Ishq Aatish By Sadia Rajpoot New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday, 5 August 2024

Ishq Aatish By Sadia Rajpoot New Complete Romantic Novel

 Ishq Aatish By Sadia Rajpoot New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Aatish By Sadia Rajpoot Complete Romantic Novel 

Novel Name: Ishq Aatish 

Writer Name: Sadia Rajpoot

Category: Complete Novel

کون کہتا ہے زندگی سمجھی اور سمجھائی نہیں جا سکتی.جبكے مردہ جسموں سے بھرے قبرستان قدرت کی یونیورسٹیز ہیں اور دو گز زمین تلے دبا ہر شخص زندگی کا پروفیسر.

تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم پیدا ہوتے ہیں،مر جاتے ہیں پر جی نہیں پاتے کہ ہم نے تو بس وقت کو جینا سیکھا ہے.زندگی کو تو ہم نے کبھی جیا ہی نہیں اور جب یہی وقت ہمارے پاس ختم ہوجاتا ہے تو سوچتے ہیں كہ ہم جو عمر بھر وقت كے کتابچے میں نفع و نقصان درج کرتے رہے تو وہ کونسا پیمانہ تھا جو اِس ناپ تول كے کام آیا؟اور کیا کوئی ایسا فارمولا بھی ہے جو بتا سکے كہ نفع فائدے كے سوا کچھ بھی نہیں اور نقصان تو بس نقصان ہی دے سکتا ہے.جبكے سچ تو یہ ہے كہ زندگی نفع دیتی ہی کب ہے؟یہ تو سودا ہی گھاٹے کا ہے،ہم تو عدم میں بہت آرام سے تھے پھر اِس زندگی كے ہاتھوں وجود میں بَدَل کر اِس متضاد دُنیا میں آئے یعنی آزمائش میں ڈالے گئے اور آزمائش میں نا تو منافع کی امید ہوتی ہے اور نا نقصان کی.مگر حیرت ہے پھر بھی ہم خسارے کی فہرست مرتب کرتے رہے.

زندگی کو تو جیسا گزارنا تھا،ویسے ہی گزر جاتی...کم اَز کم وقت رخصت یہ خلش تو نا ہوتی كہ ہم نے جو نقصان کا کھاتہ بند کردیا ہوتا تو شاید زندگی کچھ سہل ہوجاتی.مگر ہم سمجھتے ہی نہیں اور وقت ہے كہ ختم ہوتا جاتا ہے.کبھی دوسرے کا تو کبھی ہمارا...صدیوں سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے.ہم آتے ہیں..سیدھے راستوں کو خود اپنے لیے پیچیدہ بناتے ہیں اور یہ کہتے گزر جاتے ہیں.

اب جو دیکھیں تو کوئی ایسی بڑی بات نا تھی 

یہ شب و روز،ماہ و سال کا پر پیچ سفر 

قدرے آسان بھی ہوسکتا تھا 

ہم ذرا دھیان سے چلتے تو وہ گھر 

جس كے دَر و بام پہ ویرانی ہے 

جس كے ہر طاق پہ رکھی ہوئی حیرانی ہے 

جس کی ہر صبح میں شاموں کی پریشانی ہے 

اس میں ہم چین سے آباد بھی ہوسکتے تھے 

اب جو دیکھیں تو بہت صاف نظر آتے ہیں 

سارے منظر بھی،پس منظر بھی 

لیکن اِس دیر خیالی کا صلہ کیا ھوگا 

وہ جو ھونا تھا ہوا،ہو بھی چکا 

لائنیں کٹتی رہیں،لفظ بدلنے كے سبب 

حاصل عمر یہی چند ادھورے خاکے 

کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پائی 

ملیحہ فاروقی 26 مئى 1977

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وہ ہاتھ میں بوکے پکڑے اجنبی چہروں كے درمیان کسی شناسا چہرے کو ڈھونڈ رہی تھی كے کسی نے اسکا نام پکارا 

"تانیا..!" 

وہ مڑی اور آواز کی سمت دیکھ کر جوش سے ہاتھ ہلایا 

"فائزہ...!"دونوں نے ایک دوسرے كے سمت قدم بڑھائے اور قریب آنے پر گلے لگ گئیں 

"بھائی کی انگیجمنٹ مبارک ہو"تانیا نے الگ ہوتے ہوئے کہا 

"تھینکس" فائزہ نے مسکرا کر مبارک باد قبول کی. 

"چلو تمہیں اپنی ہونی والی بھابھی سے ملواؤں"پھر تانیا کا ہاتھ پکڑ کر سٹیج پہ چڑھ گئی.تانیا نے فائزہ كے بھائی کو وش کر كے اسکے ساتھ بیٹھی سجی سنواری اور کچھ شرمائی سی لڑکی کو بوکے پیش کیا اور پھر چند جملوں كے تبادلے كے بعد فائزہ كے ساتھ ہی سٹیج سے اُتَر گئی

"تمھاری ممی نظر نہیں آرہیں" 

"ابھی تو یہیں تھیں"فائزہ نے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا پِھر تانیا کو لیے آگے بڑھ گئی 

"سنو..!"تانیا نے اسے مخاطب کیا جو چلتے چلتے رک کر مہمانوں سے حال احوال بھی دریافت کرتی جارہی تھی 

"ہوں"فائزہ نے اسکی طرف دیکھ کر کہا 

"وہ نہیں آیا؟" 

"کون..؟کس کی بات کررہی ہو؟"وہ مسکراہٹ دبا کر حیران بنتے ہوئے بولی 

"تمھارے کزن کی"تانیا نے سنجیدگی سے کہا.فائزہ مستقل شرارت كے موڈ میں تھی 

"میرے تو سب ہی کزنز یہاں ہیں"فائزہ کی لا پرواہی عروج پر تھی 

"میں شایان کا پوچھ رہی ہوں"بلآخر تانیا نے چڑ کر کہا 

"اچھا تو یوں کہو نا"اسکے بن کر بولنے پر تانیا نے اسے ہاتھ جڑ دیا

"مار کیوں رہی ہو؟... بس آتا ہی ھوگا.ویسے بھی اسکی پولیس ٹریننگ ہی ختم ہوئی ہے،ابھی پوسٹنگ كے آرڈرز نہیں آئے اور ایسے فارغ بندے كے لیے دعوت اڑانے سے اچھی اور کیا مصروفیات ھوسکتی ہیں؟" 

بات ختم کرتے ہی وہ پیچھے ہٹی کہیں تانیا شایان کی حمایت میں اسے اک تھپڑ اور نا جڑ دے.تانیا نے اسے گھورا مگر پھر قصداْ نظراندازِ کرتے ہوئے پوچھا 

"ایک بات تو بتاؤ" 

"پوچھو"صورت حال قابو میں دیکھ کر فائزہ اسکے برابر آ کھڑی ہوئی 

"شایان کس رشتے سے تمہارا کزن ہے؟" 

"اصل میں میری ممی،شایان کی مدر کی کزن ہیں" 

"اچھا"سَر ہلاتے ہوئے تانیا نے سامنے دیکھا تو اسکی نظر ڈنر سوٹ میں ملبوس شایان كے دراز قامت وجود پر پڑی.اس نے فائزہ کو پکڑ کر جھنجوڑ دیا 

"شایان آگیا" 

"شکر ہے.نہیں تو تم مجھے مار ڈالتیں" 

"بكو مت"تانیا نے شایان کو دیکھتے ہوئے اسے ڈانٹا جو سیدھا ان ہی کی طرف آ رہا تھا

"کیا ہورہا ہے؟"وہ پاس آ کر بولا 

"تمھارے آنے کی خوشی میں تانیا میرا گلا دبانے والی ہے"فائزہ بے چارگی سے بولی.شایان نے پہلے اسکی شکل دیکھی پِھر تانیا کی جس كے دونوں ہاتھ پیچھے سے فائزہ كے شانوں پر تھے.تانیا نے بدک کر اپنے ہاتھ ہٹائے اور زور سے اسے دھکا دے کر بولی 

"دفعہ ہوجاؤ" 

"ہاں ہورہی ہوں.ویسی بھی تم جیسے کبابوں کی ہڈی بننے میں اپنا ہی نقصان ہے.اور ہاں" جاتے جاتے وہ بولی "یہاں سے ہلنا مت.میں ممی کو لے کر آتی ہوں" 

وہ چلی گئی تو شایان نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا 

"کیا تم واقعی اسکو مار رہی تھیں؟" 

"بیکار کی باتیں مت کرو"تانیا برا منہ بنا کر بولی "تمہیں نہیں پتا،اسے ایکٹنگ کرنے کا کتنا شوق ہے" 

"تانیا!" کچھ پل کی خاموشی كے بعد شایان نے اسے پکارا تو وہ سَر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی "اک بات کہوں؟" 

"کہو"شولڈر کٹ بالوں کو چہرے سے ہٹا کر وہ سنجیدگی سے اسکی طرف متواجہ ہو کر بولی تو وہ دھیرے سے مسکرا کر بولا 

"پہلی بار تمہیں یوں سجرے سنوارے روپ میں دیکھ رہا ہوں.اچھی لگ رہی ہو" 

وہ پزل ہوگئی.واقعی وہ بہت سدا سے حولیے میں رہا کرتی تھی.اپنی طرف سے خاصی لاپرواہ.لیکن آج خلاف معمول ہلکی امبرویڈیری كے شیفون کی شلوار قمیض میں ڈوپٹہ کندھوں پر ڈالے ہلکے میک اپ كے ساتھ میچنگ جیولری پہنے کافی مختلف لگ رہی تھی

اور تو اور آج بال بھی بینڈ کی قید سے آزاد شانوں پر لہرا رہے تھے.شایان كے اِس قدرے ڈائریکٹ جملے پر حالانکہ وہ بس اک پل کو ہی گڑبڑائی تھی،پِھر بھی محظوظ سی ہنسی ہنس کر تانیا نے خفگی سے اسکی سمت دیکھا 

"کیا یہی کہنا تھا؟"وہ فوراً بولی

"نہیں.کہنا تو کچھ اور ہےپر سوچا تمھاری تھوڑی سی تعریف کردوں.سنا ہے لڑکیوں کو اپنی تعریف بہت اچھی لگتی ہے.پِھر ان سے جو بھی کہا جائے وہ فوراً مان جاتی ہیں" 

"تم کیا منوانا چاہتے ہو؟"شایان کی بات سے قیاس لگا کر اس نے آئی برو اچھکا کر پوچھا.کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ کچھ پل چُپ رہا جیسے الفاظ ترتیب دے رہا ہو.پِھر دھیرے دھیرے بولنے لگا

"تانیہ! میں نہیں جانتا،میں نے کب اس طرح سے سوچنا شروع کیا مگر یہ بات میرے دل میں بہت عرصے سے تھی۔بس کبھی کہا نہیں۔سوچا مناسب وقت آنے پر تم سے کہوں گا" کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے "وقت پتہ نہیں مناسب ہے یا نہیں مگر میں اب اور انتظار نہیں کر سکتا" اپنی بات کے آخر میں اس نے تانیہ کی طرف دیکھا جو یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی۔شایان کا گمبھیر لہجہ،سحر زدہ الفاظ اور آنکھوں کا والہانہ پن۔تانیہ کو لگا،شایان آج وہ سب کہہ دے گا جسے سننے کی خواہش تین سال سے اسکے دل میں تھی

"تانیہ۔۔! میں تم سے۔۔۔۔۔"

"ایکسکیوز می پلیز" فائزہ کی تیز آواز سے طلسم ٹوٹ گیا اور وہ دونوں چونک کر اس کی طرف مڑے جو قدرے بھاری جسامت والے مگر گریس فل مرد کا ہاتھ پکڑے انکی طرف آتی دور سے ہی چلائی تھی

"ممی تو بزی ہیں،مگر دیکھو میں پاپا کو لے آئی ہوں" وہ بولتے ہوئے انکے پاس آکر رکی،پھر تعارف کرانے لگی

"تانیہ!ان سے ملو۔یہ میرے پاپا ہیں" پھر تانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

"اور پاپا۔۔!یہ میری بیسٹ فرینڈ تانیہ فاروقی۔موسٹ ایلجیبل بزنس مین نور الہدیٰ فاروقی کی بیٹی ہم دونوں ایم بی اے کلاسز میں ساتھ ساتھ تھے" فائزہ کی بات پر وہ بری طرح چونکے

"تم نور الہدیٰ کی بیٹی ہو؟"

"جی"

نور الہدیٰ فاروقی ایک مشہور شخصیت تھے اور اکثر تانیہ کے بتانے پر انکے حوالے پر لوگ چونک کر یہ سوال کرتے تھے اس لئے تانیہ نے کچھ خاص نوٹس نہ لیا

"کیا آپ میرے پاپا کو جانتے ہیں؟"

"انہیں کون نہیں جانتا؟" اب وہ سنبھل کر بول رہے تھے

"ہی از دا لیڈنگ انڈسٹریلسٹ آف دا کنٹری اور لاسٹ ویک بزنس میگزین میں جو انکا انٹرویو چھپا تھا،کمال کا تھا۔وہ بہت سے لوگوں کے لیے انسپریشن ہیں۔اینی وے ایم بی اے تو کمپلیٹ ہوگیا،اب کیا کررہی ہو؟"

اپنے پاپا کی تعریف پر اسے فطری طور پر خوشی ہورہی تھی۔انکی بات کے جواب میں وہ مسکرا کر بولی

"پاپا کا آفس جوائن کرلیا ہے"

"گڈ" وہ خوش دلی سے بولے

"اوکے بیٹا! مجھے کچھ اور مہمانوں کو بھی وقت دینا ہے۔تم لوگ انجوائے کرو" وہ ناقابلِ فہم انداز میں مسکراتے ہوئے چلے گئے تو تانیہ کو یک دم سے شایان کا خیال آیا۔وہ پلٹی مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔اس نے تیزی سے نظریں دوڑائیں مگر شایان کہیں نظر نہیں آیا

"کیا بات ہے؟" فائزہ نے اسے کچھ ڈھونڈتے پا کر پوچھا

"شایان ابھی تو یہیں تھا۔کہاں چلا گیا؟"

"ارے ہاں۔یہ اچانک کہاں غائب ہوگیا؟"

تانیہ اسکی بات کو ان سنا کرتے ہوئے شایان کی تلاش میں گیٹ تک آئی تو اس نے شایان کو ہال سے باہر جاتے دیکھا 

"شایان!بات سنو" وہ بے ساختہ پکاری مگر شایان نے جیسے سنا ہی نہ ہو اور باہر نکلتا چلا گیا۔تانیہ اسکے پیچھے لپکی مگر جب وہ باہر آئی شایان اپنی بائیک پر بیٹھ کر جاچکا تھا۔اس خیال نے تانیہ کو آزردہ کردیا کہ وہ کچھ کہے بغیر ہی چلا گیا تھا۔وہ کتنی ہی دیر اندھیرے میں بے حس و حرکت کھڑی رہی

~~~~~~~~~~~~~~~~

وہ کب سے شایان کے موبائل پر کال کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر دوسری طرف فون بند تھا 

"آجاؤ"دروازے پر دستک کی آواز سن کر اس نے بلند آواز میں بے زاری سے کہا اور پھر سے موبائل پر نمبر ملایا

"جی ماما!" دروازہ کھول کر اپنی ماما کو اندر آتے دیکھ کر اس نے موبائل نیچے کر دیا

"دو بار خدیجہ کو تمہیں بلانے کے لیے بھیج چکی ہوں۔آکر کھانا تو کھالو تانیہ!"انہوں نے اسے سرزنش کی

"آپ چلیں۔۔میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں"وہ زچ ہورہی تھی۔آخر شایان نے موبائل آف کیوں کیا ہے؟

"جب سے آفس سے آئی ہو،فون سے چپک کر بیٹھی ہو۔آخر کس کو فون کررہی ہو؟" 

"ایک دوست کو،جس ایڈیٹ نے پرسوں سے اپنا موبائل بند رکھا ہوا ہے اور میں اس سے بھی بڑی ایڈیٹ ہوں جو بار بار اسکا نمبر ٹرائی کررہی ہوں" موبائل سے نظر ہٹائے بغیر تانیہ نے کہا اور دوبارہ نمبر ڈائل کرنے لگی تو ماما نے آگے بڑھ کر موبائل اسکے ہاتھ سے لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا

"فون بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔اب چلو تمہارے پاپا انتظار کررہے ہیں"

"پاپا آگئے؟" وہ گود میں رکھا تکیہ بیڈ پر رکھ کر اٹھ گئی

"ہاں۔اور تم پانچ منٹ میں نیچے آجاؤ۔ورنہ میں تمہارے پاپا کو بھیجتی ہوں"وہ دھمکی آمیز انداز میں کہہ کر کمرے سے چلی گئیں تو تانیہ نے بھی فٹافٹ منہ ہاتھ دھویا اور بال کلپ میں جکڑ کر نیچے ڈائننگ روم میں آگئی اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے نور الہدیٰ سے کہا

"کیا بات ہے پاپا!آج آپ نو بجے ہی گھر پر نظر آرہے ہیں"

"بس بیٹا۔۔! گھڑی نے دھوکا دے دیا۔ورنہ میں تو بارہ بجنے کے بعد ہی گھر آیا تھا۔شاید اٹک گئی ہے"

تانیہ کے شرارتی انداز میں پوچھنے پر وہ سنجیدگی سے بولتے ہوئے آخر میں یوں انگلی سے کلائی پر بندھی گھڑی کو ٹھونکنے لگے جیسے گھڑی واقعی اٹک گئی ہو۔مریم انکے مذاق کو سمجھ کر خفگی سے بولیں

"کیوں؟بارہ بجے سے پہلے گھر آنے پر پابندی ہے؟"مزے سے ہنستی تانیہ نے ایک دم منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی اور محظوظ انداز میں نور الہدیٰ کی طرف دیکھنے لگی جو پہلے ہی جیسی سنجیدگی سے بولے

"نہیں۔۔لیکن پابندی تو بارہ بجے کے بعد آنے پر بھی نہیں ہے"مریم سلگ کر زور سے بولیں

"بہادر پانی ابھی تک ٹیبل پر نہیں پہنچا" 

"بس پاپا اب خیریت اسی میں ہے کہ چپ کرکے کھانا کھالیں ورنہ آپکو ماما سے زبردست ڈانٹ پڑ سکتی ہے"

"مشورہ تو بہت اچھا ہے تانیہ پر بات یہ ہے کہ تمہاری ماما کو مجھے ڈانٹنا پسند ہے اور مجھے ان سے ڈانٹ سننا"

"نور الہدیٰ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے"انکے ٹوکنے پر نور الہدیٰ نے فرمابرداری سے سامنے رکھی پلیٹ میں سالن ڈالا اور چپاتیوں کے لیے ہاتھ بڑھایا

"تمہارے صاحبزادے نظر نہیں آرہے۔کہاں ہیں؟"

"وہاں" مریم نے سامنے ٹی وی کی طرف اشارہ کیا جس پر پاکستان انڈیا کرکٹ میچ لائیو ٹیلی کاسٹ ہورہا تھا۔دونوں نے ٹی وی کی طرف دیکھا اس اور تانیہ حیرت سے بولی

"ٹی وی میں؟"

"ٹی وی میں نہیں اسٹیڈیم میں۔دوستوں کے ساتھ میچ دیکھنے گئے ہیں"وہ تانیہ کی پلیٹ میں سالن ڈالنے لگی جو اب تک خالی تھی

"دادا جان بھی ساتھ گئے ہیں؟"

"وہ اپنے کمرے میں ہیں۔آج پھر ڈپریشن کا دورہ پڑا ہے۔صبح سے دروازہ بند کرکے بیٹھے ہیں۔کتنی بار انکا دروازہ بجا چکی ہوں مگر وہ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے"

دادا جان کے اس طرزِ عمل کے سبھی عادی تھے نور الہدیٰ کسی تاثر کے بغیر کھانا کھارہے تھے لیکن تانیہ نے سامنے رکھے کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا

"پتہ نہیں دادا جان کو ایک دم سے کیا ہو جاتا ہے؟ کیوں خود کو کمرے میں بند کرلیتے ہیں؟ پھر اگلے کئی دنوں تک انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔پاپا!آپکو پتہ ہے دادا جان ایسا کیوں کرتے ہیں؟"تانیہ افسردگی سے نور الہدیٰ سے پوچھنے لگی۔کھانا کھاتے ہوئے ایک پل کو نور الہدیٰ کا ہاتھ رکا پھر تلخی سے بولے

"ہونگے عمر رفتہ کے کچھ زخم جو بے کل کرتے ہونگے۔اس عمر میں یوں بھی آدمی کے پاس پچھتانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے"تانیہ کو انکا انداز اور بات دونوں ناگوار گزرے۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی

"میں دادا جان کو لے کر آتی ہوں.انہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ھوگا"پِھر کسی کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے چلی گئی

لاونج میں دائیں اور بائیں دونوں طرف سیڑھیاں تھیں.دائیں طرف کی سیڑھیاں اوپر منزل كے کوریڈور سے جڑی تھی جب كے بائیں جانب کی بیسمنٹ میں،بیسمنٹ کی انہیں سیڑھیوں كے اک جانب اظہر فاروقی کا کمرا تھا.تانیا کی کئی بار دستکوں كے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نا آیا. 

"دروازہ کھولیے دادا جان"مگر اندر خاموشی کا راج تھا 

"میں آپکو لینے آئی ہوں اور لیے بغیر نہیں جائوں گی" 

جواب ندارد 

"ٹھیک ہے،آپکو دروازہ نہیں کھولنا تو نا کھولئیں.میں بھی یہیں دروازے كے پاس بیٹھی رہونگی" 

اور پِھر وہ دروازے كے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی.اگلے کچھ اور پلوں کی خاموشی كے بعد ہلکی سی کِلک کی آواز كے ساتھ دروازہ کھل گیا.تانیا نے سَر اٹھا کر دیکھا تو اظہر فاروقی ذرا سا دروازہ کھول کر چہرہ باہر نکالے اسے دیکھ رہے تھے.

"اندر آجاؤ"اتنا کہہ کر وہ دروازہ کھلا چھوڑ کر واپس مڑ گئے۔تانیہ اندر چلی گئی

"بیٹھو"انہوں نے تانیہ سے بیٹھنے کو کہا تو اسکو محسوس ہوا جیسے انکی آواز رندھی ہوئی ہے۔انکے چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے۔آنکھیں جھکا رکھی تھیں۔تانیہ کو اندازہ تھا کہ وہ سرخ ہورہی ہونگی۔

ہر بار کی قید تنہائی کے بعد انکی حالت ایسے ہی دگرگوں ہوا کرتی تھی۔وہ ریٹائرڈ کرنل تھے اور انکی بارعب شخصیت سے جاہ پسندی ٹپکتی تھی۔ستتر برس کی عمر میں بھی انکی صحت قابلِ رشک تھی۔کچھ سالوں سے بلڈ پریشر کے مسئلے کے سوا انکو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔البتہ عمر کی زیادتی کی وجہ سے انکے شانے قدرے جھک گئے تھے مگر انکے رعب،دبدبے اور شخصیت سے یکسر مختلف تانیہ نے ہمیشہ انہیں نرم مزاج ہی پایا تھا۔انکی کڑکڑاتی آواز تانیہ نے سرگوشیوں جیسی دھیمی ہی سنی تھی۔گو ملال کی ایک مستقل کیفیت انکے سرخ و سفید چہرے کی مکین تھی پھر بھی تانیہ کو وہ چٹان کی طرح مضبوط لگا کرتے تھے۔مگر اس وقت وہ بے حد کمزور اور شکستہ دکھائی دے رہے تھے۔تانیہ بیڈ کے کونے پر ٹک گئی۔وہ آہستہ سے چلتے آتش دان کے پاس کرسی کے ساتھ رکھی تپائی تک آئے۔اس پر کھلی پڑی ریڈ کور کی ڈائری اٹھائی اور اسی طرح چلتے اسٹڈی ٹیبل تک آگئے۔ڈائری کو دراز میں رکھ کر لوک کیا اور چابی ہاتھ میں لے لی پھر تانیہ کو مخاطب کئے بغیر کہا

"میں فریش ہوکر آتا ہوں"اور باتھ روم میں چلے گئے۔تانیہ نے غیر دلچسپی سے یہاں وہاں سر گھمایا،پھر ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر آتش دان کے اوپر لگی تصویر کو دیکھنے لگی۔

کچھ ہی دیر میں اظہر فاروقی کمرے میں آگئے

"آؤ چلیں"

ساتھ ساتھ دونوں کو ڈائننگ روم کے دروازے سے آتا دیکھ کر نور الہدیٰ کا منہ کی طرف جاتا ہاتھ وہیں رک گیا انہوں نے نوالہ پلیٹ میں رکھا اور عجیب سی نظروں سے اظہر فاروقی کو دیکھنے لگے۔انہیں کرسی پر بٹھاتے تانیہ نے اپنے پاپا کو دیکھا تو ٹھٹک گئی۔دوسری طرف نور الہدیٰ نے اسکی نگاہوں کو محسوس کرکے آنکھیں جھکاتے ہوئے پلیٹ سے نوالہ اٹھا کر منہ میں رکھا مگر اسے نگلنے کے لیے پانی کا سہارا لینا پڑا۔تانیہ انہیں نظر انداز کر کے خود بھی بیٹھ گئی۔اظہر فاروقی کی پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے اٹھلاتے ہوئے مریم سے کہا

"دیکھا ماما!میں نے کہا تو دادا جان فوراً آگئے۔دادا جان کبھی میری بات ٹال نہیں سکتے"

"پر جس کی ماننی چاہئے تھی اسکی تو انہوں نے کبھی نہیں مانی" نور الہدیٰ کے لہجے کی ترشی کو دونوں ماں بیٹی نے محسوس کیا تھا مگر اس گھر کے غیر اعلانیہ قوانین میں ایک قانون یہ بھی تھا کہ ان باپ بیٹے کے معاملے میں کوئی کبھی نہیں بولے گا سو وہ دونوں خاموش رہیں

مگر دادا جان کے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس چھلک پڑا تھا۔تانیہ نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور گلاس انکے ہونٹوں سے لگا دیا۔پانی پیتے ہوئے اظہر فاروقی کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں

کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں سونے کے لیے آئی تو موبائل دیکھ کر اسے شایان کا خیال آیا۔بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے شایان کو فون کیا مگر اسکا سیل فون حسب سابق بند تھا

"بس بہت ہوگیا۔اب دوبارہ ٹرائی نہیں کرونگی"اس نے موبائل تکیے پر پٹخا اور دھپ سے لیٹ گئی۔پر صبح سب کچھ بھلائے وہ پھر سے شایان کا نمبر ٹرائی کرتی رہی

~~~~~~~~~~~~~~~~

"فائزہ پلیز! میں پریشان ہوگئی ہوں پہلے تو اس نے فون بند کر رکھا تھا اور اب کال تو جاتی ہے مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا"

"ایک تو تانیہ! تم نا ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہوجاتی ہو"

"یہ ذرا سی بات ہے؟"وہ بھڑک گئی "پچھلے دو ہفتوں سے میں پاگلوں کی طرح اسے کال ملا رہی ہوں اور وہ جناب فون ہی نہیں اٹھا رہے"

"بھئی ہوسکتا ہے وہ بزی ہو"فائزہ نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا پر وہ اور بدک گئی

"بیٹھے بٹھائے اے ایس پی صاحب نے ایسی کیا مصروفیت ایجاد کر لی ہے جو فون نہیں اٹھا سکتے؟"

"افوہ۔۔تمہاری سوئی تو ایک ہی جگہ پر اٹک گئی ہے۔اب فون رکھو۔میرا باس سارا کام چھوڑ کر مجھے اپنی الو جیسی آنکھوں سے گھور رہا ہے۔نوکری سے نکلواؤگی؟"

"زیادہ اوور ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں بھی آفس میں ہی بیٹھی ہوں"

"وہ تمہارے پاپا کا ہے جبکہ میرا باس میرا چاچا بننے کو بھی تیار نہیں"

"اچھا ٹھیک ہے۔تم مجھے شایان کے گھر کا نمبر دو۔پھر میں فون رکھتی ہوں"

"گھر کا نمبر کیوں؟"تانیہ نے بے اختیار دانت پیس کر کہا

"ویسے جلدی جلدی کی رٹ لگا رکھی ہے مگر کیوں؟ کس لیے؟ بھی پوچھنا ضروری ہے"پھر کچھ نارمل لہجے میں کہا

"دیکھو موبائل پر تو وہ کال ریسیو کر نہیں رہا،گھر کا فون تو اٹھائے گا"

"ہاں مگر میرے پاس اسکے گھر کا نمبر نہیں ہے"

"واٹ؟" وہ دھاڑی

"شایان تمہارا کزن ہے اور تمہارے پاس اسکے گھر کا نمبر نہیں ہے"

"ہے۔مگر وہ پرانا والا ہے۔نیا مجھے یاد نہیں۔ممی کی ڈائری میں لکھا ہوگا"

"ٹھیک ہے۔گھر پہنچتے ہی مجھے فون کرنا"

"کروں گی اور اب فون رکھ دو۔بائے!"تانیہ نے فون رکھ دیا۔تبھی کسی نے اسکے آفس کے دروازے پر دستک دی

"کم ان"اس نے سر اٹھائے بغیر کہا۔کوئی دروازہ کھول کر آفس میں آیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کرکے وہ تانیہ کے متوجہ ہونے کا انتظار کرنے لگا

تانیہ نے کسی کی آمد کو تو محسوس کیا پھر جب کوئی آواز نہیں آئی تو اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔سترہ اٹھارہ سال کا صاف رنگت والا لمبا مگر دبلا لڑکا،گرے رنگ کی پینٹ پر اسی رنگ کی شرٹ پہنے بازو سینے پر لپیٹے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔تانیہ کو اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسکی طرف آگیا پھر ایک ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر جھکتے ہوئے بولا

"آپ کو ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلنا ہوگا"اسکی بات سن کر تانیہ دلچسپی سے مسکرائی اور ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر وہ ٹیبل پر آگے ہوئی،اسی کے انداز سے بولی

"اور اگر میں نہ جاؤں تو۔۔۔؟"

"تو میں آپکو زبردستی کندھوں پر اٹھا کر لے جاؤں گا"

"واقعی؟"تانیہ اطمینان سے بولی

"آزما لیں"ادھر اسکے اطمینان میں بھی کوئی فرق نہیں آیا

"تو ٹھیک ہے"تانیہ نے اپنی سیٹ پر پیچھے ہوتے ہوئے مسکراہٹ دبائی

"اٹھا کر لے جاؤ"اب اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔وہ آنکھیں سکیڑے تانیہ کو گھورتا رہا پھر سر جھٹک کر سیدھا ہوا اور دروازے کی طرف منہ کرکے زور سے بولا

"نمبر دو"ابھی اسکی آواز کی بازگشت باقی تھی کہ دروازہ کھلا اور اسکی عمر اور اسی جیسے حلیے والا قدرے سانولی رنگت کا اسکا ہم شکل کارپیٹ پر لڑھک گیا۔فرش پر پڑے لڑکے نے اپنے گوگلز کارپیٹ سے اٹھائے اور گٹھنوں پر سے پینٹ جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا

"عمیر کے بچے! تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے،مجھے نمبر دو نہ کہا کرو"عمیر آنکھیں پھاڑے کسی بت کی طرح ایک ہی سمت دیکھے جارہا تھا

"اب یہ اسٹیچو بنے کیوں کھڑے ہو؟" اس نے ٹوکا پھر خود بھی دیکھا تو فوراً ہی اپنے فرش نشین ہونے کی وجہ سمجھ آگئی

"مارے گئے"ایک دم اسکے منہ سے نکلا۔عمیر نے پیچھے سے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا

"بھاگ عزیر!" وہ دونوں بھاگ کر تانیہ کی چیئر کے پیچھے جا چھپے جو دونوں ہاتھ منہ پہ رکھے ہنسی روکنے کی کوشش میں لوٹ پوٹ ہورہی تھی

"باہر نکلو تم دونوں"دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر کھڑے نور الہدیٰ غصے سے بولے تو وہ دونوں لٹکے ہوئے چہروں کے ساتھ سامنے آگئے

"ان دونوں کو پارکنگ میں دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سیدھے تمہارے پاس ہی آئیں گے۔عمیر تو اندر تھا پر تمہیں پتہ ہے عزیر کیا کررہا تھا۔یہ واحبزادے گھٹنوں کے بل بیٹھے کی ہول سے تمہارے کمرے میں جھانک رہے تھے۔دیکھو زرا ان دونوں کی حرکتیں"تانیہ کو پتا تھا انکا غصہ مصنوعی ہے مگر اپنے بھائیوں کے اترے چہرے دیکھ کر بولی

"جانے دیں نا پاپا! بچے ہیں"مگر بیٹوں کی ردی ہوتی حالت انہیں اتنا محظوظ کررہی تھی کہ وہ مزید کھنچائی کرنے کے انداز میں بولے

"پہلے پوچھو ان سے یہ دونوں یہاں کیا کارنامہ کرنے آئے تھے؟"عزیر جلدی سے بولا

"ہم کارنامہ کرنے نہیں آئے پاپا!ہم تو آپی سے ملنے آئے تھے۔صبح ناشتے پر ان سے ملاقات نہیں ہوئی اس لیے دل بے چین سا تھا۔پھر کالج سے واپس آکر ہم نے سوچا،آپی سے آفس جا کر مل لیتے ہیں۔بول نا عمیر۔۔!"

اعلی پائے کی بکواس ایکٹنگ کرتے ہوئے اس نے عمیر سے مدد مانگی جو فوراً ہی مل گئی

"بالکل پاپا!یہ دو نمبر ٹھیک کہہ رہا ہے"

"تم نے پھر مجھے دو نمبر کہا"عزیر سب چھوڑ کر اسکے پیچھے پڑ گیا

"تم مجھ سے پورے پندرہ منٹ چھوٹے ہو تو ہوئے نا نمبر دو"

"ہاں" عزیر کی ہاں اس قدر مدبرانہ تھی جیسے یہ بات آج ہی اسکے علم میں آئی ہو

"تم دونوں پھر سے شروع ہوگئے" نور الہدیٰ انہیں ٹوکتے ہوئے تانیہ کی طرف مڑے

"یہ دونوں اگر پانچ منٹ اور آفس میں رہے تو بھونچال آجائے گا اور تمہیں لیے بغیر یہ ٹکیں گے نہیں۔اس لئے تم ان دونوں کے ساتھ جاؤ۔تمہارا کام طارق دیکھ لے گا"

"اوکے"تانیہ سر ہلا کر بولی تو عمیر جلدی سے آگے ہوا

"ہم صرف آپی کو لینے نہیں آئے۔آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں"وہ پلٹنے لگے تھے رک کر پوچھا

"خیریت؟"

"دادا جان کا برتھڈے ہے اور آپ ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔تو ہم نے سوچا اس بار آپکو خود ہی لینے آجاتے ہیں۔چلیں"

"سوری بیٹا!میں اس بار بھی نہیں آپاؤں گا"ایک پل میں انکے چہرے کے عضلات تن گئے تھے عمیر کو بہت برا لگا

"کیوں؟"

"میری فارن ڈیلیگیشن کے ساتھ میٹنگ ہے۔میں کیسے آ سکتا ہوں؟"

عزیر بچوں کی طرح منہ پھلا کر بولا"میٹنگ کینسل کردیں"

"سمجھا کرو بیٹا!! میٹنگ کینسل نہیں ہوسکتی"

"تو پھر آپ نے آج کے دن میٹنگ رکھی ہی کیوں؟جبکہ پتہ ہے 29 نومبر کو دادا جان کا برتھڈے ہوتا ہے اور ہم سب مناتے ہیں"اس سے پہلے وہ کچھ بولتے تانیہ نے کہا

"جانے دو عزیر!!پاپا نہیں آئیں گے۔میٹنگ واقعی بہت اہم ہے"نور الہدیٰ نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ جانتے تھے کہ تانیہ جانتی ہے کہ وہ جس فارن ڈیلیگیشن کی بات کررہے ہیں وہ کل دوپہر کو واپس جاچکا تھا اور اسی بات نے انہیں چونکایا تھا۔پھر انہوں نے تانیہ کا چہرہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ اس نے جو کچھ بھی کہا ہے انکا بھرم رکھنے کے لیے نہیں کہا بلکہ وہ ان پر جتا رہی ہے۔وہ شرمندہ ہوگئے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا

تانیہ نے اشارے سے عزیر اور عمیر کو چلنے کے لیے کہا اور خود وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی نور الہدیٰ کے سامنے جارکی

"آپ دادا جان کا برتھڈے کبھی نہیں بھولتے،ہے نا پاپا؟"انہوں نے بس اسے دیکھا اور چپ چاپ وہاں سے چلے گئے

۔۔۔۔۔۔۔ 

ہائی کلاس کی باقی خواتین کی طرح مریم فاروقی کو بھی سوشل ورک کا شوق تھا۔ہاں مگر یہ بات تو تھی کہ ترجیحات کی لسٹ میں انکے بچے سب سے پہلے آتے تھے۔کسی ورک شاپ اور کانفرنس کو انہوں نے کبھی بھی بچوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس دن بھی کلب کے ممبرز کی جوائنٹ میٹنگ تھی مگر وہ معذرت کرکے اٹھ گئیں۔انکے پہنچنے تک قصر فاروقی میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوچکا تھا۔

لان چیئرز کے ساتھ رکھے ٹیبل سے غباروں کا ایک گچھا بڑے اہتمام سے بندھا ہوا تھا۔اور شوخ رنگ کے ہر غبارے پر ہیپی برتھڈے لکھا نظر آرہا تھا۔راہداری میں بھی ایسے غبارے ہر جگہ بندھے تھے۔وہ ہر طرف کا جائزہ لیتیں سٹنگ روم میں پہنچیں جہاں رکھا بھاری فرنیچر نہ جانے کس طرح کھسکا کر من پسند کونوں میں گھسایا گیا جسکے بعد خالی پڑے قالین پر لکڑی کی اونچی پشت والی کرسی ایک چھوٹے سے ٹیبل کے ساتھ بالکل درمیان میں رکھی تھی۔جسکے سامنے اور دائیں بائیں کشن پڑے ہوئے تھے۔اور بہت سے غبارے اضافی آرائش کے طور پر یہاں بھی سجائے گئے تھے۔مریم فاروقی نے اپنا سر پیٹ لیا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے اس گھر میں؟... خدیجہ!...بہادر!... رشیدہ!" وہ ایک ایک کرکے تمام ملازموں کو آواز دینے لگیں۔ ایک ملازم کسی کونے سے نکل کر سامنے آیا۔

"جی بیگم صاحب!"

"یہ فرنیچر یہاں سے کیوں ہٹایا ہے؟..اور یہ غبارے کس نے باندھے ہیں؟"

"جی وہ..." مریم سمجھ گئیں۔

"اچھا تو یہ ان تینوں کی حرکت ہے۔ کہاں ہیں یہ تینوں؟" 

"کچن میں۔"

"اب وہاں یہ لوگ کیا طوفان مچائیں گے؟" وہ کچن کی طرف چل پڑیں۔

ڈائننگ روم سے باہر تک سنائی دیتے قہقہوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تینوں اپنی پسند کا کوئی کارنامہ کرچکے ہیں۔اور کچن کے دروازے سے داخل ہوتے ہی انکے خیال کی تصدیق بھی ہوگئی۔ کچن اس طرح پھیلا ہوا تھا جیسے دو طاقتور فوجوں کے بیچ گھمسان کا رن پڑا ہو۔ فرش پر پڑے عجیب سے آمیزے سے بچتے ہوئے انکی نظر بہادر پر پڑی۔

وہ دونوں پیر اٹھا کر اسٹول پر رکھے بیٹھا دونوں ہاتھوں سے اپنا کھچڑی بالوں والا سر پکڑ کر بند آنکھوں سے آگے پیچھے جھولتا ہوا جیسے اپنے اندر اٹھتے ابال کو دبانے کی کوشش کررہا تھا۔اس پر سے نظر ہٹا کر انہوں نے کچن ٹیبل کے گرد کھڑے اپنے سپوتوں کو دیکھا جو سامنے رکھی پلیٹ میں کوئلے جیسی چیز کو دیکھ کر بری طرح ہنس رہے تھے۔

"یہ کیا لگا رکھا ہے تم تینوں نے؟...اور یہ کیا چیز ہے؟" نہ چاہتے ہوئے بھی وہ جھڑک کر بولیں۔ساتھ ہی پلیٹ میں رکھے عجوبے کے بارے میں سوال کیا۔

"کیک۔" عزیر نے بڑی سادگی کے ساتھ یک لفظی جواب دیا۔جبکہ باقی دونوں صورت حال کی نزاکت کو دیکھ کر خاموش رہے۔

"یہ کیک ہے؟" وہ حیران ہوئیں۔ "کس نے بنایا ہے؟"

"آپی نے۔" وہ فوراً بولا۔

تانیہ نے کھینچ کر ہاتھ اسکی گدی پر مارا۔اس وارننگ کے ساتھ ہی اس نے بیان بدل دیا۔

"نہیں۔ عمیر نے۔"

"میں نے کب بنایا؟" اس نے آنکھیں دکھائیں۔

"تم لوگ کبھی چپ بھی کر جایا کرو۔"

"اور تم..." وہ تانیہ کی طرف مڑیں۔ "حد کرتی ہو تانیہ! بڑی ہو۔ بجائے اس کے کہ بھائیوں کو ٹوکو تم بھی انکے ساتھ مل گئیں۔"

"ہم تو بس دادا جان کے لیے برتھڈے کیک بنا رہے تھے۔" اس نے کمزور سی آواز میں صفائی دی۔

عمیر نے اسکے جملے کو اچک کر کہا۔ "وہ الگ بات ہے کہ اوون سے کوئلہ برآمد ہوا ہے۔" اور وہ تینوں کھی کھی کرکے ہنسنے لگے۔وہ کچھ نرم ہو کر بولیں۔

"کیک میں بیک کر دیتی ہوں مگر ایک شرط پر۔"

"کیا؟" تینوں ہم آواز ہوکر بولے

"جتنی دیر میں،میں فریش ہو کر آتی ہوں،تم تینوں کچن صاف کروگے اور بہادر صرف نگرانی کرے گا۔ اٹھو بہادر! اور دیکھنا ان میں سے کوئی بھاگنے نہ پائے۔" وہ جا چکی تو بہادر سینہ چوڑا کرکے اسٹول سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"چلیں عمیر صاحب! آپ فرش صاف کریں۔ اور تانیہ بی بی! آپ عزیر صاحب کے ساتھ مل کر برتن دھوئیں۔"

"اتنا ماروں گی نا،یاد رکھو گے۔" تانیہ نے دھمکانے کے انداز میں ہاتھ اٹھایا تو بے چارہ بہادر وہیں دبک گیا۔ عمیر نے ڈسٹر اٹھایا اور جا کر بہادر کے ہاتھ میں دے دیا۔

"چلیں بہادر صاحب! فرش صاف کریں۔ پھر آپ کو برتن بھی دھونے ہیں۔"

مریم واپس آئیں تو بہادر رگڑ رگڑ کر فرش صاف کررہا تھا۔انہوں نے تینوں کو گھورا جو خود بھی گڑبڑا گئے تھے۔

"کیا کہا تھا میں نے؟"

"ہم تو فرش صاف کررہے تھے،بہادر خود ہی...."

"شٹ اپ۔" انہوں نے تانیہ کو بیچ میں ہی چپ کرادیا۔ پھر بہادر کو ایک طرف اسٹول پر بیٹھنے کو کہا اور ان تینوں سے پورا کچن صاف کروایا۔

انکو کام کرتا دیکھ کر بہادر دانت نکال رہا تھا اور وہ تینوں اسکے دانت دیکھ کر آنکھیں۔ مگر مما کی موجودگی کی وجہ سے اسے کچھ کہہ نہیں سکے۔

وہ جب کیک بیک کر چکیں تو تینوں کو لے کر سٹنگ روم میں آگئیں اور انکی ارینجمنٹ کو چھیڑے بغیر انہی سے سارا فرنیچر اسکی جگہ پر رکھوایا۔ اٹھواتے وقت انہوں نے صرف آرڈر دیئے تھے۔اب خود بھاری فرنیچر اٹھانا پڑا تو عقل ٹھکانے آگئی۔

"ہائے ماما! بازو دکھ رہے ہیں۔" 

"جتنا چاہے شور مچالو، مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔" انہیں بھی پتہ تھا ماما پہ اثر نہیں ہوگا تو کراہنا چھوڑ کر کیرم لے کر بیٹھ گئے اور مریم کو بھی ملالیا۔

"نو بج گئے ہیں ماما! میں دادا جان کو بلا کر لاتی ہوں۔کیک کاٹ لیتے ہیں۔"

"اپنے پاپا کو تو آجانے دو۔" انکے ٹوکنے پر وہ تلخ لہجے میں بولی۔

"29 نومبر کے دن پاپا کی واپسی دو ڈھائی بجے سے پہلے نہیں ہوتی۔"

"مگر بابا جان تو ہر بار انکا پوچھتے ہیں۔" وہ رسان سے کہہ کر چپ ہوگئیں۔

"ٹھیک ہے۔ کیک نہیں کاٹیں گے۔ پر کھانا تو کھا سکتے ہیں۔" وہ اظہر فاروقی کو بلانے چلی گئی۔

دروازے پر ہلکی سی دستک كے بَعْد کوئی آواز نہیں ابھری تو تانیا نے دروازے کی نوب پر ہاتھ رکھ کر ذرا سا گھمایا اور دروازہ بے آواز کھلتا چلا گیا.کمرے کی ہلکی زرد روشنی میں تانیا نے اندر جھانکا تو نگاہ سیدھی قدیم طرز كے بنے گیس سے جلنے والے آتَش دان پر لگی تصویر پر پڑی اور ہمیشہ کی طرح آج بھی تانیا کو وہ تصویر سانس لیتی ہوئی محسوس ہوئی.اظہر فاروقی آتَش دان كے سامنے راکنگ چیئر پر بند آنكھوں كے ساتھ نیم دراز تھے.ریڈ ڈائری بند ان کے سینے پر رکھی تھی اور اک ہاتھ اس ڈائری پر تھا،دوسرا ہاتھ بے جان سے اندازِ میں انکی سنہری فریم کی عینک کو پکڑے گود میں پڑا تھا.

آتَش دان روشن تھا اور کمرے میں پہلی زَرْد روشنی اسی سے نکل رہی تھی جس نے ماحول کو پر اسرار بنا دیا تھا.تانیا نے آہِسْتَگی سے دروازہ بند کیا اور دبے قدموں چلتی ان کے سامنے کارپیٹ پر بیٹھ گئی.انہیں آواز دیتے ہوئے وہ ہچکیچا رہی تھی كہ کہیں وہ سو نا رہے ہوں.پِھر کچھ سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ ان کے گٹھنے پر رکھ دیا. 

اظہر فاروقی بہت زور سے چونکے.یہ اندازِ تو کسی کی پہچان تھا.انہوں نے تڑپ کر اپنی آنکھیں کھول دیں.مگر انہیں دکھائی ہی نہیں دیا.تانیا نے انہیں آنکھیں کھولتا دیکھ کر کچھ کہا تھا مگر انہیں کچھ سنائی ہی نہیں دیا.انکی آنکھیں کسی اور ہی منظر میں الجھ گئی تھیں.ان کے کان اس آواز کو سن رہے تھے جسے اک بار اور سن لینے کی خواہش برسوں سے ان کے دِل میں تھی.تانیا كے اک غیر اِرادی عمل نے انہیں بہت پیچھے دھکیل دیا

"ہیپی برتھڈے ٹو یو..ہیپی برتھڈے ٹو یو...ہیپی برتھڈے ٹو ڈیئر بابا...!" 

آتش دان كے سامنے راکنگ چیئر پر نیم دراز اظہر فاروقی نے اسکی گنگناتی آواز بھی سنی تھی اور اسکا اپنے قدموں میں بیٹھنا بھی محسوس کیا تھا لیکن پِھر بھی وہ آنکھیں بند کیے اس پل کا انتظار کرتے رہے جب وہ انکی ساری تھکن سمیٹ لیتی.اور پِھر اس نے بہت آہستہ سے ان کے گٹھنے پر ہاتھ رکھ دیا.اظہر فاورقی نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر آسمانی رنگ كے کپڑوں میں ملبوس اس آسمان کی پری کو دیکھا جس كے چہرے كے گرد بکھرے لمبے سنہری مائل گھنے بال رات اور چند کا عکس لگ رہے تھے.وہ دھیرے سے مسکرا دیئے.وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی. 

"ہیپی برتھڈے بابا جان." 

"تھینک یو بیٹا."وہ بولے اور شکایت کرنے لگے.

"تاریخ بدلنے میں اب بس چند منٹ ہی باقی ہیں.اب جا کر بابا کو وش کرنے کا خیال آیا ہے؟" 

"سوری بابا جان!مگر مجھے یاد تھا.بس ھادی بھائی کا انتظار کررہی تھی كے وہ آجائیں تو کیک ساتھ میں ہی کاٹیں گے."بولتے ہوئے وہ ذرا سا تپائی کی طرف کھسک گئی اور کیک پر لگی کینڈل کو جلانے كے لیے ماچس اٹھا لی.اظہر فاروقی نے سوال کیا. 

"نور الہدی ابھی نہیں آیا؟" 

"نہیں." 

"تو پِھر اسے آ جانے دو." 

ماچس جلاتے ہوئے اسکے ہاتھ وہیں رک گئے. 

"بابا جان!بارہ تو بس بجنے ہی والے ہیں اور سالگرہ تو اپنی تاریخ پر ہی اچھی لگتی ہے." 

"مگر انتظار کر لینے میں کوئی حرج نہیں."اپنی بات کہہ كے وہ اٹھے اور کھڑکی كے ساتھ رکھی اسٹڈی ٹیبل پر ترتیب سے رکھی کتابوں میں سے اک کتاب اٹھا کر اسکے ورک پلٹتے لگے اور وہ چُپ سی ہوگئی.پِھر اس نے انگلیوں میں دبی ماچس کی تیلی کو جلایا اور جب رقص کرتے ننھے سے شعلے کا عکس اسکی آنكھوں میں چمکنے لگا تو پھونک مار کر ماچس بجھاتے وہ اٹھ گئی اور ساتھ ہی تپائی پر سے کیک کی پلیٹ بھی اٹھا لی. 

اپنے نظر اندازِ کیے جانے پر اسکے چہرے سے چھلکتی تکلیف جسے آج وہ اپنے دِل میں محسوس کر رہے تھے،اس دن انہوں نے دیکھی بھی نہیں تھی.وہ دروازے تک بھی نا پہنچی تھی كے ہارن کی تیز آواز سنائی دی. 

"ھادی بھائی آگئے." کہہ کر اس نے پلیٹ واپس رکھی اور باہر کی طرف دوڑ گئی. بھاگتی ہوئے لاونج سے گزر کر وہ ٹیرِس ڈور کی طرف بڑھی..

ٹھیک اسی وقت نورالہدی دروازہ کھول کر اندر آنے لگے اور سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرا گئے اور اس سے پہلے كے وہ انہیں ساتھ لے کر دوسری طرف جا گرتی،خود کو سنبھالتے ہوئے نورالہدی نے اسے بھی سنبھال لیا. 

"آرے بھئی آرام سے،گر جاؤ گی." اسے خود سے الگ کرتے ہوئے وہ بولے. 

"بائے دا وے اگر تمہارا اِرادہ  اولمپکس میں حصہ لینے کا ہے،تب بھی ڈور کر گریس جانے کی کیا ضرورت ہے؟"وہ لاونج کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے وہ پیچھے سے بولی. 

"ھادی بھائی!کہاں جا رہے ہیں؟" 

"اپنے کمرے میں." 

"جی نہیں."پاس آکر انکا بازو تھامتے ہوئے بولی."آپ میرے ساتھ چل رہے ہیں." 

"تمہارا اِس وقت آؤٹنگ کا پروگرام ہے؟"وہ گھبرا کر بولے.حالانکہ وہ تھک چکے تھے اور فوراً سونا چاہتے تھے پِھر بھی ان کے لہجے میں اکتاہٹ كے بجائے وہی نرمی تھی جو اس لڑکی كے لیے مخصوص تھی. 

"نہیں بھئی.بابا جان كے پاس چلنے کو کہہ رہی ہوں.وہ کب سے آپکا انتظار کررہے ہیں." 

"بابا جان ابھی تک جاگ رہے ہیں؟"وہ چونک کر بولے."اس کا مطلب آج تو دیر سے آنے پر ڈانٹ پڑے گی." 

"اور پڑنی بھی چاہیے مگر اِس وقت بابا جان آپکی کلاس لینے كے لیے نہیں بلکہ اپنا برتھڈے سیلیبریٹ کرنے كے لیے آپکا انتظار کررہے ہیں." 

"آرے ہاں...آج تو 29 نومبر ہے."وہ سَر پر ہاتھ مار کر بولے پِھر اسکی طرف دیکھ کر کہا."اگر میں بھول ہی گیا تھا تو تم مجھے یاد نہیں کرا سکتی تھیں؟" 

"ایکسیوز می."وہ برا مان کر کہنے لگی. 

"آپ تو ہر سال بھول جاتے ہیں ہمیشہ مجھے ہی یاد کرانا پڑتا ہے.ورنہ خود سے آپکو اپنا برتھڈے بھی یاد نا رہے." 

"اوکے..اوکے"وہ جلدی سے بولے. 

"یہ جھگڑا بعد میں دیکھیں گے ابھی بابا جان كے پاس چلو." پِھر اسکے کندھے پر بازو پھیلا کر ساتھ لیے وہ بابا جان كے کمرے میں آگئے.

"آئیے برخوردار!کب سے آپکا انتظار ہے."بابا جان انہیں دیکھتے ہی بولے. 

"ہیپی برتھڈے."نورالہدی ان سے بغل گیر ہوئے. 

"سوری بابا جان!اِس بار بھی بھول گیا."ان سے الگ ہوتے،اسے کن اکھیوں سے دیکھ کر وہ اسے چیڑانے كے لیے بولے.اس نے منہ پھلا کر رخ پھیر لیا.

"چلیں بیٹھیں."انہیں صوفے پر بیٹھاتے ہوئے انکی نظر کیک پر پڑی تو پلٹ کر کیک کی پلیٹ اور ماچس اٹھا کر صوفے پر آ بیٹھے.پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر کینڈل جلائی اور کیک کاٹنے کی چھری اٹھا کر بابا جان کو پکڑائی.پِھر اسے دیکھ کر بولے. 

"وہاں کیوں کھڑی ہو؟...ادھر آؤ." 

اور وہ آ کر بابا جان كے دوسری طرف بیٹھ گئی. 

"دادا جان!کیک کاٹ لیں." 

"کیا؟" 

"بابا جان!بچے کیک کاٹنے کو کہہ رہے ہیں."اب كے ذرا دھیان سے انہوں نے اپنے آس پاس دیکھا.تانیا ہاتھ میں چھری لیے منتظر سی ان کے ساتھ بیٹھی تھی.جبكہ مریم دوسری طرف تھی اور عمیر اور عزیر سامنے بیٹھے تھے.سب کی طرف دیکھ کر پوچھا. 

"نورالہدی نہیں آیا؟" 

"نہیں اور اب تو 12 بجنے والے ہیں دادا جان!...کیک کاٹ لیجئے." 

"ہاں اور سالگرہ تو اپنی تاریخ پر ہی اچھی لگتی ہے." تانیا کی بات پر برسوں پہلے کسی کا کہا جملہ شکستہ اندازِ میں ان کے لب سے ادا ہوا تھا. 

                             یاد ماضی عذاب ہے یا رب 

                            چین لے مجھ سے حافظہ میرا 

~~~~~~~~~~

اتوار کا دن تھا.فائزہ کچھ دیر پہلے جاگی تھی اور ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوئی تھی كہ اسے ملازمہ نے تانیا کی آمد كے بارے میں بتایا.وہ فوراً ہی ڈرائنگ روم میں چلی آئی. 

"مجھے شایان كے گھر لے چلو."سلام دعا كے بعد جو پہلی بات تانیا نے کی تھی،وہ یہی تھی.وہگڑبڑا گئی.پِھر سنبھل کر بولی. 

"تم بیٹھو.چائے آتی ھوگی.پِھر بات کرتے ہیں." 

"فائزہ مجھے شایان سے ملنا ہے.ابھی اور اسی وقت." 

فائزہ نے گہرا سانس چھینچتے ہوئے اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا.اسے ٹینس ہوتے دیکھ کر تانیا نے پوچھا. 

"کیا بات ہے؟" 

"شایان کراچی میں نہیں ہے."وہ پِھر بولی."اسکی پوسٹنگ ہوچکی ہے اور 3 دن پہلے وہ اپنا چارج سنبھالنے سکھر جا چکا ہے." 

تانیا كے لیے یہ اطلاع اِس قدر غیر متوقع تھی كہ وہ کافی دیر تک کچھ بول ہی نا سکی.بہت دیر کی خاموشی كے بعد اس نے بے یقینی سے کہا. 

"وہ مجھ سے ملے بغیر چلا گیا؟"پِھر اس نے شاکی نظروں سے فائزہ کو دیکھا. 

"اور تم نے بھی مجھے انجان رکھا." 

"مجھے ایسا کرنا پڑا."وہ جلدی سے صفائی دیتے ہوئے بولی. 

"جواد کی انگیجمنٹ كے دوسرے ہی دن اسکی پوسٹنگ كے آرڈرز آگئے تھے.مگر شایان نے مجھے منع کر دیا كے تمہیں نا بتاؤں.پِھر جب میں نے اسے کہا كہ تم اس سے بات کرنا چاہتی ہو تو اس نے کہا كہ وہ تم سے بات نہیں کرسکتا.پتہ نہیں کیوں؟ مگر مجھے وہ کافی اپ سیٹ لگ رہا تھا."وہ چُپ ہوئی تو تانیا نے کہا. 

"بات نہیں کر سکتا؟...مگر کیوں؟ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا كے وہ مجھ سے بات بھی نا کرے.تم نے اس سے پوچھا نہیں،وہ ایسا کیوں كررہا ہے؟"تانیا اب بھی حیران تھی. فائزہ سے اسکی طرف دیکھا ہی نہیں گیا،سر جھکا کر بولی. 

"پوچھا تھا.لیکن اس نے کچھ بتایا ہی نہیں.تو میں نے سوچا شاید تم دونوں میں ان بن ہوگئی ھوگی." 

"ہمارے بیچ تو کچھ نہیں ہوا."تانیا نے فوراً تردید کی. 

"امپوسیبل." فائزہ نے ماننے سے انکار کر دیا. 

"کچھ تو بات ہوئی ھوگی.بنا کسی بات كے وہ تعلق کیوں ختم کرے گا؟اس نے تم سے کچھ تو کہا ھوگا." 

"یقین کرو فائزہ!کوئی بات ہوئی ہی نہیں."وہ پریشان سی ہو کر چُپ ہوگئی.پِھر جیسے یاد آنے پر بولی. 

"لیکن انگیجمنٹ والے دن وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا." 

"کیا؟"فائزہ کو تجسس ہوا. 

"پتہ نہیں."تانیا نے یہ بات چھپا لی كے اسکے خیال میں شایان اس دن اسے پرپز کرنے والا تھا. 

"وہ کہنے ہی والا تھا كے تم اور انکل وہاں آگئے.پِھر وہ کوئی بات کیے بغیر اچانک ہی چلا گیا." 

وہ رکی پِھر تلخ سی ہنسی كے ساتھ بولی. 

"وہ تو ہمیشہ ہی بغیر کچھ کہے چلا جاتا ہے." 

ملازمہ اسی وقت چائے کی ٹرالی كے ساتھ اندر آئی تو دونوں چُپ ہوگئیں.اسکے جانے كے بعد فائزہ نے چائے کا کپ تانیا کو دیتے ہوئے کہا. 

"پر تانیا!تم شایان کی طرف سے پہل کا انتظار کیوں کرتی رہیں؟خود سے کیوں نا کہہ دیا؟" 

وہ کپ پکڑتی بے بسی سے بولی. 

"کیسے کہہ دیتی؟جب كے میں یہ بھی نہیں جانتی كہ وہ مجھ سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں؟" 

"تم تو اسے محبت کرتی ھونا.کیا یہ کافی نہیں ہے؟" 

تانیا نے کچھ کہے بغیر کپ ٹیبل پہ رکھا اور کھڑی ہوگئی 

"میں اب چلونگی." 

فائزہ نے روکنا چاہا لیکن وہ رکی ہی نہیں.فائزہ اسے باہر تک چھوڑنے آئی.تانیا کار کا دروازہ کھولنے كے لیے کی ہول میں چابی ڈال رہی تھی،جب اس نے فائزہ کو کہتے سنا. 

"اک بات مانوگی تانیا!اگر وہ نہیں کہتا تو تم کہہ دو اور اگر نہیں کہہ سکتی تو اِس انتظار کو ختم کرکے آگے بڑھ جاؤ.کب تک اِس پل صراط پہ کھڑی رہوگی؟تکلیف میں رہوگی.یا تو ہٹ جاؤ یا گزر جاؤ.ٹھہرنا مت.ٹھہرنے والے کا پور پور زخم بن جاتا ہے. " 

وہ کار میں بیٹھی اور چلی گئی. 

"تھمارے اندیشے چاہے کتنے ہی درست ہوتے شایان!مگر آگہی كے بعد تمہیں جدائی بخشنے کا کوئی حق نہیں تھا."فائزہ نے سوچا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ایک ہاتھ میں فائلز اور دوسرے میں دوپٹہ پکڑے اسکی آمد کافی افراتفری میں ہوئی تھی.نورالہدی نے اخبار نیچے کر کے اسے دیکھا.

"میں سوچ رہا ہوں،دیر سے آنے والوں کی تنخواہ کاٹنا شروع کر دوں."

مریم ان کی طرف دیکھ کر ہنسی.

"ایسا مت کرنا نورالہدی!ورنہ تنخواہ کے نام پر تانیہ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا."

"ویری فنی"فائلز اور دوپٹہ ساتھ والی چیئر پر رکھ کرہاتھ میں پکڑا کلپ لاپروائی سے سلکی براؤن بالوں میں اٹکاتے ہوئی وہ برا مان کر بولی."ویسے پاپا!ایک بات میں آپ کو بتا دوں،جس دن آپ نے میری تنخواہ کاٹی،اگلے دن میں ریزائن کردوں گی."

"دھمکی دے رہی ہو؟"وہ آنکھیں نکل کر بولے. 

"آپ بھی تو دے رہے ہیں."آرام سے کہہ کر اس نے سلائس اٹھا لیا.

"اچھا آرام سے کھاؤ."اُسے جلدی جلدی سلائس منہ میں ڈالتے دیکھ کر مریم نے ٹوکا. 

نورالہدی نے اخبار پلٹ کر سائڈ میں رکھ دیا انہیں اخبار رکھتے دیکھ کر مریم نے چائے کا کپ سامنے رکھتے ہوئے گلاس میں جوس نکل کر انہیں تھامایا.ناشتے كے بعد اخبار پڑھنا انکا معمول تھا.پِھر اخبار سے فارغ ہو کر جوس پیتے اور آفس كے لیے نکل جاتے.جتنی دیر میں انہوں نے جوس پیا،تانیا ناشتا نپٹا چکی تھی.اس نے نیپکین سے ہاتھ صاف کر كے دوپٹہ گلے میں ڈَالا.

"پاپا!چلیں." 

"تم بعد میں چلی جانا."ان سے پہلے مریم بول پڑی.پِھر اس پر سے نگاہ ہٹا کر انہوں نے نورالہدی کو دیکھا."میں تانیا سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں." 

"اوکے."انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا. 

"اچھا سنو."انہیں اٹھتا دیکھ کر وہ بولیں."آفس جانے سے پہلے بابا جان سے مل کر جانا.رات انکی طبیعت کافی خراب تھی." 

انکا موڈ اک دم سے بَدَل گیا اور رکھائی سے بولے."میں بزنس مین ہوں،ڈاکٹر نہیں." 

وہ چلے گئے تو تانیا مریم کی طرف مڑی. 

"سمجھ نہیں آتا ماما!آخر پاپا دادا جان كے ساتھ اتنا روڈ بیہیو کیوں کرتے ہیں؟کیا آپ جانتی ہیں،ان دونوں كے درمیان کیا ٹینشن ہے؟" 

"میں کیسے جان سکتی ہوں؟"انہوں نے فوراً لا علمی کا اظہار کیا."میں نے ان دونوں کو ہمیشہ ایسا ہی دیکھا ہے.اب تو خیر عادت ہوچکی ہے،لیکن شادی كے ابتدائی سالوں میں،میں بھی پریشان ہوجایا کرتی تھی.اک دو دفعہ نورالہدی سے پوچھا بھی تو کہنے لگے،تمہارا وہم ہے.وہ شاید بتانا نہیں چاہتے،اِس خیال سے میں نے کبھی ذیادہ کریدا نہیں.اور اب تو مجھے بھی یہ اپنا وہم ہی لگتا ہے.تم خود غور کرو،نورالہدی کا انکے ساتھ رویہ اپنی جگہ مگر وہ کبھی بھی بابا جان کی طرف سے غافل نہیں ہوئے اور مجھ سے ہمیشہ یہی کہا ہے كہ بابا جان میرے بچوں كے دادا ہیں اور انکی اِس حیثیت میں کبھی فرق نہیں انا چاہیے.یوں بھی دونوں كے بیچ ناراضگی کی کوئی وجہ بھی تو نظر نہیں آتی."پِھر اسکو پیار کرتے ہوئے بولیں."ان باتوں کو اتنا سریس مت لیا کرو." 

"آپ مجھ سے کچھ بات کرنی والی تھیں." 

"ہاں،آؤ.تھمارے روم میں چل کر بات کرتے ہیں." 

تانیا اپنی فائلز اٹھا کر ان کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی. 

اپنے کمرے سے بریف کیس اٹھا کر دو دو سٹیرھیاں اترتے ہوئے وہ لاونج میں آئے تو بجائے آگے بڑھنے کے رک گے.بابا جان کی خراب طبیعت کا سن کر وہ پریشان ہو گئے تھے تفکر ان کے چہرے سے بھی نظر آ رہا تھا.کچھ پل ٹھہر کر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ان کے کمرے کے دروازے پر جا رکے اور دستک کے لیئے ہاتھ اٹھایا.پھر پتہ نہیں کیا ہوا،انہوں نے اٹھتے ہوئے ہاتھ کی مٹھی بنا کر بھینچ لیا.اچانک ہی ان کے چہرے سے بےبسی جھلکنے لگی تھی.پھر وہ مڑے اور تیز قدموں سے باہر نکل گئے.

تانیا دونوں پیر اٹھائے بیڈ پر بیٹھی تھی اور مریم اسے کچھ فاصلے پر گہری سوچ میں ڈوبی تھیں. 

تانیا نے خود سے کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا تو چُپ کر كے انہیں دیکھنے لگی. 

وہ ہمیشہ کی طرف ہی سلک کی ساڑھی پہنے ہوئے تھیں.تانیا نے کبھی بھی انہیں بہت زیادہ لمبے بالوں كے ساتھ نہیں دیکھا.اِس وقت بھی ان کے لہر دَر بالوں کی اسٹیپ کٹنگ کمر كے خم سے کچھ اوپر ہی ختم ھورھی تھی جو کبھی سچ مچ ہی گہرے کالے رنگ كے ہوا کرتے تھے مگر اب اَڑْتالِیس برس کی عمر میں انہیں پابندی سے ڈائی کرانا پڑتا تھا. 

سوچتے سوچتے اب اسکی ذہنی رَو نورالہدی کی طرف مڑ چکی تھی.اس نے اپنی عمر کی کئی لڑکیوں کو انکی پرسنیلیٹی کو سرھاتے سنا تھا.کنپٹیوں سے ان کے بال سفید ہوچکے تھے جنہیں انہوں نے کلر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی.ان کے اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے اور بولنے میں بھی خود اعتمادی جھلکتی تھی.

وہ متاثر کن شخصیت كے ملک تھے.ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر تانیا كے دماغ میں اک ہی بات آتی." ٘MADE FOR EACH OTHER" 

ابھی بھی یہی سوچ کر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی جسے فوراً ہی داباتے ہوئے اس نے مریم سے کہا."ماما!مجھے ابھی آفس بھی جانا ہے."

"ہاں مجھے یاد ہے."

وہ بول کر پھر رکیں،کچھ سوچا،پھر آخر اسے مخاطب کر ہی لیا.

"تمہیں انصر کیسا لگتا ہے؟"

"جیسا ہے، ویسا ہی لگتا ہے " اس نے محتاط انداز میں جواب دیا.

"یہی تو پوچھ رہی ہوں،کیسا ہے؟ "وہ زور دے کر بولیں.

"مجھے کیا معلوم؟" اس نے پہلوتہی کی. 

"معلوم کیوں نہیں ہے؟آخر تم دونوں بچپن کے دوست ہو."

"بچپن کی دوستی تو ماما!بچپن میں ہی ختم ہو گئی تھی جب وہ پڑھنے کے لیے ابروڈ چلا گیا تھا.اب وہ میرا دوست نہیں ہے،صرف فاروقی گروپ آف انڈسڑیر کا vendor ہے.اور اگر وہ میرے لیے کچھ ہے بھی تو صرف تیمور انکل کا بیٹا.اس کے علاوہ کچھ نہیں."اس بار وہ بولی تو اس کے لہجے میں کوئی گنجائش نہیں تھی.مریم نے سانس بھر کر کہہ ہی دیا.

"انصر نے تمہیں پرپوز کیا ہے؟" 

"خود "وہ حیران ہوئی.

"مجھ سے تو عُروسہ نے ہی بات کی ہے مگر ظاہر ہے بیٹے کی مرضی سے ہی کی ھوگی." 

"وہ باقاعدہ طور پر رشتہ لے کر آنے کی اِجازَت مانگ رہی ہے.تھمارے پاپا کو بھی پرپوزل اچھا لگا ہے اور دادا جان نے بھی اپروو کر دیا ہے.مگر ظاہر ہے،آخری فیصلہ تم کو ہی کرنا ہے.سوچ سمجھ کر جواب دینا." 

"ماما لیکن...!"اس نے کچھ بولنا چاہا پر مریم نے بیچ میں ہی روک دیا. 

"دیکھو اِس بار کوئی ٹال مٹول نہیں چلے گی.جب تک تم پڑھ رہی تھیں،تب تک تو ٹھیک تھا پر اب جو سال بھر سے تم بہانے بنا رہی ہو،وہ میری سمجھ سے باہر ہیں.مجھے سمجھ نہیں آتا،آخر تم شادی كے بارے میں کب سریس ھوگی؟" 

"ماما پلیز!اِس ذکر کو ابھی رہنے دیں." اس نے کوشش کر كے بول ہی دیا.مگر انہوں نے جیسے سنا ہی نہیں. 

"تمہیں کچھ اندازہ ہے تمھاری عمر کتنی ہوچکی ہے؟"ظاہر سی بات ہے یہ سوال اس سے جواب مانگنے كے لیے نہیں کیا گیا تھا. 

"چوبیس سال."وہ بولیں."اور جب میں چوبیس سال کی تھی تو تم میری گود میں تھیں." وہ رک کر اسکی فق شکل دیکھ کر بولیں."میں نے پہلے بھی تم سے کہا ہے اور اب بھی کہہ رہی ہوں كہ اگر تمھاری اپنی کوئی چوائس ہے تو کھل کر کہہ دو.مجھے یا کسی بھی دوسرے شخص کو کوئی اعتراض نہیں ھوگا." 

اسکی آنكھوں میں اک دم ہی شایان کا چہرہ ابھر آیا تو اس نے سختی سے پلکیں بند کیں،پِھر کھول کر انہیں دیکھا.

"اور اگر تمھاری کوئی چوائس نہیں ہے تو بیٹا!میں کہوں گی كے تھمارے لیے اَنصر سے بہتر اور کوئی نہیں ھوسکتا." 

"تانیا!یہ وقت جو اِس پل تھمارے ہاتھ میں ہے،بہت خوبصورت ہے اسے نا گنواو." 

"میں جاؤں؟"اس نے ہلکے سے پوچھا. 

"ہاں جاؤ۔"انہوں نے اِجازت دی .انکے پاس سے اٹھ کر وہ دادا جان كے پاس آگئی. 

"تم گئی نہیں؟"وہ خلاف معمول اِس وقت اسے گھر میں دیکھ کر حیران ہوئے. 

"بس جا ہی رہی ہوں."پِھر بیڈ پر ان کے برابر بیٹھتے بولی."اب آپکی طعبیت کیسی ہے؟" 

"تمہیں دیکھ کر ٹھیک ہوگئی ہے."وہ قصدا مسکرائی.اظہر فاروقی کچھ جھجکے پِھر پوچھا. 

"نورالہدی ابھی گھر پر ہے؟" 

"نہیں وہ آفس جا چکے ہیں."آہستہ سے کہہ کر اس نے انکا ہاتھ چوم کر کہا."آئی لو یو دادا جان.!" 

وہ جانتی تھی كے یہ الفاظ انکی تکلیف کا نعم بَدَل نہیں ہوسکتی پِھر بھی وہ مسکرائے تو اسے حوصلہ ہوا،پِھر انہیں اللہ حافظ کہہ کر وہ باہر پورچ میں آگئی.اپنی کار ریورس کررہی تھی كہ ڈاکٹر سراج بیک مرر میں گیٹ سے اندر آتے دکھائی دیئے.وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی سَر نکل کر بولی. 

"ڈاکٹر صاحب!آپ اِس وقت؟ویسے ٹھیک وقت پر آئے ہیں.آج دادا جان کی طعبیت کچھ ٹھیک نہیں." 

وہ کھڑکی كے پاس آکر جھکتے ہوئے بولے."ہر منگل کو مجھے کرنل صاحب كے چیک اپ كے لیے انا ہی ہوتا ہے اور آج بھی میں شام کو آنے ہی والا تھا پر فاروقی صاحب کا فون آیا كہ کرنل صاحب کی طعبیت نا ساز ہے تو میں صبح اگیا." 

"آپکو پاپا نے فون کیا ہے؟"وہ خوش گوار حیرت سے بولی. 

"ہاں." 

"اچھا."وہ ہنسی."یہ بات دادا جان کو ضرور بتائیے گا." 

دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں کتنی تیزی سے بدلتے جارہے ہیں.یوں ہی کیلنڈر کو دیکھتے ہوئے تانیہ کو احساس ہوا کہ شایان کو سکھر گئے دو مہینے سے زیادہ ہوچکے تھے اور اس تمام عرصے میں شایان کی صورت دیکھنا تو دور اس نے شایان کی آواز تک نہیں سنی تھی. حالانکہ اس کا دل بہت چاہا،کم از کم ایک بار تو اسے فون کر لے مگر اس نے سختی سے خود کو روک لیا. انٹرکام کی بیپ پر اسکا دھیان بٹا تھا.

"ہیلو..!"انٹرکام کا بٹن پریس کرتے ہوئے اس نے کہا.

"میڈم!مس فائزہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں. "

"ہاں اندر بھیجو اور چائے بھی."

تانیہ فائزہ کے یوں آفس آنے کی وجہ سوچنے لگی.چند لمحوں بعد فائزہ ایک دم سے اسکے آفس کا دروازہ کھول کر اندر آئی اور آتے ہی بولی.

"شایان کے فادر کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے."

تانیہ کتنی ہی دیر کچھ بول نہ سکی پھر کوشش کر کے اس نے خود کو ہلنے پر آمادہ کیا. "وہ ٹھیک ہیں؟"

"سمجھو جان بچی ہے."

"اب انکی کنڈیشن کیسی ہے؟" 

"ابھی تو صبح انہیں روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے.پرسو رات سے تو آئی سی یو میں تھے."تانیا كو خیال آیا وہ جب سے آئی ہے کھڑی ہے. 

"اچھا بیٹھ تو جاؤ." 

"نہیں."وہ کھڑی رہی."میں اسپتال جا رہی ہوں.راستے میں تمھارا آفس آیا تو سوچا تمہیں انفارم کردوں." 

"میں بھی چلتی ہوں تھمارے ساتھ."تانیا نے جلدی سے کہا پِھر طارق صاحب كو بلایا اور فائلز سمیٹنے لگی. 

"یس میڈم."ذرا دیر كے بعد وہ آئے. 

"طارق صاحب!یہ فائل میں نے دیکھ لی ہے.جیسے ہی پاپا فیکٹری سے آئیں،سائن کروا لیجئے گا اور اگر پاپا میرا پوچھے تو کہہ دیجئے گا ضروری کم سے گئی ہوں.اک ڈیڑھ گھنٹے میں اجاونگی."اس نے فائلز ان کو پکڑوائی اور بیگ،موبائل اور چابیاں اُٹھاتی فائزہ كو اپنے پیچھے انے کا اشارہ کرتی باہر نکل گئی۔ 

فائزہ كے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی آگے بڑھا دی. 

"کونسے اسپتال میں ہیں؟" 

"آغا خان." 

"شایان كو پتہ ہے؟" 

"انکل كو ہارٹ اٹیک ہفتے کی رات كو ہوا تھا اور شایان ہر ویک اینڈ پر کراچی آتا ہی ہے.انکل كو اسپتال بھی وہی لے کر گیا تھا."تانیا نے حیرت سے اسے دیکھا. 

"شایان ہر ویک اینڈ پر کراچی آتا ہے؟" 

"ہاں."فائزہ نے کہا 

"بہت پریشان ہے وہ بے چارہ.مجھے تو ڈر ہے کہیں خود بیمار نا پڑ جائے.انکل سے محبت بھی تو بہت كرتا ہے.پرسو رات سے اسپتال میں ہے،اک پل كے لیے نہیں سویا. نا کھانے پینے کا کچھ ہوش ہے." 

"فائزہ!کیا واقعی شایان ہر ویک اینڈ پر کراچی آتا ہے؟" 

"ہاں بابا!ہر ویک اینڈ پر."وہ تانیا کی بار بار کی تکرار سے الجھ گئی."اگر کوئی ضروری کام ہو تو اور بات ہے ورنہ وہ اپنی روٹین نہیں بدلتا." 

"کمال ہے."وہ ونڈو اسکرین كے پار دیکھ کر بولی.فائزہ كو اک دم خیال آیا اور وہ تیزی سے اسکی طرف مڑ کر بولی. 

"کیا وہ تم سے نہیں ملتا؟" تانیا نے تلخ سی مسکراہٹ كے ساتھ نفی میں سر ہلا دیا. 

"فون تو كرتا ھوگا." 

اِس بار تانیا نے کوئی جواب نہیں دیا.فائزہ چُپ سی ہوگئی. 

"واہ شایان صاحب!پاس تھے تو جلاتے تھے.دور گئے تو راکھ کر ڈَالا.اُس پر کیا شان بے نیازی ہے كہ مڑ کر خبر تک نا لی.مگر کیا میرے رت جگے اتنے ہی بے اثر تھے كہ تمھاری نیند نا اڑا سكے؟"اسکی آنكھوں میں چبھن ہونی لگی تو اس نے ڈیش بورڈ پہ رکھے سن گلاسز اٹھا کر آنکھوں پہ لگا لیے.چوٹ تو لگ چکی،اب زخم دیکھانے کا کیا فائدہ؟گاڑی اسپتال كے سامنے رک گئی.فائزہ نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور اترنے لگی تو دھیان آیا،وہ ابھی تک اپنی سیٹ پر ہے اور اس نے انجن بھی بند نہیں کیا تو پوچھا. 

"تم اندر نہیں آؤگی؟" 

"تم چلو میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں."وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولی اور فائزہ كے اترتے ہی گاڑی بھاگا لے گئی.

کافی دیر تک بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گاڑی بھگانے کے بعد بھی خون کے ابال میں کمی نہیں آئی تو تھک کر اس نے گھر کے راستے پر گاڑی موڑ دی۔گھر میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر ملازمہ پر پڑی تو اسے پکار کر کہا۔

"خدیجہ! میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں.اور کوئی ڈسٹرب نہ کرے."

پھر وہ رکی نہیں اور سیدھی اپنے روم میں آ گی.

جذباتی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اساب اس کے اعصاب شکستہ ہونے لگے تھے.اس پر ہیجان طاری تھا.دروازہ لاک کر کے اس نے ہاتھ میں پکڑی ہر چیز بیڈ پر پھانکی اور خود کرپٹ پرگھٹنوں کے بل گر پری.ہولے ہولے لرزتے ہوئے خودکلامی کر رہی تھی.

"میرا اعتبار توڑنے کی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں تھی شایان!اگر کوئی وجہ ہوتی تو تم مجھ سے لڑتے,مجھے الزام دیتے.مگر تم تو بنا کچھ کہے ہی پلٹ گئے.لفظوں کا آزار دے جاتے.میں کب تک تمہاری خاموشی سنو؟کچھ تو بولا ہوتا شایان!میں سمجھا دیتی خود کو کہ تم نے دھوکہ دیا ہے مگر اب کیا کروں؟خود کو کیسے سمجھاؤں؟"

اب اس کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی درد سے پھٹتے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے اس کا گالارندہ گیا تھا.

"قصور تمہارا نہیں غلطی میری ہے.میں نے کیوں تم پر اعتبار کیا؟میں نے کیوں تم سے محبت کی؟کیوں میں آج بھی تم سے محبت کرتی ہوں؟جب ساتھ ہی نہیں دینا تھا تو تم کیوں میرے پاس ہے؟اگر جانا ہی تھا تو میرے زندگی میں,میرے دل میں آنے کا تمہارا کیا حق تھا؟پاس آکر دور جانے کا,جھلک دکھا کر چھپ جانے کا کھیل بہت بار کھیلا ہوگا"وہ اب چلا رہی تھی.

"بہت سو کو تڑپایا ہوگا.بہت ہونگی جو تمہارے لیے روتی ہونگی.مگر میں تانیا فاروقی ہوں.ان بہت سی لڑکیوں سے بہت الگ.مجھے تڑپتا دیکھنے کی تمہاری خواہش کبھی پوری نہیں ھوگی شایان!نا میں تڑپوں گی نا روئوں گی.تم وہ نہیں جس كے لیے میں خود کو برباد کرلوں."وہ کہہ رہی تھی كے وہ نہیں روئے گی مگر وہ پھوٹ پھوٹ کر رُو رہی تھی.

سورج ڈھل چکا تھا اور کمرے میں اندھیرا ابھرنے لگا تھا لیکن تانیا نے لائٹ جلائی نا ہی پردے سمیٹے.وہ بے حس و حرکت اوندھے منہ کارپیٹ پر سمٹ کر لیٹی تھی۔اب وہ رو نہیں رہی تھی۔اس کا چہرہ ستارہ ہوا تھا،بال بے ترتیب ہو رہے تھے۔بکھرے بکھرے حلیے کے ساتھ اس کے سر میں درد کی تیز لہریں اٹھ رہی تھیں۔کئی گھنٹوں تک. رونے کی وجہ سے وہ تھک چکی تھی اور اب اس میں اتنے طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر بیڈ کے دراز سے پین کلر ہی نکال کر لے لے.پھر کچھ وقت ہی سہی مگر اس نے خود کو ہلنے پر آمادہ کر ہی لیا.وہ کھسک کر ٹیبل کی طرف گی.ٹیبل کے سہارے سے بیٹھنے کے بعد اس نے جگ سے پانی گلاس میں ڈالا اور گلاس پکڑ کر اٹھتے ہوئے بیڈ پر آکر بیٹھ گی پھر دراز کھول کر پین کلر نکالی اور دو گولیاں پانی کے ساتھ لے کر گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر لیٹ گئی.اس کا دل چاہ رہا تھا کہ سو جائے مگر آنکھوں میں درد اتنا زیادہ تھا کہ بند کرنا بھی مشکل تھا.وہ چت لیٹی نیند آ جانے کا انتظار کرتی رہی.

اگلی صبح شاور لے کر ڈریسنگ روم میں آئی تو آئینے میں اپنی ہی صورت دیکھ کر حیران رہ گئی.آنکھوں كے گرد ہلکے سوجے ہوئے تھے.نہانے سے چہرے کی پژمردگی تو کم ہوگئی تھی مگر زردی جھلک رہی تھی.اِس حالت میں سب کا سامنا کرنا مشکل لگ رہا تھا.مگر اس کے سوا چارا بھی کیا تھا.آخر کار وہ ڈرائنگ روم میں آ ہی گئی.عمیر،عزیر تو کالج جاچکے تھے اور دادا جان بھی ناشتہ ان کے ساتھ کر كے اِس وقت اسٹڈی میں چلے جاتے تھے.مریم البتہ نورالہدی كے ساتھ ہی ناشتہ کرتی تھیں اور جب سے تانیا نے آفس جانا شروع کیا تھا، وہ بھی ان کے ساتھ ڈایننگ ٹیبل پر موجود ہوتی تھی.نورالہدی اس پر نظر پڑتے ہی چونک گئے.انہوں نے مریم کی طرف دیکھا،ان کے تاثرات بھی نورالہدی سے مختلف نہیں تھے. 

"بہادر!میرے لیے چائے لے آؤ."سلائس پر بٹر لگاتے ہوئے وہ خود کو نارمل پوز کرنے كے لیے ضرورت سے زیادہ اونچی آواز میں بولی. 

"تمہیں کیا ہوا ہے؟"مریم اس کے پوز کرنے سے ذرا بھی مطمئن نہیں ہوئی تھیں.تانیا کو بھی اندازہ تھا كہ"کچھ بھی نہیں"سے کام نہیں چلے گا.اس نے چائے کا کپ اٹھایا جسے ابھی ابھی بہادر چھوڑ گیا تھا اور سیب لے کر بولی. 

"اب تو ٹھیک ہوں مگر طبیعت خراب ہوگئی تھی.اس لیے آفس سے جلدی اٹھنا پڑا.پِھر جو ٹیبلیٹ لے کر سوئی ہوں تو ایک گھنٹہ پہلے ہی آنکھ کھلی ہے." 

اس نے غیر محسوس اندازِ میں کل سارا دن کمرا نشین رہنے کی بھی وضاحت کردی. 

"مجھے ابھی بھی تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو.تمہیں ڈاکٹر كے پاس جانا چاہیے." 

"جی ماما!"وہ انکی تاکید كے جواب میں بولی.

مریم تو قدرے مطمئن ہو کر ناشتہ کرنے لگیں.مگر نورالہدی مستقل اسے دیکھ رہے تھے.حالانکہ انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا تھا مگر انکا اِس طرح دیکھنا تانیا کو پریشان کر رہا تھا.پِھر بھی وہ آرام سے ناشتہ کرتی رہی.آخر انہوں نے تانیا پر سے نگاہ ہٹالی. 

"میرا خیال ہے،آج تم آفس مت جاؤ.گھر پر ہی رہ کر آرام کرو." 

"میں بھی یہی سوچ رہی ہوں."اس نے کہا.نورالہدی اپنی جگہ سے اٹھے اور اسکے پاس آ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنی طرف کیا. 

"تمہیں تکلیف میں دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے مگر اِس وقت تکلیف اور بھی زیادہ ھوگی جب تم اپنی تکلیف مجھ سے چھپاؤ گی."وہ جھکے اور اسکے ماتھے کو چوم لیا.ان کے چوڑی پشت کو دیکھتے ہوئے تانیا حیران ھورھی تھی.نہ اس نے کچھ کہا،نہ پاپا نے کچھ پوچھا.انہیں پِھر شک کیسے ہوا كہ وہ کچھ چھپا رہی ہے؟پِھر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی.اور جب یقین ہو گیا كے نورالہدی چلے گئے ہیں تو لاونج میں آکر وقت گزاری كے لیے ٹی وی آن کر كے بیٹھ گئی.مریم کہیں جانے کی تیاری میں لاونج سے ہو کر گزریں.تانیا نے دور سے ہی انہیں بائے کہا.مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے دروازہ کھولا.پِھر کچھ سوچتی نظروں سے گلاس وال كے دوسری طرف تانیا کو دیکھ کر انہوں نے دروازہ بند کیا اور لاونج میں آگئی.

"کچھ خاص پروگرام دیکھ رہی ہو؟"

"نہیں۔"فوراً سیدھے ہو کر اس نے ٹی وی کی آواز کم کردی۔

"تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔"وہ اسکے ساتھ بیٹھتے بولیں۔

"کہیں۔"وہ ہمہ تن گوش ہوئی۔

"بات تو کوئی نئی نہیں ہے پر عروسہ کا اصرار بڑھتا جارہا ہے۔حالانکہ میں بہت واضح انداز میں اس سے کہہ چکی ہوں کہ تم ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہو۔مگر وہ کہتی ہے شادی نہ سہی منگنی تو کی جاسکتی ہے۔اور سچ پوچھو تو مجھے بھی اسکی بات پسند آئی ہے۔فی الحال منگنی کردیتے ہیں۔پھر جب تم ذمے داری اٹھانے کو تیار ہوجاؤ تو شادی کردیں گے۔اور کیا پتہ ایک بار انصر کے ساتھ رشتے میں بندھ کر شادی کا فیصلہ تمہارے لیے زیادہ آسان ہو جائے۔"پھر اسے چپ دیکھ کر بولیں۔

"چپ کیوں ہو؟...کچھ تو بولو۔"

"کیا بولوں ماما؟" وہ ہنسی۔"پل سراط پر ٹھہروں یا ہٹ جاؤں۔کچھ حاصل نہیں ہوگا۔پر شاید کچھ گنوانا بھی نہ پڑے۔لیکن اگر گزر جاؤں تو سب گنوا دوں گی۔مگر شاید تب بھی میرے ہاتھ خالی نہیں رہیں گے۔بن مانگے ہی سہی،لیکن زندگی کچھ عطا تو کرے گی۔پر نفع کس میں ہے اور نقصان کہاں؟حساب کرونگی تو ہی پتہ چلے گا۔"

"کیا کہہ رہی ہو؟"

"آپ چاہتی ہیں نا میں شادی کرلوں؟"

"ہاں۔"

"میں سوچ کر جواب دونگی۔"

"پتھر میں جونک تا لگی۔"اسکی بات پر مریم نہال ہوگئیں۔"بس اب چاہے تم کچھ بھی جواب دو،میرے لئے تو یہ بھی بہت ہے کہ تم شادی کے بارے میں سوچنے کو تیار ہوگئی ہو۔"تانیہ انہیں خوش دیکھ کر شرمندہ ہوگئی۔

جانے سے پہلے کتنی ہی دیر تک وہ اسے خود سے لپٹا کر پیار کرتی رہیں۔اس نے کہہ تو دیا کہ سوچے گی۔پھر کچھ سوچنے کی کوشش میں وہ کچھ بھی سوچ نہیں پارہی تھی۔

کتنا وقت گزر گیا،اسے کچھ احساس بھی نہیں تھا۔کسی نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک کر مڑی اور اپنے برابر بیٹھے عمیر کو دیکھ کر اسے ایک بار پھر چونکنا پڑا۔وہ یونیفارم بدل چکا تھا۔جسکا مطلب تھا اسے کالج سے آئے کافی دیر ہوگئی تھی۔

"بیٹھے بٹھائے کھو جانے کی عادت یا دادا جان کی ہے یا پھر پاپا کی۔آپ نے یہ عادت کب سے اپنالی؟اتنی دیر سے آپکو آواز دے رہا ہوں،پر آپ ہیں کہ کچھ سنتی ہی نہیں۔"

"وہ...میں کچھ سوچ رہی تھی۔"وہ اٹھتے ہوئے بولی۔"عزیر کہاں ہے؟"

"ڈائننگ ٹیبل پر آپکا انتظار کررہا ہے اور دادا جان بھی وہیں ہیں۔"

"چلو پھر۔"وہ ڈائننگ روم میں آگئی۔

"آپی! صبح بتادیا ہوتا،آپ چھٹی کرنے والی ہیں۔میں بھی کالج نہیں جاتا۔"

"بہت اچھا کیا میں نے جو صبح نہیں بتایا ورنہ بے کار کالج بنک کرتے۔"وہ عزیر کو بولی تو عمیر ہنسا۔

"یوں بھی اسکے ساتھ پورا دن بتانا آسان نہیں۔وہ تو میری ہی ہمت ہے جو اسے جھیل لیتا ہوں۔"سب ہنسنے لگے تو اس نے منہ بنایا۔

"تم دونوں کیوں ہر وقت اسے چھیڑتے رہتے ہو؟"دادا جان رعب سے بولے تو عمیر فوراً بولا۔

"ہمیں چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ پیدائشی چھڑا ہے۔"اور پھر تانیہ کے ساتھ ہنسنے لگا تو عزیر بے چارا روہانسا ہوگیا۔

"روتے نہیں بیٹا!تم ان نامعقولوں کو چھوڑو اور کھانا کھاؤ۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ بھی ایک سہانی شام کا منظر تھا۔گرم گھاس پر بھری ہوئی ٹرے تھامے وہ سہج سہج قدم اٹھاتی لان میں رکھی چیئرز کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی جن پر براجمان اظہر فاروقی اور نور الہدیٰ دنیا و مافیہا سے بے خبر نہ جانے کن باتوں میں الجھے تھے۔ان دونوں نے ہی اسکی آمد کو محسوس نہیں کیا تھا بلکہ نور الہدیٰ تو اس وقت چونکے جب ٹرے رکھنے کے لیے جھکتے ہوئے اسکا کاسنی دوپٹہ شانے سے سرک کر گھٹنے پر رکھے انکے ہاتھ پر آپڑا۔اس نے ایک ہاتھ سے دوپٹہ کندھے پر ڈالتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں پکڑا کپ اٹھا کر بابا جان کی طرف بڑھایا۔مگر انہوں نے ہاتھ میں پکڑا اخبار ایک دم ہی اپنے سامنے پھیلا لیا۔وہ سن سی ہوگئی۔یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اظہر فاروقی نے اسے اپنی طرف کپ بڑھاتے نہ دیکھا ہو۔نور الہدیٰ جو بھی انکی حرکت اچھی نہیں لگی تھی۔وہ خود کو بولنے سے روک نہ پائے۔

"بابا جان!وہ آپکو کپ پکڑا رہی ہے۔"

اظہر فاروقی نے زرا سا اخبار کا کونا نیچے کرتے ہوئے سرسری سے انداز سے کہا۔

"ٹیبل پر رکھ دو نا بیٹا!" اور پھر سے اخبار اپنے سامنے کیا۔اس نے کپ انکے سامنے رکھا اور اسی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔

اسکا چہرہ پتھر کی طرح بے جان تھا۔ہر بار اپنے نظر انداز کئے جانے پر اسکی کیفیت اتنی ہی شدید ہو جایا کرتی تھی۔نور الہدیٰ اسکی اس قدر حساسیت پر اکثر حیران اور کبھی کبھار تو پریشان ہوجاتے۔اسے اس ٹرانس سے باہر لانے کے لیے نور الہدیٰ نے کپ اٹھا کر اسکے سامنے کیا اور اپنی عادت کے مطابق بشاشت سے بولے۔

"کیا شام کی چائے پینا بھی چھوڑ دیا ہے؟"

اس نے چونکتے ہوئے انکی طرف دیکھا اور سادگی سے مسکراتے ہوئے انکے ہاتھ سے کپ لے کر گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔

"گھر میں بیکار بیٹھ کر کیا کروگی؟ تم یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیوں نہیں لے لیتی؟" انہیں لگتا ہے،اسکی حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کی وجہ تنہائی ہے۔حالانکہ گھر میں بابا جان اور خود وہ موجود تھے مگر نور الہدیٰ اپنی مصروفیت کی وجہ سے اسے ٹھیک سے ٹائم نہیں دے پاتے تھے۔اور بابا جان گو کہ ریٹائرڈ تھے مگر الگ تھلگ رہنا پسند کرتے تھے۔انہوں نے سوچا،یونیورسٹی جانے سے اسکی تنہائی ختم ہو جائے گی اور پھر شاید اسکی جذباتیت بھی کم ہو جائے۔مگر اس نے فوراً ہی انکے خیال کو مسترد کردیا۔

"بی اے کرلیا،کافی ہے۔مجھے آگے نہیں پڑھنا۔"

"یہ کیا بات ہوئی؟"وہ ٹوک کر بولے۔

"بس۔"کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے کندھے آچکا دیئے۔

"بس کیا؟"وہ کبھی کبھار ہی بڑے پن کا رعب جھاڑتے تھے اور جب ایسا کرتے،بڑے آرام سے مرعوب ہوجاتی جیسے ابھی ہوگئی تھی۔وہ اسی لہجے میں بولے۔

"میرا خیال ہے،ایڈمیشن تو اوپن ہوچکے ہوں گے۔میں کسی دن فارم لے آؤں گا تم بس فل کردینا۔"

"مگر ہادی بھائی! مجھے آگے نہیں پڑھنا۔"وہ منمنائی۔

"کیوں؟"انکا انداز ہنوز وہی تھا۔

"مجھے کورس کی کتابیں اچھی نہیں لگتیں۔"بڑا معصوم سا انداز تھا۔نور الہدیٰ مسکرا دیئے۔

"پھر کیا اچھا لگتا ہے؟"

"بتاؤں؟"وہ اسی بھولپن سے جوش میں بولی،پھر انکے جواب کا انتظار کئے بغیر شروع ہوگئی۔اس نے سر اٹھا کر دور تک پھیلے آسمان کو دیکھا اور کہا۔

"مجھے آسمان کو دیکھنا اچھا لگتا ہے،اس میں اڑتے بادل اور پرندوں کی چہکار،سورج کی کرنیں اور چاند کی چاندنی،پھول،تتلی،خوشبو،صحرا میں بہتی ہوا کی آواز،سمندر کی لہریں،سردی کا موسم۔"بولتے بولتے وہ اچانک ہنس پڑی،پھر انہیں دیکھ کر بولی۔"ہادی بھائی!مجھے زندگی اچھی لگتی ہے۔"

وہ ہنس پڑے۔مگر وہ ایک دم سے چپ ہوکر کچھ سوچنے لگی تھی۔پھر اس نے کپ ٹیبل پر رکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر گھاس پر بابا جان کے قدموں میں بیٹھ گئی جو لاتعلق سے اخبار میں گم تھے۔انہیں متوجہ کرنے کے لئے اس نے اپنے ہاتھ اظہر فاروقی کے گھٹنے پر رکھ دیئے۔انہوں نے اخبار ہٹا کر اسے دیکھا۔"بابا جان! آرٹس کونسل میں نو آموز مصوروں کی نمائش ہورہی ہے۔میں نے بھی اپنا نام دیا تھا اور پتہ ہے،میرا سلیکشن بھی ہوگیا ہے۔سترہ دسمبر سے تین دن کی نمائش ہے۔آپ آئیں گے نا؟"جوش میں بولتے آخر میں اسکا لہجہ منت بھرا ہوگیا تھا۔

"تم جانتی ہو کہ بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانا مجھے پسند نہیں۔"انہوں نے مکمل انکار نہیں کیا تھا،اسی سے حوصلہ پکڑ کر وہ بولی۔

"مگر تھوڑی دیر کو تو جاسکتے ہیں بابا جان!یہ میری پہلی ایگزیبیشن ہے اور اس بہانے آپ میری پینٹنگز بھی دیکھ لیں گے۔جانتے ہیں،اس بار میں نے اسٹل لائف اور لینڈ اسکیپنگ کے علاوہ سی اسکیپس بھی بنائے ہیں اور کیلی گرافی تو میں نے پہلی بار ہی کی ہے پچھلے مہینوں میں،میں نے اتنے سارے نئے کینوس بنا لئے ہیں اور آپ نے ابھی تک کوئی بھی نہیں دیکھا۔"

"اگر دیکھانا مقصود ہے تو آج ہی ایک نشست تمہارے کمرے میں رکھ لیتے ہیں۔لیکن میں ایگزیبیشن میں نہیں آپاؤں گا۔آرمی لائف کے دوران بھی پر ہجوم جگہوں پر جانا مجھے پسند نہیں تھا اور اب تو میں ریٹائرڈ لائف گزارتے گھر تک ہی محدود ہوگیا ہوں۔اینی وے،بیسٹ آف لک۔"

’کیا ہوجاتا اگر بابا جان اسکا دل رکھنے کی خاطر کچھ دیر چلے جانے کی ہامی بھر لیتے۔‘نور الہدیٰ نے تاسف سے سوچ کر اسے دیکھا۔

اس نے اپنی آنکھیں جھکا رکھی تھیں پھر بھی اسکی پلکوں پہ لرزتے آنسو نور الہدیٰ کو صاف نظر آئے تھے۔نور الہدیٰ بے چین ہو کر اٹھے اور اسکے پاس والی چیئر پر بیٹھ کر ٹیبل پر رکھے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ انکے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور اٹھ کر یوں ہی رخ پھیرے اندر کی طرف بڑھ گئی۔

جوتوں سمیت بیڈ پر چپ لیٹے نور الہدیٰ کو اپنی کنپٹیوں پر نمی کا احساس ہوا تھا۔وہ اٹھ بیٹھے۔اپنے چہرے پر سے آنسوؤں کو صاف کر کے ہاتھ اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اور پوروں پر ٹھہری نمی کو دیکھنے لگے۔

"جو آج تم یہاں ہوتیں تو دیکھتیں کہ جو آنسو تمہاری آنکھوں سے نہ بہہ سکے وہ ستائیس سالوں سے میرا چہرہ بھگو رہے ہیں۔"

بے سبب تو نہیں تیری یادیں

تیری یادوں سے کیا نہیں سیکھا

ضبط کا حوصلہ بڑھا لینا

آنسوؤں کو کہیں چھپا لینا 

کانپتی ڈوبتی صداؤں کو

چپ کی چادر سے ڈھانپ کر رکھنا

بے سبب بھی کبھی ہنسنا

جب ہو بات کوئی تلخی کی 

موضوع گفتگو بدل دینا

بے سبب تو نہیں تیری یادیں

تیری یادوں سے کیا نہیں سیکھا

وہ تھکے تھکے سے اٹھے اور کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔پورچ کی تیز روشنی میں تانیہ بار بار ہارن بجا رہی تھی۔پھر اظہر فاروقی چند لمحوں بعد اپنے پوتوں کے ساتھ نظر آئے۔

"سنبھلنے کے لیے ہمیشہ ٹھوکر کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟" فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھتے اظہر فاروقی کو دیکھ کر انہوں نے سوچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہاتھ میں بکے پکڑے تانیا نے اسپتال كے انفارمیشن کاؤنٹر پر شایان كے فادر کا نام بتا کر انکا روم نمبر پوچھا. 

"روم نمبر ۵."دُبلی پتلی لڑکی نے کمپیوٹر سے چیک کر كے اسے بتایا. 

"تھینکس."کہہ کر تانیا لفٹ کی طرف آئی.لفٹ سے نکلتے ہی تانیا کو سامنے سے فائزہ آتی دیکھائی دی.پاس آنے پر وہ بولی. 

"کہاں جارہی ہو؟" 

"گھر."فائزہ نے جواب دے کر پوچھا."مگر پرسوں کیا ہوا تھا؟تھوڑی دیر کا کہہ کر تم غائب ہی ہوگئیں." 

"اک ضروری کام یاد آ گیا تھا."اس نے کہا.فائزہ گھر جانے کا اِرادَہ ترک کر كے اسکے ساتھ ہی چلتے ہوئے روم میں آگئی. 

پہلا قدم کمرے میں رکھتے ہی تانیا نے شایان کی موجودگی کو محسوس کر لیا تھا مگر جان بوجھ کر نظر اندازِ کر كے وہ بیڈ پر لیتے شخص کی طرف آگئی.بیڈ كے ساتھ ہی رکھی میز پر بکے رکھ کر اس نے ہلکی آواز میں پوچھا. 

"انکی طبیعت اب کیسی ہے؟" 

"کافی بہتر ہے."اپنے پیچھے سے شایان کی بھاری آواز سن کر وہ سنبھل کر پلٹی. کوشش کر كے حیران ہوتے ہوئے بولی. 

"تم..."پِھر قصدا مسکرائی."سوری،میں نے تمہیں دیکھا نہیں."تبھی اسکی نظر سوفے پر بیٹھی سبز آنكھوں والی عورت پر پڑی.اس نے فوراً انہیں سلام کیا اور فائزہ کی طرف دیکھنے لگی كے انکا تعارف کروائی گی. 

خود سے وہ سمجھ نہیں پائی تھی كہ وہ شایان کی مدر ہے یا رشتےدار ایسا ہی سوال تانیا كے لیے انکی آنكھوں میں تھا.فائزہ نے دانستہ ان سوالوں سے آنکھ چراتے ہوئے کہا. 

"میرا خیال ہے،باہر چل کر بات کرتے ہیں.یہاں ہماری آواز سے انکل کی نیند خراب ھوگی." 

وہ دروازہ کھول کر باہر چلی گئی تو تانیا اور شایان بھی آگے پیچھے باہر آگئے.تانیا،فائزہ كے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھ گئی.شایان دیوار سے کمر ٹکائے سامنے کھڑا تھا.اتنی دیر میں پہلی بار تانیا نے اسکی طرف دیکھا.بلو جینز اور وائٹ شرٹ پہنے اسکا حلیہ رف سا تھا.کالے بال بے ترتیبی سے ماتھے پر پڑے تھے.شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھوں كے نیچے ہلکے نظر آ رہے تھے.

"اپنے فادر كے لیے بہت پریشان ہے."تانیا نے دِل میں اسکے لیے ہمدردی محسوس کی. 

"بہت اپ سیٹ ہو؟"آخر اس نے بات شروع کی. 

"ابو میری زندگی کا لازمی حصہ ہیں.میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں مگر انکی تکلیف نہیں." 

"ان شاءاللہ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے."تانیا نے دِل سے کہا. 

"آج کل کیا کررہی ہو؟"وہ بات بدلنے کو بولا. 

"کچھ خاص نہیں." 

"تو کرو نا...اور کتنا انتظار کرواوگی." 

"کیا مطلب؟...میں سمجھی نہیں." 

"شادی کی بات كررہا تھا،ویسے تم دونوں نے بہت مایوس کیا ہے.کیریئر كے پیچھے ہی پڑ گئی ہو.ورنہ میرا خیال تھا،ایم بی اے کی ڈگری ملتے ہی تم دونوں ڈولی میں بیٹھ جاوگی."جان بوجھ کر اس نے یہ ٹاپک شروع کیا ہے،اِس خیال سے تانیا کو اس پر غصہ آنے لگا.فائزہ بھی کچھ چڑ گئی.

"تم اپنا خیال چھوڑو اور انکل کا خیال کرو.کتنا ارمان ہے انہیں تھمارے سر پر سہرا دیکھنے کا.یوں بھی عمر میں تم ہم دونوں سے ہی تِین سال بڑے ہو.پہلے تمھاری شادی ھوگی.ہمارا نمبر تو بعد میں آئیگا." 

"میں اسکی شادی تک انتظار نہیں کرنی والی." 

"مطلب؟"فائزہ نے پوچھا. 

"میں شادی کررہی ہوں."وہ غصے میں بنا سوچے سمجھے ہی بول گئی. 

"زبردست."

شایان کی آواز پر اس نے اسکی طرف دیکھا،اگر کوئی امید تانیا كے دِل میں تھی بھی تو اس وقت ختم ہوگئی تھی.شایان كے چہرے پر خوشی چھپائے نہیں چُپ رہی تھی.

"کب کررہی ہو شادی؟" 

"بہت جلد."وہ جزبُز ہو کر بولی. 

"شادی میں بلاؤگی نا؟" 

"آف کورس اور بھلا میری شادی تھمارے بنا ھوسکتی ہے؟"وہ دِل جلانے والی مسکراہٹ كے ساتھ بولی تو شایان بس اسے دیکھ کر رہ گیا.پِھر وہ فوراً ہی اَٹھ گئی. 

"اچھا فائزہ!میں اب چلتی ہوں." 

"ٹھیک ہے.میں شام کو فون کرونگی." 

"بائے."وہ کہہ کر شایان کی طرف دیکھے بغیر تیزی سے چلتی لفٹ کا انتظار کرنے كے بجائے سیڑھیوں سے نیچے اُتَر گئی. 

شایان کوریڈور كے بیچوں بیچ کھڑا اسے لمحہ لمحہ خود سے دور جاتا دیکھ رہا تھا.فائزہ اَٹھ کر اسکے پاس آکر بولی. 

"کبھی کبھی مجھے لگتا ہے شایان!تم نے کبھی تانیا سے محبت کی ہی نہیں."شایان نے اسے دیکھا اور بولا. 

"محبت کرتا ہوں،اسی لیے تو..."پِھر ہونٹ کاٹ کر بیچ میں ہی چُپ ہو گیا. 

"تب تو مجھے تم پر غصہ نہیں،ترس انا چاہیے.محبت سے ڈر جانے والے کمزور شخص پر ترس ہی آسکتا ہے." 

بول کر وہ رکی نہیں آگے بڑھ گئی اور شایان وہیں بینچ پر بیٹھ گیا. 

انٹرنس سے اندر پیر رکھتے ہی تانیہ نے ڈرائنگ روم سے آتی آوازوں سے اس نے اندازہ لگایا کہ عروسہ بھی ڈرائنگ روم میں موجود تھی مگر اس وقت کسی میل ملاپ کے موڈ میں نہیں تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا تھا اور لاؤنچ کی سیڑھیاں ٹھیک ڈرائنگ روم کے سامنے تھیں اور یہی سیڑھیاں اِس زینے تک جاتی تھیں جس پر تانیا کا کمرا تھا۔اب اگر وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیوں تک جاتی تو کھلے دروازے سے اسے دیکھا جاسکتا تھا۔تانیہ نے کچھ سوچ کر دروازہ بند کیا اور باہر آگئی۔لان کا چکر کاٹ کر وہ قصر فاروقی کے پچھلے حصے کی طرف نکل آئی۔

اب اسکے سامنے سیاہ آبنوس کا بے حد لمبا اور کافی چوڑا منقش دروازہ تھا مگر اس دروازے کے دونوں پٹون کو پکڑ کر دھکیلتے ہوئے تانیہ کو کچھ زیادہ طاقت لگانی نہیں پڑی۔دروازہ کھلتے ہی تانیہ پر جیسے طلسم  ہوش ربا کا کوئی باب کھلا تھا۔کم از کم تانیہ کو یہ جگہ کسی جادو نگر کی طرح ہی لگا کرتی تھی۔قصر فاروقی کا یہ حصہ باقی گھر سے الگ تھلگ تھا اور تقریباً نہ استعمال ہونے والا تھا۔تانیہ نے ایک قدم اٹھایا اور وسیع ہال میں آگئی۔ہال کے دونوں جانب آمنے سامنے دو دروازے تھے۔بائیں طرف والا ڈائننگ ہال میں کھلتا تھا جسکے ایک جانب کچن تھا،ڈائننگ روم میں دوسری طرف ایک اور دروازہ تھا جو راہداری سے جڑا تھا جسکے آگے لاؤنج تھا۔

دوسرا دائیں جانب کا دروازہ ایک لمبے کوریڈور میں پہنچتا جسکے آگے سٹنگ روم اور اس سے آگے لاؤنج تھا۔لاؤنج میں بائیں جانب اظہر فاروقی کا کمرہ اور اسکے ساتھ لائبریری سے ملحق اسٹڈی تھی جبکہ دائیں جانب رہائشی کمرے تھے اور دائیں جانب سے ہی سیڑھیاں اوپر کے کاریڈور تک جاتی تھیں جہاں دونوں جانب کمروں کی قطاریں تھیں۔یعنی اگر کوئی اس ہال کے ایک دروازے سے نکلتا تو پورے قصرِ فاروقی کا چکر کاٹ کر وہ واپس یہیں آپہنچتا۔

اس پورشن کی یہ آنوکھی خصوصیت تھی کہ وہ بیک وقت گھر کے ہر حصّے سے جڑا بھی تھا اور پورے گھر سے الگ بھی تھا۔ہال کے داخلی دروازے کو سامنے دبیز قالین کا بڑا سا ٹکڑا تھا جسکے ساتھ رکھا لکڑی کا آرام دہ فرنیچر اسے نشست گاہ کا روپ دے ریا تھا۔دائیں طرف کی دیوار پر بڑا سا آئینہ تھا جس پر آرٹ ورک کیا گیا تھا۔آئینے کے نیچے ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں تھیں۔ناک کی سیدھ میں تھوڑا آگے جا کر سیڑھیاں تھیں جنکے بائیں جانب ایک اونچا لکڑی کا اسٹول تھا جس پر گھومنے والے ڈائلر کے ساتھ پرانی طرز کا فون رکھا تھا مگر اس فون کا کنکشن نکال دیا گیا تھا۔

سیڑھیوں کے اوپری زینے کے سامنے ایک دروازہ تھا جسکے دونوں پٹوں سے لٹکتی زنجیر میں تالا لگا تھا۔تانیہ نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ وہ کمرہ اسٹور روم ہے۔یہ جگہ اتنی کشادہ تھی اور دروازے سے سیڑھیوں کا فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ زینے والے کمرے کی بالکونی عمارت کے سامنے کی طرف سے دائیں جانب کھلتی تھی۔ویسے تانیہ کیلئے تو اسٹور روم میں بالکونی کی موجودگی کافی حیران کن تھی۔جبکہ بالکونی میں بڑا سا لکڑی کا جھولا تھا اور چھت سے ونڈ چائمز لٹک رہے تھے،جن کا مدھر سنگیت چاندنی رات میں مبہوت کردیا کرتا تھا اور اضافی حیرت کی بات تو یہ تھی کہ بالکونی میں رکھے گملوں میں لگے پودے اور مورننگ گلوری کی خوبصورت بیل ہری بھری تھی لیکن تانیہ نے کبھی کسی کو انہیں پانی دیتے نہیں دیکھا تھا۔

گھر كے کسی فرد سے تو پوچھنا ہی بے کار تھا مگر نوکروں سے بھی ایک آدھ بار اس نے جاننا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا كے وہ کبھی اس کمرے میں نہیں گئے.اِس ہال كے تمام دروازے،سیڑھیاں اور زینے کی ریلنگ،حد تو یہ ہے كے تمام فرنیچر بھی منقش ابنوسی لکڑی کا تھا.یوں تو سارا قصر فاروقی ہی سفید سنگ مرمر سے بنا تھا مگر سیاہ اور سفید کا یہ پر کشش امتجاز گھر كے اور کسی حصے میں نظر نہیں آتا تھا.ایسا لگتا تھا كہ وقت كے ساتھ ساتھ باقی گھر کی رینوویشن تو ہوتی رہی مگر اِس حصے کو جان بوجھ کر ہاتھ نہیں لگایا گیا. یہاں وقت کو قید کر دیا گیا تھا. 

ہال كے دروازے سے اندر داخل ہو کر بائیں طرف كے دروازے سے گزر کر ڈائننگ روم میں آتے تانیا کو محض چند سیکنڈ ہی لگے تھے مگر اسے یوں لگا،جیسے ایک عہد سے گزر آئی ہو.لاونج میں قدم رکھنے سے پہلے اس نے ڈرائنگ روم سے آتی آواز پر دھیان دیا.وہ سب بد ستور گپ شپ میں مصروف تھے.تانیا اطمینان سے اظہر فاروقی كے کمرے تک آئی اور دستک دینے والی تھی كے کسی نے کہا.

"کرنل صاحب اپنے کمرے میں نہیں ہیں."تانیا نے مڑ کر بہادر کو دیکھا جو ڈرائنگ روم میں چائے لے کر جاتا اسے دیکھ کر رک گیا تھا. 

"کہاں گئے ہیں؟"اس نے پوچھا. 

"زمینوں پر گئے ہیں،کل شام تک آ جائے گے.آپکو کچھ کام تھا تانیا بی بی؟" 

"نہیں.تم جاؤ."تانیا نے اسے جانے کو کہا،پِھر خود ہی اسے آواز دے کر روک لیا."بہادر!" 

"جی تانیا بی بی؟" 

"جب مہمان چلے جائے تو مجھے بتا دینا،میں دادا جان كے کمرے میں ہوں." 

"ٹھیک ہے جی."وہ کہہ کر چلے گیا تو تانیا دروازہ کھول کر کمرے میں آگئی.کچھ دیر تک تو وہ یونہی کھڑی رہی جیسے سوچ رہی ہو،اب کیا کرے.پِھر اس نے ہینڈ بیگ بیڈ پر ڈَالا اور خود بھی جوتے اُتَار کر آرام سے لیٹ گئی.وہ جس زاویے سے لیٹی تھی،آتَش دان كے اوپر لگی تصویر اسکی آنكھوں كے سامنے تھی.کرنے کو اور تو کچھ تھا نہیں،وہ یوں ہی اس تصویر کو دیکھنے لگی.

یہ تصویر کسی ۱۹،۲۰ سال کی نوجوان لڑکی كے چہرے کا کلوز اپ تھی.کشادا پیشانی پر تیکھی آئیبرو کمان کی طرح کاٹ دار تھی.بڑی بڑی سنہری مائل غلافی آنکھیں جن پر خم دَر پلکوں کی گھنی جھالر تھی.ستواں ناک،گال سرخی مائل بھرے بھرے تھے.ہونٹ گُداز اور ٹھوڑی قدرے باریک تھی.چہرے کی رنگت کندانی تھی جس كے اطراف میں شہد جیسی رنگت والے سلکی بال بکھرے ہوئے تھے.کانوں میں موتیے كے اویزی لٹک رہے تھے اور کندھوں پر پڑا سفید ڈوپٹہ بھی نظر آرہا تھا.وہ جو بھی تھی،بلا شبہ حَسِین تھی.مگر حسن بھی تو دو طرح کا ہوتا ہے.کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جس کو دیکھتے ہی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں.کیوںكہ کچھ اور نظر ہی نہیں آتا.پِھر جب وہ آنكھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں تو ذہن یوں ہر بڑا کر جاگتا ہے جیسے نیند سے جاگا ہو.پِھر جتنی بار انہیں دیکھا جائے،اپنی کشش کھوتے جاتے ہیں.

البتہ کچھ چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں کو چندھیاتے نہیں،باندھ لیتے ہیں یوں كے پِھر کسی اور طرف دیکھنے کو دِل ہی نہیں چاہتا.پِھر چاہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں،انکا اثر باقی رہتا ہے اور جتنی بار وہ سامنے آئیں،لگتا ہے پہلی بار دیکھ رہے ہیں.اس لڑکی کا چہرہ بھی ان چہروں میں سے تھا جن سے نظر نہیں ہٹتی.

بالکل اس طرح جیسے تانیہ کی نظر نہیں ہٹ رہی تھی۔تانیہ نے کئی بار دیکھا تھا کہ اظہر فاروقی کسی بت کی طرح بیٹھے گھنٹوں اس تصویر کو تکا کرتے تھے۔انکی محویت پر تانیہ کو حیرت ہوا کرتی تھی۔لیکن اب خود اس تصویر کو دیکھتے ہوئے بالکل محو ہو چکی تھی۔مگر اسکی محویت کی وجہ محض اس لڑکی کا حسن نہیں تھا۔تانیہ نے وہ تصویر تو سینکڑوں بار دیکھی تھی مگر تصویر والی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔پھر بھی پتہ نہیں کیوں اسے یہ چہرہ بہت مانوس لگتا تھا۔اسکے ذہن میں وہ سوال سر اٹھا رہے تھے جو بچپن میں اس تصویر کو دیکھ کر اسکے ذہن میں آتے تھے۔

"وہ کون ہے؟... اسکی تصویر اس گھر میں کیوں لگی ہے؟...اسکا اس گھر کے مکینوں سے کیا تعلق ہے؟" مگر تانیہ جانتی تھی کہ ان سوالوں کو سوچ لینا جتنا آسان ہے،انکے جواب پانا اتنا ہی مشکل۔اسے یاد تھا،ایک بار جب وہ بہت چھوٹی تھی تو اس نے مریم سے پوچھا تھا۔

"ماما!وہ لڑکی کون ہے جس کی تصویر دادا جان کے کمرے میں لگی ہے؟"

"تمہیں اس بارے میں جاننا ہے؟"وہ ایک دم غیض و غضب سے بولیں۔تانیہ نے چاہا انکار کردے مگر ننھی سی بچی سہم کر ہاں میں سر ہلا بیٹھی۔پھر کیا تھا۔مریم نے جھپٹ کر اسکا بازو اپنی آہنی گرفت میں لے لیا اور اسکے گالوں پر تھپڑوں کی بارش کردی۔

نور الہدیٰ نے مریم کو اس حرکت پر ڈانٹا اور کونے میں کھڑی دہشت سے کانپتی تانیہ کے پاس آئے۔وہ اس قدر خوف زدہ ہو چکی تھی کہ رو بھی نہیں پارہی تھی اور رونے کی کوشش میں اسکے حلق سے لایعنی آواز ہی نکل رہی تھی۔پانچ چھ سال کی بچی کو اٹھا کر وہ صوفے پر آبیٹھے۔کتنی ہی دیر تک نور الہدیٰ اسے اپنے سینے سے لگائے پھپکتے رہے۔وہ کبھی اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے،کبھی اسکے مسلے گئے گالوں پر پیار کرتے۔بہت دیر بعد کہیں جاکر وہ نارمل ہوئی تھی۔مگر اسکے ذہن میں خوف بیٹھ چکا تھا۔پھر کچھ دن بعد اظہر فاروقی نے اسے بہت نرمی سے سمجھایا کہ وہ کبھی تصویر والی لڑکی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گی۔اسکا خوف کچھ اور گہرا ہوگیا۔پھر اس نے خوف کے مارے بھی اس لڑکی کا ذکر نہیں کیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ تانیہ کا خوف تو ختم ہوگیا مگر وہ یہ بھی سمجھ گئی کہ وہ لڑکی چاہے جو بھی ہو اسکا ذکر شجر ممنوعہ ہے۔پھر ایسے سوال کرنے کا فائدہ جنکا جواب نہ ملے۔یہ سوچ کر اس نے کبھی اس لڑکی کے بارے میں اپنے ذہن میں تجسّس پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔بھلا اگر دادا جان کے کمرے میں کسی لڑکی کی تصویر لگی ہے تو لگی رہے۔کیا فرق پڑتا ہے۔ایک دم سے تانیہ کو احساس ہوا جیسے وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت ضائع کررہی ہے۔وہ بے زاری سے رخ بدل کر بیٹھ گئی۔

"کوئی فائدہ نہیں۔کوئی کبھی نہیں بتائے گا کہ یہ کون ہے؟"اس نے کوفت سے اپنا سر جھٹکا اور بیڈ سے اٹھنے ہی والی تھی کہ ٹھٹک کر رک گئی۔اسکی نظر دادا جان کی اسٹڈی ٹیبل پر رکھی ریڈ ڈائری پر اتفاقاً ہی پڑ گئی تھی۔لوگ ڈائری لکھتے ہیں مگر اس نے دادا جان کو ہمیشہ ڈائری پڑھتے دیکھا تھا۔

"دیکھوں تو اس ڈائری میں کیا لکھا ہے؟" اسکے اندر تجسّس جاگا۔ٹیبل سے ڈائری اٹھا کر وہ دوبارہ بیڈ پر آبیٹھی۔تکیہ رکھ کر نیم دراز ہوتی وہ ڈائری کا پہلا صفحہ کھول کر پڑھنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

میاں جی،نواب شاہ کے با اثر زمیندار تھے۔بلند و بالا حویلی انکی خاندانی جاگیر کے طور پر انکے حصے میں آئی تھی۔بیگم حیات نہیں تھیں البتہ انکی دو اولادیں تھیں اور دونوں ہی بیٹے تھے۔بڑے مظہر فاروقی اور چھوٹے اظہر فاروقی۔مظہر فاروقی،میاں جی کی طرح ہی پکے زمیندار تھے۔اظہر فاروقی کا مزاج تو زمیندارانہ تھا مگر انہیں اپنے آبائی پیشے میں کوئی خاص شغف نہیں تھا۔اسکے بجائے انہیں تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی تھی۔

میاں جی کو بیٹے کا شوق پسند تھا اور ساتھ ہی وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔انہوں نے اظہر فاروقی کو حصول تعلیم کے لیے بخوشی کراچی بھیج دیا البتہ ہوسٹل کی رہائش انہیں پسند نہیں تھی۔جب تک اظہر فاروقی میٹرک کر کے کالج میں پہنچے،انہوں نے کراچی میں ہی وسیع رقبے پر حویلی کی تعمیر مکمل کروالی۔

ایک ہزار گز پر تعمیر کیا گیا قصر فاروقی،سفید سنگ مرمر سے بنی پرشکوہ عمارت تھی۔باہر سے اگر یہ عمارت سبز و سفید کا شاہکار تھی تو اندر سے سیاہ و سفید کا عجوبہ۔قصر فاروقی کی آرائش میں لکڑی کا بکثرت استعمال ہوا تھا۔

اظہر فاروقی نے قصر فاروقی میں رہتے ہوئے ہی گریجویشن کا ایگزام دیا اور اسکے بعد آرمی میں جانے کی خواہش ظاہر کردی۔میاں جی کو یہ بات پسند نہیں آئی۔وہ چاہتے تھے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اظہر فاروقی واپس حویلی آجائیں اور اظہر فاروقی کو یہ منظور نہیں تھا۔آخر مظہر فاروقی انکی مدد کو آئے اور ناجانے کن مشکلوں سے انہوں نے اظہر فاروقی کو آرمی جوائن کرنے کی اجازت دلوادی۔بہرحال جب سارے معاملے طے ہوگئے تو انہیں بیٹوں کی شادی کا خیال آیا۔اس معاملے میں اظہر فاروقی نے بڑے بھائی کی طرح ہی فرمانبرداری سے سب کچھ ان پر چھوڑ دیا۔

میاں جی نے خود بہوؤں کے انتخاب میں احتیاط برتی۔مظہر فاروقی کی بیگم نورین زمیندار گھرانے سے تھیں البتہ چھوٹی بہو فریال کراچی کے پڑھے لکھے خاندان سے تھیں اور خود بھی تعلیم یافتہ تھیں۔شادی کے پہلے سال ہی مظہر فاروقی بیٹے کے باپ بن گئے اور پوتے کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد ہی میاں جی قضائے الہٰی سے وفات پا گئے۔

دکھ کتنا ہی بڑا ہو،زندگی نہیں رکتی۔یہی سوچ کر دونوں بھائی اپنی زندگیوں میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔لیکن اظہر فاروقی کے نصیب میں ایک دکھ اور لکھا تھا۔اظہر فاروقی آرمی جوائن کرتے ہی مسافر ہوگئے تھے اور انکا پڑاؤ کبھی ایک تو کبھی دوسرے شہر ہوتا۔مگر فریال کو بھی گاؤں کا ماحول پسند نہیں تھا اور اظہر فاروقی کی غیر موجودگی میں انکا حویلی میں رہنا ضروری نہیں تھا اس لیے وہ شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی قصر فاروقی شفٹ ہوگئیں۔لیکن انکا اپنے سسرال سے مکمل رابطہ تھا۔کبھی وہ خود حویلی چلی جاتیں تو کبھی انکے جیٹھ اور جیٹھانی بیٹے کو ساتھ لئے کراچی آجاتے۔اس بار بھی انکی واپسی ایک لمبے قیام کے بعد ہوئی تھی۔مگر وہ نواب شاہ تک نہیں پہنچ سکے۔راستے میں ہی انکی کار کا مسافر کوچ کے ساتھ زبردست تصادم ہوا تھا۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی اظہر فاروقی جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔مگر جب وہ پہنچے تو انکے بھائی اور بھابھی دم توڑ چکے تھے لیکن تین سال کا انکا بیٹا معجزانہ طور پر محفوظ رہا تھا۔انکی تدفین سے فارغ ہو کر جب دونوں میاں بیوی نے رخت سفر باندھا تو اس ننھے سے بچے کو بھی ساتھ کراچی لے آئے۔

فریال کی اپنی گود تو اب تک خالی تھی انہوں نے بہت آسانی سے اس بچے کو اپنے بیٹے کی حیثیت سے قبول کرلیا اور  بہت جلد ہی وہ انکی زندگی کا مرکز بن گیا۔یہاں تک کے شادی کے ساتویں برس منتوں اور دعاؤں کا ثمر بن کر پیدا ہونے والی ملیحہ فاروقی بھی اس کے لیے فریال کی محبت کو کم نہ کرسکی۔پھر اسکے سات سال بعد جیسے اظہر فاروقی حصولِ تعلیم کے لیے کراچی آئے تھے،اپنے بھتیجے کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیج دیا مگر چار سال بعد ہی انہیں واپس آنا پڑا۔ملیحہ کی پیدائش کے وقت ہی فریال کو کچھ پیچیدگیوں سے گزرنا پڑا تھا اور پھر اسکے بعد وہ مستقل بیمار رہیں اور گیارہ سال کی بیماری کے بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔پالنے والی ماں کو کندھا دے کر وہ پھر لندن چلے گئے۔مگر ملیحہ کی زندگی میں خلا ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا۔حالانکہ بابا جان نے بہت جلد ہی ریٹائرمنٹ لے لی شاید ملیحہ کی تنہائی کے خیال سے...مگر پاس ہونے اور ساتھ ہونے میں فرق ہوتا ہے۔

ب صورت حال یہ ہے كہ وہ یا تو اپنی اسٹڈی میں وقت گزرتے ہیں یا اپنے پرانے دوست ملک ناصر كے ساتھ شطرنج کھیلتے ہیں اور میری یعنی ملیحہ فاروقی کی روٹین بھی بس یوں ہی سی ہے.میں نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے اور میرا سارا وقت گھرداری میں یا پِھر پینٹنگ میں گزرتا ہے.ہاں روز ہی کچھ وقت نکال کر میں لائبریری چلی جاتی ہوں.ویسی تو بابا جان کی لائبریری میں میرے لیے بہت سی کتابیں ہیں مگر لائبریری جانے کی وجہ صرف اتنی ہے كہ میں اِس تنہائی سے کچھ دیر پیچھا چھڑا سکوں جو امی جان كے انتقال كے نو سال بعد بھی مجھے بوکھلا دیتی ہے.مگر اب شاید تنہائی کا احساس کچھ کم ہوجائے. 

پڑھائی ختم کرکے نورالہدی نے لندن میں جاب بھی کرلی تھی.پر اب سنا ہے كہ بابا جان كے بھتیجے ہمیشہ كے لیے واپس آ رہے ہیں. 

تانیا کو جھٹکا لگا تھا.وہ جلدی سے سیدھی ہو بیٹھی.پِھر اس نے اس لائن کو دوبارہ پڑھا.پِھر تیسری اور چوھتی بار.ہر بار پڑھنے میں اک ہی بات سمجھ میں آئی.

"پاپا،دادا جان كے بیٹے نہیں ہیں."یہ اس كے لیے انکشاف تھا.وہ سوچنے لگی،اگر یہ بات سچ ہے تو بھی چھپائی کیوں گئی؟بھلا اِس بات كے پتہ چل جانے میں کیا ہجر ہے؟ 

اظہر فاروقی اگر نورالہدی كے چاچا بھی تھے تو تانیا كے دادا ہی تھے.پِھر اس نے سوچا،جب تک وہ سب کچھ جان نہیں لیتی،اِس بات کو خود تک محدود رکھے گی.اسی وقت دستک کی آواز پر تانیا اچھل گئی.اس نے جلدی سے ڈائری اپنے پیچھے چھپا لی. 

"دروازہ کھلا ہے."اسکی آواز پر ملازمہ نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا. 

"مہمان چلے گئے ہیں تانیا بی بی!اور سب آپکا کھانے پر انتظار کر رہے ہیں." 

"پاپا آگئے؟" 

"نہیں." 

"ٹھیک ہے.تم چلو میں آتی ہوں." 

اسکے جانے كے بعد وہ ڈائری ہاتھ میں لیے اٹھی اور چلتے ہوئے تصویر كے سامنے جا کھڑی ہوئی. 

"مجھے شک سا ہورھا ہے كہ ملیحہ فاروقی آپ ہی ہیں اور اگر آپ ملیحہ ہیں تو یہ ڈائری بھی اپنے ہی نے لکھی ھوگی.ہمیشہ سے میرا دِل چاہتا تھا كہ میں آپکے بارے میں کچھ جان پاؤں اور اب یہ ڈائری مجھے آپکے بارے میں کافی کچھ بتانی والی ہے.مگر گھبرائے مت،پڑھ کر آپکی ڈائری واپس کردونگی اور اِس میں جو بھی لکھا ہے،وہ میرے اور آپکے درمیان رہیگا.یہ میرا وعدہ ہے." 

وہ چُپ ہوئی،پِھر اپنی ہی حرکت پر ہنستی کمرے سے باہر آگئی. 

اس نے ڈائری اپنے کمرے میں رکھی اور كھانا کھانے نیچے آگئی.ڈائری پڑھنے کی جلدی میں اس نے ٹھیک سے كھانا بھی نہیں کھایا اور کمرے سے آگئی.کمرے میں آ کر اس نے لائٹ آن کی اور دروازہ لوک کر كے ڈائری نکل کر بیڈ پر بیٹھ گئی. 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ملیحہ لائبریری میں بیٹھی کتاب كے مطالعے میں غرق تھی كہ اسے اپنے چہرے پر کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس ہوئی.اس نے سَر اٹھا کر دیکھا مگر کوئی بھی متواجہ نظر نہیں آیا تو سَر جھٹک کر واپس کتاب پر نظریں جما دیں.مگر کسی کی نظروں کا احساس بدستور تھا.وہ چڑ گئی.آج تیسرا دن تھا كہ وہ کتاب لے کر بیٹھی اور کسی کی نظروں کی شدت اسے بے چین کرنی لگی.دو دن تک وہ اپنا وہم سمجھ کر نظر اندازِ کرتی رہی مگر آج سچ مچ اسے غصہ آ گیا تھا.اس نے کتاب بند کی اور اپنے اطراف کا جائزہ لینا شروع کیا.اسکے بالکل سامنے اک انکل اخبار پڑھ رہے تھے مگر انکی سفید داڑھی کا احترام کرتے ہوئے اس نے اپنے دائیں جانب چہرہ موڑ کر دیکھا.وہاں یونیورسٹی كے کچھ اسٹوڈنٹ کمبائن اسٹڈی کررہے تھے.وہ گروپ كے لڑکوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگی مگر کسی نے بھی اسکی طرف نہیں دیکھا تو اس نے دوسری طرف دیکھا.وہ کوئی لڑکی تھی اور ظاہر ہے یہ حرکت وہ تو نہیں کرے گی.ہال میں کچھ اور لوگ بھی تھے مگر ملیحہ نے کسی کو بھی اپنی طرف دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا. 

"کیا مصیبت ہے؟"اسے سخت بیزاری ہوئی،دو دن سے یہی ہورھا تھا.بیٹھے بیٹھائے محسوس ہونے لگتا كہ کوئی اسے بہت توجہ سے دیکھ رہا ہے مگر ڈھونڈنے پر کوئی نظر نہیں آتا اور وہ غصے سے کھولتی گھر آجاتی. 

اپنی طرف سے تو اس نے مسئلے کا یہ حَل نکالا تھا كہ آج صبح كے بجائے شام کو آئی تھی اور اپنی مخصوص جگہ سے ہٹ کر بیٹھی تھی.مگر سامنے والا بھی کافی مستقل مزاج تھا.گھر کی تنہائی سے گھبرا کر وہ یہاں آتی تھی پر اب لگ رہا تھا كہ اِس نادیدہ مہربان کی وجہ سے یہ اکلوتی سَرگرمی بھی ترک کرنی پڑے گی.وہ اٹھی اور کتاب گھر جا کر پڑھنے كے خیال سے اشو کرواتی باہر آگئی. 

"ایکسیوز می مس!"وہ پتھر کی چوڑی سیرھیون سے اُتَر رہی تھی جب کوئی اسکے پیچھے سے بولا تھا.وہ رک کر پلٹی تو دیکھا سانولی رنگت کا ایک لڑکا بلیک پینٹ شرٹ پہنے اسکی طرف آرہا تھا. 

"جی؟"وہ قریب ایا تو ملیحہ نے کہا اور اس جی كے جواب میں اس نے جو کہا،اسے سن کر ملیحہ کا جی چاہا كہ اسکا سر پھاڑ دے.بے فکری سے ماتھے پر آئے کالے بالوں کو ایک ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے وہ بڑے عام سے اندازِ میں بول رہا تھا. 

"آپ مجھ سے شادی کریں گی؟"ملیحہ کو پہلے تو لگا كے اسے سنے میں غلطی ہوئی ہے پِھر اسے گھور کر دیکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا مگر پِھر اپنا اِرادَہ ترک کر كے وہ پلتی اور سیڑھیاں اترنے لگی.وہ بھی ساتھ ہو لیا. 

"دیکھیے نا تو میں آپ سے مذاق کر رہا ہوں اور نا میرا اِرادَہ فلرٹ کرنے کا ہے.میں پوری سنجیدگی سے آپکو پروپوز كررہا ہوں.ھوسکتا ہے آپکو یہ سب عجیب لگ رہا ہو مگر میں ریکویسٹ کرتا ہوں كہ پلیز سوچ کر جواب دیجیئے گا.مجھے جواب جاننے کی کوئی جلدی نہیں ہے.آپ چاہیں تو کل جواب دیں،پرسوں دیں،ایک ہفتے بعد،ایک سال بعد،دس سال بعد یا چاھے قیامت كے دن.میں یہیں لائبریری میں آپکے جواب کا انتظار کرونگا."ملیحہ نے پہلے تو اپنے قدموں کی رفتار تیز کی پِھر کانوں پر ہاتھ رکھ لیے اور آخر میں اس نے دوڑ لگا دی.دوڑتے ہوئے اسے احساس ہوا كہ اسکی آواز آنی بند ہوگئی ہے تو اس نے رک کر ڈرتے ڈرتے پلٹ کر دیکھا. دور تک سڑک سنسان تھی.اسے اطمینان ہوا.بھاگتے ہوئے سانس پھول گیا تھا.وہ وہیں سڑک كے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سانس درست کرنے لگی۔

"بدتمیز کمینہ لوفر کہیں کا.کہتا ہے شادی کرے گا.ایسا مارونگی كہ شادی،بربادی سب بھول جائے گا.ایڈیٹ جواب لینے آئے گا بد تحزیب انسان.آئیگا تو آتا رہے.میں تو اب مر کر بھی ادھر کا رخ نا کروں." 

وہ فٹ پاتھ پر بیٹھی اونچی آواز میں اسے صلاواتیں سنا رہی تھی.وہ تو شکر تھا،سڑک بالکل خالی تھی ورنہ اگر کوئی اسے اِس حال میں دیکھ لیتا تو ہاتھ پکڑ کر پاگل خانے چھوڑ آتا. 

"پاگل ہوں نا میں كہ کوئی بھی راہ چلتا شادی کی آفر کرے گا اور میں چل پڑونگی."بڑ بڑاتے ہوئے وہ اٹھی.اب جو اپنے اطراف میں غور کیا تو جی چاہا، سَر پیٹ لے.یہ جگہ جانی پہچانی تو تھی مگر اسکے گھر سے کافی دور تھی.دوڑتے ہوئے وہ اپنے گھر كے بجائے دوسری سڑک پہ نکل آئی تھی اِس خیال سے كہ کہیں وہ راستے میں نا مل جائے.واپس پلٹنے كے بجائے اس نے آگے جا کر مین روڈ سے گھر جانے کا سوچا اور آگے بڑھی.پِھر اک دم ہی غصے میں پلٹ کر جہاں سے آئی تھی،اس طرف منہ کرکے زور سے بولی. 

"اُلو کا پٹھا..بابا کو بتاؤں نا تو کل اسی گلی سے تمھارا جنازہ نکل رہا ھوگا.فوجی کا ہاتھ پڑا تو دماغ ٹھکانے آ جائے گا."وہ یوں بول رہی تھی جیسے وہ کھڑا سن رہا ہو. 

وہ گھر پہنچی تو اظہر فاروقی لان میں ہی مل گئے.وہ تو اندر جانے والی تھی مگر انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ انکی طرف بڑھی. 

"اسلام علیکم بابا جان." 

"وعلیکم اسلام!آج تم نے کچھ زیادہ ہی دیر کردی."انکی بات پر اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا.وہ عام طور پر دو ڈھائی گھنٹے میں واپس آجاتی تھی مگر آج اسکی واپسی تِین گھنٹے بعد ہوئی تھی.ایک تو پہلے اس نے خوب دماغ خراب کیا پِھر غے میں اتنا خیال بھی نہیں آیا کہ رکشہ یا ٹیکسی ہی کر لیتی،اسے کوستی پیدل ہی چلی آئی. 

"ایک پاگل جو مل گیا تھا،پِھر دیر کیسے نا ہوتی؟" 

"کیا کہہ رہی ہو؟"اسکے ہونٹ ہلتے دیکھ کر انہوں نے پوچھا. 

"کچھ نہیں.آپ میرا انتظار کر رہے تھے کچھ کام تھا؟" 

"ہاں مجھے پوچھنا تھا،تم نے نورالہدی کا کمرا تو ٹھیک سے سیٹ کر لیا ہے؟" 

"کتنی بار پوچھیں گے؟"اس نے دِل میں کہا پِھر بولی."آپ بے فکر رہے بابا جان!میں نے ان کے کمرے کی ہر چیز اپنے ہاتھ سے سیٹ کی ہے."پِھر ان کے پاس سے ہٹ کر وہ کچن كے سامنے سے گزرتی پھچلی طرف كے ہال میں آگئی.حل کی سیرھیاں اک اک کر كے چڑھتی وہ اپنے کمرے میں آئی.یہ کمرہ کافی کھلا اور بڑا تھا اور ارایشی لڑیوں سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.اک طرف کا حصہ بیڈروم تھا جس میں ورڈورب بھی اٹیچ تھا.ورڈورب كے ایک طرف اٹیچ باتھ تھا.دوسرا حصہ آرٹ اسٹوڈیو کا لک دے رہا تھا ایک دیوار پر لکڑی کا لمبا سا ریک دیوار سے جوڑا گیا تھا جس پر کچھ کنواس سوکھنے كے لیے رکھے گئے تھے.ایک طرف رائٹنگ ٹیبل كے ساتھ کرسی رکھی تھی،ایک ٹیبل پر پینٹینگ برش بھی رکھے تھے.پاس ہی ایزل بھی موجود تھا.کمرے میں بالکونی بھی تھی.جسکی چھت سے ملیحہ نے بہت سے ونڈ چائمیز لٹکا رکھے تھے.بالکونی میں موجود جھولے سے بھی اس نے چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں باندھ رکھی تھی.ملیحہ کو انکی آوازوں کا شور بہت پسند تھا.

اکثر چاندنی راتوں میں وو جھولے میں لیٹی ان آوازوں کو سنتی رہی.یہ کمرہ کشادہ تو تھا,اسکی اک ور خصوصیت یہ تھی کہ یہ باقی گھر سے منسلک ہوتے ہوے بھی کافی الگ تھا اور اسے وجہہ سے ملیحہ نے اسے اپنے لئے منتخب کیا تھا کہ وو یہاں یکسوئی سے اپنا کام کر سکتی تھی.ملیحہ نےکتاب ٹیبل پر رکھی اور فرش ہونے کے لئے  باتھروم میں چلی گی.منہ ہاتھ دھو کر وو تولیے سے خشک کرتی ایزل کے سامنے آ کھڑی ہوئی.یہ کینوساس نے کافی دن پھلے شروع کیا تھا مگر ابھی تک آسمان کا کچھ حصہ اور اک سوکھا درخت  ہی پینٹ کر پا تھی.اس نے سوچا,آج اس کینوس کو ضرور مکمل کرلے گی.اس نے ٹرے میں کلر مکس کر کے برش پر لگایااور کینوس پر کچھ اسٹروک لگا کر ہی اس نے ہاتھ روک لیا.پتا نہیںکیوں اس کا ذہن یکسو نہیں ہو پا رہا تھا.اس نے  ایک بار اور کوشش کی مگر ذہن اب بھی بٹا ہوا تھا.اس نے محسوس کیا کہ کوئی چیز اسے ڈسٹرب کر رہی ہے.

"شاید وہ ونڈچائمز کی آواز۔"اس نے سوچا اور اٹھی۔بالکونی کی سلائیڈنگ گلاس ڈور کو بند کر کے وہ مطمئن سی ہوتی،کرسی گھیسٹ کر ایزل کے سامنے آرام سے بیٹھ گئی۔مگر اب کمرے کی خاموشی اسے چھبنے لگی تھی۔وہ چڑ سی گئی۔اسی ماحول میں وہ گھنٹوں کینوس پر کام کرتی تھی مگر آج وہ اپنا ذہن تک نہیں بنا پا رہی تھی۔تنگ آکر اس نے برش رکھا اور کچن میں آگئی۔سامنے ہی کچن ٹیبل کے ساتھ رکھے اسٹول پر چڑھا،اسکا ہم عمر دبلا پتلا سا بہادر سلاد کاٹ رہا تھا۔

"تم۔۔۔۔؟"وہ اسے دیکھ کر حیرت سے بولی۔"گل بانو کہاں ہے؟"

"اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آج کھانا میں نے بنایا ہے۔"

"ہونہہ۔۔۔"ملیحہ نے ہنکار بھرا اور کھانے کا جائزہ لینے لگی۔

"بی بی صاب!،مہمان رات کو دیر سے آئیں گے؟"

"مہمان نہیں۔۔چھوٹے صاحب آرہے ہیں۔"ملیحہ نے تصحیح کی۔

"چھوٹے صاحب کیا یہیں رہیں گے؟"

"ظاہر ہے۔۔انسان اپنے گھر میں ہی رہتا ہے۔"

"تو پھر وہ لندن میں کہاں رہتے تھے؟"بہادر نے سوچتے ہوئے پوچھا۔

"فٹ پاتھ پر۔"وہ چڑ گئی۔"تم کیا ناشتے میں کوےّ کھاتے ہو؟جب دیکھو زبان چلتی رہتی ہے۔زرا دیر کو چپ نہیں رہا جا سکتا۔"

بہادر کی شکل بتا رہی تھی كہ اسے ملیحہ کا ڈانٹنا بالکل اچھا نہیں لگا تھا مگر ملیحہ نے پرواہ کیے بغیر مزید کہا۔ 

"اگر رائتہ بنا چکے ہو تو ٹیبل پر كھانا لگا دو اور بابا جان سے بھی کہہ دو،كھانا تیار ہے۔" 

"ٹھیک ہے جی۔"وہ برتن لگانے لگا۔

ایک بھتیجے كے آنے پر قصرِ فاروقی کو نئے اندازِ سے سجایا گیا تھا جسکی وجہ سے ملیحہ کو کافی کوفت ہوئی تھی۔ 

ملیحہ چاولوں کی ڈش ٹیبل پر رکھ رہی تھی كہ بہادر آکر بولا۔ 

"کرنل صاب کہہ رہے ہیں،وہ كھانا چھوٹے صاب كے ساتھ کھائیں گے۔"

ملیحہ نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور بلانے چلی گئی.اس نے اسٹڈی میں پیر رکھا ہی تھا كہ اسکی ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی.ہمیشہ کی طرح سفید براق کرتا شلوار میں کالے رنگ کی سادا سی چپل پیروں میں ڈالے سنہری فریم کی عینک لگائے وہ سامنے کرسی پر اٹینشن بیٹھے تھے اور نظریں وال کلاک پر جمی تھی.وہ آگے بڑھی اور چلتے ہوئے ان کے پاس فرش پر بیٹھ کر اپنا ہاتھ ان کے گھٹنے پر رکھا.یہ اسکی بچپن کی عادت تھی.اسے جب بھی بابا جان کو متوجہ کرنا ہوتا تو مخاطب کرنے كے بجائے انکی طرف دیکھنے لگتی.اظہر فاروقی نے کلاک سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا.

"كھانا کھالیں بابا جان!" 

"آج تو كھانا نورالہدی كے ساتھ ہی کھاونگا.تم جا کر کھالو." 

"بابا جان!انکی فلائٹ 11 بجے لینڈ کرے گی اور گھر آنے میں ڈیڑھ بج جائے گا۔اتنی رات کو آنے كے بعد وہ صبح ناشتے سے پہلے کچھ نہیں کھائے گے." 

"مجھے كھانا نہیں كھانا."انہیں ملیحہ کی بات سہی لگی تھی پِھر بھی کھانے كے لیے نہیں مانے تو ملیحہ نے پِھر اصرار کیا. 

"تھوڑا سا کھا لیں.آپ جانتے ہیں مجھے اکیلے كھانا كھانا پسند نہیں."

"كھانا کھانے كے لیے بھوک کا لگنا ضروری ہے،کسی کا ساتھ ھونا نہیں.تمہیں بھوک لگ رہی ہے تو جا کر کھالو."انہوں نے نرمی سے مگر قطعی لہجے میں کہا.اسے برا تو لگا مگر مزید کچھ نہیں کہا.وہ اٹھ کر ڈائننگ روم میں آگئی. 

"بہادر!"اسکی آواز پر بہادر،بوتل كے جن کی طرح حاضر ہو گیا. 

"كھانا اٹھا دو."وہ اپنے کمرے سے جا کر لائبریری سے ایشو کروائی کتاب اٹھائے لاونج میں آ بیٹھی. 

11 بجنے میں 1 گھنٹہ باقی تھا كہ بابا جان اسٹڈی سے نکل کر لاونج میں آئے،پِھر اسے دیکھ کر بولے. 

"ملیحہ." 

"جی بابا جان!"وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولی. 

"میں ایئرپورٹ كے لیے نکل رہا ہوں.پِھر سوچا ایک نظر نورالہدی کا کمرا دیکھ لوں." 

"آئیے بابا جان!"ملیحہ كے آگے چلتے ہوئے وہ ایک دم ہی پلٹ کر بولے. 

"تم نیچے کا کوئی کمرا ٹھیک کروا لیتیں،اب وہ اتنی رات کو تھکا ہوا سیرھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں جائے گا."

ملیحہ چاھتے ہوئے بھی نا کہہ سکی كہ آپ نے ہی کہا تھا نورالہدی كے لیے اوپر والا کمرا ٹھیک کروانا.اسے گراؤنڈ فلور پر رہنا پسند نہیں. 

وہاں سے باہر نکلے تو ملازموں کو لائن میں کھڑا کر كے ہدایت دینا شروع کیں. 

"جب تک میں نورالہدی کو لے کر ایئرپورٹ سے نہیں آجاتا،تم میں سے کوئی سرونٹ کوائٹر كی طرف بھٹکے گا بھی نہیں.بہادر اور نزیر!تم دونوں فوراً گاڑی رکتے ہی نورالہدی کا سامان نکل کر اسکے کمرے میں پہنچا دینا اور گلاب خان!پہلے ہارن پر ہی گیٹ کھل جانا چاہیے.اگر دیر لگی تو یاد رکھنا،میری رائفل کو ابھی زنگ نہیں لگا. اور یہ ڈرائیور کدھر رہ گیا ہے؟دیکھو ذرا اس نے گاڑی تیار کی یا نہیں."ایک ملازم دیکھ کر آیا. 

"جیپ تیار ہے کرنل صاحب!" پِھر جب انکی گاڑی گیٹ سے نکل گئی تو ہر ایک نے سکون کا سانس لیا.

"کوئی مجھے اک گلاس پانی كے ساتھ سر درد کی ٹیبلیٹ دے گا؟"صوفے پر بیٹھتے ہوئے ملیحہ نے سدا لگائی.اسے دیر تک جاگنے کی عادت نہیں تھی لیکن آج جاگنا ضروری تھا. 

ایک بجتے ہی ملیحہ کی نظر وال کلاک سے جیسے چپک گئی تھی.اسکا اِرادَہ تھا وہ لوگ ڈیڑھ بجے تک تو ہر حَال میں آ جائیں گے مگر 2 بجے،پِھر ڈھائی،پِھر پونے تِین اور تنگ آ کر 3 بجے ملیحہ نے ائرپورٹ انکوائری کا نمبر ملا دیا.پتہ چلا فلائٹ 3 گھنٹے لیٹ تھی اور یہ سوچنا بھی بے کار ہے كہ"بابا جان مجھے فون کر كے اطلاع دے دیتے"ریسیور رکھتے ہوئے اس نے خود سے کہا اور بہارد اور نزیر كے علاوہ سب کو سرونٹ کواٹر میں بیجھ دیا اور خود لاونج میں بیٹھ گئی.جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں سے انٹرینس نظر كے سامنے تھا.نیند كے مارے اسکا برا حال تھا لیکن جانتی تھی اگر نورالہدی كے استقبال کو وہ بہ نفس نفیس موجود نا ہوئی تو بابا جان ناراض ہوں گے. 

"انتظار کرنا بھی کتنا مشکل کام ہے."سوچتے سوچتے اچانک اسکی ذہنی رُو بہک گئی. 

"آپ چاھے کل جواب دے،پرسوں..یا چاھے قیامت كے دن.. میں انتظار کرونگا."اس وقت تو اسے غصہ ہی آیا تھا مگر اب وہ گم سم ہوگئی تھی. 

"کیا کوئی قیامت كے دن تک کسی کا انتظار كرسكتا ہے؟"اس نے خود سے سوال کیا اور پِھر فوراً ہی جواب بھی دے ڈَالا. 

"امپوسیبل."

ساڑھے چار بجے کے قریب ہارن کی آواز ائی۔

۔۔۔۔۔۔۔

"فلائٹ ایکچولی ٹیک اوف کے وقت ہی لیٹ ہوگئی تھی.لندن کا موسم تو آپ جانتے ہیں. ایئرپورٹ جانے سے پہلے اگر آپ انکوائری سے معلوم کر لیتے تو اتنی زحمت نا ہوتی اور..."اظہر فاروقی كے ساتھ اندر آتے نورالہدی جانے کیا بولنے والے تھے كہ صوفے پر بے خبر سوتی لڑکی کو دیکھ کر چُپ ہوگئے.بابا جان نے بھی اسے دیکھ لیا تھا. 

"یہ اِس طرح کیوں سو رہی ہے؟"وہ ناگواری سے پاس کھڑی ملازمہ سے بولے جو گاڑی کی آواز پر کوائٹر سے نکل کر پورچ میں آگئی تھی اور اب ان کے ساتھ ہی اندر آئی تھی. 

"بابا جان پلیز..!"انہوں نے بابا جان کو ٹوکا اور ملازمہ سے بولے."تم جاؤ." 

بابا جان کو ساتھ لیے ان کے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں جانے كے لیے صوفے كے پاس سے گزرے تو غیر اِرادی طور پر بازو پر لٹکا کوٹ جھٹکتے ہوئے اس پر پھیلا دیا.وہ اپنے کمرے میں آئے اور جوتوں سمیت ہی بیڈ پر لیٹ گئے. 

~~~~~

تھکن كے مارے ملیحہ کا حال برا تھا.درد سے بدن ٹوٹ رہا تھا.پِھر بھی فجر کی اذان كے ساتھ ہی حسب عادت اسکی آنکھ کھل گئی.آنکھ کھلتے ہی اسے سب سے پہلے نورالہدی کا خیال آیا اور وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی.کھڑے ہوتے ہی کوئی چیز اسکے وجود پر سے پھسلتے ہوئے اسکے پیروں پر گر گئی.اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا. 

یہ کوٹ کس کا تھا اور اس پر کس نے ڈالا ھوگا؟ملیحہ کو یہ سمجھنے میں اک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں لگی.جھک کر کوٹ اٹھا كے بازو پر ڈالتے ہوئے وہ عجیب سے احساس سے دو چار ہوئی تھی.وہ کوٹ لیے اپنے کمرے میں آگئی.کوٹ بیڈ پر ڈال کر وہ شاور لینے چلی گئی.دس منٹ بعد ہی وہ گیلے بالوں كے ساتھ کمرے میں آئی.پِھر اس نے نماز پڑھی.

نورالہدی یوں بھی سحر خیز تھے.پِھر وہ فلائٹ میں نیند پوری کر چکے تھے.سورج كے چھب دیکھتے ہی وہ ٹریک سوٹ پہنے لان میں نکل آئے.دوڑتے ہوئے لان كے کئی چکر کاٹ کر وہ ایک جگہ رکے،بار بار جھک کر اپنے پنجوں کو چھوتے وہ اک بار اٹھے اور پِھر جھکنا بھول گئے.وہ اپسرا نہیں تھی مگر لگ رہی تھی.سفید کپڑوں میں اہتمام سے ڈوپٹہ شانوں پر پھیلائے ہوئے اسکے لمبے نم بال ہوا سے لہراتے بار بار اسکے چہرے پر آرہے تھے مگر وہ بے نیاز سی بنی جھولے پر بیٹھی تھی جو اسکے گداز پیروں كے دھکے سے آہستہ آہستہ آگے پیچھے جھول رہا تھا.وہ سر اٹھائے بڑی محویت سے آسمان کو دیکھ رہی تھی كہ تبھی سورج کا رستہ روکے بادل اک دم کھسکا اور اسکا وجود کرنوں کی زد میں آگیا.وہ ہنس پڑی اور ہستے ہوئے اُس نے یوں ہی اپنا سر جھکایا تو نظر ٹریک سوٹ پہنے بت کی طرح ساکت کھڑے شخص پر پڑی.وہ جھجھک گئی.

وہ اس وقت نورالہدی کی وہاں موجودگی کی توقع نہیں کررہی تھی.اس نے اپنے آپ ہی سوچ لیا تھا كہ رات گئے آنے والا،دن چڑھے تک تھکن اتارتا رہے گا.وہ اٹھی اور گھوم کر کمرے میں چلی گئی. 

"مون لائٹ ان سن لائٹ.امیزنگ!"وہ آہستہ سے بڑبڑائے. 

وہ بال سمیٹ کر کچن میں آ گئی.فٹافٹ اورنج جوس نکال کر اس نے جگ میں ڈَالا اور جگ گلاس سمیت ٹرے میں رکھ كے بہادر کو تھما کر لان میں بھیجا پِھر اپنے ناشتے کی ٹرے تیار کر كے وہ کچن سے نکلنے والی تھی كہ نورالہدی جوس کا گلاس ہاتھ میں لیے کچن كے دروازے سے اندر آ گئے.

"ہیلو ملیحہ!"اسے دیکھ کر اپنے ہاتھ آگے بڑھاتے وہ بولے تو ملیحہ نروس ہوگئی كہ ان سے ہاتھ ملائے یا نہیں.اسی گھبراہٹ میں وہ ان کے ہیلو کا جواب نہیں دے سکی تو وہ غیر اِرادی طور پر اپنا ہاتھ نیچے کر كے اسکی طرف جھک کر بولے."آئی ایم رونگ."اِس بار وہ اعتماد سے مسکرائے.

"ناٹ نیڈ"پِھر انکے ہاتھ میں پکڑے آدھے خالی گلاس کو دیکھ کر بولی."اور چاہئے؟" 

"نو تھینکس." 

ملیحہ سمجھ نہیں پا رہی تھی كہ ان سے کس اندازِ میں بات کرے.اس لیے بات کرنے سے بچنے كے خاطر وہ ٹرے اٹھائے ان کے برابر سے گزر کر آگے بڑھ گئی مگر اگلے ہی قدم پر اسے رک جانا پڑا. 

"میں ۱۵ منٹ میں نہا کر آتا ہوں.تب تک آپ میرا ناشتہ تیار کرلیں.کوئی خاص اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں.بس جو باقی گھر والے لیتے ہوں،البتہ چائے اسٹرونگ ہونی چاہیے."گل بانو کو ہدایت دے کر وہ پلٹے تو ملیحہ کو دیکھتے ہی ان کے منہ سے نکلا. 

"واٹ ہیپنڈ؟" اس نے بھی فوراً سے جواب دیا.

"نتھنگ."اس نے آہستہ سے نفی میں سَر ہلایا.نورالہدی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے. 

ٹھیک ۱۵ منٹ بعد وہ ٹراوزر ٹی شرٹ پہنے ڈائننگ روم میں تھے.ملیحہ ڈائننگ ٹیبل پر ہی انکی منتظر تھی.انہیں دیکھ کر اس نے گل بانو کو آواز دے کر ناشتہ لانے کو کہا. 

ناشتہ لگ چکا تھا.نورالہدی نے نوالہ منہ میں رکھ کر دوسرے ہاتھ سے اخبار اٹھایا پِھر ملیحہ کی طرف بڑھا کر سوالیہ لہجے میں بولے. 

"نیوزپیپر." 

ملیحہ نے ناشتے سے دھیان ہٹا کر ان کے ہاتھ کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی. 

"میں ناشتے كے وقت اخبار نہیں پڑھتی." 

"کیوں؟"وہ یوں ہی پوچھنے لگے.

"کیوں کہ اخباروں میں ایسی خوفناک خبریں چھپتی ہیں كہ پڑھ کر بھوک ہی دور ہوجائے." 

"سچ کہا."بولتے ہوئے انہوں نے اخبار کھولا اور پڑھنے لگے.ناشتہ ختم ہونے تک وہ اخبار بھی ختم کرچکے تھے.نیپکن سے ہاتھ صاف کر كے انہوں نے اخبار کو تہہ کر كے رکھا اور اپنے لیے چائے نکالتے ہوئے اس سے بولے. 

"چائے لو گی؟" 

"میں چائے کم پیتی ہوں.دن میں صرف اک کپ.وہ بھی شام میں."وہ بھی ناشتہ کر چکی تھی،نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولی.پِھر اخبار اٹھاتے ہوئے اس نے بہادر کو آواز دی،بہادر کو بھی جیسے پتہ تھا كہ آواز کیوں دی گئی ہے.وہ دوسرے ہی لمحے جوس کا گلاس لیے آ پہنچا. 

"تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟" 

"جی بی بی صاب!" 

"ٹھیک ہے،تم جاؤ."

نورالہدی نے چائے پی کر خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے کہا."فارغ ہو کر میرے روم میں آ جانا." 

وہ سمجھ گئی سامان سیٹ کروانا چاہ رہے ہیں اور ہاں میں سَر ہلا دیا. 

وہ کچھ دیر بعد نوک کر كے ان کے کمرے میں آئی تو سارے بریف کیس کھلے ہوئے تھے.ایک بڑی اٹیچی کیس تو بیڈ پر ہی کھلا رکھا تھا اور خود نورالہدی ہاتھ میں ہینگر لگے کپڑے پکڑ کر وارڈورب کا دروازہ کھول کر اسکے سامنے کھڑے تھے. 

"ملیحہ!آجاؤ."انہوں نے پلٹ کر اسے کہا پِھر وارڈورب میں دیکھتے ہوئے بولے."یہ سب کس نے خریدا ہے؟" 

"میں نے.بابا جان کا حکم تھا كہ کمرے کے ساتھ آپکا وارڈورب بھی سیٹ کردوں.میں نے تو ان سے بہت کہا كہ پتہ نہیں آپکو میری پسند اچھی لگے بھی یا نہیں مگر..."وہ بات ادھوری چھوڑ کر یوں ہی چُپ ہوگئی.وہ اسکی طرف دیکھ کر مسکرائے. 

"تمھاری پسند اتنی اچھی ہے كہ بری لگ ہی نہیں سکتی.مگر اک پروبلم ہے." 

"کیا؟"اس نے پوچھا. 

"انہیں کہا رکھوں؟"انہوں نے کپڑوں سے بھرے سوٹ کیس کی طرف اشارہ کیا. 

"لائیں میں رکھ دیتی ہوں."اس نے ان کے ہاتھ سے کپڑے لے کر بیڈ پر رکھے اور وارڈورب میں جگہ بنانے لگی.پِھر سوٹ کیس سے کپڑے نکال کر وارڈورب میں لٹکانے لگی.اسے مصروف دیکھ کر نورالہدی سائیڈ پر ہوگئے.ڈریسنگ ٹیبل پر سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھا کر اک سگریٹ نکالا،پِھر لائٹر سے سگریٹ جلاتے وہ سوٹ کیس میں سے اپنے ڈوکمینٹس والا بیگ نکلنے لگے.تمباکو کی بو محسوس کر كے ملیحہ نے وارڈورب میں سے سَر نکال کر دیکھا اور ان کے ہونٹوں میں دبا سگریٹ دیکھ کر بولی. 

"سگریٹ پیتا آدمی ہو یا دھواں چھوڑتا ریل کا انجن،دونوں دکھنے میں اک سے لگتے ہیں." نورالہدی نے چونک کر سَر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا تو کہنے لگی."میں آپکو سگریٹ پینے سے منع نہیں کرتی مگر میرے سامنے سگریٹ پینے کی ضرورت نہیں.مجھے بالکل پسند نہیں.سگریٹ بجھا دیں."اچانک ہی اسکے لہجے میں جو استحاق آیا تھا،اسے خود بھی اسکا احساس نہیں ہوا تھا.لیکن نورالہدی نے نا صرف محسوس کیا تھا بلکہ انہیں اچھا بھی لگا تھا.زیر لب مسکراتے ہوئے انہوں نے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھایا. 

"اور کوئی حکم؟"انکی بات پر اسے لگا كہ وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی ہے تو فوراً ہی معذرت کرنے لگی. 

"سوری.میں عام طور پر اِس اندازِ سے بات نہیں کرتی.مگر مجھے سگریٹ سے بہت چڑ ہے." 

"کوئی بات نہیں.تم مجھ سے ہر انداز میں بات کرسکتی ہو."وہ مسکراتے ہوئے بولے تو ملیحہ نظر اندازِ کرتے ہوئے سوٹ کیس میں سے اک بڑا سا پیکٹ نکالنے لگی.وہ فوراً بولے. 

"اسے میں خود رکھ لونگا.تم رہنے دو."وہ اسے چھوڑ کر پرفیومز کی بوٹلز نکال کر ڈریسنگ پر رکھنے لگی.نورالہدی نے وہ پیکٹ نکالا اور اسے رکھنے وارڈروب کی طرف آئے. 

اسی وقت بابا جان دروازہ بجا کر اندر آگئے۔ 

"آئیں بابا جان!"نورالہدی نے سب چھوڑ کر بیڈ سے سامان ہٹا کر ان کے بیٹھنے کی جگہ بنائی. 

"کیا بات ہے،تم اتنی جلدی جاگ گئے.نیند نہیں آئی؟" 

"نیند تو آگئی پر آنکھ جلدی کھل گئی.فلائٹ میں سوتا رہا تھا،شاید اِس لیے." 

"اب آگے کیا اِرادَہ ہے؟کیا جاب کروگے؟" 

"نہیں.میرا اِرادَہ ہے كہ بزنس شروع کروں." 

"کیوں نہیں؟"وہ جوش سے بولے. 

"تم نے اِس بارے میں کچھ سوچا ہے،کیا بزنس کروگے؟" 

"کچھ پلانس تو ہیں مگر میرا خیال ہے پہلے یہاں کی مارکیٹ کو سرچ کرلوں."

"ٹھیک کہہ رہے ہو مگر آتے ہی کام میں لک جانے کی کوئی ضرورت نہیں.کچھ دن آرام کرو،پِھر ان معاملات پر غور کرنا.ویسے اب تم آگئے ہو تو ساری ذمیداریاں بھی تمہیں ہی اٹھانی ہونگی.سفر کی تھکن اُتَر لو،پِھر میں تمہیں زمینوں کا حساب کتاب بھی سمجھا دونگا بلکہ اگلی بار نواب شاہ جاتے ہوئے تمہیں بھی ساتھ لے جاؤنگا." 

"بابا جان پلیز!زمینوں وغیرہ میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں.ویسے تو میں آپکے ساتھ جا سکتا ہوں اور جاؤنگا بھی.لیکن حساب کتاب والا معاملا آپ اپنے ہاتھ میں ہی رکھیں."نورالہدی بولے.بابا جان ہنسے اور کہنے لگے. 

"مظہر فاروقی کا بیٹا کہتا ہے كہ اسے زمینداری میں دلچسپی نہیں.یہ تو کمال ہی ہو گیا.بھائی جی پکے زمیندار تھے.میاں جی کی زندگی میں ہی فصلوں کی بوائی کٹائی کا کام انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا تھا.دلچسپی کی بات کی ہے تم نے.مجھے بھی نہیں تھی اور نا ہے.بھائی جی جب تک تھے،میں نے کبھی مڑ کر بھی زمینوں کی طرف نہیں دیکھا.مگر باپ دادا کی نشانیاں خود سے الگ بھی تو نہیں کی جاسکتیں." 

ملیحہ،نورالہدی كے بغیر تو سامان سیٹ کر نہیں سکتی تھی اور نورالہدی،بابا جان كے ساتھ باتوں میں مگن تھے.وہ کچھ دیر انکی باتیں سنتی رہی مگر جلد بیزار ہوگئی.بابا جان بیڈ پر بیٹھے تھے اور نورالہدی انکی سامنے جس جگہ کھڑے تھے،ملیحہ کی طرف انکی پشت تھی اور وہ انکی نظر میں آئے بغیر کمرے سے نکل سکتی تھی.اس نے ہاتھ میں پکڑی چیزیں رکھی اور نا محسوس اندازِ میں دروازے کی طرف بڑھ گئی.باہر جانے كے لیے وہ جیسے ہی نورالہدی كے پیچھے سے گزری،بالکل اچانک ہی انہوں نے پلٹ کر اسکی نازک کلائی اپنی گرفت میں لے لی. 

"کہاں جا رہی ہو؟" 

"اپنے کمرے میں." 

"کوئی کام ہے یا آرام کرنا چاہتی ہو؟" 

"دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہے." 

"تو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے.بیٹھ جاؤ." ان کے لہجے میں استحقاق ایسے تھا اور پِھر فوراً ہی اپنی بات کہہ کر وہ ملیحہ کا ہاتھ چھوڑتے،بابا جان کی طرف مڑ گئے تھے جیسے جانتے تھے كہ ملیحہ ہر حال میں ان کے حکم کی تعمیل کریں گی.ملیحہ نے انکا حق جتانا محسوس کیا مگر اسے بالکل برا نہیں لگا اور پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئی.نورالہدی اور بابا جان پِھر باتوں میں لگ گئے اور وہ بور ہونے لگی.مگر اس نے دوبارہ باہر جانے کی کوشش نہیں کی.کیوں كہ وہ جان گئی تھی كہ وہاں اک شخص ایسا تھا جو اسے پوری جان سے محسوس كررہا تھا. 

ملیحہ نے واقعی سوچ لیا تھا كہ وہ دوبارہ لائبریری نہیں جائے گی مگر اس دن جو کتاب اس نے ایشو کروائی تھی،وہ تیسری دن ہی اسے واپس لے آئی.لائبریری كے اندر قدم رکھتے ہی اس نے محتاط نظروں سے ہر طرف کا جائزہ لیا تھا اور جب وہ نظر نہیں آیا تو مطمئن سی ہو کر کتاب واپس کر كے باہر آگئی. 

"اچھا ہوا جان چھوٹ گئی اور مجھے خود پر جبر بھی نہیں کرنا پڑا." 

دِل ہی دِل میں وہ خوش ہوتی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اس نے پتھریلی روش پر قدم رکھا اور ٹھٹک کر رک گئی. 

روش كے ساتھ لگی درختوں کی قطار میں وہ سامنے ہی اک درخت كے سائے میں کھڑا بازو لپیٹے اسے ہی دیکھ رہا تھا.ملیحہ کو رکتے دیکھ کر وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا. 

"دو دن پہلے میں نے آپکو کچھ کہا تھا.امید ہے اپ نے اِس بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا ھوگا."وہ ایسے بولا جیسے اسے شرمندہ کرنا چاہتا ہو اور ملیحہ اک پل کو شرمندہ ہو بھی گئی مگر فوراً ہی سَر اٹھا کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا.

"آپ یا تو پاگل ہیں یا دیوانے."ملیحہ كے چڑنے كے جواب میں وہ شرارت سے بولا.

"اتنا بڑا راز آخر آپکو کس نے بتایا؟" 

"میرے وجدان نے."وہ کہہ کر بے نیازی سے دوسری طرف دیکھنے لگی. 

"سچ کہہ رہی ہیں؟"وہ بول کر ہنسا. 

"کیا مطلب؟"وہ بالکل نہیں سمجھی.مگر جواب دینے كے بجائے وہ ہنستا ہی رہا.وہ الجھن بھرے اندازِ میں اسے ہنستا ہوا دیکھتی رہی.اپنی کہی بات کو سوچا تو بھی ایسا کوئی لطیفہ سمجھ نہیں آیا جس پر وہ یوں ہنس رہا ہو. 

"میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو آپ یوں ہنس رہے ہیں؟"زبردستی اپنی ہنسی روک کر اس نے ملیحہ کو دیکھا اور کہا. 

"میرا نام وجدان مصطفٰی ہے." 

ملیحہ کو فوراً ہی اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ آگئی.وہ اک بار پِھر دِل ہی دِل میں فل اسپیڈ میں اسے گالیوں سے نوازنے لگی. 

"اور میں پاگل بھی ہوں اور دیوانہ بھی.کس لیے ہوں؟شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں." 

ملیحہ نے سَر جھٹکا اور آگے بڑھ گئی. 

"کیا اپ آرام سے کہیں بیٹھ کر میری بات سن سکتی ہیں؟"اسکی آواز پر ملیحہ رکی تو وہ منت بھرے لہجے میں گویہ ہوا." بس پانچ منٹ،زیادہ آپکا وقت نہیں لونگا."

اب ملیحہ نے ذرا دھیان سے اسکا چہرہ دیکھا،شکل سے تو سلجھا ہوا،پڑھا لکھا نظر آرہا تھا.ملیحہ نے سوچا،بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے.شکل سے تو شریف آدمی لگتا ہے.اگر میں طریقے سے سمجھا دوں تو ھوسکتا ہے دوبارہ پریشان نا کرے.سوچتے سوچتے وہ سیڑھیوں پر جا بیٹھی.وہ پینٹ کی جیبون میں ہاتھ ڈالے اسکے سامنے کھڑا ہو گیا. 

"میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں.کیا میری یہ خواہش شرعاً یا قانوناً ناجائز ہے؟" 

"بالکل نہیں۔"ملیحہ نے بولنے میں سیکنڈ کی دیر نہیں لگائی. 

"تو پِھر؟"اس نے پوچھا. 

"پِھر یہ كہ اک چیز ہوتا ہے معاشرہ اور جس معاشرے میں آپ اور میں رہتے ہیں،وہاں رستے میں بیٹھ کر شادیوں كے فیصلے نہیں کیے جاتے." 

"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں."اس نے بھی پل بھر کی تاخیر كے بغیر تائید کی. 

"ایسا کریں،مجھے اپنا ایڈریس دے دیں اور کل یہی بات میرے پیرنٹس آپکے گھر جاکر آپکے پرنٹس سے کرینگے.تب تو آپکو کوئی اعتراض نہیں ھوگا؟" 

"آپ بات سمجھنا ہی نہیں چاھتے."وہ چڑ کر بولی."جب میرے بابا مجھ سے پوچھینگے كہ میں آپکو کہاں ملی؟ تو کیا کہونگی كے رستے میں روک کر اپ نے مجھے پروپوز کیا اور میں نے ہاں کردی.آپ میں کچھ سینس ہے كہ نہیں؟" 

"مجھے معلوم ہے كہ یہ ٹھیک نہیں ہے مگر میں نے خود بھی نہیں سوچا تھا كہ میرے ساتھ ایسا ھوگا.کیا کوئی بھی شخص یقین کرے گا كہ مجھے محبت ہوگئی ہے،وہ بھی ایسی لڑکی سے جسے میں نے پہلے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا.جس کا میں نام تک نہیں جانتا،اگر کچھ دن پہلے کوئی مجھ سے کہتا كہ رستے میں کسی لڑکی کو روک کر اسے شادی كے لیے مناؤ تو میں کسی بھی قیمت پر ایسا اَحمقانہ کام کرنے كے لیے راضی نا ہوتا.مگر اب میں یہی سوچ رہا ہوں.یہ سب بہت عجیب ہے.مگر کیا ان عجیب باتوں کو سوچنے كے بجائے آپ صرف میرے بارے میں نہیں سوچ سکتیں؟"وہ ملیحہ كے پیچھے بنی عمارت کو دیکھ کر بول رہا تھا جیسے اس سے مخاطب ہو.دھیمی مگر مضبوط آواز میں نرم لہجے كے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر بولتا،بلا شبہ اسکی آواز میں تسخیر کر لینے کی طاقت ہے.ملیحہ قائل ہوگئی.وجدان اب ملیحہ کو دیکھ رہا تھا.

"میں نے یہ کبھی نہیں کہا كہ آپکا جواب ہاں میں ھونا چاہیے."وہ اک پل کو رکا،پِھر بولا. 

"آپ اگر چاہیں تو انکار بھی کر سکتی ہیں.آپکو حق ہے.بس اتنی سی درخواست ہے كہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بس اک بار میرے بارے میں سوچ لیجئے.میری زندگی آپکے فیصلے سے جڑی ہے." 

"بھلا میں کسی اجنبی كے بارے میں کیوں سوچوں؟"وہ بولی. 

"اجنبی ہی سہی مگر کیا آپ اپنے 24 گھنٹوں میں سے اک پل بھی مجھے نہیں دے سکتیں؟"وہ اِس طرح سے بولا كہ ملیحہ نے گھبرا کر سَر ہی جھکا لیا تو وہ مسکرایا. 

"اور میں نے اپنے دن رات آپکو دے ڈالے ہیں.نا میں آپکے سوا کچھ سوچ سکتا ہوں نا آپکے سوا کچھ سوچنا چاہتا ہوں.بہت چاہا تھا میں نے كہ آپکی چاہت نا کروں.مگر اب کر بیٹھا ہوں تو مجھے خود پر کوئی اختیار ہی نہیں رہا.نا جانے وہ کیا کشش ہے جو مجھے آپکی طرف کھنچتی ہے اور میں کھینچا چلا آتا ہوں."ملیحہ نے سَر اٹھا کر دیکھا تو وہ سَر جھکا کر سرگوشیاں کر رہا تھا.مگر یہ سرگوشیاں بھی اتنی واضح تو تھیں كہ اسکے کان کی لویں سرخ ہوگئیں. 

’مجھے اسکی بات ماننی ہی نہیں چاہیے تھی.’اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہورھا تھا.اس نے سوچا اٹھ کر بھاگ جائے مگر وجدان سامنے ہی کھڑا تھا.اگر ہاتھ پکڑ کر روک لیا تو؟وہ اسکن کلر كے سوٹ پر اوڑھے مرون دوپٹے کا کونا مٹھی میں جکڑے فرار كے امکانات پر غور کررہی تھی كہ تب ہی وجدان ناراضگی سے بولا. 

"آپ ہمیشہ یہی کرتی ہیں نا؟" 

"کیا؟"وہ بے ساختہ بولی. 

"یہی كہ جب بات آپکے فیصلے کی آئے تو فرار کی راہیں ڈھونڈھ لیں." 

’یہ کیا کہہ رہا ہے؟' اس نے گھبرا کر سوچا. 

"میں جو بھی کہہ رہا ہوں،ٹھیک کہہ رہا ہوں."وہ جیسے ملیحہ کی سوچ کو سن رہا تھا. "آپ فیصلے کرنے سے ڈرتی ہیں.فیصلے تو پِھر بھی بڑی چیز ہے،آپکو تو رائے کا اظہار بھی مشکل لگتا ھوگا." 

’میری کوئی رائے ہو تو اظہار بھی کروں.' اس نے نروٹھے پن سے سوچا. 

"اور یہ تو نا ممکن ہے كہ آپکی کوئی رائے ہی نا ہو." 

ملیحہ نے چونک کر اسے دیکھا. 

"آپکے پاس دماغ ہے،سوچ سکتی ہیں تو رائے بھی رکھتی ہونگی.ہاں یہ الگ بات ہے كہ آپ اپنی سوچ کو ہی چھپا لیں،جس طرح اپنے جذبات چھپا لیتی ہیں.اب یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا كے آپکے جذبات ہی نا ہوں.جب محسوسات ہیں تو جذبات اپنے آپ سے ابھر آئیں گے.."

’چلو اگر ہو بھی تو کسی کو کیا پرواہ؟"اک اور تلخ سی سوچ ابھری.

"کسی اور کو نا سہی،آپکو تو اپنے جذبات کی پرواہ کرنی چاہئے."وہ رسان سے سمجھا رہا تھا.

"جذبات ہی تو روح کا عکس ہوتے ہیں اور انسان کی شناخت محض وجود سے نہیں کی جا سکتی.پتہ نہیں کیوں لیکن مجھے لگتا ہے كہ اپ نے خود کو محدود کر لیا ہے.اپنی ذات كے گرد کھینچے اِس حصار کو توڑ ڈالئے.کیوں کہ کوئی اور تو شاید اس حصار کو پار کر ہی لے،مگر آپ خود اِس حصار کو پار نہیں کر پائے گی."ملیحہ کو اپنے سامنے کھڑے شخص سے خوف آنے لگا تھا۔شاعر نے کہا تھا. 

'میرا بھی چہرہ پڑھ،میرے بھی حالات بتا.'ملیحہ نے تو ایسے کوئی فرمائش نہیں کی تھی مگر وجدان اتنی فرصت سے اسے پڑھ رہا تھا جیسے خاص طور پر اسی کام سے آیا ہو.وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی. 

'یہ میرے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتا ہے؟کیا میرے چہرے پر لکھا ہے؟'سوچتے ہوئے غیر محسوس اندازِ میں ملیحہ نے اپنے چہرے کو چھوا.وجدان سے اسکی یہ حرکت بھی چھپی نہیں رہ سکی.وہ مسکراتا ہوا بولا. 

"آپکا چہرہ آپکا دوست ہے.یہ آپکے بارے میں کسی کو نہیں بتاتا."اسے خاموش دیکھ کر وہ کہنے لگا. 

"پوچھیں گی نہیں،مجھے آپکے بارے میں یہ سب کس نے بتایا ہے؟"وہ اب بھی خاموش رہی تو وجدان نے جھک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا. 

"آپکی آنكھوں نے.آپ جتنا چُپ رہتی ہیں،یہ اتنا ہی بولتی ہیں.بس سنے والا ھونا چاہیے." 

ملیحہ نے فوراً ہی پلکیں گرا لیں تو وہ اسکی گھبراہٹ کو محسوس کر كے بات بَدَل گیا. 

"اپنے مجھے لائبریری میں ہر طرف تلاش کیا.اگر بالکونی میں دیکھ لیتیں تو آپکی تلاش ختم ہوجاتی." 

ملیحہ کو یاد آیا كے لائبریری میں بالکونی بھی تھی اور اس دن اس نے وجدان کی تلاش میں ہر طرف دیکھا تھا لیکن بالکونی کی طرف اسکا دھیان ہی نہیں گیا تھا. 

"آپ کتاب پڑھا کرتی اور میں آپکو.اک بات کہوں،میں نے آپ سے پہلے کبھی کسی کو نہیں پڑھا اور آپکو تو لگتا ہے،حفظ کر لیا ہے.مگر کیا آپکو پتہ ہے كہ آپکی آنكھوں سے آپکی روح تک سیدھا راستہ ہے.آپکی اٹھتی گرتی پلکوں کو دیکھتے ہوئے میں وہ راستہ کھوج آیا ہوں.اب آپ چاھے کچھ بھی کر لیں مگر خود تک پہنچنے سے روک نہیں پائیں گی."وہ چیلنج نہیں كررہا تھا مگر ملیحہ کو اتنا ہی برا لگا. 

"اتنا سب کہنے كے باوجود آپ مجھے سمجھا نہیں سکے كہ آخر میں آپ سے شادی کیوں کروں گی؟" 

 نہیں."وہ کہنے لگا.

"پوچھنا ہے تو یہ پوچھیں كہ میں آپ سے شادی کیوں کرونگا."وہ ملیحہ کی آنكھوں میں جھانکتا دو قدم آگے آگیا.اسکی سیاہ مقناطیسی آنکھوں کی کشش نے ملیحہ کو گم سم سا کردیا تھا. 

"کیوں؟"وہ اتنی ہلکی آواز میں بولی كے وجدان نے شاید سنی بھی نا ھوگی. 

 "کیوں کہ جب سے میں نے آپکو حفظ کیا ہے،خود کو بھول گیا ہوں." 

~~~~~~~~~~~~

جب وہ جان گئی تھی كہ اسکے لہجے میں تسخیر کر لینے کی طاقت ہے تو یہ کیوں نا مانی كہ وہ تسخیر کرنے آیا تھا.وہ لاونج میں آئی اور بنا کسی طرف دیکھے سیدھی اپنے کمرے میں جانے كے لیے دوسرے دروازے کی طرف بڑھ گئی. 

"ملیحہ!"اپنا نام سن کر وہ پلٹی.لاونج كے صوفوں پر بابا جان اور ملک ناصر آمنے سامنے بیٹھے تھے اور ٹیبل پر شطرنج کی بساط بیجھی تھی. 

"بیٹی!ذرا ہمارے پاس تو آؤ."اسے آواز دینے والے ملک ناصر اسے بلا رہے تھے.پاس جاکر اس نے سلام کیا جسکا جواب دے کر وہ اسکے سَر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے. "جیتی رہو.ادھر بیٹھو میرے پاس."انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا.

"کہاں سے آ رہی ہو؟" 

"لائبریری سے." 

"پر اتنی گم سم کیوں ہو؟" 

"نہیں انکل!آپکو یوں ہی لگ رہا ہے."اس نے تردید کرنا چاہی. 

"یوں ہی تو نہیں.کچھ الجھی ہوئی تو ہو.بیٹی!ہم نے تو سوچا تھا كہ نورالہدی آ جائے گا تو ہماری گڑیا بھی ہنسنا بولنا سیکھ جائے گی.پر لگتا ہے ابھی تک بھائی سے دوستی نہیں ہوئی." 

"ابھی نورالہدی کو آئے بس دو دن ہوئے ہیں.اتنی جلدی کیا دوستی ھوگی؟"اسکی طرف سے بابا جان بولے. 

"یہ بات بھی سہی ہے."وہ ہنسے. 

"ملک انکل!میں جاؤں؟"موقع دیکھتے ہی اس نے پوچھا.انہوں نے فوراً اِجازَت دے دی. 

"ہاں بیٹی!جاؤ."وہ اٹھنے لگی تو اظہر فاروقی نے اس سے کہا."ملیحہ!چائے بجھوا دینا اور ذرا جلدی." 

"جی بابا جان!"وہاں سے اٹھ کر کچن کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے بہادر کو چائے کا کہا اور اپنے کمرے کی طرف آگئی. 

وہ نیچے سے ہی دیکھ چکی تھی كہ اسکے کمرے كے دروازے كے دونوں پٹ پورے کھلے ہوئے تھے.وہ حیران ہوتی کمرے میں آئی تو اس نے نورالہدی کو اپنے اسٹوڈیو میں دیکھا.وہ اسی طرف چل پڑی.نورالہدی اک پینٹینگ دیکھ رہے تھے.آہٹ پر اسکی طرف دیکھ کر مسکرائے.ملیحہ کو بالکل توقع نہیں تھی كہ وہ اسکی غیر موجودگی میں اسکے کمرے میں آ جائیں گے.مگر انہیں جیسے پرواہ ہی نہیں تھی.کہنے لگے. 

"تم نے بتایا نہیں،تم پینٹینگ کرتی ہو اور نا کبھی بابا جان نے ذکر کیا."یہ بات برائے بات تھی.وہ بھلا جواب میں کیا کہتی؟وہ بھی جواب كے لیے نہیں رکے. 

"ویسے تمہیں پینٹر بنانے میں میرا بڑا ہاتھ ہے." 

"وہ کیسے؟" یوں ہی اس نے پوچھا.وہ کینوس رکھ کر اسکی طرف مڑے.

"وہ ایسے كہ میری اسکول کی کاپیاں کتابوں پر تم نے جی بھر کر پریکٹس کی ہے.پتہ ہے تم ڈھائی تِین سال کی تھیں جب میرے بیگ سے کتابیں نکال کر تم نے کلر پینسل سے ان پر آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچنا شروع کی تھیں اور ایک بار تو تم نے میرے پورے جرنل پر مارکر سے نشان بنا دیئے تھے.ٹیچر سے ڈانٹ تو پڑی ہی ساتھ میں سزا بھی ملی تھی اور پورا جرنل جو دوبارہ بنانا پڑا تھا،وہ الگ."اتنے سالوں بعد بچپن کی اک حرکت پر وہ شرمندہ ہوگئی. 

"ہاں مجھے یاد ہے.امی نے بھی مجھے بہت ڈانٹا تھا مگر غلطی پوری طرح سے میری نہیں تھی.میں آپکے سامنے بیٹھ کر ہی آپکی کتابیں خراب کیا کرتی تھی.لیکن اپنے مجھے کبھی نہیں ٹوکا."وہ بولی. 

"تو ٹوکتا بھی کیسے؟اک بار کہیں منع کیا تھا تو تم رونا شروع ہوگئیں.میں ٹیچر کی ڈانٹ تو سن سکتا تھا مگر تمہارے آنسو کیسے برداشت کرتا؟سچ کہوں،جب کبھی تم روتی تھیں تو میرا دِل چاہتا تھا،میں بھی زور زور سے روؤں."وہ ہنستے ہوئے مزے سے بولے اور ان کے انداز پر ملیحہ کو بھی ہنسی آئی. 

"لیکن تمہارے شوق بھی عجیب ہوا کرتے تھے. گرمیوں کی دوپہر کو ضد کرتیں كہ میں تمہیں سائیکل پر بیٹھا کر لمبی سیر کرواؤں. آئسکریم کی فرمائش سردیوں كے لیے مخصوص تھی.مجھے تو تمہارے دانتوں کو سہی سلامت دیکھ کر حیرت ھورھی ہے.بچپن میں جس رفتار سے تم کینڈیز اور چاکلیٹس کھاتی تھیں مجھے یقین تھا بڑے ہونے تک تھمارے منہ میں اک دانت بھی نہیں بچے گا اور یاد ہے کس طرح تم میرے کندھوں پر چڑھ کر ’کہانی سننی ہے’ کی رٹ لگاتی تھیں.بچے رات کو سونے سے پہلے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں لیکن تمہیں صبح جاگنے كے بعد کہانی سننے میں مزہ آتا تھا." 

"ہاں یاد ہے."انکی باتوں پر بے تحاشہ ہنستے ملیحہ بولی."اور یہ بھی یاد ہے كہ مجھے کہانی سناتے سناتے آپ سو جاتے تھے اور پِھر دیر سے اسکول جانے پر ٹیچر سے ڈانٹ بھی پڑتی تھی اور پتہ ہے میں یہ سب جان بوجھ کر کیا کرتی تھی."ملیحہ نے اک پُرانے راز سے پردہ اٹھایا.نورالہدی نے آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورا. 

"تم جان بوجھ کر مجھے ڈانٹ پڑواتی تھیں؟" 

"ہاں."وہ ان کے گھورنے سے بالکل متاثر نا ہوئی."جب مجھے امی ڈانٹتیں اور آپ فوراً مجھے سپورٹ کرتے،میری سائیڈ لیتے تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا.لیکن شروع شروع میں،میں ڈر بھی جاتی كہ اب آپ مجھے ڈانٹے گے یا کم اَز کم دوبارہ کہانی نہیں سنائیں گے.مگر آپ مجھے ڈانٹے بغیر ہی روز کہانی سنا دیتے." 

"تمہیں کوئی کچھ نا کہے،اِس لیے میں سب کچھ خود پر لے لیتا اور تم اِس بات کا مزہ لیتی تھیں."انہیں جیسے واقعی صدمہ ہوا تھا. 

"ہاں.مگر میں پِھر یہی کہوں گی كہ غلطی صرف میری نہیں تھی.اپ نے ہی مجھے سَر چڑھا رکھا تھا.میں آپکی شہ پر ہی شرارتیں کیا کرتی تھی وہ بھی صرف اپکے ساتھ.پِھر آپکے جانے كے بعد میں نے سب ہی شرارتیں چھوڑ دیں اور امی بھی تو کہا کرتی تھی،نورالہدی نے ہی ملیحہ کو بگاڑ رکھا ہے،اور میں سچ مچ ہی بگڑ جاتی اگر آپ لندن نا چلے گئے ہوتے." 

"ہاں ہاں،ساری برائی میرے سَر ڈال دو.میرے جانے سے تمھاری جان چھوٹ گئی تھی.میں وہاں کتنے دن تمہیں یاد کر كے اُداس رہا تھا،کچھ اندازہ ہے تمہیں؟بار بار فون کرتا كہ تمھاری آواز ہی سن لوں مگر ہر بار جواب ملتا،ملیحہ بات نہیں کرنا چاہتی." 

"وہ تو میں آپ سے ناراض تھی."اس نے آہستہ سے کہا. 

"وہ کیوں بھلا؟"نورالہدی حیران ہوئے.

"کتنے آرام سے مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔یہ بھی نہیں سوچا،میرا کیا ہوگا۔امّی تو ہمیشہ بیمار ہی رہتیں اور بابا جان کبھی بھی بہت دنوں کیلئے گھر نہیں رہے۔میرا سارا وقت بس آپکے ساتھ ہی تو گزرتا تھا۔مجھے آپکے چلے جانے پر بہت غصہ آیا تھا۔اسی لئے جب آپکا فون آتا تو میں چھپ جاتی تھی۔"

"اتنی لمبی ناراضگی کہ پھر سالوں تک بات ہی نہیں کی۔"وہ شکوہ کررہے تھے۔

"ایسا تو نہیں تھا کہ کبھی بات ہی نہیں کی۔فون تو میں بھی کیا کرتی تھی۔"

"ہاں۔سال میں ایک بار۔ایسی بھی کیا ناراضگی؟"

"ناراضگی تو بس شروع کے کچھ مہینوں تک ہی تھی مگر پھر بہلنے کے ساتھ ساتھ میں اپکو بھول بھی گئی تھی۔بھلا تب میری عمر ہی کیا تھی۔چھ یا شاید سات سال۔بہت جلد ہی اجنبی ہوگئے تھے اپ،اسی لئے اپ سے فون پر بات نہیں کر پاتی تھی۔"

"جانتا تھا،تم مجھے بھول چکی ہو۔"وہ اچانک ہی سنجیدہ ہوگئے تھے۔

ملیحہ کو اچانک ہی احساس ہوا کہ وہ جان بوجھ کر اسکے بچپن کے حوالے سے بات کررہے تھے اور اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کس طرح باتوں باتوں میں وہ ان سے بے تکلف ہوگئی تھی۔

"فرینڈز."انہوں نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا تو ملیحہ نے بلا تحمل انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا. 

"Always and Forever"

انہوں نے پل بھر کو اسکا ہاتھ تھام کر چھوڑتے ہوئے اک پیکٹ اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا.یہ وہی پیکٹ تھا جو ملیحہ اس دن انکے سامان میں دیکھ چکی تھی."پرانی دوستی کی نئی شروعات كے لیے."انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے بھی اک مسکراہٹ كے ساتھ پیکٹ ان کے ہاتھ سے لے لیا. 

"ٹھینک یو ھادی بھائی!" 

"اوہ گاڈ!"وہ بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولے."کان ترس گئے تھے اِس طرز تخاطب کو سننے كے لیے."وہ بخل سی ہوگئی. 

کھلے دروازے پر بہادر کی دستک پر دونوں ہی اُدھر متوجہ ہوئے تھے.

"کہیے بہادر صاحب!آپکو کیا کہنا ہے؟"نورالہدی كے اِس طرح بولنے پر وہ کچھ شرما سا گیا اور کہا. 

"بی بی صاحب كے لیے سمیرہ بی بی کا فون آیا ہے." وہ فوراً ہی کھڑی ہوگئی. 

"سمیرہ تمھاری فرینڈ ہے؟" 

"ہاں."اس نے کہا پِھر خیال آنے پر بتایا."لیکن میری کزن بھی ہے.افتخار ماموں کی بیٹی." 

"اچھا."انہوں نے نے کہا اور وہ جھٹ پٹ فون سننے كے لیے کمرے سے نکل گئی. 

~~~~

رات عشاء کی نماز پڑھ کر ملیحہ اپنی ڈائری لیے بالکونی میں آگئی. 

"جنکی نگاہ جسم كے پار جا سکتی ہو،وہ بھی دِل سے آگے احساس تک پہنچ کر رک جاتے ہیں.مگر وجدان مصطفی عجیب شخص ہے.روح کی باتیں کرتا ہے اور باتیں بھی ایسی كہ سنو تو دِل چاھے سنتے ہی جاؤ.پر میری دعا ہے كہ میں وجدان مصطفی سے دوبارہ کبھی نا ملوں.مجھے ڈر ہے كہ یہ مجھ سے وہ سب کروا لے گا جو میں کبھی کرنا نہیں چاہتی.جسے کرنے کی مجھے میں ہمت بھی نہیں ہے." 

ہم اپنے دِل کو تھپکتے ہیں اور سوچتے ہیں 

كہ تتلیوں كے پروں پر کہانیاں لکھ کر 

بچائیں کیسے انہیں دھوپ کی تمازت سے 

وجدان كے ساتھ ہوئی اس دوسری ملاقات کو دو مہینے ہونے والے تھے مگر ملیحہ نے اس دوران اک بار بھی لائبریری کا رخ نہیں کیا تھا.اسے یقین تھا كہ وہ ابھی بھی اسی درخت كے نیچے کھڑا ھوگا جہاں اس روز وہ اسے چھوڑ آئی تھی.وہ لاکھ انکار کرتی مگر یہ سچ تھا كہ وہ اسے ڈسٹرب کر گیا تھا.اسکے دِل كے دروازے تو بند ہی رہے مگر وہی دِل میں اِس ادا سے آیا جیسے سورج کی روشنی بند دروازوں کی جھریوں سے گزر کر اندر كے منظر کو روشن کر كے اپنے ہونے کا اعلان کر دے.ملیحہ کی حالت اس نادان جیسی تھی جو ان عیاں ہوتے مناظر سے صرف نظر کرنے کو ہھتیلیاں آنکھ پر رکھ لے.پر جب اجالے نے بند پلکوں میں بھی راستہ بنا لیا تو تڑپ کر وہی ہھتیلیان آسْمان کی طرف اٹھا دیں كہ سورج کو ہی ڈھانپ لیں. 

وجدان كے وجود سے پھوٹتی روشنی نے جب پہلے پہل ملیحہ کی آنکھوں کو چھوا تو اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور پِھر اسے پتہ ہی نہیں چلا كہ اسکی بے خبری میں اسکے آس پاس کتنا اجالا بکھر گیا تھا اور جب معلوم ہوا تو وہ اندیشہ محبت سے گھبرا اٹھی.عجیب سی حالت ہوگئی تھی اسکی.بیٹھے بیٹھے چونک جاتی،بولتے بولتے اک دم ہی چُپ ہوجاتی اور جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو نورالہدی كے پاس پہنچ جاتی.اظہر فاروقی نے ملیحہ میں آئی ان تبدیلیوں کو محسوس بھی نہیں کیا تھا لیکن نورالہدی نے نا صرف محسوس کر لیا تھا بلکہ وہ ٹھٹک بھی گئے تھے.ملیحہ کا بے اختیار اپنی طرف انا انہیں چونکا گیا تھا. 

انہیں اسٹڈی میں بیٹھے کام کرتے ہوئے بہت رات ہوگئی تھی.انہوں نے وال کلاک کو دیکھا جو بارہ بجا رہا تھا.پِھر باقی کام کل نپٹانے کا سوچ کر وہ پیپرز سمیٹنے لگے. تبھی ملیحہ آگئی چائے كے دو کپ ٹرے میں لیے.اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی،خود بھی اک چیئر پر بیٹھ گئی. 

 "تم تو جلدی سو جاتی ہو.آج ابھی تک کیسے جاگ رہی ہو؟اور چائے بھی دو کپ بنائی ہے.کیا ساری قسمیں آج ہی توڑ دوگی؟" 

"نیند نہیں آرھی ہادی بھائی!" اس نے جیسے شکایت کی. 

"مگر مجھے تو بہت نیند آ رہی ہے اور میں بس ابھی سونے ہی جا رہا تھا۔"وہ اسے چھیڑنے کو بولے اور وہ چڑ بھی گئی۔ 

"آپ کوئی سونے نہیں جا رہے بلکہ میرے ساتھ چائے پئیں گے اور باتیں کرینگے."

وہ اسے دیکھ کر بولے۔"زبردستی ہے؟" 

"ہاں۔ہے تو"اس نے صاف گوئی سے کہا."مگر صرف آپکے ساتھ۔" 

"جیسے تمھاری مرضی۔"انہوں نے کپ اٹھا لیا اور گھونٹ بھر کر بولے۔ "افتخار ماموں آئے تھے." 

" ہاں۔"اس نے کہا۔ 

"لیکن آپ تو اس وقت گھر پر نہیں تھے۔" 

"سڑک سے اندر آتے ہوئے میں نے انکی گاڑی گیٹ سے نکلتے دیکھی تھی۔"انہوں نے کہا تو ملیحہ سَر ہلاتے ہوئے بتانے لگی. 

"ان کے ساتھ منیر ماموں بھی تھے۔ وہ دونوں مجھے لینے آئے تھے." 

"کیوں؟"انہوں نے یوں ہی پوچھ لیا۔ 

"میں نے بتایا تھا نا،25 نومبر کو سمیرہ اور آفاق بھائی کی شادی ہے۔ سب رشتےدار اکھٹے ہوچکے ہیں کل لاہور سے خالا بھی اجائینگی تو ماموں نے سوچا مجھے بھی آ کر لے جائیں۔"

"پھر تم گئی نہیں؟"

"بابا جان نے منع کردیا کہ جاکر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔شادی میں بھجوا دیں گے۔"

"اس میں بھلا ضرورت کا کیا چکر ہے؟تمہارے سب کزنز آئے ہوئے ہیں انکے ساتھ انجوائے کر لیتیں۔اور یہ آفاق بھی تمہارا کزن ہے نا؟"

"منیر ماموں کے بڑے بیٹے ہیں اور اس دن کارڈ دینے بھی تو آئے تھے۔"

"پھر تو تمہیں ضرور جانا چاہیے۔تمہارے دو دو کزنز کی شادی ہے۔"

"مگر بابا جان نے منع کیا ہے۔"اس نے سر جھٹک کر ہلکے سے کہا۔

"تم جانا چاہتی ہو؟"اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔کچھ دیر اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ کر انہوں نے اس پر سے نگاہ ہٹالی۔اب وہ دراز میں رول کئے ہوئے چارٹس نکال رہے تھے۔پھر ایک چارٹ کھول کر انہوں نے ملیحہ کے آگے رکھا۔

"یہ دیکھو،یہ گارمنٹس فیکٹری کا نقشہ ہے۔ادھر پروڈکشن ہے،یہ سپر وائزر کا آفس اور اس طرف آگے جا کر ورکرز کے کوارٹرز ہیں۔"

"کیسا لگا؟"

"اچھا ہے۔"وہ بولی۔

نور الہدیٰ نے باقی کے دو چارٹس بھی کھول کر پہلے سے کھلے چارٹ پر برابر برابر رکھ دیئے۔

"اور یہ دونوں آفس کے بلڈنگ کے نقشے ہیں۔"

"دو آفس بنوائیں گے؟"

"نہیں آفس تو ایک ہی ہوگا۔یہ نقشہ دو الگ انجینئرز نے بنائے ہیں اور یہ دونوں ہی اتنے اچھے ہیں کہ میں کسی ایک کا انتخاب کرتے ہوئے کنفیوز ہو رہا ہوں۔ذرا تم بتاؤ ان میں سے کونسا نقشہ زیادہ بہتر ہے؟"

"میں کیسے بتا سکتی ہوں؟"

"تم پینٹر ہو اور مجھ سے بہتر ان نقشوں کو سمجھ سکتی ہو۔"

"مگر پینٹر اور ارکیٹکشن میں فرق ہوتا ہے ہادی بھائی!"نور الہدیٰ چڑ گئے۔

"ایک ذرا سی رائے ہی تو دینی ہے ملیحہ! اور تم اس قدر ہچکچا رہی ہو۔"اور اس نے بھی تو کہا تھا۔

"آپ کو تو رائے کا اظہار بھی مشکل ہی لگتا ہوگا۔"

اچانک وجدان کا جملہ کانوں میں بازگشت کرنے لگا۔ملیحہ نے دھیرے سے اقرار کرلیا۔

"ہاں۔کیونکہ کبھی کسی نے میری رائے پوچھی ہی نہیں۔"

نور الہدیٰ نے پل بھر کو اسے دیکھا پھر اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا۔

"اب میں جو پوچھ رہا ہوں۔"

ملیحہ نے ایک نقشہ انکی طرف کیا۔نورالہدی نے نقشہ دیکھا اور بولے۔

"اور تم کہتی ہو تمہیں سینٹی میٹر ناپ کر کھینچی گئی لائنوں کہ سمجھ نہیں۔"وہ ان کی بات کو ان سنا کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔"آپ نے یہ نقشے ابھی اپروو نہیں کروائے؟"

"تم سے اپروو کروائے بغیر میں انہیں اپروول کیلئے کیسے بھیج سکتا تھا؟"ملیحہ نے انکی طرف دیکھا اور بس دیکھ کر رہ گئی.

اگلی دوپہر كھانا کھاتے ہوئے نورالہدی،بابا جان سے کہنے لگے. 

"میں سوچ رہا تھا،آج شام کو منیر ماموں کی طرف چلا جاؤں." 

"خیریت؟"انہوں نے پوچھا. 

"کچھ لیگل معاملات پر مشوروں کی ضرورت آن پڑی ہے.پھر کمپنی کی رجسٹریشن كے پیپرز بھی بنوانے ہیں.منیر ماموں وکیل ہیں.سوچا ان سے ہی بات کرلوں.ان سے زیادہ قابل اعتماد اور کون ھوسکتا ہے؟" 

"ٹھیک کہہ رہے ہو."بابا جان نے کہا.نورالہدی مزید بولے. 

"آج کل ان کے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں تو میرا خیال ہے وہ آفس تو نہیں جا رہے ہونگے.گھر پر ہی بات ہوسكے گی اور... آرے ملیحہ!تم بھی ساتھ چلو نا."وہ ایسے بولے جیسے بولتے ہوئے اچانک یاد آیا ہو.ملیحہ نوالہ چبانا بھول کر انہیں دیکھنے لگی جو خود بھی نوالہ منہ میں رکھ کر کچھ سوچتے ہوئے اندازِ میں بول رہے تھے. 

"بلکہ اک کام کرو.ساتھ میں بیگ بھی تیار کرلو۔شادی میں دو چار دن ہی رہ گئے ہیں.سب رشتےدار بھی آ چکے ہوں گے.تم بھی کچھ دن كے لیے رہ آؤ." 

ملیحہ كے حلق میں نوالہ اٹک گیا.اس نے فوراً پانی كے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا.مگر نورالہدی انجان بنے اپنی ہی کہے جا رہے تھے. 

"آج میں تمہیں چھوڑ آؤنگا اور ولیمے كے اگلے دن میں تمہیں لینے آجاونگا.ٹھیک ہے؟"ملیحہ نے اب بابا جان کی طرف دیکھا جو ساری بات چیت سے لا تعلق نظر آرہے تھے.نورالہدی كھانا کھا چکے تھے.ہاتھ صاف کر كے اٹھتے ہوئے پِھر بولے. 

"شام کو ۵ بجے تک بالکل تیار رہنا."یہ تو وہ بھی سمجھ رہی تھی كہ یاد دہانی اسے نہیں،بابا جان کو کروائی جا رہی تھی.مگر بابا جان نے کوئی ایسی بات ہی نہیں کی تو وہ اطمینان سے ٹیبل سے اٹھ گئے. 

اب ملیحہ كے لیے بھی كھانا كھانا مشکل ہو گیا تھا.پِھر جیسے ہی بابا جان كھانا ختم کر كے اٹھے وہ نورالہدی كے کمرے کی طرف بھاگی.نورالہدی لائٹ اوف کر كے سونے كے لیے لیٹ گئے تھے.ملیحہ آندھی طوفان کی طرح کمرے میں آئی اور لائٹس آن کر كے ان کے بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئی.نورالہدی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولے. 

"کیا بات ہے؟" 

"ابھی آپ نیچے کیا کہہ رہے تھے؟"

گو كہ وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گئے تھے پِھر بھی معصوم بن کر بولے.

"شام ۵ بجے تک تیار رہنا." انہوں نے اپنے الفاظ دھرائے. 

"مگر بابا جان نے منع کیا تھا." 

"کب؟"وہ اب بھی بن رہے تھے."وہ تو کچھ بولے ہی نہیں.خاموشی سے كھانا کھاتے رہے." 

"افو!میں ابھی کی بات نہیں کررہی.کل بابا جان نے ماموں کو منع کیا تھا.رات کو بتایا تو تھا."اسے الجھا دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوگئے. 

"کل منع کیا تھا،آج تو نہیں.تم بس جانے کی تیاری کرو." 

"مگر بابا جان کو کتنا برا لگے گا؟انکے منع کرنے كے بعد آپکو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی." 

"برا کیوں لگے گا بھئی؟"وہ حیرت سے بولے. 

"کل جب ماموں تمہیں لینے آئے تو کیا میں گھر پر تھا؟" 

"نہیں." 

"کیا بابا جان کو پتہ ہے كہ تم نے مجھے ان کے آنے كے بارے میں بتایا تھا؟" 

"نہیں." 

"تو پِھر انہیں برا کیوں لگے گا؟جبکہ وہ جانتے ہیں كہ میں کچھ نہیں جانتا. میں نے تو یوں ہی باتوں باتوں میں اک بات کہی تھی.انہیں اگر منع کرنا ہوتا تو منع کردیتے.سمپل." 

"تو اپ نے دھاندلی کی ہے."انکی چالاکی سمجھ کر وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولے."مجھے نہیں پتا تھا كہ لندن والے اتنے بے ایمان ہوتے ہیں." 

"مگر یہ بھی تو دیکھو كہ لندن والے بے ایمانی بھی کس قدر ایمانداری سے کرتے ہیں."وہ ڈھٹائی سے بول کر ہنسے. 

"کیا خاک ایمانداری ہے.شرم تو نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوئے.سیدھے دوزخ میں جائیں گے."اسکی ملامت کا نورالہدی پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا،بولے. 

"ٹھیک ہے،چلا جاؤنگا.مگر اب تم یہاں سے جاؤ.مجھے سونا ہے.رات بھی تم نے میری نیند برباد کی تھی." 

اسے جانے کا کہہ کر وہ آرام سے لیٹ گئے مگر ملیحہ ہلی بھی نہیں.اسے اب اک نئی پریشانی شروع ہوگئی تھی. 

"مگر ہادی بھائی!اگر میں چلی گئی تو گھر کا خیال کون رکھے گا؟اور آپ دونوں کیسے رہیں گے؟" 

نورالہدی نے سر پر سے چادر ہٹا کر اسے دیکھا پِھر کہنی كے بل اٹھتے ہوئے کہا. 

"گھر کا خیال رکھنے كے لیے ملازم ہیں اور میں اور بابا جان بچے نہیں ہیں جو تھمارے بغیر رہ نا سکیں." 

"لیکن كھانا پکانے كے لیے بھی تو کوئی ھونا چاہیے.بابا جان کو نمک مرچ اپنی پسند کی ہی کھانی ہوتی ہے اور آپ بھی رات کو دیر سے گھر آتے ہیں." 

"تمھارا اسسٹنٹ بہادر ہیں نا،بھلا وہ کس مرض کی دوا ہے؟" 

ملیحہ تپ کر بولی.

"وہ کسی مرض کی دوا نہیں ہے بلکہ خود لاعلاج مرض ہے.تینوں ٹائم مجھے اسکے سامنے كھانا رکھ کر کہنا پڑتا ہے كہ بہادر صاحب!كھانا کھا لیجئے ورنہ فوت ہوجائینگے."اس نے اِس طرح سے کہا كہ نورالہدی ہنسنے لگے اور ہنستے ہنستے بولے. 

"گل بانو بھی تو ہے.وہ سب سنبھال لے گی اور پِھر اک ہفتے کی ہی تو بات ہے."پِھر اک دم رُعْب سے بولے."اب اٹھو،یہاں سے نکل چلو."انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ سے اٹھا دیا مگر وہ گھوم کر واپس بیٹھتے کہنے لگی.

"ہادی بھائی!ایسا کرتے ہیں،آج جانے كے بجائے دو دن بعد مہندی كے دن رہنے چلی جاؤں گی.پِھر ولیمے میں تو آپ آئینگے ہی.تو آپکے ساتھ ہی واپس آجاوں گی."اسے اب تک جوڑ توڑ میں الجھے دیکھ کر وہ گہرا سانس بھرتے اٹھ بیٹھے. 

"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے كہ میں اور بابا جان تمہارے بغیر رہ نہیں پائیں گے؟آخر اک نا اک دن تم شادی کر كے بھی تو چلی ہی جاوگی."

اک پل وہ انکی بات پر شرمائی پِھر ڈھیٹ بن کر بولی."میری شادی ہوگئی تو آپ کونسا کنوارے بیٹھے رہیں گے؟دیکھ لیجئے گا،میرے جانے كے بعد آپکی بیگم آ کر مجھے ریپلیس کردیں گی." 

"بہت بولنے لگی ہو.مگر مزید میں تمھاری کوئی بات نہیں سن سکتا.مجھے سونا ہے."

"لیکن ہادی بھائی!"وہ پِھر سے کچھ کہنے لگی تو نورالہدی چادر پھینک کر بستر سے اٹھے اور اسے بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف لے جاتے بولے.

"تھمارے جتنے بھی لیکن ویکن ہیں،اگر مگر ہیں،انکا جواب میں شام میں دونگا اور اگر تم نے ۵ بجے سے پہلے میرے کمرے میں قدم بھی رکھا تو تمہیں ایسی جگہ چھوڑ کر آؤنگا كہ کبھی چاہ کر بھی واپس نا آسکو گی."اسے کمرے سے باہر چھوڑ کر وہ واپس اندر مڑے تو ملیحہ بھی"ہادی بھائی!بات سنیے"کہتی ان کے پیچھے آئی.مگر دروازہ دھاڑ کرتے اسکے منہ پر بند کیا.ملیحہ نے مکا بنا کر مارنے كے لیے اْٹھایا مگر خود ہی ہاتھ گرا کر منہ بناتی کمرے میں آگئی.

کمرے میں آ کر اس نے اپنا بیگ تیار کیا،پِھر شام كے لیے کپڑے نکل کر پریس کیے.ٹھیک ۵ بجے وہ تیار ہو کر نورالہدی كے کمرے كے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔انکی آواز پر وہ دروازہ کھول کر اندر آگئی.نورالہدی بلیک ڈریس پینٹ پر بلیک ہی شرٹ پہنے گلے میں اک میرون اور دوسری برائون ڈوٹس والی ٹائی لٹکائے ڈریسنگ كے سامنے کھڑے تھے.اسے دیکھ کر بولے. 

"ملیحہ!ذرا بتانا تو دونوں میں سے کونسی ٹائی زیادہ سوٹ کرے گی؟" 

بیگ وہیں سائیڈ میں رکھتے ہوئے وہ انکی طرف دیکھ کر بولے."آپ ہر بات میں میری رائے لینا ضروری کیوں سمجھتے ہیں؟" 

انہوں نے دوبدو جواب دیا."اور تم ہر بات میں بحث کرنا کیوں ضروری سمجھتی ہو؟" 

اس نے سر جھٹکا،پِھر دو قدم آگے آکر اک نگاہ ان کے سینے پر ڈالی اور جا کر الماری میں سے کچھ ڈھونڈنے كے بَعْد انکی طرف آگئی.پِھر انکے گلے سے دونوں ٹائیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑی عیش گرے کلر کی ٹائی ان کے گلے میں باندھنے لگی.غیر اِرادی طور پر ہی نورالہدی کی نگاہ اس پر ٹک گئی تھی.وہ اِس وقت سفید رنگ كے شلوار قمیض پہنے سفید ہی ڈوپٹہ کندھوں پر پھیلائے کھڑی تھی.کانوں میں سفید موتیے كے آ ویزے تھے.آنکھوں میں کاجل کی سی پتلی لکیر اور ہونٹوں پر نیچرل شیڈ کی لپسٹک لگا کر بال کمر پر کھلے چھوڑ رکھے تھے.

کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نورالہدی اسے دیکھتے دیکھتے اک پل کو سب کچھ فراموش کر بیٹھتے جیسے ابھی انہیں کچھ ہوش نہیں رہا تھا.ٹائی کی ناٹ لگا کر کالر سہی کرتے ہوئے ملیحہ انکی طرف دیکھ کر یوں ہی مسکرائی تو نورالہدی فوراً سنبھلے اور مڑ کر آئینے میں ٹائی ٹھیک کرنے لگے.مگر آئینے میں بھی انکی نگاہ ملیحہ كے عکس پر تھی. 

"تم سفید رنگ مت پہنا کرو." انکی آواز پر ملیحہ حیرت سے مڑ کر بولی."کیوں؟" 

"اِس رنگ میں تم اتنی پیاری لگتی ہو كے ڈر لگتا ہے،کہیں تمہیں نظر نا لگ جائے." 

"ھادی بھائی!"وہ ایسے بولی جیسے کہہ رہی ہو،کیا بے کار کی بات کررھے ہیں؟ 

"اک منٹ."اسے رکنے کا کہہ کر نورالہدی نے دراز سے کیمرہ نکال کر آنکھوں پر لگا لیا. 

"یہ کیا کررھے ہیں؟" 

نورالہدی نے کیمرہ نیچے کرتے ہوئے کہا."تصویر کھینچ رہا ہوں.مگر مفت میں نہیں کھینچوں گا،بدلے میں اک مسکراہٹ ملنی چاہیے."اور ملیحہ فوراً ہی مسکرا اٹھی.اسکی مسکراہٹ کو ہمیشہ كے لیے قید کر لیا.

پِھر بابا جان كے کمرے کی طرف آگئے.وہ دروازے کی طرف ہی متوجہ تھے. نورالہدی سے اک قدم پیچھے اندر آتی ملیحہ نے انہیں دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو گھبرا کر نورالہدی کا ہاتھ تھام لیا. 

نورالہدی نے اسکے ہاتھ کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا اور ہلکے جھٹکے سے اپنے قریب کر لیا.اتنا كہ اسکا شانہ نورالہدی كے بازو کو چھونے لگا تھا.یہ ساری کاروائی بڑے ہی غیر محسوس اندازِ میں ہوئی تھی.پِھر بھی بابا جان کی نگاہوں سے چُھپ نا سکی.بیٹی اور بھتیجے كے اِس اتحاد کو دیکھ کر اک انوکھا خیال اچانک ہی ان کے ذہن میں آیا تھا.نورالہدی،ملیحہ کو ساتھ لیے ان سے دو قدم كے فاصلے پر رک کر بولے. 

"ہم دونوں بس جا ہی رہے تھے.آپکو اللہ حافظ کہنے آئے تھے."وہ ابھی تک اسی خیال كے زیر اثر تھے،زیر لب مسکرا دیئے.نورالہدی انکی مسکراہٹ کا مطلب تو نا سمجھے پر اسے ہی غنیمت خیال کرتی ہوئے بولے"اللہ حافظ!"کہہ کر پلٹ گئے.ملیحہ نے بھی جھٹ سے"اللہ حافظ بابا جان!"کہا اور ان کے ساتھ ہو لی. 

نورالہدی کو دھیان بھی نہیں رہا تھا كہ کمرے سے نکلتے وقت بھی ملیحہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا اور بابا جان نے باہم تھامے ہوئے ان ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے اپنے خیال کو فیصلے میں بَدَل دیا تھا.

****

کار گیٹ پر روک کر نورالہدی نے ملیحہ سے کہا۔ 

"جاو۔" تو اس نے کہا۔

"آپ اندر نہیں آئیں گے؟"

"اس وقت مجھے کہیں اور جانا ہے اندر جاؤں گا تو دیر ہو جائے گی۔" انہوں نے مجبوری بتا کر کہا ملیحہ حیران نظروں سے ہادی کو دیکھتے ہوئے گیٹ کی طرف چل پڑی۔

تین منزلہ اس بڑے سے مکان میں ملیحہ کے دونوں ماموں کے خاندان آباد تھے بڑے افتخار حسن کی تین بیٹیاں تھیں عظمی، صائمہ اور سمیرا۔ بڑی دونوں شادی شدہ تھیں۔ سمیرا مدیحہ کی ہم عمر تھی اور اس کا نمبر تھا۔ چھوٹے ماموں منیر حسن کے سب سے بڑے بیٹے آفاق تھے جن کی سمیرا کے ساتھ شادی ہونی تھی۔ان سے چھوٹی گوہر شادی شدہ تھیں، پھر صمد تھا جو ملیحہ اور سمیرا کا ہم عمر تھا اور اس سے چھوٹی ارم تھی جس نے دوڑ بیل کی آواز پر گیٹ کھولا تھا۔ پھر ملیحہ کو دیکھ کر "ہائے ملیحہ آپی! آپ۔" کہہ کر اس سے لپٹ گئی پھر فورا ہی الگ ہو کر اندر سب کو بتانے بھاگ گئی۔ 

ملیحہ نے گیٹ بند کیا اور بیگ اٹھا کر بڑا سا لان پارکر کے دالان تک پہنچی تو سب گھر ‏والے اس کے استقبال کو آ پہنچے تھے۔ سب سے پہلے اس کی نظر خالہ پر پڑی۔ 

"السلام علیکم خالہ!" وہ سلام کرتی ہے ان کے گلے لگ گئی 

"وعلیکم السلام بیٹی! جیتی رہو۔ اللہ عمر دراز کرے۔" ساتھ لپٹائے وہ ملیحہ کو دعائیں دیتی بولیں۔ 

"آج صبح ہی پہنچی ہوں۔ سوچ ہی رہی تھی کہ جنید جاگ جائے تو اس سے کہوں گی، مجھے ملیحہ سے ملا لائے۔ دیکھو ذرا کیسی قبولیت کی گھڑی تھی۔" 

"آمنہ! کیا بچی کو دروازے پر روک کر کھڑی ہو؟ اندر تو لے آؤ۔" یہ بڑی ممانی تھیں۔ ملیحہ نے انہیں سلام کیا۔

"بیٹی! اندر آ جاؤ_" وہ سلام کا جواب دے کر اسے ساتھ لے کر اندر بڑے سے ہال میں لے آئیں جو سیٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھ چکی تو ممانی کو خیال آیا۔ 

"ملیحہ! کیا اکیلی آئی ہو۔؟" 

"نہیں ممانی جان ہادی بھائی چھوڑ کے گئے تھے۔" 

"نورالہدی؟" انہوں نے تصدیق چاہی۔ 

"جی۔" 

"تو دروازہ سے کیوں جانے دیا روک لیتی۔"

"انہیں کسی ضروری کام سے جانا تھا۔ کہہ رہے تھے پھر آئیں گے۔"

"نورالہدی بھی جوان ہوگیا ہوگا۔ آخری بار جب میں نے دیکھا تھا تو سترہ اٹھارہ سال کا تھا۔" آمنہ خلا نے ہوائی تبصرہ کیا۔ چھوٹی ممانی بولی۔

"ایسا ویسا؟ آپا! نگاہ نہیں ٹھرتی۔ فریال ہوتی آج تو بیٹے کا صدقہ نکالتی۔ آخر پالنے والے تو وہی تھی۔ اللہ جنت نصیب کرے اس میں کبھی اپنے پرائے کا فرق نہیں کیا۔ تبھی تو نورالہدی نے اس گھر سے رشتے جوڑ رکھے ہیں لندن سے آتے ہیں دوسرے دن مامووں کو سلام کرنے گھر آیا تھا۔" پھر ملیحہ سے بولیں۔ "بھائی صاحب کیسے ہیں؟"

"ٹھیک ہیں۔ آفاق بھائی نظر نہیں آ رہے۔"

"اپنے کسی دوست کی تلاش میں نکلے ہیں"

"اور سمیرا؟" اس نے مزید پوچھا۔ 

"اپنے کمرے میں ہے، جب سے مایوں بٹھایا ہے، سارا وقت سوتی رہتی ہے۔کہتی ہے فارغ بیٹھے اور کیا کروں۔؟"

"میں اسے دیکھتی ہوں۔" وہ دروازے کے ساتھ موجود سیڑھیاں چڑھتی اوپر سمیرا کے کمرے میں آ گئی۔

"سنا تھا، شادی قریب ہو تو راتوں کی نیند اڑجاتی ہے پر یہاں تو دن میں بھی خواب خرگوش کے مزے لیے جا رہے ہیں" اس نے کہتے ہوئے ذرا سا چادر کو کھینچا جس سے بھنا کر واپس تان لیا گیا۔ 

"گوہر کی بچی! تمہیں کہا نا، میں نہیں اٹھوں گی۔۔۔ جو بکواس کرنی ہے، کر لو۔"

"ابھی شادی ہوئی بھی نہیں اور حواس کس قدر معطل ہے کہ میری آواز بھی پہچانی نہیں جا رہی۔ شادی کے بعد تو شکل بھی نہیں پہچانو گی۔" چادر تلے ٹھنکنے کے آثار نمودار ہوئے۔ پھر ایک آنکھ نکال کر باہر جھانکا اور ملیحہ پر نظر پڑتے ہی "یہ تم ہو؟" کہ کر چادر پھینکتی وہ دیوانہ وار ملیحہ سے لپٹ گئی۔

"سمیرا! بس کرو۔ پسلیاں توڑو گی؟" ملیحہ نے بمشکل اسے خود سے الگ کیا۔ وہ الگ تو ہوگی پر اسے زور کا ہاتھ مار کر بولی۔ 

"بدتمیز! جب ابو کو چاچو تمہیں لینے گئے تھے تب کیوں نہیں آئیں۔" 

"آب آگئی ہو نا۔" وہ متانت سے بولی 

"اب بھی نہیں آتی تو میں تمہیں جان سے مار دیتی۔"

اتنے میں ایک بچہ بھاگ بھاگ آیا اور بولا "خالہ! مما کہہ رہی ہے، آ کر چائے پی لیں۔" اور بول کر واپس بھاگ گیا۔ 

"چلو۔" ملیحہ نے اسے بھی ساتھ اٹھایا۔

صرف تمہیں بلایا ہے۔ میرے توں باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ کے خداناخواستہ آفاق صاحب کے نظر پڑ گئی تو ان کے ان کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ویسے سخت ناانصافی ہے۔ انہیں میں کمرے میں بند کر دینا چاہیے۔ آخر ہم بھی صاحب ایمان ہیں۔" اس کے جلے کٹے انداز پر ہنستے ہوئے ملیحہ نے کہا۔

"تمھارے ایمان کا بھی خیال ہے۔ اسی لئے تو کمرے میں بٹھایا ہے۔" 

"تو کیا فائدہ؟" میں کھڑکی میں سے انہیں آتے جاتے دیکھ لیتی ہوں۔"

"کیا؟ ملیحہ نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا تو وہ ڈھٹائی سے ہنسنے لگی۔ "بہت بے شرم ہو۔" پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ "ابھی کھا کر تمہیں دیکھتی ہوں" 

چائے کے دوران ہی مغرب کا وقت ہو گیا۔ باقی سبھی لوگ نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ وہ نماز پڑھ کر دالان میں بچے تخت پر آ بیٹھی۔ دونوں پاؤں سینڈل سے آزاد کر کے اوپر اٹھائے وہ فرصت سے بیٹھ گئی۔ 

آسمان کا رنگ گہرا ہونے لگا تھا۔ دور کہیں کچھ پرندے اپنے آشیانوں تک پہنچنے کی کوشش میں اڑے جا رہے تھے۔ وہ فارغ بیٹھی ان پرندوں کو دیکھتی رہی۔ پھر یوں ہی بھٹکتی اس کی نظر تخت پر کچھ ہاتھ کے فاصلے پر ررکھے ڈوپٹے پر پڑی جس پر کچھ دیر پہلے صائمہ لیس ٹانگ رہی تھی۔ کرنے کو اور تو کچھ تھا نہیں،لیس ڈوپٹہ اٹھایا اور ٹانکنے لگی۔ گیٹ کا دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا۔ 

ملیحہ نے دھیان نہیں دیا۔ اتنی سی دیر میں ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ یہاں آمدورفت بھی شادی کے ہنگاموں کا ہی ایک حصہ ہے۔ اندر آنے والا شام کے دھندلکے میں دالان کی روشنی میں تخت پر بیٹھی سوئی دھاگے میں الجھی لڑکی کو دیکھ کر پہلے تو آگے بڑھنے لگا، پھر کچھ شک سا ہوا تو اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ 

"آپ۔؟"حیرت بھری آواز پر ملیحہ سمجھی تو نہیں، مخاطب وہ تھی۔ پھر بھی سر اٹھا کر دیکھا تو چاکلیٹ کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس وجدان کو دیکھ کر حیرت کچھ اس طرح غالب آئی کہ احساس بھی نہیں ہوا اور سوئی دوپٹے میں گزرنے کی بجائے سیدھی بائیں ہاتھ کے انگوٹھے میں گھسا دی۔ ملیحہ کا تو انگوٹھے میں اٹھتی ٹیسوں کی طرف دھیان بھی نہیں گیا تھا۔ وجدان نے اس کے انگوٹھے سے خون کے قطرے کو ابھرتے دیکھا تو سر جھٹکتا اس کے پاس چلا آیا۔ 

"یہ آپ نے کیا، کیا؟۔" وہ اسے ملامت کرتا اس کے سامنے گھٹنا زمین پر ٹکاتا ہوا بیٹھا اور اس کا ہاتھ تھامنے کو ہاتھ بڑھایا تو ملیحہ نے کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ 

وجدان نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر جیب سے رومال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ 

"اسے تو لے سکتی ہیں۔" 

ملیحہ نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد رومال لیا۔ رومال سے خون صاف کرتے ہوئے اس نے وجدان کو کہتے سنا۔ "آپ نے لائبریری آنا کیوں چھوڑ دیا؟۔"

ملیحہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ " آپ کو کیسے پتا ہے؟" 

وہ کچھ بھی بولے بغیر مسکرایا تو ملیحہ نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا۔ 

"تو آپ روز وہاں جاتے ہیں۔ میرا مطلب ہے دو مہینے سے آپ کیسے۔۔۔" وہ بے ربط انداز میں بول رہی تھی۔ وجدان کی مسکراہٹ کچھ اور بھی گہری ہو گئی۔

مجھے یقین تو نہیں ہے مگر یہی سچ ہے 

میں تیرے واسطے عمریں گزار سکتا ہوں 

یہی نہیں کہ مجھے جیتنے کی خواہش ہے 

میں تیرے واسطے خود کو بھی ہار سکتا ہوں

ملیحہ دم بخود سی بیٹھی تھی اور وجدان بھی جیسے ان پلوں کے سحر سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ 

"وجدان!" اس ایک پکار نے طلسم توڑ دیا۔ وہ دونوں ایک دم سے ہوش میں آگئے۔ وجدان نے گردن گھما کر آواز کی سمت دیکھا۔ گیٹ سے اندر آتا آفاق اسے دیکھ حیران ہوا۔ 

"تم یہاں ہو اور میں تمہیں سارے شہر میں تلاش کر رہا تھا۔" ملیحہ نے آفاق کو دیکھا اور پھر وجدان کو۔ 

سر شام ایک شخص ملیحہ کے سامنے گھٹنوں کے بل نیازمندی سے بیٹھا تھا۔ نیو سچویشن کسی حد تک قابل اعتراض تو تھی۔ اس کے خیال سے وہ شرمندہ بھی تھی مگر وجدان کے چہرے پر اسے کسی قسم کی گھبراہٹ کے آثار نظر نہیں آئے۔ وہ اطمینان سے اٹھ کر آفاق سے گلے ملا جو شکوہ کر رہا تھا۔ 

"کہاں ہوتے ہو یار؟۔ نظر ہی نہیں آتے۔ بابا بھی تمہاری گمشدگی سے کافی ناراض ہیں۔ صبح تو انہوں نے باقاعدہ حکم ہی دے ڈالا کہ تمہیں کہیں سے بھی برآمد کروں۔" 

"کوئی خاص وجہ۔؟"

"کسی کیس کے سلسلے میں وہ تم سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔" 

وجدان اچھل پڑا۔ "ایڈووکیٹ کو منیر حسن کو مشورے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی میرے مشورے کی؟ کچھ ایسا کہ جیسے میں مان بھی لوں۔" 

"سیریسلی یار! پاپا تو جو بہت مانتے ہیں۔ اور جب میں نے ان کی لیگل فارم جوائن کرنے کے بجائے لیگل ایڈوائزر کی جاب کی ہے۔ تیرے نام سے مجھے طعنے کی سننے پڑتے ہیں۔ "چل اندر تو آ۔" آفاق اسے ساتھ لیے اندر چلا گیا۔ 

ملیحہ جہاں تھی وہیں بیٹھی رہ گئی۔ آفاق نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ حالانکہ سامنے ہی بیٹھی تھی۔ اور یہ ممکن نہیں تھا کہ آفاق نے اسے نہ دیکھا ہو۔ مگر جس طرح اس نے ملیحہ کی ان دیکھی کی تھی، ملیحہ کو بہت عجیب لگا تھا۔ 

"ملیحہ! یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ وہاں سب حال میں سب ڈھولک کا پروگرام بنائے تمہارے انتظار میں ہیں۔ اٹھو شاباش۔" صائمہ آ کر اس کے برابر بیٹھے ہوئے بہت پیار سے بولی پھر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ اٹھاتے اندر لے آئی۔ حال کے ایک جانب بیچے قالین پر ملیحہ کے تمام کزنز اپنی ڈھولک لیے بیٹھی تھیں۔ ساتھ سمیرا کو بھی بٹھا رکھا تھا جو ہاتھ بھر کے لمبے گھونگھٹ میں تھی اور پاس ہی صوفے پر وجدان براجمان تھا جو آفاق کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اپنے بازو سے لگی بیٹھی ارم کی چھوٹی سی پونی کو بار بار کھینچ رہا تھا اور وہ بار بار جھنجلا جاتی۔ ملیحہ ایک اچٹتی سی نگاہ اس طرف ڈال کر اپنے کزنز میں آ بیٹھی۔ 

~~~~~

"یا اللہ! یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔۔میں وجدان سے دور جانا چاہتی تھی اور وہ ایک بار پھر میرے سامنے آ گیا ہے۔ میں نے خود کو اس کی طرف جانے والے راستے پر بڑھنے سے روک لیا تھا پھر آپ کیوں اسے دوبارہ میرے راستے پر لے آئے ہیں؟۔۔۔یوں لگتا ہے کہ میں دائرے میں قید ہو گئی ہوں، جس بھی راستے پر قدم بڑھاؤں گی اس کے آخری سرے پر وجدان کو ہی کھڑا پاؤں گی۔" 

ان سطروں کو رقم کر کے اس نے ڈائری بند کرکے احتیاط سے بیگ میں واپس رکھی اور لائٹ آف کر کے ڈبل بیڈ پر جا کر لیٹ گئی جس کے اک سرے پر سمیرا بے خبر سو رہی تھی۔

ملیحہ نے دوبارہ وجدان کو اپنی طرف متوجہ نہیں پایا حالانکہ وہ اس کے آس پاس ہی تھا۔ ان تین دنوں میں ملیحہ کو بنا چاہے ہی اس کے بارے میں بہت کچھ پتہ چل چکا تھا۔ وہ اور آفاق کلاس فیلوز تھے۔ ایل ایل بی کرنے کے بعد اس نے منیر حسین کا آفس جوائن کر لیا تھا۔ گھر میں اسے گھر کے فرد کی حیثیت حاصل تھی اور سبھی لوگ اسے کافی پسند کرتے تھے۔ بڑے ماموں افتخار حسن نے تو وجدان کو بیٹا بنا رکھا تھا۔

مہندی کا انتظام چھت پر کیا گیا تھا۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی جو بھلی لگ رہی تھی۔ مہندی کی رسم سے فارغ ہو کر سب لوگ دولہا دلہن کے لیے بنے اسٹیج پر چڑھ بیٹھے۔ جنہیں اسٹیج پر جو میں نہیں ملی، وہ اسٹیج کے قریب ہی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بجائے اس کے سب ساتھ مل کر گانے گاتے، طے ہوا کہ ان کے شخص گانا گانے کی فرمائش کی جائے۔

اب وہاں جیسے میوزک کنسرٹ چل رہا تھا۔ ایک کر کے سب اسٹیج کے بیچوں بیچ آ کر بیٹھ جاتے اور گانا گا کر اٹھ جاتے۔ ملیح اسٹیج کے نیچے کرسی پر بیٹھی ٹی پنک کلر کے کپڑوں پر ہلکی سی شال لپیٹے ہوئے تھی۔ گوہر وحید مراد کا "کوکو کورینا" گاکر سٹیج اتری اور سب تالیاں بجانے لگے کہ صمد نے آواز لگائی۔ 

"اب وجدان کی باری ہے۔" 

سب نے صمد کی پیروی میں وجدان کا نام پکارنا شروع کیا۔ وجدان اپنی جگہ سے اٹھ کر سب کے بیچ میں آ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ 

"میں گانا نہیں البتہ ابن انشا کی ایک نظم سناؤں گا۔" 

"ارشاد، ارشاد۔" کی آوازیں ابھریں۔ جب شور تھما تو وجدان اپنی پر اثر آواز میں گویا ہوا۔ 

"ہم گھوم چکے بستی بن میں 

اک آس کی پھانس لیے من میں 

کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو 

کوئی دیپک ہو،کوئی تارا ہو 

جب جیون رات اندھیری ہو 

اک بار کہو، تم میری ہو"

وجدان کی آنکھیں بند تھی۔ وہ ملیحہ کو نہیں دیکھ رہا تھا پر ملیحہ کو یوں لگا جیسے وہ اس بھرے مجمع میں خاص طور پر اسی سے مخاطب تھا۔ اس کے چہرے کے وجاہت بھرے نقوش کو میلحہ پہلی بار دل کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی اور پہلی بار تو اس نے جانا تھا کہ دل کی آنکھ سے دیکھنا کیسا لگتا ہے۔ وہ وجدان کی آواز کو روح کی گہرائی سے سن رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا، روح کی سماعتیں بہت محدود ہیں۔ اس ایک آواز کے سوا اسے اور کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

"جب ساون بادل چھائے ہوں 

جب پھاگن پھول کھلائے ہوں 

جب چندا روپ لٹاتا ہو 

جب سورج دھوپ نہاتا ہو 

یا شام نے بستی گھیری ہو 

اک بار کہو،تم میری ہو" 

اس جملے کی بازگشت اس کے وجود میں دور دور تک پھیل گئی۔ وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی پر دوسرے ہی قدم پر ایک پکار نے زنجیر کیا تھا۔

"ہاں دل کا دامن پھیلا ہے 

کیوں گوری کا من میلا ہے 

ہم کب تک پریت کے دھوکے میں 

تم کب تک دور جھروکے میں 

کب دید سے دل کو سیری ہو 

اک بار کہو تم میری ہو"

وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"کیا جھگڑا سود خسارے کا 

یہ کاج نہیں بنجارے کا 

سب سونا روپا لے جائے 

سب دنیا، دنیا لے جائے 

تم مجھے ایک بہتیری ہو 

اک بار کہو تم میری ہو" 

نظم ختم ہوئی اور وجدان نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سیدھی نظر ملیحہ کے وجود سے ٹکرا گئی ۔ بس ایک ہی پل کے لیے وجدان کی آنکھوں میں اس کی پوری جان سمٹ آئی تھی مگر اگلے ہی پل سنبھل کر وہ اٹھ گیا۔ ملیحہ اندھیرے میں کھڑی تھی اس لئے وجدان اس کے چہرے کو دیکھ نہیں سکا جہاں کشمکش نظر آ رہی تھی۔ 

"کیا جھگڑا سود خسارے کا، یہ کاج نہیں بنجارے کا۔ "وہ زیر لب دوہراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ 

"مگر میرا دل تو اندیشوں سے بھرا ہے۔" وہ الجھ گئی تھی اور الجھن کبھی خود ہی سمجھ جاتی ہے۔ اس نے جانا نہ تھا مگر اب وہ بہت سے انجانے رازوں کو جاننے والی تھی۔

مرجنڈا اور بلیو کنٹراسٹ كے شرارہ سوٹ میں وہ اپنی کزنز كے ہمرا دلہن بنی سمیرہ کو لیے سٹیج تک آئی.اسے آفاق كے پہلو میں بیٹھا کر اسکا دوپٹہ ٹھیک کر كے وہ سیدھی ہوئی اور اسٹیج سے اترنے لگی كے افتخار حسن نے اسے آواز دی. 

"ملیحہ!" وہ فوراً پلٹی.

"جی ماموں جان!" 

"بیٹا!فون تو کرو،بھائی صاحب ابھی تک نہیں آئے." انکی بات پر وہ کچھ توقف كے بعد بولی.

"ماموں جان!آپ تو جانتے ہیں نا،بابا جان کو.وہ کبھی بھی پر ہجوم جگہوں پر جانے كے لیے تیار نہیں ہوتے." 

وہ جانتے تھے،اسی لیے پِھر اصرار نہیں کیا اور نورالہدی کا پوچھنے لگے.

"نورالہدی تو آئیگا نا؟" 

"جی ماموں جان!صبح میری ہادی بھائی سے بات ہوئی تھی.وہ کہہ رہے تھے كہ وہ آئینگے.تھوڑی دیر میں آتے ہی ہونگے." 

وہ سَر ہلا کر کسی اور طرف متوجہ ہوگئے تو ملیحہ بھی اپنا شرارہ سنبھال کر اسٹیج سے اترتی وجدان كے برابر سے انجان بن کر گزر گئی. 

"ملیحہ!" جب افتخار حسن نے ملیحہ کا نام پکارا تو وہ ملیحہ سے دو قدم ہی پیچھے تھا اور اپنے آپ ہی اسکے احساسات کو اک نام مل گیا تھا.اس نے اس نام کو زیر لب دہرایہ یوں كہ ہونٹ تو ہلے مگر آواز نہیں ابھری.ملیحہ نے کوئی آواز تو نہیں سنی پر اسے احساس ہوا،کوئی اسکا نام لے رہا ہے.وہ بے ساختہ پلٹ کر بولی. 

"جی."مگر وجدان کو دیکھ کر سٹپٹا گئی.اسکے سوالیہ اندازِ پر وجدان بولا. 

"سب کچھ تو کہہ چکا ہوں.اب اور کیا کہوں؟" 

وہ گڑبڑا کر فوراً ہی پلٹ گئی.مگر جانے کیا ہوا،کچھ قدم چل کر ہی وہ اچانک پِھر پلٹی اور فان کلر كے ڈنر سوٹ میں وجدان کو دیکھا.وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا.ملیحہ کی آنکھیں اسکی آنکھوں سے الجھ گئیں اور پہلی بار ایسا ہوا كہ وجدان کو دیکھ کر ملیحہ كے دِل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں.وہ ٹھٹک گئی.آگاہی کا پل اسکی زندگی میں آچکا تھا.اس نے بے یقینی سے وجدان مصطفی کو دیکھا.وجدان نے آنکھ كے اشارے سے پوچھا. 

"کیا ہوا؟" وہ یوں ہی اسکی طرف دیکھتی رہی پِھر اپنے احساسات پر غور کرتی ہوئے الجھے اندازِ میں سَر کو جھکا لیا تو سلکی بال کندھے سے پھسلتے ہوئے اسکے رخ کو ڈھک گئے تھے.ایک ہاتھ سے بال ہٹاتے ہوئے اس نے پِھر وجدان کودیکھا جو بہت دلچسپی سے اسکے ہر ہر اندازِ کو نوٹ كررہا تھا اور پِھر پہلی بار وجدان نے اسے خود سے شرماتے دیکھا تھا.نظریں چوراتے ہوئے رخ بدل کر وہ ہونٹوں میں مسکرائی پِھر فوراً ہی پلٹ کر بھاگتے ہوئے ہال كے اک جانب بنے ڈریسنگ روم میں جا چھپی. 

اس نے گو کچھ نہیں کہا تھا لیکن سامنے وہ شخص کھڑا تھا جس نے اسے حفظ کر لیا تھا.بھلا اسے اِس حادثہ کی خبر کیسے نا ہوتی؟وجدان نے کھل کر مسکراتے ہوئے سَر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور دِل ہی دِل میں اس رب کا شکر کرنے لگا جس نے آج اسکی محبت کو معتبر کردیا تھا۔ 

~~~

نورالہدی وطن واپس لوٹے تو بہت دنوں تک فارغ نہیں رہ سکے.فوراً ہی گارمنٹس فیکٹری كے قیام كے سلسلے میں دوڑ دھوپ شروع کردی اور اک بھر پور دن گزر کر رات جب وہ لوٹتے تو تھکن سے جسم ٹوٹ رہا ہوتا.مگر یہ تھکن بس قصرِ فاروقی کی چوکھٹ تک ہی انکا ساتھ دے پاتی.کیوںکہ چوکھٹ كے اُس پر اک لڑکی ان کے انتظار میں نیند قربان کیے جاگ رہی ہوتی اور ان کو دیکھتے ہی وہ مسکراتی ہوئی اَٹھ کر پاس چلی آتی اور سلام کرنے كے بعد ان سے کہتی. 

"آپ فریش ہوجائیں،میں كھانا لے کر آتی ہوں."پِھر جتنی دیر وہ فریش ہو کر کمرے میں آتے،وہ كھانا گرم کر كے ٹِرے میں سجائے کمرے میں چلی آتی.نورالہدی اسے دیکھتے ہی صوفے پر جا بیٹھتے.وہ كھانا شام میں کھا لیا کرتی تھی مگر اب اُس نے اپنی بھوك کو تقسیم کر لیا تھا.تھوڑا سا كھانا وہ شام کو بابا جان كے ساتھ کھاتی اور تھوڑا سا كھانا رات میں نورالہدی کا ساتھ دینے کو کھاتی.مگر آج دروازہ کھول کر اندر پیر رکھتے ہوئے انہوں نے خالی صوفے کو دیکھا تو وہیں رک گئے. 

"اک تُم جو نہیں ہو تو لگتا ہے کچھ نہیں ہے."انہوں نے اپنی سرغوشی سنی. 

"صاب!كھانا لگا دوں؟" 

"رہنے دو یار!بھوك نہیں ہے."بہت بے زری سے بول کر وہ دروازے كے آگے بنے اسٹیپ پر بیٹھ گئے.بہادر سَر ہلا کر واپس غائب ہو گیا تھا. 

نورالہدی نے کوٹ ران پر رکھا.ٹائی کی نوٹ کھینچ کر دھیلی کرتے ہوئے انہوں نے گریبان كے بٹن کھول دئیے.پِھر کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی اور مسکرا اٹھے.اِس وَقت انہیں شادی ہال میں ہونا چاہیے تھا.وہ جانتے تھے،ملیحہ اِس وَقت بے صبری سے انکا انتظار کررہی ھوگی.خود وہ بھی اک نظر اسے دیکھ لینے کو بے چین تھے مگر پِھر یہ خیال كہ وہ انکی راہ دیکھتے ہوئے بس انہیں سوچ رہی ھوگی،کہیں زیادہ کیف آگیں تھا.وہ اک ہاتھ سے گدی مسلتے خود سے بولے. 

"کبھی سوچا بھی نہیں تھا كہ اک لڑکی مجھ جیسے شخص سے ایسی امیچور حرکتیں کروا لے گی."خود پر مسکراتے ہوئے انہوں نے کوٹ کی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا كے جیب سے لائٹر نکال کر جلایا.سگریٹ سلگھاتے ہوئے کچھ یاد کر كے انکا ہاتھ اک پل کو رکا،پِھر اک گہری مسکراہٹ كے ساتھ سَر جھٹکتے انہوں نے سگریٹ سلگھالیا. 

گلاس وال سے گزر کر انکی نظریں لاونج كے اُس صوفے پر ٹھہریں جس پر بیٹھ کر انکا انتظار کرتی ہوئے وہ پہلی رات سوگئی تھی.اور پھر آنے والی کئی راتیں نورالہدی نے اسے اسی صوفے پر بیٹھے اپنے انتظار میں جاگتے پایا تھا.نورالہدی نے اک گہرا کش لے کر دھواں ہوا میں چھوڑا اور ملیحہ کو دیکھنے کی انکی خواہش عجیب ڈھنگ سے پوری ہوگئی.دھوئیں میں لپٹا اسکا ہر نقش بہت واضح تھا.بند آنكھوں کو ڈھکتے پپوٹوں پر سجی پلکوں کا سایہ،گالوں پر پڑ رہا تھا.ہونٹ نیم وا تھے.الجھے بالوں کی اک لٹ اسکے گال کو چھو رہی تھی.

گداز بانہوں میں کشن دبا رکھا تھا اور لمبا ڈوپٹہ اک طرف سے ذرا سا شانے پر ٹکا تھا اور دوسری طرف سے پیروں کو چھوتا قالین پر بے ترتیبی سے بکھرا تھا.دھواں تحویل ہونے لگا تو عکس بھی مٹنے لگا تھا.نورالہدی نے اک اور کش لے کر دھوئیں کی دیوار اپنی آنکھوں كے سامنے کھڑی کرلی.اور وہ بے خبر حُسن پھر سے انکی نظروں میں آ ٹہرا. 

"محبت کا یہ کھیل بھی کتنا عجیب ہے كہ دھندلے منظر زیادہ روشن،زیادہ صاف دیکھائی دیتے ہیں."ملیحہ كے عکس کو دیکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بڑبڑائے پِھر اپنی ہی بات پر چونک گئے. 

"محبت." 

انہوں نے دھیرے سے اس لفظ کو دہرایہ اور سوچ میں پڑ گئے.وہ سوچتے رہے،سوچتے رہے.یہاں تک كہ انکی انگلیوں میں دبا سگریٹ صفہ ہستی سے مٹتے ہوئے اپنے وجود کی تپش انکی پوروں کو بخش کر انہیں ہوش میں لے آیا.بے ساختہ ہی ہاتھ جھٹکتے ہوئے ان کے ہونٹ دلکشی سے مسکرائے. 

"تو نورالہدی فاروقی!"انہوں نے اپنے آپکو مخاطب کرتے ہوئے خود سے کہا."آج یہ اعتراف کر ہی لو كہ تمہیں محبت ہوچکی ہے." 

کسی كے تصور سے انکی آنکھیں جگمگائی تھیں.انہوں نے اک اور سگریٹ نکل کر سلگھایا اور دھندلے منظر پھر سے روشن ہونے لگے تھے. 

~~~~~~~

رات کا نا جانے کونسا پہر تھا۔شادی كے ہنگامے میں بری طرح تھک کر سوئی گوہر کو اسکے ڈیڑھ سال كے بیٹے نے بھوک سے مجبور ہو کر جگا ڈَالا.اسکے رونے کی آواز پر پاس سوتا جنید بھی جاگ گیا.گوہر بچے كے لیے فیڈ بنانے اٹھی اور میاں کو بیٹے کا خیال رکھنے کو کہہ کر کچن میں اگئی.دودھ گرم کر كے فیڈر میں ڈالتی وہ کچن کی لائٹس اوف کر كے کمرے میں جانے لگی تو اسے شک ہوا كہ کوئی ٹیرس پر ہے.وہ حیران ہوتی ٹیرِس پر آئی تو اندھیرے كے باوجود ریلنگ كے پاس کھڑے وجود کو پہچان لیا. 

"ملیحہ!ابھی تک جاگ رہی ہو؟"ملیحہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تو گوہر اسکے پاس آگئی."اور اتنی ٹھنڈ میں تم ٹیرِس پر کیا کررہی ہو؟" 

"چاند کو دیکھ رہی ہوں."اس نے کہا. 

"اب چاند کو دیکھنا چھوڑو اور بستر میں جا کر خواب دیکھو.بہت رات ہوچکی ہے اور صبح جلدی اٹھنا ہے."ملیحہ نے جیسے خواب سے آگے کی بات سنی ہی نہیں. 

"مجھے خواب دیکھنے سے بہت ڈر لگتا ہے گوہر!کیوںکہ ٹوٹ جاتے ہیں تو عمر بھر تکلیف دیتے ہیں.لیکن آج میرا دِل چاہ رہا ہے كہ کچھ خواب جاگتی آنکھوں سے سجا لوں،تم نے کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے ہیں؟"وہ اب گوہر سے پوچھ رہی تھی. 

"شادی سے پہلے دیکھا کرتی تھی." وہ ہنس کر بولی."مگر اب تو بند آنکھوں سے بھی باپ بیٹے كے چہرے ہی نظر آتے ہیں."پھر سنجیدگی سے گویا ہوئی.

"اچھا میں چلتی ہوں.معیز كے لیے فیڈر بنانے آئی تھی.وہ جنید کو پریشان كررہا ھوگا اور تم بھی اب چاند اور خواب کی باتیں چھوڑو اور جا کر سو جاؤ.کل شام میں ولیمہ ہے اور پورا دن اتنی ہلچل مچے گی كہ آرام کا موقع نہیں ملے گا."وہ اسے سونے کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو ملیحہ نے مڑ کر نظریں پھر سے چاند کی طرف اٹھائیں جس پر اس لمحے وجدان کی نظروں کا پہرہ تھا.وہ لان سے چھت تک جاتی سیرھیوں پر دونوں ہاتھ سَر كے نیچے رکھے لیٹا تھا.بار بار شام کا وہ منظر اسکی نگاہوں میں گھوم رہا تھا اور ہونٹوں کی مسکراہٹ لمحہ لمحہ گہری ہوتی جا رہی تھی. 

نورالہدی،ملیحہ اور وجدان تینوں کی آنکھیں زندگی میں پہلی بار رت جگے سے آشْنا ہورہی تھیں اور تینوں ہی اِس بات سے لا علم تھے كہ اِس اک رات کا جاگنا انہیں ساری عمر جگائے گا.

******

آج نورالہدیٰ ملیحہ کا لینے آنے والے تھے۔ وہ دو راتوں سے  سو نہیں سکی تھی۔صبح فجر کی نماز پڑھ کر سوئی تو دس بجے اٹھی اور ناشتہ کر کے کمرے میں آتے ہی بیگ پیک کرنے لگی۔وہ وہ ساتھ ساتھ کچھ گنگناتی جا رہی تھی۔سمیرہ اسے بلانے آئی تو دروازے میں ہی رک کر اسے دیکھنے لگی۔ملیحہ کو اس کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا تو اس نے خود ہی کھلے دروازے پر دستک دے کر اسے متوجہ کرلیا۔ملیحہ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائی۔ 

"وہاں کیوں کھڑی ہو؟اندر آجاؤ۔"سمیرا کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ 

"کیا بات ہے؟جب آئیں تو الجھی ہوئی سی تھیں۔اب جارہی ہو تو بہت خوش نظر آرہی ہو۔" 

"ہاں خوش تو ہوں۔"وہ اٹھلائی،پھر بولی۔

"مگر تم میری چھوڑو،اپنی سناؤ۔شادی کے بعد تو اور بھی نکھر گئی ہو۔"لائٹ پرپل کلر کے ہلکی سی کڑھائی والے کپڑوں میں ملبوس مہندی لگے ہاتھوں کی کلائیوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنے ہلکی سی جیولری میں دلہناپے کا روپ لیے سمیرا کو دیکھ کر اس نے کہا۔جوابا سمکرا نے اسے گہری نظر سے دیکھا۔ 

"میرا نکھار تو شادی کی وجہ سے ہے۔مگر تم کیوں کھلی جا رہی ہوں۔؟"سمیرا نے کچھ فاصلے پر بیٹھی کپڑے طے کرتی ملیحہ کے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا جس کے گالوں کی سرخیاں اور بھی گلابی ہو رہی تھیں۔ملیحہ نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر جذب سے کہا۔

"محبت سے۔"

"کیا؟"سمیرہ اچھل ہی تو پڑی۔ملیحہ نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔

"ہاں۔اگر محبت ہونے سے پہلے مجھے پتہ چل جاتا کہ محبت اتنا خوبصورت احساس ہے تو کبھی پہروں محبت ہو جانے کے خیال سے خوفزدہ نہ رہتی۔مگر اظہار تو اب بھی مشکل ہی لگتا ہے۔" 

"مگر محبت ہوئی کس سے ہے؟ کیا نورالہدی سے؟"پوچھنے کے ساتھ ہی اس نے اندازہ بھی لگایا۔اسکے غلط اندازے پر وہ سست ہو کر بولی۔ 

"ان سے محبت ہوئے تو زمانے بیت گئے۔اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کب ہوئی تھی۔"مگر وجدان کا نام نہ لے سکی تو چپ ہو کر یوں ہی بیڈشیٹ کی ان دیکھی شکنیں دور کرنے لگی۔  

سمیرا نے اس کے لہجے کو سمجھا نہیں،اس کے لفظوں کو اپنے انداز کی تصدیق سمجھ کر چھیڑنے کے سے انداز میں بولی۔ 

"لگتا ہے انہیں بھی تم سے محبت ہے کل ولیمہ ہوا اور آج لینے آ پہنچے ایک دن مزید تمہارے بغیر رہ نہیں سکے۔"

"ہادی بھائی آگئے ہیں۔"نورالہدی کے آنےکا سن کر اس نے پھر اور کسی طرف دھیان ہی نہیں دیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نیچے بھاگی چلی آئی۔اسے آتا دیکھ کر منیر حسن کی کسی بات کا جواب دیتے نورالہدی نہ صرف چپ ہو گئے بلکہ بے دھیانی میں ہی کھڑے بھی ہو گئے۔ ملیحہ اسی تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔اس کی رفتار دیکھ کر نورالہدی کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھے آفاق کو خدشہ ہوا کہ وہ سیدھی ان کے گلے لگ جائے گی۔نورالہدی بھی اس کی تیزی پر بوکھلا گئے تھے پر ان سے دو قدم کے فاصلے پر ملیحہ نے اچانک ہی بریک لگا لیے۔

اپنی غیر ارادی حرکت پر وہ شرمندہ ہو گئی تھی اسی لئے کچھ بول بھی نہیں پائی اور نورالہدی نے اس کے بولنے کا انتظار بھی نہیں کیا۔انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور پوچھا۔

"کیسی ہو؟"

"ٹھیک ہوں۔آپ کیسے ہیں؟اور بابا جان کا کیا حال ہے؟"

"میں ٹھیک ہوں اور بابا جان کا حال بھی بہتر ہے"پھر اسے کھڑے دیکھ کر کہنے لگے"بیٹھ جاؤ"اور وہ فورا بیٹھ گئی۔نورالہدی بھی واپس اپنی جگہ بیٹھتے بولے۔  

"جی ماموں جان آپ کیا کہہ رہے تھے؟"اور انکی بات چیت کا سلسلہ جہاں سے منقطع ہوا تھا وہیں سے جڑ گیا۔  

دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اپنا بیگ لینے کمرے میں آئی۔تو ایک دم سے وجدان کا خیال آگیا۔ اتنے دنوں سے وہ یہی تھا پر آج صبح  سے  نظر ہی نہیں آیا تھا۔وہ بیگ لئے نیچے آگئی نورالہدیٰ سب سے رخصت لے کر اس کا بیگ اٹھائے آفاق کے ساتھ گیٹ سے نکل گئے۔سب سے ملتی وہ سمیرا تک آئی۔سمیرا پل بھر کو اس کے گلے لگ کر بولی۔

"اللہ حافظ!"

"ارے،یہ کیا طریقہ ہے۔"ملیحہ اچنبھے سے بولی  تو اس نے کہا۔ 

"طریقہ تو بالکل صحیح ہے۔ لیکن تمہیں اعتراض کیا ہے؟" 

"ویسے تو میں جب بھی آتی تھی تو جاتے وقت تم کیسے روکتی تھی۔تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ،اچھا شام کو چلی جانا اور آج کتنے آرام سے مجھے بھیج رہی ہوں ایک بار بھی نہیں روکا۔"

"کیونکہ میں جانتی ہوں آج میرے روکنے سے تم نہیں رکو گی۔"اسکے نروٹھے پن کے جواب میں سمیرا شوخی سے بولی پر وہ سادگی سے کہنے لگی۔ 

"ٹھیک کہہ رہی ہو۔مجھے بہت دن ہو گئے۔اب اور  نہیں رک سکتی۔"پھر اللہ حافظ کہہ کر گیٹ کی طرف جانے لگی۔اسی وقت وجدان اندر آیا تھا۔اس نے ملیحہ کو دیکھا پھر پیچھے کھڑے سب لوگوں کو۔

"آپ جارہی ہیں؟"پہلی بار وہ سب کی موجودگی میں اس سے براہ راست مخاطب ہوا تھا۔

"ہاں"۔ اس نے کہا۔ 

"ملیحہ!اب آ بھی جاؤ۔ نورالہدی انتظار کر رہا ہے۔" 

آفاق نے گیٹ سے اندر منہ کرکے کہا تو کچھ کہے بغیر وہ باہر نکل گئی۔

"میری خاطر جھوٹ بولتے بولتے مجھ سے بھی جھوٹ بولنا سیکھ گئے ہیں۔"کار کی خاموشی میں ملیحہ کی خفگی بھری آواز سنائی دی تھی۔وہ اس کی طرف مڑے اور کوئی وضاحت مانگے بغیر بولے۔

"آئی ایم سوری۔" 

ملیحہ نے ان پر ایک خفا سی نگاہ ڈالی اور منہ پھیر لیا۔اس کی خاموشی کو محسوس کرکے وہ پھر بولے۔

"ملیحہ!میں معافی مانگ رہا ہوں نا۔"

"معافی مانگنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟"وہی یوں ہی رخ موڑے بولی پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 

"جانتے ہیں میں نے آپ کا کتنا انتظار کیا تھا۔"

"جانتا ہوں۔"وہ ہلکے سے مسکرائے۔ 

"پھر آئے کیوں نہیں۔"

"کبھی کبھی یہ احساس بہت سکون دیتا ہے کہ کوئی آپ کے انتظار میں بے چین ہے۔" ملیحہ  نے سرجھکا کر دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"صحیح کہہ رہے ہیں۔" پھر اپنی بات کہہ کر منہ پھیرے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔ نورالہدی نے ڈیش بورڈ سے ایک انویلپ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔ ملیحہ نے ان کے ہاتھ کی طرف دیکھا، پھر انویلپ میں رکھا کاغذ نکال کر پڑھنے لگی۔ وہ جیسے جیسے بڑھتی گئی اس کے چہرے پر جوش کے آثار نظر آنے لگے۔

آخر وہ ان کا بازو دبوچ کر زور سے بولی۔

"مجھے یقین نہیں آرہا ہادی بھائی! جب مجھے پتہ چلا کہ آٹھ کونسل نے مصوروں کے لئے ایگزیبیشن ارینج کرنا چاہتی ہے تو میں نے مذاق مذاق میں ہی اپلائی کر دیا۔ پر میرا سلیکشن ہو گیا ہے۔" 

"واقعی؟"  وہ بہت دل سے ہر ان ہوئے۔ 

"ہاں۔ اور پتا ہے اس میں لکھا ہے کہ۔۔۔۔۔" وہ لیٹر میں سے کچھ پڑھتے ہوئے ایک دم ہی چپ ہو گئی۔ اسے خیال آیا کہ جب اس نے انویلپ میں سے لیٹر نکالا تھا تو وہ کھلا ہوا تھا۔ وہ مشکوک سے انداز میں بولی۔

"ہادی بھائی! یہ انویلپ آپ نے کھولا تھا؟" 

اب وہ مزید ایکٹنگ کا ارادہ چھوڑ کر ہنستے ہوئے بولے۔ "سوری اگین۔"

"ہادی بھائی! میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتی تھی اسی لئے آپ کو اور باباجان کو نہیں بتایا تھا۔" وہ بری طرح چڑ گئی تھی۔ نورالہادی کہنے لگے۔

 "انویلپ پر "آرٹ کونسل" لکھا دیکھا ایکسایٹیڈ ہوگیا تھا مگر میں نے باباجان کو نہیں بتایا۔ تم انہیں اپنا سرپرائز دے سکتی ہوں۔"

"آپ مجھ سے کچھ مت کہیں مجھے  آپ کی کوئی بات نہیں سننی۔" اسے روٹھتے دیکھ کر انہوں نے سڑک پر ایک طرف گاڑی روک دی۔ 

"ملیحہ! انھوں نے آوازں دی مگر وہ منہ موڑے بیٹھی رہی۔ "ادھر دیکھو۔" انہوں نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور کان پکڑ کر بولے۔ "سوری" لیکن وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی ان کی طرف دیکھا ہی نہیں۔

"آئی ایم سوری۔" انہوں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے تو ملیحہ نے جھٹکے سے ان کے ہاتھوں کو الگ کردیا۔

"ہم بہت برے ہیں۔"

"میں برا ہوں؟" وہ یوں بولے جیسے ان کا برا ہونا ناممکنات میں سے ہوں وہ ایک دم میں ہنس پڑی۔ "نہیں۔ آپ بہت اچھے ہیں۔" اس کے ہنستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر نورالہدی ریلیکس ہوگئے۔ 

*****

کچھ دیر پہلی ہی نورالہدی بابا جان اور ملیحہ کو اسٹڈی میں چھوڑ گئے تھے اور جاتے ہوئے دروازہ بھی بند کر گئے تھے. 

"آئیے بابا جان!.....اور ملیحہ!تم بھی آجاؤ."کچھ دیر بعد باہر آ کر وہ دونوں سے بولے. باہر آ کر انہوں نے بابا جان سے کہا. 

"جائیے،آپکے کمرے میں اک سرپرائز گفٹ آپکا انتظار كررہا ہے."وہ اپنے کمرے میں جانے لگے تو ملیحہ بھی ان کے پیچھے چل پڑی. 

"تم کہاں جا رہی ہو؟" نورالہدی نے فوراً اسکا بازو پکڑ کر روکا. 

"بابا جان کا گفٹ دیکھنے." 

"بابا جان کا برتھ ڈے گفٹ ہے، پہلے انہیں دیکھنے دو. تم بعد میں دیکھ لینا." 

"جی نہیں. مجھے ابھی دیکھنا ہے. ہاتھ چھوڑیں." وہ ضد سے بولی. 

"کہا نا بعد میں دیکھنا." وہ آڑ گئے. وہ اپنا بازو چھڑانے لگی. 

"چھوڑیں مجھے." 

"تم آرام سے کھڑی رہو. بابا جان! آپ جائیے." اسے خاموش کروا کر وہ آخر میں بابا جان سے بولے جو ان کے جھگڑے کی وجہ سے رک گئے تھے. وہ دروازہ کھول کر کمرے میں آگئے اور ملیحہ نے شور مچا دیا. 

"مجھے بھی دیکھنا ہے. ہاتھ چھوڑیں ہادی بھائی! برتھ ڈے تو یاد نہیں رہا. اب بڑے آئے ہیں برتھ ڈے گفٹ دینے والے." بولنے كے ساتھ ہی وہ دوسرے ہاتھ سے انکی گرفت دھیلی کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر انہوں نے اس کا بازو نہیں چھوڑا تو اس نے اچانک ہی ان کے ساتھ میں دانت گاڑ دئیے. نورالہدی نے تڑپ کر اپنے ہاتھ کو جھٹکا مگر اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط ہی رکھی. 

"جنگلی بلی." کہہ کر حساب بھی برابر کر دیا. 

"خود ہی ہونگے جنگلی بلی...... بلکہ بلے." سخت برا منایا گیا تھا. آخر نورالہدی نے اسکا بازو چھوڑ دیا. 

"جاؤ." اور وہ بھاگتی بابا جان كے کمرے میں گھس گئی. پر گھستے ہی ٹھٹک کر رک گئی. 

"یہ...." اس نے ہاتھ سے آتَش دان پر لگی اپنی بڑی سی فریم سدا تصویر کی طرف اشارہ کیا تو اسکے پیچھے آتے نورالہدی بولے. 

"یہی تو ہے بابا جان کا برتھ ڈے گفٹ." 

"پر یہ تو میری تصویر ہے." وہ اب بھی حیران تھی. 

"ہاں اور مجھے بابا جان كے لیے اس سے بہتر کوئی تحفہ ملا ہی نہیں." 

"اس کے مقابلے پر میں اور کوئی تحفہ قبول بھی نہیں کرتا." بابا جان،نورالہدی سے کہتے ملیحہ كے پاس آئے اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر بولے. 

"اِس تحفے کو پانے كے لیے میں نے سات سال راتوں کو جاگ کر دعائیں مانگی ہیں." اور اسکی پیشانی چوم لی. پِھر وہ فوراً ہی اِس جذباتی کیفیت سے باہر بھی آگئے.

"میں لان میں جارہا ہوں. چائے وہیں لے آؤ." وہ تو چلے گئے مگر ملیحہ اب بھی اسی کیفیت میں تھی. اس نے یاد کرنا چاہا، آخری بار کب بابا جان نے اپنی بے ساختہ شفقت کا اظہار کیا تھا  سوال کچھ زیادہ ہی مشکل تھا، جواب ہی نہیں آیا. نورالہدی نے اسے گم سم دیکھ کر ہلکے سے اسکے سَر پر چپت لگائی. 

"کہاں گم ہو؟" ملیحہ نے رخ بدلنے كے ساتھ ہی اپنا موڈ بھی بَدَل لیا۔ شوخی سے بولی. 

"میں سوچ رہی ہوں ہادی بھائی! كہ میری تصویر اچھی ہے یا میں سچ مچ اتنی ہی خوبصورت ہوں." 

نورالہدی نے اک نظر اسے دیکھا اور کہا. 

"تمھاری تصویر بھی اچھی آئی ہے اور تم بھی خوبصورت ہو." 

"آپ بٹرنگ کچھ زیادہ ہی کررھے ہیں." وہ انہیں تھیکی نظروں سے دیکھ کر بولی. 

"یہ سب چھوڑو اور بتاؤ تم اپنا سرپرائز کب دے رہی ہو؟" 

"کبھی نہیں." اس نے کہا اور کمرے سے نکل گئی. نورالہدی بھی اسکے پیچھے باہر آئے. 

"کبھی نہیں کیا مطلب ہے؟" 

"میرا دِل چاہ رہا ہے كہ بابا جان بھی ایگزبیشن میں آئیں مگر میں جانتی ہوں وہ نہیں آئیں گے. تو پِھر بتانے کا بھی کیا فائدہ؟" وہ رکی نہیں اور یوں ہی چلتے ہوئے ان سے باتیں کرتی ہوئی کچن کی طرف آگئی. 

"تم نے کیسے سوچ لیا كہ بابا جان نہیں آئیں گے؟" 

"بس میں جانتی ہوں." 

"بے کار اندازے مت لگاؤ." انہوں نے اسے ڈانٹ دیا پھر اسکی صورت دیکھ کر پیار سے بولے. 

"پریشان کیوں ہوتی ہو؟ اگر انہوں نے منع بھی کر دیا تو میں انہیں منا لونگا." 

"آپ مناتے کہاں ہیں؟ آپ تو دھاندلی کرتے ہیں." اس نے بچے کی طرح منہ بنایا تو وہ رعب سے بولے.

"میں جو بھی کروں مگر تم آج ہی بابا جان کو ایگزیبیشن کے بارے میں بتاؤ گی۔ نہیں تو میں بتا دوں گا۔ بس ایک ہی ہفتہ رہ گیا ہے۔ "

"ہادی بھائی! بابا منع کر دیں گے۔" اس نے پھر وہی بعد دہرائیں تو نورالہدی جھنجلا گئے۔ 

"ایک تو تمہاری سوئی کہیں اٹک جاتی ہے۔ اب جاؤ ذرا چائے کا بندوبست کرو۔ اور چائے خود ہی بنانا تمہارا چہیتا بہادر تو جوشاندہ سامنے رکھ دیتا ہے۔" 

وہ ہونٹ کاٹتی کچن میں چلی گئی تو وہ بھی باہر لان میں آ گئے۔ 

"کچھ خاص خبر چھپی ہے؟" چیر پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے شام کا اخبار دیکھتے بابا جان سے پوچھا۔ 

"خود ہی دیکھ لو۔" انہوں نے اخبار نورالہدی کی طرف بڑھایا جسے پکڑنے کے لئے نورالہدی نے ہاتھ بھی نہیں اٹھایا اور کہا۔

"ذرا دیر میں چائے آنے والی ہے اور ملیحہ کہتی ہے کھانے پینے کے وقت اخبار نہیں پڑھنا چاہیے وہ ختم ہو جاتی ہے۔"

"بہت مانتے ہو اس کی اخبار والا ہاتھ نیچے کرتے ہوئے وہ بولے تو نورالہدی نے مسکرا کر سر جھکا دیا۔ 

"تمہیں میلحہ کیسی لگتی ہے؟" یہ سوال اس قدر اچانک تھا کہ نورالہدی بھی گربڑاگئے اور بوکھلاہٹ میں کچھ بول ہی نہ سکے تو انہیں دیکھنے لگے۔ 

"میں نے پہلے کبھی اس طرح نہیں سوچا تھا مگر کچھ دن پہلے یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ تم دونوں کی شادی کر دی جائے۔" باباجان نے دھماکہ ہی کر دیا تھا نورالہدی تو پہلے گڑبڑائے ہوئے تھے اب تو بالکل ہی سٹپٹا گئے۔ باباجان رکے نہیں کہنے لگے۔ "یوں تو شاید میں اس بارے میں کبھی سوچتا بھی نہیں مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ تم دونوں میں کافی اچھے انڈرسٹینڈنگ ہے اور دوستی بھی۔ پھر تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش رہتے ہو لیکن میں تمہاری رائے بھی جاننا چاہتا ہوں۔" نورالہدی اب سمبھل چکے تھے مگر اپنی دوٹوک فطرت کے باوجود ہو بابا جان کے سامنے ملیحہ کے بارے میں ایسی بات کرنے سے ہچکچا گئے۔ بابا جان نے بھی ان کے گریز کو سمجھ لیا تھا ۔ 

"میں تمہاری ہچکچاہٹ سمجھ سکتا ہوں۔ بے شک ملیحہ میری بیٹی ہے لیکن میں نے تمہیں بھی ہمیشہ اپنا ہی بیٹا سمجھا ہے۔ اور بیٹا باپ کے سامنے اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتا ہے۔ "بولو! ڈویو لائیک ہر؟"

"ائی لوہر۔"بابا جان کی بات سے تقویت پا کر اپنے فطری انداز میں بے جھجک بولے تھے۔ بابا جان حیران ہوئے بغیر مسکرا دیے۔ مگر ان کی مسکراہٹ سے نروس ہو بغیر انہوں نے اگلے ہی پل کہا۔ 

"مگر اس کے باوجود میں نے ملیحہ سے شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔"اب وہ کچھ حیران ہوئے تھے۔

" محبت کرتے ہو پھر بھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا؟" 

"ہاں۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ملیحہ ایسا نہیں سوچتی۔ "

"نہیں سوچتی ہو مگر سوچ تو سکتی ہے۔" وہ ایک پل کو خاموش ہوگئے پھر کہا۔ 

"وہ میرے اور اپنے موجودہ رشتے سے مطمئن ہے اور مجھے نہیں لگتا اس سے اس رشتے میں کسی کم یا گنجائش کا احساس ہوتا ہے۔" 

"اسے احساس اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ بہت سادہ اور معصوم ہے۔ پھر کم عمر بھی ہے اور اسی لئے ان باتوں کی طرف اس کا کوئی دھیان نہیں۔ مگر بچی بھی نہیں ہے دھیان دلایا جائے گا تو گنجائش بھی نکل آئے گی۔" بابا جان چپ ہوئے تو نورالہدی نے کہا۔ 

"ٹھیک ہے مگر پہلے آپ ملیحہ سے اس کی مرضی معلوم کرلیجئے۔ لیکن بابا جان اگر وہ انکار کردے تو پلیز مجبور مت کیجئے گا۔" 

باباجان نے ان کی طرف گہری نظر ڈالی۔ "وہ اگر نہ کردے گی تو کیا تمہیں دکھ نہیں ہو گا؟"

انہوں نے بابا جان کو دیکھا اور ایک بے نام مسکراہٹ ان کے چہرے پر آگئی۔

"دکھ تو ہوگا مگر میں ملیحہ کی خوشی کی خاطر ہر دکھ سہہ سکتا ہوں۔" وہ اپنی بات کہہ کر ابھی چپ ہی ہوئے تھے کہ ہاتھ کی پشت پر ایک ریشمی احساس نے نہیں چونکایا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ملیحہ چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھ رہی تھی وہ جھکنے کی وجہ سے اس کا دوپٹہ کندھے سے پھسل کر ان کے ہاتھ پر آ گرا تھا۔ 

"ملیحہ اس بات سے بے خبر تھی کہ ان کے اور بابا جان کے بیچ کیا بات چل رہی تھی مگر اس نے نورالہدی کا آخری جملہ سنا تھا اور جسے سن کر اس کے ہونٹوں پر نرم سے مسکراہٹ آ گئی تھی۔ دو بیڈ سنبھالتے ہوئے اس نے ایک اٹھاکر بابا جان کی طرف بڑھایا مگر ٹھیک اسی وقت انہوں نے ہاتھ میں پکڑ اخباراپنے اور ملیحہ کے بیج تان دیا تھا۔ یہ اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانے کی ایک لا شعوری کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ملیحہ ان کے چہرے سے ان کی اور نورالہدی کی بات چیت کا مفہوم اخذ کر لیں مگر انکی لاشعوری حرکت ملیحہ کو تازیانے کی طرح لگی تھی۔ تحقیر کے شدید احساس نے اس کی حسیات ہی سلب کرلی۔ 

نور الہدی کو بھی بابا جان کا یہ انداز بہت برا لگا تھا۔ 

"بابا جان وہ آپ کو کپ پکڑا رہی ہے۔" انہوں نے بابا جان کو ملیحہ کی طرف زبردستی متوجہ کیا۔

"ٹیبل پر رکھ دو بیٹا!" کہہ کر پھر سے اخبار میں گم ہوگئے۔ ملیحہ نے کپ ان کے سامنے رکھا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ مگر وہ چپ سی ہو گئی تھی۔ اس کی خاموشی کو محسوس کرکے نورالہدی اسے یہاں وہاں کی بات کرنے لگے۔ ان کی باتوں سے وہ وقف بہل گئی تھی۔ پھر اسے یاد آیا جو نورالہدی نے اس سے کچن کے دروازے پر کہا تھا مگر شاید اب خود بھول چکے تھے۔ اس نے سوچا باباجان سے بات کرے یا نہ کرے؟ پھر بات کرنے کا سوچ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی بابا جان اس کے سامنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے تھے۔ وہ گھوم کر ان کے پاس آئی اور گھاس پر گھٹنے ٹکا کر بیٹھتی ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر دیکھنے لگی۔ باباجان اخبار سے نگاہ ہٹا کر اسے دیکھا۔

" باباجان آرٹ کونسل نوآموز مصوروں کی پینٹنگز کی نمائش کروا رہی ہے۔ میں نے بھی اپنا نام دیا تھا۔ اور پتا ہے میرا سلیکشن بھی ہو گیا ہے 17 دسمبر سے تین دن کی نمائش ہے۔ آپ آئیں گے نا؟"جوش میں بولتے اس نے آخری جملہ عاجزی سے ادا کیا تھا۔ 

"تم جانتی ہو کہ بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانا مجھے پسند نہیں ہے۔"

"مگر تھوڑی دیر کو آ سکتے ہیں نا۔ باباجان! یہ میری پہلی ایگزیبیشن ہے اور اسی بہانے سے آپ میری پینٹنگز بھی دیکھ لیں گے۔ جانتے ہیں اس بار میں نے اسٹل لائف اور لینڈ اسکیپنگ کے علاوہ سی اسکیپس بھی بنائے ہیں اور کیلیگرافی تو میں نے پہلی بار ہی کی ہے۔ پچھلے مہینے میں میں نے اتنے سارے نیو کنیوس بنا لیے ہیں اور آپ نے ابھی تک کوئی بھی نہیں دیکھا۔"

"اگر دکھانا مقصود ہے تو آج ایک نشست تمہارے کمرے میں رکھ لیتے ہیں۔ لیکن میں ایگزیبیشن میں نہیں آ پاؤں گا۔ ارمی لائف کے دوران بھی پرہجوم جگہوں پر جانا مجھے پسند نہیں تھا اور اب تو میں ریٹائرڈ لائف گزارتے محدود ہوگیا ہوں۔ 

اینی وے بیسٹ اف لک۔ " وہ اپنی بات کہہ کر اٹھے اور اندر چلے گئے۔ 

ملیحہ کی آنکھوں میں کچھ چبھنے لگا تھا ایسے میں اپنے ہاتھ کی نشست پر نورالہدی کے مہربان ہاتھ کے لمس کو محسوس کرکے اس لگا وہ رو پڑے گی اور وہ رونا نہیں چاہتی تھی اسی لئے ان کی طرف دیکھے بغیر کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ 

******

"آپ کو اسے منع نہیں کرنا چاہیے تھا وہ کچھ دیر بعد فریش ہو کر نورالہدی کی تلاش میں باہر جانے کے لئے لاونج آئی تو اسٹڈی سے آتی ہوئی کی آواز سن کر رک گئی۔ 

"مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں۔" ملیحہ نے اسٹیڈی میں جھانک کر دیکھا بابا جان ٹیبل کے دوسری طرف کرسی پر بیٹھے تھے وہ نورالہدی ٹیبل کے سامنے کھڑے ان سے الجھ رہے تھے۔ 

"آپ کو اندازہ ہے بابا جان اپ نے ملیحہ کو کس قدر ہرٹ کیا ہے وہ اچانک ہی کتنی چپ سی ہوگئی تھی۔ آپ کو تھوڑا سا خیال تو کرنا چاہیے۔ وہ بہت حساس طبیت کے لڑکی ہے۔"

باباجان کو ان کا جرح کرنا اچھا نہیں لگا تھا وہ قدرے سخت لہجے میں بولے۔

"تم ملیحہ کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہو نور الہدی ورنہ ملیحہ تو اتنی حساس نہیں ہے میں نے کبھی اسے جذباتیت کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا اور جیسے تم اس کی ناراضگی سمجھ رہے ہو وہ چپ دراصل اس لیے تھی کہ ملیحہ میری بات اور میرے مزاج کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور اسے یہ بات بھی پتہ ہے کہ بحث مجھے پسند نہیں اب تم جاسکتے ہو۔" وہ کسی گنجائش کے بغیر بولے تھے۔ نورالہدی باہر نکلے تو ملیحہ ہی دروازے میں کھڑی تھی۔ وہ اس سے کچھ کہے بغیر اپنے کمرے میں جانے لگے تو ملیحہ نے پیچھے سے انہیں پکارا۔

" ہادی بھائی! آپ دوبارہ بابا جان سے اس بارے میں بات نہیں کریں گے۔"

"کیوں؟" انہوں نے مڑ کر کہا تو وہ عجیب سا لہجہ میں بولی۔

" آپ نے سنا نہیں میں باباجان کے مزاج کواچھی طرح سمجھتی ہوں۔"

نورالہادی کے لاشعور میں کوئی اسپارک ہوا تھا وہ دو قدم اس کے قریب آ کر بولے۔

" بابا جان تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔" 

"مگر پرواہ نہیں کرتے۔" اپنے آپ ہی اس کے لہجے میں شکایت در آئی تو نورالہدی نے سے سمجھانا چاہا۔

" بھلا وہ تمہاری پرواہ کیوں نہیں کریں گے؟"

" میں نے ان سے یہ سوال کبھی نہیں پوچھا۔ اگر کبھی آپ کو موقع ملے تو میری طرف سے بابا جان سے پوچھ لیجئے گا۔"

"دیکھو تم۔۔۔۔"

"بس ہادی بھائی! " اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں چپ کرا دیا۔ "اب آپ اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے نہ مجھ سے نہ بابا جان سے۔" وہ اس کی بات کا برا بنائے بغیر اسے دیکھ کر ستائش سے بولے۔

" زبردست بھئی۔ آج لگا کہ تم بابا جان کی بیٹی ہو۔" ملیحہ جانتی تھی وہ اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر بھی ہلکے سے مسکرا دی۔

*****

نورالہدی کو آرٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی پِھر بھی وہ ملیحہ كے ساتھ تھے. ہال میں شائقین كے علاوہ صحافیوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی جو مصوروں سے انٹرویو بھی لے رہے تھے. کچھ صحافیوں نے ملیحہ سے بھی چند سوالات کیے. وہ ان سے باتیں کررہی تھی كہ نورالہدی اسکے کان میں بولے. 

"ذرا سائڈ میں آ کر بات سننا." وہ ایک نسبتاً الگ تھلگ گوشے کی طرف آ گئے. ملیحہ بھی صحافیوں سے معذرت کرتی اس طرف آگئی. 

"کہیے." 

"ملیحہ! مجھے جانا ھوگا." 

"کوئی ضرورت نہیں ہے." اس نے فوراً ہی منع کر دیا. 

"ملیحہ! سمجھنے کی کوشش کرو. فیکٹری کی کنسٹرکشن کا کام شروع ہو چکا ہے اور مجھے روزانہ ڈیرھ دو گھنٹے وہاں دینے ہی پڑتے ہیں." 

ملیحہ کا دِل تو نہیں چاہ رہا تھا كہ نورالہدی جائیں مگر انکی مصروفیات کا بھی اسے اندازہ تھا اِس لیے بادل نخواستہ اِجازَت دیتے ہوئے بولی. 

"اچھا ٹھیک ہے مگر چار بجے تک آ جائیے گا. کہیں میں گھر جانے كے لیے آپکا انتظار ہی کرتی رہ جاؤں." 

"تِین بجے ہی آ جاؤنگا." وہ اِجازَت ملنے پر خوش ہو کر بولے پِھر سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے. 

"لیکن تم ناراض تو نہیں ہو؟" اسے ہنسی آ گئی. 

"نہیں بابا! ناراض کیوں ہونگی؟ کیا مجھے آپکی مصروفیات کا علم نہیں؟ لیکن آپ میری ناراضگی كے خیال سے اتنا پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا اسٹپمپ پیپر پر لکھ کر دوں كہ آپ سے کبھی ناراض نہیں ہونگی." 

"سوچ رہا ہوں لکھوا ہی لوں. کیا پتہ کسی دن تم ناراض ہی ہو جاؤ." وہ بھی مذاق سے بولے پھر کہا. 

"اچھا میں چلتا ہوں. اللہ حافظ." وہ ملیحہ کا سَر تھپک کر چلے گئے تو ملیحہ بھی اپنی بلیک ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتی کونے سے نکل آئی. 

کیمرے کا فلیش چمکا تھا. اب تک کئی صحافی ملیحہ کی تصویر کھینچ چکے تھے اِس لیے اس نے دھیان نہیں دیا. فلیش پِھر چمکا. تیسری بار، چوتھی بار. جب پانچویں بار فلیش چمکا تو ملیحہ نے چہرے پر آئے بال سمیٹتے ہوئے اس طرف دیکھا اور تیز روشنی سے اسکے آنکھیں چندھیا گئی. روشنی كے بَدَل چھٹے تو ملیحہ، وجدان کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران رہ گئی. وجدان،کیمرے کا اسٹریپ گلے میں ڈال کر اسکے پاس آیا. 

"اسلام علیکم." 

"وعلیکم اسلام." 

"کیسی ہیں؟" 

"ٹھیک ہوں." وہ کہہ کر چُپ ہوگئی تو وجدان کہنے لگا. 

"اخلاقاً تو آپکو بھی میرا احوال دریافت کرنا چاہیے. پر چھوڑئیے، ان رسمی باتوں میں کیا رکھا ہے؟" 

"سہی کہہ رہے ہیں." وہ شرمندہ ہوئے بغیر بولی. وہ محظوظ ہو کر ہنستا اسکے پیچھے دیوار پر لگی تصویر کو دیکھنے لگا. 

"ملیحہ!" اس نے پہلی بار ملیحہ کو اسکے نام سے پکارا تھا. 

"جی." وہ سحرزدہ سی اسکی چوڑی پشت کو دیکھ کر بولی. وجدان نے پلٹ کر اس سے پوچھا. 

"یہ تصویر آپ نے بنائی ہے؟" 

ملیحہ نے اک نظر اس پینٹنگ کو دیکھا اور کہا. 

"ہاں." پِھر پوچھنے لگی. 

"کیسی ہے؟" 

اسکے پوچھنے پر وجدان غور سے اس پینٹنگ کو دیکھنے لگا. پینٹنگ کیا تھی، لگتا تھا اِس تِین فٹ لمبے اور ڈیرھ فٹ چوڑے فریم میں دَرد کی اذیت ناک کیفیات منجمد ہو کر رہ گئی تھی. خشک زمین پر ابھری لکیریں اسکی پیاس کی گواہ تھیں اور اک سوکھا درخت جسکی خوب پھیلی بنجر شاخوں پر کوئی خشک پتا تک نہیں تھا، مردہ زمین كے سینے پر یوں گڑا تھا جیسے خود اپنے ہی حال پر نوحہ کناں ہو. دور تک پھیلا نیلا آسمان اک دم صاف تھا جس پر سورج پیلے رنگ كے تھال کی مانند دھک رہا تھا. تاحد نگاہ اِس منظر کی ویرانی کو اور بھی گہرا كررہا تھا. وہ اکلوتا ذی روح جو اِس سوکھے درخت کی 'چھاؤں' میں بیٹھا تھا، اسکے سادا کپڑوں پر مسافتوں کی گرد جمی تھی. سَر كے بال لمبے اور گرد الود، بے ترتیب داڑھی جھاڑ کی مانند لگ رہی تھی. اسکا اک ہاتھ زمین پر بچھی ٹانگ کی ران پر تھا جبکہ دوسرا موڑ کر کھڑی کی ہوئی ٹانگ كے گٹھنے پر. سَر پیچھے تنے سے ٹکا کر آنکھیں بند کیے وہ تپتی زمین پر اتنے سکون سے بیٹھا تھا جیسے صدیوں سے اسی حال میں ہو اور صدیوں اسی عالم میں گزار دے گا. اسکے چہرے كے مبہم نقش سے قرب و اذیت کی عجیب ہی کیفیت جھلک رہی تھی. 

ایک گہرا سانس بھر کر وجدان نے خود کو نا معلوم کیفیت سے آزاد کرتے ہوئے تصویر کا کیپشن پڑھا. 

"عشق آتَش." 

اک سرد لہر وجدان نے اپنے وجود میں اٹھتی محسوس کی. عشق کا یہ چہرہ اسکے شعور کو خوف زدہ کر گیا تھا. 

"پینٹنگ تو اچھی ہے لیکن آپ نے عشق کو اتنے درد ناک انداز میں کیوں پینٹ کیا ہے؟" اس نے آخر پوچھ ہی لیا، پتہ نہیں کیوں. لیکن اِس پینٹنگ کو دیکھ کر وجدان كے دِل و دماغ لرز گئے تھے. 

"عشق اول و آخر درد ہے." 

"دَرد ہی کیوں؟" ملیحہ كے جواب پر وجدان نے کہا.  

"کسی کو چاہنے کا احساس زندگی کو روشنی سے بھر دیتا ہے جسکے ہر رنگ میں نئی امید چھپی رہتی ہے اور جہاں امید ہو وہاں درد کا کیا کام؟" ملیحہ اسے دیکھ رہی تھی. وہ چُپ ہوا تو نرم سی مسکراہٹ كے ساتھ کہنے لگی. 

"وہ محبت ہے وجدان! جسکی روشنی سے امید كے رنگ پھوٹتے ہیں. عشق محبت کی انتہا ہے جسکی جستجو ہر کوئی نہیں كرسكتا. یہ وہ آگ ہے جو ہر بھٹی میں سلگائی نہیں جاتی. عشق حاصل نہیں. لا حاصل کا جنون ہے، خواہش نا تمام ہے. عشق کا جنم ہی جدائی کی کوکھ سے ہوتا ہے اور بھلا جدائی راحت دے سکتی ہے؟ جدائی تو درد دیتی ہے اور جب یہ درد لہو بن کر جسم میں بہتا ہے تو پِھر کوئی امید باقی نہیں رہتی. عشق وہ آگ ہے جو جلائے تو راکھ نہیں کرتا، فنا کر دیتا ہے." وجدان اسکی آواز میں کہیں کھو سا گیا تھا. اسکے لہجے میں آئی تپش کو محسوس کر كے چونکا. 

"آپ ٹھیک تو ہیں؟" ملیحہ نے اسے دیکھا اور رخ پھیر لیا. 

"میں نے کبھی آپکو ڈسٹرب کرنا نہیں چاہا." 

کچھ دیر بعد ملیحہ نے اسکی تھیکی تھیکی سی آواز سنی تو اسکی طرف دیکھا. وہ سَر جھکائے دھیمے سے بول رہا تھا. 

"پر لگتا ہے اب میں آپکو دسٹرب کرنے لگا ہوں. اگر ایسا ہے تو بس اک بار کہہ دیں. میں دوبارہ کبھی آپکے سامنے آنے کی جُرات نہیں کرونگا۔" پِھر وہ ذرا سا ہنسا. 

"میں نے یوں بھی آپ سے ملنے كے لیے کبھی کوئی شعوری کوشش نہیں کی. میں نے سوچا بھی نہیں تھا كہ آپ آفاق کی کزن ہو سکتی ہیں اور آج بھی آفاق اور ساجد زبردستی مجھے ساتھ لے آئے تھے اور آپکو دیکھنے سے پہلے مجھے گمان بھی نہیں تھا كہ آپ مجھے یہاں مل جائیں گی." 

"آفاق بھائی یہاں؟" حیران ہو کر اس نے اپنے آس پاس دیکھا مگر فوراً ہی وجدان کی آواز پر اسکی طرف متوجہ ہوگئی. 

"مگر آپکا انتظار میں نے ہر روز کیا. وہیں لائبریری کی سیڑھیوں پر. میں ہر صبح دعا کرتا كہ آج میرا انتظار ختم ہوجائے اور ہر شام سوچتا كہ آپکا انتظار زندگی کی آخری سانس تک کرونگا. لیکن اگر آپکو گوارا نہیں تو وعدہ کرتا ہوں کبھی ان راستوں پر پاؤں نہیں رکھونگا جن پر آپکو گزارنا ھوگا اور سَرِ راہ ملاقات بھی ہوئی تو آپکا راستہ نہیں روکونگا." 

وہ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا . ملیحہ نے نگاہ چرا کر رخ بھی موڑ لیا. وجدان کو اچانک ہی شدید تھکن کا احساس ہوا تھا. وہ بوجھل سے انداز میں پلٹا اور جانے لگا. 

"آپ اک اور بار لائبریری جا سکتے ہیں؟" 

وجدان ٹھٹک کر رکا اور پِھر ایڑھیوں كے بل گھوم گیا. وہ اب بھی رخ موڑے فرش پر لگے ٹائلوں کو دیکھ رہی تھی. وجدان کو اپنی سماعتوں پر شبہ سا ہوا. 

"کیا کہا آپ نے؟" 

ملیحہ نے اسے دیکھا اور زیر لب مسکراہٹ كے ساتھ بولی. 

"کل صبح دس بجے." اور وہ نہال ہو گیا. 

"میں سارا دن آپکا انتظار کرونگا. آپکو جب وقت ملے، آجائیے گا." اسکی آنکھوں سے جھلکتے والہانہ پن سے سٹپٹا کر ملیحہ نے چہرہ موڑتے کونسل كے ملازمین كے یونیفارم پہنے اک شخص کو اشارے سے پاس بلا کر پینٹنگ اتارنے کو کہا پِھر اس سے پینٹنگ لے کر ملیحہ نے وجدان کی طرف بڑھائی. 

"یہ لیجئے. میری طرف سے تحفہ ہے." 

"عشق آتَش." 

ملیحہ كے ہاتھ سے پینٹنگ پکڑتے وجدان نے معنی خیزی سے کہا تو وہ حیا سے سرخ ہوتی اسکے سامنے سے ہٹ گئی۔ 

~~~~~~

چار بجے وہ نورالہدی کے ساتھ قصر فاروقی کے لاونج میں داخل ہوئی تو بابا جان کے ساتھ ملک ناصر پہلے سے موجود تھے.نورالہدی کو شطرنج کھیلنے کا تو کوئی شوق نہیں تھا مگر دیکھنے کا شوق ضرور تھا.وہ وہیں بیٹھ کر ان دونوں کو شطرنج کھیلتے دیکھنے لگے.ملیحہ البتہ سلام دعا کے بعد جلد ہی اٹھ گئی تھی.اپنے کمرے میں آکر اس نے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے,کھلے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹ کر ننگے پاوں کمرے میں چکر کاٹتے وہ ملک ناصر کے جانے کا انتظار کررہی تھی.حالانکہ وہ جانتی تھی کہ انتظار فضول ہے.ملک انکل رات کے کھانے کے بعد ہی جائیں گے.پھر بھی وہ ٹہلتی رہی.

شام ڈھل چکی تھی جب ملیحہ كے کمرے كے دروازے پر دستک ہوئی. 

"دروازہ کھلا ہے." اس نے کہا پِھر بہادر کو آتے دیکھ کر وہ بیڈ پر اٹھ بیٹھی. 

"بی بی صاب! كھانا لگ گیا ہے." 

"مجھے بھوک نہیں." اس نے کہا اور پوچھا. "اچھا سنو! ملک انکل چلے گئے ہیں یا ابھی بیٹھے ہیں؟" 

"چلے کہاں جائیں گے جی؟ ابھی تو بیٹھے ہیں. كھانا کھائیںگے، پِھر چائے پی کر جائینگے. ویسی اک بات بتائیں بی بی صاب! یہ ملک صاحب بالکل ہی ویلے ہیں؟" 

وہ ہنس پڑی. پِھر ہنسی روک کر سنجیدگی سے بولی. "زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہے. جاؤ اپنا کام کرو." وہ جانے لگا تو ملیحہ نے اسے روک کر کہا. "اور سنو! جب انکل چلے جائیں تو مجھے بتا دینا." وہ سَر ہلا کر چلا گیا. 

عشاء کی نماز پڑھ کر وہ بیڈ پر آ بیٹھی. پِھر اٹھی اور بالکونی میں آگئی. نا جانے کتنی دیر گزر گئی تھی كہ دروازہ پِھر بجا. اِس بار بھی بہادر تھا. اس نے ملک ناصر كے جانے کا بتایا.

"ٹھیک ہے. تم جاؤ." اسے بھیج کر ملیحہ باتھ روم میں گئی. منہ پر پانی كے چھیٹے مار کر کمرے میں آئی، بالوں کو سلجھا کر کلپ کیا اور کمرے سے باہر آگئی. بابا جان كے کمرے كے دروازے پر ہاتھ رکھے وہ اک پل کو ہچکچائی پِھر دوسرے ہی پل خود کو مضبوط کرتے اس نے دروازہ کھولا اور کمرے میں اگئی. 

بابا جان آتَش دان كے سامنے رکھے راکنگ چیئر پر آنکھیں بند کیے نیم دراز تھے. ملیحہ جانتی تھی، وہ سو نہیں رہے تھے. یہ انکی عادت تھی. وہ جب بھی کسی گہری سوچ میں ہوتے تو یوں ہی آنکھیں بند کر كے راکنگ چیئر پر نیم دراز ہو جاتے. ملیحہ ان کے سامنے کشن پر بیٹھ گئی. 

"بابا جان." اپنے ہاتھ پر ملیحہ كے ہاتھ کا لمس اور پِھر اسکی آواز سن کر بابا جان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پِھر پوچھا. 

"کیا بات ہے؟" 

"بابا جان! وہ... میں آپ سے اک بات کرنا چاہتی تھی." وہ اٹک کر بولی. بابا جان نے خوش گواریت سے کہا. 

"کمال ہے. میں بھی کچھ دنوں سے اک بات تم سے کرنا چاہ رہا ہوں. پر سمجھ نہیں پتا، کیسے کہوں؟" 

"ایسی کیا بات ہے؟" اس نے پوچھا. 

"نہیں." بابا جان بولے. "بات کرنے کی ہمت پہلے تم نے کی ہے، اِس لیے تم بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو؟" وہ سوچ کر آئی تھی، ہر حال میں ان سے بات کر كے رہے گی اور اب گڑبڑائی. 

"وہ... بابا جان! میں..." اتنا بول کر ہی وہ ہاپنے لگی تو بابا جان نے اپنے ہاتھ پر رکھا اسکا ہاتھ تھام کر حوصلہ دینے كے سے اندازِ میں کہا. 

"بولو ملیحہ! کیا بات ہے؟" 

"بابا جان! میں آپکو کسی سے ملوانا چاہتی ہوں." آخر اس نے کہہ ہی دیا. 

"کس سے؟" وہ حیرت سے بولے. 

"وجدان مصطفی سے." بولنے كے ساتھ ہی اس نے اپنے جھکے ہوئے سَر کو کچھ اور جھکا لیا. بابا جان کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئی تھیں. 

"یہ وجدان مصطفی کون ہے؟ اور تم اسے کیسے جانتی ہو؟" 

"میں اس سے لائبریری میں ملی تھی." ملیحہ کی جھکی پلکیں، رکا رکا اندازِ. بابا جان نے بہت کچھ اخذ کر لیا تھا. غیر محسوس اندازِ میں ملیحہ کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے وہ پتھریلے لہجے میں بولے. 

"مجھے اس سے کیوں ملوانا چاہتی ہو؟" 

وہ بولی تو آواز کچھ اور دھیمی ہوگئی. 

"بابا جان! میں اس سے...!" مگر ہزار کوشش كے بعد بھی 'محبت' کا لفظ شرم نے زبان پر آنے نہیں دیا تو جملہ ہی بدلتے ہوئے کہا. "وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے." اور آنکھیں میچے ان کے ردعمل کا انتظار کرنے لگی. پِھر ملیحہ نے انکی آواز سنی. 

"جاؤ، جا کر سوجاؤ." 

ملیحہ نے آنکھیں کھولی اور سَر اٹھا کر انہیں دیکھا اور خواہش کی، کاش کبھی نا دیکھا ہوتا. انکا چہرہ کسی چٹان کی طرح سخت اور بے جان تھا لیکن آنکھیں آگ اگل رہی تھیں. بے دم سی پُکار کی صورت اسکی زبان سے نکلا. 

"بابا جان!" 

"جاؤ." وہ بولے. ملیحہ تڑپ اٹھی. 

"بابا جان! میری بات تو سنِیں." اس نے بابا جان کا ہاتھ تھام کر کچھ کہنا چاہا پر بابا جان بے دردی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر کاٹ دَار آواز میں بولے. 

"میں اک لفظ اور سننا نہیں چاہتا، نا تمھاری صورت دیکھنا چاہتا ہوں. چلی جاؤ یہاں سے." 

ملیحہ کو لگا کسی نے اسکے جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہو. وہ دَرد سے بلبلہ اٹھی. 

"بابا جان! آپ اک بار اس سے مل تو لیں. وہ بہت اچھا ہے." 

"ملیحہ! ہٹ جاؤ میرے سامنے سے." 

ملیحہ نے زندگی میں پہلی بار انکی پر جلال آواز کی گونج سنی تھی. وہ جھٹکے سے اسے ہٹا کر کھڑے ہوئے. ملیحہ ان کے پاؤں پکڑ کر رَو پڑی. 

"ایسا مت کریں بابا جان! مجھ میں اتنی طاقت نہیں كہ اسے بھول جاؤں." ملیحہ کو لگ رہا تھا، آتَش دان میں جلتی آگ نے اسکے بدن میں راستہ بنا لیا ہے اور اب اسکا اندر سوکھی لکڑی کی طرح جل رہا ہے. وہ دونوں ہاتھ پشت پر باندھے شان سے سَر اٹھائے کھڑے تھے. ان کے چہرے پر پڑتے شعلوں كے عکس نے انہیں چٹان جیسی سختی دے رکھی تھی اور ان کے پیر پکڑ کر ان کے گھٹنے سے پیشانی ٹکا کر روتی ملیحہ خاک ہوتی جا رہی تھی. 

"تو مجھے بھول جاؤ." وہ کتنے آرام سے کہہ رہے تھے. ملیحہ رونا بھول گئی. اس نے سَر اٹھا کر انکی طرف دیکھا اور سرگوشی جیسی آواز میں فریاد کی. 

"میں مر جاؤں گی بابا جان!" 

"مر جاؤگی تو تمہیں کندھوں پر اٹھا کر اپنے ھاتھوں سے دفنا آؤنگا. لیکن اگر نا فرمانی کروگی تو مرتے دم تک تمھاری صورت نہیں دیکھونگا." اسکے رحم کی آخری اَپِیل بھی بے رحمی سے مسترد ہوگئی. 

ملیحہ کو اچانک ہی لگنے لگا كہ ہوا میں آکسیجن ختم ہوگئی ہے. آخر وہ اپنے نیم جان وجود کو سنبھالتے ہوئے اٹھی اور شکستہ قدموں سے اپنے کمرے میں آگئی. دروازے کو اپنے پیچھے بند کرتی وہ وہیں دروازے كے پاس گر سی گئی. 

اسکی آنکھوں سے آنسو اک تواتر سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے مگر وہ بے نیازی سے لب بھینچے ساکت بیٹھی تھی. رات گزر چکی تھی اور فجر کی اَذان کی آواز سنائی دینے لگی. ملیحہ سیدھی ہو کر بیٹھی اتنے غور سے اَذان كے الفاظ سننے لگی جیسے پہلی بار سن رہی ہو. 

"ایک عدالت ایسی ہے جہاں سے میری رحم کی اپیل مسترد نہیں کی جائے گی۔" ایک امید نے اس کے مردہ جسم میں جان ڈال دی تھی۔ وہ اٹھی مگر لڑکھڑا گئی۔ ساری رات ایک ہی زاویہ سے بیٹھے اس کا جسم اکڑ گیا تھا۔ وہ پھر اٹھی اس بار اس کے قدموں کس کا ساتھ دیا تھا۔ وضو کرکے وہ جاۓ نماز پر کھڑی ہو گئی۔ نماز تو وہ ہر روز پانچ بار پڑھا کرتی تھی مگر اتنے خشوع و خضوع کے ساتھ پہلی دفعہ پڑھ رہی تھی۔ وہ فرضوں کی دوسری رکعت میں تھی کہ دستک کے بعد کوئی دروازہ کھل کر کمرے میں آ گیا نماز ختم کرتے ہوئے ملیحہ نے دائیں جانب سلام پھیر کر بائیں طرف گردن کو موڑ کر سلام پھیرا تو نظر سیاہ پٹیوں والی چپلوں میں مقید سرخ سرخ و سفید پیروں پر رک گئی۔ 

"آج سے تین دن بعد یعنی جمعہ کے روز تمہارا نورالہدی کے ساتھ نکاح ہے۔ تمہیں جو بھی تیاری کرنی ہو آج اور کل میں مکمل کر لینا۔ زیادہ بڑا فنکشن نہیں ہے تمہارے ننھیال والے ہوں گے اور میرے کچھ دوست۔ شاید کچھ مہمان نورالہدی کے بھی ہوں گے۔ تم جن کو بلانا چاہو ان کے ناموں کے فہرست بنا کر میرے کمرے میں لے او۔"

رات آزمائش اور صبح سزا لے کر آئی ہے۔ اس نے سوچا دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ایک کا آنسو اس کے گال پر بہہ گیا۔ باباجان ایک نظر اس کی خاموشی کو دیکھ کر کمرے سے باہر آگئے۔ پھر سیڑھیاں اتر کر حال کے دروازے سے باہر لان میں نکل آئے۔ نورالہدی اپنی روٹین کے مطابق ٹریک سوٹ پہنے ایکسرسایز کے لئے لان میں آئے تو بابا جان کو اس وقت وہاں دیکھ کر حیران سے ان کے پاس آگئے۔

" کیا بات ہے بابا جان آج صبح صبح لون میں نظر آ رہے ہیں کیا آرمی لائف کا شیڈول دوبارہ سے شروع کرنے کا ارادہ ہے؟" وہ خوش دلی سے مذاق کرتے ہوئے بولے مگر بابا جان کے چہرے پر کھنڈی سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ 

"میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں نورالہدی بلکہ یوں سمجھو میں ایک فیصلہ کر چکا ہوں اور تمہیں اس کی اطلاع دے رہا ہوں۔"

" کہیے بابا جان!''

" میں نے تمہاری اور ملیحہ کی شادی طے کردی ہے۔" 

نورالہدی آخری انسان ہی تو تھے جن کے سینے میں دل بھی تھا اور اس دل میں جذبات بھی۔ ملیحہ کی بے تکلفی اور بے ساختگی کے باوجود کبھی کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ انہیں معلوم تھا وہ ملیحہ کے لئے کبھی بھی "خاص" نہیں بن سکے مگر ملیحہ تو ان کے لئے خاص تھی۔ یہ سچ تھا کہ انہوں نے ملیحہ کو پانے کی خواہش کبھی نہیں کی تھی لیکن وہ بن مانگے انہیں مل رہی تھی وہ خوش کیسے نہ ہوتے؟ مگر بابا جان کے سامنے خوشی کا اظہار کر نہیں سکے۔ لیکن جب انہوں نے کہا۔ "جمعے کی شام تم دونوں کا نکاح کردیا جائے گا اور ہفتے کو ولیمہ اس کے بعد میں چاہتا ہوں تم دونوں کچھ دنوں کے لئے لندن چلے جاؤ۔ وہاں گھوم پھر آنا تو وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 

جمعے کو۔۔۔ یعنی صرف تین دن بعد۔۔۔۔؟ بابا جان اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"

" بات ضرورت کی نہیں میرے فیصلے کی ہے۔" وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے۔

"اور میں اپنی اولاد سے اس بات کی توقع کرتا ہوں کہ وہ میرے فیصلوں کو مانے گی۔" پھر کچھ نرم پڑھتے ہوئے کہا۔ "سیدھی سی بات ہے نورالہدی لڑکا اور لڑکی گھر میں ہی ہیں اور کلمے کسی بھی وقت پڑھ پائے جا سکتے ہیں تو پھر انتظار کس لیے؟" 

"آپ ملیحہ کی مرضی معلوم کر چکے ہیں؟" انہوں نے تذبذب سے پوچھا۔ 

"میں ابھی اسی کے پاس سے آ رہا ہوں۔" یہ مبہم جملہ ان کے لیے زندگی کا واضح پیغام تھا۔ وہ بے اختیار بابا جان کے گلے لگ گئے۔ 

"بنا مانگے ہیں زندگی نے آج وہ دیا ہے کہ ساری عمر شکر میں گزرے گی۔" بولنے کے بعد انہیں دھیان آیا کہ کس سے کیا بول گئے ہیں۔ ان سے الگ ہوکر وہ خجالت سے سر کو کھجانے لگے تو بابا جی ایک مسکراتی نگاہ ان پر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ 

انہوں نے با وزن کو جاتے ہوئے دیکھا اور ایک گہری مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ انسان بہت جلد باز ہے سمندر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کرتے اچانک کنارہ نظر میں آجائے تو اس سے نظر کا دھوکا سمجھ کر خود کو لہروں کے حوالے کردیتا ہے اور یہ تحقیق بھی نہیں کرتا کہ جہاں وہ ڈوبا وہاں ساحل تھا۔ اور کبھی صحرا میں چمکتی ریت کو پانی سمجھ کر جھلستی ریت میں دوڑتا چلا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کے آبلہ پائی کا یہ سفر تشنگی کو بڑھا تو نہ دے گا۔ مگر ہر غلطی نظر انداز نہیں کی جاتی۔ کچھ غلطیوں پر سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ نورالہدی کو بھی اس ایک مسکراہٹ کا خمیازہ تمام عمر ادا کرنا تھا۔ 

آٹھ بجتے ہی ملیحہ نے سمیرا کو فون کردیا اور چھوٹتے ہی کہا۔

"تم ابھی اور اسی وقت یہاں آجاؤ۔" 

"خیریت تو ہے؟۔۔۔ کیا ہوا؟" وہ حیران تھی۔ ملیحہ جھنجھلا گئی۔ 

"سوال مت کرو۔ بس فورا گھر آ جاؤ" 

"مگر ملیحہ! کچھ بتاؤ تو سہی۔" 

"بتانے کے لئے ہی تو بلا رہی ہو۔" اس کی آواز میں نمی محسوس کر کے سمیرا پریشان ہوگئی تھی مگر خود کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں آ رہی ہوں تم پریشان مت ہونا۔" پندرہ منٹ بعد ہی سمیرا ملیحہ کے کمرے میں تھی اور ملیحہ کی زبان سے سب حال سن کر وہ واقعی بوکھلا گئی۔ 

"تم نے کہا تھا تم نورالہدی سے محبت کرتی ہوں یہ وجدان بیچ میں کہاں سے آ گیا؟"

"وہ تو میں اب بھی کہوں گی کہ مجھے ہادی بھائی سے محبت ہے مگر اپنی زندگی میں صرف وجدان کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔"

سمیرا نے سر پکڑ لیا۔

اپنے باباجان کو تم مجھ سے بہتر جانتی ہو۔ ان کی ضد مثالی ہے۔ وہ اپنا فیصلہ بدل لیں گے ایسا تو سوچنا بھی فضول ہے۔ وہ کسی کے سمجھانے سے سمجھنے والے نہیں۔ لیکن اللہ کے بعد واسطے تم تو کچھ سمجھ داری سے کام لو۔"

اس نے بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی ملیحہ سے کہا۔ پھر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اسے سمجھانے لگی۔ 

"دیکھو ملیحہ سچ تو یہ ہے کہ نورالہدی اور وجدان کو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ بلکہ غیر جانبداری سے اگر دیکھو تو ہر نورالہدی وجدان سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ کس قدر زمین جائیداد کے مالک ہیں شاید انہیں بھی ٹھیک سے اندازہ نہ ہو اور کیا غضب کی پرسنیلٹی ہے میں نے ایسا خوبصورت مرد اپنی زندگی میں کوئی اور نہیں دیکھا۔ پھر وہ کوئی انجان تو نہیں ہیں ڈھائی تین مہینے سے تم دونوں ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہ رہے ہو۔ ان کی ہر اچھی بری عادت سے تم واقف ہوں اور رخصت ہو کر بھی تمہیں کہیں اور نہیں جانا۔ شادی کے بعد بھی تم اپنے اسے گھر میں رہو گے سب سے بڑھ کر یہ کہ نورالہدی کو تمہاری بہت پرواہ ہے۔پ میں نے خود دیکھا تھا میں نے خود دیکھا تھا شادی کے بعد جب وہ تمہیں لینے آئے تھے تو کس طرح تمہارا خیال کر رہے تھے جیسے تم کوئی کانچ کی گڑیا ہو اور وجدان کیا ہے صرف ایل ایل بی ہی تو کیا ہے ابھی تو اسے اپنا کیریئر بنانا ہے۔اسٹیٹس اچھا ہے۔ مگر نورالہدی کی طرح کروڑوں کا مالک تو وہ نہیں۔ پرسنیلٹی ٹھیک ٹھاک ہی ہے مگر نورالہدی کی طرح ڈیشنگ نہیں۔ وجدان کہیں بھی نورالہدی کے سامنے نہیں ٹکتا۔ اس میں ہے ہی کیا جو نورالہدی کے سامنے ٹک پائے؟" 

ملیحہ نے سمیرا کو دیکھا اور تھکی تھکی سی آواز میں کہا۔

"اس میں کیا ہے سمیرا! مجھے نہیں معلوم۔ مگر جس پہر وہ میرے ساتھ ہوتا ہے لگتا ہے یہی زندگی ہے۔" اس کے لہجے میں کوئی تو بات ایسی تھی کہ سمیرا نے گھبرا کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔ 

"ملیحہ! یہ بس کچھ دن کی تکلیف ہے صبر سے جھیل لو پھر دیکھنا نورالہدی کبھی تمہیں تکلیف ہونے نہیں دیں گے۔ تو تمہیں خوش رکھیں گے۔ وہ عاجزی سے بولی۔ 

"سمیرا وہ مجھے خوش رکھیں گے بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ ہادی بھائی کے ساتھ خوش نہ رہوں مگر زندہ نہیں رہوں گی۔" 

"ملیحہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیوں تم پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو؟" سمیرا نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجوڑ دیا اور ملیحہ ایک دم ہی پھوٹ کر رو پڑی۔ دمیرا نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے نرمی سے کہا۔

"اس طرح خود کو تھکانے کا کیا فائدہ؟ سنبھالو خود کو۔ اور جو ہو رہا ہے ہو جانے دو۔ وہ اذیت سے بولی۔ "ہو تو جانے دوں۔ پر جب میں خود کو اس کے بغیر سوچتی میں ہو تو میرا دم گھٹتا ہے۔"

" ملیحہ پلیز! سمیرا نے اسے روکنا چاہا پر وہ خواب ناک لہجے میں دھیرے دھیرے بولتی رہی۔ 

"جانتی ہوں جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو میری روح تک سب کچھ اس کے اختیار میں چلی جاتی ہے۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ میں دل پر وحی کی طرح اترتا ہے۔ میرا تو دھیان اس کی ذات سے نہیں ہٹتا میری نظر کسی اور کی طرف کیسے جائے گی؟ وہ مجھے مجھ سے مانگتا تو میں انکار کر دیتی۔ پر اس نے مجھے مجھ سے چھین لیا ہے۔ میں تو خود اپنی بھی نہیں رہی کسی اور کے کیسے ہو جاؤ۔؟ لیکن بابا نہیں سمجھتے۔ میں مر جاؤں گی سمیرا! میں سچ میں مر جاؤں گی۔ وہ تڑپ تڑپ کر رو دی۔ یوں کہ اسے گلے سے لگا کر چپ کراتی سمیرا خود بھی رو پڑی تھی۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے پھر اس کے چہرے سے آنسو صاف کرتے وہ بولی۔

"ٹھیک ہے وہ بیڈ سے اٹھی اور ملیحہ کو بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ اٹھاتے ہوئے بولی۔ "اٹھو اور چلو میرے ساتھ۔ مجھے پتہ ہے محبت کرنا اور پھر چھوڑ دینا دونوں ہی باتیں تمہارے لئے آسان نہیں۔ میں ابو اور چاچو کو سب بتا دیتی ہوں۔ ابو تو یوں بھی وجدان کو بیٹا مانتے ہیں۔ وہ ضرور پھاپھا جان کو منا لیں گے۔ اور بالفرض نہیں بھی منا سکے تو بھی تم پر ان کا بہت حق ہے فریال پھوپھو کی موت سے ہمارے تمہارے رشتے تو نہیں مر جاتے نہ۔" 

مگر وہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں تھی اور اپنا ہاتھ چھڑاتے اس نے تاسف بھرے نگاہ سمیرا پر ڈال کر کہا۔ 

"بابا جان نے اس لئے تو مجھے پال پوس کر بڑا نہیں کیا تھا کہ میں انہیں چھوڑ کر چلی جاؤں۔" پھر وہ قطعیت سے بولی۔ "میں کہیں نہیں جاؤں گی نہ کسی اور سے مدد مانگ کر بابا جان کو شرمندہ کروں گی۔ یہ باپ بیٹی کا معاملہ ہے اگر میں خود انہیں منا سکی تو ٹھیک ورنہ جو وہ کہیں گے وہی کروں گی۔ 

تم بس اتنا کر دو کہ بابا جان سے مجھے ساتھ لے جانے کی اجازت لے لو۔ میرا وجدان سے ملنا بہت ضروری ہے۔ لیکن مجھے لگ رہا ہے بابا جان مجھے اکیلے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جس طرح ایک رات میں انہوں نے میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اب انہیں مجھ پر اعتماد نہیں رہا۔" وہ آخر میں آزردہ سی ہو گئی تھی۔ سمیرا نے الجھ کر کہا۔

"تم کیا کرنا چاہتی ہو؟"

"وجدان کو بابا جان کے سامنے لا کھڑا کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے یقین ہے بابا جان اگر ایک بار بھی اس سے مل لے گے تو میرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کچھ تو وجدان میں ایسا ہے کہ ایک جس سے مل لے اس کے دل میں اتر جاتا ہے۔" وہ یہ بہت یقین کہہ رہی تھی.

"ٹھیک ہے میں پھوپھا جان سے اجازت لے کر آتی ہوں تب تک تم ذرا کپڑے بدل کر اپنا حلیہ ٹھیک کر لو۔" سمیرا نے کہا اور پھر اٹھ کر بابا جان کے پاس آ گئی جو اس وقت اسٹڈی میں موجود تھے۔ حالانکہ وہ سوچ کر ائی تھی کہ اسے ان سے کیا کہنا ہے پھر بھی بری طرح گھبرا رہی تھی۔ بابا جان کی شخصیت ایسی تھی کہ سامنے والا خامخوہ ہی نروس ہوجائے اور سمیرا کے پاس تو نروس ہونے کی وجہ بھی تھی۔

"اسلام علیکم پھوپھا جان!" اس نے تھوک نگل کر سلام کیا۔ ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے بابا جان نے اپنے سامنے کھلا زمینوں کا حساب کتاب کر رجسٹر بند کیا اور سمیرا کو اپنی زیرک نگاہوں کی گرفت میں لے کر بولے۔ 

"وعلیکم اسلام! بیٹھو بیٹا۔" سمیرا ایک کرسی پر ٹک گئی تو انہوں نے کہا۔

"کیسی ہوں اور گھر میں سب خیریت ہے؟"

"جی پھوپھا جان اللہ کا شکر ہے۔" 

پھر انہوں نے اتنی صبح اس کی آمد پر کوئی سوال نہیں کیا تھا مگر وہ خود ہی بتانے لگی ۔

"آٹھ بجے میں ملیحہ کا فون آگیا تھا کہنے لگی جلدی سے گھر آ جاؤ۔ یہاں آ کر اس کی شادی کا پتہ چلا تو میں نے سوچا آپ کو مبارکباد دے دو۔" 

"تمہیں بھی مبارک ہو۔"

"خیر مبارک۔ لیکن پھوپھا جان شادی کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔ دن بھی تو کتنے تھوڑے ہیں۔ ملیحہ نے فون پر بتا دیا ہوتا تو میں امی اور چاچی جان کو بھی ساتھ لے کر آتی۔اب سوچ رہی ہوں کہ آج ہی اسے اپنے ساتھ شاپنگ پر لے جاتی ہو۔ کل امی آجائیں گی تو باقی کی شاپنگ ان کے ساتھ کر لیں گے۔" "ٹھیک ہے۔" وہ اسے گہری نظروں سے کھوج رہے تھے اور سمیرا کی ہتھیلیاں تک پانی سے بھیگ گئیں۔ 

"تو میں ملیحہ کو اپنے ساتھ لے جا؟" اس نے پوچھا۔

"ہاں لے جاؤ اور ڈرائیور کے ساتھ جانا۔ میں ابھی کسی سے کہہ کر گاڑی تیار کروا دیتا ہوں۔"

"جی پھوپھا جان!" سعادت مندی سے گردن ہلا کر اٹھی اور جانے لگی۔

"سمیرا! بابا جان نے اسے آواز دی۔ 

"جی پھوپھا جان؟" وہ ایکدم ڈر کر پلٹی۔ 

"خریداری کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے بیٹا! انہوں نے کہا پھر دراز میں سے ہزار ہزار کے نوٹوں کی دو موٹی گڈیاں نکال کر ٹیبل پر رکھ دیں۔ سمیرا نے آگے آکر وہ گڈیاں اٹھالیں۔

"پر خیال رہے شام سات بجے سے پہلے تم دونوں گھر پہنچ جاؤ۔ شام کو ملیحہ اور نورالہدی کی منگنی کی تقریب ہے۔ میں نے افتخار سے فون پر بات کرلی ہے وہ سب لوگوں کو لے کر شام میں یہاں آ جائے گا۔" 

سمیرا کا جی چاہا سامنے والی دیوار پر جا کر زور سے سر مگر ضبط سے مسکرا کر اللہ‎ حافظ کہتی وہ مڑ گئی۔

اسکے جانے کے بعد بابا جان نے ریسیور اٹھایا اور کوئی نمبر ڈائل کرنے لگے۔ملیحہ کے کمرے میں آکر سمیرہ نے سانس چھوڑتے ہوئے خود کو ریلیکس کیا،پھر ملیحہ کو دیکھا جس نے اسکے کہنے کے باوجود کپڑے نہیں بدلے تھے اور ابھی تک اس جارجٹ کی بلیک ساڑھی میں تھی۔بس اتنا تھا کہ اس نے اوپر سے میرون شال اوڑھ لی تھی۔البتہ منہ ہاتھ دھو کر بال بنا لیے تھے۔سمیرہ نے اسے ہی غنیمت سمجھا۔جب وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تو سمیرہ نے اسے اطلاع دی 

"شام کو تمہاری منگنی ہے۔ پھوپھا جان سب رشتے داروں کو فون کر کے بتا چکے ہیں۔ مجھ سے بھی کہا ہے کہ شام سات بجے تک تمہیں لے کر گھر آجاؤں۔"

ملیحہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ کار قصر فاروقی سے نکل کر مین  روڈ پر آ گئی تھی اس روڈ پر آگے جا کر ایک ذیلی سڑک تھی۔ مین روڈ پر آتے ہی وہ لوگ ٹریفک جام میں پھنس گئے سمیر نے ڈرائیور سے کہا۔ 

"ذرا جاکر معلوم تو کرو ٹریفک کیوں روکا ہوا ہے؟"

ڈرائیور "جی اچھا" کہہ کر اتر گیا کچھ دیر بعد ہی وہ واپس آگیا۔ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے پلٹ کر کہا۔ "کچھ دیر لگ جائے گی آگے کسی موٹر سائیکل سوار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ایمبولینس وغیرہ تو پہنچ گئی ہیں زخمی کو ہسپتال بیھج کر پولیس اپنا باقی کا کام نپٹا کر  راستہ کھول دے گی۔" 

بار بار بےچینی سے پہلو بدلتی ملیحہ سمیرا سے بولی۔ "یہ ٹریفک تو نہ جانے کب کھلے گا۔ لائبریری کا یہاں سے زیادہ فاصلہ بھی نہیں ہے۔ میں پیدل  نکلتی ہوں۔"

"  ٹھیک ہے۔"سمیرا نے اختلاف نہیں کیا۔ پھر ملیحہ نے ڈرائیور کی طرف رخ کیا۔

"تم سمیرا کو گھر چھوڑ کر واپس چلے جانا۔ میں خود ہی آ جاؤ گی۔" اور کار سے اتر کر گاڑیوں کے بیچ میں سے گزرتی فٹ پاتھ پر آگئی۔ تیز قدموں سے سے چلتے ہوئے کچھ آگے جا کر اس نے ایک نظر سڑک پر ڈالی۔ جہاں بہت سے لوگ بھیڑ کی شکل میں جمع تھے اور کسی شخص کو اسٹریچر پر ڈال ایمبولینس میں چڑھایا جا رہا تھا۔ رش اس کا قدر تھا کہ ملیحہ صرف زخمی کے پیر ہی دیکھ سکی۔ 

لائبریری پہنچ کر ملیحہ نے اندر کا ایک چکر لگایا پھر باہر آ گئی اسے وجدان کہیں نظر نہیں آیا تھا۔

ابھی دس بجنے میں بھی تو آدھا گھنٹہ باقی ہے اس نے خود کو تسلی دی اور وہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی پر اسکا انتظار انتظار ہی رہا۔ دس بجے تک تو ملیحہ اپنے اضطراب کو دباتی رہی لیکن دس بجتے ہی اس کی بے چینی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ 

"آپ کا انتظار میں نے ہر روزکیا ہے۔" اس وقت تو یہ سن کر ملیحہ نے کچھ محسوس نہیں کیا تھا مگر اب سمجھ آ رہا تھا انتظار کرنا کتنا مشکل کام ہے گیٹ پر نظر جمائے اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔  جانے کا وقت بیت گیا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا تو کہہ دیتی صدیاں بیت گئی ہیں۔ گیٹ پر کھڑا واچ مین اور آتے جاتے لوگ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے پر وہ سب کچھ فراموش کیے بس وجدان کے آنے کی دعا مانگتی رہی۔ پانچ بجتے ہی وہ بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ لائبریری کی دوسری جانب ایک جنرل اسٹور تھا۔ ملیحہ سڑک کراس کرتی اسٹور میں گھس گئی۔ 

"ہیلو!" چوتھی بال پر فون ریسیو کیا گیا۔

"صمد!" آواز پہچان کر ملیحہ کے ہونٹ بے آواز ہلے۔ اس وقت وہ سمیرا کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی "سمیرا کو بلا دیں۔ " اس نے جلدی سے کہا تو اسے ہولڈ کرنے کا کہا گیا۔ 

"ہیلو!" کچھ دیر بعد ائیرپیس پر سمیرا کی آواز ابھری۔ 

"سمیرا۔۔۔!" اتنا بولنے میں ہی ملیحہ کا گلا رندھ گیا تھا اور اس ڈر سے کہ وہ رونا پڑے ملیحہ خاموش ہو گئی۔ سمیرا اس کی آواز پر حیران اور پھر خاموشی پر پریشان ہو اٹھی۔ 

"ملیحہ!  یہ تم ہو؟ خاموش کیوں ہو گئیں؟  پلیز بتاؤ سب ٹھیک تو ہے؟"

"کچھ ٹھیک نہیں ہے۔"سمیرا دہل گیا۔

"ہوا کیا ہے؟" ملیحہ نے اس کی بات کی ان سنی  کرتے ہوئے کہا۔

 "مجھے وجدان کا ایڈریس چاہیے۔"

اب چپ ہونے کے بارے سمیرا کی تھی قدرے توقف کے بعد اس کے آواز آئی۔

"وجدان نہیں آیا۔" پھر اس نے کہا۔ "تم ایسا کرو چاچو کے آفس فون  کرو۔ وہیں ہوگا۔"

"تمہیں فون کرنے سے پہلے وہاں فون کیا تھا پر وہ کئی مہینے سے آفس نہیں آ رہا۔" 

"تو کورٹ میں ہوگا۔ تم نے معلوم کیا؟" 

"جب وہ آفس چھوڑ چکا ہے تو کورٹ میں کیا کرے گا؟ ویسے بھی کورٹ چار بجے بند ہو جاتا ہے اور اس وقت پانچ بج رہے ہے۔"

"او سوری۔" سمیرا کو احساس ہوا کہ اس کے سوال ملیحہ زچ کر رہے ہیں تو پھر سنبھل کر بولی۔ "اچھا ایڈریس نوٹ کرو۔"

"ایک منٹ۔"ملیحہ نے اپنے بیگ سے پین اور پاکٹ سائز ڈائری نکالی اور ایڈریس نوٹ کرتے ہی فون رکھ کر دکاندار کو پیمنٹ کرتی وہ باہر آ گئی۔ سڑک کے کنارے ایک خالی ٹیکسی تھی ملیحہ تیزی سے دروازہ کھول کر ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مسافر کے انتظار میں اسٹیرنگ پر سر رکھے ڈرائیور نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

"بی بی! کدھر جائیں گے؟"

ملیحہ نے ہاتھ میں پکڑا کاغذ دیکھا اور بولی پی ای سی ایچ ایس کالونی۔" 

وہ یہاں تک تو آ گئی تھی پر اب ڈبل سٹوری بنگلے کے گیٹ کے سامنے کھڑی سوچ رہی تھی کہ اگر گیٹ وجدان کے علاوہ کسی اور نے کھولا تو کیا کہہ کر اسے بلوائےگی۔ 

جو ہو گا دیکھا جائے گا ملیحہ نے سرجھٹک کر نیم پلیٹ پڑھتے ہوئے ایڈریس کی تصدیق کی پھر بیل بجادی۔ دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی تھی پھر گیٹ کھل گیا۔ سبز آنکھوں والی لڑکی کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کسی اور کی آمد کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ اور شاید اسی لئے اس نے بنا پوچھے دروازہ کھول دیا تھا اور اب ملیحہ کو دیکھ کر سٹپٹا گئی تھی۔

"آپ کون ہیں؟" ملیحہ اس سوال پر گھبرا سی گئی پھر اس نے ہاتھ میں دبی چٹ اس کی طرف بڑھائی۔ 

"یہ ایڈریس آپ کے گھر کا ہے؟" 

لڑکی نے چٹ لے کر ایڈریس دیکھا۔ پھر اسے واپس کرتے ہوئے کہا۔ "ایڈریس تو یہی ہے پر آپ کو کس سے ملنا ہے؟" 

"وجدان مصطفی سے۔ کیا وہ گھر پر ہیں؟"  ملیحہ نے کوشش کی کہ اپنا لہجہ نارمل ہی رکھے۔ پر سوال ہی ایسا تھا جس پر لڑکی کا چونکنا لازم تھا۔

"آپ کون ہیں اور وجدان سے کیوں ملنا چاہتی ہیں؟"

"میرا نام ملیحہ فاروقی ہے۔ پلیز آپ وجدان کو بلا دیجئے۔ میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔"  

اس لڑکی کی آنکھوں سے اچانک متنفر جھلکنے لگا پھر وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔ 

"وجدان گھر پر نہیں ہے۔" اور جھٹکے سے گیٹ بند کرنے لگی تو ملیحہ نے ہاتھ رکھ کر اسے روکتے ہوئے پوچھا۔

"ایک منٹ کیا آپ کو معلوم ہے۔ وہ کہاں گئے ہیں اور کب تک آئیں گے؟" 

"نہیں۔" وہ ایک لفظ بول کر ملیحہ کا چہرہ دیکھنے لگی جو بیگ سے پین نکال کر اس کاغذ کے پیچھے کچھ لکھنے لگی تھی۔  

"وجدان جیسے گھر آئیں ان سے کہیے گا اس نمبر پر مجھ سے بات کر لیں۔" ملیحہ نے کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ لڑکی نے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے کر گیٹ بند کردیا۔ ملیحہ نے دیوار کا سہارا لیا ورنہ گر پڑتی۔ 

گھر پر نہیں ہے۔ آفس میں بھی نہیں ہیں۔ تو پھر کہاں چلا گیا؟ لائبریری کیوں نہیں آیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھول گیا ہوں؟ خود کلامی کے جواب میں وجدان کی آواز اس کے کانوں میں گونج گئی۔ 

"جب سے آپ کو حفظ کیا ہے خود کو بھول گیا ہوں۔"

ایک ٹھیس سی اٹھی تھی جس کو دباتے وہ ٹیکسی میں آ بیٹھی۔

"‏آرٹس کونسل چلو۔" ملیحہ نکال اپنی پینٹنگ "عشق  آتش" وجدان کو گفٹ کرکے نمائش سے ہٹوائی تھی اور یہ بات وجدان کے علم میں تھی۔ملیحہ اس امید پر آرٹ کونسل آئی تھی کہ شاید وجدان پینٹنگ لینے وہاں آیا ہوں۔ مگر وہ وہاں بھی نہیں ملا۔ ملیحہ نے اپنے فون نمبر کے ساتھ وجدان کے نام میسج چھوڑا اور نمائش پورشن میں آگئی۔ اس امید پر ایک ایک شخص کا چہرہ دیکھتی رہی کہ شاید وہ وجدان ہوگا۔ مگر اس کی نگاہیں نامراد لوٹ آئیں۔  ڈرائیور کو واپس لائبریری چلنے کا کہتے ہوئے اس نے رسٹ واچ پر نظر دوڑائی تو پونے چھ ہو رہے تھے اسے گھر سے نکلے آٹھ گھنٹے سے زیادہ بیت چکے تھے۔ 

"کیا آپ اپنے 24گھنٹوں میں سے ایک پل مجھے نہیں دے سکتیں۔؟" اس وقت وجدان کے لہجے میں جتنی التجائیں تھی اس سے زیادہ اس وقت ملیحہ کے چہرے پر رقم تھیں۔ 

لائبریری پہنچ کر ملیحہ نے ہال کا ایک چکر لگایا۔ وجدان کو نہ پا کر وہ کچھ سوچتے ہوئے واچ مین کے پاس آئی۔ 

"خان صاحب آپ سے کسی کے بارے میں پوچھنا ہے ۔"

"پوچھو۔"  خان صاحب کی اجازت کے بعد مزید بولی ۔

"چوبیس، پچیس سال کا سانولے رنگ کا لڑکا ہے۔قد تقریبا چھ فٹ آنکھوں اور بالوں کا رنگ سیاہ ہے اور اکثر یہاں آتا ہے کیا صبح یہاں آیا تھا؟"

"آپ وکیل صاحب کا تو نہیں پوچتا ہے؟" خان صاحب نے سوچتے ہوئے انداز میں کہا۔

ملیحہ فورم بولی۔ "ہاں، ہاں۔ میں ان کا ہی پوچھ رہی ہوں۔"

"دو تین مہینے سے روز آتا ہے۔  پر آج نہیں آیا۔"

"آپ کو یقین ہے وہ نہیں آئے؟" ملیحہ کے بات پر وہ ہنسنے لگے۔

"کیا بات کرتا اے جی! صبح سے ہم ایدر بیٹھا اے۔ آتا تو ہم کو دکھتا نئیں؟" وہ اتنے یقین سے کہہ رہا تھا کہ ملیحہ کو اس کی بات ماننا پڑی۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے سیڑھیوں تک آگئی۔ 

"میں سارا دن آپ کا انتظار کروں گا۔" ایک سرگوشی آس پاس سنائی دی تو ملیحہ نے تڑپ کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس کا ضبط ٹوٹ رہا تھا اس نے سیڑھیوں پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھ لیا ۔

ساڑھے چھ بجے جب ملیحہ نے  قصر فاروقی  میں قدم رکھا وہ اپنا یقین ہار چکی تھی۔ اور اس ہار کا چہرہ ڈرائنگ روم میں موجود کوئی شخص نہ دیکھ لے اس لیے وہ پچھلی طرف ہال کے دروازے سے اندر آئی۔ 

"بہادر میرے لیے کوئی فون تو نہیں آیا تھا۔" پاس سے گذرتے بہادر کو روک کر اس نے پوچھا۔ 

"نئیں بی بی صاب!  پر آپ کہاں چلی گئی تھی وہ بھی آج کے دن؟" 

ملیحہ کی آخری امید بھی ختم ہو گئی وہ بہادر کو جواب دیے بغیر اپنے کمرے میں آ گئی۔ ٹھنڈے یخ پانی سے منہ دھوتے ہوئے اس نے آنسوؤں کے ہر نشان کو  بےدردی سے رگڑ ڈالا۔ پھر تولیہ سے چہرہ خشک کرتی وہ ڈریسنگ روم میں آ گئی۔ الماری کے دونوں پٹ کھولے وہ باری باری ہر سوٹ کا جائزہ لے رہی تھی۔ پھر بہت سوچ کر اس نے پیچ کلر کے ڈریس کو نکالا تو نظر اس کے پیچھے لٹکتے سوٹ پر ٹھہر گئی۔ پنک کلر کے چوڑی دار پاجامے پر سفید قمیض تھی جس پر پنک رنگ کے موتیوں سے گلے اور قمیض کی ہاف سلیوز پر نفیس کام بنا ہوا تھا۔ پنک اینڈ وائٹ کنٹراسٹ ڈوپٹے کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے کچھ یاد آیا تھا۔ 

"تم سیفد رنگ مت پہنا کرو اس رنگ میں اتنی پیاری لگتی ہو کہ ڈر لگتا ہے نظر نہ لگ جائے۔' 

نظر تو لگ چکی،  نورالہدی اب کس بات کا ڈر؟ جس نے سوچا اور وہی سوٹ نکال لیا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہونٹوں پر پنک کلر لپسٹک کی تہ جمائی۔  ملیحہ زندگی میں پہلی بار اتنے اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔

دونوں کلائیوں میں بھر بھر کر وائٹ اور پنک چوڑیاں ڈال کر اس نے کانوں میں چاندی کے آویزے پہنے پر بیڈ پر آ بیٹھی۔  جھک کر سینڈل پاوں میں ڈال کر اس نے بیڈ سے ڈوپٹہ اٹھا کے شانوں پر پھیلایا کھلے بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارتے ہوئے اس کی نظر آئینے میں نظر آتے اپنے ہی عکس پر پڑی تھی۔ 

"آج کی تاریخ میں میرے لئے روشنی رنگ اور امید تینوں ختم ہو چکے ہیں۔ لیکن نورالہدی فاروقی انہیں آپ کی زندگی میں ہمیشہ رہنا چاہیے۔"اور کمرے سے نکل گئی۔ 

ڈرائنگ روم کے دروازے پر قدم رکھتے ہی ملیحہ کی نظر بلیک پینٹ پر میرون شرٹ پہنے نورالہدی پر پڑی تھی۔ اسی پل نورالہدی نے بھی دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ نورالہدی کی آنکھوں کی وہ چمک ملیحہ کے لئے نئی تھی اس نے پلکیں جھکا لیں۔  باقی لوگ بھی ملیحہ کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ پل بھر میں اس کے کزنز نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ مگر سمیرا نہیں اٹھ سکی۔ کسی معجزے کی امید کرتے کرتے ملیحہ کو دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا کہ معجزے اب نہیں ہوتے۔ وہ سمجھ گئی کہ ملیحہ وجدان سے نہیں مل سکی۔  

"حد کرتی ہوں بیٹا آج کے دن شاپنگ پر جانے کی کیا ضرورت تھی؟" اب دیکھو ذرا سب آئے بیٹھے ہیں۔ اور تو اور دلہا بھی موجود ہے پر دلہن شادی کی شاپنگ کرنے گئی ہوئی ہے۔" بڑی ممانی نے اسے دیکھ کر کہا تو ملک ناصر اس کے کچھ بولنے سے پہلے بول پڑے۔ 

"چھوڑیے بھابی! اب باتوں میں مزید مزید کیا وقت گنوانا۔ آو بیٹی رسم کرلی جائے۔" آخر میں وہ  ملیحہ سے بولے تھے۔ ملیحہ نے قدم بڑھایا تو سمیرا ایک دم اس کے کان کے پاس آ کر بولی۔ 

"انکار کر دو۔ ہم سب تمہارا ساتھ دیں گے۔" 

"کس برتے پر؟ ملیحہ نے اس کی طرف دیکھ کر زہر میں بجھی سرگوشی کی اور آگے بڑھ گئی۔ کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر نورالہدی کے پہلو میں بٹھا دیا تھا۔ پھر بابا جان کی اجازت سے نورالہدی نے اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں اپنے نام کی انگوٹھی پہنادی۔

کھانے کے بعد جب مہمان رخصت ہونے لگے تو ملیحہ سمیرا کے گلے لگ کر عاجزی سے بولی۔ 

"آج رک جاو سمیرا!"

سمیرا حامی بھرلیتی  پھر اس نے آفاق کو دیکھا جو اسے اشارے سے منع کررہا تھا تو وہ مجبور ہو گئی۔ 

"آج تو نہیں رک سکتی مگر کل میں صبح سے ہی آ جاؤ گی۔" اس میں ملیحہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ "اپنا خیال رکھنا۔" پھر ملیحہ کا گال چوم کر وہ گاڑی میں جا بیٹھی۔ 

پورچ میں اب صرف وہ بابا جان اور نورالہدی رہ گئے تھے۔ ملیحہ ان دونوں کی طرف دیکھے بنا ہی پلٹ کر اندر چلی گئی تھی۔ وہ حال میں آئی تو اپنے کمرے کی سیڑھیاں چڑھنے کی بجائے کھلے دروازے سے لان میں آ گئی۔ ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے ہوئے ملیحہ کے پیروں کے نیچے بھیگی گھاس کا نرم کلین بچھا تھا۔ لیکن ملیحہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پاؤں سلگتے انگاروں پر ہوں۔  اس احساس کے باوجود اس نے ٹہلنا بند نہیں کیا۔ برداشت کے راستوں پر ایک ایسا موڑ آتا ہے جہاں پہنچ کر درد بہت بے درد ہوجاتا ہے۔ اور اسی انتہا پر پہنچ کر صبر کے چادر اوڑھے انسان ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جہاں سوال قرار کا نیہں بےقراری کا ہوجاتا ہے پھر جتنا درد بڑھتا ہے اتنا سکون ملتا ہے۔ ملیحہ بھی خود اذیتی کی اسی کیفیت سے گزر رہی تھی چکر کاٹ کر بار بار پلٹتے ہوئے وہ ایک بار پلٹی تو سامنے نورالہدی تھے۔ 

"اچھی خاصی ٹھنڈ ہے اور تم یو ننگے پاؤں بھیگی گھاس  پر چل رہی ہوں کوئی شال وغیرہ بھی نہیں لی۔ بیمار پڑ جاؤں گی۔" سہانی شام تھی اور محبوب نظروں کے سامنے۔ نورالہدی کو شاید کچھ اور کہنا چاہیے تھا پھر وہ اسے  ٹوکے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک بے معنی "جی" بول کر ملیحہ ان کے برابر سے گزرتی سیڑھیوں پر بیٹھ کر سینڈل پہننے لگی۔ سینڈل پہن کر اس نے اندر کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ نورالہدی نے پوچھ لیا۔ 

"تم خوش ہو؟" 

دوسری سیڑھی پر رکھا ملیحہ کا پاؤں اپنی جگہ جم گیا وہ سنبھلی پھر پلٹ کر انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 

"آپ خوشی ہیں؟" نورالہدی نے آنکھیں بند کرکے ہوا میں پھیلی تازگی کو سانس کے ساتھ اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا۔

"بہت۔" 

"تو سمجھیں میں بھی خوش ہوں۔" وہ قصداً مسکرائی۔ نورالہدی نے اس کی طرف دیکھا اور پاس چلے آئے۔ 

"میں جانتا ہوں تمہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ میں پہلی ہی نظر میں اپنا ہر احساس تمہارے نام کر چکا ہوں۔"ملیحہ کیلئے یہ سچ مچ انکشاف تھا مگر اس کے اعصاب پہلے ہی اس کا قدر ٹوٹ چکے تھے کہ وہ حیران بھی نہ ہوسکی۔ بس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔

"ہاں میلحہ! یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے کہ میرا دل جب بھی دھڑکتا ہے تو شدت کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہےاور یہ محبت مجھے زندگی کی طرح عزیز ہے لیکن ایک چیز ہے جو مجھے اپنی زندگی سے اور اپنی محبت سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جانتی ہوں وہ چیز کیا ہے ؟" انہوں نے پوچھا ملیحہ اب بھی خاموش کھڑی بس نہیں دیکھتی ہی رہی۔ 

"تمہاری مسکراہٹ۔ اس دن یاد ہے جب میں اور باباجان وہاں لان میں بیٹھے تھے" انہوں نے دور لان چئیرز کی طرف اشارہ کیا، جن کی سفیدی اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ ملیحہ نے یوں ہی سر گھما کر دیکھا وہ کہہ رہے تھے۔ 

"انہوں نے مجھ سے پوچھا ملیحہ سے شادی کرو گے؟ تو میں نے ان سے کہا تھا۔ I love her ۔ لیکن میں ملیحہ سے شادی صرف اس صورت میں کروں گا اگر ملیحہ کو اعتراض نہ ہو۔" ملیحہ کو کچھ دن پہلے کا وہ منظر یاد آگیا اور نورالہدی کا جملہ بھی۔ 

"میں ملیحہ کی خوشی کی خاطر اپنا دکھ بھی سہہ سکتا ہوں۔" 

وہ غائب دماغ کھڑی تھی کہ اچانک ہی نورالہدی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ملیحہ نے ان کی طرف دیکھا وہ اس کے بائیں ہاتھ کو تھام کر اس کی انگلی میں پڑھی انگوٹھی کے ڈائمنڈ کو انگوٹھے سے ذرا چھو کر بول رہے تھے۔ 

"اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مگر تم میرے ساتھ اپنی زندگی گزارنے والی ہو اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر تمہارا ذہن مجھے اس رشتے کے ساتھ قبول کرسکے تو ٹھیک ہے اور اگر نہ کر سکے تو زبردستی نہیں ہے۔" وہ بولتے ہوئے ایک پل کو چپ سے ہو گئے پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر بولے۔ "تم جب چاہو میرا ساتھ چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔" 

"مجھے کہیں نہیں جانا ہادی بھائی!" فوراً ہی اس کی زبان سے نکلا تھا اور فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا اور سنبھل کر بولی ۔ "رشتے جب بنائے جاتے ہیں نورالہدی! تو انہیں نبھایا کرتے ہیں توڑا نہیں کرتے۔" نورالہدی کو ایک دم ہی اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگا۔ 

"اس کا مطلب ہے کہ مجھے اس پل کا انتظار کرنے کی اجازت ہے جب تم ایک نئے رشتے سے میری زندگی میں قدم رکھو گی۔" ان کی نگاہوں سے جھلکتی ورافتگی ملیحہ سہہ نہیں پائی اور اچانک ہی مڑ کر اندر آئی اور سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں آگئی۔ نورالہدی اس انداز کو اس کی ادا سمجھ کر مسکرانے لگے تھے۔ 

سائنس کہتی ہے کائنات میں موجود ہر شے کی بنیادی اکائی ہے ہمارے جسم کو ہی دیکھ لیا جائے لاکھوں کروڑوں خلیوں سے بنا ہمارا جسم ایک خلیے سے شروع ہوتا ہے۔ مادے کی شروعات ایٹم سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اربوں کھربوں میل پر پھیلی اس کائنات کو اگر ریورس پروسس میں ڈالا جائے تو یہ کائنات محض ایک نقطے میں سمٹ جائے گی۔ محض سائنس کے اس نظریہ پر کوئی اعتراض نہیں مگر میری زندگی میں یہ قانون کمزور پڑنے لگتا ہے کیونکہ میری زندگی کی بنیادی اکائی نہیں ہے بلکہ ایک تکون ہے ایک ایسی تکون جس کے ہر زاویے کی پیمائش ساٹھ ڈگری ہے یعنی ہر زاویے کی پیمائش برابر ہے اور کسی بھی طرح ان تینوں زاویوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ اس تکون کے ایک سرے پر باباجان کھڑے ہیں باباجان کا اور میرا رشتہ شیشے اور پتھر کا رہا ہے۔ شیشہ اپنی جگہ پر قائم رہے اس لیے پتھر سے فاصلہ ضروری ہے اسی لیے میں نے ان کے پاس جانے سے ہمیشہ گھبراتی رہی کہ کہیں چوٹ نہ کھا بیٹھوں۔  میرا ڈر کیسا سوچا تھا۔

تکون کے دوسرے سرے پر نورالہدی ہے۔ ہادی بھائی نے میری زندگی کے ہر خلا کو بھر دیا۔ بنا مانگے انہوں نے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جو مجھے کبھی کسی سے نہیں ملا تھا۔ انہوں نے مجھے چاہا بھی تو اپنے لیے نہیں بلکہ میرے لئے۔ ایک دم خالص اور بے غرض محبت۔ اور بدلے میں بھی کبھی کچھ نہیں مانگا۔ لیکن اگر وہ نہیں مانگیں گے تو کیا میں دوں گی نہیں؟۔۔۔۔۔ تکون کے تیسرے سرے میں کھڑا شخص وجدان مصطفی ہے۔ وجدان مصطفی میری ذات کا آئینہ میرے یقین کا چہرہ۔ مگر آج اس چہرے کے نقوش دھندلا رہے ہیں اب سوال پانے اور کھونے کا نہیں اب سوال میرے اعتبار کا ہے۔ باباجان نورالہدی اور وجدان کے تین کونوں پر کھڑے تین لوگ وہ تین لوگ جنہیں میں نے ٹوٹ کر چاہا اور ان میں سے کوئی ایک بھی اگر میری زندگی کے منظرنامے سے ہٹا تو یہ آدھی ادھوری زندگی کو جینا مشکل ہوجائے گا۔ مگر میں یہ بھی جان چکی ہوں کہ یہ تینوں کبھی ایک ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے۔ بابا جان، نورالہدی، اور وجدان  وہ تین لوگ جنہیں میں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ محبت کی اور میری زندگی کی سب سے کٹھن موڑ پر وہ تینوں ہی مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔ مجھے کسی کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ مارا ساتھ کون دے گا؟" 

دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ ملیحہ ڈائری لکھنا چھوڑ کر آواز لگائی۔ 

"دروازہ کھلا ہے۔ آ جاؤ۔" 

اس آواز کے ساتھ بہادر کمرے میں آیا تھا۔ 

"کہو کیا بات ہے؟؟ ملیحہ نے پوچھا۔ 

"بی بی صاب! آپ کے لیے فون آیا ہے۔" ملیحہ کی نگاہوں میں زمان و مکان گھوم گئے تھے۔ 

*******

یہاں تک پہنچ کر ڈائری خاموش ہوگئی تھی. تانیا نے فوراً اگلا پیج پلٹ کر دیکھا اور پِھر باقی كے سارے ورک پلٹ کر دیکھ لیے. ہر ورک ساده تھا. 

تانیا نے کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھا، جس پر روشنی دھیرے دھیرے بکھرتی جا رہی تھی. پوری رات ڈائری پڑھنے سے اب اسکی آنکھیں بری طرح دکھ رہی تھیں. وہ آنکھیں بند کر كے سیدھی لیٹ گئی. پچھلی رات انکشاف کی رات تھی. وہ گہرے سانس لیتی خود کو اُس اعصاب شکن کیفیت سے آزاد کرانے کی کوشش کررہی تھی. داستان اک عجیب موڑ پر آ کر رک گئی تھی. تانیا سوچنے لگی، آگے کیا ہوا ھوگا؟ 

"اس رات وہ فون کس کا تھا؟ ... کیا وجدان کا؟ .... اس نے کیا کہا ھوگا؟ اور اگر رات کو آنے والا فون وجدان کا تھا تو جب دن بھر ملیحہ اسے ڈھونڈھتی رہی تو وہ کیوں نہیں ملا؟ وہ اس دن لائبریری کیوں نہیں آیا تھا؟ اور فون پر کہیں اس نے یہ تو نہیں کہہ دیا ھوگا کہ میں تم سے شادی نہیں كرسكتا. اللہ حافظ، وغیرہ وغیرہ؟ ... نہیں." اس نے فوراً ہی اپنے قیاس کو رد کر دیا. 

"اگر ایسا ہوتا تو ملیحہ، پاپا سے شادی کر لیتی اور پاپا سے شادی كے بعد تو اسے قصر فاروقی میں ہی ھونا چاھیے تھا. مگر وہ تو کہیں نہیں ہے. کوئی اسکا نام تک لینا گوارہ نہیں کرتا. تو کیا وجدان نے فون پر اپنے نا آنے کی وجہ بتا کر معذرت کر لی تھی اور اسکے بعد ملیحہ نے دادا جان كے سامنے شادی سے انکار کر دیا ھوگا؟ .... مگر دادا جان تو فاصلہ واپس نہیں لینے والے تھے. تو پِھر یہ ھوسکتا ہے كہ ملیحہ نے انکی مرضی كے بغیر وجدان سے شادی کرلی ہو. لیکن ایسا ھونا بھی مشکل ہے. ملیحہ نے کہا تھا وہ اپنے بابا جان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی." اپنے دوسرے قیاس کو بھی رد کرتے ہوئے اس نے سوچا اور زچ بھی ہوگئی.

"لیکن اگر یہ نہیں ہوا تھا، وہ نہیں ہوا تھا تو آخر ہوا کیا تھا؟ .... ملیحہ اچانک ہی کہاں گم ہوگئی؟ اس نے آخر کیا کیا تھا جو اسکا ذکر خود اسکے ہی گھر میں بین ہو گیا اور برسوں گزر جانے كے بعد بھی نا تو اس نے کبھی قصر فاروقی میں قدم رکھا اور نا کبھی کسی کی زبان پر اسکا نام ہی آیا... اور... پاپا اور دادا جان كے درمیان موجود خلش کی شروعات کب اور کہاں سے شروع ہوئی؟ مگنی کی رات تک تو سب ٹھیک تھا. پِھر کیوں پاپا، دادا جان سے منتفر ہوگئے؟" وہ الھجتی ہوئی اٹھ بیٹھی.

"کیا مشکل ہے؟... میں نے تو سوچا تھا، ملیحہ کی ڈائری قصر فاروقی كے رازوں پر سے پردہ اٹھا دے گی. پر اس نے تو اور بھی کئی معموں کو جنم دے دیا ہے. کتنی عجیب سی بات ہے، پاپا جو ماما سے اتنی محبت کرتے ہیں، ماما سے پہلے کسی اور کو چاہ چکے ہیں. مگر پاپا کی محبت تو مکمل ہونے جا رہی تھی، ادھوری کیسے رہ گئی؟... کہانی کی ہر کڑی بیچ سے غائب ہوگئی ہے اور ایسا کوئی نہیں جو بتا سكے كے حقیقت میں کیا ہوا تھا؟" اس نے گہرا سانس کھینچتے ہوئے خود کو ریلکس کیا اور اک نئے رخ پر سوچنے لگی. 

"اِس کہانی كے چار ہی بنیادی کردار ہیں، جو كہ سچ پر سے پردہ اٹھا سکتے ہیں. مگر یہ دو کردار تو زبان بندی كے عہد پر کارفرما ہیں. تیسرا کردار منظر سے ہی غائب ہے اور چوتھا کردار... اوں." اچانک ہی کوئی خیال آیا تھا. "وجدان مصطفی. یہ شخص میرے لیے یقیناََ اجنبی ہے. مگر یہ نام نہیں. جسٹس وجدان مصطفی. یہ محض میرا اندازہ ہے، مگر تصدیق تو کرنی پڑے گی. اے-ایس-پی شایان مصطفی! میں نے سوچا تھا، تم سے دوبارہ کبھی نہیں ملو گی. لیکن اگر مجھے وجدان مصطفی سے ملنا ہے تو تم سے اک اَخِری ملاقات نا گزیر ہوگئی ہے." اس نے دِل میں کہا.

دادا جان شام کو آنے والے تھے لیکن تانیا رسک نہیں لینا چاہتی تھی. وہ ڈائری اٹھا کر دادا جان كے کمرے میں اگئی اور احتیاط سے ڈائری واپس اسی جگہ رکھ دی جہاں سے کل اس نے اٹھائی تھی. اسکے بعد وہ اپنے کمرے میں آئی. وہ آفس جانے کی تیاری کرنے لگی. اس نے محسوس کیا تھا، آج کل پاپا اس پر کچھ زیادہ ہی نظر رکھے ہوئے تھے. انہوں نے تانیا سے تو کچھ نہیں کہا تھا، مگر انکی نظریں اب ہر وقت تانیا کو کوجھتی رہتی تھیں اور تانیا نہیں چاہتی تھی كہ اسکی طرف سے کچھ ایسا ہو كہ وہ چونک جائیں. اندھے گھنٹے میں تیار ہو کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر چلی آئی.

"گڈ مارننگ ماما!.... گڈ مارننگ پاپا!" روز کی طرح ہی آج بھی ڈوپٹہ اور فائلز اس نے بازو میں دبوچے ہوئے تھے. بیگ سمیٹ باقی سب کچھ ساتھ والی چیئر پر ڈھیر کرتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا موبائل بھی یونہی کرسی پر ڈال دیا. نظر کا چشمہ پھسل کر ناک کی نوک پر اَٹْکا تھا جسے نورالہدی نے ہاتھ مار کر سہی کرتے ہوئے جواباً اسے گڈ مارننگ کہا تھا. اور پِھر اخبار كے صفحہ اُلٹنے لگے تھے. مریم نے کچن کی طرف آواز لگائی. 

"بہادر! تانیا كے لیے ناشتہ لے آؤ." 

تانیا ناشتہ کر رہی تھی كہ نورالہدی نے اخبار سائیڈ میں ڈالتے ہوئے مریم سے جوس كے لیے کہا. 

"پاپا! ویسے آپکی یہ عادت کافی الگ سی ہے." تانیا چور نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی. 

"کونسی عادت؟" وہ سمجھے نہیں. 

"یہی، لوگ چائے كے ساتھ اخبار پڑھنا پسند کرتے ہیں اور آپ اخبار پڑھ کر جوس پیتے ہیں." 

"یہ عادت میری نہیں، کسی اور کی تھی." ان کے منہ سے یہ اعتراف سن کر تانیا کو واقعی حیرت ہوئی تھی. اسے اندازہ نہیں تھا كہ نورالہدی اتنے آرام سے یہ بات کہہ دینگے. جبکہ اِس اعتراف كے پیچھے اک پردہ نشین کا نام چھپا تھا. 

"آپ نے کیوں اپنا لی؟... یہ عادت کس کی تھی؟" اس نے جان بوجھ کر نہیں پوچھا كہ جواب آنے کی توقع نہیں تھی. نورالہدی نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا. 

"کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کی ہر بات اپنا لینے کو دِل کرتا ہے. یہاں تک كے عادتیں بھی." 

"پاپا! آپ نے کبھی اسموکنگ کی ہے؟" کچھ دیر بعد اس نے پوچھا. اِس بار انہوں نے کچھ چونک کر اسکو دیکھا. تانیا تھوڑا سا ہڑبڑائی. اپنے اوپر غصہ بھی آیا. مگر اب تو سوال کر چکی تھی. 

"تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو؟" 

"ایسے ہی." اس نے سَر سری سے اندازِ میں کہا. "ہم عادتوں پر بات کررہے ہیں اور اکثر مردوں کو اسموکنگ کی عادت ہوتی ہے. بس اسی لیے پوچھ رہی ہوں." 

"لیکن نورالہدی کو کبھی بھی سگریٹ پینے کی عادت نہیں رہی." مریم نے کہا تو نورالہدی بولے. 

"نہیں مریم! میں اسموکنگ کیا کرتا تھا." 

"تم اسموکنگ کرتے تھے؟" وہ حیران ہوئی. "لیکن میں نے تو کبھی تمہارے ہاتھ میں سگریٹ نہیں دیکھی." 

"شادی سے کافی عرصہ پہلے چھوڑ دی تھی. ورنہ لندن میں رہتے ہوئے اور پِھر پاکستان آنے كے بعد بھی میں کچھ عرصے تک چین اسموکر ہوا کرتا تھا." 

"اس کا مطلب ہے، تم شادی سے پہلے کافی الگ تھے اور شادی كے بَعْد بہت سی عادتیں بَدَل لیں." وہ دونوں آپس میں بات کررہے تھے. 

تانیا ناشتہ کرچکی تھی. ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسکی نظر ٹیبل پر نورالہدی كے سامنے رکھے ان کے والٹ پر پڑی۔ وہ ڈائری میں لکھی ہر بات کی تصدیق کرلینا چاہتی تھی. اس نے ہاتھ بڑھا کر والٹ اٹھا لیا اور پِھر بڑے سَر سری سے اندازِ میں نورالہدی کا شناختی کارڈ دیکھنے لگی. 

نام، نورالہدی فاروقی.... والد کا نام، مظہر فاروقی.

"اتنے سامنے کی بات نا جانے میں نے پہلے کبھی کیوں نوٹ نہیں کی." اس نے سوچا اور کارڈ واپس والٹ میں ڈال کر والٹ ٹیبل پر رکھ دیا اور نارمل سے اندازِ میں چائے پینے لگی. 

نورالہدی اسکی حرکت کو نوٹ کرچکے تھے مگر مطلب اخذ نہیں کرسکے. اِس لیے کچھ پوچھا بھی نہیں. وہ اپنا جوس ختم کرچکے تھے. ٹیبل سے چیزیں اٹھا کر جانے لگے تو تانیا بولی. 

"پاپا! آج میں آپکے ساتھ جائوں گی. میری گاڑی میں کام نکل آیا ہے. آج ڈرائیور مکینک كے پاس لے جائے گا." 

"مگر میں پہلے فیکٹری جاؤنگا." 

"مجھے آفس چھوڑ کر چلے جائیں گا نا پلیز..!" وہ ہنس کر بولے. 

"ٹھیک ہے. چلو پِھر." 

"آپ گاڑی میں چل کر بیٹھیں. میں بس دو منٹ میں آتی ہوں." وہ بول کر جلدی جلدی چائے پینے لگی. 

"باپ کو ڈرائیور بنا دو." نورالہدی نے اسکے سَر پر دھپ لگائی اور جانے لگے۔ 

"سنو، شام میں جلدی گھر آ جانا." مریم نے یاد آنے پر پُکار کر کہا. نورالہدی مسکراتے ہوئے پلٹے اور کرسی پر کونی ٹکا کر جھکتے ہوئے انہیں گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے زو معنی اندازِ میں بولے. 

"کیا بات ہے؟ آج بڑے عرصے بَعد شام میں جلدی گھر آنے کی فرمائش کی ہے." 

تانیا کو ان کے اندازِ پر ہنسی آگئی. اس نے فوراً چائے کا کپ منہ سے دور کیا. مریم کو نورالہدای کی آنکھوں سے زیادہ تانیا کی ہنسی نے بلش کیا تھا. 

"بچوں کا تو خیال کر لیا کرو." وہ آنکھیں نکال کر بولیں. 

"بچے اب بڑے ہو چکے ہیں." ان پر کچھ اثر نہیں ہوا. مریم زچ ہو کر بولیں. 

"اسی لیے تو کہہ رہی ہوں."

"اچھا تو یہ بات ہے." وہ جیسے اصل مسئلے کو سمجھ گئے تھے. انہوں نے گاڑی کی چابی تانیا کو پکڑوا کر کہا. 

"کپ چھوڑو. چائے آفس میں پی لینا اور اب تم جا کر گاڑی میں بیٹھو. میں دو منٹ میں آتا ہوں." 

"نورالہدی! میں تمھارا کیا کروں؟" بے اختیار مریم کی زبان سے نکلا اور ہونٹ دبا کر ہنسی روکتی ہوئی تانیا چابی پکڑ کر کپ رکھتی اپنا ساز و سامان اٹھا کر باہر بھاگ گئی. دو منٹ بعد جب نورالہدی، کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھے تو انکی مسکراہٹ دیکھ کر تانیا بھی مسکرانے لگی. نورالہدی نے اسے مسکراتے دیکھا تو ذرا رعب سے بولے. 

"تم ہنس کیوں رہی ہو؟" 

وہ بھی انکی بیٹی تھی. جھجکے بغیر بولی. "پاپا! آپ نے کبھی نوٹ کیا، ماما شرماتے ہوئے بہت خوبصورت لگتی ہیں." اسے مرعوب نا ہوتے دیکھ کر نورالہدی نے بھی رعب ڈالنے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور ہنس کر بولے. 

"ہاں. مگر وہ شرماتی بہت کم ہے." خاص طور پر کل رات ڈائری پڑھ لینے كے بعد تانیا کو نورالہدی کی مریم سے محبت کو دیکھ کر مطمئن بلکہ خوش ھونا چاہیے تھا. مگر نا جانے کیوں گاڑی اسٹارٹ کرتے نورالہدی كے چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ دیکھ کر وہ اچانک ارزادہ سی ہوگئی تھی. 

"کیا پاپا کو ملیحہ ذرا بھی یاد نہیں؟" اس نے دکھ سے سوچا. 

شام کو اسکی واپسی ہوئی تو خلاف معمول نورالہدی بھی اسکے ساتھ تھے . ان دونوں كے پہنچنے سے پہلے اظہر فاروقی واپس آ چکے تھے اور اب فریش ہو کر لاونج میں سب كے ساتھ بیٹھے تھے. ان سے مل کر تانیا اپنے کمرے میں آگئی. پھر فریش ہو کر چینج کرنے كے بعد لاونج میں آئی تو نورالہدی بھی چینج کر كے وہاں آ بیٹھے تھے. 

اور اب وہ، مریم اور بابا جان تانیا کی شادی کا ٹاپک لے کر بیٹھے تھے. تانیا کسی رد اعمال كے بغیر چُپ چاپ دادا جان كے برابر صوفے پر بیٹھ گئی. اسکے دونوں بھائی بھی وہاں تھے. مگر ظاہر ہے، اس ٹاپک میں ان کے بولنے کی گنجائش کہاں تھی. وہ دونوں آرام سے الگ تھلگ بیٹھے اک دوسرے كے کان میں سرگوشیاں کررھے تھے. 

"تم دونوں نے انصر كے ماں باپ سے کوئی بات کی؟" بابا جان پوچھ رہے تھے. 

نورالہدی نے جواب دیا. "نہیں.. مگر شاید وہ اور انتظار نہیں کرنا چاھتے. آج تیمور میرے آفس آیا تھا اور ہم سب کو اپنے گھر ڈنر پر بلایا ہے." 

"کل شام عُروسہ آئی تھی. اس نے مجھ سے بھی ڈنر كے لیے کہا تھا۔صبح میں تم سے یہی کہنے والی تھی. لیکن تم تو..." مریم نے بات ادھوری چھوڑ دی . نورالہدی یاد کر كے مسکرائے. پھر سنجیدہ ہو کر بولے. 

"ڈنر كے لیے انکار نہیں کیا جا سکتا اور وہ لوگ شادی کی بات بھی ضرور کرینگے." 

"بالکل!" مریم نے کہا. "اب آپ دونوں طے کریں كہ اس بات کا جواب کیا دیا جائے؟" 

نورالہدی سے پہلے ہی بابا جان ٹوک کر بولے. "ہم دونوں یہ بات کیسے طے کر سکتی ہیں؟ یہ تو تانیا فیصلہ کرے گی كہ اسے انصر سے شادی کرنی بھی ہے یا نہیں." 

تانیا نے چونک کر انکی طرف دیکھا. اسے بابا جان كے الفاظ پر کبھی بھی حیرت نہیں ہوتی اگر وہ ملیحہ کی ڈائری نا پڑھ چکی ہوتی. مگر اب وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی.

"بولو تانیا! تم کیا چاہتی ہو؟ " نورالہدی نے اس سے پوچھا. 

"میں کیا چاہتی ہوں؟" وہ ان کے الفاظ پر کھو سی گئی. "بھلا میں کیا چاہ سکتی ہوں؟" اس نے آہستہ سے کہا. 

"پھر بھی بیٹا! تم نے کچھ تو سوچا ھوگا." وہ اصرار کررھے تھے. 

تانیا چُپ سی ہوگئی. بابا جان نے بھی اسے چُپ دیکھ کر ٹوکا. "بولو تانیا!... جواب دو." 

"اب وہ کیا جواب دے گی؟ آپ نے کیا سنا نہیں، خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے." مریم اسکی خاموشی کو اسکا اقرار سمجھ کر مطمئن سی ہو کر بولیں تو بابا جان کی روح تک کسی خیال سے کانپ گئی تھی. 

"خاموشی صرف رضا مندی نہیں ہوتی مریم! کبھی کبھی خاموشی جبر بھی ہوتی ہے." اپنے ساتھ لگا کر تانیا کی پیشانی چومتے انہوں نے مزید کہا. 

"تانیا جواب دے گی اور اپنی زندگی کا فیصلہ وہ اپنے الفاظ میں کرے گی. اسکی واضح رضا مندی كے بغیر تم عُروسہ یا تیمور سے کوئی بات مت کرنا. بڑوں كے فیصلے، بچوں کی زندگی سے بڑے نہیں ہوتے." وہ قطعیت سے بولتے تانیا كے لیے نا قابل برداشت ہورہے تھے. تانیا نے ہمیشہ اپنے لیے انہیں پر شفقت پایا تھا. مگر اب وہ جانتی تھی كہ خود اپنی بیٹی كے لیے ان کے دِل میں کوئی نرمی نہیں تھی. 

"آخر میں انکی لگتی بھی کیا ہوں؟"اس نے سوچا،"صرف بھتیجے کی بیٹی۔۔۔؟اور میری خاموشی کا بھی کتنا خیال ہے. لیکن وہ جو انکی بیٹی تھی، ان کے پیروں پر سَر رکھ کر روتے ہوئے فریاد کرتی رہی اور انکا دِل نہیں پسیجا. کیا دوغلا معیار ہے۔" 

کوفت زدہ اندازِ میں سوچتے ہوئے وہ ان سے الگ ہو کر دور ہو بیٹھی. اسے اک دم سے احساس ہوا کہ وہ ملیحہ كے حق پر قبضہ کر بیٹھی ہے. اس نے اپنے چہرے كے تاثرات تو قابو میں رکھے مگر آنکھوں سے نا گواری جھلک رہی تھی. کسی اور نے تو اسکی بیزاری کو محسوس نہیں کیا تھا مگر نورالہدی نا صرف محسوس کرچکے تھے بلکہ حیران بھی تھے. تانیا کو تو بابا جان كے ساتھ بیٹھنا بھی دو بھر لگ رہا تھا. وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں جانے لگی. 

سیڑھیان چڑھاتے ہوئے وہ رکی اور نورالہدی کو دیکھنے لگی. 

آج اسے سمجھ آ گیا تھا كہ کیوں بابا جان کی تانیا كے لیے محبت نورالہدی كے لیے نا قابل برداشت تھی. 

"میں جان گئی ہوں پاپا! آپ ملیحہ کو نہیں بھولا سكے. آپ آج بھی اس سے محبت کرتے ہیں. آج بھی اسکی تکلیف آپکو بے چین کیے ہوئے ہے." صبح اس خیال نے اسے افسردہ کر دیا تھا كہ نورالہدی کو ملیحہ یاد نہیں اور اب اس تصور نے اسے بے چین کر دیا كہ نورالہدی، ملیحہ کو نہیں بھولے تھے. 

"ادھوری محبت کی یاد کس قدر دَرد دیتی ہے، یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے؟" اس نے کرب سے سوچا تھا. 

شایان اپنے فادر کی وجہ سے آج کل کراچی میں ہی تھا اور تانیہ اسے نظر انداز کر رہی تھی۔ اسی لئے وہ دوبارہ وجدان مصطفی کی عیادت کے لیے ہسپتال نہیں گئی۔ لیکن وہ فائزہ سے ان کی خیریت دریافت کرتی رہتی تھی پھر فائزہ سے اسے پتہ چلا کہ وجدان گھر جا چکے ہیں۔ انہیں میجر اٹیک ہوا تھا تانیہ نے سوچا وہ کچھ دن مزید ریسٹ کر لیں تو ان سے ملنے چلی جائے گی۔ ان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے دو ہفتے بعد شام میں تانیہ ان سے ملنے ان کے گھر جا پہنچی۔ ڈائری میں جو ایڈریس وجدان کے گھر کا لکھا تھا وہ پی اے سی ایچ کالونی کے کسی بنگلے کا تھا جب کہ تانیہ اس وقت گلشن اقبال میں تھی۔ پہلے تو تانیہ نے بھی ان دو الگ پتوں والی بات کو محسوس کیا تھا۔ پھر اس میں سوچا ایک بار جا کر معلوم کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ 

گاڑی گیٹ کے باہر پارک کرکے اس نے سرمئی گیٹ والے بنگلے کی بیل بجا دی۔ واچ مین نے چھوٹا دروازہ کھول کر باہر جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔ 

"آپ کو کس سے ملنا ہے؟"

"میں شایان کی دوست ہوں۔ کیا وہ گھر پر ہیں."

"جی نہیں۔"

"گڈ" تانیہ نے دل میں کہا۔ 

"وجدان مصطفی تو ہوں گے؟"

" جی وہ تو ہیں۔" 

"تو پھر ان سے جا کر کہو میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔" 

وہ جی اچھا کہہ کر چلا گیا تو تانیہ سوچنے لگی۔ یہاں تک تو آ گئی ہو لیکن یہ کیسے پہچانو گی کہ یہ وجدان مصطفی وہی وجدان مصطفی ہیں یا نہیں؟ خیر دیکھا جائے گا۔ اس نے سر جھٹک کر واچمین کو دیکھا جو اسے اندر آنے کو کہہ رہا تھا۔

تانیہ گیٹ سے اندر آئی اور پھر ملازم نما کسی لڑکے کی رہنمائی میں لان کے بیج بنی روش پر چلتی گھر کے اندر پہنچ گئی۔ اسے ڈرائنگ روم میں بٹھانے کا تکلف نہیں کیا گیا بلکہ ملازم اسے لاونج میں لے آیا۔ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی تانیہ کی نظر سامنے دیوار پر لگی پینٹنگ پر گئی وہ سیدھی اس پینٹنگ کی طرف آ گئی۔

خشک زمین بنجر درخت کا آگ اگلتا سورج اور وہ درویش منشی۔ خوشی سے بے قابو ہوتی تانیہ نے کیپشن پڑا۔ "عشق آتش"۔ 

"یہ وہی پینٹنگ ہے۔۔۔ او میرے خدا! اس کا مطلب ہے میر اندازہ ٹھیک تھا۔" ملازم اسے چھوڑ کر جا چکا تھا لیکن وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی لاونج کے صوفے پر آ بیٹھی لیکن اسے فوراً ہی اٹھ جانا پڑا۔ پینٹنگ دیکھنے کے چکر میں اس نے اور کسی طرف دیکھا ہی نہیں تھا مگر اب اس کی نظر لاؤنج کی دیوار پر ہی لگی تصویر پر پڑی تھی۔ وہ چونکتی ہوئی دیوار کے سامنے آ کھڑی ہوئی اس نے جیسے یقین کرنے کے لئے فریم کے شیشوں کو انگلیوں سے چھوا تھا۔ "یہ سوفیصد ملیحہ فاروقی کی تصویر ہے." اس نے کہتے ہوئے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ کالی ساڑھی میں ملبوس ایک ہاتھ کھلے بالوں میں الجھائے بے نیازی سے سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

"اوہ۔۔۔ تو وجدان مصطفی نے آخر آپ سے وہ سب کروا ہی لیا جو اپ کبھی کرنا نہیں چاہتی تھیں۔" اس نے دل میں کہا۔

"السلام علیکم!" بھاری مگر پرکشش مردانہ آواز پر تانیہ نے گھوم کر دیکھا۔ 

اچھی خاصی ڈسٹرکٹ پرسنالٹی تھی سیاہ بالوں میں سفیدی نے گھل کر ان کا رنگ سرمئی کردیا تھا۔ سیاہ آنکھوں کی چمک جس نے کبھی ملیحہ کی آنکھوں کو خیرہ کیا تھا اب بجھ چکی تھیں۔

مگر ان کی کشش تانیہ نے اتنے فاصلے کے باوجود محسوس کی تھی۔ ہلکے آسمانی رنگ کے آرام دہ شلوار قمیض میں ان کے دراز سراپے کی وجاہت کم تو ہوئی تھی۔ لیکن ابھی تک ڈھلی نہیں تھی۔ 

ملیحہ نے اگر ان کی خاطر سب کچھ تیاگ دیا تھا تو اس کی کوئی غلطی نہیں۔ یہ آج بھی اس قابل ہے کہ ان کی خاطر تخت و تاج چھوڑ دیا جائے۔ تو جوانی میں تو عالم ہی کچھ اور ہو گا۔ وہ انہیں دیکھ کر سوچ رہی تھی۔ 

وجدان اس کی محویت کو محسوس کرکے ہلکا سا مسکرائے اور کہا۔ 

"بیٹا اگر تمہارا تھیسیس مکمل ہوچکا ہو تو بیٹھ جاؤ ۔" 

آواز واقع پرکشش ہے۔ وہ وجدان کی بات پر شرمندہ ہوتے ہوئے بھی سوچنے سے باز نہیں آئی۔ 

وہ صوفے پر بیٹھ چکی تو وجدان بھی ان کے اس کے مقابل بیٹھ گئے۔ 

"سوری انکل!" اس نے بات شروع کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ "اصل میں، میں حیران ہورہی تھی کہ اپ میں اور شایان میں ذرا بھی مماثلت نہیں ہے حالانکہ اس کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ بھی آپ کی ہی طرح بلیک ہے مگر وہ آپ سے کافی الگ دکھتا ہے۔" 

وہ مسکرائے اور پوچھا۔ "کیا نام ہے تمہارا؟" 

"تانیہ۔" اس نے جان بوجھ کر اپنے نام کا دوسرا حصہ نہیں بتایا۔

" تانیہ بیٹے چہروں میں شباہت تلاش کرنا تو بس نظروں کا ہی ایک مشغلہ ہے دیکھو تم میں تو کسی کی شباہت نہیں۔ پھر بھی تمہیں دیکھ کر کوئی یاد آگیا تھا۔" 

"ملیحہ فاروقی؟" اس کا انداز جتاتا ہوا تھا وجدان بھی محسوس کیے بنا نہ رہ سکے۔ 

"کیا کہا؟"

"ملیحہ فاروقی؟" اس بار اس کا انداز نارمل ہی تھا "یہ ملیحہ فاروقی ہے نا۔" اس نے تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "شایان کے مدر اور آپکی مسز۔ " 

"ہاں۔ یہ ملیحہ ہی ہیں۔" انہوں نے آہستہ آواز میں کہا۔ " مگر تم نے کیسے پہچانا؟" 

"میں نے شایان کے پاس ان کی تصویر دیکھی تھی۔" اطمینان سے جھوٹ بول رہی تھی۔ 

"تم شایان سے ملنے آئی ہوگی؟"

"ایکچولی تو میں آپ سے ہی ملنے آئی تھی۔ سوچا آپ کی طبیعت کے ساتھ آپ کے دل کا حال بھی معلوم کرلوں۔" 

"دل کا حال کیا بتاؤں زمانے بیت گئے۔ اب تو یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ سینے میں دل ہے یا نہیں۔" وہ بہت لائٹ سے انداز میں بات کر رہے تھے مگر تانیہ کو ان کے ہر انداز میں غیرمعمولی پن محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ سا تھا۔ بالکل ایسے جیسے طوفان گزر جانے کے بعد ساحل بہت خاموش بہت شانت لگنے لگتا ہے۔

ملازم ٹی ٹرولی لے کر اندر آیا تھا. وجدان نے ٹرولی اپنے سامنے رکوا کر ملازم کو جانے کا اشارہ کیا اور خود چائے بنانے كے لیے کپ سیدھے کرنے لگے. 

"چائے میں بناونگی انکل!" تانیا نے کہا اور اٹھ کر ان کے پاس سنگل صوفے پر بیٹھ کر چائے بنانے لگی. وجدان خاموشی سے اسے دیکھنے لگے. چائے بنا کر اس نے اک کپ ان کو تھمایا اور دوسرا اپنے ہاتھ میں لے کر صوفے پر پیچھے ہو کر بیٹھی گھونٹ بھر کر بولی.

"آنٹی بھی کیا شایان كے ساتھ گئی ہیں؟... مجھے آئے کافی دیر ہوچکی ہے مگر وہ نظر نہیں آرہیں؟" 

"شایان نے تمہیں بتایا نہیں؟" تانیا نے حیران ہوتے کہا. 

"کیا نہیں بتایا؟" وجدان اک پل کو رکے، پِھر اسے دیکھ کر بولے. 

"ملیحہ کا انتقال ہو چکا ہے." 

"کیا.....؟" اک دم اسکے منہ سے نکلا تھا. حیرت كے شدید جھٹکے سے چائے کپ سے چھلک کر اس كے کپڑوں پر گر گئی. اس نے فوراً کپ سائیڈ پر رکھا اور کپڑے جھاڑنے لگی. وجدان نے کچھ ٹیشو پیپر نکال کر اسکی طرف بڑھائے. 

"ان سے صاف کر لو." تانیا نے ٹیشو پیپر پکڑ تو لیے مگر کپڑے صاف کرنے کا اسے ہوش ہی نہیں رہا. 

"یہ کیا ہو گیا؟..... وہ کیوں مر گئی؟... میں تو اُن سے ملنے کی خواہش میں یہاں تک آئی تھی. ایسا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا." وہ سکتے كے عالم میں تھی جیسے کسی بے حد عزیز ہستی کی موت کی خبر ملی ہو. تانیا کو خود بھی یہ محسوس کر كے حیرت ہوئی كہ اسے اِس خبر پر صدمہ ہوا تھا. اُس نے اپنا نچلا ہونٹ دبائے رکھا تھا ورنہ شاید وہ رُو ہی پڑتی. اسے خود بھی نہیں پتہ تھا كہ ملیحہ اسکے اتنے قریب آ چکی تھی. اسکا دھواں دھواں سا چہرہ دیکھ کر وجدان فکر مند سے ہوگئے تھے.

"کنٹرول یورسیلف بیٹا!" انہوں نے کہا اور اٹھ کر اسکے پاس آگئے اور اسکے سَر پر ہاتھ رکھ کر اسے ریلکس کرنے لگے. "مجھے اندازہ نہیں تھا، تم اتنی حساس ہو." وہ نرمی سے اسکا سَر تھپک رہے تھے. تانیا نے بھی خود کو ریلکس کرنے كے لیے گہرے گہرے سانس لیے پِھر وجدان کی کلائی پر ہاتھ رکھ کر بولی. 

"بیٹھ جائیں انکل! میں اب ٹھیک ہوں. آپ پریشان نا ہوں." بیٹھنے كے بجائے وجدان نے ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر اسے دیا. تانیا نے گلاس تو تھام لیا مگر ہونٹوں تک لے جانے کی زحمت نہیں کی. وجدان واپس اپنی جگہ پر بیٹھ چکے تھے. تانیا نے انہیں دیکھا اور کہا. 

"آئی ایم سوری انکل! میں نے آپکو پریشان کردیا." 

"پریشان تو کیا ہے تم نے. پر اِس میں سوری کہنے والی کیا بات ہے؟" 

"بات تو ہے. انجانے میں ہی سہی، پر میں نے آپکو آپکا دکھ یاد دلا دیا."

"دکھ اور زندگی کا ساتھ بہت گہرا ہے تانیا! جتنا بھی بچ کر چلو، یہ سامنے آ ہی جاتے ہیں. بھلا انہیں کوئی بھول کیسے سکتا ہے؟" تانیا نے دیکھا وہ ہاتھ پھیلا کر جانے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کیا ڈھونڈنے لگے تھے. 

"انکل!" اس نے وجدان کو پکارا. وجدان نے اسکی طرف دیکھا. "ملیحہ آنْٹی کی ڈیتھ کو کتنا عرصہ ہو چکا ہے؟" 

"27 سال." اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر مٹھی بناتے اپنے ماتھے پر ٹکا کر بولتے ہوئے وہ اک پل کو بیچین ہوئے تھے. 

"27 سال گزر گئے." تانیا نے دِل میں کہا. پِھر زبان سے بولی. "شایان تو اس وقت بہت چھوٹا ھوگا." 

"ہوں." وہ اپنے آپ سے چونکے پِھر اسکے لفظوں پر دھیان دے کر کہا. "شایان کی پیدائش اور ملیحہ کی وفات اک ہی دن ہوئی تھی." تانیا کو سچ مچ اپنے سامنے بیٹھے شخص پر ترس آنے لگا تھا. 

"انکل! اب میں چلتی ہوں." وہ اَٹھ کھڑی ہوئی. وہ آئی تو انکشاف سننے كے لیے تھی پر جو انکشاف سنا تھا، اس نے تانیا كے دِل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا. وجدان نے سَر اٹھا کر اسے دیکھا پِھر اسے باہر تک چھوڑنے كے لیے اٹھ کھڑے ہوئے. وہ دونوں باہر نکلے ہی تھے كہ اک گاڑی پورچ میں آ کر رکی اور شایان ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اترتا حیرت سے بولا. 

"تانیا! تم کب آئیں؟" 

"کافی دیر ہوگئی. مگر اب چلونگی. اللہ حافظ!" وہ کہیں روک نا لے، اِس خیال سے وہ جلدی سے بول کر تیزی سے چلتی گیٹ سے باہر آگئی. اپنی کار اسٹارٹ کر كے کسی طرف دیکھے بغیر وہ سیدھی نکل گئی. شایان کار کا دروازہ کھولے ابھی تک گیٹ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا. وجدان بہت غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہے تھے. پاس آ کر شایان كے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے اسے متوجہ کیا. 

"کیا بات ہے برخوردار؟" شایان نے چونک کر انہیں دیکھا اور یونہی ہنس دیا، پِھر پوچھنے لگا. 

"آپکو تانیا کیسی لگی؟"

"ہوں." وہ سوچنے لگے. "اچھی ہے. مگر کچھ جذباتی سی ہے. لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ کونسا میرا بیٹا جذباتیت میں کسی سے پیچھے ہے." 

"ابو..!" ان کے ہنسنے پر جز بُز ہوتے ہوئے اس نے کار کا دروازہ بند کیا پِھر وجدان كے شانوں پر بازو پھیلائے اندر آگیا. انہیں ان کے بیڈروم میں چھوڑ کر وہ چینج کرنے كے لیے اپنے روم میں جانے لگا تو وجدان نے اسے روکا. میرے پاس آ کر بیٹھو." 

وہ نزدیک ہی کارپیٹ پر بیٹھ گیا اور سَر انکی گود میں رکھ دیا. کچھ دیر تک وجدان کچھ بولے بنا ہی اسکے بال سہلاتے رہے، پِھر اسے مخاطب کر كے کہا. 

"شایان! مجھے واقعی لگتا ہے، تمہیں اب شادی کر لینی چاھیے." 

"مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے." اس نے انکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا. 

"تو کوئی لڑکی بھی پسند کی ہے یا یہ کام مجھے ہی کرنا ھوگا؟" 

"لڑکی تو پسند کی ہے ابو." 

"اور وہ لڑکی کون ہے؟" بول کر وجدان اسکے منہ سے تانیا کا نام سننے کا انتظار کرنے لگے. شایان انکا ہاتھ تھام کر بولا. 

"ابو! میں فائزہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں." شایان نے کہا اور خاموشی سے کمرے سے باہر آگیا. وجدان اسے جاتا ہوا دیکھنے لگے. 

~~~~~~~~

سب گھر والے لان میں تھے. تانیا نے کار پورچ میں کھڑی کی اور خود بھی اس طرف آگئی جہاں نورالہدی كے علاوہ سب موجود تھے. وہ بیٹھ چکی تو مریم نے پوچھا. "چائے منگواوں تمہارے لیے؟" 

"رہنے دیں ماما! موڈ نہیں ہے." اس نے تھکے تھکے سے اندازِ میں منع کر دیا اور بابا جان کو دیکھنے لگی. 

"کیا کروں؟... کیا دادا جان کو بتا دوں كہ جس بیٹی کو سزا دینے كے لیے برسوں سے اسکا نام انکی زبان پر نہیں آیا، وہ ہر چیز سے بے نیاز ہوچکی ہے. جسے محبت کرنے كے جرم میں گھر سے نکالا تھا، وہ ان کے دِل سے تو نا نکل پائی پر دنیا چھوڑ گئی. لیکن کیا واقعی یہ نہیں جانتے كے انکی بیٹی مر چکی ہے؟" اس نے سوچا۔ 

"ہاں یہ نہیں جانتے ہونگے. اگر جانتے تو ملیحہ کی سزا ختم ہوچکی ہوتی. قصر فاروقی میں اسکے نام کی فاتحہ پڑھی جاتی اور ملیحہ کی ڈائری کو سینے سے لگانے كے بجائے دادا جان، ملیحہ کی زندہ نشانی شایان کو سینے سے لگا لیتے. پر یہ کیسی آنا ہے كہ بیٹی کی ڈائری کو سینے سے لگا کر اسکی تصویر کو گھنٹوں دیکھتے ہوئے دِل ہی دِل میں اسے یاد تو کر سکتے ہیں مگر اسکی خبر نہیں لے سکتے. 27 سال میں اک بار پلٹ کر نہیں دیکھا كہ وہ زندہ ہے یا مر چکی. اور پاپا..!" اسکے دِل میں ٹِیس اٹھی. 

"پاپا سے کیسے کہونگی كہ جسکی محبت کا بوجھ قرض کی طرح اٹھا رکھا ہے، وہ تو اپنا فرض بھی نہیں نبھا سکی. وجدان کی خاطر سب کچھ چھوڑنے والی آخر اسے بھی چھوڑ گئی اور اپنے بیٹے کو بھی." اسکے دِل کی حالت عجیب ھورھی تھی. وہ چینج کرنے کا کہہ کر اٹھی اور اپنے کمرے میں آگئی. 

~~~~~~~~~

فائزہ ابھی آفس سے آئی تھی اور آتے ہی بیڈ پر ڈھیر ہوگئی. سستی سے لیٹی وہ سوچ رہی تھی كہ اَٹھ کر چینج كرلے. پر تھکن ایسی تھی كہ اٹھنا مشکل لگ رہا تھا. تبھی ہورن کی آواز سنائی دی. فائزہ اِس ہورن کو پہچانتی تھی. وہ چھلانگ لگا کر بستر سے اٹھی اور کھڑکی سے نیچے پورچ میں جھانک کر دیکھا، پِھر زور سے چلائی. 

"وجدان انکل." گاڑی سے اُترتے وجدان نے آواز کی سمت دیکھا تو فائزہ نے ہاتھ ہلایا اور پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولی. 

"میں نیچے آرہی ہوں." پِھر چپل پہنے بغیر ہی بھاگتی باہر آگئی. 

"کیا ہورھا ہے بھئی؟" وجدان اسکی تیز رفتاری پر بولے. وہ ان کے شانے سے لگ گئی. 

"اسپتال سے ڈسچارج ہونے كے بعد اپ پہلی بار گھر آئے ہیں. میں نے سوچا، سب سے پہلے میں آپکو ویلکم کروں. لیکن اپ خود ڈرائیو کر كے آئے ہیں؟ شایان کدھر ہے؟ اسے احساس نہیں ہے كہ ابھی آپکو ڈرائیونگ نہیں کرنی چاھیے." وہ لڑاکا عورتوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بول رہی تھی. وجدان اسکے اِس اسٹائل پر مسکرا کر کہنے لگے. 

"شایان کی کوئی غلطی نہیں. وہ صبح سکھر جا چکا ہے." 

"کیا؟" وہ صدمے سے چلائی. "وہ بتائے بغیر چلا گیا؟... آ لینے دیں. ایسی خبر لونگی كہ یاد رکھے گا۔ سچ میں بہت مرونگی اور اپ بیچ میں نہیں بولینگے." 

"بالکل نہیں بولونگا." وہ اسے دلچسپی سے دیکھ کر کہہ رہے تھے. "اندر چلیں؟" 

"اوہو.." اس نے اپنے سَر پر ہاتھ مارا. "میں تو بھول ہی گئی. آئیے انکل! اندر اجائیں." وہ فائزہ كے ساتھ اندر آئے اور سیدھا اسکی نانی كے روم میں چلے آئے. 

وجدان کو دیکھ کر بستر پر لیٹی بزرگ خاتون اٹھنے لگیں تو وجدان نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیتے ہوئے تکیہ اونچا کر كے آرام سے بیٹھا دیا. 

"خالہ! اپ بہت کمزور ہوگئی ہیں. اپنا بالکل بھی خیال نہیں رکھتیں." وجدان خفا ہورہے تھے. وہ کمزور سی آواز میں بولیں. 

"ہمارا کیا پوچھتے ہو بیٹا! ہماری تو اب عمر ہو چلی ہے. پر تم کیا اپنے دِل کو روگ لگا بیٹھے؟" 

"روگ تو پرانا ہے خالہ! رنگ اب دیکھا رہا ہے اور عمر تو میری بھی ڈھل چکی ہے. اب اور کتنا جیون گا، 27 سال گزار لئے . اب اور جیا بھی نہیں جاتا." وجدان کی آنکھوں میں نمی جھلکی تھی جیسے پلکیں جھپک کر وجدان نے ہمیشہ کی طرح اپنے اندر اُتَار لیا. 

"دِل جلانے کی باتیں نا کرو وجدان!" وہ دہل گئیں. "آج تک ملیحہ کا زخم تازہ ہے. گود کھلائی بچی کیسی بھری عمر میں قبر کی ہوگئی. ہم تو ہاتھ ملتے رہ گئے." انکی بوڑھی آنکھیں جھلک پڑیں تو وجدان نے ان کے گرد بازو لپیٹ کر اپنے ساتھ سمیٹ لیا. 

فائزہ كے پاپا، وجدان كے آنے کا سن کر کمرے میں آئے تھے. آگے کا منظر دیکھ کر دروازے میں ہی رک گئے. کونے میں چُپ چاپ کھڑی فائزہ نے انہیں دیکھا تو آہستہ سے بتایا. 

"نانی اماں، ملیحہ آنْٹی کو یاد کر كے رُو رہی ہیں." 

انہوں نے ہونٹ بیچ لیے اور وجدان کی طرف دیکھا جنہوں نے اسی پل نظریں اُٹھائی تھیں. ان آنکھوں میں قیامت كے آثار تھے. وجدان دھیرے سے اَٹھ کر باہر چلے گئے. فائزہ چلتی ہوئی بیڈ پر آ بیٹھی اور نانی کو چُپ کراتے ہوئے گھونٹ گھونٹ پانی ان کے حلق میں اتارنے لگی. اسکے پاپا اسکے برابر بیڈ پر بیٹھے اور نرمی سے اسکی نانی کو مخاطب کر كے بولے. 

"وجدان کا تو خیال کر لیا کریں تائی جان! مہینہ بھر پہلے ہی تو اسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے. پِھر ذرا سوچیے، ہمارا آج بھی یہ حال ہے تو اسکا کیا ھوگا؟ ملیحہ کا سب سے نازک رشتہ اس سے تھا." 

"اسی لیے تو وجدان کو دیکھ کر وہ اور بھی یاد آ جاتی ہے. اتنی معصوم بچی کیسے کیسے عذابوں سے گزاری گئی." 

اب وہ ان سے کیا کہتے. انکا ہاتھ تھپک کر وہ فائزہ سے بولے. "انہیں دوا دے کر سلا دو." اور خود اٹھ کر باہر آگئے. وجدان انہیں دالان میں ہی مل گئے تھے. ستوں سے کمر لگا کر کھڑے وہ خالی آنکھوں سے سامنے بیچھے تخت کو دیکھ رہے تھے. اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس کر كے وہ چونکے اور مڑ کر دیکھتے ہی ان کے منہ سے نکلا. 

"آؤ آفاق!.." پِھر قصداً مسکرا کر بولے. "خالہ ٹھیک ہیں." 

"تم ٹھیک ہو؟" آفاق انکا چہرہ دیکھ کر بولے تو انہوں نے نظریں چرا کر آہستہ سے کہا. 

"اب تو عادت سی ہوگئی ہے." پِھر سَر جھٹک کر خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا. "آفاق یار! تم سے کچھ بات کرنے ہے." 

"ہاں کہو." 

"یہاں نہیں۔ کمرے میں چلتے ہیں اور تم سمیرہ بھابھی کو وہیں لے آؤ." 

"ایسی کیا بات ہے؟" 

"بتا دونگا. پہلے کمرے میں تو چلو." وجدان نے کہا تو آفاق انہیں اپنے روم میں لے آئے۔ آتے ہوئے سمیرہ کو بھی کمرے میں آنے کا کہہ دیا. 

سمیرہ کمرے میں آئیں تو وہ دونوں صوفوں پر بیٹھے تھے. ان پر نظر ڈال کر وہ بھی وہیں آ کر آفاق كے ساتھ بیٹھ گئیں. 

"ہاں اب بولو." آفاق، وجدان سے بولے. وجدان نے اک نظر ان کے چہروں کو دیکھا اور پِھر کہنے لگے. 

"بات یوں تو بہت سیدھی سی ہے۔ شایان جوان ہو چکا ہے اور مجھے لگتا ہے، اب اسے شادی کرلینی چاھیے. ویسی عام طور پر ماؤں کو بیٹوں كے سَر پر سہرا سجانے کا شوق ہوتا ہے. پر شایان کی ماں تو ہے نہیں، اِس لیے یہ کام بھی مجھے ہی کرنا ھوگا."

"شکر ہے وجدان! تمہیں خیال تو آیا." سمیرہ ہنس کر بولیں. "تم بتاؤ کوئی لڑکی دیکھی ہے یا میں کچھ مدد کروں؟" 

"اک لڑکی نظر میں تو ہے." 

"کون ہے؟" سمیرہ كے پوچھنے پر وہ کچھ دیر بعد بولے. 

"فائزہ." دونوں میاں بِیوِی نے فوراً اک دوسرے کی طرف دیکھا مگر فوری طور پر کچھ بول نہیں پائے. 

"تم یہ مت سمجھنا آفاق! كہ میں تم سے فائزہ کا رشتہ مانگ رہا ہوں. میں بس تم سے مشورہ مانگ رہا ہوں كہ اتنی بڑی بات مجھے اپنی زبان پر لانی بھی چاھیے یا نہیں. وہ تو شایان نے ہی فائزہ کا نام لے لیا، ورنہ میں تو فائزہ کو اپنی بہو بنانے كے بارے میں کبھی سوچتا بھی نہیں۔"

آفاق حیرت کے ابتدائی جھٹکے سے سنبھل چکے تھے،انہیں دیکھ کر بولے۔

"کیوں وجدان!میری بیٹی میں کیا کوئی کمی ہے؟" وجدان كے ساتھ سمیرہ نے بھی انہیں چونک کر دیکھا.اور بولے. 

"میرا یہ مطلب نہیں تھا آفاق! فائزہ ہر لحاظ سے بہترین ہے. مگر شایان کو فائزہ كے حوالے سے قبول کرنا شاید تمہارے لیے مشکل ہو." 

"شایان تمھارا اور ملیحہ کا بیٹا ہے، اِس حوالے كے بَعد انکار کی کوئی گنجائش نہیں بچتی. مگر فائزہ سے پوچھنا ھوگا. اگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوا تو مجھے بھی نہیں ھوگا۔" 

وجدان نے کہا. "تم نے مجھے میرے بیٹے كے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا ہے. بلکہ میری زندگی میں وہ کون سا مقام ہے، جہاں تم نے میرا ساتھ نہیں دیا. یاد نہیں آتا آفاق! میں نے وہ کون سی نیکی کی تھی جو اللہ نے مجھے تم جیسا دوست دیا ہے."

"میں نے کبھی تم پر کوئی احسان نہیں کیا. بس دوستی نبھائی ہے اور اب اک لفظ اور مت کہنا." آفاق نے انہیں ڈپٹ کر کہا تو وہ ہلکا سا مسکرا دئیے. 

فائزہ کو جب اِس پروپوزل كے بارے میں پتہ چلا اور ساتھ ہی سمیرہ نے یہ بھی بتایا كہ شایان نے خود اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی ہے تو وہ چُپ سی ہوگئی. ان کے پوچھنے پر اتنا ہی کہا. 

"میں سوچ کر بتاونگی." 

شایان كے لیے فائزہ کی خاموشی حیران کن تھی. جب سے وجدان نے اسے فون پر بتایا تھا كہ وہ آفاق اور سمیرہ سے رشتے کی بات کرچکے ہیں، اسے فائزہ کی طرف سے کسی دھماکے کا انتظار تھا. مگر وہاں بدستور خاموشی تھی. حالت کا جائزہ لینے كے لیے اس نے سمیرہ سے بھی فون پر بات کی تھی. پر انہوں نے پروپوزل كے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی اور برائے راست فائزہ سے بات کرنے کی اس سے ہمت ہی نہیں ہوئی. اسے پتہ تھا، وہ اس پر چڑھائی کر دے گی. 

ڈی آئی جی آفس میں اسے میٹنگ كے لیے کال کیا گیا تھا. ڈیڑھ گھنٹے کی میٹنگ كے بعد وہ اپنے آفس میں آیا اور سیٹ پر بیٹھ کر اپنا موبائل آن کیا، جو اس نے میٹنگ كے دوران بند کر رکھا تھا. 

فائزہ کی طرف سے 14 مس کال الرٹ تھے. وہ اپنی سیٹ پر ریلکس ہو کر بیٹھا تھا، چونک کر سیدھا ہوتے دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکاتے ہوئے وہ سوچنے لگا كہ آخر فائزہ نے اتنی بار اسے کال کرنے کی کوشش کیوں کی ھوگی. 

پِھر کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو موبائل پر اسکا نمبر ڈائل کرنے لگا. پہلی ہی بیل پر اسکی کال ریسیو کرلی گئی تھی. شایان كے ہیلو بولنے سے پہلے ہی فائزہ کی تیز مگر روندھی ہوئی آواز فون پر سنائی دی. 

"شایان! تم فوراً کراچی آجاؤ." 

"کیوں، کیا ہوا؟" وہ پریشان ہو کر بولا. 

"تم بس گھر آجاؤ شایان!.... جتنی جلدی ہوسكے آجاؤ." اسکے مستقل رونے پر شایان کو اچانک ہی وجدان کا خیال آیا. اسی خیال سے خوف زدہ ہو کر وہ تیزی سے بولا. 

"فائزہ! ابو ٹھیک ہیں؟" 

"ہاں." اب كے وہ خود پر قابو پا کر بولی. "انکل خیریت سے ہیں. مگر تانیا..." اتنا بول کر وہ رونے لگی. 

"تانیا کو کیا ہوا؟" 

"شایان! تانیا نے خود کشی کرلی." 

"کیا کہہ رہی ہو؟" اسکی آواز پھٹ پڑی. 

"اسکی حالت بہت خراب ہے شایان! اس نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ لی ہیں. ڈاکٹر کہہ رہے ہیں اسکی حالت بہت سریس ہے. وہ مر جائے گی شایان....! تانیا مر جائے گی. بس تم فوراً آجاؤ." اس نے اتنا ہی کہا تھا كے لائن کٹ گئی. شایان كے ہوش گم ہوچکے تھے. 

"اس نے اپنی کلائیاں کاٹ لی." شایان كے کانوں میں فائزہ کی آواز گھونجی اور اسے لگا، کوئی تیز دھار چیز اسکی شہہ رگ پر پِھر گئی ہو. "اسکی حالت بہت خراب ہے." 

شایان کی خود کی حالت ایسی ھورھی تھی جیسے جسم میں جان ہی نا رہی ہو۔ 

"وہ مر جائے گی..... تانیا مر جائے گی." 

"نہیں." شایان كے اندر کوئی بلاسٹ ہوا تھا. وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور اندھی طوفان کی رفتار سے باہر دوڑا. 

پولیس اسٹیشن میں موجود لوگوں نے حیرت سے اے ایس پی شایان مصطفی کو دیوانوں کی طرح بھاگتے ہوئے دیکھا. کچھ نے اسے آواز بھی دی مگر اسکی تیزی میں کوئی فرق نہیں آیا. جیپ میں بیٹھ کر اس نے انجن اسٹارٹ کیا اور ایکسلریٹر کو پوری طرح دباتے ہوئے جھٹکے سے جیپ آگے بڑھا دی۔

"سر جی!.... سر جی!" کی آوازیں لگاتار اس كے پیچھے آرھی تھیں. سامنے سے آتا کانسٹیبل عین وقت پر چھلانگ لگا کر سائیڈ میں ہو گیا، ورنہ شایان کی جیپ اسے روندھتے ہوئے گزر جاتی. 

شایان سے بات کرتے کرتے فائزہ نے بیچ میں خود ہی لائن دس کنیکٹ کردی اور اب وہ حساب لگا رہی تھی. ’سکھر سے کراچی تک کی ڈرائیو ڈھائی سے تِین گھنٹے کی ہے. مگر شایان زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے میں کراچی پہنچ جائے گا. آدھا گھنٹہ مزید لگے گا گھر آنے میں. یعنی میرے پاس دو گھنٹے ایکسٹرا ہیں، اس كے بعد میرا کام شروع ہوجائے گا." 

پِھر وہ آرام سے بیڈ پر لیٹ کر میگزین پڑھنے لگی جو وہ شایان کا فون آنے سے پہلے پڑھ رہی تھی. جب دو گھنٹے گزر چکے تو وہ بیڈ سے اٹھی اور نیچے کچن میں آگئی جہاں سمیرہ رات كے کھانے كے لیے ملازمہ کو ہدایت دے رہی تھیں. 

"ممی!" اس نے بیچ میں انہیں مخاطب کیا. اندازِ ایسا تھا جیسے شخت فکر مند ہو. 

"کیا ہوا؟" سمیرہ اسکی آواز پر مڑی، پِھر اسکی شکل دیکھ کر پریشان ہوگئیں. 

"ممی! ابھی وجدان انکل کا فون آیا ہے، انکی طبیعت بہت خراب ھورھی ہے. کہہ رہے تھے کہ سینے میں دَرْد ہے. آپ پلیز جلدی جا کر معلوم کریں. کہیں انکی طبیعت زیادہ خراب تو نہیں." 

"اچانک کیا ہو گیا اسے؟ ابھی کل تو آفاق اسے اپنے ساتھ چیک اپ كے لیے لے کر گئے تھے. ڈاکٹر نے کہا تھا، سب ٹھیک ہے." وہ واقعی فکرمند ہوگئی تھیں. 

"ہارٹ پیشنٹ کا کیا پتہ، کبھی بھی طبیعت خراب ھوسکتی ہے. ممی! پلیز آپ جائیں نا انکل كے پاس. مجھے بہت فکر ھورھی ہے." 

"ہاں جاتی ہوں. جواد سے کہو گاڑی نکالے." وہ تیز تیز بولتی کچن سے باہر آ کر کمرے میں چلی گئیں. فائزہ فوراً اپنے بھائی كے پاس آ کر بولی. 

"اٹھ جائیں جواد بھائی! ممی کہہ رہی ہیں، گاڑی نکالیں. انہیں وجدان انکل كے گھر جانا ہے. انکی طبیعت خراب ہے." 

جواد جلدی سے اٹھ بیٹھا. "تمہیں کس نے بتایا؟" 

"انکل کا فون آیا تھا. مگر آپ دیر مت کریں. جلدی سے گاڑی نیکالیں." 

جواد فوراً اٹھ گیا اور چابی اٹھا کر باہر بھاگا. فائزہ، سمیرہ كے کمرے میں آئی. وہ چادر اوڑھ کر تیار کھڑی تھیں. 

"جواد اٹھ گیا؟" فائزہ کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا. 

"بھائی گاڑی میں آپکا انتظار کررھے ہیں." اتنا سن کر ہی وہ باہر نِکلیں. پیچھے آتی فائزہ معصومیت سے بولی. 

"ممی! میں بھی چلوں؟" 

"نہیں." اسکی توقع كے مطابق انہوں نے منع کر دیا. "امی اکیلی ہوجائے گیں اور تمھاری چچی بھی میکے گئی ہوئی ہیں، ورنہ وہ سنبھال لیتیں. انہیں كھانا کھلا کر ٹائم سے دوا دے دینا اور تم نے اپنے پاپا کو فون کیا؟" چلتے چلتے انہوں نے پوچھا تو فائزہ گڑبڑائی. 

"پاپا کو فون کرنے کی کیا ضرورت ہے؟" 

"ضرورت سے کیا مطلب؟" وہ خفا ہوئیں اور کوریڈور میں رکھا ٹیلی فون سیٹ اٹھا کر آفاق کو فون ملا دیا. 

"آفاق! آپ جلدی وجدان کی طرف آ جائیں، اسکی طبیعت سہی نہیں ہے. نہیں... اسکا فون آیا تھا، فائزہ سے بات ہوئی... ہاں، میں بھی جا رہی ہوں... اچھا ٹھیک ہے." 

فائزہ اپنا سَر پکڑ کر کھڑی تھی. سمیرہ نے آفاق سے بات کر كے فون رکھا تو اس نے فوراً انہیں پکڑ کر باہر دھکیلا كہ کہیں وہ کسی اور کو بھی فون نا کردیں. انہیں بھیج کر فائزہ نے تانیا کا نمبر ملایا اور اسکے فون اٹھانے کا انتظار کرنے لگی. 

"فائزہ! کیسی ہو؟" تانیا نے کال ریسیو کرتے ہی کہا. 

"میں بالکل ٹھیک ہوں. اچھا سنو! تم فوراً گھر آ جاؤ." 

"کیوں، خیریت؟" 

"اک سرپرائز ہے." 

"میں اِس وقت پورچ میں ہی کھڑی ہوں. بس فریش ہو کر آ جاتی ہوں." 

"فریش یہاں آ کر ہو جانا. دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے. بس فوراً چلی آؤ." 

"اچھا بابا! آ رہی ہوں." تانیا نے کہا.

وہ پورچ میں گاڑی روک کر دروازہ کھولے اس سے بات کررہی تھی. فون بند کر كے وہ واپس گاڑی میں بیٹھی اور ریورس کر كے گیٹ سے باہر لے گئی. مریم لان میں ہی تھیں. اسے پورچ میں کھڑے فون پر بات کرتا دیکھ کر وہ اس طرف آئیں مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ گاڑی میں بیٹھ کر گیٹ سے باہر جا چکی تھی.

جس وقت وہ فائزہ كے گھر پہنچی، رات كے 9 بج رہے تھے. فائزہ گاڑی کی آواز پر باہر آ گئی. پھر تانیا کو ساتھ لیے وہ اندر سیٹنگ روم میں آ بیٹھی. 

"ہاں کہو، کیا سرپرائز ہے؟" تانیا نے کہا. 

"شایان نے مجھے پروپوز کیا ہے." فائزہ نے بازو لپیٹ کر اسے دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا. تانیا کچھ دیر تک بول نہیں پائی. 

"مبارک ہو." جب کہا تو اسکی آواز بے حد دھیمی تھی. 

"اوہ شٹ اَپ." فائزہ اک دم ہی پھٹ پڑی. "یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے تم دونوں نے؟ وہ تم سے محبت کرتا ہے اور تم اس سے محبت کرتی ہو، مگر شادی کسی اور سے کروگے؟" 

"شایان نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی." وہ ار زدہ سی ہوگئی. 

"رئیلی؟" وہ استہزائیہ اندازِ میں بوولی. تانیا کو برا لگا. 

"ہاں. شایان نے کبھی نہیں کہا كہ اسے مجھ سے محبت ہے."

"تم سے نہیں کہا ھوگا، مگر میرے سامنے اس نے سینکڑوں بار اعتراف کیا ہے كہ وہ تمہیں چاہتا ہے." وہ تپ کر بولی. تانیا بس اسے دیکھ کر رہ گئی. اب وہ ٹہل ٹہل کر اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے زور زور سے بول رہی تھی. 

"اچھی بھلی لو اسٹوری ہے. مگر نہیں، ٹریجڈی کا ہونا بہت ضروری ہے. نا بنے کوئی اور ظالم سماج، یہ کام خود بھی تو کیا جا سکتا ہے. نا جانے کہاں کہاں سے لنگڑی لولی قسم کی مجبوریاں برآمد کر كے سوگ منایا جا رہا ہے." 

"تم اتنا الجھ کیوں رہی ہو؟ اگر تمہیں کچھ شک ہے تو انکار کردو." 

"وہ تو میں کر ہی دونگی. تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے. مگر تم اقرار کیوں نہیں کرتیں؟" 

"جب شایان نے ہی کبھی کچھ نہیں کہا تو میں کیوں کہتی؟" اسے بھی غصہ آ گیا. 

"فنٹاسٹک." وہ اور بھی بھڑک گئی. "محبت کرنے سے پہلے کیا اسکی اِجازَت لی تھی جو اب تمہیں اسکی طرف سے گارنٹی چاھیے؟ کمال ہو گیا. ایکیسوی صدی کی بولڈ لیڈی، محبت كے معاملے میں اٹھارہوِیں صدی کی دو شیزہ ثابت ھورھی ہیں." 

جیپ رکنے کی آواز سن کر وہ چُپ ہوئی، پِھر بولی. 

"آگئے مجنوں صاحب لیلی لیلی پکارتے. آج تو آمنا سامنا ہو کر ہی رہے گا. جتنی بار دِل چاھے I LOVE YOU کہلوا لینا."

"شایان آیا ہے؟" تانیا سٹپٹا گئی. فائزہ كے جواب سے پہلے ہی فل یونیفارم میں ملبوس وحشت زیادہ چہرہ لیے شایان کھلے دروازے سے اندر چلا آیا. فائزہ سیٹنگ روم كے طور پر استعمال ہونے والے ہال كے بیچوں بیچ کھڑی تھی. جبکہ تانیا اک سائیڈ میں ہو کر کاوچ پر بیٹھی تھی، اسی لیے شایان کی نظر اس پر نا پڑ سکی. وہ سیدھا فائزہ كے پاس چلا آیا. 

"تانیا کیسی ہے؟.... کون سے اسپتال میں لے کر گئے ہیں؟" فائزہ چڑی ہوئی تو پہلے ہی تھی، بھڑک کر بولی. 

"مر گئی تانیا." پِھر شایان كے فق ہوتے چہرے کو دیکھ کر اسے احساس ہوا كہ اس نے اک انتہائی بات کہہ دی تھی تو فوراً ہی کہا. "آرے کچھ نہیں ہوا تانیا کو. وہ دیکھو، ٹھیک ٹھاک بیٹھی ہے." 

شایان نے گردن گھوما کر اس طرف دیکھا جس طرف فائزہ نے اشارہ کیا تھا اور پِھر تیزی سے تانیا کی طرف آیا. اسکے سامنے کارپیٹ پر بیٹھ گیا اور بے تابی سے اسکی کلائیاں اپنے ہاتھوں میں تھام کر ٹٹولتے ہوئے اس نے کہا۔ 

"تم ٹھیک تو ہو؟" پِھر اسکی کلائیاں چھوڑ کر اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھر کر بولا. 

"یہ کیا حرکت تھی؟ کوئی ایسے بھی کرتا ہے؟" تانیا نے کب شایان کے ایسے انداز دیکھے تھے، وہ تو اتنی بری طرح سے بوکھلا گئی كہ کچھ بولنے کا خیال تک نہیں آیا. یوں بھی وہ سارے ڈرامے سے لاعلم ہی تھی. بس یک ٹک شایان کو دیکھتی رہی. فائزہ نے کہا. 

"تانیا نے کوئی خود کشی نہیں کی. میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا." 

ذرا سا سَر موڑ کر شایان نے فائزہ کو دیکھا. "جھوٹ بولا تھا؟.... لیکن کیوں؟" اس كے اعصاب اِس قدر ٹوٹے ہوئے تھے كہ اسے غصہ بھی نہیں آیا. 

"تمہیں یہاں بلانے كے لیے." 

"صرف اِس لیے تم نے مجھ سے اتنا بڑا جھوٹ بولا." اب اسکے لہجے میں ہلکی ہلکی آنْچ آنے لگی تھی. 

"تمہیں اندازہ بھی ہے، تمہارے جھوٹ نے میری کیا حالت کی ھوگی؟ تانیا کو کچھ ہو گیا تو.... اس سے آگے کا سوچ کر دِل چاہ رہا تھا كہ جیپ سامنے سے آتے کسی ٹرک سے ٹکرا دوں. ہر سیکنڈ كے ساتھ لگ رہا تھا، روح جسم کا ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے. تانیا نے خود کشی کرلی ہے. اتنی بڑی بات تم نے ایسے ہی بول دی. مذاق ہے یہ تمہارے لیے؟" آخر میں اسکی آواز دھاڑ کی مانند گھونج گئی. تانیا بھی اک پل کو سہم سی گئی تھی، مگر فائزہ پر کوئی اثر نہیں ہوا. وہ تیزی سے بولی. 

"چلو میرے لیے مذاق ہی سہی، مگر تمہیں کیا؟ تانیا میری دوست ہے. تمھاری کیا لگتی ہے؟ کیوں جان نکل رہی تھی تمھاری؟ کیوں دیوانوں کی طرح دوڑے چلے آئے؟ تانیا جئے یا مرے، تمہیں کیا فرق پڑتا ہے؟" 

"فرق پڑتا ہے." وہ تیش میں آ کر بولا. 

"اچھا؟" فائزہ اسکا مذاق اڑانے والے اندازِ میں ہنسی. "اب یہ بھی بتا دو كہ فرق کیوں پڑتا ہے؟" تنے ہوئے اعصاب كے ساتھ فائزہ كے مقابل کھڑا وہ اسے گھورنے لگا تو فائزہ کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی. 

"میں جانتی ہوں، تم کبھی نہیں بتاوگے." شایان نظریں چراتا اسکے سامنے سے ہٹ گیا. 

"میں اکثر سوچتی ہوں پر سمجھ نہیں پاتی كہ کیا بُز دِل لوگ ہی محبت کرتے ہیں یا محبت کرنے والا ہر شخص بُز دِل بن جاتا ہے؟" اب وہ جان بوجھ کر اسے اکسا رہی تھی. وار کارگر تھا۔ شایان بولا تو اسکے لہجے میں آگ کی تپش تھی. 

"میں بُز دِل نہیں ہوں."

"اچھا، تو ہمت والے ہو." وہ بد ستور اسکا مذاق اڑا رہی تھی. بچے کی طرح شایان کو پچکارتے ہوئے بولی. 

"تو پِھر بول کر دکھاؤ كہ تمہیں تانیا سے محبت ہے. چلو شاباش! بولو. اب بولو بھی." وہ دونوں اِس پر جھگڑ رہے تھے اور تانیا بس منہ اٹھائے تماشائیوں کی طرح ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی. فائزہ كے الفاظ پر اسکی نگاہیں شایان کی طرف اٹھ گئیں. شایان ایڑی پر گھومتا فائزہ كے سامنے آ گیا، پِھر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھڑکتے ہوئے لہجے میں بولا. 

"میں تانیا سے محبت کرتا ہوں. اتنی محبت كے اسکی خاطر سو بار جان سے گزر جاؤنگا." آنکھیں میچ کر سانس باہر چھوڑتی تانیا نے آج جانا تھا، کبھی کبھی لفظ بھی زندگی بن جاتے ہیں. مگر اگلے لمحے لفظوں نے ہی اسکی روح کھینچ لی. "مگر میں تانیا سے شادی نہیں كرسكتا۔" 

"کیوں؟.... کیوں كہ یہ نورالہدی فاروقی کی بیٹی ہے؟" تانیا نے اپنے پاپا كے حوالے پر حیران ہو کر فائزہ کو دیکھا. 

"نہیں." شایان نے تردید کرتے ہوئے کہا. "کیوں كہ یہ اظہر فاروقی کی پوتی ہے." 

فائزہ نے تاسف سے اسے دیکھا. "اگر یہ بات اتنی ہی اہم تھی تو محبت کرنے سے پہلے اسکا شجرہ نسب معلوم کر لیا ہوتا." پِھر وہ تانیا کی طرف مڑی. "سنا تم نے. یہ وجہ تھی تم سے گریز کرنے کی. بلکہ تم کہاں جانتی ھوگی، میں بتاتی ہوں. تم ملیحہ فاروقی کو جانتی ہو. اظہر فاروقی کی اکلوتی بیٹی تھیں وہ اور تمارے پاپا کی کزن. لیکن انکا اک اور تعارف بھی ہے. وہ شایان کی ماں تھیں. پتہ نہیں، تم جانتی بھی ہو یا نہیں، مگر انکی اور وجدان انکل کی لو میرج تھی اور اظہر فاروقی اس شادی كے خلاف تھے. جب وہ کسی طرح نہیں مانے تو آنْٹی نے گھر چھوڑ دیا اور بس کہانی ختم." 

"نہیں فائزہ! کہانی تو اِس موڑ پر شروع ہوئی تھی." شایان نے دُکھی لہجے میں کہنا شروع کیا. "میری ماں کی زندگی كے اذیت بھرے لمحوں کی کہانی. وہ اپنے بابا جان سے محبت کرتی تھیں اور انہیں لگتا تھا، وہ بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں. اور اک دن وہ اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر اِس رشتے کو قبول کر لیں گے. مگر ایسا نہیں ہوا. انکی آنا نے امی کو توڑ کر رکھ دیا. مگر نانا جان نہیں جھکے اور امی یہ سہہ نہیں پائیں. جانتی ہو تانیا! صرف بیس برس کی عمر میں میری ماں مر گئی... صرف بیس برس کی عمر میں." 

تانیا كے لیے یہ خبر نئی نہیں تھی لیکن شایان كے لہجے کا کرب محسوس کیے بنا نا رہ سکی اور سَر جھکا لیا. 

"کون ذمےدار ہے؟ میں نے اپنی ماں کو کھو دیا، کس کا قصور ہے؟ اور ابو...." اس نے اپنے ہونٹ کاٹے. 

"مجھے وہ کبھی زندہ نہیں لگے. پانے اور کھونے میں اہم وہ نہیں ہوتا جو پایا ہو. جو کھو دیا ہو، اسکا دَرْد زیادہ محسوس ہوتا ہے. میں تمہیں دَرْد نہیں دے سکتا تانیا! امی نے اک رشتے کو پا کر اک رشتہ کھو دیا تھا. پر اِس رشتے کو کھو دینے کا ملال زندگی بھر نہیں گیا اور تم اک شایان مصطفی کو پانے كے لیے کتنے رشتوں کو کھو دوگی اور کھو کر کیا جی پاؤگی؟" تانیا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور شایان کو اپنا جواب مل گیا. فائزہ کو تانیا كے آنسو دیکھ کر دکھ ہوا تھا. 

"تم غلطی پر ہو شایان! تانیا کو کچھ کھونا نہیں پڑے گا سبھی کہتے ہیں، نورالہدی فاروقی بہت مہربان شخص ہیں. گھنی چاوں کی طرح ان کے دِل میں ہر کسی کا دَرْد سما جاتا ہے. وہ اتنے کیئرنگ ہیں كہ کسی تھڑڈ پرسن كے لیے بھی آؤٹ آف دا وے جا سکتے ہیں. وہ کبھی اپنی بیٹی كے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دینگے." 

"لیکن اظہر فاروقی انکی کمزوری ہیں. اور انکی سوفٹ نیچر ہی انہیں کبھی نانا جان سے بغاوت کرنے نہیں دے گی اور نانا جان مجھے کبھی قبول نہیں کرنگے." 

"تمہیں ریجکٹ کر كے آخر وہ کسی ریجکٹ کرنگے؟.. اپنی ہی بیٹی کو؟" فائزہ نے دلیل دی۔ 

"وہ اپنی بیٹی کو ریجکٹ کر چکے ہیں." شایان نے اسکی دلیل رد کردی. فائزہ کچھ بول نا پائی. 

تانیا بے حس نگاہوں سے کارپیٹ کو گھورتی ان دونوں کی باتیں سنتی جا رہی تھی. اسے لگ رہا تھا كہ وہ آج صرف سننے كے لیے ہی یہاں آئی تھی. اُس نے کہیں بھی کچھ بولنے کی کوشش نہیں کی. مگر شایان کی اگلی ہی بات نے اسے بولنے پر مجبور کردیا۔ شایان نے کہا تھا. 

"نانا جان صرف انا پرست اور سخت مزاج ہی نہیں ہیں، وہ ضدی اور گھمنڈی بھی ہیں. امی نے ابو سے شادی کر كے انکا گھمنڈ توڑا تھا اور نانا جان کبھی اِس بات کو نہیں بھولینگے. مجھے قبول کرنا انکے لیے ہار ماننے جیسا ہے، انہوں نے وجدان مصطفی سے ہار نہیں مانی، مجھ سے کیسے ہار مان لینگے؟ بیٹی کی موت انکی ضد نا توڑ سکی. تانیا انکی ضد كے آگے کیسے ٹھہر پائے گی؟" 

"انکی ضد ٹوٹ چکی ہے شایان! میں نے انہیں آنْٹی کو یاد کر كے روتے ہوئے دیکھا ہے. میں مانتی ہوں، دادا جان اپنی ضد پر اڑ گئے تھے. پر آنْٹی نے بھی تو ضد نہیں چھوڑی. پِھر کون، کس سے شکایت کرے؟ مانا وہ غصے میں تھے اور غصے میں انہوں نے آنْٹی کو اپنی زندگی اور گھر بے دخل بھی کر دیا. تو کیا باپ کو اپنی اولاد سے ناراض ہونے کا بھی حق نہی ؟ اور آخر کتنے عرصے تک ناراض رہتے؟ وہ اک دن تو مان ہی جاتے. چلو مانا، آنْٹی کو زندگی نے مہلت نہیں دی. پر انکل کو تو انہیں منانے آنا چاھیے تھا. آنْٹی آخر انکی اکلوتی بیٹی تھیں اور یہ سن کر وہ اب اِس دُنیا میں نہیں رہیں، دادا جان کا غصہ اپنے آپ ہی ختم ہوجاتا اور وہ انکل کو اور تمہیں اپنے خاندان کا فرد مان لیتے." وہ خود کو بابا جان کی طرف داری کرنے سے روک نہیں پائی تو انکی حمایت میں بول پڑی . شایان چُپ کر كے اسکی بات سنتا رہا. پِھر وہ چُپ ہوئی تو کہا. 

"اپنی غلط فہمی دور کرلو. نانا جان، امی كے جنازے میں شامل تھے." 

"کیا...؟" تانیا سچ مچ حیران ہوگئی. 

"نا ہی کبھی یہ سوچنا كہ وہ اپنی ضد چھوڑ چکے ہیں. ان کے آنسو کس احساس میں بہہ جاتے ہیں، میں نہیں جانتا. لیکن اگر واقعی ایسا ہوتا تو وہ ابو کو نا سہی کم اَز کم مجھے قبول کر لیتے. مگر 27 سال میں وہ اک بار بھی مجھ سے نہیں ملے. ایسے میں تم کیا کہو گی؟" 

"آئی ایم شوکڈ." وہ ہلکے سے بڑبڑائی. شایان اک بار پھر اسکے پاس آ بیٹھا. کارپیٹ پر بیٹھ کر اُس نے تانیا كے دونوں ہاتھ تھام لیے. 

"تانیا! میں نے تمہیں خود سے بڑھ کر چاہا ہے. پھر بھی مجھے میں حوصلہ ہے كہ تمہیں کھو دوں. لیکن تم کھو جاوگی تو میں سہہ نہیں پاؤنگا." 

"شایان...!" تانیا نے اسکا نام لے کر کچھ کہنا چاہا پر گلا روندھ گیا تو وہ چُپ ہو کر ہونٹ کاٹنے لگی. اسے تکلیف میں دیکھ کر شایان نے دھیرے سے سرگوشی کی. 

"آئی ایم سوری." 

تانیا کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں میں بہنے لگے تھے. شایان نے اسکا چہرہ دونوں ھاتھوں میں بھر کر اسکے آنسو پونچھے تو وہ شایان كے ہاتھ تھام کر اور بھی شدت سے رَو پڑی اور روتے روتے اُس نے اپنا سَر شایان كے کاندھے پر رکھ دیا. وہ اسکے شانے سے لگی تڑپ تڑپ کر رُو رہی تھی اور شایان لب بھینچے ساکت تھا. 

"وہ شخص جسے آپ کبھی تکلیف نا دینا چاہیں، پِھر آپکے ہاتھوں تکلیف اٹھا کر آپکے ہی شانے پر سَر رکھ کر روئے تو آپ کیا کرینگے؟" فائزہ بھی افسردہ ہی کھڑی تھی كہ ہال كے دروازے پر سایوں کو محسوس کر كے اس نے دروازے کی جانب دیکھا. وجدان كے ساتھ آفاق، سمیرہ اور صمد حیران کھڑے شایان سے لگ کر روتی تانیا کو دیکھ رہے تھے. 

"پاپا...!" فائزہ کی آواز پر شایان نے یونہی بیٹھے ہوئے گردن موڑ کر دیکھا. تانیا نے بھی اسکے شانے سے سَر اٹھا کر دیکھا. پِھر وہ اٹھی اور آنسو پونچھتی باہر نکل گئی. شایان بھی تانیا كے جاتے ہی اَٹھ کر چلا گیا. 

"یہ سب کیا تھا؟" شایان كے چلے جانے كے بعد سمیرہ نے فائزہ سے پوچھا جو پہلے تو ان کو دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی مگر اب اسے انکی آمد غنیمت لگ رہی تھی. خود پر قابو پا کر بولی. 

"آپ لوگ آرام سے بیٹھ جائیں. میں سب بتاتی ہوں." 

~~~~~~~~

تانیا کا یوں گیٹ سے لوٹ جانا مریم کو اجنبھے میں ڈال رہا تھا. وہ اندر آ کر بابا جان كے کمرے میں چلی آئیں. "عجیب سی بات ہے بابا جان! ابھی تانیا آئی تھی. کار سے نکلی بھی، پِھر کچھ سیکنڈ فون پر بات کر كے وہ واپس کار میں بیٹھ کر چلی گئی." 

"کوئی ضروری کام نکل آیا ھوگا." بابا جان نے کتاب بند کر كے چشمے میں سے انہیں دیکھا. 

"بتا کر جانے میں کیا حرج تھا؟ اب میں بیٹھی پریشان ہوتی رہونگی." وہ بولیں تو بابا جان مسکرا دئیے. "تو بیٹا! مت پریشان ہونا." انہوں نے سنا ہی نہیں. 

"ایسا کرتی ہوں، اسے فون کرلیتی ہوں." وہ بول کر اٹھی اور کمرے میں رکھے ٹیلی فون سیٹ سے ہی نمبر ڈائل کرنے لگیں. کچھ دیر ریسیور کان سے لگا کر انہوں نے واپس رکھتے ہوئے کہا. "فون بند ہے." 

"آجائے گی تھوڑی دیر میں. پریشان کیوں ھورھی ہو؟" وہ رساں سے بولے. "آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں." ناچار وہ خاموش ہوگئیں. مگر جب تانیا کو گئے اک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تو وہ اپنی پریشانی چھپا نہیں پائیں. اِس بیچ وہ تانیا کا موبائل بھی ٹرائی کرتی رہیں. پر کونٹیکٹ نہیں ہو سکا تو انہوں نے نورالہدی کو فون کردیا. 

"بے کار میں پریشان ھورھی ہو. آجائے گی. بچی نہیں ہے. پِھر جہاں بھی گئی ہے، خود اپنی مرضی سے گئی ہے." 

"پر اسکا موبائل کیوں بند ہے؟" 

"اچھا دیکھو، میں گھر آ رہا ہوں. اب تم آرام سے بیٹھ جاؤ. پریشان مت ھونا." پِھر وہ کچھ دیر میں ہی گھر آ گئے. 

ابھی تک کسی نے كھانا بھی نہیں کھایا تھا. نورالہدی چینج کر كے آئے اور كھانا لگوا دیا. كھانا کھا کر انہوں نے بچوں کو سونے كے لیے بیجھا كہ انہیں صبح کالج جانا تھا. بابا جان کو انہوں نے کمرے میں جانے کا کہا، نا وہ خود ہی گئے. اور اب یہ تینوں لاونج میں تانیا کا انتظار کررھے تھے. ساڑھے گیارہ بجنے تک بابا جان بھی ٹھیک ٹھاک پریشان ہوگئے تھے. پریشان تو اب نورالہدی بھی تھے مگر چہرے سے کچھ ظاہر نہیں ہونے دے رہے تھے. لیکن انکا اِضْطِراب بھی اب محسوس ہورھا تھا. وہ بار بار تانیا کا نمبر ٹرائی کررھے تھے. بارا بجے كے قریب اسکی کار پورچ میں آ کر رکی تو مریم اک دم ہی باہر جانے کو کھڑی ہوگئیں. خود نورالہدی کی بھی جان میں جان آئی تھی. مگر وہ متانت سے بولے. 

"نارملی بیہیو کرنا. دیر سویر ہوجاتی ہے. اِس میں کوئی بڑی بات نہیں." مریم نے اثبات میں سَر ہلایا. تانیا لاونج میں آئی تو اسکا دھواں دھواں چہرہ دیکھ کر نورالہدی اور بابا جان بھی پریشان ہوئے. اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے. ان کے چہرے دیکھ کر تانیا کی نظر گھڑی پر گئی اور وہ شرمندہ سی ہوگئی. "آئی ایم سوری. مجھے دیر ہوگئی." 

"وہ تو کوئی بات نہیں. مگر موبائل آن رکھنا چاھیے تھا." بابا جان نرمی سے اسکی غلطی کی نشان دہی کررھے تھے. 

"موبائل اوف تو نہیں ہے." بولتے ہوئے اس نے اپنا موبائل چیک کیا اور بولی. "اوہو... بیٹری لو ہے." 

"تم کچھ ٹھیک نہیں لگ رہیں." مریم اپنی فکر مندی چھپا نہیں پائیں. تانیا نے کوئی جواب نہیں دیا. وہ پاس آ كے اسکا گال تھپک کر بولیں. "جاؤ، جا کر سوجاو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے." 

تانیا روئی تو نہیں، مگر ماں کو پاس دیکھ کر اسکی آنکھوں میں نمی آگئی. وہ آہِسْتَہ سے ان کے گلے لگی. مریم نے گھبرا کر نورالہدی کی طرف دیکھا. وہ بھی الجھے ہوئے لگ رہے تھے. 

"تانیا! کیا ہوا بیٹا؟ پریشان ہو؟... ماما کو بتاؤ بچے!" وہ پیار سے بولیں. پر وہ چُپ ہی رہی تو وہ پریشانی سے کہنے لگیں. "تانیا بیٹا! کچھ بولو. دیکھو، پاپا بھی پریشان ہورہے ہیں اور دادا جان بھی فکر مند ہیں. انکی طبیعت خراب ہوجائے گی." 

تانیا نے اپنے پاپا کی طرف دیکھا اور پِھر دادا کی طرف واقعی سب پریشان ہوگئے تھے .وہ مریم سے الگ ہو کر ان سے بولی. 

"میں ٹھیک ہوں ماما! آپ سب ٹینس نا ہوں." 

"کیسے نا ہوں جب تم ٹینس ہو..."

"ماما!" تانیا انکی بات کاٹ کر بولی. "انصر اچھا لڑکا ہے آپ اسے ہاں کہہ دیں." 

"تم خوش ہو؟" وہ اسکی تھوڑی چھو کر بولیں تو تانیا قصداً ذرا سے مسکرا کر کہنے لگی. 

"آف کورس ماما! اپنی مرضی سے شادی پر راضی ہوئی ہوں. کسی نے زبردستی تو نہیں کی. پِھر خوش کیوں نہیں ہونگی؟... اچھا، میں سونے جا رہی ہوں. اب صبح بات ھوگی. " اپنی بات کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی. 

لاونج میں کھڑے تینوں شخص اپنی اپنی سوچ کی گرفت میں تھے. نورالہدی نے اپنا قدم اٹھایا تو بابا جان انکا اِرادَہ بھانپ کر بولے. 

"اِس وقت تانیا کو اکیلا چھوڑ دو نورالہدی! فلحال وہ کچھ نہیں بتائے گی." نورالہدی انکی طرف دیکھ کر زہر خند لہجے میں بولے. "میں اپنی بیٹی کو اسکے دکھوں كے ساتھ اکیلا نہیں چھوڑ سکتا. جیسے آپ نے اپنی بیٹی کو تنہا چھوڑ دیا تھا." 

ملیحہ كے ذکر پر مریم كے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی. مگر مصلحتاً وہ کچھ بولے بغیر پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی. نورالہدی نے اک نظر جاتی ہوئی مریم کو دیکھا. پِھر خود بھی سیڑھیان چڑھنے لگے. لاونج میں تنہا رہ گئے بابا جان کی آنکھیں نم ہوگئیں. 

"ملیحہ کی موت كے لیے نورالہدی مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا." انکے گال بھیگتے جا رہے تھے. 

نورالہدی نے تانیا كے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر دیکھا. نائٹ بلب کی روشنی میں وہ دوسری طرف کروٹ لیے لیٹی تھی. آہِسْتَہ سے دروازہ بند کرتے بیڈ پر بیٹھ کر وہ کچھ بھی بولے بنا اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگے. تانیا نیچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر بے حس لیٹی رہی. پِھر اس سے رہا نہیں گیا تو اک دم سے پاپا! کہتی پلٹ کر ان سے لپٹ گئی. 

"پاپا کی جان!" اسکے گرد بازو پھیلاتے نورالہدی نے تانیا کو اپنے پر شفقت حصار میں لے لیا. 

"اسکا نام شایان ہے. میں اسے پہلی بار فائزہ كے گھر پر ملی تھی. پِھر وہ کچھ دن بعد یونیورسٹی آیا تھا." ان کے سینے پر سَر رکھے آنسوؤں كے بیچ اٹک اٹک کر بتانے لگی تھی. دھیرے دھیرے اسے تھپکتے نورالہدی ہر سیکنڈ كے ساتھ اک انچ خوف كے دلدل میں دھستے جا رہے تھے.

وجدان اور ملیحہ کا ذکر کیے بغیر تانیا نے اپنے تِین سالوں کا ہر پل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا تھا. اپنی سوچوں سے ابھر کر نورالہدی نے اپنے سینے پر سَر رکھ کر روتی تانیا کو دیکھا. نا جانے وہ کب سو گئی تھی. نورالہدی کو یاد آیا، وہ بچپن میں بھی اکثر کہانی سنتے ہوئے ان کے سینے پر سَر رکھ کر سو جایا کرتی تھی. مگر آج وہ کہانی سنا کر سوئی تھی. اسکے چہرے پر آنسوؤں كے نشان دیکھتے ہوئے انہوں نے کہانی كے آخری جملوں کو یاد کیا. 

"وہ کہتا ہے، مجھ سے شادی نہیں كرسكتا. اسکے پیڑینٹس کا کوئی پروبلم ہے. پر آپ فکر مت کریں پاپا! میں اسے بھول جائوں گی۔" 

"بھول جانا آسَان نہیں ہوتا." اسکے چہرے سے بال سمیٹ کر ماتھا چومتے ہوئے نورالہدی نے سوچا تھا. 

فائزہ كے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا. پِھر اب بولنے کو بچا بھی کیا تھا۔سب کچھ تو کہہ چکی تھی. اک نگاہ سب كے چہروں پر ڈال کر وہ کسی كے کہے بنا ہی وہاں سے چلی گئی. 

"کس نے سوچا تھا، راکھ میں آگ لگ جائے گی." خاموشی کو توڑتے ہوئے سماج نے وجدان سے پوچھا. "اب تم کیا کروگے؟" 

دونوں ھاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے بیٹھے وجدان فیصلے پر پہنچ چکے تھے. "میں ہادی بھائی سے ملنا چاہتا ہوں." 

"تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟" آفاق برس پڑے. "اِس ملاقات کا کیا نتیجہ نکلے گا، جانتے ہو؟ شایان کی بات بالکل ٹھیک ہے. گڑے مردے نا ہی اکھاڑے جائے تو بہتر ہے. اِس معاملے کو یہیں ختم کردو. اگر معاملے کو ہوا دوگے تو بڑے طوفان کھڑے ہونے کا خطرہ ہے." 

"اگر طوفان میری زندگی سے نہیں ٹلتے تو کوئی کیا كرسكتا ہے؟" 

"کم از کم خود سے طوفانوں کو دعوت مت دو. پِھر تمہیں نورالہدی سے بات کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جب شایان اور تانیا خود ہی اپنی محبت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں." سمیرہ نے الجھ کر کہا. 

"ایسے فاصلے اَذِیّت كے سوا کچھ نہیں دیتے اور میں شایان کو تکلیف سے گزرتا نہیں دیکھ سکتا. آخری سانس بھی اَذِیّت سے لینے کی گارنٹی دے کر قسمت نے شایان کو مجھے سونپا تھا. وہ میرے جینے کی آخری وجہ ہے." 

آفاق نے ترحم سے انہیں دیکھا. "اور جس دن تم نے قصر فاروقی میں قدم رکھا، پھوپھا جان تم سے تمھارے جینے کی آخری وجہ بھی چین لینگے." 

"تو کیا کروں؟ اپنے بیٹے کی زندگی گروی رکھ کر اپنی سانسیں اُدھار مانگ لوں؟ مجھے یہ سودا منظور نہیں." وہ دو ٹوک اندازِ میں بولے پھر کہا. "ملیحہ کہا کرتی تھی، محبت بوجھ نہیں ہوتی، پِھر بھی جھکا دیتی ہے. میں جانتا چاہتا ہوں، اسکی بات میں کتنا سچ ہے." 

~~~~~~~~~

شایان اپنے گھر كے پورچ میں پولیس جیپ روک کر اترا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں آگیا۔ شرٹ كے نیچے جسم کا وہ حصہ جہاں اس نے تانیا كے آنسوؤں کی نمی محسوس کی تھی، اب بھٹی کی طرح سلگ رہا تھا، شرٹ پینٹ سے باہر کھینچ کر اس نے گریباں كے بٹن کھول دیئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے شانے کو مسلنے لگا. مگر سانس کی آمد و رفت بد ستور مشکل ہی رہی. اندرونی کشماکش جنون کا روپ دھار چکی تھی. اس نے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر اک دھاڑ كے ساتھ سامنے دیوار پر دے مارا.

اب وہ پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے دیوار پر مکے برسا رہا تھا. اسکے دونوں ہاتھ زخمی ہوچکے تھے اور ان سے خون بہنے لگا تھا. پِھر بھی وہ رکا نہیں.

اسکے توانا بازوئوں کی طاقت سے دیوار کا پینٹ تک اکھڑ گیا تھا.مگر دیوانگی تھی كہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھی. اب اس نے کمرے میں رکھی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کیا. اسکا دِل چاہ رہا تھا، پوری دنیا تہس نہس کردے. کرسیوں کو اس نے اپنی ٹھوکر سے اُلٹ کر رکھ دیا. بیڈ پر سے تکیے اور چادر ہوا میں اچھال دیئے. سائیڈ ٹیبل سے لیمپ اٹھا کر دیوار پر مارنے کا اِرادَہ تھا كہ اسکے تار میں الجھ کر ساتھ رکھا فریم، ٹیبل پر اُلٹ گیا.

"امی......!" لیمپ چھوڑ کر اس نے ملیحہ کی تصویر والا فریم دونوں ہاتھوں میں کسی قیمتی مگر نازک شے کی طرح احتیاط سے پکڑ لیا اور اپنی آستینوں سے فریم كے شیشے کو صاف کر كے چومنے كے بعد سینے سے لگاتا کمرے كے وسط میں آ کر فرش پر بیٹھ گیا. دیوانگی، آنسوؤں میں ڈھل گئی تھی. تصویر پر ہاتھ پھیرتا ہوا وہ سرگوشیوں میں کہہ رہا تھا.

"کتنے آرام سے آپ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں. اپنے وجود كے حصے سے کوئی ایسے بے نیاز ہوتا ہے؟ زندگی كے ہر پل میں، میں نے آپکی کمی محسوس کی ہے. کہتے ہیں، اولاد تکلیف میں ہو تو ماں قبر میں بھی بے چین ہوجاتی ہے. آج میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی تکلیف سے گزر رہا ہوں. کیا آپ چین سے ہیں؟ کیسی ماں ہیں؟ کبھی مجھے گود میں نہیں لیا، کبھی مجھے لوری نہیں سنائی. میں ٹھوکر کھا کر گرتا تو کبھی آپکے ہاتھ مجھے تھامنے کو نہیں بڑھے. ترس گیا ہوں آپکے احساس کو. پر کیا آج بھی مجھے آپکی آغوش نہیں ملے گی؟... امی! میں آپکا بیٹا ہوں. آپ کیسے میری تکلیف پر چُپ رہ سکتی ہیں؟ آج تو آ جائیں. کیا مجھے اتنا بھی حق نہیں كہ اپنی ماں كے گلے لگ سکوں؟" ملیحہ کی تصویر کو سینے سے لگائے وہ پھوٹ پھوٹ کر رَو پڑا. 

"I am missing you ami....

 اب تک اپنی زندگی آپکے بغیر ہی جیتا آیا ہوں، پر آج آپکے بغیر نہیں رہ پاؤنگا. اک بار تو آ کر مجھے سینے سے لگا لیں. امی پلیز، مائیں قیامت كے دن اپنی اولاد کو دودھ کی بہتی دھاریں بخشیں گی، میں کیا روز محشر بھی خالی دامن لے کر آپکے پاس آؤنگا؟ کچھ تو میرے پاس بھی ہو امی!.... امی! پلیز امی! اللہ كے لیے." وہ 27 سال کا بھر پور جوان، ماں کو پکارتا چھوٹے بچے کی طرح مچل مچل کر اونچی آواز میں رُو رہا تھا. 

تبھی اسکے دِل میں دبی شدید خواہش نے واہمے کا روپ دھار لیا. کھلی کھڑکی سے آتی ہوا نے اسکی پیشانی پر بکھرے بالوں کو سمیٹا تھا، مگر شایان کو اس ہوا پر نرم انگلیوں کا لمس کا گمان ہوا تھا. پِھر اسے محسوس ہوا تھا كہ انہی انگلیوں نے اسکے چہرے پر سے نمی کو سمیٹا. اس نے سختی سے بھینچی اپنی آنکھوں کو دھیرے سے کھول دیا. آنکھوں کی دھندلاہت نے اک پیکر کو تراشا تھا. 

"امی!" اسکی آواز میں اتنا سکوں تھا جیسے بھیڑ میں بچھڑے بچے کو اچانک ہی ماں نظر آجائے. ملیحہ نے جھک کر اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھ دیئے. 27 سال میں پہلی بار اس نے ممتا کا لمس محسوس کیا تھا. اسے لگا اسکے جلتے تپتے وجود میں کسی نے پانی كے چھینٹے ڈال دیئے ہوں. اس نے بے خود ہو کر ملیحہ کے آغوش میں سَر رکھ دیا. اسکے جنون کو قرار آنے لگا اور اک سکون سا اسکے رگ و پے میں سرائیت کر گیا اور وہ دھیرے دھیرے آنکھیں موند گیا۔

گھر پہنچتے ہی وجدان سیدھا شایان كے کمرے میں آئے تھے. کمرے میں پھیلی اَبْتَری پر نظر ڈال کر شایان كے پاس آ بیٹھے جو کارپیٹ پر بے ترتیبی سے لیٹا بے سدھ سو رہا تھا اور ملیحہ کی تصویر اسکی دائیں گال كے نیچے دبی تھی. اسکے دونوں ھاتھوں کی پشت پر جمے خون کو دیکھ کر وجدان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں. 

"ماں پر گیا ہے۔" اسکی دیوانگی بھری جذباتیت پر وجدان ہمیشہ یہی جملہ دہراتے تھے. وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آئے اور الماری سے فرسٹ ایڈ بکس نکال کر کچن میں آ گئے. اسٹیل كے برتن میں تھوڑا سا پانی گرم کیا، پھر اسے ہولڈر سے پکڑ کر واپس شایان كے پاس آگئے اور نیم گرم پانی میں ڈیٹول ملا کر روئی بھگو بھگو کر اسکے ہاتھوں پر سے زخم صاف کرنے كے بعد فرسٹ ایڈ بکس سے مرہم نکال کر لگایا، پھر دونوں ھاتھوں پر باری باری پٹی لپیٹ دی. اس کام سے فارغ ہو کر وہ اٹھے اور تکیہ تلاش کر كے شایان كے سرہانے دوزانو ہو کر بیٹھے اور آہستہ سے اسکا سَر اپنی گود میں لے کر ملیحہ کی تصویر اسکے گال كے نیچے سے نکالی اور تکیہ رکھ کر اسکا سَر تکیے پر ڈال دیا. پھر وہیں بیٹھے شایان كے بالوں میں انگلیاں چلانے لگے. آج وجدان کو بھی ملیحہ بہت شدت سے یاد آرھی تھی. 

~~~~~~~~~

اگلے دن تانیا دن چڑھے سوتی رہی. کیوں کہ چھٹی کا دن تھا. اِس لیے کسی نے جگایا بھی نہیں. بارہ بجے وہ اٹھی تو ناشتے میں صرف چائے کا کپ ہی لیا اور بعد میں سب کے ساتھ دوپہر کا كھانا کھایا. کسی بھی طرح كے سوال جواب سے بچنے كے لیے وہ سارا وقت عمیر اور عزیر كے ساتھ رہی اور کھانے كے بعد خود ہی کرکٹ کھیلنے کا پروگرام بنا لیا. عزیر بیٹنگ كررہا تھا. نورالہدی باؤلنگ کرا رہے تھے. تانیا اور عمیر فیلڈرز تھے اور بابا جان ایمپائر. مریم اسٹینڈ میں بیٹھے شائیقین کی طرح نعرے لگا رہی تھیں. 

"شاباش!.... چھکا لگاؤ اِس بال پر. جب تک نورالہدی خود بے ہوش ہو کر نا گر پڑے، وکٹ نہیں چھوڑنا." باؤلنگ كے لیے بھاگتے نورالہدی رکے اور انکی طرف دیکھ کر کہا. 

"او بِیوِی! اللہ کا خوف کرو شوہر کا بہت حق ہوتا ہے." 

وہ ترکی با ترکی بولیں. "میں صرف بِیوِی ہی نہیں، ماں بھی ہوں اور ماں كے لیے اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا، یہاں تک كہ بچوں کا باپ بھی نہیں. کم آن عزیر! آج ذرا اپنے باپ كے چھکے تو چراؤ." 

"اداس مت ہوں پاپا!" نورالہدی کی اتری شکل دیکھ کر تانیا ان سے بولی. "بِیوِی نا سہی پر بیٹی آپکے ساتھ ہے." 

"تھینک یو سویٹ ہارٹ!" وہ مظلومیت سے بولے. 

"مینشن ناٹ.... بس آپ جلدی سے عزیر کو آؤٹ کردیں. پِھر میں بیٹنگ کرونگی." عمیر گھور کر بولا. "دیکھا پاپا! یہ لالچی خاتون آخر آپکا ساتھ کیوں دے رہی ہے." 

"ادھر آؤ تمہیں میں بتاتی ہوں." وہ ناک پر عینک سہی کر كے عمیر پر جھپٹی. 

"جس کو مار کٹائی کرنی ہے، شوق سے كرلے. پر یاد رکھنا! کسی کو ایکسٹرا ٹائم نہیں ملے گا." 

"اوکے اوکے." بابا جان کی وارننگ پر سب اپنی پوزیشن پر واپس چلے گئے. نورالہدی فاسٹ باؤلر تھے. لمبے رن اپ كے ساتھ انہوں نے بال پھینکی جسے عزیر نے لان سے باہر بھیج دیا.

"اینڈ دیٹس آ سکس." ایمپائر نے کومینٹری کی اور مریم تالیاں بجانے لگیں. بال كے پیچھے بھاگتی تانیا نے سفید شلوار قمیض میں وجدان کو واچ مین كے ساتھ گیٹ پر دیکھا تو ٹھٹک کر رک گئی. پِھر فوراً اس نے پلٹ کر نورالہدی اور بابا جان کی طرف دیکھا، وہ لوگ بھی وجدان کو دیکھ چکے تھے. نورالہدی نے واچ مین کو آواز لگا کر کہا. 

"آنے دو." وجدان اِجازَت ملتے ہی اس طرف آگئے. تانیا کو انہوں نے قصداً نظر اندازِ کر دیا تھا. نورالہدی بھی کچھ قدم آگے بڑھ آئے. 

"اسلام علیکم!" وجدان نے اَپْنایَت بھری مسکراہٹ كے ساتھ اپنا ہاتھ مصافحہ كے لیے بڑھایا، جسے تھامتے ہوئے نورالہدی كے چہرے پر ویسی ہی اجنبیت تھی، جیسے بابا جان كے چہرے پر تھی. 

"وعلیکم اسلام." 

"کیسے ہیں ہادی بھائی؟" 

"یہ ہادی کون ہے؟" عزیر نے آنکھیں نچا کر عمیر سے پوچھا . اس نے کاندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کر دیا، مگر نورالہدی چونک گئے تھے. انہوں نے غور سے وجدان كے چہرے کو دیکھا اور پوچھا. 

"آپ ہیں کون؟" انہوں نے دھیرے سے کہا. 

"میرا نام وجدان مصطفی ہے." 

نورالہدی اور بابا جان ٹھٹک گئے جیسے محسوس کر كے بھی وہ بولے. 

"شاید آپکو یاد نا ہو، پر میں آپ سے اک بار پہلے مل چکا ہوں اور آج ہماری دوسری ملاقات ہے."

نورالہدی نے غور سے انہیں دیکھا. "اگر تم وجدان مصطفی ہو تو یہ ہماری دوسری نہیں بلکہ تیسری ملاقات ہے اور یہ ماننا میرے لیے مشکل ہے كہ تم اِس دوسری ملاقات کو کبھی بھول پاؤ گے." نورالہدی نے ٹھہر ٹھہر کر کہا. 

"بہت سی یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بھلا نہیں پاتا۔ مگر انہیں بھول جانے کی خواہش تو کر سکتا ہے." انہوں نے زیر لب کہا. "میں جانتا ہوں، ہادی بھائی! مجھ سے ملنا آپ اور بابا جان كے لیے کچھ ایسا خوش گوار بھی نہیں. بلکہ شاید بابا جان تو میری صورت بھی نا دیکھنا چاھتے ہوں. لیکن آپ دونوں سے میری ملاقات بہت ضروری ہوگئی تھی." 

نورالہدی انہیں دیکھتے رہے، پِھر توقف كے بعد کہا. "آؤ اندر چل کر بات کرتے ہیں." وہ مسکرائے، پھر بابا جان کی طرف مڑے جو انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے. "یہ ملاقات آپکے بغیر ادھوری ہے بابا جان!" وہ اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں. 

"آج تو اسے موقع دیں بابا جان! كہ یہ اپنی بات کہہ سكے." انہیں خاموش دیکھ کر نورالہدی نے یاسیت بھرے انداز میں اصرار کیا تھا. بابا جان کی آنکھیں جھلملا گئیں. وجدان كے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے وہ آگے بڑھے. پھر وہ تینوں ساتھ ساتھ چلتے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئے. 

"ماما! آپ انہیں جانتی ہیں؟" تانیا نے مریم کو کریدا. 

"نہیں." 

"اور آپ نے سنا ماما! وہ پاپا کو ہادی بھائی کہہ رہے تھے." عزیر نے پوائنٹ آؤٹ کیا تو مریم بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولیں. 

"میں نے کسی کو نورالہدی كے لیے یہ نام استعمال کرتے نہیں سنا شاید پُرانے ملنے والے ہونگے." انہوں نے قیاس لگایا. 

"اینی وے، میں بہادر کو چائے کا کہہ دوں." تانیا نے کسی کو مخاطب کیے بغیر کہا اور چلتے ہوئی کچن میں آگئی. 

"بہادر! اک زبردست سی چائے اور کچھ اسنیکس اندر ڈرائنگ روم میں لے جاؤ. اک خاص مہمان آیا ہے." 

"ٹھیک ہے جی." کہہ کر بہادر چائے كے انتظام کرنے لگا. کچن كے دروازے تک آ کر تانیا کو اک خیال آیا تو وہ واپس پلٹی اور کچن ٹیبل پر چڑھ کر بیٹھتی بہادر سے بولی. "پوچھو گے نہیں کون آیا ہے؟" 

"کون آیا ہے تانیا بی بی؟" تانیا کی فرمائش پر اس نے پوچھا. وہ اسکے رد عمل کو سوچ کر شرارت سے بولی. 

"ملیحہ فاروقی كے شوہر آئے ہیں." 

"کیا...؟" بہادر نے بڑا سا منہ کھول کر اسے دیکھا. 

"سچ کہہ رہی ہوں اور تمھاری ملیحہ بی بی کا ایک بیٹا بھی ہے." وہ بہادر کی حیرت سے حظ اٹھا کر بولی تو بہادر کا منہ کچھ اور کھل گیا. 

"ملیحہ بی بی کا بیٹا؟" 

"ہوں۔"تانیہ نے سر ہلا کراسکی شکل دیکھی جو منہ پردونوں ہاتھ رکھے تانیہ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔

"آپ بی بی صاب کے بارے میں ہی بات کررہی ہیں نا؟ کرنل صاب کی بیٹی کے بارے میں؟"

"ہاں۔ میں تمہاری بی بی صاب کے بارے میں ہی بات کررہی ہوں۔ ملیحہ فاروقی کے بارے میں۔ کیا بھول گئے انہیں؟"

وہ ایک دم ہی افسردہ ہوگیا تھا۔ "وہ ایسی نہیں تھیں کہ کوئی انہیں بھول جاتا۔ پر یہاں تو کسی نے انہیں یاد ہی نہیں رکھا۔"

پھر اس نے تانیا کی طرف دیکھ کر اجنبھے سے کہا. "لیکن آپ نے یہ ابھی کیا بات کہی؟ بی بی صاب کا تو کوئی بیٹا نہیں ہے اور انکی شادی بھی نہیں ہوئی تھی." 

وہ ہنسی. "نہیں بہادر! ملیحہ فاروقی کی شادی ہوئی تھی اور انکا اک بیٹا بھی ہے جو اے ایس پی ہے. جانتے ہو، اے ایس پی، پولیس کا بڑا افسر ہوتا ہے."

"ہوتا ھوگا تانیا بی بی، مگر وہ پولیس والا، بی بی صاب کا بیٹا ہو ہی نہیں سکتا." وہ اڑیل پن سے بولا. 

"کیوں نہیں ھوسکتا؟" 

"کیوں کہ بی بی صاحب مر گئی تھیں." تانیا کتنی ہی دیر ہنستی رہی، پھر کہا. "ٹھیک ہے، وہ مر گئی تھیں. مگر مرنے سے پہلے لوگ شادی بھی کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں."

"مگر تانیا بی بی! انکی شادی نہیں ہوئی تھی." وہ اب بھی اڑا ہوا تھا. تانیا چھوٹے بچے کی طرح اسے سمجھانے لگی. 

"دیکھو جب وہ یہاں سے گئی تھی، تو انکی شادی نہیں ہوئی تھی، مگر یہاں سے جانے كے بعد انہوں نے وجدان مصطفی سے شادی کرلی تھی. پھر انکا بیٹا پیدا ہوا اور وہ مر گئیں." 

وہ الجھ کر بولا. "مگر بی بی صاب کہیں نہیں گئی تھیں. اسی گھر میں انکی موت ہوئی تھی اور اسی گھر سے انکا جنازہ اٹھا تھا۔" 

"کیا...؟" اب كے تانیا حیران رہ گئی. 

"جی تانیا بی بی!... بی بی صاب کنواری مر گئی تھیں. انکی شادی تو کبھی ہوئی ہی نہیں تھی." 

تانیا كے سَر میں دھماکے سے ہونے لگے تھے. وہ آہستہ سے ٹیبل سے اتر گئی اور بہادر کہتا جا رہا تھا. 

"پتہ نہیں تانیا بی بی! آپکو کسی نے کیا بتایا ہے، لیکن ہمیں اِس بارے میں بات کرنے سے سختی كے ساتھ منع کیا گیا ہے. وہ تو آپ نے مرنے والی كے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ دی تھی تو ہم بھی بول پڑے، پر آپ آگے ہم سے کچھ نا پوچھئے گا اور آگے رکھا بھی کیا ہے، وہ بیچاری مر گئیں اور ساری باتیں ختم ہوگئیں. بڑی نیک لڑکی تھیں. اللہ جنت نصیب کرے." 

"بات ختم نہیں ہوئی." اس نے دِل میں کہا. "باتیں تو شروع ہوئی ہیں. جب ملیحہ نے دادا جان كے کسی حکم سے سَر تابی نہیں کی تو اسے گم نام کیوں کر دیا گیا؟... اسکی موت کن حالات میں ہوئی؟ اور کیوں اسے پر اسرار بنایا جا رہا ہے؟ اور سب سے اہم چیز یہ بات کیوں مشہور کی گئی كہ وہ وجدان مصطفی کی بِیوِی تھی؟ اور انکی اصل بِیوِی اور شایان کی ماں کون ہے؟ اور اسکی شخصیت کو کیوں چھپایا گیا؟ اور کیوں شایان کو بھی یہ یقین دلایا گیا كہ وہ ملیحہ کا بیٹا ہے؟" سوال ہر طرف بکھرے تھے پر جواب کہیں نہیں تھا.

وہ لاونج میں آئی اور ڈرائنگ روم كے گلاس ڈور سے اندر دیکھنے لگی، جہاں سے پردہ ہٹا ہوا تھا. دادا جان صوفے پر بیٹھے بار بار پہلو بَدَل رہے تھے اور نورالہدی، وجدان كے ساتھ بیٹھے ان کے کاندھے پر بازو پھیلائے دھیرے دھیرے بولتے وجدان کی بات بڑے دھیان سے سن رہے تھے. وہ پہلے ہی جانتی تھی كہ نورالہدی اور بابا جان کبھی ملیحہ كے بارے میں زبان نہیں کھولیں گے، اب اس نے وجدان کا نام بھی اِس فہرست میں شامل کر لیا تھا. 

"نا جانے اب یہ تینوں اندر بیٹھے کونسا اسکرین پلے لکھ رہے ہیں؟ وہ تِین لوگ جنہیں ملیحہ نے سب سے زیادہ چاہا تھا، اسکے بارے میں سچ بتانے کو تیار نہیں. پتہ نہیں اسکی ذات پر جھوٹ كے پردے کیوں ڈالے گئے؟ کوئی ہے تو اسے بیٹی ماننے کو تیار نہیں اور کوئی کہتا ہے كہ وہ اسکے بچے کی ماں تھی. کیا گورکھ دھندہ ہے؟" وہ چلتی ہوئی صوفے پر آ بیٹھی. 

"کہانی كے چار بنیادی کرداروں میں سے اک موت كے آغوش میں چلا گیا اور باقی تِین جو بھی بولیں گے، وہ سچ نہیں ھوگا. مگر شاید کہانی کا کوئی ثانَوی کردار سچ بولنے پر آمادہ ہوجائے، جیسے.. جیسے سمیرہ. آف کورس!" اس نے اپنے خیال کی تائید کی. 

"سمیرہ کو ضرور پتہ ھوگا كہ ملیحہ کی موت کیوں اور کیسے ہوئی؟ اگر یہ پتہ چل جائے تو باقی کی الجھنیں بھی سلجھ جائیں گی. لیکن سمیرہ کو میں کہاں ڈھونڈھوں گی؟ میں نے تو کبھی ملیحہ كے ننھیال میں سے کسی کو قصر فاروقی میں آتا جاتا نہیں دیکھا. تو پھر سمیرہ سے میں کیسے ملو گی؟" وہ سوچنے لگی. 

"میری ممی شایان کی مدر کی کزن ہیں." تانیا کو اچانک فائزہ کی بات یاد آئی اور اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی. "اوہ مائی گاڈ!.... فائزہ اور شایان کی مائیں آپس میں کزنز تھیں. شایان کی ماں کی حیثیت سے تو سب ملیحہ کو ہی جانتے ہیں اور فائزہ کی ماں ہیں سمیرہ آنْٹی. اور فائزہ آفاق یعنی سمیرہ آفاق... اٹس ریلی امیزنگ." وہ ھسنے لگی. 

"میں تِین سال سے اس گھر میں جا رہی ہوں، جسکے رہنے والوں کا رشتہ قصر فاروقی سے برسوں پہلے ختم ہو چکا ہے اور جواد کی انگیجمنٹ والے دن آفاق انکل، پاپا كے نام پر چونکے بھی تو تھے، شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں اور اب آگے کی کہانی، سمیرہ آنْٹی سنائیں گی." وہ جوش سے چلتی اپنے کمرے سے کار کی چابی اٹھا کر پورچ میں آگئی اور کچھ ہی دیر میں وہ فائزہ كے گھر پر تھی.

فائزہ نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئی. 

"تم.....؟" 

"ہاں میں، لیکن تم اِس قدر حیران کیوں ھورھی ہو؟" 

"تمہیں پتہ ہے، رات تمہارے جانے كے بعد کیا ہوا؟" فائزہ ان سنی کرتے ہوئے بولی. "میں شروع سے ہی چاہتی تھی كہ تمھاری اور شایان کی شادی ہوجائے اور شایان کو تمہارے پاپا کا نام سن کر ہی آؤٹ پٹانگ قسم كے خوف ستانے لگے تھے اور کل میں نے شایان کو جھوٹ بول کر اسی لیے بلوایا تھا كہ تم دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرو گے تو شاید اسکے دماغ سے خوف نکل جائے. پھر تم بھی اسکی بات مان گئیں تو آخری حَل یہ ہی بچا تھا كہ میں وجدان انکل کو سب بتا دوں اور میں نے انہیں سب بتا دیا." 

"اچھا تو اِس لیے وہ پاپا اور دادا جان سے ملنے گھر آ پہنچے. میں بھی حیران تھی كہ اتنے سالوں میں تو وہ کبھی دادا جان سے ملنے نہیں آئے تو آج کیا وجہ ھوسکتی ہے؟" 

"کیا؟..... وجدان انکل تمہارے گھر آئے تھے؟" فائزہ پوچھنے لگی. 

"آئے نہیں تھے، اِس وقت بھی قصر فاروقی میں موجود ہیں." 

"بہت بد اخلاق ہو. اتنے برسوں بعد وہ تم لوگوں سے ملنے آئے اور تم انہیں چھوڑ کر یہاں چلی آئیں." فائزہ نے اسے سَر زنش کی. 

"انکی پاپا اور دادا جان كے ساتھ خفیا میٹنگ چل رہی ہے، اسی لیے میری بد اَخْلاقی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا. اچھا سنو! میں آج خاص طور پر آنْٹی سے ملنے آئی ہوں. انہیں کمرے میں بلا لو." وہ اپنے مطلب کی بات پر آگئی. 

"خیریت؟" فائزہ نے پوچھا. 

"ہاں بس تم انہیں بلا لو." 

"ٹھیک ہے." وہ کہہ کر اٹھی اور روم سے چلی گئی. 

"فائزہ بتا رہی تھی، تم خاص طور پر مجھ سے ملنے آئی ہو." بیڈ پر بیٹھنے كے بعد وہ محتاط انداز میں بولیں. 

"جی آنْٹی! آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہے." 

"کہو." 

"اک منٹ." انکی اِجازَت پا کر اس نے فائزہ کی طرف رخ کیا. "فائزہ! ہمیں کچھ دیر كے لیے اکیلا چھوڑ سکتی ہو؟" 

"ہاں کیوں نہیں." وہ حیران تو ہوئی، مگر فوراً ہی جانے کو کھڑی بھی ہوگئی. "میں چائے بنا کر لاتی ہوں." 

"کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے. بس اتنا خیال رکھنا، جب تک میں کمرے کا دروازہ کھول نا دوں، کوئی ہمیں ڈسٹرب نا کرے." 

"جیسا تم کہو." وہ کہہ کر باہر نکل گئی اور جاتے جاتے دروازہ بھی بند کر گئی. 

"جی تو شروع کریں." اس نے سمیرہ کی طرف دیکھ کر کہا. تانیا نے محسوس کیا كہ وہ کچھ مضطرب سی تھیں. 

"مجھے جانتی ہیں؟" انہیں خاموش دیکھ کر تانیا نے سوال کیا سمیرہ اسکے لہجے سے سمجھ گئیں كہ اس سوال کا مطلب کیا تھا اور کہا. 

"تم نورالہدی کی بیٹی ہو." 

"اور آپ افتخار حسن کی بیٹی ہیں." تانیا نے انکے چُپ ہوتے ہی کہا۔ "میرا مطلب ہے، ملیحہ كے ماموں افتخار حسن کی بیٹی." 

"تمہیں فائزہ نے بتایا ھوگا." انہوں نے فوراً قیاس لگایا. 

"نہیں، مجھے ملیحہ نے بتایا ہے۔" سمیرہ نے اسے اِس طرح دیکھا جیسے اسکا دماغ چل گیا ہو مگر بحث نہیں کی. 

"میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں، مگر اب لگ رہا ہے مجھے اِس رویے پر اک بار پِھر غور کرلینا چاھیے." وہ دانستہ بد لحاظ ہوئی. 

"اور اِس بات سے تمھارا کیا مطلب ہے؟" وہ نا گواری سے گویا ہوئیں. 

"آپکو شرم نہیں آتی." تانیا اک دم سے بھڑک اٹھی.

"جی تو شروع کریں." اس نے سمیرہ کی طرف دیکھ کر کہا. تانیا نے محسوس کیا كہ وہ کچھ مضطرب سی تھیں. 

"مجھے جانتی ہیں؟" انہیں خاموش دیکھ کر تانیا نے سوال کیا سمیرہ اسکے لہجے سے سمجھ گئیں كہ اس سوال کا مطلب کیا تھا اور کہا. 

"تم نورالہدی کی بیٹی ہو." 

"اور آپ افتخار حسن کی بیٹی ہیں." تانیا نے انکے چُپ ہوتے ہی کہا۔ "میرا مطلب ہے، ملیحہ كے ماموں افتخار حسن کی بیٹی." 

"تمہیں فائزہ نے بتایا ھوگا." انہوں نے فوراً قیاس لگایا. 

"نہیں، مجھے ملیحہ نے بتایا ہے۔" سمیرہ نے اسے اِس طرح دیکھا جیسے اسکا دماغ چل گیا ہو مگر بحث نہیں کی. 

"میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں، مگر اب لگ رہا ہے مجھے اِس رویے پر اک بار پِھر غور کرلینا چاھیے." وہ دانستہ بد لحاظ ہوئی. 

"اور اِس بات سے تمھارا کیا مطلب ہے؟" وہ نا گواری سے گویا ہوئیں. 

"آپکو شرم نہیں آتی." تانیا اک دم سے بھڑک اٹھی

"جو لڑکی آپکو اپنی بہن کی طرح سمجھتی تھی، آپ اس پر بہتان لگاتی ہیں كہ وہ اپنے گھر سے بھاگ گئی تھی." 

"میں نے یہ کبھی نہیں کہا كہ ملیحہ گھر سے بھاگی تھی." 

"تو پھر ملیحہ اور وجدان کی شادی کیوں کر ہوئی؟" وہ پوچھنے لگی۔ 

"ملیحہ کا اپنے بابا جان كے ساتھ اِس ایشو پر جھگڑا ہو گیا تھا، پِھر بات بڑھ گئی اور ان حالات میں اسے گھر چھوڑ کر یہاں انا پڑا. بعد میں ابو اور چاچو نے دونوں میں صلاح کی کوشش بھی کی، مگر پھوپھا جان نے کہہ دیا كہ ملیحہ ان كے لیے مر چکی ہے. اسکے بعد سب کو یہی مناسب لگا كہ ملیحہ کی شادی وجدان سے کردی جائے. وہ وجدان كے ساتھ بھاگی نہیں تھی، اسے با قاعدہ رخصت کیا گیا تھا." وہ غصے سے چبا چبا کر بولیں. تانیا نے سکون سے انکی بات ختم ھونے کا انتظار کیا، پھر کہا۔ 

"انکا انتقال کس طرح ہوا؟" وہ اک پل کو روکیں پھر کہا. "شایان کی پیدائش پر ملیحہ کی وفات ہوگئی تھی." 

"مگر کس طرح؟" وہ پوچھ رہی تھی. سمیرا زچ ہوگئیں. 

"بچے پیدا کرتے وقت اکثر عورتیں مر جاتی ہیں. اِس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟" 

"حیران ہونے کی بات تو ہے نا." انکی بات پر غور کرتی ہوئے وہ اٹھی اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے دونوں بازو لپیٹ کر کہا. 

"اِس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے؟" سمیرہ اجنبھے سے بولیں تو تانیا اپنے الفاظ پر زور دے کر بولی. 

"اگر اک ایسی عورت بچہ پیدا کرتے ہوئے مر جائے ،جسکے ہاں کبھی بچہ پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو سن کر حیرت تو ھوگی." اِس بار سمیرہ کچھ بول نہیں پائیں. 

"ملیحہ کی شادی نہیں ہوئی تھی." اس نے بڑے سکون سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا. "اک ایسی لڑکی جو مر چکی ہے، اسکے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ كہ وہ کسی کی بِیوِی اور کسی كے بچے کی ماں تھی، بولتے ہوئے آپکو شرم نہیں آئی؟" وہ چُپ ہوئی، پھر طنزیا ہنسی كے ساتھ بولی. "لیکن آپ کیا کسی مرے ہوئے کا لحاظ کریں گی؟ جب آپ نے زندہ لوگوں کا لحاظ نہیں کیا۔ شایان كے ساتھ کیا کیا آپ لوگوں نے. جسے وہ ماں سمجھتا ہے، وہ اسکی ماں نہیں ہے، اگر پتہ چل جائے اسے تو اسکی کیا حالت ہو اور وہ بد نصیب ماں جس نے اسے پیدا کیا ہے، اس پر کتنا ظلم کیا ہے آپ سب نے اور آج میری زندگی آپ لوگوں کی وجہ سے ہی برباد ھورھی ہے، یہ سوچ کر وہ ملیحہ فاروقی کا بیٹا ہے، شایان مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا اور میں سچ جان کر بھی اسے بتا نہیں سکتی کیوںکہ میں جانتی ہوں وہ کبھی نہیں سہہ پائے گا كہ جس باپ سے وہ اتنی محبت کرتا ہے، اسی نے اسکی ماں کی شناخت كے حوالے سے اسے دھوکہ دیا." وہ رکی اور شکایتی نگاہوں سے سمیرہ کو دیکھنے لگی، جن کی آنکھوں سے اب آنسو گرنے لگے تھے. 

"دادا جان، پاپا، وجدان اور آپ، ملیحہ نے ہر اک سے محبت کی اور اسکے مرنے كے بعد آپ سب نے اسکے ساتھ کیا کیا؟ پاپا اور دادا جان یوں اسکے ذکر سے لا تعلق ہوگئے جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور وجدان جو ملیحہ كے لیے یقین کا چہرہ تھا، اسکے چہرے کو دھوکہ بنا کر اپنے بیٹے كے سامنے پیش کرتے رہے اور آپ نے وجدان کو ایسا کرنے دیا. کس قدر بد نصیب تھی وہ، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ھوگا كہ اسکے مرنے كے بعد اسکے ساتھ یہ سب ہو جائے گا." سمیرہ كے آنسو اور بھی شدت سے بہنے لگے. مگر تانیا اس پر ترس کھائے بغیر بولتی رہی. 

"جھوٹ کا یہ محل کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بتائیں، میری اور شایان کی زندگیوں کو برباد کرنے کا آپکے پاس کیا جواز ہے. جواب دیں.... یا دینے كے لیے آپکے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے؟" اسکی آواز مزید تیز ہوگئی تھی. 

"آج تو آنسو بہا رہی ہیں، مگر جب ملیحہ کی موت کا تماشہ بنا رہی تھیں اس وقت آپکے آنسو کہاں تھے؟" 

"میں نے ملیحہ کی موت کا تماشہ نہیں بنایا." وہ چلا اٹھیں. "ہاں، وہ بد نصیب تھی. مگر کسی نے بھی نہیں سوچا تھا كہ اسکے ساتھ یہ سب ہوجائے گا." پھر وہ آنسو پونچھے بغیر ہولے سے بولنے لگیں. "مجھے آج بھی یقین نہیں آتا كہ ملیحہ مر چکی ہے. کس نے سوچا تھا وہ اِس طرح مر جائے گی. جیتے جی کبھی نہیں ستایا اور مر کر سب كے لیے عمر بھر کا عذاب بن گئی." انہوں نے تانیا کی طرف دیکھا. "یہ کوئی پریوں کی داستان نہیں، جیسے سننے كے شوق میں تم یہاں چلی آئیں." 

"جانتی ہوں، یہ پریوں کی داستان نہیں ہے. مگر پری کی داستان تو ہے، جو جادو نگری میں کھو گئی." ان کے پاس بیٹھتے ہوئے تانیا نے اِس بار رسان سے کہا تھا سمیرہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی اور دھیرے دھیرے ماضی كے پردے ہٹانے لگیں. 

*****

آفاق چونک تو تبھی گیا تھا، جب اس نے شام كے پس منظر میں ملیحہ اور وجدان کو اک دوجے میں کھوئے ہوئے دیکھا تھا. مگر اس نے خود کو کسی بھی قیاس ارائی سے محفوظ رکھا. وہ ملیحہ اور وجدان دونوں کو ہی اچھی طرح جانتا تھا. ملیحہ سلجھی ہوئی، سمجھدار لڑکی تھی اور وجدان بھی سلجھے مزاج کا شخص تھا جو اپنے کام سے کام رکھنا پسند كرتا تھا. آفاق نے اسے کبھی لڑکیوں میں دلچسپی لیتے نہیں دیکھا تھا، ان دونوں سے ہی کسی نادانی کی امید رکھنا فضول تھا. بعد كے دنوں میں آفاق نے ان دونوں کو اک دوسرے سے بے نیازی برتتے ہی دیکھا، مگر اسے یوں محسوس ہوتا تھا كہ وہ پوری جان سے اک دوسرے کی طرف متوجہ ہیں. پِھر وہ لمحوں کی بے اختیاریاں بھی آفاق سے چھپی نا رہ سکیں. لیکن وہ مستقل انہیں اپنا وہم سمجھ كر جھٹکتا رہا. مگر جس دن نورالہدی ملیحہ کو لینے آئے تھے، آفاق نے گیٹ سے اندر آتے ہوئے دونوں کو ساتھ کھڑے دیکھا تھا. 

آفاق اسے باہر گاڑی تک چھوڑ كر واپس آیا تو بھی وجدان وہیں کھڑا تھا. 

"کہاں کھو گئے؟" وجدان نے اپنے خیال سے ابھر كر آفاق کو دیکھا. 

"میں نہیں کھویا، دِل کھو گیا ہے." 

"سچ کہہ رہے ہو؟" آفاق سنجیدہ تھا. وجدان نے ہنستے ہوئے کہا. 

"نہیں، مذاق كررہا ہوں اور اب اندر چلو. یہاں تو بہت دھوپ ہے." وجدان بات بَدَل گیا تھا، لیکن آفاق کو یقین ہو گیا كہ ان دو سلجھے ہوئے لوگوں كے درمیان کوئی الجھا ہوا سا تعلق ضرور ہے. وہ وجدان سے اِس بارے میں کھل كر بات کرنا چاہتا تھا، مگر اس روز موقع نہیں مل سکا اور اگلے دن آفاق اور سمیرہ ہنی مون كے لیے شمالی علاقے جات چلے گئے. پِھر دس دن بعد انکی واپسی ہوئی. دوسرے ہی دن وہ وجدان سے ملنے اپنے پاپا كے آفس گیا تھا. مگر وہ وہاں ملا ہی نہیں تو واپس آگیا. 

"آج آفس آئے تھے؟" رات کو ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے كے دوران منیر حسن نے آفاق سے پوچھا. 

"وجدان سے ملنے گیا تھا.." 

"اور جناب وہاں تھے نہیں." اسکی بات کاٹ كر منیر حسن نے اسکی بات پوری کی۔ آفاق خاموشی سے كھانا کھانے لگا. کیا کہتا؟ وہ تو وجدان كے لیے بے حد پریشان تھا. 

اگلے دن آفس سے واپسی پر اسکے گھر چلا گیا، مگر وہ گھر پر نہیں تھا. آفاق اسکے نام میسج چھوڑ آیا، لیکن وجدان ہنوز لاپتا ہی رہا. 

آج 17‬ دسمبر تھی اور آفاق جانتا تھا كہ آج ملیحہ کی ایگزبیشن ہے. وہ کچھ دن پہلے ہی پاس لے آیا تھا. اسکا اِرادَہ تھا كہ ملیحہ کو سرپرائز دے گا. 

آفس سے فارغ ہو كر سیدھے آرٹس کونسل جانے كے بجائے آفاق ڈیلی نیوز پیپر كے آفس آگیا. 

"آرٹس کونسل میں بہت زبردست ایگزبیشن لگی ہے. چلو گے؟" وہ اپنے رپوٹر دوست ساجد کی ڈیک پر آکر بولا. 

"چلو گے؟" وہ اجنبھے سے بول كر ہنسا. 

"میں تو لیٹ ہو گیا ہوں یار! میرا اسسٹنٹ رپوٹر اِس وقت آرٹس کونسل میں بیٹھا مجھے دعائیں دے رہا ہوگا، شام كے اخبار میں نمائش کی رپورٹ چھاپنی ہے. میں نے اس سے کہا تھا، ڈائریکٹ وہیں پہنچ جائے، میں بھی سیدھا وہیں آؤنگا. لیکن ڈائریکٹر صاحب نے بولوا لیا. اب وہ میری جان چھوڑیں تو میں جاؤں." 

"کتنی دیر لگے گی؟" 

"بس یہ رپورٹ فائنل کردوں، پھر چلتے ہیں." اس نے کہا اور رپورٹ میں گم ہو گیا. 

آفاق اک کرسی پر بیٹھ كر اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا تھا۔ ساجد نے جلدی ہی اپنا کام ختم کر لیا تھا. وہ رپورٹ اَڈِیٹَر كے ٹیبل پر رکھ كر واپس آیا تو آفاق اسے دیکھ كر اٹھتا ہوا بولا. 

"ویسی وجدان بھی اگر ہوتا تو مزہ آ جاتا." 

"ہاں یار! ہماری نگڑی پوری ہوجاتی." ساجد بھی بولا. "چل پھر اسے بھی اٹھا لیتے ہیں."

"پر اٹھانا کہاں سے ہے؟ یہ بھی تو پتہ ہو." آفاق كے جواب میں وہ بولا. 

"لائبریری سے." آفاق حیران ہوا. "لائبریری سے؟" 

"آ، تجھے رستے میں بتاتا ہوں." اس نے کہا اور آفاق کو ساتھ لے كر چل پڑا. 

"یہ لائبریری کا کیا چکر ہے؟" ڈرائیونگ کرتے ہوئے آفاق نے ساجد سے پوچھا. 

"چکر لائبریری کا نہیں، لڑکی کا ہے." 

"وجدان اور لڑکی کا چکر... امپوسبل." آفاق حیران ہوا. "وہ تو لڑکیوں کو بھاؤ تک نہیں دیتا." 

"اور لڑکیاں ہمیں بھاؤ نہیں دیتیں. پر دیکھ لو! تمھاری شادی بھی ہوگئی اور میری منگنی بھی. بھائی! یہ جو دنیا ہے نا، اتفاقات کا مجمع ہے. یہاں کچھ بھی ھوسکتا ہے. سورج مغرب سے نکل سکتا ہے، دیا اندھی میں جل سکتا ہے، پانی میں آگ لگ سکتی ہے اور.... وجدان کو محبت ہو سکتی ہے." 

"تو مجھے آج بتا رہا ہے." اسکی ساری بکواس كے جواب میں آفاق بگڑ كر بولا. 

"مجھے بھی کچھ دنوں پہلے ہی پتہ چلا ہے. وہ بھی اتفاقا." اس نے بدک كر صفائی میں کہا تو آفاق بولا. 

"ٹریلر تو دیکھا دیا، فلم بھی دیکھا دو."

"یار! کوئی اتنی لمبی چوڑی بات نہیں ہے. دو، تِین مہینے پہلے میں اور وجدان لائبریری گئے تھے. وہاں وہ بار بار اک لڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ لڑکی تھوڑی سے خوبصورت تو تھی، پر سچ بات ہے مجھے تو ایسی خاص نہیں لگی كہ وجدان جیسا گہرا بندہ اسکی اک جھلک دیکھ کر متاثر ہوجائے. پِھر وہ لڑکی اٹھ کر چلی گئی. ہم لوگ بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر اٹھ گئے اور بات آئی گئی ہوگئی. بلکہ اسکے بَعْد سے جو اسے لاپتا رہنے کی بیماری ہوگئی ہے تو مجھے شک بھی نہیں ہوا كہ یہ اِس لڑکی كے چکر میں لائبریری جاتا ھوگا. وہ تو پرسوں میں وہاں گیا تو اسے وہاں دیکھا، پِھر خود ہی میرے پوچھنے پر بتانے لگا كہ صبح سے شام تک لائبریری میں ہوتا ہوں. لائبریری بند ہونے كے بَعْد سڑکیں ناپتا ہوں. پِھر جب نیند آنے لگتی ہے تو گھر چلا جاتا ہوں. بس اسی بات پر مجھے شک ہوا. اس سے پوچھا تو ہنسنے لگا... لیکن تردید بھی نہیں کی." وہ اَخِری جملے پر سوچتا ہوں بولا. 

"ہوں." آفاق گہری سوچ میں ڈوب گیا. اسکی نگاہوں میں بار بار اِس شام کا منظر گھوم رہا تھا جس میں تخت پر بیٹھی ملیحہ کھوئے ہوئے اندازِ میں اپنے سامنے بیٹھے وجدان کو دیکھ رہی تھی، جسکے اندازِ میں بھر پور وارفتگی تھی. آفاق كے پیشانی پر لکیریں سی ابھر آئیں۔ وجدان لائبریری کی پھتریلی سیڑھیوں پر بیٹھا کتاب كے ورک اُلٹ رہا تھا جب آفاق اور ساجد اس کے سَر پر آ پہنچے. 

"اگر علم كے سمندر میں یوں ہی غوتے پہ غوتہ لگاتے رہے تو کسی دن ڈوب جاوگے." آفاق نے ہاتھ مار کر کتاب بند کردی. "اٹھ، ہم تجھے لینے آئے ہیں." 

"مگر میں نہیں جا سکتا." اس نے فوراً انکار کردیا. 

"کیوں؟" جواب میں وجدان گریز کر کچھ پلوں كے بعد بولا. "میں کسی کا انتظار كررہا تھا." 

اسکی بات سن کر ساجد بولا. "جسکے انتظار میں تو تِین مہینے سے دھول پھانک رہا ہے، وہ آج بھی نہیں آئے گی." 

"میں نے کبھی بھی اسکے آنے کی شرط اپنے انتظار كے سامنے نہیں رکھی." 

"تو تم مانتے ہو كہ تم اس لڑکی كے انتظار میں یہاں آئے ہو." ساجد اچانک ہی سنجیدہ ہوگیا. 

"نا ماننے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟" وہ آہستہ سے بولا. 

"وجدان! مجھے تم سے اِس پاگل پن کی امید نہیں تھی." آفاق چڑ سا گیا. "جس لڑکی کی تم نے صرف شکل ہی دیکھی ہے، اسکے لیے تم خود کو اِس طرح برباد کررھے ہو. کیا یہ دیوانگی نہیں؟" 

"ہے تو." وہ مسکرایا.

"اور دیوانے کو صرف اپنی دیوانگی سے مطلب ہوتا ہے." 

"اک دن كے ناغے سے تیری دیوانگی میں کوئی فرق نہیں پڑ جائے گا. نا وہ آ کر تیری غیر حاضری نوٹ کرنے والی ہے. اب اٹھ جا۔" ساجد نے کہا پھر اسکے نہیں، نہیں کرنے كے باوجود وہ دونوں اسے گھسیٹے ہوئے گاڑی میں لے آئے. وہ آیا تو بے دلی سے تھا، مگر نمائش میں ملیحہ کو دیکھ کر وہ اِس اتفاق پر حیران رہ گیا. آفاق نا جانے کدھر تھا اور اسکے ساتھ کھڑا ساجد کسی سے انٹرویو لے رہا تھا. وجدان اپنے آپ ہی اسکی طرف چل پڑا. اسکے ہاتھ میں ساجد کا کیمرہ تھا. بنا سوچے ہی غیر اِرادی طور پر اس نے ملیحہ کی کئی تصویریں کھینچ لیں. اپنے چہرے پر فلیش کی روشنی محسوس کر كے ملیحہ اس طرف متوجہ ہوئی تو وجدان کو دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئی. 

وہ دونوں ہر طرف سے بیگانہ آپس میں باتیں کررھے تھے. تب ہی آفاق اس طرف چلا آیا. رنگ تو اس نے ملیحہ كے چہرے پر بھی دیکھے تھے، مگر وجدان کی آنکھوں کی چمک نے اسے واقعی الجھا دیا تھا. ملیحہ پلٹ چکی تھی. آفاق چلتا ہوا وجدان كے پاس آگیا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھمبیر لہجے میں بولا. 

"وہ میری بہن ہے." 

وجدان نے اسکی طرف دیکھا جو جاتی ہوئی ملیحہ کو دیکھ رہا تھا. 

"اور میں تمھاری بہن سے شادی کرنا چاہتا ہوں." وہ اپنے مخصوص واضح اندازِ میں بے دھڑک بولا تھا. آفاق اسے دیکھتا رہا، پِھر اسکے شانے سے ہاتھ ہٹا کر بولا. 

"باہر چل کر بات کرتے ہیں."

~~~~~~~~~

"میں نے ملیحہ کو پہلی بار لائبریری میں دیکھا تھا." وہ گھاس پر آفاق كے مقابل بیٹھا دونوں ہاتھ پیچھے ٹکائے دور آسمان کی وسعت میں کھویا کہہ رہا تھا. "میں وہاں ساجد کا انتظار كررہا تھا كہ ملیحہ کو آتے دیکھا. پہلی غیر اِرادی نظر كے بعد میں نے ان پر سے نگاہ ہٹا لی تھی. پر نظر ہٹانے كے بعد میرا دِل چاہا، اک بار اور انکی طرف دیکھوں. اپنی یہ خواہش مجھے بھی عجیب لگی تھی. میں ان پر سے توجہ ہٹانے كے لیے کتاب پڑھنے لگا اور تھوڑی دیر میں ساجد بھی آ گیا. مگر میں ملیحہ سے اپنی توجہ ہٹا نہیں پایا. وہ ایسی جگہ بیٹھی تھیں كہ ہر بار صفحہ پلٹتے وقت میری نظر ان کے چہرے پر ٹھہر جاتی. اتنے فاصلے اور اونچائی پر ہونے كے باوجود مجھے انکا ہر نقش بہت صاف دکھائی دے رہا تھا. میں انکی پلکوں کا اٹھ کر گرنا محسوس كررہا تھا. انکی گردن کی ہر حرکت كے ساتھ ان کے گلے میں پڑی باریک چین پر پڑتے بل بہت واضح نظر آرہے تھے. انكے بال بار بار ان کے چہرے پر آ جاتے اور وہ انہیں اپنے چہرے سے ہٹانے كے لیے ہاتھ سے سمیٹ کر پیچھے کرتیں تو ایسے میں انکی کلائی میں پڑی چند چوڑیاں کھنک جاتیں. میں اس کھنک کو سن رہا تھا. ایسا لگ رہا تھا وہ بالکل میرے سامنے بیٹھی ہیں." 

وہ رکا اور پھر مسکرا کر گویا ہوا. 

"پھر ایسا لگا كہ وہ ڈسٹرب ھورھی ہیں. وہ اک دم سے کتاب پر سے نگاہ ہٹا کر ارد گرد دیکھتیں اور پھر دوبارہ سَر جھکا کر کتاب پڑھنے لگتیں. مگر کچھ دیر بعد وہ پھر سے اپنے آس پاس دیکھنے لگتیں. شاید انہوں نے میری نظروں کو محسوس کرلیا تھا." وہ مسکرایا، پھر مسکراہٹ روک کر بولا. 

"کچھ دیر بعد وہ اٹھیں اور چلی گئیں. ایسا لگا، کوئی خواب ختم ہو گیا ہو. مگر خواب کا اثر باقی تھا. اگلے دن مجھے لائبریری میں کوئی کام نہیں تھا مگر پھر بھی لائبریری آگیا. مجھے خود بھی اپنی اِس حرکت کی وجہ سمجھ نہیں آئی. لیکن ملیحہ کو دیکھ کر کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی. پھر وہ چلی گئیں تو میں بھی اٹھ گیا، مگر اس روز ان کے جانے سے خواب ٹوٹا نہیں تھا. مستقل ہو گیا تھا. تیسری دن پھر میں وہیں بالکونی میں آ کر بیٹھ گیا، مگر وہ نہیں آئیں تو میں پریشان ہو گیا. اگر وہ نا آئیں تو... وہ دو دن سے آرھی تھیں. لیکن ضروری تو نہیں تھا كہ آج بھی آتیں. اِس خیال كے باوجود میں وہاں سے ہلا نہیں. دوپہر ڈھلنے كے بعد وہ آ ہی گئیں، مگر میری نظروں نے انہیں کچھ زیادہ ہی پریشان کر دیا تھا. ذرا دیر بعد ہی وہ اٹھ کر جانے لگیں. انتظار كے ان چند گھنٹوں نے مجھے سمجھا دیا تھا كہ اب میں ان کے بغیر جی نہیں سکتا. میں بھی ان کے پیچھے باہر آگیا اور سیڑھیون پر انہیں آواز دے کر روک لیا. انہوں نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور میں نے انکی آنكھوں میں." 

بولتے بولتے ہی یک دم وجدان كے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی. 

"نہیں دیکھنا چاھیے تھا. اگر کچھ بچا بھی تھا تو ان آنکھوں میں ڈوب گیا. میں نے ان سے کہا، آپ مجھ سے شادی کرینگی؟" اتنا کہہ کر وہ زور سے ہنس پڑا اور ہنسی كے بیچ کہنے لگا." بہت غصہ آگیا تھا انہیں. اتنا غصہ كہ مجھے ڈانٹ بھی نہیں سکیں. پر میں نے ان سے کہہ دیا كہ اپنے سوال كے جواب كے لیے میں قیامت تک انکا انتظار کرونگا. تیسری دن وہ آئیں تو، مگر میرے انتظار كے لیے نہیں، کتاب واپس کرنے. لیکن اتنا بھی غنیمت تھا كہ وہ مجھ سے بات کرنے پر راضی ہوگئیں. مجھے نہیں پتہ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہے، مجھے صرف اتنا سمجھ آیا كہ اپنا دِل کھول کر ان کے سامنے رکھ دوں، مجھے واقعی محبت کا اظہار کرنا نہیں آیا. اِس دن كے بعد ملیحہ پھر وہاں نہیں آئیں." وہ اب گردن گرائے گھاس کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا. 

"دو مہینے ہر روز صبح سے شام تک میں ان سیڑھیون پر بیٹھا دعا کرتا كہ جواب دینے نا سہی، مگر وہ اپنا چہرہ دکھانے ہی آ جائیں. وہ تو نہیں آئیں، مگر میں انکی جھلک دیکھنے انکے پاس پہنچ جاؤنگا، ایسا تو سوچا ہی نہیں تھا. اس شام تمہاری گھر میں ملیحہ کو دیکھ کر مجھے یقین ہی نہیں آیا تھا. پتہ ہے انکا انتظار کرتے کرتے اکثر میں خود سے الجھ پڑتا. میں انکے خاطر مٹتا جا رہا ہوں اور انہیں احساس ہی نہیں ہے. مگر اس روز محسوس ہوا، وہ اتنی بھی بے نیاز نہیں." بولتے بولتے اس نے نظر اٹھا کر آفاق کو دیکھا. 

"لیکن یہ احساس میرے لیے کافی نہیں ہے آفاق! میں زندگی کا ہر پل ان کے ساتھ بِتانا چاہتا ہوں. مجھے وہ حق چاھیے كہ انہیں اپنا کہہ سکوں." وہ چُپ ہوا اور یوں ہی ہاتھ آگے کر كے جھاڑنے لگا. آفاق نے اسے دیکھا اور پوچھا. 

"ملیحہ نے کبھی اِس بارے میں تم سے بات کی ہے؟" 

"اک بار انکی آنكھوں میں اپنا عکس تو دیکھا تھا، مگر انکی زبان سے اب تک وہ الفاظ نہیں نکلے جو میں سننا چاہتا ہوں." وہ رکا ، پھر سنجیدگی سے بتانے لگا. "کل انہوں نے مجھے لائبریری بلایا ہے." 

"تم ملیحہ كے ساتھ سریس ہو نا؟" وجدان نے نظر اٹھا کر آفاق کو دیکھا. 

"تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں؟" 

"بات اعتبار کی نہیں ہے وجدان!" آفاق اس پر سے نظر ہتاتا آہستہ سے بولا. "ملیحہ بہت سادا سی لڑکی ہے. مصلحتوں اور سمجھوتوں کو نہیں جانتی. جانتی ہے تو صرف اتنا كہ پیار کرنا ہے تو کرنا ہے، وہ بھی پوری ایمان داری كے ساتھ. کہیں کوئی احساس بچا کر نہیں رکھتی. پاگل ہے. اتنا بھی نہیں سمجھتی كے گہری محبت كے زخم بھی گہرے ہوتے ہیں. مگر احساس بھی ہے، خراش لگ جائے تو تڑپ اٹھتی ہے، کہیں زخم لگ گیا تو جھیلنا مشکل ہے. خیال رکھنا وجدان! اسے کبھی چوٹ نا لگے." 

"آئی پرامس. خود پر جھیل لونگا لیکن ملیحہ کو تکلیف نہیں پہنچنے دونگا." اس نے پورے دِل سے وعدہ کیا. آفاق یقین کرنے والی مسکراہٹ كے ساتھ اٹھا، اسے بھی اپنے ساتھ اٹھنے کو کہا. 

"چلو اندر چلتے ہیں. میں ابھی ملیحہ سے بھی نہیں ملا." 

"تم جاؤ. میں تو اب گھر جاؤنگا." 

"کیوں؟" 

"کیوںکہ ملیحہ کی موجودگی میں، میں خود کو روک نہیں پاتا اور تمہارے ہوتے یہ سب مناسب نہیں لگتا۔" اسكے سنجیدگی سے بولنے پر آفاق نے مصنوِعی خفگی سے وجدان کو گھورا. 

"ابھی جو اتنا بکواس کررھے تھے، تب خیال نہیں آیا كہ کچھ سینسر كرلے اور اب اندر جاتے ہوئے شرم آرھی ہے." اور وجدان نے فوراً ہی اسکی غلط فہمی دور کردی. 

"میں ملیحہ كے خیال سے کہہ رہا ہوں، اس سچویشن میں کوئی بھی بہن، بھائی کی موجودگی سے سٹپٹا جائے گی. اللہ حافظ!" وہ جانے لگا تو آفاق نے کہا. 

"بھائی! ساجد کا کیمرہ تو دے دے. اسے کہاں لے جارہا ہے؟" 

"آرے یار! بھول گیا." اپنے سَر پر ہاتھ مار کر گلے سے کیمرہ نکال کر اس نے آفاق کو پکڑایا اور ہاتھ ہلاتا ہوا چلا گیا. 

وہ ایک خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا ہوا لاؤنج تھا جس میں رات کے کھانے کے بعد سب لوگ بیٹھے چائے کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔ ڈبل صوفے پر مصطفی عظیم اپنے بڑے بیٹے مزمل کے ساتھ بیٹھے تھے کچھ فاصلے پر  سنگل صوفے پر عائشہ بیگم بیٹھی تھیں۔  سامنے مزمل مصطفی کی بیوی انیقہ تھی اور وجدان ان کی باتوں سے الگ تھلگ کارپٹ پر اپنے ایک سال کے بچے کو گود میں لئے اس کے ساتھ بظاہر کھیل رہا تھا۔ مگر اندر ہی اندر وہ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا بات کیسے شروع کرے۔ پھر اس نے اچانک ہی دھماکہ کر دیا۔ کسی کو خاص طور پر مخاطب کے بغیر اس نے اچانک کہا تھا۔

" میں نے شادی کا فیصلہ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔" 

وہاں بیٹھے ہر شخص کو یہ سن کر یقینا خوشی ہی ہوئی تھی مگر اس کا جملہ اس کا قدر غیر متوقع تھا کہ کوئی ردعمل سمجھ ہی نہیں آیا مصطفی عظیم حیرت ہے سنبھل کر بولے۔

" ہمارے لئے تو یہ خوشی کی خبر ہے مگر تم نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے بعد یقینا لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے یہ سال کی سب سے بری خبر ہوگی۔"

"ابو ائی ایم سیریس۔" ان کے مذاق پر وہ سنجیدگی سے بولا۔ 

"Even.i am serious son."

انہوں نے ایک دم سنجیدہ ہو کر کہا۔ " میں نے کبھی اپنے بیٹوں سے لاپروائی اور غیر ذمہ داری کی امید نہیں کی تھی۔ اور تم سے....

 its even beyond my thoughts ." 

"خود مجھے وجدان سے ایسی حرکتوں کی امید نہیں تھی۔ مگر اب اسے لیکچر مت دیں۔ مجھے اس کی لاپرواہی کی وجہ سمجھ آگئی ہے شوہر کو بیٹے کی کلاس لیتے دیکھ کر  ٹوکا پھر معنی خیزی سے بولیں۔  

"غلطی وجدان کی نہیں ہے مصطفی صاحب بلکہ میری اور آپکی ہے بیٹا جوان ہو گیا ہے اور اسے خود بولنا پڑا کہ شادی کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ بات ہمارے سوچنے کی تھی۔" 

"بالکل امی یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے وجدان بے شک ذمہ دار لڑکا ہے پر کوئی ہو تو جس کے لئے ذمہ داری اٹھائی جائے۔ کیوں مزمل! آپ کا کیا خیال ہے؟" انیقہ نے شوخی سے بولتے ہوئے اپنے شوہر سے رائے مانگی۔ 

"شریف آدمی کبھی بیوی سے اختلاف نہیں کرسکتا اور یہاں تو اختلاف کی گنجائش بھی نہیں۔" 

"تو پھر طے ہو گیا اگلے ہفتے میں ہی ہم سب چاکر انیقہ کے ماں باپ سے شہلا ہاتھ مانگ لیں گے۔ " 

"ایک منٹ امی!" چپ بیٹھا وجدان شہلا کے نام پر ایک دم بولا۔ "میں شہلا سے شادی نہیں کرسکتا۔" سب سے زیادہ انیقہ کو یہ بات ناگوار گزری تھی اس کے تاثرات دیکھ کر وجدان نے کہا۔

"ہمیں بھی تو آج پتہ چل رہا ہے۔" وہ خفگی سے بولیں۔ پھر خیال آنے پر بولیں۔ "اور تمہیں کہاں ملیں گی وہ؟۔۔۔ کیا نام ہے خیر جو بھی ہو۔" انہوں نے ملیحہ کا نام یاد کرنا چاہا پھر کسی کے یاد دلانے سے پہلے ہی ارادہ بدل دیا۔ 

"ان کا نام ملیحہ فاروقی ہے۔" وجدان کو ان کا انداز اچھا نہیں لگا تھا اسی لئے ملیحہ کا نام بتا کر کہا۔ "اور میں ان سے لائبریری میں ملا تھا۔" 

"اور یہ سب کب سے چل رہا ہے؟" مصطفی عظیم نے بیٹے کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"تین مہینے ہونے والے ہیں۔" عائشہ بیگم کو ایک دم سے دھیان آیا۔

"اچھا تو اتنے مہینے سے تم جو سارے کام دھندے چھوڑ کر نہ جانے کہاں پھرتے رہتے ہو تو اس کی وجہ یہ لڑکی ہے۔"

"جی۔" اس کا لہجہ اب بھی متوازن تھا۔

"بہرحال تمہاری شادی شہلا سے ہی ہوگی۔" انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ 

"مگر میں ملیحہ سے شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔"  عائشہ بیگم نے سنا تو بھڑک گئیں۔ "ہاں اب یہی سننا باقی رہ گیا تھا ٹھیک ہے خود ہی سارے فیصلے کرو۔ ہمیں تمہارے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق کی کیا ہے۔" 

"ایسی بات نہیں ہے امی!" وہ ان کی ناراضگی پر پریشان سا ہو گیا، پھر ان کے برابر بیٹھ کر بازؤ کے گرد لپیٹتے ہوئے سمجھانے کے سے انداز میں بولا۔ "آپ ان سے ملیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی لگیں۔ گی۔  

"میں شہلا سے کئی بار مل چکی ہوں اور وہ مجھے پسند ہے۔"

"اب آپ ضد کر رہی ہیں۔" وجدان نے تھک کر کہا۔ 

"تو تم کیا کر رہے ہو؟" وہ بولی۔ 

"محبت۔" اس نے ایک لفظ کہہ کر  بات پوری کر دی اور اٹھ کر چلا گیا۔ 

"سنا آپ نے مصطفی عظیم! آپ کا بیٹا کیا کہہ کر گیا ہے؟" اپنے شوہر کو چپ دیکھ کر بولیں۔ وہ کچھ سوچ رہے تھے ان کی طرف دیکھا اور توقف کے بعد کہا۔ 

"مجھے لگتا ہے عائشہ!  تمہیں بیٹے کی بات مان لینی چاہیے۔" 

"ایسے کیسے مان لو؟" وہ بدکیں۔ 

 "کیا حرج ہے وہ ان کے بدکنے پر بولے۔ اس گھر میں شہلا بہو بن کر آئے یا ملیحہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن وجدان کو فرق پڑے گا۔ آخر زندگی تو اسے گزارنی ہے۔" 

"اور انیقہ کیا اسے بھی فرق نہیں پڑے گا؟" اس کی چھوٹی بہن دیورانی بن کر اس گھر میں آنے والی تھی۔ اب کوئی اور آئے گی تو کیا اسے برا نہیں لگے گا؟ میرے کہنے پر وہ اپنے ماں باپ سے بھی بات کر چکی ہے اب تک چپ مزمل ان کی بات پر پریشان ہو کر بولا۔ "امی! آپ کو بات اس حد تک بڑھانے کی کیا ضرورت تھی؟ چلیں انیقہ تو میری بیوی ہے لیکن اس کی فیملی کے سامنے مجھے کس قدر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔" 

"کسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا میں نے کہہ دیا ہے شہلا ہیں اس گھر میں آئے گی۔"

"تم نے کہہ دیا لیکن جو ابھی وجدان کہہ کر گیا ہے اس کا کیا؟۔۔۔ بہو کیا سوچے گی اس کی پرواہ ہے بیٹے کا خیال نہیں۔" وہ واضح ملامت کر رہے تھے عائشہ اس الزام پر اچھل پڑیں۔ 

"خیال کیوں نہیں ہے؟" ماں ہو اسکی بہت سوچ سمجھ کر شہلا کا انتخاب کیا تھا کہ وجدان کے مزاج میں سنجیدگی ہے اور شہلا بھی کم گو اور دھیمے مزاج کی لڑکی ہے پھر پڑھی لکھی اور خوبصورت بھی ہے آپ خود جانتے ہی بتائیں ذرا ہے کوئی کمی اس میں؟" 

"کمی بے شک کوئی نہیں پر اس کا کیا حال کے وجدان کو ملیحا پسند ہے؟" 

"بس مصطفی صاحب! اب مجھ سے اس بارے میں کوئی بات نہ کریں۔  سمجھانا ہے تو بیٹے کو سمجھائے کہ ماں کی بات مان لے۔  دشمن نہیں ہو اسکی۔" وہ ناراضگی سے کہہ کر اٹھیں اور چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد مصطفی عظیم مزمل کو مخاطب کرکے بولے۔

"کیا لگتا ہے مزمل! وجدان واقعی اس لڑکی میں انٹر سٹیڈ ہے؟"

" میرے خیال سے تو ہے ورنہ اس کے بارے میں بات کیوں کرتا؟ اور مجھ سے زیادہ تو وہ آپ سے قریب ہے آپ بتائیں وہ اس لڑکی میں کس حد تک انوالو ہو گا؟" 

"وجدان جیسے شخص کے لئے حد کا لفظ استعمال کرنا ہی بیکار ہے۔" اپنی رائے دے کر مزمل مصطفی نے ان کی رائے مانگی تو وہ الجھے سے انداز میں بولے تھے۔

"پھر امی کو کیسے منائیں گے؟" مزمل نے فکرمندی سے کہا تو مصطفی صاحب کہنے لگے۔

"مان جائے گی ویسے اس کا ردعمل فطری ہے اور دھچکا تو مجھے بھی لگا ہے لیکن پھر میں نے محسوس کیا وجدان ملیحہ سے ڈیپلی انوالو ہے تو خود کو سمجھا لیا کہ زندگی تو اس کی ہے اگر ملیحہ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔" پھر مزمل کی طرف دیکھ کر بولے میری بیوی کو چھوڑو یہ بتاؤ اپنی بیوی کو کیسے ہینڈل کرو گے؟" 

"مجھے نہیں لگتا ہے انیقہ اس بارے میں مجھ سے کوئی بحث کرے گی۔ اس نے خود سنا ہے کہ وجدان کسی اور لڑکی میں انٹرسٹیڈ ہے بلکہ میرا خیال ہے اب وہ خود بھی وجدان کی شادی شہلا سے نہیں ہونے دے گی۔ 

"ہوں۔" مصطفی عظیم اس کی بات پر سر ہلانے لگے پھر مزمل اپنے کمرے میں اٹھ کر چلا گیا اور مصطفیٰ عظیم وجدان کے کمرے میں آ گئے تکیہ اونچا کرکے بیڈ پر نیم دراز یک ٹک سامنے دیوار کو دیکھتا ہوا وہ اتنی گہری سوچ میں تھا  کہ ان کے انے کو محسوس بھی نہیں کیا۔ مصطفی عظیم اسے  دیکھ کر مسکرائے اور چھیڑنےکے انداز میں کہا۔

"غم منایا جا رہا ہے۔" وجدان نے  ذرا سا چونک کر انہیں دیکھا اور سیدھا ہو بیٹھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھ کر گہری نظروں سے وجدان کا چہرہ دیکھنے لگے۔ "بہت پیار کرتے ہو۔" 

وجدان سر کو جھکا کر یوں ہی مسکرانے لگا تو وہ اس کے کندھوں پر بازو پھیلا کر بے تکلفی سے بولے۔

" کم آن سن! ہم دونوں ہمیشہ سے اچھے دوست ہیں انہوں نے اس کی تائید مانگی تو اثبات میں سر ہلا کر وہ دھیرے سے بولا۔  

"بہت سے بھی زیادہ۔" اسے پھر چپ ہوتا دیکھ کر وہ کہنے لگے۔ "میری ہونے والے بہو کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتاؤ گے؟" وجدان سمجھ رہا تھا کہ وہ اس طرح کی باتیں کرکے اس کا موڈ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے ٹالنے والے انداز میں کہا۔

" کیا بتاؤں؟" وہ سوچتے ہوئے بولے۔ 

"جو بھی تم جانتے ہو۔ اچھا چلو یہ بتاؤ دکھنے میں کیسی ہے؟" 

وہ ذرا سا مسکرا کر بولا۔ "اچھی ہے۔" 

"بس؟" مصطفی عظیم نے حیرت سے اسے دیکھا۔ "یہی سوال اگر میں  تمہاری عمر کے کسی دوسرے لڑکے سے کرتا تو وہ کہتا ستارہ سے آنکھیں ہیں پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ہیں۔ گھٹاؤں جیسی زلفیں ہیں۔ ایسا حسن میں نے اور کہیں نہیں دیکھا ہو گا۔ اور تم ۔۔۔۔ بس اچھی ہیں۔"

وجدان ان کے اسٹائل پر ہنسنے لگا۔ جیسے وہ چپ ہوے تو ان کو دیکھ کر کہنے لگا۔ 

"ستارہ آنکھیں۔" اس نے کہا اور ملیحہ کی آنکھوں کو یاد کرنے لگا۔ پتہ نہیں ان کی آنکھیں ستارہ سی ہے یا نہیں پر جس طرف اٹھ جاتی ہیں وہاں روشنی ہو جاتی ہے۔ ہونٹوں پر بھی کبھی دھیان نہیں دیا لیکن ان کی مسکراہٹ سچ میں بہت پیاری ہے۔ اور زلفیں شاید گھٹاؤں جیسی ہو کبھی نوٹ نہیں کیا۔ ہاں مگر جب ان کے بال ہوا میں لہراتے ہیں تو لگتا ہے گھٹا برس رہی ہے۔ میں کبھی کبھی حیران ہو جاتا ہوں کوئی اتنا حسین کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا حسن آس پاس کی ہر چیز حسین بنا دے۔" پھر وو اچانک ہی بولتے چپ ہو گیا۔ مصطفیٰ عظیم کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔ "امی بہت ناراض ہیں نا؟" 

" یہ مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ پہلے ناراض ہو جاتی ہیں پھر مان بھی جاتی ہیں۔ تمہاری ماں بھی مان جائے گی۔ فکر مت کرو۔" آس کے بال بکھیرتے ہوے انہوں نے ایسے کہا۔ جیسے وجدان چھوٹا بچہ ہو۔ پھر گلے لگا کر آس کی پیٹھ تھپکی۔ " آرام سے سو جاؤ۔ میں عائشہ کو سمجھا لوں گا۔ تم ٹنشن مت لینا۔" 

خود سے الگ کر کے انہوں نے وجدان کا ماتھا چوما پھر جب تک وہ کمبل لے کٹ لیٹ نہیں گیا وہ وھیں کھڑے رہے۔ آس کے بعد لائٹ اف کر کے چلے گے۔ مگر وجدان کو کوشش کے باوجود آنکھیں بند نہیں کر سکا۔ حالانکہ مصطفیٰ عظیم سے بات کر کے وہ ہلکا سا ہو گیا تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ ہر قیمت پر مصطفیٰ عائشہ کو راضی کر لیں گے۔ انہیں وجدان سے ایسی محبت تھی۔ مگر کوئی چیز پھر بھی اسے بےچین کر رہی تھی۔ 

 .~~~~~~

شاید وہ نمکین پانی تھا جو ملیحہ کی آنکھوں سے بہہ کر گالوں سے پھسلتا گود میں رکھے اسکے ہاتھوں کی پشت پر بے آواز گر رہا تھا۔ وجدان اٹھ بیٹھا اور اندھیرے میں اپنے سامنے ہاتھ پھیلا کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی پشت کو چھوا۔ اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے گرم سیال اسکے ہاتھوں پر انڈیل دیا ہو۔ مگر بابا جان کا تو جسم ہی ایندھن بن گیا تھا۔ وہ بھلا کب ملیحہ کو اس گستاخی کی اجازت دے سکتے تھے؟ اسکے سامنے پھر بھی ضبط کرتے رہے تھے، مگر اب غیض و غضب انکے ہر انداز سے جھلک رہا تھا۔ تیر تیز راکنگ چیئر کو آگے پیچھے جھلاتے وہ مستقل اپنے ابال کو کم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ پر اس کوشش کا نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تھا۔ پھر وہ اٹھ کر بیڈ تک آئے اور اپنے سب سے قریبی دوست ملک ناصر کو فون کرنے لگے۔

”ہیلو!“ کی آواز سنتے ہی بابا جان نے کہا۔

”ملک! میں آرہا ہوں۔“ اور انکی بات سننے سے پہلے ہی فون رکھ دیا۔

”ملیحہ کے بارے میں آج تک جو بھی جانا، جو بھی سمجھا، جو بھی سوچا سب غلط، ایک ہی پل میں میری بیٹی میرے لیے اجنبی ہوگئی۔ میں سمجھتا تھا، ملیحہ میری مزاج آشنا ہے۔ وہ کبھی میری رضا کو فراموش نہیں کرے گی۔ میری راہ پر چلنا تو کیا، اسکے پیر میرے نقش قدم سے ہٹ کر کہیں نہیں پڑ سکتے۔ مجھ سے اختلاف وہ کبھی کر ہی نہیں سکتی، اور اس نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔ اس نے خود کو میرے ہاتھ میں دے رکھا تھا۔ میں جو چاہتا، اس کے لیے فیصلے کرتا اور ملیحہ بھی ان فیصلوں کو مانتی، بلا چوں چراں کئے۔ میرے ہر لفظ کو اس نے حکم کا درجہ دیا۔ ’نہیں‘ لفظ میں نے اسکی زبان سے کبھی سنا ہی نہیں۔ بچے ضد کرتے ہیں، مگر اس نے تو کبھی فرمائش بھی نہیں کی۔ میں نے جو بھی دیا، اس نے قبول کر لیا۔ کبھی پسند ناپسند کا راگ نہیں الاپا۔ اور مجھے یقین ہوگیا، میری بیٹی میری _____ کے سانچے میں ڈھلی ہے۔“ ملک ناصر کے سامنے انکے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے وہ ذرا دیر کو تھمے،پھر دکھ سے بولے۔

”مگر آج پتا چلا، میرا یقین جھوٹا تھا۔ میری اجازت کے بغیر اس نے اپنے لیے ایک ایسی راہ کو پسند کیا جو مجھے پسند نہیں۔ اج اس نے اختلاف کی جرات کی ہے اور ایک فیصلہ بھی جسے وہ چاہتی ہے، میں مان لوں، جھک جاؤں اسکے سامنے۔“ وہ آتشی لہجے میں پھٹ پڑے، پھر اچانک ہی انکا لہجہ سست ہوگیا۔

"مجھے لگتا تھا، ملیحہ سے زیادہ سعادت مند اور فرمانبردار بیٹی دنیا میں دوسری نہیں ھوگی. اور مجھ جیسا خوش قسمت باپ بھی اور نہیں ھوگا. مگر مجھ سے زیادہ بد قسمت باپ اور کون ھوگا جو بیس سالوں بَعْد جانے كہ بیس برس تک جو وہ اپنی بیٹی کو سمجھتا آیا تھا، وہ وہ نہیں ہے. کیا تم اس باپ کی تکلیف کو سمجھ سکتے ہو، جو اپنی ہی بیٹی کو سمجھ نا پایا ہو؟ میری بیٹی سعادت مند نہیں ہے، اور کون جانے فرمانبردار بھی ھوگی یا نہیں." 

وہ چُپ ہوئے تو ملک ناصر سمجھانے كے اندازِ میں بولے. "میں اب بھی یہی کہونگا اظہر! كہ تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں ملیحہ جیسی بیٹی ملی، جیسے دیکھ کر ہمیشہ میرے دِل میں یہ حسرت جاگتی ہے كہ کاش وہ میرے گھر پیدا ہوئی ہوتی. وہ غلط نہیں ھوسکتی، مگر غلطی کرسکتی ہے. اگر تمہیں لگتا ہے كہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو سمجھا بجھا کر صحیح راستے پر لے آؤ. لیکن اک چیز مجھے بھی کھٹک رہی ہے." انہوں نے بابا جان کو دیکھا اور کہا. "نورالہدی کو محبت کرنے کی اِجازَت دیتے ہو تو ملیحہ کو یہ اِجازَت کیوں نہیں ہے؟" 

"کیوںكہ میں ملیحہ كے لیے نورالہدی کا انتخاب کرچکا ہوں. اسے محبت کرنے کی اِجازَت ہے، مگر صرف نورالہدی سے محبت کرنے کی اور کسی سے نہیں. نورالہدی کی کیا بات کرتے ہو؟ اس نے اس سے محبت کی جیسے میں نے اِس كے لیے پسند کیا. اسکی محبت میرے فیصلے پر تصدیق کی مہر ہے. اور اگر ایسا نا ہوتا تو میں کبھی بھی اسکی محبت کی پروا نہ کرتا. ماں باپ کی تابعداری اولاد پر فرض ہے اور سچ تو یہ ہے كہ اولاد ہونے کا فرض صرف نورالہدی نے نبھایا۔" انکا اندازِ ملیحہ سے لا تعلقی والا تھا. ملک ناصر نے تاسف بھری نظروں سے انہیں دیکھا. 

"بیٹی سے اِس قدر بھی بد گمان نا ہوجاؤ اظہر! كہ ظلم ہوجائے. یہی سوچ کر ملیحہ نے پہلی بار تم سے کچھ مانگا ہے. اک بار وجدان سے مل تو لو، پھر جو چاھے فیصلہ کرلینا."

"فیصلہ تو بہت پہلے ہو چکا ہے ملک!" وہ مستحکم آواز میں بولے. "ملیحہ کی شادی، نورالہدی سے ہی ھوگی. میں نے اب تک سوچا بھی نہیں تھا كہ کب.... مگر اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے كہ اسی جمعے کو ملیحہ اور نورالہدی کا نکاح پڑھا دیا جائے گا اور وہ لڑکا، دعا کرنا ملک! وہ لڑکا کبھی میرے سامنے نا آئے، ورنہ میں اسے جان سے مار دونگا. اصل قصور وار تو وہی ہے، جو میری معصوم بچی کی سادگی کا فائدہ اٹھا رہا ہے، اسے ورگلا کر اپنی باتوں میں لانا چاہتا ہے. ورنہ ملیحہ نے کبھی نوکروں تک سے اک كے بعد دوسری بات نہیں کی. اور آج وہ مجھ سے بحث کررہی ہے. ملیحہ نا سمجھ ہے، لوگوں کو پرکھ نہیں کرسکتی. اور وہ ملیحہ کی اِس کمزوری کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے. مگر میں ایسا ہونے نہیں دونگا. خوب جانتا ہوں، ان راہ چلتے لڑکوں کو اور انکی سو کالڈ محبتوں کو. لڑکیاں ان كے لیے کھیلونا ہوتی ہیں. لیکن اظہر فاروقی کی بیٹی کھلونا نہیں ہے. جن ھاتھوں نے اس سے کھیلنے کی جرات کی، وہ جسم سے الگ ہو جائے گے." ملک ناصر نے سانس بھر کر بابا جان كے تنے ہوئے چہرے کو دیکھا. 

"جب سب کچھ طے کرچکے ہو تو غصہ کس لیے ہے؟" انکی بات سن کر بابا جان كے چہرے كے غصلات ڈھیلے پڑ گئے. سَر کو ذرا سا جھکا کر کنپٹی مسلتے ہوئے انہوں نے سست لہجے میں کہا. 

"مجھے ملیحہ پر اتنا غصہ نہیں آرہا، جتنا اپنے آپ پر. جس بیٹی سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی، آج کتنی سفاکی سے اسے کہہ دیا كہ مر جاؤ گی تو دفنا دونگا. اتنی بڑی بات پتہ نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گئی. ملیحہ بھی حیران رہ گئی ھوگی. بھلا کب اس نے میرے سخت لہجے کو سنا ہے؟ کبھی اس نے نوبت بھی تو نہیں آنے دی ہے. پتہ ہے، وہ رَو رہی تھی." وہ لب بھینچ کر چُپ ہوئے پھر کہنے لگے. "بس اک بار میں نے ملیحہ کو روتے دیکھا تھا، جس دن فریال کا انتقال ہوا تھا. وہ ماں کی لاش سے لپٹ کر اونچی آواز میں رُو رہی تھی. میرا دِل بہت چاہا كہ اسکے پاس جاؤں، آنسو پونچھ کر اسے گلے سے لگا کر کہوں، ماں مری ہے، مگر باپ تو زندہ ہے. اِس طرح رُو کر باپ کو تکلیف نا دو. مگر کیسے اسے رونے سے منع کرتا؟ اسکا رونا مجھ سے برداشت نہیں ہوا تو کمرے میں بند ہو گیا، تاکہ اسکی روتی آنکھیں نظر نا آئیں. اسکی بین کرتی آواز میرے کانوں تک نا پہنچے اور اِس وقت تک کمرے میں رہا، جب تک وہ روتے روتے تھک کر سو نہیں گئی." وہ رکے، پھر دکھ سے بولے.

”اور آج میں نے خود اسے رلایا ہے۔ آج بھی میرا دل چاہ رہا ہے کہ اسکے پاس جاؤں، اسے چپ کراؤں۔ مگر آج بھی مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ اسکے آنسو دیکھ سکوں۔“ ملک ناصر کو انکے الفاظ اور انکے بکھرے بکھرے انداز پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ فریال کے بعد ملک ناصر ہی وہ دوسرے شخص تھے جو اس راز سے واقف تھے کہ باہر سے سخت نظر آنے والے اظہر فاروقی اندر سے بہت نرم تھے اور انہیں بھی اپنی نرمی کا احساس نہیں تھا۔

قصر فاروقی پہنچ کر بھی بابا جان ایک پل کے لیے چین سے نہیں بیٹھ سکے۔ مگر اس کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم تھے۔ باقی رات انہیں اپنے فیصلے کو مضبوط کرنے میں لگی۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ کمرے سے باہر آئے اور دھیرے دھیرے ملیحہ کے کمرے کو جاتی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ دروازہ کھول کر انہوں نے نماز پڑھتی ملیحہ کی پشت کو دیکھا۔ وہ وہیں رک کر اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ ملیحہ نے سلام پھیرا تو وہ کہنے لگے۔

”آج سے تین دن بعد یعنی جمعے کے روز تمہارا نور الہدیٰ کے ساتھ نکاح ہے۔ تمہیں جو بھی تیاری کرنی ہو، آج اور کل میں مکمل کرلینا۔ بڑا فنکشن نہیں ہے۔ بس تمہارے ننھیال والے اور میرے کچھ دوست ہونگے۔ شاید کچھ مہمان نور الہدیٰ کے بھی ہوں۔ تم جن کو بلانا چاہو، انکے ناموں کی فہرست بنا کر میرے کمرے میں لے آؤ۔“

اپنی بات کہہ کر انہوں نے ملیحہ کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی پر وہ آدھا چہرہ ہی دیکھ پائے۔ مگر وہ آدھا چہرہ پوری رات کی کہانی سنا رہا تھا۔ بابا جان کے اندر کشمکش چڑھ گئی، مگر وہ اب بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن انہیں احساس تھا کہ وہ کمزور پڑتے جارہے ہیں۔ اسی لئے جب نور الہدیٰ سے بات کرکے اسٹڈی میں آئے تو خود اپنے فرار کی راہیں روکنے کے لیے عزیزوں، رشتے داروں کو فون کر کے ملیحہ اور نور الہدیٰ کی شادی کی اطلاع دے کر شام میں منگنی کے لیے دعوت دے ڈالی۔

افتخار حسن اس اطلاع پر حیرت سے مبارکباد دیتے ہوئے بولے۔ ”مبارک ہو بھائی صاحب! ویسے یہ خبر غیر متوقع تو نہیں ہے، لیکن کافی اچانک ہے۔“

”آپکو بھی مبارک ہو۔ اور شام میں سب گھر والوں کو لے کر آجائیگا۔ منگنی کی چھوٹی سی تقریب ہے۔“ بابا جان نے دانستہ انکی اگلی بات ان سنی کردی۔

”ضرور۔“ افتخار حسن نے کہا۔ ”ابھی کچھ دیر پہلے ملیحہ کا فون آیا تھا، لیکن نہ اس نے شادی کے بارے میں کچھ بتایا، نہ منگنی کے بارے میں۔“

بابا جان چونکے۔ ”ملیحہ کا فون آیا تھا؟“

”ہاں۔ سمیرا سے بات ہوئی تھی۔ اس نے سمیرا کو فوراً بلوایا تھا، مگر شادی کے بارے میں یقیناً نہیں بتایا۔ ورنہ سمیرا ضرور ذکر کرتی۔ ابھی تک آپ کی طرف پہنچی نہیں؟“ آخر میں انہوں نے پوچھا۔

”راستے میں ہوگی۔ اچھا افتخار! میں فون رکھتا ہوں۔ باقی سب کو بھی اطلاع دینی ہے۔“

”جی بھائی صاحب! اللّٰہ حافظ۔“

فون رکھ کر بابا جان سوچنے لگے کہ ملیحہ نے سمیرا کو کیوں بلوایا ہوگا۔ پھر جب سمیرا انکے پاس آئی اور ان سے ملیحہ کو ساتھ شاپنگ پر لے جانے کی اجازت مانگی تو وہ فوراً ہی سمجھ گئے کہ ملیحہ نے سمیرا کو کیوں بلوایا تھا۔

انہوں نے سمیرا کو اجازت دے دی اور سمیرا کے جاتے ہی انہوں نے ریسیور اٹھا کر ایک نمبر ڈائل کیا۔

”ہیلو۔“ دوسری طرف سے ملک ناصر نے فون اٹھا کر کہا۔

”ملک! تم ابھی آسکتے ہو؟“انکی آواز سن کر بابا جان نے کہا۔

”ہاں، لیکن کیا بات ہے؟“

”فون پر نہیں بتا سکتا۔ تم آجاؤ، پھر بات ہوگی۔“ اتنا کہہ کر انہوں نے ریسیور رکھ دیا۔ بہادر انکی چائے لے کر آیا تو وہ ہنوز سوچ میں ڈوبے تھے۔ وہ کپ رکھ کر پلٹنے لگا تو بابا جان نے اسے روک کر کہا۔

”بہادر! ڈرائیور آجائے تو اسے میرے پاس بھیجنا۔“

”جی کرنل صاب!“ وہ سر ہلا کر چلا گیا۔ ملک ناصر چند منٹوں بعد قصر فاروقی میں تھے۔ انہوں نے لاؤنج میں سے گزرتے بہادر سے اظہر فاروقی کا پوچھا اور اسٹڈی میں آگئے۔ بابا جان کے مقابل میز کے دوسری طرف رکھی کرسی پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے پوچھا۔

”اب بتاؤ، کیا بات ہے؟“

”ملیحہ، وجدان سے ملنے گئی ہے۔“ وہ پر سکون لہجے میں بولے تھے۔ ملک ناصر کچھ دیر خاموش رہے، پھر پوچھا۔

”تمہیں بتا کر گئی ہے؟“

”نہیں۔ بس میرا اندازہ ہے۔“

”غلط بھی تو ہو سکتا ہے۔“

”ہاں ہوسکتا ہے۔ مگر اسکا کوئی چانس نہیں۔“ ابھی وہ بول ہی رہے تھے کہ ڈرائیور آگیا۔

”ملیحہ کو لے کر آئے ہو؟“

”نہیں کرنل صاحب! بی بی، لائیبریری کے پاس اتر گئی تھیں اور کہا کہ سمیرا بی بی کو انکے گھر چھوڑ کر واپس آجاؤں۔“

بابا جان 'ہوں' کہہ کر خاموش ہوگئے۔ ملک ناصر نے ڈرائیور سے کہا۔ ”تم جاؤ۔“

وہ چلا گیا تو بابا جان نے ہلکی آواز میں کہا۔ ”میری بیٹی نافرمان بھی ہوگئی ہے، لیکن میں اسے خود سے بغاوت نہیں کرنے دونگا۔“

”تو کیا کروگے؟“ ملک ناصر سرسراتے لہجے میں بولے۔

”میری بیٹی نافرمان بھی ہوگئی ہے، لیکن میں اسے خود سے بغاوت نہیں کرنے دونگا۔“

”تو کیا کروگے؟“ ملک ناصر سرسراتے لہجے میں بولے۔

”وجدان کو قبول کر لونگا۔“

ملک ناصر کے لیے یہ جملہ اس قدر غیر متوقع تھا کہ وہ حیرت سے بول بھی نہ سکے اور بابا جان رکے بغیر بول رہے تھے۔

”ملیحہ میری جان ہے اور کوئی کتنی دیر اپنی جان پر عذاب برداشت کرسکتا ہے؟ اسے تکلیف پہنچا کر ایک رات کاٹنا مشکل ہوگیا تھا۔ ساری عمر اس احساس کے ساتھ کیسے گزار پاؤں گا کہ وہ میری وجہ سے دکھ میں ہے۔

کل وہ بار بار مجھ سے کہہ رہی تھی کہ وجدان سے مل لوں۔ اگر آج وہ وجدان سے ملی تو اسے میرے پاس ضرور لائے گی اور وہ لڑکا اگر ملیحہ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسکا ہاتھ مانگنے میرے پاس آجائے تو میں بخوشی ملیحہ کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے دوں گا۔“

”اور نور الہدیٰ؟“ ملک ناصر نے مبہم سا سوال کیا۔

”وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ ملیحہ کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہیں کرے گا۔ اور اگر اسے پتہ چل جائے کہ ملیحہ، وجدان سے شادی کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ ہی ان دونوں کی وکالت کرے گا۔ اسے واقعی ملیحہ کا بہت خیال ہے۔ بلکہ وہ بدمعاش تو ملیحہ کی خاطر مجھ سے جھوٹ بولنے سے بھی نہیں چوکتا۔“

کچھ یاد کر كے وہ مسکرانے لگے. انہیں ایسا لگ رہا تھا كہ کوئی بھاری بوجھ ان کے سَر سے سرک گیا ہو. 

~~~~~~~~

وجدان کی صبح بھاری سر كے ساتھ ہوئی تھی. رات نیند بھی بہت دیر سے آئی تھی، اِس لیے آنکھ بھی دیر سے کھلی. روز وہ 8 بجے لائبریری كے گیٹ پر ہوتا تھا. آج گھڑی میں 9 بجتے دیکھ کر وہ اچھل کر بستر سے باہر نکل گیا اور چکراتی سَر کی پرواہ کیے بغیر 15 منٹ میں تیار ہو کر بائیک کی چابی پکڑے وہ نیچے تھا. عائشہ ابھی بھی اس سے ناراض تھیں، پر اسے خالی پیٹ گھر سے باہر جاتا دیکھا تو بول پڑیں. 

"جہاں جانا ہے، ناشتہ کر كے جاؤ." وجدان نے لاونج میں رک کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف دیکھا. 

"امی! مجھے دیر ہو رہی ہے." 

"دیر آفس كے لیے نہیں ھورھی، جو ناشتہ كے لیے 5 منٹ نا رک سکو. سب جانتی ہوں، اسی لڑکی كے پیچھے جا رہے ہو." ان سے تو کچھ بولنا فضول تھا. ڈاننگ ٹیبل كے پاس آ کر آفس كے لیے تیار ناشتہ کرتے مصطفی عظیم نے کہا. 

"ابو! بس آج کا دن ہے. کل سے میں واپس فرم جوائن کرلونگا." 

"آج کیا معجزہ ہونے والا ہے؟" عائشہ نے طنز کیا تو مصطفی عظیم ٹوک کر بولے. 

"بس کرو عائشہ!" پھر وجدان کی طرف رخ کیا. "بیٹا! ناشتہ کر لو." 

"سوری ابو! میں بہت جلدی میں ہوں." پھر اللہ حافظ کہہ کر باہر نکل گیا. وہ تیزی سے بائیک اڑا رہا تھا. مگر اسکے خیال کی رَو اس سے بھی تیز بہہ رہی تھی. کبھی اسکا دھیان ملیحہ کی طرف مڑ جاتا، کبھی اپنی امی کی طرف. ان کا رویہ وجدان کو پریشان كررہا تھا. مین روڈ پر آگے جا کر اک کٹ تھا، جس سے سیدھے ہاتھ پر مڑ کر سامنے ہی لائبریری والی گلی تھی.

وجدان کو اس کٹ سے مڑ جانا تھا۔ مگر اپنے خیالات میں الجھے اسے ذرا آگے جا کر دھیان آیا۔ بجائے اسکے کہ وہ اگلے کٹ سے مڑ جاتا، اس نے موڑ مڑنے کے لیے بائیک کا ہینڈل پوری طرح سے گھما دیا۔ رفتار کافی تیز تھی۔ بائیک لہرائی اور سلپ ہوگئی۔ وجدان سڑک پر گر کر بے ہوش ہوگیا۔

پل بھر میں وہاں لوگوں کا مجمع لگ گیا۔ کوئی ایمبولینس بلوانے کی بات کررہا تھا اور کوئی پولیس کو اطلاع کرنے پر زور دے رہا تھا۔ پھر ایک بھلے مانس نے ایک ساتھ دونوں کام کئے۔ اس ہجوم سے کوئی بھی وجدان کے قریب جانے کو تیار نہیں تھا۔ بس ایک شخص نے بڑی احتیاط کے ساتھ اسکی نبض چیک کی اور 'زندہ ہے' کی خوشخبری سنا کر پیچھے ہٹ گیا۔ لوگوں کی نظریں اسکے بے ہوش چہرے پر تھیں۔ یہاں سے ہٹتیں تو بائیک پر ٹھہر جاتیں، جسکا اگلا ویل مڑ چکا تھا۔ مگر اسی ہجوم میں شامل ایک فقیر کی نظریں بائیک سے آگے فٹ پاتھ کے پاس پڑے اس چھوٹے سے بیگ پر تھیں جس میں وجدان کے شناختی کارڈ اور لائسنس کے علاوہ کچھ رقم بھی موجود تھی جو کچھ دیر پہلے وجدان کی کمر سے بندھا تھا۔ مگر گرنے کے دوران بکل ٹوٹ جانے کی وجہ سے کھل کر الگ جا پڑا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا فٹ پاتھ تک آیا، پھر نظریں بچا کر وہ بیگ اٹھا کے اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔

کچھ دیر میں ہی پولیس موبائل کے ساتھ ایمبولینس آگئی۔ جو تھوڑا بہت ٹریفک چل رہا تھا، وہ بھی رک گیا۔ ملیحہ کی کار بھی اس ٹریفک جام میں پھنس گئی تھی۔ آخر اس نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا اور کار سے اتر گئی۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس نے ایک اچٹتی سی نگاہ جائے حادثہ پر ڈالی، جہاں وجدان کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں چڑھایا جارہا تھا۔ مگر ہجوم کی وجہ سے ملیحہ اسکا چہرہ نہ دیکھ سکی۔

ایمبولینس کو بھیج کر پولیس نے وہاں موجود کچھ لوگوں کے بیان ریکارڈ کئے۔ پھر وقوعہ کا جائزہ لے کر بائیک موبائل میں ڈال کر چلے گئے اور ٹریفک بحال ہوگیا۔ 

لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھی لمحہ لمحہ گنتی ملیحہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر بے ہوش وجدان کے دماغ کا ایکسرے لیا جارہا تھا۔

~~~~~~~~~~

سمیرا نے ہال میں قدم رکھا تو سب گھر والوں کو وہاں جمع دیکھا۔ افتخار حسن اور منیر حسن بھی ابھی تک گھر میں موجود تھے۔

”آپ تو آفس چلے گئے تھے۔“ وہ آفاق کو دیکھ کر حیرت سے بولی جو اسے قصر فاروقی ڈراپ کرکے آفس چلا گیا تھا۔

”ہاں۔ مگر امی نے فون کرکے ملیحہ کی شادی اور شام میں انگیجمنٹ کا بتایا تو رہ نہیں سکا اور اصل صورتحال جاننے کے لئے چلا آیا۔“

”پر تمہاری تو ملیحہ سے بات ہوچکی تھی۔ تو تم نے بتایا کیوں نہیں؟“ چچی، سمیرا سے بولیں۔

”ملیحہ نے فون پر بتایا ہی کہاں تھا چچی جان! وہ تو جا کر پتہ چلا۔“

”لیکن واپس کیوں آگئیں؟“ دوپہر کے بعد ہم بھی وہاں جانے والے ہیں۔ تم وہیں ملیحہ کے پاس رہ جاتیں۔ ایسے وقت میں وہ اکیلی ہے۔“ اب اسکی امی نے کہا تو سمیرا بولی۔

”وہ گھر پر نہیں ہے، شاپنگ کے لیے گئی ہے۔ آج اور کل کا دن ہی تو ہے، پرسوں تو مہندی ہے۔ کہا تو اس نے مجھے بھی تھا پر پوچھ کر نہیں گئی تھی۔ یوں بھی اتنی صبح شاپنگ کے خیال سے ہی مجھے چکر آگئے تھے۔“

”پوچھنے کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، فون پر بتا دیتیں، کافی ہوتا۔“ منیر حسن نے کہا۔

”لیکن سمجھ نہیں آرہا، پھوپھا جان نے ملیحہ کی شادی اتنی جلد بازی میں کیوں طے کی؟“ صمد نے وہ سوال پوچھا تھا جو آفاق کو پریشان کررہا تھا اور جس کا جواب سوچ کر سمیرا ایک بار پھر پریشان ہو اٹھی۔

”ہمارے لئے یہ اطلاع اچانک ہے۔ مگر بھائی صاحب نے تو پہلے سے ہی طے کر رکھا ہوگا۔ پھر جب وقت قریب آیا تو اعلان کردیا۔“ اپنے پاپا کی بات پر آفاق کی گردن دھیرے دھیرے نفی میں ہلنے لگی۔ اسے پتہ نہیں کیوں یقین تھا کہ ملیحہ نے اپنے بابا جان سے بات کرلی ہوگی اور اب یہ شادی اسی کا ری ایکشن ہے۔ مگر اس نے خود کو بولنے سے باز ہی رکھا۔ صمد نے البتہ اختلاف کیا۔

”اگر ایسا ہوتا تو ملیحہ ضرور اس بات کا ذکر کرتی کہ درون خانہ اسکی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔“ سمیرا کی امی بولیں۔

”جب بھائی صاحب نے ہی منہ سے بھاپ نہیں نکالی تو ملیحہ خود سے کیا کہتی؟ میرا تو خیال ہے، نور الہدیٰ کے پاکستان واپس آتے ہی سب معاملہ فٹ ہوگیا ہوگا۔ پھر تم نے دیکھا نہیں تھا، جب نور الہدیٰ، ملیحہ کو لینے آیا تھا، کیسے بھٹک بھٹک کر اسکا دھیان ملیحہ کی طرف جارہا تھا۔ اب تایا زاد، چچا زاد، بہن بھائی تو ہمارے گھر میں بھی ساتھ رہتے آئے ہیں، پر ایسی یگانگت تو کبھی نہیں دیکھی۔ ہاں رشتہ اگر منگیتر کا ہوتا تو ایسا ہوا کرتا ہے۔“ انکے تجزیے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا۔ اسی لئے سب 'ہاں' میں سر ہلانے لگے۔ آفاق لاتعلق سا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وجدان کو فون کرکے ساری صورتحال کے بارے میں بتائے۔ پر گھڑی میں دس بجتے دیکھ کر اس نے ارادہ بدل دیا۔ اسے معلوم تھا کہ دس بجے وجدان کو ملیحہ سے لائبریری میں ملنا تھا اس لئے اس وقت اسکا گھر پر ملنا مشکل تھا۔ وہ آفس جانے کے ارادے سے کھڑا ہوا۔

”میں آفس جارہا ہوں۔“ اس نے سوچا، سمیرا اسے باہر تک حسب معمول چھوڑنے آئے گی تو اس سے بات کرکے اندازہ لگائے گا کہ اسے ملیحہ نے اپنے اور وجدان کے بارے میں کچھ بتایا ہے یا نہیں۔ پر وہ اعصابی طور پر تھک چکی تھی۔ سمیرا نے اسے بیٹھے بیٹھے ہی 'اللّٰہ حافظ' کہہ دیا۔ آفاق نے سوچا اسے باہر آنے کو کہے۔ پھر خیال آیا، ملیحہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ واقعہ وجدان کے گوش گزار کر ہی دے گی جسکے بعد وجدان یقیناً اس سے کنٹیکٹ کرے گا۔ تو پھر سمیرا سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ممکن ہے ملیحہ نے اسے نہ بتایا ہو اور آفاق کی باتوں سے وہ مشکوک ہو جائے۔ سمیرا سے بات کرنے کا خیال ترک کرکے وہ آفس کے لئے نکل گیا مگر آفس میں بھی وہ الجھا ہی رہا۔ ہر بار جب اسکے ڈیسک پر رکھا فون بجتا تو وہ یہ سوچ کر فون اٹھاتا کہ شاید وجدان کا فون ہو۔ آخر تین گھنٹے بعد اس نے وجدان کے گھر فون ملا دیا جسے انیقہ نے ریسیور کیا تھا۔ 

”بھابی! السلام علیکم۔ آفاق بات کررہا ہوں۔ وجدان گھر پر ہے۔“

”وعلیکم السلام۔ اور آج کل آپکے دوست کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں۔“

”مطلب وہ گھر پر نہیں ہے۔“

”صحیح سمجھے۔“

”اچھا۔۔۔۔“ آفاق نے اچھا کو لمبا کھینچا۔ ”بھابی! اگر وہ گھر آئے یا اسکا فون ہی آجائے تو اس سے کہئے گا، فوراً مجھ سے بات کرے۔ یوں سمجھیں ایمرجنسی ہے۔“

”ٹھیک ہے، اسے بتادوں گی۔ اللّٰہ حافظ۔“ فون رکھ کر وہ پلٹی تو عائشہ نے پوچھا۔ 

”کس کا فون تھا۔“

”آفاق کا۔ کہہ رہے تھے، وجدان سے ضروری کام ہے۔ گھر آئے تو اس سے کہیں کہ مجھ سے بات کرلے۔“

”ایسا کیا ضروری کام پڑ گیا؟“ وہ اچنبھے سے بولیں۔

”ہوگا کوئی کام۔ میں نے پوچھا نہیں۔“ انیقہ نے شانے اچکا دیئے۔

~~~~~~~~~

وجدان کے ایکسرے کلیئر تھے۔ اسے کوئی گہری چوٹ نہیں آئی تھی۔ مگر اب وہ بے ہوش تھا۔ اسکے پاس سے ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی، جس سے اس کی شناخت ہو پاتی۔ جائے حادثہ سے بھی پولیس کو ایسی کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی۔ اب ایک ہی طریقہ تھا کہ بائیک کے رجسٹریشن نمبر کے ذریعے اسکا آتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی۔

یہ 18 دسمبر 1981ء کا سرد دن تھا۔ آج کا کمپیوٹرائزڈ دور نہیں تھا۔ اس وقت ریکارڈ ہاتھ سے تیار کئے جاتے تھے۔ اور اگر کہیں کوئی فائل نکالنی ہوتی تو گھنٹوں اسٹور روم میں فائلوں کے انبار کے ساتھ سر کھپانا پڑتا۔ وجدان کی شناخت بھی ایسا ہی سر درد ثابت ہونے والی تھی، جس میں گھنٹوں لگ جاتے۔ 

******

آفاق سب کام چھوڑ کر بس وجدان کے فون کا انتظار کررہا تھا۔ آخر تھک کر اس نے خود وجدان سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اٹھ گیا۔ لائبریری کے گیٹ سے دور کار روک کر بیٹھا آفاق سوچ رہا تھا کہ اسے وجدان یہاں ملے گا یا نہیں۔ وہ ملیحہ سے دس بجے ملنے والا تھا اور اب پانچ بج رہے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ وہ دونوں اب تک لائبریری میں ہوتے، پھر اسکے ساتھ ملیحہ بھی ہوتی۔۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ملیحہ کو لائبریری سے نکل کر سڑک کراس کرکے جنرل اسٹور میں جاتے دیکھا۔ آفاق کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں۔ کچھ دیر بعد ملیحہ اسٹور سے نکل کر باہر آئی اور ٹیکسی میں بیٹھ کر چلی گئی۔

”وجدان کہاں رہ گیا؟“ آفاق، ملیحہ کی پریشانی بھانپ چکا تھا، اس نے زیر لب کہا تھا پھر وہ کار سے اتر کر اسی اسٹور میں آیا، جہاں سے کچھ دیر پہلے ملیحہ نے فون کیا تھا اور اپنے پاپا کے آفس کا نمبر ملا دیا۔

”پاپا! وجدان آفس میں ہے؟“

”کیا بات ہے، آج ہر کوئی اسے میرے آفس میں کیوں فون کررہا ہے؟ ابھی دو منٹ پہلے کسی لڑکی کا فون بھی آیا تھا۔ وجدان کا پوچھ رہی تھی۔ اب تم بھی اسکا پوچھ رہے ہو۔ چکر کیا ہے؟“

”کوئی چکر نہیں ہے پاپا! اچھا میں فون رکھتا ہوں۔“ پھر اللّٰہ حافظ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔

”میرا شک ٹھیک نکلا۔ وجدان، ملیحہ سے ملنے نہیں آیا۔ پر کیوں؟“ آفاق پیشانی مسلتے ہوئے سوچنے لگا۔ پھر آرٹس کونسل میں اسکو تلاش کرنے کے بعد وہ ساجد کی طرف آگیا۔

”یار ساجد! وجدان کا کوئی پتہ ہے؟“

”وہ وہیں لائبریری میں ہوگا۔“ اس نے لاپرواہی سے کہا۔

”وہ وہاں نہیں ہے۔ بلکہ کہیں بھی نہیں ہے۔“ آفاق نے کہا پھر پریشانی سے بولا۔ ”ساجد! اسکا ملنا خود اسکے لئے بہت ضروری ہے۔ کہیں سے بھی اسے ڈھونڈنا ہوگا۔“

”سب ٹھیک تو ہے؟“ اسکے انداز پر وہ پریشان ہوگیا۔ آفاق لب بھینچ کر خاموش ہوگیا۔ ساجد اسکا دوست سہی، پر وہ اس کے سامنے ملیحہ کا نام نہیں لینا چاہتا تھا۔ ساجد بھی اسکی خاموشی سے سمجھ گیا کہ کوئی ایسی بات ہے جو آفاق اسے بتانا نہیں چاہتا تو اس نے پھر کوئی سوال نہیں کیا اور اس کے ساتھ اٹھ آیا۔

~~~~~~~~~

خوش قسمتی سے اس نئے ماڈل کی بائیک، جسے خریدے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، اسکی فائل توقع سے کم وقت میں اسٹور روم سے برآمد ہوگئی۔ بائیک کی ریجسٹریشن مزمل مصطفی کے نام پر تھی۔ فائل میں مزمل کی تصویر بھی موجود تھی۔ تصویر میں نظر آتا چہرہ، زخمی کے چہرے سے تھوڑی مشابہت رکھتا تھا مگر پھر بھی کافی الگ تھا۔ رجسٹریشن فائل سے زخمی کی شناخت تو نہیں ہوسکی، پر اس امید پر کہ مزمل مصطفی اس نوجوان کی شناخت کرسکے، ایس ایچ او نے کاغذات سے ملنے والے اسکے آفس کے نمبر پر اسے فون کیا اور حادثے کی اطلاع دے دی۔ مزمل ایک پل میں سمجھ گیا کہ زخمی نوجوان کون ہوگا۔ بائیک کی رجسٹریشن تو مزمل کے نام پر تھی مگر اسکا استعمال صرف وجدان ہی کیا کرتا تھا۔ فون پر بتائے گئے حلیے کو پہچان کر بھی مزمل نے خود جا کر تصدیق کرنا ضروری سمجھا اور اپنے گھر والوں کو حادثے کی اطلاع کئے بغیر ہسپتال آگیا۔ جسکا نام اسے ایس ایچ او نے بتایا تھا۔ جنرل وارڈ کے بیڈ پر وجدان کو دیکھ کر مزمل سکتے میں رہ گیا۔

اس نے فوراً ڈاکٹر سے اسکی حالت کے بارے میں پوچھا۔

”ہی از فائن۔ بائیک سے گرنے کی وجہ سے دونوں گھٹنے چھل گئے ہیں اور بائیں پنڈلی پر بھی کچھ چوٹیں آئی ہیں۔ مگر وہ سب معمولی ہیں۔ ہیلمٹ نہ ہونے کی وجہ سے سر پر چوٹ آئی ہے مگر وہ زیادہ گہری نہیں۔ لیکن انکی بے ہوشی اسی چوٹ کی وجہ سے ہے۔“

”کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے؟“ وہ فکر مندی سے بولا۔

"بالکل نہیں. ہوش میں آتے ہی انکا ہلکا پلکا چیک اپ ھوگا. اسکے بعد یہ گھر جا سکتے ہیں." 

"اور اسے ہوش کب تک آئیگا؟" 

"آپکے بھائی کو دو تِین گھنٹے میں ہوش آ جائے گا. مگر میں نے آپ سے کہا نا كہ فکر کی کوئی بات نہیں." ہر طرف سے مطمئن ہو کر مزمل نے اسے روم میں شفٹ کرنے کا بندوبست کیا. اب اسے مصطفی عظیم کو اطلاع کرنی تھی. اسے فون پر ایسی پریشان کن خبر دینا مناسب نہیں لگا تو ان کے آفس آگیا. 

"ابو! میں آپکو لینے آیا ہوں." 

"کیوں؟" وہ حیران ہوئے. مزمل ہچکچایا، پھر سوچا بتانا تو پڑے گا. 

"وجدان کا چھوٹا سا ایکسڈینٹ ہوگیا ہے." 

"کیا کہہ رہے ہو؟" مزمل نے کوشش کی تھی كہ خبر سناتے وقت وہ ریلکس رہے مگر مصطفی عظیم پھر بھی پریشان ہوگئے. 

"ابو پلیز! پریشان مت ہوں. وہ ٹھیک ہے. آپ آرام سے بیٹھ جائیں." مزمل نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر انہیں بیٹھنے کو کہا. وہ اسکے ہاتھ ہٹا کر بولے. 

"مجھے ان کے پاس لے چلو مزمل!" 

"لے جانے ہی آیا ہوں. مگر آپ بیٹھ تو جائیں."

اس بار مزمل نے انہیں زبردستی بٹھا دیا، پھر پانی کا گلاس انکے ہاتھ میں دے کر کہا۔ ”آپ خود کو ریلیکس کریں۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تب تک میں گھر پر اطلاع کرتا ہوں۔“ وہ پانی کا گلاس پکڑے ٹکر ٹکر اسے دیکھتے رہے۔ مزمل نے پھر ان سے کچھ نہیں کہا اور گھر پر فون کرنے لگا۔ بیل جانے کی آواز سن کر وہ دعا کرنے لگا کہ فون انیقہ ہی اٹھائے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔

”انیقہ! مجھے تم سے خاص بات کرنی ہے۔ اس لئے پہلے تو تم آرام سے بیٹھ جاؤ۔“

”ایسی کیا بات ہے؟“ انیقہ جو فون سننے سے پہلے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ مزمل کی آواز سن کر گھبراہٹ میں کھڑی ہوگئی۔ مزمل نے نرمی سے اسے ٹوکا۔ 

”دیکھو! اگر تم اس طرح کروگی تو میں بات کیسے کرونگا؟“

انیقہ کو لگا وہ تھیک کہہ رہا ہے۔ اس نے اپنے حواس قابو میں کرکے کہا۔

”ہاں اب بتائیں کیا بات ہے؟“

”وجدان کا معمولی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔“

”ایکسیڈنٹ؟“ وہ خود کو پریشان ہونے سے روک نہیں پائی۔ 

”ہاں، مگر چھوٹا سا۔ وہ ہسپتال میں ہے۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اسے صرف معمولی چوٹیں ہی آئی ہیں۔ میں ابو کو لے کر کچھ دیر بعد گھر آجاؤں گا۔ تم امی کو حادثے کا بتا کر ذہنی طور پر تیار کرلو۔ ورنہ ہسپتال میں وجدان کو دیکھ کر وہ پریشان ہو جائیں گی۔ تھیک ہے؟“

”جی۔“ اس نے کہہ کر فون رکھ دیا۔

عائشہ مصطفی نے ایکسیڈنٹ کا نام سن کر ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیئے۔ انیقہ کو انہیں سنھبالنے میں کافی دقت ہوئی۔ پھر چادر انہیں پکڑا کر انکے بیٹھنے کے لیے کرسی اندر سے لا کر پورچ میں رکھی، اس کے بعد بیٹے کو تیار کر کے انکی گود میں دیا اور بھاگ بھاگ کر گھر کے دروازے لاک کرنے لگی۔ تبھی بیل بجی تھی۔ انیقہ نے بے ساختہ ہی دوڑ کر گیٹ کھول دیا۔ اسکا خیال تھا کہ گیٹ پر مزمل ہوگا۔ پر وہاں تو کوئی لڑکی تھی۔ اس لڑکی نے کاغذ پر لکھا ایڈریس اسکی طرف بڑھا کر تصدیق چاہی۔ تصدیق کرتے ہوئے انیقہ نے پوچھا۔

”ایڈریس تو یہی ہے۔ پر آپکو کس سے ملنا ہے؟“

”وجدان مصطفی سے۔“

انیقہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔ آج تک تو کوئی لڑکی وجدان کا پوچھنے نہیں آئی۔ پھر یہ کون تھی؟ انیقہ نے غور سے اس خوش شکل لڑکی کو دیکھا جس نے کالی ساڑھی پر میرون شال سلیقے سے اپنے گرد لپیٹ رکھی تھی۔

”آپ کون ہیں؟ اور وجدان سے کیوں ملنا چاہتی ہیں؟“

”میرا نام ملیحہ فاروقی ہے۔“

اور اتنا سن کر ہی انیقہ کے اندر ابال اٹھنے لگے۔ 'تو یہ ہے ملیحہ فاروقی، جسکی وجہ سے وجدان میری بہن کو ریجیکٹ کررہا ہے۔ ہے ہی کیا اس میں؟ ہر لحاظ سے ایک عام سی لڑکی ہے۔' اس نے تنفر زدہ آنکھیں ملیحہ کے چہرے پر گاڑ دیں جہاں بد حواسی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی۔

”پلیز وجدان کو بلا دیجئے۔ میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔“

”وہ گھر پر نہیں ہے۔“ انیقہ نے کہہ کر گیٹ بند کرنا چاہا پر ملیحہ نے ایسا کرنے نہیں دیا اور گیٹ پر ہاتھ رکھ کر روکتے ہوئے بولی۔

”آپکو معلوم ہے وہ کہاں گئے ہیں اور کب تک آئیں گے؟“

”نہیں۔“ جانے وہ کونسا جذبہ تھا کہ انیقہ نے اسے بے خبر رکھنا چاہا۔ حالانکہ وہ دیکھ سکتی تھی کہ ملیحہ بہت پریشان ہے۔ شاید یہ ملیحہ کو وجدان سے نہ ملنے دینے کی لاشعوری کوشش تھی۔ ملیحہ نے اپنا نمبر اسی چٹ کے پیچھے لکھ کر انیقہ کو دیا اور کہا۔

”وجدان جیسے ہی گھر آئیں، ان سے کہیں، اس نمبر پر مجھ سے بات کرلیں۔“

انیقہ نے چٹ لے کر گیٹ بند کردیا۔ بیل کی آواز سن کر عائشہ بھی پوتے کو اٹھائے گیٹ کی طرف بڑھی تھیں پر انیقہ کو بات کرتے دیکھ کر سمجھ گئیں کہ مزمل نہیں آیا اور وہیں رک کر انیقہ کو دیکھنے لگیں۔ گیٹ بند کر کے وہ واپس مڑی تو انہوں نے پوچھا۔

”کون تھا؟ 

”کوئی لڑکی تھی۔ غلط پتے پر آگئی تھی۔“ تنفر سے کہہ کر اس نے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ہوا میں اچھال دیئے۔

*****

کھانے کے بعد افتخار حسن نے رخصت کی اجازت چاہی تو ملیحہ، سمیرا سے منت کرکے بولی۔

”اج رک جاؤ سمیرا!“

صبح تو آفاق نے سمیرا سے بات کرنے کو ٹال دیا تھا مگر اس وقت اسے سمیرا سے بات کرنے کی بہت جلدی تھی اس لئے ملیحہ کی حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اشارے سے سمیرا کو منع کردیا۔ اسکا اشارہ سمجھ کر سمیرا نے ملیحہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی معزرت کرلی۔

”آج تو نہیں رک سکتی۔ مگر کل میں صبح سے ہی آجاؤں گی۔“ پھر اسے اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھی۔ آفاق بھی بابا جان کو اللّٰہ حافظ کہہ کر نورالہدی سے گلے ملنے کے بعد گاڑی میں آگیا۔

”تم ملیحہ اور وجدان کے بارے میں کیا جانتی ہو؟“ گاڑی میں وہ دونوں ہی تھے، اسی بات کا فائدہ اٹھا کر ڈرائیونگ کرتے آفاق نے چپ بیٹھی سمیرا سے اچانک ہی پوچھا۔

”تم ملیحہ اور وجدان کے بارے میں کیا جانتی ہو؟“ گاڑی میں وہ دونوں ہی تھے، اسی بات کا فائدہ اٹھا کر ڈرائیونگ کرتے آفاق نے چپ بیٹھی سمیرا سے اچانک ہی پوچھا۔

وہ براہِ راست سوال پر گڑبڑائی، پھر اسے سچ بولنا بہتر لگا۔

”سب کچھ۔ مگر ایک بات نہیں جانتی کہ وعدہ کرنے کے بعد وجدان لائبریری کیوں نہیں آیا۔“

”یہ تو میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔“ اس نے دھیرے سے کہا پھر پوچھا۔ ”یہ شادی کا کیا معاملہ ہے؟“

”ملیحہ کی شادی نہیں ہورہی آفاق! اسے زندہ دیوار میں چنوایا جارہا ہے۔ کل رات اس نے پھوپھا جان سے وجدان کے لیے بات کی تھی اور وہ بھڑک گئے۔ پھر صبح اسے نکاح کی خبر دے دی۔“

”یعنی میرا شک صحیح تھا۔ لیکن نورالہدی اس شادی کے لیے کیسے راضی ہوگیا، وہ بھی فوراً؟“

”پھوپھا جان کو جانتے نہیں ہیں کہ کوئی تیس مار خان بھی انکے سامنے دم نہ مارے۔ نورالہدی کیا چیز ہے۔ پھر ملیحہ میں کس چیز کی کمی ہے جو وہ انکار کرتا؟“ بے زار سے لہجے میں کہہ کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

جب یہ قافلہ اپنی منزل پر پہنچا تو وجدان کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے جو سر پر پٹی لپیٹے کار کے بونٹ پر چڑھ کر بیٹھا تھا اور مزمل اسکے سامنے کھڑا جوتے کی ٹوہ سے زمین کھرچ رہا تھا۔ کسی نے بھی گاڑی گیٹ سے اندر جانے کا انتظار نہیں کیا اور دروازے کھول کر وہیں اتر گئے۔ سمیرا کی امی اسکی پٹی اور چہرے پر خراشوں کو دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔

”یہ سب کیا ہے وجدان! تمہیں چوٹ کیسے لگی؟“

”کچھ نہیں خالہ! بس بائیک سلپ ہوگئی تھی۔“

”مگر یہ ہوا کیسے؟“ افتخار حسن بھی اس طرف چلے آئے۔

”آپ اندر تو چلیں۔ پھر بتاتا ہوں۔“ کہتے ہوئے اس نے کار میں بیٹھے آفاق کو دیکھا جو کار گیٹ کے اندر لے گیا۔ پورچ میں کار روک کر وہ باہر آگیا۔ 

”وجدان! اندر آجاؤ۔ باہر بہت ٹھنڈ ہے۔ مزمل بھائی! آپ بھی آجائیں۔“

پھر سب اندر چلے گئے۔ آفاق کی آنکھوں کا غیر معمولی تاثر دیکھ کر وجدان ٹھٹک گیا۔ پر یہ بھی جانتا تھا کہ حادثے کی تفصیل جانے بغیر کوئی چین سے نہیں بیٹھے گا۔ ہال میں سب کے بیچ بیٹھ کر وہ حادثے کے بارے میں سب بتا چکا تو آفاق نے اسے مخاطب کیا۔

”وجدان! میرے کمرے میں آجاؤ۔ ضروری بات کرنی ہے۔“

وجدان، آفاق کے ساتھ اٹھ گیا تو انکے پیچھے سمیرا بھی وہاں سے چلی آئی۔ 

”تمہارا ایکسیڈنٹ آج نہیں ہونا چاہیے تھا وجدان!“ کمرے میں آتے ہی آفاق نے اسے دیکھ کر متاسف لہجے میں کہا تو وجدان اسکے انداز پر چونک کر بولا۔

”ہوا کیا ہے؟“

”ہم ملیحہ کی انگیجمنٹ اٹینڈ کرکے آرہے ہیں۔ اور تین دن بعد اسکی شادی ہے۔“

وجدان کے سر پر بم پھٹا تھا۔ سمیرا کمرے میں آئی تو اسے دیکھ کر آفاق نے کہا۔

”باہر سے فون لے آؤ اور آتے ہوئے دورازہ بند کرلینا۔“

سمیرا الٹے پیروں مڑ گئی اور کاریڈور میں رکھا فون اٹھا کر کمرے میں لے آئی۔ وہ دونوں الگ الگ صوفوں پر بیٹھے تھے جنکے بیچ میں ٹیبل دکھا تھا۔ سمیرا نے فون ٹیبل پر رکھا پھر دروازہ بند کرتی وہ آفاق کے برابر بیٹھی اور کسی کے کہے بنا ہی ریسیور اٹھا کر ملیحہ کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔

~~~~~~~~~~

ملیحہ پر بے حسی کی کیفیت طاری تھی۔ وہ روانی سے قلم چلاتے ہوئے دل کے اندر دبے راز ڈائری پر لکھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بیڈ پر بیٹھی سر جھکا کر لکھتی ملیحہ نے ہاتھ روک کر دروازے کی طرف دیکھا۔

”دروازہ کھلا ہے۔ آجاؤ۔“ اسکی آواز پر بہادر نے دروازہ کھول کر اندر دیکھا۔ ”کہو، کیا بات ہے؟“

”بی بی صاب! آپ کے لئے فون آیا ہے۔“

ملیحہ کی نظروں میں کائنات گھوم گئی تھی۔ ”کس کا؟“ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے پوچھا۔

”سمیرا بی بی کا۔“ اور ملیحہ نے بے دردی سے نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹ ڈالا۔

”اسے کہو میں صبح بات کرونگی۔“ بول کر وہ پھر سے ڈائری میں کچھ لکھنے لگی۔ پھر خود ہی کچھ سوچ کر ڈائری بند کرکے تکیے کے نیچے رکھی اور باہر آگئی۔

سیڑھیوں کے اختتام پر ریلنگ کے ساتھ آبنوس کا اونچا اسٹول رکھا تھا، جس پر فون رکھا رہتا تھا۔ بہادر نے ریسیور اٹھایا ہی تھا کہ ملیحہ نے ریسیور اسکے ہاتھ سے لے کر کہا۔

”تم جاؤ۔“ پھر فون پر ہیلو کہا۔

”تمہیں معلوم ہے، آج وجدان کیوں نہیں آیا تھا؟“

ملیحہ بھلا کیا کہہ سکتی تھی۔ سمیرا نے اس کے بولنے کا انتظار بھی نہیں کیا۔

”وجدان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔“ ملیحہ کو ریلنگ تھامنا پڑی ورنہ وہ گر جاتی۔ پھر ریلنگ کے سہارے دھیرے دھیرے آخری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔

”وہ صبح لائبریری ہی آرہا تھا کہ موڑ کاٹتے ہوئے بائیک سلپ ہوگئی۔ تمہیں یاد ہے، صبح جب ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے اور ڈرائیور نے بتایا تھا کہ کسی موٹر سائیکل والے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ وہ وجدان ہی تھا۔“

”وہ ٹھیک تو ہے؟“ ملیحہ کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔

”ہاں ٹھیک ہے۔“

”شکر ہے۔“ ملیحہ نے بے ساختہ شکر ادا کیا تو سمیرا پوچھنے لگی۔

”اب تمہارا فیصلہ کیا ہوگا؟“

”میرا فیصلہ۔“ اس نے گم سم سی سرگوشی کی۔ تبھی وجدان نے سمیرا کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا مگر ملیحہ کو بولتا سن کر چپ ہی رہا جو کہہ رہی تھی۔

”فیصلہ کرنے کا اختیار کبھی بھی میرے پاس نہیں رہا۔ میرے فیصلے کا کیا پوچھتی ہو؟ فیصلہ تو ہو بھی چکا۔ اب تو بس عمل کرنا باقی ہے۔ اور میرے پاس کوئی راہ فرار نہیں۔ اگر کوئی تھی بھی تو اب نہیں رہی۔ جانتی ہو، ہادی بھائی نے مجھ سے کیا کہا؟“ اسکی آنکھیں یکدم ڈنڈبا گئیں۔ وجدان سناٹوں میں گھرا اسکی آواز سن رہا تھا۔ ملیحہ نم آواز میں بولی۔

”انہوں نے کہا، وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میں بھی ہادی بھائی سے محبت کرتی ہوں اور اس محبت کے ساتھ میں نے ایک دعا بھی کی تھی کہ میری خوشی کے خاطر اپنا دکھ سہنے والے کو کبھی دکھ نہ ملے۔ اگر میں ابھی جا کر ان سے کہوں کہ مجھے وجدان مصطفی کا ساتھ بخش دیں تو وہ زمانے سے لڑ جائیں گے۔ مگر میں اس شخص کا ساتھ چھوڑنے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں جو مجھے ساتھ چھوڑ کر جانے کی اجازت دے رہا ہو۔“

حوصلہ تو وجدان میں بھی نہیں تھا کہ ملیحہ کو اسکا ساتھ چھوڑ کر اپنا ہاتھ تھامنے کو کہے جسکا ساتھ چھوڑنے کی طاقت ملیحہ میں نہیں۔ بے اختیاری، بے بسی نہیں ہوتی بلکہ بے بسی تو یہ ہے کہ انسان کی بے اختیاری اسکے اختیار کی پابند ہوجائے۔ ملیحہ کی بے بسی وجدان کو بے بس کر رہی تھی جو سست آواز میں کہہ رہی تھی۔

”محبت بوجھ نہیں ہوتی، پھر بھی جھکا دیتی ہے۔ میں جھکتی جارہی ہوں۔ ہادی بھائی نے میرے کندھوں پر محبت کا بوجھ اتنا بڑھا دیا کہ میری پیشانی زمین کو جا لگی ہے۔ میں نظر نہیں اٹھا پا رہی، سر کیسے اٹھاؤں؟ اور وجدان۔“ اسکی آواز میں درد گھل گیا۔

”جب ملا تھا تو سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شخص میرے دل کا درد بن جائے گا۔“ وجدان کے اپنے دل میں درد اٹھا تھا، جسے محسوس کئے بغیر وہ کہے جارہی تھی۔ ”اگر چوبیس گھنٹے پہلے کوئی مجھ سے پوچھتا، تم وجدان سے محبت کرتی ہو؟ تو میں کہتی ہاں، میں وجدان سے محبت کرتی ہوں۔ لیکن اگر اس وقت کوئی مجھ سے یہ سوال پوچھے گا تو کہوں گی، میں وجدان سے محبت نہیں کرتی۔“

وجدان کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا۔

”مجھے وجدان سے عشق ہے۔“ وجدان کو لگا، وہ اب کبھی سانس نہیں لے پائے گا۔ اس نے بے دردی سے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا کہ خون رسنے لگا۔ ادھر ملیحہ کی آواز میں سسکیاں گھل گئی تھیں۔

”پر وہ چیز جو میں زندگی میں کبھی نہیں سیکھ پائی، محبتوں کو کیٹگرائز کرنا ہے۔ میں کبھی نہیں جان پائی، کیسے کسی کی محبت کو سب سے اوپر والے خانے میں رکھتے ہیں اور کیسے دوسری محبت کو نیچے والے خانے میں۔ مجھے بس محبت کرنا آتا ہے۔ اور میں نے بابا جان سے، ہادی بھائی سے اور وجدان سے محبت کی، مگر جب نبھانے کی باری آئی تو کوئی ایک محبت بھی ڈھنگ سے نبھا نہیں پائی۔“ اسکی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی۔ کھنچے ہوئے چہرے کے ساتھ وجدان کی گرفت ریسیور پر سخت ہوتی جارہی تھی۔ بے بس سی آواز ابھری۔

”کاش میری زندگی میں ایک معجزہ ہوجائے۔ میں آنکھیں بند کر کے کھولوں تو سامنے وجدان ہو۔“ اس نے اصل میں آنکھیں بند کرکے کھولیں، پھر غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔ ”میں اسے وہ سب کہہ دیتی جو میرے دل میں ہے کہ اس کے بغیر میں مر جاؤں گی، وہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ بہت چاہا ہے اسے۔ اتنا کہ اب اس چاہت سے دستبردار نہیں ہوا جاتا، اس سے الگ ہونے کا خیال میرے جسم سے روح کھینچ رہا ہے۔ کاش! وہ کہیں سے آجائے۔ ایک بار سہی۔ آخری بار سہی۔ میں اسے جی بھر کے دیکھ تو لوں۔ اب ایک عمر اسکے بغیر گزارنی ہے، کوئی تو سہارا ہو۔ اس نے ایک بار کہا تھا، آپ اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے ایک پل مجھے نہیں دے سکتیں۔ آج کوئی جا کر اس سے پوچھے، اپنی پوری زندگی میں سے ایک پل مجھے نہیں دے گا۔ ایک پل۔ صرف ایک پل مجھے دے دے۔ ایک بار مجھ سے ملنے آجائے۔ بس ایک بار۔“ وہ دونوں ہاتھوں سے ریسیور تھامے تڑپ تڑپ کر روتے ہوئے فریاد کرتی جارہی تھی۔ وجدان کا پورا وجود اس بارش میں بھیگ گیا۔

”ملیحہ!“ اس نے بے چین ہو کر اسے پکارا۔ ملیحہ ایک دم چپ ہوگئی۔ وہ دم سادھے بیٹھی تھی۔ وجدان کی آواز پہنچاننے میں اسے ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگی۔ کچھ دیر پہلے وہ کہہ رہی تھی کہ وجدان کہیں سے آجائے اور اب جب وہ اسکی آواز سن رہا تھا تو ملیحہ سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد چپ چاپ ریسیور کریڈل پر ڈال دیا۔

آفاق، وجدان کے تناؤ بھرے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو لب بھینچے خاموش بیٹھا تھا۔ نہ جانے ملیحہ کیا کہہ رہی تھی کہ ریسیور پر اسکی گرفت سخت ہوتی جارہی تھی۔ ضبط کی کوشش میں اسکی آنکھیں دہکنے لگیں۔ پھر ایک دم ہی اس نے بے قراری سے ملیحہ کا نام لیا اور کچھ پلوں کی خاموشی کے بعد جب ملیحہ نے لائن ڈس کنکٹ کردی تو وجدان نے فون رکھ دیا۔

”ملیحہ کیا کہہ رہی تھی؟“ آفاق نے پوچھا تو وہ تھکے تھکے سے انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔

”ملیحہ اتنا حق تو رکھتی ہیں کہ مجھے سولی پر لٹکا کر سانس لینے کی سزا سنا دیں۔“ پھر اس نے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے آفاق کو دیکھا۔ ”افاق! میں ملیحہ سے ملنا چاہتا ہوں۔“

~~~~~~~~~

ملیحہ نے فون رکھا اور ریلنگ کا سہارا لے کر آہستہ سے اٹھی اوپر کمرے میں آگئی اور چلتے ہوئے اس نے بالکونی کا دروازہ کھول دیا۔ پھر سست قدموں کے ساتھ وہ جھولے میں آ بیٹھی سرد ہوائیں چل رہی تھیں جن کے زور سے چائمز لے میں بج رہے تھے۔ سردی کی شدت نے پل بھر میں ملیحہ کے گال گلابی کر دیے تھے اور ہاتھ پیربرف کی مانند ٹھنڈے۔ مگر اس کی ہر حس جیسے مر چکی تھی وہ وہیں پاؤں اوپر رکھ کر لیٹ گئی۔ ملیحہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اسے چودھویں کا چاند پسند تھا۔ ملیحہ نے چاند کو دیکھ کر اندازہ لگایا ابھی چودھویں تاریخ میں کچھ دن باقی تھے۔

کیا میں بس چاندنی کا انتظار ہی کرتی رہ جاؤں گی؟ کڑی دھوپ میری زندگی کا سایا کب تک بنی رہے گی۔ اس نے تھک کر سوچا پھر بہت دل سے دعا کی۔

"یا اللہ مجھے اس آزمائش سے نکال دے انتخاب میرے بس کی بات نہیں۔" اس کی وہ رات بھی آنکھوں میں کٹ گئی اور وہ پلک تک جب تک نہ پائی۔

فجر کی اذان کے ساتھ اس کے بے جان جسم میں حرکت ہوئی اور وہ اٹھ بیٹھی۔ نماز پڑھ چکی تو اس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے مگر دعا نہیں کرسکی ہاتھ اٹھاتے ہیں جو دعا اس کے لب پر آنے کو مچلی تھی وہ نورالہدی کے لیے بددعا تھی اور ملیحہ کبھی نورالہدی کو بددعا نہیں دے سکتی تھی۔ اس نے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ گرادئیے اور جائے نماز سے اٹھ گئی۔ ملیحہ کو پانی حلق سے اتارنا مشکل ہو گیا تھا نوالے کیا نگلتی لیکن بابا جان اور نورالہدی ناشتے پر اے تو نورالہدی اس کی غیر موجودگی کو محسوس کرکے بولے۔ 

"ملیحہ ناشتہ نہیں کرے گی؟" اٹھ تو گئی ہوگی دیر تک سونے کی اسے عادت نہیں ہے۔" 

بابا جان نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ناشتے کے لئے منع کر چکی ہے بلکہ کہا۔ "ملیحہ اپنے کمرے میں ناشتہ کرے گی۔" اس جھوٹ کی وجہ بھی تھی وہ جانتے تھے کہ یہ سن کر ملیحہ نے ناشتہ کرنے سے منع کر دیا ہے نورالہدی سیدھے اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور پھر شاید اس کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کچھ اخذ بھی کر لیں اور اب ملیحہ کا مستقبل ان کے ہاتھ میں تھا باباجان نہیں چاہتے تھے ملیحہ کی طرف سے ان کے دل میں کبھی بال نہ اے۔ وہ ایک باپ کی طرح اپنی بیٹی کی نادانی پر پردہ ڈالے رکھنا چاہتے تھے. 

ملیحہ کے لئے نورالہدی کا دل بہت کشادہ تھا مگر باباجان جانتے تھے بیوی کے لئے اکثر مردوں کا دل تنگ ہوجاتا ہے اسی لئے بابا جان نہیں چاہتے تھے کہ وہ مشکوک ہو۔ لیکن نورالہدی کے لیے یہ تبدیلی بھی حیران کن تھی۔ 

"کمرے میں کیوں؟"

بابا جان قصدا مسکرا کر بولے۔ "بھئی ہمارے ہاں جب شادی کی تاریخ کا ہوجاتی ہے تو لڑکی کا لڑکے سے پردہ کرا دیا جاتا ہے اب شادی تک ملیحہ تمہارے سامنے نہیں آ سکتی۔"

"اوکے۔۔۔" نورالہدی زیر لب مسکرائے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ملیحہ کی خالہ اور ممانیاں اسکی کزنز کے ساتھ آگئی بابا جانی خوشدلی سے انہیں ویلکم کرتے ہوئے ملیحہ کی خالہ سے کہا۔ 

"فریال ہوتی تو ملیحہ کی شادی بہت دھوم دھام سے کرتی۔ اب تمہیں سب انتظام کرنا ہے۔ میں تو ان معاملات میں بالکل اناڑی ہوں۔"

"فکر مت کریں بھائی صاحب ملیحہ میری اپنی بیٹی ہے میں اور بھابیاں مل کر سب سنبھال لیں گے۔" آمنہ نے خلوص یقین دلایا۔ 

"ان شاءاللہ کہیں کوئی کسر نہیں رہے کہ بھائی صاحب۔" بڑی ممانی نے کہا۔ پھر واقعی انہوں نے سب انتظامات خوش اسلوبی سے سنبھالیے۔

لان کافی کشادہ تھا صرف چوڑائی ہی 5 سو گز تھی اور ایک ہزار گز پر بنے قیصر فاروقی کے گرد دائرہ کی شکل میں چاروں طرف پھیلا تھا اور مہمانوں کی تعداد محدود تھی افتخار حسن اور منیر حسن کے خاندان اور آمنہ کی فیملی کے علاوہ گنے چنے کچھ خاص لوگ ہی تھے اس لئے ڈیسائیڈ ہوا کہ فنکشن کا قیصر فاروقی میں ہی ارینج کیا جائے گا۔ 

مہندی کا دن آگیا مگر ملیحہ کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے احساسات پر برف جم چکی تھی۔ شام ڈھل چکی تھی اور قیصر فاروقی جگمگاتی روشنیوں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ پیلے کاٹن کے سلور گھوٹا لگے شلوار قمیض میں ملیحہ کے کانوں میں موتیوں کے بالے جھول رہے تھے دونوں کلائیوں میں بھر بھر کر پہنی کانچ کی چوڑیوں کے آگے موتیے اور گلاب کے مہکتے گجرے اس کی دودھیا کلائیوں میں سجے تھے۔ اس کے لمبے بالوں کو موتی کی لڑیوں سے گوندھ کر چوٹی کی شکل میں سنوارا گیا تھا۔ کاٹن کا پیلا ڈوپٹہ اس نے سر پر اوڑھ رکھا تھا لڑکیاں اسے اپنی ہمراہی میں لیے کمرے سے باہر آئیں جو دو دن سے اس کی مستقل قیام کا بنا ہوا تھا اور سیڑھیاں اتر کر ہال کے باہر والے دروازے سے ہوتی لون میں آگئی۔ ملیحہ کو نورالہدی کے برابر میں بیٹھا دیا گیا لڑکوں نے ابٹن کا کھیل شروع کردیا مگر لڑکیوں کو اپنے کپڑے بہت عزیز تھے وہ اس کھیل میں شامل نہیں ہوئیں اور گانے گاتی رہیں۔ سارے لڑکے سفید کاٹن کے شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے جن کا حال اب بحال ہو چکا تھا وہ اپنے چہرے ہی رنگنے میں لگے رہے کسی کو ملیحہ کے برابر بیٹھے اس تماشے کو دیکھ کر ہنستے نورالہدی کا خیال ہی نہیں آیا خود کو بچاتے جنید کی نظر ان پر پڑی تو وہ چلایا۔ 

"بھائیوں اسے کہتے ہیں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ تم سب اپنا ستیاناس کئے جاؤ ادھر نورالہدی آرام سے ہونے والی بیگم کے بغل میں بیٹھا دانت نکل رہا ہے۔" پھر تو سب ہی مٹھیوں میں ابٹن بھرے نورالہدی کی طرف دوڑے۔ نورالہدی نے جو اس جم غفیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو محاورتا نہیں حقیقتا ملیحہ کے سر کے اوپر سے چھلانگ لگا کر پیچھے کی طرف دوڑے مگر صمد نے انہیں جا لیا۔ پھر سب انہیں گھسیٹتے ہوئے بیچ حال میں لے آئے اب نورالہدی گھاس پر دراز تھے اور ہر طرف سے ان پر انٹن تھوپا جارہا تھا وہ چلانے لگے۔ 

"بس کرو یار! کل میری شادی ہے کیوں شکل بگاڑ رہے ہو بڑا نازک دل ہے تمہارے بھابی کا بیچاری ڈر جائے گی۔" 

مگر کوئی بھی انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں تھا گھونگھٹ میں لاتعلق بیٹھی ملیحہ نے نورالھدی کی آواز سنی تو سر اٹھا کر دیکھا واقعی نورالہدی کے چہرے پر اتنا ابٹن ملا گیا تھا کہ لڑکوں کے شکنجے میں ملیحہ کو انہیں پہچانے میں دقت ہوئی۔ اور جب پہچان لیا تو بے ساختہ ذرا سا مسکرائی۔

تین دن بعد سمیرا نے ملیحہ کے بے جان چہرے پر کچھ دیکھا تھا اور وہ بھی مسکراہٹ۔ اسے اپنا سانس بحال ہوتا محسوس ہوا۔ جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور زہر زہر کا علاج ہوتا ہے خداکرے نورالہدی کی محبت وجدان کی محبت کے زخم کا مرہم بن جائے۔ آمین۔ اس نے دل میں دعا کی۔ سر اٹھانے کی وجہ سے ریشمی آنچل ملیحہ کی پیشانی سے پیچھے کوسرک گیا تھا پل بھر کے لیے نورالہدی کی نظر اس پر پڑی تھی تین دن بعد اس کا چہرہ دکھائی دیا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی رہ گئے ملیحہ اب بھی غائب دماغی کی حالت میں تھی اسے چہرہ چھپانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ الٹا ان کی حالت پر مسکرا دی۔ اسے مسکراتا دیکھ کر تو نورالہدی اندر تک شانت ہوگئے تھے پھر ہنستے ہوئے زور سے بولے 

"اب اور تو میری درگت نہ بناؤ۔ وہ دیکھو میری دلہن ہنس رہی ہے۔" ان کے میری دلہن کہنے پر ایک دم سے ملیحہ کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور اس نے سرجھکا کر چہرہ چھپاتے ہوے سمیرا سی گھونگھٹ ٹھیک کرنے کو کہا نورالہدی کو اس کا گریز بھی اچھا لگا تھا 

"آج گھونگھٹ گرا لو۔ کل تو میں ہی گھونگھٹ اٹھاؤں گا۔" انہوں نے ملیحہ کے ڈھکے چھپے وجود کو دیکھ کر دل میں محظوظ سی سرگوشی کی۔ 

******

سمیرا تکیہ گود میں لئے بیڈ پر بیٹھی تھی.  ایک بجنے والا تھا اور نیند کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا. یوں بھی آج کل وہ اور ملیحہ جاگنے کا شغل ہی کیا کرتی تھیں. دونوں چپ چاپ بیڈ کے دور دراز کونوں پر لیٹی چھت کو اندھیرے میں گھورتی رہتیں. ملیحہ باتھ روم سے باہر آئی تو ہاتھوں اور پیروں پر لگی مہندی دھل چکی تھی. سمیرا نے دیکھا تو ملامت کرنے لگی.

"مہندی ابھی کیوں دھو دی؟ صبح دھوتیں تو رنگ نکھر جاتا."

"رنگ تو اب بھی نکھرا ہوا ہے." اس نے ہاتھ سمیرا کے اگے کیے، جن پر مہندی کا رنگ بہت گہرا تھا. سمیرا نے اسکے ہاتھ پکڑ کر دیکھے پھر مسکرا کر بولی.

"نورالہدی تم سے بہت پیار کرتے ہیں."

"اس میں تو کوئی شک نہیں." اسکے عام سے لہجے میں ناز مفقود تھا. سمیرا نے اسے دیکھا.

"تمہیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہے کہ جس شخص سے تمہاری شادی ہورہی ہے، وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ تمہیں چاہتا ہے؟"

خوشی کیوں نہیں ہوگی؟  ہر لڑکی چاہتی ہے کہ شوہر کی من چاہی ہو." اب بھی اسکے لہجے میں کوئی غیر معمولی پن نہیں آیا تھا. پھر بات بدلنے کو بولی.

"چائے پیوگی؟ اپنے لئے بنانے جارہی ہوں."

"تم اور چائے؟" سمیرا حیران ہوکر بولی.

"ہاں." ملیحہ نے آرام سے کہا. "اصل میں نورالہدی کو چائے بہت پسند ہے."

"تم کچھ زیادہ ہی انکی پسند ناپسند کا دھیان نہیں رکھنے لگیں؟" سمیرا نے تیکھے لہجے میں کہا. 

"جب انکی خاطر اپنی پسند چھوڑ دی تو انکی پسند اپنانے میں کیا حرج ہے؟"اس نے وجدان کا نام نہیں لیا تھا پھر بھی سمیرا سمجھ گئی، وہ وجدان کی بات کررہی ہے۔ اب اس نے یہی عادت اپنالی تھی کہ کہیں بے اختیاری میں وجدان کا ذکر زبان سے سرزد ہو بھی جاتا تو بھی اسکا نام نہیں لیتی تھی۔

منگنی والے دن کے بعد سمیرا نے اسکی زبان سے وجدان کا نام نہیں سنا تھا۔ وہ گہری نظروں سے اسے دیکھتی رہی، پھر سانس بھر کر کہا۔

"تم بیٹھو! میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔" وہ چائے بنانے کے لیے اٹھ گئی تو ملیحہ فارغ بیٹھے کے بجائے اپنے اسٹوڈیو میں آگئی۔ اس نے نیا کینوس ایزل پر رکھا، برش ہاتھ میں لے کر سوچنے لگی کہ کیا بنائے۔ پھر کسی شعوری کوشش کے بغیر ہی اسکا ہاتھ کینوس پر چلنے لگا۔ سمیرا آئی تو وہ پوری طرح کینوس میں کھوئی ہوئی تھی اور اسکا ہاتھ بہت تیزی سے چل رہا تھا۔ اسے مگن دیکھ کر آواز دینے کے بجائے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سمیرا اسٹوڈیو میں آگئی اور اسکی پشت سے آگے ہو کر دیکھا کہ وہ کیا بنا رہی ہے مگر کینوس پر نظر پڑتے ہی اسکا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ سمیرا نے وحشت زدہ نظروں سے ملیحہ کے چہرے کو دیکھا تو اس کے ٹھٹکنے کو محسوس کرکے ملیحہ نے اسے دیکھ کر کہا۔

"تمہیں کیا ہوا؟" سمیرا نے کچھ بولے بغیر سکتے کی سی کیفیت میں کینوس کی طرف دیکھا تو ملیحہ کی حیران نگاہیں بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں کینوس پر اٹھ گئیں۔ سمیرا کو جو محسوس کرکے حیرت ہوئی،اس پر خود ملیحہ بری طرح چونک گئی تھی۔

وہ ادھورا پورٹریٹ اتنا واضح تھا کہ وجدان کا چہرہ اس میں نظر آجاتا۔ ملیحہ کو دھیان بھی نہیں تھا کہ وجدان کا چہرہ پینٹ کررہی ہے۔ اپنی بے بسی پر اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ لب کچلتی ہوئی برش رکھ کر وہاں سے ہٹ گئی۔ سمیرا اس کے پیچھے بالکونی میں آئی تو وہ گھٹنوں پر چہرہ ٹکائے جھولے میں بیٹھی تھی۔ سمیرا آہستگی سے اسکے ساتھ بیٹھ گئی جو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے یک ٹک سامنے دیکھے جارہی تھی۔ اسکی خاموشی نے سمیرا کو اداس کردیا تھا مگر خود وہ بھی کوشش کے باوجود بول نہیں پارہی تھی۔ کئی بوجھل پل گزر گئے تو ملیحہ کی خوابیدہ آواز سنائی دی۔ سمیرا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو کہہ رہی تھی۔

"میں مرنا نہیں چاہتی۔ مگر کچھ دنوں سے لگ رہا ہے کہ میرے اندر سب کچھ مرتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی بھی۔" یہ کہہ کر وہ اپنے ہی لفظوں پر گھبرا اٹھی اور گم سم بیٹھی سمیرا کا ہاتھ پکڑ کر ٹوٹ کر فریاد کرنے لگی۔

"میں مرنا نہیں چاہتی سمیرا!... پلیز مجھے بچا لو۔ میری سانسیں، میرا دل گھٹ رہا ہے۔ ہر دھڑکن کے ساتھ دل رکتا جارہا ہے مگر میں مرنا نہیں چاہتی اور... اور اس شخص کا خیال مجھے جینے نہیں دے گا۔ مجھے بچا لو سمیرا!..... بچا لو مجھے۔ نہیں تو میں مر جاؤں گی۔" سمیرا کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ وہ یکدم ہی ملیحہ سے لپٹ کر رونے لگی۔ پھر خود ہی اس سے الگ ہو کر روتی ہوئی اٹھ گئی۔

”میں ملیحہ کی طرف سے بہت فکرمند ہوں اظہر! وہ مجھے ٹھیک نہیں لگتی۔“ مہندی کی تقریب کے دوران ملک ناصر نے ملیحہ کے بے حس سے رویے کو خاص طور سے محسوس کیا تھا اور اب اسٹڈی میں بیٹھے وہ بابا جان سے اپنی پریشانی کا اظہار کررہے تھے۔

”ہوں!“ بابا جان نے ہنکارا بھرتے ہوئے انکو دیکھا۔ ”میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ وہ آج کل بجھی بجھی سی رہتی ہے۔ مگر یہ سب اسکی اپنی حماقت کا صلہ ہے۔ جو دوسروں پر آسانی سے اعتبار کر لیتے ہیں، انہیں دھوکے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔“ وہ پریشان تو تھے مگر ان کے لہجے میں ہلکا پھلکا غصہ بھی تھا۔ ”جو معاملہ اپنے آپ ہی ختم ہوگیا، اسکے ذکر سے کیا فائدہ؟“ ملک ناصر نے انکے غصے کو محسوس کیا۔

”لیکن اس شادی کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ ابھی وہ ایک صدمے سے نہیں سنبھلی اور تم نے اسکے سامنے دوسری آزمائش کھڑی کردی ہے۔“

”شادی یقیناً ملتوی ہوسکتی ہے لیکن اس التوا کی وجہ کیا بیان کی جائے؟ کیا یہ کہ میری بیٹی جس سے شادی کرنا چاہتی تھی، اس نے میری بیٹی کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کردیا اور اب میری بیٹی کو اس صدمے سے نکلنے کے لیے وقت چاہیے؟“ انہوں نے تپے تپے لہجے میں کہا، پھر پست آواز میں بولے۔ ”کیا لگتا ہے تمہیں، کیا میں اپنی بیٹی کا دشمن ہوں جو جان بوجھ کر اسے تکلیف دے رہا ہوں؟.... نہیں ملک!“ انکے بولنے سے پہلے بابا جان خود ہی بولے۔ ”لیکن اگر سب طے ہو جانے کے بعد اب میں اپنے فیصلے میں میں کوئی ردوبدل کرتا ہوں تو ملیحہ شکوک کی زد میں آجائے گی اور شک کی ایک نگاہ بھی پڑ جائے تو پارسائی کی چادر میلی ہو جاتی ہے۔ حماقت تو کی ہے اس نے، مگر میں نہیں چاہتا کہ ملیحہ کو اس حماقت کی سزا ملے۔ لیکن کچھ نہ کچھ تکلیف تو اسے اٹھانی ہی ہوگی۔“ وہ اپنے مخصوص سپاٹ انداز میں کہہ رہے تھے۔ لیکن ملک ناصر جانتے تھے، اندر سے وہ کتنے پریشان تھے۔

”دیکھ لو اظہر! کہیں یہ تکلیف ملیحہ کی بساط سے بڑھ کر نہ ہو۔“

”ایسا نہیں ہوگا۔ اور اگر ہوتا تو وہ شادی سے انکار کر دیتی۔ یوں چپ چاپ نورالہدی کے نام کی مہندی ہاتھوں میں نہیں لگا لیتی۔“

”تم بھول رہے ہو اظہر! اسے چپ رہنے کی عادت ہے۔“

”میں یہ نہیں بھول سکتا ملک! کہ ایک شخص نے اسے بولنا سکھا دیا ہے اور اگر وہ مجھ سے یہ کہنے کی جرات کرتی ہے کہ اسے وجدان سے شادی کرنی ہے تو یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ اسے نورالہدی سے شادی نہیں کرنی۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ اسے اعتراض نہیں۔ یوں بھی خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔“ انہوں نے کہہ کر بات ختم کردی۔

~~~~~~~~~~

ملیحہ کی زندگی کا سب سے کڑا دن طلوع ہوگیا تھا۔ سمیرا منتظر رہی، اب وہ رو پڑے گی۔ اب وہ ضبط کا دامن چھوڑ دے گی۔ اب وہ چیخ چیخ کر فریاد کرے گی۔

”کوئی ہے جو میری زندگی لے کر مجھے وجدان دے دے؟“

مگر ملیحہ کے ہونٹوں سے اف تک نہیں آئی۔ ہاں مگر اسکی نمازیں آج کچھ زیادہ طویل ہوگئی تھیں۔ نماز پڑھ کر پچھلے تین دن کی طرح دعا مانگے بغیر ہی ملیحہ نے جائے نماز اٹھا دیا تو سمیرا نے دیکھ کر ٹوکا۔

”دعا تو مانگ لو۔“

وہ تھکن بھرے انداز سے مسکرائی۔

”ایک کا سکھ، دوسرے کا دکھ۔ تم ہی بتادو، کس کے لیے کیا مانگوں؟“ ملیحہ تو آج نیم جان ہوچکی تھی۔ چہرہ تھا کہ انگارے کی طرح دہک رہا تھا اور ہاتھ پاؤں برف کی مانند ٹھنڈے ہورہے تھے۔ بڑی ممانی نے اسکے ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس کی تو پریشان ہوگئیں۔

”دیکھو ذرا آمنہ! اسکے ہاتھ کیسے ٹھنڈے ہورہے ہیں۔“ آمنہ خالہ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے دباتے ہوئے بولیں۔

"ہاتھ تو واقعی بہت ٹھنڈے ہورہے ہیں مگر شادی كے خیال سے اکثر لڑکیوں کا حال ایسا ہوجاتا ہے. آپ پریشان نا ہوں." 

"لیکن اِس نے كھانا پینا بھی تو چھوڑ رکھا ہے. سمیرہ ہی زبردستی کچھ کھلا دے تو کھلا دے. اور آج تو وہ بھی منتیں کرتی رہ گئی، مگر ملیحہ نے پانی کا گھونٹ تک نہیں بھرا. اب شادی کو ایسا بھی کیا ہّوا بنا دیا. پِھر یہ کون سا دور جانے والی ہے؟ اک کمرے سے دوسرے کمرے کا سفر ہے." گوہر نے کہا جو خود بھی کراچی سے بیاہ کر لاہور گئی تھی. 

"لیکن یہ مختصر سے سفر زندگی بدلنے والے ہیں اور زندگی کا بدلاو تو اچھے اچوں کو ہلا دے. جبكہ ملیحہ تو ویسی بھی حساس ہے." چھوٹی ممانی نے مدبرانہ اندازِ میں کہا تھا. 

شام سے ذرا پہلے ہی شہر کی ماہر ترین بیوٹیشن، ملیحہ کو سنوارنے آ پہنچی. گہری افسردگی کی چادر اوڑھے، آنکھوں میں ویرانی لیے، ستے ہوئے چہرے كے ساتھ بھی ملیحہ پر روپ ٹوٹ کر برسا تھا۔صائمہ نے اسے دیکھا تو نظر اُتارتے ہوئے کہا. 

"نورالہدی واقعی قسمت کا دھنی ہے. ملیحہ خوب صورت بھی ہے اور خوب سیرت بھی." 

"اب تو مجھے بھی انکی خوش قسمتی کا یقین ہونے لگا ہے." سمیرہ نے اسکی بات سنی تو بت کی مانند بے ہس و حرکت بیٹھی ملیحہ کو دیکھ کر ہولے سے کہا. اک بارات ہی تو نہیں آئی تھی مگر باقی رسمیں تو ہوسکتی تھیں۔

ادھر نورالہدی نیوی بیلو کلر کے ڈنر سوٹ میں نک سک سے تیار ہو کر لان میں بنے اسٹیج پر جلوہ افروز تھے، ادھر ملیحہ کو گھیرے میں لئے بیٹھی لڑکیاں ”دودھ پلائی“ اور ”جوتا چھپائی“ جیسی رسموں کے لیے بھاگ گئیں۔

”تم نہیں جاؤ گی؟“ دونوں ممانیاں تو میزبانی کے لئے پہلے ہی لان میں تھیں، بس آمنہ خالہ ہی ملیحہ کے پاس بیٹھی تھیں۔ سب لڑکیاں رسموں کے لیے اٹھ گئیں مگر سمیرا وہیں بیٹھی رہی تو انہوں نے سمیرا سے کہا۔ وہ سر جھکا کر ملیحہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی تھی۔ آمنہ خالہ کی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔

”دل نہیں چاہ رہا پھوپھو!“ 

اسکی بات پر وہ ہنس پڑیں۔ ”تمہارے دل کو کیا ہوگیا ہے؟“ 

سمیرا نے کچھ کہنا چاہا پر اس سے پہلے ہی ارم آ دھمکی۔ ”پھوپھو! امی کہہ رہی ہیں، آپ نیچے آجائیں۔“

”دیکھو ذرا، دلہن کو اکیلا چھوڑ کر آجاؤں؟“ انہوں نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنی بھابی کی عقلمندی کو سلام کیا پھر ارم سے بولیں۔ ”کام کیا ہے انہیں؟“ 

”وہ تو نہیں پتا۔“ ارم نے بھولپن سے سر دائیں بائیں ہلاتے ہوئے کہا۔ ”آفاق بھائی نے بس اتنا کہا تھا کہ جا کر آپ سے کہوں کہ امی آپکو بلا رہی ہیں۔ کام تو نہیں بتایا۔ پوچھ آؤں؟“

”رہنے دو۔ میں خود دیکھ لیتی ہوں۔“ وہ بول کر اٹھیں اور ارم بھی انکے ساتھ ہی واپس چلی گئی۔

ملیحہ خاموش بیٹھی اپنی چوڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔ پھر یوں ہی اس نے سمیرا کی طرف دیکھا۔ سمیرا اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ملیحہ قصداً ذرا سا مسکرائی اور پوچھا۔

”کیسی لگ رہی ہوں؟“ 

سمیرا خاموش بیٹھی اسے دیکھتی رہی اور کچھ نا کہا۔ ملیحہ مسکراہٹ کو کچھ اور پھیلا کر بولی۔ ”سب کہہ رہے ہیں، میں دلہن بن کر بہت اچھی لگ رہی ہوں۔“

”ہاں۔ اچھی تو لگ رہی ہو۔ مگر ٹھیک نہیں لگ رہیں۔“ وہ آخر بول پڑی۔

”میں ٹھیک ہوں۔“ وہ سمتقل مسکرا رہی تھی۔ سمیرا چڑ سی گئی۔

”یوں مسکرا کر تم دھوکا کس کو دینا چاہ رہی ہو؟ مجھے یا اپنے آپ کو؟“

”اپنے آپ کو۔“ اس نے آرام سے تسلیم کرلیا۔

”تمہارے رونے پر مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوتی، جتنی اس وقت تمہاری مسکراہٹ کو دیکھ کر ہورہی ہے۔“

اسکی آواز میں دکھ تھا۔ ملیحہ کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ سمیرا ترحم آمیز نظروں سے اسے دیکھ کر بولی۔ ”میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ تمہارا فیصلہ غلط ہے لیکن تم نے اچھا نہیں کیا۔ نہ اپنے ساتھ، نہ وجدان کے ساتھ۔“ وجدان کا نام برچھی کی طرح اسکے اندر اتر گیا تو وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کچھ پل خود کو سنبھالنے میں لگے۔

”نکاح کا وقت ہوچکا ہے۔ آؤ نیچے چلتے ہیں۔“ پھر اسکے انتظار میں رکی نہیں۔ بھاری شرارے کو اٹھائے تیز قدموں سے چلتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے دھکیل کر دروازے کے پٹ وا کر دیئے۔ اور اسی پل پتھر کی ہوگئی۔ اسکے بالکل سامنے وجدان کھڑا تھا۔ بلیک ڈریس پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے، کلین شیو چہرے پر شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر لگ رہا تھا کئی راتوں سے نہیں سویا۔ اسکے سر پر پٹی نہیں بندھی ہوئی تھی مگر کچھ دن پہلے لگنے والی چوٹ کا نشان فراخ پیشانی پر بکھرے سیاہ بالوں میں سے ابھار کی صورت جھانک رہا تھا۔ وہ لب بھینچے ملیحہ کو دیکھ رہا تھا

 گولڈن کلر کے کورے کے نفیس کام والے سرخ شرارہ سوٹ میں زیورات سے سجی ملیحہ کے وجود سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ مہندی لگے ہاتھوں میں بھر بھر کر کانچ کی چوڑیاں پہنے وہ مکمل دلہن کا روپ لئے ہوئے تھی۔

وجدان کو حق نہیں تھا ورنہ وہ اس دلہن کو منہ دکھائی میں اپنی جان دے دیتا۔ دروازے کے پٹوں پر رکھے ہاتھ ملیحہ کے پہلو میں آگرے تھے۔ وجدان نے محسوس کیا، ملیحہ کی سانسیں بے ترتیب ہورہی ہیں۔ خود اسکی دھڑکنیں کہاں بس میں تھیں۔

”رک کیوں گئیں؟“ اسے بت کی مانند دروازے میں کھڑے دیکھ کر پیچھے سے سمیرا نے کہا پھر کوئی جواب نہ پاکر اس نے سائیڈ سے نکل کر سامنے دیکھا اور چپ سی رہ گئی۔ پھر انکے گم سم چہروں پر نظر ڈال کر وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ ملیحہ نے وجدان سے نگاہ ہٹا کر سیڑھیاں اترتی سمیرا کو دیکھا، پھر خود بھی اسکے پیچھے جانے کے لیے قدم بڑھا دیئے۔ سیڑھیوں تک جانے کے لیے وہ وجدان کے برابر سے گزری تو بے اختیار ہی وجدان نے اسکی کلائی تھام کر اسے روک لیا۔ اسکی مضبوط گرفت میں آکر ملیحہ کی کلائی میں سرخ اور سنہری کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔

ان ٹوٹی چوڑیوں نے ملیحہ کی کلائی کے ساتھ ساتھ وجدان کی ہتھیلی کو بھی زخمی کردیا تھا جس سے نکلتا خون اسکی کلائی پر بہتا اسکے خون سے مل کر پتلی سی لکیر بناتا ملیحہ کے ہاتھوں میں شہادت کی انگلی کی پور سے قطرے کی صورت سفید ماربل کے ٹھنڈے فرش پر ٹپک گیا۔ کوئی سمجھتا تو یہ محبت کی فریاد تھی۔

وجدان، ملیحہ کے ہر نقش کو دیکھ رہا تھا اور پلکیں جھکائے ملیحہ اپنے چہرے پر اسی حدت کو محسوس کررہی تھی، جس نے ایک دن لائبریری میں بیٹھے بیٹھے اچانک ہی اسے بے چین کردیا تھا۔ ملیحہ آج بھی بے چین ہوگئی۔ اس بے چینی میں ایک کسک تھی۔ کھودینے کا ملال پوری شدت سے اسکے اندر جاگا تھا۔ کئی دنوں سے برف میں لپٹی اسکی حسیات کو جیسے کسی نے بھٹی میں جھونک دیا تھا۔ اس نے چہرہ موڑتے ہوئے پلکیں اٹھا کر وجدان کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھا اور آنسو کا قطرہ اسکی آنکھ سے ٹپک کر گال پر پھسلتا چلا گیا۔ ایک ہاتھ میں اسکی کلائی پکڑے دوسرے ہاتھ سے وجدان نے اس آنسو کو سمیٹنا چاہا تھا۔

اس نے ہاتھ اٹھایا تھا کہ ملیحہ نے آنکھیں میچتے ہوئے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ نارسائی کی تیز دھار تلوار نے وجدان کے وجود کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا تھا۔

"یہی پل زندگی کی موت ہے۔" اسکے دل نے کہا۔ اسے لگا، اگر وہ ایک پل اور وہاں رکا تو اسکے وجود کی دیوار ڈھے جائے گی۔ ملیحہ کی کلائی چھوڑ کر وہ مڑا، پھر تیز قدموں سے ایک ایک کرتا سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔ ملیحہ کا دل چاہا، دوڑ کر اسے تھام لے۔ مگر دل کی اس خواہش کو دباتی بجائے آگے قدم بڑھانے کے وہ الٹے پیروں چلتی کمرے کی دیوار سے جا لگی۔ وہ دھندلی آنکھوں سے دور جاتے وجدان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ جیسے جیسے سیڑھیاں اتر رہا تھا، ملیحہ کے بدن سے جان نکلتی جارہی تھی۔ وہ دیوار کے سہارے بیٹھتی چلی گئی۔ وجدان لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہال کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ یہ وہ منظر تھا جسے دیکھنے کے بعد ملیحہ کی آنکھوں نے اور کچھ نہیں دیکھا۔ آنکھوں کو بھینچتے ہوئے وہ گھٹنوں کے بل گر پڑی۔ پھر اسکا وجود کٹے ہوئے شہتیر کی مانند بائیں طرف ڈھے گیا۔

******

وجدان نے دور سے نورالہدی کو دیکھا، جو بڑے مسرور سے انداز میں سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے مبارکبادیں قبول کررہے تھے اور ایک دم سے اسکا دل چاہا کہ اس شخص کو قریب سے دیکھے جسکی خاطر ملیحہ خود کو مٹانے کے لیے تیار ہے۔ وہ چلتا ہوا اسٹیج پر آگیا۔

"ہادی بھائی!" وہ جانے کس سے گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک آواز نے انہیں پکارا۔ وہ چونکے۔ اس نام سے بس ملیحہ ہی انہیں پکارا کرتی تھی۔ پھر پلٹ کر دیکھا۔ پکارنے والے کی آواز میں ہی نہیں، چہرے پر بھی ویسی ہی تعظیم تھی جو ملیحہ کے چہرے پر انہیں اپنے لئے نظر آتی تھی۔

"شادی مبارک ہو ہادی بھائی!" وجدان کے پورے وجود پر مردنی چھائی تھی مگر وہ خلوص سے متبسم لہجے میں بولا۔

"شکریہ۔" نورالہدی پوچھنا چاہتے تھے کہ وہ کون ہے؟ اور انہیں اس نام اور اس انداز سے کیوں پکار رہا ہے؟ پھر وہ شکریہ کے سوا کچھ نہ بول پائے۔

"میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ ملیحہ کو خوش رکھئے گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ انکا خیال رکھے بغیر آپ رہ ہی نہیں سکتے۔"

"ان نیک خیالات کا شکریہ۔ مگر معافی چاہتا ہوں، میں نے آپکو پہچانا نہیں۔" انہوں نے وہ سوال کردیا جو انہیں الجھا رہا تھا۔

"ہم پہلی بار مل رہے ہیں ہادی بھائی!"

آب نورالہدی اور بھی چونک گئے۔ "پھر اپنا تعارف بھی کروا دیجیے۔"

"میرا۔ تعارف غیر ضروری ہے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ اس ملاقات کے بعد آپ مجھے بھول جائیں لیکن میں آپکو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔" پھر خود ہی آگے بڑھ کر وہ نورالہدی سے بغلگیر ہوگیا۔

"اللّٰہ حافظ ہادی بھائی!" وجدان نے کہا پھر الگ ہو کر ان سے ہاتھ ملا کر اسٹیج سے اتر گیا۔

نورالہدی آنکھوں میں حیرت لیے اس اجنبی کو دیکھ رہے تھے جسکی آنکھوں کی ویرانی انہیں عجیب سے انداز میں چونکا گئی تھی. پِھر سر جھٹک کر وہ بابا جان کی طرف متوجہ ہوئے جو انہیں کسی سے ملوانا چاہ رہے تھے. جس وقت وجدان، نورالہدی سے مل کر اسٹیج سے اترا، آفاق وہیں موجود تھا. وجدان كے اترنے كے بعد وہ بھی اسٹیج سے اُتَر کر وجدان كے پیچھے چل پڑا اور اس كے قریب جا کر ہلکی آواز میں پوچھا. 

"ملیحہ سے ملاقات ہوگئی؟" 

وجدان نے اسے دیکھا پھر"ہوں!" کہہ کر اثبات میں سَر ہلاتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگا جہاں ہنستے مسکراتے لوگوں کی چہل پہل تھی. آفاق سمجھ نہیں پا رہا تھا كہ اسے کیا کہے. پِھر اس نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیا تھا مگر دوست کی غم گساری پا کر وجدان کا حوصلہ ٹوٹنے لگا. اس نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر آفاق کو دیکھا اور کہا. 

"اچھا دوست! اب اِجازَت دو." آفاق اسکی کیفیت سمجھ رہا تھا، دھیرے سے بولا. 

"میں اِس حالت میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا." 

وجدان دِل گرفتگی سے مسکرایا. "میری یہ حالت تو اب مستقل رہنے والی ہے. تمہیں جب فرصت ملے غمگساری کو آ جانا. مگر اِس وقت تمھاری بہن کی شادی ھورھی ہے اور تمہارا یہاں رہنا زیادہ ضروری ہے." 

آفاق سمجھ گیا تھا كہ وہ اِس وقت تنہائی چاہ رہا ہے، اِس لیے پھر کچھ نا کہا. 

"چلتا ہوں." وجدان نے کہا پھر جانے كے لیے قدم بڑھا دیئے. 

وجدان نے کار اپنے گھر كے گیٹ پر روکی، پِھر اُتَر کر گیٹ کھولنے كے بعد کار پورچ میں لے جانے كے بجائے وہیں اسکا انجن بند کر دیا اور چابی سے چھوٹا گیٹ کھول کر اندر آگیا۔ سامنے سے ساجد، مزمل كے ساتھ گھر سے باہر نکل رہا تھا. وجدان کو دیکھ کر مزمل نے ساجد سے کہا۔

"لو بھئی وجدان بھی اگیا. اب تم لوگ باتیں کرو." پھر ساجد سے ہاتھ ملا کر اندر چلا گیا۔ ساجد گہری نظروں سے وجدان کا جائزہ لے رہا تھا. 

"ٹینس لگ رہے ہو." اس نے کہا تو وجدان اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولا. 

"بس ایسے ہی." پِھر فوراً بَشاشَت سے بولا. "تم سناؤ." 

اور ساجد فوراً سنجیدگی کا چولا اُتَار کر اپنی جون میں آگیا. 

"ضرور سنائیں گے بھائی! کہو، کیا سننا چاہو گے؟ قوالی، غزل یا پھر ٹھمری سے کام چلے گا؟ الحمداللہ اِس وقت سب کچھ سنانے کی پوزیشن میں ہیں. البتہ نا رہتے اگر میں نے اپنے کمیرے کا رول دھلوائے بغیر اَڈِیٹَر صاحب کو دے دیا ہوتا." بولتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل میں سے اک لفافہ نکال کر اسکے سینے پر مارتے ہوئے جھڑک کر کہا. 

"لے پکڑ اپنی سوغات اور آئِنْدَہ میرے کمیرے کو ہاتھ نا لگانا. میں تو تجھے شریف آدمی سمجھتا تھا اور تو چوری چھپے لڑکیوں کی تصویریں اترتا ہے. سدھر جا. نہیں تو کسی كے بھائی كے ھاتھوں پٹے گا." وہ جانے کیا کیا بول رہا تھا. وجدان نے دھیان بھی نہیں دیا اور نا سمجھی كے علم میں اس لفافے کو کھولنے لگا جو ساجد نے اسے پکڑایا تھا. 

لفافہ کھولا اور ملیحہ کی تصویریں وجدان كے ہاتھ میں آگئیں. تصویر میں مسکراتی ہوئی ملیحہ اس ملیحہ سے کتنی الگ تھی جس سے وہ ابھی مل کر آرہا تھا. اک اک کر كے تصویروں کو دیکھتے ہوئے وہ اندر جانے لگا. 

"او بھائی! میں یہاں کھڑا ہوں." اسے غائب دماغی کی کیفیت میں اندر جاتے دیکھ کر ساجد اپنی نا قدری پر بلبلایا. 

وجدان سست رفتاری سے چلتا لاونج میں آگیا، جہاں روز کی طرح سب موجود تھے اور چائے پی رہے تھے. لیکن وجدان نے کسی کی طرف دیکھا بھی نہیں اور اپنے کمرے میں جانے كے لیے سیڑھیون کی طرف بڑھ گیا. مصطفی عظیم خاموشی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے. 

سمیرا مہمانوں کے درمیان مگر اس رخ سے بیٹھی تھی کہ کوئی بھی اگلے دروازے یا پچھلے لان کی طرف جاتا تو فورا اسکی نظر میں آجاتا۔ اس نے وجدان کو آتے دیکھا تو ملیحہ کے پاس جانے کے خیال سے کھڑی ہوگئی۔ لیکن پھر وجدان کو نورالہدی کے پاس جاتے دیکھ کر رک گئی۔ کچھ سیکنڈ کے بعد وہ اسٹیج سے اترا۔ اس کے پیچھے ہی آفاق بھی اسٹیج سے اتر گیا۔ پھر دونوں میں مختصر سی بات چیت ہوئی۔

وجدان چلا گیا تو سمیرا نے مایوسی سے سر جھٹک دیا۔ اک پل کو اسے لگا کہ شاید وجدان، نورالہدی کو سب بتادے گا۔ لیکن خود کو نارمل کرتے ہوئے وہ پچھلے لان کی طرف آگئی۔ اس نے آبنوسی دروازے کی چوکھٹ پر قدم رکھا ہی تھا کہ اوپر زینے پر کمرے کے دروازے کے سامنے بے ہوش پڑی ملیحہ پر اس کی نظر ٹھہر گئی۔ نہ جانے وہ کیا احساس تھا، جس نے سمیرا کو دہلا دیا۔

"پھوپھا جان.......!" کسی خوف کے زیرِ اثر وہ چلائی اور بجائے ملیحہ کے پاس جانے کے الٹے پیروں باہر کو بھاگی۔ "پھوپھا جان! ملیحہ...." اتنا بول کر ہی ہانپنے لگی تو بابا جان پریشانی بھری عجلت سے بولے۔

"کیا ہوا ملیحہ کو؟" سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کو قابو کرتے ہوئے اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ "ملیحہ اپنے کمرے کے باہر بے ہوش پڑی ہے۔"

اسکی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ نورالہدی گلے میں پڑی پھولوں کی مالا کھینچ کر اتارتے اندر کی طرف بھاگے۔ بابا جان بھی انکے پیچھے تھے۔ نورالہدی نیچے سے ہی ملیحہ کے بے ہوش وجود کو دیکھ چکے تھے۔ وہ کئی کئی سیڑھیاں اک ساتھ پھلانگتے ملیحہ کے پاس آ بیٹھے اور پھرتی سے اسے اپنے بازو پر سیدھا کیا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا، پلکیں نم ہورہی تھیں، نیم وا ہونٹوں میں مدھم ارتعاش تھا۔ اسکی سانسیں اٹک رہی تھیں اور دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ نورالہدی اسکی بے ترتیب دھڑکنوں کو اپنے سینے پر محسوس کررہے تھے۔ انہوں نے ملیحہ کی نبض ٹٹولی جو ڈوبتی جارہی تھی۔ پھر سیڑھیوں پر بھاگتے آفاق کو دیکھ کر چلائے۔

"آفاق! گاڑی نکالو۔" اور وہ سر ہلاتا پلٹ گیا۔

نورالہدی کی چھٹی حس خطرے کا اشارہ دے رہی تھی۔ پاس ہی بیٹھے پریشان سے بابا جان کو کوئی دلاسا دیئے بغیر انہوں نے انا فانا ملیحہ کو بازوؤں میں اٹھایا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ مہمانوں میں افراتفری مچی تھی۔ ہر طرف سے 'کیا ہوا، کیا ہوا؟' کی آوازیں آرہی تھیں۔

آفاق کار کا انجن اسٹارٹ کر چکا تھا۔ صمد نے پھرتی سے آگے بڑھ کر پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ اتنے میں بابا جان دوسری طرف کا دروازہ کھول کر بیٹھ چکے تھے۔ نورالہدی نے ملیحہ کو انکی گود میں لٹا دیا اور خود اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

نورالہدی کے بیٹھے ہی آفاق نے کار کو طوفانی رفتار سے آگے بڑھا دیا۔ چند لمحوں کی افراتفری کے بعد فضا اک دم ساکت ہوگئی تھی۔ حیرت کی ذیادتی سے ہر شخص جیسے پتھر کا ہوگیا تھا۔ کچھ دیر پہلے جہاں رنگ و بو کا سیلاب تھا، قہقہوں اور مسکراہٹوں کا دریا امڈ رہا تھا، وہاں اب یکلخت اندیشوں کے سائے لہرانے لگے تھے۔ 

"یا اللّٰہ!" دروازے کے آگے بنے چھوٹے سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بے دم ہو کر بیٹھتی سمیرا کے لبوں سے دعا نکلی۔ ہمیشہ نپے تلے انداز میں برتاؤ کرنے والے بابا جان، ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھے تھے۔ کبھی وہ ملیحہ کے ہاتھ چومتے کبھی اس کے چہرے کو، پھر اسکے گال تھپکتے ہوئے آوازیں دینے لگتے۔ اور جب پکار رائیگاں جاتی تو اسے خود میں بھینچ کر سسکنے لگتے۔

"اے اللّٰہ! میرے حوصلے کو نا آزما۔" یہ دعا انکی زبان کا ورد بنی ہوئی تھی۔ نورالہدی بار بار مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ انکی آنکھوں میں تشویش بڑھتی جارہی تھی۔ اچانک بابا جان کو دھیان آیا کہ ملیحہ دلہن بنی ہوئی ہے تو وہ آنکھیں جھپک کر دھند کو صاف کرتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھنے لگے۔ بابا جان نے زندگی میں کئی صدمے جھیلے تھے مگر کبھی انکی آنکھیں نم نہیں ہوئی۔ لیکن ملیحہ کو دیکھتے دیکھتے انکی آنکھیں بھر آئیں تو وہ اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھ کر رو پڑے۔ تبھی انہیں احساس ہوا کہ انکے ہاتھ میں پکڑا ملیحہ کا ہاتھ انکے ہاتھ سے سرک گیا ہے۔ وہ ٹھٹک کر اپنے خالی ہاتھ کو دیکھنے لگے، پھر گھبرا کر ملیحہ کی بند پلکوں کو دیکھا اور زور سے چلائے۔

"آفاق! گاڑی تیز چلاؤ۔" 

آفاق پہلے ہی بہت اسپیڈ میں ڈرائیور کررہا تھا، انکے لہجے کی سرسراہٹ کو محسوس کرکے اس نے رفتار مزید بڑھا دی۔

ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے گیٹ پر گاڑی رکتے ہی نورالہدی اترے اور پچھلی طرف کا دروازہ کھول کر ملیحہ کو نکالنے لگے۔

"اسٹریچر لاؤ۔" کی آواز لگاتا آفاق پیچھے آیا اور ملیحہ کو نکالنے میں نورالہدی کی مدد کرنے لگا۔ کوئی شخص تیزی سے اسٹریچر دوڑاتا ہوا آیا تھا۔ ان دونوں نے ملیحہ کو کار سے نکال کر اسٹریچر پر ڈال دیا۔ اس دوران باقی لوگ بھی پہنچ گئے تھے۔ اک ہجوم، ملیحہ کے اسٹریچر کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوا تھا۔ ایمرجنسی کی اطلاع پا کر ایک ڈاکٹر تیری سے اس طرف چلا آیا اور رکے بغیر اسٹریچر جو چلاتے رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود بھی اسٹریچر کے ساتھ تیز تیز چلتا ملیحہ کی نبض چیک کرنے لگا۔ اسے شک سا ہوا۔

"ایک منٹ۔" ڈاکٹر کی آواز پر سب ہی تھم گئے۔ ڈاکٹر نے اسٹیتھسکوپ کانوں پر لگا کر ملیحہ کی دھڑکنیں چیک کیں، پھر کوٹ کی جیب سے چھوٹی ٹارچ نکال کر اسکی روشنی باری باری ملیحہ کے پپوٹوں کو اٹھا کر اسکی آنکھوں میں ڈالی، پھر سیدھا ہوتا، ہوا میں سر ہلاتا پیچھے ہٹ گیا۔

"کیا ہوا؟" بابا جان نے سرسراتی آواز میں پوچھا۔ ڈاکٹر انہیں دیکھ کر تاسف سے بولا۔

"She is dead.!" 

اس نے کہا تھا، وہ مر جائے گی.....اور وہ مر گئی۔

******

سمیرا کے اندر عجیب سی بے کلی پھیلی تھی۔ اس نے نظر گھما کر آس پاس دیکھا۔ لان میں مہمانوں کے لیے کرسیاں اور میزیں لگی تھیں مگر مہمان جا چکے تھے۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ شادی غیر اعلانیہ طور پر کینسل ہوچکی ہے۔ پھر وہ رک کر کیا کرتے؟ سامنے ہی تازہ پھولوں کے ساتھ خوبصورتی سے سجا اسٹیج تھا جو ویران پڑا تھا۔ لان میں تیز روشنیاں جل رہی تھیں جنہوں نے رات کو دن میں بدل دیا تھا۔

کسی کو بھی ان روشنیوں کو گل کرنے کا خیال نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے؟ سبھی تو شاک میں تھے۔ صرف باہر سے ہی نہیں، قصر فاروقی اندر سے بھی دلہن کی طرح سجا تھا۔ سجا سنورا مگر اداس... بالکل ملیحہ کی طرح... سمیرا نے سوچا اور سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔ ٹھنڈ میں اسکا جسم اکڑنے لگا تھا جب کہیں ہارن کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا، آفاق کی گاڑی پورچ میں رک گئی تھی۔ بچے کھچے مہمانوں نے اسے گھیر لیا۔ مگر اس میں سے آفاق اور صمد ہی برآمد ہوئے۔ وہ بھی نظر چراتے انکے گھیرے سے نکل گئے۔ 

سمیرا نے دیکھا، آفاق نے ہاتھوں میں لال رنگ کی پوٹلی اٹھا رکھی تھی اور وہ اسی طرف آرہا تھا۔ وہ پاس آکر کھڑا ہوگیا تو سمیرا سر اٹھا کر اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی۔

"ملیحہ کہاں ہے؟" سمیرہ کو لگا اسکے سوال پر آفاق کی آنکھیں نم ہوئی ہیں. اس نے کوئی جواب دیئے بغیر وہ پوٹلی سمیرہ كے ہاتھ میں رکھ دی. سمیرہ دیکھتے ہی پہچان گئی كہ یہ وہی لال دوپٹہ تھا جو ملیحہ شام سے اوڑھے بیٹھی تھی. اس نے کانپتے ھاتھوں سے دوپٹے کی تہہ ہٹائی تو اس میں رکھا زیورات کا ڈھیر دیکھ کر اسکا دِل بیٹھے لگا. اسے کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں تھی. اسے معلوم تھا، یہ ملیحہ كے زیور ہیں۔ سائمہ نے گھبرا کر دوپٹہ سمیرہ سے لے لیا، پھر زیور اُلٹ پلٹ کر سرسراتے لہجے میں بولی. 

"یہ تو ملیحہ كے زیور ہیں. میں نے خود سمیرہ كے ساتھ مل کر اپنے ھاتھوں سے اسے پہنائے تھے." آفاق کچھ نا کہہ سکا.

"جو زیور تم نے ملیحہ کو پہنائے تھے، میں انہیں لاش سے اُتَار کر لایا ہوں." نظریں چوراتے ہوئے اس نے صمد کو دیکھا اور سَر كے اشارے سے کچھ کہا. وہ بھی سَر ہلاتا اسکے پیچھے لان میں آگیا. 

دونوں ٹیبل اور کرسیاں اٹھا کر سائڈ میں جمع کرتے، لان خالی کرنے لگے. گھر كے نوکر بھی ہاتھ بٹانے لگے. جنید اپنی کار میں ملیحہ کی خالہ اور ممانیوں کو لے کر آگیا تھا. ان روتی بلکتی خواتین کا وہ حال تھا كہ خود سے کار سے بھی نا اُتَر پائیں. انکی بیٹیوں نے انہیں کار سے اتارا، پِھر سہارا دیتی کرسیوں تک لے آئیں. 

"کیا بات ہے؟ آپ لوگ رُو کیوں رہی ہیں؟.. ملیحہ کو کیا ہوا تھا؟ وہ کیسی ہے؟ آپ لوگ اسے ساتھ کیوں نہیں لائے؟" وہ سب سے سوال کررہی تھیں اور ہر سوال كے ساتھ ان کے رونے میں شدت آتی جا رہی تھی. یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا كہ نورالہدی کی کار بھی آگئی اور اسکے پیچھے ہی اک ایمبولینس بھی آ کر رکی تھی.

ایمبولینس کو دیکھ کر سب كے دِل رک سے گئے. نورالہدی اُتَر کر پیچھے آئے اور سہارا دے کر بابا جان کو کار سے اتارا جو اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہو پا رہے تھے. ملک ناصر اور منیر حسین نے کار سے نکل کر انہیں سنبھالا تو نورالہدی پیچھے ہٹ گئے. وہ دونوں انہیں لان میں لے گئے. 

نورالہدی بابا جان کو چھوڑ کر ایمبولینس کی طرف آگئے. پِھر نورالہدی اور آفاق ، اسٹریچر اٹھائے ایمبولینس سے نکل آئے جس پر سفید چادر سے ڈھکا ہوا وجود لیٹا تھا. جس کسی نے بھی یہ منظر دیکھا، اسکی چیخیں نکل گئیں. 

سمیرہ کا سانس رکا جارہا تھا. اسکا دِل چاہا، اسے قیامت تک یہ خبر نا ہو كہ چادر میں ڈھکا وجود کس کا ہے. اپنی اِس خواہش كے باوجود وہ اٹھی اور چلتی ہوئی اسٹریچر كے پاس آگئی. وہ چند لمحے چادر کا کونا مٹھی میں جھکڑ کر کھڑی رہی، پِھر اس نے جھٹکے سے چادر اُلٹ دی اور موت كے آغوش میں سوئی ملیحہ کا چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ سمیرا اسٹریچر كے پاس گر پڑی. وہ آنکھیں پھاڑے بے یقینی سے ملیحہ کو دیکھ رہی تھی، جسکا گلابی چہرہ موت كے اثر سے سفید ہو گیا تھا. اسکی آنکھوں میں ستارے چمکتے تھے مگر موت كے بوجھ سے بند ہوئی پلکوں تلے اب روشنی کی ہر کرن دب چکی تھی. اسکے ہر لمحے مسکراتے ہونٹ ہمیشہ كے لیے ساکت ہوچکے تھے. روح، جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی. مگر اسکے ہاتھوں سے مہندی کی خوشبو اب بھی آرھی تھی. اس نے ملیحہ کی ہاتھ کی پشت کو ذرا سا چھوا تو ملیحہ کی کلائی میں چوڑیاں کھنک گئیں. اس دھیمے شور نے سمیرا كے ضبط میں شگاف ڈال دیئے. روکتے روکتے بھی اسکے لبوں سے آہیں نکل گئیں اور وہ ملیحہ سے لپٹ کر دیوانہ وار رونے لگی.

نورالہدی نے اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا تھا. خود انکا دِل چاہ رہا تھا كہ وہ بھی اونچی آواز میں روئیں... اتنی اونچی آواز میں كہ انکی فلک شگاف چیخیں آسمانوں كے اوپر ملیحہ كے کانوں تک پہنچ جائیں. مگر انکی آنکھیں صحرا بنی ہوئی تھیں. لب بینچتے ہوئے انہوں نے بابا جان کی طرف دیکھا. انکی شخصیت کا رعب اور دبدبا نا جانے کہاں جا سویا تھا. اس وقت تو وہ اک بے کس غمزدہ باپ تھے جنہیں اکلوتی بیٹی کی موت نے توڑ دیا تھا. نورالہدی کو ان پر ترس آنے لگا. تھک کر وہ اپنے وجود کی ڈھارس دینے كے لیے اٹھ گئے. نورالہدی کا کندھا میسر آیا تو بابا جان كے رہے سہے ہوش بھی کھو گئے. ان کے سینے میں منہ چھپا کر وہ رونے لگے. 

"میری ملیحہ مر گئی... میری عمر بھر کی کمائی لٹ گئی. جسکا چہرہ دیکھنے كے لیے سات سال ترس کر گزار دیئے، وہ اک پل میں مجھے چھوڑ گئی... جسے ہاتھ تھام کر چلنا سکھایا، اس نے میرے ھاتھوں میں جان دے دی اور میں اپنی بیٹی کو بچا بھی نا سکا. موت اتنی ارزاں ہوگئی ہے تو کہیں سے مجھے بھی لا دو." 

نورالہدی ٹوٹ رہے تھے مگر انکا ضبط نا ٹوٹا. 

سمیرہ نے دھندلی آنکھوں سے نورالہدی کو دیکھا جو برداشت کی اَخِری حدوں کو آزما رہے تھے. پِھر بابا جان کو دیکھنے لگی، جنکی برداشت کی اَخِری حد بھی ختم ہوچکی تھی. اسکا دِل بھر آیا. 

"کون کہے گا، قیامت آنی باقی ہے؟" پِھر اچانک ہی وجدان کا خیال آیا تو کانپ اٹھی. 

"ہاں، مگر اک حشر اور اٹھے گا. پِھر قیامت تک قیامت مستقل ہوجائے گی."

~~~~~

بیڈ سے کمر ٹکائے بیٹھا وجدان اک اک کر كے ملیحہ کی تصویریں دیکھتا جارہا تھا... اسکا ہر اندازِ بے خبر تھا اور ہر ادا دِل فریب... اک تصویر کو دیکھ کر وجدان کا دِل رکنے لگا۔ شانے پر پَلُّو صحیح کرتے ہوئے ملیحہ کی پلکیں جھکی ہوئی تھیں. وجدان کی آنکھوں میں چبھن بڑھ گئی. انہی نرم سلاخوں نے تو اسے اسیر کیا تھا. نارسائی كے احساس میں الجھ کر اسکے ھاتھوں سے ملیحہ کی تصویریں اک اک کر كے کارپیٹ پہ بکھر گئیں. وجدان کی نظر خالی ھاتھوں کی ہتھیلی پر پڑی تو وہ غور سے ان خون الود لکیروں کو دیکھنے لگا، جنہوں نے اسکی قسمت بَدَل دی تھی. 

"اگر ہاتھ تھامنے کی یہ سزا ہے تو آپکو پا لینا واقعی مشکل ہوتا۔" پھیلا ہوا ہاتھ سمیٹے ہوئے اس نے سامنے دیوار كے ساتھ رکھی پینٹینگ کو دیکھا. 

"عشق اول تا آخر دَرْد ہے." عشق آتَش کو دیکھتے ہوئے ملیحہ كے الفاظ یاد آئے تو اس نے بے شکتہ رگ و پے میں سرایت کرتے دَرْد کو محسوس کیا. طلب کسک بن گئی تھی اور وجدان كے اندر ڈیرا ڈال کر بیٹھی ملیحہ کو پانے کی آرزو اسے کھو کر ختم ہونے كے بجائے پہلے سے سوا ہوگئی تھی. 

"کیا یہ عشق کی ابتدا ہے؟" اس نے حیرت سے سوچا. "مگر میں تو انہیں ہمیشہ كے لیے کھو آیا ہوں. پِھر یہ سوگ کیوں کر میرے دِل میں سمائے گا؟" 

"عشق حاصل نہیں، لاحاصل کا جنون ہے." وہ اسے عشق کی نشانیاں بتا رہی تھی. وجدان كے اندر لاحاصل کا جنون ٹھاٹھیں مر رہا تھا. 

"عشق کا جنم جدائی کی کوکھ سے ہوتا ہے.... جدائی دَرْد دیتی ہے." اب وجدان كے دِل میں اس دَرْد كے سوا اور کیا تھا. 

"جب یہ دَرْد لہو بن کر جسم میں بہتا ہے تو پھر کوئی امید باقی نہیں رہتی." آج وجدان كے لیے امید ختم ہوچکی تھی.

"عشق وہ آتَش ہے جو جلائے تو رکھ نہیں، فنا کر دیتا ہے." لیکن جستجو باقی تھی اور لاحاصل کی جستجو نے اندر الاوہ دہکا دیا تھا جسکے شعلوں میں گھر کر وہ ہر احساس کھوتا جا رہا تھا.

"ہاں... مجھے عشق ہے." اس نے اعتراف کیا تو ملیحہ کا اعتراف کرنا یاد آگیا.

"مجھے وجدان سے عشق ہے. عشق کی آگ میں جلنا آسان نہیں." ملیحہ كے اعتراف نے اسکے دَرْد کو بڑھا دیا تو اپنی تکلیف کو بھول کر ملیحہ کی تکلیف اسکی زبان کا گلہ بن گئی. 

"یا اللّٰہ! عشق کی بھٹی میں سلگنے كے لیے کیا میرا وجود کافی نہیں تھا جو تو نے انہیں بھی اِس آگ میں اُتَار دیا؟" 

"جس انسان کو عشق ہوجائے تو چوٹ دوسرے کو لگتی ہے، پر دَرْد سے اپنا جسم کراہ اٹھتا ہے. دوسرے کی چوٹ کا دَرْد سہنا آسان نہیں. یہی وجہ ہے كہ یہ جستجو ہر کوئی نہیں کر پاتا. یہ الاوہ اسی لیے ہر بھٹی میں دھکایا نہیں جاتا كہ جسکا سینا عشق کی بھٹی بن جائے، اسکی آنکھوں میں کسی دوسرے كے جلنے کا احساس کر كے اپنی جلن بھولنا بہت مشکل ہے...اور جو بھول جائے، وہ عمر بھر جلتا ہے پر آگ نہیں بجھتی....!" 

*******

آفاق جس وقت وجدان كے گھر پہنچا، وہاں ناشتہ شروع کیا جا رہا تھا. مزمل اسے ڈرائنگ روم كے بجائے ڈائننگ روم میں لے آیا. 

"بیٹھو آفاق! ناشتہ کرلو." عائشہ مصطفی نے اسے دیکھ کر خالی چیئر کی طرف اشارہ کر كے کہا. آفاق نے تو شاید دھیان بھی نا دیا تھا كہ انہوں نے اسے کیا کہا ہے. 

"آنْٹی وجدان کہاں ہے؟" 

"اوپر اپنے کمرے میں، میں اسے ناشتے كے لیے ہی بلانے جارہی تھی." پھر غور سے آفاق کی اتری شکل کو دیکھ کر بولیں. "تم پریشان لگ رہے ہو. سب خیریت تو ہے؟" 

آفاق چھپا نہیں پایا تو نفی میں سَر ہلاتا ہوا آہستہ سے بولا. 

"کل رات کو میری کزن کی ڈیتھ ہوگئی ہے. آج ظہر كے وقت اسکا جنازہ ہے." 

"انا اللہ وانا الیہ راجعون." 

"جنازے میں شرکت كے لیے میں وجدان کو اپنے ساتھ لینے آیا ہوں. آپ ناشتہ تیار رکھیے، میں اسے لے کر آتا ہوں." 

وجدان كے کمرے کا دروازہ پوری طرح سے بند نہیں تھا، اس میں جھری سی بنی ہوئی تھی جس میں سے روشنی باہر آرھی تھی. آفاق نے پورا دروازہ کھول دیا. وہ کارپیٹ پر بیٹھا چھت کو گھور رہا تھا. ملیحہ کی تصویریں اسکے گرد بکھری ہوئی تھیں. آفاق جانتا تھا، وجدان کو ملیحہ كے مرنے کی خبر دینا دُنیا کا سب سے مشکل کام ھوسکتا ہے. مگر پِھر بھی وہ حوصلہ کرتا یہاں تک چلا آیا تھا. مگر وجدان کی حالت دیکھ کر اسکی ہمت جواب دے گئی۔ 

"وجدان!" بڑی دقتوں سے اس نے وجدان کا نام لے کر اسے مخاطب کیا تھا جو ابھی تک اسکی موجودگی سے بے نیاز تھا. وجدان نے نظروں کا زاویہ بَدَل کر آفاق کو دیکھا، پھر سیدھا ہوتے ہوئے بے اختیار پوچھنے لگا. 

"ملیحہ کیسی ہیں؟"

آفاق کو سمجھ نہیں آیا كے کیا جواب دے. پِھر اس نے سوال نظر اندازِ کر دیا. 

"اٹھ کر تیار ہوجاؤ وجدان! تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے." 

"کہاں؟" 

"تم چلو تو، یہ بھی پتہ چل جائے گا." 

"مجھے ساتھ لے جانا ضروری ہے؟" 

آفاق سمجھ رہا تھا كہ وہ کمرے سے باہر نہیں جانا چاہتا، اسی لیے ٹال مٹول كررہا ہے. مگر اسکی اپنی حالت ایسی تھی كہ وجدان کا خیال کیے بغیر جھللا گیا. 

"ضروری نا ہوتا تو تمہیں لینے نا آتا. اور پلیز اب مزید کوئی سوال مت کرنا. میں بہت پریشان ہوں." 

پھر وجدان نے کوئی سوال نہیں کیا اور اسی طرح چلنے کو تیار ہو گیا. 

آفاق ڈرائیونگ کرتے ہوئے خود میں اتنی ہمت جمع کرتا رہا جس سے وہ وجدان کو خبر کر سکے. مگر اسے لفظ ہی نہیں مل پائے جن میں اسے ملیحہ كے مرنے کی خبر سناتا. وجدان نے بھی کوئی سوال نہیں کیا. 

کار رک چکی تھی۔ وجدان نے کار کا رکنا محسوس کر كے باہر دیکھا تو چونک گیا. پھر اپنے اندازے کی تصدیق كے لیے اس نے بڑے سے لوہے كے سیاہ گیٹ كے بائیں طرف اس سلور جگمگاتی پلیٹ کو دیکھا جس پر سیاہ روشنائی سے "قصر فاروقی" کندا تھا.

"تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟" اس نے حیرت سے آفاق کو دیکھا. مگر وہ کوئی جواب دیئے بغیر کار سے اُتَر گیا. وجدان کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی كہ آفاق کچھ بولنے سے گریز کرنے كے لیے ایسے بی ہیو كررہا ہے. آفاق كے اُتَر جانے كے بعد وہ کار میں بیٹھا رہا تو آفاق آگے سے گھوم کر اسکی طرف اگیا اور اسکے لیے دروازہ کھول دیا. وجدان نے دیکھا، وہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز كررہا تھا. آنکھوں میں الجھن لیے وہ اُتَر گیا تو آفاق نے دروازہ بند کیا اور اسے ساتھ آنے کا کہتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گیا. وجدان نے اسکی تقلید میں قصر فاروقی كے اندر قدم رکھا تو اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا. 

اک ہی رات میں قصر فاروقی کا نقشہ بَدَل گیا تھا. رات قصر فاروقی كے دَر و دیوار سے رنگ و بو کا سیلاب امڈ رہا تھا لیکن دن كے اجلے میں وہاں ویرانی ڈیرے ڈالے ہوئے تھے. با رونق چہرے بے رونق ہوچکے تھے. تھوڑے تھوڑے وقفے سے قصر فاروقی كے اندرونی حصے سے سسکیوں کی آواز ابھر جاتی اور لان میں بیٹھے کئی مرد چہرہ چھپا کر اپنی آنکھوں كے گوشوں سے نمی سمیٹنے لگتے.

تھوڑا آگے جا کر وجدان کی نظر اس گوشے پر پڑی جہاں گھاس پر دری ڈال کر قالین بیچھے تھے جن پر چاندنی بچھائے بیٹھے لوگ ہاتھوں میں سپارے لیے قرآن پاک کی تلاوت کررھے تھے. انہی لوگوں كے درمیان وجدان نے بابا جان کو بیٹھے دیکھا تھا.

رات کو وجدان نے جب انہیں دیکھا تھا تو وہ سَر اٹھائے پرتمکنت اندازِ میں بڑی شان سے نورالہدی کو لیے اسٹیج کی طرف جا رہے تھے. انکے قدموں کی دھمک محسوس کی جانے والی تھی. جب وہ خاص اندازِ میں گردن کو اٹھا کر بے تَاثر نظر سے کسی کو دیکھتے تو بے چارا بلاوجہ ہی مرعوب ہوجاتا. مگر اب تو انکی گردن اِس قدر جھکی ہوئی تھی كہ تھوڑی سینے کو پہنچی ہوئی تھی. کمر میں خم ڈال کر بیٹھے ان کے دونوں شانے آگے کو ڈھلک گئے تھے. ہمیشہ بے تَاَثر رہنے والی انکی آنکھوں میں بے بسی انتہا کو پہنچ رہی تھی. وہ رَو نہیں رہے تھے، پھر بھی وجدان نے اندازہ لگایا كہ اب تک کی عمر میں بچا کر رکھے سارے آنسو وہ کل رات کو بہا چکے ہیں.

"آخر ایسی کیا واردات ہوئی ہے؟" اس نے حیرت سے سوچا اور اگلے ہی پل اسکی حیرت کئی گنا بڑھ گئی. 

نورالہدی، بابا جان كے پاس آئے اور گھٹنا ٹکا کر بیٹھتے ہوئے سَر گوشی میں ان سے کچھ کہنے لگے. وہ ابھی بھی رات والے کپڑوں میں تھے مگر اب ان کے سوٹ کی حالت خراب ہوچکی تھی. اِس اَبتری كے باوجود ان کے چہرے پر کوئی تَاَثر نہیں تھا پھر بھی وجدان نے ان کے وجود سے لپٹے کسی دکھ کو محسوس کر لیا تھا اور اِس احساس كے ساتھ ہی اس نے حیرت سے سوچا. 

"کل ہی تو ھادی بھائی کو من چاہی ہستی کا ساتھ ملا ہے... کم ازکم آج تو انہیں اِس حالت میں نہیں ھونا چاھیے." تبھی چلتے چلتے وجدان کو ٹھوکر لگی تھی اور وہ لڑ کھڑا کر گھٹنوں كے بل گر پڑا مگر فوراً ہی اک ہاتھ زمین پر رکھ کر سنبھلتے ہوئے اس نے اٹھنا چاہا. پر اچانک ہی اسکا جسم جیسے پتھر کا ہو گیا تھا سنبھل کر اٹھتے ہوئے اس نے سامنے دیکھا تو اسکی نظر چارپائی پر سفید کفن میں لپٹی ملیحہ كے بے جان چہرے پر پڑی تھی. وہ پتھر کیسے نا ہوتا؟ اس نے زور لگا کر سینے میں اٹکی سانس کو اندر کھینچنا چاہا تو اس پر کھانسی کا دورہ پر گیا. کھانستے کھانستے اپنے بازو پر کسی کا ہاتھ محسوس کر كے اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو آفاق اسکے پاس تھا. آفاق آہستگی سے کہنے لگا.

"کل تمہارے جانے کے بعد اچانک ہی ملیحہ کی حالت بگڑ گئی تھی اور وہ بے ہوش ہوگئی تھی... ہم اسے فوراً ہی ہسپتال لے کر گئے مگر اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔“

وہ اب کھانس نہیں رہا تھا بلکہ یوں آفاق کو دیکھ رہا تھا جیسے اسکی زبان سے نکلے لفظ اس کے لیے نامانوس ہوں۔ آفاق نے اسکا چہرہ دیکھا پھر اپنا بازو اسکے کندھوں پر پھیلا کر دوسرے ہاتھ سے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر بہت واضح الفاظ میں بولا۔

"ملیحہ مر چکی ہے وجدان....!"

اور اسی دن، اسی پل وجدان بھی مر گیا تھا۔

"بھائی صاحب! جنازے کا وقت ہورھا ہے. اب میت اٹھانے کی اِجازَت دے دیجئیے." بس اک منیر حسین ہی تھے جو نا جانے کیسے خود کو سنبھالے ہوئے تھے. باقی بڑے ماموں کی حالت بھی بابا جان سے مختلف نہیں تھی. بابا جان کا ضبط چور چور ہو گیا. 

"میری بیٹی کو مجھ سے جدا نا کرو منیر!" 

"بیٹی تو کب کی جدا ہوگئی بھائی صاحب! اب تو بس خاک کا پتلا بچا ہے، جسے خاک میں لوٹانا ہے." انہوں نے اک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا. 

عورتیں لاونج میں سپارے پڑھ رہی تھیں. آفاق نے صوفے كے پاس رک کر آہستہ سے سمیرہ کو آواز دی. 

"تم سب آ کر اَخری بار ملیحہ کا چہرہ دیکھ لو. پِھر تھوڑی دیر میں اسے مسجد لے جائینگے." اسکی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہوئیں مگر وہ پلکیں جھپک کر آنسوؤں کا راستہ روکتی، سَر ہلا کر واپس پلٹ گئی. 

جنازے کو تو اٹھنا ہی تھا مگر وہ اٹھ رہا ہے یہ سن کر کہرام مچ گیا. ملیحہ کو زندگی میں تو سکون نا ملا، لیکن مر کر اسکے چہرے پر سکون ہی سکون تھا. 

وجدان نے سَر اٹھا کر نورالہدی کو دیکھا جو اچانک ہی بہت بے چین سے ہوگئے تھے. اگر وہ اتنے بد قسمت نا ہوتے تو آج کا دن انکی زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہوتا مگر.... 

"میں نے اک دعا بھی کی تھی كہ میری خوشی كے خاطر اپنا دکھ سہنے کا حوصلہ رکھنے والے کو کبھی دکھ نا ملے.. میں انکا ساتھ چھوڑنے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں جو مجھے ساتھ چھوڑ کر جانے کی اِجازَت دے رہا ہے." 

الفاظ جو اک پل كے لیے وجدان کی سماعتوں کا پیچھا نا چھوڑتے تھے، اسکے ذہن میں گھونج گئے تو بے اختیار وہ ملیحہ سے گلہ کرنے لگا. 

"آپ تو اپنی ہی دعا کا بھرم نہیں رکھ پائیں... ھادی بھائی کا ساتھ کیا نبھاتیں؟" اس نے ابھی تک اپنے دِل میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا تھا كہ وہاں کتنی تباہی پھیلی ہے اور آیا کچھ بچا بھی ہے كہ نہیں. وہ تو نورالہدی کا سوچ رہا تھا. کیوںکہ ملیحہ نے نورالہدی سے آگے کچھ نہیں سوچا تھا.

"آپکی یہ ادا بہت ظالم ہے ملیحہ!" اس نے کفن کی چادر سے جھانکتے ملیحہ كے چہرے کو دیکھا. 

"کل مجھے جدائی کا حکم سنایا تھا اور آج ہادی بھائی سے جدا ہوگئیں. آپکو نا مجھ پہ ترس آیا نا ہادی بھائی پر." وجدان کی آنکھیں نم ہوگئیں تو ملیحہ کا چہرہ اسکی نظروں میں دھندلا گیا. اور اِس خیال سے كہ آج آخری بار اسکی نظریں ملیحہ کو چھو رہی ہیں، اب یہ نظارہ آنکھوں کو پِھر نظر نہیں آئیگا. 

"کاش وہ کہیں سے آ جائے.... اک بار سہی... آخری بار سہی... میں اسے جی بھر كے دیکھ تو لوں. اب اک عمر اسکے بغیر گزارنی ہے. کوئی تو سہارا ہو." ملیحہ کو جی بھر کر دیکھنے کی خواہش پر اسکے وجدان سے کہے آخری الفاظ وجدان کو یاد آ کر بے چین کر گئے. 

"کیا وہ بھی اِس وقت اسی طرح تڑپی ہونگی جیسے آج میں تڑپ رہا ہوں؟" 

"آج کوئی جا کر اس سے پوچھے، اپنی پوری زندگی میں سے صرف اک پل مجھے نہیں دے گا... اک پل..... صرف اک پل مجھے دے دے.. اک بار مجھ سے ملنے آجائے.. بس اک بار." 

"میں اپنی پوری زندگی آپکو دے دونگا ملیحہ! اپنی ہر سانس آپکے نام لکھ دونگا... بس اک بار لوٹ آئیں.. بس اک بار." اسکے دِل میں ہر طرف فریادیں مچل اٹھیں. 

"اٹھو اظہر! کیا بیٹی کو کندھا نہیں دوگے؟" ملک ناصر نے یہ کیا کہہ دیا تھا. بابا جان تو دیوانوں کی طرح اپنا سَر پیٹنے لگے. 

"میں مر جائوں گی بابا جان!" کتنے مان سے اس نے اپنے باپ سے جان بخشی کی درخواست کی تھی. 

"مر جاوگی تو تمہیں کندھوں پر اٹھا کر اپنے ہاتھ سے دفنا آؤنگا." اپنی بیٹی كے لیے کہے گئے الفاظ کتنے سفاک تھے، بابا جان کو اب احساس ہوا تھا. 

"رہنے دیں ملک انکل! پھوپھا جان سے نہیں ھوگا." آفاق نے ان سے کہا. 

وجدان اٹھ کر ملیحہ كے سرہانے بائیں جانب آ کھڑا ہوا.

نورالہدی کا ذہن کام نہیں کررہا تھا ورنہ وہ وجدان کو پہچان جاتے۔ لیکن وہ حیران ہوئے تھے کہ جلتی آنکھوں اور دہکتے چہرے والا یہ شخص کون ہے جسے ملیحہ کی موت پر اتنا دکھ ہوا ہے کہ صبح سے بیٹھا پاگلوں کی طرح ملیحہ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اب اپنے حلیے سے دیوانہ نظر آتا یہ شخص حق دار کی طرح ملیحہ کو کاندھا دینے آگیا تھا۔ یہ حیران ہونے کا وقت نہیں تھا سو انہوں نے اپنی حیرت کو جھٹک دیا۔ پھر چاروں اک ساتھ جھکے اور ملیحہ کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ کلمے کی صدائیں بلند ہوگئیں۔ 

آج وہ قصر فاروقی سے رخصت ہورہی تھی... ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ بیس سالوں پر محیط اسکی زندگی کی داستان اچانک ہی اک موڑ پر آکر ختم ہوگئی تھی۔ اسے کہتے ہیں زندگی... اور یہ ہوتی ہے موت.... ایک بے وفا.. اور دوسری بے رحم۔ اور کیا بے بسی ہے کہ فرار دونوں سے ہی نہیں... زندگی سفاک لگے تو موت کے آنچل میں چھپ جاؤ... لیکن اگر مر کر بھی سکون نہ ملے تو کاش کوئی تیسرا دروازہ بھی ہوتا۔

قبر تیار ہوچکی تھی۔ ملیحہ کا جنازہ قبر کے پاس اتار دیا گیا۔ آفاق نے وجدان کو اشارہ کیا تو وجدان کو ملیحہ کا منہ موڑنا یاد آگیا اور وہ جبڑے بھینچ کر نفی میں سر ہلاتا پیچھے نکل گیا۔ آفاق ایک نظر اسے دیکھ کر جنازے کے پاس آگیا، پھر کمر کے گرد بندھے کپڑے سے پکڑ کر نورالہدی اور صمد کے ساتھ مل کر احتیاط سے ملیحہ کے جسم کو قبر کے اندر کھڑے جنید اور منیر حسن کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ پھر وہ اور نورالہدی بھی قبر میں اتر آئے۔

"تم سفید رنگ مت پہنا کرو۔ اس رنگ میں تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ ڈر لگتا ہے، تمہیں نظر نہ لگ جائے۔"

کفن کی سفید چادر اسکے چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے نورالہدی کے ہاتھ کانپ گئے۔ انہوں نے غور سے اسکی طرف دیکھا لیکن آج انہیں ملیحہ سفید رنگ میں اچھی نہیں لگی۔ انہیں بے ساختہ وہ رات یاد آگئی، جب انکا انتظار کرتے وہ تھک کر سو گئی تھی۔ سوتے ہوئے اسکے چہرے پر کتنی معصومیت تھی۔ اور وہ نرم سا تاثر جو سوتے جاگتے ہر حال میں اسکے ساتھ رہتا تھا۔ مرنے کے بعد بھی وہ نرمی اور وہ معصومیت اسکے چہرے پر تھی۔ نورالہدی کو لگ رہا تھا جسے وہ آج بھی تھک کر سو گئی ہو... مگر آج یہ تھکن زندگی کی تھی۔

"میں تمہارے سحر سے آزاد نہیں ہونا چاہتا۔" انہوں نے نرمی سے ملیحہ کی پلکوں کو چھوا۔

"مری زندگی سے تو جا رہی ہو، بس اتنا احسان کرنا کہ میرے دل سے کبھی نہ جانا۔ اپنی یاد کا ایک چراغ جلا کر میری دل کی طاق پر رکھ دینا۔ میں اسی روشنی میں جینے کی وجہ ڈھونڈ لونگا۔"

انکے دل کو کچھ ہوا تھا تو وہ فوراً قبر سے نکل آئے۔ گورکن بیلچے کی مدد سے قبر میں مٹی بھر رہے تھے اور وجدان دفن ہوتا جارہا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر لگی اور ملیحہ کا قیامت تک کے لیے سورج سے پردہ ہوگیا۔ اسکی ادھوری محبتوں، نا مکمل آرزوئیں اور ٹوٹے خواب اسکے جسم کے ساتھ ہی منوں مٹی تلے دفن ہوگئے۔

اپنی جذبوں کی صلیب آپ اٹھانی ہے ہم نے

زندگی سن تو سہی کیسے بتائی ہے ہم نے

مڑ کر دیکھا تو رہ زیست کو تنہا پایا

 تب یہ معلوم ہوا، عمر گنوائی ہم نے

~~~~~~~~~~~

نورالہدی قبرستان سے نکلے تو گھر نہیں آئے بلکہ وہی سے ملک انکل کو بابا جان کا خیال رکھنے کا کہہ کر سکون کی تلاش میں جانے کن راستوں پر نکل کھڑے ہوئے مگر سکون کبھی ڈھونڈنے سے ملا ہے؟ انہیں گھر جانے کے خیال سے وحشت ہورہی تھی۔ مگر کب تک گھر نہ جاتے؟... گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی انہوں نے لاشعوری طور پر سامنے لاؤنج میں رکھے صوفے کی طرف دیکھا۔ انکی نظر کی عادت ہوگئی تھی، وہ جیسے ہی اینڑنس کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھتے، انکی نظر سامنے کو اٹھ جاتی اور ملیحہ جو روز لاؤنج کے صوفے پر بیٹھی انکی واپسی کا انتظار کررہی ہوتی، ہر روز کئے جانے والا استقبال اس انداز میں ہوتا تھا، جیسے وہ ہفتوں بعد گھر لوٹے ہوں۔

وہ ایک ہاتھ لاک پر رکھے ابھی تک دروازے پر کھڑے تھے جیسے منتظر ہوں کہ ابھی ملیحہ کسی کونے سے نکل کر انکے سامنے آجائے گی۔

"تم کیوں مر گئیں ملیحہ؟" یہ سوال اس وقت انہیں بے چین کئے ہوئے تھا۔ لیکن جواب نہیں ملا۔ لاؤنج میں رکھے اس صوفے سے نظر بچا کر اپنے کمرے میں آئے... دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا لیکن گھما نہ سکے۔ وہ جانتے تھے جیسے ہی ہینڈل گھما کر دروازہ کھولیں گے، دروازے کے اوپر رکھی ٹوکری میں ملیحہ کے استقبال کی منتظر گلاب کی ڈھیروں پتیاں ان پر برسنے لگیں گی اور کارپیٹ پر بچھے پھول جو ملیحہ کے پیروں کو چھونے کی آس میں تھک کر اب مرجھا گئے تھے، انکے بھاری بوٹوں تلے چرمرا جائیں گے۔ وہ بھلا کیسے اس شور کو سن پائیں گے؟... اور وہ شام جو اگر آجاتی تو بڑی حسین تھی۔

****

اسکے حسن کو دو آتشہ بنانے کی خاطر اپنے وجود کی قربانی دینے والی کینڈلز،  جن کا موم کل ملیحہ کو وصل کے لئے سجائی گئی سیج میں نہ پاکر دکھ سے پگھلتا قطرہ قطرہ یوں ٹپکا تھا جیسے کسی آنکھ سے آنسو اور پھر شب وصل میں اُجالے بھرنے کے لیے جلائی گئی موم بتیاں، شبِ فرقت کے اندھیروں میں بجھ گئی تھیں۔ اب کون انکے پگھلے ہوئے وجود کو دیکھتا؟ سیج کو اپنے جھرمٹ میں لئے چھت سے لٹکتی تازہ گلاب کی لڑیاں جو اب اپنی تازگی کھو چکی تھیں۔۔۔ نورالہدیٰ کیسے انکے کملائے چہرے دیکھتے۔یہ سب اہتمام ملیحہ کے لیے تھا اور جب اسی نے یہاں پاؤں نہیں دھرا تو نورالہدیٰ کیسے یہاں قدم رکھ پاتے۔ دھیرے دھیرے انکا ہاتھ کینڈل پر سے سرک گیا۔ وہ اُلٹے قدموں لاونج میں آئے تو بابا جان کے بند دروازے کے آگے رک گئے۔ وہ جانتے تھے اس بند دروازے کے دوسری طرف کیا قیامت ٹوٹ رہی ہوگی۔ مگر قیامت ان پر بھی گزر رہی تھی۔

کل سے وہ بابا جان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے، انہیں سمیٹ رہے تھے۔ مگر اب انہیں اپنا حوصلہ بڑھانا تھا،  خود کو سمیٹنا تھا تاکہ بابا جان کا دکھ بٹا سکیں۔ وہ سر جھکائے اس دروازے کے سامنے سے گزر کر ڈرائینگ روم سے ہوتے ہوئے ہال میں آگئے جس کی دیواروں پر ملیحہ کی پینٹنگ آویزاں تھیں۔ انکا رخ سیڑھیوں کی جانب تھا۔ ملیحہ کے کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا، جسے نورالہدیٰ نے دونوں پٹ تھام کر کھول دیا۔ کمرے کی فضا ساکت تھی۔ نورالہدیٰ نے آنکھیں بند کی اور گہرا سانس لے کر ملیحہ کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہا جو کمرے میں ہر جانب بکھری تھی۔ پھر آنکھیں کھول کر کمرے میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ یہی تو وہ گوشہ تھا جہاں ملیحہ نے اپنی مختصر سی زندگی کا زیادہ تر وقت گزارہ تھا۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انسانوں پر ہی نہیں، چیزوں پر بھی اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ ملیحہ ان ہی لوگوں میں سے تھی، جن کی چھاپ بہت گہری ہوتی ہے۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ نورالہدیٰ کو کمرے میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے ملیحہ کہیں آس پاس ہی ہے اور اس احساس سے ان کے اعصاب پرسکون ہونے لگے تھے جیسے جلتے الاؤ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑ گئے ہوں۔

نورالہدیٰ نے آگے بڑھ کر بالکونی کا دروازہ کھول دیا۔ ایک سرد ہوا کا جھونکا نورالہدیٰ سے ٹکراتا ہوا چلا گیا۔ انہوں نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا جہاں چودھویں کا چاند جگمگارہا تھا۔ وہ جانتے تھے، ملیحہ چاندنی راتوں کی دیوانی تھی۔ خاص طور پر اسے چودھویں کے چاند سے عشق تھا۔ چودھویں کے چاند کی خوب چمکتی چاندنی میں وہ کمرے میں بند ہونے کی بجائے جھولے میں آکر لیٹ جاتی اور  چاند کو محویت سے دیکھتے دیکھتے سوچا کرتی تھی۔

"آج اسے نا پاکر چاند نے کیا سوچا ہوگا؟" جھولے کے پاس کھڑے وہ سوچ رہے تھے۔

"کتنی دور چلی گئی ہو ملیحہ!... چاند سے بھی دور...." خالی جھولی کو دیکھ کر وہ یاسیت میں ڈوب گئے۔

"میں نے کب قربتوں کی خواہش کی تھی؟  لیکن کبھی یہ بھی تو نہیں چاہا تھا کہ تم دوریوں کے عذاب بخش دو۔ اب یہ نظر تمہیں کہاں ڈھونڈے؟" وہ مڑے اور واپس کمرے میں آگئے۔

اپنا دھیان بٹانے کے لیے وہ ملیحہ کے اسٹوڈیو میں آگئے۔ دیوار کے سہارے رکھے ایک کینوس کو اٹھا کر قریب سے دیکھنے لگے۔ بالکونی سے آتے تیز ہوا کے جھونکے نے ایزل پر لگے کینوس کو ڈھانپے باریک نیٹ کو اُڑایا تھا۔

نورالہدیٰ بے ساختہ متوجہ ہو گئے اور نیٹ کا کور ہٹا کر کینوس کو دیکھنے لگے، جس پر بنا ہوا پورٹریٹ ابتدائی مراحل میں ہی نامکمل چھوڑ دیا گیا تھا۔ اپنی انگلیوں سے کینوس کو چھوتے وہ عجیب سے احساس میں گھر گئے۔

"ملیحہ کی آخری تخلیق.... لیکن ادھوری..... شاید زندگی نے اس تصویر کو مکمل کرنے کی مہلت نہیں تھی۔ صرف یہ تصویر ہی کیوں؟  وہ تو سب کچھ ہی ادھوا چھوڑ  گئی تھی۔اتنے اچانک رختِ سفر باندھا کہ یقین ہی نہیں آیا۔"

وہ پورٹریٹ کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اچانک  کسی چیز نے انہیں چانکا دیا تھا۔ وہ غور سے پورٹریٹ کو دیکھنے لگے۔ انہیں احساس ہوا کہ یہ چہرہ تصوراتی نہیں ہے بلکہ اسکے نقوش مانوس لگ رہے تھے۔ مگر اتنے مبہم تھے کہ نورالہدیٰ پہچان نہیں پائے۔ لیکن انہیں یقین تھا کہ وہ چہرے کو دیکھ چکے ہیں۔ کہاں؟ انہیں کوشش کے باوجود یاد نہیں آیا تو وہ اس احساس کو جھٹک کر وہاں سے ہٹ گئے اور چلتے ہوئے بیڈ پر آکر بیٹھ گئے۔ پھر یوں ہی ٹانگ لٹکائے پیچھے کو لیٹ گئے۔

نورالہدیٰ نے حساب لگایا۔ بے یقینی کی اس کیفیت کو جھیلتے ہوئے چوبیس گھنٹے گزر گئے تھے جبکہ ہر پل انہیں لگ رہا تھا کہ بس اگلے ہی پل جان جسم سے نکل جائے گی۔

"تمہاری محبت دیکھ لی نورالہدیٰ!" خود پر طنز کیا۔ "کہتے تھے ملیحہ کے بغیر ایک پل بھی نہ رہ پاؤں گا اور اب دیکھو۔۔۔ چوبیس گھنٹے گزر چکے ہیں اور سانس اب بھی باقی ہے۔ مگر صرف سانس ہی تو باقی ہے۔"

انکے دل نے شکستہ انداز میں کہا تھا۔ انہوں نے سن کے پلکیں موند لیں۔ انکے اعصاب تو پہلے ہی ڈھیلے پڑ چکے تھے، پلکیں بند کی۔ تو جلتی ہوئی آنکھوں کو قرار آگیا۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر تکیہ اٹھایا۔

تکیے کے نیچے ایک ڈائری رکھی تھی۔ نورالہدیٰ حیران ہوتے اٹھ بیٹھے اور ہاتھ بڑھا کر ڈائری اٹھائی۔

وہ چھوٹی کتاب جیسے سائز کی ریڈ کور والی ڈائری تھی چکنے صفحوں کے درمیان ایک گولڈن کلر کا پین اس طرح سے پھنسا تھا جیسے کوئی لکھتے لکھتے کسی کام سے اٹھ گیا ہو۔ انہوں نے ڈائری کھول کے پہلے صفحے کو دیکھا جس پر ملیحہ کا نام لکھا تھا۔ وہ اور بھی حیران ہو گئے۔ ملیحہ ڈائری لکھا کرتی تھی، یہ بات نورالہدیٰ کے لیے نئی تھی... انہیں کبھی بھی ملیحہ کی اس عادت کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا تھا بلکہ یہ بات تو کسی کے بھی علم میں نہیں تھی۔ شاید بابا جان کے علم میں بھی... ایک تجسس سا ہوا کہ وہ اس ڈائری میں کیا لکھتی تھی..... دیکھنا تو چاہئے۔ انہوں نے سوچا اور  جوتے اتار کر آرام سے نیم دراز ہوتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ روشن کیا اور ڈائری کھول کر پڑھنے لگے۔

نورالہدیٰ جانتے تھے، ملیحہ کی زندگی میں کئی خلا تھے اور انہیں لگتا تھا کہ ملیحہ نے ان خلاؤں میں جینا سیکھ لیا تھا اور ایسا لگنے کی وجہ بھی تھی۔ نورالہدیٰ نے ہمیشہ اسے پرسکون دیکھا تھا۔

وہ ایسے شوپیس کی طرح لگتی تھی جسے لوگ ڈرائینگ روم میں سجا کر بھول جاتے ہیں۔ پھر یہ تو پتہ رہتا ہے کہ یہیں کہیں ایک شو پیس رکھا تھا، مگر رک کر اسے دیکھنے کے ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور وہ شوپیس بھی کبھی اس بے توجہی کا گلہ نہیں کرتا۔ بابا جان نے کبھی بھی ملیحہ کو شوپیس سے زیادہ کی اہمیت نہیں دی.... وہ آس پاس ہے اتنا کافی ہے.... وہ کس حال میں ہے؟ یہ جاننا ضروری نہیں۔ نور الہدیٰ کو لگتا تھا، ملیحہ نے شوپیس کی طرح ہی بابا جان کے "نولفٹ" والے رویے کو قبول کرلیا تھا لیکن ملیحہ شوپیس نہیں تھی، اس نے کبھی کہا نہیں تھا مگر اسے بابا جان کی بےتوجہی کا گلہ تھا اور اپنی تنہائی سے شکایت۔

بابا جان کو حاوی رہنا پسند تھا اور ملیحہ کے مزاج میں پسپائی تھی۔ جب بھی اسکا آمنا سامنا، بابا جان کی سخت گیری سے ہوا، اس نے بہت آسانی سے ہار مانتے ہوئے قدم پیچھے لے لیے اور  ٹکراؤ کے امکانات کم کرنے کے لیے اس نے بابا جان کے مزاج کو اپنا لیا تھا۔ لیکن اپنی ذات کی نفی نہیں کر پائی جس نے اسکے اندر کشمکش کو جنم دیا تھا۔ اور یہی کشمکش ملیحہ کی زندگی کی سب سے بڑی تکلیف تھی اور نورالہدیٰ نے اسکی تکلیف کو آج جانا تھا... جب اسے اس دنیا کو چھوڑے ہوئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ گزر چکے تھے۔۔۔۔ ملیحہ کی اداسی، ملیحہ کی ناراضی، ملیحہ کی محرومیاں.... اب جبکہ نورالہدیٰ  اس کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ملیحہ کی ڈائری کو پڑھ کر ہی نورالہدیٰ کو ملیحہ کی گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ لیکن قدرت اچانک ہی ملیحہ پر مہربان ہو گئی اور وہ جو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھانے کے لیے ترستی تھی، اسکی زندگی میں ایک ساتھ دو دو روزن کھلے تھے۔ ایک نورالہدیٰ  فاروقی اور دوسرا وجدان مصطفیٰ۔ نورالہدیٰ  اس نام کو پڑھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں تو کبھی احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ ملیحہ کی زندگی میں کوئی اور بھی ہے۔

"یہ شخص مجھ سے سب کروا لے گا، جو میں کبھی کرنا نہیں چاہتی.... جسے کرنے کی مجھ میں ہمت بھی نہیں. مجھے لگتا ہے، میں دائرے میں قید ہوگئی ہوں. جس بھی رستے پر قدم بڑھاونگی، اسکے اَخِری سرے پر وجدان کو ہی کھڑا پاؤں گی." ملیحہ کبھی کسی كے لیے بے اختیار بھی ہوئی تھی، نورالہدی کو یقین ہی نہیں آیا. پھر ملیحہ كے آگے آگہی کا پل نورالہدی پر حیرتوں كے پہاڑ توڑ گیا. 

نورالہدی كے لیے اک اک لفظ میں حیرتوں کا جہاں آباد تھا. وہ بے اختیار ہی صفحے پلٹتے چلے گئے اور آنکھیں تحیر سے پھیل گئیں. مگر وہ فون کال... وہ رک گئے. آگے صفحے سادا تھے. نا بھی ہوتے تو نورالہدی میں اب اور ہمت نہیں بچی تھی. ڈائری ان کے ہاتھ سے چوٹ کر بیڈ پر جا گری. انہیں اک دم سے ہوا میں آکسیجن کی کمی کا احساس ہوا. وہ اٹھ کر بالکونی میں آگئے. 

"تو کیا ملیحہ، وجدان سے محبت کرتی تھی؟" نورالہدی نے بالکونی کی گرل سے ٹیک لگا لی اور سَر جھکا کر بائیں کاندھے سے ذرا نیچے اپنی شرٹ پر کاجل كے اس نشان کو دیکھا جو ملیحہ کی آنکھ سے بہہ کر انکی شرٹ میں جذب ہو گیا تھا. ان کے دماغ پر چھائی دھند چھٹنے لگی تھی. دھیرے دھیرے اس نشان پر انگلیاں پھیرتے انکا ذہن بہت تیزی سے تانے بانے جوڑ رہا تھا. 

ایگزبیشن کی رات ملیحہ نے بابا جان سے وجدان کا ذکر کیا تھا اور انکی ناراضگی كے اظہار پر اس نے کھل کر وجدان سے محبت کا اعتراف کیا تو بابا جان نے اس پر نورالہدی كے ساتھ شادی کا فیصلہ مسلط کر دیا۔۔۔ بے شک وہ اس بارے میں نورالہدی کا اندیا بہت دن پہلے لے چکا تھے لیکن ملیحہ کو یہ فیصلہ سزا کی صورت ہی سنایا گیا تھا.... اب نورالہدی کی سمجھ میں آرہا تھا كہ بابا جان نے صرف تِین دن كے وقفے سے تاریخ کیوں طے کی تھی؟ وہ ملیحہ کو موقع نہیں دینا چاھتے تھے. لیکن ملیحہ نے کسی موقعے کا انتظار نہیں کیا اور زندگی میں پہلی بار بابا جان سے اِخْتِلاف کی جرات کرتے ہوئے وجدان سے ملنے جا پہنچی. 

اگر وجدان اس دن اسے مل جاتا اور اسکا ساتھ دینے کو تیار بھی ہوتا تو باپ بیٹی كے بیچ سرد جنگ کا آغاز ہوجاتا. اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی، کہنا مشکل ہے. لیکن پھر ملیحہ کسی بھی قیمت پر وجدان سے دستبردار نہیں ہوتی. لیکن وہ وجدان سے نہیں مل پائی اور جب گھر آئی تو سب رشتےدار اسکی منگنی میں شرکت کرنے آ پہنچے تھے. ملیحہ كے پاس فرار کا کوئی رستہ نہیں بچہ تھا. کتنی عجیب بات ہے، وہ جو ساری عمر خود پر جبر کر كے بابا جان سے بلا مقابلہ ہار مانتی آئی تھی، پہلی بار اپنے دِل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے فیصلے كے مخالف اٹھ کھڑی ہوئی تھی. لیکن قسمت نے اسے اسی فیصلے کو قبول کرنے پر مجبور کردیا. مگر اس رات وہ فون کس کا تھا؟ نورالہدی سوچنے لگے اور سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں جھماکا ہوا. 

"میں آپ سے یہ نہیں کہونگا كہ ملیحہ کو خوش رکھیے گا. کیوںکہ میں جانتا ہوں انکا خیال رکھے بغیر آپ رہ ہی نہیں سکتے." انہیں وہ لڑکا یاد آیا جس نے شادی کی رات اسٹیج پر آ کر انہیں مبارک باد دی تھی. نورالہدی سوچنے لگے، انہیں "ہادی بھائی" کہہ کر پکارنے والا اجنبی کون تھا جو انہیں اتنی گہرائی سے جانتا تھا. نورالہدی کو یہ بھی یاد اگیا كہ یہ وہی لڑکا تھا جس نے ملیحہ كے جنازے میں شرکت کی تھی. سب لوگ کندھا بَدَل کر ہٹتے جارہے تھے مگر وہ شخص تمام رستے ملیحہ کی میّت کو کاندھے پر اٹھائے چلتا رہا اور جب ملیحہ کی تدفین مکمل ہوچکی تو انہوں نے آفاق کو اس سے کہتے سنا. 

"کیا تم یہاں کچھ دیر ٹھہرنا چاہوگے؟" 

اس نے کہا. 

"مجھے روح سے غرض تھی اور یہاں جسم رکھا ہے... ٹھہر کر کیا کرونگا؟ آؤ آفاق! اب یہاں سے چلنا چاھیے." 

وہ کون ھوسکتا ہے جیسے ملیحہ كے مرنے پر اتنا دکھ ہوا تھا؟..... اچانک ہی ان کے ذہن میں اک اور جھماکا ہوا. وہ تیزی سے چلتے ایزل كے سامنے آ گئے. اپنی یاداشت میں محفوظ چہرے کو نورالہدی نے پوٹیریٹ سے ملا کر دیکھا. اب شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی.

وہ شخص وجدان مصطفی ہی تھا. اور اگر وہ شادی کی رات قصر فاروقی میں آیا تھا تو منگنی کی رات ملیحہ كے لیے آنے والا فون بھی اسی کا ھوگا. مگر اس وقت تک بات ملیحہ كے ھاتھوں سے نکل چکی تھی. نورالہدی نے اپنا چکراتا سَر دونوں ھاتھوں سے تھام کر بال مٹھی میں بینچ ڈالے. چوبیس گھنٹے سے اک ہی سوال ان کے ذہن میں چکرا رہا تھا. 

"ملیحہ کیوں مر گئی؟" انہیں جواب مل گیا تھا. 

"کیوں ملیحہ...؟ کیوں؟" وہ دَرْد کی شدت سے چلا اٹھے. 

"تم جانتی تھی كہ اسکے بغیر مر جاوگی تو کیوں کی یہ خود کشی؟.. اک بار تو کہا ہوتا، تمہیں وجدان چاھیے.... خدا کی قسم! میں تمہیں وجدان لا دیتا... کہا تھا تم سے، تمھاری مسکراہٹ مجھے اپنی محبت سے زیادہ عزیز ہے. تم نے اعتبار نہیں کیا تھا... اک بار تو آزما کر دیکھتیں. کیوں مجھے اندھیرے میں رکھا؟... کیوں؟" نورالہدی جیسا مظبوط انسان جو ملیحہ کو قبر میں اُتارتے ہوئے نہیں رویا، اب دیوانوں کی طرح چلا رہا تھا. قصر فاروقی انکی آوازوں سے گھونج رہا تھا. 

"سب سے کہا وجدان كے بغیر مر جاوگی.... اک بار تو مجھ سے کہا ہوتا. میں نے کب تمھاری خواہش کی تھی؟ کہا تھا نا دِل نا مانے تو اِس رشتے کو توڑ دو. پھر کیوں خود کو میرا پابند سمجھا؟" آنسوؤں سے روتے ہوئے وہ فرش پر بیٹھ گئے. 

"میرے اور آپکے بیچ بس اک پُکار کا فاصلہ ہے... میرا نام لے کر بلائیے گا، میں اجاونگی۔" ملیحہ کی آواز ان کے کان میں گونجی تھی اور وہ بے اختیار اسے پکارنے لگے. 

"لوٹ آؤ ملیحہ! تمھارے بغیر جینا بہت مشکل ہے." نورالہدی تڑپ تڑپ کر رُو رہے تھے اور رُو رُو کر تڑپ رہے تھے. 

"تمھاری خوشی كے لیے میں اپنا دکھ بھی سہہ لیتا، مگر یہ کیسے سہوں كہ تمھارا دکھ میری خوشی بن گیا؟... تم دکھ جھیلتی رہی اور میں خوش ہوتا رہا. یہ احساس مجھے عمر بھر چین نہیں لینے دے گا." 

دونوں ہتھیلیاں فرش پر تکائے سَر جھکا کر روتے اس شخص کو واقعی عمر بھر چین نہیں آیا. 

وجدان صبح کا نکلا ہوا تھا اور اب رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ویسے رات کو دیر سے آنا اب اسکی روٹین میں. شامل تھا اب گھر والے بھی اس روٹین کے عادی ہو چکے تھے۔ اس لیے کھانے کے بعد سب چائے پی کر اپنے کمروں میں چلے گئے۔ بس عائشہ ہی وجدان کے انتظار میں لاونج میں بیٹھیں تھیں۔ گیارہ بجنے کے بعد وجدان نے گھر میں قدم رکھا۔ دروازہ کھول کر اندر آتے وجدان کو دیکھ کر عائشہ کو لگا انہوں نے وجدان کے ہیولے کو دیکھا ہو۔ یوں تو کئی دن سے وہ خود کو بھلائے ہوئے تھا لیکن اس وقت اسکی حالت بدترین ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں بے گانگی لیے اسکے چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔ گرد جم کر بلیک پینٹ شرٹ کا رنگ خاکستر لگنے لگا تھا۔ عائشہ آخر ماں تھیں، انکا دل پسیج گیا۔ وہ اٹھ کر اسکے پاس چلی آئیں۔

"یہ کیا حالت بنا رکھی ہے وجدان؟ "

وجدان نے انہیں دیکھا، اسکے آنکھوں کا بے جان تاثر دیکھ کر وہ کٹ گئیں۔

"ایسے کیا دیکھ رہا ہے؟  چل ادھر آ!"  وہ اسکا بازو پکڑ کر اسے صوفے پر لائیں۔"اچھا طریقہ ہے ماں کو پریشان کرنے کا۔ یہی ضد ہے نا کہ ملیحہ سے شادی کرنی ہے یہ لے!" انہوں نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ "غلطی ہو گئی کہ تیری بات نہیں مانی۔ تو جیتا، میں ہاری. اب خوش؟" وہ بول کر خود مسکرائیں۔ "اب صبح مجھے اسکے گھر لے جانا۔اسکے ماں باپ  سے شادی کی بات کروں گی اور اس وقت تک چوکھٹ نہیں چھوڑوں گی جب تک وہ ہاں نہیں کر دیتے۔" انجانے میں ہی انہوں نے بھڑکتی آگ پر پٹرول کی بارش کر دی تھی۔ چپ بیٹھے وجدان کے اندر بلا کے طوفان اٹھے تھے اور وہ ان سے بے خبر کہ رہی تھیں۔

"میں اپنے بیٹے کے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔ تب تک تم نہا کر کپڑے بدل لو۔ ٹھیک ہے؟ " وہ چھوٹے  بچے کی طرح اسے پچکار کر بولتیں کھانا گرم کرنے کچن میں چلی گئیں۔

وجدان کے اندر دھواں بھر رہا تھا۔ بہت سی آوازوں کا شور اسکے ذہہن میں ہلچل مچا رہا تھا۔

"آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ "

"آپ یا تو پاگل ہیں یا دیوانے۔"

"کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار میرے بارے میں سوچ لیجیے گا۔" کیا التجا تھی۔

"فیصلہ کرنے کا اختیار کبھی بھی میرے پاس نہیں رہا" اور کیسی بے بسی تھی۔

"آپ ایک بار اور لائبریری  جا سکتے ہیں"

"میں پورا دن اپنا انتظار کروں گا" مگر وعدہ وفا نہ ہوا۔

"لیجیے میری طرف سے تحفہ ہے"۔ عشق آتش کیسا انوکھا تحفہ تھا۔

وجدان نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر سر گھٹنوں سے ٹکا دیا مگر آوازیں بند نہ ہوئیں ۔

بہت چاہا ہے اسے.... اتنا کہ اب اس چاہت سے دستبردار نہیں ہوا جاتا..... اس سے الگ ہونے کا خیال میرے جسم سے روح کھینچ رہا ہے، وجدان کو کفن میں لپٹی ملیحہ کا چہرہ یاد آگیا۔ اس نے کیا تھا۔

"میں قیامت تک اپکا انتظار کروں گا". اور قیامت تک کا انتظار اسکی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔

وجدان نے تیز ہنسی کی آواز سنی تھی۔ اسے لگا،  تقدیر اسکا مزاق اڑا رہی ہے۔ وہ بازوؤں میں سر چھپا کر دوہرا ہوا بیٹھا رہا۔ اس بار چوڑیاں کھنکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ وجدان نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے لاونج کے کھلے دروازے سے باہر پر کے پاس چاندنی میں ڈھلا ایک پیکر دکھائی دیا۔ جیسے کوئی ہاتھ بڑھا کا بارش کے قطروں کو ہتھیلیوں  پر جزب کرتا ہے۔ وہ ہتھیلی کو کبھی اُلٹتی۔ کبھی سیدھا کرتی اپنے ہاتھ پر چاندنی کو دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی۔

وجدان کی طرف اسکی پشت تھی اور اسکے لمبے گھنے بال پوری طرح اسکی کمر کو ڈھک رہے تھے۔ پھر وجدان پہلی نظر میں ہی اسے پہچان گیا مگر حیرت کی وجہ سے اسکا نام وجدان کی زبان سے چند سیکنڈ کی تاخیر  کے بعد سرسراتی ہوئی آواز میں نکلا۔

"ملیحہ" 

وجدان کی آواز پر اس نے فورا پلٹ کر دیکھا۔ وہ ملیحہ ہی تھی۔ مسکراتی نگاہوں سے ہکا بکا بیٹھے وجدان کو دیکھتے ہوئے اس نے اچانک  ہی اپنا  ہاتھ اسکی طرف اٹھا دیا جیسے  اسے تھامنے کی دعوت دے رہی ہو۔ وجدان بے تاب ہو کر اٹھتا تیزی سے باہر آگیا۔ پھر جیسے ہی اس نے ملیحہ کا ہاتھ  تھامنا چاہا،  وہ شرارت سے اپنا ہاتھ کھینچ  کر ہنستی ہوئی پلٹ کر بھاگی۔

"رکیے ملیحہ! " اس نے آواز دی۔ ملیحہ نے پلٹ کر تو دیکھا  مگر رکی نہیں اور بھاگتی ہوئی گیٹ سے نکل گئی۔

"ملیحہ پلیز رک جائیں" وجدان اسے آواز دیتا خود بھی گیٹ کی طرف لپکا ۔ وہ گیٹ سے باہر نکلا تو ملیحہ دونوں ہاتھ پشت پر باندھے سامنے کھڑی شرارت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وجدان چلتا ہو اسکے پاس آیا اور وہ مسکراتے ہوئے قدم پیچھے کی طرف  لینے لگی۔

"میں کب تک آپ کو بلاتا رہوں گا اور کب تک مجھ سے دور بھاگتی رہیں گی؟.... اب سب کر دیں". وہ بکھر کر شکایت کر رہا تھا مگر  ملیحہ الٹے پیروں پر چلتی رہی۔ پھر اچانک ہی وجدان نے اسے روکنے کے لیے لپک کر اسکا ہاتھ تھامنا چاہا اور وہ تیزی سے پیچھے ہٹتی پلٹ کر بھاگنے لگی۔ وجدان بھی اسکے پیچھے دوڑتا چلا گیا۔

عائشہ کھانے کی ٹرے لیے لاونج میں آئیں تو وجدان وہاں نہیں تھا۔انہوں نے اسکی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا تو کھلے دروازے سے انہوں نے وجدان کو گیٹ کی طرف بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اسے آوازیں لگاتی دروازے تک آئیں مگر وہ گیٹ سے نکل چکا تھا۔

واپس پلٹ کر انہوں نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی گیٹ پر آگئیں۔ انہوں نے سر باہر نکال کر دیکھا تو وجدان بھاگتا کوا کسی گلی میں مڑ رہا تھا۔ انکی چھٹی حس نے انہیں وارننگ دی تھی۔ وہ ایکدم پلٹیں اور جتناتیز دوڑ سکتی تھیں دوڑتی اپنے کمرے میں آگئیں اور سوتے ہوئے مصطفیٰ عظیم کو جھنجھوڑا۔

"اٹھیے مصطفیٰ صاحب! وجدان کو روکیں۔ وہ کہیں چلا گیا ہے۔"

وہ آنکھیں ملتے ہوئی اٹھ بیٹھے۔

"وجدان آگیا؟. " انہوں نے کچھ اور ہی سوال کیا۔

"ہاں۔اور چلا بھی گیا ہے۔ میرے دل۔کو کچھ ہورہا ہے مصطفیٰ صاحب!  میرے بیٹے کو میرے پاس لے آئیں۔"

وہ اصل صورتِ حال کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ بس اتنا سمجھ آیا کی وجدان گھر آیا اور پھر چلا گیا۔ اب وہ چاہ رہی ہیں کی مصطفیٰ عظیم اسے گھر لے آئیں۔ وہ بہت سے سوال کرنا چاہتے تھے کہ وجدان کیوں واپس گیا ہے؟  اور اگر چلا گیا ہے تو پریشان  کی کیا بات ہے؟ واپس آجائے گا۔ مگر جس طرح عائشہ مصطفیٰ کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے اور انکے پاس سوال کا وقت نہیں ہے۔ تو فورا وجدان کے پیچھے نکلنا چاہیے۔

 وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور نائٹ ڈریس پہنے ہی سلیپر پاؤں میں  اڑستے باہر بھاگے۔ عائشہ باہر آگئیں اور اپنے کمرے کے ساتھ والا دروازہ پیٹتے ہوئے مزمل کو آوازیں دینے لگیں۔ مصطفیٰ انکی طرف دھیان دئیے بغیر باہر نکلتے چلے گئے۔  انکی اور مزمل کی کاریں پورچ میں کھڑی تھیں اور وجدان کی بائیک بھی۔۔۔۔اسکا مطلب وہ پیدل ہی گیا ہے۔ تیزی سے سوچتے وہ اسکے تلاش میں خود بھی پیدل ہی نکل پڑے۔ دروازہ کھول کر مزمل نے اپنی  ماں کے حاس باختہ چہرے کو دیکھا تو فکر مندی سے پوچھا۔۔

"کیا بات ہے امی؟. "

 "وجدان کہیں چلا گیا ہے۔ جاؤ مزمل! اسے ڈھونڈ کر لے آؤ"

 "کیا چلا گیا ہے؟ اور پریشان کیوں ہو رہی ہیں؟ وہ بچہ نہیں ہے آجائے گا۔"

"میرا دل کہہ رہا ہے مزمل! وہ واپس نہیں آئے گا۔ تم جا کر اسے لے آؤ۔ تمہارے ابو بھی گئے ہیں"

"کیا کچھ ہوا ہے جو وہ چلا گیا؟. " مزمل کو یہی سمجھ میں آیا کہ شاید وجدان کی ماں باپ سے کوئی بات ہوئی ہے اور وہ جھگڑا کر کے چلا گیا ہے۔ ورنہ عائشہ اتنا پریشان کیوں ہوتیں۔

"مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا ہے۔لیکن کچھ ہوا ضرور ہے۔ جب وہ آیا تو اسکے چہرے سے لگ رہا تھا اسکے ساتھ کچھ ہوگیا ہے۔ دیر مت کرو مزمل! جاؤ جاکر اپنے بھائی کو ڈھونڈو۔" وہ رونے لگیں تو مزمل کے ساتھ کھڑی ہوئی انیقہ آگے نکل کر انکے پاس آئی اور انہیں ساتھ لگا کر چپ کرانے لگی۔

"امی پلیز!  آپ روئیں تو مت۔ میں جاکر اسے لاتا ہوں۔" انکے رونے  پر اس نے پریشان ہو کر کہا۔ پھر اندر سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔

گاڑی لے کر گلیوں میں گھومتے مزمل کو وجدان تو نہیں ملا لیکن مصطفیٰ عظیم مل گئے۔ اس نے کار روک کر انہیں ساتھ بٹھالیا۔ پھر دونوں باپ بیٹا گلیون کو چھوڑ کر مین روڈ پر وجدان کو تلاش کرنے کے لیے نکل گئے۔ دو گھنٹے کی تلاش کے بعد وہ دونوں  نا مراد لوٹ آئے۔

"وجدان نہیں ملا؟." عائشہ کے سوال پر مصطفیٰ عظیم کو لگا، وہ اچانک ہی بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ وہ شکستہ انداز میں گردن جھکا کر بیٹھ گئے۔

"انتظار کر کے دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے صبح تک وہ خود آجائے۔" انیقہ نے مرجھائے چہروں پر امید جگانی چاہی۔

"میں وجدان کے دوستوں کو فون کرتا ہوں". کسی کو مخاطب کیے بغیر کہ کر مزمل اٹھا اور ٹیلی فون اسٹینڈ سے ڈائری اٹھا کر اس میں سے وجدان کے دوستوں کے نمبر تلاش کرنے لگا۔ سب سے پہلے اسے آفاق کا نمبر  نظر آیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کرنے لگا۔

"نہیں مزمل بھائی! وجدان یہاں تو نہیں آیا۔ بلکہ میں نے خود اسے آپکے گھر ڈراپ کیا تھا۔"

"اچھا" انکی آواز سست سی ہو گئی۔

"مزمل بھائی!  ایسا کرتے ہیں، میں آپکی طرف آجاتا ہوں پھر مل کر اسے ڈھونڈتے ہیں." آفاق واقعی پریشان ہو گیا تھا۔

"فلحال اسکی ضرورت نہیں۔ ابو اور میں اسے تلاش کر رہے ہیں۔ پھر تمہاری فیملی اپنی کرائسس سے گزر رہی ہے۔ امی نے بتایا تھا تمہاری کزن کے بارے میں۔ سن کر واقعی افسوس ہوا۔"

آفاق لب کاٹنے لگے۔

"اچھا، میں باقی دوستوں کی طرف ٹرائی کرتا ہوں۔ شاید وہاں مل جائے۔ اور اگر وہ تمہاری طرف آئے تو فون کر دینا"

"جی مزمل بھائی!  ویسے کہنے کی ضرورت نہیں۔میں سمجھ سکتا ہوں اس وقت آپ کرنے پریشان ہوں گے۔"

"اللّٰہ حافظ! " دوسری طرف سے لائن ڈسکنیکٹ ہو گئی تو آفاق نے ریسیور کریڈل پر ڈال دیا۔

سمیرا کو وہ اچانک ہی بہت تھکا ہوا لگنے لگا تھا۔ وہ اسکے پاس آئی اور آہستہ سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ آفاق اسکے ہاتھ پر  ہاتھ رکھتے ہوئے آہستگی سےبولا۔

"سمجھ نہیں آرہا، یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پہلے ملیحہ کی طرف سے بری خبر ملی، اب وجدان کی طرف سے دھڑکا لگ گیا ہے۔"

"کیا ہوا؟ " سمیرا نے سہم کر پوچھا۔

"وجدان گھر سے چلا گیا ہے"

"تو کیا ہوا؟ واپس آجائے گا. "

"تم سمجھ نہیں رہی ہو، وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔ مجھے تو ڈر ہے وہ کہیں کوئی حماقت نہ کر بیٹھے۔"آفاق پریشان تھا وجدان کے لیے اور جب کچھ نہ سوجھا تو گاڑی لے کر وجدان کی تلاش میں نکل پڑا۔

******

بابا جان کو ملیحہ کے مرجانے پر اتنی  حیرت نہیں ہو رہی تھی جتنی اپنے زندہ ہونے پر ہو رہی تھی۔ سر چیئر کی پشت سے لگا کر ملیحہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے لٹ جانے کا سوگ مناتے رہے۔ نیا دن طلوع ہو رہا تھا لیکن بابا جان کی زندگی کے اندھیروں کو روشن کرنے جتنی طاقت اب کسی سورج میں نہیں تھی۔ دستک دئیے بغیر نورالہدیٰ دروازہ کھول کر اندر آئے تھے اور چلتے ہوئے بابا جان کے سامنے  جا کھڑے ہوئے۔ بابا جان نے انکی طرف دیکھا اور انہوں نے بابا جان کے بھیگے چہرے کو۔

"آپ کیوں رو رہے ہیں بابا جان؟" انہوں نے حیرت سے استفسار کیا۔ 

"بیٹی کی موت کا دکھ تو آپ کو ہو نہیں سکتا۔ تو کیا یہ خوشی کہ آنسو ہیں؟"

"کیا کہہ رہے ہو؟" انکی تو جیسے کسی نے گردن پر چھری پھیر دی ہو۔

"مرجاؤگی تو تمہیں کندھوں پر اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے دفنا آؤں گا۔" نورالہدیٰ  ٹھہر ٹھہر کر بولے۔ بابا جان نے سانس تک روک لیا۔

"بہت شوق تھا آپ کو اسے دفنانے کا۔ کہئے، اسے دفنا کر کیسا لگ رہا ہے؟" وہ نورالہدیٰ  کو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن نورالہدیٰ  کو ان پر رحم نہیں آیا۔

"کیا آپ مجھے اسکا گناہ بتائیں گے، جس کی پاداش میں آپ نے اس پر زندگی حرام کردی؟"

"بس کر دو نورالہدیٰ!" وہ برداشت نہیں کر سکے۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور کرتا بھی کیوں؟ آخر وہ میری بیٹی تھی۔" نورالہدیٰ چٹخ کر بولے۔

"یہی تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں بابا جان! کہ آخر وہ آپکی بیٹی تھی، پھر کیوں آپ نے اپنی  ہی بیٹی کو مار ڈالا؟"

بابا جان حیرت کی زیادتی سے گنگ رہ گئے پھر اس الزام پر تڑپ اٹھے۔

"چاہو تو مجھے جان سے مار دو نورالہدیٰ! لیکن مجھ پر اتنا بھیانک الزام مت لگاؤ۔ میں نے ملیحہ کو نہیں مارا، اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور یہ بات تم بھی جانتے ہو۔"

"اور ملیحہ کو ہارٹ اٹیک کیوں ہوا تھا؟" وہ برفیلے لہجے میں سوال کر رہے تھے۔ 

"بیس سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک بے وجہ نہیں ہوا کرتا مجھے وہ وجہ بتائیں گے جو اسکے ہارٹ اٹیک کا سبب بنی؟" سرد آواز اور بے تاثر چہرہ..... ان دو چیزوں کے ساتھ بابا جان نے بہت سے لوگوں کو بے بس کیا تھا۔ آج وہ خود ان دونوں کے آگے بے بس ہوگئے تھے۔ انکا دایاں ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا۔

"ملیحہ کیوں مر گئی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کو ایک اعتراف کرنا ہے اور اس ایک اعتراف کے بعد ہو سکتا ہے ملیحہ تو آپ کو معاف کر دے لیکن بابا جان! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت تک تو کیا، اسکے بعد بھی میں آپکو معاف نہیں  کرونگا۔"

اپنی بات کہہ کر وہ رکے نہیں اور اٹھ کر باہر نکل گئے۔ بابا جان ابھی تک سکتے کی کیفیت میں تھے۔ پھر انکا دھیان اپنی گود میں رکھی ڈائری کی طرف گیا۔ انہوں نے ڈائری اٹھا کر کھولی پھر پڑھنے لگے۔

ڈائری کیا تھی، انکے جرائم کی فہرست تھی۔ انہیں لگا، وہ کٹہرے میں کھڑے ہیں اور تند و تیز لہجے والا وکیل بھری عدالت میں انکے جرائم کی فہرست پڑھ کر سنا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو قیدِ تنہائی بخشی تھی۔ اس نے ہر قدم پر اسکے جزبات مجروح  کیے اور آخر بات وہاں تک آپہنچی جہاں انہوں نے ملیحہ کو ایسے دوراہے کی طرف  دھکیل دیا، جہاں آکر ملیحہ پر زندگی مشکل اور موت آسان ہوگئی تھی۔ الزام کڑے تھے لیکن بابا جان کے پاس اپنی صفائی  میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر الزام سچا تھا اور ہر جرم حقیقت۔ اعتراف کے سوا اور کیا راستہ تھا؟ ڈائری انکے ہاتھ سے چھوٹ کر گود میں گری، پھر سرک کر انکے پیروں پر اوندھی جا پڑی۔ پچھتاوے سے زیادہ اذیت کسی احساس میں نہیں اور اعتراف سے زیادہ کرب انگیز کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ چلانے لگے۔

"میں نے ملیحہ کو مار ڈالا۔ میں نے ہی اپنی بیٹی کی جان لے لی۔ کوئی ہے جو مجھ جیسے ظالم باپ کی گردن اتار دے جس نے اپنی اولاد کا خون کیا ہو۔ مار ڈالا میں نے اپنی بچی کو۔ اپنی بیٹی کا قاتل ہوں میں۔ میری ملیحہ میرے ہاتھوں مر گئی۔ لوگو! مجھے مار ڈالو." 

ان کی آواز کمرے کی دیوار سے ٹکرا کر گونجتی رہی

فجر کی اذانوں کے ساتھ کراچی کے مضافات میں زندگی معمول کے مطابق جاگ اٹھی تھی۔ "چاچا ہوٹل" کے مالک چاچا روز کی طرح اپنی بھینسوں کا دودھ نکال کر چھوٹے کی ہمراہی  میں تڑکے ہی پہنچ گئے تاکہ گاہکوں کے آنے سے پہلے انکے ناشتے کا بندوبست ہو سکے۔ ویسے بھی اس ہوٹل پر گاہک بہت آتے تھے۔ ایک تو یہ وجہ تھی  یہ ہوٹل ہائی وے کے ساتھ تھا۔ دوسرے آس پاس پچاس کلومیٹر تک کوئی دوسرا ہوٹل نہیں تھا۔ اس لیے ہائی وے سے گزرنے والے ٹرک ڈرائیوروں کا پیٹ پوجا کے لیے "چاچاہوٹل" میں ہی رکنا پڑتا تھا۔

چاچا تو دودھ کی بالٹیاں سائیڈ پر رکھ کر تھڑے پر بیٹھا غرارے کرنے لگا اور چھوٹا چارپائیوں کو بازیاب کرانے کے لیے کچن کے تالے کا دروازہ کھولنے لگا۔ تبھی اس کی نظر تندور کے ساتھ رکھے لکڑیوں کے ڈھیر پر پڑی۔ اسے وہاں کوئی چھپا ہوا نظر آیا۔ اس نے "پھس پھس" کی آواز لگا کر چاچا کو متوجہ کرکے لکڑیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ چاچا نے آنکھیں سکیڑ کر ڈھیر کو دیکھا پھر کسی کی جھلک پا کر وہ تھڑے اتر آیا، وہ پہلوان تھا اس نے چھپے ہوئے سے ڈرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اسکے سر پر پہنچ کر اسکا شانہ دبوچ لیا۔

"ہاں بھائی! بول کون ہے تو؟ اور ادھر گھسا کیا کررہا ہے؟"

"ہش" اس نے فورا منہ پر انگلی رکھ کر اسے چپ ہونے کو کہا پھر ادھر ادھر دیکھا کر اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔ 

"آہستہ بولو۔ نہیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ میں یہاں چھپا ہوا ہوں."

"کس کو  پتہ چل جائے گا؟" چاچا اسی کے لہجے میں بولے۔

"وہ جو اندر ہیں" اس نے کچن کے دروازے کہ طرف اشارہ کیا۔ چھوٹے نے ڈر کے مارے تالا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور دروازے سے دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔

"دروازے پر تو تالا ہے۔ پھر کوئی اندر کیسے جائے گا۔؟" چاچا بولا۔

"وہ دروازے سے نہیں گئیں."

"پھر؟" چاچا نے چونک کر پوچھا۔

"وہ وہاں سے اندر گئیں ہیں." چاچا اور چھوٹے نے اسکے ہاتھ کے اشارے کی طرف دیکھا تو ہنس پڑے۔

"اوئے، وہ یہاں سے اندر گئیں ہیں..... کمال ہو گیا۔" چاچا نے روشندان کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا جس میں سے کوئی بچی بھی مشکل سے گزرتی اور اسکی باتوں سے تو لگتا تھا وہ کسی خاتون کا ذکر کررہا ہے۔

"ہاں" وہ سنجیدگی سے بولا۔ "تم انہیں بتانا نہیں کہ میں یہاں ہوں۔ اگر انہیں پتہ چلا تو وہ بھاگ جائیں گی۔"

"چل نہیں بتاتے۔ پر ہمارے ملنے پر تو پابندی نہیں ہے۔ او چھوٹے! تالا کھول۔" وہ بدستور مزاق اڑاتے ہوئے چھوٹے سے بولا جس نےتالا تو کھول دیا لیکن دروازہ بھڑا رہنے دیا۔

"تو اسی لیے چھوٹا ہے." چاچا اسکے خوف پر اسے ملامت کرتا کچن کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ چھوٹا بھی خوف زدہ ہوتا اندر آیا پھر وہاں تو کوئی نہیں تھا۔ اس نے سکھ کا سانس لیا اور چارپائیاں باہر بچھانے لگا اس نے اوٹ میں ہو کر اندر جھانکا پھر انہیں وہاں نہ پاکر وہ کچن میں آگیا۔

"وہ کہاں چلی گئیں؟"

"او پائیا! یہاں کوئی نہیں ہے۔"

"نہیں۔ وہ ادھر ہی تھیں۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ وہ سڑک کراس کر کے یہاں آئیں، پھر تندور پر چڑھ کرانہوں نے روشندان سے اندر چھلانگ لگا لی۔ وہ ضرور مجھ سے چھپ رہی رہیں۔"

اس نے کہا پھر پلیٹیں اٹھا کر دیکھتا اور گلاس جھاڑتا ہوا انہیں ایسے تلاش کرنے لگا جیسے سوئی ہوں۔

"دیکھ روشندان سے چھلانگ لگا کر اندر آئی تھی۔ اب روشندان سے چھلانگ لگا کر باہر چلی گئی ہوگی۔ ایسا کر تو اسے باہر جا کر ڈھونڈ۔ جا شاباش!" اس نے پچکار کر کہا۔ ادھر وہ بھی انکو نا پاکر مایوس ہو گیا۔ وہ باہر آگیا اور سڑک پر آنکھیں  گھما گھما کر دیکھتا جیسے اندازہ کرنے لگا کہ وہ کدھر گئی ہوںگی۔ پھر ایک سمت کا تعین کر کے دوڑ پڑا۔ جوتے نجانے کب اسکے پیروں سے نکل گئے تھے۔ ویسے بھی رات بھر جاگنے کے بعد اب اس کے زخمی پاؤں جوتا پہننے کے قابل رہے بھی نہیں تھے۔ وہ ننگے پاؤں سڑک پر بھاگتا چلا جارہا تھا۔

"چاچا! یہ کون تھا؟" چھوٹے نے سوال کیا۔

"پاگل تھا بیچارہ۔"چاچا نے کہہ کر چارپائی اٹھائی  اور بچھانے کے لیے باہر لے آیا۔

.............

رات آفاق کے آنے کے بعد ساجد بھی جلد ہی پہنچ گیا تھا۔ ساری رات وجدان کی تلاش جاری رہی۔ دستکیں ہوتی رہیں، فون بجتے رہے مگر لاحاصل۔

"اتنا تو بتا عائشہ! آخر ہوا کیا تھا؟" مصطفیٰ عظیم کے لہجے میں تھکن تھی۔

"کتنی بار کہوں مصطفیٰ صاحب! کہ کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ جب گھر آیا تو پہلے سے ہی پریشان  تھا۔ بلکہ وہ تو کئی دنوں سے ملیحہ والے معاملے پر اپ سیٹ تھا، مجھ سے دیکھا نہیں گیا اور اس سے کہا ملیحہ سے شادی کر لے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پھر میں اس کے لیے کھانا لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو وہ گیٹ سے باہر نکل رہا تھا اور بس اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔" لیکن آفاق کو بہت کچھ معلوم تھا۔ اس نے ملیحہ کے نام پر انکو دیکھا پھر سر جھکا کر نفی میں سر ہلانے لگا۔

"ابو! میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں اسپتالوں میں دیکھ لینا چاہیے۔ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔" کچھ دن پہلے کے واقعے کو نظر میں رکھتے کوئے مزمل نے کہا تو ساجد نے تائید کرنے لگا۔

"بالکل ٹھیک کہا مزمل بھائی! ہمیں اس امکان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔"

"تو پھر چلیں۔" آفاق اٹھتے ہوئے بولا تو باقی تینوں بھی فورا ہی اٹھ گئے۔ پھر شہر کا کوئی اسپتال اور کلینک ایسا نہیں بچا تھا، جہاں ان لوگوں نے وجدان کو تلاش نہ کیا ہو۔ لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ گھر لوٹنے پر انکے مایوس چہروں کو دیکھ کر عائشہ بیگم نے نم آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہو کہا۔

"کمال ہے مصطفیٰ صاحب! میں ماں ہوں پھر بھی جس وقت سے آپ گئے ہیں، مستقل دعا کررہی تھی کہ کاش میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو۔۔۔۔۔اور آپ باپ ہو کر بھی بیٹے کو لیے بغیر آگئے ہیں۔"

مصطفیٰ عظیم نے ان کے طرف دیکھا پھر نظریں چراتے ہوئے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کسی خیال کے تحت مزمل نے انیقہ کو مخاطب کیا۔

"انیقہ! تم دھیان سے وجدان کے کمرے کی تلاشی لو۔ شاید وہ اپنا کوئی سراغ چھوڑ گیا ہو۔"

"آپ کے کہنے سے پہلے ہی میں یہ کام کر چکی ہوں اور مجھے اسکے کمرے سے ایسی کوئی چیز نہیں ملی، البتہ۔۔۔۔۔۔۔۔" اتنا بول کر وہ چپ ہوئی تو مزمل فورا بولا۔

"کیا؟"

"وجدان کا CNIC، اسکا ڈرائیونگ لائسنس اور چیک بک وغیرہ سب غائب ہے۔ میں نے باقی جگہ بھی چیک کیے ہیں مگر نہیں ملے۔" وہ جو کہنا چاہتی تھی سب پل میں سمجھ گئے۔

"اسکا مطلب وجدان اپنے ضروری ڈاکومنٹس اور چیک بک ساتھ لے گیا ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ جہاں بھی گیا ہے، یقینا واپسی کے ارادے سے نہیں گیا۔" ساجد پریشان کن لہجے میں بولا۔ مصطفیٰ عظیم تو کچھ کہنے کے لائق ہی نہیں رہے تھے اور عائشہ بھی دوپٹہ میں منہ چھپا کر سسکنے لگیں۔ آفاق نے انیقہ سے پوچھا۔

"اسکے استعمال کی چیزوں میں اور کیا غائب ہے؟"

"اور تو کچھ بھی نہیں۔ اسکے کپڑے جوتے اور باقی سامان سب اپنی جگہ پر ہے بلکہ اسکا والٹ بھی مجھے بیڈ کی دراز میں رکھا ملا تھا اور تو اور وہ ملیحہ کی تصویریں بھی گھر پر چھوڑ کر گیا ہے۔"

"ملیحہ کی تصویریں؟" ایک دم ہی آفاق کے لہجے سے حیرت بھری آواز نکلی۔

"ہاں۔" انیقہ نے کہا پھر ایک لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔ "یہ مجھے وجدان کی کتابوں میں رکھا ہوا ملا تھا۔"

آفاق سے پہلے مزمل نے وہ لفافہ اسکے ہاتھ سے لے کر تصویریں نکالیں اور ایک تصویر پکڑ کر باقی مصطفیٰ عظیم کے ہاتھ میں دے دیں۔ ساجد نے انکے ہاتھ سے دو تصویریں لے کر ایک آفاق کو دی اور ایک خود دیکھنے لگا۔ پہلی نظر میں وہ پہچان گیا یہ وہی تصویریں تھیں جو وجدان نے اسکے کیمرے سے کھینچی تھیں۔ مگر اسے تردّد ہوا، یہ کیسے معلوم ہو کہ یہی ملیحہ ہے۔ عائشہ مصطفیٰ نے تصویروں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے۔ وہ یقینا تصویریں پہلے ہی دیکھ چکی تھیں۔

"تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ یہ ملیحہ کی تصویریں ہیں؟" مصطفیٰ عظیم نے وہ سوال کیا جو سب کے ذہنوں میں تھا۔

"میں ملیحہ سے مل چکی ہوں۔" اس نے بم پھوڑا تھا۔ سب کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ مزمل نے سرسراتے لہجے میں پوچھا۔

"کب؟"

وہ بتانے لگی۔"جس دن وجدان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، وہ وجدان سے ملنے گھر آئی تھی اور اس نے خود بتایا تھا کہ وہ ملیحہ فاروقی ہے۔ پھر اپنا نمبر دے کر کہا تھا کہ وجدان سے کہوں اسے کال کرلے۔ لیکن میں نے اس سے نمبر لے کر پھاڑ دیا۔"

"ویسے اب تو یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ وجدان گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔" بے دلی سے ملیحہ کی تصویر ٹیبل پر ڈالتے مزمل کے لہجے میں مایوسی تھی۔

"میرا خیال ہے اب ہمیں پولیس کی مدد لے لینی چاہیے۔ شاید وہ اسے ڈھونڈ  سکیں۔" مصطفیٰ عظیم کے چہرے پر ویرانی مستقل ڈیرہ ڈال چکی تھی۔ وہ کمزور سے لہجے میں کسی کو مخاطب کیے بغیر بولے تھے۔

لاونج میں بیٹھا ہر شخص انکے اندر کی تھکن کو محسوس کر کے سر جھکا گیا۔ پریشانی سے ہونٹ کاٹتی انکی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ وجدان سے انکی محبت ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ انکے لیے یہ سانحہ واقعی بہت عظیم تھا۔ شوہر کو نا امید ہوتے دیکھ کر عائشہ کی اپنی طاقت بھی کمزور پڑ گئی تھی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کو چھلکنے سے باز رکھنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ انکو روتے دیکھ کر مزمل کی افسردگی گہری ہو گئی۔ اسے بیک وقت وجدان پر غصہ بھی آرہا تھا اور اسکے لیے بڑے بھائی کی طرح پریشان بھی ہورہا تھا۔ مصطفیٰ عظیم طویل خاموشی کے بعد تھکے ہوئے لہجے میں بولے۔

"تم نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ہے عائشہ!"

انہوں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور بے بسی سے بولیں۔ 

"مگر میں تو اجازت دے چکی تھی مصطفیٰ صاحب! پھر کیوں۔۔۔۔۔؟" بات ادھوری چھوڑ کر وہ آنسو پینے لگیں۔

******

"دھڑکنیں تھم جاتی ہیں، سانسیں رک جاتی ہیں مگر وقت نہیں رکتا." نورالہدیٰ  نے سوچا۔ آج ملیحہ کا سوئم بھی ہوگیا تھا۔

"تم بہت بڑے وکیل ہو نہ منیر حسین! ایک بات بتاؤ گے؟"قالین پر بچھی چاندنی پر بیٹھے بابا جان نے اپنے سامنے بیٹھے منیر حسین سے سوال کیا۔

"اگر کوئی  شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے ماں باپ کو یہ حق ہوتا ہے کہ اگر چاہیں تو اپنی اولاد کے قاتل کو معاف کر دیں لیکن اگر باپ ہی اپنی اولاد کا قاتل ہو تو خون کون معاف کرے گا؟"

منیر حسین انکے سوال پر حیران ہوتے ہوئے بولے. "بچے کی ماں۔"

"اور اگر ماں پہلے ہی مر چکی ہو تو؟"

"آپ اس طرح کی باتیں کیوں پوچھ رہے ہیں بھائی صاحب؟"

"کیونکہ میں معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ لیکن جن کا گناہ گار ہوں، نہ مجھ میں انکا سامنا کرنے کی ہمت ہے اور نہ ان سے معافی ملنے کی امید۔ میں جاننا چاہتا ہوں انکے سوا وہ کون شخص ہے جو مجھے معاف کرسکتا ہے۔" 

ایک دم ہی انکی آواز میں لرزش آگئی اور آنکھ سے آنسو بہنے لگے۔ انکی طرف دیکھتے ہوئے نورالہدیٰ نے اپنے جبڑے بھینچ لیے اور لاتعلق سے گردن موڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگے۔

"ایسا کیا گناہ کیا ہے آپ نے؟" منیر حسین حیرت سے پوچھ رہے تھے۔ بابا جان نے نے اپنے کانپتے ہونٹوں سے توقف کے بعد کہا۔

"میں نے ملیحہ کو قتل کیا ہے۔"

اس انکشاف کو سن کر سب منہ کھولے انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔

"آپ جانتے ہیں بھائی صاحب! آپ کیا کہ رہے ہیں؟" افتخار سرسراتی آواز میں بولے۔

"ہاں مگر تم نہیں جانتے افتخار! کہ کیسے میں نے اپنی خود پسندی، ضد اور ہٹ دھرمی کا سلو پوائزن دے کے ملیحہ کو مار ڈالا۔ کیسے اپنے فیصلے کی الٹی چھری سے اسکے شہ رگ کاٹی ہے، کس طرح اپنی انا کے ہاتھوں اسکے دل کا گلا گھونٹا ہے۔ ایک پل کی موت نہیں دی اسے، پل پل اسکے جسم سے روح کھینچی ہے۔ تڑپا تڑپا کر مارا ہے۔ اپنی بیٹی کو لمحہ لمحہ اذیت بخشی ہے۔" نورالہدیٰ  کے لیے انکا اعتراف بھی ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ غیر محسوس انداز میں اٹھے اور باہر نکل گئے۔

"لیکن کیوں؟" افتخار حسین حیرت سے سوال کر رہے تھے۔ "آخر ملیحہ سے کیا گناہ سر زرد ہوا تھا؟"

بابا جان تڑپ کر بولے۔"میری بیٹی معصوم تھی افتخار حسین! اسکے نامہ اعمال میں کوئی گناہ درج نہیں۔ ہاں۔۔۔۔۔مگر میں نے محبت کو اسکا گناہ جانا۔"

"محبت" آمنہ خالہ نے دھرایا۔

"ہاں محبت۔ میری بیٹی نے محبت کی تھی۔"

"کس سے؟"

بابا جان نے بڑی ممانی کو دیکھا اور کیا۔ "وجدان مصطفیٰ سے."

"کیا.؟" سمیرا اور آفاق کے سوا ہر شخص شاکڈ رہ گیا تھا۔ بے ساختہ سب کی نگاہوں میں ملیحہ کا جنازہ اٹھائے وجدان کا چہرہ گھوم گیا۔

"میں ملیحہ کی شادی نہیں کررہا تھا افتخار!  بلکہ اپنی بیٹی کی موت کا وقت، دن اور تاریخ طے کر رہا تھا"۔ 

انکی آواز لڑکھڑاگئی اور وہ کانپتے لہجے میں بولے. "اور دیکھو ذرا، موت نے ایک پل کی بھی تاخیر نہیں کی۔" پھر وہ بلند آواز میں روتے ہوئے بے بسی سے کہنے لگے۔ 

"میری ملیحہ کو کوئی ڈھونڈ لائے۔ میں اسکے پیروں پر سر رکھ کر معافی مانگنا چاہتا ہوں۔"

افتخار حسن کا اپنا دکھ کچھ کم نہیں تھا۔ جسکے چہرے میں اپنی مرحومہ بہن کا عکس دیکھتے تھے وہ آئینہ ٹوٹ  گیا تھا۔ انہیں خود بھی ملیحہ سے بڑی محبت تھی۔ وہ جب بھی بابا جان کو دیکھتے تھے انہیں ان پر ترس آتا تھا، اللّٰہ نے کتنی دیر سے اولاد دے کر کتنی جلدی واپس لے لی تھی. مگر اب انکے دل میں بابا جان کے لیے کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی تھی۔ وہ یوں بے حس نگاہوں سے انہیں روتے ہوئے دیکھ رہے تھے جیسے انکے آگے تماشہ چل رہا ہو۔

"کس امید پر معافی کی بات کرتے ہیں بھائی صاحب؟" وہ سرد لہجے میں بولے۔ " جب آپ نے اپنی ہی بیٹی کی بے گناہی نہیں بخشی تو کوئی آپکے گناہ کیسے بخش سکتا ہے؟ مجھ میں تو اتنا ظرف نہیں کہ میں اس بے حس پر ترس کھاؤں جس نے اپنی اولاد پر ترس نہیں کھایا۔ کیا آپ میں اتنا ظرف ہے کہ خود پر ترس کھائیں، خود کو معاف کر سکیں؟"

بابا جان نے مجرموں کے انداز میں سر جھکا لیا۔

"جب آپ خود کو معاف نہیں کر سکتے تو بتائیں کوئی اور آپ کو کیسے معاف کرے گا؟" 

وہ رکے، پھر ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہنے لگے۔ "میں جانتا تھا، آپ خود پسند ہیں۔ اپنی انا، اپنی ضد آپ کو ہر چیز سے پیاری ہے۔ مگر میں سوچتا تھا، آخر آپ ملیحہ کے باپ ہیں۔ جو کچھ اسکے لیے آپکے دل میں ہے، کسی کے دل میں نہیں ہو سکتا۔ میں کتنا صحیح تھا، جو سنگ دلی ملیحہ کے لیے  آپ میں تھی، وہ اور کسی میں نہیں."وہ بول کر چپ ہو گئے تو بابا جان کہنے لگے۔

"رک کیوں گئے افتخار! مرنے والی سے تمہارا خون کا رشتہ تھا۔ کوسو مجھے! طعنے دے دے کر مار ڈالو۔ ہاتھ اٹھاؤ اور بد دعا مانگو میرے لیے۔ کوئی ایسی سزا منتخب کرو جس سے میری روح کانپ جائے۔"

"سزا کا انتخاب ہوچکا ہے بھائی صاحب!" آمنہ خالہ شعلہ بار نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ "اب آپ عمر بھر خود کو کوسیں گے۔ اپنے خالی دامن کو پھیلا کر خود کو بد دعائیں دیں گے۔آپکا نقصان آپ کو یاد آ آ کر آپکی روح کو تڑپائے گا۔ اپنا گناہ جتنا بڑا ہے، اسکے لیے یہی مناسب ہے کہ آپ عمر بھر خود سے معافی کی بھیک مانگتے رہیں اور عمر بھر خود کو معاف نہ کرسکیں۔" بابا جان کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔ افتخار حسن اٹھ کھڑے ہوئے تو سب انکی تقلید میں اٹھ کر جانے لگے۔

"تم مجھے معاف کیے بغیر نہیں جاسکتے افتخار!" وہ حواس باختہ سے اٹھ کر انکے پاس آئے۔

"اور میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرسکتا۔" افتخار  حسن نے ہمیشہ انہیں احترام دیا تھا۔ ان سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ نظریں جھکا کر رکھتے تھے مگر آج انکے دل میں بابا جان کا احترام ختم ہو چکا تھا۔وہ بد لحاظی سے بول کر انکا ہاتھ جھٹکتے آگے بڑھ  گئے۔

"رک جاؤ منیر حسن!"بابا جان نے اب انکا بازو تھاما۔

"آپ کس رشتے سے مجھے روکتے ہیں بھائی صاحب؟ میری بہن کو گزرے ہوئے  برسوں بیت گئے اور آج اسکی بیٹی بھی مر گئی۔ اب اپکا ہم سے کیا واسطہ؟ جائیے بھائی صاحب! اللّٰہ آپ کو اپنا عذاب مبارک کرے۔" وہ سختی سے انکا ہاتھ جھٹک کر باہر نکل گئے اور انکے پیچھے ممانیاں، خالہ اور تمام کزنز بھی۔

اب قصرِ فاروقی میں انکا کیا رکھا تھا۔

نورالہدیٰ لان میں ٹہل رہے تھے۔ ان لوگوں کو اندر سے نکل کر گاڑیوں میں بیٹھتے دیکھ کر وہ تیزی سے پورچ میں آگئے۔ افتخار حسن بیٹھنے کے لیے دروازہ کھول چکے تھے۔

"ماموں جان!" نورالہدیٰ  نے پیچھے سے آکر دروازہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ افتخار حسن پلٹ کر انہیں دیکھنے لگے۔

"بولو نورالہدیٰ! ویسے اب لگتا تو نہیں کہ کہنے کو کچھ باقی بچا ہے." مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی نورالہدیٰ کو مجرم سمجھنے لگے۔ انہوں نے سر جھکا لیا اور صفائی دینے کے انداز میں آہستہ سے بولے۔

"میں لاعلم تھا ماموں جان!"

"جانتا ہوں۔" انکا لہجہ تھکا تھکا سا تھا۔ نورالہدیٰ  انکا چہرہ دیکھ کر ملتجی انداز میں بولے۔

"مجھ سے اپنا رشتہ مت توڑئیے گا ماموں جان!"

"تم سے میرا رشتہ ہی کب تھا؟" وہ اچانک ہی سفاک ہو گئے۔ 

"اور جس سے رشتہ تھا، وہ اب نہیں رہی۔ ہاں مروّت باقی تھی۔ لیکن اب مروت نبھانے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں؟ نہیں نورالہدیٰ اب قصرِ فاروقی میں میرے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ سب ٹھکانے لگ چکا ہے۔"

"آپ بابا جان سے ناراض ہیں؟"

"تم نہیں ہو؟" انہوں نے پلٹ کر سوال کیا۔

"ہوں۔" ہونٹ دبا کر بولتے وہ سر اقرار میں ہلانے لگے۔ "لیکن انہیں چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔"

وہ نورالہدیٰ کو دیکھ کر رہ گئے پھر "اللّٰہ حافظ!" کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔

نورالہدیٰ  دو قدم پیچھے ہٹے اور وہ گاڑی نکال کر لے گئے۔ وہ کھڑے پورچ کی زمین کو گھور رہے تھے۔

انہیں بابا جان کا خیال آیا تو اندر آگئے۔ مگر انکے قدم انٹرس سے آگے نہ جا سکے۔ گلاس وال کے ایک طرف لاونج میں بابا جان اپنے سر کو بازو میں چھپائے بیٹھے ملیحہ کو مخاطب کر کے کہہ رہے تھے۔

"تم کیا مجھ سے منہ موڑ کر چلی گئیں؟ ہر کوئی مجھ سے منہ موڑ رہا ہے۔۔۔۔۔یہ کیسی روایت ڈال گئی ہو، یہ سزا ہے کہ کوئی مجھے سزا کے قابل نہیں سمجھتا۔ نہ سزا ملتی ہے نہ معافی۔۔۔۔۔۔ کفارہ کیسے ادا ہو؟" نورالہدیٰ پتھر کی طرح ایستادہ ہو گئے تھے۔ انکے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ ایک طرف انکا دل چاہ رہا تھا کہ بابا جان کو گلے لگا لیں، دوسری طرف دل چاہتا تھا منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں۔ ایک محبت آگے کو کھینچ رہی تھی۔ دوسری پیچھے کو۔ وہ کشمکش میں الجھ گئے۔ سوچ سوچ کر انکا دماغ پھٹنے لگا تو بے رحمی سے دل میں بابا جان کو مخاطب کر کے بولے۔

"فکر مت کریں بابا جان! میں آپ کو سزا دونگا۔۔۔۔۔۔ وہی سزا جو آپ نے عمر بھر ملیحہ کو دی۔" اور بڑی بے اعتنائی سے وہ چلتے ہوئے بابا جان کے پاس سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ روتے ہوئے بابا جان نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور حیرت سے سوچنے لگے۔

"بے حسی کی صفت نورالہدیٰ میں تو نہیں تھی."

"کاش تم نے پہلے بتا دیا ہوتا آفاق! تو شاید یہ سب نہ ہوتا."

"تب بھی یہی ہوتا تایا ابو! آج پھوپھا جان کی جو حالت ہے، وہ صرف اس لیے ہے کہ ملیحہ اب اس دنیا میں نہیں۔ لیکن اگر وہ زندہ ہوتی تو پھوپھا جان کسی بھی قیمت پر وجدان کو قبول نہیں کرتے۔ انکی سخت طبعیت کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اور رہ گئی ملیحہ تو کون نہیں جانتا کہ اسے ہارنے کا شوق تھا۔ جب وہ ہی ہتھیار ڈال چکی تھی تو آپ کیا کر لیتے؟"افتخار حسن جانتے تھے وہ صحیح کہ رہا ہے، اس لیے چپ سے ہو گئے۔ لیکن منیر حسن مطمئن نہ ہو سکے۔

"پھر بھی آفاق! تمہیں بتا دینا چاہیے تھا۔ شاید کوئی راستہ نکل پاتا۔ ملیحہ نے کون سا کسی گئے گزرے کا انتخاب کیا تھا؟ وہ آخر کس بیس پر وجدان کو ریجیکٹ کرتے؟ بس ایک ذرا انکی انا ہی تو تھی۔۔۔۔ٹوٹ جاتی۔"

"آفاق صحیح کہہ رہے ہیں چاچو! واقعی کوئی راستہ نہیں تھا۔ ملیحہ کبھی بھی پھوپھا جان کی مرضی کے بغیر وجدان سے شادی نہیں کرتی اور پھوپھا جان بھی اسکی اس کمزوری سے واقف تھے۔ پھر بھلا وہ رضامندی دیتے ہی کیوں؟ بلکہ سچ تو یہ ہے، ملیحہ کی اس کمزوری نے ہی پھوپھا جان کی انا کو آسمان پر چڑھا رکھا تھا۔ میں مانتی ہوں انکا رویہ ہمیشہ ہی ملیحہ کے ساتھ ناروا رہا تھا۔ لیکن ملیحہ نے بھی تو کبھی پلٹ کر شکایت نہیں کی۔ پھر وہ کیوں احساس کرتے؟"

"اب ان باتوں کا کیا فائدہ؟ جتنا ذکر کروگے، اتنا ہی دل جلے گا۔ بس اب ختم کرو اس قصے کو۔" چھوٹی ممانی کے لیے سچ مچ یہ ٹاپک تکلیف دہ تھا۔ وہ جھنجھلا کر بولیں۔

"آفاق! مجھے وجدان کے پاس لے جاؤ۔ نہ جانے کس حال میں ہوگا۔" افتخار حسن فکر مند سے ہو گئے تھے۔ آفاق انکی طرف دیکھ کر رہ گیا۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟"

آفاق نے نظر جھکا لی. "یہی تو پتہ نہیں چل رہا وہ کس حال میں ہے۔"

"کیا مطلب؟" آمنہ خالہ نےٹھٹک کر پوچھا۔

"وجدان پرسوں رات سے لاپتہ ہے۔"

"کیا کہا؟" بڑی ممانی سہم کر بولیں۔

"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ وجدان گھر سے چلا گیا ہے۔ پرسوں جب میں اسے قبرستان سے لے کر آیا تو اسکی دماغی حالت نارمل نہیں تھی۔ پھر میں نے ہی اسے گھر ڈراپ کیا تھا۔ یہ سوچ کر کہ کچھ دیر آرام کرنے سے اسکی حالت سنبھل جائے گی۔ مگر وہ گھر سے چلا گیا۔ اسکے نکلتے ہی انکل اور مزمل بھائی اسکے تلاش میں لگ گئے تھے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ سب دوستوں، رشتہ داروں کے گھر چیک کر لیا۔ پورے شہر کے اسپتال دیکھ لیے لیکن وہ نہیں ملا۔ کل میں اور ساجد, مزمل بھائی اور انکل کے ساتھ مل کر سارا دن اسے سڑکوں اور پارکوں میں تلاش کرتے رہے ہیں۔ شہر کا کوئی کونہ ایسا نہیں چھوڑا ہم نے جہاں اسے نہ ڈھونڈا ہو۔۔۔۔۔۔ سمجھ نہیں آتا اسے زمین نگل گئی یا آسمان۔۔۔۔۔۔ کہیں سے کوئی خبر تک نہیں ملتی۔ اب تو پولیس میں بھی رپورٹ کرادی ہے اور صبح کے سب اخباروں میں اسکی گمشدگی کا اشتہار بھی چھپ گیا ہے۔ دعا کریں کہیں سے کوئی اطلاع مل جائے۔"

اس نئی افتاد پر ہر کوئی چپ سا ہو گیا۔

"یا اللّٰہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہر طرف سے بری خبریں مل رہی ہیں۔ سکون تو جیسے اب رخصت ہو گیا ہے۔" افتخار حسن گھبرا کر بولے۔ منیر حسن نے ایک نظر اپنے بھائی کو دیکھا جو ٹوٹ سے گئے تھے۔ پھر آفاق سے تیز لہجے میں بولے۔

"تم یہ سب آج بتا رہے ہو۔"

"اور کیا کرتا؟ جو سانحہ گزر چکا ہے وہ کیا کم ہے جو میں آپ سب کو اور پریشان کرتا۔"

"اچھا اب یہ باتیں چھوڑو۔" بڑی ممانی پریشان سے لہجے میں بولیں پھر اپنے شوہر سے کہا۔ "افتخار! ہمیں وجدان کے گھر چلنا چاہیے۔"

"تائی جان! آپ وہاں نہ ہی جائیں تو بہتر ہے."

"کیوں؟" وہ اسے دیکھ کر بولیں۔

"کیونکہ آپ بار بار ملیحہ کا نام لے کر رونے لگتی ہیں اور میں نے وجدان کے گھر والوں کو ملیحہ سے اپنے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے اور شاید وجدان نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ورنہ وہ ضرور ذکر کرتے۔ پھر انہیں ملیحہ کے انتقال کے بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں۔"

"لیکن تم نے یہ سب ان سے کیوں چھپایا جبکہ اسکے ضرورت نہیں؟"منیر حسن کی بات سن کر آفاق نے کہا۔

"تو کیا بتاتا کہ ملیحہ کی موت کے صدمہ نے وجدان کے دماغ پر گہرا اثر کیا ہے اور اس نے ہوش مندی میں نہیں بلکہ پاگل پن کی کیفیت میں گھر چھوڑا ہے تاکہ انکے دلوں سے رہا سہا اطمینان بھی رخصت ہو جائے جیسے میرے دل سے رخصت ہو گیا ہے۔ اور اب تو در در بھٹکتا وہ سچ مچ پاگل ہو گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ غلط لوگوں کو دل میں جگہ دی۔ ان دونوں نے تو اپنے دل کے آگے کسی اور کے دل کی پرواہ ہی نہیں کی۔" آفاق دل گرفتہ ہو گیا۔ وہ چشمِ تصور سے وجدان کو قریہ قریہ دیوانوں کی طرح بھٹکتے دیکھ رہا تھا.

******

مغرب کی نماز کے بعد نمازی مسجد سے نکل رہے تھے جب وہ خستہ حال شخص یکدم کہیں سے آدھمکا۔ اسکے سر کے بال اور بڑھی ہوئی داڑھی میں گرد جمی ہوئی تھی۔ کپڑوں کی حالت ابتر ہورہی تھی۔ ڈھیروں مٹی لیے زخمی پاؤں جوتے کی قید سے آزاد تھے۔ وہ یقینا کوئی دیوانہ ہی تھا جو ایک ایک کو پکڑ کر پوچھ رہا تھا۔

"تم نے انہیں دیکھا ہے؟...... ابھی ابھی وہ ادھر تھیں۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ ادھر۔۔۔۔۔ نہیں ادھر۔۔۔۔۔ ہاں ادھر ہی تھیں۔ پھر پتہ نہیں کدھر گئیں؟ انہیں جاتے دیکھا ہے؟" اس نے پہلے مسجد کی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا، پھر فورا ہی انہیں منع کرتے وہ اندر برآمدر کی طرف اشارہ کرنے لگا مگر کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔ ہر شخص اس سے بچ کر نکلنے کی کوشش میں تھا۔ وہ التجائیں کرنے لگا۔

"کوئی تو بتا دے وہ کہاں گئیں؟ کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ کوئی تو مجھے بھیک میں انکا دیدار دے دے۔" اپنی فریاد کے رائیگا جانے پر اس نے ایکدم ہی سفید کاٹن کےکلف لگے شلوار قمیص میں ملبوس سیاہ رنگت کے موٹے سے آدمی کو دبوچ لیا۔ اس پر جنون سوار ہونے لگا تھا۔ موٹے کو جھنجھوڑتے وہ چیخنے لگا تھا۔

"تو مجھے بتا وہ کہاں ہیں؟.... بتا۔ میں جانتا ہوں تجھے پتا ہے۔ بول کدھرہیں وہ؟"

وہ پہلے تو اس افتاد پر گھبرا گیا۔ پھر خود کو چھڑا کر حقارت سے زوردار تھپڑ اسکے گال پر جڑدیا۔

"ہٹ پاگل کہیں کا۔ سارے کپڑوں کا ستیاناس کردیا۔"

وہ تھپڑ کھا کر گر پڑا۔ تبھی اسے نمازیوں کی بھیڑ کے اندر کسی کی جھلک نظر آئی۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھا۔ موٹے شخص نے جو اس پاگل کو اٹھ کر اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو حواس باختہ سا ہو کر اس نے فورا جھک کر ایک پتھر اٹھایا اور تاک کر اسکی طرف پھینک دیا۔ اسکے سر سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا۔ وہ بس ایک پل کو ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دوہرا ہوا تھا۔ پھر بہتے خون کی پرواہ چھوڑ کر وہ بے اختیار اسکی طرف بڑھا۔ موٹے شخص نے جو بدستور اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو ایک اور پتھر اٹھا کر اسے دے مارا۔ پھر ایک ساتھ کئی پتھر اس نے ہاتھ میں اٹھا لیے اور ایک کے بعد ایک مارنے لگا۔ باقی نمازیوں نے جو ایک پاگل کو اس موٹے آدمی سے بھڑتے دیکھا تو وہ بھی اس پر پل پڑے۔

"شرم نہیں آتی، نمازیوں کو پریشان کرتا ہے۔ ہٹا کٹا مسٹنڈا ہو کر آوارہ گردی کرتا ہے۔ مسجد جیسی متبرک جگہ تیری بدمعاشی کے لیے نہیں ہے۔" ہر طرف سے ایسے جملے پڑ رہے تھے اور اسی رفتار سے لاتیں اور گھونسے بھی۔ مگر وہ خوشبوؤں میں ڈھلے اس پیکر پر نظر جمائے اپنا ایک ہاتھ اسکی طرف بڑھاتا بدن کی پوری طاقت لگا کر خود کو ان لوگوں کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پر اسکی ایک نہ چلی۔ اسے اتنے سارے بے رحم لوگوں  کے شکنجے میں دیکھ کر انکی جھیل سی آنکھوں میں طغیانی آگئی پھر جیسے اس سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ اچانک ہی پلٹ کر بھاگنے لگی۔

"رک جائیں۔ مت جائیں مجھے چھوڑ کر۔" 

وہ چلایا پھر اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو دھکیلنے لگا وہ جب تک چپ کر کے پٹتا رہا، لوگ اسے پیٹتے رہے۔ اب جو وہ انہیں دھکے مار کر خود کو چھڑانے لگا تو سب اسے چھوڑ کر خوفزدہ سے پیچھے ہو گئے اور وہ اسکے پیچھے بھاگا جو نظر سے اوجھل ہوتی جا رہی تھی۔۔پھر بھاگتے بھاگتے اسے پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ اسکے دانتوں سے خون نکل آیا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا جدھر وہ گئی تھی۔ پھر گھبرا کر چاروں طرف نظر گھمائی۔ لیکن وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ بے بسی کے احساس سے اسکی آنکھیں برسنے لگیں۔ اوندھے منہ لیٹے اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور کرب سے فریاد کی صورت میں پکارا۔

"یا اللّٰہ!" لوگ ہنس رہے تھے، بچے پاگل پاگل کی صدائیں لگاتے تالیاں بجا رہے تھے  اور وہ زمین پر پوری طاقت سے ایک ہاتھ کا مکا بنائے زمین کو پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ زخمی کررہا تھا۔ دھول اڑ اڑ کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور وہ کرب سے چلاتا جارہا تھا۔ قریب ہی ایک دکان کے باہر کھڑا شخص اس تماشے سے محظوظ ہوتا اپنے سامنے کھڑے آدمی سے بولا۔

"دیکھو یار! کیا تماشہ چل رہا ہے؟"

"ارے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ادھر دیکھو، اصل تماشے کی خبر آج اخبار میں چھپی ہے۔ سنتے آئے ہیں لڑکیاں گھر سے بھاگتی ہیں۔ پر اب تو لڑکے بھی گھر سے بھاگنے لگے۔" اس نے مطلق دھیان نہ دیتے ہوئے اخبار میں چھپی خوش شکل اور خوش لباس نوجوان کی تصویر اسے دکھائی جسکے نیچے لکھا تھا۔

"نام، وجدان مصطفیٰ ولد مصطفیٰ عظیم، عمر پچیس سال، رنگت سانولی، قد پانچ فٹ گیارہ انچ، بلیک شرٹ بلیک پینٹ میں ملبوس ہے اور پیروں میں بوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا ہے۔ اگر کسی صاحب کو وجدان مصطفیٰ کے بارے میں اطلاع ہو تو براہِ مہربانی نیچے دئیے گئے ٹیلی فون نمبرز پر رابطہ کریں۔ اطلاع دینے والے کو ایک لاکھ روپے نقد انعام دیا جائے گا۔" اس نے اپنے ساتھی سے اخبار لے کر بلند آواز میں خبر پڑھی اور دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگے۔

******

بابا جان کی پہلے بھی کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی۔بس بوائی اور کٹائی کے سیزن میں نگرانی کے لیے زمین پر چلے جاتے یا پھر اگر کوئی تنازع کھڑا ہو جاتا تو اسکے حل کے لیے انہیں جانا پڑتا۔ منافع اور اخراجات اندراج بھی انکا سر درد تھا۔ مگر جب وہ قصر فاروقی میں ہوتے تو واقعی ریٹائرڈ لائف گزارا کرتے۔ فراغت و فراوانی میں یا تو ملک ناصر کے گھر پر ہوتے یا ملک ناصر، قصرِ فاروقی میں ڈیرا ڈالے بیٹھے رہتے۔ دونوں دوست جوانی کے قصوں اور آرمی لائف کی یادوں کو دہراتے، شطرنج کی بساط پر ایک دوسرے کو شہ مات دیتے رہتے، مگر ملیحہ کے جانے کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا۔ زمینوں کے معاملات میں انکی دلچسپی تھی۔ منشی جو چاہے فصل بوتا، جس دام پہ چاہتا فصل منڈی میں بیچ آتا۔ کوئی باز پرس نہ کرتے۔ کتنی بار نورالہدی سے بھی کہا کہ اب وہ زمینوں کے معاملات ہینڈل نہیں کر پاتے، اس لئے نورالہدی انکا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ مگر نورالہدی نے صاف جواب دے دیا۔

”اگر زمینوں کے معاملات نہیں سنبھال سکتے تو بیچ دیں۔ مجھے اپنے بزنس سے فرصت نہیں۔“

اور زمینوں کو بیچنا، بابا جان کو گوارا نہیں تھا۔ خیر کسی نہ کسی طرح معاملات چلتے رہے۔ بابا جان اپنے کمرے تک محدود ہوگئے تھے۔ملک ناصر کی طرف جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ لیکن وہ خود آجاتے۔ مگر اب شطرنج کی بساط نہیں بچھتی تھی۔ بس ملیحہ کا ذکر ہوتا رہتا اور ملیحہ کے ذکر میں خوشی کہاں تھی؟ انکی تو پوری زندگی پچھتاوا بن گئی تھی اور پچھتاوے کا احساس کسی پل انکا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ انکے پاس ملیحہ کو یاد کرکے آنسو بہانے کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ احساسِ جرم سے بے حال وہ بند کمرے میں ملیحہ کی تصویر کے آگے چلایا کرتے تھے۔

"ملیحہ میری جان! اپنے بابا کو معاف کردو۔ میرے گناہ بخش دو نیٹا! ترس کھاؤ اپنے باپ پہ۔" وہ ملیحہ کی ڈائری کو سینے سے لگائے روتے جاتے۔ نورالہدی کی بے اعتنائی اس سے سوا تھی۔ انہوں نے بابا جان سے نا کوئی جھگڑا کیا نا ناراضی کا اظہار۔ بس ان سے لاتعلق ہوگئے۔ بابا جان کی چیخیں انکے کانوں تک بھی آتی تھیں، مگر وہ کبھی انہیں دلاسا دینے نہیں آئے۔ الٹا اپنی سرد مہری سے انکے احساسِ جرم کو اور بڑھا جاتے۔ انہوں نے بابا جان کو گھر میں رکھے سامان کی طرح سمجھ لیا تھا۔ کبھی انکے کمرے میں جھانکا تک نہیں۔ اور اگر کبھی بابا جان ہی انکے پاس چلے آتے تو اس طرح نظر انداز کرتے کہ وہ کٹ سے جاتے۔ مگر شکایت کیسے کرتے؟ انہوں نے بھی تو کبھی ملیحہ کو خود سے قریب نہیں ہونے دیا تھا۔ لیکن ملک ناصر سے برداشت نہیں ہوسکا اور وہ نورالہدی کے پاس جا پہنچے۔

"جس شخص نے تمہیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی،  اس کے ساتھ تم یہ سلوک کر رہے ہو۔ کاٹھ کباڑ کی طرح اسے ایک کونے میں ڈال دیا ہے۔"

 نورالہدی ان کے جلال کےجواب میں بےتاثر لہجے میں بولا۔

"آپ کس سلوک کی بات کر رہے ہیں انکل؟ میری طرف سے بابا جان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ ان کا مقام اس گھر میں جو کل تھا وہی آج بھی ہے۔ گھر کے سارے ملازمین ان کے حکم کے پابند ہیں  اور میں نے بھی انہیں سختی سے ہدایت دے رکھی ہے کہ بابا جان کی آرام و آسائش کا خیال رکھیں."

"نوکر  تمہارا نعم البدل نہیں ہو سکتے نورالہدیٰ! تمہیں خبر بھی ہے،  اظہر کئی دن سے بیمار ہے؟ کیا ایک منٹ کو تمہیں توفیق ہوئی کہ جا کر بیمار آدمی کی خیریت دریافت کر لو، جس نے تمہیں اولاد کی جگہ رکھا ہے؟"

'بابا جان بیمار ہیں.' اس خیال سے ہی وہ اندر ہی اندر بے چین ہو گئے۔ لیکن جب وہ بولے تو انکی آواز احساس سے خالی تھی۔

"گھر میں تین تین ڈرائیور موجود ہیں۔ اگر وہ بیمار ہیں تو مجھ سے کہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ ہاسپٹل جا سکتے ہیں۔ اور اگر خود نہ بھی جانا چاہیں تو ڈاکٹر کو فون کر کے گھر پر بلوا لیں."

ملک ناصر انکی بے حسی پر حیران رہ گئے۔

"اسکی بیماری کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں، تمہارے پاس ہے۔ تم اپنی زندگی میں مگن ہوگئے لیکن انہیں تمہاری ضرورت ہے۔ کبھی دو گھڑی کے لیے ہی سہی، ان کے پاس بیٹھ جایا کرو۔ تنہائی کو جھیلنا آسان نہیں ہوتا۔"

"تنہائی." وہ زہر خند ہو کر بولے۔ پھر اٹھے اور صوفے کی بیک پر جاکے دونوں ہاتھ اسکی پشت پر رکھتے ہوئے بولے۔

"تنہائی کو جھیلنا آسان  نہیں ملک انکل! اور ملیحہ نے جزباتی تنہائی کے ساتھ نو سال گزارے ہیں، بنا شکایت کئے۔ اور بابا جان چند مہینوں میں ہی شکوہ کرنے لگے؟"

ملک ناصر ہکا بکا رہ گئے۔

"تم ایک باپ سے اسکی بیٹی کی موت کا انتقام لینا چاہتے ہو کیا تمہیں یہ حق ہے؟"

"مرنے والی اگر ملیحہ ہو اور مارنے والے بابا جان! تو ہادی بھائی کو حق ہے کہ ملیحہ کی موت کا انتقام لے سکیں۔" 

انکے لہجے میں کوئی گنجائش نہ پاکر ملک ناصر چپ کے چپ رہ گئے۔ بعد میں جب بابا جان کو پتہ چلا تو کہا۔

"نورالہدیٰ سے بدگمان نہ ہونا ملک! اس نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی میں اسی سلوک کا حقدار ہوں۔ اس نے تو بہت صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اسے ملیحہ کے سا تھ کی ضرورت نہیں، وہ یوں بھی اس سے محبت کرلے گا۔ مگر میں نے زبردستی ملیحہ کو اسکے ساتھ نتھی کرنا چاہا۔ وہ ملیحہ کی تکلیف برداشت نہیں کر پاتا تھا۔ کہاں تو میں نے ہی اسے ملیحہ کی تکلیف بنا دیا۔ ذرا سوچو تو ملک! میرے ہاتھوں اسکا کتنا بھاری نقصان ہوا ہے۔ پھر وہ اتنا بڑا ظرف کہاں سے لائے کہ مجھے معاف کر سکے؟" پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن پچھتاووں سے دامن چھڑانا بہت مشکل۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوبہ پنجاب کے دور دراز علاقے میں سرحدی پٹی کے بالکل قریب واقع پسماندہ گاؤں. "چنگ چو" میں آبادی محض چند سو نفوس پر مشتمل تھی۔ مولوی عبدالخالق کا شمار اس چھوٹی سی آبادی کے معززین میں تھا۔ مولوی عبدالخالق گاؤں کے مؤذن تھے۔ اور جماعت کی امامت بھی انکے فرائض میں شامل تھی۔ ان کے باپ کو گاؤں والے عقیدت سے بڑے امام صاحب کہتے تھے۔ مولوی عبدالخالق سے پہلے وہ ہی اذان اور نماز پڑھایا کرتے تھے۔ بڑے امام صاحب دیندار آدمی تھے۔ لیکن انہوں نے دنیا کا دامن بھی تھاما تھا  اور حسن وخوبی اور دین و دنیا میں  توازن قائم رکھتے ہوئے انہوں نے  اپنی پوری زندگی گزار دی۔ اپنے بیٹے  کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی۔  پیش امام کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے وہ لاہور سے گریجویشن کر چکے تھے۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پیچھے نماز پڑھنے لگے تو بڑے امام نے ان کو روزگار اپنانے کی ترقی دی۔  مولوی عبدالخالق نے اپنے گھر کی ہی ایک کمرے میں دکان کھول لی۔ مہینے میں ایک بار دکان میں سامان ڈالنے کے لیے وہ شہر کا چکر لگاتے۔ ان کی دکان میں اشیاء خورد نوش کے علاوہ بنیادی زندگی کی ضرور کا سامان بھی موجود تھا۔ یعنی ایک لحاظ سے اسے گاؤں کا جنرل اسٹور کہا جا سکتا تھا۔

بڑے امام صاحب کا برسوں پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اور اب تو مولوی عبدالخالق بھی بزرگی کی عمر میں داخل ہوچکے تھے۔ مولوی صاحب اپنے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کی تھی۔ مگر اللہ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ رفیقہ ہاجرہ بی بی حیات تھی اور ہر خاص و عام میں "ملانی جی" کے نام سے مشہور تھیں. سالوں سے مولوی عبدالخالق ایک ہی لگی بندھی روٹین کے عادی ہو چکے تھے  فجر کی اذان سے ذرا پہلے جس وقت رات کا آخری پہر ڈھل رہا ہوتا۔ وہ جاگ جاتے، پھر تہجد کی نماز پڑھ کر اپنی بیوی کو جگاتے۔ گاؤں کی کچی گلیوں سے گزر کر مسجد آجاتے، پھر جب تک فجر کی اذان کا وقت ہوتا، مولوی صاحب مسجد میں جھاڑو لگا کر نمازیوں کے لیے صحن میں دریاں بچھا چکے ہوتے۔ نماز کے بعد کچھ دیر میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے، پھر دوکان کے لئے اٹھ آتے جو ظہر کی نماز کے لئے بند ہو جاتی۔  نماز کے بعد ایک گھنٹے کا درس ہوتا، جس میں  بڑے احکام شرعیت کے بجائے  چھوٹی چھوٹی عام و فہم باتوں کو شامل کیا جاتا۔ وہ باتیں جن سے انسان کے  کردار کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل ہوتا ہے۔ بڑے امام صاحب اکثر مولوی عبدالخالق سے کہا کرتے تھے۔

" اصل چیز بنیاد ہی ہے۔ تو بنیاد مضبوط کئے جا، عمارت خود بخود مضبوط اور سیدھی اٹھے گی۔"

 درس ختم کرکے پھر مولوی صاحب دکان پر آ بیٹھتے  اور پھر عصر کی نماز پڑھا کر گھر لوٹتے تو صحن میں گاؤں کے بچے سپارے اور اسکول کی کتابیں لے کے بیٹھ کر انکا انتظار کر رہے ہوتے۔ مولوی صاحب دکان اور گھر کے صحن کا درمیانی دروازہ کھول دیتے۔ اور دکان داری کے ساتھ دین اور دنیا کی تعلیم بھی دی جا رہی ہوتی۔ یہ سلسلہ مغرب تک رہتا ہے پھر عشاء کے بعد مسجد میں ہی نمازیوں کی بیٹھک ہوتی۔ جس  میں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے مسئلہ زیر بحث لائے جاتے۔ یہ بیٹھک ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں برخاست ہو جاتی۔ اور  لوگ اٹھ کر اپنے اپنے گھروں میں سونے چلے جاتے۔

 اتنے برسوں میں آج پہلی بار مولوی صاحب کے روٹین میں فرق آیا تھا۔ آج ظہر کے بعد درس کی محفل نہیں ہوئی اور مولوی عبدالخالق نمازیوں سے معذرت کرتے ہوئے اٹھ آئے۔ اور اب چلچلاتی دھوپ میں گاؤں سے باہر جانے والے راستے تیزی سے چل رہے تھے۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ تین دن سے گاؤں والوں کی زبان پر کسی "سائیں" کے نام کے چرچے زور و شور سے ہو رہے تھے۔  جو نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا۔ اور اب گاؤں کے باہر ڈیرا ڈال رکھا تھا۔

گاؤں کے سادہ لوح لوگ سائیں کے آنے سے پرجوش ہوگئے تھے۔ اور اب انہیں سائیں کی کرامات کا انتظار تھا۔ مولوی عبدالخالق نے جو انکےکچے ایمان کو ڈولتے ہوئے دیکھا تو معاملے کی تحقیق کرنا ضروری سمجھا۔ وہ گاؤں سے کافی دور نکل آئے تھے۔ کچی مٹی کے مکان بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ بلا کی گرمی تھی مولوی صاحب کا حلق پیاس سے خشک ہو گیا تو رک کر سانس بحال کرنے لگے۔ پھر سامنے چہرے پر آیا پسینہ خشک کرتے ہوئے  آنکھوں پر ایک ہاتھ کا چھجا سا بنا کر  اپنے سامنے دور تک دیکھا۔

 خشک زمین پر ابھری لکیریں اس کی پیاس کی گواہی تھی اور ایک سوکھا درخت جسکی پھولی ہوئی بنجرشاخوں  پر کوئی خشک پتہ تک نہیں تھا۔ مردہ زمین کے سینے پر یوں گڑا تھا جیسے  وہ خود اپنے ہی حال پر نوحہ کناں ہو، دور تک پھیلا نیلا آسمان ایک دم صاف تھا۔ جس پر سورج پیلے تھال کی طرح دہک رہا تھا۔ تاحد نگاہ پھیلے اس منظر کی ویرانی کو اور بھی گہرا کر رہا تھا۔ وہ اکلوتا روح جو اس سوکھے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ اسکے سیاہ کپڑوں پر مسافتوں کی گرد جمی تھی۔ سر کے بال لمبے اور گرد آلود تھے۔ بے ترتیب داڑھی جھاڑ کی مانند لگ رہی تھی۔ اس کا ایک ہاتھ زمین پر بچھی ٹانگ کی ران پر تھا۔ جبکہ دوسرا موڑ کر کھڑی کی ہوئی ٹانگ کے گھٹنے پر۔ سر پیچھے تنے سے ٹکا کر آنکھیں بند کئے وہ  تپتی زمین پر اتنے سکون سے بیٹھا تھا  جیسے صدیوں سے اس حال میں ہو۔ اور صدیاں اسی عالم میں گزاردے گا۔ اس کے چہرے کے مبہم نقوش سے کرب و اذیت کی عجیب سی کیفیت جھلک رہی تھی۔ مولوی عبدالخالق نے بے ساختہ جھرجھری لی۔ اور اسکی طرف چلنے لگے۔ درخت کے پاس پہنچ کر مولوی صاحب نے کچھ توقف کیا پھر پکارا۔

"بھائی!" اور اسے منتِظر نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ آنکھیں کھول کر انکی طرف دیکھے گا۔۔ مگر اسکی پلکوں میں تو لرزش بھی نہیں ہوئی۔ مولوی صاحب نے دوبارہ اسے مخاطب کیا۔

"کون ہو بھائی! کہاں سے آئے ہو؟"

اس نے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ ایسے بیٹھا رہا جیسے کوئی آواز سنی ہی نہ ہو۔ مولوی صاحب انتظار کرتے رہے پھر کہا۔ 

"یہاں کے تو نہیں لگتے۔ پھر کیا خواہش ہے جو تمہیں یہاں کھینچ لائی ہے؟" وہ اسکے پراگندہ لباس پر ایک نظر ڈال کر ہی سمجھ گئے تھے کہ وہ یہاں کا نہیں، تو پوچھ لیا۔ وہ آنکھیں کھولے بغیر بولا۔

"بتا بھی دونگا تو کیا کر لے گا؟"

"جو بھی میرے بس میں ہوا۔" مولوی صاحب اسکے سامنے زمین پر بیٹھتے بولے تو اس نے آنکھیں کھول دیں مگر انہیں نہیں دیکھا اور آسمان پر نظر جمائے کہنے لگا۔

"ایک مدت خواہش کے پیچھے بھاگا ہوں۔ لیکن اب خواہش سے بھاگتا پھر رہا ہوں۔ مگر وہ ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتیں." پھر اس نے ایک دم مولوی صاحب کو دیکھا۔ 

"تو کوئی ایسی جگہ جانتا ہے جہاں میں جا چھپوں؟"

مولوی صاحب نے اسے مترحم نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا. " او جھلیا! بندہ خواہش کا گھر ہے. یہ باہر کھلی نہیں پھرتی، آدمی كے اندر چُپ كے بیٹھ جاتی ہے اور تو اپنے اندر سے چھپنا چاہتا ہے." 

"اندر کو خود سے قریب نا سمجھ." وہ تنبیہ كے اندازِ میں بولتا انہیں اپنی سرخ آنکھوں سے گھورنے لگا. 

"یہ چھل دیتا ہے. تو دیکھے گا تو قریب لگے گا، ہاتھ بڑھائے گا تو کچھ ہاتھ نہیں آئیگا." اس نے ہاتھ بڑھایا، پھر خالی ہتھیلی آسْمان کی طرف کی اور گھمبیر آواز میں بولا. 

"یہ ہاتھ بھر کا فاصلہ تو عمر بھر کی مسافت سے نا مٹے." 

"تجھے کیسے معلوم؟" مولوی صاحب کی بات سنی تھی كہ اس پہ ہیجان طاری ہو گیا. 

"میں سَر پٹ دوڑا ہوں اِس سفر پر. لیکن منزل كے بجائے ہر قدم پہ ٹھوکر ملی اور میں ہر بار منہ كے بل زمین پہ جا گرتا، پھر فوراً ہی اَٹھ کر دوڑنے لگتا. مگر اک انچ کا فاصلہ بھی طے نہیں کرسکا اور اب جب میں اس سفر سے عاجز آگیا ہوں تو اس نے خواہش کو میرے پیچھے لگا دیا. جہاں جاتا ہوں، پاس چلی آتی ہیں. لیکن وہ ہاتھ بھر کا فاصلہ نہیں مٹتا." 

اسکی آواز میں کسک تھی. پھر وہ اچانک ہی آسمان کی طرف دیکھ کر چلانے لگا. 

"مکر کرتا ہے میرے ساتھ. فریب دیتا ہے. کیسا خدا ہے تو، بندے کو دھوکہ دیتا ہے. ہنستا ہے مجھ پہ. پاگل ہے. پاگل!" 

پھر وہ مٹی اور کنکریاں مٹھیوں میں بھر بھر کر آسمان کی طرف پھینکنے لگا. 

"یہ لے، نکل یہاں سے.... چلا جا. نہیں ضرورت مجھے تیری. مذاق اُڑاتا ہے میرا." 

مولوی صاحب لب بھینچے اسے دیکھ رہے تھے. انہوں نے اسے روکنے یا قابو کرنی کی کوشش نہیں کی، پھر وہ اک دم سے انکی طرف پلٹ کر بولا.

"تو نے یہ آواز سنی؟ وہ... وہ آسمان پر بیٹھا مجھ پہ ہنس رہا ہے، خوب اونچی اونچی آواز میں." پھر اس نے ڈھونڈھ کر اک پتھر اٹھایا اور آسمان کی طرف اچھال دیا. 

"تو چلا جا..... کیوں نہیں جاتا یہاں سے؟.. جا چلا جا... اکیلا چھوڑ دے مجھے." پتھر اٹھا اٹھا کر پھینکتے اسے اچانک ہی جانے کیا نظر آگیا تھا كہ اک جانب نظریں جمائے سہمے ہوئے اندازِ میں وہ پیچھے کو ہٹنے لگا. وہ ٹھوکر کھا کر گرا بھی، مگر رکا نہیں اور زمین پر خود کو گھسیتٹا درخت كے تنے سے جا لگا. 

"جائیں، چلی جائیں. کیوں بار بار آ جاتیں ہیں؟.... خدا كے لیے چلی جائیں." وہ ہاتھ اٹھا کر ہلاتا جانے کسے جانے کو کہہ رہا تھا. مولوی صاحب نے مڑ کر دیکھا بھی، لیکن انہیں تو کوئی نظر نہیں آیا اور وہ بدستور کہتا جا رہا تھا. 

"اور کتنا برباد کریں گی مجھے؟... کتنا ستائیں گی؟.. اب اور برداشت نہیں ہوتا." حسرت بھرے لہجے میں کہتے اس نے سَر بازو میں چھپا لیا اور بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا.

"چلی جائیں یہاں سے.. چلی جائیں." 

مولوی صاحب گہری نظروں سے اسے دیکھتے رہے، پِھر اسے روتا بلکتا چھوڑ کر گاؤں کی طرف چل پڑے.

اگلے دن درس کے بعد مولوی عبد الخالق گھر آئے تو ملّانی جی سے کہہ کر کھانے کی ٹرے تیار کروائی، پھر اسے کپڑے سے ڈھک کر گاؤں سے باہر نکل آئے۔ دینو تانگے والا روز کی طرح سواریاں اتار کر دوپہر کو کھانا کھانے کو گھر جا رہا تھا۔ مولوی عبدالخالق کو دیکھا تو تانگہ روک لیا۔

"سلام مولوی صاحب!"

"وعلیکم السلام!  گھر جا رہے ہو علیم الدین؟"

وہ مؤدب انداز میں بولا. "جی مولوی صاحب! پر آپکا ارادہ کدھر کو ہے؟ حکم ہو تو چھوڑ آؤں؟"

اسکی پر خلوص پیشکش کے جواب میں مولوی عبدالخالق مسکرائے اور کہا۔ "کیوں زحمت کرتے ہو بھائی۔ میں تو بس جو مہمان گاؤں کے باہر آکر ٹھہرا ہے، اسے کھانا دینے جا رہا ہوں."

"سائیں کی بات کر رہے ہیں؟"اس نے کہا، پھر بولا."لیکن وہ تو چلا گیا."

"چلا گیا۔۔۔۔؟" مولوی صاحب حیرت سے بولے۔ "کہاں چلا گیا؟"

"وہ تو پتہ نہیں۔ پر کل شام سے اسے کسی نے نہیں دیکھا۔"

مولوی عبدالخالق نے اسکی بات سنی، پھر خود کلامی کرتے ہوئے بولے۔"حیرت ہے، مسافر کے ساتھ زنجیر کرنے کا وقت آگیا ہے اور وہ ابھی تک بھاگتا پھر رہا ہے۔"

"کیا کہہ رہے ہیں مولوی صاحب؟" وہ خاک بھی نہیں سمجھا۔

مولوی صاحب اس سے لا تعلق اپنی سوچ میں ڈوبے رہے، پھر نظر اٹھا کر اسکے الجھن بھرے چہرے کو دیکھا اور کہا۔

"وہ کہیں نہیں جا سکتا علیم الدین! اسکا سفر تمام ہوا۔اب وہ جتنا بھی بھاگ لے، اسے لوٹ کر یہیں آنا ہے۔" اپنی بات کہہ کر وہ واپسی کے راستے پر پلٹ گئے۔ لیکن بیچارہ دینو کتنی ہی دیر بیچ راستے میں کھڑا انکی بات سے مطلب اخذ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

اگلے دن پھر مولوی صاحب درس کے بعد گھر آئے تو کھانے کی ٹرے بنوا کر ہاتھوں میں اٹھائے پھر سے باہر آگئے۔ مگر آج بھی انہیں ٹرے اسی طرح واپس لے جانی پڑے۔ تیسرے دن بھی وہ ٹرے لے کر گاؤں سے باہر نکل آئے تھے۔ وہ دور سے ہی دیکھ چکے تھے کہ درخت کے پاس کوئی نہیں تھا۔ انکے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔ آج واپسی پر قدم موڑتے ہوئے انکے چہرے پر تردّد تھا۔ دینو اپنا تانگہ لیے نکل رہا تھا۔ اس وقت سواریاں بھی اسکے ساتھ تھیں، پھر بھی مولوی عبدالخالق کو دیکھ کر اس نے تانگہ روک دیا۔

"کب تک اسکا انتظار کرتے رہیں گے مولوی صاحب! اس جیسے کے پیروں کو واپسی کا راستہ نہیں پتا۔" وہ بھید سے بولے۔

"تجھے کیا لگتا ہے علیم الدین! وہ یہاں صرف صورت دکھانے آیا تھا؟ اسکا یہاں منزل سے طے ہے۔ اب چاہے اسکے پیروں کو واپسی کا راستہ نہ ملے۔ جس نے اسکی تقدیر لکھی ہے، وہ خود اسے ہاتھ تھام کر یہاں لے آئے گا۔" وہ اپنی بات کہہ کر چلتے چلے گئے۔ اور دینو ایک بار پھر شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔

"کس سوچی پے گیا دینو!.... چل پڑ۔ شامو شامے واپس وی آنا اے۔" پیچھے بیٹھے شخص نے اسے ٹھوکا دیا تو وہ "چچ چچ" کی آواز نکالتا تانگہ بڑھا لے گیا۔

مغرب کی نماز کا وقت ہو چکا تو مولوی صاحب دکان بند کر کے بچوں کو پڑھتا چھوڑ کر مسجد آگئے۔ وضو کر کے اذان دی، پھر باجماعت نماز کی امامت کروائی اور دعا مانگ کر تسبیح کے دانے گراتے گھر کی طرف چل پڑے۔ چودہ پندرہ سال کا لڑکا بھاگتا ہوا "مولوی صاحب! مولوی صاحب!" چلّاتا انکے پیچھے آرہا تھا۔ مولوی صاحب نے سنا تو رک گئے اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ قریب آیا تو پوچھنے لگے۔

"کیا بات ہے منور علی؟"

وہ اتھل پتھل سانسوں کے بیچ میں جلدی میں بولا۔ "دینو تانگے والا آپکے مہمان کے ساتھ حکیم جی کی دکان پر بیٹھا ہے۔ اس نے کہا تھا، آپکو خبر دوں۔"

مولوی عبدالخالق حیران سے کہنے لگے۔ "میرا مہمان کون ہو سکتا ہے؟ اور علیم الدین کو کہاں مل گیا؟"

"وہ تو پتہ نہیں مولوی صاحب!"

"اچھا ٹھیک ہے، میں جا کر دیکھتا ہوں." انہوں نے کہا اور حکیم جی کی مطب کی طرف چل پڑے۔ انکی پہلی نظر علیم الدین کے چہرے پر پڑی تھی اور دوسری لکڑی کے بینچ پر آنکھیں بند کیے لیٹے سائیں پر۔ جسکے چھالوں پر حکیم جی مرہم لگا رہے تھے۔ مولوی صاحب تیزی سے آگے آئے تھے۔

"یہ تمہیں کہاں مل گیا علیم الدین؟"

"لاری اڈے پر سواریوں کا انتظار کر رہا تھا کہ یہ مجھے ٹکٹ گھر کی دیوار کے ساتھ پڑا ہوا نظر آیا۔ پاس جاکے دیکھا تو بے ہوش تھا اور بدن ایسے تپ رہا تھا کہ ہاتھ نہ لگایا جائے۔ بس مولوی صاحب! پھر میں نے جیسے تیسے کر کے اسے تانگے پر ڈالا اور گاؤں پہنچتے ہی سیدھا حکیم جی کے پاس لے آیا۔"

"یہ تم نے بہت اچھا کیا." وہ اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے علیم الدین سے بولے جو اس سادہ سے جملے پر ہی پھول کر کپا ہو گیا۔ پھر اسکے بہت کہنے کے باوجود بھی مولوی عبدالخالق نے اسے حکیم جی کی فیس ادا نہیں کرنے دی اور خود اپنی جیب سے پیسے نکال کر گلک پر بیٹھے شخص کو تھما دیے۔

"یہ دوا تین ٹائم اسے کھلا دینا۔" چلتے ہوئے حکیم جی نے پڑیوں میں بند سفوف انہیں دے کر کہا۔ مولوی صاحب نے پڑیا لے کر انہیں سلام کیا، پھر سائیں کو بےہوشی کی حالت میں ہی اٹھا کر دینو کے تانگے میں ڈالے اپنے گھر لے آئے۔

شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ مولوی عبدالخالق اندر سے چھوٹا ٹیبل اٹھا کر لے آئے اور اسکے سرہانے رکھ کر مٹی کے تیل سے جلنے والا لیمپ روشن کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔ ملّانی جی بھی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے باہر آگئیں۔

"یہ کسے اٹھا لائے مولوی صاحب؟" انہوں نے اس مفلوک الحال شخص کو دیکھ کر اچنبھے سے سوال کیا۔

"یہ ہمارا مہمان ہے."

"حلیے سے تو پاگل لگتا ہے."وہ فورا بولیں۔

"پر باتوں میں سیانا ہے۔ ہوش میں آئے گا تو تُو خود دیکھ لینا۔"

"پر یہ ہے کون؟" وہ الجھ کر بولیں تو مولوی صاحب جھنجھلاہٹ کے باوجود تحمل سے بولے۔

"او کرموں والی! کہا نا، مہمان ہے۔ اب زیادہ سوال مت کر اور جا کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے کا انتظام کر۔ بےچارے کا جسم جہنم بنا ہوا ہے۔" اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کرتے ہوئے فکرمندی سے بولے۔ ملّانی جی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا اور ایک کٹورے میں پانی لے کر کسی پرانے کپڑے کو کاٹ کر اسکی پٹیاں بناتی مولوی صاحب کے پاس لے آئیں۔مولوی صاحب نے کٹورا انکے ہاتھ سے لے کر ٹیبل پر رکھا، پھر بڑی محبت سے اسکے ماتھے پر پٹیاں رکھنے لگے۔ ساری رات مستقل مزاجی سے سائیں کے ماتھے پر پٹیاں رکھتے رہے، کچھ دیر کا بریک آیا بھی تو عشاء کی نماز کے لیے، مگر آج کی محفل انہوں نے برخاست کر دی۔ وہ کبھی اسکے ماتھے پر گیلی پٹیاں رکھتے، کبھی تولیہ بھگو کر اسکے پیروں کی جانب آبیٹھتے۔ پاؤں کے چھالے پیر مسلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ گیلا تولیہ اسکے پیروں کے گرد  نرمی سے لپیٹ کر ہلکے ہلکے ہاتھ سے دھیرے دھیرے دباتے جاتے کہ شاید اس طرح اسکے تندور کی طرح جلتے پیروں کو راحت مل جائے۔

فجر کی نماز کے بعد مولوی صاحب تسبیح پڑھتے ہوئے گھر کی طرف چلے جا رہے تھے۔ گلی میں مڑتے ہی دیکھ چکے تھے کہ لکڑی کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔ مگر وہ جانتے تھے دروازہ اندر سے مقفل نہیں ہوگا۔ دن کی روشنی میں اس دروازے پر کبھی قفل نہیں چڑھا، یہ بھی بڑے امام صاحب کی نصیحت تھی۔

"اپنے دروازوں کو بند کے کے حاجت مندوں کی خود داری کا مزاق نہ اڑاؤ کہ وہ دروازہ بجا کر کھڑے تم سے اعانت کی درخواست کریں، بلکہ چوکھٹوں کو کھلا رکھو، تاکہ وہ سیدھے اندر چلے آئیں اور انکی بے کسی کا حال کسی دوسرے پر آشکار نہ ہو."

مولوی عبد الخالق نے دروازہ کھول کر اندر کچے صحن میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ انکے کانوں میں اسکے کراہنے کی آواز آئی۔ رات بھر وہ بے سدھ رہا تھا، مگر اب نیم بے ہوشی کی حالت میں سر کو دائیں بائیں ہلا کر کراہ رہا تھا۔ یہ اسکی حالت میں بہتری کا اشارہ تھا۔ مولوی عبد الخالق مسکراتے ہوئے اسکے پاس آئے اور جھک کر اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرنے لگے۔ بخار کا زور ٹوٹ چکا ٹھا۔ ملانی جی پاس آکر کھڑی ہوگئیں۔

"تھوڑا بہت ہوش تو آ ہی گیا۔اب کوشش کرکے دوا بھی کھلا دیں۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے ملانی جی سے کہنے لگے۔

"دوا خالی پیٹ تو نہیں کھلا سکتا نا۔ پہلے اسکے کھانے کا بندوبست کر۔" پھر کچھ سوچا اور بولے۔ "پتا نہیں کب سے اسکے حلق میں کچھ نہیں گیا۔ کھانا کھا بھی پائے گا یا نہیں۔ ایک کام کر ہاجرہ! تھوڑا سا دودھ گرم کرکے لے آ اور اس میں چینی بھی ڈال لینا۔"

"جی مولوی صاحب!" وہ صحن کے ایک جانب بنے باورچی خانے میں آ گئیں، جس کے گرد چاردیواری ناپید تھی۔ یہ ایک اوپن کچن تھا، جس میں موجود مٹی کا چولھا اوپلوں کی مدد سے سلگایا جاتا تھا۔ نیم گرم دودھ کو گلاس میں ڈالنے کے بجائے انہوں نے دوپٹے کے کونے سے ڈول کا ہینڈل پکڑ کر اٹھا لیا اور اسٹیل کا گلاس  لیے صحن میں چلی آئی۔ پاؤں مار کر دور رکھیں پیڑھی کو انہوں نے چارپائی کے ساتھ کیا پھر پیڑھی پر بیٹھ کر ڈول میں سے دودھ ہاتھ میں پکڑے گلاس میں ڈال کر مولوی عبدالخالق کو دیکھنے لگیں جو سائیں کا شانہ ہلا کر اسے اٹھ کر بیٹھنے کو کہہ رہے تھے مگر وہ یوں ہی سر پٹخ پٹخ کر کراہتا رہا تو مولوی عبدالخالق نے ایک ہاتھ سے اس کا بازو تھام کر دوسرا ہاتھ اس کی گردن کے نیچے دیتے ہوئے اسے اٹھا کر بٹھا لیا۔ مولوی عبدالخالق دھان پان سے آدمی تھے، پھر عمر بھی کافی ہو چلی تھی۔ جبکہ سائیں  کو دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا تھا کہ تیس کے آس پاس ہوگا۔ مگر خاک نوردی نے اس کے جسم میں سے ساری طاقت نچوڑ لی تھی۔ اسے اٹھا کر بٹھانے میں مولوی عبدالخالق کو بہت زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ وہ بیٹھ چکا تو مولوی عبدالخالق نے ملانی جی کے ہاتھوں سے گلاس لے کر اس کے ہونٹوں سے لگایا، مگر نیم بے ہوشی کے باوجود اس نے گلاس ہاتھ مار کر دور کردیا، جس سے دودھ چھلک کر مولوی صاحب کے ہاتھ اور کپڑوں پر گرا تو وہ ڈپٹ کر بولے۔ 

"توں وی جھلا  ای ایں۔ رازق سے جھگڑا سمجھ میں آتا ہے پر رزق سے کیا ناراضگی ہے؟۔۔۔۔ چل پی  جا چپ چاپ۔" 

اس نے اپنی نیم غنودہ آنکھوں سے انہیں  دیکھا جس میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ ان آنکھوں کی وحشتناکی دیکھ کر ملانی جی تو گھبرا ہی گئی۔ مگر مولوی عبدالخالق ذرا متاثر نہ ہوئے اور کہا۔

"ایسے کیا گھورتا ہے؟" 

وہ چپ چاپ انہیں گھورتا رہا۔ حالانکہ آنکھوں کو مستقل کھلا رکھنے کے لیے اسے جدوجہد کرنی پڑ رہی تھی، پھر بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی پلکیں جھپک جاتی۔

"یہ لے دودھ پی، پھر دوا بھی کھانی ہے۔" انہوں نے ایک بار پھر دودھ کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ اس بار اس نے مزاحمت نہیں کی مگر کمزوری اتنی زیادہ تھی کہ ایک ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے کے لئے اسے ہر بار دوسرا گھونٹ  بھرنے سے پہلے توقف کرنا پڑتا۔جب وہ پورا گلاس خالی کر چکا تو مولوی عبدالخالق نے گلاس ملانی جی کو دے کر اور دودھ ڈالنے  کا اشارہ کیا۔ پھر گلاس اس کے منہ سے لگایا تو اس نے گلاس اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دوسرا گلاس پہلے گلاس سے کم وقت میں ختم ہو گیا تھا۔ تیسرا گلاس بھر کر اسے پکڑاتے ہوئے انہوں نے ایک پڑیا کھول کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور کہا۔

"یہ دوا ہے، کھا لے۔"

اس نے بلا چون چرا کیے وہ پڑیا حلق میں جھاڑ کر چند گھونٹ بھرے، پھر گلاس لے کر واپس چارپائی پر گر سا گیا۔ وہ پورا دن اسی نیم بیہوشی کی کیفیت میں گزارا۔ رات ہوئی تو مولوی عبدالخالق اپنی چارپائی کو اٹھا کر اس کی چارپائی کے پاس لے آئے۔ ارادہ تھا کہ پچھلی رات کی طرح رات بھر جاگ کر اس کا خیال رکھیں گے۔آدھی رات تک وہ جاگے، مگر اس عمر میں اتنی مشقت کی جسم اجازت بھی تو نہیں دیتا، بلکہ ابھی کل کی تھکن باقی تھی۔ وہ تو کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کے ارادے سے لیٹے تھے، پھر آنکھ لگ گئی۔ حسب عادت تہجد کے وقت آنکھ کھلی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ گردن موڑ کر سائیں کی  چارپائی پر نظر ڈالی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے فوراً بیرونی دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ چوپٹ کھلا تھا۔

"بڑی پکی ضد لگائی ہے۔" وہ بڑبڑائے، پھر اٹھ کر دروازہ بند کر کے صحن کے اس طرف آگئے جہاں ہینڈ پمپ لگا تھا اور ایک ہاتھ سے پمپ چلاتے بالٹی میں وضو کے لیے پانی جمع کرنے لگے۔

دوپہر میں ظہر کی نماز کے بعد درس سے فارغ ہوکر وہ گھر لوٹے تو گرمی سے برا حال تھا۔ حالانکہ سر پر پہنی ٹوپی کے اوپر انہوں نے صافہ بھی لپیٹ  رکھا تھا، پھر بھی لگ رہا تھا جیسے دماغ کھول رہا ہو۔ گھر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے آواز لگائی۔

"ہاجرا ایک گلاس پانی پلا دے۔" پانی لانے کا کہہ کر وہ روکے نہیں اور صحن  کے اخری کے بنے دو کمروں میں سے ایک میں گھس کر اندر چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بجلی کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا، وہ تکیے پر رکھا پنکھا اٹھا کر ٹوپی اور صافا سائیڈ میں رکھتے ہاتھ سے پنکھا جھلنے لگے۔ چند لمحوں بعد ہی ملانی جی ہاتھ میں پانی کا گلاس لے کر آگئی۔ انہوں نے ملانی جی کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور منہ تک بھی لے گئے لیکن ہونٹوں سے نہ لگا سکے۔ کمرے کی ٹھنڈی نیم تاریک فضا میں بیٹھے انھیں اس کا خیال آگیا جو اس تپتی دوپہر میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے خود کو جھلسہ رہا ہوگا۔

"کیا بات ہے مولوی صاحب! آپ پانی کیوں نہیں پیتے؟" انہیں سوچ میں گم دیکھ کر انہوں نے ٹوکا تو مولوی عبدالخالق بڑبڑانے لگے۔

"اسے بھی تو پیاس لگی ہوگی۔ اس کا بھی تو حلق سوکھتا  ہوگا۔"

"کون مولوی صاحب۔۔۔۔؟ کس کی بات کر رہے ہیں؟" وہ نہ سمجھی سے پوچھنے لگیں۔ لیکن مولوی عبدالخالق جواب دیے بغیر باہر نکل آئے۔ مٹکے سے پانی جگ میں انڈیلا اور گلاس پکڑ کر دروازے سے نکل گئے۔ انہوں نے دور سے ہی اسے ٹنڈ منڈ درخت کے سائے میں بیٹھا  دیکھ لیا تھا۔ اطمینان کا سانس لیتے انہوں نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ وہ سر جھکا کر بیٹھا انگلی سے زمین پر لکیریں کھینچ رہا تھا۔ جگ اور گلاس کے سامنے رکھتے وہ زمین پر بیٹھے تو اس کی تپش کا احساس ہوا۔ فوراً پیروں پر ہوتے ہوئے انہوں نے اسے دیکھا جو اس جھلستی ہوئی زمین پر اتنے اطمینان سے بیٹھا تھا جیسے ایئرکنڈیشنڈ روم میں مخملی نشست پر بیٹھا ہو۔ اس نے سر اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ بس پلکے  اٹھا کر ایک سرسری سی نظر ان پر ڈالی اور پھر سے اپنے مشغلے میں مشغول ہو گیا۔ 

"صبح سے دوپہر ہو گئی، سورج سر پر چڑھ آیا۔ اس گرمی سے تو زمین خشک ہو جائے۔ تیرا حلق بھی سوکھ گیا ہوگا چل دو گھونٹ پانی پی لے۔" انہوں نے بہت پیار سے اسے بلایا تھا مگر اس نے توجہ نہیں دی۔ 

"ظلم ہر حال میں برا ہے۔ مگر اپنی ذات پر بدترین ہے۔ کیوںکہ اپنی ذات پر رکھا جانے والا غم انسان کو بے حس بنا دیتا ہے۔ اور جو بے حس ہو جائے وہ انسان نہیں رہتا، آدمی ہو جاتا ہے۔ صرف آدمی ہونے سے جانور ہونا بہتر ہے۔ اپنے مرتبے کو پہچان صرف آدمی ہونا قبول مت کر۔" دل جلے انداز میں سے سمجھاتے ہوئے انہوں نے پانی گلاس میں ڈالا اور گلاس ہاتھ میں لے کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ "لے پکڑ اور خود پر قہر نہ توڑ۔"

اس نے ایک نظر ان کے باریش چہرے کو دیکھا  پھر انکے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو اور گلاس ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ مگر اس میں سے پانی پینے کے بجائے ہاتھ اونچا کر کے گلاس کو اتنا غور سے دیکھنے لگا جیسے وہ میٹل کا گلاس کانچ کا ہو جس کے شفاف پیندے سے وہ پانی کا معانہ کررہا ہو کہ آیا پانی صاف بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ پھر اس نے بہت عجیب سی حرکت کی آہستگی سے گلاس الٹتے ہوئے اس نے سارا پانی زمین پر گرا دیا۔ اس کے بعد گلاس نیچے رکھا اور اسی ہاتھ سے جگ اٹھا کر پانی گلاس میں انڈیلنے لگا۔ اس کے بعد گلاس کو اونچا کر کے زمین پر پانی گرا دیا اور پھر وہی حرکت دہرانے لگا۔ پھر تیسری بار اس نے جگ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مولوی صاحب چپ نہ رہ سکے۔ 

"یہ تم کیا کر رہے ہو؟"

"آرزو کو خاک کر رہا ہوں۔" وہ ان کی طرف دیکھ کر بولا پھر دوسرے ہاتھ میں گلاس اٹھا کر ان کی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ "یہ جستجو کا برتن ہے اور انسان اس برتن کو آرزو سے بھر دیتا ہے۔" اس نے بولتے ہوئے گلاس پانی سے لبالب بھرا۔ "مگر آرزو کی قسمت میں تکمیل نہیں۔ آرزو کی تقدیر ہے کہ خاک ہو جاتی ہے اور جستجو کا برتن خالی رہ جاتا ہے۔" اس نے جگ رکھ کر گلاس سیدھے ہاتھ میں لیا پھر ہاتھ اونچا کرتے ہوئے دھیرے دھیرے پانی زمین پر گرا دیا اور خالی گلاس کو دیکھتا ہوا بولا۔

"جتنی بار اس برتن کو بھرو گے، یہ اتنی بار خالی ہو جائے گا۔ یہاں صدیوں سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے جستجو باقی رہ جاتی ہے اور آرزو خاک ہو جاتی ہے۔" اس کے چہرے پر محفوظ سی مسکراہٹ تھی۔ مگر پھر بولتے بولتے اچانک ہی وہ افسردہ ہوگیا۔

"جستجو کا خالی برتن زیادہ وزن دار ہوتا ہے۔" وہ گلاس کو دیکھتے ہوئے تاسف بھری آواز میں بولا تھا پھر جیسے اس کا دل اس کھیل سے اچاٹ ہو گیا۔ گلاس زمین پر لڑھکا تا پر جلال آواز  میں گرج کر بولا۔ "کیوں آتا ہے تو یہاں۔۔ مت آیا کر۔"

مولوی صاحب ذرا متاثر نہ ہوئے اور گہری نگاہوں سے اس کے بگڑے ہوئے چہرے کو دیکھتے رہے پھر گمبھیر لہجے میں بولے۔ "باہر کی آگ بس اسے نہیں جلاتی جس کے اندر آگ لگی ہو۔ تیرے اندر کون سی آگ ہے؟" اس کی آنکھوں میں قہر کی جگہ کرب نے لے لی اور وہ اپنے سینے کو مسلتے ہوئے بولا۔

"یہاں عشق کی بھٹی سلگ رہی ہے۔" اس کی آواز میں وہ آنچ تھی جیسے سچ مچ اس کا سینہ جل رہا ہو۔ پھر بے چارگی سے بولا۔ "پر بجھنے پر اس کا دھواں نظر نہیں آئے گا۔ باہر آگ لگے تو  شعلے بھڑکتے ہیں دھواں اٹھتا ہے اور بربادی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ پر اندر آگ لگ جائے تو چنگاری بھی نہیں سلگتی اور سب کچھ خاک ہو جاتا ہے۔ کچھ باقی نہیں بچتا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو پاتی کہ کیا کچھ تھا جو تباہ ہوگیا اور تو اس آگ پر پانی ڈالنے لآیا ہے۔" وہ طنز سے بول کر مذاق اڑاتے لہجے میں کہنے لگا۔

"مجھے جھلّا کہتا ہے۔ نادان تو تو خود ہے۔ اس آگ کو بجھانے آیا ہے جو جلتی ہی نہیں ہے، صرف جلاتی ہی نہیں ہے۔" تیز لہجے میں بولتا وہ اچانک کھوسا گیا ہلکی آواز میں کہنے لگا۔ 

"وہ کہتی تھیں،عشق وہ آگ ہے جو جلائے تو راکھ نہیں کرتا، فنا کر دیتا ہے۔ جا چلا جا یہاں سے اور دوبارہ نہ آنا۔ یہاں فنا کا عمل جاری ہے۔" پھر انہیں نظرانداز کرتے وہ جنونی انداز میں انگلیوں کے ناخن سے زمین  کھرچنے لگا۔ وہ پھر بھی بیٹھے اسے دیکھتے رہے کہ شاید وہ کچھ کہے مگر وہ چپ ہی رہا تو مولوی صاحب "اللہ اکبر" کہتے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ گئے.

صبح ناشتے کی تیاری کے دوران سمیرا اور اس کی بہنیں سمیرا کی امی سے رپورٹ لے رہی تھیں۔

"آپ نے ابو سے بات کی؟" سمیرا نے پوچھا۔

"کہاں؟... میرے کمرے میں جانے سے پہلے ہی وہ سونے کے لیے لیٹ گئے تھے۔" پھر جوش سے مگر رازداری کے انداز میں بتانے لگیں۔ "تمہاری چچی تو رات میں مان گئیں مگر آمنہ ابھی تک اٹکی ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ ہے بھی انہی بہن بھائیوں کا۔ کوئی ایک بھی مان جائے تو باقی دو اپنے آپ کمزور ہو جائیں گے۔"

"تم سارے افتخار کے پیچھے پڑے ہو۔ منیر سے کیوں نہیں کہتے؟" 

"کیونکہ ابو ہی بھائیوں میں بڑے ہیں اگر وہ مان گئے تو باقی دو راضی نہ ہوں، فرق نہیں پڑے گا۔ وہ کبھی ابو کے فیصلے کے آگے نہیں بولیں گے۔" 

صائمہ کی نظریں کچن کی کھڑکی سے باہر گئیں اور وہ سمیرا کا کندھا ہلا کر بولی۔ "سمیرا! ابو ناشتے کے لیے آگئے۔ یہ آفاق کدھر ہے؟"

سمیرا نے فوراً کھڑکی سے باہر دیکھا۔ افتخار حسن ڈائننگ ٹیبل کی چیئر گھسیٹ کر بیٹھ رہے تھے۔

کچھ دیر گزری تو منیر حسن اور صمد ساتھ ساتھ ہی آ کر بیٹھ گئے۔

ماحول میں تناؤ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ہر کوئی گردوپیش سے نظر چرائے خاموشی سے ناشتہ کررہا تھا۔ منیر حسن اور افتخار حسن کو اندازہ تھا کہ وہ تینوں رات والا ٹاپک دوبارہ ضرور شروع کریں گے۔ اس ٹاپک سے بچنے کے لیے ہی وہ اپنے بیٹوں کی طرف دیکھنے سے بھی گریز کررہے تھے۔

"تایا جان! آپ نے کیا سوچا؟"

"کس بارے میں؟" انہوں نے تجاہل عارفانہ برتا۔

"وہی جو رات میں بات ہوئی تھی۔" افتخار حسن کپ رکھ کر برہمی سے بولے۔

"وہ بات ایسی نہیں تھی کہ اسکے بارے میں سوچا جائے۔"

"ہمیں آپ سے اجازت چاہیے ماموں جان! اور اگر آپ سوچیں گے نہیں تو ہمیں اجازت کیسے دیں گے؟" جنید کے لہجے میں اصرار تھا۔ افتخار حسن کی تیوریاں چڑھ گئیں۔

"اجازت مانگنی ہے تو مجھ سے نہیں بھائی صاحب سے مانگو۔"

"ان کا یہاں کیا ذکر؟" بنا سوچے ہی صمد کے منہ سے نکلا پھر اسے فورا ہی اپنی بات کے بے تکے ہونے کا احساس بھی ہوگیا۔ افتخار حسن اسکی بات سن کر بولے۔

"ملیحہ انکی بیٹی تھی اور اگر کل تم کسی کو ملیحہ کی اولاد کہتے ہو تو یہ انکے خون میں ملاوٹ کے برابر ہے۔ جس پر اعتراض وہی کریں گے، میں نہیں۔ حسب نسب خاندانی وراثت ہوتی ہے، جس سے یوں ہی نہیں بانٹا جاتا۔ وجدان اگر شایان کو اپنی ولدیت دے رہا ہے ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ پھر وہ ایسا اپنے والدین کے علم میں لائے بغیر کر رہا ہے۔ اگر مصطفی عظیمم کو پتہ چل جائے تو وجدان کے خاطر وہ ایک لے پالک کی حیثیت سے تو شایان کو برداشت کر ہی لیں مگر وہ کبھی اس اپنا وارث تسلیم نہیں کریں گے، اظہر فاروقی کی تو بات دور ہے۔ کبھی جاؤ ان کی زمینوں پر ، وہاں جانوروں کی منڈی جیسا ایک بڑا باڑا ہے جس میں ہر نسل کا چوپایہ موجود ہے سوائے خچر کے...... کیونکہ اس کی نسل دوغلی ہے۔ جس شخص کو جانوروں کی نسل میں ملاوٹ پسند نہیں وہ اپنی نسل میں آمزش کیا برداشت کر لے گا؟ اظہر فاروقی کو اپنے عالی نسب کا غرور ہے..... وہ اپنے غرور کا تاج کبھی بھی کسی کی ناجائز اولاد کے سر پر نہیں سجائیں گے؟"

"آپ کیا صرف ان کی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں؟" جنید کے سوال پر وہ رخ بدل کر دوسری طرف دیکھنے لگے۔ "آپ کو یاد ہے، خالو جان سے ہماری آخری ملاقات کب ہوئی تھی؟" اس نے ایک اور سوال کیا، پھر ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا۔ "ملیحہ کے سوئم پر۔ اور آج ملیحہ کو گزرے ہوئے دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران نور الہدیٰ بھی آیا تو بس ایک بار۔ اس کے علاوہ ان دونوں خاندانوں کے بیچ دس سال سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور آئندہ بھی ایسا ہونے کی کوئی امید نہیں۔ پھر انہیں کیسے پتا چلے گا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جو ملیحہ کو ماں کہتا ہے۔۔۔۔ماں". اس نے مٹھاس سے اس لفظ کو ادا کیا۔ "یہ لفظ کتنا مقدس، کتنا قابل احترام ہے۔ ملیحہ کو اس سے زیادہ اچھا خطاب اور کیا ملے گا؟"

افتخار حسن نے کوئی جواب ہی نہیں دیا اور منیر حسن جو پہلے لاتعلق سے ناشتے میں مصروف تھے اب چہرے پر عجیب سے تاثرات لیے خاموش تھے اور ان کے سامنے پڑا ناشتہ یوں ہی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ وہ تینوں ہی محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی تائید میں ابھی تک کچھ نہیں کہا۔ انہیں یہ خاموشی اپنے حق میں محسوس ہورہی تھی۔ خاموشی کا وقفہ طویل ہو گیا تھا جسے آخر آفاق نے توڑا۔

"آپ دونوں پھوپھا جان کو صرف ملیحہ کی موت کے لیے ذمہ دار سمجھتے ہیں. لیکن کیا وجدان کی بربادی انکے ذمے نہیں؟... یہ دونوں الزام لازم و ملزوم ہیں. لیکن پھوپھا جان اکیلے ملزم نہیں، میرا ضمیر مجھے بھی ان الزاموں میں ان کے ساتھ شامل رکھتا ہے."

افتخار حسن اور منیر حسن نے ذرا چونک کر اسے  دیکھا. صمد اور جنید بھی حیرت سے اسے دیکھنے لگے جو سر کو جھکائے نیچی نگاہ کئے کہہ رہا تھا.

"آپ کو بے خبری کا فائدہ حاصل ہے. مگر میں وہ شخص ہوں جو ملیحہ کی زندگی میں ہی پورا سچ جان گیا تھا. میرے پاس تین دن کی مہلت تھی اور ان تین دنوں میں بہت کچھ کر سکتا تھا مگر میں نے کچھ نہیں کیا. مجھے کچھ کرنے کا خیال ہی نہیں آیا. میں ساحل پر کھڑا ان دونوں کے ڈوبنے کا نظارہ کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ دونوں ڈوب گئے." یقیناً آفاق کی آنکھوں میں نمی آگئی جسے اس نے اندر ہی اندر روکتے ہوئے سلسلۂ کلام جاری رکھا.

"میری غلطی یہ تھی کہ میں ان کے جذبوں کی گہرائی کو سمجھ ہی نہیں سکا. سمجھتا بھی کیسے؟ ایک انگوٹھی نے ملیحہ کو باندھ لیا تھا اور گریز کے اشارے نے وجدان کے راستے بدل دیئے تو میں نے سوچا، انہیں اگر محبت تھی بھی تو وہاں تک نہیں پہنچی جہاں ایک دوسرے کے لیے چوٹ سہی جاتی ہے. مگر انکی محبت تو وہاں تک پہنچ چکی تھی، جہاں چاہے جانے والے شخص کے احترام میں اپنے ہاتھوں خود کو مٹا دیا جاتا ہے. وجدان، ملیحہ کے لیے مٹتا رہا اور ملیحہ، نور الہدی کے لیے مٹتے مٹتے وجدان کے لیے مٹ گئی. وہ اپنے آپ اس بھنور میں سے نہیں نکل سکتے تھے. انہیں کسی تیسرے کی ضرورت تھی جو انہیں اس بھنور سے نکالتا. مگر میں وہ تیسرا شخص کیسے بنتا؟..... نہ کوئی اعتراف...... نہ کوئی وعدہ. محض چند ملاقاتیں اور کوئی اپنی زندگی خیرات کردے... ایسی کوئی مثال کانوں نے سنی کب تھی؟ مگر میں پھر بھی شرمندہ ہوں پاپا!" اس نے سر اٹھا کر منیر حسن کو پکارا.

"مجھے ایسا لگتا ہے کہ شایان کی صورت میں مجھے وہ موقع دیا گیا ہے کہ میں اپنی غلطی کا ازالہ کرسکوں. پھر شاید وجدان کا سامنا کرتے ہوئے مجھے ندامت نہ ہو. میں اس بار ساحل پر بیٹھ کر وجدان کے ڈوبنے کا نظارہ نہیں کرونگا." 

منیر حسن اسکی آنکھوں میں پھیلی سرخی کو دیکھتے رہ گئے.

"آج آفس سے ہاف ڈے لے لینا." 

آفاق اس غیر متعلق جملے پر اچنھبے سے بولا. "کیوں؟" 

وہ اسکا جواب دینے کے بجائے بولے. "میں وجدان کو بھی لنچ کے بعد آف کر دونگا. تم اسکے گھر جا کر شایان کو کچھ دنوں کے لیے یہاں لے آنا." آفاق الجھا.

"ایک تو اسکا ایڈمیشن ٹیسٹ ہونے والا ہے. دوسرا وجدان تو شاید اعتراض نہ کرے لیکن اسکے گھر والے، شایان کو ہمارے گھر کچھ دن رہنے کی اجازت کیوں دیں گے؟" منیر حسن بولے تو انکے لہجے میں سکون تھا.

"ایڈمیشن ٹیسٹ کی تیاری یہاں بھی ہوسکتی ہے. اور وجدان کے گھر والے تمہیں شایان کو ساتھ لے جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ آخر تم اسکے ماموں ہو."

جب انکی بات آفاق کے سمجھ میں آئی تو وہ صمد اور جنید ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے. سمیرا کے ہونٹوں پر بھی آسودہ مسکراہٹ آگئی تھی. مگر افتخار حسن فورا انہیں ٹوکتے ہوئے بولے.

"منیر حسن!" لیکن انکی آواز میں تیزی نہیں، حیرت بھرا استفسار تھا.

"میں جانتا ہوں افتخار بھائی! آپ کیا سوچ رہے ہیں. یہ سوچ میرے ذہن میں بھی ہے لیکن میں وجدان کے لیے بھی سوچ رہا ہوں. اگر ہم اس جھوٹ کی تصدیق کردیں تو نقصان کوئی نہیں لیکن یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ وجدان کے ذہن سے بوجھ ہمیشہ کے لیے اتر جائے گا. لیکن اگر ہم تردید کرتے ہیں تو آج یا کل وجدان کو ایک اور خسارے سے گزرنا ہوگا. آپ صحیح غلط کے چکر سے نکل آئیں. ہمیشہ اور ہر معاملے میں صحیح غلط کا ٹیگ لگانا ممکن نہیں ہوتا. بعض چیزیں اس لئے ہوتی ہیں کہ انہیں کسی ٹیگ کے بغیر قبول کرلیا جائے. انکے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ خود وقت کرتا ہے."

افتخار حسن نے پھر کچھ نہیں کہا اور سامنے رکھے کپ میں بچی ٹھنڈی چائے کے آخری گھونٹ حلق سے اتارنے لگے. لیکن منیر حسن ٹھنڈے ناشتے پر قناعت نہیں کرسکے اور بلند آواز میں کچن کے دروازے کی طرف منہ کرکے کہا. 

"سمیرا بیٹا! ناشتہ ٹھنڈا ہوگیا ہے. اور لے آؤ." 

وہ دونوں ہی ناشتہ کرکے جاچکے تو آفاق پر سوچ انداز میں بولا. "یار! اس کہانی میں بہت جھول ہیں، محنت کرنی پڑے گی."

"کیسے جھول؟" جنید نے حیرت سے پوچھا آفاق نے کہا.

"ہمیں ہر صورت میں اس بات پر قائم رہنا ہے کہ ملیحہ کی شادی ہماری سرپرستی میں ہوئی تھی جس کا مطلب ہوا کہ جب وجدان لاپتہ ہوا تو اس کا اتا پتا ہمارے پاس تھا اور میں نے جان بوجھ کر سالوں سال وجدان کی فیملی کو لاعلم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی وجدان کی اتفاقاً واپسی بھی دھوکہ ہی لگے گی۔ پھر شاید وہ وجدان کی مینٹل کنڈیشن والی بات کو بھی من گھڑت کہانی سمجھیں۔"

"ہوں۔" ذرا پر سوچ انداز میں بولی۔ "اگر وجدان کی فیملی کا ہم پر سے اعتبار اٹھ گیا تو واقعی شکوک و شبہات کا کوئی انت نہیں۔"

"اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ میں کسی بھی چیز کی وضاحت نہیں دے پاؤں گا۔" آفاق کا انداز ایسا تھا جیسے دیر تک اس مسئلہ کو سوچتے وہ تھک گیا ہوں مگر حل پھر بھی نہ ملا۔

"وہ واقعی بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔ اگر ہم ان کی نظروں میں مشکوک ہو گئے تو وہ ہماری کہانی پر بھی آسانی سے اعتبار نہیں کریں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ تصدیق کرنے کی کوشش میں وہ سچ تک پہنچ جائیں۔" فکرمندی سے کہتا صمد چپ ہوا تو سب پریشان صورت بنائے سر ہلانے لگے۔ سمیرہ نے ان کے چہروں کو دیکھا اور کہا۔

"اس میں اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو بات ناقابل اعتبار ٹھہرے، وہ بات ہی نہ کریں۔"

"کیا مطلب؟" آفاق سمجھا نہیں۔

"ارے بھائی جھوٹ بولنے کے بجائے سچ بولیں کہ وجدان نے جب گھر چھوڑا، ملیحہ کے انتقال کو 24 گھنٹے گزر چکے تھے۔"

"تو شایان کہانی میں کیسے شامل ہوگا؟" 

"خفیہ شادی کے ذریعے۔" سمیرا نے کہا۔

"مطلب؟" اس بار عظمیٰ نے وضاحت چاہی تو سمیرا سمجھانے لگی۔

"دیکھیں، ملیحہ کی شادی تو ماموؤں کی سرپرستی میں ہی ہوگی۔ مگر وجدان کی ہوگی خفیہ شادی۔" بول کر کر داد طلب نظروں سے سب کو دیکھنے لگی۔ پر ان کے چہرے بدستور ہونق بنے دیکھ کر سمیرا نے کہا۔

"کیوں بھئی، کیا ہوا؟ سمجھ نہیں آیا؟"

سب نے کورس میں سر نفی میں ہلائے تو سمیرا کہنے لگی۔

"کوئی بات نہیں۔ میں سمجھاتی ہوں۔ دیکھو، ملیحہ ڈیتھ سے ایک سال پہلے وجدان اور ملیحہ کی شادی ہوئی، وہ پریگننٹ ہوئی، پھر 21 دسمبر 1981ء کی رات شایان کو جنم دیتے ہوئے ملیحہ کی ڈیتھ ہوگئی اور 22 دسمبر کو وجدان اپنے بیٹے کو لے کر چلا گیا۔ کہاں؟ بھلا ہم کیسے جان سکتے تھے؟" وہ چپ ہوئی ہوئی تو جنید بے ساختہ بولا۔

"زبردست۔ آفاق، سمیرہ کی بنائی کہانی پر کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ بس اس رف آئیڈیا کو تھوڑا پالش کرنے کی ضرورت ہے۔"

اور پھر اس کہانی کی نوک پلک سنواری جانے لگی۔ جب ہر زاویے پر غور کر لیا گیا تو آفاق اپنی جگہ سے اٹھا۔ 

"چلو تیار ہو جاؤ۔ شان کو لینے جانا ہے۔"

"بس ہم دونوں جائیں گے؟.... میرا مطلب ہے امی یا چچی جان میں سے کوئی ساتھ نہیں ہوگا؟"  سمیرا نے کہا۔

"نہیں، آج جھوٹ بولنے کا دن ہے۔ اجازت دینا اور بات ہے لیکن جب ان کے سامنے ملیحہ اور شایان کے بیچ جھوٹے رشتے کتے کا پل باندھا جائے گا تو ان کے لئے چپ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر کیوں ہم انہیں اس مشکل میں ڈالیں؟ شایان کو لینے کے لئے بس میں اور تمہیں ہی جائیں گے۔"

"ٹھیک ہے۔ آپ چلیں، میں آتی ہوں۔" وہ آفاق سے کہتی اٹھ گئی۔

~~~~~~~~~~~

ان دونوں کو وجدان کے گھر کے لاؤنج میں بیٹھے کافی دیر ہو گئی تھی مگر دونوں میں سے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کریں کہ اچانک شایان بھاگتا ہوا آیا اور آفاق کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا۔

"انکل! آپ جواد کو کیوں نہیں لائے؟ میں نے اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنی تھی۔" آج آفاق اسے ملیحہ کے حوالے سے دیکھ رہا تھا شاید اسی لئے معصومانہ خفگی سے منہ پھلاتا وہ ہمیشہ سے زیادہ اچھا لگا تھا۔ آفاق کو اس پر ڈھیروں پیار آگیا تو جواب دیئے بغیر مسکراتا ہوا اس کے گال چومنے لگا۔

"بیٹا! پہلے سلام کرتے ہیں۔" وجدان نے ٹوکا تو شایان نے لہراتا ہوا سلام کیا۔

"السلام علیکم انکل!" 

"وعلیکم السلام۔" افاق نے اسی کی انداز میں جواب دے کر وجدان سے کہا۔ "اب اسے یہ بھی کہہ دو کہ مجھے انکل نہ کہا کرے۔ غیریت سی محسوس ہوتی ہے۔" 

"ہاں یہ تو ہے۔ انکل کا لفظ تو غیروں کے لیے بنا ہے۔" عائشہ فورا اس کی تائید کرتی بولیں پھر شایان کو مخاطب کیا۔ "شایان! تم آفاق کو چاچو کہا کرو۔ آخر وجدان کے بھائیوں جیسا ہے۔"

اور آفاق کو بات کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ سوچ کر بولا۔

"چاچو نہیں آنٹی! آپ مجھے اس سے ماموں کہلوائیں۔ کیونکہ وجدان میرے بھائیوں جیسا ہے۔ لیکن ملیحہ کا تو میں بھائی ہی تھا۔"

"کیا؟" عائشہ کے ساتھ مصطفی عظیم اور انیقہ بھی بری طرح چونکے۔ وجدان بھی ٹھٹک گیا تھا۔ 

"جی ہاں۔" آفاق ان کے حیران چہروں پر نظر ڈالتا آرام سے کہہ رہا۔ "ملیحہ میری پھوپھی زاد بہن تھی۔" ایک انکشاف تھا اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، اس انکشاف پر کس رد عمل کا اظہار کریں۔ لیکن وجدان کی چھٹی حس نے اسے کوئی اشارہ کیا تھا۔ وہ تیز لہجے میں بولا۔

"بس آفاق! اس کے بعد کچھ مت کہنا۔"

"لیکن کیوں؟ میں پاپا اور تایا جان کی جازت لے کر اسی لئے آیا ہوں کہ انکل اور آنٹی، ملیحہ اور میرے رشتے کے بارے میں جان جائیں۔ اور میں انہیں یہ بھی بتا دوں کہ شایان میرا بھانجا ہے۔" آفاق نے پاپا اور تایا جان کا حوالہ اس لیے دیا تھا کہ وجدان خاموش ہو جائے۔ وہ واقعی چپ سا ہو گیا تھا۔ پھر لفظ بھینچ کر اٹھا اور لاؤنج سے چلا گیا۔ افاق اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا مگر وہ اس کے پیچھے نہیں جا سکتا تھا کیونکہ مصطفی عظیم حیرت سے سنبھل کر سوالوں کا سلسلہ شروع کر چکے تھے اور آفاق کو ان کی طرف متوجہ ہونا پڑا جو کہہ رہے تھے۔ 

"ملیحہ تمہاری کزن تھی، اتنی بڑی بات تم نے ہم سے چھپا کر رکھی، کیوں؟" 

"کیونکہ وجدان گمشدہ تھا اور آپ اس کی گمشدگی کا تعلق ملیہ سے جوڑ رہے تھے۔ اگر اس وقت میں کہتا کہ ملیحہ میری کزن تھی تو بدمزگی ضرور ہوتی۔ مگر اب حالات میں ٹھہراؤ آ چکا ہے۔ پھر وقت بھی اتنا بیت چکا ہے کہ اس بات کو ظاہر کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔"

مصطفی عظیم لب بھینچنے لگے، پھر مشکوک انداز میں دیکھتے ہوئے بولے۔

"ملیحا تمہاری کزن تھی اور وجدان دوست۔ اور جہاں تک میرا اندازہ ہے، تم ان کے راز دار تھے۔ سچ بتانا آفاق! کیا وجدان نے گھر سے جانے کے بعد تم سے کبھی کونٹیکٹ نہیں کیا؟"

"نہیں۔ لیکن آپ کا یہ اندازہ درست ہے کہ میں ان دونوں کا رازدار تھا۔" 

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" انہوں نے اس کی لاعلمی کو رد کر دیا۔ "ملیحہ کو تم بہن کہہ رہے ہو ہوں اور دوست چاہے کتنا ہی قابل اعتبار ہو، کوئی غیرت مند شخص اپنی بہن، دوست کے حوالے نہیں کر سکتا جب تک وہ اس کے نکاح میں نہ آجائے۔ اور اس کے بعد بھی وجدان نہ سہی، ملیحہ تو تم سے رابطہ کرتی رہی ہوگی۔"

آفاق نے انہیں اطمینان سے اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ پھر جب وہ چپ ہوئے تو کہا۔

"اب بھی آپ کے سارے اندازے درست ہیں۔ مگر ایک بات کی تصیح کر لیجئے کہ وجدان نے گھر سے جانے آنے کے بعد ملیحہ سے شادی نہیں کی تھی بلکہ جس وقت اس نے گھر چھوڑا، اس وقت تک ملیحہ کی ڈیتھ ہوچکی تھی۔"

"کیا....؟" حیرت کے ایک اور جھٹکے نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ آفاق اسی سنجیدگی سے کہتا رہا۔

"آپ کو شاید یاد ہو، جس رات وجدان نے گھر چھوڑا اس دن میں صبح وجدان کو لینے آیا تھا اور آپ کے پوچھنے پر بتایا تھا کہ پچھلی رات میری کزن کی ڈیتھ ہوگئی ہے اور میں وجدان کو جنازے میں شرکت کے لیے لے جا رہا ہوں۔" وہ رکا، پھر کہا۔ "وہ کزن ملیحہ تھی۔"

"مجھے سمجھ نہیں آرہا، تم کیا کہہ رہے ہو؟" عائشہ بری طرح الجھ رہی تھیں۔ آفاق انہیں دیکھ کر کہنے لگا۔

"ٹھہریں، میں آپ کو شروع سے بتاتا ہوں۔ ملیحہ کے ڈیتھ سے تقریبا ڈیڑھ سال پہلے ان دونوں کی ملاقات ہوئی تھی تھی اور چند ملاقاتوں میں ہی انہوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن جب ملیحہ نے اپنے بابا جان سے بات کی تو وہ چراغ پا ہو گئے۔ ملیحہ نے انہیں منانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ کسی صورت اس رشتے پر تیار نہیں ہوئے اور ملیحہ کے لیے وجدان کو بھولنا ناممکن تھا۔ بات اتنی بڑھی کہ ملیحہ احتجاج گھر چھوڑ کر ہمارے گھر آگئی۔ اس کا خیال تھا کہ اکلوتی بیٹی کی جدائی پر ان کا دل پسیج جائے گا۔ مگر ان کا غصہ اور بھی بڑھ گیا اور انہوں نے ملیحہ کو اپنی زندگی سے ہی بے دخل کردیا۔ اب ملیحہ واپس نہیں جا سکتی تھی، ان حالات میں اس سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں تھا کہ میں ملیحہ کی وجدان کے ساتھ شادی کر دی جائے۔ پھر میرے پاپا اور تایا نے ملیحہ کے سرپرستوں کی حیثیت سے اسے وجدان کے ساتھ رخصت کردیا وجدان نے آپ لوگوں سے چھپ کر شادی کی۔ کیوںکہ اسے خدشہ تھا کہ ملیحہ کے بابا جان کی طرح آپ لوگ بھی اس معاملے کو ایشو بنا لیں گے۔ جبکہ اس شادی کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ ملیحہ کو پھوپھا جان سے بہت محبت تھی اور ان کی طرف سے تعلق توڑ لئے جانے کے بعد ڈپریشن کا شکار رہنے لگی تھی۔ اس سے جذباتی سہارے کی ضرورت تھی جو اسے وجدان کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لئے وجدان نے کچھ وقت کے لئے اپنی شادی کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر شادی کے کچھ مہینوں بعد......" آفاق گھر سے رٹ کر آئے جملوں کو روانی سے ادا کرتا جا رہا تھا کہ بولتے بولتے اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔ اس کے لیے بات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا تو چپ ہونے کے ساتھ ہی سر کو جھکاتے ہوئے اس نے غیر محسوس انداز میں اپنا چہرہ چھپا لیا جو ایک دم ہی سرخ ہو گیا تھا۔ سمیرا بھانپ چکی تھی کہ یہ غیرت کی سرخی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں تھی کہ آفاق کی زبان کس بات نے پکڑ لی ہے۔ اس لیے اس کے چپ ہوتے ہی سمیرا نے بولنا شروع کر دیا۔

"جب ملیحہ امید سے ہوئی تو وجدان کو لگا کہ اس نے شادی کا اعلان کر دینا چاہیے۔ مگر پھر بھی اس میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اچانک ایک دن ملیحہ کو آپ کے سامنے لے آتا۔ پھر اس نے سوچا کہ ایک دم دھماکا کرنے کے بجائے وہ پہلے آپ لوگوں کو اس بات کے لیے راضی کر لے کہ آپ اس کی شادی ملیحہ کے ساتھ کرنے پر تیار ہو جائیں پھر وہ آپ کو بتا دے گا کہ وہ شادی کر چکا ہے۔ لیکن اس کی توقع کے عین مطابق آنٹی نے ملیحہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اب وجدان دوہرے عذاب میں گرفتار تھا۔ایک طرف اس سے آپ کو منانا تھا، دوسری طرف ملیحہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ وجدان کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ فل فور اسے گھر لے آئے تاکہ چوبیس گھنٹے اس کے پاس رہ سکے۔ مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ جس رات شایان پیدا ہوا، ملیحہ کی طبیعت اچانک ہی بگڑ گئی تھی۔ اسے ہسپتال لے کر گئے لیکن......" سمیرا نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔ مصطفیٰ عظیم ہونٹوں پر مٹھی جمائے خاموش بیٹھے تھے اور عائشہ پرنم آنکھوں کے ساتھ بولیں۔

"تو یہ وجہ تھی۔ میں اکثر سوچتی کہ میں نے تو وجدان سے کہہ دیا تھا کہ ملیحہ سے شادی کرلے، پھر وہ کیوں چلا گیا؟ آج پتہ چلا، میں نے جازت دینے میں دیر کردی۔ میں نے اس وقت اسے ملیحہ سے شادی کرنے کی اجازت دی، جب وہ ملیحہ کو دفنا کر آرہا تھا۔ اف میرے اللّٰہ!" انہوں نے کرب سے آنکھیں بھینچ لیں اور آنسو ٹپ ٹپ ان کے گالوں پر بہنے لگے۔

"کیسے برچھی کی طرح میرے لفظ وجدان کے سینے کے آر پار ہوئے ہوں گے۔ کیسی ماں ہوں، اس کی حالت نہیں پہچان سکی۔ مجھے آج بھی یاد ہے، اس رات وجدان اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا کہ خود سے بچھڑ گیا تھا، ٹوٹ رہا تھا وہ اور میں نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ کاش مجھے پہلے پتا چل جاتا تو ملیحہ کو خود جاکر گھر لے آتی۔ اپنے ہاتھوں سے اس کا خیال رکھتی۔ بھلا وجدان اسے اس حالت میں کہاں سنبھال آتا ہوگا؟" پھر وہ آنسو پونچھتی مصطفی عظیم سے بولیں لیں۔

"یاد ہے مصطفی صاحب! ملیحہ کے انتقال سے کچھ مہینے پہلے وجدان نے اچانک گھر سے باہر رہنا شروع کر دیا تھا۔ آفس بھی نہیں جاتا تھا۔ صبح کا نکلا آدھی رات کے بعد بعد گھر میں گھستا تھا اور ہم ناراض ہوتے تھے۔ اب سمجھ آیا اس کی بیوی ماں بننے والی تھی۔پھر وہ کیسے گھر اور آفس کی پرواہ کرتا؟ اس کا دھیان تو ملیحہ میں اٹکا رہتا ہوگا۔" پھر جیسے انہیں کسی بات کا دھیان آیا تھا، انہوں نے پکارا۔ "انیقہ!"

"جی امی!" وہ چونک کر بولی۔

 "تم نے بتایا تھا کہ وجدان کے جانے سے دو تین دن پہلے جب اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ملیحہ وجدان سے ملنے گھر آئی تھی۔"

وہ ان کی بات کا مفہوم سمجھ کر سہمی آواز میں بولی۔ "جی بتایا تھا۔"

عائشہ مصطفی کے تیور بگڑ گئے۔ "مگر تم نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ملیحہ پورے  دنوں سے تھی۔"

آفاق اور سمیرا ان کی بات سن کر گھبرا گئے۔

آفاق کے ذہن سے یہ بات محو ہوچکی تھی کہ انیقہ کی ملیحہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی ملاقات ہوئی تھی تھی اور اب اسے لگ رہا تھا، اس کا بھانڈا پھوٹنے والا ہے، اور شایان کا بھی.... وہ سٹپٹائی نظروں سے انیقہ کو دیکھنے لگا۔ مگر آفاق کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انیقہ اس سے بھی زیادہ بری طرح سٹپٹائی ہوئی تھی، تیزی سے پلکیں جھپکتی وہ بار بار کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتی لیکن کوئی جواب جیسے بن نہیں پا رہا تھا۔

"بولو انیقہ! اب چپ کیوں ہو؟... جواب دو۔" اس کی چپ سے جھنجلا کر مصطفی عظیم بولے تو ان کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔ انیقہ روہانسی ہوگئی۔

"کیا بولوں ابو! جب میں نے کچھ محسوس ہی نہیں کیا تھا۔"

آفاق کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔

"کیا بات کر رہی ہو؟" عائشہ پہلے سے بھی زیادہ تیز لہجے میں بولیں۔ "جس عورت کے ہاں دو چار روز میں ولادت ہونے والی ہو، اسے تو کنواری بھی پہچان لے۔ اور تم جو اس وقت بھی ایک بچے کی ماں تھیں، اتنا بھی نہ دیکھ سکیں کہ ملیحہ امید سے ہے؟"

انیقہ اتنی دیر میں خود کو سنبھال چکی تھی، بولی۔ "امی! میں سچ کہہ رہی ہوں، میں نے کچھ محسوس نہیں کیا تھا۔ اصل میں، میں پہلے ہی وجدان کی طرف سے پریشان تھی۔ پھر جب ملیحہ نے بتایا کہ وہ ملیحہ فاروقی ہے اور وجدان سے ملنا چاہتی ہے تو مجھے فطری طور پر غصہ آگیا۔ شاید اسی لیے میں نے اسے ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں۔ یا شاید دیکھا بھی ہو تو دھیان نہ دیا ہوگا۔ کیونکہ وجدان تو یہی کہہ رہا تھا کہ ملیحہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ کب کہا تھا کہ کر چکا ہے جو اس طرف دھیان جاتا۔ اور پھر ملیحہ نے شال لے رکھی تھی۔ حالانکہ دس سال پرانی بات ہے، پھر بھی مجھے یاد ہے کہ ملیحہ کالے رنگ کی ساڑھی میں تھی اور اس نے اپنے گرد میرون کلر کی شال خوب پھیلا رکھی تھی۔ ہوسکتا ہے اس لیے بھی میں دیکھ نہیں پائی۔"

آفاق اور سمیرا سکون کا سانس لیتے ایک دوسرے کو دیکھ کر مبہم سا مسکرائے تھے۔ حالانکہ انیقہ "چشم دید گواہ" تھی پر اس کا وہ حال تھا کہ "مجھے خود اپنی نگاہوں پر اعتبار نہیں" اس کا عذر سن کر بھی عائشہ کہے بغیر نہ رہ سکیں۔

"بہو تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہو تو گئے گزرے بھی اس کے ناز اٹھاتے ہیں۔ اور ہمارے پوتے کی ماں، شوہر کی خبر لینے چوکھٹ پر آئی بھی تو اسے دروازے سے لوٹا دیا۔ تم نے بہت زیادتی کی انیقہ! وجدان کو پتہ چلا ہوگا تو کتنا برا لگا ہوگا اسے کہ آج تک ناراض ہے۔ ٹھیک ہی تھا پھر جو وہ اپنے بچے کو لے کر چلا گیا۔ بھلا وہ اپنے بچے کو اس گھر میں لے کر کیوں آتا جس گھر میں اس کے بچے کی ماں کو پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں ملی۔" "بیتی باتوں کا دکھ کرنے سے کیا ہوگا؟" انہیں ماضی کا افسوس کرتے دیکھ کر مصطفی عظیم نے دھیرے سے کہا، پھر آفاق کی طرف مڑے۔ "تم ایک یقین کرو، ہم سب کو ملیحہ کی جواں مرگی کا بہت افسوس ہے۔ میں تمہارے والد اور تایا سے بھی خود جا کر تعزیت کروں گا۔ بے شک ملیحہ کے انتقال کو طویل مدت گزر چکی ہے، مگر ہمیں تو آج ہی معلوم ہوا ہے کہ وہ تمہاری بہن تھی۔ بلکہ تم مجھے ملیحہ کے والد کا بھی پتہ بتا دو۔ میں ان سے ملنے جاؤں گا۔"

"ایسا سوچیں بھی مت۔" آفاق گھبرا کر بولا۔

"کیوں؟" 

"میں نے بتایا نا، وہ اس رشتے پر خوش نہیں تھے۔" 

"وہ تو تب کی بات تھی۔" مصطفی عظیم الجھ کر بولے۔

"بات اب بھی یہی ہے۔" 

"کیا بیٹی کی موت بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں کر سکی؟" وہ حیرت سے بولے۔ پھر ایک خیال کے تحت پوچھا۔

"وہ ملیحہ کی وفات کے بارے میں تو جانتے ہیں نا؟" 

"ہاں۔ بلکہ وہ ملیحہ کی آخری رسوم میں شامل تھے۔ لیکن انہوں نے ایک بار بھی شایان کی طرف نہیں دیکھا۔" آفاق اس خیال سے جلدی سے بولا کہ کہیں ملیحہ کے جنازے میں بابا جان کی شمولیت کو انکی طرف سے نرمی نہ سمجھ بیٹھیں۔

"حد ہوگئی۔" مصطفیٰ عظیم کو برا لگا تھا۔

"ٹھیک ہے، بچوں سے غلطی ہوگئی تھی۔ مگر اب تو انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ پھر جب بیٹی ہی نہیں رہی تو ناراضی کس بات کی؟"

"آپ نہیں جانتے انکل! پھوپھا جان کی سخت مجازی بے مثال ہے۔ اگر وہ اتنے ضدی نہ ہوتے تھے تو ملیحہ ان کی مرضی کے بعد شادی کیوں کرتی؟ اور آپ کو کیا لگتا ہے، کیا ملیحہ نے اس کے بعد انہیں منانے کی کوشش نہیں کی؟ ملیحہ نے بہت جتن کئے یے کہ وہ وجدان کو قبول کر لیں مگر پھوپھا جان ٹس سے مس نہ ہوئے۔ موت برحق ہے اور ایک دن سب کو مرنا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے، ملیحہ کو پھوپھا جان کی ناراضگی نے موت سے پہلے مار دیا تھا۔ اسے اپنے بابا جان سے بہت محبت تھی۔ وہ ان کی ناراضگی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کر سکی۔ انکی انا پرستی کا اندازہ لگائیں کہ وجدان کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات ہی ملیحہ کے جنازے پر ہوئی تھی اور اس دن بھی انہوں نے وجدان کو مخاطب کرنا گوارا نہیں کیا اور اس دن سے لے کر آج تک انہوں نے ایک بار بھی وجدان سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔"

آفاق یہ سب اس لیے کہہ رہا تھا تاکہ مصطفیٰ عظیم، بابا جان سے ملنے کا خیال ہی ذہن سے جھٹک دیں۔

"وجدان نہ سہی، شایان سے ملنے کو تو دل چاہتا ہوگا۔ آخر ان کا نواسہ ہے، ان کا خون ہے۔" 

"دل چاہتا تو کبھی ملنے نہ آتے؟"  آفاق کی بات نے انہیں چپ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر آزردگی سے بولے۔

"اگر غلطی ہوئی بھی تھی تو ملیحہ اور وجدان سے ہوئی تھی۔ پر سمجھ نہیں آتا، بچے کو کس چیز کی سزا مل رہی ہے کہ وہ سارے رشتوں سے دور رہے؟ مجھ سے پوچھتا ہے، زوار اور مناہل تو ہمیشہ سے آپ کے ساتھ رہتے ہیں، میں کیوں نہیں رہتا تھا؟ کبھی جو دونوں اپنے نانا کے گھر چلے جائیں تو یہ ضد کرنے لگتا ہے کہ مجھے بھی نانا کے پاس جانا ہے۔ اب میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ اس کی قسمت میں ادھورے رشتے ہیں۔ معصوم بچے کا ذہن الجھنوں کا گڑھ بن کر رہ گیا ہے۔"

ان کی بات سن کر آفاق نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ "میں اسے رشتے ہی دینے آیا ہوں۔" پھر وہ کچھ دور بیٹھے شایان سے بولا۔ "نانا کے گھر چلو گے؟"

شایان کا ذہن آس پاس ہو رہی بات چیت کو یاد کرنے اور اس سے نتیجے اخذ کرنے میں لگا تھا، وہ فوری طور پر کچھ نہیں بولا تو آفاق اسے ہاتھ پکڑ کر پاس بلاتے ہوئے بولا۔ "تمہیں امی کی تصویریں دیکھنا اچھا لگتا ہے نا؟" شایان نے زور زور سے سر ہلایا تو آفاق نے جیسے اسے لالچ دیتے ہوئے کہا۔ "میرے پاس تمہاری امی کی بہت ساری تصویریں ہیں۔" 

"آپ امی کے بھائی ہیں؟" عباس نے اپنے ذہن کی بیٹری سٹارٹ کی۔ "آپ مجھے امی کے بارے میں بتائیں گے؟" 

"ہاں۔ لیکن اگر تم میرے گھر چل کر رہنے پر تیار ہو جاؤ، تو...." آفاق کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اچھل کر بولا ۔

"میں آپ کے گھر جاؤں گا۔" پھر سست ہو کر بولا۔ "لیکن ابو سے پوچھنا ہوگا۔"

"تو چلو، ان سے پوچھتے ہیں۔" آفاق اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہوگیا تو عائشہ بولیں۔

"پوچھنا کیا ہے؟ بس جاکر وجدان کو بتا دو۔ تب تک میں اسے تیار کرتی ہوں۔"

"ٹھیک ہے۔" آفاق اس کا ہاتھ چھوڑ کر باہر آگیا۔

وجدان سر دونوں ہاتھوں پر گرائے سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ آفاق اس کے برابر آکر بیٹھا تو وجدان سر اٹھائے بغیر بولا۔

"یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟" 

"ضرورت کو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔"

وجدان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور کہا۔ "میں اسے سمجھا لیتا۔"

"مان لو وجدان! کہ شایان کے ذہن سے ملیحہ کا تصور جدا کرنا تمہارے بس میں نہیں تھا۔"

وجدان بےبسی سے چہرہ موڑ کر کر سامنے دیکھنے لگا، پھر تھکن بھری آواز میں بولا۔ "میں منیر انکل اور افتخار انکل کا سامنا کیسے کروں گا؟" 

"عادت ہو جائے گی۔" آفاق کے لہجے میں لاپرواہی تھی۔

"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔" وجدان نے ملامت کی۔

"تو اور کیا کرتا؟" آفاق چڑ گیا۔

"اس دن جب شایان، ملیحہ کو امی کہہ کر تصویریں دکھا رہا تھا تو وہاں جواد اور فائزہ بھی تھے جو ملیحہ کو دوسرے حوالے سے جانتے ہیں۔ وہ تو شکر تھا کہ انہوں نے ملیحہ کو نہیں پہچانا لیکن شکر کرنے کا یہ موقع ہمیشہ نہیں ملتا۔ پھر تم کیا کرتے؟" 

وجدان نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ خاموشی کی اس دیوار کو شایان کی آواز نے توڑا جو "ابو، ابو" پکارتا ان دونوں کی طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ قریب آنے پر وہ اپنی اسپیڈ کم کئے بغیر وجدان کے سینے میں گھس گیا تو وجدان ہلکے سے دھکے سے پیچھے ہوگیا۔ پھر اسکے سر پر چپت لگا کر بولا۔

"بریک تو لگا لیا کرو۔"

مگر وہ اپنی ہی کہنے لگا۔ "پتہ ہے ابو! ماموں کہہ رہے ہیں، وہ مجھے نانا کے گھر لے کر جائیں گے۔"

وجدان ہکا بکا رہ گیا۔ پھر حواس باختہ سا آفاق سے بولا۔ "تم اسے بابا جان کے گھر لے کر جارہے ہو؟" 

آفاق بدکا۔ "میری شامت آئی ہے؟ اسے وہاں لے کر گیا تو پھوپھا جان مجھے جان سے مار دیں گے۔"

"مجھے انکے گھر جانا بھی نہیں۔" شایان کے ناراضی سے کہنے پر وہ دونوں اسے دیکھنے لگے۔

"کیوں بھئی؟" آفاق نے دلچسپی سے پوچھا تو وہ بد ستور منہ پھلائے کہنے لگا۔

"انہوں نے امی کو ڈانٹا تھا۔ وہ گندے ہیں۔"

"ایسا نہیں بولتے۔" وجدان نے فورا ٹوکا جبکہ آفاق نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا۔

"جب یہ اس طرح سے باتیں کرتا ہے تو مجھے یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ ملیحہ کا ہی بیٹا ہے۔"

وجدان دانستہ تبصرے سے گریز کرتے ہوئے بولا۔ "اچھا سنو! تم اسے لے کر جارہے ہو تو واپس کب تک چھوڑنے آؤگے؟" 

"پہلی بار ملیحہ کا بیٹا بن کر میرے گھر جا رہا ہے۔ دس بارہ دن تو روکے گا ہی۔"

"میں شایان کے بغیر اتنے دن نہیں رہ سکتا۔" وجدان تیزی سے بولا۔ "زیادہ سے زیادہ دو دن۔ پرسوں شام میں اسے واپس چھوڑ جانا۔" 

"دیکھیں گے۔"آفاق نے بے نیازی سے کہا تو وجدان انگلی دکھا کر بولا۔ 

"اگر تم اسے چھوڑنے نہیں آئے تو میں خود اسے لینے آجاؤں گا۔"

"کہا نا، دیکھیں گے۔" آفاق کا انداز ہنوز وہی تھا۔

پھر سارا وقت وجدان اسے یہی تاکید کرتا رہا کہ ایک دو دن کے بعد وہ شایان کو بھیج دے اور آفاق بھی لاپرواہی سے سر ہلاتا رہا۔

رات کے کھانے کے بعد جب وہ جانے لگے تو سب انھیں گاڑی تک چھوڑنے باہر آگئے۔ رخصت کے لیے ہاتھ ملاتے ہوئے وجدان پھر سے تاکید کرنے لگا۔ 

"بس کل کا دن کافی ہے، پرسوں اسے لے آنا۔"

آفاق چڑھ کر عائشہ سے بولا۔ "آنٹی! اس کا بیگ بھی تیار کردیں۔" تو وجدان نے بے بسی سے کہا۔

"مذاق مت کرو۔ میں واقعی شایان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے کبھی ایک دن کے لئے بھی اسے خود سے الگ نہیں کیا اور وہ میرے بغیر اداس ہو جائے گا۔"

"ہاں یہ تو ہے۔ بلکہ دیکھو، وہ ابھی سے اداس ہوگیا ہے۔" اس نے گاڑی کی طرف دیکھا، جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر شایان بیٹھا اسٹیئرنگ سے کھیل رہا تھا۔ 

"تم بہت ہی بد تمیز انسان ہو۔" اور گاڑی کے پاس آکر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر پاؤں باہر رکھے اندر سیٹ پر بیٹھتے ہوئے شایان کو بازوؤں میں جکڑ کر سینے سے لگا کے پیار کرتے ہوئے بولا۔

"وہاں جا کر شرارت مت کرنا۔ اور اداس ہوجاؤ تو ماموں سے کہہ دینا۔ اور تمہیں میرے پاس لے آئیں گے۔" پھر سمیرہ سے کہنے لگا۔ "بھابی! ذرا خیال رکھیں۔ یہ سارا وقت کھیلتا نہ رہے۔ اس کا ایڈمیشن ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ کھانے کا بھی دھیان رکھیں۔ یہ ٹائم پر کھانا نہیں کھاتا اور دودھ سے تو بھاگتا ہے۔ آپ کو زبردستی پلانا پڑے گا۔" 

"تم بالکل فکر مت کرو۔ میں شایان کا پورا خیال رکھوں گی۔" سمیرا نے اسے مطمئن کرنے کو کہا۔ تبھی آفاق جو دروازے میں جھک کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا، وجدان کے کندھے پر ہاتھ مار کر متوجہ کرتے ہوئے بولا۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Aatish Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Aatish written by Sadia Rajpoot.Ishq Aatish by Sadia Rajpoot is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages