتی ہلکی آواز پر رک گئیں۔۔ مسٹر وقار کسی سے بات کر رہے تھے۔۔
"بات طے ہو گئی تھی صبر کرتے، گھر نہیں آنا چاہئیے تھا۔۔ اگر میری بیوی کو علم ہوا تو۔۔" وقار صاحب کی گھبرائی ہوئی آواز پر وہ ٹھٹک گئی تھیں۔ کیا بات طے تھی، کیسا صبر کرنا تھا۔۔ وہ جانے کس سے بول رہے تھے۔ دروازے کے پاس رک کر اندر دیکھا تو ان کے سامنے سوٹڈ بوٹڈ ایک جوان مرد بیٹھا تھا۔۔
"مسٹر وقار دیکھو۔۔ میں نے تمہیں اپنی کمپنی میں شئیر ہولڈر بنانے کے لیے ایک بہت بڑی رقم کی قربانی دی ہے۔۔ میں نے اپنا کہا پورا کیا مگر تم اپنے وعدے میں دیر کر رہے ہو۔۔"
وہ مرد کافی سرد لہجے میں بات کر رہا تھا۔
"میں جانتا ہوں بس میری وائف کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس سے پہلے لڑکی کا بہنوئی مر گیا۔۔ وقت ایسا چل رہا ہے کہ۔۔" وہ وضاحت دے رہے تھے۔
"وقت جیسا بھی ہو۔۔ تین مہینوں سے ٹرخا رہے ہو۔۔۔ میں مزید صبر نہیں کر سکتا، مجھے لڑکی چاہئیے۔۔ چاہو تو باقاعدہ نکاح کر دو اس کا میرے ساتھ۔۔ لڑکی مجھے اب چاہئیے ورنہ تمہیں میرا پائی پائی لوٹانا کو گا ود ان تھری ڈیز۔۔" سرد آواز مسز شائستہ کے کانوں میں سیسہ بن کر اتری تھی، کوئی شک نہیں رہا تھا وہاں پروا کی بات ہو رہی تھی۔۔
"میں کچھ کرتا ہوں، نکاح کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب اس کی سرپرستی اس کے بہنوئی کے بھائی کر رہے ہیں۔۔ مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔۔ کالج کے بعد کبھی موقع ملے تو پہنچا دوں گا۔۔ نکاح وہیں خود کروا دوں گا۔۔ میں بھی سرپرست ہوں اس کا۔۔" مسٹر وقار تیزی سے بول رہے تھے۔۔ مسز شائستہ سکتہ زدہ کھڑی تھیں۔
ان کے سینے میں شدید تکلیف کی لہر اٹھی تھی۔۔
ان کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا، وہ سہارے سے چلتی کمرے میں پہنچیں۔۔ گھبراہٹ کے مارے اس سرد موسم میں بھی ان کا وجود پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔
وہ پریہان کو سہارا دینا چاہتی تھیں اور یہاں جو ان کی زمہ داری تھی، جو ان کے سہارے یہاں موجود تھی وہ اسے بچا نہیں پا رہی تھیں۔۔ انہیں لگا تھا وہ اپنے لالچ میں پروا کا لالچی لوگوں میں جلد رشتہ نا کر دیں، وہ تو بس اس خوف میں مبتلا تھیں اور یہاں باقاعدہ سودا ہو رہا تھا۔۔
وہ مرد جا چکا تھا، وقار صاحب پریشان سے لاؤنج میں اکیلے بیٹھے اگلا لائحہ عمل طے کر رہے تھے۔
جب پروا گھر پہنچی تو اس کی آنی ہوش حواس سے بیگانہ تھیں، اس نے چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ مسٹر وقار حواس باختگی میں فوراً انہیں ہاسپٹل لے گئے، انہیں ایڈمٹ کر لیا گیا تھا۔۔
حیران وہ تب ہوئے جب ان کی موجودگی کے باوجود پروا نے پہلی فرصت میں موسٰی کو کال کر کے بلوا لیا تھا۔۔ انہیں اس وقت نا پیسوں کی ضرورت تھی نا ہی سہارے کی۔۔۔ مسٹر وقار وہاں موجود تھے۔
مسز شائستہ آئی سی یو میں تھیں، ہاسپٹل میں علاج کی فیس بھی پے ہو چکی تھی پھر بھی اس نے موسٰی کو بلوایا تھا۔۔
مسٹر وقار تلملا کر رہ گئے تھے۔۔ بزنس کے لیے لیا گیا پیسہ وہ لگا چکے تھے اور یہاں مدت ختم تھی۔۔ وہ بندہ اب حلق میں ہڈی بن کر اٹک گیا تھا۔۔
پہلے خانزادہ حدیر کا خوف تھا، اب ان کی بیوی اور پروا نے خان موسٰی کو ان کے سر پر سوار کر لیا تھا۔
وہ چور نظروں سے موسٰی خان کو دیکھنے لگے جو پروا کے ساتھ مسلسل موجود تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ بستر پر دراز تھا، زرد چہرہ اور نیلی آنکھوں کے گرد سیاہ گہرے حلقے تھے۔۔
ادب خان یک ٹک اس چہرے کو تکتا بیٹھا تھا۔
"یہ سب کیسے ہوا ادب خان۔۔ وہ اٹیک۔۔ شیر خان (ڈرائیور) ٹھیک ہے۔۔؟"۔۔ وہ زرا ہوش سنبھالتے ہی دھیمے لہجے میں سوال کر رہا تھا۔۔
"شیر خان نہیں رہا خان جی۔۔ موقع پر مر گیا تھا۔۔
بہروز خان کا بندہ پرویز خان آپ کو مارنے آیا تھا، میں نے اسے مار ڈالا مگر میں لیٹ ہو گیا۔۔ وہ حملہ کر چکا تھا۔۔ آپ کی جگہ اسے مار کر وہیں چھوڑ دیا۔۔
گاڑی میں دھماکہ ہونے سے شیر خان اور پرویز خان کی لاشیں جھلس گئیں۔۔ میں نہیں جانتا پھر کیا ہوا کیا نہیں۔۔ آپ دو ماہ بعد ہوش میں آئے ہیں خان جی۔۔ پورے دو ماہ میں ازیت میں رہا ہوں۔۔"
ادب خان اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتا رو پڑا۔
وہ تاسف سے ادب خان کو دیکھنے لگا، اس کی حالت بہت خراب تھی، بڑھی ہوئی داڑھی اور بکھرا اجڑا کسی فقیر سا حلیہ۔۔ ادب خان جیسے ان دو ماہ میں ہی زندگی سے دور ہو گیا تھا۔۔
"پاگل ہو ادب خان۔۔ اپنی حالت دیکھو۔۔ کیا تم بچے ہو جو رو رہے ہو۔۔؟" وہ ہولے ہولے بولتا مدھم سا مسکرایا، چند جملے بول کر ہی اس کا سانس پھُول گیا تھا۔۔
"آپ کے بغیر میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں خانزادہ جی۔۔ میرے ماں، باپ اور میرا آسمان و زمین آپ ہیں۔۔ میں مر جاتا اگر اب بھی آپ نا اٹھتے۔۔ ادب خان مر جاتا آپ کے بغیر۔۔" ادب خان سر جھکائے اب بھی رو رہا تھا۔۔ خانزادہ سے چند سال بڑا ادب خان اس وقت اس کے سامنے مجبور بےبس بچے کی طرح سر ڈالے بیٹھا رو رہا تھا۔۔
اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ادب خان کے سر پر رکھ دیا۔۔ کسی بزرگ کی طرح تسلی دی تھی، صبر دلایا۔
"ادب خان۔۔"۔ وہ لرزتی آواز میں پکار رہا تھا۔ ادب خان نے پھرتی سے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے خانزادہ کا چہرہ دیکھا۔ اس آواز اور اس پکار کے لیے دو ماہ تڑپا تھا وہ۔۔
"میرے گھر والے۔۔۔؟" وہ بس اتنا ہی بولا تھا۔۔ ہوش سنبھالتے ہی اسے گھر والوں کی فکر ستا رہی تھی۔۔
وہ سچ کہتا تھا وہ حویلی والوں کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بار بار پریہان کا شرماتا گلابی چہرہ آ رہا تھا۔۔ وہ بےتاب ہو رہا تھا انہیں دیکھنے کے لیے، ملنے کے لیے۔۔
"میں نہیں جانتا خان جی۔۔ آپ کے پاس ہوں، میں حویلی واپس نہیں لوٹا آج تک۔۔ آپ کی حالت ابھی نا سفر کے قابل ہے نا ہی آپ ابھی اٹھ سکتے ہیں۔۔
آپ کا علاج کسی اچھی جگہ ہوتا تو شاید ایک ماہ لگتا مگر میں کہیں لے جا نہیں سکتا تھا۔۔ آپ کی جان کو خطرہ تھا۔۔ میں اس چھوٹے قصبہ میں لے آیا۔۔"
ادب خان اس کا اپنے سر پر رکھا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بول رہا تھا۔ وہ خاموشی سے آنکھیں بند کر گیا۔
کلینک کا وہ معمولی ڈاکٹر اپنی تمام تر کوشش سے خانزادہ کا علاج کر رہا تھا۔۔
ادب خان کا یقین تھا اللّٰہ اسے شفا دے رہا ہے۔۔ اسے صبر کرنا تھا۔۔ اس نے دو ماہ خانزادہ کی آنکھ کھلنے کا ازیت ناک انتظار کیا تھا، وہ کچھ اور وقت اس کے ٹھیک ہونے کا بھی انتظار کر سکتا تھا۔۔
وہ ڈاکٹر کے آنے پر اٹھ کر کلینک سے باہر نکلا اور علاقے میں موجود اپنے خاص بندے کو کال ملا لی۔۔
"بہروز خان کی حویلی میں رہو اور ان کی ایک ایک حرکت کی خبر دیتے رہنا۔۔ خان صاحب کی حویلی میں سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟۔"۔ وہ جیسے وہ بھی جیسے آج ہوش میں آیا تھا، اب سارے معاملات سنبھال رہا تھا۔
"خان حویلی میں سب اچھا ہے، خانزادہ حدیر کی موت کا صدمہ ہے سب کو مگر سب سلامت ہیں۔۔
بہروز خان کے ڈیرے میں میرا اب کافی آنا جانا ہو گیا ہے۔۔ میں آپ کو سب خبر دیتا رہوں گا۔۔"
وہ بندہ جوش سے بولتا جا رہا تھا۔ ادب خان نے ہممم کہنے پر اکتفا کیا اور کال کاٹ دی۔۔ فضا میں آزاد سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھتا مسکرا دیا۔
"آپ کو آخر کیا پریشانی ہے؟ کیوں نارمل نہیں ہو پا رہیں آپ۔۔" موسٰی ان کی رپورٹس لیے سامنے بیٹھا تھا۔۔ مشکل سے ان کی طبیعت سنبھلی تھی۔۔ ابھی انہیں ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر پہنچے تین دن ہوئے تھے کہ ان کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہاسپٹل لانا پڑا۔۔ ڈاکٹرز نے کافی مشکل سے سٹیبل کیا تھا اور اب سٹَد ڈلوانے کا کہا تھا۔
موسٰی پریشان سا رپورٹس دیکھتا مسز شائستہ سے پوچھ رہا تھا، وہ ساکت سی پروا کو دیکھ رہی تھیں جو خوف سے روہانسی صورت لیے بیٹھی تھی۔۔
"آنی آپ ٹھیک ہو جائیں۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔" پُروا نے نرمی سے ان کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"میں ٹھیک ہوں بچے۔۔" وہ نم انکھوں سے اسے دیکھتی مسکرائیں، موسٰی لب بھینچے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں۔۔
پریسہ کی کال آنے پر پروا اٹھ کر سائیڈ پر ہو گئی، وقار صاحب کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔۔
"موسٰی بیٹا ایک کام کرو گے میرا۔۔ پلیز مدد کرو.."
آنی پروا کے جاتے ہی بولیں تو موسٰی ٹھٹک گیا۔
"جی بولیں۔۔" وہ ان کے پاس سٹول پر بیٹھ گیا۔
"پروا اور پریہان کے پاسپورٹس بنوا دو۔۔ ارجنٹ بنوا دو، میں نے پریسہ سے بات کر لی ہے، وہ دونوں بہنوں کو اپنے پاس بلوا لے گی۔۔ میں یہ زمہ داری نہیں نبھا پا رہی اور میری زندگی کا بھی بھروسہ نہیں۔۔"
وہ نظریں چرا کر بول رہی تھیں، وہ اچھا تھا مگر گھر کا فرد نہیں تھا کہ اسے اپنے ہی ہزبینڈ کی بدنیتی بتا دیتیں۔۔ حدیر کو تو وہ سب علم تھا۔۔
"پریہان تو۔۔۔ وہ حویلی میں ٹھیک ہیں ناں۔۔ پروا کو کیا خطرہ ہے آپ چاہیں تو مجھ سے شئیر کر سکتی ہیں۔۔"۔ وہ نرمی سے بولا، جیسے ان کی حالت دن بہ دن بگڑ رہی تھی وہ بھی ٹھٹک رہا تھا۔۔
"پریہان بضد ہے کہ وہاں رہے گی مگر پلیز بیٹا خود سوچو وہ جوان ہے، باقی ساری زندگی بیوگی میں کیسے تنہا کاٹ دے۔۔ وہ اکیلی تھک جائے گی، پریسہ دونوں بہنوں کی تعلیم مکمل کروانا چاہتی ہے، اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے۔۔ یہی بہتر ہے۔۔"
ان کی بات ٹھیک تھی، پریہان کو خود غرضی دکھا کر ساری زندگی حویلی میں قید رکھنا انصاف نہیں تھا۔
"ٹھیک ہے، مجھے ضروری ڈاکومنٹس دے دیجیے گا، میں دونوں کے پاسپورٹس بنوا لیتا ہوں۔۔ اگر کوئی پرابلم ہے تو مجھ پر ٹرسٹ کریں تب تک پروا کو میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں۔۔ وہ سیو رہے گی، میری چھوٹی بہنوں کی طرح ہے۔۔"۔ اس کی بات پر وہ بےساختہ اس کا چہرہ دیکھنے لگیں، کچھ وقت سے وہ بہت اچھے سے سنبھال رہا تھا، اس کی نیت پر شک کرنا تو بنتا ہی نہیں تھا، جو باتیں وہ وقار صاحب کی سن چکی تھیں انہیں یہ حل بہتر لگا۔
پریسہ کے پاس جانے سے پہلے پریہان کی عدت مکمل ہو جائے اور پروا موسٰی کے پاس رہے۔۔ دل پر پتھر رکھ کر انہیں ماننا پڑا۔۔
"میرے پاس میرے ہزبینڈ ہیں، پروا کو اپنے ساتھ لے جانا اور یہاں مت لانا۔۔ میں سنبھل جاؤں تو خود چکر لگاؤں گی اس کے پاس۔۔ حویلی لے جاؤ گے۔۔؟"
وہ مطمئین ہو گئیں۔۔ پروا کی پریشانی کا حل مل گیا تھا۔ موسٰی ان کے سوال پر نفی میں سر ہلا گیا۔
"برا مت مانیے گا مگر پروا کو حویلی میں ویلکم نہیں کیا جائے گا۔۔ یہیں شہر میں گھر ہے، ملازمین بھی ہیں وہ اکیلی نہیں ہو گی۔۔ آپ فکر مت کریں۔۔"
وہ آہستگی سے بولا، پروا بات کر کے واپس آ گئی تھی۔۔ روہانسی صورت لیے قریب آئی ۔
"پریسہ آپی مجھے اپنے پاس بلوا رہی ہیں؟ آپ میرے ساتھ ایسا مت کریں۔ میں ان کے پاس نہیں رہ سکوں گی۔۔" وہ اپنی آنی سے لپٹ کر نم آواز میں بولی۔۔
"سوری بیٹا۔۔ مجھے تمہارے لیے بہت تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔۔" آنی اسے سینے سے لگا کر رو پڑیں۔۔
"جس کی بھی عادی ہوتی وہی چھِن جاتا ہے۔۔ پہلے ماں، پھر پریہان رخصت ہو گئی، اب مجھ سے دور جا رہی ہے۔۔ اس معصوم کی بھی کیا قسمت ہے۔۔"
وہ اسے خود میں بھینچ کر بولیں، موسٰی نے افسوس سے دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کوئی مشکل پیش آ رہی ہے انہیں مگر وہ بتانا نہیں چاہ رہے تھے اس لیے اس نے بھی فورس نہیں کیا۔۔
مسز شائستہ کے ڈاکٹر کا نمبر لے کر اس نے محفوظ کر لیا تاکہ ان کی کنڈیشن کے بارے میں خبر لیتا رہے۔۔
پروا کو جانے مسز شائستہ نے کیا اور کیسے سمجھایا وہ خاموشی سے موسٰی کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی، وقار صاحب کے آنے سے پہلے وہ پروا کو لے کر جا چکا تھا۔
وقار صاحب اپنے بزنس پارٹنر سے طے کر آئے تھے، ہاسپٹل سے پروا کو گھر لے جانے کے بہانے ان کو سونپ دیں گے، وہ مطمئین تھے کہ وہ نکاح کر کے پروا کو دیں گے تو یہ غلط نہیں۔۔
وہ ہاسپٹل پہنچے تو مسز شائستہ میڈیسن لے کر غنودگی میں تھیں اور پُروا کہیں نہیں تھی۔۔
حواس باختگی سے ڈیوٹی پر موجود نرس سے پوچھا، ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی سے اور یہاں تک کہ ڈاکٹر سے بھی۔۔ جانے وہ سب ملے ہوئے تھے یا واقعی لاعلم تھے مگر سب نے لاعلمی کا ہی اظہار کیا تھا۔۔
پُروا یقیناً خان موسٰی کے ساتھ جا چکی تھی مگر کیوں۔۔ کس رشتہ سے۔۔ اور ایسی اپنائیت کب ان کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔۔۔ یہ سب مسز شائستہ بتا سکتی تھیں جو سکون کی نیند سو رہی تھیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ آئرہ کے ساتھ کافی شاپ پر بیٹھا تھا، آئرہ خاموشی سے اس کا جائزہ لے رہی تھی، جینز پر لیدر جیکٹ پہنے وہ معمول سے ہٹ کر آج کچھ بہتر لگ رہا تھا۔ گھونٹ گھونٹ کافی پیتا ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا یعنی آئرہ وہاں ہو کر بھی نہیں تھی۔۔
"عیسٰی۔۔ تمہیں میرا تمہارے فلیٹ پر آنا برا لگا یا تمہارے فرینڈز کے ساتھ آنا برا لگا۔۔؟" آئرہ کے سنجیدگی سے کیے سوال پر وہ سیدھا ہوا۔
"دونوں۔۔ میرے منع کرنے کے باوجود تم نے میرے فرینڈز سے رابطہ نہیں توڑا اور دوسری بات۔۔ میں وہاں اکیلا رہتا ہوں دوبارہ مت آنا وہاں۔۔"۔ وہ بھی سنجیدگی سے جواب دے رہا تھا، آئرہ نے منہ بسورا۔ یکدم کوئی خیال آنے پر وہ شرارت سے مسکرائی۔۔
"تو تم چاہتے ہو میں سب سے الگ ہو جاؤں، بس تمہارے ساتھ، تمہارے سامنے رہوں۔۔؟" عیسٰی نے ناک چڑھا کر اسے دیکھا اور سر جھٹکا۔۔
"مجھے آپ کہہ کر مخاطب کیا کرو آئرہ۔۔ اور میری بلا سے سب کے ساتھ فرینک رہو۔۔ اب نہیں ٹوکوں گا۔۔
بائی دی وے تھینکس فار وزٹ۔۔ اس دن اپ سیٹ تھا تو کچھ زیادہ ہی رُوڈ ہو گیا تھا سوری۔۔"۔ وہ گہرا سانس بھر کر بولا تو آئرہ نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا۔۔ وہ بدل رہا تھا۔۔ بدل گیا تھا۔۔
شکریہ کر رہا تھا اور اپنے رویہ پر شرمندہ بھی تھا۔
"اٹس اوکے میں سمجھ گئی تھی، تم۔۔ آئی مِین آپ کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا بہت روئے ہیں۔۔" اس نے خوشدلی سے معذرت قبول کی اور مسکرائی۔۔
"ایک بات کہوں کیا مانیں گے۔۔؟"۔ آئرہ کے سوال پر وہ سر ہلاتا اسے دیکھنے لگا۔
"مجھے بہت شوق ہے آپ کا اپارٹمنٹ دیکھنے کا۔۔ جہاں آپ رہتے ہیں، وہ جگہ دیکھنے کا۔۔" اس کی بات پر وہ بےساختہ ہنس پڑا۔۔ آئرہ یک ٹک اسے ہنستا دیکھ رہی تھی ۔ کافی وقت بعد وہ ہنسا تھا، اب اس کی ہنسی پہلے جیسی نہیں رہی تھی مگر پھر بھی وہ توجہ کھینچ رہا تھا۔۔
" کم آن آئرہ ڈونٹ بی چائلڈ۔۔" وہ ہنسی دبا کر نفی میں سر ہلاتا بولا۔ آئرہ کا عجیب شوق اسے حیران کر رہا تھا۔۔ ہنسا رہا تھا۔۔ کیا وہ پاگل تھی۔
"پلیز۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں، میں دیکھنا چاہتی ہوں، کیا ہم کبھی وہاں جا نہیں سکتے، تھوڑی دیر کے لیے۔۔؟" اس کی ضد پر وہ سرہلا گیا۔
"دیکھیں گے کبھی۔۔"۔ وہ سراسر ٹال رہا تھا، آئرہ نے وہ بات رہنے دی۔۔ ابھی وہ اچھے موڈ میں تھا مگر کب اس کا موڈ بگڑ جائے اندازہ نہیں ہوتا تھا، بہتر تھا آج کی ملاقات اچھے موڈ میں ہی اختتام پذیر ہو۔۔
"او۔کے مجھے آفس جانا ہے بھائی کے پاس۔۔ تم بیٹھو گی یا جانا ہے۔۔؟" وہ اٹھ کھڑا ہوا، آئرہ نے ٹھنڈی آہ بھری، بس اتنا ہی۔۔ کچھ وقت پہلے وہ آئے تھے، آتے ہی کافی لے کر پینے بیٹھ گیا تھا اور پیتے ہی اٹھ کھڑا تھا۔ سر ہلا کر اٹھتی وہ اسے تکنے لگی۔۔
دل میں حسرت ہی رہ گئی تھی، کب وہ اسے مکمل اور زیادہ وقت کے لیے میسر آئے گا۔۔
اس کے لیے عیسٰی جیسے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص تھا۔۔ جسے سنبھال سنبھال رکھنے کو جی چاہتا تھا مگر وہ ملے تب ناں۔۔
بائے کر کے اپنی گاڑی میں بیٹھتا وہ روانہ ہو گیا، سگنل پر گاڑی روک کر یونہی نظر گھمائی تو کچھ فاصلے پر رکی موسٰی کی گاڑی پر نظر تھم گئی۔۔
موسٰی خان کے ساتھ، اسی کا کوٹ پہنے کوئی نازک سی چھوٹی سی لڑکی بیٹھی تھی، جس کے بال کندھوں سے کچھ نیچے جا رہے تھے۔۔
وہ موسٰی کی جانب رخ کیے بیٹھی شاید بات کر رہی تھی، وہ مسکرا کر سر ہلاتا سن رہا تھا۔۔ عیسٰی کی طرف پشت ہونے کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ پایا کون ہے اور کیسی دِکھتی ہے۔۔
"یہ کیا سین ہے یار۔۔۔"۔ سگنل کھلتے ہی موسٰی گاڑی آگے بڑھا چکا تھا، وہ کچھ آگے جا کر روڈ پر گاڑی ایک سائیڈ پر لگاتا روک گیا۔ موبائل نکال کر کال ملائی۔۔
"لالا کہاں ہیں آپ۔۔"۔ کال اٹینڈ ہوتے ہی بولا۔
"باہر ہوں، کیوں کیا ہوا؟"۔ موسٰی نے سوال کیا۔
"ملنا چاہ رہا تھا، کہاں ہیں۔۔؟ آفس آ جاؤں۔۔؟" عیسٰی کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔۔
"یار میں گھر جا رہا ہوں۔۔ آفس میں نہیں ہوں۔۔ کچھ دیر تک چکر لگاتا ہوں تمہارے پاس۔۔ سب ٹھیک ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ناں۔۔؟"۔ وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔
"گھر کہاں۔.؟"۔ عیسٰی کا سوال وہیں کھڑا تھا۔
"تمہیں جو کہنا ہے وہ بکواس کرو۔۔ کہاں کہاں کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے۔۔ تم جانتے ہو میں آج کل کس گھر میں ہوتا ہوں۔۔"۔ موسٰی زیادہ دیر نرم لہجہ نہیں رکھ پایا تھا، چڑ کر جواب دیا۔
"اوہ سوری سمجھ گیا، گھر جا رہے ہیں تو وہیں آ جاتا ہوں۔۔"۔ عیسٰی کے چہرے پر اب شرارت ناچ رہی تھی۔۔
"کوئی ضرورت نہیں۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔ تم گھر نہیں آؤ گے۔۔" اس نے سختی سے منع کر کے کال کاٹ دی۔۔
عیسٰی الجھ گیا۔۔ وہ کیا چھپا رپا تھا۔۔ اسے تو زہن پر لاکھ زور دے کر بھی ایسے حلیہ والی کوئی لڑکی یاد نہیں آ رہی تھی، وہ کون تھی جسے وہ گھر لے جا رہا تھا، جس نے اسی کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔۔
اس کے دماغ میں کئی سوال سر اٹھا رہے تھے مگر موسٰی کے غصہ سے بھی بخوبی واقف تھا اس لیے خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔۔
"اپنے سوالوں کے جواب تو جان کر رہوں گا۔۔ کیا چکر چلا رہے ہیں شہر میں رہ کر۔۔ پتا تو چلے۔۔"
گاڑی چلاتے ہوئے وہ مسکرا کر سوچ رہا تھا۔۔ اس نے آج منع کیا ہے تو کل سہی۔۔ گھر تو وہ اب جانے والا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خان حویلی میں مومنہ کی گود بھرائی کی باقاعدہ رسم کی گئی تھی، تین بکروں کا صدقہ دیا تھا، حویلی کے تمام ملازمین کو نئے جوڑے تحفہ میں دئیے گئے تھے۔۔
ان کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی، ایک بڑے عرصہ بعد یہ خوشخبری سنی تھی، حویلی کا وارث آنے والا تھا، حویلی کے سب لوگ رات کا کھانا کھا کر آج پہلی بار اکٹھے بیٹھے تھے۔۔
گل جان نے زرقا کی ہدایت کے مطابق دودھ کا گرم گلاس پریہان کو کمرے میں پہنچایا تو رات کا کھانا بھی ویسے کا ویسا رکھا تھا۔۔ وہ بستر پر نڈھال سی پڑی تھی۔۔ گل جان کا دل مٹھی میں آ گیا۔۔
"پریہان۔۔ تم ٹھیک ہو ناں؟۔" اسے پکارتی وہ بری طرح پریشان ہوئیں۔۔ دودھ کا گلاس ٹیبل پر رکھا۔۔
"ٹھیک ہوں۔۔ مورے گل۔۔ آج مجھے کچھ کھانے پینے کی ضد نا کریں۔۔ طبیعت بوجھل ہے بہت۔۔"
وہ وومٹ کر کر کے تھک گئی تھی، گل جان فکر مند ہوئیں، نا دوا تھی نا چیک اپ ہوا۔۔ وہ کس حال میں تھی کچھ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔ صبح سے مصروفیات بڑھنے کی وجہ سے وہ بھی اس کے پاس نہیں آ سکی تھیں۔۔
"کل یاور یا داور سے کہوں گی یا تمہیں زرقا کے پاس لے جائیں یا اسے بلوا دیں۔۔ تمہارا سہی سے چیک اپ کروانا ضروری ہے۔۔۔ اگر ایسا حال رہا تو نا تم بچو گی نا یہ بچہ۔۔"۔ گل جان کی گھبراہٹ پر وہ دھیرے سے مسکرائی۔۔
"مومنہ بھابھی بھی پریگنینٹ ہیں کیا۔۔؟ آج صندل (ملازمہ) بتا رہی تھی۔۔" اس کی بات سننے کے لیے گل جان کو قریب ہونا پڑا تھا۔۔ نقاہت سے آواز بھی دب رہی تھی۔۔ گل جان نے سرد آہ بھری۔۔
"ہاں اس کے سر کا صدقہ دیا گیا آج۔۔ آج حویلی میں اس کی گود بھرائی کی رسم تھی۔۔ قسمت دیکھو تمہارا نا صدقہ اتارا گیا نا گود بھرائی۔۔ کسی کو خبر تک نہیں۔۔ میرا خانزادہ ہوتا تو دنیا کی ہر آسائش، ہر خوشی تمہارے قدموں کے آگے ڈھیر کر دیتا۔۔۔"
انہوں نے دودھ کا گلاس اٹھا کر پریہان کی طرف بڑھایا تو وہ رخ پھیر کر انکار کر گئی۔۔
"مورے۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، عدت کے بعد میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔ پریسہ آپی مجھے اور پُروا کو اپنے پاس بلا رہی ہیں۔۔ ٹھیک کیا ناں۔۔؟"
اس کی بات پر گل جان کو لگا سر سے ایک بڑا بوجھ اترا ہے۔۔ وہ مجبور تھیں، ونی تھیں اپنے گھر نہیں جا سکتی تھیں مگر پریہان کے یہاں سے جانے کا سن کر اچھا لگا، کوئی ایک تو خوش رہ پائے گا۔۔
"بہت اچھا فیصلہ کیا۔۔ اس کے لیے ضروری ہے تمہاری صحت اچھی ہو۔۔ اب دودھ پیو ورنہ صبح تک اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہو گی۔۔" ان کی بات پر وہ بےساختہ ان کے سہارے اٹھ بیٹھی۔۔ دودھ پی کر برے برے منہ بناتی جھرجھری لے کر پیچھے ہوئی۔۔
"پروا کو بہت پسند ہے دودھ۔۔ سارا دن ملتا رہے، خوش ہو کر پیتی ہے۔ آنی کو انکل کی چائے کے لیے دودھ پہلے نکال کر الگ کرنا پڑتا تھا۔۔"
وہ پروا کا زکر کرتی مسکرا رہی تھی، گل جان نے اس کے مزاج میں واضح فرق دیکھا تھا۔۔ یہاں سے جانے کا فیصلہ کرنے کے بعد اب وہ مایوسی کی باتیں نہیں کر رہی تھی۔ کمزوری اور نقاہت کے باوجود بات کر رہی تھی۔۔ مسکرا رہی تھی۔۔ ابھی غم سے نکلی نہیں تھی، سنبھلی نہیں تھی مگر اب زندگی سے بیزار نہیں لگ رہی تھی۔۔ دوبارہ سے لیٹ کر وہ لحاف میں دبک گئی۔۔
"مورے یہاں سے جا کر بھی میں آپ کو یاد رکھوں گی۔۔ آپ نے ماما کی کمی پوری کی ہے مگر اس حویلی میں اب نہیں رہ سکتی، مجھے یہاں والوں سے نفرت ہو گئی ہے، بےحس اور پتھر دل لوگ ہیں سب۔۔
میں یہاں کبھی واپس نہیں آؤں گی، ان سب کو نا اپنے بیبی کا بتاؤں گی نا ملواؤں گی۔۔ ان سب نے مجھے ناکردہ گناہ کی سزا دی ہے، میں بھی سزا دوں گی۔۔"
وہ آنکھیں موندے اپنے ارادے بتا رہی تھی، گل جان خاموشی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی رہیں، اب سونے میں اسے بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، نیند نہیں آتی تھی اسے۔۔ آ جائے تو جلدی جاگ جاتی تھی۔۔ اس کی بےسکونی کا کوئی علاج نہیں تھا سوائے وقت کے۔۔ وقت ہی اس کے غم میں کمی لا سکتا تھا۔۔ اسے سکون سے نواز سکتا تھا۔
جانے کتنی دیر بعد وہ گہری نیند میں ڈوبی تھی۔۔
اس کے سونے کا یقین کر کے کی وہ کھانے کے ویسے کے ویسے پڑے برتن اٹھا کر باہر نکلی تھیں۔
کچن کے پاس پہنچی تھیں کہ سامنے بیرونی دروازے کی طرف دیکھ کر پتھر بن گئیں۔۔
__________
وہ پورے ڈھائی ماہ بعد آج اس شاندار حویلی کے سامنے موجود تھا۔۔ ساتھ ادب خان کھڑا تھا۔۔
جب تک وہ مکمل صحتیاب ہو کر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوا تھا ادب خان نے ہلنے نہیں دیا تھا اور آج وہ جان لیوا انتظار کے بعد اپنوں سے مل رہا تھا۔۔
قدم اندر برھائے تو ادب خان وہیں سے پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ حویلی کے پچھلی جانب سرونٹ ایریا میں اس کا الگ تھلگ قدرے پر آسائش کمرہ تھا۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر حویلی کی عمارت کے پاس پہنچا۔۔ گہرا سانس بھرا اور اندر داخل ہوا۔
لاؤنج میں بیٹھے سب حویلی والے باتیں کر رہے تھے۔۔
"آج خانزادہ ہوتا تو۔۔ اگر خانزادہ ہمارے درمیان ہوتا۔۔"
ان کی باتوں کا ہر بار آغاز اسی جملہ سے شروع ہو رہا تھا، وہ مسکرایا تو نیلگوں آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔۔ سامنے سے آتی گل جان نے اسے دیکھا تو پتھر کی ہو گئیں، ہاتھ سے برتن چھوٹے اور بےڈھنگا شور ہر طرف گونج اٹھا۔۔ سب نے پلٹ کر ان کی جانب دیکھا۔
ان کی پتھرائی ہوئی نظروں کے تعاقب میں سر گھمائے تو خانزادہ کھڑا تھا، زندہ اور سلامت۔۔ سب کو لگا کوئی خواب ہے یا خیال۔۔
خانی بیگم تڑپ کر اسے پکارتی اس کی جانب بڑھیں تو وہ آگے بڑھ کر ان کو سینے سے لگا گیا۔۔
شک کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی، وہ لوٹ آیا تھا، وہ جسے سب مرا ہوا سمجھ بیٹھے تھے۔۔ جس کا حویلی سے باقاعدہ جنازہ اٹھا۔۔ کفن دفن ہوا۔۔
ہاں مگر جھلسی ہوئی لاش میں کہیں اس کا چہرہ واضح بھی تو نا تھا۔۔ پریہان چیخ چیخ کر کہتی تھی وہ خانزادہ نہیں ہے، کسی نے سنا ہی نہیں تھا۔۔
وہاں کا ماحول یکدم بدل سا گیا تھا، ہر آنکھ نم تھی، حیرت تھی، بےیقینی تھی مگر خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا۔۔ وہ کب، کہاں اور کیوں گیا۔۔ اتنا عرصہ کہاں اور کیوں رہا کے سوالات بعد کے لیے اٹھا رکھے۔۔
خان یوسف کتنی دیر اسے سینے سے لگائے کھڑے رہ گئے گویا یقین چاہ رہے ہوں، پورے ڈھائی ماہ۔۔ ستر سے اوپر دن۔۔ کوئی کم عرصہ نہیں تھا دوری کا۔۔ اسے دیکھنے کو ترس گئے تھے مگر مرا ہوا سمجھ کر صبر کر لیا گیا تھا۔۔
اس کے بھائی، باپ، چچا، خان یوسف اور خانی بیگم بےتاب سے اسے بار بار مل رہے تھے، چھُو رہے تھے۔۔
ثنا بیگم، اس کی بھابھیاں اور ملازمین تک کے چہروں پر خوشی تھی۔۔ وہ سب سے مل کر پلٹا اور گل جان کے سینے سے لگ گیا۔۔ وہ جانتا تھا وہ کس وقت سے گزری ہوں گی۔۔ وہ یاد بھی کرتی رہی ہوں گی، تکلیف بھی جھیلی ہو گی، گل جان کی آنکھیں بھر آئیں۔۔
سب سے مل کر بیٹھا تو وضاحت دینے لگا۔۔
"گولی لگی تھی، زخمی بھی ہوا تھا، ادب خان نے بچا لیا، وہ نا لے جاتا تو آگ کی لپیٹ میں آنے والی گاڑی میں مر ہی جاتا۔۔ شاید جس لاش پر آپ سب روئے وہ اس کی تھی جس نے مجھے مارنا تھا۔۔ ادب خان نے اسے مار دیا۔۔ ہوش میں نہیں تھا کہ واپس آتا۔۔
ادب خان سارے عرصہ میں مجھے چھپائے رہا، میں سنبھلا تو لوٹ آیا۔۔ آپ سب کے پاس۔۔"
خود پر بیتی ساری داستان مختصراً بتا کر اس نے مسکرا کر سب کو دیکھا تھا۔۔ سب موجود تھے پریہان کہیں نہیں تھی۔۔ اسے لگا وہ واپس جا چکی ہو گی۔۔
"موسٰی اور عیسٰی کو انفارم کرتا ہوں۔۔" خان داور نے جوش سے کہا اور اپنا موبائل نکالا۔۔۔
"لڑکیوں کو بھی تو بتانا ہے۔۔ سب سن کر ہی پاگل ہو جائیں گے۔۔" یاور نے کھلکھلا کر اسے دیکھا.
"ابھی رات ہے، کسی کو مت بتاؤ، وہ ابھی آنا چاہیں گے۔۔ صبح بتا دینا سب کو۔۔" خان یوسف نے منع کر دیا۔۔ داور نے اتفاق کیا۔۔ اب جو خبر ملتی تو وہ کہاں ٹک کر بیٹھ پاتے۔۔ پہلی فرصت میں اڑ کر پہنچ جاتے۔
"پریہان۔۔ کیا وہ یہاں نہیں ہے۔۔؟"۔ خانزادہ کا کب سے دل میں مچلتا سوال لبوں پر آ ہی گیا تھا۔۔
"عدت میں۔۔ اپنے کمرے میں ہے وہ۔۔ شاید سو گئی ہو۔۔" عدت کا بتاتے ہوئے خانی بیگم خجل سی ہو گئیں، وہ عدت میں تھی اور کس حال میں تھی کوئی خبر نہیں تھی، انہیں اندر ہی اندر فکر ستائی۔۔ گل جان بیگم نے اس کی خراب طبیعت کا دبے الفاظ میں بہت بار بتایا تھا مگر ان میں سے کسی نے کان ہی نہیں دھرے تھے۔۔ اس کے وہیں ہونے کا سن کر خانزادہ کا چہرہ کھِل اٹھا تھا۔۔
"میں شکرانے کے نفل ادا کرتی ہوں جا کر۔۔"۔ خانی بیگم اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھیں، گل جان پہلے ہی اپنے کمرے میں سجدہ ریز تھیں۔۔
"جا کر آرام کرو۔۔ سفر کر کے آئے ہو تھک گئے ہو گے.."
خان آزر نے اس کی بےچینی محسوس کر کے کہا۔۔
"دل نہیں بھر رہا تمہیں دیکھ دیکھ کر مگر مجبوری ہے۔۔ واقعی تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔۔" خان یوسف اسے سینے سے لگاتے بھینچ کر بولے اور الگ ہوئے۔۔
دل کہاں بھرتا تھا ابھی۔۔ کوئی اپنا جسے مرا ہوا سمجھ لیا ہو۔۔ وہ جس کے مرنے پر رو کر صبر تک کر بیٹھیں اور وہ لوٹ آئے۔۔ ان سب کا بس چلتا تو ساری رات اسے سامنے بیٹھا کر تکتے رہتے۔۔
وہ اٹھ کر سب کو شب بخیر بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
اندر پریہان لحاف میں چھپی سو رہی تھی، گرم شال اتار کر اس کے پاس لیٹتا وہ مسکرایا۔۔
نیلگوں روشنی میں اس کا چہرہ کافی کمزور لگ رہا تھا مگر چہرے پر غضب کی کشش تھی۔۔
اس کے نازک وجود کو خود میں سمیٹ کر اس کے نقوش کو لبوں سے چھُوتا وہ محسوس کر گیا وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ شاید بخار میں مبتلا تھی۔۔ شاید کوئی تکلیف تھی یا بےسکونی۔۔ اس کے چہرے پر سکون نہیں تھا۔۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا تھا وہ برے حال میں رہی ہے، بےچین رہی ہے۔۔
وہ محبت سے اسے اپنے سینے سے لگاتا خود میں بھینچ گیا، اس کے لمس اور دھڑکن کو محسوس کر کے جیسے دنوں بعد سکون پا گیا تھا۔۔
جانے صبح اسے اپنے پاس، اپنے قریب دیکھ کر اس کے کیسے تاثرات ہونے والے تھے۔ وہ خوش ہو گی، بےیقین یا پھر حیران۔۔ وہ اس کی محبت سے ناواقف تھا۔۔
وہ بہت سی باتوں سے لاعلم تھا۔۔ ابھی اپنے بڑے بھائی کو خوشی سے لبریز لہجے میں باپ بننے کی مبارک دیتے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ اس سے پہلے یہ عہدہ پانے والا تھا۔۔
اسے پریہان کے تن پر سفید سادہ لباس تکلیف دے رہا تھا، وہ جانتا نہیں تھا اس لباس سے بڑے عذاب جھیلتی آئی ہے جس میں سر فہرست تنہائی اور قید تھی۔۔ کئی سوچوں میں مبتلا وہ نیند میں جا چکا تھا،
اس کے جانے کے بعد ان ساری راتوں میں یہ پہلی رات تھی جب پریہان اس کے حصار میں سمٹی سکون سے سوئی رہی، رات کو ایک بار بھی نہیں جاگی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"یہ روم ہے دی لٹل ٹوئٹی کا۔۔ سہی ہے ناں۔۔؟"۔ موسٰی اسے گھر لا کر ایک کمرے میں لے گیا۔۔ اس کمرے کا فرنیچر گولڈن اور وال پر کلر سکیم آف وائٹ اور ایک دیوار جس کے ساتھ بیڈ تھا وہ کیمل کلر میں تھی۔۔
باقی رومز کی نسبت اسی میں سوفٹ کلر سکیم تھی، پروا پسندیدہ نظروں سے کمرہ دیکھتی سر ہلا گئی۔
موسٰی نے حدیر کے ڈرائیور کی بیوہ کو بلوایا، ڈرائیور کی اسی حادثہ میں موت ہو چکی تھی، اس کی بیوہ اب اس گھر کے سرونٹ کوارٹر میں رہتی تھی، دو چھوٹے بچے تھے۔۔ صرف دو وقت کا کھانا بناتی تھی اور فری رہتی تھی۔۔ موسٰی نے پروا کا خیال رکھنے اور ساتھ رہنے کی ہدایت دی۔۔
"پروا کچھ بھی چاہیے ہو ان سے کہنا۔۔۔ میں ابھی چھوٹے بھائی کے پاس جا رہا ہوں، جلدی آ جاؤں گا۔۔
ڈنر کر کے جلدی سو جانا او۔کے؟" نرمی سے پروا کو دیکھتے ہوئے ہدایت دی، وہ اب بھی صرف سر ہلا گئی۔
اس کا دماغ اپنی آنی پر اٹکا تھا، موسٰی پر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی مگر یہاں اکیلے آ کر رہنا اسے ڈرا رہا تھا، موسٰی کے جاتے ہی وہ عورت بھی کھانا بنانے چلی گئی، پروا پیچھے چھپ کر رونے کا شوق پورا کرتی کرتی بنا کھائے پیے سو گئی تھی۔
موسٰی وہاں سے نکل کر عیسٰی کے پاس پہنچا تو وہ موبائل پر بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔
"اب ملنا اتنا ضروری نہیں تھا، آپ نے یہاں آنے کی تکلیف اٹھائی۔۔ میں کل چکر لگا لیتا وہیں۔۔"۔ اسے دیکھ کر پھر اسی بات پر جا پہنچا تھا۔۔
"وہاں گیسٹ ہے۔۔ چلی جائے گی کچھ دن تک پھر شوق سے آنا۔۔ ابھی میں تھکا ہوا ہوں، کافی پلا دو پلیز۔۔"۔ صوفے پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تو عیسٰی نے ابرو چڑھائے۔۔
"کون گیسٹ؟ آئی مِین کہاں سے آئی ہے، کیوں آئی ہے اور کہاں جائے گی۔۔؟" عیسٰی کو تسلی نہیں ہوئی تھی، سوالات کرتا کھسک کر موسٰی کے قریب ہوا۔
"یار حدیر نے اس کی رسپانسبلٹی مجھے دی تھی، اب کون ہے اور کیوں ہے کو چھوڑو۔۔ پلیز کافی بنا لاؤ پھر باقی انٹرویو لے لینا۔۔" موسٰی نے جھنجھلا کر کہا۔ حدیر کے نام پر وہ چپ سا ہو گیا، مزید کچھ بھی بولے بنا اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔
موسٰی انگوٹھے سے کنپٹی دباتا پُروا کو سوچنے لگا۔۔ وہ کافی بڑی زمہ داری اٹھا چکا تھا اب جلد از جلد ان بہنوں کے باہر جانے کا انتظام کرنا ضروری تھا۔۔
پریہان کو حویلی سے لانے کے لیے بھی اسے اچھی خاصی مشکل پیش آنے والی تھی۔۔
دونوں کو سوچتا، فکرمند ہوتا وہ جانتا نہیں تھا سب سنبھالنے والا لوٹ آیا تھا۔۔
صبح جاگ کر بھی وہ دیوانہ وار اسے تکتا جا رہا تھا، بہت ترسا تھا اسے دیکھنے کے لیے، چھونے کے لیے۔۔ آج وہ پاس تھی تو دل نہیں بھر رہا تھا۔۔ نرمی سے اس کا گال سہلاتے پیشانی پر لب رکھے۔۔
وہ اپنے چہرے پر جانا پہچانا لمس محسوس کرتی نیند میں کسمساتی آنکھ کھول گئی، سامنے خانزادہ کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ وہ کچھ پل دیکھتی رہی۔۔
وہ اپنا حصار مزید تنگ کرتا اسے قریب تر کر گیا، پریہان آنکھیں جھپکتی اسے خیال سمجھ کر دیکھ رہی تھی۔۔ اپنا نرم ہاتھ بڑھا کر اس کے رخسار پر رکھ کر محسوس کرنے لگی، خانزادہ خاموشی سے اس کی بےیقینی میں گھِری حرکتوں کو دیکھتا محظوظ ہو رہا تھا۔۔
"𝓗𝒶𝒹𝑒𝑒𝓇.. 𝓘 𝓂𝒾𝓈𝓈 𝒴𝑜𝓊.. 𝒶 𝓁𝑜𝓉.. 𝒶𝓃𝒹 𝒾𝓉𝓈 𝒽𝓊𝓇𝓉𝒾𝓃𝑔 𝓉𝑜 𝒷𝑒 𝒶𝓁𝑜𝓃𝑒.. 𝓉𝑜 𝓁𝒾𝓋𝑒 𝓌𝒾𝓉𝒽𝑜𝓊𝓉 𝓎𝑜𝓊.."
وہ اپنی کیفیت بتاتی سسکنے لگی، حدیر کو لگا کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو سینے میں۔۔ اس کے روتے الفاظ میں تکلیف محسوس کرتا وہ اس کے چہرے پر جھک کر بےتابانہ لمس بکھیر گیا۔۔ پریہان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ خیال نہیں حقیقت تھا۔ وہ زندہ تھا۔۔
اس نے اپنے گرد اس کا حصار محسوس کیا۔۔
کسی خواب سے جاگی تھی، نیند بھک سے اُڑی۔۔
"حدیر۔۔۔ حدیر آپ آ گئے۔۔۔ کیا سچ میں۔۔ آپ۔۔"
پریہان اسے چھُوتی پاگل سی ہو گئی۔ اس کے گلے میں بازو ڈال کر اس سے لپٹ گئی۔
وہ مسکرایا اور نرمی سے اس کے گرد بازو پھیلا لیے۔۔
"ہاں میں آ گیا ہوں۔۔ مر تو جاتا اب تمہیں دیکھے بنا گزارہ جو نہیں، جینا پڑا۔۔" اس کے بال سمیٹتے ہوئے نرمی سے بولا تو وہ یکدم دور ہو کر اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے یقین کرنے لگی، وہ واقعی زندہ تھا۔ پریہان کو بار بار لگ رہا تھا یہ خواب ہے۔۔۔
وہ سامنے تھا اور ٹھیک تھا۔۔ پریہان کی آنکھیں بہہ رہی تھیں، وہ دیوانہ وار اپنے نرم لبوں سے حدیر کا چہرہ چھوتی اسے گنگ کر گئی۔۔
جس بیوی کو کہا جائے اس کا شوہر مر چکا ہے۔۔
جو عدت میں بیٹھی موت کی منتظر ہو۔۔
وہ جو اپنے خاوند کے مرنے کے بعد اس سے عشق کر بیٹھی ہو۔۔ اسے وہ مر جانے والا اچانک سونپ دیا جائے۔۔ اس کا عشق زندہ سلامت سامنے آ جائے۔۔۔
جس کی عدت میں ہی اس کا خاوند لوٹ آئے۔۔ اسکی حالت کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا تھا۔ حدیر بھی ساکن ہو چکا تھا۔۔ دنگ رہ گیا۔۔
ایسی دیوانگی، ایسی بےتابی۔۔ اس کی محبت میں وہی رنگ چھلک رہا تھا جو حدیر کی محبت میں اس کے لیے تھا۔۔ وہ اسی کا روپ دھارے سامنے تھی، دیوانوں کی طرح اسے چھوتی، یقین کرنے کی کوشش میں وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔
اس بری طرح کانپ رہی تھی جیسے جنوری کی یخ رات میں برف پر ننگے پیر کھڑا کر دیا ہو۔۔
اس کے کمزور وجود کو شاک سے جھٹکے لگنے لگے، حدیر نے بےساختہ گھبرا کر اسے اپنے حصار میں بھینچ لیا۔ اس کے سینے سے لگتے ہی وہ اتنا چیخ چیخ کر روئی کہ حویلی کے درودیوار ہل گئے تھے۔۔
باہر موجود حویلی والے بےساختہ متوجہ ہوئے تھے۔۔ ایسے تو وہ اس کے مرنے پر نہیں روئی تھی جیسے آج رو رہی تھی۔ وہ نازک سی لڑکی اس تمام عرصہ میں اتنا بڑا غم اپنے اندر چھپائے اکیلی کیسے جھیل رہی تھی، اس کی حالت سے اندازہ ہو گیا تھا۔۔
اسے جو غم ملا تھا، اس پر تنہائی اور اکیلی راتوں کی وحشت نے اس کے اندر کرب بھر دیا تھا۔۔
وہ تڑپ رہی تھی سہارا میسر نہیں تھا۔۔ اسے آج کندھا ملا تھا وہ بھی من پسند۔۔
وہ بکھر گئی، ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔۔
خانزادہ نم آنکھوں سے اسے سینے میں بھینچے بیٹھا تھا۔۔ اس کا بس چلتا تو کبھی اتنا وقت دور نا رہتا، وہ حواس میں ہوتا تو جلدی لوٹ آتا، اسے اتنی ازیت کبھی نا دیتا۔۔ اپنے لیے اس کی حالت دیکھ کر خوشی کے بجائے وہ تکلیف میں مبتلا ہو گیا تھا۔۔
باہر بیٹھے خان آزر نے جتاتی نظر خانی بیگم پر ڈالی گویا بتاتے ہوں دیکھو یہ لڑکی تھی جسے ہم نے قبول نہیں کیا، بےضرر اور مخلص تھی مگر اسے اکیلا رکھا۔۔
ابھی تو اپنے کیے کا جواب بیٹے کو بھی دینا تھا۔۔
خانی بیگم پہلی بار پریہان کے لیے دل میں نرم گوشہ محسوس کر رہی تھیں، آج اس کی حالت نے واضح کیا تھا وہ لڑکی نا لالچ میں وہاں تھی، نا ہی مجبوری میں۔۔
اس کی محبت تھی، عشق تھا کہ تنہا وہاں پڑی رہی۔۔
اس کی عدت میں بیٹھی چاہے اکیلی تھی یا تکلیف میں تھی۔۔ آج مان لیا گیا خانزادہ اس کے بارے میں سچ کہتا تھا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔۔
وہ خانزادہ کی دیوانی ان کے روپ دیکھ کر سب سے بدظن ہو چکی تھی۔۔
____________
--------------
گرم پانی سے شاور لے کر وہ باہر آئی، آج روایتی لباس کی بجائے میرون رنگ کا جہیز کا جوڑا پہنا تھا اس نے۔۔ گھٹنوں تک آتی شرٹ جس کے گلے اور باڈر پر گولڈن بھاری کام تھا، نیچے ہم رنگ پلازو تھا جس پر گولڈن کام کا جال بنا تھا۔۔
بازو نیٹ کے تھے، بیک کا گلا بھی گہرا تھا مگر پریہان نے وہی پرانی سیاہ شال اٹھا کر اوڑھ لی۔۔
وہ باہر بیٹھا تھا سب کے ساتھ، گھر کے علاوہ خاندان والوں کو بھی خبر ہو چکی تھی، اس سے ملنے آنے والوں کا ایک ہجوم تھا، شہر سے بہنیں کزنز بھی خان آزر کے کہنے پر ڈرائیور صبح صبح لے آیا تھا، حویلی میں شور برپا تھا۔۔ صبح وہ پریہان کو خود بریک فسٹ کروا کر فریش ہو کر باہر نکلا تھا، پریہان کو ریسٹ کرنے کا کہا تھا مگر وہ اب ٹھیک تھی اور ان ڈھائی تین ماہ میں اس نے بس ریسٹ ہی کیا تھا۔۔
آج نہا دھو کر اپنی مرضی سے ہلکا پھلکا تیار ہوتی وہ اچھا محسوس کر رہی تھی۔۔
مرر میں اپنا عکس دیکھ کر وہ مسکرائی، ابھی اس نے خانزادہ کو باپ بننے کی خوشخبری نہیں دی تھی۔۔
ابھی تو وہ اس شاک سے نکلی تھی کہ وہ لوٹ آیا ہے۔۔
تیار ہو کر وہ باہر نہیں جانا چاہتی تھی، انتظار کرتی رہی اور وہ اندر نہیں آیا۔۔ شال اتار کر بیڈ پر ایک طرف پٹخ کر وہ منہ بناتی وہیں لیٹ گئی۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی اور موسٰی دونوں کو خان یوسف صاحب نے صبح صبح حویلی پہنچنے کا حکم دیا تھا، وہ دونوں نخرے کرتے، اٹکھیلیاں کھاتے، الجھے ہوئے سے جب حویلی پہنچے تو لنچ کا ٹائم تھا۔
موسٰی تو سامنے کھڑے حدیر کو دیکھ کر بھاگتا ہوا اس کے گلے لگتا چیخ پڑا تھا۔۔
"جگر۔۔ یہ سب۔۔ یہ کیا ہے یار۔۔۔ تم۔۔ تم زندہ تھے۔۔؟ کہاں تھے اتنا وقت۔۔۔؟"
موسٰی کی آواز جوش سے کپکپا گئی تھی۔ خانزادہ نے اسے تھپک کر خود سے الگ کیا۔
"سب تفصیل بعد میں۔۔ بس اتنا سن لو جس کے لیے روتے رہے ہو ناں وہ میرا جنازہ نہیں تھا۔۔" خانزادہ کی ہنس کر کہی جانے والی بات پر موسٰی نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔ کتنا کربناک وقت گزرا تھا۔۔
خانزادہ کی نظر سامنے پتھر بنے عیسٰی پر گئی، وہ ابھی تک شاکڈ سا اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔
موسٰی سے الگ ہوتا وہ مسکرا کر اس کے پاس پہنچا۔
"ایم سوری عیسٰی اس بار تمہاری برتھ ڈے پر تمہارے پاس نہیں آ سکا۔۔ تمہارا گفٹ بھی۔۔۔
" یہ ورلڈ بیسٹ گفٹ ہے لالا۔۔۔ میری اب تک کی سب برتھڈیز کا سب سے پریشئیس گفٹ۔۔ آپ ہیں۔۔"
وہ بات کرتے کرتے رو پڑا تھا۔۔ وہ بھول گیا وہ مرد ہے، یہ بھی بھول گیا وہ جوان ہے بچہ نہیں رہا۔۔ سب موجود تھے، سب بیٹھے تھے پھر بھی رو پڑا۔۔
خانزادہ نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا گیا۔۔
"آپ کہاں چلے گئے تھے۔۔ آپ کو اندازہ بھی ہے آپ کے بغیر مر جاتا میں۔۔"۔ وہ بچے کی طرح اس کے سینے میں چہرہ چھپائے بول رہا تھا۔
"شش ایسا نہیں کہتے پاگل۔۔ اب سب ٹھیک ہے۔۔" اس نے نرمی سے ٹوک دیا۔۔ پہلی بار سفر سے آ کر دونوں نے نا چینج کیا نا شاور لیا۔۔ ریسٹ کرنا بھی بھول گئے۔۔
خانزادہ کے پاس بیٹھنا، اس کا بولنا اور ہنسنا۔۔ کتنا ترسے تھے سب۔۔ عیسٰی اس کے پاس بیٹھا اتنے وقت کے بعد پھر سے قہقہے لگا رہا تھا۔۔
لنچ کے لیے کھانا ٹیبل پر لگا تو سب وہاں اکٹھے ہوئے، خانزادہ کو پریہان کا خیال ستانے لگا۔
"میں پریہان کو لاتا ہوں، ساتھ کھائیں گے۔۔" وہ سب سے کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اندر پریہان بیڈ پر آڑھی ترچھی پڑی تھی، وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
"پریہان کیا تم اب ٹھیک ہو۔۔؟"۔ اس کے لہجے میں محسوس کی جانے والی اپنائیت اور نرمی پر وہ منہ بناتی اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ میرون رنگ کے کامدار جوڑے میں اس کا روپ نکھر کر سامنے آیا تھا۔۔ رنگت میں ہلکی زردی تھی مگر شفاف چہرہ میک اپ میں بہت دلکشی چھلکا رہا تھا، لمبے شہد رنگ بال اس کے گرد پھیلے ہوئے تھے، وہ بےخود سا اسے تکتا رہ گیا۔
"ٹھیک ہوں۔۔ آپ کو یاد آ گیا کوئی پریہان بھی ہے۔۔"
وہ خفگی جتاتی اسے بہت پیاری لگ رہی تھی، اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا سینے سے لگا گیا۔
"مجھے یاد تھا، میں نے سوچا ریسٹ کر رہی ہو۔۔ مجھے کیا پتا تھا یہاں تم کسی اور تیاری میں ہو۔۔"۔ شوخی سے کہتا وہ قریب سے اس کے نازک نقوش کو تک رہا تھا۔ پریہان جھینپ گئی۔
"میں تو بس۔۔ کیا میں وہی وائٹ ڈریس پہنے رہتی۔۔؟"
اس کی بات پر وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"بہت برا لگ رہا تھا وہ ڈریس۔۔ اچھی لگ رہی ہو۔۔ میرے لیے ایسے ہی سجتی رہا کرو۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔" اس کی کمر کے گرد بازو پھیلا کر دوسرے ہاتھ سے اس کے پشت پر بکھرے لمبے بال سنوارنے لگا۔۔
"مجھے آپ کو ایک سپیشل بات بتانی ہے.."۔ خانزادہ کی جذبے لٹاتی نظروں سے گھبراتی دور ہونے لگی۔
"بتاؤ۔۔ سن رہا ہوں۔۔ حالانکہ اس وقت میں بس تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔" وہ اس کے لالیاں بکھیرتے رخساروں کو شدت سے چھوتا مزید سرخ کر گیا۔۔
"آپ نے لنچ کیا۔۔؟ میں نے نہیں کیا۔۔ میرا خیال ہے کیا آپ کو۔۔۔؟"۔ اس کے بدلتے موڈ کو دیکھتی وہ تیزی سے دور ہوتی سمٹ سی گئی۔۔
"اوہ ہاں۔۔ کھانے کے لیے ہی بلانے آیا تھا۔۔ آؤ باہر سب کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔۔" وہ خجل زدہ سا اٹھ کر بولا۔ اسے دیکھتے ہی سب بھولنے لگتا تھا، اپنی کیفیت پر ہنسی آ رہی تھی اسے۔۔
"باہر۔۔ سب کے ساتھ نہیں کھانا۔۔ مجھے باہر نہیں جانا۔۔ سوری۔۔" وہ یکدم سپاٹ تاثرات چہرے پر سجاتی انکار کر گئی۔۔
"پریہان کیا ہوا ہے۔۔؟ کیوں نہیں جانا باہر۔۔؟"۔ وہ اس کی بات پر الجھ گیا۔۔ یقیناً باہر سب اس کا انتظار کر رہے تھے اور وہ یہاں ضد کر رہی تھی۔۔
"کچھ نہیں۔۔ عادت نہیں رہی میری۔۔ روم سے نکلنا یا سب کے ساتھ بیٹھنا الاؤ نہیں تھا مجھے۔۔"۔ وہ بنا کچھ چھپائے سنجیدگی سے بولی۔۔ خانزادہ ٹھٹکا، پریہان کا چہرہ بتا رہا تھا وہ سچ بول رہی ہے۔۔
"یہ بات ہم بعد میں ڈسکس کر لیں گے ابھی آ جاؤ باہر پلیز پریہان۔۔ سب میرا ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔"
وہ بےچارگی سے بولتا اس کے ہاتھ تھام کر بیڈ سے کھڑا کرتے ہوئے بولا۔۔
"آپ چلے جائیں۔۔ میں یہاں کھا لوں گی۔ اٹس او۔کے.."
وہ اپنے ہاتھ چھڑوا کر بالوں کا میسی جوڑا بنانے لگی۔
"میں تمہارے بغیر نہیں جا سکتا باہر۔۔ مجھے اچھا نہیں لگے گا پریہان۔۔۔" اس کے چہرے کے گرد پھیلی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے وہ نرمی سے بولا۔
"کیوں نہیں۔۔۔ گل جان مورے کے بغیر بھی تو سب کھا لیتے ہیں۔۔ میرے بغیر بھی کھا لیں۔۔" وہ کندھے اچکاتی گل جان کا زکر لے آئی تھی۔۔
"میں نے کافی کوشش کی تھی ان کو برابر بٹھا کر کھانا کھلاؤں۔۔ شاید وہ یہ سب میس نہیں چاہتیں۔۔
اپنے روم میں اکیلے کمفرٹیبل فیل کرتی ہیں۔۔ ان کی پوری زندگی ایسے گزری ہے، میں سوری فِیل کرتا ہوں بٹ دس از ٹرتھ پریہان۔۔" اس نے نرمی سے وضاحت دی۔۔ وہ سمجھ رہا تھا پریہان اس عرصہ میں گل جان کے بہت قریب ہو گئی تھی۔۔ اس لگا اس لیے کہہ رہی کے مگر پریہان باہر نا جانے کا بس بہانہ بنا رہی تھی۔۔
"میری بھی عادت بن گئی ہے اکیلے روم میں پڑے رہنا اور اکیلے کھانا۔۔ ہاں کم عرصہ تھا مگر عادت تو عادت ہوتی ہے۔۔"۔ وہ اپنی تکلیف نہیں بھلا پا رہی تھی۔ یہ موقع نہیں تھا پھر بھی وہ بول گئ۔۔ حویلی والوں کا لحاظ اس میں ختم ہو چکا تھا۔۔ اس تمام عرصے میں اس نے ان سب کی نظر میں اپنی جو اہمیت دیکھی تھی اسے اندر سے وہ سب کاٹتا تھا۔۔
"پلیز فار می پریہان۔۔" اس کے دونوں ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا۔ وہ اسے اکیلا چھوڑ کر نہیں جا پا رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی نہیں کر پایا یہ۔۔
پریہان نے مزید بحث نہیں کی، اس کے لیے ہار مان گئی۔ مرر میں اپنا عکس دیکھ کر ٹشو سے لپ سٹک ہلکی کی۔۔ خانزادہ کی تفصیلی نظر اب اس کے لباس پر پڑی تھی۔۔ بیک ڈیپ تھی، بازو بھی عریاں ہو رہے تھے۔۔ وہ بےچینی سے لب کاٹنے لگا۔۔
"پریہان یہ ڈریس۔۔" اس نے جھجک کر بولنا چاہا۔
"وہ شال ہے ناں۔۔ پہن لوں گی۔۔"۔ اس نے بیڈ پر پڑی سیاہ شال اٹھا کر خود پر اوڑھ لی۔۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر باہر لے گیا، اس کا بخشا مان اور اہمیت پریہان کو آدھا غم بھلا گیا تھا۔۔
کھانے کی ٹیبل پر اس نے واضح فرق محسوس کیا تھا، سب کے برتاؤ میں، ان کے لہجے میں۔۔ اسے ان سب کے دوغلے پن پر غصہ آ رہا تھا۔۔ وہ یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی تھی، خانزادہ پاس تھا پھر بھی اس کا جی چاہا سب سے کہہ دے پہلے کی طرح اسے کمتر سمجھیں، اگنور کریں، سب کی توجہ اسے زہر لگ رہی تھی۔۔
"یہ کس کی شال اوڑھی ہوئی ہے۔۔ اتنی پرانی شال۔۔ اس سے اچھی شالز تو ہماری ملازماؤں نے پہنی ہوئی ہیں پریہان۔۔" ثنا بیگم نے محبت جتاتے لہجے میں اس کی شال کو نشانہ بنایا تھا۔ خانزادہ نے چونک کر پریہان کی طرف دیکھا۔
"مورے پلیز۔۔۔" موسٰی نے ماں کو دبے الفاظ میں ٹوکا۔
" مورے گل نے اپنی شال دی تھی۔۔ ان کے پاس ملازماؤں سے بدتر چیزیں ہی ہوتی ہیں۔۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑا پرانی ہے یا نیو۔۔ موسم بدل چکا تھا سردی لگتی تھی، بیمار پڑ گئی تھی میں۔۔ انہوں نے فکر کی، دے دی۔۔"
وہ پرانی پریہان نہیں تھی، چپ نہیں ہوئی، لحاظ بھی نہیں رکھا۔۔ خانزادہ اس کے جواب پر حیران ہوا۔
وہ اتنی پولائٹ اور سوفٹ سپوکن تھی کیسے طنزیہ لہجہ لیے بیٹھی تھی۔۔ وہ جانتا نہیں تھا اس کے پیچھے اس کے اپنوں نے کیسے اس کے اندر تنہائی کا زہر بھرا تھا۔۔ اس کی بات پر وہ بےساختہ اپنی ماں کو دیکھ کر رہ گیا۔۔
تو کیا پریہان کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔۔
"اگر گل جان کو اپنی ہر بات بتائیں گی تو یہی ہو گا۔۔ ہم سے کہنا تھا گرم شال منگوا دیتے.." خانی بیگم نے بیٹے کی نظر پر ضبط بھرے لہجے میں کہا۔۔
"آپ نے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔۔ پہلے میں حواس میں نہیں تھی جب ہوش آیا۔۔ سب کے ساتھ گھلنا ملنا چاہا تو عدت کے نام پر اس کمرے میں بند کر دیا۔۔ میرے پاس صرف گل جان آتی تھیں، ان سے بھی نہیں کہا وہ خود میری ضرورتیں محسوس کرتی رہیں اور جتنا ہو سکا خیال رکھتی رہیں۔۔"۔ پریہان بےمروتی سے ان کو جواب دیتی جتا رہی تھی۔۔ یاد دلا رہی تھی ان کا سلوک اور وہ سب جو خانزادہ کے آنے پر شاید وہ سب بھلا بیٹھے تھے مگر اس نے جھیلا تھا، بھول نہیں پائی۔۔
"پریہان ریلیکس۔۔ مورے ہم بعد میں بات کریں گے۔۔"
خانزادہ نے پریہان کا ہاتھ تھام کر دباتے ہوئے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور سنجیدگی سے ماں کو دیکھا۔۔
خانی بیگم خاموش ہو گئیں، سب ہی حیران تھے۔۔ پریہان کا نیا روپ سامنے آیا تھا۔۔ خانزادہ کے لیے سب نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔۔ وہ ابھی لوٹا تھا اس کا دل برا نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔
پریہان باقی کا تمام وقت لب بھینچے بیٹھی رہی، خانزادہ کے کہنے پر بھی اس نے مزید کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔۔ پھر اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔۔
وہ الجھا پریشان سا بیٹھا رہا۔ اس کے پیچھے کچھ ایسا ہوا تھا کہ پریہان جیسی نرم مزاج لڑکی بدل گئی تھی۔۔ اسے لگا تھا سب سہی ہے۔۔
کچھ سہی نہیں رہا تھا، اس کی نظر سامنے کچن کی طرف جاتی گل جان بیگم پر پڑی تو بےساختہ پکارا۔
سب کے درمیان سے اٹھ کر ان کے پاس پہنچا۔۔
"مورے آپ کا بہت شکریہ۔۔ بہت دل سے تھینک فُل ہوں آپ کا۔۔ آپ نے پریہان کا خیال رکھا، وہ مجھے بہت عزیز ہے۔۔ آپ بہت اچھی ہیں مورے۔۔"۔ وہ انہیں کے گلے لگاتا مسکرا کر بول رہا تھا۔ گل جان بیگم کو لگا جیسے سب کے درمیان سرخرو ہوئی ہیں۔۔ جیسے وہ عزت دیتا تھا، جیسے اہمیت دیتا تھا، نایاب تھا سب۔۔
خانی بیگم ساکت سی انہیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ ان کا ہی بیٹا تھا مگر ہر بار کی طرح ماں ہونے کا حق گل جان نے ادا کیا تھا۔۔ آج سب کے درمیان ان کا بیٹا اس ونی عورت کو گلے لگائے شکریہ کر رہا تھا۔۔
انہیں لگا وہ بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔۔ اب ان کا دل جو پریہان کی طرف سے صاف ہونے لگا تھا سب بھول گئیں۔۔ پریہان نے آج سب کے درمیان ان کو جیسے جواب دیا تھا، جتایا تھا ان کی غلط فہمی دور ہو گئی۔۔ پریہان ان کی نظر میں واقعی معصوم نہیں تھی۔۔ اس کا اصل روپ اب سامنے آ رہا تھا۔۔
پریہان کمرے میں بیٹھے بیٹھے تھکی تو کمرے کے بیک سائڈ گلاس ڈور کھول کر باہر دھوپ میں بیٹھ گئی۔۔
کھانا بھی نہیں کھایا تھا دوپہر کا، حدیر کے کہنے پر الٹا چڑچڑے پن سے اسے کمرے سے جانے کا بول گئی، دن بہ دن چڑچڑی ہوتی طبیعت نے اس کا مزاج خراب کر دیا تھا جو وہ خاموشی سے برداشت کر رہا تھا۔۔
"آہم۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔۔؟"۔ موسٰی نے گلا کھنکار کر مخاطب کیا تو چونک کر سیدھی ہوئی۔
"جی بھائی۔۔ کیوں نہیں۔۔"۔ وہ شال کا پلو سر پر ٹکاتی نرمی سے مسکرا کر بولی۔ موسٰی سامنے رکھی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔ ہلکی ہلکی دھوپ اچھی لگ رہی تھی۔
"میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔۔ کیا آپ سب حویلی والوں کو حدیر کی خاطر معاف نہیں کر سکتیں۔۔؟
وہ اپ سیٹ ہے اس بات سے۔۔ نا وہ آپ کو ایسے اکیلا چھوڑ سکتا ہے نا ہی حویلی والوں کے بنا رہ سکتا ہے۔۔"
موسٰی نے بغیر تمہید باندھے سنجیدگی سے بات کا آغاز کیا۔ پریہان کے تاثرات بدل گئے۔۔
" یہی تو بات ہے وہ نہیں رہ سکتے۔۔ ورنہ میں یہاں ایک دن بھی مزید نا گزارتی۔۔ ان کے لیے ہی اس ناپسندیدہ جگہ پر موجود ہوں۔۔" وہ کوشش کے باوجود لہجہ نرم نہیں رکھ پائی تھی۔۔
"کیا اس کی وفاداری کا اس سے بڑا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے؟ وہ چاہے جتنا ناراض ہو جائے، جتنا بھی غصہ کر لے اپنوں کو چھوڑتا نہیں ہے۔۔ وہ ایک بار اپنا لے تو تاعمر نبھانے والا انسان ہے۔۔ اس نے آپ کو بھی دل سے اپنا لیا ہے۔۔ وہ ایسا ہی ہے نا آپ کو کبھی چھوڑے گا نا گھر والوں کو۔۔ ہم میں سے شاید کوئی اتنا ویل بیلنسڈ نہیں جتنا وہ ہے۔۔" موسٰی نے اسے سچائی سے آگاہ کیا، لہجے میں فخر تھا، محبت تھی۔۔
پریہان سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔ وہ اسے نہیں چھوڑے گا یہ بات دل کو سکون دیتی تھی مگر وہ اسے یہیں رکھے گا اس بات پر اس کا دل چاہتا تھا محبت، عادت، سکون سب چھوڑ کر یہاں سے چلی جائے۔
"کاش میں اس شادی کے لیے کبھی آمادہ نا ہوتی، میں ایسے خاندان سے نا جڑتی جہاں ایک دن گزارنا مجھے اندر سے مارتا ہے اور مجبوری یہ ہے کہ ساری عمر یہیں گزارنی ہے۔۔ محبت جو کر بیٹھی ہوں۔۔ اب تو یہ بھی دیکھ لیا ہے ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔ وہ نا لوٹتے ناں تو بس کچھ دن باقی تھے، مر جاتی میں بھی۔۔"
وہ بولتے بولتے سسک پڑی، موسٰی ساکن رہ گیا۔
"کبھی کبھی لگتا ہے میں نے حق مارا ہے اس لیے سکون نہیں مل رہا۔۔ منال میری بچپن کی دوست تھی، میں بھی اس کی محبت کی گواہ تھی، پھر بھی۔۔ میں نے اس کے لیے جگہ نہیں چھوڑی۔۔ وہ سچ کہتی ہے اس نے تو بس ایک ڈئیر دیا تھا میں نے یوز کیا اس بات کو۔۔ میں نے اپنی دوست کو دھوکہ دیا اور یہاں سب کے دل میں جگہ نہیں بنا پائی، مس فٹ ہوں یہاں۔۔ منال کی آہ لگی ہے مجھے۔۔" وہ بچوں کی طرح آنکھیں بھگوتی اداسی سے بول رہی تھی۔۔
موسٰی نے مسکرا کر اسے دیکھا، اسے لگا تھا صرف پُروا بچی ہے، اسے تو سامنے بیٹھی پریہان بھی نا سمجھ بچی لگ رہی تھی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا اور وہ یوں امید چھوڑ بیٹھی تھی۔۔ خانزادہ جیسا سب سے مضبوط ووٹ اس کے پاس تھا اور پھر بھی اسے لگتا تھا وہ خالی ہاتھ ہے۔۔ پاگل ہی تو تھی۔۔
"منال ہاشم کی جگہ آپ نے نہیں لی۔۔ حدیر کے دل میں جگہ بنا چکی ہیں آپ۔۔ اس کے دل میں شروع سے آخر تک بس آپ ہیں پریہان۔۔ منال تو کہیں نہیں تھی۔۔ وہ اس سے کبھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔ وہ کسی سے بھی کر لیتا شادی اور اس نے آپ سے کر لی۔۔"
موسٰی نے نرمی سے بولتے ہوئے اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہی۔۔ پریہان اب بھی ہونٹ چباتی بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"منال سے کیوں نہیں۔۔ وہ بیوٹیفل ہے۔۔ ہماری یونی میں اتنے لڑکوں کا کرش ہے وہ۔۔ وہ جینئیس بھی ہے اور اسی علاقے کی ہے، حویلی والوں کی بھی پسند ہے۔۔" پریہان کو موسٰی کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
"کیونکہ اسے لگتا ہے میری لائف اس کی وجہ سے خراب ہوئی۔۔ اسے وہ کبھی اچھی نہیں لگی۔۔" موسٰی نے درخت پر ٹوٹے گھونسلے کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ پریہان اس کی بات پر حیران ہوئی۔۔
وہ ماضی کو یاد کرتا سنجیدہ ہو گیا تھا، آج ایک عرصہ بعد وہ اپنی بات پھر سے کر رہا تھا۔۔
ان دنوں وہ ابھی یونی لاسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔۔ اپنی محبت کے خوشنما خیالوں میں ہنستا مسکراتا وہ پریقین تھا اپنی محبت جلد حاصل کر لے گا۔۔
اسے جو آسان لگا تھا وہ مشکل ترین کام تھا، حدیر کے مشورہ پر وہ اپنی محبت کا اظہار اپنی محبت کی بجائے ثنا بیگم کے سامنے کر گیا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا اسے اپنا کر اپنی محبت اس پر ظاہر کرے مگر سب بکھر گیا تھا۔۔ ثنا بیگم نے صاف انکار کر دیا۔۔
ان کے انکار کے ساتھ تہمتوں کی بوچھاڑ نے موسٰی کو بوکھلا دیا تھا۔ پلوشے جیسی خاندانی لڑکی کے علاوہ ان کی نظر میں ساری لڑکیاں موسٰی کے لیے بالکل نامناسب تھیں۔ وہ چپ کا چپ ہو گیا۔۔
ہاشم کا بیٹا سرفراز اس کا اچھا دوست تھا، موسٰی اکثر اسے ملنے جاتا تھا، آمنہ کی دوستی منال کی بڑی بہن رمنا سے تھی۔۔ وہ بھی اکثر وہیں پائی جاتی تھی۔
رمنا اور منال نے پرینک میں اسے موسٰی سے محبت کا اظہار کرنے کا کہا تھا۔ موسٰی اسے اتنی بولڈنیس سے محبت کا اظہار کرتا دیکھ کر اتنا حیران ہوا تھا کہ جواب تک نہیں دے پایا۔ اس پر آمنہ کا امپریشن اچھا نہیں پڑا تھا مگر ثنا بیگم کے انکار اور پلوشہ سے رشتہ جوڑنے پر زور دینے کی وجہ سے اسے صرف ماں کی ضد میں شادی کرنا تھی۔۔ اس نے آمنہ کا خیال آنے پر اسے شادی کی آفر دی۔۔ وہ نہیں جانتا تھا محبت کا اظہار پرینک ہے، نا یہ جانتا تھا سرفراز آمنہ کو پسند کرتا تھا۔۔ آمنہ شاید واقعی اسے پسند کرنے لگی تھی، شادی پر مان گئی۔ اس بار موسٰی نے خانزادہ حدیر کی مدد سے ڈائریکٹ آغا جان کو کہلوایا تھا۔
آمنہ سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اعلا خاندان تھا، پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی تھی، آغا جان نے اس کی شادی کروا دی۔۔
وہ آمنہ کے ساتھ خوش رہنا چاہتا تھا، وہ اس کو دل سے قبول نہیں کر پایا تھا مگر اس کے حقوق پورے کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ آمنہ خوش تھی، سرفراز صدمہ میں تھا، آمنہ کو اس نے بھی پرپوز کیا تھا، محبت کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ اسے چھوڑ کر اس نیلی آنکھوں والے ہر وقت مسکراتے موسٰی کی دیوانی ہو گئی۔۔ رمنا نے آمنہ کی اس بےحسی اور بیوفائی پر اس سے تعلق توڑ لیا مگر منال نے خوب بدلہ لیا تھا۔
اس کے پرانک میں کی محبت کے اظہار کی حقیقت موسٰی کو بتا دی۔۔ یہ بھی کہ ایسے پرانکس اور ڈئیرز وہ بہت لڑکوں سے کرتی آئی ہے۔۔
"آمنہ یہ سچ ہے؟ کیا تم نے وہ پرانک کیا تھا؟ کیا تم یہ پہلے بھی کرتی آئی ہو۔۔؟"۔ وہ بےیقین تھا، آمنہ سے پوچھتا جیسے چاہ رہا تھا وہ انکار کر دے۔۔
"موسٰی وہ سب ماضی ہے۔۔ ہاں ایسا تھا مگر اب میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔ اب محبت کرتی ہوں۔۔"
وہ یقین دلا رہی تھی، موسٰی کو "اب" پر یقین نہیں آیا، "ماضی" اس کے دل میں گڑھ گیا۔۔
"میں اس کے لیے کھیل سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔ حدیر اس نے مجھے پاگل بنایا اور مجھ جیسے جانے کتنے لوگوں سے کھیلتی آئی ہے۔۔ موسٰی خان کھلونا بن گیا۔۔"۔ وہ اس بات کو لے کر بہت ڈسٹرب ہوا تھا۔
دل سے قبول تو پہلے بھی نہیں کر پایا تھا پھر اس نے محبت ظاہر کرنا بھی چھوڑ دیا۔۔ ضد میں بنا رشتہ ایک روز یقیناً مضبوط ہو جاتا مگر ہاشم خان کی بیٹیوں نے ایسا ہونے ہی نہیں دیا۔۔ وہ آمنہ سے نہایت سخت مزاجی سے پیش آنے لگا۔ اپنا غصہ اور سٹریس اس پر اتارتا وہ بالکل نرمی بھول گیا۔
"جو ہوا ماضی تھا۔ وہ اب تمہارے علاوہ کسی کو نہیں جانتی۔۔ وہ اب تمہاری بیوی ہے موسٰی خان۔۔ گھٹیا مردوں کی طرح اس پر ہاتھ مت اٹھایا کرو۔۔ شادی تم نے خود کی ہے اس نے مجبور نہیں کیا تھا۔۔"
حدیر سمجھاتا تھا اور کبھی لڑ پڑتا تھا۔۔ مگر موسٰی نے آمنہ سے بولنا تک چھوڑ دیا۔
مردان خانے میں رہنے لگا، حویلی والے بھی ان کے رشتہ کی حقیقت جان گئے۔ آمنہ گھٹ گھٹ کر روتی اسے محبت کا یقین دلانے کی کوشش کرتی رہ گئی مگر وہ اس پر یقین نہیں کر پایا۔۔ دوبارہ پاگل نہیں ہونا چاہتا تھا، نا رحم کر پایا نا نرمی برت سکا۔ اس نے اتنی بےرحمی دکھائی کہ وہ زندگی سے بھرپور لڑکی ایک سال میں ہی ہنسنا مسکرانا بھول گئی۔۔
ثنا بیگم موسٰی کی بےسکونی کا زمہ دار بھی آمنہ کو ٹھہرانے لگیں، حویلی والے روز کے اس ڈرامے سے تنگ آ گئے تھے۔۔ قصوروار عورت ہی ٹھہرتی ہے یہاں بھی آمنہ کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔۔
موسٰی نے اسے زہنی اور جسمانی ازیت سے توڑ دیا تھا۔
"تم باپ بننے والے ہو موسٰی، مجھے سمجھ نہیں آ رہی بیٹی کی دعا دوں یا بیٹے کی۔۔ بیٹی ہوئی اور اس کا ماں جیسا نصیب ہوا تو کیا کرو گے؟ اور بیٹا ہوا تو تم جیسا ہو گا کسی کی بیٹی کو زندگی سے دور کر دے گا۔۔" ایک روز حدیر نے اسے اطلاع دی، اس کا لہجہ سرد تھا۔۔ تلخی اور غصے سے بھرا۔۔
موسٰی اپنی جگہ جم سا گیا تھا، اسے پہلی بار اپنے کیے پر افسوس ہوا تھا۔۔ پہلی بار اس نے آمنہ کو بیوی کی حیثیت سے سوچا۔۔
وہ ٹھیک ہونے لگ گیا، آمنہ کا خیال رکھتا، اس سے معافی مانگی۔۔ آمنہ معاف کر گئی تھی مگر پہلے جیسی نہیں ہو پائی۔۔
عورت کا ظرف بڑا ہوتا ہے، وہ محبت کرے تو ٹوٹ کر کرتی ہے، وفا کرے تو مرتے دم تک نبھاتی ہے مگر عورت خود پر اٹھا ہاتھ اور سخت الفاظ نہیں بھلا سکتی۔۔ مرد کے لیے مار کر معافی مانگنا بےشک آسان ہوتا ہے مگر عورت کے لیے سہہ کر بھلانا مشکل ہوتا ہے۔۔ جھوٹ سمجھتے ہیں لوگ لڑکی بھلا دیتی ہے۔۔ لڑکی جیسی نازک مزاج زات مرد کے خود پر اٹھے ہاتھ اور سخت الفاظ کبھی نہیں بھلا سکتی۔۔ بس کبھی کبھی ظرف بڑا کر لیتی ہے، معاف کر دیتی ہے مگر وہ اندر سے پہلے جیسی نہیں ہو پاتی۔۔ اس کے اندر کی نازک عورت مر چکی ہوتی ہے۔۔ آمنہ کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔۔ موسٰی کو معاف کر گئی، وفا بھی خوب نبھائی، اس کی مار اور سختی پر اُف تک نہیں کیا۔ اس کا گھرانہ کمتر نہیں تھا وہ چاہتی تو موسٰی کی حقیقت بتا کر جان چھڑوا لیتی مگر وہ چپ رہی۔۔
اور اسی خاموشی میں ہی اپنی پریگنینسی کے آٹھویں ماہ طبیعت بگڑنے پر اس نے مردہ بچے کو جنم دیا اور خود بھی اسی خاموشی سے مر گئی۔۔
"اس نے جو غلط کیا تھا وہ مان گئی تھی، اس بات کا یقین کرلیا تھا تو محبت کا بھی یقین کر لیتے موسٰی۔۔
اس کی محبت تھی کہ تمہارا اتنا برا سلوک سہتی رہی، حویلی والوں کے طعنے تک سنے مگر یہاں سے نہیں گئی۔۔ اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔" حدیر نے اس کے رونے پر کندھا تو دیا تھا مگر وہ ناراض تھا۔ اسے آمنہ کی موت کا افسوس ہوا تھا۔ اسے آمنہ کی تکلیف نہیں بھولتی تھی۔۔ اسے منال ہاشم سے نفرت ہو گئی تھی جس نے ایک لڑکی کی زندگی جہنم بنا دی تھی۔۔
وہی قصوروار تھی۔ موسٰی مرد تھا۔ اس سے آمنہ کا وہ سب پرانکس اور ڈئیرز جیسے کھیل اور انجوائے کرنے جیسا ماضی برداشت نہیں ہوا۔ مرد کا ظرف اتنا وسیع صرف تب ہوتا ہے جب وہ محبت کرتا ہو۔۔
اور موسٰی آمنہ سے محبت نہیں کرتا تھا۔۔
اس نے معافی مانگی، وہ سدھرا مگر دیر کر دی۔۔
آمنہ نے اسے معاف کر دیا تھا مگر اس کے مرنے کے بعد وہ بےسکون رہا، حویلی میں دم گھٹا تو حویلی چھوڑ کر خاموشی سے چلا گیا۔۔ تین سال اکیلے رہ کر اس نے آمنہ سے کیے اپنے سلوک کی خود کو خوب سزا دی تھی، وہ مانتا تھا اس کی غلطی بڑی تھی مگر حدیر کو اس سب میں اصل قصوروار منال ہاشم لگتی تھی۔
آمنہ غلط تھی ایسے کھیل کھیلتی رہی مگر وہ سب چھوڑ کر موسٰی کی زندگی میں آئی تھی۔۔ منال پردہ رکھ جاتی تو کچھ نا بگڑتا مگر وہ کم ظرف تھی۔
موسٰی مرد تھا، جو سنا اس بات پر نارمل نہیں رہ پایا، آمنہ کی غلطی تھی اس شادی سے پہلے حقیقت بتانی چاہئیے تھی۔
موسٰی اپنا ماضی کھول کر پریہان کے سامنے رکھ چکا تھا، پریہان ساکت سی موسٰی کو دیکھ رہی تھی۔
"میں جانتا ہوں آپ مجھے برا انسان سمجھ رہی ہونگی مگر۔۔ مقصد یہ تھا کہ منال ہاشم جیسی لڑکی کے لیے گلٹی مت ہوں۔ آپ کو بھی ڈئیر اسی نے دیا تھا ناں۔۔؟
آپ کو کچھ پتا ہے کیسا انسان تھا وہ جس سے پیسہ مانگنے کا کہا تھا اس نے؟ کیا پیسے یونہی کوئی دے دیتا ہے؟ چاہے پیسے لے کر فوری دے دیتیں۔۔ وہ آپ کو اپنے آفس سے ایسے جانے دے دیتا؟ نہیں پریہان یہ دنیا اتنی سیدھی نہیں جتنا آپ سمجھتی ہیں۔۔
ہاں دنیا اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم ہے، سو میں سے دو لوگ اچھے ہیں اور یہ آپ کی قسمت اچھی تھی کہ آپ اچھے انسان تک پہنچ گئیں۔۔ ہو سکتا ہے یہ اللّٰہ کی طرف سے منال ہاشم کو سزا ہو ایسے بےہودہ کھیلوں سے مزہ لینے کی سزا، اس نے جانے کیا سوچا تھا مگر آپ اسی کی محبت کے پاس پہنچ گئیں۔۔"
موسٰی نے صاف الفاظ میں اسے سمجھایا۔
"میں آپ کو۔۔ برا نہیں سمجھ رہی۔۔ آپ نے غلط کیا تھا مگر جس کے ساتھ کیا اس نے معاف کر دیا تو۔۔۔ آپ کو ورغلایا گیا مطلب۔۔ آپ نے تین سال اکیلے۔۔"
پریہان اٹک اٹک کر بولتی اسے ریلیکس کرنا چاہ رہی تھی، اس کی شرمندگی دور کرنا چاہ رہی تھی مگر اسے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
"اٹس او۔کے۔۔ میں اب سنبھل گیا ہوں۔۔ آپ بس اتنے اچھے انسان کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔۔ وہ اچھا بھی بہت ہے جب غصہ ہو جائے تو برا بھی بہت ہے۔۔ ایسا نا ہو آپ کی ان باتوں پر غصہ ہو کر منال ہاشم کا قتل کر دے۔۔" موسٰی نے مزاحیہ لہجے میں کہا لیکن پریہان کا تو یہ سن کر ہی رنگ اڑ گیا۔
"قتل۔۔ کیا وہ قتل بھی کرتے ہیں۔۔؟" پریہان کے گھبرائے ہوئے انداز پر موسٰی کو ہنسی آئی۔
"ارے نہیں۔۔ ڈریں مت بس باتوں سے ہی کام چلاتا ہے اس کا لہجہ اور زبان بہت ہوتا ہے اگلے انسان کو زندہ گاڑھنے کے لیے۔۔" موسٰی ہلکے پھلکے لہجے میں بولتا اٹھ کھڑا ہوا۔ پریہان سوچ میں گم تھی۔
"سوچیے۔۔ میں جانتا ہوں سب سے گھلنا ملنا مشکل ہو رہا ہے، میں بس یہ چاہتا ہوں تھوڑا سا کمپرومائز کر لیں حدیر کے لیے۔۔ یقین کریں وہ اس بار آپ کو کبھی تکلیف نہیں پہنچنے دے گا۔۔"
موسٰی نے نرمی سے مسکرا کر اسے دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔ وہ اپنے حلیہ پر نظر ڈال کر دیکھنے لگی۔
حدیر نے اس کے لیے گرم موسم کے حساب سے سامان منگوا دیا تھا۔ اس بار اس نے روایتی لباس پہننے پر زور نہیں دیا تھا، لباس مکمل تھا، گرم اور خوبصورت بھی۔۔ کھلتے گہرے رنگوں والے۔۔ گرم سویٹرز اور ویلوٹ کی موٹی سٹائلش شالز۔۔ وہ خیال رکھ رہا تھا ہمیشہ کی طرح اور پریہان کے یوں کمرے میں بند رہنے سے بےاطمینانی محسوس کرتا تھا۔ پریہان کو موسٰی کی باتوں سے اتفاق ہونے لگا، اسے ایک بار پھر سے کوشش کرنی چاہیے۔، اس کا دماغ منال کی طرف گیا۔
عدت کے دنوں میں چرچڑے پن اور دکھ کی کیفیت میں اس نے ریما اور مرحا سے بھی بات کرنا چھوڑ دیا تھا۔ منال کی خاموشی اب دہلا رہی تھی، کیا وہ پریہان سے بھی بدلہ لینے کا سوچ رہی ہو گی۔۔؟ وہ بےچین سی ہو گئی، حدیر کو اس کے خلاف کیا تو۔۔؟
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وارننگ نوٹ
(((((( رائٹر کی اجازت کے بغیر جہاں بھی یہ ناول پوسٹ ہوتا ہوا نظر آیا ایپیسوڈز آنا بند ہو جائیں گی ))))))
"آغا جان میں جانتا ہوں یہ سب کس نے کیا مگر یہ حاکم خٹک نے نہیں کیا۔۔ آپ لوگوں نے بغیر ثبوت کے گل جان مورے پر سارا غصہ اتارا۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتا ناراض نظروں سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔
"ہمیں تو یہی خبر ملی کہ۔۔۔"۔ خان آزر نے صفائی میں بولنا چاہا تو وہ ان کی بات درمیان میں کاٹ گیا.
"یہ خبر آپ کو بہروز خان نے دی ہو گی؟ اپنے دماغ اور اپنے ریسورسز استعمال کرنا سیکھ لیں آپ لوگ۔۔ کھلونا بنایا ہوا ہے اس نے۔۔ بس کر جائیں اب تو۔۔"
خانزادہ نے بمشکل اپنے غصہ پر کنٹرول کیا تھا۔۔ اسے واپس آئے ہوئے تیسرا دن تھا۔۔ اب تک وہ سب جان چکا تھا گل جان پر کیسے غصہ اتارا گیا تھا۔۔ پریہان اس کی روزانہ سب کے درمیان بیٹھنے کی ضد پر آج صبح پھٹ پڑی تھی۔۔ ایک ایک بات اس نے چیخ چیخ کر بتائی تھی۔۔ وہ دم بخود رہ گیا تھا۔۔
خان یوسف ماتھے پر بل ڈالے خاموش بیٹھے تھے انہیں سمجھ آ گئی پریہان اسے بتا چکی ہے ورنہ گل جان یا گھر کی کسی اور عورت میں اتنی ہمت نا تھی کہ مردوں کے خلاف بولیں۔۔ خانزادہ کی وہ لاڈلی بیوی اب ان کے خلاف بولنا بھی شروع کر چکی تھی۔۔
"کھلونا تو تم بھی بن رہے ہو خان۔۔ بیوی جو بولے گی اسی پر یقین کرو گے کیا۔۔؟ ہمارا بھی دماغ ہے حاکم خٹک نے تمہیں مارنے کی کوشش کی کیونکہ وہ چاہتا تھا، علاقے کی سرداری اس کے نواسوں میں سے ایک کو ملے۔۔" خان یوسف کی بات پر وہ تاسف سے انہیں دیکھنے لگا۔ وہ ابھی بحث کرنا نہیں چاہتا تھا۔
اس کی ناراضگی کے خوف سے خان آزر خاموش بیٹھے رہے۔۔ اس بار وہ بہروز خان کی طرفداری نہیں کر پائے۔
"میں آج ایک بات واضح کر دوں میری بس ہو چکی ہے، گل جان مورے کو میں نے کام کرنے سے سختی سے منع کیا ہے، آج کے بعد حویلی کا کوئی بھی کام ان سے کروایا تو سب عورتیں کام کریں گی اور ملازمین کو فارغ کر دیا جائے گا۔۔ بہو، بیوی کی حیثیت سے انہیں مقام نہیں ملا نا سہی، میری ماں ہیں، مزید نا انصافی نہیں برداشت کروں گا۔۔" وہ ضبط سے بول رہا تھا۔
"ونی میں آئی ہے اب سر پر بٹھا لیں کیا؟ تمہاری ماں خانی ہے، کوئی ناانصافی ہوئی ہے تو بتاؤ۔۔"
خان یوسف زچ ہو کر بولے۔ کچھ عرصہ چپ رہا تھا، کچھ عرصہ غائب۔۔ اب پھر سے وہی رٹ لگا لی تھی۔
"ونی ہیں تو مار ڈالیں پھر۔۔؟ زندگی گزر گئی ہے ان کی مگر آپ لوگ کی نفرت اور غصہ سہتے ابھی دل نہیں بھرا۔۔ انسان سمجھ کر ہی بخش دیں ان کو۔۔ گھر والوں سے ساری عمر کے لیے دور کر دیا ہے اب تو رحم کھا لیں۔۔ مجھ سے نہیں ہوتا برداشت۔۔ یا یہ سب بند کریں یا مجھے کہہ دیں میں یہاں سے چلا جاؤں۔۔"
اس نے وہ دھمکی دی جو سب جانتے تھے جھوٹی ہے، وہ کبھی سب کے بغیر رہ نہیں پایا تھا مگر آغا جان پھر بھی ہار مان گئے۔۔
"ٹھیک ہے جیسا چاہتے ہو ویسا ہو گا۔۔" خان آزر نے اسے مزید بھڑکنے اور غصہ کرنے سے روکا۔۔
"بہروز خان تم سے ملنے آیا تو ملے بھی نہیں اچھے سے۔۔ تم بدل رہے ہو خانزادہ۔۔" خان یوسف ناراضگی سے کہہ رہے تھے۔ خانزادہ بےساختہ مسکرایا۔
"بہروز خان سے تو میں تفصیل سے ملوں گا آغا جان بس کچھ دن صبر کریں۔۔" وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بول رہا تھا، اس کا انداز بتا رہا تھا اس کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے۔۔ خان یوسف بغور اسے دیکھ رہے تھے۔
خاکی رنگ کھدر کے کرتا شلوار میں اس کا دراز سراپا دلکش لگ رہا تھا، کندھوں پر مردانہ براؤن شال رکھی ہوئی تھی، سرخ و سفید چہرے پر سنجیدہ تاثرات تھے، موبائل پر نظر رکھے کچھ بےچین سا لگ رہا تھا۔
مردان خانے میں اس وقت خان آزر اور خان یوسف کے ساتھ وہ بیٹھا تھا۔ داور ڈیرے پر تھا اور یاور جانے کہاں گم رہنے لگا تھا۔۔ حاکم خٹک ملنے کے لیے آئے تو ان سے بھی خان یاور نہیں ملا۔۔ یعنی وہ بھی یہی یقین لیے پھر رہا تھا کہ خانزادہ حدیر کو مارنے کی کوشش خٹک حویلی کی جانب سے ہوئی تھی۔۔
خانزادہ ایک ایک سے بحث کرنے کی بجائے ادب خان کو بہروز خان اور ہاشم خان کی طرف سے ثبوت اکٹھے کرنے کا کام سونپ چکا تھا۔۔
"ماموں صاحب سے بات کر لی تھی کیا؟ پلوشے کا نکاح کر لیں صالح سے، شادی ڈگری کے بعد۔۔"
ماتھے پر آتے بالوں کو سمیٹ کر سر پر جماتا وہ موبائل ایک طرف رکھ کر بولا تو خان یوسف سے بات کرتے خان آزر متوجہ ہوئے، صالح اور پلوشے کے رشتہ ہونے کی خبر مل چکی تھی۔۔
"میں تو چاہتا ہوں رخصتی کرو۔۔ خوامخواہ کا بڑھاوا۔۔ پڑھ کر کیا کرنا ہے، خانی نے تعلیم مکمل کی ہے اب حویلی میں بیٹھی ہے کیا فرق پڑا۔۔" خان یوسف سر جھٹک کر بےزاری سے بول رہے تھے۔۔
"چاہتا تو میں بھی یہی ہوں۔۔ پہلے حالات اور تھے خانی نہیں مانی مگر اب سوچنا چاہئیے۔۔" خان آزر بھی ان کی بات سے متفق تھے۔
"پلوشے سے پوچھوں گا۔۔ اگر اس نے پڑھنا چاہا تو رخصتی بعد میں ہی کیجیے گا۔۔"۔ خانزادہ دو ٹوک لہجے میں بولتا دونوں کو سر پکڑنے پر مجبور کر گیا۔
موسٰی ان کے پاس آ بیٹھا۔ حلیہ سے ظاہر ہو رہا تھا شاید واپس جانے کے لیے تیار تھا۔
"عیسٰی تو چلا گیا تم نہیں گئے ابھی شہر۔۔ پہلے آنا یاد نہیں رہتا تھا اب جا نہیں رہے۔۔" خان یوسف نے تیکھے لہجے میں کہا تو وہ ڈھٹائی سے ہنس پڑا۔
"آپ کی اس ڈانٹ ڈپٹ کو بہت مس کیا ہے آغا جان۔۔ رونق ہیں آپ تو۔۔"۔ وہ ان کے گرد بازو پھیلا کر بولا۔۔
"مکھن مت لگاؤ۔۔ جب میں اپنے خانزادہ کی یاد میں کمرے میں بند ہوا تب یاد نہیں تھا آغا جان۔۔"
وہ اسے دور ہٹاتے خفگی جتا رہے تھے، موسٰی کے ساتھ خانزادہ بھی ہنس پڑا۔
"سنو حدیر یار۔۔ آفس کب جوائن کر رہے ہو ویسے۔۔"
موسٰی نے سیدھے ہو کر خانزادہ کو دیکھ کر پوچھا۔
"یہ ابھی کہیں نہیں جائے گا۔۔ حویلی میں رہے گا۔۔"
اس کی بجائے خان یوسف نے اٹل لہجے میں جواب دیا۔
"ابھی جا بھی نہیں پاؤں گا۔۔ یو نو کافی سٹریسڈ رہا ہوں اور ابھی میں اتنا ریکور نہیں ہوا۔۔ نا میں زیادہ ورک کر پاؤں گا نا سفر کرنے کا دل ہے۔۔" خانزادہ سنجیدگی سے بولا۔ زہنی تھکاوٹ تھی اسے اور بظاہر وہ ٹھیک تھا مگر سچ یہی تھا کہ وہ اندر سے ابھی بھی تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرتا تھا۔۔
"گڈ۔۔ مجھے پوچھنا تھا یار تمہارا پروجیکٹ تھا وہ میں نے کافی حد تک سنبھال لیا۔۔ اس کے سلسلے میں دوبئی کلائنٹس سے میٹنگ کنفرم کی ہے۔۔ دوبئی جانا پڑے گا۔۔ پھر کیا کرنا ہے۔۔؟" وہ سنجیدگی اختیار کرتا مشورہ لینے لگا۔ خانزادہ نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا۔
"میں ابھی نہیں کر سکتا اتنا بڑا سفر۔۔ تم ڈیل کر لو اس بار۔۔" وہ صوفے سے پشت ٹیکتا آرام دہ حالت میں بیٹھ گیا۔ موسٰی نے گہرا سانس بھرا۔
"او۔کے تو میں پھر نکلوں۔۔ کل کی فلائٹ کنفرم کروا لوں۔۔ اور سنو پریہان بھابھی کی آنی کا ہارٹ پرابلم کافی بڑھ گیا تھا آپریٹ کروایا ہے انہوں نے۔۔ شی از او۔کے ناؤ بٹ وہ پریہان بھابھی کو یہ سب بتا کر ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتیں۔۔ تمہارے آنے کی بہت خوشی ہے انہیں، وہ سٹیبل ہوتے ہی یہاں آئیں گی۔۔ " موسٰی نے خیال آتے ہی اسے انفارم کیا۔۔
"بات کروں گا میں۔۔" وہ سر ہلا کر بولا، موسٰی بال سنوارتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
خان یوسف اور خان آزر آپس میں کوئی ضروری بات ڈسکس کر رہے تھے، وہ اٹھ کر زنان خانے کی طرف بڑھ گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ کمرے میں آیا تو پریہان کہیں نہیں تھی، گلاس ڈور سے باہر جھانکا، وہاں بھی نہیں تھی، کمرہ اچھا خاصہ گرم ہو رہا تھا۔ وہ شال اتار کر ایک طرف رکھ گیا۔
واش روم سے آتی پریہان کی سسکیوں کی آواز پر وہ پریشان سا اس طرف بڑھا تھا۔
دوپہر سے بنا کچھ کھائے پیے وومٹ کر کے اسے اب اپنی خراب حالت پر رونا آ رہا تھا۔
"پریہان کیا بات ہے.. کیا ہوا؟" وہ فکرمندی سے آگے بڑھ کر اس سے پوچھنے لگا۔ زرد چہرہ اور آنسوؤں سے بھری آنکھیں۔۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اس کی یہ حالت دیکھ رہا تھا مگر وہ پوچھنے پر بھی ٹال رہی تھی۔ اب بھی خاموش کھڑی بری طرح لرز رہی تھی۔ اس نے بڑھ کر اسے نرمی سے اپنے حصار میں لیتے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔ باہر لا کر اسے بستر پر بٹھایا اور موبائل نکال کر ڈاکٹر کو کال ملانے لگا۔
"حدیر۔۔" پریہان نے اس کا ہاتھ تھام کر آہستگی سے پکارا تو وہ اس کے پاس بیٹھتا سینے سے لگا گیا۔
"تم ہاسپٹل نہیں جانا چاہتیں تو کوئی بات نہیں، ڈاکٹر کو گھر بلا لیتا ہوں۔۔ تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک، سہی سے کھا پی نہیں رہی ہو۔۔ چیک اپ کروانا ضروری ہے۔۔" اس کا سر تھپکتا موبائل کان سے لگا گیا۔
"میری بات سن لیں پلیز۔۔ میں بتاتی ہوں سب۔۔" اس سے موبائل لے کر وہ کال بند کر گئی۔ خانزادہ نے حیرت سے اسے دیکھا مگر خاموش رہا۔۔
"ایم سوری میں نے صبح اتنا غصہ کیا، اتنی اونچی آواز میں بات کی۔۔ مجھے بس گل مورے کے لیے دکھ ہوا تھا، ایم سوری۔۔" وہ جو خانزادہ کی یہاں رہنے کی ضد پر اس سے بھی لڑنے لگی تھی، موسٰی کے سمجھانے پر اپنی غلطی مان کر معافی مانگنے لگی۔۔
"کوئی بات نہیں۔۔ تم ہرٹ تھیں جانتا ہوں۔۔ اب کبھی ہرٹ نہیں ہونے دوں گا۔۔ مجھ سے یوں معافی مت مانگا کرو، تمہاری کوئی بات بری نہیں لگتی۔۔" وہ اپنائیت سے بولتا اس کی پیشانی پر لب رکھ گیا۔
"کیا اب ڈاکٹر کو بلاؤں یا خود جاؤ گی؟" ہاتھ کی پشت سے اس کے آنسوؤں سے تر گال صاف کرتا بولا۔
"میں بتاتی ہوں۔۔ بٹ پہلے وعدہ کریں لیٹ بتانے پر ناراض نہیں ہوں گے۔۔ میں بس چاہتی تھی اچھے موڈ میں، فرصت میں بتاؤں آپ کو۔۔" وہ وعدہ کرنے کے لیے اس کے سامنے ہاتھ کرتی بول رہی تھی، اس کی تمہید پر پریشان سا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا اپنے مضبوط ہاتھ میں اس کا نازک ہاتھ تھام کر چومتے ہوئے اپنے سینے پر رکھ گیا۔ پریہان اس کی لگاوٹ پر شرم سے جھینپ گئی۔
"میری یہ کنڈیشن۔۔ تقریباً دو ماہ سے ہے۔۔ میں۔۔"
پریہان کے بولنے پر وہ بری طرح گھبرا گیا۔
"پریہان۔۔ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔ اس لیے تو اتنی ویک ہو رہی ہو۔۔ پاگل ہو کیا۔۔"
اس کی بوکھلاہٹ عروج پر تھی، چہرے پر فکر لیے اسے ڈانٹتا وہ پریہان کو اتنا اچھا لگا کہ اس کے گلے میں بانہیں ڈالتی سینے پر سر رکھ گئی۔
"آپ بابا بننے والے ہیں۔۔" آنکھیں میچ کر چہرہ چھپائے وہ تیزی سے بولتی خانزادہ کو چپ کروا گئی۔
"کیا کہا۔۔؟ پھر سے بتاؤ مجھے لگتا ہے میں نے کچھ غلط سنا ہے۔۔ پریہان..؟"۔ وہ پریہان کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر سامنے کرتا بےیقینی سے پوچھ رہا تھا۔
"آپ نے سہی سنا ہے۔۔ یاور بھائی سے پہلے آپ با۔۔با۔۔"
وہ شرم سے بولتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔۔
"پریہان۔۔ کیا واقعی۔۔ تھینکس ٹو اللّٰہ۔۔" اس کے گرد بازو پھیلا کر بال بکھیرتا دل سے مسکرا رہا تھا۔
"ایم سوری پہلے نہیں بتایا۔۔" پریہان نے معذرت کی۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے میری جان۔۔" وہ دریا دلی کا مظاہرہ کرتا پریہان کا چہرہ اپنے پرحدت لمس سے بھگو گیا۔۔ اسے خود میں بھینچتا وہ خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔۔ اس کی وارفتگی سے بوکھلاتی پریہان اس کے حصار میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔۔
موبائل پر مسلسل آتی کال پر وہ نیند سے جاگا، پریہان آواز پر کسمسانے لگی تھی، خانزادہ نے موبائل اٹھا کر سائلنٹ کیا اور سکرین پر نظر دوڑائی۔
دوسرے بازو پر سر رکھ کر سوتی پریہان کو سینے سے لگا کر تھپکا تو وہ پھر سے سو گئی، اسے تکیہ پر سلاتا اٹھ کر صوفے پر جا بیٹھا۔ کال اس کے ڈرائیور شیر خان کی بیوہ معراج کے نمبر سے تھی۔ وہ پریشان ہوا۔
سرد رات کے بارہ بجے اسے کیا مسئلہ ہو گیا، کال بیک کر کے نیند سے بھری گلابی آنکھیں بند کرتا صوفے سے ٹیک لگا گیا۔ کال اٹینڈ ہو گئی تھی۔
"خانزادہ صاحب۔۔ رات گئے کال کے لیے معذرت۔۔" معراج کی بھیگی آواز پر وہ چونکا۔
"کوئی بات نہیں معراج۔۔ کیا ہوا کوئی مسئلہ ہے۔۔؟"
وہ نرمی سے بولا۔۔ لہجہ فکر سے بھرا تھا۔۔
"خانزادہ صاحب میرے ابا جی مر گئے ہیں۔۔ اطلاع ملی ہے ابھی، بھائی آ رہا ہے مجھے لینے۔۔ گھنٹے ڈیڑھ تک پہنچ جائے گا مگر صاحب وہ پُروا بی بی کا کیا کرنا ہے؟ اکیلا چھوڑ جاؤں کیا؟ تین چار دن تک واپسی ہو گی میری۔۔" معراج کی بات پر وہ جھٹکے سے سیدھا ہوا۔ پُروا کے نام پر دماغ نیند سے جاگا تھا۔
"کیا مطلب کون پروا۔۔؟ میری بیوی کی بہن پروا؟ کون لایا اسے وہاں۔۔ وہ وہاں کیا کر رہی ہے؟" وہ ناسمجھی اور بوکھلاہٹ میں بولتا چلا گیا۔
"موسٰی خان صاحب لائے تھے نا انہیں۔۔ ہفتہ ہونے کو ہے، وہ یہیں ہیں۔۔ انہوں نے کہا فی الحال یہیں رہیں گی۔۔" معراج کی بات پر وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔
"ٹھیک ہے معراج تم جاؤ آرام سے۔۔ میں اسے پِک کروا لیتا ہوں۔۔ بس جب تک کوئی نا آئے وہاں سے مت جانا پلیز۔۔ اور میں پیسے بھیجوں گا رکھ لینا۔۔ میری طرف سے تعزیت قبول کرو۔ تمہارے ابا کا بہت افسوس ہوا۔."
وہ نرمی سے ہدایت دیتا ساتھ میں افسوس کرنے لگا۔
معراج اسے دعائیں دیتی کال کاٹ گئی، خانزادہ کا غصے سے برا حال ہو گیا تھا۔ موسٰی کو کال ملائی۔
وہ شاید سو رہا تھا اور سوتے ہوئے وہ کال کبھی نہیں اٹھاتا تھا۔ خانزادہ نے بمشکل ضبط کرتے ہوئے شائستہ بیگم کو کال ملائی۔ وہ جانتا تھا ان کی طبیعت نہیں ٹھیک مگر اس وقت اس کا غصے سے برا حال تھا۔
موسٰی کے پاس ہفتہ بھر سے تھی وہ اور نا اس نے بتایا نا مسز شائستہ نے۔۔ اس کا دماغ گھوم رہا تھا۔
"ہیلو۔۔" شائستہ بیگم کی نیند سے بھاری ہوتی آواز سپیکر سے ابھری تھی۔
"پروا موسٰی کے پاس کیا کر رہی ہے؟ وہ گھر پر کیوں نہیں؟"۔ وہ اتنا غصہ میں تھا کہ نا سلام کر پایا نا حال پوچھا۔ چھوٹتے ہی سوال کیا۔ آگے سے کچھ پل کے لیے خاموشی چھا گئی۔ وہ شاید سائیڈ پر ہوئی تھیں۔۔
"بیٹا بتا نہیں پائی، آپ سے چھپاؤں گی نہیں، وقار نے پریہان کے ساتھ جو کیا تھا آپ کے سامنے ہے۔۔ وہ پروا کا بھی سودا کر رہے تھے، میں مزید اس کی حفاظت نہیں کر پا رہی تھی، موسٰی نے ہمارا بہت خیال رکھا اور پروا کو بھی اپنے پاس حفاظت سے رکھا ہوا تھا، اس نے کہا پروا چھوٹی بہن ہے وہ سنبھال لے گا تو مجھے یقین کرنا پڑا۔۔ مجھے لگا آپ کو بتایا ہو گا سب اس نے۔۔" وہ مختصراً سارا معاملہ اسے بتا گئیں۔ وقار صاحب کی اس بےغیرتی پر اس کا دماغ کھول اٹھا۔۔
"آپ تیاری کریں، میرا بندہ آپ کو لینے آئے گا۔۔ پروا اب میری زمہ داری ہے اور اسے کیسے سنبھالنا ہے کچھ دیر تک آپ کو پتا چل جائے گا۔۔ آپ کو مجھے یہ بات پہلی فرصت میں بتانی چاہئیے تھی۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتا نا چاہتے ہوئے بھی ناراضگی ظاہر کر رہا تھا اور ان کی مزید سنے بنا کال کاٹ گیا۔
وہیں بیٹھے بیٹھے ادب خان کو کال ملائی۔
اٹینڈ ہوتے ہی اس نے کچھ ہدایات دیں اور کال کاٹ دی۔ شکر تھا کہ ادب خان ابھی شہر میں ہی تھا۔
اس بار کال کاٹ کر اس نے عیسٰی کو کال ملائی۔۔ نیند سے جاگنے پر سر درد کر رہا تھا، موسٰی پر غصہ بدستور تھا مگر فی الحال یہ معاملہ سنبھالنا تھا۔
"ہیلو بھائی۔۔ یار بیوی کے آنے کے بعد بھی راتوں کو آپ مجھے کالز کریں تو دنیا کے پھیکے ترین انسان ہیں۔۔"
نیند سے بھاری آواز میں بولتا عیسٰی شاید نیند میں ہی تھا ابھی۔۔ خانزادہ نے ضبط سے سنا تھا۔
"عیسٰی مجھے ضروری کام ہے تم سے ۔۔ ابھی اور اسی وقت اٹھو اور میرے شہر والے گھر کی طرف جاؤ۔۔
پریہان کی چھوٹی بہن وہاں اکیلی ہے، معراج نے جانا ہے اس کے جانے سے پہلے اسے وہاں سے لے آؤ۔۔"
خانزادہ نے اسے ہدایت دی۔۔ عیسٰی بےزاری سے سن رہا تھا۔۔ اسکی ہدایت پر منہ بنانے لگا۔۔
"معراج جانا چاہتی ہے تو جائے۔۔ میں کیوں لاؤں اسے۔۔" وہ ناک چڑھا کر بولتا آنکھیں بند کیے ابھی بھی سونے میں مصروف تھا۔
"عیسٰی خان.." وہ دبا دبا چلایا۔ جی چاہ رہا تھا جا کر دو لگائے۔۔ اس وقت وہ نکل بھی جاتا شہر کے لیے تو بہت دیر سے پہنچتا۔۔ اس کی مجبوری تھی اسے عیسٰی پر ڈیپینڈ کرنا پڑ رہا تھا۔
"تم نہیں کر سکتے تو بتا دو۔۔ تم سے امید رکھی اس کے لیے سوری۔۔ سو جاؤ۔۔"۔ خانزادہ نے کال کاٹ دی۔
عیسٰی کی نیند منٹوں میں اڑی تھی۔ تیزی سے بستر سے نکلا، کال بیک کرتے ہوئے اپنی ہُڈ اٹھا کر پہنی۔
"کہاں جانا ہے بھائی؟ کس کو ریسیو کرنا ہے۔۔" اس بار کال اٹینڈ ہوتے ہی وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
خانزادہ نے ہداہت دوہرا کر کال بند کر دی۔ سر دباتا وہ اس وقت شدید ٹینشن میں بیٹھا تھا۔ سامنے بستر پر پریہان سکون سے سو رہی تھی اور وہ اس کے حصہ کی زمہ داری لیے وہیں صوفہ پر بیٹھا رہ گیا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی اپنی سپورٹس کار میں بیٹھتا پوری تیز رفتاری سے اس کے گھر پہنچا تھا۔۔ آنکھوں میں نیند سے جاگنے پر سرخ ڈورے تیر رہے تھے، چہرے پر بےزاری لیے اندر پہنچا تو سامنے معراج اپنے بچوں سمیت لاؤنج میں غمزدہ سی بیٹھی تھی۔ ساتھ ایک جواں مرد بھی بیٹھا تھا جو شاید اس کا بھائی تھا۔
"معراج یہ پیسے رکھیں بھائی نے کہا ہے اور ضرورت پڑیں تو ضرور بتائیے گا۔۔ یہاں رکنے کے لیے شکریہ، پروا کہاں ہے بلا دیں۔۔" وہ خانزادہ کی ہدایت پر حرف بہ حرف عمل کرتا ہُڈ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
معراج پانچ پانچ ہزار کے نوٹ سنبھالتی اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئی، تھوڑی دیر بعد لوٹی تو اس کے ساتھ جمائیاں لیتی پُروا آ رہی تھی۔
جینز پر فراک پہنے کندھے پر بکھرے بال اور نیند سے گلابی چہرہ۔۔ پیروں میں سنیکرز جلدی جلدی میں پھنسائے ہوئے تھے، معراج اسے باہر لاتے ہی اپنے بھائی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی۔۔ عیسٰی نے پروا کو دیکھ کر خجل زدہ سی نظر گھما لی۔۔ نا شال تھی نا سٹالر وغیرہ۔۔ لاپروا بکھرا حلیہ لیے نیند میں کھڑی تھی۔۔
"آپ کے پاس کوئی شال اور سویٹر نہیں ہے؟ " عیسٰی کو اس کا حلیہ برا لگ رہا تھا۔
"روم میں ہے۔۔ میں جلدی میں ہوں اس لیے نہیں پہنا۔۔"
وہ اپنی مدھم آواز میں وضاحت دے رہی تھی.۔
"میں نے لے جانا ہے آپ کو۔۔ مجھ سے زیادہ جلدی میں ہیں کیا۔۔؟ جائیں شال اور سویٹر پہن کر آئیں۔۔"
عیسٰی نے لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہا جبکہ دل میں اچھا خاصہ غصہ آ رہا تھا۔۔ آدھی رات کو نیند سے جاگ کر وہ اس چھوٹی سی بلا کو لینے آیا ہی کیوں تھا۔۔
پروا اس کی ہدایت پر سر ہلا کر پلٹی اور جا کر شال اور سویٹر دونوں پہن کر باہر آئی۔۔ شال اس نے سر پر رکھ کر دونوں اطراف سے ایسے ہی چھوڑ دی تھی، ایک پلو گلے سے گزرا کر کندھے پر رکھنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا، عیسٰی اگنور کر کے پلٹا اور گارڈ کو گھر لاک کرنے کی ہدایت دے کر اسے گاڑی میں بیٹھا کر وہاں سے نکلا۔ اسے حدیر کی ہدایت کے مطابق اپنے اپارٹمنٹ لے تو جا رہا تھا مگر یہ بات اسے بہت ناگوار گزر رہی تھی لیکن چپ رہا، حدیر نے کہا تھا پہنچ کر وہ کال کرے۔۔ آگے کیا کرنا ہو گا، وہی بتائے گا۔۔
جس خطرناک سپیڈ سے اس نے گاڑی چلائی تھی، کوئی اور لڑکی ہوتی تو چیخ چیخ کر آدھی ہو جاتی مگر یہاں تو خاموشی تھی، اس نے گردن موڑ کر ساتھ بیٹھی پُروا کو دیکھا تو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔
وہ مزے سے سو رہی تھی، وہ عش عش کر اٹھا۔ لڑکی تھی یا ںےجان گڑیا، انجان انسان اسے لے کر جا رہا تھا اور وہ اس کی گاڑی میں سو رہی تھی۔۔
بلڈنگ کے سامنے پہنچ کر اس نے گاڑی پارک کی اور اسے جگایا، وہ جاگتے ہی ڈور کھول کر باہر نکلی۔
عیسٰی کو پھر سے حیرت ہوئی، اسے لے کر اپارٹمنٹ میں پہنچا تو ایک اور جھٹکا لگا۔۔
سامنے ادب خان موجود تھا، صوفے پر ایک مولوی بیٹھا تھا، جس کا چہرہ بتا رہا تھا نیند سے جگا کر زبردستی لایا گیا ہے۔۔ دو تین افراد اور بھی تھے۔۔
ان کے پہنچنے پر ایک روم سے پریہان کی آنی نکلی تھیں، پروا بھاگ کر ان کے پاس پہنچتی ملنے لگی۔۔
"ادب خان یہ سب کیا ہے۔۔؟ کسی کا نکاح ہو رہا ہے کیا؟ اوہ ویٹ کہیں اس لڑکی کا تم سے نکاح۔۔"
وہ منہ کھولے سب دیکھتا چونک کر بولا تھا۔
"آپ سے نکاح ہے ان کا عیسٰی صاحب۔۔" ادب خان نے مسکراہٹ دبا کر احترام سے جواب دیا۔
"لالا۔۔ یہ کیا دھوکہ دیا آپ نے۔۔ نکاح کس لیے۔۔؟"۔ عیسٰی نے پہلی فرصت میں کال ملا کر شکوہ کیا۔۔
"تو تمہیں کیا لگا میں تم پر ٹرسٹ کر کے بغیر کسی رشتہ کے اسے تمہارے پاس رکھوں گا؟ موسٰی نے یہ حرکت کر کے پہلے ہی میرا پارہ ہائی کر دیا ہے۔۔ تم مجھ سے سوال کیے بغیر سیدھا جواب دو۔۔ خود کرو گے نکاح یا میں پہنچ کر کرواؤں۔۔؟" خانزادہ کے بےلچک لہجے پر عیسٰی نے لب بھینچے۔۔ موسٰی نے ایسا کیوں کیا وہ نہیں جانتا تھا مگر اس وقت اسے زبردستی ایک انجان انسان کے ساتھ باندھا جا رہا تھا۔
"میں اس لڑکی کو جانتا تک نہیں، آج پہلی بار دیکھا ہے، لڑکی نہیں روبوٹ ہے۔۔ آپ کی کیا مجبوری ہے نہیں جانتا مگر یہاں میرے علاوہ ادب خان بھی موجود ہے۔۔ میرے ساتھ یہ زبردستی مت کریں۔۔" عیسٰی کے جملے پر خانزادہ کا ضبط جواب دے رہا تھا۔
"عیسٰی خان یا نکاح کرو یا بکواس بند کر کے ایک سائڈ پر بیٹھ جاؤ۔۔ مشورہ نہیں مانگا۔۔ سیدھا انکار بھی میرے منہ پر مار سکتے ہو۔۔ اگر موسٰی چپ چاپ اسے اپنے پاس نا رکھتا تو رات کے اس پہر یہ وقت نا آتا، نا ہی کبھی تم سے میں مدد مانگتا۔۔ "
خانزادہ کے سخت اور ناراضگی بھرے جملوں پر عیسٰی کو صدمہ لگ گیا۔ ابھی کچھ دن پہلے آئرہ کو مثبت جواب دے کر ہٹا تھا۔۔ اس کے یقین مانگنے پر کہا تھا وہ خان مرد ہے، اپنی زبان سے نہیں پھرتا، یہاں نکاح کا حکم دیتے ہوئے پوچھا تک نہیں کہیں کمٹمنٹ تو نہیں کی۔۔ وہ پہلی بار خانزادہ سے دل میں ناراض ہوا تھا۔
غصے سے کال کاٹ کر موبائل دیوار پر دے مارا۔۔ نیند میں بیٹھے مولوی صاحب اور گواہان اپنی جگہ سے اچھلے۔۔ ادب خان سکون سے کھڑا تھا۔
وہ جانتا تھا خانزادہ حدیر کا کہا کوئی ٹال نہیں سکتا کیونکہ وہ انکار کا آپشن کم ہی رکھتا تھا، عیسٰی بھی لاکھ ناراضگی جتا لیتا خود کو ٹھنڈا کر کے اگلے کچھ منٹوں میں مولوی صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔
پروا کے ساتھ شائستہ بیگم بیٹھی تھیں، ہاسپٹل سے بھیجتے ہوئے کہہ دیا ملنے آؤں گی جلد۔۔ ملنے آئیں تو نکاح کے لیے بٹھا دیا کہ یہ ضروری ہے۔۔
وہ کٹھ پتلی بنی وہ سب کرتی چلی گئی تھی جو کہا جا رہا تھا۔۔ عیسٰی نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا نا اُس کا کبھی اس اکڑو غصیلے انسان سے پالا پڑا تھا۔۔
رات کے تقریباً دو بجے وہ دونوں نکاح کے بندھن میں بندھ گئے، عیسٰی نکاح ہوتے ہی کمرے میں جا کر دھاڑ سے دروازہ بند کر گیا۔۔ ادب خان مولوی صاحب اور گواہان کو جہاں سے لایا تھا وہاں چھوڑنے چلا گیا۔
شائستہ بیگم رونی صورت لے کر بیٹھی پُروا کو دوسرے کمرے میں جھوٹے سچے دلاسے دیتی سلا چکی تھیں، باہر آئیں تو مؤدب سا ادب خان ان کا منتظر تھا۔۔ ان کو جس خاموشی اور رازداری سے لایا تھا اسی خاموشی سے واپس گھر پہنچایا اور خود خانزادہ کے شہر والے گھر میں چلا گیا۔۔
عیسٰی کے اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ جاتے ہوئے ادب خان نے خود لاک کر دیا تھا۔۔
وہ دو الگ کمروں میں پڑے تھے، فرق اتنا تھا پُروا اس بار بھی معاملہ کی سنگینی کو سمجھے بنا نیند کر رہی تھی اور دوسرے کمرے میں لیٹا عیسٰی اپنی بےبسی اور اس زبردستی پر غصہ سے ساری رات سو نہیں پایا۔۔
ادب خان نے خانزادہ کو سب خیریت سے ہو جانے کی اطلاع دی تو وہ بھی گہرا سانس بھرتا تھکن زدہ سا اٹھ کر بستر پر لیٹا اور پریہان کو عادت کے مطابق سینے سے لگا کر اس کے چہرے کو نرمی سے چھوتا اس کے سر پر گال ٹکا کر آنکھیں موند گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
رات کو دیر سے پہنچی شائستہ بیگم نیند سے بےحال صبح صبح وقار صاحب کے جگانے پر اٹھیں۔۔
وقار صاحب اتنے دن کا صبر ختم کیے پروا کی غیر موجودگی کا سوال کر رہے تھے، وہ سپاٹ چہرہ لیے ان کو بولتا سن رہی تھیں۔ ان کی غائب دماغی پر وقار صاحب بری طرح جھنجھلائے تھے۔۔
"دیکھیں شائستہ۔۔۔ آپ کی طبیعت کا لحاظ کر رہا ہوں۔۔ آخر پُروا کہاں گئی اتنا تو بتا دیں۔۔ وہ جوان لڑکی ہے، زمہ داری ہے ہماری۔۔ خبر ہونی چاہئیے۔۔"
وقار صاحب بہت ضبط سے بول رہے تھے۔۔ اُس رات کی غائب ہوئی پروا اتنے انتظار کے بعد ابھی تک نہیں لوٹی تھی۔۔ شائستہ بیگم کا آپریشن کامیاب ہوا تھا۔
وہ سنبھل گئی تھیں، گھر آ گئی تھیں، ہفتہ گزر گیا تھا پروا ابھی تک غائب تھی۔۔ کچھ دن تو خاموش رہے مگر اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا۔ شائستہ بیگم کی خاموشی بتاتی تھی وہ جانتی ہیں پروا کہاں ہے۔۔
"پریہان کے پاس بھیجا تھا، وہ ایسے حالات میں تھی، عدت اور تنہائی۔۔ میری ہر وقت بگڑتی حالت نے مجھے پریشان کیا تو اس کو وہاں بھیج دیا۔۔
اب تو ماشاءاللّٰہ حدیر آ گیا ہے کچھ وقت وہ پاس رکھیں گے پھر پریسہ کے پاس چلی جائے گی۔۔"
وہ تحمل سے بول رہی تھیں۔ دل دکھ سے بھرا ہوا تھا، وقار صاحب کا یہ روپ پہلی بار سامنے آیا تھا۔
"پریسہ کے پاس۔۔؟ کیوں ہماری بھی بیٹی ہے۔۔ دربدر کیوں کر رہی ہو۔۔" وہ دانت کچکچا کر رہ گئے۔۔
"واقعی ہماری بیٹی ہے؟ مجھے لگتا ہے بس میری بھانجی ہے وہ۔۔ اچھا ہے اس کی بہنیں سنبھالیں۔۔"
شائستہ بیگم کے بدلے ہوئے لہجہ پر وہ ٹھٹکے۔۔
"ہاں چلو ٹھیک ہے۔۔ جانے سے پہلے کچھ دن ہمارے پاس بھی لے آنا۔۔ پھر جانے بچی سے کب ملنا ہو۔۔"
وہ لہجے میں نرمی بھر لائے۔۔ شائستہ بیگم کے اطوار اور پروا کا غائب ہونا ٹھٹکا رہا تھا، اگر انہیں حقیقت کا علم ہو گیا تو۔۔ لیکن حقیقت کا علم ہوتا تو ایسے چپ نا رہتیں وہ سر جھٹکتے مطمئین ہوئے۔۔
"ہمم لے آؤں گی، زرا طبیعت سنبھل جائے۔۔"۔ وہ بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گئیں۔ دل بھر آیا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے، اب آرام کرو۔۔۔ میں آفس جاتا ہوں.."۔ ان کے حامی بھر لینے پر وہ سکون سے بولتے اٹھ کر چلے گئے۔۔ مسز شائستہ نم آنکھیں لیے کروٹ بدل گئیں۔ عورت تھیں عمر کے اس حصہ میں بحث کرنے اور جھگڑا کرنے سے ڈر گئیں، یہ روپ گھناؤنا تھا مگر پوچھنے پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا تو کیا کر لیتیں۔۔
ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزار بیٹھی تھیں اور اب اللّٰہ کی مصلحت سمجھ آ رہی تھی، اس لیے شاید بےاولاد تھیں وہ۔۔ وہ انسان اس قابل نہیں تھا اولاد جیسی نعمت سے نوازا جاتا۔۔
پھر اب تو حدیر نے جو فیصلہ کیا تھا، وہ متذبذب تھیں مگر بہتر لگ رہا تھا، اکھڑ اور مغرور سا عیسٰی خان انہیں اپنے ترش رویہ کے باوجود اچھا لگا تھا۔۔
جیسا بھی تھا، کم سے کم غیرت مند تو ہوگا۔۔
اپنے نکاح میں موجود لڑکی کی حفاظت کر سکے گا۔۔
وہ حدیر کے فیصلہ پر یقین کر گئیں۔ اب ایسے ہاتھوں میں تھی پروا کہ کوئی بری نظر نہیں ڈالے گا۔۔
"آغا جان میں باپ بننے والا ہوں۔۔" خانزادہ کے مسکراتے اچانک جملے پر ایک پل کے لیے سناٹا سا چھا گیا، اس وقت سب کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے، خانزادہ نے ڈھونڈ کر ایسا وقت سوچا جب سارے حویلی والے موجود تھے۔۔
خان یوسف کچھ دیر تو بےیقین سے اسے دیکھنے لگے، پھر زور سے قہقہہ لگایا۔ سب میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔۔ یکدم شور سا مچ اٹھا تھا۔۔
"میرا وارث آ رہا ہے۔۔ میرا شیر آئے گا۔۔" خان یوسف نے جیسے شرط لگائی تھی۔۔ سب خانزادہ کو مبارک دے رہے تھے۔۔ خانی بیگم نے پل میں سب ناراضگی خفگی بھلا دی۔۔ بس اتنا یاد رہا وہ دادی بن رہی ہیں۔۔
خان آزر نے اسی وقت صدقے میں بکرے دئیے۔۔ داور اور یاورصدق دلی سے اس کے لیے خوش ہو رہے تھے۔
"مورے اور چچی جان۔۔ میں چاہوں گا اب پریہان سے اپنا دل صاف کر لیں۔۔ نا کر پائیں تو مجھے کہہ دیجیے گا، میں اسے شہر شفٹ کر دوں گا لیکن اب مزید کوئی سخت بات نہیں ہونی چاہئیے۔۔ پریہان کو میں سمجھا دوں گا۔۔ وہ چھوٹے خاندان کی ہے یا آپ سب کے معیار کی نہیں یا جو بھی۔۔ اب وہ بس میری بیوی ہے، اسے وہی مقام دیا جائے، وہی سمجھا جائے۔۔" خانزادہ نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے آغا جان کی طرف بھی دیکھا تھا۔ وہ اسے گھورنے لگے۔
"اچھا بس اب زیادہ باپ نا بنو ہمارے۔۔ وارث دے رہی ہے، اب کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔۔" خان یوسف نے بھی اسے گھُرکتے ہوئے باقی سب کو سنایا۔
ثنا بیگم تو سب کو یکدم بدلتا دیکھ کر ہی حیران تھیں، سر جھٹک کر ناک چڑھایا۔
پریہان کے ماں بننے کا علم ہوتے ہی خانی بیگم اور اس کی دیورانیاں تو سب ناراضگی اور شکایات بھلائے اس کے پاس آئی تھیں، وہ حیران رہ گئی۔۔ خان یوسف نے اس کے سر سے کئی کڑکتے نوٹ وار کر ملازموں میں بانٹے، ان کی دلی مراد بر آئی تھی۔ وارث وہ بھی خانزادہ سے۔۔ ان کی برسوں کی خواہش پوری ہوئی تھی۔
خانی بیگم نے اس کے پاس ایک ملازمہ کو اس کے پاس رہنے کی ہدایت دی۔۔
پریہان خاموشی اور حیرت سے سب دیکھتی رہی، اس بار وہ حدیر کی خاطر چپ رہی ورنہ دل مچل رہا تھا کہہ دے، اگر پہلے اس کی طبیعت پر انسان سمجھ کر ہی چیک اپ کروا لیا ہوتا تو یہ خوشی پہلے مل جاتی۔۔
خانزادہ اس کا ہاسپٹل سے تفصیلی چیک اپ کروا لایا تھا، ڈاکٹر نے اسے آئرن کی کافی کمی بتائی تھی۔۔
اس کا ایچ۔بی بھی کم تھا، اس کی ٹریٹمنٹ جاری رہنی تھی، دودھ فروٹس اب خانی بیگم اپنی نگرانی میں اس کے پاس بھجواتی تھیں۔
اس کے لیے اتنا بہت تھا کہ حدیر خوش ہے۔۔ وہ بھی خوش ہو گئی۔۔ دل چاہتا تو باہر سب کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ جاتی ورنہ کمرے کی بیک سائڈ بنے لان میں بیٹھی رہتی، اب اسے کوئی روک ٹوک نہیں کرتا تھا۔۔
اس نے اتنے وقت بعد مرحا اور ریما سے بات کی۔۔
وہ اس کے لیے خوش تھیں، پوچھنے پر پتا چلا منال کافی بیمار ہو گئی تھی اس لیے اس کو اس کے باپ نے ملائشیا اس کی بہن کے پاس بھیج دیا۔۔ شاید ہاشم خان بیٹی کی وجہ سے اپنے خاندان میں کافی بدنامی جھیل چکا تھا۔
وہ مطمئن ہوئی، فی الحال اتنا بہت تھا اس کے لیے۔۔ حویلی میں اب بھی وہ بس گل جان کے ساتھ زیادہ باتیں کرتی تھی، اب ان کا لباس اور حالت کافی بہتر تھی، عادت نہیں تھی بیٹھے رہنے کی مگر خانزادہ اب ان کو کام کرتا دیکھ کر ہی بھڑک اٹھتا تھا۔
پریہان کے پاس آ جاتیں کبھی مومنہ کا خیال رکھتیں یا پھر کمرے میں ریسٹ کر لیتیں۔۔ یکدم فارغ ہو جانے پر بولائی بولائی پھرتی تھیں، پریہان ان کی حالت پر کھلکھلاتی رہ جاتی تھی اور وہ خانزادہ کی شکایات لگاتی جاتی تھیں۔
"اب کام کرنا برا نہیں لگتا، کم سے کم مصروف ہی رہنے دو۔۔" وہ خانزادہ کو خفگی جتاتیں تو لہجے میں مان اور محبت ہوتی تھی۔
"میرے بچوں کو پالیے گا بس۔۔ پریہان تو اپنا خیال نہیں رکھ سکتی ان کا کیا رکھے گی۔۔" وہ ناک چڑھا کر بولتا پریہان کی گھوریاں نظرانداز کر دیتا تھا۔ اس معاملے میں وہ پریہان کی سنے بغیر اپنی مرضی سے اس کا خیال رکھ رہا تھا۔
اس وقت پریہان اکیلی بیٹھی دھوپ کا مزہ لے رہی تھی، گل جان کچھ دیر پہلے ہی اس کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں گئی تھیں۔۔
خانزادہ مردان خانے میں ایک طرف بیٹھا ادب خان سے بہروز خان کے معاملے پر بات کر رہا تھا۔
"خان جی، پرویز کا موبائل میرے پاس تھا، اس کی سیکیورٹی ہٹوا کر ڈیٹا نکلوا لیا ہے۔ کسی خان صاحب سے رابطہ میں رہتا تھا، خان زوار صاحب اور سرداد صاحب پر حملہ بھی اسی نے کیا تھا، آپ پر بھی۔۔
مگر سارے ریکارڈ میں کہیں یہ بات واضح نہیں وہ خان صاحب کون ہے۔۔"
ادب خان کی بتائی تفصیل پر وہ بھی الجھ گیا۔ بہروز خان پر شک تھا مگر اس بات کا ثبوت کہیں نہیں تھا۔
"تو پتا کرو ادب خان۔۔ پرویز کس سے ملتا تھا، کہاں جاتا آتا تھا۔۔ میں مزید نہیں لٹکا سکتا یہ معاملہ۔۔ اسے قانونی طور پر حل کرنا چاہتا ہوں۔۔"
خانزادہ نے سختی سے کہا۔ اسے جلد از جلد ثبوت چاہئیے تھا، وہ اس بار یہ قصہ ہی ختم کرنا چاہتا تھا۔
ادب خان کو مزید کچھ ہدایات دے کر کال کاٹ دی۔ پلوشے سے شادی کا بھی پوچھنا تھا، وہ یہ بات سامنے بیٹھ کر کرنا چاہ رہا تھا مگر اس کا آنا یا خانزادہ کا شہر جانا ممکن نہیں تھا اس لیے کال پر ہی دو ٹوک پوچھ لیا۔ پلوشے شادی کے لیے متذبذب تھی۔۔
خانزادہ کو یہی بہتر لگا کہ ابھی شادی نا کی جائے۔۔
پریہان کا خیال آنے پر اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ لنچ کروا کر گیا تھا اب جانے کیا کر رہی تھی۔ کمرے میں ہمیشہ کی طرح وہ موجود نہیں تھی۔۔
"بس ضد ہوتی ہے کمرے میں رہنا ہے مگر کمرے میں ٹکتی نہیں ہے۔۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بڑبڑایا۔
گلاس ڈور سے باہر جھانکا تو سامنے چئیر پر پیر سمیٹ کر بیٹھی جاتی دھوپ کو تکتے ہوئے وہ گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔ وہ اسے یوں اکیلے بیٹھا دیکھ کر آگے بڑھا۔ برا لگتا تھا اس کا یوں اکیلے بیٹھے رہنا مگر اب اچانک وہ سب سے گھل مل جاتی یہ بھی مشکل تھا۔ اس کے پیچھے سب اس کے ساتھ کیسے رہے یہ بھی پتا چل چکا تھا اسے، اس کے بعد ضد کرنا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔
"پریہان۔۔ دھوپ جا رہی ہے، اب اندر آ جاؤ ناں۔۔" اس کے سامنے آتے ہی لبوں پر نرم مسکان سجا لی۔۔
"اوہ۔۔ خیال نہیں رہا۔۔" وہ پیر نیچے اتار کر جوتے ایک ہاتھ میں پکڑ کر خانزادہ کے سامنے بازو پھیلا گئی۔
"وہ۔۔ آپ کو اچھا لگتا تھا ناں۔۔ اپنی مرضی سے مرضی کی منزل تک لے جانا۔۔" وہ بانہیں پھیلائے یاد دلا رہی تھی۔۔ وہ پہلے حیران ہوا پھر ہنس کر آگے بڑھتے ہوئے اسے بانہوں میں اٹھاتا سینے سے لگا گیا۔
"مجھے اب بھی اچھا لگتا ہے۔۔ اب تو دل کرتا ہے تمہیں اپنی محبت کے حصار میں رکھوں، اپنے عشق کی قید میں خود تک محدود کر لوں اور کبھی دور نا ہونے دوں۔۔" کمرے میں لے جا کر اسے بستر پر بٹھاتے ہوئے محبت سے لبریز لہجے میں بولا۔۔ پریہان اس کی بات پر مسکرائی۔۔ شرم سے لبریز مسکان نے چہرے پر گلال سا پھیلا دیا تھا۔ وہ واضح فرق محسوس کر رہا تھا، وہ پہلے سے زیادہ پیاری لگتی تھی، چہرے پر انوکھی سی کشش پھیلی تھی۔۔ شاید ماں بننے کی خوشی ہر لڑکی کو ہی ایسا روپ دے دیتی ہے۔۔
"حدیر۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔؟" پریہان نے اسے مخاطب کیا تو وہ سر ہلا گیا۔ گلاس ڈور بند کر کے پردے برابر کیے اور کمرے کی لائٹس آن کرتا اس کے پاس بیٹھا۔
"سب لوگ وارث کے لیے خوش ہو رہے ہیں، اگر بیٹی ہوئی تو۔۔؟" اس نے دماغ میں مچلتا سوال پوچھا۔۔
"ہم ویٹ کر لیں گے، وارث اگلی بار سہی۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا، آنکھوں میں شریر چمک تھی۔۔
"اگلی بار بھی نا ہوا تو۔۔؟" پریہان کو فکر ستائی۔۔
"تو اس سے اگلی بار۔۔ ویٹ کرتے رہیں گے۔۔ جب تک وارث نہیں آتا کوشش جاری رہے گی۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا تو ہونٹوں کے کناروں پر مسکان مچل رہی تھی، اس کی بات پر پریہان کی آنکھیں پھیلیں۔۔
"بیٹیاں تو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں چاہے جتنی ہو جائیں، بس ایک بیٹا ہونا ضروری ہے۔۔" وہ سکون سے بولتا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گیا۔
"مجھے اس سب میسّ سے دور رکھیں۔۔ وارث واٹ ایور چاہئیے تو اور شادی کر لیں۔۔ میں اپنی بیٹی لے کر ناراض ہو کر چلی جاؤں گی۔۔" اس کی بات پر وہ آنکھیں دکھاتا سیدھا ہوا تو وہ بات بدل گئی۔۔۔
"ایسا کریں سوچ بدلیں بیٹی کو وارث سمجھ لینا۔۔ وہ کیا ہوتا ہے سردار یا خان صاحب بلا بلا۔۔ ہماری بیٹی ہو گی تو اس کو سردارنی بنا دیں گے۔۔ وہ سب فیصلے کرے گی اور سب کو سنبھالے گی۔۔" پریہان کی بچگانہ باتوں پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
"تم پاگل ہو پریہان، یہ بتاؤ کیا تمہاری پروا سے بات ہوتی ہے۔۔" خانزادہ نے یکدم خیال پر آنے پر سرسری سا پوچھا۔ نکاح تو کروا چکا تھا، ابھی پریہان کو نہیں بتایا تھا نا وہ پوچھ رہی تھی یعنی لاعلم تھی۔۔
"ہاں جی ہوتی ہے مگر اب بہت کم بولتی ہے، حدیر کیا میں کچھ دن آنی کے پاس لگا آؤں؟ ان کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی، پُروا بھی بہت چپ چپ سی ہو گئی۔۔ ناراض ہو گی مجھ سے۔۔" زکر چل ہی نکلا تھا تو وہ بھی پوچھنے لگی، اب تو جانا مشکل بھی نہیں تھا۔
"پریہان بس کچھ دن باقی ہیں۔۔ پلوشے کا نکاح سر پر ہے اور میں نے پہلے ہی سوچا تھا، تمہاری آنی اور پروا کو بھی انویٹیشن دوں گا۔۔ ان فیکٹ ڈرائیور بھیج دیں گے۔۔ کیا کہتی ہو۔۔" وہ اس کے سرد پڑتے ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لے کر گرمائش پہنچانے کی کوشش کرتا بول رہا تھا۔
"مجھے جانا ہے حدیر۔۔ نکاح میں آ جاؤں گی۔۔ بس تین چار دن رہوں گی۔۔ میرا جانا الگ بات ہے۔۔ میں فرینڈز سے مل لوں گی، مرحا اور ریما سے تو میں نے بات کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔ وہ بھی ناراض ہو رہی تھیں۔۔"
وہ اپنی بات پر اٹک چکی تھی، وہ پُروا کا پوچھ کر پچھتایا تھا۔
"نہیں بھئی۔۔ بعد میں چلی جانا کبھی۔۔ چاہو تو انوائٹ کر لو فرینڈز کو بھی۔۔ میں نہیں رہ سکتا ایک دن بھی۔۔" وہ اس کے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتا اس کے گرد بانہوں کا حصار باندھ کر بولا تھا۔
"مرحا نہیں آتی یہاں۔۔ پہلے بھی نہیں آئی تھی۔۔" وہ منہ بنا کر بولی، بہت منانے پر بھی وہ حویلی آنے پر ہر بار معذرت ہی کر لیتی تھی۔۔
"اچھا پلوشے کے نکاح کے بعد لے جاؤں گا میں خود۔۔"
وہ بات ختم کرتا جھک کر اس کے رخساروں پر لب رکھ گیا تھا، وہ سٹپٹا گئی۔
"میں بات کر رہی ہوں۔۔" وہ ناراضگی جتاتی اس کے سینے پر ہاتھ جما کر دور ہوئی۔۔
"میں بات ختم کر چکا ہوں ناں۔۔" وہ اسے آنکھیں دکھاتا اس کے ہاتھ جھٹکے سے ہٹا کر اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگاتا اس کی تھوڑی پر لب رکھ گیا۔ پریہان اس کے والہانہ پن پر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ صبح کے قریب سویا تھا، آنکھ کھلی تو آنکھیں مسلتا اٹھ کر بیٹھا۔۔ کمرے میں اب بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا، اٹھ کر پردے ہٹائے تو باہر دن پورے عروج پر تھا۔ اس نے پلٹ کر ٹائم دیکھا تو دن کے دو بج رہے تھے۔ بالوں میں ہاتھ چلاتا فریش ہونے چلا گیا۔
گرم پانی سے شاور لے کر اچھا خاصہ فریش محسوس ہو رہا تھا۔۔ جینز پر بلو ٹی شرٹ پہنے وہ بال برش کر کے ویسے ہی نم چھوڑے موبائل چیک کرتا باہر نکلا۔۔
"آج یونی نہیں آ پایا یار۔۔ آنکھ نہیں کھلی۔۔ پتا نہیں۔۔"
بےزاری سے احمر کے ساتھ کال پر بات کرتے ہوئے کچن میں جا کر اپنے لیے کافی تیار کرنے لگا۔
فریج سے فروزن کباب اور مچھلی نکال کر تلے، اور پلیٹ میں رکھ کر کیچپ وغیرہ رکھ کر ٹرے تیار کیا اور کافی کا بھاپ اڑاتا مگ رکھا۔ لاؤنج میں آ کر بیٹھتا زچ ہوا، آئرہ کی کالز آ رہی تھیں مسلسل۔۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پھر بات ہو گی۔۔"
اسے میسج بھیج کر موبائل رکھ دیا۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر گردن گھمائی تو یکدم رات کا واقعہ یاد آیا۔۔ وہ رات والے حلیہ میں ہی کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی۔۔ رونی صورت اور بھیگی آنکھیں۔۔
اس کے جبڑے بھینچ گئے، موڈ خراب ہو گیا۔
"آؤ۔۔ کھانا کھاؤ۔۔" اس نے مروت نبھاتے ہوئے کہا۔
"آنی کے گھر جانا ہے۔۔" وہ صدمہ میں گھری ہوئی تھی، آنی رات کو پاس تھیں صبح اٹھی تو سب غائب تھے، صبح سے دس بار کمرے سے نکل کر باہر آئی تھی، اسے، تو لگا تھا سب جا چکے ہیں۔۔
کھٹ پٹ کی آواز پر بھی ڈر کر چھپتے چھپتے نکلی تھی، جانے کون آ گیا تھا۔۔ مگر سامنے رات والا مغرور لڑکا نک سک سے تیار کھانا لیے بیٹھا تھا۔
"تمہاری آنی کو ضرورت ہوتی تمہاری تو یوں رات کے دوسرے پہر میرے سر پر پھینک کر نا جاتیں۔۔ چپ چاپ یہاں آ کر بیٹھو اور کھانا کھاؤ۔۔ تم بھوک سے مریں تو میں بھی اسی کمرے میں دفن کر دوں گا۔۔"
وہ کاٹ دار لہجے میں بولا، پُروا کا حلق خشک ہوا۔ کہاں موسٰی اور حدیر جیسے نرم لہجوں والے اور مسکرا کر بات کرنے والے لوگ۔۔ کہاں یہ۔۔ شکل میں موسٰی سے ہی ملتا جلتا مگر مزاج ساتویں آسمان پر تھا۔ وہ چل کر اس کے سائڈ والے صوفہ پر بیٹھی۔۔ ٹرے پر نظر پڑی تو منہ اتر گیا، نا روٹی نا ہی نان۔۔
خالی مچھلی اور شامی کباب۔۔ وہ جا کر کچن سے ایک اور پلیٹ لایا اور اسے پلیٹ میں مچھلی کا ایک بڑا پیس اور دو تین کباب رکھ کر دئیے۔۔ فورک اور نائف بھی رکھ دی۔۔ موبائل پر پھر سے کال آ رہی تھی۔
"صرف یہ کیسے۔۔" وہ ڈرتے ڈرتے بول رہی تھی، اس کی کھا جانے والی نظروں پر چپ ہو گئی۔۔
"اب آواز نا آئے تمہاری۔۔" موبائل کے سپیکر پر ہاتھ رکھ کر دھیمی آواز میں غصے سے وارن کیا۔ پُروا چپ چاپ کیچپ نکال کر کباب کھانے لگی۔۔
"عیسٰی احمر بتا رہا تھا آپ کی طبیعت خراب ہے، میں آ رہی ہوں آپ کے پاس۔۔ اور پلیز منع نہیں کرنا، بس دیکھ لوں گی تو چلی جاؤں گی۔۔"
آئرہ کال پر بےچینی سے بول رہی تھی، اس نے بوکھلا کر سامنے بیٹھی پروا کو دیکھا جو کھانے میں مگن تھی۔ وہ کم سے کم اپنے اس عجیب اچانک نکاح کا آئرہ یا کسی کو بھی بتانا نہیں چاہ رہا تھا۔۔
"آئرہ ایکچوئلی میں۔۔" معذرت کرنی چاہی مگر وہ بات درمیان میں ہی کاٹ گئی۔۔
"نو مور ایکسکیوز پلیز۔۔ بس دیکھ کر اطمینان ہو جائے گا ایسے تو فکرمند رہوں گی۔۔ پلیز عیسٰی۔۔" اس نے مِنت بھرے لہجے میں کہا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آج وہ اکیلا نہیں تھا، آئرہ آ جائے تو کیا فرق پڑتا۔۔۔ پرسوچ نظر سے پروا کو دیکھا جو اب اپنی پلیٹ سے فش کا پیس اس کی پلیٹ میں رکھ رہی تھی۔۔ اس نے حامی بھر لی۔۔
"فائن آ جاؤ۔۔"۔ وہ اجازت دے کر کال کاٹ گیا۔۔ سر جھٹکتا کھانے کی طرف متوجہ ہوا تو جھٹکا لگا۔۔ وہ مچھلی اس کے پاس رکھ کر کباب اپنی پلیٹ میں جمع کیے کھانے میں مصروف تھی۔۔ اس کا دماغ گھوما۔۔
"میں نے کب اجازت دی کہ تم یہ ایکسچینج کر سکتی ہو۔۔؟ کچھ زیادہ معصوم بن رہی ہو.." دانت کچکچا کر اسے دیکھا، وہ فورک میں اٹکا کباب کا پیس کیچپ پر ٹچ کرتی اسے دیکھنے لگی۔۔ وہ چپ ہوا تو منہ میں ڈال لیا۔۔ عیسٰی کا صبر جواب دے رہا تھا۔
"جاؤ کمرے میں۔۔ اور وہیں رہنا۔۔ میرے گیسٹ آ رہے ہیں تم ان کے جانے سے پہلے روم سے مت نکلنا۔۔"
اس سے پلیٹ چھین کر بولا۔۔ بچے کھچے کباب اپنی پلیٹ میں ڈالتا پھر سے مچھلی کا پیس رکھ کر اسے پکڑایا اور کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
وہ سر جھکائے اچھے بچوں کی طرح پلیٹ تھامے وہاں سے چلی گئی۔۔ عیسٰی نے کباب کا ٹکڑا منہ میں رکھا تو اس کا موڈ خراب ہوا، سب ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔ اٹھ کر ٹرے کچن میں لے جا کر پٹخا۔
پلیٹ ویسے ہی فریج میں رکھی، کافی کا مگر سنک میں زور سے پٹخ کر پھینکا اور فریج سے سیب نکال کر کھاتا ہوا لاؤنج میں جا کر بیٹھ گیا۔۔
_____________
عیسٰی سنجیدگی سے بیٹھا تھا، آئرہ بھی آئی ہوئی تھی، احمر اور حسن بھی۔۔
"میں خود آ رہی تھی، یہ دو الگ سے پروگرام بنا کر آئے ہیں۔۔" آئرہ نے اسے وضاحت دیتے ہوئے ہاتھ میں تھاما براؤن کیک کا ڈبہ ٹیبل پر رکھا۔
"ظاہر ہے تمہیں فکر تھی پھر ہمارا تو جگری یار ہے۔۔ احمر نے جب بتایا ہم تب ہی نکلے تھے۔۔" حسن اس کی وضاحت پر خوامخواہ ناک چڑھا کر بولا۔۔
"اچھا چائے پیو گے یا کافی۔۔؟ " عیسٰی نے بات بدل دی۔۔ ساتھ آئے تھے یہاں آ کر بحث کرتے عیسٰی کو بچہ سمجھ رہے تھے، وہ اتنا پاگل بھی نہیں تھا۔۔
"کیا یار آج تکلف کیوں کر رہا ہے پزا لائے ہیں گرما گرم۔۔ لنچ نہیں کیا ہوا ہم نے۔۔ مل کر کرتے ہیں۔۔"
احمر نے پزا کے ڈبوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔۔
"او۔کے پھر جا کر برتن لے آؤ۔۔ کافی بنانی ہو تو بنا لینا۔۔" وہ صوفے پر پھیل کر بیٹھتا کندھے اچکا گیا۔
"میں لے آتی ہوں۔۔ یہ فریج میں رکھ دوں۔۔" آئرہ نے اٹھ کر کیک کا ڈبہ اٹھا کر پوچھا، عیسٰی سر ہلا گیا۔
سامنے ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی ڈال کر گلاس منہ سے لگاتا وہ چونک گیا، پروا کمرے کا دروازہ کھول کر نکل رہی تھی۔۔ بنا شال ڈوپٹہ لیے، اسی لاپرواہ حلیہ میں۔۔ عیسٰی کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔
"یہ کون ہے۔۔" آئرہ بھی متوجہ ہو چکی تھی، احمر اور حسن کا منہ کھل گیا تھا۔ عیسٰی کے اپارٹمنٹ میں لڑکی۔۔؟ یہ انوکھا واقعہ درپیش آیا تھا۔۔
"وہ میں پانی۔۔" پروا سامنے گھورتی نظروں والے عیسٰی کو دیکھ کر وضاحت دینے لگی جب اس نے وہی گلاس پروا کی جانب کھینچ کر مارا۔۔
گلاس دیوار سے ٹکراتا ٹوٹ کر بکھرا، پروا کی زور دار چیخ برآمد ہوئی، احمر اور حسن بےساختہ کھڑے ہوئے تھے، گھبرا تو آئرہ بھی گئی تھی۔
"کمرے میں دفع ہو جاؤ۔۔" عیسٰی کی دھاڑ پر وہ ڈر کر واپس کمرے میں بند ہو گئی۔۔ باقی تینوں کی سوالیہ نظر اس پر جمی تھی، اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
"کزن ہے وہ میری۔۔" کھولتے دماغ کو قابو میں کرتے ہوئے وہ بس اتنا بولا تھا۔
"تو یار اتنا غصہ کرنے والی کیا بات تھی۔۔ پانی پینے آئی تھیں۔۔" حسن نے اس کے غصہ پر حیرت سے کہا۔
"ہم کھا جاتے کیا اس کو۔۔ گلاس لگ جاتا تو۔۔۔" احمر بھی سر جھٹک کر خفگی سے بولا۔۔ آئرہ خاموش تھی، پروا کو اچھے سے دیکھا تھا، وہ نازک سی اور کچھ زیادہ حسین لڑکی۔۔ عیسٰی کی چاہے کزن تھی مگر اس کے پاس کب سے اور کیوں تھی، کھٹک گئی وہ۔۔
"ہمارے ہاں لڑکیاں غیر مردوں کے سامنے نہیں آتیں۔۔ وہ نہیں جانتی تھی تم دو بھی آ رہے ہو۔۔ ورنہ باہر نا آتی۔۔ ناؤ لیو ہر۔۔" وہ سرد لہجے میں بولا تو آئرہ کو لگا اسے جتا رہا ہے۔۔ اپنی کزن کا اپنے دوستوں کے سامنے آنا بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا اسے۔۔
وہ خاموشی سے جا کر پلیٹس لے آئی، احمر اور حسن بھی خاموش ہو گئے تھے۔۔ عیسٰی لب بھینچے بیٹھا رہا۔
"کیا اندر دے آؤں، تمہاری کزن کو۔۔" آئرہ نے پزا کے کچھ سلائس پلیٹ میں رکھ کر سوال کیا۔ جانے کیوں وہ ایک بار قریب سے دیکھنا چاہ رہی تھی اسے۔۔
"نہیں۔۔ بعد میں دے دوں گا۔۔ تم لوگ کھاؤ بس۔۔"
وہ فوراً انکار کر گیا۔ آئرہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی۔
"مجھ سے بھی پردہ ہے کیا اس کا۔۔" آئرہ نے منہ بنایا۔
"شٹ اپ۔۔ تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولتا رخ پھیر گیا۔
جتنی دیر وہ وہاں بیٹھے رہے، آئرہ کا دماغ اس کی کزن میں ہی اٹکا رہا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خان حویلی میں اس وقت ثنا بیگم کے بھائی اور بھابھیاں آئے ہوئے تھے۔۔ مردان خانے میں بیٹجے ان کے بھائیوں نے دریہ اور درخشان کے رشتہ کی بات چھیڑ دی تھی۔ ثنا بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھر میں باقی لوگوں کی شادیاں اور خوشیاں دیکھتے ہی ان کو اپنے بچوں کی فکر ستانے لگی تھی۔۔
آغا جان خاموش بیٹھے تھے، لڑکے دونوں ڈاکٹر تھے، رشتہ تو اچھا تھا مگر غیر خاندان۔۔
خانزادہ نے خان زوار سے اشارتاً مرضی پوچھی، وہ بھی ان رشتوں پر رضامند نظر آ رہے تھے۔۔
ابھی بات چل رہی تھی جب مردان خانے میں خان یاور تیزی سے داخل ہوا، زرا رک کر سب کو سلام کیا، چہرہ ازحد سرخ ہو رہا تھا، داور اور خانزادہ چونکے۔۔
وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا تھا، خانزادہ کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تو اٹھ کر اس کے پیچھے ہوا۔
"کیا ہوا لالا۔۔ کوئی بات ہوئی ہے۔۔؟" وہ الماری چھان رہا تھا جب خانزادہ نے نرمی سے پوچھا۔
"آج یہ راحم خٹک میرے ہاتھوں مرے گا، قتل کر ڈالوں گا میں اس کا۔۔" یاور پسٹل نکال کر درشتگی سے بولا۔
"ایک منٹ۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔ ٹھہریں زرا۔۔"
خانزادہ گھبرا کر آگے بڑھتا اسے روکنے لگا۔ کمرے میں اسی وقت خان داور بھی داخل ہوا تھا۔
"حد سے بڑھ رہے ہیں وہ لوگ۔۔ ہر بار جانے دیں کیا۔۔"
یاور غصے سے بول رہا تھا، خان داور نے جلدی سے دروازہ بند کیا تاکہ باہر آواز نا جائے۔۔
"مجھ پر یا کسی پر بھی انہوں نے حملہ نہیں کیا۔۔ یہ کام خٹک حویلی والوں کا نہیں ہے لالا۔۔" خانزادہ نے اسے روک کر سمجھایا۔۔ یاور بھڑکا ہوا تھا۔
"دشمنی میں بھول رہے ہو ماموں کا بیٹا ہے وہ ہمارے۔۔ تم نانا صاحب سے بھی نہیں ملتے یاور۔۔ مورے کا سوچا ہے کبھی کیسا لگتا ہو گا، تمہاری اس نفرت سے انہیں بہت دکھ ہوتا ہے۔۔ حدیر کہہ رہا ہے ناں یہ ان کا کام نہیں ہے۔۔" داور نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا تھا۔
"وہ خود بولا ہے ایسا۔۔ اپنے منہ سے مانا تھا اس دن بھی۔۔" یاور دبا دبا چلایا۔ باہر مہمان بیٹھے تھے ورنہ وہ ضبط نہیں کر پا رہا تھا۔
وہ تب کا حوالہ دے رہا تھا جب حاکم خٹک خانزادہ سے ملنے آئے تھے اور راحم ان کے ساتھ تھا۔۔
"ملنے آئے ہو دیکھنے کے لیے کہ تمہاری پلاننگ ناکام کیوں ہو گئی۔۔ تم لوگوں نے تو مارنا چاہا تھا وہ بچ گیا۔۔" یاور نے ترش لہجے میں ان کے ساتھ آئے اپنے ماموں زاد راحم خٹک کو غصے سے کہا تھا۔
"ہاں یہی دیکھنے آیا تھا، اس بار بچ گیا تمہارا بھائی اگلی بار نہیں بچے گا۔۔" راحم بھی جوان خون تھا، بےوجہ الزام پر بھڑک کر جواب میں بولا تھا۔
تب بھی خانزادہ نے درمیان میں آ کر ان کے درمیان کی سرد جنگ کو ختم کیا تھا آج پھر وہی بات تھی۔۔
"آپ نے بغیر ثبوت ان لوگوں پر الزام لگایا اس لیے وہ ایسے بولے تھے۔۔ غصہ آ گیا تھا ان کو۔۔ میں جانتا ہوں ناں مجھ پر حملہ خٹک خاندان نے نہیں کیا۔۔" خانزادہ اس کے ہاتھ سے پسٹل چھین کر غصے سے بولا۔۔
"پاگل نہیں ہوں میں۔۔ وہ حملے کر کے دیدہ دلیری سے یہاں آ جاتے ہیں تماشہ دیکھنے۔۔ منہ سے اقرار کرتے ہیں اور میں پھر بھی بزدلوں کی طرح بیٹھا رہوں۔۔"
یاور نے طیش سے کہا۔۔ "یار نانا ہیں وہ ہمارے۔۔" داور اس کے جذباتی پن پر بولتا سر پکڑ بیٹھا۔۔
"اور اگر وہ نانا میرے چھوٹے بھائی کو مروا کر ہمیں سرداری دینا چاہیں گے تو کوئی رشتہ نہیں میرا ان سے۔۔ یار نہیں چاہیے جائداد اور اونچا رتبہ۔۔ حدیر جان ہے میری۔۔ اسے کچھ ہو جاتا تو۔۔" یاور سسک پڑا۔
حویلی والوں کے ان شکوک شبہات نے اس کے دماغ میں گھر کر لیا تھا۔۔ پاگل پن میں وہ کسی پر یقین نہیں کر پا رہا تھا۔۔ خانزادہ نے گہرا سانس بھر کر پسٹل پیچھے کیا۔ کچھ بولنا چاہا مگر یاور تیزی سے وہاں سے نکل کر چلا گیا۔
"پاگل ہو گیا ہے۔۔ میں دیکھتا ہوں اس کو۔۔ تم جا کر مہمانوں میں بیٹھو۔۔ آغا جان سے کہو ہاں کر دیں۔۔ اچھے رشتے ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر چاچو اور چچی خوش ہیں ۔۔" داور نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ سر ہلا گیا۔ یاور کی فکر ستا رہی تھی۔۔
خان داور وہاں سے نکل کر یاور کے پیچھے چلا گیا وہ گہرا سانس بھر کر مہمانوں کے پاس جا بیٹھا۔
آغا جان کو سمجھا کر ہاں کروائی اور آگے کی بات طے کرنے لگے، خان یوسف ڈائریکٹ شادی کرنا چاہتے تھے۔مگر خان زوار ان کی پڑھائی کو لے کر متذبذب تھے۔۔
پلوشے کے نکاح میں فی الحال ان کی منگنی ہونا قرار پائی تھی۔۔ یاور اپنے کمرے میں بند ہو چکا تھا۔۔
مگر خانزادہ کو اطمینان تھا وہ کہیں گیا نہیں۔۔ یہ جانے بغیر کہ خان یاور کا جذباتی پن ان کی زندگی میں کیسا طوفان برپا کرنے والا ہے۔۔
ان سب کے جاتے ہی کتنی دیر وہ لاؤنج میں بیٹھا رہا، دن گزر گیا تھا، شام ڈھل رہی تھی، خانزادہ کی کالز وقفہ وقفہ سے آ رہی تھیں، وہ جانتا تھا اب وہ منائے گا اور پروا کا خیال رکھنے کی ہدایات دے گا۔۔
اس نے موبائل اٹھا کر سکرین دیکھی، اس رات دیوار پر مارنے سے سکرین کا گلاس بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔۔
"ٹھیک ہے آپ کی لاڈلی۔۔ مجھ سے ابھی بات مت کریں۔۔" وہ کال اٹینڈ کر کے ناراضگی سے بولا۔۔۔
"عیسٰی بہت ناراض ہو کیا۔۔؟" وہ نرمی سے بولا تو عیسٰی کا جی چاہا سب ناراضگی بھلا دے۔۔
"کیا نہیں ہونا چاہئیے۔۔؟ میں نے کسی سے کمٹمنٹ کی ہوئی تھی، میری زبان کی اور میری مرضی کی آپ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ناں۔۔" وہ خفگی سے بول رہا تھا۔ خانزادہ نے گہرا سانس بھر کر اسے سنا اور مختصراً اسے سارا مسئلہ بتایا۔۔
"موسٰی پہلے بتا دیتا تو میں کچھ کر لیتا، تب یہی آخری حل تھا میرے پاس۔۔ میں خود پریشان ہوں پریہان کو پتا چلا تو مجھ سے ناراض ہو جائے گی۔۔ اور اسے بتانے کے لیے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے، اپ سیٹ ہو جائے گی۔۔ ابھی تو پروا سے بات نہیں ہو رہی اس کی، وہ کال ریسیو نہیں کر رہی بالکل۔۔ پلیز عیسٰی خیال رکھنا اس کا۔۔"
وہ نرم لہجے میں اپنی مجبوری بتاتا عیسٰی کو جھنجھلانے پر مجبور کر رہا تھا۔
"خیال وغیرہ نہیں رکھ سکتا۔۔ ہاں اسے سیو رکھوں گا اور جلد اس بات کا کوئی حل ڈھونڈیں میں اسی خاموشی سے اسے چھوڑ دوں گا۔۔ ساری زندگی رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ وہ چائلڈش ہے اور میرے ٹائپ کی تو بالکل نہیں سو پلیز ڈُو سم تھنگ۔۔"
عیسٰی بےزاری سے بولتا چلا گیا۔ خانزادہ چپ ہو کر رہ گیا۔۔ نکاح زبردستی کروا لیا تھا مگر اسے قبول کرنے پر زبردستی مجبور نہیں کر سکتا تھا۔۔
"او۔کے۔۔ جیسا تم چاہو۔۔ کوئی اور انتظام ہونے تک اسے کوئی نقصان نا پہنچے۔۔" اس نے وارننگ دی اور کال کاٹ دی۔۔ عیسٰی نے موبائل ٹیبل پر پٹخا۔۔
جبڑے بھینچے ضبط کرتا رہا، سامنے ٹیبل پر سامان بکھرا ہوا تھا۔ پزا کے خالی ڈبے اور ان میں بچے کھچے سلائس۔۔ استعمال شدہ برتن۔۔ اس نے رخ پھیر کر اس کمرے کی طرف دیکھا جہاں پروا تب سے ہی بند تھی۔۔ دروازے کے پاس باہر کانچ بکھرا ہوا تھا۔۔
اس سب پھیلاوے سے اس کا سر درد کرنے لگا۔۔
اٹھ کر دروازے تک پہنچا، بدلحاظی سے دروازہ بجایا۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو وہ سامنے کھڑی تھی۔۔
عیسٰی نے تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔۔ ابھی تک وہی لباس پہنا ہوا تھا، جینز پر فراک، سویٹر کے بٹنز لاپروائی سے کھلے ہوئے تھے، پیروں میں چپل تھے، بال کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے، ستا ہوا چہرہ، سوجی ہوئی گلابی آنکھیں بتا رہی تھیں بہت دیر روتی رہی ہے۔۔ اس کے خاموشی سے جائزہ لینے پر پُروا نے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"جاؤ چینج کرو، اپنا حلیہ بہتر کرو اور باہر آؤ۔۔ بات کرنی ہے۔۔" وہ ناگواری سے اس کا حلیہ دیکھ کر ہدایت دے کر پلٹا، باہر ٹیبل پر پڑے پزا کے ڈبوں سے اپنا ڈبہ اٹھایا، اس نے تین سلائس پہلے سائڈ پر کر لیے تھے، جا کر اوون میں گرم کیے اور اپنے لیے کافی بنا کر باہر آیا، ابھی صوفہ پر بیٹھے کچھ دیر ہوئی کہ وہ نکل کر لاؤنج میں آئی۔۔ پہلے سے بہتر حلیہ میں تھی، ڈارک بلو جینز پر براؤن موٹی ٹی شرٹ پہنی تھی جو گھٹنوں تک آتی کافی کھلی تھی۔۔
بال برش کیے ہوئے تھے، چہرہ نم تھا۔۔ شال جیسے تیسے کندھوں پر ڈال رکھی تھی۔۔ عیسٰی نے خاموشی سے پزا کی پلیٹ اور کیچپ اس کے سامنے رکھی، وہ بِنا اس طرف دیکھے بیٹھی رہی۔۔۔
"کھاؤ یہ۔۔ اور میرے پاس رہنے کے لیے کچھ ضروری باتیں یاد رکھنا اب تم۔۔ میرا کوئی بھی گیسٹ آئے کمرے سے مت نکلنا۔۔ یہاں کی سب صفائی بھی تم کرو گی اور برتن بھی دھونے پڑیں گے۔۔
کھانا میرے زمہ ہے، باقی کام اپنے خود کرنے ہوں گے۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولتا رک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ سر ڈالے بیٹھی رہی، عیسٰی نے لب بھینچے۔۔
"کھاؤ اب۔۔ یا میں خود کھلاؤں تمہیں۔۔؟" کٹیلے لہجے میں کہتے ہوئے پلیٹ کی جانب اشارہ کیا۔
"نہیں کھانا۔۔" وہ دو لفظ بولی، آواز بھرا گئی تھی۔ ایسی بےقدری اور زلت تو کبھی نہیں دیکھی تھی اس نے۔۔ اسے بہت پیار سے رکھا جاتا تھا، پریہان دو تین سال بڑی تھی پھر بھی اسے کسی بچے کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔۔ موسٰی نے بھی ایسے ہی خیال رکھا تھا۔۔
سامنے بیٹھا اکڑو مسلسل غصہ کر رہا تھا اس پر۔۔
"کیوں نہیں کھانا؟ فرمائشی پروگرام شروع کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔ نا مجھے کھانا بنانا آتا ہے نا تم اس قابل لگ رہی ہو کہ کچھ بنا سکو۔۔ تو جو ہے وہی کھانا پڑے گا چپ چاپ۔۔" وہ پھر سے سخت لہجے میں بولا۔
میں بچا ہوا نہیں کھاتی۔۔ اور آپ نے مجھے گلاس مارا، زور سے۔۔ مجھے پیاس لگی تھی۔۔ میں ابھی تک پانی کے بغیر پڑی رہی۔۔ آپ برے انسان ہیں، میں آپ سے کچھ بھی لے کر نہیں کھاؤں گی۔۔"
وہ مٹھیاں بھینچتی روتے ہوئے بولتی چلی گئی۔ عیسٰی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
"تو پھر کیا کرو گی؟ خود بنا کر کھاؤ گی؟ کون لا دے گا کھانا؟ گلاس دیوار پر مارا تھا تمہیں نہیں لگا تو اس ڈرامے کی وجہ۔۔؟" ماتھے پر بل ڈال کر سوال کرنے لگا۔ وہ روتے ہوئے کانپ رہی تھی۔ وہ نہیں جان پایا ایسا سردی سے تھا یا غصہ سے۔۔
"مجھے آنی کے پاس جانا ہے، آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی، میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔"
وہ آنکھیں رگڑتی سسک کر بولی، عیسٰی نے خاموشی سے اسے دیکھا۔ شاید وہ کچھ زیادہ غلط کر گیا تھا، اسے گلٹ ہونے لگا مگر ظاہر نہیں کیا۔۔
"تم یہاں سے نہیں جا سکتیں، اب کھاؤ یہ۔۔" اس بار وہ لہجہ سخت نہیں رکھ پایا۔
"نہیں کھاؤں گی۔۔ بچا ہوا نہیں چاہئیے۔۔ مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔۔ میں خود چلی جاؤں گی۔۔"
وہ روتے ہوئے بولتی اٹھ کر جانے لگی، عیسٰی کا دماغ بھک سے اڑا۔۔ اسے وہ کوئی بیچاری لگی تھی اس میں تو اچھی خاصی اکڑ تھی۔۔
"یہ بچا ہوا نہیں ہے، میں نے پہلے ہی سائیڈ پر رکھا تھا۔۔ گرم کر کے لایا ہوں۔۔ صاف ہے بالکل۔۔"
بےساختہ اس کا ہاتھ تھام کر روکتے ہوئے وضاحت دی اور واپس بیٹھا کر پلیٹ اس کے سامنے کی۔
"نہیں چاہئیے۔۔" وہ اس بار اونچی آواز میں چیخی۔۔
عیسٰی کا ضبط جواب دینے لگا، اتنا نخرہ وہ کب کسی کا اٹھاتا تھا۔۔ اس نے تو آج تک بس نخرے دکھائے تھے۔
"چپ، بالکل چپ۔۔۔ آواز نا آئے اب۔۔" وہ دھاڑ کر بولا تو پُروا سہم کر رہ گئی۔۔ بھیگی آنکھوں سے اسے تکتی ساکت سی بیٹھ گئی مگر اب بھی پلیٹ کی طرف اس نے نہیں دیکھا تھا۔
عیسٰی نے زچ ہو کر اس کی اکڑ دیکھی اور موبائل پر پزا آرڈر کرنے لگا۔ معصوم شکل اور ڈھٹائی دیکھو۔۔
بڑبراتے ہوئے موبائل ایک طرف رکھا، سر اٹھا کر دیکھا تو وہ ہونٹ لٹکائے آواز دبا کر روتی اب بھی اسے سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
اٹھ کر کچن میں گیا، پانی کا گلاس لا کر اس کی طرف بڑھایا لیکن وہ پانی لینے کو بھی تیار نہیں ہوئی۔
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔۔ نخرے کیوں دکھا رہی ہو، مجبوری تمہاری ہے، میری نہیں۔۔ پانی پیو اب۔۔"
زچ ہوتے ہوئے بولا اور گلاس مزید اس کے قریب کیا۔
"آپ نے مجھے مارا اور ڈانٹا بھی۔۔" وہ اسی غم سے نہیں نکل رہی تھی، وہ غصہ کر کے پچھتایا۔۔
"اوکے ایم سوری۔۔ میں نے غلط کیا۔۔ یہ لو پانی پیو۔۔"
نرمی سے کہہ کر پانی کا گلاس اس کے خشک ہونٹوں سے لگایا تو وہ دونوں ہاتھوں سے گلاس پکڑتی غٹاغٹ پورا گلاس پی گئی۔۔
"اور چاہئیے۔۔" ابھی وہ صوفے پر ٹکنے ہی لگا تھا کہ وہ گلاس اس کی طرف بڑھا کر بولی۔ عیسٰی کو صدمہ ہی لگ گیا، وہ اسے ملازم سمجھ رہی تھی کیا۔۔
"یہ تم۔۔ تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ گی۔۔ ناکارہ لڑکی۔۔" وہ دانت پیس کر بولتا، گلاس چھیننے کے انداز سے لیتا واپس کچن میں گیا اور پانی ڈال لایا۔
کچھ دیر تک پزا ڈلیور ہو چکا تھا، پےمنٹ کر کے وہ اندر آیا اور اس کے سامنے ڈبہ پٹخا۔۔
پروا اس بار بنا بے پیکنگ کھول کر سکون سے کھانے لگی، کیا وقار تھا۔۔ ڈر بھی رہی تھی، روئی بھی، مگر ناراضگی دکھا کر تازہ پزا ہی لے کر کھایا۔۔ وہ جان گیا عذاب مول لے لیا ہے۔۔
"تمہاری بہن کال کر رہی ہے، بات کیوں نہیں کر رہی ہو ۔؟" اس نے سوال کیا تو وہ منہ بھر کر اسے دیکھنے لگی۔
"میرا موبائل موسٰی بھائی کے گھر رہ گیا ہے۔۔" آہستگی سے بتایا، عیسٰی نے نوٹس کیا اس کی آواز بہت دھیمی اور نرم تھی مگر چیختی تھی تو کان دکھا دیتی تھی۔
"اچھا ہے موبائل کے بغیر رہو۔" عیسٰی سر جھٹک کر بڑبرایا۔ آواز اتنی ہلکی تھی کہ وہ نا سن پائے۔۔
"اب یہ سب صاف کر کے ہی سونا۔۔" ہدایت دی، لہجہ دھیما رکھا۔۔ کون جانے اونچی آواز پر پھر منہ سوجا لے اور صفائی بھی اسے کرنی پڑ جائے۔۔
بد دلی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں بند ہو گیا، اس کی مجبوری یہ تھی کہ خانزادہ نے زمہ داری سونپی تھی ورنہ وہ اسے بھوکا رکھ کر سبق سکھا دیتا۔۔
باہر بیٹھی پروا نے پیٹ بھر کر کھایا اور باقی بچا ہوا جا کر فریج میں رکھا، عیسٰی نے جو پلیٹ میں سلائس رکھے تھے وہ بھی فریج میں رکھے۔۔
باہر آ کر سب بکھرا ہوا سامان دیکھتی روہانسی ہوئی۔۔ جیسے تیسے ہمت کر کے سب سمیٹا، کچن میں برتن رکھے تو یاد آیا وہ برتن دھونے کا حکم بھی دے چکا ہے، نہایت مظلومیت سے روتے روتے گن کر چار سے پانچ پلیٹس اور ایک مگ دھوئے اور ایک سائیڈ پر رکھے سٹینڈ پر لگاتی باہر آئی، دروازے کے آگے پڑا کانچ دیکھ کر ڈرتے ڈرتے جھکی اور اٹھانے لگی۔۔ کانچ ملائم ہاتھ کی جلد میں کھب گیا، اس کی زوردار چیخ گونجی تھی، خوشبوؤں میں بسا عیسٰی جو اب اپنی گاڑی کی چابی اٹھائے باہر جانے کی تیاری میں تھا، چیخ کی آواز پر بھاگ کر باہر نکلا۔۔
سامنے وہ خون سے بھرا ہاتھ لیے چیخ چیخ کر رو رہی تھی، عیسٰی کے کان اس کی چیختی آواز سے سُن ہونے لگے تھے۔۔
"کیا کر رہی ہو۔۔ پاگل انسان۔۔۔ چیخنا بند کرو۔۔" اس کے پاس پہنچ کر جھکتے ہوئے اس کی کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا اور جا کر صوفے پر بٹھایا۔
اس کے منع کرنے پر وہ اب آواز دبا کر رو رہی تھی۔
عیسٰی کچن سے فرسٹ ایڈ باکس لایا اور ٹیبل پر کھول کر رکھتے ہوئے کاٹن سے اس کا ہاتھ صاف کرنے لگا۔ پورا ہاتھ صاف کر کے دیکھا تو صرف انگلی پر گہرا مگر چھوٹا سا کٹ تھا۔۔ اس نے شرم دلاتی نظروں سے پروا کو گھورا جو اتنے سے کٹ پر اتنا چیخی تھی۔
"آپ نے مجھے وہ گلاس مارا تھا اور۔۔" وہ پھر اسی غم میں مبتلا ہو رہی تھی، عیسٰی کا جی چاہا دو لگائے اور چپ کروا دے۔۔
"مجھے لگتا ہے اعتکاف میں بیٹھ کر اپنے اس جرم کی معافی مانگنی پڑے گی جو تمہیں گلاس مار کر کیا تھا۔۔ ایک بار دیوار میں گلاس مارا اور دس بار جتا چکی ہو۔۔ چپ ہو کر بیٹھ جاؤ، غصہ مت دلاؤ۔۔"
وہ غصے سے بولا تو پُروا نچلا لب دانتوں تلے دبا گئی۔
شاید وہ برتن دھو کر آئی تھی، اس کے ہاتھ گیلے اور یخ ٹھنڈے ہو رہے تھے، اس لیے بھی زخم زیادہ تکلیف دے رہا تھا۔۔ عیسٰی نے بینڈیج کر کے اس کے ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں میں لیا اور منہ کے پاس لے جا کر گرم سانسوں سے تپش پہنچانے لگا۔۔
پُروا کو اس سے سکون مل رہا تھا، منہ کھولے اسے دیکھنے لگی، ابھی غصہ کر رہا تھا اب پروا کر رہا ہے۔۔
بھیگی آنکھیں لیے سکون سے بیٹھی رہی، ایک بار بھی ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہیں کی اس کی بلا سے ساری رات لے کر بیٹھا رہے اس کے ہاتھ۔۔
عیسٰی نے اسے دیکھا وہ آرام سے بیٹھی اسی کو دیکھ رہی تھی، وہ خجل سا ہو کر اس کے ہاتھ چھوڑ گیا۔۔
فرسٹ ایڈ باکس کچن میں واپس جا کر رکھا۔ باہر سے کانچ سمیٹ کر ڈسٹ بن میں پھینکا۔۔
ایسا لگ رہا تھا گھر میں بچہ پال لیا ہے، بےزار ہو گیا تھا ایک ہی دن میں۔۔ فارغ ہو کر اس طرف آیا تو وہ اب صوفے پر نیم دراز نیند میں جھول رہی تھی۔۔
"اٹھو جا کر روم میں سو جاؤ۔۔" اسے جگا کر کمرے میں بھیجا، وہ اٹھ کر جھومتی ہوئی کمرے میں چلی گئی، شال وہیں صوفے پر پڑی تھی۔۔
"یا اللّٰہ۔۔ یا اللّٰہ۔۔" وہ بال نوچتا باہر نکل گیا۔ ڈور اچھے سے لاک کر کے کچھ دیر کے لیے اپنے دماغ سے وہ سب نکالتا خود کو ریلیکس کرنا چاہ رہا تھا۔۔
لفٹ سے نیچے پہنچ کر گاڑی میں بیٹھا اور آندھی طوفان کی طرح وہاں سے چلا گیا۔۔۔
اپنے موبائل کا گلاس سیٹ کروایا اور لانگ ڈرائیو پر نکل کر خود کو ریلیکس کیا۔۔
"حدیر لالا کا یہ کام کیا ہے تو وہ اب میرا کام کریں گے، زرشہ سے رشتہ توڑ کر آئرہ سے شادی کروانا اب ان کا کام۔۔" فریش ہوتے ہی آئڈیا بھی مل گیا تھا، وہ گنگناتا ہوا رات گئے واپس لوٹا تو کافی حد تک غصہ زائل ہو چکا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
صبح اٹھ کر یونی جانے کے لیے تیزی سے تیار ہو کر وہ باہر نکلا۔۔
کچن میں جا کر اپنے لیے چائے بنانے کا سوچا اور فریج کھول کر دودھ کا پیک نکالا تو چونک گیا۔۔
الٹ پلٹ کر دیکھا، بالکل خالی تھا۔۔ اسے جھٹکا لگا۔۔
اتنا بڑا پیک جو وہ آرام سے تین چار دن چلاتا تھا، پورا نیو پڑا تھا کل تک۔۔ صبح صبح کہاں چلا گیا۔۔
"کیا وہ پی گئی۔۔ نہیں اتنا کیسے پی سکتی ہے اور لڑکیاں اتنا دودھ کہاں پی سکتی ہیں۔۔" وہ اپنی سوچ کو بار بار جھٹک رہا تھا مگر یہاں اس کے علاوہ صرف وہی موجود تھی۔۔
دانت کچکچا کر اس کے کمرے کے پاس پہنچا، دروازہ ناک کیا، وہ جھٹکے سے دروازہ کھول گئی۔۔
فریش حلیہ اور دھلا دھلایا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا وہ پہلے کی اٹھی ہوئی ہے۔۔ عیسٰی نے ہاتھ میں پکڑا دودھ کا پیک اس کے سامنے لہرایا۔۔
"یہ تم نے پیا ہے؟" اس کے سنجیدگی سے کیے سوال پر پُروا نے جھجک کر ہاں میں سر ہلایا۔۔
"سارا پی گئیں؟ انسان ہو یا بلی۔۔ میرے لیے کیوں نہیں بچایا۔۔ چائے پینی ہے اب مجھے۔۔"
وہ صدمے سے چیخا، پروا دہل کر پیچھے ہوئی۔۔
"مجھے۔۔ بھوک لگ رہی تھی۔۔" وہ سہم کر بولتی اس کی پہنچ سے دور ہوئی۔۔ عیسٰی نے تپ کر اسے دیکھا۔
"تو فریج بھرا پڑا ہے، کچھ بھی کھا لیتیں.."۔ وہ جھنجھلا گیا۔۔ پروا نے بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا، صرف ایک دودھ کے پیک کے لیے وہ اتنا ناراض ہو رہا تھا۔۔ موسٰی نے تو ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔۔
وہ پلٹ کر کمرے میں گئی۔۔ وہ پیر پٹختا واپس کچن میں پہنچتا بلیک کافی بنانے لگا۔۔
"یہ لیں۔۔ سوری آئندہ نہیں پیوں گی۔۔" پُروا کی مدھم آواز پر چونک کر پلٹا تو وہ پیسے لے کر کھڑی تھی۔۔
عیسٰی نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔۔
"یہ احسان نا کرو مجھ پر۔۔ میں صبح چائے پیتا ہوں، یونی جانا ہے مجھے۔۔ تم نے دودھ پینا تھا بتا دیتیں، میرے لیے تھوڑا سا بچا دیا کرو بس۔۔" وہ ضبط سے بولا۔۔ شرمندگی ہونے لگی ایک زرا سی چیز کے لیے وہ اتنا غصہ ہو گیا تھا۔۔ صبر جواب دے رہا تھا۔۔
پروا نے آگے بڑھ کر ہاتھ میں پکڑا ہزار والا نوٹ اس کی ہُڈ کی پاکٹ میں اٹکایا اور پلٹی۔۔
منہ پھُولا ہوا تھا، اتنے چھوٹے دل کا انسان اس کے سر پر سوار ہو گیا تھا۔۔ عیسٰی نے اس کی حرکت پر اس کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے روکا تو وہ پوری ہل گئی۔
"بہت امیر ہو۔؟ ایسا کرو یہ جو کل سے کھا پی رہی ہو اس کا بھی حساب کر دو۔۔ اور ہاں اس روم کا بھی کرایہ ادا کرو۔۔ ہری اپ۔۔" وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا، پروا کو ڈھونڈنے سے بھی مذاق کا رنگ نہیں ملا۔۔
"م۔۔میرے پاس بس یہی۔۔ تھے۔۔" وہ خوفزدہ ہوئی۔۔
اسے تو لگا تھا دودھ کا حساب کتاب کر کے وہ فارغ ہو جائے گی۔۔ سامنے موجود انسان تو بہت برا تھا۔۔
"کیوں آ گئیں نا زمین پر۔۔ اب شکل گم کرو جتنا سمجھایا ہے، اتنا کیا کرو۔۔" اس نے کلائی چھوڑ کر تمسخر سے کہا اور پلٹ کر کافی مگ میں ڈالنے لگا۔
"میں نے بھی۔۔ ناشتہ نہیں کیا۔۔" اس کے جملے پر عیسٰی جھٹکے سے مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ معصوم صورت بنائے وہ ابھی وہیں کھڑی تھی۔۔
"تو۔۔؟ وہ جو دودھ کا پورا پیک پی گئی ہو وہ کیا تھا۔۔" وہ دانت کچکچا کر بولا حالانکہ جی چاہ رہا تھا اسے جھنجوڑ کر رکھ دے۔۔ چھوٹی سی بلا سر پر سوار ہو گئی تھی۔۔
"وہ تو۔۔ رات کو پیا تھا۔۔ آپ نے کہا تھا کھانا آپ کی زمہ داری۔۔" ہکلا کر بولتی پُروا عیسٰی کی صدمے سے پھیلتی آنکھوں کو دیکھ کر چپ ہو گئی۔
"بات سنو۔۔ اس وقت میرا دماغ بہت گھوم رہا ہے۔۔"
عیسٰی نے اس کی بازو دبوچ کر قریب ہوتے ہوئے لفظ چبا چبا کر کہا، پُروا اتنے قریب سے اس کو بولتا دیکھ کر خوف سے آنکھیں میچ گئی۔۔
"تو چپ چاپ جو بھی فریج سے مل جائے، کھا لو۔۔ مگر میرا دماغ مت کھاؤ۔۔" وہ غرایا اور اسے جھٹکے سے چھوڑا، وہ پیچھے گرتے گرتے بچی تھی۔۔ فوراً سنبھل کر بھاگی اور کمرے میں بند ہو گئی۔۔
وہ پیچھے کھڑا گہرے گہرے سانس بھرتا غصے پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔۔ کس مصیبت میں پھنس گیا تھا، سکون بھری زندگی خوامخواہ الٹ پلٹ کا شکار ہو گئی تھی، کافی کا مگ حلق سے انڈیل کر باہر نکلا اور ڈور لاک کرتا یونی کے لیے نکل گیا۔۔
اندر بیٹھی پروا گھٹنوں میں چہرہ چھپائے چپ چاپ بیٹھی رہی۔۔۔ پھولے پھولے گالوں پر آنسو پھسلتے جا رہے تھے۔۔ آنی سے تو وہ پکی والی ناراض ہو چکی تھی، جو اسے دوسری بار انجان بندے کو سونپ کر جھوٹے وعدے کر کے چلی گئی تھیں۔۔
پریہان سے بات کرنا چاہتی تھی، اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا کیا ہو رہا ہے۔۔ کتنا ظلم ہو رہا ہے وہ بھی دن رات۔۔ موسٰی بھی بڑا بھائی تھا جو چھوڑ کر جا چکا تھا۔۔ سب برے تھے۔۔
پھر اسے یہاں کتنے ہی دن گزر گئے، وہ پوری کوشش کرتی تھی کہ عیسٰی کے سامنے نا جائے۔۔
ان کا دوبارہ کم سامنا ہوا تھا، اس کے بعد وہ دودھ برابر رکھنے لگا تھا تاکہ وہ کھل کر پی سکے اور وہ کھل کر ہی پیتی تھی۔۔ تینوں وقت کا کھانا وہ بنا کر رکھ دیتا تھا، پُروا بلیوں کی طرح دبے پاؤں کمرے سے نکل کر کچن میں پہنچتی اور کھا کر برتن دھو کر واپس کمرے میں بند ہو جاتی۔۔ لاؤنج میں بیٹھے عیسٰی کو اس کا آنا جانا بخوبی نظر آتا تھا مگر اگنور کیے رکھتا تھا۔۔
اسے اپنے ساتھ بیٹھنے یا سامنے آنے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا یعنی جب تک وہ وہاں رہتا تھا پروا کمرے میں بند رہتی تھی۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
موسٰی دوبئی سے واپس آیا تو گھر میں پُروا نہیں تھی، وہ بوکھلا گیا۔۔ معراج واپس آ چکی تھی اس نے بتایا کہ عیسٰی خان اسے لے گیا تھا۔۔
"عیسٰی پُروا تمہارے پاس کیوں ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے ناں۔۔؟" اس نے عیسٰی کو کال ملا کر بےچینی سے سوال کیا۔۔
"وہ ٹھیک سے بھی زیادہ ٹھیک ہے۔۔ آپ کو چاہئیے تھا میرا حال پوچھتے کہ اس کے ہوتے میں ٹھیک ہوں یا نہیں۔۔ آپ پلیز حدیر لالا کو کال کر کے پوچھ لیں کہ وہ میرے پاس کیوں ہے۔۔" عیسٰی تو آج کل بھرا رہتا تھا۔ جو کال کرتا ایسے ہی ناراض ناراض سا بول کر بنا سنے کال کاٹ دیتا تھا۔۔
موسٰی نے حیرت سے سیاہ سکرین کو گھورا اور خانزادہ کو کال ملائی۔۔ جب دوبئی میں تھا دوسری رات کال کی تھی خانزادہ نے۔۔ اگلے دن وہ کال کرتا رہ گیا وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔۔ اب بھی کال جا رہی تھی۔
"ہیلو۔۔۔ واپس آ گئے ہو کیا۔۔؟"۔ کال اٹینڈ کرتے ہی وہ ایسے پوچھنے لگا جیسے دن گن رہا تھا۔۔ اور دن ہی تو گن رہا تھا، تفصیل سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔
"ہاں آ گیا ہوں۔۔ پروا کو تم نے عیسٰی کے پاس بھیجا تھا کیا۔۔؟ عیسٰی نان سیرئیس ہے یہ کیا کیا تم نے۔۔ وہ اکیلے اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ۔۔ " موسٰی پریشانی سے بول رہا تھا۔ خانزادہ خاموشی سے سن رہا تھا۔
"پروا کا موبائل وہیں گھر پر ہے۔۔ اسے پہنچا دو۔۔ مل لو۔۔ اور حویلی آؤ۔۔ تفصیل سے بات ہوتی ہے۔۔"
خانزادہ نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی۔۔
موسٰی کھٹک گیا، ایسی کیا بات تھی۔۔ سر جھٹک کر پروا کے استعمال میں رہنے والے روم میں گیا۔۔
سائیڈ ٹیبل پر موبائل پڑا تھا۔ اٹھا کر گہرا سانس بھر کر نفی میں سر ہلایا۔۔
"چل کیا رہا ہے۔۔ میرے پیچھے کیا ہوا ہے ایسا کہ۔۔"
وہ الجھا الجھا سا بڑبڑاتا موبائل لے کر باہر نکلا۔۔
موسٰی اس وقت پُروا کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ بےچینی سے اپنا موبائل لیے کالز اور میسجز چیک کر رہی تھی۔
پریسہ اور پریہان کی طرف سے کالز اور میسجز کا ڈھیر تھا۔۔ آنی کے بھی میسجز تھے۔۔ اس نے منہ پھلا بغیر پڑھے ڈیلیٹ کر دئیے۔۔ موسٰی کو اگنور کیے بیٹھی تھی بالکل۔۔ وہ اس کی ناراضگی پر مسکرایا۔۔
"میری گڑیا ناراض لگ رہی ہے کافی۔۔ حالانکہ میں تو بتا کر گیا تھا ناں۔۔ پیچھے کیا ہوا مجھے کچھ پتا نہیں۔۔" موسٰی نے نرمی سے سوال کیا۔۔ سوال کرنے کی دیر تھی، پروا کے تو جیسے زخم تازہ ہوئے تھے۔ موبائل رکھ کر رونی صورت بنا لی۔۔
"مجھے رات کے وقت اچانک معراج آنٹی نے وہ اکڑو اور برے انسان کے ساتھ بھیجا۔۔ جب میں یہاں آئی تو آنی نے کہا میری پراپر سیفٹی کے لیے نکاح ہو گا۔۔"
اس کی بات پر موسٰی ٹھٹک کر اس دیکھنے لگا۔
"پھر میرا نکاح کر دیا۔۔ اور آنی نے کہا تھا کہ وہ مجھے اپنے پاس جلد بلوا لیں گی، میں سو گئی، جب اٹھی تو وہ نہیں تھیں اور۔۔" پروا حرف بہ حرف بولتی جا رہی تھی۔۔ موسٰی کو فکر لاحق ہونے لگی۔۔
"پروا۔۔ نکاح کس سے ہوا ہے۔۔" موسٰی نے بےچینی سے پوچھا تو وہ رک کر دماغ پر زور دیتی نام یاد کرنے لگی۔
"خان عیسٰی آفریدی۔۔ ہاں یہی نام تھا۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں وہ نکاح ہی تھا۔۔ مجھے پتا ہے نکاح کیسے ہوتا ہے، پریہان اپیا کا بھی ایسے ہوا تھا میں ان کے ساتھ تھی تب۔۔" پروا اب نکاح کی ڈیٹیل دینے لگی۔۔
"اوہ۔۔ اوہ۔۔ عیسٰی اس لیے غصہ تھا۔۔" موسٰی سرد آہ بھر کر بڑبڑایا۔۔ یہ کام حدیر کا ہی ہو سکتا تھا۔۔
"کیا تم ٹھیک ہو۔۔ عیسٰی کچھ کہتا تو نہیں ناں۔۔"
اس نے مسلسل بولتی پروا سے سوال کیا۔۔ عیسٰی اپنی مرضی کے بغیر ہوئے کام پر کتنا ہنگامہ کرتا تھا اسے اندازہ تھا اور پریشانی بھی۔۔
"وہ ڈانٹتا ہے۔۔ گلاس بھی مارا تھا۔۔ بازو سے پکڑ کر زور زور سے جھٹکے بھی دئیے تھے۔۔ دودھ پینے پر اتنا غصہ کیا تھا۔۔ کھانے میں بس فش، نوڈلز، پزا، میکرونی اور کباب دیتا رہتا ہے یا پھر بریڈ جیم اور بٹر۔۔ جب وہ باہر ہو مجھے کمرے میں بند رکھتا ہے۔۔"
وہ بتاتے بتاتے رو پڑی۔۔ اب تو عیسٰی نے اس سے بولنا ہی چھوڑ دیا تھا پھر بھی، وہ جیسے قیدی کی طرح کمرے میں بند رکھتا تھا وہ بھی کم سزا نہیں تھی۔۔
پہلے دن ہوئی ساری زیادتیوں کی تفصیل بتاتی وہ موسٰی کو پریشان کر گئی۔ عیسٰی کتنا بھڑکا ہوا ہو گا اندازہ تو تھا مگر وہ پروا کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا تھا، اسے یقین نہیں آیا۔۔۔
"پروا اب وہ کچھ کہے تو مجھے بتانا۔۔ اور اس کے سامنے مت جایا کرو، میں بات کروں گا اس سے۔۔ وہ بہت نائس لڑکا ہے تھوڑا غصے میں ہے اس لیے ایسا کر رہا ہے۔۔ یہاں کوئی اور تو نہیں آتا ناں۔۔؟"
موسٰی نے اسے تسلی دیتے ہوئے سمجھایا۔۔ وہ جانتا تھا عیسٰی کے فرینڈز بھی آتے رہتے تھے فکرمندی سے پوچھا تو وہ سر ہلا گئی۔۔
"تین بار آئے تھے گیسٹ۔۔" وہ تین انگلیاں کھڑی کیے بتا رہی تھی ۔۔ " ایک بار جب آئے ان سب کے سامنے مجھے گلاس مارا تھا زور سے۔۔ پھر اس کے بعد ایک بار آئے تو میں باہر نہیں نکلی۔۔ بس تھوڑی دیر بیٹھے پھر چلے گئے۔۔۔ تیسری بار جب آئے تو پتا نہیں کتنی دیر رکے کیونکہ رات تھی، میں سو گئ تھی.."
وہ کندھے اچکا کر بولی۔ موسٰی نے لب بھینچے۔ عیسٰی سے بات کرنا ضروری تھی۔۔ وہ تھوڑی دیر مزید بیٹھا، پروا کو اچھے سے سمجھاتا رہا۔۔
وہ جانے کچھ سمجھ رہی تھی یا نہیں بس سر ہلاتی رہی، نظر موبائل پر تھی۔۔ اسے بس پریہان سے بات کرنے کی جلدی تھی۔۔
"او۔کے اب میں چلتا ہوں۔۔ اپنا خیال رکھنا اور کوئی بھی پریشانی ہو تو پلیز مجھے کال کرنا یا اگر میں اویل ایبل نا ہوں تو حدیر کو کال کرنا۔۔ میں نے اس کا نمبر تمہارے موبائل میں سیو کر دیا ہے۔۔"
موسٰی اسے ہدایات دیتا چلا گیا۔ پروا نے اس کے جاتے ہی پریہان کو کال ملائی۔۔ پہلے جب وہ موسٰی کے پاس تھی پریہان کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتی رہی اور خاموش رہی کیونکہ آنی نے منع کیا تھا بتانے سے۔۔
مگر اب وہ آنی سے بھی ناراض تھی، وہ شروع سے آخر تک سب بتانے والی تھی۔ وہ پریشان تھی، گھر سے دور تھی، ڈری ہوئی تھی۔۔ موسٰی نے تو اسے بہت اچھے سے رکھا تھا مگر وہ اکیلی رہی تھی، اکے اسے نیند نہیں آتی تھی۔۔ اور اب جو اس کے ساتھ رہ رہا تھا وہ کافی ڈراؤنا انسان تھا اور وہ گلاس جو اسے لگا ہی نہیں تھا، اس کا غم نہیں بھول رہی تھی وہ۔۔ لگ بھی سکتا تھا، اس نے تو مارا تھا، لگ جاتا تو۔۔؟
حالانکہ وہ اس دن کے بعد نا اس سے زیادہ بات کرتا تھا نا اس سے سامنا ہوا نا اس نے کچھ کہا۔۔
موسٰی وہاں سے نکل کر حویلی کی طرف روانہ ہوا تھا، رات ڈھلے وہاں پہنچا تو خانزادہ اسی کے روم میں اس کا منتظر بیٹھا تھا۔
"لگتا ہے بہت یاد آتی رہی ہے میری۔۔" اسے دیکھ کر شرارت سے بولتا بیڈ پر پھیل کر بیٹھا۔
"تم نے پروا کو اپنے پاس رکھا اور مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔۔ کیوں۔۔؟" اس کے سرد سنجیدہ سوال پر وہ بھی سنجیدہ ہوتا اٹھ کر بیٹھا۔
"یار سب کافی جلدی میں ہوا تھا۔۔ تم تھے نہیں مجھے یہی بہتر لگا۔۔ پھر تم آئے تو ایسی کنڈیشن نہیں تھی کہ میں کچھ بتاتا۔۔ اس کی آنی نے کہا تھا فارن جانے کے پیپر ریڈی کرواؤں، ان میں الجھا تھا کہ تم لوٹ آئے پھر پروا نے پریہان کے بغیر وہاں جانے سے انکار کر دیا۔۔
میں نے یہی سوچا تھا بتاؤں گا بلکہ وہیں لے جا کر ملواؤنگا پھر تم خود کرتے جو کرنا تھا مگر تم نے کہا ابھی سٹیبل نہیں ہو کہ سفر کرو تو۔۔"
موسٰی سنجیدگی تفصیل دے رہا تھا، وہ لب بھینچے سنتا گیا۔۔
"سٹیبل نہیں تھا کہ سفر کرتا۔۔ پاگل ہو کر نہیں آیا تھا کہ بتایا تک نہیں تم نے۔۔ کس رشتہ سے اسے اپنے پاس رکھا تم نے۔۔" وہ ایسے معاملات میں بالکل سرد مزاج ہو جاتا تھا۔۔ اب بھی سختی سے بولا۔۔
"انف یار۔۔۔ بہن کی طرح ہے۔۔ بچی ہی تو ہے میرے لیے۔۔" موسٰی اس کی بات پر خفگی سے بولا۔
"بہن کی طرح ہے، بہن نہیں ہے وہ تمہاری۔۔ بچی نہیں ہے وہ موسٰی جوان لڑکی ہے۔۔ بغیر رشتہ کے تم اسے اپنے پاس رکھ کر مزے سے گھومتے رہے۔۔
دوبئی جانا تھا تو اسے نوکروں کے حوالے کر کے چلے گئے۔۔ اگر مجھے ملازموں پر اتنا ہی بھروسہ ہوتا تو میرا گھر ہوتے ہوئے میری بہنیں اپارٹمنٹ میں اکیلی نا رہ رہی ہوتیں۔۔" وہ غصے سے بول رہا تھا۔ موسٰی نے خفت سے سر ہاتھوں پر ڈال لیا۔۔
"اگر معراج اس رات مجھے بتائے بنا چلی جاتی۔۔؟ وہ بچی جوان لڑکی ہے جس کے ساتھ ملازموں سے بھرے اس گھر میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔ تم اتنے غیر زمہ دار کیسے ہو سکتے ہو موسٰی۔۔
مایوس کیا ہے تم نے۔۔ عقل بیچ کھائی ہے تم نے۔۔ علاج کرواؤ اپنی غیرت کا۔۔" وہ بھگو بھگو کر جوتے مارتا اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔ موسٰی ندامت میں بھرا وہیں بیٹھا رہا۔۔ ابھی تو عیسٰی کی کلاس لگنا باقی ہے۔۔
"اگر پروا نے وہ سب حدیر کو بتا دیا تو۔۔۔ تم تو گئے کام سے عیسٰی۔۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔۔ شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان شاکڈ سی موبائل لیے بیٹھی تھی، پُروا رو رہی تھی، اس کی پُروا۔۔ جس کو وہ اداس تک نہیں دیکھ سکتی تھی، اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوتا رہا اور وہ یہاں سکون سے بیٹھی تھی۔۔
پروا کبھی اکیلی نہیں سو پاتی تھی اور اب وہ اکیلی سو بھی رہی تھی، پریہان کے دل کو کچھ ہوا۔۔
اس وقت رات ہو رہی تھی اور وہ وہاں بالکل اکیلی ہو گی۔۔ اس نے آنی کو کال ملائی مگر ان کا نمبر بند جا رہا تھا، وہ مزید گھبرا گئی تھی۔۔ کتنی دیر سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ گئی تھی مگر اسے کوئی ہوش نہیں تھا۔۔
خانزادہ موسٰی سے بات کر کے کمرے میں آیا تو پریہان کو یوں جما ہوا دیکھ کر فکرمند ہو گیا۔۔
"پریہان۔۔" نرمی سے پکار کر اس کے پاس بیٹھا۔
"کیا بات ہے۔۔ طبیعت ٹھیک ہے؟" وہ خالی خالی نظروں سے اس دیکھنے لگی۔
"پروا کا نکاح۔۔ آپ نے کروایا تھا؟" اس نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا۔ خانزادہ نے لب بھینچے۔۔ اسے مصروفیات میں موقع نہیں مل پایا پریہان کو بتاتا مگر اسے اب خبر مل گئی ہو گی۔۔۔
"ہاں ایکچوئلی اس رات۔۔" وہ اسے بتانا چاہ رہا تھا کہ اس رات وہ اسے اکیلا ملازمین کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔
"آنی نے کہا تھا یا آپ نے خود ایسا کیا۔۔؟" اس کی بات کاٹ کر وہ بولی۔۔ اپنی طرف سے وہ سچائی جان کر ہی بولنا چاہ رہی تھی۔ وہ اس کے لہجے پر چونکا۔
"میں نے خود کیا۔۔ کیونکہ تب یہی بہتر تھا کہ۔۔۔"
"آپ ہوتے کون ہیں یہ ڈیسائڈ کرنے والے۔۔" اس کی بات کے درمیان وہ بولی تو لہجہ سرد تھا۔
"پریہان ریلیکس۔۔ میری بات تو سن لو۔۔" وہ نرمی سے اس کے گرد بازو پھیلاتا بول رہا تھا۔ پریہان نے اس کا بازو جھٹک کر دور کیا۔
"ریلیکس رہوں؟ آپ نے میری چھوٹی سی بہن کا مجھے بنا بتائے نکاح کر دیا اپنے اس جنگلی کزن کے ساتھ۔۔ وہ اسے مارتا ہے، ڈانٹتا ہے اور آپ یہان سکون سے بیٹھے بول رہے ہیں میں ریلیکس رہوں۔۔؟"
وہ بدلحاظی سے چیخ کر بولی۔۔ مارنے کی بات پر وہ ٹھٹک گیا۔ اسے یقین نہیں آیا عیسٰی ایسا بھی کر سکتا ہے۔۔ وہ روزانہ کال کر کے پوچھتا تھا، منت کی تھی اسے نقصان نا پہنچائے، یہ تک مان گیا تھا کہ حالات سنبھلنے پر طلاق دے سکتا ہے۔۔ وہ تو کہتا تھا پروا ٹھیک ہے اور اب وہ اسے بالکل کچھ نہیں کہتا تو کیا وہ چھوٹ بول رہا تھا۔۔؟ وہ پریشان ہوا۔
"میں نہیں جانتی آنی نے ایسا کیوں کیا۔۔ وہ کسی انجان کے ساتھ پروا کو کیسے بھیج سکتی ہیں۔۔ اگر وہ اتنی تھک گئی تھیں مجھ سے کہہ دیتیں۔۔
اور آپ۔۔" وہ تاسف سے بولتی بھیگی غصیلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"پریہان پلیز غصہ مت کرو ریلیکس رہو۔۔ میں سب بتاتا ہوں۔۔" وہ اس کی حالت پر فکرمند ہوا۔۔
"آپ سے یہ امید نہیں تھی۔۔ آپ نے اسے کسی بےجان چیز کی طرح عیسٰی کے گلے ڈال دیا۔۔ اپنی بہن نہیں تھی ناں اس لیے سوچنا تک گوارا نہیں کیا۔۔ وہ ابھی سترہ سال کی ہے۔۔ نکاح کر دیا اس کا آپ نے۔۔ وہ وہاں اکیلی بیٹھی تھی، رو رہی تھی۔۔ رات کو ڈرتی رہتی ہے اور آپ یہاں مجھ سے کہہ رہے ہیں ریلیکس کروں۔۔"
پریہان بولتے بولتے ہانپ گئی، پروا کی حالت کا سوچ کر ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔۔ اس کا جسم بری طرح کپکپانے لگا، اسے اپنا آپ بھی بےحس لگا۔۔
"پریہان طبیعت بگڑ جائے گی تمہاری۔۔ میں بات کروں گا عیسٰی سے۔۔ وہ میری بھی بہن ہے، بچوں کی طرح ہے میرے لیے۔۔" وہ اسے اپنے حصار میں بھینچ کر ندامت سے بولا۔۔ عیسٰی پر غصہ آ رہا تھا۔۔
"نہیں لگتی آپ کی کچھ۔۔ مجھے لگا تھا حویلی والے سنگدل ہیں آپ سب سے الگ ہیں۔۔ میں غلط تھی۔۔ آپ سب ایک جیسے ہیں۔۔ ظالم اور بےحس۔۔ آپ نے اپنے کزن کو میری بہن کھلونا بنا کر پیش کر دی پھر چاہے وہ جو بھی کرے۔۔ سنگدل ہیں آپ لوگ۔۔"
اسکے حصار میں مچلتی پریہان بنا سوچے سمجھے بولتی چلی جا رہی تھی۔۔ خانزادہ نے بےساختہ بانہیں ہٹا کر اسے دیکھا۔ چہرہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔۔
"میں کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔ ہمارے پیرنٹس کا گھر ہے میں اپنی بہن کو وہاں رکھ سکتی ہوں۔۔ اگر وہ اتنی بوجھ بن گئی ہے سب پر تو۔۔ تف ہے مجھ جیسی بہن پر جو سکون سے اپنے گھر بیٹھی ہے اور میری چھوٹی بہن در بدر دھکے کھا رہی ہے۔۔" وہ روتی جا رہی تھی، بولتی جا رہی تھی۔ اپنے آپ پر بھی غصہ آ رہا تھا اور سامنے بیٹھا خانزادہ حدیر بھی برا لگ رہا تھا۔۔ پروا اس کے لیے سب سے بڑھ کر تھی۔۔
"پریہان۔۔ او۔کے کل چلیں گے، پروا کو لے آنا اپنے پاس۔۔ ابھی تم سٹریس مت لو طبیعت بگڑ جائے گی۔۔"
خانزادہ نے نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر کہا۔
"بھاڑ میں گئی میری طبیعت۔۔ آپ کو ضرور اس وقت اپنے بچے کی فکر ہو گی۔۔ ڈر لگ رہا ہے کہیں اسے کچھ ہو نا جائے۔۔ پھر پروا کے وقت ایسی فکر کیوں نہیں ہوئی۔۔ بہن ہے وہ میری۔۔ بیٹھے بٹھائے نکاح کر دیا اور مجھے بتایا تک نہیں کیوں۔۔ کھلونا سمجھ لیا تھا۔۔ لاوارث سمجھ لیا ہے کہ جب جو چاہے رکھ لے۔۔"
وہ تنفر سے چیخ کر بولتی حواس میں نہیں تھی۔۔ پروا کا رونا دماغ پر ہتھوڑے کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔۔
اس کے الفاظ پر خانزادہ تاسف سے اسے دیکھتا رہا۔۔ اس کی بدگمانی نے اسے ہرٹ کیا تھا مگر وہ خاموشی سے سنتا رہا۔۔ وہ سوال کر رہی تھی مگر جواب سننے کو تیار نہیں تھی۔۔ وہ جانتی ہی نہیں تھی اس کی آنی ہارٹ پرابلم سے ہاسپٹلائز رہیں، اس کے انکل نے پروا کا سودا تک طے کر دیا، ہاں اس انسان نے واقعی کھلونا سمجھ لیا تھا مگر انہوں نے تو پروا کی حفاظت کی۔ اس کو باعزت مقام دے کر محفوظ کرنا چاہا تھا اس نے۔۔ اور یہ بات نا پروا جانتی تھی نا پریہان۔۔۔
اپنی طرف سے تو وہ عیسٰی سے پوچھتا بھی رہتا تھا، اسے بھی اب پتا چل رہا تھا عیسٰی کیا کرتا رہا ہے۔۔
"میں شادی رچا کر یہاں مزے سے بیٹھی رہی اور میری معصوم بہن۔۔ وہ اکیلی تھی۔۔ وہ ڈرتی ہو گی۔۔ اور میں یہاں۔۔ مجھے پتا تک نہیں تھا۔۔" پریہان روتے ہوئے بڑبڑاتی جا رہی تھی۔۔ روتے روتے ہی وہ حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔ سوچ میں گم خانزادہ خواب سے جاگا۔۔
"پریہان۔۔۔ پریہان۔۔" بوکھلا کر اسے سنبھالتا وہ پکارنے لگا۔۔ جلدی سے موبائل نکال کر ادب خان کو گاڑی نکالنے کا کہا اور اسے بانہوں میں بھر کر اٹھاتے ہوئے باہر بھاگا۔۔ اس کی کنڈیشن جیسی تھی، سٹریس اس کے لیے جان لیوا ہو سکتا تھا۔۔
اس سب میں اسے شدید غصہ آیا تھا خود پر کہ اس نے عیسٰی پر اعتبار کیا اور عیسٰی پر جو روزانہ اس سے جھوٹ بولتا رہا۔۔۔
ادب خان باہر گاڑی لے کر پہنچ چکا تھا، وہ اسے گاڑی میں ڈال کر قریبی ہاسپٹل چلنے کا بولتا جبڑے بھینچے پریہان کو سینے سے لگا گیا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"کہاں ہو تم آخر۔۔ کل سے کالز کر رہا ہوں۔۔" عیسٰی نے کال اٹینڈ کی تو آگے سے موسٰی بپھر کر بولا۔۔
"بزی ہوں اسائمنٹ ریڈی کرنی ہے، اینول میں اس کے پوائنٹس ایڈ ہونے ہیں۔۔ یہاں میں نے بنائی تک نہیں کل سبمیشن کی لاسٹ ڈیٹ ہے۔۔" عیسٰی نے اکتا کر تفصیل بتائی۔۔ نظر سامنے لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی تھی۔۔ کان میں ائیر برڈ لگائے بولتا گیا۔۔ انگلیاں تیزی سے کیبورڈ پر چل رہی تھیں۔۔
"اسائمنٹ کے پوائنٹس تو صبر کرو حدیر دے گا تمہیں۔۔ جو کارنامے تم کرتے پھر رہے ہو۔۔" موسٰی نے دانت پیس کر کہا۔۔ اس کی بجلی کی سی تیزی سے چلتی انگلیاں کیبورڈ پر رک گئیں۔
"کیوں کیا ہوا۔۔؟" وہ حیران ہوا۔۔ اس نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ پریشان ہوا جائے۔۔
"انجان مت بنو۔۔ پروا کے ساتھ جو رویہ رکھا ہوا ہے بتا چکی ہے وہ۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے یہاں کیا ہوا ہے۔۔
پریہان کی اتنی طبیعت خراب ہو گئی تھی، ہاسپٹل میں ہیں وہ اب بھی۔۔ حویلی میں سب اتنے پریشان ہیں۔۔ نکاح ہو ہی گیا تھا ناں، پروا کو مارنے یا ڈانٹنے سے سب ٹھیک ہو جاتا کیا۔" موسٰی اسے ڈانٹ رہا تھا اور عیسٰی کی تو آخری جملے پر آنکھیں پھیلیں۔۔
"ویٹ۔۔ یہ کب ہوا مارنا اور ڈانٹنا۔۔؟ پروا نے کہا ایسا۔۔؟ اور پریہان بھابھی کی طبیعت میں نے تھوڑی خراب کی ہے۔۔" عیسٰی کا دماغ گھوم گیا تھا۔
"عیسٰی اب تم ایکٹنگ بند کرو۔۔ افکورس پُروا نے بتایا ہے، اتنی ڈری ہوئی ہے وہ۔۔ پریہان بہن کی حالت پر خوش ہوتی کیا۔۔ اندازہ بھی ہے اس وقت حدیر کتنا اپ سیٹ ہے تمہاری وجہ سے۔۔ اب دوبارہ کوئی غلط حرکت مت کرنا عیسٰی۔۔" موسٰی نے اسے سمجھایا تھا لیکن اس کے دماغ کی رگیں تن گئیں۔۔ وہ اب اسے اگنور کر رہا تھا، تینوں وقت کے کھانے تک تیار کر کے دے رہا تھا۔۔ دودھ ڈبل لا رہا تھا اور وہ سب سے یہ کہتی پھر رہی تھی۔۔
کال کاٹ کر وہ مٹھیاں بھینچے وہیں بیٹھا رہ گیا۔۔ لیپ ٹاپ سلیپ ڈاؤن ہو چکا تھا وہ سب بھول گیا۔۔
"یہ خانزادہ حدیر ہے۔۔ سردار آزر خان کا چھوٹا بیٹا۔۔
سنا ہے جس جرگہ میں بیٹھ جائے تو اپنا فیصلہ منوا کر چھوڑتا ہے اور بہت انصاف سے فیصلہ لیتا ہے۔۔
کتنی شاندار شخصیت ہے مگر غصیلا ہے بہت۔۔ "
وہ اس وقت اپنے علاقے کے ہاسپٹل میں ہی بیٹھا تھا۔
ڈاکٹر نے اپنے آفس میں بیٹھنے کا کہا تھا مگر وہ وہیں سرد کوریڈور میں بیٹھا تھا، اس کمرے کے بالکل سامنے جس میں پریہان تھی اور اب تک اس کی طبیعت نہیں سنبھلی تھی۔۔
نرسز اور آتے جاتے لوگ چور نظروں سے دیکھتے، مرعوب ہوتے اور تبصرہ کرتے گزر رہے تھے۔۔
سیاہ شلوار قمیض پر بھاری شال کندھوں پر رکھے وہ نظر لگ جانے کی حد تک دلکش لگ رہا تھا، چہرے پر پریشانی اور فکر کے سائے پھیلے تھے، نیلی آنکھوں میں تھکن سے سرخ ڈورے تھے، بال ماتھے پر بکھرے تھے اور وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے سر ڈال کر بیٹھا تھا۔
پریہان کے لیے پریشان ہونے کے ساتھ اس وقت اسے غصہ بھی آ رہا تھا، ہاں یہ حقیقت تھی کہ اسے اپنے بچے کی بھی بہت فکر تھی مگر پریہان کے لیے بھی پریشان تھا، ڈر رہا تھا دونوں کو کچھ ہو نا جائے۔۔
بچہ جو ابھی دنیا میں ہی نہیں آیا تھا، جب سے اسے خبر ملی تھی، جی اٹھا تھا اور اگر وہ خوشی چھین گئی۔۔؟ اور پریہان اس کے لیے کچھ ہی عرصہ میں بہت ضروری ہو گئی تھی، بہت عزیز تھی اسے اور یہ بات شاید وہ کبھی نا سمجھ پاتی۔۔
بےبسی یہ کہ وہ اس پر غصہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔
سامنے روم سے ڈاکٹر زرقا کو نکلتا دیکھ کر وہ تیزی سے اٹھ کر اس تک پہنچا۔
"سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟" وہ بےتابی سے پوچھ رہا تھا۔
"شی از سٹیبل ناؤ۔۔ بی۔پی بہت زیادہ لو ہو رہا تھا، بہت مشکل سے کنٹرول کیا ہے، اگر آپ تھوڑی دیر لیٹ کرتے یا فوری ٹریٹمنٹ نا ملتی تو شاید آپ بہت بڑا نقصان اٹھاتے۔۔ اب شکر ہے ٹھیک ہیں دونوں بیبی اور ماما۔۔ آپ پلیز خیال رکھیں، ٹینشن سے دور رکھیں۔۔ اور اب چاہیں تو گھر لے جا سکتے ہیں۔۔"
ڈاکٹر زرقا تفصیل سے آگاہ کر کے دروازے سے ہٹ گئی، نرسز بھی اس کے ساتھ نکلیں، سب کے جاتے ہی وہ لب بھینچے کمرے میں داخل ہوا۔
پریہان اسے اندر آتا دیکھ کر آنکھیں بند کر گئی تھی، چہرہ زرد ہو رہا تھا، پلکیں بھیگ رہی تھیں۔۔ خانزادہ کا غصہ اس کی حالت دیکھ کر بھک سے اڑا تھا۔۔
"بہت لاپرواہ ہو پریہان۔۔ کیا بچہ صرف میرا ہے؟ یا تمہاری جان کی کوئی اہمیت نہیں۔۔؟ اپنے آپ سے بھی ناراضگی ہے کیا تمہاری۔۔" اس کے پاس بیٹھ کر وہ آہستگی سے بولتا زرد نم گال انگوٹھے سے سہلاتا جھک کر اس کی نم پلکوں پر لب رکھ گیا۔۔ پریہان کو اس کی بات پر رونا آنے لگا۔۔ وہ اسے کیا بتاتی اس کے غم میں حویلی میں دنیا سے کٹ کر پڑی چھوٹی بہن کو بھلا دیا تھا، اسی بات کا ہی تو غم ستا رہا تھا۔۔ پھر جیسا مشکل وقت کٹا تھا، اب دل بھی کمزور ہو گیا تھا بہت۔۔ وہ جانتی تھی پروا سب سے زیادہ پریہان کے قریب ہے۔۔ پہلے ماں گئی، پھر پریہان نے بھی اسے آنی کے حوالے کر کے چھوڑ دیا۔۔ آنی نے جانے کس مجبوری کے تحت اسے موسٰی کے حوالے کیا، موسٰی سے آخر کیا رشتہ تھا اس کا۔۔ اس کے ساتھ اکیلے پروا کیسے رہی ہو گی اور اس کے بعد عیسٰی۔۔
کسی ناکارہ چیز کی طرح یہاں وہاں ہو رہی تھی اور پریہان کو خبر تک نہیں تھی۔۔
"رونا بند کرو۔۔ تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک۔۔" اس کے گرد بازو پھیلاتا وہ اسے اٹھا کر سینے سے لگا گیا۔۔
"حدیر میری پُروا۔۔" پریہان نے سسک کر کہا تو وہ اس کے لرزتے وجود کو مزید خود میں بھینچ گیا۔
"میری بات غور سے سنو۔۔ پریہان میں نے وہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔۔ تمہارے انکل جیسا تمہارے ساتھ کر رہے تھے وہی پُروا کے ساتھ کرنے والے تھے۔۔
تمہاری آنی اس بات کی وجہ سے پریشرائز ہو کر ہاسپٹلائز رہی ہیں کافی۔۔ ان سے بدظن مت ہونا۔۔
موسٰی نے فوری پروٹیکشن کے لیے اپنے پاس رکھا تھا۔۔ میں جانتا ہوں تم ناراض ہو، تمہاری ناراضگی بنتی بھی ہے مگر موسٰی دوبئی جا چکا تھا، پروا کو وہاں اکیلے ملازموں کے پاس چھوڑنا مجھے برا لگا اس لیے عیسٰی سے نکاح کر دیا۔۔ یہ رشتہ ہی اسے سب مصیبتوں سے چھٹکارا دے سکتا تھا۔۔"
اسے سینے سے لگا کر نرمی سے تھپکتے ہوئے اس نے مناسب الفاظ میں تفصیل بتائی۔۔ وہ جانتا تھا حقیقت اسے پریشان کرے گی مگر نا بتانے پر وہ سب سے بدگمان رہتی اور طبیعت خراب کیے رکھتی۔۔ اس کی بات سن کر پریہان کا دل خوف سے رک گیا، اسے انکل سے ایسی بات کی امید نہیں تھی۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ ٹرسٹ می عیسٰی میرا بھائی ہے مگر اب پروا میری زمہ داری ہے۔۔ میں نے اسے عیسٰی کے حوالے کیا ہے تو میں اس سے سوال بھی کروں گا۔۔ مجھے سپیشل جانا پڑا، جاؤں گا۔۔"
وہ اس کا چہرہ سامنے کر کے نرمی سے نم گال سہلاتا بول رہا تھا۔ پریہان سر جھکائے لب کچلنے لگی۔
"ایم سوری میں پریشان ہو گئی تھی۔۔ مگر اب عیسٰی اس کا خیال نہیں رکھ رہا۔۔ میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں حدیر۔۔" وہ شرمندگی سے معذرت کرتی بھرائی آنکھوں سے خانزادہ کو دیکھ کر بولی۔۔
وہ اس کے یوں معذرت کرنے پر مسکرایا۔۔ کچھ دیر پہلے غصہ آ رہا تھا مگر اسے دیکھ کر اب صرف پیار آ رہا تھا، غصہ کرنے کے قابل کہاں تھی وہ۔۔ ایسا سوچنے پر اس کا دل ہی اس کے خلاف ہو جاتا تھا۔۔
"ہم اسے حویلی میں لے تو آتے، میں اسے اپنی زمہ داری مانتا ہوں مگر تم جانتی ہو نا یہاں ماحول۔۔ وہ یہاں مزید اپ سیٹ ہوتی۔۔ عیسٰی کو میں پوچھ لوں گا۔۔ فکر مت کرو۔۔" لہجے میں پیار سموئے وہ اپنائیت سے بولتا پریہان کی پریشانی دور کر گیا۔۔ درد کرتے سر کے ساتھ وہ خود کو کوسنے لگی۔۔ یہی پہلے بات سن لیتی تو اتنی تکلیف نا اٹھاتی۔۔
"اب دماغ پر زور مت دو۔۔ مجھے تم دونوں بالکل ٹھیک چاہئیں۔۔" اس نے دونوں پر زور دے کر جتایا۔ پریہان کی آنکھیں بھاری ہو رہی تھیں، سر ہلاتی خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
خانزادہ اسے اپنے حصار میں سمیٹ کر اس کے گالوں پر پرحدت لمس چھوڑ گیا۔
"آؤ اب واپس چلیں۔۔ سب پریشان ہیں تمہارے لیے۔۔"
اس پر شال سہی سے پھیلا کر بولتا اس کے پیروں کو بیڈ سے اتارتے ہوئے خیال آیا۔۔ اسے اٹھا کر لایا تھا، جوتے تو تھے نہیں۔۔ اسے بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔۔
"میرے لیے نہیں۔۔ وارث کے لیے۔۔ اور جانے وارث آئے یا بیٹی، یہ بھی کنفرم نہیں۔۔" وہ منہ بنا بنا کر بولتی اسے ہنسنے پر مجبور کر گئی۔ کوئی موقع نہیں جانے دیتی تھی وہ ان سب پر بولنے کا۔۔ بس فرق اتنا تھا اب صرف حدیر کے سامنے بولتی تھی۔۔
صبح کے قریب حویلی پہنچے تو پریہان گھبرا گئی۔
"حدیر نیچے اتاریں ایسے سب دیکھیں گے۔۔" بوکھلا کر بولی تو وہ مسکراہٹ دبا گیا۔
"ایسا کرو سونے کی ایکٹنگ کر لو۔۔ پھر شرم نہیں آئے گی۔۔" اس کی طرف جھک کر سوگوشی میں بولا تو وہ جلدی سے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔ وہ ہنسی دباتا سنجیدگی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔
اندر واقعی سب پریشان سے بیٹھے تھے۔۔ خانزادہ نے منع نا کیا ہوتا تو شاید سب وہیں ہاسپٹل پہنچ جاتے۔۔ پریہان کے ٹھیک ہونے کا سن کر سب کو سانس آیا تھا۔۔
اسے کمرے میں لے جا کر خانزادہ نے لیٹایا اور خود بھی چینج کرنے چلا گیا۔۔ چینج کر کے اس کے پاس لیٹا تو وہ اس کے گرد بازو لپیٹ کر اس کے کندھے پر سر رکھ گئی۔۔ وہ سمجھ گیا اپنے الفاظ پر شرمندہ ہے اور برے رویہ کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔
"پریہان۔۔ آئندہ بات پوری سنے بِنا ٹینشن مت لینا۔۔ آج خدانخوستہ نقصان ہوتا تو ساری عمر یہ بات تمہیں تکلیف دیتی اور میں بھی معاف نا کرتا۔۔"
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔ پریہان نے جھرجھری لی۔۔
"ایم سوری پلیز۔۔" رونی صورت بنا کر آنکھیں میچتی اس کے سینے میں منہ چھپاتی بولی تھی۔۔
"اٹس اوکے۔۔ اب ریلیکس ہو جاؤ۔۔ اور مجھے صرف بچے کی پرواہ نہیں ہے، تمہاری بھی فکر ہے۔۔" اس کی غصہ میں کہی بات کا حوالہ دیا۔۔ وہ شرمندہ ہوئی۔۔
"اپنا خیال خود رکھ سکتی ہو پریہان۔۔ میں بس ایک حد تک ہی کئیر کر سکتا ہوں تمہاری۔۔ اور سنو۔۔"
اس کے گرد نرم حصار باندھ کر بولتا وہ پکار کر کروٹ بدلتا اس کے چہرے کی طرف جھکا۔ پریہان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
"تم اور میرا بچہ۔۔ تمہارے پاس میری امانت ہیں، اگر کچھ ہوا نا تو بہت بری طرح پیش آؤں گا۔۔"
اسے وارننگ دیتا واقعی ڈرا گیا تھا۔ اس کے گرد اپنا حصار تنگ کرتا شدت سے اس کے چہرے کو اپنے لمس سے سرخ کرتا وہ ظاہر کر گیا کہ آج کتنا ڈر گیا تھا۔۔
"اب سو جاؤ۔۔ ریسٹ کرو۔۔" نرمی سے اس کا گال سہلا کر بولا تو وہ اس کی شدت پر حواس باختہ سی، الجھی بکھری سانسوں کو درست کرتی اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔ وہ غلطی معاف کر گیا تھا مگر جتا بھی رہا تھا مزید غلطیوں پر معافی کی گنجائش نہیں۔۔۔ کچھ معاملات میں وہ کافی اصول پرست واقع ہوا تھا۔۔ محبت اپنی جگہ۔۔ اسے خود کو بھی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں تھی۔۔
اسے سینے سے لگا کر سوتے خانزادہ نے سوچ لیا تھا وہ ریسٹ کر کے اس بار کال پر نہیں خود جا کر ہی عیسٰی کی کلاس لے گا جس نے لاپروائی کی حد کر دی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ غصے میں بھرا صبح کا انتظار کیے بنا ہی جھٹکے سے دروازہ کھول کر پروا کے کمرے میں داخل ہوا۔۔ غصے سے دماغ کی رگ بری طرح پھڑک رہی تھی، اس کا جی چاہا گلا دبا دے اس بلا کا جس نے پہلے دن کی بھڑاس اتنے دن کی خاموشی کے بعد بھی نکالی تھی۔۔
وہ بلینکٹ میں چھپی سکون سے سو رہی تھی جب عیسٰی نے جھٹکے سے بلینکٹ کھینچ کر اتارا، پروا کسمسا کر بےچینی سے آنکھ کھول گئی۔۔
سامنے عیسٰی کو خونخوار تیور لیے گھورتا پا کر ہڑبڑا کر اٹھی۔۔ نیند سے گلابی بوجھل آنکھیں جھپک جھپک کر اسے دیکھا۔۔
"کیا لگتا ہے تمہیں؟ کوئی پاگل ہوں یا غلام ہوں تمہارا جو تمہاری مفت میں غلامی کروں گا۔۔ کیا چاہتی ہو تم۔۔" وہ پوری شدت سے دھاڑا تھا۔ پروا کا سانس رک گیا، خوف سے پھیلی آنکھوں کو اس پر ٹکائے وہ ایسے سہم سہم کر سانس لے رہی تھی جیسے جرم کر رہی ہو۔۔ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ عیسٰی کا چہرہ اور آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہے تھے۔۔ جھک کر پروا کا بازو اپنی سخت گرفت میں لیتے جھٹکا دے کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔
"کیا کہا ہے اپنی بہن سے؟ مارتا ہوں تمہیں؟ کتنی دفعہ ہاتھ اٹھایا تم پر۔۔ بتاؤ۔۔" سرد لہجے میں بولتا اسے بری طرح جھنجھوڑ رہا تھا، وہ اندر تک ہل گئی۔۔
"بتاؤ۔۔" اس کے چپ رہنے پر زور سے چیخا۔۔
"گ۔۔گلا۔۔۔س جب۔۔ "تمہیں لگا تھا گلاس۔۔؟ " اٹک اٹک کر کہتی پروا کی بات کاٹ کر دھاڑا۔ پروا کا دل خوف سے کانپ رہا تھا، کہنا چاہتی تھی اسکا یہی سرد رویہ اور غصہ اسے ڈراتا ہے۔۔ کمرے میں قید رہ رہ کر تنگ آ گئی تھی مگر اس وقت وہ سوال کر کے ظاہر کر رہا تھا کہ اسے جواب میں آواز تک نہیں سننی۔۔
"سوری۔۔ سوری پلیز۔۔"۔ وہ خوف سے روتی معافی مانگنے لگی۔ رات کے اس پہر نیند میں سوئے دماغ کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر وہ غصہ کس بات پر ہے۔۔ گرم بستر سے نکال کر وہ چیخ کیوں رہا تھا۔
"چپ۔۔ آواز نا آئے۔۔ صاف کرو آنسو۔۔" وہ غصے سے جھٹکا دے کر بولتا اس وقت بس پروا کو مار ڈالنا چاہ رہا تھا۔۔ دونوں بازوؤں میں انگلیاں گاڑھے وہ اسے ہلنے تک کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔۔
نئے حکم پر اس نے جلدی سے کانپتے ہاتھوں سے آنسو صاف کیے اور لب بھینچ کر سسکی دبائی۔۔
"اب بیٹھو اور میں جو بات کروں گا کان کھول کر سننا۔۔" اسے جھٹکے سے چھوڑا، وہ لڑکھڑا کر بیڈ پر گرتی جلدی سے سمٹ کر کونے میں بیٹھ گئی۔۔
عیسٰی نے گہرے گہرے سانس بھر کر خود پر کنٹرول کیا ورنہ جیسے موسٰی نے کال پر اسے باتیں سنائی تھیں، پریہان کی حالت اور خانزادہ کی ناراضگی پر اس کا دماغ الٹ گیا تھا۔۔ وہ اچانک گلے پڑ جانے والی مصیبت کو سنبھالے، خیال رکھے مگر غصہ تک نا کرے اور اگر کر ہی لیا تھا تو اس پر بھی اس سے سوال کیا جا رہا تھا۔۔ اس وقت اس کا بس چلتا تو پُروا کا گلا دبا دیتا، اس نے بہت مشکل سے ضبط کیا تھا۔۔
سامنے بیڈ کراؤن کے بالکل ساتھ گھٹنے سمیٹ کر سکڑی سمٹی کانپتی ہوئی پُروا کی خوف سے پھیلی آنکھیں اسی پر جمی تھیں۔۔
"تمہیں اندازہ بھی ہے تم نے جو بکواس کی ہے اپنی بہن سے، وہ پاسپٹل پہنچ گئی ہے۔۔ صرف اور صرف تمہارے جھوٹ کی وجہ سے۔۔۔ پہلے دن گلاس دیوار پر مارا تھا وہ وارننگ تھی اور اس بار لاسٹ ٹائم وارن کر رہا ہوں اب اگر تم نے کسی سے بھی قسم کی ایسی ویسی بات کی تو اگلی بار واقعی گلاس تمہارے منہ پر لگے گا۔۔ سمجھ آئی تمہیں۔۔" اس پر جھک کر سختی سے بولتے ہوئے دھمکایا تو وہ سر ہلا گئی۔۔ حلق سے آواز نکالنا اب مشکل ترین ہو گیا تھا۔۔ وہ کسی جن کی طرح سرپر نازل سانس خشک کر رہا تھا۔۔
"گڈ۔۔ ورنہ یاد رکھنا تمہاری ان جھوٹی باتوں سے میرا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔۔ آنی تمہاری تو مرنے پر ہیں ہی، تمہاری بہن بھی مر جائے گی تمہاری فکر میں۔۔
تو نقصان تمہارا ہی ہو گا اب سنبھل کر بولنا۔۔"
وہ سنگدلی سے بولتا پروا کو خوف میں مبتلا کر گیا۔۔۔
اسے پریہان کے ہاسپٹلائز ہونے کی اب خبر مل رہی تھی وہ بھی اس برے طریقے سے۔۔ اسے تو لگا تھا پریہان اسے اس قید سے نجات دلا دے گی اس لیے جو بھی محسوس کیا بتاتی گئی مگر شاید اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔۔
عیسٰی سیدھا ہوتا گہرا سانس بھر کر اسے دیکھنے لگا۔ سر جھکائے وہ بہت مشکل سے کنٹرول کر رہی تھی، یقیناً رونا چاہتی تھی، اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔
جھوٹ بول کر سب کی ہمدردیاں بھی بٹور لیں، بہن کو ہاسپٹل پہنچا دیا اور خود اب مظلوم بنی بیٹھی ہے۔۔ چھوٹی بلا۔۔ وہ بڑبرایا۔۔
"اب سو جاؤ۔۔ یا اسی غم میں جاگنا ہے اب۔۔؟ تمہیں سمجھا دیا ہے، ایسے ہی تمیز سے رہو گی تو مشکل کم ہو گی زرا۔۔ جو بھی مسئلہ ہے آئندہ مجھ سے کہنا۔۔ جو بھی بھائی یا ہمدرد ہیں نا ان سب سے میری شکایتیں لگانا چھوڑ دو۔۔ بچی نہیں ہو تم۔۔"
اس نے اس کی چھوٹی عقل میں اپنی بات گھسائی اور دھپ دھپ کرتا جیسے آیا تھا ویسے ہی پلٹ گیا۔۔
پروا سردی سے ٹھٹھرتی وہیں سِسکتی بیٹھی رہ گئی۔ اب جو شکایات تھیں وہ دل میں دبا گئی۔۔
نا اٹھنے کی ہمت ہوئی، نا سونے کی۔۔ نیند تو وہ اڑا ہی چکا تھا۔۔ اپنے سارے خوف اپنے اندر اتارتی وہ آواز دبا کر روتی چلی گئی۔۔ ایسی زندگی کا تو تصور تک نہیں کیا تھا اس نے۔۔ بھیانک خواب لگ رہا تھا یہ سب اور شدت سے خواہش تھی کہ آنکھ کھلے اور زندگی پہلے جیسی ہو جائے۔۔ زندگی بدل گئی تھی، وقت بدل گیا تھا مگر یہ تبدیلی پُروا حسن کے لیے بہت ظالم تھی۔۔
_______
اگلے روز صبح وہ اٹھا تو روزانہ کی طرح کچن سے دودھ کا پیک غائب نہیں تھا، اس نے محسوس تو کیا مگر سر جھٹک کر ناشتہ تیار کرنے لگا۔۔
ناشتہ بنا کر معمول کی طرح اس کا ڈور ناک کیا تب بھی رسپانس نہیں آیا۔۔ اس کی خوامخواہ کی ناراضگی پر وہ چڑ گیا۔
"سمجھتی کیا ہے خود کو۔۔ میری بلا سے بھوکی مر جائے۔۔ فضول لڑکی۔۔ زرا سا سمجھا دیا ہے الٹا ایٹیٹیوڈ۔۔ پڑی رہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔"
اس نے بڑبڑاتے، جلتے ناشتہ کیا، کمرے میں جا کر تیاری کی اور اسے بھاڑ میں جھونکنے کا کہتے کہتے ہی دوبارہ اس کے کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا۔
خود کو کوستے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ وہ سامنے رات والی ہی پوزیشن میں سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی۔۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پوری سے زیادہ کھولے اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔
سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹس آن کیں اور اس کے پاس پہنچا۔۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔۔
"پروا۔۔ آر یو او۔کے۔۔؟" آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھ کر اسے پکارا۔۔
"یار کیا عذاب ہے۔۔" وہ زچ ہو گیا، رات کہا بھی تھا سو جاؤ، عجیب ڈھیٹ لڑکی تھی جو بیٹھی بیٹھی ہی مرنے پر بضد تھی۔۔
غصے سے اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے چہرہ سامنے کیا تو دھک سے رہ گیا۔۔ بالکل سفید خشک پڑتے ہونٹ اور سرخ ہوتا چہرہ۔۔ آنکھیں بری طرح سوج رہی تھیں دیکھ کر لگ رہا تھا کافی دیر روتی رہی ہے۔۔
"یار تم۔۔۔ تم اپنی غلطی کر کے ماننے کی بجائے الٹا ڈھٹائی سے بیٹھے بیٹھے ناراض ہو گئیں۔۔ عجیب ہو۔۔"
وہ خفگی سے بڑبڑایا، لہجہ نرم ہو گیا تھا، گرفت میں بھی نرمی آ گئی تھی، اسے بیڈ پر سہی سے لیٹایا اور بلینکٹ اس پر ڈال کر باہر نکلا۔۔ دودھ نیم گرم کر کے مگ میں ڈالا۔۔ ساتھ بریڈ اور جیم اٹھا لیا۔۔
ٹرے اندر لا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا، وہ بلینکٹ میں بھی کپکپا رہی تھی، اسے سہارا دے کر اٹھایا تو وہ اسی کے کندھے پر سر رکھ گئی، عیسٰی کے ہاتھ تھم گئے۔۔ نظر جھکا کر اسے دیکھا، اسکی آنکھیں بند تھیں۔۔ بخار میں بری طرح جل رہی تھی، نا ہوش تھا نا ہی اندازہ تھا اسے کہ وہ کہاں اور کس کے پاس ہے۔۔
عیسٰی نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر اس کے گرد ایک بازو پھیلایا اور خود سے لگاتے ہوئے سہارا دیا۔۔ دوسرے ہاتھ سے مشکل سے بریڈ پر جیم لگایا اور اسے کھلانے کی کوشش کرنے لگا۔۔
وہ نیم بےہوش سی اس کے سینے میں منہ چھپاتی سونے میں مصروف تھی، وہ بری طرح چڑ گیا۔۔
یہ بالکل پہلا تجربہ تھا، کسی لڑکی کو اس طرح سنبھالنے کا۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے کیسے کھلائے۔۔ بریڈ واپس پٹخ کر دودھ کا گلاس اٹھایا۔۔
"پروا۔۔ سیدھی ہو کر دودھ پیو۔۔ پھر سو جانا۔۔" اسے پکارتے ہوئے مشکل سے لہجہ نرم رکھا تھا، ورنہ بس نہیں چل رہا تھا رات کی طرح ہی جھٹکا دے کر سیدھا کرے اور سختی سے کہے دودھ پیو۔۔
جانے کیسے وہ لحاظ کر رہا تھا اس کی طبیعت کا۔۔
پروا کو آواز لگا کر کچھ ہوش دلایا تو وہ پھر سے سسکنے کا شغل شروع کر گئی، عیسٰی کا تو سر گھوم گیا۔
ٹرے میں دودھ کا گلاس واپس پٹخا اور اسے سیدھا کیا۔۔ وہ آنکھیں بھگوئے بیٹھی تھی۔۔
"پروا۔۔۔یہ لو دودھ پیو۔۔" نرمی سے کہہ کر گلاس ہونٹوں سے لگایا۔۔ اندر سے چاہے تلملا رہا تھا مگر انداز میں نرمی سمٹ آئی تھی۔۔ اسے لگا تھا وہ انکار کرے گی، منع کر دے گی مگر اسے حیرت ہوئی، دودھ کا زائقہ محسوس کرتے ہی وہ بند آنکھوں سے بھی گلاس کو منہ لگاتی بچے کی طرح تیزی سے دودھ پینے لگی۔۔
عیسٰی کو اس کی حرکت پر بےساختہ ہنسی آئی تھی۔
دودھ کا گلاس خالی کروا کر رخ پھیرتا رکھ رہا تھا جب پروا پھر سے اسی کے سینے میں چہرہ چھپائے سو گئی۔۔ ٹھنڈ اور بخار کی بےچینی سے تنگ ہوتی وہ اس میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔
اور وہ کچھ دیر پہلے اسے بھاڑ میں جھونکنے والا اسے لیٹا کر بلینکٹ اس پر سیٹ کرتا سینے سے لگائے تھپک رہا تھا تاکہ وہ سکون سے سو جائے۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
شہر جانے کی تیاری کرتا خانزادہ پلٹ کر سوتی ہوئی پریہان کے پاس پہنچا، اب کافی بہتر لگ رہی تھی وہ۔۔ جھک کر پیشانی پر لب رکھے اور کمرے سے باہر نکل کر خانی بیگم کو اس کی طبیعت سے آگاہ کر کے خصوصی خیال رکھنے کی ہدایت دیتا باہر نکل گیا۔۔
ادب خان اس کی گاڑی تیار کیے باہر ہی موجود تھا۔ اس کے لیے دروازہ کھولا اس سے پہلے کہ وہ بیٹھتا داور کی گاڑی جھٹکے سے آ کر رکی تھی۔۔
وہ چونک کر دیکھتا رک گیا۔ داور تیزی رفتاری سے نکلا دوسری جانب سے یاور نکلا تھا۔۔
"کیا ہوا۔۔؟ سب خیریت ہے ناں لالا۔۔؟"۔ خانزادہ نے ان کی طرف بڑھ کر فکرمندی سے پوچھا، ادب خان ڈور بند کیے ادب سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
یاور کے چہرے پر سرد سنجیدگی تھی جبکہ داور پریشان تھا۔۔ خانزادہ کے سوال پر اس کے قریب ہوا۔
"سب ٹھیک نہیں ہے خانزادہ۔۔ یہ۔۔ اس پاگل نے راحم سے جھگڑا کر کے اسے گولی مار دی ہے۔۔"
داور نے گھبرا کر بتاتے ہوئے غصیلی نظر یاور پر ڈالی
خانزادہ کا دماغ بھک سے اڑا۔
"ک۔۔کیا مطلب۔۔ گولی۔۔ وہ کہاں ہے۔۔" خانزادہ نے پریشانی کے مارے ہکلا کر پوچھا تو دونوں چونکے۔۔
"ہمارے ڈیرے کی پچھلی جانب پڑا ہے۔۔ شکر ہے وہاں کوئی نہیں تھا، میں اسے وہاں سے لے آیا۔۔"
داور نے بوکھلا کر بتایا۔ اسے دیکھ کر لگ رہا تھا بری طرح حواس باختگی کا شکار ہو رہا ہے۔۔
یاور کو تو لے آیا تھا مگر راحم کی فکر کھا رہی تھی۔
"ادب خان۔۔ ڈیرے کی طرف چلو۔۔ ابھی۔۔" خانزادہ نے فوری قدم اپنی گاڑی کی طرف لے جاتے ہوئے ادب خان کو حکم دیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی سر باہر نکالا۔۔
"آپ دونوں یہیں رہیے گا۔۔" دونوں بھائیوں کو ہدایت دی اور ادب خان نے ہوا کی سی رفتار سے گاڑی حویلی کی حد سے نکال کر ڈیرے کی جانب موڑ لی۔۔
ڈیرے کی پچھلی جانب پہنچتے ہی وہ بھاگ کر خون سے لت پت راحم کے قریب گیا، نبض چیک کی تو مدھم سی مگر چل رہی تھی۔
"ادب خان اسے گاڑی میں ڈلواؤ اور ہاسپٹل لے چلو۔۔ یہ زندہ ہے یار۔۔" خانزادہ نے فکرمندی سے کہا۔ ادب خان نے حکم ملتے ہی ایک گارڈ کو بلایا اور اس کی مدد سے راحم خٹک کو گاڑی میں ڈالا۔۔
خانزادہ بھی ساتھ بیٹھتے ہی اس کے پیٹ سے نکلتے خون کو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ ادب خان نے اپنی مخصوص رفتار میں ہاسپٹل پہنچایا تھا۔۔
وہاں راحم خٹک کو فوری ایڈمٹ کجا گیا اور خانزادہ حدیر کو پہچانتے ہی بہترین ڈاکٹرز کا عملہ آپریشن تھیٹر میں پہنچ گیا تھا۔۔
خانزادہ خون سے بھرے کپڑے لیے تھک کر ایک طرف بیٹھ گیا، پریشانی سے برا حال ہو رہا تھا۔۔
راحم کی زندگی کی فکر تو تھی ہی لیکن وہ مر گیا تو اس کے بعد دشمنی میں کیا کچھ ہو سکتا تھا یہ سوچ کر اس کے اعصاب جواب دینے لگے تھے۔۔
ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ ادب خان بھاگا بھاگا اس کے پاس پہنچا اور موبائل اس کی طرف بڑھایا۔
اسنے موبائل تھام کر کان سے لگایا کیونکہ وہ جانتا تھا ادب خان اس وقت اگر آیا تھا تو ضروری کال ہی لا سکتا تھا اس کے پاس۔۔
"خانزادہ حدیر صاحب میں ایس پی جہانگیر بات کر رہا ہوں۔۔ بہروز خان کے خلاف سارے ثبوت کنفرم ہو گئے، ہم نے اریسٹ وارنٹ بھی جاری کروا لیا ہے۔۔ آج ہی بہروز خان کے ڈیرے پر چھاپا مارنے کو تیار ہیں۔۔ اس بات کے بھی ثبوت مل گئے ہیں کہ ہاشم خان کی شہر میں موجود فیکٹری میں الیگل سائڈ ورک ہو رہا ہے۔۔ ایک ٹیم وہاں جائے گی۔۔" ایس پی اس کے ہیلو کہتے ہی پرجوش انداز میں بتا چلا گیا۔۔ جس کام کے لیے وہ پچھلے ایک ماہ سے منتظر رہا تھا، وہ آج ہونے کو تھا۔۔ وہ تیزی سے کھڑا ہوا۔۔
"اوہ او۔کے۔۔ او۔کے۔۔ میں ڈیرے پر پہنچ رہا ہوں.."
اس نے سنجیدگی سے کہہ کر کال کاٹی اور ادب خان کو دیکھ کر گہرا سانس بھرا۔۔
"ادب خان۔۔ آج میں اپنے چچا کا۔۔ گل جان اور ہر اس بات کا بدلہ سود سمیت لوں گا جو بہروز خان نے دوستی کی آڑ میں میرے خاندان کے ساتھ کیا ہے۔۔ تم اسی وقت ہاشم خان کی فیکٹری میں الیگل ورک کی ٹپ دے کر میڈیا کو بھیجو وہاں۔۔ میں چاہتا ہوں اب ان کی زلت پوری دنیا دیکھے۔۔"
اس نے ادب خان کو ہدایت دیتے ہوئے اپنا موبائل نکال کر موسٰی کا نمبر ملایا۔۔ ادب خان سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔۔ موسٰی نے کال اٹینڈ کی تو وہ سیدھا ہوا۔
"موسٰی سنو ابھی حویلی میں ہو ناں۔۔؟"
اس نے بنا سلام دعا کے تیزی سے پوچھا۔
"ہاں یار شہر کے لیے نکل رہا ہوں۔۔ مورے کو لے جانا ہے، شاپنگ کریں گے اور دریہ اور درخشان کو بھی آج ہی واپس لے آئیں گے۔۔" موسٰی عجلت میں بولا۔۔
"نہیں تم یہاں ہاسپٹل پہنچو موسٰی۔۔ ابھی اور اسی وقت۔۔ چچی بعد میں چلی جائیں گی ابھی تین دن باقی ہیں۔۔ اور چپ چاپ آنا، کسی کو پتا نا چلے۔۔"
خانزادہ نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی ورنہ موسٰی آنے سے پہلے سو سوال کرتا۔۔
اسے بہروز خان کے ڈیرے پر جانا تھا، اس نے جو بھی قتل اب تک کروائے تھے۔۔ جب جب پرویز خان سے یہ سب کروایا تھا سب ریکارڈ پولیس کو ثبوت سمیت ادب خان نے پہنچا دیا تھا۔۔ ادب خان کا بندہ جو بہروز خان کے ڈیرے پر تھا اس نے رسک لے کر بہروز خان کی اندر کی باتیں نکال دی تھیں، ادب خان نے اس بندے کو بھی فی الحال محفوظ جگہ پر غائب کروا دیا تھا۔
اس وقت راحم کے لیے بھی کسی ایک کا موجود ہونا ضروری تھا۔ وہ ٹہلتے ہوئے موسٰی کا انتظار کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ موسٰی بوکھلایا ہوا بھاگا بھاگا وہاں پہنچا، خانزادہ کے کپڑوں پر خون دیکھ کر اس کا رنگ اڑ گیا۔
"حدیر۔۔ کیا ہوا جگر۔۔ تو ٹھیک ہے ناں۔۔" وہ ارد گرد کی پرواہ کیے بنا بھاگ کر اس تک پہنچا، ہاتھ لگا کر پوچھتا پریشان ہو رہا تھا۔ وہ خجل ہو گیا۔۔
"موسٰی میں ٹھیک ہوں۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔ اندر آپریشن تھیٹر میں اس وقت راحم خٹک ہے۔۔ اسے گولی لگی ہے۔۔ یہاں رکو اور اس بات کی خبر کسی کو مت ہونے دینا۔۔ دعا کرو وہ بچ جائے ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی یار۔۔" خانزادہ بولتے بولتے ہی ہمت ہارتے ہوئے بولا۔ موسٰی نے پریشان نظروں سے اسے دیکھا اور اس کی جلدبازی کو دیکھ کر مزید سوال کیے بنا سر ہلا دیا۔۔
خانزادہ اپنی شال کپڑوں پر پھیلاتا باہر نکلا۔ ڈرائیور نے جلدی سے آگے بڑھ کر گاڑی کا ڈور کھولا۔
وہ حویلی جانے کا کہہ کر بیٹھا تو عیسٰی کا خیال آیا۔۔
بے چارگی سے سانس بھرتا عیسٰی کو کال ملا گیا۔
پروا کو سلاتے سلاتے ہی خانزادہ کی کال آ گئی، وہ کافی مایوس اور ناراض تھا مگر جلدی میں تھا تو بعد میں تفصیلی ملاقات کا کہہ کر کال کاٹ دی۔ عیسٰی نے سر جھٹکا، جانتا تھا بعد میں وہ تفصیل سے ڈانٹے گا اور دھمکائے گا مگر بات نہیں سنے گا۔۔
یونی جانے کے لیے اٹھا تو پروا کے نمبر پر پریہان کی کال آ گئی، کچھ سوچ کر اس نے اٹینڈ کر لی کہ یقیناً پریہان بھی ناراض ہی ہو گی۔۔ اچھا تھا آج ہی سن لے سب سے ایک ساتھ۔۔ اور وہ وہی بول رہی تھی۔۔
"پروا نے بتایا تو مجھے بہت ہرٹ فیل ہوا۔ میں جانتی ہوں آپ کو پروا سے الجھن ہوتی ہو گی، وہ اتنی کم عمر نہیں جتنی بچگانہ حرکتیں ہیں مگر اسے ماحول ہی ایسا دیا ہے ہم نے۔۔ اسے بچوں کی طرح ہی رکھا وہ سخت لہجہ اور غصہ برداشت نہیں کر پائے گی۔۔ آپ شاید یقین نا کریں مگر خیر جو بھی ناراضگی یا غصہ ہے پلیز مجھ سے کہہ سکتے ہیں آپ۔۔ پروا کو کچھ مت کہا کریں پلیز۔۔۔" وہ شاید خانزادہ کے سمجھانے پر غصہ کرنے کی بجائے التجائیہ انداز میں بول رہی تھی۔ عیسٰی نے آہ بھری۔
"میں نے مان لیا آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مجھے اچانک سے انجان لڑکی سے نکاح کا کہا گیا تو میں غصہ تھا اس بات پر۔۔ میں نے نرمی نہیں برتی مانتا ہوں۔۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ایک بار بھی آپ کی بہن پر ہاتھ نہیں اٹھایا میں نے۔۔ فرینڈز آئے ہوئے تھے میرے، منع کیا تھا اسے باہر نا نکلے پھر بھی وہ باہر آئی، حلیہ بھی بہتر نہیں تھا میں نے غصہ کیا مگر گلاس دیوار پر مارا تھا اس کو نہیں۔۔ بٹ آئی نو کہنے کا کچھ فائدہ نہیں مجھ پر یقین نہیں کرنا آپ نے۔۔"
عیسٰی سنجیدگی سے بولتے ہوئے کندھے اچکا گیا۔
"ن۔۔نہیں مجھے یقین ہے۔۔ آپ نے ایسا ہی کیا ہو گا۔۔" پریہان ہر حال میں اس کو ٹھنڈا رکھنا چاہتی تھی۔۔
"پروا عادی نہیں ہے اس سب کی۔۔ آپ سے ڈرنے لگی ہے بہت۔۔ میری ریکوئسٹ ہے آپ سے۔۔ وہ پسند نہیں تو کوئی زبردستی نہیں ہو گی۔۔ میں بڑی بہن کے پاس بھجوا دوں گی بٹ پلیز تب تک اسے برداشت کریں، سختی نہیں کیجیے گا، پلیز۔۔" پریہان کی درخواست پر وہ خاموش ہوا۔ سب کے لہجے اور باتیں تو اسے ظالم ثابت کرنے پر تُلے تھے۔ پریہان کی بات پر کچھ سکون ملا کہ چلو مان تو گئی۔۔
"او۔کے۔۔ ٹرسٹ کریں تو خیال رکھوں گا۔۔" اس نے کال کاٹتے ہوئے آخری بار بھی جتا ہی دیا تھا کہ اس پر یقین نہیں کیا جائے گا۔۔ تیار ہو کر نکلتے ہوئے پھر سے پروا کو چیک کیا اور میڈیسن دے کر سلا دیا۔
یونی میں اسائمنٹ سبمٹ کروا کر فری ہوا تو جلدی واپس آ گیا، بیگ باہر ہی صوفے پر پھینکتا کچن میں جا کر کافی تیار کرنے لگا، رات کو دیر سے سویا تھا، اسائمنٹ آج سبمٹ کروا دی تھی، کل تک سکون تھا۔۔ اب کھل کر ریسٹ کرنے کا ارادہ تھا۔
کافی کا مگ تیار کر کے پیتے ہوئے لاؤنج میں آ کر بیٹھا۔۔ تھکن سے برا حال ہو رہا تھا۔
کافی پی کر وہیں آنکھیں موند کر لیٹا تو پروا کا خیال آیا، چونک کر سیدھا ہوتا اٹھا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ صبح اسے جاتے ہوئے میڈیسن دی تھی جانے اب کیسی حالت تھی۔۔
ڈور ناک کر کے اندر داخل ہوا تو وہ ابھی تک بلینکٹ لپیٹے سو رہی تھی۔۔ اس نے آگے بڑھ کر بلینکٹ چہرے سے ہٹا کر ٹمپریچر چیک کیا تو وہ آگ کی طرح جل رہی تھی۔۔ عیسٰی بری طرح گھبرایا۔
"پروا۔۔ " اسے جگانے کی کوشش کی مگر وہ غنودگی میں ہی تھی۔۔ ایک تھکن اوپر سے اس کی حالت۔۔ وہ تو غصہ کر کے پچھتایا تھا۔۔
"یا اللّٰہ کس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے۔۔ سب خود سکون سے بیٹھے ہیں اور میں یہاں پھنسا خوامخواہ کی خدمت گزاری میں لگا ہوں۔۔ زندگی عذاب کر دی ہے اس لڑکی نے۔۔ کیا ضروت تھی پوری رات بیٹھ کر ماتم کرنے کی۔۔ فضول لڑکی۔۔ پاگل انسان۔۔"
لائٹ آن کی۔۔ اس پر سے بلینکٹ ہٹا کر اسے سنبھالتے ہوئے اٹھایا اور اپنی ہُڈی اتار کر اسے پہنا دی، بیڈ کے کنارے پر گری شال اٹھا کر اس پر ڈالی اور ساتھ ساتھ غصے سے بڑبڑاتا بھی جا رہا تھا۔۔ یہ تو شکر تھا گڑیا جیسی تھی، زیادہ وزن بھی نہیں تھا، سنبھالنا آسان ہو رہا تھا۔ اسے وہیں لیٹا کر اپنے روم میں گیا، جیکٹ اٹھا کر پہنی۔۔ کیسی نیند اور کہاں کا آرام۔۔ نا منہ دھونے کا موقع ملا نا بال بنا سکا۔۔ پروا کو اٹھا کر اپارٹمنٹ سے نکلا اور لفٹ سے نیچے پہنچنے تک سب سے نظریں چراتا رہ گیا، نیچے پہنچ کر گاڑی میں ڈالا اور قریب کسی کلینک میں لے گیا۔۔
فوری ٹریٹمنٹ سے وہ کچھ دیر تک کافی حد تک بہتر ہوئی تھی۔۔ عیسٰی بےچاری صورت بنائے بیٹھا تھا۔
"سردی کا اچانک جھٹکا لگنے سے یہ حالت ہوئی ہے۔۔ اس چیز کا خیال رکھنا چاہئیے، بستر سے نکلیں تو تھوڑی دیر لحاف ہٹا کر بیٹھے رہنا چاہیے، اچانک سے نکل کر باہر جانا یا ٹھنڈے فرش پر پیر رکھنے سے اکثر ایسے جھٹکا لگ جاتا ہے۔۔ پریشان مت ہوں بہتر ہو جائیں گی۔۔" ڈاکٹر نے میڈیسن لکھتے ہوئے عیسٰی کی بوکھلائی ہوئی صورت دیکھی تو نرمی سے سمجھایا۔
وہ نظریں چرا گیا، وہ کیا خیال رکھتا، اس نے ہی تو رات غصے میں اچانک بستر سے نکال کھڑا کیا تھا۔۔
اسے واپس لے جاتے ہوئے گاڑی میں بٹھا کر ایک نظر اس پر ڈالی، سرخ گال اور سرخ ہوتی ناک۔۔ آنکھیں بھی سہی سے نہیں کھول پا رہی تھی وہ۔۔ شال ویسے ہی لاپروائی سے کندھے پر رکھی ہوئی تھی، ہُڈ میں چہرہ چھپا ہوا تھا۔ عیسٰی گہرا سانس بھر کر اس کی طرف جھکا اور شال پھیلا کر اسے پورا ڈھانپ دیا، چہرہ بھی چھپا دیا، پروا کا دم گھٹنے لگا۔
"خبردار شال مت ہٹانا۔۔ تمہیں تو شاید بہت سکون مل رہا ہو گا نا ایسے میرا جینا حرام کر کے بھگاتے ہوئے مگر میرا تمہیں مزید سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔"
اسے گھور کر منع کیا تو وہ اسی شال میں دبک کر بیٹھ گئی۔۔ زندگی میں شاید وہ پہلا انسان تھا جس سے پروا کو اتنا ڈر لگنے لگا تھا۔۔
فارمیسی کے آگے گاڑی روک کر وہ میڈیسن لینے کے لیے نکلا تو پروا نے بری طرح جلتے چہرے سے تھوڑی شال ہٹا کر گہرا سانس بھرا، شیشے پر چہرہ ٹکا کر باہر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگی۔۔ پہلے اس کی زندگی بھی باقی لوگوں کی طرح آزاد تھی اب تو نا کالج جانے کی اجازت مل رہی تھی، نا باہر نکل سکتی تھی۔۔
اپنی گاڑی سے نکلتی آئرہ نے عیسٰی کی گاڑی دیکھی تو اس کے قریب آئی، اندر بیٹھی وہ لڑکی تو اسے بہت اچھے سے یاد تھی جو اس کے مطابق عیسٰی کی کزن تھی۔۔
شیشہ بجا کر مسکراتے ہوئے اسے شیشہ نیچے کرنے کا کہا، پُروا اسے پہچان نہیں پائی مگر شیشہ نہیں کھلا تو ڈور کھول کر سوالیہ نظر سے دیکھنے لگی۔۔
"ہائے۔۔ میں آئرہ۔۔ ہم اس دن عیسٰی کے ہاں ملے تھے ناں۔۔؟ یاد نہیں کیا۔۔" آئر نے خوشدلی سے سوال کیا۔
پُروا نے نفی میں سر ہلایا۔۔ آئرہ کی نظر اس ہُڈی پر جا رہی تھیں، وہ عیسٰی نے آج یونی میں پہنی ہوئی تھی اور اب اس کی کزن پہنے ہوئی تھی، اتنی کلوزنیس تھی ان میں۔۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوئی تھی۔۔
"میں فرینڈ ہوں عیسٰی کی اور تم عیسٰی کی کزن ہو ناں۔۔؟" وہ ہُڈ سے نظر ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر بولی۔۔
"میں ان کی کزن نہیں ہوں۔۔" پروا نے پہلی بار زبان کھولی۔ نہایت مدھم نرم آواز۔۔ آئرہ چونکی۔
"تو۔۔ آئی مین اس کے اپارٹمنٹ میں کیوں تھیں۔۔ کیا رشتہ ہے اس سے۔۔" آئرہ نے حیرت سے پوچھا۔
"میرا اور ان کا نکاح ہوا ہے۔۔ اس لیے میں ان کے پاس رہتی ہوں کیونکہ اب مجھے ان کے ہی ساتھ رہنا ہے۔۔"
پروا نے آنی کی سمجھائی بات آئرہ کو بھی سمجھا دی۔ آئرہ طوفانوں کی زد میں آ گئی تھی، پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے بیٹھی اس ٹین ایج لڑکی کو دیکھنے لگی، جو کافی سے زیادہ پیاری تھی۔۔
اس سے مزید کچھ بولا نہیں گیا، لب بھینچے جھٹکے سے پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔۔ پروا نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا اور جلدی سے ڈور بند کیا۔۔
وہ جان ہی نہیں پائی آئرہ سے یہ بات کر کے وہ کتنی بڑی غلطی کر چکی ہے، روڈ پر گاڑی کا ڈور کھول کر، منہ باہر نکالنا اس کی دوسری سنگین غلطی تھی۔۔
کچھ فاصلے پر کھڑی سیاہ گاڑی میں بیٹھا شخص، وقار صاحب کا دوست اور بزنس پارٹنر اپنے سامنے پروا کو دیکھ کر ٹھٹکا تھا، وقار صاحب نے تو اس سے کہہ رکھا تھا وہ کچھ عرصہ کے لیے فارن گئی ہے۔۔
ان کا طیش سے چہرہ سرخ ہوا، اس سے پہلے کہ گاڑی سے نکل کر وہ پروا تک پہنچتا، فارمیسی سے نکل کر ایک لڑکا اس گاڑی تک پہنچا، ڈور کھول کر بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی بھگا گیا۔۔
وہ بندہ دانت کچکچا کر وقار صاحب کو کال ملا گیا۔۔
___________
"سوری کافی رش تھا آج تو۔۔" عیسٰی گاڑی میں بیٹھ کر بولا، پروا اس کے آنے پر شال میں منہ چھپا چکی تھی، وہ گاڑی سٹارٹ کر کے پوری رفتار سے آگے بڑھا گیا۔۔ جلد سے جلد گھر پہنچ کر سونے کی جلدی تھی۔
"جا کر گرم پانی سے زرا ہاتھ منہ دھو لو۔۔ باسی شکل لے کر گھومتی رہتی ہو۔۔" گھر پہنچتے ہی پروا کو اس کے کمرے میں بھیجا اور ناک چڑھا کر کہتے ہوئے اسے شرمندہ کرنا چاہا، وہ شرمندہ نہیں ہوئی مگر اب اس کی بات سے انکار کر کے ڈر لگتا تھا۔
اس نے کچن میں جا کر اس کے لیے دودھ گرم کر کے بڑا مگ بھرا اور سینڈوچ بھی تیار کر لیے، ٹرے میں رکھ کر کمرے میں پہنچا تو وہ گرم پانی سے چہرہ دھو کر ڈریس بھی چینج کیے بیٹھی تھی، سکن کلر وول کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنی ہوئی تھی اوپر اسکی ہُڈی بھی دوبارہ پہن لی تھی۔
عیسٰی ایک نظر اس پر ڈال کر صوفے پر جا بیٹھا، ٹرے ٹیبل پر رکھا، اسے بھی اپنے پاس بلا کر دودھ کا مگ اس کے سامنے رکھا۔۔
"تمہارے پاس کوئی شریفانہ ڈریسنگ نہیں، ہر وقت جینز، بچوں والے فراک اور ٹراؤزر شرٹ پہنے رکھتی ہو۔۔" اس کو سینڈوچ پکڑاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا، وہ ڈھٹائی سے نفی میں سر ہلا گئی۔ پیٹ پوجا کر کے ایک ہی سانس میں دودھ پی کر مگ ٹرے میں رکھ دیا۔۔ عیسٰی کو حیرت ہوتی تھی وہ اتنا دودھ کیسے پی لیتی ہے۔۔ وہ فارغ ہوتے ہی وہاں سے اٹھتی بیڈ پر جا کر لیٹی، اس کی ہُڈی سے سر کور کیا اور بلینکٹ اوڑھ لیا۔ ہُڈی نا وہ واپس کر رہی تھی نا عیسٰی نے مانگنا مناسب سمجھا، سر جھٹک کر ٹرے اٹھایا اور باہر نکل گیا۔ دروازہ اچھے سے بند کرتا وہ بھی اپنے روم میں جا کر سکون سے سو گیا تھا۔۔
ابھی کہیں جا کر پروا پر غصہ قدرے کم ہوا تھا، اس کے بخار نے عیسٰی کو نرم کر دیا تھا۔۔ اب جانے یہ نرمی اور دوستانہ رویہ کب تک رہنے والا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان باہر سب کے ساتھ بیٹھی تھی، خانزادہ صبح سے غائب تھا، ایک دو دن تک حویلی میں لڑکیوں کے نکاح منگنیاں تھیں، پلوشے وغیرہ کو خان یوسف کی ہدایت پر گارڈز اور ڈرائیور کے ساتھ شہر سے بلوا لیا گیا تھا، خانی بیگم نے حویلی میں ہی بیٹھے بیٹھے بھاری زیورات اور کپڑے منگوا لیے۔۔
پریہان خاموشی سے ہر چیز دیکھ رہی تھی، موبائل پر کال انے پر چونکی، مرحا کا نمبر دیکھ کر وہ خانی بیگم سے معذرت کرتی اٹھ کر کمرے میں گئی۔۔
کال اٹینڈ کرتے ہی مسکرا کر سلام دعا کی مگر مرحا نے سلام کا جواب تک نہیں دیا تھا، وہ رو رہی تھی۔۔
"تمہارا سسرال بہت سنگدل اور ظالم ہے پریہان۔۔ تم کہتی تھیں تمہارے حدیر سب سے الگ ہیں۔۔ تم غلط تھیں، خواب سے جاگ جاؤ۔۔ خانزادہ حدیر نے بغیر کسی قصور کے میرے لالا کا قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ اور ظلم کی حد دیکھو اتنی بری حالت کر کے ہاسپٹل میں چھپا رکھا تھا۔۔ ظالم ہیں سب لوگ۔۔
اگر میرے لالا کو کچھ ہوا تو کبھی معاف نہیں کروں گی تمہارے ہزبینڈ کو۔۔ بتا دینا اسے اللّٰہ کو جواب دے گا۔۔" مرحا اسے بولنے کا موقع دئیے بنا بولتی چلی گئی، پریہان کے اعصاب کو جھٹکا لگا تھا۔
"مرحا ریلیکس۔۔ کیا ہوا؟ حدیر ایسے نہیں ہیں، یقین کرو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔" پریہان نے حدیر کی طرفداری کی۔۔ اس کا دل ماننے کو تیار نہیں تھا۔
"کوئی غلط فہمی نہیں۔۔ وہ لوگ کتنے اچھے ہیں تم اچھے سے جانتی ہو۔۔ گل جان کی حالت تم نے دیکھی ہے ناں پریہان؟ وہ پھپھو ہیں میری۔۔ جنہیں دیکھا تک نہیں میں نے۔۔ لالا کے ایک ملازم نے خانوں کے ڈیرے کی پچھلی جانب خود خانزادہ کو ان کے پاس دیکھا ہے اور ہاسپٹل کا عملہ تک گواہ ہے پریہان۔۔ میرے لالا کو ہاسپٹل لا کر کسی کے سامنے نا لانے کا کہنے والا خانزادہ حدیر ہی تھا۔۔
پریہان وہ لوگ برے ہیں۔۔ بہت برے۔۔ دعا کرو لالا بچ جائیں۔۔ ورنہ ہماری بددعاؤں سے تمہارے حدیر کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔۔" مرحا نے روتے ہوئے کہا تھا۔
وہ کال کاٹ گئی، پریہان ساکت بیٹھی رہ گئی۔۔
ہر دن نئی بات۔۔ نیا انکشاف۔۔ خانزادہ کے کتنے روپ تھے آخر۔۔ حویلی میں اس سے زیاد اچھا کوئی نہیں تھا اور باہر والوں کے لیے وہ قاتل تھا۔۔؟
اسکا دل ماننے کو تیار نہیں تھا، اسے یقین تھا ایسا نہیں ہو گا مگر اسے پھر بھی حدیر کی زبان سے سن کر ہی چین آنے والا تھا۔۔
____________
خانزادہ بہروز خان کی اس کے بندوں سمیت گرفتاری کروانے کے بعد ادب خان سے ہاشم خان کی زلالت کی ساری تفصیل لیتا اطمینان سے حویلی پہنچا تھا۔۔
موسٰی کی مسلسل کالز آ رہی تھیں، اس نے گاڑی سے نکلتے ہوئے کال اٹینڈ کی۔۔
"کیا کنڈیشن ہے موسٰی۔۔ سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟" اس نے چھوٹتے ہی استفسار کیا مگر موسٰی گھبرایا ہوا تھا۔
"یار گڑبڑ ہو گئی ہے۔۔ یہاں جو ڈاکٹر زرقا ہے وہ تو خٹک فیملی کی ہیں، حاکم خٹک کی نواسی ہے۔۔ اس نے تو راحم خان کو دیکھتے ہی شور مچا دیا۔۔ بہت ہنگامہ کیا ہے، یہاں کے عملہ نے تمہارا حوالہ دیا ہے کہ تم نے اجازت نہیں دی اس کے بارے میں کسی کو بتانے کی۔۔ یہاں خٹک حویلی والے سب آ چکے ہیں۔۔
سنا ہے تمہارے خلاف کوئی گواہی بھی ملی ہے، اس کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام تم پر آ رہا ہے یار۔۔
یہ سب کیا ہے، میں مان ہی نہیں سکتا تم نے اس پر فائر کیا ہے۔۔ حقیقت کیا ہے وہ بتاؤ۔۔"
موسٰی بلا تکان بول رہا تھا، خانزادہ نے سرد آہ بھری۔
"موسٰی باقی باتیں تفصیل سے بتاؤں گا۔۔ پلیز پہلے بتاؤ وہ ہے کیسا اب۔۔؟" اس نے ماتھا مسلتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔۔
"ہی از انڈر ڈینجر۔۔ چوبیس گھنٹے بہت مشکل بتائے ہیں، وہ ہوش میں آ گیا تو ٹھیک ورنہ کوما میں چلا جائے گا۔۔ کافی بلیڈنگ ہوئی ہے اس کی۔۔ سنا ہے بہت مشکل سے دھڑکنیں بحال کی گئی ہیں۔۔" موسٰی تاسف سے بول رہا تھا۔ وہ بھی پریشان ہو گیا۔
"اچھا تم کہاں ہو۔۔ وہیں ہو تو بس آ جاؤ۔۔ باقی اب دعا کر سکتے ہیں۔۔" اس نے کمرے میں داخل ہو کر ہدایت دی اور کال کاٹ کر تھکن زدہ سا صوفے پر بیٹھا۔
"حدیر۔۔" صدمہ کی کیفیت میں گھری پریہان اسے دیکھتے ہی تیر کی سی تیزی سے اس تک پہنچی۔۔
"ہمم۔۔ کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔؟" وہ اس کا چہرہ بغور دیکھتا پوچھنے لگا۔
"مرحا کی کال۔۔ آئی تھی۔۔ وہ بتا رہی تھی کہ۔۔ آپ۔۔ نے قتل کیا۔۔ مطلب کوشش۔۔۔" پریہان گھبراہٹ کے مارے بول نہیں پا رہی تھی، خانزادہ نے اس کے کپکپاتے ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس کھینچتے سینے سے لگا لیا۔۔
"ریلیکس رہو پریہان۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ تم سے جس نے جو بھی کہا ہے ناں۔۔ ان سے کہہ دینا اگر مجھے مارنا ہوتا تو میں اسے ہاسپٹل لے جا کر فوری ٹریٹمنٹ نا دلواتا۔۔ وہ زخمی تھا میں لے گیا۔۔ "
اس نے نرمی سے پریہان کی پشت تھپتھپا کر بتایا تو اس کا سانس بحال ہوا۔۔ دماغ کی بند ہو چکی کھڑکیاں کھلی تھیں۔ مرحا کو غلط فہمی ہوئی تھی۔۔ پریہان نے سکون سے آنکھیں بند کر کے اس کے گرد بازو لپیٹ لیے۔۔ مرحا نے آج بری طرح ڈرایا تھا۔
"تمہیں کسی نے کچھ کہا پریہان۔۔؟"۔ اس کا چہرہ اپنے سامنے کر کے اس نے ابرو چڑھا کر پوچھا۔
"جی ہاں۔۔ میری فرینڈ مرحا۔۔ وہ مورے گل کی بھتیجی ہے اور جو زخمی ہے اس کی چھوٹی بہن ہے۔۔ وہ بہت رو رہی تھی حدیر۔۔ اسے بھی یہی لگتا ہے کہ آپ نے ایسا کیا ہے۔۔ اس کے لالا بچ جائیں گے ناں؟"
وہ ڈری ہوئی تھی، فکرمند بھی تھی۔۔ خانزادہ نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے جھوٹی تسلی دی۔۔ اسے پریشان رکھ کر ویسے بھی کچھ نہیں ملنے والا تھا۔۔
"تم بس اپنا خیال رکھو۔۔ ایسی باتیں مت سوچو۔۔ بلکہ بہتر ہے مجھے سوچا کرو، مجھے پہچانو تاکہ اگلی بار کوئی ایسی بات کرے تو مجھ سے پوچھے بنا مجھے ڈیفینڈ کر سکو۔۔ یقین کرو بالکل برا انسان نہیں ہوں۔۔"
وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کے گرد ہاتھ رکھے اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا جوڑ کر بولا۔
پریہان نے آنکھیں میچ کر اس کی جھلستی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا تھا۔۔ دل اس کے گرمجوش لمس اور اپنائیت بھری قربت پر دھک دھک کر کے بوکھلا کر رکھ دیتا تھا۔۔ اس کی بات پر دل سے ایمان لے آئی تھی۔۔ کیا بتاتی اس نے تقریباً دو ماہ صرف اسے ہی سوچا تھا مگر پہچان نہیں پائی تھی۔۔
وہ اسے سینے میں سمیٹ کر اسے محسوس کرتا اپنے تھکن زدہ اعصاب کو پرسکون کرنے لگا۔
"او۔کے مجھے تھوڑا کام ہے۔۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔" اس کے ناک کو چھو کر وہ پیچھے ہوا۔ پریہان تپتا سرخ چہرہ لیے بیٹھی سر ہلا گئی۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھتا وہاں سے نکلا تو چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی چھا گئی۔۔ راحم خٹک کی حالت گھبراہٹ میں مبتلا کر گئی تھی۔ __________
مردان خانے میں خان یوسف کے ساتھ خان آزر اور خان زوار بیٹھے پریشانی میں گھرے ہوئے تھے، داور اور یاور کے علاوہ خانزادہ اور موسٰی بھی ایک طرف بیٹھے اسی مسئلہ کو سوچ رہے تھے۔۔
ابھی نیوز دیکھنے یا بہروز خان کی گرفتاری کی خبر سے خان یوسف لاعلم تھے، ابھی تو یاور کی جذباتی حرکت نے سب بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔
"یہ سب جانتا ہے یہاں کی روایت کیا ہے۔ یہاں اس لڑکے نے آنکھ بند کی یہاں حاکم خٹک جرگہ بٹھا لے گا۔۔ اور مطالبہ صرف خوں بہا میں ونی ہو گا۔۔ "
خان یوسف نے تپ کر خان یاور کو دیکھا۔ وہ جذباتی پن کے مظاہرے کے بعد اب سر ڈالے خاموش بیٹھا تھا۔۔ حالات کی سنگینی کا اب ادراک ہو رہا تھا۔
"اچھی امید رکھیں آغا جان۔۔ وہ بچ جائے گا۔۔"
خانزادہ نے ںےچارگی سے کہا، دل میں خوف بھرا تھا۔
"بچ جائے۔۔ دعا کرو بچ جائے۔ مر گیا ناں تو جرگہ بیٹھے گا۔۔ یہی ہو گا۔۔ وہ بدلہ بھی لے گا۔۔ اس کی بیٹی لی تھی ونی میں ہم نے۔۔ وہ بھی ونی لے گا۔۔"
خان یوسف حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ان کے اوسان خطا کر رہے تھے۔۔ حویلی میں دو دن بعد فنگشن تھا اور یہاں خوشی کی بجائے سب مردوں کے چہروں پر بارہ بجے ہوئے تھے۔ ابھی تو یہ بات علاقے میں نہیں پھیلی تھی نا حویلی میں۔۔۔
"بہت غلط کیا یاور۔۔ آغا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ جو حالت یہاں گل جان بھابھی کی ہوتی رہی ہے کیا سوچ سکتے ہو اپنی بیٹیوں کے لیے ایسا۔۔ یہاں کسی نے رحم نہیں کیا تو وہ کیوں لحاظ کریں گے۔۔ یہ سب تو ہوگا۔"
خان زوار سنجیدگی سے بولے۔۔ خان آزر پہلو بدل کر رہ گئے۔۔
"ہاں تو اب ان کی ہی بہن جائے گی ناں خون بہا میں۔۔ سارے جوش کو سکون مل جائے گا۔۔ باقی لڑکیوں کے رشتے بھی ہو گئے، اُن تینوں کے نکاح کروا دیں گے۔۔ بچتا کون ہے؟ وہی زرشے خان بچی ناں۔۔"
خان یوسف نے بھی یاور کو شرم دلاتی نظروں سے دیکھ کر سفاکی سے جتایا۔ یاور اور داور سے کہیں زیادہ تو خانزادہ زرشے کا سن کر تڑپ اٹھا تھا۔
"آغا جان۔۔" وہ چیخ اٹھا۔ زرشے اسے بہت عزیز تھی۔ یہ بات سوچ کر ہی دم گھٹنے لگا تھا اس کا۔۔
"آغا جان پلیز۔۔ اللّٰہ بہتر کرے گا اور یہاں سب لڑکیاں برابر ہیں آپ ایسے فیصلہ مت دیں.." موسٰی نے بھی انہیں نرمی سے ٹوکا۔ وہ سر جھٹک گئے۔۔
"عمر گزاری ہے میں نے ان فیصلوں اور جرگوں میں۔۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتا ہوں۔۔ خان یاور نے جیسے جذباتی پن کا مظاہرہ کیا ہے۔۔ اب سمجھداری اسی میں ہے حقیقت کو قبول بھی کیا جائے اور پہلے سے فیصلہ جان کر دماغ بنا لیا جائے۔۔ ہاں سب لڑکیاں برابر ہیں، میرے لیے بھی برابر ہیں۔۔ مگر ونی مانگی تو دینی ہی پڑے گی۔۔ ہم تو لے کر بھی بیٹھے ہیں۔۔
تو بتاؤ موسٰی خان تم یاور کی غلطی کی سزا میں اپنی کسی بہن کو ونی کرو گے؟ یا پھر خانی اپنی بیٹی دینے دے گی؟ اسی نے کیا ہے نا گناہ تو یہی بھگتے گا۔۔ یا بہن دے گا یا اپنا خون۔۔ پھر بتاؤ کوئی حل ہے کیا۔۔؟" خان یوسف کی بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ سچ کہہ رہے تھے وہ بھی پریشان تھے مگر بڑے تھے اس لیے آئینہ بھی دکھا دیا۔ یاور زمین میں گڑھ گیا جو حال اس کی ماں کا یہاں ہوتا آیا تھا، پھر بھی اس نے بنا سوچے سمجھے یہ حرکت کی۔۔ خان داور نے تلملاتی نظروں سے اسے دیکھا اور جھٹکے سے اٹھتا وہاں سے چلا گیا۔ خانزادہ کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔ آغا جان نے بتا دیا تھا کیا ہونے والا ہے۔۔ وہ بھی اسی حساب سے حل سوچنے والا تھا۔۔
"ہاں ہے میرے پاس حل۔۔ لڑکیوں کا کل ہی نکاح ہو گا۔۔ زرشے کا بھی۔۔" خانزادہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔
"کیا مطلب؟ کس سے ہو گا نکاح۔۔؟" خان آزر چونکے۔
"موسٰی سے۔۔" اس کے الفاظ پر موسٰی نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ خان یوسف متفق ہوئے۔۔
"موسٰی سے میں بعد میں پوچھوں گا ہاں اگر چچا جان کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔۔"
خانزادہ نے حیرت سے خود کو تکتے موسٰی سے نظر چرا کر خان زوار کو دیکھا تھا۔
"کیوں اعتراض ہو گا۔۔ اس کا بیٹا تو پھر ایک بیوی بھگتا چکا ہے۔۔ زرشہ کنواری لڑکی ہے اس کے بیٹے سے تو لاکھ درجے اچھی ہے۔۔" خان زوار کے جواب دینے سے بھی پہلے خان یوسف نے جتا دیا۔ موسٰی کا اس عزت افزائی پر منہ اترا۔ آغا جان اپنی اولادوں میں ہمیشہ ایک کی طرفداری کرتے ہوئے دوسرے کی عزت دو کوڑی کی ہی کر دیتے تھے۔۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ اگر موسٰی اس کے قابل نا لگے تو عیسٰی کو بھی بلوا سکتا ہوں۔۔" خان زوار نے سکون سے جواب دیا۔ خانزادہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"وہ میری بہن ہے، مجھے پتا ہے کون بہتر ہے۔۔ موسٰی سے ہی نکاح ہو گا۔۔ کل نکاح ہوں گے سب کے۔۔"
خانزادہ نے فیصلہ سنایا۔۔ ایسے موقعوں پر اس کا دماغ خوب چلتا تھا، اپنوں کو کسی مشکل میں پڑتا دیکھ کر ہی جان ہوا ہونے لگتی تھی۔۔ خان یوسف کا اس کی حاضر دماغی پر فخر سے سینہ چوڑا ہوا۔۔
یاور نے تشکر بھری نظروں سے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔ جس نے اس کا کارنامہ بھی سنبھال لیا تھا اپنی بہن بھی۔۔ البتہ موسٰی کچھ ںےچین تھا۔۔
"نکاح بھی تڑوائے جا سکتے ہیں۔۔ جرگہ فیصلہ کر دے تو نکاح بھی حیثیت نہیں رکھتا۔۔ پرسوں لڑکیوں کی رخصتیاں کر دیں۔۔ باقی اللّٰہ اسے بچا دے بھی نقصان نہیں ہو گا رخصتی کرنے سے۔۔" خان آزر نے مشورہ دیا۔
خود پر آئی تھی تو حفاظتی تدبیر پہلے کی جا رہی تھی، دوسروں کی بیٹیوں کو ونی میں لینے والے تب نہیں سوچ لیتے کہ ایسی جاہلانہ رسم کا حصہ ہی نا بنیں۔۔ وہ جو حرکت خود کر چکے تھے اب وہی اپنی بیٹیوں کے لیے سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔
گل جان نے جھیل لیا تھا مگر ان کی بیٹی کو بچانے کے لیے یہاں ابھی ایک فرد موجود تھا، وہ بچ گئی۔۔
" تم شادی شدہ تھے عیسٰی خان۔۔ تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی۔۔۔ تم نے کہا وہ کزن ہے تمہاری۔۔" آئرہ یونی میں سامنے ہوتے ہی اس تک پہنچتی صدمے سے چیخ کر بولتی عیسٰی کو ٹھٹھکا گئی۔
"تم سے کس نے کہا ایسا۔۔ کس نے بتایا؟" وہ حیران ہوا۔ یہ بات تو اس نے حسن اور احمر تک کو نہیں بتائی تھی کیونکہ اسے یہ رشتہ رکھنا ہی نہیں تھی۔۔
"تمہاری بیوی نے عیسٰی خان۔۔ اس نے بتایا وہ تمہارے نکاح میں ہے۔۔ اس نے بتایا تم کزن نہیں اس کے۔۔
تم بھی وہی عام مرد نکلے ناں ایک بیوی گھر پر ہے، باہر بھی ایک کے ساتھ مزے کر لیے۔۔" آئرہ ڈپریشن میں حلیہ خراب کیے بری طرح چیخ رہی تھی۔۔ ارد گرد سب سٹوڈنٹس رک کر تماشہ دیکھنے لگے۔۔
عیسٰی خان میریڈ ہے۔۔ یہ میریڈ تھا۔۔ بتایا ہی نہیں۔۔۔
سب حیرت سے بول رہے تھے، عیسٰی نے لب بھینچ کر سرد نظروں سے آئرہ کو دیکھا۔ وہ رو رہی تھی۔۔
"کتنے مزے کیے ہیں تمہارے ساتھ۔۔؟ میں پیچھے آیا تھا تمہارے۔۔؟ پوچھو یہاں اور کس لڑکی کے پیچھے گیا ہوں۔۔؟ تم خود آئی تھیں آئرہ شاہ۔۔" وہ پتھریلے لہجے میں بولتا بالکل اجنبی اور سرد مزاج انسان لگا تھا۔۔ ارد گرد ہوتی چہ میگوئیاں تھم سی گئی تھیں۔۔
"میں ہی پیچھے آئی تھی، ہاں میں نے اظہار کیا تھا، تم انکار کر دیتے۔۔ کہہ دیتے شادی کر چکے ہو۔۔ تب جب میں تمہارے اپارٹمنٹ میں تھی، وہ سامنے آئی تھی تب کہہ دیتے تمہاری بیوی ہے۔۔ تم چھپا گئے کیونکہ تمہارے دل میں چور تھا۔۔ بولو کیوں کہا تھا کزن ہے۔۔"
آئرہ نے روتے ہوئے اس کی غلطی جتائی تھی، اسے صدمہ پہنچا تھا، وہ اس کے ساتھ رہا مگر اس کا نہیں تھا۔۔ وہ شادی شدہ تھا۔۔ کسی اور کا ہو چکا تھا اور وہ اس کے خواب دیکھتی رہ گئی تھی۔۔ صدمہ ہی صدمہ تھا۔۔ غصہ تھا کہ ابل ابل جا رہا تھا۔۔
عیسٰی جبڑے بھینچے کھڑا رہا، جواب نہیں تھا کوئی۔۔ پُروا نے برا کیا تھا اس کے ساتھ۔۔ آئرہ بھی برا کر رہی تھی، وہ بھرے مجمعے میں سوالیہ نشان بن گیا تھا۔۔ ہاں وہ دکھی ہے، سوال کرتی، اکیلے میں کر لیتی۔۔
"تم چھپا گئے، چھپاتے ہی رہتے۔۔ وہ تمہارے ساتھ ہے، گھر میں ہے، گاڑی میں لیے پھرتے ہو۔۔ مجھ سے تو کہہ دیتے کہ میری جگہ نہیں کہیں۔۔ کہہ دیتے آئرہ شاہ ہمارے راستے الگ ہیں۔۔ ہاں میری جگہ کہاں بنتی تھی، اتنی کم عمر، اتنی حسین بیوی کے سامنے کسی بھی آئرہ شاہ کی کیا اوقات۔۔" وہ ہچکیاں بھرتی روتی جا رہی تھی۔۔ پُروا کے زکر پر عیسٰی کی رگیں تن گئیں۔۔
"میری بیوی کی بات دوبارہ یوں لوگوں میں مت کرنا آئرہ شاہ۔۔ تم جو بھی سمجھو، میں تمہیں جوابدہ نہیں۔۔" وہ آئرہ کے قریب ہوتا سرد لہجے میں تنبیہہ کر گیا۔ وہ ساکت سی اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔ پروا کی طرفداری اس کا دماغ گھما گئی، طیش سے بھر گئی۔۔
"تو میرا کیا۔۔ صرف تمہاری بیوی کی عزت ہے کیا؟ میرا مذاق بنایا اس کا کیا جواب دو گے؟ بہت عزت دار بنتے ہو ناں تم۔۔ تم بھی انہی مردوں سے ہو جنہیں بس اپنے گھر کی عورتیں عزت دار لگتی ہیں، باقی سب ان کے لیے ایک کھلونا یا مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔
تم گھٹیا ہو عیسٰی خان، تم نے میری محبت کا فائدہ اٹھایا ہے، میرا مذاق بنایا ہے، کھیلے ہو میرے ساتھ۔۔۔"
وہ پوری شدت سے چیخی۔ اسے آج اپنی عزت کی پرواہ ہوئی، آج عزت نفس کا خیال بھی آ ہی گیا تھا۔۔
شور اور رش پر لیب سے نکلتے حسن اور احمر بھاگتے بھاگتے پہنچے تو ہوش اڑ گئے۔۔ عیسٰی سرخ چہرہ لیے جبڑے بھینچے کھڑا تھا اور آئرہ چیخ رہی تھی۔۔
ارد گرد کھڑے لوگوں نے ان کی داستان مختصر بیان کرتے حسن اور احمر کا منہ کھول دیا تھا۔۔
عیسٰی جھٹکے سے پلٹتا وہاں سے چلا گیا۔۔ آئرہ چیخ رہی تھی۔۔ احمر بھاگ کر عیسٰی کے پیچھے گیا۔
"گھٹیا مرد ہوتے ہو تم سب۔۔ سب کے لیے لڑکیاں بس کھیل ہوتی ہیں۔۔ تم سب ایک جیسے ہو۔۔ تم بھی باقی سب جیسے نکلے عیسٰی خان۔۔" آئرہ نے چیخ کر اپنی بھڑاس نکالی تو وہاں سے جاتا حسن رک کر غصے سے اس تک پہنچا۔۔
"مرد کیا گھر میں جا کر تم عورتوں کو پکڑ کر لاتا ہے۔۔ مرد مرد چیخ رہی ہو اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔۔ یونی میں یہاں باحجاب لڑکیاں بھی آتی ہیں میڈم۔۔ بہت سی لڑکیاں عزت سے آتی ہیں، ڈگری کمپلیٹ کرتی ہیں اور اسی عزت سے لوٹ جاتی ہیں۔۔ انہیں کوئی مرد کیوں نہیں کھلونا سمجھتا۔۔ تم خود اپنے ساتھ کھیلی ہو آئرہ شاہ۔۔ اس کے پیچھے تم گئیں، اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی تم نے بڑھایا، دوستی سے محبت کا سفر بھی تمہارا اپنا تھا۔۔ تم اسے ساتھ ساتھ گھسیٹتی رہیں۔۔ تم نے ہر بار زبردستی کی، چاہے دوستی تھی، چاہے محبت تھی۔۔ تب عزت نفس کہاں گھاس کھا رہی تھی؟ اس نے تو کبھی تمہارا ہاتھ تک نہیں پکڑا پھر کس عزت کا رونا رو رہی ہو۔۔ اور اس نے جو بھی کیا اچھا کیا۔ تم جیسی لڑکیاں یہی ڈیزرو کرتی ہیں، پیچھے بھی لگ گئیں اور آج بھرے مجمع میں عدالت سجا کر اس پر الزام تراشی کر رہی ہو اپنے گریبان میں جھانکو اور آئندہ عیسٰی کے قریب بھی مت پھٹکنا۔۔"
حسن تنفر سے بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔۔ احمر لحاظ رکھ لیتا تھا مگر وہ حسن تھا۔ منہ پھٹ تھا۔۔ لڑکا تھا چپ کیوں رہتا۔۔ دوست پر بات آئی تو پوری بات جاننے سے بھی پہلے اس کا دفاع کیا۔ اندھا نہیں تھا، جو دیکھا، بیان کیا، آئرہ کو آئینہ دکھایا اور وہاں سے چلا گیا۔۔ آئرہ اپنی جگہ جم کر رہ گئی۔۔
مجمع چھٹنے لگا تھا، وہ کہہ رہی تھی عیسٰی نے اس کا مذاق بنایا ہے اور خود سب لوگوں میں اپنا تماشہ بنا گئی تھی۔۔ کچھ ہی وقت ہوا تھا، یونی میں وہ کپل مشہور ہوا تھا، اتنی جلدی نظر لگ گئی۔۔ پہلے سب نے عیسٰی خان کو غلط کہا اب آئرہ کو کہہ رہے تھے اور کچھ دن تک سب بھول جاتے۔۔
دنیا ایسی ہی ہے، ہم اپنا تماشہ خود نا بنائیں تو شاید کوئی جان تک نا پائے، ہمارے اندر کیا جنگ چھڑی، کون ہارا کون جیتا۔۔ یہاں تو انسان اندر سے مر جائے کوئی نا جان پائے۔۔ یہ تو پھر ایک محبت تھی اور محبت بھی خودساختہ۔۔ وقتی کشش سے بھری۔۔
اس محبت کو وہ خود تک رکھتی تو کچھ ہی عرصہ تک وہ پسندیدگی کی دھول میں پرانی ہو جاتی، اس محبت کو اس نے عیسٰی پر تھوپا۔۔ اسے اس سے مانگا، ساتھ چلی مگر اعتبار نہیں کر پائی۔۔ محبت ہو جانا سب نہیں ہوتا، محبت کرنے کا ڈھنگ آنا چاہئیے، محبت کرنے کا طریقہ کم لوگوں کو آتا ہے۔۔ وہ طریقہ اسے نہیں آیا۔۔ __________
"ابے رک۔۔ شادی کر لی بھائی کو بتایا نہیں، نکاح میں بلایا تک نہیں۔۔ بےوفا، غدار۔۔" احمر اس کا کندھا پکڑ کر روکتا دانت کچکچا کر بولتا جا رہا تھا۔ عیسٰی نے جھٹکے سے کندھا چھڑوایا۔
"کون سی شادی، کیسا نکاح۔۔ رات کے بارہ بجے مجھے نیند سے جگا کر کہا جائے لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔ اور جب لے کر اپارٹمنٹ میں پہنچا تو کرائے کے قاضی اور گواہ بیٹھے اونگھ رہے تھے۔۔ مجھے خود نہیں پتا تھا تمہیں کیسے بلاتا۔۔" عیسٰی نے ناک چڑھا کر کہا۔
احمر قہقہہ لگا کر ہنسا اور ہنستا ہی جا رہا تھا جب اس نے پلٹ کر اس کو پنچ دے مارا۔ احمر پیچھے کو لڑکھڑایا مگر ہنسی کا فوارہ ابلا جا رہا تھا۔
حسن بھاگا بھاگا پہنچا تو عیسٰی کھانے والی نظروں سے احمر کو دیکھ رہا تھا اور وہ ہنس رہا تھا۔۔
"تم نے شادی کر لی ہمارے بغیر۔۔ ہمارے علاوہ کسی کو اپنا گواہ بنا کر بٹھانے کا سوچا بھی کیسے۔۔" حسن اسے دھکے دیتا اپنے غم میں چیخا۔ عیسٰی کا گھوما ہوا دماغ مزید گھوم گیا۔ یہاں بندہ مرتا مر جائے انہیں نکاح کی پڑی تھی۔۔ احمر نے ہنستے ہوئے حسن کو اپنی طرف کھینچ کر عیسٰی پر گزری ظلم کی داستان سنائی تھی۔۔
"چل نا۔۔ شادی کی پارٹی کرتے ہیں۔۔ آج اپنی سپورٹس کار میں ہائی سپیڈ لانگ ڈرائیو پر لے جاؤ۔۔"
وہ دونوں دانت نکالے مطلب کی بات پر آ گئے تھے، اپنی گاڑیاں وہیں چھوڑے اس کی گاڑی میں گھسے۔۔ عیسٰی نے گہرا سانس بھر کر اپنے اندر اٹھتا ابال اپنے اندر دبایا اور ان کے ساتھ اچھے سے ریسٹورنٹ کی طرف بڑھا۔
وہ جانتا تھا ان دونوں کو نکاح میں نا ہونے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا پارٹی نا دینے پر لگتا۔۔ زندہ نا چھوڑتے اگر وہ انکار کر دیتا۔۔ اس کا سر گھوم رہا تھا، موڈ نہیں تھا مگر خاموشی سے ان کے ساتھ چلا گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
زرشہ کا نکاح ہو رہا تھا وہ بھی موسٰی خان سے۔۔ اس نے سنا تو حواس باختہ سی خانزادہ کے سر پہنچی۔
"لالا یہ نہیں ہو سکتا۔۔ لالا ہیں وہ میرے۔۔ نکاح کیسے ہو سکتا ہے۔۔" پریشان سی بولتی خانزادہ کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔ اس نے زرشہ کو سینے سے لگا لیا۔
"لالا کہتی ہو لالا ہے نہیں۔۔ نا وہ گل جان کا بیٹا ہے نا خان آزر کا۔۔ پھر نکاح ہو سکتا ہے زرشے۔۔۔ گھبراؤ مت تمہارے لالا ہیں ناں تمہارے ساتھ۔۔" اس کا سر تھپتھپا کر اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ زرشے جھلملاتی آنکھوں سے اسے تکنے لگی، کیا اسے بتانے کی ضرورت تھی جہاں خانزادہ کھڑا ہو جائے اس جگہ زرشے آز خان کے لیے مشکلات حرام ہو جایا کرتی ہیں۔۔ وہ فیصلہ کرے، پھر یقین دلائے، اس کے بعد تو انکار بنتا ہی نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے فیصلوں کو آخر تک سہی ثابت کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرتا تھا، وہ سر جھکا گئی۔۔
ثنا بیگم نے موسٰی کے لیے زرشے کا سنا تو سب کے درمیان صاف انکار کر گئیں۔۔ خان زوار سر پکڑ گئے۔۔
"یہاں مرد فیصلے کرتے ہیں، عورتیں نہیں۔۔" خان یوسف نے سرد لہجے میں جتایا تھا۔
"یہ لڑکی میرے بیٹے کے قابل نہیں۔۔ یہ لڑکی۔۔۔" ثنا بیگم کے اگلے جملے سے بھی پہلے موسٰی انہیں کھینچتا ہوا ایک طرف لے گیا۔۔
"یہ سب کیا ہے موسٰی۔۔ تمہیں منع کیا تھا ناں اس لڑکی کا نام کبھی مت لینا دوبارہ۔۔ تم اتنے عرصہ بعد پھر اسی سے نکاح کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ وہ ناجائز۔۔۔
"مورے۔۔" موسٰی نے سختی سے ان کی بات کاٹی۔۔
"میں اب پانچ سال پہلے والا موسٰی نہیں جس کے سامنے ایسی بات کر کے آپ چپ کروا دیں گی۔۔ گل جان نے قسم کھائی تھی ناں کہ ان کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں ہوا تھا، اگر گل جان نے کہہ دیا تو یہی سچ ہے کہ زرشے جائز اولاد ہے۔۔ اور آپ کو ایک بات بتاؤں۔۔ اگر وہ نا بھی ہوتی جائز۔۔ مجھے قبول تھی اور ہے۔۔ میں تب صرف آپ کی وجہ سے چپ ہوا تھا، مجھے ڈر تھا آپ زرشے کو یہ طعنہ نا دیں۔۔ آپ اسے زلیل نا کریں مگر اب یہ ڈر نہیں۔۔
میں اس حویلی کے بغیر رہ سکتا ہوں، آپ کو میرے سر کی قسم اگر کبھی آپ نے یہ جھوٹی بات زرشے یا کسی سے بھی کی تو میں ہمیشہ کے لیے آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔" موسٰی نے اٹل لہجے میں کہا، ثنا بیگم ساکت کھڑی رہ گئیں۔۔
پانچ سال پہلے ایسے ہی ایک روز موسٰی ان کے پاس آیا تھا۔۔ وہ زرشے سے محبت کرتا تھا، اس نے ماں سے شئیر کیا تھا، اسے لگتا تھا وہ مان جائیں گی۔۔
ثنا بیگم نے انہی دنوں خان آزر کے منہ سے گل جان کے لیے یہ طعنہ سنا تھا کہ زرشے گل جان کی ناجائز اولاد ہے۔۔ وہ تو زرشے کا سن کر ہی بھڑک اٹھی تھیں۔۔
"زرشے۔۔ وہ ناجائز لڑکی کبھی میری بہو نہیں بنے گی۔۔" موسٰی نے وجہ سن کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا۔ یہ وجہ نہیں گالی تھی۔۔۔
وہ کچھ دن چپ رہا مگر پھر گل جان کے پاس پہنچ گیا۔۔ ان سے پوچھا تو وہ رو پڑیں۔۔
"بچے میری بیٹی کو یہ گالی مت دو۔۔ ہاں بہروز خان کے بیٹے نے گندی نظر رکھی تھی، اس نے غلط کوشش کی تھی مگر ناکام ہوا تھا۔۔ میں بھی باعزت ہوں وہ بھی جائز ہے۔ سردار صاحب کو میرا یقین نہیں آئے گا کبھی اس لیے خاموش رہتی ہوں۔۔"
گل جان کے بولنے پر ہی وہ یقین کر گیا تھا، ثنا بیگم کے سامنے گل جان نے قسم کھائی تھی مگر انہیں یقین نہیں آنا تھا، نہیں آیا۔۔ موسٰی اسی شرط پر چپ ہوا کہ ثنا بیگم دوبارہ کبھی یہ بات نہیں کریں گی۔۔
اس نے اپنی محبت اپنے اندر دبا کر آمنہ سے شادی کر لی جس شادی کو وہ اچھے سے چلا بھی نہیں پایا۔۔
وہ جس کا ظرف اپنی محبت کے لیے اتنا بڑا تھا کہ اگر وہ ناجائز ہوتی تب بھی اپنانے کو تیار تھا، وہ اپنی بیوی کے ماضی کو معاف نہیں کر پایا تھا کیونکہ محبت کہیں نہیں تھی، صرف کمپرومائز تھا۔۔
آج پانچ سال بعد وہ جانتا تھا خانزادہ نے زرشے کے لیے اس کا انتخاب کیا کیونکہ وہ اس ساری حقیقت سے واقف تھا۔۔ پانچ سال پہلے جب وہ صرف ایک یونی سٹوڈنٹ تھا ماں کے سامنے ہار مان گیا آج مضبوط مرد تھا۔۔ ان کو چپ کروا گیا۔۔
سب کے سادگی سے نکاح کر دئیے گئے، زرشے بھائی کی بات پر چپ ہو گئی اور ثنا بیگم بیٹے کی دھمکی پر۔۔
خان حویلی کی لڑکیاں محفوظ ہو گئیں۔۔ خٹک فیملی کے بیٹے کی حالت نہیں سنبھلی، ایک خاندان جوان بیٹے کو موت کے دہانے پر اٹکا دیکھ کر تڑپتا اس کی زندگی کی دعائیں کر رہا تھا، دوسرا خاندان بیٹیوں کو غلام بننے سے بچانے کی تیاریوں میں مگن تھا۔۔
گل جان خاموش خالی نظروں سے بیٹی کو تک رہی تھیں، اس کی حفاظت کا جیسے انتظام کیا گیا تھا ان کو دل سے خوشی تھی مگر دل میں ہوک سی اٹھی تھی کہ کاش۔۔ ان کے بھائیوں نے بھی ایک بار کوشش کی ہوتی، انہیں بچانے کی۔۔ اس جہنم میں بھیجنے سے بچانے کی۔۔ اس رسم سے وہ بھی واقف تھیں، بھائی کے حصے کی سزا بھی جھیل رہی تھیں مگر خانزادہ کی حرکت نے بتایا تھا بہنیں بھائیوں کے لیے قربانی کا بکرا نہیں ہوا کرتیں۔۔ وہ یاور کے لیے لاکھ پریشان سہی، اس نے پہلے لڑکیوں کو محفوظ کیا تھا۔۔
اگر گھر کے کسی فرد نے سزا جھیلنی ہی ہے تو وہ کیوں نہیں جس نے گناہ کیا ہے۔۔ وہ معصوم زات کیوں جھیلے جو باہر کے معاملات تک سے بےخبر ہوتی ہے۔۔
صرف اس لیے کہ وہ بیٹی ہے۔۔ بس اتنا جرم۔۔
ان کی آنکھیں نم تھیں، لب مسکرا رہے تھے۔۔ ان کی بیٹی کا ماں جیسا نصیب نہیں ہوا تھا کیونکہ اس کے بھائی اس کے ماموؤں جیسے نہیں تھے۔۔
ونی کی رسم لینے والے بھی کٹھور ہیں مگر سنگدل تو دینے والے بھی ہوتے ہیں، بیٹا قتل کر کے بھی محفوظ ہو جاتا ہے، بیٹی کو ناکردہ گناہ کی سزا میں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے، پھر جو پیچھے رویا جائے تو کیا فائدہ۔۔
قصاص میں خون کا بدلہ خون بھی تو ہوتا ہے، جیسے رو کر بیٹی دی جا رہی ہوتی ہے، ویسے کبھی رو کر بیٹا دے دیا جائے۔۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا۔۔
سادگی سے دریہ، درخشان کو رخصت کیا گیا، ان کو زیادہ فرق نہیں پڑا، وہ پہلے بھی شہر میں رہ کر پڑھتی تھیں، وہ اب بھی اپنی تعلیم پوری کر لیں گی، پلوشے کا صالح نے بھی یقین دلایا تھا، جب تک چاہے پڑھ سکتی ہے۔۔ زرشے تو تھی ہی گھر میں۔۔ اپنے کمرے سے موسٰی کے کمرے تک پہنچ گئی۔۔ سب کو رخصت کر کے خانزادہ موسٰی کے پاس پہنچا۔
"پانچ سال پہلے تم آئے تھے مجھ سے مدد مانگنے۔۔ میں نے انکار کیا تھا کیونکہ میری بہن کی زات کو سوالیہ نشان بنایا گیا تھا۔۔ آج مجھے ضرورت پڑ گئی تھی۔۔ میں تم سے پوچھے بنا جانتا تھا کہ تم ہاں کرو گے۔۔ میں شرمندہ ہوں خودغرضی دکھا رہا ہوں اور تم پریشان تھے کہ اس بار پھر وہی سب نا دوہرایا جائے۔۔
میں نہیں جانتا اس بار تم نے چچی کو کیسے چپ کروایا بس اسے ریکوئسٹ سمجھنا موسٰی۔۔ چچی کو کبھی زرشہ سے ایسی کوئی بات کرنے مت دینا۔۔
ورنہ اس بار ان کا سامنا میں خود کروں گا اور میں صرف اپنی بہن کی ساس سمجھ کر بات کروں گا۔۔"
خانزادہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ وہ ریکوئسٹ کر رہا تھا مگر لہجہ وارننگ دیتا ہوا تھا۔
"اس بار تمہیں سب معاف۔۔ تم حکم کرو بھی چلے گا۔۔"
موسٰی شرارتی لہجے میں بولتا ہنس پڑا۔
"ہاں میں پریشان ہوا تھا تمہارے فیصلہ سے۔۔ مجھے وہی ڈر لپیٹ میں لے گیا کہ مورے زرشہ کی زات پر کیچڑ اچھالیں گی۔۔ مگر پھر میں نے ہمت کی کیونکہ دوسری بار بزدلی کی وجہ سے اپنی محبت سے ہاتھ نہیں دھو سکتا تھا۔۔ اس بار جانے دیتا تو خود کو مار دیتا۔۔" موسٰی جذباتی پن سے بولتا خانزادہ کے گلے لگا، وہ بولا تو نہیں مگر شکرگزار ہو رہا تھا اس کا۔۔ وہ بھائی سے زیادہ دوست تھے اور موسٰی پر اس بار اس نے اپنی بہن کے حوالے سے یقین کر کے احسان ہی تو کیا تھا۔۔ خانزادہ اطمینان سے مسکرایا۔۔
___________
پریہان سب کے نکاح کے بعد فری ہو کر روم میں بیٹھی بار بار مرحا کو کال ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
اٹھ کر سلائیڈ ڈور کے پاس جا کر باہر تکنے لگی، ان دنوں وہ سیڑھیاں چڑھنے اترنے سے بھی پرہیز کر رہی تھی، روم کے بیک لان میں بھی سیڑھی اتر کر جاتی تھی، ایک بار پیر پھسلتے پھسلتے بچا اور اس کے بعد پریہان نے توبہ کی تھی۔۔ اتنا نرم مزاج اور کئیرنگ حدیر اس معاملہ میں جیسے سختی سے وارن کر گیا تھا پریہان واقعی ڈرنے لگی تھی۔۔
ملازمہ کی مدد سے صبح ہی نیچے جاتی، سب کے ساتھ بیٹھتی، ریسٹ کرنا ہوتا تو گل جان کے روم میں کر لیتی تھی۔۔ اس نے گہرا سانس بھر کر دوبارہ سے مرحا کو کال ملائی۔۔ وہ کال کاٹ رہی تھی۔۔
وہ فکرمندی سے ٹہلتی جا رہی تھی جب ریما کی کال آئی۔ اس نے پھرتی سے کال اٹینڈ کی۔
"ریما کچھ پتا چلا، کیا مرحا کے لالا ٹھیک ہوئے۔۔"
اس نے بےتابی سے پوچھا۔ لہجے میں فکر ہی فکر تھی۔
"میں کانٹیکٹ میں ہوں، وہ کہہ رہی ہے ڈاکٹرز ابھی بھی کوئی جواب نہیں دے رہے۔۔ بس دعا کرو۔۔" ریما نے پریشانی سے جواب دیا تو وہ مزید فکرمند ہوئی۔۔
"کیا تمہیں پتا چلا، منال کے بابا اور دادا کو پولیس نے اریسٹ کیا ہے، کافی کیسز ہیں ان پر۔۔ وہ تو فارن گئی ہوئی تھی، سنا ہے اب واپس آ رہی ہے۔۔ ان کی فیملی کو میڈیا میں بہت بری طرح زلیل کیا جا رہا ہے۔۔"
ریما نے دوست کا سوچ کر اداسی سے بتایا۔
پریہان کی آنکھیں پھیل گئیں، ہر طرف سے سب لپیٹ میں آئے ہوئے تھے، جو بھی تھا دوستی رہی تھی۔۔ وہ بھی پریشان ہو گئی۔۔ ریما سے کال پر بات کر کے وہ چینج کرتی بستر پر لیٹ گئی، خلاف توقع خانزادہ آج روم میں جلدی آ گیا تھا۔۔
چینج کر کے آیا تو پریہان جانے کن سوچوں میں مبتلا تھی۔ اس پر لحاف سیٹ کرتا قریب کر گیا۔
"کیا بات ہے۔۔ کیا سوچ رہی ہو۔۔" نرمی سے اس کا گال سہلایا، اب اس کے گال کافی پھولے پھولے سے لگتے تھے، اس کے سوال پر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
"پریشان ہوں میں۔۔ صرف آپ سب کی فکر نہیں کرتے۔۔ میں بھی ایسی ہی ہوں۔۔" اس کے نخرے سے ناک چڑھا کر بولے گئے جملے پر وہ بےساختہ ہنس پڑا۔
اس نے کہا تھا مجھے پہچانو، وہ صرف پہچان نہیں رہی تھی، اس جیسی بننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"اووہ۔۔ میری چھوٹی سی وائف اپنے سائز سے بڑی فکریں پال رہی ہے۔۔" وہ ہنس کر اسے سینے سے لگا گیا، پریہان اس کے جملے پر صدمے میں آ گئی۔۔
"کون چھوٹا ہے۔۔؟ پہلے خانی مورے کو یہ صدمہ ہے آج آپ نے بھی جتا دیا۔۔" وہ منہ بنا کر اس کے سینے پر مکے مارتی دور ہوئی۔ اس کے خانی مورے کہنے پر خانزادہ چونکا، یعنی دوستی ہو گئی تھی ساس بہو میں۔۔ وہ مسکرا کر پریہان کے نخرے دیکھ رہا تھا۔
"میں نے تو خوشی سے جتایا۔۔ کہتے ہیں مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنا اچھا ہوتا ہے۔۔" وہ ہنسی دبانے کے چکر میں سرخ ہو رہا تھا، پریہان کو تنگ کر کے جو سکون ملتا تھا شاید دنیا کی کسی دوا میں نا ہو۔۔
"مصیبت کون ہے؟ آپ اور آپ کی حویلی والے خود چلتی پھرتی مصیبتیں ہیں۔۔ یہ جو ساری دنیا کا سکون غارت کیا ہوا ہے اس کا کیا۔۔" پریہان نے لڑاکا عورتوں کی طرح اسے جواب دیا۔ وہ کھل کر ہنسا۔
"اچھا چھوڑو۔۔ پھر تو ایک جیسے ہیں ہم۔۔ تم میرے لیے مصیبت، میں باقی سب کے لیے مصیبت۔۔" اسے کھینچ کر سینے سے لگاتا صلح جو انداز میں بولا۔۔ آنکھوں میں شرارت تھی۔۔ پریہان اسے خفگی سے دیکھنے لگی، وہ مسکرا کر اس کے چہرے پر جھکا۔
اس کی ناراضگی اور شکووں کو اپنے لمس سے دور کرتا اسے سب فکریں بھلا گیا تھا۔۔
وہ۔۔ اس کا لمس۔۔ اس کی قربت۔۔ دنیا کے جھمیلوں میں خوشی کے وہ لمحات تھے جنہیں زندگی کے قیمتی لمحات میں رک رک کر چنا جائے، سمیٹا جائے اور سنبھال کر رکھا جائے، تب بھی کم لگیں۔۔
وہ نشہ تھی اور خانزادہ حدیر اس نشے کا بری طرح عادی ہوتا جا رہا تھا۔۔ ہر دن پہلے سے زیادہ۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
زرشہ سادہ لباس میں بیٹھی، لمبے بالوں کا جوڑا بنائے کنفیوز سی انگلیاں چٹخاتی صوفے پر بیٹھی تھی۔
موسٰی آیا تو ایک نظر اسے دیکھتا چینجنگ روم میں چلا گیا، جانتا تھا اس کے لیے موسٰی سے شادی اچانک فیصلہ ہے۔۔ اسے مل گئی تھی اتنا بہت تھا۔۔
چینج کر کے آیا تو وہ ابھی تک ویسے ہی بیٹھی تھی۔
"آ کر سو جاؤ۔۔ یا آج رات وہیں بیٹھ کر سوچ بچار کرنے کا ارادہ ہے۔۔" وہ نارمل لہجے میں بولتا بستر سیٹ کرتا لیٹ رہا تھا، زرشے منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی، وہ اتنا نارمل کیوں تھا، زرشے کے مطابق تو اسے اس اچانک شادی پر غصہ ہو کر کمرے میں آ کر چیزیں پٹخ پٹخ کر زرشے کو گھورنا، لڑنا چاہیے تھا۔۔
"زرشے۔۔ میں سو گیا اور پھر تم نے اٹھ کر شور کیا تو میری نیند خراب ہو گی۔۔ سو جاؤ۔۔ کیا مسئلہ ہے۔۔"
وہ لیٹا ہوا اٹھ کر ایسے بول رہا تھا جیسے بہت دوستی ہو۔۔ زرشے تو جھٹکے پر جھٹکا کھا رہی تھی۔۔
"میں۔۔ کہاں۔۔" وہ بوکھلا کر بولتی صوفے پر نظر گھمانے لگی، اس کا ارادہ سمجھ کر موسٰی مسکرایا۔۔ اس کی گھبرائی ہوئی حالت مزہ دے رہی تھی۔۔
"یہاں آ جاؤ، یقین کرو نہیں کھاؤں گا تمہیں۔۔" بیڈ کی طرف دوسری سائیڈ کا اشارہ دے کر دوستانہ لہجے میں بولا۔ زرشے مزید گھبرا گئی۔ کل تک وہ لالا تھا جسے بس چھپ چھپ کر ہی دیکھتی تھی، بات تک کرنے کی ہمت نہیں تھی، آج اس سے نہایت قریبی رشتہ بن گیا تھا۔۔ اس کا یوں بات کرنا بھی زرشہ کو گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔۔
"آپ کے ساتھ کیسے۔۔" وہ روہانسی ہوئی، مصیبت میں انسان پھنسے اور وہ بھی بالکل اچانک۔۔ تب کیسی حالت ہوتی ہے کوئی زرشے سے پوچھتا۔۔ جو اوٹ پٹانگ سوال کرتی خود بھی شرمندہ ہو رہی تھی۔۔
"جیسے نکاح کیا ہے، روم میں آئی، بات کر رہی ہو ویسے آ کر سو بھی جاؤ۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر بولتا جان بوجھ کر اسے مزید گھبرانے پر مجبور کر رہا تھا۔
وہ لب کچلتی پہلو بدلتی ابھی کچھ بولتی کہ وہ سر پر پہنچتا اس کی کلائی تھام کر اٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھا، زرشے بری طرح سٹپٹائی۔۔
"لیٹو۔۔ اور اب سو جاؤ۔۔ رات سونے کے لیے بنی ہے، باقی سوچ بچار، حیرت، گھبراہٹ سب صبح کر لینا۔۔"
اسے وہاں لیٹا کر سکون سے بولتا اس پر لحاف ڈال گیا۔ زرشے آنکھیں میچے سمٹ کر سوتی اچھے بچوں کی طرح اس کی بات مان گئی۔۔
وہ کروٹ بدل کر سوتا بن گیا، تاکہ وہ آرام سے سو سکے۔۔ زرشے چور نظروں سے اس کی پشت تکتی جا رہی تھی۔۔ گھبرائے ہوئے پریشان دل کو ڈھارس سی ملی تھی۔۔ وہ تو کافی اچھا انسان رہا تھا۔۔ وہ تو سوچ سوچ کر خوامخواہ پاگل ہوتی رہی تھی۔۔ نرم سی مسکان لبوں پر سجائے وہ سو گئی۔۔
°°°°°°°°°
"وقار صاحب خوب کھیل کھیلا۔۔ پیسہ لے لیا اور لڑکی کا لالچ دے کر جھوٹ پر جھوٹ بولتے تم نے عدم شاہ کو جیسے پاگل بنایا ہے، ماننا پڑے گا۔۔"
وقار صاحب عدم شاہ کی اچانک پھر سے کال اور کال پر بولے جانے والے جملوں پر گھبرا اٹھے۔۔
""کیا مطلب جناب سمجھا نہیں۔۔ یقین کریں سچ کہہ رہا ہوں۔۔ وہ اپنی بہن کے پاس گئی ہوئی ہے ملک سے باہر۔۔ جیسے ہی آئے گی تو۔۔" وقار صاحب کو مسز شائستہ نے جو کہا وہ وہی دوہراتے اس بندے کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہے تھے..
"شٹ اپ۔۔"۔ وہ دھاڑا۔ سر گھوم گیا یعنی اب بھی جھوٹ۔۔ وہ بھی دیدہ دلیری سے۔۔
"میں نے دیکھ لیا کس ملک میں گئی ہوئی ہے۔۔ کسی امیر زادے کی مہنگی گاڑی میں گھومتی پھر رہی ہے۔۔
تم جیسے لالچی انسان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ مجھے بہلاوا دے کر کسی اور کو بیچ دی۔۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولتا وقار صاحب کے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔ وہ خود بھی اس بات پر حیران ہوئے۔۔
"پہلے تو میں عزت سے نکاح کر رہا تھا۔۔ اب ایسا ہے کہ پہلی فرصت میں میرا پیسہ واپس کرو۔۔
اور اس لڑکی کو اب میں خود اٹھوا لوں گا، نکاح کرتی ہے میری جوتی۔۔ استعمال کر کے پھینکوں گا ایسے کہ دنیا دیکھ کر عبرت حاصل کرے۔۔" وہ بولا نہیں پھنکارا تھا، کال کاٹ دی۔۔ وہ جم گئے۔۔
عدم شاہ جو پیسہ ادھار دے کر ایک ایک پائی کا حساب لینے میں مشہور تھا، اس کی دھمکی وقار صاحب کو جھنجھوڑ کر رکھ گئی۔ پیسہ کہاں سے لائیں اب۔۔ پیسہ برابر کر بھی لیں، پروا کا کیا۔۔
عدم شاہ سے نکاح کر کے دینے کو تیار ہو گئے تھے کہ چلو فائدہ پہنچتا رہے گا، وہ پروا سے بڑا تھا مگر جواں مرد تھا ایسا کوئی بڑی عمر کا بھی نا تھا۔۔
وہ بےحس ہو گئے تھے مگر اب جو وہ کرتا ایسا تو وہ بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔۔
غصے سے بھرے شائستہ بیگم کے سر پر پہنچے۔۔
"کہاں چھپایا ہے پروا کو۔۔ جھوٹ بولا تھا ناں مجھ سے۔۔ یعنی تم نے اس روز گھر آئے عدم شاہ کی باتیں سن لی تھیں۔۔ تم نے سب جان لیا تو اب یہ بھی جان لو۔۔ تمہاری سوچ سے کہیں زیاد گھٹیا انسان ہے وہ۔۔
میں نکاح کر کے دیتا مگر اب وہ ایسے ہی لے گا اور جو حال کرے گا ناں تم اپنی اس حرکت پچھتاؤ گی۔۔"
وہ دھاڑتے ہوئے بنا کچھ چھپائے سب کھولتے چلے گئے، شائستہ بیگم شاک اور خوف سے سنتی لڑکھڑا گئیں۔۔
"اب جن کو دی ہے ناں بھانجی۔۔ ان سے کہہ دو ساری عمر کے لیے ایک گھر میں چھپا دیں۔۔ کم سے کم تب تک جب تک عدم شاہ زندہ ہے۔۔ میں کچھ وقت کے لیے کہیں روپوش ہو رہا ہوں۔۔ تم بھی اسی بھانجی کے پاس چلی جاؤ۔۔ " وہ چیختے چلاتے انہیں جتا کر بولے اور سنگدلی سے اپنا ضروری سامان لیے تیزی میں گھر سے نکل گئے، وہ دل کے یکدم بڑھتے شدید درد کو سنبھالتی زمین پر گرتی چلی گئیں۔۔
وہ دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا گھر پہنچا تو شام ڈھل رہی تھی، اپارٹمنٹ میں بالکل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔ پُروا کمرے میں ہی بند تھی۔۔
احمر اور حسن کے ساتھ اچھا وقت گزار کر اس کا غصہ کافی حد تک کم ہو گی تھا مگر اتنا نہیں کہ پُروا کو بخش دیتا۔۔ وہ سیدھا اس کے کمرے میں پہنچا اور دھاڑ سے دروازہ کھولتا اندر گیا۔۔ وہ سوفٹ لائنز آن کیے صوفے پر نیم دراز موبائل پر کچھ دیکھنے میں مگن تھی۔
وہی لاپرواہ حلیہ اور عیسٰی کی ہُڈ پر قبضہ جما لیا تھا۔ وہ تن فن کرتا اس کے سر پر پہنچا، پروا نے جلدی سے موبائل رکھا، ہینڈز فری اتارنے کا بھی موقع نہیں ملا، وہ اسے ہاتھ پکڑ کر کھینچتا کھڑا کر گیا تھا۔
"تم آئرہ سے کب ملیں؟ اس دن فارمیسی کے آگے۔۔؟ کیا کہا تھا اس سے۔۔" غصے سے چبا چبا کر بولتا اسے جھٹکا دے کر پوچھ رہا تھا۔۔ اسے بہت یاد کر کے ایک وہی موقع نظر آ رہا تھا جب وہ اسے اپنی گاڑی میں لے کر باہر گیا تھا، ویسے تو وہ نکلتی ہی نہیں تھی۔۔
"ج۔۔جی؟ کون۔۔ کب.." وہ اس کے جھٹکے پر بوکھلاتی پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔ اچانک حملہ آور ہوا تھا کہ سمجھ ہی نہیں پائی آخر کیا بات کر رہا تھا وہ۔۔
"آئرہ کی بات کر رہا ہوں، وہی لڑکی جو یہاں آئی تھی۔۔" عیسٰی نے دانت پیس کر اسے یاد دلایا۔
"جی۔۔ وہاں فارمیسی کے سامنے۔۔ وہ خود۔۔ آئی تھیں۔"
وہ جلدی سے وضاحت دیتی یہی سمجھی، شاید وہ اس سے ملنے پر ناراض ہو رہا ہے۔۔
"کیا کہا اس سے۔۔ بیوی ہو میری؟ بہت شوق ہے میری بیوی بننے کا۔۔ بتاؤں بیوی کیا ہوتی ہے۔۔؟" وہ یکدم لہجہ سرد کر کے بولا، اس کے بال مٹھی میں جکڑتا اپنے چہرے کے قریب لایا، پُروا سہم گئی۔۔
"تو کیا میں۔۔ بیوی نہیں ہوں۔۔" پروا نے ڈرتے ڈرتے بھی سوال کر لیا، اسے تو یہی کہا گیا تھا بیوی ہے۔۔ نکاح بھی ہو چکا تھا۔۔ ساتھ بھی رہ رہے تھے۔۔ پھر وہ بیوی کہنے پر کیوں غصہ ہو رہا تھا، وہ الجھ گئی۔
"واہ۔۔ طنز کر رہی ہو؟ بہت خوش ہو بیوی بن کر کہ ہر جگہ اعلان کرتی پھر رہی ہو۔۔ آج تمہیں ٹریلر دے ہی دوں، بیوی ہونا کیسا لگتا ہے۔۔" اسے کھینچ کر سینے سے لگاتا وہ اس کے سمجھنے سے بھی پہلے اس کے گال پر دانت گاڑھ گیا۔ پُروا کی بےساختہ چیخ نکلی۔
وہ اسے پھر بھی چھوڑنے پر تیار نہیں ہوا تھا۔ پروا دھک دھک کرتے دل کے ساتھ بری طرح خوف کا شکار ہوتی اس کی گرفت میں مچل رہی تھی۔
عیسٰی اپنا غصہ اس پر اتارتا پیچھے ہوا تو اس کے دونوں گال سرخ ہو رہے تھے۔۔ بےیقینی سے سرخ لبوں پر ہاتھ رکھے پیچھے ہوئی، اسے تکتی بھیگی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔۔
"بس۔۔ اتنا ہی برداشت کر سکتی ہو۔۔ اور اتنے مزے سے کہتی پھر رہی ہو کہ عیسٰی خان کی بیوی ہوں۔۔
ابھی تو جو میں نے کیا ہے ناں آج کل لوگ محبت میں کر جاتے ہیں۔۔ ایک چھوٹا سا ٹریلر دیا ہے تمہیں۔۔"
تمسخر سے اسے دیکھتا وہ جتاتے لہجے میں بولا۔
پُروا رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی، پہلے صرف ڈر لگتا تھا اب تو وہ بےحد برا بھی لگ رہا تھا اسے۔۔
وہ حدیر کو آئڈیل ماننے والا موسٰی والی غلطی دوہراتا اب بنا شرمندہ ہوئے جیکٹ جھاڑتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔ پروا خوف کی شدت سے لرزتی صوفے کے پاس نیچے بیٹھی روتی چلی گئی۔۔
وہ چینج کر کے رات کے کھانے کے لیے کچھ لانے باہر نکل گیا۔۔ اس کے مطابق وہ وہی کر کے آ رہا تھا جو وہ چھوٹی بلا ڈیزرو کرتی تھی، اگر بیوی بیوی کی رٹ لگا رہی تھی تو اچھے سے پتا چلنا چاہیے عیسٰی بیوی بن کر کیا کچھ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ۔۔
بریانی اور چکن لے کر پہنچا، کچن سے پلیٹس سپون اٹھا کر باہر لاؤنج میں ٹیبل پر رکھے۔۔ پُروا کو کمرے میں جا کر دیکھا، وہ ابھی تک گالوں پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔۔ عیسٰی نے ناک چڑھایا۔
"اب ایسا بھی ظلم نہیں ہوا کہ رو رہی ہو۔۔ تم نے بات ہی کیوں کی آئرہ سے۔۔ او۔کے میری بلا سے وہ جو بھی سمجھے مگر ہم دونوں کا نکاح عارضی ہے۔۔
حالات سنبھلتے ہی الگ ہونا ہے تو ضروری ہے اشتہار لگایا جائے اس نام نہاد رشتے کا۔۔ تمہاری اس عقل میں کچھ نہیں بیٹھتا۔۔ سب میں بتاؤں گا کیا۔۔؟"
اس کے سامنے بیٹھ کر زچ ہوتا اسے وہ غلطی بتانے لگا جس کی سزا دی تھی۔۔ پروا اس سے دور ہوتی منہ چھپانے لگی۔۔ عیسٰی نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر گالوں سے ہٹا کر دیکھا تو واضح سرخ نشان بنے ہوئے تھے۔۔ نم گلابی شفاف چہرے پر سرخ ہوتے گال۔۔
"واؤ۔۔۔ یہ تو اچھا لگ رہا ہے۔۔" وہ مزے لیتا ہنسنے لگا، پروا نے اس کی بےحسی پر آنکھیں میچ کر سسکی دبائی۔ عیسٰی نے سنجیدہ ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ چھوڑ کر گہرا سانس بھرا۔
"میں جب کوشش کرتا ہوں تم پر غصہ نا کروں، سختی نا کروں، تم ایسی کوئی حرکت کر جاتی ہو کہ میں۔۔۔ یار تم مجھے پہلے دن سے اب تک صرف اریٹیٹ کر رہی ہو۔۔ آئی مِین او۔کے مےبی تم کئیر اور کائنڈ بی ہیوئیر ڈیزرو کرتی ہو گی مگر مجھے اتنا غصہ آتا ہے کہ دل کرتا ہے تم۔۔ تمہیں۔۔" وہ اپنی کیفیت بتاتا مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرنے لگا۔ وہ سمجھ نہیں پایا اس کے رونے پر غصہ بڑھ رہا تھا۔۔
"اب بتاؤ کون لڑکی ہوتی ہے ایسی۔۔ عقل سے پیدل۔۔ ہر وقت الٹی حرکتیں کرنے والی اور یہ تمہارا حلیہ۔۔ اور یہ بال دیکھو، کیسی بچوں جیسی کٹنگ ہے، کندھے سے نیچے جاتے ہی ختم۔۔ تم بالکل میری ٹائپ کی نہیں۔۔ اس پر ایسی حرکتیں کرو گی تو غصہ ہی آئے گا۔۔" وہ نفی میں سر ہلاتا بول رہا تھا۔ پروا کو فرق نہیں پڑتا تھا وہ پسند کرے یا نا کرے۔۔ اسے بس وہ برا لگ رہا تھا۔۔ گالوں پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی۔۔
"آؤ اب کھانا کھائیں۔۔ آئندہ کوئی ایسی ویسی حرکت نا کرنا جو مجھے بری لگے۔۔ ورنہ بس یہی سزا ملے گی یاد رکھنا۔۔" اسے وارننگ دیتا زبردستی اٹھانے لگا۔
"مجھے کھانا نہیں کھانا۔۔ مجھے ہاتھ مت لگائیں۔۔" پروا ہاتھ چھڑوا کر مزید پیچھے کھسک کر بولی۔ عیسٰی نے اسے گھور کر دیکھا۔
"دیکھو پروا۔۔ مجھے تنگ مت کرو، میں نے سونے جانا ہے، صبح صبح مجھے حویلی کے لیے نکلنا ہے۔۔ تم نے غلطی کی ہے تو مانو اب۔۔ غلطی کر کے معصوم مت بن جایا کرو۔۔ " وہ لہجہ بمشکل دھیما کر کے بولا۔۔ اسے کھانا کھائے بنا بھی نہیں سُلا سکتا تھا، طبیعت ٹھیک نہیں تھی ابھی۔۔ بگڑ جاتی تو اور مسئلہ ہوتا۔۔۔
پروا کو مسلسل قالین پر پیچھے کو کھسکتا دیکھ کر اس نے بےچارگی سے آہ بھری اور اسے اپنی طرف کھینچ کر کھڑا کیا۔ جھک کر اسے اٹھایا اور اس کے لاکھ ٹانگیں بازو چلانے پر اس باہر لا کر صوفہ پر بیٹھایا۔
"کھانا کھاؤ پھر چلی جانا ناراض ہو کر۔۔" اسے زبردستی بٹھا کر کھانا ڈالنے لگا۔ پانی کا گلاس ڈال کر اس کے آگے کیا۔ وہ رخ موڑے بیٹھی رہی۔۔
روشنی میں دوبارہ سے اس کا چہرہ دیکھا، گال سرخ کیے وہ اس سے شدید ناراض لگ رہی تھی، عیسٰی نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔ شاید واقعی وہ کچھ زیادہ غلط کر جاتا ہے۔۔ اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر پاتا تھا اور کسی لڑکی سے اس طرح پرسنلی ڈیل کرنے کا طریقہ اسے بالکل نہیں آ رہا تھا۔۔
"تمہیں پتا ہے، تم نے اس لڑکی کو سچ بتایا جو مجھے لائک کرتی تھی، مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی، تمہاری بات سے ہرٹ ہوئی، رو رہی تھی بہت اور اس نے آج سب کے سامنے مجھے برا بھلا کہا، لڑائی کی۔۔"
وہ آہستگی سے بولنا شروع ہوا تو اسے سنتی پروا نے دھیرے سے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
"سب نے مجھے برا لڑکا سمجھا، پرامس توڑنے والا سمجھا۔۔ اگر تمہیں کالج میں سب فرینڈز کے درمیان کوئی ڈانٹے اور انسلٹ کرے۔۔ کیسا فیل ہو گا۔۔؟" وہ اب سیدھی ہو کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے سوال پر سر جھکایا تو عیسٰی نے بغور اس کے تاثرات دیکھے۔
وہ شرمندہ ہو رہی تھی، وہ بےساختہ مسکرایا۔۔
"مجھے اس پر بھی غصہ آیا اس لیے وہاں سے چلا گیا، تم پر بہت زیادہ غصہ آ رہا تھا، میں ہرٹ تھا بہت۔۔"
اب وہ ایموشنل بلیک میل کرتا اس کی ناراضگی ختم کرنا چاہ رہا تھا۔ اس کی باتوں سے کافی حد تک متاثر ہوتی پروا اپنے زکر پر روہانسی ہو گئی۔۔
"او۔کے سوری۔۔ تم پرامس کرو کوئی غلط حرکت نہیں کرو گی پھر میں بھی کچھ نہیں کہوں گا۔۔" وہ کان پکڑ کر بولتا بےاختیار سوری بول گیا۔۔
"میں آپ سے۔۔ کبھی بات۔۔ نہیں کروں گی۔۔ کسی سے بھی۔۔ نہیں کروں۔۔گی" وہ اس سے دور ہو کر بیٹھتی سسک کر بولتی اپنا فیصلہ سنا گئی۔۔
"او۔کے۔۔ دیکھو کھانا ٹھنڈا ہو گیا۔۔" عیسٰی نے اس کے آگے پلیٹ رکھتے ہوئے تاسف سے کہا۔ پروا کھانے کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس کا گال نرمی سے سہلاتا وہ اسے کھاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ خود کھانا بھول گیا۔۔
وہ متوجہ کر رہی تھی، اریٹیٹ تو ہو رہا تھا، کوئی اور اس کا زکر بھی کر لے برا لگتا تھا۔۔ وہ کہتا تھا اس کے ٹائپ کی نہیں ہے، بچگانہ ہے مگر وہ اس کے لیے پوزیسو ہو رہا تھا۔۔ سمجھ نہیں پایا چاہتا کیا ہے وہ۔۔
اس کی نم پلکوں کو صاف کیا، پُروا نے رک کر خفگی سے اسے دیکھا تو جلدی سے ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔ سر جھٹک کر اپنا کھانے لگا۔۔ کھانا کھاتے ہی پروا اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
خاموشی سے برتن دھو کر وہ بھی اپنے کمرے میں جاتا دروازہ بند کر گیا۔۔ اگلی صبح اس کے اٹھنے سے بھی پہلے تیاری کرتا حویلی کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
آج حویلی میں موسٰی خان کا باقاعدہ ولیمہ کر کے سب لڑکیوں کی شادیوں کا اعلان کر دیا تھا۔۔
پریہان ایش گرے اور میرون بھاری غرارہ فراک میں بڑی مشکل سے ڈوپٹہ سنبھالے پھر رہی تھی، ایک طبیعت ایسی اوپر سے لباس بھاری۔۔ اس کے منہ پر ہلکے پھلکے میک اپ کی تہہ میں بھی بیزاری چھلک آتی تھی، مسکراہٹ سجا کر وہ سب سے ملتی تھک گئی تھی۔۔ وہاں ولیمہ کی رسم کے لیے آئی باقی تینوں دلہنوں نے بھی بھاری لباس پہنے ہوئے تھے، چہرے پر الوہی مسکان اور چمک ان کے اطمینان کی گواہ تھی۔
گل جان آج سادہ مگر نیا جوڑا پہنے ہوئی تھیں، وہ زرشے کے چہرے کو بغور دیکھ رہی تھیں۔۔
وہ باقی تینوں کی نسبت نارمل تھی، کل کی نسبت آج گھبراہٹ کم تھی۔۔ پریہان کی بات کا جواب دیتے مسکرا بھی دیتی تھی۔۔
وہ پرسکون ہوئیں، موسٰی پر کوئی شک نہیں تھا مگر جیسے حالات میں یکدم نکاح ہوا تھا انہیں لگا تھا موسٰی اس بات کی فرسٹریشن زرشے پر اتارے گا۔۔
گل جان کے نقوش چرائے زرشے کھلتے سرخ رنگ میں دلہن بنی بےحد حسین لگ رہی تھی۔۔ اس کی شکل، شفاف رنگ اور چہرے کی ملاحت بالکل گل جان بیگم جیسا ہی تھا۔۔
اس کا نصیب ان سے الگ نکلا تھا، آج اسے دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا، سیاہ جوڑے میں کم عمر ونی میں آئی گل جان اگر دلہن بنتیں تو کیسی لگتیں۔۔
"مورے آج تو وہ مکلاوے والی رسم ہو گی ناں؟ آج تو میں آپ کے پاس آؤں گی ناں؟" رات کے وقت فنگشن کے بعد کمرے میں جانے کا سوچ کر ہی زرشے کا پھر سے گھبراہٹ سے حال خراب ہو گیا۔۔ گل جان کی طرف آتے موسٰی نے اس کی بات پر بمشکل قہقہہ دبایا۔ گل جان منہ کھولے بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔
"کون سی رسم۔۔ اسی گھر میں بیٹھی ہو۔۔ میرا کوئی الگ گھر نہیں ہے۔۔ اور زرشے خیال رکھو موسٰی کے دل میں جگہ بنانی ہے۔۔ اس سے دور بھاگنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔ خدمت کرنا اس کی۔۔" گل جان نے اسے سینے سے لگا کر سمجھایا، زرشہ سر جھکا کر رہ گئی۔
موسٰی پلٹ کر روم میں چلا گیا، جب وہ روم میں آئی تو وہ چینج کر کے بستر پر دراز تھا۔۔
"میں آج بہت تھک گیا ہوں۔۔ سر میں درد ہو رہا ہے کیا سر دبا دو گی پلیز۔۔" آنکھوں میں امڈتی شرارتی چمک لیے اسے دیکھ کر دھیرے سے بولا۔
"جی؟ اچھا۔۔ میں چینج کر کے۔۔" وہ پہلے تو حیران ہوئی،۔ باہر سب کے ساتھ بیٹھے ہوئے وہ کیسے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا اور اب اچانک سر درد ہو گیا تھا۔۔ وہ سر جھکا کر بولی جب وہ ٹوک گیا۔۔
"تم چینج کر کے جب تک آؤ گی میں درد سے پڑا رہوں۔۔؟ او۔کے جاؤ۔۔" صاف صاف ناراضگی جتائی گئی، زرشے بوکھلا کر جلدی سے بھاری لباس سنبھالتی اس کے پاس پہنچی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"یہاں بیٹھو۔۔" بیڈ کراؤن سے کشنز لگا کر اسے بیٹھایا۔ زرشے اس کے حکم کی تعمیل کرتی وہاں بیٹھ کر ٹانگیں سمیٹ گئی۔ موسٰی مزے سے اس کی گود میں سر رکھ گیا۔ زرشے کی آنکھیں پھیلیں۔
"سر دباؤ۔۔" زرشے کا شرم سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر بولا تو وہ کپکپاتے ہاتھ اس کے ماتھے پر ٹکا گئی۔
مسکراہٹ دبا کر لیٹا موسٰی اس کے یخ ہاتھ ماتھے پر محسوس کرتا پٹ سے آنکھیں کھول گیا۔۔ اتنے ٹھنڈے ہاتھ۔۔ اس نے جھرجھری لی۔۔
زرشے خدمت گزار بیوی کی طرح اس کے گرم ماتھے پر سکون سے ہاتھ رکھے سر دبا رہی تھی، موسٰی نے بےچارگی سے اسے دیکھا، جو چالاکی سے ہاتھ بدل بدل کر دباتی اپنے ہاتھ گرم کرنے کے چکر میں تھی۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے دونوں نازک سے ہاتھ اپنے گرم بھاری ہاتھوں میں تھام کر سینے پر رکھ لیے۔۔
"اللّٰہ کسی کو ٹھنڈے ہاتھوں والی چالاک بیوی نا دے۔۔" وہ آنکھیں موند کر بڑبڑایا تو زرشے خفت سے لب کچلتی جھینپ گئی۔۔ وہ سکون سے لیٹا رہا، زرشے نے ٹیک لگا لی۔۔ جانے اس کا سر درد کہاں گیا تھا اب تو اس کے ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیے پڑا تھا۔
سرخ سفید رنگت، بکھرے بال اور مغرور نقوش، نیلی آنکھیں بند تھیں، اچھا خاصہ ہینڈسم تھا وہ۔۔ زرشے غور سے دیکھتی اس کا جائزہ لینے لگی۔۔
"تھک گئی ہو۔۔؟" اس نے یکدم آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھا تو یک ٹک اسے دیکھتی زرشے گڑبڑا گئی۔
"ج۔۔جی۔۔ بس یہ ڈریس۔۔" وہ ہکلا کر وضاحت دیتی نظریں چرا رہی تھی اور وہ اس کی خود میں دلچسپی محسوس کر کے مسکراتا ہوا اٹھ بیٹھا۔۔
"جاؤ چینج کر لو۔۔ آج کے لیے اتنی خدمت کافی ہے۔۔" وہ نرمی سے بولتا اسے چونکا گیا۔ تو کیا وہ صرف اس سے خدمت کروا رہا تھا۔ وہ حیران سی بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ کے سامنے زیور اتارنے لگی۔۔ پھر چینج کرنے چلی گئی۔۔ واپس آئی تو وہ نائٹ بلب آن کر کے بستر میں سو چکا تھا۔ زرشے سکون سے دوسری طرف جا کر لیٹ گئی۔۔ اس کے ساتھ رہنے سے جھجک محسوس ہوتی تھی مگر مشکل کوئی نہیں تھی۔۔
اس نے موسٰی کو جیسا سوچا اور سمجھا تھا وہ کافی الگ نکلا تھا، نا زبردستی سر پر سوار ہو رہا تھا نا ہی غصہ کرتا یا تنگ کرتا تھا۔۔
اسے لگا زندگی آسان ہے، اس کی سوچ سے زیادہ آسان۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان رات کو فری ہو کر اپنے کمرے میں جانے لگی تو ایک بار پھر ایسے لباس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے کا سوچ کر گھبراہٹ ہوئی، غرارہ پیروں میں آ رہا تھا، سمیٹ کر اوپر کرتی کبھی سیڑھی پر پاؤں رکھتی، کبھی ہٹاتی متذبذب ہو رہی تھی۔۔
ادب خان سے ہاسپٹل میں پڑے راحم خٹک کی حالت کا پوچھ کر اس طرف آتے خانزادہ نے اسے دیکھا تو بےساختہ لبوں کو دلکش سی مسکراہٹ نے چھوا۔۔
"ٹھیک ہے ادب خان۔۔ اب وہاں سے ہٹ جاؤ۔۔" اسے ہدایت دے کر وہ کال بند کر کے اس کے پاس آیا۔
”اگر ہیلپ چاہیے تو میں بھی روم میں ہی جا رہا تھا۔۔“
اس کے پیچھے آ کر بولا تو اس بار مسکراہٹ شامل تھی، پریہان پلٹ کر اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔ آج نا چونکی تھی نا لڑکھڑائی تھی۔۔
"آپ کو وہ بات یاد ہے ابھی تک۔۔" وہ محظوظ ہوئی۔۔
"اس بار ہاں۔۔ مجھے مدد چاہئیے، بس میرا ہاتھ۔۔"
ابھی وہ جملہ مکمل نہیں کر پائی تھی کہ اس نے اگے بڑھ کر اپنا من پسند کام کیا۔ اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔
"مجھے سب یاد ہے اور میں ہمیشہ تمہارے لیے یہاں موجود رہوں گا۔۔ مجھے پتا ہے تم اس ڈریس میں سیڑھیاں چڑھنے سے ڈر رہی ہو۔۔ اچھی بات ہے ایسے ہی اپنا خیال رکھتی رہو۔۔" وہ مسکرا کر بولتا اوپر چڑھتا جا رہا تھا۔ پریہان نے یہاں وہاں نظر گھمائی۔
"حدیر بس۔۔۔ ہاتھ پکڑنا تھا۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو شرمندگی کی بات ہے۔۔" وہ شرمندہ سی بولی۔
"تم آج بھی سونے کی ایکٹنگ کر لینا۔۔" وہ ہنس کر بولتا اوپر پہنچا، کمرے کے سامنے اسے اتار دیا۔۔
"تمہاری فرینڈ کے لالا اب خطرے سے باہر ہیں۔۔" خانزادہ نے چینج کرنے کے لیے ڈریس اٹھاتے ہوئے سرسری سا بتایا، زیور اتارتی پریہان رکی۔۔
"کیا سچ میں۔۔ اوہ شکر ہے اللّٰہ۔۔" پریہان نے بےساختہ شکر ادا کیا۔ دل سے بوجھ سا اترا تھا۔
زیور اتار کر ڈریسنگ پر پھینکا اور ڈریسنگ روم میں جا کر چینج کیا، وہ بستر پر نیم دراز آج سکون سے مسکرا رہا تھا۔۔ راحم خان کی فکر ختم ہوئی۔۔ بہنوں کے بھی اچھے سے فرائض نبٹ گئے، اب پُروا کا قصہ باقی تھا۔۔ عیسٰی سے تفصیلی بات سے پہلے وہ پروا سے ملنا چاہ رہا تھا تاکہ حالات کا جائزہ لے سکے۔۔
"عیسٰی بھائی پروا کو ساتھ نہیں لائے۔۔ میں مل ہی لیتی۔۔ بہت یاد آ رہی یے۔۔ پریسہ کو جلدی ہے اسے بلوانے کی پھر تو جانے کب ملنا ہو ہمارا۔۔" وہ اس کے پاس آ کر بیٹھتی اداسی سے بولی تو خانزادہ چونکا۔
"عیسٰی کیسے لاتا۔۔ یہاں کسی کو خبر نہیں نکاح کی۔۔" اس نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔
"مجھے لے جائیں۔۔ بس ایک بار مل لوں گی۔۔ آنی سے بھی سہی سے بات نہیں ہوتی، ان کی طبیعت پتا نہیں کیسے ہو گی۔۔" وہ ایک فکر سے آزاد ہوتے ہی دوسری فکروں میں مبتلا ہو رہی تھی۔۔
"او۔کے ایک دو دن تک چلتے ہیں۔۔ پروا کو باہر بھیجنا ضروری ہے کیا۔۔؟ اگر عیسٰی کے ساتھ کوئی ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی۔۔ ہم اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔۔" اس نے اٹھ کر پریہان کے سامنے بیٹھتے ہوئے آہستگی سے اپنا خیال ظاہر کیا، بہرحال وہ اس بار زبردستی نہیں کر سکتا تھا مگر وہ حالات کی حقیقت سے بھی واقف تھا، مسز شائستہ نے اسے تفصیل دی تھی۔۔ وقار صاحب باقاعدہ سودا کیے بیٹھے تھے تو وہ جو کوئی بھی خریدار تھا، جانے نہیں دینے والا تھا۔۔
"نہیں۔۔ عیسٰی بھائی بالکل اسے پسند نہیں کرتے۔۔ وہ اس انتظار میں جتنا وقت گزارے گی کہ وہ پسند کرنے لگیں تب تک خود تھک جائے گی۔۔ باقی ہم مل کر دیکھ لیں گے ناں کیسے رکھا ہے عیسٰی بھائی نے اسے۔۔
آپ پلیز اس کے پیپرز ریڈی کروا کر ہی رکھیں، پریسہ آپی ٹھیک کہتی ہیں اس کی پڑھائی کا اتنا حرج ہو رہا ہے، ابھی اس کی شادی کر کے گھر بیٹھ جانے کی عمر نہیں ہے۔۔" پریہان کی باتیں بھی ٹھیک تھیں، وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا۔ عیسٰی کو کیسے زبردستی مائل کرتا، ممکن نہیں تھا اور وہ کسی اور سے کمٹمنٹ کر چکا تھا۔۔ مگر یوں نکاح کر کے ختم کرنا برا لگ رہا تھا۔۔
"آپ پُروا اور عیسٰی کے لیے بہت فکرمند ہیں کیا...؟"
پریہان نے اس کی طرف جھک کر اس کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا۔۔ وہ آج کل خانزادہ کو کچھ زیادہ کاپی کرنے لگی تھی، وہ مسکراہٹ دبا گیا۔
"تمہیں میری فکر ہو رہی ہے۔۔" اس کے گرد بازو پھیلا کر وہ معصوم صورت بنا کر پوچھنے لگا۔۔
"ہاں تو نہیں ہونی چاہئیے کیا۔۔" وہ اس کے حصار پر گڑبڑاہٹ کا شکار ہوتی ہچکچا کر بولی۔
"پریہان۔۔ میری زندگی میں شامل ہونے کا شکریہ۔۔" جھک کر اس کی ٹھوڑی پر لب رکھے اور اسے خود میں بھینچ کر بھاری آواز میں بولتا اسے سٹپٹانے پر مجبور کر گیا۔ شادی کو کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ اب تک، اس کے لمس پر شرم کا شکار ہو جاتی تھی۔۔
اس کا حصار ختم کر کے بستر پر لیٹتی اس کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ گئی۔۔ خاموش اشارہ تھا کہ اب سر دبائے۔۔ بہت ہوگئی پرواہ۔۔ خدمت کروانے کی عادت بھی تو پڑ گئی تھی اسے۔۔ خانزادہ نے اسے گھور کر دیکھا، اس کے ساتھ دراز ہوا، لحاف اس پر درست کر کے اسے اپنے سینے سے لگاتا نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔
وارننگ نوٹ
(((((( رائٹر کی اجازت کے بغیر جہاں بھی یہ ناول پوسٹ ہوتا ہوا نظر آیا ایپیسوڈز آنا بند ہو جائیں گی ))))))
"ایسے ہی سو جاؤ۔۔ مجھ سے سر نہیں دبایا جاتا۔۔ اب تم بہت زیادہ نخرے کرنے لگی ہو پریہان۔۔" ہولے سے اس کے سر پر چپت لگاتا وہ جتا کر بولا تو پریہان منہ بنا گئی۔۔
اس وقت سکون سے خانزادہ کے نرم گرم حصار میں قید پریہان نہیں جانتی تھی۔۔ آنی اپنے گھر میں اکیلی پڑی پڑی زندگی سے ہار چکی تھیں۔۔
دوسری جانب اکیلے اپارٹمنٹ میں سکڑی سمٹی پُروا خوف سے آنکھیں میچے سونے میں ناکام ہوتی سسکیاں بھر رہی تھی۔۔
ایک وقت اس نے سخت گزارا تھا جب وہ سب کے لیے سکون بھری رات کو ازیت کی طرح خود پر سہتی تھی، آج وہ سکون میں تھی اور وہ لوگ ازیت میں۔۔
وقت ایک بار سب کے لیے آزمائش بنتا ہے، سختیاں سب کے حصہ میں آتی ہیں۔۔ زندگی کبھی کسی کے لیے شروع سے آخر تک پھولوں سے بھری نہیں رہی۔۔۔
زندگی روپ بدلتی ہے، ہنساتی بھی ہے اور رلاتی بھی ہے۔۔ بس سہنے والوں کا الگ الگ صبر ہوتا ہے۔۔
پریہان نے سب کی سوچ سے زیادہ صبر کیا تھا۔۔
آنی کا صبر ان کی زندگی ختم کر گیا تھا۔۔
پروا مسلسل صبر کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔
قسمت دور کھڑی کھڑی تاسف سے ان کے گرد کھڑے مشکلات کے دائروں کو دیکھ رہی تھی۔۔
پریہان بری طرح چیخ چیخ کر رو رہی تھی، اپنی آنی کی موت پر اس کا دل باہر آنے کو تھا، اپنی مما کے بعد وہی تھیں جو ماں کے برابر پیار دیتی رہی تھیں۔ اسے سینے میں بھینچ کر اس کے بکھرے بال سمیٹتا خانزادہ بہت مشکل سے اسے سنبھال رہا تھا۔۔
"پریہان صبر کرو۔۔ تمہاری طبیعت بگڑ جائے گی، ابھی تمہیں وہاں جانا بھی تو ہے۔۔ نماز پڑھ کر نکلتے ہیں، تم خود کو سنبھالو گی تو جائیں گے ناں۔۔" اسے خود میں سمیٹ کر نرمی سے تھپکتے ہوئے دلاسہ دیا۔۔
صبح صبح پریہان کے نمبر پر کال آ رہی تھی، وہ کسمسا کر کروٹ بدلتی تنگ ہو رہی تھی۔۔ خانزادہ جو فجر کے لیے اٹھا تھا موبائل اٹھا کر سائلنٹ لگاتا نمبر چیک کرنے لگا۔۔ اس کی آنی کا نمبر تھا۔۔
اس نے ایک نظر سکون سے سوتی پریہان کو دیکھا اور کال بیک کر کے موبائل کان سے لگا لیا۔۔
"ہیلو پریہان۔۔؟" کسی اجنبی آواز پر وہ چونکا۔
"جی فرمائیے۔۔ میں پریہان کا ہزبینڈ بات کر رہا ہوں۔۔"
خانزادہ نے تھوڑا سائیڈ ہو کر آہستگی سے جواب دیا۔
"اچھا بیٹے پریہان کو بتا دو اس کی آنی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔" اس اطلاع پر اسے جھٹکا سا لگا تھا۔
"اوہ او۔کے۔۔ ہم پہنچتے ہیں۔۔ گھر پر ہی ہیں ناں وہ۔۔؟"
خانزادہ نے پریشانی سے ماتھا مسلا۔۔ جواب اثبات میں ملا تھا۔ وہ کال کاٹ گیا۔ تفکر سے پریہان کو دیکھا تھا اور کیسے اسے اطلاع دی تھی یہ وہی جانتا تھا۔۔ اس کی حالت کا خیال بھی تھا مگر یہ بات چھپانا بھی سہی نہیں تھا۔۔ اس کے سینے میں چہرہ چھپا کر وہ رو رو کر نڈھال ہو رہی تھی۔۔ وہ فکرمند ہوا۔
گل جان کو بتا کر ساتھ چلنے کی ریکوئسٹ کی تو وہ فوراً تیار ہو گئیں، وہ پریہان کو اس حال میں اکیلا چھوڑنے سے گھبرا رہا تھا۔۔ آغا جان کے پاس گیا۔۔
"پریہان کی آنی کی ڈیتھ ہو گئی ہے آغا جان۔۔ میں جا رہا ہوں۔۔ آپ لوگ بھی ضرور آئیے گا، اٹس فیملی ڈیتھ۔۔" ان کو اطلاع دے کر اس نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ پریشان ہوئے، سر ہلا کر اسے خیر سے جانے کا کہا۔
پریہان کو سنبھالنا ہی مشکل ہو رہا تھا، اسے بمشکل سنبھال کر شہر کی طرف روانہ ہوا۔۔ ادب خان نے اپنی مخصوص رفتار اور بہترین ڈرائیو کر کے وہاں پہنچایا تو سورج آسمان پر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔
گھر میں کافی لوگ جمع تھے، شاید محلے کے لوگ پہنچے ہوئے تھے، گل جان کے پاس پریہان کو وہاں چھوڑ کر وہ پُروا کو لینے خود چلا گیا۔۔
وہ کمرے میں سکڑی سمٹی شاید رات کے کسی آخری پہر سوئی تھی، یہ اطلاع اس کے لیے بھی کسی قیامت سے کم نا تھی۔۔ ایسے موقع پر حدیر نے اسے بڑے بھائیوں کی طرح بہت اچھے سے سنبھالا تھا۔
اسے لے کر وہاں پہنچا۔۔ اس کی ہدایت کے مطابق ادب خان اوپر کے سب انتظام سنبھال رہا تھا۔۔
آغا جان سے رابطہ ہوا تو حویلی والے راستے میں تھے مگر عیسٰی کو نا خبر تھی نا آ رہا تھا۔۔ شاید وہ سو رہا تھا ابھی تک، حویلی جا کر نیندیں پوری کرتا تھا۔۔
"عیسٰی کب سے کالز کر رہا ہوں۔۔ کبھی فوراً کال بھی اٹھا لیا کرو تم دونوں بھائی۔۔" وہ کال پر عیسٰی سے بات کرتا حالات کے پیش نظر سہی تپا ہوا تھا۔
"سوری لالا موبائل سائلنٹ۔۔" عیسٰی نے گھبرا کر وضاحت دینا چاہی مگر وہ بات کاٹ گیا
"شہر پہنچو۔۔ لوکیشن بھیجوں گا، وہاں آ جاؤ۔۔" آنی کی ڈیتھ کی اطلاع دے کر آنے کا کہا۔
"اوہ سیڈ۔۔ مگر میں آ کر کیا کروں گا لالا۔۔" وہ مدھم آواز میں بولا۔۔ خانزادہ نے لب بھینچے۔۔
"اس رشتے کی مناسبت سے بلانا ہوتا تو صبح ہی کہہ دیتا جب مجھے جا کر تمہاری بیوی کو لانا پڑا، دلاسہ دینا پڑا۔۔ دنیا داری کے لیے آ جاؤ۔۔ ایسا نا ہو بعد میں شرمندگی ہو، باقی تمہاری مرضی۔۔" وہ سنجیدگی سے کہہ کر کال کاٹ گیا تھا۔۔
___________
جنازہ دن ڈھلنے سے پہلے ہی اٹھا لیا گیا تھا۔۔ وقار صاحب نے کسی کال کا رسپانس نہیں دیا تھا اور مسز شائستہ کے نمبر سے مسلسل کی جانے والی کالز پر بس ایک میسج چھوڑا کہ ملک سے باہر ہوں۔۔ پریسہ کو لاکھ کوشش کے باوجود کوئی فلائٹ میسر نہیں آئی تھی۔۔ پروا کی طبیعت اتنی بگڑ گئی تھی کہ اسے سکون آور دوا دے کر کمرے میں سلا دیا تھا، پریہان کی طبیعت بھی خراب ہو رہی تھی۔۔ ریما اسے سائڈ پر لے گئی تاکہ وہ کچھ ریسٹ کرے اور بہتر ہو۔۔۔
گل جان بیگم نے گھر کے معاملات کو اچھے سے سنبھال لیا۔۔ ریما آ گئی تھی مگر مرحا نہیں آ پائی تھی، دن ڈھلتے ہی حویلی والے واپس لوٹ گئے تھے، عیسٰی آ گیا تھا مگر اب مروت میں پھنسا منتظر تھا کب خانزادہ اسے جانے کا کہے گا۔۔
پریہان زرا سنبھل کر شام کے وقت تعزیت کے لیے دوبارہ سے آئی عورتوں کے ساتھ سر ڈال کر بیٹھ گئی۔
"ہمیں تو خبر بھی نا ہوتی۔۔ قدیر عشا پڑھ کر آ رہے تھے کہ یہ گیٹ کھلا ہوا ملا، وہ توجہ نہیں دے پائے۔۔ میں تہجد کے بعد تسبیح کرتی یونہی ٹیرس پر آئی تو دیکھا گیٹ پورا کھلا ہوا ہے، قدیر سے زکر کیا تو وہ بھی فکر مند ہوئے کہ گیٹ تو رات سے کھلا ہے۔۔ ہم دیکھنے آئے تو یہیں کچن کے پاس پڑی ملیں، یخ پڑ رہی تھیں۔۔۔ ہم تو ہاسپٹل بھی لے گئے مگر ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کافی دیر پہلے مر چکی تھیں۔۔"
سامنے گھر والی زینت بیگم اپنے خاوند کا حوالہ دیتے ہوئے پریہان کے ساتھ ساتھ باقی سب کو تفصیل دے رہی تھیں، پریہان کے دل میں درد سا اٹھا تھا۔۔ کیسے لاوارث پڑی تھیں، جانے کس ازیت میں موت آئی ہو، کاش وہ آ جاتی۔۔ وقار صاحب اس حال میں بھی اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے، بےحسی کی حد کری تھی۔۔۔
"وقار صاحب کہاں گئے، ایسی بگڑی طبیعت کے ساتھ وہ گھر میں اکیلی تھیں۔۔ یہ تو ہونا تھا۔۔ کیا خبر وقت پر لے جایا جاتا تو بچ جاتیں۔۔" ایک عورت نے تاسف سے کہا۔ گل جان اسی وقت سب کے لیے چائے لے آئیں۔
"موت کا وقت تو انسان کی زندگی کے ساتھ ہی اللّٰہ طے کر دیتا ہے۔۔ پہلے وقتوں میں جب عزرائیل روح قبض کرنے آتے تھے تو انسان ان سے ڈر کر چھپتا تھا، دور بھاگتا تھا۔۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عزرائیل کی شکایت پر اللّٰہ نے کہہ دیا کہ عزرائیل آج کے بعد آپ کو دیکھ کر کوئی نہیں ڈرے گا نا بھاگے گا۔۔ آج کے بعد موت کا بہانہ ہو گا اور لوگ اسی بہانہ کو موت کی وجہ بنا دیں گے۔۔ جیسے آج ہم حالات اور بیماریوں کو وجہ بناتے غیرمطمئن رہتے ہیں درحقیقت تو انسان اللّٰہ کی امانت ہے۔۔ ہم سب جانے کے لیے ہی آئے ہیں۔۔"
گل جان بیگم نے نرمی سے کہا۔ وہ جانتی تھیں پریہان اس وقت اسی پچھتاوے میں مبتلا ہے، وہ صبح سے روتے ہوئے جانے کتنی بار دوہرا چکی تھی کہ آنی اکیلی نا ہوتیں تو ایسا نا ہوتا۔۔
پریہان نے بےساختہ انہیں دیکھا، دل میں گڑھا پچھتاوا زائل سا ہوا۔۔ عورتیں بھی خاموش ہو گئیں۔۔
"برا مت منائیے گا سنا ہے آپ بھی دوسری ساس ہیں پریہان کی۔۔ ویسے تو آپ کے گھر کا معاملہ ہے مگر آپ نے تو بچیوں کو کھل کر غم ہی نہیں منانے دیا۔۔ دل پھٹتا ہے انسان کا۔۔ جب تک کھل کر اظہار نا کر لے۔۔ آواز نا نکال لے۔۔" ایک عورت نے قدرے جتاتے لہجے میں گل جان کو سنایا تھا۔
"غم رو کر ہلکا ہوتا ہے۔۔ رونا منع نہیں، آواز نکالیں منع نہیں مگر اتنی نا ہو کہ باہر موجود مرد بھی آپ کی آواز سنیں۔۔ اور بچیاں صدمے میں بین کرنے لگی تھیں۔" گل جان کی بات پر پریہان خفت زدہ ہوئی۔
وہ کہتی رہی تھی کہ کاش آنی کی جگہ میں مر جاتی، کاش اللّٰہ ابھی آنی کو نا لیتا۔۔ پروا بھی اپنے ہی مرنے کی باتیں کرنے لگی تھی کہ کاش وہی مر جاتی آنی ٹھیک رہتیں، سب ٹھیک رہتا۔۔ وہ ہوش میں نا تھیں۔
"اسلام میں بین منع ہے، میت کے پاس آپ جو بھی الفاظ کہتے ہیں اس وقت فرشتے ساتھ ساتھ آمین کہتے ہیں۔۔ اگر آپ ان کے لیے کلمہ پڑھنے، بخشش اور قبر میں آسانی کی دعا کریں تب بھی فرشتے آمین کہتے ہیں گر آپ کچھ غلط کہہ دیں تب بھی آمین ہوتا ہے۔۔ تو بہتر نہیں کہ تب اپنی بجائے ان کا سوچیں۔۔
دوسری بات مرنے والے کی سننے کی حسّ سلامت رہتی ہے، اس وقت وہ جو سننا چاہتا ہے وہ فقط کلمہ، قرآن اور اس کے لیے دعا ہوتی ہے۔۔ یہ جو ان کے غم میں ہم چیختے چلاتے ہیں تب وہ بھی یہی افسردہ ہوتا ہے کہ آخر ان سب لوگوں سے ایسا کیا لے کر جا رہا ہے کہ یوں چیخ رہے ہیں۔۔ موت کے بعد آپ کے پیاروں کو آپ کے یہ جذباتی جملے تکلیف دیتے ہیں۔۔"
گل جان نے اس بار بھی نرم لہجے میں ہی جواب دیا۔
"اور یہ جو انہیں چھُو رہی تھیں، کیا آپ نہیں جانتیں انسان کے جسم سے روح نکلنے کا عمل ایسا ہے جیسے مَلمَل(نہایت نرم کپڑا) کے اوپر کانٹوں بھری جھاڑ ڈال کر کھینچی جائے۔۔ اس کے بعد کیا آپ اندازہ کر سکتی ہیں مرنے والے انسان کا جسم اس قدر نازک ہو رہا ہوتا ہے کہ مکھی بیٹھ جائے بھی شدید تکلیف دیتی ہے۔۔ پھر جس اپنے کو زندگی میں آپ تکلیف دینے کا نا سوچ سکیں اسے مرنے کے بعد جب وہ چند پل کا مہمان ہوتا ہے ایسی ازیت دیں۔۔ صرف اپنی تسکین کے لیے۔۔؟ صرف اس لیے کہ آپ چاہ رہے ہوتے ہیں۔؟"
گل جان کے جملوں پر پریہان ساکت ہوئی۔۔ اپنی کچھ پل کی تسکین کے لیے ہم کیسی ازیت پہنچا جاتے ہیں اپنوں کو۔۔ کیا وہ ایسے میں ہم سے خوش ہو کر جاتے ہوں گے۔۔ شاید وہ تو ایسے اپنوں سے مایوس ہو کر جاتے ہیں۔۔ یہ وہ غلطیاں ہیں جو ہم یا تو جانتے نہیں یا جان کر بھی نظرانداز کرتے ہیں کیونکہ اس وقت ہم خود غرض ہو رہے ہوتے ہیں، ہمیں اپنا سکون، اپنے آخری لمحات کا لمس، اپنا بہترین الوداع چاہیے ہوتا ہے، ہم محبت محبت کا نعرہ لگاتے اپنوں کو مرنے کے بعد جاتے جاتے بےپناہ ازیت کا شکار کر کے سکون میں ہوتے ہیں؟ کیسے کر لیتے ہیں ہم یہ۔۔ ایسی خودغرضی۔۔
(ان سب باتوں میں کمی بیشی اللّٰہ معاف کرے)
گل جان چائے کے خالی ہو چکے برتن اٹھا کر لے گئیں۔۔
"بیٹا چھوٹی پروا کہاں تھی؟ تمہاری تو شادی ہو گئی تھی پھر وہ کہاں تھی، شائستہ نے تو کہا تھا بڑی بہن کے پاس جا رہی ہے مگر وہ تو یہیں تھی۔۔" ایک عورت نے کھوج لگاتے پوچھا۔ افسوس کے بعد یہی مقام تو آتا ہے، دوسروں کے معاملات کی کھوج۔۔ آج کل لوگ موت کے گھر میں بھی دوسروں کا جائزہ لیتے ہیں اور بعد میں اسی بات پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔۔
"اس کا بھی آنی نے اپنی زندگی میں ہی سادگی سے نکاح کر دیا تھا۔۔ وہ کم عمر ہے مگر ہم دونوں بہنیں اپنے ساتھ رکھتیں یہ مناسب نہیں تھا، آنی اپنی حالت سے بہت پریشان رہتی تھیں تو۔۔" پریہان ان کا زکر کرتی بھیگی آواز میں بولی۔۔ دل بار بار بھر آ رہا تھا۔
صبر بہت مشکل تھا۔۔ اور بہت مشکل سے آنے والا تھا۔
"اوہ اچھا کیا۔۔ یہی بہتر ہے وہ کم عمر ہے مگر بالغ اور باشعور ہے۔۔ بیٹا آج کل حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے سر پر ماں باپ نہیں تھے۔۔ بہنوں کے پاس رہ کر اچھا نہیں لگتا نا وہ گھر اپنا ہوتا ہے، ایک در سے دوسرے در رُلتی اس سے اچھا ہے وہ اپنے گھر کی ہو گئی۔۔"
زینت بیگم نے مسز شائستہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کیا۔ پریہان کو بھی پہلی بار اس فیصلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا، آج وہ بنا نکاح کے یہاں آتی تو کیا وہ سب کو مطمئن کر پاتی۔۔ کبھی نہیں۔۔ یا اس پر ترس کھایا جاتا یا شاید کردارکشی بھی کر دی جاتی۔۔
"کس سے کیا نکاح۔۔ کوئی غیر ہیں کیا۔۔" کسی نے پوچھا۔ پریہان نے آنسو صاف کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔
"میرے دیور ہیں۔۔ وہ جو باہر میرے ہزبینڈ کے ساتھ موجود ہیں۔۔" پریہان کے بتانے پر وہ رشک بھرے دعائیہ جملے کہتیں ادھر ادھر کی بات کرنے لگیں۔ رات کا کھانا کھا کر سب وہاں سے گئے تو دکھتا سر لیے پریہان سسکنے لگی۔۔
لوگ بہت عجیب ہیں، افسوس کے دو کلمات کے بعد انہیں لگتا ہے رسم نبھا لی تو دنیا کے حال احوال کیے جا سکتے ہیں، مرنے والوں کے لواحقین سے ادھر ادھر کے معاملات پوچھتے جان ہی نہیں پاتے کہ آگے والا کس مشکل میں بیٹھا ہے۔۔ اور سوگ کے گھر میں کھانا کھانے کی نہایت بری روایت۔۔ عام رشتہ داروں کے لیے بھی سوگ کے تین دن جائز ہیں اور تین دن بعد سوگ ناجائز۔۔ تو تین دن احترام کرنا چاہئیے۔۔
سب کے جانے پر خانزادہ اور عیسٰی اندر آئے تھے۔ عیسٰی نے پریہان کو پُرسہ دیا اور پہلو بدلتا واپس جانے کے لیے بےچین ہونے لگا۔ سفید کرتا شلوار پر سیاہ مردانہ شال کندھوں پر رکھے وہ تھکن سے زیادہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا جبکہ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس خانزادہ تھکن زدہ اور کافی سنجیدہ لگ رہا تھا۔۔
"اگر برا نا لگے تو میں چلا جاؤں۔۔؟" عیسٰی نے بالآخر گل جان سے بات کرتے خانزادہ سے کہا۔
"حویلی جاؤ گے کیا؟ کھانا تو کھا کر جاؤ عیسٰی.."
خانزادہ اور گل جان نے ایک ساتھ سوال کیے۔۔
"نہیں اب حویلی نہیں جاؤں گا بس۔۔ آئی تھنک کھانا رہنے دیں مورے۔۔ بہت تھک گیا ہوں، بس سونا ہے۔۔" عیسٰی نے آہستگی سے جواب دیا تھا۔۔
"پُروا کو نہیں دیکھو گے عیسٰی۔۔" خانزادہ نے دروازے سے نکلتے عیسٰی کے پاس جا کر آہستگی سے پوچھتے ہوئے اسے جانچا۔۔ اسے حیرت ہوئی تھی، نکاح جیسے رشتہ میں بندھ کر اتنا وقت ساتھ رہ کر بھی وہ پُروا کے لیے دل میں اتنی سی فکر بھی نہیں کر رہا تھا کہ ایسے غم کے موقع پر اسے تسلی دے دیتا۔۔؟
"وہ سو رہی ہو گی۔۔ میں کیا کروں گا دیکھ کر۔۔" وہ نظریں چرا کر بولا۔۔ پروا کی حالت کا سوچ کر ہی اسے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا، کہاں وہ چھوٹی سی بات پر رو رو کر برا حال کر دیتی تھی کہاں اتنا بڑا غم۔۔ جانے اب کس حال میں تھی، اسے دیکھنے یا دلاسہ دینے کی ہمت ہی نہیں کر پا رہا تھا۔۔
وہ کچن کا پھیلاوا سمیٹتی گل جان کے پاس چلا گیا۔ خانزادہ نے خاموشی اختیار کی اور پلٹ کر پریہان کے پاس آیا جو نڈھال سی صوفہ پر بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھتے جھک کر پیشانی چومی۔۔
"پریہان کیا تم نے کچھ کھایا۔۔؟" اس کے گرد بازو پھیلا کر نرمی سے پوچھا، وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ یقیناً کھایا پیا بھی نہیں تھا کچھ۔۔
"ایسے مت کرو پریہان۔۔ غم، پریشانی اپنی جگہ مگر یہ بھی ضرورت ہے تمہاری۔۔ کھانے پینے سے پرہیز کر کے کوئی صبر نہیں مل جاتا نا جانے والے لوٹ کر آتے ہیں۔۔" اسے خود سے لگائے نرمی سے سمجھا رہا تھا۔
عیسٰی کچن سے نکل کر کب کا جا چکا تھا، گل جان نے ان دونوں کے لیے کھانا لا کر ٹیبل پر رکھا۔
"کھانا کھا لو دونوں۔۔ میں عشاء پڑھنے جا رہی ہوں، پُروا کو بھی اٹھا کر کھلا دوں گی۔۔" گل جان نے نرمی سے کہا تو وہ انہیں تشکر بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ وہ بہت بڑا سہارا بنی تھیں۔۔
پریہان کو اس نے سمجھاتے، رعب جھاڑتے کھانا کھلاتے ہوئے ہی تھوڑا بہت خود بھی کھا لیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°آ
پُروا کو اٹھا کر گل جان بیگم نے کھانا کھلایا تو وہ اس دوران ہی پھر سے رونے لگی تھی۔۔
"آنی کیوں چلی گئیں۔۔" اس کا وہی ایک شکوہ جو وہ مسلسل دوہراتی ڈسٹرب ہو رہی تھی۔۔ گل جان نے پیار سے اسے سینے سے لگا لیا۔۔
"وہ بیمار تھیں، تکلیف میں تھیں تو اللّٰہ نے ان کی مشکل آسان کر دی۔۔ یہاں اکیلی اداس ہوتی ہوں گی تو اللّٰہ نے اپنے پاس بلا لیا۔۔ بیٹا ہر کام میں اللّٰہ کی مصلحت ہوتی ہے۔۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کچھ لوگ نہایت معذوری میں۔۔ فالج زدہ برسوں بستر پر محتاج پڑے ہوتے ہیں۔۔ پڑے پڑے زخم ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات زخموں میں کیڑے لگ جاتے ہیں۔۔
کوئی انہیں سنبھالنے والا نہیں ہوتا اور وہ زندگی سے بےزار ہو کر بھی اپنا وقت پورا کرتے رہتے ہیں۔۔
کیا آپ یہ نہیں دیکھتیں کہ وہ اچھے حال میں چلی گئیں، اکیلی تھیں، بستر پر پڑی رہ جاتیں، ازیت سہتی رہتیں اور کھانے پینے کو بھی محتاج ہو جاتیں تو کیا یہ اچھا تھا۔۔؟" انہوں نے نرمی سے تھپکتے ہوئے سوال کیا، پُروا نے اداسی سے نفی میں سر ہلایا۔
"وہ اکیلی نا ہوتیں ناں۔۔ مجھے ساتھ کیوں نہیں رکھا، مجھے بھی اکیلا چھوڑ دیا انہوں نے۔۔" وہ روتے ہوئے بولی تھی۔ اسے تو اپنا غم بھی ستا رہا تھا۔۔
"آپ نہیں جانتیں کیا خبر کوئی ایسی وجہ ہو کہ وہ خود بھی اکیلی تکلیف سہتی رہیں اور آپ کو بھی اکیلا رکھا۔۔ کیا پتا وہ وجہ آپ کو بتانے پر آپ ساری زندگی خوف کا شکار رہتیں۔۔ اگر ساتھ ہوتیں تو کیا مرنے سے بچا لیتیں۔۔ نہیں بیٹا موت سے کبھی کوئی نہیں لڑ پایا۔۔ اکثر معصوم لاڈلے بچے مر جاتے ہیں، جواں بھرے گھر کے لوگ مر جاتے ہیں تو کیا ان کو کبھی موت سے آزاد کروا پایا ہے کبھی۔۔؟
اگر ساتھ ہوتیں اور وہ بستر کی ہو جاتیں، کیا آپ ساری عمر ان کی خدمت کر سکتی تھیں۔۔ آپ کی محبت پر کوئی شک نہیں مگر یہاں سگی اولادیں تھک جایا کرتی ہیں، تاعمر کون ساتھ دیتا ہے بچے۔۔ اللّٰہ نے آپ کی وہ آزمائش نہیں لی۔۔ اللّٰہ صبر آزما رہا ہے، اپنی امانت واپس لے کر۔۔ دیکھ رہا ہے کہ اب آپ کیسے صبر کرتی ہیں۔۔ راضی رہتی ہیں یا اللّٰہ کو ناراض کرتی ہیں۔" گل جان جانے کتنی دیر نرمی سے اسے سمجھاتی تھپکتی رہیں، وہ ان کے سینے سے لگی سنتی سنتی آنکھیں موندے سو گئی۔۔
پریہان کمرے میں آئی تو وہ جائے نماز پر بیٹھی تھیں اور پروا سکون سے سو رہی تھی۔۔
"اگر آپ چاہیں تو اوپر بھی ایک روم ہے، وہاں سو جائیں۔۔ میں پروا کے پاس سو جاؤں گی۔۔" پریہان نے ان کے پاس رک کر دھیرے سے کہا۔
"خانزادہ کہاں ہے؟" دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہوں نے سوال کیا، پروا کو تکتی پریہان چونکی۔
"وہ تو دوسرے روم میں ہیں۔۔ آنی والا روم فری تھا۔۔"
پریہان نے گہرا سانس بھر کر افسردگی سے بتایا۔۔
"تو تم وہاں جا کر سو جاؤ پریہان۔۔ میں یہیں سو جاتی ہوں۔۔" انہوں نے نرمی سے جواب دے کر جائے نماز لپیٹی اور ایک طرف ٹیبل پر رکھ دی۔
"آپ تنگ نا ہوں اس لیے کہہ رہی ہوں۔۔ پروا تو ڈر کر بھی اٹھ جاتی ہے اکثر۔۔ آپ کی نیند خراب ہو گی۔۔"
پریہان کی وضاحت پر وہ پروا کو دیکھنے لگیں۔
"مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔۔ جتنا زیادہ روتی ہے اتنا جلدی بہل جاتی ہے۔۔ ایک بات پوچھوں پریہان؟"
وہ آہستگی سے بولتی قریب صوفہ پر بیٹھ گئیں، پریہان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کیا اس کا نکاح ہو چکا ہے؟ مجھے ایسا لگا۔۔" ان کے سوال پر وہ انہیں دیکھتی قریب بیٹھ کر مختصراً ساری بات بتاتی چلی گئی۔۔ گل جان سے تو اس نے پہلے روز سے اپنی ہر بات شئیر کی تھی۔۔
"پریہان اگر ایسا ہے تو رشتہ ختم کرنے کی بات مت کرو۔۔ رشتے کھیل نہیں ہوتے بیٹا، بہن کو دور بھیجنا چاہتی ہو تو کچھ وقت کے لیے بےشک بھیج دو۔۔
تھوڑا وقت دو۔۔ تھوڑا سوچنے دو پھر ان دونوں کو خود فیصلہ کرنے دو۔۔ عیسٰی بظاہر لاپرواہ اور اکھڑا ہوا لگتا ہے مگر وہ بہت نرم دل اور پرواہ والا ہے۔۔ اس کی طبیعت اور مزاج خانزادہ جیسے ہی ہیں۔۔ ایک بار دل سے قبول کر لیا تو ہر حال میں اپنائے گا۔۔"
ان کی بات پر وہ کچھ ناراضگی سے سر جھٹک گئی۔
"آپ نے دیکھا مورے اس نے پروا کو دیکھا تک نہیں، رسماً آ کر تسلی دلاسہ تک نہیں دیا۔۔ آپ کو لگتا ہے وہ پرواہ والا ہے۔۔ حدیر بہت اچھے ہیں، سب سے الگ۔۔"
پریہان کی بات پر وہ بےساختہ مدھم سا مسکرائیں۔
"جانتی ہو جانے سے پہلے کچن میں میرے پاس آیا تھا وہ۔۔ مجھ سے کہا مورے پُروا کو اپنی نگرانی میں کھانا کھلانا، ایسے وہ کبھی نہیں کھائے گی۔۔ مجھ سے ریکوئسٹ کی کہ وہ بہت اپ سیٹ ہے اس کے پاس ہی آج رات رہوں۔۔ بار بار کہہ رہا تھا، اکیلی رہی تو روتی رہے گی مورے اور پھر اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔۔ میں حیران تھی کہ وہ کس حق سے یہ بات کر رہا ہے مگر سوچا ویسے ہی انسانیت میں کہہ رہا ہو گا۔۔
ہاں اس نے تسلی نہیں دی، ہو سکتا ہے ہمت نا ہو رہی ہو۔۔ دیکھنے نہیں آیا کہ شاید اس حال میں دیکھ نا سکتا ہو۔۔ بیٹا خود سے فیصلہ مت لو تھوڑا حالات کا جائزہ لے کر ہی فیصلہ کرنا۔۔ اس کی زمہ داری ہے ناں پروا تو اس کے پاس رہنے دو، اس کے پاس رہے گی تو خود زمہ داری سمجھ بھی لے گا، سنبھالنے بھی لگے گا۔۔" ان کی بات پر پریہان نے پُروا کو دیکھا۔۔
"کچھ عرصہ بھیج دوں تو اچھا ہے۔۔ ابھی سیونٹین ہے، چھوٹی ہے بہت۔۔" پریہان نے نفی میں سر ہلایا۔
"جانتی ہو جب میں ونی ہو کر آئی تھی تو سولہ سال کی تھی۔۔ میرا خیال رکھنے، نرمی برتنے والا کوئی نہیں تھا۔۔ سترہ سال کی عمر میں ماں بن گئی، گھر کے کام بھی کیے، بچے سنبھالے، طعنے بھی سنے۔۔ مار بھی کھائی۔۔ شروع میں لگا ایسے ہی کبھی سسک کر مر جاؤں گی۔۔ مگر میں تب حالات کو دیکھ کر بڑی ہوتی گئی، سمجھدار ہو گئی، جینا آ گیا اور جی لی، مری نہیں، ایک وقت آیا آنسو بھی خشک ہو گئے۔۔
پُروا چھوٹی ہے کیونکہ اسے بڑا ہونے نہیں دیا جا رہا۔۔ سب کے لاڈ اور محبت بھرے حصار میں رہی ہے، ہاں مشکل ہو گی مگر وہ میری طرح لاوارث نہیں ہو گی، اس پر ہاتھ اٹھانے والوں کا ہاتھ روکنے والے بہت ہیں۔۔ اس کے آنسو صاف کرنے والے، کندھا دینے والے بھی ہیں۔۔ تم ہو، بڑی بہن ہے، خانزادہ بھی ہے۔۔ سب سے بڑھ کر عیسٰی چاہے چڑچڑا ہے مگر خان آزر نہیں ہے۔۔ تھوڑی تکلیف اور تھوڑی سختی سہے گی تو اسے حالات سمجھ آنے لگیں گے، بڑی ہو جائے گی۔۔ جینا سیکھ جائے گی۔۔ اگر سہارا دیتی رہو گی تو ساری عمر سخت لہجوں پر رو کر پناہ ڈھونڈتی پھرے گی۔۔
تم بھی بڑی نہیں تھیں پریہان، روتی رہتی تھیں، تنگ ہوتی تھیں پھر اب سنبھل گئی ہو، حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے تو اب مشکل بھی نہیں ہوتی۔۔
میری باتوں کو سوچنا اور ابھی جا کر سو جاؤ۔۔ بہت دیر ہو گئی۔۔ تمہاری حالت ایسی ہے تھک جاؤ گی۔۔"
گل جان بات مکمل کر کے اٹھیں اور بستر پر جا کر سوتیں، پروا کو اپنے پاس کر گئیں۔۔ ممتا بھرا نرم گرم لمس محسوس کرتے ہی پُروا ان سے لپٹ کر سو گئی تھی۔۔ پریہان پرسوچ نظروں سے انہیں دیکھتی خاموشی سے باہر نکلی اور دبے پاؤں دوسرے کمرے میں پہنچی۔۔ خانزادہ سے وہ کہہ کر گئی تھی کہ پروا کے پاس سوئے گی تبھی وہ نیند میں گم تھا۔۔
لحاف میں گھستی وہ کھسک کر اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔ اس نے نیند سے جاگ کر نیم وا آنکھوں سے پریہان کو دیکھا اور اس کے گرد بازو لپیٹتا اسے اپنے حصار میں چھپا گیا۔۔
کیا واقعی عیسٰی بھی خانزادہ حدیر جیسی پروا اور خیال رکھ سکتا ہے، اس جیسی فکر اور محبت کرے گا پُروا سے۔۔ اگر ایسا ہوا تو پُروا واقعی جینا سیکھ جائے گی۔۔ کیا اسے آزمانا چاہئیے۔۔ آزما ہی لینا چاہئیے۔۔
نیند میں جاتی پریہان کی سوچ عیسٰی کے گرد گھوم رہی تھی۔۔ گل جان کی باتوں سے وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو رہی تھی۔۔
°°°°°°°°°°°
انہیں مسز شائستہ کے گھر رہتے ہوئے پورا ہفتہ گزر گیا تھا، خانزادہ اپنے آفس کا ورک بھی دیکھ رہا تھا اور شام کو وہیں گھر آ جاتا تھا مگر اب ساری عمر وہاں رہنا بھی ممکن نہیں تھا اور آغا جان کی بھی طبیعت خراب تھی، ان کا سن کر وہ بےچین ہو رہا تھا۔۔
"پریہان اب ہمیں حویلی واپس لوٹ جانا چاہئیے۔۔ اب یہاں مزید رہنا مشکل ہے میرے لیے۔۔ آغا جان کی طبیعت بھی کافی خراب ہے۔۔ جانا چاہئیے۔۔"
اس نے ساتویں روز آفس جانے کی بجائے لاؤنج میں بیٹھے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور پریہان کو اپنے پاس بٹھا کر نرمی سے کہا تو وہ پریشان ہوئی۔
"جی دل نہیں چاہ رہا مگر جانا تو ہے۔۔ پُروا سے بات کرتی ہوں، بس اس کی فکر ہے بہت۔۔" وہ سر جھکا کر بولتی افسردہ ہونے لگی۔ خانزادہ نے اپنائیت سے اس کی پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑا۔
"پُروا کو میرے پاس بھیجو۔۔ کچھ بات کرنی ہے۔۔ اگر وہ ان کمفرٹیبل ہو گی عیسٰی کے پاس واپس جانے سے تو کوئی زبردستی نہیں۔۔ اسے اپنے ساتھ حویلی لے جائیں گے، باقی میں ہینڈل کر لوں گا۔۔"
پریہان نے بےساختہ اس کا چہرہ دیکھا، پہلے وہ شکوہ کرتی تھی اللّٰہ سے، اب مصلحت سمجھ آتی تھی اگر ہادی سے شادی ہو جاتی تو کیا وہ ایسے پُروا کو سنبھالتا۔۔ کبھی نہیں مگر سامنے بیٹھا مہربان شخص اس کی زندگی کی ہر مشکل میں ساتھ کھڑا تھا۔۔
"جی بھیجتی ہوں۔۔" وہ تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھتی اٹھی اور گل جان بیگم کی باتیں سوچتی روم میں گئی۔۔ پُروا ان کے پاس ہی بیٹھی رہتی تھی۔۔
"پُروا جاؤ حدیر بلا رہے ہیں۔۔" پریہان نے پُروا کو بھیجا تو وہ جلدی سے اٹھ کر حدیر کے پاس بھاگی، ان کچھ دنوں میں ہی وہ حدیر سے بہت قریب ہو گئ تھی، بھائی بھائی کی رٹ لگائے اس کے سر پر سوار رہتی تھی۔۔ پریہان وہیں گل جان کے پاس بیٹھ گئی۔
"مورے گل آج ہم حویلی کے لیے نکلیں گے، آپ نے اس تمام وقت میں جیسے ہمیں سنبھالا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کو ویسا کبھی نا سنبھال پاتیں۔۔" وہ تشکر سے بولتی ان کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا گئی۔۔
"مورے کہا ہے تو سنبھالنا ماؤں کا فرض ہوتا ہے۔۔"
وہ نرمی سے مسکرا کر بولتیں اس کا گال تھپتھپا کر بات ختم کر گئیں۔
پُروا لاؤنج میں حدیر کے پاس جا کر بیٹھی وہ ہاتھ میں پروا کا پاسپورٹ اور ٹکٹ تھامے سوچ میں گم تھا۔ پریہان کی ضد پر اس نے کینیڈا سے پیرس شفٹ ہو چکی پریسہ کے پاس پُروا کو بھیجنے کا سوچ لیا تھا۔ اس کی ٹکٹ تک کنفرم کروا لی مگر دل نہیں مان رہا تھا۔۔ عیسٰی سے نکاح کروا بیٹھا تھا اب یوں رشتہ ٹوٹنے پر اسے اپنا آپ مجرم لگ رہا تھا۔
"حدیر بھائی۔۔" پُروا کے پکارنے پر چونک کر سیدھا ہوا، معصوم صورت بنائے اس کے بالکل پاس بیٹھی اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔۔ وہ مسکرایا۔
"پُروا ایک بات پوچھنی ہے سچ سچ بتانا۔۔ عیسٰی کیسا لگتا ہے تمہیں؟ آج ہم واپس جا رہے ہیں تو تم عیسٰی کے پاس جاؤ گی۔۔ یہ ٹھیک ہے ناں۔۔؟" اس نے جانچنا چاہا، خانزادہ کی بات پر وہ بےچین سی ہوئی، چہرے پر روہانسے تاثرات ابھر آئے وہ بغور جائزہ لے رہا تھا۔
"پُروا۔۔ کوئی مسئلہ ہے تو شئیر کرو ناں بچے۔۔" وہ نرمی سے اس کا سر تھپتھپا کر بولا۔ اس کی اداسی پر وہ چاہ کر بھی اپنا فیصلہ نہیں تھوپ پا رہا تھا۔۔
پُروا رونی صورت بنائے مزید اس کے پاس کھسک آئی۔
"حدیر بھائی۔۔ مجھے عیسٰی جی کے پاس نہیں رہنا۔۔"
وہ رنجیدگی سے نفی میں سر ہلا کر بولی اور پوری کوشش کی کہ وہ اس کی بات مان جائے، حدیر نے گہرا سانس بھر کر اسے دیکھا۔
"کیوں نہیں رہنا۔۔ کیا بات ہے، مجھے بتاؤ۔۔"
وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔ جانچنا چاہ رہا تھا ان کے درمیان آخر کیسا تعلق ہے۔۔ اتنا وقت ساتھ رہ کر بھی ایک دوسرے سے وہ بےزار ہی تھے۔۔
"وہ ڈراتے ہیں، اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ڈانٹتے ہیں اور مجھے مارتے بھی ہیں، ایک بار گلاس مارا مجھے۔۔ یہاں منہ پر۔۔" اس کے پاس بہت وجوہات تھیں، نان سٹاپ بولتی چلی گئی۔ آخری جملہ پر اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے منہ لٹکایا۔۔ وہ صدمے میں گھرا اسے دیکھنے لگا، دل یکدم سکڑا تھا۔
"کیا واقعی۔۔ تمہیں چہرے پر اس نے گلاس مارا۔۔"
حیرت سے پوچھا تھا، چہرے پر چوٹ کا نشان تلاشنا چاہا۔۔ بےیقینی تھی عیسٰی اتنا بےحس تھا۔۔
"جی ہاں مجھے مارا، وہ گلاس دیوار پر لگ کر ٹوٹ گیا، مجھے نہیں لگا مگر انہوں نے تو مارا تھا۔۔ اپنے فرینڈز کے سامنے۔۔ غصہ کیا کہ باہر کیوں آئی میں۔۔
مجھے نہیں رہنا بھائی، وہ مجھ پر تشدد کرتے ہیں۔۔"
وہ ساری تفصیل بتاتی رونی صورت بنا گئی تھی۔۔
"تشدد۔۔ یا خدا۔۔ تمہیں تشدد کا مطلب بھی آتا ہے۔۔"
وہ جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا۔ اتنے بھاری الفاظ بول رہی تھی کہ انسان کا دل ہی رک جائے۔۔ ایسا ظلم۔۔؟ ایسی زیادتی۔۔؟ اس ناتواں وجود پر۔۔؟ اللّٰہ اللّٰہ۔۔
"ہاں جی۔۔تشدد وہی ہوتا ہے جو عیسٰی جی میرے ساتھ کرتے ہیں۔۔" وہ زور و شور سے سر ہلا کر بولی تھی۔۔ مطلب مثال سامنے ہی تو تھی۔۔
"دیکھو گڑیا۔۔ عیسٰی تمہیں ڈراتا ہے، مانتا ہوں بہت غلط کرتا ہے۔۔ مجھے بھی برا لگا اور میں اس کو اچھا سبق سکھاؤں گا اس گھٹیا حرکت کے لیے۔۔ مگر یہ تشدد نہیں ہوتا۔۔ اس کا نشانہ اتنا برا نہیں کہ تمہیں مارنا چاہے تو دیوار پر دے مارے۔۔ وہ بس تمہیں ڈراتا ہے مارتا نہیں۔۔" اس نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے صفائی دی۔۔ عیسٰی پر تپ چڑھ رہی تھی۔۔
"وہ میرے ساتھ گھٹیا حرکت تو کرتے ہیں ناں۔۔۔ مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا پلیز۔۔" وہ تشدد چھوڑ کر اس کا لفظ پکڑتی پھر سے ضد کرنے لگی، حدیر کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔۔ اسے سمجھانا مشکل ترین کام تھا۔۔
"اچھا میں عیسٰی سے بات کروں گا، تم ہمارے ساتھ حویلی چلو۔۔ فکر مت کرو۔۔" وہ اس سے زیادہ سمجھا نہیں پایا، عیسٰی نے ڈرا کر رکھ دیا تھا۔ وہ سہمی ہوئی تھی، وہ مایوس ہوا تھا۔۔ ہاتھ میں تھامی پُروا کی ٹکٹ کو افسردگی سے دیکھا۔
پریہان اور گل جان کو تیاری کرنے کا کہتے ہوئے پُروا کو بھی ساتھ لے جانے کا بتایا۔ گل جان نے صرف سر ہلا دیا۔ پریہان متذبذب سی پُروا کا مطمئن چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔ اگر وہ اسے ساتھ لے جائے، کیا حویلی والوں کو اچھا لگے گا؟ لگ بھی جائے تو کیا یہ سب ٹھیک تھا، پہلے وہ یہی سوچتی تھی ساری عمر پُروا کو اپنے پاس رکھے گی مگر اب دماغ چل رہا تھا یہ مناسب نہیں۔۔ گل جان نے کہا تھا رشتہ توڑنے کی جلدی مت کرنا۔۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ کافی دن سے عجیب بےزاری میں مبتلا تھا۔ پُروا کے جانے کے بعد اسے سکون ملنا چاہئیے تھا، وہ سر پر سوار کی گئی تھی مگر یہاں تو سب الٹا ہو رہا تھا۔۔
وہ مسلسل یاد آ رہی تھی، کھانا کھاتے ہوئے، صوفے پر رو رو کر بیٹھی کھاتی ہوئی۔۔ کبھی منہ بنا کر ناراضگی جتا کر کھاتی ہوئی۔۔ کبھی ڈری ہوئی رک رک کر کھاتی ہوئی۔۔
چائے بنانے لگتا تو دودھ کا پیک دیکھ کر اس کا خیال آ جاتا تھا۔۔ لڑکیاں سی فوڈ، فاسٹ فوڈ کی دیوانی ہوتی ہیں وہ دودھ کی دیوانی تھی۔۔ انوکھی ہی تھی۔۔ گھر آتے ہی بےساختہ اس کمرے کی طرف چلا جاتا تھا۔۔ چڑتے چڑتے بھی اس کا خیال رکھنے اور وقت پر کھانا دینے کی فکر اور اسے گھورنے، ڈانٹنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔۔
وہ زچ ہو رہا تھا، اپنی حالت سے خود اکتا رہا تھا۔
آئرہ اپنے کیے پر شرمندہ تھی، یونی میں بہت بار معافی مانگنے کی کوشش کرتی تھی، سامنے آتی تھی بات کرتی تھی، وہ بالکل نا دیکھنا چاہ رہا تھا نا بات سنتا۔۔ اس کا دماغ تو دور کہیں اس بچوں جیسی لڑکی پر اٹکا رہتا تھا جو بالکل اس کے ٹائپ کی نہیں تھی مگر دماغ میں ضروری ترین کام کی طرح سارا دن اٹکی رہتی تھی۔۔ اپنی حالت سے وہ خود بری طرح بےزار ہو رہا تھا۔ کچھ عادتیں انسان میں ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑ جانے سے خود انسان تنگ ہوتا ہے۔۔
پُروا بھی عیسٰی خان کی وہی عادت بن گئی تھی۔۔
اسے احمر اور حسن پر اکثر غصہ آنے لگا، نا کوئی بولتا اچھا لگ رہا تھا نا ہنستا ہوا۔۔ دنیا چل رہی تھی، تبدیلی تو اس کے اندر کہیں آئی تھی وہ بھی اچانک۔۔
"چپ ہو جاؤ۔۔ بےہودہ انسانوں کی طرح ہر وقت منہ کھولے رکھتے ہو۔۔" پانچویں دن اس کا صبر ایسا ٹوٹا تھا کہ احمر، حسن کے قہقہے پر چیخ کر بولا۔ دونوں کو یکدم جیسے کسی نے بٹن سے میوٹ کر دیا ہو۔۔
"ہم تو پیدا ہی ایسے ہوئے تھے، آج سے پہلے اس بےہودگی میں تم بھی شام ہوتے تھے، اب کیا ہوا۔۔"
حسن نے فخر سے بالوں کو جھٹکا دے کر کہا اور اسے غور سے دیکھا۔ عیسٰی نے اپنے بال نوچے۔۔
"کسی کی یاد آ رہی ہے بہت برے والی۔۔" وہ بےبسی سے بولا۔ احمر اور حسن نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اسے۔۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔۔
"𝒮𝑜𝓂𝑒𝓉𝒾𝓂𝑒 𝒶𝓁𝓁 𝓘 𝓉𝒽𝒾𝓃𝓀 𝒶𝒷𝑜𝓊𝓉 𝓎𝑜𝓊..
𝓁𝒶𝓉𝑒 𝓃𝒾𝑔𝒽𝓉 𝒾𝓃 𝓉𝒽𝑒 𝓂𝒾𝒹𝒹𝓁𝑒 𝑜𝒻 𝒿𝓊𝓃𝑒..
احمر شوخی سے گانا گانے لگا، دوسری لائن پر رکا۔۔
"اوہ سوری یہ جون نہیں دسمبر ہے۔۔" سر کھجاتے ہوئے معذرت کی۔۔ حسن نے قہقہہ لگایا۔ عیسٰی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے دوست کسی معاملہ کو سیرئیس لے لیں تو اس دن قیامت نا ہو گی۔۔
وہ بہت اکتا رہا تھا، ضد ہو رہی تھی پُروا کو نا سوچے، واپس نا لائے۔۔ پورا پورا دن آوارہ گردی میں گزار دیتا تھا۔۔ فلیٹ میں جاتا تو پھر اسی وجود کو دیکھنے کی چاہ اس کے اندر بےچینی سی بھر دیتی تھی۔۔
وہ اس غیرضروری اور بچگانہ سی لڑکی کی یاد میں اتنا کیوں پاگل ہو رہا تھا، نہیں محبت تو ہو نہیں سکتی تھی ناں۔۔ ہاں فکر ہو سکتی تھی۔۔ وہ خود کو دلاسے تسلیاں دیتا تھا۔۔ انسانیت کے ناطے کسی کو اتنا کون سوچتا ہے، فکر میں یاد اور چاہ کسے بےچین کرتی ہے۔۔ دل سوال کرتا تو یہاں وہاں کی سوچیں سوچنے لگتا تھا۔۔
وہ چاہے یاد کر کر کے پاگل ہو جائے یا مر جائے، وہ اس چھوٹی سی بلا کو دیکھنے یا ملنے کبھی نہیں جائے گا۔۔ اس نے خود کو خود دھمکی دی اور عمل کیا۔۔
یہ بھی عام دنوں سا ایک دن تھا، اندر کی بےچینی کو دبائے وہ دوستوں کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکلا ہوا تھا۔
چہرے پر بےزاری پھیلی ہوئی تھی، گاڑی بھگاتا کہاں سے کہاں نکلتا جا رہا تھا کوئی خبر نہیں تھی۔۔
احمر اور حسن میوزک لگائے کبھی بیٹھے بیٹھے ناچنے لگتے، کبھی ساتھ گانے لگتے۔۔ ان کی انجوائمنٹ آج ہر دن سے کہیں زیادہ بھرپور تھی۔۔
ایک دوسرے کو اشارے کرتے منہ پر بارہ بجا کر بیٹھے عیسٰی کی حالت پر ہنستے، قہقہے لگا رہے تھے۔۔
جو دنیا کو جوتی کے نیچے رکھے اور پھر کسی نازک وجود کی صرف یادوں کے سامنے ہارے اور ہار بھی نہایت برے والی۔۔ ایسے انسان کی اداس صورت دیکھنے کا جو مزہ تھا وہ احمر حسن سے کوئی پوچھتا۔۔ جن کو گویا دنیا کا خزانہ ہی مل گیا تھا۔۔
دن ڈھل رہا تھا، وہ شہر سے دور نکل آئے تھے جب عیسٰی کو خانزادہ کی کال آئی۔ اس نے جھٹکے سے گاڑی روک کر جلدی سے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا۔
"حویلی جا رہے ہیں ہم۔۔ میں چاہتا ہوں پریہان اور مورے گل کے ساتھ ساتھ پروا کو بھی لے جاؤں۔۔ سنا ہے اسے ڈرا کر اپنی مردانگی دکھاتے رہے ہو۔۔
مبارک ہو ظاہر ہے تم نے موسٰی سے پیچھے کہاں رہنا تھا۔۔ تمہیں تو آمنہ کا بھی یہی لگتا تھا کہ اسے محبت راس نہیں تھی اس لیے تمہارے بھائی کو دھوکہ دیا۔۔
تمہیں ایک بات بتاؤں عیسٰی مجھے لگتا ہے محبت اور وفا تو مرد کو راس نہیں اس لیے تو زرا سی غلطی پر عورت کو معاف کرنے کی بجائے زمینی خدا بن کر ان کے کردہ ناکردہ گناہ کی سزا دیتے ہیں اور انہیں لگتا ہے وہ مرد ہیں، غیرت مند ہیں۔۔ غلط لگتا ہے۔۔
بزدل ہوتے ہیں وہ مرد۔۔ چاہے وہ خان آزر ہو یا پھر خان موسٰی۔۔ یا اپنی ہی مثال لے لو۔۔ میری بےبسی دیکھو یہاں بیٹھا تمہیں صرف سنا رہا ہوں، ٹوکتا ہوں، سنتے نہیں ہو اور مجھے پھر بھی تمہارے ہی پاس آنا پڑتا ہے۔۔ اسے تم سے باندھنے کی غلطی جو کر بیٹھا ہوں۔۔" وہ جیسے بھرا بیٹھا تھا، کال پر ہی شروع ہوا اور ایسا بولا کہ عیسٰی کو جواب دینے تک کا موقع نہیں ملا۔
وہ لب بھینچے سنتا جا رہا تھا۔ اس کے نہایت سنجیدہ تاثرات پر حسن نے میوزک کا پہلے والیوم کم کیا پھر بالکل بند کر دیا۔۔ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے خالی روڈ کو تک رہا تھا۔ موبائل کان سے لگا ہوا تھا۔۔ لب خاموش تھے۔ پہلے خانزادہ حدیر کال کر کے مصنوعی ڈانٹ کے بعد اس کا حال پوچھتا تھا اب حال پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اسے۔۔ شکوے کرتا تھا، مایوسی جتاتا تھا اور بےبسی سے کال کاٹ دیتا تھا۔۔
آج کل ایسا ہی ہوتا تھا، بدلا تو بہت کچھ تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے موسٰی نے اپنا کوٹ اتار کر ایک طرف رکھا اور صوفہ پر بیٹھا۔۔
وہ دو دن بعد ابھی شہر سے لوٹا تھا، دن ڈھل رہا تھا۔۔ نظر کمرے میں دوڑائی۔۔ صاف کمرہ۔۔ ہر چیز سمٹی ہوئی پڑی تھی مگر مالکن غائب تھی۔۔
زرشے کی صورت یاد آتے ہی چہرے پر مسکراہٹ آئی، دو دن پہلے وہ زرشے کو بھی ساتھ لے جانا چاہ رہا تھا مگر ثنا بیگم نے سختی سے منع کر دیا تھا۔
اس نے بحث کر کے زرشے کو تیاری کرنے کا کہا مگر وہ ثنا بیگم کے انکار کے بعد خود بھی انکار کر گئی تھی۔
تب تو وہ ناراضگی جتاتا چلا گیا تھا مگر زیادہ وقت ناراض رہ بھی کہاں سکتا تھا۔۔ اب آتے ہی اسے دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا۔ ثنا بیگم اور خان زوار تو لاؤنج میں بیٹھے تھے مگر وہ نا وہاں تھی نا روم میں۔۔
یقیناً خان آزر کے پورشن میں گئی ہوئی تھی، جھک کر شوز اتارے اور ڈریس اٹھا کر چینج کرنے چلا گیا۔
زرشے کو ثنا بیگم نے ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھیجا تو وہ فوری آ گئی، ثنا بیگم نے تیکھی نظروں سے گھورا۔
"موسٰی آگیا ہے، چائے بنا لے جاؤ۔۔ پانی بھی لے جانا۔۔ اور سنو خبردار جو اس کے آتے ہی گلے شکوے کیے۔۔ مجھے خوب پتا ہے اس کے ساتھ شہر نا جانے کا غم ابھی تک ستا رہا ہو گا تمہیں، میں منع نا کرتی تو تم چلی جاتیں لیکن رکنا پڑ گیا۔۔۔" کچن میں اسے بھیجتے ہی ساتھ میں سنایا۔
خان زوار آغا جان کو دیکھنے جا چکے تھے اور موسٰی روم میں تھا تبھی موقع سے فائدہ اٹھا انہوں نے باتیں سنائیں، زرشے سر جھکائے کچن میں چلی گئی۔
ثنا بیگم کا سرد رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا، پہلے تو وہ حویلی والوں سے ڈر کی وجہ سے چھپی ہی رہتی تھی، گل جان اور داور یاور کے علاوہ خانزادہ ہی تھا جو خود پاس بلا کر بات کرتا تھا، پیار جتاتا تھا۔
اب موسٰی سے شادی ہونے کے بعد سے وہ اکثر ہی ثنا بیگم کے ہتھے چڑھی رہتی تھی۔۔
چائے بنانے کے ساتھ کباب بھی فرائی کر لیے، ٹرے میں پانی کا گلاس رکھا اور کمرے میں پہنچی۔۔
موسٰی چینج کر کے روایتی مردانہ شلور قمیض پہنے فریش سا ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا بال برش کر رہا تھا۔ پرفیوم سپرے کر کے وہ مڑا۔ زرشے ٹیبل پر ٹرے رکھتی آہستگی سے سلام جھاڑ کر کمرے سے نکلنے کے چکر میں تھی۔۔ سردیوں کی مناسبت سے پہنے گہرے سبز سادہ شیفون کے لباس میں اس کا شفاف رنگ دمک رہا تھا۔ سر پر ڈوپٹہ جما ہوا تھا، ایک کندھے پر بھاری میرون شال رکھی ہوئی تھی۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ رکو زرشے۔۔" اس نے سلام کا جواب دیتے ہی اسے روکا تو وہ دروازے پر قدم روکتی گھبرا کر اسے دیکھنے لگی، یقیناً دو دن پہلے اکیلے شہر جانے کا غصہ وہ اب اتارے گا۔۔ زرشے ڈر رہی تھی۔۔
"تمہاری چائے کہاں ہے؟ میں تو اکیلے چائے نہیں پی سکتا بالکل۔۔ کمپنی دینی پڑے گی تمہیں۔۔" صوفہ پر بیٹھ کر ٹرے میں رکھی چیزوں کا جائزہ لے کر بولتا پانی کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگا گیا۔
"میں نے تو۔۔ پی لی تھی سب کے ساتھ۔۔ اس لیے۔۔" اس کے لہجے میں گھبراہٹ اور کپکپاہٹ محسوس کر کے وہ حیران ہوا۔ اتنی سمپل سی بات بتانے میں وہ اتنی کیوں گھبرا رہی تھی۔
"آؤ یہی کپ شئیر کر لیتے ہیں۔۔ سنا ہے پیار بڑھتا ہے اس سے۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے بولا۔
"جی۔۔؟ آپ میرا۔۔۔ جھُوٹا پئیں گے..؟" وہ حیران ہوئی، وہ اس قابل کہاں تھی بھلا۔۔ کہ خان موسٰی اسے اتنی اہمیت دے۔۔ موسٰی اس کے سوال پر ابرو چڑھاتا اسے گھورنے لگا۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
زرشے اس کا اشارہ سمجھ کر جھجک زدہ سی اس کی طرف بڑھ کر اپنا نازک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ گئی۔
"تم جتنی محبت اور توجہ ڈیزرو کرتی ہو شاید میں تو ساری عمر لگا کر بھی نا دے پاؤں۔۔ خود کو اب احساس کمتری سے باہر نکالو۔۔ گل جان جیسی عظیم ماں کی بیٹی ہونا فخر کی بات ہے نا کہ شرمندگی کی کہ تم ایسے چھپتی پھرتی ہو۔۔" اس کا ہاتھ لبوں تک لے جا کر نرمی سے چھوا اور اپنے پاس بٹھا کر وہ سنجیدگی سے بولا۔ زرشے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔
"مجھے مورے سے محبت ہے، ان کی بیٹی ہونے پر شرمندہ نہیں۔۔" وہ بےساختہ صفائی دینے لگی۔۔
"اور ان کے داماد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں بھی کافی اچھا ہوں یار۔۔" اس کی کمر کے گرد بازو پھیلاتا یکدم اپنی طرف کھینچ کر وہ شوخی سے بولا۔ اس کے سینے پر ہاتھ ٹکا کر خود کو سنبھالتی زرشے کا دل اچھل کر حلق تک آ گیا، چہرہ ایسے سرخ ہوا جیسے کوئی رنگ گھول دیا گیا ہو۔۔ موسٰی دلچسپی سے اس کے شرمانے کا منظر دیکھتا بےاختیار جھکا مگر وہ پھرتی سے اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔
"چلو چائے پیتے ہیں۔۔" وہ منہ بسور کر چائے کا کپ اٹھاتا اس کے سامنے کر گیا۔ زرشے سنبھل کر پیچھے ہوئی۔ موسٰی نے کپ اس کے قریب کر کے پینے کا اشارہ دیا۔ وہ سٹپٹائی ہوئی سی سِپ لے کر پیچھے ہوئی۔
"کباب کھلاؤ مجھے۔۔ اور مجھے لوفر یا بےہودہ ٹائپ مت سمجھنا او۔کے۔۔ تم میری بیوی ہو اور ہمارے درمیان کوئی برتر یا کمتر نہیں۔۔ ہم برابر ہیں۔۔ تم میں کوئی کمی نہیں مکمل اور بہترین ہو، ہاں مجھ میں کوئی کمی دیکھو تو مجھے کھل کر کہہ دینا۔۔
تمہیں پہلے چائے دینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ میں تمہارا بچا ہوا کھا لوں گا تو میری شان میں کمی نہیں آئے گی اور کباب کھلانے کا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یار۔۔۔ تھوڑا رومینس کرنے کا موڈ ہو رہا تھا۔۔"
وہ سنجیدگی سے اسے وضاحت دیتا، سمجھاتا یکدم آخری جملہ پر شرارت سے مسکرایا۔۔
یک ٹک اسے دیکھ کر اس کی باتیں سنتی وہ چھینپ گئی۔ فورک میں کباب کا ایک پیس الگ کر کے اٹکایا اور موسٰی کے منہ کے پاس لاتا ہاتھ زرا سا کپکپایا تھا۔
وہ کباب کا ٹکڑا لیتا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ زرشے کی نظر اس کے ہاتھ میں موجود کپ پر گئی۔ وہ پھر سے کیوں نہیں پلا رہا تھا، وہ جیسے منتظر ہوئی۔
"کیا بات ہے اور چائے پینی ہے؟" اس کی نظر کے تعاقب میں دیکھ کر وہ ںےساختہ ہنسا۔
"نہیں۔۔ ایسی بات نہیں ہے۔۔" زرشے شرمندہ ہوئی۔
"یار پی لو مسئلہ نہیں۔۔ بس میں نے سوچا زبردستی نا پلاؤں۔۔۔ ایسا نا ہو رات کا کھانا نا کھا سکو تم۔۔"
اس نے کپ اس کی طرف بڑھا کر ہنستے ہوئے وضاحت دی۔ زرشے نفی میں سر ہلا کر پیچھے ہوتی اسے اس وقت بہت معصوم لگ رہی تھی۔۔
وہ کپ رکھ کر اس کے ایک گال پر ہاتھ رکھ کر جھکا اور دوسرے گال پر لب رکھ دئیے۔۔ زرشے نے اس کے تپتے لمس پر شرم سے آنکھیں میچیں۔ وہ پیچھے ہوا تو وہ سرخ چہرہ لیے گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی۔
"کباب اچھے بنائے ہیں، چائے بھی بہت اچھی ہے اور اس آخری مہربانی کا تو بہت زیادہ شکریہ۔۔" وہ مسکرا کر اس کے گال کی طرف اشارہ کرتا بول رہا تھا۔
زرشے سر جھکا گئی، چہرے پر کچھ وقت پہلے والی گھبراہٹ اور پریشانی کی جگہ اب شرمیلی مسکان نے لے لی تھی۔۔ وہ چائے کے باقی گھونٹ بھرتا اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔ وجود میں سرشاری سی بھر آئی تھی۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان تو حویلی پہنچتے ہی اپنے کمرے میں بستر پر دراز ایسے تھکن زدہ ہو رہی تھی جیسے چل کر یہاں تک آئی ہو۔۔ خانزادہ قمیض شلوار پہنے کندھوں پر شال رکھ کر پرفیوم سپرے کرتا مرر سے اسے دیکھتا ہنس پڑا تھا۔
"ایم سوری میری جان۔۔ پورا راستہ تمہیں چلا کر لایا ہوں، اتنا تھکا دیا میں نے تمہیں۔۔" وہ بظاہر سنجیدگی سجائے شرارتی آنکھوں سے اسے دیکھتا بول رہا تھا۔
پریہان نے وہیں لیٹے لیٹے کروٹ بدل کر اسے گھورا۔
"طنز کر رہے ہیں ناں۔۔ آپ کو کیا پتا کتنا تھک جاتی ہوں حویلی آتے آتے۔۔ دنیا کے دوسرے کونے میں آپ لوگ رہتے ہیں۔۔" وہ منہ بنا کر بولتی جا رہی تھی۔۔ وہ ہنسی دبا گیا، مزید ہنستا تو مزید ناراض ہو جاتی وہ۔۔
"مجھے سب پتا ہے۔۔ نظر بھی آتا ہے کتنا تھک جاتی ہو، میں واقعی حیران ہوتا ہوں اتنا بھی دور نہیں ہے، ہم ڈیلی بھی سفر کرتے ہیں۔ تم اتنا کیوں تھک جاتی ہو.."
وہ اس کے پاس آ کر بیٹھتا بال سمیٹ کر گال سہلانے لگا۔ وہ کھسک کر اس کے مزید قریب ہوتی سر اس کی گود میں رکھ گئی۔ اس کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹا کر سر پر رکھا اور آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھا۔ وہ بےساختہ ہنس پڑا۔ عجیب شوق تھا پریہان کا۔۔ ہر وقت سر دبوانے کا شوق چڑھ جاتا تھا۔
"آپ کو نظر آتا ہے پھر بھی پروا نہیں ہوتی۔۔ تھک جاتی ہوں پھر بھی آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔
آپ کو پتا ہے ہماری مما جب ہاسپٹل سے تھک کر آتی تھیں، کبھی کبھی ان کا سر درد کرتا تھا تو بابا خود چائے بنا کر دیتے تھے اور ان کا سر بھی دباتے تھے۔۔"
وہ اس کا ہاتھ سر سے ہٹانے پر منہ بسور کر اسے بتانے لگی، ہر لڑکی کی طرح اس کے بھی ماں باپ اس کے آئڈیل تھے، وہ ان جیسی انڈرسٹینڈنگ خانزادہ کے ساتھ ڈیویلپ کرنا چاہ رہی تھی۔۔
خانزادہ اس کے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے اٹھا کر سینے سے لگاتا خود میں بھینچ گیا۔
"مجھے آغا جان سے جا کر ملنا ہے۔۔ ان کی طبیعت خراب ہے۔۔۔ اپنی کیوٹ سی وائف کی خدمت واپس آ کر کروں گا۔۔" اس نے معذرت کی اور اسکے چہرے پر محبت بھرے لمس کی بارش کر دی، اسے واپس تکیے پر لیٹایا تو پریہان بکھری سانسیں بحال کرتی سرخ ہوتا چہرہ چھپا گئی، فرمائش کر کے ہی پچھتائی تھی۔۔ وہ اس کی شرمیلی ادا پر ہنستا اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
آغا جان سے ملنے ان کے کمرے میں پہنچا تو وہ میڈیسن لے کر سوئے ہوئے تھے۔۔ خان آزر اور خان زوار پاس بیٹھے تھے۔ وہ پریشان سا آگے بڑھا۔
"ان کی طبیعت کیوں اچانک خراب رہنے لگی ہے۔۔" فکرمندی سے ان کے پاس بیٹھ کر باپ سے سوال کیا۔
"کچھ دن پہلے بہروز خان کا پتا چلا ہے۔۔ سنا ہے کافی خون خرابہ اور دھوکے بازیاں کرتا رہا ہے۔۔"
خان آزر نے دھیمی آواز میں بتایا تو وہ چونکا اور گہرا سانس بھرا۔ یعنی حقیقت آغا جان اور حویلی والوں کو پتا چل گئی تھی۔۔ پرانی دوستی جس میں خود سے بڑھ کر دوست پر اعتبار کیا تھا، اس کا اصل روپ سامنے آیا تھا، تکلیف تو ہونی تھی۔۔
"کیا واقعی بہروز خان دھوکہ دے رہا تھا ہمیں۔۔؟ یقین نہیں آ رہا مجھے۔۔ ہم پاگل بنتے رہے اور حاکم خٹک سے بگاڑتے رہے۔۔" خان زوار تاسف سے بول رہے تھے۔۔
"پولیس کی انویسٹی گیشن کے مطابق۔۔ جی ہاں دھوکہ دے رہا تھا اور آج سے نہیں تب سے جب ہمارے چچا ارباز خان کا قتل ہوا تھا۔۔
آپ لوگوں نے معاملہ کی تہ میں جانے کی بجائے جو نظر آیا یقین کر لیا۔۔ چچا ارباز خان کو گولی یعقوب خٹک کے پسٹل سے نہیں بہروز خان کے بندے پرویز خان کی بندوق سے لگی تھی۔۔ آپ لوگوں کی وجہ سے اتنے عرصہ سے یعقوب خٹک علاقہ بدر رہے۔۔ بیوی بچوں کے ساتھ شہر میں رہے، کم عمر گل جان کو ونی میں لا کر جانوروں سے بدتر سلوک کیا اور اب اسی جذباتی پن سے یاور لالا نے یعقوب خان کے بیٹے کو گولی مار دی۔۔ پورے علاقے کے ہر معاملہ میں سمجھداری سے فیصلہ کرنے والے سرداروں کے گھرانے نے اپنی زندگی میں ہر موقع پر کم عقلی کا مظاہرہ کیا۔۔" وہ تاسف سے بولتا چلا گیا۔۔ خان زوار اور خان آزر شاکڈ سے بیٹھے تھے۔۔ وہ سر جھٹک کر وہاں سے اٹھا۔ دروازہ کھولا تو چونک گیا۔۔ سامنے خان آزر اور خان زوار کے لیے چائے لے کر آئی گل جان بیگم لٹھے کی مانند سفید چہرہ لیے ساکت کھڑی تھیں۔
"مورے گل۔۔" خانزادہ نے خفت سے کہہ کر ان کی طرف قدم بڑھائے۔۔ اس کی پکار پر خان آزر اور زوار نے بھی پلٹ کر دیکھا۔ خان آزر اپنے سامنے گل جان کو دیکھ کر شرمندگی سے زمین میں گڑھ گئے تھے۔۔
عیسٰی لب بھینچے سنتا جا رہا تھا۔ اس کے نہایت سنجیدہ تاثرات پر حسن نے میوزک کا پہلے والیوم کم کیا پھر بالکل بند کر دیا۔۔ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے خالی روڈ کو تک رہا تھا۔ موبائل کان سے لگا ہوا تھا۔۔ لب خاموش تھے۔۔ احمر،حسن سانس روکے بیٹھے تھے۔
"بہرحال میں اپنی غلطی جلد سدھار لوں گا لیکن فی الحال پریہان چاہتی ہے پُروا کو تمہارے پاس ہی چھوڑنا چاہئیے۔۔" خانزادہ کی بات پر وہ چونکا۔
"میں جانتا ہوں تم رشتہ نہیں رکھنا چاہتے پھر بھی گل جان اور پریہان کی تسلی کے لیے یہ کر رہا ہوں۔۔ میں اسے تمہارے فلیٹ پر چھوڑے جا رہا ہوں اور یقین کرو عیسٰی میں بہت ڈسٹرب ہوں اور وہ خود بھی ڈری ہوئی ہے۔۔ اگر اتنا بھی برداشت نا کرو تو بس مجھے ایک کال کر دینا کوئی گلہ نہیں کروں گا، اسے ریسیو کر لوں گا۔۔ بس ایک التجا کرتا ہوں جب تک وہ وہاں ہے، اسے ہاتھ مت لگانا اب، نا ہی قریب جانا۔۔ خود کو آزاد سمجھو، تمہاری مشکل جلد آسان کر دوں گا۔۔ آج جلدی لوٹ جانا گھر۔۔" خانزادہ نے بات ختم کر کے آخر میں نرمی سے کہا اور کال کاٹ دی۔۔ عیسٰی کا یکدم دماغ جاگا تھا۔۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔۔
ڈھلتی شام کو دیکھ کر تیزی سے گاڑی سٹارٹ کی۔۔
" کیا ہوا یار۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔؟" احمر نے تفکر سے پوچھا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گیا۔ موڈ یکدم اچھا ہو گیا تھا، چہرہ بھی کھل اٹھا۔۔
پوری رفتار سے ریش ڈرائیو کرتا واپس شہر پہنچا۔۔
روڈ پر ایک جانب احمر اور حسن کو جانا تھا جبکہ دوسری جانب عیسٰی کے اپارٹمنٹ کی بلڈنگ تھی، اس نے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف گاڑی موڑ کر روک دی۔
"اب بائے بائے۔۔ مجھے جلدی پہنچنا ہے۔۔ ٹیکسی کر لو یا کریم(آن لائن گاڑی) منگوا لینا۔۔" عیسٰی کی بات پر ان دونوں کا ماتھا ٹھنکا۔۔ اس کا چمکتا چہر دیکھا۔
"لگتا ہے بھابھی گھر آ گئی ہے۔۔ تبھی لشکارے مار رہا ہے بےہودہ، بےوفا۔۔ دوستوں کے ساتھ کیسے منہ پر بارہ بجا کر رکھتا ہے۔۔ ہم کنواروں کی آہ لگے گی دیکھنا۔۔"
وہ دونوں بکتے جھکتے اتر گئے، عیسٰی ڈھٹائی سے ہنستا گاڑی آگے بڑھا گیا۔۔
اپارٹمنٹ میں پہنچا تو ہمیشہ کی طرح اندھیرا تھا۔
رات ہو چکی تھی، وہ سیدھا پُروا کے روم میں گیا۔۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں آڑھی ترچھی بےترتیب سی سوئی ہوئی تھی لحاف بھی بےترتیب سا خود پر ڈالا ہوا تھا۔۔
"آہ لالا آپ کو لگتا ہے آپ کہیں گے اور میں قریب نہیں جاؤں گا۔۔ آج تو میں اپنی بلی کے قریب ضرور جاؤں گا۔۔" وہ زیرلب بڑبراتا مسکرا کر جیکٹ اتار کر ایک طرف پھینک چکا تھا، اس کے پاس پہنچا۔
خود کو چاہے دھمکایا تھا، روکا تھا۔۔ مگر اسے سامنے دیکھ کر جو سکون ملا پورا ہفتہ اس سکون کو ترسا تھا۔۔ لحاف سیٹ کر کے زمین پر لٹکتے کنارے اوپر کیے اور اس کے پاس وہیں لیٹ گیا۔
"چالاک بلی۔۔ زمانے بھر میں میرے ظلم کی داستانیں ایسی مشہور کی ہیں کہ کوئی کال کر کے اب حال تک نہیں پوچھتا میرا۔۔" اسے کھینچ کر اپنے بازو پر سر رکھا اور اس کے چہرے پر جھک کر مسکراتا ہوا بولا۔۔
سفید گلابی رنگت نیلگوں روشنی میں دمک رہی تھی، چھوٹی سی ناک اور سرخ چھوٹے لب۔۔ ہر وقت برستی آنکھیں بند تھیں۔۔ اسے ہفتے بھر سے اپنی یاد میں خوار کیے خود سکون سے سو رہی تھی۔۔
ہاتھ سے اس کے نقوش چھوتا محظوظ ہو رہا تھا، جھک کر اس کے گال پر نرمی سے لب رکھے، ہٹا اور دوبارہ پوری شدت سے لب رکھے۔۔ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اس کے لمس پر ہلی تک نہیں۔۔ کیا وہ بےہوش ہے۔ وہ گھبرا کر اسے چیک کرنے لگا، سانس، نبض اور دھڑکن سب نارمل تھا۔ وہ ایسے مزے سے پڑی تھی جیسے چابی کی گڑیا ہو جس کی بیٹری ختم ہو چکی ہو۔۔ عیسٰی اس پر حیران ہوا اور ہنس کر اسے سینے سے لگاتے خود میں بھینچ لیا، بالوں میں انگلیاں چلا کر ان کی نرمی کو محسوس کرنے لگا۔۔۔
"تم دنیا کی کوئی عجوبہ لڑکی کو۔۔ دودھ میں نشہ ملا کر تو نہیں پیتیں۔۔" اس کے چہرے کے نقوش کو شدت بھرے لمس سے سرخ کرتا وہ بولا۔
وہ زرا کسمسا کر سو جاتی تھی۔ وہ جو پریہان کی انہی حرکتوں کو جھیل جھیل کر عادی ہو چکی تھی، اس وقت بھی ہر بات سے بےخبر نیند کر رہی تھی۔۔
عیسٰی مدہوش سا ہو رہا تھا، اس کے نرم لمس پر ہفتے بھر کا کھویا سکون واپس آیا تو وہ خود سے ہار گیا، اب کیسی ضد، مان گیا وہ اچھی لگتی ہے اور یہ بھی کہ بری طرح اپنا عادی کر چکی ہے۔۔
"بھائی۔۔ مجھے عیسٰی جی کے پاس۔۔ نہیں جانا۔۔" عیسٰی کی وارفتگی پر وہ کسمسائی اور نیند میں بڑبڑاتی اس کے سینے میں سمٹتی جا رہی تھی۔۔ اس کے الفاظ پر عیسٰی ٹھٹکا۔
یکدم لب بھینچ گیا۔ غصہ آیا تھا اس کے جملے پر۔۔ دل چاہا تھا جیسے مزے سے اس کے سینے میں منہ چھپائے چپک کر سو رہی ہے، دور جھٹک دے اور جھنجھوڑ کر بتائے اپنے بھائی سے منتیں کرتی وہ اس وقت عیسٰی جی کے ہی پاس آ رہی ہے مگر کر نہیں پایا۔۔ نا جھٹک سکا نا جھنجھوڑ سکا۔۔
خود پر سے اختیار کھو چکا تھا، اب اسے دل نے قابو کر لیا تھا اور دل کو ساتھ پڑی اس چھوٹی لڑکی نے قابو کر لیا تھا۔۔ وہ سنجیدگی سے لحاف پُروا کے گرد اچھے سے لپیٹ کر اپنے کندھے سے اس کا سر تکیے پر ٹکاتا کروٹ بدل گیا۔۔
پروا بھی کروٹ بدلتی دوسری طرف ہو گئی تھی، کبھی ٹانگیں مارتی لحاف ہٹاتی اور کبھی سردی سے پریشان ہو کر کھینچتی۔۔ کروٹیں بدلتی، آڑھی ترچھی ہوتی وہ تھوڑی دیر بھی سکون سے نہیں سوئی۔۔
سیدھا ہو کر رخ موڑے اس کو گھورتا عیسٰی سہی کر کے زچ ہوا تھا مگر ڈھیٹ بن کر وہیں پڑا رہا اور جانے کب ویسے پڑے پڑے سو گیا۔۔
اگلی صبح اس کی آنکھ پروا کے کسمسانے پر کھلی تھی، آہستگی سے نیند بھری آنکھیں کھولیں، بند کیں اور پھر کھول کر بیدار ہوا تو چونک گیا۔۔
پروا کی پشت سینے سے لگائے وہ سو رہا تھا، ایک کندھے پر اس کا سر تھا اور اس بازو کو ترچھا کر کے اس نے پروا کے چہرے کے قریب رکھا اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا جبکہ دوسرا بازو اس کے اوپر سے گزرا کر دوسرا ہاتھ بھی مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔۔
وہ نیند میں عادت کے مطابق کروٹ بدلنے کی کوشش میں ناکام ہوتی بار بار کسمسا رہی تھی۔۔
وہ سمجھ گیا رات کے کسی پہر اس بلی کی اچھل کود سے خراب ہوتی نیند سے تنگ آ کر اسے یوں قید کیا ہو گا۔۔ بےساختہ اس قیدی کی بےچارگی پر ہنسی آئی۔ ایک بار خود میں بھینچ کر سر چوما اور آزاد کرتا الگ ہوا۔۔ اسے سوتا ہوا چھوڑ کر کمرے سے نکلا۔
اپنے کمرے میں جا کر وہ فریش ہونے چلا گیا، وہاں پروا آزاد ہوتے ہی بستر پر پھر سے کروٹیں بدلتی لحاف اتارتی اوڑھتی سکون سے سو گئی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
گل جان بیڈ پر لیٹی تھیں، خاموش ساکت نظریں چھت پر ٹکی تھیں۔۔ ان کا بی۔پی بہت ہائی ہو گیا تھا، زرشے ایک طرف بیٹھی ان کی حالت پر رو رہی تھی۔۔
یاور ایک جانب کھڑا تھا، داور صوفہ پر بیٹھا تھا۔۔
خانزادہ ڈاکٹر کو باہر چھوڑ کر روم میں آیا اور ان کے پاس بیڈ پر بیٹھتا ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"مورے گل۔۔ آپ کے بھائی اور بابا مردان خانے میں آئے ہوئے ہیں۔۔ مل لیں ان سے اور چاہیں تو جا بھی سکتی ہیں۔۔" وہ نرمی سے بولا تو وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگیں، آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔ زرشے نے اس بات پر بےساختہ ماں کا ہاتھ تھاما کہ کہیں وہ چلی نا جائیں۔
"اب اس عمر میں اپنے گھر چلی جاؤں۔۔؟ اپنی اولاد کو چھوڑ کر۔۔ اس حویلی میں میرا مقام کوئی نہیں مگر اولاد تو اپنی ہے۔۔" وہ بھیگی آواز میں بولیں۔ زرشے کی گرفت ان کے ہاتھ پر مضبوط تر تھی جسے گل جان نے محسوس کیا تھا۔۔ بیٹوں کی بھی بےچین نظریں ان پر ہی ٹکی تھیں۔۔ وہ پہلے بھائی کے لیے قربانی دے سکتی تھیں تو وہ تو پھر اولاد تھی، کیسے چھوڑ کر چلی جاتیں۔۔ خانزادہ نے گہرا سانس بھرا۔۔
"مورے گل آپ کا یہاں وہی مقام ہے جو مورے اور ثنا چچی کا ہے۔۔ پہلے کی بات الگ تھی، اب آپ پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھے گا۔۔ آپ یہاں رہیں گی اور پورے حق سے رہیں گی، میں آپ کو ملنے کے لیے بھیجنا چاہ رہا تھا۔۔ اپنے گھر والوں کے پاس جائیں، ان سے ملیں، کچھ دن رہیں۔۔ اور جب چاہیں واپس آ جائیں۔۔"
وہ نرمی سے بول کر ان کا ہاتھ لبوں سے لگا گیا۔ ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ ناکردہ گناہ کی سزا جھیلتے گزرا تھا، رائیگاں گیا تھا۔۔ ان کی روح پر لگے زخموں پر اب کوئی مرہم نہیں لگا سکتا تھا مگر ازالہ کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا تھا۔۔ ان کے باپ اور بھائی کو بلوا کر ملانا چاہتا تھا۔۔
"مورے آپ جا کر نانا جان سے مل لیں اور جانا چاہیں تو چلی جائیں، خانزادہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔
اب کوئی آپ کو روک ٹوک نہیں کر سکتا، اب تو بالکل نہیں۔۔" خان داور نے بھی سنجیدگی سے کہا۔ گل جان ایسے کمزور ہو رہی تھیں جیسے آج ہی زندگی کا آخری دن ہو۔۔ جیسے عمر بھر کی تھکن آج وجود میں اتر آئی تھی۔۔ خان داور انہیں سہارا دے کر اٹھا رہا تھا۔
خان یاور جو اپنے نانا اور ماموؤں سے برا برتاؤ کرتا رہا تھا، آج شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
"آپ بھی جائیں لالا، آپ معافی مانگنا چاہتے ہیں تو مانگ لیں، معافی وقت پر مانگی جائے تو قابلِ قبول ہوتی ہے وقت گزر جائے تو معافی بس بہانہ لگتی ہے۔۔"
خانزادہ نے آہستگی سے خان یاور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ لب کچلتا کمرے سے نکلا۔
"زرشے جاؤ۔۔ مورے گل کے ساتھ تم بھی مل لو۔۔"
خانزادہ نے ہونق زدہ سی ایک ایک کا منہ دیکھتی زرشے کو کہا تو وہ جلدی سے اٹھی اور خان یاور کے پیچھے بھاگی۔۔ خانزادہ نے سکون کا سانس لیا۔
اسے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے گل جان کو حقیقت بتانے کے لیے۔۔ اب جب وہ سب جان گئی تھیں، رات بھر روتی رہی تھیں، بی۔پی ہائی ہو گیا تھا۔
خان آزر تب سے ہی مردان خانے میں موجود کمرے میں بند تھے۔۔ شرمندہ تھے، غلطیاں نظر آ رہی تھیں، گناہ یاد آرہے تھے مگر اتنا ظلم کر بیٹھے تھے کہ معافی تک مانگنے کی ہمت نہیں بچی تھی۔۔
معاف کر دینا بےشک اللّٰہ کی خاصیت ہے، انسان معاف کر دے تو سکون میں رہتا ہے۔۔ معاف نا کرے تو سامنے والے کے گناہ کو پکڑ کر بدلہ لیتے لیتے کئی گناہ کر جاتا ہے۔۔ ظرف بڑا نہیں کرتا اور خود بھی بےسکون رہتا ہے۔
ہاں ان کا بھائی قتل ہوا تھا، چھوٹا لاڈلا جواں بھائی۔۔
غم بڑا تھا مگر گل جان قصور وار نہیں تھیں۔۔
یعقوب خٹک کو قصوروار سمجھا بھی تھا تو معاف کر دیتے، نہیں کر پائے۔۔ کہا جاتا ہے کسی کے ظلم کا سب سے شدید بدلہ اسے معاف کر کے معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دینا ہے کیونکہ جب انسان اللّٰہ پر چھوڑ دیتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا اللّٰہ دیتا ہے اور بےشک اللّٰہ سے بڑھ کر کوئی انصاف نہیں کر سکتا۔۔
معاف نہیں کیا، بدلہ لیا اور بدلہ بھی ایسا کہ بدلے کی آڑ میں کئی گناہ کر ڈالے، بےسکونی مقدر ٹھہری۔۔
خان یوسف بھی دوست کی غداری کے ساتھ ساتھ گل جان کے ساتھ کی زیادتی پر بےسکون تھے۔۔
جس جس نے ظلم کیا، سب شرمندہ تھے۔۔ گل جان کو معاف نہیں کیا، ان کی زندگی عذاب کر دی تو کیا اب وہ معاف کر دیں گی؟ یہ امید ہی تو نہیں تھی۔۔
خانزادہ آغا جان کے روم میں پہنچا تو وہ غیر مرئی نقطہ پر نظر جمائے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر ان کے پاس گیا اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا، وہ چونک گئے۔۔
"چھوڑیں آغا جان کسی بھی ایکس وائی زی کو۔۔ بس ہم اچھے والے دوست بن جاتے ہیں، میں آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا اور آپ نے دھوکہ دیا تو آپ کو سزا دے کر سدھار لوں گا۔۔" ان کے گرد بازو پھیلا کر پیٹ کی طرف چہرہ کیے لاڈ سے بول رہا تھا۔۔
اس کی باتوں پر مسکراتے ہوئے خان یوسف آخری جملہ پر اسے گھورنے لگے۔۔
"یہی کسر رہ گئی تھی، اب بوڑھے آغا جان کو سزائیں دو گے۔۔" مصنوعی ناراضگی جتا کر کہا تو وہ ڈھٹائی سے ہنسنے لگا۔
"کہا تو ہے دھوکہ دیا تو ایسا کروں گا۔۔ فکر نا کریں۔۔"
اس نے شرارت سے کہا، وہ سرد آہ بھر گئے۔۔
"بہت پرانا ساتھ تھا بہروز خان سے۔۔ اعتبار کرتا رہا اور وہ میری پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ رہا تھا۔۔ میں خود کو سردار سمجھتا رہا اور کتنا بےوقوف نکلا۔۔
کٹھ پتلی کی طرح نچاتا رہا وہ اور میں یہاں اس کی پوتی سے شادی کرنے کے لیے تم پر دباؤ ڈالتا رہا۔۔"
آغا جان غمزدہ سے بول رہے تھے، کپکپاتا ہاتھ اس کے سلکی بالوں میں چل رہا تھا۔
"آغا جان آپ میرے لیے تو تب افسوس کرتے جب میں آپ کی بات مان کر شادی کر بیٹھتا۔۔ آپ نے دباؤ ڈالا کیونکہ آپ کو لگا میرے لیے وہی بہتر ہے مگر میں نے تو پھر بھی اپنی مرضی کی تو اب آپ اس بات کو بھول جائیں۔۔" وہ مسکرا کو بولا اور ان کا ہاتھ اپنے رخسار سے ٹکائے آنکھیں موند گیا۔
"یہ تو تم تھے ضدی اور گستاخ اس لیے بچ گئے ورنہ میں نے زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔" ان کی بات پر اس کی آنکھیں پٹ سے کھلیں، خفگی سے گھور کر انہیں دیکھنے لگا مگر وہ بولنے میں مگن تھے، توجہ نہیں دی۔
"مجھ سے زیادہ تو لوگوں کی پہچان تم میں ہے۔۔ سب سے لڑ جھگڑ کر من مانی کی مگر انتخاب اچھا تھا۔۔ اپنے لیے بہترین لڑکی کا انتخاب کیا، آج تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھتا ہوں تو دل سے شکر کرتا ہوں کہ تب چپ ہو گیا، شادی کرنے دی ورنہ تمہیں بھی کھو دیتا۔۔" آغا جان کی بات پر وہ گہرا سانس بھرتا اٹھ بیٹھا۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگے۔۔
"یار آپ میری تعریف کر رہے ہیں یا برائی۔۔؟ ہاں ٹھیک ہے ضد میں شادی کی اس کے علاوہ کتنا فرمانبردار ہوں، ہر بات مانتا ہوں آپ پھر بھی وہی ایک ضدی حرکت ہر بار جتا دیتے ہیں۔۔" اس کے شکوہ پر وہ مسکرائے۔۔ اپنی برائی سننے کی زرا ہمت نہیں تھی اس میں۔۔ بس تعریف کی جائے اور ہر وقت کی جائے۔۔
"ہاں ہر بات مانتے ہو۔۔ تمہارا باپ اب منہ چھپائے کمرے میں پڑا رہتا ہے۔۔ سرداری سنبھال لو خان۔۔
تمہارے بس کی بات ہے، ہم نہیں کر سکتے، تم نا مانے تو حاکم خٹک لے جائے گا سرداری۔۔" آغا جان کی پھر سے وہی مقابلے بازی شروع ہو رہی تھی، خاندانی سرداری ہاتھ سے جاتا دیکھ کر گھبرا رہے تھے۔۔
سہی کہا جاتا ہے عادتیں آسانی سے نہیں جاتیں، وہ منہ بنا کر پھر سے ان کی گود میں سر رکھ گیا۔ ان کو خوش دیکھ کر ہی اسے آرام مل جاتا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
گل جان کو حاکم خٹک لے گئے تھے، داور، یاور نے چکر لگانے کا کہا تھا، زرشے ماں کے ساتھ جانا چاہ رہی تھی مگر اسے موسٰی نے روک لیا تھا۔۔
اس غم میں وہ رات کا کھانا کھائے بنا کمرے میں بند رونے کا شغل فرما رہی تھی جب موسٰی کھانا ٹرے میں رکھ کر لے آیا تھا۔۔
"رو کیوں رہی ہو زرشے۔۔ میں نے کہا تو ہے، پرسوں تک مجھے ایک دو دن کے لیے آفس ورک سے دوسرے سٹی جانا ہے، میں خود چھوڑ آؤں گا وہاں۔۔ دو دن رہ لینا۔۔"
ٹرے اس کے سامنے رکھ کر وہ اس کے پاس بیٹھ کر وضاحتی لہجے میں بولا۔ حیرت بھی تھی، بچوں کی طرح رو رہی تھی۔۔
"مورے کے ساتھ۔۔ جانا چاہتی تھی۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔۔ گل جان کی خراب طبیعت کو لے کر گھبرائی ہوئی تھی۔۔ وہ مسکراہٹ دبا گیا۔
"بچی ہو جو مورے کے ساتھ ہر جگہ جانا ہے؟ میریڈ ہو اب۔۔ میرا روکنا برا لگا کیا؟ او۔کے سوری۔۔"
وہ نرمی سے بولتا اپنے دونوں کان پکڑ کر گیا۔ زرشے سٹپٹا گئی۔ اس سے معافی منگوانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔
"ایسا بھی نہیں کہ آپ کا روکنا برا لگا ہو۔۔ سوری مت کریں پلیز۔۔" اس نے نم آواز میں اسے روکا اور گال رگڑ کر آنسو صاف کرنے لگی۔
موسٰی نے اس کے ہاتھ پکڑ کر ہٹاتے جھک کر نم گال لبوں سے چھوئے اور اسے سینے سے لگا کر بھیگی پلکوں پر لب رکھے۔ زرشے کا چہرہ سرخ ہوا۔
وہ بڑی دیدہ دلیری سے اپنا حق استعمال کرتا تھا، نا اجازت کی طلب نا ہی کسی رکاوٹ کا ڈر۔۔ زرشے میں کبھی ہمت بھی نہیں ہوئی اسے روکنے کی، اپنی مرضی سے دور ہوتا تھا اور جب دل چاہے اسے قریب کر لیتا تھا۔۔
"تھینک گاڈ تمہیں برا نہیں لگا ورنہ جیسے روکنے پر تمہارے اس خونخوار لالا نے مجھے گھورا تھا مجھے لگا آج اس کی پھر سے تقریر سننی پڑے گی۔۔"
وہ خانزادہ کا زکر کر کے شرارت سے بولا، اس کے حصار میں سمٹ کر بیٹھی زرشے بےاختیار اپنے بھائی کے زکر پر مسکرائی۔ اگر وہ تب رو دیتی، اس سے شکایت لگا دیتی تو واقعی اس نے بھڑک جانا تھا۔۔
وہ خاموشی سے سر ہلا کر پلٹ آئی تھی تبھی اس نے بھی موسٰی کو صرف گھورنے پر اکتفا کیا تھا۔
"اب کھانا کھاتے ہیں، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔ تم نے کھانا نہیں کھایا تھا تو میں بھی نہیں کھا پایا۔۔"
موسٰی کے بےچارگی سے کہنے پر وہ سر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ ایک اچانک ہونے والی شادی کو وہ اتنا دل سے کیوں نبھا رہا تھا کہ محبت کا گمان ہونے لگے۔۔ اسے یاد آیا وہ وہی موسٰی ہے جو آمنہ سے بہت سرد رہتا تھا۔۔ وہ الجھ جاتی تھی مگر اس کی پہلی شادی کا حال یاد کر کے ڈر بھی بہت لگتا تھا۔۔
اس کی ہر بات پر، ہر حرکت پر اختلاف کیے بنا سر جھکا دیتی تھی،اسے آمنہ بننے سے ڈر لگتا تھا۔۔
اسے لگ رہا تھا اس کی تابعداری اور خاموشی کی وجہ سے وہ موسٰی کے غصے سے بچی ہوئی ہے۔۔
اب بھی منہ ہاتھ دھو کر خاموشی سے آ کر اس کے ساتھ بیٹھی کھانا کھانے لگی البتہ دماغ پھر بھی گل جان پر ہی اٹکا تھا۔
وہ یقیناً خوش ہوں گی سب اپنوں کے ساتھ مگر جانے ان کی طبیعت کیسی ہو گی۔۔ رات پوری وہ ان کے ساتھ رہی تھی، پریہان بھی بار بار آتی تھی اور گل جان تو جیسے اس ایک ہی رات میں ڈھے سی گئی تھیں۔۔ کمزور، خاموش اور بیمار بیمار سی۔۔
موسٰی نے کھانا کھاتے ہوئے بھی اس کی غائب دماغی محسوس کی تو پریشان ہوا۔ شاید اسے جانے دینا چاہئیے تھا زرشے کو۔۔ اپنی لالچ میں اسے روک تو لیا تھا اب اس کی اداسی پر فکرمند ہو رہا تھا۔
کھانا کھا کر وہ برتن اٹھانے لگی تو اس نے روک دیا۔
"میں لے جاتا ہوں، تم بیٹھی رہو بس پلیز موڈ بہتر کرو۔۔ گل جان کی فکر ہے تو بات کروا دیتا ہوں۔۔ خانزادہ سے نمبر لاتا ہوں خٹک حویلی کا۔۔ ریلیکس ہو جاؤ، کہو گی تو کل چھوڑ آؤں گا۔۔" موسٰی نے اس کے ہاتھ تھام کر محبت سے کہا اور برتن اٹھاتا اسے حیرت زدہ چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
زرشے کا دل اس فکر اور توجہ پر زور سے دھڑکا، محبت سی ہو رہی تھی اس سے۔۔۔ دل چاہتا تھا وہ ساری زندگی ایسے رہے۔۔ اس کا نرمی سے بات کرنا۔۔ توجہ دینا۔۔ مسکرانا اور نرمی سے چھُونا جیسے وہ بہت قیمتی اور نازک سا نگینہ ہو۔۔
یہ سب زرشے کو اس کا اسیر کر رہا تھا، ثنا بیگم کا رویہ الجھاتا تھا پریشان کرتا تھا مگر جب موسٰی اسے اپنے پاس بٹھاتا تھا، باتیں کرتا تھا وہ سب بھول جاتی تھی۔۔ ہر فکر اور خوف۔۔ وہ ایسا خود میں الجھا رہا تھا کہ سب الجھنیں کہیں دور ہوتی جا رہی تھیں۔۔
اسے لگتا تھا وہ حویلی کی سب سے غیر اہم فرد ہے، موسٰی خان کے کمرے میں آ کر لگنے لگا اس سے زیادہ اس دنیا میں شاید ہی کوئی قیمتی ہو گا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان کے موبائل پر بار بار منال کی کال آ رہی تھی، اسے لگا وہ شاید یاد آنے پر کال کر رہی ہو گی۔۔ وہ غلط تھی، منال ہاشم اپنے باپ اور دادا کی زلالت اور اپنے پورے گھرانے کے زوال پر سیخ پا ہو رہی تھی۔۔
"تمہارا شوہر گھٹیا ترین انسان ہے۔۔ مجھے تو سوچ کر کی شرم آتی ہے کیسے بےحس اور ظالم انسان سے محبت کر بیٹھی تھی، اپنا سب کچھ مان بیٹھی تھی اس کو۔۔ اس نے تو اپنے دادا کی دوستی کا لحاظ بھی نہیں کیا۔۔" منال ہاشم نے تو سلام دعا تک کی تکلیف نہیں اٹھائی تھی۔ پریہان کا منہ بگڑ گیا۔
"تم نے دوستی کا لحاظ رکھا تھا منال؟ تم میرے حالات سے واقف تھیں، سب جانتی تھیں پھر بھی مجھ پر غصہ کرتی رہیں۔۔ جب تم دوستی کا لحاظ نا کرو۔۔ جب تمہارا پورا خاندان دوستی کا مطلب تک نا جانتا ہو تو میرے ہزبینڈ پر بھی مت چِلاؤ۔۔"
پریہان نے بھی اس بار بغیر کسی لحاظ، مروت کے ٹکا کر جواب دیا۔ وہ نہیں جانتی تھی اس کے دادا اور باپ پر کیس خانزادہ نے بنوائے تھے۔۔ نا وہ یہ جانتی تھی کہ کیسے کیسز بنے ہیں اسے بس اتنا پتا چلا تھا گل جان کو جس جرم کی سزا ملی وہ جرم بہروز خان نے کیا تھا وہ لوگ دھوکہ کھا رہے تھے، یہی جتا دیا۔۔
"دوستی کا ہی لحاظ کیا تھا پریہان، تم سے ملنے آئی، تمہیں بد دعا نہیں دی۔۔ وقتی غصہ تھا، اتارا اور چپ چاپ ملک سے باہر چلی گئی، آئندہ میرے خاندان پر انگلی مت اٹھانا ورنہ میں بھی جواب دینا جانتی ہوں۔۔" منال کے متنفر جملوں پر اسے تکلیف پہنچی تھی، کہاں وہ ایسی دوستیں کہ سارا دن ساتھ رہیں، ساتھ ہنسیں، ساتھ روئیں اور آج اس دوستی کا کہیں دور تک نشان نہیں تھا۔۔ خانزادہ اسی وقت روم میں آیا، اسے کال پر بزی دیکھ کر وارڈروب کی طرف بڑھا۔
پریہان اس کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی۔۔
"بد دعا تو تم چاہے دیتی رہو، اللّٰہ ناحق بد دعائیں نہیں سنتا۔۔ تم بھی دوبارہ میرے شوہر کو گھٹیا مت کہنا۔۔ آج تم نے ہمارے درمیان دوستی کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑا منال۔۔ اب میں تمہاری کالز اٹھانے کی تکلیف نہیں اٹھاؤں گی۔۔ شکریہ تمہارا۔۔" وہ تاسف سے بول رہی تھی، منال کے نام پر وہ چونک کر سیدھا ہوا۔
پریہان کال کاٹ چکی تھی، وہ اس کے پاس آیا۔
"منال ہاشم کی کال تھی ناں۔۔ اس نے کوئی بدتمیزی کی تم سے۔۔؟" اس کے سنجیدہ سوال پر افسردہ سی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھی پریہان نے نفی میں سر ہلایا۔ خانزادہ متاسف سا اسکے پاس بیٹھا۔
"اداس کیوں ہوتی ہو پریہان۔۔ دفع کرو اس لڑکی کو۔۔"
اسے خود سے لگا کر بال سنوارتے ہوئے بولا۔
"ہم بہت اچھی فرینڈز تھیں۔۔ وہ بدل گئی ہے بہت۔۔"
پریہان رنجیدگی سے بولتی اس کے کندھے پر ماتھا ٹکا گئی۔ دوستی دل سے نبھائی جائے تو بھروسہ ٹوٹنے پر ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے۔۔
"بدلتا کوئی نہیں ہے، کچھ لوگ اپنی اصلیت چھپا کر رکھتے ہیں اور وقت آتے ہی اصل سامنے لے آتے ہیں۔۔
اسی لیے کہا جاتا ہے دوست وہی جو مصیبت میں کام آئے، تب ایسا وقت ہوتا کہ حقیقی دوست ہمیشہ کی طرح ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور جو لوگ مصنوعی دوستی کا ماسک چڑھا کر ہمارے ساتھ ہوتے ہیں وہ اس وقت پیچھے ہو جاتے ہیں۔۔ اب منال ہاشم کی کوئی کال مت اٹھانا میری جان۔۔ کیوں خود کو تکلیف دیتی ہو۔۔"
بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں سمیٹ کر وہ سمجھا رہا تھا۔
"اب نہیں اٹھاؤں گی کال۔۔ اب ملنے کی بھی ضرورت نہیں رہی، پہلے میں گلٹی تھی اس کی جگہ لی ہے، اب یقین آ گیا ہے یہ میری ہی جگہ تھی۔۔ کوئی کسی کا نصیب نہیں چھینتا۔۔ اللّٰہ نے ہی ہمارا ملنا طے کر دیا تھا۔۔" وہ منہ بسور کر بولتی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔ اب اعتماد بحال ہو گیا تھا، اب ہی تو جا کر سمجھدار ہوئی تھی۔۔ خانزادہ نے محبت بھری نظروں سے اس کے بھرے بھرے سراپے کو دیکھا۔
"گڈ بہت سمجھدار ہو گئی ہے میری چھوٹی سی وائف۔۔ ویسے میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں، کیا تم بھی کرتی ہو۔۔؟" اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔ پریہان آنکھیں گھماتی اس کا سوال اگنور کر گئی۔
"کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔" اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا، پریہان سر ہلاتی جھینپ گئی۔
"بس میرے لیے اتنا بہت ہے، تم مجھ پر اعتبار کرو اور
مجھ سے محبت کرو۔۔ یہ میرے لیے قیمتی سرمایہ ہے، میں مکمل تمہارا ہوں بس مجھ پرتوجہ رکھو۔۔ غیر ضروری لوگوں پر دھیان مت دیا کرو۔۔
ویسے بھی کچھ ماہ تک ہمارے پاس جو ننھا مہمان آئے گا پھر ہماری زندگی مکمل ہو جائے گی، اب کسی بات پر پریشان مت ہوا کرو۔۔" وہ مسکرا کر بول رہا تھا، اپنے بچے کا زکر کرتے ہوئے دنیا جہان کی مٹھاس اس کے لہجے میں سمٹ آتی تھی، نیلی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی تھی، پریہان یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔
وہ پرجوش سا پریہان کو خود میں بھینچ گیا تھا۔۔
"پریہان۔۔ میں بہت شدت سے منتظر ہوں، آغا جان اور سب کی بےرنگ سی زندگی میں ہمارا بچہ ہی رنگ بھر دے گا مجھے یقین ہے۔۔"
وہ شدت بھرے لہجے میں بولتا شاید آنے والے وقت کذ تصور کر رہا تھا، لب مسکرا رہے تھے۔۔
"مجھے بھی نظر آ رہا ہے آپ بابا بن کر مجھے بھول جائیں گے۔۔" وہ ناراضگی سے اس کا جوش دیکھ کر بولی تھی۔۔
"اپنی زندگی کو نہیں بھلا سکتا۔۔ شاید ایسا کر بھی جاتا مگر تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا بالکل۔۔" وہ محبت سے بولتا اس کے گالوں پر شدت بھرے لمس چھوڑ گیا۔
اور جب وہ کچھ کہہ دے تو پورا کرتا ہے، پریہان کو یقین تھا، وہ اس کے ہاتھ کی ملائم گلابی ہتھیلی پر تپتے لب رکھتا اسے سینے میں چھپا گیا۔۔
وہ نیند سے جاگ کر پہلی فرصت میں کچن پہنچی تھی، ہاں اس بار خیال رکھا تھا کہ عیسٰی خان سامنے نا ہو۔۔ گل جان اور پریہان نے جانے کتنی نصیحتوں اور ہدایتوں کے ساتھ بھیجا تھا کہ روتے ہوئے ناراضگی جتاتی وہ زیادہ یاد نہیں رکھ پائی بس اتنا یاد رہا کہ وہ ہزبینڈ ہے، اس کا خیال رکھنا ہے، تنگ نہیں کرنا اور دل جیتنا ہے۔۔ اسے اس سب میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔
اس کے حدیر بھائی نے اسے ٹکٹ پکڑایا تھا اور سمجھایا تھا، جب عیسٰی غصہ کرنے لگے اسے یہ دکھا دینا وہ چپ ہو جائے گا، نا ہو تو مجھے کال کر دینا۔۔
اس کے لیے بس یہی ایک کام کی بات تھی، ٹکٹ کا کاغذ فریج پر رکھا اور فریج کھولا۔۔
دودھ کے پیکس کا ڈھیر لگا ہوا تھا، پُروا کی آنکھیں خوشی سے چمکیں۔۔ ایک پیک نکال کر دودھ کا گلاس بھرا، کبرڈ سے نوڈلز کے پیکٹ نکالے۔۔
اب سوچ لیا تھا وہ اس کا بنایا کھانا بھی نہیں کھائے گی (دوپہر تک اس کی سوچ بدل جانی تھی) مگر فی الحال تو اپنے کہے پر قائم رہ کر نوڈلز بنانے کے لیے کیتلی ڈھونڈنے لگی، کوکنگ کے لیے آسان ترین چیز یہی تھی، کانچ کا باؤل نکال کر رکھا۔۔
فریج سے دو تین انڈے نکال کر بوائل کرنے رکھے۔۔ کیتلی مل کر نہیں دی۔۔ نوڈلز کیسے بناتی۔۔
عیسٰی آج کے روز یونی سے آف کر چکا تھا، فریش ہو کر کھانے پینے کا سامان لینے چلا گیا، واپس پہنچا، برگر اور چکن باہر ٹیبل پر رکھا۔۔ کچن میں محسوس ہوتی کھٹ پٹ پر چونک کر اسے پکارا۔۔
پروا اس کی آواز پر گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔۔ دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور کی طرح سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔
عیسٰی کچن میں پہنچا تو وہ سامنے کچن کی شیلف سے لگی سر جھکائے کھڑی تھی۔۔ دروازے کے پاس ایک کندھا ٹکاٸے ٹراؤزر کی پاکٹس میں ہاتھ ڈال کر کھڑے عیسٰی کی نظریں اس کا کافی گہرائی سے جائزہ لے رہی تھیں۔
وہ بہت نازک اور کم عمر لگتی تھی، ڈھیلے ڈھالے گھٹنوں تک پہنچتے فراک کے ساتھ جینز پہنی ہوئی تھی جو فولڈ کر کے ٹخنوں سے کچھ اونچی کی ہوئی تھی، پیروں میں کھلی چپل اور کھلے بال لیے وہ اسے بری طرح متاثر کر رہی تھی۔۔ اس کے کچھ نا بولنے پر اس نے جھجک کر نظر اٹھائی اور اسے خود کو ہی دیکھتا پا کر سمٹ سی گٸی۔۔
”یہ بتاؤ۔۔ اتنی بٹر جیسی کیوں ہو۔۔؟ “
وہ قدم آگے بڑھاتا اس کے عین سامنے رک کر جھکا تو لبوں پر شوخ مسکراہٹ مچل رہی تھی۔۔ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ یہ کیسا سوال تھا۔۔
”بٹر۔۔ یو نو وائٹ اینڈ سوفٹ۔۔ پلس سویٹ۔۔“
اس نے ہاتھ کی پشت سے اس کا نرم گال سہلایا تو وہ اس حرکت پر اس سے دور ہونے کی ناکام کوشش کرتی پریشان ہو گئی۔۔ عیسٰی کا دماغ گھوم گیا، حدیر اور موسٰی سے فرینکنیس تھی، پریشانی پر ہگ کر کے تسلیاں تک دیتی تھی مگر جس سے قریبی تعلق تھا اس سے ایسی بےنیازی۔۔ وہ بھڑک ہی تو اٹھا۔۔
”جواب دو۔۔ کتنی مرتبہ سمجھاؤں گا میرے سوال کا جواب دیا کرو۔۔“ اس نے غصے سے شیلف پر پڑا شیشے کا باؤل فرش پر زور سے پھینکا۔۔ زور دار چھناکے کی آواز پر وہ خوفزدہ سی کانوں پر ہاتھ رکھ کر گہرے گہرے سانس بھرتی رونے والی ہو گٸی۔۔
”کیوں کہ۔۔ میں۔۔ میں۔۔ دودھ زیادہ۔۔ پیتی ہوں۔۔“
خوف سے بند ہوتے دل کے ساتھ سسکیوں کا گلا گھونٹ کر بولی تو وہ ایک پل کے لیے حیران ہوا۔
”اوہ۔۔ اوہ۔۔ تو تم کہنا چاہتی ہو۔۔ کہ دودھ پینے سے۔۔“ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔۔ وہ اس سے رخ پھیرے خوف سے کانپ رہی تھی۔۔ عجیب انسان تھا، اس کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ہنستے ہنستے کب غصہ ہو جاٸے۔۔ وہ تیزی سے موڈ بدلنے والا دل سے خوش ہوا۔۔
”زرا مجھے دیکھنے دو۔۔ اپنا چہرہ دکھاؤ زرا۔۔“
وہ ہنس کر اس کے پاس آیا اور چہرہ اوپر کیا۔۔ وہ مزید سہم گئی، شاید غلط جواب دے بیٹھی تھی۔۔ وہ اس کے کندھوں سے کچھ نیچے جاتے نرم بالوں کو سمیٹ کر پونی کی شکل دیتا انجوائے کر رہا تھا۔۔
”بھا۔۔ئی۔۔ نے کہا تھا آپ۔۔ کو یہ دے دوں۔۔“
وہ یک دم اسے پیچھے کرنے کا بہانہ ڈھونڈتی کچھ یاد آنے پر سائیڈ سے نکلی تو وہ سوالیہ نظر سے اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ فریج پر پڑا کاغذ اٹھا کر اس کے سامنے کر گئی۔۔ اس سے کاغذ لیتے عیسٰی کی نظر بس اس پر ٹکی ہوئی تھی، اسے دیکھنا اتنا اچھا لگے گا اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔
”ہممم۔۔ پھر کیا دے دیا بھائی نے۔۔“ وہ بھائی پر زور دے کر بولتا کاغذ پر نظریں دوڑاتا چونکا۔
”یہ کیا ہے۔۔ تم پیرس جا رہی ہو؟ کس کی اجازت سے۔۔“ وہ یکدم طیش میں آتا اس کے سر پر سوار ہوا۔
وہ گھبرا گئی، عجیب پریشانی میں گھر گئی تھی، کسی بات سے وہ سر پھرا راضی ہی نہیں ہو رہا تھا۔
”بھائی نے کہا آپ ڈائیورس۔۔“ وہ ابھی اپنی بات پوری نہیں کر پائی تھی جب اس نے بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا اور اپنے حصار میں قید کرتے ہوئے اس پر جھکا۔ اس کے ہوش اڑے۔۔ وہ بری طرح تڑپ کر خود کو چھڑوانے لگی۔
اس کی مزاحمت کو کسی بھی خاطر میں لائے بنا اپنی مرضی سے اسے چھوڑ کر دور ہوا تو اس کا ملائم چہرہ جل اٹھا تھا۔۔ ایک رخسار اور گردن پر سرخ نشان واضح ہو رہا تھا۔۔
”اپنے بھائی کو یہ دکھانا اور بتا دینا کہ رات میں تمہارے ساتھ ایک ہی روم اور ایک ہی بیڈ پر سویا تھا۔۔ بس اتنا سچ کافی ہو گا ان کے لیے۔۔“
وہ سکون سے اسے دیکھتا بولا اور کاغذ پھاڑ کر ہوا میں اڑایا۔
”تم کہیں نہیں جاؤ گی۔۔ اب تو بالکل نہیں۔۔“ فیصلہ ہو گیا تھا، وہ اطمینان سے بولتا فرش پر بکھرے کانچ سے بچتا باہر نکلا۔ جس پر اب تک صرف غصہ آتا تھا اب اس کی توجہ چاہئیے تھی۔۔ یہ تبدیلی اسے چڑچڑا کر رہی تھی۔ اسے اپنے قریب کرنے کے لیے محبت سے پیش آنے کی بجائے غصہ ہو گیا۔۔ گہرا سانس بھر کر خود کو ریلیکس کیا۔۔ ٹیبل پر نظر گئی تو سر ہلا کر واپس پلٹا۔۔
پہلے سوچتا تھا غصہ کرے گا خود سے دور رکھے گا مگر ہر بار نرمی برت جاتا تھا، قریب کر جاتا تھا۔۔
اب چاہتا تھا نرمی برتے، پیار سے پیش آئے، قریب کرے مگر اب وہ غصہ کر جاتا تھا۔۔
عجیب الٹا انسان تھا، جب سے پُروا زندگی میں آئی تھی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر پایا، نا اس سے نفرت نا اس پر غصہ اور نا اب اس سے محبت۔۔
کچن میں گیا تو نیچے بیٹھ کر وہ زاروزار رو رہی تھی۔
کچھ فاصلے پر کانچ بکھرا پڑا تھا، وہ خود کو کوستا آگے بڑھا، چولہے پر محسوس ہوتی سمیل پر نظر اٹھائی تو ایک چھوٹے سے برتن میں تھوڑے سے پانی میں بوائل کرنے کے لیے رکھے گئے انڈوں کے گرد پانی خشک ہو چکا تھا بالکل۔۔ اس نے چولہا بند کر دیا۔
"ایم سوری پُروا۔۔ سوری پلیز میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔" اس کے پاس نیچے پنجوں کے بل بیٹھ کر نرمی سے معذرت کی۔ وہ منہ چھپائے روتی رہی۔۔
بس طے تھا وہ برا انسان ہے چاہے جتنا اچھا بن جائے۔۔
اس نے بےچارگی سے کچن کا پھیلاوا دیکھا، اپنے لیے خود کام بڑھا لیا تھا، وہ جو اب غم میں مبتلا تھی کبھی یہ سب سمیٹنے والی نہیں تھی۔۔
"اٹھو یہاں سے، باہر نکلو ورنہ کانچ لگ جائے گا پھر تمہاری چیخوں سے میرا دماغ پھٹنے والا ہو جاتا ہے۔۔"
اسے پکڑ کر اٹھایا، وہ بازو چھڑوا کر منہ چھپا گئی۔۔ رونا دھونا پورے شوق سے جاری رکھا ہوا تھا۔
عیسٰی نے اسے کھینچ کر کھڑا کیا اور دروازے کی طرف صاف جگہ سے باہر نکلتا اسے ساتھ لے گیا۔۔
وہ کانچ سے بچ کر نکلتی جیسے ہی کچن کی حد سے نکلی پھر سے ہاتھ چھڑوا کر زمین پر بیٹھ کر رونے لگی۔ عیسٰی کا منہ کھل گیا۔ دنیاداری بھی چلا لیتی تھی اور اپنا غم بھی ساتھ ساتھ چلاتی تھی۔۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ کر مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا۔
"یار تمہیں ہر بات ہر رونا آ جاتا ہے، دکھاؤ زرا کیا اتنا ظلم کر بیٹھا ہوں۔۔" عیسٰی نے زبردستی اس کے ہاتھ ہٹا کر چہرہ اوپر کیا۔ وہ سرخ ہو رہی تھی، تکلیف شاید اتنی نہیں ہوئی تھی ہاں صدمہ بہت بڑا تھا۔۔
"اچھا تم بھی بدلہ لے لو۔۔ لو سامنے بیٹھا ہوں جو چاہے کر لو، قسم کھا رہا ہوں کچھ نہیں کہوں گا۔۔"
وہ بازو پھیلا کر چہرہ اس کے سامنے کرتا آنکھیں بند کر گیا۔ چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ تھی، ظاہر ہے وہ بدلہ تو نہیں لے گی مگر کم سے کم سکون تو ملے گا، چپ تو کر جائے گی۔۔
پروا نے سسکی بھرتے ہوئے آنسو صاف کیے اور زرا اونچی ہو کر عیسٰی کے گال پر پوری شدت سے دانت گاڑھ گئی۔ عیسٰی کی آنکھیں کھلیں، درد سے بلبلاتا پیچھے کو گرا اور اس بلی کو بڑی مشکل سے اپنے اوپر سے ہٹایا۔۔ اپنے تیز دانتوں سے وہ بس خون نکالنے کو تھی جب عیسٰی کے دھکا دینے پر دور ہوئی۔
وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر گہرے گہرے سانس بھرتا بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ آنکھیں رگڑتی معصوم صورت بنائے اس کے دوسرے گال کو دیکھ رہی تھی، وہ بےساختہ دوسرے گال پر ہاتھ رکھ گیا۔
"تم۔۔ تم جنگلی بلی۔۔ دیکھو خود کو۔۔ صرف سکن ریڈ ہوئی ہے اور تم نے میرے گال پر پورا ڈیزائن بنا دیا۔۔"
وہ غم کی شدت سے بول ہی نہیں پایا، گال پر شدید جلن ہو رہی تھی۔ پروا پیچھے کھسکی۔
وہ چاہے قسم کھا چکا ہے مگر اس کا کیا بھروسہ پھر غصہ ہو جائے، اس نے تو وہی کیا جو کہا گیا تھا۔۔ بدلہ لینا گناہ تھوڑی ہے، جو گناہ کیا اس کی سزا دی۔۔
عیسٰی وہاں سے اٹھ کر کمرے کی طرف بھاگا، مرر میں دیکھا، رخسار پر بنے دانتوں کے نشان سے ایک دو جگہ باریک سا کٹ لگ چکا تھا۔۔ وہ رونے والا ہو گیا۔۔
جب تک صدمے سے نکل کر باہر آیا۔۔ وہ باہر صوفے پر سکون سے بیٹھی تھی، پلکیں نم تھیں مگر اب دل میں ٹھنڈ اتر گئی تھی۔
وہ ناراض ناراض سا آ کر بیٹھا اور اپنا برگر نکال کر کھاتا پیکٹ اس کے سامنے کر گیا، پورے زمانے میں اس کی شکایتیں لگاتی تھی، اب کیا وہ بھی پکچر بنا کر دکھائے اس کے بھائیوں کو کہ کتنی معصوم ہے وہ۔۔
مگر نہیں یہ بات شرمندگی کا باعث تھی، اسے پتا تھا پُروا کے لیے اسے لعن طعن کرنے والے وہ دونوں اس پر ہنسیں گے، مذاق اڑائیں گے۔۔
سر جھٹکا اور گھور کر اسے دیکھا، جو لرزش کا شکار برگر کھا رہی تھی، عیسٰی کی نظر اس کے رخسار اور گردن پر بنے نشان پر گئی، اب سرخی کم ہو رہی تھی، سرد آہ بھری۔۔ آج پھر وہ کسی بھی جرسی، شال کے بنا سردی سے نیلی ہوتی بیٹھی تھی۔۔
ناراضگی ناراضگی میں ہی اس کے روم سے جا کر سوکس اور اپنے والی ہُڈ لایا، ہُڈ پہنا کر اس کا یخ پیر اوپر کر کے گرم ہاتھوں میں دبا کر گرمائش پہنچانے لگا، پروا نے نہایت خاموشی اور تابعداری سے دوسرا پاؤں بھی اوپر کر کے اس کے گھٹنے پر رکھ دیا۔۔ ایسی خدمتیں تو کافی شوق سے کرواتی تھی وہ۔۔
"یہ کام تو کیسے ملازم سمجھ کر کروا لیتی ہو۔۔ بدلہ لینے کے لیے دشمنی یاد آ جاتی ہے۔۔" وہ خفگی جتا کر بولتا پہلے پاؤں پر جراب پہنا کر اپنی گود میں رکھتا دوسرے پاؤں کو ہاتھوں میں لے گیا۔۔
پروا اپنی گود میں ہاتھ رکھے سر جھکا گئی، اسے گل جان کی بات یاد آئی کہ جواب نہیں دینا پلٹ کر۔۔ اب موقع تو انہوں نے واضح نہیں بتایا تھا مگر وہ جیسے خیال رکھ رہا تھا اسے چپ رہنا بہتر لگا۔۔
اچھی خاصی خدمتیں کروا کر وہ عیسٰی کو معاف کر گئی اس سب کے لیے جو کچن میں ہوا تھا۔۔
عیسٰی بھی اس کے ساتھ ایک اچھا دن گزار کر وہ تکلیف اور نشان بھول گیا جو انعام میں ملا تھا۔۔
وہ کم بات کرتی تھی، جواب بھی مرضی سے دیتی تھی پھر بھی وہ خوش تھا، اتنا بھی کافی تھا کہ وہ سامنے ہے۔۔
اصل رونا تو اسے تب آیا جب اگلے روز یونی میں سب اس کے گال کو دیکھتے مسکراہٹ دبا رہے تھے، سرخ و سفید رنگت پر وہ سرخ نیلا سا نشان واضح تھا۔۔
"واہ تمغہ جرأت بھی مل رہے ہیں اب۔۔۔ یار یہ نشان کیسا ہے ایسا لگتا ہے بہت محبت ہے کسی کو تم سے۔۔"
حسن اور احمر کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔
"لَو بائٹ ہے۔۔ تم کنوارے کیا جانو۔۔" وہ ناک چڑھا کر نخرے سے بولا، دونوں نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔۔ نیا صدمہ پہنچا تھا، ایسی حسین (ظالم) لَو بائٹ۔۔
اپنی گاڑی میں بیٹھتے عیسٰی کا شرمندگی سے برا حال تھا۔۔ اسے پُروا کو بدلہ لینے کا نہیں کہنا چاہئیے تھا، دوبارہ ایسی غلطی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ رونا آ رہا تھا، زندگی کی سب سے بڑی شرمندگی آج محسوس ہوئی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
حویلی میں آج کافی وقت بعد ہلکے پھلکے ماحول میں سب ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے، گل جان کے جانے پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا تھا نا ہی جلدی آنے کا کہا گیا۔۔ یاور کی بیوی اور پریہان کی ایکسٹرا کئیر کی جا رہی تھی۔۔ آج موسٰی نے آؤٹ آف سٹی جانا تھا اس نے زرشے کو پہلے ہی کہہ دیا تھا دوپہر تک تیار رہے۔۔
خان آزر ایک طرف خاموشی سے بیٹھے بد دلی سے کھا رہے تھے، خان یوسف سے باتیں کرتے خانزادہ کی نظر زرشے پر پڑی تو کسی خیال کے تحت چونکا۔۔
"زرشہ یونی کب سے ری جوائن کر رہی ہو؟ ابھی تک شادی کی تھکن نہیں گئی کیا۔۔" لہجہ نارمل تھا مگر سوال کڑا تھا، زرشہ گڑبڑا گئی۔ ثنا بیگم کے ابرو چڑھے، ان کے منع کرنے پر ہی تو وہ یونی کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔
"ابھی رہنے دو یار۔۔ ایک دو ماہ تک دیکھیں گے۔۔" موسٰی نے اسے کہتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کی التجا کی تو وہ لب بھینچے اس سے بعد میں بات کرنے کا سوچ کر خاموش ہو گیا۔
"ضرورت ہی کیا ہے، میں نے منع کیا تھا، اب نہیں جائے گی۔۔" ثنا بیگم نے بےنیازی سے اپنا تحکم جتایا۔۔
"کیوں روکا آپ نے۔۔ کیوں نہیں ہے ضرورت۔۔ اگر اس کی بہن پلوشے اور آپ کی بیٹیوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے تو زرشہ کو کیوں ضرورت نہیں۔۔" اب خانزادہ کا چپ ہونا مشکل تھا، موسٰی نے سر پکڑ لیا۔
باقی سب پریشان سے اب ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
"کیونکہ یہ زرشہ ہے، میری بہو بنا دی اور میں نے قبول کر لی، بس اتنا بہت ہے۔۔" وہ موسٰی اور خان زوار کی تنبیہی نظروں کو ان دیکھا کیے بول رہی تھیں۔
"یہ زرشہ ہے؟ اس جملے کا مطلب بتا دیں زرا۔۔ کیونکہ یہ گل جان کی بیٹی زرشہ ہے۔۔؟ وہ اپنے بھائی کے ناکردہ گناہ کی سزا جھیل چکیں، کیا وہ کافی نہیں ہے۔۔ یہ میری بہن ہے، خان آزر کی بیٹی ہے یہ۔۔"
خانزادہ نے بمشکل اپنے لہجے پر قابو رکھ کر جواب دیا تھا۔ خانی بیگم نے آخری جملہ پر سر جھٹکا۔
"تمہیں یقین ہے یہ خان آزر کی بیٹی ہے۔۔" ثنا بیگم نے تمسخر سے جواب دیا۔ خان آزر کے ہاتھ میں چائے کا کپ کپکپا کر رہ گیا۔۔ یاور اور داور ٹھٹکے جبکہ خان یوسف نے بےزاری سے ثنا بیگم کی چلتی زبان دیکھی۔
"مورے۔۔" موسٰی نے ضبط سے ماں کو دیکھا۔
"کیا مطلب ہے آپ کا۔۔؟ کیا کہنا چاہتی ہیں آپ۔۔" خانزادہ نے گلاس پوری قوت سے میز پر پٹخا جو چھناکے سے ٹوٹ گیا۔۔ یکدم سناٹا چھا گیا۔
زرشے خوفزدہ سی بھائی کو دیکھ رہی تھی، پریہان نے بھی حیرت اور خوف کی زیادتی سے آنکھیں پھیلائیں۔
"جواب دیں مجھے۔۔ آپ کو لگتا ہے اس بات پر میں ادب سے سر جھکا کر بیٹھ جاؤں گا۔۔؟ اپنی بات کی وضاحت کریں ابھی اور اسی وقت۔۔ یہ بہن ہے میری کوئی ملازمہ نہیں جس پر آپ کبھی کوئی بھی پابندی لگا دیں گی اور میں سوال نہیں کروں گا۔۔"
وہ دھاڑ رہا تھا، ثنا بیگم بول کر پچھتائی تھیں۔ انہیں لگا وہ چپ ہو جائے گا۔ وہ نہیں ہوا اور جب وہ بولنے پر آئے تو چپ ہوتا بھی نہیں تھا۔۔ موسٰی دانت پر دانت جمائے ماں کو دیکھ رہا تھا۔
"مجھے یقین ہے، ثبوت چاہئیے کیا آپ کو۔۔" اس بار خان آزر کی سنجیدہ آواز ابھری تھی، باقی افراد ناسمجھی سے بات سن رہے تھے۔۔ اس بات کا مطلب کسی کو سمجھ نہیں آیا تھا، گل جان بےقصور تھیں، معاملہ حل ہو چکا تھا پھر یہ کیسی بحث تھی۔۔
"کیوں دیں گے ثبوت۔۔؟ کیا یہ بھی ثبوت دے کر موسٰی اور عیسٰی کو خان زوار کا بیٹا کہتی ہیں۔۔"
اس کی بات پر جہاں خان زوار نے لب بھینچے، موسٰی سنسنا اٹھا تھا۔۔ "حدیر۔۔" اس نے چیخ کر کہا۔
"چپ رہو تم موسٰی۔۔ اپنی بہن دیتے ہوئے پہلے کہہ دیا تھا، چچی نے ایسی ویسی بات کی تو میں سوال کروں اور میں سوال کر رہا ہوں۔۔ انہیں اپنی بات کی وضاحت کرنی ہو گی۔۔" وہ جواباً اس سے زیادہ آواز میں چیخا۔۔ ایک عرصے بعد پھر سے اپنے جلالی موڈ میں آیا تھا۔
"چپ ہو جاؤ خانزادہ۔۔ اس نے سوچے سمجھے بنا بکواس کر دی اور اب تم بڑھاوا دے رہے ہو۔۔ زوار تماشہ دیکھنا ہے یا بیوی کو خود سمجھاؤ گے۔۔"
خان یوسف نے بات کو رفع دفع کرنا چاہا خان زوار کے کچھ بولنے سے پہلے ثنا بیگم اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں۔ پریہان منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"تمہارے آنے کے بعد خود کو کنٹرول میں رکھتا تھا ورنہ ایسا ہی ہے شروع سے۔۔ یہاں مزاج کے خلاف بات ہوئی نہیں کہ پوری حویلی سر پر اٹھا لی۔۔ پھر نا سردار صاحب کی چلتی ہے نا آغا جان کی۔۔" خانی بیگم فریش اورنج جوس کے گھونٹ بھرتیں سکون سے بول رہی تھیں، ان کے چہرے کے تاثرات اور باقی سب کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ لوگ اس سب کے عادی ہیں۔۔ پریہان کے لیے یہ سب نیا تھا۔ شاید وہ واقعی پریہان کے خیال سے زرا دھیما پڑا رہتا تھا مگر آج برداشت ختم ہو گئی تھی۔۔ سخی چھلکاتی نیلی آنکھیں، سرخ ہوتا چہرہ اور تنے ہوئے تاثرات۔۔
" کیا ضرورت ہے اتنا شور کرنے کی۔۔ بس کر دی بات تو اب زوار سمجھا دے گا۔۔" خان یوسف نے سر نفی میں ہلا کر تاسف سے کہا۔ داور دونوں چھوٹے بھائیوں کے جذباتی پن سے تھک گیا تھا۔ زرشے روہانسی صورت لیے بیٹھی تھی۔ وہ جبڑے بھینچے بیٹھا تھا۔
"میں سمجھاؤں گا دوبارہ ایسی بات نہیں ہو گی۔۔ تم نے بہن کو ڈرا دیا بچے۔۔" خان زوار نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپایا اور وہاں سے چلے گئے۔۔
"میں مورے کو سمجھا لیتا ناں۔۔ بات بڑھانی ہوتی ہے بس تمہیں۔۔ اتنی بڑی بات نہیں تھی کہ بھڑک اٹھے۔۔"
موسٰی نے اسے خفگی سے گھور کر احساس دلایا.
"اگر اتنی بڑی بات نہیں تھی تو تم نے اس جملے پر کیوں ٹوکا مجھے؟ چچی یہاں بیٹھ کر سب کے درمیاں ثبوت مانگیں گی زرشے خان آزر کی بیٹی ہے یا نہیں اور تم کہتے ہو بڑی بات نہیں۔۔؟ یا بتا دو کہ تمہیں بھی چاہئیے ثبوت۔۔؟" وہ غصے سے بھرا بیٹھا تھا، موسٰی نے لب کچلے، ماں کی بات اسے بھی چُبھی تھی مگر اس بات کا بڑھنا بھی سہی نہیں تھا۔۔
"چچی سے کہہ دینا یا زرشے یونی جائے گی یا پھر دریہ اور درخشان بھی گھر بیٹھیں گی۔۔ یہ لاوارث نہیں ہے، نکاح کر کے دیا ہے میں نے۔۔ تعلق نہیں توڑا کہ کچھ بھی کرتے پھرو اور میں پوچھوں نہیں۔۔ آغا جان آپ مجھے ایسے گھوریں مت، کیا آپ کو میں غلط لگ رہا ہوں۔۔" وہ موسٰی کو جواب دیتا یکدم خان یوسف کی طرف مڑا تو وہ سر پکڑ بیٹھے، یعنی وہ چیخے تو کوئی روکے بھی نہیں۔۔ یہ سب ان کی ڈھیل کا ہی نتیجہ تھا کہ اب گھورنے پر بھی الجھ رہا تھا۔۔
"نہیں ہو تم غلط۔۔ ٹھنڈے ہو جاؤ۔۔ موسٰی ماں سے کہنا اب دوبارہ ایسی بات نا کرے۔۔ کچھ باتیں وقت پر نا سلجھائی جائیں تو بڑھ جاتی ہیں، ایسا نا ہو جب بعد میں تم سمجھانے بیٹھو تب تک تمہاری بیوی ناراض ہو چکی ہو۔۔" خان یوسف نے اسے سمجھاتے ہوئے زرشے کا اشارہ دیا تو وہ لب کچلتا زرشے کی طرف متوجہ ہوا جو شرمندہ سی سر جھکا کر بیٹھی تھی۔
"اچھا ہے ناراض ہو جائے اور کبھی راضی نا ہو۔۔ زرشے ادھر آؤ اپنے لالا کے پاس۔۔" خانزادہ نے جتا کر کہا اور زرشے کو نرمی سے بلایا۔ اپنی چئیر پیچھے کرتا اٹھ کر اس کی طرف بڑھا اور اپنے پاس آتی زرشے کو سینے سے لگا کر اسکا سر چوما۔۔ کوئی شک نہیں تھا اسے وہ بہت عزیز تھی، ایک خاموش نظر باپ پر ڈالی تھی۔۔
"جب تک چاہو یہیں رہ سکتی ہو۔۔ یہ اپنے پورشن کا ماحول سیٹ کر کے تمہیں لے جائے گا۔۔ ثنا چچی اور میری باتوں کو مت سوچو، ان کی عادت کا پتا ہے تمہیں اور میرا بھی پتا ہے شور شرابا کر لوں تو سکون مل جاتا ہے۔۔" آخری بات پر وہ اپنی مجبوری بیان کرتا زرشے کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا۔
موسٰی اس کی بات کا مطلب سمجھ کر اسے گھور کر دیکھتا وہاں سے چل گیا۔ خان آزر بھی اٹھ کر وہاں سے جا چکے تھے، زرشے نے وہاں سے پریشان ہو کر جاتے موسٰی کو غائب ہونے تک دیکھا تھا ، دل چاہ رہا تھا اس کے پیچھے جائے مگر ثنا بیگم سے ڈر بھی لگ رہا تھا۔۔ کچھ دیر پہلے والا شور ختم ہو گیا تھا مگر اثرات باقی رہ گئے تھے۔۔ ناشتہ وہیں رہ گیا تھا، باتیں ختم ہو چکی تھیں، سب کے دماغ ثنا بیگم کی بات پر اٹکے ہوئے تھے۔۔ کچھ تو تھا جو وہ کہنا چاہتی تھیں۔۔
___________________________________________
وہ غصے سے کمرے میں ٹہل رہا تھا، ادب خان کی کال آئی تو سلائیڈ ڈور کھول کر بیک سائیڈ سیڑھیاں اتر کر لان میں چلا گیا۔
"خان صاحب آپ نے جو گارڈز چھوٹے (عیسٰی) کے اپارٹمنٹ کے گرد نگرانی پر مامور کیے تھے، ان کی کال آئی تھی۔۔ کچھ لوگ اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جن کو فی الحال تو کسی طرح روک کیا جاتا ہے مگر دو تین بار ایسا ہو چکا ہے۔۔"
ادب خان کی بات پر وہ پریشان ہو گیا۔
"عیسٰی وقت پر آتا ہے ناں اب۔۔؟ اور ان سے کہہ دو وہاں سے بالکل نا ہٹیں، ادب خان سیکیورٹی بڑھاؤ۔۔ عیسٰی بھی اکیلا باہر نا جائے اب۔۔ رپورٹ لیتے رہنا ان سے۔۔" وہ گھبرا کر ہدایتیں دے رہا تھا۔
"ہو جائے گا خانزادہ جی۔۔ میں پتا کرواتا ہوں وہ کون ہیں اور کیا مقصد ہے ان کا بلکہ خود چلا جاتا ہوں۔۔"
ادب خان نے اسے اطمینان دلایا تو وہ چونکا۔
"اوہ ہاں پتا کرواؤ۔۔ بلکہ عیسٰی سے بات کرتا ہوں، ان دونوں کو کچھ وقت میرے گھر شفٹ کرو، سیکیورٹی اچھی ہے، گڑیا بھی اکیلی نہیں ہو گی۔۔" اس نے جلدی سے دماغ چلایا تھا۔ ادب خان نے بات سمجھ کر کال کاٹ دی۔۔ وہ کنپٹی دباتا سوچ میں مبتلا ہوا۔
پروا کو یہاں لانا سہی نہیں تھا، یہاں پہلے ہی مسئلہ کھڑا کر چکا تھا وہ۔۔ گل جان بھی نہیں تھیں پھر پروا غلطی سے بھی عیسٰی کے ساتھ ہوئے نکاح کا زکر کر دیتی تو ایک جنگ چھڑ جانی تھی۔۔
وہ کون لوگ ہو سکتے تھے، ان کا کیا مقصد ہو گا۔۔
بہروز خان یا ہاشم کے بندے بھی ہو سکتے تھے جو دشمنی کا جواب اس بار عیسٰی کو نقصان پہنچا کر دینا چاہ رہے ہوں یا وہ لوگ بھی ہو سکتے تھے جن کے ساتھ وقار صاحب پروا کا سودا طے کر بیٹھے تھے۔۔
دونوں ہی خطرے میں ہو سکتے تھے خانزادہ کا سر پھٹنے لگا۔ فی الحال تو ادب خان سب سنبھال لیتا مگر حقیقت جاننا بھی ضروری تھی۔۔
ٹہلتے ہوئے اس کی نظر اپنے کمرے کی سلائیڈ ونڈو پر نظر پڑی تو چونکا، پریہان اسے دیکھ رہی تھی۔۔
اس کے دیکھنے پر پیچھے ہٹ گئی، خانزادہ سر کھجاتا سر جھٹک کر کمرے میں پہنچا۔ وہ سامنے ہی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھی تھی۔۔
"کیا بات ہے پریہان۔۔ کیا سوچ رہی ہو۔۔؟ ناشتہ سہی سے تو کیا تھا ناں۔۔" نرمی سے پوچھتا اسکے پاس بیٹھا۔ آج جیسے غصہ ہوا تھا وہ بھی گھبرا گئی تھی۔
"ناشتہ تو کسی نے بھی نہیں کیا تھا ابھی۔۔" وہ اسے احساس دلانا چاہ رہی تھی۔
"سب کو چھوڑو۔۔ سب کھا لیں گے کچھ نا کچھ۔۔ وہ لوگ عادی ہیں اس سب کے مگر تم نے ضرور کچھ نہیں کھایا ہو گا ابھی تک۔۔" اس نے فکرمندی سے کہا۔
"خانی مورے نے بنا ناشتہ کیے نہیں آنے دیا۔۔ فکر نا کریں۔۔" وہ مدھم لہجے میں بول رہی تھی۔ وہ اس کے الفاظ میں احتیاط محسوس کر کے مسکرایا۔ وہ ڈری ہوئی تھی اور شاید اسے لگ رہا تھا غصے میں وہ اسے بھی ڈانٹ دے گا۔۔ اس نے نرمی سے اس کی کمر کے گرد بازو پھیلا کر اسے سینے سے لگا لیا۔
"کیا تمہیں بھی یہی لگتا ہے پریہان کہ میں نے غلط بات کی۔۔؟ سب بچے تو نہیں ہیں کہ چچی کی بات کا مطلب نا سمجھ سکیں۔۔ زرشے ہمیشہ سب کا گل جان کے ساتھ سرد رویہ دیکھ کر چھپ چھپ کر رہتی آئی ہے، اب کچھ اعتماد بحال ہوا تھا، اب جا کر سب کے ساتھ بیٹھنے لگی ہے اور چچی نے اس کی زات کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کر دی۔۔" اسے سینے میں سمیٹ کر اس کے نازک کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ پریہان کو بھی زرشے اور گل جان پر ترس آتا تھا، دکھ ہوتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر اس کا غصہ۔۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی بولی کچھ نہیں۔۔ اس کی خاموشی محسوس کر کے وہ بھی چپ ہو کر اسے مزید شدت سے خود میں بھینچتا اس کے رخسار پر نرمی سے لب رکھ گیا۔
"زرشے۔۔ گھبرا گئی تھی۔۔" کچھ لمحے کے توقف کے بعد اس کے جلتے لمس کو محسوس کرتی وہ گھبرا کر زرشے کا بتانے لگی، اسے کہنا چاہ رہی تھی کہ آج اس کا غصہ کرنا اس کی بہن کو ڈرا گیا تھا۔۔ اس کا انداز صاف بتا رہا تھا وہ خود ڈر گئی ہے۔۔
"اوہ۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو، آئندہ کوشش کروں گا ایسا نا کروں۔۔ سوری لٹل وائف۔۔" وہ نرمی سے مسکرا کر بولتا جواباً زرشے کا ہی اشارہ دے کر معذرت کرنے لگا۔
پریہان کے اعصاب قدرے پرسکون ہوئے تھے۔
"حدیر۔۔ آپ بہت خوفناک لگ رہے تھے تب۔۔ وہاں۔۔"
کچھ دیر بعد آخر اس نے کہہ ہی دیا، وہ سیدھا ہو کر اسے دیکھنے لگا، پریہان نے جیسے وہ وقت تصور کر کے جھرجھری لی۔۔
"غصہ آ گیا تھا میری جان۔۔ دوبارہ نہیں ہو گا ایسا، اب ریلیکس ہو جاؤ۔۔ بلکہ ڈرا تو تم رہی ہو اب مجھے۔۔"
اسے یقین دلاتے ہوئے وہ بےچاری صورت بنا کر بولا۔
"جی؟ میں کیسے۔۔" پریہان حیرت زدہ سی بولی تھی۔
"ایسے ڈر کر۔۔ جیسے تم گھبرا رہی ہو مجھ سے، میں ڈر رہا ہوں اب تم مجھ سے دور ہو جاؤ گی۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا، لبوں کے کناروں پر مسکراہٹ مچل رہی تھی۔ موڈ بدلنے میں ماہر تھا وہ۔۔
"نہیں میں نہیں گھبرا رہی۔۔ نا ہی دور ہو رہی ہوں۔۔" وہ آگے بڑھ کر اس کے گلے میں بازو ڈالتی کندھے پر سر رکھتی اس کا خوف ختم کرنا چاہ رہی تھی۔ خانزادہ کھل کر مسکرایا۔
"اب سمجھ آ رہی ہے کہ پروا نے یہ ہگ دینا کس سے سیکھا ہے۔۔" وہ شرارت سے بولتا اس کے گرد مضبوط حصار قائم کر گیا، پریہان جھینپ گئی۔ سچ یہی تھا اور یہ بھی سچ تھا کہ خانزادہ آج ثنا چچی کی بات پر ایسا بھڑکا تھا کہ واقعی زرشے یا پریہان کی موجودگی فراموش کر گیا تھا۔۔ پریہان کو ریلیکس کرتا وہ اپنے کیے پر خفت زدہ ہو رہا تھا۔۔
°°°°°°°°°
ادب خان صبح صبح دونوں کو حدیر ولا لے آیا تھا، پُروا زینت سے مل کر ایسے خوش ہوئی جیسے بچھڑی ہوئی دوستیں مل گئی ہوں۔۔ زینت نے اس کا خیال بھی تو بہت رکھا تھا، کسی بچی کی طرح۔۔
عیسٰی آتے ہی خانزادہ کے روم میں لمبی تان کر سو گیا تھا، یہاں یہ سکون تھا کہ سب کچھ بنا بنایا ملتا تھا۔۔
ثنا بیگم کی کالز پر وہ دن ڈھلے جاگا تھا، وہ جانے کیا کیا دکھڑے رو رہی تھیں، موسٰی بدل گیا ہے، زرشے چالاک ہے، خانزادہ بالکل لحاظ نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔۔
اس نے ہوں ہاں کر کے سب سن لیا، اسے گھریلو سیاست سے کبھی پہلے بھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور خانزادہ چاہے جو کر لے اس کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا تھا۔۔ انہیں بھی تسلی دے کر ان کے پوچھنے پر اپنا حال دینے لگا۔
"تم اکیلے رہتے ہو۔۔ آ جایا کرو حویلی۔۔ ویک اینڈ پر ہی۔۔ اداس نہیں ہوتے۔۔ خود سب کام کرتے ہو۔۔" وہ ماں تھیں، ان باتوں پر بھی فکر رہتی تھی۔۔
"کام تو کرنا پڑتا ہے مگر کچھ دن کے لیے حدیر لالا کے گھر آ گیا ہوں، اب یہاں تو آپ کو پتا ہے پانی بھی اٹھ کر نہیں پیوں گا۔۔ اور ویسے اب میں اکیلا نہیں ہوں ایک بہت پیاری پنک سی کیٹ پالی ہے میں نے، بس دودھ کا خیال رکھنا پڑتا ہے ویسے دل لگا رہتا ہے۔۔"
وہ شرارت سے پُروا کا بتاتے ہوئے مزہ لے رہا تھا۔
"یہ کیسی بلی یے جو پنک ہے۔۔ چلو ٹھیک ہے خوش رہو زیاد قریب مت کرنا ہر وقت، ان کے بال اچھے نہیں ہوتے، کھانے میں چلے جائیں تو مسئلہ ہو جاتا ہے۔۔
اور بلی پالنے کی ضرورت ہی کیا تھی، لاسٹ سمسٹر کمپلیٹ کرو تو پھر کچھ وقت کے لیے میرے پاس آ کر رہنا۔۔" انہوں نے ہدایات دے کر سمجھایا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔ موبائل پر خانزادہ کی آتی کال پر وہ چونکا، ثنا بیگم سے جلدی بات ختم کر کے کال بند کر دی۔۔ کال اٹینڈ کی تو حال احوال کے بعد وہ سیدھا اپنی بات پر آ گیا تھا۔۔
"پروا بتا رہی تھی تم نے ٹکٹ پھاڑ دی۔۔ ایسا کرنے کی وجہ..؟" خانزادہ کے سنجیدہ سوال پر وہ منہ بنا گیا۔
"وجہ یہی ہے کہ میں روبوٹ نہیں ہوں لالا۔۔ آپ نے نکاح کر دیا اپنی مرضی سے او۔کے۔۔ اب میں ختم نہیں کروں گا۔۔ اس جھوٹی نے دو باتوں کو چار بنا کر سب کو بتایا، ایسا کچھ نہیں ہوا کہ رشتہ ہی ختم کیا جائے۔۔" وہ خجل زدہ سا بول رہا تھا۔۔
"اتنی بکواس کی ضرورت نہیں۔۔ تم ہی چاہتے تھے یہ رشتہ ختم ہو اب نہیں چاہتے۔۔ بات ختم۔۔" خانزادہ کے اندر تک سکون سا پھیل گیا تھا۔
"تمہاری کمٹمنٹ کا کیا بنا؟" اب باری تھی پچھلی باتیں جتانے کی۔۔ عیسٰی نے خود کو تیار کیا۔
"ختم ہو گیا سب۔۔" وہ مختصر بولا۔
"تم نے ختم کیا؟ پُروا کے لیے؟" وہ تھوڑا حیران ہوا تھا۔
"نہیں اس لڑکی نے۔۔ آپ کی اس معصوم گڑیا نے نکاح کا اسے بتا دیا تھا۔۔" وہ بھی جتانے سے باز نہیں آیا۔
"وہ اب بھی میری گڑیا ہے تو تمہارے پاس کیوں ہے پھر۔۔" خانزادہ نے بھی بات پکڑی تھی۔
"ہاں تو کیا اب میری جان کہنے لگ جاؤں۔۔ ایسا بھی بےباک نہیں ہوا میں کہ۔۔" اس کی بات پر خانزادہ کو تپ چڑھی، سیدھا جواب دینا گناہ سمجھتا تھا وہ۔۔
"نظر آ رہا ہے کتنے شریف ہو تم۔۔ زیادہ باتیں مت بناؤ۔۔"
اس نے سنجیدگی سے اسے ٹوک دیا کہ حد سے نا بڑھے۔
"شریف ہی ہوں۔۔ جیسے وہ مجھے ملازم سمجھ کر رکھتی ہے ناں۔۔ اگر میں بیوی کے حقوق سے انجان ہوتا تو پہلے دن ہاتھ پکڑ کر باہر نکال دیتا۔۔ یہ تو مسلمان ہوں کہ۔۔" عیسٰی پھر سے اپنی تعریف شروع کر گیا۔
"او مسلمان۔۔ بس کر جاؤ ایسا نا ہو تمہاری شادی کرنے کی بجائے مسجد بنا کر دینی پڑ جائے۔۔" خانزادہ نے ہنسی دبا کر اسے پھر سے ٹوک دیا۔ عیسٰی چپ ہوا۔
"ٹھیک ہے ایک چانس دیتا ہوں مگر اس سے دور رہنا۔۔ قبول کر لیا ہے تو تم جیسے دل پھینک انسان کی محبت کا اندازہ ہے مجھے۔۔ ابھی باقاعدہ شادی نہیں ہوئی اس لیے فاصلہ رکھنا ورنہ تمہیں اچھا نہیں لگے گا کہ زینت تم پر نظر رکھے۔۔" اس نے سکون کا سانس بھر کر اسے سمجھایا اور سختی سے وارن کیا۔
"مجھے لمٹس یاد ہیں لالا۔۔ آپ نے پتا نہیں کیا سمجھ لیا ہے۔۔ ایک بار بھی بری آنکھ سے نہیں دیکھا اسے۔۔"
وہ تو ناراض ہی ہو گیا اس پابندی پر۔۔ خانزادہ کو اس کی پریشانی خوب سمجھ آئی تھی۔۔
"اچھی بات ہے، باقی لمٹس فی الحال زینت کو سمجھا دیتا ہوں۔۔ اب خیال رکھنا اللّٰہ حافظ۔۔" اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا اور کال بند کر دی۔۔ عیسٰی کا منہ بن گیا۔ زینت سے بچھڑی سہیلی کی طرح صبح سے چپک کر پھرتی پُروا کو گھورنے لگا۔
ایسی شکایتی بیوی ملی تھی کہ ایک ایک بات پہنچا دیتی تھی، ابھی صبح صبح موسٰی نے کال کر کے اس کے پاؤں پر باؤل مارنے پر بھی سوال کیا تھا جو شکر ہے گلاس کی طرح اسے لگنے کی بجائے زمین پر جا لگا تھا ورنہ مارا تو پُروا کو ہی گیا تھا۔۔
اسے تو لگ رہا تھا کسی کیمرے کو اپنی زندگی میں شامل کر بیٹھا تھا، ایک ایک منظر کی خبر یہاں وہاں کر دیتی تھی۔ خانزادہ نے بھی جو فاصلہ رکھنے کی ہدایت دی تھی وہ سمجھ گیا وہ اس کے پیار (تشدد) کی بھی خبریں پہنچاتی ہے۔۔
"زینت آج رات بریانی بنانا۔۔ پُروا ادھر آؤ بات کرنی ہے۔۔" وہ کچن میں پہنچ کر زینت کو کہتا پروا کو بلانے لگا۔ وہ صاف نفی میں سر ہلا گئی۔
"حدیر بھائی نے کہا تھا زینت کے ساتھ رہا کروں۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔ زینت مسکراہٹ دبا گئی۔
عیسٰی کا چہرہ خفت و شرمندگی سے سرخ ہوا۔
"اپنے بھائی سے کہنا تھا کہ نکاح بھی زینت سے کر دیتے تمہارا۔۔ چالاک بلّی ادھر آؤ۔۔" وہ دانت کچکچا کر بولتا اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا باہر لے گیا۔۔
پُروا کو اندازہ تھا جو شکایات کا پروگرام چلاتی رہی ہے اب وہ خوب حساب لے گا، چھپنے اور بچنے کی کوشش ناکام جاتی دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔
وہ باہر لے جا کر صوفے پر بیٹھتا اسے بھی کھینچ کر بٹھا گیا۔ پُروا ہوائیاں اڑاتے چہرے کے ساتھ مدد طلب نظروں سے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی، شاید کوئی آ جائے اور اس کی جان بچ جائے۔۔
"تم نے پھر سے اپنے ان جن بھائیوں کو میری شکایتیں لگائیں؟"۔ اس نے گھورتے ہوئے سوال کیا تو وہ ایمانداری سے اثبات میں سر ہلا کر سر جھکا گئی۔
"کیوں؟ بچی ہو جو ہر بات بتاؤ گی۔۔ ہزبینڈ وائف کے درمیان لڑائی اور مقابلہ چلتا ہی رہتا ہے اور اچھے لوگ آپس کی بات دوسروں کو نہیں بتاتے۔۔" اس نے پُروا کی کم عقلی کو کوسا، جتنی معصوم بن رہی تھی اتنی تھی نہیں، وہ جانتا تھا جان بوجھ کر کرتی ہے یہ سب۔۔ بدلے لے رہی تھی اب۔۔ سمجھانے کی کوشش کی۔۔ وہ فرمانبرداری سے سر ہلانے لگی۔
"آئندہ کوئی بات مت بتانا او۔کے؟ ورنہ یہ نشان دیکھ رہی ہو۔۔" عیسٰی نے اپنے گال پر اس کے دانتوں کا نیلا ہو چکا نشان سامنے کیا۔۔
"یہ انہیں دکھایا تو دونوں تمہیں اچھا بتائیں گے۔۔ کیا تمہیں پرمیشن دی تھی کہ مجھے مارو۔۔؟" اس نے جتاتے لہجے میں سوال کیا، پُروا پریشان ہوئی۔
"نہیں بتاؤں گی کچھ۔۔ آئندہ نہیں بتاؤں گی۔۔" نفی میں سر ہلاتی فوراً اسے یقین دلانے لگی۔ وہ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجا کر اسے دیکھنے لگا۔
"گڈ۔۔ اب ہم ٹھیک ہیں۔۔ تو اب مجھے بتاؤ کیا میں تمہیں اچھا لگتا ہوں؟" اس کے ملائم نرم ہاتھ کی ہتھیلی پر لب رکھتا پوچھنے لگا۔ وہ نفی میں سر ہلاتی رک سی گئی۔ سر ہلا دے گی تو وہ کھا نہیں جائے گا۔۔
"کیوں اچھا نہیں لگتا، پہلے بس غصہ میں رہتا تھا اس لیے تمہیں ڈانٹتا رہا۔۔ یہ بھی تو دیکھو تمہارا خیال کتنا رکھتا رہا۔۔ کام بھی نہیں کروایا کبھی۔۔" اس کا نفی میں ہلتا سر دیکھ کر وہ بےساختہ اپنی اچھائیاں بیان کرنے لگا۔ وہ خاموش رہی، اسے یہ بھی یاد تھا کہ وہ بہت بار کہہ چکا تھا کہ اس سے اریٹیٹ ہوتا ہے۔۔ اس کی ڈریسنگ نہیں پسند، اس کی بچگانہ نیچر نہیں پسند اور وہ اس پر ایک زبردستی لادا ہوا بوجھ ہے۔
اسے سب یاد تھا، کئیر بھی اور چِڑنا بھی۔۔
"اچھا چھوڑو۔۔ یہ بتاؤ سب سے زیادہ کس سے محبت ہے۔۔؟" عیسٰی نے اس کا کھویا ہوا انداز دیکھ کر بات بدل دی۔۔، پروا چونک گئی۔
"اپیا سے۔۔" وہ مختصر جواب دے کر اسے دیکھنے لگی۔
"ان سے کم۔۔؟" اس نے پھر سے پوچھا۔
"سب۔۔ مما، بابا، آنی، آپی۔۔ کیف، عفرا، حدیر بھائی، موسٰی بھائی، مورے گل جان اور انکل بھی۔۔"
اس نے انگلیوں پر گن کر سب کا بتایا تھا، عیسٰی کا نام کہیں نہیں تھا۔۔
"ان سے کم۔۔؟" اس بار ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔۔
"میری بیسٹ فرینڈ ہنیا۔۔ اور زینت باجی۔۔" اس بار بھی نام نہیں تھا، اس سے تو زینت کی ویلیو زیادہ نکلی تھی۔۔ اس کا پارہ ہائی ہو رہا تھا۔
"اور میں۔۔؟"۔ اس کی کلائی دبوچ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے غصے سے سوال کیا، حد ہو گئی تھی، کئیر اور فکر تو ایک طرف۔۔ اتنی محبت کرنے لگا تھا اس سے، اتنی توجہ دے رہا تھا، اس کے لیے دنیا سے بڑھ کر اور سب سے پہلی ترجیح بن گئی تھی وہ۔۔ مگر اس کے عزیز لوگوں میں وہ کہیں نہیں تھا۔
"آپ۔۔ آپ بھی۔۔" پروا نے ڈر کر اسے دیکھا۔
"میں کیا ہاں۔۔ زینت بھی باجی ہو گئی، سارے جہان کے ہر بھائی باجی کئیر لسٹ میں ہیں اور میرا کیا۔۔ تمہارے لیے سب سے پہلے عیسٰی ہونا چاہئیے تھا۔۔"
وہ غصے سے جل اٹھا، سب سے ہی جیلس ہو رہا تھا۔۔
"آپ اچھے ہیں۔۔ آپ بھی اچھے ہیں۔۔" پروا خوفزدہ سی اس سے بازو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔
"نہیں چاہئیے تمہارا ترس۔۔ تم نہایت سیلفش لڑکی ہو۔۔" عیسٰی کو خود پر بھی غصہ آ رہا تھا۔ یونی میں، خاندان میں ہر جگہ اسے پسند کیا جاتا تھا، اس جیسا مقبول انسان محبت بھی کس سے کر بیٹھا تھا جو بس زلیل کرواتی تھی، محبت تو بالکل نہیں کرتی تھی۔۔
"چھوڑیں۔۔ درد ہو رہا ہے مجھے۔۔" اس کے ہاتھ کی سخت گرفت سے پروا کا بازو ٹوٹنے والا ہو گیا۔۔
"چپ۔۔ خبردار مجھ سے دور ہونے کی کوشش کی تو۔۔"
اس کی بازو چھڑوانے کی کوشش پر جنونی سا ہو کر بولتا اسے کھینچ کر سینے سے لگا گیا۔ گرفت ایسی مضبوط کر لی کہ پروا کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔۔
"عیسٰی جی۔۔ چھوڑیں۔۔ مجھے۔۔ سوری پلیز۔۔" وہ مچل کر خود کو آزاد کروانے لگی۔
"پروا مجھ سے محبت کرنا تمہاری آسانی کے لیے ضروری ہے ورنہ مشکل میں پڑ جاؤ گی۔۔" اسے بدستور سینے میں بھینچے وہ ضدی لہجے میں بول رہا تھا۔۔
وہ اسے اپنے حصار میں، اپنی محبت میں اور اپنے عشق میں قید کر لینا چاہتا تھا۔۔ وہ جنونی تھا، ضدی تھا۔۔ کچھ چاہتا تھا تو مل جاتا تھا، نہیں ملتا تھا تو چھین لیتا تھا۔۔ وہ محبت کر رہا تھا، فکر کر رہا تھا مگر جواباً محبت نہیں مل رہی تھی۔۔ بےصبر ہو رہا تھا۔۔ بھول گیا پروا انسان ہے، وہ چیز نہیں تھی، وہ اس کے قریب نہیں تھی، اس کی جنونی محبت سے ڈرتی تھی۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔
جائز محبتوں میں نرمی ہوتی ہے، اپنائیت ہوتی ہے۔۔
وہ سختی کر رہا تھا، اس کے دل میں خوف پیدا کر رہا تھا۔۔ خیال رکھ جو دل میں تھوڑی جگہ بناتا تھا، زبردستی کر کے وہ سب ضائع کر دیتا تھا۔۔
رشتہ بن چکا تھا، رشتہ نبھانا نہیں آ رہا تھا۔۔
رات کو وہ کھانا کھا کر لان میں واک کرتا اپنا دماغ ٹھنڈا کرنے لگا۔۔ کب پُروا اس سے محبت کرے گی۔۔ کب وہ اس کے قریب آنے پر دور ہونا چھوڑے گی۔۔
فری ہو کر پُروا کے روم میں گیا تو سوفٹ لائٹس آن تھیں، قالین پر بستر بچھا کر زینت اپنے بچوں سمیت سو رہی تھی جبکہ بیڈ پر پُروا اپنے لاپروا حلیہ اور بےترتیب انداز میں سو رہی تھی۔۔
اس نے منہ بنایا یعنی خانزادہ زینت کو ان کے درمیان لا چکا تھا، اب وہ پروا کے پاس سو نہیں سکتا تھا۔۔
دبے پاؤں اس کی طرف بڑھا، بلینکٹ اس پر سینے تک کھینچ کر ٹھیک کیا، ہاتھوں کو لبوں سے لگا کر بلینکٹ میں چھپا دیا پھر جھک کر نہایت نرمی سے اس کے گلابی گال چھو لئیے۔۔
یہ نرمی جانے پُروا کے سامنے کہاں کھو جاتی تھی، اس کا جنونی پن اور غصہ عود آتا تھا۔۔
خود کو لعن طعن کرتا پلٹ کر چلا گیا، زینت نے خاموشی سے اٹھ کر تمام لائٹس آف کیں اور نیلگوں روشنی جلتی چھوڑ کر ایک نظر بیڈ پر ڈالی، کچھ وقت پہلے پھیلا بکھرا بلینکٹ اب اس کے گرد اچھے لپٹا ہوا تھا اور پُروا سکون سے سو رہی تھی، وہ مسکرا کر اپنے بچوں کے پاس سمٹ کر سو گئی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خانزادہ کو سرداری سونپ دی گئی تھی، سردار ایسا جو جرگہ میں بیٹھ جائے تو چاہے دنیا الٹی ہو جائے، اپنی بات سے پیچھے ہٹنا گناہ سمجھتا تھا۔۔
روایتی شلوار قمیض میں مردانہ شال کندھے پر ڈالے وہ دراز قد اور دلکشی کا منہ بولتا ثبوت لگتا تھا، رویہ میں نرمی مگر چہرے پر نہایت سخت تاثرات، فیصلے اٹل اور دو ٹوک کرتا تھا۔۔ ناحق فیصلوں پر اٹک جاتا تو چاہے جتنا سمجھا لو۔۔ روایت بھاڑ میں جھونک کر وہ کرتا تھا جو بہتر ہو۔۔ادب خان اس کے ہمقدم رہتا اور ہر فیصلہ پر سب سے پہلے وہی اتفاق کرتا تھا۔۔
قتل کے بدلے ونی کا نام بھی آجائے تو وہ بھڑک جاتا۔۔ علاقے میں نئے سردار کی دھاک بیٹھ چکی تھی، کچھ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا تو کچھ اس کے فیصلوں سے اختلاف کر رہے تھے۔ وہ پہلا سردار تھا جو ونی کی بجائے قاتل کو سامنے کر دیتا تھا۔۔ قصاص جائز ہے مگر قصاص میں ونی لینا غلط تریں فیصلہ۔۔ خون کے بدلے خون یا خون کے بدلے زمین یا پیسہ۔۔۔ یہ آپشن دے کر وہ ڈٹ جاتا تھا ان سے نا ایک آنچ آگے نا پیچھے۔۔
اس وقت بھی جرگہ سے وہ لوٹا تو بحث اور دماغ کھپانے کے بعد بری طرح تھکن سوار تھی۔۔
سیدھا مردان خانے میں جا کر خان آزر کے پاس پہنچا۔
"مورے گل کو لینے گیا تھا میں آج۔۔ حاکم خٹک صاحب نے نہیں بھیجا، وہ چاہتے ہیں آپ خود لینے آئیں اور ان سے معافی مانگ کر لے آئیں۔۔" باپ کے پاس بیٹھ کر وہ سنجیدگی سے بولا۔ وہ لب بھینچ گئے۔۔
"تم بھی چاہتے ہو میں معافی مانگوں۔۔؟" سنجیدگی سے بیٹے کو دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔
"مانگنی تو چاہئیے۔۔ یہاں سب سے زیادہ ظلم تو آپ نے کیا ہے ان پر۔۔ بیوی تھیں آپ کی، ان کی ڈھال نہیں بنے، ان پر ہاتھ اٹھایا، سختی کی۔۔ آپ کے بچوں کی ماں بن گئیں تب بھی ملازمہ سے بدتر مقام رہا۔۔
حالانکہ ہم دونوں جانتے ہیں، آپ کی معافی اب ان کے لیے معنی نہیں رکھتی۔۔ وہ یہاں واپس آنا چاہتی ہیں اپنے بچوں کے لیے، آپ معافی مانگیں یا نہیں وہ آئیں گی۔۔ بس ان کے باپ بھائی زرا اطمینان میں ہوں گے کہ آپ کو احساس ہے۔۔"
وہ نرمی سے بول رہا تھا، باپ تھے، وہ مزید سخت لہجہ نہیں اپنا پایا۔۔ خان آزر نے آہ بھری۔۔
"ضرور جاؤں گا۔۔ معافی بھی مانگ لوں گا۔۔" وہ اپنی غلطیاں جانتے تھے، ازالہ تو کرنا تھا۔
"اس بار انہیں لائیں تو مقام بھی دلوائیے گا۔۔ ان کی ضرورتیں پوری کرنا بھی یاد رکھیے گا۔۔ آپ نے تو آج تک ایک ڈریس بھی نہیں لے کر دیا انہیں۔۔ میرے دئیے کپڑے، جوتے ان کی الماری میں پڑے رہ جاتے ہیں اور ان کا دل نہیں کرتا کہ پہنیں۔۔ داور اور یاور لالا بھی لائیں تو بد دلی سے پہنتی ہیں۔ اندر سے زندگی ختم ہے ان کی۔۔ پھر بھی ایک کوشش کر لیجیے گا۔۔"
اس نے آہستگی سے باپ کو احساس دلایا، وہ شرمندگی سے سر ہلا کر رہ گئے۔۔ وقت گزر گیا تھا اب احساس بھی بےمعنی ہو گیا تھا۔۔
وہ اٹھ کر زنان خانے میں پہنچا تو پریہان کی کلاس لگی ہوئی تھی، خانی بیگم کی ڈانٹ سنتی وہ رونے والی ہو رہی تھی۔۔ خان یوسف ایک طرف سکون سے بیٹھے تھے، جب سے خانزادہ نے سرداری سنبھالی تھی وہ تو جیسے جواں ہو گئے تھے، غرور لوٹ آیا تھا۔۔
"کیا ہو گیا ہے مورے۔۔ کیا بات ہے۔۔" وہ تفکر سے بولتا ان کی طرف بڑھا، پریہان بےچارگی سے اسے دیکھنے لگی۔۔
"سمجھا دو اپنی بیوی کو۔۔ وقت پر کھانا نہیں کھائے گی تو مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا۔۔ اس نے سہی سے کھانا پینا پھر چھوڑ دیا ہے۔۔ اور یہ دیکھو۔۔"
انہوں نے ٹیبل پر پڑا باؤل اٹھا کر سامنے کیا۔۔ نوڈلز وہ بھی سہی سپائس والے۔۔ پریہان نے پہلو بدلا۔
"یہ مینے اور صندل سے یہ گند بنوا بنوا کر کھا رہی ہے۔۔ کل اس نے چٹخارے لے لے کر دہی بڑے کھائے جو نہایت مصالحہ دار تھے۔۔ کیا اثر پڑے گا بچے پر۔۔ "
وہ سرخ چہرہ لیے بول رہی تھیں، خانزادہ نے گہرا سانس بھر کر پریہان کو دیکھا جو رونی صورت بنائے سر جھکا کر بیٹھی تھی۔۔
گل جان کے جانے کے بعد اب کہیں جا کر یہ آزادی ہاتھ آئی تھی، ملازماؤں کو حکم دے کر وہیں کچن میں ہی بیٹھ کر چٹخارے لے لیتی تھی۔۔ ایک دن پہلے خانی بیگم کی نظر اس پر پڑ گئی تھی، تب دہی بڑے تو اس نے جلدی سے ختم کر لیے مگر آج نوڈلز کا باؤل ہاتھ میں آتے ہی انہوں نے چھاپا مار دیا تھا۔۔
"میں سمجھاؤں گا مورے۔۔ اور سب کو منع کر دیں آئندہ ایسا کچھ بنا کر نہیں دیا کریں وہ۔۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو پریہان سر اٹھا کر خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ یہاں تو وہ بھی دشمن نکلا۔۔
"کیا دیکھ رہی ہو اسے۔۔۔ آنکھیں نیچی کرو۔۔ بہت بےادب ہے یہ۔۔ کسی بات پر نہیں ٹوکتے تم۔۔" خانی بیگم کا بی۔پی ہائی ہو رہا تھا، وہ منہ بسورتی سر جھکا گئی۔ خان یوسف تاسف سے نفی میں سر ہلا کر اپنے اس رعب دار پوتے کی بزدلی دیکھ رہے تھے۔۔
"پانی پلاؤ۔۔ چائے بنواؤ۔۔ تھکا ہوا گھر آیا ہے خانی۔۔"
خان یوسف کے ٹوکنے پر خانی بیگم نے پھر سے پریہان کو گھورا۔ جسے کئی بار سمجھا چکی تھیں کہ خانزادہ آئے تو بنا کہے پانی لا دیا کرو اور چائے بھی بنوا لیا کرو۔ وہ گڑبڑا کر اٹھی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔ خانزادہ نے مسکراہٹ دبا کر قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھا دئیے۔۔ عصر کا وقت تھا، خانی بیگم نماز کے لیے اٹھ گئیں اور خان یوسف بھی آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔
وہ چائے اور پانی لے کر آہستگی سے سیڑھیاں چڑھتی کمرے میں پہنچی، نوڈلز ہاتھ سے جانے کا غم تازہ تھا۔
وہ صوفہ پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اس کے آنے پر سنجیدگی سے اسے دیکھا، وہ ٹیبل پر ٹرے رکھتی خاموشی سے اس کے ساتھ بیٹھی۔۔
پانی پی کر جب تک اس نے چائے پی وہ پریہان کو دیکھتا رہا اور وہ سر جھکائے غمزدہ بیٹھی رہی۔۔
"کیوں کرتی ہو ایسی حرکتیں۔۔ یہ کیا طریقہ ہے۔۔"
کپ رکھتے ہی وہ اس کی طرف مڑا تو اس کے سوال پر وہ غم کے مارے رونے لگی۔۔
"اچھا بس اب آپ ڈانٹنے نہیں لگ جانا۔۔ پہلے ہی آپ کی مورے نے اتنا ڈانٹا ہے مجھے، نوڈلز چکھنے تک نہیں دئیے۔۔ آپ نے بھی صندل وغیرہ کو منع کروا دیا اب تو ویسے بھی کوئی کچھ بنا کر نہیں دے گا تو ڈانٹنے کا کیا فائدہ۔۔" وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔
خانزادہ کو ہنسی آئی، وہ اپنے چٹخاروں کے غم میں رو پڑی تھی جیسے بہت بڑا ظلم ہوا ہو۔۔
"نہیں ڈانٹتا میری جان۔۔ اب رونا بند کرو۔۔ ایسی کنڈیشن میں یہ سب اچھا نہیں ہوتا پاگل لڑکی۔۔" وہ ہنسی دبا کر اسے سمجھاتا سینے سے لگا گیا۔
"اگر آج آخری بار بنوا ہی لیا تھا تو کھا لیتی بس۔۔" پریہان کا غم ہلکا نہیں ہو رہا تھا۔۔ اسے اندازہ تھا اب کچن میں صندل اور مینے کھا رہی ہوں گی نوڈلز۔۔
"چھوڑو ناں۔۔ نقصان دہ چیز ہے، بعد میں کھا لینا۔۔"
اس نے نرمی سے پشت سہلاتے ہوئے اس کی پیشانی پر لب رکھے۔
"بعد میں کب۔۔ پھر مورے گل آ جائیں گی، وہ بھی نہیں کھانے دیتیں۔۔" وہ آنکھیں رگڑتی بےچارگی سے بولی۔ وہ نفی میں سر ہلاتا اس کے ہاتھ آنکھوں سے ہٹا گیا۔۔ رو رو کر ستیاناس کر بیٹھی تھی آنکھوں کا۔۔
"بعد میں مطلب ابھی نہیں۔۔ رونا بند کرو پریہان۔۔"
نرمی سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے رونے سے منع کیا۔۔ لبوں سے نم پلکوں کو محبت سے چھوا تو پریہان نے دل میں شکر ادا کیا کہ وہ غصہ نہیں ہوا۔۔
جیسے باہر دیکھ رہا تھا اسے لگا آج خیر نہیں۔۔ مگر آنسو بہت اچھا ہتھیار تھے اس کے پاس۔۔
اس کے کندھے پر سکون سے سر رکھ گئی، وہ بالوں میں انگلیاں چلاتا پیار سے اسے خود میں سمیٹے سمجھا رہا تھا، الٹا سیدھا کھانے اور اچھی خوراک سے لاپروائی پر ایک پراثر لیکچر لیتی پریہان سب کچھ لوری کی طرح سن کر نیند پڑ چکی تھی۔۔
اسے بستر پر سلا کر وہ دیکھنے لگا، اچھا خاصہ سب کو تنگ کر رہی تھی وہ، ایک تو خوارک سہی نہیں کر رہی تھی اوپر سے بےوقت سونا۔۔
وہ تو سمجھ نہیں پا رہا تھا کیسے اس کی روٹین سٹیبل کرے، اس پر سختی کرنا تو اسے آتا نہیں تھا۔۔
وہاں دوسری جانب خان زوار کے پورشن میں سرد سی جنگ چھڑی ہوئی تھی، موسٰی جا چکا تھا مگر جاتے جاتے ناراضگی کے طور پر ماں سے ملا تک نہیں تھا۔۔
زرشے موسٰی کے بغیر وہاں جانے کا سوچ کر ہی گھبرا رہی تھی، موسٰی ملے بغیر چلا گیا تھا یہ دکھ بھی تھا۔۔ خانزادہ نے خٹک حویلی جانے کا کہا تو وہ انکار کر گئی۔۔ موسٰی نے کال پر بھی بات نہیں کی تھی وہ خود کال ملانے سے گھبرا رہی تھی۔۔
بولائی بولائی سی حویلی میں گھومتی رہتی تھی۔۔
وہ تلخ کافی کے گرم گھونٹ بھرتا سامنے بیٹھی آئرہ کو دیکھ رہا تھا، یونی میں کافی دن بعد سامنا ہونے پر اس نے بات کرنے کی ریکوئسٹ کی تھی اور جانے کیا سوچ کر وہ مان گیا مگر اب جیسے وہ سامنے سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی وہ اکتا گیا۔ ایک نظر باہر کی طرف دیکھا تو گارڈز گاڑی سمیت موجود تھے، اس کا موڈ خراب ہو گیا، بندھ کر رہ گیا تھا وہ۔۔
"کوئی بات کرنی تھی تمہیں؟ اگر یہ سوری کرنے کا اہتمام ہے تو تکلف مت اٹھاؤ۔۔ میں تب غصہ ہوا تھا کیوں کہ مجھے بہت برا لگا تھا تمہارا بات سنے بنا سب کے درمیان مجھے الزام دینا بٹ اٹس او۔کے۔۔
تم ہرٹ ہوئیں، ناکام ہوئیں، میں اب محبت کرتا ہوں اپنی وائف سے تو تمہاری فیلنگز سمجھ آتی ہیں۔۔"
اس نے سکون سے اپنی بات مکمل کی، معذرت کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دیتی آئرہ چونکی۔
"کیا میں حقیقت جان سکتی ہوں؟ میں ریگریٹ کر رہی ہوں، میں نے غلط کیا بہت مگر پھر بھی کیا آپ اب مجھے سچائی بتا سکتے ہیں۔۔؟" وہ نظر عیسٰی پر ٹکائے بیٹھی تھی، اس کے مزاج میں فرق آیا تھا، وہ کچھ نرمی برت رہا تھا، غصہ نہیں ہو رہا تھا۔
"حقیقت یہ ہے کہ تمہیں پازیٹو آنس کرنے کے بعد میرا اچانک نکاح کروایا گیا تھا۔۔ میری وائف کو کسی پرسنل ریزن کی وجہ سے سیفٹی چاہئیے تھی اس لیے۔۔ میں اسے کبھی نہیں جانتا تھا نا کبھی ملا تھا، یہ نکاح تب وقتی تھا اس لیے میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔ بٹ ناؤ شی از مائی لائف۔۔"
وہ اسے حقیقت بتاتا آخر میں دل سے مسکرایا تھا۔ نیلی آنکھوں میں اس چھوٹی لڑکی کے زکر پر جو چمک آئی تھی آج پہلی مرتبہ آئرہ نے دیکھی تھی۔۔ وہ بار بار اسے وائف کہہ رہا تھا۔۔ اس نے آنکھیں میچ کر اپنے نقصان کو آخری بار دل پر محسوس کیا۔۔ عیسٰی کے ساتھ رہی تھی، محبت کرنے لگی تھی، محبت مانگنے لگی تھی۔۔ وہ انکار کر گیا تھا، اس نے جھوٹ بولا، بہانے بنائے اور پھر وہ مان گیا تھا۔۔ یعنی وہ صرف محبت کرنے پر آمادہ ہوا تھا اور محبت سوچ کر نہیں کی جاتی، محبت تو بس ہو جاتی ہے۔۔
زندگی میں اچانک سے ایک انسان کا دل کو بھا جانا، اس کی ہر بات اچھی لگنا اور اس کے ساتھ سے سکون ملنا۔۔ یہ سب کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے۔۔ آئرہ نے سمجھ لیا اور نم آنکھوں سے مسکرائی۔۔
"میں شادی کر رہی ہوں۔۔" اس کے جواباً بالکل الگ جملے پر وہ چونکا۔۔ وہ کہہ رہی تھی تو سچ ہی ہو گا۔
"اچانک ہی۔۔؟" عیسٰی نے مبارک سے پہلے یہ پوچھا۔
"کسی نے کہا ہے پہلی محبت بھولنی ہو تو دوسری محبت کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔۔ آپ نے شادی کر لی تو سوچا میں بھی اس بار شادی کے بعد محبت کرنے کی کوشش کروں گی۔۔" وہ دور خالی جگہ کو تکتی بول رہی تھی۔ عیسٰی نے سر ہلایا۔
"اچھا فیصلہ ہے۔۔ کون ہے وہ۔۔؟" وہ کافی کا کپ رکھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔ اس بار دوستانہ انداز میں پوچھا۔
"عیسٰی خان کی ٹکر کا کوئی نہیں ملا۔۔" وہ سر جھٹک کر بولی، مسکرائی تھی مگر اسے لگا اس کی آنکھوں میں تیزی سے نمی پھیلی تھی۔۔ وہ چپ رہا۔۔
"کزن ہیں۔۔ ان کی فسٹ وائف سے ڈیوورس ہو چکی ہے، دو بیٹیاں ہیں ایک دس سال کی اور ایک بارہ سال کی۔۔" آئرہ نے سنجیدگی سے بتایا تو عیسٰی حیران ہوا۔
"آر یو شیور یہ فیصلہ اچھا ہے۔۔؟ ہی از میریڈ اینڈ یو آر جسٹ۔۔ او۔کے یہ تمہارا فیصلہ ہے مگر کیا اچھے سے سوچا ہے؟ آسان نہیں ہوتا سنگل پیرنٹ سے شادی کرنا۔۔" عیسٰی نے نرمی سے سمجھایا، اسے لگا وہ جذباتی ہو کر فیصلہ کر رہی ہے۔۔
"وہ میچور ہیں، نرم مزاج ہیں۔۔ میرے بارے میں سب جانتے ہیں، سب سے بڑھ کر اس شادی سے میرے فادر کو بزنس میں کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔۔"
وہ بول رہی تھی، عیسٰی نے خاموش نظر اس پر ڈالی۔۔ وہ صرف ایک بزنس ڈیل کی طرح اس شادی میں انٹرسٹ لے رہی تھی۔ یا وہ پاگل تھی یا مجبور یا پھر ضرورت سے زیادہ تیز۔۔
"اور تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟" عیسٰی کے سوال پر وہ اسے دیکھنے لگی۔ پھر گہری سانس بھر کر سیدھی ہوئی۔
"محبت بھُلانے میں ہیلپ ملے گی، ان بچیوں کے ساتھ وقت اچھا گزرے گا اور ان کے بزنس میں فورٹی پرسنٹ شئیرز۔۔ زندگی یا محبت کے سہارے گزرتی ہے یا دولت کے سہارے۔۔ سکون ایسے مفت میں تو کبھی نہیں مل جاتا۔۔ میں کبھی دولت کی چاہ نہیں رکھتی تھی، اس لیے محبت کر بیٹھی تھی، اب سوچتی ہوں پاگل تھی یا پھر اب پاگل ہو گئی ہوں مگر خوش ہوں۔" وہ سنجیدگی سے بول رہی تھی، عیسٰی نے سر ہلایا۔
"بس یہی بتانا تھا کہ اب آپ کے پیچھے نہیں آؤں گی۔ آپ اپنی زندگی میں خوش رہیں۔۔ مجھے معاف کر کے آپ نے جو احسان کیا یاد رہے گا۔۔" وہ یکدم اٹھ کھڑی ہوئی۔ عیسٰی نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔
"احسان نہیں کیا بس کوشش کی ہے کہ شاید اس کے بدلے میری وائف کو مجھ سے محبت ہو جائے۔۔" وہ بولا تو آئرہ نے اس کم سن لڑکی کی قسمت پر رشک کیا تھا، جسے پانے کے لیے وہ دن رات ایک کر گئی وہ اس کی خاطر لوگوں کی غلطیاں معاف کر رہا تھا۔۔
وہ سر ہلا کر تیز قدموں سے چلتی وہاں سے چلی گئی۔ عیسٰی نے تاسف سے سر ہلایا۔ آئرہ کا فیصلہ اسے غلط لگا تھا، محبت نا سہی دوستی تو تھی ان میں مگر وہ کچھ نہیں بول پایا۔۔ وہ اپنا ٹوٹ چکا بھرم قائم کرنے آئی تھی، اس نے کرنے دیا۔۔
متاسف سا اٹھ کر باہر نکلا، گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا گھر جانے کا ارادہ تھا، راستے میں فلاور شاپ دیکھ کر وہ بےساختہ گاڑی روک گیا۔ نکل کر پُروا کے لیے ریڈ روز کا بوکے تیار کروانے کا سوچا، ناجانے اسے پھول پسند ہوں یا نہیں۔۔ انوکھی ہی لڑکی تھی وہ۔۔
ابھی وہ شاپ کے اندر پہنچا تھا جب ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ شاپ کی درو دیوار تک ہل گئیں۔۔ لوگوں میں کھلبلی مچ گئی تھی، اس نے سنبھلتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو اس کی قیمتی گاڑی کے پرخچے اڑ چکے تھے۔۔
اس کی آنکھیں شاکڈ سے پھیل گئیں، اگر وہ پھول لینے نا نکلا ہوتا، اگر وہ اس گاڑی میں موجود ہوتا تو۔۔
روڈ پر قریب کے کچھ لوگوں کا نقصان ہوا تھا، کچھ لوگ زخمی ہو چکے تھے، فلاور شاپ والے لڑکے نے ساکت کھڑے عیسٰی کو سہارا دے کر چئیر پر بٹھایا۔۔
وہ بےجان سا ہو رہا تھا، کچھ فاصلے پر رکنے والی گارڈز کی گاڑی سے نکلنے والے گارڈز میں سے ایک نے کھڑے کھڑے خانزادہ کو اطلاع دی اور ایک عیسٰی تک پہنچا تھا جس کا چہرہ سفید پڑ رہا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
ثنا بیگم نے عیسٰی پر ہوئے حملے کا سنتے ہی حویلی میں رونا دھونا ڈال دیا تھا، پریشانی تو باقی سب کو بھی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ہی پڑھائی کے لیے زیادہ تر شہر میں رہا تھا، حویلی کم آتا تھا پھر بھی رونق تھا حویلی کی، آج سے پہلے ایسے کسی حادثہ کا سامنا نہیں کیا تھا اس نے۔۔ اس کی گاڑی کا پرزہ پرزہ الگ ہو گیا تھا اور اگر جو وہ اندر ہوتا تو کیا ہوتا اس کا۔۔
خان زوار تو شہر میں ہی ہوتے تھے اکثر۔۔ وہ مل بھی لیے، حویلی چلنے کی بھی ضد کی مگر وہ ان کی سنے بنا خانزادہ کے شہر والے گھر میں ہی جا چکا تھا۔۔
"اب بس اور گاڑی لے کر دینے کی ضرورت نہیں۔۔ گارڈز اور ڈرائیور کے ساتھ جائے جہاں جانا ہے۔۔ ابھی تو اسے کہیں نکلنے مت دینا۔۔ مجھے زرا پولیس کو خبر کر کے اس معاملہ کو سمیٹنے دو۔۔ ابھی تم وہیں رک جاؤ۔۔"
خانزادہ ادب خان کو ہدایات دیتا گھبراہٹ میں مبتلا ہو رہا تھا۔ دماغ جھنجھنا اٹھا تھا۔۔
پریہان اس کے پاس کمرے میں آئی تو وہ تھکن زدہ اعصاب کے ساتھ آنکھوں پر بازو رکھے خاموشی سے لیٹا ہوا تھا، اسے بےپناہ ترس آیا تھا اس پر۔۔ ہر مسئلے میں کھڑا ہوتا تھا اور ہر بار پریشانی اٹھاتا تھا۔۔ اب بھی عیسٰی کو بلوا کر اس کی جگہ زرشے اور موسٰی کر پُروا کے پاس بھیجنا چاہ رہا تھا۔۔
موسٰی تو تیار ہو گیا مگر عیسٰی بات سننے کو بھی مائل نہیں تھا۔۔
پریہان اس کے پاس بیٹھ کر آہستگی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی، وہ آج اتنا پریشان تھا کہ کوئی رسپانس بھی نہیں دے پایا۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا، شکر ہے کہ عیسٰی بھائی بچ گئے، اللّٰہ سے بڑھ کر کوئی محافظ نہیں ہوتا۔۔"
وہ نرمی سے بولتی اس کی پریشانی کم کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ بازو آنکھوں سے ہٹا کر چھت کو تکنے لگا۔
"بےشک اللّٰہ حفاظت کرتا ہے۔۔ اور عیسٰی کو مارنا پلان تھا بھی نہیں ان کا۔۔ یہ وارننگ تھی کہ اگلی بار ایسا عیسٰی کے ساتھ ہو گا۔۔ جان بوجھ کر وہ وقت چنا گیا جب عیسٰی گاڑی سے نکل کر شاپ پر گیا، مارنا ہوتا تو پہلے کیا جاتا۔۔" وہ بکھری ہوئی سی حالت میں بول رہا تھا۔ پریہان بےساختہ جھرجھری لے گئی، خاموشی سے خانزادہ کو تکنے لگی۔۔
"شاید آغا جان ٹھیک کہتے تھے، عیار دشمن کی سمجھ آ جائے تو بچ کر رہنا چاہئیے کچھ دشمنوں کو جوابی کاروائی سے بھڑکا کر اپنے پیچھے لگانا عقلمندی نہیں۔۔
میں اکیلا نہیں تھا کہ دشمنی مول لی، اپنی پوری فیملی کی حفاظت کرنی پڑے گی اب مجھے۔۔"
وہ کنپٹی پر انگوٹھے سے زور دیتا سر درد سے بےحال ہو رہا تھا۔ گارڈز کے باوجود یہ سب ہوا تھا۔۔ حملہ تو روکا جا سکتا تھا مگر اب ایسی چالوں سے انسان کہاں تک بچ سکتا ہے۔۔
"کچھ وقت عیسٰی بھائی کو حویلی میں رکھ لیں، پُروا کو میں سنبھال لوں گی۔ اپنے پاس رکھوں گی۔۔"
پریہان نے آہستگی سے مشورہ دیا اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر نرم ہاتھوں سے دبانے لگی۔۔
"اس کا لاسٹ سمسٹر ہے۔۔ وہ کبھی یونی چھوڑ کر یہاں آنے پر راضی نہیں ہو گا۔۔ یہ حل نہیں پریہان۔۔"
وہ نرمی سے بولتا اس کے سر دبانے پر سکون سے آنکھیں بند کر گیا۔ پریہان کو بےساختہ پُروا کا خیال آیا، کالج میں ایک ہی سال گزار کر اسے بٹھا لیا گیا تھا اور وہ بےچاری بنا احتجاج کیے اب تک خاموشی سے بیٹھی تھی۔ خود پریہان کی پڑھائی وہیں درمیان میں رہ گئی تھی اور شادی کے ان جھمیلوں میں اسے خیال تک نہیں گزرا کہ پڑھائی کا سوچے۔۔
واقعی لڑکیاں کچھ معاملات میں صابر ہوتی ہیں اور بہت سی خواہشات کی قربانی ایسے آرام سے دے دیتی ہیں جیسے ان کا فرض ہو۔۔ وہ سرد آہ بھر گئی۔
"کچھ وقت کے لیے حرج ہی کیا ہے۔۔ جان کی حفاظت بھی تو ضروری ہے۔۔" پریہان سوچوں میں گم آہستگی سے بول رہی تھی، خانزادہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔ گم صم سی بیٹھی تھی۔۔
"اب جنگ شروع کر ہی بیٹھا ہوں تو ان کو جواب بھی دوں گا اس وارننگ کا۔۔ مجھے پتا ہے یہ کس کی حرکت ہے۔۔ تم فکر مت کرو۔۔" وہ سر پر رکھا پریہان کا ہاتھ تھپتھپا کر بولا اور آنکھیں بند کر دیں۔
پریہان کا دماغ پُروا میں اٹک چکا تھا، پریسہ کو جب سے اس کے نکاح کا بتایا تھا اور یہ کہ وہ اب عیسٰی کے پاس رہے گی، وہ تب سے ناراض تھی۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے پریہان۔۔ جانے کب ایسی جاہل بن گئی ہو کہ اس معصوم کو پڑھائی سے ہٹا کر ان جھمیلوں میں دھکیل دیا جیسے وہ لاوارث ہو اور ایک یہی حل باقی ہو۔۔ اس عمر میں اسے حالات سے لڑنا سکھا رہی ہو جس عمر میں ہم نے بیٹھ کر کھایا اور بکس پڑھتے ہوئے وقت گزارا۔۔ تم خودغرض ہو رہی ہو۔۔" پریسہ بھڑک اٹھی تھی اور پریہان اب اس بات کو سوچ رہی تھی کہ شاید واقعی وہ غلط کر رہی تھی۔ رشتہ رہنے دیتی مگر پُروا کو بھیج دیتی۔۔ عیسٰی نہیں مان رہا تھا تب بھی۔۔
اسے پریشانی سے بچانے آئی تھی مگر خود پریشان ہو بیٹھی تھی، خانزادہ نے اس کا اپنے ماتھے پر رکھا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا کر اسے مزید سر دبانے سے روکا تو خیالوں میں الجھی وہ چونک گئی۔۔
اس نے سوچ لیا ان حالات سے چھٹکارا پاتے ہی وہ حدیر سے پروا کو پریسہ کے پاس بھیجنے کی بات کرے گی۔۔ جھک کر اس کے سینے پر ماتھا ٹکاتی پریہان اپنے اس فیصلہ سے مطمئن ہو چکی تھی، یہ جانے بنا کہ اس فیصلہ کو لینے میں وہ بہت دیر کر چکی ہے۔۔
خانزادہ حفاظتی اقدامات سوچتا اس کا سر تھپتھپا رہا تھا، پریشانیوں نے گویا حویلی کا راستہ دیکھ لیا تھا۔
___________
زرشہ نے لاؤنج میں بیٹھی پریشان حال ثنا بیگم اور موسٰی کے سامنے چائے رکھی اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر اپنا کپ تھام گئی۔ موسٰی آج ہی واپس پہنچا تھا اور سامنے یہ پریشانی کھڑی تھی۔۔ کپ رکھنے والے ہاتھوں کو دیکھ کر اس نے سر اٹھایا اور اپنائیت بھری نظر اس پر ڈالی، اس روز اپنی ماں کی باتوں سے پریشان وہ اتنا شرمندہ ہوا تھا کہ اس سے بات تک کرنے کی ہمت نہیں کر پایا اور وہ اس پریشانی میں ظرف بڑا کیے ان کے درمیان موجود تھی۔۔
"مجھے ایسے چین نہیں ملے گا جب تک اسے دیکھوں گی نہیں۔۔ بہت ضدی ہو گیا ہے، یہاں آنے میں کیا مسئلہ ہے اسے۔۔ تنہا پڑ گیا ہے، دل بہلانے کو بلی پال لی مگر ماں کے پاس نہیں آنا اسے۔۔" ثنا بیگم رونے سے بھاری ہوتی آواز میں بولیں تو موسٰی نے بےساختہ نظر چرائی، جتنے آرام سے بلی کا بتا رہی تھیں اگر وہ بلی دیکھ لیں تو جانے کیا فساد برپا کر بیٹھیں۔۔
"آپ جا کر تھوڑی دیر ریسٹ کریں، میں سوچ رہا ہوں خود شہر جا کر اسے بھیجوں گا یہاں۔۔" موسٰی کو خانزادہ کا مشورہ بہتر لگا، کچھ وقت زرشے کے ساتھ گزارنا چاہ رہا تھا اور عیسٰی کو بھی بھیج دیتا۔
"جو بھی کرو۔۔ مجھے عیسٰی سے ملنا ہے۔۔" وہ چائے کا کپ ٹیبل پر پٹخ کر رکھتیں اٹھ کر کمرے میں چلی گئیں، زرشے کو وہ بالکل نظرانداز کر رہی تھیں اس پر بولنے کا نتیجہ جو دیکھ لیا تھا۔۔
"کیسی ہو زرشے۔۔؟" وہ مکمل اس کی طرف رخ کر کے بولا تو چائے پیتی زرشے نے شکوہ کناں نظر سے اسے دیکھا۔
"ٹھیک ہوں۔۔" وہ سر جھکا کر سنجیدگی سے بولی۔
"لگتا ہے خفا ہو۔۔ سوری میں اس دن تمہیں سہی سے ڈیفینڈ نہیں کر پایا۔۔ ان فیکٹ جو میرا حق تھا وہ حدیر نے پورا کیا۔ مورے کی باتوں پر کبھی دھیان مت دینا۔۔ میرا یقین کرو میرے لیے بہت قیمتی ہو تم۔۔"
اس کا ہاتھ تھام کر وہ نرمی سے بول رہا تھا۔
"میں ان باتوں پر ناراض نہیں ہوں۔۔" زرشے نے بےاختیار اسے ٹوک کر کہا۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
"پھر کیا جرم ہوا ہے مجھ سے۔۔" سوچنے کی ایکٹنگ کرتا وہ زرشے کو مزید ناراض کر گیا تھا۔
"آپ اس دن مجھے مورے کے پاس لے جانے والے تھے، آپ نے پرامس توڑا۔۔ مل کر نہیں گئے اور کال تک نہیں کی مجھے۔۔ مجھے لگا آپ مجھ پر غصہ ہیں۔۔" زرشے ناراضگی سے بولتی اپنا خدشہ ظاہر کر رہی تھی
"تم پر غصہ۔۔ کبھی کر ہی نہیں سکتا۔۔ شرمندہ تھا بس۔۔ اور اس دن تم نے نہیں دیکھا ورنہ تمہارے اس جن لالا نے مجھے کچا کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔۔ تب میں رکتا یا کچھ بولتا تو وہ مار ڈالتا مجھے۔"
موسٰی نے مسکرا کر سر جھٹکا، زرشے اس کی بات پر گہرا سانس بھرتی ہاتھ چھڑوا گئی۔
"میرے لالا بہت نرم دل ہیں، آپ ان کے بارے میں غلط سوچ رکھتے ہیں۔۔" وہ اس کی طرفداری کر رہی تھی جس کی نرم دلی کے مظاہرے موسٰی تو خوب جانتا تھا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ زرشے خالی کپ اٹھا کر لے گئی، موسٰی کے دل میں اطمینان اتر آیا۔۔
زرشے خود آ گئی تھی، خفا نہیں تھی، اس کے لیے اتنا بہت تھا۔ عیسٰی کے بارے میں سوچتا وہ اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔جبکہ اپنے کمرے میں بےچینی سے ٹہلتی ثنا بیگم خود عیسٰی کے پاس جانے کا فیصلہ کر کے ایک چھوٹے بیگ میں اپنی ضرورت کا کچھ سامان رکھنے لگیں۔ اب نا وہ پوچھنے والی تھیں نا بتانے والی۔۔ ڈرائیور کے ساتھ چپ چاپ جانا ہی واحد حل نظر آ رہا تھا۔
رات کو خاموشی سے سو گئیں اور جب صبح اٹھے تو ناشتے کی ٹیبل پر وہ موجود نا تھیں۔۔
"وہ شہر گئی ہیں چھوٹے خان صاحب کے پاس۔۔ کہہ رہی تھیں کچھ دن تک لوٹ آئیں گی۔۔" ملازمہ نے ان کا پیغام دیا تھا۔ جسے سن کر موسٰی اور خانزادہ پریشان ہو اٹھے تھے۔
"اچھا ہے صبر آ جائے گا اور یہاں بھی کچھ دن سکون رہے گا۔۔" خان یوسف نے سر جھٹک کر کہا۔
پریہان کا رنگ پُروا کا سوچ کر ہی سفید پڑ رہا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی جب سے گھر آیا تھا کمرے میں بند تھا، دشمنیاں اور قتل و غارت سے اسے ہمیشہ خانزادہ نے دور رکھا تھا، یہ اس کا بالکل پہلا تجربہ تھا اور اتنا قریبی حادثہ کہ وہ زہنی طور پر ہل گیا تھا۔۔
"آپ جاؤ گڑیا۔۔ جا کر بات کرو، ان کا زہن بٹاؤ۔۔ پتا ہے ناں آج کیا ہوا ان کے ساتھ۔۔ پریشان ہیں، کھانا تک نہیں کھایا۔۔" زینت نے ہر حربہ ناکام جاتے دیکھ کر پُروا سے کہا۔۔ حویلی والوں کی ضد پر وہ حویلی جانے کو بھی تیار نہیں ہوا تھا اور ایسا صرف پُروا کی وجہ سے کیا تھا اس نے۔۔
پُروا کو بھی اس سے ہمدردی محسوس ہوئی، سر ہلا کر کمرے کی طرف بڑھی۔۔ وہ سامنے ہی زمین پر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔۔ سر جھکا ہوا تھا، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔
پُروا نے سنبھل کر قدم اٹھاتے ہوئے اس سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر قالین پر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھا۔۔ فکر ہو رہی تھی مگر ڈر بھی لگ رہا تھا۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔۔ وہ بولنے کی ہمت نہیں کر پائی، عیسٰی نے اس کی موجود گی کو محسوس کرتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا، نیلگوں روشنی میں شفاف نرم تاثرات سجائے وہ اپنے ازلی لاپرواہ حلیہ میں سامنے بیٹھی تھی۔
"عیسٰی جی۔۔ آپ ٹھیک ہیں۔۔" اس نے نرمی سے پوچھا، عیسٰی کے جلتے دماغ میں نرم پھوار کی طرح وہ الفاظ پہنچے تھے۔ بےجان ہوتے سرد جسم میں جان سی پڑی تھی۔۔
"سب کو ہگ دیتی ہو۔۔ میں بھی پریشان ہوں آج۔۔ مجھے ہگ نہیں دو گی۔۔؟" عیسٰی نے خفگی جتائی۔ اس کی آواز بہت دھیمی پڑ رہی تھی، اس کی فرمائش پر پُروا لب کاٹتی ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوئی تھی۔۔
عیسٰی نے اس کی دونوں کلائیاں تھام کر اپنے قریب کرتے ہوئے اس کے بازو اپنی گردن کے گرد پھیلا کر اس کے گرد اپنے بازو باندھ لیے۔۔
آنکھیں موندے سکون سے اس کی گردن میں چہرہ چھپا گیا۔۔ سانس جیسے اب کھل کر آئی تھی۔۔ دن کے وقت جب سے وہ حادثہ ہوا تھا، کسی کندھے، کسی سہارے کے بغیر وہ اکیلا بیٹھا پریشان ہو رہا تھا، اب کہیں جا کر شام ڈھلے من پسند کندھا میسر آیا تھا۔
پُروا جو سب کو آگے بڑھ بڑھ کر ہگ دیتی تھی، آج اس کے گلے لگانے پر عجیب گھبراہٹ میں مبتلا ہوئی تھی، اسے شرم آ رہی تھی اور ایسا بالکل پہلی بار محسوس ہو رہا تھا۔۔
"کیا۔۔ آپ ڈر گئے تھے۔۔ آج۔۔؟" پُروا نے اس کا سرد حصار محسوس کیا تو ہچکچا کر پوچھا۔۔
"شاید۔۔ ڈر گیا تھا۔۔ موت سے کون نہیں ڈرتا پُروا۔۔؟ اگر میں نا نکلا ہوتا گاڑی سے تو جانتی ہو ناں۔۔ آج میں نا ہوتا۔۔" عیسٰی دھیمے لہجے میں بولتا اس کا نرم نازک سا وجود اپنی بانہوں میں محسوس کرتا اسے مزید خود میں بھینچ گیا۔ پریشان چہرے پر زندگی کا احساس بن کر دھیمی سی مسکان ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔۔ خوف جانے لگا۔۔
اس مرمریں وجود پر وہ حق رکھتا تھا، وہ قریب تھی، اس کے دل کی بےترتیب دھڑکن بھی وہ محسوس کر رہا تھا، کتنا اچھا اور میٹھا سا احساس تھا۔۔ اس کے کندھے پر سر ٹکائے سکون سے بیٹھا رہا۔
اس کے الفاظ پر پُروا ساکت ہوئی تھی، مرنے کی بات اسے ڈراتی تھی، اب کسی کو مرتا ہوا دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی، دل بےترتیبی سے شور کر اٹھا۔۔
"اللّٰہ نا کرے۔۔ ایسا نہیں کہیں۔۔"۔ وہ بےساختہ جھرجھری لے کو بولتی عیسٰی کو متوجہ کر گئی۔
وہ سر اٹھا کر اس کے پھولے گلابی گال پر نرمی سے لب رکھ گیا۔ ایک بار۔۔ دو بار۔۔ بار بار۔۔ وہ بہت نرمی اور احتیاط سے چھو رہا تھا۔۔ پُروا جیسے خواب سے جاگی تھی۔۔ دل کی یکدم بدلتی کیفیت پر وہ گھبرا گئی۔۔
اسے دھکا دے کر دور کرتی وہ کپکپاتی ہوئی پیچھے کھسکی۔۔ آنکھیں گھبراہٹ سے پھیلی ہوئی تھیں۔۔ عیسٰی نے اپنی بےتابی پر خفت سے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسے دیکھا۔
وہ بالکل سرخ پڑتی پریشان سی اسے دیکھ رہی تھی۔ آج اس کے قریب ہونے پر الگ سا احساس ہوا تھا، اپنائیت اور نرمی۔۔ دل کی دھڑکنوں نے ترتیب ہی بدل لی تھی آج تو۔۔ وہ گھبرا گئی تھی۔۔
"آئم سوری۔۔ میں نے تمہیں ڈرا دیا کیا۔۔" وہ شرمندہ ہوتا نرمی اور لگاوٹ سے بولا، اس بار اس نے کچھ نہیں کیا تھا پھر بھی نادم ہو گیا۔۔
پروا پر نئی حقیقت کا انکشاف ہوا تھا، وہ اٹھ کر بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھی۔۔
عیسٰی نے مکا بنا کر زمین پر مارا۔۔ اسے ٹارچر کر کے جب پیار جتائے گا تو وہ پیار کو بھی ٹارچر ہی سمجھے گی۔ وہ یہ سوچ کر بددل ہوا، اب اپنی غلطی سمجھ آ رہی تھی۔۔ اسے نرمی سے اپنے قریب کرنا چاہئیے تھا اپنی جنون خیزی سے سہما کر رکھ دیا تھا۔۔ وہ سمجھ نہیں پایا پُروا اس کی منزل پر ہمقدم ہونے پر پریشان ہو گئی ہے، محبت دو طرفہ ہو رہی تھی اور جب یکدم دل کروٹ بدلے تو یہی ہوتا ہے۔۔
پرفسوں ماحول میں کچھ وقت پہلے جو جذبات اس کے اندر امڈ رہے تھے بھاپ بن کر بیٹھ گئے۔
پُروا کا نرم لمس اور خوشبو بھرا حصار اس کے ارد گرد سکون بن کر پھیل گیا تھا۔ وہ بےاختیار مسکرایا۔۔
آئرہ اچھی تھی، ساتھ رہی، وقت گزارا مگر اس کے لیے ایسا کبھی فِیل نہیں ہوا تھا۔۔ اسے اپنے ماحول کے مطابق ڈھالنا چاہا مگر وہ نہیں مانی تو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا مگر پُروا کو وہ نا ٹوک پا رہا تھا نا اسے اس کے حال پر چھوڑ پا رہا تھا۔۔ وہ غصہ کر جاتا تھا مگر اندر سے اس کی ہر روز پہلے سے زیادہ محبت میں مبتلا ہو رہا تھا۔۔
𝓉𝒽𝒶𝓃𝓀𝓈 𝒻𝑜𝓇 𝓎𝑜𝓊𝓇 𝓂𝑔𝒾𝒸𝒶𝓁 𝒽𝓊𝑔 𝓂𝓎 𝒸𝒶𝓉.. 𝒶𝓂 𝒻𝑒𝑒𝓁𝒾𝓃𝑔 𝒷𝑒𝓉𝓉𝑒𝓇 𝓃𝑜𝓌.. 𝓎𝑜𝓊 𝒶𝓇𝑒 𝓁𝑜𝓋𝑒..
(تمہارے جادوئی گلے لگنے کا شکریہ میری بلی۔۔ میں اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔۔ تم محبت ہو۔۔)
شدت و جذبات سے پُر میسج پُروا کو بھیج کر اٹھا اور بستر پر لیٹ گیا، خود پر کمبل پھیلاتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگا، اس کا میسج پڑھتی پُروا تکیہ میں منہ چھپا گئی، گال شرم سے تپ اٹھے تھے، پتا نہیں پہلے کیوں ڈرا دیا کرتا تھا وہ۔۔ حالانکہ جب نرمی برت رہا ہوتا تھا اچھے سے زیادہ اچھا لگ رہا ہوتا تھا۔۔ وہ خود سے بھی چھپ کر مسکرائی۔۔
محبت ہو رہی تھی اب جب جدا ہونے کا وقت قریب پہنچ گیا تھا۔۔ قسمت ان کی مسکراہٹوں پر متاسف ہوئی۔۔
پُروا اکتائی ہوئی سی عیسٰی کا کمرہ چھان رہی تھی۔
موبائل گھر بھول گیا تھا، پھر جانے کس کے نمبر سے اسے کال کر کے حکم دے دیا میرا موبائل اٹھا کر اپنے پاس رکھو، موسٰی اور حدیر لالا کی کال آئے تو بتا دینا موبائل بھول گیا ہوں رونہ وہ کال نا اٹھانے پر پریشان ہوں گے۔۔ اب وہ جانے کب سے اس کے کمرے کی تلاشی لے رہی تھی موبائل مل کر ہی نہیں دے رہا تھا۔۔
اپنے نمبر سے کال بھی کر لی مگر شاید موبائل سائلنٹ پر تھا۔۔
ثنا بیگم جو کچھ وقت پہلے ہی وہاں پہنچی تھیں، زینت کو لنچ ریڈی کرنے کا کہہ کر کمرے کی طرف بڑھیں، ارادہ تھا کچھ ریسٹ کریں، کچھ سفر کی تھکان تھی کچھ عیسٰی کی پریشانی میں رات بھر سو نہیں پائی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوئیں تو سامنے کھڑی پروا کو دیکھ کر ٹھٹکیں۔۔
کندھوں سے قدرے نیچے تک جاتے شہد رنگ بالوں والی گلابی سی گڑیا۔۔ ٹراؤزر شرٹ پر عیسٰی کی ہُڈی پہنے لاپروائی سے درازیں چھان رہی تھی۔
"تم کون ہو اور یہ۔۔۔ یہ تو عیسٰی کا روم ہے ناں۔۔؟"
ان کا سر گھوم رہا تھا، اسے غور سے دیکھا تو یاد آیا، وہ پریہان کی بہن تھی مگر یہاں کیوں تھی۔۔
"میں پُروا ہوں۔۔ جی یہ روم ان کے ہی یوز میں ہے۔۔" پروا نے سادگی سے بتایا لیکن سامنے ٹھہری عورت کون تھی اور کیوں یہ سوال کر رہی تھی، وہ یہ نہیں سمجھ پائی۔
"تم پریہان کی بہن ہو ناں؟ یہاں کیا کر رہی ہو؟ عیسٰی کے روم میں اسی کی ہُڈی پہنے تم یہاں کر کیا رہی ہو۔۔" ثنا بیگم کا حیرت سے کہا جانے والا جملہ آخر میں کرختگی اختیار کر گیا۔ وہ گھبرا گئی۔
"عیسٰی جی نے۔۔ کہا تھا ان کا موبائل۔۔ وہ بھول گئے تھے تو میں۔۔"۔ اس کی وضاحت ثنا بیگم پر بھاری پڑی تھی، عیسٰی موبائل بھول گیا تھا تو وہ کیوں لینے آئی۔
"یہاں کیوں ہو۔۔ کون لایا ہے اس گھر میں تمہیں۔۔ کب سے ہو یہاں۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتی اس کی طرف بڑھیں۔ پروا سہم گئی، ماں تو بیٹے سے بڑھ کر تھی۔
"عیسٰی جی کے ساتھ آئی تھی، ہم یہاں کچھ دن پہلے آئے تھے۔۔" وہ گھبرا کر جواب دے رہی تھی۔
"ویٹ۔۔ تمہاری آنی کی ڈیتھ کے بعد سے۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم عیسٰی کے پاس ہو۔۔؟"۔ انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ٹھٹک کر سوال کیا اور وہ ہچکچا کر سر ہاں میں ہلاتی کچھ دور ہوئی۔
ان کی تو ہستی ہل کر رہ گئی، دماغ میں جھماکہ سا ہوا۔ عیسٰی نے جو پنک بلی کا زکر کیا تھا کہیں وہ۔۔
اپنے خدشے پر سر جھٹکا۔
"کون کون جانتا ہے تم عیسٰی کے پاس ہو۔۔ کس نے بھیجا اس کے پاس۔۔ کس حق سے ہو اس کے پاس۔۔"
کڑے تیوروں سے اسے گھورتی تفتیشی انداز میں پوچھنے لگیں۔
"حدیر بھائی چھوڑ گئے تھے ان کے پاس۔۔ انہیں پتا ہے کہ۔۔"۔ وہ بول رہی تھی جبکہ ثنا بیگم کا دل ڈرا۔
"خانزادہ۔۔ یہ ہوتا کون ہے میرے بیٹوں پر اپنے فیصلے تھوپنے والا۔۔ پہلے موسٰی کو اپنی بہن تھما دی اب عیسٰی کو اپنی بیوی کی بہن کے لیے پھنسا رہا ہے۔۔
بات سنو لڑکی یہ جو تمہارا اور تمہاری بہن کا پلین ہے میں کبھی ہونے نہیں دوں گی۔۔ عیسٰی پر ڈورے ڈالنے سے وہ کبھی نہیں ملے گا۔۔ مار ڈالوں گی میں تم دونوں کو اگر ایسا گھٹیا کام کیا تو۔۔"
وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح غرائیں۔۔ پروا ڈر کر پیچھے ہوئی۔ ابھی تو نکاح کا نہیں بتایا تھا کہ یہ حال تھا، وہ چپ سادھ گئی۔
"نہایت نیچ خاندان ہے تم لوگوں کا تو۔۔ ماں باپ مر گئے اور خالہ نے ان کاموں پر لگا دیا۔۔ اس کی اپنی بھی برسوں پہلے سے حویلی پر نظر تھی، خان ارباز کا قتل نا ہوا ہوتا تو۔۔ ویسے کیا خوب کھیل کھیلا ہے۔۔ وہ بی بی شادی ٹوٹنے کی کہانی سنا کر حویلی میں گھس گئی اور تم یہان میرے بیٹے کے پیچھے لگی ہو۔۔"
وہ سرد لہجے میں جتنے سخت الفاظ ہو سکے، بولتی چلی گئیں۔۔ پروا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
"نہیں آنی ایسی نہیں تھیں، اپیا ایسی نہیں ہیں۔۔ آپ غلط بول رہی ہیں آنٹی۔۔"۔ پروا نے کپکپاتے لبوں سے ان کی غلط فہمی دور کرنا چاہی تھی۔
"شٹ اپ۔۔ سب جانتی ہوں، کتنے اچھے لوگ ہو۔۔ تمہاری بہن حویلی میں ملکہ بن کر گھومتی ہے، حویلی کا وارث اس کے قدموں میں ہے پھر تمہیں کیوں یہاں پھینک رکھا ہے؟ دوسری بہن باہر کے ملک بیٹھی ہے۔ تم لاوارث ہو کیا جو یہاں بیٹھی ہو۔۔"۔
ان کے اعصاب چٹخ رہے تھے، بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو زندہ گاڑھ دیں۔۔ ترچھی نظروں سے اسے دیکھا، کم سن اور حسین، وہ پریہان سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی، دودھیا رنگت میں گلابیاں چھلک رہی تھیں، چمکتی شہد رنگ آنکھیں شفاف کانچ کی طرح چمک رہی تھیں۔۔ اگر پریہان جیسی لڑکی خانزادہ کو اپنا دیوانہ بنا سکتی ہے تو سامنے کھڑی وہ حسین صورت تو دنیا بھلا دے گی۔۔
"میں جا رہی تھی اپنی آپی کے پاس۔۔ عیسٰی جی نے میری ٹکٹ پھاڑ دی تھی۔۔ انہوں نے نہیں جانے دیا۔۔"
پروا نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے سامنے کھڑی عورت کو دیکھا جو اس وقت دنیا کی ظالم ترین عورت لگ رہی تھی۔۔ اس کی بات پر ثنا بیگم کا تنفس بگڑا۔۔
بیٹا ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ایک بہو تو زبردستی سر پر ڈال دی گئی تھی مگر عیسٰی پر اپنے سب ارمان پورے کرنے تھے انہیں۔۔
"جا رہی تھیں تو عیسٰی کو بتانا ضروری نہیں تھا، سب چالاکیاں جانتی ہوں، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔"
وہ تنفر سے بولیں، پروا رک رک کر چلتے دل پر ہاتھ رکھے لرزتی ٹانگوں کو حرکت میں لائی اور کمرے سے نکلنے لگی تھی جب انہوں نے پھر سے روکا۔
"اگر زرا سی بھی غیرت ہے ناں، تو اس کمرے سے نہیں اس گھر سے ہی چلی جاؤ۔۔ تمہاری بہن نے تو جو چال چلی سو چلی، اسے تو خود رخصت کروا کر لے گئے تھے اس لیے قبول کر لیا مگر تم یہ خیال دل سے نکال دو کہ کبھی تمہاری عیسٰی سے شادی ہو گی۔۔
بہنیں نہیں رکھ سکتیں تو کوئی رشتہ دار یا کسی جاننے والوں کے ہاں چلی جاؤ اور عزت سے زندگی گزارو۔۔ شکل گم کرو اب اپنی۔۔" وہ نخوت سے بول کر سر جھٹک گئیں، پروا نے ان کی بات پر آنسو روکے۔
کمرے سے نکلتے ہوئے اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ اب اس کا واقعی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔۔
وہ کسی بال کی طرح یہاں سے وہاں ہو رہی ہے، خاموشی سے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر گئی۔
___________
عیسٰی یونی سے آیا تو زینت نے ثنا بیگم کے آنے کی خبر دی۔۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتا روم میں پہنچا۔
ثنا بیگم سر کے شدید درد سے بےحال ہو رہی تھیں۔ پروا کو دیکھ کر جو دھچکا لگا تھا اس کے آثار ابھی باقی تھے۔۔ عیسٰی اور موسٰی دونوں کو ہی ایک بار چیز پسند آ جائے تو ہر ممکن کوشش کرتے تھے حاصل کرنے کی۔۔ موسٰی سمجھانے یا ڈانٹنے پر چپ ہو جایا کرتا تھا مگر عیسٰی ہمیشہ سے ہی الٹا ناراض ہوتا کھانا پینا بند کر کے بات منوا لیتا تھا۔۔ پسندیدہ چیزوں سے وہ کبھی اکتاتا بھی نہیں تھا پھر یہاں تو انسان کا معاملہ تھا ابھی تو کچھ اندازہ بھی نہیں تھا کہ عیسٰی صرف انسانیت کے ناطے اس کے ساتھ رہتا ہے یا پھر اپنائیت ہو گئی ہے۔۔ اگر دوستی ہو گئی تو۔۔؟ اگر اچھی لگنے لگی پھر۔۔؟ یہی سوچ سوچ کر ان کا دماغ آدھا ہو رہا تھا ابھی تو نکاح اور محبت کا تصور بھی نہیں تھا۔۔وہ جان لیتیں تو شاید دل بند ہو جاتا۔۔
"کیا ہو گیا آپ کو۔۔ طبیعت خراب تھی تو نہیں آنا تھا۔۔" ان سے مل کر ان کی حالت دیکھتا عیسٰی گھبرا گیا۔ وہ اپنے لاڈلے کو سینے میں بھینچے دیوانہ وار چوم رہی تھیں۔ اسے صحیح سلامت دیکھ کر دل میں ٹھنڈک سی اتری تھی۔۔
"ٹھیک ہوں بس شاید بی۔پی ہائی ہو رہا ہے۔۔" وہ سر جھٹک کر آہستہ آواز میں بولی تھیں، کہہ نہیں پائیں تمہاری بلی دیکھ لی ہے، زینت سے کنفرم بھی ہو گیا تھا گھر میں اور کوئی پالتو بلی نہیں جو عیسٰی نے رکھی ہو۔۔ وہ پُروا کے ساتھ ہی خوش تھا۔۔
"تو بی پی ہائی ہونا اچھی بات نہیں ہے۔۔ ویٹ کریں کسی ڈاکٹر کو بلوا لیتا ہوں۔۔ آپ کو لے نہیں جا سکتا، حدیر لالا یونی ہی بڑی مشکل سے جانے دے رہے ہیں۔۔"
وہ انہیں کہہ کر اٹھتا واش روم گیا تو سامنے مرر سٹینڈ پر ہی اس کا موبائل پڑا تھا۔۔
یعنی اس کے کہنے کے باوجود پروا نے موبائل نہیں اٹھایا تھا۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتا مسکرانے لگا۔۔
حدیر کو کال ملا کر ثنا بیگم کی حالت بتائی۔ اس نے تسلی دی کہ ڈاکٹر پہنچ جائے گا چیک کروا لینا۔۔
کچھ دیر تک کسی قریبی کلینک سے ڈاکٹر آ گیا تھا، چیک اپ کیا تو واقعی بی۔پی بہت زیادہ ہائی تھا۔۔
میڈیسن وغیرہ دے کر ڈاکٹر چلا گیا۔ ثنا بیگم عیسٰی کا ہاتھ دبوچے اپنے پاس بٹھائے رہیں۔۔
میڈیسن اور کچھ زہنی رو بدلنے کی وجہ سے طبیعت سنبھل گئی تھی۔۔ ان کے سونے پر عیسٰی اٹھ کر دبے پاؤں روم سے نکلا۔۔
" پُروا مورے سے ملی تو نہیں ناں؟ کہاں ہے وہ۔۔"۔ اس نے زینت سے سوال کیا، ثنا بیگم کے کوئی سوال نا کرنے سے اسے یہی اندازہ ہوا کہ وہ ابھی ملے نہیں۔۔
"نہیں شاید نہیں ملیں۔۔ بیگم صاحبہ تو آتے ہی کمرے میں بند ہو گئی تھیں، دوپہر کا کھانا بنوایا مگر کھایا نہیں ابھی تک۔۔ پروا تو اپنے کمرے میں ہی بند ہے شاید۔۔ اس نے بھی کھانا کھانے سے منع کر دیا۔۔"
وہ سر ہلا کر اس کے کمرے میں پہنچا۔ دروازے پر ہاتھ رکھا تو کھلتا چلا گیا۔ اندر داخل ہوا۔۔
وہ کمرے میں نہیں تھی، واش روم بھی کھلا تھا۔۔
ٹیرس، ڈریسنگ روم۔۔ وہ حیران ہوا۔۔
پروا نہیں تھی، شاید وہ بھی ثنا بیگم سے ہی چھپ رہی تھی۔۔ اس نے گھر کا ہر کمرہ چھان مارا۔۔ بیک یارڈ اور لان تک۔۔ وہ کہیں نظر نہیں آئی۔۔
کال ملائی تو نمبر پاورڈ آف ملا۔ عیسٰی کے اعصاب جھنجھنا گئے، زینت بھی لاعلم تھی۔ بھاگ کر بیرونی دروازے پر گیا اور وہاں موجود گارڈز سے پوچھا۔
"جی دن کے وقت ہی نکلی تھیں، بولا قریب پارک میں جا رہی ہیں، آپ نے بلوایا ہے۔۔" ان کے جواب پر وہ حواس باختہ ہو گیا۔ اس نے کب بلوایا۔
"تم نے روکا کیوں نہیں۔۔ مجھ سے پوچھا کیوں نہیں۔۔"
وہ غصے سے چیخا۔ گارڈز بھی گڑبڑ کا احساس ہونے پر چوکنا ہو گئے۔
"سر ہم نے پوچھا تھا انہوں نے آپ کا نام لیا۔۔ فورسفُلی روکنے کا کوئی آرڈر نہیں ملا تھا ہمیں۔۔ اس لیے۔۔"
ان کی وضاحت بھی درست تھی۔ پروا کبھی باہر جاتی ہی نہیں تھی کہ ایسی ہدایت دینا پڑتی۔۔
وہ پاگلوں کی طرح قریبی پارک تک بھاگا تو ایک گارڈ بھی ساتھ گیا، پارک اور اس کے گرد ہر جگہ دیکھ لیا۔۔
وہ پاگل ہو رہا تھا، ہمت جواب دے رہی تھی۔۔ خوف رگوں میں اترتا جا رہا تھا۔۔
کپکپاتے ہاتھوں سے بار بار نمبر ملاتا رہا، دماغ ایسا ماؤف ہوا کہ بند نمبر کا پیغام ملنے کے باوجود میسج پر میسج کرتا جا رہا تھا۔۔
شام گئے اس نے تھک کر خانزادہ کو کال ملائی تو پریشانی اور گھبراہٹ سے آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پریہان صبح سے بےچین گھوم رہی تھی، خانزادہ تو کسی ضروری کام کا کہہ کر گیا تھا اور ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔۔ وہ بس پروا کو پریسہ کے پاس بھیجنا چاہتی تھی اور اس پر بات کرنا ضروری تھا اب۔۔
گل جان حویلی آ چکی تھیں، اس کی پریشانی سمجھ کر تسلی بھی دی کہ عیسٰی جتنا لاپرواہ لگتا ہے اتنا ہے نہیں۔۔ اپنے فیصلوں کو نبھانا اس نے خانزادہ سے ہی تو سیکھا ہے، اگر وہ پُروا کو اپنانے کی ٹھان چکا ہے تو اس کو ڈیفینڈ بھی کر سکتا ہے مگر پریہان کو تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔ اسے پروا کی ٹینشن ہو رہی تھی۔۔
کال کر کے اس سے بات کی تھی وہ بظاہر سہی سے جواب دے رہی تھی مگر پریہان کو اس کا انداز مدھم اور اداس سا محسوس ہوا تھا۔۔
ایسا کیسے ممکن تھا ثنا بیگم وہاں جائیں اور پروا کو دیکھ کر کوئی ری ایکشن نا دیں، یہ تو شکر تھا پروا نے نکاح کا نہیں بتایا تھا۔۔
کیونکہ وہ گھر خانزادہ کا ہے، اس کی مرضی جسے رکھے شاید اس لیے ثنا بیگم خاموش رہی ہوں۔۔ پریہان نے خود کو تسلی دی تھی۔۔
خانزادہ حدیر بہروز خان والے معاملے کو لیکر پولیس آفیسر سے بات کر کے دھماکے کی رپورٹ درج کروا چکا تھا۔۔ حویلی پہنچا تو خانی بیگم پریہان کی وجہ سے پریشان بیٹھی تھیں۔
"میری سمجھ سے باہر ہے اس کا رویہ۔۔ صبح سے الجھی ہوئی ہے، ناشتہ بھی اچھے سے نہیں کیا، دن ڈھل رہا ہے اس نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا۔۔
تنہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے سب۔۔ ساتواں مہینہ لگا ہے ابھی تو، صحت کا خیال نہیں رکھے گی تو دیکھ لینا پھر ان لڑکیوں کی صحت کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں۔۔ میں تو تھک گئی ہوں اس لڑکی کو سمجھا سمجھا کر۔۔ کبھی چٹخارے ختم نہیں ہوتے اور کبھی بیٹھے بیٹھے منہ پر بارہ بجا کر کمرے میں بند ہو جاتی ہے۔۔" وہ پریہان سے اکتائی ہوئی لگ رہی تھیں، یاور کی بیوی سارا دن کچھ نا کچھ کھاتی پیتی رہتی تھی، دودھ فروٹ اس کے پاس موجود ہی رہتا تھا، دیکھنے میں ابھی سے ہی پریہان کی نسبت وہ زیادہ صحت مند لگنے لگی تھی۔۔ بنا کہے اس کی احتیاط اور خوراک کے خیال رکھنے کو خانی بیگم رشک سے دیکھتی تھیں۔۔ پریہان کو سمجھا سمجھا کر چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے ہر دو دن بعد نیا کارنامہ سر انجام دے دیتی تھی۔۔
"میں سمجھاؤں گا مورے۔۔ آپ فکر نہیں کریں۔۔" وہ نرمی سے بولا، وہ سر جھٹک کر خفگی سے چلی گئیں۔
تھکن زدہ اعصاب پریہان کی بےتوجہی کا سن کر مزید بوجھل گئے تھے۔۔ کمرے میں پہنچا تو پریشان سی پریہان سامنے بیٹھی تھی۔۔
"آپ آ گئے، مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔"۔ اسے دیکھتے ہی وہ بولی تو ایک خاموش نظر اس پر ڈال کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اشارہ تھا کہ وہ بات کرے۔۔
"حدیر میں چاہتی ہوں بس پُروا کو پریسہ کے پاس بھیج دیں۔۔ نکاح ہو گیا، رشتہ رہے مگر کچھ عرصہ۔۔"
وہ اس کے پاس بیٹھ کر متفکر لہجے میں بول رہی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔" وہ دو لفظ کہہ کر سر صوفے کی پشت پر رکھ گیا۔ پریہان نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ اتنا بد دلی سے تو کبھی بات نہیں کرتا تھا۔۔
"کوئی پریشانی ہے حدیر۔۔؟ کچھ ہوا ہے کیا۔۔" پریہان نے اس کا ہاتھ تھام کر پوچھا تو وہ اسے دیکھنے لگا۔
"ایک پریشانی نہیں ہے پریہان۔۔ سو مسائل ہیں جن میں الجھا ہوا ہوں۔۔ عجیب جنگ سی چھڑی رہتی ہے میرے ارد گرد۔۔ ایسے حالات میں تم میری ٹینشن بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔۔" خفگی سے جتاتے ہوئے اس نے ہاتھ چھڑوا لیا۔
"مگر حدیر۔۔ میں تو پُروا۔۔" وہ ہکلا گئی۔ اتنی سی بات پر وہ آخر اتنا خفا کیوں ہو رہا تھا۔۔
"جانتا ہوں۔۔ میں جانتا ہوں پروا تمہاری بہن ہے، زمہ داری ہے اور تمہیں اس کی فکر ہے۔۔ اور یہ بچہ کس کا ہے پریہان؟ کیا یہ تمہاری زمہ داری نہیں۔۔؟ تم نے ابھی تک کھانا کیوں نہیں کھایا؟ بچپنا چھوڑ دو پریہان تم اب ماں بننے والی ہو۔۔" وہ سخت غصہ میں تھا پھر بھی ضبط سے بول رہا تھا۔ اس نے سمجھ لیا نرمی پریہان کو واقعی بگاڑ چکی تھی۔۔
"حدیر میں۔۔ لنچ نہیں کیا تھا مگر مورے گل نے فروٹ دیا تھا وہ کھا چکی ہوں۔۔ آپ کو اندازہ نہیں میں کتنی فکرمند ہوں۔۔ پروا کو اگر ثنا چچی نے کچھ کہا تو ڈر جائے گی۔۔ وہ اکیلی ہے حدیر۔۔" پریہان نے ناراضگی سے منہ پھلا کر اسے دیکھا۔
"وہ اکیلی نہیں ہے، عیسٰی ہے اس کے پاس۔۔ تم خدارا اب یہ پریشانیوں کا ٹوکرا ایک طرف رکھ دو۔۔
میں تھک گیا ہوں سمجھا سمجھا کر تمہیں۔۔ میری بات اگنور کیوں کر رہی ہو۔۔ پُروا کی فکر ہے اور ہمارے بچے کا خیال کون رکھے گا؟ کیا اس کے لیے اب مجھے سب کام چھوڑ کر تمہارے ساتھ رہنا ہو گا پریہان؟
فروٹ کھا لیا اور بس۔۔ یہ جو دماغ میں الٹی سیدھی بےوجہ کی فکریں پالے رکھتی ہو اس کا کیا۔۔"
وہ پریہان کو جھنجھوڑ کر بولتا بمشکل کچھ سخت بولنے سے خود کو روک پایا تھا۔ سمجھانے کے بعد بھی اس کا پروا کی بات دہرانا اسے تپ دلا گیا تھا۔۔
"حدیر۔۔" پریہان نے گھبرا کر کندھوں پر رکھے اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی۔۔ دل ڈر گیا تھا اس کے غصہ سے۔۔ وہ پریہان کو چھوڑ کر اٹھا اور ڈریسنگ روم کا دروازہ دھاڑ سے بند کر گیا۔۔
ہر انسان کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے اور پریہان اب اس کے صبر کی حد ختم کرنے کے درپے تھی۔
"بس پُروا کو بھیج دوں پھر۔۔" وہ الجھی پریشان سی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ کھانا نہیں کھایا مگر فروٹ تو کھایا تھا۔۔ خانزادہ کے غصے سے خائف ہو کر وہ ٹیبل پر پڑی ٹوکری سے سیب اٹھا کر بنا دھوئے کھانے بیٹھ گئی۔
وہ چینج کر کے باہر آیا تو پریہان کو سیب کھاتا دیکھ کر سر جھٹکا۔۔ وہ چور نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔ اپنا خیال رکھتی ہوں، اب میں اپنی بھوک سے زیادہ تو نہیں کھا سکتی۔۔" اس کے مسلسل نظر انداز کرنے پر وہ روہانسی ہو کر بولی۔
"پریہان پلیز۔۔ اس وقت مجھے تم پر بہت غصہ آ رہا ہے تو تم خاموش بیٹھی رہو۔۔" وہ انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتا وہاں سے چلا گیا۔ خانی بیگم اس سے ناراض ہوتی تھیں اور وہ ہر بار اس کی طرفداری کرنے کا انجام دیکھ چکا تھا۔ وہ احتیاط چھوڑ چکی تھی اور چیک اپ پر ہر بار ڈاکٹر کی ایک ہی ہدایت ہوتی تھی خوراک کا مزید خیال رکھیں، ایسا نا ہو کمپلیکیشنز آ جائیں۔۔
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے، باہر کے مسائل سے وہ لڑ سکتا تھا مگر پریہان کی لاپروائی اسے بےسکون کر رہی تھی۔۔
کمرے میں بیٹھی پریہان ادھ کھایا سیب ڈسٹ بن میں پھینکتی منہ بناتی اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گئی۔
وہ مردان خانے میں جا کر اکیلے کمرے میں بیٹھا خود کو پرسکون کرنے لگا۔ تھکن کی وجہ سے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی نیند آ گئی تھی۔۔
موبائل کی رنگ پر اس کی آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی، سرخ ہوتی آنکھیں رگڑ کر موبائل اٹھایا۔
"ہاں عیسٰی سب خیریت ہے۔۔ چچی کیسی ہیں۔۔" نیند سے بوجھل آواز میں اس نے پوچھا۔
"لالا۔۔ پُروا نہیں ہے۔۔ وہ کہیں نہیں ہے۔۔" عیسٰی کی گھبرائی ہوئی نم آواز پر وہ جھٹکے سے سیدھا ہوا۔
"کیا مطلب عیسٰی۔۔ کیا ہوا سہی سے بتاؤ۔۔" بوکھلا کر سوال کیا۔ آج ہی تو سوچا تھا کہ پریہان کی ضد پر وہ اسے بس پریسہ کے پاس ہی بھیج دے گا۔۔
عیسٰی نے اسے ساری بات تفصیل سے بتائی۔
"میں نہیں جانتا کیا بات ہے، اس نے جھوٹ کیوں بولا اور کہاں گئی۔۔ مجھے ڈر ہے اسے کسی نے کال کر کے میرا کہا ہو گا۔۔ وہ جانتی تھی میرا موبائل گھر ہے۔۔ اب اس کا نمبر بند ہے۔۔" وہ خوف کی شدت سے سسک اٹھا۔ خانزادہ کا دماغ بند ہونے لگا۔
پریہان پریشان تھی، حق پر تھی۔۔ اس کی بہن خطرے میں تھی اور اس کا نکاح اپنے بھائی سے کروا کر وہ مزید خطرے میں دھکیل چکا تھا۔۔
اس نے آج ہی تو قانونی کاروائی کی تھی ہاشم خان کے خلاف۔۔ اسے لگا تھا اس نے بات سنبھال لی۔۔
کیا انہوں نے جوابی حملہ کیا ہے؟ یا پھر کوئی اور۔۔
وہ تیزی سے اٹھ کر حویلی سے نکلا تھا۔ اس بار معاملہ لڑکی کا تھا، عزت کا تھا اور کام اتنا صفائی اور خاموشی سے ہوا تھا کہ اندازہ کرنا مشکل ہو گیا کرنے والا کون ہے۔۔
خانزادہ خاموشی سے شہر پہنچ گیا تھا۔۔ پُروا کو تلاشنا ان کی سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہا تھا۔۔
اس کا موبائل بند تھا جس کی وجہ سے لوکیشن ٹریس کروانا بھی مشکل ہو رہا تھا، اسے ہر ممکن جگہ ڈھونڈا تھا وہ اپنی آنی کے گھر بھی نہیں گئی تھی۔
ادب خان کو ہاشم خان اور بہروز خان کے خفیہ ٹھکانوں پر نظر ڈالنے کا کہہ دیا۔۔ وہ بھی بندے پھیلائے مصروفِ تلاش تھا۔۔
ان کا اپنا گھر، ارد گرد کا علاقہ۔۔ آنی کا گھر اور ان کے محلے دار۔۔ حتیٰ کہ پریہان کے پیرنٹس کا گھر تک چیک کر لیا۔۔ ہر جگہ تو پوچھ بیٹھے تھے۔
اب تو لوگ بھی تاسف سے دیکھنے لگے تھے، جوان لڑکی غائب تھی، جانے کہاں گئی تھی اور جانے کس حال میں ملے۔۔ کچھ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ شاید خود کسی کے ساتھ گئی ہو۔۔
گئی تو وہ خود تھی مگر انہیں اتنا یقین تھا کہ وہ کسی ایرے غیرے کے چکر میں پڑنے والی نہیں تھی۔۔
"کہاں جا سکتی ہے۔۔ وہ نا سمجھ ہے، وہ گئی ہی کیوں۔۔ صبح تک تو ٹھیک تھی۔۔" عیسٰی کی حالت خراب ہو رہی تھی۔۔ پُروا کا لاپرواہ حلیہ اور اس کا کم سن حسن ہر کسی کو متوجہ کرتا تھا۔۔ وہ سوچ سوچ کر ہی بےبسی سے پاگل ہو رہا تھا۔
روڈز پر خوامخواہ گاڑی بھگاتے وہ ہر جگہ دیکھ رہے تھے۔۔۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا، وہ لڑکی تھی، جوان لڑکی جس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
موسٰی نے سنا تو وہ بھی شہر آنے کی جلدی مچانے لگا۔
"تم وہیں رہو۔۔ کیا پتا وہ پریہان کو ملنے حویلی گئی ہو۔۔ کیا پتا وہاں پہنچ جائے۔۔" خانزادہ نے امید کے تحت کہا۔ امید تو اچھی ہی رکھنی تھی۔۔ موسٰی بھی تھم کر بیٹھ گیا۔۔ پوری رات بھاگ دوڑ کرنے کے بعد صبح گھر پہنچے تو بدحال اور مایوس تھے۔
"یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔۔ جب گارڈز نے کہہ دیا لڑکی خود گئی ہے تو کیوں ڈھونڈ رہے ہو۔۔" ثنا بیگم تو عیسٰی کی بکھری حالت دیکھ کر ہی پریشان ہوئیں۔
"کیونکہ مجھے ڈر ہے وہ کسی مشکل میں ہو گی۔۔"
عیسٰی گھبراہٹ کے مارے کپکپاتی آواز میں بول رہا تھا۔
خانزادہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔
پریہان کی بار بار کالز آ رہی تھیں، اس نے آہ بھری۔۔
"میں ضروری کام کی وجہ سے شہر آیا ہوا ہوں پریہان۔۔ اپنا خیال رکھنا پھر بات کروں گا۔۔" اس نے کال بیک کر کے نرمی سے کہا اور اس کا جواب سنے بنا کال کاٹ دی۔ پریہان یا کسی کو بھی خبر ہونے سے پہلے پُروا کو تلاشنا ضروری تھا۔ ثنا بیگم کو سارا معاملہ پتا تھا مطلب بات زیادہ وقت نہیں چھپی رہنی تھی۔۔
وہ سر پکڑے بےحال سا بیٹھا رہا، کاش وہ پروا کو پیرس بھیج دیتا آج اس کے محفوظ ہونے کی گارنٹی تو ہوتی۔۔ جانے کہاں گئی، کس حال میں ہے۔۔
"عیسٰی کیوں پاگل ہو رہے ہو، کیسی مشکل ہو سکتی ہے دیکھنا آ جائے گی خود۔۔ نا بھی آئی تو تمہاری پریشانی نہیں۔۔ اپنی حالت دیکھو زرا۔۔"
باہر ثنا بیگم ضبط کیے عیسٰی کو ٹوک رہی تھیں۔
ایک پل کو خیال سا گزرا تھا انہوں نے بھی تو جانے کا کہا تھا کہیں اس وجہ سے تو نہیں چلی گئی وہ۔۔؟ تب غصہ میں بنا سوچے سمجھے جو دل میں آیا بول بیٹھیں، اب گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔
انہیں اندازہ ہی نہیں تھا وہ ایک بار کہنے پر یوں منہ اٹھا کر چلی بھی جائے گی۔۔ کیا وہ اتنی پاگل تھی۔۔
انہیں اپنے الفاظ اور لب و لہجہ بھول گیا۔
عیسٰی نچلا لب دانتوں تلے سختی سے دبائے بیٹھا تھا۔
پروا ہر بات شئیر کرتی تھی، کچھ مسئلہ ہوتا تو ضرور شئیر کرتی مگر اسے ہر بار کالز کر کے ایک ایک شکایت لگانے سے خود عیسٰی نے ہی منع کیا تھا۔۔
لیکن وہ عیسٰی کو تو بتا سکتی تھی، ہاں اس کا موبائل بھی تو پاس نہیں تھا، نہیں تھا تو وہ ویٹ کر لیتی۔۔ شاید واقعی کسی نے کال کی ہو۔۔ کوئی چال یا پھر پرانک۔۔ کچھ تو ہوا تھا مگر کیا ہوا یہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔
وہ الجھا ہوا سا سوچ سوچ کر بےحال ہو رہا تھا۔
"عیسٰی سن رہے ہو۔۔؟ جانے دو اب۔۔ کیا خبر اس نے بھی اپنی بہن کی طرح کوئی اچھا انسان ڈھونڈ لیا ہو۔۔" ثنا بیگم کی بات پر وہ کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔
"وہ دنیا کو جانتی ہی کتنا ہے۔۔ اور اسے میں جانے نہیں دے سکتا، وہ میرے نکاح میں ہے، بیوی ہے میری۔۔
میری بات سمجھ رہی ہیں ناں آپ۔۔ عیسٰی خان کی عزت ہے اور اپنی عزت کو میں ایسے جانے نہیں دے سکتا۔۔ میرا نام جڑا ہے اس کے ساتھ۔۔" وہ ہذیانی کیفیت میں چیختا اپنے بال نوچنے لگا۔
ثنا بیگم اس انکشاف پر ساکت بیٹھی رہ گئیں۔۔
"اس کی دنیا بہت چھوٹی ہے۔۔ وہ گنے چنے لوگوں کو جانتی ہے اور ان سب سے محبت کرتی ہے۔۔ ان سب کو چھوڑ کر وہ کہاں جائے گی۔۔ اسے کوئی ٹھکانہ مل بھی گیا تو میں کہاں جاؤں، مجھے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، میں تو مر جاؤں گا۔۔" وہ بےچارگی سے بول رہا تھا۔ جانے کس نے نظر لگا دی تھی اس کی محبت کو کہ وہ جو پہلو میں تھی اب جانے کہاں کھو گئی۔۔
اس کی بےبسی کو محسوس کرتی ثنا بیگم تڑپ گئیں، عیسٰی کی تو ہمیشہ، ہر خواہش پوری کرتی تھیں، وہ زرا اداس ہو جاتا تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔۔ آج جانے انجانے میں اس سے قیمتی سرمایہ چھین بیٹھی تھیں۔
دماغ میں اچھے سے دن کے وقت ہوئی ملاقات دوہرائی تو پروا کا پریشان چہرہ یاد آ گیا۔ وہ کچھ بولنا چاہتی تھی انہوں نے سنا ہی نہیں۔۔
شاید وہ بتانا چاہتی تھی اس نکاح کا۔۔ اس نے واضح بتایا کہ عیسٰی نے اسے جانے سے روک لیا۔۔ وہ اکیلی عیسٰی کے پاس تھی، وہ حق سے نام لے رہی تھی، عیسٰی کی ہُڈی پہن رکھی تھی۔۔ سب کچھ واضح تھا انہوں نے نا دیکھا نا سنا۔۔ سوچا ہی نہیں اگر خانزادہ انوالو تھا تو وہ بغیر رشتہ کے کبھی رہنے نا دیتا۔۔
(بات سنو لڑکی یہ جو تمہارا اور تمہاری بہن کا پلین ہے میں کبھی ہونے نہیں دوں گی۔۔ عیسٰی پر ڈورے ڈالنے سے وہ کبھی نہیں ملے گا۔۔ مار ڈالوں گی میں تم دونوں کو اگر ایسا گھٹیا کام کیا تو۔۔)
(نہایت نیچ خاندان ہے تم لوگوں کا تو۔۔ ماں باپ مر گئے اور خالہ نے ان کاموں پر لگا دیا۔۔)
(اگر زرا سی بھی غیرت ہے ناں، تو اس کمرے سے نہیں اس گھر سے ہی چلی جاؤ۔۔۔)
(بہنیں نہیں رکھ سکتیں تو کوئی رشتہ دار یا کسی جاننے والوں کے ہاں چلی جاؤ اور عزت سے زندگی گزارو۔۔ شکل گم کرو اب اپنی۔۔)
انہیں اپنے الفاظ یاد آئے، اب اپنی زبان کے وار یاد آ رہے تھے۔ ایسے ظالم الفاظ کے بعد بھی وہ رکتی یہ ممکن ہی کہاں تھا، اسے غیرت کا طعنہ دیا تھا، ماں باپ کا طعنہ دیا، مری ہوئی خالہ تک پر تہمت لگا دی۔۔ ان کے بعد وہ کیسے رکتی، جیسے کہا گیا ویسے خاموشی سے چلی گئی۔۔
اپنی غیرت ثابت کر گئی مگر ثنا بیگم کو کھڑے قد سے اپنی ہی نظروں میں گرا گئی تھی۔۔
لب سی بیٹھیں، اب کیسے بتائیں کسی دشمن کی چال نہیں ان کی اپنی کرنی تھی، عیسٰی یہ بات جان لیتا تو ساری زندگی ماں کا منہ نا دیکھتا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
زرشے کافی وقت سے موسٰی کو بےچین دیکھ رہی تھی، رات بھر سو بھی نہیں پایا تھا وہ۔۔ بار بار اٹھ کر موبائل چیک کرتا، کبھی کال ملا کر سٹڈی روم میں چلا جاتا کبھی ونڈو سے حویلی کے بیرونی گیٹ کو تکتا جیسے کسی کا منتظر ہو۔۔ صبح فجر کے لیے وہ اٹھی تو وہ کمرے میں تھا ہی نہیں، سٹڈی روم میں پڑے سنگل صوفہ پر ٹانگیں لمبی کیے نیند کر رہا تھا۔۔
شاید وہ اپنی ماں اور بھائی کی وجہ سے پریشان ہے، زرشے کو اس پر ترس آیا۔۔
"خان جی آپ کے لیے چائے بنا لاؤں۔۔؟" زرشے کے جانے پر وہ آنکھ کھول کر اسے دیکھنے لگا تو اس نے جھجک کر پوچھ لیا۔
"نہیں نہیں۔۔ بس تھوڑی نیند کرنا چاہتا ہوں۔۔ ایکچوئلی بزی تھا زرا۔۔ سو نہیں پایا۔۔" وہ اٹھ کر گردن دائیں بائیں کرتا بھاری آواز میں وضاحت دیتا کمرے میں پہنچا۔ زرشے نے خاموشی سے اسے دیکھا۔
"آپ عیسٰی بھائی کی وجہ سے پریشان ہیں ناں۔۔"
بیڈ کے پاس رک کر اس نے نرمی سے پوچھا۔
تکیے پر سر رکھتے موسٰی کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ آ گئی۔ ایک گہری نظر اس کے اپنی فکر میں مبتلا چہرے پر ڈالی.. اپنائیت کا احساس وجود میں سکون سا بن کر اترا تھا، وہ تو پہلے ہی عزیز تھی پھر ایسے فکر کرتی تو سیدھی دل میں اتر رہی تھی۔۔
اس نے بےساختہ ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ زرشے نے سوالیہ نظر سے دیکھا اور جھجک کر ہاتھ اس کی چوڑی ہتھیلی پر رکھ دیا۔۔
موسٰی نے نرمی سے اس کے نازک ہاتھ پر لب رکھے۔
"عیسٰی ٹھیک ہے اور انشاءاللّٰہ ٹھیک رہے گا۔۔ تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ میرے پاس تو میری تھکن بھی اتر جائے گی۔۔" موسٰی کے بوجھل لہجے اور ہاتھ پر محسوس ہوتے لمس پر وہ جھینپ گئی۔ آگے بڑھ کر اس کے پاس بیٹھی تو وہ اس کے ہاتھ کو اپنے رخسار سے لگائے لیٹ گیا۔ نظر زرشے پر جمی ہوئی تھی۔
"آپ نے سونا نہیں ہے۔۔" زرشے نے اسے یک ٹک خود کو دیکھتا پا کر بےساختہ ٹوک دیا۔۔
"سو رہا ہوں۔۔ توبہ تم تو دیکھنے پر بھی لڑتی ہو۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر خفگی جتاتا کروٹ بدل کر اس کے گود میں سر رکھ گیا۔ زرشے پہلو بدل کر رہ گئی۔
"لڑ نہیں رہی تھی۔۔ میں تو بس۔۔ آپ کی تھکن کے خیال سے۔۔" وہ وضاحت دیتی سٹپٹا رہی تھی۔
"اب ٹھیک ہوں۔۔ تمہیں تھوڑا سا تھکنا پڑے گا اب۔۔" اس کے یوں بیٹھے رہنے کی طرف اشارہ دیتا آنکھیں بند کر گیا۔ یعنی احساس تھا مگر کوئی چارہ نہیں تھا۔
سکون بھی کیا چیز ہے، ملنے لگے تو انسان پروا فکر بھلائے خود غرض سا ہو جاتا ہے۔۔
زرشے شرمیلی مسکراہٹ لیے اس کا مغرور چہرہ پورے حق سے دیکھتی جا رہی تھی۔۔ اسے بتا نہیں سکی کہ وہ اس کے یوں حق جتانے پر کتنی مغرور ہو جاتی ہے، چاہے جانے کا احساس ہر تھکن اتار دیتا ہے۔۔
___________
پریہان اپنے کمرے میں کروٹیں بدلتی سونے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔ خانزادہ نے اچھی خاصی ناراضگی جتا دی تھی، شاید واقعی اسے اب اپنا خیال خود رکھ لینا چاہئیے مگر وہ پُروا کے معاملہ میں بےبس تھی۔۔
اسے جب عیسٰی کے پاس چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا وہ کتنی دیر منتیں کرتی رہی تھی کہ پریہان کے ساتھ جانے کو تیار ہے مگر عیسٰی کے پاس نہیں جانا۔۔
پریہان کا دل نہیں مان رہا تھا پھر بھی سمجھا بجھا کر سے خاموش کروا دیا۔۔ اب وہ بات کرتی تھی تو نارمل لگتی تھی، عیسٰی شاید خیال رکھ رہا تھا لیکن اس کے لہجے میں پہلے جیسی کھنک نہیں ہوتی تھی۔۔
اب وہ لاڈ سے نہیں بولتی تھی، اب وہ نا ملنے کی ضد کرتی تھی نا اس کے پاس آنے کی۔۔
پریسہ کے پاس بھیجنے کا کہا، مان گئی، عیسٰی کے یوں ٹکٹ پھاڑ کر اسے روکنے کی ضد پر رکنے کا کہا تو بھی چپ ہو گئی۔۔ پریہان کو اس کا یوں بدل جانا دکھی کر رہا تھا۔
یہاں وہ کھانا نا کھائے تو پروا کرنے اور خیال رکھنے والے لوگ موجود تھے اور جانے پُروا سہی سے کھاتی تھی یا نہیں۔۔ جب سے ثنا بیگم گئی تھیں پریہان کا دل خوف سے بھر گیا تھا۔
اوپر سے پُروا نے جب کال پر بات کی تو وہ اداس لگی۔
خانزادہ کے ڈانٹنے سے بھی خائف تھی مگر پُروا کو نظرانداز کرنا بھی تو ممکن نہیں تھا۔
اور اب خانزادہ نا کال اٹھا رہا تھا نا بات کر رہا تھا۔ دونوں کو سوچتی، الجھتی وہ سو گئی۔
صبح کے قریب اٹھی تو پھر سے کال ملائی۔ اس بار اس نے کال بیک کر کے کام کا کہا اور کال کاٹ دی۔
پریہان کو صاف محسوس ہوا جیسے بہانہ بنا رہا ہے۔
اس نے پُروا کا نمبر نکال کر میسج ٹائپ کیا۔
"پُروا میں نے بات کر لی ہے، تمہیں پریسہ آپی کے پاس بھیج دوں گی، عیسٰی کی ماما کے سامنے کم جانا اور ان سے زیادہ بات بھی مت کرنا۔۔ کچھ کہیں تو حدیر کو بتانا وہ سنبھال لیں گے۔۔ اپیا کو معاف کر دینا بیبی۔۔ میرا سویٹ سا ٹوئٹی۔۔"
اسے میسج بھیج کر اسکی تصویر دیکھتی مسکرائی۔
صبح کی نماز پڑھ کر گرم بستر میں لیٹ کر خود سے عہد کرنے لگی کہ اب کھنا پینا چاہے ڈبل کرنا پڑے کر لے گی، خانی بیگم بھی جو کہیں گی، کر لے گی بس حدیر غصہ نا کرے، وہ غصہ ہو جائے تو ڈرا دیتا تھا۔۔
وہ سکون سے آنکھیں موند کر سوتی دیکھ نہیں پائی اس کا میسج نا ریسیو ہوا نا سین ہوا۔۔
اسے خبر نہیں ہوئی پُروا کا ثنا بیگم سے سامنا بھی ہو گیا، باتیں بھی سن لیں ہاں مگر اس بار اس نے کسی کو بھی بتانے کی ہمت نہیں کی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی، حالت ایسی کہ جیسے کوئی مرنے کے در پر ہو، وجود ساتھ چھوڑ چکا ہو مگر روح نکلنے سے انکاری ہو جائے۔۔
در بدر ہوتی رہی تو اتنا محسوس نہیں ہوا مگر جب یہ بات جتائی گئی تو دل کو لگ گئی تھی۔ پریہان سے اس نے کتنی منتیں کی تھیں اپنے ساتھ لے جائے، وہ سمجھا بجھا کر خود چلی گئی۔۔
عیسٰی نے خیال بھی بہت رکھا اور جب جی چاہا اپنی فرسٹریشن بھی نکالی، وہ تب بھی سہتی رہی۔۔ نا وہ عیسٰی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی نا خانزادہ کے گھر۔۔ اسے اپنے گھر رہنا تھا مگر اسے اب شدت سے احساس ہو رہا تھا اس کا اپنا کوئی گھر ہی تو نہیں ہے۔۔ آنی کا گھر بھی وقتی سہارا تھا وہ مر گئیں تو سہارا ختم۔۔
پریہان کا اپنا گھر تھا، پریسہ کا بھی اپنا گھر تھا اور اس کا گھر بس یہ وقتی سہارے تھے۔۔ وہ بےغیرت نہیں تھی اور کسی کو پھنسانے کے پلان تو ہرگز نہیں کر رہی تھی، ایک ٹین ایج لڑکی کے لیے یہ بات، بات نہیں گالی تھی۔۔ جو اس نے سنی اور سہنے کی کوشش میں ناکام ہو گئی۔۔ دوست کے پاس آ گئی، وقتی سہارے ہی لینے تھے تو ایک اور سہارا سہی۔۔
ہنیا اس کے منہ سے سب حالات سن کر شاکڈ ہو گئی۔ اسے سن کر ہی رونا آیا تھا، پُروا تو پھر سہہ کر بیٹھی تھی۔
"بہت برا ہوا بٹ نیور مائنڈ۔۔ سب برے ہیں مطلب تمہاری بہنیں بھی۔۔ کسی کو فکر بھی تھی کہ تم یہاں وہاں جھُول رہی ہو، ٹھکانے ایسے ہوتے ہیں کیا۔۔ ان آنٹی نے تو بس تمہاری آنکھیں کھولیں اور کچھ نہیں۔۔" ہنیا نے بےرحمی سے تبصرہ کیا۔ پُروا پتھر کا مجسمہ بنی سرجھکا کر بیٹھی رہی۔۔
ساتھ ہینڈ کیری پڑا تھا جس میں اس کی ضرورت کی کچھ چیزیں تھیں اور بس۔۔ ایک ڈریس تک نہیں رکھا جو تن پر تھا وہی سںب کچھ تھا۔۔ آنکھوں سے آنسو لگا تار بہہ رہے تھے۔۔ اپنی دوست کے پاس پہنچ کر خود پر گزری اب تک کی ساری داستان سنانے تک۔۔ اس کے آنسو نہیں رکے تھے۔۔ دل بری طرح ڈوب رہا تھا۔۔
اس بار ایسی ڈپریسڈ ہوئی تھی کہ اس کا دل بہنوں کی طرف بھی مائل نہیں ہوا تھا۔۔
وہ جانتی تھی ثنا بیگم کی باتیں سہنا مشکل ہے اور کسی کو بھی بتانے پر اس کا ٹھکانہ پھر سے بدلا جاتا۔۔ وہ تھک رہی تھی گھر بدل بدل کر۔۔ ہاتھ میں موبائل اس سختی سے تھام ہوا تھا کہ ناخن سفید پڑ رہے تھے۔۔
"اوکے ڈونٹ کرائے پری۔۔ میری بات سنو۔۔ میں ہوں ناں۔۔" ہنیا مزید غصہ نہیں کر پائی، اپنی بھی آنکھیں بھر بیٹھی تھی، ہم عمر تھی، چھوٹی تھی۔۔ نا سمجھانا آ رہا تھا نا حالات سمجھ آئے۔۔
"اب تم میرے پاس رہو گی بس۔۔ سٹڈیز کنٹینیو کرو۔۔
سب سے پہلے تو یہ موبائل آف کر دو۔۔ کالز کر کے دماغ جلائیں گے اب تمہارا۔۔ ان فیکٹ سم توڑو۔۔ موبائل میں نمبرز رہنے دینا۔۔ نیو سم لے دوں گی، کبھی ضرورت پڑے تو کر لینا کال۔۔" ہنیا نے اپنی عمر اور صنف کے عین مطابق جذباتی فیصلہ سنا کر اس سے موبائل چھینا، وہ جمی بیٹھی رہی۔۔
ہنیا نے خود سم نکال کر توڑ دی، مگر نمبرز موبائل میں رہنے دئیے، اسے وہیں چھوڑ کر باہر نکلی، ملازمہ سے کھانا منگوایا اور زبردستی کھلا کر پُروا کو لیٹا دیا۔
وہ چابی کی گڑیا بنی سب کرتی رہی، لیٹ کر آنکھیں تک بند کر لیں مگر اب نیند کس ظالم کو آنی تھی۔۔
پوری رات اس نے سسکتے ہوئے آنکھوں میں گزار دی، ثنا بیگم کی باتیں دماغ میں ہتھوڑے کی طرح بج رہی تھیں۔۔ اس نے ہر بات شئیر کر ڈالی سوائے نکاح کے۔۔
اگلی صبح ناشتے کی ٹیبل پر ہنیا نے ماں باپ کے سامنے اس کا مسئلہ بڑھا چڑھا کر رکھا، وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔ لڑکی کی زمہ داری اٹھانا آسان کہاں تھا۔۔
"بیٹا روؤ مت۔۔ دنیا کی حقیقت یہی ہے، تمہاری بہنیں بھی کیا کریں اپنے گھروں کی ہیں، لڑکی کے جب ماں باپ نا رہیں تو اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔۔"
ہنیا کی مدر نے تاسف سے تبصرہ کیا تھا، وہ ٹھٹھر کر رہ گئی، کتنا سچ کہا تھا۔ وہ بھی اب اسی حقیقت میں جینا چاہتی تھی، اپنوں میں بےنام سہارے ڈھونڈنے اور ان کی چھاؤں میں چھپ کر رہنے سے کچھ نہیں ملا تھا۔۔
اسے یہی بہتر لگا، کھو جائے اور سب کی زندگیاں آسان ہو جائیں۔ نا عیسٰی پر جبر کا رشتہ تھوپا جائے، نا حدیر کو زبردستی کی زمہ داری اٹھانی پڑے اور نا اس کی بہنوں کو اسے سنبھالنے میں اپنے گھر کی فکر چھوڑنی پڑے۔۔ اس نے مان لیا وہ اکیلی ہے۔۔
اس نے وہی کیا، وہی سوچا جو جذباتی لڑکیاں کرتی ہیں، وہ دکھی تھی مگر اسے گھر سے نہیں نکلنا چاہئیے تھا۔۔ اسے نکاح کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔۔
ہنیا کی ماما مسلسل تاسف اور ہمدردی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ وقت کس بےرحمی سے بدلا تھا، کل تک یہی عورت اسے دیکھتی تھی تو کیوٹ کیوٹ کہتے نہیں تھکتی تھی، آج بس ترحم سے دیکھ رہی تھی۔۔
لوگوں کے روئیے اور سوچ آپ کی زات سے نہیں جڑے ہوتے، وہ صرف آپ کے حالات سے جڑے ہوتے ہیں۔۔ آپ وہی ہوتے ہیں مگر جب حالات بدلتے ہیں تو لوگوں کے خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔۔
وہ بد دلی سے جیسے تیسے ناشتہ کر کے اٹھ گئی، ہنیا تو کالج کے لیے تیار تھی۔۔ ابھی وہ کمرے کی جانب بڑھتی ان کی نظروں سے اوجھل ہوئی کہ ہنیا بولی۔۔
"میں چاہتی ہوں پری میرے ساتھ رہے۔۔ اور میرے کالج میں ہی اس کا ایڈمیشن کروا دیں۔۔" ہنیا کی خوشی سے بھرپور آواز ابھری، پُروا کے قدم تھم گئے۔۔
"دیکھو ہنی تمہاری فرینڈ ہے تو ہیلپ کریں گے۔۔ بٹ سوری ٹو سے، وہ ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتی۔۔"
ہنیا کے بابا مسٹر وسیم سنجیدگی سے بولے۔
"بٹ بابا۔۔" ہنیا نے احتجاج کرنا چاہا تو وہ ہاتھ اٹھا کر روک گئے۔
"ہنی ہیلپ کریں گے مطلب او۔کے۔۔ سٹڈی کر لے، ہاسٹل میں رہ لے۔۔ میں اخراجات اٹھاؤں گا مگر اور کوئی ضد نہیں۔۔ آئی دونٹ نو اس کی باتوں میں کتنی سچائی ہے، جانے کس فیملی سے ہے، کن حالات میں گھر سے نکلی ہے میں اپنی ریپو اور تمہارے لیے کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔ سو ڈونٹ بی سِلی۔۔"
مسٹر وسیم کی سنجیدہ آواز میں بیٹی کے لیے محبت اور نرمی تھی مگر پُروا کے لیے کوئی نرمی نہیں تھی۔
"وسیم آئی نو ہر مدر۔۔ شی واز بیسٹ ڈاکٹر۔۔"
مسز وسیم نے نرمی سے اس کی ماں کا حوالہ دیا۔۔
"شی واز۔۔ شی از ڈیڈ ناؤ۔۔" مسٹر وسیم نے اپنی بات پر زور دیا۔ پروا لرزتا وجود لیے سب سن رہی تھی۔
"ہنی جاؤ۔۔ ڈرائیور ویٹ کر رہا ہو گا۔۔ کالج سے لیٹ ہو جاؤ گی۔۔ ڈونٹ وری تمہاری فرینڈ کی ہیلپ کی جائے گی۔۔" ہنیا باپ کی یقین دہانی پر بیگ اٹھا کر چلی گئی۔ پروا اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی تھی۔
"پھر ہنیا کے کالج میں آپ بات کر لیں ایڈمیشن کے لیے۔۔" مسز وسیم نے چائے کا سپ بھرتے ہوئے کہا۔
"نیور۔۔۔ ہنی کو اس فرینڈشپ سرکل میں لانے کی ضرورت نہیں۔۔ ہنی نے خوامخواہ زمہ داری ڈال دی سر پر۔۔" وسیم صاحب بےزار ہو رہے تھے۔
"اٹس او۔کے وسیم۔۔ کتنی این جی اوز میں ہم ڈونیشن دیتے ہیں۔۔ اسے بھی صدقہ سمجھ لیں گے۔۔" بیگم وسیم نے پرسکون لہجے میں کہا۔ پروا ساکن سی ہو گئی۔ اسے آج یقین آ گیا جن کے ماں باپ نہیں ہوتے، وہ صدقوں پر پلنے والے لاوارث ہوتے ہیں۔۔
"کوئی چیپ سا کالج اور اس کے ساتھ ہاسٹل دیکھ لو اور جان چھڑواؤ۔۔ ہم پیسے دے دیں گے اتنا بہت ہے۔۔" مسٹر وسیم اکتائے ہوئے لہجے میں کہہ کر وہاں سے اٹھ کر جا چکے تھے۔۔ پُروا خود کو گھسیٹتی ہنیا کے روم تک پہنچی اور زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
ہنیا واپس آئی تو اس کی ماما نے سب سمجھا دیا، وہ اچھی دوست تھی مگر خود مختار نہیں تھی۔۔
شرمندہ سی پُروا کے پاس بیٹھی یہاں وہاں کی باتیں کرتی رہی۔۔ اور پھر کچھ ہی دن تک مسز وسیم نے اس کا کسی دور کے کالج میں ایڈمیشن بھی کروا دیا اور کالج کے قریب ایک سستے سے ہوسٹل میں رہائش کا انتظام بھی ہو گیا۔
"اس لڑکی سے کہہ دینا، ہم خرچ بھیج دیا کریں گے بس ہنی سے کانٹیکٹ نا کرے اور نا ہی یہاں سے دوبارہ اس کا نام یا زکر کہیں نکلے۔۔ کل کو اسے کچھ ہوا یا کسی غلط کام میں پڑ گئی تو خوامخوا ہماری بیٹی کا نام بھی اس کے ساتھ گھسیٹا جائے گا۔۔"
مسٹر وسیم نے سب انتظامات ہوتے ہی سختی سے مسز وسیم کو تاکید کی۔ وہ سر ہلا گئیں۔
"ایم سوری پُروا۔۔ میں چھپ کر تم سے کانٹیکٹ کروں گی، فکر مت کرنا۔۔" ماں باپ کے سامنے احتجاج ضائع جاتا دیکھ کر ہنیا بےبسی سے پُروا کو کہنے لگی۔
"تم اپنے ماما بابا کی بات مان لینا ہنی۔۔ تمہارے پیرنٹس بہت کئیر کرتے ہیں تمہاری۔۔" اسے سمجھاتی پُروا کے انداز میں بھی حسرت تھی اور الفاظ میں بھی۔۔
"میری ہیلپ کر کے تم نے بہت بڑا احسان کیا ہے، بس مجھے کچھ ضروری سامان منگوا دو۔۔ میرے پاس ڈریسز بھی نہیں ہیں۔۔" اس نے بیگ سے پیسے نکالے۔۔
وہ پیسے جو پہلے موسٰی اور پھر حدیر پاکٹ منی کے طور پر دیتے رہتے تھے۔۔ جو پریہان نے دئیے تھے اور کچھ جو آنی دیتی رہتی تھیں۔۔
سب ملا کر اس وقت اس کے پاس اتنی رقم تو تھی کہ آسانی سے اپنی ضرورت کی چیزیں لے کر بھی بچا سکے۔۔ ہنیا کے منع کرنے کے باوجود اس نے اپنے پیسے ہی لگائے۔ اب وہ خود مختاری سیکھ رہی تھی۔۔
گل جان نے ٹھیک کہا تھا حالات خراب ہوں تو انسان سب سیکھ جاتا ہے، بس ایک بات غلط کر دی تھی کہ اس کے پاس اس کا خیال رکھنے والے بہت اپنے ہیں۔۔
وہ اکیلی تھی اور وہ سب وقتی سہارے۔۔ پروا نے سر جھٹکا اور باقی آنسو اندر اتار لیے۔۔
"اوہ گاڈ پری۔۔ اب تم یہ چیپ ڈریسنگ کرو گی۔۔"
ہنیا تو پُروا کے سامان میں حجاب گاؤن اور سستے اور سادہ کرتے ٹراؤزر دیکھ کر ہی شاکڈ ہو گئی۔
پُروا کی ریکوئسٹ پر اس نے اپنی میڈ کو پُروا کی مرضی کی چیزیں لا کر دینے کا کہا تھا مگر جب سامان آیا تو منہ کھلا رہ گیا۔۔ پُروا نے خاموش نظر سب چیزوں پر پر ڈالی، اس کے پاس اتنے کھلے پیسے نہیں تھے کہ کسی مال میں جا کر کھل کر شاپنگ کرتی۔۔
"مجھے چھپ کر رہنا ہے، مطلب سب سے چھپ کر۔۔ میری پوری لائف چیپ ہو چکی ہے یہ تو پھر ڈریسنگ ہے۔۔" پُروا یاسیت بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔
نادان لڑکیاں مکمل اور پرسکون لباس کو سستا سمجھ کر اداس ہو رہی تھیں۔۔ وہ لباس جو اس مشکل میں اسے بری نظروں سے بچا کر اور اسے ڈھک کر رکھنے کے کام آ رہا تھا۔۔
ہنیا لب کاٹتی خاموش ہو گئی، پُروا ایک چھوٹے سے بیگ میں اپنے کپڑے رکھ کر تیار ہو گئی۔ مسز وسیم نے اس کی پڑھائی کا سب انتظام مکمل کر لیا تھا۔۔ اس کا ایڈمیشن، ہاسٹل کے اخراجات، بکس، بیگ، فائل رولز وہ سب جو اسے چاہئیے۔۔ مسٹر وسیم کی نسبت ان کا رویہ نرم تھا اور اپنی طرف سے انہوں نے پوری کوشش کی تھی کچھ کمی نا رہے۔۔ پُروا نے نم تشکر بھری آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا، سچ تو یہی تھا کہ آج کے زمانے میں بھی اچھے لوگ باقی ہیں اور اچھائی صرف غریب لوگوں کی میراث نہیں ہوتی۔۔
ڈرائیور کے ساتھ اسے ہاسٹل پہنچا دیا گیا۔
اور یہاں سے اس کی زندگی کا دوسرا سرد ترین رخ شروع ہوا تھا۔۔
سستا سا ہاسٹل اور اس کے ساتھ تین مزید لڑکیاں۔۔
گھٹن زدہ ماحول اور شور شرابا، رات کو جلد سونے والی پُروا اب بارہ سے ایک بج جاتا سو نہیں پاتی تھی۔ ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں کو تکتی رہ جاتی مگر ان کی کسی بھی مزاحیہ حرکت یا مذاق پر اس کے لب مسکراہٹ میں نا ڈھلتے۔۔ آنکھیں جانے کیوں نم ہو جاتی تھیں، ہنستے ہوئے لوگ بھی برے لگنے لگے۔۔
حجاب میں مکمل چھپ کر وہ ساتھی لڑکیوں کی حیرت اور ہنسنے پر بھی خاموشی سے قریب کالج میں جاتی، پڑھتی اور واپس سیدھی ہاسٹل پہنچ جاتی۔۔ پرائیویٹ ہاسٹل تھا، رات کے دس بجے تک لڑکیاں جب چاہتیں تب لوٹتیں مگر وہ کالج سے بھاگ کر پہلی فرصت میں ہاسٹل پہنچتی تھی، لوگوں کی نظروں سے ڈرتی تھی، کالج میں بھی رکنے سے ڈرتی تھی۔۔
لڑکیاں کہاں جاتی تھیں، کیا کرتی تھیں، پُروا نے کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔۔ سستا اوڑھ کر اور سستا کھا کر۔۔
سکون کو ترستی پُروا چند ہی دنوں میں بری طرح ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھی۔۔ اسے جینا نہیں آ رہا تھا، اعتماد بڑھنے کی بجائے کم ہوتا جا رہا تھا۔۔
موبائل میں نیو سم ڈال لی تھی مگر کال کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا، جو تھے انہیں اب وہ اپنا نہیں سمجھ رہی تھی۔۔ نمبرز کو دیکھتی اور دیکھتے دیکھتے رو پڑتی تھی۔۔ وہ کال کرے اور اسے قبول نا کیا جائے تو کیا کرے گی۔۔؟
ہاسٹل فیلوز نے شروع میں ہائے ہیلو کرنا چاہی مگر وہ گم صم سی لڑکی جتنی حسین تھی اس سے کہیں زیادہ عجیب تھی۔۔ کسی کے پاس بیٹھنے پر، بولنے پر اور دیکھنے پر بھی سہم جاتی تھی۔۔ سب نے کنارہ کر لیا، تبصرے کیے، چھپ کر مذاق اڑانے لگے۔۔
جو اسے ہر حال میں اپنے پاس رکھتے تھے وہ ان سے کنارہ کیے دنیا والوں میں سکون تلاش کر رہی تھی۔۔ اس نے ناکام ہی ہونا تھا۔۔
تو یہ تھی وہ باہر کی زندگی اور یہ تھا حالات کا مقابلہ کرنا۔۔؟ اسے تو کچھ بھی نہیں آتا تھا وہ تو وقت کے دریا میں پوری ڈوب کر ہاتھ پیر چھوڑ چکی تھی۔۔ اب چاہے بہاؤ جہاں لے جائے، چلی جائے گی۔۔
اسے غلط لگا تھا وہ خود حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے، مقابلہ کرنے کے لیے بھی سہارا چاہئیے تھا، اسے لگا تھا وہ سنبھل جائے گی، ہاں کیا جا سکتا ہے مقابلہ مگر کسی مرد کے بغیر۔۔؟ وہ بھی اس معاشرہ میں..؟ مشکل ترین کام ہوتا ہے اور کبھی کبھی ازیت ناک بھی۔۔ وہ غلط تھی، نادان تھی۔۔
جذباتی لڑکیوں کا یہی تو المیہ ہے انہیں لگتا ہے انہیں سہارے نہیں چاہئیں، انہیں لگتا ہے گھر والوں کی ضرورت نہیں، کوئی چھاؤں نہیں چاہئیے۔۔ انہیں لگتا ہے وہ اپنے بل بوتے پر جی سکتی ہیں۔۔
وہ جذبات میں فیصلے کر بیٹھتی ہیں مگر نتائج اکثر انہیں رلا دیتے ہیں۔۔
لــــڑکــــــــیاں تو پاگـــل ہیں۔۔۔
جب بھی خواب دیکھیں گی۔۔۔
یہ عــــــــذاب دیکھــــیں گی۔۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"خانزادہ صاحب۔۔ ہاشم خان اور بہروز خان کے سب ٹھکانوں کی خفیہ تلاشی لے چکا ہوں۔۔ وہ کہیں نہیں ہیں۔۔ اور وہ دونوں بھی اس معاملہ سے بےخبر ہیں۔۔
کوئی اور دشمن ہے آپ کے دماغ میں..؟" ادب خان نے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے ایک سوالیہ نظر خانزادہ کے چہرے پر ڈالی۔۔ وہ گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔
"اب تو بس مسٹر وقار بچتے ہیں ادب خان۔۔ مسٹر وقار کی کوئی خبر نہیں، ملک سے باہر ہے مگر ہاں کہیں سودا کیا تھا اس نے۔۔ اب جس سے سودا کیا، اس کی خبر نہیں کون ہے۔۔" خانزادہ پیشانی مسلتا پریشان لہجے میں بول رہا تھا۔۔ ہفتہ بھر ہو چکا تھا، پُروا کی تلاش ہر جگہ سے ناکام جا رہی تھی۔۔
اس کی سم بند تھی، اب تو ہر ہاسپٹل اور یہاں تک کہ سرد خانے تک کنگھال بیٹھے تھے وہ۔۔
اگر وہ نا ملی۔۔ جانے زندہ بھی تھی یا نہیں۔۔ اس کی بہنوں کو کیا بتائے گا، ایک بڑا معرکہ تو پریہان کو بتانا اور سنبھالنا تھا۔۔ وہ آدھی بات سن کر ہی ڈپریشن سے برا حال کر لینے والی پریہان جس کنڈیشن میں تھی کسی شدید نقصان کا بھی سوچا جا سکتا تھا۔
پریشانی کے مارے اس کا سر پھٹنے والا ہو رہا تھا۔۔ ابھی تو ثنا بیگم شہر میں ہی تھیں، عیسٰی کی حالت عجیب ویرانی کی طرف مائل تھی۔۔ وہ اسے حویلی لے جانا چاہتی تھیں اور وہ پُروا کے بغیر کہیں بھی جانے کو تیار نہیں تھا۔۔
علاقے کے بہت سے معاملات اس کے سر تھے، سرداری کی زمہ داری ایسی تھی کہ یہاں بیٹھے رہنا بھی مشکل تھا۔۔ اپنے پی۔اے کو وقار صاحب کے بزنس اور ڈیلز کی ڈیٹیل پتا کرنے کا کام دے کر عیسٰی کے پاس پہنچا۔۔ وہ ابھی تک صدمے میں بیٹھا تھا۔۔
"عیسٰی اب تم یونی جانا سٹارٹ کرو۔۔ ہم تلاش کر رہے ہیں پُروا کو وہ مل جائے گی۔۔" خانزادہ نے عیسٰی کو ٹوکا۔ اسے اب واپس جانا تھا حویلی اور عیسٰی کو لے جانے کا مطلب پریہان کو پُروا کی غیر موجودگی کی اطلاع دینا۔۔ عیسٰی اس کے حکم پر ہونق بنا۔۔
"پُروا جب تک نہیں آ جاتی میرا دماغ خالی ہے۔۔ یونی جا کر کیا کروں گا۔۔" وہ دلگرفتگی سے بولا۔
"تو رکھنا تھا ناں خیال۔۔ خبر رکھتے کس پریشانی میں ہے وہ۔۔ مت بھولو تمہاری ضد کی وجہ سے وہ پاکستان میں تھی اب تک۔۔ تمہیں بتایا بھی تھا اسے خطرہ ہے، تمہاری لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔" خانزادہ تپ اٹھا۔ ہر طرف سے مایوسی بڑھ رہی تھی اوپر سے عیسٰی کی ضد اور بگڑتی حالت۔۔ وہ بھڑک گیا۔
"میں۔۔؟ میں بتا رہا ہوں وہ صبح تک ٹھیک تھی میں واپس آیا تو وہ کہیں نہیں تھی۔۔ آپ نے سنا تو ہے خود گئی ہے باہر۔۔" عیسٰی تو اس الزام پر تڑپ گیا۔
"تمہیں لگتا ہے وہ باہر گھومنے والی لڑکی تھی؟ اسے پہلے کبھی باہر نکلتے دیکھا ہے عیسٰی؟ اگر یہ کسی کی چال تھی تو اس معاملہ کو جلد حل کر لیا جائے گا۔۔
میرا دماغ مت جلاؤ۔۔ خدا کے لیے خود کو سنبھالو اور اب یہ سوگ ختم کرو۔۔ وہ ٹھیک ہوگی اور مل جائے گی، اللّٰہ نے دعا کا زریعہ اسی لیے رکھا ہے کہ مصیبت اور پریشانی میں اللّٰہ سے رجوع کر لیا جائے۔۔
عورتوں کی طرح رونا دھونا بند کرو اور دعا کرو۔۔"
خانزادہ نے اسے سختی سے ڈپٹ کر سمجھایا۔ عیسٰی نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔۔
"آپ اسی دن آئی تھیں نا یہاں؟ پُروا سے کوئی بات تو نہیں کی تھی آپ نے۔۔؟ کیا آپ ملیں اس سے۔۔؟"
عیسٰی سے فارغ ہوتا وہ ثنا بیگم کی طرف متوجہ ہوا۔
"ن۔۔۔نہیں میری کیا بات۔۔ میں تو ملی نہیں۔۔ مجھے کیا خبر کہ کہاں گئی، بتا کر تھوڑی گئی ہے۔۔" وہ گڑبڑا گئیں۔۔ خانزادہ کے اس طرح براہ راست پوچھنے پر ایسا لگا جیسے وہ ان کے دل کا چور بھانپ گیا ہے۔۔
اور وہ تو گھر کے ایک ایک ملازم تک سے تفتیش کر چکا تھا، کسی کو نہیں بخشا تھا اس نے۔۔
"بہتر ہو گا ایسا ہی ہوا ہو۔۔" اس کی بات پر ان کی سانس تھمی۔۔ کیا یہ کوئی دھمکی تھی۔۔؟
"ہم حویلی واپس جا رہے ہیں۔۔ آپ کو جانا ہے تو چلیں۔۔ عیسٰی کے پاس رہنا چاہیں تب بھی ٹھیک مگر پریہان کو ابھی یہ بات مت بتائیے گا۔۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے جواب دینے سے پہلے عیسٰی بول پڑا۔
"میرے پاس رک کر کیا کریں گی۔۔ جب یونی سٹارٹ کر رہا ہوں تو مورے بور ہوں گی۔۔ واپس جائیں تو اچھا ہے۔۔ میں اب اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔" عیسٰی نے ماں سے التجا کی۔۔ ثنا بیگم کی ضد پر بھی نہیں مانا۔۔
وہ اپ سیٹ تھا، شروع سے تنہائی پسند تھا اور تو کچھ زیادہ الجھا ہوا سا ہو رہا تھا۔۔
"وعدہ کرو۔۔۔ جب سنبھلو گے تو حویلی آ جاؤ گے۔۔"
ثنا بیگم نے وعدہ چاہا تو اس نے سر ہلا دیا۔
ثنا بیگم اور خانزادہ واپس چلے گئے، عیسٰی کے پاس پُروا کی یادیں تھیں اور بےبسی۔۔
اس کے اس طرح رابطہ ختم کیے گھر پڑے رہنے کی وجہ سے کچھ دن بعد احمر اور حسن خود ملنے چلے آئے۔۔
"کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔ اچانک غائب ہو گئے ہو نا کالز اٹھا رہے ہو، نا میسجز کا رسپانس اور نا یونی آ رہے ہو۔۔" وہ دونوں پریشان تھے۔ عیسٰی نے انہیں پہلے تو ٹالنا چاہا مگر پھر کچھ سوچ کر سارا معاملہ بتا دیا۔
"اگر کہیں کوئی سراغ ملے۔۔ میرے ساتھ اسے تلاش کرواؤ پلیز۔۔" اس نے ریکوئسٹ کی تو وہ دونوں بھی فکر مند ہو گئے۔۔
"پکچر ہی دکھا دو ان کی۔۔ پھر کہیں بھی نظر آئیں تو پہچان سکیں۔۔" حسن نے جھجک کر کہا۔ پُروا کی تصاویر سے تو عیسٰی کا موبائل اب بھرا رہتا تھا۔۔
"دیکھو لو۔۔ لالا نے تو ہاسپٹلز اور ہر جگہ دیکھ لی۔۔ ویمن ہاسٹلز میں بھی ادب خان نے پتا کر لیا۔۔
اب بتاؤ کہاں ڈھونڈوں اسے۔۔" عیسٰی نے اس کی تصویر نکال کر دکھا دی، دونوں دیکھ کر سر ہلا گئے۔
"چلو دیکھتے ہیں۔۔ یہ انویٹیشن کارڈ دینے آئے تھے، آئرہ کی شادی کا ہے، تم سے کانٹیکٹ کر رہی تھی، تمہارے فلیٹ میں بھی گئی۔۔ تم نہیں ملے تو ہم سے ایڈریس مانگا۔۔ ہم نے کہا ہم خود دے دیں گے۔۔"
احمر نے کارڈ ٹیبل پر رکھا تو عیسٰی نے ایک سرسری نظر ڈالی۔۔
احمر اور حسن اٹھ کر چلے گئے، پکچر دیکھ کر سوچ لیا انہیں ایک بار کوٹھوں پر بھی دیکھ لینا چاہئیے۔۔
لڑکی پیاری ہو، کم سن اور حسین تو زیادہ تر جس کے ہاتھ چڑھے استعمال کر کے یا پھینک دی جاتی ہے یا ایسے اڈوں پر بھیج دی جاتی ہے جہاں اس کے حسن کے ڈھلنے تک پیسہ کمایا جا سکے۔۔
یہ بات اور حقیقت تلخ اور تکلیف دہ تھی مگر سچ تو یہی تھا۔۔ وہ عیسٰی سے نہیں کہہ سکے لیکن خود سوچ لیا تھا۔۔ عیسٰی کی بیوی ان کی بھابھی تھی۔۔ اگر اس کے لیے ضروری تھی تو ان کے لیے بھی اسے تلاشنا ضروری ترین تھا۔۔ دوست جو ٹھہرے۔۔
عیسٰی اداس سا وہیں اکیلا بیٹھا تھا، کارڈ اٹھا کر ایک سرسری نظر اس پر ڈالنے لگا۔۔
"آئرہ زمان شاہ ویڈز عدم شاہ۔۔" عیسٰی نے سر جھٹک کر کارڈ واپس رکھ دیا۔ اب اس کے پاس کسی دوسرے کی فکر پالنے کا وقت نہیں تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ کمرے میں داخل ہوا تو پریہان بیڈ پر ساکت سی لیٹی ہوئی تھی، خانی بیگم نے ملتے ہی بتا دیا تھا کہ پریہان میں عقل آ گئی ہے، اچھا کھاتی پیتی ہے، بات ماننے لگی ہے۔۔ اس کی ڈانٹ کا اتنا اثر تھا کہ ایک بار میں ہی سدھر گئی تھی۔۔ خانی بیگم خوش تھیں کہ خانزادہ کا رعب بیوی پر اتنا تو تھا ہی۔۔
وہ دروازہ بند کر کے آگے بڑھا تو پریہان نے آواز پر آنکھ کھول کر اسے دیکھا اور جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
"حدیر میں۔۔" السلام علیکم۔۔" وہ اسے دیکھتے ہی شروع ہو رہی تھی، اس کے پاس بیٹھتے خانزادہ نے نرمی سے مسکرا کر سلام کیا تو وہ خفت سے سر ہلا گئی۔ چہرے پر بےچینی تھی اور وجہ وہ جانتا تھا۔۔
"حدیر۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔ پُروا سے کانٹیکٹ نہیں ہو رہا، آپ شہر میں اسی کے پاس تھے ناں؟ وہ ٹھیک ہے کیا۔۔ نا کال اٹھا رہی ہے نا میسجز دیکھ رہی ہے۔۔ پریسہ آپی بھی پوچھ رہی تھیں۔۔
کہیں ثنا چچی نے کچھ کہا تو نہیں اسے۔۔؟"
وہ گھبرائی ہوئی تیزی سے بول رہی تھی جیسے منتظر تھی اس کے آنے کی۔۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے، اب کیا بتائے۔۔؟
"ریلیکس پریہان۔۔ ہاں میں وہیں تھا، سب ٹھیک ہے۔۔"
اسے سینے سے لگا کر نرمی سے تھپکتے ہوئے اس نے دھیمے الفاظ میں تسلی دی۔ دل رک رہا تھا۔۔ وہ جھوٹ بول گیا، آج تو بول دیا پھر کل۔۔؟
"میں اب اپنا خیال رکھتی ہوں۔۔ قسم کھا رہی ہوں وقت پر کھاتی ہوں، فروٹس بھی کھا رہی ہوں۔۔ دودھ بھی پیتی ہوں۔۔ غصہ مت ہونا اب مجھ پر۔۔"
اس کے گرد بازو پھیلا کر وہ رونی صورت بنا کر بولی۔
خانزادہ نے جھک کر اس کی پیشانی پر لب رکھ کر اسے خود میں سمیٹ لیا۔ وہ ہر بات مان رہی تھی مگر پُروا کا سوال کرے گی تو کیا جواب دے گا۔۔
اُس کے سر پر گال ٹکا کر وہ پریشان سا بیٹھا تھا۔
"حدیر۔۔۔ پُروا کیوں بات نہیں کر رہی، ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔۔ عیسٰی بھائی سے کہیں میری بات کروا دیں۔۔ پریسہ آپی تو اب مجھے ڈانٹنے لگی ہیں۔۔"
اس نے منہ بسور کر اسے دیکھتے ہوئے اپنی لاچاری ظاہر کی۔۔ وہ بےچارگی سے اس کا گال سہلانے لگا۔
"کروا دوں گا۔۔ ابھی مجھے وقت دو۔۔ اتنے دن بعد آیا ہوں۔۔ بہت یاد کیا ہے تمہیں۔۔" وہ بات بدل کر ناراض ہوتا اسے خود میں بھینچتا اس کے بالوں میں منہ چھپا گیا۔۔ پریہان کو اپنے کندھے پر نمی سی محسوس ہوئی تھی، وہ چپ سی ہو گئی۔۔
اب اسکے غصہ ہونے سے ڈر لگتا تھا، پُروا کا یوں بات نا کرنا اس کے دماغ میں کھٹک رہا تھا مگر مزید سوال صبح کرنے کا سوچتی اس کے پرحدت حصار میں مقید ہوتی سکون سے آنکھیں موند گئیں۔۔
اس کے نازک وجود کو خود میں بھینچے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔۔ دماغ سوچوں میں الجھا ہوا تھا، ابھی تو اسے چپ کروا دیا تھا مگر صبح۔۔ اس سے گلے روز۔۔ کب تک آخر۔۔
اس کے سونے پر وہ نم آنکھیں لیے اس کا چہرہ چھونے لگا، اس سے اس کی بہن کی حفاظت کا وعدہ لیا تھا جو وفا نہیں کر پایا۔۔ پُروا کس حال میں اور کیسی ہو گی۔۔؟ پریہان یہ سن کر کیسے سہے گی۔۔؟
سوچ کر ہی وہ بری طرح ڈسٹرب ہو رہا تھا۔۔
اگلے دن وہ اس کے سوالات سے بچنے کے لیے صبح صبح اٹھ کر چلا گیا، پریہان ناشتے کے بعد گل جان کے ساتھ بیٹھی پُروا کے لیے فکرمند ہو رہی تھی۔۔
"بیٹا دماغ پر زور مت ڈالو۔۔ جاؤ صندل سے چائے بنوا کر لے جاؤ اور تھوڑی دیر خانی بیگم کے ساتھ بیٹھو۔۔
آج سارا دن نہیں بیٹھیں ان کے ساتھ۔۔ خفا ہوں گی۔۔"
گل جان نے کسی ماں کی طرح مسکرا کر اسے سمجھایا اور بھیجا تاکہ اس کا دماغ کہیں اور لگے۔۔ وہ منہ بسورتی اٹھ کر کچن سے چائے اور کباب بنواتی خانی بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
دروازہ نیم وا تھا، اس نے ہاتھ بڑھا کر کھولنا چاہا جب ثنا بیگم کی مدھم آواز کانوں سے ٹکرائی۔۔
"ہاں جی اپنی پریہان کی چھوٹی بہن پُروا۔۔ اسی کی بات کر رہی ہوں۔۔" ثنا بیگم کی رازدارانہ آواز پر وہ بےساختہ رک سی گئی۔۔
"اوہو۔۔ اللّٰہ رحم کرے تو کیا ابھی تک کچھ خبر نہیں ملی۔۔؟ جوان لڑکی ہے۔۔" خانی بیگم کی متاسف آواز پر پریہان کا دل رکنے لگا۔ پہلے ہی پُروا سے بات نا ہونے پر دل ڈوب رہا تھا اوپر سے ان کی باتیں۔۔
"کہاں خبر ملی۔۔ ہفتے سے بھی اوپر وقت ہو گیا ہے۔۔ جس دن میں گئی تھی اسی دن غائب ہوئی۔۔ گارڈز کا کہنا ہے خود گئی ہے نمبر تک بند کر دیا ہے۔۔ کچھ خبر نہیں کہاں اور کس کے ساتھ گئی۔۔ میرا عیسٰی تو پاگلوں جیسا ہو گیا ہے، مجھے اس کی فکر ستا رہی ہے۔۔ جانے لڑکی زندہ بھی ہے یا نہیں اور کیا پتا وہ۔۔۔"
ثنا بیگم کی باقی بات چھناکے کی زوردار آواز پر درمیان میں رہ گئی تھی۔۔ خانی بیگم اور ثنا بیگم تیزی سے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھیں۔۔
سامنے پریہان دیوار کا سہارا لیے زمین پر بیٹھی تھی، ٹرے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر چکا تھا۔۔
چہرہ لٹھے کی مانند سفید تھا، دماغ بند ہونے لگا۔۔
"کچھ خبر نہیں۔۔۔۔ جانے لڑکی زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔"
آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس کے دماغ میں یہی تکلیف دہ جملہ ابھرا تھا۔۔
"پریہان۔۔ پریہان۔۔" خانی بیگم حواس باختہ سی اسے پکارنے لگیں۔۔ ثنا بیگم کا سانس اکھڑنے لگا، خانزادہ کے سختی سے منع کر ے کے باوجود وہ خانی بیگم سے حالِ دل کہہ بیٹھی تھیں، اب یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ پریہان عین وقت پر وہاں آ گئی۔۔
کچھ ہی دیر میں حویلی کے ملازمین تک جمع ہو گئے تھے۔۔ خان یوسف نے ڈرائیور اور گارڈز کو بلوایا۔
خانی بیگم اسے سنبھال کر گاڑی میں بیٹھیں، ساتھ خان یوسف اور خان آزر تھے۔۔ اسے فوری ہاسپٹل لے جایا گیا۔۔
"خانزادہ ہاسپٹل پہنچو۔۔ پریہان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے بہت زیادہ۔۔" ڈیرے پر بھائیوں کے ساتھ بیٹھے خانزادہ کو خان یوسف نے کال کر کے اطلاع دی تو گھبراہٹ واضح تھی۔۔ اس کا دل تھم گیا۔۔
______________
"مبارک ہو بیٹا ہوا ہے خانی صاحبہ۔۔ بس اَرلی بورن(وقت سے پہلے پیدا ہونے والا بچہ) ہے اس لیے کنڈیشن کچھ سٹیبل نہیں بیبی کی۔۔" جب وہ بھاگا بھاگا ہاسپٹل پہنچا تو ڈاکٹر خانی بیگم کو بتا رہی تھی۔ خانی بیگم متفکر تھیں، اس نے آنکھیں میچ لیں۔
"بچ تو جائے گا ناں۔۔ مسئلہ تو نہیں ناں ڈاکٹر۔۔؟" خان آزر نے گھبرا کر پوچھا۔۔ خان یوسف بےچینی سے ٹہل رہے تھے، شاید انہیں اپنے وارث کی فکر ستا رہی تھی۔۔
"جی انشاءاللّٰہ بچ جائے گا۔۔ بس کمزور بہت ہے وجہ آپ جانتے ہیں، مدر کی ہیلتھ بھی اچھی نہیں تھی اور بیبی سیونتھ منتھ میں ہے ابھی۔۔ اسے انڈر آبزرویشن رکھا جائے گا۔۔ جب وہ سٹیبل ہو گا تو آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔۔ ابھی چاہیں تو جا کر دیکھ لیں۔۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں تفصیل سے آگاہ کیا۔۔ خان آزر سر ہلا گئے جبکہ خان یوسف کی نظر اسی وقت خانزادہ پر پڑی تھی۔۔ اس کا کندھا تھپتھپا کر وہ لوگ بچہ دیکھنے چلے گئے مگر وہ رکا رہا۔۔
"پریہان کیسی ہے۔۔؟ میری وائف۔۔" وہ ہمت کر کے آگے بڑھتا ڈاکٹر سے پوچھنے لگا، ڈاکٹر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔۔
"سردار صاحب وہ کافی کمزور ہیں تو۔۔" ڈاکٹر ہکلائی۔ اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے بری خبر پر ڈاکٹر کا ہی قتل کر ڈالے گا۔۔
"وہ بھی سٹیبل نہیں۔۔ اندر ڈاکٹرز کوشش کر رہے ہیں ان کی سانسیں بحال کر سکیں۔۔ دعا کریں۔۔" ڈاکٹر نے بہت ہمت سے جملہ پورا کیا تھا جبکہ اس کے لیے تو کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ بچے کی گارنٹی دی گئی تھی تو اس کی کیوں نہیں۔۔ وہ بھی ضروری تھی۔۔
"میں دعا کروں گا ڈاکٹر۔۔ لیکن اگر میرے بچے یا بیوی میں سے کسی ایک کی بھی حالت بہتر نا ہوئی ناں تو تم سب اپنی نوکری سے فارغ ہو جاؤ گے۔۔ سمجھ لو۔۔"
یہ بالکل پہلی بار تھی وہ ایسے سخت لہجے میں بول رہا تھا۔ نا لہجہ دھیما تھا نا الفاظ۔۔ ڈاکٹر کا رنگ اڑا۔۔
"سردار صاحب ہم۔۔ ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔۔ بیبی سنبھل جائے گا کیونکہ یہ نارمل بات ہے، اکثر ایسی صورتحال سے سامنا ہو جاتا ہے ہمارا مگر آپ کی وائف۔۔۔ ان کی زہنی حالت اس وقت بہت خراب ہے۔۔"
ڈاکٹر گڑبڑا کر وضاحت دے رہی تھی، وہ بنا اثر لیے خونخوار نظروں سے اسے گھورتا رہا، اس سردار صاحب کو کون نہیں جانتا تھا وہ مشہور ہی اسی بات کے لیے تھا جو کہتا ہے، جو ٹھان لیتا ہے، وہ کر گزرتا ہے۔۔
ڈاکٹر کا ڈیوٹی ٹائم ختم تھا پھر بھی اندر بھاگی۔۔
عجیب بھاگ دوڑ سی مچا دی تھی خانزادہ نے۔۔ ڈاکٹرز کے ہاتھ پیر پھُول گئے، سر پر موت کی تلوار لٹکی تھی۔
وہ دیوار سے ٹیک لگائے وہیں کھڑا رہ گیا، پریہان سے سوال وہ بعد میں کر لے گا مگر ابھی اسے اس کی زندگی چاہئیے تھی۔۔ اور پر حال میں چاہئیے تھی۔۔
وہ وہیں کاریڈور میں ٹہلتا، بیٹھتا اچھی خبر کا منتظر تھا۔ اس کی حالت پر سب نے زیادہ شدت سے پریہان کی زندگی کی دعا کی تھی، لگتا تھا جیسے وہ مری تو سانس خانزادہ حدیر کی بند ہو جائے گی۔۔
کچھ ایسا ہی بکھری حالت میں تھا، ڈاکٹرز کے اڑے رنگ اور حواس باختگی اس کے اعصاب چٹخا رہی تھی۔۔ اس کا وقت کس ازیت میں گزرا تھا، کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر ہر لمحہ سولی پر لٹکے گزار دیا تھا۔۔
وہ پرئیر روم میں جا کر سجدے میں گرتا رو پڑتا۔۔ اللّٰہ سے التجائیں کرتا پریہان کی زندگی مانگتا، ضد لگاتا۔۔ جانتا تھا کبھی اللّٰہ ہمارا شکر آزمانے کے لیے نواز دیتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے لے کر کتنا شکر ادا کرتا ہے۔۔ کبھی وہ اللّٰہ لے کر آزماتا ہے کہ میرا بندہ مجھے دے کر کتنا صبر کر سکتا ہے۔۔
"اے اللّٰہ دے کر آزما لے شکر کروں گا مگر لے کر نا آزمانا، کمزور ہوں، صبر نہیں کر پاؤں گا۔۔" وہ فریاد کرتا رہا اور ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والے نے اس کی فریاد سن لی اور عطا کر دیا۔۔
تین دن کے جان لیوا انتظار کے بعد ڈاکٹرز نے پریہان کے خطرے سے باہر آنے کی اطلاع دے دی تھی۔۔
"ابھی وہ بہتر نہیں ہوئیں مگر اب خطرے سے باہر ہیں،
کوشش کریں کوئی ٹینشن کی بات نا ہو۔۔"
ڈاکٹر نے سکھ کا سانس بھرتے ہوئے اسے بتایا کہ بچ تو دراصل وہ گئے تھے۔۔ وہ سجدہ شکر بجا لایا تھا۔۔ اللّٰہ نے ایک بار پھر اسے آزمائش سے نکالا تھا۔۔ ایک بار پھر احسان کیا تھا۔۔ نوازا تھا کیونکہ اللّٰہ کے ظرف کی، اس کی رحمت کی۔۔ نا کوئی حد تھی نا پیمانہ۔۔
کمرے میں بستر پر پڑی پریہان کو دیکھ کر اس کا دل مٹھی میں آ گیا تھا۔
رنگت ایسی زرد جیسے سارا خون نچڑ گیا ہو، بالکل سفید خشک ہونٹ اور کمزور وجود۔۔ دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ اسے موت کے در سے واپس لایا گیا ہے۔
دواؤں کے زیر اثر آنکھیں بند تھیں۔۔ وہ بےساختہ آگے بڑھ کر اس پر جھکتا بےتابانہ اسے چومنے لگا۔ زرد کمزور ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے تو آنکھیں بھر آئیں۔۔ اس کمزور وجود میں زندگی بستی تھی اس کی۔۔ اس نرم لمس میں راحت تھی۔۔
آج زندگی کی نوید ملی تھی تو ہوش آیا تھا ورنہ ان تین دنوں میں اس نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں دیکھا تھا، خبر تک نا لی۔۔ جانے کیسا تھا، کہاں تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
دو ماہ بعد :-
وہ آفس سے گھر آتے ہی معمول کے عین مطابق اپنے کمرے میں بند ہو چکا تھا۔۔ ایک ماہ پہلے وہ یونی سے فائنل دے کر فری ہوا تھا اور فری ہوتے ہی اس نے آفس جوائن کر کے حویلی جانے کی مشکل سے نجات حاصل کر لی تھی۔۔
کام ، کام اور بس کام۔۔ اب وہ پرانا عیسٰی نہیں رہا تھا، خانزادہ کی ریکوئسٹ پر اس کے گھر سے نہیں گیا تھا۔۔ ملازمین خانزادہ کے سمجھائے ہوئے تھے، گھر کے باہر سیکیورٹی تھی، گھر میں اس کے آتے ہی چائے، پانی اور کھانا اس کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔
جوتے کپڑے سب تیار ملتا تھا، وہ زندگی جی نہیں رہا تھا بس گزار رہا تھا اور یہ سب کیا کرایا نا ملے تو شاید وہ یہ کرنے کی تکلیف کبھی نا اٹھاتا۔۔
حسن احمر اکثر اس کے پاس آ جاتے تھے۔۔ وقت دیتے، باتیں کرتے مگر وہ اب بات کم کرتا تھا، سوچوں میں گم رہنا اور ہر چیز میں، ہر جگہ پُروا کا عکس ڈھونڈنا اس کی عادت بن گئی تھی۔۔
تلاش جاری تھی، امید باقی تھی مگر اب وہ ہر دن پہلے سے زیادہ مایوس ہوتے جا رہے تھے۔۔
سرد فروری کا اختتام چل رہا تھا، وہ نیچے فرش پر گھٹنوں پر بازو ٹکائے غیر مرئی نقطے پر نظر جما کر بیٹھا تھا۔۔ کوٹ بیڈ پر پڑا تھا، ٹائی کھینچ کر گلے سے اتار کر بیڈ پر پھینک دی تھی، شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھلے تھے۔۔ بال بری طرح الجھائے سرخ ڈوروں والی آنکھوں میں نمی لیے بہت بکھرتا جا رہا تھا۔۔
کبھی کبھی بےبسی ایسے حملہ آور ہوتی تھی کہ جی چاہتا زور زور سے چیخے، اسے پکارے اور جب وہ سامنے آئے تو خود میں ہمیشہ کے لیے سمیٹ لے پھر کبھی دور نا کرے۔۔ وجود میں خالی پن اتر آیا تھا۔۔
اب تو گلے شکوے بھی بڑھ گئے تھے پُروا سے۔۔ اب لگنے لگا تھا وہ خود کہیں گئی ہے مگر کیوں۔۔؟ اتنا برا لگتا تھا وہ اسے؟ یا اس کے رویہ پر اتنی ناراض تھی کہ بنا بتائے چپ چاپ چلی گئی۔۔ اور اگر نا ملی۔۔؟
کالنگ ٹیون پر وہ خیال سے جاگا۔۔
ہمیشہ کی طرح حدیر کی کال تھی، باقی سب سے لڑ لیتا تھاکہ پر وقت کال نا کیا کریں مگر اس سے لڑنے کی ہمت نہیں تھی وہ روزانہ بلاناغہ کال کرتا تھا۔۔
"عیسٰی ٹھیک ہو۔۔؟" سلام دعا کے بعد اس کا وہی پہلا نرمی سے کہا جملہ۔۔ عیسٰی کو یہ سننے کی عادت ہو چکی تھی اب تو۔۔ سہارا سا مل جاتا تھا۔۔ بالوں میں انگلیاں الجھا کر سمیٹتے ہوئے پیشانی سے پیچھے کیے اور آہ بھری۔۔
"میں ٹھیک ہو سکتا ہوں۔۔؟ اس کی یاد آتی ہے بہت۔۔"
عیسٰی کا خالی لہجہ خانزادہ کو چپ کروا گیا۔
"رباض ٹھیک ہے؟" کچھ توقف کے بعد عیسٰی نے اس کے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔
"ٹھیک ہے بالکل۔۔ سارا دن پڑے پڑے ہی ٹانگیں اور منہ چلاتا رہتا ہے۔۔ نا زبان کو چپ آتی ہے نا ٹانگوں کو آرام۔۔ پوری حویلی کو مصروف کر رکھا ہے اس نے، چاہتا ہے بس اسے اٹھا کر چلا جائے، کوئی بیٹھے نہیں۔۔ آغا جان کو اس عمر میں بھی چلواتا ہے۔۔"
وہ مسکرا کر بتا رہا تھا، اس ننھے جن کے زکر پر بےساختہ سی مسکراہٹ عیسٰی کے لبوں پر آئی۔۔
"میں چکر لگاؤں گا، کافی دن ہو گئے ہیں اسے دیکھے ہوئے۔۔" عیسٰی کا دل مچل اٹھا تھا اس ننھے وجود کو چھونے کے لیے۔۔ شہد رنگ شفاف آنکھوں والا وہ سرخ سفید سا گڈا۔۔ قدرے سنبھلتے ہی اس کے کمزور وجود کو جب اچھی خوراک اور احتیاط ملی تو گل گوتھنا سا ہو گیا تھا۔۔
"ضرور آنا میں ویٹ کروں گا۔۔ ابھی حویلی پہنچا ہوں، پھر بات کرتے ہیں۔۔" خانزادہ نے محبت بھرے لہجے میں کہہ کر کال کاٹ دی۔ عیسٰی کے گرد جیسے پھر سے تنہائی کا گھیرا تنگ ہونے لگا۔۔ پھر سے سر جھکا کر بیٹھ گیا مگر اب آنکھوں میں رباض کا چہرہ گھوم رہا تھا جو بالکل پُروا کی طرح چیختا رہتا تھا۔۔
______________
وہ حویلی میں داخل ہوا تو سامنے ہی لاؤنج میں رباض کی چیخیں گونج رہی تھیں، ہر وقت وہ شور مچائے رکھتا تھا، مٹھیاں بھینچ کر ایسے باریک چیخ مارتا کہ کانوں کے پردے پھٹنے والے ہو جاتے تھے۔
وہ مسکرا کر اس کی طرف بڑھا تو وہ خانی بیگم کی گود میں پڑا ٹانگیں چلا رہا تھا، باپ کو دیکھ کر تیزی سے مٹھیاں کھولتا بند کرتا جوش کا اظہار کرنے لگا۔
"میرا پیارا بیٹا۔۔" اس نے مسکرا کر اسے اٹھایا اور اپنے بازوؤں میں سنبھال کر خود سے لگا لیا۔۔ رباض کی ٹانگیں پھر سے چلنے لگی تھیں۔۔ اسے لے کر کمرے میں پہنچا تو حسب معمول پریہان خاموش سی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔ خانزادہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
زرا سنبھل کر حویلی واپس آنے کے بعد سے وہ اب تک بیٹے کی طرف سے تو بالکل ہی غافل تھی۔۔ وہ جان چکا تھا اس کی یوں اچانک طبیعت بگڑنے کی وجہ وہ بات تھی جو اس سے چھپا رہا تھا اور اچانک بہت برے طریقے سے سن چکی تھی، وہ اس سے کیا لڑتا، الٹا خود ہی شرمندہ ہو گیا تھا۔۔
آخری بار وہ شاید ڈیڑھ ماہ پہلے چیخ چیخ کر بولی تھی۔۔ ایسے کہ سب کے رونگٹے کھڑے کر دئیے تھے۔
"آپ گئی تھیں شہر۔۔ آپ نے ہی کچھ کہا ہو گا اسے۔۔ بتائیں کیا کہا تھا میری بہن کو کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔۔ آپ نہایت بےرحم عورت ہیں۔۔" ثنا بیگم کے سامنے کھڑی وہ جواب طلب کر رہی تھی، چیختا گستاخ سا لہجہ اور سخت الفاظ۔۔ ثنا بیگم کچھ نہیں بول پائی تھیں، اس کا سوال سچا تھا، اس کی بات بھی سچ تھی۔۔ وہ خفت زدہ ہو گئیں۔۔
"پاگل ہو چکی ہے یہ لڑکی۔۔ حواس کھو رہی ہے۔۔" خان یوسف اس کے شور اور باتوں پر مردان خانے سے بھاگ کر پہنچے اور بےزار لہجے میں کہا تو وہ ان کی طرف پلٹی۔ آنکھوں میں شرارے پھوٹ رہے تھے۔۔
"ہاں پاگل ہو چکی ہوں۔۔ منحوس ہے یہ حویلی۔۔ جب سے یہاں آئی ہوں میرے گھر کی خوشیاں جل کر راکھ ہو گئی ہیں۔۔ وارث مل چکا ہے ناں آپ لوگوں کو اب جان چھوڑ دیں میری۔۔" وہ واقعی حواس کھو چکی تھی۔۔ پریسہ اس سے لڑتی تھی، پروا بالکل غائب تھی تو پریہان ان حالات میں ہوش کہاں سے لاتی۔۔
"پریہان۔۔" وہ تب کسی جرگہ سے واپس آیا تھا، اس کا لب و لہجہ اور الفاظ سن کر غصے سے ٹوکا تھا۔
"تم مجھے چپ نہیں کروا سکتے۔۔ میں جانتی ہوں پُروا کو انہوں نے ہی کچھ کہا ہو گا۔۔ جواب طلب کر رہی ہوں ناں۔۔ پاگل تو لگوں گی۔۔" وہ جواباً اس پر بھی چیخ اٹھی تھی۔ رباض نیند سے جاگ کر رونے لگا تھا، اسے چپ کرواتی خانی بیگم نے ایک بےزار نظر پریہان پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئیں۔۔ خان یوسف بھی جتاتی ناراض نظر خانزادہ پر ڈال کر مردان خانے میں جا چکے تھے۔۔ اس نے آگے بڑھ کر پریہان کا بازو پکڑا اور کھینچ کر کمرے میں لے گیا۔ غصے اور بےبسی نے اسے بری طرح تپا دیا۔
"آج کے بعد تم اس کمرے سے باہر نہیں نکلو گی۔۔ اور خبردار کسی سے دوبارہ بدتمیزی کی تو۔۔ پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔ پروا کو ان لوگوں نے نہیں غائب کیا۔۔ تمہارے چیخنے چلانے سے کیا وہ واپس آجائے گی۔۔"
وہ قدرے سختی سے بولتا اسے بیڈ پر بیٹھا چکا تھا۔ وہ اس کا خیال رکھ رکھ کر تھک رہا تھا اور وہ ہر دن نیا شور ڈال کر بیٹھ جاتی تھی۔
"مجھے یہاں قید کر لینے سے اگر تسکین ملتی ہے تو ایسا سہی۔۔ اگر مجھے پُروا نا ملی تو میں یہاں کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گی۔۔" وہ بنا ڈرے چیخ رہی تھی۔ خانزادہ افسوس سے اسے دیکھنے لگا تھا.
"وہ مل جائے گی پریہان۔۔ کچھ صبر تو کرو۔۔ سب کا سکون کیوں برباد کر رہی ہو۔۔" لہجہ نرم کر کے بےچارگی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"صبر مر جانے والوں پر کیا جاتا ہے اور میری پُروا زندہ ہے۔۔ مجھے یہ خالی خولی دلاسے نہیں چاہئیں۔۔ سب کو سکون چاہئیے اور میں گئی بھاڑ میں۔۔" وہ سرد لہجے میں بولتی اسے دکھی کر رہی تھی، وہ ضبط کرتا
چینج کرنے چلا گیا اور جب چینج کر کے لوٹا تو بی۔پی ہائی کیے وہ ناک سے خون بہا رہی تھی۔۔ خانزادہ کی جیسے جان نکل گئی تھی۔۔
ہاسپٹل لے جا کر اس کو فوری ٹریٹمنٹ دلوائی، چپ رہتا تھا تب بھی وہ بگڑ جاتی، گر چپ کرواتا تھا تو تب بھی یہ حالت۔۔ وہ آگ میں جھلس رہا تھا، اسے آخر کیسے سنبھالے۔۔ پریہان کی حالت پر حویلی والوں نے اسے ڈانٹنا یا تلخ کہنا چھوڑ دیا۔۔
مگر وہ ہاسپٹل سے گھر آئی تو اس کے منانے، پیار جتانے پر مزید بھڑک اٹھی تھی۔۔
"میں سکون برباد کرتی ہوں ناں سب کا۔۔ میں تو پاگل ہوں۔۔ مجھے اس کمرے میں ہی قید رہنا ہے۔۔ جائیں اور سب کے ساتھ خوش رہیں۔۔" اس کے الفاظ میں ازیت تھی، وہ بےساختہ اسے خود میں سمیٹ گیا مگر اس کے بعد آج تک اس نے نا چپ توڑی نا باہر نکلی۔
خودساختہ سزا جھیل رہی تھی، جیسے قسم کھا بیٹھی تھی پُروا کے مل جانے تک ایسے ہی رہے گی۔۔
پریسہ اس پر غصہ تھی کہ جب پروا کو بلوا رہی تھی اس نے روکا ہی کیوں، اب تو پریسہ نے اس سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ اکیلی تھی، ڈری ہوئی تھی پروا اگر نا ملی۔۔؟ وہ جانتا تھا اس کا خوف اس لیے خاموشی سے اس کا خیال رکھتا، پیار سے بات کرتا، رباض کو لیے کتنی دیر اس کے پاس بیٹھا رہتا۔۔ خانی بیگم کے سمجھانے کے باوجود رات کو جب پریہان سو جاتی تو رباض کو اس کے پہلو میں سلا دیتا۔۔
جس کی وجہ سے رباض ماں کا عادی تھا، اس سے دور نہیں ہوتا تھا، اس کے پاس ہوتا تو خوش رہتا تھا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا جب وہ سنبھلے تو بیٹا دور ہو چکا ہو۔۔
خانزادہ نے گہری سانس بھر کر یادوں کر پرے دھکیلا، رباض کو خیالوں میں گم پریہان کے پاس لیٹا دیا۔۔
خود ڈریس اٹھا کر چینج کرنے چلا گیا۔۔
واپس آیا تو رباض زور زور سے ٹانگیں چلاتا غوں غاں کر رہا تھا، بازو بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے، پریہان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اور اس کا یہی دیکھنا اس کے لیے کافی تھا۔ وہ بیڈ پر دوسری جانب آ کر بیٹھتا پریہان کو توجہ سے دیکھنے لگا۔
"پریہان۔۔ کیا تم نے دیکھا اسے تمہاری توجہ چاہئیے۔۔ اسے کیوں اگنور کرتی ہو۔۔ اس نے کب کھایا، کب بھوکا ہے، کب سویا، کب جاگا۔۔ کچھ خبر نہیں ہوتی تمہیں۔۔"
وہ متاسف لہجے میں بولتا اسے احساس دلانا چاہ رہا تھا، پریہان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"اور پُروا کی فکر کون کرے گا۔۔؟ اس کے پاس تو ماں باپ نہیں۔۔ اس نے پتا نہیں کھایا ہو گا یا نہیں۔۔ وہ کس حال میں ہے، کس کے پاس ہے۔۔ آپ کے اس بیٹے کے پاس تو سنبھالنے والے بہت ہیں۔۔ ویسے بھی اسے پاگل ماں کی کیا ضرورت۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولتی رخ پھیر گئی۔ خانزادہ چپ سا ہو گیا۔ اس کے دل میں آج تک وہ باتیں گڑھی تھیں، اسے سب نے پاگل کہا تھا، وہ بھی کہہ چکا تھا۔ وہ نا تنہائی سے اکتا رہی تھی نا چپ رہنے سے۔۔ لیکن وہ بےبس ہو رہا تھا۔
رباض ماں باپ کی باتوں کے مطلب سے انجان ان کے پاس ہونے پر جوش سے قہقہے لگاتا ٹانگیں چلا رہا تھا، کبھی ماں کو اور کبھی باپ کو تکتے وہ پڑے پڑے ہی سو گیا تھا۔ خانزادہ نے اسے بیبی کاٹ میں سلا کر اس پر نرم گرے کلر کا بلینکٹ پھیلا دیا۔۔
پلٹ کر پریہان کے پاس بیڈ پر جا بیٹھا، وہ رخ پھیرے آنسو بہا رہی تھی۔ پشت کو بالوں نے ڈھک رکھا تھا۔
"تم پاگل نہیں ہو۔۔ پاگل تو ہم ہیں جو تمہارا دکھ نہیں سمجھ پا رہے۔۔ پُروا کو اب بھی تلاش کر رہا ہوں۔۔ تمہارے کہنے پر اس کی فرینڈ ہنیا کے گھر بھی دو تین بار جا چکا ہوں۔۔ وہ لوگ بھی نہیں جانتے۔۔"
نرمی سے اسے گرد بازو پھیلا کر اس کی پشت اپنے سینے سے لگاتا اس کے بالوں پر لب رکھ گیا۔۔ وہ اب بھی انجان بنی بیٹھی رہی ہاں مگر اس بار اسے دور نہیں کیا تھا۔ اس کے پتھر وجود کے گرد برف کی موٹی دیوار سی بن گئی تھی جیسے۔۔ نا وہ جذبے سمجھ رہی تھی، نا نرمی اور نا محبت۔۔ وہ جانتا تھا اپنی محبت کی گرمی سے کبھی وہ دیوار پگھلا ہی دے گا۔۔
اس کے بکھرے بال سمیٹ کر ایک طرف کر دئیے۔ اس کے کندھوں پر شال درست کی اور اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکا دیا۔ اس کی طرف پشت کر کے بیٹھی پریہان کی آنکھیں اس نرم محبت بھرے حصار پر بھر آئی تھیں۔ تھکن زدہ جھلستے وجود کو جیسے کسی نے نرم ٹھنڈی آغوش میں بھر لیا تھا۔ وہ بولی کچھ نہیں، نا رخ پھیرا مگر سکون سے آنکھیں موند گئی۔ اس سے ناراض تھی، بہت زیادہ ناراض۔۔ لیکن یہ حصار اور یہ لمس۔۔ وہ حق سمجھ کر وصولتی تھی۔۔ وہ بھی تو یہی چاہتا تھا۔۔
اس کی بھاری ہوتی سانسوں پر نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے خانزادہ نے گہری سانس بھری۔
ماں بیٹا دونوں ہی عجیب تھے، توجہ ملتے ہی نیند پڑ جاتے تھے، سارا سکون انہیں نیند کی صورت ہی ملتا تھا جیسے۔۔ اس کا سر تکیہ پر رکھ کر پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑا اور ہمیشہ کی طرح رباض کو اٹھا کر اس کے پہلو میں سلا دیا۔۔ وہ صرف نیند میں ہی تو اسے خود سے لپٹا لیتی تھی۔۔۔
مسکرا کر دونوں عزیز ترین ہستیوں کو دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
گل جان اس کے لیے چائے بنوا چکی تھیں، تشکر سے انہیں دیکھ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"پریہان ٹھیک ہے؟ نا وہ کمرے سے نکلتی ہے نا کسی سے ملتی۔۔ کیسی خودساختہ قید ہے اور ایسا کب تک چلے گا خان۔۔ یہ تنہائی تو اس کے اندر زندگی ختم کر رہی ہے۔۔" وہ پریشان تھیں پریہان کے لیے جس نے ان سے بھی بات کرنا چھوڑ دیا تھا۔
"پُروا کی سوچ اسے زندہ ہونے بھی نہیں دیتی مورے۔۔ وہ غائب بھی تو ایسی ہوئی ہے کہ کوئی سراغ تک نہیں مل رہا۔۔ پریہان اور عیسٰی دونوں ہی چپ چپ سے ہو گئے ہیں، وہ چھوٹی ہے جانے کہاں گئی، کیسے سروائیو کرے گی۔۔" وہ تفکر بھرے لہجے میں بول رہا تھا۔ گل جان بھی خاموش ہو گئیں۔ جانتی تھیں سب کو کیا خوف ستاتا ہے، وہ غلط ہاتھوں میں پہنچ گئی تو۔۔ اس کے تو زندہ ہونے کی بھی خبر نہیں تھی۔۔
"رباض کہاں ہے لالا۔۔" زرشے سب سے رباض کا پوچھتی اس تک پہنچی تھی۔
"سو رہا ہے اپنے روم میں۔۔ اٹھا لو جا کر۔۔ وہ تو نیند میں بھی اٹھائے جانے پر کبھی اعتراض نہیں کرتا۔۔"
وہ مسکرا کر بول رہا تھا، زرشے نے نفی میں سر ہلایا۔
"سونے دیں۔۔ پریہان بھابھی کے پاس ہی سونے دیں۔۔" وہ جانتی تھی ویسے تو پریہان تک پہنچتا ہی نہیں تھا۔ گھر کا پہلا اور فی الحال اکلوتا ہونے کی وجہ سے اسے سب نے اتنا گود میں اٹھایا تھا کہ اب وہ گود مانگتا تھا اور سارا دن یہاں سے وہاں۔۔ سب میں گھومتا رہتا تھا۔۔ خانزادہ آتا تھا تو وہ اٹھا لیتا تھا اور جب بھی سوتا تھا وہ پریہان کے پاس ہی سلاتا تھا۔
"تم ٹھیک ہو۔۔ یہ موسٰی سے کہو شہر کیوں نہیں شفٹ ہو جاتے تم لوگ۔۔ تمہیں بھی یونی جانا ہوتا ہے، وہ بھی آفس جاتا ہے۔۔ ہر وقت کے سفر سے تھکتے نہیں ہو۔۔" وہ ان کی کم عقلی پر حیران ہو رہا تھا۔
"وہ تو چاہتے ہیں مگر۔۔ میرا دل نہیں لگتا اب حویلی کے بغیر۔۔ اب تو رباض بھی آ گیا ہے کون جائے۔۔"
وہ منہ بسور کر بولی تو خانزادہ کو موسٰی کی بےچارگی سمجھ آئی۔ اس جب شہر جانے کا کہتا تھا وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتا تھا۔۔ یعنی زرشے نے باندھ رکھا تھا حویلی سے۔۔ وہ خاموشی سے مسکرا اور
گل جان، زرشے کو آپس میں باتیں کرتا چھوڑ کر وہ مردان خانے میں چلا گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
پروا یونی سے آئی تو اس کی روم میٹس پہلے سے موجود تھیں، کوئی بال سٹریٹ کر رہی تھی تو کوئی چہرے پر ماسک لگائے بیٹھی تھی۔۔ ان کی تیاریوں سے لگ رہا تھا آج پھر کہیں جانا ہے۔۔
ہر وقت تیار ہو کر جاتیں، پارٹیز اور ہلا گلا۔۔ کبھی رات گئے کمرے میں پاؤڈر(ڈرگز) لیتی سدھ بدھ کھوئے پڑی رہتی تھیں۔ پروا کو شروع میں اس سب سے پریشانی ہوئی تھی، روم چینج کرنے کا بھی سوچا مگر ایک رات ہاسٹل میں آنے والے دو لڑکوں کو پکڑا گیا۔ سیکیورٹی گارڈز نے پکڑا تھا، وارڈن نے پولیس بلوائی اور تفتیش کے بعد مطلوبہ روم میں موجود تینوں لڑکیوں کو ہی پولیس پکڑ کر لے گئی تھی ساتھ۔۔ پروا کا خوف کے مارے برا حال ہو گیا تھا۔
"جانے کن دو کے بوائے فرینڈ تھے وہ۔۔ اب تھرڈ پارٹی خوامخواہ پولیس والوں کے حوالے ہو گئی۔۔" لڑکیوں کی بات پر اس کا رنگ اڑا۔ جانے وہ تاسف سے کہہ رہی تھیں یا بےحسی کی حد کرتے ہوئے تمسخر اڑا رہی تھیں مگر پروا اسی روم میں دبک کر بیٹھ گئی۔
جو بھی تھا اس کے ساتھ والی لڑکیاں خود نکلتی تھیں کبھی کوئی ان کے روم میں نہیں آیا تھا۔۔
"سنو یار ویسے جتنی فریش اور پریٹی تم ہو ناں۔۔ ہمارے ساتھ پارٹی میں جاؤ گی تو چھا جاؤ گی۔۔"
ایک روم میٹ نے اسے حجاب اتار کر ڈوپٹہ پھیلاتے دیکھ کر شرارت سے کہا تو وہ چونکی۔ وہ تینوں ہی رشک بھری نظروں سے پُروا کا مومی کم سن چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ وہ بری طرح گھبرائی۔
"مجھے ایسے شوق نہیں ہیں۔۔" وہ مدھم لہجے میں بولتی ان کی نظروں سے خائف ہو رہی تھی۔
"پیسہ ملے گا یار۔۔ تم تو دنوں میں لاکھوں کما بیٹھو گی۔۔" ایک لڑکی نے آنکھ مار کر اس کے مومی وجود کو دیکھا تھا۔ وہ ان کا مطلب نہیں سمجھ پائی مگر ان کا یوں ٹٹولتی نظروں سے دیکھنا اسے جانے کیوں سہما گیا تھا۔ وہ رخ پھیرتی واش روم میں بند ہو گئی۔ باہر ان کے ہنسنے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
وہ اندر چہرے پر پانی ڈالتی روتی جا رہی تھی۔۔
جب کتنی دیر بعد خاموشی چھائی تو وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی، وہ جا چکی تھیں۔۔
پُروا کپکپاتا لرزتا وجود لیے جا کر اپنے بستر پر بیٹھی۔ سب یاد آ رہے تھے۔۔ بری طرح۔۔ ان کی توجہ اور کئیر۔۔
مگر ایک خوف روک دیتا تھا، اگر اسے نا اپنایا پھر۔۔؟
یہاں اکثر لڑکیاں یہی بات کر رہی ہوتی تھیں، گھر سے بھاگی لڑکیوں کو گھر والے مار ڈالتے ہیں، لوگ جینے نہیں دیتے، کردار کشی کی جاتی ہے۔۔
بھاگی تو وہ بھی تھی، کوئی لڑکا نہیں تھا ساتھ، اس بات کا ثبوت کیسے دے گی۔۔ معاشرے کی تلخ حقیقت اس کے سامنے کھلی تھی اور وہ اس پر یقین کرنے لگی تھی۔۔ وہ نہیں جانتی تھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔ کچھ باپ بھائی بیچارے تو بھاگ جانے والی بیٹیوں کو بھی تلاشتے رہ جاتے ہیں، لوگوں میں سر جھک جاتا ہے مگر دل میں محبت قائم ہوتی ہے۔۔
اس کے جو اپنے تھے انہیں اس نے سمجھا ہی نہیں تھا، وہ اب بھی منتظر تھے، اس سے محبت بڑھ گئی تھی، اس کے نا ملنے پر دو لوگ تو زندگی سے ہی دور ہو بیٹھے تھے۔۔ اس نے محبت پہچانی ہی نہیں ان کی۔۔
پہچان لیتی تو گھر سے باہر قدم نکالنے کی غلطی ہی نا کرتی۔۔ اس نے پہلی بار ملنے والی ثنا بیگم کے طعنوں پر گھر چھوڑ دیا، وہ سب چھوڑ دئیے جو کافی وقت سے اس کے ساتھ تھے کئیر کرتے تھے، محبت کرتے تھے۔۔ پریہان کو بھی چھوڑ دیا وہ تو بچپن سے ساتھ تھی۔۔ انہیں بھی بےچین کیا خود بھی بےسکون تھی۔۔ مگر اب دل میں گھر واپس لوٹنے کی خواہش شدت پکڑ رہی تھی۔۔ ہر دن پہلے سے زیادہ۔۔
اچھا ہی تھا کہ کسی نقصان سے پہلے وہ لوٹ جائے۔۔
موبائل میں نمبرز تو اب بھی موجود تھے اس نے موبائل اٹھایا اور خالی نظروں سے دیکھا۔ اس موبائل کا اسے کوئی فائدہ نہیں تھا، نا پیکج تھا نا بیلنس۔۔ واپس لوٹ جانے کو دل کر رہا تھا مگر کال کیسے کرے۔۔
ابھی دن کا آخری حصہ باقی تھا، وہ یکدم جیسے کچھ سوچ کر اٹھی اور اپنا حجاب پہن کر ہاسٹل سے نکلی۔ قریب مارکیٹ میں جا کر بیلنس کروانے کا سوچا، حدیر کا گھر یا عیسٰی کا اپارٹمنٹ دونوں جگہ وہ اتنے دن رہی تھی مگر ایڈریس معلوم نہیں تھا اور راستہ یاد نہیں تھا۔
مارکیٹ کے پاس کسی کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے شور اور رش ہو رہا تھا۔ خون سے لت پت کوئی لڑکی روڈ پر پڑی تھی۔۔ پُروا کا خوف سے دل بند ہونے لگا۔۔
الٹے قدموں سے واپس لوٹنے کی کوشش کی، قدم رکھتی کہیں تھی، جاتے کہیں تھے۔۔ سر چکرا رہا تھا۔۔ روڈ کے پاس دیوار کا سہارا لیے گہرے گہرے سانس بھرتی خود کو پرسکون کرنے لگی۔۔
شام ڈھلے واپس ہاسٹل میں لوٹی تو طبیعت مکدر ہو رہی تھی، بستر پر گر کر رونے لگی۔۔
ایسا لگا جیسے واپسی کا ہر راستہ بند ہو گیا یے، اب چاہے بھی لوٹ نہیں سکتی، نا بات کر سکتی ہے۔۔
حالانکہ راستے کھلے تھے بس اس کا دماغ بند ہو رہا تھا۔ وہ چاہتی تو وارڈن سے کہہ کر یا کسی بھی لڑکی سے موبائل لے کر کال کر سکتی تھی۔۔ حدیر کو۔۔ موسٰی کو یا عیسٰی کو۔۔ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گنوائے بستر پر پڑی روتی رہی تھی۔۔
صبح اٹھ کر اسے بیلنس کروا لینا تھا، پھر کال کر کے بات کر لے گی، ایڈریس پوچھ کر گھر چلی جائے گی۔۔
صبح سب کر لے گی، وہ سوچتے سوچتے سو گئی۔۔
اس رات اس کے سو جانے کے بعد جب وہ لڑکیاں لوٹیں تو ہاتھ میں ہمیشہ کی طرح پیسے نہیں تھے، چہرے پر گھبراہٹ تھی جیسے کسی بڑے نقصان سے بچی ہوں۔۔
اس رات وہ لڑکیاں اپنی قسمت کا ازیت ناک دروازہ کھٹکھٹا کر لوٹی تھیں، کیا خبر ان کے حصے کی مصیبت کمبل میں چھپ کر بچوں کی طرح سوئے اس نازک وجود کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔۔۔
دروازہ زور سے بجنے کی آواز پر پُروا گھبرا کر اٹھی، تو کمرے میں باقی تین لڑکیاں بھی بوکھلائی ہوئی اٹھی بیٹھی تھیں۔۔ ابھی وہ کچھ سمجھتی یا ان سے پوچھتی کہ دروازہ دھڑام سے توڑا گیا اور اندر داخل ہوتی دو لیڈی کانسٹیبل کو دیکھ کر چاروں کے رنگ فق ہوئے۔
"تلاشی لو ان کے سامان کی۔۔" دروازے پر کھڑے ایک پولیس والے نے سختی سے کہا۔ ان کے سامان کو بےدردی سے الٹتے پلٹتے الماریاں چھانی جا رہی تھیں۔
چیخوں اور رونے کی آوازیں بتا رہی تھیں، ہر کمرے کی ایسے ہی تلاشی لی جا رہی تھی۔
پُروا ساکت سی سب دیکھ رہی تھی جب اچانک ایک لیڈی کانسٹیبل نے الماری کے بالکل نیچے سے کپڑے ہٹائے تو سفید پاؤڈر برآمد ہوا۔
"سر سامان مل گیا۔۔ چار لڑکیاں ہیں اس کمرے میں۔۔" اس عورت نے اپنی سخت سنجیدہ آواز میں کہا۔
"لے چلو سامان بھی اور ان چاروں کو بھی۔۔ ان کے موبائلز ضبط کر لو۔۔" حکم ملتے ہی پروا سمیت باقی تینوں کو کھینچ کر باہر لے جایا گیا۔
باقی رومز سے لیڈی پولیس نکل کر واپس جا رہی تھیں یعنی ان کی تلاش مکمل ہو گئی تھی۔۔
پُروا کا دماغ بند ہوتا جا رہا تھا، اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔
انہیں وارڈن کے روم میں بیٹھے پولیس آفیسر تک لایا گیا، باقی تینوں نے مزاحمت کی تھی جبکہ پُروا بےجان پتھر کے مجسمہ کی طرح ساکن تھی۔
"ہم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ کیوں لائے ہو ہمیں.."
ایک لڑکی نے ہمت کر کے چیختے ہوئے پوچھا تھا۔
"سر کیا میں وجہ جان سکتی ہوں، مجھے ان کے گھروں میں جواب دہ ہونا ہوتا ہے آخر۔۔" وارڈن نے تحمل سے سوال کیا تو پولیس آفیسر طنزیہ مسکرایا۔
"ہم نے کچھ گھنٹے پہلے ایک کلب پر ریڈ کی تھی، وہاں لڑکیوں کو ڈرگز دی جاتی ہیں اور ان سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا ہے۔۔ کچھ لڑکیاں بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھیں جن میں سے تین بھاگ کر آپ کے ہاسٹل آئی تھیں، ہم نے ٹریس کر لیا تو پہنچ گئے اور ثبوت کے طور پر یہ رہی وہ ڈرگز جو یہ اس کلب سے لیتی رہتی ہیں۔۔" آفیسر کی بتائی تفصیل پر باقی تینوں کو سانپ سونگھ گیا جبکہ پُروا کو جھٹکا لگا تھا۔ وارڈن نے کراہت بھری نظروں سے انہیں گھورا۔۔
"م۔۔ میں کسی کلب نہیں گئی۔۔ میں ڈرگز نہیں۔۔" اس کا حلق خشک ہو رہا تھا، گھبرا کر مدھم آواز میں بولی تو پولیس آفیسر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
سفید کالج یونیفارم میں نازک سی کم سن لڑکی باقی تین کی نسبت واقعی معصوم لگ رہی تھی۔
"ابھی پوچھ لیتے ہیں کل تم باہر گئی تھیں یا نہیں۔۔ اگر تمہارے ہاسٹل رہنے کی گواہی ملی تو چھوڑ دیا جائے گا۔۔" ان کی بات پر پُروا کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
ان کے قریب رومز والی لڑکیوں سے سوال کیا تو ان کے مطابق چاروں ہی کل ہاسٹل سے باہر نکلی تھیں۔۔
مگر پروا جلدی واپس آ گئی تھی اور وہ باہر زیادہ نہیں نکلتی۔۔ یہی گواہی وارڈن نے بھی دی۔۔
"ٹھیک ہے مگر پھر بھی تھوڑی تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ باہر نکلی تھی اور کہاں گئی کوئی پتا نہیں۔۔ جو بےقصور ہو گا اسے واپس چھوڑ دیا جائے گا۔۔" وہ ناک پر سے مکھی اڑا کر بولے اور انہیں پولیس سٹیشن لے گئے۔
یہ پُروا کی زلالت بھری زندگی گا نہایت بد ترین تجربہ تھا۔۔ اسے دل میں ہنیا سے پہلی بار شدید گلہ ہوا تھا۔ جس نے دوستی کا حق نبھاتے ہوئے اپنی طرف سے اسے محفوظ کیا تھا یوں کہ پہلے سم توڑ دی، پھر اس کے موبائل سے چند نمبرز نکال کر اپنے ایک پرانے موبائل میں سیو کر کے موبائل بھی توڑ دیا۔
اس کے بقول آن رہنے والے موبائلز سے بھی لوکیشن ٹریس ہو سکتی ہے، وہ اسے سمجھا کر واپس بھیجنے کی بجائے سارے راستے ہی بند کر گئی تھی۔۔
دوستی یہ تو ہرگز نہیں ہوتی کہ دوست غلط کرے تو ساتھ دیا جائے، سمجھداری یہ تھی کہ اسے سمجھا کر حالات سے آگاہی دی جاتی ہے۔۔
جذباتی پن میں گھر چھوڑنے والی پُروا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔۔ کاش وہ گھر سے نا نکلتی۔۔ کاش وہ ایسا نا کرتی۔۔ کاش دل میں گڑھ گیا تھا۔۔
پولیس سٹیشن میں آتے جاتے لوگوں کی نظریں اور پھر تفتیش میں پوچھے جانے والے سوالات پر اس رونا آیا تھا۔۔
"کب سے بیچ رہی ہو اپنا جسم۔۔ کتنا پیسہ ملتا ہے؟ کیا گھر والوں کی عزت کا کوئی پاس ہے یا گھر والے بھی ایسے کاروباری ہیں۔۔" جب یہ پوچھا گیا تو اندازہ ہوا تھا ثنا بیگم کے الفاظ تو کچھ نہیں تھے۔۔ وہ طنز اور نفرت تو بہت کم تھی۔۔
وہ تینوں شور مچا رہی تھیں، رونا دھونا اور جھوٹی صفائیاں۔۔ جبکہ پُروا جو کالج سے آنے کے بعد لڑکیوں کی باتوں سے یونیفام تک بدلنا بھول گئی تھی، رات دیر تک روتے روتے سوئی تھی اور صبح کی روشنی ہھیلنے سے بھی پہلے زلت حاصل ہو گئی تھی۔۔
"مجھے کچھ نہیں پتا۔۔ میں کبھی ایسی جگہ نہیں گئی۔۔" آنسو بہاتی وہ ہر سوال کے جواب میں یہی جملے دوہرا رہی تھی۔ نا کلبز کے نام پتا تھے نا ڈرگز کی قیمت۔۔ سختی سے ہوتے سوالات اور تمسخر بھری گہری نظروں سے اس کا وجود سرد ہو رہا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"شکل دیکھو اپنی، کیسے بارہ بج رہے ہیں۔۔" آغا جان کی تنقیدی نگاہوں پر عیسٰی نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ آج آیا تھا وہ اتنے دن بعد۔۔ تب سے سب کی ہی نظریں اس پر جمی تھیں۔ ثنا بیگم اس کے لیے جانے کیا کیا کھانے بنوا رہی تھیں۔۔
کافی بدل گیا تھا، سنجیدہ اور بردبار سا۔۔ نا مسکراہٹ تھی چہرے پر نا آنکھوں میں ہر وقت چمکتی شوخی۔۔
کچھ کمزور سا لگ رہا تھا۔ آغا جان تو خفا ہونے لگے۔
"ٹھیک ہوں آغا جان۔۔ بس جاب کی وجہ سے۔۔" وہ آہستگی سے بولتا بودا سا بہانہ پیش کر رہا تھا۔
"تو تمہارے کون سا بچے بھوکے مر رہے ہیں جو اتنی اتنی دن رات محنت کر رہے ہو۔۔ سارا معاملہ پتا چل چکا ہے مجھے۔۔ لڑکی نہیں مل رہی اور تم عورتوں کی طرح غم میں گھلے جا رہے ہو۔۔" آغا جان کے طنزیہ جملے پر عیسٰی نے ناراضگی سے انہیں دیکھا۔
"لڑکی نہیں بیوی ہے میری۔۔ نکاح میں ہے اور جانے کس حال میں ہے۔۔ آپ کیا چاہتے ہیں بےغیرت بن کر زندگی جیتا پھروں۔۔" اس کے جملوں پر وہ گھور کر رہ گئے۔
"ہاں تو غیرت مند بن کر حفاظت کرنی تھی ناں۔۔ بیٹھے بٹھائے بنا پوچھے نکاح کر لیا اوپر سے بکواس کر رہے ہو میرے آگے۔۔ شکر کرو تمہاری حالت پر ترس کھا کر سوال نہیں کر رہا اس چھپے ہوئے نکاح کا۔۔"
آغا جان کی گھوریوں پر وہ بےچارگی سے انہیں دیکھنے لگا۔ کلاس تو اب بھی لگ رہی تھی۔۔
خان داور کی بیوی اسی وقت رباض کو لے کر آ گئی، عیسٰی نے مسکرا کر ان سے اس گول مٹول چھوٹے سائز کے جن کو تھاما جس کی آنکھیں چاروں اطراف میں گھوم رہی تھیں۔ آغا جان بھی سب بھلائے اسے دیکھنے لگے جو عیسٰی کی گود میں آتے ہی غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"ابھی دیکھنا پہچان نہیں پائے گا تو چیخے گا۔۔ جانے یہ چیخیں مارنے کی عادت کس سے لے لی۔۔ کان سُن کر دیتا ہے۔۔" آغا جان اسے آگاہ کر رہے تھے جب ان کی بات کے اختتام سے بھی پہلے وہ ہاتھ پاؤں چلاتا زور زور سے چیخنے لگا۔ عیسٰی یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
چھوٹے سے زخم پر باریک چیخوں سے فلیٹ سر پر اٹھا لینے والی پُروا کی شدت سے یاد آئی تھی۔
آغا جان اس سے رباض کو تھام کر چپ کروانے لگے، مسکرا کر رباض کو دیکھتی خانی بیگم نے حیرت سے عیسٰی کی گم صم کیفیت دیکھی تھی۔۔
"سب ٹھیک ہے؟" ان کے پوچھنے پر وہ چونکا۔
"اوہ۔۔ جی جی۔۔ یہ بہت کیوٹ ہے ویسے۔۔ " وہ خجل سا ہو کر رباض کی طرف متوجہ ہوا۔ جو پوری تیز رفتاری سے ٹانگیں چلاتا اب جانے کیا رازونیاز کر رہا تھا۔ مٹھیاں کبھی بھینچ لیتا تو کبھی کھولتا تیزی سے سر ہلاتا کسی بڑے آدمی کی طرح باتیں کر رہا تھا۔
عیسٰی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا، اس کی شہد رنگ کانچ سی آنکھوں میں دنیا جہان کی روشنی بھری ہوئی تھی۔ گال نہایت سرخ تھے۔۔ آغا جان دنیا سے بےخبر ہو چکے تھے، بس ہاتھ میں اچھلتا، بولتا گڈا تھا اور اسے پوری توجہ سے دیکھتے اور سنتے ہوئے آغا جان۔۔
اچانک ہی باتیں کرتے رباض نے رونا شروع کر دیا۔
"اس کی طبیعت آج کچھ خراب ہے، بار بار رو رہا ہے۔۔ بخار ہو رہا ہے اسے۔۔" خانی بیگم نے اسے تھام کر چیک کیا، سرخ ٹماٹر جیسی گالوں والا رباض چپ ہو کر انہیں سننے لگا جیسے بات کی سمجھ آ رہی ہو۔۔
"تو لے جاتے ہیں ناں چیک اپ کے لیے۔۔" عیسٰی نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔ جو وقفے وقفے سے رو بھی لیتا تھا مگر چپ ہو کر تھوڑی دیر باتیں بھی کر لیتا۔
"آرام نہیں آیا تو پہلے بتاتے۔۔ کب سے بچہ تنگ ہو رہا ہے۔۔"۔ خان یوسف بھی پریشان ہو گئے۔
ابھی وہ یہی بات کر رہے تھے جب خان آزر کے ساتھ خانزادہ آ گیا۔ عیسٰی کو دیکھ کر خوش دلی سے ملا۔ اس سے حال احوال لیتا رباض کی طرف متوجہ ہوا جسے خان آزر اٹھا کر پیار کر رہے تھے مگر وہ رونے کی تیاری میں تھا۔ اس نے بڑھ کر ان سے لیا تو وہ گلا پھاڑ کر رونے لگا۔
"کیا ہوا میرے بیٹے کو۔۔ کیا بات ہے میری جان۔۔" اسے سینے سے لگا کر تھپکتے ہوئے وہ تفکر سے بولا۔
"اسے بہت بخار ہو رہا ہے، شاید سردی لگی ہو۔۔ میں نے دوا تو دی تھی تب زرا ٹھیک ہو گیا تھا مگر اب پھر سے تپ رہا ہے۔۔" خانی بیگم نے بتایا تو وہ پریشان ہو گیا۔ عیسٰی اٹھ کھڑا ہوا۔
"اسے لے چلتے ہیں لالا۔۔ چیک اپ کروا لیں، شام ہے ابھی تو۔۔ رات کیسے گزارے گا۔۔" اس کی بات پر خانزادہ نے سر ہلایا۔ اسے چیک اپ کے لیے لے گئے۔
موسمی بخار تھا، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد انجکشن لگا دیا اور سردی سے بچا کر رکھنے کی تاکید کی۔
اسے لے کر لوٹا تو کمرے میں جا کر سلام کرتے ہی عادت کے مطابق پریہان کے پاس لیٹا دیا اور خود فریش ہونے چلا گیا۔۔ رباض نے پیچھے پھر سے رونا شروع کر دیا۔ شاید بخار کی بےچینی تھی کہ اسے آج ماں کے پاس لیٹ کر باتیں کرنے میں بھی مزہ نہیں آیا۔ وہ تیزی سے کپڑے پہنتا جب تک باہر آیا رباض چپ ہو چکا تھا، سامنے کا منظر دیکھ کر خانزادہ رک گیا۔
پریہان اسے اٹھا کر سینے میں بھینچے بےآواز رو رہی تھی۔ وہ قمیض کے بٹن بند کرتا خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا، جا کر بال برش کیے، لبوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔۔ آخر پریہان کا دل بچے کے لیے پگھل ہی گیا تھا۔ بیمار تو وہ پہلے بھی ہو جاتا تھا مگر اب شاید وہ اسے نظرانداز کر کے تھک چکی تھی۔۔
رباض ماں کے سینے سے لگا سکون سے سونے لگا۔۔
وہ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھ کر دیکھنے لگا، پریہان نے بھرائی آنکھیں اٹھا کر سامنے بیٹھے خانزادہ کو دیکھا۔
"اسے کیا ہو رہا ہے۔۔ یہ گرم ہے بہت۔۔" وہ سسکتی ہوئی پریشانی سے بول رہی تھی۔ وہ بےساختہ اس کی طرف جھکتا اس کی بھیگتی آنکھوں کو چوم گیا۔
پریہان نے جھجک کر آنکھیں میچ لیں۔
"اسے فیور ہو رہا ہے مگر چیک اپ کروا لیا ہے، انجکشن لگایا ہے ڈاکٹر نے، ٹھیک ہو جائے گا۔۔" اس کے کندھے پر سر لٹکا کر سوتے رباض کو اس نے سنبھال کر پریہان کی گود میں سلا دیا۔ قریب پڑا بلینکٹ اٹھا کر اس پر ڈالا اور نرمی سے بتاتے ہوئے رباض پر جھک کر اس کے سرخ ہوتے گال چومنے لگا۔
پیچھے ہوا تو پریہان نے بےساختہ گود میں سوتے رباض کو خود سے لگا لیا۔ اسے تکتی نرمی سے سنہری بالوں کو ماتھے سے ہٹا رہی تھی۔ شاید آج وہ پہلی بار اتنی محبت اور توجہ سے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔
وہ بیٹے میں گم تھی اور سامنے بیٹھا خانزادہ اس میں کھویا ہوا تھا۔ وہ اب بھی اداس تھی مگر آج کچھ نارمل لگ رہی تھی۔
جب رات گئے کھانا وغیرہ کھا کر وہ کمرے میں آیا تو پریہان رباض کو سینے سے لگائے لیٹی ہوئی تھی۔ خود کھانا کھا لیا تھا اور آج تو رباض کو بھی فیڈر خود پلایا تھا۔ وہ آ کر لیٹا تو وہ کروٹ بدلتی بیٹے کو بھی دوسری جانب کر گئی اور خود بھی اس کی جانب پشت کرتی خانزادہ کو حیران کر گئی۔ وہ اس دھوکے بازی پر اسے گھور کر رہ گیا۔ یعنی بیٹا ملا تھا تو اب اس کی ضرورت نہیں رہی تھی اور وہ چھوٹا سا گڈا جسے روزانہ باپ سلاتا تھا آج بےوفائی کیے سکون سے ماں کے پاس سو رہا تھا۔
"تم دونوں بہت بےوفا ہو۔۔ جب تک میری ضرورت ہوتی ہے تو مجھ سے لپٹے رہتے ہو جہاں ایک دوسرے کا سہارا ملا، مجھ سے رخ پھیر لیا۔۔" اس نے قریب لیٹ کر دونوں پر لحاف ٹھیک کیا اور خفگی سے بڑبڑاتے ہوئے پریہان کو سنوایا۔۔ جانتا تھا وہ جاگ رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔۔ لیکن پریہان نے نا رخ پھیرا نا ہی اسے کوئی جواب دیا۔
"مجھے دھوکے بازوں سے اپنا حق چھیننا بھی آتا ہے۔۔"
وہ اس کے قریب ہوتا دونوں کو اپنے حصار میں لے کر سنجیدگی سے بولا۔ پریہان نے چہرہ موڑ کر اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا جب وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ کروا گیا۔
"ششش۔۔۔ رباض سو رہا ہے۔۔ جاگ جائے گا۔۔ صبح لڑ لیں گے۔۔" اس نے سرگوشی کی تو وہ لب بھینچتی چہرہ موڑ گئی۔ خانزادہ نے مسکراہٹ دبائی، اس کے بالوں پر لب رکھ کر اسے خود میں سمیٹا اور ایک ہاتھ رباض پر رکھ لیا۔ زندگی جیسے مکمل ہو گئی تھی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
رات کا اختتام تھا جب انہیں تھانے میں لا کر تفتیش کی گئی۔ جیسی تمسخر بھری جسم کے آر پار ہوتی نظریں تھیں اور جیسے سوالات تھے پُروا کے حواس جواب دینے لگے۔۔
ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد میں لڑکیاں اور لڑکے موجود تھے۔۔ بولڈ بےہودہ لباس پہنے وہ لڑکیاں جو کلب سے اریسٹ کر کے سیدھی یہاں لائی گئی تھیں۔۔
سب کی حالت خراب تھی مگر پُروا کی تو زندگی جیسے یہیں ختم ہونے کو تھی، سب سے کم سن اور حیران پریشان سی۔۔ نا سوال سمجھ پا رہی تھی نا جواب جانتی تھی۔۔
"ڈالو انہیں جیل میں۔۔ جب تک ہاسٹل والی چاروں لڑکیوں کا ڈوپ ٹیسٹ (ایسا ٹیسٹ جس سے پتا چلے کہ بندہ ڈرگ لیتا ہے یا نہیں) نہیں لیتے ان کو بھی ساتھ رکھو۔۔" جیلر کی کرخت آواز پر وہ لرز اٹھی۔۔
ایک پولیس والا جو بغور پُروا کو دیکھ رہا تھا چونک سا گیا، جلدی سے ایک طرف ہوتا موبائل نکال کر کسی کو کال ملانے لگا۔
"رکو ایک منٹ۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔ اس لڑکی کو میں جانتا ہوں۔۔ یہ یہاں کیسے۔۔" ایس۔پی کے ساتھ کھڑے سوٹڈ بوٹڈ مرد نے چونک کر سوال کیا تو ایس۔پی نے پولیس والوں کو روک دیا۔
"شاہ صاحب کلب میں ریڈ کے دوران پکڑا ہے ان سب کو۔۔ ڈرگز لیتے ہیں اور جسم فروشی کا کام کیا جا رہا تھا وہاں۔۔" ایس۔پی نے تفصیل سے آگاہ کیا جبکہ عدم شاہ کی نظر تو پُروا پر جمی تھیں۔۔
سفید یونیفارم میں بالکل سفید پڑتی خشک ہونٹوں والی پُروا جو اس وقت بالکل حواس میں نہیں تھی مگر سب میں نمایاں اور الگ لگ رہی تھی۔۔
"اسے رہا کرو ایس۔پی۔۔ یہ ایسی نہیں ہے، چاہو تو میری طرف سے باقاعدہ ضمانت لے لو۔۔"
عدم شاہ نے نظریں پُروا پر جما کر کہا۔
"ارے کیسی بات کرتے ہیں شاہ صاحب۔۔ لے جائیں آپ۔۔ اس سب کے لیے معذرت اور انہیں تو شاید کسی ہاسٹل سے لایا گیا ہے۔۔" ایس پی نے جلدی سے معذرت کرتے ہوئے وضاحت دی۔۔ عدم شاہ خباثت سے مسکرایا۔
پروا کیس سے الگ ہو گئی، اس کا موبائل بھی دے دیا گیا، اسے لے کر وہ تھانے سے نکلا، وہ مسلسل روتی اس کی مشکور ہو رہی تھی۔
تھانے آنے کی زلت تو اٹھا ہی چکی تھی، تفتیش کے سوالات بھی جھیل گئی تھی، کچھ دیر تک ڈوپ ٹیسٹ میں جب اس کی باڈی سے ڈرگ کا نشان نا ملتا تو اسے ویسے بھی ہاسٹل میں پہنچا دیا جاتا مگر وہ اس سب سے بےخبر عدم شاہ کی مشکور ہو رہی تھی۔
"ارے اتنا شکریہ مت کرو۔۔ شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں میں تمہارے انکل کا فرینڈ ہوں۔۔ ہم ایک بار مل بھی چکے ہیں۔۔ آؤ ابھی میرے ساتھ چلو پھر میں بعد میں آرام سے تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔۔" وہ شرافت کا مظاہرہ کر کے بول رہا تھا۔ پروا نہیں پہچانی تھی نا اسے ابھی اس جان پہچان سے غرض تھی۔۔
اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ اسے بچا لیا گیا تھا۔۔
"انکل۔۔ مجھے بس۔۔ ایک کال کرنی ہے۔۔" وہ کانپتے ہاتھوں سے موبائل آن کرنے کی ناکام کوشش کرتی بول رہی تھی۔۔ تھانے کے گھٹن زدہ اور زلت بھرے ماحول سے نکل کر نا زبان کام کر رہی تھی نا ہاتھ۔۔
"ابھی تم ٹھیک نہیں ہو، بعد میں کال کر لینا۔۔" اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر وہ سکون سے بولا اور نظر بچا کر موبائل دور پھینک دیا۔ گاڑی کا ڈور کھول کر اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود بھی دوسری طرف سے بیٹھتا گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا گیا۔
چہرے پر اتنے وقت بعد کامیابی حاصل ہونے کی چمک تھی، اس کے الیگل سائڈ بزنس کا ایک ایسا کام جو اتنا ضروری بھی نہیں تھا اس کے لیے جب اسے تھانے ارجنٹ بلوایا گیا تو وہ بہت بدمزہ ہوا تھا۔
ابھی صبح کا سویرا بھی نہیں پھیلا تھا جب اسے پولیس سٹیشن آنا پڑا تھا مگر اب وہ خوش تھا۔
موڈ اچھا ہو گیا تھا، ایک نظر سمٹ کر سیٹ پر بیٹھی پُروا کو گہری نظر سے روتے دیکھا اور گاڑی کا رخ اپنے اپارٹمنٹ کی جانب موڑ لیا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی رات آنکھوں میں کاٹتا بےچینی سے کروٹ بدل رہا تھا، صبح فجر کے بعد کمرے سے نکلا اور حویلی کی پچھلی جانب والے باغ میں پرسکون خاموش ماحول میں واک کرتا موبائل میں موجود پُروا کی پکچرز دیکھتا خود کو سکون پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔ اسکی یادیں اب اکثر شدت سے حملہ آور ہونے لگی تھیں۔
بال ماتھے پر بکھرے تھے، نیلی آنکھوں میں رتجگوں کے سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ مردانہ سیاہ کھدر کے کرتا شلوار میں دراز سراپا اور شفاف رنگت نمایاں ہو رہی تھی۔ کندھوں پر سیاہ شال ڈالی ہوئی تھی۔
صبح صادق کی نیلی روشنی میں وہاں چلنا اعصاب کو پرسکون کر رہا تھا، اس کی نظر سامنے پڑی تو ٹھٹکا۔ ادب خان تیز رفتاری میں اپنے کمرے سے نکلتا عجلت میں جیکٹ کی زپ بند کر رہا تھا، بازو پر شال لٹک رہی تھی، بکھرے بال بتا رہے تھے ابھی نیند سے جگایا گیا ہے۔۔
"ادب خان۔۔ رکو۔۔ کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں۔۔" عیسٰی بےساختہ آگے بڑھ کر اس کے پاس پہنچا۔ وہ جانتا تھا ادب خان کا کوئی اپنا نہیں، اس کا ہر کام، ہر جلدی صرف خانزادہ حدیر کے لیے ہوتی تھی۔۔
"گڑیا کی خبر ملی ہے چھوٹے خان۔۔ ہمیں جلدی شہر نکلنا ہو گا۔۔" ادب خان نے شال اوڑھتے ہوئے بتایا۔
"گڑیا۔۔؟ پُروا۔۔ پُروا کا پتا چلا کیا۔۔؟" عیسٰی کے حواس بیدار ہوئے۔۔ بےتابی سے پوچھتا اس کے ہم قدم ہوا۔ ادب خان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"میں بھی چلوں گا۔۔ بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔؟" عیسٰی نے کھڑے کھڑے فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ سیاہ گاڑی میں بیٹھ گیا ادب خان جلدی میں تھا بحث کرنے کی بجائے خاموشی سے سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کر کے برق رفتاری سے حویلی کا پھاٹک کراس کر گیا۔
"پولیس سٹیشن میں ہیں۔۔ کسی ہاسٹل سے ڈرگز کے الزام میں لڑکیاں گرفتار ہوئی ہیں ان میں وہ بھی شامل ہیں۔۔ میں نے ان کی تصویر ہر جگہ پھیلا رکھی تھی، شکر ہے ہمارے علاقے کے ایک پولیس والے نے انہیں پہچان لیا۔۔" ادب خان ڈرائیونگ کرتے ہوئے تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔ اس کی ڈرائیونگ تو ہمیشہ سے بہترین تھی، ہوا جیسی تیز رفتار اور اونچے ترچھے رستوں پر بھی لڑکھڑانے نہیں دیتا تھا گاڑی۔۔
عیسٰی تفصیل سن کر شاکڈ ہوا۔ اس کی اتنے وقت بعد خبر ملی تھی وہ بھی کہاں سے۔۔ کیا وہ ڈرگ لینے لگی تھی۔۔؟ پولیس سٹیشن پہنچ گئی تھی وہ۔۔
کیسے لائی گئی ہو گی، کس حال میں ہو گی۔۔ سوچ کر ہی اس کے حواس سلب ہو گئے تھے۔۔
بےبس سا سر ہاتھوں پر ڈال بیٹھا۔۔ ادب خان کے موبائل پر پھر سے کال آ رہی تھی، اس نے کال اٹینڈ کر کے سپیکر آن کر لیا، توجہ پوری ڈرائیونگ پر تھی۔
"ادب خان صاحب۔۔ بی بی جی کو کوئی ضمانت کروا کر لے گیا ہے تھانے سے۔۔ ہم کو ابھی پتا چلی یہ بات۔۔" وہی پولیس والا تھا شاید۔۔ عیسٰی سر اٹھا کر سکرین کو تکنے لگا جبکہ ادب خان کے ماتھے پر بل پڑے۔
"کون لے گیا ہے؟ کس نے ضمانت کروائی۔۔" ادب خان نے سرد کرخت سے لہجے میں سوال کیا۔
"کوئی عدم شاہ آیا ہوا تھا۔۔ وہ جانتا تھا بی بی جی کو، اس نے ضمانت کروائی۔۔" سپیکر سے آواز ابھری تھی۔ ادب خان الجھ گیا تھا، عدم شاہ کون تھا آخر اور کیسے جانتا تھا؟ کیوں ضمانت کروائی۔۔
پریشان بیٹھے عیسٰی کے زہن میں جھماکہ سا ہوا۔
عدم شاہ۔۔ آئرہ شاہ کا چچا زاد کزن اور ہزبینڈ۔۔
"میں جانتا ہوں اسے۔۔ عدم شاہ کو۔۔ میں ایڈریس لیتا ہوں ادب خان۔۔" عیسٰی نے جلدی سے اپنی جیب سے موبائل نکال کر آئرہ کا نمبر تلاشا اور اسے کال ملا لی۔
"ہیلو۔۔ " آئرہ کی نیند میں ڈوبی آواز ابھری۔۔
"آئرہ اٹس می عیسٰی خان۔۔" وہ جلدی میں بول رہا تھا۔ ادب خان نے روڈ قدرے سیدھا ہوتے ہی رفتار مزید بڑھا لی تھی۔
"عیسٰی خان۔۔؟ کیا ہوا؟ آپ نے اتنی صبح۔۔" ابھی وہ حیرت سے بول رہی تھی جب عیسٰی نے بات کاٹی۔۔
"آئرہ تمہارا ہزبینڈ۔۔ عدم شاہ کہاں ہے؟ مجھے اس سے ملنا ہے ، پلیز اٹس ارجنٹ۔۔" وہ تیزی سے بولتا آئرہ کو ٹھٹکا گیا تھا۔
"وہ تو گھر پر نہیں۔۔ صبح کہیں گئے تھے، آئی ڈونٹ نو کہاں گئے اور کہاں ہیں۔۔ ابھی تک نہیں آئے۔۔"
آئرہ نے حیرت میں ڈوبی آواز میں اسے بتایا۔
"کال ہِم پلیز۔۔ وہ کہاں ہے پتا کر کے بتاؤ۔۔ ابھی بتاؤ۔۔"
عیسٰی کا لہجہ بتا رہا تھا معاملہ سنجیدہ ہے۔ آئرہ نے بِنا مزید سوال کیے کال کاٹ دی۔ عیسٰی نے گہرا سانس بھر کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا۔
ادب خان کے بھی لب بھنچے ہوئے تھے، عدم شاہ جانے کون تھا اور کیسے جانتا تھا پُروا کو۔۔ اس کا ضمانت کروا کر لے جانا بھی انہیں بےسکون کر رہا تھا مگر ایک اطمینان تھا کہ کم سے کم وہ زندہ تو ہے۔۔ خبر تو ملی۔۔ کوئی سراغ تو ہاتھ لگا۔۔
پُروا پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے موجود عدم شاہ کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھ میں نا شرم تھی نا شرافت۔۔ صرف ہوس اور نفرت تھی۔۔ اور اس کے الفاظ سے ٹپکتی ازیت ناک حقیقت۔۔ جیسے کوئی آہستہ آہستہ زمین میں اسے دھنساتا جا رہا ہو اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پیر مارنے سے بھی قاصر ہو۔۔
"کیوں حیرت ہو رہی ہے؟ یہی حقیقت ہے، قیمت دے چکا ہوں تمہاری۔۔ تمہارے اس گھٹیا انکل نے مجھ سے پیسہ لیا اور بھاگ گیا۔۔ وہ اب نیویارک میں چھپا بیٹھا ہے، ڈھونڈ لیا ہے اسے میں نے۔۔ اس کا انجام تو میں بعد میں طے کروں گا پہلے تو تم سے اپنی قیمت وصول کروں گا۔۔" عدم شاہ نے شیطانیت سے مسکرا کر کہا۔
وہ جو اپنی شادی کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے سب الٹے کام پسِ پشت ڈال کر شریف بنا ہوا تھا پُروا کے ہاتھ آتے ہی سب بھول گیا۔۔
پُروا کا دماغ سن ہونے لگا، آج کا دن اس کے لیے زلت و رسوائی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔
اسے وہاں لاتے ہی وہ اپنے تمام معاملات ایک دو دن تک کے لیے ملتوی کرنے چلا گیا تھا۔۔ آئرہ کی آتی کالز پر اسے بھی ضروری میٹنگ کا کہہ کر مطمئن کر دیا۔۔ جب سکون سے فارغ ہو کر اس کے پاس آیا تو برف کا مجسمہ بنی پُروا نے بےتابی سے ایک کال کروانے کا کہا تھا۔۔ بس اتنا بولی تھی کہ وہ شرافت اور تمیز کا لبادہ ہی اتار بیٹھا تھا۔۔
یکدم ہی جیسے وہ کوئی جانور بن گیا تھا۔
آج پُروا کے لیے سبق لینے کا دن تھا۔ لڑکی کو گھر سے نہیں نکلنا چاہئیے، بغیر وارثین کے ہاسٹل میں رہتی لڑکیاں شریف بھی ہوں تو بری لڑکیوں کے ساتھ پِس جاتی ہیں۔۔ اور یہ کہ ہر جان پہچان والا یا کسی بھی مصیبت سے بچانے والا انسان ضروری نہیں کہ اچھا ہو۔۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی بری نیت چھپائے موقع کی تلاش میں بیٹھا ہو۔۔ اس نے سب سمجھ لیا ایک ہی دن میں۔۔ ایک ساتھ۔۔ ساری حقیقتیں۔۔۔
"نہیں۔۔ پلیز۔۔ م۔۔ میں آپ کے پیسے۔۔" پُروا سُن سی قدم پیچھے بڑھاتی ہکلا کر بولی۔ جسم کپکپا رہا تھا دل کی دھڑکن خوف سے رکنے لگی۔۔
"نو بیبی گرل۔۔ پیسے میں تمہارے انکل سے نکلوا لوں گا۔۔ تم وہی دو جو دے سکتی ہو۔۔" وہ اس کے نازک وجود کو گہری نظروں سے دیکھتا اس کی طرف بڑھا۔
"پلیز۔۔ پلیز میرے ساتھ ایسا۔۔" پروا کے باقی الفاظ عدم شاہ کے بازو پکڑ کر کھینچنے سے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔ اس کی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑاتی وہ مر جانے کے در پر تھی۔
وہ جھٹکا دے کر اسے بیڈ پر پھینک چکا تھا، اوندھے منہ گرتی پُروا کا سر چکرا گیا۔ چھوٹے سے زخم پر چیخ چیخ کر کان سُن کر دینے والی پُروا اس وقت زہنی طور پر اتنی مفلوج ہو گئی تھی کہ آواز تک نکالنا محال ہو رہا تھا۔۔ اسے کھائے پیے کافی وقت گزر چکا تھا، زہنی تھکاوٹ اور خوف نے تو اسے پہلے ہی ادھ موا کر دیا تھا اوپر سے پولیس سٹیشن جانے کی زلت اور یہاں آ کر اچانک ٹوٹ پڑنے والی نئی آفت۔۔ جس کا اپنا دل دھڑکنے سے انکاری ہو رہا تھا وہ بھلا اس مرد کا کیسے مقابلہ کرے گی۔۔
"پلیز اللّٰہ کے لیے۔۔ چھوڑ دیں۔۔" وہ سسکتی ہوئی ڈوبتی آواز میں مشکل سے بول پا رہی تھی مگر لگتا تھا اس کے الفاظ اس کے دل میں دبتے جا رہے ہیں۔۔۔
عدم شاہ نے تمسخر سے اسکی نڈھال حالت کو دیکھا اور اس جھٹکے سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتا گریبان میں ہاتھ ڈال کر سفید قمیض ایک ہی بار میں پھاڑ کر دو حصوں میں کر گیا۔۔ شیطان حاوی ہو جائے تو نا فریادیں اثر کرتی ہیں نا اللّٰہ کا خوف۔۔ وہ بھول گیا اس کی بھی دو بیٹیاں ہیں۔۔ اپنی شرٹ پھٹتی ہوئی محسوس کرتی پُروا کا دماغ اندھیروں میں ڈوب گیا۔
زلت۔۔ تنہائی۔۔ رسوائی۔۔ باری باری مل چکے تھے اب جو بچی کھچی عزت تھی وہ بھی جانے والی تھی۔۔
اسے مر جانا چاہئیے تھا۔۔ مر ہی جانا چاہئیے تھا۔۔
"اللّٰہ جی۔۔" اس کے دل نے آخری بار شدت سے پکارا تھا جب اسی پل اپارٹمنٹ کی بیل پورے زور سے بجائی گئی۔ یوں جیسے کوئی ہاتھ رکھ کر بھول گیا ہو۔۔ سامنے پڑے نازک وجود کی رعنائیوں میں کھویا عدم شاہ چونک گیا۔۔ بدمزگی سے اٹھ کر روم سے نکلا اور دروازے پر پہنچا۔ اب دروازہ دھڑ دھڑ بج رہا تھا۔
"واٹ ربش۔۔ ہُو دا ہیل آر یو۔۔" عدم شاہ کم سے کم اس وقت آنے والے کسی انسان کو ویلکم نہیں کر سکتا تھا۔ ڈور کھول کر پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا۔
دروازے کے سامنے کھڑے ادب خان اور اس کے ساتھ کھڑے عیسٰی نے ٹھٹک کر اس کا حلیہ دیکھا۔
آئرہ نے سفر کے دوران ہی کال کر کے بتا دیا تھا اس کا ہزبینڈ کچھ میٹنگز کے سلسلے میں کچھ دن کے لیے اپنے اپارٹمنٹ میں ہے۔۔ ایڈریس لے کر ابھی وہ پہنچے تھے مگر سامنے والے کا حلیہ کسی میٹنگ جیسا ہرگز نہیں تھا۔
شرٹ کے کچھ بٹن کھلے ہوئے تھے الجھا ہوا سا انداز۔۔
"بات کرنی ہے۔۔" ادب خان تو اسے دھکا دیتا سیدھا اندر داخل ہو گیا تھا۔ عیسٰی سرد نگاہوں سے اس کا جائزہ لیتا ادب خان کے پیچھے ہوا۔
"کون ہو تم لوگ۔۔ ہمت کیسے ہوئی اندر آنے کی۔۔" عدم شاہ پوری قوت سے چیخا۔ وہ ان دونوں کو ہی پہچان نہیں پا رہا تھا مگر ان کے انداز کھٹکا رہے تھے۔۔
"آج صبح تم نے جس کی ضمانت کروائی وہ لڑکی کہاں ہے۔۔" ادب خان چبھتے لہجے میں پوچھ رہا تھا جب کہ عیسٰی اطراف کا جائزہ لیتا سامنے کے دو رومز کی طرف بڑھ گیا۔
"ہئے یو۔۔ سٹاپ دئیر۔۔ کون سی لڑکی۔۔ میں کسی کو نہیں جانتا نکلو یہاں سے۔۔" عدم شاہ کے حواس بیدار ہوئے، تیزی سے بولتا عیسٰی کی طرف بڑھ کر اسے روکنے لگا جو ایک کمرے میں گھسا اس کی تلاشی لے رہا تھا۔ ادب خان نے آگے بڑھ کر اس کا کندھا اس سختی سے تھاما کہ وہ رک گیا۔ اسے دھکا دے کر پیچھے کیا اور سرخ نظروں سے گھورا۔
"ایک انچ بھی مت ہلنا شاہ صاحب۔۔ میرا دماغ گھوم گیا تو جان سے چلے جاؤ گے۔۔" ادب خان کی غراتی آواز میں دی جانے والی دھمکی میں کچھ ایسا رعب تھا کہ بےدھڑک لوگوں کے گھروں اور آفسز میں گھس کر پیسہ وصولنے والے عدم شاہ کے پسینے چھوٹے۔۔
عیسٰی تیزی سے ایک کمرے کی تلاشی لے کر دوسرے کی طرف بڑھا، گھبراہٹ کے مارے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ دروازہ جیسے ہی کھول کر نظر دوڑائی، سامنے بیڈ پر پڑے بےجان وجود پر نظر ٹک گئی۔
لڑکھڑاتے قدم اٹھا کر اس کی طرف بڑھا۔ پھٹی ہوئی قمیض اور بکھرے بالوں والا ہوش حواس سے بیگانہ نازک وجود پُروا کا ہی تھا۔ آگے بڑھ کر اپنی شال اس کے گرد لپیٹ کر اسے خود میں سمیٹتا بانہوں میں اٹھا گیا۔ لب سختی سے بھنچے تھے۔۔ ضبط کرنا محال ہو رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج جب سامنا ہو گا تو وہ اس حال میں ملے گی۔۔
اسے اٹھا کر باہر آیا تو ادب خان متوجہ ہوا۔ اس کی مردانہ شال میں لپٹا وجود جسے عیسٰی نے سینے سے لگایا ہوا تھا اور چہرے کی سرخی کڑے ضبط کی نشانی ظاہر کر رہی تھی۔ ادب خان کا خون کھول اٹھا۔
"آپ چلیں چھوٹے خان۔۔ میں آ جاؤں گا۔۔" ڈور سے نکلتے عیسٰی نے ادب کی بات پر سر ہلا دیا۔ دن پوری طرح سے نکل چکا تھا، باہر لوگوں کی چہل پہل تھی۔ وہ تیزی سے بنا کسی طرف دیکھے پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھا اور پُروا کو نرمی سے پچھلی سیٹ پر لیٹا دیا۔ گاڑی سٹارٹ کرتا تیزی سے حدیر ولا کی طرف بڑھ گیا۔ آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں، دل کُرلا رہا تھا۔ ضبط کرتے کرتے بھی سسکی نکلی اور وہ آہ بھر کر رہ گیا۔ اگر آج نا پہنچ پاتا تو۔۔۔؟
________
"دیکھو۔۔ جو چاہئیے تھا مل گیا، اب جاؤ یہاں سے تم بھی۔۔" عدم شاہ نے عیسٰی کے نکلتے ہی دانت کچکچا کر سامنے کھڑے اونچے چوڑے پٹھان مرد کو دیکھا۔
"ہاں ملا ہے اور کیسا حال میں ملا ہے، دیکھ لیا۔۔" موبائل پر کوئی نمبر ملاتے ادب خان نے اس کی بات پر منہ پر زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے سرد لہجے میں کہا تھا عدم شاہ کا جبڑا ہل گیا۔۔
"میں نے کچھ نہیں کیا تمہاری لڑکی کے ساتھ۔۔ چاہو تو پوچھ لو اس لڑکے سے۔۔ وہ لڑکی بس بےہوش ہے۔۔"
عدم شاہ نے زندگی میں بالکل پہلی بار اپنے عمل کی وضاحت دی تھی۔۔ ادب خان نے نفی میں سر ہلایا۔
"تمہارے پاس سے ہماری لڑکی بےہوش ملی ہے۔۔ ہم پٹھان ہے، ہماری غیرت کو یہ بھی گوارا نہیں۔۔ مجھے اندھا یا پاگل سمجھنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔
اور ابھی تمہارے ساتھ کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ ہمارے خانزادہ صاحب کریں گے، اگر ان کو بتائے بنا آج تمہیں جانے دیا تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔۔"
ادب خان نے کرخت لہجے میں کہا اور خانزادہ کو کال ملا لی۔ وہ جو صبح جلدی میں بنا بتائے یہاں پہنچا تھا اب فلیٹ کا ڈور لاک کر کے پسٹل عدم شاہ پر تانے سنجیدگی سے سارا معاملہ خانزادہ کو تفصیل سے بتا رہا تھا۔۔ وہ خانزادہ جس سے اس نے یہ سب کرختگی اور جرأت سیکھی تھی۔۔ وہ خود آ جائے تو کیا حال کرے گا۔۔ عدم شاہ سر پکڑ بیٹھا۔ کہاں پھنس گیا تھا۔
آخر اس بھوکے ننگے لالچی وقار کے گھر پلنے والی اس لاوارث لڑکی اور ان پٹھانوں کا آپس میں کیا لینا دینا تھا۔۔ صرف یہی کہ وہ اس کی بہن کا سسرال تھا یا کچھ اور۔۔ جس سے وہ ناواقف تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"اب اس کی طبیعت کافی بہتر ہے۔۔" وہ صبح اٹھتے ہی پاؤں پکڑ کر کھیلتے رباض پر جھکا اسے چیک کر رہا تھا، اطمینان سے بولا۔۔ پریہان خاموش رہی۔۔
رباض کی ٹانگیں تیزی سے چلنے لگی تھیں، جوش سے اٹھا اٹھا کر بیڈ پر مار رہا تھا۔
"میری جان تھک جاؤ گے۔۔ اتنا جوش دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" اس نے ہنس کر اپنا ہاتھ اس کی ننھی ٹانگوں پر جماتے ہوئے بیڈ سے لگایا۔ وہ کچھ دیر باپ کی گرفت میں کسمساتا سر ہلاتا رہا۔
"اےے۔۔" یکدم مٹھیاں بھینچ کر اس نے زوردار چیخ کے ساتھ باپ کو ہاتھ ہٹانے کا پیغام دیا۔ خانزادہ جو کب سے اس کی حرکتوں سے محظوظ ہو رہا تھا قہقہہ لگا کر ہاتھ ہٹا گیا۔ وہ ٹانگیں چلاتا کھلکھلانے لگا۔
"میری زندگی۔۔ میرا بیٹا۔۔" اس نے جوش سے کھلکھلاتے رباض کو اٹھا کر سینے سے لگاتے فرط جذبات سے چوما۔ گلابی نرم گال، ننھی سی ناک، شہد رنگ کانچ جیسی آنکھیں اور چھوٹی سی ٹھوڑی۔۔ وہ وارفتگی سے چومے جا رہا تھا اور رباض جوش سے بازو ہلا کر اس کی محبت وصول کر رہا تھا۔
پریہان یک ٹک دونوں کو دیکھ رہی تھی، آپس میں گم وہ باپ بیٹا جیسے دنیا بھلا بیٹھتے تھے۔۔
"دیکھ رہی ہو۔۔ روزانہ یہ مجھے روک لیتا ہے۔۔ میرا اب کام کرنے کا بالکل دل نہیں چاہتا۔۔ باہر چلا جاؤں تو واپس آنے کی جلدی ہوتی ہے۔۔ نا یہ اپنے بابا کو تھکنے دیتا ہے نا اداس ہونے دیتا ہے۔۔" سینے سے لگا کر رباض کی پشت سہلاتے خانزادہ نے یکدم پریہان سے اپنی فیلنگز شئیر کیں۔۔ لہجے میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور انداز میں نہایت نرمی۔۔
رباض ننھی بازو باپ کی گردن کے گرد لپیٹ کر اس کے کندھے پر سر رکھے ہوئے تھا۔ پریہان خاموشی سے اسے تکتی رہی۔ اس نے رباض کو پیار کر کے پریہان کی گود میں دے دیا۔ وہ چونک گئی۔
وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا۔ پریہان ناشتہ کرتے ہوئے بھی رباض کو سنبھالے رہی، حویلی والوں نے اتنے وقت بعد پریہان کو کچھ نارمل حال میں دیکھا تو سکھ کا سانس لیا۔ رباض ماں سے لپٹ کر یک تک اس کا چہرہ دیکھتا رہتا تھا اور جب وہ دیکھتی تو شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا لیتا تھا۔
ہاں وہ ماں کے ساتھ ہوتا تھا، باتیں کرتا تھا مگر وہ جواب نہیں دیتی تھی اور اٹھاتی تو بالکل نہیں تھی۔۔ اب اٹھا کر سینے سے لگاتی تھی تو یک ٹک اسے تکتا جاتا تھا اور جب چوم کر باتیں کرتی تھی تو شرما جاتا تھا۔۔
خانزادہ بیٹے کی حرکتوں پر ہنستا دل سے شکر کر رہا تھا پریہان نے زیادہ دیر نہیں کی، بیٹے کو پیار دینے میں، محبت پہچاننے میں۔۔ اتنی دیر نہیں کی کہ وہ دور ہو جاتا یا اسے ماں کی چاہ ہی نا رہتی۔۔
کسی کام سے جانے کی تیاری کرتے ہوئے وہ مرر کے سامنے کھڑا ان دونوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔
اسے گود میں لیے وہ فیڈر پکڑے بیٹھی تھی اور وہ فیڈر پیتا چھوٹا سا ہاتھ اٹھا کر بار بار پریہان کے گال پر رکھتا اور پھر مسکرا کر ہٹا لیتا تھا۔۔
وہ گہرا سانس بھر کر بال برش کرنے لگا، یہ منظر دل کو اتنے بھا رہے تھے کہ آج وہ سب کام بھلائے دن چڑھے ابھی تک حویلی میں موجود تھا۔
موبائل پر آتی ادب خان کی کال پر وہ پرفیوم سپرے کرتا رکا اور کال اٹینڈ کر کے موبائل کان سے لگایا۔
آگے سے اس نے جو اطلاع دی وہ تھم سا گیا۔ بےساختہ پریہان کے چہرے پر پھیلی اداس مسکراہٹ کو دیکھا۔
"وہ بندہ ابھی کہاں ہے۔۔؟" پوری تفصیل سننے کے بعد اس نے آواز دھیمی رکھ کر سرد سنجیدگی سے سوال کیا۔ چہرے پر پتھریلے تاثرات تھے۔
"سامنے ہے خانزادہ صاحب۔۔ جیسے آپ کا حکم ہو گا وہی کروں گا اس کے ساتھ۔۔" ادب خان نے نہایت مؤدب لہجے میں بتایا تھا۔
"باندھ کر رکھو۔۔ میں آ رہا ہوں ادب خان۔۔ یہ نقصان کم نہیں کہ اس نے بری نظر ڈالی ہے ہماری عزت پر۔۔"
ڈریسنگ روم میں جا کر آہستگی سے حکم دیا اور کال کاٹ کر واسکٹ پہنی، کندھوں پر شال رکھی اور باہر نکلا۔ بیڈ پر پریہان کے پاس جا بیٹھا۔
"پریہان مجھے کسی ضروری کام کی وجہ سے شہر جانا پڑے گا ابھی۔۔ جانے کب تک واپسی ہو، یہ ٹھیک ہے مگر پھر بھی خیال رکھنا اور یاد سے وقت پر میڈیسن دیتی رہنا۔۔ اس کا خیال رکھنے والے حویلی میں چاہے سب ہیں مگر تم جانتی ہو ناں۔۔ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔" وہ نرمی اور اپنائیت سے بولا۔ اس کی گود میں سو چکے رباض کا گال سہلاتے ہوئے اس کے ہاتھ طرف اشارہ کیا جس میں وہ اس کی شرٹ کے گلے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔۔
وہ جانتا تھا ابھی جب وہ ننھا گڈا اٹھے گا تو حویلی کے ہر فرد کو اپنا خوب وقت دے گا، ہر گود میں جائے گا اور انجوائے کرے گا۔۔ لیکن وہ چاہتا تھا اس تمام دورانیے میں پریہان بھی اسی پر توجہ رکھے۔۔ وقت پر خود میڈیسن دے، یہ اس کی زمہ داری تھی اسے سنبھالنی چاہئیے۔۔
پریہان نے رباض کا ہاتھ دیکھا اور اس کی تھکن کا سوچ کر نرمی سے اس کی مٹھی کھول کر اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھ لیا۔
"اپنا بھی خیال رکھنا میری جان۔۔" ان دونوں کو دیکھ کر اطمینان سے مسکرایا اور پریہان کی پیشانی پر محبت سے لب رکھ کر بھاری لہجے میں ہدایت دی۔
وہ سر اٹھائے بنا رباض کو دیکھتی رہی، اب وہ بات کرتی ہی کب تھی، خانزادہ سے تو اسنے بات کرنا چھوڑ ہی دیا تھا مگر رخساروں پر پھیلتی ہلکی سرخی نے خانزادہ کو جواب دے دیا تھا۔۔ وہ جھک کر نیند پڑے رباض کی چھوٹی سی ناک پر محبت بھرا لمس چھوڑ کر وہاں سے نکل گیا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خانزادہ اور موسٰی دونوں صوفے پر بیٹھے تھے، سامنے بیڈ پر پُروا سو رہی تھی، پورا وجود کمبل میں ڈھکا ہوا تھا بس چہرہ سامنے تھا۔۔ قدرے زرد اور کمزور سا۔۔ اس کے پاس ہی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھے عیسٰی کا سر جھکا ہوا تھا چہرے پر حد درجہ سنجیدگی اور خاموشی تھی۔۔
جس وقت گارڈز سمیت خانزادہ کی گاڑی حدیر ولا میں پہنچی تھی، عین اسی وقت بوکھلایا ہوا سا موسٰی بھی پہنچ گیا تھا۔۔
"آفس سے آ رہے ہو؟ کس نے بلایا ہے؟"۔ خانزادہ نے اندر بڑھتے ہوئے ساتھ چلتے موسٰی سے سوال کیا۔
"عیسٰی نے بتایا پُروا کا تو خود کو روک نہیں پایا۔۔ میٹنگ میں تھا، فری ہوتے ہی یہاں آ گیا۔۔" موسٰی کے لہجے میں برادرانہ شفقت اور فکر تھی۔ اب وہاں بیٹھے حال احوال لے کر اسے تکتے خاموش تھے۔
"چیک اپ کروا چکے ہو ناں۔۔؟" موسٰی نے پوچھا۔
"جی ہاں۔۔ وہاں سے آتے ہی۔۔" عیسٰی دھیرے سے بولا۔
"یہ ٹھیک ہے؟ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں۔۔" خانزادہ نے اشاروں کنایوں میں سوال کیا تھا۔
"ٹھیک ہے۔۔ بچ گئی ہے لیکن زہنی دباؤ اور خوف سے بےہوش ہو گئی تھی۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے بہتر ہو جائے گی۔۔" عیسٰی نے گہرا سانس بھر کر تفصیل سے آگاہ کیا۔ خانزادہ اور موسٰی نے سکون کا سانس لیا۔
"پریہان کو ابھی نہیں بتایا میں نے۔۔ اسے لے آؤں گا تو۔۔" خانزادہ ابھی بول رہا تھا کہ عیسٰی نے ٹوکا۔
"ابھی مت لائیں۔۔ مینٹلی ڈسٹرب ہے یہ۔۔ وہ بھی اپ سیٹ ہوں گی۔۔ ملنے کا بتا دیں، کہیں گی تو ویڈیو کال پر دکھا دوں گا یا ابھی بتائیں ہی نہیں۔۔"
عیسٰی کی بات پر اس نے گہرا سانس بھر کر پروا کو دیکھا۔
"سنبھال لو گے اکیلے؟ " سوال کیا، شاید امتحان لے رہا تھا۔ آزما رہا تھا۔۔
"سنبھال لوں گا۔۔ کچھ دن دیں۔۔" وہ مضبوط لہجے میں بولا تو اس نے سر ہلا دیا۔
"آفس مت آنا کچھ دن۔۔ پوری توجہ دو۔۔" موسٰی نے بھی نرمی سے سمجھایا تو وہ سر ہلا گیا۔
"کوئی سوال مت کرنا عیسٰی۔۔ کچھ مت پوچھنا بس۔۔" خانزادہ نے کچھ توقف کے بعد آہستگی سے کہا۔
"پاگل لگتا ہوں کیا۔۔ میرے لیے اتنا کافی ہے اب میرے پاس ہے یہ۔۔" وہ خفگی سے خانزادہ کو دیکھ کر بول رہا تھا۔ موسٰی اور حدیر بےساختہ مسکرائے۔
"مجھے تو تم بھی کافی برے حال میں لگ رہے ہو۔۔ سوئے نہیں ہو کیا رات بھر۔۔" موسٰی نے بغور اس کی بکھری حالت کا جائزہ لیا۔ سیاہ لباس میں بےشمار سلوٹیں آ چکی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے، آنکھوں میں سرخی اور چہرے پر تھکن۔۔ نفی میں سر ہلا گیا۔۔
"ریسٹ کرو اب۔۔ خبر دیتے رہنا۔۔" خانزادہ ہدایت دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ موسٰی بھی اٹھا۔ اس کے پاس رکا اور نرمی گال تھپتھپایا۔۔ وہ سمجھ سکتا تھا کس مشکل سے گزرا ہے عیسٰی۔۔
"کوئی بھی ضرورت ہو تو بتانا عیسٰی۔۔" پیار بھرے لہجے میں کہا اور باہر نکل گیا۔ اسے آفس واپس جانا تھا شاید۔۔ خانزادہ ایک نظر اس پر ڈال کر پلٹنے لگا جب عیسٰی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
وہ چونک کر رکا اور اسے دیکھنے لگا۔
"جب میں وہاں گیا تھا ناں لالا۔۔ وہ اس کا لباس پھاڑ چکا تھا۔۔ اسے معاف مت کیجیے گا اور اگر نرم پڑیں تو میرے حوالے کیجیے گا۔۔" وہ یکدم سرد سے لہجے میں بولا۔ آواز ہلکی تھی، وہ منظر بتاتے ہوئے الفاظ لڑکھڑا گئے تھے۔ خانزادہ نے لب بھینچ لیے۔
"مجھ پر چھوڑ دو۔۔" اس کا کندھا تھپتھپا کر کہا تو وہ اس کے گرد بازو پھیلاتا اس کے سینے پر ماتھا ٹکا گیا۔ اس کی زہنی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے خانزادہ نے نرمی سے اس کا سر تھپتھپایا۔ سینے پر محسوس ہوتی نمی بڑھ گئی تھی۔ عیسٰی سسک اٹھا تھا۔
جب اپنی عزت کو ایسے حال میں دیکھا جائے تو غیرت مند مرد رو ہی پڑتا ہے۔ بےبسی اور "اگر کچھ ہو جاتا۔۔" کا کچوکے لگاتا احساس کچھ دیر کے لیے حواس اڑا ہی دیتا ہے۔
حدیر کے سینے سے لگ کر اس نے اپنی فرسٹریشن نکال لی تھی۔ جب اس سے دور ہوا تو پرسکون تھا۔ مضبوط لگ رہا تھا۔۔ اتنا تو سنبھل ہی گیا تھا کہ پروا کو سنبھال سکے۔۔
خانزادہ اسی خاموشی سے وہاں سے نکلتا ادب خان کی بتائی لوکیشن پر پہنچ گیا۔ جبڑے ایسے بھینچے ہوئے تھے کہ چہرے کے نقوش تن گئے تھے۔۔
اس کے بعد جو انجام عدم شاہ کا طے پایا تھا، اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔۔ تین روز اس کی کسی کو کوئی خبر نہیں ملی اور جب وہ ملا تو اس کے ہاتھ پاؤں سلامت نہیں تھے، زبان گنگ تھی۔۔
اور سب سے بڑی ازیت اس کے لیے یہ تھی کہ اس کا حال کس نے اور کیوں کیا، وہ یہ تک بتانے کے قابل نہیں رہا تھا۔۔
آئرہ کی سوچ عیسٰی خان پر جا کر ٹک گئی تھی۔۔
آخری بار عدم شاہ کا پوچھنے والا وہی تھا، جب پوچھ رہا تھا عجلت میں تھا، جیسے بہت ضروری کام جلد از جلد نبٹانا ہو۔۔ اس کے بعد عدم شاہ کی گمشدگی اور پھر ملنے پر یہ حالت۔۔ اسے یقین تھا اس سب میں کہیں نا کہیں عیسٰی خان کا ہاتھ ہے۔۔ مگر کیوں۔۔
"عیسٰی خان۔۔ کیا میں آپ سے مل سکتی ہوں۔۔" اس نے عیسٰی کو میسج کیا تو اسے یہی لگا کہ وہ نظرانداز کرے گا یا صاف انکار کر دے گا۔۔
"ضرور۔۔ تمہیں تمہاری جلدبازی اور جذباتی فیصلے کا انجام دکھانا چاہتا ہوں۔۔ ایڈریس بھیجوں گا۔ ملنے آ جانا۔۔" عیسٰی کا جواب اور الفاظ اس کی توقع کے بالکل برعکس تھے۔۔ وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔
کس فیصلے کی بات کر رہا تھا وہ۔۔ عیسٰی خان سے بنا پوچھے محبت کرنا اور اس کے پیچھے پیچھے جانا یا بھری یونی میں اس کی زات کا تماشہ بنانا۔۔
یا پھر عدم شاہ سے شادی کا فیصلہ جس پر وہ اب تک مطمئن نہیں ہو پائی تھی، جس سے وہ خود بھی اکتا چکی تھی۔۔ بیزار ہو چکی تھی۔۔
وہ تھوڑی سی نیند لے کر جاگا تو پُروا سو رہی تھی۔ گرم پانی سے شاور لے کر وہ باہر نکلا۔
زینت رات کے کھانے کا انتظام کر رہی تھی اور لاؤنج میں اس کے بچے نیچے بیٹھے کھیل رہے تھے۔
"کچھ چاہئیے چھوٹے خان صاحب۔۔" اسے دیکھ کر وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھ کر پوچھنے لگی۔
"ایک کافی دے دو مجھے اور کھانا بننے میں کتنی دیر ہے؟ پُروا نے صبح بھی نہیں کھایا تھا۔۔"
وہ آہستگی سے بولتا اس کے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ پُروا کی تھوڑی بہت ٹینشن تو تھی مگر اب دل میں سکون سا اتر آیا تھا کہ وہ اس کے پاس ہے۔۔
جب اسے لایا تھا تب تو وہ ہوش میں ہی نا تھی، ڈاکٹر نے چیک اپ کر کے بتا دیا تھا، کمزوری بھی ہے اور زہنی دباؤ بھی۔۔ جب وہ جاگی تو حواس بیدار نہیں تھے، روتی جا رہی تھی اور بڑبڑاتی جا رہی تھی۔۔
زبردستی اسے دودھ پلا کر عیسٰی نے میڈیسن دے کر سلا دیا۔۔ اسے خوف سا محسوس ہو رہا تھا اگر پُروا کی یہی زہنی حالت زیادہ وقت رہی تو پاگل ہو جائے گی۔۔ وہ اسے کیسے سنبھالے گا۔۔ اس نے ہوش میں آ کر بھی نا آنکھیں کھولی تھیں نا کچھ سننے کو تیار تھی۔
یقیناً زہنی طور پر ابھی وہیں کہیں اٹکی ہوئی تھی۔
زینت نے پھرتی سے کافی بنا کر مگ اسے تھمایا تو وہ سوچوں سے نکلا اور تشکر سے سر ہلایا۔
"کھانا بس بن چکا۔۔ پلاؤ دم پر ہے چھوٹے خان۔۔ آپ گڑیا کو تب تک جگا دیں۔۔" وہ اطلاع دے کر پلٹی اور تیزی سے سلاد تیار کرنے لگی۔ وہ سر ہلا کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اندر داخل ہوا تو اوسان خطا ہوئے، وہ جاگ چکی تھی مگر گٹھڑی بنی بری طرح رو رہی تھی۔۔
"پلیز مجھے جانے دیں۔۔ میں آپ کے پیسے واپس کر دوں گی۔۔" اس کے رونے اور بڑبڑانے کی آواز دروازے سے ہی وہ سن چکا تھا۔ فوراً آگے بڑھ کر مگ ٹیبل پر رکھا اور اس کے پاس پہنچا۔
"پُروا۔۔ مجھے دیکھو۔۔ یہ میں ہوں عیسٰی۔۔ آنکھیں کھولو۔۔" اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے اٹھاتے ہوئے اپنے سامنے کیا۔ نرمی سے پکارتا جا رہا تھا، بکھرے بال سمیٹتا جا رہا تھا۔ پُروا جانے پہچانے لمس اور آواز پر شدت سے میچی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
"عیسٰی جی۔۔" حواس بیدار ہوتے اس نے سسکی بھر کر اسے پکارا اور اس کے گرد بازو پھیلا کر سینے سے لگ گئی۔ عیسٰی کو یقین نہیں آیا وہ وہی پُروا ہے۔۔
باہر کی دنیا نے اسے اتنا سہما دیا تھا کہ وہ کسی اپنے کو دیکھتے ہی اس میں پناہ ڈھونڈنے کو مچل اٹھی۔
"جی عیسٰی کی زندگی۔۔ میری جان۔۔ میرا سکون۔۔"
اس کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود میں بھینچتا وہ شدتِ جذبات سے بوجھل آواز میں بول رہا تھا۔
پُروا کی پکار میں محسوس ہونے والا مان اور اپنے سینے سے لگا اس کا نازک وجود اس کے بےرونق ہو چکے وجود میں رنگ بھر گیا تھا۔
اسے سینے سے لگائے نرمی سے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا اور وہ مٹھیوں میں اس کی شرٹ مضبوطی سے جکڑے پوری شدت سے روتی جا رہی تھی۔
اس نے رونے دیا۔ وہ جانتا تھا اس بار آنسو خوف کے نہیں۔۔ شاید ان سب ازیتوں پر بہا رہی ہے جو وہ جھیل چکی ہو گی۔۔ اتنا وقت اکیلی کیسے رہی ہو گی، سوچنے کی ضرورت ہی نا تھی۔۔ کچھ دیر دھواں دار رونے کے بعد وہ زرا تھم کر سسکیاں بھر رہی تھی۔۔
"سب ٹھیک ہے میری جان۔۔ اب سب ٹھیک ہے۔۔" نرمی سے بولا تو اس کی بھینچی ہوئی مٹھیاں ڈھیلی ہوئیں۔ آہستگی سے سر اٹھا کر عیسٰی کے چہرے پر نظر ڈالی۔۔ مہربان مسکراہٹ لیے اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔۔ نا سوال نا کوئی گلہ نا ڈانٹ ڈپٹ۔۔
اس نے تو ناراضگی تک ظاہر نہیں کی اور پُروا کو لگا تھا اسے کوئی اپنائے گا نہیں۔۔ اس کی آنکھیں تیزی سے بھیگنے لگیں۔ دنیا نے ٹھوکروں کی زد پر رکھا تھا، جب ہر رات، ہر آہٹ پر سہم جاتی تھی اور کوئی تسلی دینے والا نہیں ہوتا تھا تب ہی قدر ہونے لگی تھی سب کی۔۔ تب ہی سمجھ آ گئی تھی ایک عورت کے الفاظ پر اس نے دس لوگوں کی محبت کو نظرانداز کر دیا۔
"آؤ کھانا کھائیں۔۔؟ بھوک لگی ہے؟" اس کے چہرے پر جھک کر اس کی پیشانی کو اپنے مہربان نرم لمس سے نوازتا وہ اپنائیت سے پوچھنے لگا۔
"بھوک لگی ہے۔۔" وہ بولتے بولتے رو پڑی۔۔ دل بھر آیا تھا۔ جب رو رو کر نفرتیں اور سختیاں سہی ہوں ناں پھر کچھ عرصہ نرم لہجے اور محبتیں بھی رلا دیتی ہیں۔۔ دل میں دو جذبے ایک ساتھ رونما ہوتے ہیں۔۔
دکھ کہ اے کاش جو سب جھیلا وہ نا ہوتا۔۔
تشکر کہ یہ محبت و نرمی شکر ہے ملی تو۔۔
"رونا بند کرو پُروا۔۔ سر درد کرے گا تمہارا۔۔ برداشت سے زیادہ کیوں تھکا رہی ہو خود کو۔۔ جاؤ فریش ہو جاؤ۔۔ میں کھانا لاتا ہوں۔۔" اس کے آنسو صاف کر کے وہ محبت سے بولا، لہجہ ایسا مہربان کہ سماعتیں سنتے رہنے کو ضد کریں۔ پُروا نے سر ہلا دیا مگر متذبذب سی بیٹھی رہی۔۔ وہ اٹھنے لگا تو بےساختہ اس کی شرٹ پھر سے پکڑ گئی۔۔
"آپ نہیں جائیں۔۔ وہ آ جائیں گے۔۔ پھر سے۔۔ پولیس۔۔ لے جائے گی مجھے۔۔ وہ انکل لے جائیں گے۔۔۔" وہ دروازے کو تکتی خوف کی شدت سے کپکپا کر بولی۔ رنگت زرد پڑ رہی تھی، اکیلے ہونے کا سوچ کر ہی دماغ سن ہونے لگا تھا۔ اس کا بس چلتا تو عیسٰی کے حصار میں مقید ہو کر کسی ایسی غار میں چھپ جاتی جہاں سے روشنی کو بھی آنے کا راستہ نا ملے۔۔
عیسٰی کرب زدہ سا اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔
"نہیں جا رہا۔۔ کہیں نہیں جا رہا۔۔" پھر سے بیٹھتا اسے سینے سے لگا گیا۔ اسے لگا تھا چند دن میں سنبھال لے گا اب احساس ہو رہا تھا خوف اس کے اندر تک پنجے گاڑھ چکا ہے۔۔ وقت لگے گا۔۔ تھوڑا زیادہ وقت لگے گا۔۔
"عیسٰی جی۔۔ وہ انکل۔۔" وہ بھرائی آواز میں بولنے لگی تھی جب عیسٰی نے اس کا سر تھپتھپایا۔
"سب بھول جاؤ پُروا۔۔ میں تمہارے پاس ہوں۔۔ اب کوئی تمہارے قریب نہیں آئے۔ کسی کی ہمت نہیں اب تمہیں دیکھنے کی یا چھُونے کی۔۔ تم اکیلی نہیں ہو۔۔"
اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا وہ نرمی سے بولا۔
اچانک دروازے پر ہوتی دستک پر اسے جھٹکا سا لگا۔
"وہ آ گئے۔۔ پولیس آ گئی۔۔ میں ڈرگز نہیں لیتی۔۔ میں کلبز نہیں جاتی۔۔" وہ یکدم حواس کھوتی بری طرح چیخنے لگی۔ عیسٰی گھبرا گیا۔ دروازے پر کھڑی زینت بھی بےساختہ اندر داخل ہوئی۔
"پروا کوئی نہیں ہے، وہ دیکھو زینت ہے، تم اب ہاسٹل میں نہیں ہو۔۔" اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتا وہ وضاحتیں دیتا ازیت میں مبتلا ہو گیا۔
پروا بھاری ہوتا سر اور بھیگی آنکھیں لیے خوف سے پلٹ کر زینت کو تکنے لگی، پھر زرا ہوش آیا، دماغ جاگا اور سسک کر آنکھیں رگڑنے لگی۔۔ رو رو کر تھک گئی تھی پھر بھی رونا آئے جا رہا تھا۔
"زینت کھانا یہیں لا دو۔۔ تم اور بچے کھا لینا باہر۔۔" عیسٰی نے سرد آہ بھرتے ہوئے زینت کو کہا تو وہ سر ہلا کر چلی گئی۔ ہاتھ بڑھا کر پروا کو کھینچ کر سینے سے لگا گیا۔ آنکھوں کو رگڑتے ہاتھوں کو تھام کر اس کی بھیگتی آنکھوں کو نرمی سے چوم لیا۔
"پُروا ڈرو نہیں۔۔ اب تم گھر میں ہو، میں تمہارے پاس ہوں، باہر گارڈز ہیں۔۔ پولیس یا کوئی بھی یہاں آ نہیں سکتا۔۔ تمہارے پاس کوئی نہیں آئے گا اب۔۔" دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ بھر کر وہ پوری توجہ سے بول رہا تھا۔۔ رو رو کر گلابی اور سوزش زدہ ہوتی آنکھوں پر نرمی سے انگوٹھے پھیرتا سہلانے لگا۔
پروا گہرے گہرے سانس بھرتی اس خواب سے جاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کتنا بدل گئی تھی۔۔
"چلو فریش ہو جاؤ۔۔ دیکھو اپنی حالت۔۔ اتنی بیمار لگ رہی ہو۔۔" نرمی سے بول کر اٹھا اور اسے بھی بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ وہی پرانی ڈریسنگ تھی، ٹراؤزر شرٹ اور عیسٰی کی نیو ہُڈی مگر پروا اب اعتماد سے کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ چونک چونک کر یہاں وہاں دیکھتی اور خود میں سمٹ سمٹ جاتی تھی۔۔
اسے پکڑ کر واش روم لے گیا، پانی کھول کر اسے اشارہ کیا۔ وہ گرم پانی سے منہ پر چھپاکے مارتی جا رہی تھی، چہرہ، بال اور گریبان کے ساتھ ساتھ بازو تک بھگو ڈالے، ٹاول اٹھا کر اس کی طرف پلٹتے عیسٰی کو آگے بڑھ کر اسے روکنا پڑ گیا۔
"پاگل لڑکی۔۔ نہانا ہے تو سیدھا بتاؤ۔۔ پوری بھیگنے کھڑی ہو گئی ہو۔۔" اپنے سامنے کرتا وہ اسے گھور کر بولا تو معصوم صورت بناتی اسے دیکھنے لگی۔
"ایسا کرو شاور لے لو۔۔ میں تمہارا ڈریس نکال کر دیتا ہوں۔۔ تم فریش فیل کرو گی، او۔کے؟ " وہ کچھ سوچ کر اس کی ہُڈی اتارتے ہوئے بولا۔ پُروا نے فرمانبرداری سے سر ہلا دیا۔ وہ ہُڈی لے کر باہر نکلا۔۔
"جلدی نکلنا، پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔" گرم وول کی گھٹنوں تک آتی شرٹ اور جینز نکال کر واش روم میں ہینگ کیا اور تاکید کر کے باہر نکل گیا۔ زینت ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی۔ وہ وہیں صوفے پر ٹک گیا۔
"چھوٹے خان اور کچھ ضرورت ہو تو بتائیں۔۔" زینت نے ادب سے سوال کرتے ہوئے عیسٰی کو دیکھا۔ چہرے پر تھکن کے باوجود اطمینان کی رونق چھائی ہوئی تھی۔ نیلی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی تھی۔۔
"کھانا کھا لینا تو پھر پُروا کے لیے ہاٹ چاکلیٹ ملک بنا دینا۔۔ نہا رہی ہے ٹھنڈ نا لگ جائے۔۔" وہ بولا تو زینت مسکرا کر سر ہلایا۔ جیسے وہ خیال رکھ رہا تھا، ایک ایک بات پر توجہ دے رہا تھا زینت کو اس چھوٹی گڑیا پر رشک آیا۔۔ عقل سے پیدل تھی، مصیبتوں کو آگے بڑھ بڑھ کر گلے لگا لینے والی مگر قسمت بہت اچھی نکلی تھی۔۔ سامنے بیٹھا مغرور خان زادہ اس کا دیوانہ جو ہو چکا تھا۔ زینت سر ہلا کر چلی گئی۔
پُروا تین منٹ میں ہی باہر نکلتی سردی سے کپکپا رہی تھی۔ چہرہ فریش ہو گیا تھا، بال اب کندھوں سے اچھے خاصے نیچے تک جاتے تھے، عیسٰی نے جلدی سے اٹھ کر اس کے گیلے بالوں کو ٹاول میں سمیٹ دیا۔
صوفے پر اپنے پاس بٹھا کر اپنی گرم شال اس پر ڈال کر اچھے سے چھپا دیا۔
"میں کھانا کیسے۔۔" پُروا تو پوری کی پوری چھپ کر پریشان ہو گئی۔ چہرے کے علاوہ ہاتھ پاؤں تک اس نے شال میں چھپا دئیے تھے۔۔
"میں کھلا دوں گا۔۔ شال مت اتارنا۔۔" وہ اطمینان سے بول کر کھانا نکالنے لگا۔ پُروا اسے تکتی جا رہی تھی اور وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا اسے کھانا کھلا رہا تھا۔ چمچ میں بچوں کی طرح تھوڑے تھوڑے چاول ڈال کر کھلاتا پُروا کو تھکا رہا تھا۔
"عیسٰی جی۔۔ زیادہ چاول دیں۔۔" وہ بےچارگی سے بولی، چاول منہ میں جاتے ہی گم ہو جاتے تھے، اسے لگا ایسے تو رات گئے تک بیٹھ کر کھاتی رہے گی پیٹ نہیں بھرے گا۔۔ عیسٰی نے چونک کر اسے دیکھا۔
"منہ دیکھو اپنا۔۔ چھوٹا سا تو ہے۔۔" وہ ہنس پڑا۔ اسکے ہونٹوں کا دہانہ ٹوئٹی کی طرح ننھا سا تھا۔
"میں بڑا سا کھول سکتی ہوں۔۔" پروا نے کہتے ہی باقاعدہ منہ کھول کر دکھایا، عیسٰی قہقہہ لگا کر ہنسا۔
"اچھا یہ لو۔۔ بھوکی بلی۔۔" وہ چمچ بھر بھر کر منہ میں ڈالنے لگا، پُروا پل بھر میں تیزی سے غڑپ غڑپ کھاتی اسے حیران کر گی۔
"پُروا۔۔ تمہیں پتا ہے ہمارے پاس اب تمہارے جیسی ایک اور کیٹ بھی ہے۔۔" اچانک رباض کا خیال آنے پر وہ مسکرا کر بولا، پُروا سوالیہ نظر سے دیکھنے لگی۔
"ویٹ۔۔ دکھاتا ہوں۔۔" وہ پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر موبائل نکال گیا۔ پانچ منٹ بھی صبر نہیں کر پایا۔
"حدیر لالا اور تمہاری پریہان اپیا کا بیٹا۔۔ رباض۔۔"
رباض کی ویڈیوز نکال کر اسے موبائل پکڑاتے ہوئے بتایا۔ پُروا آنکھیں پھیلائے سکرین کو تک رہی تھی۔
چھوٹا سا سرخ سفید گڈا۔۔ گول مٹول سا اور تیزی سے ٹانگیں چلاتا اور چیخیں مارتا ہوا۔۔ آہستہ آہستہ اس کی حیرانی جوش اور خوشی میں بدل گئی۔
اس کے بعد عیسٰی پچھتایا تھا رباض دکھا کر۔۔ اس نے کب کھایا، کتنا کھایا۔۔ خبر نہیں رہی۔۔ گرم چاکلیٹ والا دودھ آیا، عیسٰی نے پلا دیا۔۔ وہ پی گئی مگر نظر سکرین پر تھی۔ ایک کے بعد اور۔۔ اور کے بعد اگلی۔۔ وہ سب ویڈیوز جو اسے موسٰی اور حدیر اکثر بھیجتے تھے، پروا بنا رکے دیکھتی جا رہی تھی۔
وہ بوریت سے بچنے کے لیے اس کے بال ڈرائے کر کے برش کرنے لگا، نرم شہد رنگ بال۔۔ اس کے نازک کندھے پر گال ٹکا کر بالوں میں منہ چھپاتا ان کی نرمی سے پرسکون ہونے لگا۔ پروا کی بےنیازی پر منہ بسور کر اٹھا۔ وہ صوفے سے بیڈ پر چلی گئی اور پھر لحاف اوڑھ لیا۔ ارد گرد کی پروا نہیں رہی۔۔
"پُروا موبائل دے دو اب واپس۔۔" رات تک جب اس نے موبائل نہیں دیا تو وہ بے چارگی سے بولا۔
"بس ایک اور۔۔ یہ بہت پیارا لگ رہا ہے۔۔ اس کی آئز دیکھیں۔۔ اس کے لپس کتنے ریڈ ہیں۔۔ یہ چیختا کتنا ہے۔۔۔ اس کے ہاتھ دیکھیں کتنے چھوٹے ہیں۔۔"
وہ بہانے بناتی اسے بھی بہلانے لگی، جیسے وہ موبائل لینا بھول جائے گا۔ وہ پُروا کو دیکھ کر رہ گیا۔
اسی وقت موبائل پر خانزادہ کی کال آنے لگی۔ عیسٰی مسکرایا اور ہاتھ بڑھایا مگر اصل جھٹکا اسے تب لگا جب پُروا نے بِنا رکے کال کاٹ کر ویڈیو پلے کر دی۔ عیسٰی کا منہ کھل گیا۔
"پُروا ضروری کال ہو گی۔۔ موبائل دے دو۔۔ صرف پانچ منٹ کے لیے چاہئیے۔۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ وہ نفی میں سر ہلاتی رخ پھیر گئی۔
"یار۔۔" وہ سر تھام بیٹھا۔ خانزادہ نے زینت کو کال کر لی تھی، تھوڑی دیر گزری جب زینت نے اسے کال کا بتایا، وہ موبائل لے کر وہیں کمرے میں ٹہلتا بات کرنے لگا۔۔
"رباض کی ویڈیو دکھا بیٹھا ہوں۔۔ تب سے موبائل اس نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔۔ میری ساری کالز بھی ریجیکٹ کر رہی ہے۔۔ بلی اپنے پنجے نکال چکی ہے۔۔"
وہ پُروا کو مسکرا کر دیکھتا آہستگی سے بول رہا تھا۔ خانزادہ نے اطمینان بھرا سانس لیا۔
"میں جانتا ہوں میرا شہزادہ کسی کو اداس نہیں رہنے دیتا۔۔ اپنی آنی کو بھی خوش کر دیا ناں۔۔" خانزادہ کے لہجے میں محبت تھی، عیسٰی نے آہ بھری۔
کال کٹتے ہی موبائل زینت کو جا کر پکڑایا۔ کمرے میں آ کر لائٹس آف کر کے نیلگوں روشنیاں جلائیں تو پُروا پہلی بار موبائل سے نظر ہٹا کر چونکی۔۔
"عیسٰی جی۔۔" مدھم نرم سی آواز میں خوف سے اسے پکارا تو اس کے پاس بیٹھتے عیسٰی نے اسے حصار میں لے لیا۔
"جی عیسٰی کی زندگی جی۔۔" وہ شرارت سے بولا۔ پُروا نے گہرا سانس بھرا، جیسے اٹکی سانس بحال ہوئی ہو۔ پھر سے موبائل کی طرف متوجہ ہونے لگی جب عیسٰی نے موبائل کھینچ کر اپنے قبضے میں لیا۔
"رباض کو دیکھنے دیں۔۔" وہ پریشان سی موبائل کو دیکھ کر بولی۔ اس چھوٹے سے گڈے کو دیکھ کر ہر فکر اور پریشانی بھول گئی تھی۔۔
"پہلے مجھے آئی لو یو کہو۔۔" عیسٰی نے شرط رکھی۔
"آئی لو یو۔۔ اب دیں۔۔" وہ جان چھڑوا کر بولی۔
"آہاں۔۔ ایسے نہیں میری جان۔۔ پورا بولو۔۔ عیسٰی جی آئی لَو یو۔۔ اور تھوڑا پیار سے بولو۔۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بولا، آنکھوں میں شوخی چمک رہی تھی اور لبوں پر مچلتی شریر مسکان۔۔ وہ اس پل پرانا عیسٰی بن گیا تھا۔۔ ساری شوخی لوٹ آئی۔
اس کی فرمائش پر پُروا کا چہرہ سرخ ہوا۔ رخ پھیر کر سوتی لحاف میں چھپ گئی۔ عیسٰی نے معنی خیزی سے اسے دیکھا۔ اس کا شرمانا اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔ موبائل پر سارے میسجز اور کالز چیک کیے، ایک ایک کو وضاحت دیتا اطمینان دلانے لگا۔
موسٰی، مورے، حسن اور احمر۔۔ دوستوں کو پُروا کے مل جانے کی اطلاع دی تو وہ وہیں میسج پر ہی شروع ہو گئے تھے۔ چھیڑ چھاڑ اور معنی خیز جملے۔۔
وہ مسکرا کر جواب دیتا جا رہا تھا۔ کمرے کی خاموشی میں پُروا کے گھبرا کر کروٹ بدلنے پر چونکا۔
"عیسٰی جی۔۔ وہاں۔۔ وہ ونڈو کے دوسری طرف کوئی ہے۔۔ وہ مجھے لینے آئے ہیں۔۔" وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سفید پردوں کے پار نظر گاڑھے دیکھ رہی تھی، چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا۔
"کوئی نہیں ہے پُروا۔۔ ہوا سے درخت کی شاخیں ہل رہی ہیں بس۔۔" اس نے موبائل رکھ کر نرمی سے اس کے ہاتھ تھام کر سمجھانا چاہا۔
"نہیں کوئی ہے۔۔ مجھے لینے۔۔ انہیں لگتا ہے میں جسم بیچتی ہوں، کلب جاتی ہوں۔۔ وہ انکل۔۔ وہ کہہ رہے تھے میں نے پیسے دینے ہیں ان کے۔۔" وہ خوف سے لرزتی بول رہی تھی، عیسٰی ساکت سا ہو گیا۔
فوراً اٹھ کر سفید پردوں پر بھاری نیلے پردے برابر کر دئیے۔ اب کوئی عکس نہیں تھا نا چاند کی روشنی۔۔
پُروا بیڈ پر خود میں سمٹی رو رہی تھی۔ اس کے پاس لیٹ کر سینے سے لگاتا خود میں چھپا گیا۔
"پُروا یہاں کوئی نہیں آ سکتا۔۔ سب سمجھ گئے، تم پر جھوٹے الزام تھے۔۔ تم نے ایسا کچھ نہیں کیا، ریلیکس ہو جاؤ۔۔ میں ہوں ناں تمہارے پاس۔۔" نرمی سے تھپکتا اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اس کے سینے میں منہ چھپائے وہ ہولے ہولے پرسکون ہوتی چلی گئی۔
وہ نہیں جانتا تھا وہ اس سارے عرصہ میں کہاں کیسے رہی، کیا کچھ جھیلا۔۔ مگر اس کی حالت بتا رہی تھی وہ وقت اکیلے گزار کر وہ پہلے سے زیادہ کمزور اور خوفزدہ ہو گئی ہے، جو وقت اس پر آیا، وہ گزرا نہیں اس کے اندر کہیں ٹھہر گیا ہے۔۔
"عیسٰی جی۔۔" کچھ توقف کے بعد۔۔ جب عیسٰی کو لگا وہ سو چکی ہے، اس نے نیند سے بھری نرم آواز میں پکارا تو عیسٰی چونکا۔
"جی۔۔" اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا متوجہ ہوا۔
"آپ اب مجھے کہیں نہیں جانے دیں گے ناں۔۔؟" اس کے سوال پر عیسٰی کا حصار بےساختہ اس پر مزید تنگ ہوا تھا۔ سر جھکا کر اس کا چہرہ اوپر کر کے دیکھنے لگا۔ وہ امید سے دیکھ رہی تھی۔
جانے کن حالات میں اور کیوں وہ گھر سے گئی تھی مگر یقیناً جب جا رہی تھی وہ تب بھی چاہتی تھی اسے روک لیا جائے گا۔۔ آج بھی یہی چاہ رہی تھی۔۔
"پُروا۔۔ میں قسم کھا رہا ہوں اب تم اگر مجھ سے خود دور جانا چاہو گی تب بھی نہیں جانے دوں گا۔۔ اب مجھ سے تمہیں کوئی نہیں چھین سکتا۔۔ میرا تم پر حق ہے اور اپنا حق میں کبھی نہیں چھوڑتا۔۔"
اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولتا وہ اٹل لہجے میں بولا۔ پُروا کے معصوم سے چہرے پر سکون پھیل گیا۔
عیسٰی بےاختیار سا اس پر جھکتا اپنے بےتاب لمس سے اس کا بھیگا چہرہ چھونے لگا۔
وہ ماضی سے دستبردار ہو گیا، وہ کیوں گئی، کہاں گئی، سب جانے دیا۔۔ وہ اب پاس ہے، اسے پاس رکھے گا اور اب اس سے دور نہیں ہونے والا تھا۔۔ وہ عہد باندھ رہا تھا۔ اپنی زندگی میں پُروا کی اہمیت تو اس نے تب ہی جان لی تھی جب وہ دور ہوئی تھی۔۔ اب اسے سینے سے لگا کر یہ بھی جان گیا جو سکون اس کے وجود میں ہے، وہ دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔۔
وہ برے حالات سے گزری تھی، عیسٰی نے کچھ دن میں ہی جان لیا تھا، وہ دن رات اس کے پاس رہا، قریب رہا، اسے ہر طرح سے بہلایا، اس کا دل لگانے کے ہر جتن کیے۔۔ وہ آج بھی وہی معصوم سی پُروا تھی مگر بہت بدل گئی تھی، اب وہ عیسٰی کو دور جاتا دیکھ کر ہی رباض کی طرح چیخیں مار کر اس کا دل دہلا دیتی تھی۔۔ عیسٰی اس کے ساتھ بندھ کر رہ گیا تھا مگر اسے اعتراض تو بالکل نہیں تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خانزادہ تین دن بعد حویلی لوٹا تو پریہان کمرے میں بند تھی، رباض باہر گل جان کی گود میں کھیلتا باپ کو دیکھ کر مچل اٹھا۔
"اس کی طبیعت ٹھیک کے؟ پریہان کہاں ہے۔۔؟" خانزادہ نے رباض کو اٹھا کر اسے چومتے ہوئے پوچھا۔
"یہ تو ماشاءاللّٰہ ٹھیک ہے بالکل۔۔ اور پریہان۔۔۔"
ابھی وہ کچھ بولتیں کہ پیچھے سے خانی بیگم پہنچ کر بول اٹھیں۔۔
"پریہان آج پھر صبح سے کمرے میں بند ہے۔۔ یہ ماں کے لیے روتا رہا مگر اس نے نہیں اٹھایا۔۔ میری بات سن لو خان۔۔ گھر میں پہلے ہی بہت ٹینشن ہے۔۔ خان داور کی بیوی حویلی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے واپس جا چکی ہے، بےاولادی کی وجہ سے خان داور کی شادی شدہ زندگی کا اختتام ہو گیا ہے اور آغا جان نے فیصلہ سنا دیا ہے۔۔ اگر تمہاری بیوی اپنے بچے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو رباض داور اور اس کی بیوی کو دے دیا جائے گا، شاید ان کی شادی شدہ زندگی بچ جائے۔۔
تم پھر سکون سے اپنی بیوی کو مناتے رہنا۔۔"
خانی بیگم نے ایک ہی سانس میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے ناراض نظر اس پر ڈالی اور چلی گئیں۔
وہ حیران پریشان سا کھڑا تھا، گل جان متاسف ہوئیں۔
"کل گئی ہے داور کی بیوی۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق دونوں ٹھیک ہیں، اللّٰہ کی طرف سے دیر ہے مگر اسے لگتا ہے داور میں نقص ہے۔۔ پہلے تو سب امن تھا، اب یاور باپ بننے والا ہے، تم باپ بن گئے تو شاید زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔۔" گل جان دلگرفتگی سے بول رہی تھیں۔
"انہیں محسوس ہوا تو داور لالا کا کیا۔.؟ وہ بھی تو اس کمی کے ساتھ بھی نباہ کرتے رہے۔۔" خانزادہ نے ضبط سے جبڑے بھنچے۔
"آغا جان کو میں جواب دے دوں گا۔۔ اگر وہ مجھ سے ایسے ہی مانگ لیتیں نا بیٹا تو دے بھی دیتا مگر جیسے وہ میرے لالا کو اتنے وقت کے تعلق کے بعد بھی یہ سب کہہ کر گئی ہیں تو سوچیے گا بھی نہیں کہ میں اپنا بیٹا دوں گا۔۔" وہ دوٹوک لہجے میں بولتا رباض کو دیکھنے لگا جو اپنے ہی ہاتھوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ گل جان خاموش رہیں جیسے انہیں بھی اس کی بات سے اتفاق ہو۔۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا کمرے کی طرف بڑھا اور دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر گیا۔ آج پریہان پر بھی شدید غصہ آ رہا تھا۔
"پریہان یہ سب کیا ہے۔۔ تم اگر میری اولاد پالنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں تو آج صاف الفاظ میں بتا دو۔۔" سینے سے لگے رباض کو بیڈ پر لیٹا کر وہ بلینکٹ میں چھپی پریہان سے سرد لہجے میں بولا۔
اسے ڈھٹائی سے سویا دیکھ کر وہ تپ کر اس کے پاس آیا۔ بلینکٹ کھینچ کر اس پر سے اتارا تو دھک سے رہ گیا۔ سرخ ہوتا چہرہ اور بکھرے بال۔۔ وہ نیم بےہوش تھی، فکر سے جھک کر اس کے چہرے سے بال ہٹائے تو جھٹکا لگا۔۔۔ شدید بخار میں جل رہی تھی وہ۔۔
"پریہان۔۔" اس کا رخسار تھپھپا کر اسے پکارا تو وہ سرخ نیم وا آنکھوں سے اسے غائب دماغی سے دیکھنے لگی۔ وہ جلدی سے بلینکٹ اس پر ڈال کر سیٹ کرنے لگا۔ کچھ عرصہ وہ رباض سے لاپروائی جو برت چکی تھی اب اس کا کمرے میں بند ہونا اور رباض کو نظرانداز کرنے کا سب ایک ہی مطلب لے کر جل کڑھ رہے تھے، گل جان داور کی وجہ سے پریشان تھیں شاید اس لیے بھی پریہان کی طرف توجہ نہیں دی۔۔
رباض اپنے سامنے کسی کو نا پا کر بیڈ پر ٹانگیں اٹھا اٹھا کر مارتا چیخنے لگ گیا۔
"آ رہا ہوں میری جان۔۔ تم تو صبر کر لو۔۔" وہ رباض کے پاس آتا اسے اٹھا کر بولا تو وہ کھلکھلانے لگا۔
اسے جا کر خانی بیگم کو پکڑایا اور پریہان کو چیک اپ کے لیے لے گیا۔ واپس آیا تو شام ہو رہی تھی، پریہان کو کمرے میں چھوڑ کر لاؤنج میں آیا۔۔
رباض، خان یوسف کی گود میں بازو جھلاتا باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ خان آزر اور باقی سب بھی پاس بیٹھے تھے۔ اسے دیکھ کر چونکے۔
"اب کیسی ہے پریہان۔۔؟" خان آزر نے اس سے پوچھا۔
"بہتر ہے۔۔ شکر ہے میں واپس آ گیا ورنہ اس نے اکیلے پڑے رہنا تھا اور آپ سب باہر بیٹھ کر کوستے رہ جاتے۔۔" وہ خفگی جتا کر بولا تو سب چپ ہو گئے۔
"کہو تو رباض کو آج میں سلا لوں گی۔۔" خانی بیگم شرمندگی سے بولیں تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"بالکل نہیں۔۔ میں سنبھال لوں گا۔۔ پریہان کو بھی اور اپنے بیٹے کو بھی۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"جانتا ہوں ناراض ہو۔۔ داور کی بیوی کو رباض دینے کی بات صرف اس لیے کی کہ شاید وہ اس طرح نا جائے۔۔ ایک کوشش کی تھی مگر پھر بھی آخری فیصلہ تم سے پوچھے بنا کبھی نا کرتا۔۔" خان یوسف نے گہرا سانس بھر کر خود سے ناراض بیٹھے خانزادہ کو وضاحت دی۔
"داور لالا عورت نہیں ہیں کہ گھر بچانے کی کوشش کریں۔۔ بےاولادی ہمیشہ سب سے پہلے مرد کو تھکاتی ہے مگر لالا نے صبر سے کام لیا۔۔ شادی کے سات سال گزار دئیے کبھی گلہ نہیں کیا۔۔ اچھا ہے وہ چلی گئیں۔۔
گل جان مورے آپ داور لالا کے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈیں۔۔ ان کی شادی کریں ان کا گھر بسائیں۔۔ اللّٰہ اولاد بھی دے دے گا۔۔" وہ فیصلہ سنا گیا۔
"اس سر پھرے کی ہمیشہ اپنی بکواس ہوتی ہے۔۔" خان یوسف نے ناک چڑھا کر خان آزر کو دیکھا۔ گل جان کا چہرہ اس فیصلے سے دمک اٹھا تھا۔ وہ سکون سے بولتا اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ پریہان آنکھیں موندے پڑی تھی۔ بخار اب کچھ کم تھا۔
"پریہان۔۔ ٹھیک ہو ناں۔۔" اس کے قریب ہو کر نرمی سے پوچھا تو وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
"سر میں درد۔۔" وہ بھیگی آواز میں بولتی لب بھینچ گئی۔ گرم کپکپاتے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ماتھے پر رکھ گئی۔ وہ بےساختہ مسکرایا۔
اس کی تپتی پیشانی پر نرمی سے لب رکھے اور اسے اپنے حصار میں لے کر سر دبانے لگا۔ وہ سکون سے اس کے کندھے پر سر رکھ کر سو گئی۔۔
"کیا بات ہے لالا۔۔ کمرے میں کیوں بند ہیں۔۔" وہ مردان خانے میں داور کے بند کمرے میں آیا تو وہ اندھیرا کیے پڑا تھا۔ اس کی بانہوں میں سکون سے لیٹے رباض نے اندھیرے میں جاتے ہی چیخنا شروع کر دیا۔
داور اس کے سوال سے زیادہ رباض کی چیخوں پر ہڑبڑا کر اٹھا اور جلدی سے لائٹس آن کیں۔
"ٹھیک ہوں یار۔۔ میں تو ویسے ہی ریسٹ کر رہا تھا۔" اس نے مسکرا کر رباض کو اس سے لیتے ہوئے جواب دیا۔ رباض روشنی ہوتے ہی آنکھیں گھماتا چاروں اطراف کا جائزہ لینے میں مگن ہو گیا۔۔
"کون سی تھکن ہے جو اتر نہیں رہی۔۔ میں تو جب سے آیا ہوں آپ کمرے میں بند ہیں۔۔" خانزادہ نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ وجیہہ چہرے پر سنجیدہ سی مسکراہٹ تھی۔ دراز قد اور دلکش سراپا۔۔ گل جان جیسے نرم نقوش کا حامل خان داور ایک مکمل اور بہترین شخص تھا۔ خانزادہ نے افسوس بھری سانس لی۔ کاش اس کی شخصیت کی طرح اس کی زندگی بھی مکمل اور دلکش ہوتی۔۔
"یاور آج کل زمینوں کا سارا کام سنبھال رہا ہے تو میں نے سوچا ریسٹ کر لوں۔۔ تم سناؤ شہر گئے تھے، سب خیریت تو تھی ناں۔۔؟" داور نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ نظریں رباض پر ٹکی تھیں جو داور کی شال میں پاؤں الجھائے اب نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"سب ٹھیک ہے۔۔ پریہان کی بہن مل گئی ہے اس کے لیے گیا تھا بس۔۔" خانزادہ نے آگے بڑھ کر رباض کا چھوٹا سا پاؤں شال سے نکال کر بتایا۔۔ رباض پاؤں نکلتے ہی اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر معائنہ کرنے لگا۔
"اوہ شکر ہے یار۔۔ اللّٰہ حفاظت میں رکھے۔۔" داور نے تشکر بھری سانس بھری اور رباض کو دیکھ کر مسکرایا جو اب اونچی آواز میں بول بھی رہا تھا۔۔
"داور لالا۔۔ جو کچھ ہوا، اس کی وجہ سے آپ شاید اپ سیٹ ہیں، میں رباض کو دے دیتا لیکن۔۔۔
"خان پاگل ہو کیا۔۔ کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔" داور نے بےساختہ اسے ٹوکا۔
"ہم نے اتنا وقت بےاولادی میں گزار دیا تھا، اب اگر بچہ لے بھی لیتے تو شاید پہلے جیسے نا ہو سکتے، وہ بھی اکتا گئی تھی اور میں بھی۔۔ وہ عورت تھی صبر ٹوٹا تو اظہار کر گئی، اسے جانا تھا چلی گئی۔۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔۔ اب یہ رشتہ بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور رہی بات رباض کی۔۔
یہ میرا بیٹا ہے، میری جان ہے، جب چاہوں اٹھا کر پیار کر سکتا ہوں اور کیا چاہئیے۔۔ ولدیت سے کیا ملتا ہے یار۔۔ اس نے زندگی میں رونق بھر دی ہے۔۔"
داور نے اپنے مخصوص نرم پُراثر لہجے میں کہا اور رباض کو سینے سے لگا کر محبت سے چوما۔ خانزادہ نے اطمینان بھری سانس بھری۔ رباض اس کے نرم بوسوں پر ٹانگیں چلاتا کھلکھلانے لگا۔
"اچھا پھر ٹھیک ہے، زہنی طور پر تیار رہیں میں نے گل جان سے کہہ دیا ہے، آپ کی شادی کر دیں گے۔۔"
خانزادہ نے اٹھتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔
"رکو۔۔ کیا کہہ ریے ہو۔۔ مجھے اب شادی نہیں کرنی۔۔ اور مجھ پر یہ رعب جھاڑنے کی کوشش بھی مت کرنا، سب کے باپ بنے پھر رہے ہو۔۔" داور تو بوکھلا ہی گیا۔
اسے گھور کر سختی سے تنبیہہ کی مگر اثر کسے تھا۔
"پریہان کو دیکھ لوں، بخار تھا اسے۔۔" وہ شال جھاڑ کر بولا اور اسے بالکل ان سنا کر کے قدم بڑھاتا وہاں سے نکل گیا۔ داور نے دانت کچکچائے۔
"دیکھ رہے ہو اپنے باپ کے کام۔۔ سب کے فیصلے کرتا پھرتا ہے، ساری آغا جان کی دی ہوئی ڈھیل ہے۔۔ پوچھتا، بتاتا تک نہیں ہے۔۔" وہ بےچارگی سے رباض کو بازؤں میں اٹھا کر اپنے قریب کرتا بتا رہا تھا۔
رباض اسے سنتا تیزی سے ٹانگیں چلاتا جواب دینے لگا۔
خانزادہ زنان خانے میں جاتا لبوں پر شریر مسکان سجائے رہا، اسے اندازہ تھا خان داور جھٹپٹائے گا اور مانے گا بھی نہیں، گل جان اسے بتا چکی تھیں مگر وہ پوچھنے اور جواب مانگنے کا تکلف پہلے کب کرتا تھا جو اب کرتا۔۔ فیصلہ سنا دیا اب داور چاہے اس کا گلا دبا دے، وہ نکاح تو کروا کر رہنے والا تھا۔۔
کمرے میں داخل ہوا، شال اتار کر ایک طرف رکھی اور پریہان کے پاس جا بیٹھا۔
اس کا ٹمپریچر چیک کر کے وہ مطمئن ہوا۔ وہ اب رات کی نسبت کافی بہتر تھی، اس پر جھک کر نرمی سے گال چوما تو اس کے لمس پر وہ کسمسا کر جاگی اور اسے دیکھنے لگی۔
"اب کیسی ہو..؟" اسے جاگتا دیکھ کر وہ نرمی سے مسکرا کر پوچھنے لگا۔
"ٹھیک ہوں۔۔ بس اتنی ہی ٹھیک ہو سکتی ہوں میں۔۔ پُروا کا خیال مجھے سکون نہیں لینے دیتا۔۔ کل صبح صبح پریسہ آپی کی کال آئی تھی، بہت رو رہی تھیں، بی۔پی ہائی کا پرابلم رہنے لگا ہے اب انہیں۔۔ ہمیں یہی بات رلاتی ہے حدیر، وہ ہماری چھوٹی بہن ، معصوم اور کم عمر ہے ایسے کیسے غائب ہو گئی، ہم تو کبھی سکون سے نہیں رہ پائیں گی۔۔" وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھی، صبح صبح حواس بحال ہوتے ہی اس کے مہربان لہجے پر آنکھیں بھر لائی تھی۔ پریسہ کا بتاتے ہوئے بھی پریشان ہو رہی تھی۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اس کی پلکوں کی نمی اپنی پوروں پر سمیٹ گیا۔
"اب پرسکون ہو جاؤ۔۔ پُروا مل گئی ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔۔" خانزادہ نے اتنے سکون سے اطلاع دی جیسے سرسری بات کی جا رہی ہو۔۔ پریہان کو لگا اس نے غلط سنا ہے، شاک کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگی۔
"سچ کہہ رہا ہوں۔۔ جو تین دن میں نے شہر لگائے، اسی سلسلہ میں تھے۔۔ کسی وومن ہاسٹل میں تھی وہ۔۔ کل تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے بتا نہیں پایا۔۔"
وہ گہرا پرسکون سانس بھر کر بولتا پُروا کی مشکل کنڈیشن چھپا گیا۔ عیسٰی نے بتایا تھا اب وہ کافی بہتر ہے یعنی پریہان مل کر بھی ڈسٹرب نہیں ہو گی۔
"حدیر۔۔ مجھے اس سے ملنا ہے۔۔ پلیز مجھے اس کے پاس لے جائیں۔۔" وہ تیزی سے اٹھی۔۔ اس کے ہاتھ تھام کر التجا کرتی وہ رو پڑی۔ اس کے رونے پر وہ گہرا سانس بھر کر اسے کھینچ کر سینے سے لگا۔ آج سر سے کوئی بوجھ سا اترا تھا۔
"میں نے عیسٰی سے کہا ہے پُروا کو یہیں لے آئے۔۔ ابھی تم ویڈیو کال پر بات کر لو۔۔ اب رونا بند کرو پہلے ہی ہر وقت رو رو کر آنکھوں کا حشر بگاڑ لیا ہے۔۔" وہ اس کے بال سمیٹتا محبت بھرے لہجے میں بولا۔
"ٹھیک ہے، پھر میں پریسہ آپی کو بھی بتا دوں گی۔۔"
فرمانبرداری سے بولتی آج اتنے وقت بعد پہلے کی طرح اس کے سینے پر ہاتھ ٹکاتی چہرہ چھپا گئی۔ وہ مسکرا کر اس کا سر تھپتھپانے لگا۔ کتنی دور ہو گئی تھی وہ اس کچھ عرصہ میں۔۔ وہ اسے بتا نہیں پایا کہ اس کے یوں دور ہو جانے پر کتنا بےبس ہوتا تھا۔
اسے کبھی سینے سے لگا بھی لیتا تو اس کی آنکھوں کی نمی بےچین کر دیتی تھی۔۔ کچھ عرصہ میں ہی وہ ضروری ترین ہستی بن گئی تھی۔۔ آج جب سینے سے لگی تو خانزادہ کو لگا دل کا ہر کونہ آباد ہو گیا ہے۔۔
وہ موبائل اٹھا کر عیسٰی کے نمبر پر میسج کر رہا تھا۔
"ابھی صبر کریں۔۔ پروا موبائل کی چارجنگ ختم کر کے سو رہی ہے۔۔ چارجنگ ہو جائے تو میسج کروں گا۔۔" عیسٰی کا رپلائی ملا۔۔ آج کل اس کے موبائل پر پُروا کا قبضہ رہتا تھا۔ خانزادہ پریہان کو بتاتا ہنس پڑا۔
وہ عیسٰی کا ایسا نرم برتاؤ سن کر پرسکون ہو گئی۔۔
"میں رباض کو لے آتا ہوں۔۔ وہ بھی پُروا سے بات کرے گا۔۔" وہ پریہان سے کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا۔
پریہان نے بےساختہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔
"حدیر۔۔ تھینکس اینڈ سوری فار ایوری تھنگ۔۔" سر جھکائے شرمندگی سے بولی۔ اسے یاد تھا کیسے لڑتی رہی تھی خانزادہ سے۔۔ اسے چھُونے تک نہیں دیتی تھی خود کو۔۔ کبھی کبھی الزام تک دے بیٹھتی تھی۔
"تم نے میرے ساتھ جو کیا اگر وہ سب مجھ پر حق سمجھ کیا تھا تو سوری مت کرو۔۔" وہ رکا اور پریہان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نرمی سے دبا کر بولا۔
"حق نا سمجھتی تو وہ سب کرنے کی بجائے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاتی کہ میرا اب کوئی گھر نہیں اور میں یہاں سے نکالی جا سکتی ہوں۔۔ مگر میں نے اپنی فرسٹریشن آپ پر کھل کر نکالی کیونکہ مجھے یہ پتا تھا مجھے آپ خود سے دور نہیں کریں گے.."
وہ سر اٹھا کر بولتی مان سے اسے دیکھنے لگی۔ اس وقت وہ خانزادہ کو خود سے قریب تر لگی تھی۔۔
"تم میری محبت ہو، تمہیں سب معاف ہے۔۔" وہ گرم جوشی سے کہتا جھک کر اس کے رخساروں پر شدت بھرے لمس بکھیرتا پیچھے ہوا اور پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔ پریہان کے گرد اس کا لمس اور لہجے کی نرمی خوشبو بن کر بکھری ہوئی تھی۔ سرخ گال لیے اپنی جگہ پر بیٹھی رہ گئی۔ وجود ہلکا پھلکا ہو گیا تھا، ہر پریشانی کا جیسے اختتام ہو چکا تھا۔
اور پھر پُروا سے بات کر کے تو اس کی رہی سہی بیماری اور بےزاری بھی ختم ہو گئی۔
رباض کے چیخنے پر اسے اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی تو سب نے ہی اس کا حال احوال پوچھا۔ اس کا مزاج بدلا تو جیسے سب کچھ بدل گیا، نرمی سے مسکرا کر جواب دینے لگی، خانی بیگم نے سکون کا سانس بھرا۔
تھوڑی دھوپ چھاؤں سی بہو ملی تھی، پریشانیوں پر بالکل ہی سب سے الگ ہو جانے والی اور خوشی میں خود بخود سب کے درمیاں بیٹھ کر گھلنے ملنے والی۔۔
مگر بیٹے کے لیے انہیں قبول تھی، غصہ ہو جاتی تھیں، نظرانداز بھی کر جاتی تھیں مگر جب وہ پاس آتی تھی تو وہ بھی نرمی سے بات کرتی تھیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
وہ بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کیے گود میں رکھے لیپ ٹاپ پر بیٹھا آفس ورک کر رہا تھا۔ پُروا اس کے ایک بازو پر اپنی پشت ٹکائے اس سے رخ پھیر کر بیٹھی موبائل پر رباض کی پکچرز دیکھ رہی تھی۔
آج صبح ہی ویڈیو کال پر پریہان سے بات کی تھی، رباض کی عجیب زبان میں کہی جانے والی باتیں بلا تکان سنتی رہی تھی۔ جب بول بول کر رکتا تھا تو ٹانگیں اور بازو چلانے لگ جاتا تھا، پھر زرا رک کر لمبا لمبا بولتا تھا۔ وہ ایسے سنتی رہی تھی جیسے اسے سب سمجھ آ رہی ہے، شاید اسی وجہ سے رباض نے بھی گھنٹہ بھر کھل کر اس سے بات کی تھی۔۔
اور کال کے بعد اب تک پریہان نے اسے لاتعداد پکچرز اور ویڈیوز بھیجی تھیں۔ درمیان میں اس نے پریسہ اور اس کے بچوں سے بھی بات کی تھی۔
عیسٰی نے اس کے لیے موبائل منگوا لیا تھا، ابھی سم ڈالنا باقی تھا اور تب تک وہ اپنے موبائل پر فاتحہ پڑھ چکا تھا۔۔ ایک نظر گردن موڑ کر پُروا کے سر کے اوپر سے جھانک کر سکرین کو دیکھا، موٹے کپڑوں میں بھالو بنے رباض کی پکچرز تھیں جن کو زوم کر کے دیکھ رہی تھی۔ وہ آہ بھرتا پھر سے لیپ ٹاپ کی طرف مڑا۔
اس کا دھیان آئرہ کی طرف گیا، آج صبح ہی وہ ملنے آئی تھی، اس نے پُروا سے ملوا کر سب بتا دیا تھا۔
"تم لڑکیوں کو نجانے کیوں لگتا ہے محبت سب کچھ ہے، مل جائے تو نعمت اور نا ملے تو جذباتی پن میں خود ساختہ سزا کے طور پر کوئی بھی فیصلہ لے کر ساری عمر خود کو کوستی رہ جاتی ہو۔۔
تھوڑا صبر کر لیتیں تو سنبھل جاتیں، میری مثال ہی لے لو۔۔ تمہیں لگتا تھا مجھے پا لینا سب کچھ ہے لیکن دیکھو جس سے میں نے محبت کی اس کی حفاظت نہیں کر پایا۔۔ مجھے نہیں خبر اس کے ساتھ کیا ہوا، وہ جو گھر سے نکلتی نہیں تھی، گھر چھوڑ گئی۔۔
گھر کے باہر جانے کیسے حالات سے گزری اور حد تو یہ ہے کہ اسے ڈھونڈنے والا بھی میں نہیں ادب خان تھا۔۔
اب یہ لوٹ ائی ہے تو بنا سوال کیے اگر اسے اپنایا یے تو صرف اس لیے کہ محبت کرتا ہوں، رہ نہیں سکتا اس کے بغیر ورنہ میرا ظرف اتنا بڑا نہیں ہے۔۔"
وہ اپنی کمزوری خود بیان کرتا آئرہ پر واضح کرنا چاہ رہا تھا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔۔
وہ سب حالات اور عدم شاہ کی حقیقت جان کر گنگ بیٹھی تھی۔ واقعی سنبھل گئی تھی، کچھ وقت گزرا تھا تو عیسٰی کی محبت مدھم بھی ہو گئی تھی لیکن اس نے جلدبازی میں خود کو کسی بدکردار انسان سے جوڑ لیا تھا۔
"مجھے سب بتانے کا شکریہ۔۔ اب شاید اپنی زندگی آسان کر سکوں گی۔۔" وہ مسکرائی تو آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔ عیسٰی نے سر ہلا دیا تھا اور جب آئرہ اٹھی تو پُروا کو گرمجوشی سے گلے لگا کر ملی۔۔ جب جانے لگی تو قدم لڑکھڑاہٹ کا شکار نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا آئرہ نے کیا فیصلہ لیا مگر وہ پُراعتماد اور پرسکون لگ رہی تھی۔۔
"عیسٰی جی۔۔" پُروا کی نرم پکار پر وہ سوچوں سے نکل کر مسکرایا۔ پُروا کا انداز تخاطب اس کے دل میں سکون سا پھیلاتا تھا۔
"جی۔۔" وہ جی جان سے متوجہ ہوا۔
"سردی لگ رہی ہے۔۔" وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی زرا سی گردن موڑ کر بےچارگی سے بولی۔ عیسٰی نے لیپ ٹاپ سائڈ پر کر کے پیروں میں پڑا بلینکٹ اٹھا کر اس پر ڈالا۔ وہ اس کی طرف ویسے ہی پشت کیے نیم دراز ہوتی اس کے کندھے پر سر رکھ گئی۔
"کیا بات ہے یعنی اب رباض کو دیکھنا ہے اور اس کے چاچو سے رخ پھیرے رکھنا ہے۔۔۔ میری طرف بھی توجہ کر لو کافی پیارا ہوں میں بھی۔۔" وہ لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کر کے ایک طرف رکھتا شریر لہجے میں بولا۔
"رباض میرے جیسا ہے ناں۔۔؟" اسے فکر نہیں تھی عیسٰی پیارا ہے یا نہیں۔۔ اسے اچھا یہ لگا کہ رباض اس کے جیسا ہے۔۔ اس کی آنکھیں پُروا جیسی تھیں۔۔
"ہاں تمہارے جیسا ہے۔۔ اور تم بالکل بلی جیسی ہو۔۔"
وہ زرا جھک کر اس کے ہاتھ سے موبائل چھین کر بولا۔
"رباض کو دیکھنے دیں عیسٰی جی۔۔" وہ اس کی طرف مڑتی رونی صورت بنا کر بولی اور عیسٰی سے موبائل کھینچ لیا۔ وہ جو اسے دیکھنے میں مگن تھا اس کی حرکت پر حیران ہوا، ایسی دیدہ دلیری واہ۔۔۔
گلابی شفاف سا معصوم چہرہ اور نرم نقوش۔۔ شہد رنگ کانچ سی آنکھیں اور سرخ ہونٹ۔۔ بال چہرے کے گرد بکھرے ہوئے تھے۔۔ اسے تکتا اس میں کھونے لگا۔۔
بال سمیٹ کر چہرے سے ہٹائے۔۔ موبائل کی روشنی میں اس کا چہرہ بہت دلفریب لگ رہا تھا۔ عیسٰی کا دل بےایمان ہونے لگا۔
اس سے یکدم موبائل کھینچ کر آف کرتا سائڈ ٹیبل پر رکھ گیا۔ پُروا ہونق سی اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"پُروا۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔" اس کے گرد اپنا حصار مضبوط کرتا وہ بوجھل لہجے میں بولا۔۔ اس کے کندھے پر سر رکھ کر لیٹی پروا کا دل اس بھاری آواز پر بےترتیبی سے دھڑ دھڑ کرنے لگا۔ وہ گھبرائی ہوئی سی اثبات میں سر ہلا گئی۔
"حدیر لالا چاہتے ہیں تمہیں حویلی لے جاؤں۔۔ اگر تمہیں وہاں رکھا گیا تو تم اپنی اپیا کے پاس رہو گی یا میرے ساتھ واپس آؤ گی.." اس کے سوال پر وہ زرا متذبذب ہوئی۔ عیسٰی کی نظر اس پر ٹکی ہوئی تھی۔
"میں رباض کے پاس۔۔" وہ درمیانی راہ نکال کر بولتی عیسٰی کے لب بھینچنے پر جھجک کر رک گئی۔۔
اسے بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، اب تو بالکل نہیں۔۔ وہ اچھا لگنے لگا تھا، اس کے حصار میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی مگر پریہان اور رباض کے پاس رہنے کا سن کر ہی دل خوش ہو گیا۔
"کوئی بات نہیں۔۔ وہیں رہ جانا لیکن تم رہ نہیں پاؤ گی۔۔" اس کے تاثرات کا جائزہ لیتا عیسٰی یکدم مزے سے بولا۔ پُروا نا سمجھی سے اسے تکنے لگا۔
"ٹرسٹ می۔۔ تمہیں عیسٰی خان کے حصار کے علاوہ کہیں سکون نہیں ملنے والا۔۔" وہ پُریقین تھا۔ اسے خود میں سمیٹتا اس کے نرم نقوش کو لبوں سے چھونے لگا۔ پُروا شرم سے سمٹ کر اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔۔ عیسٰی کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آ گئی۔ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا وہ آگے کی پلاننگ میں مصروف ہو گیا۔
داور کے نکاح میں ہی وہ اپنی باقاعدہ شادی کروا لینا چاہ رہا تھا۔ ایک دو ماہ تک ویسے بھی پُروا نے اٹھارہ سال کا ہو جانا تھا۔ ثنا بیگم اور باقی حویلی والے شاید عیسٰی کی شادی پُروا سے کرنے پر اعتراض اٹھائیں لیکن وہ سوچ چکا تھا خانزادہ کو آگے کر دے گا۔ رہ گئی پُروا۔۔۔ اس نے جھک کر پُروا کو دیکھا۔
وہ نیند میں جاتی عیسٰی کی شرٹ کو مٹھیوں میں مضبوطی سے جکڑے ہوئی تھی، وہ مسکرایا۔
پُروا اب اس کے بغیر رہنا چاہے بھی نہیں رہ پائے گی۔
خوف اور برے حالات سے بچ کر وہ جس انسان کے پاس آئی وہ عیسٰی تھا۔ اسے سہارا چاہئیے تھا، کندھا چاہئیے تھا، ایک محفوظ حصار چاہئیے تھا۔۔
عیسٰی واحد تھا جس نے اسے سب دیا، اپنا وقت، توجہ اور محبت۔۔ پوری ایمانداری اور نرمی کے ساتھ۔۔
اسے یقین تھا جیسے وہ سنبھال رہا ہے کوئی نہیں سنبھال پائے گا اور پُروا کو اب یہی توجہ اور محبت ہی ضروری تھی۔ وہ جہاں بھی چلی جائے، عیسٰی کو ہی ڈھونڈے گی۔۔ اس کے پاس ہی آئے گی۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"ریم تم نے تو میرا حال پوچھنا بھی چھوڑ دیا، رباض کے پیدا ہونے کی مبارک بھی میسج پر دے دی۔۔"
پریہان اسے کال ملائے شکوہ کر رہی تھی، مال سے شاپنگ کر کے نکلتی ریما نے آہ بھری۔
"کیا بتاؤں یار۔۔ اتنی ڈسٹرب تھی، بڑے بھائی نے چھپ کر نکاح کر رکھا تھا کسی غریب لڑکی سے۔۔ بھابھی کو پتا چلا تو ہنگامہ کر دیا۔۔ پورا ہفتہ لڑائی جھگڑا چلتا رہا، پھر بات ختم ہوئی کہ اس لڑکی کو طلاق دیں۔۔
بھائی ڈٹ گئے اسے نہیں چھوڑیں گے۔۔ بھابھی منہ بنا کر گھر جا بیٹھی، میری بڑی بہن کو اپنی پریشانی لگ گئی، بہنوئی صاحب اپنی بہن یعنی میری بھابھی کی طرفداری کرتے رہے۔۔ مما نے بھائی کو اتنا سمجھایا الٹا وہ ناراض ہو کر گھر چھوڑ گئے۔۔
بہت مشکل دن تھے، بچوں کی خاطر بھابھی واپس آئیں، میری بہن کا گھر بچ گیا، اب بھائی تین دن اس لڑکی کے پاس ہوتے ہیں، چار دن بھابھی کے پاس۔۔
پھر بھی تناؤ ہے ماحول میں۔۔" ریما نے تو کھڑے کھڑے ساری داستان سنا دی۔ جیسے دل کی بھڑاس نا نکالی تو اگلا دن نہیں نکلے گا۔ پریہان شاکڈ ہوئی۔
"اوہ۔۔ یہ تو بہت برا ہوا۔۔ شکر ہے نقصان سے بہتر راہ نکلی۔۔ سنو میرے پاس بھی چکر لگاؤ۔۔ رباض کا عقیقہ ہے، پہلے تو پُروا کی ٹینشن اور میری طبیعت کی وجہ سے حدیر ڈیلے کرتے رہے۔۔" پریہان نے شکر کیا اور اسے دعوت دی۔ ریما کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔۔
"اوہ یار سچی مجھے تمہارے ٹوئٹی کے مل جانے کی بہت خوشی ہوئی۔۔ ضرور آؤں گی میں ابھی رباض کے لیے ہی شاپنگ کر کے جا رہی تھی۔۔" ریما نے مسکرا کر بتاتے ہوئے روڈ کے پار کھڑی اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے۔ اچانک کسی نے اس کی کلائی سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچا اور اسی پل ایک تیز رفتار گاڑی وہاں سے گزرتی آگے بڑھ گئی۔۔ وہ بری طرح لڑکھڑا کر مقابل کے سینے سے جا ٹکرائی۔ موبائل ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا اور شاپنگ بیگز تو وہیں گر گئے۔۔
ریما نے گم ہوتے حواس بحال کر کے سامنے دیکھا۔
"دیکھ کر چلیں محترمہ۔۔ گاڑی کچل جاتی ابھی۔۔"
روایتی قمیض شلوار میں مردانہ شال کندھے پر رکھے وہ کوئی پٹھان مرد تھا، سنجیدہ اور قدرے سخت تاثرات والا۔۔ ریما منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔
"آپ کو کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ نازک لڑکیوں کو کیسے سنبھالتے ہیں، جیسے آپ نے بچایا ہے بازو نکل جاتی میری۔۔" ریما اسے جاتا دیکھ کر ناک چڑھا کر بولی تو وہ جاتے جاتے رک کر حیرت سے دیکھنے لگا۔
"نہیں۔۔ مجھے صرف جان بچانا سکھایا گیا ہے۔۔ آپ کا بازو سلامت ہے پھر کیا پریشانی ہے۔۔" وہ بھی جواباً ناک چڑھا کر بیزاری سے بولا۔ دراز قد اور وجیہہ سا سراپا۔۔ چہرے کے نقوش پیارے تھے مگر نہایت کرختگی چھائی ہوئی تھی۔۔
"اور میرا سامان۔۔؟" ریما نے زمین پر گرے شاپنگ بیگز کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی بات پر سامنے والے کے چہرے پر واضح غصہ چھایا تھا۔
"ابھی تو اپنا سامان سنبھالو بی بی۔۔ اگلی بار کوشش کروں گا کوئی گاڑی کے نیچے آ رہا ہے تو مرنے دوں۔۔
جاؤ اب میرا دماغ نا کھاؤ۔۔" وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولتا بےنیازی سے پلٹ کر کچھ فاصلے پر پارکنگ میں کھڑی سیاہ بڑی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ریما اس کی رعب دار شخصیت میں الجھتی جھک کر سامان اٹھانے لگی۔
"بدتمیز خان۔۔ اب اگر بچا ہی لیا تھا تو زرا روڈ بھی پار کروا دیتا۔۔ اکڑو کہیں کا۔۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی اس بار دیکھ بھال کر روڈ کراس کر گئی تھی۔۔
"ویسے یہ خان ہوتے کتنے پیارے ہیں یار۔۔" گاڑی میں بیٹھ کر وہ نچلا لب دانتوں تلے دباتی شرارت سے بڑبڑائی اور پریہان کو کال کٹنے کی وجہ میسج کر کے بتانے لگی۔
دوسری جانب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے راستے پر جاتے ادب خان کا موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔
"عورت تو ہوتا ہی پاگل ہے۔۔ جان کا پرواہ نہیں اسے، بس سامان کا فکر تھا۔۔" سر جھٹک کر بولتا گاڑی کی رفتار بڑھا گیا۔ اس کے خانزادہ صاحب کا بلاوا جو آ گیا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی کی آنکھ کسی کے بری طرح جھنجھوڑنے پر کھلی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا تو سامنے پُروا اشتیاق سے بھری آنکھیں لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا۔۔ کیوں جگایا مجھے۔۔" وہ بےچاری صورت بنا کر آنکھیں بند کر کے تکیے پر سر ڈال کر بولا۔
"آپ نے کہا تھا ہم حویلی جائیں گے رباض کے پاس۔۔"
وہ بےچینی سے بولی، یعنی جب کہہ دیا تھا تو دیر کیسی۔۔ عیسٰی نے پٹ سے آنکھیں کھولیں، موبائل اٹھا کر وقت دیکھا۔ صبح کے سات بج رہے تھے۔۔
"یار۔۔" وہ دانت کچکچا کر اس کی طرف پلٹا تو وہ سہم کر پیچھے ہوتی پریشان ہو گئی۔ شاید اسے جگا کر غلطی کی تھی۔۔ وہ دھیما پڑا۔
"میری جان چلے جاتے ناں آرام سے۔۔ اتنی بےدردی سے جگا دیا وہ بھی صبح صبح۔۔" وہ لہجہ دھیما کر کے بولتا نرم الفاظ میں اسے جتا گیا۔
"آپ کو بلایا تھا۔۔ آپ جاگے نہیں اس لیے زور سے جگایا۔۔" وہ آہستگی سے معذرت کرتی سر جھکا گئی۔
"جتنی تمہاری آواز ہے، جاگا ہوا بندہ نا سن سکے میں تو پھر سو رہا تھا۔۔ چلو اچھا کیا جگا دیا۔۔ آؤ اب مارننگ ہگ دو مجھے۔۔" وہ یکدم لہجہ اور موڈ بدل کر شوخی سے بولا، وہ چھیڑ رہا تھا مگر پُروا آگے بڑھ کر اس کے گرد بازو پھیلاتی اس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔
عیسٰی کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔
"قربان جاؤں ویسے جتنی فرمانبردار میری بیوی ہے کسی کی بھی نہیں ہوتی۔۔" اس خود میں بھینچ کر وہ مسرور لہجے میں بولتا اس کے بال سہلانے لگا۔
"اب چلیں۔۔؟" وہ سر ہٹا کر نرمی سے بولی۔ عیسٰی ہنس پڑا۔ اپنی بات منوانے کے لیے تو سب کر جاتی تھی۔ اس کی پیشانی پر لب رکھتا سر ہلا گیا۔
اٹھ کر بیٹھا تو دیکھا وہ تیار بیٹھی تھی، وہ مسکراتے ہوئے شاور لینے چلا گیا۔ پُروا پُرجوش سی منتظر بیٹھی رہی۔۔
عیسٰی اور پُروا کے حویلی آتے ہی اچھا خاصہ شور شرابا ہو گیا تھا۔ پریہان اسے سینے سے لگائے کتنی دیر آنسو بہاتی رہی تھی، خانزادہ نے لا کر رباض کو پُروا کی گود میں ڈال دیا تب ہی دونوں بہنوں کی افسردگی کم ہوئی تھی۔
عیسٰی کے قہقہے اور چھیڑ چھاڑ کے ساتھ رباض کی چیخوں نے ماحول کو بہت خوشگوار کر دیا تھا۔ ثنا بیگم نے بیٹے کا دمکتا کھلکھلاتا چہرہ بغور دیکھا۔۔
خانزادہ اس حویلی کا سب سے قیمتی بیٹا تھا، وارث تھا اور سردار بن چکا تھا۔۔ اس کی شخصیت رعب دار اور پرکشش تھی، وہ غصے اور نرمی کا پرکشش مجموعہ تھا۔ اگر اس جیسا مکمل اور قیمتی انسان پریہان کی ہر خامی سمیت اس سے محبت کر سکتا ہے تو پُروا تو پھر پریہان کی نسبت بہت خوبصورت اور نرم مزاج لڑکی تھی۔۔ خانی بیگم جیسی نخریلی عورت نے پریہان کو قبول کر لیا تھا صرف اپنے بیٹے کے لیے۔۔ وہ دیوانہ تھا پریہان کا۔۔ اس وقت بھی پریہان کے ساتھ صوفے پر بیٹھا پوری طرح اسی کی طرف متوجہ تھا۔۔ وہ بےچینی سے پہلو بدلنے لگیں۔
خانی بیگم آج بھی اسی طرح رعب سے رہتی تھیں، پریہان کو جیسا کہتی تھیں ویسے کرتی تھی، یہ سکون اور اطمینان انہیں صرف اس لیے ملا تھا کہ بیٹے کے فیصلے پر اس سے ضد لگانے کی بجائے اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں، جواباً وہ بھی ان کا مشکور تھا اور پریہان بھی فرمانبردار بہو بن گئی تھی۔۔
اور وہ۔۔؟ ضد لگا کر خود بھی بےسکون تھیں اور بیٹے بھی۔۔ عیسٰی نے کوئی سوال نہیں کیا مطلب پُروا نے ثنا بیگم کا نام نہیں لیا تھا اب تک۔۔
وہ پروا کو تکنے لگیں۔۔ کم سن، گلابی گڑیا جیسی۔۔ پریہان کی نسبت اس کا قد اچھا تھا، اس سے زیادہ حسین تھی، گلابی رنگت اور کانچ جیسی آنکھیں۔۔ نقوش میں معصومیت تھی اور نرمی۔۔ آواز بھی مدھم نرم سی۔۔ براؤن کرتا اور سکن ٹراؤزر پہنے ڈوپٹہ بمشکل سر پر ٹکائے بیٹھی وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی۔۔ رباض کو اٹھا کر بیٹھی وہ دنیا بھول چکی تھی۔۔ عیسٰی کی بار بار اس پر اٹھتی نرم نظریں اور مسکراہٹ۔۔ وہ گہری سانس بھر کر رہ گئیں۔
زرشے اور پُروا۔۔ اگر وہ ظرف بڑا کر لیں تو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھیں۔۔
دونوں بہوئیں خوبصورت اور نرم مزاج تھیں۔ موسٰی بھی ماں کی وجہ سے اب تک خوش نہیں رہ پا رہا تھا۔۔ اپنے حصے کی ساری غلطیاں بےچین کرنے لگیں۔۔ انہیں بھی تو خانی بیگم والا سکون مل سکتا تھا۔۔
اپنی آنی کے ساتھ کھیلتے رباض کی خوشگواری اور کھلکھلاہٹ عروج پر تھی، ٹانگیں چلاتا بول رہا تھا۔
پُروا اسے اس کی زبان میں ہی جواب دیتی انجوائے کر رہی تھی، سب کی نظریں بار بار ان دو پر جا رہی تھیں، ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ رباض بار بار پُروا کے رخسار پر چھوٹا سا ہاتھ رکھ رہا تھا، اس کے چہرے کے گرد پھیلے بالوں کی موٹی لٹوں کو اپنے ہاتھ میں تھام کر یکدم اپنی طرف کھینچا۔۔
پُروا کی زوردار چیخ پر سب چونکے، رباض سے بال چھڑوانے کی کوشش کی تو وہ بھی غصے سے چیخنے لگا۔ خان یوسف کی نظر پُروا پر ٹک گئیں۔۔ اب سمجھ آئی رباض نے چیخوں کی عادت کہاں سے لی ہے۔
"نہیں میری جان۔۔ ایسا نہیں کرتے رباض۔۔" خانزادہ اور پریہان اٹھ کر ان کے پاس پہنچے، عیسٰی، پُروا اور رباض کی چیخوں پر ہنس رہا تھا۔
رباض بال چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، خانزادہ نے اس کی مٹھی کھول کر اسے اٹھا لیا، ہنسی دبائے بیٹے کو دیکھنے لگا جو بال چھڑوانے پر لال ہو رہا تھا۔
پُروا کے بال سارے بکھر گئے تھے، رونی صورت لیے پریہان کو دیکھنے لگی، پریہان خود حیران تھی رباض کو بال پکڑنے کا شوق کب لگا تھا۔
اس کا شور پوری حویلی میں گونج رہا تھا، اسے بال کھینچنے والا مشغلہ پسند آیا تھا بہت۔۔ خانزادہ اسے اٹھائے وہاں سے باہر ہی نکل گیا۔۔
"خان داور نے کوئی جواب نہیں دیا اب تک۔۔؟ کیا مسئلہ ہے اسے، کیوں نہیں مان رہا۔۔" خان یوسف نے توجہ ہٹا کر خان آزر سے پوچھا۔ سب سے بڑا بیٹا تھا وہ اس حویلی کا، اب سب کو خوش دیکھتے تھے تو اس کا خالی پن شدت سے محسوس ہوتا تھا۔۔
"وہ اب شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔ میں نہیں چاہتا کہ اب زبردستی کی جائے مگر خانزادہ کی الگ ضد ہے۔۔"
خان آزر سنجیدگی سے بول رہے تھے، خان زوار کو اتفاق تھا مگر خانزادہ جو کہہ دے خان یوسف اس سے پیچھے ہٹ جائیں، ایسا کبھی ہو نہیں سکتا تھا۔
"خانزادہ ٹھیک کہہ رہا ہے، کیا ساری عمر اکیلا رہے گا، طلاق ہو چکی ہے اب کس کے لیے بیٹھا ہے، لڑکی دیکھ کر بات طے کرو اور اگلے مہینے تک شادی کر دو۔۔" خان یوسف نے ٹھوک بجا کر فیصلہ سنا دیا۔ گل جان کے چہرے پر اطمینان ابھرا لیکن خان آزر متذبذب تھے۔۔
"میری بھی شادی کر دیں۔۔ ورنہ لوگ کیا سوچیں گے خان یوسف کا پوتا جانے کس لڑکی کے ساتھ رہتا ہے۔۔"
عیسٰی نے آغا جان کے پاس کھسک کر آہستگی سے کہا۔
انہوں نے گھوری سے نوازا تو منہ بنا کر پیچھے ہوا۔
"ابھی پُروا بچی ہے، شرم کرو۔۔" موسٰی نے مسکراہٹ دبا کر اسے چھیڑا تھا۔ وہ ناک چڑھا گیا۔
"وہ بچی نہیں ہے، شی از ینگ۔۔ وہ میریڈ لڑکی ہے۔۔ وہ میرے پاس، میرے ساتھ کافی وقت رہی ہے، اب کیا خبر ہمارے درمیان۔۔ "اچھا بکواس بند کرو۔۔" عیسٰی کی بےلگام زبان پر خان یوسف نے سختی سے ٹوکا۔
"اچھا ناں۔۔ چپ ہی ہو گیا تھا، ڈانٹیں تو مت۔۔" وہ منہ بسور کر ان سے دور ہوا۔ پُروا کو بےچینی سے دیکھا جو رباض کو دیکھتے ہی عیسٰی کو بھول گئی تھی۔۔ اسے لگا اب وہ نہیں آنے والی عیسٰی کے پاس۔۔
باہر خانزادہ رباض کو لے کر بہلا رہا تھا، اپنے کمرے کی طرف جاتے ادب خان نے چیخ چیخ کر باپ کو ٹانگیں مارتے رباض کو دیکھا تو اسی کی طرف آ گیا۔
"سب ٹھیک تو ہے، آج تو ننھے خانزادے کے مزاج کافی خراب لگ رہے ہیں۔۔" ادب خان نے مسکرا کر پوچھا۔ رباض کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو قابو کیے خانزادہ نے رباض کا رخ اس کی طرف کر دیا۔
"شادی کر لو ادب خان۔۔ تمہیں پتا چلے جب چھوٹے سائز کے جن بگڑ جائیں سنبھالنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔"
خانزادہ نے مسکرا کر کہا تو ادب خان ہنس پڑا۔
رباض کو اٹھایا تو وہ ناراضگی سے باپ سے رخ پھیر کر ادب خان کے سینے میں منہ چھپا گیا۔
ادب خان اور خانزادہ اس کی حرکت پر ہنس پڑے۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
رات کے وقت کھانے کے بعد کمرے کی طرف جاتی پُروا نے ثنا بیگم کو دیکھا تو ان سے چھپ کر پلٹی۔
"رکو۔۔" اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے جاتی ثنا بیگم نے اسے روکا۔ وہ سہم گئی۔ گھبرا کر پلٹی۔۔
"مجھے بات کرنی ہے، آؤ میرے ساتھ۔۔" ثنا بیگم کے نرم لہجے پر وہ سر جھکا کر ان کے پیچھے چل دی۔
اپنے پورشن میں آ کر وہ صوفے پر بیٹھیں اور پُروا کو بھی ساتھ بیٹھا لیا۔۔
"کیا اس دن تم میری باتوں کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئی تھیں؟" ان کے سوال پر وہ اپنی عادت کے عین مطابق پوری ایمانداری سے ہاں میں سر ہلا گئی۔
"دیکھو بیٹا میں تب شاکڈ تھی، سچ کہوں تو مجھے عیسٰی کے ساتھ تمہارا رہنا بہت برا لگا۔ تم نے مجھے اپنے رشتے کے بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔ میں سٹیٹس اور حسب نسب کے فرق میں پڑنے والی عام سی عورت ہوں۔۔ مجھے خوف محسوس ہوا کہ عیسٰی کو تم پسند آ گئیں تو کیا کروں گی۔۔" وہ آہستگی سے بول رہی تھی۔ پُروا خاموشی سے سنتی رہی۔
"لیکن یقین کرو تب غصے میں جانے کیا کچھ کہہ گئی مگر ایسا اردہ بالکل نہیں تھا اور جب بعد میں تم گھر چھوڑ کر گئیں۔۔ میں بہت شرمندہ ہوئی۔۔ عیسٰی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔۔ میں ایک اولاد پرست ماں ہوں۔۔
میرے لیے میرے بچوں کی خوشیاں بہت ضروری ہیں اور عیسٰی مجھے بہت زیادہ عزیز ہے۔۔ تمہارا یوں کوئی نشان چھوڑے بنا غائب ہو جانا میرے لیے بھی پریشانی کی بات تھی۔ جانے کہاں ہو، کیسی ہو اور جانے زندہ بھی ہو یا نہیں۔۔ میں تو راتوں کو سو بھی نہیں پاتی تھی، میں بھی بیٹیوں والی ہوں اتنی کم زات تو ہرگز نہیں کہ ایک بن ماں باپ کی بچی کو یوں دنیا کی بھیڑ میں دھکہ دے کر سکون سے بیٹھ جاؤں۔۔"
ان کی آواز بھرا گئی، پُروا بےچین سی ہو گئی۔
"تم جیسے بھی حالات سے گزری ہو۔۔ جو بھی تکلیف میں نے دی مجھے اس سب کے لیے معاف کر دو۔۔"
انہوں نے یکدم اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔ پُروا تو گھبرا گئی۔ جلدی سے ان کے ہاتھ تھام کر کھولے۔۔
"آنٹی ایسا نہیں کریں۔۔ میں آپ پر غصہ نہیں ہوں۔۔"
وہ بوکھلا کر بولی، اب کیا بتاتی ان سے ڈرتی رہی تھی، غصہ کرنے کا یا نفرت کرنے کا تو سوچ ہی نہیں پائی۔ وہ چھوٹی سی لڑکی بہت بڑے ظرف والی تھی۔۔
"عیسٰی کی طرح مورے کہو مجھے۔۔" ثنا بیگم نے بےساختہ اسے خود سے لپٹا کر چوما۔ پُروا گھبرائی ہوئی سی ان کے سینے سے لگی بیٹھی تھی۔
"تم غصہ نہیں مگر میں پھر بھی گناہگار ہوں۔۔ عیسٰی سے بھی معافی مانگوں گی۔۔ شاید وہ مجھے کبھی معاف نا کرے۔۔ تمہارے جانے پر بہت ازیت میں رہا ہے۔"
ثنا بیگم اسے سینے سے لگائے بول رہی تھیں۔ پُروا کو ان پر ترس آیا۔ دل میں بچا کھچا خوف بھی نکل گیا۔
"آپ عیسٰی جی کو نہیں بتانا۔۔ میں بھی نہیں بتاؤں گی۔۔ یہ ہم دونوں کا سیکریٹ رہے گا۔۔" پُروا نرمی سے بولتی جھجک کر ان کی پشت پر ہاتھ رکھ گئی۔
ثنا بیگم حیران رہ گئیں، پُروا کے ظرف نے انہیں خرید لیا تھا، وہ دل سے قدردان ہوئی تھیں۔
"ٹھیک ہے، اب جاؤ۔۔ عیسٰی کے روم میں جاؤ گی کیا۔۔"
ثنا بیگم نے نرمی سے اس کا رخسار سہلا کر پوچھا۔
"نہیں مورے گل کے پاس سوؤں گی۔۔ مجھے ان کے پاس بہت اچھا لگتا ہے۔۔" وہ پرشوق لہجے میں بولی۔ وہ مسکرا کر سر ہلا گئیں، پُروا اٹھ کر وہاں سے چلی گئی، وہ ہلکی پھلکی ہو کر گہرا سانس بھر کر اٹھیں۔
کچن میں زرشے میوے والا دودھ بنا رہی تھی، وہ رک کر اسے دیکھنے لگیں، انسان اگر کبھی ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرنے لگے تو ایک ساتھ ساری غلطیوں کا احساس ہو جاتا ہے۔۔ وہ بھی اسی مرحلہ میں تھیں، خوش نصیب تھیں اپنی بےسکونی کو ختم کرنا چاہا تو غلطی مان لی، سر جھکایا۔ خود بھی جھک گئیں۔۔
حالانکہ اب وہ زرشے پر غصہ نہیں کرتی تھیں، اسے ٹوکتی یا ڈانٹتی بھی نہیں تھی، اس سے بات ہی نہیں کرتی تھیں اور یہی بات زرشے کو اداس کرتی تھی۔۔
"موسٰی کے ساتھ اپنا گلاس بھی لے لو۔۔" وہ موسٰی کا گلاس بھر کر پلٹنے لگی تو وہ آج اتنے عرصے بعد خود سے بول پڑیں۔ لہجہ نرم اور دوستانہ تھا۔
"جی۔۔؟ ن۔۔نہیں میں۔۔ "تم کیوں نہیں۔۔ مجھے حیرت ہے موسٰی نے اس بات پر کیسے خاموشی اختیار کی، اسے اچھا لگتا ہے جب وہ اکیلا ہر خدمت کروا جاتا ہے۔۔؟" ان کے نرم لہجے اور بات کرنے پر ہی زرشے حیران ہوئی۔ خوشی بھی ہوئی کہ وہ بات کر رہی ہیں۔
دل چاہا ان کی بات سے انکار کرے، انہیں بتائے کہ یہ گلاس وہ پہلے آدھا زرشے کو پلاتا ہے مگر ان کے ناراض ہونے کے خوف سے چپ رہی۔۔
"زرشے تم اپنے اور پُروا کے لیے روایتی سوٹ منگوا لو عقیقہ کے لیے۔۔ اچھا لگے تم دونوں پر۔۔" ان کے مسکرا کر کہنے پر زرشے کو لگا وہ بےہوش ہو جائے گی۔
"جی ٹھیک ہے۔۔" وہ خوشی بھرے لہجے میں بولی۔
"اپنے لیے بھی گلاس ڈال لو۔۔ عیسٰی اور خان صاحب کو میں خود بنا دوں گی۔۔" وہ بول کر کچن میں داخل ہوئیں۔ زرشے سر ہلا کر ان کی بات پر عمل کرنے لگی۔
ٹرے لے کر کمرے میں گئی تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے چہرہ دمک رہا تھا۔
"آج دو گلاس کیوں بھئی۔۔" اس کے دمکتے چہرے کو دیکھ کر موسٰی نے ابرو چڑھا کر حیرت سے سوال کیا۔۔
"خان صاحب آج ثنا چچی نے مجھ سے خود بات کی، بہت پیار سے۔۔ مجھے کہا میں بھی دودھ کا گلاس لے جاؤں۔۔ خود کہا، اتنے پیار سے۔۔" زرشے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ موسٰی مسکرایا۔
"باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن مجھے جیلسی ہو رہی ہے۔۔" موسٰی مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے بولا اور اس کے ہاتھ سے ٹرے لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
"کیا مطلب؟ کس سے جیلسی۔۔" زرشے پریشان ہوئی۔
"ہم ایک گلاس سے دودھ پیتے تھے تو مجھے لگتا تھا تمہیں مجھ سے محبت ہو رہی ہے۔۔ مورے جب ناراض تھیں تو تم بس میرے ارد گرد رہتی تھیں اور جیسے تم پُروا پر فدا ہوئی ہو مجھے لگ رہا تھا میرا وقت مختصر ہونے والا ہے اور اب لگتا ہے مجھے بھول جاؤ گی۔۔" وہ سنجیدہ صورت بنائے بول رہا تھا۔
"آپ سے محبت تھوڑی ختم ہو جائے گی۔۔ آپ کا وقت میں کسی کو نہیں دے سکوں گی۔۔" اس کی ناراضگی کے خوف سے وہ جس بہادری سے اظہار کر گئی تھی موسٰی کے یکدم بدلتے تاثرات پر جھینپ گئی۔
"تو یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی تم نے۔۔" وہ آنکھوں میں پوری دنیا کی روشنیاں سموئے اسے دیکھ رہا تھا، اس کی کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا۔
"خان۔۔ صاحب۔۔ دودھ لے لیں تو میں خالی گلاس۔۔ لے جاؤں۔۔" وہ اس کے حصار میں آتے ہی ہکلا کر بولی۔ اس کی بہانے بازی پر موسٰی نے گھورا۔
"میرے قریب آتے ہی تمہیں کچھ نا کچھ کام یاد آ جاتا ہے۔۔" وہ اس سے دور ہوتا خفگی سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پیا، گلاس ٹرے میں پٹخ کر رکھتا بیڈ پر جا بیٹھا۔ زرشے حواس باختہ ہو گئی۔
"خان صاحب میں تو بس۔۔" وہ پریشانی سے وضاحت دینے کی کوشش کرتی اس کے پاس گئی۔
"زرشے۔۔ دودھ پیو اور گلاس لے جاؤ۔۔" وہ سنجیدگی سے بول کر موبائل پر مصروف ہو گیا۔ زرشے لب کاٹتی ٹرے اٹھا کر جانے لگی، موسٰی نے اٹھ کر اس کی کلائی پکڑ کر روکا۔ وہ دودھ پیے بنا لے جا رہی تھی۔
"پیو شرافت سے۔۔ رونا دھونا بند کرو۔۔ ہماری شادی کو کتنا وقت ہو گیا ہے زرا حساب لگاؤ اور پھر ایمانداری سے مجھے بتاؤ کیا یہ انصاف کی بات ہے۔۔ قریب نہیں آنے دیتی ہو۔۔ اور کتنا وقت چاہئیے تمہیں آخر۔۔"
دودھ کا گلاس اٹھا کر اس کے منہ سے لگاتا بگڑے موڈ سے بولتا جا رہا تھا۔ زرشے سے تو وہ گلاس ختم کرنا مشکل ہو گیا۔ جیسے تیسے پیا تب اس نے گلاس منہ سے ہٹایا، ٹرے میں رکھا اور پلٹ کر بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔۔ اشارہ تھا کہ اب وہ جائے۔۔
زرشے شرمندہ سی کمرے سے نکل گئی۔ موسٰی نے بددلی سے موبائل بند کر کے رکھ دیا۔ اسے زرشہ کا مسئلہ سمجھ نہیں آ رہا تھا، وہ اس کے ساتھ خوش تھی، اس کے جانے پر اداس رہتی تھی، اس کے لوٹ آنے پر اس سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوتا تھا لیکن ہر بار موسٰی کے قریب آنے پر وہ گھبرا کر بہانے بناتی دور ہو جاتی تھی۔۔ اس کا گریز موسٰی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
زرشے روم میں واپس آئی تو وہ لائٹ آف کر کے سونے لگا۔ بیڈ پر آ کر بیٹھی وہ اندھیرے میں اسے تکنے لگی۔
آنکھیں بند کر کے سوتے موسٰی کو کچھ دیر بعد سسکیاں سنائی دیں تو جھٹکے سے اٹھا۔ لائٹ آن کر کے وہ پلٹا تو زرشہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے سسک رہی تھی۔
"زرشے کیا ہوا۔۔ کیا بات ہے؟ او۔کے سوری میں بہت رُوڈ ہو گیا تھا، ٹرسٹ می مجھے اس سب سے فرق نہیں پڑتا، تم میری محبت ہو، میری زندگی ہو پاگل لڑکی۔۔"
اس کے آنسو صاف کرتا وہ محبت اور اپنائیت سے بول رہا تھا۔ اس کے کپکپاتے ہاتھ تھام کر لبوں سے لگائے۔
"میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔۔ میں جانتی ہوں میں ناجائز اولاد ہوں۔۔ آپ کی ہمدردی اور اپنائیت پر میرا دل روتا ہے۔۔" زرشے کی بات پر اس کا دماغ بھک سے اڑا۔ وہ یہ سب باتیں سوچ کر اس سے دور تھی۔۔ وہ محبت کرتی تھی پھر بھی اس کے قریب آنے سے ڈرتی تھی صرف اس لیے کہ وہ خود کو اس کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔۔ وہ اس کی محبت کو ترس سمجھتی تھی۔۔
"دماغ خراب ہے کیا تمہارا۔۔ کیا بکواس کر رہی ہو۔۔"
موسٰی کا اس کی بات پر دماغ الٹ گیا۔ زرشے سہم گئی۔ وہ غصے سے دانت پیستا اسے گھور رہا تھا۔
"میری بات کان کھول کر سن لو۔۔" اس کے بازو پکڑ کر جھٹکے سے اپنے قریب کیا، زرشے گھبرا کر نظریں جھکا گئی تھی۔
"مجھے دیکھو زرشے۔۔" وہ غصے سے بولتا اسے مزید قریب کر گیا۔ زرشے نظر اٹھا کر دیکھنے لگی۔
"تم جائز اولاد ہو۔۔ جو جیسا بھی سمجھے کم سے کم تمہیں اپنی ماں پر یہ الزام نہیں لگانا چاہئیے تھا۔۔"
موسٰی کی بات پر و تڑپ کر نفی میں سر ہلا گئی۔
"میں نے بابا جان کو خود ایسا کہتے سنا تھا۔۔" وہ بتاتے ہوئے رو پڑی۔ کیا باپ کو بھی غلط سمجھتی۔ وہ اس بات پر آج تک سب سے چھپ چھپ کر دور رہی۔۔ وہ اس سوچ کی وجہ سے اپنے عزیز از جان بھائی خانزادہ کی محبت پر بھی غمزدہ رہی۔۔
"شٹ اپ میری بات سنو۔۔" موسٰی کا پارہ ہائی ہوا تھا۔
"وہ غلط فہمی کا شکار تھے بلکہ خودساختہ نفرت کا شکار تھے، انہیں بہروز خان کے گھر سے ایسی باتیں کہی گئیں۔۔ گل جان مورے نے تمہارے سر کی قسم کھا کر کہا ہے تم جائز ہو۔۔ تم خان آزر کا خون ہو، تم اس حویلی کی بیٹی ہو۔۔ اپنے اس دماغ سے یہ سب کچرا نکال پھینکو کہ میں اس بات پر ہمدردی جتاتا ہوں۔۔
اس بات کا کوئی وجود نہیں۔۔ تم میری محبت ہو اور آج سے نہیں تب سے جب تم سکول گرل تھیں۔۔" موسٰی کی بات پر زرشے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ موسٰی نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے گھورا اور کھینچ کر سینے سے لگاتا خود میں بھینچ گیا۔
دنیا کا عجیب ترین اظہارِ محبت تھا جو ایسے گھور کر کیا گیا تھا۔ زرشے تو شاک میں جا چکی تھی۔
"اگر یقین نا آئے تو اپنے لالا سے پوچھ لینا وہ گواہ ہے میری محبت کا۔۔ تمہیں تب حاصل نہیں کر پایا اور ایک اور بات اپنے دماغ میں بٹھا لو۔۔ میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ یہ ناجائز والی بکواس بات اگر سچ بھی ہوتی تو مجھے فرق نہیں پڑتا تھا۔۔"
اس بار اس نے لہجے میں زرا نرمی لا کر کہا تھا۔ زرشے بےاختیار اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی پرسکون ہوئی۔
"کیا یہی وجہ تھی مجھ سے دوری بنائے رکھنے کی۔۔؟"
موسٰی نے اس کا چہرہ اوپر کر کے پوچھا تو وہ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی۔ وہ خفا ہوا۔
"اب اس سزا کا ازالہ کیسے کرو گی۔۔" اس کے بال بگاڑ کر ابرو چڑھائی۔ اس بار وہ دور نہیں ہوئی تھی۔
"معاف کر دیں۔۔ میں بھی بہت ازیت میں رہی ہوں۔۔"
اس کے کندھے پر گال ٹکا کر وہ افسردگی سے بولی۔ چہرے پر معصومیت تھی۔ موسٰی کو اس پر بےطرح پیار آیا تھا۔ نرمی سے بال سہلاتا اس کی پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑ گیا۔
"تم سے ناراض نہیں ہو سکتا۔۔ خود کو دوبارہ کبھی ازیت مت دینا زرشے۔۔ میرا دل رک جائے گا۔۔"
اسے اپنے محبت سے لبریز حصار میں سمیٹتا شدت بھرے لہجے میں بول تھا۔ زرشے اس کی محبت پر آنکھیں بند کرتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔ دل میں آج کوئی غم باقی نہیں بچا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے خانزادہ کو عیسٰی کی کال آئی تو چونک گیا۔
"عیسٰی؟ سب ٹھیک کے ناں..؟" وہ فکر بھرے لہجے میں بولا۔ نخرے کرتے رباض کو تھپک کر سلاتی پریہان نے بھی کان کھڑے کیے۔۔
"کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔ میری بیوی پر آپ لوگ قبضہ جما چکے ہیں۔۔ وہ میرے بغیر سو کیسے گئی وہاں۔۔
ملازم سمجھا ہوا ہے کیا مجھے۔۔؟ جب ضرورت پڑی میرے حوالے کر دیا جب جی چاہا واپس لے لیا۔۔"
عیسٰی غم سے بھرا چیخ رہا تھا۔ خانزادہ نے سکون سے سب سنا اور مسکراہٹ دبائی۔
"تمہاری بیوی پر کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔۔ پریہان نے اس سے پوچھا اسے اکیلا روم چاہئیے یا مورے گل کے پاس سوئے گی۔۔ وہ تمہارا کہہ دیتی تو وہیں بھیج دیتے۔۔" خانزادہ نے بھی جلتی پر تیل چھڑکا۔
پریہان ساری بات سمجھ کر دھیرے سے ہنسنے لگی۔ ماں کو ہنستا دیکھ کر رباض اس سے زیادہ زوروشور سے کھلکھلانے لگا تھا۔ ٹانگیں چلاتا پرجوش ہوا۔
"اچھا نہیں کر رہے آپ سب۔۔ اس گھنی بلی سے تو میں پوچھ لوں گا۔۔ نیند نہیں آ رہی مجھے اب۔۔ اللّٰہ حساب لے گا میری بےچینی کا آپ سے۔۔ معاف نہیں کروں گا۔۔"
عیسٰی بھنایا ہوا بولتا چلا گیا۔ خانزادہ ہنسنے لگا۔۔ شاید زندگی میں پہلی بار عیسٰی ایسا بےچین اور رونے والا ہو رہا تھا۔
"پاگل لڑکے بات تو سنو۔۔ داور لالا کے ساتھ رخصتی کر دیں گے۔۔ صبر تو کرو نا یار۔۔" خانزادہ نے اسے بہلایا۔
پیار سے منایا جیسے بچے کو چمکارا جا رہا ہو۔۔
"کیا۔۔؟ یعنی اگلے مہینے۔۔؟ مجھے میری بلی پہلی فرصت میں واپس چاہئیے ورنہ واپس بھاگ جاؤں گا اسے لے کر۔۔ یا پھر آپ بھی پریہان بھابھی کو اگلے ماہ تک مورے گل کے پاس بھیجیں۔۔ بس۔۔ مزید کوئی بات نہیں۔۔" وہ جلا بھنا بولتا چلا گیا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ کال کاٹ گیا۔ خانزادہ تو اس کی بےتابی پر حیران رہ گیا۔ چہرے پر گہری مسکان ٹھہر گئی۔
وہاں رباض پورے بیڈ پر یہاں وہاں کھسکتا پریہان کو تھکا رہا تھا۔ جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا ناکوں چنے چبواتا تھا۔ رات کو سونے میں اتنی دیر کر دیتا تھا کہ پریہان تھک کر پہلے سو جاتی تھی۔۔
خانزادہ نے اس چھوٹے جن کو پکڑ کر قابو کیا اور اپنے سینے پر لیٹا کر تھپکتے لگا تب کہیں جا کر وہ باتیں کرتا کرتا سویا تھا۔
"منال بہت رُوڈ سی ہو گئی ہے، ایک بار بات ہوئی تو پتا چلا وہ تو ہم تینوں کو ہی ایک ترازو میں تولنے لگی ہے، اس کے کسی کزن سے اس کی شادی طے ہو گئی ہے وہ کزن پولیٹکس میں ہے۔۔ یہیں دادا کی حویلی میں رہے گی، سنا ہے بہت زیادہ سخت مزاج ہے وہ کزن اور منال سے کافی بڑا بھی۔۔ اس سب کا الزام وہ پریہان کو دیتی ہے۔۔" ریما ناگواری سے بتا رہی تھی، گود میں رباض کو تھپک کر سلاتی پریہان نے سر جھٹکا جیسے پروا نا ہو۔۔
"اسے جانے دو۔۔ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔۔ اسے بس خانزادہ حدیر چاہئیے تھا وہ نہیں ملا تو اب دنیا کا ہر بندہ برا ہے اس کے لیے۔۔" مرحا لاپروائی سے بولتی بادام کھا رہی تھی۔ پُروا ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی خاموشی سے سن رہی تھی۔
عقیقہ سے ایک روز پہلے ہی ریما حویلی آ گئی تھی، مرحا کو بھی گل جان نے بلوا لیا تھا، اب وہ دوستیں رات کو بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔۔
"مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا، دعا ہے وہ خوش رہے۔۔ پُروا نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ۔۔" پریہان نے بےنیازی سے کہا اور جمائیاں لیتی پُروا کو ٹوکا۔
"عیسٰی جی اتنا غصہ کرتے ہیں مجھ پر۔۔ مجھے مورے نے دودھ دیا تو تب بھی اتنا ڈانٹ دیا کہ میں ہر وقت دودھ پیتی رہتی ہوں۔۔" وہ ثنا کا بتاتے ہوئے روہانسی ہوئی۔ نیند تو آ رہی تھی مگر یہ فکر سونے نہیں دے رہی تھی۔۔ پریہان ہنسی، عیسٰی کا مزاج ویسے بھی آج کل بہت بگڑا ہوا تھا اور پوری حویلی والے وجہ جانتے تھے۔ وہ ایک ایک سے خوامخواہ لڑ رہا تھا۔۔
"سنو یہ تمہارے عیسٰی جی کچھ دیر پہلے پچھلے باغ میں سردی میں ٹہلتے کسی آئرہ سے بات کر رہے تھے۔۔ کافی ہنس ہنس کر۔۔ دیکھو کہیں لڑکا ہاتھ سے نا نکل جائے۔۔" ریما نے کچھ یاد آنے پر پُروا کو بتایا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھی، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
"تم اس سردی میں پچھلے باغ کیوں گئیں۔۔؟" مرحا نے ابرو چڑھا کر اس سے پوچھا، پریہان بھی شکی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ وہ گڑبڑا گئی۔
"وہ میں۔۔ یار میرا پچھلے دنوں ایک ہینڈسم سے خان صاحب سے ٹکراؤ ہوا تھا میں نے ان صاحب کو یہاں حویلی میں دیکھا۔ میں تو بس اس کھوج میں وہاں نکل گئی۔۔" ریما نے اعتماد بحال کر کے کہا۔ پریہان اور مرحا ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
"کیا معاملہ ہے جلدی سے بتاؤ۔۔ اور کون سے خان صاحب کو دیکھ لیا۔۔ پیچھے باغ میں گئے کیا وہ۔۔"
پریہان نے اس کے پاس کھسک کر رازداری سے پوچھا۔
"یار بڑا شاندار بندہ ہے قسم سے۔۔ ہاں وہ پچھلی طرف ایک روم میں جا رہا تھا۔۔ اف دل لوٹ لیا اس نے تو۔۔"
ریما بھی ان کے کان میں گھس کر تفصیل بتا رہی تھی۔ پُروا تو ابھی تک اپنے عیسٰی پر اٹکی تھی۔
"ویٹ پچھلے سائیڈ۔۔ وہ جو بالکل الگ سا روم ہے۔۔؟
ادب خان بھائی کا ہے وہ تو۔۔ تم کہاں ملی ان سے۔۔" پریہان چونک گئی۔ ریما نے مال کے سامنے والا سارا واقعہ بتا دیا۔ مرحا اور پریہان کی آنکھیں چمکیں۔
"تو مطلب وہ حدیر کا ملازم ہے۔۔؟ اتنا شاندار بندہ۔۔ اس کی پرسنیلٹی تو ملازم والی لگ ہی نہیں رہی تھی۔۔" پریہان کے تعارف دینے پر ریما صدمے میں گھر گئی۔ حیرت ہی حیرت تھی۔۔ وہ تو کوئی سردار سا لگتا تھا، کوئی حاکم، رعب دار اور دلکش۔۔
"ملازم مت کہو۔۔ حدیر نے بھائی کی طرح رکھا ہے۔۔ ان کا اپنا گھر بھی ہے اتنا پیارا لیکن پھر بھی وہ حدیر کے لیے یہاں رہتے ہیں۔۔ ادب بھائی کی مدر کی ڈیتھ تو ان کے پیدا ہونے پر ہی فوت ہو گئی تھیں، جب وہ بارہ سال کے تھے ان کے بابا کی ڈیتھ ہو گئی۔۔ آغا جان کا بہت قریبی بندہ تھا ان کا باپ۔۔ تو آغا جان نے ادب بھائی کو منہ بولا بیٹا بنا لیا۔۔ داور بھائی اور ادب بھائی ایج فیلوز ہیں مگر شروع سے ہی ادب بھائی حدیر کے قریب رہے۔۔ ان کے جواں ہونے تک تو ان کا وفادار بازو بن گئے، پر کام، ہر جگہ اور ہر معاملے کو حدیر ان کے حوالے کرتے ہیں۔۔ ان کی شخصیت ساری حدیر کا عکس ہے۔۔ ان کی ایسی شخصیت بنانے والے حدیر ہی ہیں۔۔ ان کے لیے وہ بھائی جیسے ہیں۔۔"
پریہان نے تفصیل سے آگاہ کیا۔ ریما کی انکھوں میں ستائش ابھری۔
"اچھا تو پھر یہ خان صاحب اب میری نظر میں آ گئے۔۔ جانے نہیں دینے والی میں۔۔" ریما ٹانگ جھلاتی مغرور انداز میں بولی۔ پریہان محظوظ ہو رہی تھی۔۔
"تمہیں کیا ہوا چھوٹی سی گڑیا۔۔" مرحا کی توجہ پُروا پر گئی جو ابھی تک پریشان بیٹھی تھی۔
"عیسٰی جی مجھ سے ناراض ہو کر آئرہ کے فرینڈ بن گئے ہیں۔۔" پُروا رونی صورت بنا کر بولی۔ مرحا اور ریما نے بمشکل قہقہہ دبایا۔ پریہان مسکرائی۔
"او میرا ٹوئٹی۔۔ پریشان کیوں ہو۔۔ جا کر پوچھ لو۔۔ بلکہ ایسا کرو لڑائی کرو اور کہہ دو تم بھی ناراض ہو جاؤ گی۔۔" پریہان نے اس کے گال کھینچتے ہوئے مشورہ دیا۔ گود میں سوتا رباض اس کے بازو ہٹانے پر کسمسایا تو وہ سیدھی ہوئی۔
"اسے دیکھو زرا۔۔ اس کے نخرے ہر دن بڑھ رہے ہیں۔۔ میری گود میں نیند کرتا ہے، یا باپ کے سینے پر۔۔ نیچے سلاؤ تو ٹانگیں مارتا ہے۔۔" پریہان نے گھور کر رباض کو دیکھتے ہوئے بتایا۔ مرحا اور ریما تو اس کے سرخ گالوں کو سہلاتی چھیڑ رہی تھیں، وہ نیند کے معاملے میں بھی پُروا جیسا تھا، مزے سے سویا رہا۔
پُروا اٹھ کر وہاں سے کھسک کر باہر جا چکی تھی۔۔
"چھوٹی بیگم آپ کو خانزادہ صاحب بلا رہے ہیں۔۔" ملازمہ دروازے پر دستک دے کر اندر آتی پریہان کو اطلاع دینے لگی۔ وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی۔
"آہم لگتا ہے آپ کے خانزادہ صاحب کا دل نہیں لگ رہا ابھی تو شام ڈھلی ہے۔۔" مرحا، ریما کی شوخیوں اور چھیڑ چھاڑ پر وہ شرم سے گلابی ہوتی اٹھی۔
"ایسا نہیں ہے، بس یہ رباض کو۔۔" وہ وضاحت دیتی ان کے ہنسنے پر منہ بنا کر کمرے سے نکلی۔
وہ دونوں ہنستی ہوئی باتوں میں لگ گئیں۔
__________
پریہان کمرے میں جاتے ہی خانزادہ کو گھورنے لگی، جو سونے سے پہلے بھی پرفیوم کی شیشی خود پر انڈیل کر سوتا تھا۔ اس کے یوں گھورنے پر چونکا۔
"آپ کو پتا بھی ہے ہم فرینڈز اتنے وقت بعد ملی ہیں۔۔ رات کو دیر تک باتیں کرنی تھیں، آپ نے بلاوا بھیج دیا۔۔" وہ بیڈ پر بیٹھ کر رباض کو بلینکٹ سے ڈھکتی ناراضگی سے بول رہی تھی، وہ ہنس پڑا۔
"میں جانتا ہوں اور مجھے پتا تھا رباض کی وجہ سے تنگی ہو گی تو میں نے بس رباض کو لانے کا کہا تھا پتا نہیں صندل نے جا کر کیا کہہ دیا۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر بات بنانے لگا۔ پریہان نے اور زیادہ منہ پھلا لیا۔ یعنی بیٹے کی یاد آئی تھی بیوی کی نہیں۔۔
"اب کیوں منہ بنا کر بیٹھی ہو، بتا رہا ہوں ناں میں نے نہیں بلوایا۔۔" وہ رباض کو اس کی گود سے لے کر اس کی جگہ پر سلاتا نرمی سے بول رہا تھا۔
"تو میں واپس چلی جاتی ہوں۔۔ وہ دونوں جاگ رہی ہیں ابھی۔۔" وہ بلینکٹ ہٹا کر باقاعدہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب وہ بےساختہ اس کا ہاتھ پکڑ گیا۔
"واپس جاؤ گی کتنا برا لگے گا۔۔ فرینڈز کیا سوچیں گی ہزبینڈ نے نکال دیا روم سے۔۔" اسے ڈراوا دیتا اپنی طرف کھینچ گیا۔ پریہان اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سنبھلی۔ وہ اس کے گرد بانہوں کا حصار بنا گیا۔
"نہیں کہیں گی۔۔ میں کہہ دوں گی میرے ہزبینڈ کو اپنا بیٹا چاہئیے تھا بس۔۔" وہ اسی کے الفاظ لوٹاتی جتا کر بولی۔ خانزادہ نے قہقہہ لگایا۔
"میں نے کب کہا بیوی نہیں چاہئیے۔۔ میری بیوی کو کیا پتا مجھے وہ کتنی عزیز ہے، مجھے تو ہر وقت سامنے چاہئیے وہ۔۔" اس کے بال سنوارتا دلکش لہجے میں بولا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی، وہ ساحر تھا جو ہر بار اپنے الفاظ اور لہجے سے اسے باندھ لیتا تھا۔۔
وہ اس کا یوں کھو جانا محسوس کر کے اس کے رخساروں پر اپنا دیوانگی بھرا لمس بکھیرتا سینے سے لگا گیا۔ اسے دنیا بھلا دیتی تھی پریہان۔۔ محبت تھی اور شدید محبت ہو رہی تھی۔۔ وہ سمجھ نہیں پاتا تھا اس میں ایسا کیا خاص ہے جو خانزادہ کو ہر بار خصوصی طور پر متوجہ کر دیتا تھا۔ اسے سینے سے لگائے شرمیلے گلابی چہرے پر نرمی سے محبت لوٹاتا دنیا جہان کے ہر غم سے آزاد ہو گیا۔
"حدیر۔۔ ادب بھائی نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔۔" اچانک خیال آنے پر وہ اس کے سینے پر ہاتھ جما کر دور ہوتی پوچھنے لگی۔
"تمہیں کیا کرنا ہے ادب خان کا۔۔؟ یہ اس کا پرسنل میٹر ہے۔۔" خانزادہ نے گھور کر اسے دیکھتے ہوئے ٹوکا۔ اس کی ناراضگی پر پریہان ہونق سی ہو گئی۔
"بس ایک بات پوچھی ہے، اتنا بگڑ کیوں گئے۔۔" وہ حیرت سے بولتی اسے دیکھنے لگی۔
"تم مجھ پر توجہ دیا کرو۔۔ مجھے سوچو اور میری بات کرو۔۔ ہر وقت یہاں وہاں کی خبریں رکھتی ہو۔۔"
وہ اس کا ناک دبا کر خفگی سے جتا رہا تھا۔ پریہان تو ادب خان کی بات کر کے ہی پچھتائی تھی۔
"جب سے سردار بنے ہیں ویسے بھی دماغ خراب ہو چکا ہے آپ کا اب۔۔" پریہان کروٹ بدل کر ہاتھ جھلا کر بولتی اسے ہنسنے پر مجبور کر گئی۔
"اور تم جب سے سردار کی بیوی بنی ہو، پورے زمانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔۔ لگتا ہے اب ادب خان کی شادی کی ٹھان چکی ہو۔۔ اللّٰہ اس کے حال پر رحم کرے۔۔"
وہ ہنس کر پریہان کا وہی ہاتھ تھام کر نرمی سے چوم کر بولا۔ وہ ریما کا سوچ کر پرجوش سی ہوئی۔
"حدیر آپ کو پتا ہے ریم۔۔" وہ پلٹنے لگی مگر وہ اس کی پشت سینے سے لگاتا اسے خود میں بھینچ گیا۔
"پریہان مجھے کچھ نہیں جاننا ابھی۔۔ آج صرف اپنی بات کرو۔۔ کچھ نہیں ہے تو چپ رہو۔۔ کبھی کبھی صرف تمہیں دیکھنا اور محسوس کرنا بہت اچھا لگتا ہے مجھے۔۔ تم سو جاؤ کل کا دن بزی ہو گا۔۔"
نرمی سے اس کے گرد بازو پھیلائے وہ بول رہا تھا۔ پریہان نے ضد کیے بنا مسکرا آنکھیں بند کر لیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
عیسٰی موبائل کان سے لگائے واک کرتا آئرہ کو سن رہا تھا۔
"میں نے سوچا تھا ڈائیورس لے لوں گی لیکن اگر یہ کرتی تو کوئی گارنٹی نہیں تھی سکون مل جاتا۔۔ میں شاید کہیں کی نا رہتی۔۔ انہوں نے شادی کے بعد بہت خیال رکھا تھا، میری ہر کمی، ہر خامی کو قبول کیا، مجھے ایسے رکھا جیسے میں کوئی قیمتی کانچ کی شہزادی ہوں۔۔ ان کی حرکت قابلِ معافی نہیں تھی اور میں نے معاف کر کے انہیں خرید لیا۔۔ اب وہ ساری عمر مجھ سے ایک قدم پیچھے رہیں گے، میرے احسان مند رہیں گے، اب پہلے سے زیادہ خیال رکھتے ہیں، پہلے سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔۔
ان کا علاج کروانے کے لیے لندن آئے ہوئے ہیں ہم، وہ اب شرمندہ ہیں عیسٰی۔۔ وہ پُروا سے اور آپ سے بھی معافی مانگنا چاہتے ہیں۔۔" آئرہ کی بات پر وہ نفی میں سر ہلا گہا۔ اسے معافی نہیں چاہئیے تھی۔۔
"تم نے اچھا کیا، معاف کر دیا۔۔ اب وہ سدھر گیا ہے، تم چھوڑ جاتیں تو شاید مزید بگڑ جاتا۔۔ اس دنیا میں سکون بہت قیمتی ہے، تم نے اچھا سودا کیا۔۔ لیکن اس سے کہہ دینا میرے یا پُروا کے سامنے کبھی نا آئے۔۔ میری معافی یہی ہے کہ آج کے بعد کسی کی بیٹی پر بری انکھ نا ڈالے تو۔۔ اچھا سنو خوش رہو، بہت دیر ہو گئی میں اب کال بند کرتا ہوں۔۔" عیسٰی نے پُروا کو آتے دیکھا تو لبوں پر دلفریب مسکان سجائے بولا۔
کافی دیر سے معافی تلافی اور حال احوال ہو رہے تھے۔۔ اب سامنے پُروا آ گئی تھی اب بولنا کہاں یاد رہنا تھا۔ آئرہ تھینکس بول کر کال کاٹ گئی۔
وہ جان بوجھ کر موبائل پر نظر جمائے مصروف ہوا۔
پُروا کچھ فاصلے پر رک کر اسے متذبذب نظروں سے دیکھتی رہی، اس کی بےرخی پر آنکھیں بھر بھر آ رہی تھیں، اب جو اس نے توجہ کی عادت ڈال دی تھی، اس پر ایسے اگنور کرنا پُروا کو ظالم ترین عمل لگا تھا۔
وہ پلٹ کر جانے لگی جب عیسٰی تیزی سے اس تک پہنچتا اس کی کلائی تھام کر اپنی طرف کھینچ گیا۔
"آج یہ چالاک بلی یہاں کیسے۔۔؟" وہ اس کے گرد بازو باندھ کر اس کے نرم نقوش کو دیکھ کر بولا۔
"آپ نے آئرہ سے فرینڈشپ کر لی ہے، مجھے ڈانٹتے ہیں۔۔" وہ بغیر کسی تمہید کے ڈائریکٹ شکوہ کرتی بھیگی آنکھیں رگڑنے لگی۔ عیسٰی کا اس ادا پر دل قلابازیاں کھانے لگا۔ یعنی وہ خود اگنور کرے، دور رہے تو خیر ہے مگر عیسٰی اسی کا رہے واہ یعنی واہ۔۔
"تم نے مجھ سے فرینڈشپ ختم کی، یہاں آ کر مجھے بھول گئیں تو میں نے سوچا کوئی اور فرینڈ بنا لوں۔۔"
وہ شرارت سے بولتا سردی سے سرخ ہوتے گال چھو کر بولا۔۔ پُروا اس کی بات پر تھوڑی رکی۔ الزام خود پر آ رہا تھا آگے جھگڑے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
"آپ نے مجھے ڈانٹا آج صبح۔۔ مورے اور زرشہ آپی کے سامنے۔۔" وہ ڈھونڈ کر اس کی غلطی سامنے لے آئی۔ عیسٰی نے ہنسی دبائی۔ وہ سردی میں ٹھٹھرتی یہاں گلے شکوے کرنے آئی تھی اور وہ ترس کھانے کی بجائے مزے لے رہا تھا۔ محبت ہو تو پُروا جیسی۔۔
وہ غیر محسوس انداز سے اپنی شال اس کے گرد پھیلا کر اسے اپنے حصار میں چھپا گیا۔
"تو کیسے نا ڈانٹوں جانے کب میری مورے سے اتنی دوستی کر لی وہ تو سارا دودھ ہی تمہیں بنا بنا کر پلا دیتی ہیں۔۔ اور میری چالاک بلی میرے پاس آنے سے تمہیں تکلیف ہوتی دودھ پینے صبح شام آ جاتی ہو۔۔"
وہ ہنسی دبانے کے چکر میں سرخ ہو رہا تھا۔ پُروا منہ کھولے سنتی رہی۔ یعنی غلطی یہاں بھی اسی کی نکلی۔۔ پریشانی سے سر ہلایا۔ آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو گئے۔ بات ختم ہوئی تو واپس جانے کے لیے عیسٰی کے بازو خود پر سے ہٹانے لگی۔
"اب دودھ نہیں پئیوں گی، میں اب ایک وقت دودھ پینے آؤں گی اور آپ کسی اور سے فرینڈشپ نہیں کرنا۔۔" وہ انگلی اٹھا کر سمجھاتی سودے بازی کر رہی تھی۔ اس معصومیت پر عیسٰی کا جی چاہا اپنی جان قربان کر دے۔۔ اتنا پیارا سودا اور ایسا حسین سوداگر۔۔
"عیسٰی جی۔۔ ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔" عیسٰی کو ویسے ہی جما دیکھ کر بےچارگی سے بولی۔۔
"پُروا جی آج میرے ساتھ روم میں چلو۔۔ مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے۔۔" وہ اس سے زیادہ بےچارگی سے بولا۔۔
"ڈر لگتا ہے؟ آپ کو۔۔" وہ حیران ہوئی۔ پریشانی بھی ہوئی۔ ڈر تو وہ بھی جھیلتی تھی۔۔
"ہاں ناں۔۔ نیند نہیں آتی پھر۔۔ تم بس مجھے سلا دو گی تو چلی جانا۔۔ زرا سہارا ہو جائے گا۔۔" وہ معصومیت کی حد کر رہا تھا۔ جال پھیلا رہا تھا، پُروا جال میں پھنس گئی۔ فکرمند ہوئی۔۔ کچھ سوچا اور سر ہلا دیا۔
"جی ٹھیک ہے۔۔ آپ سو جائیں گے تو میں مورے گل کے پاس چلی جاؤں گی۔۔ میں آپ پر فاتحہ پڑھوں گی ڈر نہیں لگے گا۔۔" وہ نرمی سے بولی۔ عیسٰی بوکھلایا۔
"مرے ہوئے پر فاتحہ پڑھتے ہیں پُروا۔۔ تم بس یہ تکلیف مت اٹھانا۔۔ رات کے وقت ایسی باتیں تو مت کرو یار۔۔"
عیسٰی کا تو دل ہی ڈوب گیا۔ پُروا گڑبڑا گئی۔
"مگر مورے گل۔۔۔ "وہ درود شریف پڑھتی ہوں گی ناں۔۔آیت الکرسی پڑھتی ہوں گی۔۔ تم تو ڈائریکٹ فاتحہ پر آ گئیں۔۔" وہ گھبرا کر وضاحت دینے لگی تھی جب عیسٰی نے اس کی بات کاٹ کر سمجھایا۔ گرم ہاتھوں میں اس کے ملائم سرد ہاتھ تھامے اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ پُروا اس کی بات پر سر ہلا گئی۔
دل میں سوچ لیا جتنا کچھ زبانی یاد ہے، سب پڑھ کر پھونک دے گی اگر وہ ڈرتا ہے تو ایسا نا ہو پُروا کو ہی ڈرا دے۔۔ اس کا سہارا تو بن رہی تھی مگر دل میں خود بھی ڈرنے لگی۔ اس کے کمرے میں پہنچی تو ہیٹر سے گرم ہوا ماحول اور نرم گرم بستر پر لیٹتے ہی پروا کو یاد نہیں رہا کوئی عیسٰی بھی تھا جو ڈرا ہوا تھا۔۔
عیسٰی اسے سہی سے سلا کر اس پر بلینکٹ ڈالتا مسکرا رہا تھا۔ جھک کر پیشانی پر لب رکھے اور اسے اپنے حصار میں قید کر لیا۔ اس کا بس چلتا تو اس قید سے پُروا کو کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی آزاد نا کرتا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
خان آزر ابھی مردان خانے سے آئے تھے، قدم اپنے روم کی طرف بڑھا رہے تھے جب گل جان راستے میں آئیں۔ وہ ٹھٹک کر رکے۔۔ جب سے حویلی واپس آئی تھیں ان کے سامنے آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا۔۔
"بات کرنی ہے آپ سے خان صاحب۔۔" گل جان سنجیدگی سے بولیں۔۔ وہ سر ہلا کر آگے بڑھے۔ گل جان کے روم کے پاس آ کر رکے تو وہ حیران ہوئیں۔
"بات کہیں بھی ہو سکتی ہے۔۔" گل جان نے اپنے الفاظ پر زور دیا کہ کمرے میں آنا ضروری نہیں۔۔
"اور آپ کے کمرے میں کیوں نہیں۔۔" وہ سکون سے بولے اور دروازہ کھول کر اندر قدم رکھ دیا۔ گل جان رک سی گئیں۔ پھر گہرا سانس بھر کر سر جھٹکا اور اندر بڑھ گئیں۔
"بیٹھ جائیں۔۔" بیڈ پر بیٹھتے خان آزر نرمی سے بولے۔
"میں ایسے ٹھیک ہوں۔۔" گل جان کچھ فاصلے پر جم کر کھڑی رہیں، صبیح چہرے پر سنجیدگی تھی۔ خان آزر انہیں دیکھ کر رہ گئے۔۔
"میں داور کی شادی اس بار اپنے خاندان میں کرنا چاہتی ہوں لیکن بڑے خان صاحب (خان یوسف) نہیں مان رہے۔۔" وہ تمہید باندھے بنا سیدھی بات پر آئیں۔
"آغا جان اب دشمنی بھلا چکے ہیں، آنا جانا برداشت کر رہے ہیں لیکن خٹک خاندان میں رشتہ کرنا ان کی انا کو گوارا نہیں ہے۔۔" خان آزر نرمی سے بولے۔۔ باپ کی طرف سے صفائی دی تھی۔۔ دوسرے الفاظ میں بتایا تھا ان کی خواہش پوری ہونا مشکل ہے۔۔
"میں یہ کرنا چاہتی ہوں۔۔ آپ منائیے ان کو۔۔ بات کریں۔۔ خٹک خاندان کا قصور کیا ہے، اگر بہروز خان کے گھرانے سے رشتہ جوڑ سکتے ہیں تو خٹک خاندان میں کیا مسئلہ ہے۔۔" گل جان کا چہرہ ضبط سے سرخ ہوا۔
خان آزر ان کا چہرہ تکنے لگے، یہ غصہ پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ آنکھوں میں دلچسپی سمٹ آئی۔۔
"آپ یہ بات خانزادہ سے بھی منوا سکتی تھیں۔۔ میں ہی کیوں۔۔" وہ اس بار کچھ ہلکے پھلکے لہجے میں بولے، گل جان خفت زدہ ہوئیں۔
"وہ آپ کے بیٹے ہیں ناں۔۔ صاف انکار کر دیا، وہ چاہتے ہیں آپ داور کے باپ ہیں تو آپ ہی بات کریں آغا جان سے۔۔" گل جان نے جتاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
"نہیں۔۔ میرا بیٹا چاہتا ہے ہمارے درمیان یہ سرد دیوار گرے۔۔ آپ مجھ سے اپنی خواہش کہیں اور میں وہ پوری کروں۔۔ وہ ہمارے درمیان سب اچھا کرنا چاہتا ہے۔۔" خان آزر کے لہجے میں حسرت سمٹ آئی۔ نرم نگاہوں سے گل جان کو دیکھا۔ حقیقت جتائی۔ وہ چونک گئیں۔ خانزادہ کی نیت پر کراہ کر رہ گئیں۔
"وہ بچہ ہے۔۔ پاگل ہے نہیں جانتا عورت خود پر اٹھا ہاتھ تو شاید بھلا دے مگر اپنے کردار پر اٹھی انگلی کبھی نہیں بھولتی۔۔" گل جان بےلچک لہجے میں بولیں۔ خان آزر خاموشی سے انہیں دیکھنے لگے۔
"اور عزت کے محافظ کو بھول جاتی ہے؟ میں بدکردار کہتا رہا، میں نے زرشے کو ناجائز کہا۔۔ میری نفرت تھی، تنگ نظری تھی۔۔ میں گناہگار ہوں۔۔ کیونکہ میں نے منع کیا تھا آپ بہروز خان کی حویلی میں نہیں جائیں گی مگر آغا جان نے حکم دیا اور آپ چل پڑیں۔۔ چلیں مان لیتا ہوں تب آپ کی حیثیت نہیں تھی کسی کی بات سے انکار کرنا لیکن سوچیں جب بہروز خان کے گھر آغا جان آپ کو کچھ دن مزید رہنے کا کہہ کر چھوڑ آئے تھے، میں کیوں اسی روز لینے چلا گیا۔۔ میں نے وہاں پہنچ کر آپ کی عزت کیوں بچائی۔۔ میں نے بہروز خان کے بیٹے کے منہ پر سب کے درمیان طمانچہ کیوں مارا۔۔
میں گناہگار ہوں مگر بےحس نہیں تھا گل جان۔۔ میں نے ہر بار تب ہاتھ اٹھایا جب حویلی کے باقی افراد آپ پر اپنا قہر ڈھانا چاہتے تھے۔۔ وہ ہاتھ اٹھاتے تو مار ڈالتے، میں ہاتھ اٹھا کر سب کو ٹھنڈا کر دیتا تھا۔۔
میں بہت برا ہوں، بزدل ہوں لیکن اتنا بھی ناقابلِ معافی نہیں کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتیں۔۔"
وہ نم آنکھیں لیے بولتے چلے گئے۔ گل جان رخ پھیرے سنتی رہیں۔۔ دل بھر آیا تھا۔ آنکھیں بھیگنے لگیں۔
"معاف کر دوں تب بھی دل صاف نہیں کر پاؤں گی۔۔ جو مقام ایک شوہر کا بیوی کے دل میں ہونا چاہئیے وہ نہیں دے پاؤں گی کبھی۔۔" وہ بھیگی آواز میں بولیں۔
خان آزر ہمت کر کے اٹھے، ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑ گئے۔ گل جان کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ سامنے بیٹھا وہ شاندار شخص جو اس علاقے کا سردار تھا، کسی زمانے میں اس کی اکڑ اور رعب سے گل جان سہم جاتی تھیں آج کیسے ہارے ہوئے جواری کی طرح سامنے سر جھکائے بیٹھے تھے، یہ ان کے لیے آسان نہیں تھا۔۔ ایک انا پرست حاکم مزاج انسان کا یوں کسی عورت کے سامنے جھکنا آسان بالکل نہیں تھا، واضح ہوا وہ نادم ہیں۔۔ وقت کتنا بدل جاتا ہے۔۔ انہیں خانزادہ کے الفاظ یاد آئے۔۔
"آپ کو کیا لگتا ہے مورے کہ وقت اور عمر کے ساتھ ان کا رعب اور دم خم ڈھل گیا ہے؟ آپ غلط ہیں۔۔ وہ آج بھی باہر نکلیں تو علاقے کے لوگ جھک کر ملتے ہیں بات کرتے ہوئے ہکلا جاتے ہیں۔۔ ان کی زات تو صرف آپ کے سامنے خاک ہو گئی ہے، آپ کی معافی چاہئیے انہیں۔۔ مجھے چاہے مطلب پرست بیٹا سمجھ لیں مگر میری درخواست ہے پلیز معاف کر دیں انہیں۔۔"
اس کے الفاظ پر انہیں یقین آنے لگا، خان آزر جیسا شاندار شخص اس وقت ان کے سامنے کندھے، سر اور نظریں تک جھکائے بیٹھا تھا۔۔
"آپ معاف کر دیں۔۔ دل سے معاف کر دیں گل جان۔۔ آپ کے دل میں اعلا مقام نا سہی کہیں کوئی تو رمق محبت کی باقی ہو گی؟ اس محبت کو نہیں مرنے دیں۔۔ آپ کہیں تو میں کل سارے خاندان کے سامنے یہ معافی مانگ لوں گا، میرے گناہ ہیں تو ان کی زمہ داری بھی لوں گا۔۔" وہ نم آنکھیں گل جان کے چہرے کی طرف اٹھا کر بولے تھے۔
گل جان کا دل پگھلا، برف کی وہ موٹی تہیں جو کسی جذبے کو خود تک آنے نہیں دیتی تھیں، آج خان آزر کے الفاظ کی تپش سے پگھلنے لگیں۔ محبت اور نرمی دل تک پہنچ رہی تھی، پھر دل بھی ایک عورت کا۔۔ نرم اور جذبوں سے بھرا۔۔ کب تک پتھر رہتا۔۔
"میں نے معاف کیا۔۔ مجھے خاندان کے سامنے معافی نہیں مانگنی۔۔ آپ نے خاندان کے سامنے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، تو معافی بھی ان کے سامنے مت مانگیں۔۔"
گل جان نے لرزتے ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ دئیے۔
وہ کھڑے ہو کر ان کے گرد بازو پھیلاتے پہلی بار نرمی اور گرمجوشی سے انہیں سینے سے لگا گئے۔ گل جان کی آنکھیں اس عزت پر بھیگ گئیں۔۔
"داور کا رشتہ۔۔" وہ بولنے لگیں جب خان آزر ٹوک گئے۔
"مجھ پر چھوڑ دیں۔۔" وہ مضبوط لہجے میں بولے۔
"ٹھیک ہے آپ جا سکتے ہیں۔۔" گل جان ان سے دور ہو کر بولیں۔
"صرف اپنے مطلب کے لیے بلایا تھا آپ نے۔۔؟" خان آزر کا لہجہ نرم تھا مگر تھوڑا شکوے کا رنگ بھی تھا۔
"جی ہاں۔۔ جیسے آپ صرف مطلب کے لیے مجھے بلاتے تھے۔۔" گل جان نے سادگی سے یاد دلایا۔
"بدلہ لے رہی ہیں۔۔" وہ محظوظ ہوئے۔ دل ہلکا پھلکا ہوا تو لبوں پر مسکان ٹھہری۔۔
"جی شاید۔۔ یہی سمجھ لیں۔۔" گل جان بیڈ پر بیٹھ کر بلینکٹ پھیلاتی انہیں نظر انداز کر گئیں۔
خان آزر نے آگے بڑھ کر ڈوپٹے میں لپٹے سر پر عقیدت بھرا بوسہ دیا اور پلٹ کر وہاں سے چلے گئے۔
گل جان اپنی جگہ تھم سی گئیں۔ دل میں قدر شاید کم تھی، شوہرانہ مقام بھی نا تھا مگر دل کے ایک کونے میں جو محبت کی رمق باقی تھی پورے دل میں سرایت کرتی دل کو زور سے دھڑکا گئی۔۔ وہ آہستگی سے مسکرائیں۔۔ جانے کون کہتا ہے عورت پتھر دل ہوتی ہے، عورت وفا کا پیکر ہوتی ہے، محبت پر بات آئے تو اس سے زیادہ کسی کا دل موم ہو ہی نہیں سکتا۔۔
خان داور اپنے کمرے میں تیاری کر رہا تھا۔ خاکی شلوار قمیض پر سیاہ واسکٹ اس کے دراز وجیہہ سراپے پر بہت دلکش لگ رہی تھی۔۔ ڈریسنگ ڈرار سے ہینڈ واچ نکالنے کے لیے جھکتا دروازے پر ہوتی دستک پر رک گیا۔
"آ جائیں۔۔" بھاری آواز میں اجازت ملتے ہی دروازہ دھڑ سے کھول کر مرحا اندر داخل ہوئی۔ ہیند واچ اٹھاتا خان داور حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔
"وہ گل جان نے بھیجا ہے۔۔ کہہ رہی تھیں آپ کو مردان خانے میں آغا جان نے بلوایا ہے۔۔ کہہ رہی تھیں آپ عورتوں کی طرح تیاری میں اتنی دیر لگا دیتے ہیں۔۔"
مرحا نظریں گھما کر کمرے کا ستائشی نظروں سے جائزہ لیتی پوری تفصیل بتا رہی تھی۔
"آ رہا ہوں۔۔ آپ جائیں۔۔" وہ ہینڈ واچ بازو میں ڈال کر بند کرتا مسکرا کر بولا۔ مرحا نے سر ہلا دیا مگر وہیں جم کر کھڑی رہی۔ داور پلٹا۔
"کوئی اور بات بھی رہتی ہے؟" اس نے ابرو اچکا کر سوال کیا۔ مرحا گڑبڑا کر نفی میں سر ہلا گئی۔
"آپ کو پتا ہے مجھے آپ سے بات کرنے کا بہت شوق تھا۔۔ گل جان جب ہمارے ہاں آئی تھیں ناں تو یاور لالا اور آپ کے بارے میں بہت بتاتی تھیں۔۔
کہتی تھیں یاور لالا اپنے بابا کی طرح جذباتی اور غصیلے ہیں۔۔ جلدی بھڑک جاتے ہیں لیکن آپ کی طبیعت میں بہت نرمی ہے۔۔ دھیما لہجہ ہے، جذباتی نہیں ہیں ہر معاملے کو سمجھداری اور نرمی سے سلجھاتے ہیں۔۔ غصہ نہیں کرتے اور۔۔"
مرحا کی مسلسل چلتی زبان پر خان داور نے حیرت سے اسے دیکھا۔ کیا وہ اس کی تعریف کر رہی ہے۔۔
"آپ حویلی کے زیادہ تر معاملات میں دخل ہی نہیں دیتے، اپنے کام سے کام رکھنا اور مسکراتے رہنا۔۔
مجھے بہت شوق تھا آپ سے ملنے کا لیکن ڈر بھی لگتا تھا کہیں آپ برا ہی نا مان جائیں کہ یہ بن بلائی مہمان کیوں سر پر سوار ہو گئی۔۔ گل جان نے کہا نہیں آپ تو ایسے بالکل نہیں، آپ کو میرا آنا برا تو نہیں لگا ناں لالا۔۔" وہ جوش سے بولتی زرا مدھم لہجے میں سوال کر رہی تھی۔ خان داور نے مسکراہٹ دبا کر نفی میں سر ہلا کر رخ پھیر لیا۔ پرفیوم اٹھا کر سپرے کرنے لگا۔
مرحا ستائش بھری نظروں سے اسے تکنے لگی، کیا شاندار پرسنیلٹی تھی۔۔ وہ کزنز تھے اور وہ پہلی بار ایسے کھل کر مل رہی تھی، خوش ہو گئی۔۔
"لالا کیا آپ کو پتا ہے۔۔" وہ جانے پھر سے کیا بولنے والی تھی کہ داور نے پلٹ کر ہاتھ اٹھا کر روکا۔۔
"کیا آپ کو پتا ہے مرحا کہ مورے نے آپ کو یہاں کیوں بھیجا۔۔؟" اس نے قدرے نرمی اور سنجیدگی سے پوچھا۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"جی آپ کو پیغام دینے کہ آغا جان نے۔۔ "نہیں آغا جان کا پیغام ملازمہ بھی لا سکتی تھی۔۔" داور نے اس کی بات کاٹ کر اسے جتایا۔ مرحا گڑبڑا گئی۔
"مورے چاہتی ہیں آپ کے ساتھ میری شادی کی جائے۔۔" خان داور نے اطمینان سے اس کے سر پر دھماکہ کیا، مرحا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو گیا۔۔
"وہ نانا جان اور ماموں سے بات کر چکی ہیں۔۔ آغا جان کو بھی منوا چکی ہیں۔۔ لیکن میں اس رشتہ پر راضی نہیں ہوں اس لیے آپ کو بھیجا تاکہ میں دیکھ کر اپنا فیصلہ بدل سکوں۔۔" وہ شال اٹھا کر کندھوں پر پھیلاتا اسی پرسکون انداز سے بول رہا تھا۔ مرحا بوکھلا کر پیچھے ہوئی۔ اسے یہ بالکل نہیں پتا تھا۔
"کیا آپ نہیں جانتی تھیں یہ بات۔۔؟" خان داور پوری طرح اسکی طرف مڑ کر اس کے سامنے آیا۔ مرحا کے اس کے یوں سامنے ٹھہر کر دیکھنے پر پسینے چھوٹے۔
"ن۔۔نہیں۔۔ قسم سے لالا۔۔ میں نہیں جانتی تھی۔۔۔"
وہ ایسے صفائی دینے لگی جیسے جرم کی تفتیش کی جا رہی ہو۔۔ خان داور کا بارعب لہجہ اسے ہکلانے پر مجبور کر گیا۔
"آپ کو بھی بےخبر رکھا گیا۔۔ یہ ناانصافی ہے۔۔
میں ایک شادی شدہ مرد ہوں۔۔ میری عمر آپ سے بڑی ہے، مجھ میں بہت سی خامیاں اور کمیاں ہیں۔۔ میری بیوی بھی اسی لیے مجھے چھوڑ گئی۔۔ حویلی والوں کی چاہ ہے میری اپنی اولاد ہو۔۔
لیکن آپ جیسی ناسمجھ اور چھوٹی عمر کی لڑکی کے ساتھ ایسی ناانصافی میں بالکل نہیں کر سکتا۔۔"
مرحا کا چہرہ سرخ ہوا، چور نظر سے اسے دیکھا وہ واقعی جذباتی اور تحکم مزاج نہیں تھا، نرم لہجہ اور مہربان سا انداز۔۔ وہ مرعوب ہوئی۔
"کیا خٹک حویلی میں بیٹی کی شادی کرتے وقت اس کی رائے اور مرضی نہیں پوچھی جاتی۔۔؟" خان داور کے سوال پر وہ شرمندگی سے سر جھکاتی نفی میں سر ہلا گئی۔ خان داور کو اس جہالت پر افسوس ہوا۔
"ٹھیک ہے۔۔ فکر مت کریں میں خود انکار کر دوں گا۔۔ مورے سے کوئی بات نہیں کرنا۔۔ اب جائیں یہاں سے۔۔"
اسے اطمینان دلا کر نرمی سے کہا۔ مرحا کے دیکھنے پر مسکرایا۔ گویا تسلی دی ہو۔۔ وہ گم صم سی وہاں سے نکل کر چلی گئی۔ خان داور نے گہرا سانس بھرا۔
گل جان سے بات کرنے کا سوچ کر باہر نکلا اور بنا ارد گرد دیکھے مردان خانے کی طرف بڑھ گیا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"ہائے فرمانبردار خان۔۔" ریما نے حویلی کی پچھلی جانب کھلی جگہ پر کھڑی گاڑیوں کی طرف جاتے ادب خان کو دیکھ کر شرارت سے پکارا تو وہ غصے سے پلٹا۔ ریما نے جلدی سے زبان دانتوں تلے دبائی۔
"اوہ سوری میرا مطلب ادب خان صاحب۔۔" ادب خان نے بمشکل ضبط کر کے اسے دیکھا۔
"جی بی بی۔۔؟" عزت سے سوال کیا۔
"بی بی کون۔۔؟ ارے خان صاحب آپ میرے ملازم تھوڑی ہیں جو بی بی بلا رہے ہیں۔۔ میرا نام ریم۔۔"
ابھی وہ بال جھٹک کر بول رہی تھی کہ وہ ٹوک گیا۔
"آپ کو کیا بات کرنی ہے؟ میں مصروف ہوں۔۔" اس نے سختی سے سوال کر کے اپنی مصروفیت کا جتایا۔
"شکریہ کرنا تھا۔۔ آپ نے اس دن میری زندگی بچائی۔۔ آپ تب وہاں نا ہوتے تو وہ گاڑی مجھے کچل کر جا چکی ہوتی۔۔" ریما نے تمیز سے اپنی بات مکمل کی۔
"کوئی بات نہیں۔۔ میرا فرض تھا۔۔" وہ سنجیدگی سے بول کر پلٹا مگر ریما کی شرارت کی رگ پھڑکی۔
"سچی؟ میری زندگی کی حفاظت کرنا آپ کا فرض ہے؟ واہ کب سے۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔ ادب خان کا غصہ بڑھ رہا تھا۔ عجیب ڈھیٹ لڑکی تھی۔
"انسان کو بچانا فرض ہے۔۔ اب ادھر سے جاؤ بی بی۔۔ مجھے عورت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔ وقت ضائع مت کرو مجھ پر۔۔" وہ اتنا ناسمجھ نہیں تھا، ریما کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک بہت کچھ ظاہر کر رہی تھی۔ تبھی سختی سے ٹوکا۔
"تو کیا مرد میں دلچسپی ہے؟ اوہ ایک منٹ۔۔ کہیں آپ اپنے خانزادہ صاحب سے محبت تو نہیں کرتے۔۔ یا اللّٰہ خان صاحب آپ تو۔۔ " ریما کا سنہری چہرہ شرارت کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ بادامی آنکھوں میں شریر چمک لیے بولی تو ادب خان کا دماغ گھوما۔
"بکواس بند کرو۔۔ عزت سے کہہ رہا ہوں، عزت سے جاؤ یہاں سے۔۔ ورنہ جیسے اس دن بچایا تھا ویسے کسی چلتی گاڑی کے آگے دھکا دے کر جان چھڑوا لوں گا۔۔"
ادب خان نے بنا لحاظ غرا کر کہا تو ریما کا ایک پل کے لیے تو دل رک سا گیا۔ بھاری تیکھی آواز میں غصے سے بولتے ادب خان کے چہرے پر پتھریلے تاثرات تھے۔
"ادب خان۔۔" خانزادہ کی تیز آواز پر ادب خان کے چہرے کے تاثرات پل میں نارمل ہوئے۔ سر جھکا کر پیچھے ہوا۔ ریما کی شرارت بھی دم توڑ چکی تھی۔ خانزادہ ان کے قریب آیا۔
"آپ جائیں اندر۔۔" خانزادہ نے ریما کو دیکھ کر نرمی سے کہا تو وہ سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔
"کیا عورت سے بات کرنا بھی سیکھانا پڑے گا ادب خان۔۔؟" خانزادہ نے کڑے تیوروں سے ادب خان کو گھورا۔ وہ گڑبڑا کر نفی میں سر ہلا گیا۔
"خانزادہ صاحب ایسا بالکل نہیں۔۔ بس وہ۔۔" ادب خان شرمندگی سے بولتا چپ ہو گیا۔ ریما کی بےتکی باتیں تو بتانے کے قابل بھی نہیں تھی کہ بتاتا۔۔
"جیسا بھی ہے۔۔ وہ مہمان ہے یہاں اور لڑکیوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بالکل نہیں۔۔ اپنی یہ گرمی دشمنوں اور مردوں کے لیے رکھو۔۔ گاڑی نکالو ہمیں جلدی واپس بھی آنا ہے۔۔" اس نے سنجیدگی سے گھورتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ علاقے میں کسی کی شادی تھی، جہاں خانزادہ کو اپنے شوق میں انہوں نے بلوایا تھا۔ وہ انکار نہیں کر پایا اس لیے تھوڑی دیر جانے کا سوچ کر ادب خان کو گاڑی نکالنے کا کہہ کر تیاری کرنے چلا گیا۔ جب باہر آیا تو وہ اتنے غصیلے تاثرات لیے ریما کو گھور کر بات کر رہا تھا۔
خانزادہ کے جاتے ہی ادب خان کے سانس بحال ہوئے۔۔ گاڑی کی طرف بڑھنے سے پہلے زرا رخ پھیر کر حویلی کی طرف دیکھتا چونک گیا۔ ریما دور دروازے کے پاس رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے دیکھنے پر اسے منہ چِڑانے لگی۔ ادب خان نے خفگی سے گھور کر رخ پھیر لیا۔
اسے تو وہ سر پھری بالکل اس قابل نہیں لگی کہ نرمی سے بات کرے لیکن سختی سے بات کرنے پر بھی اس نے اثر نہیں لیا تھا الٹا خانزادہ سے عزت افزائی کروا بیٹھا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر تیزی سے گاڑی حویلی کے پھاٹک کے پاس لے جا کر روک گیا۔ خانزادہ کال پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ کال کاٹ کر گاڑی میں بیٹھا۔ ریما ہنستی ہوئی اندر چلی گئی۔
ادب خان کی دلکشی کے ساتھ باکردار شخصیت کے سحر نے اسے جکڑ لیا تھا۔
"یار وہ تو غصہ کرتے ہوئے بھی اتنا شاندار لگتا ہے کہ کیا بتاؤں۔۔" پریہان اور مرحا کو سب بتاتی وہ اس کے ہی خیال میں کھوئی ہوئی تھی۔ پریہان ہونق بنی اسے دیکھنے لگی، غصے سے اس کی تو جان جاتی تھی یہاں سامنے بیٹھی اس کی دوست ادب خان کے غصے پر فدا ہو رہی تھی۔ وہ حیران ہوئی۔
"اور سنو یہ جو تمہارے حدیر صاحب ہیں ناں۔۔ ان سے کہہ دو ادب خان پر زیاد رعب نا جھاڑا کریں۔۔ ہماری آپس کی بات تھی، آ کر انہیں ڈانٹ دیا۔۔ ہونہہ۔۔"
ریما نے ناک چڑھا کر اچانک پریہان کو مخاطب کیا۔
"کون سی آپس کی بات۔۔ تمہارا نکاح نہیں ہوا ادب خان سے۔۔ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں زیادہ اماں نا بنو اچھا۔۔" پریہان اپنے حدیر کے بارے میں اس کے الفاظ سن کر بھڑک اٹھی۔ ناک پھلا کر کہا تو ریما نے گھورا۔
"نکاح بھی ہو جائے گا۔ بس زرا یہ اکڑو خان صاحب دھیمے پڑیں تو۔۔ بات تو سنتے نہیں۔۔ بلکہ سنو۔۔"
وہ منہ بنا کر بولتی اچانک پرجوش ہوئی۔
"حدیر سے کہنا ادب خان کی شادی مجھ سے کروا دے۔۔ اس کی وفاداری کا صلہ تو دے ناں۔۔ ساری زندگی کیا ان کے در پر رہے گا۔۔ اپنا گھر بھی تو بسانا ہے، خود شادی کر لی، باپ بن گئے ان کی پروا نہیں۔۔"
ریما نے دل کھول کر پریہان کے کان بھرے۔ وہ پرسوچ انداز سے سر ہلانے لگی۔
"کروں گی بات۔۔ میں نے کوشش کی تھی پہلے بھی۔۔ مگر کسی دن سپیشلی بات کروں گی۔۔" وہ پرعزم لہجے میں بولی۔ ریما پرسکون سی ہو گئی۔
"تم کیوں گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی ہو۔۔ کیا ہوا۔۔؟"
ریما کی نظر مرحا پر پڑی تو ابرو چڑھا کر اسے کہنی ماری۔۔ خیال میں کھوئی مرحا گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔
"نہیں میں سوچ رہی تھی کہ پُروا نظر نہیں آ رہی۔۔"
وہ جلدی سے بات سنبھال کر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
"ارے ہاں ہمارا اداس ٹوئٹی غائب ہے۔۔" ریما نے بھی حیرت سے کہا۔ مرحا سے توجہ ہٹ گئی تھی۔
"ثنا چچی کے پورشن میں ہے۔۔ پتا نہیں کیا گھول کر پلا دیا ہے ان کو۔۔ سارا دن بھاگ بھاگ کر ان کے سر پر سوار ہو جاتی ہے وہ سارا دودھ بنا بنا کر اسے پلائے رکھتی ہیں۔۔ میں تو اس دوستی پر حیران ہوں۔۔"
پریہان بتاتے ہوئے حیرت کا اظہار کر رہی تھی۔
"اسے طریقہ آتا ہے دل میں جگہ بنانے کا۔۔ بس ایک تم کسی کام کی نہیں ہو۔۔ میں تو حیران ہوں حدیر نے کیا دیکھ لیا تم میں۔۔" ریما ناک سے مکھی اڑا کر بولی۔
"تم جلتی رہنا۔۔ وہ پہلی بار سے ہی فدا ہو گئے تھے مجھ پر۔۔" پریہان نے بیٹھے بیٹھے کہان بُن لی۔۔
"ارے جلیں میرے دشمن۔۔ اور تم اب بس کر دو۔۔ سارے قصے سن رکھے ہیں تمہاری لازوال داستان عشق کے۔۔
اب مزید کی گنجائش نہیں رہی۔۔" ریما نے اسے آسمان سے زمین پر پٹخا۔ پریہان خود کو کوسنے لگی، ریما سے ہر بات شئیر کرنے کی غلطی جو کر بیٹھی تھی۔
"دیکھو ریم دشمنی پر مت آؤ ورنہ تمہاری ناکام محبت کی داستان مشہور ہونے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔۔"
پریہان نے اس بار اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔ ریما نے دانت کچکچائے۔
"موقع پرست ہو بھئی۔۔ میسنی اپنی سسرال کے سامنے تو زبان ڈبے میں بند کر کے رکھ دیتی ہوں۔۔ دوستوں کو جواب دینا ہو تو قینچی کی طرح چلتی ہے تمہاری زبان۔۔" ریما نے منہ بگاڑ کر اسے کوسا۔ پریہان ڈھیٹ بنی ہنسنے لگی تھی۔
"یار مجھے کچھ بتانا ہے۔۔" مرحا سے مزید صبر نہیں ہوا تو دونوں کو چپ کرواتی بولی۔
"کیا۔۔ کچھ ہوا ہے کیا۔۔" دونوں متوجہ ہوئیں۔۔ مرحا نے انہیں خان داور کی ساری بات بتا دی۔
"کیا۔۔۔؟ کون سا ہے داور۔۔ کہاں ہے، مجھے دکھاؤ۔۔ مجھے بھی ملواؤ۔۔" ریما نے بےصبرے پن سے کہا۔
"چپ کر جاؤ۔۔ وہ راضی نہیں ہیں۔۔ تمہیں ملنے کی پڑی ہے۔۔۔" مرحا نے خفگی سے ٹوکا۔
"مطلب تم راضی ہو۔۔؟" پریہان نے اسے دیکھا۔
"نہیں یار۔۔ کوئی فیلنگ نہیں ابھی تو۔۔ کچھ وقت پہلے تو ملنا جلنا ہوا ہے۔۔ کزن ہیں۔۔ میں تو لالا کہتی ہوں انفیکٹ مجھے ان کی پرسنیلٹی بہت پسند آئی تھی ان کے بارے میں سُن سُن کر۔۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ شادی کروں گی۔۔ عجیب لگ رہا ہے۔۔"
مرحا نے ایمانداری سے اپنے احساسات شئیر کیے۔
"لالا بھی کہتی ہو اور وہ شادی شدہ بھی ہے۔۔" ریما نے بھی صاف گوئی سے دوسرا پہلو سامنے کیا۔
"اب تو نہیں ہیں ناں۔۔ ڈیوورس ہو چکی ہے ان کی۔۔ بہت اچھے ہیں، نرم مزاج اور سلجھے ہوئے۔۔ " پریہان نے داور کی طرفداری کرتے ہوئے بتایا۔
"وہ راضی نہیں ہے۔۔ وہ بتا بھی چکے۔۔" ریما نے کندھے اچکا کر بات ختم کی لیکن مرحا بےچین ہوئی۔
"ریم۔۔ سچ تو یہ ہے کہ واقعی ہماری حویلی میں لڑکیوں کا رشتہ کرتے ہوئے نا پوچھتے ہیں نا بتاتے ہیں۔۔
مجھے ہر آزادی ملی، یونی میں پڑھا، تم لوگوں کے ساتھ انجوائے کیا لیکن شادی کی بات ہوئی تو مجھے نا بتایا جائے گا نا پوچھا جائے گا۔۔" مرحا نے اداسی سے بتایا۔ یعنی رِسک تھا کہ داور انکار کرے تو کوئی اچھا انسان مل جائے گا۔۔
"میں حدیر سے کہوں گی کہ ان کو سمجھائیں۔۔" پریہان نے ان کی مشکل آسان کرنے کی ٹھان لی۔
"بالکل نہیں پریہان۔۔ وعدہ کرو ایسا کچھ نہیں کہو گی۔۔ پاگل ہو کیا ان چاہی بیوی بننا کتنا ازیت ناک ہوتا ہے تمہیں اندازہ بھی نہیں۔۔ پھر مجھے تو وہ واضح انکار کر چکے اس کے بعد بھی ڈھیٹ بن کر شادی کی تو کبھی قدر نہیں ہو گی میری۔۔" مرحا نے اسے تیزی سے ٹوکا۔ پریہان چپ سی ہو گئی۔ اس کی بات ٹھیک تھی۔ اب تو وہ دیکھ بھی چکی تھی سب۔۔
"تو پھر منہ پر بارہ بجا کر بھی مت بیٹھو ناں۔۔" ریما نے ترچھی نظروں سے مرحا کو گھور کر کہا۔
"ہاں میں غم سے بےہوش ہو گئی تم رو لو مجھ پر۔۔"
مرحا نے ناک چڑھا کر طنز کیا اس سے پہلے کہ ان دونوں کی بحث شروع ہوتی، پُروا اور رباض کی چیخوں نے طوفان مچا دیا۔
"یا اللّٰہ دونوں کا سائز اتنا نہیں جتنی آواز ہے۔۔" پریہان گھبرا کر اٹھی اور باہر بھاگی۔ رباض پھر سے پُروا کے بال مٹھیوں میں دبوچے چیخ رہا تھا۔
عیسٰی اس کی مٹھیاں کھولنے کی کوشش میں ناکام ہو رہا تھا۔ خان یوسف سر پکڑے بیٹھے تھے۔
"یار چھوڑ دو کتنے ظالم ہو۔۔ میری بچاری سی بیوی پر ظلم کیوں کرتے ہو۔۔" عیسٰی نے اسے گدگدایا تو وہ کھلکھلاتے ہوئے زور زور سے اچھلنے لگا۔
خان داور نے رباض کو بہلا کر اس کی مٹھیاں کھولیں اور اسے اٹھا کر ہنسنے لگا۔ رباض غصے کا اظہار کرتا اسے ٹانگیں مار رہا تھا۔
"میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔" پُروا نے رونی صورت بنا کر عیسٰی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اوہ قربان۔۔ لگتا ہے سوا سیر مل گیا تمہیں۔۔" عیسٰی شرارت سے کہتا اس کا سر سہلانے لگا۔
"غصہ نہیں کرتے میری جان۔۔" داور نے اس کی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کو اپنے ایک ہی ہاتھ سے پکڑ کر قابو کیا۔ خان یوسف نے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے۔
"بس اب یہ عیسٰی اور داور سے ناراض ہو چکا ہے۔۔ تم دونوں نے اس کو روک کر دشمنی مول لے لی ہے۔۔"
خانی بیگم مسکرا کر بتا رہی تھیں، رباض خان یوسف کے ساتھ سرخ چہرہ کیے مسلسل بولتا جیسے اپنی زبان میں شکایات لگا رہا تھا۔
پریہان رونی صورت بنا کر بیٹھی پُروا کے پاس گئی۔
"پری ٹھیک ہو ناں۔۔ تمہیں کہتی بھی ہوں مت اٹھایا کرو۔۔ نیا شوق چڑھ گیا ہے اسے۔۔" پریہان اس کے بال سنوار کر نرمی سے بول رہی تھی۔ پُروا منہ بسورنے لگی۔ وہ آنے کے لیے بھی خود مچلتا تھا۔ پُروا انکار نہیں کر سکتی تھی۔ پیارا جو اتنا تھا۔۔
"کوئی بات نہیں۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔" پُروا نے آنکھیں رگڑ کر نمی صاف کی اور جھوٹ بول دیا۔
پریہان اسے دیکھ کر رہ گئی، رباض اب بھی شکایات لگانے میں مصروف تھا۔ غصہ بہت زیادہ کرتا تھا۔۔
_________
رات کے وقت جب خانزادہ رباض کو اٹھائے کھیل رہا تھا، پریہان منہ پھُلا کر ان کے پاس بیٹھی۔
"آپ کو اندازہ بھی ہے کتنا غصیلا ہو رہا ہے یہ۔۔ بال کھینچتا ہے، تھپڑ مارتا ہے اور منع کرو تو الٹا شور مچا دیتا ہے۔۔ آج بھی پُروا کے بال کھینچے اور چھوڑتا نہیں تھا۔۔" پریہان کسی بچے کی طرح اپنے ہی بیٹے کی شکایتیں لگانے میں مصروف تھی۔
"کیا واقعی۔۔؟ اسے ٹوکا کرو۔۔ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ سمجھایا بھی نہیں جا سکتا، بتاؤ کیا کروں۔۔"
خانزادہ نے بےبسی کا اظہار کیا۔ سامنے بیڈ پر لیٹا رباض باپ کے دیکھنے پر زور زور سے بازو اور ٹانگیں چلاتا ہنسنے لگا۔
"اسے مارنے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن روک ٹوک کی سمجھ نہیں آتی۔۔ روک ٹوک اسے ظلم لگتا ہے رونا شروع کر دیتا ہے۔۔" پریہان نے ناراضگی سے بتاتے ہوئے رباض کو گھورا تو وہ ماں کو دیکھتا زور سے چیخا۔
"پریہان یہ بس بچہ ہے۔۔ بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا۔۔ ہم روکتے رہیں گے تو سمجھ جائے گا یہ غلط کام ہے۔۔"
خانزادہ نے نرمی سے اسے سمجھایا۔ رباض ماں کے اگنور کرنے کو محسوس کرتا اس کی طرف دیکھتا رونے لگا۔۔ پریہان نے جھک کر اسے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا کر تھپکنے لگی۔ وہ اس کے کندھے پر گال ٹکا گیا۔ خانزادہ مسکرا کر اٹھتا فریش ہونے چلا گیا۔
اپنے مطلب کے لیے واقعی وہ تیز تھا۔ جہاں مرضی نہیں ہوتی تھی وہاں چیخنا شروع کر دیتا تھا۔۔ مگر تھا تو پھر بھی بچہ ہی۔۔
اسے تھپکتی پریہان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گئی، پھر تھوڑی دیر بعد اسے گود میں لیٹا لیا۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ خود سو چکی تھی مگر رباض اب بھی آنکھیں پوری کھولے ماں کو دیکھ رہا تھا۔
خانزادہ بیڈ پر آیا تو ہنسی دبا کر بیٹے کو دیکھا۔ وہ باپ کو دیکھ کر جوش سے اچھلنے لگا۔ خانزادہ نے لائٹس آف کر دیں، اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا اور پریہان کو سیدھا کر کے سلاتے ہوئے اس پر بلینکٹ ڈال دیا۔ مچلتے ہوئے رباض کو اپنے سینے پر سلا کر وہ خود بھی لیٹ گیا۔ اندھیرا ہونے پر رباض تھوڑی دیر تو آہستہ آواز میں غوں غاں کرتا رہا مگر جواب نا ملنے پر کچھ دیر بعد سو گیا تھا۔۔
حویلی کے زنان خانے میں اس وقت سب افراد بیٹھے تھے، خان داور بری طرح بھڑکا ہوا تھا اس کی توپوں کا رخ خانزادہ کی طرف تھا جو ایسے سکون سے بیٹھا تھا جیسے سن ہی نا سکتا ہو۔۔
"اسے کہہ دیں اپنے کام سے کام رکھے۔۔ میں نے کہہ دیا شادی نہیں کرنی تو بس بات ختم۔۔ مر نہیں جاؤں گا اگر دوسری شادی نہیں ہو گی تو۔۔ تم لوگوں کے بچے کیا میرے بچے نہیں ہوں گے۔۔
سب نے ایک ہی بات کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے۔۔"
خان داور کے غصیلے لہجے پر خان یوسف بیزار ہوئے جبکہ خان آزر پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
عقیقہ دھوم دھام سے کیا گیا تھا، مہمان سب جا چکے تھے مگر دو دن گزرے تھے کہ خانزادہ نے پھر سے خان داور کی شادی کا شوشہ چھوڑ کر اسے بھڑکا دیا۔
پریہان اور زرشے خاموشی سے داور کو دیکھ رہی تھیں، یاور کی بیوی مومنہ کینو چھیل کر کھاتی اپنے آپ میں مگن تھی، خانی بیگم اور ثنا بیگم بھی خاموشی سے سب کے درمیاں بیٹھی تھیں۔ گل جان رباض کو گود میں لیے تفکر سے داور کو دیکھ رہی تھیں جبکہ پُروا نیند میں جاتے رباض کے ہاتھوں سے کھیل رہی تھی۔۔
"شادی نا کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے ویسے۔۔"
خان یاور نے سنجیدگی سے بھائی کو دیکھا وہ جواباً دانت کچکچاتا یاور کو گھور کر رہ گیا۔
"میری شادی کرواتے وقت تو آپ پیش پیش تھے اب کیوں مسئلہ کھڑا کر دیا ہے لالا۔۔" موسٰی نے بھی حصہ ڈال کر کہا، خان داور نے بمشکل ضبط کیا۔
"وہ لڑکی بہت چھوٹی ہے مجھ سے۔۔ میری عمر بڑی ہے اور میں اگر تب بھی باپ نا بنا تو کیا تیسری شادی کروائیں گے؟" خان داور نے ضبط سے جبڑے بھینچ کر خان یوسف کو دیکھا جو فیصلہ کیے بیٹھے تھے۔۔
"پہلے تم دوسری شادی کر لو پھر تیسری کی بات کرنا۔۔ حرج کیا ہے، لوگ بیویوں کے ہوتے ہوئے دو شادیاں مزید کر لیتے ہیں تمہیں کیا تکلیف ہے جب بیوی بھی جا چکی ہے۔۔ کتنے بڑے ہو آخر، بوڑھے ہو گئے ہو کیا۔۔ ان کی لڑکی کو تم سے زیادہ بہتریں رشتہ ساری عمر ڈھونڈنے سے نا ملے، تم لڑکی کی فکر مت کرو، وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے۔۔" خان یوسف بحث سے تنگ آ گئے، خان داور کو جھنجھلا کر جواب دیا۔
"میری بیوی بھی تو چھوٹی ہے، میں تو خوش ہوں۔۔"
عیسٰی نے مزہ لیتے ہوئے ہنسی دبا کر کہا۔ خان داور نے ان سارے چیلوں کو گھورا جو لائن سے بیٹھے اس کے خلاف بول رہے تھے۔ کسی ایک کے خلاف بولنے کے لیے تو یکجان ہو جاتے تھے، خانزادہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"آپ کو اب لگتا ہے کوئی ضرورت نہیں۔۔ ہماری اولاد بھی آپ کی اولاد ہے مگر سچائی یہی ہے ہماری اولاد پر آپ ویسا حق نہیں جما سکیں گے جو اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔۔ عمر کے ایک حصے میں آپ کے لیے بہن بھائی اور سب رشتے اتنے ضروری نہیں ہوتے جتنے بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔۔ میں نہیں چاہتا وہ وقت آئے تو آپ تنہا ہوں اور تب کچھ کر نا پائیں۔۔
آپ کے دل میں بس یہ پریشانی ہے کہ لڑکی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، اس پر زبردستی کی جا رہی ہے تو مورے گل نے یقین دلایا ہے لڑکی پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔۔ جب اسے کوئی اعتراض نہیں تو آپ بھی دل سے وسوسے نکال دیں۔۔۔ اور سب سے آخری بات۔۔
میں نے کہہ دیا شادی ہو گی تو بس ہو گی۔۔"
وہ گہرے لہجے میں سنجیدگی سے بولا۔۔ آخری لائن پھر سے دھونس بھرے لہجے میں کہتا خان داور کو چڑا گیا تھا۔
"ہاں بس ضد مت کرو اور خان زوار عیسٰی کی بھی شادی ساتھ ہی کر دیتے ہیں، تیاری کر لو۔۔" خان یوسف نے بھی بات کر کے فیصلہ سنا دیا، عیسٰی کی آنکھیں چمک اٹھیں، دیوانگی سے پُروا کو دیکھنے لگا۔
"پُروا کو مایوں بیٹھا دیں۔۔ پُروا میری زمہ داری ہے، ہمارے گھر سے ہی رخصت ہو گی۔۔" خانزادہ نرم نگاہوں سے پُروا کو دیکھتا بول رہا تھا۔ پریہان کا چہرہ کھِل اٹھا۔ پُروا نے سر اٹھا کر خانزادہ کو دیکھا چہرہ شرم سے سرخ ہوا جا رہا تھا۔ وہ بےاختیار ہنسا۔۔ خان داور منہ بگاڑ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"حدیر۔۔" پریہان خانزادہ کو پھر سے باہر کی تیاری کرتا دیکھ کر اس کے سر پر پہنچی۔
"ہمم۔۔" بال برش کرتا وہ مصروف انداز میں بولا۔
"آپ سے بات کرنی ہے مجھے۔۔۔ آپ تو اب مجھے ٹائم بھی نہیں دیتے۔۔" وہ چہرے پر اداسی پھیلائے بولی۔ وہ پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ پریہان کو پوری توجہ اور وقت دیتا تھا اس پر بھی یہ گلہ۔۔
"کب وقت نہیں دیتا پریہان۔۔؟ اچھا کیا بات کرنی ہے۔۔"
وہ مسکرا کر برش رکھ گیا، اس کے پاس آتا محبت سے بولا۔ سمجھ گیا کوئی ضروری بات کرنی ہے جس کے لیے اتنا ڈرامہ کر رہی ہے وہ۔۔
"رباض نہیں ہے ناں تو آرام سے بات کرنا چاہتی ہوں۔۔"
وہ چمکتی آنکھیں لیے جلدی سے صوفے پر بیٹھ کر اس کے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگی۔
"رباض نہیں ہے پھر تو رومینس بھی کر سکتے ہیں ویسے۔۔" وہ مسکراہٹ دبا کر شوخی سے اسے دیکھتا اس کے بالکل قریب جا کر بیٹھ گیا۔ وہ بوکھلا گئی۔
"بات کر رہی ہوں ناں۔۔ تو بات سن لیں آرام سے۔۔ میں چاہتی ہوں ریما اور ادب بھائی کی شادی ہو جائے۔۔"
وہ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر اسے دور رہنے کا اشارہ کرتی ایک ہی سانس میں بولی۔ وہ ہنس پڑا۔
"پریہان۔۔ ادب خان انٹرسٹڈ نہیں ہے ناں۔۔ میں کیسے زبردستی کروں اس کے ساتھ۔۔" اس کے پاس بیٹھ کر وہ نرمی سے بولتا اس کا گال سہلانے لگا۔
"آپ نے باقی سب کے بھی تو فیصلے خود کیے ناں۔۔"
وہ روٹھے ہوئے لہجے میں بولی تو وہ سر پکڑ گیا۔
"بہت پاگل ہو میری جان۔۔ جو دیکھتی ہو وہی سمجھ لیتی ہو۔۔" وہ اس کے بال سنوار کر اس کا سر تھپتھپانے لگا۔ پریہان نا سمجھی سے سے دیکھنے لگی۔
"دیکھو موسٰی کا معاملہ تھوڑا الگ تھا، وہ کافی پہلے سے زرشے میں انٹرسٹڈ تھا اس لیے اس کے ساتھ زرشے کا نکاح کیا۔ ہاں عیسٰی کو پُروا کے لیے چننے میں میری تھوڑی خود غرضی شامل تھی، جیسے حالات اس کے تھے، اسے حویلی لانا یا وہاں اکیلے رکھنا مشکل تھا اور عیسٰی چاہے جیسا بھی تھا اس کا خیال رکھتا اور اس نے اس کی حفاظت کی۔۔ اب داور لالا کے لیے میں اس لیے زور دے رہا ہوں کیونکہ مورے گل چاہتی ہیں ان کی بھتیجی ان کی بہو بنے، خٹک حویلی والے بھی ایسا چاہتے ہیں تاکہ مورے گل سے ان کا رشتہ مضبوط ہو جائے۔۔ داور لالا صرف گھبرا رہے ہیں، ان کو لگتا ہے ان میں کمی ہے، انہیں لگتا ہے بوڑھے ہو چکے ہیں وہ۔۔
وہ میرے بھائی ہیں میں ان کے خوف جانتا ہوں۔۔"
وہ سمجھاتے ہوئے نرمی سے مسکرایا۔ پریہان منہ بسور گئی۔ ریما نے پہلی بار اسے کوئی کام دیا تھا وہ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
"ادب بھائی بھی تو آپ کے بھائی جیسے ہیں۔۔ ان کی زندگی کا بھی تو سوچیں۔۔" وہ اس کے پاس کھسک کر پھر سے توجہ دلانے لگی، انداز ایسا تھا جیسے زمہ داری کا احساس دلا رہی ہو۔۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
"پریہان ادب خان کو بہت بار شادی کا کہہ چکا ہوں۔۔
اسے انٹرسٹ نہیں ہے بالکل۔۔ بٹ اوکے مجھے لگتا ہے تمہاری دوست اب اس کی جان نہیں بخشنے والی۔۔"
وہ جیسے سارا معاملہ سمجھ گیا تھا۔ پریہان نے پرجوش انداز سے سر ہلایا۔
"اسے کہنا بات کروں گا لیکن زبردستی نہیں کر سکتا۔۔ اسے سمجھاؤں گا شاید مان جائے۔۔" وہ گہرا سانس بھر کر صوفے سے پشت ٹکا کر پریہان کو دیکھنے لگا۔
"او۔کے بس اتنا بھی بہت ہے، آپ کو کیا پتا اسے تو ادب بھائی کا غصہ کرنا بھی اچھا لگتا ہے اور یہ تو بالکل مت سمجھیے گا کہ وہ بری لڑکی ہے، اس نے کبھی بوائز میں ایسا انٹرسٹ نہیں لیا تھا۔۔"
وہ اب ریما کی صفائیاں دینے میں لگی ہوئی تھی۔ وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے لیے وقت مانگ کر دوست کی باتیں کر رہی تھی۔ وہ آہ بھر گیا۔
"پریہان۔۔ تم مجھ سے اپنے لیے وقت مانگ کر دوست کی بات میں ضائع کر رہی ہو۔۔" یکدم اس کے ہاتھ تھام کر اپنے گالوں پر ٹکاتا وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔
پریہان جھینپ کر چپ سی ہو گئی۔ وہ چہرہ آگے بڑھا کر اس کے دائیں رخسار پر لب رکھ گیا۔۔ پریہان کے سرد ہاتھ اس کے رخساروں پر لرز سے گئے تھے، دل کی دھڑکنوں میں بےترتیب سا شور پیدا ہوا تھا۔
"آپ کو کہیں جانا تھا تھا ناں۔۔" وہ ہکلا کر بولتی اس کی توجہ خود سے ہٹانا چاہ رہی تھی۔ چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ مسکراہٹ دبا کر نفی میں سر ہلا گیا۔
"میں اب کافی لیٹ ہو چکا ہوں۔۔ تمہاری وجہ سے۔۔"
وہ اس کا رخسار نرمی سے سہلاتا اپنی طرف کھینچ کر بولا۔ وہ گڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔
"آئندہ مجھے وقت نا دینے کا شکوہ کرو گی تو تیار رہنا، میں تمہیں بھرپور وقت دوں گا۔۔" شوخی سے بول کر اسے سینے سے لگاتا بائیں رخسار پر لب رکھ گیا۔ وہ خانزادہ تھا، پر رشتے میں انصاف پسند اور اپنی پریہان کے لیے تو بہت زیادہ منصف۔۔
وہ اپنے لیے روک دے اور وہ رک کر اسے وقت نا دے۔۔ ایسا کبھی نہیں ہونے والا تھا، اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی پریہان نے سمجھ لیا تھا۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"مورے آپ نے بابا جان کو معاف کر دیا کیا۔۔؟" زرشے مورے گل کی گود میں سر رکھ کر لیٹی پوچھ رہی تھی۔
"ہمم۔۔ کر دیا معاف۔۔" اس کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلاتی گل جان نے مدھم لہجے میں بتایا۔
"دل سے معاف کر دیا۔۔؟ اس سب کے لیے جو آپ کے ساتھ ہوا۔۔؟ کیا آپ بھول گئیں مورے۔۔؟" زرشے نے حیرت سے ماں کا پرسکون چہرہ دیکھا۔
"بھول نہیں سکتی زرشے۔۔۔ کوشش کرتی ہوں تب بھی نہیں، میں نے لفظوں کی مار بھی کھائی ہے اور وجود پر زخم بھی جھیلے ہیں، وہ بھول دینا آسان نہیں اور معاف کرنا بھی بالکل آسان نہیں تھا۔۔
اپنے سکون کے لیے معاف کیا ہے، بےسکون تھی میں۔۔ اگر میں نے یہاں نا رہنا ہوتا، میری اولاد نا ہوتی تو شاید کبھی واپس آتی نا کبھی معاف کرتی۔۔ یہاں آ کر رہنا، سب سے لاتعلق ہو کر، بےسکونی میں اور نفرت میں الگ ہو کر رہنا۔۔ یہ کسی انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا زرشے۔۔ کبھی کبھی انسان کو اپنے لیے معاف کر دینا چاہئیے۔۔ اپنے سکون کے لیے۔۔ میں یہاں خان صاحب کے نام پر بیٹھی ہوں، وہ شرمندہ تھے، میرے آگے جھکے، غلطی مانی، معافی مانگی۔۔
اب تعلق پہلے جیسا نہیں ہو سکتا تھا لیکن میں نے معاف کر دیا اور یقین کرو مجھے سکون مل گیا۔۔ میرے فیصلے کے لیے جب وہ آغا جان کے سامنے ڈٹ گئے، میری بات کو جیسے پورا کیا۔۔ مجھے تب خانزادہ کی بات سمجھ آ گئی کہ عورت کی زات کا غرور اس کا مرد ہی لوٹا سکتا ہے۔۔ وہ گناہگار ہیں، میرے ساتھ ظلم کیا، زیادتی کی وہ سب اللّٰہ جانتا ہے وہ حساب لینے والا ہے۔۔ میں اپنے آپ کو مزید اندھیروں میں نہیں رکھ سکتی، میں مزید اب خاک بن کر نہیں رہ سکتی۔۔ انہیں معاف کیا اور وہ مجھے میرا غرور لوٹا کر، میری زات کو معتبر کر گئے۔۔"
گل جان آہستگی سے بولتی جا رہی تھیں، زرشے یک ٹک انہیں دیکھنے لگی۔ وہ مسکرا رہی تھیں، اب مسکراہٹ ان کی آنکھوں میں چمک لے آتی تھی۔۔ اب چہرے پر سکون کی چمک تھی۔۔ وہ بےسکون اور بےزار نہیں تھیں، زندگی جینی پڑے تو ڈھنگ سے جیا جائے اس میں برا کیا ہے۔۔ نفرتوں اور بدگمانیوں میں ہمیشہ نقصان اس انسان کا زیادہ ہوتا ہے جو پہلے ظلم سہتا ہے، پھر اس ظلم کو دل میں دبائے نفرت کرتا رہتا ہے، غصہ وجود کو اندر سے کھا جاتا ہے۔۔ بےسکونی ہی بےسکونی ہو۔۔ اور ہم جیتے جائیں دشمنی میں۔۔
انسان کتنا نادان ہے، دو دن کی عارضی زندگی میں وقتی احساس میں گھرا خود کو ازیت دیتا جائے گا اور سمجھے گا اس سے زیادہ اناپرست کوئی نہیں۔۔ اس سے زیادہ کوئی باعزت نہیں۔۔
سکون ملے تو سکون حاصل کرو۔۔ چاہے جیسے ملے، چاہے کبھی کبھی اپنی زات کو ایک قدم پیچھے کرنا پڑے۔۔۔ اپنے لیے یہ بھی کر لینا چاہئیے۔۔ کیونکہ آپ کے ساتھ ہوئی زیادتیاں وہ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا تو یاد رکھتا ہے، حساب بھی لیتا ہے۔۔
زرشے گہرا سانس بھر کر اٹھ بیٹھی، بال آبشار کی طرح پشت پر پھیل گئے تھے۔۔
"مورے خان موسٰی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، قدر کرتے ہیں۔۔ آپ کو پتا ہے میں بہت ڈرتی تھی، سب کہتے تھے میں آپ کا عکس ہوں، میں ڈرتی تھی میرا نصیب بھی آپ کے جیسا نا ہو۔۔ میں سہم جاتی تھی جب اپنا مستقبل سوچتی تھی، جب خود کو آپ کی جگہ دیکھتی تھی۔۔ میرا بھی ظرف بڑا نہیں، کمزور ہوں، میں اپنے ساتھ ہوئی بدسلوکی بھول نہیں پاتی۔۔
لیکن میرا نصیب بہت الگ ہے، وہ میرا خیال رکھتے ہیں، محبت کرتے ہیں، وہ مجھ سے میرے لیے لڑ جانے والے انسان ہیں۔۔ اب جب مجھے محبت ملتی ہے میں آپ کو سوچ کر رو دیتی ہوں۔۔ آپ کی زندگی ایسی کیوں نہیں تھی مورے۔۔" وہ گل جان کے ہاتھ آنکھوں سے لگائے رو رہی تھی، گل جان سکتہ زدہ سی بیٹی کو دیکھ رہی تھی، ماؤں کا غم بیٹیوں سے بڑھ کر کوئی نہیں جان سکتا۔۔ وہ ماں کو بےسکون دیکھ کر بھی ڈرتی تھی، وہ خود سکون میں رہ کر بھی ماں کے لیے روتی تھی اور آج جب اس نے ماں کے چہرے پر سکون دیکھا تھا تو تب بھی رو پڑی۔۔ یہ سکون بہت مہنگا تھا، اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو معاف کر کے ملا تھا۔۔
"جب میری خاموشی پر خان صاحب پریشان ہوتے ہیں، میری اداسی پر بےچین ہوتے ہیں، مجھے آپ یاد آتی ہیں۔۔" وہ زارو زار روتی بول رہی تھی۔ گل جان کی آنکھیں نم ہو گئیں، وہ عورت امیر ترین ہوتی ہے جس کی اولاد اس کی قدر کرتی ہو۔۔
ماں سے محبت تو سب کرتے ہیں، قدر کم لوگ کرتے ہیں، زرشے جیسی اولاد کوئی کوئی ہوتی ہے جو ماں سے محبت کے ساتھ اس کا مشکل وقت بھی یاد رکھے، جو اپنے سکون میں بھی ماں کی بےسکونی یاد رکھے، جو خوشیاں حاصل کر کے ماں کے خالی پن پر رو دے۔۔
دروازے پر آئے خان آزر اپنی جگہ جم کر رہ گئے تھے، انہیں لگا تھا معافی حاصل کر لینا ہی سب کچھ ہے، وہ غلط تھے، معافی مل گئی تھی مگر وہ قدر کہاں سے لاتے، جو انہیں گل جان کی کرنی چاہئیے تھی، وہ عزت کیسے حاصل کرتے جو گل جان کے دل میں ان کے لیے ہونی چاہئیے تھی۔۔ بعض اوقات ہم سکون میں ہو کر بھی خالی ہوتے ہیں، گل جان ایسی ہی تھیں، خان آزر بھی ایسے ہو رہے تھے۔۔ اندر سے خالی اور خاموش۔۔
_________
زرشے اپنے پورشن میں آئی تو لاؤنج میں ہی سب بیٹھے تھے، وہ نظریں چراتی تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی، عیسٰی کے ساتھ کسی بات پر ہنستے موسٰی نے اسے یوں چوروں کی طرح جاتے دیکھا تو ٹھٹک گیا۔
بہانے سے اٹھ کر اس کے پیچھے گیا، واش روم میں جاتی زرشے کا بازو تھام کر روکا۔۔
وہ حواس باختہ سی چہرہ چھپا رہی تھی، جیسے وہ ماں کے پاس روتی رہی تھی، وہ اس حال میں دیکھے گا تو سوال کرے گا۔۔ زرشے پریشان ہو گئی۔
"ادھر دیکھو مسز۔۔ یہ منہ چھپائی کی کون سی رسم۔۔" موسٰی اس کے یوں چھپنے پر اسے اپنی طرف کھینچ کر چہرہ سامنے کرتے ہوئے شرارت سے بول رہا تھا۔ چہرے پر نظر پڑی تو جملہ ادھورا رہ گیا۔
"زرشہ۔۔ کیا بات ہے، کسی نے کچھ کہا ہے؟ مجھے بتاؤ کیا ہوا۔۔" وہ بےچین سا ہو گیا۔ اس کے بال سمیٹ کر پوچھنے لگا، اس کی توجہ پر وہ اس کے سینے سے لگتی سسکنے لگی۔ یہ محبت اسے کبھی کبھی صرف خواب لگتی تھی، ایک خوبصوت خواب اور خوف ستاتا تھا یہ خواب ٹوٹ نا جائے۔۔ محبتیں اچانک ملنے لگیں تو کچھ وقت لگتا ہے عادت ہونے میں۔۔
اس کی بھی عادت نہیں بن رہی تھی۔۔ موسٰی فکرمند سا اسے سینے سے لگائے سر سہلا رہا تھا۔
"خان صاحب آپ میرا اتنا خیال کیوں رکھتے ہیں۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے آپ کبھی بدل گئے تو میرا کیا ہو گا۔۔"
وہ سسک کر بولی تو موسٰی حیران ہو گیا۔ اسے کندھوں سے تھام کر خود سے الگ کرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھا۔ سسکیاں بھرتی سرخ نم چہرہ لیے، بھیگی آنکھوں کو مسلتی وہ اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔ سحر زدہ کر رہی تھی۔۔
"میں کیوں بدلوں گا میری جان۔۔ تمہیں پانے کے اتنے خواب دیکھے تھے جو پورے نہیں ہوئے تو تمہیں کیا خبر دنیا سے دل اکتا گیا تھا۔۔ تم وہ دعا ہو جسے چھپ کر دل میں مانگتا تھا اور پورے وجود میں ناامیدی بھری ہوتی تھی۔۔ تم تو معجزہ ہو۔۔ تم تو طلب ہو میری۔۔ تم سے بدلوں گا تو بےقدر کہلاؤں گا اور بےقدروں کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔۔" اس کے الفاظ میں محبت تھی، لہجے میں محبت تھی، حصار میں محبت تھی، انداز میں محبت تھی۔۔ وہ سراپا محبت تھا اور سامنے کھڑی وہ روتی ہوئی لڑکی اس کا عشق تھی۔۔ عشق بھی وہ جو رو رو کر مانگا جائے۔۔
اس کے چہرے کی نمی کو نرمی سے صاف کرتا وہ اس کا دل دھڑکا گیا تھا۔ یقین آتے آتے بھی وقت لگتا ہے اور یقین ایسے دلایا جائے تو چاہے عمر بیت جائے۔۔
اس کے چہرے کو عقیدت بھرا لمس سونپتا وہ اسے خود میں سمیٹ گیا۔ اس کی محبت محسوس کرتی زرشے کو گل جان کے الفاظ یاد آئے تھے۔
"یہ شکر کا مقام ہے ہمارے نصیب ایک سے نہیں ہیں۔۔ تم نے دنیا میں اجر لے لیا میں آخرت میں اجر لوں گی اور یقین کرو جو اجر اللّٰہ آخرت میں دے گا وہ تم دیکھ لو تو کہو گی کاش دنیا میں سختی دیکھ لیتی، وہ دنیا جو محض چار دن کی تھی۔۔"
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
"مجھے چینج کرنا ہے یہ ڈریس۔۔ یہ برا لگ رہا ہے۔۔"
پُروا منہ بگاڑ کر بول رہی تھی، پریہان نے اسے گھورا۔
زرد لباس۔۔ کھلی ڈھیلی سی قمیض اور شلوار بالکل سادہ تھی، پُروا کا گلابی شفاف رنگ ان کپڑوں میں کھِل اٹھا تھا، اسے جس نے دیکھا تھا تھم تھم گئے تھے۔
پُرکشش، دلکشی اور معصومیت سے بھرا چہرہ۔۔
نازک سا وجود اس لباس میں بہت پیارا لگ رہا تھا۔ اسے مایوں میں بیٹھے ابھی تیسرا دن تھا، اس کا مزاج بگڑتا جا رہا تھا، کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی، ایک یہ بےڈھنگا لباس، اس پر روزانہ لگتے ابٹن کی خوشبو۔۔
پُروا کو یہ سب برا لگ رہا تھا۔۔
"یہ رسم ہوتی ہے، تم اس سے بہت پیاری دلہن بنو گی، اور یہ ابٹن لگانے سے سکن سوفٹ ہوتی ہے، بس کچھ دن تو رہتے ہیں پُروا تنگ مت کرو۔۔" پریہان کچھ دیر سمجھاتی رہی۔۔ وہ پھر بھی منہ بگاڑ کر کھڑی ان سنا کر رہی تھی۔۔ وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر چلی گئی۔ گل جان کے پاس سو رہی تھی وہ۔۔ اور گل جان اس کے شکوے سوتے تک سنتی اور ہنستی رہتی تھیں۔
اب بھی اس کے چپ ہونے پر ہی وہ سوئی تھیں، پُروا پٹ سے آنکھیں کھولتی اندھیرے میں ان کا چہرہ دیکھتی اٹھ بیٹھی۔ بستر سے نکل کر شال اوڑھتی دبے پاؤں باہر نکلی اور سیڑھیاں اترتی ثنا بیگم کے پورشن میں پہنچ گئی۔
ان کے پورشن میں عیسٰی کا روم اوپر تھا۔ وہ بلی کی طرح بنا آواز کیے عیسٰی کے روم میں پہنچی۔۔
نیلگوں روشنی میں سامنے بیڈ پر سوئے عیسٰی کو دیکھا، اسے یقین تھا عیسٰی ہی اس کی مشکل سمجھ سکتا ہے۔۔ باقی سب انجان ہیں، وہ اتنے روز سے مل بھی تو نہیں رہا تھا اس سے۔۔ اگر ان چند دنوں میں کوئی اور فرینڈ بنا بیٹھتا وہ کیا کرتی۔۔
سر جھٹک کر اس کے پاس پہنچی اور بلینکٹ میں گھس کر اس کے پاس لیٹ گئی۔
"عیسٰی جی۔۔" یخ ٹھنڈے ہاتھ اس کے گال پر رکھے وہ اسے سرگوشی میں پکار رہی تھی۔ نیند میں محسوس ہوتے سرد لمس اور نرم پکار پر وہ کسمسا کر جاگا۔
پہلو میں موجود نازک سا وجود اسے خواب لگا تھا، حویلی کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے وہ مایوں بیٹھ چکی اپنی بلی سے نا ملنے گیا تھا نا بات کی۔۔ تب سے ہی ایسے خواب و خیال ستا رہے تھے مگر چند روز تو انتظار وہ کر ہی سکتا تھا لیکن پُروا نہیں کر سکتی تھی یہ انتظار۔۔
اس کے ہاتھ کو گال سے ہٹاتے ہوئے اسے جھٹکا لگا، یہ خواب نہیں تھا، وہ سامنے تھی اس کے کمرے میں، اس کی مایوں بیٹھی دلہن۔۔ وہ بھی رات کے اس پہر۔۔
"پاگل یہاں کیا کر رہی ہو۔۔؟" عیسٰی بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ آنکھوں سے نیند بھک سے اڑ گئی تھی۔
"عیسٰی جی مجھے یہ والا ڈریس نہیں پسند۔۔ وہ یلو کریم بھی نہیں پسند۔۔ ہم بس واپس چلتے ہیں، مجھے اس روم میں نہیں رہنا۔۔" وہ اس کا گرم بلینکٹ خود پر ڈال کر سمٹ کر سوتی فرمائش کر رہی تھی۔
عیسٰی کی آنکھیں پوری سے زیادہ کھلیں، اس کے روپ پر دل عجیب طرز سے دھڑکنے لگا تھا۔
"مایوں میں بٹھا رہے ہیں وہ بھی میری بلی کو۔۔ سب کو پتا ہی نہیں تم کتنی بہادر لڑکی ہو۔۔ اس وقت میرے پاس آ کر تم نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا گفٹ دیا ہے۔۔" وہ شوخی سے مسکرا رہا تھا۔ پُروا نیند میں جا رہی تھی۔ بلینکٹ کھینچ کر اسے اٹھایا۔
"دکھاؤ کیسا ڈریس ہے جو پسند نہیں۔۔؟" اپنے سامنے کر کے اسے دیکھنے لگا۔ پُروا نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
عیسٰی تو اس کا روپ دیکھ کر فریز ہو گیا، ابٹن کی وجہ سے چہرے پر الگ سی رونق ہو رہی تھی، گلابی رنگت میں گھُلا زرد پن ، اسے انوکھا روپ بخش رہا تھا۔ عیسٰی مدہوش سا ہوتا اسے سینے سے لگا گیا۔۔
اس کے چہرے پر وارفتگی لُٹاتا وہ بالکل ہی دنیا بھول گیا تھا۔ پُروا اس سے دور ہونے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوتی بےچارگی سے اس کے حصار میں مقید ہو کر رہ گئی۔۔ جانے وہ اس کی پریشانی سمجھا تھا یا نہیں مگر وہ اسے مزید پریشان ضرور کر گیا تھا۔
اگلی صبح جب پُروا کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے ہی کمرے میں تھی، اس نے عیسٰی کے پاس جانے کا رسک لیا تھا اور عیسٰی بالکل نہیں چاہتا تھا اس حرکت پر اس پر پہرے سخت کیے جائیں۔۔ ایسی حسیں غلطی تو روزانہ دوہرائی جائے۔۔ بار بار کی جائے۔۔
حویلی والے جان ہی نہیں پائے وہ سب سے چھوٹا جوڑا اندر ہی اندر اپنا کام چلا رہا تھا۔ کیسی مایوں کیسی پردہ داری۔۔ ان کو کوئی باندھ سکتا تھا بھلا۔۔
°°°°°°°°°°
حویلی میں شادی کے ہنگاموں سے ایک شور برپا ہو گیا تھا۔۔ سب کی تیاریاں جیسے آخری دن تک نامکمل ہی تھیں۔۔ پُروا نے الگ رونا دھونا ڈالا ہوا تھا۔
اس کا دلہنوں والا روایتی لباس بہت بھاری تھا، بھاری کام اور بھاری زیور۔۔ اسے دیکھ کر ہی چکر آ رہے تھے۔
"نہیں میں یہ نہیں پہن سکتی مورے۔۔" اس نے ڈریس دیکھتے ہی انکار کیا، گل جان اور ثنا بیگم کو روہانسی صورت بنا کر دیکھا۔ گل جان فکرمند ہوئیں۔۔
"مگر یہی پہننا پڑے گا۔۔ مجبوری ہے، حویلی کی عزت کا سوال ہے، سب کیا کہیں گے سب سے چھوٹی بہو کو ہلکا جوڑا پہنا دیا۔۔" ثنا بیگم نے نرمی سے سمجھایا۔
تھوڑی روایات، تھوڑی مجبوری۔۔ لوگوں کا ڈر۔۔ جانے کیا کیا سمجھا کر وہ باہر چلی گئیں۔۔
"ابھی تمہیں تیار کرنے بیوٹیشن آئے گی، ضد مت کرنا بیٹا ایک دو دن کی بات ہے۔۔" گل جان بھی مصروف تھیں، اسے پیار سے سمجھا کر وہ بھی چلی گئیں۔
پُروا بیڈ پر پڑے سامان کو دیکھ دیکھ کر روتی جا رہی تھی، پتا نہیں کیوں چڑچڑی ہو رہی تھی۔۔
چیختے چلاتے رباض کو سنبھالنے میں ہلکان ہوتی پریہان نے اسے وقت دینے کی کوشش کی۔۔ اسے روتا ہوا دیکھ کر بوکھلا گئی۔ سمجھایا، پیار کیا، وجہ پوچھی۔۔ اسے آنی اور اپنے ماں باپ یاد آ رہے تھے۔۔
آج کے ہی دن اسے اپنے انکل سے بھی شکوے ہو رہے تھے، اسے پڑھائی کا بھی اب غم لگ رہا تھا۔۔
"پُروا اب چپ ہو جاؤ۔۔ سر درد کرے گا میری جان۔۔"
پریہان نے بیڈ پر رباض کو سلا کر اسے گلے سے لگا کر سمجھایا۔ بھیگے گال صاف کر کے پیار سے چوما۔
"سر درد کر رہا ہے۔۔ سب یاد آ رہے ہیں۔۔ اور میں بہت ہرٹ ہوں، کسی کو میری پروا نہیں، یہ ڈریس ہیوی ہے۔۔ مجھے یہ جیولری نہیں پسند۔۔" وہ پریہان کے گلے لگ کر روتی بہانے بنا رہی تھی۔ پریہان جانتی تھی اسے ماں باپ یاد آ رہے ہیں، اس بار آنی نہیں، پریسہ بھی اپنی طبیعت کی وجہ سے نہیں آ سکی۔۔
رباض کی چیخوں نے کمرہ سر پر اٹھا رکھا تھا۔۔ ٹانگیں زور زور سے چلاتا مٹھیاں بھینچے غصہ ہو رہا تھا۔
"رباض چپ ہو جاؤ۔۔ کان بند کر دئیے ہیں۔۔" وہ رباض کو اٹھا کر گھورنے لگی، وہ پرجوش سا باتیں کرنے لگا۔
اسے سارا وقت، ہر وقت، خود پر توجہ چاہئیے تھی۔۔
"پریسہ آپی کی کال آئی تھی۔۔ وہ چاہتی ہیں ہم ان کے پاس چکر لگائیں۔۔ میرا جانا تو مشکل ہے، تم عیسٰی بھائی سے کہنا شادی کے بعد چلی جانا، مل لینا۔۔"
پریہان نے رباض کو سینے سے لگا کر تھپکتے ہوئے پروا کو سمجھایا۔ وہ روتے ہوئے سر ہلا گئی۔
پریہان متذبذب سی بیٹھی تھی، وقار صاحب کی بھی کال آئی تھی۔۔ معافی کے طلبگار تھے، اللّٰہ نے ایسی سزا دی تھی کہ یہاں سے بھاگ کر کینیڈا میں جا چھپے تھے مگر کچھ ہی وقت کے بعد طبیعت خراب رہنے لگی۔۔ کچھ وقت مزید گزرا تو خون کی الٹیاں آنے لگیں، چیک اپ کروایا تو پتا چلا جگر کا کینسر ہے۔۔
تب اللّٰہ یاد آیا۔۔ وہ طاقت جو چاہے تو دنیا میں ہی گناہ کی سزا دے دے اور چاہے تو معاف کر دے بشرطیکہ بندہ نادم ہو۔۔ معافی مانگے۔۔ جھکے اور شرمندہ ہو۔۔ وہ یتیم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر تلے رہے، بیوی کو بےآسرا چھوڑ کر بھاگ گئے۔۔
اب دن بہ دن گرتی صحت میں قدر دان بیوی کی طلب ہوئی۔۔ ضرورت محسوس ہوئی مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔
"اب خالی ہاتھ ہوں۔ نا پیسہ کام آ رہا ہے نا کوئی نیکی ہے کہ معافی کی امید رکھوں۔۔ اب مر رہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کس کے لیے لالچ کرتا رہا آخر۔۔ کس کے لیے پیسہ جمع کرنا چاہا۔۔اس زندگی کے لیے جس کو اب موت نگل رہی ہے اور میں روکنے سے قاصر ہوں۔۔"
وہ رو رہے تھے، تڑپ رہے تھے۔۔ پریہان ساکن رہ گئی۔
مرنا تو سب کو ہے۔۔ جس کے وارث ہوں، اولادیں ہوں، جن کے بھرے گھر ہوں، لالچ تو وہ بھی کریں تو ملتا کچھ نہیں۔۔ انسان ہے ہی اتنا نادان، دوسروں کے لیے زندگی بھر لالچ کر کے جمع کرتا جائے گا اور خود ایک دن مر جائے گا۔۔ لاحاصل زندگی اور خالی موت۔۔
"آپ کو معاف کیا۔۔ اللّٰہ کے لیے معاف کیا۔۔ ہم نے صبر تو نہیں کیا، آپ کے لیے دل سے آہ بھی نکلتی تھی۔۔ مگر اللّٰہ نے ہمیں تھام لیا۔۔ اپنے گھر میں خوش ہیں، محفوظ ہیں۔۔ اب کوئی گلہ نہیں۔۔ معاف کیا۔۔"
پریہان نے معافی دے دی۔۔ اپنی خوشیوں کا صدقہ اتار دیا۔۔ پُروا اور رباض کو دیکھا۔۔ رباض اس سے باتیں کر رہا تھا اور وہ رونا بھُلائے اسے جواب دے رہی تھی۔۔
وہ مطمئن ہوئی، ابھی پُروا کو کچھ بتا کر اداس کرنا فضول تھا۔۔ اسے تیار کرنے والی لڑکیاں آ گئیں۔۔
"مہندی بھی اب لگائیں گی کیا۔۔" پُروا نے چہک کر پوچھا تو وہ ہونق سی اس کا منہ تکنے لگیں۔۔ رونی صورت اور بھیگی آنکھوں والی انوکھی دلہن جو دلہن بننے کے لیے خود اتنی ایکسائیٹڈ تھی۔۔
"جی جی۔۔ یہ بس کلرڈ مہندی ہے، ابھی سکن پالش کروں گی، ڈیزائن بن جائے گا، میک اپ سٹارٹ کرنے سے پہلے دھو لینا آپ۔۔" ایک لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا۔ پُروا نے سر ہلا دیا۔
پریہان رباض کو لے کر باہر نکل گئی۔ رات تک فنگشن تھا، تیاری تو اسے بھی کرنا تھی۔۔
"پریہان۔۔" خانی بیگم کے پکارنے پر ان کے پاس گئی۔
"وہ جو لڑکیاں آئی ہیں، تم بھی ان سے ہی تیار ہونا۔۔ زرشے، پلوشے اور مومنہ کو بھی کہہ دیا ہے۔۔ باقی لڑکیاں تو خود تیار ہو رہی ہیں، رباض کو مجھے پکڑا دینا۔۔" ان کی ہدایت پر اس نے مسکرا کر سر ہلایا، وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی بہنوں اور بھابھیوں کے پاس چلی گئیں، اس نے کمرے میں جا کر ڈریس نکالا۔
مہندی اور میرون کمبی نیشن ڈریس جس پر کافی بھاری کام ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کوٹ شوز اور جیولری نکال کر رکھی۔ رباض بیڈ پر لیٹا اپنا ایک پاؤں پکڑ کر اس سے کھیلتا باتیں کر رہا تھا۔
اس کے لیے سفید کرتا شلوار نکالا۔ چھوٹی سی بلیک واسکٹ نکال کر رکھتے ہوئے اس کا سامان برابر کرنے لگی۔ اسی وقت خانزادہ تھکن زدہ سا کمرے میں آیا۔۔
بیڈ پر رباض کے پاس لیٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ رباض نے بازو تیز تیز ہلاتے کھلکھلا کر باپ کا ویلکم کیا۔۔
"کیا ہوا سب ٹھیک ہے۔۔" پریہان نے اس کے چہرے پر بےزاری دیکھی تو پوچھ لیا۔۔
"سب ٹھیک ہے۔۔ بہروز خان آیا تھا بیٹوں کے ساتھ۔۔ اب جب ہر طرف سے خالی ہو گئے ہیں، صلح کرنے آ گئے۔۔
آغا جان نے صاف انکار کیا تو بھڑک گئے۔۔ اتنا بکواس کرتے رہے۔۔ شور مچا دیا عجیب۔۔" وہ غصہ دبا کر بولتا بےزار ہو رہا تھا۔ پریہان اس کے سامنے بیٹھی منہ کھولے سن رہی تھی۔۔ شادی والے ماحول میں آ کر وہ لوگ خوامخواہ شور ڈال کر چلے گئے۔۔
"پکڑ کر کسی قید خانے میں ڈال دینا تھا۔۔" پریہان غصے سے بولتی منہ پھلا گئی تھی۔ خانزادہ اس کی بات پر غصے میں بھی قہقہہ لگا گیا۔۔
"یار تم بس بولتی رہا کرو۔۔ ٹینشن دور ہو جاتی ہے۔۔" وہ ہنستے ہوئے پریہان کے گال سہلا کر بولا تو وہ سمجھ نہیں پائی یہ تعریف تھی یا انسلٹ۔۔
رباض چھوٹی چھوٹی ٹانگیں چلاتا باپ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ چیخ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
"جی میری زندگی۔۔" وہ رباض کو اٹھا کر چومتا محبت سے بولا۔ رباض کے پاس بہت باتیں تھیں۔
"خیر پریشان مت ہو۔۔ ان لوگوں کو جلدی فارغ کر دیا۔۔ عیسٰی کے فرینڈز آئے ہوئے ہیں شہر سے۔۔ تمہاری فرینڈ نہیں آئی؟ انوائٹ کیا تھا ناں؟" وہ نیم دراز ہو کر رباض کو سینے پر بٹھاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"ریما آ چکی ہے، مرحا کے پاس ہے۔۔ کہہ رہی تھی اس کے ساتھ یہاں آئے گی اور کچھ دن رہے گی۔۔ آپ نے ادب بھائی سے بات کی۔۔؟" وہ یاد آنے پر پھر سے بولی۔ خانزادہ کراہ کر رہ گیا۔
"بزی ہوں پریہان۔۔ موقع تو دیکھو۔۔ تمہیں ساری فکر اپنی فرینڈ کی ہے، توبہ کرو لڑکیو۔۔ شادی کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے۔۔" وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولتا نفی میں سر ہلا رہا تھا۔ پریہان منہ بنا گئی۔
"ریما لڑتی ہے۔۔ سب کی شادیاں ہو گئیں، وہ رہ گئی۔۔ حد یہ کہ منال کی بھی شادی ہو گئی۔۔ آج مرحا بھی آ جائے گی رخصت ہو کر۔۔" وہ منہ پھلا کر بولتی اٹھی۔
"میں شاور لینے جا رہی ہوں۔۔ آپ رباض کو مورے کے پاس چھوڑ دینا، مجھے تیار ہونا ہے اس کے بعد۔۔"
وہ اسے ہدایت دیتی واش روم میں بند ہو گئی۔ وہ رباض کو دیکھنے لگا۔ جو اس کے سینے پر جھکا بٹن سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ سرخ پھولے پھولے گال اور شہد رنگ بڑی بڑی آنکھیں۔۔ وہ یک ٹک مسکرا کر دیکھتا جا رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گول مٹول ہاتھوں سے وہ بٹن پکڑ کر اٹھانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ اس نے ہنس کر اس کے گال چوم لیے۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
گل جان مہمانوں کے لیے چائے کا انتظام کروانے کا سوچ کر ظہر کی نماز کے بعد کمرے سے نکلنے لگیں۔۔ دروازہ کھولا تو سامنے خان آزر کھڑے تھے۔۔
"اگر آپ کو برا نا لگے تو آپ کے روم میں ریسٹ کر لوں؟" وہ اجازت طلب تھے، گل جان حیران ہوئیں۔ ان کے ہی روم میں کیوں۔۔ وہ چہرے پر سوال پڑھ گئے۔۔
"مردان خانے میں لڑکے ہلہ گلہ کر رہے ہیں، میرے روم میں خانی کے مہمان بیٹھے ہیں۔۔" وہ وضاحت دے رہے تھے۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ ان کے چہرے پر تھکن دیکھ کر گل جان بےساختہ سائڈ پر ہوتی ان کو اندر آنے کا راستہ دے گئیں۔
"سر دبا دیں گی گل جان۔۔" وہ جانے لگیں مگر خان آزر ہاتھ تھام کر ایک اور التجا لبوں پر لے آئے۔۔ کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ توجہ طلب ہیں۔۔ اب ان کا وقت چاہئیے تھا۔۔ اب ان کی ضرورت تھی اور گل جان۔۔؟
ان سے انکار نہیں ہوا۔۔ اس بار نہیں۔۔ اور شاید ہر اگلی بار۔۔ آنے والے وقت میں۔۔ انہیں بھی خان آزر کی ضرورت تھی۔۔ ان کے سہارے کی اور توجہ کی۔۔
گل جان کے پرسوچ تاثرات اور دروازے پر جمے قدم خان آزر کے گرد مایوسی کا دائرہ پھیلا گئے تھے۔ دھیرے سے ہاتھ چھوڑا اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئے۔ آنکھیں بند کیں تو زمانوں کی تھکن وجود میں اترتی محسوس ہوئی۔۔
ماتھے پر نرم لمس محسوس ہوا تو آنکھیں کھول کر نظر گھمائی، قریب بیٹھی گل جان سر جھکائے ان کا سر دبا رہی تھیں۔ وہ گلاب تھیں جو کانٹوں سے بھی نباہ کیے جاتا ہے۔۔ جو خود میں نرمی رکھتا ہے مگر کانٹوں کو قریب رہنے پر منع نہیں کرتا۔۔
"کبھی کبھی معافی سے زیادہ کی طلب ہونے لگتی ہے، معافی کے بعد محبت۔۔ اور باقی بچا تعلق۔۔ مگر بحالی ممکن نہیں، گناہ جو ایسے کر بیٹھا ہوں۔۔" وہ خاموش نظریں گل جان کے شفاف چہرے پر ٹکائے تھکن زدہ لہجے میں بول رہے تھے۔ ہائے پچھتاوا۔۔ رگ رگ میں پچھتاوے کے ساتھ حسرتیں بہنے لگیں۔۔
"معافی ہے، عزت ہے، احترام بحال ہو جائے تو محبت کی ضرورت بھی کہاں رہتی ہے۔۔" گل جان دھیرے سے بولیں تو وہ آہ بھر کر رہ گئے۔۔
"آپ کے اندر کا خالی پن مجھے کھوکھلا کر رہا ہے۔۔ کاش پہلے احساس کر لیتا یا یہ احساس اب بھی نا ہوتا۔۔" اپنے اندر بڑھتے سناٹوں سے وہ ابھی سے بوکھلا گئے تھے۔۔ گل جان مسکرائیں۔۔ خالی خولی مسکان۔۔
"حسرتیں آہیں بھرنے کے لیے ہوتی ہیں۔۔ یہ 'کاش' کبھی خوش نہیں رہنے دیتا۔۔" وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں جتا گئیں، اب فائدہ نہیں۔۔ وہ سمجھ گئے، چپ رہے۔۔
"قیامت کے روز میرا گریبان نہیں پکڑنا گل جان۔۔ اللّٰہ کے انصاف سے ڈر لگتا ہے۔۔ اپنے گناہوں اور آپ کے خالی پن کا سب حساب کر چکا ہوں، خسارہ میرے حصہ میں آ رہا ہے۔۔ سارے کا سارا خسارہ۔۔"
ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ گل جان پر یکدم درد کی سی کیفیت اتری تھی۔ جو درد جھیلتا ہے عموماً وہ ایسی سزا دینے سے بھی ڈر جاتا ہے۔۔
خان آزر کی ازیت ان کو شدت سے محسوس ہوئی تھی، ان کی پیشانی پر رکھا ہاتھ کپکپا گیا تھا۔
"اللّٰہ آپ کو معاف کرے۔۔" ان کے دل سے دعا نکلی تھی، خان آزر کی نظر ان پر ٹھہر گئی۔ تو ایسے ہوتے ہیں اعلا ظرف لوگ۔۔ تو یہ عادات ہوتی ہیں مومنین میں۔۔
لوگ کہتے ہیں اللّٰہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ تو پھر اللّٰہ ہے۔۔ ہمارے نبی محمد صلى الله عليه واله وسلم معاف کر دیتے تھے کیونکہ وہ تو آخری پیغمبر تھے۔۔
ہم عام انسان۔۔ ہمارا ظرف چھوٹا۔۔ نیت کھوٹی۔۔ ہمارا درد ہمیں لگتا ہے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔۔ ہم معافی کا سوچنے سے پہلے ہی سوچ لیتے ہیں ہم معاف کر ہی نہیں سکیں گے۔۔ بس چند لوگ جو جان گئے اللّٰہ کی صفت انسان بھی اپنا سکتا ہے، حضور محمد صلى الله عليه واله وسلم کی یہ صفت انسان کے لیے مثال ہے کہ وہ چاہے تو معاف کر بھی سکتا ہے۔۔ بس وہی چند لوگ، وہی جو مومنین کی صف میں ہوں گے۔۔ اعلا ظرف اور روشن دل والے۔۔ اللّٰہ سے اجر کی لالچ میں اپنی تکلیف تک بھلا دینے والے۔۔ دنیا تو فانی ہے، سامان تو آخرت کا کرنا چاہئیے، اہتمام تو آخرت کا کرنا چاہئیے۔۔ گر کر لیں کامیاب ہیں۔۔
خان آزر بھی یک ٹک گل جان کو دیکھ رہے تھے، بھیگی آنکھوں والی مہربان عورت۔۔ زندگی تکالیف میں گزار دی مگر اب جو اپنا اجر سوچتی تھیں تو دل میں سکون بھر جاتا تھا۔۔ عقیدت سے ان کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا لیا۔۔ خالی وجود احساس سے بھر جائے تو زندگی مکمل ہے۔۔ گل جان بھی احساس سے بھر چکی تھیں وہ بھی احساس سے بھر جانا چاہتے تھے۔۔
اٹھ کر گل جان کے گرد بازو پھیلا کر خود سے لگا لیا۔
"میری زندگی پر احسان کیا ہے گل جان۔۔ آج آپ کی دعا سے لگا جیسے معافی مل گئی ہے۔۔ میں اپنے گناہ بھول نہیں رہا لیکن زرا بےسکونی کو سکون آیا ہے۔۔
میرے جیسے کم ظرف انسان کو اللّٰہ نے آپ جیسا تحفہ دیا جس کی میں نے قدر نہیں کی، ضائع کیا اور خالی ہاتھ ہوا مگر آپ نے وہ ہاتھ بھی خالی نہیں رہنے دئیے، ان میں معافی کی ڈوری تھما دی۔۔"
وہ نرمی سے گل جان کا سر تھپکتے بھیگے لہجے میں بول رہے تھے۔۔ یہ لفظ شفا جیسے تھے۔ انعام جیسے تھے۔۔ گل جان کو اللّٰہ کی رضا چاہئیے تھی۔۔ جس عورت سے اس کا خاوند راضی ہو، دعا دے۔۔ وہ عورت جنتی ہے۔۔ وہ بھی جنت کی امید رکھ بیٹھیں۔۔
°°°°°°°• 𝒴𝒶𝓂𝒶𝓃𝓔𝓋𝒶 •°°°°°°°
شام ہونے سے پہلے ہی سب داور کی بارات خٹک حویلی لے گئے تھے، نکاح پڑھا کر جلد ہی واپسی ہوئی۔ پُروا تب تک بیوٹیشن سے تیار ہو چکی تھی۔ بارات کے واپس آنے کا سنا تو فساد ڈال لیا۔
"مجھے چھوڑ کر چلے گئے، مجھے بھی جانا تھا۔۔" اس نے رو رو کر برا حال کر دیا۔ پریہان بوکھلا گئی۔
"تمہاری بھی شادی ہے، تم دلہن ہو کیسے لے جاتے۔۔" پریہان نے پریشان ہو کر اسے دیکھا، جتنا وہ زلیل کر رہی تھی اسے یقین ہونے لگا شادی کا فیصلہ جلد لے لیا گیا ہے۔۔ پُروا بہت گھبرا رہی تھی۔۔
"تو مجھے آج دلہن نہیں بنانا تھا۔۔" وہ منہ پھلا کر بولی۔ ایسے صدمہ لگا جیسے بہت اہم موقع پر اس کی شرکت نہیں کروائی گئی، یعنی شادی میں نہیں لے جایا گیا تو بہت برا کیا۔۔
"بیٹا پھر کبھی۔۔" ثنا بیگم نے اسے بہلانا چاہا تھا۔
"اب تو کوئی شادی کرنے والا بھی نہیں رہتا باقی۔۔"
وہ رونے لگی، سب اس پر ہنس رہے تھے مگر چہرے چھپا لیے کہ وہ محسوس نا کر جائے۔۔ خان یوسف تو حیران تھے، بڑی انوکھی لڑکی تھی۔۔ اسے اپنی شادی کے علاوہ ہر بات کی فکر ستا رہی تھی۔۔
"میں پھر سے شادی کر لوں گا۔۔" موسٰی نے اس پنک ٹوئٹی کو اتنے وقت بعد پرانے روپ میں دیکھا تھا، شرارت سے دلاسہ دیا تو وہ زرشے کو دیکھنے لگی۔
"ڈسٹرب ہے پُروا۔۔ کیا کوئی بات ہوئی ہے۔۔" خانزادہ نے آہستہ آواز میں پریہان سے سوال کیا۔
"ماما بابا یاد آرہے ہیں، پریسہ آپی سے بات کروائی تو رو پڑی۔۔ آنی سے اٹیچڈ تھی۔۔" پریہان خود روہانسی ہو رہی تھی۔ وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ کچھ رشتوں کی کمی ہر اہم موقع پر ستاتی ہے۔۔
عیسٰی دوستوں کے ساتھ تھا، پُروا کو چپ کروا کر اس کی اور مرحا کی رسمیں کی گئیں۔۔ وہ بھی بہل گئی۔۔
داور آتے ہی مردان خانے میں جا چکا تھا، مرحا پریشان سی ہاتھ مسل رہی تھی۔۔ بھاری روایتی لباس پہنے دونوں دلہنیں ہی نہایت حسین لگ رہی تھیں۔۔ مرحا دراز قد اور قدرے بھرے بھرے جسم والی لڑکی تھی، سر جھکا ہوا تھا مگر کندھوں پر بھاری لباس کا بوجھ برداشت کر سکتی تھی۔۔ سرخ آتشی لباس میں گورا رنگ دمک رہا تھا۔۔
جبکہ پُروا نازک سی۔۔ کومل لڑکی تھی، جس سے نا لباس کا بوجھ سنبھالا جا رہا تھا نا زیورات کا۔۔ کندھے گرائے تھکن سے پہلو بدلتی بےچین ہو رہی تھی۔
لاؤنج میں دونوں کو بٹھائے ایک عرصہ بعد پرانی رونق لگی ہوئی تھی۔۔ ہنسی مذاق اور ہلا گلا۔۔
رشتہ دار لڑکیاں دلہنوں سے مذاق کر رہی تھیں جن پر مرحا شرما کر سر جھکا دیتی تھی، کبھی مسکرا کر سر ہلا دیتی مگر پُروا سب کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے خلائی مخلوق زمین پر اتر آئی ہو۔۔
تھکن ایسی سوار تھی کہ نا مذاق سمجھ رہی تھی نا ہی ان کی باتیں۔۔ رباض سفید کاٹن کا کرتا پہنے مچل مچل کر سب کے پاس جا رہا تھا، ایک ایک چہرے کا معائنہ کیا، زیورات چیک کیے، میک اپ کی تہوں میں سب کے چہرے پہچاننے کی کوشش کی۔۔
تھک کر نہیں دے رہا تھا، پریہان نے دو تین بار سلانے کی کوشش کی تو اتنی چیخیں ماریں کہ وہ جلدی سے اٹھا کر بٹھا دیتی تھی۔۔
رات گئے محفل چلتی رہی اور پھر دلہنوں کی تھکن کے خیال سے محفل برخاست ہوئی۔ پُروا کو زرشے، ثنا بیگم اور ان کی بیٹیاں اپنے پورشن میں رخصت کروا کرلے گئیں۔۔ مرحا کو داور کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔
ریما نک سک سے تیار منہ بگاڑے کھڑی تھی۔
"تم ٹھیک تو ہو ناں۔۔" پریہان نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا.
"وہ ڈریکولا مجھے دیکھتے ہی آنکھیں لال کر جاتا ہے۔۔ میں نے تو ایک بار کہہ دیا خون پینا ہے جنگل کا رخ کریں خان صاحب۔۔ بس پھر کیا بس نہیں چل رہا تھا میری گردن مروڑ دے۔۔ اسے ادب خان نہیں بےزار خان کہا کرو۔۔ کچھ اپنے خانزادہ صاحب سے ہی سیکھ لے، کیسے آتے جاتے تمہیں دیکھتے شوخیاں مار رہے ہیں۔۔"
ریما تو شروع ہو گئی تھی، پریہان خفت زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھیں ہر جگہ گھومتی تھیں۔
"تم اپنے ادب خان پر نظر رکھو تو بہتر ہے۔۔ حدیر کو کیوں گھور رہی ہو۔۔" پریہان نے ناک چڑھا کر کہا۔
"اللّٰہ نا کرے میں کیوں گھورنے لگی تمہارے اس شہزادے کو۔۔ وہ صاحب خود ہی تمہیں گھورنے میں مصروف ہیں، ساتھ بیٹھی ہوں اندھی نہیں ہوں۔۔
ویسے پریہان اللّٰہ جھوٹ نا بلوائے شکر کرتی ہوں اتنا ہینڈسم بندہ عقل سے پیدل ہے، تبھی تمہارے ساتھ نصیب پھوٹا اور دل بھی لگ گیا اس کا۔۔"
ریما کی چلتی زبان کا کوئی بٹن نہیں تھا کہ بند ہو۔۔ پریہان مخاطب کر کے پچھتائی تھی۔
"مرحا بہت پریشان ہے، پاگل کو سمجھایا بھی داور بھائی خوش ہیں۔۔" پریہان نے بات گھمائی۔
"تمہارے خوش بھائی ابھی تک بیٹھک میں بیٹھے مہمانوں کو تاڑ رے ہیں۔۔ کوئی ان کو بھی جا کر بتائے، ان کا ایک عدد کمرہ ہے جہاں ایک حسین بیوی کا اضافہ ہو چکا ہے۔۔ رات وہیں نا گزار بیٹھیں مہمانوں میں۔۔" ریما نے بات بدل کر بھی تاک کر نشانے لگائے۔
پریہان روہانسی ہو گئی، کسی نے سن لیا تو۔۔
"تم زرا شرم کر لو ریم۔۔ اب کیا دلہوں کے کمرے میں جانے کا بھی حساب رکھو گی۔۔ چلے جائیں گے تمہیں کیوں جلدی ہے۔۔" دبی دبی آواز میں ٹوکا۔
"مجھے کیوں ہو جلدی۔۔ اور ہمارے ہاں تو لڑکے کو پکڑ پکڑ دروازے سے پیچھے کر کے بمشکل نیگ لینا پڑتا ہے، یہاں لڑکے خود دروازوں پر پہنچ کر نہیں دے رہے۔۔"
ریما نے ناک چڑھا کر ہونہہ جیسا انداز اپنایا۔
"اچھا ٹھہرو زرا باہر تانک جھانک کر کے آؤں یہ بدتمیز بے ادب خان ہے کہاں آخر۔۔" ریما نے بال جھٹک کر کہا اور پریہان کے روکنے سے بھی پہلے اٹھ کر چلی گئی۔
"یا اللّٰہ اس شادی میں ادب بھائی کا بی پی ہائی کر کے ہی واپس جائے گی ریما۔۔" پریہان نے بےچارگی سے نفی میں سر ہلایا۔ ایسی ہی زبان درازیاں وہ ادب خان کے سامنے بھی کر رہی تھی اور وہ ضبط کر رہا تھا۔۔
خان یوسف کی گود میں روتے رباض کے پاس گئی۔ اب وہ تھک چکا تھا۔۔ اب سونا مجبوری تھی، وہ چاہتا نہیں تھا مگر آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور اسی لیے رونا دھونا مچا رہا تھا۔۔
وہ کمرے میں بیٹھی نروس ہو رہی تھی۔۔ خوابناک سا ماحول اور گلابوں کی خوشبو سے ماحول معطر ہو رہا تھا مگر وہ یہ سب محسوس کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔ دماغ پر خان داور کا غصہ سوار تھا۔
جانے وہ راضی ہو گا یا نہیں، اسے یقین ہو گیا تھا اب کہ وہ راضی نہیں تھا۔۔ اسے گھر والوں کے سامنے سر جھکانا پڑا تھا، ان کی حویلی میں بھلا کب لڑکیوں سے ان کی مرضی پوچھی جاتی تھی جو مرحا سے پوچھتے۔۔ اس نے سر جھکا دیا اور خان داور کو مجبور کر دیا گیا۔۔ شادی ہو گئی اب ان کا کیا مستقبل ہو گا۔۔
دروازہ کھلنے کی مدھم آواز پر وہ سنبھل کر بیٹھی، دل تیز تیز دھڑدھڑانے لگا۔۔ ماتھے پر ننھی ننھی بوندیں پسینے کی محسوس کر کے لرزتے ہاتھ سے ماتھا چھوا تو چوڑیوں کی چھنک سے ڈریسنگ روم کی طرف جاتے خان داور نے رک کر اسے دیکھا۔
شوخ سرخ رنگ لباس میں سر جھکائے وہ اس کی منتظر تھی۔ وہ گہرا سانس بھر کر اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ایک سرسری نظر اس پر ڈالی جھک کر سائڈ ٹیبل کی دراز سے مخملیں کیس نکالا۔۔
"تم نے گھر والوں کو انکار نہیں کیا تھا؟" اس کے سامنے بیڈ پر زرا ٹک کر اس سے سوال کیا۔ مرحا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا، سنجیدگی بھرا چہرہ اور سپاٹ تاثرات۔۔ وہ رونے والی ہو گئی۔
گل جان کہتی تھیں وہ بہت نرم مزاج ہے، مرحا کو آج اس نرم مزاج شخص سے شدید ڈر لگ رہا تھا۔۔
داور نے اس کا چہرہ دیکھا، پسینے کی بوندیں اور حواس باختہ چہرہ۔۔ اس نے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"م۔۔ میں انکار کر دیتی لیکن کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا۔۔ میرا یقین کریں میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا۔۔" اس کے بڑھتے ہاتھ پر وہ پیچھے ہو کر آنکھیں میچتی تیزی سے صفائیاں دینے لگی۔ وہ رک سا گیا۔ ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ جبڑے بھنچ گئے۔
"چینج کر لو اور ریلیکس کرو۔۔ تھک گئی ہو۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتا مخملیں کیس اس کے سامنے رکھ کر اٹھا اور فریش ہونے واش روم میں چلا گیا۔
مرحا سانس بحال کرتی کپکپاتا وجود سنبھالے بیڈ سے اتری، ایک نظر اس ڈبی کو دیکھا یقیناً منہ دکھائی تھی مگر دینے والے کو شاید اس کے چہرے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس نے کیس اٹھا لیا اور بھاری لباس سنبھال کر ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ گئی۔ زیور اتارتے ہوئے دل بھر بھر آ رہا تھا۔ اس نے اپنے لیے کبھی کوئی اچھا مستقبل یا کوئی شہزادہ نہیں سوچا تھا مگر اس کی سوچ کی آخری حد تک بھی یہ بات نہیں تھی کہ اسے ایک سرد مزاج سا شہزادہ ہی ملے گا مگر وہ ان چاہی ہو گی۔۔
آنکھوں میں تیرتا پانی رخساروں پر پہنچتا چہرہ بھگو رہا تھا۔ وہ زیور اتار کر ڈوپٹے کی پنز چھین کر اتارتی سسکنے لگی۔ لمبے سیاہ بال کھل کر پشت پر لہرانے لگے۔ جھک کر پائل اتارتی بری طرح رو پڑی۔۔
واش روم سے چینج کر کے نکلتے داور نے اس کی روتی آواز سن کر بےچینی سے پہلو بدلا۔
"کوئی پریشانی ہے؟" اس کے پاس رک کر نرمی سے پوچھا تو جھٹکے سے سیدھی ہوتی لب دانتوں تلے دباتی سسکی دبا گئی۔ خان داور نے گہرا سانس اندر اتار کر خود کو کنٹرول کیا۔ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا مرحا کا حنائی ہاتھ تھام کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
وہ لڑکھڑا کر سیدھی ہوتی گھبراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔ رویا رویا بھیگا سا چہرہ اور آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھ کر داور نے نفی میں سر ہلایا۔
"یہاں آؤ بات کرنی ہے۔۔" اسے تھام کر بیڈ کے پاس لایا، وہ ناسمجھی سے بیڈ پر بیٹھتی اس سے فاصلہ قائم کر گئی۔ اب یقیناً وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے والا تھا۔ مرحا نے خود کو تیار کر لیا۔۔
"دیکھو مرحا۔۔ میں جانتا ہوں تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔۔" اس کے پہلے جملے پر ہی مرحا ٹھٹک گئی۔
"میں نے بہت کوشش کی سب کو سمجھانے کی مگر یہ جو حدیر ہے ناں۔۔" وہ بےبسی سے جملہ ادھورا چھوڑ گیا۔ مرحا حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں جانتا ہوں میں تمہارے لائق نہیں۔۔ تم ینگ ہو، پیاری ہو، یو ڈیزرو بیٹر دین می۔۔ ہمارا ایج ڈفرینس بھی بہت ہے۔۔" وہ خفت زدہ سا بول رہا تھا، مرحا کا دل یکدم دھڑکا۔ تو وہ ان چاہی نہیں تھی۔ وہ سامنے بیٹھا شاندار شخص جو کسی بھی لڑکی کی چاہ ہو سکتا تھا وہ خود کو مرحا کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا۔ اس صدی کا سب سے حیران کن واقعہ تھا۔۔
"آٹھ سال۔۔" مرحا یکدم بولی تو وہ چونک گیا۔
"آٹھ سال کا فرق ہے۔۔ بس اتنا ہی۔۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔ آپ میں کوئی کمی نہیں ہے۔۔" مرحا کے مدھم جملے پر وہ افسردگی سے مسکرایا۔
"میرا دل رکھنے کا شکریہ۔۔" اس کا رخسار نرمی سے تھپتھپا کر بولا۔ یہ حرکت اس نے بالکل غیر ارادی طور پر کی تھی مگر مرحا شرم سے سرخ ہوئی۔
"مگر میں اپنی خامیوں سے واقف ہوں۔۔ مجھ میں کمی ہے، میں اس قابل ہوتا تو وہ مجھے چھوڑ کر نا جاتی جس کے ساتھ سات سال شادی کے میں نے بےاولادی کے باوجود اچھے سے گزارے تھے۔۔ میں نے اسے کبھی بےاولاد ہونے کا طعنہ نہیں دیا، ہر ممکن محبت دی، خوشی دی لیکن میں خوش رکھنے میں ناکام ہوا ہوں۔۔ میں وہ سب دوہرانا نہیں چاہتا تھا۔۔
تمہارے ساتھ تو بالکل نہیں، مورے کو بھی سمجھاتا رہا ہوں میں میریڈ اور بڑا ہوں، کم سے کم کوئی بیوہ یا مطلقہ لڑکی سے ہی شادی کر دیتے تمہارے ساتھ نا انصافی نہیں ہونی چاہئیے تھی۔۔"
وہ تاسف سے مرحا کو دیکھنے لگا، وہ تو شاکڈ سی بیٹھی تھی، اس کی نظر میں اس سے زیادہ کوئی عظیم نہیں ہو سکتا تھا اور وہ کیا بول رہا تھا۔۔
جس نے مرد ہو کر بےاولاد بیوی کے ساتھ صبر سے نباہ کیا ہو، اس سے زیادہ کون اچھا ہو گا۔
"خان صاحب میں۔۔ اس رشتہ سے خوش ہوں۔۔" مرحا نے ہمت کر کے اس سے اپنے دل کی بات کی۔ وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگا، وہ یقین نہیں کر رہا تھا مرحا جانتی تھی، اسے وضاحت دینی ہو گی۔۔
"آپ جانتے ہیں ہماری حویلی میں عورت کی مرضی نہیں چلتی، رشتوں میں یا گھریلو معاملات میں۔۔
ہمارے ہاں عورت کو پیار، توجہ اور اہمیت دی جاتی ہے مگر جو رشتوں میں احترام اور محبت ہوتی ہے وہ محسوس نہیں ہوئی کبھی۔۔
میری شادی کہیں بھی ہوتی مجھ سے پوچھا نا جاتا اور جانے کیسی زندگی گزارتی مگر یہاں میرا دل راضی تھا مجھے بس آپ کی ناپسندیدگی کا ڈر تھا۔۔
آپ راضی نہیں تھے، میں جانتی ہوں آپ اپنی بیوی سے محبت کرتے تھے، آپ ان کی جگہ کسی کو نہیں دے پا رہے۔۔ پھر بھی مجھے قبول ہیں آپ۔۔ آپ کے ساتھ شادی ہونا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔۔
میری زندگی میں آنے والے آپ پہلے مرد ہیں اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے خان صاحب۔۔"
وہ سر جھکائے آہستگی سے بول رہی تھی، ریما نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا چاہے خان داور راضی نا ہو، قبول نا کرے، جو بھی ہو مگر اپنی طرف سے سب کلئیر رکھنا۔
اس نے وہی کیا، وہ قبول کر چکی تھی اس لیے بتا دیا۔۔ خان داور اگر خود کو کمتر سمجھے تو غلط ہے۔۔
خان داور کی حیرت بھری نظر اس پر ٹکی تھیں، وہ لڑکی جو اس سے عمر میں کافی چھوٹی تھی، جو مکمل اور حسین تھی اور جو بہترین ڈیزرو کرتی تھی مگر وہ خان داور کے نکاح میں اپنی خوشی سے آئی۔۔ کیوں۔۔ وہ دل سے قبول کر رہی تھی، اس کے الفاظ داور کے دل میں گڑھ گئے تھے۔۔ اس کا پالا پہلی بار ایسی لڑکی سے پڑا تھا جو اسے اہمیت دے رہی تھی۔۔
اس کی پہلی شادی تو صرف ضرورت کا رشتہ تھا، اس کے لیے یہ سب خوش نما خیال جیسا تھا۔۔
"تم جانتی ہو میں بےاولاد رہا ہوں۔۔ اگر مجھ میں کوئی کمی ہوئی اور تم بھی اولاد سے محروم رہیں تو ایسی زندگی گزار لو گی میرے ساتھ۔۔؟" اس نے بےساختہ سوال کیا۔۔ جیسے امتحان لیا۔۔
"اگر۔۔ مجھ میں کمی ہوئی، میں ماں نا بن سکی تو کیا آپ مجھے چھوڑ دیں گے؟" اس نے سر جھکا کر آہستگی سے سوال کیا تو چہرہ خفت سے سرخ ہوا تھا۔
"ہرگز نہیں۔۔ میں ایسا جاہل مرد نہیں ہوں۔۔" وہ سختی سے تردید کر گیا۔ مرحا نے سر اٹھایا۔
"میں بھی جاہل نہیں ہوں۔۔" وہ کچھ معصومیت اور کچھ خفگی سے بولی تھی۔ داور بےساختہ مسکرایا۔
اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچتا خود سے قریب کر گیا۔۔ آنکھوں میں یکدم دلچسپی اتر آئی تھی۔ ایک جملے میں وہ اس کا دل جیت گئی تھی۔
وہ جاہل نہیں تھی، وہ وفا کا دعویٰ کر رہی تھی۔۔ اتنی معصومیت سے۔۔ اتنی اپنائیت سے۔۔
مرحا اس کے حصار میں دھڑکتے دل سے سمٹ گئی، داور کا دیکھنا ہی اسے لرزا گیا تھا۔
"آپ۔۔ آپ اپنی بیوی کی جگہ مجھے۔۔۔ نہیں دے سکتے۔۔" وہ بوکھلا کر اپنی بات دوہرانا چاہ رہی تھی۔
"ہمارا تعلق بس ضرورت کے تحت تھا، آغا جان نے رشتہ کیا تھا، میں نے قبول کر لیا تھا۔۔
میں نے پورے دل سے رشتہ نبھایا بھی مگر وہ میرے دل میں اپنی محبت پیدا نہیں کر پائی تھی کیونکہ اس کے لیے بھی یہ رشتہ زبردستی کا تھا جو ایک الزام پر ختم ہو گیا۔۔ ہم ایک چھت تلے دو اجنبی تھے۔۔
اب یہ تم پر چھوڑتا ہوں، تم بھی اس کی طرح صرف رشتہ نبھاؤ گی تو ہم صرف میاں بیوی ہوں گے۔۔
اگر تم چاہو تو میرے دل میں اپنی محبت پیدا کر کے اپنا وہ مقام بنا لو جو آج تک وہ نہیں بنا سکی تھی۔۔"
خان داور نے گھمبیر لہجے میں بولتے ہوئے اس کے گلابی گالوں کو ہاتھ سے چھوا۔۔ مرحا سمٹ سی گئی۔
"خان صاحب میں۔۔ چینج کر لوں۔۔" وہ حواس باختگی سے وضاحت دیتی اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کا لمس اور قربت نہایت جان لیوا تھی، مرحا کو لگا دل شدت سے دھڑک دھڑک کر اسے مار دے گا۔
"چینج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر یہ سنگھار لوگوں کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے تھا تو مجھے زرا تفصیل سے دیکھنے دو۔۔" وہ گہری نظروں سے اسے دیکھتا دلکشی سے مسکرایا۔ مرحا جھینپ گئی۔ چہرے پر میک اپ کی سرخی سے کہیں زیادہ سرخی تو خان داور کی گہری نظروں کی وجہ سے تھی۔۔
داور نے جلتے لب اس کے رخسار پر رکھے اور اس کے کپکپاتے وجود کے گرد بازو پھیلا کر قیمتی متاع کی طرح اسے خود میں سمیٹ لیا۔
"شکریہ مرحا۔۔ مجھے تمام خامیوں سمیت قبول کرنے کا۔۔ اگر تم وفا کا وعدہ کرو تو میں بھی وعدہ کرتا ہوں محبت نہیں عشق کروں گا تم سے۔۔ اپنی زندگی سے بڑھ کر چاہوں گا۔۔" وہ اسے سینے سے لگائے وعدہ کر رہا تھا۔ اس کے لہجے کی سچائی مرحا کے دل میں سکون بن کر اتری تھی۔
"میں بھی وعدہ کرتی ہوں۔۔ قسم کھاتی ہوں آپ کو دل سے قبول کیا ہے اور مرتے دم تک یہ رشتہ دل سے نبھاؤں گی۔۔" اس کے سینے میں منہ چھپاتی وہ دل سے بول رہی تھی۔ لہجے میں محبت اور سچائی تھی۔
خان داور اسے خود میں بھی بھینچتا والہانہ پن سے اس کے چہرے پر جھکا۔ اس کے انداز میں نرمی تھی، محبت تھی، اس کے لمس میں گرمجوشی تھی۔۔
وہ سمجھتا تھا نکاح ہو جانا اور میاں بیوی کا تعلق بن جانا ہی بس محبت ہوتی ہے۔۔
اس کی پہلی بیوی نے کبھی اس سے وفا کے دعوے نہیں کیے، وہ اسے خوش رکھتا تھا اور وہ اپنی زندگی میں مگن رہتی تھی۔۔ وہ اس کی ہر ضرورت پوری کرتا تھا اور وہ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتی تھی، وہ کیا چاہتا ہے یا اس کی کیا ضرورت ہے۔
اولاد نا ہونے پر خان داور نے ہر علاج کروایا پھر بھی الزام اسی پر لگا اور اس ضرورت کے رشتے کا درد بھرا انجام ہو گیا۔ داور کے لیے تو بس یہی زندگی تھی اور ایسی زندگی وہ دوسری بار چاہتا بھی نہیں تھا۔
لیکن ایک بار پھر کسی لڑکی کو زبردستی اس کے ساتھ باندھا گیا تو اسے یقین تھا وہ لڑکی جو مکمل اور بہترین ہے، داور جیسے بٹے ہوئے مرد کو جبراً قبول کر رہی ہے۔
لیکن مرحا نے اسے حیران کیا تھا، وہ اس سے مرعوب تھی، وہ اسے دل سے قبول کر کے آئی تھی، وہ اس کی من چاہی نا ہونے پر رو رہی تھی۔۔
اسے محبت سے خود میں سمیٹتے خان داور کو زندگی میں پہلی بار محبت کا میٹھا سا احساس ہوا تھا۔
°°°°°°°°
خان داور کی صبح آنکھ کھلی تو صبح پہلے سے کہیں زیادہ روشن تھی۔ سینے پر سر رکھ کر سوتے وجود کو دیکھا تو زندگی کے خوبصورت ہونے کا احساس رگ رگ میں سرایت کر گیا تھا۔
کیا کوئی انسان ایسے دل میں دھڑکن بن کر بھی اترتا ہے؟ کیا کوئی زندگی سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے۔۔ وہ مرحا کو تکنے لگا۔۔
اس کے چہرے سے بال سمیٹ کر پیچھے کرتا اس کی پیشانی پر لب رکھ کر سکون سے آنکھیں موند گیا۔
کیا کوئی انسان ایسا بھی ہو سکتا ہے جسے چھو کر سکون مل جائے، جس کے لمس پر چین ملے۔
اپنے چہرے پر نرمی اور محبت سے لبریز لمس محسوس کرتی مرحا نیند میں کسمسائی۔ داور نے مسکرا کر اس کے بال سنوارے۔ وہ آنکھیں کھول گئی۔
نظر کے سامنے پہلا منظر۔۔ اُس مہربان چہرے پر نرم مسکراہٹ تھی، مرحا یک ٹک دیکھتی چلی گئی۔ کتنا خوبرو تھا وہ۔۔ دلکش اور شاندار۔۔ وہ اس کا تھا۔۔
"صبح بخیر جانان۔۔" داور نے مسکرا کر اس کا گال سہلایا تو وہ ہوش میں آئی، یکدم چہرہ سرخ ہوا۔
اسی کے سینے میں سمٹ کر چہرہ چھپا گئی۔
"یہ میری زندگی کی اب تک کی سب سے حسین صبح ہے۔۔ میں اپنے آنے والے ہر دن کا ایسا آغاز چاہتا ہوں۔۔"
خان داور نے اس کے بالوں پر لب رکھ کر محبت سے کہا۔ مرحا خاموش رہی۔ دل کی دھڑکن کا آج کوئی الگ سا ساز تھا۔ شرمائی لجائی سی وہ چہرہ اٹھانے میں ناکام ہو رہی تھی کجا کہ نظر ملاتی۔۔
خان داور نے ہنسی دبا کر اس کا سر تھپتھپایا اور اسے تکیے پر سلا کر بلینکٹ ہٹاتا فریش ہونے چلا گیا۔
مرحا اپنے بازو میں چہرہ چھپا کر مسکرائی۔
کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک ناراض شہزادے کو ان چاہی شہزادی سے محبت ہو جائے۔۔ وہ چور نظروں سے واش روم کے دروازے کو تک رہی تھی۔
کیا ایسا بھی ہو سکتا تھا خان داور کی پہلی محبت مرحا بن جائے اور محبت بھی ایسی جان لیوا۔۔
وہ جب تک نکلا نہیں مرحا دروازے کو تکتی رہی اور جب وہ فریش سا باہر نکلا تو وہ بلینکٹ میں چہرہ چھپا گئی۔
اور کیا ایسا بھی ممکن تھا مرحا کو ایک ہی رات میں وہ اپنے نرم لب و لہجے اور توجہ بھرے انداز سے اپنی محبت میں مبتلا کر گیا۔۔ اس کا لاپروا دل محبت کی بارش سے جل تھل ہو گیا تھا۔۔
اس نے بلینکٹ آنکھوں سے ہٹا کر سامنے دیکھا۔ وہ قمیض کے بٹن بند کر کے نم بالوں کو برش کر رہا تھا۔ وجیہہ چہرے پر نرمی بھرے تاثرات تھے۔ پرفیوم اٹھاتے خان داور کی نظر آئینے میں نظر آتے اس عکس پر پڑی۔۔ بلینکٹ میں چھپ کر اسے دیکھتی ہوئی وہ نرم دل محبت سے گندھی لڑکی۔۔ وہ جو زندگی سے بھرپور تھی، وہ دلکشی سے مسکرایا۔
"اٹھ جاؤ مرحا۔۔ کیا تم چاہتی ہو پہلی صبح تم کمرے سے دن ڈھلے نکلو اور سب کی مسکراتی نظروں کا سامنا کرو۔۔ پھر وضاحتیں دو اور ناکام رہو۔۔"
پرفیوم سپرے کر کے مردانہ شال اٹھا کر اپنے کندھوں پر پھیلاتے خان داور نے شرارت سے کہا۔
نقشہ ایسا کھینچا کہ وہ پریشان ہوتی جھٹ سے بلینکٹ سے نکلی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"ہرگز نہیں۔۔ میں تو بس جاگ چکی تھی۔۔" وہ بوکھلائی ہوئی سی اپنے الجھے بکھرے بال سمیٹ کر تیزی سے بستر سے اتری اور دیکھتے ہی دیکھتے واش روم میں گھس گئی۔
"اپنا ڈریس تو لیتی جاؤ مرحا۔۔ کیا تم بعد میں مجھ سے ڈریس مانگنے کا سوچ کر خالی ہاتھ گئی ہو۔۔"
اسے دیکھ کر ہنسی دباتے داور نے پیچھے سے آواز لگائی اور اس کی توقع کے عین مطابق وہ اگلے ہی سیکنڈ میں باہر تھی۔ ڈریسنگ روم میں جا کر اپنے لیے ایک قدرے ہلکے کام والا مگر گہرے رنگ کا روایتی لباس نکالا اور پھر سے واش روم میں بند ہو گئی۔۔
اس کی تیزیاں اور بوکھلاہٹ خان داور کو مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی، اس رشتے کی اصل خوبصورتی کو وہ اب محسوس کرتا محظوظ ہو رہا تھا۔۔
ڈریسنگ سے منہ دکھائی کا تحفہ اٹھا کر اس کے انتظار میں صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔
وہ جب باہر نکلی، اکیلے باہر جانے کا سوچ کر شرمندگی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوئی مگر صوفے پر بیٹھے خان داور کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
"تیار ہو جاؤ اکٹھے باہر جائیں گے۔۔" وہ شاید اس کی گھبراہٹ دیکھ چکا تھا، نرمی سے کہا۔۔
مرحا جلدی سے بال برش کرنے لگی۔ داور کی نظریں خود پر محسوس کر کے ہاتھ لرزے، کنگن جیسے تیسے بازوؤں میں ڈال کر شال اوڑھ گئی۔ فریش دمکتا چہرہ کسی بھی میک اپ یا آرائش سے پاک تھا۔۔
خان داور اٹھ کر اس کے پاس پہنچا۔ منہ دکھائی میں لی نفیس سی چین جو خانزادہ نے ہی اسے لا کر تھمائی تھی، وہ تب تو بد دلی سے لے کر کسی طرح مرحا کے حوالے کرنے کا سوچ چکا تھا مگر اب۔۔
وہ چین خود اس کی صراحی دار گردن میں ڈال کر لاک کر گیا۔ جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے اور مہندی لگے سرد ہاتھ اپنی گرم گرفت میں تھام لیے۔
اپنے ساتھ لے کر باہر نکلا۔ مرحا اس کے دئیے مان اور محبت پر اس کی اسیر ہو رہی تھی۔ چہرے پر گلال بکھرا تھا گویا کسی میک اپ کی ضرورت نا تھی۔۔
گل جان ٹھیک کہتی تھیں، آفریدی حویلی والے نفرتیں کرنے میں بھی ماہر ہیں مگر محبت کرنے اور محبت جتانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔۔
"یا اللّٰہ اس حویلی کا بڑے سے لے کر چھوٹے تک ہر لڑکا گھنا میسنا ہے۔۔ کل کیسے منہ بنا کر گھوم رہے تھے یہ خان داور صاحب اور آج تو دونوں کا رنگ روپ ہی الگ ہے۔۔" ریما نے مرحا کے قریب آتے ہی تبصرہ کیا۔ مرحا کا چہرہ سرخ ہوا۔ مسکراہٹ دبا گئی۔
"ریم بس توبہ کر لو۔۔ ہر ایک پر تبصرہ۔۔" پریہان نے اسے ٹہوکا مارا۔ وہ ناک چڑھا گئی۔
"ہاں بھئی پردے میں بٹھا دو سب کو۔۔ ریم نا دیکھے بس۔۔ ورنہ تبصرے تو ہوں گے۔۔" وہ بھی ڈھٹائی سے سر جھٹک کر بولی۔ مرحا نے سر نفی میں ہلایا جیسے اس کا کچھ ہو نہیں سکتا۔
"رباض کہاں ہے۔۔" مرحا نے سوال کیا تو پریہان نے ارد گرد نظر دوڑائی۔
"اپنے بابا کے پاس تھا، اب مردان خانے میں گیا ہو گا۔۔ بھئی ہر آنے والے مہمان سے اس کا ملنا ضروری ہے۔۔"
پریہان کی بات پر وہ ہنسی۔ مہمان خود اس کا پوچھتے تھے۔ سردار صاحب کا بیٹا تو علاقے میں سردار سے زیادہ مشہور اور مقبول تھا۔۔
"یہ چھوٹا جوڑا کہاں ہے بھئی۔۔ ان کی صبح نہیں ہوئی لگتا ہے۔۔" ریما کو پُروا کی یاد ستانے لگی۔
"ریم شرم کر لو کچھ۔۔" مرحا نے اسے گھورا۔
"واہ بی بنو۔۔ تمہارے بھی پر نکل آئے۔۔ یعنی شادی کے بعد ملنا بھی منع ہے، پُروا کل اپ سیٹ تھی بہت۔۔ اس لیے پوچھ رہی ہوں۔۔ تم ماں بن لو میری۔۔"
ریما کی بات پر مرحا نے کان پکڑ لیے۔ اس سے کون بحث کرتا۔۔
"میں بھی پریشان رہی مگر عیسٰی بھائی سنبھال لیں گے، ان کے ساتھ خوش رہتی ہے، وہ اسے اسی کے انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔۔" پریہان کا دل اطمینان سے بھرا ہوا تھا۔ ریما اور مرحا کو بھی پورا اتفاق تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ اب وہ سب مانتی تھیں چاہے حالات جیسے تھے مگر پُروا سہی انسان کے حوالے کی گئی تھی۔
وہ اسے بدلنے پر مجبور نہیں کر رہا تھا، وہ اسے اس کی معصومیت سمیت قبول کر چکا تھا۔۔ جیسے وہ دیوانہ تھا کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔
ان کے ساتھ باتیں کرتی مرحا سکون سے مسکرا رہی تھی۔ یہی دوستیں اس کا سرمایہ تھیں، پریہان نے اسے خان داور سے بدظن نہیں ہونے دیا تھا اور ریما کے سمجھانے کی وجہ سے وہ پہلے روز خود کو کلئیر کر کے مطمئن تھی، اگر وہ نا بولتی تو شاید خان داور بھی اپنا آپ اس پر آشکار نا کرتا۔۔ رشتہ تو بن جاتا لیکن شاید بہت وقت لگتا وضاحتوں میں۔۔
گل جان کے پاس بیٹھی تو ان کے وسوسوں پر بےساختہ ان کے سینے سے لگ گئی۔
"گل جان شکریہ مجھے اس قابل سمجھنے کے لیے۔۔ آپ نے مجھے دنیا کا سب سے بہترین انسان دیا ہے۔۔"
گل جان اس کی بات سن کر مسکرائیں۔ دل سے سارے شکوک اور وسوسے ختم ہو گئے تھے۔
"وہ تمہارا خیال رکھے گا مرحا۔۔ اس کی عادت ہے خیال رکھنا۔۔ تم میرے بیٹے کو خوش رکھنا پلیز۔۔"
وہ ماں تھیں، سب جانتی اور دیکھتی آئی تھیں، اس بار اپنے بیٹے کو مکمل جیتے دیکھنا چاہتی تھیں۔
"میں وعدہ کرتی ہوں۔۔ آپ کی خواہش سر آنکھوں پر۔۔" مرحا نے اطمینان دلایا۔ ان کو کیسے بتاتی وہ انسان چاہے جانے کے قابل ہے۔ اس کی بےقدری کر کے مرحا بدنصیب ہرگز نہیں بننا چاہتی تھی۔
رات گئے جب وہ کمرے میں آیا تو مرحا کو اپنے سامنے دیکھ کر دل سے مسکرایا تھا۔
"مرحا تم سراپا سکون ہو۔۔ تم مجھے اپنا اسیر کر رہی ہو۔۔ میرے دل میں یہ نیا احساس پیدا کرنے کا شکریہ۔۔ مجھے اپنی محبت میں مبتلا کرنے کا شکریہ۔۔"
اسے اپنے حصار میں قید کر کے سرگوشیاں کرتا خان داور جیسے زندگی کو نئے سرے سے جی رہا تھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو ان دیکھی قید میں ڈال رہے تھے، خود سے باندھ رہے تھے۔۔ لگتا تھا ان کا ملنا ضروری تھا، وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنے تھے۔۔
وہ محبت میں مبتلا ہو رہے تھے اور ایسا خودبخود ہوتا جا رہا تھا۔
تو ایسا ہوتا ہے محبت کا الہام کی طرح دل میں اترنا۔۔
کیا ایسا ہو سکا ہے کبھی کہ عشق میں قید ہو جانے والے قیدی کبھی آزادی پا سکیں۔۔ ہرگز نہیں۔۔
خیر ابھی تو محبت کا آغاز تھا مگر انجام طے تھا۔۔
وہ دو ایک جیسے انسان۔۔ محبت میں مبتلا لوگ۔۔
عشق کی حد تک ایک دوسرے کو چاہیں گے۔۔
اور قیدِ عشق میں مرتے دم تک کھل کر جئیں گے۔۔
عیسٰی مردان خانے سے تیزی میں اندر اپنے پورشن میں آیا تھا۔ ثنا بیگم تھکن زدہ سی صوفے پر بیٹھی تھیں۔
"کیا ہوا مورے۔۔ پُروا ٹھیک ہے ناں۔۔" بےچینی سے سوال کیا۔ ثنا بیگم نے اسے بلوایا تھا۔ ویسے اتنی دیر نہیں ہوئی تھی یقیناً کوئی وجہ ہی تھی۔
"پُروا کے پاس جاؤ عیسٰی۔۔ بہت اپ سیٹ ہے، پتہ نہیں کیا ہوا ہے اسے۔۔ بات بات پر رو رہی ہے، اب بھی رسموں سے جان چھڑا کر تمہارے کمرے میں پڑی ہے۔۔"
ثنا بیگم اس کے لیے پریشان ہو رہی تھیں۔
"آپ کی بہو کو کوئی مسئلہ نہیں۔۔ بس وہ آپ کے بیٹے کے لیے اداس ہو گئی ہے، رہ ہی نہیں سکتی میرے بغیر۔۔" انہیں مطمئن کرنے کے لیے وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا مغرور لہجے میں بولا۔ ثنا بیگم کے ساتھ زرشے بھی ہنس پڑی اس کے انداز پر۔۔
"اچھا جاؤ زیادہ ڈرامے مت کرو۔۔" ثنا بیگم نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا تو وہ ہاتھ کھڑے کیے ہار ماننے کے انداز میں پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ انداز میں بےقراری تھی مگر نخرے کرنا بھی لازم تھا۔
"تمہیں کیا ہوا، اتنی ڈَل کیوں ہو رہی ہو۔۔ تھک گئی ہو کیا۔۔" ثنا بیگم زرشے کی جانب متوجہ ہوئیں۔ اس کے چہرے پر مردنی چھائ ہوئی تھی۔
"نہیں بس طبیعت تھوڑی خراب تھی۔ اب ٹھیک ہوں۔"
وہ نرم مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولی۔
"ٹھنڈ لگ گئی ہو گی۔۔ موسم ابھی اتنا بھی نہیں بدلا، تم نے شال اتار کر رکھ دی۔۔ کل بھی رات دیر تک بِنا شال لیے گھومتی رہی ہو۔۔" ثنا بیگم تفکر سے اسے دیکھنے لگیں۔ زرشے ان کی فکر پر جھلملاتی آنکھوں سے انہیں تکنے لگی۔
"جاؤ اور ریسٹ کرو تم۔۔" ثنا بیگم نے اسے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ سر ہلاتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
کمرے میں پہنچ کر ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی، زیور سے آزاد ہو کر ڈریس چینج کرنے کے لیے اٹھی۔
موسٰی کمرے میں داخل ہوتا سیدھا اس کے پاس پہنچا۔ اس کے گرد بازو حمائل کر کے اپنے سامنے کیا۔
"یقین کرو مجھے پورا یقین تھا تم میرا انتظار کرنے کی زحمت آج بھی نہیں کرو گی۔۔ اتنا پیارا تیار ہوتی ہو۔۔ لیکن سارا سنگھار لوگوں کو دکھا کر جان چھڑوا لیتی ہو۔۔ تمہارے اس روپ پر سب سے زیادہ میرا حق ہے۔۔" خفگی سے اسے دیکھتا اس کے ہاتھ سے ڈریس کھینچ کر دور صوفے پر پھینک چکا تھا۔ زرشے حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
"تو آپ اس لیے بھاگے بھاگے یہاں آئے ہیں۔۔" اسے شاید موسٰی سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔
"تمہارے جیسی ظالم بیویاں ہوں نا تو شوہروں کا یہی حال ہوتا ہے جسے میں ایمرجنسی کا کہہ کر سب کے درمیان سے اٹھ کر بھاگا ہوں۔۔" وہ بیڈ پر بیٹھتا ناراضگی سے بول رہا تھا۔ شادی کے ہنگاموں میں جتنی مرتبہ زرشے تیار ہوئی تھی، ابھی وہ دل کھول کر دیکھ بھی نہیں پاتا تھا کہ وہ سب چینج کر کے سو جاتی تھی۔۔ آج سہی حل ڈھونڈ کر آیا تھا۔
"خان صاحب میں واقعی بہت تھک گئی ہوں۔۔ بس ڈریس چینج کرنے دیں۔۔" وہ اپنے بھاری لباس کو دیکھتی بےچارگی سے بول رہی تھی۔
"خان کی جان میں بھی بہت تھک گیا ہوں تمہارے نخرے دیکھ دیکھ کر۔۔ آج کوئی بہانہ نہیں۔۔" وہ سکون سے بول کر اسے اپنی طرف کھینچتا سینے سے لگا گیا۔ زرشے نے گھبرا کر دور ہونا چاہا مگر وہ اس کے گرد مضبوط حصار قائم کر گیا تھا۔
"تم بےحد حسین لگ رہی ہو زرشے۔۔ اور اگر میں تمہیں نا سراہوں تو تمہارا یہ سنگھار بیکار ہے۔۔" اس کے چہرے کو محبت سے تکتا وہ خمار زدہ لہجے میں بولا۔
زرشے اس کے حصار میں سمٹی شرما گئی۔ رخساروں پر اس کی نظروں کی تپش سے سرخی چھا رہی تھی۔
موسٰی بےقرار سا اس کے چہرے پر جھکتا اس کے ہر نقش کو نرمی سے چھُو کر محسوس کرنے لگا۔
"خان صاحب۔۔" زرشے نے بوکھلا کر پکارا تو وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ زرشے کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ پلکیں رخساروں پر لرزتی رقص کر رہی تھیں۔
وہ اس روپ کا دیوانہ سا ہو رہا تھا۔
"کیا بات ہے؟ کچھ کہنا ہے یا بس مجھے ڈسٹرب کرتی رہو گی۔۔" اس کے رخسار کو نرمی سے سہلا کر پوچھا۔
"اگر آپ کو۔۔ لالا مجھ سے نکاح نا کہتے تو۔۔ کیا آپ مجھ سے شادی نا کرتے۔۔" زرشے دل میں کئی روز سے اٹکا سوال لبوں پر لے آئی۔ موسٰی نے اسے دیکھا۔
محبت دل میں بس جائے تو کتنے وسوسے ستاتے ہیں، وہ ان لمحوں کی بات کر رہی تھی جن کا گزرے وقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
"وہ کیوں نا کہتا۔۔؟ اسے کہنا ہی تھا زرشے۔۔
یاور لالا نے وہ غلطی کرنی تھی، حدیر نے تمہاری حفاظت کا سامان کرنا تھا اور تمہیں مجھ سے بہتر کوئی نہیں رکھ سکتا تھا۔۔ اس نے مجھے ہی کہنا تھا کیونکہ ہمارا ملنا ایسے ہی طے تھا۔۔
کیونکہ تمہیں اللّٰہ نے میرے لیے ہی اس دنیا میں بھیجا تھا۔۔ میں راستہ بدل چکا تھا پھر بھی خالی ہاتھ لوٹ کر تمہاری راہ میں آ گیا۔۔ کیونکہ تم نے میرے پاس ہی آنا تھا۔۔
ہو سکتا ہے یاور لالا وہ نا کرتے، ونی کے خوف سے حدیر مجھے نکاح کا نا کہتا۔۔ مگر تمہاری جب شادی ہونے لگتی، ہو سکتا ہے میرا ضبط جواب دے جاتا۔
ہو سکتا ہے میں تب دنیا سے لڑ کر بھی تمہیں حاصل کر لیتا۔۔ شاید مجھے غلط راستہ اپنانا پڑتا یا شاید میں آخری لمحے تک اپنی دعا کی قبولیت پر امید لگائے رکھتا۔۔ شاید حالات اور ہوتے مگر اللّٰہ نے تمہیں میرے حوالے ہی کرنا تھا میری جان۔۔"
وہ اسے خود میں بھینچتا شدت بھرے لہجے میں بولتا چلا گیا۔ کبھی کبھی زرشے اس محبت پر سہم سی جاتی تھی۔۔ کوئی اتنا ٹوٹ کر کیسے چاہ سکتا ہے۔۔
"ہو سکتا ہے میں کسی اور کے نام ہو جاتی اور آپ ایک دن سنبھل جاتے۔۔ یا شاید۔۔ کبھی نا سنبھل پاتے مگر میں آپ کو نا ملتی نا امید باقی بچتی نا محبت۔۔۔"
زرشے جیسے کسی خیال کے زیرِ اثر مدھم لہجے میں بول رہی تھی۔ اور الفاظ بھی کیا تھے بس ایک آگ اگلتا خنجر تھا جو موسٰی کے سینے میں کھب سا گیا تھا۔
وہ بات ازیت دے گئی جو ہوئی ہی نہیں تھی۔۔
"خبردار زرشے ایسا دوبارہ کبھی مت کہنا۔۔ خود کو میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ سوچنے کی بھی غلطی مت کرنا۔۔" وہ جنونی لہجے میں بولا تھا۔ اسے ایسے خود میں بھینچ کر چھپایا جیسے کوئی چھین لینے کو تیار بیٹھا ہو۔۔ جیسے وہ مر جائے گا مگر زرشے کو خود سے جدا نہیں کرے گا۔۔ یہ محبت بھی ناں۔۔
شاکڈ زرشے اس کے جنونی حصار میں مچل سی گئی۔
"سوچ کون رہا ہے۔۔ آپ کے خیال سے ہی نہیں نکلتی کہ کچھ اور سوچ سکوں۔۔ اب جو قید سونپی ہے اس سے باہر کچھ نظر آئے تو دیکھوں ناں۔۔"
زرشے نے اس کے سینے میں چہرہ چھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ وہ جھک کر اس کی پیشانی پر شدت سے لب رکھ گیا۔ مہر ثبت کی۔۔ اپنے پاس رکھنے کی۔۔ کبھی جدا نا کرنے کی۔۔ یہ قید تھی تو قید سہی۔۔
"یہ بتاؤ۔۔ سب ٹھیک ہے ناں۔۔ مورے بتا رہی تھیں تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک۔۔؟" یکدم خیال آنے پر اس نے زرشے کا چہرہ تھام کر سوال کیا۔
"ٹھیک ہوں۔۔ تھوڑی سی طبیعت ٹھیک نہیں بھی۔۔ شاید مجھے ٹھنڈ لگ گئی ہے اس لیے۔۔" وہ پرسوچ انداز میں بولتی موسٰی کو خفا کر گئی۔ یعنی کچھ خبر ہی نہیں تھی۔
بلینکٹ کھول کر اس پر ڈالتا اسے خود میں سمیٹ گیا۔
"خان جی چینج کرنا ہے۔۔" اسے اپنے پہلو میں سلایا تو وہ پھر سے ڈریس چینج کرنے کی فکر میں مبتلا ہوئی۔ منہ بسور کر اسے دیکھنے لگی۔
"جاؤ بھئی۔۔ اب اگر منع کروں گا تو صبح تک ایسے ہی منہ بنا رہے گا تمہارا۔۔" وہ اپنے بازو ہٹا کر اسے آزاد کرتے ہوئے بولا۔ زرشے کھلکھلا کر بیڈ سے اتری۔۔
موسٰی نرمی سے مسکرا کر سر تکیے پر گرا گیا۔
ایک وقت تھا وہ اسے دیکھنے کو مچلتا تھا مگر خود کو روک دیتا تھا۔۔ پھر دیکھنے پر مائل ہوا تو دل چھونے پر آمادہ کرنے لگتا تھا۔۔
ابھی اس طلب کو سہی سے محسوس بھی نہیں کیا تھا کہ وہ دور کر دی گئی تھی۔ جانے کیسے وہ چپ رہ گیا، تب ہی کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا۔۔
تب یہی قدم اٹھا لیتا تو زرشے کا جائز اولاد ہونا بھی ثابت ہو جاتا مگر خیر۔۔
ہوتا تو وہی ہے جو اللّٰہ چاہے، اسے حضرت علیؓ کا قول شدت سے محسوس ہوتا تھا۔۔
"میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔"
یہ ایک لائن دیکھا جائے تو پوری زندگی کا حاصل ہے۔۔
انسان کیا کچھ سوچ رکھتا ہے اور اگر سب ویسا ہوتا جائے تو ہم کبھی اس طاقت کو محسوس ہی نا کریں، وہ جو قادر ہے وہ جس کے کُن کے ہم محتاج ہیں۔۔
ہم تو شاید اس کے آگے جھکیں ہی ناں، ہم شاید اس سے مانگنا تک چھوڑ دیں۔۔
اسے لگا تھا اس نے صبر کیا، اب سوچتا تھا تو اپنے اندر اس بےصبرے پن کو شدت سے محسوس کرتا تھا جو پہلے روز سے اس میں تھا۔۔ اس نے آمنہ کو حاصل کر کے بھی زرشے کو یاد رکھا تھا۔ کبھی کبھی وہ آمنہ میں زرشے کو کھوجنے لگتا تھا۔
وہ خود کو لعن طعن کرتا تھا مگر کچھ معاملوں میں انسان بےبس ہوتا ہے، خان موسٰی بھی زرشے کی محبت میں بےبس تھا۔
اور جو ہمیں چاہئیے ضروری نہیں وہ بہتر ہے، ضروری نہیں اس کا فوری ملنا اچھا ہے۔۔ کچھ چیزیں اپنے وقت پر ملتی ہیں اور شاید۔۔
موسٰی کو زرشے تب مل جاتی تو وہ اس کی قدر ایسے نا کر پاتا۔۔ شاید وہ ایسی محبت بھی نا دے پاتا۔۔۔
ایک وہ وقت آیا جب وہ اچانک ہی اسے سونپ دی گئی، یوں جیسے کسی غریب کو خزانے کا ذخیرہ مل جائے اور وہ اس خزانے کو تکتا سوچتا رہ جائے کہ سنبھالے کیسے۔۔ وہ بھی ایسے ہی پاگل سا زرشے کو تکتا رہ جاتا تھا۔۔
اس پر حق کیا ملا جیسے بادشاہت مل گئی تھی۔۔ وہ پاگل لڑکی اس سے ڈر کر رہتی تھی جس کے کھو جانے کا ڈر موسٰی خان کو سونے نہیں دیتا تھا۔۔
اور اب۔۔ وہ صاحب اختیار تھا۔۔ وہ اس کی ملکیت تھی۔ وہ اس کی روح تک کا مالک تھا اور کبھی کبھی یہ اختیار اسے ایسا دیوانہ کر جاتا تھا کہ وہ زرشے کو بوکھلانے پر مجبور کرتا حیران کر دیتا تھا۔۔
وہ جنونی سا ہو جاتا تھا، پاگل سا ہو جاتا تھا۔۔
ہو سکتا ہے کسی روز اس شدت میں کمی آ جائے مگر ابھی تو عشق تازہ تھا۔۔ ابھی تو ملن نیا تھا۔۔
زرشے چینج کر کے واپس آئی تو اسے خیالوں میں کھویا ہوا پا کر اس کے گرد بازو پھیلا گئی۔
"آپ ناراض ہو گئے۔۔" اس کے سینے پر سر رکھے وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔ موسٰی اسے دیکھ کر رہ گیا، کیا وہ کبھی موسٰی کی زندگی میں اپنا مقام جان پائے گی۔ کیا خبر جان جائے تو جان سے چلی جائے۔۔
"اگر میں کہوں ہاں تو کیسے مناؤ گی۔۔" وہ شوخی سے بولتا اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔
"جیسے آپ کہیں گے۔۔" وہ نرم ہاتھوں سے اس کی ہلکی ہلکی داڑھی کو چھو کر بولی۔
"سوچ لو۔۔ میری ڈیمانڈ تمہاری سوچ سے آگے کی ہو گی۔۔" وہ اچانک ہی موڈ بدلتا اسے اپنے قریب کر کے دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ زرشے گڑبڑا گئی۔
"بس آپ ناراض نہیں ہیں۔۔" وہ سر سینے سے ہٹا کر پیچھے ہوتی بول رہی تھی۔ موسٰی ہنس پڑا۔
"منانے کی کوشش تو کرو کبھی۔۔ محبت کا کچھ تو خیال کرو ناں۔۔ ناراض ہو کر بھی مجھے خود مان جانا پڑے تو زندگی کا سارا چارم کھو دو گی۔۔"
وہ اس کے ہاتھ تھام کر اس کی مہندی دیکھتا مسکرا کر بولا۔ زرشے اس کے لفظوں کے جال میں الجھنے لگی۔ موسٰی نے شرارت سے اس کی ناک دبائی۔
"چھوڑو میری جان۔۔ چھوڑو تمہارے بس کی بات ہی نہیں۔۔ وہ اور ہوتے ہیں محبتوں والے۔۔ روٹھنے منانے میں زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔۔" وہ اکسا رہا تھا۔ جتا رہا تھا۔۔ زرشے بےچین ہوئی۔ ہار کیسے مان لے۔۔
"آپ پہلے ناراض ہونا تو سیکھ لیں۔۔" مگر وہ باتوں میں نہیں آئی تھی۔ موسٰی گھورتے گھورتے ہنس پڑا۔
"تم بس باتیں کرنے میں ماہر ہو اور میں اس وقت بحث کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں۔۔" اس کے بال بگاڑ کر مسکرایا۔ اس کے گرد بانہوں کا حصار قائم کرتا سینے سے لگا گیا۔ زرشے شرمیلی مسکان لبوں سے سجائے اس کے نرم حصار میں مقید ہو گئی۔۔
اور اگر اسے خان موسٰی نا ملتا، زندگی ایسی پُر رونق تو کبھی نا ہوتی۔۔ شاید وہ سب سے چھپ کر رہنے والی زرشے ایک دن سب سے دور ہو جاتی۔۔
مگر اب وہ اپنے دماغ کے آخری کونے سے بھی یہ سوچ کھرچ دینا چاہتی تھی۔۔ خان موسٰی مل گیا تھا۔۔
وہ اسے خود سے دور کرنے والا نہیں تھا۔۔ ان کا وہ اچانک بننے والا رشتہ دن بہ دن گہرا ترین ہوتا جا رہا تھا۔ زرشے نے مان لیا موسٰی ٹھیک ہی کہتا ہے۔۔
ان کا ملنا طے تھا اور شکر ہے ان کا ملنا طے ہوا تھا۔۔
°°°°°°°°°
زرشے نم بالوں کو ڈرائیر سے خشک کر رہی تھی۔
موسٰی اس کے پاس ٹھہر کر پرفیوم لگاتا اسے دیکھنے لگا۔ اس کا چہرہ فریش نہیں لگ رہا تھا۔
"زرشے جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔ چیک اپ کے لیے چلتے ہیں۔۔" پرفیوم سپرے کر کے نرمی سے اس کا گال تھپتھپایا۔ زرشے نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"مگر کیوں۔۔ کس کا چیک اپ کروانا ہے۔۔ پریشانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ موسٰی شال اٹھاتا رک گیا۔
"تمہارا چیک اپ اور کس کا۔۔" وہ اطمینان سے بولا۔
"مجھے کیا ہوا خان صاحب۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ تھکن ہے بس۔۔ جب یہ ہنگامے سمٹیں گے، ریسٹ کر کے فریش ہو جاؤں گی۔۔" وہ ڈرائیر بند کر کے بال سمیٹنے لگی۔
"تو میں کوئی تمہیں مووی دکھانے نہیں لے جا رہا زرشہ۔۔ جلدی سے اٹھو وقت نہیں ہے اور کوئی بحث نہیں۔۔" وہ شال کندھوں پر رکھ کر بولتا اسے مزید بولنے سے روک گیا۔ زرشے کو اٹھنا ہی پڑا۔
ڈاکٹر نے کنڈیشن پوچھی، چیک اپ کیا، ٹیسٹ کیا۔۔
زرشے بےزار سی یہاں وہاں دیکھتی رہی اور موسٰی کی پوری توجہ ڈاکٹر کی طرف ہی تھی۔۔
"مبارک ہو خان صاحب۔۔ آپ کو باپ کا رتبہ ملنے والا ہے۔۔" ڈاکٹر کے جملے پر زرشے کی ساری بےزاری بھاپ بن کر اڑی جبکہ موسٰی کچھ دیر تو بےیقین سا کبھی زرشہ کو کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا چلا گیا۔
گھر آنے تک زرشے کا چہرہ گلابیاں چھلکانے لگا تھا۔ ماں بننے کی خوشی چمک بن کر چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ موسٰی پوری توجہ سے اسے دیکھتا بےتاب ہو رہا تھا۔ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
زرشہ کو گھر لاتے ہی اس نے چیخ کر سب کے درمیان اعلان کیا تھا۔ خبر ایسی ہو تو ایسے دینی چاہئیے۔۔
زرشہ سرخ ہوتی سب بڑی عورتوں سے احتیاط کی ہدایات سن رہی تھی۔ ایک بڑا وقت گزرا تھا اس حویلی میں سب بچوں کی چہکار کو ترسے تھے۔۔
اب رونق لگنے کو تھی جیسے۔۔ آغا جان بھی خوشی سے قہقہے لگا رہے تھے۔۔
"ماشاء اللّٰہ یہاں تو ہر دن نئی فلم لگ جاتی ہے اللّٰہ خیر۔۔" مرحا اور پریہان کے ساتھ بیٹھی ریما کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔ مرحا نے بمشکل ہنسی دبائی۔ پریہان اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"اور ایک تم ہو یہاں اپنا ڈرامہ تیار کرنا چاہ رہی ہو۔۔
حدیر سے ادب بھائی نے چھٹی مانگ لی تمہاری وجہ سے۔۔ کہتے ہیں ولیمہ کے بعد اپنے گھر جاؤں گا کچھ وقت کے لیے۔۔ دل کر رہا ہے۔۔ خالی گھر کے لیے دل کر رہا ہے اور دیکھ لینا یہ کچھ وقت وہی ہے جب تک ریم یہاں ہے۔۔" پریہان نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے مزہ لیا۔
"جتنے اس انسان کے نخرے ہیں ناں اس نے کنوارا ہی رہنا تھا۔۔ اس کی قسمت میں ہی نہیں میری جیسی لڑکی۔۔" ریما بری طرح تپ گئی۔ مرحا اور پریہان اس کی حالت زار سے مزے لے رہی تھیں۔ وہ منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ اب چلتی زبان آف ہو گئی۔۔
°°°°°°°
موسٰی دل کھول کر مبارک باد سمیٹ کر کمرے میں آیا تو زرشہ کے پاس پہنچا۔ بیڈ پر نیم دراز وہ شرمائی ہوئی سی موسٰی کو دیکھ رہی تھی۔ موسٰی نے اس کے ہاتھوں کو گرمجوشی سے تھام کر لبوں سے لگایا۔
"تم زندگی میں خوشیوں کا دروازہ کھول کر داخل ہوئی تھیں کیا۔۔ ہر دن نئی خوشی دے دیتی ہو۔۔ ہر بار اپنا دیوانہ بنا دیتی ہو۔۔" اسے سینے سے لگا کر گلابی ہوتے گالوں پر باری باری اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا۔
زرشے اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی سمٹ سی گئی۔
"آپ میری زندگی میں دکھوں کا دروازہ لاک کر کے آئے تھے کیا۔۔ پر بار نئے انداز سے چاہتے ہیں۔۔ ہر بار خوشیوں سے جھولی بھر دیتے ہیں۔۔" وہ نرمی سے بولی تو لہجے میں موسٰی کے لیے مان تھا، محبت تھی۔۔ وہ کیا سمجھ بیٹھا تھا چاہنا صرف اسے آتا تھا۔۔
اس نے ہی تو محبت سے متعارف کروایا تھا۔ اس نے زرشہ کو محبت کرنا سیکھایا تھا اور وہ ایک ایک پل دل سے محسوس کر کے سیکھتی آئی تھی۔۔
موسٰی اس کے ایسے اظہار پر جی اٹھا۔۔ اس کا والہانہ پن، شدت بھرا حصار زرشے کو حواس باختہ کر رہا تھا۔
"خان صاحب۔۔" زرشے نے گھبرا کر اسے پکارا۔
"اب میرے حصار میں آ کر آزادی پانے کی سوچ بھی بھول جاؤ میری جان۔۔ میں نے تمہیں اپنے جنونی عشق میں قید کر لیا ہے اور دیکھو اب تو پیروں میں زنجیر ڈال دی ہے۔۔ اب چاہے کچھ کر لو فرار ناممکن ہے۔۔"
وہ شرارت سے بولتا اس کا گال تھپتھپا گیا۔
زرشے نے سکون سے آنکھیں موند کر اس کے حصار میں خود کو قید کر لیا۔ فرار چاہئیے کسے تھی۔۔۔
محبت وہ بھی کرتی تھی، اس کی جنون خیزیوں کی عادی تھی۔۔ اسے کافی وقت لگا تھا سمجھنے میں مگر سمجھ گئی تھی کہ خان موسٰی کے دل میں اس کے لیے محبت سے بھی کہیں آگے کا جذبہ ہے۔۔
اگر یہ عشق تھا تو وہ قیدِ عشق میں ہی راضی تھی۔
یہیں سارا سکون تھا، یہی ہر خوشی تھی۔۔
عیسٰی کمرے میں داخل ہوا تو لائٹس بند تھیں، کمرے میں گلاب کے پھولوں اور موم بتیوں سے سجاوٹ کی ہوئی تھی۔۔ فضا میں گلابوں کی خوشبو پھیلی تھی۔
سرخ پھولوں میں موم بتی کے ٹمٹماتے شعلوں کا نہایت خوابناک سا منظر بنا ہوا تھا۔ عیسٰی کے اعصاب پر اس سب کا اچھا خاصہ اثر ہوا مگر سوفٹ نیلگوں روشنیوں میں ایک طائرانہ نظر پورے کمرے پر ڈال لی، پُروا کہیں موجود نہیں تھی۔
وہ پریشان ہو کر آگے بڑھا، ابھی واش روم چیک کرنے کے ارادے سے قدم بڑھائے تھے کہ سسکی کی آواز پر چونکا۔ آواز کا تعاقب کرنے پر بیڈ کے پاس نیچے زمین پر بیٹھی گھٹنوں میں سر دئیے روتی ہوئی نظر آئی۔۔ عیسٰی تو تڑپ اٹھا۔ تیزی سے اس تک پہنچا۔۔
"پُروا کیا ہوا میری جان۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔"
اس کے پاس پنجوں کے بل نیچے بیٹھ کر نرمی سے پوچھا۔ پُروا نے سر اٹھایا تو آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ آنسو بہہ رہے تھے، دوسرے ہاتھ میں چاکلیٹ تھی جسے کھاتے ہوئے رو رہی تھی۔
"اٹھو نیچے سردی لگے گی۔۔ کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے تو بتاؤ۔۔ ابھی جا کر سب کی خبر لیتا ہوں۔۔ اتنی ہمت کس کی ہوئی کہ تمہیں رلا دیا۔۔"
وہ غصے کا مظاہرہ کرتا پُروا کو کھینچ کر اٹھا گیا۔
"مجھے رونا آ رہا ہے، میں بہت ہرٹ ہوں۔۔" بیڈ پر بٹھایا تو وہ سسک کر بولتی عیسٰی کو دیکھنے لگی۔
"کیوں ہرٹ ہو۔۔؟" عیسٰی نے اس کے پاس بیٹھ کر آنسو صاف کیے اور ناسمجھی سے پوچھا۔ سب کہہ رہے تھے پُروا اپ سیٹ ہے مگر اسے اندازہ نہیں تھا وہ یوں روتی ہوئی ملے گی۔۔
"مجھے رونا آ رہا ہے۔۔" وہ چاکلیٹ کی آخری بائٹ لے کر بولی۔ ریپر پھینکا اور بری طرح رونے لگی۔
عیسٰی شاکڈ سا اسے دیکھنے لگا۔ یہ کیسا غم تھا جس میں رونے کے ساتھ چاکلیٹ کھائی جا رہی تھی۔۔
"موسٰی بھائی نے کہا تھا چاکلیٹ کھاؤں گی تو موڈ اچھا ہوگا۔۔ لیکن موڈ اچھا نہیں ہوا۔۔" آنکھیں آنسوؤں سے بھرے وہ بےبسی سے بول رہی تھی۔
"رونا بند کرو اور مجھے بتاؤ کیا ہوا۔۔" اسے خود سے لگا کر نرمی سے تھپکتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے ماما بابا یاد آ رہے ہیں۔۔ آنی یاد آ رہی ہیں، دلہن کے پاس اس کی اپنی فیملی ہوتی ہے میرے پاس صرف پریہان اپیا تھیں۔۔ میرا دل اداس ہو رہا ہے۔۔"
وہ عیسٰی کے گرد بازو باندھ کر اس کے سینے میں منہ چھپا کر اپنے دکھ سنا رہی تھی۔ اسے پُروا کی اداسی دل میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔
"میں ہوں ناں تمہارا اپنا۔۔ کبھی اکیلا نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔۔" اسے سینے میں بھینچ کر پشت سہلانے لگا۔ پُروا اس کے سینے سے لگی دل ہلکا کرتی رہی۔ غم رو کر ہی ہلکا ہونا تھا اور عیسٰی یہی چاہتا تھا۔ اس کے سر پر گال ٹکا کر بیٹھا رہا۔۔
اس کی سسکیاں قدرے تھمیں تو اس کے تنگ حصار میں مچلی۔ عیسٰی نے بانہیں کھول دیں۔
"عیسٰی جی ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔" وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھتی بےچارگی سے بولی تھی۔ وہ آہ بھر گیا۔
"ظاہر ہے اب ٹھنڈ لگے گی، بھوک بھی لگے گی۔ نیند بھی آ جائے گی۔۔ خادم جو نظر آ گیا ہے۔۔ خدمتیں کروانا کوئی اس چالاک بلی سے سیکھے۔۔" وہ بڑبڑا کر بلینکٹ کھولتا اس کی ٹانگوں پر ڈال گیا۔
"تم نے مجھے کچھ زیادہ شریف سمجھ لیا ہے لٹل وائف۔۔" اس کے سجے سنورے روپ کو گہری نظروں سے دیکھتا وہ اسے قریب کر گیا۔
"یہ جیولری اور ڈریس اتنا ہیوی ہے۔۔ میں اتنا تھک گئی تھی، کسی کو میری پرواہ نہیں ہوئی تھی۔۔ مجھے چینج کرنے سے بھی روکا، میں نے ریکوئسٹ کی تو اپیا نے مجھے ڈانٹ دیا۔۔" اس کی ابھی شکایات باقی تھیں۔ عیسٰی کا ڈائلاگ وہیں درمیان میں دم توڑ گیا۔ماتھے پر بل ڈال کر پُروا کو دیکھا جو چوڑیاں اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تمہاری اپیا کو تو میں پوچھ لوں گا۔۔ ہر وقت رعب جھاڑتی ہیں تم پر۔۔ میں ایک بات کلئیر کر دوں صرف میرا تم پر حق ہے، آج کے بعد تمہیں کسی نے سخت نظر سے بھی دیکھا تو مجھے بتانا۔۔" وہ اس کی ہیلپ کرواتے ہوئے دوٹوک لہجے میں بول رہا تھا۔
"رباض میری گود میں سو رہا تھا، اس کو بھی لے لیا۔۔ کہتی ہیں اب تم نے روم میں جانا ہے۔۔" اس نے رونی صورت بنا کر ایک اور دکھ سنایا۔۔ پریہان کو خبر ہی نہیں تھی اسکا ٹوئٹی پارٹی بدلے اس کی شکایات لگا رہا تھا۔ اب اس کے لاڈ اٹھانے والا ایک موجود تھا، اب اسے ہر بات ہی دکھی کر جاتی تھی۔۔
"واٹ۔۔؟ او۔کے ہمارا جو بیبی ہو گا وہ ہم کسی کو اٹھانے نہیں دیں گے۔۔ انفیکٹ دیکھنے کے لیے بھی تم سے اجازت لینا ہو گی سب کو۔۔" وہ تھوڑا پٹڑی سے اترنے لگا۔ لبوں پر جاندار سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ہاں ٹھیک ہے۔۔ ایسا ہی کریں گے۔۔ اٹھانے بھی نہیں دوں گی، ضرورت کیا ہے، وہ میرا اپنا ہو گا۔۔"
پُروا نے چوڑیاں اور رنگز اتروا کر ہاتھ جھاڑے۔۔ عیسٰی کی پرشوخ نظریں اس کے چہرے پر ٹک گئیں۔
اس کا من موہنا معصوم سا چہرہ اس ہار سنگھار میں مزید دلکش لگ رہا تھا۔ عیسٰی کا دل تو وہیں کہیں پُروا کے مہندی لگے نازک پیروں میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔
"عیسٰی جی میں نے سہی سے کھانا نہیں کھایا تھا۔۔"
وہ بھاری ڈوپٹے سے الجھتی روہانسی صورت بنا کر بولی تو عیسٰی سر ہلا کر اٹھا۔
"تمہارے لیے دودھ بنا ہو گا۔۔ میں ابھی لاتا ہوں۔۔" وہ خوشدلی سے بولتا باہر نکلا۔ اس کے بدلے تیور پُروا کو سمجھ نہیں آئے تھے۔۔ وہ آج ہر بات مان رہا تھا۔۔ وہ خیال رکھتا تھا مگر آج ہی ہر بات مان رہا تھا۔
وہ کھینچ کھینچ کر جیولری اتارتی اپنے بالوں میں پھنسی پنز بھی کھینچ کر اتار گئی۔ خود کو سارے بوجھ سے آزاد کروا کر ایسے تھکی جیسے ہل چلایا ہو۔
بال کھول کر ریلیکس ہوتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔
دل کا غبار تو عیسٰی کے سینے سے لگ کر ہی ہلکا ہو گیا۔ اپنے دکھ بھی شئیر کر لیے۔۔ دودھ ابھی وہ لانے والا تھا۔۔ جمائیاں اسے اس دوران ہی آنے لگ گئیں۔۔
نیند سے بھرتی آنکھیں کھول کر عیسٰی کے آنے سے پہلے اٹھ کر چینج کرنے چلی گئی۔
وہ میوے بھرا دودھ کا مگ لے کر آیا تو وہ چینج کر کے ڈریسنگ روم سے باہر آئی تھی۔ اس کی اتنی پھرتی اور جلد بازی پر عیسٰی کا منہ صدمے سے کھلا رہ گیا۔
وہ اپنے پسندیدہ ٹراؤزر شرٹ میں ریلیکس سی بیڈ پر بیٹھ کر بلینکٹ اوڑھتی ہاتھ بڑھا گئی۔
"تمہیں اتنی کیا جلدی تھی۔ ایسی پھرتی اور تو کسی کام میں نہیں دکھائی کبھی۔۔" وہ دانت پیس کر بولتا اس کے پاس آیا۔ میک اپ کی تہیں اس کے چہرے پر موجود تھیں۔ شاید دو سیکنڈ لیٹ ہوتا تو میک اپ بھی ریموو کر لیتی۔ ایسی بجلی بھری تھی آج اس میں۔۔ بدمزگی سے اسے مگ تھماتے ہوئے گہرا سانس بھر کر خود کو ریلیکس کیا۔
"چلو مل کر پیتے ہیں، اس سے محبت۔۔" اسے مگ دے کر وہ نرمی اور محبت سے اس کے پاس بیٹھ کر بول رہا تھا۔ اس کے جملے کے درمیان ہی وہ غٹاغٹ پی کر خالی مگ اس کو پکڑا کر سر ہلا گئی۔۔
"مجھے بھی اس سے محبت ہے۔۔" پُروا نے چمکتی آنکھوں سے بتایا۔ عیسٰی کا دل چاہا وہی مگ اپنے منہ پر دے مارے۔۔ اتنی تباہ حال پہلی رات کا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا مگر پُروا سے اچھے کی امید رکھنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔
"میں دودھ کی بات نہیں کر رہا تھا۔۔ اب ایک لفظ مزید مت بولنا، میں تمہارا خون پی جاؤں گا۔۔"
وہ دانت کچکچا کر غصے سے بولا اور مگ زور سے سائڈ ٹیبل پر پٹخا۔ پُروا اپنی جگہ اچھل کر رہ گئی۔ سہم کر عیسٰی کو دیکھا۔ وہ اپنی واسکٹ اتار کر زور سے پھینکتا پُروا کو گھورنے لگا۔
"عیسٰی جی۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔۔" سہمی ہوئی آنکھوں سے اسے تکتی آہستگی سے بولی۔ عیسٰی کا غصہ اور چڑچڑا پن ختم ہوا۔
"کچھ نہیں۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا اپنی پیاری زندگی کے ساتھ۔۔ میری کیوٹ سی کیٹ۔۔" اس کے قریب ہو کر اسے خود سے لگاتا موڈ بدل کر محبت سے بولا۔
"میں ڈر گئی تھی۔۔" وہ گہرا سانس بھر کر اس کے حصار میں پرسکون ہو کر بولی۔ اس کے مہندی سے بھرے سرد ہاتھوں کو تھام کر مہندی کی خوشبو سونگھتا وہ نرم نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔
"ڈری کیوں۔۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہیں کبھی کچھ کہہ سکتا ہوں۔۔" وہ خمارزدہ لہجے میں بولتا پُروا کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ لب دلکشی سے مسکرائے۔۔
"جی ہاں۔۔ جب گلاس مارا تھا اور پھر باؤل مارا تھا مجھے پاؤں پر۔۔ مجھے غصے سے سے یہاں زور سے کاٹا بھی تھا۔۔ زور سے جھٹکے دئیے تھے اور۔۔" وہ سر ہلا کر اس کے سارے کردہ ناکردہ گناہ بِنا رکے بتاتی چلی گئی۔ عیسٰی کی مسکراہٹ سمٹی۔۔ رومینس کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ ہونق سا پُروا کو دیکھنے لگا۔
"اچھا بس۔۔ کوئی ایسے ظلم نہیں کیے تھے۔۔ اتنا خیال رکھتا رہا ہوں۔۔ تمہارے اس ٹینکی نما پیٹ کو دودھ سے بھرتا رہا ہوں کئی بار اپنی چائے کی قربانی دے کر۔۔ تم نے ہر مطلب کی بات یاد رکھی ہے اور مجھے اپنی کئیر ہر بار یاد دلانی پڑتی ہے۔۔" وہ ناراضگی سے بولتا اپنے بال نوچنے والا ہو گیا تھا۔
"عیسٰی جی مجھے نیند آ رہی ہے۔۔" اسے چڑتا دیکھ کر وہ جلدی سے آواز میں نرمی پیدا کر کے بولی۔۔ پینترا بدل لیا یعنی لڑائی ختم۔۔ سب بھلا دیا جائے۔۔
ایسی اچھی لڑکی ہی تو تھی وہ۔۔ عیسٰی اس کے سرد ہاتھ تھام کر نرم ہتھیلیوں پر باری بری شدت سے لب رکھتا مدہوش ہونے لگا۔
"عیسٰی جی قربان۔۔ تم نے تو روبوٹ سمجھ لیا ہے بھئی مجھے۔۔ یعنی پیٹ بھر لیا اب سونا ہے اور عیسٰی جی کہے گا ہاں چلو سو جاؤ۔۔ ایسے نہیں ہوتا ڈارلنگ۔۔
عیسٰی خان کو بہت اچھا سمجھ لیا ہے تم نے۔۔"
اسے کھینچ کر سینے سے لگاتا وہ اس بار واقعی تیور بدل گیا۔ پُروا نے پریشانی سے اسے دیکھا۔
وہ اس کے گرد باز پھیلاتا اس کے چہرے پر جھکا۔ نیند سے بھری آنکھوں پر نرمی سے لب رکھے۔ چھوٹی سی ناک اور بھرے بھرے گال۔۔ دیوانہ وار اپنا لمس اس کے معصوم نقوش پر چھوڑتا اسے بوکھلاہٹ میں مبتلا کر گیا۔
"عیسٰی جی۔۔" وہ مزید گستاخیوں پر اترا تو پُروا نے چیخ کر اسے پکارا۔ عیسٰی نے بےساختہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر آواز دبائی۔
"میری جان چیخ کیوں رہی ہو، آرام سے، یہیں ہوں۔۔"
اس کا گال تھپتھپا کر کہا۔ پُروا اسے ناراضگی سے دیکھ رہی تھی۔ عیسٰی اس کے انداز پر ہنسا۔
"آپ مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں، میں نے کہا تھا مجھے سونا ہے۔۔" وہ شکوہ کرنے لگی۔ پہلے تو جب سونے کا کہتی تھی وہ سلا دیتا تھا۔ اس کے بال سنوار کر، پیار سے۔۔ چاہے اپنے حصار میں لے کر۔۔
"ڈسٹرب کب کیا ہے، رومینس کر رہا ہوں۔۔" وہ شوخی سے اسے آنکھ مار کر بولتا اسے اور بھی برا لگا۔۔
"مجھے یہ بیڈ رومینس نہیں پسند۔۔ اگر آپ نے مجھے تنگ کیا تو میں زور زور سے چیخوں گی اور مورے نے مجھے کہا تھا اگر آپ تنگ کریں تو ان کو بتاؤں۔۔
میں ان کو بتا دوں گی۔۔" پُروا نے اسے دھمکایا۔۔
آج وہ بدل رہا تھا تو وہ بھی پارٹی بدل گئی۔
"پُروا۔۔ کیا پرابلم ہے۔۔ کھا نہیں رہا تمہیں۔۔" وہ بری طرح چِڑ کر بولتا اسے گھورنے لگا۔ اس کے یوں گھورنے پر وہ ہونٹ لٹکاتی آنکھیں بھر لائی۔
"او۔کے فائن۔۔ ایم سوری۔۔ ایم سوری مائی لائف۔۔"
وہ سیدھا ہوا۔ پُروا سوں سوں کرتی رونے کی تیاری باندھ بیٹھی تھی۔ عیسٰی کو اپنے بےصبرے پن پر غصہ آیا تھا۔ وہ پہلے ہی اپ سیٹ تھی، وہ بھی رلا بیٹھا۔
وہ تکیہ سیٹ کر کے لیٹتا روتی ہوئی پروا کو کھینچ کر اپنے پہلو میں لیٹا گیا۔
"شش۔۔ چپ ہو جاؤ پُروا۔۔ پلیز رونا بند کرو۔۔ اب تنگ نہیں کروں گا۔۔" اسے سینے سے لگا کر منانے لگا۔
پُروا سسکتی ہوئی اس کے کندھے پر سر رکھ گئی۔ وہ بلینکٹ اس پر اچھے سے پھیلاتا اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔ پُروا کی سسکیاں کافی دیر بعد تھمی تھیں۔
"میں آپ کا کسی کو نہیں بتاؤں گی لیکن آپ بہت برے ہیں۔۔" وہ اس کے کندھے میں منہ چھپاتی بھیگی آواز میں بولی۔ اپنی پریشانی سے نجات ملتے ہی اسے بھی پریشانی سے نکال رہی تھی۔ وہ بےساختہ مسکرایا۔
"ایم سوری میری جان۔۔ معاف کر دو پلیز۔۔" خود میں بھینچ کر اس کے سر پر لب رکھتا نرمی سے بولا۔
"ہم پریسہ آپی کے پاس پیرس جائیں گے ناں؟" وہ نئی فرمائش لے آئی۔ عیسٰی نے منہ بنایا۔
"صبح اس ٹاپک پر بات کر لیں گے۔۔" اسے نرمی سے ٹوکا۔ وہ جانتا تھا ابھی سارا پلان بنانے بیٹھ جائے گی۔
"ریما آپی نے کہا تھا پہلی رات جو منوانا ہو منوا لوں، آج رات آپ سب باتیں مانیں گے۔۔" وہ ریما کی رازدار سمجھداری عیسٰی کو بھی بتا گئی۔
"تم اپنی اس آپی سے کہنا اپنے چھوٹے دماغ پر زور نا دیا کریں۔۔ میں تمہاری ہر بات ہر وقت مان سکتا ہوں۔۔ اس کے لیے آج کی رات فرمائشی لسٹ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ تم میری زندگی کا سکون ہو میں ساری زندگی تمہاری فرمائشیں پوری کروں گا۔۔"
اس کا سر سہلاتا وہ محبت سے بولا۔
"ہم جائیں گے یا نہیں۔۔" پُروا نے سر اٹھا کر عیسٰی کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"تمہیں اب نیند نہیں آ رہی۔۔" عیسٰی نے ابرو چڑھا کر اسے جتایا۔ وہ جلدی سے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔
"آ رہی ہے نیند۔۔" منمنا کر جواب دیا کہیں وہ پھر سے نا بگڑ جائے۔ اس کے مزاج کا کچھ پتا بھی تو نہیں چلتا تھا۔ عیسٰی اس کی چالاکی پر بڑبڑانے لگا۔
اگلے کچھ منٹ میں اس کی سانسیں بھاری ہونے پر عیسٰی نے سر جھکا کر اسے دیکھا۔ وہ اس کے ارمانوں کا خون کیے اس کے سینے پر سر رکھ کر سو رہی تھی۔۔ وہ آہ بھر کر رہ گیا۔
اس کے ملائم ہاتھوں کو تھام کر مہندی دیکھنے لگا۔
"تمہارا میرے حصار میں ہونا میرے لیے دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔۔ میرا دل چاہتا ہے تمہارے اس حسن اور دلکشی سمیت تمہیں اپنے دل میں قید کر لوں۔۔ تمہیں میرے علاوہ کوئی دیکھے بھی نہیں۔۔"
اس کے ہاتھ کی ہتھیلی کو چومتا وہ دیوانہ وار اسے تکتا جا رہا تھا۔
وہ جانتا تھا پُروا کی نیند بہت گہری ہے، چھوٹی موٹی گستاخیاں اس پر اثرانداز نہیں ہوتی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک مغرور شہزادے کو ایک چھوٹی سی لڑکی نے اپنی محبت میں ایسا مبتلا کیا کہ وہ اپنا تمام غرور بھلائے اس کے قدموں میں جھک گیا۔۔
وہ اس کے رخسار کو نرمی سے چھوتا مسکرا رہا تھا۔
اور وہ چھوٹی لڑکی اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ اس کی زات پر پورے حق سے راج کرنے لگی۔۔ اس کی سلطنتِ دل پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھے وہ اپنی زندگی کو اپنی ہی طرز سے جیتی جا رہی تھی اور وہ مفتوح شہزادہ اسے اپنے عشق میں قید کر لینے کا بےچینی سے منتظر تھا۔۔
اس کی پیشانی پر لب رکھتا وہ نیلی آنکھوں میں دنیا جہاں کی محبت سمیٹے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
پھر کون جانے وہ جلد اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔
اسے خود میں چھپا کر وہ سکون سے آنکھیں موند گیا۔
جلد ایک روز وہ فاتح قرار پائے گا۔۔
°°°°°°°
عیسٰی کی آنکھ کھلی تو ہمیشہ کی طرح پُروا اس سے پہلے جاگ کر غائب تھی۔ اس نے موبائل پر وقت دیکھا، گیارہ بج رہے تھے۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔
واش روم کا دروازہ کھول کر فریش سی پُروا باہر نکلی۔
زِنک رنگ کے روایتی لباس میں اس کا گلابی رنگ دمک رہا تھا، نازک وجود پر وہ لباس ایسے جچ رہا تھا جیسے اس کے لیے ہی بنا ہو۔۔ اس کے بال اب کمر تک جاتے تھے۔ نم بالوں کو برش کرتی عیسٰی کے دل میں ہلچل پیدا کر گئی۔ اٹھ کر اس کے پاس پہنچا۔
"مجھے جگا کر مارننگ وش ہی کر دیا کرو بےوفا لڑکی۔۔ سونے کے لیے میرے پاس آتی ہو اور آنکھ کھلتے ہی عیسٰی کو بھول جاتی ہو۔۔" اس کے نم بالوں کو چھوتا وہ اسے وارفتگی سے دیکھ رہا تھا۔
"گڈ مارننگ۔۔" وہ فرمانبرداری سے فوراً برش رکھ کر ایسے بولی جیسے ابھی اٹھی ہے۔۔
"باہر مت جانا ابھی۔۔ اکٹھے جائیں گے۔۔" عیسٰی نے اسے نرمی سے ہدایت دی، جھک کر اس کا گال چوما اور فریش ہونے چلا گیا۔ پُروا نے کندھے اچکا دئیے۔
"پیرس جانے والی بات منوا لینا عیسٰی بھائی سے۔۔"
بیڈ پر بیٹھی پُروا بےچینی سے پہلو بدلتی پریہان کی بات یاد کر رہی تھی۔ وہ عیسٰی کو کیسے منائے۔۔
عیسٰی فریش ہو کر نکلا اور ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا بال بنانے لگا۔ پُروا اٹھ کر اس کے سر پر پہنچی۔
"عیسٰی جی ہم پیرس جائیں گے ناں۔۔؟ آپ نے کہا تھا صبح ڈسکس کریں گے۔۔ صبح ہو گئی ہے۔۔" عیسٰی اس سے رخ پھیرتا ان سنی کیے جا رہا تھا۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر چڑھتی عین اس کے سامنے بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔ عیسٰی نے گہرا سانس بھرا۔
"عیسٰی جی ہم جائیں گے ناں پریسہ آپی سے ملنے۔۔"
پُروا اس کا کرتا عین سینے کے مقام سے مٹھی میں دبوچتی پوچھ رہی تھی۔ عیسٰی کا منہ بن گیا۔
"استری خراب کر دی یار۔۔ ایک بات کے پیچھے کیوں پڑ جاتی ہو۔۔ ابھی اگر میں کہہ دوں کہ جائیں گے تو تم نے پیچھے پڑ جانا ہے کہ کب جائیں گے۔۔"
وہ اس کی مٹھی کھول کر سلوٹیں دیکھتا بےچارگی سے بولنے لگا۔ پُروا کی آنکھیں چمکیں۔
"مطلب ہم جائیں گے؟" وہ اپنے سوال پر قائم تھی۔
"ٹھیک ہے جائیں گے مگر بار بار مت پوچھنا ورنہ نہیں جائیں گے۔۔" اس نے وارن کرتے ہوئے حامی بھری۔
پُروا اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کی گارنٹی دیتی اترنے لگی۔ وہ اس کے اطراف میں بازو رکھتا روک گیا۔
"پیارا سا تیار ہونا نہیں آتا کیا تمہیں۔۔ پھیکا منہ لے کر بیٹھ جاتی ہو۔۔" لبوں کے کناروں پر مچلتی شریر مسکان دبائے وہ سنجیدگی سے بولتا گہری نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگا۔ پُروا پلٹ کر مرر میں اپنا چہرہ دیکھتی روہانسی ہونے لگی۔
وہ پرفیوم اٹھا کر خود پر سپرے کرتا پُروا کو سیدھا کر گیا۔ اس کے کپڑوں پر بھی اپنا پرفیوم کھل بہایا۔
"واہ۔۔ اب تم سے میری خوشبو آ رہی ہے۔۔" اس پر جھک کر گہرا سانس بھرتا مسکرا کر بولا۔ پُروا چھوٹی سی ناک اٹھا کر سونگھتی خوش ہونے لگی۔
"مجھے پیارا سا تیار ہونا نہیں آتا۔۔" وہ بار بار چہرہ موڑ کر مرر دیکھتی پریشانی سے بولی۔
"میں کر دوں تیار۔۔ نیچرل بیوٹی ہو گی تمہارے فیس پر۔۔" وہ پرفیوم رکھتا ہنسی دبا کر شوخی سے بولا۔
پُروا اثبات میں سر ہلاتی اس کے سامنے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ عیسٰی اس پر جھکتا شدت بھرے لمس بکھیر گیا۔ اس کے پرحدت لمس پر پُروا کے چہرے پر گلال سا بکھر گیا تھا۔
اسے غصے سے گھورتی پُروا ناراضگی سے اس کے بازو ہٹانے لگی۔ وہ ہنسی دباتا اس کا غصہ دیکھ رہا تھا۔
"اچھا سوری۔۔ دیکھو میں تم سے پرامس کرتا ہوں ہم پیرس جائیں گے۔۔" اسے مناتے ہوئے لالچ دیا۔ وہ رک کر اسے دیکھتے ہوئے ناراضگی ختم کر کے مسکرائی۔
"وہ ہمارا ہنی مون ٹرپ ہو گا کسی ہنی مون سویٹ میں ایک دو ویک گزاریں گے تاکہ تم مجھے رومینس پر چیخنے کی دھمکی نا دو۔۔" وہ اگلی بات پر پھر سے چھیڑنے لگا۔ پُروا روہانسی ہو گئی۔
"ہم سیدھا پریسہ آپی کے پاس جائیں گے۔۔ آپ پہلے اچھے ہوتے تھے، اب تنگ کرتے ہیں۔۔" وہ آنکھیں بھر لائی۔ عیسٰی کی ساری شوخی ہوا ہو گئی۔
اس کے گرد نرمی سے بازو پھیلاتا اپنے قریب کر گیا۔
"پروا تم میری زندگی میں بالکل پہلا ایسا انسان ہو جو ہمیشہ میرے موڈ کو سپوئل کرتی ہو، میری مرضی کے خلاف تمہاری مرضی ہوتی ہے اور تم اپنی من مانی ہی کرتی ہو مگر پھر بھی میں تم پر غصہ نہیں کر پاتا۔۔
تم پر بہت پیار آتا ہے مجھے۔۔ تم میں میری زندگی بسنے لگی ہے، میری جان قید ہے تم میں۔۔"
شوخی و شرارت بھلائے وہ نرمی سے بول رہا تھا۔ پُروا نم آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے سننے لگی۔
"بس تم رویا مت کرو، میں جانتا ہو تمہیں صرف چسکہ ہے آنسو بہانے کا لیکن مجھ پر تمہارے آنسو بہت بری طرح اثر کرتے ہیں پُروا۔۔ مجھے بےبسی محسوس ہوتی ہے جب تم روتی ہو۔۔ رویا مت کرو۔۔" وہ بےچارگی سے بولتا اسے بھینچ کر سینے سے لگا گیا۔ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتی وہ گھبرا گئی۔
"عیسٰی جی میں نہیں روؤں گی، آپ پریشان مت ہوں۔" وہ اس کی فکر کرتی اپنی نرم آواز میں بول رہی تھی۔ عیسٰی مسکرانے لگا۔
کوئی لمس اتنا سکون کیسے دے سکتا ہے۔۔ کوئی انسان اتنا ضروری کیسے ہو جاتا ہے۔۔ وہ بھی کچھ وقت میں۔۔
دن کے بارہ بجے وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے تھے، دونوں ہی لاپرواہ تھے۔ ان کو فکر نہیں تھی کوئی کچھ بھی سمجھے۔۔ ان کا اپنا ٹائم ٹیبل تھا۔۔
ان کی اپنی زندگی تھی۔۔ وہ من موجی تھے۔۔
پُروا نے خوشی سے چمکتی آنکھیں لیے پریہان، ریما اور مرحا کو اپنے پیرس جانے کا بتایا تھا۔
وہ واحد لڑکی تھی جسے ریما چھیڑ بھی نہیں پائی۔ اس کی خوشی کو محسوس کر کے ایسے ہی مسکراتے رہنے کی دعا دی تھی۔ اس کی چہکار پر حویلی والوں کے لب مسکرا رہے تھے۔ اس حویلی کے لاڈلے بیٹے خان عیسٰی کے لیے پُروا ہی ہو سکتی تھی۔ وہی اسے جچتی تھی۔
عیسٰی کو لگتا تھا پُروا نہایت مہنگا نشہ ہے جس کا وہ عادی ہو رہا ہے۔ جس کے بغیر وہ سانس نہیں لے سکتا تھا۔ ایسا نشہ جو رگوں میں اتر کر دل و دماغ میں خوشی بھر دے۔۔ جو ہوش حواس سے بیگانہ کر دے۔۔
وہ اس کا جنون بن رہی تھی، اس کا سکون بن رہی تھی۔ وہ اس کے لیے بدل رہا تھا، اپنی مرضی بھول رہا تھا۔ وہ اسے اپنے اندر بھر کر خود کو کہیں باہر رکھ کر بھول بیٹھا تھا۔۔ وہ سراپا عشق بن رہا تھا۔
اور پُروا اس عشق میں قید ہو رہی تھی۔
"صندل کو لیتی جاؤ ریم۔۔ اکیلی مت جاؤ راستہ بھول جاؤ گی۔۔" پریہان نے اسے جوگرز پہن کر نکلتا دیکھا تو ہدایت دی۔ رباض بازؤوں میں لٹکا جھول رہا تھا، ریما کو باہر جاتا دیکھ کر مچلنے لگا۔ وہ رباض کو دیکھتی ہنس پڑی، پریہان رونا شروع کرتے رباض کو وہاں سے لے کر نکل گئی۔۔ ریما نے صندل کو ساتھ لیا۔۔
یہاں کے راستوں سے وہ انجان تھی مگر علاقہ دیکھنے کا شوق سرپر سوار ہو گیا تھا۔ جینز، کرتا اوپر لیدر کی جیکٹ اور گردن پر وول کا سٹالر لپیٹا ہوا تھا، سر پر میرون اونی ٹوپی رکھ لی۔۔ وہ پوری تیار تھی۔
صندل خوش مزاجی سے اس کے ساتھ چلتی ساری جگہ دکھا رہی تھی۔ پہاڑی اونچے نیچے راستے، سر سبز اونچے درخت اور گھاس۔۔ اتنی خوبصورتی کہ ریما موبائل میں ہر منظر محفوظ کرتی پاگل ہو رہی تھی۔
صندل ایک گھر کے سامنے رک کر اپنی کسی دوست سے باتیں کرنے لگی، اس کی دوست کی اشتیاق بھری نظریں اس شہری لڑکی اور اس کے حلیہ پر جمی تھیں۔ شہری طرز کا حلیہ اوپر سے اس کی سنہری رنگت میں سردی کی وجہ سے سرخی گھلی ہوئی تھی۔ بادامی شفاف آنکھیں چاروں اطراف میں گھوم رہی تھیں کہ پہاڑ کی قدرے چوٹی پر بنا وہ چھوٹا سا گھر اس کی نظر میں جم گیا۔
سرخ پتھروں سے بنا گھر اور اس کے گرد کھڑے سر سبز درخت۔۔ کمرے کی کھڑکیوں کے باہر چھوٹی سی گرل پر رکھے گملے اور ان پر لگے پھول۔۔
گھر چھوٹا اور نفیس سا تھا ریما کی آنکھیں چمکیں۔
"سنو۔۔ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ انجوائے کرو۔۔ میں وہاں تک جا رہی ہوں۔۔" اچانک اس نے صندل کو مخاطب کیا۔ اس کے ہاتھ کے تعاقب میں گھر دیکھ کر صندل نے کچھ بولنا چاہا مگر ریما پرجوش سی آگے بڑھ گئی۔
"سیدھا سا راستہ ہے، واپس آ جاؤں گی۔۔ ڈونٹ وری۔۔"
ریما نے وہیں سے کھڑے ہو کر آواز لگائی۔ صندل خوش ہوتی دوست کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی۔
ریما پلٹ کر اوپر بھاگنے جیسا جاتی پتھروں سے پیر اٹکا کر دھڑام سے نیچے گری۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر گرنے سے اچھی خاصی چوٹ آئی۔
"ہائے اللّٰہ میں مر گئی۔۔ ہائے میری ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔۔ میں لنگڑی ہو جاؤں گی اب۔۔ میری ٹانگ۔۔"
وہ رو رو کر دہائیاں دیتی اپنے ہی وزن تلے دبی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آوازوں پر سامنے موجود اسی گھر کا دروازہ کھلا اور کوئی مضبوط قدم اٹھاتا اس کے سامنے آن رکا۔
"بھائی صاحب مدد کیجیے گا پلیز۔۔ مسافر ہوں یہیں آپ کے سردار کی حویلی میں مہمان۔۔" ریما نے روتے ہوئے درد سے بری بری شکلیں بناتے ہوئے سر اٹھایا۔
سامنے ادب خان کھڑا تھا، خشمگیں نظرو سے گھورتا ہوا، ریما کا باقی جملہ وہیں رہ گیا، جلدی سے منہ کے زاوئیے درست کیے۔
"خان صاحب سہارا ہی دے دیں۔۔ چوٹ لگی ہے مجھے۔۔" اس بار معصوم صورت بنا کر ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ ادب خان نے سر جھٹکا۔
"لگتا ہے آپ سکون کے دن پیدا نہیں ہوئیں بی بی۔۔ حویلی سے نکل کر یہاں تک پہنچ گئیں۔۔" اس کا ہاتھ تھام کر کھڑا کرتا اسے شرم دلانے کی کوشش کرنے لگا۔
"خدا کی پناہ الزام تو مت دیں۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے آپ کے پیچھے آئی ہوں۔۔ آپ کے ساتھ تھوڑا بہت مذاق کر لیا، آپ تنگ ہوئے تو میں نے آپ کا پیچھا چھوڑ دیا۔
آج رات واپس جانے کا ارادہ تھا، سوچا یہ خوبصورت علاقہ دیکھ لوں۔۔ آپ تو میرے دماغ سے ہی نکل گئے تھے۔۔" وہ اس کے سہارے کھڑی ہوتی وضاحت دینے لگی۔ جس میں نوے فیصد سراسر جھوٹ شامل تھا۔۔
"کس کے ساتھ آئی ہیں؟ واپس کیسے جائیں گی۔۔"
ادب خان نے اس کی حالت کی وجہ سے لہجے میں کچھ نرمی پیدا کر کے پوچھا۔ ریما چونک گئی۔
"اکیلی کیسے جاؤں گی۔۔ زرا سانس ہی لے لیں خان صاحب۔۔ میں آپ کے گھر پر قبضہ نہیں کر جاؤں گی۔۔ تھوڑی دیر بیٹھنے دیں، جسم میں شدید درد ہو رہا ہے۔۔" وہ روہانسی صورت بنا کر نہایت بےچارگی سے بولی۔ ادب خان اس کے ڈراموں سے اب تک بخوبی واقف ہو چکا تھا مگر یہ بھی جانتا تھا اسے واقعی چوٹ آئی ہو گی۔ گھر کا دروازہ کھولا۔
چھوٹے سے صحن میں دھوپ میں چئیر رکھی ہوئی تھی اور ساتھ ایک بڑی سی چارپائی جس پر صاف چادر بچھی ہوئی تھی اور ایک تکیہ رکھا تھا۔۔ ایک ٹیبل پر میووں کی تھالی اور چائے کا آدھا کپ پڑا تھا، ایک ٹوکری میں کینو بھی پڑے تھے۔۔
یقیناً وہ دھوپ کا مزہ لے رہا تھا اور اس کی آواز سن کر باہر نکلا تھا۔ ادب نے ریما کو چئیر کی طرف لے جا کر بیٹھانا چاہا مگر وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ ادب خان نے ٹیبل سے آدھا کپ چائے کا اٹھایا اور خاموشی سے اندر چلا گیا۔
"یار۔۔ کتنا سکون ہے یہاں۔۔ اور یہ بستر۔۔" وہ چارپائی پر لیٹ کر تکیے پر سر رکھتی سامنے نظر آتے پہاڑوں اور خوبصورت نظاروں میں کھو گئی۔
دھوپ نرم گرم تھی، ریما نے ٹوپی اتار کر رکھ دی۔
ادب خان کچھ دیر تک واپس آیا تو اسے یوں مزے سے لیٹا دیکھ کر خجل سا ہوا۔ گلا کھنکار کر متوجہ کیا۔
ریما اس کی آواز پر اٹھ کر بیٹھ گئی، اس نے ٹیبل سامنے رکھی اور دودھ کا گلاس اس پر رکھ دیا۔
"یہ کیسا دودھ ہے۔۔ یلو کلر کا۔۔" ریما نے حیرت سے پیلا دودھ دیکھ کر سوال کیا۔
"ہلدی ملائی ہے۔۔ گرم گرم پی لیں چوٹوں کو آرام ملے گا۔۔" وہ کرسی کچھ فاصلے پر رکھتا بول رہا تھا۔
اپنا رخ بھی اس سے پھیر لیا، ریما نے گلاس اٹھاتے ہوئے منہ بنایا۔ مہمان کی طرف کون پشت کر کے بیٹھتا ہے بھلا۔۔ اکڑو خان بھی انوکھا ہے۔۔
سبز کھدر کی شلوار قمیض پہنے اس کا شفاف رنگ دھوپ میں چمک رہا تھا۔ گھنے بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے، چہرے پر سنجیدگی اور دلکشی تھی۔۔
ریما گھونٹ گھونٹ دودھ پیتی چور نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگی۔ گلاس ختم کر کے رکھا۔
انگلیاں چٹخاتی یکدم شرمندہ ہوئی، وہ اچھا لگ رہا تھا بہت مگر اسے یوں سر پر سوار نہیں ہونا چاہئیے۔۔ یہاں اس وقت اپنے گھر میں آزادی سے بیٹھا وہ کتنا پُرسکون لگ رہا تھا۔ ریما کو اپنا آپ برا لگنے لگا۔
"ایم سوری میں نے اب تک آپ کو جتنا بھی تنگ کیا۔۔ بات کرنے کی کوشش کی یا مذاق۔۔ وہ سب کرنے کا کوئی ایسا ویسا مقصد نہیں تھا۔۔" ریما نے آہستگی سے بات شروع کی تو آنکھیں بند کر کے دھوپ سینکتے ادب خان نے اس کی بات پر آنکھیں کھول لیں۔
"ہماری سوسائٹی میں لڑکوں سے بات کرنا، فرینڈ شپ کرنا یا ریلیشن میں رہنا اب عام بات ہو چکی ہے پھر بھی مجھے اپنے ارد گرد فری ہونے والے، بےہودہ مذاق کرنے والے لڑکوں میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔۔
سٹرونگ کریکٹر مجھے ہمیشہ اٹریکٹ کرتا ہے آپ کو ویسا پایا، بلکہ حویلی کے سب مرد ویسے ہیں۔۔
پریہان اور مرحا کی قسمت پر رشک کرتی ہوں، اتنے قدر دان اور مضبوط کردار کے مرد ان کے نصیب میں آئے اور تو اور پُروا بھی شکر ہے اچھے انسان کے ساتھ ہے۔۔ آپ سے فرینک ہونے یا بات کرنے کی کوشش میں کہیں نا کہیں میری یہی حسرت شامل تھی۔۔"
ریما کی بات پر ادب خان نے سر گھما کر اسے دیکھا، سر جھکائے آج وہ کچھ سنجیدہ سی لگ رہی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ یا آنکھوں میں شریر چمک مقفود تھی۔ دھوپ میں اس کی رنگت کا سنہرا پن کھِل رہا تھا۔ وہ رخ پھیر گیا۔
"مگر پھر بھی میں نے غلط حرکت کی، میں خود حیران ہوں، مجھے لڑکوں میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔۔ آپ سے خوامخواہ فری ہوئی۔ ایم سوری۔۔
اب میں چلتی ہوں۔۔ ہیلدی دودھ کے لیے تھینکس۔۔"
وہ آہستگی سے بول کر اٹھتی دروازے کے پاس پہنچی۔ ادب خان نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا۔
(ادب خان اچھی لڑکی ہے وہ۔۔ آزاد گھرانے کی ایسی لڑکی جسے عزت اور شرافت بھری زندگی کی چاہ ہے، اسے ایسی زندگی دے دو۔۔ وہ تم سے وفا بھی کرے گی، محبت بھی۔۔ اکیلے کب تک رہو گے اگر ایک قدردان مل رہی ہے تو اپنا لو۔۔) اسے خانزادہ کے الفاظ یاد آئے۔۔
"شادی کرنا چاہتی ہیں یا بس وقتی کشش ہے۔۔؟" دروازے سے نکلتی ریما کے کانوں میں ادب خان کی بھاری مردانہ آواز ٹکرائی تو وہ تھم گئی۔
پلٹ کر آنکھیں پھیلائے حیرت سے ادب خان کو دیکھا۔
"ادب خان سے۔۔ شادی کرنی ہے یا بس ویسے ہی پسند آتا ہے۔۔" وہ چئیر سے اٹھ کر اس کے مقابل آتا پھر سے سوال کر رہا تھا۔ ریما کو لگا اس کے سامنے کھڑے ہو کر یوں دیکھنے سے ارد گرد کی ہر شے اپنی خوبصورتی گنوا بیٹھی ہے۔۔ اس کے چہرے پر یکدم دنیا کا ہر رنگ پھیلتا چلا گیا۔
"ظاہر ہے۔۔ شادی کرنی ہے، مجھے دوستیاں اور وقتی رشتے کبھی پسند نہیں۔۔ مجھے عزت چاہئیے۔۔"
دل مضبوط کر کے اس نے اپنی بات کہہ دی، ادب خان نے بغور اس کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا اور مسکرایا۔
(ادب خان جب دل بن جائے تو بتا دینا۔۔ باقی معاملات میں اور آغا جان طے کر لیں گے، تم اس حویلی کے بیٹے ہو۔۔) خانزادہ نے اسے پہلے ہی راہ دکھا دی تھی۔
اسے کیا کرنا تھا۔ بس ایک فیصلہ اور ایک ہاں۔۔
"ادب خان اپنی عورت کو ایسے راستوں پر یوں اکیلے تو نہیں جانے دے گا ناں۔۔" وہ اپنی شال اٹھا کر اس پر پھیلائی۔ دروازے سے نکلتا اس کا شال میں چھپا ہاتھ مضبوطی سے تھام گیا۔
اس کے پیچھے پیچھے سنبھل کر چلتی ریما ابھی تک شاکڈ تھی، آج تڑ تڑ چلتی زبان کو کوئی لفظ نہیں مل رہے تھے۔ بس نظر ادب خان کے چوڑے اونچے سراپے پر جم چکی تھی۔ کتنا شاندار تھا وہ شخص۔۔
شال میں ہی اس کا ہاتھ تھامے وہ چل رہا تھا، چھوا نہیں مگر سہارا بھی دے دیا۔۔
"اپنی عورت۔۔ ادب خان کی عورت۔۔" اس کے الفاظ یاد کرتی ریما کو دنیا کے ہر لفظ بھولنے لگے۔۔
وہ حویلی تک لا کر بنا مزید کچھ بولے پلٹ گیا اور ریما اس کے قدم گنتی جا رہی تھی۔ مضبوط کردار۔۔
نرم مزاج۔۔ شرافت اور عزت کا اعلا نمونہ۔۔ وہ اسے مل گیا تو وہ شاید ہوش گنوا بیٹھے گی۔۔
"بی بی جی۔۔ آپ کب آئیں۔۔ میں ڈھونڈتی رہ گئی۔۔"
کتنی دیر وہ کھڑی رہ گئی، صندل ہانپتی کانپتی اس تک پہنچی تو وہ ادب خان کے سحر سے نکلی۔۔
"کب آئی۔۔ یہی نہیں پتا۔۔ اب مجھے مت ڈھونڈو اب میں کہیں نہیں ملوں گی۔۔ اب میری ایک ہی جگہ ہے۔۔"
وہ جیسے کسی جادو کے اثر میں تھی۔ صندل ناسمجھی سے سر ہلا کر اندر چلی گئی۔
"اب میرا ایک ہی مقام ہے، ادب خان کا دل۔۔ اس کا گھر۔۔" وہ دھیما سا بڑبڑا کر اندر بڑھ گئی۔۔
°°°°°°°°°°
اور پھر حقیقتاً آناً فاناً شادی طے ہوئی، خانزادہ نے ایسی جلدی مچائی کہ خان یوسف بھی ہڑبڑا گئے۔
ایسا لگتا تھا جیسے ادب خان کی روانگی ہو کہیں۔۔ اتنا وہ خود جلدی نہیں چاہتا تھا جتنی جلدی خانزادہ کو تھی۔
ریما کے گھر والوں نے خان یوسف اور خانزادہ کی اعلا شخصیت دیکھ کر ہی زرا سوچ بچار کے بعد ہاں کر دی۔۔ لڑکی سے پوچھنا تھا سو وہ پوچھ لیا۔۔
لڑکی تو دل و جان سے راضی تھی، چہک اٹھی۔
"خبردار میرے لیے حویلی میں استقبال کا سوچنا بھی مت۔۔ مجھے سیدھا اپنے اس چھوٹے سے گھر میں جانا ہے۔۔" ریما کی شرماتی ہوئی فرمائش پر پریہان اور مرحا کا منہ کھل گیا۔ ہاں جب ادب خان نے سنا تو دل میں سکون کی لہر اتر گئی۔ اس کا اصل گھر اس کی بیوی کو پسند ہو پھر وہ کیوں حویلی میں مہمان بنے۔
برسوں بعد اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنا خالی ہو چکا گھر پھر سے آباد کر سکتا ہے۔۔ اور ریما وہی کر رہی تھی۔۔
دھوم دھام سے بیاہ کر جب دلہن علاقے میں پہنچی تو حویلی کی بجائے ادب خان کے گھر لے جانے کے لیے ایک جیپ تیار کھڑی تھی۔
"ادب خان بھی خانزادہ کی طرح ہی سر پھرا ہے۔۔"
خان یوسف نے سنا تو بھڑک کر بولتے حویلی میں چلے گئے۔ لڑکے سارے جیپ کے پاس کھڑے ہو گئے۔
"ہم چھوڑ آتے ہیں ناں ادب خان کو۔۔۔" سب تیار تھے، چہرے پر شوخی اور شرارت تھی، پریہان نے الگ خانزادہ کا سر کھا لیا۔ اسے بھی جانا تھا ساتھ۔۔
ادب خان نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے گویا اجازت ہے جو بھی چلے ساتھ۔۔ مگر خانزادہ نے منع کر دیا۔
"خبردار اب جا کر کیا لینا ہے سب نے۔۔ رات ہو گئی ہے، وہاں جا کر شور کرنے کی ضرورت نہیں۔ ادب خان کے ہاتھ سلامت ہیں خود لے جائے اپنی دلہن کو۔۔"
اس کے دو ٹوک انکار پر باقی سب تو بحث کرنے لگے، پریہان منہ پھلا کر اندر چلی گئی۔
جان چھڑوا کر ادب خان نے ریما کو جیپ میں بٹھایا اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ پیچھے سب خانزادہ کے سر پر سوار ہو گئے، وہ سر پکڑ بیٹھا۔
ان ہنگاموں میں اس کی اپنی طبیعت خراب ہو گئی تھی، بےآرامی اور تھکن سے بخار ہو رہا تھا۔ مگر صبح صبح ادب خان کے گھر کو سارا سجا کر ضرورت کا پورا سامان ڈلوا کر وہ لوٹا تو بارات کے ساتھ جانا پڑا۔۔
اب رات گئے شور اور ہنگامہ۔۔ وہ جان چھڑوا کر جیسے تیسے اپنے کمرے میں پہنچا تو سر گھوم رہا تھا۔۔
°°°°°°°°°
گھر میں ہر طرف گلاب اور موتیے کے پھولوں کی سجاوٹ تھی۔ ٹمٹماتی روشنیوں سے پورا گھر ہی روشن ہو رہا تھا۔ اندر کمرے میں نیا فرنیچر پڑا تھا، کمرے کی سجاوٹ عیسٰی کے زمہ تھی جسے اس نے اپنی عادت کے عین مطابق سجایا تھا کہ ادب خان گلابوں سے بھرا بستر اور جگہ جگہ بنے دل دیکھ کر ہی خجل زدہ سا ہو گیا مگر ریما عیسٰی کی لائن کی ہی تھی، آنکھوں میں چمک لیے سب دیکھنے لگی۔۔
خود کو زیورات کے بوجھ سے آزاد کرتی شیشے میں اپنا ہی عکس دیکھ کر شرمائی۔ بالوں میں ڈیزائننگ کے لیے لگی پنز اتار کر بال کھولے اور منہ بنایا۔
ادب خان اسے چینج کرنے کا کہہ کر کمرے سے جا چکا تھا۔ نا تعریف کی نا توجہ سے دیکھا۔
وہ میک اپ ریموو کرتی کُڑھنے لگی، اسی وقت ادب خان چائے بنا کر لے آیا۔ ریما حیران ہو گئی۔
لمبے سفر اور دن بھر کی تھکان کے بعد چائے کی شدید طلب جاگ رہی تھی اور وہ میووں کے ساتھ چائے لا کر بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔ ریما بھی پھرتی سے بیڈ پر بیٹھتی گرما گرم چائے کا مگ تھام گئی۔
"واہ خان صاحب آپ کا ایسا مزاج لگتا تو نہیں تھا۔۔"
ریما نے دوستانہ لہجے میں کمرے کی سجاوٹ پر تبصرہ کیا تو ادب خان نے ایک نظر کمرے پر ڈال کر پھر ریما کو دیکھا۔ میک اپ اور سولہ سنگھار میں تو وہ دل دھڑکانے کا باعث بن ہی رہی تھی مگر اب سب چیزوں سے آزاد ہو کر سادگی میں بھی دلہنوں والے لباس میں حسین مورت لگی، بادامی آنکھوں میں روشنیاں بھری تھیں۔
"کیسا مزاج لگتا تھا میرا۔۔؟" وہ دلچسپی سے اس کا جائزہ لیتا اس کی جانب رخ کر کے بیٹھ گیا، ریما اس کے انداز اور توجہ پر گڑبڑا گئی۔
"م۔۔میرا مطلب۔۔ یہ گلاب۔۔" اس کے اس طرح عین سامنے بیٹھ کر گہری نظروں سے دیکھنے پر ریما کا سارا اعتماد بھاپ بن کر اڑا۔۔ ادب خان مسکرا دیا۔
"حویلی جانے سے کیوں انکار کیا۔۔" اس نے چائے پیتے ہوئے سرسری لہجے میں سوال کیا۔
"کیونکہ وہ آپ کا گھر نہیں ہے۔۔ مجھے آپ کے گھر میں رہنا ہے۔۔" ریما نے سر جھکا کر بتاتے ہوئے ہاتھ کپ پر جمائے۔۔ جانے اچانک نروس کیوں ہونے لگی تھی۔
"یہ چھوٹا سا گھر۔۔ یہاں آ کر مایوسی نہیں ہوئی۔۔؟"
ادب خان کی جانچتی نظروں سے وہ پریشان ہوئی۔
"مایوسی کیوں۔۔ میں تو۔۔ پہلی بار جب اس گھر میں آئی تھی بہت سکون ملا تھا، اتنی پیاری جگہ اور پرسکون ماحول۔۔ نا کوئی شور نا ہنگامہ۔۔ سب سے الگ ۔۔ مجھے تو اس پہاڑی کے سامنے ہوتے ہی یہ چھوٹا سا گھر متوجہ کر گیا تھا۔ مجھے شروع سے چھوٹے اور صاف گھر پسند تھے۔۔
اگر مجھے بڑے گھر یا اونچے گھرانوں کا شوق ہوتا تو میرا خاندان بھرا پڑا تھا میں ان میں سے کوئی پسند کر لیتی۔۔ مجھے وہ سب نہیں پسند خان صاحب۔۔"
وہ اپنی نروس کنڈیشن اور دھڑکتے دل کو نارمل کرنے کے لیے بولتی چلی جا رہی تھی۔ تیزی سے چائے کا کپ خالی کر کے ٹرے میں رکھ گئی۔
ادب خان اس کی باتوں سے متاثر ہوا۔ اس کے حنائی ہاتھ تھامے تو چونکا۔ اس کے ہاتھ بالکل سرد ہو رہے تھے۔ گرم کپ تھامے رکھنے کی وجہ سے صرف ہتھیلیاں گرم لگ رہی تھیں۔۔
"کیا ہوا۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔" ادب نے تفکر سے اس کے ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں میں دبا کر پوچھا۔
"ہا۔۔ہاں۔۔ مجھے کیا ہونا۔۔ ہے۔۔ اور میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا مجھے صرف شرافت اور عزت چاہئیے جو آپ کے پاس بہت زیادہ ہے۔۔"
وہ ہکلا کر اپنی بات کا سلسلہ وہیں سے جوڑتی ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔ چہر از حد سرخ ہو گیا۔ مارے شرم کے پلکیں لرزنے لگیں۔
ادب خان کو پل میں اس کی کیفیت سمجھ آئی۔ ٹرے اٹھا کر سائڈ پر رکھی اور سیدھا ہوا۔
"میں عزت اور شرافت کے ساتھ محبت بھی دینا چاہتا ہوں، کوئی اعتراض تو نہیں۔۔" مسکراتے ہوئے بےباکی سے ریما کا چہرہ دیکھا۔ وہ بوکھلا گئی۔
ادب خان نے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے نرمی سے اپنے حصار میں لے لیا۔ ریما کے لیے نظر اٹھانا محال ہو گیا۔ کہاں تو وہ دیکھتا، بولتا نہیں تھا۔۔
کہاں آج یکدم بدلے ہوئے تیور تھے۔ ریما اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی اسی سے چھپنے لگی۔
"کبھی کبھی مرد کے دل میں اترنے کے لیے ایک لمحہ کافی ہوتا ہے۔۔ تم نے اس گھر میں رہنے کی خواہش ظاہر کر کے میرے دل میں جگہ بنا لی ہے۔۔"
اس کا سینے میں چھپا چہرہ تھام کر اوپر اٹھاتا وہ بولا اور نرمی سے پیشانی پر لب رکھے۔ وہ آنکھیں میچ کر رہ گئی۔
"کچھ وقت پہلے خانزادہ صاحب کو ایسے ہی میری شادی کا شوق ہوا تھا۔۔ رشتے دیکھنے لگے۔ لوگوں سے بات کی۔ علاقے میں اور شہر میں۔۔" ریما کو خود سے لگائے نرمی سے بال سمیٹتے ہوئے بول رہا تھا۔ وہ توجہ سے سن رہی تھی مگر چہرہ نہیں جھکا لیا۔
"کچھ لڑکیاں مجھ میں توجہ لینے لگیں مگر جب بھی شادی کی بات ہوئی۔۔ سب کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ انہیں حویلی میں رہنا ہے۔ خانزادہ صاحب کا کہنا تھا حویلی میں اپنی بیوی رکھ سکتا ہوں، خود بھی رہ سکتا ہوں میرا حق ہے مگر میری خودداری کو یہ گوارہ نہیں تھا اسی لیے شادی کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔
اس بار۔۔ تمہارے لیے۔۔ سوچا کہ ضد نہیں کروں گا، شاید عورت ہوتا ہی ایسا ہے۔۔ لیکن تم نے اس گھر میں آنے کی بات کر دی۔۔ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اللّٰہ نے تمہارے دل میں میرے لیے قدر پیدا کی کیونکہ تم سب سے الگ لڑکی ہو۔۔
ادب خان ساری عمر تمہارا قد ردان رہے گا ریما خان۔۔"
وہ شدت جذبات سے بھاری ہوتی آواز میں بولا اور اسے سینے سے لگا گیا۔ ریما اس کے الفاظ پر دل میں سکون اترتا محسوس کر رہی تھی۔ اس کا یوں اپنے نام سے اس کا نام جوڑنا ریما کو ایک پل کے لیے دنیا سے بےخبر کر دیا تھا۔ پیشانی اور آنکھوں پر ادب خان کا گرم لمس محسوس ہوا تو جھینپ کر چہرہ چھپاتی بری طرح پریشان ہوئی۔ اس کی قربت سہنا اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔
"کیا ہوا ادب خان کو پانے کا شوق پورا ہو گیا بس؟"
وہ کچھ سنجیدہ سے لہجے میں بولا تو ریما نے ٹھٹک کر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اس کی سنجیدگی پر اس کی ناراضگی کا سوچ کر ضرور ڈر جاتی کہ نظر لبوں کی تراش میں مچلتی شوخ مسکان پر پڑی۔
ادب خان نے جھک کر باری باری اس کے گالوں پر شدت بھرا لمس بکھیرتے ہوئے اس کا چہرہ گلال کر دیا۔
"مجھ میں محبت کے معاملے میں اناڑی پن ہے۔۔ ان پڑھ سا بندہ ہوں، خیال رکھ سکتا ہوں، قدر کر سکتا ہوں۔۔
پیار بھی دے سکتا ہوں اور رہی بات محبت کی تو مجھے یقین ہے۔۔ تم مجھے محبت سکھا دو گی۔۔"
اس نے نرمی سے مسکراتے ہوئے شرمائی لجائی سی ریما کو اپنی بانہوں کے حصار میں سمیٹتے ہوئے سرگوشی کی۔ اس سے بڑھ کر ریما کو کیا چاہئیے تھا۔
اس کے جان لیوا حصار میں دل و جان سے قید ہوتی مسکرا دی۔
ادب خان نے محبت سے اس کے بالوں میں منہ چھپایا۔
اگلی صبح وہ جاگی تو اس کے حصار میں سکون سے سو رہی تھی۔ لبوں پر شرمیلی سی مسکان ابھری۔
نظر ادب خان کے چہرے پر جمائے اسے تکنے لگی۔
وہ جو خود کو عام سا انسان سمجھتا تھا، وہ کتنا خاص تھا کوئی ریما سے پوچھتا۔۔
وہ بظاہر سخت مزاج اکھڑ سا بنا رہنے والا بندہ تھا مگر تعلق جڑتے ہی اس کے انداز و لہجہ میں دنیا جہان کی نرمی سمٹ آئی تھی۔ وہ کہتا تھا محبت میں اناڑی ہے مگر ریما کو لگتا تھا وہ محبت کا بادشاہ ہے۔۔
اس کے لمس میں سرد پن یا مجبوری تو ہرگز نہیں تھی، مخصوص گرم جوشی اور اپنائیت تھی۔۔
وہ آہستگی سے اس کے مغرور نقوش کو چھوتی خود پر رشک کرنے لگی۔۔ وہ اسے مل کیسے گیا۔۔
ایک عام سی لڑکی تھی، جس نے ہمیشہ ایک بےضرر سا خواب دیکھا تھا۔۔ ادب خان کی صورت میں اسے اپنے خیالوں کا شہزادہ نظر آیا تھا۔
اس نے تو ٹھیک سے ابھی مانگنا بھی نہیں سیکھا تھا مگر اللّٰہ نے نواز دیا۔۔ وہ دینے والا جو ہر چیز پر قادر ہے اس نے ریما کے ایک چھوٹے سے خواب کو حقیقت بنا دیا۔۔ وہ اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔۔
"کون سے منتر پھونک رہی ہو صبح صبح۔۔" اس کی نرم انگلیوں کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کرتے ادب خان کی آنکھ کھلی تو اسے خیالوں میں کھویا ہوا پا کر آہستگی سے اس کے گرد حصار تنگ کیا۔
"آپ پر قیدِ عشق کا منتر پھونک رہی ہوں۔۔ اس کے بعد آپ نے کہیں کا نہیں رہنا خان صاحب۔۔" وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولتی ادب خان کو ہنسنے پر مجبور کر گئی۔
"وہ تو کر دیا ہے۔۔ ادب خان تو ہو چکا قید۔۔ اب کوئی رسمی قید باقی ہے تو وہ بھی آزما لو۔۔"
وہ اس کے بال بکھیرتا اس کے مسکراتے چہرے کو اپنے لمس سے گلنار کر گیا۔ ریما نے شرما کر اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔ ادب خان نے زندگی میں پہلی بار زندگی کی تکمیل کو محسوس کیا تھا۔۔
گھر کے ہر وقت خالی رہنے والے صحن میں اس وقت دھوپ سے پہلے کی سرخی پھیل کر رونق بخش گئی۔۔
دور پہاڑوں کے پار سے جھانکتے سورج نے ایک خوبرو مرد کی گہری مسکراہٹ پہلی بار دیکھی اور سر اٹھا کر اس پر شعاعیں بکھیر دیں۔
وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی سیدھا ڈریسنگ میں جا کر چینج کرنے لگا۔۔ پریہان چینج کر کے رباض کو سلانے میں مصروف تھی۔ وہ بھی دن بھر کا تھکا ہوا تھا، دودھ پینے کے دوران ہی سو گیا۔
اسے کاٹ میں سلا کر وہ ابھی ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھی تھی کہ خانزادہ چینج کر کے آتا اس کے پاس لیٹا اور سر اس کی گود میں رکھ لیا۔
پریہان نے ناراضگی سے رخ موڑ لیا۔ اس کا چہرہ تکتا وہ نرمی سے مسکرایا۔ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں پر رکھا تو تپتے لمس پر وہ ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی۔
"ناراض ہو۔۔؟ میں جانتا ہوں تم چاہتی تھیں اپنی فرینڈ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرو۔۔ اس کو کچھ ضرورت ہو تو پتا کرو مگر یقین کرو ادب خان کے گھر سب کچھ اسے ملے گا۔۔ اور ادب پر شک کبھی مت کرنا، کسی ماں کی روح ہے اس میں۔۔ کھانا تک بنانا پڑا تو بنا دے گا۔۔" نرمی سے بولتے ہوئے وہ اس کی ناراضگی ختم کرنا چاہ رہا تھا۔ پریہان کو اس کی بات سے کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایک ہاتھ وہ تھام کر سینے پر رکھے پڑا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس کی پیشانی چھوتی فکر میں مبتلا ہوئی۔
"آپ کو ٹمپریچر ہو رہا ہے حدیر۔۔" پریہان کی فکر میں ڈوبی آواز پر وہ نظر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
اس کی فکر میں مبتلا معصوم سا چہرہ اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک بن کر اترا تھا۔۔
"تھکن ہے بس۔۔ تم پاس ہو تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔۔ تم ہو ناں میرا خیال رکھنے کے لیے۔۔" وہ آنکھیں موندتا اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے حصار میں لے گیا۔
"میں آپ کی ڈاکٹر نہیں ہوں حدیر۔۔ مجھے چھوڑیں میں میڈیسن لا دیتی ہوں۔۔" وہ اس کے یوں لپٹنے پر سٹپٹا سی گئی۔ چہرہ یک لخت سرخی چھلکانے لگا۔
"بیٹھی رہو پریہان۔۔ کچھ دیر بیٹھی رہو۔۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔۔" اس کی گود میں بخار سے تپتا چہرہ چھپا کر وہ بھاری آواز میں بولا۔ وہ اس کے لمس پر سانس روک بیٹھی۔ وجود میں کپکپاہٹ سی طاری ہو گئی۔
جب خاموشی اس کے اعصاب پر عجیب طرح سے اثرانداز ہونے لگی، کسمسا کر پہلو بدلتی بےچین ہونے لگی۔ وہ بخار میں پڑا رہے گا مگر دوا نہیں کرے گا۔
عجیب انسان تھا۔ پریہان کو فکر ستا رہی تھی۔
"ایسا لگتا ہے یہاں ہر انسان نے محبت کی شادی کی ہے اور ایک ہم تھے۔۔۔" اس نے اچانک بات کا آغاز کیا اور سرد آہ پر اختتام کر کے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔
"ہم نے خاموش محبت کی اور اللّٰہ نے ہمیں ملا دیا۔۔"
وہ اس کی تھکن کا خیال کرتا گود سے سر ہٹا کر تکیے پر رکھ کر نرم نظروں سے پریہان کو دیکھنے لگا۔ وہ چونک گئی۔ اس کے الفاظ پر۔۔ انداز پر۔۔
"کس نے کی محبت؟ بھلا کب۔۔" وہ نظریں چرا کر بلینکٹ کھولتی حدیر پر پھیلانے لگی۔ وہ دیکھتا رہا۔
میں آپ کے لیے چائے بنا لاتی ہوں، میڈیسن لے لیں۔۔"
وہ بات بدل کر اٹھنے لگی، وہ ہاتھ تھام کر روک گیا۔
"رہنے دو۔۔ اتنی ٹھنڈ میں مت نکلو۔۔ میری شفا تو ویسے بھی تم میں ہے۔۔" اس کی سنے بنا اپنے پاس لیٹا کر دیکھنے لگا۔ کبھی کبھی تو وہ خود بھی حیران ہوتا تھا۔ ہر تکلیف اور پریشانی میں اسے بس پریہان چاہئیے ہوتی تھی۔ شاید لوگ سنتے تو یقین نا کرتے مگر خانزادہ حدیر کا سارا سکون اس لڑکی میں تھا جو اس کے دل میں تھی، اس کی زندگی میں تھی۔
"مجھے لگا تمہارے دل نے تمہیں مجبور کیا تھا یہ سوچنے پر کہ وہ چھپا ہوا فیانسے خانزادہ حدیر ہی ہو گا۔۔ تم اس بات کو سوچتی میرے آفس تک آ گئی تھیں اور جب میں نے انکار کیا تم مایوس ہو گئی تھیں۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے وہ سب کیا تھا؟ محض اتفاق۔۔"
اس کے گرد بازو پھیلا کر حصار قائم کرتا وہ مسکراہٹ دبائے بول رہا تھا۔ پریہان خفت زدہ ہو گئی۔
"مجھے لگا آپ اتنے رحم دل ہیں کہ کوئی بھی لڑکی ڈئیر کے لیے آپ کے آفس آ جائے آپ جھٹ سے ایک بڑی رقم دینے کو تیار ہو جائیں۔۔ منال کہتی تھی آپ تو کسی سے ہنس کر بات تک نا کریں اور مجھ سے آپ نے کتنے روز خوامخواہ بات کی۔۔
اور وہ جو ہاسپٹل میں موقع سے فائدہ اٹھا کر مجھ سے شادی کی۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے وہ اتفاق تھا۔۔"
وہ اسے جتانے لگی، وہ باتیں دوہرا رہی تھی جو اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں سر اٹھاتی تھیں۔
خانزادہ آہستگی سے ہنس پڑا۔ جلتی آنکھوں میں پریہان کا پھولا ہوا منہ ٹھنڈک بن کر بس رہا تھا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے پریہان؟ وہ سب کیوں کیا میں نے۔۔"
اپنا گرم ہاتھ پریہان کے ٹھنڈے رخسار پر رکھ کر وہ سکون سے بول رہا تھا۔ وہ اسے دیکھنے لگی۔ وہ کیا سننا چاہ رہا تھا کیا وہی جو وہ سوچتی ہے۔
"آپ کی نیت پہلے سے ہی مجھ پر خراب ہو چکی تھی۔۔" پریہان نے ناک چڑھا کر جواب دیا۔ وہ بےساختہ ہنس پڑا۔ سر کا درد جیسے زائل ہونے لگا تھا۔
"میں نے سب سے جھوٹ بولا۔۔ سب نے یقین کر لیا مگر تم سچ جان گئی ہو۔۔ سچ کہتے ہیں محبت دل تک پہنچ جاتی ہے۔۔" اسے سینے سے لگاتا وہ مسکراتے لہجے میں بول رہا تھا۔ پریہان کا دل اس اظہار پر دھڑک اٹھا۔ ہاں وہ محبت کا دعویٰ کرتا تھا۔ اب تو شاید وہ کسی سوچ یا پیمانے سے کہیں بڑھ کر چاہتا تھا مگر اس کا یہ کہنا پریہان پر الگ انداز سے اثر انداز ہوا تھا۔۔ تب جب وہ اس کو سہی سے جانتی بھی نہیں تھی، ہاں اسے منگیتر سمجھ بیٹھی تھی شاید واقعی دل کا ہی کام تھا کہ وہ آفس تک پہنچ گئی۔۔
کیا سوچتی تھی، وہ شادی سے پہلے سب کلئیر کرنے جا رہی ہے؟ کتنی دلیلیں دیتی تھی ناں خود کو۔۔
اپنی بچگانہ سوچ پر اب ہنسی آ رہی تھی مگر حدیر۔۔ خانزادہ حدیر کا اسے تب ہی پسند کر لینا دل میں الگ سرور سا بھر گیا تھا۔
"میں کہتا تھا منال سے بہتر تم ہو۔۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ تم اچھی لگی تھیں اس لیے میں نے بنا کسی طرف دیکھے تمہیں ہی اپنایا۔۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں ناں جن کو دیکھتے ہی آپ کا دل چاہتا ہے کہ کاش ان پر حق ملے اور انہیں خود تک محدود کر لیا جائے۔۔ میرے لیے تم وہی تھیں پریہان۔۔"
وہ اس کے گرد بازو پھیلائے اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا جوڑ کر جذب سے بول رہا تھا۔ پریہان اس کے الفاظ اور دیوانگی پر کھوئی ہوئی تھی۔ اس کی گرم سانسوں سے چہرہ تپ کر ٹماٹر ہو رہا تھا۔
کیسا مضبوط انسان تھا، ایک بار، ایک پل بھی اس نے محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی فیلنگز رکھتا ہے۔
جب تک چاہا چھپائے رکھا اور جب چاہا اپنا آپ کھول کر رکھ دیا۔ پریہان تو آج تک بس اس کے منہ سے انکشافات سن رہی تھی۔۔
"میں بس اتنا جانتی ہوں حدیر۔۔ جب مجھے ایسا لگا تھا کہ آپ۔۔ آپ میرے فیانسے ہو سکتے ہیں۔۔ مجھے برا نہیں لگا تھا، وہ رشتہ مما نے کیا تھا، میں اپنے فیانسے کو ملنے سے بھی ڈرتی تھی کہ جانے کون ہو، کیسا ہو۔۔
جب آپ کو سمجھا تو میں نے دل سے قبول کر لیا تھا، آپ نے انکار کیا تو میں شرمندہ تھی کہ آپ کے آفس جا بیٹھی اور میرے دل میں کہیں مایوسی بھی چھائی تھی۔۔ آپ کی کئیر اور نرم لہجہ۔۔ مجھے اچھا لگتا تھا۔۔ شادی کے بعد مجھے بہت ہرٹ فیل ہوا جب آپ نے یہ شو کیا کہ یہ رشتہ صرف وقتی ضرورت ہے۔۔" وہ بھی آج اپنا آپ کھولتی چلی گئی۔
میاں بیوی کے تعلق میں ایک لمحہ ہوتا ہے جب اعتبار کی آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ہر بات کہہ دینا اور ہر راز کھول دینا ضروری ہوتا ہے۔۔
وہ دونوں شاید اسی لمحہ میں تھے، ادراک کا لمحہ۔۔
راز و نیاز کا لمحہ۔۔محبت تھی اور بہت تھی۔۔
تو اظہار کرنا ضروری ہو گیا۔ اظہار کیا گیا، سنا گیا مگر ایسے نہیں۔۔ یہ وضاحت تھی ان لمحات کی جب وہ ایک دوسرے سے بندھ گئے تھے۔ جب وہ ایک دوسرے سے اپنے احساس چھپا گئے تھے، آج کھول گئے۔۔
"میری جان میں بس یہ چاہتا تھا تمہیں احساس دلاؤں گیمز کھیلنا وہ بھی ایسی جن میں کسی تیسرے فرد کو اس کی بےخبری میں استعمال کر جانا۔۔ نہایت برا کام ہے۔۔" وہ نرمی سے اس کا سر سہلا کر بولا۔
"حدیر مجھ سے محبت کرنے کا شکریہ۔۔" وہ یکدم جذباتی ہوتی اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔
کبھی کبھی بہت شدت سے احساس ہوتا تھا دنیا کا قیمتی ترین انسان اسے ملا ہے۔ اسے اپنا آپ خانزادہ کے سامنے کمتر لگنے لگتا تھا۔۔
اس کی حرکت پر وہ دل سے مسکرایا۔ اس کے گرد حصار باندھ کر اسے اپنے سامنے کر کے دیکھنے لگا۔
"پریہان میری زندگی میں شامل ہونے کا شکریہ۔۔ میرے مرنے کی ازیت ناک خبر کے بعد بھی میری بات کا مان رکھ کر جو تم نے وفا کا ثبوت دیا ہے۔۔ جیسے تم نے میرے وارث کی حفاظت کی ہے۔۔ مجھے خرید لیا۔۔
تم محبت کی بات کرتی ہو۔۔ میرے لیے محبت بہت چھوٹا اور ادنیٰ سا احساس ہے۔۔ میں تمہیں اپنی زندگی سے بڑھ کر چاہتا ہوں۔۔ شاید نہیں۔۔
شاید میرے پاس کوئی حد نہیں، کوئی مناسب لفظ نہیں جو تمہارے بارے میں میرے جذبات کو بیان کر سکیں۔۔ میں سراپا عشق ہو چکا ہوں اور تم میری روح میں کہیں بس گئی ہو۔۔" اسے خود میں چھپاتا وہ جیسے ہر ہر لفظ میں عشق کی انوکھی داستان سنا رہا تھا۔
پریہان ہر بار اس کی دیوانگی اور ہر بار نئے طرز اظہار پر ہر بار حیرت زدہ رہ جاتی تھی۔۔
"حدیر میڈیسن لے لیں آپ پلیز۔۔" وہ اس کا حصار توڑ کر فکر سے بولی۔ خانزادہ نے گہرا سانس بھرا۔
اس کا اپنا جسم جل رہا تھا، سر گھوم رہا تھا۔ تبھی اس کی بات خاموشی سے مان لی۔ وہ جلدی سے اٹھ کر باہر نکل گئی۔ لاؤنج میں ابھی بھی ملازمین پھیلاوا سمیٹ رہے تھے۔ اس نے دودھ گرم کروا کر فسٹ ایڈ باکس سے فیور کی میڈیسن لیں۔ واپس روم میں گئی اور سوفٹ لائٹس آن کر کے اس کے پاس پہنچی۔
گرم دودھ اور میڈیسن دے کر رباض کی جگہ اپنے پاس بنا کر اسے سلایا۔
وہ میڈیسن لے کر گلاس ٹیبل پر رکھتا اپنی جگہ لیٹ کر پریہان کے لیے بانہیں پھیلا گیا۔ وہ جھینپی ہوئی سی اس کے سینے میں سمٹ گئی۔
"یہ میڈیسن تمہارے اطمینان کے لیے لی ہے، میری دوا تو تم ہو۔۔" اسے خود میں بھینچ کر وہ نرمی سے بولتا اس کے بالوں میں منہ چھپا گیا۔ پریہان اس کے نرم گرم لمس اور حصار میں سمٹ سی گئی۔
وہ اتنا کیسے چاہ لیتا ہے آخر۔۔ وہ ایک ہی انسان کو ہر بار نئے انداز میں کیسے چاہ لیتا ہے۔۔
وہ اس کے نازک سرد وجود کو اپنے جلتے حصار میں بھینچے جیسے راحت محسوس کرنے لگا۔ اس کے چہرے کے نرم ٹھنڈے نقوش کو اپنے جھلستے لمس سے تپاتا چلا گیا۔
پریہان اس کے لیے شفا تھی۔۔ اس کا عشق تھی۔۔
اور وہ ہر بار اسے اپنی قید میں لے کر اس پر عشق کے انوکھے رنگ نچھاور کرتا تھا۔۔ اسے اپنی چاہ میں سنوارتا جا رہا تھا۔ ہر دن اس کے حسن میں نکھار آتا جا رہا تھا۔
وہ مکمل اور خوبصورت لڑکی چاہے حویلی کی باقی بےحد حسین لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔۔
بےشک وہ پُروا جیسی بےتحاشہ حسین، دلکش و سرو قد نہیں تھی مگر خانزادہ حدیر کے لیے پریہان کے معصوم سے نقش خوبصورت چمکتی شہد رنگ آنکھیں دنیا کا سب سے حسین منظر تھیں۔
اس کے لیے وہ دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی جس کے سامنے سب کا ہر روپ ماند پڑ جاتا تھا۔۔
°°°°°°°°°
کچھ وقت بعد:-
عیسٰی پُروا کو پیرس گھمانے کے بعد واپس لایا تو اس کے لاکھ چیخنے چلانے کے باوجود اپنے ساتھ واپس شہر لے گیا۔ ماں کے سمجھانے پر بھی کان بند کر لیے۔
"میں اس کے اور اپنے درمیان کوئی تیسرا فرد برداشت نہیں کر سکتا۔۔ یہاں اس کی توجہ بٹ جاتی ہے۔۔"
اس کی ایک وہی رٹ تھی، آغا جان نے ڈانٹ ڈپٹ کر اجازت دے دی۔ پہلے بھی کب حویلی میں رہتا تھا۔۔
پُروا کے شوق پر اس کا کالج میں ایڈمیشن کروا دیا۔ دن کے وقت وہ آفس اور پُروا کالج جاتی تھی۔
شام کے رات تک دونوں کے پاس ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا تھا اور یہی عیسٰی کی چاہ تھی۔
وہ خوش تھا تو پُروا بھی خوش رہنے لگی تھی۔
خانزادہ حدیر گزرتے وقت کے ساتھ علاقے کا سرد اور سخت ترین سردار مشہور ہوتا جا رہا تھا، جرگہ میں اس کے پیر رکھ لینے پر ہی سب وحشت میں مبتلا ہو جاتے تھے، وہ نا کسی سے مشورہ لیتا تھا نا کسی کی بات سنتا تھا، بس ایک بات طے تھی، اس کے فیصلے حق و انصاف پر مبنی ہوتے تھے، وہ اب ونی کے لفظ پر ہی بھڑک اٹھتا تھا۔
اس کی اس سنجیدگی اور سختی پر اس کے دشمنوں میں اضافہ بھی خوب ہوا تھا مگر اسے ہر حال میں اپنی اور حویلی والوں کی حفاظت کرنا آتی تھی، بلاوجہ دشمنیوں اور روک ٹوک نے اس کے مزاج میں پتھروں جیسی سختی پیدا کر دی تھی۔
اس وقت بھی وہ کسی جرگہ سے ونی کا فیصلہ رد کر کے لوٹا تھا، قصاص میں پیسہ یا زمین لینے کا فیصلہ زبردستی منوا کر وہ پرسکون سا واپس آیا۔
"کیا بات ہے ادب خان۔۔ واپس جانے کی جلدی ہے۔"
ادب خان کا حویلی کے پھاٹک پر رکتے ہی اپنے گھر واپس جانے کی جلدی پر وہ ابرو چڑھا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ ادب خان خجل سا ہوا۔
"آپ جانتے تو ہیں خانم گھر پر اکیلی ہوتی ہیں، پورے دن میں واحد رات کا کھانا وہ میرے لیے اہتمام سے بناتی ہیں، مجھے دیر کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔" وہ نظر جھکائے بول رہا تھا، خانزادہ کے لبوں پر مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ خاموشی سے پلٹ کر حویلی میں داخل ہوا۔ ادب خان اشارہ پاتے ہی گھر کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ جہاں ریما روزانہ اس کے لیے کھانے کا اہتمام کر کے سجی سنوری سی منتظر ہوتی تھی۔
وہ مردان خانے میں خان یوسف کے پاس گیا، حال احوال لے کر کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر زنان خانے میں گیا۔ وہاں رباض اور یاور کی بیٹی یمنہ بھاگتے اور شور کرتے پھر رہے تھے۔ خانزادہ کے آتے ہی دونوں اس سے لپٹ گئے۔ اس نے جھک کر دونوں کو پیار کیا۔
یمنہ پیار لیتے ہی پلٹ کر ماں کے پاس چل گئی تھی۔
"بابام اتھاؤم۔۔ (بابا اٹھاؤ)" رباض اپنے مخصوص الفاظ بولتا اس کے آگے چھوٹی چھوٹی بازو پھیلا گیا۔
"مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آتی بیٹا۔۔ میم کیوں ہر لفظ میں لگاتے ہو۔۔" اسے اٹھا کر وہ ہر بار والا سوال دوہرا رہا تھا۔ رباض کی بازو سیدھی اپنے کمرے کی جانب تھی، بنا جواب دئیے وہ انگلی سے اس طرف جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔ خانزادہ خانی بیگم اور گل جان کے پاس رک کر بات کرنے لگا تو وہ شور کر اٹھا۔
"بابام جاؤم۔۔ (بابا جاؤ)" وہ مچل رہا تھا۔
گل جان ہنس کر سر نفی میں ہلاتی پلٹ کر زرشے کے پورشن میں گئیں جہاں آج کل زرشہ اور موسٰی کے ہاں ننھا مہمان آیا ہوا تھا۔
"مرحا کہاں ہے مورے۔۔" خان داور اسی وقت مرحا کا ریگولر چیک اپ کروانے کے لیے حویلی میں آیا تھا۔
"اپنے کمرے میں ہے، تیاری کر رہی تھی۔" خانی بیگم نے جواب دیا تھا۔ وہ سر ہلاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
خانزادہ نے مسکراتی نظروں سے بھائی کو دیکھا۔
اس کا زبردستی تھوپا گیا فیصلہ خان داور کے حق میں صحیح ثابت ہوا تھا۔ مرحا کے ساتھ رہ کر داور کے چہرے پر وہ بشاشت اور رونق نظر آئی تھی جس کے لیے حویلی والے ایک عرصہ ہوا تھا، ترس گئے تھے۔
اب وہ باپ بننے والا تھا، بھائیوں کی اولاد پر گزارہ کرنے کا دعویٰ کرنے والا خان داور حد درجہ خوش تھا۔
مرحا کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھتا تھا، ایسی احتیاط۔۔ ایسا خیال رکھتا کہ کبھی کبھی سب ہنس پڑتے تھے اس پر۔۔ کچھ زیادہ پوزیسو ہو گیا تھا۔
"بابام۔۔" رباض کے چیخنے پر وہ خانی بیگم سے معذرت کرتا اسے لے کر کمرے میں پہنچا۔
"پریہان کیا ہوا۔۔" کمرے میں اداس بیٹھی پریہان پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی طرف بڑھا۔ ساری سختی اور پتھریلا لہجہ پریہان کو دیکھتے ہی نرمی میں لپٹ جاتا تھا۔ اس کے سوال پر وہ گیلا سانس بھر کر آنکھوں کی نمی صاف کرنے لگی۔
"وقار انکل کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔ افان بھائی کافی وقت سے پتا کروا رہے تھے، اب کسی نے بتایا ہے کچھ ماہ پہلے ڈیتھ ہوئی اور کسی جاننے والے نے ان کو دفنا دیا۔ جانے کس حال میں مرے اور دفن کفن کیسا ہوا ہو گا۔۔" وہ بھیگی آنکھوں کو صاف کرتی بتا رہی تھی۔
"مامام توتوم۔۔ (ماما دودھ) رباض ماں کی گود میں چڑھ کر لیٹتے ہی ہاتھ سے سامنے ٹیبل پر پڑے فیڈر کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ حویلی کا ہر کونا چھان کر، ملازمین کو اپنے پیچھے خوار کر کے اب اسے بھوک لگ رہی تھی، ایسا شاہانہ مزاج تھا کہ ماں باپ کو بھی انگلی کے اشارے سے حکم صادر کر دیتا تھا۔
خانزادہ نے فیڈر اٹھا کر رباض کے منہ میں دے دیا، پھولے پھولے ہاتھوں سے فیڈر پکڑ کر وہ تیزرفتاری سے دودھ پینے لگا۔ خانزادہ پریہان کے پاس بیٹھ گیا۔
"اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت میں جگہ دے۔۔ پریہان دیکھا جائے تو ان کی زندگی بھی کافی مشکل میں تھی، موت سب کے لیے بھیانک نہیں ہوتی کچھ لوگوں کے لیے موت دنیا کی سختیوں سے نجات کا آسان زریعہ ہوتی ہے۔۔" اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے نرمی سے سمجھانے لگا۔ وقار صاحب باپ نہیں تھے مگر ایک عرصہ باپ کی طرح برتاؤ کیا تھا۔
چاہے جو بھی لالچ تھا مگر انہوں نے پُروا اور پریہان کو اکیلے وقت میں پیار سے سنبھالا تھا۔
کچھ گناہوں کی سزا اللّٰہ زندگی میں ہی دے دیتا ہے۔ وہ بھی اپنے اعمال کی سزا زندگی میں بھگت چکے تھے، شاید یہ شائستہ بیگم کی موت سے پہلے کی آہ تھی کہ وہ بھی اکیلے زندگی سے لڑ کر مر گئے اور دفنانے کے لیے کوئی اپنا موجود ہی نہیں تھا۔
پریہان نے خانزادہ کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ وہ نرمی سے اس کے ماتھے پر لب رکھتا تسلی دیتا رہا۔ انگلیاں اس کے بالوں میں چلاتے ہوئے اس کی اداسی ختم کرنا چاہ رہا تھا۔
رباض دودھ پیتے پیتے ہی سو گیا۔ پریہان خانزادہ سے چھوٹی موٹی باتیں کرتی کافی حد تک نارمل ہو گئی۔
زندگی نے ایک بات تو اسے اچھے سے سمجھا دی تھی، کہ ہر انسان کہیں نا کہیں اپنے کیے اعمال کی سزا و جزا بھگت رہا ہے۔ یہ تو پھر دنیا تھی۔ یہاں کی سزا تو بہت کم ہے، اس کے مقابلے میں جو روز آخرت انجام ہو گا۔
ہم چھوٹے موٹے گناہ کرتے اکثر سوچ لیتے ہیں، توبہ کر لیں گے۔ قیامت تو ابھی دور ہے۔
جس انسان کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے اس کے لیے وہی دن آخری اور اگلا قیامت کا دن ہے۔۔
اور توبہ۔۔ توبہ کی مہلت اور توفیق اللّٰہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ بخشش کر نے والا ہے۔۔
شیطان نے اکڑ دکھائی، سزا یافتہ ہوا۔ اب پچھتانے لگا مگر وقت پلٹا نہیں، بول دیا اللّٰہ تیرے بندوں کو بھی بہکاؤں گا۔ وہ انسان جس کی وجہ سے وہ سزا یافتہ ہوا اس انسان کو بہکانے اور گناہ پر مائل کرنے کی ضد لگا لی۔ اپنے مقصد میں ہر حربہ آزمانے لگا۔۔
اللّٰہ نے کہہ دیا کہ انسان جب تک توبہ کرتا رہے گا، میں اس کے گناہ معاف کرتا رہوں گا۔۔ اللّٰه أكبر
انسان نے گناہ کیا، احساس ہوا، جھک گیا معافی مانگی اور اللّٰہ نے معاف کر دیا۔ یہ ہمارا پیدا کرنے والا ہے۔۔
مہربان اور رحمٰن۔۔ توبہ کی مہلت دیتا ہے اور توبہ قبول کرتا ہے۔ ہم نادان انسان اس کی رحمتوں اور مہربانیوں کو ٹھکرائے شیطان کے پیچھے دوڑتے چلے جاتے ہیں اور ہمارا اللّٰہ ہماری توبہ اور لوٹ آنے کا منتظر ہوتا ہے۔ جہاں انسان لڑکھڑایا۔۔
جہاں دنیا کا دھوکہ سمجھ لیا۔ اللّٰہ کو پکارتا ہے اور وہ اللّٰہ اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔ سبحان اللّٰه
مگر یہ یاد رکھنا انسان کا کام ہے کہ توبہ کی مہلت تب تک ہے جب تک موت نا آ جائے اور ہم دنیا میں مگن نادان لوگ کیا جانتے ہیں کہ کب ہماری موت طے ہے۔۔؟
مرنے سے کچھ وقت پہلے آنکھوں پر سفید پردہ پڑ جاتا ہے اور انسان دنیا میں ہی اپنا اگلا مقام دیکھ لیتا ہے۔۔ یہ وہ وقت ہے جب سانس ابھی باقی ہوتی ہے، جب توبہ اور معافی کی طلب ہوتی ہے، گناہوں کے احساس سے انسان تڑپتا ہے، مچلتا ہے مگر مہلت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ استغفر اللّٰه استغفر اللّٰه
اللّٰہ اس وقت آخر سے پہلے توبہ کی توفیق دے اور مہلت دے کہ ہم اپنے گناہوں کو دھو سکیں۔۔ آمین
••••••ختم شد•••••••
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Qaid E Ishq Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Qaid E Ishq written by Yaman Eva.Qaid E Ishq by Yaman Eva is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment