Junoon E Ishq Season 1 By Zainab Rajpoot New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 25 August 2024

Junoon E Ishq Season 1 By Zainab Rajpoot New Complete Romantic Novel

Junoon E Ishq Season 1 By Zainab Rajpoot New Complete Romantic  Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Junoon E Ishq Season 1 By Zainab Rajpoot New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Junoon E Ishq Season 1

Writer Name: Zainab Rajpoot

Category: Complete Novel

" وہ مسلسل تیز تیز ہاتھ چلاتا فٹبال کو مہارت کے ساتھ آگے پیچھے کرتا سامنے سے آتے جیک کو دیکھتے ایک سیکنڈ میں بال کو رائٹ پاؤں سے نکالتے ہوا میں اچھالتے خود بھی ٹرن کرتا آگے کی جانب بڑھا"""

جیک منہ کھولے حیرانگی سے اسے دیکھتا رہا جو کہ بڑی تیزی سے آگے بڑھتا گول کر چکا تھا۔۔"

یا ہو۔۔۔۔۔وی وی ۔۔۔۔ وہاں بیٹھے سبھی لوگوں میں سے تقریباً لڑکیاں چیختے ہوئے  اسے سراہ رہی تھیں !!"

وری تم یہاں کیا کر رہے ہو ، میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔"  رافح جو کہ کب سے ساری یونی میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا ،اسے گروائنڈ میں آرام سے کھیلتے دیکھ غصے سے بولا۔۔۔۔"

کیا ہوا یار میں بور ہو رہا تھا۔۔" ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل سر پر انڈیلتے وہ لاپرواہی سے بولا۔۔۔۔"

ہیے وی۔۔۔۔" 

ڈارلنگ کم ہیئر ۔۔۔ہاو آر یو۔۔۔" ابھی وہ کچھ کہتا اس سے پہلے ہی پیچھے سے آتی  ماریا کی آواز پر وری ، رافح کو اگنور کرتا ماریا کی جانب بڑھا۔۔"

میں نے تمہیں بہت مس کیا،ماریا ایک دم سے وری کو ہگ کرتی اسے بتانے لگی۔۔"

می ٹو جان۔۔۔کیسا رہا تمہارا ٹور۔۔" وری اسے ہگ کرتا بولا،،، جبکہ وہ ایک نظر رافح کے اکتائے ہوئے چہرے پر ڈال چکا تھا۔

وری کے دیکھتے ہی رافح نے اسے ناں میں گردن ہلاتے ماریا کو چھوڑنے کا کہا جو کہ ہنوز اس سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔"

جبکہ وری ،رافح کے غصے سے سرخ چہرے کو دیکھتے اور ٹائٹلی ہگ کرتے ایک آنکھ دباتے مسکراتے رافح کو دیکھنے لگا ، جو کہ بکس کو غصے سے بازوؤں میں آگے پیچھے کرتے  اپنے بلاگ کی جانب بڑھا۔۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" اے لڑکی۔۔۔۔  کب سے توں  اندر گھسی ہے ابھی تک ناشتہ نہیں بنا!!!!" 

" بس تائی امی بن گیا ہے میں لگانے لگی ہوں  ٹیبل پر۔۔۔۔وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی تائی کو ڈرتے دیکھنے لگی۔۔"

ہاں ہاں میڈم جلدی کرو ،میرے بچے بیچارے کب سے بھوکے ہیں۔۔۔" اور ایک یہ میڈم ایسے منہ بناتی ہے جیسے پتہ نہیں کتنا ظلم ہو رہا ہے۔۔۔"

خود ہی سے کہتے وہ باہر کی جانب بڑھی،جبکہ پیچھے نینہ نے شکر بھرا گہرا سانس لیا۔۔۔" چلو  تو اس کی جان چھوٹی۔۔۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

            السلام وعلیکم!!  بی جان کیسی ہیں آپ اور کیسی طبیعت ہے آپ کی۔۔؟؟؟؟"

میں تو ٹھیک ہوں بیٹا شکر ہے اللہ پاک کا ، تم سناؤ آج اتنے سالوں بعد بھوڑی ماں کی یاد آ گئی۔۔"

نا چاہتے ہوئے بھی رضیہ بیگم کی زبان سے شکوہ بھرے الفاظ پھسلے،،،"

معاف کر دیں بی جان جانتی ہوں بہت بری ہوں میں!!! مگر میرا رب گواہ ہے کہ میں نے آپ کو ہر چلتی سانس کے ساتھ یاد کیا ہے۔۔۔"

وہ جانتی تھی کہ غلطی ان کی ہے آج اتنے برس بعد خود کو نا روک پاتے دل سے مجبور ہوتے اپنی ماں کو کال کی تھی ۔۔۔" جن کا شکوہ انہیں  اندر سے توڑ رہا تھا۔۔"

جانتی ہوں میں شمائلہ تمہیں کتنی پرواہ ہے ماں کی  ، تم بھی اپنے بھائیوں کی طرح ہی بےحس ہو؛؛ بس ایک میرا ولید ہی تھا جسے میری پرواہ تھا۔۔" خود پر سے قابو کھوتے وہ ناجانے کس کس اذیت ،تکلیف کے آنسوں اپنی بیٹی کے سامنے بہا گئی ،،" جو کہ خود ان کی روندھی آواز پر تڑپ اٹھی۔۔"

بی جان !!! خدا کے لیے مجھ گناہ گار کو اور مت تڑپائیں۔۔۔ معاف کر دیں مجھے ، اب اور نہیں رہ سکتی میں آپ کے بغیر۔۔۔"

اگر ماں کی اتنی ہی پرواہ ہے تو آ جاؤ میری ممتا کی تڑپ کو ختم کر دو، میرے بےچین دل کو راحت بخش دو۔۔۔" 

" وہ ماں تھیں کہاں اپنی بیٹی کی تکلیف برداشت کرتی؛ خود سے دور اپنی بیٹی کی تڑپ کو محسوس کرتے وہ ہارتے اسے اپنی ممتا کے سائے میں بلانے لگی۔۔۔"

       " مگر  بی جان۔۔۔۔"

" اگر مگر کچھ نہیں جو کہہ دیا وہ کرو، اگر کر سکتی ہو  باقی تمہاری ماں ہے ابھی۔۔۔" وہ حتمی انداز میں بات کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔۔۔"

بی جان میری بیٹی کیسی ہے۔۔۔۔"  کچھ وقت خاموشی سے گزرتے وہ تڑپ کر اس کا پوچھتی بی جان کو سسکنے پر مجبور کر گئیں"..

آ جاؤ خود دیکھ لو آ کر۔۔۔"۔  ان کی سسکاری کے پیچھے چھپے غم کو بھانپتے وہ فون آف کرتے اندر روم کی جانب روتے ہوئے بڑھی۔۔۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥⁩ 

"مسٹر وریام واٹ آر یو ڈوئنگ۔۔۔"  کب سے غصے کو کنٹرول کرتے وہ اب ناچاہتے ہوئے بھی اس پر چلائے۔۔"

می سر۔۔۔" میں نے کیا کیا ہے سرررررر!!!!" سر پر زور دیتے وہ پروفیسر مارک کا غصے سے لال بھبھوکا چہرہ دیکھتے معصومیت سے بولا۔۔

اچھا کیا کیا ہے آپ نے،،، مس عیشا کے ہاتھ میں ایسا کیا ہے جو آپ آدھے گھنٹے سے دیکھ رہے ہیں بتانا پسند کریں گے۔۔۔" انگلش میں کہتے وہ اس سے جواب طلب کرنے لگے جو کہ کھڑا تو ہوا تھا جگہ پر سے، مگر عیشا کا ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔۔۔"

     " سر ایش کا ہاتھ بہت بیوٹیفل ہے بس اسی لیے دیکھ رہا ہوں۔۔۔"  اپنے گولڈن سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ عیشا کے ہاتھ کو پھر سے دیکھتے بولا، جبکہ پروفیسر کا اس کے جواب پر غصے سے  برا حال تھا۔۔۔"

پوری کلاس ہمیشہ کی طرح وی کی حرکتوں پر دبی دبی ہنسی ہنسے --- دل تو سب کا قہقہہ لگانے کا کر رہا تھا ،مگر جانتے تھے کہ وریام عرف وی کو اگر پتا چلا کہ وہ اس کی بات پر بغیر اسکی اجازت ہنسے ہیں ،، تو بعد میں ان کی درگت پکی ہے۔۔"

گیٹ آؤٹ فرام مائی کلاس۔۔۔" باہر کی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے وہ اسے جانے کا کہنے لگے۔۔۔"

تھینکس آ لاٹ  سرررر۔۔۔" معدب سا سر جھکاتے وہ شکریہ کرتا اپنی بکس رافع کی طرف پھینکتے خود ایش کا ہاتھ پکڑے روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔"

جبکہ پیچھے پروفیسر رافع کی طرف دیکھتے افسوس سے سر ہلا گئے جو کہ خود شرمندہ ہوتا سر جھکا گیا ۔۔۔۔۔"

یار اتنی لیٹ کیوں آئی ہو ، میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں؛ "

تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے تم جانتی نہیں میرے لیٹ آنے کی وجہ صبا۔۔" نینہ صبا کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتے دکھی لہجے میں بولی۔"

میرا ایسا مطلب نہیں تھا یار۔۔۔۔ایم سوری۔۔۔۔" صبا فوراً سے نینہ کو دیکھتے صفائی دینے لگی".

اور یہ سچ بھی تھا وہ اچھے سے جانتی تھی ،کہ نینہ کے گھر میں کتنے مسائل ہیں اور سب سے بڑھ کر اسے نینہ کے ساتھ اس کے گھر  والوں کے رویے پر دکھ تھا،،اور دکھ کے علاؤہ وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔"

اچھا چلو یار چھوڑو سب چلو مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھاتے ہیں اور ویسے بھی پہلے پیریڈ میں ابھی ٹائم ہے۔۔۔"

صبا بہانے سے اسے اپنے ساتھ کینٹین کی جانب کھینچتے ہوئے بولی ،جانتی جو تھی کہ نینہ نے کچھ نہیں۔ کھایا ہو گا۔۔"

میری دعا ہے نینو !! دیکھنا ایک دن کوئی شہزادہ آئے اور تمہیں ان سب ظالموں سے بچا کے لے جائے گا۔۔۔"

ایک جذب کے عالم میں کہتے صبا نے کافی کا سپ لیتے نینہ کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔"

آ ہی نا جائے کوئی۔۔۔ مجھ بدنصیب کی زندگی میں۔۔۔۔"

سر جھٹکتے ہوئے نینہ نے اپنی انکھوں میں آئی نمی کو  ہاتھ کی پشت سے  بے دردی سے صاف کیا۔۔۔"

نینو یار تم اللہ نے نا امید مت ہو،دیکھنا اللہ نے تمہارے نصیب میں ضرور اچھا ہی لکھا ہو گا، 

"بالکل سویٹ ،کئیرینگ، ہینڈسم اور  ڈیشنگ۔۔۔ 

جب آئے گا دیکھیں گے ابھی اٹھو جلدی کرو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔"

صبا کو خیالوں میں کھوئے دیکھ وہ اس کے سر پر چپیت لگاتی اسے ہوش میں لانے لگی۔۔۔"

وہ بھی انشاء اللہ کہتی دوڑتی ہوئی نینہ کے پیچھے بھاگی جو کہ اپنے بلاک کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" یہ کونسا طریقہ ہے؟ " وری ۔۔۔۔

آواز پر وریام نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں ایک ہاتھ میں بکس لیے جبکہ دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے رافع عام سے انداز میں کھڑا مگر غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔۔"

ڈارلنگ جسٹ ٹین مینٹس۔۔۔۔۔" وریام ایشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا  ،جو کہ انتہائی ناگوار شارٹ ڈریس میں بیہودگی سے جاتے ہوئے وریام کے گال پر کس کرتی ہوئی ایک غصے بھری نظر رافع پہ ڈالتے وہاں سے نکلی۔۔۔۔ 

رافی میری جان میرے جگر کیا ہوا۔۔۔۔" انتہائی معصومیت سے رافع کے لال انگارا ہوتے چہرے کو دیکھتے وہ عام انداز میں کہتے اسے مزید سلگا گیا۔۔۔۔"

تم کلاس سے باہر کیوں آئے اور یہ کونسا طریقہ ہے سر سے بات کرنے کا۔۔۔۔" 

خود پہ قابو پاتے وہ لہجہ نارمل رکھتے اپنی کام کی بات پوچھنے لگا ،جس کی وجہ سے وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔۔"۔ 

سر نے خود آفر کیا تھا سو میں سر کی آفر کیسے ٹھکراتا۔۔۔۔"کندھے "

"اچکاتے  کہتے وہ اسے مزید طیش دلا گیا۔۔۔۔ 

اچھا اس بات کو چھوڑو مجھے یہ بتاؤ کب تک یوں ہی ان  لڑکیوں کے ساتھ ایسے ہی منہ مارتے رہو گے، تم جانتے ہو انکل اور آنٹی  دونوں کتنے پریشان ہیں تیری وجہ سے"

اور ایک تم ہو جسے قدر تو دور ان کی فکر تک نہیں۔۔۔"آخری سمیسٹر ہے ہمارا اور اگر تم فیل ہو گئے تو پھر کیا کرو گے ۔۔۔۔اس لیے ان فضول حرکتوں کو چھوڑو اور پڑھائی پر توجہ دو۔۔۔۔"

وہ دونوں اس وقت یونی کے پارکنگ ایریا میں کھڑے تھے جہاں سٹوڈنٹس زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے رافع اس پر اپنی جی بھر کے بھڑاس نکال رہا تھا۔۔۔۔۔"

ہممم ۔۔۔۔۔لمبا ہنکارہ بھرتے ہوئے وریام نے بات کا آغاز کیا۔۔۔"

پہلی بات تو یہ کہ میں پڑھوں یا پھر ناں مجھے پتہ ہے کہ پاپا کا بزنس مجھے ہی سنبھالنا ہے ،،

اور دوسری اور سب سے ضروری بات ۔۔۔۔۔وریام مرتضیٰ  کاظمی اتنی گری پڑی چیز نہیں جو جگہ جگہ منہ مارے ،،،یہ لڑکیاں خود میرے قریب آتی ہیں میں خود آج تک کسی کے قریب نہیں گیا اور تممم تہ بات اچھے سے جانتے ہو۔۔۔۔۔"

اور ویسے بھی میرا ٹیسٹ اتنا برا نہیں جو جگہ جگہ منہ ماروں۔۔۔اور شاید ہی اس دنیا میں کوئی ایسی ہو گی۔ 

جسے وریام مرتضٰی کاظمی منہ لگائے گا اور وہ بھی خود سے۔۔۔۔۔۔" ایک آنکھ دبا کر بے باکی سے کہتے وہ رافع کے شاکڈ کھلے منہ کو دیکھتے اسے سی یو کہتا اپر اتار کر ہاتھ میں پکڑتا  اپنی برینڈ نیو لیموزین میں بیٹھتا رافع کی آنکھوں سے اوجھل ہوا۔۔۔۔۔"

پیچھے رافع ابھی تک شاکڈ تھا،وہ اس کا بچپن کا دوست تھا دونوں کی عادتیں چاہے جتنی مرضی مختلف تھیں مگر دوستی میں وہ ایک جان کی طرح تھے۔۔"

وریام کی ساری باتوں کو وہ اچھے سے جانتا اور مانتا بھی تھا مگر ابھی وہ شاکڈ  وریام کی اتنی بے باکی سے کہی باتوں  پر تھا ۔۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس کی بات کا مطلب ایسے نکالے گا اور اسے ایسے لاجواب کرے گا۔۔۔۔"

  ایک نظر ہاتھ میں پکڑی بکس پر ڈالتے وہ بھی اپنی کار کی جانب بڑھا۔۔۔"

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"ہائے مما ۔۔۔۔میں باہر جا رہی ہوں دوستوں کے ساتھ اوٹنگ پر۔۔ رات کو دیر ہو جائے گی پلیز غصہ مت ہونا۔۔۔۔۔

تمہارا دماغ خراب ہے کیا رمشہ آگے ہی تمہارے بھائی کے سر پر نینہ سے شادی کا بھوت چڑھا ہوا ہے اور ایک تم نے مجھے عذاب میں۔ ڈالا ہوا ہے کیا جواب دوں میں تمہارے باپ کو ،،،غصے سے پاگل ہوتے سلمیٰ بیگم ایک دم بیٹی پر بھڑک اٹھی۔۔۔۔"

ایک منٹ مما" یہ بھائی کو کیا ہوا ہے اور کب کہا انہوں نے کہ وہ نینہ میں انٹرسٹڈ ہیں۔۔۔۔"رمشہ ماں کی ڈانٹ کو نظر انداز کرتی بھائی کی کہی بات پر جھلستی ماں سے پوچھنے لگی۔۔۔"

ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تھا اور صاف کہہ کر گیا ہے کہ شادی کروں گا تو صرف اور صرف نینہ سے۔۔۔۔" سلمیٰ بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ نینہ کو آگ لگا دیتی ،وہ تو ویسے ہی اس کے وجود کو اس گھر میں۔ برداشت نہیں کر سکتی تھی کجا کہ بہو بنانا۔۔۔۔"

دیکھا مما ۔۔۔میں نہیں کہتی تھی پھانس لیا اس نے بھائی کو اپنے جال میں ،جتنی معصوم دکھتی ہے اتنی ہے نہیں۔۔۔"

اور اوپر سے ہے بھی اتنی خوبصورت ۔۔۔۔کچھ کریں اس کا ،اس سے پہلے کے معاملہ ہاتھ سے نکلے کسی بڈھے سے شادی کر کے رفع دفع کریں اسے۔۔۔۔۔"

رمشہ جلتی بھنتی ،طیش میں ماں کو اس کے خلاف بھڑکانے لگی۔، نینہ کی خوبصورتی ہی اس کی سب سے بڑی دشمن تھی۔

اور سب کی نفرت بھی کچھ اسی وجہ سے زیادہ بڑھتی۔ تھی۔۔۔۔"

کچھ کرتی ہوں میں اس بلا کا۔۔۔۔"  غصے اور تنفر سے کہتے وہ اس یتیم کے لیے مزید کانٹے بچھانے کی سوچتی مکرو ہنسی ہنسی۔۔۔۔۔"۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہائے لیلیٰ ۔۔۔اپنے پیچھے سے آتی آواز پر لیلیٰ نے مڑ کر دیکھا ،جہاں سوزی اسے دیکھتے ہوئے وش کرتی اس کے پاس ائی۔۔"

" میں تو ٹھیک ہوں سویٹ ہارٹ!! تم سناؤ۔" ایک ادا سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے وہ گویا ہوئی۔۔"

ابھی وہ کوئی جواب دیتی اس سے پہلے ہی دونوں کلب میں ایک دم سے ہوتے شور پر دوسری جانب متوجہ ہوئیں،جہاں پر سامنے ہی وی اپنے محسوس انداز میں کھڑا لڑکیوں سے باتیں کر رہا تھا۔۔" 

" ہائے یاررر " He is so hot" سوزی نے وی کی طرف دیکھتے ہوئے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔"

" لیلیٰ نے بھی ایک نظر اس کی تیاری پر ڈالی ،جو اس وقت  بلیو شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہنے ہوئے تھا، سرخ وسفید رنگت، بھوری آنکھیں،کھڑی مغرور ناک،ادرے درمیانے بھرے بھرے ہونٹ،  جیل سے سیٹ کیے بھورے بالوں کے ساتھ  اس کی شخصیت کسی ساحر سے کم نا تھی۔"

وہ وہاں موجود ہر لڑکی کا کرش تھا ،جو بری طرح سے اس پر فدا تھیں۔"

" یار دیکھ سب کیسے اس کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں۔ " سوزی نے لیلیٰ کے لال بھبوکا چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔"

" چاہے کوئی کچھ بھی کر لے مگر لیلیٰ کی جگہ کبھی بھی نہیں لے سکتا ۔وہ غصے سے بولتی ہاتھ میں پکڑا وائن کا گلاس ایک سانس میں پیتے دوسرا اٹھا گئی۔۔"

" اگر ایسی بات ہے ،اور وی کے لیے تم واقعی میں اتنی امپورٹنٹ ہو تو آج اسے سب کے سامنے کس کر کے دکھاو،اگر اس نے کوئی غلط ریکشن ناں دیا تو میں مان جاؤ گی کہ تم ٹھیک ہو،سوزی نے طنزیہ کہتے ہوئے رخ پھیرا وہ جانتی تھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔۔۔"

اوکے  یو ویٹ اینڈ واچ۔۔۔" میں ابھی آتی ہوں اپنی خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے وہ کہتے ساتھ ہی وی کی جانب بڑھی۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" کمرے میں داخل ہوتے ہی تاریکی نے انکا استقبال کیا،وہ لائٹس آن کرتے آگے بڑھے جہاں انکی متاعِ جاں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔"

شمائلہ کیا ہوا ہے آپ ٹھیک ہے، بے چینی سے پوچھتے وہ ان کے پاس بیٹھے۔۔۔"

رضا مم مجھے بی جان سے ملنا ہے۔ اپنی رونے کی وجہ سے سرخ ہوتی آنکھیں کھولتے وہ انکی طرف دیکھتی کہتے ساتھ ہی سسک اٹھی۔۔"

آپ جانتی ہیں کہ ایسا ممکن نہیں، انگلیوں کے پوروں سے انکے آنسوں چنتے ہوئے وہ پیار سے بولے۔۔"

مم میری بات ہوئی ہے آج بی جان بہت تڑپتی ہیں میرے لیے ، مجھے لے چلیں ،کوئج پرواہ نہیں مجھے چاہے کوئی کچھ بھی کہے۔۔"

انکے کندھے پر سر ٹکراتے وہ ضد کرتے ہوئے بولی۔۔"

وہ نہیں مانے گا، شکست ہوردہ لہجے میں کہتے انہوں ثگویا ساری امید توڑی ، مگر شمائلہ کی امید اب بھی قائم تھی۔۔"

" میں منا لوں گی اسے آپ بس بتائیں لے جائیں گے ناں مجھے، سر اٹھاتے ہوئے وہ مان سے پوچھنے لگیں۔۔"

ضرور لے جاؤں گا میں جان ۔۔" مگر اب آپ روئیں گی نہیں، پیار سے انکا چہرہ سامنے کرتے کہتے ساتھ ہی وہ انکے آنسوں صاف کرنے لگے ۔"

 وہ بھی مسکراتی سر ہلا کر انکے سینے سے لگی ۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

آپ یہ یہاں  پپ پر کک کیسے ۔۔۔" سفید پڑتے چہرے سے اپنے ڈر پر قابو پاتے بمشکل بول پائی۔۔"

"کیوں میں تمہیں یونی لینے نہیں آ سکتا ، چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ اس کے چہرے کو فوکس کرتا ہوا بولا،،"

نن نہیں ایسی بب بات نن نہیں ہے رضوان بھائی آپ آ سکتے ہیں۔۔۔"  سامنے والی کی خود پر اٹھتی نگاہوں سے جز بز ہوتی وہ بمشکل سے بولی۔۔" 

" تو پھر ڈر کیوں رہی ہو۔۔"  گہری مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ اس کی طرف قدم اٹھانے لگا ،جو خوف اور وخشت سے اپنے قدم پیچھے کی جانب اٹھانے لگی۔۔۔""

" بیٹھو گاڑی میں،،" اسکے کپکپاتے وجود کو دیکھتے ہوئے وہ خود پیچھے ہوتا گویا ہوا۔۔"

دوسری جانب نیناں نے بنا تاخیر کیے دوپٹے کو مضبوطی سے تھامتے گاڑی کا ڈور اوپن کرتی اندر بیٹھی۔۔"

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کیا ہوا تم تو آج مجھے وریام عرف وی سے ملوانے والی تھی، وہ لاپرواہی سے کہتے پیشا کا بائٹ لیتے ہوئے بولی۔۔۔"

" آج وہ یونی نہیں آتا یو ڈونٹ وری کل ضرور ملواؤں گی۔۔" ردا نے اپنے سامنے بیٹھی آیت کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔"

" وہ نیو کمرز تھیں ایک ہفتہ پہلے انکا ایڈمیشن یو ایس کی اس فیمس یونی میں ہوا تھا، مگر یونی میں ایک بات سے وہ کافی چڑ چکی تھیں اور وہ تھا ،ہر لڑکی کی زباں پر وی کا نام۔۔۔۔"

" اسی لیے آیت بھی بے صبری سے وی کو دیکھنے کے لیے مری جا رہی تھی ،وجہ صرف یہ تھی کہ وہ خود دیکھ کے تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ سچ میں وہ اتنا خوبصورت ہے جتنا سنا ہے یا پھر ان سب لڑکیوں کی نظر کمزور ہے۔۔۔"

" تیار رہنا کل وہ ضرور آئے گا ،اور اپنی زبان کے تیکھے گن اسے کم دکھانا اوکے۔ ،" ردا نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ، 

" ہاہاہاہا تم کیوں ایسے کر رہی ہو جان ،پریشان ناں ہو تم میں بڑی شریف بچی ہوں،کچھ بھی نہیں کروں گی،، معصومیت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہتے وہ اپنے پیزا اور کولڈ ڈرنک کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔"

جبکہ ردا بھی دعا کرتی سر ہلا کہ رہ گئی۔۔۔۔"

"ہائے وی ہاؤ آر یو ( کیسے ہو تم)؟؟"

اپنے پیچھے سے آتی جانی پہچانی آواز پر اسکے ماتھے  پر بل نمودار ہوئے، مگر جلد ہی خود کو کمپوز کرتے ہوئے وہ پیچھے مڑا۔۔"

" ہیے لیلیٰ ۔۔۔ایم فائن اینڈ یو ۔؟؟" پھیکی سی مسکراہٹ سجائے  وہ  لیلیٰ سے مخاطب ہوا۔۔۔"

وی ڈارلنگ میں ابھی آتی ہوں اوکے ۔۔۔ وریام کو لیلیٰ کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ جیس جو کہ ابھی ہی کچھ دن پہلے وی کی گرل فرینڈ بنی تھی ،، مسکراتے اسکے گال پر  کس کرتی کہتے وہاں سے نکلی۔  "

" اسکے جاتے ہی وریام نے اپنے رومال کو جیب سے نکالتے گال پر پڑے لپ  اسٹک کے نشان کو صاف کرتے ،پاوں میں پھینکا..."

Can we have a dance plzz !!!"

منت بھرے لہجے میں کہتے لیلیٰ نے اپنا ہاتھ وریام کے آگے کیا ،جسے شیور کہتا وہ تھام کر اسے لیے ڈانسنگ  فلور کی جانب بڑھا۔۔"

" انگلش سونگ کے لئریکس پر وہ لیلیٰ کو آہستہ سے موو کرواتے کسی ماہر ڈانسر کی طرح ایک جھٹکے سے اسے گھماتے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتا اپنے قریب کر چکا تھا، اتنا کہ لیلیٰ کو اسکی گرم سانسیں خود پر محسوس ہو رہی تھیں ۔"

نشے میں مدہوش وہ وریام کے گلے میں دونوں بازوؤں حائل کر گئی۔۔۔"

وی وہاں دیکھو ۔۔"

لیلیٰ کے کہنے پر وریام نے ائبرو اچکاتے ہوئے اسے دیکھتے پیچھے دیکھا ،جہاں ایک کپل کسنگ سین کر رہا تھا۔" 

" یہ سب کچھ یو ایس جیسے ممالک کے لیے عام سی بات تھی، اسی لیے کوئی بھی کسی پر اتنی توجہ نہیں دیتا تھا۔۔"

لیلیٰ کے اشارے کو سمجھتے ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے وی کے چہرے کا طواف کیا، مگر اسکی مسکراہٹ میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ لیلیٰ بھی ایک پل کو چونکی، وہ ایک جھٹکے سے لیلیٰ کو خود سے دور کرتا گھماتے اسکی پشت اپنے سینے سے لگا گیا۔ گویا 

آج ثابت ہوا کہ تمہارا ضبط بس یہی تک تھا۔ ۔"

سرد آواز میں لیلیٰ کے کان میں سرگوشی کرتے وہ اسکے حواس جھنجھلا گیا۔۔"

" مجھے اپنی سانسیں اپنی قربت کسی ایسی لڑکی میں ویسٹ نہیں کرنی جو جگہ جگہ منہ مارتی پھرے ، ایک سے دل بھر گیا تو دوسرا تو ہے ناں۔۔۔" 

" تم سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہو، لڑکا دیکھا نہیں کہ اپنی ادائیں دکھانی شروع کر دیں۔۔۔ مگر مجھے عام سمجھ کر تم نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے،مس لیلیٰ، میں تمہارے چھوڑے پہلے تین بوائے فرینڈز کی طرح نہیں ہوں ۔میں وریام ہوں ۔۔۔وریام رضا کاظمی۔۔۔ یاد رکھنا"

  " میں تو اپنی زندگی میں شامل ہونے والی بے جان اشیاء کی بھی پوری انفارمیشن رکھتا ہوں ،تم تو پھر بھی بے کار سی یوز لیس لڑکی ہو۔۔۔"  طنزیہ انداز میں اسکے کان کے قریب سرگوشی میں سور کی صورت میں  بے عزتی پھونکتے وہ ایک دم سے دھکا دیتے ہوے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے کھڑا ہوا۔۔۔"

" میوزک کے رکتے ہی سرگوشیاں شروع ہوئیں،  اپنے ساتھ ہوئے اس قدر برے سلوک پر وہ ہائی ہیلز کی وجہ سے ٹھیک سے کھڑی بھی ناں ہو پائی ،وہیں بیٹھے اس نے ایک نظر اس مغرور شخص کو ریکھا۔۔۔'"

  " مجھے شدت سے انتظار رہے گا اس دن کا جب میں یہ الفاظ خود تمہارے منہ پر ماروں گی۔۔۔"

اسکی غصے سے بھری آواز پر وی کے قدم تھمے، ایک گہری مسکراہٹ نے اسکے چہرے کا احاطہ کیا،، وہ سمجھ گیا لیلیٰ کی بات کا مطلب۔۔۔اسی  لیے تو چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ تھی، وہ خود جانتا تھا کہ آج کل کے دور میں ایسی بات ناممکن سی ہے کی کوئی پاکباز لڑکی وریام کو ملے۔۔

" فکر نہیں کرو جان تمہیں سپیشل بلواں گا۔،، آنکھ دباتے ہوئے کہتے اس نے ایک کھلا سانس ہوا کے سپرد کیا۔۔۔"

" گویا وہ خوش تھا کہ آج کا ٹارگٹ وہ پورا کر چکا تھا لیلیٰ نامی چھپکلی کو اپنی زندگی سے نکالنے کا،، ٹائم دیکھتے اس نے اپنی ہیوی بائک سٹارٹ کی اور ہوا سے باتیں کرتا ہوا منزل پر روانہ ہوا۔۔۔۔۔

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" آ گئی میری جان۔۔۔ جی آ گئی بی جان ۔۔۔۔"

کیا ہوا ہے میری شہزادی کا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے،،" اپنی گود میں سر رکھتے لیٹی ہوئی آنیہ کے غصے سے لال ہوتے چہرے اور پھولی گالوں کو دیکھتے ہوئے وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔۔۔"

" بی جان آج پھر آپکا پوتا مجھے لینے گیا تھا یونی ، جبکہ میں منع بھی کیا ہے کہ مجھے حسن بھائی کے ساتھ کہیں بھی آنا جانا نہیں ہے  ! آپ کو پتہ ہے تائی جان نے اتنی باتیں سنائیں ہیں مجھے۔۔۔۔'"

" وہ روتے ہوئے کہتی سیدھا ہوتے بیٹھی اور اپنی تائی کی ڈانٹ کی بابت بی جان کو بتانے لگی، جو کہ اسے حسن کے ساتھ آتا دیکھتے ہی اسے ناجانے کون کون سے  الزامات سے نواز رہی تھی ۔۔"

بیٹا وہ بڑی ہے تمہاری اگر کچھ کہ بھی دے تو برداشت کرنا سیکھو میری جان،، پیار سے نیناں کی پیشانی چومتے ہوئے وہ اسے پیار سے سمجھانے لگی ۔۔"

بی جان کیا واقعی ہی  میں منحوس ہوں ؟؟ کیا میری وجہ سے میری ماما مجھے اس دنیا میں لاتے ہی چھوڑ کر چلی گئیں ۔۔" اور  پھر بابا بھی مج۔۔۔۔۔۔۔"

" ایسا نہیں بولتے بیٹا اللہ پاک ناراض ہوں گے وہ دونوں ہمارے رب کی امانتیں تھے ، تو اس نے واپس لے لی، ہم سب نے بھی ایک دن چلے جانا یہ سب کچھ چھوڑ کے ۔۔۔۔اپنے رب کے پاس۔۔۔"

" نیناں کی بات کو ٹوکتے ہوئے وہ پیار سے اسے سمجھانے لگی جو کہ  دکھ سے آنسو بہا رہی تھی۔۔"

" چلو بعد میں باتیں کریں گے پہلے تم  چینج کر لو۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔وہ پیار سے اسکا گال سہلاتے ہوئے بولی، جس پہ نیناں بھی سر ہلاتی ہوئی اٹھ گئی ۔۔۔۔۔ "

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

السلام وعلیکم بابا۔۔۔۔۔" وہ دھیرے سے چلتا ان کے پیچھے کھڑا ہوتا پیار سے بولا۔۔"

" وعلیکم السلام !! آؤ بڈی دیکھو آج دی گریٹ شیف  اظہر یزدانی  نے کیا کیا  بنایا ہے۔۔۔؟؟"

"ضرور کیوں نہیں آپ دیکھنے کا کہ رہے ہیں میں تو کھاؤں گا بھی ۔۔۔۔ رافع مسکراتے ہوئے کہتے ڈھکن اٹھا کر دیکھنے لگا۔۔۔"

واؤ  آج تو کمال کر دیا آپ نے خوشبو تو بہت اچھی ہے اب کھا کر پتہ چلے گا کہ آپ پاس ہوئے ہیں کہ فیل ۔۔۔۔" وہ بریانی کو دیکھتے ایک نظر اپنے بابا کو دیکھتے آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔۔"

ضرور جنا ب عالی۔۔۔ سر کو حکم دیتے ہوئے وہ کورنش بجا لائے۔۔۔"

" اور میٹھے میں کیا بنا ہے ؟ وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے کہتا شامی کباب۔ کو دیکھنے لگا۔۔"

بیٹا جی آج آپ کا دن ہے کھا لو جو جو کھانا ہے اگلا ایک ہفتہ پھر آپ کا نمبر ہے، ہاتھ میں پکڑی چمچ سے سالن کو ہلاتے ہوئے وہ اسے وارن کرنے لگا۔۔۔"

" یس افکورس آئی نو بابا ۔۔۔اچھا میں چینج کر کے آتا ہوں۔۔"

وہ کہتا ہوا کچن سے نکلا۔۔ کیونکہ جانتا جو تھا کہ اس کے بابا کی سوئی پھر شادی والی بات پر رکنی ہے اسی لیے وہ بغیر انہیں موقع دیے اوپر  اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔"

 پیچھے اظہر صاحب اپنے جان از عزیز بیٹے کی پشت کو دیکھتے دل سے خدا کا تشکر  کرنے لگے کہ ان کی اولاد اتنی صالع اور نیک ہے۔۔"

" انہیں آج بھی یاد تھا زیبہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد کس طرح سے رافع نے انہیں سنبھالا تھا وہ تو جیسے جینا ہی بھول گئے تھے مگر رافع انہیں زندگی کی طرف لایا تھا۔۔وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنی ماں سے کتنی محبت کرتا ہے ،مگر صرف اپنے بابا کے لیے وہ اپنا غم بھلاتا انہیں خوش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ اپنے دکھ کی وجہ سے اپنے بیٹے کو نظر انداز نہیں کریں گے۔۔ بلکہ اسے پہلے سے زیادہ محبت اور پیار دیں گے۔۔"

   🔥🔥🔥🔥🔥

کہاں تھے تم ٹائم دیکھا ہے کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔"

کلب گیا تھا ڈیڈ اور ٹائم ایک بج چکے ہیں ،وہ  ہاتھ میں پہنی برینڈڈ واچ سے انہیں نارمل انداز میں ٹائم بتاتا  اوپر روم کی جانب بڑھا۔۔۔"

میں اور تمہاری مما اس ہفتے پاکستان جا رہے ہیں ،، اسکی لاپرواہی سے کہنے کو اگنور کرتے ہوئے بولے۔"

رضا صاحب کی آواز پر اسکے قدم  تھمے ، اسے لگا کہ شاید سننے میں غلطی ہوئی ہے ۔۔کیا کہا آپ نے ڈیڈ آپ اور مام پاک جا رہے ہیں ۔۔۔"

حیرت ،بے یقینی کی سی کیفیت میں وہ اپنے ڈیڈ پر چیخ پڑا ۔۔۔"

ہاں اور تم بھی ہمارے ساتھ چلو گے اینڈ ڈیٹس فائنل۔۔"  وہ جانتے تھے کہ سیدھے طریقے وہ ماننے والا نہیں اسی لیے وہ حکم جاری کرنے کے انداز میں اسے بتانے لگے۔۔۔" 

" آج سے بیس سال پہلے جو سلوک پاک میں آپ کے اور مام کے ساتھ ہوا تھا وہ آپ بھول سکتے ہیں مگر میں کبھی نہیں ۔۔ اور نا۔ ہی مجھ سے امید رکھیے گا کہ میں کچھ بھی بھولوں گا۔۔" غصہ سے ایک ایک لفظ چبا کر کہتا اپنی پیشانی کو مسلنے لگا۔۔"

ٹھیک ہے تم ناں آنا مگر میں اور تمہاری مام جا رہے ہیں ،یہ فائنل ہے۔"

مام کدھر ہیں۔۔" کچھ دیر سوچنے کے بعد اسے مام سے بات کرنے کا خیال آیا۔۔۔"

بہت پریشان ہے اور بی پی بھی نارمل نہیں اور ظاہر سی بات ہے رات کے ایک بجے اسے سونا ہی ہے ،تمہاری طرح سیر سپاٹے کرنے سے تو رہے۔۔وہ تیز لہجے میں کہتے اسے بہت کچھ باور کروا گئے۔۔"

اپنے روم میں جاؤ صبح بات کرنا جو بھی کرنی ہے اب خبردار جو میری بیوی کو تنگ کیا۔۔۔ اسکے ارادے بھانپتے ہوئے وہ سرد لہجے میں اسے وارن کرتے  اپنے روم کی جانب بڑھے۔۔۔"

جبکہ دوسری طرف وریام کا حال کسی بن پانی مچھلی جیسا تھا ۔۔ اس نے خود سے  سوچ  رکھا تھا کہ وہ کبھی بھی اس ملک کا رخ نہیں کرے گا مگر آج قسمت اتنے سالوں بعد یوں اسے آزمائے گی اس نے سوچا ناں تھا، ایک نظر اپنے مام ڈیڈ کے  بند روم پر ڈالتے وہ اپنے روم کی جانب بڑھا ،مگر یہ تو طہ تھا کہ وہ پاک کسی صورت نہیں جائے گا۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" سیاہ رات کی تاریکی میں وہ چھت پر کھڑی سامنے آب و تاب سے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھتے اپنی خیالوں میں گھری ،خود سے بے پرواہ تھی۔

" کیا دیکھ رہی ہو، ایک دم سے پیچھے سے آتی سرگوشی نما آواز پر وہ ڈر سے اچھلتی ،منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔۔"

" آ آپ۔۔۔ اپنی سیاہ رات کی مانند آنکھوں میں حیرانگی اور ڈر سموئے وہ حسن کو دیکھتی پوچھنے لگی ۔"

" کیوں کسی اور نے آنا تھا، لہجے میں غصہ سموئے وہ اسکے نازک سراپے کو نظروں کے حصار میں لیتا بولا ۔"

"کک کیا نن نہیں تت تو کک کسی نے نہیں آنا، نیناں اس کی بے تکی بات پر اسے دیکھتے کہنے لگی ،مگر اس کی آنکھوں کا مرکز خود کو پاتے وہ بھوکھلاتے ہوئے کپکپاتے ہوئے کہتے  دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔۔"

" کہاں جا رہی ہو ۔۔۔رکو بات کرنی ہے ،،" نیناں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ اسے روکتا ہوا بولا۔۔"

" ہاتھ چھوڑیں میرا حسن بھائی ، آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی ، " غصے اور حوت کے ملے جلے تاثرات سے وہ بھپری شیرنی بنی اس پر غرائی۔۔"

" جبکہ دوسری طرف حسن نے ائبرو اچکاتے اسے داد دینے والے انداز میں دیکھتے اس کا ہاتھ اور مضبوطی سے چلتا ،نس پر وہ کراہ اٹھی۔۔"

" چھوڑنے کے لیے نہیں تھاما یہ ہاتھ میں نے نیناں میڈم۔۔ موم سے بات کر لی ہے میں نے اپنے اور تمہارے متعلق ۔اگر وہ پوچھیں تو تمہارا جواب ہاں میں ہونا چاہیے۔۔"

اسکے چہرے پر جھکتا وہ سرد آواز میں کہتے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑا گیا۔۔۔"

مم مجھے نن نہیں کرنی شادی آپ سے۔۔" سن لیں آپ ایک دم اس کی بات پر وہ اسے دیکھتی غصے سے بولتی اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔" 

"آ ہاں ۔۔۔ایسی بات ہے تو چلو چیلنج کرتا ہوں میں تمہیں روک سکتی ہو تو روک لو اس شادی کو۔ اب تو شادی تم سے ہی کروں گا ۔۔۔"

طنزیہ ہنستے ہوئے وہ اس کی بے بسی کا مزہ لینے لگا۔۔"

مسلسل بجتے موبائل فون پر وہ ایک ہاتھ میں اس کی کلائی کو دبوچے دوسرے سے جیب سے موبائل فون نکالتا ایک نظر نیناں کے رونے سے بھیگے چہرے پر ڈالتا کال پک کر گیا۔۔"

ہائے سویٹ ہارٹ۔۔۔ کیسی ہو جان۔۔ سوری یار تھوڑا بزی تھا اس وجہ سے آج مل نہیں سکا ،مگر تم جانتی ہو ناں کہ کام ناں ہوتا تو ضرور ملنے آتا ۔اب تمہارے بنا گزارا جو نہیں ۔۔۔"

وہ مسلسل باتیں کیے جا رہا تھا۔ مگر نیناں تو جیسے پتھر کی بن چکی تھی ۔کیا یہ شحض اس کا نصیب تھا ۔جو اس کے سامنے کھڑا اس کی اوقات واضح کر رہا تھا۔۔۔"

ایک نظر بے بنی نیناں پر ڈالتے وہ جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑتا اندر بڑھا۔۔"

"پیچھے وہ شل ہوتے جسم کے ساتھ فرش پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھتی ،دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے سسکنے لگی۔۔"

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥

     " ہلکا سا دروازے کو کھولتے وہ بنا آہٹ کیے اندر داخل ہوا۔۔"

سامنے ہی مزے سے سوتے اپنے پاپا کو گھوری سے نوازتے وہ اپنی ماما کی جانب بڑھا۔ دبے قدموں سے بنا آواز کیے بیڈ کے قریب جاتا وہ آرام سے اپنی ماما کو گود میں بھرتا ایک پراسرار مسکراہٹ اپنے پاپا کی پشت کی جانب اچھالتا باہر آیا۔"

" ایک نظر اپنی بانہوں میں موجود اپنی متاع جان کو دیکھتے وہ اوپر اپنے روم کی جانب بڑھا۔۔"

پاؤں سے دروازے کو آٹو لاک کرتے وہ نرمی سے اپنی ماما کو بیڈ کر لٹاتا انکے پاس زمین بیٹھتا پیار بھری نظروں سے انہیں دیکھتا ،جھک کر پیشانی چومتے ،باری باری دونوں آنکھوں کو چومتا سیدھا ہوتا ،گہرا سانس فضا میں خارج کرتا انہیں دیکھنے لگا۔۔"

ناٹ اگین دیٹ۔۔ وہ منہ بناتا ہوا کہتا ان کے پاس دوسری سائیڈ پر نیم دراز ہوا۔۔ 

" اگر میرا بیٹا مجھے ہاتھ لگائے گا تو کیا مجھے جاگ نہیں آئے گی اور آج تو میں سوئی نہیں ،مجھے پتہ تھا کہ تم آؤ گے ۔۔مسکراتے ہوئے کہتے وہ نرمی سے وریام کے بالوں کو سنوارتے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی اپنی شہزادوں کی آن بان سے بیٹے کو دیکھنے لگی۔۔"

" موم !!  کچھ پل کی خاموشی کے بعد وریام نے سیدھے ہوتے انکا ہاتھ تھامتے پکارا۔۔"

جی میری جان کیا ہوا۔۔وہ جانتی تھی مگر پھر بھی پوچھ بیٹھی۔۔"

" موم آپکے ہزبینڈ کہ رہے تھے کہ آپ ان کے ساتھ پاک جا رہی ہیں۔۔اپنی موم کی گود میں سر رکھتے وہ آنکھیں موندے ہوئے بولا ۔"

" ہاں جا رہی ہوں اور تم بھی جا رہے ہو اپنی موم کے لیے ،میری خوشی کے لیے ۔"

اتنا سننے کی دیر تھی وہ جھٹکے سے سیدھا ہوتا بیٹھتا اپنی موم کو بے یقینی سے دیکھنے لگا ۔۔"

" موم آپ بھول گئی ہیں وہ سب جو کچھ آپ کے اور ڈیڈ کے ساتھ ہوا تھا مضبوطی سے انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ آنکھوں۔ میں دنیا جہاں کی نفرت سموئے ہوئے بولا۔۔"

" جبکہ اس کی بھوری آنکھوں میں جھلکتی نفرت کو دیکھتے وہ تڑپ اٹھیں۔۔"

وری بیٹا ،جو بھی ہوا اس میں تمہاری نانو کا کیا قصور تھا۔۔۔ تمہیں پتہ ہے آج برسوں بعد میں نے اپنی بی جان کی آواز سنی ،کتنی تڑپ تھی انکی آواز میں ۔میں تمہیں بتا نہیں سکتی ۔۔ بیٹا وہ میری ماں ہیں میں بھی انکے لیے دن رات تڑپتی ہوں ، پلیز مان جاؤ میری جان ۔اپنی موم کے لیے۔۔۔" 

" وہ آنسوں بھری آنکھوں سے اسے دیکھتی بولی۔۔"

" اگر آپ جانا چاہتی ہیں تو آپ جائیں موم مگر میں نہیں جاؤں گا ،کہتے ساتھ ہی وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتا روم سے کیا گھر سے ہی نکل گیا ۔۔

" پیچھے وہ ایک نظر گھڑی پر ڈالتی جہاں اس وقت صبح کے تین بج رہے تھے ، اس کو آوازیں دیتی باہر ائی۔مگر تب تک وہ جا چکا تھا۔۔"

" پریشان نا۔ ہوں آپ بیگم ۔کیا لگتا ہے آپ کو  آپ کا بیٹا جو اپنی موم کو اپنے ڈیڈ کے پاس بھی سکون سے رہنے نہیں دیتا وہ آپ کے بغیر رہ لے گا ۔" 

" نرمی سے ان کا سر اپنے کندھے پر ٹکراتے ہوئے وہ پیار اور شرارت سے بولے۔۔"

مگر رضا آپ جانتے ہیں کہ میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتی اوپر سے وہ ناراض ہو کر گیا ہے ۔

وہ انہیں دیکھتے سر اٹھاتے بولیں کہ رضا ہممم کرتے سر ہلا گئے ۔

ایک ہی تو بیٹا تھا انکا جو انہیں جان سے زیادہ عزیز تھا وہ کیسے اسکے بغیر اکیلے چلی جاتی پاکستان۔۔ کیا وہ رہ لے گا اپنی موم کے بغیر۔۔۔

وہ سوچتے سر جھٹک گئی ۔۔ آپ کا یہ لاڈلا بیٹا کیا کیا گل کھلا رہا ہے آپ کو کیا معلوم ۔۔۔ 

وہ کہتے ہوئے لہجے میں بولے تو شمائلہ نے خفگی سے انہیں گھورا۔۔

ہاں ہاں جانتا ہوں کہ وہ آپ کی تربیت پہ انگلی نہیں آنے دے گا مگر جہاں بات باپ کے نام کی ہو وہاں تو سارا رائتہ ایسے پھیلاتا ہے کہ سمیٹنا مشکل ہو جائے۔۔

رضا آپ حامخوا ہی میرے بیٹے کے دشمن بنے رہتے ہیں۔۔ اب کیا کر دیا اس نے جو آپ کو موقع مل گیا دوبارہ سے ۔۔۔

 آپ یہ پوچھیں کیا نہیں کیا۔۔۔ کل اسکے پروفیسر نے بلایا تھا جانتی ہیں ۔ میں کتنا خوش ہوتے گیا تھا کہ شاید کوئی خوشی کا کام کیا ہو اس نالائق نے مگر پتہ ہے کیا ہوا۔۔

وہ انکا ہاتھ تھامتے روم میں داخل ہوتے بولے کہ شمائلہ نے متجسس ہوتے انہیں دیکھا۔۔

پروفیسر کہہ رہا تھا کہ آپ کے بیٹے کو ہاتھ دیکھنے کا بہت شوق ہے وہ بھی لڑکیوں کا ۔ تو پھر کیا سوچا آپ نے اس کے مستقبل کا ۔۔

آپ جانتی ہیں وہاں دو پروفیسرز اور بھی تھے جو دھیما دھیما ہنس رہے تھے ۔میرا دل کیا کہ ابھی اس نکمے کو سیدھا کروں ۔

پھر آپ نے کیا جواب دیا۔۔۔ شمائلہ سیدھے ہوتیں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے بولیں کہ رضا نے دانت کچکچائے جیسے ابھی وریام سامنے آتا تو اسے سیدھا کر دیتے۔۔

میں نے بھی کہہ دیا کہ مستقبل میں اسے کوئی بابا بنانے کا ارادہ ہے تاکہ لڑکیوں کے ہاتھ آسانی سے دیکھ سکے۔۔

 اور تو اور واپسی پر وہ نکما مجھے ملا بھی تھا وہاں پارکنگ ایریا میں۔۔

اور کہتا ڈیڈ سر جھکاتے اور منہ چھپاتے ناں چلیں۔۔ آفٹر آل آپ وی کے ڈیڈ ہیں اور آپ کی شکل بھی وی جیسی ہے تو آپ کو سینہ تان کر چلنا چاہیے۔۔ 

وہ اچھلتے بیڈ پر سے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے بولے کہ شمائلہ نے بمشکل ہونٹ بھینجتے انہیں دیکھ مسکراہٹ دبائی۔

" ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ اس کو بھی لگام ڈالوں ،کوئی اچھی سی لڑکی مل جائے اسے بھی اپنے گھر کا کروں ۔تاکہ یہ میری بیوی کی جان چھوڑے۔۔ 

وہ پرسوچ انداز اپناتے بولے کہ شمائلہ نے بے ساختہ امڈتے قہقہے کو دبانا چاہا جو کہ ناممکن سا تھا۔۔

نیناں میری جان اٹھ جاؤ ۔۔کیا آج فجر ادا نہیں کرنی ۔۔ بی جان فجر ادا کرتی ہوئی ، تسبیح کے بعد بھی نیناں کے ناں اٹھنے پر فکر مند ہوتی ہوئی بولی۔۔" عام دنوں میں تو وہ بی جان سے پہلے اٹھتے ان کو بھی جگاتی تھی۔۔"

"  دو تین بار جگانے پر بھی نیناں کے بےسود وجود میں ہلچل ناں ہوتے دیکھ وہ خود اٹھتے جائے نماز ایک سائیڈ رکھتی اس کے پاس بیڈ پر۔ یٹھتے اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے مسکائی۔۔۔ مگر نیناں کے گرم جسم کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے وہ متفکر سی اسے جھنجھوڑنے لگی۔۔"

" نیناں میری جان اٹھ جاؤ ، دیکھو اپنی بی جان کی طرف ایک بار دیکھو ۔۔۔ ہچکیوں سے روتے ان کی آواز کپکپانے کے باوجود بھی بلند ہو گئی ، کس سے کہتی تھا ہی  کون انکا، بیٹا جسے اپنی زندگی سے فرصت نہیں تھی ۔ایک نیناں ہی تو ان کا کل سرمایہ ، کل کائنات تھی ۔۔"

  " وہ جو صبح کے چار بجے ایک دم سے چھٹی ملنے پر گھر آیا تھا ،مگر شاہ ولا سے آتی آوازوں پر وہ ٹھٹکتا ہوا رکا۔۔ اور رخ دیوار کی جانب کیا جہاں سے وہ اکثر شاہ ولا میں لینڈ کرتا تھا۔۔"

گہری خاموش فضا میں ، ہلکی ہلکی چلتی ہوا ، اور چڑیوں کی چہکار نے الگ سا رقص پربا کیا تھا۔۔ 

" اس کے ہونٹوں پر تھکن کے باوجود بھی گہری مسکراہٹ تھی، دل شدت سے اسے دیکھنے کی چاہ میں تڑپتا اسے مجبور کر چکا تھا، جس کے  آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے رات کو ہی چھ گھنٹوں کا لگاتار سفر کیا تھا ،اب بھی آنکھیں تھکن اور بےخوابی سے سرخ ہوئیں تھیں ،مگر یہاں پرواہ کسے تھی ۔"

اچانک سے دروازے کی طرف بڑھتے اس کے قدم رکے، کانوں میں گونجنے والی آواز پر غور کرنے سے اسے اندازہ ہو چلا تھا کہ آواز اوپر سے آ رہی ہے،'

" اسکا دل کسی انہونی کے ڈر سے شدت سے ڈھرکا، وہ تیز تیز ڈھگ بھرتا پیچھے راہداری کی جانب بڑھا اور جلدی سے سیڑھیاں کراس کرتا اندر داخل ہوا۔۔"

" بی جان کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ؟ وہ متفکر سا بی جان کے لرزتے ہوئے وجود کے گرد بانہوں کا گھیرا کرتے بامشکل پوچھ سکا، کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پایا، کہ کیا وجہ ہوئی ہے۔۔"

بب بیٹا نیناں آٹھ نہیں رہی دیکھو اسے کیا ہو گیا ہے۔۔" وہ بمشکل ہچکیوں کے درمیان بول پائیں ۔۔"

اشعر نے انکے سر کو سہلاتے ایک سائیڈ بٹھایا اور لائٹس آن کی تاکہ کچھ نظر ا سکے ٹھیک سے، سامنے ہی اسکی نظر زرد پڑتی رنگت سے لیٹی نیناں پر پڑی ،بے ساختہ دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دباتے وہ اس کے نیم مردہ جسم کی جانب بڑھا۔۔۔

" کلائی پکڑتے ہی وہ اسکی مدھم سانسوں کو محسوس کر سکتا تھا ۔ ایک دم سے اسے اپنی گود میں بھرے وہ ڈورتا ہوا باہر کی جانب بڑھا۔۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

    ہیے ہاؤ آر یو۔۔۔" مائی نیم از لائرہ۔ " 

اپنے پیچھے سے آتی آواز پر وہ جیکٹ کی زپ کو کھولتا ہوا پیچھا کو مڑا،جہاں گولڈن کلر آنکھوں والی ایک خوبصورت لڑکی اسی سے مخاطب تھے۔۔۔

شولڈر لینتھ بالوں،کے نیچے شارٹ شرٹ اور ٹاپ میں ،وریام نے 5 سیکنڈ میں اس کا پورا جائزہ لیا ۔۔۔

کین آئی کال یو ویر۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ سب اسے وی کہتے ہیں ،مگر اپنی خوبصورتی اور اداؤں پر اسے اتنا یقین تھا کہ وہ اسے منع نہیں کرے گا۔۔"

نو ۔۔۔ایک لفظی جواب پر اس کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ ایک دم سے سمٹی۔۔"

اچانک سے ٹرن کرتے وی نے دونوں ہاتھ اسکی کمر کے گرد کرتے اسے ساتھ لگایا،، ساتھ کھڑی ایش اور جیس کے لیے یہ نارمل سی بات تھی مگر لائرہ کی آنکھیں بے یقینی سے پھیلی۔۔۔وریام کے ناں بولنے پر اسے امید نہیں تھی کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔"

میں خوبصورت لڑکیوں کا بھائی نہیں بنتا ،سو مجھے ویر مت کہنا ہاں وی کہہ سکتی ہو۔۔۔ویر بھائی جیسا لگتا ہے ،ہمم اوکے ایک دم سے اس کے کان کے پاس کہتے وہ جھٹکے سے پیچھے ہوا۔۔جبکہ لائرہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی،، ایک دم سے وریام کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی۔ وہ اپنے دونوں بازوؤں اسکی گردن میں لپیٹے ،اونچی ہوتی اس کی گال پر اپنے لب رکھتی مسکرائی۔۔"

" اسکی حرکت پر وریام نے عجیب تاثرات سے مسکراتے اسی کو دیکھا۔اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اسکے نچلے ہونٹ کو بری طرح سے مسلا۔۔۔" آج کے بعد ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے ۔۔وہ سخت لہجے میں اسے وارن کرتا, اس کے گال پر خود سے ہی کس کرتے پیچھے ہوا۔۔

   " اگر یہ سچ میں میری گرل فرینڈ بننے میں انٹرسٹڈ ہے تو اسے رولز سمجھا دو وہ ایک نظر ایشا اور جیس کو دیکھتے کہتا اپنی جیکٹ اتارتے کندھوں پر لٹکانے کے سے انداز میں ڈالتے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

" رول نمبر ون ۔ آج کے بعد تم خود سے وی کو کس نہیں کرو گی ۔۔

رول نمبر ٹو۔۔ وہ جب چاہے تمہیں چھوڑ سکتا ہے تم کوئی سوال جواب نہیں کر سکتی ۔۔ ایشا نے گول دائرے کی شکل میں اس کے آگے پیچھے گھومتے ایک ادا سے اسے بتاتے اس کی شکل دیکھی ،جو کہ منہ کھولے انہی کو دیکھ رہی تھی ۔۔"

اسکے علاؤہ تم کسی بھی لڑکے کے ساتھ دوستی نہیں کر سکتی ۔۔ وی کی ہر بات کو منانا فرض ہے تم پر۔۔۔

اور ہاں ہم اس کی فیورٹ ہیں اسپیشلی میں ۔ ایش نے کہتے اسے دیکھ آنکھ دبائی کہ لائرہ نے غصے سے ناک پھلائے اسے دیکھا۔۔

اور ہماری عزت کرنا تم ہر لازم ہے اوکے ۔۔۔ اور ڈونٹ وری وہ صرف چکس پر کس کرتا ہے ۔۔۔ایشا نے اسکی شکل دیکھتے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا، جبکہ لائرہ تو ابھی تک وریام کے رویے میں الجھی تھی۔۔

پاس ہی کھڑی آیت نے غور سے انکی باتوں کو سنتے وریام کے پیچھے دوڈ لگائی ، اسکی طرف پشت ہونے کی وجہ سے وہ صرف اسکا سائیڈ فیس دیکھ پائی تھی ،مگر اب تو دیکھنا اس پر بھی لازم تھا۔۔"

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥

           " بھاری ہوتے سر کے ساتھ اسنے بمشکل سے اپنی آنکھوں پر زور ڈالتے ہوئے انہیں کھولا۔۔

      " مگر سامنے ہی ہوسپٹل روم پر نظر دوڑاتے اسے اپنا خیال لگا،، وہ تو گھر میں تھی پھر بھلا یہاں کیسے آ سکتی تھی۔۔

لیٹی رہو میڈم اتنا بڑا معرکہ سر کیا ہے آرام تو بنتا ہے۔۔اسے اٹھنے کی کوشش کرتے دیکھ اشعر چھبتے لہجے میں گویا ہوا۔۔"

 اشعر تت تم اور میں یہاں پر کیسے ۔۔بی جان ۔۔بی جان ٹھیک تو ہیں ۔۔"

اسکے بوکھلانے پر اشعر نے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا ،جیسے کہہ رہا ہو کہ تمہیں لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہوں گی۔۔۔

    ابھی تک تو ٹھیک تھیں مگر تمہاری حالت اگر ایسی رہی تو کیا پتہ وہ بھی ٹھیک ناں رہے۔۔۔

اسکی بات پر نیناں نے کچھ چونکتے اپنے سامنے  براؤن شرٹ اور بلیو جینز پہنے بکھرے بالوں اور سرخ آنکھوں والے اپنے دوست کو دیکھا۔۔۔"

ایسی کیا پریشانی آن پڑی ہے محترمہ آپ کو کہ آپ  نے  اتنی ٹینشن لی کہ آپ کے حواس آپ کا ساتھ دینا چھوڑ گئے۔ ۔پورے دو دن سے یہاں پر ہو تم ۔۔اج ہوش آیا تمہیں ۔ جانتی ہو  کے کتنی  مشکل سے بی جان کو سنبھالا ہے۔ رو رو کر برا حال کیا تھا انہوں نے۔۔۔ وہ خود بھی دو دن سے تھکا ہوا تھا ۔نیند پراپر سے ناں لینے کی وجہ سے اسے تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔

مگر اس وقت سامنے لیٹا وجود اس کے لیے خود سے بھی زیادہ ضروری تھا، ان دو دنوں میں سوائے بی جان کے کسی نے بھی اس کا پوچھا تک نہیں تھا ہاں مگر کاموں سے بچنے کا بہانا بنانے کا طعنہ ضرور اسے ملا تھا۔۔۔"

   میں کچھ پوچھ رہا ہوں نینوں کس بات کی پریشانی ہے تمہیں۔۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق اس نے کسی بات کو سر پر سوار کیا ہوا تھا جسکی وجہ سے اس کے اعضاء جسم کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔مگر اشعر کے لیے اس کی پریشانی کی بابت جاننا ضروری تھا۔

اشعر کے بار بار پوچھنے پر اسے سب یاد آتا گیا کہ کس طرح سے۔حسن نے اس کے سامنے اس کی حیثیت اور اوقات واضح کی تھی۔۔ اس نے تو کیا کچھ سوچا تھا کہ جوب کر کے اپنا گھر لوں گی ،جہاں بی جان کے ساتھ آرام سے رہوں گی مگر اب پھر سب کچھ ہاتھوں سے پھسلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔"

اشعر مجھے ریسٹ کرنی ہے ،بغیر اس کی بات کا جواب دئیے وہ رخ پھیرتے ہوئے آنکھیں موند گئی۔۔ جبکہ اشعر بھی اس کی طبیعت کا سوچتے ہوئے وہ  خاموشی سے روم سے باہر نکل گیا۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

 بی جان ۔۔۔ وہ خاموشی سے اندر داخل ہوتے بی جان کی کروٹ لی سائیڈ بیٹھتے ہوئے بولے۔۔۔

 حامد صاحب کی آواز پر بھوڑی آنکھوں میں پانی آ سمٹا ،مگر وہ بغیر جواب دیے لیٹی رہی۔۔۔

 " بی جان محاف نہیں کریں گی اپنے بیٹے کو ،، وہ بمشکل خود پر ضبط  کرتے انکے پاؤں پر سر رکھتے ہوئے بولے۔۔"

   " کس بات کی محافی مانگ رہے ہو بیٹا۔۔۔"

 طنز تھا کہ شکوہ ، حامد کو سمجھ ناں آیا۔۔۔ اپنی آج تک کی سب غلطیوں کی۔۔ جو جو کچھ میں نے کیا ہے سب کی معافی مانگنا چاہتا ہوں میں۔۔۔" 

   " کتنے دنوں سے جو احساس انہیں اندر ہی اندر حتم کر رہا تھا کہ وہ ایک اچھے بیٹے ثابت نہیں ہو سکے ، کیا کچھ انہیں یاد نہیں آیا تھا۔۔ ماضی میں کیں اپنی غلطیاں ، اپنی جنت ،اپنی ماں کے ساتھ برتا ہوا سلوک۔۔۔"

   " میں معاف کرنے والی کون ہوتی ہوں ہاں مگر ایک احسان کرنا ،مرنے سے پہلے میں اپنی بچی کی شکل دیکھنا چاہتی ہوں ،اسے بلایا ہے ملنے کو ، اسے کچھ مت کہنا ورنہ میری یہ مدھم چلتی سانسیں بھی رک جائیں گی ۔ اور جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا ۔۔"

ایک نظر بی جان کی پشت پر ڈالتے  وہ مردہ قدموں کے ساتھ باہر نکلے۔۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کہاں جانا ہے۔۔  جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے بولی تو سامنے والے نے اسے ایک جانب جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ وہ چلتی سامنے بیٹھے شخص کے پاس کھڑی ہوئی۔۔

بیٹھو۔۔۔۔  وہ کرسی کی جانب اشارہ کرتے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بولا کہ لائبہ نے فوراً سے سیٹ سنبھالی۔۔

اکیلی ہو کیا ۔۔۔ 

مقابل کے سوال پر اسنے مسکراتے اسے دیکھا ۔

نہیں دو اور بھی ہیں ساتھ۔۔وہ بتاتے سگریٹ نکالتے کش بھرنے لگی کہ مقابل نے داد دینے والے انداز میں مسکرا کر اسے دیکھا۔۔

کام کر پاؤ گی کہ نہیں ۔۔۔دام کتنے دو گے۔۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ پیسوں کا پوچھتے دھواں اسکے منہ پر چھوڑتے بولی۔۔

کام ہو جائے جتنے مانگو اتنے ملیں گے۔۔۔

تو پھر سمجھو کام ہو گیا۔۔

یہ لو اس لڑکی کو بالکل برباد کرنا ہے۔۔ بری صحبت ،برے کال ہر طرح سے ۔۔۔۔ باقی رہا تمہارے پیسوں کا معاملہ تو وہ بھی طہ ہو جائے گا جلد ہی۔۔

سمجھو کام کو گیا۔۔وہ رمشہ کی تصویر کو پکڑتے ہاتھ میں گول گول گھماتے بولی کہ مقابل گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ٹیک سے سر لگا گیا۔

لگتا ہے کہ دل کوئی معاملہ ہے۔۔ وہ طنزیہ مسکراتے بولی تو مقابل نے اسے دیکھ نفی میں سر ہلایا۔۔

دل تو ہم لگاتے ہی نہیں بس کچھ حساب باقی رہ گیا ہے بس وہ چکانا ہے کہتے ساتھ ہی وہ اٹھتا وہاں سے نکلا کہ لائبہ نے دور تک اسکی پشت کو دیکھا۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کہاں جا رہی ہو آیت رکو تو۔۔۔ دعا پیچھے سے آتے اچانک اسکا ہاتھ تھامتے اسے روکتے بولی کہ آیت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔

کہاں۔۔۔ وہ آیت کے ہاتھ کو کھینچتے ہوئے بولی کہ آیت نے منہ بسورے اسے دیکھا۔۔ 

یار چھوڑو ہاتھ وہ وی جا رہا ہے مجھے دیکھنا ہے اسے ۔۔۔ وہ سامنے سے جاتے وی کی پشت کو دیکھتے بولی کہ دعا نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورا۔۔۔

رہنے دو تم نے کونسے جھنڈے گاڑھ لینے ہیں اسے دیکھ۔۔۔۔

یار کیا پتہ کل کلاں کو کام آ جائے ۔۔۔۔ آیت منہ بناتےمعصومیت سے اسے دیکھ بولی ۔

تمہیں لگتا ہے کہ وہ ہماری کوئی مدد کرے گا۔۔ دعا نے ایبرو اچکاتے اسے دیکھ پوچھا۔۔

مدد ناں کرے مگر مجھے ایک بار اسے دیکھنا ہے ۔۔ بائے۔۔۔

وہ کہتے ساتھ ہی دعا کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے وہاں سے ہاتھ چھڑاتے بھاگی۔۔۔

کہ پیچھے وہ آوازیں دیتی رہ گئی۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

   کدھر جا رہے ہو ۔۔۔ غصے سے کہتے وہ اس کے راستے میں کھڑا وریام کو گھورنے لگا۔۔"

او ہو.  رافی میرے یار کہاں ہو آج کل ۔۔۔۔ وریام نے آگے بڑھتے  پرجوش انداز میں کہتے رافع کو گلے لگانا چاہا، مگر آگے سے پڑتے مکے کی وجہ سے وہ وہی زمین بوس ہو گیا۔۔"

وہ ہکا بکا سا زمین پہ پڑا اپنے سامنے غصے سے کھڑے برے تیوروں سے اسے گھورتے رافع کو دیکھنے لگا۔۔

مار ڈالا کمینے ۔۔۔! آں۔۔۔" وہ کراہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔"  اور ایک نظر اپنی برینڈڈ جیکٹ پر ڈالی جو کہ فرش پر پڑی ،اس کا منہ چڑاہ رہی تھی ۔"

آں۔ ۔۔ کھڑے ہوتے ہی ایک اور مکے نے اسکا استقبال کیا۔۔۔

کہ وہ پھر سے گرتا بمشکل خود کو سنبھالتے کھڑا رہا۔۔

 ابھی اس سے پہلے کہ وہ پھر سے اپنی پریکٹس کو پورا کرتا وریام پہ غصہ نکالتا کہ پیچھے سے آتی آواز پہ اسکا ہاتھ تھما ۔۔

 اوئے رک جاؤ ۔۔۔کیوں مار رہے ہو ، " کیا بگاڑا ہے تمہارا اس نے ۔"

آیت جو کہ کب سے کسی انجان لڑکے سے وریام کو مار کھاتا دیکھ رہی تھی ایک دم سے آگے ہوتے وریام کے آگے کھڑے ہوتے بولی۔۔۔"

اور غصے سے کڑے تیوروں سے رافع کو گھورتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔

وریام ہکا بکا سا منہ کو ہاتھ سے صاف کرتے اپنے سامنے ڈھال کی طرح کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھنے لگا۔

کون ہو تم سائیڈ ہو جاؤ۔۔۔ غصے سے پھولتے تنفس کے ساتھ کہتے رافع نے اسے ہاتھ سے پیچھے کرنا چاہا، اسے شروع سے ہی اپنے اور وریام کے بیچ مداخلت پسند نہیں تھی۔۔"

بب بہین ہوں میں اسکی۔۔۔۔ کچھ ناں سوجھتے وہ وریام کے کس  والے سین کو یاد کرتے فوراً سے بھائی بناتے ہوئے بولی ۔"

اور ایک نظر اپنے پیچھے کھڑے وریام کو دیکھ رافع کی جانب دیکھا۔۔جو اسے ہی گھور رہا تھا۔۔

بہن کیا سچ میں  ۔تم نے پاگل سمجھا ہے مجھے ۔۔۔

وہ ایبرو اٹھاتے اسے دیکھتے بولا۔۔

 یہ دوست ہے میرا اور میں جانتا ہوں کہ اسکی کوئی بہن نہیں۔۔

تو تم کہاں سے ٹپک پڑی ۔ چبا چبا کے کہتے اس نے غصے سے آیت کو گھورا۔۔۔"

جبکہ اسکے دوست کہنے پر شرمندہ سی ہوتی آیت نے سر جھکاتے ہوئے سوری کہتے آگے بڑھی۔۔۔"

کہاں جا رہی ہو ۔۔ادھر آؤ۔۔ دفعتا وریام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کھڑا کیا۔۔"

" مم میں وو۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے ۔۔ اسے لگا شاید رافع کی طرح وریام بھی اسے کھری کھری سنائے گا۔۔۔"

 اس سوری مم مجھے لگا کہ شاید یہ آپ کو مار رہے ہیں۔۔ وہ مدہم سرگوشی کی سی آواز میں بولتے وہاں سے جانے لگی۔۔کہ وریام نے پھر سے روکا۔۔

اگر بھائی بولا ہے تو بہن بھی بنو ۔۔۔ کہتے ساتھ ہی وریام نے مسکراتے ہوئے آیت کو دیکھا جو کہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔"

آج تک کسی نے بھی بھائی نہیں بولا مگر اب تم میری بہن ہو ۔۔ کوئی بھی کچھ بولے تو اپنے بھائی کو یاد کرنا اوکے۔۔۔

 پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ مان سے بولا،، جبکہ آیت نے مسکراتے ہوئے نم آنکھوں سے سر ہلایا۔۔"

" پاس کھڑے رافع نے بغور ،بلیو گھٹنوں تک آتی شرٹ کے نیچے بلیو ہی پرننٹڈ جینز کے ساتھ گلے میں سٹالر لپیٹے ہوئے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا ۔ 

جو ناجانے کہاں سے آتی اب اسکے پچپن کے دوست کے ساتھ رشتہ ایک جھٹکے میں بنا چکی تھی۔۔۔" 

وہ نخوت سے ایک نظر اسے دیکھتے وریام کی جانب متوجہ ہوا۔۔

فری ہو کے آؤ بات کرنی ہے ،، وریام کو دیکھتے ہوئے کہتے وہ ایک ناگوار نظر آیت پر ڈالتا اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

     آرام سے چلو اندر ۔۔وہ آہستگی سے اس کا ہاتھ تھامے اسے سہارہ دیتے ہوئے اندر بڑھا..""

واہ واہ کیا بات ہے ان محترمہ کو بخار ہوا ہے ، دیکھو کیسے اس کے ساتھ چپکی ہوئی آ رہی ہے، اللہ توبہ ۔۔۔ اللہ معاف کرے۔۔  سلمی نے سامنے سے آتے نیناں اور اشعر کو دیکھتے ہوئے زہریلے لہجے میں کہا۔۔"

آنٹی اللہ کا نام ہے ابھی یہ موت کے منہ سے باہر نکلی ہے، آپ پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔۔۔ اشعر نے ناچاہتے ہوئے بھی انہیں کہا کہ شاید وہ احساس کرتے چپ ہو جاہیں۔۔"

چپ کرو بابو ،، تم تو ایسے کر رہے ہو جیسے ہم سب بے وقوف ہیں ارے ایسی ہی بھولی ، معصوم شکل بناتے ہوئے میرے معصوم بیٹے کو پھانسا ہے ، جو کہ اس سے شادی کے لیے مرا جا رہا ہے۔۔،""

الفاظ تھے کہ ناسور ،، نیناں کو لگا کہ اس کا سارے جسم پر کانٹے بھر گئے ہیں ۔ وہ مسلسل بے آواز آنسو بہاتے ہوئے برف کی مانند شل ہوتے جسم کے ساتھ کھڑی تھی،

بس نہیں تھا کہ زمین پھٹے اور اس میں سما جائے اتنی تزلیل۔۔۔ سوچتے اسکا دل پھٹنے لگا۔۔"

کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟ 

معا پیچھے سے آتی آواز پر سب نے پلٹ کر دیکھا ، جہاں حامد صاحب بی جان کا ہاتھ پکڑے کھڑے تھے۔۔ جبکہ پاس کھڑے حسن کے چہرے سے ناگواری واضح  جھلک رہی تھی ۔۔"

حسن دادی کو اوپر لے کر چلو ،

رمشہ کہاں ہے۔۔سلمی وہ بیوی کو دیکھ اپنی بیٹی کا پوچھنے لگے جو کہ فورآ سے گڑبڑاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔

وہ دوستوں کے ساتھ گئی ہے باہر۔۔ کچھ نا سوجھنے پہ وہ سچ بتاتے بولیں۔۔

خیال رکھیں اپنی بیٹی کا ، ناجانے کون کونسے دوست بنا رہی ہے اجکل۔۔

 اور خبردار اب کسی نے نیناں سے سے کوئی سوال کیا ۔۔"

چلو بیٹا ۔۔ "  کہتے ساتھ ہی وہ ایک نظر  حیران کھڑے سب پر ڈالتے ہوئے نیناں کو لیے اندر بڑھے ۔۔۔"

جبکہ پیچھے  سب کے منہ حیرت اور بے یقینی سے کھلے تھے ۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥                                                   

                      "گہرے ہر سو پھیلے تاریک اندھیرے میں اچانک سے کھڑکی سے آتی آواز پر وہ ڈرتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔۔

کک کون ککک  کون ہے ۔۔"۔ خود میں ہمت پیدا کرتے ہوئے وہ اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتی ،خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے، بیڈ سے اتری اور چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس ائی۔۔"

مگر باہر سوائے تاریکی کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔" ابھی اس نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ۔۔

اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے آیت کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑی، کپکپاتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اس نے پیچھے دیکھنا چاہا ، 

مگر اچانک سے سامنے والے نے ایک ہاتھ اسکی گردن پر رکھتے دوسرے سے اسکے منہ کو دباتے اسے دیوار سے پن کیا۔۔"

امم اممم..." مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش میں وہ نڈھال ہوتے گھرے سانس بھرنے لگی ۔۔" جبکہ دل میں ایک خوف اور دہشت سی تھی۔۔"

آواز نہیں کرنا۔۔۔ بھاری گھمبیر آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔ آیت نے فورا سے ہاں میں گردن ہلائی ۔۔"

معا سامنے والے نے اسے ساتھ لگایا اور دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔۔"

"دروازہ لاک کرتے ہاتھ بڑھاتے رافع نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے دروازے سے لگایا اور اپنے دونوں ہاتھ دیوار کی طرح اس کے دائیں بائیں رکھے ۔"

اسے یقین تو تھا ہی کہ رات کے ڈھائی بجے ہوسٹل کے روم میں کوئی نہیں آئے گا مگر احتیاطاً اس نے دروازہ بھی لاک کر دیا تھا۔۔۔"

ادھ کھلی کھڑکی سے جھانکتے چاند کی روشنی میں اس نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑی لڑکی پر ڈالی ، جو کہ پنک نائیٹ ڈریس میں سرخ و سفید رنگت کے ساتھ  اور بھی حسین دکھ رہی تھی ۔ مگر سٹالر شاید وہ سوتے ہوئے اتار چکی تھی ۔۔"

کیا لینے آئی ہو یہاں پر ۔۔ معا اسکے سرخ چہرے پر نظریں دوڑاتے ہوئے وہ سرگوشی میں سرد لہجہ اپناتے ہوئے بولا۔۔۔"

جج جی۔۔ آیت نے ناسمجھی سے پوچھا جبکہ انکھیں ہنوز بند تھیں ۔" اس کی حرکت پر رافع کے دل نے ایک بیٹ مس کی مگر اگلے ہی خیال کے آتے اس نے خود کے دل پر سرزنش کرتے خود کو ڈپٹا۔۔"

وریام کو کیسے جانتی ہو۔۔۔۔۔ مسلسل اسے نظروں کے حصار میں رکھے اب اسکی توجہ اس کی سلیولیس بازوؤں پر تھی، جو کہ دودھ کی طرح جگمگا رہے تھے۔۔۔"

جج جی وریام کا نام سنتے ہی آیت نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔" اور اندھیرے میں بھی مقابل کو پہچان گئی تھی، وہ اس کی طرف جھکا ہوا کھڑا تھا، آیت کو لگا کہ اگر اس نے زرا سی بھی حرکت کی تو وہ ضرور اس سے ٹکرا جائے گی ۔"

دوست سے ذکر سنا تھا اور اس دد دن پپ پہلی بار ملی تھی۔۔ اپنے دونوں ہاتھ کو بازوؤں پر رکھتے اس نے رافع کی نظروں کا مرکز دیکھتے خود کو چھپانے کی ننھی سی کوشش کی۔۔۔"

جبکہ اس کی حرکت پر رافع کے لب مسکرائے ۔۔۔"

۔" ایسا ہی ہونا چاہیے اگر تمہاری وجہ سے میرے دوست کو کوئی تکلیف پہنچی تو یقین جانو تمہیں کوئی بھی پہچان نہیں پائے گا ،، دائیں ہاتھ کی انگلی اس کی گردن پر گھماتے ہوئے اس نے سخت لہجے میں وارن کیا ۔۔"

جبکہ دوسری طرف اس طرح سے رافع کے چھونے پر آیت نے اپنا سانس روکا ۔۔۔ اور بامشکل سرخ ہوتی رنگت کے ساتھ سر ہلایا۔۔۔"

رافع اس کا سانس روکنا نوٹ کر چکا تھا اسی لیے بنا کچھ کہے جیسے آیا تھا ویسے ہی باہر نکلا۔۔۔"

وہ یہاں آیا تھا تا کہ آیت کو وارن کر سکے وہ نہیں چاہتا تھا کہ وریام کو کوئی بھی دکھ ملے،،، اس لیے وہ خود سے ہی آیت کو وارن کرنے آیا تھا، مگر اب خود ہی سخت جھنجلایا ہوا تھا۔ "

بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے گاڑی میں بیٹھتے ایک نظر آیت کے روم کی بند کھڑکی پر ڈالی ،، اور کار سٹارٹ کرتے وہاں سے نکلا۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥                                            

موم۔۔۔۔ ڈیڈ ۔۔۔۔ وہ سیدھا گھر میں داخل ہوتا اپنے موم ڈیڈ کےروم میں داخل ہوا ،مگر وہاں دونوں کو ناپاتے ہوئے وہ فوراً سے باہر آیا ، لاوئج میں داخل ہوتے اس نے زور زور سے آوازیں دینا شروع کر دیں""

" وہ تین دن بعد گھر آیا تھا اسے یقین تھا کہ اس کی ناراضگی کا سوچتے ہوئے اس کے موم ڈیڈ پاک جانے کی ضد چھوڑ دیں گے، اسی لیے  تو وہ تین دن تک اپنے پرسنل اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا ۔"

کسی کی موجودگی محسوس نا کرتے اس نے قدم کچن کی جانب بڑھائے ، ایک نظر گھڑی پر ڈالی جہاں شام کے سات بج رہے تھے۔۔۔" 

اسے لگا کہ شاید موم اور ڈیڈ باہر گئے ہیں اسی لیے وہ پیٹ میں اچھلتے چوہوں کو چپ کروانے کے لیے کچن میں داخل ہوتے راستے میں ہی ٹی شرٹ اتارتا صوفے پر پھینک چکا تھا۔۔۔"

فریج کھولتے اس نے  فریج کا ڈور بند کرتے غور سے اسے دیکھا۔۔ جہاں ایک بڑی سی چٹ پر اسی کے لیے کچھ لکھا ہوا تھا ۔۔"

" کیسے ہو میرے پیارے بیٹے ۔۔ تو بات یہ ہے کہ تین دن تک تمہارا انتظار کرتے میں اور تمہاری ماں تھک چکے تھے اور ویسے میں اتنا تھکا نہیں تھا سچی بات ہے کیونکہ اپنی بیوی کے ساتھ کوالٹی ٹائم سپینڈ کرتے کون تھکتا ہے۔۔

اور پھر  تمہاری نانو کے مسلسل اسرار پر ہمیں پاکستان جانا پڑا۔  اب میں تمہاری ماں کے ساتھ کچھ  اور زیادہ کوالٹی ٹائم سپینڈ کر سکتا ہوں ، اگر آنا چاہو تو ا جاو، ورنہ۔ تمہاری مرضی۔۔۔ تمہارا جان عزیز ڈیڈ۔۔۔😍😍۔

غصے سے پھولتے تنفس کے ساتھ اس نے پینٹ سے رنگ ہوتے موبائل کو یس کرتے کان سے لگایا۔۔۔"

جہاں رافع بھی اسی یہی بتا رہا تھا اور ساتھ یہ بھی کہ وہ دن میں بات کرنا چاہتا تھا مگر وریام کے نا سننے پر اسے ابھی فون پر بتانا پڑا ۔۔"

ٹھا کہ آواز سے موبائل ٹکروں میں تبدیل ہوتا زمین بوس ہوا۔۔"

ڈیڈ۔ ۔۔۔۔۔ you will pay for this"

اسکا تنفس حددرجہ تیز تھا کہ کیسے اسکے ڈیڈ موقع کا فائدہ اٹھاتے اسکی موم کو اس سے دور لے جا سکتے ہیں۔۔وہ سوچتے خیالوں میں اپنے ڈیڈ سے مخاطب ہوتے لمبے لمبے ڈنگ بھرتا  اپنے ایکسرسائز روم  کی جانب بڑھا۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہائے یار کسی ہو تم۔۔۔۔وہ دور سے رمشہ کو بیٹھا دیکھ ماریا کو اشارہ دیتے بولی کہ وہ بھی سمجھتے آنکھ دبا گئی کہ چلو میں آتی ہوں ۔۔۔

ارے میں ٹھیک ہوں کسیی ہوں تم لائبہ۔۔۔ رمشہ جو کینٹین میں بیٹھی  لنچ کر رہی تھی کہ اچانک سے آتی لائبہ کی آواز پہ وہ خوش ہوتے بولی۔۔

میں تو ٹھیک ہی ہوں یار تم سناؤ ۔۔کہاں بیزی کو تم اجکل۔۔

وہ سامنے سیٹ پہ بیٹھتی مسکراتی ہوئی بولی ۔۔ 

میں کہیں نہیں بس آجکل پیپرز بکی تیاری چل رہی ہے ۔۔ رمشہ بتاتے جوس کا سپ لیتے بولی۔۔

 اہا۔۔۔ ویسے ہماری دوستی کو ابی دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔۔ ہم سب نے سوچا ہے کہ ہم تمہیں ایک زبردست سی پارٹی دینا چاہتی ہیں۔۔

لائبہ نخوت سے سوچتے پیار سے بولی کہ رمشہ اسکے حلوص پر گہرا مسکرائی۔۔

تھینکس یار مگر میرے پاپا نہیں مانے گے ۔۔۔۔ وہ فوراً سے دکھی ہوتے بولی۔۔

یار تم ٹرائی تو کرنا ہو سکتا ہے کہ مان جائیں ۔۔ لائبہ فورآ سے اپنے پلان کو خراب ہوتے دیکھ بولی کہ رمشہ سوچ میں پڑ گئی۔۔

اوکے میں مما سے بات کروں گی اگر وہ مان گئی تو ۔۔۔پاپا سے بھی پوچھوں گی۔۔۔وہ نیم رضا مند ہوتے بولی کہ لائبہ شکر بھرا سانس خارج کرتے اسے دیکھتے سر جھٹکتی مسکرائیں۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

 وہ دھیمے سے چلتی اندر داخل ہوتے اسے دیکھنے لگی جو کہ زرد پڑتی رنگت کے ساتھ بیڈ پہ نین دراز تھی۔۔

وہ دکھ سے سوچتے نم آنکھیں لیے اسکی جانب بڑھی۔۔۔

آہٹ پہ نیناں نے آنکھوں سے ہاتھ اٹھاتے سامنے دیکھا جہاں ردا کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

لیٹی رہو۔۔اسے اٹھنے کی کوشش کرتے دیکھ وہ بولتے اسکے پاس ائی۔۔

کیا ہوا ہے نینوں میری جان۔۔کیا حالت بنا لی ہے اپنی۔۔۔

کل تک تو تم ٹھیک تھی۔۔ یار کیا ہو گیا ۔

وہ اسکے پاس بیٹھتے اسکے حسین چہرے کو تھامتے ہوئے بولی ۔۔کہ نیناں نے بشمکل امڈتے آنسوں کو روکا۔۔حلق میں آنسوں کا ایک بولا سا ابھرا جسے وہ بمشکل نگلتے بولی۔

کچھ نہیں ہوا پگلی ٹھیک ہوں میں تم کیوں ایسے پریشان ہو رہی ہو۔۔

وہ اسکے ہاتھوں کو تھامتے پیار سے بولی کہ ردا نے اسے گھورا کہ کیا واقعی ٹھیک ہو۔

ہاں بس تھوڑا سا بخار ہو گیا اور کچھ نہیں۔۔۔

وہ نرمی سے اسکے ہاتھوں کو تھپکتے پیار سے بولی کہ ردا سرد آہ بھرتے رہ گئیں۔۔

بی جان کہاں ہیں۔۔۔عہ بی جان کو ناپاتے بولی ۔۔

وہ شاید اپنے روم میں ریسٹ کر رہی ہیں۔۔۔

نینوں پلیز حیال رکھو اپنا تم جانتی ہو ناں کہ بی جان کس قدر اٹیچ ہیں تم سے ۔۔۔ ناجانے کسیے انہوں نے خود کو سنبھالا ہوا ہے۔۔ 

ردا جانتی تھی کہ بی جان نے کیسے اسے لاڈ سے پالا تھا اور کیسے انکی جان نیناں میں اٹکی ہوتی تھی۔۔۔

وہ رسان سے اسے سمجھاتے بولی۔۔

میں جانتی ہوں ردا اور اب کوشش کروں گی کہ ایسا کچھ  ناں ہو اب خوش ۔۔۔۔وہ کہتے اسے دیکھ مسکراتے اسکے ساتھ لپٹی کہ ردا بھی مسکراتے ہاں میں گردن ہلا گئی۔۔۔

رضا کیا ہم نے ٹھیک کیا ۔۔۔۔ وہ ان کے کندھے پر سر رکھے نم لہجے میں بولی، جانتی تھیں کی ان کا ضدی بیٹا انکے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرتا اور اب تو وہ اس طرح سے بنا بتائے شوہر کے کہنے پر آ گئی تھیں مگر دل ابھی بھی اپنے جگر کے ٹکڑے میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔۔"

رضا صاحب نے ایک نظر اپنے سینے پر سر ٹکائے اپنی متاع جان کو دیکھا اور ایک لمبا سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔"

آپ جانتی ہیں شمائلہ کہ وہ کبھی بھی ہماری بات نہیں مانے گا اور اس کے علاؤہ اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔" 

پیار سے انکا سر سہلاتے ہوئے کہتے ایک نظر ہاتھ میں پہنی کھڑی پر ڈالی ، تقریبا آدھے گھنٹے میں وہ اپنے ملک میں ہوں گے اپنوں کے پیچ ، اپنی سرزمین میں ۔۔۔۔ ایک پیارے سے احساس نے انہیں سرشار کیا تھا ۔۔ مگر اپنے بیٹے کی حالت کا سوچتے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔۔"

" وہ جانتے تھے کہ انکا بیٹا ماں کے معاملے میں انکا سب سے بڑا دشمن ہے۔۔اور آج دل جلانے والے کارڈ جو  وہ چھوڑ کے آئے تھے یقینا وہ آگ اگل رہا ہو گا،،    

"مگر ایک سکون تھا انہیں وہ اپنے بیٹے کی رگ رگ سے واقف تھے اور انہیں معلوم تھا کہ دو سے تین دن تک ان کے پاس ہو گا آخر کار وہ اسکی زندگی کو اپنے ساتھ لے اڑے تھے۔۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

 مسلسل ساری رات جاگنے کی وجہ سے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگی تھی۔۔جب ایک دم سے اپنے اوپر کچھ وزن محسوس کرتے اس نے اپنی سرخ نیند سے بھری بھوری آنکھیں کھولیں اور اپنے پیٹ کی جانب سر اٹھا کر دیکھا،،"

جہاں وہ بڑے آرام سے اپنا سر ٹکائے پاؤں دوسری جانب کیے لیٹا ہوا تھا۔۔"

"اٹھ سالے،، کمینے ۔۔پیچھے ہو۔۔وہ غصے سے رافع کو جھٹکتا ہوا بولا جو کہ ہنوز ایسے ہی لیٹا ہوا اسے مکمل اگنور کیے جا رہا تھا ۔"

" کس سے بات کر رہے ہیں آپ مسٹر ۔۔۔ ایک سٹائل سے ائبرو اٹھاتے ہوئے وہ وریام سے بولا ۔"

" کمینے دفع ہو جا مجھے کل کا بڑا غصہ سے تجھ پر ، ایک تو فصول میں مجھے پیٹا اور دوسرا مجھے بتانا بھی گنوارا نہیں کیا۔۔"

ہاہاہاہا۔۔ سیریسلی۔۔۔  تجھے خود اپنی محبوباؤں سے فرصت نہیں تھی اور الزام توں مجھے دے رہا ہے ۔۔"

" اس کی بات پر وریام نے گھورتے ہوئے اسے دیکھا  ... اور ایک دم سے پھرتی سے الٹا ہوتے  رافع کو سائیڈ پر کرتا کھڑا ہوا۔۔۔"

ویسے ایک بات تو بتا کہ توں پاک کبھی گیا نہیں مگر گالیاں خالص پاک کے لوگوں جیسی دیتا ہے۔۔ہاہاہاہاہا۔۔'"ہنستے ہوئے وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے اسے مزید بھڑکانے لگا۔۔"

" ول یو شٹ یور ماوتھ۔۔۔۔" ایک دم سے زچ ہوتے ہوئے وہ وارڈروب سے اپنے لیے  ڈریس سلیکٹ کرتا ہوا رافع کو گھورتے ہوئے بولا۔۔"

"ویسے توں شرٹ کیوں اتار کے سوتا ہے ۔۔۔ویسے اچھا ہے گھر میں بے شک  توں ایسے رہ ۔۔مگر اگر توں  بغیر شرٹ کے اپنے سکس پیگ کی نمائش کرواتا ہوا باہر نکلا ناں تو قسم سے پھر تیرا ملنا  ناممکن !!

 ہاہاہا ۔۔۔ایک زور دار قہقہہ لگاتے وہ معنی خیزی سے کہ بیڈ پر الٹا لیٹ گیا ۔"

ویسے ایک بات تو بتا آج کچھ خاص ہے کیا۔۔۔ جو توں اتنا چہک رہا ہے۔۔۔ وریام کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ آج وہ پہلے سے کافی خوش گوار موڈ میں ہے اور اسکا بار بار تنگ کرنا ،وریام کو کافی اچھا بھی لگ رہا تھا، آج کافی عرصے کے بعد وہ ایسے کھل کر مسکرا رہا تھا۔۔۔

"کک کیا کچھ بھی تو نہیں ۔۔اچانک سے وریام کا الٹا اسی پہ وار کرنے پر وہ بھوکھلاتے ہوئے اٹھ بیٹا۔۔"

" چل توں ناں بتا ۔۔پتہ تو چل ہی جانا ہے مجھے آخر کون ہے وہ جس کی وجہ سے میرے یار کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے ۔۔"

" تجھے شاور نہیں لینا ۔۔جا جلدی سے شاور لے کہ آ ۔۔میں تجھے لینے آیا ہوں ،بابا نے بلایا ہے، ناشتے کا ٹائم تو رہا نہیں ۔۔ اب لنچ ہی کریں گے ایک ساتھ۔۔۔"

"اسکے کہنے پر وریام نے داد دینے والے انداز میں اسے مسکراتے دیکھا ۔۔جیسے کہ رہا ہو کہ اچھا بچو! مجھ سے چالاکی۔۔"

کیا گھورے جا رہا ہے جا جلدی۔۔۔مسلسل وریام کو خود کو دیکھتے ہوئے پا کر وہ بھوکھلاتے ہوئے کہتا خود بھی اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہوتے پہلے سے سیٹ بالوں کو برش کرنے لگا۔۔۔"

جبکہ اسکے بچگانہ انداز پر وریام نے مسکراتے نفی میں سر ہلایا اور واشروم کی  جانب بڑھا۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

نیناں میری بچی ۔۔۔تھوڑی سی اور پی لو۔۔ بی جان اسے سوپ پلاتے ہوئے بولی جبکہ نیناں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے برا سا منہ بنایا۔۔۔"

"بی جان رہنے دیں اس چڑیل کو نہیں پیتی تو ناں پیے میں پی لیتا ہوں ۔۔"

" بی جان کے ہاتھ سے سوپ کا باؤل لیتے  وہ نیناں کا اترا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا اور مزے سے سوپ پینے لگا ۔"

"اشعر واپس کرو میری سوپ ، میں نے پینی ہے ، مسلسل اشعر کو باؤل سے سوپ پیتے دیکھ وہ چڑتے ہوئے بولی ۔"

" مگر ابھی تو کسی نے کہا تھا کہ اسے نہیں پینی۔۔۔" 

وہ بھی اسی کے انداز میں تنک کر بولا۔۔"

ہاں تو اب میرا دل کر رہا ہے تو اب مجھے چاہیے۔۔ وہ اور بھی غصے سے لال بھبھوکا چہرہ لیے اسے گھورتی بولی ۔۔"

" جبکہ بی جان مسکراتے ہوئے دونوں کو دیکھتے ہوئے دعا دینے لگی ۔۔ ان کی تو کب سے خواہش تھی کہ اشعر جیسے سمجھدار انسان کو وہ اپنی بیٹی سونپ کر اس دنیا سے رخصت ہو سکیں۔۔۔"

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کیا ہو گیا ہے مما آپ کو ۔۔۔جیسٹ چل۔۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہی ہیں ۔۔" حسن کب سے سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھا انکو سمجھا رہا تھا جو کہ ہنوز اپنی بات پر آڑی ہوئی تھیں۔۔"

" مجھے پتہ کہ کیسی بات ہے ، دیکھا نہیں اپنے باپ کو کیسے لے کر گیا سب کے سامنے اور ایک تم ہو جسے اس منحوس ماری سے شادی کرنی ہے۔۔۔"

" ارے یہ ڈائن ابھی تو میرے گھر کی بہو بنی نہیں کہ پہلے ہی باپ بیٹے کو قابو کر لیا میں کیا کروں کس سے کہوں ۔۔ ہائے ۔۔"

۔روتے ہوئے دہائیاں دیتے ہوئے انہوں نے اپنے آنسوں صاف کیے۔۔۔"

مما مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ،مگر شاید آپ بھول رہی ہیں کہ چاچو کی ساری پراپرٹی نیناں کی ہے اور جو بھی اس سے شادی کرے گا اس کی پانچوں گھی میں ہوں گی ۔۔"

ہمیں تو پیسے سے مطلب ہے ویسے بھی ،شادی کے بعد پڑی ریے گی کسی کونے میں ۔۔۔ میں تو یسری سے شادی کر لوں گا بعد میں اور آپ کو زندگی بھر کے لیے فری کی نوکرانی مل جائے گی 

جو کہ نا صرف آپ کی خدمت کرے گی بلکہ ہر بات مانے گی ۔

" یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ارے واہ میرے لاڈلے بیٹے شاباش ۔۔۔ جیتا رہ توں ۔۔ کیا منصوبہ بنایا ہے توں نے۔۔۔۔"

اچھا مما مجھے کام ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں کہتے ساتھ ہی وہ موبائل ہاتھ میں گھماتا باہر کی جانب بڑھا ۔۔۔جبکہ پیچھے سلمیٰ بیگم آنے والے وقت کا سوچتے ہوئے ہنسی۔۔۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کل سے وہ بخار میں تپ رہی تھی ۔۔۔ ابھی تک اس کا دماغ رافع کی کہی باتوں میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔

اس طرح سے اسکا چھونا ، اسکے قریب آنا وہ چاہ کر بھی پوری رات اس کے خوف سے نہیں نکل پائی تھی ۔۔۔ابھی بھی 

وہ یونہی لیٹی ہوئی تھی ۔۔

دعا بھی بارہا چیک اپ کروانے کا بول کر جا چکی تھی مگر اس نے منع کر دیا ۔۔"

کب سے چھت کو گھورتے وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی۔۔ اچانک سے پیاس کا احساس ہوتے اس نے ایک نظر کھڑکی سے باہر دیکھا جہاں پر شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔۔

اس نے نظریں دوڑائی پانی کی تلاش میں ،مگر پانی کا جگ دور ٹیبل پر پڑا دیکھ اس نے منہ پھلاتے ہوئے اٹھنے کی ناکام سی کوشش کی،مگر جسم سے اٹھتی درد کی ٹیسوں کی وجہ سے نڈھال سی دوبارہ تکیے پر سر  ٹکاتے لیٹ گئی۔۔۔".

پانی۔۔۔"  بھاری گھمبیر آواز اپنے پاس سے سنتے اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے ۔۔ اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا جیسے جسم میں ایک بوند خون نا بچا ہو ۔۔"

آ آ آپ۔۔۔۔ اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے اس نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں بامشکل کہا۔۔۔جبکہ مقابل کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

تم یہاں پر کیا کر رہے ہو ۔ دیکھو اگر میں نے کل کچھ نہیں کہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کچھ بھی نہیں کروں گی ،میں کوئی معصوم بیچاری ٹائپ لڑکی نہیں ہوں جسے تم ہراس کرتے پھرو ۔۔""

" دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھائے اسے وارن کرنے کے سے انداز میں کہتے آیت نے ایک نظر بند دروازے کی جانب دیکھا۔ ۔۔ اسکے گلے میں ایک گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی،، جبکہ ماتھے پہ چمکتے پسینے کی ننھے قطرے اسکے ڈر کی نشانی تھے۔۔۔۔

" چاہے وہ خود کو جتنا مرضی بہادر کہتی مگر یہ سچ تھا کہ رافع کو اس وقت اپنے سامنے دیکھ اس کا روم روم ڈر اور خوف سے کپکپا رہا تھا، مگر وہ اپنا ڈر چھپانا جانتی تھی ،ایسے کتنے ہی حالات کا وہ مقابلہ کر چکی تھی ، اپنی تلخ زندگی میں۔۔۔۔"

اور اب بھی وہ رافع کی جانب دیکھتے خود میں اس سے مقابلے کی ہمت مجتمع کر رہی تھی 

" اششش چپ ہو جاؤ ۔۔ میں یہاں پر کوئی تمہیں مارنے نہیں آیا جو یوں شور مچا رہی ہو،، وہ اچانک سے اسکے چیخنے پہ اسے چپ کراتے بولا ۔۔

 رافع کو اس وقت وہ بالکل لڑاکا عورت لگی۔۔جبکہ رات کو تو وہ بالکل سہمی سی ڈرپوک لڑکی تھی، وہ خود اسکی بہادری پر حیران تھا،،"

" پھر کیوں آہے ہو  ۔۔ ؟ خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر وہ بامشکل بولی۔۔۔"

" تم آج یونی نہیں آئی تو تمہاری دوست سے وریام کو پتہ چلا کہ تمہاری طبیعت خراب ہے بس اسی لیے ہم تمہاری عیادت کو آئے ہیں ۔۔"

وہ اسے تفصیل سے بتاتا اسی کے پاس بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھتےلاپرواہ بنتے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔

" اٹھو یہاں سے چئیر پر جا کر بیٹھو۔۔۔ اچانک افتاد پر وہ بھوکھلاتے ہوئی سیدھا ہوتی غصے سے بولی۔۔۔ جبکہ اسکے انداز پر رافع نے داد دینے والے انداز میں گردن گھماتے اسے کے بخار سے  تپتے خون چھلکاتے  سرخ چہرے کو دیکھا۔۔"

چینج نہیں کیا تم نے۔۔۔ اسے رات کے نائیٹ ڈریس میں دیکھتے ہوئے وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا ۔""

" جبکہ دوسری طرف آیت اپنے حلیے کا سوچتے پھر سے شرم سے لال ہوتی ، اپنے بازوؤں کمفرٹر کے اندر لے گئی ۔۔

" دوسری طرف اسکی احتیاط پر مخفوظ ہوتے رافع نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔۔"

دانت ناں نکالو نکلو میرے روم سے ۔۔۔ وہ خجل سی ہوتی اپنی خفت مٹانے کو  بولی تاکہ وہ نکلے اور وہ اپنا نائیٹ ڈریس چینج کر سکے۔۔۔"

" اچھا چلو جیسی تمہاری مرضی ،میں پھر وری کو بتا دیتا ہوں کہ اس  کی دو دن پہلے بننے والی بہن اس سے ملنا نہیں چاہتی۔۔۔ وہ اب مزے سے دونوں بازوؤں سر کے نیچے لے جاتے بیڈ پر نیم دراز ہوتا  بولا۔۔۔"

بب بھائی آئیں ہیں ۔۔۔ کہاں ہیں وہ ۔" ایک دم سے وریام کے ذکر پر وہ بوکھلا کر بولی ،کہ اس شخص کا کوئی اعتبار نہیں کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔"

" ہاں تمہارا بھائی آیا ہے وہ گاڑی پارک کر رہا ہے اور ساتھ میں تمہاری کبھی نا ہونے والی بھابیاں بھی مل گئی تو ان کو نمٹا کر آتا ہو گا۔۔۔۔"

مسلسل آیت کو نظروں کے حصار میں لیے وہ اسے تفصیلاً آگاہ کرنے لگا۔۔۔"

" آپ کو یہاں گرلز ہاسٹل میں آنے سے کسی نے روکا نہیں ۔۔ " یہ سوال تو کل رات کا اسکے دماغ میں تھا کہ کیسے رافع اسکے روم تک بآسانی پہنچ گیا ۔۔ اور تو اور اسے کیسے پتہ کہ میں اس روم میں ہوں، "

" ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔  آر یو سیریس ۔۔۔میڈم یہ لندن ہے پاکستان نہیں جہاں پر اتنی پابندیاں ہوں اور ویسے بھی وریام کو اس شہر میں کون نہیں جانتا۔۔۔۔ ورلڈ ٹین فیمس بزنس مین میں سے ایک مرتظی کاظمی کی اکلوتی اولاد ہے وہ اور اوپر سے اسکی فرینڈ فالوینگ تو دیکھ ہی چکی ہو تم۔۔۔۔ وہ اسے لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے سمجھانے لگا۔۔"

" او اوو ۔۔۔ وہ غور سے اسکی بات سنتی آخر میں ہونٹوں کو o شیپ میں ٹرن کرتے ہوئے بولی ۔۔۔جیسے ابھی سمجھ گئی ہو ۔"

" اگر بھائی باہر ہیں تو تم یہاں پر کیا کر رہے ہو ۔۔وہ آئبرو اٹھاتے خود کو پوری طرح سے کمفرٹر سے کور کیے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھنے لگی، اسے رافع کی حرکتیں مشکوک سی لگی ۔۔"

" اب کی ناں پتے کی بات۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں نہیں  چاہتا کہ وریام کو کل رات کے بارے میں کچھ بھی علم ہو کہ میں یہاں آیا تھا ۔۔۔۔ تو اسی لیے تمہیں آگاہ کرنے آیا تھا کہ ایسا کوئی بھی ذکر اسکے سامنے مت کرنا ۔۔ ایک ہاتھ کی کہنی کو بیڈ پر ٹکاتے وہ قدرے سیدھا ہوتے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا ۔۔۔"

" ( کتنا گھنا ۔میسنا ہے یہ ۔) دل ہی دل میں اسے ناموں سے نوازتے ہوئے وہ بولی۔۔ کیوں ناں بتاؤں میں بتاؤں گی اور یہ بھی بتاوں گی کہ انکا دوست کتنا گھنا ،میسنا ہے ۔۔ جیسا دکھتا ہے ویسا شریف نہیں ۔۔۔اور۔۔۔"

اس سے آگے وہ کچھ بولتی ایک دم سے ہاتھ بڑھاتے اسکی گردن سے پکڑ کر اسے خود سے نزدیک کرتے رافع سے پرشوک نظروں سے اسکی پھیلی ہوئی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔"

" تو کیا بتاؤ گی تم۔۔۔۔ جھٹکے سے اسے اپنے نزدیک کرتے وہ پرشوک لہجے میں بولا ۔۔۔ 

" جبکہ دوسری طرف آیت کی زبان اسکے تالو سے چپک چکی تھی ۔۔ وہ اس وقت رافع کے چہرے کے بالکل نزدیک تھی اتنا کہ اسے رافع کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔"۔ 

" خود پر لپیٹا ہوا کمفرٹر ایک طرف فرش پر پڑا تھا اور اس وقت وہ پھر سے رات کے حلیے میں اس کے سامنے تھی ،مگر اب فرق یہ تھا کہ اس وقت رات  کو اندھیرا تھا اسکے برعکس اس وقت روشنی میں وہ اسے نڈھال کر رہا تھا۔۔۔"

" بولو اب بتاؤ گی ۔۔" اسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے رافع نے اسکی گردن پر دباؤ بڑھاتے اسے اور اپنی جانب کھینچا۔۔۔"

" نن نہیں بتاؤں گی چچ چھوڑو مجھے ۔۔۔ بامشکل سے اپنے الفاظ مکمل کرتے وہ مچلتے اس کے حصار سے نکلنے کو ہاتھ پاؤں چلانے لگی ۔۔۔"

۔" گڈ ۔۔۔ میں تمہارے بھائی کو دیکھ لوں تب تک تم چینج کر لو ۔۔ الٹے ہاتھ کی پشت سے اسکے دہکتے رخسار کو سہلاتے ہوئے کہتا وہ باہر وریام کی جانب بڑھا ۔۔"

" جبکہ اسکے جاتے ہی ایک جھٹکے سے بیڈ سے اترتے وہ واشروم میں بند ہوگئی۔۔۔

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥

بی جان باہر کوئی آیا ہوا ہے ۔۔ آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔۔ " زہرہ جو کہ نیناں کی طبیعت خرابی کی وجہ سے آج جلدی کام پر آ گئی تھی ۔۔صبح ہی صبح کسی شخص کے ساتھ خوبصورت سی دکھنے والی عورت کو دیکھتے ہوئے ان کے بتانے پر کہ بی جان سے ملنے آئیں ہیں انہیں بیٹھک میں بٹھاتے خود اوپر بی جان کے پاس ائی۔۔۔ جو کہ نیناں پر سورتیں پڑھ کر دم کر رہیں تھیں ۔۔"

انکو بٹھاؤ میں اتی ہوں ۔۔۔۔" سورت مکمل ہوتے ہی وہ نیناں پر پھونکتے زہرہ سے مخاطب ہوتے بولی جو کہ جی اچھا کہتی باہر  چلی گئی ۔۔۔"

السلام وعلیکم ...!  بیٹھک میں داخل ہوتے وہ مؤدب سا سلام کرتی شائستگی سے بولی۔۔۔"

" وعلیکم السلام بی جان۔۔۔ رضا صاحب نے آگے بڑھتے انکے سامنے مؤدب سا سر جھکاتے پیار لیا۔۔۔۔"

" جبکہ شمائلہ کے ساتھ ساتھ بی جان بھی حیرت زدہ سی گنگ تھیں ۔۔۔۔ بیس سال بعد اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی جان از عزیر  بیٹی کو دیکھتے انکی بھوڑی آنکھیں اشکبار تھیں۔۔۔۔"

جبکہ دوسری جانب شمائلہ بھی اپنی بی جان کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے نم آنکھوں سے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی سسکی دبانے لگی، کہاں سوچا تھا انہوں نے کہ وہ اب اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی ماں سے مل پائیں گی ۔۔"

شمائلہ میری بچی۔۔۔ کپکپاتی آواز میں اپنی لاڈلی کو بلاتے وہ دونوں  بازوؤں اپنی بیٹی کے لیے وا کر گئیں ۔۔۔

بی جان۔۔۔۔ اپنی ماں کے گلے لگتے ناجانے کتنے پل وہ یونہی انکی ممتا کو محسوس کرتی روتی رہیں ۔۔ 

ارے واہ کیا فیملی ڈرامہ ہے ۔۔ بی بی کس سے پوچھ کر آئی ہو ۔۔ یاد نہیں کیا کہا تھا تمہارے بھائی نے ۔۔۔ کہ پوری زندگی یہاں قدم مت رکھنا مگر تم ڈھیٹ پھر سے منہ اٹھائے آ گئی۔۔۔"

" سلمیٰ بیگم  جو کہ زہرہ کے بتانے پر کہ بی جان کا کوئی مہمان آیا ہے دوڑتی ہوئی آئی تھیں کہ پتہ تو چلے آخر کون آیا ہے ،مگر سامنے ہی شمائلہ کو دیکھتے وہ زہر خند ہوتی ان پر برس پڑی ۔۔۔"

" بہو میں ابھی زندہ ہوں اور میرے ہونے تک میری بیٹی کو اس گھر سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ ۔۔چاہے تمہارا شوہر ہی کیوں ناں ہو۔۔۔۔"

اپنی روتی ہوئی بیٹی کو ساتھ لگائے وہ ایک عزم سے بولیں ۔۔ اتنے برس بیٹی کے بغیر گزار کر اب وہ کیسے کسی کو بھی اجازت دیتی کہ انکی بیٹی کی طرف آنکھ بھی اٹھائے ۔۔"

زہرہ بی بی جان اور صاحب کے لیے میرے ساتھ والا کمرہ کھول دو صفائی میں نے کروا دی ہے ۔اور انکے کھانے پینے کا بندوبست بھی کرو۔۔۔"

جب سے نیناں کی طبیعت خراب ہوئی تھی وہ اب گھر میں ہی رہ رہی تھیں کہ حامد صاحب نے سختی سے منع کیا تھا کہ اب سے وہ پیچھلے حصے میں نہیں بلکہ گھر میں رہیں گی ۔۔اسی دن سے وہ روز ساتھ والا کمرہ صاف کرتی تھیں ،دل میں اک آس جو بندھی ہوئی تھی کہ انکی بیٹی ضرور آئے گی ان سے ملنے۔۔۔"

زہرہ کو حکم دیتے وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لگائے ایک نظر سلمیٰ کے بت بنے چہرے پر ڈالتے  وہ رضا کو اشارہ کرتی اوپر کی جانب بڑھی۔۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کیسی طبعیت ہے اب میری بہن کی ۔۔" پیار سے آیت کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ شفقت سے بولا۔۔۔"

" ٹھیک ہوں بھائی۔  ۔۔۔اپ کیسے ہیں۔۔۔؟"

لو بھلا مجھے کیا ہونا ہے میں ٹھیک ہوں مگر تمہیں کیا ہوگیا اچانک سے اتنا بخار ۔۔۔۔"

وہ مشکوک سا ہوتا آیت کے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔"

جج جی نن نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔۔۔ بس اچانک سے ہی طبیعت خراب ہو گئی ۔۔وہ بیڈ کراؤن۔ سے ٹیک لگاتے چور نگاہوں سے رافع کو دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ جو کہ اسی کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔'

"اگر کوئی مسلئہ ہے تو بتا دو میں حل کر سکتا ہوں۔۔۔ اچانک سے رافع کے کہنے پر وریام نے چونک کر اسے دیکھا ،جو ویسے تو کسی لڑکی کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا بلکہ وریام پر بھی اسی بات سے غصہ ہوتا تھا،مگر آج جس طرح سے وہ بہانے بنا کر زبردستی اس کے ساتھ آیا تھا ،، کچھ کچھ شک تو اسے ہو ہی چکا تھا کہ ضرور کچھ گڑ بڑ ہے ۔۔'

کیا ہوا میں نے تو ایسے ہی بولا ہے ۔۔ اچانک سے وریام کے اور آیت کے دیکھنے پر وہ گھبراتا ہوا صفائی دینے لگا۔۔۔"

" آیت آؤ ہم چلتے ہیں ایک بار تمہارا چیک اپ کروا آتے ہیں ۔۔" وریام نے رافع کو نظر انداز کرتے آیت سے کہا۔۔۔"

"جبکہ آیت نے انکار کردیا کہ اب وہ ٹھیک ہے۔۔تھوڑی دیر تک اس سے باتیں کرنے کے بعد وہ شفقت سے اسے اللہ خافظ کہتا باہر نکلا۔۔۔"

ویسے یہ کلر بھی اچھا لگتا ہے تم پر مگر پہلے والا زیادہ اچھا لگتا ہے ۔۔ وہ بلیو سوٹ اور سٹالر میں آیت کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر بولا، جبکہ دوسری طرف اسکی حرکت پر وہ سٹپٹائ اور وریام کو دیکھا جو کہ شاید فون کال پر مصروف تھا۔۔۔"

اپنا خیال رکھنا اور کال کروں گا پک کر لینا ۔۔" وہ اسے ہدایت دیتے ہوئے پیار سے اسکا گال تھپک کر کہتا دروازے سے باہر  نکلا۔۔۔ 

" جبکہ پیچھے اس کی حرکت پر آیت ابھی بھی شاک سٹیٹ میں ویسی ہی کھڑی تھی ۔۔۔"

  🔥🔥🔥🔥🔥

 رمشہ یہ تم اجکل جن لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر چکی ہو ، 

کیسی لڑکیوں کے ساتھ ، مطلب کیا ہے تمہارے کہنے کا۔۔۔۔ شزا کو کڑے تیوروں سے دیکھتے وہ اچانک سے سرد لہجے میں بولی کہ شزا نے پانی بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔

رمشہ کیا تم نے نہیں سنا پوری یونی اس لائبہ اور اسکی ان دو دوستوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتی اور تم خود بھی تو کہتی تھی کہ کیسی لڑکیاں ہیں عجیب سی ان کے ساتھ تو اٹھنا بیٹھنا ہی نہیں چاہیے ۔۔۔۔

اور اب تمہیں کیا ہوا ہے جو یوں کر رہی ہو۔۔۔

شزا  حیران پریشان سی اسے دیکھتے پوچھنے لگی۔

یار مجھے بھی ایسا لگتا تھا مگر اب میں ان کے ساتھ اٹھتی  بیٹھتی ہوں اور یقین مانو وہ بالکل بھی بری نہیں۔۔۔

تمہاری مرضی چاہے جو مرضی کرو مگر کل کو پچھتانا مت اپنے فیصلے پر شزا کہتی ایک نظر اس پہ ڈالتے وہاں سے نکلی کہ پیچھے وہ سر جھٹکتی لائبہ کی کال پک کرتے کان سے لگا گئی۔

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥

وہ جب سے آئی تھیں بی جان سے باتیں کرتے رضا صاحب کو بھی بھول چکی تھی۔۔۔ بچپن کے حسین پل یاد کرتے انکی آنکھیں پھر سے نم تھیں۔۔۔"

بی جان نیناں کیسی ہے اور آپ نے ملوایا نہیں مجھے اس سے مجھے ملنا ہے ، کہاں ہے وہ۔۔۔ ایک دم سے اپنے بھائی کی آخری نشانی اسکی بیٹی کا خیال آتے وہ بی جان کی گود سے سر  نکالتےبولی۔۔'

جبکہ دوسری طرف صوفے پر بیٹھے رضا صاحب بھی انکی بیچینی نوٹ کرتے مسکرائے۔۔۔"

۔کیسی ہو گی بیٹا ۔۔۔ ماں باپ کاسایہ تو بچپن سے ہی اٹھ گیا تھا۔۔ اور وہ بیچاری پوری زندگی منحوس ہونے کا طعنہ سنتے گزار چکی ہے اب بھی بیمار ہے پرسوں رات کو طبیعت اچانک سے خراب ہو گئی تھی ۔۔۔ وہ تو اشعر بیٹا کا اللہ بھلا کرے جو کہ میری آواز سنتے ہی کسی مسیحا کی طرح ہماری مدد کو آن پہنچا۔۔۔'

" اب کیسی ہے مجھے لے چلیں اسکے پاس ۔۔۔" بی جان کے ہاتھ تھامتے ہوئے وہ نم لہجے میں بولی۔۔۔ جبکہ بی جان بھی گردن ہاں میں ہلاتے ہوئے انھیں لیے نیناں کے کمرے کی جانب بڑھے۔۔۔

 🔥🔥🔥🔥🔥

دوا کھاؤ آیت ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔

وہ کب سے دوائی لیے اسکے آگے پیچھے گھوم رہی تھی ، جو کہ بچوں کے جیسے ضد پہ آتی تھی کہ دوا نہیں کھانی۔۔ 

اور دعا جانتی تھی کہ آیت دوائی کے معاملے میں بالکل بچوں جیسی ضدی ہے۔۔۔

دعا نہیں کھانی یہ کڑوی دوا میں نے  ، جان چھوڑو مجھے نیند آ رہی ہے۔۔ وہ منہ بسورتے بیڈ کے پیچھے کھڑی بولی کہ دعا کمر پہ ہاتھ ٹکاتے غصے سے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس پٹکھتے ٹیبل پر رکھ گئی۔۔

نا کھاؤ مگر اب بات ناں کرنا مجھ سے ۔۔ وہ انگلی اٹھاتے وارن کرتے بولی کہ آیت منہ بسورتے آرام سے باہر آئی۔۔۔

اچھا سوری ناں بابا اب نہیں کرتی۔۔ پلیز ناراض ناں ہونا۔۔۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے بولی کہ دعا نے مسکراتے اسے ساتھ لگایا۔۔۔

کس کی کال ہے ، اچانک سے بجتے فون پہ دعا جو کہ دوائی سمیٹتے اسکے پاس بیڈ پہ آتے بولی کہ آیت ان ناون نمبر دیکھتے کال کاٹ دی۔۔۔ 

پتہ نہیں کون تھا ۔۔ چھوڑو مجھے کیا۔۔۔۔ وہ بے پروائی سے کہتے دعا کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوئی اور فون سائلنٹ پہ لگا دیا۔۔

کہ دوسری جانب رافع نے غصے سے فون کو گھورا ، لگتا ہے جسم کا دماغ دوبارہ سے ٹھیک کرنا پڑے گا۔۔

  🔥🔥🔥🔥🔥

کیا ہوا ہے وی آر یو اوکے۔ ۔۔۔۔ لائرہ کب سے اس کا اداس ہونا نوٹ کر چکی تھی ۔۔وہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔۔۔اسی لیے اس سے پوچھ بیٹھی۔۔۔"

سوری یار پارٹی پھر کبھی ابھی مجھے جانا ہے وہ معزرت کرتا یونی کی پارکنگ ایریا میں داخل ہوا۔۔۔"

او ہیلو ڈیوڈ ۔۔۔وئیر آر یو گو۔۔۔؟۔ "

اپنے پیچھے سے آتی جیک اور سیم کی آواز پر گاڑی کا ڈور کھولتے اسکے ہاتھ رکے۔۔ اس وقت وہ ڈسٹرب تھا کسی کا بھی سامنا کرنا اس کے لیے مشکل تھا کجا کہ لڑائی کرنا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ یہ دونوں اس سے کتنی بار باسکٹ بال میں ہارنے کے باوجود بھی وی سے جلنے کی وجہ سے اسے نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔۔۔"

" دیکھو ابھی میرا موڈ نہیں ہے پھر کبھی۔۔۔وہ انگلش لہجے میں ان سے کہتا گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔"

" سیدھے سے کہو کہ ڈر گئے ہاہاہاہا۔۔۔۔ قہقہہ لگاتے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ وریام پر ہنسے۔۔۔"

" جبکہ دوسری جانب وریام کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔"

" اوکے آ جاو۔۔۔" چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ سجائے وہ اپنی گاڑی سے اپنی  ٹی شرٹ نکالتے وہیں کھڑا چینج کرتا انکے ہاتھ سے باسکٹ بال لیے گراؤنڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔"

دوسری جانب جیک اور میکس بھی مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے بڑھے ۔۔۔ پورے ہفتے کی تیاری کے بعد وہ وریام کو چیلینج کر چکے تھے ۔۔وہ جانتے تھے کہ وریام نے پریکٹس چھوڑ دی ہے ...مگر شاید وہ بھول چکے تھے کہ اس نے پریکٹس چھوڑی ہے کھیلنا نہیں۔۔۔

وہ مسلسل بال کو اپنے ہاتھوں میں دائیں بائیں پاس کرتا ایک پراسرار نظر سے اپنے دائیں اور بائیں موجود جیک اور میکس کو دیکھ کر ہنسا۔۔۔"

دفعتاً جیک نے آگے بڑھتے بال اس سے چھیننی چاہی مگر اتنی ہی تیزی سے وہ بال کو پاؤں کی مدد سے ہوا میں اچھالتا جیک کے منہ پر ایک زوردار کک کر چکا تھا ۔ جو کہ کراہتا ہوا دور جا گرا۔۔ 

اب وہ  مسلسل پاؤں کو حرکت دیتا پھرتی سے بال کو گھما رہا تھا۔۔۔ میکس کے لیے سمجھنا مشکل ہو گیا تھا کہ بال کونسے پاؤں پر ہے ۔۔وہ لگاتار اس کے پاؤں پر دائیں بائیں ہوتی بال کو دیکھتے چکراتے سر سے اس کی جانب بڑھا ۔۔"

جب وی نے پاؤں  سے بال کو جھٹکے سے پش کرتے الٹا ہوتے چمپ کرتے بال کو گول میں ڈالا۔۔۔ اور ہاتھ جھاڑتا  ایک نظر میکس اور زمین پر منہ سے نکلتے خون کے ساتھ لیٹے ہوئے جیک کو دیکھا۔۔۔"

وہ کھیل کم رہا تھا اور انکا مذاق زیادہ  بنا رہا تھا انکے گیم کے رول تھے کہ ایوری تھنگ فئیر ان گیم۔۔۔ چاہے کسی کو لگ جائے کوئی کچھ نہیں کہ سکتا مگر یہ پہلی بار تھا کہ وریام نے کسی کو گیم کے دوران مارا تھا وجہ صرف اسے ڈسٹرب کرنا تھا۔۔۔"

اب وی نے اپنے ہاتھ میں موجود بال کو مسکراتے ہوئے میکس کی جانب دیکھتے اسکی طرف اچھالا۔۔۔۔"

میکس پہلے تو خود  حیران ہوا مگر پھر سنبھلتے ہوئے وہ گول کی جانب بڑھا اور حیرت انگیز طور پر وریام نے اسے روکا نہیں ، وہ حیرت سےکنگ وریام کو ڈھونڈنے لگا جب سیٹی بجاتے وریام نے ایک آنکھ دباتے اسے مسکراتے دیکھ اس سے بال چھینی ۔۔۔ 

میکس کچھ سمجھتا اس سے پہلے ہی وہ گول کر چکا تھا۔۔ 

میکس نے حیرت زدہ ہوتے گول کے ساتھ لٹکے وی کو دیکھا  ۔۔۔

آج کے بعد میری اجازت کے بغیر میرے راستے میں مت انا۔۔تجھے اس لیے چھوڑا ہے کہ ابھی اسکا علاج کروا جاکے اور ہاں پریکٹس چھوڑی ہے مگر کھیلنا نہیں چھوڑا ۔۔مائنڈ اٹ ۔۔۔۔۔ انگلی اٹھاتے  انگلش میں وارن کرتے ہوئے وہ اپنے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا گراؤنڈ سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

"ہائے انکل ہاؤ آر یو۔۔۔ وہ یونی سے نکلتا پورا دن کلب میں گزارتے  ابھی آتی رافع کی کال پر اس کے گھر پر تھا۔۔۔"

آؤ  میرے یار ۔۔ ویلکم ویلکم ۔۔۔اج بڑے دنوں بعد ہمارے گھر کو رونق بخشی آپ نے ۔۔کیا راستہ بھول چکے ہو یا کوئی اور بات ہے، وریام کے گلے ملتے ہی وہ ناراضگی بھرے انداز میں بولے۔۔۔"

نو انکل اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ، پلیز شرمندہ مت کریں ،بس تھوڑا ڈسٹرب تھا اسی لیے کل۔بھی نہیں آ پایا۔۔۔ "

وہ انہیں تفصیل سے بتاتا ساتھ ہی انکے پاس والی چئیر گھسیٹتا ڈائنگ ٹیبل  پر انکے ساتھ  بیٹھا۔۔ ساتھ ہی گھوری سے رافع کو بھی نوازا۔۔۔ جو کہ سر جھٹک کر کھانے پر متوجہ ہو گیا۔۔۔"

اور سناؤ کتنی سینچریز ہوئی ہیں ۔ وہ محنی خیزی سے  اسے گرل فرینڈز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔۔۔ 

آپ کی دعا سے تیسری ہونے والی بے مگر آپ نے یہ اچھا نہیں کیا یار۔۔۔ وہ پلیٹ میں نگٹس نکالتے برا سا منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔

اب میں نے کیا کر دیا ہے یار۔۔۔" اظہر اچانک اسکی بات پہ چونکتے اسے دیکھتےبولے۔ 

دیکھیں آپ نے مجھے کیا کہا تھا کہ چاہے جتنی مرضی گرلز فرینڈز بناؤ مگر کوئی سین کرئیٹ مت کرنا ،اور اگر کوئی مجھے خود سے  کس کرنا چاہے تو اس میں کیا ہے ، آخر کو میرے بھی سو ارمان ہیں ،دل کر ہی جاتا ہے مگر آپ نے مجھ سے پرامس لے کر اچھا نہیں کیا۔۔۔"

وہ  کچھ سال پہلے انکی بات کو یاد کرتے ہوئے بولا کہ جب وہ اور رافع یونی میں نیو ایڈمیشن لیتے گئے تھے تو کتنی لڑکیوں نے اسے پرپوز کیا تھا  اور جب وہ اپنے بڈی کو بتانے آیا تو اظہر نے محلصانہ مشورہ دیتے اسے باز رکھا تھا کہ کوئی بھی غلط حرکت مت کرنا۔۔ ہنسی مذاق اپنی جگہ ، مگر ہر لڑکی کی عزت کرو ۔۔ تا کہ وہ خود کو تمہارے ساتھ مخفوظ سمجھیں۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ برخوردار یہ بھی تمہاری بھلائی کے لیے ہی کیا ہے ۔۔ وہ مسکراتے ہوئے ایک نظر اپنے سوبر بیٹے پر ڈالتے ہوئے بولے ۔۔"

وہ کیسے۔۔۔؟ 

وریام ناسمجھی سے انہیں دیکھتا پوچھ بیٹھا۔۔ وہ اس لیے کیونکہ کل کلا کو اگر تیری بیوی تجھ پر طنز کرے کہ تم نے اتنی گرل فرینڈز بنائی پتہ نہیں کس کس کے ساتھ منہ مارتے رہے ہو تو ایٹ لیٹس تم قسم اٹھا کر اپنی پاک دامنی بیان کر سکتے ہو۔۔۔۔"

وہ راضدرای سے اسکے قریب جھکتے سرگوشی میں بولے۔۔ جبکہ رافع ہمیشہ کی طرح ان دونوں کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتا خاموشی سے اپنے کھانے کے ساتھ انصاف کرنے میں مگن تھا۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ویری فنی انکل۔۔۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ان کی بات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے بولا ،بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وریام مرتضٰی کاظمی کسی کو صفائی دے۔۔۔"

ویسے انکل ایک بات کا دکھ ہے مجھے اور اسی بات کی خوشی بھی ۔۔۔ وہ پلیٹ میں سے ایک بائٹ لیتے رافع کو دیکھتا انکل سے مخاطب ہوا ۔۔"

"اب وہ بھی بتا ہی دو۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولے

یار انکل پرسوں ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی ملی ۔۔ بالکل شادی ٹائپ۔۔۔"

وریام کا کہنا ہی تھا کہ رافع کے چہرے کے تاثرات سرد ہوئے وہ پلیٹ میں چمچ گھماتے نگٹس کو گھورنے لگا ۔۔"

تو پھر کس بات کی دیری ہے اٹھا لاؤ لڑکی کو اور شادی کر لو۔۔۔

اظہر خوش ہوتے ساتھ ہی مشورہ بھی دے گئے۔۔

ارے انکل اسی بات کا تو دکھ ہے کہ اس بیچاری نے بات بننے سے پہلے ہی بھائی بنا لیا۔۔۔وریام کا کہنا تھا کہ ایک پرزور قہقہہ فضا میں گونجا جس میں خود وریام کی آواز بھی شامل تھی۔۔۔

پہلی بار کوئی لڑکی اچھی لگی۔ ۔۔ اور اس نے ہی تجھے بھائی بنا لیا۔۔۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔"

ڈیڈ میرا ہو گیا۔۔۔۔غصے سے ٹیبل سے اٹھتے وہ ٹھاہ سے پلیٹ کو فرش پر پٹھکتا روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

اسے کیا ہوا ۔۔پیچھے وہ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔ آپ کے بیٹے کو محبت ہو گئی ہے ۔۔ شادی کروا دیں ۔۔۔ پانی کے گلاس کو منہ لگائے وہ ریلکس سا بولا ۔۔ 

کس سے مطلب ۔۔ کیا کہ رہے ہو  وری۔۔۔۔ وہ حیرت زدہ سے تھے انکا بیٹا جو کہ شادی کا نام تک نہیں لینے دیتا تھا لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا، اسے محبت ہوگئی یہ بات ہضم کرنا تھوڑا مشکل تھا۔۔۔۔"

جی ہاں یہ آپ کا شرمیلا ،میری کل بننے والی نئی نویلی بہن پر لائینیں مارتا پھر رہا ہے اور مجھے بچہ سمجھتا ہے جو کہ ان کاموں میں سب کا باپ ہے۔۔۔ وہ ایک سٹائل سے کہتے آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔

میں اپنی بہن کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ رہا ہوں، اپنے لڑکے کی رائے پوچھ کر مجھے اگاھ کرئیے گا اگر وہ راضی ہے تو پھر کچھ کرتے ہیں اس کی شادی کا۔۔۔۔

اور ویسے پہلے میں لڑکے کی کوالٹیز جج کروں گا اگر وہ میری بہن کے قابل لگا تو ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے ۔

وہ راضدرانہ انداز میں کہتے چئیر کھسکا کر کھڑا ہوا۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

کہاں جا رہے ہیں ہم لوگ ویسے۔۔۔ وہ جو اپنی ماما کو بتائے آی تھی مگر اب اسے یوں رات کے وقت جانا کچھ اچھا ناں کگا۔۔ 

وہ صبح سے لائبہ کے ساتھ لاہور آئی تھی ۔۔ اور اب بھی وہ اسے ناجانے کہاں جانے کا کہہ رہی تھی۔۔۔

یار کیوں پریشان ہوتی ہو دیکھو ہم ساتھ ہیں ناں ت۔ہارے پھر کیوں گھبراتی ہو۔۔ 

بس تھوڑی دیر موج مستی کریں گے اور اسکے بعث واپسی کو نکلیں گے۔۔

لائبہ کی جگہ ماریہ نے جواب دیا اور گاڑی ڈرائیو کرتی لائبہ کو دیکھ آنکھ دبا گئی۔۔

جو خود بھی مسکراتے مرر سے الجھی بیٹھی رمشہ جو دیکھنے لگی۔۔

یار پاپا کو نہیں پتہ ۔۔ وہ ہرٹ ہوں گے پلیز واپس چلتے ہیں۔۔۔

اپنے پاپا کے بارے میں سوچتے وہ فوراً سے بولی کہ چاہے وہ کیسے بھی اپنے پاپا کو ناراض نہیں کر سکتی تھی ۔۔

جو خود سے زیادہ اس سے محبت کرتے تھے۔۔

اپنی ماما کی باتوں پہ اسے یقین تو اتنا ناں تھا کہ جیساوہ کہتی تھیں ویسی ناں تو اسے نیناں لگتی تھی ناں ہی دادو، مگر پھر ماما کا سوچتے چپ ہو جاتی کہ شاید وہ ٹھیک ہوں۔۔۔

اچھا صرف آدھا گھنٹہ ، ہوٹل پاس میں ہی ہے۔۔ وہ اسکے اعتراض ہی فورا سے منت سماجت کرتے ہوئے بولی کہ وہ بھی مجبوراً خاموشی سے سیٹ سے ٹیک لگا گئی۔۔

مگر اسکا دل انجانے خدشے کے تحت بے چین سا تھا جسے وہ ناسمجھتے الجھن میں تھی۔۔

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"آہستگی سے دروازے کھولے وہ اندر داخل ہوتی مبہوت سی اپنے سامنے لیٹی لڑکی کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔

بڑی بڑی آنکھیں، گھنی خمدار پلیکں، باریک خوبصورت سی چھوٹی ناک، سرخ ہوتے بھرے بھرے ہونٹ۔۔ سرخ و سفید رنگت میں سامنے موجود چہرہ دیکھتے انہیں حیرت کا جھٹکا لگا۔۔

بی جان یہ تو بالکل میرے جیسی دکھتی ہے۔۔۔وہ نیناں کے بے تحاشہ حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے بی جان سے بولیں۔۔جو کہ حفیف سا مسکرائی۔۔۔

ہاں بیٹا ،بالکل اپنی پھپھو پر گئی ہے۔۔۔  بی جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔

نہیں بی جان یہ مجھ سے کئی گناہ زیادہ معصوم اور خوبصورت ہے۔۔۔"وہ پیار سے آگے بڑھتے نیناں کا ماتھا چومتے ہوئے بولی۔۔۔

پھپھو آپ۔۔۔۔وہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی ۔۔۔اچانک کسی کے لمس پر چونکی  تو سامنے ہی اپنی پھپھو کو دیکھتے ہوئے وہ حیرت زدہ سی آٹھ بیٹھی۔۔۔

جبکہ دوسری طرف شمائلہ حیران تھی کہ جب آخری بار وہ نیناں سے ملی تھی اس وقت وہ محض چھ ماہ کی تھی ۔۔۔تو پھر اسے کیسے معلوم کہ وہ اسکی پھپھو ہیں۔۔۔۔

شمائلہ نے چونکتے ہوئے بی جان کو دیکھا ،جنہوں نے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلایا کہ ہاں میں نے اسے تمہارے بارے میں بتایا ہے ۔

کیسی ہو میری جان ۔۔اب وہ مسکراتے ہوئے آنکھوں میں نمی سموئے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ تھامے باری باری اسکے نقوش کو چومتے ہوئے بولی۔۔۔

میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں۔۔۔؟ پھوپھا جان نہیں آئے ۔۔۔اور آپ کا بیٹا کیا نام ہے اس کا۔۔۔ہاں وریام بھائی نہیں آئے ۔۔وہ خوشی سے چہکتے سبھی کی بابت پوچھنے لگی۔۔۔۔کیونکہ اسکی بی جان نے اسے سب کچھ بتایا تھا، اس کی پھپھو اور گھر کے متعلق۔۔۔۔

میں تو یہاں ہوں بیٹا ۔۔۔ اپنی پھپھو کو چھوڑ کر ہم غریب کو دیکھیں گی تو ہم نظر آئیں گے۔۔۔رضا نے آگے بڑھتے پیار سے نیناں کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔"

پھوپھا جان ۔۔۔کیسے ہیں آپ سوری میرا دھیان نہیں گیا۔۔۔؟ وہ شرمندہ سی سر جھکائے بولی ۔۔"

ارے بیٹا ۔۔۔کیا ہو گیا ایسی بات نہیں تم تو میری بیٹی جیسی ہو ،میں تو مزاق کر رہا تھا۔۔

نیناں کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے وہ پیار سے سمجھانے لگے۔۔۔

اور میری بچی کی طبیعت کو کیا ہؤا۔۔۔ وہ پاس بیٹھتی اسکے ہاتھ کو تھامتے پوچھنے لگی کہ نیناں برسوں بعد کسی اپنے کے پیار پر دل سے مسکرائی۔۔۔

کچھ نہیں پھپھو بس ہلکا سا فیور ہوا تھا اور کچھ نہیں ابھی تو بالکل ٹھیک ہوں وہ چہکتے انکے گلے میں بانہیں ڈالتے بولی۔۔۔

میرا بچہ اللہ سلامت رکھے آمین۔۔

پھپھو میں نے سنا تھا بلکہ بی جان نے بتایا کہ آپ کا ایک بیٹا بھی ہے وہ کہاں ہیں وریام بھائی ۔۔وہ سوچتے وریام کی بابت پوچھنے لگی ۔۔

کہ اتنے سالوں بعد اپنی پھپھو کو دیکھ وہ ان سے جڑے ہر رشتے کو دیکھنا چاہتی تھی ۔۔

بیٹا وہ پڑھائی کی وجہ سے نہیں آ پایا بس کچھ دنوں تک آ جائے گا پھر مل لینے اس  نالائق سے ۔۔۔ 

رضا دل میں ہی نالائق بولتے بیوی کی مشکل آسان کرتے بولے۔

اچھا ، سہی ہے ۔ اور پھپھو اب آپ ادھر ہی شفٹ ہو جائیں ہمارے پاس ہمیشہ کیلیے۔۔۔ کیوں بی جان۔۔۔

وہ بی جان جو بھی ساتھ ملاتے بولی۔۔

شمائلہ کیا بتاتی کہ جس اکلوتی اولاد میں ان کی جان بستی ہے وہ ہی نہیں آیا تو وہ کیسے رہتی اس کے بغیر۔۔

 بیٹا کوشش کریں گے مگر تمہارے انکل کا سارا بزنس باہر سیٹل ہے اس کے علاؤہ وری کی پڑھائی کا بھی ہے۔۔ وہ بات سنبھالتے بولیں کہ نیناں سمجھتے منہ پھلاتے رہ گئی۔۔

بی جان کھانالگا دیا ہے آپ لوگ آ جائیں ۔۔! زہرہ نے مؤدب سا سر جھکاتے ہوئے کہا ۔۔

اچھا ہم لوگ آتے ہیں تم جاؤ۔۔۔ بی جان اسے کہتی دوبارہ نیناں کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

وہ مسلسل کمرے میں چکر کاٹتا ہوا بے چین تھا ۔۔ اصل پریشانی کی وجہ تو یہی تھی کہ وریام کو کیسے پتہ چلا کہ رافع کے دل میں کیا چل رہا ہے۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کہا تھا اس نے ،اور اس کے مطابق اب تک وہ کمینہ اسکے ڈیڈ کو بتا بھی چکا ہوگا۔۔۔"

اوہ۔ ۔۔۔گاڈ۔۔  اگر یہ میرا دوست نا ہوتا تو آئی سیور میں اسے خود اپنے ہاتھوں سے مار دیتا۔۔۔۔"

وہ جھنجھلاتے ہوئے دونوں ہاتھ  بالوں میں پھنسائے  ہوا بولا۔۔۔۔

 اب یقیناً اسکے ڈیڈ اسے شادی کے لیے فورس کریں گے۔۔۔ شہادت کی انگلی سے ماتھے کو مسلتے اچانک  آنے والے حیال پر وہ موبایل کی جانب بڑھا۔۔۔

ٹیبل سے موبائل فون اٹھاتے اس نے گہرا سانس اپنے اندر کھینچتے ہوئے نمبر ڈائل کیا۔۔۔

وہ جو ابھی نماز ادا کرتی دوا لیتے ہوئے لیٹی تھی۔اچانک بجتے موبائل فون کی آواز نے اس کی نیند میں حلل ڈالا ۔

انناون نمبر دیکھتے ہوئے وہ چڑھ کر موبائل اٹھاتے ہوئے بولی۔۔

 ابے کون ہے ۔ کیا پاگل ہو،یاں پھر کوئی کام نہیں تمہیں چرسی ،موالی۔۔۔شرم نام کی نہیں تم لوگوں میں  ہر دو منٹ بعد فون کرنے لگ پڑتے ہو ۔۔۔ میں  لندن میں رہتی ہوں،لندن ، جہاں تم جیسوں کی سوچ بھی نا آ سکے ، جاؤ جا کر کسی اپنی جیسی کو پکڑو ،اب خبردار جو کال کر کے تنگ کیا ۔۔""

وہ غصے سے بغیر اگلے کی سنے السلام وعلیکم سنتے ہی پاکستان کا تصور کرتے ، اپنی زبان کی پھلجڑیاں برسانے لگی۔۔

جبکہ دوسری طرف وہ حیرت سے ششدر اپنے کان سے موبائل فون کو ہٹاتے گھور کر دیکھنے لگا کیا سچ میں اس نے ٹھیک نمبر ڈائل کیا ہے کہ نہیں، مگر نمبر دیکھتے ہی تصدیق ہوتے آج دن میں اس کا روپ یاد کرتے وہ مبہم سا مسکراتے اس کی بے تکی باتیں سننے لگا، اس وقت وہ بھول چکا تھا کہ اس نے کال کیوں کی تھی ۔۔ یہ لڑکی اسے پاگل کر دے گی۔ یہ بات تو پکی تھی۔

اپنے جیسی ڈھونڈھی ہے اسی لیے تو تمہیں کال کی ہے، دفحتا اسکے جملے کو دہراتے وہ پرشوق خمار بھرے لہجے میں بولا۔۔۔

۔

جبکہ دوسری طرف اسکی  محنی خیز گفتگو کے ساتھ گھمبیر آواز کی سرگوشی پر آیت کی روح فنا ہوئی ۔۔

کہاں کا لیکچر ۔۔کیا بات۔۔۔وہ تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ جملہ کہاں تک بولا ہے۔ 

اسے یاد آیا کہ دن کو تو اس میسنے  نے کہا تھا کہ کال کروں گا، سوچتے ہی وہ لب دانتوں  تلے دبا گئی۔۔۔

آ آ آپ۔۔ ہاں میں کیوں کسی اور کی کال کا ویٹ تھا ، وہ چلتا ہوا کھڑکی کے سامنے آتا آسمان پر جھانکتے چاند کو دیکھتا ہوا بولا ۔

نن نہیں تو۔۔۔ وہ کیا کہتی یہ انسان اسے ہر بار الجھا دیتا تھا۔

 کال کی تھی میں نے اٹینٹ کیوں نہیں کی وہ دن میں اپنی بارہا کالز کا پوچھتے بولا ۔۔۔

وہ نمبر اناون تھا تو اس لیے وہ بمشکل اس کی بات پہ مؤدب سا جواب پیش کر گئی۔۔

طبیعت کیسی ہے اب ، چند پلوں کی خاموشی کے بعد رافع نے ہی بات شروع کی ۔ 

 ٹھیک ہے اب ۔۔بامشکل سے کہتے آیت نے منہ بناتے اسکی نقل اتاری ۔۔"

کل یونی آؤ گی ۔بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ آنکھیں بند کرتے اسے محسوس کرتے بولا۔۔

نن نہیں کل نہیں آنا ،وہ پھر سے اسکا سامنا ناں کرنے کے لیے فورا سے انکار کرتی بولی۔۔۔

یمم۔۔۔اگر تو تم سوچ رہی ہو کہ یونی ناں آنے سے تم مجھ سے بچ جاؤ گی تو یہ مخض تمہارا خیال ہے۔اپنے دل اور دماغ میں یہ بات اچھے سے بٹھا لو ۔۔اور بہت جلد مسز رافع بننے کو تیار رہنا ،،سی یو ۔۔اللہ خافظ۔۔۔ خیال رکھنا۔۔

اپنی بات کے بعد اس نے بغیر اسکی سنے کال کاٹ دی، جبکہ دوسری طرف رافع کے سرعام اظہار اور شادی کا کہنے پر وہ بے یقین سی ہوتے فون کو گھورنے لگی، بھلا وہ کیسے کرتی اس سے شادی۔   اس کی اپنی زندگی طوفانوں سے گھری ،مشکل تھی، 

وہ اب کوئی بھی آزمائش نہیں پالنا چاہتی تھی ،، مگر اس قسمت کا کیا کرتی جو اوپر بیٹھے رب نے اسکی لکھی تھی۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

مسلسل دو دن سے وہ خود کو بزی رکھنے کی کوشش میں ہلکان تھا، کتنا سوچا تھا کہ چاہے جو مرضی ہو جائے وہ پاک نہیں جائے گا، 

مگر اگلے ہی آتے خیال پر وہ بے بس ہو جاتا ، تب وہ چھوٹا تھا کچھ بھی نہیں کر پایا ،کیا اب بھی اس کے موم ،ڈیڈ کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا،، نو میرے ہوتے کوئی بھی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 

مگر انہوں نے بھی تو اچھا نہیں کیا میرے ساتھ  میرے منع کرنے پر بھی وہ چکے گئے۔۔

وہ غصے سے سوچتا اپنے ایکسرسائز روم میں جاتے ویٹ اٹھاتے اوپر نیچے کرنے لگا مگر دل کو سکون نا ملا تو اسے چھوڑتے وہ پنچنگ بیگ کی جانب بڑھا ۔۔ ہاتھ میں گلوز پہنتے وہ بے تخاشہ تیزی سے ہے درپے وار کرتے اپنے اندر کا غصہ اس پہ نکالنے لگا۔۔

اگر موم کو کسی نے کچھ کہا تو۔۔ دماغ نے الگ سے جنگ چھڑی جبکہ دل اسکا موم پہ اٹکا تھا۔ 

نو آئی کانٹ سو ڈیٹ مجھے موم کے پاس ہونا چاہیے ۔۔ وہ سوچتے فوراً سے روم سے باہر آیا اور کچھ سوچتے  موبائل اٹھاتے کچھ ضروری ٹیکس کرنے کے بعد وہ اپنی ٹکٹ کنفرم کرواتا ، اپنا ضروری سامان پیک کرنے لگا، جو کہ اس کے حساب سے پاک میں نہیں ملے گا ۔

آئی ایم کمنگ ڈیڈ۔   سب سے پہلے حساب آپ سے ہوگا ۔۔

پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ سامنے لگی اپنی موم ڈیڈ کی تصویر کو دیکھتے وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔

اور سامان اٹھاتے باہر کی جانب بڑھا۔۔ 

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

بی جان آپ نے دیکھا بھائی جان نے مجھے گلے لگایا ۔محاف کر دیا انہوں نے مجھے۔۔۔رضا آپ نے دیکھا ،وہ خوشی سے کبھی بی جان کو تو کبھی رضا کو جھنجھوڑتے ہوئے بولیں ۔۔"

وہ کتنی خوف زدہ تھی کہ جانے حامد کیسے بات کریں ان سے ۔۔۔

مگر حامد نے تو اسے دیکھتے ہی کتنی دیر سینے سے لگائے اپنی بہن کو محسوس کیا تھا کہ وہ خواب نہیں بلکہ سچ میں آئی ہیں ۔۔ انکے پاس ۔۔ اتنے سالوں بعد۔۔

اور پھر رضا سے ملتے بھی تو وہ اپنے کیے رویے پہ کتنے شرمندہ ہوتے معافی بھی مانگ چکے تھے۔۔

شکر ہے اللہ کا کہ میرے بیٹے کو بھی عقل ائی۔۔ بی جان نے اپنی بیٹی کا مسکراتا چہرہ دیکھتے ہوئے حامد صاحب کو یاد کرتے کہا، جو کہ نا صرف خود اپنی بہن کو ملے بلکہ گلے لگاتے اتنے سالوں کی معافی بھی مانگی۔۔۔

پھپھو آ جائیں دیکھیں میں نے اپنے ہاتھوں سے سب کے لیے چائے بنائی یے۔۔۔

نیناں روم میں آتے سب کو خوش بیٹھا دیکھ بولی کہ شمائلہ نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔۔

جب سے اسکی پھپھو آئی تھی اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا بات بہ بات ایسے ہی مسکراتی ،چہکتی پھرتی تھی ۔۔اور اب تو اشعر کی بھی ضرورت نہیں تھی اسے جو بنا بتائے ایمرجنسی میں واپس چلا گیا تھا ۔

چلو میرا بچہ۔۔ وہ پیار سے اسکی پیشانی چومتے اسے ساتھ لگاتے بولی  کہ نیناں انکے پیار پہ جھینبتے انکے سینے میں منہ دے گئی۔۔

پوری رات سفر کرنے کی وجہ سے اسکی بھوری آنکھیں اس وقت سرخ ہوتی غضب ڈھا رہی تھی۔ مگر دل کے اندر ایک سرشار سی لہر دوڑ رہی تھی کہ آج اس کی مما اس کے سامنے ہوں گی ۔ اس کے،  اس نے خود سے وعدہ ضرور کیا تھا کہ وہ پاک نہیں جائے گا مگر اس وقت اسے خود اپنے وعدے سے زیادہ اپنی موم عزیز تھیں ۔ جس میں اس کی جان بستی تھی ۔ وہ شروع سے ہی ایسا تھا ، اپنی چیزوں کو لے کر شدت جنونیت پسند۔۔۔ اور اپنی موم کے معاملے میں تو وہ ڈیڈ کی بھی چلنے نہیں دیا کرتا تھا۔۔۔"

اس وقت رات کے ڈھائی بجے وہ کندھے پر اپنا چھوٹا سا بیگ ڈالے شکن آلود ہوتے کپڑوں سے اپنے سامنے کھڑی شاہ حویلی کو گھور رہا تھا ۔۔

ایک ہاتھ بالوں میں پھیرتے اس نے طنزیہ انداز میں مسکراتے بند گیٹ کو دیکھا ۔ جیسے کہ رہا ہو کہ تم مجھے روکو گے میری موم سے ملنے سے۔۔۔"

سخت پیاس کا احساس ہوتے ہی وہ پاس پڑا حالی پانی کا جگ اٹھاتی باہر کو ائی۔۔۔" 

بغیر لائٹ جلائے اس نے سامنے والی کھڑکی کھولی تاکہ چاند کی روشنی سے کچن میں کچھ روشنی آ سکے ۔۔ "

ابھی اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی ہی تھی۔ کہ اپنے پیچھے ہی کسی کے گرنے کی آواز پر چونکی ،جان تو تب ہوا ہوئی جب کسی کے بھاری قدموں کی چاپ اسے کچن کی جانب آتی سنائی دی۔۔۔

اس ے ڈرتے کپکپاتے ہاتھوں سے بوتل پر گرفت مضبوط کی۔۔

اور  آؤ دیکھا نہ تاو۔۔ سپیڈ سے دوڑ لگائی، مگر جیسے ہی اس نے چیخنے کو منہ کھولا ،کسی نے جھپٹ  کر بجلی کی سی تیزی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

اممممم۔۔۔ وہ جھپٹتی تیزی سے اس انجان سے اپنا آپ چھڑوانے لگی، اسے لگا کہ شاید کوئی چور آیا ہے، اور اب وہ یقینا اسے بھی نقصان پہنچائے گا۔۔۔۔"

اششش کیپ کوائیٹ۔۔۔۔ وریام نے اپنی گرفت میں موجود لڑکی کی مسلسل مزاخمت کو دیکھتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشیانہ تحکمانانہ انداز میں کہا ۔ "

امممم۔۔۔۔ مگر دوسری طرف نیناں کی مزاخمت رکنے کی بجائے اور زیادہ ہوئی۔۔"

وریام نے اسکے بھرپور مزاخمت کرتے نازک وجود پر ہلکی سی کچن میں جھانکتے ہوئے چاند کی روشنی میں دیکھا، جو کہ اسکی گرفت میں اسکے سینے سے کمر کی سائیڈ لگی کھڑی تھی۔۔۔۔"

کیا کیا کرنا پڑ رہا ہے، وی جس کے چھونے پر لڑکیاں خود کو خوشنصیب سمجھتی ہیں اب ایک چھوٹی سی لڑکی اس کی بانہوں کی گر گرفت سے نکلنے کو مچل رہی تھی ۔۔۔"

وریام نے جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کھینچتے ہوئے سامنے کیا اور ساتھ ہی دیوار کے ساتھ لگاتے اس کے دائیں بائیں بازوؤں کی مضبوط گرفت بنائی ۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ نہیں چیخے گی جب اپنے سامنے اس قدر  ڈیشنگ ، ہینڈسم لڑکے کو دیکھے گی۔  "

مگر دوسرے ہی پل چہرے پر پھیلی مغرورانہ مسکراہٹ پل بھر میں اسکے لبوں سے سمٹی ۔۔"

۔۔جب غور سے ایک نظر اپنے سامنے کھڑی لڑکی پر ڈالی ۔ سرخ و سفید چمکتی رنگت ، بڑی بڑی گہری کالی آنکھیں، باریک کھڑی خوبصورت سی چھوٹی ناک اور قدرے بھرے بھرے گلابی ہونٹ، وہ مکمل اس کے چہرے کا طواف کرتا ، دوپٹے سے آزاد اسکے قیامت خیز روپ کو دیکھتا  کھو سا گیا، مگر اگلا لمحہ اسے پل بھر میں ساکت کر گیا ۔۔ اس کا دل جو آج تک کبھی کسی لڑکی کے لیے نہیں دھڑکا تھا، 

مگر آج اسکے دل میں ایک ہلکی سی میٹھی سی سرسراہٹ ہوئی۔  جب سامنے کھڑی نیناں نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبایا اور ایسا کرنے سے اس کے گال پر پڑتے ڈمپل  کھلے عام کسی کو بھی بہکانے کے لیے کافی تھے ۔۔"

۔

کتنی دیر تک وہ ایسے ہی کھڑا رہا جب کہ نیناں نے اپنی بند کیں ہوئی آنکھوں  کو ہلکا سا کھولا اور غور سے روشنی میں  سامنے دیوار بنے کھڑے مغرور شہزادوں کی سی آن بان اور حسن کے مالک وریام مرتضٰی کاظمی کی بھوری آنکھوں اور بھوری بالوں کو دیکھتے ہوئے وہ اسے چور نہیں 

بلکہ کسی جگہ کا شہزادہ ضرور لگا ، مگر مغرور سا۔۔۔۔"

کک کون ہیں آپ۔۔ بامشکل ہمت جمع کرتے اس نے کپکپاتے ہوئے پوچھا، وریام جو کہ مکمل طور پر اس میں کھویا ہوا تھا، اپنی کانوں میں ایک باریک میٹھی سی آواز سنتے اس نے سر جھٹکتے خود کو ہوش دلایا ۔۔۔

اششش ۔۔۔۔ آواز ناں آئے تمہاری۔۔ اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے وہ اسے خاموش ہونے کی تاکید کرنے لگا ..نیناں نے سہمتے ہوئے محض گردن ہلاتے ہاں کی کہ اب نہیں بولوں گی۔۔۔

یہاں پر مسٹر مرتظی کاظمی اور انکی وائف آئیں ہیں ۔۔کس روم میں ہیں مجھےے کر چلو، نہیں تو تمہاری خیر نہیں ۔۔۔۔وہ سختی سے ایک بازو اسکی پتلی کمر میں ڈالتا اپنی مضبوط گرفت میں لیتے کہتا اس کی جان خشک کر گیا، نیناں نے دھنی آنکھوں سے اس اس بے حس کو دیکھا اور کمرے کی جانب اشارہ کیا۔۔جو کہ سیڑھیاں کے اوپر ہی سامنے والا روم تھا۔۔۔"

وہ اسے ایسے ہی پکڑے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے انکے کمرے کے سامنے لے کر گیا۔۔ نیناں حیران تھی کہ آخر یہ انجان شخص کیسے اسکی پھپھو کو جانتا تھا جبکہ وہ تو تیار غیر سے آئی تھی۔۔وریام اسکی پریشانی سے انجان اسکے کان میں سرگوشی کرتے دروازہ کھٹکھٹانے کا کہتا گرفت مضبوط کر گیا، جو کہ واضح وارننگ تھی کہ جیسا کہ رہا ہوں ویسے ہی کرو ۔۔

نیناں نے خشک خلق تر کرتے ہلکی سی دستک دی۔۔ مرتضٰی جن کی ابھی آنکھ لگی تھی،  دروازے پر ہوتی دستک پر وہ ایک نظر شمائلہ پر ڈالتے پاؤں میں جوتے ڈالتے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھے ۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر وریام نے نیناں کو دبوچے ایک سائیڈ دیوار سے لگاتے اسکے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھا، اس اچانک ہونے والے واقعے پر وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولتے اسے دیکھنے لگی۔۔ بعد میں دیکھ لینا ادھر ہی ہوں، ہلکی سی مسکراہٹ سے اسکے فق چہرے کو دیکھتے وہ آنکھ دباتا ہوا بولا، جبکہ دوسری طرف نیناں کا دل کیا اس منہوس کا منہ توڑ دے۔۔۔

رضا نے آواز دی مگر کوئی بھی جواب ناں ملنے پر وہ کمرے سے نکلتے ریلنگ پر کھڑے ہوتے نیچے جھکتے دیکھنے لگے کہ شاید کوئی نیچے ہو، دوسری طرف وریام نے انکے کمرے سے نکلتے ہی اپنا ہاتھ نیناں کے منہ سے ہٹایا، جہاں نیناں نے جان جھوٹنے پر شکر بھرا سانس خارج کیا ،وہی انگلی ہی لمحے اس کا سانس اٹکا تھا، جب وریام نے جھکتے ہوئے اسکے دائیں گال میں پڑتے ڈمپل پر اپنے ہونٹ رکھے،  آہستہ سے پیچھے ہوتے اس نے ایک نظر نیناں کے خون جھکاتے چہرے کو دیکھا اور سیدھا روم میں داخل ہوتے روم لاک کر دیا۔

کچھ ناں دکھنے پر رضا نے پیچھے مڑتے دیکھا تو سامنے ایک سائیڈ پر نیناں کو بت بنا کھڑا دیکھ اسکے پاس آئے ، 

نیناں کیا ہوا بیٹا ۔۔اپ اس وقت یہاں پر کیا سب ٹھیک تو ہے، وہ فکر مند ہوتے اس سے پوچھنے لگے،

مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی پیچھے سے آتی آواز نے دونوں کو اپنی جانب کھینچا۔۔۔

ہائے ڈیڈ ہاؤ آر یو۔۔۔۔ لک ایٹ می آیم یور لولی سن۔۔۔۔ (دیکھے مجھے میں آپ کا پیارا بیٹا)... گڈ نائٹ ٹو یو ۔ ہاتھ میں پکڑا تکیہ انکی جانب اچھالتے ہوئے وہ جتاتے انداز میں   مسکراتا دروازہ لاک کرتے اپنی موم کی جانب بڑھا۔۔

جبکہ باہر کھڑے دونوں وجود جھٹکے میں تھے۔۔۔

ایک کو اس طرح وریام کی آمد نے چونکایا تھا تو دوسرے کو اس بات نے کہ وہ اسکی پھپھو کا بیٹا تھا،،" جو ابھی اسے بنا اجازت کس کرتا انجان بنتا گیا تھا ایسے جیسے اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

 مسلسل 5 گھنٹے کا سفر کرتا وہ آج واپس آیا تھا۔۔۔ تھکن سے اسکا پورا وجود ٹوٹ رہا تھا ۔ مگر اس وقت اس کی ڈیوٹی اسے جان سے بھی عزیز تھی تو پھر وہ کیوں ناں آتا۔۔

مگر جس بات کا اسے دکھ تھا وہ یہ تھی کہ کمبخت دل جسے دیکھنے کی ضد کرتا اسے کھینچتا لے کر گیا تھا اسے ایک نظر دیکھنا تک نصیب نا ہوا، اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے موبائل کو اٹھایا اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے گیلری اوپن کی ۔۔۔

سب سے اوپر ہی اس دشمن جان کی تصویر کو دیکھتے اس کے لب مسکرائے۔۔ یہ تصویر اس نے آج۔ سے دو سال پہلے لی تھی ، جب وہ شاہ ولا میں اچانک گیا تھا مگر سامنے ہی رمشہ کو پپی کے ساتھ دیکھتے اس کا دل زوروں سے دھڑکا تھا، ہاف وائٹ کا سوٹ اس کی سفید رنگت کو اور نکھار رہا تھا۔

پپی کے ساتھ ناجانے کونسی راضدرانہ باتیں کر رہی تھی جب وہ مسکرائی اسی پل اشعر نے اس منظر کو اپنے فون اور دل میں قید کیا تھا،،، وہ  رمشہ کو چاہتا تھا یہ بات اسکی بیسٹ فرینڈ نیناں کے علاؤہ کوئی  بھی نہیں جانتا تھا، اسے معلوم تھا کہ وہ کبھی بھی اس کے نصیب میں نہیں آئے گی، اس کی مغرورانہ سوچ سے بھی وہ واقف تھا، مگر اپنے سینے میں دھڑکتے اس دل کا کیا کرتا جو کہ اسے رمشہ کے نام کے سامنے ہی بے بس کر جاتا تھا۔۔۔

سینے پر موبائل رکھتے اس نے گھڑی کی جانب دیکھا ،جہاں اس وقت سات بج رہے تھے ، آج رات دس بجے اس کی اپنی ٹیم کے ساتھ ریڈ تھی ایک ہوٹل کی جہاں پر بہت سے غیر قانونی کام انجام پاتے تھے۔۔۔  

الارم سیٹ کرتے اس نے آنکھیں موندی، مگر شاید کہ وہ جان پاتا آنے والے لمحے اس کی زندگی میں کیسی کیسی تبدیلیاں طوفان برپا کرنے والی ہیں۔

🔥🔥🔥🔥🔥

وہ تھکی ہاری منہ لٹکائے کینٹین کی جانب بڑھی ۔۔ اب آپ کو کیا ہو گیا میڈم، دعا نے مسلسل منہ بناتے دیکھ زچ ہوتے پوچھ ہی لیا۔۔۔

یار وری بھائی پتہ نہیں کہاں چلے گئے دو دن سے ملنا تو دور بات بھی نہیں کی اور تو  اور کال بھی نہیں کی۔ چئیر کھسکاتے بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔

 سچ میں وی کو مس کر رہی ہو یا پھر اس کے چمچے رافع کو۔۔۔ آنکھیں مٹکاتے ہوئے دعا نے ٹیبل پر کہنی ٹکاتے استفسار کیا ۔۔ جبکہ اس طرح سے اسکے کہنے پر وہ دبک کر چئیر کی بیک سے لگی ۔ 

استغفر اللہ۔۔۔ توبہ توبہ لڑکی کیا کہ رہی ہو ۔۔۔ آیت نے اسکے ٹیبل پر رکھے ہاتھ پر چپت لگاتے اسے ٹوکا۔۔۔  

کیا یار سچ کہ رہی ہوں میں تو ۔۔اب تمہیں ہضم نہیں ہو رہا تو میں کیا کروں۔ ۔۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے کہتی آیت کو زہر لگی ۔

اسے دکھ ہوا کہ کیوں اس نے اس میسنی کی باتوں میں آتے اسے سب بتایا تھا۔تب سے ہی وہ ایک بات کی رٹ لگائے ہوئے تھی۔ کہ بندے کا دل آ گیا ہے اس پر اور اب تو اس کی خیر نہیں۔  وہ کب سے اسے اگنور کر رہی تھی، اگر وہ تجھے پرپوز کرے تو ہاں کر دینا۔۔دعا نے اسے محلصانہ مشورہ دیا۔۔

توں جانتی ہے سب  پھر بھی ایسے کہہ رہی ہے۔ آیت نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔ 

فدک دیکھو میری بات تو سنو۔۔۔ دعا نے اسے سمجھانا چاہا۔۔ رافع جو کہ دو دن آفس ورک کے چکر میں آیت سے مل نا سکا اور اب فری ہوتے ہی ہوسٹل سے آیت کا پتہ چلتے ہی کہ وہ یونی گئی ہے سیدھا یونی ایا۔۔

بریک ٹائم دیکھتے وہ سیدھا کینٹین کی جانب بڑھا ۔۔جب آیت کے جملے اسکے کانوں میں پڑے اس نے اپنے قدم بے اختیار روکے۔۔

کتنی بار کہوں مت پکارا کرو مجھے اس نام سے اگر کسی نے سن لیا تو پھر قیامت آ جائے گی ۔۔ آیت نے اسے غصے سے ٹوکتے کہا۔۔

سوری یار منہ سے نکل گیا اب  نہیں لوں گی تمہارا نام۔۔ دعا اسکے ہوائیاں اڑتے چہرے کو دیکھ کر پیار سے معافی مانگتے بولی۔۔۔

جبکہ سائیڈ پر کھڑے رافع کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہوئے ۔۔ تو کیا سچ میں وہ یہاں کسی مقصد کے تحت آئی تھی ۔ اگر نہیں تو پھر اپنا نام کیوں بدلا، جانے کتنے ہی سوال اسکے من میں ابھرے ، وہ بغیر اس سے ملا ، تیش تیز قدم اٹھاتا گیٹ کی جاب بڑھا۔۔

دوسری طرف وہ آنے والے طوفان سے انجان بے خبر بیٹھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کس طرح سے گزرے گی ۔یا کب ختم ہوگی 

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ بار بار دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے چکی تھی۔۔۔ مگر ناجانے وہ لوگ اسے لاک کرتے کہاں جا چکے تھے۔۔

وہ کراچی سے بنا بتائے اپنی دوستوں کے ساتھ آئی تھی مگر اب وہ پچھتا رہی تھی اپنے فیصلے پر۔۔۔ 

یہاں آنے کے بعد اسے معلوم ہوا کے انکے ساتھ کوئی لڑکے بھی ہیں اور جو باتیں وہ سن چکی تھی اسکے بعد اس نے بھاگنے کی کوشش کی تاکہ اپنی عزت کو ان درندوں سے مخفوظ رکھ سکے ،مگر اس سے پہلے کہ وہ بھاگنے میں کامیاب ہوتی وہ لوگ اسے پکڑتے ہوٹل کے ایک روم میں بند کرتے جا چکے تھے ۔

باہر سے آتی پولیس سائرن کی آواز پر  اس کے ہوش سلب ہوئے ۔۔۔ باپ ،ماں اور بھائی سب کے چہرے آنکھوں کے پردے پر لہرائے۔۔۔ اسکے باپ نے اسے آزادی دی تھی ۔ پیار دیا تھا ۔۔مگر اسے ہمیشہ سہی غلط کی پہچان بھی کروائی تھی ۔۔  وہ جانتی تھی کہ اگر وہ پولیس والوں کو ملی تو یقیناً اسکے باپ کے مرنے کا مقام ہو گا۔۔۔

کچھ سوچتے اس نے اٹھتے ٹیبل سے کوئی چیز ڈھونڈنا شروع کر دی۔ مگر کچھ نا ملنے پر اس نے پاس پڑا گلاس نیچے پھینکا اور آگے بڑھتے ایک تیز نوک دھار ٹکڑا اٹھاتے اپنی کلائی پر رکھا۔

مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی کسی نے بجلی کی تیزی سے دروازہ کھولا اور آگے بڑھتے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا۔۔ تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے نیچے فرش پر گری۔۔ نچلا ہونٹ  پھٹتے اسے اپنے منہ میں خون کا ذائقہ گھلتا ہوا محسوس ہوا۔

غم،غصے سے اس نے نظریں اٹھاتے سامنے دیکھا جہاں فل یونیفارم میں کھڑا اشعر اس وقت کسی طوفان  کی طرح غصے سے انگارہ ہوتا اسے ہی دیکھ رہا تھا، اشعر کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھتے رمشہ نے شرم اور بے بسی سے سر جھکایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔"

 🔥🔥🔥🔥🔥🔥

دروازے پر ہوتی مسلسل دستک  وہ پر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی، مگر پاؤں پر کسی وزن کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھا ، بےیقینی کے عالم میں انہوں نے اپنے پاؤں پر سر رکھے اپنے لخت جگر کو کپکپاتے ہاتھوں سے چھوا کہ شاید کوئی خواب ہو یاں ان کا وہم ہو، کب سے یہی تو ہو رہا تھا ،جب سے وہ اسے چھوڑے آئی تھی ہر روز تو اسے اپنے پاس محسوس کرتی تھیں۔۔ مگر آج وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ سچ میں ان کے وہم کو سچ کرنے چلا آیا ہے۔۔

اپنے سر پر اپنی موم کے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے وہ یکدم سے اٹھا اور انکا چہرہ ہاتھوں میں تھامے پریشانی سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔ موم کیا ہوا کچھ چاہیے ۔۔۔ وہ پریشان تھا کہ اچانک کیا ہوا اس کی موم اس طرح کیوں اٹھ گئی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ ان کو دیکھتے ہی سویا تھا۔۔۔ 

شمائلہ نے روتے نفی میں سر ہلایا اور اپنے بیٹے کے لیے بازوؤں وا کیے۔۔۔ وریام مسکراتے ان کے گلے لگا ۔۔۔ انکی پیشانی پر بوسہ دیتے وہ پیچھے ہٹا۔۔۔ 

میری جان اپنی موم سے ناراض ہو۔۔ وہ پریشان تھی جان لبوں پر بنی تھیں۔ اگر وریام انکے بغیر نہیں رہ پاتا تھا تو وہ خود بھی اس کے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔۔ ان کی زندگی کا ایک ہی تو سرمایہ انکا کل جہان تھا ان کا بیٹا ، جس میں انکی سانسیں اٹکی رہتی تھی۔۔

۔

موم میں آپ سے کیوں ناراض ہونے لگا بھلا، آئی نو یہ سارا آئیڈیا ڈیڈ کا ہے۔۔ میری کیوٹ سی معصوم سی موم اپنے وری کو چھوڑ کر ایسے کبھی نہیں آ سکتی۔۔ انکی گود میں سر رکھتے وہ مسکراتے بولا، تو شمائلہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔۔

دروازے پر ہوتی دوبارہ دستک نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا ، وریام نے منہ ٹیڑھا کرتے دروازے کو گھورا جیسے ابھی اسکی موم اور اسکے درمیان حلل ڈالنے پر کچا کھا جائے گا ۔ 

جاؤ بیٹا دیکھو تمہارے ڈیڈ ہوں گے ۔ اسکی پیشانی سے بال سنوارتے جھک کر بوسہ دیتے وہ پیار سے بولی، تو وہ بھی اٹھتا دروازے تک گیا ۔۔

سامنے کھڑے اپنے ڈیڈ کی حالت دیکھ اسکا قہقہہ جاندار تھا۔۔ جو بکھرے حلیے میں سوجھی بھوری آنکھوں سے ہاتھ میں تکیہ پکڑے اسے گھور رہے تھے۔۔ وریام سمجھ گیا کہ شاید وہ پوری رات نہیں سو پائے اسی وجہ سے انکی یہ حالت ہے۔۔ 

پیچھے ہٹو بندر ۔۔ وہ غصے سے اس کا دروازے کے پیچ دیوار بنائے رکھے بازو کو ہٹاتے اسے نئے نام سے نوازتے اندر کی جانب بڑھے۔۔ جہاں اپنے نئے نام پر وریام کی ہنسی چھوٹی وہیں شمائلہ نے غصے اور صدمے سے اپنے مجازی خدا کو گھورا کہ آخر انکا شہزادہ  کہاں سے بندر دکھتا ہے انہیں۔۔ شمائلہ کے غصے بھرے تیور دیکھ رضا ہڑبڑاتے نیند کا بہانا بتاتے جلدی سے بیڈ پر ایک سائیڈ لیٹ گئے، کمرہ میں شمائلہ اور وریام کے جاندار  قہقہوں کی آواز نے رونق بکیھری۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

   جی انکل آپ پریشان ناں ہوں رمشہ ٹھیک ہے اپنے سامنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رونے کا شغل پورا کر رہی رمشہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

انکل اب آگے کیا کرنا ہے ۔ وہ موبائل پر بھی مؤدب سا بولا، اسے یاد آیا کہ تھوڑی دیر پہلے ہی اسے شزا کی کال آئی تھی جو کہ رمشہ کی فرینڈ تھی اور اشعر اسے اچھے سے جانتا تھا ، اس نے ہی اشعر کو بتایا تھا کہ رمشہ بنا بتائے اپنی نئی دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنے گئی ہے۔ ۔ اور یہ بھی کہ وہ لڑکیاں اچھی نہیں ، کئی بار میں نے رمشہ کو سمجھایا مگر اس نے میری بات نہیں مانی اور اب مجھے اسکی ٹینشن ہو رہی ہے ، شزا کی بات سنتے وہ تھوڑا حیران بھی ہوا ، پھر کچھ سوچتے اس نے حماد صاحب کو کال کی۔

جب ان سے رمشہ کی غیر موجودگی کا پتہ چلا تو اشعر کے ماتھے پر کئی بل نمودار ہوئے ،، ابھی وہ بات کر رہے تھے کہ کال کے درمیان ان ناون نمبر سے کال آئی۔ اشعر کے کہنے پر انہوں نے کال یس کی۔۔ 

کال انکے پاٹنر فاروق ستار کے بیٹے کی تھی ۔۔جسے  رمشہ نے تھپڑ مارا تھا، اس نے کال کے دوران ہی بتایا تھا کہ رمشہ اسکے قبضہ میں ہے اور اب وہ اپنے تھپڑ کا بدلا بھی لے گا اگر وہ اپنی بیٹی کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں۔۔ ہوٹل کا پتہ بھی اس نے اسی طیش میں سینڈ کیا تھا کہ لاہور آنے تک وہ اپنا کام کر چکا ہو گا، 

کال کاٹتے ہی وہ زمین پر ڈھے سے گئے۔   پوری  عمر بھر کی عزت انکی مٹی میں ملنے کو تھی۔۔ دفتعا آتی اشعر کی فون کال پر انہوں نے روتے ہوئے سب بتا دیا ، پھر اشعر کے ہی کہنے پر انہوں نے ہوٹل کا نمبر بھی سینڈ کیا تھا۔۔ 

بیٹا مار آؤ اس کو ۔۔ کسی قابل نہیں چھوڑا اس نے مجھے ، کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا میں ۔۔۔ یہ سب میری غلطیوں ،میرے گناہوں کی سزا ہے۔۔ روتے ہوئے وہ بامشکل سے بولے ۔ 

انکل آپ ایسا کیوں کہ رہے ہیں رمشہ بالکل ٹھیک ہے میرے سامنے بیٹھی ہے ۔ اشعر نے حیرانگی سے پوچھا۔۔ جبکہ دوسری طرف رمشہ بھی اپنے پاپا کا سنتے تڑپ کے  سر اٹھائے دیکھنے لگی ۔۔ وہ تو ہمیشہ سے لاپرواہ رہی تھی ،اپنی موم کے کہنے پر کبھی کسی کو اہمیت نہیں دی ،مگر اپنے پاپا سے وہ بے حد پیار کرتی تھی ،یہ بات خود حماد صاحب بھی جانتے تھے۔۔۔

ابھی مجھے اس عمر کی کال آئی ہے اس نے شاید تمہیں پولیس یونیفارم میں ہوٹل جاتے دیکھ لیا ہے اور اسی لیے اس نے مجھے بدنام کرنے کو میڈیا کو انفارم کر دیا ہے ۔۔ تم میڈیا کو تو جانتے ہو ،ایسا کرو تم اسے مار دو ، اگر وہ مر جائے گی تو بات ختم ہو جائے گی، وہ شاید ہزیانی ہو چکے تھے ،سوچے سمجھے بغیر بولے جا رہے تھے۔۔

انکل جب تک میں ہوں کچھ نہیں ہو گا آپ کو یقین ہے ناں مجھ پر ۔۔ کچھ سوچتے اشعر نے ایک نظر رمشہ پر ڈالی اور فون پر حماد صاحب سے مخاطب ہوا۔۔

تم پر یقین ناں ہوتا تو بیٹا تمہیں کیوں بتاتا۔۔ وہ   فون پکڑتے لرزتی ٹانگوں کے ساتھ فرش پر بیٹھتے بولے۔۔

تو بس پھر یقین رکھیں کچھ برا نہیں ہو گا ۔۔ میں رمشہ کو لے کر نکل رہا ہوں تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں ۔۔کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹی اور سامنے بیٹھی رمشہ کو غصے سے دیکھا جو کہ جینز اور شارٹ شرٹ میں تھی ۔۔ بس نہیں تھا کہ ابھی اسے تھپڑ لگا کر سیدھا کر دیتا ۔۔۔ 

ضروری میسج کرنے کے بعد وہ آگے ہوتے کونے میں دبکی رمشہ کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔ جو ٹانگوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی    ۔

دو انگلیوں سے اسکا چہرہ اوپر کیے وہ اسے دیکھنے لگا  جہاں بائیں گال پر واضح انگلیوں کے نشان تھے ۔۔ سرخ و سفید چہرے پے پڑے تھپڑ سے چہرہ لال انگارہ ہو چکا تھا۔۔

بے تحاشا رونے سے چہرے کو بھگوتے آنسو نے منظر کو اور دلفریب بنادیا تھا۔۔ وہ سو سو کرتی فرش کو گھور رہی تھی ۔

درد ہو رہا ہے ۔ پیار سے اسے بہلانے کی خاطر اس کے چہرے پر اپنی انگلیوں کے نشانات پر اپنے الٹے ہاتھ کی پشت پھیرتے ہوئے وہ  پیار سے بولا۔۔ 

رمشہ نے سوں سوں کرتے سر ہاں میں ہلایا، اشعر کو  اس وقت  اس پر بے ساختہ پیار آیا۔۔ اٹھو وہ اپنے ہاتھ آگے کرتا اسے سہارے سے کھڑا کر گیا ۔ معا دروازے پر ہوتی دستک پر وہ اسے بیڈ پر بٹھاتا دروازے کی جانب بڑھا۔ یہ لو  ہاتھ  میں پکڑی چادر کو رمشہ کی طرف بڑھاتے وہ نظریں جھکا کر ایک سائیڈ ہوا ۔۔ 

بنا کچھ کہے اس نے چادر پکڑے خود پر اوڑھی ۔۔ اشعر اس کا ہاتھ پکڑتے اسے لیا باہر کی جانب بڑھا ۔

🔥🔥🔥🔥🔥

ایک نظر گھڑی پر ڈالتے وہ کھڑکی کھولتا اندر داخل ہوا مگر اندر کا منظر دیکھتے اسکے ماتھے پر بے شمار بل پڑے۔۔

شاید باتھروم میں ہو، یہی سوچ آتے وہ بیڈ پر استحقاق کے ساتھ   پھیلتا لیٹ گیا ۔ دس منٹ تک ویٹ کرنے کے بعد بھی آیت باہر ناں آئی تو وہ اٹھتا دروازے پر گیا ۔ 

ہینڈل گھماتے ہی  دروازہ کھلتا گیا۔۔ چاروں طرف دیکھتے ہوئے وہ پریشان سا باہر آیا۔۔۔ وہ یہاں آیت سے حساب لینے آیا تھا ۔۔ پوچھنے آیا تھا کہ آخر کار سچ کیا ہے مگر اب پریشان تھا کیونکہ وہ پورے روم میں نہیں تھی۔  کچھ سوچتے اس نے ایک طرف چھوٹی سی الماری کھولی مگر اسے خالی دیکھ رافع کو یقین ہو گیا کہ وہ جا چکی ہے ۔ 

زور سے الماری بند کرتے ہوئے وہ باہر آیا گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے زن سے بھگائی۔۔ یکدم سے تاریک سڑک پر کسی وجود کے دھڑام سے ٹکرانے پر وہ گاڑی کو بریک لگاتا باہر ایا۔۔ گھبراہٹ سے اس نے آگے پیچھے دیکھنا چاہا۔ مگر گھپ اندھیرے میں کچھ بھی نظر ناں آیا ۔ وہ اس وقت خود ہوش میں کہاں تھا کہ کچھ سوچ پاتا۔۔ جیب سے فون نکالتے وہ ٹارچ آن کرتے ڈھونڈنے لگا ۔۔ اس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے کچھ انہونی ہو چلی ہے ۔۔ ایک دم  سے دور درخت کے پاس کسی وجود کو محسوس۔ کرتے ہوئے وہ آگے بڑھا ۔۔ 

ہیلو  آر یو اوکے ۔۔۔ آواز دینے پر بھی اس وجود میں کوئی ہلچل ناں ہوتے دیکھ وہ آگے بڑھا ۔۔ ہیلو۔۔ اسنے ہاتھ بڑھا کر اس وجود کو ہلایا ۔۔ جو لڑکھ کر سیدھا اسکے بازو پر آ گرا۔۔ سامنے موجود خون سے بھرے چہرے کو دیکھتے اس کا رنگ سفید ہوا۔۔ بے یقینی سے اس نے آیت کے مردہ وجود کو خود بھینچا۔۔۔ 

آیت گیٹ  آپ یار ۔۔۔۔ہیے اٹھو  دیکھو میں رافع اب تمہیں تنگ نہیں کروں گا ، پلیز ایک بار آٹھ جاؤ۔۔ بار بار اسکے چہرے کو تھپتھپاتے وہ کوئی پاگل محسوس ہو رہا تھا ۔  دیکھو وری تمہاری زمہ داری مجھے سونپ کر گیا ہے آٹھ جاؤ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں کیا جواب دوں گا اسے۔۔۔ آیت ہار آٹھ جاؤ  ۔۔ یو نو آئی لو یو اسی لیے تنگ کر رہی ہو مجھے آٹھ جاؤ آیت پلیز ایک بار۔۔۔ بار بار روتے ہوئے وہ ایک ہی بات دہرا رہا تھا۔۔

آں۔ ۔۔معا اسے اپنے سینے پر کچھ حرکت محسوس ہوئی ۔ ۔۔رافع دم سادھے آیت کے وجود کو دیکھنے لگا۔۔ جب آیت کے منہ سے نکلتے خون کے بعد اس نے بے ہوش ہوتے آخری بار رافع کا نام پکارا۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

 ہیلو ایوری ون ۔۔۔۔ وہ اپنی موم کو ساتھ لگائے ڈائنگ روم میں داخل ہوا۔۔۔ جہاں سب نے اسے دیکھا کہ آخر کون ہے یہ انگریز ۔۔

ہو آر یو۔۔ حسن کرسی کھسکا کر کھڑا ہوتے بولا ۔۔ یار مجھے اردو آتی ہے۔۔ تم اردو بول سکتے ہو۔۔ وہ اپنی موم کو چئیر پر بٹھاتے ہوئے تمسخر اڑاتا بولا۔۔ 

یہ وریام مرتضٰی کاظمی۔۔ میرا بیٹا ۔ پیچھے سے آتے مرتضٰی جنہیں سب رضا کہتے مخاطب کرتے تھے پیار سے وریام کا کندھا  تھپتھپاتے بولے۔۔۔ 

ہیلو ہاؤ آر یو۔۔ حسن نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے کہا۔۔

فائن ایک لفظی جواب دیتے اس نے ایک نظر سلمیٰ کے دھواں دھواں چہرے پر ڈالی ۔ جو کہ شاید یہ سوچ رہی تھیں کہ شمائلہ کا بیٹا اس قدر خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے ، جو دکھنے میں ہی کوئی ریاست کا شہزادہ محلوم ہوتا تھا۔۔

گرینڈ ماں کدھر ہیں ۔۔ بی جان کو ناں پاتے وہ انکا پوچھنے لگا۔۔۔ 

وہ صبح کا ناشتہ اپنے کمرے میں کرتی ہیں ۔۔ حسن اور سلمی کے جاتے ہی نیناں نے محتصر سا بتایا۔۔

وریام نے غور سے گردن موڑتے ہوئے کچن سے نکلتی نیناں پر نظر  ڈالی۔۔ جو اس وقت فریش بلو کلر سوٹ میں تیار سی تھی ، ایک نظر میں وریام نے اسکا مکمل جائزہ لیا،، رات کے سین یاد کرتے  وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔

وریام کو وہ چھوٹی سی لڑکی اچھی لگی تھی۔۔ مگر ایک بات وہ نوٹ کر چکا تھا کہ اس کے نقوش اس کی موم کے جیسے تھے مگر گال پر پڑتا ڈمپل اس کا اپنا تھا شاید۔۔ 

موم ہو از دس۔۔۔ ناسمجھی سے اپنی موم کی طرف دیکھتے پوچھتے وہ ایسے شو کرانے لگا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو ۔ 

نیناں نے غصے سے  ناک چھڑہاتے  اسے اگنور کیا۔۔ اسکی حرکت پر وریام کے لب مسکرائے۔۔

بیٹا یہ نیناں ہے تمہارے ولید ماموں کی بیٹی۔۔۔

شمائلہ نے پیار سے وریام کو بتایا۔۔ کیا سچ میں۔۔۔ واؤ نائس ۔۔ بریڈ پر جیم لگاتے وہ اسے ہی دیکھتے ہوئے بولا،

ویسے کونسی کلاس میں ہو تم ۔۔ ناں سلام ناں دعا وہ ڈائریکٹ اس سے پوچھنے لگا۔۔۔

موم لگتا ہے کہ یہ گونگی ہے ، نیناں کے مسلسل خاموش رہنے پہ وہ ایک نظر اپنی موم کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

نیناں نے چونک کر سر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔ میں یونی جاتی ہوں ۔۔۔تھرڈ ائیر۔۔ نیناں نے چبا چبا کر ایک ایک لفظ ادا کیا ،شاید وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اسے چھوٹا  سمجھ رہا ہے۔۔

کیا آر یو سیریس۔۔۔ حیرانگی سے اپنی موم کو دیکھتے وہ نیناں سے پوچھنے لگا۔۔ اچھا ابھی میں چلتی ہوں پھپھو ۔۔ بعد میں ملاقات ہو گی۔۔ وریام کو اگنور کرتے وہ مسکراتے اپنی پھپھو کو گلے لگاتے بولی۔۔ جبکہ وریام کی نظر اسکے گال میں پڑتے ڈمپل پر تھی ۔۔۔

موم کیا یہ واقعی میں یونی میں پڑھتی ہے۔۔ جوس کا گلاس اٹھاتے منہ کو لگاتے وہ چونکتے ہوئے بولا۔۔

جی میری جان وہ واقعی ہی یونی میں پڑھتی ہے اور تم اتنا کیوں پوچھ رہے ہو بار بار ، سب خیریت ہے ناں ۔۔ وہ جانچتے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔

نو موم بس ایسے ہی پوچھا ۔۔ وہ لاپرواہی سے بولتے اپنی موم کو دیکھنے لگا۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں ناں میرا مطلب کسی نے کچھ کہاں ۔۔۔

وہ ریلکس سے انداز میں بولا مگر دل بے چین ضرور ہوا تھا۔۔

میری جان ، بالکل ٹھیک ہوں پریشان نا ہو تم۔۔ آرام سے ناشتہ کرو۔۔۔ وہ مسکراتے اسے مطمئن کرنے لگی کہ وہ بھی سر ہلاتے مسکرایا۔۔

ہائے ڈیڈ کم۔۔ وہ باتھروم سے شاعر کے کے نکلتا سامنے ہی اپنے ڈیڈ کو بھی دوم میں آتا دیکھ بولا۔۔

رضا ایک نظر روم کو دیکھتے ہاتھ کمر سے کھولتے صوفے پہ ریلیکس سے بیٹھے۔۔

کیسے آئے تم یہاں۔۔۔ وہ سیدھا مدعے کی بات پہ آئے تھے ۔ 

کیسے مطلب فلائی کرتے آیا ہوں۔۔۔ وہ نا سمجھی سے اپنی تیکھی ناک کھڑی کرتے بولا۔۔

گدھے تیرے پیپرز تھے ان کا کیا بنا؟ 

ہمیشہ کی روشنی اس کے الٹے جوآب پہ وہ تپتے ہوئے بولے تھے۔۔

او۔۔۔۔ پیپرز ڈیڈ آپ کو لگتا ہے کہ مجھے پیپرز دینے کی کوئی ضرورت ہۓ۔۔ وہ انکے سامنے کھڑا ہوتا ائیبرو اٹھاتے۔ بولا کہ وہ افسوس کرتے نفی میں سر ہلا گئے۔۔

  یہ کیا ہے وری۔۔۔ وہ اسکے جسم پہ غور کرتے حیرانگی سۓ بولے ؟

ڈیڈ سیکس پیگ ہیں اور کیا ہے۔۔ وہ لاپرواہی سے کہتے ہوئے اپنے  بھورے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔

کہاں جا رہے ہو رکو۔۔۔

اب کیا ہے ڈیڈ ۔ وہ اپنے ڈیڈ کے بار بار سوالات سے تنگ آتے ہوئے بولا۔۔ بیٹا جی یہ آپ کا لندن نہیں جہاں آپ جیسے مرضی رہیں گے اور کسی کو کوئی بھی اوبجیکشن نہیں ہو گی ۔ یہ پاکستان ہے۔۔۔ شرٹ پہنو۔۔

یہی تو میں کہہ رہا ہوں ، صبح سے پانچ بار نہا چکا ہوں ، مگر یہ گرمی افف۔۔۔ 

وہ کمر پہ دونوں ہاتھ رکھتے  منہ بناتے ہوئے بولا۔۔

آئی نو کہ یہاں کا موسم لندن جیسا نہیں ہے مگر تم ایسے باہر نہیں جا سکتے۔۔ 

واٹ دو یو مین۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ ، کیا کر دیا اب میں نے۔۔۔۔

شرٹ پہنو وری۔۔۔۔کیا چاہتے ہو تم کہ ہر کوئی تمہاری موم اور میری طبیعت کے بارے میں سوال اٹھائے۔۔ اگر نہیں چاہتے تو یہ لو پہنو اسے۔۔

وہ ایک شرٹ وارڈروب سے نکالتے اسے تھماتے ہوئے بولے۔۔

یہ کیا ہے ڈیڈ۔۔۔ وہ زچ ہوتا اپنے ڈیڈ کے ہاتھ میں فل سلیو ہاف وائٹ کلر کی شرٹ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

ڈیڈ آپ جانتے ہیں کہ یہ شرٹ مجھے رافی نے گفٹ کری ہے اسی لیے میرے پاس ہے مگر میں اسے نہیں پہن سکتا۔۔

وہ سرے سے انکار کر گیا۔۔ جبکہ رضا نے آگے ہوتے اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے خود ہی شرٹ پہنانا شروع کر دی۔۔

ان کو رہنے دیں ۔۔ وہ اوپری دو بٹن کی طرف اشارہ کرتے منہ بسورتے ہوئے کہتا رضا کو بہت کیوٹ سا لگا۔۔

پیار سے ماتھے سے اسکے بکھرے بال سنوارتے وہ اسکی پیشانی چوم گئے۔۔

اب بس کر دیں بچے کی جان لیں گے کیا۔۔ وہ کھڑتا ہوا بولا۔۔

جاؤ اپنی گرینڈ ماں کو مل آؤ۔۔۔ 

ویسے ڈیڈ آپ آج کچھ زیادہ ہی رومینٹک نہیں ہو رہے، وہ ایبرو اٹھاتے رازداری کے انداز میں بولا ، 

کہ اس طرح سے رضا کا اسے پیار سے شرٹ پہناتے بال ، بنانا اسے سچ میں اچھا لگا تھا۔۔

شکل دیکھ آئینے میں ، تجھ سے کیوں میں رومینس کرنے لگا، جب اللہ نے اتنی پیاری بیوی دی ہے مجھے۔۔۔ وہ آنکھیں چھوٹی کرتے بولے

کہ وریام قہقہہ لگا اٹھا۔۔۔

چپ کر۔۔ ابھی تو تیری شادی پہ بھی میں ایسے ہی تجھے اپنے ہاتھوں سے تیار کروں گا۔۔ وہ اسے جھڑکتے اپنے دل کے ارمان اسے بتاتے ہوئے مسکرائے۔۔۔

ناں کریں ڈیڈ۔۔۔۔ کیا پتہ آپ کو بھی مہمانوں کی طرح اچانک سے پتہ چلے کہ دولہا تو شادی کر کے دلہن اڑا لے گیا۔۔۔

وہ ہاتھ کو ہوا میں لہراتے ہوئے بولا ۔۔

بیٹا تیری قسمت میں وہ باہر کی گوریاں ہی ہیں۔۔ جو دلہن بننے کی شوقین بھی نہیں اور ناں ہی تجھے دولہا بننے دیں گی۔۔ وہ اسے مستقبل دکھاتے صاف گوئی سے آسکی گردن میں بازوؤں حائل کرتے بولے۔۔

ڈیڈ اتنا بولیں کہ بعد میں ہضم ہو سکے ۔۔ یہ ناں ہو کہ دلہن تو لاؤں مگر اسکے ساتھ ساتھ آپ کو سرپرائز پہ صدمہ ہی لگ جائے۔۔۔ وہ کہاں کم تھا ، اپنے ڈیڈ سے ہاتھ ماننا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔۔

سرپرائز کیسا مطلب۔۔۔۔ وہ چونکتے اس کی بات پہ حیرانگی سے بولے۔۔۔

سرپرائز مطلب کہ آپ آفس میں ہوں اور ٹی وی پہ بریکنگ نیوز میں ہو کہ ایک بیٹے نے اپنے فیمس بزنس مین باپ کو کیا اپنی شادی سے بے دخل۔۔ وہ ہاتھ سامنے ہوا میں کھڑے کرتے انہیں حالاتِ سنجیدگی سے سمجھاتے بولا۔۔

بکواس بند کر اور اور میرا دماغ چاٹنے کی بجائے اپنی گرینڈ ماں کو مل کے آ گرے اور ابھی تو اپنے ماموں سے بھی ملنا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔

اوکے جاتا ہوں۔۔

اپنے ڈیڈ کے کہنے پر وہ بےزار سا برے منہ بناتا روم سے نکلا۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

پلیز کوئی ہے ۔ میری مدد کر دیں پلیز۔۔ڈاکٹر۔۔۔ اسکی دھاڑ سارے  ہوسپٹل میں گونجی اندر ایک روم میں موجود سارے ڈاکٹر بھاگتے باہر آئے۔۔۔

کیا ہوا ہے انہیں۔۔ وہ رافع کے بازوں میں جھولتی ہوئی آیت کے خون سے لت پت چہرے کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔ 

ایکسیڈنٹ ہوا ہے ڈاکٹر ۔۔پلیز سیو ہر۔۔ وہ روتے ہوئے انگلش میں ڈاکٹر کو بتانے لگا۔۔ 

انہیں اندر لے چلیں۔۔   وہ اوپریشن تھیٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے۔۔ رافع دوڈتا اندر جاتے آیت کو بیڈ پر لٹا گیا ۔

آپ ویٹ کریں باہر ۔۔

اللہ جی پلیز اسے بچا لیں ۔۔ میں کیسے رہوں گا اسکے بغیر۔۔  اس کا دل پھٹ رہا تھا۔۔ یہ سوچ ہی اسے اندر سے ہلا رہی تھی کہ اگر آیت کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔ نہیں اللہ جی ۔۔پلیز میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا اسے لوٹا دیں مجھے ۔ پلیز ۔۔وہ روتے ہوئے بس اپنے رب سے ایک ہی فریاد کر رہا تھا۔۔

آنکھوں کے پردے پر آیت کے ساتھ گزارے حسین لمحے کسی فلم کی طرح چل رہے تھے ۔۔۔

نہیں۔ تواتر سے بہتے آنسو ، خون سے بھرے کپڑوں کے ساتھ وہ فرش پر گرتا پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔

دفعتاً موبائل پر آتی کال نے اسے ہوش میں لایا۔ ۔۔

ڈیڈ پلیز اسے بچا لیں ڈیڈ وہ بھی موم کی طرح مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے ۔۔ڈءڈ پلیز اسے روک لیں ۔۔ آپ کا بیٹا نہیں رہ سکتا اس کے بغیر۔۔۔ پلیز ڈیڈ ۔۔۔

بیٹا کہاں ہو تم۔۔ میری جان کون جا رہا ہے ۔۔ بتاؤ اپنے ڈیڈ کو ۔۔وہ پریشان ہو چکے تھے جان جیسی مٹھی میں بند ہوئی تھی انکا اتنا صابر بیٹا ایسے رو رہا تھا۔۔

ڈیڈ آپ آ جائیں پلیز۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے انہیں لوکیشن سینڈ کرتا دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بچوں کی طرح رو پڑا۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

اشعر پپ پلیز نہیں۔۔ 

باہر کھڑے ہجوم کو دیکھتے وہ سہمتے فوراً سے سر کو نفی میں ہلاتے بولی۔۔

جانا تو پڑے گا رمشہ ، میں ساتھ ہوں پریشان ناں ہو۔۔

وہ اسے اعتماد دلاتے اپنے بازوؤں کا حصار اسکے گرد بناتے  باہر لیے نکلا۔۔

مس رمشہ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ کے بوائے فرینڈ کا کیا نام ہے جسکے ساتھ آپ آئی ہیں یہاں ۔۔

مس رمشہ آپ کو جواب دینا ہو گا ۔۔پلیز کچھ بولیں ۔

۔

رمشہ نے ڈرتے میڈیا کے سوالوں کو سنتے اشعر کے بازوں پر گرفت مضبوط کی۔

ریلکس میں ہوں نے۔۔ سرگوشی میں اسے ریلیکس کرواتے وہ میڈیا سے ایکسکیوز  کرتا آگے بڑھا ۔

جی ہاں ناظرین فیمس بزنس مین حماد قریشی کو کون نہیں جانتا ، انکی بیٹی رمشہ قریشی کو آج کمشنر اشعر نیازی نے رنگے ہاتھوں پکڑا یے۔۔ 

جی ہاں ہمیشہ کی طرح ہم سب سے پہلے آپ کو یہ بریکنگ نیوز سنا رہے ہیں ۔ اب یقیناً  مس رمشہ کو جیل لے جایا جا رہا ہے۔۔۔

اشعر نے سنتے ہی مٹھیاں ضبط سے بھینچی۔۔ بس نہیں تھا کہ ابھی اس اینکر کا سر قلم کر دے جو بغیر سچ جانے پیسے اور پبلسٹی کے لیے صفائی سے جو منہ میں آئے بول رہا تھا ۔

اچانک اس نے رمشہ کو اپنے ساتھ کھینچا اور پھر سے میڈیا کے بیچ کھڑا ہوا۔۔ 

ویسے مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو اپنی پرسنل لائف بتانا ضروری ہے مگر شاید ایسے آپ لوگوں کو سکون نہیں آئے گا۔۔

مس رمشہ میرے ساتھ آئیں ہیں ۔ رمشہ کے کانپتے وجود کو اپنے حصار میں لیے وہ بآواز بلند بولا ۔ 

میرا اور رمشہ کا نکاح ہو چکا ہے آج سے دو دن پہلے اور ہم یہاں ایک ساتھ آئے ہیں۔۔

اشعر کے کہنے پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔ سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔

تو پھر نکاح نامہ دکھائیں۔ دفحتا ایک اینکر نے سوال پوچھا ۔

اشعر ہلکا سا مسکرایا۔۔۔  ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری رومانٹک ڈیٹ کو آپ لوگ ایسے آ کر خراب کریں گے اگر علم ہوتا تو ضرور نکاح نامہ ساتھ لاتے۔۔

اینکر نے شرم سے منہ چھپانا شروع کر دیا۔۔ اب تو گھر جا کر ہی آپ کو نکاح نامہ کی کاپی دی  جائے گی۔۔ ناؤ پلیز ایکسکیوز۔۔ میری وائف کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ 

آرام سے انہیں جواب دیتے وہ رمشہ کو لیے گاڑی میں بٹھاتے اپنی سیٹ پر آیا۔۔۔

گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے ایک نظر رمشہ پر ڈالی جو کہ اس وقت مینٹلی طور پر ڈسٹرب دکھ رہی تھی۔۔

اب تو تہہ تھا کہ آج وہ کسی بھی قیمت پر رمشہ کو اپنے  نام کر کے رہے گا ۔اج جو کچھ بھی ہوا اسکے بعد وہ ایک پل کے لیے بھی اسے خود سے دور نہیں کر سکتا تھا۔۔ ایک پرسکون سانس لیتے اس نے آسمان پر دیکھتے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔

🔥🔥🔥🔥🔥

پیپرز کب سے ہیں ۔؟ وہ اکتاتے ہوئے ردا سے پوچھتی کرسی پر بیٹھی۔۔

ردا نے حیرانگی سے اسکی جانب دیکھا۔۔ کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے ناں تمہاری ۔۔ 

یہ تو میں پوچھتی ہوں کہ پیپرز کب ہیں۔۔ آج تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔ وہ حیرت زدہ سی نیناں کے چہرے کو مشکوک انداز میں گھورتے ہوئے بولی۔۔

یار رمشہ کا کل سے کچھ پتہ نہیں۔۔ تایا ابا ،تائی، حسن بھائی سب اتنے پریشان ہیں ۔اور ہم چاروں کے علاؤہ کسی اور کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔۔

نیناں جانتی تھی بتائے بغیر وہ جان نہیں چھوڑے گی ۔

تو یہ سب تمہاری تائی کی بے جا چھوٹ کا نتیجہ ہے پریشان ناں ہو ،   آ جائے گی۔۔ وہ ریلکس ہوتی بولی تو نیناں  سوچ میں پڑ گئی۔۔ اشعر کس قدر چاہتا تھا رمشہ کو یہ بات نیناں کے علاؤہ اور کون جان سکتا تھا۔۔ وہ پریشان تھی کہ اگر اشعر کو معلوم ہوا تو کیا بنے گا اسکا ۔۔اگے ہی اس دنیا میں اسکا تھا ہی کون ۔ماں باپ تو بچپن میں ہی نیناں کی طرح چھوڑ کر جا چکے تھے ۔۔رشتہ داروں نے بھی اپنے مفاد کے تخت اس کا گھر ہڑپنا چاہا مگر وہ ڈٹا رہا ۔۔خود اکیلے ہی 15 سال کی عمر اپنے گھر کو بچاتے اس نے اپنی پڑھائی بھی پوری کی تھی۔۔ اور اب اپنے بابا کا خواب پورا کرتے پولیس کمشنر تھا۔۔

کہاں کھو گئی میڈم۔۔۔ نیناں کو خیال کو کھوتے دیکھ وہ اسے ہلاتے ہوئے بولی جو ہڑہڑا کے گردن نفی میں ہلا گئی کہ کچھ نہیں۔۔

تجھے پتہ ہے میں نے سیٹنگ کر لی ہے ۔۔ وہ ایک نظر آگے پیچھے دیکھتے اسکے کان میں گھستے ہوئے بولی۔۔

استغفر اللہ ! لڑکی کیسی سیٹنگ۔۔۔ وہ منہ پہ ہاتھ رکھ گئی اسکی بات پہ۔۔۔

اوہو بدھوں..! میں نے چوکیدار سے ہاتھ ملا لیا ہے۔۔ ردا نے نیناں نے دیکھنے پہ فخریہ آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔

اب وہ پیسے لے گا اور بدلے میں مجھے سارا پیپر سولو کروائے گا۔۔

وہ مسکراتے اپنا کارنامہ بتاتے گردن اکڑا گئی۔۔

کہ نیناں نے اسکی بے وقوفی پہ ماتھا پیٹا۔۔

کتنے پیسے لیے اس نے ۔۔ 

نیناں ہنسی دباتے ہوئے بولی۔۔

پانچ ہزار دیا ہے اور پانچ بعد میں۔۔۔ کہنے کی دیر تھی نیناں جو کہ جوس پی رہی تھی جوس کا پھورا اس کے منہ سے نکلا تھا۔۔

تجھے کیا ہو گیا نینوں ۔۔ ردا ناسمجھی سے اسکی حرکت اور ہنسنے پہ اسے ٹہوکا مارتے ہوئے بولی۔۔

پاگل لڑکی ۔۔ چوکیدار نے نگرانی نہیں کرنی اور ناں ہی مارکنگ کرنی ہے ۔۔ تو پھر کس بات کے پیسے دیے اس کو۔۔۔

نیناں نے مسکراتے اسے سمجھایا مگر ردا کی رونی شکل دیکھتے اسکا دل چاہا کہ ایک فلک شگاف قہقہہ تو لگانا ہی چاہیے۔۔

ارے سالا ، کمینہ مجھے چونا لگا گیا۔۔ چھوڑوں گی تو میں بھی نہیں اسے ، ایک ایک پائی ناں وصولی تو نام بدل دینا میرا۔۔ وہ بازوؤں لڑاکا عورتوں کی طرح چڑھاتے غصے سے بولی۔۔۔

اچھا اچھا لے لینا ابھی کے لیے ریلکیس ہو جا ۔۔ نیناں نے اسے پکڑتے کول کرتے کہا۔۔

یہ توں کہہ رہی ہے نینوں اس لیے اسے چھوڑ دیا ورنہ توں جانتی ہے ناں کہ میرا غصہ کتنا تیز ہے۔۔ وہ انگلی نیناں کے سامنے کرتے آنکھیں پوری کھولتے ہوئے بولی کہ نیناں نے ہونٹ دباتے سر کو زور شور سے ہاں میں ہلایا ۔

اچھا  ان سب کو چھوڑ ، یہ بتاؤ تمہاری پھپھو کا بیٹا آیا کہ نہیں ۔ یار اگر آیا ہے تو مجھ سے ملوا دو شاید میرے چانس بن جائیں باہر جانے کے۔۔۔

خیالوں میں ہی وریام کا تصور کرتے ردا نے گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے نیناں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

جبکہ دوسری طرف وہ خود اس مغرور۔ شخص کی کل رات والی جسارت کو یاد کرتی کانوں تک سرخ ہو چکی تھی۔۔ وہ تو صد شکر تھا کہ رات کا وقت تھا اور اندھیرا بھی ورنہ اگر کوئی دیکھ لیتا تو ایک نیا الزام اس کے سر آنا تھا۔۔ 

تم لال پیلی کیوں ہو رہی ہو ۔۔ خیر تو ہے ناں ۔ ردا نے اسکے سرخ خون چھلکاتے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ککک کچھ بھی تو نہیں چلو جلدی کرو ۔۔ابھی اسائمنٹ سپمنٹ کروانی ہے۔۔ وہ ردا کا دھیان بھٹکاتے بیگ کندھے پر ڈالتے اٹھتی ہوئی بولی۔۔

پیچھے وہ بھی ناسمجھی سے سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

وہ بے چین سے دوڑتے ہوئے ہوسپٹل میں پہنچے۔۔ ان کا دل گھبرا رہا تھا کیسے ان کا بیٹا بے بسی سے رو رہا تھا اور وہ کچھ بھی ناں کر پائے۔۔۔۔ 

کوریڈور میں داخل ہوتے ہی اظہر صاحب کی نظر  سامنے گھنٹوں کے بل زمین پر بیٹھے اپنے لخت جگر پر پڑی۔۔ دل جیسے بند ہونے کو تھا۔۔ وہ بے جان ہوتی ٹانگوں سے دوڑتے رافع کے پاس پہنچے۔۔

رافی میری جان وہ اسکے پاس بیٹھے اسکا کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔ رافع  نے حیرانگی سے انہیں دیکھا۔۔ 

اظہر کا کلیجہ جیسے منہ کو آیا تھا۔۔ ان کا لاڈلا بیٹا بکھرے حلیے میں تھے ۔ سرخ لال انگارہ ہوتی آنکھیں ، بکھرے بالوں، اور خون سے لت پت کپڑوں۔ میں تھا ، کیسی بے بسی تھی۔۔

ڈیڈ وہ۔۔۔ ڈیڈ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے پھر سے انکے گلے لگا ۔۔ اظہر صاحب نے اسے آگے ہوتے اپنے گلے سے لگایا۔ اپنے پاپا کا سہارہ پاتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔ اظہر کے لیے اسے چپ کروانا مشکل ہو گیا تھا۔۔

اششش ۔۔۔ چپ ریلیکس بیٹا ۔۔ میری جان کیا ہوا ۔۔ چپ کر جاؤ خاموش ادھر آؤ میرے ساتھ ، وہ اسکی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اسے ریلکس کرتے اسے لیے بینچ پر بیٹھے۔۔

اب بتاؤ کیا ہوا۔۔ اظہر نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اپنے ہونے کا یقین دلایا ۔۔تو رافع سب کچھ بتاتا چلا گیا۔۔ 

ہممم۔۔۔ بات سنتے انہوں نے  ہنکارہ بھرا ۔ 

ڈیڈ وہ ٹھیک ہو جائے گی ناں میں اسکے بغیر اب نہیں رہ سکتا۔۔

اظہر نے بے ساختہ اپنے بیٹے کی جانب دیکھا ، ایسا ہی حال تو انکا ہوا تھا جب انکی متاعِ جاں انہیں چھوڑ کر گئی تھی۔۔ 

بیٹا پریشان ناں ہو تم  انشاء اللہ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ اب  چلو شاباش اپنے آنسو صاف کرو۔۔ وہ اسے تسلی دیتے پیار سے بولے۔۔ رافع مخض سر ہلا کر رہ گیا۔ 

🔥🔥🔥🔥🔥

ہیلو سویٹی۔ ۔۔۔۔ وہ دھڑام سے دروازہ کھولتا ہوا اپنی گرینڈ ماں کو گلے لگاتے ہوئے بولا ۔ جبکہ دوسری جانب بی جان حیران پریشان سی تھی ۔۔۔

کیا ہوا پہچانا نہیں وہ چہرہ انکے پاس کرتے بیڈ پر ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔۔ 

تمہیں  کیسے نہیں پہچان سکتی میں ، میری جان میرے گولو۔۔۔ وہ  وریام کے دو دھیا گال کھینچتے پیار سے بولی ۔ 

ناٹ فئیر گرینڈ ماں ۔۔ وہ اپنے گال پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے منہ بسورتے بولا۔۔

بالکل اپنے بابا پر گیا ہے ماشاءاللہ۔۔ وہ اسکی پیشانی چومتے ہوئے بولی۔ جبکہ دوسری طرف وریام نے چہرے کا ایک اور اینگل بنایا، اسکی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ وہ اپنی موم کے جیسا ہو ۔ مگر اس کی قسمت کہ وہ اپنے ڈیڈ جیسا دکھتا تھا۔ ہاں مگر وریام میں شرافت ان سے زیادہ تھی ۔۔

ایسا وریام کو لگتا تھا۔۔ 

گرینڈ ماں مجھے بتائیں کیسا لگا آپ کو اپنا یہ لاڈلا ، ہینڈسم ،ڈیشنگ سا ناتی۔۔ وہ بیڈ پہ کہنیاں ٹکاتے فورا سے سر انکی گود میں رکھتے پیار سے بولا۔۔

ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔۔ میرا چاند تو ہے ہی بہت خوبصورت۔۔۔ بی جان مسکراتے اسکی پیشانی سے بال سنوارتے ہوئے بولیں۔۔

کہ شمائلہ نے مسکراتے ہوئے اپنے لاڈلے کی نظر اتاری۔۔

مجھے بتاؤ اپنی ماں کے ساتھ کیوں نہیں آئے تم پہلے ۔۔۔ وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھ بیٹھیں ۔

کہ وریام نے گردن اوپر کرتے انہیں دیکھا۔۔۔

وہ اس لیے آیا میں لیٹ کیونکہ اگر میں انکے ساتھ آ جاتا تو اتنا خاص والا پروٹوکول تھوڑی ملتا۔۔ کچھ نا سوجھنے پہ وہ فوراً سے بات بناتے بولا۔

کہ اب انہیں اپنے ارادوں کے بارےمیں کھلے عام کیسے بتاتا کہ وہ کیا کیا سوچ چکا تھا ۔۔ اب تک ۔۔ 

یہ تو اسکی موم کی وجہ سے اسے بھی یہاں آنا پڑا۔۔ 

ورنہ کہاں ممکن تھا اسکا پاک آنا۔۔۔

چلو میرا بچہ آیا تو سہی اپنی نانی کے پاس۔۔۔ وہ سنتے پیار سے مسکراتے اسکی پیشانی چومتے ہوئے بولی۔۔

اچھا گرینڈ ماں وہ جو چھوٹی سی لڑکی ہے۔۔ موم کیا نیم ہے اسکا وہ نیناں کو یاد کرتے ہوئے اسکا نام  اپنی موم سے پوچھنے لگا ۔ 

نیناں نام ہے اسکا بیٹا۔۔۔ اس کی موم نے پیار سے اسے بتایا۔۔ 

ہاں نین۔۔ گرینڈ موم وہ میری موم جیسی کیوں دکھتی ہے ۔ حالانکہ اسے اپنی موم جیسا ہونا چاہیے۔۔۔ وہ کب سے اپنے ذہن میں گھومتے سوال سے تنگ آتا اب پوچھ ہی بیٹھا ، کیونکہ اسے جیلسی ہو رہی تھی ۔کہ اسکے علاؤہ کوئی دوسرا اسکی موم پر گیا ہے۔۔

بیٹا وہ اس لیے کیونکہ تمہاری ماں اور اسکا خون کا رشتہ ہے ۔۔ بی جان نے مسکراتے اپنی بیٹی کو ایک نظر دیکھتے وریام کو جواب دیا ۔

بٹ وہ اتنی چھوٹی کیوں ہے۔ ۔ ۔۔ چھوٹی بچی لگتی ہے وہ ۔۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ وہ نیناں کے قد کا مزاق اڑاتے ہوئے بولا۔۔ اس سے پہلے کہ شمائلہ یا پھر بی جان اسے ٹوکتے پیچھے سے آتی نیناں کی آواز پر سب حیران ہوئے ۔

وہ جو ابھی یونی سے  تھکی ہاری آئی تھی اپنے کزن کے منہ سے اپنے بارے میں سنتے اور مزاق اڑاتے دیکھ دھواں دھواں چہرہ لیے اندر داخل ہوئی ۔ 

 میں چھوٹی ہوں یا پھر لمبی ہوں دبلی یا موٹی میرے خیال میں کسی کو اس سے پرابلم نہیں ہونی چاہئے۔۔

بی جان میں بالکونی میں ہوں ۔۔ بعد میں آتی ہوں ۔ بغیر کسی کی سنے وہ اپنی کہتے خونخوار طیوروں سے وریام کو گھورتے پیر پٹکھتے باہر نکلی۔۔

بیٹا ایسے نہیں بولتے کہاں ہے وہ چھوٹی اچھا خاصا تو قد ہے اس کا ۔ شمائلہ نے اپنے لاڈلے کو ٹوکتے ہوئے کہا ۔ انہیں بھی وریام کا مزاق اڑانا اچھا نہیں لگا تھا۔۔

اوکے موم اب نہیں کہوں گا ۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔ مگر دل میں ایک گدگدی سی تھی ۔ اب تو اس پر عزاب کی طرح نازل ہوا تھا ۔۔ 

اس بورنگ سی جگہ میں ٹائم پاس کرنے کو کوئی مل جو گیا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ وہ اسکی جان چھوڑ دیتا۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

چادر اوڑھ لو رمشہ مولوی صاحب آ رہے ہیں۔۔ اشعر جو کہ گھر پہنچنے سے پہلے ہی سارے انتظام کر چکا تھا اب ایک چادر لیے اندر اپنے روم میں داخل ہوا ۔

سامنے ہی اپنے بلیک شلوار قمیض جس کے بازوؤں کو فولڈ کرتے اور شلوار کے پائنچے بھی فولڈ کرتے بیٹھیں تھی کہ اتنا بڑا سوٹ اسے کہاں پورا آنا تھا مگر اب مجبوری سمجھتے وہ پہن چکی تھی ۔۔۔ 

کیونکہ جو لباس اس وقت وہ زیب تن کیے ہوئے تھی اس سے تو اچھا ہی تھا کہ وہ کھلے کپڑے ہی پہن لیتی۔۔

پکڑو چادر۔۔۔۔ اسے خیالوں میں گم دیکھ اشعر ٹوکتے اپنے ہاتھ میں پکڑی چادر اسکے سامنے کرتے بولا۔۔

اشعر مجھے نن نہیں کرنا یہ نکاح۔۔ وہ کب سے خود کو تیار کر رہی تھی۔۔ کہ چاہے جو ہو ابھی کے لیے یہ نکاح ضروری ہے مگر اسکا دل کسی طور بھی مطمئن نہیں تھا۔۔ ہمت کرتے اس نے اشعر کو انکار کر ہی دیا۔۔

کیوں نہیں کرنا نکاح۔۔ ماتھے پر بل ڈالے وہ سنجیدگی سے اس کے سامنے کھڑا ہوا بولا ۔ بس نہیں تھا ابھی پکڑ کر سیٹ کر دے میڈم کو ، مگر یہ تو طے تھا آج وہ اسے اپنے نام کر کے ہی دم لے گا۔۔

بس نہیں کرنا۔۔ وہ کہتے جلدی سے صوفے سے اٹھتی واشروم کی جانب بڑھی ۔ جب اشعر نے پھرتی ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے دوسرا ہاتھ اس کی پشت پر لگاتے اسکی کوشش ناکام بنائی۔۔

سس۔۔۔ ایک دبی سی سسکی رمشہ کے منہ سے آزاد ہوئی۔۔ وہ دم سادھ گئی اشعر کی قربت پر۔۔۔

تمہارے پاس دو آپشن ہیں رمشہ ایک تو میرے ساتھ نکاح کر کے اپنے گھر جانے کی آزادی یا پھر تمہارے ڈیڈ کے کہے مطابق میں تمہیں وہیں چھوڑ آؤں گا۔۔ جہاں سے لایا ہوں ۔۔ وہ اسے دیوار سے لگاتے اس کے دونوں ہاتھوں کو اونچا کرتے اپنے ایک ہاتھ میں لیتے دوسرا ہاتھ دوبارہ سے اسکی نازک کمر میں ڈالتے ہوئے بولا۔۔

رمشہ نے بے یقینی سے اپنی سرمئی سوجھی آنکھیں اٹھاتے اسے دیکھا۔۔

۔یس مائی ڈئیر ۔ جو سن رہی ہو وہی سچ ہے اب تمہاری مرضی ہے جو آپشن مرضی چنو۔۔ میں اگلے پانچ منٹ میں مولوی صاحب اور گواہان کے ساتھ آؤں گا۔۔ 

تب تک اگر تم یہ چادر اوڑھ کر بیٹھی نظر آئی تو ٹھیک ۔۔ ورنہ دوسرا آپشن پورا ہو گا۔۔ 

ریلیکس سے انداز میں کہتے ہوئے وہ اس کے دہکتے گال کو ہاتھ سے سہلاتا دروازہ کھولتے باہر نکلا۔۔ پیچھے وہ بے یقین سی فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

حامد آپ کچھ کیوں نہیں کر  رہے ارے آج دوسرا دن ہے میری بچی کا کچھ اتا پتا نہیں آپ کچھ بھی نہیں  بتاتے مجھے ۔۔ ارے کہاں ہے وہ مجھے لا کر دیں۔   

مسلسل دو دن سے وہ واویلا کر رہی تھی ۔۔ حامد صاحب تو بات ہی نہیں کرتے تھے اور حسن نے تو صاف کہا تھا اگر اس گھر میں نظر آئی تو وہ اس کا آخری دن ہو گا اس گھر میں۔ 

کہاں سے لا کر دوں میں۔  آپ ہی اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالتی تھی ناں۔  رات رات بھر دوستوں کے ساتھ باہر گزارنا۔۔ بنا بتائے اپنی مرضی کرنا ۔

 اگر آپ اس کی اچھے سے تربیت کرتی تو آج یہ دن دیکھنے کو ناں ملتا ۔۔۔ سلمیٰ بیگم دوسرے کے گھروں کو اجاڑنے کے بجائے اپنے گھر پر توجہ دیں۔۔ 

۔اپ نے ایک بار بھی پوچھا دو دن سے کہاں تھا میں۔   ارے اپنے بھانجے تک سے نہیں مل پایا میں۔  کیسے ملوں ۔۔۔ اس حالت میں کہ کو دیکھا تمہارا بد نصیب ماما ۔ جس نے ساری زندگی اپنی بہن کی ناں سنی آج وہ خود کس جگہ پر کھڑا ہے ۔  

کتنا بڑا صدمہ پہنچا تھا انھیں ۔۔۔ کاش کہ رمشہ ایسا ناں کرتی ۔۔ 

کتنے لاڈ پیار سے پالا تھا انہوں نے ، 

مگر شاید وہ بھول چکے تھے کہ انسان جب دوسرے پہ انگلی اٹھاتا ہے تو اس پہ خود بھی نظر جاتی ہے سب کی۔۔

  وہ پریشان نہیں تھے اب ، جبکہ اشعر نے انہیں سنبھالتے سہارہ دیا تھا اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا۔۔ 

وہ جانتے تھے کہ چاہے انکی بیٹی جتنی مرضی ضدی تھی مگر وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے انکی عزت پر  حرف آئے۔۔۔

وہ جانتے تھے کہ عمر نے سب کے سامنے اسکا ہاتھ پکڑتے بتمیزی کی تھی ۔۔

اور طیش میں رمشہ نے اسے تھپڑ مارا تھا۔۔ 

شاید اسی بات کا بدلہ وہنک نکالنے کو وہ رمشہ کو  یوں بہکاتے برباد کرنا چاہتا تھا ، مگر اسکے ارادے بری طرح سے ناکام ہوئے تھے ۔۔

جب اچانک سے اشعر نے جاتے سب کچھ سنبھالا تھا۔۔

آج تک جو آپ نے کہاں میں نے تسلیم کیا ۔۔۔ یہی میری غلطی ہے ۔ مگر اب اور نہیں ۔۔ آج میں بی جان سے بات کروں گا اور حسن اور نیناں کی شادی خود اپنے ہاتھوں سے کرواؤں گا۔  اور آپ اس میں کوئی مداخلت نہیں کریں گی۔   

میں اپنے بھائی سے آگے ہی بہت شرمندہ ہوں اب سے وہ بچی ہی میری بیٹی اور بہو دونوں ہے ۔ کہتے ساتھ ہی وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتے کمرے سے نکلے ۔ پیچھے وہ سر پر ہاتھ مارتی رہ گئی۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

نیناں کہاں جا رہی ہو بیٹا ۔۔ شمائلہ نیناں کو دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ جو کہ شاید چھت پر جا رہی تھی ۔

 پھپھو کوئی کام تھا آپ کو مجھے بتائیں ۔۔ میں اوپر چھت پر جا رہی ہوں۔۔

وہ دو قدم سیڑھیاں اترتے انکے پاس آتے پیار سے بولی ۔۔

ارے نہیں میری جان کام تو نہیں تھا بس یہ کچھ کپڑے ہیں تمہارے پھوپھا جان نے آن لائن خریدے ہیں وریام کے لیے ۔۔ بس اس کے کمرے میں رکھنے ہیں۔۔ اگر تم رکھ آؤ بیٹا، میں صبح سے چکر لگا لگا کر تھک چکی ہوں ۔۔

ارے پھپھو اس میں کونسی  بڑی بات ہے۔۔ لائیں مجھے دیں۔۔ میں رکھ آتی ہوں ۔۔ وہ پیار سے کہتے انکے ہاتھ سے کپڑے لے گئی ۔۔

جیتی رہو میری شہزادی اللہ نصیب اچھے کرے۔۔۔ آمین۔۔

وہ کپڑے تو لے آئی تھی مگر اب دروازے پر کھڑی سوچ رہی تھی کہ اندر جاؤں کہ ناں ۔

کچھ نہیں ہوتا شاید وہ کھڑوس گھر ناں ہو ۔ سوچتے وہ ہینڈل گھماتے ہوئے تھوڑا سا اندر جھانکنے لگی ۔روم میں مکمل خاموشی کو دیکھتے وہ سکھ بھرا سانس خارج کرتے اندر بڑھی۔۔ اور بیڈ پر سارے کپڑے رکھتے وارڈروب کا دروازہ کھولتے تہہ کرتے اچھے سے رکھنے لگی۔۔

وہ جو شاور لیتا ایسے ہی جینز پہنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے باتھروم سے نکلا تھا ۔۔  سامنے ہی استحقاق سے اپنی وارڈروب میں کپڑے رکھتے ہوئے دیکھ وہ گہرا مسکرایا۔۔ وہیں  باتھروم کے دروازے پر سر ٹکائے وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا،  لیمن کلر کے کرتے کے ساتھ  گھاڑے یلو کلر کی کیپری اور میچنگ دوپٹہ سر پر سلیقے سے اوڑھے وہ بے تحاشہ حسین لگی وریام کو۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے حسن نہیں دیکھا تھا ، جس جگہ سے وہ آیا تھا وہاں کی ہزاروں لڑکیاں ایک سے ایک حسین وریام کے آگے پیچھے گھومتی تھی ۔ مگر اس لڑکی میں ایک عجیب سی کشش تھی ۔ جو وریام کو اپنی جانب کھینچتی تھی ۔

خود پر کسی کی گہری نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے وہ چونکتے پیچھے مڑی مگر سامنے ہی دروازے سے ٹیک لگائے شرٹ لیس کھڑے وریام کو دیکھتے وہ جلدی سے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے رخ موڑ گئی۔۔

وریام کو اسکی حرکت بہت بھائی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے عین پیچھے کھڑا ہوا۔۔

لیسن یہ کپڑے بھی رکھو اندر۔۔۔ وہ جان بوجھ کر اسے چھیڑتے ہوئے بولا، حالانکہ اسکے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔

آ آپ بیڈ پر رکھیں میں لے لوں گی۔۔ وہ ہنوز چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بولی۔۔۔

آؤں ہوں۔۔۔۔ اسیے نہیں یہ لو مجھ سے اور اب رکھو انہیں۔۔۔  اسے اچھا لگ رہا تھا نیناں کو تنگ کرنا۔۔

اوکے پہلے آپ شرٹ پہنے پھر۔۔ وہ اسکی ضد پر اسے ۔شورہ دیتے ہوئے بولی۔۔۔ وریام نے ایبرو اٹھاتے داد دینے والے انداز میں اسے دیکھا۔۔

اوکے پہن لی۔۔۔ وہ دو منٹ ایسے ہی کھڑا ہوتا ہوا بولا۔۔

نیناں نے تشکر بھرا سانس خارج کرتے ہاتھ چہرے پر سے ہٹائے مگر سامنے ہی وریام کو اسی حالت میں دیکھتے وہ شرم سے نظریں جھکاتے دوبارہ ہاتھ آنکھوں پر رکھنے لگی کہ وریام نے فورا سے اسکے ہاتھ پکڑتے اس کی کوشش ناکام بنا دی۔۔۔

نیناں نے شرم اور غصے سے اسے دیکھنا چاہا مگر خود ہی شرم سار ہوتے نظریں جھکا گئی۔۔۔

اچھا ایک بات بتاؤ ناراض ہو مجھ سے۔۔ وہ غور سے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔ مگر جواب ناں ملنے پر سوچ میں پڑ گیا۔۔ تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم ایک چھوٹی سی بچی دکھتی ہو ۔۔ وہ ہنسی دباتے ہوئے بولا۔۔ کہ نیناں نے اسے گھور ۔۔اوپسس۔۔  بے بی کو غصہ ا گیا۔۔  وہ نیناں کے گھورنے پر اسے مزید چھڑہانے لگا۔۔

ہاتھ چھوڑیں  میرا۔ وریام بھائی۔۔۔ وہ غصے سے اسے گھورتے بولی۔۔ بس نہیں تھا اس کے بال نوچ لے ۔۔ جو اسے  چھوٹی ،اور بےبی  پتہ نہیں کیا کیا کہ رہا تھا۔۔

بھائی نہیں یار بھائی نہیں۔۔۔ میرے پاس الریڈی ایک بہن ہے ۔۔ اور نہیں چاہیے وہ منہ بسورتے ہوئے بولا، اسے کہاں گنوارا تھا کہ کوئی لڑکی اسے بھائی بولے۔۔۔ 

نیناں نے حیرانگی سے اسے دیکھا ۔۔ مجھے دادو بلا رہی ہیں ۔۔۔ وہ زبردستی اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہتے باہر کی جانب بھاگی۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

وہ سرشار سا سب مہمانوں کو الوداع کرتے گیٹ بند کرتا اندر کی جانب بڑھا۔۔ آج وہ  جتنا بھی رب کا شکر ادا کرتا اتنا ہی کم تھا،  آج اس کی محبت ، اس کی چاہت اسکے نام ہو چکی تھی۔۔ 

اسے یقین تھا کہ رمشہ ناں نہیں کرے گی۔ اور ایسا ہی ہوا تھا ۔۔وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ مولوی صاحب اور گواہان کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔ 

مگر سامنے ہی رمشہ کو اپنی دی ہوئی سرخ چادر اوڑھے گھونگھٹ میں بیٹھے دیکھ وہ پرسکون سا ہوا تھا۔۔ 

ان لمحوں کو یاد کرتے اشعر کے لب مسکرائے جب وہ اپنی محبت کو اپنے نام کر رہا تھا۔۔  رمشہ کے کانپتے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے اس نے تسلی دی تھی کہ وہ اسکے ساتھ ہے۔۔ جس پر شاید وہ کچھ سنبھلی تھی اور اپنی رضامندی سے اب رمشہ حامد سے رمشہ اشعر بن چکی تھی۔

لائٹس آف کرتے وہ اپنے روم میں داخل ہوا ، گھپ اندھیرے میں آتی سسکیوں کی آواز پر اسنے غصے سے لب بھینچے۔۔ اور ایک نظر صوفے پر چہرہ گھٹنوں میں چھپائے روتی رمشہ کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے کپڑے وارڈروب سے نکالتے شاور لینے چلا گیا۔۔

دس منٹ کے بعد وہ فریش سا باہر آیا مگر ابھی تک رمشہ کو ایسے ہی بیٹھے دیکھ وہ بال بناتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔

رمشہ بیڈ پر آؤ۔۔۔ اشعر کی آواز پر رمشہ کی سسکی تھمی اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑی۔۔ مگر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی۔۔

رمشہ میں کچھ کہہ رہا ہوں وہ غصے سے ضبط کرتے ہوئے ایک بار پھر سے بولا۔۔ مگر رمشہ کو ایسے ہی بیٹھے دیکھ وہ خود اٹھتا اسکے پاس کھڑا ہوا۔۔ اٹھو۔۔ وہ  غصہ دباتے ہوئے بولا ۔ رمشہ نے آنسو سے تر چہرہ لیے اشعر کو دیکھتے ناں میں گردن ہلائی۔ جب ایک جھٹکے سے آگے ہوتے اشعر نے اسے بانہوں میں بھرا اور بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔""

اشش اشعر نن نہیں  پہ پلیز وہ ایک دم سے حواس باختہ ہوتی اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں  مضبوطی سے جکڑتے  ڈرتے کپکپاتے بمشکل بولی۔۔

 جبکہ وہ اسکی سنی ان سنی کرتا اسے لیے بیڈ پر لٹاتا کہ اچانک وہ اسکے حصار کو توڑتی دوسری جانب سے نیچے اتری۔۔ اور  ایک جانب دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے تیز ہوتے تنفس سے گہرے سانس لیتے  ڈرتے اشعر کو دیکھنے لگی، جو مخنی خیزی سے مسکراتا ہوا  اسکے خوشربا سراپے کو دیکھنے لگا۔۔

بکھرے کالے بال ، سرخ پڑتی رنگت اور اوپر سے اشعر کے ہی پہنے بلیک سوٹ میں وہ تھر تھر کانپتی  اسکے سینے میں اٹھتے طوفان میں مزید بھڑکا گئی۔۔

اشش اشعر پپ پلیز نو۔۔ وہ اسے اپنی جانب قدم بڑھاتے دیکھ نفی میں سر ہلاتے التجائیہ  ہوئی۔ جبکہ دوسری جانب وہ بغیر کسی چیز کی بھی پرواہ کیے اسکے عین مقابل کھڑا ہوتا اسکے دائیں بائیں ہاتھ ٹکاتے چہرہ اس پر جھکا گیا۔

اسکی گرم جھلسا دینے والی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرتے رمشہ نے اپنی آنکھوں کو مضبوطی سے بند کرتے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا۔۔ وہ جو اتنے قریب سے اسکے ایک ایک نقش کو اپنے دل میں بساتا مدہوش سا ہوتا اسے دیکھ رہا تھا ایک دم اس کے ہونٹ کو دانتوں تلے دبانے پر چڑھتا ہوا اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اسے دانتوں سے آزاد کروا گیا ۔

مخنی خیز رات کی تاریکی میں رمشہ کی جان لبوں پر آئی جب اشعر کا ہاتھ سرکتا اسکی گردن پر گھومتا ہوا محسوس کیا۔ وہ ڈر سے سانس روک گئی۔۔ اسکا پور پور کانپ رہا تھا۔۔ بہت اچانک اس نے ایک بار آنکھیں کھولتے سامنے دیکھا مگر سامنے ہی اشعر کی مدہوش ہوتی نظریں خود پر پاتے وہ شرم سے چہرہ جھکا گئی۔۔

ڈر لگ رہا ہے۔۔ اچانک سے ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے وہ اسے خود میں بھینچتے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا، وہ کیا کہتی اس میں سکت ہی کہاں تھی کچھ بولنے کی۔ وہ خاموشی سے اسکے سینے میں منہ دیے کھڑی رہی۔۔ جسے محسوس کرتے وہ گہرا مسکراتے دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں ڈالتا ہلکا سا کھینچتے اس کا چہرہ اوپر کر گیا۔۔ اس کے  سرخ چہرے کو دیکھتے اب اسکی نظریں اسکی نرم و نازک پنکھڑیوں جیسے لب تھے۔۔ بنا کسی توقف کے وہ جھکتا مدہوش سا اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لیتے اسکی سانسیں خود میں منتقل کرتا  مدہوش سا ہوتا ، ہاتھ سے اسکے کمر اور بالوں کو سہلانے لگا 

۔جبکہ دوسری جانب اسکے لمس کو ہونٹوں پر محسوس کرتے رمشہ نے مضبوطی سے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑا۔۔ اسکی ٹانگیں جیسے بے جان ہو چکی تھیں۔ جسے محسوس کرتے اشعر مضبوطی سے اسے اپنی گرفت میں لیتے اوپر اٹھاتا بیڈ پر لے جاتے لٹا گیا ۔۔ سانس رکنے پر رمشہ نے دونوں ہاتھوں کے مکے بناتے اسکے سینے پر مارنے شروع کر دیے ۔ جس پر وہ ہوش میں آتا چہرہ اونچا کیے اسے دیکھنے لگا  ، جو شاید تیز تیز سانسیں لیتی اپنا تنفس  بحال کر رہی تھی ۔ وہ جھکتا اسکی گردن پر جابجا اپنا لمس چھوڑتا رمشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑا گیا ۔ اسکی شیو کی جھبن کو گردن پر محسوس کرتے اسنے پورا زور لگاتے اسے خود سے دور کیا۔

وہ سائیڈ ہوتا خود بھی بیڈ پر لیٹتے ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے اسے اپنے قریب کرتا سینے سے لگا گیا۔۔  

سو جاؤ ۔۔ اس سے پہلے کہ میرے لیے خود کو روکنا مشکل ہو جائے۔۔ وہ ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلاتے اسے ریلیکس کرتا سرگوشی میں بولا۔۔ جبکہ وہ اسکے سینے میں منہ دیے ویسے ہی دبکی لیٹی رہی ۔ ایک سرد آہ خارج کرتے وہ ہلکی  سی جلتی لیمپ کی لائٹ کو بجھاتے  خود  رمشہ کے بالوں میں منہ دیے گہرے سانس بھرتے خود کو پرسکون کرنے لگا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کے نو بجے وہ پریشان سی ٹیرس پر آگے پیچھے چکر کاٹتی دونوں ہاتھوں کو بے چینی سے مسل رہی تھی۔ 

آج اسکی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو خود ہی اس پر واضح کر چکا تھا کہ وہ اس کے لیے کیا اوقات رکھتی ہے۔۔ 

بے چینی سے کچھ نا سوجھنے پر وہ ناخن منہ میں ڈالے چبانے لگی ۔ 

 کہ اچانک سے آتی وریام کی آواز ہے وہ سائیڈ ہوتی دیوار سے لگ گئی۔۔ گہری تاریکی میں وہ اسکی پشت کو گھورنے لگی ۔ اس کا بالکل موڈ نہیں تھا اس وقت کہ وہ وریام کا سامنے کرتی اور پھر وہ اسکا کسی نئی بات پر مزاق بناتا ، اسی وجہ سے وہ ایک جانب ہو گئی ، 

ابھی وہ دروازے کی جانب جاتی کہ وریام کی آواز پر اسکے قدم تھمے۔۔ وہ رک گئی کچھ سوچتے۔۔ شاید وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔

 وہ جو خود بھی پہلی بار کسی پاکستانی میٹنگ میں جانے کو سوٹ بوٹ پہنتا بالکل ریڈی تھا۔ کہ اچانک سے فون پر آتی لیلیٰ کی کال پر وہ دروازے پر  رکتا  اوپر ٹیرس پر ا گیا ۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی موم یا پھر کوئی بھی ڈسٹرب ہو اسی لیے کچھ سوچتے وہ ٹیرس پر آتے کال یس کرتا کان سے لگا گیا۔۔ 

وی وئیر آر یو۔۔ آئی نیڈ ٹو ٹاک یو۔۔ وہ بے چینی سے وریام کی کال پک کرتے ہی جھٹ سے بولی۔۔

کیا کام ہے کیوں بار بار کال کر کے تنگ کر رہی ہو ۔ وہ چڑھتا ہوا  دھیمی آواز میں غرایا۔۔

نیناں نا سمجھی سے سب سن رہی تھی کیونکہ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔

وی پلیز ایک بار ملو مجھ سے آئی رئیلی لو یو ۔۔ میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ لیلیٰ بے بسی سے آگے پیچھے چکر کاٹتی ہوئی بولی۔۔

دیکھو لیلیٰ ۔۔ میں نے کبھی بھی تمہارے بارے میں کوئی فیلنگز نہیں رکھی۔۔ ہمیشہ ایک اچھی دوست سمجھا تھا  ۔مگر اب وہ رشتہ بھی میری طرف سے ختم سمجھو۔۔۔ تم جانتی ہو ناں کہ لڑکیاں میرے لیے بالکل کپڑوں کے جیسی ہیں آج ایک ہے کل کوئی دوسری ۔۔ اور اب ویسے بھی تم سے دل بھر چکا ہے میرا ۔۔ تو انجوائے یور لائف اب کال مت کرنا۔۔ وہ بے حس بنتا تمسخر اڑاتا کہتے کال بند کر گیا ۔۔

جبکہ پیچھے کھڑی نیناں کو اپنے کانوں پر یقین ناں ہوا ۔ وہ بے یقینی سے منہ پر ہاتھ رکھے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ تو کیا اسکی پھپھو کا بیٹا  لڑکیوں کو یوز کرتا ہے۔  تو کیا وہ ایک برا انسان ہے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔ وریام کے نکلتے ہی وہ بھاگتے اسکے خوف سے دوڑتی اپنے کمرے میں بند ہوتی لاک کر گئی ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بی جان تو پھر کیا فیصلہ ہے آپ کا ۔۔ کمرے میں موجود خاموشی کو خامد کی آواز نے توڑا۔۔ 

وہاں موجود ہر انسان کا پورے کا پورا دھیان بی جان کے فیصلے پر تھا جو ہونٹ سیے بیٹھی تھی ۔۔ پاس ہی صوفے پر خامد صاحب اور سلمیٰ بیگم تو ایک جانب شمائلہ اور رضا بیٹھے تھے۔۔ حسن ان سب سے لاپرواہ سے انداز میں ایک جانب ٹانگ پر ٹانگ جمائے لاپرواہ سا بیٹھا تھا۔۔

 آج اگر قریشی صاحب زندہ ہوتے یاں  پھر میرا ولید اور نمرہ اس دنیا میں ہوتے تو مجھے یہ فیصلہ اکیلے ناں کرنا پڑتا۔۔مگر شاید رب کو یہی منظور تھا، رہی رشتہ کی بات تو ۔۔۔ میں ایک بار نیناں کی رضامندی جان کر ہی تمہیں آگاہ کر سکتی ہوں اگر وہ راضی ہوئی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ وہ  شائستگی سے جواب دیتے خامد کے متفکر چہرے کو دیکھنے لگی۔۔ انہوں نے تو اشعر کو سوچا تھا مگر اب حسن ۔۔ وہ خود سوچ میں پڑ چکی تھیں۔۔ ایک طرف دل رضامند تھا کہ آخر کو انکی لاڈلی انکے پاس انکے سامنے تو رہے گی مگر پھر سلمیٰ کا رویہ یاد آتے ہی وہ لب بھینچ گئی۔۔ اور فیصلہ نیناں پر چھوڑ دیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 پورے تین گھنٹے کے اوپریشن کے بعد ڈاکٹرز کو باہر آتے دیکھ وہ دوڑتا انکی جانب بڑھا۔۔

ڈاکٹر کیسی ہے وہ ٹھیک ہے ناں پلیز کچھ بولیں۔۔ وہ باری باری دونوں ڈاکٹرز کو جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔۔ جو کہ اپنے سامنے کھڑے خوبرو نوجوان کو اس حالت میں دیکھ سر جھکا گئے۔۔

ڈاکٹر پلیز آپ بتائیں ہم پریشان ہیں اسکے لیے۔۔ اظہر صاحب خود بھی اٹھتے ڈاکٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔

دیکھئے ہم آپ کو کوئی جھوٹی تسلی نہیں دیں گے۔۔ ایکسیڈینٹ بہت شدید تھا مگر ۔۔۔ مگر اس سے زیادہ جو بات خطرناک تھی وہ یہ کہ پیشنٹ نے حود ہی ہمت چھوڑ دی تھی شاید وہ خود بھی جینا نہیں چاہتی تھی۔۔ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے، اگلے چوبیس گھنٹے پیشنٹ کے لیے بہت ضروری ہیں اگر انہیں ہوش ناں آیا یا تو وہ کومہ میں جا سکتی ہیں یاں پھر انکا میمری لاس ہو سکتا ہے ۔ 

اور دونوں ہی صورتیں بہت کریٹیکل ہیں آپ دعا کریں کہ پیشنٹ ہوش میں آ جائے ۔۔۔ باقی جو اللہ کی مرضی۔۔ وہ پیشہ وارانہ انداز میں رافع کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہتے وہاں سے گئے۔۔ جبکہ پیچھے وہ بے یقین سا دوڑتا اندر کی جانب بڑھا جہاں ابھی تھوڑی دیر پہلے آیت کو شفٹ کیا گیا تھا۔۔

وہ دو قدموں کے فاصلے پر کھڑا اسکو دیکھنے لگا ، جو اس وقت پٹیوں میں جکڑی ،زرد رنگت سے  پہلے والی آیت ناں لگی۔۔ وہ شدت ضبط سے اپنے ہونٹ کو دانتوں تلے کچلنے لگا ۔ اظہر صاحب نے آگے ہوتے اسے ساتھ لگایا۔۔

ڈیڈ مجھے آیت سے بات کرنی ہے اکیلے میں وہ آنسو پونچھتے ہوئے اپنے ڈیڈ اور آیت کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

اظہر صاحب بنا کچھ کہے باہر جاتے دروازہ بند کر گئے۔۔۔ 

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس اسکے پاس کھڑا ہوا

، جہاں وہ زخموں سے چور ، زرد پڑتی رنگت کے ساتھ بے ہوش تھی۔۔ آہستگی سے جھکتے اس نے اپنے لب آیت کے ماتھے پر لپٹی  سفید پٹی پر رکھے بے اختیار ایک آنسو اس کی آنکھ سے پھسلتا آیت کے گال پر گرا۔۔

ہیے آیت ۔ گیٹ اپ یار پلیز ۔۔ دیکھو تم یوں لیٹی بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔۔ ایک بار آٹھ جاو۔ پھر آئی سویر کبھی بھی تنگ نہیں کروں گا۔۔  تم سے کوئی بھی سوال نہیں پوچھوں گا بس ایک بار اٹھ جاو۔۔

یو نو ناں کہ میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ جانتی ہو تم کہ محبت کرنے لگا ہوں میں تم سے ۔۔ بس اسی لیے مجھے تنگ کرنے کو یوں لیٹی ہو، مگر تمہارے اس طرح سے لیٹنے یا پھر بات ناں کرنے سے  میں تمہاری جان نہیں چھوڑنے والا۔۔۔ تم سن رہی ہو ناں۔ مسلسل بہتے آنسوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے ہوئے وہ بے بسی سے بولا، بس نہیں تھا ابھی اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لے ۔۔ اپنی تڑپ کو اس میں بھی منتقل کر دے ۔ مگر وہ بے بس تھا ، کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔

اچھا ایک اور ڈیل بھی ہے میرے پاس تمہیں پسند آئے گی ۔ وہ بیڈ پر ایک جانب تھوڑی سی جگہ بناتا بیٹھتے ہوئے بولا۔۔

ایسے جیسے وہ اسکی ساری باتیں سن رہی ہو۔۔ ڈیل یہ ہے کہ اب تم وری واپس آئے ناں تو اسے سب کچھ بتا دینا کہ کیسے میں نے تمہیں تنگ کیا تھا ۔۔ اسکی بہن کو ڈرایا دھمکایا بھی تھا۔۔ وہ اسکے ہاتھ کو گرفت میں لیتا اپنے لب رکھتا ہوا بولا۔۔ 

دیکھو اب یہ تنگ کرنا چھوڑ دو۔۔ خاموشی سے خود ہی اٹھ جاؤ ،اگر میں نے اٹھایا تو پھر تمہی کو شکایت ہو گی ۔۔ اور اب میں تمہاری ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتا۔۔ 

معا اسکے ذہن میں ایک بات آئی ۔۔  اسکے چہرے کے تاثرات بدلتے ایک دم سے سرد ہوئے۔۔ وہ آہستگی سے اٹھتا  پیار سے آیت کی پیشانی چومتا باہر کی جانب نکلا۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کھڑکی سے آتی ہلکی سی روشنی اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سے وہ  آنکھیں مسلتے  اٹھتی کہ خود کو اشعر کی تنگ گرفت میں پاتے وہ  کسمساتے منہ ٹیڑھا کرتی رخ اس کی طرف کرتے لیٹ گئی۔۔

گھنی پلکیں ،کھڑی ناک، درمیانے ہونٹ ، اور ہلکی سے بڑھی شیو میں اس کا سانولی رنگت مزید پرکشش دکھائی دے رہی تھی۔۔ اتنا برا بھی نہیں ہے۔۔ وہ منہ ٹیڑھا کرتے اسے دیکھتے دل ہی دل میں مخاطب ہوئی۔۔۔

اور  تھوڑا سا اٹھتے سر اسکے کشادہ پھیلے بازو پر رکھ دیا ۔

ابھی وہ کوئی شرارت کرتی کہ اشعر کی آواز نے اسے روک دیا۔

رمشہ سو جاؤ جان۔۔۔کیوں ضبط آزما رہی ہو، کیا چاہتی ہو رات جو کام رہ گیا تھا ابھی اسے پورا کر دوں ۔ وہ مسکراتا جھکٹے سے اسکے اوپر ہوتے اسکی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

دوسری جانب وہ حیران سی اسے دیکھنے لگی آپ جج جاگ رہے تھے۔ وہ ہمت کرتی اس سے پوچھنے لگی۔۔ 

جبکہ دوسری جانب وہ مسکراتا اسکی دونوں آنکھوں کو چومتا اسے دیکھنے لگا۔۔ میں جاگ نہیں رہا تھا کیونکہ آج رات میں سویا ہی نہیں تھا۔۔ وہ پیشانی اس کی پیشانی سے ٹکاتے مسرور سا بولا، رمشہ کی سمجھ میں تو کچھ ناں آیا مگر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی خاموش ہو گئی ۔۔ اب کوئی شرارت مت کرنا پھر بدلے میں اگر میں نے کوئی شرارت کری تو پھر تمہیں ہی شکایت ہو گی۔۔۔ رائٹ وہ باری باری اسکے دونوں گال چومتا کہتے بیڈ سے اترتا باہر کی جانب گیا۔۔پیچھے وہ شکر بھری سانس لیتے سر تکیے پر ٹکا گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گہری پھیلی تاریکی میں وہ اٹھتی لائٹ آن کرتے ٹائم دیکھنے لگی۔۔۔ مگر خود کو اپنے روم میں پاتے وہ حیرت زدہ سی ہوئی مگر پھر خود ہی یاد بھی آ گیا کہ کل رات کیسے وہ وریام کی  باتیں سنتے اپنے روم میں آئی تھی۔۔ وہ اٹھتے وضو کرتے نماز پڑھنے لگی ۔۔ 

نماز پڑھتے ہی وہ  بی جان کے روم میں جانے کو نکلی اس وقت اسکا دماغ حسن کو بھولے بیٹھا تھا۔۔ اسے وریام سے خوف محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں وہ اسے بھی نقصان ناں پہنچائے۔۔ انہی سوچوں میں گھری وہ بی جان کے روم کے پاس جاتی دروازہ کھولتی کہ پیچھے سے آتے کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اسے اپنی جانب کھینچا۔۔ ایک ہاتھ نیناں کے منہ پر رکھتے ہوئے اسکی چیخ کو منہ میں ہی دبایا۔۔۔

کیا ہر وقت چیختی رہتی ہو میں ہوں وی۔۔۔ وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھے دبے دبے لہجے میں بولا ۔ دوسری جانب وہ ڈری سہمی اسے دیکھتی سوچنے لگی کہ اب وہ کیا کرے گا اسکے ساتھ ۔ وریام اسے پکڑتے اپنے روم میں لے آیا۔۔۔ او اپس۔۔ سوری وہ نیناں کے اشارے کو سمجھتے اس کے منہ ہاتھ ہٹاتے اسے بیڈ پر بٹھا گیا۔۔جو خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔

لسن کہاں ہو تم کل رات سے تمہیں زرا سا بھی آئیڈیا ہے یہاں پر میں ساری رات ناں سو سکا اور تم ناجانے کہاں غائب ہو۔۔ تمہیں معلوم ہے کل جو میٹنگ ہوئی اس میں کیا کہا تمہارے تایا نے آئی مین ماموں نے۔۔ وہ مسلسل آگے پیچھے چکر کاٹتا بولے جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ وہ خود اس وقت اس سے ڈر رہی تھی۔۔

وہ چاہتے ہیں کہ حسن اور تمہاری شادی ہو جائے اور گرینڈ ماں نے بھی ساری بات تم پر ڈالی ہے ۔۔ 

کل رات وہ لیلیٰ سے بات کرتے جیسے ہی روم میں گیا تھا تو اسکی موم نے اسے یہ خوشخبری سنائی تھی۔۔  جسے سنتے اسے عجیب سی فیلنگز آ رہی تھی۔۔ وہ خوش ہونا چاہتا تھا مگر وہ خوش نہیں ہو پا رہا تھا ۔ وہ اپنی اندرونی کیفیت سے خود بھی پریشان اور جھنجھلایا ہوا تھا۔ 

۔ایک دم سے وہ اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامتے اسے دیکھنے لگا۔۔ نیناں اسکی بھوری سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں میں دیکھتے کھو سی گئی ۔۔  میں چاہتا ہوں کہ تم اس شادی سے انکار کر دو۔۔

کیوں یہ میں خود نہیں جانتا بٹ میرا دل چاہتا ہے کہ تم یہ شادی ناں کرو۔۔ وہ مسلسل اسکی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گھاڑے ہوئے بولا تھا ۔

اگر میں ہاں کر دوں تو، کچھ سوچتے نیناں نے فورا سے کہا کہ مسکراتے ایک ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے وہ اسے اپنے نزدیک کر گیا۔۔ 

سوچنا بھی مت ایسا کچھ بھی نین۔۔۔ تم شاید مجھ سے ابھی واقف نہیں ہو ٹھیک سے ۔۔ ابھی میں خود اپنے دل کی بات سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ کیا چاہتا ہے بٹ آئی سویر جس دن مجھے سمجھ آ گئی ناں تو اس دن یہ دنیا تو کیا تم خود بھی اپنے آپ کو مجھ سے نہیں بچا پاؤ گی۔۔ اس کی آنکھوں میں۔ ایک طیش ایک جنون تھا ۔ اسکی گرم جھلسا دینے والی سانسیں نیناں کو اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی وہ دم سادھے اسکے کھینچنے سے اس پر جھکی  آنکھیں موند گئی۔۔

یو آر سو بیوٹیفل بٹ یور ڈمپل از لائک آ پرئشیس ڈائمنڈ فار می ۔۔۔۔

وہ جھکتا اپنے ہونٹ اسکے رخسار پر رکھتے اسکے کان میں سرگوشی کرتا اسکی جان لبوں  پر لے آیا۔۔۔ اسکی غیر ہوتی حالت کو دیکھتے وہ مسکراتا اپنی گرفت ڈھیلی کرتے اسے چھوڑتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم مجھے ڈرا دھمکا کر اپنی من مانی کر لو گے۔ مسٹر وریام مرتضٰی کاظمی اب تو میں ہر حال میں حسن سے شادی کر کے ہی رہوں گی۔۔ تم دیکھ لینا گھٹیا انسان۔۔ وہ   غصے ، نفرت سے کہتے اپنے دوپٹے سے اپنا گال رگڑتے کہتے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔

کھولو مجھے پلیز وہ مسلسل خود کو چھڑوانے کے چکر میں نڈھال سی ہو گئی۔۔ 

وہ ڈری سہمی  سی چاروں طرف پھیلے جنگل اور سنسان جگہ سے گھبراتے دعائیں پڑھنے لگی ۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ رافع کیسے صبح اچانک ہی اسکے ہوسٹل روم میں آتے اسے اٹھاتے زبردستی کسی سنسان جگہ لے آیا تھا ۔

کوئی ہے ۔۔ وہ چیختے روتے کسی کو مدد کےلئے بلانے لگی ۔ کیا ہو گیا کیوں چیخ رہی ہو ۔معا وہ پھر سے چیختی کہ رافع کمرے میں آتے غصے سے جھڑکتے ہوا بولا۔۔

بکھرے بال ، خون سے لت پت کپڑوں میں وہ اس وقت کسی کو بھی خوف زدہ کر سکتا تھا۔۔ ایک نظر رافع کو دیکھتے وہ کمرے کو دیکھنے لگی۔۔ جہاں چاروں طرف پھیلی صبح کی ہلکی سی روشنی جو کھڑکیوں سے جھانک رہی تھی ۔ کمرے میں موجود دو کرسیوں میں سے ایک پر اسے باندھا  گیا تھا جبکہ دوسری کرسی خالی تھی 

رافع چلتا اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے اسے دیکھنے لگا ۔

تو دعا میڈم اگر تو اپنی جان پیاری ہے تو اب خاموشی سے بتا دو کہ آیت کو کیسے جانتی ہو اور اس نے اپنا نام کیوں بدلا ہے۔  وہ بار بار اس سے ایک ہی سوال کر رہا تھا۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ اس سے پوچھ کر گیا تھا  ،مگر دعا نے کچھ بھی نا۔ بتایا بتاتی بھی کیسے وہ خود پریشان تھی ، پچھلے چوبیس گھنٹوں سے آیت کا کچھ پتہ نہیں تھا ایسے میں اچانک رافع کا آنا اسے کڈنیپ کرتے زبردستی آیت کا پوچھنا اسے خود کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔۔

اس سے پہلے کہ تم اپنا جواب مجھے سناؤ ایک بات سن لو ۔۔۔ اگر تم نے اب انکار کیا تو اس گن میں موجود ساری کی ساری گولیاں اب تمہارے سر کے آر پار ہوں گی۔۔۔ 

اور میں یہ کروں گا بھی۔۔۔ وہ گن اس کی کنپٹی پر رکھتا دباؤ ڈالتے ہوئے بولا۔ 

بب بتاتی ہوں سسس سب بب بتاتی ہوں پلیز اسے سائیڈ کرو۔۔۔وہ ڈرتے خوفزدہ ہوتی خامی  بھر گئی۔۔۔

گڈ ۔۔۔۔ چلو اب بتاؤ۔۔  وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا ۔

آیت اور مم میں بچپن سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں ۔۔ ہم پاکستان سے ہیں۔۔ آیت کی مما اسکے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی ۔اسکے پاپا نے اکیلے ہی بڑے لاڈ پیار سے اسے پالا تھا ۔ پچھلے سال اسکے پاپا کی اٹیک سے ڈیتھ ہو گئی تھی ۔ تب میں نے اور میرے مما پاپا نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا تھا۔۔ وہ بتاتی لمحے کو رکی کہ رافع نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بولنے کا اشارہ کیا۔۔

انہی دنوں میں اسکی تائی تایا اور انکے فیملی بہانے سے اسکے پاس شفٹ ہو گئے ۔۔ کیونکہ  آیت کے بابا  جاتے وقت اپنے گھر کے علاؤہ بزنس بھی آیت کے نام کر چکے تھے۔۔ آیت کے تایا کا بڑا بیٹا سعد اسکی نظر آیت پر ٹھیک نہیں تھی۔۔ آیت نے جب مجھے بتایا تو میں نے اپنے پاپا سے ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کی ۔ پاپا نے انہیں نکالنے کی کوشش بھی کی مگر وہی بہانا کہ جوان جہان بچی ہے اکیلے کیسے رہے گی ۔

آہستہ آہستہ وہ آیت کے گھر اور بزنس پر قابض ہو گئے۔۔ آیت کیا کہتی وہ تو اپنوں سے ہی اپنی عزت بچا رہی تھی۔۔

پھر۔۔ وہ کہتے رکی اور رافع کو دیکھا جسکی آنکھیں شدت ضبط سے لہو  ٹپکا رہی تھی۔۔ 

آگے بتاؤ مجھے دعا۔۔۔ وہ  خود پر ضبط کے پہاڑ باندھتے ہوئے بولا ۔

پھر ایک دن سعد نے آیت کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ۔۔ جیسے تیسے وہ بیچاری وہاں سے بھاگتی ہمارے گھر ائی۔۔ اسکی حالت بہت حراب تھی۔۔  اسکا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔۔ پورے دو دن تک وہ بے ہوش رہی تھی،  ادھر پاپا نے  سعد کے خلاف کیس کرواتے اسے جیل کروا دیا اور انہیں زبردستی گھر پر قبضہ کرنے کے جرم میں گرفتار کروا دیا۔۔ 

ابھی کچھ دن خوشی کے گزرے تھے کہ سعد نے گھر پر حملہ کروا دیا ۔ اور پاپا کو دھمکیاں دینا شروع کر دی۔۔ پاپا نے ڈرتے ہم دونوں کو لندن میں چوری چھپے بھیج دیا تاکہ ہم چاہے ان سے دور رہیں مگر خفاظت سے رہ سکیں۔۔  مگر یہاں  بھی وہ کمینے جانے کیسے پہنچ گیا وہ تو میں نے اور آیت نے اسے دیکھ لیا تھا۔۔ اسی لیے پاپا کے مشورے پر یم نے شہر چینج کر کیا اور آیت کا نام بھی۔۔۔ وہ بتاتی  رافع کو دیکھنے لگی۔۔ جسے دیکھتے اسے خود حوف آنے لگا۔۔ 

کیا نام ہے آیت کا۔۔۔ وہ چند پل خاموشی کے بعد بولا۔۔

فدک نام ہے اس کا۔۔  

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بیٹا تم کب ائی۔۔ بی جان پیار سے پاس لیٹی نیناں کا ماتھا چومتے ہوئے بولی ، جس پر مسکراتے اسکا ڈمپل پل بھر میں جھلک دکھاتا چھپ گیا ۔  جی رات کو پتہ نہیں کیسے اپنے روم میں سو گئی ۔۔ وہ سر انکی گود میں رکھتی انہیں بتانے لگی ۔

بیٹا ایک بات ہے اگر میری جان مناسب سمجھے تو میں کروں تم سے۔۔ وہ پیار سے اسکے بال سہلاتے ہوئے بولی۔۔

جس پر نیناں نے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلاتے انکے ہاتھ کو چوما۔۔

تمہارے تایا جان چاہتے ہیں کہ حسن کا اور تمہارا نکاح کر دیا جائے اس جمعہ کو ، اور رخصتی تمہاری پڑھائی کے بعد ،،  میں نے اس کی بات سنی ہے مگر فیصلہ  تم پر چھوڑا ہے ، بی جان مجھے آپ پر یقین ہے آپ جو بھی  فیصلہ کریں گی وہی میرے لیے اچھا ہوگا۔۔ بی جان کی بات کاٹتے وہ اٹھتے نرمی سے انکے ہاتھوں پر بوسہ دیتے مان سے بولی۔۔۔ 

خوش رہو میری بچی ،مگر آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا۔۔ وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے پیار سے بولی۔۔معا وہ کوئی جواب دیتی باہر سے آتے شور پر بی جان نے گھبراتے نیناں کو دیکھا۔۔

بیٹا یہ حسن کی آواز ہے ناں یہ اتنا کیوں شور کر رہا ہے۔  وہ فکر مند ہوتے ہوئے بولی۔۔ کہ نیناں نے ناسمجھی سے گردن ہلائی۔۔۔ لے چلو مجھے باہر دیکھوں تو میں ہوا کیا ہے۔۔  وہ اٹھتے چھڑی کا سہارہ لیتے ہوئے  بولی۔۔  

 نکلو یہاں سے منہ کالا کر آ گئی ہو تم رہو اب اسی کے ساتھ ۔۔ نکلو اس سے پہلے کہ میں تم دونوں کا خون کر دوں ۔ وہ غراتا ہوا غصے سے چیخ رہا تھا کہ سلمیٰ بیگم کے لیے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔۔

رمشہ ڈری سہمی سی اشعر کے پیچھے تقریباً چھپی ہوئی تھی۔۔ 

سمجھ نہیں آئی نکلو دونوں۔۔ بی جان ،نیناں ، شمائلہ ، رضا صاحب سب حیرانگی سے دیکھ رہے تھے کہ آخر کار ہوا کیا ہے۔  نیناں خود اشعر کو دیکھے پریشان سی تھی کہ اسے آخر کیسے مل گئی رمشہ۔۔ 

ہمت بھی مت کرنا حسن بیوی ہے رمشہ میری ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 

حسن کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکتے  اشعر جھٹکے سے اسے دور کرتا بولا۔۔

بی جان ، سلمیٰ بیگم نے منہ پر ہاتھ رکھا یہ بات انکے لیے بم سے کم ناں تھی ۔ دوسری جانب  شمائلہ  خود حیران سی پہلی بار اپنی بھتیجی کو دیکھتے اس انجان کے ساتھ پریشان تھیں ۔ کہ آخر کو ہوا کیا ہے۔۔

تمہاری تو میں ۔ ہاتھ کا مکہ بناتے وہ اشعر کی جانب بڑھا کہ حامد صاحب کی آواز نے اسکے ہاتھ روک دیا ۔  

ڈیڈ آپ ۔۔۔ بولیں اسے کہ نکلے یہاں سے ۔۔ تین دن بعد آ رہی ہے اور اور یہ اشعر اس کمینے کے ساتھ تھی یہ ۔۔۔ پتہ نہیں نکاح بھی کیا ہے کہ ۔۔

خاموش ہو جاؤ حسن ۔۔ میں باپ ہوں تمہارا تم نہیں ۔۔ اور یہ نکاح میری رضامندی سے ہوا ہے۔۔ حامد کی آواز پر ہال میں خاموشی چھا  گئی ۔۔ سلمیٰ نے تشکر بھرا سانس خارج کیا۔۔ کہ آخر کار حامد کو تو معلوم ہے۔۔ 

انکل رمشہ میری امانت ہے آپ کے پاس،  میں چاہتا ہوں کہ آپ باعزت طریقے سے اسے میرے ساتھ رخصت کریں۔ اور دوسری بات رمشہ اپنی مرضی سے کہیں نہیں گئی تھی اسے کڈنیپ کیا گیا تھا اور یہ بات میرے اور انکل کے علاؤہ اور کوئی نہیں جانتا کیونکہ میں نے ہی انکل کو منع کیا تھا کہ کسی سے بھی اس بات کا ذکر ناں کریں تاکہ ہمیں کڈنیپر سے کوئی خطرہ ناں ہو سکے اور ہم آسانی سے رمشہ کو گھر لا سکیں۔۔ اور جہاں تک اس نکاح کی بات ہے تو یہ سب مجبوری میں کرنا پڑا ،میڈیا کی وجہ سے۔۔ مگر ۔۔۔ اب رمشہ میری بیوی ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتا ۔۔ اسکے باوجود اگر آپ میں سے کسی کو رمشہ کے یہاں پر رہنے سے مسئلہ ہے تو میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں ۔۔ وہ مضبوطی سے رمشہ کے گرد اپنا حصار بناتے اسکے خاندان میں سب کے سامنے اسکا بھرم رکھتے ہوئے بولا۔۔

ارے کیوں برخوردار کیا چاہتے ہو کہ ہم ایسے ہی اپنی بیٹی تمہیں سونپ دیں ۔ چھوڑو میری پوتی کا ہاتھ ۔۔ بڑا آیا بیوی ہے میری۔۔۔ 

بی جان اشعر اور رمشہ کو راستے میں روکتے ہوئے ٹوکتے بولیں تو وہاں موجود سب نے حیرانگی سے انہیں دیکھا۔۔

پورے رسم ورواج سے میں اپنی پوتی رحصت کروں گی۔۔ ایسے تھوڑی ناں اٹھا کے تیرے حوالے کر دوں ، وہ مسکراتی رمشہ کا ماتھا چومتے ہوئے اشعر کا کان کھینچتے بولی تو حسن کے علاؤہ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھری۔۔ 

سوری بی جان میں تو چھوڑ کر ہی جا رہا ہوں ویسے بھی ایک ضروری کیس کے لیے نکلنا ہے ابھی، بس سوچا کہ سی آف کر آئے مجھے ، وہ ہنستے اپنا کان چھڑاتے ہوئے بولا، 

بہت بہت شکریہ بیٹا، اگر تم ناں ہوتے تو نا جانے کیا ہوتا ، میں تمہارا یہ احسان۔۔ ارے انکل آپ میرے پاپا  کے جیسے ہیں میرے لیے۔۔۔ شکریہ کہہ کر شرمندہ ناں کریں۔۔ وہ مان سے انکے ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے بولا تو حامد صاحب نے مسکراتے ہاں میں سر ہلایا۔۔

اب تم اپنا یہ کام شام حتم کر کے جلدی سے واپسی کی کرو میاں۔۔ اس ہفتے نکاح ہے حسن اور نیناں کا اور ساتھ تمہاری اور رمشہ کی رحصتی بھی ۔ 

 حامد صاحب اشعر کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولے تو اشعر نے نا سمجھی سے بی جان کو دیکھا۔ جو خود حامد کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ابھی تو انہوں نے ٹھیک سے بات بھی ناں کی تھی نیناں سے ۔۔

بی جان مان رکھ لیں۔۔۔ نیناں بیٹی کبھی ناں نہیں کہے گی ۔ وہ آگے بڑھتے اپنی ماں کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولے۔۔ جبکہ ایک نظر سامنے تھی جہاں انکی بہن انکی بیٹی  کو پیار سے گلے لگائے کھڑی تھی۔۔ انہوں نے نظریں چاروں طرف دوڑاتے سلمیٰ بیگم اور حسن کو ڈھونڈا مگر دونوں کو ناں پاتے وہ نفی میں سر ہلا گئے ۔

اچھا نیناں کہاں ہے ؟ اشعر نیناں کو ناپاتے ہوئے اس کا پوچھنے لگا،۔ ابھی تو اسکی ناراضگی بھی افورڑ کرنی تھی ۔ جسکا حل وہ لے کر آیا تھا۔۔

وہ شاید لان میں گئی ہے، حامد صاحب نے اسے دیکھتے بتایا کیونکہ ابھی انہوں نے نیناں کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ وہ اچھا کہتا ایک نظر مصروف سی رمشہ پر ڈالتا لان کی جانب بڑھا۔۔

یہاں پر میری ایک دوست رہتی ہے کہیں دیکھی ہو آپ نے۔۔ وہ نیناں کے پیچھے کھڑا ہوتا گلا کھنکھار کر بولا۔۔ 

۔مجھے نہیں پتہ دوست تمہاری ہے  تو جاؤ جا کے ڈھونڈو ، وہ غصے سے کہتی وہاں سے جانے لگی کہ اشعر نے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے روک لیا۔۔ کیا ہوا ، میری چڑیل ناراض ہے۔۔ وہ پیار سے اسکی چھوٹی سی ناک کو کھینچتے ہوئے بولا ، جانتا جو تھا کہ ناک کے ساتھ مزاق وہ برداشت نہیں کرتی۔۔

اشعر چھوڑو مجھے کالے بندر ۔۔ وہ غصے سے اسے جھڑکتے اسکی پیٹھ پر مکہ مارتی ہوئی بولی۔۔

کہ فضا میں ایک پرزور قہقہہ اشعر کا گونجا۔۔ ابھی تو بندر ناں کہو وہ بھی کالا، دیکھو گوری بیوی ملی ہے مجھے ۔۔۔ وہ فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولا تو نیناں نے منہ بسورے اسے دیکھا ۔

میں ابھی تک ناراض ہوں ۔۔۔ وہ پھر سے جتاتی منہ موڑے کھڑی ہو گئی ۔ دور کھڑا وہ طیش کے عالم میں کب سے کھڑا دیکھتا اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔ 

اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔ اگر تم ناراض ہو تو پھر میں یہ چاکلیٹس اور ائیسکریمز  جو تمہارے لیے اسپیشل لے کے آیا ہوں وہ کسی اور باہر کی چڑیل دے دیتا ہوں وہ کہتے دانتوں تلے لب دبا گیا ۔ جبکہ دوسری جانب وہ خوشی سے اچھلتے اسکے ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کو چھیننے والے انداز میں لیتی کھانے لگی۔۔۔ باقی کدھر ہیں۔۔ وہ  چاکلیٹ کے ساتھ انصاف کرتی بولی۔۔

اب وہ تو میلٹ ہو گئیں اسی لیے ائیسکریمز کے ساتھ فریج میں رکھوا دیا ہے بعد میں کھا لینا۔۔اشعر میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں اب تم نے میری بہن کا بہت سا حیال رکھنا ہے۔۔

وہ کھاتے اپنے بھرے منہ کے ساتھ بولتی اپنا چاکلیٹ والا ہاتھ اسکی بلیو شرٹ پر رکھ گئی جو کہ بازو پر سے خراب ہو گئی۔۔۔

آپس یہ تو خراب ہو گئی ۔ وہ فوراً سے ہاتھ پیچھے کرتی اپنی بےوقوفی پر ہاتھ ڈر پر مارتی ہوئی بولی ۔ ڈونٹ وری بیوی صاف کر دے گی ۔ وہ آنکھ دبا کر کہتا نیناں کو کھلکھلانے پر مجبور کر گیا ۔ اچھا اب جاؤ میں کھا کر آتی ہوں۔۔ وہ ایک بڑی سی بائٹ لیتے بولی۔

اچھا تم نے بتایا نہیں کہ نکاح کر رہی ہو حسن سے، وہ مشکوک سا اسے گھورتے ہوئے بولا، تو نیناں نے گلا کھنکھار تے اسے دیکھا ۔

ہاں تو اس میں کیا ہے نکاح ہی تو ہو رہا ہے کونسا رحصتی وہ لاپرواہی سے ک دھت آچکا کر بولی ۔۔ تم جانتی ہو ناں کہ حسن کیسا ہے وہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے نیناں۔۔۔ وہ اسے آرام سے سمجھاتا بولا ۔

اشعر بی جان کا فیصلہ قبول ہے مجھے ، اب اس بارے میں بعد میں بات کریں گے تم جاؤ پہلے اپنی بیوی کے پاس۔  اشعر چاکلیٹ اسکی ناک پر بھی لگاتے وہاں سے بھاگتے ہوئے اندر کی جانب بڑھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

چلو میرے ساتھ ، وہ دعا کو اشارے کرتا اپنے ساتھ آنے کا بولنے لگا ، جبکہ وہ بھی ناسمجھی سے اسکے پیچھے چلتی گاڑی میں بیٹھی۔۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ گاڑی ایک ہاسپٹل کے سامنے روکتا نیچے اترا دعا نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

آؤ بتاتا ہوں ۔ وہ اسکے پریشانی سمجھتا اسے آنے کا بولتے خود اندر بڑھا،

کہاں تھے تم بیٹا ۔ فون بھی نہیں اٹھا رہے آیت کو خوش آ گیا ہے۔ اظہر آگے بڑھتے ہوئے مسکراتے بولے ،

رافع آیت کو کیا ہوا، وہ ٹھیک تو ہے ناں، دعا پریشان سی روتے آیت کا پوچھنے لگی ۔ فکر مت کرو وہ ٹھیک ہے اب ، آؤ ملتے ہیں اس سے، وہ اپنے بابا کو گلے لگاتے اندر داخل ہوا، جہاں ڈاکٹرز اس کا پراپر چیک اپ کر رہے تھے۔۔۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی، مگر چہرے کی رنگت ابھی تک زرد تھی۔۔ شاید وہ تکلیف میں تھی ۔ 

آیت ۔۔۔۔ دعا آگے بڑھتے دوڑتے اسکے گلے لگتے ہوئے بولی ، تو آیت یکدم سے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولتی اپنے ساتھ لپٹی دعا کو دیکھنے لگی۔۔

میں ٹھیک ہوں دعا پلیز چپ کر جاؤ اب۔۔ 

وہ پیار سے اسے چپ ہونے کا بولنے لگی۔

ڈاکٹرز کہاں ہیں ، کمرے میں ڈاکٹر کو ناپاتے وہ غصے سے بولا، تو نرسز کے ساتھ ساتھ آیت نے بھی اسے ڈرتے دیکھا، جو کہ شاید اسے اگنور کر رہا تھا۔

وہ دوسرے پیشنٹ کو چیک کر رہے ہیں۔۔ ایک نرس نے ڈرتے ہوئے جلدی سے بتایا تو رافع دروازہ کھولتے باہر کو گیا۔۔

ڈاکٹر پلیز ایک منٹ ۔۔۔ وہ دوسرے روم میں ڈاکٹر کو اشارہ کرتے ہوئے بعلا، تو ڈاکٹر فوراً سے بھاگتا اسکے پاس آیا ,کیونکہ اسے سختی سے رافع نے منع کیا تھا کہ وہ کسی بھی اور پیشنٹ کا چیک اپ نہیں کر سکتا جب تک آیت ٹھیک ناں ہو جائے ۔ 

مسٹر رافع  آپ کی پیشنٹ اب  حطرے سے باہر ہیں، مگر آپ کو انکی پراپر دیکھ بال کرنی ہو گی، انکی باڈی پر بھی چوٹیں ہیں کوشش کریں کہ وہ زیادہ بیڈ ریسٹ کریں ۔ڈاکٹر بنا رافع کی سنے جلدی سے پیشہ وارانہ انداز میں کہتے اسے دیکھنے لگا۔۔

۔ہممم چلیں میرے ساتھ اور اسکا چیک اپ کریں ایک بار پھر سے ۔ وہ غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولا تو ڈاکٹر فوراً سے ہاں میں گردن ہلاتا وہاں سے نکلا۔۔

ڈاکٹر اسکا کمپلیٹ چیک اپ لینے لگے کہ دعا روتے اس سے اس سے آکسیڈینٹ کا پوچھنے لگی ۔

مجھے ابھی کے ابھی نکاح کرنا ہے۔۔ وہ بے تاثر لہجے میں بولتے وہاں موجود سب کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر گیا ۔ اس وقت وہ کوئی ضدی ، جنونی سا انسان لگ رہا تھا ۔  وہ خود بھی سب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے دور  بس کسی بھی طرح اسے اپنی زندگی میں شامل کرتے اسے اپنے نام کرنا چاہتا تھا ۔

مجھے تم سے نکاح نہیں کرنا ۔۔ معا وہ کچھ کرتا یا کہتا روم کی خاموشی میں اس کی آواز گونجی۔۔۔ باہر جائیں سب ابھی کے ابھی۔۔۔ وہ ایک دم بھپرے ہوئے شیر کی طرح دھاڑا۔ اسکی دھاڑ پر کمرے میں موجود نرسز اور ڈاکٹر بھاگتے وہاں سے نکلے۔۔ اسکے ڈیڈ نے آگے بڑھتے اسے سمجھانا چاہا کہ وہ ہاتھ کے اشارے سے روک گیا۔ ۔۔ وہ خاموشی سے دعا کو ساتھ لیتے باہر نکلے ۔

انکے جاتے ہی وہ بڑھتا دروازے کو بند کرتے سامنے دیکھنے لگا ۔۔ جہاں سہارے سے بیٹھی وہ کوئی ڈری سہمی سی خرگوش کی طرح اسے دیکھ رہی تھی ، بالکل اسی رات کی طرح جس رات اس نے رافع کے دل پر پہلا کاری وار کیا تھا۔ وہ قدم بڑھاتے اسکے پاس آیا کہ اسکے بڑھتے ہوئے قدموں پر آیت کو اپنا دم رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ زبردستی آنکھیں میچ گئی۔  مگر  آج کاش وہ اس طوفان سے خود کو بچا پاتی۔۔۔ 

وہ بڑھتا اسکے پاس آیا اور جھکتے اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھے۔۔ تو اب بولو فدک میڈم ۔۔ نکاح نہیں کرنا تمہیں ۔۔ وہ غصے سے چبا چبا کے بولتے خود کو ڈھیلا چھوڑتے اس پے وزن بڑھانے لگا۔۔ کہ فدک نے دھک سے آنکھیں کھولتے رافع کی گولڈن شیڈ آنکھوں میں دیکھا ۔ جہاں اسے اپنے لیے جذبات کا ایک طوفان اٹھتا نظر آیا ۔

کچھ پوچھا ہے میں نے وہ چہرہ اسکے چہرے کے پاس کرتے اسکی سانسوں کو محسوس کرتے مدہوش سا ہوتے آنکھیں موند گیا۔۔ فدک ڈرتے خود کو تکیے میں جذب کرتے فاضلہ بڑھانے لگی جو کہ اب ناممکن تھا۔۔ اسکے ہاتھ اور پاؤں میں چوٹیں آئی تھیں اور یہاں یہ پاگل شخص اسے مزید پریشان کرتے اپنی زد پر قائم تھا ۔

۔دیکھو  رافع تم کچھ نہیں جانتے میں ایسے کیسے تم سے نکاح۔۔

اششش آواز نہیں جو پوچھا ہے اسکا جواب دو ۔ وہ انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش ہونے کا کہنے لگا ۔ دیکھو اگر خود سے ہاں کرو گی تو سزا کم ہو گی ، ورنہ ویسے بھی نکاح تو مجھ سے ہونا ہی ہے تو پھر یاد رکھنا ۔۔ مجھ سے کسی بھی قسم کے رحم کی امید مت کرنا۔۔ وہ ہولے سے اسکا دہکتا گال تھپتھپاتے ہوئے کہتے پیچھے ہوا۔۔

فدک اس پاگل کو گھورتے رہ گئی جو کہ اپنی من مانی کیے جا رہا تھا۔۔ 

تم جانتی ہو ناں کہ میں کتنا شریف انسان ہوں اب تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا ، اور اگر تم راضی ناں ہوئی تو ڈیڈ نہیں مانے گے ۔تو بس اپنے سسر کو خوش کرتے ہاں کردو۔۔ ورنہ شادی تو آج ہی ہونی ہے ، تو پھر چاہے تمہاری حالت جو بھی ہو جیسے بھی، گولڈن نائٹ بھی ہم آج ہی سیلیبریٹ کریں گے ۔۔ وہ مسکراتے محنی خیزی سے کہتا ایک نظر فدک کے سرخ لہو مانند چہرے پر ڈالتے وہ سیٹی بجاتے ہوئے باہر نکلا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 رکو ، وہ اندر جاتی کہ پیچھے سے آتی آواز پر وہ بھوکھلاتے ہوئے رکی۔۔ وہ جو آج  سیر پر نکلا تھا ابھی گھر واپس آتے لان میں ہی نیناں کے ساتھ کسی لڑکے کو دیکھتے ہوئے وہی رک کر دیکھنے لگا، دور سے اسے سمجھ تو کچھ بھی ناں آئی مگر نیناں کا اسکے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرنا  بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑتے طیش میں اسے گھسیٹتے ہوئے ایک جانب لے گیا جہاں پر سوائے پودوں کے کچھ بھی ناں تھا، نیناں نے سہمتے اسے دیکھا جس کی گرفت اسکے ہاتھ پر جارخانہ تھی ۔چھوڑو مجھے وریام کیا بدتمیزی ہے۔۔ وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی، اسکی چاکلیٹ اس کے ہاتھ سے گرتی زمین بوس ہو گئی، 

وہ غصے سے اسے دیوار سے لگاتے اسکا چاکلیٹ سے بھرا چہرہ دیکھنے لگا۔۔ 

پیچھے ہٹو بدتمیز وہ غصے سے اپنے ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتی بولی، جسے دیکھتے وہ مبہم سا مسکرایا، رئیلی تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہارے کہنے سے پیچھے ہو جاؤں گا، وہ مسکراتے ہوئے اسے طیش دلانے لگا۔۔

کون تھا وہ ۔۔ وہ ایک دم سے بے تاثر لہجے میں اسکی بازوں زور سے پکڑتے ہوئے بولا، نیناں نے اس پاگل کو غصے سے دیکھا، تمہیں کیا ہے جو مرضی ہو، وہ اس سے بھی زیادہ سرد ہوتی غرائی ۔۔۔ 

تمہیں چھونے کا حق میں نے اپنے علاؤہ اور کسی کو بھی نہیں دیا تووہ کون ہوتا ہے تمہیں ٹچ کرنے والا، وہ اسے چھوڑتا اپنے بالوں کو ہاتھوں میں جکڑتے ہوئے بولا۔۔ 

وہ دوست ہے میرا بچپن کا اور تم کوئی بھی نہیں لگتے میرے سمجھے۔۔ وہ انگلی اٹھاتے اسے وارن کرتی بولی۔۔

بھائی بولو۔۔ وہ غصے سے اس کی انگلی میں اپنی انگلی پھنساتے کھینچتے ہوئے بولا۔ کہ نیناں کے منہ سے سی کی سی آواز نکلی۔۔

نہیں بولوں گی بھائی چاہے جو مرضی  کرو۔۔ وہ سر جھٹکتے  نتھنے پھلاتی ہوئی بولی۔ کہ اسکے غصے اور چاکلیٹ سے بھرے چہرے کو دیکھ وریام کو ہنسی آنے کگی۔۔

وہ ایک دم ریلیکس ہوتے جیب سے رومال نکالتے اس کے چہرے کو صاف کرنے لگا۔ 

اس اچانک جھٹکے پر وہ خاموش ہوتی اسے منہ بناتے گھورنے لگی ۔ وہ آہستہ آہستہ اسکے دونوں گالوں کو صاف کرتے، اسکی چھوٹی سی ناک کو صاف کرنے لگا،  ناک پر جاتے ہاتھ پر نیناں نے غصے سے اسے ٹوکا، ناک کو چھوڑو میری ، وہ غصے سے بولی کیونکہ ہاتھوں کو تو وہ اس وقت اپنی ایک ہاتھ کی گرفت میں لیے ہوئے تھا، 

اسکے کہنے پر وہ اسکی ناک کو چھوڑتے اسکے ہونٹوں کو آہستگی سے صاف کرنے لگا۔۔نیناں  نے غصے سے اسے دیکھتے کچھ بولتی کہ اس کی نظریں اپنی ہونٹوں پر پاتے وہ غصے سے لب بھینجتے اندر کی جانب لے گئی ۔

اس کی حرکت پر وریام نے داد دینے والے انداز میں ائبرو اٹھاتے اسے دیکھا، کہاں تو لندن میں ایک سے ایک خوبصورت لڑکی اس کے لمس پر مرتی تھی اور یہاں پر یہ چھوٹی سی لڑکی اسے ستا رہی تھی ۔

ہممم نائس ۔۔ اچھی لگی مجھے تمہاری حرکت ۔۔۔ بٹ اب مجھے اس لڑکے کے ساتھ نظر مت آنا ۔ وہ رومال کو ہونٹوں سے لگاتے اسکے غصے سے تپے چہرے کو دیکھتے جتاتے انداز میں اسے دیکھتا بولا، کہ اسکی حرکت پر نیناں کا دل کیا سر پھوڑ دے اس کا۔ 

وہ جھکتا اسکے گال پر لب رکھتا کہ وہ اس کی حرکت بھانپتے دوڑتی فاصلہ قائم کرتی اندر کو بھاگی۔۔۔ 

آئی ہوپ سو کہ تم وریام مرتضٰی کاظمی کا جنون ناں بن جاؤ ورنہ تمہاری یہ چھوٹی سی جان خطرے میں آ سکتی ہے ۔۔ وہ اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے گہرا مسکراتے ہوئے بولتے اندر کی جانب بڑھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 السلام علیکم ! انٹی وہ جھکتا سر آگے کرتا سلام پیش کرنے لگا۔۔

جیتے رہو بیٹا ۔۔کیسے ہو تم۔۔۔ شمائلہ پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔

الحمداللہ ۔۔ ٹھیک ہوں ۔ کہتے ساتھ ہی وہ انکے پاس صوفے پر بیٹھتے دوسری جانب بیٹھی رمشہ کو دیکھنے لگا ،جو کہ اشعر کے دیکھنے پر نظریں چرا گئی۔۔۔

بیٹا شکریہ آپ نے ہماری بچی کو بچا کر ہم پر بہت احسان کیا ہے ۔ وہ رمشہ کو ساتھ لگاتے بولی۔۔

نہیں آنٹی یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی اپنوں کو شکریہ نہیں کہتے۔۔

شمائلہ نے مسکراتے اسے دیکھا ۔ اچھا بیٹا تم دونوں باتیں کرو، میں زرا تمہارے پھوپھا کو دیکھ لوں، وہ کہتی دوہاں سے جانے لگی کہ رمشہ نے انہیں روکنا چاہا مگر اشعر کے اشارے پر  چہرہ جھکا گئی ۔

ویسے بہت ہی بے مرّوت ہو تم یار۔۔ اپنے گھر والوں سے ملتے ہی شوہر کو بھول گئی ۔ وہ طنز کرتے اٹھتا اسکے بیڈ پر پھیلتے کیٹ گیا ۔۔۔نن نہیں تو بھولی کب تھی میں تو پھپھو سے بات کر رہی تھی ۔

اشعر کے طنز کرنے پر وہ بھوکھلاتے ہوئے کہنے لگی ۔

اچھا تو پھر ثابت کرو، وہ ایک ہاتھ سر کے نیچے لے جاتے دوسرا اسکے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا، جسے دیکھتے وہ شرماتے چہرہ جھکا گئی ۔۔

وہ جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنے برابر لٹا گیا۔  اششش۔ ابھی وہ بولتی کہ اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اشعر نے اسے چپ کروا دیا۔

میں نے اتنی بڑی قربانی دی ہے اپنی بیوی کو اسکے مائیکے پورے ہفتے کے لیے خود سے دور رکھنے کو مان گیا ہوں بدلے میں مجھے بھی تو کچھ ملنا چاہیے ناں ۔ وہ انگھوٹے سے اسکے نچلے ہونٹ کو سہلاتے ہوئے بولا ۔

اشششعر۔۔۔ وہ ڈرتے اس کے ہاتھ کو پکڑتے بولتی کہ  اشعر کی آنکھوں میں جھلکتے شکوے کو دیکھتے چپ ہوتے آنکھیں موند گئی۔۔

وہ مسکراتا ایک ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے اسکے چہرے کو اونچا کرتے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں  لیتے اپنی سانسوں میں اسکی سانسیں ملانے لگا ۔ اسکی مہکتی سانسوں  کو خود میں محسوس کرتے وہ آہستہ سے اسکا سر تکیے پر ٹکا گیا۔۔ سینے میں الجھتی سانس پر رمشہ نے زور سے اسکی شرٹ کو جھنجھوڑا،  وہ آہستہ سے پیچھے ہوتا اسے دیکھنے لگا ،جو تیز تیز سانسیں لیتی اسے مدہوش کر رہی تھی ۔ 

صرف سات دن کے لیے اپنا خیال رکھنا میرے لیے اسکے بعد میں خود تمہارا خیال رکھوں گا۔۔ وہ محنی خیزی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکی گردن پر جھکا ، اسکی بڑھتی جسارتوں پر رمشہ نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیا ۔۔

بڑا سمجھتا ہے اپنے آپ کو  کہیں کا نواب ۔۔۔ جانتا نہیں مجھے منہ توڑ دوں گی۔۔ اس انگریزی لنگور کا، اگر پھپھو کا بیٹا ناں ہوتا ناں تو میں خود اسے چڑیا گھر چھوڑ کر آتی لنگور ناں ہو تو۔۔۔۔ شکل کیا اچھی ہے پتہ نہیں خود کو کیا سمجھنے لگ گیا۔۔ وہ مسلسل تیز تیز ہاتھ چلاتی  وریام کو یاد کرتی خود سے ہی  بول رہی تھی ۔

ساتھ ساتھ چائے بھی بنا رہی تھی وہ تو شکر تھا کہ جب سے پھپھو آئیں تھیں تائی سے اسکی بچت ہو جایا کرتی تھی، مگر ابھی وہ رمشہ کا غصہ اس پر نکالتی گئی تھی کہ چائے بناؤ ٹائم نہیں دیکھا کیا ہو رہا ہے، کیونکہ رمشہ جب سے گھر آئی تھی اپنی پھپھو کے پاس دبکی ہوئی تھی، جو کہ سلمیٰ بیگم کے لیے ناقابل برداشت تھا ، 

کیا ہو رہا ہے ہونے والی بیگم ۔۔۔ پیچھے سے آتی حسن کی آواز پر کپ میں چائے ڈالتے نیناں کا ہاتھ لڑکھڑایا مگر پھر خود کو ہمت دیتے وہ تھوک نگلتے کام میں لگی رہی۔   اس وقت وہ پنک کلر کے گھٹنوں سے نیچے جاتی شرٹ اور ٹراؤزر ، ساتھ  میجنگ پنک سٹالر سر پر سلیقے سے اوڑھے ہوئے تھی ۔  وہ مسکراتا اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا، خوبصورت تو وہ بے تحاشہ تھی، اسی حسن کو تو وہ اپنے نام کرنا چاہتا تھا جس میں اب وہ جلد ہی کامیاب بھی ہونے والا تھا، اپنی موم اور گرل فرینڈ کو وہ اپنے طریقے سے ہینڈل کر چکا تھا،۔ وہ جانتا تھا کہ بغیر نکاح کے وہ کبھی بھی نیناں کو حاصل نہیں کر پائے گا اسی لیے تو وہ یہ نکاح کی رسم بھی نبھا رہا تھا،

 جواب نہیں دیا تم نے ۔۔ کچھ پوچھ رہا ہوں ۔ وہ اسے سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے بولا، 

دیکھیں راستہ چھوڑیں میرا بھائی مجھے چائے دینی ہے سب کو ۔۔۔ وہ ٹرے ہاتھ میں پکڑے نظریں جھکائے بولی تو اسکے بھائی کہنے پر حسن کو طیش آئی۔۔ اوہ بی بی لگتا ہے کسی نے بتایا نہیں تمہیں کہ اس جمعہ کو نکاح ہے تمہارا اور میرا۔۔ خبردار جو اب بھائی کہا تو، وہ انگلی اٹھاتے اسے غصے سے وارن کرنے لگا۔۔۔

نکاح ہونے والا ہے ابھی ہوا تو نہیں، وہ اس سے بھی تیز لہجے میں بولی، دماغ گھمایا ہوا تھا سب نے اس کا، وہ کس کس کو جواب دیتی۔۔۔ 

اڑ  لو جتنا بھی اڑنا ہے صرف سات  دن ہیں تمہارے پاس اسکے بعد تمہارے پر میں کاٹوں گا ۔ نیناں میڈم ۔۔۔۔ وہ چبا چبا کر کہتے پاس پڑے ٹیبل کو ٹھوکر مارتے ہوئے وہاں سے گیا۔۔

پیچھے وہ سرد آہ کھینچتے خود کو پرسکون کرتی چائے لیتے اوپر گئی جہاں سب موجود تھے ۔۔

میں پھپھو کو چائے دے آؤں ۔۔ شمائلہ کو ناپاتے وہ کہتے وہاں سے نکلی کہ پیچھے بیٹھی سلمیٰ نے غصے سے اسے گھورا ۔ اس وقت بی جان کے روم میں رضا، حامد ، سلمی اور بی جان موجود تھے ،شاید سب بڑے مل کر فنکشن کا ڈسکس کر رہے تھے اور ساتھ یہ بھی کہ کس کس کو بلانا ہے۔۔

پھپھو جان چائے ۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے رمشہ کے روم کو ناک کرتے اندر گئی،۔ بچپن سے ہی اسکی تائی نے اسے اور رمشہ کو ایک ساتھ نہیں کھیلنے دیا تھا۔ وہ ہم ایج تھیں مگر جب بھی نیناں اسکے ساتھ کھیلتی تو اسکی تائی منحوس تجھے بھی کھا جائے گی کہتے رمشہ کو لے جاتیں،پیچھے وہ چھوٹی سی بچی یہی سوچتے دن گزارتی کہ منحوس کیا ہوتا ہے جو سب اسے کہتے ہیں۔۔

بیٹا آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو۔۔ شمائلہ کی آواز پر وہ ماضی سے نکلی۔  نہیں آپ دونوں پیے میں جاتی ہوں ۔ نیناں فوراً سے معزرت کرتے جانے لگی۔۔

نیناں ادھر  آؤ بیٹھو گی نہیں میرے ساتھ وہ باہر جاتی کہ رمشہ کی آواز پر چونکتے پیچھے کی جانب مڑی ۔ اسے یقین تھا کہ رمشہ ہمیشہ کی طرح اسے اگنور کرے گی، مگر آج اس طرح سے رمشہ کا بلانا اسے اچھا لگا ۔

وہ دوڑتے بیڈ پر جاتی شمائلہ کو گود میں رمشہ کے برابر ہی سر رکھتے لیٹ گئی ۔  جسے دیکھ رمشہ اور شمائلہ کا جاندار قہقہہ کمرے میں گونجا ۔۔

تو پھر اب سے میں تمہیں بھابھی کہوں گی ۔۔۔ کیوں پھپھو ، رمشہ پیار سے نیناں کے گال کو کھینچتے ہوئے بولی کہ نیناں نے شرماتے چہرہ نیچے کیا ۔۔ 

کیا شرمانا ہے واہ بھائی واہ ۔ میرا بھائی تو پہلے ہی پاگل ہوا پڑا ہے تمہارے پیچھے اگر اسکے سامنے ایسے شرمائی تو واللہ قیامت ہی آ جانی ہے۔۔ رمشہ بیٹھتے اسے دیکھ کر بولی۔ جس کے چہرے پر شرماہٹ کی سرخی قیامت خیز تھی۔۔

اللہ میری دونوں بچیوں کے نصیب اچھے کرے آمین۔۔۔  شمائلہ پیار سے دونوں کا ماتھا چومتے دعا دیتے ہوئے بولی ۔ انکے دل میں ابھی ہی تو خواہش جگہ تھی کہ نیناں کو اپنے وری کے نام کر لوں انہیں یقین تھا کہ ان کا بیٹا کبھی انکار نہیں کرے گا،مگر پھر اپنے بھائی کا سوچتے وہ چپ ہو گئیں تھیں۔  

ویسے ایک بات بتائیں پھپھو میں نے سنا ہے کہ آپ کا ایک بیٹا بھی ہے کیا وہ نہیں آیا لندن سے۔۔۔ رمشہ کو یاد آیا تو وہ فوراً سے پوچھ بیٹھی ۔

بیٹا آیا ہے وریام نام ہے اس کا ،  کافی سمجھدار اور شریف ہے میرا بچہ، شمائلہ مسکراتے وریام کا سوچتے بتانے لگی ، کبھی  اپنی موم کو اپنی کرتوتیں دکھائے ،کاشش میری معصوم پھپھو آپ جان پائیں کہ وہ شریف نہیں ایک نمبر کا لوفر ہے۔۔۔ لوفر نہی۔ بلکہ لوفروں کا استاد ۔۔۔ 

نیناں کڑھتے اسے سوچتے مسوستے۔ رہ گئی۔۔

موم وئیر آر یو۔۔۔ ابھی رمشہ کچھ کہتی کہ اس سے پہلے ہی عجلت میں چلتا وریام اندر داخل ہوتے اپنی موم کو آوازیں دینے لگا ۔۔ مگر اندر موم کے ساتھ نیناں اور رمشہ کو دیکھتے وہ چپ ہو گیا ۔

ارے بیٹا ادھر آؤ۔۔۔ اس سے ملو یہ تمہاری بہن ہے خامد بھائی کی بہن ۔۔ شمائلہ خوش ہوتی وریام کو دیکھتے بولی۔۔

بلیو چیک شرٹ ، بلیو ہی جینز کے ساتھ ، وائیٹ جوگرز ،پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ بے تخاشہ خوبصورت لڑکے کو دیکھ منہ کھول گئی۔۔۔ اسے یقین ناں آیا کہ یہ اس کی پھپھو کا بیٹا ہے جو کہ دکھنے میں کوئی گورا لگتا تھا۔۔

ناٹ فئیر موم۔۔۔ بھائی نہیں وہ چڑتے بالوں میں ہاتھ پھیرتے صوفے پر بیٹھتے بولا ۔

وری۔۔۔۔۔۔۔ شمائلہ اسے جھڑکنے  والے انداز میں  بولتی جانے کا اشارہ کرنے لگی۔۔ جبکہ نیناں نے اس لوفر کو ناک منہ چھڑہاتے اگنور کیا۔۔

نام کیا ہے تمہارا۔۔ وہ رمشہ سے مخاطب ہوتے شوخ ہوا۔۔ کہ سب نے اسے سختی سے گھورا۔۔

رمشہ نام ہے اسکا اور اسکا نکاح ہو گیا ہے اس فرائیڈے کو نیناں اور حسن کے نکاح پر اسکی رخصتی ہے۔۔

شمائلہ اپنے بیٹے کی چالاکی پر خود ہی جلدی سے بولی تاکہ نواب صاحب وہاں سے نکلے۔۔

۔واٹ۔۔۔۔ کیا کہاں آپ نے موم ۔۔۔ کس کا نکاح اسے لگا کہ شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے ۔ وہ تو خوش اور ریلیکس تھا۔ کہ نیناں نے انکار کر دیا ہو گا،،

کیا ہو گیا وری بتایا تو تھا میں نے کہ نیناں اور حسن کا نکاح کرنا چاہتے ہیں بھائی شمائلہ کو عجیب لگا وریام کا پوچھنا مگر نیناں اور رمشہ کا حیال کرتے چپ ہو گئی ۔۔

موم مجھے جانا ہے آؤٹ آف سٹی۔۔۔ کچھ فرینڈز بھی آ گئے ہیں لندن سے تو سب کا پلان بن گیا ہے ۔۔ اسی لیے آپ کو بتانے آیا ہوں ۔ وہ بغیر نیناں کو دیکھتے ، شمائلہ کو دیکھتے کہتا کھڑا ہوا،،  اسے گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔۔ دل چاہ رہا تھا کہ ابھی نیناں  کو جھنجھوڑ ڈالے جس نے اسکے منع کرنے کے باوجود بھی  شادی کی حامی بھری تھی ۔۔

مگر وریام ابھی تو آئے ہو مجھے بھی تو کمپنی دو ، رمشہ نے ہی فورا سے کہا ، کیونکہ نیناں تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔۔

نہیں پھر کبھی ابھی جانا ضروری ہے وہ کہتے  لمبے لمبے ڈنگ بھرتا باہر کو بڑھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بیٹا تم ایسا کرو کچھ دنوں کے لیے نیچے شفٹ ہو جاؤ ، اس سے بچی کو بھی آسانی رہے گی۔۔ اظہر نے اپنے ضدی بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا، جانے کہاں سے اس میں یہ وریام والی ضد آ گئی تھی۔۔ جبکہ  وہ تو شروع سے ہی سوبر ، کئیرنگ سا تھا۔۔

ڈیڈ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ رافع فوراً سے نفی کرتے بولا، وہ لوگ ابھی ہی تو گھر آئے تھے ۔۔ 

بیٹا دیکھو آیت بیٹا کو لگی ہے وہ کیسے چل کر جائے گی ۔۔ اظہر کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔ وہ  گھور کر اسے دیکھتے کہنے لگے ۔۔ ابھی ہی تو ناجانے کس ضد پر وہ زبردستی سب کے منع کرنے کے باوجود آیت کے ساتھ نکاح ہاسپٹل میں ہی کر چکا تھا، کتنا سمجھایا تھا اظہر نے کہ بچی ٹھیک ہو جائے تو وہ خود اس کا نکاح کروائیں گے

 مگر وہ بھی بچوں جیسی ضد میں اڑا تھا، مجبوراً انہیں نکاح کروانا پڑا تھا، اور وہ مسلسل ضد لگائے کھڑا تھا کہ وہ اپنے روم میں ہی رہے گا۔۔

جو کہ آیت کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ابھی ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتی تھی۔۔

۔اور ڈاکٹرز نے بھی کمپلیٹ بیڈ ریسٹ بتائی تھی ۔ 

ڈیڈ آپ غصہ ناں ہوں میں لے جاؤں گا ۔ وہ مسکراتے اپنے ڈیڈ کو دیکھتے آنکھ دبا کر بولا تو اظہر نے اپنے اس قدر شریف بیٹے کو سر سے پاؤں تک دیکھا کہ شاید کہیں کوئی اور تو نہیں۔۔۔

ٹھیک ہے پھر  ۔۔ آرام کرو تم دونوں  اور بیٹی کو دوا کھلا دینا ۔ وہ کہتے سر جھکاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھے، پیچھے رافع نے مسکراتے وہیل چیئر پر موجود آتش فشاں بنی بیٹھی آیت کو دیکھا ۔ 

۔۔۔چلی جاؤں گی میں۔۔۔ خبردار جو ہاتھ لگایا۔۔۔۔ وہ غصے سے اسے ٹوکتے ہوئے بولی۔۔ رافع  سنی ان سنی کرتا آگے ہوتے اسے اپنی باںہوں میں بھرتے سیڑھیاں چڑھتے اوپر کی جانب بڑھا۔۔

آیت  نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اسکی شرٹ کو مٹھی میں جکڑا۔۔۔

وہ اسے لیتے اپنے روم میں جاتا آرام سے بیڈ پر لٹاتے لائٹس آن  کر گیا۔۔۔   رافع کے شوز اتارتے ہی باتھروم جاتے وہ پورے روم کو ایک نظر دیکھنے لگی ۔۔  

گرے  اور وائیٹ کلر کے کامبینیشن کے پینٹ کے ساتھ ہی کھڑکیوں پر لگے گرے پردے ، ایک سائیڈ چھوٹا سا سڈی روم تھا شاید اور  دیوار کی ایک جانب صوفے ، جہازی سائز بیڈ کی دائیں جانب خوبصورت سا ڈریسنگ ٹیبل تھا ۔ ۔ پورا روم رہنے والے کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھا ، رات کے دس بجے بھی روم   میں جلتی لائٹس دن کا منظر پیش کر رہی تھیں ۔۔ 

اسے یاد آیا کہ وہ تو دن کو ہی فری ہو گئے تھے ڈسچارج پیپرز بھی تیار تھے

 مگر اس آدمی نے دوبارہ سے تین بار اسکا مکمل چیک آپ کروایا تھا۔۔ اور اب وہ تھکے ہارے گھر آئے تھے ۔ کھانا تو ہاسپٹل میں منگوا چکا تھا ،

 اس وقت شدید قسم کی نیند نے آیت کو گھیرا ہوا تھا ، اسے غصہ آیا رافع پر کہ وہ کیوں اسے بٹھا کر گیا ہے اسے ابھی سونا تھا ۔ وہ اسے کوستے خود ہی لیٹنے کی کوشش کرنے لگی ۔ جو کہ چوٹوں کی وجہ سے ناممکن تھا۔۔

وہ فریش سا بلیو ٹراؤزر اور بلیو شرٹ پہنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے باہر آیا تو سامنے ہی اسے لیٹنے کی کوشش کرتا دیکھ وہ آگے ہوتے پانی گلاس میں بھرتے اسکے سامنے ہوا۔۔

دوا کھاؤ پہلے فدک۔ پھر لیٹ جانا۔۔۔ وہ  بیٹھتے میڈیسن اس کے سامنے کرتے ہوئے بولا۔۔

مجھے نہیں کھانی یہ اور تم جاؤ یہاں سے ،، وہ غصے سے اسے کہتی دوبارہ سے کوشش کرنے لگی ۔ 

کیا تم ساری زندگی میری محتاج رہنا چاہتی ہو۔۔ کچھ سوچتے اسنے کہا تو۔ وہ رکتی اسکی بات پر غور کرنے لگی ۔ 

نہیں میں کیوں رہوں گی تمہاری محتاج۔  وہ فوراً سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی  تو رافع کو ہنسی آئی جسے وہ کنٹرول کر گیا۔۔

تو پھر یہ دوا کھاؤ تاکہ جلدی سے ٹھیک ہو سکو۔۔ 

۔لیکن ان میں سے تو سمیل آتی ہے بہت بری والی۔۔ مجھ سے نہیں کھائی جاتی۔۔۔

۔۔وہ غصہ بھولتی اسے اصل وجہ بتانے لگی۔ ۔۔

اچھاااااا۔۔۔۔۔تو اس کا بھی حل ہے میرے پاس ۔۔ وہ اچھا کو لمبا کرتے فورا سے بولا۔۔۔جبکہ نظریں اسکے  چہرے پر تھیں ۔ 

کیا کیا حل  ہے جلدی بتاؤ ۔۔ وہ فوراً سے سیدھے بیٹھتے شریف بچوں کی طرح بولی تو  رافع اسکی حرکت پر مبہم سا مسکرایا۔۔

 میں تمہارے منہ کا ذائقہ چینج کر دوں گا۔۔ وہ مسکراتے لب دباتے ہوئے بولا ۔ 

اچھاااا۔۔ تو پھر ٹھیک ہے دو  دوا میں ابھی کھاتی ہوں۔۔ چاکلیٹ یاں آئیس کریم کا سوچتے وہ فوراً سے ہامی  بھر گئی ۔۔  اب دو  مجھے۔۔۔ وہ ہاتھ آگے کرتے دوا کھاتے ہی فورآ سے بولی ۔

کہ رافع نے گلاس ٹیبل پر رکھتے اسے دیکھا۔۔ ایسے نہیں ۔۔۔ ایک منٹ۔۔ وہ اسے آرام سے بیڈ پر لٹاتے ہوئے بولا۔۔ تو آیت کو لگا کہ شاید اسنے جان بوجھ کر مزاق کیا ہے ، اب دے بھی دو، بھوکے انسان۔۔ وہ لیٹے ہی اس سے بولی ۔

شیور وائے ناٹ۔۔۔ کہتے ہی وہ آیت کے سمجھنے سے پہلے ہی اسکے ہونٹوں پر جھکا ۔ آیت نے ڈرتے آنکھیں میچیں ،وہ اسکی سانسوں کی مہک میں  کھوتا  بے خود ہو گیا ۔

 اسکی بڑھتی ہوئی شدت پر آیت نے اسکی گردن پر ناخون چھبوئے۔۔ وہ سر اٹھاتا  اسے دیکھنے لگا۔۔ تو چینج ہوا ذائقہ۔۔ وہ مخنی خیزی سے اس کے سرخ گیلے ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے بولا، کہ آیت نے اسے گھورا۔۔

یہ تمہارے منہ کا ذائقہ ٹھیک کرنے کو تھا۔۔ ابھی تو میری فرسٹ کس رہتی ہے ۔ وہ معصومیت سے آنکھیں۔ پٹپٹاتے ہوئے بولا کہ آیت نے حیرانگی سے آنکھیں پوری کھولتے اسے دیکھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ پھر سے جھکتا اسکےکے ہونٹوں کو گرفت میں لیتے ہاتھ سے لائٹ آف کر گیا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گہری ہر سو پھیلی سیاہی میں۔ وہ رات کے بارہ بجے چھت پر کھڑی اپنی آنے والی زندگی کا سوچتے آنکھیں موند گئی ۔ نیند تو اب ساری زندگی آنے سے رہی ۔ شاید یہی اس کا نصیب تھا ۔ مگر شکر ہے میرے رب کا شاید اس میں ہی میری بہتری ہو۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے مخاطب ہوتے پرسکون سانس بھرنے لگی۔۔

 وہ جو دن کا اپنے لندن سے آئے دوستوں کے ساتھ گھومنے نکلا تھا ۔۔ 

مگر دل کو کہی بھی سکون نا تھا ۔۔ وہ اپنی بدلتی کیفیت سے خود بھی زچ آ چکا تھا ، وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ اس کا دل بار بار نیناں کی جانب سوچتے لپک رہا تھا۔۔۔

اور ابھی بھی وہ تھکا ہارا سا گھر لوٹا تھا کہ اچانک سے چھت پر سائے کو محسوس کرتے وہ سمجھ چکا تھا کہ اس وقت وہاں کون ہو سکتا ہے اسی لیے تو دبے قدموں چلتے وہ اوپر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

وہ دوپٹہ شانوں ہے ٹھیک کرتی چہرے پر آتے اپنے بالوں کو پیچھے کرتی اندر کی جانب بڑھی کہ کسی نے جھٹکے سے اسے کھینچا ۔۔ وہ سیدھا وریام کے  چوڑے سینے سے ٹکرائی کہ ایک سی کی سی آواز اس کے منہ سے نکلی اسے لگا کہ شاید کسی دیوار سے ٹکرا گئی ہو۔ 

۔

وہ گہری تاریکی میں سہمتے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھنے لگی۔۔ کہ وہ ایک ہاتھ اسکی  نازک سی کمر میں ڈالتا اسے اٹھاتے ایک جانب گیا اور دیوار سے لگاتے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے اسکی آواز کو منہ میں دبایا۔۔

 نین۔۔۔۔۔۔۔ کہا تھا ناں کہ انکار کر دو  ۔۔ پھر کیوں انکار نہیں کیا تم نے۔۔۔ وہ ایک دم سے وخشی بنتا اسکی کمر پر گرفت مضبوط کر گیا ۔

 نیناں کا دوپٹہ   اسکی وخشی گرفت  پر جھولتے ایک دم زمین بوس ہوا، ہلکی سی چلتی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پر نیناں کے چہرے پر پڑتے بالوں کو وہ ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا۔۔

 انکی نرماہٹ محسوس کرتے وریام کے دل میں ایک الگ سی لہر دوڑی۔۔ وہ  بے چین سا ہو گیا۔۔

نیناں نے ڈرتے اسکی آنکھوں میں دیکھا جس کی  گرفت پر اسے کمر میں تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔  اسے لگا کہ موت اسکے سر پر کھڑی ہے۔۔ وہ آنسو بھری آنکھوں سے نفی میں سر ہلانے لگی کہ ایک جھٹکے سے اسکی کمر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرتے وہ آرام سے ہاتھ پھیرتے اپنے دیے درد کو کم کرنے لگا 

اسکے  نرم لمس پر نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑی۔۔وہ دونوں ہاتھوں سے اسکے منہ پر رکھے ہاتھ کو پیچھے کرنے لگی ۔جو کہ ناممکن تھا ۔ 

کل آخری دن ہے تمہارے پاس خود سے انکار کر دو ورنہ اس حسن کو مارنے میں مجے زرا برابر بھی افسوس نہیں ہوگا۔۔ 

وہ اسکی حوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتےاپنے ہاتھ کے نیچے اسکی نازک پنکھڑیوں کو محسوس کرتے گہرا مسکرایا، اس وقت اپنی ہی کہی بات اسے شدت سے یاد ائی۔کہ وہ کسی کے لمس کو تڑپے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔۔

وہ گہری نظروں سے اسکے دوپٹے سے آزاد قیامت خیز سراپے کو دیکھنے لگا۔۔ بولو کرو گی انکار۔۔ وہ پھر سے اس سے پوچھتے  جھکتے اسکا دوپٹہ اٹھانے لگا ۔

نیناں نے فوراً سے گردن ہاں میں ہلائی ۔ اور اسکے ہاتھ میں موجود اپنے دوپٹے کو دیکھا ۔

گڈ ، اگر خود کرو گی تو ٹھیک ہےورنہ۔۔۔وہ مخنی خیزی سے بولتے بات آدھی چھوڑتے اسکے ہونٹوں پر رکھے اپنے ہاتھ پر لب رکھ گیا۔ کہ نیناں نے ڈرتے آنکھیں میچیں۔۔ 

وہ پیچھے ہوتے اسکے سرخ چہرے اور لرزتے ہوئے وجود کو دیکھتے اسکے سر پر لب رکھتا اندر کی جانب بڑھا ، پیچھے وہ کپکپاتے وجود کے ساتھ زمین پہ گرتی   پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

کیا ہے ڈیڈ  میں۔۔۔۔۔ جائیں پلیز مجھے نہیں جانا کہیں بھی میں یہیں پر ٹھیک ہوں۔ ،وہ منہ پھیرتے ہوئے دوسری جانب تکیے کو بازوؤں میں لپیٹتے ہوئے بولا۔۔۔

دیکھو میں آخری بار کہہ رہا ہوں ، صرف پانچ دن کی تو بات ہے یار پھر سے آ جانا۔۔ اب تم نے ہی تو دیکھنا ہے سب۔۔ رضا پھر سے اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولے، 

کیا مطلب میں نے سنبھالنا ہے سارا بزنس ۔۔۔۔ وہ سنتا فوراً سے نیند سے بھری بھوری آنکھیں کھولتا پوچھنے لگا۔۔ 

تو ۔۔۔ کیا کوئی اور بھی ہے تمہارے سوا میرا بیٹا ۔۔ جسے میں یہ ذمہداری سونپ سکوں، وہ اسکے عجیب سوال پر چڑھتے اسے گھورتے ہوئے بولے۔۔ تو ایک اور کو لے آتے دنیا میں اپنے ان کاموں کے لیے ۔۔۔ ایٹ لیسٹ میری جان تو چھوٹتی۔۔ وہ منہ بناتا بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔ تو اسکے بے باک جملے پر رضا نے سختی سے اسے گھورا۔۔

میں تو ناں کر سکا تم کر لینا اپنے دو دو بیٹے ۔۔۔ اوکے وہ اسے شرم دلاتے بولے۔۔

سوری ڈیڈ دو نہیں۔۔۔ وہ فوراً سے معزرت کرتے بولا مگر اگلی بات پر رضا کو لگا کہ اسکے کانوں سے دھواں نکلنا ہی نکلنا ہے۔۔

مجھے تو دس بیٹے اور دس بیٹیاں چاہیے۔۔ جو سب کام کر سکیں سوائے اپنی ماں کو تنگ کرنے کے ۔۔ کیونکہ اگر وہ آپکی بہو کو تنگ کریں گے تو باقی کہ کیسے آ پائیں گے ۔۔ وہ مخنی خیزی سے کہتے اپنے ڈیڈ کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ قہقہہ لگا اٹھا۔۔

وری۔۔۔۔۔ بدتمیز شرم کر میں باپ ہوں تیرا۔۔۔۔ وہ صوفے پر سے اچھلتے ہوئے بولے۔۔

تو اسی لیے تو شرم کر رہا ہوں ۔۔ اگر وقت پر شادی ہو جاتی تو اس وقت آپ بھی چھ سات کو کھلا رہے ہوتے۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔

توبہ یہ دیکھ میرے جڑے ہاتھ ۔۔۔ میرے باپ منہ بند کر اپنا، ٹھیک کہا تھا میں نے تجھے جو آگ لگی ہے ناں اب تو تیری شادی کروا کر ہی رہوں گا میں ۔۔ پھر دیکھ تجھے کیسے سیدھا کرتی ہے وہ۔۔ بیویاں تو شوہر کو کچھ بھی نہیں سمجھتی تجھے بھی وہی سیٹ کرے گی میری بہو۔۔ وہ صوفے پہ پڑا کشن اسکی جانب اچھالتے ہوئے بولے ۔

سچ میں ڈیڈ ۔۔۔ وہ اٹھتا  مرر کے سامنے کھڑا ہوتا پوچھنے لگا۔۔تو اسکا مطلب آپ کہہ رہے ہیں کہ موم آپ کو کچھ نہیں سمجھتی ہر کام میں اپنی من مانی کرتی ہیں ۔۔ رائٹ۔۔۔موم موم موم۔۔۔۔ وہ کہتا رضا کے سمجھنے سے پہلے ہی زور زور سے موم کو آوازیں دیتا روم سے نکلا، 

پیچھے وہ بھوکھلاتے اسکے پیچھے بھاگے کہاں وہ اسے میٹنگ پر لندن بھیج رہے تھے اور یہاں پر تو یہ انہیں اس دنیا سے بھیجنے پر تلا ہوا تھا۔۔  وہ پچھتا رہے تھے کہ کیونکر اس پاگل کو جانے کا کہا۔  وہ تیز تیز چلتے اسے آوازیں دینے لگے جو کہ ماں کی گود میں لیٹتا بچپن کی طرح ہی باپ کی شامت تیار کرواتے خوش ہو رہا ہو گا۔۔

ارے کیا  ہو گیا ۔۔ رضا کدھر دوڑ لگائی ہے ۔ حامد جو کہ لاوئچ میں بیٹھے تھے رضا کو جلدی میں جاتے دیکھ پوچھا۔۔

کچھ نہیں بھائی بس وہ وری کو ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔ وہ گڑبڑاتے ہوئے بولے۔۔۔

اچھا وہ وہ تو شاید شمائلہ کو ڈھونڈتا اندر گیا ہے ۔۔ کدھر گیا ہے بھائی ۔۔ حامد کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول اٹھے۔۔

ارے نیناں کی طبیعت اچانک سے خراب ہو گئی ہے تو شمائلہ بچی کے پاس گئی ہے۔۔ تو ادھر ہی ہو گا ۔

شکریہ بھائی میں آتا ہوں وہ کہتے فورا سے نیناں کے کمرے کی جانب بڑھے۔۔ دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوئے تو خلاف توقع اندر موجود خاموشی نے انکا استقبال کیا۔ وہ سانس خارج کرتے پرسکون سے انداز میں اندر گئے۔۔

سامنے ہی نیناں کندھوں تک کمفرٹر میں دبکی ہوئی تھی۔۔ چہرہ بخار سے سرخ تھا، نظریں دوڑاتے انکی نظر اپنے بیٹے پر پڑی تو وہ کچھ کھٹکے۔۔۔ چہرے پر واضع پریشانی ، ماتھے پر پڑتی شکنیں۔۔ اور آنکھیں جیسے ضبط کرتے سرخ تھیں۔۔۔ وریام کی آج سے پہلے ایسی حالت ایک ہی بار دیکھی تھی انہوں نے  جب شمائلہ بہت بیمار تھی۔۔ مگر نیناں کے لیے ایسی حالت انہیں کچھ کھٹکا۔۔

بیٹا تھوڑی سی اور پی لو سوپ۔۔ بی جان کے پاس بیٹھی شمائلہ سوپ کا چمچ آگے کرتی بولی تو نیناں نے نفی میں سر ہلایا ۔ 

نیناں یار پی لو۔۔  رمشہ نے بھی تفکر سے کہا مگر وہ نفی میں سر ہلا گئ۔

ہو گیا آپ سب کا اب سائیڈ ہوں سب۔۔۔ وہ کب سے سب کے ڈرامے سے اکتائے  ہوا خود ہی بولا ۔

شمائلہ سمیت سب نے اسے انجان بنتے دیکھا۔۔ کیا آپ نے ہی تو کہا تھا کہ سوپ پلا لیں پھر لے جائیں گے میڈیسن لینے، وہ دونوں ہاتھوں کو کھڑا کرتے بولا تو بی جان نے ہاں میں سر ہلایا۔۔

شمائلہ تم بھی چلی جاؤ ساتھ بچی کے۔۔ وریام وریام۔۔۔۔ بیٹا رکو تو۔۔ بی جان ابھی بات ہی کر رہی تھی کہ وہ بنا کسی کی پرواہ کیے آگے ہوتے نیناں کو اٹھاتے باہر کی جانب بڑھا۔۔ رضا اور رمشہ منہ پر ہاتھ رکھ گئے ، پاکستان جیسے ملک میں یہ ایک بہت بڑی بات تھی ۔اوپر  سے اگر حسن یا سلمیٰ کو پتہ چل جاتا تو ایک اور تماشا لگتا۔۔ 

شمائلہ  دیکھو روکو اسے۔۔۔ بی جان پریشان ہوتے بولی۔۔ تو سب نے باہر کی جانب دوڑ لگائی۔۔ مگر سوائے دھوئیں کے کچھ بھی ناں ملا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آ جائیں ڈیڈ ۔۔۔ وہ فریش سا بالوں میں برش کرتے ایک نظر بیڈ پر لیٹی فدک کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

دل میں ایک عجیب سا سکون تھا، وہ اب کسی بھی ڈر خوف کے اسے اپنے پاس رکھ سکتا تھا، ایک ہی رات میں اسکا کمرہ کتنا پررونق ہو چلا تھا۔۔ 

دعا سے سب سنتے اس نے یہ فیصلہ لیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے فدک پر کوئی مصیبت آئے۔۔ وہ تو اسے خود سے بھی مخفوظ رکھنا چاہتا تھا ، اپنے دل میں۔ جہاں  پر جہاں کوئی  بھی اسکی فدک تک ناں پہنچ پائے، وہ مسکراتے ہوئے مرر سے فدک کو دیکھتا کھو سا گیا ۔ جو اس وقت جھنجھلاتے ہوئے غصے سے بیٹھی تھی۔۔ 

رافع کے دیکھنے پر وہ غصے سے دیکھتی منہ پھیر گئی۔۔

کیسے ہے میرا بیٹا ۔۔۔ اظہر اجازت ملتے ہی اندر آتے ہوئے پیار سے فدک کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے، اسکے چہرے پر سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خوش نہیں۔۔

انکل آپ پلیز مجھے لے چلیں نیچے مجھے اکیلے رہنا ہے ،مجھے نہیں رہنا انکے ساتھ۔۔ اظہر کے بیٹھتے ہی وہ فوراً سے بولی۔ تو رافع کے برش کرتے ہاتھ رکے اسنے مرر سے اسے گھورا۔۔

ارے کیا ہو گیا ۔۔ میری بچی کچھ کہا ہے اس نے تو مجھے بتاؤ ۔میں ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔۔۔ وہ بھوکھلاتے فدک کے رونے پر اٹھتے اسکے پاس۔ بیٹھتے پیار سے بولے ۔

رو کیوں رہی ہو پلیز ڈونٹ کرائے۔۔ رافع دوڑتا اسکے پاس آتا آنسو صاف کرتے بولا۔۔ پیچھے رہو بچی بات کر رہی مجھ سے اظہر اسے گھورتے سائیڈ کرتے بولے۔۔ تو فدک نے سوں سوں کرتے اظہر کو دیکھا۔۔

بولو میرا بیٹا میں سن رہا ہوں۔۔ اظہر پھر سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے 

انکل میں نے منع کیا انکو کہ مجھے یہ گندی سی سبزیاں اور سوپ نہیں پینی ۔۔ مگر یہ مجھے پھر سے وہ گندی سی چیزیں کھلا گئے ۔ آپ نے ہوسپٹل میں بولا تھا ناں کہ اب سے یہ سب نہیں کھانا ہو گا مجھے۔۔۔ میں نے بولا  بھی مگر یہ مجھے ڈانٹنے لگے اور تو اور میں نے آپ کو آوازیں بھی دیں تو کہتے ہیں کہ خبردار جو اب آواز لگائی نہیں تو پوری عمر یہی کھانا پڑے گا۔۔وہ سوں سوں کرتی ساری بات بتانے لگی۔۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو رافع نے ایسا کیا تھا۔۔ اظہر کے ساتھ رافع نے بھی شکر بھرا سانس خارج کیا ۔۔ کہ چلو بچت ہو گئی ۔

بیٹا میں نے آپکے ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔ اسکا کہنا ہے کہ ایک دو دن تک اگر آپ آگے سے بہتر ہو گئی تو پھر آپ کو یہ کھانا نہیں کھانا پڑے گا مگر  تب تک یہ ضروری ہے۔ وہ پیار سے اسے سمجھانے لگے تو وہ منہ بسور گئی۔۔

اور ایک بات اب سے تم بھی رافع کی طرح مجھے ڈیڈ کہو گی نو انکل اوکے وہ مسکراتے پیار سے بولے تو فدک نے بھی نم آنکھوں سے مسکراتے ہاں میں سر ہلاتے ایک نظر سوبر سے تیار ہوئے رافع پر ڈالی جو کہ سائیڈ ٹیبل پر پڑی اسکی میڈیسن نکال رہا تھا۔۔ رات والی حرکت یاد آتے ہی وہ فورا سے ہوائیاں اڑتے چہرے سے اظہر کو دیکھنے لگے ۔

ڈڈ ڈیڈ مجھے آپ سے میڈیسن کھانی ہے پلیز ۔۔ فدک کی آواز پر رافع نے ائبرو اٹھاتے اسے غور سے دیکھا۔۔    

کیوں بیٹا رافع سے کیوں نہیں کھانی وہ ناسمجھی سے ایک نظر رافع کو دیکھتے پوچھنے لگے۔۔

 یہ کڑوی کھلاتے ہیں مجھے آپ سے کھانی ہے ۔۔ اسکی بے تکی بات پر جہاں رافع کی ہنسی چھوٹی وہیں اظہر نے بھی مسکراتے سر کو نفی میں ہلایا۔۔

بیٹا دوا ہوتی ہی کڑوی ہے اب آپ جلدی سے دوا لے لو، پھر ہم دونوں مل کر آپ کے ہزبینڑ کو وش کریں گے اور سی آف بھی کریں گے۔۔

وہ مسکرا کر اپنے جوان بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے تو رافع نے آگے ہوتے انکا کندھا تھپتھپایا۔۔

ہیں۔۔۔ کیوں کیوں وش کرنا ہے وہ حیرانگی سے رافع کو دیکھتی پوچھنے لگی ۔

کیونکہ آج آپ کا شوہر  آفس جا رہا ہے تو پہلے دن کی وشز تو بنتی ہیں ۔ چلو تم دونوں جلدی سے ریڈی ہو کر نیچے او آج میں اپنا سارا دن اپنی بیٹی کے ساتھ گزاروں گا۔۔وہ پیار سے کہتے اٹھتے رافع کو گلے لگاتے باہر کی جانب گئے ۔

ہممم تو بڑی شکایتیں ہیں میری بیوی کو مجھ سے ۔۔ وہ محنی خیزی سے کہتے بیڈ پر اسکی سائیڈ بیٹھا۔۔ 

بات ناں کریں مجھ سے ۔۔وہ تڑخ کر بولی تو رافع ہنس پڑا۔۔

کیوں ہنس رہے ہیں۔ وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔

اس لیے ہنس رہا ہوں کہ شکر  ہے کہ میری بیوی کو تھوڑی بہت عقل تو ہے۔  وہ مسکراتا اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھنے لگا ۔

کیا کیوں۔۔۔۔ وہ فورا سے بولی تو رافع نے دوا اسکی جانب بڑھائی جسے وہ خاموشی سے پکڑتے گھورنے لگی۔۔

مجھے لگا کہ شاید  میری معصوم سی بیوی اپنے سسر کو بتانے لگی ہے کہ رات کو انکے معصوم سے بیٹے نے اسے کیسے کیسے تنگ کیا تھا۔۔ وہ محنی خیزی سے اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر بولا۔۔۔

فدک اسے اگنور کرتی ہڑبڑاہٹ میں دوا  منہ میں ڈالتے پانی پینے لگی۔۔

وہ گہرا مسکراتا اسکی ابتر ہوتی حالت کو دیکھنے لگا ۔۔۔

تو کہاں سے کانٹینیو کریں ۔۔ وہ گلاس پکڑتے ٹیبل پر رکھتے فدک کے کپکپاتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے معنی خیزی سے بولا۔۔

کک کیا دد دیکھیں رافع ہہہ ہمیں نیچے جانا ہے ابھی انکل نے ۔۔۔ 

وہ ایک دم سے بولتے رکی جب رافع نے اسکے باقی کے الفاظ پی لیے۔۔۔ 

یار بہت ہی کڑوی ہے تمہاری دوائی۔۔۔ وہ پیچھے ہوتے اسکے خون چھلکاتے چہرے کو دیکھتے بولا ۔۔

چلیں ۔ وہ بغیر اسکی جانب دیکھے بولی تو مسکراتا نفی میں سر ہلا گیا ۔

ابھی نہیں۔۔۔ابھی تو مجھے اپنی وشز لینی ہیں اپنی خوبصورت سی بیوی سے اور اس کی شکایتیں بھی تو دور کرنی ہیں کیونکہ بقول اسکے میں کڑوی دوائی کھلاتا ہوں۔۔ ۔۔ وہ پھر سے مسکراتے کہتے  اسکے ہونٹوں پر جھکتے شدت سے انہیں اپنی گرفت میں لیا ۔۔ کہ فدک نے غصے سے اسکی پشت کو اپنے ناخون کا نشانہ بنایا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گاڑی روکو وریام مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ  ۔۔ وہ غصے سے تپی  بخار سے بھاری ہوتی آواز میں بولی۔۔ جبکہ وہ اسکی سنی ان سنی کرتا گاڑی میں بٹھاتے گاڑی زن سے بھگاتا لے گیا۔۔ 

بخار کیسے ہوا تمہں وہ گاڑی ڈرائیو کرتا ایک نظر نیناں کو دیکھتے ہوئے بولا ۔

تم سے مطلب ، مجھے کہیں نہیں جانا ڈھیٹ انسان سنا نہیں گھر لے کے جاؤ مجھے واپس۔۔ وہ زور سے ہاتھوں کے مکے بناتی اسکے کندھے پر مارنے لگی ۔وہیں اسکے نازک ہاتھوں کے لمس پر ایک جان لیوا مسکراہٹ وریام کے چہرے پر بکھری۔۔

آدھے گھنٹے بعد وہ ایک ہوسپٹل کے سامنے گاڑی روکتا باہر آیا ۔ جی پی ایس کی وجہ سے اسے کافی آسانی ہو جایا کرتی تھی راستہ تلاش کرنے میں ۔

وہ فورا سے باہر نکلتا  نیناں کو اٹھانے لگا۔۔ مری نہیں ہوں میں ۔ خبردار جو اب ہاتھ لگایا وہ اسکے ہاتھ کو نفرت سے جھٹکتی ہوئی بولی۔۔

۔

آؤ۔۔ وہ مسکراتا بالوں میں ہاتھ پھیرتے اسے باہر آنے کا کہنے لگا۔۔ چاروناچار وہ منہ پھلاتے باہر آئی ۔

چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔وہ غصے سے اپنا ہاتھ وریام سے چھڑاتے ہوئے بولی جو کہ بنا اسکی سنے اندر کی جانب بڑھا۔۔

وئیر از دی ڈاکٹر۔۔۔ وہ رسیپشن پر جاتے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھتے عجلت میں بولا۔۔ جبکہ سامنے والی نے سر سے پاؤں تک بغور اس حسن کے پیکر کو دیکھتے ایک نظر اسکے ساتھ سہمی سی کھڑی نیناں پر ڈالی ۔

روم نمبر ون زرو فائیو۔۔ وہ روم نمبر بتاتے مسکرا کر وریام کو دیکھنے لگی جو کہ اس وقت پریشان سا نیناں میں کھویا تھا۔۔

اوکے ،وہ کہتے نیناں کا ہاتھ پکڑتے آگے بڑھا۔۔ وئیر از دی ڈاکٹر وہ کمرے میں داخل ہوتے پھر سے پوچھنے لگا کہ سامنے ہی بیٹھے سپشلسٹ ڈاکٹر عرفان نے اسے بغور دیکھا ۔۔ میں ہوں ڈاکٹر یس بتائیں کیا مسئلہ ہے ڈاکٹر فورآ سے سیدھا ہوتے وریام کو دیکھتے پیشہ وارانہ انداز میں بولا۔۔

جسے دیکھ وریام نے نیناں کو نامحسوس انداز میں اپنے پیچھے کیا ۔ڈاکٹر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا ۔

کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے آپ کے ہوسپٹل میں۔ وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر بولا۔۔ ہیں مگر میں چیک اپ کر دیتا ہوں۔۔ نہیں ضرورت نہیں، اگر لیڈی ڈاکٹر ہے تو ٹھیک نہیں تو ہم کہیں اور چلے جاتے ہیں ۔

 چلو نین۔وہ نیناں کا ہاتھ پکڑتے بولا ۔

رکیں آپ ادھر ہی ویٹ کریں میں بھیجتا ہوں ڈاکٹر کو۔۔ وہ کہتے فورا سے باہر گیا 

بیٹھو یہاں پر وہ اسکا ہاتھ پکڑتے ایک چئیر پر بٹھاتے بولا۔۔ نیناں کو اس کی حرکتیں عجیب سی لگی ۔ کسی پاگل جنونی انسان جیسی ۔۔

سٹریس زیادہ لینے کی وجہ سے آپ کی بیوی کو بخار ہو گیا ہے آپ ان کا خیال رکھیں اور یہ میڈیسن وقت پر دیں ۔ لیڈی ڈاکٹر مسکراتے نیناں کے چیک اپ کے بعد بولی ،تو نیناں نے ٹوکتے ڈاکٹر کو بتانا چاہا۔

اوکے تھینکس ڈاکٹر ۔۔ میں خیال رکھوں گا اسکا ۔ وہ مسکراتے نیناں کے بولنے سے پہلے ہی کہتا کھڑا ہوا ۔ 

تم نے بتایا کیوں نہیں ڈاکٹر کو کہ تم میرے شوہر نہیں ہو ۔ روم سے باہر آتے ہی وہ غصے سے بولی، 

تو اس میں کیا ہے ہوں نہیں بن جاتا ہوں، وہ مسکراتے اسے دیکھ بولا ۔ ویسے بھی تو اس۔ نکمے سے شادی کر رہی ہو سب جانتا ہوں اس گھٹیا انسان کی ساری ڈیٹیلز ہیں میرے پاس ۔۔۔ وہ کہتے نیناں کے متغیر چہرے کو دیکھنے لگا۔۔ 

بولو کرو گی شادی وہ پکڑتا اسے گاڑی میں بٹھاتے خود بھی بیٹھتے ہوئے بولا۔۔ نیناں نے بغور اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک الگ سی چمک ایک الگ سا جہاں آباد تھا

تم ایک انتہائی گھٹیا ،ایک ہوس پرست کریکٹر لیس انسان ہو ۔۔۔ تم سے شادی کرنے  سے بہتر تو میں اس حسن سے شادی کرنا پسند کرتی ہوں ۔ وہ اس رات وریام کی فون کال کو یاد کرتے فورا سے ہوش میں آتی ایک ایک لفظ پر زور دیتےبولی، اس کی آنکھوں میں غصہ ،نفرت اور ناجانے کیا کیا تھا۔ اس طرح کے الفاظ اپنے کیے نیناں کے منہ سے سنتے وریام کی آنکھوں میں خون سا اترا ،  آنکھوں میں چمکتی روشنی کی جگہ آگ سی جلنی لگی،وہ بنا کچھ بولے گاڑی سپیڈ سے بڑھاتا لے گیا۔۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتے  تقریباً بھاگتے ہوئے روم کی جانب بڑھا۔۔ سارا سٹاف خود بھی ڈرتا اسے دیکھ افسوس سے سر ہلا گیا۔۔ کیا تھی ان کی زندگی اور اب کیا ہو گئی تھی۔۔ مخض کچھ دن میں۔۔ وہ سرد آہ کھینچتا ہینڈل گھماتے ہوئے روم میں داخل ہوا، جہاں اسکے بوس کی سرد آنکھوں کی وارننگ پر وہ سر جھکا گیا ۔۔ سوری فار لیٹ ایوری ون ۔۔ وہ وہاں موجود سب سے یک زبان معزرت کرتا اپنے  سر کی جانب گیا۔۔ جس کی آنکھیں غصے سے شعلے اگل رہے تھے۔۔

       وہ مؤدب سا سر جھکاتے شرمندہ سا  پھر سے معزرت کرتے فائل اسکی جانب کرتا سائیڈ پر مؤدب سا سر جھکاتے کھڑا  ہو گیا ۔

یس کیری اون۔۔۔۔ وہ مینیجر کو سخت گھوری سے نوازتا چئیر کا رخ سامنے موجود  دوسری ٹیم  کی جانب کرتا ان سے  مخاطب ہوا ، اور فائل سامنے موجود ایلس کی طرف اچھالتا ٹانگ پر ٹانگ جماتے بیٹھ گیا۔۔

          تو اگر یہ ڈیل فائنل کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اسی پرسنٹ 80٪ پرافٹ چاہیے ۔۔ وہ پروقار سحر انگیز شخصیت کے ساتھ  ماحول پر چھایا ، مسکراتے ہوئے ایلس کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

واٹ۔۔۔ مجھے  یہ میٹنگ منظور نہیں ۔۔ ہماری بات تو ففٹی پرسنٹ پر ہوئی تھی اب ایٹی پرسنٹ  کیوں۔۔ وہ فائل کو ٹیبل پر رکھتے انگریزی میں سامنے موجود شخص سے مخاطب تھا۔۔

       سامنے والے نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔ اب یہاں کا بوس میں ہوں۔۔۔  تو ہر ایک چیز میری مرضی سے ہو گی ۔ اور سارے پرافٹ کا حساب دیکھیں تو  ہمارے ورک کے حساب سے تو تمہیں دس پرسنٹ آتا کیوں   جیان۔۔۔ وہ مسکراتا پیچھے کھڑے اپنے مینیجر کو دیکھتا ہوا بولا۔ تو جیان نے بھی فورا سے سر کو ہاں میں ہلاتے تاکید کی۔۔

       تو پھر ٹھیک ہے ہمیں یہ میٹنگ نہیں کرنی۔۔ ایلس نے ایک نیا پینترا پھینکا، جہاں پیچھے کھڑے جیان کے چہرے پر پریشانی پھیلی وہیں مقابل گہری جان لیوا مسکراہٹ سے مسکرایا۔۔۔۔ اوکے دروازہ وہاں پر ہے۔۔۔۔ وہ سامنے دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔ تو ایلس فوراً سے گڑبڑا گیا۔۔

          اوکے ایک کام کرتے ہیں تم 70% رکھ کو اور مجھے 30% دے دو۔۔۔ وہ صلح جو انداز میں بولا ، کیونکہ یہ ڈیل اسے کسی بھی حال میں فائنل کرنی تھی۔۔

     نو۔۔۔ 80% مینز 80%۔ وہ اٹل پراسرار لہجے میں کہتا کھڑا ہوتے کورٹ کے بٹن بند کرنے لگا ۔۔

            اوکے ڈن مجھے منظور ہے۔۔۔ ایلس اسکے کھڑے ہونے پر  گڑبڑاتے ہوئے بولا۔۔

سائن کروا لو جیان۔۔۔۔ وہ مینیجر کو کہتے دروازے کی جانب بڑھا۔۔

پر اعتماد  چال چلتا وہ  کئیوں کے دلوں کو دھڑکاتا بے پراہ سے انداز میں چلتا اپنی لینڈ کرولا میں بیٹھا۔۔

                 اپنی محسوس جگہ پہنچتے گارڈز نے فوراً سے مؤدب سے گاڑی سے نکلتے دروازہ کھولا ۔۔ وہ نکلتا اپنے کوٹ کو اتارتا گارڈ کے حوالے کرتا اندر داخل ہوا۔۔ 

بلیک شرٹ کو کہنیوں تک فولڈ کرتے وہ  بے تاثر چہرہ لیے پنچنگ بیگ پر ہے درپے پنچ کرنے لگا ۔  اسکی آنکھیں میں جلتے شعلے کسی کو بھی جھلسا دینے کو کافی تھے۔۔  

تم ایک کریکٹر لیس ایک گھٹیا ، ہوس پرست انسان ہو۔۔ 

کانوں میں گونجتی دل چیرنے والی آواز  ، پر اس نے ضبط سے آنکھوں کو میچا مگر اب پنچ میں تیزی تھی۔۔ وہ اپنے اندر کے طوفان ، تباہی کو سامنے انڈیل دیا تھا، پچھلے چار دنوں سے مسلسل پنچنگ کرتے اس کے ہاتھ نڈر تھے ، پنچنگ بیگ جگہ جگہ سے پھٹتا اپنے اوپر ہوتے تشدد پر بے جان سا برداشت کر رہا تھا۔۔ 

تم سے شادی کرنے سے بہتر تو میں اس حسن سے شادی کرلوں ۔۔ 

ایک بار پھر سے وہی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔۔ اسے اپنے اوپر ہنستے چہرے نظر آنے لگے۔۔ وہ رکتے دونوں ہاتھوں میں بالوں کو پکڑتے نوچنے لگا ۔

کہ معا ناک کرتے گارڈ اندر داخل ہوا ۔ بولو  روکی کام ہوا۔۔ وہ پانی کی بوتل کو اٹھاتے چہرے پر انڈیلتے پھر سے پنچ کرتے پوچھتے دوبارہ سے پنچنگ کرنے لگا۔۔۔

               یس سر جیسا آپ نے کہا تھا۔۔ ویسے ہی ڈریس پہنچا دیا گیا ہے۔۔ وہ سر کو جھکاتے ہوئے بولا۔۔

ہممم کب تک پہنچ جائے گی۔۔۔   اسکا دماغ اس وقت  الجھا ہوا تھا۔۔ 

مگر وہ جانتا تھا کہ اسے کیسے کب ، اور کیا کرنا ہے۔۔۔ اسی لیے تو وہ بالکل پرسکون رہنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ وہ بنا کسی ری ایکشن کے اپنے ڈیڈ کی بات مانتے یہاں چلا آیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر وہاں پہ رہتا تو خود پہ کنٹرول کرنا بہت مشکل تھا اس کے لیے۔۔۔

  وہ پنچنگ کرتے اچانک سے رکتا موبائل کو جیب سے نکالتے مطلوبہ چیز کو نکالتے دیکھنے  لگا ۔۔ جہاں اسکی موم بیٹھی مسکراتے اسکے ڈیڈ سے بات کر رہی تھیں۔۔  

وہ مسکرایا اپنے ڈیڈ کی چالاکی پر ۔۔۔ یقیناً وہ اندر سے خوش ہوں گے کہ چلو ،وری تو گیا اب وہ کچھ دن مزید اپنی بیوی کی توجہ اور پیار حاصل کر سکتے تھے وہ بھی بنا کسی ڈر کے ۔۔۔۔

کیونکہ اس کے ہوتے کہاں یہ ممکن تھا۔۔۔"

وہ مدہم سا مسکراتے سامنے کھڑے روکی کو دیکھنے لگا۔۔

جی سر آج اندازاً آج دن تک چلی جائے گی۔۔ روکی گڑبڑاتے ہوئے بولا ۔

اندازاً نہیں مجھے کنفرم بتاؤ۔۔ وہ کہتے تولیے سے بال خشک کرتا چئیر پر بیٹھا۔۔

   بھورے بال اسکی پیشانی پر بکھرتے اسکی آنکھوں کے ساتھ ہم رنگ ہوتے  شرسار سے تھے۔۔۔  جی سر کنفرم ہے۔۔

        ہممم جاو۔۔ وہ سنتے  ایک نظر اپنے سامنے کھڑے روکی پہ ڈالتا سنجیدگی سے  کہتا موبائل کی جانب متوجہ ہوا ۔

        مخصوص اسٹائل میں بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ سامنے کے منظر کو دیکھ طنزیہ مسکرایا ، جہاں رات کے آخری پہر حسن کو ہلدی لگائی جا رہی تھی۔۔ 

کتنے بے وقوف تھے ناں سب کہ اس کی ہلدی میں خوش ہوئے جا رہے تھے ۔ یہ جانے بغیر کے سامنے بیٹھے شخص کا اس پہ کوئی حق نہیں تھا۔۔

وہ سوچ چکا تھا کہ وہ کیسے تباہ کرے گا نیناں کو ، اسے شادی میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا مگر اب بات اس کی عزت ، اسکے کہے الفاظ کی  تھی اور اسکے علاؤہ جو بات وہ جان چکا تھا ۔۔۔

اس سب کے باوجود وہ کبھی بھی اس بےوقوف لڑکی کو یہ بےوقوفی نہیں کرنے دے سکتاتھا۔۔"

           صرف کچھ پل ، کچھ گھنٹے، کچھ منٹس، کچھ سیکنڈز اور۔۔۔۔ اور اس کے بعد وہ ہو گا جو کسی نے بھی سوچا ناں ہو۔۔۔۔

  وہ سوچتے  گہری مسکراہٹ سے  مسکراتا تاریک کمرے کو موبائل میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ مگر آنکھوں میں ابلتے جنون ، عشق کی آگ سلگتی اور ہی داستان بیان کر رہی تھی۔۔۔

      جسٹ  ویٹ اینڈ واچ وہ کھڑا ہوتا موبائل  کو زور سے دیوار پر  مارتے  ہوئے بولا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دادو میں تھک گئی ہوں ۔۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تو بی جان نے مسکراتے رمشہ کو دیکھا جو گہرے یلو کلر کے لہنگے جس پر گولڈن نگینوں  کا نفاست سے ہوا کام اسے اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔۔ 

اچھا جاو آرام کر لو۔۔۔ بی جان نے مسکراتے  اسکے ہلدی سے بھرے گالوں کو دیکھتے ہوئے پیار سے کہا تو وہ بھی مسکراتی دوست کو اشارہ کرتی اندر کی جانب بڑھی۔۔۔ آج کا دن کافی تھکاوٹ بھرا تھا، نیناں کی ہلدی اور مہندی کل ہونی تھی کیونکہ آج وہ کچھ بیمار سی تھی تو سب کے کہنے پر اسکی ہلدی اور مایوں ایک ساتھ رکھی گئی تھی۔۔۔ 

تم جاؤ مجھے ریسٹ کرنی ہے وہ کہتی فوراً سے دروازہ لاک کرنے لگی کہ سلمیٰ بیگم نے روک دیا۔۔

مما مجھے سونا ہے پلیز ابھی کوئی بھی بحث نہیں۔۔ وہ ایک نظر گھڑی کو دیکھتی جہاں پر تین بج رہے تھے اپنی مما کو بولی۔۔

رمشہ ابھی بھی موقع ہے انکار کر دو اس شادی سے کیا ملے گا تمہیں اس سے شادی کے بعد ۔۔ یہ دیکھو طلاق کے کاغذ میں نے ریڈی کروا لیے ہیں۔۔۔ 

تم بس سائن کر دو باقی میں سنبھال لوں گی۔۔۔ سلمیٰ نے اندر جاتے اسے بیڈ پر بٹھاتے آرام سے سمجھایا۔۔

رمشہ جانتی تھی کہ اسکی مما کو اشعر پسند نہیں  کرتی اور پچھلے پانچ دنوں سے وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔۔ مگر وہ ہنوز انکار کر رہی تھی۔۔ انکار کرتی بھی کیوں نا۔ آخر اشعر کی آنکھوں میں جلتی اپنی محبت کی جوت دیکھنے کے بعد وہ کیسے اس شخص سے الگ ہو جاتی جو اسکا محافظ بنتے سب کے سامنے اسے مان سے رحصت کرتا لے جا رہا تھا۔ 

مما انفف ۔۔۔ پلیز میں نے پہلے بھی آپ کو سمجھایا ہے کہ وہ شوہر ہیں میرے اور میں محبت کرتی ہوں اپنے شوہر سے ، کبھی بھی ان سے الگ نہیں رہ سکتی ۔۔ اب پھر بھی بار بار ایک ہی بات دہراتی ہیں۔۔ جائیں پلیز خدا کا واسطے مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔ وہ زچ آ چکی تھی اپنی مما سے ،  

پچھتاؤ گی تم رمشہ دیکھ لینا۔۔ سلمیٰ بیگم نحوت سے اپنی بیٹی کو دیکھتے کہتی۔ غصے سے روم سے نکلی۔۔۔

آہاں۔۔۔ یہاں تو لوگ فدا ہیں ہم پر۔۔۔ محبت کرنے لگے ہیں۔۔ اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔۔ اشعر جو کب سے بےتاب واشروم میں گھسا اسکا انتظار کر رہا تھا سلمیٰ کے جاتے ہی فورا سے پیچھے سے اسے حصار میں لیتے ہوئے بولا۔۔

آ آ آپ۔۔۔ وہ بھوکھلاتے ہوئے بولی۔۔

آپ یہاں پر کیسے ۔۔ دیکھیں کوئی آ جائے  گا پپ پلیز جائیں۔۔۔ وہ التجائی ہوتی۔۔ اشعر سے بولی جو اسے حصار میں لیے اسکے بالوں سے آتی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا۔۔

ایسے کیسے ۔۔ 

کک کیوں۔ اشعر کی بھاری بھوجل آواز  کانوں میں پڑتے وہ سر سے پاؤں تک سرخ ہوئی۔۔

کیونکہ مجھے تو کسی نے بھی ہلدی نہیں لگائی تو سوچا اپنی بیوی سے لگوا لوں۔۔ وہ میں خیزی سے کہتا اسکا رخ اپنی جانب کرتے بولا۔ تو رمشہ  کی آنکھیں بھوجل سی ہوئیں۔۔ 

وہ اسکے دمکتے جان لیوا روپ کو دیکھتے مدہوش سا ہوتا کندھے پر سے اسکے بالوں کو ہٹاتے اپنے لب رکھتے اسے اپنے مضبوط حصار میں لے گیا۔۔

اششع۔۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے زبان سے کہتی اسے باز رکھنے لگی جو اسکے بھاری دوپٹے کو سر پر سے آزاد کرتے اسے مدہوش سا ہوتا دیکھنے لگا۔

    اچانک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کرتے  حصار میں لیتے وہ اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا ۔

۔۔  ایک بار پھر سے کہو میں سننا چاہتا ہوں کیا سچ میں تم مجھ سے محبت کرنے لگی ہو ۔ وہ اپنی بھاری بھوجل آواز میں سرگوشیوں سے اس کی جان پر بن ایا۔۔

    وہ ہمیشہ کی طرح اسکے حصار میں اسی سے چھپتی تھر تھر کانپنے لگی۔

         کانپ کیوں رہی ہو  میری جان۔۔ وہ اسکے کانپتے وجود کو حصار میں لیتے بیڈ پر لٹاتا بولا۔۔

   نن نہیں تت تو مم میں تو نہیں ڈر رہی۔۔۔ وہ فوراً سے اسکی نفی کرتی بولی تو اشعر نے لب دانتوں تلے دباتے ہنسی روکی۔۔

اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔ وہ سمجھنے والے انداز میں کہتے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں اسکے سرد پڑتے نازک ہاتھوں میں الجھانے لگا، رمشہ کی آنکھیں خوف سے پھیلی۔۔ 

اشش اشعر۔ مم مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ وہ فوراً سے اسکے ارادے بھانپتے ہوئے بولی، کہ اشعر نے سر اٹھاتے اسے دیکھا، مگر ابھی تو تمہیں ڈر نہیں لگ رہا تھا، وہ مسکراہٹ دباکر بولا ۔اب ابھی لگ رہا ہے۔۔ وہ محصومیت سے منہ بناتے ہوئے بولی۔

   اچھا۔۔۔ تو اسکا حل ہے میرے پاس ۔۔۔ وہ کہتے جھکتا اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لیتے اسکی بولتی بند کر گیا۔۔

  اسکی چالاکی پر رمشہ نے ہاتھوں کے مکے بناتے اسکی پشت پر مارے مگر اگلے ہی پل وہ اسکے ہاتھوں کو گرفت میں لیتے تکیے سے لگا گیا ۔

      وہ اسکی خوشبو کو خود میں محسوس کرتے گہرا مسکرایا۔ فون کیوں نہیں کیا اتنے دنوں سے ، 

   اسکے شکوے پر رمشہ نے جھٹ سے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا، 

مم میرے پپ پاس آپ کا نمبر نن نہیں تھا، وہ فوراً سے جھوٹ بولتی آنکھیں بند کر گئی۔۔۔

تو نیناں سے لے لیتی، وہ کہتے ہاتھ اسکی پشت پر پھیرنے کگا، اسکی مضبوط انگلیوں کے لمس کو اپنی پشت پر محسوس کرتے وہ فوراً سے آنکھیں کھولتے اسے غصے سے دیکھنے لگی۔۔

آپ جائیں کوئی آ جائے گا پلیز۔۔ وہ بات بدلتی دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھتے اسے خود پر سے اٹھانے کی کوشش کرتے بولی، مگر سامنے وہ ازلی ڈھیٹ بنا رہا۔۔

   کوئی نہیں آئے گا، اگر کوئی آ گیا تو میں ہینڈل کر لوں گا۔۔ وہ مسکراتے اسکی آنکھیں چومتا بولا تو رمشہ نے ایک نظر لیمپ کی مدہم سی لائیٹس میں اسکے روشن چہرے کو دیکھا۔۔

مجھے نیند آ رہی ہے ہے اشعر۔۔۔ وہ  ہار مانتی اسے بتانے لگی جانتی تھی جب تک اسے بتائے گی نہیں جان نہیں جھوٹے گی۔۔

۔

ہمممم تو پھر ٹھیک ہے تمہارا سونا ضروری ہے تم سو جاؤ، ویسے بھی دو دن کے بعد کہاں سونے کو ملے گا، وہ محنی خیزی سے کہتا اسے سرخ کر گیا۔ 

آپ جائیں گے تو میں سوؤں گی ناں ۔ وہ اسکے ہنوز اپنے ساتھ لیٹے رہنے پر چڑھتے ہوئے بولی،۔ تو کیا میرا جانا ضروری ہے میرے سامنے ہی سو جاؤ۔۔۔ اشعر شرارت سے اسے دیکھتے اپنے حصار میں لیتا بولا، تو رمشہ نے سر اٹھاتے اسے گھورا، اوکے جا رہا ہوں، ناراض ناں ہو ۔

  رمشہ کے گھورنے پر وہ فوراً سے کہتا اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومتا  کھڑکی سے باہر کودا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مے آئی کم ان سر۔۔۔ 

یس کم ان۔۔ مصروف سے انداز میں جواب دیتے وہ دوبارہ لیپ ٹاپ پر جھکا۔۔ 

سر سر وریام کی کال ہے بات کرنا چاہتے ہیں آپ سے۔۔۔   

کہہ دو کہ سر آفس میں نہیں۔۔ وہ فوراً سے ورکر کو جواب دیتا مصروف ہوا، 

سر انکا کہنا ہے کہ کچھ ضروری بات کرنی ہے اور آپ اپنا فون نہیں اٹھا رہے ۔۔ورکر نے دوبارہ سے منت بھرے انداز میں کہا کہاں ممکن تھا اسکے لیے وریام سے جان چھڑانا۔۔۔

۔۔

دو۔۔۔ وہ فون لیتا ورکر کو جانے کا اشارہ کرنے لگا ۔

ہاں بھونک کیا کام ہے ۔۔۔ رافع غصے سے تپے لہجے میں بولا،  چار دن پہلے ہی وہ کتنا خوش تھا وریام کہ اچانک سے آنے پر ، اسے اسپیشل ائیرپورٹ لینے۔ بھی گیا تھا،مگر  اس کمینے نے آتے ساتھ ہی اسے تین چار پنچ  میں سوجھا دیا تھا، اسکا ہونٹ بھی اس بے دردی سے پھٹا تھا کہ دائیں گال پر بھی سوجھن ہو گئی تھی۔۔

وہ معافیاں مانگتا رہا مگر وریام نے بے حس بنتے اسے نہیں چھوڑا تھا آخر کو چھوڑتا بھی کیوں اسکی اکلوتی بہن جس کے لیے خود وریام نے کیا کیا خواب سجائے تھے کہ خوب دھوم دھام سے اسے رافع کے ساتھ رخصت کرے گا ،مگر زبردستی نکاح کی خبر پر وہ بنا لحاظ رکھے اسے پیٹنے لگا تھا، وہ تو آخر میں آیت کی ہی قسم رافع کے کام آ گئی جسکی وجہ سے وریام نے اسے چھوڑ دیا تھا۔۔

اب بھی وہ خوب اکتایا  تھا۔ چار دن سے وریام نے ایک بار بھی کال نہی کی تھی مگر گھر جا کر اپنی بہن اور اظہر کے ساتھ ٹائم خوب سپینڈ کرتا ، فدک کے سامنے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی اسے ،، وہ سوچتا دانت کچکچانے لگا ۔۔ جیسے دانتوں کے نیچے ہی وریام کو رکھا ہو ۔

ہاں  رافع بات سن۔۔۔ وریام کی آواز پر وہ ہوش میں آیا ۔۔

دیکھو مسٹر ۔۔ میں نہیں جانتا کون ہو تم خبردار جو اب تنگ کیا زرا بھی۔۔۔ وہ مزے سے اسے اگنور کرتے چئیر کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔۔

  وہ اس وقت بلیو تھری پیس میں نک سا تیار بیٹھا تھا۔ارادہ آج فدک کو کہیں لے کے جانے کا تھا جو کہ اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔

۔۔  مجھے کوئی اچھا سا ڈیکوریشننر چاہیے ۔۔ وریام نے سیدھا مدعے کی بات کی جس کے لیے وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسے کال کر رہا تھا۔۔ 

   کیوں تم نے کیا کرنا اسے ۔۔۔ رافع ماتھے پہ بل ڈالے بولا۔۔

پتہ چل جائے گا وقت آنے پر ، پہلے مجھے کسی اچھے ڈیکوریشننر کا نمبر سینڈ کر۔۔ وریام اسکی بات کو اگنور کرتے ہوئے بولا، تو رافع کو تپ چڑھی ۔

  میںرے پاس نمبر ہے مگر میں نہیں دے رہا، اسے چڑہانے کی حاطر وہ مزے سے بولا مگر شاید بھول چکا تھا کہ آگے کون ہے۔

    اگر ایسی بات ہے تو پھر مجھے اپنی بہن کو بیوہ کرنے کا کوئی افسوس نہیں ہو گا ۔ویسے بھی میں اسکی مرضی کے مطابق اسکے لیے رشتہ ڈھونڈ ہی لوں گا ۔

وری کمینے انسان۔۔۔ رافع غصے سے بڑبڑایا۔۔ 

جب جانتے ہو کہ کمینہ ہوں تو پھر کس بات کی  فکر۔۔ نمبر بھیج دے کہتے ہی وہ کال ڈسکینکٹ کر گیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 تمہیں لگتا ہے کہ میں کریکٹر لیس ایک ہوس  پرست انسان ہوں تو ایک بات یاد رکھو  کہ آج سے ٹھیک پانچ دن کے بعد تم میری یعنی وریام مرتضٰی کاظمی کی بانہوں میں ہوگی ۔ وہ بھی ہورے حقوق کے ساتھ۔۔۔پھر تمہیں بتاؤں گا کہ ہوس پرست انسان کسے کہتے ہیں ، ایک ہاتھ کو گاڑی کے بونٹ پر رکھتے وہ نیناں کا مدھم چلتا سانس بھی روک گیا۔۔

کانوں میں گونجتی اسکی پراسرار سرگوشی نما آواز پر اسنے زور سے نفی میں گردن کو ہلاتے بیڈ شیٹ جو مٹھیوں میں جکڑا۔۔ اسکا سارا جسم پسینے سے شرابور چہرے جیسے لٹھے کی مانند تھا۔۔ ایک حوف ایک ڈر تھا اسکے چہرے پہ ، نہیں ۔۔ وہ یکدم ہڑبڑاتے چیختی گہری نیند سے اٹھی، 

  اور گردن گھماتے اندھیرے میں اپنے دائیں بائیں دیکھا، مگر کمرے میں خاموشی کو پاتے وہ گہرا سانس بھرتے خود کو پرسکون کرنے لگی، مگر کہاں یہ ممکن  تھا،

وہ اٹھتی موبائل سے ڈیٹ اور ٹائم دیکھنے لگی ۔ صرف ایک دن ، اسے یاد تھا کہ کیسے آج سے چار دن پہلے اس نے بری طرح سے وریام کو انسلٹ کیا تھا، اسکی آنکھوں اور چہرے پر سے نیناں کو اندازہ ہو چلا تھا کہ اسے بالکل بھی اسکی بات پسند نہیں آئی ،  سارے راستے وہ رش ڈرائیونگ کرتا اسے گھر لایا تھا۔

 اور وہ جب گاڑی سے اترتے اندر کی جانب بڑھی تھی تبھی ایک جھٹکے سے اس نے کلائی سے پکڑتے اسے گاڑی سے لگایا تھا، اور اسکے الفاظ اب بھی نیناں کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔ ایک الگ سا خوف اسکے جسم میں سرائیت کر رہا تھا، 

کیا میں نے ٹھیک کہا تھا اسے ۔۔۔ یا مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔ کیا پتہ وہ کچھ اور بات کر رہا ہو۔۔۔ اگر میں ایسے ناں کہتی تو اب یہ مصیبت میرے گلے میں ہھانس کی طرح ناں اٹکتی۔۔

کیا وہ کل آئے گا، کھڑکی کے پاس کھڑے ہوتی وہ سامنے مدہم سے نظر آتے چاند کو دیکھتے سوچنے لگی ۔ مگر اگلے ہی پل وہ اپنی بات سے انحراف کرنے لگی ۔۔

 بھلا وہ کیسے آ سکتا ہے وہ تو خود ہی اس دن چلا گیا تھا اچانک سے ہی ، پھر بھلا وہ کیسے ۔۔۔ وہ سوچتے گہرا سانس لیتی خود کو پرسکون کرنے لگی ۔

مگر کاش کہ وہ جان پاتی کہ  اس کی کہے الفاظ کسی کے دل پر کیسا کاری وار کر گئے تھے، جسکے دماغ میں ایک ہی جنون چڑھا تھا اور اب بھلا اسکا بچنا کسیے ممکن تھا۔۔

          "ارے لڑکیوں جلدی کرو، تیز تیز ہاتھ چلاؤ۔۔  یہ پھول وہاں پر لگانے ہیں اور ہاں ابھی تک نیناں تیار نہیں ہوئی۔ کتنی بار اس لڑکی کو کہا ہے مگر مجال ہے کہ جو اسے سمجھ میں آئے۔۔ وقت دیکھو کیا ہوا جا رہا ہے اور ان لڑکیوں کا کچھ اتا پتا ہی نہیں ۔۔ 

شمائلہ مسلسل کام میں لگی بوکھلائی ہوئی سی تھیں ۔ ایک تو تین تین شادیاں تھیں اوپر سے سارا خاندان بھی مایوں میں اچانک سے کود آیا تھا، سلمیٰ نے تو صاف ہاتھ کھڑے کر دیے تھے اور ایسے میں ساری ذمہداریاں انکے کندھوں پر تھیں ۔۔۔

         پورے شاہ ولا میں رونقیں بکھری ہوئیں تھیں، خوبصورتی سے کی گئی سجاوٹ میں پورا شاہ ولا دلہن کی طرح سجا ہوا تھا ۔ برقی لائیٹوں اور پھولوں سے کی گئی خوبصورت سجاوٹ نے ماحول کو الگ ہی روپ دیا تھا 

    باہر ایک جانب لان میں بنائے گئے خوبصورت سٹیج کو بھی جابجا پھولوں اور لائٹوں سے سجایا گیا تھا، دلہنوں کی مہندی کے لیے الگ سے بنایا گیا جھولا جسے اسپیشلی ڈیکوریٹ کروایا گیا تھا ، سارے ماحول کو سحر انگیز بنا رہا تھا۔۔

      ارے بیگم ایک پل کو ہمارے پاس بھی رک جائیں ، عجلت میں جاتی شمائلہ کو دیکھ رضا نے مسکراتے انہیں چھیڑا۔۔۔ 

      رضا آپ کی بات ہوئی وری سے کہاں ہے وہ آئے گا کہ نہیں ۔ 

    رضا کو اچانک سے سیڑھیوں پر دیکھ وہ رکتے اپنے لاڈلے کا پوچھنے لگی۔۔۔

ہوئی تھی۔۔  کہہ رہا تھا کہ اگر ٹائم لگا تو آؤں گا،  گہرے پیلے خوبصورت کڑھائی والے سوٹ میں ملبوس شمائلہ کو پیار سے دیکھتے وہ منہ کڑوا کرتے بولے۔۔ 

        ارے بیگم آپ نے گجرے کیوں نہیں پہنے، ان کے حالی ہاتھوں کو دیکھ وہ فوراً سے بولے وہ شام میں خود انکے لیے لائے تھے تاکہ انکی بیوی مہندی کے فنکشن میں سب سے پیاری دکھے۔ ۔

     او ہو۔۔۔ اتنے کام ہیں مجھے یاد ہی نہیں رہا، وہ فورا سے سر پر ہاتھ مارتی بولیں ۔ تو ادھر آئیں آپ کا شوہر کس دن کام آئے گا وہ کہتے انکا ہاتھ پکڑتے انہیں روم میں لے جانے لگے۔۔

     ارے رضا بات سنے ابھی مجھے بچیوں کو دیکھنا ہے ،  رسم شروع کرنی ہے بھائی صاحب بھی پوچھ رہے ہیں ، اور تو اور اشعر بھی آنے والا ہے وہ فوراً سے ہاتھ کھینچتی بولی۔

    مگر گجرے۔۔ وہ میں پہن لوں گی۔  اب خوش۔۔ وہ ہاتھ باندھتے بولی تو رضا  مسکرا دیے۔  

دونوں باپ بیٹا ایک جیسے ضدی ہیں اگر ایک بار ایک بات پر ڈٹ جائیں تو مجال ہے کوئی انہیں منا سکے وہ سوچتے  رمشہ کے روم کی جانب بڑھی۔ جہاں پر اس وقت رمشہ مایوں اور نیناں مایوں اور ہلدی کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ ۔۔

             ارے ماشاءاللہ ۔۔۔ میری بیٹی کو نظر ناں لگے۔ ۔

ہرے اور پیلے کلر کے کامبینیشن کے بنے لہنگے جسکے فرنٹ اور بیک پر چاندی کی تار کا خوبصورت کام ہوا تھا ، نامعلوم نارمل میک اپ ، بالوں کی فرنچ سٹائل میں کی گئی پونی جسے گجرے سے خوبصورتی سے سجاتے کندھے کے آگے پھینکا گیا تھا ۔  دونوں ہاتھوں میں پہنے گجرے ،پاوں میں پشاوری کھسا۔۔۔ وہ بے تحاشہ حوبصورت لگ رہی تھی ۔۔

              پھپھو یہ اتنا ہیوی ہے ۔۔۔ رمشہ منہ بسورتے بولی تو شمائلہ بیگم کو ہنسی ائی، میرا بچہ شادی کے لہنگے ہیوی ہی ہوتے ہیں وہ مسکراتے اسکی پیشانی چومتے بولی تو منہ بنا کر رہ گئی ۔۔

     کہاں ہے نیناں نظر نہیں آ رہی۔ ۔ وہ رمشہ کو دوبارہ آرام سے صوفے پے بٹھاتے نیناں کو ناپاتے اسکا پوچھنے لگی۔ ۔۔

     پھپھو اسے بخار ہے ابھی بھی ۔۔ بڑی مشکل سے بھیجا ہے تیار ہونے کے لیے۔۔ رمشہ نے بتایا تو وہ ہاں میں سر ہلا کہ رہ گئی ۔۔

       تبھی واشروم کا دروازہ کھولتے نیناں الجھتی سی اندر ائی۔۔۔ تو سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں ۔ بیوٹیشنز نے بے یقینی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ۔  شمائلہ نے ناسمجھی سے رمشہ کو دیکھا جو خود کندھے اچکا گئی ۔۔

     وہ الجھتی گرتی کہ شمائلہ نے اسے تھاما۔۔ سنبھل کے میری جان ادھر آؤ، وہ اسکے لہنگے کو پکڑتے بولیں ۔ تو نیناں بھی خاموشی سے ایک ہاتھ انکے  کندھے ہے رکھتے سہارہ لیا۔۔۔

      پھپھو جان یہ کیا ہے ۔۔ بھلا مایوں میں ایسا ڈریس کون پہنتا ہے۔۔ سب کتنا ہنسے گے اور باتیں بھی کریں گے۔  

     نیناں منہ بناتے صوفے پر کھڑی ہوتی بولی ۔ جبکہ سب اسکے لہنگے کو دیکھ رہے تھے ۔

       بلیک کلر کی خوبصورت سی میکسی ، جسپے ڈائمنڈ کے موتی واضح چمک رہے تھے جبکہ سونے کی باریک گولڈن کلر کا انتہائی نفاست سے کیا گیا کام میکسی کو اور بھی حسین بنا دی

رہا تھا  پوری میکسی  گول گول ہوتی غبارے کے جیسی پھیلی تھی اسکی ٹیل بالکل مچھلی کے جیسے اب بھی فرش ہے پڑی تھی۔ 

            پھپھو یہ دیکھیں اس کا دوپٹہ بھی کیسا ہے چھوٹا سا ۔۔۔اب میں کیا کروں۔۔۔ کون لایا یہ ڈریس ۔۔ وہ روتی ہوئی دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا گئی۔  ۔

   شمائلہ نے ہڑبڑاتے اسکے رونے پر ایک نظر اسے دیکھا ۔۔  جو اس وقت بلیک کلر کی انتہائی خوبصورت میکسی میں دمکتی کانچ کی گڑیا محسوس ہو رہی تھی۔۔۔  اسکا نازک سا سراپہ میکسی میں بالکل چھپ سا گیا تھا۔ 

        میم یو آر  لکنگ سو پریٹی۔۔۔۔ بیوٹیشن نے  ٹرانس کی  سی کیفیت میں اس گڑیا جیسی لڑکی کو دیکھا، اور چلتی اسکے سامنے ائی۔۔۔

       بیوٹیشن کے کہنے پر نیناں نے ہچکیاں بھرتے بیوٹیشن کو دیکھا، جو رشک سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

۔

لگتا ہے کافی محبت کرتے ہیں آپ کے ہونے والے شوہر ۔۔ آج تک ایسی قیمتی برائیڈل ڈریس میں نے نہیں دیکھی، مگر ماننا پڑے گا ڈریس سے زیادہ تو آپ خود خوبصورت ہیں۔۔۔ اسی لیے تو یہ بے جان سا ڈریس بھی دمک رہا ہے ۔ 

   بیوٹیشن نے مسکراتے اسے سمجھایا۔۔۔ تو نیناں نے ایک نظر رمشہ اور شمائلہ کو دیکھا ، جو نیناں کے دیکھنے پر مسکراتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔ 

مگر پھپھو اس کا رنگ بھی تو دیکھیں۔۔۔۔نیناں نے پھر سے کہا اور نیچے بیٹھتے آرام سے اترنا چاہا مبادا اس رضائی میں لپٹتے خود ہی ناں گر جائے۔۔۔

   بیٹا اجکل تو لوگ شادی والے دن کالا پہننے لگے ہیں اور تمہاری تو پھر بھی مایوں ہے۔۔ وہ پیار سے اسکی تھوڑی چومتے ہوئے بولی۔۔ تو نیناں سوچ میں پڑ گئی ۔۔ 

   اچھا۔۔۔۔۔۔ تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ 

اچھا آپ آئیں میں آپ کو پیارا سا تیار کرتی ہوں۔۔  بیوٹیشن نے مسکراتے اسکے نازک ہاتھ کو پکڑتے صوفے سے اتارا اور چئیر پر بٹھاتے کہا تو نیناں فورا سے سر ہلا گئی۔۔

      اللہ بس میری بچیوں کو نظر بد سے بچائے ۔۔۔ اچھا بیٹا میں آتی ہوں جلدی سے تیار کرو بیٹا، وقت ہو رہا ہے، شمائلہ کہتی باہر کی جانب بڑھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                       کیوں بار بار کال کر رہی ہو یسری جب میں نے بتایا ہے کہ ابھی میں بزی ہوں ، وہ قدرے آرام دہ گوشے میں کھڑا ہوتا سرگوشی کی سی آواز میں بولا۔۔

                 حسن یاد رکھنا اگر تم نے اس نیناں سے شادی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ 

      یسری تپی بیٹھی تھی۔۔  کیوں پریشان ہو تم میں صرف نام کی شادی کر رہا ہوں، اس سے ۔۔۔ جانتی تو ہو سب پھر بھی پریشان ہو۔۔۔ وہ غصے سے کہتا ایک نظر آگے پیچھے دیکھنے لگا۔۔

    مگر ، سب کو مصروف دیکھ وہ قدرے پرسکون سا ہوا۔۔  

حسن دیکھو اس وقت تمہیں میرے ساتھ  ہونا چاہیے ، حالت دیکھو میری اگر مجھے یا میرے بچے کو کچھ۔۔۔۔ آں۔۔۔۔ وہ کہتی یکدم سے صوفے سے پٹکتی نیچے گری ۔۔  اس کی دلدوز چیخ  پر حسن کی جان لبوں پہ آئی ۔۔

۔۔یسری  کیا ہوا ہیلو جواب دو۔۔۔ ہیلو پلیز ہسری۔۔۔۔ 

ححسسسن۔۔۔ فون سے آتی مدہم سی آواز کے بعد مکمل خاموشی چھا گئی۔۔۔ وہ پریشان سا بھاگتا  گاڑی کی طرف بڑھا، اس وقت اسے اپنے آنے والے بچے کی فکر تھی، باقی جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                 اٹھو فدک کیا ہے  جب سے آیا ہوں سو رہی ہو ۔۔۔ یار اٹھ جاو۔۔ وہ مسلسل اسکے سر پر کھڑا اسے جگا رہا تھا ، مگر لگاتار دس منٹ تک جگاتے وہ زچ ہو چکا تھا 

  دوسری جانب وہ  زور سے آنکھیں میچیں کمفرٹر تانے لیٹی ہوئی تھی ۔

 آج جاتے ہوئے کہا بھی تھا کہ سونے کی کوشش بھی مت کرنا تو پھر اٹھ جاؤ فدک ورنہ۔۔۔۔۔۔۔

            وہ لاسٹ وارننگ دیتے بولا مگر فدک کو ویسے ہی لیٹا دیکھ وہ کچھ سوچتے آگے بڑھا  اور زور سے کمفرٹر   اتارتے نیچے پھینکا ۔۔ 

    میں اٹھ گئی رافع دد دیکھو۔۔۔ 

جیسے ہی رافع نے اٹھاتے اسے بازوؤں میں بھرا وہ مچلتی آنکھیں کھولتے بولی۔۔

نو نو فدک تو سوئی ہوئی ہے ، ڈونٹ وری میں  خود اٹھاؤں گا۔  وہ کہتا اسکی اڑی رنگت کو دیکھتے   واشروم کا دروازہ کھولتے اندر بڑھا اور جھٹکے سے اتارتے اسے شاور کے نیچے کیا۔۔

نو نو ۔ رافع پہ پلیز نو۔۔

اششش وہ ہڑبڑاتے اسے روکنے لگی، مگر آیک دم سے وہ اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتا بھاری گھمبیر آواز میں کہتا اسے خاموش کرواتا شاور آن کر گیا ۔

 رافع بند کرو میری پٹی۔۔۔ وہ ہڑبڑاتی اسے اپنا ہاتھ دیکھانے لگی جہاں پر ابھی بھی زخم مندمل سا تھا۔۔

      جبکہ دوسری جانب وہ اسکے بھیگے مدہوش کن سراپے کو مدہوش سا دیکھنے لگا۔۔۔ پانی کی وجہ سے اسکے کپڑے جسم سے چپکے ہوئے تھے۔ رافع کی گہری نظروں کو محسوس کرتی وہ کانپتی خود کو بازوؤں سے چھپانے لگی 

کہ یکدم سے وہ جھٹکے سے فاصلہ مٹاتے اسے اپنے سینے سے لگا گیا ۔  

فدک کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی ۔۔ وہ کانپتی اسکے۔ حصار سے نکلنے لگی کہ وہ اپنی جانب کھینچتے اس پر سائے کے جیسے جھکتے اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لے گیا ۔۔  وہ  مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی تھکتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچ گئی ۔

۔جبکہ وہ مدہوش سا  اسکے ہونٹوں کی نرماہٹ کو محسوس کرتا بے خود سا تھا۔۔  

  اسکے بے جان ہوتے جسم کے گرد اپنا حصار باندھتے وہ اسے اٹھاتے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا۔۔

یہ لو  ڈریس ۔۔ چینج کر کے آؤ ،نہیں تو میرا ابھی کوئی حاص موڈ بھی نہیں ڈنر پر جانے کا، وہ تولیے سے اسکے بالوں کو خشک کرتا ، اس کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا،  کہتے اسکے ہاتھ میں اپنی لائی ڈریس تھماتا روم سے باہر کی جانب بڑھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                       "  وہ روم میں داخل ہوتی اسے دیکھ ٹھٹک کر رکی، جو اس وقت آسمان سے اتری ہوئی اپسرا محسوس ہو رہی تھی۔۔

بلیک میکسی جس نے چاروں طرف سے پورے روم کو گھیرا ہو اتھا، ماتھے پر پہنے پھولوں کے بنے مانگ ٹیکے ، بیوٹیشن کے ہاتھوں کے ہلکے سے میک اپ اور ڈھیلے سے جوڑے میں وہ بے تخاشہ خوبصورت دکھ رہی تھی ۔ پاؤں پر بھاری میکسی کی وجہ سے پہلی بار ہیل پہنے  ،سر پر سلیقے سے باریک نٹ والا دوپٹہ سیٹ کیے وہ سوگوار سی گہری کالی سرخ ہوتی آنکھوں اور چھوٹی سی ناک میں کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی تھی۔۔۔

ارے ماشاءاللہ اگر آج اتنا روپ آیا ہے تو کل تو کیا غضب ڈھائے گی ۔۔۔ بی جان کے ساتھ آتی انکے۔ خاندان کی اماں بوا نے منہ پر ہاتھ رکھتے کہا، اور بی جان نے مسکراتے اپنی  جان عزیز پوتی کا صدقہ اتارا، 

چلو بیٹا پہلے تمہاری ہلدی ہو گی اسکے بعد تم دونوں کی ایک ساتھ مہندی کی رسم ہو گی اشعر اور حسن کے ساتھ، سلمیٰ نے آگے ہوتے بیٹی کا ہاتھ پکڑتے کہا، رمشہ جو خود اپنی ماں سے شرمندہ تھی مگر بولی کچھ نہیں، وہ جانتی تھی اسکی مما اسے بےتحاشہ چاہتی ہیں اور اسے لے کر انکے بھی کچھ خواب ہوں گے ، مگر اب وہ کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اسکے پاپا اس سے نفرت کرنا شروع کر دیں۔۔

    وہ خوش تھی کہ اسکے رب نے اسکی نادانی کے باوجود اشعر کو اسکے نصیب میں لکھا ، جس کے ہر عمل سے اسے اپنے لیے بے گناہ محبت محسوس ہوتی تھی۔۔۔

مما ۔۔۔ وہ اپنی مما کا ہاتھ دباتے انہیں روکتی بولی ، ایک بار اپنے رویے کی معافی مانگنا ضروری تھا ، مگر سلمیٰ اسے اگنور کرتی اپنے ساتھ لیے باہر کو گئی ۔

        نیناں کو یہ کالا ہی رنگ ملا تھا پہننے کو ، کہاں گیا وہ ڈریس جو  شمائلہ لائی تھی تم دونوں کا ایک جیسا  میچنگ۔۔ وہ باہر کو جاتے قدرے سرگوشی میں بولی، مبادا کوئی خاندان کی عورت سنتے شور ناں مچائے۔۔ مما وہ ڈریس کسی نے کاٹ دیا ہے جگہ جگہ سے اسی لیے مجبوراً اسے یہ پہننا پڑا، اور آپ دیکھیں تو   سب کتنی تعریف کر رہیں ہیں ، اجکل ایسی باتیں کوئی بھی نہیں سوچتا ۔۔ 

         مما کے روم میں جاتے وہ پیار سے سمجھاتے بولی ، لہجہ نارمل تھا کہیں پھر سے وہ ہرٹ ناں ہو جائیں۔۔۔

۔

ہمم سب سمجھ آ رہا ہے مجھے جو یہ تم اپنی پھپھو کی زبان بول رہی ہو ناں۔۔۔ 

خود تو اپنی پسند سے شادی کر لی تھی میڈم نے ۔۔۔ اپنے باپ ، بھائیوں کا مان بھی ناں رکھا ، اور جب ولید اس دنیا سے گیا تو کیسے روتے ہوئے آ گئی۔۔

اچھا ہی ہوا تھا جو تمہارے باپ نے اسے دھکے دیتے نکال دیا وہ اسی لائق تھی ۔۔ وہ زہر خند ہوتی اپنی بیٹی کو دیکھتے بولیں ۔ تو اس قدر  نفرت اپنی مما کے دل میں دیکھتے وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئی ۔

وہ سب جان چکی تھی اسکے پاپا نے ہی اسے بتایا تھا کہ کیسے رضا انکل جو کہ ولید کے جگری دوست بھی تھے وہ شمائلہ کا رشتہ لیے آئے تھے ، مگر سلمیٰ کی ضد کہ وہ اسے اپنی بھابھی بنانا چاہتی تھیں مگر ولید نے سراسر انکار کر دیا  کہ وہ اپنی لاڈوں پلی بہن ایک آوارہ کو کبھی نہیں دیں گے ، 

                     مگر حامد  نے سلمیٰ کے بہکاوے  میں آتے ولید کو دھمکی دیتے رضا کے رشتے سے انکار کر دیا اور سلمیٰ کے آوارہ لوفر بھائی سے شمائلہ کا رشتہ طے کر دیا، 

یہی وجہ تھی کہ مجبوراً ولید نے اپنی رضا سے شمائلہ اور رضا کی شادی کروائی تھی، حامد اسے تو کچھ ناں کہہ سکا مگر شمائلہ سے رشتہ توڑ لیا، اور پھر دوسری جانب ایکسیڈنٹ میں سلمیٰ کا بھائی جان بحق ہو گیا جس کا الزام وہ شمائلہ کو دیتے اس سے ابھی تک بیر اور نفرت باندھے ہوئے تھیں ۔۔

مما میں دعا کروں گی کہ آپ جلد ہی اپنی غلطی کو سدھار لیں، یہاں کوئی بھی ہمارا برا نہیں چاہتا سب ہمارے اپنے ہیں۔   اور ہر کوئی ہمیں چاہتا ہے، 

وہ کہتی سلمی کا کندھا تھپکتی باتھروم کی جانب بڑھی ، پیچھے وہ نخوت سے سوچتے سر جھٹکتے رہ گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دائیں بائیں جلتی سپورٹ لائٹس میں ردا اور اسکی باقی دوستیں اسکے سر کے اوپر  چادر کو ایک ایک کونے سے پکڑتے نیناں کے قدم سے قدم ملاتی  آگے بڑھی۔۔    سٹیج۔ کے سامنے  بیٹھی عورتیں اور لڑکیاں منہ پر ہاتھ رکھے کالے جوڑے میں سوگوار سی  حسن کی مورت کو دیکھتے  ششدر سی تھیں۔۔۔ ہر کوئی سرگوشی کرتا دکھائی دے رہا تھا ، کوئی حاسد۔ بنا ، تو کوئی سراہتے خوش ہوتے اسے دعائیں دے رہا تھا، جبکہ ان سب سے بے خبر وہ ڈری سہمی سی اپنی ان چاہی زندگی کی ایک اور منزل کو قریب  تر دیکھتے دل کو ہاتھوں میں لیے تھی ۔ اسکا دل اسے اپنے کانوں میں گونجتا سنائی دے رہا تھا،۔ اسٹیج کے قریب جاتے ہی اشعر نے ہاتھ آگے بڑھاتے مسکراتے اسکی جانب دیکھا، 

نیناں ٹھٹکتی ایک نظر سامنے والے کے ہاتھ کو دیکھتی اوپر کی جانب دیکھنے لگی ۔۔ جہاں سفید شلوار قمیض کے ساتھ پیلے  دوپٹے کو گلے میں ڈالے ،بالوں کو جیل سے سیٹ کیے اسکا پچپن کا ہم راز اس کا دوست ،بھائی اسکے سامنے تھا ، وہ قدرے پرسکون ہوتی مسکراتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھما گئی ۔۔۔

۔اسکے مسکرانے پر گالوں پر نمودار ہوتے ڈمپل کو دیکھ کسی کے دل کی دھڑکن بے تخاشہ بڑھی، آنکھیں سامنے والے منظر کو دیکھ شعلے اگلتی سرخ تھیں۔   وہ  محسوس اسٹائل میں پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ،چکر کاٹتا اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔

      اشعر اسے لیے بڑھتا اسیٹج پر بٹھاتے اپنے ہاتھ سے ہلدی اسکی ناک پر لگا گیا، 

جبکہ اسکی حرکت پر لڑکیوں کے قہقہے جبکہ نیناں کے گال غصے اور خفکی سے پھولے وہ اسے غصے سے گھورنے لگی جو ہاتھ کانوں کو لگاتا سوری کرتا ایک سائیڈ ہوا، 

کہا تھا ناں کہ ہلدی اپنی دوست کو سب سے پہلے میں لگاؤں گا وہ مسکراتے کہتے ڈھیروں نوٹ اسکے سر پر سے وارتے ایک جانب کھڑے ڈھول والوں کو تھما گیا۔ جبکہ اسکے کہنے کے انداز پر نیناں کی آنکھوں میں نمی سی اتری ۔۔  

کل ہی نکاح کریں گے پگلی آج کیوں روئے جا رہی ہو۔۔ وہ اسکی آنکھیں نم دیکھ فوراً سے مسکراتا بولا ، تو وہ روتے سے مسکرا دی ۔اسکے بعد بی جان اور سب نے باری باری اسکی رسم کی ۔ اور ڈھیروں دعائیں دیں ۔

رسم ہوتے ہی ردا اسے لیے اندر کی جانب گئی کیونکہ ابھی رمشہ اور نیناں دونوں کی مایوں کا فنکشن تھا، اور نیناں کا ریسٹ کرنا بھی ضروری تھا۔۔

ارے بھائی صاحب حسن بیٹا کدھر ہے ابھی تھوڑی دیر میں مایوں شروع ہو جائیں گی اشعر بھی آ گیا ہے سب اس کا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔

رضا ایک جانب پریشان سے کھڑے حامد کے پاس آتے بولا تو حامد نے پریشانی سے اسے دیکھا،

پتہ نہیں نالائق عین وقت پر غائب ہے۔۔میں کال کر رہا ہوں آتا ہی ہو گا۔

حامد انہیں تسلی دیتے پھر سے نمبر ملانے لگے تو رضا بھی مہانوں کی جانب بڑھے۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ردا یار میں منہ دھو لوں ، مجھے عجیب سا لگ رہا ہے وہ روم میں آتے ہی   منہ بناتے بیڈ پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھتے بولی۔۔

نو نیناں نیور ۔۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔ یہ شگن کی ہلدی ہے اچھی ہوتی ہے جب خشک ہو گی تب فیس واش کرنا اوکے تم ریسٹ کرو جب تک میں آنٹی کی تھوڑی بہت ہیلپ کروا دوں شاید بہو بنا لیں خوش ہو کر ، وہ مسکراتے آنکھ دبا کر بولی تو اسکی بات پر نیناں نے مسکراہٹ چھپائی ۔۔۔ اچھا جاؤ ہیلپ کروا دو، شاید کچھ چانس بن جائیں ، نیناں بھی اسی کے انداز میں مسکراتے بولی، تو کمرے میں دونوں کا جاندار قہقہہ گونجا۔۔

۔نیناں تم جانتی ہو کہ تم مجھے کس قدر عزیز ہو ۔ میں تو آنا ہی نہیں چاہتی تھی مجھے وہ حسن بالکل اچھا نہیں لگتا ،مگر میری جان صرف تمہارے لیے آئی ہوں۔ دیکھنا اللہ تمہارے نصیب ضرور اچھے کریں گے اب میں چلتی ہوں وہ مسکراتے اسکے ہاتھ کو دباتی کہتے باہر کو گئی۔۔۔

پیچھے وہ سوچتی آنکھیں موندے تکیے سیٹ کرتے ٹیک لگا گئی ۔۔ 

ایک آنسو اسکی آنکھیں سے بہتا اسے رخسار کو بھگو گیا ۔

معا کمرے میں کچھ عجیب سا محسوس کرتے وہ جھٹ سے آنکھیں کھول گئی۔۔ مگر پورے کمرے میں اندھیرا دیکھتے وہ ڈرتی جھٹ سے بیڈ پر سے اتری ۔۔۔ اس کی خوشبو اسے اپنے آس پاس بکھرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ، اس کا دل دھک دھک کرتا باہر نکلنے کو تھا، وہ سمجھتی ایک پل ضائع کیے  بغیر دبے قدموں سے روم سے نکلنے لگی۔۔

مگر کاش یہ اس کے لیے ممکن ہوتا۔۔

ڈارلنگ اب تک تو عادت ہو جانی چاہیے تھی تمہیں ۔۔ ابھی تک نہیں پہچان پائی۔۔۔ 

وہ  اسے جھٹکے سے کھینچتا اسکی پشت کو سینے سے لگائے محسوس انداز میں  اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے بولا۔۔

وہی   آواز، وہی لمس، وہی گرفت، وہی خوشبو،، وررر وریام۔۔۔۔۔ وہ توڑ توڑ کر اسکا نام لیتی بامشکل سے بولی تو وریام کے چہرے ہے ایک خوبصورت مسکراہٹ بکھری ۔۔۔ 

جی جان وریام ۔۔۔ میں آیا ہوں تمہیں لینے شاید بھول گئی آج ہمارے وعدے کے مطابق پانچواں دن ہے تو ۔ مجھے تو آنا ہی تھا، وہ جھکتا اسکے کان میں سرگوشی کرتا اس  سے اٹھتی ہلدی اور دیگر خوشبوؤں کو  خود میں اتارنے لگا۔۔

      پپ پلیز چھوڑو مجھے مم میں نے کیا بگاڑا ہے تت تمہارا ۔۔ وہ ڈرتی التجائیہ ہوئی مگر اگلے کو اس التجا سے کیا فرق پڑنا تھا۔۔ وہ سنی ان سنی کرتا اسے چھوڑتا دوبارہ سے لائٹ آن کرتے اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگا ۔

ویسے فٹنگ تو ٹھیک ہی ہے، اندازہ اچھا تھا میرا ، وہ بلیک ٹیکسیڈو میں شاہانہ لباس میں کھڑا اپنی سحر انگیز شخصیت سے مسکراتے  اسے دیکھ بولا ۔

                چچچ چھوڑو مجھے۔۔ وہ ہوش میں آتی اس سے اپنا آپ چھڑوانے کے لیے مچلنے لگی کہ وہ مسکراتا اسکی کمر سے حصار کو توڑتے اسے اپنے سامنے کرتا اسکی کلائیوں کو مروڑتے اسکی پشت پر لگا گیا ۔

یہ سب اس قدر اچانک ہوا کہ نیناں ہکی بکی سی  اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جس کے چہرے پر فتح ، جیت کی مسکراہٹ تھی۔۔۔

۔

اتنی بھی کیا جلدی ہے نین۔۔۔ ایک بار جی بھر کر دیکھ تو لینے دو، سراہنے کو تو رات باقی ہے ۔۔ وہ جھکتا اسکی گہری کالی سرخ آنکھوں میں اپنی بھوری پرشوک آنکھیں گھاڑتا بولا، 

دونوں کی آنکھیں سرخ ہوتی انگارا تھیں ۔ بس فرق یہ تھا کہ ایک کی آنکھوں میں نفرت کی سرخی تھی تو دوسرے کی آنکھیں فتح اور خمار سے سرخ تھیں۔۔  شو میں یور ڈمپل ۔۔ وہ مسکراتا اپنے ایک ہاتھ میں اسکے دونوں بازوؤں کو پکڑتے دوسرے سے اسکی گلاب کے مانند چمکتی رخسار کو سہلاتے ہوئے فرمائشی انداز میں بولا۔۔

   وہ جو اپنی پوری طاقت سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش میں مصروف تھی ۔اچانک اس کے لمس اور بھاری بھوجل لہجے میں ہوتی سرگوشی پر دم سادھ گئی ۔ وہ سانس روکے کھڑی ہو گئی جیسے اگلا سانس لیا تو وریام ناجانے کیا کرے گا ۔

    آہاں ۔۔ یار ایسے کوئی فائدہ نہیں سانس روکنے کا، یہ کام تو میں خود پراپرلی کروں گا جان ۔۔ ٹیک اٹ ایزی۔۔ وہ مخنی خیزی سے اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے ایک ہاتھ اسکے جوڑے میں پھنساتے اپنے قریب تر کر گیا اتنا کہ نیناں کو لگا کہ اگلا سانس لیا ناک اسکی ناک سے مس ہو جائے گی ۔

        وہ سہمے خرگوش کی طرح ڈرتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے نفی میں سر ہلاتے اسکے شانوں پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔ جو مسکراتا اس کی نادان سی کوشش کو دیکھتا جھٹکے  سے اسکا  دوپٹہ اتارتے بیڈ پہ اچھالتے  اسکا جوڑا کھول گیا۔۔ 

     اسکے ریمشی لمبے کالے بال جھٹکے سے کھلتے مقابل کے شانوں پہ بکھرتے سایہ سا کر گئے ، جو گہرے سانس بھرتا انکی خوشبو کو خود میں سمونے لگا۔۔

       جبکہ وہ غصے سے سر اٹھاتے اسے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی منہ موڑ گئی۔ ۔۔۔

    ویسے یہ تو نا انصافی ہوئی میرے ساتھ ، وہ اسے مسلسل خاموش رخ موڑے اپنے حصار میں کھڑا دیکھ کچھ سوچتا بولا۔ وہ ہنوز ویسے ہی کھڑی رہی مگر اسکا پورا جسم کان بنا وریام کی جانب متوجہ تھا۔۔

   تمہیں پتہ ہے کل پوری رات میں پاکستان کی  ویڈنگز میں ساری رسمیں دیکھتا رہا کہ کونسی رسم کیسے ہوتی ہے اور یہاں دیکھو تم نے میرے بغیر ہی ہلدی لگا لی ۔ وہ مسکراتے انگلی اسکی تھوڑی پہ رکھتا اسکا چہرہ سامنے کرتا بولا، تو نیناں کو وخشت اور خوف نے آن گھیرا۔۔

 وہ مسکراتا نیناں کے بازؤں کو پکڑتے اپنے گلے کے گرد حصار باندھتے اسکی کمر کو جکڑتے اپنے قریب کر گیا کہ وہ ڈرتی اسکے ارادے بھانپتے بن پانی مچھلی کی طرح تڑپتی اسکے حصار کو توڑنے لگی ۔۔ مگر ایک دم سے وہ ساکت بت بن گئی ۔۔ اسکا سارا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا۔۔ وہ ڈرتی اپنی ناخون وریام کی گردن پر زور سے گاڑھ گئی۔۔ جو مسکراتے اپنے گال اسکی ہلدی والے گال سے رگڑتا مسرور سا ہوتا گہرے سانس بھرنے لگا۔

   معا باہر دروازے پر ہوتی دستک پر نیناں کے جسم سے جان جیسے نکلنے کو تھی وہ روتے اسے خاموش آنسوں پیتے اپنے سے دور کرنے لگی ، جو کہ وریام کی مرضی کے بنا کہاں ممکن تھا، وہ پرسکون سا دونوں گال پر ہلدی اسکے گالوں پر سے صاف کرتا اپنے گالوں پر لگا گیا۔ 

   وو ورر وریام۔ بب باہر کک کوئی آ تت تم جج جاؤ۔۔۔ وہ ڈرتی کپکپاتے بمشکل سے خشک خلق کو تر کرتے بولی ،اسکی ہلکی سی مدہم سرگوشی کو سنتے وہ غور سے اسے دیکھنے لگا ۔۔ 

   تو ۔۔۔ وہ یکدم اسے جھٹکے سے دور کرتا بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ جماتے بیٹھ نارمل سے انداز میں بولا، وہیں وہ گرتی بامشکل خود کو سنبھالتی میکسی کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے پیچھے کرتی اسکی جانب بڑھی ۔ جو بالکل نارمل انداز میں اسے جلا رہا تھا ۔

        نیناں دروازہ کھولو سب باہر انتظار کر رہے ہیں میڈم ، دفع ہو آؤ منہوس ۔۔۔۔۔ دروازے کے باہر سے آتی سلمیٰ کی آواز پر اسکی رنگت سپید لٹھے کی مانند ہو گئی ۔  وہ پوری آنکھیں حیرت سے کھولتی ہوش میں آتی وریام کو بازوؤں سے جھنجھوڑتے اٹھانے لگی۔۔ 

وریام پلیز جاؤ ابھی ۔۔۔۔ پلیز جاؤ۔۔۔۔  وہ روتی اسے کندھے سے پکڑتے جھنجھوڑتے ہوئے بولی ۔۔۔

نین ۔۔۔ ریلیکس کالم ڈاؤن ۔۔۔ وہ اسے پرسکون کرتے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا۔۔ 

    وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی جو اپنے سوٹ کو ٹھیک کرتا دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ نیناں سمجھتی اسکی جانب لپکی جب تک کہ وہ دروازہ کھول چکا تھا ۔

اوہ آپ۔۔۔ ویلکم ممانی ۔۔۔۔ وہ مسکراتے سلمیٰ  کو پہلے ناسمجھی کا ریاکشن دیتے بولے اور سائیڈ ہوتے اندر آنے کی جگہ دی ۔ 

جبکہ سلمیٰ ہکا بکا سی وریام کو دیکھتے اندر ایک جانب ڈری سہمی بکھری ہوئی حالت میں کھڑی نیناں کو دیکھ منہ پر ہاتھ رکھ گئی ۔

تم یہاں کیا کر رہے ہو لڑکے اور نیناں تم اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہاں پر۔ ۔  وہ غصے سے چیختی دونوں سے جواب دہ ہوئیں ۔ نیناں نے ڈرتے آگے ہوتے انہیں سمجھانا چاہا کہ میکسی میں پاؤں اٹکتے وہ گرتی کہ وریام نے آگے بڑھتے پیار سے اسے تھاما۔۔۔ نین جان ۔ کیا ہے کیوں حیال نہیں رکھتی اپنا، اگر کچھ ہو جاتا۔۔ وہ پیار سے اسے تھامتے نرمی ،محبت  سے ڈانٹتے بولا تو سلمیٰ کو جھٹکا لگا ۔

    وہ دوڑتی باہر کو بڑھی ۔ ممانی پلیز سب کو بلانا کوئی رہ نا جائے۔۔ سلمیٰ کو نکلتے دیکھ وہ آواز دیتا ہدایت سے بولا جو کہ یقیناً  سب کو بلانے جا رہی تھی۔۔ 

    گھٹیا ،ذلیل انسان  میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ وہ آگے ہوتی دونوں ہاتھوں کے مکے اسکے سینے پہ مارنے لگی۔۔ جو کی ہنوز ہاتھ جیبوں میں پھنسائے پرسکون سا کھڑا تھا ۔

    ہو گیا۔۔ معا اسے تھکتے سانس بھرتا دیکھ وہ  پرسکون سا بولا تو نیناں نے سر اٹھاتے اسے غصے سے گھورا۔۔ جو اپنی جیب سے جانے کیا نکال رہا تھا۔ 

  نیناں ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی جو اسکے ریشمی کمر سے نیچے جاتے بالوں کو کسی ماہر بیوٹیشن کی طرح پکڑتے فولڈ کرنے لگا۔۔ چھوڑو ہاتھ مت لگاؤ وہ غصے سے چیختی اسے باز رکھنے لگی ۔۔ شٹ اپ کیا چاہتی ہو کہ سب تمہیں اس حال میں دیکھیں اور پھر تمہارے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنائے ۔ وہ غصے سے  اسے جھڑکتے بولا، 

 تو  وہ خاموش کھڑی آنسو بہانے لگی۔۔ وہ ایک نظر اسکے آنسوں سے بھرے چہرے کو دیکھتے   ، لب بھینچتے جوڑا بناتے دوپٹہ  بیڈ پر سے اٹھاتے سیٹ کرگیا ۔۔۔

نیناں خاموش کھڑی اسے گھورنے لگی ۔ کیا دیکھ رہی ہو۔ چار دن کی پریکٹس ہے ۔ وہ اسکے گھورنے پر مسکراتے اسکی ناک پر لب رکھتے بولا، تو شرم اور خفت سے نیناں کا دل کیا اس کا منہ توڑ دے۔ ۔ جو  کوئی رشتہ ناں ہونے کے باوجود اس پہ حق جماتا تھا۔۔

   اوکے ادھر آؤ اب وہ اسے خیالوں میں گم دیکھ ۔ ٹشو جگ میں سے گیلا کرتا اسکے  گال صاف کرنے لگا۔ میں خود کر لوں گی دو مجھے اور تم جاؤ۔۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی کہتے اسکے ہاتھ سے ٹشو لینے لگی ۔

 نو نین بے بی اپنے گال تو میں خود صاف کروں گا ہاں تم میرے کر سکتی ہو مجھے کوئی پرابلم نہیں ۔۔ وہ مسکراتے اسے لاجواب کرتا دوبارہ سے کام میں مصروف ہو گیا۔۔ نیناں اس ڈھیٹ کی ضد پہ کلس کہ رہ گئی۔۔۔ 

ہو گیا اب بس کرو۔۔ وہ اس کے ہاتھ کو پکڑتے کہتے سائیڈ ہوئی ۔ وریام ایک نظر اسے دیکھتا مرر کے سامنے آتا اپنا گال صاف کرتے ٹشو جیب میں رکھ گیا ۔۔۔

     جاؤ اب کیا ہے۔۔ وہ اسے ڈھیٹ بنا کھڑا دیکھ بولی ۔ وہ کوئی جواب دیتا کہ کھلے دروازے سے حیرت زدہ سے داخل ہوتے حامد ، بی جان ، شمائلہ اور رضا کو دیکھ چپ ہو گئی۔۔

     اسے لگا کہ  جیسے آج اسکی زندگی کا آخری دن ہو سب کی مشکوک نظریں خود پہ پاتے وہ شرمندہ سی سر جھکائے کھڑی ہو گئی۔۔

 وری بیٹا تم یہاں پہ اور یہ سب ۔۔۔ سلمیٰ تو کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔ شمائلہ پریشان سی اپنے لخت جگر کو دیکھ آگے بڑھتے بولیں کہ رضا نے وریام کو گھورتے شمائلہ کا بازو  پکڑتے اسے روکا،  

کیا جو کچھ سلمیٰ بھابھی کہہ رہی ہیں۔ وہ سچ ہے  تم اس وقت بنا کسی کو بتائے  نیناں کے کمرے میں کیا کر رہے ہو ۔ شک تو انہیں پہلے ہی تھا اور اب تو انہیں یقین ہو چلا تھا کہ ان کا ضدی بیٹا ضرور نیناں کو پسند کرنے لگا ہے ۔

وہ آگے بڑھتے وریام سے جواب دہ ہوئے۔۔ وہ مسکراتے انہیں دیکھ رہا تھا مگر بولا کچھ نہیں ۔۔ بی جان نے آگے ہوتے نیناں کے لرزتے وجود کو حصار میں لیا۔۔

   اچھا ہوا سب آ گئے ۔۔۔ ارے وہ رمشہ کدھر ہے اسے بھی بلائیں ۔ وہ نارمل سے انداز میں پہلے سے سیٹ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا کہ اچانک روم میں اشعر کی اینٹری پر منہ بناتے اسے دیکھا ۔ جو کہ سب کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے یہاں آیا تھا، مگر یہاں پر لگی مخفل پر وہ خود ہراساں سا ہوتا سوری کرتے جانے لگا کہ حامد نے روک لیا ۔

۔وہ خاموش ہوتے ایک جانب کھڑا ہو گیا ۔ 

رمشہ کو چھوڑو ہمیں بتاؤ کہ کیا بات ہے ،حامد گلا کھنکھارتے بآواز بلند مخاطب ہوئے ۔۔

۔شمائلہ نے رضا کے دیکھتے ہاتھ چھڑانا چاہا جو کہ انہیں خاموش رہنے کا بولنے لگے۔۔ 

     سلمیٰ خاموش تماشائی بنی مسکراتے کھڑی تھی ۔۔ یقیناً اب نیناں کی بدنامی پکی تھی اور اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اسکی شادی سے انکار کر دیں گی۔  وہ سوچتی گہرا سانس بھرتی سر جھٹک گئی ۔

    تو بات یہ ہے کہ میں یہاں پر آیا ہوں صرف اور صرف نین کی وجہ سے ۔۔ وہ مسکراتے ہوئے سب کے چہروں کو ایک نظر دیکھتا نیناں کو دیکھ بولا ، جو روتی اسے دیکھ نفی میں سر ہلانے لگی۔۔

 کیوں نیناں کی وجہ سے کیوں ۔ حامد فوراً سے اسے ٹوکتے سخت لہجے میں بولے۔۔ 

ریلیکس انکل ۔۔۔ کول ڈاؤن۔۔۔ وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے انہیں ریلکس کرنے لگا۔

  کیونکہ میں اور نین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔ آئی لو ہر۔۔ اینڈ شی لو می۔۔۔  وہ مسکراتے ایک نظر نیناں کی زدر پڑتی رنگت کو دیکھتے ہوئے بولا ،تو سب نے بے یقینی سے نیناں کو دیکھا ۔  

میں جانتا ہوں گرینڈ ماں کی خوشی کے لیے وہ اس شادی کے لیے راضی ہوئی ہے مگر  میں پاگل نہیں جو کسی کے لیے اپنی محبت سے ہاتھ دھو دوں ۔ میں اسی لیے آیا ہوں تاکہ نیناں کو سمجھا سکوں مگر ممانی نے ناجانے کیا کیا بتایا آپ لوگوں کو جو آپ سب یوں بے یقینی سے آئے ہیں کیا آپ لوگوں کو مجھ پہ یقین نہیں۔۔

۔۔

اشعر نے اسکی بات پہ مسکراتے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا وہ صاف اسکی آنکھوں میں جھلکتے جھوٹ اور نیناں کی محبت واضح دیکھ سکتا تھا ، وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکا خود سب کچھ سنبھال لے گا اب اشعر کو شادی روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرنا پڑے گی ۔

    بی جان ایسی کوئی بات نہیں وریام کیا بول رہے ہیں آپ ۔۔ نیناں بھوکھلاتے ہوئے بولی۔۔ 

نین پلیز یار چلنے دو سب کو پتہ آخر ہماری زندگی تو خراب ناں ہو گی۔۔ وہ بے بسی سے اداس شکل بناتا نیناں کے سامنے جاتے آنکھ دبا گیا ۔ نیناں نے غصے سے اسے گھورا۔۔ وہ سمجھ ناں پائی کہ آخر یہ شحض کیا چاہتا ہے ۔

۔

      ماموں جان اب صرف آپ ہی ہماری مدد کر سکتے ہیں ہماری محبت کو ایک کر دیں۔۔ نین تو یہ قربانی دی لے گی مگر میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا وہ  ساری دنیا کی معصومیت چہرے پہ سجائے  حامد کے گلے لگا ۔ جو بھوکھلا گئے۔۔

   فون چیک کریں انکل۔۔وہ خاموشی سے حامد کے کان میں کہتا سائیڈ ہوا ۔۔ حامد ایک نظر اسے دیکھ موبائل  لیے باہر کی جانب بڑھے۔۔میں ایک منٹ میں ایا۔۔ وہ کہتے ایک سائیڈ کھڑے ہوئے اور موبائل اوپن کیا جہاں ایک انناون نمبر سے کوئی ویڈیو آیا تھا ۔۔۔

وہ کچھ سوچتے ویڈیو اوپن کر گئے مگر اگلے ہی پل وہ حیرت اور بے یقینی سے ششدر رہ گئے ، جب دوڑتے ہوئے حسن کو کسی لڑکی کو ہوسپٹل میں لے جاتے دیکھا۔۔

    حسن کے الفاظ کہ پلیز میری بیوی اور بچے کو بچالیں  ۔۔ وہ بے یقینی سے لڑکھڑاتے قدموں سے دیوار کا سہارہ لے گئے ۔ ویڈیو ایڈٹ کی گئی تھی ۔۔ جیسے یہی دکھانا مقصود ہو، اب کچھ بھی جاننے کو باقی نہیں تھا حامد سمجھ گیا کہ ویڈیو ضرور وریام نے بھیجا ہے۔۔ وہ سنبھلتے اندر کی جانب بڑھے۔۔

وری چلو میرے ساتھ ۔۔  نیناں کی شادی حسن سے ہی ہو گی ۔ تم  آؤ میرے ساتھ۔۔ رضا اسے بازوؤں سے پکڑتے کہتے لے جانے لگے کہ حامد کی آواز پہ رکتے انہیں دیکھنے لگے۔۔

اشعر بیٹا مولوی صاحب کو بلاؤ ، ابھی اور اسی وقت نیناں اور وریام کا نکاح ہو گا۔۔ الفاظ تھے کہ کوئی ناسور ۔۔ نیناں کو لگا کہ ساری دنیا اور آسمان اس کے سر پہ گر گیا  ہو ،پل بھر میں کیا سے کیا ہو گیا تھا۔۔

وہ کچھ کہتی کہ اس سے پہلے ہی حامد ہاتھ جوڑے اسکے سامنے تھے ۔ 

بیٹا معاف کر دو اپنے نالائق باپ کو شاید میں نے فیصلہ لینے میں غلطی کر دی ہے۔۔  وریام ہی تمہارے قابل ہے۔۔ خوش رہو میرا بچہ ۔۔ وہ کہتے اسے بت کا کرتے باہر کی جانب مردہ قدموں سے بڑھے۔۔ انکا دماغ دوہری اذیت کا شکار تھا۔۔ ابھی تک وہ بیٹی کے صدمے سے ٹھیک سے ابھرے نہیں تھے کہ بیٹا بھی دھوکہ دے گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

               وہ بلیو شرٹ اور کوٹ کے نیچے میچنگ جینز اور بوٹ پہنے ،  بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے محسوس کلون لگاتے کب سے تیار کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا جو کہ کب سے باہر نہیں نکلی تھی ۔۔

رافع پریشان ہوتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا۔۔۔ 

فدک آر یو دئیر۔۔ کیا ہوا یار جلدی کرو ڈنر کے لیے لیٹ ہو جائیں گے۔۔۔ وہ ناک کرتا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ 

رافع یہ ڈریس اسکے بازو دیکھیں باریک ہیں اور دوپٹہ بھی ۔۔ وہ اندر سے ہلکی سی آواز میں منمنائی ۔۔۔ جو کہ دروازے کے پاس کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ بامشکل سن پایا ۔۔

اچھا ڈور کھولو میں دیکھتا ہوں۔۔۔ "

وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔ 

فدک فورا سے ڈور کھولتی سائیڈ ہوئی ۔۔ رافع ہکا بکا سا اسے دیکھنے لگا جو کہ بڑی سی شال میں لپٹی بالکل چھپی ہوئی تھی ۔

کیا یار۔۔۔ اتارو اسے۔۔۔ وہ غصے سے جھڑکتے کہنے لگا اور خود ہی آگے ہوتے دوپٹہ اتارتے اسے دیکھنے لگا۔۔

ریڈ پاؤں کو چھوتی گھیرے دار فراک جس پہ خوبصورت نیٹ پہ ریڈ ہی کلر کی  ہوئی  باڈی پہ کڑھائی کے ساتھ حوبصورت بازوں اور گھیرے پہ بھی ہوئی کڑھائی کا کام  پورے فراک کو بے تحاشہ حوبصورت بنا رہا تھا۔۔

  وہ منہ کھولے فدک کے دو آتشہ حسن کو دیکھتے پاگل سا ہونے لگا ۔ جو فراک کے ساتھ ہلکا سا بالوں کو کرل کرتے بیک کمنگ  کیے،  پاؤں میں نفیس وائٹ کلر کی سینڈل پہنے  اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ سامنے کھڑی  رافع کی دل کی دھڑکنیں منتشر کر گئی۔۔

   رافع دیکھیں اس کے بازووں بالکل باریک ہیں، میں کچھ اور  پہن لیتی ہوں۔۔فدک کی آواز پہ وہ ہوش میں آتے اسے دیکھنے لگا۔۔ تو کچھ نہیں ہوتا یار تھوڑی دیر کی تو بات ہے چلو آؤ میرے ساتھ، ڈنر کر کے ہم واپس آ جائیں گے۔۔ 

وہ نظریں چراتا خود پہ ضبط کے پہاڑ بھٹاتے کہتا باہر کو گیا ۔ پیچھے وہ بھی سر ہلاتی دوپٹہ شانوں پہ پھیلاتی باہر جو نکلی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

      نیناں بنت ولید شاہ  آپکا کا نکاح وریام ولد مرتضٰی کاظمی سے بعوض  ایک کروڑ سکہ رائج الوقت طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔"

" مولوی صاحب نے نکاح شروع کرتے بآواز بلند کلمات پڑھے مگر نیناں کے جواب ناں دینے پہ وہ حیرت سے ششدر ایک نظر وہاں موجود بی جان، شمائلہ اور حامد کو دیکھتے رہ گئے۔۔

   حامد نے آگے بڑھتے نیناں کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ ہوش میں آتی انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

 مولوی صاحب نے دوبارہ سے پوچھا ۔۔ وہ آنسو پیتی آنکھیں بند کر گئی آنکھوں کے سامنے وریام فتح مند ہوتا جیت کی خوشی سے اس پہ قہقہ لگاتا دکھائی دیا ۔۔

" وہ دل پہ ضبط کے پہاڑ بٹھاتی قبول ہے کہہ گئی۔۔

  اسکے بعد دوسری، تیسری بار وہ خود ہارتی اسکے نام اپنا آپ کر چکی تھی ، اپنے الفاظ اسے خود پہ طنزیہ مسکراتے محسوس ہوئے ، کیسے وہ اسے دہتکارتے پرسکون تھی ، کہ اب وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے گا اسے کیا معلوم تھا کہ وہ شخص گیا تو تھا اسکی زندگی سے مگر ہمیشہ کے لیے واپس آنے کو ۔ وہ ہارتی لرزتے ہاتھوں سے اپنے موت نامے پہ دستخط کر گئی۔۔۔

  جبکہ دوسری جانب  وہ مسکراتے اسے آپ نام کرتا خوشی سے سب کے گلے ملتے مبارک باد وصول کر رہا تھا اچانک مایوں کی جگہ نکاح پہ سب حیران ضرور تھے ،مگر حامد نے سارے خاندان کو حسن کے  شہر سے باہر پھنس  جانے کا جواز دیتے چپ کروا دیا تھا، ۔

مبارک ہو ۔۔ خوش رکھنا میری دوست کو۔۔۔ اشعر مسکراتا اسکے گلے ملتے مبارک باد دیتے بولا۔۔

دوست نہیں بہن۔۔۔ " وریام مسکراتا۔ اسکا کندھا تھپکتے اپنے ڈیڈ کی جانب بڑھا ،پیچھے وہ مسکراتے نفی میں سر ہلا گیا۔

ڈیڈ ۔۔۔ "وہ مسکراتا رضا کی جانب بڑھا۔۔ مبارک ہو میرے شیر وہ اسے گلے لگاتے پیار سے بولے، تو وریام بھی مسکراتا مبارک باد قبول کرنے لگا۔۔

          بھائی وہ نیناں۔۔۔ ردا جو کہ اچانک وریام اور نیناں کے نکاح پہ حیران پریشان تھی ، اپنا دل ٹوٹنے کا دکھ بھی ہوا تھا اسے ، مگر اپنی دوست کے لیے خوش بھی تھی کہ کم از کم حسن جیسے کمینے سے اسکی جان چھوٹی۔۔

کیا ہوا نین کو ردا کے اچانک کہنے پہ وہ پریشان سا سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگا۔۔ جو اسکی سحر انگیز شخصیت میں کھوئی ہوئی تھی۔۔ "

کچھ نہیں ہوا، وہ بس آنٹی کہہ رہی ہیں کہ وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتی اس وقت۔۔۔اس نے آپ سے ملنے سے انکار کر دیا۔۔"

   ہممم اوکے ڈیڈ میں آتا ہوں وہ سنتا اپنے ڈیڈ سے کہتا  اندر کی جانب بڑھا۔۔

 چہرہ خوشی سے دمکتا پررونق تھا، لبوں پہ اپنے جنون کو اپنے نام کرنے کی، جیت کی خوشی سے بکھری مسکراہٹ دیکھ کئیوں کے دل دھڑکنا بھول گئے۔

وہ بنا ناک کیے اندر داخل ہوا ،جہاں   گھٹنوں میں چہرہ چھپائے میڈم رونے کا شغل فرما رہی تھی ۔

آہٹ پاتے ہی وہ جھٹ سے سر اٹھاتے وریام کو دیکھنے لگی۔۔

 تم نکلو میرے روم سے ۔۔ وہ بھپری ہوئی شیرنی بنی غراتے کہتے اسے دھکا دیتے روم سے نکالنے لگی ۔جو بغیر کچھ کہے پورے استحقاق کے ساتھ اسے گہری نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔

   سنائی نہیں دیا نکلو ۔ وہ پھر سے چیختی اسکی ایکسرے کرتی نظروں کو خود پہ پاتے چلائی کہ وریام مسکراتا۔ پورے استحقاق سے اسے تھامتے اپنے سینے میں بھینج گیا۔ ایسے کیسے سویٹی۔۔۔ ابھی تو تمہیں اپنی ہوس بھی دکھانی ہے ، گھٹیا پن بھی ۔۔۔ "

ہممم ایسے کیسے چلا جاؤں، وہ جھکتا اسکے کانوں میں سرگوشی میں اسی کی کہی باتیں پگھلتے سیسے کہ مانند انڈیلنے لگا، نیناں دم سادھے خوف سے کپکپاتے اسکے کوٹ کو دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں بھینج گئی، جو جھٹکے سے اسے اٹھاتے اپنے بازوؤں میں بھرتا باہر کی جانب بڑھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

انکل میں چاہتا ہوں کہ آپ رمشہ کو میرے ساتھ آج ہی اپنی دعاؤں میں رخصت کر دیں۔۔ 

 اشعر ایک جانب کھڑے حامد کو دیکھتا انکے پاس آتا مودب سا ہوا۔۔

حامد نے چونکتے اسے دیکھا ۔ پر بیٹا۔۔ رخصتی تو کل ہے ،مگر پھر آج ہی کیوں ۔ وہ ناسمجھی سے اشعر کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے ۔

 دیکھیں انکل اس وقت سب موجود ہیں ، پورا خاندان اکھٹا ہوا ہے، کئی لوگ اچانک وریام اور نیناں کے نکاح پہ باتیں بھی بنا رہے ہیں۔  آپ کیا چاہتے ہیں کہ ان سب کو ایک موقع اور مل جائیں آپ کو باتیں سنانے کا، وہ تحمل سے پشت پہ ہاتھ باندھے انہیں سمجھانے لگا ۔

حامد گہری سوچ میں ڈوب گئے، بات تو اشعر کی بھی ٹھیک تھی ،اگر کل رخصتی رکھتے تو یقیناً حسن بھی واپس آ جائے گا  اور پھر جس نے باتیں نہیں بھی بنانی وہ بھی بنائے گا کہ ایک دن انتظار ناں کر سکے بیٹے کا اور بھانجے سے نکاح پڑھوا دیا ۔ 

         وریام یہ کیا کر رہے ہو ۔۔ وری۔۔۔ رکو بات سنو۔۔ پیچھے سے آتی رضا کی آوازوں اور لوگوں کے شور پہ وہ بھاگتے اس جانب بڑھے ، مگر سامنے کا منظر دیکھ دونوں کی آنکھیں حیرت انگیز حد تک پھٹی تھیں، جہاں لوگوں کے  پیچوں پیچ وریام نیناں کو اٹھائے لے جا رہا تھا ۔ 

اسکے پیچھے ہی پریشان سے رضا ، بی جان ، شمائلہ ،ردا سبھی بھاگتے جا رہے تھے ۔۔ مگر سب کو اگنور کرتا ناجانے کدھر جا رہا تھا ، رکو وریام کہاں لے کے جا رہے ہو نیناں کو اتارو نیچے اسے، یہ کوئی طریقہ ہے بھلا،  حامد غصے سے اسکا راستہ روکے کھڑے ہوئے ۔

       نیناں کا دل کیا کہ اس وقت وہ کہیں ایسی جگہ چھپ جائے جہاں اسے یہ شرمندگی ناں اٹھانی پڑے ۔ وہ سخت شرمندگی سے سر جھکائے اس کی بانہوں میں آنسوں بہاتی خاموش تھی۔۔

     کون روک سکتا ہے مجھے ۔۔۔" سرسراتے ہوئے لہجے میں وہ ماتھے پہ بل ڈالے جبا جبا کے بولا،  

    آپ میں سے کوئ بھی نہیں روک سکتا مجھے ، بیوی ہے میری اور میں سب کے سامنے لے کر جا رہا ہوں، کوئی چوری اٹھا کے نہیں۔  اگر کسی میں ہمت ہے تو روک لے ۔ وہ سب پہ ایک نظر ڈالتے  چیلینج کرتے انداز میں کہتا گاڑی کی جانب بڑھا۔۔"

   وریام چھوڑو مجھے۔۔۔ گھٹیا انسان کہیں نہیں جانا میں نے تمہارے ساتھ آئی سمجھ۔۔ اتارو مجھے، نیناں غصے سے کہتی وریام کے ہاتھوں پہ مکے مارنے لگی جو کہ اسکا سیٹ بیلٹ باندھ رہا تھا، سوچنا بھی مت ۔۔ "

"کہ تم مجھ سے بچ پاؤ گی ۔ اگر  چاہتی ہو کہ مجھے مزید غصہ ناں آئے تو چپ چاپ بیٹھی رہو ورنہ خشر بگاڑ دوں گا، وہ وارننگ دیتے لہجے میں کہتا اسکے خوف سے زرد پڑتے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے اپنی سیٹ پہ آیا ۔ اور سپیڈ سے گاڑی بڑھاتا  باہر کی جانب بڑھا۔۔"

پیچھے وہ سب ہکا بکا سے دور جاتی گاڑی کو دیکھتے رہ گئے۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

پاپا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں رخصتی تو کل ہے ناں پھر مما کیا ہوا ہے، وہ پریشان سی اپنی مما کے ہوائیاں اڑتے چہرے کو دیکھ کر پوچھنے  لگی۔  جو ابھی تک شوکڈ تھی کہ آخر کیسے وہ وریام نیناں جیسی لڑکی سے شادی کر گیا ، وہ تو باہر کا سیٹل لڑکا تھا  اسے بھلا کہاں لڑکیوں کی کمی تھی ۔۔کاش کہ انکی بیٹی کے نصیب میں لکھا ہوتا ، انہوں نے پہلے کیوں ناں سوچا تھا اس بابت۔۔ 

مما میں آپ سے پوچھ رہی ہوں، سلمیٰ کو ہنوز کھویا دیکھ وہ بازو سے جھنجھوڑتے ہوئے بولی ۔  ہہہ ہاں کیا ہوا ، سلمیٰ نا سمجھی سے رمشہ کو دیکھتے  پوچھنے لگی۔۔ 

     بیٹا اشعر انتظار کر رہا ہے چلو میرے ساتھ ، حامد  اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے پیار سے کہتے اسے لیے کی جانب بڑھے ،جہاں اشعر سرشار سا کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔  

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اپنے بابا  کا ہاتھ پکڑے  سہج سہج کے قدم اٹھاتی لان میں داخل ہوئی جہاں اشعر کی فیملی ایک جانب اکتائی سی کھڑی تھی ، وہ آگے بڑھتا اپنا ہاتھ رمشہ کے آگے کر گیا۔    

         وہ خاموشی سے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھتے اپنی پاپا کو دیکھنے لگی، جو مسکراتے اپنے لب رمشہ کے سر پہ رکھتے اپنی دعاؤں میں اسے رخصت کر گئے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           " چھوڑو مجھے۔۔ وہ مسلسل اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے چیختی بولی،مگر وہ ہنوز ڈھیٹ بنا اسے اپنے ساتھ کھینچتے اندر کی جانب بڑھا، اتنے بڑے ہوٹل کو دیکھ نیناں کی زبان کو بریک لگا، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے وریام کے اگلے قدم کا سوچنے لگی ، مگر ڈرتے خود ہی سے نفی کر دی۔ 

     سر آپ کی کیز ۔۔ ایک جانب کھڑی مینجر نے مؤدب سا سر جھکاتے روم کی کیز اسے تھمائی ، وہ خاموشی سے کیز پکڑتا  شکریہ کرتا اندر بڑھا، مگر ہوٹل میں موجود خاموشی کو پاتے نیناں کے سچ  میں ہوش اڑے ، وہ اسکے پیچھے کھینچتی چلتے اسکی دراز پشت کو گھورنے لگی۔۔۔۔

   اچانک بالکنی کے ایک جانب جاتے وریام اسکا ہاتھ چھوڑتے روم اوپن کرتا اندر اسے لیے داخل ہوا، نیناں بت بنی پورے روم کو دیکھنے لگی، جس میں حد سے زیادہ پھیلی گلاب کی خوشبو اسکے حواس جھنجھلا گئی۔  وہ ہوش میں آتی سامنے کھڑے وریام کو دیکھنے لگی جو کوٹ اتارتے ایک جانب پھینک چکا تھا، وہ سوچتی باہر کی جانب بھاگی، 

  مگر ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی کلائی اسکی دیکھتی گرفت میں محسوس کرتے وہ دم سادھ گئی ۔ وریام اسے کھینچتا بیڈ کی جانب اچھال گیا ، جسکے سینٹر میں پھولوں سے دل بناتے پورے روم کے فرش کو گلاب کے پھول سے کور  کیا گیا تھا، 

آں۔۔۔۔ جھٹکے سے بیڈ پہ گرتے ایک مدہم سی چیخ نیناں کے منہ سے نکلی، 

وہ سیدھی ہوتے غصے سے وریام کو دیکھنے لگی ، مگر اسے شرٹ کے بٹن کھولتا دیکھ نیناں کے ث

حواس باختہ ہوئے، بلیک شرٹ میں سے اسکا جھلکتا کشادہ سفید  سینہ دیکھ نیناں کے ماتھے پہ پسینے کے قطرے نمودار ہوئے وہ تھوک نگلتے خشک خلق کو تر کرتی اٹھی۔۔ 

      اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اپنی کسی بھی چیپ حرکت میں کامیاب ہو جاؤ گے تو یاد رکھو ، مسٹر وریام مرتضٰی کاظمی میں نیناں ولید شاہ ہوں ، خبردار جو اپنا گھٹیا پن میرے سامنے کرنے کی کوشش کی ۔

وہ غصے سے سرخ انگارہ ہوتی اسکے سامنے انگلی کھڑی کرتے اسے وارن کرنے لگی، جو سر سے پاؤں تک اسکا سجا سنوار روپ پورے استحقاق سے دیکھتے ائبرو اچکاتے اسے دیکھتے گہرا مسکرایا ۔۔۔ 

اوہ رئیلی کون روکے گا مجھے ۔۔۔۔ وہ قدم قدم اٹھاتا نیناں کی جانب بڑھا، جو اسکے بڑھتے قدموں کو دیکھ پیچھے کی جانب الٹے قدم لینے لگی ۔

  نین جان بتاؤ کون روکے گا مجھے وہ اچانک سے دیوار کے ساتھ اسے پکڑتے لگاتے اس سے سوال کرنے لگا ، جو غصے سے اسے گھورتی خود کو مضبوط ثابت کر رہی تھی، 

اففف۔۔۔ یار آگے ہی گھائل کیا ہے اپنی ان اداؤں سے اب کیا جان لینے  کا ارادہ رکھتی ہو، وہ ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے سہلاتے دوسرے سے اسکا دوپٹہ جسے خود سیٹ کیا تھا اتارتا نیچے پھینک گیا 

    تو اب بتاؤ کون روکے گا مجھے ۔۔ تم نے ہی تو کہا تھا کہ میں ایک ہوس پرست ، گھٹیا انسان ہوں ، دیکھو مجھے تمہارے سامنے ہوں ، کیا کوئی روک سکتا ہے مجھے ۔۔۔ ہاہاہاہا وہ اچانک اپنی بات پہ قہقہ لگاتے اسے زچ کرنے لگا، جو خوف سے کپکپاتے اسکا حصار توڑنے کی کوشش میں نڈھال سی تھی۔۔

 کہا تھا ناں کہ مجھ سے ضد مت کرنا ، میرا جنون میری ضد سے بھی برا ہے۔ وہ آہستہ سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکا مانگ ٹیکا اور چھمکے اتارتا اسکے کان پہ لب رکھ گیا۔ نیناں بالکل بے جان سی اسکے حصار میں کھڑی ، سانس روکے ہوئی تھی ۔

    چچ چھوڑو مجھے، وہ وریام کی بڑھتی گستاخیوں پہ اسے خود سے دور کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی ۔

   جبکہ وہ ہاتھ سرکاتے اوپر کی جانب لے گیا اور جھٹکے سے اسکی زپ توڑتے اسکی شرٹ کو نیچے کھسکاتے اپنے دہکتے لب اسکے کندھے پہ رکھے،  وہ مدہوش سا اسکی گردن اور کندھے پہ اپنی محبت برساتا اسے اٹھائے بیڈ کی جانب بڑھا، 

             جانتی ہو ہوس پرست کسے کہتے ہیں ، گھٹیا انسان کسے کہتے ہیں۔۔ وہ ایک دم سے سنجیدہ ہوتا اسکی بند لرزتی آنکھوں کو دیکھ پوچھنے لگا،  تمہارے یہ الفاظ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے نین اگر کسی دن میں خود پہ قابو ناں رکھ پایا۔  نیناں ایک دم سے آنکھیں کھولتے وریام کی بھوری حددرجہ سرخ آنکھوں میں دیکھتی سر جھکا گئی، 

 اسکے لیے وریام کو روک پانا ناممکن تھا اور وہ جانتی تھی کہ وہ شخص کبھی بھی اس کی کسی بھی بات کو نہیں مانے گا۔۔ 

      آہ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے ان گلابوں سے زیادہ اس وقت مجھے تمہاری سانسوں کی مہک بے خود کر رہی ہے۔۔ وہ مسکراتا اسکی معلومات میں اضافہ کرتے اسکی نرم و نازک پنکھڑیوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے گیا،  نیناں مزاحمت کرتے اسے خود سے دور کرنے لگی ، جو کہ اسکے ہاتھوں کو تھامتے تکیے پہ رکھتا اپنی شدت سے اسے پاگل کرنے لگا، لمحہ بہ لمحہ اسکی بڑھتی شدتوں پہ وہ سینے میں الجھتے سانس پہ اپنی پوری طاقت سے اسے خود سے دور کرنے لگی جبکہ  دوسری جانب وہ اسکی مزاخمت دیکھتا اپنے لمس کی شدت میں اضافہ کر گیا۔۔

      وہ چند پلوں میں اسے نڈھال کرتا سر اونچا کیے اسے دیکھنے لگا ، جو کہ بکھرے لباس میں قیامت خیز مدہوش کن سراپے میں اسکی ملکیت میں تھی ، مگر وہ اس ہی ہوتے استحقاق کے باوجود صرف چند ایک گستاخیاں کرتا پیچھے ہوا،  وہ جانتا تھا کہ  ابھی اس وقت وہ اسے کچھ بھی سمجھا نہیں پائے گا ، اور جب تک وہ خود اپنے رویے کی معافی ناں مانگ کے وریام اسے کیسے معاف کر دے،  کیسے اسے اپنی زندگی میں شامل کر دے اس رتبہ پہ بٹھائے جسکے لیے ہزاروں لڑکیاں روز اسکے آگے پیچھے تڑپتی تھیں، مگر یہ جو دل ناچیز جس میں ایک کمزور چھوٹی سی لڑکی  نے بنا بتائے ، بنا دستک دیے اپنےقدم رکھے تھے ، اب کیسے وریام اسے خود سے دور کرتا ، جسے حاصل کرنے ، جسے اپنا بنانے کا جنون رفتہ رفتہ اسکے جسم میں گردش کرتے خون کی طرح تھا ۔

          وہ سوچتا اٹھتے  اسے کمفرٹر اوڑھاتے ،  ایک بار پھر سے ہلکی سی گستاخی کرتا واشروم کی جانب بڑھا،

   پیچھے وہ اسکے رویے کو سوچتی الجھتی رہ گئی مگر اگلی سوچ کہ شاید وہ اسے اپنوں سے دور کر کے بے بس کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سوچتے واشروم کی جانب نفرت سے دیکھتے خود کو مضبوط کرنے لگی، اب چاہے جو ہو جائے یہ تو طہ تھا کہ وہ کبھی بھی وریام کو اپنے نزدیک نہیں آنے دے گی۔۔ وہ حتمی فیصلہ کرتی آنکھیں موند گئی۔۔

ناجانے اب کونسی جنگ تھی جو انکے مابین چلنے والی تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

               وہ آرام سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ، لبوں پہ گہری مسکراہٹ لیے وہ رمشہ کو دیکھنے لگا ،مگر بیڈ پہ اسے ناپاتے وہ گردن گھمائے آگے پیچھے دیکھنے لگا ، سامنے ہی وہ بیزار سی اپنے زیورات کو اتارتی نظر آئی، اسے لاپرواہ سے انداز میں مصروف دیکھ وہ لب دباتا آگے بڑھا اور پیچھے سے  اسے اپنے حصار میں لیا ، اششش آ آپ۔۔ وہ ڈرتی ایک دن سے کسی کے حصار کو پاتے بوکھلائی ،مگر سامنے ہی اپنے مجازی خدا کو دیکھ وہ کپکپاتے بامشکل بولی ، جسکی انکھیوں کا پیغام اسے سر تا پاؤں سرخ کر گیا۔۔

       جج جی اششع اشعر ۔۔۔ وہ بھی اسی کے انداز میں مسکراتے اسکی گردن پہ لب رکھتے بولا، جابجا اپنا لمس چھوڑتے وہ اسے سیدھا کرتا اپنے سینے میں بھینج گیا ۔ اششش مم میں نے چینج کرنا ہے ، وہ جلدی سے کوئی بہانا نا ملنے پہ بمشکل سے بولی، وگرنہ اسے  خود سے دور رکھنا اب کہاں ممکن تھا، 

وہ سر اٹھاتے مسکراتا اسے دیکھ وارڈروب کی جانب بڑھا ، اور اپنا اسی دن والا بلیک سوٹ اسے تھما گیا، رمشہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔

      چینج کر لو،۔  وہ اپنی آنکھوں میں حیرانگی سموئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔  مگر میرے کپڑے۔۔۔ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ پوچھنے لگی ، اب سے میرے کپڑے بھی تمہارے ہی ہیں ، وہ مسکراتے اسے حصار میں لیتے خمار سے بولا تو رمشہ کے لیے نظریں اٹھانا مخال ہوا ، وہ اسے لیے واشروم میں بھیجتا خود پرسکون سا   ، خوبصورتی سے سجے بیڈ پہ لیٹ گیا ، 

             وہ کب سے چینج کیے انگلیاں مروڑتے بے چین سی واشروم میں کھڑی تھی، اس میں اتنی ہمت ناں تھی کہ آج اشعر کا سامنے کر پائے، وہ لب دانتوں میں چباتے سوچنے لگی کہ اشعر کیز سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔۔

   میں جانتا تھا کہ میری معصوم جان خود سے نہیں آ پائے گی دیکھو میں تمہاری مشکل آسان کرنے آیا ہوں، وہ مسکراتے قدم اٹھاتے اسکے پاس کھڑا ہوتا خمار بھری آنکھوں سے  اسے اپنے کپڑوں میں دیکھنے لگا، جس میں رمشہ جیسی  دو اور سما سکتی تھیں ۔

وہ اسے بازوؤں میں بھرتے بیڈ روم کی جانب بڑھا، آہستگی سے اسے بیڈ پہ لٹاتے وہ ہاتھ بڑھاتے لائٹس آف کرتے اس پہ قابض ہوتے اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لے گیا ۔

      کچھ دیر بعد وہ نرمی سے پیچھے ہوتا اسے دیکھنے لگا جو سانس  لیتی خود کو نارمل کر رہی تھی ، اششع۔۔۔ 

 اسے قمیض اتارتے دیکھ وہ بھوکھلاتے بولی، 

     آج نہیں رمشہ جان ۔۔۔ آج میں اپنے ہر عمل سے تمہیں بتاؤں گا کہ تم میرے لیے کب سے اور کتنی ضروری ہو ،بالکل ان سانسوں کی طرح۔۔۔۔وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرتا اسکی گردن پہ جھکا اپنا لمس چھوڑتے اسے پاگل کرنے لگا، اسکی بڑھتی جسارتوں پہ وہ آنکھیں موندے  خود کو اسکے سپرد کر گئی، جو  رفتہ رفتہ بڑھتی رات کے ساتھ اپنے ہر عمل سے اپنی محبت کو اسپے ظاہر کرتا ، اسے  خود میں سمو گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       رافع کہاں لے آئے ہو  مجھے ۔۔۔۔ وہ انجان تاریکی کو محسوس کرتے ڈرتے رافع کا ہاتھ دباتے بولی، جو اسے ریلیکس کرتا ساتھ لیے آگے بڑھا،

رافع اتنا اندھیرا کیوں ہے یہاں پہ ۔۔۔ وہ ڈرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں بھیجتے چہرہ اسکی گردن میں چھپائے بمشکل سے بولی ۔

کیونکہ یہاں پہ جن اور چڑیلیں ہیں۔ ۔۔ وہ مسکراتے  اسکے سر پہ لب رکھتا اسکے گرد اپنا محفوظ حصار بنا گیا۔۔

   ایک دم سے  مدہم سے میوزک کی آواز پہ وہ اسکی گردن سے منہ نکالتی سیدھی ہوئی اور مسکراتے میوزک کو محسوس کرنے لگی ۔ 

جو کہ مدہم سی کوئی برتھڈے سونگ کی دھن تھی ۔۔

وہ سمجھتی ہلکی سی جلتی ہوئی لائٹ میں دمکتے چہرے سے رافع کو دیکھنے لگی ، جو کہ مسکراتا اسکی آنکھوں میں دیکھنا لگا۔۔

ہیپی برتھڈے ڈے مائی لو ۔۔ وہ مسکراتے اسکی کمر کے گرد دونوں بازوؤں لپیٹتے اسکے سر پہ  لب رکھتے پیار سے بولا۔۔

اچانک سے ایک آنسو فدک کی آنکھ سے گرتا اسکے رخسار کو بھگو گیا۔۔

جسے دیکھ رافع جھکتا اپنے ہونٹوں سے شدت سے چن گیا۔۔۔

   اسکا ہاتھ تھامتے وہ سامنے ٹیبل کی جانب بڑھا جہاں پہ ایک خوبصورت سا کیک جس پہ فدک  کے ساتھ ہارٹ بنا ہوا تھا،  اسکے پاس جاتے وہ کینڈلز جلاتے اسکے ہاتھ میں چھری تھماتے کیک کے پاس کھڑا کرتے پیچھے سے اپنے حصار میں لے گیا ۔

وہ مسکراتی کیک کاٹتے اسے کھلانے لگی جو کہ سر کو نفی میں ہلاتے اسکے ہاتھ سے کیک لیتے اسے کھلا گیا ۔ وہ  خاموشی سے اسے دیکھنے لگی ، جو ایک دم سے اسکی گردن میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے قریب کرتا  اسکے ہونٹوں پر لگے کیک کو چنتے آرام سے اسے چھوڑتے پیچھے ہوا ۔ اور  جیب میں ہاتھ ڈالتے ایک خوبصورت سا پینڈنٹ جس میں ہارٹ شیپ کے اندر آر❤️ ایف    لکھا ہوا تھا۔۔ اسکی گردن میں پہنا گیا۔

بیوٹیفل وہ مسمرائز سا ہوتا اسکے گلے میں موجود پینڈنٹ کو دیکھ   جھکتا اپنے لب رکھ گیا۔

وہ شرم سے لال ہوتی نظریں جھکا گئی ۔ کہ رافع مسکراتا اسکا ہاتھ تھامتے اسے لیے ایک جانب بڑھا وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی مگر وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا اسے لیے دوسرے روم میں داخل ہوا ،

سرپرائز۔۔۔ ایک دن سے دروازے کے پیچھے سے دعا اور اسکی باقی کلاس فیلوز نکلتی بولی کہ وہ ڈرتے رافع سے چپک گئی جسے دیکھتے سب نے مسکراتے مخنی خیزی سے اسے دیکھا ، جو کہ فوراً سے پیچھے ہوتے  رافع  سے الگ ہوتی کھڑی ہو گئی ۔

    شوہر کے ساتھ منا لیا ہو برتھڈے  تو اب ہماری باری ، مسکراتے اظہر بھی اندر داخل ہوتے بیٹے کو گھورتے اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھتے دعا دیتے بولے ۔

     جبکہ سب کی محبت میں وہ مسکراتی کھلکھلاتی اپنے بابا کو مس کرتی نم آنکھوں سے سب کو دیکھنے لگی ۔

اٹھو نین۔۔۔ وہ کب سے اسے جگانے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا جو ناجانے کتنے دنوں کے بعد گھوڑے بیچ کے سوئی تھی۔۔ 

 نین۔۔۔ وہ زچ ہوتا اس پر سے کمفرٹر اتارتے نیچے پھینک گیا ۔ سامنے ہی اسے رات کے بکھرے حلیے میں دیکھ وہ مسکراتے اس پہ جھکتے اس کی گردن میں مدہوش سا ہوتے سانسیں بھرنے لگا۔۔  

خود  پہ وزن محسوس کرتے  وہ نیند میں بے چین ہوتی پٹ سے آنکھیں کھول گئی ، مگر خود پہ جھکے وریام کو دیکھ وہ غصے سے اسے پیچھے کرنے لگی ۔ وریام۔۔۔۔۔ اٹھو میرے اوپر سے۔۔۔ وہ غصے سے چیختے بولی۔۔ تو وریام ہوش میں آتا سر اٹھاتے اسے دیکھنے لگا۔۔ 

    کیا مسلئہ ہے ۔۔۔؟ وہ ائبرو اچکاتے پوچھنے لگا گویا کہ اسے نیناں کی مداخلت بالکل بھی پسند ناں آئی تھی۔۔

     اٹھو  وہ غصے سے اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے  پہ رکھتے پوری طاقت سے اسے خود پر سے اٹھانے لگی ، وہ اٹھتا سیدھا کھڑے ہوتے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے اسے دیکھنے لگا ۔

اٹھو جلدی سے۔۔۔ وہ دوبارہ سے اسے اٹھاتے بولا ۔ میں نے سونا ہے جاؤ یہاں سے وہ غصے سے اسے گھورتی بولی جو کہ شرٹ لیس سا ، شاید ابھی باتھ لیتے آیا تھا ماتھے پہ بکھرے بھورے بال ہلکی سی بڑھی بھوری شیو اور سرخ بھوری آنکھیں وہ مکمل حسن کا مجسمہ اسکے سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا ۔۔

 نیناں نے فورا سے نظریں چراتے دونوں ہاتھوں کی مدد سے کندھوں پر سے زپ کے ٹوٹنے پہ  پھسلتی میکسی کو برابر کیا۔۔

اٹھ جاؤ نین ۔۔۔۔ وہ پھر سے اسے وارن کرنے لگا ، نیناں نے ایک نظر اسے اور پھر گھڑی پہ دیکھا جہاں صبح کے دو بج رہے تھے۔۔۔ یہ انسان ایک رات میں اسکی زندگی کو اپنے ہاتھوں میں نچا رہا  تھا، بالکل پاگل کر چکا تھا اسے ۔۔ 

    نیناں کو دوبارہ کروٹ  بدلتے دیکھ وہ فوراً سے جھکتا بیڈ پر  ایک ٹانگ رکھتے  اسے اپنے بازوؤں میں بھر گیا۔  وہ مچلتی نیچے اترنے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارنے لگی ۔۔جس کا کوئی بھی اثر نا ہوتے دیکھ ، وہ اپنے دانت اسکے سینے پہ گردن کے قریب گھاڑتی زور سے کاٹنے لگی ۔  اسکی حرکت پہ وریام کے لب مسکرائے وہ اسے لیے واشروم میں جاتا نیچے اتار گیا ۔ 

     مرر میں گردن کے قریب سے نکلتے خون کو دیکھتے ہوئے وہ بڑھتا اسکے پاس آیا  ، جو دیوار کے قریب  کھڑی اسے گھورے جا رہی تھی ۔ اگر  تم ابھی اپنے دیے زخم پہ لب رکھو تو۔۔۔؟  وہ جھکتا اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھتے اپنی گردن کی طرف اشارہ کرتے بولا۔۔

      بھول ہے تمہاری کہ نیناں ولید شاہ ایسا کرے گی۔۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھ ایک اعتماد سے بولی، وریام ایبرو اچکاتے اسے دیکھنے لگا۔۔

   ڈارلنگ نیناں ولید شاہ۔  نہیں ۔۔۔   نیناں وریام مرتضٰی کاظمی۔۔۔۔ وہ اسکی نازک کمر کے گرد اپنے بازوؤں کا مضبوط حصار بناتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا۔۔   نیناں لب بھینج گئی ۔ اسکی بات پہ۔   کہ اب وہ مانے یاں پھر ناں مگر یہ سچ تھا کہ اب سے وہ وریام کے نام سے جانی جائے گی ۔۔ 

       چھوڑو مجھے لنگور۔۔ وہ غصے سے اپنی گردن پہ دوبارہ سے اسے جھکتا دیکھ بولی۔۔۔ واٹ از دز لنگور ۔۔۔ وریام ناسمجھی سے سر اٹھائے اسے  پوچھنے لگا۔۔

   نیناں سمجھتے مسکراتی لب دبا گئی۔۔۔ تو مسٹر کو لنگور کا نہیں پتہ۔۔۔ 

بولو بھی ۔۔ 

پھر کھبی بتاؤ گی ۔ ابھی جاؤ باہر ۔ مجھے شاور لینے دو۔۔۔ وہ دوبارہ سے سخت لہجہ اپناتے بولی۔۔۔ تو وریام خاموشی سے باہر جاتا فون نکالتے کال کرنے لگا۔۔

ہاں کام ہوا۔۔۔ 

جی سر ہو گیا بالکل ویسے ہی جیسا آپ نے کہا تھا ۔۔۔ آگے والے نے مؤدب سا جواب دیا۔۔۔

ہممم ۔۔۔ تم میں سے کوئی بھی مجھے وہاں پہ نظر ناں ائے۔۔۔ گوٹ اٹ۔۔۔ 

 جی سر آپ پریشان ناں ہوں سب کچھ آپ کے مطابق ہے اور کسی کو بھی اسکے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں۔۔۔

   اور ایک بات اگر مسٹر مرتضٰی کاظمی کو اس بارے میں معلوم ہوا تو سب سے پہلے گردن تمہاری ہی اڑے گی ۔۔ وہ سراسر تے لہجے میں کہتا اگلے کی جان لبوں پہ لے ایا۔۔

روکی نے ٹشو سے ماتھے پہ چمکتے پسینے کو صاف کیا ۔۔۔

نن نو سر ڈونٹ وری ۔۔ مجھے  پتہ ہے کہ اب سے آپ ہی ہمارے بوس ہیں اور آپ جیسا بولیں گے بالکل ویسا ہی ہو گا ۔ 

۔۔   روکی نے فوراً سے اسے اعتماد دلایا ۔

 وریام۔۔۔۔۔۔ اچانک سے پیچھے سے آتی نینان کی چیخ پہ وہ کال ڈسکینکٹ کرتا واشروم میں داخل ہوا ۔ 

کیا ہوا نین ۔۔۔۔۔ آر یو اوکے۔۔۔ وہ اسے پکڑتا آگے پیچھے سے دیکھتے بولا۔۔ مگر اسے بالکل ٹھیک دیکھ وہ غصے سے گھورنے لگا۔۔۔

کیا تھا یہ ۔۔؟ 

 یہ تو مجھے پوچھنا چاہیے کہاں ہیں میرے کپڑے ،...؟ ڈریس تو محترم نے رات کو خراب کر دی تھی۔۔۔۔ اب کیا پہنوں گی میں۔۔۔ وہ ہاتھ کمر پہ ٹکاتی   دوبارہ سے   اونچی آواز میں بولتے اسے شرم دلانے لگی ۔۔ جو کہ ہاتھ باندھے اسے دیکھ کر گہرا مسکرایا۔۔

   ڈارلنگ شکر کرو کہ خالی ڈریس ہی خراب کیا تھا ۔۔ ورنہ نیت تو ۔۔۔۔۔ وہ محنی خیزی سے اسے سر تا پاؤں۔ دیکھتے آنکھ دبا  کے بولا  کہ نیناں غصے اور شرم سے رخ موڑ گئی۔۔۔

   اسے یقین تھا کہ یہ انسان اس سے بھی زیادہ بے باک  اور بتمیز ہے۔۔ سو خاموشی میں ہی بہتری جانی۔۔

     ڈریس صوفے پہ پڑا ہے۔۔۔ وہ کہتا وہاں سے نکلا۔۔ تو نیناں بھی خاموشی سے میکسی دونوں ہاتھوں میں پکڑتے باہر کو نکلی۔۔ 

          یہ کیا ہے ؟۔ ابھی تم زندہ ہو مرے نہیں جو کل سے کالا رنگ مجھے بار بار پہنا رہے ہو ، وہ صوفے پہ پڑی کالی فراق ہاتھوں میں اٹھاتے غصے سے بولی۔۔ کہ وہ جو موبائل میں بزی کسی سے کونٹیکٹ کر رہا تھا ۔ فوراً سے موبائل کو جیب میں رکھتا اسکی جانب بڑھا۔۔ 

    یہ تو تمہاری بھول ہے کہ تم اتنی جلدی بیوہ ہو جاؤ گی۔۔ کیونکہ ابھی تو مجھے تمہاری ان سانسوں سے بھی قریب تر ہونا ہے ۔ وہ جھٹکے سے اسے کمر سے پکڑتا اپنے بے خود قریب کرتے انگلی اسکی صراحی دار دودھیا گردن پہ گھماتے مخنی خیزی سے بولا۔۔۔

ابھی تو وصل کی ناجانے کتنی شب تم نے میرے ساتھ کاٹنی ہیں۔ ۔ ابھی تو تمہارے پور پور پہ اپنی خوشبو نچھاور کرنی ، اور تمہاری روح تک رسائی حاصل کرنی ہے۔  ابھی تو۔۔۔۔ ببب بس ہو گگ گیا ۔۔  چھوڑو مجھے۔۔۔۔ وہ اسکے بے باک جملے سنتی دھواں دھواں چہرے کے ساتھ بمشکل سے اپنا لرزتا وجود اسکی گرفت سے نکالتی دوڑتی واشروم میں بند ہوئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

          وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا، جو ناسمجھی سے اسکی گرفت میں مچلتی کسی قید ہوئے طوطے کی طرح تھی۔۔ 

وریام ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔ ؟ یہ تو گھر کا راستہ نہیں   ۔۔ وہ ہلکی ہلکی روشنی میں باہر دیکھتی سڑک کو نا پہنچانتے ہوئے بولی ۔۔

  تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ اب ہم گھر جائیں گے۔۔ وہ ایبرو اٹھاتے گاڑی کا موڑ کاٹتے بولا۔۔۔ 

        گھر چلو وریام مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ کہیں بھی وہ ہوائیاں اڑنے چہرے کے ساتھ بامشکل بولتی سٹئیرنگ پہ ہاتھ مارنے لگی۔  ۔

      نین سٹاپ اٹ۔۔۔ وہ غصے سے دھاڑتا بولا۔۔ تو نیناں خوف زدہ سی ہوتی سیٹ کی پشت میں گھستے چھپنے لگی ۔

       اب اگر تم نے ذرا سی بھی آواز نکالی تو  مجھے گاڑی میں  تمہارا دماغ  ٹھکانے لگانے میں کوئی بھی دقت نہیں ہو گی۔۔۔   اگر چاہتی ہو کہ میں خاموش رہوں تو بس خاموشی سے بیٹھی رہو۔۔ وہ اسے پکڑتا اسکا رخ اپنے سامنے کرتا  ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا کہ نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڈی۔۔ 

  وہ خاموشی سے ہچکیاں بھرتی رونے لگی ۔۔۔۔ جسے دیکھ وہ گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھا ، مگر ان آنسو کا حساب تو وہ لے گا یہ طہ تھا۔ 

ویلکم سر ۔۔۔   فلائٹ ریڈی ہے۔۔۔ 

ہممم اوکے ۔۔۔  وہ نیناں کا ہاتھ پکڑتے کہتا آگے بڑھا۔۔۔

تو کیا یہ سچ میں مجھے سب سے دور لے کہ جا رہا ہے ۔۔کہیں مجھے مارنے کا ارادہ تو نہیں ۔۔ کیا پھپھو کو پتہ ہے ۔۔ وہ اس وقت الجھتی اپنے چھوٹے سے دماغ میں اٹھتے سوالوں سے پریشان اسکے ساتھ آگے بڑھتی گئی ۔۔

      وہ اسے لیے اندر داخل ہوتے سیٹ پہ بٹھاتے اسکی شال ٹھیک کرنے لگا۔۔ ریلکس ۔۔۔ اسے کانپتے وجود کو محسوس کرتے وہ اسکے سرد پڑتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے اسے اپنے ہونے کا یقین کروانے لگا ۔

وی آئی پی پرائیویٹ  پلین میں اس وقت ان دونوں کے علاؤہ اور کوئی نہیں تھا۔۔ 

   وو وریام۔۔۔ مم مجھے ڈڈ ڈر لگ رہا ہے ۔ وہ پلین کے سٹارٹ ہونے کی آواز پہ ڈرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں  جکڑتے بولی۔۔

۔

   میں ہوں ساتھ  چاہو تو ہگ کر سکتی ہو۔  وہ مسکراتے لب دباتا ساتھ میں مشورہ بھی دے گیا ۔ نیناں چہرہ اونچا کیے اسے غصے سے دیکھنے لگی ۔

فدک کیا ہے یار کب سے ہم یہاں پہ کھڑے ہیں ناں تو تم اندر جانے دے رہی ہو ناں گھر ۔۔۔ رافع کب سے ائیرپورٹ کے باہر کھڑا ہوتے اب تھک کہ  خفگی ظاہر کرتے بولا۔۔۔

   بس کچھ دیر اور پلیز ابھی چلتے ہیں۔۔۔ 

فدک کی ایکسائٹمنٹ دیکھ وہ خاموشی سے سر ہلا گیا ۔

            وہ ہمیشہ کی طرح محسوس اسٹائل میں  چلتا ، اپنی پر وقار شحصیت لیے، بلیک شرٹ جسکے اوپری دوبٹن کھلے تھے۔ کے نیچے بلو جینز اور وائٹ جوگرز میں ہلکی سی بڑھی بھوری شیو جو کہ اسکی شحصیت کو مزید نکھار رہی تھی   سیٹ کیے بال اور  شرٹ کے اوپر پہنی اپنی فیورٹ جیکٹ  جسکے پیچھے ہارٹ کے اندر لکھا وی  اس کی پہچان کروانے کو کافی تھا ۔

۔

    وہ ہاتھ نیناں کی کمر میں ڈالے پورے استحقاق کے ساتھ چلتا اسے لیے ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔۔۔

      بھائی ۔۔۔ فدک چیختے آگے کی جانب بڑھی۔۔ جبکہ رافع شوکڈ سا وریام کو دیکھتا اسکے ساتھ تقریباً چھپی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھنے لگا ۔۔۔

      بھائی کیسے ہیں آپ ۔۔۔ آواز  پہ نیناں نے نے سر اٹھاتے سامنے ایک پیاری سی لڑکی کو دیکھا ، مگر وریام کو اسکا بھائی کہنا اسے کچھ ہضم ناں ہوا۔ ۔وہ فورا سے وریام کا ہاتھ اپنی کمر پر سے ہٹاتی ایک جانب کھڑی ہو گئی ۔ کیسی ہے میری چھوٹی سی بہن۔۔۔ وہ پیار سے فدک کے سر پہ ہاتھ رکھتے بولا ۔ 

  جو کہ موسم کے حساب سے کوٹ پہنے مفرل لپیٹے گول مٹول سی لگ رہی تھی ۔ میں ٹھیک ہوں اور کیا یہی ہیں میری بھابھی ۔۔۔ ہائے اللہ کتنی پیاری ہیں۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔ وہ پیار سے پرجوش ہوتی کہتے نیناں  کو  دیکھتی اس کی جانب بڑھی جسے دیکھ نیناں ہاتھ اٹھاتے دور رہنے کا اشارہ کر گئی۔۔

    رافع شوکڈ سا تھا یہ نیوز دھماکے سے کم تھی کیا کہ اسکا دوست شادی کر آیا اور اسے پتہ بھی نہیں ۔ جبکہ اسکی بہن جو کہ اب غلطی سے اب رافع کی بیوی بھی تھی اس نے بھی نہیں بتایا۔۔۔

توں نے شادی کرلی کمینے انسان وہ سنبھلتا ہوش میں آتا آگے بڑھتے وریام کو گلے لگاتے بولا ، جو مسکراتے اسکے گلے لگا ۔

کیسی ہیں آپ  بھابھی جی ۔۔ وہ وریام کو ملتے نیناں کی جانب بڑھا ، تو نیناں نے پھر سے اسے دیکھ دو قدم پیچھے لیتے ناگواری سے رخ پھیرا۔۔۔ فدک اور رافع اپنی جگہ شرمندہ سے تھے انہیں نیناں کا رویہ عجیب سا لگا، جبکہ وہ خود پریشان سی تھی آخر کار وہ اسے لے آیا تھا اپنوں سے دور ، جہاں وہ کسی کو ناں جانتی تھی۔۔۔ وہ کسیے سب سے ملتے خود کو پرسکون ظاہر کرتی۔ ۔

    میں تم دونوں سے بعد میں ملتا ہوں کہتے وہ جھٹکے سے غصے سے لال  بھبوکا ہوتے نیناں کو بازوؤں سے پکڑتے گھسٹتے گاڑی کی جانب بڑھا۔  پیچھے  وہ دونوں ہکا بکا سے وریام اور نیناں کی گاڑی کو دیکھنے لگے ۔    ضرور کچھ غلط ہوا ہے ، اور اب یہ تو مجھے انکل ہی بتا سکتے ہیں ۔ رافع سوچتا فدک کو اداس دیکھ بہلاتے ہوئے گاڑی میں بٹھاتے گھر کی جانب بڑھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

     رک جاؤ وہیں پہ ۔۔ خبردار جو ایک قدم بھی میرے گھر میں رکھا ۔ 

 اپنے بابا کی آواز پہ حسن بھوکھلاتے ہوئے ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔

وہ خود پورے تین دن کے بعد گھر آیا تھا،  اتنے بڑے اوپریشن کے بعد اسکا بچہ اور یسری اب حطرے سے باہر تھے مگر جو نیوز اسے ڈاکٹرز کی جانب سے ملی تھی ۔۔ 

وہ  بالکل خاموش سا ہو گیا تھا، ڈاکٹرز کے مطابق اب یسری پوری زندگی ماں نہیں بن پائے گی اسکی بیٹی دو دن انگیوبیٹر میں رہی تھی ۔ اور اس قدر  کمزور تھی کہ اسکا بچنا ممکن نہیں تھا ، 

 پورے دو دن وہ روتا اپنے رب سے معافی مانگتا رہا تھا ، اس نے ایک معصوم یتیم کے ساتھ برا کرنا چاہا  تو اس رب نے  اسے پہلے ہی بتا دیا کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا رب ہو تا ہے۔۔ 

              ان دو دنوں میں وہ ریزہ ریزہ ہوتا بکھرا تھا ۔۔   وہ اپنے رب کے آگے رویا ، گڑگڑایا تھا اپنی اولاد کے لیے ۔۔اور شاید اسکے رب نے اسکی محافی کو قبول کرتے اسکی بیٹی اسے واپس لوٹا دی تھی ۔۔۔ 

اب وہ خود پورے تین دن بعد اپنے ماں باپ کو سب بتاتے معافی مانگنے آیا تھا ،مگر اپنے بابا کا رویہ دیکھ وہ ٹھٹھکا تھا ، 

کیا ہوا بابا۔۔۔ نکلو میرے گھر سے زلیل انسان۔۔۔ چٹاخ۔۔۔ ایک  زوردار تھپڑ اسکے چہرے پہ مارتے وہ دھاڑتے اسے گریبان سے  پکڑتے گھسیٹتے ہوئے باہر کی جانب بڑھے ۔۔

 ارے حامد کیا کر رہے ییں، چھوڑیں میرے بچے کو یا خدا ۔۔۔ خامد سلمیٰ چیختی ہوئی اپنے بیٹے کے پیچھے ہی باہر کو نکلی ،   یا اللہ میرا معصوم بچہ۔۔۔ وہ چیختی ماتھا  پیٹتی بولی۔۔۔  سارے گھر میں افراتفری برپا ہو چکی تھی۔۔۔ 

رضا ،شمائلہ بی جان کو لیے انکے پیچھے ہی باہر کو آئے تھے۔۔ جہاں پر حامد نے زوردار دھکا دیتے اسے زمین پہ پٹکھا تھا، 

بھائی جان ، جوان بیٹا ہے ،کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔۔۔ چھوڑیں  اسے۔۔۔ رضا فوراً سے آگے ہوتے انہیں پکڑتے سمجھانے لگے۔ جو  کہ اب لاتیں برساتے اسے پیٹ رہے تھے ۔۔

چھوڑو مجھے رضا تم نہیں جانتے اس ناہنجار کے کرامات کیا کیا گل کھلاتا پھرتا رہا ہے ۔

    بابا آپ چاہیں تو مجھے جان سے مار دیں بس ایک بار معاف کر دیں ، وہ روتا اپنے بابا کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا، 

ارے حامد چھوڑ بچے کو کیا ہو گیا ہے ایسا جو توں اسے کب سے پیٹے جا رہا ہے ، 

بی جان چھڑی کا سہارہ لیتے آگے ہوتے حسن کو ایک جانب کرتے بولیں۔۔۔

بی جان یہ پوچھیں کیا نہیں کیا اس نے ۔۔۔ آپ جانتی ہیں کہ ہم سب سے چھپ کر اس لڑکے نے شادی کی ہوئی ہے اور تو اور ایک بچے کا باپ بھی بننے والا ہے۔۔

حامد کے کہے الفاظ وہاں موجود سب پہ ایک بم کی طرح تھے سب بے یقینی سے حسن کو دیکھ رہے تھے ، جبکہ سلمیٰ   زمین پہ ڈھے سی گئیں۔۔  یہ سب ماننا ان کے لیے ناممکن سا تھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 چھوڑو مجھے وریام ۔۔۔۔ وہ چیختی روتی وریام کو روکنے لگی ۔۔ 

جو اسے اگنور کرتا کندھے پر ڈالے بالکل سپاٹ سرد چہرے کے ساتھ اسے اٹھائے اندر کی جانب۔ ڑھا۔۔۔

نیناں اسکی پشت پہ مکے مارتی ، روتی چیختی اسے کوسنےلگی۔۔

   وہ گیٹ سے داخل ہوتا اندر کی جانب بڑھا، جہاں پورے گھر کو جابجا پھولوں اور لائٹوں سے روشن کیا گیا تھا، ہال کو کراس کرتے وہ سیڑھیاں چڑھتا اپنے روم کی جانب بڑھا ۔۔۔

   اسکے آرڈر کے مطابق پورے گھر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا، وہ دیکھتا خوش ہوتا مسکرایا، مگر دماغ میں نیناں کا رویہ تھا ،

جس نے  اسے سخت ہرٹ کیا تھا، فدک اور رافع اسکی زندگی کے اہم لوگ تھے وہ کیسے انکے ساتھ ایسا برتاؤ کر سکتی ہے۔۔۔ یہی سوچتے وہ سیدھا گھر لایا تھا ، جبکہ پہلے اسکا ارداہ اسے سرپرائز دینے کا تھا ،مگر اب وہ اسکا دماغ ٹھکانے لگانا چاہتا تھا۔۔۔ 

دھڑام کی آواز سے پاؤں کی مدد سے دروازے کو کھولتے وہ اسے بیڈ پر۔ پھٹکتے ایک ٹانگ بیڈ پی رکھتے اسے دیکھنے لگا ،

کیا تھا یہ سب نین ۔۔۔ ایسے کیسے تم انکے ساتھ ایسا بی ہیو کر سکتی ہو، وہ جھکتا اسکے بالوں کو نرمی سے گرفت میں لیتے اسکا چہرہ اوپر کرتے سخت لہجے میں گویا ہوا ۔

اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا ایسا کرنے سے میں ڈر جاؤں گی تو سن لو، میں کوئی ڈرپوک لڑکی نہیں ہوں، سمجھے چاہے جو مرضی کر لو میں نہیں ڈرتی تم سے۔۔۔ 

وہ غصے سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پھولتے تنفس سے گہرے سانس لیتی بولی ۔۔

جبکہ وریام اسکی بہادری پہ ائبرو اچکاتے داد دینے والے انداز میں اسے دیکھتے اسکی سرخ ہوتی چھوٹی سی ناک کو دیکھنے لگا ۔

اچھا لگا مجھے کہ تم کسی سے نہیں ڈرتی ، مگر مجھ سے تو ڈرنا چاہیے ۔۔ وہ یکدم سے اسکی چھوٹی سے سرخ ناک پہ لب رکھتے مسکراتے ہوئے بولا ۔

خبردار جو اب میری۔ ناک کو چھوا تو ، وہ ایک دم سے اس پہ چیختی اسکے ہاتھ سے اپنے بال چھڑواتی سیدھی ہوتے بولی۔

میں تو چھووں گا کیا کر سکتی ہو تم ۔۔۔   اسے مزہ آ رہا تھا نیناں کو تنگ کرنے میں وہ لب دباتے پھر سے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اپنے لب اسکی ناک پہ  ہونٹ رکھتا پیچھا ہوا ۔

اور انگارہ بنی نیناں کا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔

ارے میلے بے بی تو غصہ آ گیا۔۔۔ وہ جھکتا اسے چھڑہاتے اسکی ناک پہ انگلی رکھتے بولا ۔

     کہ غصے سے پھولتے تنفس کے ساتھ  وہ اپنے دونوں پاؤں  وریام کے پاؤں پہ رکھتی اوپر ہوتی اسکی ناک پہ دانت گاڑھ گئی، 

یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ وہ ہوش میں آتا اس چھوٹی شیرنی کو دیکھنے لگا جو اسکی گردن کو زخمی کرنے کے بعد اسکی ناک کو نشانے میں لیے تھی ،

اس نے پیار سے کس کیا تھا اسکی ناک پہ ۔۔ اسے کیا پتہ تھا کہ بدلے میں اتنا تشدد برداشت کرنا پڑ گیا۔۔ 

مسلسل جیب میں بجتے موبائل فون کی آواز پہ وہ حرکت میں آتا اپنا ہاتھ اسکی کمر سے سرکاتا اوپر کی جانب لے گیا ،جو کہ ناجانے کب کا غصہ اس کی خوبصورت ناک پہ نکالنے میں مگن تھی۔۔

   وہ ہاتھ اسکی گردن پہ رکھتے گدگدی کرنے لگا کہ نیناں ہنستی اس سے دور ہوتے اسکی ناک کو دیکھتے لب دانتوں میں دبا گئی، جبکہ وریام اسکی ہمت پہ رشک کر اٹھا ، جو کہ پہلے اسکی گردن، پھر اسکی ناک کو نشانہ بناتی بجائے ڈرنے کے سکون سے اسکی بانہوں میں کھڑی تھی ۔۔

تم۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟ وہ نیناں سے کچھ کہتا کہ فون پہ آتی بار بار کال کو دیکھ فون اٹھاتے کان سے لگا گیا ۔ اوکے میں آتا ہوں۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا کال کاٹتے اپنے سامنے گہری مسکراہٹ کے ساتھ مسکراتی نیناں کو دیکھنے لگا، وہ  مسکراتا ہمیشہ کی طرح کی طرح اسکے ڈمپل کو پہ  لب رکھ گیا ۔

   ابھی کام سے جا رہا ہوں، آ کے یہی سے کانٹینیو کرتے ہیں ۔ اوکے  ،۔ وہ پیار سے مسکراتے اسے دیکھتا اسکی پیشانی کو چومتا وہ باہر کی جانب بڑھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

,#episode_16*

                            " وہ سپیڈ سے گاڑی چلاتا فوراً سے رافع کے پرائیویٹ فلیٹ میں داخل ہوا۔۔

       چہرے پہ واضح پریشانی کی جھلک تھی ،۔ وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں پھنساتے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر کی جانب بڑھا۔۔

    وہ پریشان تھا کہ آخر ایسا بھی کیا ہو گیا کہ رافع نے اتنی ایمرجنسی میں اسے بلایا تھا۔۔

 وہ سوچتے فورا سے اوپر بڑھا ، ایکسٹرا کیز سے ڈور اوپن کرتے وہ اندر داخل ہوا، تو سامنے ہی ایک جانب  کھڑے رافع کو دیکھا، جو کہ کھڑکی سے باہر کی جانب ناجانے کیا دیکھنے میں مصروف تھا ۔

  کیا بات سے رافی ، توں نے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا مجھے ۔۔۔ وہ چلتا رافع کے پاس جاتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔

        ہاں کچھ بات کرنی ہے تجھ سے آ بیٹھ یہاں ،۔ وہ اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے  خود بھی اس کے سامنے دوسرے صوفے پہ بیٹھا۔۔ 

           ہممم بولو کیا کام ہے۔۔ وہ صوفے پہ ہاتھ پھیلائے ۔۔۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ازلی بے نیازی سے بولا۔۔۔

      رافع نے غور سے اسے دیکھتے دونوں ہاتھ تھوڑی  پہ ٹکائے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

بولو بھی۔۔۔ ٹائم نہیں میرے پاس۔۔ مجھے ابھی گھر جانا ہے۔۔۔ وہ گھڑی پہ ٹائم دیکھتے شرٹ کے اوپری دو بنٹ کھولتے بولا ۔

  یہ تمہاری ناک پہ کیا ہوا ہے۔ ،رافع اسکی لال ٹماٹر ہوتی ناک کو دیکھتے ہوئے حیرانگی سے بولا ، 

 کک کیا ناک پہ ناک پہ تو کک کچھ نہیں ہوا۔۔ ؟ وہ فوراً سے ناک کو ہاتھ سے چھوتا صاف انکار کر گیا ۔ 

اوہ اچھاااا۔۔۔ تو پھر گردن پہ کیا ہوا ہے یہ دانتوں کے نشان کسیے ۔۔۔۔؟ رافع مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکی  سفید دودھیا گردن پہ صاف نظر آتے دانتوں کے نشان دیکھ بولا ۔

     توں نے کچھ بات کرنی تھی کمینے انسان ۔۔۔ بتا کیا کام ہے ورنہ میں جا رہا ہوں۔۔۔ وہ فوراً  سے بات بدلتا قدرے سنجیدگی سے بولا، مبادا رافع کا کیا بھروسہ وہ ہر کسی کو پکڑ پکڑ کر بتاتا کہ دیکھو ، لڑکیوں کے دلوں پہ راج کرنے والا آج خود اپنی بیوی کے تشدد کا نشانہ بنا ۔۔۔

        ویسے مجھے بھر پور ہمدردی ہے تجھ سے ۔۔۔ وہ معصومیت چہرے پہ سجائے وریام کے پاس بیٹھتے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا ۔

           چل اٹھ اٹھ یہاں سے ، وہ غصے سے نتھنے پھولائے  اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے بولا۔۔۔

 اچھا سوری توں بیٹھ مجھے بات کرنی ہے تجھ سے۔۔۔  وہ فوراً سے معزرت کرتا اسے ہاتھ پکڑتے پاس بٹھاتے ہوئے بولا ۔

         اب بول کیا موت پڑی ہے تجھے۔۔۔۔ وہ بیٹھتا ہاتھ کی مدد سے شرٹ کو کالر سے ٹھیک کرتے بولا۔۔

            وہ لڑکی کون ہے۔۔۔ ؟ آئی مین کیا توں نے سچ میں اس سے شادی کی ہے ۔۔

وریام کے چہرے کے بدلتے تیوروں کو دیکھ وہ بات سنبھالتے ہوئے بولا۔۔۔

     ہممم بیوی ہے میری نین۔۔۔۔ وہ محتصر سا بتاتے لب بھینج گیا ۔۔ ناجانے کیوں مگر کسی۔ دوسرے سے نیناں کا ذکر سنتے وہ بے چین ہو جایا کرتا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور اس کے بارے میں بات کرے ۔۔ وہ اسے خود تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔۔ 

       اس ساری دنیا سے دور ۔۔۔ صرف اپنے قریب کہ وہ اپنی ہر سانس وریام کی پناہوں میں لے سکے۔  

       کیا توں اسے پسند کرتا ہے ۔۔؟

     مجھے دیر ہو رہی ہے ۔۔ بعد میں ملاقات ہو گی ۔۔ اچانک سے خوشگوار ماحول پل بھر میں بدلا تھا ۔ 

 وہ کوئی بھی جواب دیے بنا اٹھا کہ رافع کی اگلی بات پہ اسکے قدم تھم سے گئے ۔۔۔

   میں جان چکا ہوں کہ توں نے اس سے زبردستی شادی کی ہے ، وہ بھی جھوٹ بولتے کہ توں اسے پسند کرتا ہے۔۔۔   وہ سانس لیتے رکا اور چلتا اس کے پاس آیا جبکہ دوسری جانب وہ ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجے اپنے اندر چلتے طوفان کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا ۔

  دیکھ وریام توں نے ضرور اپنی کسی فضول سی ضد میں آتے یہ سب کیا ہے، وہ بہت معصوم ہے یار ایسے اس کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔۔ توں سمجھ رہا ہے ناں ۔۔ دیکھ میری انکل سے بات ہو گئی ہے ۔ میں نین کی ٹکٹ کروا دوں گا ، اور اگر توں کہے تو اسے واپس خود گھر چھوڑ آؤں گا ۔۔۔ 

         توں آرام سے ٹھنڈے دماغ سے ایک بار سوچ لے۔۔۔۔    

رافع اپنی طرف سے کوشش کرتا اسے سمجھانے لگا، رضا سے اس کی بات ہوئی تھی ۔

اور پھر انکے کہنے پہ ہی وہ وریام کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

       وری دیک۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔۔ انف۔۔۔۔ خبردار جو اب ایک لفظ بھی اور کہا توں نے۔۔۔ وہ ایک دم آؤٹ آف کنٹرول ہوتے رافع پہ چیخ پڑا ۔۔۔ جو حیران سا اسے دیکھ رہا تھا ۔

کون کر سکتا ہے مجھے اس سے دور تم ۔۔۔ یاں مسٹر مرتضٰی کاظمی۔۔۔۔۔۔ وہ سرسراتے لہجے میں سرخ آنکھیں ، سرد تاثرات کے ساتھ رافع کو کوئی پاگل محسوس ہوا ۔۔ 

ناں تم ۔ ناں مسٹر مرتضٰی کاظمی۔۔۔ ناں ہی اس دنیا میں موجود کوئی بھی فرد اسے مجھ سے دور کر سکتا ہے ۔۔ سمجھے تم۔۔۔ وہ انگلی رافع کے سینے پہ رکھتا دباؤ دیتے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے بولا۔۔

              وریام توں کیوں نہیں سمجھ رہا ۔۔

    میں نہیں سمجھ رہا ارے سمجھ تم لوگ نہیں رہے۔۔۔۔۔ کیا لگتا ہے تم سب کو کہ میں بس اپنی ضد کے آگے اسے لے آیا ہوں۔۔۔ ارے پاگل دکھتا ہوں میں ۔۔ وہ چلاتے۔ ٹیبل پہ پڑا واس اٹھاتے زور سے فرش پہ ہٹھکتے بولا۔۔

کہ رافع اسکی حالت پہ پریشان سا اسکی جانب بڑھا۔۔ 

نو ضرورت نہیں مجھے کسی کی ۔۔ ٹھیک ہوں میں۔۔۔ وہ ہاتھ سے اسے اپنے پاس آنے سے روکتے بولا۔۔۔ 

ماتھے پہ چمکتے پسینے کے قطروں کو شرٹ کے بازوں سے صاف کرتے وہ خود کو ریلکس کرنے لگا جو کہ اب ناممکن تھا۔۔

                  اسے مجھ سے کوئی دور نہیں کر سکتا وہ وریام مرتضٰی کاظمی کا جنون ہے سمجھے تم۔۔۔۔۔ وہ جھکتا رافع کو دیکھ غصے سے چیختے بولا کہ   رافع سر اٹھا کے اسے دیکھنے لگا، جس کی آنکھوں میں الگ ہی جنون ، عشق کی داستان رقم تھی۔۔

وہ وریام کا جنون  ہے وہ جنون ہے میرا۔۔۔۔  اور مجھے عشق ہے اپنے اس جنون سے۔۔۔۔وہ خود بھی چاہے تو اپنے آپ کو مجھ سے دور نہیں کر سکتی۔۔۔ آج یہ بات تم نے کہی مگر آئندہ کے بعد سوچنا بھی مت۔۔۔ وہ اسے وارن کرتے سپاٹ چہرے ، پھولے تنفس کے ساتھ آگے کی جانب بڑھا کہ یکدم رکتے وہ بت بنے رافع کی جانب ایا۔۔

     جو حیرانگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ کچھ رہ گیا ہے کہنے کو۔۔ ۔۔۔۔

    اور ہاں بھابھی بول سکتے ہو، نیناں بھی ۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ نین اسے صرف میں بی کہہ سکتا ہوں ۔۔ صرف میں۔۔۔ وہ جاتے جاتے اسے ایک اور جھٹکا دے گیا۔۔

    جو شاکڈ سا تھا ۔۔۔ کیسے یقین کر لیتا وہ کہ ہزاروں لڑکیوں سے فلرٹ کرنے والا اسکا دوست اچانک سے کسی معصوم سی لڑکی کے پیچھے اس قدر پاگل ہے۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں سر کو تھامے نیچے صوفے پہ بیٹھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                  " کھڑکی سی آتی ہلکی سی روشنی پہ وہ کسمساتے ہوئے آنکھیں کھولتی سامنے دیکھنے لگی ۔ جہاں اس کے پاس ہی بیڈ پہ بیٹھا اشعر محبت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ 

   اپنے سامنے اسے پاتے وہ فوراً سے شرم سے چہرہ موڑتے آنکھیں موند گئی۔۔۔

             وہ مسکراتا ہلکے سے ہاتھ بڑھاتے اسکی گردن میں ڈالتے جھٹکے سے اسے اوپر کر گیا ۔ کہ وہ دھک سے آنکھیں کھولتی تیز تیز سانسیں لیتی اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جو فریش سا جان لیوا مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اششع اشعر چچ چھوڑیں مم مجھے ۔۔ وہ حواس باختہ سی بکھرے حلیے میں اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش میں مچلنے لگی ۔

        جو کہ اسے اگنور کرتا جھٹکے سے بیڈ پہ اوندھے منہ گرتے اسے خود پہ گرا گیا۔۔۔ 

        اچانک اشعر کے ایسا کرنے پہ وہ  اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتے ہوئے فاصلہ بنانے لگی ۔۔

   اشعر مسکراتے  خود پر کسی سائے کی طرح بکھرے بالوں کو ہاتھ کی مدد سے پیچھے کرتا اسے دیکھنے لگا ۔ جو ڈری سہمی اسکی پناہوں میں  دم سادھے ہوئی تھی۔۔

وہ ایک  دم سے کروٹ بدلتا اس ہی حاوی ہوا ۔ کہ رمشہ کا سر چکرانے لگا ، اوپر سے وہ اپنے حلیے کی وجہ سے شرم سے نظریں بھی ناں اٹھا سکی۔۔

      گڈ مارننگ میری جان ۔۔۔ اشعر اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو اسکے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھنساتے اس پہ  جھکتا اسکے ماتھے پہ لب رکھتے بولا ۔

ایک شرمگیں مسکراہٹ رمشہ کے ہونٹوں پہ رقص کر گئی۔۔۔

    یہ تمہارا گفٹ۔۔۔۔ سوری میری جان میں رات کو ہی دینا چاہتا تھا مگر تمہیں دیکھ خود پہ قابو ناں رکھ پایا ۔۔۔ تو ابھی ہی سہی۔۔۔ 

وہ مسکراتے اسکے ہاتھ ہے ایک خوبصورت ہارٹ شیپ پینڈنٹ باندھتے ہوئے اپنے لب رکھ گیا ۔

    اشعر مجھے چینج کرنا ہے ۔ وہ منہ بسورتے خود پہ دوبارہ خاوی ہوتے اشعر کو دیکھ فوراً سے بولی۔۔

     تو اسی لیے تو اٹھایا ہے ناں  تاکہ تم فریش ہو سکو اور اپنے پیارے سے شوہر کے ہاتھ کا زبردست سا ناشتہ بھی کرا سکو ۔۔

وہ مسکراتے اپنی ناک اسکی ناک پہ رگڑتے ہوئے بولا۔۔

  اچھا تو پھر ٹھیک ہے آپ اٹھیں ناں تاکہ میں فریش ہو سکوں ۔۔ وہ فوراً سے مانتی اسے خود پہ سے اٹھانے کو بولی۔۔

     ایسے کیسے ۔۔۔۔ جب تک میری خوبصورت سی وائف مجھے ایک خوبصورت سی کس سے گڈ مارننگ نہیں بولے گی ۔تب تک یہ تو نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ 

اشعر فوراً سے انکار کرتے ساتھ میں مشورہ بھی دے گیا۔ جسے سنتے وہ آنکھیں سکوڑے اسے گھورنے لگی۔۔۔

        جی نہیں۔۔۔ مجھے منظور نہیں۔۔۔۔

  تو پھر ٹھیک ہے ایسے ہی رہتے ہیں ، ویسے بھی جب اتنی خوبصورت بیوی پاس ہو تو بھوک کس  کمبخت کو لگنی ہے۔۔۔۔ وہ دوبارہ سے اسپہ حاوی ہوتے اسکے کان میں بے باک سی سرگوشی کرتے بولا کہ اسے دوبارہ سے رات کے موڈ میں آتے دیکھ رمشہ کے اوسان خطا ہوگئے۔۔

   نو نو اشعر۔۔۔ وہ زور زور سے نفی کرتے بولی۔۔ جبکہ دوسری جانب وہ جھکتا اسکے انکار کو اپنے ہونٹوں سے ختم کر گیا ۔۔

               اب جلدی سے فریش ہو کے نیچے آ جاؤ تاکہ اپنے شوہر کے اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے ناشتے کرا سکو۔۔۔ وہ اسکے ہاتھوں کو چومتے پیار سے کہتا ایک جانب بیڈ پہ بیٹھا ۔۔۔کہ وہ فورا سے دوڑتی واشروم میں بند ہوئی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                   بابا میری بات تو سنیں۔۔۔۔۔ 

مجھے کچھ نہیں سننا نکلو یہاں سے ۔۔۔ حامد اسے دھکا دیتے ہوئے بولے کہ حسن لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ایک جانب گرتے ہوئے بچا۔۔

بیٹا کیا کہہ رہے ہیں تیرے بابا ۔۔۔۔ حسن بولو کہ یہ سب جھوٹ یے۔۔۔ سلمیٰ اٹھتی فوراً سے اسکے گریبان کو جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔۔۔ جو  شرمندہ سا نظریں زمین پہ گاڑھے کھڑا تھا۔۔

یہ کیا بولے گا سلمیٰ ۔۔ یہ سب ہمارے کیے کا نتیجہ ہے اگر تم ساری زندگی دوسروں کے عیب نکالنے کے بجائے، دوسروں کے بچوں کو منحوس کہنے کے بجائے اپنے بچوں کی توجہ دیتی تو یہ سب ناں ہوتا ۔۔۔

حامد غصے سے آگے بڑھتے سلمیٰ جو جھنجھوڑتے ہوئے بولے۔۔۔ اگر وہ بول رہے تھے تو یہ سچ ہی تھا۔۔  اگر وہ اپنے بچوں کی پرورش ٹھیک سے کرتیں تو آج انھیں دوسری بار اپنوں کے ہی سامنے شرمندہ ناں ہونا پڑتا۔۔۔۔۔

        بابا ماما کی غلطی نہیں ۔۔ پلیز آپ انہیں کچھ ناں کہیں۔۔۔ حسن فوراً سے ماں کے پاس کھڑا ہوتا اپنے بابا کو دیکھتے ہوئے بولا ۔ جو  ضبط سے ناجانے کب سے خود پہ بیتتی اس تکلیف کو برداشت کر رہے تھے۔۔

    بی جان آپ جانتی ہیں اس ناہنجار نے میری معصوم بھتیجی کی زندگی کو برباد کرنا چاہا تھا ۔

مگر دیکھیں خدا کا انصاف آج خود ہی برباد ہوا کھڑا ہے ۔۔ ارے تمہیں زرا شرم ناں آئی اس معصوم پھول کی زندگی برباد کرنے کی کوشش کی۔

حامد کا بس ناں تھا کہ وہ اسے جان سے مار دیں۔۔

وہ تو مجھے وریام نے سب بتا دیا تھا کیسے یہ نا ہنجار ہم سب کے منہ پہ کالک ملتے اپنی بیوی کو لیے گھوم رہا ہے ۔

       حامد غصے سے پھولتے تنفس سے بمشکل بولتے ایک جانب پڑی کرسی سے بیٹھے۔۔۔

      بھائی جان آپ پریشان ناں ہوں دیکھیں سب ٹھیک ہے آپ چلیں اندر ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے۔۔

۔شمائلہ  آگے بڑھتی اپنے بھائی کی حالت پہ بے چین سے انہیں دیکھتی بولی۔۔۔

دیکھو شمائلہ خدا کا انصاف ، میں نے کتنے سال تم سے بات ناں کی، تمہیں گھر ناں آنے دیا۔ بی جان سے بھی ملنے نہیں دیا، تم تڑپتی رہی مگر میں پتھر بنا رہا، میرا مرحوم بھائی خود اپنے ہاتھوں سے تمہاری شادی کروا کہ گیا تھا،

سب جانتے ہوئے بھی میں انجان بنا رہا ، اب بتاؤ کیا سزا دوں اپنی ہی اولاد کو۔۔۔۔ جو اتنی بے لگام ہو چکی ہے کہ ماں باپ سے پوچھنا تک گنوارا نہیں کیا۔۔۔حامد اذیت میں مبتلا۔۔۔ اپنی بہن کے ہاتھوں کو پکڑتے پھوٹ پھوٹ کے روئے ۔۔

کہ شمائلہ کے لیے ان کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔

     حامد اٹھو چلو اندر۔۔۔۔ بی جان ایک دم سے انکے پاس آتے بولیں ۔ جو کہ نیناں کے جانے کے بعد سے خاموش سی تھی۔۔۔

وہ جانتی تھیں سب کیونکہ وریام انھیں پہلے ہی سب بتا چکا تھا اور یہ بھی کہ وہ نیناں سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔۔ بی جان کے کہنے پہ ہی وہ نیناں کو بنا بتائے باہر لے گیا تھا ۔

کیونکہ بی جان جانتی تھیں کہ یہاں پہ رہتے وہ کبھی بھی وریام کو نہیں سمجھے گی ۔ انھیں یقین تھا کہ وریام انکی جان سے عزیز پوتی کو خوش رکھے گا۔۔

یہ بات الگ تھی کہ باقی گھر والے ابھی تک اس حقیقت سے انجان تھے اور شاہد اس بات سے بھی کہ ایک ہی دن میں نیناں دیار غیر میں ہے۔۔

    بی جان مجھے نہیں جانا پہلے اسے کہیں کہ میری آنکھوں کے سامنے سے دور ہو جائے ۔۔ حامد لہجے میں نفرت سموئے حسن کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔

   تم نے بھی تو اتنے سال مجھے دکھ دیے کیا کھبی میں نے کہا کہ خبردار جو میرے سامنے آئے۔۔۔ یاں مجھ سے ملے ۔۔ بلکہ میں نے تو سب بھولتے تجھے اپنے سینے سے لگایا ۔۔ پھر توں کیوں اسے معاف نہیں کر رہا۔۔

 بی جان کی آواز پہ سلمیٰ سمیت سب نے اس  ماں کو دیکھا جن کے لہجے میں کرب کی کرچیاں گھلی تھیں ۔۔

 چلو حسن میرے ساتھ۔۔۔ یہ میرا پوتا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اسے کوئی بھی نہیں نکال سکتا یہاں سے ۔۔۔  

        بی جان حتمی انداز میں کہتی حسن کا ہاتھ پکڑے اندر کی جانب بڑھی ۔۔۔ جبکہ پیچھے سب حیران پریشان انھیں جاتا دیکھنے لگے۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       شل ہوتے دماغ، آنکھوں میں اترتے خون اور خدردجہ پھولتے تنفس کے ساتھ وہ بامشکل سے ڈرائیونگ کرتا گھر میں داخل ہوا،۔   

گھڑی پہ ٹائم دیکھتے وہ لب بھینچتے اندر داخل ہوا۔۔ جہاں دن کے بارہ بجے بھی تاریکی  نے اس کا استقبال کیا۔

     وہ انگھوٹے سے ماتھا مسلتے خود کو ریلکس کرنے لگا ۔

۔گھر میں لگے ہیٹر اور کچھ اندر جلتی آگ پہ وہ بے سکون ہوتا جیکٹ کو اتارتے فرش پہ پھینک گیا 

    کچھ دیر تک ٹہلنے کے باوجود وہ پرسکون ناں ہو سکا تو قدم خودبخود اپنے روم کی جانب اٹھے۔۔

      وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہاتھ سے ہینڈل گھماتے ہوئے اندر داخل ہوا ۔

     مگر کمرے میں موجود خاموشی اور تاریکی کو دیکھ اسکے ماتھے پہ ہزاروں بل نمودار ہوئے۔۔

   وہ آگے بڑھتے لائٹس آن کر گیا مگر اندر روم کی حالت دیکھ وہ حیرانگی سے آنکھیں مسلتے اپنے روم کو دیکھنے لگا ۔۔

اسے لگا کہ شاید وہ کسی اور کے روم میں آ چکا ہے غلطی سے ۔۔۔ مگر ایک غور کی نظر اپنے ڈیکوریٹٹڈ روم پہ  دوڑاتے اسے یقین ہو گیا کہ یہ اسی کا روم ہے ۔

وہ پینٹ کو ہاتھ سے تھوڑا اوپر کرتے جھکتے ہوئے نیچے بیٹھا جہاں  اسکے مہنگے سٹائلش کپڑوں کو کسی نے اوٹ پٹانگ طریقے سے بری طرح سے کاٹا تھا۔۔ 

وہ ہاتھ سے اپنی فیورٹ بلیو شرٹ کو اٹھاتے دیکھنے لگا ۔ جس میں انڈے جیسا گول سراخ بڑی مہارت سے کیا گیا تھا۔۔

           وہ لب سختی سے آپس میں پیوست کرتے اٹھتا واشروم کی جانب بڑھا ، مگر وہاں اسے بھی حالی دیکھ وہ پریشان سا باہر نکلا، وارڈروب چیک کرتے ہی اسے بھی خاکی دیکھ وہ سمجھ گیا کہ اسکا غصہ اسکے خوبصورت کپڑوں پہ نکالا گیا تھا۔۔

      وہ باہر نکلتا ڈور بند کرتے دوسرے روم میں داخل ہوا ، ایک ایک کرتے وہ سارے رومز چیک کرتا اب نیچے اپنے موم ڈیڈ کے روم کی جانب آیا۔۔

مگر روم کو اندر سے لاک دیکھ وہ گہرا سانس خارج کرتے کچن کی جانب بڑھا۔۔۔

کیز سے روم کا ڈور کھولتے وہ اندر داخل یوا۔۔  مگر اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی تھیں ۔۔ 

وہ ٹرانس میں چلتا بیڈ کے سامنے رکا جہاں پہ نیناں آرام سے پورے بیڈ پہ پھیلی اسکی موم کے ہی ایک ڈریس میں گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی۔۔۔

    وہ گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہلکا سا مسکرایا سارا غصہ پل بھر میں جھاگ کی طرح بیٹھا تھا۔۔

وہ اسکی موم کے ڈریس میں تھی جسکا گلا کافی بڑا ہونے کی وجہ سے اسکی ساری رعنائیاں دیکھتے ہوئے وہ مسکراتے لب دباتے آگے کی جانب بڑھا۔۔ فوراً سے شوز کو اتارتے وہ دوڑتا واشروم میں گھسا ، 

کیونکہ شاور کے بغیر تو نیند آنے سے رہی۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے ڈیڈ کی شلوار قمیض پہنے باہر نکلا، جو کہ وہ عموماً گھر میں پہنتے تھے۔۔

    تولیے سے بال خشک کرتے وہ نیناں کو دیکھتے نفی میں سر ہلا گیا ، شاید وہ یہ سوچ کہ روم لاک کرتے چھپی تھی کہ وریام اس تک نہیں پہنچ پائے گا، مگر وہ بھول چکی تھی کہ وریام سے اب اسکا پیچھا تاعمر نہیں چھوٹنے والا۔۔

       وہ سوچتے مسکراتا تولیہ ایک جانب پھینکتے بیڈ پہ چڑھتے نیناں کے اوپر جھکتے اسے دیکھنے لگا۔۔

     گھنی خمدار پلکوں کو دیکھ وہ مسکراتے دونوں آنکھوں۔ کو چومتے اسکی چھوٹی سی ناک کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ وہ مسکراتے وہاں بھی اپنے لب رکھتے اسکے سرخ رخساروں پہ جھکا ۔ ہلکا سا اسکی تھوڑی کو چومتے وہ اسکی خوبصورت ہونٹوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔

جنہیں دیکھ اسے گلاب کی پنکھڑیوں کا سا گمان ہوا ۔ وہ ہونٹ کھولے سانس لے رہی تھی ۔ وریام مسکراتے اسکے ہونٹوں پہ جھکتا اپنی گرفت میں لے گیا ۔

    اسکی سانسوں کی مدہوش کرتی خوشبو  کو خود میں اتارتے۔ وہ مسکراتے ہوئے سر اوپر اٹھاتے اسے دیکھنے لگا،  تو نیناں وریام کاظمی تو اس کا مطلب یہ کہ آپ کی نیند کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ وہ انگوٹھے سے اسکے نچلے سرخ ہوتے ہونٹ کو سہلاتے ہوئے کہتا وہ ایک جانب ہوتے بازو اسکے سر کے نیچے لے جاتے اسکی کمر کے گرد مضبوط حصار بناتے اسکے سر پہ ہونٹ رکھتے سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔

            " وہ بھرپور نیند پوری کرتے ایک زبردست سی انگڑائی لیتے اٹھتے ہی  گردن پہ ہاتھ رکھتے وہ آگے پیچھے کرتے ریلکس ہونے لگی کہ اچانک سے نظر سامنے  سر کے نیچے ہاتھ رکھے لیٹے وریام پہ پڑی ، جو کہ پرشوق نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

        " وہ مسکراتی گال کو گھٹنہ فولڈ کرتے اس پہ ٹکاتے غور سے وریام کو اپنی بڑی بڑی کالی آنکھیں پوری کھولتے دیکھنے لگی ۔

  وہ جو کہ کافی دلچسپی سے اس کی ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا ،  وہ حیران ہوا اسے خود پہ جھکتے دیکھ۔۔۔

          وہ ہلکا سا جھکتے وریام پہ سایہ سا کر گئی جو کہ اچانک نیناں کے قریب آنے پہ وہ  ہاتھ سر سے ہٹاتے تکیہ پہ گر گیا ۔۔

       نیناں جھکتے کہنی اسکے سینے پہ رکھتے اسے دیکھتے قہقہہ لگاتے ہنسی کہ اسکی مسکراتی خوبصورت باریک آواز  وریام کے کانوں میں کسی سر کی طرح بکھری۔۔۔

       وہ کھویا سا اسے دیکھتا ساکت سا ہو گیا ۔ کیسے یقین کر لیتا کہ یہ حقیقت ہی ہے کہ نین اس کے سامنے ریلکس انداز میں بیٹھی قہقہہ لگا رہی تھی۔۔

           او ہو۔۔۔ یہاں دیکھو تو بیچارہ لنگور۔۔۔۔ میرے خیالوں میں بھی کسی اور کے دیے کپڑوں میں گھوم رہا ہے ۔۔ 

    وہ اسے اپنا حیال تصور کرتی اپنے ہاتھ کی سرخ و سفید انگلیاں اسکے سینے پہ گول گول گھماتے بولی کہ اسکے اچانک ایسا کرنے پہ وریام کے سینے میں سانس اٹکا۔۔ وہ دہک دہک کرتے دل کی دھڑکنوں کو کانوں میں بجتا  محسوس کرنے لگا۔۔

               ویسے تم ان کپڑوں کے بھی لائق نہیں ہو۔۔ میرا بس چلے کو تمہیں ننگا کر کے سارا لندن گھماوں۔۔۔

            وہ ہاتھ اٹھاتی فضا میں لہراتی ہوئی دانت کچکچاتے ہوئے بولی کہ وریام کو اسکی سوچ سنتے خود پہ رشک آیا وہ حیال میں ہی خود کو تصور کرتے جھرجھری لے اٹھا۔۔ 

       وہ خاموش لیٹا رہا کہ اسے اچھا لگ رہا تھا نیناں کا خود سے باتیں کرنا چاہے وہ اسے خواب یا خیال ہی تصور کر رہی تھی مگر وہ باتیں تو وریام کی کر رہی تھی ۔۔ اوپر سے اپنے اتنے قریب اسے محسوس کرتے اسکے مدہوش کن سراپے کی فضا میں بکھری خوشبو   وریام  مسکراتا اپنی ملکیت کا سوچتے اسے دیکھنے لگا۔۔ 

     جو دوپٹہ سے عاجز توبہ شکن سراپے ، بہکانے والی حرکات کرتی وریام کو پاگل کر رہی تھی ۔۔ 

    وہ ضبط کر رہا تھا خود پہ۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا خود پہ ضبط کرنا۔  ایک حسین دنیا اسکے آگے پیچھے گھومتی تھی جسے وہ ہل بھر میں بنا توقف حاصل کر سکتا تھا ،مگر وہ صحیح غلط کی پہچان جانتا تھا ۔۔ اسی لیے تو چاہے جتنا بھی وہ بولڈ رہا ہو ۔۔ اپنے دائرے سے واقف تھا ۔ 

   مگر اس وقت سامنے موجود کسی گلاب کی مہکتی کلی کی مانند اسکی موم کے ہلکے گلابی سوٹ میں ملبوس وہ لڑکی جس پہ اسے پورا اختیار تھا وہ کسیے خود پہ قابو دکھتا۔۔۔ وہ سوچتا گہرا مسکرایا۔۔۔ 

             مگر کیا کر سکتے ہیں۔    شاید میری یہ وش پوری ناں ہو سکے ۔۔۔ وہ فوراً سے اداس ہوتی بولی کہ وریام ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھنے لگا ۔ 

      نیناں فوراً سے اس کی ناسمجھی سمجھتی بولی ۔۔ ارے تمہیں کیسے پتہ ہو گا کہ میری وش کیوں پوری نہیں ہو سکتی۔ ۔۔ میں بتاتی ہوں ۔ وہ راضداری سے اس کے قریب ہوتے بولی کہ جھٹکے سے اسکے گھنے ریمشی بال گرتے وریام کے چہرے پہ بکھرے ۔۔۔ 

      وہ گہرا سانس کھینچتے انکی مدہوش کن خوشبو کو سانسوں میں سمیٹتے آنکھیں موند گیا۔ 

       میں ناں بہت جلد یہاں سے بھاگ جاؤں گی ۔ نیناں مسکراتے اسے اپنا پلین بتاتی ایک نظر بند دروازے کو دیکھنے لگی ۔۔ کہ مبادا کہیں وریام اندر ناں آ جائے مگر اسے بند دیکھ وہ شکر کا سانس لیتی دوبارہ سے اسے دیکھتے مسکرائی ۔۔

              جو سرد تاثرات سے لہو رنگ آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

    تمہیں کیا ہوا تم کیوں رئیل والے مسٹر لنگور بن گئے۔   وہ ناسمجھی سے اسکے بدلتے تاثرات کو دیکھتے پوچھنے لگی ۔

کہ ایک دم سے وہ اسکی شرٹ سے پکڑتے اسے خود پہ گرا گیا۔۔ اس اچانک افتاد پہ ایک ہلکی سی چیخ نیناں کے منہ سے نکلتے دم توڑ گئی ۔۔ وہ چیخ روکتے وریام کو دیکھتے اپنا کپکپاتا ہاتھ آگے کرتی اپنی نرم و نازک انگلیاں اسکے چہرے پہ گھماتے دیکھنے لگی کہ کیا سچ میں اسکا وہم ہے یا پھر وہی خود موجود ہے۔۔

     مگر    جسے ہی وہ ہاتھ گھماتے انگلی اسکے ہونٹوں کے قریب لائی کہ فوراً سے اچکتے وریام نے اسکی نازک انگلی کو ہونٹوں میں دبایا ۔۔۔ 

      نیناں ڈرتے اسے سچ میں وہاں پاتے سانس روکتے بے یقینی سے پھیلی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ 

    وہ منہ پہ دوسرا ہاتھ رکھتے اپنی آواز دباتی کہ اچانک سے وہ اٹھتے اسے اپنے نیچے گرا گیا کہ نیناں ڈرتی نفی میں سر ہلاتے اسکے بھپرے تاثرات کو دیکھتی خشک خلق کو تر کرتی اپنی انگلی کو دیکھنے لگی جو کہ ہنوز میں ہونٹوں میں دبائے ہوئے تھا۔۔

     وہ شرم اور ڈر سے فوراً سے آنکھیں بند کرتے تیز تیز سانس لینے لگی۔۔۔ کہاں ممکن تھا کہ وہ اسکی وخشت سے بھری آنکھوں میں دیکھ پاتی۔ ۔

              اچھا تو پھر کب بھاگنے کا ارادہ ہے ۔۔ ؟ چند پل خاموشی سے گزرتے  ہی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کرتی وریام کی سرد آواز بکھری۔۔۔

  کہ نیناں  پٹ  سے آنکھیں کھولتی ایک نظر اسے دیکھتی فوراً سے آنکھیں بند کر گئی ۔۔۔

              جواب نہیں دیا میری جان۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ کو پکڑتے اسکی کپکپاتی انگلیوں سے لبوں سے چومتا بولا ۔کہ نیناں نے  فوراً سے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔

                "  بولو نین۔۔۔ سرسراتے ہوئے لہجے میں کہتے وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑا گیا۔۔ 

  وہ جواب نا پاتے ہاتھ بڑھاتے اسکی گردن کو سہلانے لگا۔۔۔ 

نیناں بے جان سی دونوں ہاتھوں میں تکیہ کو تھامتے سانس روک گئی ۔

تمہارے سر کے اس  بالوں سے لے کے پاؤں کے ناخون تک تم پہ پورے کا پورا حق صرف اور صرف وریام کاظمی کا ہے ۔۔  

    تمہاری ہر آتی جاتی سانس بھی آج کے بعد  میری پابند ہے۔۔ بھاگنا تو دور کی بات ہے اگر تم چاہو بھی تو اپنی سانسیں میری دسترس سے باہر نہیں لے سکتی۔ ۔۔

   وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کے کہتے ، اسکی زدر پڑتی رنگت کو دیکھ  جھکتے اسکے ہاتھوں سے تکیے کو آزاد کرواتے  اپنے ہاتھوں کی مضبوط گرفت میں لے گیا ۔

۔

            ورررر۔۔۔۔ وہ بھوکھلاتے فوراً سے آنکھیں پھیلائے سر کو نفی میں ہلانے لگی۔۔۔ جبکہ وہ سنی ان سنی کرتا   جھکتا اسکے ہونٹوں کو اپنی شدت بھری گرفت میں لیتے اسکے ہاتھوں کو تکیے سے لگا گیا ۔

۔

      وہ شدید مزاحمت کرتی خود کو چھڑوانے کے لیے مچلنے لگی کہ  اسکی بڑھتی شدت پہ وہ خود کو اسکے رحم و کرم پہ چھوڑ گئی۔۔۔۔   وہ سختی سے اسکی سانسوں کو گرفت میں لیتے جانے کیا باور کروا رہا تھا . وہ قطرہ قطرہ اسکی مہکتی سانسوں کو خود میں انڈیلتے  آہستگی سے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگا جو کہ خاموش آنسو بہا رہی تھی ۔۔  

وہ روتی  منہ  میں خون کا ذائقہ محسوس کرتی غصے سے اسے گھورنے لگی۔۔۔ 

            آج کے بعد مجھ سے دور جانے کی بات بھی اپنے ان لبوں پہ مت لانا۔۔۔۔   وہ جھکتا اسکے ہونٹوں کو  انگھوٹے سے مسلتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکے کان کی لو کو دانتوں سے ہلکا سا دباتے وہ اٹھتے  ایک سائیڈ ہوتے اسکے تھر تھر کانپتے وجود کو دیکھنے لگا۔۔

               جلدی سے اٹھو ، اوپر اپنے روم میں جاؤ، ڈریسنگ روم میں سے کوئی بھی ایک ڈریس پہنو اور نیچے آؤ۔۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو بنا کے دو ۔

       وہ فورا سے موڈ بدلتے بالکل پہلے ریلکس موڈ میں آتے ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالتا روم سے نکل گیا۔۔

  ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                      وریام کے رویہ کا سوچتے وہ ماتھے پہ بل ڈالے کافی دیر تک آفس ورک کرنے کے بعد گھر آیا، فدک کو تو وہ پہلے ہی ڈراپ کر چکا تھا، جو کہ اب باکل ٹھیک ہو رہی تھی۔۔ 

    رافع نے ابھی تک اسے کچھ بھی ناں بتایا تھا کہ وہ اسکے ماضی کو جانتا ہے سوائے اسکے نام کے، جو کہ وہ دعا سے اسرار پہ پوچھ بیٹھا تھا۔۔۔۔

وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اس پہ اس قدر اعتماد کرے کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے اسے سب کچھ بتائے۔۔۔ اسی کے کہنے پہ دعا نے بھی  فدک سے چھپایا تھا کہ وہ رافع کو سب کچھ بتا چکی ہے۔۔۔

          ڈیڈ۔۔۔۔ فدک کہاں ہے۔۔۔ وہ روم چیک کرتے نیچے لاؤنچ میں آیا ۔۔ جہاں اسکے ڈیڈ بیٹھے نیوز دیکھ رہے تھے ۔۔

     بیٹا دیکھو کچن۔ میں ہو گی ۔ اجکل میری بیٹی نے ساری زمہ داری جو سنبھال لی ہے ۔۔ اظہر مسکراتے کافی کی سپ لیتے ہوئے بولے۔۔۔

ڈیڈ میں دیکھ چکا ہوں مگر فدک وہاں بھی نہیں ہے۔۔۔ رافع اپنے ڈیڈ کو کہتے پریشان سا ہوتے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

 دل ایک انجانے خدشے سے دہل رہا تھا۔۔۔ مگر وہ ریلکس ہونا چاہتا تھا کیونکہ وہ خود اسے گھر چھوڑ کہ گیا تھا۔۔

ڈیڈ وہ کہیں بھی نہیں۔۔۔ کیا آپ نے اسے دیکھا شام میں۔۔۔ وہ سیڑھیوں سے دوڑتے اترتا نیچے اپنے ڈیڈ کے پاس آتے ہوئے بولا۔۔ جو خود کافی پریشان سے لگ رہے تھے ۔۔

    نہیں بیٹا مگر دن کو تو وہ یہی تھی جب تم اسے چھوڑ کے گئے تھے اسکے بعد کتنی دیر بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرتی رہی ۔۔۔ پھر اسکے فون پہ کال آئی تو وہ  کال ریسیو کرنے چلی گئی۔۔۔

میں نے بھی غور نہیں کی ۔۔ 

وہ دن کی ساری بات اسے بتاتے خود بھی پریشان ہوتے موبائل نکالتے کال کرنے لگے ۔۔

کیا کر رہے ہیں ڈیڈ۔۔۔وہ انکے ہاتھ سے موبائل لیتے کال کاٹتے ہوئے بولا۔۔

اظہر نے حیرانگی سے اسے دیکھا ۔۔ بیٹا پولیس کو انفارم کر رہا ہوں ۔۔

 ڈیڈ آپ کسی کو بھی کال نہیں کرے گے۔۔۔ مجھے دعا سے بات کرنے دیں پہلے۔۔۔

وہ کچھ سوچتا اپنے ڈیڈ سے کہتے دعا کو کال کرنے لگا۔۔ 

     ہیلو رافع ۔۔۔کیا ہوا سب ٹھیک ہے ؟ 

اتنی رات کو کیوں کال کی۔۔۔۔ وہ  بک میز پہ رکھتی گھڑی پہ ٹائم دیکھتے بولی ، جہاں رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔

        ہاں سنو دعا۔۔۔ کیا فدک تمہارے ساتھ ہے۔۔۔ وہ فوراً سے بے چین ہوتا بولا ۔۔کہ دعا نے انجانے خدشے سے ڈرتے منہ پہ ہاتھ رکھا۔۔

   رافع یہ تم کیا کہہ رہے ہو ،۔ وہ تو تمہارے ساتھ تھی ۔۔۔ تمہارے پاس ۔۔۔ پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ۔

وہ ٹھیک تو ہے ناں رافع،۔ کہیں کچھ ہوا تو نہیں فدک کو۔۔۔ وہ پریشان ہوتی ہوائیاں اڑے چہرے سے کہتی  لائٹ آن کرتے کھڑکی کے پاس کھڑے ہوتی بولی۔۔۔

          رافع بے چین سا ہوتے کال ڈسکینکٹ کر گیا کہ وہ ہیکو ہیلو کرتی رہ گئی۔۔۔

          ڈیڈ آپ پلیز اپنا خیال رکھیے گا میں آتا ہوں۔۔۔ وہ اپنے ڈیڈ سے کہتے گھر سے باہر نکلتے گاڑی میں بیٹھا۔۔۔

      ایک انجانا سا خوف اسکے جسم میں سرائیت کرنے لگا۔۔ 

یہ بات ہی جان لیوا تھی کہ فدک گھر ہی نہیں ۔۔۔۔ اس سے آگے کی سوچتے اسکا سانس رکنے لگا۔۔

وہ بس اب جلدی سے وہاں جاتے دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر فدک ہے کہاں ۔۔؟

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

          کمرے میں پھیلی سیاہ تاریکی ، چاروں طرف  پھیلے جنگل میں  سے آتے جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں ماحول میں بکھرتی اور بھی خوفناک منظر پیش کر رہی تھی ۔

  ایک جانب تاریکی میں  ہاتھ سے بمشکل دیوار کو ٹٹولتے وہ سہارے سے اٹھ بیٹھی۔۔ 

      وہ سن ہوتے دماغ  سے سامنے پھیلی تاریکی کو ڈرتے دیکھتے آنکھیں جھپکنے لگی کہ شاید  اس کا وہم یا خواب ہے ۔

مگر  وہ اس وقت ایک انجانے وخشتزدہ سے ماحول میں ایک تاریک چھوٹے سے کمرے میں اپنا دم گھٹتے محسوس کرتے اٹھی ۔۔۔

   اسکا کوٹ اور شال جسم سے جدا جانے کہاں تھیں۔۔ وہ اس وقت صبح والے کپڑوں میں ملبوس خوف سے پھیلی آنکھوں سے خود کو ٹٹولتے دوپٹہ یا مفلر ڈھونڈنے لگی ۔۔

   تاریکی میں کچھ بھی اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا 

مگر وہ مضبوط بنتے خود کو تسلی دیتی فرش پہ ہاتھ مارتی اپنی ہچکیوں کو دبانے لگی ۔

وہ جانتی تھی جلد ہی رافع اسے ڈھونڈتا یہاں آ جائے گا 

مگر تب تک کے لیے اسے اپنی خفاظت خود کرنا تھی۔۔ وہ ناکام ہوتی روتے ہوئے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں لیتے نوچنے لگی یکدم سے دھاڑ کے ساتھ ٹھاہ کی آواز سے دروازہ کھلا۔۔

    وہ سہمتے خوف و وخشت سے ایک کونے میں ڈرتے چھپتی اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپا گئی ۔  

   خوف و دہشت سے اسکا پورا جسم لرز رہا تھا۔۔

   معا دروازے سے اندر آتے نفوس نے اسے بالوں سے پکڑتے کھینچتے اٹھایا کہ اس قدر سخت پکڑ ہی وہ چیختی چلاتی خود کو آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

آں۔۔۔۔۔ جھٹکے سے بالوں کو کھینچنے سے ایک زوردار چیخ فدک کے منہ سے نمودار ہوئی ۔۔

جبکہ مقابل ہنستا اسکے آنسوں سے بھرے چہرے کو دیکھنے لگا ۔

کہا تھا ناں میں نے کہ جہاں مرضی چلی جا۔۔۔۔ میں تجھے ڈھونڈ ہی لوں گا۔۔ وہ نفرت لہجے میں سموئے اسکے بالوں پہ مزید پکڑ سخت کر گیا کہ فدک دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کو اس وخشی کی گرفت سے چھڑوانے لگی ۔

         ہاہاہاہا۔۔۔۔ اتنا بے وقوف سمجھا ہے توں نے مجھے کہ توں شادی کر لے گی اور مجھے معلوم بھی ناں ہو گا۔۔۔۔

وہ ہنستا اسے دیکھ بولا۔۔ کہ فدک کی گرفت ڈھیلی پڑی ۔۔ وہ خوف سے اسے دیکھنے لگی۔۔ جو اسے دیکھ مکرو قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسا کہ فدک کو اپنی بے بسی پہ اور رونا آیا۔۔۔۔

   چچ چھوڑ دو مجھے میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ۔۔۔۔۔ وہ روتی ہچکیوں میں اسے دیکھ کہنے لگی۔۔۔

         ایسے کیسے چھوڑ دوں۔۔۔۔ سالی بھول گئی تیری وجہ سے کیا گیا برداشت کرنا پڑا ہے مجھے۔۔۔

وہ اسے زمین پہ زور سے پٹھکتے ہوئے بولا۔۔۔ تو فدک گرتی اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتے اپنی چیخ کو دبانے لگی۔۔۔۔

   سائن کر ۔۔۔ وہ پیپرز اسکے سامنے فرش پہ پھینکتے ہوئے بولا تو فدک نے ناسمجھی سے سر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔

کیا دیکھ رہی ہے۔۔۔ ؟۔ یہ پراپرٹی کے کاغذات ہیں۔۔۔ 

ان میں  لکھا ہوا ہے کہ میں فدک اپنی مرضی سے اپنا سب کچھ اپنے تایا کے بیٹا سعد  ہمایوں کے نام کر رہی ہوں

۔۔

وہ اسے تفصیل سے بتاتے فرش پہ جھکتا اسکے پاس بیٹھا۔۔۔

   کبھی بھی نہیں ۔۔۔ وہ سنتی فوراً سے سر کو ناں میں ہلاتے بولی ۔۔۔

  سالی تیری یہ ہمت توں مجھے ناں کرے گی۔۔۔۔ چٹاح۔۔۔ سرد زوردار تھپڑ اسکے چہرے ہی مارتے غصے سے اسے پاؤں سے ٹھوکریں مارنے لگا۔ 

خاموش فضا میں فدک کی دلدوز چیخیں گونجنے لگی۔۔۔۔

      کل صبح تک کا وقت دے رہا ہوں چپ چاپ ان پیپرز پہ سائن کر دے ۔۔۔۔ ورنہ تجھے تو ویسے بھی مرنا ہے ۔۔۔ 

 اگر  توں سیدھے سے سائن نہیں کرے گی تو ایسی موت دوں گا کہ تجھے خود سے نفرت محسوس ہو گی ۔۔ 

   وہ نفرت سے اسکے بے جان ہوتے لرزتے وجود کو دیکھتے کہتا روم سے باہر نکلا۔۔

   پیچھے وہ بے جان ہوتی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

         آئیے سر۔۔۔۔ سامنے سے آتی آواز پہ وہ گردن موڑتے اسے دیکھنے لگا۔۔

اشارہ پاتے ہی وہ گاڑی کا ڈور بند کرتے وہاں سے آگے کی جانب بڑھا۔۔

    یہ ایک خفیہ جگہ تھی۔۔ جو باہر سے تو کوئی ٹوٹی پھوٹی دیواروں جیسی لگتی تھی ۔۔ مگر انکے اندر ایک اور دنیا آباد تھی۔۔

 وہ اندر جاتے حیرانگی سے آگے پیچھے دیکھنے لگا ۔۔ 

جہاں سامنے ہی دیوار کے ساتھ ایک بڑی سی  سکرین نصب کی گئی تھی۔۔۔ 

   اسکے ساتھ ہی کپمیوٹرز کو اٹیچ کیے تین لوگ جو کہ کرسیوں پہ بیٹھے کسی ماہر کی طرح تیز تیز ہاتھ چلاتے کام میں مصروف تھے۔۔

   وہ ہاتھ کو پینٹ میں پھنساتے بظاہر سامنے متوجہ تھا مگر اسکا زہن اس وقت کہیں اور تھا۔۔۔ دل و دماغ پہ ایک ہی چہرہ بری طرح سے حاوی تھا کہ وہ چاہ کر بھی خود کو پرسکون نہیں کر پا رہا تھا۔۔

          سر آئیں یہاں پہ۔۔۔ مائیکل کی آواز پہ وہ چونکتے ہممم کہتا اسکے پیچھے کی جانب گیا ۔ 

     سامنے ہی ایک جانب بنی سیڑھیوں سے گول گول گھومتے سیدھا نیچے کی جانب ایک کمرہ بنا تھا ، 

  وہ رکتے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کرتا خود کو پرسکون کرنے لگا جو کہ فلحال تو ناممکن سا تھا۔۔

     آئیے سر۔۔۔۔ موبائل دیں۔۔۔۔ مائیکل اس کی بے دھیانی کو نوٹ کر چکا تھا۔۔

 شاید وہ کچھ زیادہ ڈسٹرب تھا۔۔

     سر آر یو شیور کہ آپ کا فون پینڈنٹ میں لگے ٹریسر سے اٹیچڈ ہے۔۔۔ مائیکل پیشہ وارانہ انداز میں اس سے سوال کرتے موبائل کو اٹیچ کرنے لگا۔

         تم بتاؤ کہ میرا کام کر سکتے ہو کہ نہیں۔۔۔ وہ اسکے سوال کو اگنور کرتے ہوئے بولا۔۔

      کہاں تھا اسکے پاس وقت۔۔۔ وہ بس جلد از جلد یہ سب ختم کرنا چاہتا تھا۔۔

         سر ہماری ٹیم ورلڈ بیسٹ ٹریسر ٹیم ہے۔۔۔ اور آپ فکر نہیں کریں آپ کا کام بالکل پرسنل ہو گا۔۔ مائیکل اسکے ماتھے پہ چڑھتی تیوریوں کو دیکھ بات سنبھالتے ہوئے بولا۔

         مجھے اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے تم بس میرا کام کرو۔۔ رافع اسے اگنور کرتے بے چینی سے ماتھا مسلتے بولا۔

   کمرے میں ایک جانب لگے بڑے سے صوفوں کے سامنے ہی ایل سی ڈی سکرین تھی۔۔۔ اسکے علاؤہ ایک جانب پڑی کمپیوٹر اور دوسری تمام ٹیکنالوجی جن کی مدد سے منٹوں میں کام باآسانی سے ہو سکتا تھا۔۔

        رافع بے چینی سے چکر کاٹتے سامنے دیکھنے لگا جہاں مائیکل اسکے فون کے ساتھ پینڈنٹ کا کنکشن چیک کر رہا تھا۔۔

      سر۔۔۔۔۔ سوری بٹ پینڈنٹ کی لوکیشن ٹریس نہیں ہو رہی ۔۔۔ یاں تو پینڈنٹ انکے گلے سے گر چکا ہے یاں پھر ۔۔۔

        ایسے کیسے ٹریس نہیں۔ ہو رہا۔ ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے تم میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔۔ اور ابھی کہہ رہے ہو کہ پینڈنٹ  اسکے گلے میں نہیں ہو گا۔۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے پہنایا ہے ۔۔

        وہ اس وقت ، ان لمحوں کو یاد کرتے بولے جب اسنے خود ہی تو اپنے ہاتھوں سے کتنے پیار سے اپنی فدک کے گلے میں وہ پینڈنٹ ڈالا تھا ۔ وہ بھپرے تاثرات کے ساتھ آگے بڑھتا اسے گریبان سے پکڑتے غرایا تھا ۔۔

  سر بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔۔۔  مائیکل اسکے وخشی روپ کو دیکھتے اسے سمجھانے کی ایک معمولی سی کوشش کرنے لگا۔

   سر ہو سکتا ہے کہ اس جگہ پہ سگنلز ناں ہوں ۔۔ آپ پلیز مجھے تھوڑا ٹائم دیں میں کچھ کرتا ہوں ۔۔

      وہ اپنے سامنے طوفان کی مانند کھڑے رافع کے پھولتے تنفس کو دیکھ بامشکل سے بولا۔

          اگر میری فدک پہ ایک کھروچ بھی آئی  ۔۔ تو آئی سویر سعد ہمایوں۔۔۔۔۔۔۔ تجھے میں اپنے انہی ہاتھوں سے ایسی موت دوں گا کہ تجھے اپنے پیدا ہونے پہ افسوس ہو گا۔۔

 وہ تڑپتے فدک کے معصوم چہرے کو یاد کرتے غصے سے کہتے صوفے کو لات مارتے روم سے نکلا ۔

  ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                          "  وہ سوں سوں کرتی کندھے پر سے شرٹ کو ٹھیک کرتے بامشکل سیڑھیوں کو کور کرتے روم کے سامنے آئی۔۔۔۔ جس قدر یہ گھر خوبصورت تھا ۔۔ اسی قدر یہ سیڑھیاں اسے تھکا چکی تھیں ۔ کل سے چار بار اوپر نیچے ہوتے اب اس کی بس کو چکی تھی ۔ 

    لکڑی سے بنی اسٹائلش سیڑھیاں جو کہ تین دفعہ گول شیپ میں گھومتے اوپر وریام کے روم کے سامنے ختم ہوتی تھیں۔۔

  وہ غصے سے تیز تیز سانسیں لیتی جلدی سے اندر داخل ہوئی۔۔

   ایک طائرانہ نظر پورے روم پہ دوڑائی، جہاں سامنے ہی ہارٹ شیپ بنے خوبصورت سے بیڈ کے اوپر ہی بیڈ کی آدھی دیوار کو کور کرتی وریام کی فوٹو لگی تھی۔۔

      جس میں وہ شرٹ لیس اپنے دودھیا چوڑے کشادہ سینے کے ساتھ بلیو جینز میں کھڑا ، پاؤں میں جوگرز پہنے ، بالوں کو جیل سے کھڑا کیے ، چہرے پہ ہمیشہ کی طرح ایک قاتلانہ مسکراہٹ ، وہ رخ موڑے ایک ہاتھ سے آنکھوں کے قریب سن گلاسز لے کے جاتے اس تصویر میں ایک عجیب سے سحر طاری کرتی شحصیت کے ساتھ کھڑا تھا۔۔

      نیناں کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ اسے ایک بار غور سے دیکھتے ہی۔۔۔۔ وہ فوراً سے نظریں جھکا گئی۔۔ جیسے سامنے ہی وریام کھڑا اسے شوخ نظروں سے دیکھ رہا ہو۔۔

     وہ فوراً سے آگے ہوتی بیڈ کے پاس ہی پڑے اپنے کاٹے گئے کپڑوں کو دیکھ ہلکا سا مسکرائی۔۔ 

 اس نے تو سوچا تھا کہ وہ خوب ڈانٹے گا غصہ کرے گا، مگر وریام نے تو کچھ کہاں ہی نہیں ۔ الٹا وہ اپنی سانسیں اسکی سانسوں میں ملاتے اسے ناجانے کیوں مگر یہ یقین دلا رہا تھا کہ اب اس کی زندگی کس سے ہے ۔ 

وہ سوچتے سر جھٹک گئی ۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ اسکی قربت میں اسکے اتنے پاس تھی ۔۔ وہ خود سمجھ ناں پائی آخر کیا تھا یہ شخص۔۔۔ کیا چاہتا تھا اس سے۔۔۔۔

    وہ کچھ بھی سمجھ ناں آنے پر ایک بار پھر سے روم کو گھورنے لگی۔۔

     جہاں پہ بیڈ کی دائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل ، اور بائیں جانب صوفے لگے تھے۔۔ جبکہ روم کے دروازے کے ساتھ والی دیوار کے پاس ہی کبرڈ سیٹ کی گئی تھی ۔۔

     وہ سوچتی کبرڈ چیک کرنے لگی۔۔۔ وریام نے تو کہاں تھا کہ اندر جا کر چینج کروں مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں ۔ وہ سوچتے سر کھجاتے اپنے بالوں کو دیکھنے لگی ۔۔

اف کیچر تو میں نیچے ہی چھوڑ ائی۔۔۔ وہ سوچتے ماتھے پہ ہاتھ مارتے بولی۔۔

     اور ایسے ہی بالوں کو اکھٹا کرتی ایک جانب کندھے پہ ڈالے وہ ساتھ اٹیچڈ روم میں داخل ہوئی۔۔۔

  وہ بڑھتی روم کو گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔  خوبصورت سا  نفاست سے گرے کلر کے پینٹ کے ساتھ ڈیزائن ہوا روم اور ایک جانب دیوار پہ بنی بڑی سے الماری تھی شاید ۔۔۔ وہ سوچتے آگے بڑھتے لکڑی کی بڑی سی  الماری کو سر سے پاؤں تک پاس کھڑے ہوتی دیکھنے لگی ۔۔۔ 

  وہ دبلی پتلی کمزور ضرور تھی مگر کیا وریام سچ کہتا تھا کہ وہ چھوٹی بھی ہے ۔۔ الماری کے پاس کھڑے وہ اپنے سایز کو دیکھتے سوچنے لگی۔۔ ایک نظر اپنے جوتوں سے بےگانہ سرخ و سفیدنازک سے پاؤں کو دیکھتے وہ اپنے شانوں کو دیکھتے سوچنے لگی۔۔

 وہ بمشکل الماری کے آدھے حصے تک پہنچ پائی تھی۔۔ جبکہ ہینڈل تھوڑا اوپر تھا۔۔ وہ سوچتے لب بھینج گئی ۔  اب تو اس الماری کو کھولنا ہی تھا۔۔

  وہ سوچتی ایک جانب رکھے اسٹول کو اٹھا لائی۔۔ وہ برابر سے سیٹ کرتی اس پہ کھڑے ہوتے الماری کو کھولتی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی منہ پی ہاتھ رکھ گئی ۔

  جہاں ایک جانب دیوار کے اندر اٹیچڈ اس الماری میں اور روم کا دروازہ تھا۔ وہ حیرت زدہ سے ہوتی آنکھیں پھاڑے دیکھتی اچانک اسٹول سے گرتی کہ پیچھے سے آتے وریام کی مہربان بانہوں نے اسے خود میں سمیٹ لیا۔۔

   کیا ہوا میری چھوٹی سی بیوی سے دروازہ نہیں کھلا ۔ وہ مسکراتے اپنی بانہوں میں موجود اس نرم و گداز  وجود کو محسوس کرتے سحر میں کھو سا گیا ۔

        آ آپ۔۔۔۔ وہ اچانک پریشان سی ہوتی ہاتھ آنکھوں سے ہٹائے اسے دیکھنے لگی ۔۔

   جو شرٹ لیس ۔۔ جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ  اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

        میری چھوٹی سی جان کے لیے اگر  یہ سب اتنا ہی مشکل تھا تو مجھے بتاتی بندہ خاضر ہے۔۔۔ 

وہ جھٹکے سے اسے سیدھا کرتے اپنے دونوں بازوؤں میں اٹھاتے ہوئے بولا ۔ کہ نیناں نے ڈرتے اسکے گلے میں دونوں بازوؤں ڈالے سہارے کو۔۔

      آپ ۔۔۔ آپ کی شرٹ کہاں ہے ۔۔ ؟ وہ مسلسل خود پہ اسکی گہری نظریں محسوس کرتے کچھ سمجھ ناں آنے پہ بولی۔۔ 

           ہمممم۔۔۔ کپڑے تو تم نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے سنوارے تھے۔۔ 

اسی لیے آج تمہیں ایسے ہی اپنے ہزبینڈ کو برداشت کرنا پڑے گا۔۔

    وہ اسے اٹھائے اندر داخل ہوتے بولا ۔کہ نیناں کو پہلی بار اپنے کیے پہ پچھتاوا ہوا ۔  

             یہ سب کس کا ہے۔۔۔ وہ حیرت زدہ سی اسکے ساتھ چپکی سامنے ایک جانب لگے مختلف ڈیزائننگ ، سمپل کپڑوں ، ایک سائیڈ پڑے سوفٹ اور ہیل والے جوتوں، کو دیکھتے پوچھنے لگی ۔

   وہ مسکرایا تھا اسکے ننھے سے دماغ پہ ۔۔ یہ سب میری چھوٹی سی بیوی کے لیے ہے ۔۔ 

  یہ  ڈیزائننگ کپڑے آوٹنگ کے لیے جب ہم باہر گھومنے جایا کریں گے تب پہننا۔۔ 

یہ سمپل ڈریس گھر میں پہننے کو ۔۔۔

اور یہ جوتے بھی تمہارے لیے ہیں ۔ اور یہ باقی کا تمہارا سارا ضروری سامان۔۔

سائز پرفیکٹ ہے بالکل میری طرح وہ اسکا رخ سامنے موجود ہینگ کیے کپڑوں کی جانب کرتے اسکے کندھے پہ سے بالوں کو سائیڈ کرتے تھوڑی ٹکاتے بولا۔ 

۔۔

     مگر یہ سب میرے لیے کیوں ۔۔اسے سمجھ میں نہیں  آ رہا تھا کہ آخر وہ  کیوں ایسے کر دہا تھا۔۔ کیا سچ میں وہ صرف اپنی ضد کو پورا کرتے یہ سب کرتا تو اسے کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ نیناں کے لیے اتنا سب کچھ خریدے۔۔

     اور ہماری اسپیشل نائٹ کے لیے ڈریس میں خود سلیکیٹ کروں گا۔۔۔ وہ اسے خیالوں میں کھویا پاتے اسکے بال ہٹاتے اسکی گردن پہ جابجا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔ کہ وہ جو سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی ۔

اپنی بیک گردن پہ  اسکے دہکتے ہونٹوں کو محسوس کرتے وہ دم سادھے کھڑی ہو گئی ۔

    یہ والا میرا فیورٹ۔۔۔ یہ پہنو۔۔۔ وہ اسکے سانس روکنے کو محسوس کر چکا تھا اسی لیے خود پہ ضبط کے پہاڑ باندھے وہ دوبارہ سے اسے ریلیکس کرنے لگا۔۔

       میں چینج کرتی ہوں وہ وائٹ کلر کی ہلکی پھلکی سے سمپل ڈریس کو اسکے ہاتھ سے پکڑتے فوراً سے روم میں بند ہوئی۔۔

پیچھے وہ اسکی پھرتی پہ مسکراتے جیب میں بجتے موبائل کو نکالتے کان سے لگا گیا۔۔

    ہیلو بڈی ہاؤ آر یو۔۔۔ وہ مسکراتے سرشار سا ہوتا اظہر کی آواز سنتے بولا۔۔

   آج اچانک یاد کر لیا سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔ 

وہ مسکراتے ہاتھ سے بالوں کو سیٹ کرتے بولا۔۔ 

بیٹا دراصل فدک کا کہیں بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا ، رافع بیت پریشان سا گھر سے نکلا ہے اور تو اور مجھے کال بھی نہیں کرنے دی کسی کو  تم پلیز آ جاؤ۔۔

    انکل کیا کہہ رہے ہیں کہاں جا سکتی ہے فدک ضرور یہیں کہیں آگے پیچھے ہو گی۔ 

  وہ پریشان ہوتا آگے پیچھے ٹہلتے بولا ۔

بیٹا تم پلیز آ جاؤ۔۔۔  

اوکے انکل میں آتا ہوں۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی کال ڈسکینکٹ کر گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           وہ ڈیپ ریڈ کلر کی پاؤں کو چھوتی خوبصورت سی  فراک کے ساتھ پاؤں میں ہلکی سی چپل پہنے ، ہلکی سی ریڈ لپ اسٹک لگائے   ہچکاہٹ اور گھبراہٹ سے ایک ایک قدم اٹھاتے باہر کو ائی۔۔

   مگر سامنے ہی ڈائینگ ٹیبل پہ کھانا لگاتے اشعر اور اسکے پاس کھڑی اسکی پھپھو کو دیکھ وہ ایک جانب ہوتی دیوار سے لگ گئی۔۔ اسکا دل دھک دھک  کرتا اسے اپنے کانوں میں بجتا  محسوس ہو رہا تھا۔۔

  اوپر سے شرم و حیا نے اسکے چہرے کو گلنار بنا دیا تھا۔۔ 

  کیا سوچیں گی  پھپھو کہ اتنی دیر سے اٹھی ہے اوپر سے ناشتہ بھی شوہر بنا رہا ہے۔۔ وہ سوچتے لب دانتوں تلے چبانے لگی۔۔ 

اشعر کی ساری فیملی چلی گئی تھی رات کو ہی ، سوائے اسکی پھپھو کے۔۔

     یہاں کیا کر رہی ہو ؟۔ چلو آؤ میں تمہیں ہی لینے آ رہا تھا ۔ 

اشعر جو کہ اسے ہی بلانے آ رہا تھا اسے دیوار کے ساتھ چپکے ہونٹ چباتے دیکھ وہ ایک نظر مسکراتے اسکے سراپے کو دیکھتا اسے لیے ڈائننگ ٹیبل پہ آیا۔۔

     بیٹا تم لوگ ناشتہ کرو میں ابھی آتی ہوں۔۔  شاہدہ نخوت سے ناک چھڑہاتے  ایک نظر رمشہ کے سجے سنورے سراپے کو دیکھتے اندر روم کی جانب گئی۔۔

     اششش ڈارلنگ یور آر لنگنگ گورجیس۔۔۔۔ وہ رمشہ کے روتوں موڈ کے آن ہوتے دیکھ فوراً سے بولا کہ کہیں پھر سے وہ رونے ناں  لگ پڑے۔

۔

اشعر ایم  سوری۔۔ مجھے جلدی اٹھنا چاہیے تھا۔۔۔ وہ سوں سوں کرتی  آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھتے شرمندہ ہوتے بولی۔۔کہ وہ ایک دم سے جگہ سے اٹھتے اسکے پاس زمین پی بیٹھتے اسکے دونوں ہاتھوں کو گرفت میں لے گیا ۔

۔

 تم کیوں سوری کہہ رہی ہو جان اب لیٹ بھی تو میری وجہ سے ہوئی۔۔۔ تو کیا ہوا اگر میں نے اپنے ہاتھوں سے آج پہلی بار تمہارے لیے کچھ بنایا ہے۔۔

    ٹیسٹ تو کرو  ، اتنا برا بھی نہیں بنا۔۔۔ وہ منہ بنا کہ بولا کہ رمشہ نے مسکراتے اسکی جانب دیکھا ۔ 

   وہ اسکا  چہرہ ہاتھوں میں تھامتے اپنے ہونٹوں سے اسکے آنسوں کو چنتے پیچھے ہوا ۔

میرے لیے تم ہی میرا سب کچھ ہو۔۔ کبھی بھی مجھ سے الگ مت ہونا۔۔ کبھی بھی مجھے اکیلا مت چھوڑنا۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سانسوں کی طرح تمہیں اپنے قریب رکھوں۔۔۔ اتنا کہ تم خود بھی مجھ سے دور نا جا پاو۔۔

 بولو رہو گی ناں میرے قریب۔۔۔ وہ پیار سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا کہ رمشہ نے سر ہاں میں ہلاتے شرماتے چہرہ جھکا لیا۔

 چلو اب جلدی سے چائے ٹیسٹ کرو اور بتاؤ کہ تمہارا شوہر اس ٹیسٹ میں پاس ہوا کہ نہیں کیونکہ رات والے میں تو میں ہنڈریڈ پرسنٹ کامیاب ہو گیا ہوں ۔۔ وہ  چائے کا کپ  اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے مخنی خیزی سے بولا۔۔۔

  کہ رمشہ نے پھر سے ہونٹوں کو ٹیڑھا کرتے رونے کی تیاری پکڑی جسے دیکھ وہ فوراً سے سوری کرتے شرافت سے چپ ہو گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

     وریام ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔؟۔ وہ کافی دیر سے خاموش گاڑی میں بیٹھی   اب پریشان سی ہوتی انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی۔۔

  وہ پہلی بار وریام کو اس قدر سنجیدہ دیکھ رہی تھی ۔ اوپر سے یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ اسے مارنے کے لیے تو نہیں لے کر جا رہا۔۔ 

  وہ ڈرتی ایک نظر سنجیدگی سے ڈرائیونگ کرتے وریام کو دیکھتے انگلی منہ میں دبا گئی۔۔

نین ڈونٹ وری یار بس ہم پہنچنے والے ہیں ۔ وہ اسکی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اسکے کپکپاتے ہوئے ہاتھ کو تھامتے بولا۔۔ تو نیناں نے بھی بس خاموشی سے سر ہاں میں ہلاتے خود کو ریلکس کیا۔

      وہ دس منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کرتے نیناں کو ساتھ لیے اظہر کے گھر میں داخل ہوا۔۔

۔انکل کچھ پتہ چلا ،رافع اور فدک کا۔۔۔ وہ نیناں کا ہاتھ تھامے اندر ہال میں آتے سامنے پریشان سے ٹہلتے اظہر کو دیکھ بولا ۔

   بیٹا وریام کچھ معلوم نہیں ہوا پتہ نہیں ،  کہاں ہیں میرے دونوں بچے ۔۔ وہ بھاگتے وریام کے پاس آتے بولے ۔۔

       انکل آپ پریشان ناں ہوں۔۔ میں لے کے آؤں گا دونوں کو۔۔ وہ اظہر کو گلے لگاتے حوصلہ دیتے بولا۔۔

     بیٹا یہ بچی ۔۔۔۔؟

وہ وریام کے پیچھے قدرے ڈرتی چھپی ہوئی نیناں کو دیکھ بولے۔۔ جو اظہر کی آواز سنتے وریام کے بازوؤں کو ڈرتے مضبوطی سے تھام گئی۔۔

انکل یہ نیناں ہے ۔ میری بیوی اور آپ کی بہو۔ وہ نیناں کا ہاتھ پکڑتے سامنے کرتے اظہر کو دیکھ بولا ۔

جو منہ کھولے کھڑے تھے ۔ یہ بات یقین کے قابل ہی نہیں تھی کہ وریام نے شادی کر لی۔ مگر وہ ایک نظر اس معصوم خوبصورت چہرے کو دیکھ سر ہلاتے  دعا دینےگے۔۔

      انکل  آپ نین کا خیال رکھیے گا میں رافع اور فدک کو لے کر آتا ہوں۔

 وہ ایک نظر نیناں کی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے اظہر کو کہتا باہر کو بڑھا ۔

   وریام۔۔۔۔۔ معا وہ گاڑی میں بیٹھتا کہ پیچھے سے آتی آواز اور اپنی کمر کے گرد نرم و نازک حصار کو دیکھتے وہ رکتے اسے خود میں محسوس کرنے لگا۔۔

   وریام آئی ایم سوری۔۔۔  میں نے آپ کو تنگ کیا ،  پلیز مجھے یہاں مت چھوڑ کے جائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔

وہ سوں سوں کرتی کہتے ناک اسکی نئی آنلائن  تھوڑی دیر پہلے منگوائی شرٹ کے ساتھ رگڑتے ہوئے بولی۔ 

    ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ کھولتا اپنی کمر سے اسے پکڑتے اپنے سامنے کرتے پیار سے بولا۔۔

رافع میرا دوست ہے اور فدک میری بہن۔۔۔ اگر میں ہی ان کو ناں ڈھونڈوں گا تو اور کون ڈھونڈے گا ہممم۔۔ڈونٹ وری ۔۔ انکل بالکل میرے ڈیڈ کے جیسے ہیں۔۔ تم اپنا خیال رکھنا۔۔

   وہ اسکی پیشانی کو پیار سے چومتے ہوئے بولا۔۔

نو نو وریام پلیز مجھے بھی لے چلیں ساتھ۔۔۔ پھر سے اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ بولی کہ وریام ایک سرد آہ کھینچتے اسے بازوؤں میں بھرتے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

            وریام ۔۔۔۔ وہ اسکے سخت تیور دیکھتی سخت خائف ہوتے اسے بلانے لگی۔۔

جو اسے اٹھائے اوپر روم کی جانب بڑھ رہا تھا۔ نیناں کو رونا آنے لگا۔ اس اجنبی ملک میں ایک وہی تو تھا جو اسے اپنوں سے دور کیے لے آیا تھا اب وہ بھی اسے چھوڑے جا رہا تھا ایک ایسی جگہ جسے وہ جانتی تک ناں تھی ۔

اور ناں ہی وریام کے انکل کو۔۔ وہ سوچتے روتے اسکے سینے میں منہ دیے سوں سوں کرنے لگی۔۔

جبکہ دوسری جانب وہ سخت جھنجھلایا ہوا اپنے سینے سے لگی اس موم کی گڑیا کو روتے دیکھ سختی سے لب بھینج گیا۔

          وہ بڑھتا سیڑھیوں کو جلدی سے کراس کرتے اوپر ایک روم میں داخل ہوتے پاؤں سے دروازہ لاک کر چکا تھا وہ بیڈ کے پاس کھڑے ہوتے اسے دیکھنے لگا جو ہنوز خرگوش کی طرح آنکھیں بند کیے اسکے سینے میں چھپی ہوئی تھی ۔۔۔

      وہ ایک ٹانگ بیڈ پہ رکھتے آہستہ سے جھکتا اسے بیڈ پہ لٹاتے ویسے ہی اسکے اوپر جھک گیا ۔ 

       اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے ۔۔ یہاں پہ وہ ہاتھ سے اسکے کے کیچر میں مقید بالوں کو آزاد کرتے اپنے ہاتھوں میں لیتے سہلاتے گھمبیر لہجے میں بولا ۔ 

     آپ کیوں لائے مجھے یہاں پہ ۔ مجھے پاکستان جانا ہے اپنوں کے پاس  ۔ یہاں کوئی اپنا نہیں میرا اب آپ بھی جا رہے ہیں۔۔ وہ زور زور سے روتے ہچکیوں میں کہتی  چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا گئی ۔

   کتنا ڈر لگ رہا تھا اسے ۔۔ مگر اس انسان کو کوئی ہوش نہیں تھا ۔۔ بس اسے لے تو آیا تھا مگر اب یوں چھوڑے جا رہا تھا۔۔

 وہ روتی ناں تو اور کیا کرتی۔۔

  ہیے۔۔۔ نین ریلکس بے بی کچھ نہیں ہوا ۔۔ ادھر دیکھو۔۔۔ وہ جو کب سے خود پہ ضبط کرتا اسے روتے دیکھ رہا تھا ، ایک دم سے بے ساختہ ہوتے اسکے چہروں کو ہاتھوں سے آزاد کرواتے اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر گیا۔ 

        دیکھو اس دن ائیرپورٹ پہ جو لڑکا ،لڑکی ہم سے ملنے آئے تھے۔۔۔ وہ لڑکی میری بہن ہے ۔۔ میں نے صرف بولا نہیں بلکہ مانا بھی ہے اسے بہن اور وہ لڑکا اس کا شوہر اور میرے بچپن کا دوست ہے ۔۔ اب وہ لوگ مصیبت میں ہیں تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں۔۔ جانے وہ کہاں ہیں۔۔؟ کس حال میں ہیں۔۔؟ 

   وہ نرمی سے اسکی بھیگی سیاہ بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے پیار سے سمجھانے لگا۔۔ جو کہ شاید فدک اور رافع کا سوچ رہی تھی ۔۔

    آج کے بعد یہ آنسوں مجھے ان آنکھوں میں نظر ناں آئیں۔۔۔ 

 وہ کہتے شدت سے جھکتا اپنے لبوں سے ان آنسوں کو کسی قیمتی ہیرے کی طرح چن گیا ۔

       "  وہ اسکے ایک ایک نقش کو محبت عقیدت سے چومتے مسکراتے اسے دیکھنے لگا۔  جو پہلی دفعہ بالکل خاموش آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی ۔۔ 

         بس میرے واپس آنے تک ایسے ہی رہنا ۔۔ وہ مسکراتے اسکی پیشانی کو چومتے ہوئے بولا۔

ایسے کیسے مطلب۔۔ نیناں آنکھیں کھولتی فورا سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔ 

  بالکل خاموش ، شرماتی ہوئی پاک کی لڑکیوں کے جیسے ۔ تاکہ مجھے آسانی رہے آگے جا کے۔۔۔ وہ مسکرایا تھا ۔۔ اسکے سوال پہ ۔ جانتا جو تھا کہ اسے باتوں میں لگا لے گا اب وہ کامیاب تھا اسکے بدلتے چہرے کے رنگوں کو دیکھ ۔۔ 

  میں تمہارا خون پی جاؤں گی ۔۔۔ وریام۔۔۔ وہ سمجھتی ایک دم سے سرخ ہوتی غصے سے اسے دیکھ بولی۔۔ 

کہ وہ ایک دم سے بھوکھلاتے ہوئے ہاتھ اسکے منہ پہ رکھتے اسے بیڈ پہ لٹاتے اسکے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔

 ابھی جلدی ہے مجھے، جانا ضروری ہے ۔ ورنہ آئی سویر جس طرح سے تم نے آج روکا ہے ۔۔۔ اہہہہ۔۔۔   آج یہ ساری دوریاں دو منٹ میں ختم کر دیتا۔  

مگر افسوس میرے پاس وقت نہیں۔ ہے۔۔  اور ہاں اپنا خیال رکھنا چاہو تو روم کو اندر سے لاک کر لو۔  کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔

   تم وریام مرتضٰی کاظمی کی بیوی ہو۔۔ اور میں اپنی عزت کی طرف اٹھتی گندی نظروں کو انکی روشنی سے ہی محروم کر دیتا ہوں ۔۔ 

     کوئی تمہیں چھونا تو دور ، آنکھ اٹھا کر میری مرضی کے بغیر دیکھ بھی نہیں سکتا ۔  وہ اسے بتا رہا تھا ۔۔ اسے مان دے رہا تھا کہ وہ اسکے لیے کس قدر ضروری ہے۔۔  اور وہ اسکی بھوری آنکھوں میں جلتے روشن محبت کے سمندر کو دیکھ مبہوت سی ہو گئی۔۔

       موم اور ڈیڈ بھی آ رہے ہیں ۔۔ کچھ دیر تک وہ آتے ہی ہوں گے تم انکے ساتھ گھر چلی جانا ۔۔ اوکے۔۔

   وہ پیار سے اسکے معصوم خوبصورتی سے بنے نقوش کو دیکھتے کہتا اسپہ کمفرٹر اوڑھتے اسکے گالوں کو باری باری چومتے اسکی چھوٹی سی ناک پہ لب رکھتے کہتے روم سے باہر نکلا ۔

پیچھے وہ کروٹ بدلتی اپنے آنے والی زندگی کا سوچتی گہرا سانس بھر گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    "آں۔۔۔ ۔۔۔۔۔ وہ چیختے کراہتے خود کو مضبوط ثابت کرتی اپنے منہ سے آتے خون کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے مسکراتے سعد کو دیکھنے لگی۔

  جو غصے سے اس ڈھیٹ کو گھور رہا تھا۔۔ 

بے تخاشہ مارنے کی وجہ سے فدک کے منہ اور ناک سے بہتا خون ، کھینچنے سے اٹے ہوئے بکھرے بال ،  اور جگہ جگہ سے مار کی وجہ سے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔۔

وہ خود پہ اس ظالم کی مار برداشت کر رہی تھی وہ کسی بھی خال میں اپنے بابا کی محنت کی کمائی اس گھٹیا انسان کے نام نہیں کر سکتی تھی۔۔ اسے یقین تھا کہ رافع اسے ضرور ڈھونڈ لے گا۔۔

   بول کمینی۔۔۔۔ سانپ سونگھ گیا ہے کیا تجھے۔۔ وہ لات  سے ایک اور ضرب اسکے پیٹ ہہ مارتے نفرت سے بولا۔

    نہیں کک کروں گا گ گی اس سائن مم میں۔۔۔ وہ منہ سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بغیر آدھ مری حالت میں بھی اس کے منہ پہ چلائی۔۔ 

جسے اسکا چلانا طیش دے گیا۔۔

کہاں تھا ناں تجھے چپ چاپ جیسا کہتا ہوں مان لے ۔ دونوں آرام و سکون سے رہیں گے۔۔ میں بھی خوش اور توں  بھی۔۔ مگر تجھ پہ بہت پاک دامنی کا بھوت چڑھا ہوا تھا۔۔ اب دیکھ اپنی حالت۔۔

     اب مجھے تجھ سے ویسے بھی کوئی غرض نہیں ناجانے کتنی راتیں  توں اپنے اس شوہر کے ساتھ گزار چکی ہے ۔ مگر اب تیری ایسی حالت کو دیکھ وہ تجھے دیکھے گا بھی نہیں۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔

وہ اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے  نفرت بھرے لہجے میں کہتے اسکے اندر جلتی مدہم سی امید کو بھی بجھا گیا ۔

چھوڑ مجھے کمینے انسان تم دیکھ لینا میرے رافع آتے ہوں گے اپنی فدک کو لینے ۔۔ وہ تیرا اتنا برا خشر کریں گے کہ تجھے اپنے پیدا ہونے پہ افسوس ہو گا۔۔ 

بکواس کرتی ہے کمینی۔۔۔ چٹاخ۔۔۔ وہ سنتے غصے سے اسکے منہ پہ تھپڑ مارتے ہوئے پیچھے ہوا کہ ایک دم سے وہ اسکی بھاری ہاتھ کا تھپڑ اتنی بری حالت میں برداشت ناں کرتی وہیں بے ہوش ہو گئی۔۔

   سالی بے ہوش ہو گئی۔۔۔   چل سعد بعد میں کرنا جو بھی کرنا ہے ابھی تو اس کی حالت خراب ہے اگر اور تشدد کیا تو کہیں مر ہی ناں جائے۔۔

سعد کا دوست بلال جو اس پورے کام میں اسکے ساتھ تھا، فدک کی ناساز حالت کو دیکھتے اسے کھینچتے کمرے سے باہر لے گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

      کیا میں اندر آ سکتا ہوں بی جان۔۔۔ وہ  ہلکا سا دروازے کو ناک کرتے مؤدب سے اجازت مانگتے ہوئے بولا کہ بی جان نے تسبیح کرتے سر اٹھاتے اپنے خوبرو پوتے کو دیکھ سر کو ہاں میں ہلایا۔۔

    وہ خاموشی سے چلتا ہاتھ باندھتے  انکے جائے نماز کے پاس کھڑا ہو گیا۔

  آؤ بیٹھو میری جان۔۔۔ بی جان دعا مانگتی اسکے چہرے پہ پھونک مارتے پیار سے کہتے اسکا ہاتھ پکڑتے سہارے سے بیڈ پہ بیٹھی۔۔

کہو کوئی کام تھا۔۔

وہ حسن کو دیکھتے  جو کہ وہ نیچے انکے پاس بیٹھتے انکی گود میں رکھ چکا تھا  وہ  پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔۔

       بی جان  وہ میں آپ سے کچھ کہنے آیا تھا ۔۔ وہ ہنوز سر انکی گود میں رکھے بولا۔ کہ بی جان ہلکا سا مسکرائی۔۔

       معافی مانگنے آئے ہو ۔۔۔ اپنے رویے کی۔۔۔

وہ بی جان کے کہنے پہ سر اٹھائے حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔ 

    ایسے کیا دیکھ رہے ہو ماں ہوں میں تمہاری اپنے بچوں کے دل کا حال بخوبی جانتی ہوں۔۔۔

بیجان مجھے معاف کر دیں ۔۔۔میں نے کبھی بھی آپ کے ساتھ اچھے سے بات نہیں کی۔ آپ کو پیار نہیں کیا۔۔ ہمیشہ بدتمیزی ہی کی ہے۔۔

وہ انکے بھوڑے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو چومتے نم آنکھوں سے بولا ۔

کہ بی جان ہلکا سا مسکرائیں۔۔۔ ماں کبھی اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتی پگلے۔۔۔۔ وہ اسکے ماتھا چومتے اسے بیڈ پہ اپنے پاس بٹھا گئی۔۔

     اپنے ماں باپ سے مانگی معافی ۔۔۔ وہ اسکا چہرہ کو دیکھتی مسکراتے لہجے میں پوچھنے لگی جو کہ سنتا خاموشی سے سر  جھکا گیا ۔

وہ کھبی معاف نہیں کریں گے مجھے۔۔۔ بابا تو بالکل بھی نہیں۔۔۔

۔ وہ سوچتا دکھ بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ 

تو کیا تم انہیں مناؤ گے نہیں اگر وہ تم سے ناراض ہیں ۔

میں گیا تھا بی جان بابا تو بابا ، ماما نے بھی بات نہیں کی۔۔ کہتے ہیں کہ مر گیا میں انکے لیے۔۔ 

وہ بتاتا ضبط سے آنکھیں میچ گیا کہ مبادا آنسو بہتے چہرے کو ہی ناں بھگو دیں۔۔

    میری بہو اور پرپوتی کو لے آؤ گھر ۔۔ یہ انکا بھی گھر ہے۔۔

وہ سنتا چونکتے بی جان کو دیکھنے لگا ۔ ماما بابا اجازت نہیں دیں گے کبھی بھی بی جان۔۔۔۔ وہ سوچتا دکھ بھرے لہجے میں بولا کہ بی جان نے ہاتھ اسکے سر پہ رکھا۔۔

۔۔بیٹا یہ جو اپنی اولاد کی اولاد ہوتی ہے ناں یہ انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے۔۔ تم لے کے تو آؤ۔۔۔ میرے ہوتے تمہیں کسی اور کی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔

وہ کہتے حسن کی پیشانی چوم گئی۔۔ کہ حسن  تھینک یو کہتے انکے گلے آ لگا 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

            وہ بارعب شاہانہ انداز میں چلتا  ہڈ سردی کی وجہ سے سر پہ ڈالتے کہنیوں کو فولڈ کرتے تیز تیز قدم اٹھاتے اندر داخل ہوا ۔

     تم یہاں پہ ٹائم پاس کر رہے ہو۔۔۔۔۔ اسکی آواز پہ مقابل نے سخت پریشانی میں جھٹکے سے سر اٹھاتے پیچھے کو دیکھا ۔

۔جہاں وہ ہمیشہ کی طرح لاپرواہ سے انداز میں  سب کو اگنور کیے بڑھتا اسکے پاس آتے ہاتھ حسب عادت پینٹ کی پاکٹوں میں پھنسا گیا ۔

میں یہاں ٹائم پاس نہیں کر رہا۔ ۔ کام سے آیا ہوں۔۔۔

مقابل بھی اسی تیز لہجے میں باور کراتے رخ موڑ گیا ۔

   چلو میرے ساتھ وہ بنا کوئی جواب دیے اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے کہتا باہر کو بڑھا کہ پیچھے وہ ہیچ و تاب کھاتا غصے سے پاؤں پٹھکتا اسکے پیچھے ہی روم سے نکلا۔ کہ مائیکل ناسمجھی سے اسے جاتا دیکھ سر سر کرتا رہ گیا ۔

    بیٹھو وہ گاڑی کا ڈور اوپن کرتے اسے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے ہی تحکم بھرے لہجے میں بولا ۔

۔

دیکھو وریام میں یہاں کام سے آیا ہوں ۔۔۔ فدک کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا ۔۔ اور میں جانتا ہوں کہ یہ سب ضرور اس کمینے سعد کا کام ہے ۔

   رافع آؤٹ آف کنٹرول ہوتے ہاتھ دیش بورڈ پہ مارتے چیختے ہوئے بولآ۔۔

کہ وریام نے ایک ہاتھ زرا سا ٹیڑھا ہوتے اپنی سیٹ کے اوپر پھیلاتے اسے آبرو اچکاتے ہوئے دیکھا۔۔

کیا بات ہے تجھے معلوم ہے سب اور توں یہاں پہ فضول میں اپنا ٹائم ویسٹ کر رہا یے۔۔ 

وریام کے کہنے پہ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتا حیران ہوا۔۔۔

کہاں جا رہا ہے توں وری۔۔۔ وہ اسے گاڑی سٹارٹ کرتے دیکھ فوراً سے بولا۔

اپنی  بہن کو دوبارہ سے گھر لانے۔۔ اب خاموشی سے بیٹھ ،  ورنہ ! اپنی بہن کو بچانے کے لیے مجھے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں اب اگر توں چاہتا ہے کہ میں خاموش رہوں اور تجھے بھی دھکے دے کر گاڑی سے ناں نکالوں تو خاموشی سے بیٹھا رہ یہاں پہ۔۔

۔

اسے گھورتے کہتے وہ ہڈ کو سر سے اتارتے باہر کی جانب دیکھنے لگا ۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اشعر آپ نے کہا تھا کہ آپ رات کو مجھے بتائیں گے سب۔۔ مگر آپ نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔ وہ چلتی اسکے پاس صوفے ہی بیٹھتے ہوئے بولی۔۔ 

جو کہ مصروف سا لیپ ٹاپ پہ کام کرنے میں مگن تھا ۔۔۔

اشعر۔۔۔۔۔ وہ اسکے جواب ناں دینے پہ زور سے اسے بازوؤں پر سے جھنجھوڑتے ہوئے بولی کہ وہ اچانک سے ہوش میں آتے اسے دیکھنے لگا۔۔

ہممم کیا ہوا۔۔۔ جان اشعر۔۔۔۔ وہ  لیپ ٹاپ کو بند کرتے ایک سائیڈ پہ کرتا اسکی جانب متوجہ ہوا ۔ جو صبح سے پھپھو کی وجہ سے شرمندہ ہوتی اب کمرے میں گھسی تھی۔۔ کہ اسکا انتظار کرتے وہ لیپ ٹاپ اٹھاتے اپنے اگلے کیس کو ریڈ کرنے لگا۔۔

کچھ نہیں آپ کام کریں اپنا۔۔۔ وہ منہ بناتے کہتے اٹھتی کہ اشعر اسے بازوؤں سے پکڑتے کھینچتے اپنی گود میں بٹھا گیا۔۔

میرا سب سے ضروری کام ہی تو اپنی بیوی کو پیار کرنا ہے وہی کروں گا مگر اسکے لیے تو بیوی کا میرے پاس ہونا بھی تو ضروری ہے۔۔ وہ پیار سے اسکا خفا خفا موڈ دیکھتے اسکی تھوڑی پیار سے چومتے بولا۔۔ کہ وہ  شرم و حیا سے  گلنار ہوتی نظریں جھکا گئی ۔

آپ نے کہا تھا کہ نیناں کی شادی وریام سے  کیوں ہوئی مجھے بتائیں گے۔۔۔ سب بتائیں مجھے جاننا ہے اور حسن بھائی کہاں ہیں۔۔ وہ اسکی شرٹ کے بٹنوں پہ انگلی گھماتے پیار سے بولی ۔

کہ اشعر مسکراتے اسکے ہاتھ کو تھامتے ہونٹوں سے لگا گیا ۔

   وریام اور نیناں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں بس اسی لیے تمہارے پاپا نے انکی شادی کروادی۔۔ وہ اسکی کمر کے گرد دونوں بازوؤں حائل کرتے مسکراتے ہوئے بولا۔۔

نہیں تو مجھے پتہ ہے کہ نیناں تو اسے پسند نہیں کرتی وہ تو بالکل شریف معصوم سی ہے۔۔ وہ سنتے فوراً سے نفی کرتے بولی۔۔ کہ اسکے ٹھیک اندازے پہ اشعر ائیبرو اٹھاتے داد والے انداز میں اسے دیکھنے لگا ۔

۔۔

ہو سکتا ہے مگر ۔۔ اب تو انکا نکاح ہو گیا اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ وہ ہاتھ بڑھاتے  کیچر سے اسکے بالوں کو آزاد کرتے کیچر ایک جانب پھینکتے ہوئے بولا۔۔

         تو بھائی کہاں گئے ۔۔۔؟ 

وہ حسن کا پوچھتے پریشانی سے بولی کہ اشعر ہممم کرتے اسکا دوپٹہ اتارتے ایک سائیڈ رکھ گیا ۔

۔

ہممم کیا ہوتا ہے۔۔۔ سیدھے سے بول کے بتائیں کہ حسن بھائی کہاں ہیں آپ کو پتہ ہے کچھ۔۔۔

     ڈارلنگ جہاں بھی ہے ٹھیک ہی ہوگا تم پریشان ناں ہو ۔ وہ اسے اٹھاتے بیڈ کی جانب بڑھتے ہوئے بولا ۔۔

مگر اشعر بابا تو۔۔۔۔ وہ کچھ بولتی یاں اور سوال کرتی کہ ایک دن سے جھکتے وہ اسکی بولتی بند کر گیا ۔

        اب میں اپنے پرسنل ٹائم میں ہم دونوں کے علاؤہ اور کسی کا ذکر نہیں سننا چاہتا۔۔  خاموشی کا مظاہرہ کرتے ایک اچھی بیوی کی طرح اپنے شوہر کی محبت کو محسوس کرو۔۔ وہ جابجا اسکے نقوش پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے کہتے اسپہ قابض ہوتے اسکے سارے راستے خود تک محدود کر گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

          "  اترو۔۔۔ سیاہ تاریک سڑک پہ وہ ایک جانب گاڑی کو روکتے رافع کو دیکھتے کہتے اپنی پاکٹ سے گن نکالتے اسکی جانب بڑھا گیا۔۔

      رافع ناسمجھی سے اسے دیکھتے فوراً سے گاڑی سے اترا۔

    اسے رکھو اپنے پاس شاید اسکی ضرورت پڑے۔۔ وہ گن اسکی جانب بڑھاتے بولا  ، رافع عجیب سے تاثرات لیے اسے دیکھتے گن تھام گیا ۔

    اگر مجھے اسکی ضرورت ہے تو تمہیں بھی اسکی ضرورت ہے وہ گن کو آگے  پیچھے  سے دیکھتے وریام  کو دیکھ بولا۔۔

    میرے پاس ہے اپنی ۔۔۔ وہ مسکراتے اپنی پینٹ کے بیلٹ سے گن نکالتے اسکے سامنے کرتا بولا۔۔ اور ابھی ویٹ کر وہ لوگ آتے ہوں گے۔۔ ہمیں انکا ویٹ کرنا پڑے گا۔۔ وہ ایک جانب اندھیرے میں فلیٹ سے کافی دور کھڑے ہوتے بولا ۔

    تم تم نے یہ کب لیں وریام۔۔ وہ حیرانگی سے اسکے ہاتھوں میں موجود گن کو دیکھتے پوچھنے لگا۔۔ 

۔وریام کے پاس دو دوگنز کا ہونا کسی طور اگنور کرنے والی بات نہیں تھی۔۔

      شٹ اپ یار ۔۔ یہ لڑکیوں کی طرح کیوں  چیخ رہا ہے۔۔۔ گن ہی ہے۔۔ اور پچھلے چھ ماہ سے ہیں یہ میرے پاس سیکیورٹی کیلیے مگر کبھی ضرورت نہیں پڑی تو اب ہی سہی۔۔۔

     وہ گن کو لوڈ کرتے مسکراتے لہجے میں بولا کہ رافع حیرت انگیر حد تک آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگا، 

    توں کب سے مجھ سے باتیں چھپانے لگا ہے۔۔ وہ دکھ سے بولا تھا۔

پہلے شادی کی بات اور اب یہ گن اور بھی بتا دے کیا کیا چھپایا ہے ۔ وہ غصے سے بھڑاس نکالتے گن اسکے سینے پہ مارتے بولا ۔

  ویسے ابھی کچھ حاص نہیں سوچ رہا ہوں تجھے اپنے بچوں کا چاچا بنا دوں۔۔ وہ سیریس موڈ میں بالکل سوچنے کی ایکٹنگ کرتے بولا۔۔ کہ رافع کو دن میں پہلی بار ہنسی آئی۔۔

   بیٹا جو تیری حالت ہے اس سے تو توں باپ بنے یا ناں بنے مگر بھائی بہت سی یوں کا بن جائے گا۔۔

   توں چیلنج کر رہا ہے مجھے۔۔   وریام طیش سے اسکا مفہوم سمجھتے مصنوعی خفگی ظاہر کرتے ہوئے بولا۔۔۔

    نہیں بیٹا چیلنج تو تب ہو گا جب  مجھے کسی قسم کا شک ہو، مجھے یقین ہے کہ میری معصوم سی دکھنے والی بھابھی تجھے  گھاس بھی نہیں ڈالتی۔۔۔

       وہ جتاتے انداز میں بولا کہ دیکھ توں چاہے مجھ سے لاکھ چھپا مگر میں جانتا ہوں سب۔۔۔

       اگر توں نے یہ سب بکواس بند ناں کری تو میں تیرا منہ توڑ دوں گا، وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولا۔۔

    اگر ناں بند کی تو۔۔۔ 

ویٹ ویٹ اششششش۔۔۔۔ ابھی وہ جھکڑا شروع کرتے کہ معا سامنے سے آتی گاڑی کی لائٹ پہ وہ دونوں فوراً ایک جانب درخت کی اوٹ میں چھپے ۔

           گاڑی سے نکلتے افراد کو اندر جاتا دیکھ وہ محتاط سے باہر آئے ۔

  سٹاپ رافع کہاں جا رہے ہو ۔ وہ بمشکل رافع کو بازو سے جھنجھوڑتے ہوئے دوبارہ سے اپنی جانب کھینچتے بولا۔۔

وری یار چھوڑ مجھے میں اس کمینے کا خون پی جاؤں گا ۔وہ غصے سے لال بھبوکا ہوتے خود کو وریام سے چھڑوانے لگا۔۔ 

  دیکھ صبر کر پہلے انکو اندر جانے دے  پھر ہماری باری اوکے۔۔۔ وہ اسکے کندھے کو تھپکتا نرمی سے اسے کالم کرتے بولا۔۔ کہ ایک گہرا سانس خارج کرتے وہ آنکھیں موندتے سر ہلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

        دروازے پہ ہوتی مسلسل دستک پہ وہ لب بھینچتے سسکنے لگی ۔

   کب سے وہ خود کو پرسکون کرنے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی۔۔ مگر دل جو ڈر رہا تھا کہ ساتھ ہی دروازے پہ ہوتی جابجا دستک پہ وہ خوف و وخشت سے ڈرتی دروازے کی جانب دیکھتی  کمفرٹر چہرے تک اوڑھتے رونے لگی۔۔

      اظہر پریشان سے کھڑے جانے کب سے دستک دیتے تھک چکے تھے۔۔ 

 وریام بتا گیا تھا کہ نیناں نے کچھ نہیں کھایا ،کل سے وہ بھوکی تھی۔۔ اور اسی وجہ سے اسکی بھوک کا خیال کرتے وہ کب سے دستک دیے جا رہے تھے۔۔

    لگتا ہے بچی سو گئی ہے۔۔ وہ سوچتے واپس جانے کو مڑے کہ اچانک سے دروازہ کھولتے وہ ذرا سا باہر جھانکتے انہیں دیکھنے لگی کہ شاید پھپھو آئیں ہوں۔۔

اظہر دروازہ کھلنے کی آواز پہ مڑتا اسے دیکھنے لگا۔۔ 

بیٹا کیا ہوا طبیعت خراب ہے کیا بچے۔۔ اظہر کی فکرمندی ایک ہاتھ میں کھانے کا ٹرے پکڑے کھڑا دیکھ وہ سخت شرمندگی سے روتے دروازہ کھولتے ایک جانب ہوئی۔۔

کیا ہوا بیٹا آپ کو بتاؤ مجھے ۔۔۔وہ پیار سے اندر جاتے۔ ٹرے ایک جانب میز پہ رکھتے نیناں کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ۔

  کک کچھ نہیں۔۔ نیناں روتی سوں سوں کرتی فوراً سے ناں میں گردن ہلا گئی۔۔ اچھا ادھر آؤ میرا بچہ ۔۔ وہ پیار سے کہتے اسے صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگے کہ نیناں خاموش کھڑی رہی۔۔

اظہر اسے ویسے ہی کھڑا دیکھ چلتے اسکے پاس آئے۔۔  بیٹیاں باپ کی بات کو خاموشی سے مانتی ہیں ۔ سوال یا انکار نہیں کرتی۔ 

وہ مان سے مسکراتے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے بولے کہ نیناں روتی  انہیں دیکھنے لگی ۔ اچھا  آ جاؤ کچھ کھا لو ورنہ تمہارے شوہر نے کیا سوچنا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا خیال بھی ناں رکھ سکا۔۔

  وہ مسکراتے ہوئے لہجے میں بولے تو چاروناچار وہ دھیرے سے چلتی انکے سامنے صوفے پہ بیٹھ گئی۔۔

اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے میں نے۔۔ آج میری بہو  پہلی بار میرے گھر آئی ہے۔تو اب کھا کر بناؤ کیسا بنا ہے۔

    مگر پہلے  تو آپ نے بیٹی کہا تھا ابھی بہو۔۔۔ اتنی جلدی بدل گئے۔۔ وہ ہاتھوں کی پشت سے آنسوں رگڑتی بولی کہ بےساختہ اسکی بات پہ اظہر مسکرا اٹھے۔۔

  اچھا اچھا ٹھیک ہے اب خوش۔۔ اب نہیں بولتا بہو۔۔ اب جلدی سے کھا کر بتاؤ کہ کیسا بنا ہے۔۔ وہ ہاتھ کھڑے کرتے مسکرا کر بولے۔۔

   تو نیناں بھی پرسکون ہوتی ہلکا سا مسکائی۔۔

 تمہیں پتہ ہے جب وریام اور رافع چھوٹے سے تھے ناں تب سے ایک دوسرے پہ جان چھڑکتے ہیں۔۔

   ایک دفعہ کسی لڑکے نے رافع کو دھکا دے دیا تھا تو پھر غصے سے وریام نے پتھر سے اسکا سر پھوڑ دیا۔۔

    ہاہاہاہا۔۔۔ وہ بتاتے خود ہی قہقہ لگاتے ہنس پڑے۔۔

 تو پھر کیا ہوا ۔۔۔ نیناں پرجوش ہوتی پوچھنے لگی کہ اب وریام کو خوب مار پڑی ہوگی۔۔

پھر کیا تھا۔ ۔۔۔ وہ لڑکا روتا ہوا گھر گیا۔۔ مگر اس سے پہلے ہی وریام وہاں چلا  اور ناجانے اسکی موم کو ایسا کیا کہا کہ اسنے خوب پٹائی کی اس لڑکے کی۔۔ 

پھر کیا تھا۔۔ اس دن کے بعد کوئی بھی لڑکا ان سے  جھکڑا نہیں۔۔

 وہ بولتے  ایک نظر  نیناں کو دیکھنے لگے جو مکمل طور پہ انکی جانب متوجہ غور سے انکی بات سن رہی تھی۔۔

    او۔۔۔۔۔  اچھا اسکے بعد کیا ہوا۔۔ وہ اظہر کے خاموش ہونے پہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پوری کھولتے انہیں دیکھتے تجسس سے بولی ۔۔

پہلے میرا بچہ کھانا کھائے گا اسکے بعد میں آگے اور بھی باتیں سناؤں گا۔۔ وہ اسکی معصومیت پہ مسکراتے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ۔

   انکل آپکی بات ہوئی کیا وریام سے  ، وہ جھجھکتے ہوئے پوچھتے ہاتھ مسلنے لگی۔۔

ہاں بیٹا اسکا فون آیا تھا کہہ رہا تھا کہ وہ اور رافع جلد ہی آ جائیں گے فدک کو لے کر ۔

وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آتی وریام کی کال پہ پر سکون ہوئے تھے۔ اور اب نیناں کے پوچھنے پہ بتاتے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اٹھے۔۔

آپ کھانا کھا لو ۔ میں آتا ہوں۔۔ وہ کہتے وہاں سے نکلے۔۔ 

تو پیچھے وہ بھی بھوک کا سوچتی چند نوالے کھاتے نماز کیلئے اٹھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                  "  بی جان۔۔۔۔ 

کیا آپ نے حسن کو اجازت دی ہے۔۔ ؟۔ حامد غصے سے جھنجھلاتے بی جان کے کمرے میں آتے ہوئے بولے۔۔

آرام سے حامد ماں ہوں تمہاری کیا تمیز ، طریقہ بھول گئے ہو۔۔

بی جان جو بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں کہ اچانک سے حامد کی بات پہ انہیں  جھڑکتے ہوئے بولی۔

غلطی معاف بی جان ، مگر اس انسان سے میرا کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ ناں ہی میں اسکا یا اسکے بچے کا سایہ یہاں۔ برداشت کروں گا ۔

وہ نظریں جھکاتے ہوئے اپنے آخری فیصلے سے انہیں آگاہ کرتے بولے۔۔

      تو وہ کونسا تیرے پاس آ  رہے ہیں۔۔۔  یہ میرا گھر ہے اور جب تک میں زندہ ہوں تب تک میرے پوتے اور اسکے خاندان کو کوئی نہیں نکال سکتا یہاں سے۔۔

   بی جان کہتے فوراً سے لیٹتے آنکھیں موند گئیں ۔  

کہ حامد بھی خاموشی سے روم سے نکلتے سامنے ایک جانب کھڑے اپنے بیٹے اور اسکی گود میں اٹھائی بچی کو دیکھ دیکھتے نفرت سے چہرہ موڑے وہاں سے نکلے۔۔

        بی جان۔۔۔ وہ خود ہی ضبط کے پہاڑ بٹھاتے   اندر داخل ہوا۔۔

ادھر دو میری بیٹی کو ۔ بی جان مسکراتے ایک دم سے سیدھے ہوتے بولیں ۔

حسن مسکراتے انکی گود میں اپنی بیٹی کو بھر گیا۔۔۔۔۔۔

    ماشاءاللہ ۔۔۔ بہت خوبصورت ہے میری بچی۔۔ اللہ پاک نظر بد سے بچائیں۔۔ بی جان  پیار سے اسکی معصوم شکل دیکھتے ہوئے بولیں۔۔

    نام کیا رکھا ہے بیٹا ۔۔۔۔؟ بی جان مسکراتے حسن کو دیکھ بولیں۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ آپ نام رکھیں میری بیٹی کا ۔۔

وہ نرم نگاہوں سے اپنی چھوٹی سے بچی کو دیکھ پیار اور ادب سے بولتے انکے پاس ہی بیڈ پہ ایک  جانب بیٹھا۔۔

  بیٹا اولاد پہ پہلا حق اسکے ماں باپ کا ہوتا ہے ۔۔ یسری بیٹی سے پوچھ کہ رکھو ۔۔

بی جان یہ ہم دونوں کی دلی رضا ہے کہ آپ ہماری بیٹی کا نام رکھیں ، وہ مسکراتے انکے ہاتھ پہ دباؤ دیتے بولا۔۔

ویسے اسکی ماں کہاں ہے ۔۔۔؟

بی جان وہ ا رہی ہو گی ۔ سامان سیٹ کر رہی تھی ۔ تو میں آپ سے ملوانے لے آیا گڑیا کو۔۔

اچھا کیا ۔ وہ سنتی سر ہلا گئی ۔

اس کا نام حیا ہو گا آج سے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اسے شرم و حیا والا بنائے ۔ اور ہمارے گھر میں ہمیشہ اسکی کھلکھلاتی آواز سے خوشیاں بکھرتی رہیں ۔

اللہ تعالیٰ اس رحمت کے صدقے میرے بچوں کی زندگی پہ رحمت کا سایہ کریں آمین۔۔۔ بی جان مسکراتے ہوئے کہتے حیا کی چھوٹی سی پیشانی چوم گئیں۔۔ جو سوتے ہوئے ہلکا سا کسمسائی۔

اچھا اسے اسکی ماں کے پاس لے جاؤ۔۔ شاید ابھی اسکے اٹھنے کا وقت ہے ، بی جان  مسکراتے حسن سے بولیں ۔ تو وہ بھی حیا کو گود میں لیتے بی جان سے اجازت لیتا روم سے نکلا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

         اشعر کہاں گیا ہے۔۔۔  اتنی صبح صبح۔۔۔ 

وہ رمشہ کو مسکراتے کاموں میں مگن دیکھ جلتی بھنتی بولیں۔۔

کیا کیا سوچا تھا کہ اس اشعر کے ساتھ اپنی بیٹی لاریب کی شادی کرواتے یہ گھر ، جائیداد سب اپنے نام کروا لوں گی مگر اس رمشہ کی وجہ سے سب خراب ہو گیا ۔

    پھپھو وہ آج کسی کیس کے سلسلے میں جلدی گئے ہیں۔۔ لاہور۔۔ کہہ رہے تھے کل تک آ جائیں گے۔۔

رمشہ مسکراتے انہیں بتاتی دوبارہ سے برتن دھونے لگی۔۔

    کیا واقعی میں وہ کیس کے لیے گیا ہے۔۔ ؟ وہ زہرخند سا مسکراتی ہوئی بولیں کہ برتن دھوتے رمشہ کا ہاتھ تھما تھا۔۔

     آپ کیا کہنا چاہتی ہیں پھپھو کھل کر کہیں ۔۔   ؟  رمشہ ہاتھ صاف کرتی انکے سامنے کھڑے ہوتے بولی۔۔

کہنا کیا ہے۔  یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اشعر اپنے ساتھ کام کرنے والی کسی لڑکی کو پانچ سالوں سے پسند کرتا ہے ، اور تمہارا تو سب جانتے ہیں کہ گھر سے بھاگی ہوئی تھیں یہ تو اشعر تھا جسنے حامد کی عزت بچانے کو نکاح کر لیا۔۔

   دیکھیں آپ پلیز خاموش ہو جائیں ۔۔۔ مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔ 

رمشہ کہتی وہاں سے نکلی کہ اسے رکنا ہڑا۔۔

ارے بی بی کیا ہوا اپنے کانڈ بھول گئی۔۔  وہ بیچارہ تو پتہ نہیں کیسے حامد کی باتوں میں آ گیا جو تم جیسی سے نکاح کر لیا ۔

ورنہ تم جیسی تو پوری زندگی ماں باپ کے گھر میں سڑتی ہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔۔۔

اور کیا پتا اس نے ٹائم پاس کرنے کو شادی کی ہو تم سے۔۔۔ ویسے بھی تم میں ایسا ہے ہی کیا جو تم سے شادی کرتا۔ 

کیا پتا اسنے سوچا ہو کہ چلو اسکے ساتھ بھی ٹائم گزار لوں گا ، اور شادی تو ویسے بھی کرنی ہی ہے۔۔ فضا کے ساتھ۔۔ ارے وہی فضا جو اسکے ساتھ کام کرتی ہے۔۔

ہمارا تو سارا خاندان جانتا ہے اس بات کو۔۔۔

وہ ناجانے کیا کیا بولے جا رہی تھیں کہ رمشہ شل ہوتے وجود کے ساتھ بے یقینی کی کیفیت میں مرے قدموں سے اپنے روم کی جانب بڑھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           "۔ وہ ہلکا سا کھڑکی کو کھولتے اندر جھانکتے دیکھنے لگا مگر اندر اسے سوائے اندھیرے کے کچھ نظر ناں آیا۔۔

   پہلے تم جمپ کرو گے اور  خاموشی سے فدک کو ڈھونڈو  گے اور  باقی سب کو میں سنبھال لوں گا۔۔

   اوکے ڈن۔۔۔ کہتے ساتھ ہی رافع اندر چھلانگ لگاتے ایک جانب بڑھا۔۔

جبکہ وریام آہستہ سے قدم اٹھاتے ایک بند روم کی جانب گیا، وہ بڑھتا کھڑکی تلاش کرتے گن کو اوپر کرتے پکڑتے، کھڑکی  میں سے جھانکتے ہوئے اندر دیکھنے لگا۔۔

   ارے یار۔۔۔ لڑکی کے پاس کون ہے۔۔؟ 

وہ چار لوگ تھے جو مکمل نشے میں دھت تاش کھیل رہے تھے۔۔ ان میں سے ایک کی آواز پہ رافع چوکنا ہوتے سائیڈ ہؤا۔۔

لڑکی کے پاس ابھی بوس گئے ہیں۔۔  تم بے فکر رہو۔۔۔ دوسرا بھی  اسی کی طرح نشے سے دھت بولا۔۔۔  وہ کوئی  لندن کے ہی ینگ لڑکے تھے جو کہ شاید نشے کی لالچ میں سعد کا ساتھ دے رہے تھے۔۔

  وہ ایک دم سے ہڑبڑاتے ہوئے اٹھے جب ٹھاہ کے ساتھ دروازہ کھولتے وریام اندر داخل ہوتے انکے سروں پہ گن تانے کھڑا ہوا ۔۔۔۔

وہ چلتا اندھیرے میں ایک بند کمرے کے پاس سے گزرا کہ اچانک سے کمرے سے آتی چیخوں کی آواز پہ وہ بنا سوچے سمجھے ٹھاہ کی آواز سے بپھرے ہوئے تاثرات کے ساتھ دروازے کو کھولتے اندر داخل ہوا۔۔۔

مگر سامنے ہی سعد کو نشے میں دھت فدک کو مارتا دیکھ اسکا خون ابل آیا جبکہ ماتھے کی تنی رگیں پھولتی  اسکے اندونی انتشار کا پتہ دیتی تھیں۔۔

وہ سرخ چہرے لہو رنگ آنکھیں لیے ایک پل ضائع کیے بغیر اندر داخل ہوتے اسے مارنے لگا۔۔۔

سعد جو کہ نشے کی وجہ سے لڑکھڑاتا کچھ سمجھنے کی کیفیت سے باہر تھا کہ اچانک سے خود کو کسی وخشی کی گرفت میں پاتے بری طرح سے تڑپا۔۔

     وہ اسے  بیلٹ نکالتے ہے درپے مارنے لگا کہ پورے فلیٹ میں اسکی دلدوز چیخیں گونجتی  خاموش فضا میں انتشار برپا کر گئیں۔۔

      در رافع۔۔۔۔ اچانک سے فدک کی مدہم سی سسکتی آواز پہ وہ ہاتھ بلند کیے بیلٹ کو مارتے رکا اور ہوش میں آتے ہی  فورا سنبھلتے اسکی جانب بڑھا۔۔

فدک دیکھو میں رافع میں آ گیا۔۔۔ آنکھیں کھولو پلیز ۔۔۔ فدک دیکھو ۔۔۔ یار۔۔۔۔ وہ اسکے سوجھے ہونٹ ناک سے بہتے خون کو شرٹ سے صاف کرتے  پاگلوں کی طرح اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے جابجا چومنے لگا۔۔۔

   مجھے پتہ تھا کہ آپ آئیں گے ۔۔" وہ بمشکل اسکی شرٹ کو پکڑتے بالکل مدہم سرگوشی کی آواز میں بولتے ہی بے ہوش ہوئی۔۔ 

کہ اس دگرگوں حالت دیکھ رافع کے سینے سے مانو کسی نے دل کھینچ کر نکال لیا ہو۔

   وہ روتے زحمی دل کے ساتھ اسے خود میں بھینج گیا ۔

  رافع کیسی ہے فدک، چل آٹھ فدک کو ہوسپٹل لے کے جانا ہے وریام ان لوگوں کو اپنے لائے آدمیوں کے حوالے کرتے دوڑتا آیا ، مگر سامنے ہی رافع کو بے تخاشہ روتے  دیکھ وہ آگے بڑھا مگر اسکی گود میں پڑے بے ہوش فدک کے وجود کو دیکھ وہ اسے ہوش دلانے لگا ۔۔

           رافع سنتا سختی سے لب بھینجتے فدک کو اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔

لے جاؤ اسے اسے کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔۔ اب سے یہ تمہارے پاس میری امانت ہے۔۔۔ وہ کہتے وریام کے بازوؤں میں فدک کو بھرتا غصے سے بھپرے شیر کی طرح سعد کی جانب بڑھا۔۔ جہاں وہ کراہتا الٹا لیٹا ہوا تھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

              بیٹا کہاں ہے فدک ۔۔۔ وہ چلتے وریام کے سامنے آتے بولے ، جو کہ پریشان حال سا بکھرے حلیے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ، بے چین سا کھڑا سا تھا۔۔

انکل آپ۔۔۔ وہ اظہر کو ایک دم سے دیکھتے پوچھنے لگا ،جن کے چہرے پہ جھلکتی پریشانی کو بھانپتے ہوئے وہ دوبارہ سے سیدھا کھڑا ہوتے انہیں دیکھتے بولا ۔

اب ٹھیک ہے آگے سے کافی بہتر ہے ۔ ڈاکٹرز ابھی بھی اندر ہی ہیں ۔ چیک اپ کر رہے ہیں۔۔

وہ محتصر سا بتاتا شدت ضبط سے لب بھینج گیا۔۔

     یا اللہ خیر۔۔۔ میرے بچوں کو اپنی خفاظت میں رکھنا۔۔ آمین۔۔ وہ بامشکل سے پاس پڑی چئیر پہ بیٹھتے اپنے رب سے دعا گو ہوئے ۔

       بیٹا وری ۔۔ وہ اپنے ڈیڈ کی پیچھے سے آتی آواز پہ حیران سا گردن موڑے انہیں دیکھنے لگا۔۔

ڈیڈ آپ آپ کب آئے۔ ؟ 

 وہ چلتا اپنے ڈیڈ کے پاس جاتے بولا ، 

     بیٹا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئے ہیں میں اور تمہاری موم۔۔

موم کہاں ہیں۔۔ وہ سنتا اپنی موم کی بابت پوچھنے لگا ۔

  رضا نے گہرا سانس خارج کرتے اس بددماغ لڑکے  کو دیکھا۔۔ جو اتنی سیریس کنڈیشن میں بھی موم موم کر رہا تھا۔۔

   وہ نیناں کے پاس ہے ، بچی اکیلی تھی اور ڈر بھی رہی تھی۔۔ اسی لیے میں اور اظہر خود آ گئے ہیں۔۔

وہ ہاتھ اپنی ہلکی سفید ہوتی داڑھی میں پھیرتے اپنے بیٹے کو دیکھ پشت پہ ہاتھ باندھتے ہوئے بولے ۔

   اوکے آئیں آپ بیٹھیں۔۔۔ وہ سنتا اپنے ڈیڈ کو بیٹھنے کا کہنے لگا۔۔

   کچھ بتایا ڈاکٹرز نے بچی کا۔۔ وہ بیٹھتے ایک نظر پریشان سے بیٹھے اظہر کو دیکھ وریام سے بولے ۔

      ان کا کہنا ہے کہ فدک کو مینٹلی ٹارچر کیا گیا ہے اسکے علاؤہ کچھ دن پہلے بھی وہ اس سے بھی بری کنڈیشن میں یہاں رہ چکی ہے ۔۔ ہم سب کو دعا کرنی ہے کہ بس وہ ٹھیک ہو جائے۔۔

         وہ سختی سے اپنے چٹختے اعضاء کو بمشکل پرسکون کرتا بولتے ایک نظر سامنے بند روم کو دیکھنے لگا۔۔

         اور یہ رافع کہاں ہے دکھائی نہیں دے رہا ۔

اظہر کب سے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی کو محسوس کر رہے تھے۔   اسے ناپاتے اس قدر سیریس حالت میں بھی وہ وریام سے پوچھ بیٹھے۔۔۔

آتا ہی ہو گا انکل کسی کام سے گیا ہے۔۔ وہ بتاتا نظریں پھیر گیا ۔۔ کہ مبادا کہیں اسکے جھوٹ کو پکڑ ناں لیں ۔ 

آخر وہ کیا بتاتا انکو کہ جس کی بیوی اندر زندگی اور موت  کے بیچ پڑی ہے وہ خود اس سعد کو سبق سکھانے میں مصروف تھا۔۔ وہ سوچتے دل ہی دل میں رافع پہ لعنتیں بھیجنے لگا۔۔

     بیٹا ایسا کرو ، تم جاؤ تھوڑی دیر ریسٹ کر آؤ۔۔۔ ہم ہیں یہاں ۔۔ دو تین گھنٹے کی ریسٹ کے بعد چاہے تو صبح پھر سے آ جانا، 

وہ رات بھر سے اکیلا فدک کے پاس موجود تھا ، اب بھی تین کے قریب وقت تھا، اظہر اسکی صحت کا حیال کرتے نرمی سے بولے ۔

            وریام سنتا فورا سے نفی کر گیا۔

انکل آپ جانتے ہیں کہ میں لیٹ سونے جاگنے کا عادی ہوں۔  

ڈونٹ وری جب تک میری بہن ٹھیک نہیں ہو جاتی میں یہیں پر ہوں اسکا خیال بھی رکھوں گا ۔۔

      وہ کہتا اپنے ڈیڈ کو ایک نظر دیکھ سامنے ایک جانب بیٹھا ۔۔۔

  اس وقت تمہاری یہاں اتنی ضرورت نہیں وریام۔   سمجھنے کی کوشش کرو ، اس وقت ہم سنبھال لیں گے ، مگر صبح جب اسے ہوش آئے گا اس وقت تمہارا اسکے پاس ہونا ضروری ہے، اور اگر تم اس حلیے میں اس سے ملو گے تو وہ مزید ڈسٹرب ہو گی۔۔

اب کی بار رضا نے نرمی سے اپنے بیٹے کو سمجھایا جانتے جو تھے کہ اگر ضد پہ آ گیا تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے 

ہاں بیٹا رضا ٹھیک کہہ رہا ہے ، جاؤ کچھ دیر آرام کر آؤ۔۔۔  اظہر نے بھی نرمی سے اسرار کیا ۔۔

تو وہ سر ہلاتے خاموشی سے کھڑا ہوا۔۔ اوکے میں جاتا ہوں،اگر آپ لوگوں کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئی تو مجھے کال کیجئے گا میں آ جاؤں گا۔۔ وہ نرمی سے ان سے کہتے ایک نظر روم کے باہر سے فدک کو دیکھتا وہاں سے نکلا۔۔

                  وہ شل ہوتے دماغ ، بکھرے حلیے میں ، لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔۔۔ 

اسکے دماغ جیسے کام  کرنا چھوڑ چکا تھا، شاید ٹھیک ہی تو تھا سب کہ اشعر کسیے اس جیسی گھر سے بھاگی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے ۔۔۔ 

وہ لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ دوپٹے سے بےگانہ سیڑھیاں چڑھتے بمشکل اپنے روم میں داخل ہوئی ۔۔۔

   آخر کیا ہے مجھ میں ایسا کہ وہ مجھ سے شادی کرتا۔۔ تو کیا واقعی اس  نے صرف ٹائم پاس کرنے کو مجھ سے شادی کی تھی ۔ ۔

اسکی کہی باتیں اس وقت اسکے کانوں میں ہتھوڑے کی مانند برس رہی تھیں۔۔۔ وہ جتنا ان سب سے بچنا چاہتی تھی ۔۔ اتنا ہی اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔۔

وہ بے تحاشہ روتے اپنے بالوں کو ہاتھوں سے۔ نوچتے زمین پہ ڈھے سی گئی ۔

         اشعر نے تو کبھی بھی مجھ سے اپنی محنت کا اظہار نہیں کیا ، کبھی اسکے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں پاگل جانے کیا سوچ کہ اسے اپنا آپ سونپ گئی۔۔ 

    وہ گھٹنوں کے بل زمین سے اٹھتی واشروم میں جاتے شاور کے نیچے کھڑے ہوتے شاور آن کرتے اپنے پورے جسم کو زور زور سے رگڑتے خود پر سے اس کے لمس کو مٹانے کی کوشش میں نڈھال ہوتی فرش پہ بیٹھتے گھٹنوں میں سر دیے رونے لگی ۔

      کیوں کیا اشعر ،کیوں ۔۔۔ کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا ۔۔ 

اچھا ہوتا میں مر جاتی اس دن کیوں بچایا مجھے، کیوں مجھے اس محبت کے جذبے سے روشناس کرایا جب سب کچھ ایک دھوکہ ایک فریب تھا۔۔

وہ روتے تڑپتی اپنے سر کو زور زور سے دیوار پہ مارتے کوئی پاگل محسوس ہو رہی تھی۔۔ 

    رمشہ میری جان تم کب آئی اور یہ سب ۔۔ یہ سب کیا ہے کیا کر رہی ہو،۔  سلمیٰ جو کہ رمشہ کے کمرے میں حسب معمول آئیں تھی۔ 

کہ اچانک کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ  رونے کی آواز پہ ڈرتے واشروم میں آئی مگر سامنے ہی اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ وہ تڑپتے اسکے پاس آئیں جو کہ دھندلی نظروں سے انہیں دیکھتے ہوش و خرد سے بے گانہ ہو گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

            " حسن آپ کو لگتا ہے کہ سب ہم کو معاف کر دیں گے۔۔ 

یسری کی آواز پہ وہ جو حیا کو گود میں اٹھائے اپنی بیٹی سے پیار سے باتیں کر رہا تھا ، ایک دم سے چپ ہوتے اسے دیکھنے لگا۔۔

    تمہیں کیا لگتا ہے ۔۔ وہ کچھ سوچتے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے بولا۔۔

مجھے لگتا ہے کہ سب ہی میں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے ۔

   حسن نے ایک نظر اپنے سامنے مرجھائی سی بیٹھی  یسری کو دیکھا، جو کہ حیا کی پیدائش کے بعد سے کافی کمزور تھی۔۔

   اگر ہم کوشش کریں گے تو یقیناً سب ہی میں معاف کر دیں گے ۔ وہ نرمی سے مسکراتے یسری کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تو وہ بھی انشاء اللہ کہتی سر ہلا  گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           وہ گہرا سانس اندر کھینچتے ہوئے آرام سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہؤا۔۔

جہاں تاریکی نے اسکا استقبال کیا ۔۔ وہ سوچتا جیب سے موبائل نکالتے لائٹ آن کر گیا۔۔

محسوس روم کے سامنے جاتے ہی وہ ہینڈل گھماتے ہوئے ایک نظر اندر دیکھتا مسکراتا ائیبرو اچکا گیا ۔

  جہاں سامنے ہی بیڈ پہ اسکی موم بیٹھی نیناں کے سر پہ ہاتھ پھیرتی اسے پر سکون کر رہی تھی۔۔ جو کہ  شاید سو رہی تھی۔۔

آہٹ پہ شمائلہ نے اچانک پیچھے مڑتے دیکھا جہاں گہری مسکراہٹ لبوں پہ سجائے وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔

شمائلہ ناراضگی جتاتے فوراً سے رخ پھیر گئی۔۔ کہ وریام ہاتھ بالوں میں پھیرتے اندر داخل ہوا۔۔

  کیسی ہے میری جان۔۔ 

وہ پاس جاتے پیچھے سے اپنی موم کو ہگ کرتے سرگوشی کے سے انداز میں بولا۔۔

چھوڑو مجھے بات نہیں کرنی میں نے ناراض ہوں میں تم سے ۔۔۔ شمائلہ ناراضگی ظاہر کرتے فورا سے اسکے بازوں کا حصار کھولتے بولیں۔۔

  ناراض کیوں ہیں۔۔ وجہ جان سکتا ہے یہ نا چیز ۔۔ وہ مسکراتے نیناں کی پشت کو دیکھ اپنی موم کی پاس بیٹھتے انکے ہاتھوں کو پکڑتے چومتے ہوئے بولا۔۔

    میری معصوم سی بچی پہ اتنا بڑا الزام لگاتے ،  ایک قسم کا  زبردستی نکاح کیا اور تو اور بنا پوچھے ، بنا بتائے  اسے لیے تم لندن آ گئے۔۔ 

شمائلہ خفگی سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔۔

جو بنا برے منائے انکی گود میں سر رکھتے نیناں کے برابر لیٹ گیا۔۔

تو موم اگر میں یہ سب ناں کرتا تو آپکی یہ بچی کسی اور بیوی بن جاتی ، ابھی دیکھیں اس پر صرف اور صرف میری موم کا اور میرا  حق ہے۔۔ وہ مسکراتے اپنی موم کو ایک نظر دیکھ نیناں کو دیکھتے بولا۔۔

تم اٹھو یہاں سے خبردار جو اب اسے تنگ کیا۔۔ مجھے بتایا ہے میری بچی کو  کس طرح سے اسے ٹارچر کیا ہے تم نے اب تک۔۔ مگر اب اس کی پھپھو اسکے ساتھ ہیں، خبردار جو اسکے آس پاس بھی نظر ائے۔۔

شمائلہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خفگی سے گویا ہوئیں۔۔

اچھا آپ کی بیٹی نے اپنے کارنامے نہیں بتائے۔۔ میرے۔ سارے ظلم گنوا دیے جو کہ شاید ابھی تک میں نے کیے بھی نہیں۔۔ وہ حیران پریشان سے اپنی موم کی بات پہ جھٹکے سے ہوش میں آتا بولا۔۔

بس رہنے دو، سب پتا ہے مجھے تم کتنے شریف ہو۔۔ اب زیادہ بنو مت۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی پیشانی چومتے بولیں، تو وریام پرسکون سا انکے لمس پہ آنکھیں موند گیا ۔

    اچھا فدک بیٹی کسی ہے اب ۔۔ چند پل خاموشی کے بعد وہ خود ہی بولیں۔۔

ٹھیک ہے اب ۔۔ڈیڈ اور انکل اس کے پاس ہیں میں صبح جاؤں گا۔۔

  وہ بتاتا آرام سے اٹھ بیٹھا۔۔

کھانا لاؤں۔۔۔ شمائلہ مسکراتے اپنے حسین بیٹے کو دیکھ بولیں ،

نہیں موم کھا لیا تھا ادھر ہی ابھی تھوڑی ریسٹ کروں گا۔۔

اچھا تو تم ایسا کرو ریسٹ کرو ۔۔ میں بھی سونے جا رہی ہوں اب تھکن محسوس ہو رہی ہے۔۔ شمائلہ کہتے اٹھیں کہ وریام نے انکا بازو پکڑتے انہیں روکا ۔۔

موم کہاں جا رہی ہیں۔۔؟

آپ نین کے پاس سوئیں۔۔ میں دوسرے روم چلا جاتا ہوں ۔وہ کہتے فوراً سے بیڈ پر سے اٹھا۔۔

    نہیں بیٹا۔۔۔ تم ادھر ہی ریسٹ کرو۔۔ نیناں نیند میں ڈر رہی ہے بار بار ۔۔ اس سے مجھے بھی ٹھیک سے نیند نہیں آئے گی۔۔۔ اور مجھے معلوم ہے تم اسکا خیال رکھ لو گے اچھے سے۔۔

شمائلہ فوراً سے کہتی روم سے نکلی کہ مبادا وریام پیچھے ہی باہر ناں آ جائے۔۔

۔

شمائلہ کے نکلنے پر وہ آواز دیتے روکتا کہ خود سوچتا خاموشی سے واپس اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹا۔۔

چند پل یوں ہی لیٹے رہنے کے بعد وہ سیدھا ہوتے شرٹ کو اتارتے ایک جانب اچھال گیا ۔

تو مسز وریام ، اپنے شوہر کی شکایتیں لگاتی رہی ہیں۔۔ ویری بیڈ۔۔۔ وہ مسکراتے نیناں کی پشت کو دیکھتے کہتے  اٹھتا فورا سے دوسری سائیڈ پہ جاتے اسکے چہرے کے سامنے لیٹ لیٹتے اسے دیکھنے لگا۔۔

جو کہ بھرپور معصومیت چہرے پہ سجائے جانے کونسی دنیا کی سیر پہ نکلی تھی۔۔ وہ غصے سے اسکے چہرے پہ جھولتی لٹوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے ہاتھ کی پشت  سے  نرمی سے اسکے نرم وملائم گال کو سہلانے لگا۔۔

     ایک سکون کی لہر اس کے پورے جسم میں سرائیت کر گئی۔۔  وہ آرام سے کھسکتا آگے ہوتے ایک ہاتھ اسکی گردن کی نیچے سے ڈالتے دوسرے سے اسکی کمر پہ گرفت مضبوط کرتے خود میں بھینج گیا۔

     اتنا نشہ تو کسی میڈیسن میں نہیں جتنا تمہاری قربت میں ہے نین جان۔۔ ایڈیکٹ بنا دیا ہے اپنا۔ بس  ہمیشہ میرے قریب رہنا ، میری سانوں سے بھی زیادہ۔۔۔ اب وریام تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا کبھی بھی نہیں۔۔۔

 وہ  گھمبیر بھاری آواز میں اسکے کان میں  سرگوشیاں کرتے اسکے کان کی لو پہ ہونٹ رکھتے پیچھے ہوا۔

مائی انوسنٹ جان۔۔۔وہ مسکراتے اسکی پیشانی کو چومتے اسے اپنے بانہوں کے مضبوط حصار میں  لیتے خود میں بھینجتے آنکھیں موند  گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    کھڑکی سے آتی ہلکی سی روشنی آنکھوں میں پڑتے ہی و ہلکا سا کسمساتی کروٹ بدلتی ہاتھ سامنے رکھتی ایک دم سے ہاتھ کے نیچے کسی چیز کی چھبن کو محسوس کرتے جھٹ سے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھنے لگی ۔

     جہاں وہ بڑے مزے سے اسے اپنے حصار میں لیے سو رہا تھا ۔۔

یہ یہ کب آیا۔۔۔ ؟ وہ اٹھنے کہ کوشش میں ناکام ہوتی ایسے ہی آدھا لیٹے اور آدھی بیٹھی پوزیشن میں وریام کی جانب دیکھ بولی ۔

کہیں یہ کوئی بھوت ووت تو نہیں ۔۔ اس دن بھی میں روم اندر سے لاک کیے سوئی تھی مگر صبح وریام اندر تھا اور اب بھی۔ ، مگر ابھی تو میرے پاس پھپھو تھیں ۔

وہ سوچتے پریشان سی اپنے پیٹ پہ رکھے وریام کے بازوؤں کو  آرام سے ہٹاتے ہوئے اٹھتی کہ اچانک سے وہ جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنے برابر گرا گیا۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس افتاد پہ چیختی کہ وہ آگے ہوتے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پہ رکھتے اسکی بولتی بند کر گیا۔۔۔۔ 

اششش۔۔ آواز نہیں کرنا۔۔ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا کہ نیناں سہمی ہوئی اسکی آنکھوں میں دیکھتے فورا سے سر کو ہاں میں ہلا گئی ۔

        " بڑی شکایتیں لگائی اپنی پھپھو کو ۔۔۔۔ وہ ہلکے سے اسکا سر اٹھاتے اپنے بازو پہ رکھتے اسکی لرزتی پلکوں کو دیکھ پوچھنے لگا ۔

نہیں تو میں نے تو کچھ نہیں کہا ۔ وہ سنتی فورا سے نفی کر گئی کہ وریام ہلکا سا مسکراتے ہممم  کرتے ایک ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلانے لگا۔۔۔

   مگر مجھے تو تم سے بہت سی شکایتیں ہیں۔۔ ساری موم سے کروں گا ۔ شاید وہ کوئی حل نکال سکیں۔۔۔ وہ ایک ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلاتے دوسرے کی کہنی نیناں کے پاس تکیے پہ ٹکاتے جھکتے بولا ۔۔ کہ نیناں نے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے اسے دیکھا۔۔۔ 

    آپ نے پھر سے شرٹ اتاری۔۔۔ وہ اسے شرٹ لیس دیکھتے فوراً سے بات بدلتے ہوئے بولی۔۔

  ابھی تک تو عادت ہو جانی چاہیے تھی تمہیں نین جان۔۔ بٹ ڈونٹ وری۔۔۔ آہستہ آہستہ ہوجائے گی عادت اپنے ہزبینڈ کو ایسے دیکھنے کی۔۔۔

وہ مسکراتے اسکی ناسمجھی سی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔

اچھا تم نے پوچھا نہیں کہ کون کون سی شکایتیں ہیں مجھے تم سے ۔۔۔

وہ اسکے بالوں کو نرمی سے سہلاتے ناک اسکی رخسار پر سہلاتے بولا ۔۔ کہ نیناں سانس روک گئی۔۔

 فدک کیسی ہے۔۔۔     کچھ نا سوجھنے پہ وہ فوراً سے فدک کا پوچھتے نظریں اسکے کشادہ سفید سینے پہ گھاڑ گئی۔۔

   ابھی ٹھیک ہے تھوڑی دیر میں نکلوں گا اسکے پاس جانا ہے۔۔۔

میں بھی چلوں۔۔۔ وہ کہتی اسکا  فوکس اپنے ہونٹوں پہ پاتے فورا سے ہونٹ موڑتے اندر کی جانب کلوز کر گئی۔۔

افکورس  میری جان ۔۔۔ ضرور جائیں گے ۔  

جب  جانتی ہو کہ مجھ سے بچ پانا ناممکن ہے تو پھر یہ کوششیں کر کہ کیوں خود کو تھکاتی ہو۔۔ وہ مسکراتے انگھوٹے سے اسکے ہونٹوں کو آزاد کرتے بولا ۔۔

کہ نیناں نے ڈرتے آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔  

وہ مسکراتا اسکے لزرتے ہونٹوں کو دیکھ اسکے رخساروں کو چھوتے انہیں اپنی گرفت میں لیتے ہاتھ سے اسکی پشت کو سہلانے لگا۔۔

جبکہ دوسری جانب اسکی شدید گرفت میں مچلتے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے ناخن اسکی پشت پہ گھاڑنے لگی۔۔

     ریلکس جان تمہارا ہی ہوں سارا ۔۔ میری شیرنی جیسے مرضی زخمی کرو تمہیں پورا حق ہے۔۔۔ وہ پیچھے ہوتے گردن موڑے اپنی پشت سے رستے خون کو دیکھتے اسکے نازک سفید ہاتھوں کو تھامتے خون سے بھرے ناخون کو چومتے پیار سے بولا۔۔ کہ شرم و حیا سے وہ لرزتے وہ سرخ ہوتی ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتی اسکے پیچھے دھکیلنے لگی۔۔

وریام مسکراتے اسکی تھوڑی کو چومتے پیچھے ہوا۔۔ کہ وہ راہ فرار پاتی فورا سے بھاگتی واشروم میں بند ہوئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 ڈاکٹر کیسی ہے میری بچی ۔۔ کیا ہوا ہے اسے۔۔۔؟ 

حامد پریشان سا ڈاکٹر کے روم سے نکلتے ہی پوچھنے لگے۔۔ جس قدر پریشانی ہوئی تھی انہیں اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھتے ۔۔ ابھی کل ہی تو اسے اپنے ہاتھوں سے ہنسی خوشی رحصت کیا تھا ۔۔

اب اچانک سے ایسا کیا ہو گیا کہ وہ اس قدر بکھری حالت میں اپنے باپ کے در پہ آئی تھی ۔ سوچتے انکا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔۔

     دیکھیں مسٹر شاہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں ۔شاید کسی بات کی ٹینشن لی ہے رمشہ نے ۔۔ یا پھر ایسا بھی کو سکتا ہے کہ کوئی ایسی بات انکے سامنے کہی گئی ہے جو کہ انکا دماغ بولنے سے انکار ہے۔۔ شاید اسی وجہ سے وہ بے ہوش ہیں۔۔ آپ یہ دوائی منگوا لیں۔ ۔ باقی اللہ بہتر کریں ۔ ڈاکٹر کہتی وہاں سے نکلی۔۔۔

 دیکھا آپ نے حامد میری معصوم سی بچی کا دو دن میں کیا حال کر دیا اس اشعر نے۔۔

میں نے تو پہلے ہی منا کیا تھا آپ کو مگر آپ کہاں سنتے ہیں ۔۔ ہمیشہ اپنی ہی کرتے ہیں۔  اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں اس اشعر کو چھوڑوں گی نہیں۔۔ تنفر سے کہتی سلمی اندر بے ہوش پڑی رمشہ کی جانب گئی ۔ جبکہ پیچھے حامد پریشان سے باہر نکلے ۔

بابا کیا ہوا ہے رمشہ کو ۔ وہ جیب سے فون نکالتے اشعر کو کال کرتے کہ اچانک سے پیچھے سے آتی آواز پہ وہ مڑتے حسن کو دیکھنے لگے ۔

اپنے کام سے کام رکھو۔ ابھی زندہ ہے اس کا باپ میں حیال رکھ لوں گا اپنی بیٹی کا ۔۔ وہ غصے و نفرت سے کہتے وہاں سے جانے لگے ۔

ڈیڈ پلیز ایک موقع دے دیں۔۔۔ ایک بار مجھے معاف کر دیں۔پلیز ۔۔۔۔ وہ ڈرتا انکے راستے میں کھڑا ہوتے دونوں ہاتھ جوڑتے بولا۔۔

   اتنی جلدی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔۔ ہو ہی نہیں سکتا حسن حامد شاہ۔۔۔ یہ سب تو صرف اس خود اذیتی کے تخت ہے کہ جو کچھ تم نے اس بچی کے ساتھ کرنے کا سوچا تھا۔۔ وہ تو کر ناں پائے مگر دیکھو رب نے تمہارے سامنے ایک بیٹی لا کھڑی کی ، تمہارا اپنا خون۔۔۔

تم اپنے کیے پہ نہیں ، بلکہ مکافات عمل سے ڈرتے ہو ، کہ کہیں کل کلا کو تمہاری اپنی اولاد کے سامنے وہ سب کچھ نا آ جائے۔۔۔ معافی مانگنا آسان ہے مگر معاف کرنا بہت مشکل۔۔

الفاظ کڑوے ہیں ، مگر ہیں سچ ۔۔ غور کرنا ان پر۔۔۔ 

وہ ایک ایک لفظ اس کے منہ پہ مارتے اسے آئنہ دکھاتے وہاں سے نکلے، اور شاید سچ ہی تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دیکھ اس خوف میں مبتلا اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       گڈ مارننگ موم ۔۔ وہ مسکراتے اپنی موم کو پیچھے سے حصار میں لیے آنکھ سر پہ ہونٹ رکھتے انہیں وش کرتے بولا۔۔

گڈ مارننگ موم کی جان۔۔۔ اٹھ گیا میرا شیر۔۔ شمائلہ مسکراتے اسکی پیشانی چومتے بولیں تو وریام نے بھی مسکراتے انہیں دیکھا ۔

جی اٹھ گیا ۔ 

و بیٹھو میں ناشتہ لگاتی ہوں۔۔ شمائلہ کہتے ہی فورا سے ٹیبل پہ ناشتہ سیٹ کرنے لگی کہ وتیا۔ بھی چئیر کھسکاتے فورا سے بیٹھا۔۔

اچھا موم یہ آپ کی بہو کہاں ہے نظر نہیں آ رہی۔۔۔  وہ گردن گھمائے سارے گھر پر نظر دوڑاتے نیناں کو سامنے ناں پاتے بولا۔۔۔

بہو نہیں ہے وہ میری بیٹی ہے ۔۔سمجھے۔۔ اور اسے میں نے بھیجا چینج کرنے کے لیے۔۔۔ 

شمائلہ جھٹکتے ساتھ ہی اسے بتاتی چائے کا کب اسکے سامنے رکھنے لگی۔۔

چینج کیوں موم وائٹ کلر اس پہ اتنا اچھا لگ رہا تھا۔۔ وریام منہ بسورتے ہوئے بولا۔۔ کہ  شمائلہ نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا۔۔۔

   سو واٹ موم۔۔۔۔  وائٹ کلر میرا فیورٹ ہے اس پہ اچھا لگتا ہے مگر بلیک کلر میں وہ بالکل اوسم لگتی ہے۔۔۔ مائنڈ بلوئینگ۔۔۔۔۔ وریام بتاتا آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔

وری۔۔۔۔۔  شمائلہ نے سرزنشی انداز میں اسکے نام کو کھینچتے لمبا کیا ۔۔

   اسے جانا ہے تمہارے ساتھ تو کیا کل والے کپڑوں میں چلی جاتی۔۔

اور دوسری بات میرے کہنے ہی اس نے کپڑے چینج کیے ہیں۔۔۔۔ شمائلہ ڈبل روٹی پہ جیم لگاتے اسکے سامنے پلیٹ میں رکھتے بولیں۔۔ تو وہ منہ ٹیڑھا کرتے اپنی موم کو دیکھتے فورا سے اسے اٹھائے کھانے لگا۔۔

موم نین نے ناشتہ کیا۔۔ وہ فورآ سے بائٹ لیتے یاد آتے ہی بولا ۔ کہ شمائلہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے اپنے بیٹے کو گھورا۔۔ 

آئی مین آپ نے اور نین نے۔۔۔ ہ فورا سے گڑبڑاتے ہوئے بات سنبھالتے ہوئے بولا ۔

ہممم کر لیا ہم۔دونوں نے  ناشتہ اور اب تم ذرا سنبھل کر میری بیٹی کے اور میرے نزدیک آنا۔۔۔

شمائلہ آخری ڈبل روٹی اسکے سامنے رکھتے کہتی ہاتھ جھاڑتے وارننگ والے انداز میں اپنے لاڈلے کو دیکھتے آوپر نیناں کی جانب گئیں۔۔

جبکہ پیچھے وہ  سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے گہرا سانس بھر گیا۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

          "کیسی طبعیت ہے اب فدک کی۔۔۔ ؟ 

ہممم تجھے اس سے کیا تو جہاں ہے وہیں رہ ۔۔ اپنی بہن کا خیال رکھنے کو میں ابھی زندہ ہوں۔  وہ سخت لہجے میں کہتا کال کاٹنے لگا کہ رافع کی آواز پہ رکا۔۔۔

  تیری بہن وہ ہو گی مگر میری بیوی ہے وہ میرے جینے کی آخری وجہ۔۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو شاید اب یہ سانسیں ساتھ چھوڑ دیں۔  وہ   نم  آواز اور بھیگے لہجے کو محسوس کرتا خاموش ہو گیا۔۔

کہاں ہے توں ۔۔ کب تک آئے گا انکل بھی کل سے پوچھ رہے ہیں۔۔۔ وریام موڈ ٹھیک کرتے اس سے بولا۔۔تو رافع مسکرایا ۔۔۔

پہلے یہ بتا کہ کیسی ہے وہ۔۔۔۔  

ہمممم۔ٹھیک ہے۔۔۔ ابھی آیا ہوں موم اور نین کو لے کر۔۔  ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ بتاتے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں پھنساتے ایک نظر شیشے سے اندر دیکھتے بولا ،

جہاں اس وقت سب فدک کے پاس موجود تھے جو کہ خاموش سی لیٹی سب کو گھور رہی تھی ۔۔ جیسے کسی کو بھی پہچانتی ناں ہو۔۔

میرا پوچھا اس نے۔۔ وہ بولتے ضبط سے ہونٹ کو دانتوں میں دباتے مدہم سا سانس بھرنے لگا۔۔

ہممم پوچھا تھا۔ مگر تجھے سامنے ناں پا کر تب سے ایسے ہی لیٹی ہے کسی سے بات تک نہیں کی ۔خاموش ہو گئی ہے جانے کیا سوچ رہی ہے۔۔

وریام کو دکھ ہوا تھا اپنی ہنستی مسکراتی بہن کی اس حالت پہ۔۔ وہ کیا تھی اور اب چند پلوں میں کیا ہو گئی تھی۔۔

 خیال رکھنا اسکا اور کسی کو بھی مت بتانا کہ میں نے کال کی تھی۔۔ تجھے میری دوستی کا واسطہ یار۔۔۔ رافع کہتا فورا سے فون رکھ گیا ۔ کہ وریام ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا ۔

وہ دکھ سے لب بھینجتے فون کو جیب میں رکھتے مڑا ، مگر سامنے ہی نیناں کو روتے روم سے باہر ایک جانب جاتا دیکھ وہ آوازیں دیتا اس کے پیچھے بھاگا۔۔ 

مگر وہ بغیر سنے وہاں سے نکلتے اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

   نین۔۔۔ وہ تیز تیز بھاگتا باہر کو آتے اسے ڈھونڈنے لگا ۔ مگر سامنے سوائے روڈ پہ چلتی لاتعداد گاڑیوں کے اسے کچھ نا دکھا۔۔ وہ بے چین ہوتے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سڑک کی جانب بڑھا۔۔

نین۔۔۔۔ شٹ یار۔۔۔۔ وہ سڑک پہ آگے پیچھے دیکھتے آوازیں دیتا واپس ہوسپٹل ایریا میں انٹر ہوا۔۔ کہاں گئی یہ لڑکی۔۔ وہ ہاتھ کمر پہ ٹکائے افسوس سے سر ہلاتے بولا۔۔۔ مگر اچانک سے دماغ میں ایک مدہم سی امید جاگی۔۔

وہ دوڑتا ایک جانب بنے پارکنک ایریا میں آیا۔۔ جہاں لاتعداد گاڑیاں ایک قطار میں کھڑی تھیں۔۔ وہ جھانکتے ہر گاڑی کے اندر دیکھتے اسے آوازیں دینے لگا۔۔

وی۔۔۔۔ اچانک پیچھے سی آتی آواز پہ وہ ماتھے پہ بل ڈالے آنکھیں میچتے سانس خارج کرتے پیچھے کو مڑا۔۔۔

کہ اچانک ایش دوڑتے اسکے گلے لگی ۔ وہ بوکھلاتے اچانک اسکے ہگ  کرنے پہ اسے پیچھے کرتا کہ ڈر تھا کہیں وہ اپنا اگلا کام نا سر انجام دے دے۔۔۔

  مگر وریام کے کچھ کہنے یا سمجھنے سے پہلے ہی ایش اسکے گلے میں بازو کا ہار ڈالتے جھولتے ہوئے اپنے ہونٹ اسکی گال پہ رکھتی پیھچے ہوتے اسے پیار سے دیکھنے لگی۔۔

  کہاں تھے تم ۔۔ یو نو واٹ میں نے کتنا مس کیا تمہیں۔۔۔۔۔۔ ایش منہ بناتے اداس سے لہجے میں بولی۔ اور یہ سچ ہی تھا کہ واقعی اسکی وی سے دوستی بہت گہری تھی۔۔ پہلے سال ہی وہ اسے دیکھتے بری طرح سے اپنا دل اسکی بھوری سحر طاری کرتی آنکھوں کو دیکھ ہار چکی تھی۔۔ جس کا اس نے باقاعدہ اظہار بھی کیا تھا۔۔

اور وی نے بھی بہت محبت سے اسکے پیار کو سراہتے اسے اپنا دوست بنایا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایش اسکے لیے جذبات رکھنے لگی ہے ، اسی وجہ سے وہ اسے گرل فرینڈ نہیں بلکہ فرینڈ کہتا تھا تاکہ وہ اسے کوئی جھوٹی امید ناں بھاندے جسے بعد میں وہ پورا ناں کر پائے۔۔

وی ۔۔۔ یو نو واٹ ۔۔۔   یو آر روک سویٹی۔۔۔۔ یونی میں ایک گیم ہوا تھا ری بیسٹ ہوٹ مین ایور کا۔۔۔ جس میں سے تمہیں سب گرلز نے بنا گیم کھیلے ہی ون کر دیا۔۔ اففف۔۔ یار تم ہوتے ناں تو حیران رہ جاتے۔۔۔کیا کیا پکس بنائی تھیں گرلز نے تمہاری۔۔ یار۔۔۔۔ سیرئسلی میں تو فین ہوگئی۔۔ 

ایش پرجوش انداز میں دونوں ہاتھوں کو کبھی ہوا میں لہراتے تو کبھی اسکے کندھے پہ ٹکاتے چہک چہک کے بول رہی تھی۔۔

  ایش لک ایٹ می ۔ ۔۔ میری بات سنو۔۔۔ وریام سنتا آرام سے اسے سمجھاتے اسکے کندھےپہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا کہ اچانک نظر تھوڑی دور کھڑی ایک گاڑی کے پیچھے دبکی چھپی سی نین پہ پڑی جو آنکھوں میں بے یقینی ، نفرت لیے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

نین۔۔۔ وریام کے دیکھنے پہ وہ دوڑتی ہاتھ کی پشت پر سے آنسوں کو صاف کرتی باہر کی جانب بھاگی۔۔

لسن ایش۔۔ میں کچھ دن میں پارٹی ارینج کرنے والا ہوں تم سب کو بتا دینا اور اسپیشلی لیلی کو بھی ابھی مجھے جانا ہے۔۔ وہ جلدی جلدی اسے بتاتا فوراً سے نیناں کے پیچھے بھاگا۔۔

نین۔۔۔ وہ بھاگتا اسکا ہاتھ زور سے کھنچتے اپنی سامنے کرتے غصے سے بولا ، جو کہ اپنی طرف سے بہت دور نکل آئی تھی وریام سے مگر اب حیرت میں ڈوبتی اپنے بازوؤں کو دیکھنے لگی جو کہ وریام کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں جیسے ٹوٹنے کو تھا۔۔

  چھوڑو مجھے گھٹیا انسان نہیں رہنا مجھے تمہارے ساتھ۔۔۔۔ وہ غصے سے چیختے اپنا بازوؤں چھڑوانے لگی۔۔ جس کا بنا کوئی اثر لیے وریام اسے کھینچتے لے جا رہا تھا کہ اچانک سے نیناں کے زمین پہ بیٹھنے سے وہ گہرا سانس بھرتے خود کو ریلکس کرتے نیچے جھکتے اسے گود میں بھرتے اندر کی جانب بڑھا۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کے مکے بناتے اسکے سینے پہ مارتے ہوئے بولی۔۔۔

کہ وریام آگے بڑھتے گاڑی کا ڈور کھولتے اسے پچھلی سیٹ پہ پھینکتے خود بھی بیٹھتے کار لاک کر گیا ۔

کھولو اسے مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ کھولو۔۔۔ وہ گاڑی کا ڈور کھولنے کی کوشش کرتے ناکام سی ہوتی اسپہ جھپٹی۔۔ 

ریلکس یار کالم ڈاؤن کیا ہو گیا ہے ۔۔ وریام بالکل ریلکس موڈ میں بچوں کی طرح اسے گلے لگاتے اسکی پیٹھ تھپکتے ہوئے بولا ۔

چچچ چھوڑو۔۔۔ نیناں شدید مزاحمت کرتے پورے زور سے اسے خود سے دور کرتے تیز تیز سانس لیتے خود کو نارمل کرنے لگی۔۔

کیا ہوا تھا ایسے کیوں روتے ہوئے باہر آئی ۔۔۔۔ وہ گہری نظروں سے اسکے آنسوں سے تر چہرے کو بلیک جالی دار دوپٹے میں دھمکتے دیکھ پوچھنے لگا۔۔۔

جبکہ نیناں نے آنسو کو دوپٹے سے بری طرح رگڑتے اپنے سامنے ٹانگ کو فولڈ کیے سیٹ پہ رکھتے وریام کو دیکھا ۔

تم سے مطلب۔۔۔۔ وہ نخوت سے کہتی سر جھٹک گئی ، 

سارے مطلب تو مجھ سے ہی ہیں اب۔۔۔ وہ مسکراتے بڑبڑایا۔۔

کیا بولا۔۔۔ نیناں ناسمجھی سے اسکی بڑبڑاہٹ سنتے بولی۔۔۔

مطلب یہ کہ مجھے لگ رہا ہے کہ تم جیلس ہو رہی ہو ۔۔ وہ مسکراتے اس پہ جھکتے بولا کہ نیناں ہڑبڑاتے پیچھے ہوتی سیٹ سے لگی   

نن نہیں میں جلوں گی ۔ ڈریس دیکھا تھا اس کا آدھے سے زیادہ وہ اوپر سے اور آدھے نیچے سے  کاٹی ہوئی تھی توبہ توبہ۔۔۔ اور ایسے کسی کے بھی گلے لگنا میں کیوں اس بے شرم سے جیلس ہونے لگی۔۔

نیناں ایش کا حلیے کو یاد کرتے غصے سے اپنا زیر اگلتے بولی۔۔

اوہ۔۔ تو تم سچ میں جیلس نہیں ہو۔۔ وریام ہاتھ سے اپنی بھوری فرنچ سٹائل کٹ شیو کو انگلی اور انگوٹھے سے مسلتے گہری مسکراہٹ سجائے ہوئے بولا ۔۔

پل بھر کو چونکتے نیناں فوراً سے خود کو کمپوز کرتی ناں میں سر ہلا گئی۔

پر میں نے تو کسی کا نام لیا ہی نہیں اور نہ ہی یہ کہا کہ تم ایش سے جیلس ہو۔۔۔ نیناں کے چہرے کے قریب ہوتے وہ مسکراتی پرشوق نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا کہ وہ سٹپٹا کے رہ گئی۔۔

       روئی کیوں تھی یہ بتاؤ پہلے۔۔۔۔ وہ اسکے شرمندہ ہونے پہ بات بدلتے اسے اپنی گود میں اچانک سے بٹھاتے بولا کہ پل بھر کو وہ اسکی حرکت پہ حیران ہوتی اٹھتی کہ وریام نے وارننگ کے طور پہ کمر پر اپنا دباؤ بڑھایا، جسے محسوس کرتے وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی ۔

  جواب نہیں دیا۔۔۔۔ وہ ناک اسکے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے بولا۔۔ کہ نیناں تھوک نگلتے خشک خلق کو تر کرتی اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی ۔ جسکی انگلیاں کھولتے وہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے الجھاتے اسے ہی دیکھنے میں مگن تھا۔۔

وہ وہ ففف فدک سے اس دن میں نے اچھے سے بات نہیں کی تو شاید اس لیے وہ مجھے نہیں بلا رہی۔۔ میں پاس گئی تھی اسکے بات بھی کرنا چاہی۔ ۔۔ مگر میرے بلانے پہ وہ منہ موڑ گئی۔۔ مجھے اپنا رویہ یاد آیا تو اور بھی برا لگا بس اسی لیے مجھے رونا آ گیا ۔۔ اور میں پھپھو لوگوں کے سامنے کیسے روتی اسی لیے باہر کو آ گئی۔۔

وہ معصومیت سے نظریں اسکے سلیو لیس براؤن جیکٹ پہ گاڑھتے بنا اسے دیکھے بتاتی پھر سے ہچکی بھرنے لگی۔۔۔

اوہ۔   ریلکس یار۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا اس میں کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔۔ فدک نے تمہیں اگنور نہیں کیا وہ تو کسی سے بھی نہیں بول رہی کیونکہ اس کا شوہر تو اسکے پاس نہیں ۔ وریام جیب سے ٹشو نکالتے اسکے آنسو صاف کرتے اسکی ناک کو اچھے سے صاف کرتے وہ ڈیش بورڈ پہ رکھتے سیدھا ہوا۔۔

اب خاموش ہو جاؤ۔۔۔۔۔ رونا نہیں  میرے پاس ٹشو بھی ختم ہو گئے ۔

وریام اسکے چہرے کو ہاتھوں میں پکڑتے پیار سے بالکل سیریس انداز میں بولا کہ نیناں کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری ۔

ڈیٹس لائک مائی نین۔۔۔ وہ مسکراتے کہتا اسکے گال میں نمودار ہوتے ڈمپل پہ لب رکھ گیا ۔ کہ نیناں بوکھلاتے اسے پیچھے کرتے باہر کی جانب ڈرتے دیکھنے لگی۔۔

ورریامممم ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کھینچتے اس کا نام لمبا کرتے کہتے وریام کے چہرے اوپر کرنے پہ ڈرتے اسکے سینے سے چپکتے آنکھیں بند کر گئی کہ وریام  بآسانی اسکی دھڑکنوں کا شور سنتا گہرا مسکراتے باہر کی جانب دیکھتے سر کو نفی میں ہلاتے اپنے ساتھ چپکی مہکتے گلاب کی خوشبو کی مانند اس نازک جان کو دیکھ گہرا مسکرایا۔۔

نین جان یہ ابروڈ ہے۔۔۔ تمہارا پاک نہیں جہاں پہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ایشو بنے۔۔ یہاں پر تو کھلے عام لوگ کچھ بھی کرتے ، گرل فرینڈز بوائے فرینڈز۔۔ اور اسپیشلی ہزبینڈ وائف۔۔۔ وہ اسکی پیٹ تھپتھپاتے ہونٹ اسکے سر پہ رکھتا باہر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ بولا، جو کھڑے تو انکی گاڑی کے سامنے تھے مگر وہ اندر دیکھ نہیں سکتے تھے۔۔ کیونکہ کار کے  بلیک شیشوں میں سے باہر سے کچھ نظر نہیں آ سکتا تھا۔۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ نیناں ان لڑکوں کا خیال کرتے شرمندہ ہوتی اس سے چپکی تھی۔۔

اگر ہم انکے سامنے کھڑے ہوکر رومانس بھی کریں گے تو انکو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا۔۔ سو میری ڈرپوک شیرنی اب بہادر شیرنی بنو زرا۔۔ وہ مسکراتے اسے چھوڑتے کہتا اسکا دوپٹہ سر پہ ٹھیک کرنے لگا ۔ کہ نیناں نے لرزتی پلکیں ذرا سی اٹھاتے ایک نظر اسے دیکھ دوبارہ سے نظریں جھکا لیں۔۔

چلیں پیار سے اسکی پیشانی کو چومتے ہوئے کہتے وہ اسکا ہاتھ تھامتے دوبارہ سے گاڑی سے اسے لیے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

   "السلام علیکم! انکل کیسے ہیں آپ؟ وہ دھیرے سے اندر داخل ہوتے پیار سے سلام کرتے بولا۔۔

و علیکم السلام۔۔ ارے بیٹا آؤ اندر آؤ۔۔ حامد پرجوش سے ہوتے اسکا استقبال کرتے بولے۔۔ کیسے ہیں آپ انکل اور رمشہ کیسی ہے۔۔ وہ صوفے پہ بیٹھتے دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کرتے بولا ۔

کتنا سبکی بھرا احساس تھا کہ وہ خود لاہور میں تھا جبکہ پیچھے اسکی بیوی اس قدر بیمار تھی اور وہ کچھ نہیں جانتا تھا، وہ ابھی حامد کی اچانک کال پہ کیس کو چھوڑتے کسی اور کے حوالے کرتے وہاں سے نکلا تھا اور اب رات کے گیارہ بجے وہ شاہ ہاؤس میں تھا جہاں حامد جانے کب سے اس کا انتظار کر رہے تھے ۔

بیٹا رمشہ ناجانے کس بات کو دل پہ لگا چکی ہے اللہ جانے کس کی نظر لگ گئی میری بچی کو۔۔ تم جاؤ اس سے مل لو اور ریسٹ بھی کر لو۔۔

حامد پیار سے اسے بتاتے نرم لہجے میں بولے کہ وہ سنتا شکریہ کرتا باہر نکلا۔۔

رکو لڑکے خبردار جو میری بچی کے قریب بھی گئے۔۔ سلمیٰ اسے دیکھتے سیڑھیوں پہ روکتے سخت و تند لہجے میں بولیں۔۔

کہ اشعر کے ماتھے پہ ناگوار سلوٹیں ابھری ۔

تم جاؤ بیٹا میں بات کرتا ہوں ان سے۔۔ حامد کے کہنے پہ وہ دو قدم آگے بڑھا مگر اگلے الفاظ سنتے اسنے ضبط سے برداشت کھوتے پیچھے مڑتے انہیں دیکھا ۔

میں ٹھیک کہہ رہی ہوں حامد میں اس انسان کو اپنی بچی کے قریب بھی نہیں جانے دوں گی ۔ ارے یہ تو لائق ہی نہیں تھا میری پھولوں پلی معصوم بچی کے۔۔ ناجانے کیا زبردستی کی اسکے ساتھ کہ وہ اس حالت میں آ گئی۔۔ 

کہا تھا ناں میں نے کہ میری بچی نہیں خوش اس رشتے پہ مگر آپ آپ تو کچھ بھی نہیں سنتے بس اپنے من کی کرتے ہیں۔۔۔ وہ کہتی اپنے سامنے خونخوار بنے کھڑے اشعر کو دیکھنے لگی ۔

دیکھیں آنٹی آپ رمشہ کی امی ہیں اور اسی وجہ سے میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں مگر آپ کو کوئی حق نہیں کہ آپ میرے اور میری بیوی کے پرسنل میٹر میں دخل اندازی کریں۔ اب وہ پہلے میری بیوی ہے اس کے بعد آپ کی بیٹی۔۔ 

تو اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں آگے بھی رمشہ کو یہاں آنے دوں تو اپنے الفاظ سوچ سمجھ کر بولا کریں۔۔ نہیں تو مجھے کوئی شوق نہیں اپنی بیوی کو اور خود کو خوار کرنے کا۔۔

وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے کہتا ایک نظر سلمیٰ کی اڑتی رنگت پہ ڈالتا  سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپر گیا۔۔

سلمیٰ بیگم بیٹے کی کرتوتوں کے باوجود آپ کو عقل ناں آئی جو بیٹی کا گھر بھی خراب کرنا چاہتی ہیں۔۔ حامد افسوس سے کہتے وہاں سے گئے کہ پیچھے وہ اشعر پہ لعنت پیجھتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔

     وہ چلتا آرام سے کمرے میں داخل ہوتے فون کی لائٹ آن کرتے اندر داخل ہوا ، سامنے ہی بیڈ پہ سیدھے لیٹی ہوئی رمشہ پہ ایک نظر ڈالتے وہ لیمپ ان کرتے ایک جانب ہوا۔۔ صوفے پہ بیٹھتے شوز کو اتارتے ایک جانب کرتے وہ شاور لینے کے ارادے سے اٹھتا واشروم میں بند ہوا۔۔

۔اگلے پانچ منٹ میں۔ اپنی نیلی جینس پہنے تولیے سے سر کو رگڑتے باہر آیا اور تولیہ ایک جانب پھینکتے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔

جہاں وہ آگے سے زیادہ کمزور حالت میں اسکے سامنے نیم دراز تھی۔۔ اشعر چلتا اسکی جانب بیٹھتے گھٹنے کو فولڈ کرتے جھکتا اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔ جسکے چہرے کی رنگت زرد ہوتی آنکھوں کے گرد ایک ہی دن میں ہلکے نظر آ رہے تھے ۔۔

وہ جھکتا ہاتھ بڑھاتے انگلیاں اسکے چہرے پہ گھماتے اسے محسوس کرنے لگا ۔۔ مگر دماغ اس وقت محتلف وسوسوں میں گھرا اسے بے چین کر رہا تھا ۔

اسکے لمس پہ وہ منہ بناتے کروٹ بدلنے لگی کہ اچانک سے وہ نیند سے بھری آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی ۔

اشعر حیران ہوا اسے خود کو یوں یک ٹک دیکھتے پاکے ۔ اشعر کچھ کہتا کہ اس سے پہلے ہی وہ  سرخ نم ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتے اپنا خیال تصور کرتی اسکے بالوں کو سہلانے لگی۔۔۔

بہت برے ہیں آپ اشعر۔۔۔ مجھے آپ سے بات نہیں کرنی کبھی بھی میں آپ سے ناراض ہوں بہت ذیادہ۔۔ وہ روتے اسے بالوں سے پکڑتے اپنے قریب کرتے اسکی پیشانی پہ لب رکھتے بولی کہ اشعر جو پرسکون سا اسکے لمس پہ آنکھیں موندے ہوئے تھا پٹ سے آنکھیں کھولتے اسے دیکھنے لگا۔۔

مگر آنکھوں میں حیرت و پریشانی سی تھی۔ 

اششششش۔۔۔ سو جاؤ۔۔۔ وہ اسے مزید بولنے سے روکتے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کرواتے کہتے باری باری اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیتے اسے دیکھنے لگا جو کہ پرسکون ہوتی سو گئی تھی۔۔

اشعر گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اسکے پاس نیم دراز ہوتے اسکا سر اٹھاتے اپنے کندھے پہ رکھ گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       چچ چھوڑ دو مم مجھے پلیز وہ کل سے منت کر رہا تھا مگر شاید ہی کسی کو اس پہ رحم آنا تھا۔۔    "

اس وقت بھی وہ ادھڑے جسم کے ساتھ بے تخاشہ بری حالت میں ہاتھ جوڑے اس سے محافی مانگ رہا تھا وہ تو جانے کتنی ہزار بار معافیاں مانگ چکا تھا مگر مقابل کو کہاں اسکی کی معافی سے غرض تھی۔۔ وہ تو بے چین اپنی فدک سے دور اس درندے کو سزا دیتے اس کے پاس جانا چاہتا تھا ۔۔۔

اور وہ کب سے ایسا کر رہا تھا ۔۔جانے کتنے وقت تک وہ  بنا رکے اسے مارتا رہا تھا کہ وہ بے ہوش ہوتا بے بس سا تھا۔۔

    چیخ اور چیخ تیری یہ چیخیں مجھے روح تک سکون دیتی ہیں۔۔ وہ چاقو اسکی ہونٹوں پہ رکھتے غصے سے بپھرتے اس قدر زور سے بولا۔ کہ سعد ڈرتے ڈرتے اپنے ہونٹوں پہ رکھے چاقو کو دیکھ دم سادھ گیا ۔

 ایسے ہی میری فدک بھی چیخی ہو گی تیرے آگے تجھے آیا اس پہ رحم جو میں کروں تجھ پہ رحم ۔۔۔۔ رافع کہتے ساتھ ہی تیز دھار چاقو اسکے ہونٹ پہ زور سے پھیرتے اسکی چیخوں کو سننے لگا۔۔۔

  جو کہ ہونٹ کے کٹ جانے پہ لبالب خون سے بھرے ہونٹوں سے زمین پہ پڑا بے تخاشہ تڑپتا رو رہا تھا۔۔

جی کے آج رات تک کیونکہ آج رات ٹھیک آٹھ بجے تجھے اوپر دوزخ کی جانب رحصت کرنا ہے وہ کیا ہے ناکہ میں اب اپنی بیوی سے اتنا عرصہ تیری وجہ سے دور ہونے سے تو رہا ۔۔۔ 

کیوں نا تجھے جو کل مارنا تھا آج ہی مار کے اس کے پاس چلا جاؤں جسے میرے پیار کی ، میرے ساتھ کی ضرورت ہے۔۔ وہ کہتا اسے ٹھوکروں سے پیٹتے منہ پہ آئے پسینے کو شرٹ کے ساتھ صاف کرتا روم سے باہر نکلا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

        تمہیں کیا لگتا ہے کہ ایسی حالت میں دیکھنے کے باوجود وہ تجھ سے ویسے ہی محبت کرے گا۔ ارے لڑکی کے نام کے آگے اگر کسی کا نام جوڑ دیا جائے تو بھی لوگ اسے جینے نہیں دیتے اور یہاں تو پورے دو دن سے توں میرے پاس ہے۔۔۔ چچ چچ۔۔۔ افسوس کروں تجھ پر کہ تیری قسمت پر۔۔ اب دیکھ اگر مان بھی لیا جائے کہ تیرا سو کالڈ شوہر جو تیرے مطابق تجھ سے بہت زیادہ ہی محبت کرتا وہ آ بھی جائے۔۔

تجھے بچانے مگر کیا وہ تجھے اپنا لے گا پھر سے ۔۔۔ وہ اپنے سامنے سہمی دیوار سے چپکی فدک کو دیکھ اسکے دل کے ساتھ اب اسکے دماغ پہ وار کر رہا تھا۔۔

ارے نہیں ایک عزت دار ، غیرت مند شحض کبھی بھی ایسی لڑکی کو اپنی زندگی میں جگہ نہیں دے گا جسے وہ خود اس حال میں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔۔۔ 

تجھے یقین نہیں آ رہا کیا۔۔ وہ چلتا فدک کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔۔ کہ وہ کھسکتی دیوار میں سر دیتے خاموشی سے سسکنے لگی۔۔۔ 

اپنا حال دیکھ۔۔ چچ چچ ، بال دیکھ اپنے اففف اور کپڑے ، کپڑے بیچارے تو جگہ جگہ سے پھٹ چکے ہیں۔۔۔ اففف۔۔ مجھے تو ابھی سے تیری حالت پہ رحم آ رہا ہے ۔۔ مگر میں رحم ہی تو نہیں کر سکتا تجھ ہر۔۔ وہ غصے سے کہتے اسکے جبڑے کو ہاتھ میں دبوچتے بولا۔۔ کہ فدک نے بمشکل اپنے کانپتے ہاتھوں سے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔۔

او ہو بیچاری فدک بی بی۔۔ نام بدل لیا ، جگہ بدل لی اور تو اور سب سے بڑی بات شہر کیا ملک ہی بدل لیا مگر پھر بھی اپنے پرانے عاشق نامدار سے نہیں بچ پائی۔۔۔

ہاہاہاہا وہ کہتا زور زور سے ہاتھوں کی تالیاں آپس میں مارتے اسے دیکھنے لگا جسے دیکھ کسی پاگل کا گمان ہو رہا تھا۔۔

نن نہیں ۔۔۔۔۔ وہ کپکپاتے دونوں ہاتھوں میں بیڈ شیٹ کو دبوچتے پسینے سے تر چہرہ لیے زور زور سے نفی میں سر ہلاتی بولی ، جبکہ آنکھیں آنسوں سے بھری۔۔ اسکی اندرونی کیفیت کا بخوبی اندازہ دے دہی تھیں۔ 

ایک دم سے ڈرتی وہ چیختے اٹھ بیٹھی مگر کمرے میں موجود اندھیرے کو دیکھ وہ مزید ڈسٹرب ہوتی ہاتھ پاؤں مارتی جلدی سے بمشکل بیڈ سے اترتے دروازے کی جانب بڑھی۔

  تیزی سے دروازے کو کھولتے وہ تاریکی میں ڈوبے گھر کو دیکھتی مرنے کے مقام پہ تھی اس نے ایک نظر پیچھے دیکھا جہاں اسے سعد بیٹھا خود پہ ہنستا نظر آیا ۔۔ وہ روتی جلدی سے دوڑتے سیڑھیوں سے اترتی ہال کو کراس کرتے مین گیٹ کی جانب بڑھی۔۔۔ 

وہ دروازہ کھولتے باہر بھاگنے لگی کہ معا سامنے سے آتے وجود نے اسے بری طرح سے پکڑا۔۔کہ اس میں ہلنے کی سکت بھی ناں رہی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       پھپھو کیا یہاں پہ سب ایسے ہی فری ہوتے ہیں ۔۔

مطلب کیسے فری ہونا میری جان ۔ شمائلہ نے چونکتے اپنے سامنے کھڑی چائے بناتی اپنی لاڈلی بھتیجی اور بہو کو دیکھ پوچھا۔

   مطلب یہ کہ ایک دوسرے کے گلے ملنا ۔ وہ جب سے گھر آئی تھی اسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کیسے وہ لڑکی اسکے شوہر کے ساتھ چپکی ہوئی تھی مانا کہ اسکا شوہر ایک نمبر کا فلرٹی انسان تھا مگر ایسا بھی کیا کہ ناں جگہ دیکھی ناں ہی سوچا کہ وہ ایک لڑکی ہو کر ایک غیر محرم کو گلے لگا رہی ہے ۔

 ہاں بیٹا یہ تو عام سی بات ہی ہوئی ناں اب دیکھو ہم ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں ۔ تو یہاں بھی یہی رواج ہے۔۔ شمائلہ سمجھی کہ شاید نئی جگہ پہ آئی ہے تو طور طریقوں کو سمجھنا چاہتی ہے وہ خوشی سے بولیں تھیں کہ چلو اب وہ انکے وریام کو قبول کر لے گی ۔ اپنی زندگی میں۔۔ وہ جانتی تھی کہ چاہے مرد جو مرضی کر لے مگر کبھی بھی کسی عورت کے دل میں زبردستی جگہ نہیں بنا پاتا۔

اور نیناں کی آنکھوں میں وہ اپنے وری کے لیے نفرت دیکھ چکی تھیں۔۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے ۔ اگر ان کا بیٹا اپنی زندگی کسی ایک کے ساتھ بخوشی گزارنا چاہتا ہے تو وہ کیوں ناں اپنے بیٹے کے لیے دعاگو ہوتی۔۔ جس نے آج سے پہلے صرف لڑکیوں کے ساتھ ٹائم ویسٹ ہی کیا تھا مگر اب وہ نیناں کو لے کر سئریس ہو رہا تھا کم از کم انہیں تو ایسا ہی لگا تھا۔۔

 نہیں پھپھو ۔۔۔ میرا مطلب کہ لڑکیاں کیا ایسے ہی لڑکوں کو گلے لگاتی ہیں ۔ وہ آنچ دھیمی کرتے ایک نظر باہر دیکھتے سرگوشی کے سے  انداز میں بولی۔ 

اچھا ۔۔۔۔ تو اس میں بھی کوئی بڑی بات نہیں ۔

ہیں۔ مطلب جس کے مرضی گلے ملو کوئی بات نہیں۔۔   وہ حیرت سے اپنی آنکھیں پھیلائے بولی تو شمائلہ کو بےساختہ اس پہ پیار آیا وہ جھکتی اسکی پیشانی چومتے ماشاءاللہ کہتے پیچھے ہوئی کہ وہ حیا سے گلنار ہوئی۔۔

۔۔بیٹا ہم جس جگہ رہتے ہیں اس جگہ کا ماحول ہمارے اوپر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے ۔ اب دیکھو تم پاکستان میں پلی بڑھی ہو اور ہمارے ملک میں ان سب چیزوں کو برا مانا جاتا ہے کیونکہ یہ سب برا ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری بات کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں اپنے دائرہ کار معلوم ہیں ۔۔

مگر یہاں پہ تو زیادہ تر لوگ غیر مسلم ہیں۔۔ اور ان میں یہ سب معیوب نہیں جانا جاتا۔۔ اور ایک بات   کہ ہمارے معاشرے میں اصول صرف بنائے نہیں جاتے بلکہ ان پر کوشش کی جاتی ہے کہ عمل بھی کیا جا سکے مگر اس ماحول میں نا تو کوئی اصول ہیں نا ہی کوئی عمل کرتا ہے۔۔

ہر کوئی اپنی زندگی اپنے مطابق گزارتا ہے ۔ وہ رسان سے اسے سمجھاتے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے بولی کہ نیناں نے ہاں میں سر ہلایا کہ آ گئی سمجھ۔۔

پھپھو چائے ۔۔۔ وہ ٹرے انکے سامنے کرتے بولی کہ شمائلہ نے اسے بھی ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔

وہ چلتے انکے پیچھے ہوئی۔  جو کہ سیڑھیاں چڑھتے سیدھا چھت پر جا رہی تھیں ۔

وہ نا سمجھی سے ماتھے پہ بل ڈالے اپنے گرد لپٹی شاک کو ٹھیک کرتے آگے بڑھی۔۔

مگر جیسے ہی وہ اوپر گئی ایک ٹھنڈی یخ بستہ ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیا ۔ وہ دانت کچکچاتے آگے بڑھی ۔ مگر اگلا منظر اس کے لیے زیادہ حیران کن تھا۔ جہاں ایک جانب بنے ہٹ شیپ ٹی ہاؤس میں سامنے ہی ایک جانب رضا  بیٹھے تھے اور سامنے ہی ایک خوبصورت سا آتش دان بنا تھا جس میں جلتی لکڑیوں نے ماحول کو قدرے گرم بنایا تھا ۔

وہ خوشگوار حیرت لیے اس قدر خوبصورت ماحول کو دیکھتے ٹرانس میں چلتی آگے بڑھی۔۔ وہ حیران تھی کہ چھت پہ کیسے اس قدر خوبصورت ٹی ہاؤس اور ایسا دلکش ماحول بنایا گیا تھا ۔ کاش کے وہ پہلے جان پاتی تو اب تک جانے کتنے چکر لگا چکی ہوتی اس پیارے سے ٹی ہاؤس کے ۔

مجھے دو بیٹا۔۔ شمائلہ نے آگے ہوتے اس سے ٹرے پکڑی کہ وہ جھجکتے شیشے کا منظر پیش کرتے پردوں کو ہاتھ سے چھوتی اندر بڑھی ۔۔ 

ارے شمائلہ آپ نے آتے ہی اپنی بہو کو کام پہ لگا لیا ۔ رضا میں نے منع کیا تھا مگر نیناں نے ہی ضد کی کہ اسے بنانے دیں چائے تو میں انکار ناں کر سکی۔۔ وہ بتاتی اپنے پاس بیٹھی نیناں کو دیکھ بولی۔۔

پھپھو آپ لوگوں نے ٹی ہاؤس چھت پہ کیوں بنایا ۔وہ سوچتے فوراً سے پوچھ بیٹھی۔۔

بیٹا کیونکہ یہ آپکے حال ہی میں بننے والے شوہر کا آئیڈیا تھا۔۔ وہ تو سوتا بھی یہی صوفوں ہر ہے زیادہ مگر شاید اب آپ کے آنے سے اس کمرے بیچارے کو بھی شرف مل جائے۔۔وہ مسکراتے نیناں کو بتاتے بولے کہ وہ فوراً سے  پیشتر ہونٹ دانتوں تلے چباتی آگے پیچھے دیکھنے لگی ۔

ہائے موم۔۔۔۔ لو آ گیا تمہارا شوہر نکما۔۔۔ رضا ہمیشہ کی طرح اسکے خود کو اگنور کرنے پہ تلملاتے ہوئے بولے تو نیناں نے نظریں زرا سی اٹھاتے وریام کی جانب دیکھا جو کہ بلیک سلیو لیس شرٹ جسکے اوپری دو بٹن کھلے تھے۔ کے ساتھ۔ بلیک ٹراؤزر پہنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مغرور مگر شاہانہ چال چلتا اندر داخل ہو رہا تھا۔۔

نہائے کیوں اتنی ٹھنڈ میں شمائلہ اپنے  پاس  بیٹھنے پہ اس کا سر ماتھا چومتے خفگی سے بولیں تو وہ مسکراتے انہیں حصار میں لے گیا ۔

موم آپ جانتی ہیں کہ نہائے بنا نیند نہیں آئے گی ۔۔ وہ ہونٹ انکے سر پہ رکھتے بولا کہ نیناں سامنے دوسرے صوفے پہ بیٹھی اسکے اپنی موم کے ساتھ پیار کو دیکھ حیران ہوئی۔۔

وہ مسکراتے ایک نظر اسے دیکھتے آنکھ دبا گیا کہ نیناں نے شرم سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ فوراً سے آگے پیچھے دیکھنا شروع کر دیا ۔

بات کرنی ہے تم سے میں نے نالائق انسان۔۔۔ رضا غصے سے اسے گھورتے بولے کہ وریام اچانک سے انہیں طنزیہ مسکراتے دیکھ جگہ سے اٹھا۔۔ جانتا جو تھا کہ کیا بات کرنی ہو گی ۔۔۔۔

نین یار خیال رکھا کرو اپنا۔۔ اور یہ شال ٹھیک سے لپیٹو ، ابھی تمہیں اس ماحول کی عادت نہیں بیمار پڑ جاؤ گی ۔ وہ ڈیڈ کو اگنور کرتے سامنے فوراً سے نیناں کے پاس بیٹھتے بولتے ہی ہاتھ سے اسکی شال کو پکڑتے ٹھیک کرنے لگا۔۔ کہ اپنے بیٹے کی اس قدر پر اعتمادی اور بے باکی پر رضا نے جتاتی نظروں سے بیوی کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں ، دیکھا میں نہیں کہتا تھا کہ اپنی بیوی کی باری رولز چینج کر لے گا کمینہ۔۔ ورنہ خود تو ماں کو دو منٹ بیٹھنے ناں دیتا تھا۔۔

مم میں کر لوں گی وریام۔۔۔ نیناں اچانک سے وریام کے اپنے پاس بیٹھتے شال کو ٹھیک کرتے ہاتھ کو کپکپاتے ہاتھوں سے تھامتے گھٹی آواز میں بولی تو وریام نے بمشکل اس کی رونی صورت کو دیکھ قہقہہ ضبط کیا ۔

پسند آئی جگہ۔۔۔۔ وہ شال ٹھیک کرتے دھیمے لہجے میں بولا کہ نیناں نے اچانک سے نظریں اٹھاتے اسے دیکھا۔۔۔ جو مسکراتے اسکی کالی آنکھوں میں دیکھتے سامنے بیٹھے اپنے ڈیڈ کو دیکھنے لگا۔۔

ہاں تو کچھ کہہ رہے تھے آپ مسٹر کاظمی وہ ہاتھ صوفے پر پھیلائے اپنی موم اور نیناں کو تقریباً حصار میں لیتے بولا کہ اسکی مسکراتی بھوری آنکھوں کی چالاکی پڑھتے رضا کا دل چاہا کہ کسی چیز کے ساتھ آپنے اس میسنے بیٹے کی مسکراتی آنکھوں کو کھینچ کر نکال لیں۔۔

تمہیں جس میٹنگ کو اٹینڈ کرنے کے لیے بھیجا تھا میں نے۔۔۔ اس میں تم نے ہمارے پارٹنر کو بیس پرسنٹ پرافٹ پر ایگری کر لیا رائٹ۔۔۔۔ رضا اپنی بیوی کے سامنے اپنے بیٹے کی حوب کلاس کا سوچتے مسکراتے ہوئے بولے ، 

یس رائٹ تو پھر۔۔۔ وہ ناسمجھی سے بولا کہ رضا مسکرائے۔۔ 

باقی کے اسی پرسنٹ میں سے پچاس پرسنٹ تو جمع ہیں بینک میں باقی کے تھرٹی پرسنٹ کا جواب دو کہاں گئے اتنے پیسے۔۔۔ اب ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھنے کی باری رضا کی تھی۔۔۔ وہ الجھی نظروں سے انہی کو دیکھتی اپنی بیوی کی جانب دیکھ سر کو زور شور سے ہاں میں ہلا گئے۔۔

  شمائلہ حیرانگی سے اپنے جان عزیز بیٹے کو دیکھنے لگی۔۔ جبکہ دوسری جانب دبکی سی بیٹھی نیناں کے کان بھی کھڑے ہوئے اور دل میں ایک ننھی سی امید ابھری کہ شاید اب وریام کی واٹ لگنی ہے۔۔۔

آپ نے ان سے ڈیل کی تھی ففٹی ففٹی میں رائٹ۔۔ وہ ہاتھ آپس میں جوڑتے ہوئے بولا کہ سب کی توجہ اسی ہر تھی۔۔

اور آپ کا ففٹی پرسنٹ آپکی اکاؤنٹ میں ہے پھر کیا پرابلم ہے اپکو۔۔۔

پرابلم ہے بیٹا جی میں آپ کا باپ ہوں تم میرے باپ نا بنو سیدھے سے بتاؤ باقی کے تین کروڑ کہاں گئے ۔۔ 

نیناں نے بے یقین سا اسکی طرف دیکھا۔۔  

ڈیڈ ان پیسوں کو   میں نے اپنی شادی ہر ویسٹ کیا  ہے۔۔ اور ویسے بھی وہ میری اپنی کمائی تھی۔۔

وہ ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہتے اپنے نم بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سیدھا ہوتے بیٹھا۔۔

اچھا کتنی گرینڈ شادی کی میرے بیٹے نے کس کس ملک کے لوگوں کو بلایا کونسا مہنگا ہال بک کیا ۔ جو اتنا خرچ ہو گیا شادی پر۔۔۔ وہ طنزیہ انداز میں بولتے سر جھٹک گئے۔۔

ڈیڈ شاید آپ بھول رہے ہیں، کہ نیناں کا برائیڈل ڈریسز جو اس نے پہنا تھا وہ میں نے بھیجا تھا اسکے علاؤہ اپنی بیوی کے لیے ساری شاپنگ بھی اپنے پیسوں سی کی ہے ۔۔ وہ بتا رہا تھا جبکہ وہ تینوں منہ کھولے اسے حیرت سے کنگ دیکھ رہے تھے کہ کیا اس پاگل شخص نے تین کروڑ کی شاپنگ کی صرف۔۔

 اور ایک بات اب سے آپ گھر رہیں گے اور میں آپنا آفس سنبھالوں گا۔وہ جلے پہ تیل چھڑک رہا تھا برابر ایسا نیناں کو لگا کیونکہ رضا کے تاثرات ایسے تھے کہ بیٹا ناں ہوتا تو ابھی قبر بنا دیتے۔۔۔

تمہیں کس نے کہا کہ تم میرا آفس سنبھالو گے بلکہ میں خود سنبھالوں گا جب تک میرا پوتا اس دنیا میں نہیں آ جاتا۔۔ اور میرے بعد سب اس کا ہو گا ۔۔ تم اپنا حصہ لے چکے ہو  سمجھے۔  اب میری جائیداد پر صرف اور صرف میرے پوتے کا حق ہو گا اور دیکھ لینا وہ تم سے دس گناہ بڑا باپ بنے گا تمہارا۔۔۔ وہ جلتے بھنتے بنا لخاظ انگلی اٹھاتے اسے وارن کرتے وہاں سے نکلے کہ پیچھے شمائلہ اور وریام کا قہقہہ خاموش فضا میں گونجا۔۔۔

بیٹا یہ فون لو ردا کی کال آئی تھی بات کر لو اس سے ۔۔۔ وہ خجل سی سرخ چہرہ لیے ایک جانب انگلیاں مروڑتے بیٹھی نیناں کے سامنے موبائل کرتے بولی تو وہ بھی جی کہتی فون پکڑتے وہاں سے نکلی۔۔۔

موم بات تو آپکے ہزبینڈ کی ٹھیک ہے اب کیا حیال ہے ہوتا چاہیے آپ کو انکی طرح یا میری طرح ایک کیوٹ سے چھوٹی سی وریامنی۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ وہ نیناں کی پشت کو دیکھ مخنی خیزی سے بولتے اخی بات پہ قہقہہ لگا اٹھا۔۔ 

جو میرے رب کو منظور ہو بس اللہ ہمیں وہ دن دیکھنا نصیب کریں'۔۔۔شمائلہ مسکراتے اپنی گود میں لیتے وریام کا سر تھپکتے ہوئے بولیں۔۔کہ وہ بھی آمین کہتا دعاگو ہوا ..

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           وہ خشک ہوتے خلق کو تر کرتے بشمکل سے بولی کہ وہ اٹھتا میں تاریکی میں سے ابھرتی روشنی کو دیکھ فوراً سے پانی کا گلاس لیے اسکے پاس آیا۔۔۔

رمشہ پانی پی لو۔۔۔  وہ گلاس سامنے کرتے اسے سہارے سے بٹھاتے بولا کہ غنودگی میں وہ خاموشی سے پانی پتیے حواس سنبھلتے ہی اسے دیکھتے فورا سے دھکا دیتے پیچھے دھکیلنے لگی ۔

تم تم یہاں کیسے آئے۔۔۔۔ نکلو یہاں سے۔۔۔ وہ فورآ سے پیشتر بیڈ سے اٹھتے کھڑی ہوتی ہاتھ سے اسے جانے کا اشارہ کرتے بولی کہ اشعر ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھتا رہا۔۔۔

کیا ہوا ہے رمشہ بتاؤ تو مجھے۔۔۔۔ وہ آہستگی سے چلتا اسکے پاس جاتے بولا کہ رمشہ نے نفی میں سر ہلاتے اسے روکا ، خبردار جو اب یہ ناٹک میرے سامنے کیا۔۔۔ تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو۔۔۔ 

مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے ۔۔ وہ روتے نم لہجے میں بولی کہ اشعر ٹھٹھکا اسے روتے دیکھ۔۔۔ 

وہ بڑھتے لائٹ آن کرتے اسے دیکھنے لگا۔۔ جو بے تخاشہ روتے اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

چھوڑو مجھے تم سمجھ نہیں آ رہی کیا۔۔۔ وہ زبردستی اشعر کے حصار کو توڑنے کی کوشش میں مچلتے بولی کہ اشعر کے لیے اسے سنبھالنا اب مشکل ہو چکا تھا۔۔۔سٹاپ اٹ۔۔۔ اگر اب آواز آئی تو دو منٹ لگے گے مجھے تمہارا دماغ ٹھکانے لگانے میں ۔۔۔

وہ اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑتے کمر پہ باندھتے اسکے چہرے پہ جھکتے بولا کہ رمشہ نے غصے سے اسے دیکھا۔۔

اشعر چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔ جاؤ اپنی من پسند کے پاس مجھ سے کیوں زبردستی شادی کر لی اگر میں پسند ہی نہیں تھی ۔۔۔اب بھی چلے جاؤ اسی کے پاس تم جھوٹے ہو۔ تم نے دھوکا دیا مجھے میرے بابا کو۔مجھے بات نہیں کرنی ، شکل تک نہیں دیکھنی تمہاری سمجھے تم۔۔۔۔۔۔

وہ غصے سے غراتے لہجے میں بولی کہ اشعر کو لگا کہ کسی نے سلگتا سیسہ اسکے کانوں میں انڈیلا ہے وہ تڑپتے سرخ لہو رنگ آنکھیں لیے اسے دیکھنے لگا ۔۔کہ وہ غصے سے سر جھٹکتے منہ پھیر گئی ۔

دیکھو رمشہ ابھی تمہاری صحت ٹھیک نہیں تم ریسٹ کر لو ہم بعد میں بات کرتے ہیں اوکے۔۔۔ وہ آرام سے اسے سمجھاتے بولا کہ واقعی میں اسکی طبیعت  ٹھیک نہیں تھی۔۔

مجھے نہیں کرنی کوئی بات اب جاؤ چھوڑو مجھے۔۔۔  

کیا بات بات پہ  چھوڑو چھوڑو لگائی ہے ۔۔۔ ایک بار بولی بات دماغ میں نہیں گھسی کیا ۔۔۔۔۔چلو میرے ساتھ۔۔۔ وہ ماتھے پہ ہزار شکنیں سجائے اسکے بار بار بولے جملے کو سنتے طیش سے اسے پکڑتے روم سے نکلا۔۔

چھوڑو مجھے اشعر۔۔۔۔ وہ اسکے ساتھ کھینچتے روتے بولی مگر اسے کہاں اب پرواہ تھی۔۔۔

خاموشی سے بیٹھی رہو۔۔ اب شادی شدہ ہو تم اپنے شوہر کے ساتھ اسکے گھر میں رہنا اسکی خدمت کرنا ہی تمہارا پہلا اور آخری فرض ہے اب خبردار جو آواز کی ورنہ ابھی تک تو محبت ہی لٹائی ہے مگر اب شدتیں تم پہ بھاری پڑ جائیں گی۔۔۔۔

وہ گاڑی کا ڈور کھولتے اسے زور سے اندر پٹھکتے ہوئے بولا کہ رمشہ گھومتے سر کے ساتھ آنکھیں موندے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا گئی۔۔۔

جبکہ دوسری جانب وہ اسی غصے میں۔ گاڑی سٹارٹ کرتے صبح کے تین بجے وہاں سے نکلا۔۔۔

اب ارادہ کئیوں کے ساتھ اپنی بیوی کا دماغ ٹھکانے لگانے کا تھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کک کون پہ پلیز جج جانے دو مجھے۔۔ وہ دوبارہ سے خود کو اسی کمرے میں جاتا دیکھ اسکی شرٹ کو جکڑتے منت بھرے لہجے میں بولی کہ رافع نے ضبط سے جبڑے بھینجے۔۔۔

دد دیکھو مم مجھے اپنے شوہر کے پاس جانا ہے وہ ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔ مجھے انہیں منانا ہے پلیز۔۔۔

اندھیرے میں وہ اسکی پرچھائی کو دیکھتے اپنی کمر پہ بندھے اسکے ہاتھوں کو کھولنے کی ناکام سے کوشش کرتے بولی۔۔۔

اششش ریلکس۔۔۔۔ وہ اسے ساتھ لگاتے سینے میں بھینجتے ہاتھ سے اسکی پشت سہلاتے اسکے لرزتے وجود کو تھپتھپانے لگا۔۔

کہ فدک یکدم سے ساکت ہوتی اپنے اردگرد پھیلی اسی محسوس خوشبوؤں کے حصار میں خود کو پاتے ریلکس ہوتی نارملی خود کو ڈھیلا چھوڑ گئی۔۔۔

مجھے پتہ ہے کہ آپ ناراض ہیں مجھ سے اسی لیے نہیں آ رہے اپنی فدک کے پاس۔۔۔ ۔مدہم سی  آواز میں اسکی بڑبڑاہٹ کو بمشکل سنتے وہ اسکا سر اپنے ہاتھ پہ رکھتے اسے دیکھنے لگا جو کہ دوائیوں کی وجہ سے شاید دوبارہ نیند میں چلی گئی تھی۔۔وہ اسے اٹھاتے اپنی گود میں بھرتے ایسے ہی بیڈ پہ بیٹھا۔اور  لیمپ جلاتے ، اسکا سر اپنے سینے پہ دل کے مقام پہ ٹکاتے آنکھیں موندیں۔۔

وہ جانتا تھا کہ آخر فدک ایسا ری ایکٹ کیوں کر رہی ہے اس کی ملاقات ہوئی تھی ڈاکٹر سے اور اب اسے ہی فدک کو سنبھالنا تھا کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق لگاتار ہوتے حادثات کی وجہ سے اسکے دماغ پہ اثر پڑا ہے ابھی کچھ دن شاید وہ ایسے ری ایکٹ کرے جیسے کسی کو بھی جانتی ناں ہو۔۔۔

یا پھر اس سے بھی برا۔۔۔مگر پراپر کئیر اور توجہ ہی اسے دوبارہ سے پہلے والی فدک بنا سکتا تھا ۔۔۔

اور رافع بخوبی جانتا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔۔۔وہ  سوچتے اسکے سر پہ ہونٹ رکھتے ایسے  ہی اسے سیدھا کرتے اپنے بازوؤں پر سر رکھتے یک ٹک اسے دیکھتے اتنے دنوں سے تڑپتے اپنے جلتے دل کو راحت پہچانے لگا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

#23..

       السلام علیکم!  وہ موبائل کان سے لگاتے مدہم سی آواز میں بولتے سامنے بنے خوبصورت گھر کے شیڈ کو دیکھنے لگی ۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ کیسی ہو میڈم ،  بھول ہی گئی ہم غریبوں کو۔۔ اب کہاں سے ہم جیسے لوگ یاد بھی رہتے ہوں گے۔۔۔ وہ تکیہ گود میں رکھتے ٹانگیں کلوز کرتے بولی کہ نیناں کے چہرے پہ ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھری۔۔

یاد انہیں کیا جاتا ہے جنہیں بھولا جائے۔۔۔ اور تم تو میرے دل میں بستی ہو، وہ لہجے میں محبت سموتے بولی کہ ردا نے مسکراتے سر کو نفی میں ہلایا۔۔ 

وہ جانتی تھی کہ چاہے وہ اس سے کتنی بھی دور ہو جائے مگر یہ دوری انکے دلوں کو دور نہیں کر سکتی ۔۔ ناں ہی ان دونوں کی محبت میں کمی آ سکتی یے۔۔

بڑا شکوہ رہے گا تجھ سے ۔۔۔۔ ایک دم سے وہ موڈ چینج کرتے بولی کہ نیناں نے فورا سے فون کو کان سے ہٹاتے گھورا کہ مبادا ردا ہی ہے کہ کوئی اور ۔۔

تیرے شکوہ حتم نہیں ہونے اتنا تو میں جان۔ چکی ہیں۔۔ نیناں نے افسوس سے ٹھنڈی سانس بھرتے کہا کہ ردا قہقہہ لگا اٹھی۔۔

ہاہاہاہا ظالم اب والا شکوہ تھوڑا یونیق ہے پہلے سن تو لے۔۔ ردا کے کہنے پہ نیناں نے بھی حامی بھری کہ چلو اب سنائے بغیر تو ردا رہ نہیں سکتی۔۔

  دیکھ۔۔۔ تیرے اتنے ترلے مارے ۔۔ اتنی منتیں کیں ظالم اگر تیری جگہ کسی تعویز والے بابا کے پاس چلی جاتی تو اب تک محبوب آپ کے قدموں والا میرا کام ہو چکا ہوتا۔۔

وہ سوچتے دکھ بھرے لہجے میں بولی کی نیناں نے آنکھیں سکوڑے اسکی بات پہ غور کی۔

ہیں۔۔ میرے کب ترلے مارے توں نے ۔۔ ردا کی ساری بات اسکے دماغ کے اوپر سے ہوتے جا چکی تھی۔۔

تجھے پتہ ہے ابھی آدھے گھنٹے کا پیار ہوا تھا مجھے وہ بھی پہلی نظر والا۔۔ ردا یاد کرتےاس وقت میں کھو گئی جب پہلی بار اس نے وریام کو اپنے سامنے دیکھا تھا ، اس کا دل کتنے زوروں سے دھڑکا تھا بلکل اپنے خواہوں میں نظر آتے شہزادے کو اپنے سامنے دیکھ۔۔ مگر پھر یہ سب کچھ تو پورا ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔۔۔

تجھے کہا بھی کہ اپنی پھپھو سے میری بات چلائیوں مگر توں توں تو گھنی میسنی نکلی۔۔ کمینی خود ہی اپنی بات چلا دی ۔۔ اس دن کا بخار ہوا مجھے۔۔  ارسلان پوچھ پوچھ کے تھک چکا کہ کیا ہوا مگر اسے کیا بتاؤں کہ پیار میں اور دوستی میں دھوکہ کھایا وہ بھی اتنا برا کہ سنبھل نہیں پا رہی۔۔

وہ روتے سوں سوں کرتے بولی کہ نیناں نے سارا مدعا سمجھ آنے پہ دانتوں تلے لب دبائے۔۔

اس میں ویسے کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔ نیناں نے فوراً سے کہا۔

مطلب کیوں کوئی بڑی بات نہیں۔۔ ردا ناسمجھی سے اسے سنتے بولی۔۔۔

وہ اس لیے کیونکہ میں خود ارسلان بھائی کو بتا دیتی ہوں کہ آپ کی ہونے والی بیوی جو کہ بقول آپ کے آپکے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبی ہے وہ تو آپ کے عشق میں نہیں بلکہ کسی اور کہ عشق میں پاگل ہے تڑپ رہی ہے اور تو اور غم جدائی کا یہ عالم کہ لڑکی بخار میں تپ رہی ہے۔۔۔ وہ کہاں باز رہنے والی تھی ہمیشہ کی طرح کا آخری کامدار حربہ آزمایا کہ ردا فوراً سے گڑبڑا گئی۔۔

توبہ توبہ نینوں کچھ حیا کر ، میں نے کب کچھ ایسا ویسا کہا ۔۔ توں تو اپنے پاس سے باتیں بنا رہی ہے۔۔ اور ویسے بھی میرے سلو (ارسلان) کو مجھ پہ پورا یقین ہے کہ میں اس کے علاؤہ کسی کو دیکھ تو سکتی ہوں مگر پیار نہیں کر سکتی۔۔ وہ فوراً سے بیڈ سے اٹھتے بولی کہ نیناں نے گول شیپ ہونٹوں کو ٹرن کرتے اسے داد دیتے  سر ہلایا۔۔

ویسے تیری تائی کو یقین ہو گا ۔۔ اگر یہ سب میں تیری تائی میرا مطلب ہونے والی ساس کو بتا دوں تو سوچ کیا ہو گا وہ تو آگے ہی ہاتھ دھوئے اس رشتے کے پیچھے پڑی ہیں۔۔۔ نیناں نے اسے ذرا قریب سے معاملہ کی گھمبیرتا سمجھائی۔۔

تجھے کیا لگتا ہے کہ میں کوئی کچی کھلاڑی ہوں ارے ان کے سامنے ہی تو ان کو چیلینج کرتے انکے بیٹے سے عشق کی پینگ لڑائی اور دیکھ آج وہ میرے قدموں میں ہے۔۔ وہ ایک ادا سے بالوں کو ہاتھ سے جھٹکتے بولی کہ نیناں نے ہنستے اسے داد دی۔۔

رہنے دے سب پتہ ہے کتنی چاپلوسی کرتی ہو تم اپنی ساس کی اور کتنی منتیں کیں ارسلان بھائی نے۔۔۔ نیناں اسے یاد کرواتے بولی کہ ردا کا منہ بن گیا جیسے کڑوا کریلا آ گیا زبان کے نیچے۔۔

چھوڑ سب کچھ یہ بتا کیسی ہو۔۔۔۔وہ بات بدلتے بولی کہ نیناں نے سرد آہ خارج کرتے پیچھے مڑتے ایک جانب بیٹھے وریام کو دیکھا جو کہ اپنی مما کی گود میں سر رکھے لاڈ اٹھوا رہا تھا ۔۔

بات کرنی ہے تجھ سے ردا 

۔ ایک فیور چاہیے وہ یقین ہونے پہ کہ وریام اسکے آس پاس نہیں فوراً سے سئیرئیس ہوتے بولی کہ ردا چونکی اسکے انداز پہ۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں نیناں۔۔۔ وہ نکلتے روم سے باہر آتے بولی ۔۔ مگر نظریں سامنے تھیں ۔۔ جہاں ارسلان اسے ہاتھ سے ہائے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔ وہ اسے اگنور کرتے سیڑھیاں اترتے نیچے کی جانب بڑھی۔۔

ٹھیک نہیں ہے کچھ بھی ۔۔ اس وریام نے مجھ سے شادی صرف اور صرف اپنی ضد اور جنون میں کی ہے 

۔ مجھے جان چھڑوانا ہے اس سے ۔ میں نہیں رہ سکتی اس کے ساتھ۔۔   وہ  اتنے دنوں سے خود میں دفن کی بات فورا سے ردا سامنے بولتے اسے دور سے دیکھنے کگی۔۔

دیکھ نینوں یار کوئی بھی شخص اتنا بڑا فیصلہ کسی ضد میں یا جنون میں نہیں کر سکتا تجھے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔ اور دیکھ وریام ایک اچھا لڑکا ہے کم از کم اس حسن سے کئی زیادہ بہتر انسان ہے تیرے لیے۔۔

حسن کو چھوڑو یار ۔۔۔۔ مجھے اس کی کوئی بات نہیں کرنی ۔۔ آج اتنی مشکل سے موقع ملا ہے تم میری سنو۔۔۔ ردا یار وہ لڑکیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور وہ غلط انسان ہے میں اس جیسے کریکٹر لیس انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔ وہ ایک ہی سانس میں بولی کہ ردا کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔۔

وہ چلتے لان میں آتے چکر کاٹنے لگی۔۔

تجھے کیسے پتہ کہ وہ ایک غلط انسان ہے اور توں نے اس کے کریکٹر کو کیسے جج کیا کہ وہ ایک کریکٹر لیس انسان ہے۔۔ 

میں  نے خود اس کی باتیں سنی تھی وہ کسی لڑکی سے کہہ رہا تھا کہ اب اس کی زندگی میں اسکی کوئی جگہ نہیں وہ اسے نکال چکا ہے اور ویسے بھی وریام کی زندگی میں تمہارے علاؤہ آور بھی بہت سی لڑکیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔۔

نیناں اس رات وریام کی فون کال کو یاد کرتے سب دہراتے بولی۔۔

ہممم یہ سب وریام نے کہا۔۔ردا نے سوچتے ہوئے پوچھا۔

ہاں ناں تو اور ۔۔ میں نے اپنے ان کانوں سے سنا ہے۔۔نیناں ہاتھ سے شال کو پکڑتے ٹھنڈی کے احساس کے کپکپاتے بولی۔۔

تو کیا اس نے یہ کہا کہ وہ برا ہے یاں یہ کہ وہ اس لڑکی کا استعمال کر چکا ہے۔۔ اور سب سے بڑی بات تم نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ کس سے اور کیا بات کر رہا ہے۔۔

ردا کے پوچھے سوالوں پہ نیناں نے لب بھینجتے آنکھیں بند کیں کہ اس نے تو ایسا کچھ بھی ناں پوچھا ناں سنا تھا۔۔

دیکھو نیناں ہم بعض اوقات ایسے ہی کسی کی ایک طرفہ گفتگو کو سنتے اپنی زندگی میں غلطیاں کر جاتے ہیں۔۔ جن کا شاید بعد میں مداوا بھی ناں سکے۔۔ 

اور ایک بات ۔۔ کیا " تم نے "قرآن مجید"  میں یہ نہیں پڑھا کہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں اور برے مردوں کے لیے بری۔۔"

تو اب تم خود ڈیسائیڈ کر لو کہ تم نیک ہو کہ بری۔۔ کیونکہ اگر تم بری ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا شوہر بھی ویسا ہی ہو گا۔۔

اگر تمہیں خود پہ اپنے کردار پہ پختہ یقین ہے تو یہ بھی جان کو کہ وہ انسان بھی نیک ہی ہو گا۔۔

میں اس کی کوئی صفائی نہیں دے رہی یا پھر یہ نہیں کہتی کہ اس کا کسی لڑکی کے ساتھ افیئر ناں جو ۔۔۔ہو سکتا ہے کہ وہ ہزاروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہو۔ مگر ایک مرد عزت دینا اور اتارنا دونوں جانتا ہے اور تم بہتر سے جانتی ہو کہ مکھیاں شہد کے پاس جاتی ہیں۔۔  کیونکہ وہ وہاں اپنا گھر بنانا چاہتی ہیں۔۔ناکہ ایسی جگہ جہاں انہیں پاؤں تلے روندھا جائے۔۔۔ 

ردا کی کہی باتیں نیناں کے دل میں پڑے پردوں پہ چھناک سے پڑی ۔۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ کیا اس نے خود اس پہلوں کو دیکھا تھا یا یہ سوچا تھا جو کچھ اسے ردا نے سمجھایا۔۔ردا میں بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔ 

وہ پرشیان  سی الجھتے فون کاٹ گئی کہ ردا بھی اللہ خافظ کرتے سامنے غصے سے اسے گھورتے ارسلان کی جانب بڑھی کہ وہ دوڑتا اندر کی جانب دوڑ لگا گیا۔۔

جبکہ اسی پھرتی سے ردا اسکے پیچھے تھی ۔۔ جانتی تھی کہ اگر وقت پہ منا لیا تو سزا کم ہو جائے  گی وگرنہ اسے راضی کرنے میں بہت پاپڑ بیلنے پڑنے تھے۔۔۔

کیا میں نے اس پہلوں سے سوچا تھا۔ مجھے تو اپنے رب کی پورا یقین رہا ہے کہ وہ میرے حق میں بہتر کریں گے۔۔ تو کیا وریام بھی ٹھیک ہے۔۔ اففف۔۔ خدایا مجھے کوئی راہ دکھائیں تاکہ میں اندر سے مطمئن ہو سکوں کہ میرے دل میں چلتے وہم سب وہم ہی ہوں اور میں غلط ثابت ہوں۔۔۔

وہ سر اٹھائے  آسمان کو دیکھتے دعاگو ہوئی۔۔  کہ اچانک سے پیچھے سے آتے وریام نے شال اتارتے خود پر لپٹتے اسے پیچھے سے  اپنے حصار میں لیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

           وہ جانے کب سے رونے کی آوازیں سنتی اگنور کر رہی تھیں مگر مسلسل آتی آواز پہ وہ پہلوں بدلتے رہ گئی۔۔

آج صبح ہی تو جب وہ رمشہ کے کمرے میں گئیں تھی تو اسے نا پاتے کتنا واویلا مچایا تھا مگر حامد نے انہیں غصے سے جھڑکتے خاموش کروا دیا تھا۔۔

اور اب وہ حامد کے جانے کے بعد ایک جانب بیٹھیں تھی مگر زندگی سے عاجز کتنا کچھ کیا تھا اپنی اولاد کے لیے۔۔۔ کیا کیا خواب سجائے تھے مگر ایک نے چوری چھپے شادی کرکے انکے آرمان توڑے تھے تو دوسری نے اس پولیس والے کے لیے ہاں کہتے۔۔۔

ناجانے کیا موت پڑی ہے اسے کہ ایک چھوٹی بچی بھی چپ نہیں ہو رہی۔۔۔ وہ ہال میں تھیں جبکہ مسلسل اوپر سے حیا کے رونے کی آوازیں انہیں بے چین کر رہی تھی۔۔

آخر کار خود پہ سے قابو کھوتے وہ تن فن کرتے روم کی جانب گئی۔۔

کیا موت ہے جو ایک بچی چپ نہیں ہورہی تم سے۔۔۔ اچانک سے انکے روم میں آنے پہ یسری جو کہ گلے سے لگائے حیا کو چپ کروا رہی تھی ۔۔ ڈرتے پیچھے مڑی جہاں اسکی ساس لہو رنگ چہرے سے گھور رہی تھی۔۔

جج جی جی وہ آنٹی پپ پتہ نن نہیں کک کیا کہ ہو گگ گیا چچ چپ نہیں ہو رہی۔۔۔  وہ اٹکتے پہلی بار سلمیٰ کے محاطب کرنے پہ بولی کہ سلمیٰ سر جھٹکتے نفرت سے اسے دیکھ حیا کو اس کی گود سے لے گئی۔۔

حسن کو فف فون کک کیا آتے ہوں گے۔۔۔

وہ بولی مگر سلمیٰ کی خونخوار نظروں کو خود پہ پاتا دبک کر خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔

سلمیٰ آرام سے اپنی پوتی کو گود میں سے بیڈ پہ لٹاتے دیکھنے لگی۔۔۔کتنا عجیب سا اپنا اپنا سا احساس تھا کہ انکا اپنا خون انکی گود میں تھا۔۔

وہ مسکراتے اسے دیکھنے لگی جو کہ خوبخو اپنے باپ کی کاپی لگی آنہیں۔۔۔

دودھ کونسا پلاتی ہو بچی ہو۔۔ وہ شرٹ اٹھاتے ہاتھ سے حیا کے پیٹ کو ہلکا سا دباتے بولی ۔۔

جج جی بازار سے حسن۔۔۔

افف خدایا اجکل کی لڑکیاں انکے تو نخرے ہی نہیں حتم ہوتے ۔۔۔بی بی۔۔ اپنا دودھ پلاؤ اسے لئے پیٹ  میں درد ہے بچی کہ۔۔۔ میں لے کر جارہی ہوں اسے اپنے ساتھ ۔۔ اور خبردار جو اب میری پوتی کو یہ بازاری دودھ پلایا۔۔

وہ کہتے حیا کو گود میں بھرتے وہاں سے نکلی کہ پیچھے وہ ہکلا بکا سی انکی پھرتی چیک کرتے حیران تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                          " نکلو باہر۔۔۔۔ وہ ڈور اوپن کرتے اسے تیز لہجے میں غراتے ہوئے بولا کہ رمشہ نے نفرت سے اسے دیکھتے سر سیٹ سے ٹکایا۔۔

       " رمشہ باہر آؤ۔۔۔ وہ اسکے اگنور کرنے پہ دانت کچکچاتے بولا مگر۔ وہ ٹس سے مس ناں ہوئی۔۔

اشعر غصے  سے اسکے بازوں کو پکڑتے اسے کھینچتے ہوئے باہر نکال گیا۔۔ کہ رمشہ اچانک اسکے ایسا کرنے پہ گاڑی سے نکلتے اسے غصے سے دیکھتے ہاتھ چھڑانے لگی۔۔

اشعر بنا پرواہ کیے اسے کھینچتے اندر کے جانے لگا۔۔ وہ مسلسل سفر کرتے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا لاہور کہ اب وہ کوئی بھی رسک نہیں لے سکتا تھا۔

چپ چاپ چلو رمشہ ۔۔۔ وہ غصے سے اسے جھڑکتے گرفت اور بھی مضبوط کرتے بولا کہ رمشہ نے غصے سے اسے گھورا۔۔

چھوڑو مجھے سمجھ نہیں آتی کیا کہ نہیں جانا مجھے۔۔۔  

آہاں جاناں ۔۔۔ یہ بولو کہ نہیں  رہنا اب میرے بنا۔۔۔وہ جھٹکے سے روم میں لے جاتے اسے بیڈ پر پٹھکتے ہوئے بولا۔۔

بھول ہے تمہاری اور میری غلط فہمی۔۔۔ جو کہ بہت جلدی دور ہو گئی۔۔۔۔ وہ نفرت سے کھڑے ہوتے اشعر کے سامنے دیکھتے پھنکاری۔۔۔۔

ویسے یہ بھول بھی نہایت خوبصورت کی میں نے۔۔ رائٹ اب ایسی قیامت خیز بھول ہر کوئی تھوڑے ہی کر سکتا ہے۔۔۔ وہ اچانک سے اسے کھنچتے اپنے تنگ حصار میں لیتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا کہ رمشہ کے تن بدن میں آگ لگی۔۔

دور رہو مجھے چھونا مت۔۔۔ وہ غصے سے دونوں ہاتھوں کو اسکے سینے پہ رکھتے اسے بمشکل خود سے دور کرتے چلائی کہ اشعر نے جبڑے بھینجتے آنکھیں بند کرتے کھولتے اسے دیکھا۔۔

میں ایک ہی بات بار بار نہیں دہراتا رمشہ۔

 یہ تم ہو جو مجھے بے بس کر دیتی ہو ورنہ۔۔۔۔۔وہ کہتا بات آدھی چھوڑتے روم سے نکلنے لگا کہ رمشہ نے غصے سے اسے گھورتے کہا۔۔

کیا ورنہ ۔۔۔کیا کر لو گے تم۔۔۔۔۔

رمشہ کی پیچھے سے آتی آواز پہ وہ روم کا ڈور جو کھولتے اسکے ہاتھ میں تھا وہ دوبارہ سے لاک کرتا اسکی جانب بڑھا۔۔۔

سننے سے زیادہ مزہ کر کے بتانے میں ہے کیا خیال ہے پھر میری جان کا۔۔اگر اجازت ہو۔۔ وہ دو قدموں کے فاصلے پر کھڑا ہوتے زرا سا جھکتے بولا۔۔ کہ رمشہ نے پانی بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔

تم چاہے کچھ بھی کر لو، مگر اب میرا دل نہیں بدل سکتا تمہارے لیے۔۔۔۔وہ مسکراتے پریقین لہجے میں بولی کہ اشعر کے دل میں چھناک سے کچھ ٹوٹا وہ ضبط کر رہا تھا خود پہ۔ وگرنہ اس لڑکی نے کہاں کسر چھوڑی تھی اسے رلانے، تڑپانے میں۔۔

جانتی ہو تمہیں زندگی میں شامل کرنے سے پہلے میں خوش رہ سکتا تھا تمہیں خود سے دور کسی اور کے ساتھ دیکھ مگر۔۔۔۔۔

اب تم میری ملکیت ہو رمشہ اشعر ہو۔۔۔۔ اور اشعر اپنی ملکیت کسی کے حوالے کرنے کا سوچنا تو دور اسے اپنے سائے سے دور بھی نہیں جانے دیتا۔۔۔

وہ یکدم سے اسکے قریب ہوتے اسے پیچھے دھکا دیتے بولا کہ اچانک سے بیڈ پہ گرتے ایک ہلکی سی چیخ رمشہ کے منہ سے نکلی۔۔

اب تمہارے پور پور پہ میرا حق ہے ۔۔ تم چاہو تو سانسیں بھی میرے ساتھ بھرو۔۔ اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا۔۔ہے ناں جان۔۔۔ وہ ہلکا سا بیڈ پہ جھکتے ایک ٹانگ رکھتا اپنے ہاتھ سے اسکے نچلے ہونٹ کو سہلاتے ہوئے بولا کہ رمشہ نے سرخ لہو رنگ چہرے سے اسکی بے باکی سنتے لب بھینجے۔۔

کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے۔۔ وہ اچانک سے اپنے ہاتھوں کو ہتھکڑی سے اسے باندھتا دیکھ ہڑبڑاتے بولی مگر تب تک وہ اسکا ہاتھ ایک جانب بیڈ کے ساتھ باندھ چکا تھا۔۔۔

اپنی بیوی کا علاج جو ادھورا رہ گیا اسے پورا کرنا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اسکے لیے میرا اسکے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔۔۔ وہ رمشہ کے دوسرے ہاتھ کو تھامتے پیار سے چھوتے اسے بھی ہتھکڑی سے باندھ گیا۔۔

ابھی مجھے کسی سے حساب برابر کرنا ہے۔۔ اتنے دنوں سے اپنے مہمان کو ڈھونڈ رہا ہوں آج جا کر کوشش کامیاب ہوئی ہے۔۔

اور اسکے بعد  میں اور میری جان۔۔۔ مجھے پتہ ہے تم مجھے بہت مس کرنے والی ہو۔۔ ڈونٹ وری جان میں کوشش کروں گا جلدی آنے کی۔۔۔اوکے ، وہ اسکے غصے سے سرخ لال انگارا ہوتے چہرے کو تھپکتے پیار سے کہتے اسکی پیشانی کو چومتے روم سے نکلا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    وہ کچن سے آتی مسلسل کھٹ پٹ کی آوازوں پہ چپل پہنتے ایک نظر گھڑی پہ ٹائم دیکھتے اٹھے۔۔

ابھی تو پانچ بج رہے ہیں اتنی صبح کون ہو سکتا ہے۔۔ وہ سوچتے  فوراً سے روم سے باہر نکلے۔۔۔

اوہ اچھا آ گئی نواب صاحب کو گھر کی یاد۔۔۔ وہ بڑھتے کچن میں داخل ہوتے بولے کہ اچانک سے سبزیوں کو کٹ کرتے اسکے ہاتھ تھمے ۔۔۔ وہ گردن گھماتے اپنے ڈیڈ کو دیکھتے دوبارہ سے سبزیوں کو کاٹنے میں مصروف ہوا۔۔

میں  تم سے بات کر رہا ہوں رافع۔۔ وہ اسکے اگنور کرنے پہ جلتے  بھنتے اسکے سامنے جاتے بولے۔۔

یس ڈیڈ بولیں میں سن رہا ہوں۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں نظر اٹھاتے انہیں دیکھتے بولا جبکہ ہاتھ ابھی بھی مہارت سے کٹنگ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔

کہاں تھے تم دو دنوں سے بغیرت انسان ۔۔۔ جانے کیا ہو گیا ہے تمہیں رافع ایسے تو ناں تھے تم۔۔۔۔۔۔ 

وہ جھٹکتے ایک دم سے بھرائی آواز میں بولے کہ رافع فوراً سے انکے پاس جاتا انکے ہاتھ تھام گیا۔۔۔

ڈیڈ پلیز کیا ہوا سوری یارایم رئلیی سوری۔۔۔۔ آپ پلیز ہرٹ ناں ہوں۔۔۔۔

وہ کہاں اپنے ڈیڈ کو دھکہ دیکھ سکتا تھا وہ جانتا تھا کہ شاید فدک کی وجہ سے وہ خود پریشان ہوتے انکو۔ جی ٹائم ناں دے پایا تھا ، جسکی وجہ سے شاید وہ دھجی تھے۔۔

کہاں تھے تم۔۔۔وہ فوراً سے اسے گلے لگاتے بولے کہ رافع گڑبڑا گیا یہ تو اس نے سوچا ہی ناں تھا کہ وہ کیا جھوٹ بولے گا ۔۔۔

کیونکہ اب سچ تو بتانے سے رہا کہ کسطرح بے دردی سے وہ سعد کو مارتے آیا تھا۔۔۔

ڈیڈ وہ بس کچھ ایپ سیٹ تھا بس ، اتنا سب ہوا یہ میرا مائنڈ ایکسیپٹ نہیں کر پا رہا تھا ۔۔ بس اسی لیے میں گیا تھا کہ کچھ بیٹر فیل کرتے ہی واپس آ جاؤں۔۔ وہ نظریں جھکائے بولا کہ 

اظہر نے افسوس سے اسکا کندھا تھپکا۔۔۔۔

مگر بیٹا کچھ بتا کر تو جاتے۔۔ وہ اسکا دکھ سمجھتے مدہم نرم لہجے میں بولے۔۔۔

ڈیڈ وری کو بتایا تھا ناں۔۔۔وہ اچانک سے سارا الزام اسکے سر پہ ڈالتے بولا جسے خود منع کیا تھا کہ کسی کو بھی کچھ ناں بتانا۔۔۔

کیا مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ اسے کچھ بھی نہیں پتہ۔۔۔۔

آنے دو اسے کان کھینچتا ہوں اس لڑکے کہ میں ۔۔ وہ وریام کا سوچتے غصے سے بولے کہ رافع نے بمشکل قہقہہ ضبط کیا۔۔

 " ورریاممم۔۔۔ پیچھے سے آتے اچانک سے خود کو اسکے حصار میں دیکھتے وہ بھوکھلاتے ہوئے اسکا نام کھینچنے کے سے انداز میں لیتے بولی۔۔ کہ وہ اسکی بوکھلاہٹ پہ گہرا مسکرایا۔۔۔

جی جان وریام۔۔۔ وہ ہاتھ آگے لے جاتے اسکے پیٹ پہ باندھتے اسے اپنے بالکل قریب کرتے نرمی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا کہ نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔

کک کچھ نہیں۔۔۔ وہ سمجھ ناں آنے پہ خاموشی سے کہتے لب دانتوں تلے چبانے لگی۔۔۔ 

پھر کیا سوچا میری نین نے ارادے کیا ہیں پھر۔۔۔۔۔ وہ اسکی کپکپاہٹ محسوس کرتے تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکاتے بولا کہ نیناں نے ناسمجھی سے زرا سی گردن موڑتے اسے دیکھنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔

کیا مطلب کیا ارادے۔۔۔ وہ مکمل طور پر انجان تھی کہ آخر وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔   وہ حیرانگی سے پوچھتے اسکے بندھے ہاتھوں کو کھولنے میں مصروف ہو گئی کہ اسکی بچوں جیسی حرکت پہ وریام سر جھٹکتا رہ گیا۔۔

شاید ٹھیک سے سنا نہیں جان وریام نے۔۔۔۔ آپ کے سسر صاحب فرماتے گئے ہیں کہ اب ان کی پراپرٹی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں تو اب ہمیں یہاں سے جانا پڑے گا یاپھر انکے دوسرے اوپشن پہ غور فرمانی پڑے گی۔۔ وہ لہجے کو مکمل طور پہ سنجیدہ بناتے کچھ اپنے پاس سے چیزیں ایڈ کرتا مکمل طور پر اسے پریشان کرنے لگا ۔

نہیں تو وہ ویسے ہی کہہ رہے ہوں گے وریام ۔۔۔ بھلا وہ کیوں نکالیں گے ہمیں گھر سے۔۔ نیناں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بھلا اکلوتی اولاد کو محض اتنی سی بات پہ وہ کیسے دربدر کرتے۔۔۔ 

ایسا تمہیں لگتا ہے مگر تم کیا جانو وہ تو کب سے کوئی موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ مجھے نکال کر اپنی بیوی کہ ساتھ آرام سے رہ سکیں اور یہ بات مجھے اس دنیا میں آتے ہی سمجھ آ گئی تھی۔۔ 

وہ بات کو طول دیتے گھماتے بولا کہ نیناں نے آنکھیں گھماتے اسکی بات پہ غور کی۔۔

تو کیا اب ہم یہاں نہیں رہیں گے ۔ پھر کہاں جائیں گے۔۔ 

وہ سوچتے پریشانی سے بولی کہ اگر وریام کے ساتھ اسے بھی نکال دیا گیا تو اسکا کیا بنے گا ، 

کیا ہو سکتا ہے نین یار۔۔ چلو میری تو خیر ہے میں تو کسی بھی گرل فرینڈ کے پاس رہ سکتا ہوں مگر تم۔۔۔۔۔۔

وہ لب دانتوں میں دباتے اسے چھیڑتے بولا کہ نیناں نے آگے بندھے اسکے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھوں کے تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔۔۔

یار میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔ اب ایسی مشکل میں ایک ہی حل بچتا ہے۔۔۔ وہ اٹھاتے اسے ایسے ہی حصار میں لیے چلتا ٹی ہاؤس میں داخل ہوا اور اسے گود میں بھرے صوفے پہ لیٹتے اسے خود پہ ڈالتے پھیل کر لیٹ گیا ۔۔

 کہ  وہ  اچانک اسکے عمل پر اسکے سینے پر لیٹی کمر پر بندھے ہاتھوں کو کھولنے لگی۔۔۔

کیسا حل ۔۔ وہ سر اٹھائے اسکی بھوری سحر طاری کرتی چمکدار جگنو کی مانند جگمگاتی آنکھوں میں دیکھ پوچھنے لگی۔۔ جبکہ وریام کا دھیان اسکے نازک پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر تھا۔۔

بتاو۔۔۔ وہ اسکی نظروں کا مرکز دیکھتے اسکے ٹھرکی پن سے زچ ہوتے بولی کہ وریام بھی جیسے ہوش میں آتا سر کو ہلاتے اسے دیکھ بولا۔

تمہارے سسر نے ایک اور بات بھی کہی تھی جو کہ ہمارے کام کی ہے ۔ اب دیکھو تم میری بیوی ہو اور اگر میں نکلا اس گھر سے تو تمہارے بغیر تو جاؤں گا نہیں اتنا تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا ہو گا ۔۔۔ اب ایک ہی حل ہے ہمارے پاس۔۔

اتنی لمبی چوڑی بات کے بعد بھی وہی بات سنتے نیناں نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورا۔۔۔ کہ اسکے انداز پہ وریام نے مسکراتے اسکے چہرے پہ پھونک مارتے سیٹی بجائی کہ وہ ہڑبڑاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔

بتا دوں۔۔۔ وہ اسے تنگ کر رہا تھا اور نیناں کا دل اسکو مارنے کو چاہ رہا تھا ۔

اب بتاؤ ورنہ سر پھوڑ دینا میں نے۔۔۔ وہ غصے سے لال انگارہ چہرہ لیے اسکے سینے پہ تھپڑ مارتے بولی کہ وریام نے مسکراتے اسکی کمر سہلائی۔۔۔

اس اچانک افتاد پہ وہ جو ہاتھ کو گول کرتے اسے مکہ مارنے ہی والی تھی کہ اچانک کمر پر گھومتے اسکے دہکتے ہاتھ کی پرخدت تپش پہ وہ آنکھیں چھپکتے  چہرہ جھکا گئی۔۔

اچھا سنو۔۔۔۔ وہ سیئریس ہوتے شرارت کو چھوڑتے سیدھا ہوتے بیٹھا کہ اس سے پہلے کہ وہ راہ فرار پاتے  وہ دوبارہ سے اسے گود میں بٹھاتے تھوڑی اسکے کندھے پہ دوبارہ سے ٹکاتے بولا۔۔۔

بتا دو۔۔۔۔ وہ غصے سے تقریباً چیختے بولی۔۔

وہ کیا ہے ناں ڈیڈ کہہ رہے ہیں کہ انکی جائیداد انکے پوتے کی ہو گی۔۔ مطلب ہمارے بے بی کی۔۔ تو پھر کیا ارادہ ہے۔۔

وہ مخنی خیزی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے دانت اسکے کندھے پہ گاڑھتے بولا۔۔

کہ نیناں نے سنتے اسکی بات کا مطلب سمجھتے غصے سے ہاتھ پیچھے کرتے اسکے نم بالوں کو مٹھی میں جکڑتے کھینچا ہی تھا کہ اچانک سے وہ دانت اندر کرتے اپنے ہونٹوں کا لمس اسکے کندھے پہ چھوڑتا اسے مکمل طور پہ بے س کرنے لگا خودبخود ہی اسکے بالوں پر نیناں کی گرفت ڈھیلی پڑی۔۔

وہ گہرا مسکراتے ہاتھ سے اسکے کیچر میں مقید بالوں کو جھٹکے سے کھولتے چہرہ چھپائے مدہوش سا سانسیں بھرنے لگا۔۔ کہ وریام کے اچانک سے بدلتے تیوروں اور رویے پہ نیناں کی جان ہوا ہوئی۔۔ اس میں سکت ناں بچی کہ وہ اسے روک ہی سکے۔۔

ڈیڈ کو چھوڑو مجھے میری پرنسس چاہیے جو بلکل اپنے ڈیڈ کے جیسی ہو۔۔۔وہ اسکے بالوں کی مدہوش کرتی خؤشبو میں گہرے سانس بھرتے خمار آلود لہجے میں بولا کہ نیناں کی ٹانگیں کپکپائ۔۔ 

یہ انسان اپنے لمس ، اپنی باتوں سے ہی اسے آدھا مارنے کی سکت رکھتا تھا۔

اور وہ بے بس سی تھی اسکے آگے۔۔ خاموشی سے اسکے حصار میں بیٹھے اسکی من مانیوں پہ آنکھیں موندے خود میں ہمت پیدا کر رہی تھی۔۔

جو میری پرنسس ہو گی ناں وہ اپنی موم کے جیسی بالکل بھی نہیں ہو گی۔۔۔ وہ سوچتے اسکی حالت پہ رحم کھاتا پھر سے پرانے موڈ میں آتے بولا ۔۔ کہ نیناں  بمشکل سے اپنی تیز سے چلتی سانسوں کو بحال کرنے لگی۔۔

وہ بالکل اپنے ڈیڈ جیسی ہو گی۔۔ ایک دم دبنگ۔۔۔ لڑکے مرتے ہوں گے اس پر۔۔۔ ہزاروں دوست ، بوائے فرینڈز میں خود جو جو اچھے ہوں گے وہ ڈیسائیڈ کر کے بتاؤں گا اسے۔۔۔ اور آخر میں جس پہ میری پرنسس کا دل آ گیا تو اس سے شادی۔۔۔۔ اور ہاں ایک اور بات اگر وہ لڑکا ناں ماناں تو پھر کیا ہے آرام سے اسے کڈنیپ کروں گا اور اپنی پرنسس سے شادی کرواں گا ۔۔ اور گھر جمائی رکھوں گا اسے۔۔۔ 

وہ اپنی مستقبل کی فل پروف پلاننگ اسے سناتے سانس لینے کو رکا کہ نیناں کہ حد سے زیادہ پھیلی آنکھوں کو دیکھ وہ قہقہہ لگا اٹھا۔۔

کیا ہوا جان یہ تمہارا فیوچر ہے اور میرا بھی ۔ ہماری خوبصورت سی پرنسس کے ساتھ۔۔۔ بس اب ہمیں اسکے لیے تیاری کرنی ہوگی۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی پھیلی آنکھوں کو چومتے مخنی خیزی سے بولا کہ نیناں نے ہوائیاں اڑتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھتے اچانک سے دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ ٹکاتے اسے دھکا دیتے اٹھی اور فوراً سے بیشتر نیچے کی دوڑ لگائی کہ وریام صوفے پہ گرتا اسکے ایکسپریشن کا سوچتے قہقہہ لگاتے ہنسا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

       وہ آہستگی سے چلتے ایک نظر اوندھے منہ لیٹی فدک پہ ڈالتے ہاتھ میں پکڑا سوپ کا باؤل ایک جانب رکھتے کھڑکیوں کی جانب بڑھا ہاتھ سے پردوں کو ہٹاتے وہ سامنے  دیکھنے لگا۔۔۔

ررررافع۔۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اسکے اٹکتے اپنے نام کو لیتے دیکھ وہ سامنے دیکھتے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے گہرا دلکشی سے مسکرایا۔۔۔

اسے بنا حرکت کہ ایسے ہی کھڑا دیکھ فدک اٹھتے آرام سے ننگے پاؤں ہی چلتے اپنے چہرے پہ آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے اسکی جانب بڑھی۔۔

آ آ آپ اس سچ میں ہیں۔۔۔۔۔ وہ بے یقین سی اسکے کندھے پہ اپنے نرم و نازک ہاتھ کو رکھتے گھٹی آواز میں بولی کہ اسکے ماتھے پہ لاتعداد شکنیں ابھری۔۔۔

رافففف۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے دوبارہ جھنجھوڑتے بلاتی کہ ایک دم سے پیچھے ہوتے وہ اسے خود میں بھینج گیا کہ فدک اچانک ہوتی اس افتاد پہ پلکیں جھپکتے خود کو یقین دلانے کہ یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہی ہے کہ اسکا رافع اسکے قریب تھا۔۔

وہ روتے اسکی شرٹ کو کندھوں پر سے مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔

کہ رافع خاموشی سے اسکے بالوں کو سہلاتے اسے ریلیکس کرنے لگا۔۔

آپ کہاں چلے گئے تھے۔۔ میں نے کتنا یاد کیا آپ کو۔۔۔۔۔وہ روتے مدہم نمی گھلی آواز میں بولی کہ وہ ضبط سے آنکھیں میچتا خود کو پرسکون کرنے لگا۔۔۔

یہیں ہوں میں ۔۔۔ اشششش رونا بند کرو۔۔۔۔ وہ پیچھے ہوتے نرمی سے اسکے آنسوں کو ہاتھ کی پشت پر سے صاف کرتے۔ ، ہاتھ سے اسکے بالوں کو سنوارتے  بولا۔۔ کہ وہ لرزتے وجود کہ ساتھ بمشکل اپنے پاؤں پہ کھڑی اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتے یقین کرنے لگی۔۔

آؤ۔۔۔۔۔۔وہ اسے گود میں اٹھاتے واشروم لے جاتے خود سے اسکا چہرہ واش کرانے لگا کہ فدک نے فوراً سے انکار کیا۔۔

اوہوں۔۔۔۔۔ میں خود کرتا ہوں۔۔۔۔ وہ جھٹکتے اسکے ہاتھ نیچے کرتے نرمی سے اسکا فیس واش کرواتے ویسے ہی گود میں بھرے روم میں آتے اسے بیڈ پہ بٹھا گیا۔۔

چلو اب جلدی سے یہ سوپ فنش کرو۔۔۔  تولیے سے اسکے چہرے کو پیار سے خشک کرتے ٹرے میں پڑا باؤل اٹھاتے چمچ میں سوپ بھرتے اسکے سامنے کرتے بولا۔۔

نو رافع یہ گندی ہوتی ہے بہت  ، آپ نے پلائی پہلے بھی مجھے، اب مجھے نہیں پینی۔۔۔۔ وہ ٹانگیں کلوز کرتے بچوں کی طرح سر کو زور شور سے ناں میں ہلاتے بولی کہ رافع نے مسکراتے سر کو جھٹکا۔۔۔

اب والی اچھی بنی ہے پی کہ ٹیسٹ کرو۔۔۔ 

وہ اسے تسلی دیتے بولا کہ فدک اوکے کہتی سپ لے گئی۔۔

کیسی بنی ہے۔۔۔ وہ متجسس سا اسے دیکھتے پوچھنے لگا۔

بالکل گندی ہے۔۔۔ وہ منہ بناتے بولی کہ رافع نے کچھ سوچتے مسکراتے اسے دیکھا ڈونٹ وری میں اسکا ذائقہ چینج کر دوں گا۔۔ وہ مخنی خیزی سے اسکی گلابی پڑتی رنگت کو  دیکھتے ہوئے بولا ۔

نو مجھے تب بھی نہیں پینی۔۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتے بولی کہ رافع اسے خفگی جتاتے گھورنے لگا۔۔۔

آپ مجھے بلیک میل کیوں کر رہے ہیں۔۔۔۔ وہ آنکھیں پٹپٹاتے بولی کہ رافع مسکرایا اسکی سوچ پہ۔۔۔

تمہیں یقین نہیں مجھ پر میں سچ میں اسکا ٹیسٹ چینج کر دوں گا۔۔۔۔وہ پھر سے پیار سے اسکے چہث کو ہاتھوں میں تھامتے   بولا کہ وہ ہاں میں گردن ہلا گئی۔۔

اوکے ٹھیک ہے مگر ایک شرط پر۔۔۔ وہ فوراً سے مانتے بولی۔۔

اور وہ کیا ہے۔۔ وہ ایبرو اچکاتے پیار سے اسکے مسکراتے روپ کو آنکھوں میں سموتے ہوئے بولا کہ فدک خوشی سے اسکے پاس ہوتے اسکے ہاتھوں کو تھام گئی۔۔

آپ مجھے پاپا سے ملوانے لے جائیں گے تو پھر میں یہ سوپ پی لوں گی۔۔۔

وہ پیار سے اسکے کندھے پہ سر ٹکاتے بولی کہ رافع نے ہاتھ سے اسکے سر کو تھپکا ۔۔

وہ جانتا تھا کہ ابھی وہ ہوش میں نہیں شاید اسی لیے ایسی باتیں کر رہی تھی مگر وہ اسے مکمل طور پر ٹھیک چاہتا تھا ۔۔۔

اوکے دن ہم چلیں گے انکل سے ملنے اب تو سوپ پیوں۔۔۔ وہ حامی بھرتے بولا کہ فدک سر ہلاتے منہ کھول گئی۔۔

رافع مسکراتے چمچ سے اسے سوپ پلاتے ہونٹ اسکے سر پہ رکھتے سکون سے آنکھیں موند  گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                " وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اندر داخل ہوا ۔۔۔ جہاں ہلکا سا اوپر جلتے بلب کی روشنی میں وہ اس کال کوٹھری نما جگہ میں سامنے والے وجود کو دیکھ گہرا مسکراتے  اسکی جانب بڑھا ۔

جہاں وہ بے خوف نڈر سا ایک ٹانگ کھڑی کیے اسپہ ہاتھ ٹکاتے بیٹھا تھا۔

ویسے کتنا برا لگتا ہے ناں انسان کو جب وہ جیتتے ہوئے بھی ہار جاتا ہے۔۔چچچ چچچ۔۔۔

وہ سامنے کرسی کھسکاتے اسپہ بیٹھتے قدرے جھکتے ہوئے بولا ۔

  کہ مقابل نے شکست خوردہ سی نظریں اٹھائے اسے دیکھا۔

ویسے ماننا پڑے گا  ہو تو پورے ماسٹر مائنڈ۔۔۔۔ وہ داد دینے والے انداز میں کہتا تالی بجاتے ہوئے بولا کہ خاموش فضا میں اچانک سے آواز گونجتے پھر سے خاموش چھا گئی ۔

تمہیں کیا لگا تھا کہ تم دوسرے ملک میں چھپتے اپنی موت سے بچ جاؤ گے۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔معا وہ مسکراتے اشعر کو دیکھنے لگا۔۔

اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ ایسے ڈرا دھمکا کہ تم مجھ سے اگلوا لو  گے کہ میں نے ہی وہ سب کچھ کروایا تھا۔۔

بھول ہے تمہاری ۔۔۔وہ پراعتماد لہجے میں بولا کہ اشعر نے داد دینے والے انداز میں اسے دیکھتے ہاتھ سے اسے سلام پیش کیا۔۔

 ویسے ایک بات بتاوں اگر اس دن تم ناں آتے ناں تو قسم سے دو منٹ بس منٹ میں گیم پلٹ جاناں تھا یہ تو اس حسین پری کہ قسمت اچھی نکلی کہ بچ گئی مجھ سے۔۔۔ 

ورنہ ایسا بدلہ لینا تھا کہ تا عمر وہ یاد  رکھتی کہ کس پہ ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔۔

وہ غراتے نفرت بھرے لہجے میں بولا کہ اشعر نے ضبط سے جبڑے بھینجے۔۔۔

ویسے کیا کمال ہے وہ لڑکی اففف ہے  ناں۔۔۔۔اور سنا کے اب تو تمہاری شادی بھی ہو گئی اس سے  ۔۔۔تمہارے تو مزے ہیں آفیسر۔۔۔ہایاہا۔۔۔ وہ  کہتے زور سے قہقہے لگانے لگا کہ پل بھر میں اس کی رنگت متغیر ہوئی۔۔۔۔

شٹ اپ یو باسٹرڈ۔۔۔۔۔۔ایک دم سے آؤٹ آف کنٹرول ہوتے وہ زوردار مکہ اسکے چہرے پہ جھڑتے ہوئے اٹھا کہ اچانک سے ہوتی اس افتاد پہ وہ منہ سے نکلتے خون کو ہاتھ سے صاف کرتے اشعر کو دیکھنے لگا۔۔۔

یو باسٹر۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے گالی نکالتے مارنے کو اٹھتا کہ اشعر نے بیلٹ نکالتے اس پہ پہ درپے وار کرنا شروع کر دیے کہ پورے کمرے میں عمر کی دلدوز چیخیں گونجنے لگی ۔۔

مگر اشعر اسے مارتے بالکل بھی رحم نہیں دکھا رہا تھا کیونکہ اسی کیس سے اسے معلوم پڑا تھا کہ وہ ناجانے کتنی معصوم لڑکیوں کی زندگی سے کھیل چکا ہے اور اب رمشہ کی وجہ سے وہ پکڑا گیا تھآ۔۔

وہ اسے مارتے تھکتے اسکے تڑپتے وجود کو ٹھوکر مارتے روم سے نکلا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

     چند پل خاموش رات کی تاریکی کو دیکھتے وہ ایش کا نمبر ملا نے لگا۔۔

جسے وہ فوراً سے پک بھی کر چکی تھی۔۔۔

ہائے وی۔۔۔ یار کب سے ویٹ کر رہی ہوں میں بٹ تم نے تو کال ہی نہیں کی۔۔۔

اریجمنٹس کہاں تک پہنچے وہ بنا اسکی بات کا جواب دیے پوچھنے لگا کہ ایش ٹھٹکی اسکے رویے پہ۔۔۔ مگر بولی کچھ ناں۔۔

ہو گئی ہیں تقریبآ تم بتاؤ۔۔۔۔

وہ بات بدلتے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔

یہ نمبر میل کر رہا ہوں۔۔۔ بس انکو بھی پارٹی میں بلا لینا ۔۔یہ سب نیو گرل فرینڈز تھیں میری۔۔۔۔انکے نمبر نہیں ہیں تمہارے پاس وہ بتاتے ساتھ ہی کال کٹ کر گیا۔۔

جبکہ  ایش ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی۔۔۔

وہ ایک نظر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتے اٹھاتا اسے جیب میں رکھتا نیچے اترا۔۔۔

ڈور کھولتے ہی تاریکی نے اس کا استقبال کیا کہ وہ حیرت سے کنگ دروازہ پہ ہی تھما۔۔ ابھی تو نین نیچے آئی ہے مگر اب روم میں اندھیرا وہ سوچتے آگے بڑھتے لائٹس آن کر گیا مگر روم میں اسے ناں پاتے وہ غصے سے جبڑے بھینجتے باہر کو نکلا۔۔۔

کچن ، ہال ، سویمنگ پول لان، سب کچھ چیک کرنے پہ بھی اسے وہ کہیں بھی ناں ملی ، 

تو وہ ماتھے پہ بل ڈالے اندر بڑھا جہاں سامنے ہی روم کا ڈور کھولتے اسکی نظر اپنی موم کے پاس بیٹھی نیناں ہی پڑی جو کہ شاید مسکراتے کوئی بات کر رہی تھی اور پھر اگلی نظر اسکے ڈیڈ پر تھی۔۔۔

جو  سامنے صوفے پہ فاتحانہ سرشاری سے وریام کی تپتی رنگت کو دیکھ گہرا مسکرائے کہ وریام ان کی اس قدر خوشی پہ چونکا۔۔۔

بیٹا آج نیناں کا ارادہ نہیں ہے اپنے روم میں سونے کا تو وہ آج دوسرے روم میں سوئے گی ۔۔

رضا اٹھتے اسکا کندھا تھپکتے پیار سے بولا کہ وریام انکی چالاکی سمجھتا مسکراتے نفی میں سر ہلا گیا ۔

اوکے ٹھیک ہے ۔۔۔وہ آرام سے انہیں مسکرا کر کہتے اپنی موم کی جانب بڑھا اور انکے یا نیناں کے سمجھنے سے پہلے ہی وہ انہیں  بازوؤں میں بھرتے باہر جانے لگا کہ معا رکتے اپنے ڈیڈ کی جانب آیا۔۔

اگر اپنی بیوی چاہیے تو جیسے میری والی کا برین واش کرتے اسے دوسرے روم میں سونے کو منایا ہے خود اپنے ان پیارے ہاتھوں سے اسے آپنے بیٹے کے روم تک آ کر چھوڑ جائیں اور اپنی والی لے جائیں۔۔۔

 وہ جھکتے انکے کان میں سرگوشی میں کہتے انکے ہوائیاں اڑتے چہرے کو دیکھ آنکھ دباتے اپنی موم کو اٹھائے روم سے نکلا کہ پیچھے نیناں نے حیرت سے منہ کھولے اسے روم سے جاتے دیکھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یسری کہاں گئی میری گڑیا۔۔۔ وہ جلدی سے ہانپتے دوڑتا روم میں داخل ہوا مگر سامنے یسری کو بے چینی سے ٹہلتے دیکھ وہ اسے جھنجھوڑتے اپنی بیٹی کا پوچھنے لگا ۔۔

کہ اچانک وہ گھبراتے اسے دیکھنے لگی۔۔جو بکھرے سے حلیے میں بے چین اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔کتنا بدل دیا تھا وقت نے اسے۔۔۔ یسری جانتی تھی کہ چاہے وہ جو مرضی کر لیتی کبھی بھی اسے شادی سے روک نا پاتی، مگر صرف ایک بیٹی اسکی گود میں آتے ہی وہ بالکل الگ سا ہو گیا تھا۔۔۔

پورا دن اپنے پاپا کے منع کرنے کے باوجود وہ آفس میں دل لگا کر کام کرتا اور باقی کا وقت وہ بنا ریسٹ کیے اپنی بیٹی کو کھلاتے اسے اٹھائے باہر لان میں لے جاتا اور ناجانے دونوں باپ بیٹی کی ایسی کون کونسی باتیں ہوتی تھیں جو کہ حتم ہی ناں ہوتیں ۔۔ 

ماں سے زیادہ وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی۔۔ 

یسری حیا کہاں ہے۔۔۔ ؟ وہ پھر سے اسے دونوں کندھوں سے ہلاتے بولا کہ یسری اچانک جھٹکے سے ہوش میں آتے اسے دیکھنے لگی۔۔

جج جی وہ آنٹی کے پاس۔۔۔ وہ فوراً سے دیکھتے بولی کہ حسن نے الجھتے اسے دیکھا۔۔ جو کہ ہاں میں سر ہلا گئی۔۔

حسن مسکراتے راحت بھرا سانس لیتا باہر کو نکلا کہ اسے خوشی ہوئی تھی اس کی موم نے چاہے اسے معاف کیا تھا یا نہیں مگر اسکی بیٹی کو اپنا لیا تھا یہی بات اسکے لیے کافی تھی۔۔

حسن ۔۔۔ وہ سوچتا خوشی سے باہر نکلا کہ پیچھے ہی یسری دوڑتے اسے آواز دیتے روک گئی۔۔

کیا ہوا۔۔۔ وہ گردن گھماتے اپنے پیچھے کھڑا دیکھ پوچھنے لگا کہ وہ چلتی اسکے پاس آئی۔۔

مجھے بھی حیا کو دیکھنا ہے ۔۔ وہ نظریں جھکائے بولی کہ حسن سوچ میں پڑ گیا ۔

اچھا چلو آؤ۔۔۔ وہ اسے ساتھ لیتے اپنی موم کے روم کی جانب بڑھا۔۔

دروازے پر دستک دیتے ہی اجازت ملنے پر وہ ایک نظر اسے دیکھ ریلکس ہونے کا کہتا اسے لیے اندر بڑھا۔۔

جہاں سامنے ہی حیا اپنی دادی کی گود میں کھیلتی کلکاریاں مارتے خوش تھی ۔۔

دیکھو تو آ گیا تمہارا باپ۔۔۔ سلمیٰ مسکراتے حیا کو دیکھتے بولی جو کہ اپنے پاپا کو سامنے پاتے ہی ہاتھ ہلاتے خوشی سے اسکی جانب لپک رہی تھی۔۔

بس میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ اپنے پاپا کو مس کر رہا تھا۔۔ وہ مسکراتے اسکے گالوں کو چومتے پیار سے بولا کہ وہ کھلکھلاتے ہنسی۔۔

موم کیا ہوا تھا حیا کو۔۔ وہ اپنی موم کو دیکھتے پوچھنے لگا جو کہ حسن کے پیچھے کھڑی یسری کو دیکھ ناک چڑھاتے بیٹے کی جانب متوجہ ہوئیں۔۔

کچھ نہیں ہوا بس پیٹ میں درد پڑا تھا باہر کا بازاری دودھ اتنے چھوٹے بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔ اور اگر پلانا ہی ہو تو کم از کم رات کو اسے اپنا دودھ پلائے۔۔ اس سے بچی کو طاقت ملے گی ۔

وہ رسان سے بیٹے کو دیکھتے بولیں کہ وہ سر ہلاتے یسری کو دیکھنے لگا ۔۔

لو یسری اسے چینج کروا دو۔۔ میں آتا ہوں۔۔ وہ حیا کو اسکی گود میں بھرتے بولا تو وہ بھی ہاں میں سر ہلاتی روم سے نکلی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    "  وہ ہاتھ پشت پہ باندھے پچھلے آدھے گھنٹے سے چکر لگا رہے تھے سامنے ہی وہ بیڈ پہ بیٹھی منہ میں ناخن ڈالتے چباتے انہیں کب سے چکر کاٹتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

اسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ آخر اسکا شوہر ایسا کیا بول کر گیا ہے کہ اس وقت سے وہ جلے پاؤں کی بلی بنے گھوم رہے تھے ۔۔

انکل سو ہو گئے۔۔۔۔ وہ انکے چکر کے مکمل ہوتے ہی فورا سے انہیں بتاتے بولی کہ وہ جو کہ کوئی طریقہ ڈھونڈ رہے تھے اپنے بیٹے سے نبٹنے کا کہ  پیچھے  سے نیناں کی آواز پہ وہ ٹھٹھکتے ہوئے رکتے اسے دیکھنے لگے۔۔۔

بیٹا میرا حیال ہے آپ کو واپس چلے جانا چاہیے اپنے روم میں ۔۔۔ آخر کار کچھ بھی ناں سوجھنے پر وہ چلتے نیناں کے پاس آتے بولے۔۔۔

۔کہ وہ  آنکھیں اور منہ حیرت سے کھولے انہیں دیکھنے لگی ۔

مگر انکل ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو آپ نے کہا تھا کہ ہمیں مل کر اسے سبق سکھانا ہو گا۔۔

وہ ابھی کچھ دیر پہلے روم میں آتے ہی پھپھو کے پاس بیٹھی ہی تھی کہ جب رضا نے اسے مخاطب کرتے کہا تھا۔

نیناں بیٹا دیکھو  وریام کی حرکتیں دن بدن بگڑتی جا رہی ییں۔۔ اب دیکھو وہ تمہیں بھی کچھ نہیں سمجھتا اور تو اور  میں باپ ہوں مگر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ وہ میرا باپ ہے ۔ 

وہ لہجے میں دکھ سموئے بولے کہ نیناں فورا سے پہلے ہی حامی بھر گئی۔۔ 

مگر انکل ہم اسکا دماغ کیسے ٹھیک کریں گے۔۔ وہ اپنی پھپھو کی گھوریوں کو اگنور کرتے فورا سے ٹیم بدلتے بولی۔۔

بس بیٹا آج سے تم نے دوسرے روم میں رہنا سٹارٹ کر دینا ہے اور میں بھی اسے نہیں بلاؤں گا  اسکا اکاؤنٹ سب کچھ بند کردوں گا پھر دیکھنا وہ خود بخود لائن پر آ جائے گا۔۔ تم دو گی ناں اپنے اس لاچار باپ کا ساتھ۔۔۔ وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے نم لہجے میں بولے کہ وہ تڑپتے انکا ہاتھ تھام گئی۔۔

اللہ ناں کرے کہ آپ لاچار ہوں ۔۔ آپ بس وریام کی وجہ سے پریشان ناں ہوں میں آپ کا ساتھ دوں گی پورا پورا ہم مل کر اسے ٹھیک کریں گے ۔۔

انکل اب کیا ہوا ۔۔۔ آپ کو۔۔ وہ سارا واقعہ یاد کرتے انکے پاس ہوتے بولی کہ رضا نے دکھ سے سر جھٹکا۔۔۔ 

وہ چاہے کچھ بھی کر لیں مگر اپنے بیٹے سے کبھی جیت نہیں سکتے تھے یہ تو طہ تھا۔۔

ہاں بیٹا کہا تھا کچھ دیر پہلے مگر ابھی یہ دیکھو اگر تم اسکے پاس رہو گی تو ہی اس پر توجہ دو گی کہ وہ کیا کرتا ہے ۔۔۔ کس کس سے بات کرتا سب کچھ ۔۔ وہ پینترا بدلتے ہوئے بولے کہ وہ سر ہلا گئی کہ یہ بھی ٹھیک تھا  اگر وہ اسکے پاس رہے گی تو ہی وہ اس پہ نظر رکھ سکے گی۔۔

چلو پھر چلتے ہیں۔۔ وہ گھنٹوں پہ ہاتھ رکھتے کھڑے ہوئے کہ وہ بھی ساتھ ہی اٹھتے انکے ساتھ باہر کو گئی۔۔

دروازہ نوک کرتے ہی چند پل وہ دونوں دروازے کو گھورتے رہے مگر شاید وہ ابھی اسے کھولنے کے موڈ میں نہیں تھا جبھی تو پانچ منٹ گزرنے کے بعد بھی نہیں کھولا۔۔

انکل مجھے پکی والی نیند آ رہی اسے بولیں کہ دروازہ کھولے ورنہ میں نیچے جاؤں۔۔۔ نیناں جو کہ کب سے اپنی نیند پر کڑے پہرے بٹھائے بیٹھی تھی مگر اب بات آسکے بس سے باہر تھی۔۔ وہ جمائی لیتے بولی کہ رضا نے پھر سے دستک دی۔۔۔

  کیا چاہیے آپ کو ۔۔۔۔؟ دروازہ کھلتے ہی وہ سامنے سے آتا بالکل انجان بنتے بولا جبکہ رضا کی نظریں روم کے اندر کی جانب تھی جہاں انہیں شمائلہ نظر ناں آئیں ۔۔

یہ لو اپنی بیوی اور میری میرے حوالے کرو ۔۔۔ وہ نیناں کا ہاتھ تھامتے وریام کے سامنے کرتے بولے کہ وہ مسکراتے اسے تھامتے گلے سے لگا گیا ۔ جہاں اسکی حرکت پہ رضا نے غصے سے دیکھا وہیں نیناں سٹپٹاتے اس سے الگ ہوتی ایک جانب ہوئی۔۔

اوکے ڈیڈ بائے۔گڈ نائٹ۔۔۔ وہ انکے گال کو کھینچتے پیار سے کہتے ہی دروازہ لاک کرنے لگا کہ رضا نے فوراً سے روکا ۔۔ گڈ نائٹ کے بچے پہلے میری بیوی دے مجھے۔۔۔۔

آپ کی بیوی مطلب میری موم رائٹ۔۔۔ وہ انگلیوں کو دائیں بائیں کرتے حرکت دیتے بولا کہ رضا نے اسے دھکہ دیتے اندر آنا چاہا۔۔۔۔

ویٹ ویٹ ڈیڈ موم یہاں نہیں وہ تو کچن میں  ہیں۔۔۔ وہ انہیں روکتے کندھوں سے تھامتے بولا۔۔

کچن میں مگر تم نے تو کہاں تھا ۔۔۔

تو میں نے کہا تھا کیا تھوڑی ناں ہے۔۔۔ اب آپ کا بیٹا آپ کی طرح بے حس نہیں ہو سکتا اور ویسے موم آپ کے لیے دودھ گرم کر رہی ہیں ۔ وہ بتاتے فوراً سے دروازہ ٹھا کی آواز سے بند کر گیا۔۔

کمینے انسان اپنے باپ کو چونا لگاتا ہے نکلو باہر۔۔۔ آں۔۔۔ معا وہ غصے سے کہتے دروازے کو ٹھوکر مارتے خود ہی اپنے پاؤں پر لگنے سے کراہتے پاوں تھام گئے ۔۔۔۔۔

اور اسے کوستے نیچے کی جانب گئے۔۔

جبکہ وہ مسکراتا اپنے سامنے کمفرٹر میں دبکی نیناں کو دیکھتا اسکے پاس آیا۔۔۔۔

  کک کیا ہوا۔۔ وہ جو آتے ساتھ ہی گہری نیند کے مزے لوٹنے ہی والی تھی کہ اچانک سے خود پر سے کمفرٹر جھپٹنے پہ وہ ہوش میں آتی بولی۔۔۔۔۔

کہاں سونا تھا تم نے آج۔۔۔ وہ اچانک سے سرد لہجہ اپناتے زرا سا جھکتے بولا کہ وہ ڈرتی کراؤن سے ٹیک لگاتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

مم مجھے کک کمرے میں۔۔۔۔ اس کے سخت تیوروں کو دیکھتے وہ فوراً سے جواب دیتے دوپٹہ سیدھا کرتے بولی ۔

نیچے کیا کر رہی تھی۔۔۔ وہ اچانک اسکے پاس بیٹھتے بولا کہ نیناں کے حلق میں کچھ اٹکا کہ وہ سہمی نظروں سے اسے دیکھتے رونے جیسی تھی۔۔۔

پھپھو کے پاس گئی تھی ۔۔ وہ فوراً سے صفائی دیتے بولی کہ وہ سر ہلا گیا۔۔۔

آج کے بعد اس کمرے کے علاؤہ کہیں اور سونے کی کوشش کی تو ٹانگیں توڑ دوں گا آئی سمجھ۔۔۔ وہ انگلی اٹھاتے اسے وارن کرتے بولا ۔

کہ اسکی گھومتی انگلی کو دیکھتے وہ فوراً سے سر ہلا گئی۔۔۔ 

گڈ گرل۔۔۔ وہ پیار سے اسکے گال کو تھپکتے اٹھا۔۔۔ سو جاؤ۔۔۔

اب کیسے سوئوں اچھی بھلی سو رہی تھی ڈرا دیا مجھے۔۔۔۔

وہ غصے سے تیکھے لہجے میں بولی کہ وریام  مڑتے اسے دیکھنے  لگا۔۔

آؤ میں سلاتا ہوں۔۔ وہ بیڈ پہ اپنی سائیڈ پہ آتے لیٹتے اسے اپنی جانب  کھینچتے بولا۔۔

کیوں تمہیں تجرںہ ہے ۔۔ وہ فورا سے اسکے بازوں سے سر اٹھاتے اسے دیکھتے بولی۔۔

ہے تو نہیں ہو جائے گا۔۔۔ اور تم نہیں آپ۔۔۔ وہ انگلی اسکے ہونٹوں پہ رکھتے اسے خاموش کرواتے بولا۔۔۔

میں تو تم ہی کہوں گی۔۔۔ وہ ضدی انداز میں اسکی انگلی جھٹکتے ہوئے بولی۔۔

جانتی  ہو اس دن جب میں تمہیں اظہر انکل کے پاس چھوڑ کر گیا تھا تو تب تم نے مجھے آپ کہا تھا۔۔ اور وہ آپ یہاں لگا۔۔۔۔

وہ اچانک سے اس واقعے کو یاد کرتے  انگلی اپنے دل کے مقام پہ رکھتے بولا کہ وہ خاموشی سے اسے دیکھتے سوچنے لگی کہ کیا سچ میں اسے نیناں کا آپ کہنا اتنا اچھا لگا تھا۔۔۔

کہو گی آپ۔۔۔ وہ ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلاتے جبکہ دوسرا اسکی کمر میں ڈالے اپنے قریب کرتے بولا ۔۔۔ کہ نیناں فوراً سے ناں میں گردن ہلا گئی۔۔  کہ وریام ہلکی سی کیمپ کی روشنی میں اسکے حسین چہرے کو دیکھنے لگا۔۔

آپ تو بھوڑوں کو کہتے ہیں اور تت۔۔۔۔ وہ کہتی اس سے پہلے ہی وریام نے جھکتے اسکے الفاظ کو منہ میں توڑ دیا۔۔ 

کہ نیناں مچلتے خود کو اسکی پاگل شدت بھری گرفت سے نکالنے کو مچلتی ہاتھ پاؤں مارنے۔۔۔

سو جاؤ ورنہ بعد میں شکایت مت کرنا۔۔۔ وہ انگھوٹے سے اسکے بیگھے ہونٹوں کو سہلاتے اسکی بند آنکھوں کو چومتے بمشکل بولا کہ نیناں فوراً سے کمفرٹر میں دبکی۔۔ مگر بند آنکھوں سے بھی وہ خود کو دوبارہ اسکے حصار میں محسوس کر سکتی تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    وہ گھڑی پہ ٹائم دیکھتے سر جھٹکتے ہال میں داخل ہوا۔۔۔  رات  کے گیاری بج چکے تھے اسے آتے ہوئے۔۔۔ 

عمر کی دھلائی کرنے کے بعد اب اسکے دل کو کچھ سکون ملا تھا کہ وہ گھر آتا  کہ اس سے پہلے ہی محتلف کیسز کے پینڈنگ کام پورے کرتے وہ لیٹ ہو گیا تھا۔۔

اور ان سب چکروں میں وہ گھر میں موجود اپنی بیوی کو بھول چکا تھا جسے اپنے ہاتھوں سے وہ پیار سے باندھتے گیا تھا۔۔۔

وہ ہال میں ہی صوفے پہ تھکان کی وجہ سے گرنے کے سے انداز میں لیٹا اور پاؤں کی مدد سے شوز اتارتے ریلکس فیل کرتے آنکھیں موندیں کہ اچانک سے آتے حیال پر وہ جھٹکے سے اٹھتے اوپر کی جانب بھاگا۔۔

روم میں داخل ہوتے ہی لائٹس آن کیں تو نظر سامنے موجود اپنی بیوی پہ پڑی  جو دونوں طرف سے بندھے ہاتھوں کے باوجود  سو رہی تھی ۔۔

وہ خود پہ لعنت بھیجتا آگے کی جانب بڑھا۔۔ 

اور آرام سے اسکے ہاتھوں کو ہتھکڑی سے آزاد کرتے دیکھنے لگا جہاں پہ سرخ نشان بنے ہوئے تھے ۔۔ 

وہ اسکی تکلیف محسوس کرتے لب بھینجتے اسکے دونوں بازوؤں پہ باری باری ہونٹ رکھتے اٹھا۔۔ اور وارڑدوب کی جانب بڑھا۔۔

مطلوبہ سامان ملتے ہی وہ پھر سے اسکے پاس آتے بیٹھتے ہی فرسٹ ایڈ باکس کو کھولتے ہی اس میں سے ائنٹمنٹ نکالتے ہی باری باری دونوں بازوؤں پہ مرہم لگانے لگا۔۔

وہ لگاتے دوبارہ سے باکس وارڑدوب میں رکھتے شاور لینے چلا گیا۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد وہ فریش سا اپنے محسوس بلیک سوٹ میں ملبوس تولیے سے بالوں کو رگڑتے باہر آیا۔۔ مگر سامنے ہی بیڈ پہ اسے ناپاتے وہ ٹھٹھکا ۔۔۔۔۔ وہ تولیے کو پھینکتے دوڑتا روم سے باہر نکلا۔۔

مگر اسے ناپاتے وہ ماتھے پہ بل ڈالے نیچے اترا۔۔۔ کچن  میں بھی اسے ناپاتے وہ حیرت سے کنگ ہوتے باہر کی جانب گیا مگر گیڈ کو ویسے ہی لاک دیکھ اسکے ماتھے پہ پہ کئی بل نمودار ہوئے۔

وہ سوچتا اندر آیا۔۔ اور ایک روم کی جانب بڑھا جو کہ اسکے روم کے ساتھ اٹیچڈ تھا۔۔۔

روم کے پاس جاتے ہی روم کو اندر سے لاک دیکھ وہ سمجھ گیا ۔

کہ اندر کون ہے ۔۔۔ وہ بنا کچھ کہے خاموشی سے جیسے آیا تھا ویسے ہی دوبارہ سے روم کہ جانب بڑھا۔۔

دروازہ کھولو رمشہ۔۔ وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے باہر کھڑا. دروازے کو کٹھکٹھاتے اسے کھولنے کا کہہ رہا تھا 

جو کہ اندر ایک کونے میں دبکی گھنٹوں میں منہ دیے بیٹھی تھی۔۔۔ 

وہ رات کو کمرے میں اسکے آتے ہی اسکی آہٹ پہ جاگ چکی تھی مگر اپنی آنکھیں بند کرتے سوتی بنی رہی کہ وہ اس وقت اس سے جھگڑنے کے موڈ میں نہیں تھی ۔ کتنا درد ہوا تھا اسے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں پہ مگر وہ ظالم بنا اسے باندھتے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔

اشعر کے کمرے میں آتے ہی اسکے ہاتھوں کو آزاد کرنا اور پیار سے آنہیں چھوتے ائنمنٹ لگانے پہ وہ چونکہ ضرور تھی مگر پھر سے اس کی کوئی چال سمجھتے وہ ہنوز لیٹی رہی۔۔

اور پھر جب وہ واشروم میں بند ہوا اسی وقت وہ بھاگتے ہوئے نیچے گئی مگر پھر اگلی سوچ کے آتے ہی کہ وہ کیسے اکیلے  گھر جائے گی اور وہ بھی رات کے اس وقت وہ سوچتے لب بھینجتے دوبارہ سے اوپر گئی۔۔

مگر اشعر کے روم میں جانے کی بجائے وہ ساتھ والے روم میں بند ہوئی تھی۔۔

رمشہ دروازہ کھولو اگر میں نے کھلوایا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔

وہ زچ آتے زور سے دروازے کو ٹھوکر مارتے بولا۔۔۔ کتنے وہم آ رہے تھے اس کے دل میں ۔۔ کہ اللہ نا کرے کہ اس نے کچھ کر نا لیا ہو۔۔۔۔

رمشہ۔۔۔ وہ چیختا ایک زور دار دھکے سے دروازے کو کھولتا بپھرے تاثرات لیے اندر داخل ہوا ۔۔ کہ  وہ جو ابھی بھاگتے واشروم میں بند ہونے کا سوچ ہی رہی تھی اچانک سے اسکے یک دم سے دروازے کو توڑتے اندر آتا دیکھ وہ بھوکھلاتے اٹھتی واشروم کی جانب بڑھی۔۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوتی وہ جھٹکے سے ہاتھ اسکی کمر میں حائل کرتے کھینچتے اپنے سینے سے لگا گیا۔۔

وہ اچانک اسکے عمل پہ ڈرتے اسکے شانوں کو تھامتے آنکھیں میچتے گہرے سانس بھرتے خود کو نارمل کرنے لگی۔۔

کب سے کہہ رہا ہوں کہ دروازہ کھولو۔۔ کان بند کیے ہیں کیا۔۔۔ وہ سرد آواز میں اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکی پیٹھ کو ہاتھ سے سہلاتے اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دباتے بولا کہ وہ کانپتی اس کے لمس پہ۔ مگر خود کو آزاد ناں کروا پائی۔۔ اسکی ظالم گرفت سے۔۔

رات کو کمرے سے کیوں ائی۔۔ جواب نا ملنے  پہ وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے خود کو پرسکون کرتے بولا۔۔

میری مرضی جہاں مرضی رہوں۔۔ وہ غصے سے اچانک سے سر اٹھاتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولی کہ اشعر ائبرو اٹھاتے اسے دیکھتے دایاں ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اپنی ہلکی سی بڑھی شیو کو مسلتے سوچ میں پڑا۔۔

وہ تو ٹھیک ہے تمہاری مرضی جہاں مرضی رہو بھلا میں کون ہوتا ہوں تمہیں روکنے والا ، مگر اگر اس روم میں آنا ہی تھا تو ساتھ مجھے بھی لے آتی تاکہ تمہیں کمپنی بھی مل جاتی اور مجھے بھی تمہاری قربت میں تھوڑا سا سکون مل جاتا۔۔۔ 

وہ مسکراتے اسکی گردن پہ جابجا اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے بولا ۔ کہ رمشہ نے لزرتے وجود کے ساتھ بمشکل اسکے کندھوں کو تھامتے اسے خود سے دور کرنا چاہا ، مگر وہ اسکے مزاخمت کرتے ہاتھوں کو پکڑتے اپنے ایک ہاتھ میں لیتے کمر کے پیچھے باندھ گیا۔۔

اشعر چھوڑو مجھے۔۔۔ وہ مسلسل اسکی من مانیوں کو سہتے بمشکل سے بولی کہ اشعر نے اپنی بہکتی خمار سے بھری آنکھیں اٹھاتے اسے دیکھا ۔

چھوڑنے کو تھوڑا اپنایا تھا۔۔ ابھی تو تم نے میری محبت بھی نہیں دیکھی ٹھیک سے اور ایسے چھوڑنے بچھڑنے کی باتیں کر رہی ہو۔۔۔  وہ ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے اسکا چہرہ جھٹکے سے قریب کرتے بولا کہ وہ لب بھینج گئی اسکی بےباک باتوں پہ۔۔

اس رشتے کا کوئی بھی مستقبل نہیں۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ ہم الگ ہو جائیں۔۔۔

وہ ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کرتے اسکے سینے پہ رکھتے اسے خود سے دور کرتے بولی کہ اشعر نے آنکھیں میچتے خود پہ کنٹرول کرنا چاہا جو کہ شاید اب اسکے بس سے باہر تھا۔۔

تمہیں کیا اتنا سا بھی یقین نہیں میری چاہت پہ ۔۔ کہ کوئی بھی آ کر کہے گا اور تم اس کی بات پہ یقین کر لو گی۔۔۔ وہ ایک امید دل میں سموئے بولا کہ شاید اتنا یقین تو وہ کر ہی چکی ہو گی اس پہ اتنے سے عرصے میں کہ ایک بار اس کو آزمانے کا موقع تو دیتی۔۔

نہیں ہے یقین۔۔۔ سمجھے کیسے کروں یقین جب سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہے تو میں کیوں کروں یقین ۔۔۔ آخر ایک ایسی لڑکی جو گھر سے بھاگتے اپنے باپ کا نام مٹی میں ملا چکی ہو اس سے کیونکر کرنی تھی تم نے شادی ۔۔۔ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔ وہ سر کو نفی میں ہلاتے آنسو سے تر چہرہ لیے بولی کہ اشعر کا دل کیا خود کو شوٹ کر دے یا پھر یہاں سے کہیں دور چلا جائے۔۔

اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ بہتر یہی ہے کہ اب ہم الگ ہو جائیں۔۔ میں پاپا کو کہہ دوں گی کہ میں اپنی مرضی سے تم سے الگ ہوئی ہوں اس میں تمہاری رضا شامل نہیں۔۔ تم بس مجھے طلاق دے دو۔۔۔ وہ فوراً سے کہتی اپنے اندر سسکتے دل کو اپنے پاؤں میں روند چکی تھی۔۔

کیا کہا ایک بار پھر سے کہو۔۔ وہ ڈرتے اسے دیکھتے خوف سے آنکھیں میچ گئی جو کہ ایک دم سے بدلا سرخ آنکھوں سے لہو رنگ چہرہ لیے کوئی اور اشعر ہی محسوس کو رہا تھا۔۔

کہو مجھے سننا ہے۔۔ وہ اپنی گرفت کو مضبوط کرتے اس انداز میں بولا کہ رمشہ کو لگا کہ اس کا دل اچھلتے حلق میں اٹک گیا ہے ۔

وہ ڈر پہ قابو پاتے بولی کہ وہ کیوں ڈرتی اس سے جب وہ حق پہ تھی ۔مم مجھے طط طلاق۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتی وہ جھکتا اسکے ہونٹوں کو اپنی شدت بھری گرفت میں لیتے اسکی بولتی بند کر گیا کہ رمشہ کو لگا کہ آج وہ اگلا سانس بھی نہیں لے پائے گی ۔

وہ ہاتھوں کی مدد سے شدید مزاحمت  کرتے ناخون اسکی گردن پہ چھبو گئی مگر یہاں پرواہ کسے تھی۔۔ وہ یونہی اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لیے اسے ساتھ لگاتے اٹھاتے بیڈ کی جانب بڑھا کہ اسکے اگلے قدم کا سوچتے رمشہ کی جان پہ بنی وہ خوف سے پھیلی آنکھوں سے خود پہ جھکے اشعر کو دیکھنے لگی جو کہ آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

میری محبت اور نرمی کا تم نے بہت ناجائز فائدہ اٹھا لیا ہے اب اور نہیں۔۔ وہ ہلکا سا سر اٹھاتے اسکی بند آنکھوں کو دیکھتے بولا جو کہ تیز تیز سانسیں لیتی خود کو نارمل کر رہی تھی۔۔

وہ اسکی مزاخمت کرتے ہاتھوں کو پکڑتے اپنے ایک ہاتھ میں لیتے بیڈ سے لگا گیا ۔۔کہ رمشہ میں ہلنے کی سکت بھی ناں رہی ۔

جبکہ وہ اسکی مزاخمت اسکے سسکنے کو اگنور کرتے اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر گیا کہ رمشہ نے ہارتے خود کو اسکے سپرد کر دیا۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

                " وریام اٹھو۔۔۔۔۔۔ وہ کب سے اسے جھنجھوڑتے اٹھا رہی تھی جو ناجانے کون سے گدھے گھوڑے بیچ کہ سویا تھا کہ آٹھ نہیں رہا تھا۔۔

اٹھو ورنہ انکل کو کہتی ہوں کہ آپ چلے جائیں افس۔۔۔ نیناں کل رات سے اسکی ضد پہ تھکتے ابھی صبح فجر ادا  کرتے ہی اسے جگا رہی تھی کہ وریام نے سختی سے کہا تھا کہ مسٹر کاظمی کے جاگنے سے پہلے اسے جگانا ورنہ  رات کو چھوڑ دیا تھا اب چھوڑوں گا نہیں۔۔ 

اور اسکی دھمکی کارامد بھی ثابت ہوئی تھی کہ وہ صبح اٹھتے ہی اسکے سر پہ کھڑی اسے اٹھا رہی تھی۔۔۔

ایک نظر کھڑکی سے باہر دیکھتے وہ حیران ہوئی کہ اتنی صبح کو اس جیسا نکمہ انسان جاگ کر کیا کرے گا۔۔ 

اوئے وریام آں۔۔۔۔ وہ غصے سے اسے ٹہوکا مارتے اٹھاتے بولی کہ اچانک سے وہ اسنے ہاتھ سے پکڑتے جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا کہ ایک ہلکی سی چیخ اسکے منہ سے برآمد ہوئی۔۔

وریام ۔۔۔ کیا ہے اٹھو۔۔ وہ جو کہ دوبارہ سے اسے اپنے پاس گراتے بازوؤں پہ سر رکھتے اسکے سر کو سہلاتے سلانے لگا تھا کہ نیناں اسکی حرکت پہ اسے زچ ہوتے اٹھانے لگی۔۔ 

سو جاؤ نین یار بعد میں اٹھیں گے۔۔ وہ چڑھتا اسکے بار بار اٹھانے پہ بولا کہ نیناں۔ نے منہ کھولتے اسے دیکھا۔۔

کیا مطلب بعد میں اٹھے گے۔۔ ابھی گھنٹے سے مجھے سرہانے کھڑا کیے رکھا رات کو بولا تھا  کہ صبح جلدی اٹھانا اور اب سو جاؤ۔۔ اٹھو ورنہ چھوڑوں گی نہیں۔

۔۔ وہ غصے سے اس پہ  چیختے بولی کہ وریام ہاتھ کان پہ رکھتے اسے آنکھیں کھول دیکھنے لگا ۔

کس کمبخت نے کہا تھا کہ بیویاں راحت دیتی ہیں۔۔ یہ تو سکون برباد کرتی ہیں۔۔ وہ بیٹھتے بدمزہ ہونے پہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔۔

کچھ کہا تم نے۔۔۔ نیناں اسکی بڑبڑاہٹ سنتے بولی کہ وہ مسکراتے ناں میں گردن ہلا گیا ۔

نہیں کچھ نہیں ۔۔ میں فریش ہو لوں ۔۔ تم سونا مت ، آج سے تم بھی وی کی وائف کے سٹائل سے جیو گی اور اسکے لیے تمہارا جاگنا ضروری ہے۔۔۔ 

وہ کمفرٹر سے نکلتے اسکی پیشانی چومتے بولا کہ نیناں مکمل اس کی باتوں میں الجھتے اسے دیکھنے لگی۔۔

یہ ڈریس چینج کرو جلدی سے جب تک میں شاور لیتا ہوں۔۔ وہ ہاتھ میں ایک بلیو کلر کی شارٹ فراک جسکے ساتھ بلیو ہی جینز اور خوبصورت کام کا دوپٹہ اسکے سامنے کرتے بولا کہ نیناں نے ایک نظر اسے دیکھ اپنے پہنے کپڑوں کو دیکھا۔۔

 وہ اس وقت یلو کرتے اور ٹراؤزر پہنے ہوئی پرسکون سی تھی کہ وہ بالکل ہلکا اور بغیر کام کے آرام دہ سوٹ تھا ۔۔

وہ اپنے کپڑوں کو دیکھتے اسکے ہاتھ میں پکڑی فراک کو دیکھنے لگی ۔

جو پہنا ہے وہی ٹھیک ہے۔۔ مجھے نہیں یہ پہننا وہ منہ بنا کے بولی۔۔

اوکے تمہاری مرضی اگر میرے آنے تک چینج کر لیا تو ٹھیک ورنہ میں خود چینج کروا دوں گا۔۔ وہ بنا اسکی سنے اپنی کہتے وہاں سے نکلا کہ اسکی بے باکی پہ وہ دانت کچکچاتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

اہہہہ۔۔۔۔ وہ پاؤں غصے سے فرش پہ پٹھکتے اپنا غصہ اتارتے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی جانتی جو تھی کہ اگر اس ضدی انسان کے آنے تک چینج ناں کیا تو کیا پتہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ بھی پہنا دے ، وہ سوچتے جھرجھری لے اٹھی اور فورا سے پہلے بھاگتے ڈریسنگ روم میں بند ہوئی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

      السلام علیکم ! پاپا وہ فریش سا مسکراتے خشاش بشاش سا ڈائنگ ٹیبل پہ آتے انہیں سلام کرتے بولا کہ وہ بھی مسکراتے اسکی خوشی کی دعا کرتے  اسے ساتھ لگا گئے۔۔

کیسی بے اب طبیعت فدک کی۔۔۔ رافع کے چئیر گھیسٹتے بیٹھتے ہی وہ بولے ۔۔۔ پاپا ابھی ٹھیک ہے ، میڈیسن دی ہے ابھی ریسٹ کر رہی ہے۔۔ وہ کچھ دیر پہلے فدک کی خوشی کا سوچتے مسکراتے بولا ۔۔۔

میڈیسن لے لی اس نے ۔۔۔ اظہر حیرت زدہ سے اس سے پوچھنے لگے کیونکہ پچھلے دنوں کتنا تنگ کیا تھا فدک نے میڈیسن کے لیے۔۔۔ اور ان کے حساب سے تو دنیا کا سب سے مشکل کام فدک کو دوا کھلانا ہی لگا تھا۔۔

جی بس کھلا ہی دی۔۔۔  وہ نارمل سے انداز میں کہتے سامنے سے بریڈ کو جیم لگاتے بولا کہ اظہر سر ہلا گئے۔۔ 

کیا سوچا ہے آگے مطلب کیسے اسے ٹھیک کرو گے مکمل طور پہ۔۔۔ وہ سوچتے اپنے بیٹے کو دیکھ بولے جس کا ہاتھ بریڈ پہ جیم لگاتے تھما تھا۔۔ 

سوچنا کیا ہے ڈیڈ اسے اسکے ڈیڈ کے پاس لے جاؤں گا پاکستان ۔۔۔۔ وہ سرد آہ خارج کرتے بولا کہ اظہر نے چونکتے اسکی جانب دیکھا ۔۔

یہ کوئی مذاق نہیں بیٹا ۔۔۔ تم جانتے ہو کہ اسکے ڈیڈ اس دنیا میں نہیں۔۔ اور پھر اسے وہاں لے جانے کا مقصد ۔۔

اظہر کو رافع کی بات بالکل بھی پسند ناں آئی تھی ایسے کیسے وہ فدک کی حالت کے باوجود اسے وہاں لے جا رہا تھا وہ بھی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کیا وہ برداشت کر پاتی سب کچھ۔۔۔ جب اسے دوبارہ سے اپنے پاپا سے بچھڑنا وہ اذیت جو اس نے برداشت کی تھی وہ دوبارہ سے کیسے برداشت کر پاتی۔۔

پاپا شاید آپ بھول رہے ہیں کہ بعض اوقات چیزیں جہاں سے خراب ہوتی ہیں انہیں وہیں سے سدھارہ جا سکتا ہے۔۔

اور میں چاہتا ہوں کہ اسکے ڈیڈ کی یادیں وہ گھر اسکی بری نہیں بلکہ اچھی یادوں کا سبب بنے ، جو کچھ ہو چکا ہے میں اسے تو نہیں بدل سکتا مگر اب کسی گرم ہوا کے جھونکے کو بھی میں اس تک نہیں پہنچنے دوں گا۔۔

وہ بولا تھا مگر اسکی آنکھوں میں جلتی محبت کی جوت کو دیکھ وہ لب بھینجتے دعا کر گئے کہ اللہ بہتر کرے سب کچھ ۔ بس۔۔۔

آفس جاؤ گے آج۔۔۔ 

جی ڈیڈ بس تھوڑی دیر میں نکلوں گا۔۔ وہ جوس کا سپ لیتے بولا کہ ابھی بہت سا کام پینڈنگ پڑا تھا اور آفس جوائن کرتے ہی جانے کتنی مشکلیں اسکی راہ میں آ چکی تھیں کہ وہ کام پہ بھی ٹھیک سے توجہ نہیں دے پایا تھا۔۔۔

ابھی ویٹ کرو۔۔ وری آ رہا ہے۔ اس سے مل کے جانا ۔۔ وہ اسے بتاتے ناشتہ فنش کرتے اٹھے کہ وہ بھی جی کرتے اپنا ناشتہ پہ جھکا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

      کیا دیکھ رہی ہو تمہارا ہزبینڈ واقعی میں بہت ہینڈسم ہے ۔۔۔۔۔

وہ جو اپنا جوگنگ سوٹ پہنتے اپر کی زپ کو ہاف بند کیے  ابھی مرر کے آگے کھڑا بالوں کو برش کر رہا تھا کہ یک ٹک خود کو دیکھتا پاتے وہ نیناں کی جانب متوجہ ہوتے بولا ۔۔

جو کہ مسمرائز ہوتے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔

کچھ نہیں میں نے کیا دیکھنا ۔  وہ منہ جتاتے بولی۔

کہ وہ پرفیوم اٹھاتے خود پہ اسپرے کرنے لگا  اتنی تیز کلون کی مہک پہ نیناں نے  چکراتے سر کو تھاما۔

۔ اتنی پرفیوم لگاتا ہے اسی لیے تو لڑکیاں اس کی جانب متوجہ ہوتی ہیں۔۔ 

وہ پیچھے دیوار سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے کھڑی اپنے ہی خیالوں میں مگن تھی کہ کب وہ چلتا اس کے پاس آیا وہ نوٹ ناں کر سکی۔۔

یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔ وہ اچانک اسے اپنے گلے لگتا دیکھ بوکھلاتے ہوئے بولی کہ اسے کیا ہوا جو صبح ہی صبح اسکے گلے  آ پڑا تھا۔۔۔ 

سوری جان وہ کیا ہے ناں کہ پرفیوم تھوڑا زیادہ ہوگیا اور اب اگر میں باہر جاؤں گا تو سو لڑکی مجھے دیکھے گی اور اب میں نہیں چاہتا کہ میری ڈمپل نین کے علاؤہ مجھے کوئی دیکھے سو اسی لیے اپنی پرفیوم تمہیں دے رہا ہوں آدھی آدھی بانٹنے کو۔۔۔ 

وہ اسے تفصیل سے سمجھاتے بولا جبکہ وہ مشکوک سی اسے دیکھنے لگی کہ کہیں اس نے میرے دماغ کی باتیں تو نہیں پڑھ لیں۔۔

چلو ہم چلتے ہیں۔۔۔ وہ شوز پہنتے ایک دم تیار اسکے سامنے کھڑا ہوتے بولا۔۔

۔

ہیں۔۔۔مجھے کدھر لے لے جا رہے ہو۔۔ وہ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچتے بولی کہ وریام رکتے بلیو سوٹ میں ملبوس اس کے حسین  چہرے کو دیکھتے آگے بڑھا۔۔

وریام۔۔۔۔۔۔ وہ کھنچتی اس کے ساتھ اترتے بولی کہ وریام اسے لیے کچن میں داخل ہوا۔۔ تو مسزز وی۔۔ جب تک آپ کے ہزبینڈ واپس آتے ہیں آپ انکے لیے اچھا سا ناشتہ بنائیں ۔۔۔

 اوکے ۔۔وہ پیار سے اسکے گالوں کو باری باری چومتے اسکی تھوڑی پہ لب رکھتے بولا کہ اسکی اگلی کاروائی سے پہلے ہی نیناں نے ناک کو دونوں ہاتھوں میں چھپایا۔۔ وہ مسکرایا تھا دلکشی سے اسکی احتیاط پہ۔۔۔

جب جانتی ہو کہ راہ فرار ممکن نہیں تو یہ چھوٹی موٹی کوششیں کر کے خود کو ناں تھکایا کرو نین جان۔۔ وہ ہونٹ اسکے ناک پہ رکھے ہاتھوں پہ رکھتے پیار سے کہتے وہاں سے نکلا کہ نیناں نے دور تک اسکی پشت کو گھورا۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ اسکا من پسند ناشتہ تیار کر چکی تھی۔۔ 

جس میں جوس بریڈ کے ساتھ جیم اور ایک ہاف بوائل ایگ تھا۔۔ وہ اسکی خوراک کو دیکھتے تذبذب کا شکار ہوئی تھی کیونکہ کل پھپھو نے اسے وریام کی ساری روٹین رسان سے سمجھائی تھی ۔

کہ آخر کو وہ ہی تو اس کی بیوی تھی اور آگے چلتے اسے ہی تو وریام کا خیال رکھنا تھا۔۔

ویٹ میں آتا ہوں وہ ہانپتے ایک دم سے شرٹ اپر کو  اتارے ہاتھ میں پکڑے تھا اسکے کندھے پہ رکھتے بولتا باہر کو نکلا کہ وہ منہ کھولے غصے سے مٹھیاں بھینچتے اسکی پشت کو گھورتے اسکے کپڑوں کو ہاتھ میں پکڑتے دیکھنے لگی۔۔۔

ایک مدہم سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی شاید وہ سمجھ رہی تھی کہ وریام شاید اسے اپنا پابند بنا رہا تھا کہ وہ خود اس سے دور ہوتے یا اس سوچ کے آتے ہی تڑپے۔۔ یونہی تو وہ دن رات اس کے سر سوار نہیں رہتا تھا ،

 اپنا ہر چھوٹا چھوٹا کام وہ جان بوجھ کر اسی سے کرواتا تھا کہ وہ اسکے رنگ میں رنگی مکمل طور پر روح وریام بن جائے۔۔ وہ مسکراتے اپنے ہونٹ اسکی شرٹ پہ رکھتے اس  کی خؤشبو کو محسوس کرتے گہرا مسکرائی مگر پھر ہوش میں آتے ہی خود کو ڈپٹتے وہ دوڑتے ڈائنگ ٹیبل کے پاس جاتے چئیر پہ اسکی شرٹ اور اپر کو اچھے سے پھیلائے وہ ناشتہ ٹیبل پہ سیٹ کرنے لگی۔۔۔

آ گیا میں۔۔۔۔ اچانک سے ہی پیچھے سے آتے وریام کی آواز پہ وہ فوراً سے بوکھلاتے نظریں جھکائے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔

آؤ نین ناشتہ کرو۔۔ وہ جیم لگاتے اس سے  بولا جو کہ پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ چونکی تھی اس کے بلانے پہ کہ اسے تو پیچھے کبھی کسی نے اتنی اہمیت نہیں دی کہ اسکے بغیر ناشتہ ناں کیا ہو ،

 ہاں البتہ اگر کھانے کے بعد کچھ ناں بچتا تو یہ لازمی کہا جاتا کہ پہلے ہی کھا لیا ہو گا اندر بناتے وقت محترمہ نے۔۔ اپنے گزرے وقت کی تکلیفوں پہ اسکی آنکھیں نم ہوئیں۔۔ مگر شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ مقابل بیٹھا شحض اس کے باہر سے نہیں بلکہ اسکے اندر تک سے واقفیت رکھتا تھا ۔۔

 جو سب کچھ جانتا تھا کہ اس کی نین سے کیا رویہ برتا گیا تھا بچپن سے ، مگر اسنے کبھی جتایا یا ذکر نہیں کیا ، کیونکہ وہ اسے دوبارہ گزری باتوں سے کوئی اور مزید دکھ یا تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔۔

وہ اچانک سے اسے ماضی میں جاتا دیکھ کھینچتے اپنی گود میں بٹھا گیا کہ وہ ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھتے اٹھنے لگی مگر اسکے شرٹ لیس سفید کشادہ سینے کو دیکھ وہ خاموشی سے نظریں جھکا گئی۔۔

کھاؤ۔۔۔ وہ بریڈ کا بائٹ لیتے اسکے سامنے کرتے بولا کہ نیناں جھجھکتے سوچ میں پڑ گئی ۔

میں بعد میں کھا لوں گی۔۔ 

ابھی کھاؤ میرے ساتھ ورنہ ۔۔ وہ اسکے نچلے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلاتے مخنی خیزی سے بولا کہ نیناں فوراً سے اسکے ہاتھ سے بائٹ لے گئی۔۔

چلو اب گلاس پکڑو شاباش وہ جوس گلاس میں انڈیلتے اسے پکڑاتے خود بھی تھام گیا ۔۔ 

اوکے بیٹ کرتے ہیں کہ پہلے کون پیتا ہے۔۔۔۔ وہ مسکراتے بولا کہ اس سے پہلے ہی نیناں نے گلاس منہ سے لگاتے پینا شروع کر دیا۔۔ جبکہ وریام ہونقوں کی طرح منہ کھولے اس معصوم دکھنے والی اپنی بیوی کو دیکھتے حیران تھا۔۔

میں جیت گئی۔۔ وہ گلاس ختم کرتے ٹیبل پہ رکھتے بولی۔ کہ وریام کی شکل دیکھ قہقہہ لگا اٹھی۔۔ 

اسکی مسکراتی خوبصورت سے کھلکھلاہٹ وریام کے کانوں میں کسی رقص کی مانند گونجی۔۔۔

اوکے اب میری باری ۔۔۔وہ کہتا نیناں کے سمجھنے سے پہلے ہی ۔۔ ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے اسکے ہونٹوں پہ جھکا کہ نیناں نے ڈرتے اسکے بالوں کو کھینچا جو کہ مدہوش سا اپنے کام میں مصروف رہا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ جانے کب سے یونہی لیٹے چھت کو گھورتا رہا تھا کہ اسے خود بھی اندازہ ناں ہوا۔  بمشکل سے اپنے پھٹتے ہوئے سر کو  وہ انگلی سے دباتے ایک نظر اپنے بازو پہ سر  رکھے بکھری حالت میں لیٹی رمشہ پہ ڈالتے  وہ لب سختی سے بھنجتے  اسکے ماتھے کو ہلکا سا اپنے ہونٹوں سے چھوتے پیچھے ہوتے اسکے چہرے کو بغور دیکھنے لگا جہاں مٹے مٹے آنسو کے نشان اب بھی واضح تھے۔۔ 

وہ مزید بے چین ہوا تھا اسے دیکھ۔۔ مگر وہ کیا کرتا کیسے اسے خود سے دور جانے دیتے ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ شاید رات کو وہ ٹھیک سے سوئی نہیں تھی اسی وجہ سے اب آرام سے اسکے بازوں پہ بنا احتجاج کیے لیٹی تھی۔۔ مگر یہ خاموشی بھی مخض کچھ وقت کی تھی۔۔ 

وہ ہاتھ کی پشت سے اسکے رخسار کو سہلاتے اچانک سے بجتے موبائل کی آواز پہ آرام سے اپنے بازوؤں سے اسکا سر اٹھاتے تکیے پہ ٹکاتے وہ اٹھتا موبائل لیے ایک جانب ہوا ۔

ہممم اشعر اسپیکنگ۔۔۔۔ وہ موبائل یس کرتے کان سے لگاتے بولا۔۔

 سر وہ عمر کی لاش ملی ہے۔۔ کوڑے کے ڈھیر سے جسے ہم پچھلے کچھ دنوں سے ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ 

او نو۔۔ کیسے ہوا یہ سب۔۔ ؟ وہ اچانک سے انجان بنتے بولا۔۔

معلوم نہیں سر آپ پلیز آ جائیں ۔۔ پھر انویسٹیگیشن کرنی ہے۔۔۔

اچھا ظفر تم ویٹ کرو میں آتا ہوں وہ جلدی سے جواب دیتے ایک نظر سوئی ہوئی رمشہ پر ڈالتے باتھروم کی جانب بڑھا۔۔

اور ایسے ہی شاور آن کرتے اسکے نیچے کھڑا ہوا ۔۔  

دماغ بری طرح سے الجھا ہوا تھا کتنی خوش تھی رمشہ اسکے ساتھ پھر اچانک سے ایسا کیا ہوا تھا ۔۔ شاور سے بہتا ٹھنڈا پانی اسکے سر پر سے ایک لکیر کی مانند بہتے اسکے چہرے پر سے نیچے کی جانب بہتا جا رہا تھا۔۔ جبکہ وہ آنکھیں بند کیے گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔

 اچانک سے اسکے دماغ میں جھناکا ہوا تھا ۔۔ دماغ کی پھولیں رگیں پل بھر میں ریلیکس سی اپنی جگہ کو آئی تھیں ۔۔ وہ کچھ سوچتے فورا سے چینج کرتے روم میں آیا۔۔

ہیلو۔۔۔ زہے نصیب آج ہم غریبوں کی یاد کیسے آ گئی آپ کو ۔۔۔

کیسی ہو۔۔ وہ  ہمیشہ کی طرح اسکی بات کو اگنور کرتے بولا تھا۔۔۔  

ٹھیک ہوں تم سناؤ۔۔ وہ روم میں بیٹھے اپنے جونئیر کو باہر کی جانب کا اشارہ کرتی بولی۔۔

کہاں پر ہو ۔  

اسکے سوال پہ وہ باقاعدہ فون کو کان سے ہٹاتے مشکوک سا دیکھتے دوبارہ کان سے لگا گئی۔۔ 

ابھی لاہور میں ہوں ایک کیس کے سلسلے میں آئی ہوں۔۔ وہ الجھتے اسے کہتی ٹیک لگا گئی۔۔۔

ایک فیور چاہیے تھا۔۔ وہ سیدھا مدعے کی بات پہ آیا تھا کہ وہ ناک سکوڑ گئی اس کنجوس کی بات پہ ۔۔۔ کیا تھا جو سیدھے سےحال احوال ہی پوچھ لیتا۔۔

ہم حاضر ہیں جناب بتائیں کیا کرنا ہوگا خادمہ کو۔۔ وہ منہ بناتے بولی۔۔۔ 

گڈ۔۔۔ دراصل مجھے کسی کام سے آؤٹ آف سٹی جانا پڑےگا ۔ اور رمشہ کی طبیعت خراب ہے تو اسے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تو کیا تم میرے آنے تک اس کا خیال رکھ سکتی ہو۔   

وہ کھڑکی پہ ہاتھ رکھتے بولا ۔۔ 

کہاں پر ہے وہ لاہور میں ۔ وہ بات سنتے ہی پوچھنے لگی ۔

ہممم یہاں میرے ساتھ ہی ہے۔۔ تم آ جاؤ ابھی۔۔۔ 

اوکے میں آتی ہوں وہ کیا ہے ناں کہ ویسے تو ملنا ہو گا نہیں چلو بہانے سے ہی اسے دیکھ تو لوں ۔۔ وہ سرشار ہوتے بولی کہ بس نہیں تھا ابھی سے دوڑتی پہنچ جائے اسکے پاس ۔۔۔

ٹھیک ہے مجھے ابھی نکلنا ہے تم جلدی سے پہنچو۔۔۔

وہ بنا اسکی سنے فون کاٹتے  نمبر ڈائل کرنے لگا۔۔

یس سر۔۔ فون اٹینٹ کرتے ہی ظفر نے مؤدب سا اسے سلام کیا ۔۔

سنو ظفر مجھے ابھی ایک ضروری کام سے نکلنا ہے تم ایسا کرو کہ عمر کی لاش کو فورنسنگ لیب بھجواو میں آ کر سب ہینڈل کرتا ہوں۔۔

وہ انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی سے ماتھے کو مسلتے سامنے کمفرٹر میں دبکی رمشہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

جی سر ۔۔۔ اوکے میں کرتا ہوں۔۔۔ وہ مؤدب سا کہتا فون کاٹ گیا۔۔

وہ فون کاٹتے جیب میں رکھتے بیڈ کی جانب بڑھا ، جہاں وہ اسے بے چین ، بے آرام کیے خود آرام سے سو رہی تھی۔۔ 

ایک بار مجھے پتہ کر لینے دو کہ آخر جو میں سوچ رہا ہوں ویسا ہی ہے کہ نہیں ۔۔ پھر تم سے ایک ایک چیز کا حساب لوں گا۔۔ وہ آہستگی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے کہتے نرمی سے اسکے ماتھے کو چھوتے اپنا کوٹ اٹھاتے روم سے نکلا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وریاممم۔۔ بتاو کہاں جا رہے ہیں ہم۔۔ ؟ وہ کب سے اس سے پوچھ رہی تھی مگر وہ لاپرواہ سا آرام سے گاڑی ڈرائیو کرنے میں مصروف رہا۔۔

 جبکہ نیناں نے غصے سے اس پاگل شخص کو گھورا جو بنا بتائے اسے زبردستی اپنے ساتھ ناجانے کہاں لیے جا رہا تھا۔۔

ورریامممم۔۔۔ وہ پھر سے اسکے کان کے قریب چیخی۔۔۔ 

کیا ہو گیا ہے نین یار ۔۔ کیوں اپنے ہینڈسم سے شوہر کی جان لینے پہ تلی ہو۔۔ وہ ایک دم سے اسکی زور دار چیخ پہ کان پر ہاتھ رکھتے اسے دیکھ بولا ۔

بتاؤ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ وہ آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورتے  بولی کہ وریام اسکے دبنگ سٹائل پہ ہمیشہ کی طرح صدقے واری ہوا۔۔ ایک بات بتاؤ ، یہ تمہارے اندر کا دبنگ کیا صرف میرے آگے ہی جاگتا ہے۔۔ وہ قدرے اسے جانچتے ہوئے بولا۔۔

کیونکہ مخظ  چند دنوں میں ہی وہ  اسکی ناک گردن بالوں پہ اتنا تشدد کر چکی تھی کہ اسکی معصومیت پر بھی کبھی کبھی وہ جھرجھری لے اٹھتا تھا۔۔ مگر وہ خوش تھا کہ وہ اسکے ساتھ گھل مل رہی تھی۔۔ 

وریام کے رنگ میں ڈھلتے وہ اپنے اندر کے خوف کو تو جانے کہاں پیچھے چھوڑ آئی تھی ۔۔ 

ہاہاہاہا۔۔۔ ایک دم سے اسکے مسکرانے پہ وہ ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھنے لگا۔۔ 

کہ ایکدم سے وریام کو فوکس خود پہ پاتے وہ گڑبڑاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔

وریام تم نے مجھے یہاں کی کوئی جگہ نہیں گھمائی کچھ بھی نہیں بتایا اس جگہ کے بارے میں۔۔۔ فورا سے اسکا دھیان بھٹکانے کو وہ بولی تو وریام گہرا سانس لیتے خود کو نارمل کرنے لگا۔۔

دیکھو یہاں کی سڑکیں کتنی پیاری ہیں۔۔ وہ باہر کشادہ ، لمبی چوڑی سڑکوں کو دیکھتے چہکتے بولی کہ وریام مسکرایا۔۔ 

کیونکہ یہاں پہ سب مل کر اس ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ اور یہاں کی خوبصورتی میں ان سڑکوں کو بھی گردانا جاتا ہے۔۔

اسکے علاؤہ " ٹاور آف لندن یہاں کی مشہور جگہ ہے۔۔" جو کہ شاہی خاندان کے زمانے سے قائم ہے مگر پہلے وہ مٹی سے بنایا گیا تھا مگر پھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی ہوئیں۔۔ اسکے علاؤہ اور بھی بہت سے ٹاور ہیں  یہاں پر۔۔۔۔

اسکا ایک سٹور ہاؤس بھی ہے جہاں پر پچھلے زمانے کے زیورات ، الات،  وغیرہ کو بطور نمائش رکھا گیا ہے ۔ 

اور بہت سے ممالک کے ہزاروں ٹوریریسٹ یہاں پہ سیر کے لیے آتے ہیں۔۔

اور اسکے علاؤہ اسکے مختلف میوزیم بھی ہیں۔  جو کہ اپنی اپنی خاصیت کی وجہ سے ٹوریریسٹ کی توجہ کا مرکز ہیں۔۔ 

یہاں پہ ایک بہت پیارا ہوٹل ہے۔۔ تم جانتی ہو میں اور رافع چھٹیوں میں یہاں جایا کرتے تھے ۔۔ اور وہاں رہتے بھی تھے۔ ہوٹل کی پچھلی جانب ایک خوبصورت سا چشمہ بھی ہے ۔۔ 

اس کا پانی ہر وقت ٹھنڈا رہتا ہے۔۔ 

یہاں پر گرمی نہیں ہوتی وہ منہ کھولے اسے سنتے فورا سے بولی ۔۔ ہوتی ہے بٹ اتنی زیادہ نہیں۔ ہوتی ۔۔ اور یہاں پر برف بھی پڑتی ہے۔۔ اور بہت مزے کے مؤمنٹ ہوتے ہیں ۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔

اب بتاؤ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ وہ دوبارہ سے اسے دیکھتے پوچھتے انگلی منہ میں ڈالتے چبانے لگی۔۔

ہم لوگ فدک سے ملنے جا رہے ہیں ۔۔ وہ منہ بناتے  اسکے ہاتھ کو پکڑتے انگلی کو ہونٹوں سے آزاد کرواتے پیار سے اسے چومتے بولا کہ نیناں نے فوراً سے ہاتھ کھینچتے گود میں چھپایا۔۔۔

تم نے اچھا نہیں کیا وریام انکل آنٹی کیا سوچتے ہوں گے ۔۔ کہ ابھی شادی کو دو دن ہوئے اور ہمارے بیٹے کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔ وہ اسے تو بول ناں پائی مگر دل ہی دل میں خود ہی سے مخاطب ہوئی تھی۔۔ ۔اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا یوں بنا بتائے آنا۔۔۔

ڈونٹ وری میں انکے لیے کچھ خاص سرپرائز چھوڑ آیا ہوں۔۔ وہ اسے بہلاتے ہوئے بولا کہ وہ بھی چپ ہو گئی۔۔

آؤ۔۔۔۔ وہ گاڑی ایک جانب روکتے اسے بولا کہ نیناں نے باہر دیکھا مگر یہاں ہر ایک بکے شوپ کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔۔

ہم ایسے تو نہیں۔ جائیں گے۔۔ وہ اسکی پریشانی سمجھتے بولا کہ نیناں اسکا ہاتھ تھامتے فوراً سے باہر کو نکلی۔۔

کونسے لیں۔۔۔ وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں پھنساتے اسکے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھتے پیار سے بولا۔۔

ریڈ۔۔۔ نیناں مسکراتے اسکے بازوں کو پکڑتے سامنے ہی اسٹول پہ پڑے ریڈ کلر کے خوبصورت سے بنے بکے جانب اشارہ کرتے بولی۔۔

وریام داد دیتے اسے دیکھتا بکے پیک کرواتے اسے تھما گیا 

ویسے تم لڑکیوں کو ریڈ کلر کچھ زیادہ پسند نہیں ۔۔ وہ گاڑی ٹرن کرتے اسے بکے کے ساتھ کھیلتے دیکھ بولا۔۔

نہیں تو ریڈ بھی اچھا ہوتا ہے مگر پنک زیادہ اچھا ہوتا ۔۔ وہ مسکراتے پھولوں کو بیک سائیڈ پہ رکھتے بولی۔۔

چلو آؤ۔۔۔ گاڑی ایک جانب پارک کرتے وہ ڈور کھولتے بولا کہ نیناں بھی مسکراتے ہوئے باہر ائی۔۔

آ رہا ہوں۔۔۔ بیل کی آواز پہ اظہر دوڑتے دروازے کی جانب لپکے کیونکہ وہ تو کب سے اس کا ویٹ کر رہے تھے۔۔

بڈی۔۔۔۔ وریام دروازہ کھلتے ہی مسکراتے انکے گلے جھولتے ہوئے بولا۔۔۔۔

کیا حال ہے جمائی بابو۔۔۔ اظہر ایک دم سے دورازے کے پاس کھڑی نیناں کو دیکھتے بولے۔۔ 

کک کیا جمائی کون جمائی۔۔ وریام ان سے الگ ہوتے آگے پیچھے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔

بیٹا آپ ہو جمائی بابو۔۔ کیونکہ جب نیناں میری بیٹی ہوئی تو تم میرے جمائی اور میں تمہارا سسر ۔۔ وہ مسکراتے نیناں  کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے اسے ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھے۔۔

یہ سب کب ہوا۔۔۔ وہ ہکا بکا سا وہیں پہ کھڑا چیخا ہی تو تھا۔۔ وہ تو اس دن نیناں کو  جس حالت میں ڈرتے ، روتے چھوڑے گیا تھا اسے یقین تھا کہ وہ تو روم سے باہر ہی نکلی ناں ہو گی تو پھر یہ اچانک باپ بیٹی کسیے بنے۔۔ 

دیکھیں مجھے آپ کی بیٹی نہیں چاہیے مجھے بس میری بیوی واپس کریں ابھی کے ابھی۔۔ وہ ایک دم سے ہوش میں آتے انکے پاس کھڑا ہوتے بولے۔۔

وہ تو جانے کہاں چلی گئی جب ملے گی تو دیے دیں گے۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ وہ ایک دم سے کہتے مسکرا اٹھے کہ وریام کا بس نہیں تھا کہ ان نئے بنتے رشتوں سے دور وہ نیناں کو کہیں چھپا آئے۔۔

کیا ہوا اسے۔۔۔۔ رافع جو کہ نیچے سے آتی آوازوں پہ نیچے آیا تھا اب  ہاتھ میں برینڈڈ واچ پہنتے وہ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بولا ۔

رافی میری جان ، میرا کلیجہ میرا یار آ گیا۔۔ وریام خود کو اکیلا پاتے رافع کو آتا دیکھ فوراً سے بانہیں پھیلائے بولا۔۔

دیکھو رافع اگر وری میرا جمائی ہوا تو تمہارا کیا لگا۔۔۔ وریام کے بولنے سے پہلے ہی اظہر نے پوچھا تو وہ سب کو ایک نظر دیکھتے وریام کو دیکھنے لگا۔۔

تو پھر یہ میرا بہنوئی ہوا۔۔ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے وہ نارمل سے انداز میں بھی وریام کو آگ لگا گیا۔۔ 

کیسی ہے میری بہن ،، وریام کے ڈرامے کو اگنور کرتے آگے بڑھتے نیناں کے سر پہ ہاتھ رکھتے پیار سے بولا۔۔

اظہر اسے بتا چکے تھے کہ اب اسکے باپ کے علاؤہ اسکی بہن بھی ہے اس دنیا میں پہلے تو وہ حیران ہوا تھا نیناں کا سنتے مگر پھر خوش بھی تھا کہ چلو اس نے پاپا سے تو اچھے سے بات کی۔۔

کوئی نہیں میرا میں اکیلا ۔۔۔ وریام صدمے میں گرتے ہوئے بھی صوفے کے قریب جاتے صدمہ کھاتا گرا اور فوراً سے کشن اٹھاتے منہ پر رکھتے بڑبڑایا۔۔۔

اگر یہ لڑکا تمہیں کبھی بھی تنگ کرے تو مجھے بتانا اسکی ہڈی پسلی ایک کر کے رکھ دوں گا میں۔۔۔

رافع کی جتاتی آواز پہ وہ زرا سا کشن منہ پر سے اٹھاتے  ایک آنکھ کھولتے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

میرے ہوتے کوئی میرے بھائی کو ہاتھ تو لگا کر دکھائے میں ہاتھ ناں توڑ دوں ۔۔ اچانک سے فدک کی آواز پہ مڑتے سب نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا ۔ جہاں وہ شاید ابھی ہی اٹھی انکی باتیں سنتے آتے ہی بولی تھی۔۔ 

وریام سرشار سا اپنی بہن کو دیکھتے فوراً سے کشن پھینکتے اٹھتا اسکے پاس گیا اور ایک ہاتھ کو کمر پر باندھتے دوسرے کو اسکے سامنے کرتے سر خم کر گیا کہ فدک نے بخوشی اسکا ہاتھ تھاما۔۔

اور پھر دونوں ایک ادا سے گردن اکڑائے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے صوفے تک آئے۔۔

جبکہ رافع پریشان سا سٹل کھڑا تھا کہ۔۔ ڈاکٹر کے مطابق فدک کچھ چیزیں بھول چکی ہے مگر وہ تو رافع کے ساتھ ساتھ وریام کو بھی ہہچان رہی تھی۔۔۔

لگتا ہے کسی کو جھٹکا لگا ہے ۔ اسے ایسے ہی کھڑا دیکھ وریام نے طنزیہ چھیڑتے ہوئے کہا۔۔

چھوڑیں سب آپ یہ بتائیں آپ نے شادی کر لی اور بتایا تک نہیں۔۔۔ 

اچانک سے فدک اسکے پاس سے اٹھتے نیناں کے پاس بیٹھتے بولی۔۔

مگر فدک میں نے تو۔۔۔

یہ ایک نمبر کا گدھا ہے۔۔ دیکھ لو اپنی بہن تک کو نہیں بتایا۔۔۔ رافع وریام کو روکتے ہوئے بولا جو کہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ایک فدک کو ہی تو اس نے شادی کا بتایا تھا مگر رافع کا اشارہ پاتے وہ خاموش ہو گیا۔۔

ہائے بھائی اسے تو ڈمپل بھی پڑتے ہیں ۔ وہ نیناں کے ڈمپل کو ہاتھ سے چھوتے بولی کہ اس سے پہلے وہ اسے کس کرتی وہ بجلی کی تیزی سے جگہ پر سے اٹھا اور نیناں کو اپنی جانب کھینچا۔۔۔

اوکے انکل واپسی پر ملاقات ہوگی اور رافع آج باہر چلیں گے فدک اور نیناں کے ساتھ رات کو دیڈی رہنا۔۔ وہ بنا انکی سنے اپنی کہتے نیناں کا ہاتھ تھامے باہر کو بڑھا۔۔۔

بیٹا رکو۔۔ 

اسے چھوڑ جاؤ تاکہ ہم تینوں باپ بیٹی باتیں ہی کر لیں گے۔۔ اظہر دوڑتے اسے پکڑتے بازوؤں سے روکتے ہوئے بولے۔۔

انکل ڈونٹ وری ادھر ہی  ہے نین ۔۔۔ بس میں زرا اپنی وائف سے وشز لے لوں تاکہ میرا دن اچھے سے گزرے۔۔۔

وہ آنکھ دباتے کہتا نیناں کا ہاتھ تھامے باہر کو نکلا۔۔

وریام فدک کو کیا ہؤا۔۔ نیناں مضبوطی سے اسکے ہاتھ پہ گرفت مضبوط کرتے بولی کہ وریام مسکرایا اسکے اعتماد پہ۔۔

کچھ نہیں بس تھوڑا سٹریس میں ہے تم بس وہ کچھ بولے ہاں یا پھر ناں میں جواب دے دینا۔ وہ نارمل سے انداز میں کہتے اسکے ہاتھوں تھامتے پیار سے چھوتے ہوئے بولا۔۔

اور اگر وہ تمہارے ڈمپل پہ کس کرنے لگے تو اسے کہنا کہ وریام کے علاؤہ اور کوئی بھی تمہارے ان ڈمپل کو چھو نہیں سکتا اوکے۔۔

تو ابھی مجھے وش کرو اچھے سے تاکہ میرا آج کا دن اچھا گزرے۔۔۔ وہ مسکراتے اسے دیکھتے بولا۔۔ 

اوکے اللہ خافظ! وہ فوراً سے اسے اپنے حساب سے وش کرتے بولی۔۔ یہ وشز ہوتی ہیں۔۔ وریام منہ بناتے اپنی بورنگ سی بیوی کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

تو اور کیسے وش کرتے ہیں۔۔ وہ سر پہ اوڑھا اپنا بلیو نیٹ کا خوبصورت سا دوپٹہ ہاتھ سے ٹھیک کرتے  ہوئے بولی۔۔۔

ایسے کرتے ہیں وش۔۔۔۔ وہ کہتا ایک ہاتھ اسکی کمر میں لے جاتے اسے اپنے نزدیک کرتے آہستگی سے اسکے رخساروں کو چھوتے اسکی تھوڑی پر سے ہوتے ہونٹ اسکی ناک پہ رکھ گیا۔۔۔

وریام پیچھے ہٹو ۔۔ کتنی بار کہوں میری ناک کو ناں چھوا کرو۔۔ وہ غصے سے مچلتے اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے چیختے بولی کتنی شرم آ رہی تھے اسے کھلے عام سڑک پہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔ آگے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔

تمہاری ناک ، تمہارے ڈمپل ، تمہاری یہ چھوٹی سی تھوڑی اور یہ ہونٹ اگر میں انکو نہیں چھووں گا تو سکون کیسے حاصل کروں گا ۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکی ناک کو دوبارہ سے چھوتے پیار سے بولا۔۔

کہ وہ ایک دم سے اسے سینے پہ ہاتھ رکھتے پیچھے کرتی اندر کی جانب بھاگی۔۔کہ پیچھے وہ قہقہ لگاتے بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتے گاڑی میں بیٹھتے اسے سٹارٹ کر گیا۔۔

ہممم بول۔۔رافع کی کال کو دیکھتے وہ فون کان سے لگاتے بولا۔۔

بے شرم ، کمینے انسان، گدھے تجھے زرا عقل نہیں جو یوں سڑک کے بیچوں بیچ شروع ہو گیا ۔۔

فون اٹھانے کی دیر تھی آگے سے وہ ایک دم سے اس پہ پھٹ ہڑا۔۔ کتنا غصہ آیا تھا اسے جب وہ آپنا موبائل لیتے باہر آیا تھا تو سامنے ہی اس کمینے ٹھرکی کو یوں اپنی بیوی سے چپکے دیکھ۔۔

میری بیوی ، میری مرضی اور توں بتا تجھے یہ مرچیں کیوں لگی ہوئی ہیں۔۔ وریام ایک دم سے اسکے اتنے سارے القابات کو سنتے تپتے ہوئے بولا۔۔

 توں سچ سچ بول کہ تجھے برا لگ رہا ہے ناں کہ توں نے جانے کتنے رومینٹک مومنٹ سپوئل کر دیے ۔۔ چچ چچ

۔ وریام اسے چھیڑتے کہتا آخر میں قہقہہ لگا گیا۔ کہ رافع اسے گالیوں سے نوازتے فون آف کرتے ساتھ والی سیٹ پر پٹھک گیا۔۔

 اس سے بات کرنا ہی بیکار ہے  آج وہ سمجھ چکا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بیگم اٹھایا نہیں آج آپ نے ۔۔۔ رضا جو کہ ابھی  تھوڑی دیر پہلے کھڑکی سے جھانکتے ہلکی سی روشنی پہ آنکھ کھلتے ہی فریش ہوتے باہر آئے تھے کہ سامنے شمائلہ کو بھی جاگتے دیکھ بولے۔۔

پتہ نہیں رضا آج آنکھ نہیں کھلی ، وہ جمائی روکتے بولی اور واشروم کی جانب بڑھی۔۔

رضا  گھڑی  پر ٹائم دیکھتےمرر کے سامنے ہوتے اپنے بال بنانے لگے۔۔

میں ناشتہ لگاتی ہوں آپ ائیں۔۔ شمائلہ ایک نظر انہیں دیکھتے روم سے نکلی۔۔ کہ ابھی تو وریام سویا ہو گا اور شاید نیناں بھی ۔۔۔

وہ سوچتے کچن میں داخل ہوئیں۔۔  

وہ فریج میں سے دودھ نکالنے کو بڑھیں کہ سامنے لگے نوٹ ہر انکی توجہ بٹی۔۔ 

یہ کیا ہے وہ سوچتے فریج کو دوبارہ سے بند کرتے نوٹ کو دیکھنے لگی کہ رضا نے آتے ان کے ہاتھ سے لیا۔۔۔

میرے ہوتے میری بیگم کیوں اپنی نظر پہ زور ڈالیں ، میں دیکھتا ہوں۔ وہ مسکراتے انہیں دیکھتے بولے اور نوٹ کھولتے  ایک چئیر پر بیٹھتے کوٹ ایک جانب رکھا۔۔۔

" ہائے ڈیڈ میں آپ کا پیارا سا اکلوتا چراغ۔۔۔ 

پہچان تو گئے ہی ہوں گے آپ۔۔ مجھے کونسا کسی تعارف کی ضرورت ہے۔۔ 

خیر مدعے کی بات پر آتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنا روم والا لاکر چیک کریں وہاں ایک سرپرائز ہے آپ کے لیے۔۔ 

پڑھتے ساتھ ہی وہ اٹھتے اندر اپنے روم کی جانب بڑھے مگر وہ حیران تھے کہ لاکر ان لاک تھا پہلے سے ہی۔۔ وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے اندر دیکھنے لگے مگر سب کچھ ویسے ہی موجود تھا صرف ایک فائل کا اضافہ ہوا تھا۔۔

وہ ہاتھ بڑھاتے اس نیلے رنگ کی فائل کو ہاتھ میں پکڑتے دیکھنے لگے۔۔ مگر فائل کو کھولتے وہ جوں جوں پڑھتے گئے انکا رنگ متغیر ہوا تھا۔۔۔

اس فائل میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اب انکا اپنے  کاروبار میں عمل دخل نہیں ہو گا بلکہ انکا سارا کاروبار انکی مرضی سے وہ اپنے بیٹے وریام کاظمی کو سونپ رہے ہیں۔۔

وہ طیش میں آتے فائل کو ٹیبل پہ پٹھک گئے۔۔۔

اور پھر سے اسکے چھوڑے  ہوئے نوٹ کو کھولا۔۔

مجھے معلوم ہے ڈیڈ آپ پریشان ہوں گے کہ کب آپ نے اپنا سب کچھ میرے نام کیا ۔۔ مگر شاید آپ بھول رہے ہیں کہ پاک سے جب میں میٹنگ اٹینڈ کرنے آیا تھا تب آپ نے اپنی رضا سے ایک فائل پہ سائن کیے تھے۔۔ 

چلیں باقی باتیں گھر آ کر کروں گا اور لو یو موم کو ۔۔۔۔بولیے گا  میری طرف سے ۔ اور نیناں کو میں فدک کے پاس چھوڑ آیا ہوں ، ڈونٹ وری رات کو میرے ساتھ آئے گی۔۔ جب تک آپ اپنے آنے والے پوتا پوتی کے خواب دیکھیں موم کے ساتھ ۔۔ بائے بائے۔۔ موم کا لاڈلا وریام🤩۔۔

۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

  وہ ہاتھ سے ٹائی کو ڈھیلا کرتے دائیں بازوؤں پہ اپنا کوٹ رکھتے اوپر کی جانب بڑھا۔۔

آہستگی سے دروازہ کھولتے وہ ایک نظر لیمپ کی مدہم سی روشنی میں اس پہ ڈالتے اندر داخل ہوتے روم لاک کر گیا۔

وہ بڑھتے بیڈ کے قریب کھڑا ہوا، جہاں پہ وہ بیڈ کراؤن کے ساتھ سر کے نیچے کشنز کی لائن لگاتے رکھتے سر ٹکاتے بیٹھنے کے انداز میں لیٹی تھی۔  مگر انداز سونے والا تھا، 

وریام چونکا کیونکہ وہ ناں تو دروازے کی آواز پہ جاگی تھی اور ناں ہی اپنے اوپر کسی کی پرحدت نظروں کی تپش کو محسوس کرتے ۔۔

وہ ویسے ہی کھڑا ہاتھ سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا اسکے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔

جہاں وہ دوپٹے سے عاری سفید ٹراؤزر اور مہرون کھلی ٹی  شرٹ میں لیٹی ہوئی تھی جبکہ بال کھلے اسکے چہرے پہ سایہ فگن تھے ۔۔ 

وریام مسکراتے آگے بڑھا تھا کہ اسے ناگوار گزرا ، ان بالوں کا اپنے راستے میں حلل ہونا۔۔

وہ آہستگی سے بنا آہٹ کیے زرا  سا جھکتے اسکے چہرے

پہ آتے بالوں کو اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے پیچھے کر گیا۔ کہ نیناں نے سوتے ہوئے گہرا سانس بھرا جسے دیکھ وہ گہرا مسکرایا۔۔۔

اور ایسے ہی پیچھے ہوتے وہ وارڈروب کھولتے اپنا نائٹ ٹراؤزر نکالتے شاور لینے چلا گیا۔

تقریباً دس منٹ کے بعد وہ فریش سا بالوں میں انگلیاں پھیرتے باہر آیا مگر اسے جگانا مناسب ناں لگا تو صوفے پہ بیٹھتے اسے دیکھنے کا شغل فرمانے لگا۔

مسلسل کچھ دیر اسے دیکھتے وہ اٹھتا ایک نظر گھڑی پہ ڈالتا آگے کو بڑھا۔

 نین۔۔ اٹھو یار ، کچھ کھا لو۔۔ آرام سے اسکے پاس بیڈ پہ ایک جانب بیٹھتے وہ ہاتھ اسکے سر کے نیچے لے جاتے اسکے چہرے کو تھپکتے پیار سے بولا۔۔

کہ وہ جو آرام سے نیند کی وادیوں میں گم تھی ، ہڑبڑاتے اٹھی۔ مگر اپنا سر اسکی گود میں دیکھتے وہ خواب سمجھتے دوبارہ سے ویسے ہی لیٹ گئی کہ وریام آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورتے اسکا سر پکڑتے سامنے کر گیا۔

اٹھو جان۔میں نے کچھ نہیں کھایا صبح سے ، اب بھوک لگی ہے، اور اوپر سے تم یوں نخرے دکھا رہی ہو۔۔ وہ جتاتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہاتھ سے اسکے بالوں کو سنوارتے بولا۔

نین۔۔۔۔  اسکے ری ایکشن ناں لینے پہ وہ پھر سے اسکے ریشمی بالوں میں ہاتھ گھماتے بولا ،

وریام مجھے نیند آئی ہے تم کھا لو پلیز۔۔ وہ ایسے ہی سوئے اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولی کہ وریام نے آنکھیں گھماتے اسے دیکھا۔۔

اب تو کھانا ہی پڑے گا۔۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑاڑتے کہتا ٹیبل پر سے  پانی کا جگ اٹھاتے مسکراتے کمفرٹر کو جھٹکے سے کھینچتے  نیچے پھینک گیا۔۔ ۔اور ایک ہی جست میں پانی کا بھرا جگ پاؤں سے بہاتے اسکے سر تک اسے گیلا کر دیا کہ وہ ہڑبڑاتے ہوئے اٹھی۔۔

پہ پانی پانی۔۔۔۔۔ وہ چیختے ایک دم سے بیڈ پر سے اٹھی ،  مگر اگلے ہی لمحے وہ آنکھیں کھولے حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی ۔ جو کہ اسے کمر سے پکڑتے کھینچتے دوسرا ہاتھ مضبوطی سے اسکے منہ پر جما گیا۔۔

اشششش۔۔ کیا ہوا ، کتنی بار کہوں کہ چلایا ناں کرو، میرے علاؤہ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ تمہارے اتنا نزدیک آ سکے سو ریلکس ہممم۔ 

وہ مسکراتے  ہاتھ اسکے منہ سے ہٹاتے ہوئے پیار سے ماتھا اسکی پیشانی سے ٹکاتے بولا ۔۔

کہ نیناں نے بمشکل اس اچانک افتاد پہ اپنے لزرتے وجود کے ساتھ خود کو سنبھالتے سر اسکے سینے سے ٹکایا۔۔

کھانا کھائیں جان۔۔ پیار سے اسکے بالوں کو سہلاتے وہ ہونٹ اسکے سر پہ رکھتے ہوئے بولا۔۔

صبح کھاؤں گی۔۔ وہ نیند میں جاتے بڑبڑائی کہ وریام ٹھنڈی سانس اندر کھینچتے سر کو نفی میں ہلا گیا۔۔

وریاممم ۔۔ مجھے نہیں کھانا پپ پلیز مم مجھے نیچے اتارو۔۔۔ وہ جھٹکے سے خود کو اسکے بازوؤں  میں محسوس کرتے فوراً سے بولی۔۔

 مجھے تو کھانا ہے ناں ۔۔ اب جب تک تم کمپنی نہیں دو گی تو میں کیسے کھا پاؤں گا۔۔

وہ مسکراتے اسکی چھوٹی سی ناک کو پیار سے چھوتے ہوئے بولا کہ نیناں سٹپٹا گئی اسکے ردعمل پہ۔۔

مگر وریام  مجھے چینج کرنے دو ، میرے سارے کپڑے بھیگ چکے ہیں۔۔ وہ ٹانگیں چلاتے فورا سے اپنے گیلے کپڑوں کا سوچتے شرم سے لال ہوتے بولی۔۔۔۔ 

سو واٹ ۔۔ میری جان ڈونٹ وری کونسا میرے علاؤہ کسی نے دیکھنا ہے تمہیں اور مجھے کوئی پرابلم نہیں ، تمہیں ایسے ہی دیکھنے میں۔۔ وہ سیڑھیاں اترتے مسکراہٹ دباتے بولا۔۔

کک کیا مطلب تمہارا ۔۔۔ اتارو مجھے نیچے۔۔ مجھے نہیں کھانا کھانا۔۔۔ وہ سنتی ایک دم سے چیختے ہوئے بولی۔۔

پکا ناں کھانا نہیں کھانا۔۔ وہ قدم سیڑھیوں پہ روکتا ۔۔ ایک دم سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔

ہاں پکا نہیں کھانا۔۔۔ نیناں نے سنتے زور شور سے سر کو ہاں میں ہلایا ۔۔

وریام اتارو مجھے میں خود چلی جاتی ہوں۔۔ اسے دوبارہ سے مڑتے اوپر کی طرف جاتا دیکھ وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولی۔۔

چپ آواز مت آئے اب ۔۔۔ وہ سختی سے اسے جھڑکتے ہوئے بولا کہ نیناں نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔ اور رونے کا شغل فرمانا شروع کر دیا۔۔

جبکہ وہ بنا پرواہ کیے اسے ایسے ہی بازوؤں میں بھرے اوپر دوبارہ سے روم میں آیا۔۔

کہ وہ جھکٹے سے اپنا آپ چھڑواتی سیدھا ہوتے باتھروم کی جانب بڑھی ، مگر اگلے ہی لمحے وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے اپنے سینے میں بھینجتے اسکی کوشش ناکام بنا گیا۔۔

چھوڑو مجھے وریام ۔۔ وہ روتے غصے سے اسکی پشت پہ ناخون کھبوتے ہوئے بولی کہ وریام نے ٹھنڈا سانس خارج کرتے تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائی۔۔۔

اششش۔۔۔ ریلکس۔۔۔ ہاتھ سے اسکی پیٹھ کو سہلاتے وہ اسکے رونے سے لزرتے وجود کو پرسکون کرتے بولا۔۔۔

۔کیا ہوا میری نین روئی کیوں ۔۔ اتنی سٹرونگ ہو تم تو۔۔ 

وہ ہاتھ اسکی تھوڑی کے نیچے رکھتے اسکے بھیگے چہرے کو دیکھتے بولا  ۔

کہ نیناں نے ڈھیروں شکایتیں سموئے اسے دیکھا۔۔ ۔۔

وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر اسے ڈانٹنا ہی تھا دوسروں کی طرح ، تو پھر اتنا لاڈ کیوں اٹھایا۔۔ 

وہ تو بھول بھی چکی تھی کہ ڈانٹ کسے کہتے ہیں اب اس کی عادتیں چھڑواتے وہ دوبارہ سے اسے ڈانٹتے کیا ثابت کرنا چاہ رہا تھا۔۔

بولو میں سن رہا ہوں۔۔ اچانک سے دونوں ہاتھ اسکی کمر میں لے جاتے وہ جھٹکے سے فاصلہ حتم کرتے بولا۔کہ وریام کی نرم گرم سانسیں نیناں کو اپنے چہرے پہ محسوس ہوئی۔۔ ۔۔مگر کچھ کہنے کی ہمت کہاں تھی اب۔۔

جانتی ہو آج دن سے بھوکا ہوں کچھ بھی نہیں کھایا۔۔ وہ انگلی میں اسکے بالوں کو لپیٹتے  بہکتے انداز میں بولا۔ کہ نیناں نے فوراً سے سر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔ 

جو آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ کہ نیناں نے لرزتے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کی مگر ناکام۔۔۔

اور اب میری بیوی کو زرا سا بھی احساس نہیں میرا ۔۔۔ وہ چہرہ اسکی گردن چھپاتے مدہوش سا بولا۔

وریام ہہہ ہم کھانا کھاتے ہیں ۔۔مم مجھے بھی بھوک لگی ہے۔۔

۔

وہ اپنے خشک ہوتے ہونٹو

  وہ ہاتھ سے ٹائی کو ڈھیلا کرتے دائیں بازوؤں پہ اپنا کوٹ رکھتے اوپر کی جانب بڑھا۔۔

آہستگی سے دروازہ کھولتے وہ ایک نظر لیمپ کی مدہم سی روشنی میں اس پہ ڈالتے اندر داخل ہوتے روم لاک کر گیا۔

وہ بڑھتے بیڈ کے قریب کھڑا ہوا، جہاں پہ وہ بیڈ کراؤن کے ساتھ سر کے نیچے کشنز کی لائن لگاتے رکھتے سر ٹکاتے بیٹھنے کے انداز میں لیٹی تھی۔  مگر انداز سونے والا تھا، 

وریام چونکا کیونکہ وہ ناں تو دروازے کی آواز پہ جاگی تھی اور ناں ہی اپنے اوپر کسی کی پرحدت نظروں کی تپش کو محسوس کرتے ۔۔

وہ ویسے ہی کھڑا ہاتھ سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا اسکے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔

جہاں وہ دوپٹے سے عاری سفید ٹراؤزر اور مہرون کھلی ٹی  شرٹ میں لیٹی ہوئی تھی جبکہ بال کھلے اسکے چہرے پہ سایہ فگن تھے ۔۔ 

وریام مسکراتے آگے بڑھا تھا کہ اسے ناگوار گزرا ، ان بالوں کا اپنے راستے میں حلل ہونا۔۔

وہ آہستگی سے بنا آہٹ کیے زرا  سا جھکتے اسکے چہرے

پہ آتے بالوں کو اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے پیچھے کر گیا۔ کہ نیناں نے سوتے ہوئے گہرا سانس بھرا جسے دیکھ وہ گہرا مسکرایا۔۔۔

اور ایسے ہی پیچھے ہوتے وہ وارڈروب کھولتے اپنا نائٹ ٹراؤزر نکالتے شاور لینے چلا گیا۔

تقریباً دس منٹ کے بعد وہ فریش سا بالوں میں انگلیاں پھیرتے باہر آیا مگر اسے جگانا مناسب ناں لگا تو صوفے پہ بیٹھتے اسے دیکھنے کا شغل فرمانے لگا۔

مسلسل کچھ دیر اسے دیکھتے وہ اٹھتا ایک نظر گھڑی پہ ڈالتا آگے کو بڑھا۔

 نین۔۔ اٹھو یار ، کچھ کھا لو۔۔ آرام سے اسکے پاس بیڈ پہ ایک جانب بیٹھتے وہ ہاتھ اسکے سر کے نیچے لے جاتے اسکے چہرے کو تھپکتے پیار سے بولا۔۔

کہ وہ جو آرام سے نیند کی وادیوں میں گم تھی ، ہڑبڑاتے اٹھی۔ مگر اپنا سر اسکی گود میں دیکھتے وہ خواب سمجھتے دوبارہ سے ویسے ہی لیٹ گئی کہ وریام آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورتے اسکا سر پکڑتے سامنے کر گیا۔

اٹھو جان۔میں نے کچھ نہیں کھایا صبح سے ، اب بھوک لگی ہے، اور اوپر سے تم یوں نخرے دکھا رہی ہو۔۔ وہ جتاتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہاتھ سے اسکے بالوں کو سنوارتے بولا۔

نین۔۔۔۔  اسکے ری ایکشن ناں لینے پہ وہ پھر سے اسکے ریشمی بالوں میں ہاتھ گھماتے بولا ،

وریام مجھے نیند آئی ہے تم کھا لو پلیز۔۔ وہ ایسے ہی سوئے اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولی کہ وریام نے آنکھیں گھماتے اسے دیکھا۔۔

اب تو کھانا ہی پڑے گا۔۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑاڑتے کہتا ٹیبل پر سے  پانی کا جگ اٹھاتے مسکراتے کمفرٹر کو جھٹکے سے کھینچتے  نیچے پھینک گیا۔۔ ۔اور ایک ہی جست میں پانی کا بھرا جگ پاؤں سے بہاتے اسکے سر تک اسے گیلا کر دیا کہ وہ ہڑبڑاتے ہوئے اٹھی۔۔

پہ پانی پانی۔۔۔۔۔ وہ چیختے ایک دم سے بیڈ پر سے اٹھی ،  مگر اگلے ہی لمحے وہ آنکھیں کھولے حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی ۔ جو کہ اسے کمر سے پکڑتے کھینچتے دوسرا ہاتھ مضبوطی سے اسکے منہ پر جما گیا۔۔

اشششش۔۔ کیا ہوا ، کتنی بار کہوں کہ چلایا ناں کرو، میرے علاؤہ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ تمہارے اتنا نزدیک آ سکے سو ریلکس ہممم۔ 

وہ مسکراتے  ہاتھ اسکے منہ سے ہٹاتے ہوئے پیار سے ماتھا اسکی پیشانی سے ٹکاتے بولا ۔۔

کہ نیناں نے بمشکل اس اچانک افتاد پہ اپنے لزرتے وجود کے ساتھ خود کو سنبھالتے سر اسکے سینے سے ٹکایا۔۔

کھانا کھائیں جان۔۔ پیار سے اسکے بالوں کو سہلاتے وہ ہونٹ اسکے سر پہ رکھتے ہوئے بولا۔۔

صبح کھاؤں گی۔۔ وہ نیند میں جاتے بڑبڑائی کہ وریام ٹھنڈی سانس اندر کھینچتے سر کو نفی میں ہلا گیا۔۔

وریاممم ۔۔ مجھے نہیں کھانا پپ پلیز مم مجھے نیچے اتارو۔۔۔ وہ جھٹکے سے خود کو اسکے بازوؤں  میں محسوس کرتے فوراً سے بولی۔۔

 مجھے تو کھانا ہے ناں ۔۔ اب جب تک تم کمپنی نہیں دو گی تو میں کیسے کھا پاؤں گا۔۔

وہ مسکراتے اسکی چھوٹی سی ناک کو پیار سے چھوتے ہوئے بولا کہ نیناں سٹپٹا گئی اسکے ردعمل پہ۔۔

مگر وریام  مجھے چینج کرنے دو ، میرے سارے کپڑے بھیگ چکے ہیں۔۔ وہ ٹانگیں چلاتے فورا سے اپنے گیلے کپڑوں کا سوچتے شرم سے لال ہوتے بولی۔۔۔۔ 

سو واٹ ۔۔ میری جان ڈونٹ وری کونسا میرے علاؤہ کسی نے دیکھنا ہے تمہیں اور مجھے کوئی پرابلم نہیں ، تمہیں ایسے ہی دیکھنے میں۔۔ وہ سیڑھیاں اترتے مسکراہٹ دباتے بولا۔۔

کک کیا مطلب تمہارا ۔۔۔ اتارو مجھے نیچے۔۔ مجھے نہیں کھانا کھانا۔۔۔ وہ سنتی ایک دم سے چیختے ہوئے بولی۔۔

پکا ناں کھانا نہیں کھانا۔۔ وہ قدم سیڑھیوں پہ روکتا ۔۔ ایک دم سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔

ہاں پکا نہیں کھانا۔۔۔ نیناں نے سنتے زور شور سے سر کو ہاں میں ہلایا ۔۔

وریام اتارو مجھے میں خود چلی جاتی ہوں۔۔ اسے دوبارہ سے مڑتے اوپر کی طرف جاتا دیکھ وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولی۔۔

چپ آواز مت آئے اب ۔۔۔ وہ سختی سے اسے جھڑکتے ہوئے بولا کہ نیناں نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔ اور رونے کا شغل فرمانا شروع کر دیا۔۔

جبکہ وہ بنا پرواہ کیے اسے ایسے ہی بازوؤں میں بھرے اوپر دوبارہ سے روم میں آیا۔۔

کہ وہ جھکٹے سے اپنا آپ چھڑواتی سیدھا ہوتے باتھروم کی جانب بڑھی ، مگر اگلے ہی لمحے وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے اپنے سینے میں بھینجتے اسکی کوشش ناکام بنا گیا۔۔

چھوڑو مجھے وریام ۔۔ وہ روتے غصے سے اسکی پشت پہ ناخون کھبوتے ہوئے بولی کہ وریام نے ٹھنڈا سانس خارج کرتے تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائی۔۔۔

اششش۔۔۔ ریلکس۔۔۔ ہاتھ سے اسکی پیٹھ کو سہلاتے وہ اسکے رونے سے لزرتے وجود کو پرسکون کرتے بولا۔۔۔

۔کیا ہوا میری نین روئی کیوں ۔۔ اتنی سٹرونگ ہو تم تو۔۔ 

وہ ہاتھ اسکی تھوڑی کے نیچے رکھتے اسکے بھیگے چہرے کو دیکھتے بولا  ۔

کہ نیناں نے ڈھیروں شکایتیں سموئے اسے دیکھا۔۔ ۔۔

وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر اسے ڈانٹنا ہی تھا دوسروں کی طرح ، تو پھر اتنا لاڈ کیوں اٹھایا۔۔ 

وہ تو بھول بھی چکی تھی کہ ڈانٹ کسے کہتے ہیں اب اس کی عادتیں چھڑواتے وہ دوبارہ سے اسے ڈانٹتے کیا ثابت کرنا چاہ رہا تھا۔۔

بولو میں سن رہا ہوں۔۔ اچانک سے دونوں ہاتھ اسکی کمر میں لے جاتے وہ جھٹکے سے فاصلہ حتم کرتے بولا۔کہ وریام کی نرم گرم سانسیں نیناں کو اپنے چہرے پہ محسوس ہوئی۔۔ ۔۔مگر کچھ کہنے کی ہمت کہاں تھی اب۔۔

جانتی ہو آج دن سے بھوکا ہوں کچھ بھی نہیں کھایا۔۔ وہ انگلی میں اسکے بالوں کو لپیٹتے  بہکتے انداز میں بولا۔ کہ نیناں نے فوراً سے سر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔ 

جو آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ کہ نیناں نے لرزتے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کی مگر ناکام۔۔۔

اور اب میری بیوی کو زرا سا بھی احساس نہیں میرا ۔۔۔ وہ چہرہ اسکی گردن چھپاتے مدہوش سا بولا۔

وریام ہہہ ہم کھانا کھاتے ہیں ۔۔مم مجھے بھی بھوک لگی ہے۔۔

۔

وہ اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہاتھ اسکے کندھوں پہ رکھتے صلح جو انداز میں بولی۔۔ کہاں اس کی قربت جھیل سکتی تھی وہ ۔۔ 

ابھی میرا کوئی ارادہ نہیں کھانے کا۔۔ صبح کھائیں گے ۔۔ وہ جابجا اسکے کندھوں اور گردن پہ اپنا لمس چھوڑتے سرگوشی کرتے بولا۔۔ کہ نیناں کے لیے اپنے قدموں پہ کھڑا رہنا محال تھا۔۔

وہ گرتی اس سے پہلے ہی وہ جھٹکے سے اسے اٹھاتے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔ کہ اسکے ارادے بھانپتے وہ دڑتے نفی میں سر ہلا گئی۔۔

وریام نن نہیں پہ پلیز۔۔۔ وہ ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتے اسے خود سے دور کرنے کی ناکام سی کوشش کرتے بولی کہ وریام اسکے ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں تھامتے ایک جانب کر گیا، جبکہ دوسرا ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے وہ چہرہ اونچا کیے اسکے لرزتے نرم و گداز ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے گیا ۔۔

کہ نیناں نے پھڑپھڑاتے خود کو اس کی شدت بھری گرفت سے آزاد کروانا چاہا، مگر شاید آج وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا اسے چھوڑنے کا  ،

جانتی ہو آج تک خود پہ یہ ضبط کے پہاڑ  کیوں بٹھائے میں نے۔۔۔ وہ پیچھے ہوتا اسکے سرخ لہو چھلکاتے چہرے کو دیکھتے اسکے بھیگے ہونٹوں پہ انگھوٹا پھیرتے بولا ۔۔ 

کہ نیناں نے آنکھیں اور بھی سختی سے میچیں۔۔۔ 

کیونکہ وریام مرتضٰی کاظمی ، کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ آسکے کردار پہ انگلی اٹھائے ، مگر یہاں بات میرے جنون کی ہے وہ جنون جس سے مجھے عشق ہے۔۔  

تو پھر کیسے یہ دل بے ایمان ناں ہو۔۔۔ وہ ہاتھ اسکے چہرے کے نقوش ہی پھیرتے گھمبیر آواز میں سرگوشیاں کرتے ہاتھ بڑھاتے مدہم سی جلتی لائٹ کو بھی بجھا گیا۔ کہ

نیناں نے ایک دم سے اپنے بے قابو ہوتے دل کے ساتھ آگے پیچھے دیکھا مگر  وریام کو ناں پاتے وہ گہرا سانس خارج کرتے کروٹ بدلنے لگی  کہ وہ کھینچتے اسے گرفت میں لے گیا۔۔

کہ ایک ہلکی سی چیخ نیناں کے منہ میں دم توڑ گئی۔۔۔

  پھر کب ارادہ ہے معافی مانگنے کا۔۔۔ وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے اچانک اپنے سینے پہ گراتے ہوئے بولا کہ نیناں نے ہلکی سی کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں اسکے دمکتے چہرے کو دیکھا۔۔

۔ورر وریام کک کھانا نہیں کھانا۔۔ مم مجھے بھوک لگی ہے۔۔ وہ کچھ ناں سوجھنے پہ فوراً سے بہانا بناتے ہوئے بولی کہ وہ مسکرایا اسکو بات بدلتا دیکھ۔۔۔

اتنا ظرف یہ بندہ بھی نہیں رکھتا کہ حق ہوتے ہوئے بھی اس سے محروم رہے۔۔۔ سو میری جان کل کا دن ہماری زندگی کی نئی شروعات کا ہو گا ۔۔ میں تمہارے پور پور پہ اپنا لمس چھوڑتے تمہیں اپنے جنون سے واقف کروانا چاہتا ہوں۔

 اور آئی سویر اگر میں کہہ رہا ہوں تو مجھے واقعی میں ایسا کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔۔ 

ایک دم سے کروٹ بدلتے وہ اس پہ حاوی ہوتے اپنے ارادے اس پہ واضح کرتے بولا کہ نیناں نے ڈرتے آنکھیں مضبوطی سے بند کیں۔۔

وہ پریشان تھی کہ آخر اچانک وریام کو کیا ہؤا وہ تو آرام سے بنا اسے فورس کیے اسکے ساتھ رہ رہا تھا۔۔

مگر وہ کہاں جانتی تھی کہ بظاہر خاموش اور ریلکس رہنے والا وریام اپنے دل میں پل پل بڑھتے اسکے جنون ، عشق کو پال رہا تھا کہ اب  اس کے بس سے باہر تھا خود کو اس سے دور رکھ پانا۔۔

وہ چاہے جو بھی کر لیتا۔ ، اسکی طلب اسکی رگوں میں گردش کرتے خون کی مانند بڑھ رہی تھی کہ وہ اسے خود میں سمیٹتے اپنی روح تک میں اتارنا چاہتا تھا۔۔۔

وریام نن نہیں۔۔ وہ دوبارہ سے اسے خود پہ حاوی ہوتا دیکھ ہڑبڑاتے اسکے سینے ہی ہاتھ رکھتے پورا زور لگاتے بولی۔۔

محسوس کر لینے دو خود کو ، کچھ نہیں کر رہا میں۔۔ یوں بار بار روکتے ڈسٹرب ناں کرو۔۔ 

وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے  اپنی من مانیوں پہ اترا کہ نیناں نے ناخون۔ اسکی پشت پہ گاڑھے۔۔۔۔

آج تو چھوڑ رہا ہوں مگر کل ۔۔ کل بھول جانا کہ مسزز وریام کو بچانے کوئی آئے گا۔۔ کل تمہیں ہر حال میں میرا ہونا ہو گآ جان وریام۔۔۔ 

وہ جتاتے انداز میں کہتا اسکی پیشانی چومتے ایک جانب ہوتے اسے اپنے  حصار میں لیتے آنکھیں موند گیا۔۔۔

وریام کھانا کھا لیں پلیز۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس کی باتوں کو پس پشت ڈالتے اسکے حصار کو بامشکل توڑتے باہر گئی۔۔ 

اب نیند کہاں آنی تھی اسکی باتوں کو ایک طرف کرتے وہ کچن میں جاتے کھانا نکالتے اون میں گرم کرتی روم میں آئی ۔۔ اور ٹیبل پر رکھتے اسے اٹھانا چاہا۔۔۔۔

نین مجھے نہیں کھانا پلیز رہنے دو سو جاؤ۔۔ وہ کروٹ بدلتے اسکا ہاتھ کھینچتے اسے بھی سونے کی دعوت دے گیا ۔

وریام مجھے بھوک لگی ہے اور اب نیند بھی نہیں آ رہی ۔ کچھ سوچتے وہ فوراً سے بولی کہ جانتی تھی کہ اسے کیسے جگانا ہے۔۔

نین تو پہلے ہی کھا لیتی کس نے کہا تھامیرے لیے بھوکا رہنے کو۔۔ وہ اٹھتا ایک دم سے اسے اپنے پاس بیٹھا دیکھ ۔مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔

میں نے تو ویسے ہی نہیں تھا کھایا۔۔ نیناں سٹپٹاتے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے بولی۔۔ اچھا اب کھلا دو اپنے ہاتھوں سے۔۔۔

وہ مسکراتے منہ کھولتے ہوئے بولا۔۔ کہ نیناں نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے نوالہ بناتے اسے کھلایا۔۔

 اب تم کھاؤ وہ اسکا ہاتھ پکڑتے دوبارہ سے نوالہ اسکے منہ میں ڈالتے بولا۔۔

کہاں۔۔۔؟  

 وہ کھانے کے بعد برتن سمیٹتے باہر جانے لگی کہ وریام ہاتھ پکڑتے اس سے سوال کرتے ائبرو اچکاتے پوچھنے لگا۔۔

برتن رکھنے ۔۔ وہ اشارہ اپنے ہاتھ میں برتنوں کی جانب کرتے بولی۔۔

نو ابھی رکھو انہیں صبح کر لینا جو بھی کرنا ہے ابھی ریسٹ کرو۔۔۔ کل کا دن بہت تھکا دینے والا ہو گا تمہارے لیے۔۔۔

وہ برتن اسکے ہاتھ سے پکڑتے ٹیبل پہ رکھتا اسکا ہاتھ پکڑتے کھینچتے خود پہ گرا گیا ۔۔کہ نیناں نے سنتے آنکھیں گھمائیں۔۔

اب سو جاؤ ورنہ۔۔۔ وہ اسے آنکھیں گھماتا دیکھ مخنی خیزی سے بولا کہ فوراً سے سر اسکے بازوؤں پہ رکھتی آنکھیں موند گئی۔۔

جبکہ وریام مسکراتے اسکے سر پہ بوسہ دیتا اسے خود میں بھینج گیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کمرے میں جھانکتی ہلکی سی روشنی پہ وہ بازوؤں پھلاتے انگڑائی لیتے اٹھی ۔۔ 

کہ نظر اپنے دائیں جانب پڑی مگر وہاں اسے ناں پاتے وہ اٹھتی واشروم میں گئی مگر وہاں بھی وہ نہیں تھا وہ پریشان سی سوچتے دبے پاؤں روم سے باہر آئی۔۔ 

مگر باہر بھی سناٹا دیکھتے وہ دوبارہ سے بجھے دل کے ساتھ روم میں گئی۔۔

اتنی صبح صبح آخر وہ کہاں جا سکتا تھا وہ سوچتے نا سمجھی سے سر کھجانے لگی کہ ایک جانب سے بجتے موبائل کی رنگ پہ وہ مڑتی ٹیبل پہ پڑے موبائل کو دیکھنے لگی۔۔

مگر وریام کا فون تو ایسا نہیں تھا وہ سوچتے اس خوبصورت موبائل کو ہاتھ میں پکڑتے دیکھنے لگی کہ موبائل پہ دوبارہ سے رنگ ہوئی اور سامنے موجود نمبر دیکھتے اسکا دل زوروں سے دھڑکا تھا ، جہاں سامنے ہی جان نین کے ساتھ نمبر سیو کیا گیا تھا۔۔

دوبارہ سے بجتے فون پہ وہ ہڑبڑاتے  ہوئے کال پک کر گئی۔۔

کیسی ہے جان وریام۔۔ آگے سے ہمیشہ  کی  طرح مسرور میٹھی سی آواز سنائی دی تھی۔ 

وہ پہلی بار اس سے کال پہ یوں بات کر رہی تھی مگر اسے اندازہ ہوا تھا کہ اسکی آواز جتنی حقیقت میں خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ موبائل پہ سننے والے کو مبہوت کرنے والی تھی۔۔

ٹٹ ٹھیک ہوں۔۔ وہ بمشکل اپنے لزرتے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے  ہوئے بولی۔۔

آدھا گھنٹا ہے تمہارے پاس جلدی سے ریڈی ہو جاؤ میں گاڑی بھیج رہا ہوں میری سیکرٹری تمہیں پک کر لے گی۔۔۔ اور ہاں موبائل تمہارا ہے آپنے پاس رکھنا اور خبردار اس سے میرے علاؤہ کسی سے بھی کونٹیکٹ مت کرنا ۔۔ وہ بتاتے آخر میں تنبیہہ کر گیا۔

کہ نیناں نے منہ بسوارا اور سوچنے والی بات تھی کہ آخر وہ کہاں جانے والی تھی۔۔

وہ کچھ نا سوجھنے پہ باتھروم میں جاتے برش کرتی شاور لیتے ایک ہلکا پھلکا سا پنک کلر کا سوٹ پہنتے باہر آئی۔۔ 

۔اود مرر کے آگے کھڑے ہوتے اپنا جائزہ لیا۔۔

بڑی بڑی گہری کالی آنکھیں ، جن میں بغیر کاجل لگائے بھی انکی خوبصورتی ویسے ہی  تھی، چھوٹی سی کھڑی تیکھی ناک ، بھرے بھرے سرخ ہونٹ۔۔ سرخ  سفید رنگت وہ مسکرائی  تو نظر اپنے گال میں ہڑتۓ ڈمپل پہ پڑی۔۔ 

اچانک سے وریام کا خیال آتے وہ شرماتے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔

یہ شاید پہلی بار تھا کہ وہ خود کو یوں  دیکھ رہی تھی ۔۔ مگر وریام کا خیال آتے ہی دل مانؤ پسلیاں توڑتے باہر آنے کو تھا۔۔

وہ  بال برش کرتے جوڑا بناتے دوپٹہ شانوں پہ پھیلائے روم سے باہر آئی۔۔

وہ سیڑھیاں اترتے کچن میں داخل ہوئی جہاں آج خلاف توقع شمائلہ پہلے سے ہی جاگتے جانے کیا کچھ بنا رہی تھیں۔۔

وہ پریشان سی چلتی انکے پاس ہوئی۔۔

السلام علیکم پھپھو۔۔ وہ سلام کرتے انکے گلے ملی۔۔

وعلیکم السلام۔۔ اٹھ گئی میری بچی۔۔ شمائلہ مسکراتے اسکے سر پہ بوسہ دیتے بولیں کہ وہ بھی مسکراتے جی کہتے ایک جانب ہوئی۔۔

پھپھو یہ آپ کیا بنا رہی ہیں۔۔ وہ کچن میں اتنا زیادہ بکھیرا دیکھتے اور چولہے پہ چاولوں کو بوائل ہوتا دیکھ پوچھنے لگی ۔

بیٹا آج کچھ ممہمان آ رہے ہیں یا یوں کہوں کہ تمہارے انکل کے کچھ خاص دوست تو بس اس کی ہی تیاری کر رہی ہوں ڈنر وہ یہاں پہ ہی کریں گے۔۔

شمائلہ مسکراتے اسے بتاتی سالن کی طرف ہوئیں  مگر پھپھو ابھی تو ڈنر میں کتنا ٹائم ہے تو پھر ابھی سے کیوں۔۔

وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھتے پوچھتی خود بھی انکی مدد کروانے لگی۔۔

وہ اس لیے میرا بچہ کہ آج انکا اسپیشل دن ہوتا ہے تو پہلے سب لنچ کرتے  ہیں اور یہ اسی کی تیاری ہے۔۔ وہ بتاتے فریج کی جانب بڑھی۔۔

تو اسکا مطلب وریام نے کسی کو کچھ نہیں بتایا  چلو اچھا ہے اب مجھے بھی مصروف رہنے کو کام مل گیا۔ وہ سوچتے لب دانتوں تلے دبا گئی۔۔

آنٹی آپ مجھے بتائیں کیا کیا بنانا ہے اور آپ آج یہاں بیٹھیں ، میرے ہوتے میری پھپھو کیوں کریں گی کام ۔۔ وہ شمائلہ کو بازوؤں سے پکڑتے پاس پڑی ایک چئیر پہ بٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔

ارے بیٹا نہیں چھوڑو تم کیوں کرو گی میں کر لوں گی۔۔ شمائلہ اسکا ہاتھ تھامتے بولیں۔۔

نہیں آج کہہ دیا ناں کہ میں خود کروں گی تو مطلب سارا کام میں کروں گی۔۔ وہ ہاتھ فضا میں بلند کرتے بولی کہ شمائلہ مسکراتے اسے دعائے دیتی تفصیل سے سارا سمجھانے لگی۔۔

 جبکہ وہ مسکراتی دوپٹہ کس کے کمر پہ باندھتے کاموں میں مصروف ہوئی ۔

مگر افسوس کے وہ بھول چکی تھی کہ وریام نے اسے بتایا نہیں بلکہ حکم دیا تھا اور وہ اسکے حکم کو بھولتے جانے کونسا طوفان لانے والی تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بیٹا اب تم جاؤ ، تھوڑی دیر ریسٹ کر کو ٹائم بھی دیکھو کافی ہو گیا ہے۔ اور کب سے تم اکیلی لگی ہو۔۔ شمائلہ جو کہ ابھی ایک بار سارے گھر کو صاف کرتے دوسرے ضروری لوازمات ارینج کرتے کچن میں آئیں تھیں ، آتے ہی نیناں کو اسرار کرتے بولیں۔۔ 

ویسے بھی ان کا کہا دل تھا اپنی نئی نویلی دلہن سے ایسے اتنا کام کروانے کا یہ تو وہ نیناں کی ضد پہ مجبور ہوئیں تھیں۔

پھپھو بس ہو گیا ہے۔۔ نیناں بریانی کو دم لگاتے دوپٹے سے پسینہ صاف کرتے بولی ، ابھی یہ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے میں کرتے ہی فریش ہو جاؤں گی ۔

وہ انہیں ٹالتے ہوئے بولی کیونکہ فون تو جان بوجھ کر روم میں رکھتے آئی تھی  کہ کہیں وریام کی کال ناں اٹینڈ کرنی پڑ جائے ، وہ جانتی تھی کہ ضرور ابھی تک تو ناراض بھی یو چکا ہو گا وہ۔۔ 

جاؤ میری جان ۔۔۔ اتنی سی بات ہی مان لو۔۔۔ شمائلہ پیار سے بولی کہ وہ بھی مجبوراً کچن سے نکلتے اوپر اپنے روم کی جانب بڑھی۔۔

 دوپٹہ اتارے ایک جانب رکھتے وہ چلتے ڈریسنگ کے پاس آئی اور موبائل اٹھاتے چیک کیا جہاں دس مسڈ کالز تھیں وریام کیں۔۔۔ وہ بھی ایک گھنٹہ پہلے کی، نا ممکن مطلب اب وہ ناراض تھا اس سے۔۔ 

وہ سوچتے ہونٹ دانتوں تلے دباتے گھڑی پہ ٹائم دیکھنے لگی جہاں ساڑھے بارہ بج رہے تھے دن کے۔۔

جو ہو گا دیکھا جائے گا ابھی پہلے شاور تو لوں۔۔ وہ بڑبڑاتے اپنا بلیک سوٹ نکالتی شاور لینے گئی کہ پھپھو نے خاص ہدایت کی تھی کہ ساتھ میں کچھ لیڈیز بھی ہوں گی تو اچھے سے تیار ہو جاؤ۔۔

وہ شاور لیتے بالوں کو تولیے سے رگڑتے باہر آتے تولیے ایک جانب ہینگ کرتے مرر کے سامنے آئی۔۔ اور ڈرائیر سے بالوں اچھی طرح سے خشک کرتے اچھے سے جوڑا بناتے  ، اپنے پہنے کپڑوں کو ایک نظر دیکھنے لگی۔۔

بلیک کلر کی گھٹنوں تک جاتی گھیرے دار قمیض  جس کے گلے اور نیچے دامن پہ گولڈن موتیوں کا خوبصورت سا کام دلکشی سے کرتے اسے نکھارا گیا تھا کے ساتھ بلیک ہی ٹراؤزر پہنے وہ سوچتے ایک آرام دہ نئی بلیک چپل نکالتے اپنے سرخ و سفید پاؤں میں پہنے اب اپنے کانوں کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر پھر جیولری تو تھی نہیں اس کے پاس سوچتے وہ ایسے ہی ایک نظر خود پہ ڈالتے وہ سونی آنکھوں میں کاجل لگاتے پاس ہی پڑے وریام کے پرفیومز کو ہاتھ سے چھوتے اس کی فیورٹ پرفیوم جو وہ لگاتا تھا اسے اٹھاتے خود پہ اسپرے کرتے دوپٹہ اوڑھتے روم سے نکلی۔۔۔ 

وہ نیچے آتی کہ سیڑھیوں پر ہی اسے آوازیں سنائی دیں۔۔ یقیناً وہ لوگ آ چکے تھے سوچتے وہ خود کو ریلکس کرتے نیچے کی جانب بڑھی ۔۔ اور کچن میں جاتے ہی ایک نظر ساری تیاری پہ ڈالتے وہ مطمئن ہوئی۔۔۔

نیناں آؤ میرا بچہ ۔۔ تمہیں ملواؤں میں سب سے۔  شمائلہ دوپٹہ سیدھا کرتے عجلت میں اسے بلاتے ساتھ لیے باہر نکلیں اور باہر ایک جانب سویمنگ پول کے پاس بنے ٹینٹ جہاں پہ سب براجمان تھے اسے لیے وہاں داخل ہوئیں ۔ 

 آؤ۔۔ اسکی ہچکچاہٹ محسوس کرتے وہ خود اسکا ہاتھ پکڑتے اسے لیے اندر داخل ہوئیں۔۔ جہاں پہ ٹیبل کی ایک جانب مرد حضرات موجود تھے جبکہ دوسری جانب خواتین ۔۔ 

السلام علیکم۔۔ وہ جھجھکتے بآواز بلند سب کو سلام کرتے گویا ہوئی ۔

کہ سب نے گردن موڑے شمائلہ کے ساتھ کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔

یہ کون ہے ماشاءاللہ۔۔۔ ایک عورت نے اردو میں شمائلہ کو مخاطب کرتے پوچھا تو نیناں نے چونکتے انکی جانب دیکھا۔۔

یہ میری بھتیجی اور آپ سب کے وری کی بیوی۔۔۔ وہ مسکراتے اسے ساتھ لگاتے ہوئے بتانے لگی کہ سب خواتین نے منہ پہ ہاتھ رکھا۔۔ کہ کیا واقعی کل کو جو انکے ساتھ فلرٹ کرتے کہتا تھا کہ بہت جلد آپ کی طلاق کرواتے میں آپ سے شادی کرنے والا ہوں ، آج اس نے خود ہی شادی کر لی۔۔

ہاہاہاہا۔۔ بڑا مسکے باز نکلا یہ وری تو لڑکیاں تو لڑکیاں آنٹیوں کے دلوں کے ساتھ بھی کھیل گیا یہ تو۔۔

پاس بیٹھے مردوں میں سے ایک   نے مسکراتے قہقہ بلند کرتے کہا تو سب نے دبی دبی ہنسی ہنسی ۔۔ کہ سامنے اپنی اپنی بیویاں موجود تھی تو کیسے ہمت کرتے کھل کر کچھہ کہنے کی۔۔

نیناں بیٹا ہم سب کی طرح یہ بھی پاکستان سے ہی آئے ہیں اور کسی ناں کسی مجبوری کے تحت یہاں کے ہی ہو کہ رہ گئے ہیں۔۔ 

اور اب ہم سب یہاں پہ سر منتھ کسی ایک کے گھر اکھٹے ہوتے ہیں ۔

اپنے ملک کو یاد کرتے ہیں اسکے کھانوں کا ذائقہ ایک ساتھ چکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔۔

رضا نے اس کی مشکل آسان کرتے پیار سے اسے سمجھایا کہ وہ بھی مسکراتے سمجھتے ہاں میں سر ہلا گئی۔۔ 

آؤ بیٹا جوائن کرو ہم سب کو، لگتا ہے آج وری کہیں مصروف ہے چلو وہ ناں سہی آپ ہی سہی ۔۔۔ 

حالد نے مسکراتے رضا کو دیکھتے کہا کہ وہ بھی سر ہلا گئے۔۔

ارے وہ رہا دیکھو آ گیا ہمارا ہیرو۔۔۔ 

اچانک سے پیچھے سے ٹپکتے وریام کو دیکھتے ایک آنٹی چہکتے ہوئے بولیں ۔۔

کہ اتنا سنتے ہی ایک پل میں نیناں کے ہونٹوں پہ بکھری مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔ ۔۔

وہ ڈرتے کن اکھیوں سے پیچھے دیکھنے لگی ۔۔ جہاں وہ ہمیشہ کی طرح بے نیاز شاہانہ چال چلتا ، وائٹ سلیو لیس شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے ، ماتھے پہ بے ترتیب بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ بھی اسکا دل دھڑکا گیا۔۔

وہ ایک نظر دیکھتے فورآ سے نظریں چرا گئی۔۔

ہائے ایوری ون۔۔۔ وہ آتے ساتھ ہی تاثرات نارمل کرتے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے بولا۔۔

یہ اچھا نہیں کیا تم نے وری ، ہم سب کو آس پہ بٹھا کر خود بھی شادی کر لی۔۔

ایک آنٹی نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ ہلکا سا مسکرایا مگر اس کی مسکراہٹ دیکھتے جانے کیوں نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔

انٹی شادی تو کر لی مگر لڑکی قابو میں ہی نہیں آتی ، ورنہ ابھی تک تو پاپا بھی بن چکا ہوتا ۔۔

انتہائی بے باکی سے کہا گیا جملہ تھا جہاں فضا میں قہقہے گونجے وہیں خود پہ سب کی مخنی خیز نظریں محسوس کرتے وہ گڑبڑاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی ۔

موم کیسی ہیں آپ۔۔ وہ چلتے اپنی موم کے پاس ہوتے انکی پیشانی چومتے ہوئے پیار سے بولا۔۔

۔ٹھیک ہوں آج تو میری بچی نے سب کچھ سنبھالا، مجھے کوئی بھی کام نہیں کرنے دیا ۔۔

۔وہ  جانتی  تھی کہ وہ کیوں پریشان ہے اسی لیے فوراً سے پہلے اسکی بے چینی ختم کرنی چاہی ۔۔

اچھا کیا ا۔۔ آپ لوگ انجوائے کریں میں نیناں کو لینے آیا ہوں ۔ وہ ہاتھ پہ بوسہ دیتے پیار سے آنہیں بتاتے  کھڑا ہوا ۔

میری جان ، اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے۔۔ بیوی ہے تمہاری۔۔ شمائلہ پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ  رکھتے بوسہ دیتے مسکراتے ہوئے بولیں۔۔

او مائی بیوٹیفل لیڈی ۔ وہ پیار سے انکے گال چومتے کہتا اٹھا تھا ۔۔ مگر اپنے ڈیڈ کو دیکھتے آنکھ دبانا نہیں بھولا تھا کہ وہ اسے کوستے پہلو بدلتے رہ گئے۔۔

کم۔۔۔وہ نیناں کے پاس سے گزرتا بغیر اسکی جانب دیکھے بولا تھا کہ نیناں نے لرزتے جسم کے ساتھ اسکی پشت کو دیکھتے تھوک نگلا اور مرتے کیا ناں کرتے کی مصداق پہ وہ راہ فرار ناں پاتے ہولے ہولے سے قدم اٹھاتے اسکے پیچھے بڑھی۔۔

وہ جانتی تھی کہ وریام سخت غصے میں ہے تبھی تو اپنی تک بات بھی نہیں تھی مگر وہ کیا کرتی رات اسکی کہی باتیں ابھی تک اسکے کانوں میں گونجتی اسے ایک الگ سے خوف میں ڈالتے جانے سے انکار اسکے قدموں کو تھام رہیں تھی۔۔

آؤ۔۔ اسے ایسے ہی بت بنا دیکھ وہ سرد آواز میں بولا۔۔ کہ وہ نفی میں سر ہلاتے بامشکل سے بولی۔۔

مم مجھے نن نہیں جج جانا وو وریام۔۔۔۔۔۔ وہ کانپتے بمشکل سے بولی ۔

کہ اسکی ہلکی سی بڑبڑاہٹ کو سنتے وہ زور سے گاڑی کا ڈور تھا کے ساتھ بند کرتے اسکی جانب بڑھا ۔

کہ وہ ڈرتے ہاتھ منہ پہ رکھتے دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔

کیا کہا ۔۔۔۔ وہ اچانک سے اپنی گرفت اسکی کمر پہ مضبوط کرتے بولا کہ اسکی جان لیوا گرفت پہ نیناں کا سانس اٹکنا شروع ہوا تھا۔۔ وہ بامشکل خود کو رونے سے روک رہی تھی۔۔

اگر نہیں چاہتی کہ یہاں سب کے سامنے تمہارا دماغ ٹھکانے لگاؤں تو چپ چاپ چلتے گاڑی میں بیٹھو۔۔ وہ ایک نظر پیچھے اپنی جانب دیکھتی اپنی موم اور اپنی لیڈیز کو دیکھتا مصنوعی مسکراہٹ سے اسکے کان میں گھستے سرگوشی کرتے بولا۔۔

کہ اگلے لمحے وہ دوڑتے بنا کچھ سوچے سمجھے گاڑی میں بیٹھی ۔۔ 

وہ آنکھیں میچتے خود کو پرسکون کرنے لگا مگر اب پانی سر سے اوپر جا چکا تھا۔۔ 

وہ صبح سے کتنا تھک چکا تھا ، ساری زمہ داری سنبھالتے اوپر سے رافع نے بھی عین وقت پہ پاک جانے کا شوشہ سنا دیا تھا وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر پھر فدک کی طبیعت کا سوچتے خاموش ہو رہا تھا۔۔ 

اور اس اچانک سے بدلتے پلین پہ ساری زمہ داری اسکے کندھوں پہ آئی تھی۔ مگر اسے کہاں پرواہ تھی آج تو خوشی اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔ مگر جب اسی سیکرٹری نے فون پہ اسے بتایا کہ میم ابھی تک باہر نہیں آئی تو دس بار اسے کال کر چکا تھا، 

مگر جو بات اسکے زہن میں آتے اسے بے چین کر رہی تھی کہ شاید نیناں نہیں چاہتی کہ وریام اسکے نزدیک آئے۔۔ یہ سوچ دماغ میں آتے ہی وہ سب کچھ بھولتے اپنے اپارٹمنٹ میں گیا تھا۔

مگر اس دل کو سکون کہاں آنا تھا۔۔ اب تو وہ اسکے تیور دیکھ سمجھ چکا تھا کہ اس نے ٹھیک فیصلہ لیا تھا ۔۔ 

وہ گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا۔۔ اور گاڑی سٹارٹ کرتے مین روڈ پہ ڈالی ۔

 باہر آؤ۔۔۔۔۔ تقریبا گھنٹے کا سفر وہ آدھے گھنٹے میں حتم کرتے اپنے اپارٹمنٹ کے سامنے موجود تھا۔۔

نین میں نے کچھ کہا ہے۔۔ اسے یوں ہی ہنوز بیٹھا دیکھ وہ پھر سے ہاتھ گاڑی کے اوپر رکھتے اندر کی جانب جھکتے ہوئے بولا کہ وہ سہمتے اسکی جانب دیکھتے ، گاڑی سے مرے قدموں سے نکلی تھی۔۔

 وریاممم ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے نکلتے ہی وہ ہاتھ پکڑتے اسے کھینچتا اندر کی جانب لے جاتا کہ نیناں نے ڈرتے اسکے نام پہ زور ڈالا مگر وہ اب کہاں کچھ بھی سننے کے موڈ میں تھا۔۔

یونہی اسے کھینچتے وہ اپنے روم میں جاتا ٹھاہ سے دروازہ پٹکھتا بند کر گیا۔ کہ نیناں کی جان لبوں پہ بن آئی، جب اسے طیش سے بکھرے پھولتے تنفس کے ساتھ خود کو دیکھتے پایا۔۔

کیا کہاں تھا میں نے۔۔۔۔۔۔ وہ جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچتے دروازے سے لگاتے ہوئے بولا کہ نیناں نے سہمتے آنکھیں زور سے بند کر دیں۔۔

بتاؤ کیوں میری کال پک نہیں کری۔۔۔۔۔ کیا بچنا چاہ رہی ہو مجھ سے۔۔۔ وہ ہاتھ دروازے پہ دائیں بائیں رکھتے جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا کہ نیناں نے کپکپاتے وجود کے ساتھ حلق میں اٹکتے آنسوں کے گولے کو نگلا۔

تم پہ حق تو میں نے تب سے رکھنا شروع کردیا ہے نین جب تم میرے نکاح میں۔ نہیں تھی۔۔ بھول گئی میری شدت ، میرے جنون کو۔۔۔۔۔ جھکٹےسے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنساتے وہ گویا ہوا تھا مگر اسکی مخنی خیزی گفتگو سے نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی ۔۔

وہ آنکھیں بند کیے اپنے بچنے کی دعا کر رہی تھی کہ کاش کوئی اسے آتے بچا لے ۔۔

مشکل بڑھانے کے بجائے اسے ختم کرو۔۔۔۔ بتاؤ فون کیوں نہیں تھا ، اٹھایا۔۔۔ ؟ وہ بالوں میں ہاتھ پھنساتے اسکا جوڑا کھولتے بولا کی جھٹکے سے نیناں کے ریشمی بال بکھرتے اس پہ سایہ فگن ہوئے ۔۔۔۔۔۔

وو وہ مم میں نن نیچے تھی پہ پھپھو کک کے اس ساتھ۔۔۔ وہ اپنے چہرے کے نزدیک اسکی پرتپش جھلسا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے بمشکل سے بولی تھی کہ سچ ہی تو تھا کہ وہ کہاں جانتی تھی کہ ایک اتنی سی غلطی پہ اتنا سب ہو جائے گا۔۔

اوکے ریلکس مائے بےبی۔۔۔ کول ڈاؤن۔۔۔

وہ اپنی خوشبو اس میں سے محسوس کرتے پرسکون ہوا تھا ،

 ، دل میں اٹکا پھانس نکلتے ہی اسے اپنے رویے کا احساس نیناں کی آنسوں سے بھری آنکھیں دیکھتے ہوا، وہ نارمل ہوتے پرسکون سا اسکی پشت تھپکتے اسے ریلکس کرنے لگا۔۔

بہت برے ہو تم ۔۔۔ مجھے بات نہیں کرنی تم سے۔۔۔ وہ ایک دم سے اسکے سینے لگتی پھوٹ پھوٹ کے روتی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے مکے بناتے اسکے سینے پہ مارتے اپنا غصہ نکالنے لگی۔۔

جانتا ہوں ۔۔ وہ مسکراتے اسکے گلے لگنے پہ ہاتھ اسکے سر پہ رکھتے اپنے بازوؤں کا حصار اسکے گرد باندھ گیا ۔

ادھر آؤ۔۔۔ وہ اسے تھامتے بیڈ پہ بٹھا گیا کہ نیناں نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کیے۔۔

ابھی ایک لڑکی آئے گی وہ جیسے جیسے کہے ویسا ہی کرنا اوکے۔۔۔ وہ پیار سے اسکی بھیگی آنکھیں چومتے ، ہونٹ اسکی ناک پہ رکھتے ، وہ  سمجھاتے ہوئے بولا۔۔

کہ نیناں نے اسے دیکھتے سر ہاں میں ہلایا۔۔

گڈ گرل۔۔۔۔وہ مسکراتا اسکی پیشانی چومتے  

باہر کو بڑھا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 وہ کنفیوز سی ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتے ایک جانب بیٹھی تھی ، کہاں ہمت تھی اس میں کے اتنا تیار ہوتے وہ وریام کے سامنے جائے۔۔

یور آر لنگنگ اوسم۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔ پارلر والی لڑکی جو اسے وریام کے بار بار منع کرنے کے بعد ہلکا سا کاجل اور ہلکی سی پنک لپ اسٹک لگاتے ہی بالوں کا اچھے سے آگے کی جانب سے رول کرتے جوڑا بنا چکی تھی کہ اتنی عام سی تیاری میں بھی وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری دکھ رہی تھی۔۔

لگتا ہے کہ آپ کے ہزبینڈ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔ 

وہ نیناں نے دمکتے چہرے اور بلیک فل گاؤن کو مسکراتے دیکھ بولی کہ نیناں جو کہ اپنے سے بڑی اور ہیوی ڈریس کو سنبھالنے میں الجھی تھی۔  اچانک سے نظریں اٹھائے اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔

کیونکہ یہاں پہ ایسے ڈریسز جو فل کور اپ ہوں اور اوپر سے اتنے پیارے بھی ملنا بہت مشکل ہے اور انکا پیار ۔۔۔ آئی مست سے ۔۔ یور آر آ لکی ویمن۔۔۔۔۔ وہ سراہتے داد دیتے بولی کہ نیناں جھنیپ گئی خود میں ہی۔۔۔۔ سچ ہی تو تھا ۔۔

وہ پاگل شخص دن بدن اپنے کسی نئی ردعمل سے اسے نیا جھٹکا ضرور دے رہا تھا ، اب نیناں اس سے کچھ بھی امید کر سکتی تھی۔۔

وہ پریشان ضرور ہوئی تھی وریام کے جانے کے بعد اس پارلر والی کو آتے دیکھ اور ہچکچاہٹ بھی تھی کچھ۔۔۔

مگر جس پیار سے اس نے ٹریٹ کیا تھا اور اسکے بات کرنے کا انداز نیناں کو وہ بہت اچھی لگی تھی۔۔

گو۔۔۔۔۔۔ دروازے پہ ہوتی دستک پہ وہ مسکراتے اسے فلائنگ کس کرتے بولی کہ نیناں نے چئیر سے اٹھتے بمشکل خود کو ریلکس کیا اور اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے ڈور کھولا ۔۔ 

تو سامنے ہی وہ چہرہ موڑے پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ پھنسائے بلیک ڈنر سوٹ میں  ملبوس تھا ، کہ اسکی پشت کو دیکھنے پر ہی نیناں کو اپنا دل نکلتا کانوں میں بجتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

لکنگ گورجییس۔۔۔۔۔۔۔ وہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ اچانک مڑتے ایک جانب ہچکائی سے کھڑی نیناں کو دیکھتے اسکے قریب جاتے مبہوت سا اسے دیکھتے بولا۔۔ 

کہ نیناں کے گال تپتے دہکتا انگارہ ہوئے تھے اسکی بات پہ۔۔۔

مائی لٹل جان۔۔۔    وہ مسکراتا اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے بولا کہ نیناں سٹپٹاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔ 

جانتی تھی کہ اس بے شرم انسان کو شرم کہاں سے آنی تھی۔۔ اب اسے ہی کچھ لخاظ کرنا تھا ۔۔

 ریڈی۔۔۔۔۔ جھٹکے سے اسکی کمر کے گرد بازوں حائل کرتے وہ اسکی گردن میں گہرا سانس بھرتے بہکتے انداز پہ بولا کہ نیناں کے لیے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا محال تھا۔۔

اسکی اتنی سی قربت اسے نڈھال کر رہی تھی ۔۔ اسکے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ چکی تھیں۔۔

تھینکس روزی ۔۔۔۔۔ اچانک سے روم سے نکلتی روزی کو دیکھ وہ مسکراتے سیدھا ہوئے بولا کہ وہ بھی سر کو ہاں میں ہلاتے بائے کا سائن دیتے وہاں سے نکلی۔۔۔

چلیں۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں تھامتے وہ آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے بولا کہ نیناں نے فوراً سے نظریں جھکائیں کہ اسکی ادا پہ وریام کے دل نے آج پھر سے بیٹ مس کی ۔۔۔۔۔ ہارٹ

وہ مسکراتے اسکا ہاتھ تھامتے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔۔

ہائے بیب ۔۔۔۔  ہاؤ آر یو۔۔۔۔۔ ہاتھ میں پکڑے وسکی کے گلاس کو جھلاتے وہ سامنے ہاف وائٹ گھٹنوں سے قدرے اونچا گاؤن پہنے ٹیبل پہ بیٹھی لیلی کو دیکھ کر چہکتے بولی۔۔

کہ لیلی نے گھونٹ بھرتے اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔۔

یو نو واٹ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کا دن بہت خاص ہونے والا ہے اسی لیے تو وی نے اسپیشلی تمہیں بلایا ہے پارٹی میں۔۔

سوزی ہونث دباتے لیلی کو دیکھ بولی جو ان سب سے لاپرواہ ، وسکی انجوائے کر رہی تھی۔۔

سب جانتے تھے کہ کیسے وی نے لیلی کو پارٹی میں سب کے سامنے  ڈچ کیا تھا ۔۔ 

مگر سوزی ہاتھ میں  آیا اسے بے عزت کرنے کا موقع کہاں ہاتھ سے جانے دیتی ۔۔ اسی لیے لگی پہ بڑھکا رہی تھی۔۔

لیلی یار ۔۔۔ ناٹ فئیر جواب تو دو۔۔۔ اسے بنا بولے ایسے ہی پیتا دیکھ وہ چڑتے بولی کہ لیلی نے سرخ غصے سے لبریز آنکھوں سے اسے گھورا۔۔

جانے کب سے وہ ایک لاوہ اپنے اندر پال رہی تھی۔۔ 

کتنے لڑکوں کو اگنور کرتے وہ چھوڑتے وی کے پاس آئی تھی کہ اب اسکا دل صرف اسے ہی پانے کی چاہ میں تڑپ رہا تھا ، مگر اس نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ ۔ مگر پھر بھی وہ سب کچھ بھلائے اسے کالز کرتی تھی ۔۔۔

جس جگہ اسکے ہونے کا امکان ہوتا ، وہ بنا سوچے وہاں جاتی تھی مگر پچھلے ایک ماہ سے وہ اسے کسی بھی اکٹیو گٹ ٹو گیدر پارٹی میں نہیں ملا تھا۔۔

وہ تو بس ایک بار اسے حاصل کرنا چاہتی پھر چاہے وہ اسے جو مرضی کہتا ، اسے کہاں پرواہ تھی اور ویسے بھی اسکے لیے تو یہ عام سی بات ہی تھی۔۔۔

سوچو اگر وی نے کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہوا تو۔۔۔ سوزی نے اسے خیال سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔

شٹ اپ یو بچ ۔۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ وی پر صرف اور صرف لیلی کا حق ہے۔۔ میں اسے اپنے علاؤہ اور کسی کا بھی نہیں ہونے دے سکتی ۔۔ سمجھی تم۔۔۔

لیلیٰ سنتے ہی ایک دم سے آپے سے باہر ہوتے چیختے اسکے منہ پر تھپڑ رسید کر گئی کہ پاس سے گزرتی کئیں لڑکیوں نے اسے دیکھا ۔ جو غصے میں کوئی جنونی پاگل سی دکھ رہی تھی۔۔

وی صرف میرا ہے صرف اور صرف لیلیٰ کا۔۔ سن لو تم سب بھی ۔۔۔ وہ غصے سے پاس پڑی کرسی کو لات رسید کرتے کہتی اسی طرح سے بھڑکتے وہاں سے گئی۔۔

اسے کیا ہوا۔۔۔ پاس ہی ایک جانب ڈارک پینٹ شرٹ کے اوپر ڈارک ہی بلیو کورٹ پہنے ایش کو مخاطب کرتے ، کائرہ نے پوچھا۔۔ تو وہ بھی کندھے اچکا گئی ۔۔

کہ اتنی بے عزتی کے بعد بھی اس لڑکی کو کہاں عقل آئی تھی جو یوں چیخ چلا رہی تھی۔۔

ویسے اریجمنٹس تو ہمیشہ کی طرح زبردست کرے ہیں وی نے۔۔۔۔ کائرہ نے مسکراتے بالوں کو ہاتھ سے سیدھا کرتے کہا کہ ایش بھی مخض مسکراتے ہاں میں سر ہلا گئی۔۔

وہ لوگ اکثر اس فیمس ہوٹل میں پارٹیز ارینج کیا کرتے تھے جہاں انکی یونی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز بھی انجوائے کرتے تھے۔۔

ارے پارٹی بھی تو ہمارا ہیرو دے رہا ہے ، پھر تیاری زبردست کیوں ناں ہو ۔۔۔ پیچھے سے آتی دعا نے مسکراتے جیس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے انگلش میں کہا کہ وہ بھی مسکراتے اسے دیکھ گلے لگی۔۔

کہ وریام کہ وجہ سے اب دعا کی کا فی اچھی دوستی ہو چکی تھی ۔۔ ان سب سے۔۔۔

ویسے کچھ پتا ہو، آج کی پارٹی کا دھماکے دار سرپرائز کیا ہے۔۔۔ ؟ دعا خود بھی کنفیوز تھی کہ آخر ایسا کیا تھا کہ وریام نے اچانک سب کو اکٹھا کیا اسی لیے تو وہ دیکھنے آئی تھی اس کا سرپرائز ۔۔۔۔

لنکگ بیوٹیفل۔۔۔۔ ریڈ پاؤں تک جاتی میکسی جس کے گلے پی بلیک کلر کا کام ہوا تھا اور اپنے لمبے بالوں کو کھلے چھوڑے آج واقعی وہ باقی دنوں سے کافی اچھی دکھ رہی تھی

ایش کی تعریف کرنے پہ وہ مسکراتے تھینکس کہہ پائی کہ اچانک سے لائٹ بند ہوئی تھی۔۔

یہ کیا ہؤا لائٹ کیوں آف ہوئی۔۔۔۔ وہ سب اس وقت میں پڑے ہال میں اکھٹے تھے جہاں پہ پارٹی ارینج کی گئی تھی۔۔ اور اب اچانک سے لائٹ کے جاتے ہی ، وہاں ہال میں ایک ہلچل سی مچ چکی تھی ، 

کہ اچانک سے ایک جانب اوپر کی جانب بنی سیڑھیاں جن کو لائٹس اور آرٹیفشل پھولوں سے  سجایا گیا تھا۔۔۔ 

ایک دم سے ایک سپورٹ لائٹ سیڑھیوں کی جانب روشن ہوئی تھی۔ کہ اچانک سے مڑتے سب نے اوپر کی جانب دیکھا تھا ۔۔ 

جہاں  وہ شاہانہ چال چلتا اوپر آتے سیڑھیوں کی سامنے کھڑا ہوا تھا کہ سب نے مبہوت ہوتے اس شہزادے کو دیکھا ۔۔ جو ہمیشہ کی طرح جان لیوا مسکراہٹ لبوں پہ سجائے کئیوں کا دل دھڑکا گیا تھا۔۔ فضا میں اچانک سے ایک شور سا برپا ہوا تھا۔۔

وہاں موجود ہزاروں لڑکیوں نے وی وی کے نعرے بلند کرتے اسے سراہا تھا جو آنکھوں کے سامنے کھڑا ایک چمکتے ہیرے کی مانند تھا۔۔

 اچانک سے وہ ہاتھ پیچھے کی جانب دیکھتے بڑھا گیا کہ کئیوں کے دل ساکت ہوئے تھے اور کئیوں کے دھڑکتے جیسے پسلیوں سے باہر آنے کو تھے کہ آخر پیچھے ایسا کون تھا جسے وہ سب سے انٹرڈیوس کروانا چاہ رہا تھا۔۔ شاید اسی لیے اس نے یہ پارٹی بھی ارینج کری تھی۔۔

ایک دم سے فضا ساکت پل بھر میں خاموشی چھائی تھی کہ سب کی نظریں وی کے پیچھے سے نکلتی اس معصوم سراپا حسن پہ ٹہر سی گئی تھی۔۔ جو کہ کنفیوز سی ، گھبرائی ہوئی اپنی گھنی خمدار پلکوں کو چھپکتے وریام کی جانب دیکھتے اپنا سرد پڑتا نازک سا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھما گئی۔۔

بلیک پاؤں تک جاتے بلیک گاؤن جس پہ حوبصورت چاندی کی تار سے ہوا خوبصورت سا کام جو کہ گاؤن کے گلے سے ہوتے اپر باڈی تک تھا ، بازوؤں پہ اور نیچے گھیرے پہ بھی اسی طرح سے خوبصورت نفاست سے کیا گیا کام اسے اور بھی نکھار رہا تھا۔ بالوں کا جوڑا بناتے آج پہلی بار وہ بغیر دوپٹہ کے یوں باہر آئی تھی کہ وریام نے سختی سے اسے منع کیا تھا دوپٹہ لینے سے۔۔۔۔۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جہاں وہ اسے لیے جا رہا ہے وہاں کوئی بھی مرد اس نے انوائیٹ نہیں کرا تھا کہ کہاں اسے گنوارا تھا کہ اسکی نین کو اسکے علاؤہ کوئی بھی ایک نظر ہی دیکھ سکے۔۔۔

ڈونٹ وری میرے ہوتے کچھ نہیں ہو سکتا اوکے۔۔۔۔۔ اسکے سرد ہاتھوں کو اپنے پرحدت ہاتھ میں لیتے وہ اسکی کمر پر پکڑ مضبوط کرتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہوئے بولا کہ نیناں نے اپنی آنکھوں کو زرا سا اٹھائے اسکی جانب دیکھا جو مسکراتا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اور پھر ایک نظر سامنے نظر آتی اتنی زیادہ لڑکیوں کو ۔۔ جو خاموش بت بنی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ خشک ہوتے اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے بمشکل سے گردن ہاں میں ہلا پائی ۔۔۔ کم۔۔۔ 

آہستگی سے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے وہ اسے ساتھ لیتا نیچے اترا تو کئی لڑکیوں نے وریام کے ساتھ ہمقدم ہوتی اس نازک سی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔

واقعی میں کہاں کوئی شک بچا تھا کہ وہ وی کے لیے کتنی خاص تھی۔۔ جس طرح سے وہ اسے تھامتے پرسکون کرتے ایک جان لیوا مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اسے دیکھتے اپنے دہکتے ہونٹ اسکی پیشانی پہ رکھ چکا تھا ۔۔ 

سب کچھ ناں کچھ تو سمجھ چکی تھیں۔ مگر جو نہیں سمجھنا چاہ رہی تھی وہ شاک اسٹیٹ میں یوں ہی کھڑی تھی جیسے زلزلہ آتے یہ پوری ہوٹل کی عمارت ہی انکے اوپر پڑی تھی اور ایسا ہی کچھ حال ایک جانب کھڑی لیلی کا تھا ،

جو دھواں دھواں چہرے سے وی کے ساتھ آتی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

دیکھ لو لیلی ۔۔۔ لگتا ہے کہ آج پھر وی نے تمہاری انسلٹ کرنے کو بلایا ہے۔۔ سوزی پاس سے گزرتی ایک لیڈی ویٹر کے ٹرے سے وائن اٹھاتے مزے سے بولی تھی۔۔ ابھی جو تھپڑ اسے لیلی نے مارا تھا وہ بھولی کہاں تھی مگر اب باری لیلی کی تھی۔۔ جو یہ سب دیکھتے ہی مرنے کی حالت میں تھی۔۔

ہائے لیڈیز۔۔۔۔ وہ ہائی ہیلز میں بامشکل اسکے سہارے سے نیچے اتری تھی کہ وہ اسے تھامے ایک جانب منہ کھولے کھڑی ایش ، کائرہ اور دعا کے پاس پہنچتے ان سے مخاطب ہوا تھا۔۔

جبکہ نیناں تو ایش کو دیکھ غصے سے لال ٹماٹر ہوئی تھی ۔ کہ فورا سے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دباتے وہ اسے بری طرح سے کچلنے لگی۔۔ جبکہ وریام اسکی جیلسی والے انداز پہ انگ انگ سرشار سا ہوا تھا۔۔

مخض کچھ دیر بعد وہ مکمل طور پہ اپنی نین کو حاصل کرتے اسکی روح میں اتر جائے گا۔۔ وہ سوچتے ہی خوشی سے لال ہوا تھا کہ اسے یوں بلش کرتے دیکھ دعا ہوش میں ائی۔۔

وریام تم نے شادی کر لی کیا ۔۔۔۔؟ وہ فوراً سے جھٹکے سے ہوش میں آتے بولی تھی جبکہ ایش کا ابھی بھی وہی حال تھا۔ 

ہاں دعا اور فدک کو بھی پتا ہے کیا اس نے نہیں بتایا تمہیں ۔۔ وہ ایک ہاتھ نیناں کی کمر کے گرد لے جاتے جبکہ دوسرا پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے بولا تھا۔۔

کہ فدک کا سنتے ہی غصے سے لال بھبھوکا ہوئی ۔ 

اس میسنی نے تو مجھے نہیں بتایا ۔۔ پوچھتی ہوں میں اسے ، اتنی بڑی بات چھپائیں مجھ سے ۔۔ وہ دکھ سے گویا ہوئی تھی کہ اسکی اپنی دوست نے اس سے چھپایا تھا ۔۔

ایش کیا ہوا تم خوش نہیں۔۔۔۔۔ ایش کو یوں ہی کھڑا دیکھ وریام نے ہی خود سے مخاطب کیا تھا ۔۔ کہ وہ فوراً سے سنبھلتے ہوش میں آتے مسکرائیں۔۔۔

وی میں خوش ہوں بہت زیادہ ۔۔ لیکن یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کیا ایکسپریشن دوں ۔۔

وہ سچ میں کنفیوز تھی کہ آخر وی اچانک سے کیسے شادی کر سکتا ہے۔۔۔ 

ایش یہ نیناں وریام مرتضٰی کاظمی ہے ۔۔ میری وائف،میری زندگی میرا عشق، میرا جنون سب کچھ۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ایک جذب کے عالم میں اسے دیکھ بولا کہ نیناں نے شرم سے گھبراتے فوراً سے چہرے جھکایا ۔۔ 

آج خود پہ اٹھتی وریام کی ہر نظر کا مطلب اور مخنی باخوبی سمجھ اور جان رہی تھی۔۔۔ 

اسی لیے تو سوچتے ہی اسکی جان پہ بن جاتی تھی ۔

اور نین ان سے ملو یہ ہے ایش اور کائرہ میری بہت اچھی دوستیں۔۔۔ وریام اب نیناں سے ان کا تعارف کروا رہا تھا ۔۔۔

کہ وہ دونوں مسکراتے اسکی جانب لپکی۔۔۔۔

ہائے نیناں ۔۔۔۔ واقعی میں تم ہمارے وی۔۔ کو ڈیزرو کرتی ہو۔۔ میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ تم دونوں کی جوڑی بہت ہی خوبصورت بلکہ سراہنے کے قابل ہے۔۔ بس اللہ ایسے ہی تم دونوں کو خوش رکھے۔۔۔۔ 

مسکراتے اس سے ہاتھ ملاتے ایش نے اسے دعا دی تو نیناں اسے دیکھتے دل سے مسکرائی ۔۔ اتنی بری بھی نہیں۔۔ وہ بس دل میں ہی ایش کو سوچ سکی تھی۔۔

ہائے ڈمپل گرل۔۔۔۔ وہ مسکرائی تو اسکے گال میں ابھرتے ڈمپل کو دیکھ کائرہ نے مسکراتے کہتے اسکی جانب قدم بڑھائے ہی تھے مگر اس سے پہلے وریام نے اسے روک دیا ۔۔

یس مائی ڈمپل بے بی۔۔۔۔ اور ان کو سوائے وریام کے کوئی نہیں چھو سکتا اور ناں ہی کس کر سکتا ہے۔۔۔۔

وہ بظاہر مسکراتا کائرہ کو دیکھ بولا تھا مگر اسے بالکل اچھا ناں لگا تھا کائرہ کا نیناں کو یوں کس کرنے کی کوشش کرنا ۔۔ جس کا اظہار وہ باقاعدہ نیناں کے گال پہ خود سے کس کرتے کر چکا تھا۔ 

نیناں تو شرم سے نظریں زمین  میں گھاڑے یوں ہی کھڑی تھی کہ جانتی تھی ابھی ناجانے وہ کیا کیا کروائے۔۔۔۔

گائز میں آتا ہوں تم لوگ نیناں کا دھیان رکھنا ، دور سے خود کو گھورتی لیلی کو دیکھتے وہ مسکراتے نیناں کے ہاتھ پہ لب رکھتے کہتا وہاں سے گیا۔۔ 

کہ نیناں نے گھبراتے اسے خود سے دور جاتے دیکھا تھا۔۔ 

نیناں نام ہے تمہارا ہے ناں۔۔۔۔ دعا نے چہکتے وریام کے جانے پہ پوچھا کہ وہ محض گردن ہاں میں ہلا پائی تھی۔۔۔

پاکستان سے ہو ۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہی اسکی معصومیت ، شرماہٹ ، ہچکچاہٹ سے ہی وہ پہچ?

ہائے بیب ۔۔۔۔  ہاؤ آر یو۔۔۔۔۔ ہاتھ میں پکڑے وسکی کے گلاس کو جھلاتے وہ سامنے ہاف وائٹ گھٹنوں سے قدرے اونچا گاؤن پہنے پہ بیٹھی لیلی کو دیکھ کر چہکتے بولی۔۔

کہ لیلی نے گھونٹ بھرتے اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔۔

یو نو واٹ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کا دن بہت خاص ہونے والا ہے اسی لیے تو وی نے اسپیشلی تمہیں بلایا ہے پارٹی میں۔۔

سوزی ہونث دباتے لیلی کو دیکھ بولی جو ان سب سے لاپرواہ ، وسکی انجوائے کر رہی تھی۔۔

سب جانتے تھے کہ کیسے وی نے لیلی کو پارٹی میں سب کے سامنے  ڈچ کیا تھا ۔۔ 

مگر سوزی ہاتھ میں  آیا اسے بے عزت کرنے کا موقع کہاں ہاتھ سے جانے دیتی ۔۔ اسی لیے لگی پہ بڑھکا رہی تھی۔۔

لیلی یار ۔۔۔ ناٹ فئیر جواب تو دو۔۔۔ اسے بنا بولے ایسے ہی پیتا دیکھ وہ چڑتے بولی کہ لیلی نے سرخ غصے سے لبریز آنکھوں سے اسے گھورا۔۔

جانے کب سے وہ ایک لاوہ اپنے اندر پال رہی تھی۔۔ 

کتنے لڑکوں کو اگنور کرتے وہ چھوڑتے وی کے پاس آئی تھی کہ اب اسکا دل صرف اسے ہی پانے کی چاہ میں تڑپ رہا تھا ، مگر اس نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ ۔ مگر پھر بھی وہ سب کچھ بھلائے اسے کالز کرتی تھی ۔۔۔

جس جگہ اسکے ہونے کا امکان ہوتا ، وہ بنا سوچے وہاں جاتی تھی مگر پچھلے ایک ماہ سے وہ اسے کسی بھی اکٹیو گٹ ٹو گیدر پارٹی میں نہیں ملا تھا۔۔

وہ تو بس ایک بار اسے حاصل کرنا چاہتی پھر چاہے وہ اسے جو مرضی کہتا ، اسے کہاں پرواہ تھی اور ویسے بھی اسکے لیے تو یہ عام سی بات ہی تھی۔۔۔

سوچو اگر وی نے کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہوا تو۔۔۔ سوزی نے اسے خیال سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔

شٹ اپ یو بچ ۔۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ وی پر صرف اور صرف لیلی کا حق ہے۔۔ میں اسے اپنے علاؤہ اور کسی کا بھی نہیں ہونے دے سکتی ۔۔ سمجھی تم۔۔۔

لیلیٰ سنتے ہی ایک دم سے آپے سے باہر ہوتے چیختے اسکے منہ پر تھپڑ رسید کر گئی کہ پاس سے گزرتی کئیں لڑکیوں نے اسے دیکھا ۔ جو غصے میں کوئی جنونی پاگل سی دکھ رہی تھی۔۔

وی صرف میرا ہے صرف اور صرف لیلیٰ کا۔۔ سن لو تم سب بھی ۔۔۔ وہ غصے سے پاس پڑی کرسی کو لات رسید کرتے کہتی اسی طرح سے بھڑکتے وہاں سے گئی۔۔

اسے کیا ہوا۔۔۔ پاس ہی ایک جانب ڈارک پینٹ شرٹ کے اوپر ڈارک ہی بلیو کورٹ پہنے ایش کو مخاطب کرتے ، کائرہ نے پوچھا۔۔ تو وہ بھی کندھے اچکا گئی ۔۔

کہ اتنی بے عزتی کے بعد بھی اس لڑکی کو کہاں عقل آئی تھی جو یوں چیخ چلا رہی تھی۔۔

ویسے اریجمنٹس تو ہمیشہ کی طرح زبردست کرے ہیں وی نے۔۔۔۔ کائرہ نے مسکراتے بالوں کو ہاتھ سے سیدھا کرتے کہا کہ ایش بھی مخض مسکراتے ہاں میں سر ہلا گئی۔۔

وہ لوگ اکثر اس فیمس ہوٹل میں پارٹیز ارینج کیا کرتے تھے جہاں انکی یونی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز بھی انجوائے کرتے تھے۔۔

ارے پارٹی بھی تو ہمارا ہیرو دے رہا ہے ، پھر تیاری زبردست کیوں ناں ہو ۔۔۔ پیچھے سے آتی دعا نے مسکراتے جیس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے انگلش میں کہا کہ وہ بھی مسکراتے اسے دیکھ گلے لگی۔۔

کہ وریام کہ وجہ سے اب دعا کی کا فی اچھی دوستی ہو چکی تھی ۔۔ ان سب سے۔۔۔

ویسے کچھ پتا ہو، آج کی پارٹی کا دھماکے دار سرپرائز کیا ہے۔۔۔ ؟ دعا خود بھی کنفیوز تھی کہ آخر ایسا کیا تھا کہ وریام نے اچانک سب کو اکٹھا کیا اسی لیے تو وہ دیکھنے آئی تھی اس کا سرپرائز ۔۔۔۔

لنکگ بیوٹیفل۔۔۔۔ ریڈ پاؤں تک جاتی میکسی جس کے گلے پی بلیک کلر کا کام ہوا تھا اور اپنے لمبے بالوں کو کھلے چھوڑے آج واقعی وہ باقی دنوں سے کافی اچھی دکھ رہی تھی

ایش کی تعریف کرنے پہ وہ مسکراتے تھینکس کہہ پائی کہ اچانک سے لائٹ بند ہوئی تھی۔۔

یہ کیا ہؤا لائٹ کیوں آف ہوئی۔۔۔۔ وہ سب اس وقت میں پڑے ہال میں اکھٹے تھے جہاں پہ پارٹی ارینج کی گئی تھی۔۔ اور اب اچانک سے لائٹ کے جاتے ہی ، وہاں ہال میں ایک ہلچل سی مچ چکی تھی ، 

کہ اچانک سے ایک جانب اوپر کی جانب بنی سیڑھیاں جن کو لائٹس اور آرٹیفشل پھولوں سے  سجایا گیا تھا۔۔۔ 

ایک دم سے ایک سپورٹ لائٹ سیڑھیوں کی جانب روشن ہوئی تھی۔ کہ اچانک سے مڑتے سب نے اوپر کی جانب دیکھا تھا ۔۔ 

جہاں  وہ شاہانہ چال چلتا اوپر آتے سیڑھیوں کی سامنے کھڑا ہوا تھا کہ سب نے مبہوت ہوتے اس شہزادے کو دیکھا ۔۔ جو ہمیشہ کی طرح جان لیوا مسکراہٹ لبوں پہ سجائے کئیوں کا دل دھڑکا گیا تھا۔۔ فضا میں اچانک سے ایک شور سا برپا ہوا تھا۔۔

وہاں موجود ہزاروں لڑکیوں نے وی وی کے نعرے بلند کرتے اسے سراہا تھا جو آنکھوں کے سامنے کھڑا ایک چمکتے ہیرے کی مانند تھا۔۔

 اچانک سے وہ ہاتھ پیچھے کی جانب دیکھتے بڑھا گیا کہ کئیوں کے دل ساکت ہوئے تھے اور کئیوں کے دھڑکتے جیسے پسلیوں سے باہر آنے کو تھے کہ آخر پیچھے ایسا کون تھا جسے وہ سب سے انٹرڈیوس کروانا چاہ رہا تھا۔۔ شاید اسی لیے اس نے یہ پارٹی بھی ارینج کری تھی۔۔

ایک دم سے فضا ساکت پل بھر میں خاموشی چھائی تھی کہ سب کی نظریں وی کے پیچھے سے نکلتی اس معصوم سراپا حسن پہ ٹہر سی گئی تھی۔۔ جو کہ کنفیوز سی ، گھبرائی ہوئی اپنی گھنی خمدار پلکوں کو چھپکتے وریام کی جانب دیکھتے اپنا سرد پڑتا نازک سا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھما گئی۔۔

بلیک پاؤں تک جاتے بلیک گاؤن جس پہ حوبصورت چاندی کی تار سے ہوا خوبصورت سا کام جو کہ گاؤن کے گلے سے ہوتے اپر باڈی تک تھا ، بازوؤں پہ اور نیچے گھیرے پہ بھی اسی طرح سے خوبصورت نفاست سے کیا گیا کام اسے اور بھی نکھار رہا تھا۔ بالوں کا جوڑا بناتے آج پہلی بار وہ بغیر دوپٹہ کے یوں باہر آئی تھی کہ وریام نے سختی سے اسے منع کیا تھا دوپٹہ لینے سے۔۔۔۔۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جہاں وہ اسے لیے جا رہا ہے وہاں کوئی بھی مرد اس نے انوائیٹ نہیں کرا تھا کہ کہاں اسے گنوارا تھا کہ اسکی نین کو اسکے علاؤہ کوئی بھی ایک نظر ہی دیکھ سکے۔۔۔

ڈونٹ وری میرے ہوتے کچھ نہیں ہو سکتا اوکے۔۔۔۔۔ اسکے سرد ہاتھوں کو اپنے پرحدت ہاتھ میں لیتے وہ اسکی کمر پر پکڑ مضبوط کرتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہوئے بولا کہ نیناں نے اپنی آنکھوں کو زرا سا اٹھائے اسکی جانب دیکھا جو مسکراتا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اور پھر ایک نظر سامنے نظر آتی اتنی زیادہ لڑکیوں کو ۔۔ جو خاموش بت بنی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ خشک ہوتے اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے بمشکل سے گردن ہاں میں ہلا پائی ۔۔۔ کم۔۔۔ 

آہستگی سے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے وہ اسے ساتھ لیتا نیچے اترا تو کئی لڑکیوں نے وریام کے ساتھ ہمقدم ہوتی اس نازک سی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔

واقعی میں کہاں کوئی شک بچا تھا کہ وہ وی کے لیے کتنی خاص تھی۔۔ جس طرح سے وہ اسے تھامتے پرسکون کرتے ایک جان لیوا مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اسے دیکھتے اپنے دہکتے ہونٹ اسکی پیشانی پہ رکھ چکا تھا ۔۔ 

سب کچھ ناں کچھ تو سمجھ چکی تھیں۔ مگر جو نہیں سمجھنا چاہ رہی تھی وہ شاک اسٹیٹ میں یوں ہی کھڑی تھی جیسے زلزلہ آتے یہ پوری ہوٹل کی عمارت ہی انکے اوپر پڑی تھی اور ایسا ہی کچھ حال ایک جانب کھڑی لیلی کا تھا ،

جو دھواں دھواں چہرے سے وی کے ساتھ آتی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

دیکھ لو لیلی ۔۔۔ لگتا ہے کہ آج پھر وی نے تمہاری انسلٹ کرنے کو بلایا ہے۔۔ سوزی پاس سے گزرتی ایک لیڈی ویٹر کے ٹرے سے وائن اٹھاتے مزے سے بولی تھی۔۔ ابھی جو تھپڑ اسے لیلی نے مارا تھا وہ بھولی کہاں تھی مگر اب باری لیلی کی تھی۔۔ جو یہ سب دیکھتے ہی مرنے کی حالت میں تھی۔۔

ہائے لیڈیز۔۔۔۔ وہ ہائی ہیلز میں بامشکل اسکے سہارے سے نیچے اتری تھی کہ وہ اسے تھامے ایک جانب منہ کھولے کھڑی ایش ، کائرہ اور دعا کے پاس پہنچتے ان سے مخاطب ہوا تھا۔۔

جبکہ نیناں تو ایش کو دیکھ غصے سے لال ٹماٹر ہوئی تھی ۔ کہ فورا سے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دباتے وہ اسے بری طرح سے کچلنے لگی۔۔ جبکہ وریام اسکی جیلسی والے انداز پہ انگ انگ سرشار سا ہوا تھا۔۔

مخض کچھ دیر بعد وہ مکمل طور پہ اپنی نین کو حاصل کرتے اسکی روح میں اتر جائے گا۔۔ وہ سوچتے ہی خوشی سے لال ہوا تھا کہ اسے یوں بلش کرتے دیکھ دعا ہوش میں ائی۔۔

وریام تم نے شادی کر لی کیا ۔۔۔۔؟ وہ فوراً سے جھٹکے سے ہوش میں آتے بولی تھی جبکہ ایش کا ابھی بھی وہی حال تھا۔ 

ہاں دعا اور فدک کو بھی پتا ہے کیا اس نے نہیں بتایا تمہیں ۔۔ وہ ایک ہاتھ نیناں کی کمر کے گرد لے جاتے جبکہ دوسرا پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے بولا تھا۔۔

کہ فدک کا سنتے ہی غصے سے لال بھبھوکا ہوئی ۔ 

اس میسنی نے تو مجھے نہیں بتایا ۔۔ پوچھتی ہوں میں اسے ، اتنی بڑی بات چھپائیں مجھ سے ۔۔ وہ دکھ سے گویا ہوئی تھی کہ اسکی اپنی دوست نے اس سے چھپایا تھا ۔۔

ایش کیا ہوا تم خوش نہیں۔۔۔۔۔ ایش کو یوں ہی کھڑا دیکھ وریام نے ہی خود سے مخاطب کیا تھا ۔۔ کہ وہ فوراً سے سنبھلتے ہوش میں آتے مسکرائیں۔۔۔

وی میں خوش ہوں بہت زیادہ ۔۔ لیکن یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کیا ایکسپریشن دوں ۔۔

وہ سچ میں کنفیوز تھی کہ آخر وی اچانک سے کیسے شادی کر سکتا ہے۔۔۔ 

ایش یہ نیناں وریام مرتضٰی کاظمی ہے ۔۔ میری وائف،میری زندگی میرا عشق، میرا جنون سب کچھ۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ایک جذب کے عالم میں اسے دیکھ بولا کہ نیناں نے شرم سے گھبراتے فوراً سے چہرے جھکایا ۔۔ 

آج خود پہ اٹھتی وریام کی ہر نظر کا مطلب اور مخنی باخوبی سمجھ اور جان رہی تھی۔۔۔ 

اسی لیے تو سوچتے ہی اسکی جان پہ بن جاتی تھی ۔

اور نین ان سے ملو یہ ہے ایش اور کائرہ میری بہت اچھی دوستیں۔۔۔ وریام اب نیناں سے ان کا تعارف کروا رہا تھا ۔۔۔

کہ وہ دونوں مسکراتے اسکی جانب لپکی۔۔۔۔

ہائے نیناں ۔۔۔۔ واقعی میں تم ہمارے وی۔۔ کو ڈیزرو کرتی ہو۔۔ میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ تم دونوں کی جوڑی بہت ہی خوبصورت بلکہ سراہنے کے قابل ہے۔۔ بس اللہ ایسے ہی تم دونوں کو خوش رکھے۔۔۔۔ 

مسکراتے اس سے ہاتھ ملاتے ایش نے اسے دعا دی تو نیناں اسے دیکھتے دل سے مسکرائی ۔۔ اتنی بری بھی نہیں۔۔ وہ بس دل میں ہی ایش کو سوچ سکی تھی۔۔

ہائے ڈمپل گرل۔۔۔۔ وہ مسکرائی تو اسکے گال میں ابھرتے ڈمپل کو دیکھ کائرہ نے مسکراتے کہتے اسکی جانب قدم بڑھائے ہی تھے مگر اس سے پہلے وریام نے اسے روک دیا ۔۔

یس مائی ڈمپل بے بی۔۔۔۔ اور ان کو سوائے وریام کے کوئی نہیں چھو سکتا اور ناں ہی کس کر سکتا ہے۔۔۔۔

وہ بظاہر مسکراتا کائرہ کو دیکھ بولا تھا مگر اسے بالکل اچھا ناں لگا تھا کائرہ کا نیناں کو یوں کس کرنے کی کوشش کرنا ۔۔ جس کا اظہار وہ باقاعدہ نیناں کے گال پہ خود سے کس کرتے کر چکا تھا۔ 

نیناں تو شرم سے نظریں زمین  میں گھاڑے یوں ہی کھڑی تھی کہ جانتی تھی ابھی ناجانے وہ کیا کیا کروائے۔۔۔۔

گائز میں آتا ہوں تم لوگ نیناں کا دھیان رکھنا ، دور سے خود کو گھورتی لیلی کو دیکھتے وہ مسکراتے نیناں کے ہاتھ پہ لب رکھتے کہتا وہاں سے گیا۔۔ 

کہ نیناں نے گھبراتے اسے خود سے دور جاتے دیکھا تھا۔۔ 

نیناں نام ہے تمہارا ہے ناں۔۔۔۔ دعا نے چہکتے وریام کے جانے پہ پوچھا کہ وہ محض گردن ہاں میں ہلا پائی تھی۔۔۔

پاکستان سے ہو ۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہی اسکی معصومیت ، شرماہٹ ، ہچکچاہٹ سے ہی وہ پہچان چکی تھی کہ ایسی شرم و حیا تو مشرقی لڑکیاں ہی رکھتی ہیں اپنے اندر، وہ دور جاتے وریام کو ایک نظر دیکھتے اس کے پاس آتے بولی ۔۔

کہ نیناں نے اسکے اندازے پہ چونکتے گردن ہاں میں ہلائی۔۔۔

تو ملاؤ ہاتھ ہم بھی پاکستان سے آئے ہیں۔۔۔ دعا نے مسکراتے ہوئے ہاتھ اسکے سامنے کیا جسے وہ مسکراتے ہوئے تھام گئی۔۔

یار لگتا ہے انہی ڈمپل نے لڑکے کو گھائل کیا ہے۔۔۔ وہ مسکرائی تو اسکے گال میں ابھرتے ڈمپل کو دیکھ دعا نے پھر سے کہا مگر وہ ہاتھ بڑھاتے چھوتی کہ نیناں نے نفی کرتے اسے روک دیا کہ جانتی تھی کہ اگر وریام نے دیکھ لیا تو سب کچھ یہی رہ جائے گا۔۔ اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی اتنی محنت سے تیار کی پارٹی وہ اچانک سے خراب کرے۔۔۔

نیناں ۔۔۔ ایک بات کرنی ہے تم سے آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔ ایش جو جانے کب سے اسے دیکھ رہی تھی اب اچانک سے اسے مخاطب کیا تو نیناں نے پہلے کنفیوز ہوتے اسے دیکھا کہ وہ اسکا ہاتھ پیار سے تھپتھپاتے ہوئے اسے یقین دلاتے ایک جانب لے گئی۔۔۔

آج میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں ۔۔ وہ بات جو شاید میرے اور وریام کے علاؤہ کسی کو نہیں معلوم ۔۔۔ وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ایک ہاتھ پھنساتے ہوئے بولی تھی۔۔

کہ نیناں نے ڈرتے ایک انجانے حوف سے سہمی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔ کتنے وہم آ رہے تھے اسکے دل میں۔۔ 

ریلکس پہلے سن لو۔۔۔ اسکی زدر پڑتی رنگت کو دیکھ وہ پکڑتے اسے ایک جانب کرسی پہ بٹھاتے خود بھی اس کے ساتھ بیٹھی۔۔ 

میری اور وریام کی دوستی کو چار سال ہو چلے ہیں۔۔۔۔ آہ۔۔۔ وہ بتاتے ایک ٹھنڈی آہ بھر گئی۔۔۔۔

جب پہلی دفعہ میں اس یونی میں آئی تھی تو ایک ڈری سہمی سی لڑکی ہوتی تھی تب میں۔۔۔

اور یہ تقریباً ایک ہفتہ بعد کی بات ہے کہ جب مجھے یونی میں ایک ہفتہ ہوا تھا آتے۔۔ تب کوئی بھی میرا دوست نہیں تھا میں اکیلے ہی رہتی تھی۔۔

ایک دن مجھے ایک لڑکی نے کہا کہ اوپر ایک روم میں آپ کو سر بلا رہے ہیں ۔ پہلے تو میں نے جانے سے انکار کر دیا مگر پھر یہ سوچتے کہ شاید سر کو کچھ کام ہو میں اوپر اس روم میں داخل ہوئی تھی۔۔ 

میرے روم میں داخل ہوتے ہی دروازہ پیچھے سے بند ہوا تھا کہ میں نے ڈرتے پیچھے مڑتے دیکھا ، جہاں چار ، پانچ میرے سینیر  کھڑے تھے۔۔ 

میں نے آگے بڑھتے دروازہ کھولنے کا کہا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا ، انہوں نے کہا کہ اتنے دنوں سے تجھ پہ نظر رکھے ہوئے ہیں ایسے ہی چھوڑ دے اور ایک نے مجھے زور سے دھکا دیا تھا مجھے پیچھے کی جانب کے گرتے میرے منہ سے چیخ نکلی۔۔ میں نے ڈر اور وخشت سے چیخنا شروع کر دیا کہ ان میں ایک نے آگے بڑھتے میرے منہ پہ ہاتھ رکھا ، 

مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ برا کرتے ایک دم سے دروازہ کھولتے کوئی اندر آیا تھا ۔۔ 

جس نے بغیر دیکھے سنے ، جانے پاس پڑے لوہے کے راڈ سے انہیں مارنا شروع کر دیا  اور اتنا مارا تھا کہ خون انکے چہروں ، اور پورے جسم سے ٹپک رہا تھا۔۔۔ پھر وہ تھکتے راڈ پھینکتے میری جانب آیا تھا اور ہاتھ پکڑتے مجھے اٹھایا۔۔

میں نے ڈرتے اس مسیحا کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔  اور شکریہ کہا تھا تب اس نے کہا تھا کہ شکریہ مت کہو میں تو آ ہی نہیں رہا تھا یہ تو ڈیڈ نے زبردستی بھیجا تھا۔۔

اور شاید اسی لیے بھیجا کہ تمہاری مدد کر سکوں۔۔۔ اور پھر جب میں مسکرائی تو اس نے کہا تھا کہ آج کے بعد سے مجھے اپنا دوست ماننا۔۔ 

کبھی بھی کوئی کچھ بھی بولے ، بس اشارہ کر دینا باقی میں سنبھال لوں گا۔۔ 

اور جانتی ہو کہ وہ ہیرو کون تھا جسکی وجہ سے آج میں ایک بدلی پر اعتماد لڑکی بن پائی ہوں ۔ وہ وی تھا ۔ 

میرا دوست وی۔۔۔۔ جس نے میرا ہاتھ اس دن تھاما تھا اور آج چار سال بعد بھی اس دوستی کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔۔۔

تمہیں یہ سب اس لیے بتا رہی ہوں کہ تمہاری آنکھوں میں جھلکتے شکوے اور کچھ غلط ہونے کا احساس ، ان  کو میں بخوبی پڑھ سکتی ہوں۔۔ 

مگر ایک بات یاد رکھنا ۔۔ وہ لڑکیوں سے دوستی تو ضرور کرتا ہے مگر انہیں کسی دوسرے غلط انسان سے بچانے کو۔۔ وہ جانتا ہے اسکی حدیں کیا ہیں۔۔ 

اگر اس نے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرا ہے تو ایک بات یاد رکھنا کہ زندگی کے کسی بھی موڑ میں اس کا ساتھ مت چھوڑنا۔۔

وہ بظاہر دکھنے میں بہت خوش باش سا جولی سا شحص ہے ۔۔ 

مگر وہ لوگوں کے اندر تک کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے  ، اور میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ اسکی آنکھوں میں جھلکتے تمہارے لیے عشق کو اگر زرا سی بھی آنچ لگی تو وہ پگھل جائے گا ، وہ ٹوٹے گا ایسے کہ اسے جوڑنا ممکن ناں ہو پائے گا۔۔

اس کا یقین کبھی مت توڑنا۔۔ اسکے عشق ، جنون کو کبھی مت ہارنے دینا۔۔۔ وہ بظاہر اسٹائلش دکھنے والی بولڈ سی لڑکی اسے بتا رہی تھی اسے سمجھا رہی تھی کہ اسکا وریام کیسا ہے۔۔۔ اور نیناں خاموش سی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔            

بولو نیناں ، یقین کرو گی وریام پہ۔۔۔۔۔ اسکے جواب ناں دینے پہ ایش نے اسکے ہاتھ پہ دباؤ بڑھایا کہ نیناں نے مسکراتے سر ہاں میں ہلایا۔۔ 

اسے کیا یقین کرنا تھا اس پہ جب وہ خود کامل یقین اپنے دل کے آگے ہار چکی تھی بری طرح سے۔۔۔ اب تو کسی بھی صورت وہ وریام کا ساتھ نہیں نہیں چھوڑے گی ۔۔ وہ دل میں پختہ عہد کرتے دل سے مسکرائی۔۔

یہ جانے بغیر کے آگے نا جانے  کیا لکھا تھا ان دونوں کی قسمت میں۔۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہائے لیلی ۔۔۔ کیسی ہو ۔۔ ؟ وہ جو دھواں دھواں چہرے لیے ایک جانب ہاتھ میں گلاس پکڑے کھڑی تھی اچانک سے وی کی آواز پہ چونکتے اسے وہاں دیکھا جس سمت سے اسکی آواز آئی تھی۔۔

وہ مڑتے اسے دیکھنے لگی۔۔ جو مسکراتا ایک ہاتھ پاکٹ میں ڈالے اپنے بھاری قدم اٹھاتا ہوا آگے کو بڑھا ، تو اسے وہ قدم اپنے دل پر پڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔

جواب نہیں دیا کیسی ہو۔۔۔؟ اسے خود کو یوں گھورتا پاتے وہ لطف اندوز ہوتے بولا کہ وہ فوراً سے ہوش میں ائی۔۔۔

وی وہ کون ہے جسکے ساتھ تم آئے ہو۔۔۔؟ وہ نیناں کے بارے میں سوچتے وی سے پوچھ بیٹھی ، جس نے گہرا مسکراتے ایک نظر ایش کے ساتھ مسکراتی اپنی چھوٹی سی زندگی کو دیکھا۔۔۔

وہ۔۔۔۔ وہ میری جان ، میرا عشق ، جنون سب کچھ۔۔۔ جاننا چاہو گی وہ کون ہے۔۔ وہ جھکتا اسکی کیفیت سے باخوبی واقف ہوتے بولا ، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ لیلی کہ سر پہ سوار بھوت صرف تب تک کا تھا ۔۔

جب تک وہ وریام کو حاصل ناں کر لیتی اسکے بعد تو شاید وہ بھول بھی جاتی کہ کوئی وریام بھی تھا۔۔

وہ میری وائف ہے۔۔۔ بیوی ہے وہ میری۔۔۔۔۔ وہ اسکے بجھے بجھے چہرے کو دیکھتے مسکراتے بتاتا بالوں میں ہاتھ چلاتے آگے پیچھے دیکھنے لگا۔۔

لیلی تم نے مجھے کہا تھا ناں کہ مجھے کوئی ایسی پرہیزگار ، پاکیزہ لڑکی کبھی نہیں مل سکتی ۔۔۔۔

تو وہ دیکھو ۔۔۔ وہ لڑکی ہے میری قسمت۔۔۔ جو صرف محبت کے بدلے معصومیت سے مسکراتے محبت بھی اپنے انداز میں جتاتی ہے۔۔۔

اور آج اسے میں  سب سے انٹرڈیوس کروانے کو  لایا ہوں اسپیشلی تم سے۔۔۔۔۔

وہ جانتا تھا اسکی حالت اور اسی لیے اسے اور بھی بڑھاکاتے وہ بائے بائے کہتا وہاں سے نکلا۔۔۔

کہ لیلی نے ایک پراسرار سی مسکراہٹ اسکی پشت کی جانب اچھالتے اپنا فون اٹھاتے مطلوبہ نمبر ملایا۔۔۔۔۔

لیڈیز اینڈ لیڈیز۔۔۔۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ پارٹی ہمارے ون اینڈ اونلی کرش وی نے تھرو کی ہے ۔۔ اور ساتھ میں ایک سرپرائز بھی تھا ہم سب کے لیے ۔۔۔

تو اب انتظار کی گھڑیاں حتم ہوتی ہیں۔۔ وی خود بتائیں گے کہ آخر وہ خوبصورت چہرہ جو ان کے ساتھ آج پارٹی میں سب کی توجہ کا مرکز بنا آخر کو وہ کون ہے۔۔۔۔؟ 

ایش نے اسٹیج پہ کھڑے ہوتے سامنے ہی دعا کے ساتھ کھڑی نیناں اور وریام کی جانب دیکھتے مسکراتے ہوئے کہا کہ وریام چلتا اسٹیج پر آیا۔۔۔

ہائے ایوری ون ۔۔۔۔ آج تک ہم سب کا بہت ہی پیارا رشتہ رہا ہے۔۔۔ گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کے علاؤہ ہم سب اچھے دوست بھی رہے ہیں۔۔۔۔ وہ مسکراتے وہاں موجود ہر چہرے کو خوشی سے مسکراہٹ پاس کرتے بولا رہا تھا ۔کہ ایک ہجوم سا اکھٹا ہوا تھا ۔۔ اسٹیج کے آگے پیچھے۔۔۔

میں اپنی خوشی آپ سب کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ یہ بتانا چاہتا ہوں ، کہ آپ سب کے وی نے شادی کر لی ہے۔۔۔۔۔۔  

 وہ بتا رہا تھا کہ اچانک سے فضا میں تالیوں کی آواز گونجی ۔۔ سب مسکراتے اسے مبارک باد دے رہے تھے کہ وہ مسکرایا اور اترتے نیناں کی جانب بڑھا ۔۔ وہ ہاتھ اسکے آگے کرتے کھڑا ہوا کہ نیناں نے ناسمجھی سی گھبراتے اسے دیکھا جو اسے ہاتھ تھامنے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔

وہ ہچکچاتے اسکا ہاتھ تھام گئی کہ وریام اسے لیے دوبارہ سے اسٹیج پہ آیا۔۔

یہ رہی میری بیوٹیفل سی وائف ، میری جان میری زندگی میرا سب کچھ۔۔۔۔ وہ مسکراتے نیناں کا ہاتھ کھینچتے اپنے قریب کرتے ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتا ، محبت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولا کہ نیناں نے چند پل اسکی محبت سے لبریز بھوری آنکھوں میں دیکھتے فورآ سے نظریں چرائی ۔۔ کہ وریام نے مسکراتے اسکی پیشانی چومی کہ فضا میں پھر سے ایک شور کی سی آواز گونجی ۔۔۔۔

نیناں نے ڈرتے اسکی حرکت پہ آنکھیں پھیلاتے اسکے کندھوں پہ اپنے کمزور سے ہاتھ رکھتے اسے باز رکھنا چاہا ۔۔۔۔

مگر جانتی تھی یہ کہاں ممکن تھا۔۔۔ 

اچانک سے فضا میں ایک خوبصورت سی دھن نے ماحول پہ سحر طاری کیا۔۔ 

 کہ سب نے پھر سے تالیوں سے وی وی کے نعرے لگاتے اسے سراہا۔۔۔۔

جبکہ نیناں گانا بجتے ہی خوف سے پھیلی آنکھوں سے ایک نظر سامنے موجود لڑکیوں کو دیکھتی وریام کہ جانب دیکھنے لگی۔۔

وریام۔۔۔ مم مجھے ڈانس نہیں آتا۔۔۔۔ وہ اچانک سے دونوں ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اپنے نزدیک کر گیا کہ نیناں نے ڈرتے اسکے کندھوں کو تھامتے بمشکل لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔

میرے ہوتے پریشان کیوں ہوتی ہو جان وریام۔۔۔ وہ اسکی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ، اپنے چہرے کے نزدیک اسکے چہرے کو دیکھتے ہلکی سی پھونک مارتے بولا ۔۔ کہ نیناں نے بمشکل سے اپنے لرزتے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے انہیں تر کیا۔۔

آر یو ریڈی۔۔۔ وہ جھٹکے سے اسے گھماتے کہ اسکی پشت اب وریام کے سینے کے ساتھ لگی تھی ۔۔ ہلکا سا اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ ہونٹ اسکے کان کی لو پہ رکھتے پیچھا ہوا ۔۔

اور اسکا ہاتھ پکڑتے اپنے کندھے پر رکھتے دوسرے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں پھنسائے ، وہ اسکی کمر میں ایک ہاتھ ڈالتے اب آہستہ آہستہ سے میوزک کے ساتھ اسے موو کروا رہا تھا۔۔۔

کہ سامنے کھڑی یہ سارا منظر دیکھتے لیلی نے زور سے گلاس کو ہاتھ میں دبوچا کہ وہ ٹوٹتے اسکا کانچ لیلی کے سرخ دودھیا ہاتھوں میں چھبتے خون آلود کر گیا۔۔۔

کام ہوا کہ نہیں ۔۔۔ اپنے ہاتھ کہ پرواہ کیے بغیر وہ پھر سے فون کال پہ پھنکاری تھی۔۔۔

نیناں کو وریام کے اتنا قریب دیکھتے اسے اپنی اس دن والی بے عزتی دوبارہ سے محسوس ہوئی تھی۔۔۔ ایک نئے سرے سے نفرت نے اسکے رگ وپے میں آگ لگائی تھی۔۔۔

پانچ منٹ تک مکمل کرو سب۔۔۔۔۔ وہ کہتی فون رکھتے اپنی آنکھوں میں آئے ناتواں سے آنسو زور سے رگڑتے ، زحر حند مسکراہٹ سے سامنے دیکھ رہی تھی۔۔

کہ وہ جو اس کی ایک ایک حرکت پہ فوکس کیے ہوئے تھا اچانک سے فون کال کرنے کے بعد اسے مسکراتا دیکھ گڑبڑایا تھا۔۔

گانا حتم ہوتے ہی سحر ٹوٹا تھا۔۔ وریام نیناں کو پکڑتے نیچے ایک کرسی پہ بٹھا گیا۔۔

نین میں آتا ہوں اپنا حیال رکھنا اوکے۔۔۔ 

محبت سے اسکے پاس جھکتے عقیدت سے اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیتے وہ مسکرایا تھا کہ نیناں جو ابھی تک اپنا تنفس بحال کر رہی تھی ۔۔ گہرا سانس بھرتے اسکی خوشبو کو خود میں اتارتے مسکرائی۔۔ 

وریام کہتا اسکے ہاتھوں پہ بوسہ لیتے لیلی کے پیچھے بھاگا ۔۔ ضرور وہ کچھ کرنے والی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہیلو میم۔۔۔۔ آپ کو وی سر بلا رہے ہیں۔۔۔ 

اچانک سے پیچھے سے آتی ویٹریس نے اسے کچھ دیر بعد مخاطب کیا تو ایش ،دعا ، سمیت سب نے اس کی جانب دیکھا۔۔۔ 

میں بھی چلتی ہوں ساتھ۔۔ اسکی گھبراہٹ محسوس کرتے ایش نے کہا تو ویٹریس نے فوراً سے منع کر دیا۔۔

سر نے صرف میم کو بلایا ہے۔۔۔

وہ کہتے مسکرائی کہ سب نے پراسرار مسکراہٹ سے نیناں کو دیکھا ۔۔ 

کہ وہ پھر سے شرم سے سرخ ہوتے چہرہ جھکا گئی۔۔۔

ائیں۔۔ ویٹریس اسے لیتی سیڑھیوں کے راستے پر سے ایک روم کے سامنے چھوڑتے وہاں سے گئی۔۔۔

کہ کتنی دیر نیناں انگلیاں چٹخاتے ہوئے سوچتی رہی ، مگر ایک گہرا سانس لینے کے باوجود وہ خود کو ریلکس ناں کر پائی تو ایسے ہی کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ ناک کیا مگر وہ کھلتا چلا گیا۔۔

اندر داخل ہوتے ہی نیم تاریکی نے اسکا استقبال کیا تو ایک ڈر نے نیناں کے اندر تک سرائیت کی۔۔۔۔وہ مڑتی دروازے کی جانب بھاگی مگر تب تک دروازہ باہر سے لاک ہوا تھا۔۔ 

وریام۔۔۔ وہ ڈرتے اندھیرے میں اسے آوازیں دینے لگی۔۔۔ مگر اسے ناپاتے وہ گھبراتی خوف سے دروازے کو بری طرح سے پیٹنے لگی کہ اچانک سے فضا میں دھواں دھواں سا ہوتے کمرے کا سیاہ منظر بدلتا عجیب سا ہوا تھا ۔۔

کہ نیناں نے ہوائیاں اڑتے چہرے کے ساتھ دروازے کو ہاتھوں کی مدد سے زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا کہ اچانک سے بڑھتے دھوئیں کے ساتھ  ، اسکا سانس گھٹتا بند ہونا شروع ہوا تھا کہ اس نے بھیگے چہرے سے بمشکل دروازے پر ہاتھ مارا مگر ناکام ہوتی وہ نیم اندھیرے میں سے نظر آتے باتھروم کے ڈور تک گئی۔۔ 

مگر ڈور کا ہینڈل ٹوٹا دیکھ اسکی ساری ہمت پل بھر میں حتم ہوئی تھی ۔

وہ کمزور پڑتے اپنے نازک وجود کے ساتھ بمشکل اس دھوئیں کے ساتھ اپنے گاؤن کا نچلا گھیرا اٹھاتے منہ میں دبا گئی اور ہاتھ سے ٹٹولتے بیڈ کے پاس جاتے وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاتے  نیچے بیٹھی۔۔

مگر بڑھتے دھوئیں نے جہاں آکسیجن کی کمی کی تھی وہیں انکھوں میں چھبتے ، اس قدر تکلیف ہوئی تھی کہ نیناں کے لیے اب برداشت کرنا مشکل تھا۔۔

ایک ہلکی سی دل سی کوند لپکی تھی اس نے آس سے اپنی کم دھڑکتی مدہم پڑتی سانسوں کے ساتھ سامنے دیکھتے وریام کو پکارا تھا بشمکل سے کہ اسکے ہونٹ ہی ہلے تھے ۔۔۔

کہ اچانک سے دروازہ کھلتے وہ پاگلوں کی طرح اسے آوازیں دیتا فضا میں بکھرے اس اندھیرے پہ گھبراتے آگے بڑھا تھا اور ہاتھ کو فضا میں ہلاتے اس اندھیرے میں سامنے دیکھنے کی ذرا سی کوشش کی مگر سوائے کالے پھیلے اندھیرے کے کچھ نظر ناں ایا۔

معا وہ ہوش میں آتے مڑتا کہ دروازہ پھر سے اچانک سے بند ہوا تھا ۔

 جسے دیکھ وہ مڑتے اس تک جاتا کہ کسی احساس کے تحت اس کا دل زوروں سے دھڑکا تھا وہ بنا دیکھے آگے بڑھا تھا جہاں وہ نیم بے ہوش سی بیڈ کے کنارے سے ٹکی بکھرے بالوں، بکھرے حلیے میں تھی۔۔ وریام نے موبائل کی لائٹ آن کرتے اسکے چہرے پر لگائی ۔۔

کہ اسے اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی تھی۔۔ اسکے آنسوں سے تر چہرے اور مدہم سی چلتی سانسوں کے ساتھ نیم وا کیے ہونٹوں کو دیکھ۔ ۔۔

وہ تڑپتا اسے بانہوں میں بھرتے اسکے چہرے کو تھپتھپاتے اسے ہوش میں لانے لگا۔۔۔

نین ۔۔ ہیے بےبی ۔۔۔ گٹ اپ۔۔۔ دیکھو میں میں وریام آ گیا ہوں میں ۔۔۔۔ 

دیکھو میرے ہوتے تمہیں کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔ وہ کسی جنونی انسان کی طرح دکھ رہا تھا۔۔ اور فوراً سے اپنا کوٹ اتارے دور اچھالا تھا۔۔۔

بڑھتے دھوئیں سے اسکی آنکھیں جلتی سرخ ہو رہیں تھی کہ ساتھ ہی متواتر بہتے آنسو۔ اس کے لیے اپنی آنکھوں کو کھولتے فضا میں سانس لینا مشکل ہوا تھا۔۔

مگر وہ پھر بھی تڑپتا اپنے بانہوں میں موجود اپنی متاع جان کو دیکھتا پاگل سا ہوتے اسے جھنجھوڑتے ہوئے ہوش میں لا رہا تھا۔۔۔

مگر اسکے بےجان وجود میں ہلچل ناں پاتے وہ دوڈتا اسے بازوؤں میں۔ بھرتے باہر دروازے کی جانب بڑھا مگر اسے باہر سے بند پاتے وہ بے چینی سے تڑپا تھا۔۔۔ 

کتنی آوازیں دیں مگر شاید اس جانب کوئی نہیں تھا۔۔۔ 

وہ جانتا تھا کہ اسکے گارڑز ضرور اسے ڈھونڈتے یہاں پر پہنچ آئیں گے ۔

کیونکہ وہ لیلی کا پیچھے کرنے کے بعد جب واپس آیا تھا ۔ تو ایش کے پاس نیناں کو ناپاتے اسے کسی گڑبڑ کا احساس ضرور ہوا تھا۔۔

اسی لیے تو انکے بتانے پر وہ بھوکھلاتے ہوئے اوپر آتے ہر روم کو چیک کر چکا تھا مگر اس روم کو باہر سے لاک دیکھتے وہ کچھ سوچتے اندر آیا تھا کہ اندر موجود دھوئیں میں بکھری اپنی نین کی خوشبو کو محسوس کرتے وہ تڑپتا آگے بڑھا تھا۔۔۔

وہ اپنی دھندلی پڑتی آنکھوں کے ساتھ سامنے موبائل کی ہلکی سی لائٹ میں نظر آتے باتھروم کے ڈور کی جانب بڑھا تھا۔۔ مگر اسکا ہینڈل ٹوٹا دیکھ اسنے ضبط سے جبڑے بھینجے ۔۔۔ 

وہ دوڑتا آرام سے نیناں کے وجود کو بیڈ پر لٹاتا دروازے کے پاس آیا تھا ۔۔

اور جابجا نا جانے کتنی ہی لاتیں اسے رسید کری تھیں ۔۔ کہ وہ ایک دم سے کھلتا چلا گیا۔۔ وریام نے اپنی سرخ ہوتی بھوری آنکھوں سے بہتے گرم سیال کو بری طرح سے رگڑتے صاف کیا تھا اور دوڑتے نیناں کی جانب بڑھا تھا۔۔ 

اور کسی قیمتی متاع کی طرح اسے اپنی بانہوں میں سموتے وہ باتھروم میں داخل ہوتے دروازہ لاک کرنے لگا مگر زیادہ ٹھوکریں کھانے کی وجہ سے وہ ٹوٹ چکا تھا کہ اب وہ لاک ناں کر سکا ۔۔۔ 

وہ بنا کچھ سوچے دوڑتے شاور کے نیچے بیٹھا تھا اور ہاتھ سے اسے آن کرتے نیچے فرش پہ بیٹھتے نیناں کا سر اپنے سینے پہ اپنے دل کے مقام پہ ٹکا چکا تھا۔۔

دھوئیں سے اسکا خود کا بھی برا حال تھا اور اب اچانک سے روم کھلنے پہ دھواں باتھروم میں داخل ہوا تھا۔ کہ اچانک خود پہ گرتے پانی پہ وہ کھانستی بری طرح سے وریام کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑتے اسکی گردن میں منہ دیے گہرے سانس بھرنے  لگی۔۔

کہ اسے ہوش میں آتا دیکھ وریام نے سکون کا سانس کھینچتے  اسکے چہرے کو گردن سے نکالتے اپنے ہاتھوں میں  تھاما تھا ۔۔ اور اسکے ایک ایک نقش کو عقیدت سے اپنے ہونٹوں سے چومتے وہ اسکے ہونٹوں پر جھکتے اسکی سانسوں کو خود میں اتارتے اسکے ہونے کا یقین کرتے پرسکون ہوا تھا۔۔

کہ نیناں جو اچانک سے شاور کے نیچے وریام کو اپنے ساتھ دیکھتے اسکی گرفت پہ آنکھیں میچتے اسکی بانہوں میں سمٹ سی گئی تھی ۔۔۔

تم ٹھیک ہو نین۔۔۔۔ وہ اسکی حالت پہ رحم کھاتے اسکے لرزتے وجود کو محسوس کرتے اوپر شاور سے بہتے پانی کی وجہ اسکا بھیگا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے بولا کہ نیناں نے ڈرتے پھر سے اپنے ارد گرد بکھرتے دھوئیں کو دیکھا۔۔

وریامممممم۔۔۔ آپ کیوں ائے۔۔ آپ جائیں پہ پلیز۔۔۔۔۔ وہ خوف سے لٹھے کی مانند زرد پڑی تھی ۔۔ اور اب موت کے حوف سے اسے اپنے پاس دیکھتے وہ اسے کالر سے جھنجھوڑتے خود سے دور بھیجنا چاہ رہی تھی۔۔

اشششش۔۔۔ ریلکس کچھ نہیں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ وہ اسکی بگڑتی حالت اور بار بار ایک ہی ضد پہ آرام سے اسکی کمر سہلاتے اسے پرسکون کرنے لگا۔۔ اور ہاتھ سے چلتے شاور کو آف کیا تھا۔۔ 

وریام۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔ میں نے بہت غلط سمجھا ناں تمہیں۔۔ اسی لیے اب اللہ ناراض ہیں مجھ سے ۔۔ اور مجھے تم سے دور کر رہے ہیں۔۔ 

پلیز مجھے معاف کر دو ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تت تم  ایسے بب بالکل بب بھی نن نہیں۔۔۔ 

وریام ۔۔ آئی۔۔۔۔۔  وہ کہتے ایک دم سے اسکے ہاتھوں میں لہرائی تھی۔۔ 

کہ ایک زور دار سی چیخ وریام کے منہ سے برآمد ہوئی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

وری بیٹا اٹھ کر نماز ادا کر لو۔۔۔۔۔ 

موم رہنے دیں پلیز مجھے نیند آئی ہے اور ویسے بھی تو نماز تو میں تب پڑھوں جب مجھے اپنے رب سے کچھ چاہیے ہو ۔۔۔

سب کچھ تو ہے میرے پاس پھر میں کس کے لیے نماز پڑھوں۔۔۔۔ 

وہ پھتر کے بت کی مانند بیٹھا  تھا ،جس کی آنکھوں سے بہتے آنسوں ، عاجزانہ اٹھے دونوں ہاتھوں پہ بہہ رہے تھے ، کہ وہ سر شرمندگی ، ندامت سے جھکائے ہوئے تھا۔۔

اپنے برسوں پہلے کہی بات آج کانوں میں گونجتے اسکے اندر، اسکی روح پہ تمانچے کی مانند پڑی تھی۔۔

کیا ہمارے رب نے کبھی کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو ہی مجھے یاد کرو۔۔

اس نے تو یہ تحفہ عطا کیا تھا کہ اسکے بندے دن میں پانچ وقت اسکے سامنے عاجزی سے جھکتے اسکی حمد و ثنا کو بیان کرتے ۔۔ 

پھر یہ بات کہاں سے دلوں میں آ سموئی کہ جسے درد ، تکلیف  ، گلا ، شکوہ یا  رنجش ہو وہی اسے یاد کرے ۔۔۔۔

آج وہ جھکا تھا ، پہلی بار اپنے رب کے حضور ، کہ اسے شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں نے خود میں جھکڑتے اسکے ضمیر تک کو جھنجھوڑا تھا۔۔

وہ تو اپنی موم سے اتنی محبت کرتا تھا کجا کہ انکے لیے جان بھی دینے سے باز ناں آئے ۔۔ 

تو کیا وہ رب جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا تھا ، کیا اسکے آگے جھکنے اسے یاد کرنے اپنے قلب کے نزدیک محسوس تک کرنے کا وقت ناں رہا تھا اسکے پاس ۔۔

اسکی نین تو پانچ وقت نماز پڑھتی تھی اسے بھی تو کہا تھا اس دن کے اٹھ کر میرے ساتھ نماز پڑھو ۔۔۔ 

پھر کیسے اللہ اس سے ناراض ہوئے۔۔ وہ غلط کہتی تھی کہ اللہ اس سے ناراض ہوئے ہیں۔۔۔

بلکہ اللہ تو اس سے ناراض ہوئے ہیں اسی لیے تو اس کی زندگی کی سانسیں ، مدہم سی چل رہی تھیں۔۔

اج وہ اپنے رب کی بارگاہ میں بیٹھا تھا ۔۔ کہ کہنے کو کچھ ناں تھا۔۔ کیا کہتا کس گناہ کی معافی مانگتا ۔۔ 

اور کیا سوچتا اسکا رب ۔۔۔ کہ پوری زندگی یاد ناں کرا اور اب جب اپنی ضرورت آن پڑی تو آ گیا فریاد لیے۔۔۔

" میں جانتا ہوں میرے مالک میں گناہ گار ہوں ۔۔ کبھی تیری بارگاہ میں نہیں جھکا ۔۔ اور آج جب جھکا بھی تو کس کے لیے ۔۔ کسی اور کے لیے ، کسی کی زندگی کو بچاتے اپنی زندگی کو بچانا چاہتا تھا۔۔ کہ واقعی میں ہی انسان خود غرض ہی تو تھا ۔۔۔

ہر کام میں اپنا مفاد تلاشتہ ہے۔۔ اور جہاں کچھ بھی حاصل نہ ہو اسے چھوڑ جاتا ہے۔۔۔

وہ کتنی دیر ایسے ہی جھکے سر کے ساتھ بیٹھا اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو گھورتا رہا تھا۔۔

اور پھر اپنے انہی ہاتھوں کو منہ پہ پھیرتے ، ایک الگ سا سکون تھا جسنے اسکی روح تک کو چھوتے اسے اندر  روح تک طمانیت بخشی تھی کہ اس کی آنکھوں سے بہتا ایک بے مول سا آنسو اسکی گال پہ بہتا جائے نماز پہ گرا تھا۔۔ وہ عقیدت سے جھکتا اپنی پیشانی جائے نماز پہ ٹکاتے جانے کتنی ہی دفع بوسہ لے چکا تھا کہ دل بھرا ہی نہیں تھا ۔۔۔ 

وہ اٹھا تھا ایک الگ سا اپنے اندر بدلتی اس کیفیت پہ وہ سکون سے آنکھیں موندے جائے نماز تہہ کرتے ، ایک جانب رکھتے سر پہ باندھے اپنے رومال کو اتارتا ہاتھ میں لیتے وہ روم سے باہر نکلا تھا۔۔۔

اور چلتا وارڈ کے سامنے آیا تھا۔۔ 

جہاں کچھ گھنٹے پہلے ہی وہ اپنی نین کو اٹھاتے لے آیا تھا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ چیختے اپنی گود میں رکھے اسکے سر کو دیکھتا رہا جو کہ بے جان سی ہوتی اسکے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔۔۔ 

کہ اچانک سے کھلتے دروازے پہ وہ سامنے  سے اندر داخل ہوتے گارڈز کو دیکھتے فوراً سے انہیں باہر جانے کا حکم دے گیا۔۔

اور اٹھاتے نیناں کو اپنی بانہوں میں بھینجتے وہ روم میں آیا تھا اور اپنی پھینکے کوٹ کو اٹھاتے وہ نیناں کو پہناتا باہر کو بھاگا تھا۔

کہاں تھے تم سب اب تک۔۔ جب کہا تھا میں نے۔ کہ میری پیچھے پہنچو جلدی تو کہاں مرے پڑے تھے تم سب کے سب۔۔۔ وہ بھپرا انکے منہ پہ دھاڑا کے اسکے دونوں گاردڈز چہرہ جھکاتے خاموش تھے۔۔

اگر میری نین کو کچھ بھی ہوا تو آئی سویر اتنا برا حال کروں گا کہ اپنے آپ کو بھی ہہچان ناں پاؤ گے ۔۔۔ وہ نیناں کو اٹھاتے انکے پاس سے بھاگتا جاتے ہوئے بھی وارن کر گیا ۔۔۔ اور دوڑتے پچھلے گیٹ سے اپنی گاڑی کی جانب جاتے وہ پچھلی سیٹ پہ نیناں کے وجود کو لٹاتے خود آگے بیٹھا تھا اور دھندلی پڑتی آنکھوں سے گاڑی سٹارٹ کرتے زن سے بھگا لے گیا۔۔۔

 ڈاکٹر کو بلاؤ پلیز ۔۔۔۔ وہ بھاگتا سب سے نزدیک پڑتے ہوسپٹل میں داخل ہوا تھا۔۔ 

جبکہ نگاہیں نیناں پر تھیں۔۔ جس کی سانسیں اب بالکل مدہم ناں ہونے کے برابر چل رہی تھیں۔۔۔

نین ہیے دیکھو ہم آ گئے کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔ اوکے ڈونٹ وری میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں ۔۔۔ وہ بھاگتا اسے لیے ایک روم میں داخل ہوا تھا اور بیڈ پہ لٹاتے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے گویا ہوا تھا۔۔

کیا ہوا انہیں آپ پلیز باہر جائیں ہم ان کا چیک اپ کرتے ہیں۔۔۔ ۔

میل ڈاکٹر نرس کی اطلاع پہ بھاگتا ایمرجنسی کیس کا سنتے روم میں آتے ہوئے بولا ۔۔ کہ وریام غصے سے اسے دیکھتے اسکی جانب لپکا۔۔۔

کس سے پوچھ کر روم میں آئے ہو۔۔۔ 

وہ بپھرتے حطرناک تاثرات لیے اسکے کالر کو مٹھیوں میں۔ دبوچے جھٹکا دیتے بولا کہ ڈاکٹر ، نرسز سمیت سب نے اسکی جانب دیکھا جو بکھرے بالوں اور ادھ کھلی کالی شرٹ میں کوئی پاگل محسوس ہوا تھا انہیں ۔۔۔

سر چھوڑیں کیا ہوا یہ میم کا علاج کرنے کو آئے ہیں۔۔۔ اسکے گارڈز جو دوسری گاڑی سے اسکے پیچھے ہی آئے تھے کہ اب اچانک سے یہ سب دیکھتے وہ دوڑتے بچاؤ کرنے کو بڑھے۔۔۔

تم لوگ میں نے کہا تھا ناں کہ شکل مت دکھانا اپنی۔۔۔ وہ ایسے ہی ڈاکٹر کا کالر دبوچے ، انہیں دیکھتے پھنکارا تھا۔۔۔

اور تم نکلو یہاں سے کسی لیڈی ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔۔۔  وہ جھٹکے سے اسے دھکا دیتے دور پھینکتے زور سے چیختا بولا تھا کہ گارڈز سمیت سب دوڑتے روم سے نکلے تھے ۔۔

دیکھیں پلیز آپ چیک اپ کریں ۔۔ دیکھیں یہ ٹھیک ہو جائے گی ناں۔۔۔ وہ جو روم سے سب کو بھگاتا اب خود اسکے پاس بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ اچانک سے روم میں آتی لیڈی ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔ کہ ڈاکٹر نے ایک نظر اسکی جانب دیکھ اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی۔۔ 

دیکھیں آپ کی اپنی حالت بہت حراب ہے آپ پلیز تھوڑی دیر ریسٹ کرتے میڈیسن لے لیں۔۔۔ تاکہ آپ خود بھی ریلکس ہو سکیں ۔۔ 

ڈاکٹر اسکی سوجھی آنکھوں کو دیکھتے کہتے نیناں کی آنکھوں کو کھولتے چیک کرنے لگی۔۔

نہیں ڈاکٹر میں ٹھیک ہوں آپ پلیز اسے ٹھیک کر دیں۔۔ وہ آنسو بازو سے رگڑتا بولا کہ ڈاکٹر نے  تاسف بھری نظر سے اسے دیکھتے سر کو جھٹکا تھا۔۔۔

آپ باہر ویٹ کریں مجھے چیک اپ کرنے دیں انکا ۔۔۔ 

ڈاکٹر قدرے تحمل سے اسے دیکھتے بولیں کہ وہ بھی ایک نظر زرد پڑتی نیناں کو دیکھتے سر ہاں میں 

ہلاتے باہر کو نکلا 

وری بیٹا کیا ہوا نیناں کو اچانک سے۔۔۔ رضا اور شمائلہ گارڑز کے فون پہ بوکھلاتے ہوسپٹل پہنچے تھے کہ سامنے ہی ایک روم کے سامنے اپنے بیٹے کو اس طرح سے اجڑی حالت میں دیکھتے وہ صدمے سے نڈھال ہوتے اس تک پہنچے تھے۔۔

آواز پر اس نے گردن اٹھاتے ہوئے سامنے کو دیکھا تھا جہاں اسکی موم اور ڈیڈ اسکے سامنے ہوائیاں آڑی رنگت کے ساتھ کھڑے تھے۔۔۔ 

موم ڈیڈ۔۔۔ وہ انہیں سامنے پاتے کسی چھوٹے بچے کی طرح دوڑتا انکے پاس جاتے ان میں سمو گیا ۔۔ کہ وہ دونوں اپنے گلے میں بازو ڈالے روتے اپنے بہادر بیٹے کو یوں روتا دیکھ ایک دم سے تڑپ اٹھے ۔۔۔۔

وری بیٹا ۔۔۔۔۔ کیا ہوا بیٹا حوصلہ رکھو تم ۔۔ کچھ نہیں ہوگا اسے ۔۔۔ رضا بمشکل سے اسے سنبھالتے بینچ پر بٹھاتے اسکا چہرہ تھامتے بولے کہ وہ روتا انکو دیکھتے انکے گلے لگتا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔

ڈیڈ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ 

مجھے اسے لے کر ہی نہیں جانا چاہیے تھا۔۔ ڈیڈ میں آپ کو بھی تنگ کرتا ہوں میں بہت برا ہوں ناں۔۔ 

آپ پلیز اس سے کہیں کہ اٹھ جائے ایسا ناں کرے میرے ساتھ۔۔ میں مر جاؤں گا ڈیڈ ۔۔ 

میں وعدہ کرتا کہ آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا ، کبھی ، شرارت بھی نہیں کروں گا آپ پلیز ایک بار اسے اٹھا دیں۔۔ 

موم آپ آپ بتائیں اسے کہ اسکا وریام نہیں رہ سکتا اسکے بغیر ، آپ جانتی ہیں موم جب وہ غصے سے مجھے دیکھتی ہے ناں تو مجھے کتنا اچھا لگتا ہے۔۔ اسے تنگ کرنا اسکے ساتھ وقت گزارنا مجھے بہت زیادہ اچھا لگتا ہے ۔۔۔ میں کیسے رہوں گا اسکے بغیر ۔۔ پلیز آپ دونوں میری بات کا یقین دلائیں اسے ۔۔ وہ ناراض ہے مجھ سے۔۔۔

میں کبھی کسی لڑکی سے دوستی بھی نہیں کروں گا ناں ہی بلاؤں گا۔۔ وہ بے تخاشہ روتے بچوں  کی طرح ناجانے اور کیا کیا بول رہا تھا ، وہ کبھی رضا تو کبھی شمائلہ ، دونوں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہتا ان دونوں کی اذیت بڑھا رہا تھا ۔۔

وہ کیسے دیکھتے اپنے نازوں پلے لاڈلے کی ایسی دل دہلا دینے والی حالت۔۔۔ 

اگر تم چاہتے ہو کہ سچ میں تمہاری نیناں کو کچھ ناں ہو ، وہ ہمیشہ تمہارے پاس مخفوظ اور خوش رہے تو تم ایک کام کرو۔۔۔ 

اپنے رب کو یاد کرو۔۔ جس نے اسے تم کو سونپا تھا۔۔ جس نے اسے تمہاری قسمت میں لکھا ہے وہی اسے لوٹائے گا بھی بے شک وہ دلوں کے حال بہتر جاننے والے ہے۔ ""

وری۔۔۔ اچانک سے اپنے کندھے پہ بوجھ کے ساتھ اپنے نام کی پکار پہ وہ جو سامنے کھڑا شیشے میں سے اسے آکسیجن  میں سانس لیتے دیکھتے سب کچھ سوچ رہا تھا کہ سے مڑتے پیچھے کی  جانب کو دیکھنے  لگا۔ 

جہاں اسکے ڈیڈ کھڑے وریام کے دیکھنے پہ ہلکا سا مسکرائے۔۔۔

ڈیڈ کیسی ہے اب وہ۔۔۔۔ وہ اپنے ڈیڈ کے گلے لگتے بمشکل خود پہ ضبط کے پہاڑ بٹھائے بولا تھا۔۔

کہ رضا نے اسکی پیٹ تھپکتے اسے حوصلہ دیا تھا ۔۔ 

ٹھیک ہے وہ اب خطرے سے باہر ہے اور تم اب خود کو بہادر بنو ، کیا ایسےروندھوں سی شکل لے کر جاؤ گے اسکے سامنے۔۔۔ 

وہ کہتے آخر میں اسے چھیڑتے بولے کہ وریام ہلکا سا مسکراتے انہیں دیکھتا پھر سے انکے گلے لگا۔۔۔

بس کر پگلے اگر اتنا پیار کرے گا تو بعد میں تیرے کرتوت برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔

وہ اسکی پیٹ تھپکتے دل سے بولے کہ وہ قہقہہ لگاتے ہنسا تھا ۔۔ 

جبکہ رضا اسے اتنی دیر بعد یوں مسکراتا دیکھ جھکتے اپنے ہونٹ اسکی پیشانی پہ رکھ گئے۔۔

ڈیڈ موم کہا ہیں۔۔؟ وہ اپنی موم کو ناپاتے ان کا پوچھ بیٹھا ۔۔

وہ نوافل ادا کرنے گئی ہے اپنی بیٹی کی صحت یابی کی خوشی پر۔۔ وہ بتاتے مسکرائے کہ وہ بھی ہلکا سا مسکراتے سر ہاں میں ہلا گیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

پورا ایک دن اور رات وہ ہوسپٹل میں ایڈمٹ رہی تھی کہ ڈاکٹرز کے مطابق اسکی کمزور صحت کی وجہ سے اور برداشت ناں کر پانے کہ وجہ سے دھواں اسکے پھیپھڑوں پہ بری طرح سے اثر چھوڑ چکا تھا اب پورا ایک دن اسے ایمرجنسی میں رکھا گیا تھا ۔۔ 

کہ وہ ہوش میں آتی بے چین سی اپنے آگے پیچھے دیکھتے اسے ڈھونڈ رہی تھی جو ناجانے کہاں چھپا ہوا تھا کہ نیناں اسے ناپاتے مرنے والی ہوئی تھی ۔۔

مگر ناں تو وہ رات کو اس سے ملنے آیا تھا اور ناں ہی اب ، پورا دن وہ اس کا انتظار کرتی رہی تھی کہ شاید وہ کہی مصروف ہو گا یا پھر اس سے ناراض تھا اسی لیے نہیں آیا اس سے ملنے ، مگر اب وہ بالکل مرجھا چکی تھی ۔۔ 

اسے اپنے پاس ناپاتے جانے کتنے ہی الٹے سیدھے سوال اسکے دل میں پنپنے تھے ، جنہیں وہ اپنے چھوٹے سے دماغ میں بٹھاتے جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔۔

پھپھو مجھے ریسٹ کرنی ہے۔۔۔ وہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈسچارج لیتے اسے گھر لائے تھے ، اور ابھی اسی کے روم میں بیٹھے اس سے نا جانے کتنی باتیں کیں تھیں ۔۔ وریام کا رویہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔۔ 

کہ آخر وہ کیوں ایسا کر رہا تھا۔۔ کل رات بھی وہ اسکے سوتے ہی کتنی دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا تھا مگر صبح ہوتے ہی ایک نظر اسے دیکھتے جو آفس کو نکلا تھا کہ اب دوبارہ سے واپس نہیں آیا تھا۔۔

وہ بتا چکے تھے اسے کہ وریام کتنا پریشان ہوا تھا اسکے لیے۔۔ وہ سن تو رہی تھی مگر جانے سچ بھی مان رہی تھی کہ نہیں۔۔۔ 

مگر اب وہ دونوں خاموش ایک دوسرے کو دیکھتے اشارہ کرنے لگے ۔

اچھا آپ ریسٹ کرو بیٹا ہم چلتے ہیں پھر۔۔ رضا نے ہی اٹھتے اس کے پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا کہ وہ نم آنکھوں سے ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔

اسے خود بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا یہ سب کرنا ، مگر وہ کیا کرتی کب تک اپنی وجہ سے سب کو اذیت میں مبتلا رکھتی اسی  لیے تو سوچتے وہ انکے آرام کا حیال کرتے انہیں روم سے بھیج چکی تھی۔۔

کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی موم کو یاد کرنا اچھا۔۔۔ شمائلہ اٹھتے اسکی پیشانی چومتے ہوئے بولیں کہ وہ ہلکا سا مسکراتے سر ہاں میں ہلا گئی تھی۔۔

انکے جاتے ہی جانے کتنی دیر وہ خاموش ساکت سی پڑی فضا کو گھورتی رہی تھی کہ پھر ہوش میں آتے اٹھی تھی اور وارڈروب سے اپنا آرام دہ سوٹ نکالتے وہ شاور لینے چلی گئی ۔۔ 

تھوڑی ہی دیر میں وہ باوضو ہوتے باہر آئی تھی ۔ دوپٹے کو اچھے سے لپیٹتے وہ جائے نماز بجھاتے اپنے رب کی بارگاہ میں جھکتے اسکا شکر ادا کرنے لگی جو اس کی مہربان ہوتے ایک بار پھر سے زندگی لوٹا گیا تھا۔۔

وہ نماز سے فارغ ہوتی ہاتھوں کو اٹھاتے دعا مانگنے لگی مگر اس ستم گر کا چہرہ اور رویہ یاد آتے ہی وہ اپنے ہم راز اپنے رب کے سامنے روئی تھی۔۔

کل کے خود پہ باندھے ضبط اور صبر کے سارے پہاڑ توڑے تھے آج اس نے ۔۔ 

خود کو ہلکا کرتی وہ اٹھتی جائے نماز تہہ کرتے صوفے پہ ایک جانب رکھتے مڑی کہ اچانک سے دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔

اور نظریں سیدھا اسکے آنسوں سے تر چہرے پر پڑی تھیں کہ وہ بے چین سا دوڑتا اسکے پاس آیا تھا ۔۔

کہ نیناں اسے اپنے پاس آتے دیکھ غصے سے بیڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔

ہیے نین کیا ہوا تم کیوں رہی ہو ۔۔ کیا ہوا ہے درد ہو رہا ہے کہیں ، 

وہ بے تاب سا تڑپتا اسکے بازوؤں سے پکڑتے اسے اپنے قریب کرتے بولا ۔۔

کہ نیناں نے شکوہ کناں سی نظریں اٹھاتے اسکی جانب دیکھا ۔۔

تم سے مطلب۔۔۔  وہ غصے سے پھاڑ کھانے والے انداز میں غرائی تھی اور ہاتھ سے اسکے سینے پہ دباؤ دیتے اسے خود سے دور کرنا چ

پورا ایک دن اور رات وہ ہوسپٹل میں ایڈمٹ رہی تھی کہ ڈاکٹرز کے مطابق اسکی کمزور صحت کی وجہ سے اور برداشت ناں کر پانے کہ وجہ سے دھواں اسکے پھیپھڑوں پہ بری طرح سے اثر چھوڑ چکا تھا اب پورا ایک دن اسے ایمرجنسی میں رکھا گیا تھا ۔۔ 

کہ وہ ہوش میں آتی بے چین سی اپنے آگے پیچھے دیکھتے اسے ڈھونڈ رہی تھی جو ناجانے کہاں چھپا ہوا تھا کہ نیناں اسے ناپاتے مرنے والی ہوئی تھی ۔۔

مگر ناں تو وہ رات کو اس سے ملنے آیا تھا اور ناں ہی اب ، پورا دن وہ اس کا انتظار کرتی رہی تھی کہ شاید وہ کہی مصروف ہو گا یا پھر اس سے ناراض تھا اسی لیے نہیں آیا اس سے ملنے ، مگر اب وہ بالکل مرجھا چکی تھی ۔۔ 

اسے اپنے پاس ناپاتے جانے کتنے ہی الٹے سیدھے سوال اسکے دل میں پنپنے تھے ، جنہیں وہ اپنے چھوٹے سے دماغ میں بٹھاتے جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔۔

پھپھو مجھے ریسٹ کرنی ہے۔۔۔ وہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈسچارج لیتے اسے گھر لائے تھے ، اور ابھی اسی کے روم میں بیٹھے اس سے نا جانے کتنی باتیں کیں تھیں ۔۔ وریام کا رویہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔۔ 

کہ آخر وہ کیوں ایسا کر رہا تھا۔۔ کل رات بھی وہ اسکے سوتے ہی کتنی دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا تھا مگر صبح ہوتے ہی ایک نظر اسے دیکھتے جو آفس کو نکلا تھا کہ اب دوبارہ سے واپس نہیں آیا تھا۔۔

وہ بتا چکے تھے اسے کہ وریام کتنا پریشان ہوا تھا اسکے لیے۔۔ وہ سن تو رہی تھی مگر جانے سچ بھی مان رہی تھی کہ نہیں۔۔۔ 

مگر اب وہ دونوں خاموش ایک دوسرے کو دیکھتے اشارہ کرنے لگے ۔

اچھا آپ ریسٹ کرو بیٹا ہم چلتے ہیں پھر۔۔ رضا نے ہی اٹھتے اس کے پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا کہ وہ نم آنکھوں سے ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔

اسے خود بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا یہ سب کرنا ، مگر وہ کیا کرتی کب تک اپنی وجہ سے سب کو اذیت میں مبتلا رکھتی اسی  لیے تو سوچتے وہ انکے آرام کا حیال کرتے انہیں روم سے بھیج چکی تھی۔۔

کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی موم کو یاد کرنا اچھا۔۔۔ شمائلہ اٹھتے اسکی پیشانی چومتے ہوئے بولیں کہ وہ ہلکا سا مسکراتے سر ہاں میں ہلا گئی تھی۔۔

انکے جاتے ہی جانے کتنی دیر وہ خاموش ساکت سی پڑی فضا کو گھورتی رہی تھی کہ پھر ہوش میں آتے اٹھی تھی اور وارڈروب سے اپنا آرام دہ سوٹ نکالتے وہ شاور لینے چلی گئی ۔۔ 

تھوڑی ہی دیر میں وہ باوضو ہوتے باہر آئی تھی ۔ دوپٹے کو اچھے سے لپیٹتے وہ جائے نماز بجھاتے اپنے رب کی بارگاہ میں جھکتے اسکا شکر ادا کرنے لگی جو اس کی مہربان ہوتے ایک بار پھر سے زندگی لوٹا گیا تھا۔۔

وہ نماز سے فارغ ہوتی ہاتھوں کو اٹھاتے دعا مانگنے لگی مگر اس ستم گر کا چہرہ اور رویہ یاد آتے ہی وہ اپنے ہم راز اپنے رب کے سامنے روئی تھی۔۔

کل کے خود پہ باندھے ضبط اور صبر کے سارے پہاڑ توڑے تھے آج اس نے ۔۔ 

خود کو ہلکا کرتی وہ اٹھتی جائے نماز تہہ کرتے صوفے پہ ایک جانب رکھتے مڑی کہ اچانک سے دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔

اور نظریں سیدھا اسکے آنسوں سے تر چہرے پر پڑی تھیں کہ وہ بے چین سا دوڑتا اسکے پاس آیا تھا ۔۔

کہ نیناں اسے اپنے پاس آتے دیکھ غصے سے بیڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔

ہیے نین کیا ہوا تم کیوں رہی ہو ۔۔ کیا ہوا ہے درد ہو رہا ہے کہیں ، 

وہ بے تاب سا تڑپتا اسکے بازوؤں سے پکڑتے اسے اپنے قریب کرتے بولا ۔۔

کہ نیناں نے شکوہ کناں سی نظریں اٹھاتے اسکی جانب دیکھا ۔۔

تم سے مطلب۔۔۔  وہ غصے سے پھاڑ کھانے والے انداز میں غرائی تھی اور ہاتھ سے اسکے سینے پہ دباؤ دیتے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔۔۔

نین۔۔۔۔ بات تو سنو یار۔۔۔۔ وہ خود کو اگنور کرتے دیکھ فوراً سے اسکے سامنے ہوتے بولا کہ نیناں نے نظر انداز کرتے بیڈ پہ جاتے رح موڑتے منہ تکیے میں چھپایا۔۔۔

وریام اسکے ہلکے سے لرزتے وجود کو دیکھتے سمجھ چکا تھا کہ میڈم پھر سے شغل فرما رہی ہیں رونے کا۔۔ 

وہ جانتا تھا کہ وہ ناراض ہے اس سے اور وجہ بھی باخوبی جانتا تھا۔۔

اسی لیے تو سوچتے وہ اپنے کپڑے نکالتے شاور لینے گیا تھا۔۔

وہ دس منٹ بعد ہی فریش سا ہوتے باہر آیا تھا کہ نماز وہ مسجد میں ہی ادا کر چکا تھا۔۔۔

نین ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے گہرہ سانس کھینچتے اسکی جانب بڑھا تھا اور ایک ہی جھٹکے میں کمفرٹر جو اس پر سے اٹھاتے دور اچھالا تھا کہ وہ ہڑبڑاتے اٹھی تھی مگر سامنے ہی اسے مسکراتے پا کر وہ غصے سے اسے گھورتے بیڈ سے اٹھنے لگی۔۔

کہاں جا رہی ہو میری جان ، جب ہم یہاں ہیں تو آپ کو اجازت نہیں کہ میرے ہوتے تم کسی بے مول چیز پہ وقت ضائع کرو۔۔۔

وہ اسے کھینچتے ایک ہاتھ کمر میں باندھتے اپنے اوپر گراتے ہوئے بولا کہ نیناں نے غصے سے سر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔ وریام میں منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔۔ وہ ایک دم سے بھپرتے تیز تیز سانسیں لیتی بولتے اپنے ہاتھوں کو آزاد کروانے لگی جنہیں وہ قید کرتے ایک ہاتھ میں جکڑ چکا تھا۔۔

ناں کرو یار تھک جاؤ گی۔۔۔۔ اسے مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش میں نڈھال سا ہوتے دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولا کتنا خوشگوار احساس تھا کہ اس کی نین اسکے پاس تھی بالکل ٹھیک ۔۔ 

اور اپنے دبنگ سٹائل میں اس سے ناراضگی بھی جتا رہی تھی۔۔

نیناں نے غصے سے سرخ ہوتی چھوٹی سی ناک پھلائے اسے دیکھا جو مسکراتا اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔

ایک دم سے اسکی آنکھوں میں جھلکتی محبت ، جنون کی داستان کو دیکھتے وہ بری طرح سے تڑپتے اسکے سینے سے لگتے رونے لگی مکہ وریام اچانک سے اسکے رونے پہ تڑپ اٹھا تھا۔۔ وہ اٹھاتا اسے گود میں لیتے بیٹھا تھا ، اور آہستگی سے اسکی کمر کو سہلاتے وہ ہاتھ سے اسکے  دوپٹے کو اتارتے ،جوڑے میں مقید بالوں کو جھٹکے سے کھول گیا ۔۔

وہ گہرا مسکرایا اسے بغیر کوئی ردعمل دکھاتے روتا دیکھ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہاتھ اسکے بالوں میں پھنساتے سہلاتے ہونٹ اپنے سینے میں منہ دیے روتی نین کے سر پہ رکھ گیا۔۔

نہائی کیوں۔۔ ابھی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی تمہاری احتیاط کرنی چاہیے تھی۔۔۔۔ 

وہ اسکے بالوں میں منہ دیے انکی خوشبو کو خود میں اتارتے مدہوش ہوتے بوجھل لہجے میں بولا کہ نیناں نے  غصے سے لب بھینجے۔۔۔

ٹھیک ہوں میں۔۔۔ 

چھوڑو مجھے اور بند کر دو یہ ناٹک جانتی ہوں جتنی پرواہ ہے تمہیں میری ۔۔۔ تم بھی دوسروں کی طرح صرف خود غرض ہو ۔۔ کوئی نہیں میرا اس دنیا میں۔ جو مجھ سے محبت کرتا ہو ۔ سب جھوٹے ہیں ۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کے روتی اپنے اندر پلتے خلفشار کو زبان پہ لاتے بنا اسکی جانب دیکھتے بولی کہ وریام سنتے لب بھینج گیا۔۔۔

تم بھی باقی سب کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔

اشششش ۔۔۔وہ بولتے کچھ اور کہتی کہ وہ جھٹکے سے اسے بیڈ پہ ڈالتے جھکتے انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش کروا گیا کہ نیناں نے آنسو بھری ناراض آنکھوں سے اسے دیکھتے چہرہ گھمایا۔۔۔۔

کون کہتا ہے تم اکیلی ہو اس دنیا میں ، کیا میری آنکھوں میں جھلکتی محبت ، جنون ، نظر نہیں آتا تمہیں۔۔۔ وہ اس پہ جھکتا اس کے ایک ایک نقش کو آنکھوں کے رستے دل میں سموتے ہوئے بولا کہ نین لب بھینج گئی۔۔۔

تمہارے لیے میں ہی کافی ہوں ۔۔۔ میری محبت کسی کو بھی شراکت کی اجازت نہیں دے گی۔۔ چاہے وہ میری اولاد ہی کیوں ناں ہو۔۔۔۔۔

وہ مسکراتے اسکے متغیر ہوتے رنگوں کو دیکھتے مخنی خیزی سے بولا کہ نیناں کو گڑبڑ کا احساس ہوا ۔۔ وہ اٹھتے بھاگتی کہ وریام سمجھتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے خود میں بھینجتے  اسکے سارے راستے خود تک محدود کر گیا۔۔۔۔

جانتی ہو اس ایک دن میں کتنی دفع مرا ہوں میں۔۔۔۔ 

تم سے ملا نہیں کہ اب اگر مل لیتا تمہاری آنکھوں میں دیکھ لیتا تو خود کو روک پانا نا ممکن تھا میرے لیے۔۔

اسی لیے دوررکھا خود کو تم سے۔۔۔۔ وہ اسکے بالوں میں چہرہ چھپاتے مدہوش سا ہوتے بول رہا تھا کہ نیناں  کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔۔

وریاممممم۔۔۔۔ وہ اسکی بڑھتی گستاخیوں پر ڈرتے اسے باز رکھنے لگی کہ وریام  جھکتے اسکی سانسوں کے ساتھ اسکی ساری مزاحمت کو خود میں اتارنے لگا۔۔۔۔

آج کچھ ناں کہو نین۔۔۔ مجھے محسوس کرنے دو خود کو۔۔۔۔ میں تمہاری روح تک میں اترتے تمہیں اپنے جنون اپنے عشق سے واقف کروانا چاہتا ہوں۔۔۔ 

آج یہ بے جا مزاحمت کسی کام نہیں آئے گی۔۔۔ وہ جھکتے اسکی کان میں سرگوشی کرتے اسکی جان  آدھی کر گیا۔۔

اور آہستہ سے اسکی گردن پہ جھکتا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔

کہ نیناں نے ڈرتے اسکی شدت بھرے لمس پہ پھڑپھڑاتے اپنے ناخون اسکی پشت پہ گاڑھے ۔۔۔

کہ وریام ہلکا سا سر اٹھاتے لیمپ کی مدہم سی جلتی روشنی میں اسکے کپکپاتے ، گہرے سانس بھرتے وجود کو دیکھتے ہاتھ بڑھاتے لائٹ آف کرتے اسکے مزاحمت کرتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتے  تکیے سے لگا گیا ، اپنی محبت اس سے اسے بھگوتے خود بھی مدہوش سا تھا۔۔۔

قطرہ قطرہ گزرتی  رات میں اسکی بڑھتی شدت بھری گستاخیوں پہ وہ نڈھال سی ہوتی اپنا آپ اسکے سپرد کر گئی کہ   اسکی  خود سپردگی کو محسوس کرتے وہ مسکراتے ہوئے اسے خود میں پوری طرح سے قید کر گیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

السلام علیکم ڈیڈ!  کیسے ہیں آپ... ؟

وعلیکم السلام ۔۔۔۔ آخر کار آ ہی گئی میرے بیٹے کو میری یاد۔۔۔ وہ سلام کا جواب دیتے تھوڑا تلغ جتاتے ہوئے لہجے میں بولے ۔۔

کہ وہ احساس شرمندگی سے سر جھکا گیا۔۔

سوری ڈیڈ آپ جانتے ہیں  ۔ آپ کو کبھی میں بھول جاؤں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔ یہ تو بس ابھی ایک دن ہوا ہے یہاں پہ آئے اور آتے ساتھ ہی فدک کے ڈاکٹر کے ساتھ میری میٹنگ تھی ۔

تو اسی وجہ سے مجھے مصروفیات میں ٹائم نہیں ملا مگر اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں نے آپ کو یاد نہیں کیا۔۔۔

وہ  ماتھے کو مسلتے ریلنگ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا کہ اظہر حفیف سا مسکرائے اسکی بات پہ۔۔۔

اللہ میرے بیٹے کی مشکلیں آسان کریں۔ آمین۔۔۔

وہ مسکراتے بولے کہ رافع بھی آمین کہتا جھکتے کھڑا ہوا۔۔

اچھا فدک کیسی ہے۔۔ اور کہاں ہے بات کروا دو میری بیٹی سے۔۔۔

آں ڈیڈ وہ دراصل سو رہی ہے ابھی اور جب اٹھے گی تو میں ضرور بات کروا دوں گا۔۔۔ وہ کچھ فورا سے سنبھلتے ہوئے بولا کہ کہیں انہیں شک نا ہو پائے۔۔۔ 

اچھا حیال رکھنا اس کا بھی اور اپنا بھی۔۔ 

جی ضرور۔۔۔ رکھوں گا اس کا حیال۔۔۔ اچھا ڈیڈ وری سے بات نہیں ہو پارہی میری اور کافی روٹھا ہوا تھا مجھ سے کہ اچانک سے پارٹی کینسل کرتے پاک آ گیا ہوں۔۔۔

بیٹا کیا تمہاری بات نہیں ہوئی اس سے ۔۔ پارٹی میں اتنا بڑا حادثہ ہو گیا تھا ۔۔۔

وہ بتاتے سامنے موجود صوفے پہ بیٹھے اور موبائل دوسرے ہاتھ میں پکڑتے ٹی وی کا والیم کم کیا ۔

کیا ہوا ہے ڈیڈ کھل کر بتائیں۔۔ وہ سنتے پریشان سا ہوتے بولا تھا کہ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے وری کے ہوتے نیناں کو کوئی کیسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔  

بیٹا وہ۔۔۔۔۔۔۔ 

اظہر کے بتانے پہ رافع کے چہرے کے تاثرات بدلتے ایک دم سے سرد ہوئے تھے۔۔ وہ ہاتھوں کی مٹھیوں آپس میں بھینجتے اپنے اندر کے غصے سے کنٹرول کر رہا تھا۔۔

ڈیڈ آپ پریشان نا۔ ہوں میں آ رہا ہوں ابھی۔۔۔۔ وہ کہتے کال کاٹنے لگا کہ رضا نے روک دیا۔۔ 

بیٹا ایسے نہیں سنو ۔۔۔ تم کیسے آ سکتے ہو یہاں پر فدک کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔۔۔

ابھی رک جاؤ کچھ دن وہیں پھر آ جانا۔۔ اظہر اسے پرسکون کرتے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے۔۔۔

ڈیڈ آپ کو لگتا ہے کہ میرے جگر میرے دوست کی زندگی میں اتنا سب کچھ ہو رہا ہے ، وہ لڑکی اسے میں نے اپنے دل سے بہن مانا ہے اور اب میں ناں آؤں۔۔۔

یہ کیسے ہو سکتا ۔۔ کیا ضروری ہے کہ جب بھی ہم دونوں پہ مصیبت آئے ہم ایک دوسرے سے دور ہی ہوں۔۔ میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتا اور اب کسی کو کچھ بھی نہیں بتائیں گے اوکے میں ابھی فلائٹ بک کروا رہا ہوں۔۔

اور صبح کی پہلی فلائٹ سے ہم وہاں آئیں گے ۔۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔

وہ کہتا ایک دم سے موبائل کاٹتے جیب میں رکھ چکا تھا ۔ کہ اچانک سے آتی چیخوں کی آواز پہ وہ گھبراتا ایک دم سے خوف کی مانند زرد پڑے چہرے کے ساتھ نیچے کی جانب گیا تھا۔۔

فدک دروازہ کھولو ، دیکھو میں ہوں رافع۔۔۔ 

وہ جو اسے سلاتے اوپر آیا تھا ، اب اچانک سے نیچے سے آتی آوازوں پہ دروازہ اندر سے لاک اور فدک کی رونے کی آوازیں سنتے وہ بالکل ڈر چکا تھا ۔۔ ایک عجیب سی کیفیت نے آن گھیرا تھا۔۔

وہ جب سے یہاں پہنچے تھے ناجانے کتنی دفع فدک نے اپنے بابا کا پوچھا تھا اور تنگ آتے رافع اسے ڈانٹ بھی چکا تھا ،اور اسی ضد میں وہ دوائی کھائے بنا ہی سوئی تھی کہ اب اچانک سے اسکی آوازوں پہ وہ خواس باختہ سا دوڑتا ہوا وہاں پہنچا ۔۔

چلے جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بامشکل سے بولتی چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگی تھی ۔۔ 

 دد دیکھو سسسعد تت تم چچ چلے جج جاؤ ، مم مجھے مم معاف کر دو میں تمہیں کبھی بھی کچھ نہیں کک کہوں گی۔ اپنی اس ساری جائیداد بب بھی میں تمہارے نام کر دوں گی۔۔

  فدک روتے بکھرے حلیے میں بمشکل سے کہتی ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی تھی ۔۔  وہ جانتی تھی کہ سعد اسے نہیں چھوڑے گا اسی لیے تو وہ دوبارہ سے بدلہ لینے آیا تھا۔۔ اس سے۔

رافع سعد کا ذکر سن کے چونکا تھا۔۔ مگر پھر جلد ہی وہ سمجھ چکا تھا کہ ہو ناں ہو اس نے ضرور کوئی خواب دیکھا تھا۔۔ 

فدک یہ میں ہوں یہاں پہ کوئی سعد نہیں تم دروازہ کھولو۔۔ 

رافع دروازے کے ساتھ لگتے قدرے اونچی آواز میں بولا تھا تاکہ  وہ  آسانی سے سن سکے اسکی بات۔۔۔۔

 نن نہیں مم مجھے پتہ ہے کہ تم سعد ہو۔۔ مجھے کڈنیپ کر لائے ہو ناں میں جانتی ہوں سب۔۔۔ وہ سنتی اس سے زور دار آواز میں چیختے رونے لگی تھی۔۔

فدک دروازہ کھولو ورنہ میں توڑ دوں گا ۔۔۔ رافع پانچ منٹ تک انتظار کرتے اسکی آواز نا سنتے دھاڑا تھا ۔۔ مگر اندر مسلسل خاموشی  پہ اس کے  آگے پیچھے خطرے  کی گھنٹیاں بجنے لگی۔۔۔

وہ زور دار دھکے لگاتے دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ 

اور آخر کار دھڑام سے دروازہ کھلتا چلا گیا کہ اندر کا منظر دیکھتے رافع اپنے قدموں پر سے لڑکھڑایا تھا۔۔ فدک۔۔ وہ چیختے آگے بڑھا تھا۔۔ 

اور کھینچتے اسے اپنے سامنے کرتے زوردار تھپڑ رسید کیا کہ اسکے ہاتھوں میں تھامی گولیاں بکھرتے زمین بوس ہوئیں تھیں ۔ اور اس اچانک پڑتے زوردار تھپڑ پہ وہ لہراتے فرش پہ گری تھی کہ آہ کی آواز اس کے منہ سے نکلی تھی۔۔

کیا کر رہی ہو تم بولو ۔۔ رافع غصے سے اسے کھینچتے دونوں بازوؤں سے پکڑتے اپنے سامنے کھڑا کرتے بولا کہ فدک نے بمشکل اپنے چکراتے سر کے ساتھ اسے دیکھا۔۔۔۔

کیوں کھا رہی تھی یہ گولیاں بولو۔۔ اسے جواب نا دیتا دیکھ وہ دوبارہ سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے سخت لہجے میں بولا کہ اسکی گرفت پر فدک نے درد سے آنکھیں میچیں ۔۔

میں تم سے پوچھ رہا یوں۔۔۔۔  بولو، وہ جھنجھوڑتے اسکی تھوڑی کو ہاتھ میں دبوچتے ہوئے بولا ۔۔۔

ررر رافع ۔۔۔۔ وہ اسکے جھنجھوڑنے پہ ہوش میں آتی ایک دم سے اسکے سینے سے لگتی زور زور سے رونے لگی کہ رافع جو سرد تاثرات لیے ، غصے اور اشتعال میں کھڑا تھا اچانک اپنے ساتھ چپکے اسے روتا دیکھ فوراً سے پہلے ریلکیس ہوتے ہوش میں آیا تھا۔۔

اپنی آنکھوں کے سامنے اسے ایسے نیند کی گولیاں کھاتا دیکھ وہ ناجانے کیوں اس قدر پاگل سا ہو گیا تھا کہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے تکلیف پہنچا بیٹھا تھا۔۔

رر رافع۔  وہ سسسسعد آیا تھا۔۔ وہ اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے ہچکیوں کے دوران بامشکل سے بولی تھی کہ رافع نے سنتے آنکھیں میچیں تھیں ۔

اشششش۔۔ کوئی نہیں ہے یہاں پہ دیکھو ، صرف میں ہوں تمہارے پاس ۔۔ خاموش ہو جاؤ ، چلو شاباش ۔۔۔۔۔ وہ آرام سے اسکے گرد بازوں کا حصار باندھتے ہونٹ اسکے سر پہ رکھتے پیار سے بولا تھا کہ فدک گہرے سانس بھرتے خود کو نارمل کرنے لگی ۔۔۔

ادھر آؤ۔۔۔ وہ اسے یوں ہی حصار میں لیتے بیڈ پہ بٹھاتے خود بھی اسکے پاس بیٹھا تھا اور پیار سے اسکے ہاتھوں کو تھامتے اسکی سرخ ہوتی ناک اور لرزتے ہوئے وجود کو دیکھ وہ گہرا سانس کھینچتے خود کو نارمل کرنے لگا۔۔۔۔

تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا  ہو گا فدک ۔۔۔ یہاں پہ میں اور تم ہی ہیں دیکھو ۔۔۔ وہ آرام سے اسکے پاس بیٹھتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے اپنے حصار میں قید کرتے بولا کہ فدک نے سکون سے آنکھیں موندیں۔۔

 رافع میں نے کہا تھا ناں کہ مجھ سے شادی مت کرو ، دیکھو برباد کر دی میں نے تمہاری زندگی بھی۔۔۔ کچھ پل خاموش اسکے سینے میں منہ دیے، وہ اچانک سے بولی کہ رافع حیران ہوتے چونکا تھا اس کی سوچ پر۔۔۔ اور تمہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ میری زندگی برباد ہو گئی۔۔

اسکے بالوں کو ہاتھ سے سہلاتے وہ ہونٹوں پہ مسکان سجائے نرمی سے بولا تھا۔۔ 

میں تمہیں بتانا چاہتی تھی سعد کے بارے میں ، ۔۔ وہ میرے تایا کا بیٹا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔ 

اششش۔۔ جانتا ہوں میں سب اور اب کچھ بھی مت بولو مجھے کوئی بھی صفائی نہیں سننی تم سے آئی سمجھ اب خاموش ہو جاؤ۔ دیکھو رو رو کر میری آنکھوں کا کیا حال کر دیا ہے تم نے۔۔ وہ خفگی سے کہتے اسکی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے چہرہ اونچا کرتے مدہم سی جلتی روشنی میں اسکی سوجھی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کہتا وہ جھکا تھا اسکے چہرے پہ ،اور شدت سے اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیا ۔۔

میری ناک بھی سرخ کر دی تم نے۔۔ وہ اب اس کی چھوٹی سی سرخ پڑتی ناک کو دیکھتے لب رکھتے بولا ، اور میرے پارے پارے سے چکس بھی گلابی سے ریڈ کر دیے۔۔۔۔ 

وہ مسکراتے اسے آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتا دیکھ اسکے رخساروں کو چھوتے ہوئے بولا۔۔

اور میرے ہونٹوں کو بھی تم نے تشدد کر کے سرخ کر دیا۔۔۔ وہ کہتے ساتھ ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے اسکے چہرے پہ جھکا تھا کہ وہ فوراً سے اسکے سینے میں چھپائے لیٹ گئی۔۔ 

یہ کیا ہوا۔۔۔ ؟ فدک  میری جان ادھر دیکھو ، وہ بدمزہ ہوتے اسے اپنے سینے میں منہ دیے دیکھتے بولا کہ فدک نے زور سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

اب کیسے بچو گی بتاؤ۔۔ وہ ایک دم سے اسے کھینچتے اپنے نیچے کرتے خود اس پہ سایہ سا کر گیا کہ فدک نے ہراساں اپنی بڑی بڑی آنکھیں پوری کھولتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ 

آئی لو یو فدک ۔۔۔۔ تمہارے بغیر اس زندگی کا تصور بھی میں نہیں کر سکتا تو پھر یہ کیسے سوچا تم نے کہ تم نے میری ذندگی برباد کر دی۔۔۔۔ وہ شکوے بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے بولا کہ فدک نے سہمتے نظریں چرائیں۔۔

سس سوری۔۔۔۔ وہ فوراً سے اپنی غلطی مانتے سوری کرتے بولی۔۔۔ 

سو جاؤ کل ہم واپس جا رہے ہیں۔۔۔۔ وہ آرام سے جواب دیتے  اسکی سوری کو نظر انداز کرتے ایک جانب ہوتے کروٹ بدلتے لیٹ گیا ۔

کہ فدک نے افسوس اور دکھ سے اسکی پشت کو دیکھا۔۔

ہم یہاں کیوں آئے تھے میرے گھر پہ رافع۔۔۔ وہ بنا اسکے حال جانے کہ وہ کیسے خود پہ ضبط کے پہاڑ بٹھائے ہوئے بیٹھا تھا دوبارہ سے اسکے ساتھ چہکتے اپنا نازک سا ہاتھ اسکی گردن پہ لپیٹتے ہوئے بولی کہ رافع نے لب بھینجے اسکی حرکت پہ۔۔۔

ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ تم اچھا وقت گزار سکو۔۔۔۔ وہ ایسے ہی چہرہ موڑے جواب دیتے ہاتھ آنکھوں پہ رکھ گیا ۔۔

۔وہ سمجھ چکا تھا کہ اب وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی تھی۔۔

رافع مجھے نیند آئی ہے ۔۔۔ وہ مسلسل اسکے اگنور کرنے اور رح پھیرنے پہ خود سے ہی بول اٹھی ۔۔ کہو وہ ہاتھ آنکھوں سے اٹھاتا گردن گھماتے اسے دیکھ بولا جو بے بسی سے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتی ہونٹ دانتوں تلے دبائے اپنی نم آنکھوں میں ڈھیروں شکوے لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

اشششش رونا مت ۔۔۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا تمہارے لیے۔۔۔ اسے رونے کی تیاری کرتا دیکھ وہ فوراً سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے سینے میں بھینجتے بولا ۔۔۔

 سوری۔۔۔۔ وہ پھر سے مدہم سی آواز میں سرگوشی کرتے اپنے ہونٹ اسکے دل کے مقام پہ رکھ گئی کہ اسکی معصوم سی حرکت پر رافع کا دل اتنی تیزی سے دھڑکا تھا کہ جیسے ابھی ہی نکلتے باہر آ جائے گا۔۔

ڈونٹ سے سوری۔۔۔۔ میں ناراض نہیں ہوں تم سے اور ویسے بھی کوئی اپنی زندگی سے ناراض کیسے ہو سکتا ہے ۔۔ 

وہ مسکراتے اسکے لزرتی پلکوں کو دیکھتے پیار سے بولا کہ فدک کے گال حیا سے تپتے انگارہ ہوئے تھے۔۔۔

کل واپس جائیں گے ٹھیک ہے ناں ۔۔۔۔۔ وہ اسکا سر اپنے بازو پہ رکھتے چہرے اسکی جانب کرتے بولا۔

کہ اسکی گرم جھلسا دینے والی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرتے وہ خاموشی سے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔

رر رافع مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔ وہ  اپنے چہرے پہ اسکی نظروں کی تپش اور تیز چلتی سانسوں کو محسوس کرتے بولی کہ رافع مسکرایا۔۔

تو سو جاؤ میری جان۔۔۔  پیار سے اسکی پیشانی پہ ہونٹ رکھتے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے  وہ  بھی آنکھیں موند گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 کیا ہوا ہے فضا ! تم نے اتنی ایمرجنسی میں کیوں کال کی سب حیریت تو ہے۔۔

وہ پریشان سا ہوسپٹل پہنچتے سامنے ہی ٹہلتی فضا کو دیکھ بولا تھا ۔۔

پتہ نہیں کیا ہوا ہے اسے ، اچانک سے مجھ سے بات کرتے گر گئی اور جب میں نے دیکھا تو اسے بخار تھا بہت تیز اور بے ہوش ہوئی پڑی تھی اسی لیے مجھے کچھ بھی سمجھ ناں آیا تھا اور میں اسے ہوسپٹل لے آئی تھی۔

اور پھر تمہیں کال کی ۔ 

ڈیم مجھے جانا ہی نہیں چاہیے تھا ایسے اسے چھوڑ کر۔۔۔ وہ سنتا پریشان ہوتے اپنے ہاتھ کا مکہ بناتے سامنے دیوار پہ مارتے ہوئے بولا ۔

تم پریشان مت ہو اشعر ، وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔ فضا کو خود بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا کہے۔۔ کیسے تسلی دے اسے۔۔ 

اشعر ڈاکٹر۔۔۔ اچانک سے روم سے نکلتی ڈاکٹر  کو  دیکھتے وہ بولی۔۔

ڈاکٹر کیا ہوا ہے ۔۔ اسے ۔۔ ٹھیک ہے وہ کہ نہیں۔۔۔ 

وہ  دوڑتا ڈاکٹر کے بازو کو پکڑتے روکتے بولا کہ ڈاکٹر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔

کون ہیں آپ۔۔۔؟ وہ اپنے بازو  جہاں پہ اشعر نے ہاتھ سے تھاما ہوا تھا کی طرف دیکھتے ائبرو اٹھاتے ہوئے بولی۔۔

سوری ڈاکٹر ۔۔ میں اشعر ہوں۔۔ اور اندر جو لڑکی ہے وہ میری بیوی ہے کیا ہوا ہے انہیں ، پلیز مجھے بتائیں وہ ٹھیک توہے۔۔۔ وہ ایک دم سے جانے کتنے سوال ڈاکٹر سے پوچھ بیٹھا کہ ڈاکٹر نے مسکراتے اسکی بے چینی نوٹ کرتے اسکی جانب دیکھا۔۔

گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ وہ ٹھیک ہیں ۔۔ 

بلکہ خوشخبری ہے آپ پاپا بننے والے ہیں۔۔۔

 ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے کہا کہ وہ حیرانگی کے تاثرات لیے ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔۔۔

کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں ڈاکٹر ۔۔۔ وہ یقین نہیں کر پارہا تھا کہ اللہ نے اسے اتنی بڑی خوشی سے نوازا تھا وہ جھنجھوڑتے ڈاکٹر کو دیکھ بولا ۔۔

کہ ڈاکٹر نے چکراتے سر کے ساتھ اس پاگل کو گھورا ۔۔

اس میں جھوٹ کی کیا بات ہو سکتی ہے آپ میرے ساتھ آئیں کچھ بتانا ہے آپ کو ۔۔۔ ڈاکٹر اچانک سے سنجیدہ ہوتے بولیں کہ اشعر کے دمکتے چہرے پہ پل بھر میں فکر کے سائے لہرائے تھے ۔۔ 

فضا تم رمشہ کے پاس جاؤ میں آتا ہوں۔۔ وہ رمشہ کو دیکھتے کہتا ڈاکٹر کے پیچھے لپکا کہ فضا بھی مسکراتی اتنی بڑی گڈ نیوز کو سنتے ہی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔

جی ڈاکٹر بولیں کیا ہوا سب ٹھیک  ہے۔۔ وہ بے چین سا  ڈاکٹر کو چئیر پہ بیٹھتے دیکھ بےتابی سے بولا تھا ۔

اب اچانک سے کچھ برا ہو وہ ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا۔۔ 

 گھبرائیں نہیں سب ٹھیک ہے۔۔ بس اب آپ کو ان کا زیادہ سے زیادہ حیال رکھنا ہو گا۔۔  اور کوشش کریں کہ انکو پریشانی سے دور رکھیں۔۔

کسی بھی قسم کا ڈپریشن ان کے لیے اور بے بی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔۔۔ 

آپ سمجھ رہے ہیں ناں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ ڈاکٹر نے اسے سمجھاتے پوچھا ۔

جی مجھے معلوم ہے کہ اب مجھے اسکا دھیان پہلے سے بھی زیادہ رکھنا ہو گا ۔۔

آپ بے فکر رہیں میں اسکا اچھے سے حیال رکھوں گا۔۔

اور یہ میڈیسن منگوا لیں۔۔ ساتھ میں ان کا برابر چیک اپ بھی کرواتے رہیے گا۔۔۔

شکریہ ڈاکٹر ۔۔۔ وہ مسکراتے دوائی کی رسید تھامتے بولا کہ ڈاکٹر پیشہ وارانہ انداز میں مسکرائیں تھی ۔۔

اور ہاں ابھی ان کی ڈرپ مکمل  ہونے دیں تھوڑی دیر بعد آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔۔ 

ڈاکٹر کے بتانے پہ وہ سر ہاں میں ہلاتے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔

فضا۔۔۔۔ وہ روم میں داخل ہوا تھا ، مگر کچھ سوچتے اس نے چہرے کو سرد ، کرتے اپنے آپ کو بے تاثر کرتے کہا کہ رمشہ اور فضا نے چونکتے اسے دیکھا تھا ۔۔ جو بالکل سرد لہجے میں بولتے رمشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑا گیا تھا۔۔

لو بھئی مبارک باد ہی وصول لو ، بیوی سے ملنے کو تو پوری زندگی پڑی ہے۔۔ فضا منہ بناتے اٹھتی اسے طحنہ دینے سے باز ناں آئی کہ اشعر کے گھورنے پہ فوراً سے کان کھجاتے  باہر کو بھاگی تھی ۔۔

وہ بڑھتا دروازہ اپنے ہاتھوں سے بند کرتے  ، مڑتا اسکی جانب بڑھا۔

وہ نظریں اسکے بڑھتے قدموں پہ جمائے اپنے اندر پنپتے ڈر اور وخشت سے تھوک نگلتے اپنے خشک ہوتے حلق کو تر کرنے لگی۔۔

کہاں ممکن تھا اشعر کو اتنا غصے میں دیکھ پانا اور اوپر سے جو خود اس پہ شک کیا  ۔ کیا وہ اسے معاف کرے گا کہ نہیں۔۔۔ 

وہ ڈرتے اسکے قریب آنے پہ فورا سے سختی سے آنکھیں میچ گئی۔۔ 

 کیا ہوا ؟ 

  وہ اسکو آنکھیں بند کرتے دیکھ سوالیہ انداز میں پوچھتے اسکے پاس بیٹھا تھا ۔۔ ۔

کہ رمشہ نے فوراً آنکھیں کھولتے اسے دیکھا ۔۔ ۔

بولو کیا کہا ڈاکٹر نے۔۔۔ وہ پھر سے چہرہ اسکے قریب کرتے سخت لہجے میں بولا کہ رمشہ نے  آنکھیں  بند کرتے پھر سے کھول کر  اسے دیکھا۔۔

فضا تو کہہ رہی تھی کہ اشعر بہت خوش تھا اس نیوز سے تو اب کیا ہوا تھا اچانک سے وہ ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہا تھا۔۔۔

 اشش اشعر وہ۔۔۔۔۔۔ وہ بامشکل سے اسے ایک نظر دیکھتی ، گھٹیںڈی مدہم آواز میں   بولتے آنکھیں بند کر گئی۔۔۔

کیا وہ ۔۔۔ میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔۔  وہ جھکتے اسکے ڈرپ والے ہاتھ کو تھامتے ہوئے بولا۔۔۔

وہ وہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کک کہ آ آپ۔۔۔۔۔ 

ہممم۔ بولو۔۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔۔۔ وہ اسے حوصلہ دیتے اسکے ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوتے بولا کہ رمشہ نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ خود میں ہمت پیدا کرتے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے انہیں تر کیا۔۔

آپ پہ پاپا بننے والے ہیں۔۔ وہ بمشکل سے بولتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی ۔۔ کہ اشعر نے مسکراتے ہونٹ اسکے ہاتھوں پہ رکھتے انہیں پیچھے کیا اور  اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیتے محبت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

جو شرم و حیا سے سرخ چہرے لیے اشعر کے دیکھنے پہ فورا سے آنکھیں بند کر گئی۔۔ وہ مسکراتے اسکی ادا پہ اسے دیکھتے بولا تھا۔۔

جانتی ہو کہ آج میں سوچتے آیا تھاکہ اگر تم اس رشتے میں خوش نہیں ہو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔۔ مگر شاید اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔

اسی لیے یہ خوشخبری مجھے سننا نصیب ہوئی۔۔ اگر تم اب بھی چاہتی ہو تو میں تمہیں آزاد ۔۔۔۔۔۔ 

پلیز اشعر آپ مجھے معاف کر دیں۔میں نے آپ کو غلط سمجھا اور جانے کیا کیا بول دیا۔۔

پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔  میں کبھی آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتی ، ناں ہی پہلے اور ناں ہی اب۔۔ 

وہ اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھتے اسے مزید بولنے سے روک گئی کہ وہ مسکراتا اسے دیکھنے لگا۔۔

کیوں رہنا چاہتی ہو میرے ساتھ، اگر تم چاہو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا ، ویسے بھی کوئی بھی رشتہ زبردستی نہیں بنایا جاتا۔۔۔۔ 

وہ مسکراتے اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے بولا تھا ، مگر وہ سمجھ چکا تھا کہ اب اسکے دماغ سے وہ فتور نکل چکا ہے اب وہ خود ہی اس سے الگ ہونے کا نہیں سوچے گی۔۔ مگر پھر بھی وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ،  اسی لیے خود کو مطمئن کرنا چاہتا تھا ۔

اشعر آئی لو یو۔۔۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی پلیز ایسے مت کہیں ۔۔

وہ سنتے ایک دن سے تڑپتے آٹھ بیٹھی تھی اور روتے اسکے سینے میں منہ دیے بولی کہ وہ پرسکون ہوتے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے آنکھیں سکون سے موند گیا۔۔۔

تھینک یو وری مچ ۔۔۔ مجھے اتنی بڑی خوشخبری سنانے کے لیے۔۔۔۔ وہ مسکراتے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہاتھوں  میں تھامتے بولا ۔۔۔

کہ رمشہ نے شرماتے دوبارہ سے اسی میں پناہ ڈھونڈی۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ سب سے یہ گڈ نیوز اپنے سب سے زیادہ پیار کرنے والے انسان کو سناؤ۔۔۔ 

اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ سوچتے گہرا مسکرایا تھا۔۔ 

کس کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔ رمشہ ناسمجھی سے سر اٹھائے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

وہی جو سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہیں۔۔۔ 

میری ساسوں موم ۔۔۔۔ ان   کے علاؤہ اور کون ہو سکتا ہے ۔۔۔؟

وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا کہ رمشہ سنتے  کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔

سچی بھی۔۔۔۔ وہ مسکراتے تائید چاہنے لگی کہ اشعر نے مسکراتے اسکی ناک کھینچی ۔۔

جی ہاں مچی۔۔۔۔۔ 

وہ خوشی سے بولا تھا اور اب وہ جانتا تھا کہ یہ نیوز سنتے کہیں اور دھماکے ہوں یا ناں توپوں کا رخ اسکی جانب ضرور ہونا تھا ۔۔۔۔ 

وہ مسکراتے آنے والے وقت کا سوچتے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر گزار ہوا تھا۔۔ جس نے اسے ڈھیروں خوشیاں ایک ساتھ دے دی تھیں۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 پر فضوں ماحول میں ، لہراتی خاموش سورج کی مدہم سی کرنیں چھن سے کھڑکی سے ٹکراتی ہوئیں فضا میں روس کرتے مدہوش ہی تھیں۔۔۔ 

کمرے کے خواب ناک ، پرسکون خؤشبو میں بسے ماحول میں۔ وہ اچانک سے خود پہ پڑے وزن کو محسوس کرتے برے سے منہ بناتے مدہم سی آنکھیں کھولتے سامنے دیکھنے لگی۔۔ 

جہاں اسکے برابر ہی وہ شہزادوں کی آن بان سا اسکا محرم پورے استحقاق سے اسے بانہوں میں بھرے سویا ہوا تھا ۔۔

کہ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نے اسکے چہرے کا احاطہ کیا ۔۔۔"

وہ ہلکے سے اسکے بازوں میں رکھے اپنے سر کو اٹھاتی مسکراتی اسکی پیشانی پہ بکھرے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتے جھک کر اپنے ہونٹ رکھتے سکون سے آنکھیں موند گئی۔۔۔

جتنا مکمل محسوس کر رہی تھی وہ اپنے آپ کو۔۔۔۔ رات بھر وہ اپنی محبت بھری شدتیں اس پہ  لٹاتے اسے اپنے جنون ، اپنے عشق سے روبرو کرواتا رہا تھا۔۔ جو مسکراتے اس کی پناہوں میں سمٹتے خود کو اس کے نام کر چکی تھی ۔۔"

وہ سوچتے ایک شرم گی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بیڈ پر سے اٹھی کہ اچانک سے وہ ھاتھ پکڑتے کھینچتے اسے خود پہ گرا گیا ۔ جو کہ آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہی تھی شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ جاگ رہا تھا۔۔"

وو وریامم ۔۔۔۔ وہ بوکھلاتے اسے جاگتا پاکر بمشکل سے بولی۔۔۔۔".

جی جان وریام ، کہو  کہا اور کیا کیا کمی رہ گئی حادم سے ، بندہ حاضر سے ہر کمی کو پورا کر دے گا ۔۔ 

وہ شرارت سے ہونٹ دباتے اسکے دہکتے سرخ پڑتے چیرتے کو دیکھتے بولا ۔۔ " جو اب نظریں چراتے آگے پیچھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔"

نین ویسے یہ تو نا انصافی ہوئی ۔۔۔ ہوتی رات میں نے اتنی محبت کی تم ، اور تم نے ایک چھوٹی سی کس کی اور وہ بھی مجھے سوتا پا کر یہ تو انصافی ہے ۔۔ 

وہ اٹھاتے ایک بازوؤں اسکی کمر میں حائل کرتے اچانک سے اسے اپنے نیچے کرتے بولا کہ نیناں نے بمشکل سے اپنے لرزتے وجود کے ساتھ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔۔۔ 

ایک گڈ مارننگ کس ہی دے دو یار ۔۔! اپنے اس معصوم سے شوہر کو ، وہ مسکراتا اسکے بالوں کو پکڑتے کان کے پیچھے اڑستے محبت سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکے کان کی لو کو ہلکا سا دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔

وریاممم پپ پلیز جج جانے دیں ، ٹٹ ٹائم دیکھیں دس بج رہے ہیں ۔ موم کیا سوچیں گی۔۔۔۔ وہ واقعی میں اب پریشان سی تھی کہ کیسے انکا سامنا کرے گی۔۔ ایک تو اتنی لیٹ آنکھ کھلی تھی اور اوپر سے خود میں بسی اسکے وجود کی خؤشبو کو وہ کیسے سب سے چھپا پائے گی ۔ وہ سوچتے ایک دم سے لال انگارہ ہوئی تھی ۔۔

"کہہ دینا کہ پوری رات آپ کے بیٹے نے سونے نہیں دیا اور  پھر بڑی مشکل سے منت سماجت کرتے جان چھڑائی تھی بس آپ کے بیٹے کی وجہ سے ہی لیٹ ہوئی ہوں ۔۔۔ وہ محبت سے اسکی گردن میں منہ دیے اسکی خوشبو کو محسوس کرتے حمار بھرے لہجے میں بولا کہ اسے دوبارہ سے لائن سے اتراتا دیکھ اب کی بار سچ میں نیناں کی جان پر بنی تھی ۔ 

وو وریاممممم ۔۔۔۔۔ وہ بامشکل اسکی بڑھتی جساروتوں پہ اپنے نازک ہاتھوں کو اسکے سفید کشادہ سینے پہ رکھتے پوری زور سے اسے پیچھے دھکیلنے لگی۔۔ جو بنا اثر لیے اسکے ہاتھوں کو پھر سے تھامتے اب اسکے چہرے کو فوکس میں لیے ہوئے تھا۔۔۔ 

نن نو نو وریام۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں جھلکتی واضح شرارت کو دیکھتے وہ اسے باز رکھنے لگی۔۔۔ جو شرارت سے مسکراتا آنکھ دباتے اسکے ہونٹوں پر پوری شدت سے جھکا تھا۔۔۔ کہ نیناں نے آنکھیں بند کرتے اسکے لمس کو محسوس کرتے خود بھی بے خود سی ہونے لگی تھی۔ " 

جب جب تم مجھے نو وریام بولتی ہو تو مجھے سنائی دیتا ہے گو وریامم۔۔۔۔۔ اور پھر میرا یہ پاگل سا دل جو ہر لمحہ تمہاری قربت کے لیے تڑپتا مچلتا اسکو کنٹرول کر پانا میرے بس سے باہر ہو جاتا ہے جان وریام۔۔۔۔۔ اب بتاؤ اس میں کس کی غلطی ہوئی۔۔۔ سراسر تمہاری غلطی ہے۔۔۔ " 

وہ مسکراتے اسے تیز تیز سانسیں بھرتا دیکھ اسکے ماتھے کو چھوتے اسکی ناک پر لب رکھتے بولا تھا۔۔۔

جبکہ دوسری جانب وہ کانپتی اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوشش میں نڈھال اس الزام پر توجہ ہی ناں دے سکی ۔۔۔ " 

نیچے جانا ہے ۔۔۔۔ اسکے برابر بیڈ پر لیٹتے وہ دوبارہ سے اسے کھینچتے اپنے حصار میں قید کرتے بولا تھا۔ کہ نیناں نے غصے سے اس چالاک لومڑ کی جانب آنکھیں کھولتے غصے سے دیکھا اور فوراً سے اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں کو اسکی گردن کے نیچے گاڑھتی وہ اپنا غصہ دکھا رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اسکی یہ چھوٹی چھوٹی سی حرکتیں ۔قابک کے دل میں گدگدی کرتے اسے شریر شرارتوں پر اکسا رہی تھی۔"

چھوڑو میری کمر ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔ " وہ پوری شدت سے اسکی گردن پہ کاٹتے اپنے سرخ ہونٹوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے غصے سے اسکے بازوؤں کو اپنی کمر سے کھولنے لگی مگر ہمیشہ کی طرح ناکام ہوتے اب اسے گھورتے ہوئے بولی تھی جو صبح ہی صبح اسے مزید تنگ کرتے اور بھی لیٹ کر رہا تھا۔۔۔

ایک شرط پر اجازت ملے گی آج۔۔۔۔  " وہ بنا اسکی بات کا اثر لیے پھر سے مسکراتے ہاتھ اسکی کمر سے اوپر کی جانب کھسکھاتے ہوئے بولا تھا کہ اسکی انگلیوں کی بڑھتی جسارتوں پہ وہ پور پور سرخ ہوتے لرز چکی تھی۔۔۔

کک کون سی ششش شرط۔۔۔۔۔" وہ بمشکل سے بولتے اپنے کانپتے ہونٹوں کو تر کرتے بولی۔۔۔ 

کہ اسکی کپکپاہٹ کو محسوس کرتے وہ گہرا مسکرایا تھا۔۔۔ 

شرط یہ ہے کہ تم مجھے یہاں پہ کس کرو گی۔۔۔۔۔ وہ کھینچتا اسکے چہرے کو اپنے مقابل کرتے گہری نظروں سے اسے دیکھتے بولا تھا کہ نیناں نے سنتے حیرت سے آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھولی تھیں ۔۔

کک تت تمہارا دماغ خراب ہو گگ گیا ہے کیا۔۔ وہ چیخ ہی تو پڑی تھی اس بے باک انسان کی اتنی بڑی ڈیمانڈ سنتے جو وہ مرتے بھی ناں کر سکتی تھی۔۔۔

سوچ لو پانچ منٹ دے رہا ہوں ۔ اگر تم خود مجھے کس کروں گی تو تمہیں آزادی مل جائے گی ۔۔۔ ورنہ میرا ارادہ اپنا پینڈنگ کام دوبارہ سے شروع کرنے کا ہے۔۔۔ 

وہ مسکراتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے آنکھ دباتے ہوئے بولا کہ نیناں نے بیچارگی سے اسکی جانب دیکھا۔۔ 

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ کوئی ایسی ویسی فرمائش کرے گا ۔۔ اچھا تت تم آنکھیں بند کرو پہلے۔۔ وہ سوچتے اسکے حصار میں قید اسکے سینے ہاتھ رکھتے اٹھنے لگی کہ وہ دوبارہ سے کھینچتے ہاتھ اسکی کمر پر ڈالتے مضبوطی سے آپس میں باندھ گیا ۔

اوکے میں بند کرتا ہوں آنکھیں۔۔۔۔" وہ مسکراتے اسے خود میں قید کرتے بولا کہ نیناں نے دانت کچکچاتے اسے گھورا جو آنکھیں بند کیے اسے حصار میں قید کیے ہوئے تھا۔۔ جانتی تھی کہ اگر وہ ایسی ویسی کوئی بھی حرکت کرتی تو اسکا بچنا نا ممکن تھا اسی لیے تو وہ پوری تیاری سے اسے پہلے ہی مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھا۔۔

نین یار جلدی کرو ایم ویٹنگ۔۔۔۔۔ وہ جو سوچتے خود کو اسکی قید سے آزاد کروانا چاہتی تھی کہ اچانک سے کانوں میں گونجتی اسکی بے چین آواز پر ہوش میں آئی۔۔۔۔"

وہ کچھ سوچتے اپنے چہرے پہ آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتی جھکتے اپنے ہونٹ اسکی پیشانی پہ رکھ چکی تھی کہ اسکے نرم و ملائم نازک سے لمس کو اپنی پیشانی پہ محسوس کرتے اسکی گرفت خود بخود ہی ڈھیلی پڑی تھی ۔۔ وہ ایک نظر اسکی بند آنکھوں اور مسکراتے چہرے کو دیکھ اسکی کھڑی مغرور سی ہلکی سرخ ہوتی ناک کو دیکھتے اب اس پہ لب  رکھ چکی تھی کہ یہاں وریام  مدہوش سا ہوا تھا کہ اسکے ہاتھ خوبخود ڈھیلے پڑے تھے ۔۔"

جسے دیکھ وہ مسکراتی سر اٹھاتے ایک نظر اسے دیکھ اسکے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جو ڈھیلے پڑتے اب بیڈ پر پڑے تھے۔۔"

 وہ دھیمے سے گھٹنوں کے بل پیچھے سرکتی ایک ہی جست میں دوڑتے بیڈ سے اتری تھی کہ وہ جو اسکے لمس کو محسوس کرتے ان لمحوں کی قید میں تھا اب اچانک سے خود سے دور ہوتی اسکی خوشبو پہ وہ ہٹ سے آنکھیں کھولتا اپنے سامنے دیکھنے لگا مگر اپنے پاس اسے ناں پاتے وہ جھٹ سے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھنے لگا جہاں وہ مسکراتی اسکے دیکھنے پہ جھٹ سے بھاگتی باتھروم میں بند ہوئی تھی ۔۔۔

نین دروازہ کھولو۔۔۔ '" وہ اٹھتا ا اچانک سے دروازے کے پاس جاتے بے چینی سے بولا تھا کتنی چالاک ہو گئی تھی وہ اسکی سنگت میں ۔۔۔ کہ اسے ہی چکما دیتے اپنی خوشبو کے حصار میں قید کرتی بھاگ چکی تھی ۔ 

نو وریام مجھے ابھی دیڈی ہو کر نیچے جانا ہے ، آپ پلیز اب جائیں مجھے تنگ مت کریں۔۔۔

وہ جھنجھلاتے دروازے کے ساتھ لگتی اونچی آواز میں بولی تھی کہ وریام غصے اور بے چینی سے اس وقت اپنا دشمن بنے درمیان میں لٹکے دروازے کو گھورتا رہ گیا ۔۔ بس نہیں تھا کہ ابھی اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتا جو اسکی نین اور اسکے بیچ ڈھال بنا ہوا تھا۔۔۔۔

نین۔۔۔۔۔۔' وہ اسے آواز دیتے دوبارہ سے مخاطب کرتا کہ ٹیبل پر پڑے بجتے اسکے موبائل نے اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی ۔۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی قدم بڑھاتا موبائل اٹھاتے کال چیک کرنے لگا۔۔ مگر سامنے نظر آتے نمبر کو دیکھتے وہ لب بھینجتے ایک نظر بند دروازے پر ڈالتا بالکونی کی جانب بڑھا تھا۔۔

کافی دیر تک اسکی آواز کو ناں سنتے وہ زرا سا دروازہ کھولتے    دیکھنے لگی مگر وہ شاید سچ میں نہیں تھا ۔اسی لیے تو روم خالی تھا ۔۔

وہ گہرا شکر بھرا سانس خارج کرتی فوراً سے بالوں میں لپیٹا تولیہ ایک جانب پھینکتے روم لاک کرتے مرر کے سامنے کھڑی ہوئی مگر وہ خود کو ہی دیکھتے حیرت سے کنگ خود کو گھورنے لگی۔۔ وریام کی محبت ، چاہت نے ایک الگ ہی رنگ چڑھایا تھا اس پر کہ وہ ایک دم سے الگ نکھری نکھری سی تھی ۔۔ 

وہ خود کو ہی دیکھتے پہلی بار جھینپ گئی تھی۔۔ کہ اب وہ سوچتے نیچے جانے کے حیال پر ہی شرم سے لال انگارہ ہوئی تھی۔۔ مگر پھر وقت کا سوچتے وہ ایسے ہی بالوں کو جلدی سے ہلکا سا خشک کرتے جوڑے میں مقید کرتے اپنا دوپٹہ اوڑھتے باہر نکلی تھی۔۔"

السلام علیکم موم۔۔۔!!!!" وہ ہچکچاتے ہوئے شمائلہ کو کچن میں مصروف دیکھتے ہوئے بولی تھی کہ وہ پلٹتے سلام کا جواب دیتے پل بھر کو رکی تھی ،

 اور بھرپور نظر اس پر ڈالی تھی جو ریڈ گھٹنوں تک جاتی گھیرے دار فراک کے ساتھ ریڈ  ہی چوڑی دار پاجامہ پہنے ، سر پہ اچھے سے دوپٹہ اوڑھے بنا کسی ہار سنگھار کے بھی ایک الگ سی نکھری نکھری ہوئی نیناں دکھ رہی تھی۔۔ وہ مسکراتے خوشی سے نہال ہوتے اسے ساتھ لگاتے اسکا ماتھا چوم گئی۔۔۔ " 

وہ زمانہ شناس خاتون تھیں جو عمر کا ایک عرصہ گزارتے یہاں پہنچی تھیں اور اب نیناں کا جھینپا جھینپا سا روپ اور اس سے اٹھتی کسی دوسرے وجود کی خؤشبو وہ بھلا کیسے ناں سمجھتی کہ آخر کار اب انکے بچے اپنی خوشحال زندگی کی طرف قدم اٹھا چکے تھے۔۔"

موم مجھے دیں میں کرتی ہوں۔۔۔۔ وہ شمائلہ کے سمجھانے پر انہیں وریام کی ہی طرح موم کہتے محاطب کرتی انکے ہاتھ سے ڈشز تھامتے ہوئے بولی ۔۔ " 

سوری میں لیٹ ہوگئی اور آپ کو کرنا پڑا سارا کام اکیلے ، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے ان سے معافی مانگے ، کتنی بری بات تھی کہ اسکے ہوتے ہوئے بھی وہ کام کر رہی تھیں ۔۔

میرا بچہ پریشان ناں ہو بس ہو گیا ہے تقریباً اور اس میں کیا ہوا کہ جو تم لیٹ اٹھ  گئی۔۔ ہم بھی تھوڑی دیر پہلے ہی اٹھیں ہیں اس لیے اب اپنی یہ شرمندگی حتم کرو زرا ۔۔۔۔" وہ پیار سے اسکی تھوڑی کو ہاتھ سے چھوتے  ہوئے بولی کہ نیناں فوراً سے نظریں چرا گئی۔۔"

وریام اٹھا کے نہیں۔۔۔۔ " جی اٹھ گئے ہیں بس ۔۔ آتے ہی ہوں گے۔۔۔" وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ انکو بتاتے فوراً سے نظریں چرا گئی۔۔ کہ شمائلہ مسکراتے اسکی ادا پہ نفی میں سر ہلا گئیں ۔۔"

ارے اٹھ گئی میری بیٹی ۔۔ کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔ رضا جو کہ ناشتہ کا کہنے آئے تھے اب اچانک سے شمائلہ کے ساتھ کھڑی نیناں کو دیکھتے پیار سے ہاتھ اسکے سر پر رکھتے بولے۔۔

جی پاپا اب ٹھیک ہے ۔۔۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی کہ رضا ڈھیروں دعائیں دیتے شمائلہ کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔۔

بیگم اگر ناشتہ تیار ہے تو لگا دیں کیونکہ آپ کا لاڈلا بھی آتا ہی ہو گا۔۔۔ " وہ شمائلہ کو نیناں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ دیکھنا اب بیوی آئی ہے تو پیچھے ہی ٹپکے گا ۔ "

جی آپ چلیں میں لگا رہی ہوں۔۔" وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں باز رہنے کا کہتی خود نیناں کی جانب متوجہ ہوئیں ۔۔ جو جوس جگ میں انڈیل رہی تھی۔۔۔"

موم آپ چلیں بیٹھیں پاپا کے پاس میں لگاتی ہوں ۔۔ وہ پیار سے انکے گلے لگتی ہوئی بولی کہ شمائلہ سمجھ گئی کہ وہ اپنا گلٹ مٹانا چاہتی ہی  اسی لیے وہ بنا کچھ بولے اسکی پیشانی چومتے ہوئے باہر نکلی۔۔۔"

السلام علیکم ایوری ون۔۔۔۔" وہ بآواز بلند سب کو سلام کرتے سیڑھیاں اترتے موم کے گلے لگا۔۔ کہ رضا نے حیرت نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورا کہ یہ کب سے سلام کرنے لگا۔۔۔۔

ڈیڈ پریشان ناں ہوں اتنے چھوٹے چھوٹے شاک کو دل پر لگائیں گے تو بڑے شاک سے کیسے نکلیں گے ۔ وہ بظاہر مسکراتے مگر انکے کان میں سرگوشی کرتے زور سے ہگ کرتے ہوئے بولا ۔۔ کہ رضا نے دانت کچکچاتے اسکی کمر پر مکہ رسید کیا جو اب کچھ زیادہ ہی فری ہوئے جا رہا تھا۔۔۔ 

 چل ڈیڈ مزاق تھا ۔۔۔۔ وہ مسکراتے انکے گلے میں بازوں ڈالتے بولا کہ رضا نفی میں سر ہلا گئے۔۔

 چلو آؤ ناشتہ کرو۔۔ "وہ اسے کھینچتے اپنے ساتھ لیتے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولے۔۔۔۔ 

موم آ جائیں آپ بھی۔۔۔۔" 

بیٹا آپ دونوں بیٹھیں۔ میں نیناں کی کی مدد کروا دوں ۔۔۔ شمائلہ مسکراتے اسے جواب دیتے کہتی کچن کی جانب بڑھی ۔۔۔

گدھے توں نے راضی کیا میری بہو کو کہ نہیں؟" وہ نیناں کا رات والا بھجا بجھا سا رویہ یاد کرتے فوراً سے بولے ۔۔۔۔

ڈیڈ پوچھ لیں اپنی بہو سے ساری رات جاگتے اسے راضی کرتا رہا ہوں اگر اب بھی ناں مانی تو پھر سے کوشش کر لیں گے ۔۔۔" وہ بظاہر مسکراتا اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بولا تھا مگر نظریں سامنے سے آتی ایک الگ روپ سے دمکتی سرخ پڑتی نیناں پر تھیں ۔ اسکی مخنی خیز گفتگو سنتے ہی وہ ایک دم سے لڑکھڑاتی کہ ہاتھ میں پکڑا جوس کا جگ بمشکل سے گرتے بچا تھا۔۔۔۔"

دھیان سے نین یار گر جاتا ۔۔ لاؤ دو مجھے۔۔۔۔" وہ ایک دم سے اٹھتے اسکے ہاتھوں سے جوس کے جگ کو تھامتے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا کہ نیناں نے بمشکل سے اپنی لرزتی ہوئی پلکوں کو اٹھاتے اسکی جانب دیکھا۔۔ جو آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے اسکے دیکھنے پہ ہونٹوں کو ٹرن کرتا فلائنگ کس کرتے آگے بڑھا تھا کہ وہ سٹپٹاتی اسکی حرکت پہ اپنی پھپھو اور رضا کو دیکھنے لگی ۔ مگر انہیں مصروف پاتے وہ شکر بھرا سانس خارج کرتے خود کو پرسکون کرنے لگی۔۔۔"

آ جاؤ بیٹا ناشتہ کرو۔۔۔ " اسے وہیں بت بنا کھڑا دیکھ شمائلہ ٹرے ٹیبل پہ رکھتے اسے مخاطب کرتے بولی۔ کہ وہ ہڑبڑاتے جی اچھا کہتے ٹیبل پر پہنچی۔۔۔ "  

کھاؤ۔۔۔۔ " اسے خاموش ناشتے کو گھورتا دیکھ وہ فوراً سے ٹوکتے بولیں کہ وہ  فوراً سے ناشتہ کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔"

موم ڈیڈ آج میں نیناں کو لے کر باہر جا رہا ہوں ۔۔۔۔ وہ جوس کی سپ لگاتے مسکراتے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

کہ نیناں اسکی نظروں سے سٹپٹاتے  فوراً سے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

بیٹا جی ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔ !  یہ تو ہم جانتے ہیں۔۔۔  کہ تم ہمیں بتا رہے ہو ناں کہ پوچھ رہے ہو ، پھر کیا ضرورت یہ ماں کو فالتو میں خوش کرنے کی ، رضا اسکی بات پہ مسکراہٹ دباتے قدرے سنجیدگی سے بولے ۔۔۔"

جی ڈیڈ مجھے اپنی بیوی کو کہیں لے جانے کے لیے کسی کی پرمیشن کی ضرورت نہیں ہے مگر میں بتا رہا ہوں موم کو ۔۔۔ کہ وہ پریشان ناں ہو?

اشعر ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔ ہمیں تو واپس جانا تھا ناں کراچی۔۔۔" 

وہ ناسمجھی سے اشعر کو دیکھتے اسکے ہاتھ پہ دباؤ بڑھاتے ہوئے بولی تھی جو کہ مسکراتے اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے اسے پرسکون کرنے لگا۔۔

ریلکس یار کیا اب اتنی رات کو ہم وہاں جاتے اچھے لگیں گے ہم کل چلیں گے اور میں نے اپنا ٹرانسفر بھی کروا لیا ہے کراچی میں۔۔۔ میں اب زیادہ سے زیادہ وقت اپنے بے بی اور تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔" 

وہ مسکراتے اسے گہری دلچسپ نظروں سے دیکھتے اپنے حصار میں لیتے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔

فضا کہاں ہے۔۔۔۔؟  کمرے میں محسوس ہوتی گہری خاموش پہ وہ فضا کو ناپاتے فوراً سے بولی ۔۔۔ 

وہ اپنے گھر چلی گئی ہے۔۔۔ اشعر جانتا تھا اسکی گھبراہٹ اور اسے اب مزہ آ رہا تھا اسے تنگ کرنے میں ۔۔ وہ آگے بڑھتے لائٹ آن کر گیا۔۔۔ 

کیسا لگا سرپرائز۔۔۔۔۔ وہ پیچھے سے اسے حصار میں لیتے ہونٹ اسکی گردن پہ رکھتے مخمور لہجے میں بولا کہ رمشہ نے حیرت اور بے یقینی سے سارے روم کو دیکھا۔۔۔

جہاں سامنے ہی بیڈ کے اوپر بے بیز کی تصویر کے ساتھ ویلکم ٹو مائی چائلڈ لکھا ہوا تھا ۔۔ اور ایک جانب رمشہ اور اشعر کی مسکراتے خوبصورت تصویر لگائی گئی تھی۔۔۔ جہاں پہ اشعر مسکراتے ہوئے اسکے بالوں  کو پیچھے کرتے اسکی ناک کھینچ رہا تھا ۔۔ کتنا مکمل تھا سب ۔۔۔۔

وہ آگے بڑھتی ایک ٹرانس میں چلتی نیچے پورے فرش پہ بکھرے غباروں میں سے ایک کو ہاتھ میں بھرتے آگے بڑھی۔۔۔۔۔ اور مسکراتے اسے اپنے ہاتھوں میں آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔"

اشعر یہ دو بے بیز کی تصویر کیوں لگائی آپ نے۔۔۔" وہ غبارے کو نیچے پھینکتے ہاتھ سے خود پہ اوڑھی شال کو اتارتے ایک جانب رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔"

کیونکہ ہمارے ایک نہیں دو بی بیز آنے والے ہیں۔۔۔ اسی لیے ۔۔ "

وہ پیچھے سے آتے اسے دوبارہ سے حصار میں قید کرتے اپنے ہاتھ اسکے پیٹ پہ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔

کک کیا آپ کو کک کیسے پتہ ۔۔۔۔ ؟ وہ حیرانگی سے سر اونچا کرتے اسے دیکھ بولی جو مسکراتے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔'

کیونکہ مجھے ڈاکٹر نے بتایا ہے ۔۔۔۔ وہ مسکراتے  اسکے گال پہ لب رکھتے پیار سے بولا۔۔۔'

مم مگر ڈڈ ڈاکٹر کو کیسے پہ پتہ ۔۔۔۔؟ وہ پھر سے حیرانگی سے بولی تھی ، کہ آخر ڈاکٹر کو کیسے پتہ چلا کہ اسکے ٹمی میں دو بے بیز ہیں اور اسے کیوں نہیں پتا تھا اب تک۔۔۔؟"

وہ پریشان سی حیرت میں ڈوبی اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔۔۔۔

کیا ہوا رم۔۔۔۔۔۔؟ اسے یوں ہی پریشان سا دیکھ وہ پیار سے اسے اٹھاتے بیڈ پہ بٹھاتے اسکے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔"

اشعر میرے ٹمی میں دو بے بیز ہیں اور یہ ڈاکٹر کو کیسے پتا چلا ۔۔۔۔۔" 

وہ مڑتے اسکی جانب دیکھتے آنکھوں میں حیرانگی سموئے ہوئے بولی۔۔ 

کہ وہ مسکراتے اسکی نامسجھی پر آگے ہوتے اسے اپنے حصار میں لے گیا۔۔۔؟ 

تو اب یہ تو ڈاکٹر کو ہی پتہ ہو گا۔۔۔!! " وہ کہتے لب دبا گیا۔۔'

اچھا تو پھر ہم اس سے پوچھیں کہ دو بے بیز اتنے چھوٹے ٹمی میں کیسے آ سکتے ہیں وہ بھی ایک ساتھ ۔۔۔۔ وہ سر اسکے کندھے سے اٹھاتے اسے مشورہ دیتے ہوئے بولی کہ اشعر سر ہلاتے اسکی تاکید کر گیا۔۔۔۔"

اوکے جیسے میری جان  بولے۔۔۔۔" 

اشعر آپ نے اپنا ٹرانسفر کیوں کروا لیا میں آپ کے پاس ادھر ہی رہ لیتی ہوں۔۔۔ وہ انگلیوں کو  اسکے سینے پہ گول گول گھماتے کھیلتے ہوئے بولی تھی کہ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے اشعر اپنا ٹرانسفر کروا رہا تھا۔۔۔۔

نو میری جان میں اپنی مرضی سے یہ سب کروا رہا ہوں ۔۔ ؟ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ رہیں اور تم جانتی ہو کہ میری ساسو ماں تمہاری اچھی کئیر کریں گی اور ان سے کچھ میرے بھی مدد ہو جائے گی۔۔ وہ بتاتا ہاتھ سے اسکے دوپٹے کو اتارتے ایک جانب رکھ گیا ۔"

مگر مما تو آپ سے اچھے سے بات بھی نہیں کرتی تو پھر وہ آپ کو کیسے گائیڈ کریں گی۔۔۔۔ وہ الجھی اسکی حرکت پہ بنا غور کرے اپنی ہی سوچوں میں گم بولی تھی۔۔۔"

وہ تم مجھ پر چھوڑ دو ۔۔ تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ تمہارا شوہر اتنی قابلیت تو رکھتا ہے کہ اپنی ساس کو پٹا سکے۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی رمشہ کا غصے سے پھولتا چہرہ دیکھ قہہقہ لگا اٹھا۔۔۔"

اشعر ۔۔۔۔۔ مم مجھے نن نیند آئی ہے۔۔۔۔" وہ ہڑبڑاتے اسے دوبارہ سے لائن سے اترتے دیکھ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔۔"

تو تم ریسٹ کر لینا صبح گھر جاتے ۔۔۔ وہ چہرہ اسکی گردن سے اٹھاتے مسکراتے اسے مشورہ دے گیا۔۔۔

نن نو مم مجھے ابھی سونا ہے ۔۔ وہ گھبراتے اسکے کندھے کو پکڑتے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔

رم میں کہہ رہا ہوں کہ تم گھر جا کر آرام کر سکتی ہو اور ابھی میں اپنے بے بیز سے پیار کرنا چاہتا ہوں تو اب خاموش ہو جاؤ اور محسوس کرو ان لمحات کو ، وہ انگلی اسکے ہونٹوں پہ رکھتے پیار سے بولا ۔۔۔

کہ رمشہ نے حیا سے لبریز ہوتی اپنی پلکوں کو نیچے جھکایا۔۔۔۔"

اشششععع۔۔۔۔ وہ دوبارہ سے احتجاج کرتے مدہم سا بولی ۔۔۔۔

کک اشعر جھکتے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پہ رکھتے اسے خاموش کروا گیا۔۔۔

آئی نیڈ یو۔۔۔ نو مور آرگیو۔۔۔۔۔ وہ  خمار بھری آنکھوں سے اسکی بند آنکھوں کو دیکھتے پیار سے بولتے اسے خود میں سمٹنے میں مجبور کر گیا ۔ 

کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنا آپ اسے سونپ گئی۔۔ کہ اشعر ہمیشہ کی طرح اسے خود میں سموتے اپنی شدتیں لٹاتے اسے خود میں قید کر گیا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

" ہیلو کہاں ہو تم ۔۔۔۔؟  

گھر پر ہوں کیوں سب ٹھیک ہے ۔۔۔؟ " 

ہممم۔۔۔۔ ٹھیک ہی ہے سب نیناں کا سناؤ کیسی ہے اب وہ۔۔۔۔"

وہ گاڑی سے سامان نکالتے فون کان سے ہٹاتے ہوئے بولا۔۔۔۔"

 کہاں ہو تم۔۔۔؟ وریام کچھ کٹھکا تھا اسی لیے فوراً سے پہلے پوچھا ۔۔ 

اپنے گھر پر پہنچا آیا ہوں۔۔۔۔" رافع سرد آہ خارج کرتے سکون سے بولا۔۔۔"

کب آئے تم اور تم کیوں آئے ابھی۔۔۔۔" وریام پریشان سا فورا سے صوفہ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔"

ابھی پہنچے ہیں ۔ اور تم کہ بتاؤ اتنا سب کچھ ہو گیا اور توں نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔٫

وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملتے شکوہ کرے مگر اب اچانک سے وہ رہ ناں پایا تھا اسی لیے آتے ہی اسے کال کی تھی۔۔۔۔"

بتاتا تب اگر کوئی مسئلہ برا ہوتا مگر اب سب کچھ کنٹرول میں ہے۔۔۔۔"

اچھا تو کس نے کیا تھا یہ سب کچھ پتہ چلا۔۔ سامان ایک جانب رکھتے وہ ہاتھ کمر پہ ٹکاتے ہوئے بولا۔۔۔۔"

ہمم پتہ ہے لیلیٰ نے کیا ہے یہ سب ۔۔ وریام لب بھینجتے غصہ کنٹرول کرتے بولا کہ اس لڑکی کے نام پر ہی اس فشار خون کھولتے بڑھ رہا تھا۔۔۔"

تو پوچھو اس سے کیوں کیا اس نے یہ سب۔۔۔ رافع چونکتے اسکا سرد لہجہ محسوس کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔

بھاگ چکی ہے وہ مگر جلد ہی ڈھونڈ نکالوں گا میں اسے۔۔۔۔ وہ سوچتے بمشکل خود پہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

ہممم پھر ٹھیک ہے اور سن کہیں جانا مت ، میں اور فدک آ رہے گھنٹے تک ۔۔۔۔"

وہ کال کاٹتا کہ اس سے پہلے ہی وہ بتا چکا تھا۔۔۔"

بات سن گھر مت آنا ۔۔۔ ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں وہاں پر لے آؤ فدک کو بھی۔۔۔۔۔" 

وہ کچھ سوچتے گہرا مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔" کہ رافع سنتے چونکا۔۔۔۔ 

کہاں اور کیوں۔۔۔۔" وہ سوچتے من میں آیا سوال پوچھ بیٹھا۔۔۔۔"

وہ اس لیے کہ میں نین کو شہر گھمانے والا ہوں۔ ۔۔ تم دونوں بھی تھوڑی دیر ریسٹ کر لو اور اسکے بعد ایڈریس پر آ جانا ۔۔۔ اور رات باہر سٹے کریں گے اپنے فیورٹ ہوٹل۔۔۔ وہ اسے بتاتے بنا اسکی سنے کال کاٹ گیا۔۔۔

کہ رافع ماتھا مسلتے سوچ میں پڑا کہ آخر یہ ہوٹل کی کیوں بات کر رہا تھا۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وریام ۔۔۔۔۔ وہ بے چین سی اندر کمرے میں داخل ہوتے اسے

 آوازیں دیتے ڈھونڈنے لگی۔۔۔ "

کہاں ہو تم وریام ۔۔۔ اسے کمرے میں ناپاتے وہ بڑھتے بالکونی کی جانب گئی۔۔ گرل کھولتے وہ ایک نظر وہاں جھانکتی واپس روم میں آئی کہ اگر وہ وہاں ہوتا تو دروازہ تو کھلا ہوتا اور یہ تو بند تھا اس کا مطلب۔ کہ وہ یہاں نہیں تھا۔۔۔"

ابھی تو مجھے بلایا تھا روم میں اب خود کہاں گیا۔۔ " وہ سوچوں میں گم دوبارہ سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔".

اور کچھ سوچتے بیڈ کے پاس نیچے بیٹھتے جھکتے اسے تلاشنے لگی ۔ اسے لگا شاید اسے ڈرانے کو یہاں چھپا ہو گا وہ۔۔۔ 

مگر وہ وہاں پر بھی نہیں تھا ۔۔ وہ آنکھیں چھوٹی کرتے ایک ہاتھ کمر پہ ٹکاتے سوچنے لگی کہ کہاں ہو سکتا ہے  ایکسرسائز روم کا خیال آتے ہی وہ بیڈ کے پاس سے گزرتے باہر کو بڑھی۔۔۔ '"

کہ اچانک سے چیختے کسی کے کھینچنے پہ ڑرتے آنکھیں پوری کھولے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔جہاں وریام پردے کے پیچھے کھڑا اب اسے اپنے ساتھ کھینچتے اسے بھی ساتھ لیے کھڑا تھا ۔۔۔"

تم ۔۔۔ تمممم یہاں پہ کھڑے تھے۔۔۔ وہ حیرت و بے یقینی سے اسکی بھوری شرارت سے لبریز آنکھوں میں دیکھتے سنجیدگی سے بولی۔۔۔"

میں تو وہیں ہوں گا جہاں میری جان اور اسکی خوشبو بستی ہو گی۔۔۔ وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے اپنے نزدیک کرتے اسکی ناک کو اپنی ناک سے مس کرتے پیار سے بولا۔۔۔"

کک کیوں بلایا تھا مم مجھے۔۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز برتتے نظریں چراتے فورآ سے بولی۔۔۔"

کیوں بلایا جاتا ہے اپنی بیوی کو اپنے پاس ،ظاہر ہے پیار کرنے کو ہی بلایا ہو گا۔۔۔۔۔ " وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پیار سے بولا ۔۔۔۔"

کیاااااا۔۔۔۔۔ تم پاگل ہو چکے ہو۔۔۔۔" وریام۔۔۔ وہ ایک دم سے چیختے اسے دیکھ بولی تھیں۔۔۔۔"

پہلے تو تھیک تھا مگر اب ۔۔۔ اب لگتا ہے تھوڑا تھوڑا ہو رہا ہوں ، تمہارے عشق میں۔۔۔۔ وہ پیار سے ہونٹ اسکی گال پہ لب رکھتے سرگوشی میں۔ بولا تھا ۔۔۔۔ 

نین۔۔۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔۔۔۔" کبھی بھی مجھے چھوڑنا مت۔۔۔۔" میں اب تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔"

اسے اچانک سے خود میں بھینجتے جانے کس خوف و خدشے کے تحت وہ اسے اپنے سخت حصار میں قید کرتے ہوئے بولا تھا کہ نیناں اسکی الفاظ کے ساتھ اسکی پکڑ کی شدت پہ بری طرح سے کسمکسائی تھی ، مگر خود آزاد ہو پانا کہاں ممکن تھا اسکے لیے۔۔۔۔"

ویسے اس کلر میں تم بالکل وہ لگ رہی ہو۔۔۔۔" وہ اچانک سے ماحول میں بکھری خاموشی کو توڑتے محبت سے بولا تھا ۔ کہ وہ سر اٹھاتے اسے دیکھنے لگی ۔۔"

کیا لگ رہی ہوں میں۔۔۔ وہ غصے سے تیکھے لہجے میں بولی ۔۔۔"

بتا دوں ، غصہ تو نہیں کرو گی۔۔۔۔۔ " وہ سیریس انداز میں چہرے پہ سنجیدگی سجاتے بولا تھا۔۔"

میں کیوں غصہ ہونے لگی تم بتاؤ ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی ضرور وہ اس کا مزاق اڑائے گا اسی لیے تو وہ بس بات نکلوانا چاہتی تھی کہ آخر میں وہ کہنا کیا چاہ رہا تھا۔۔۔۔"

ادھر لاؤ کان۔۔۔۔۔" وہ مسکراتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا۔۔۔"

وریاممممم کمینے انسانننننن ۔۔۔ وہ سنتی ایک دم سے غصہ ، شرم سے لال ہوتے اسکے پیچھے مارنے کو لپکی تھی جو اپنا کام مکمل کرتا اب اسے چڑھاتے بیڈ کے آگے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔"

وریاممممم ۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ وہ دوڑتے بیڈ کے آگے پیچھے چکر کاٹتے ایک دم سے چیختے ہوئے بولی تھی کہ وہ جو اسکے آگے آگے دوڑ رہا تھا اچانک سے اسکی چیخ کے ساتھ اسے بیڈ پہ گرا دیکھ بوکھلاتے ہوئے اسکی جانب بڑھا ۔۔۔۔'

نین کیا ہوا ۔۔۔ بتاؤ مجھے یار کیا ہوا۔۔۔۔" وہ ایک دن سے تڑپتے اس پہ جھکتے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ "

جو کہ آنکھیں بند کیے بے ہوشی کا ناٹک کر رہی تھی۔۔۔۔"

نین ۔۔۔۔۔ اٹھو یار کیا ہو گیا ۔۔۔ اٹھو دیکھو میں مزاق کر رہا تھا۔۔۔" پلیز اٹھو۔۔۔۔".

وہ پریشان سا اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتے  بے تابی سے بولا تھا۔۔۔۔'"

وہ اچانک اسکے بے ہوش ہونے پہ بوکھلاتے اسے اٹھاتے باہر لے جانے لگا۔۔۔۔".

" وو وریاممممم مم میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ میں تو ویسے ہی لگی تھی۔۔۔ وہ آنکھیں کھولتے اسے باہر جاتا دیکھ فوراً سے بولی تھی۔۔۔ کہ اسکے دروازے کے پاس پہنچتے قدم تھمے تھے۔۔۔۔"

وہ بے یقین سا آنکھیں حیرت سے پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا جو اب سہمتے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے اب سہمتے اسے دیکھ رہی تھی جو بنا کچھ کہے اب قدم واپس موڑتے اندر بڑھ رہا تھا۔۔۔ "

کہ اپنی شامت کا سوچتے وہ ایک دم سے سپید ہوتی سرد پڑتے  اسے دیکھ رہی تھی۔۔ سسس سوری وریامم مم میں مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ اسے بیڈ پہ لٹاتے خود واپس روم سے باہر کی جانب بڑھا تھا کہ پیچھے سے آتی آواز پہ رکتے وہ گردن گھمائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اور بنا کچھ کہے آگے بڑھا اور ٹھاہ سے دروازہ بند کرتا واپس آیا تھا۔۔۔۔" 

کک ایک دم سے ٹھاہ کی آواز سے بند ہوتے دروازے کی آواز پر وہ بھوکھلاتے ہوئے آنکھیں کھولتے اسے دوبارہ سے اپنے قریب پر آتا دیکھ ڈرتے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔ 

کہاں۔۔۔۔۔؟" وہ بڑھتے پھرتی سے اسے بیڈ کی دوسری جانب سے اترتا دیکھ دوڑتے بیڈ سے چھلانگ لگاتے اسے چھپٹتے بیڈ پہ گرا گیا۔۔۔۔"

سسس سوری سچی بھی میں مزاق کر رہی تھی۔۔ اب نہیں نہیں کروں گی ۔۔ اسے دوبارہ سے اپنی جانب بڑھتے دیکھ وہ پریشانی سے بولی جو بنا اثر لیے اسکے ہاتھوں کو پکڑتے اپنے ہاتھوں میں قید کر چکا تھا۔۔۔۔"

کیا تھا یہ۔۔۔؟" وہ اسکے پاس بیڈ پہ بیٹھتے   اسکی زرد پڑتی رنگت کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔"

کک کچھ نہیں۔۔۔۔۔" وہ بمشکل سے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہمت کرتے بولی۔۔۔۔"

اب غلطی کی ہے سزا تو ملے گی۔

 وہ مسکراتے انگوٹھے سے اسکے نچلے ہونٹ کو سہلاتے ہوئے بولا تھا کہ وہ پانی بھری آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

جبکہ وہ بنا اسکی چالاکی کو فوکس میں لیے  جھکتے اسکی بولتی بند کر چکا تھا۔۔۔۔ کہ نیناں نے ڈرتے اپنی آنکھیں زور سے میچیں ۔۔۔ جبکہ دوسری جانب وہ مدہوش سا اپنے اندر پھیلے اسے کھونے کے خوف کا خود سے دور کرتے اپنے دل کو یہ یقین دلانے لگا تھا کہ وہ اسکے پاس تھی۔۔ بالکل ٹھیک اسکی بانہوں میں اسکی سانسوں سے بھی زیادہ قریب  تھی وہ چھو سکتا تھا اسے محسوس کر سکتا تھا اپنے قریب ، پھر بھی جانے کیوں اسکا دل ایک انجانے خدشے سے دہل جاتا تھا کہ کہیں وہ اس سے دور ناں ہو جائے ، اسے چھوڑتے ناں چلی جائے۔۔۔۔" 

پھر وہ کیسے رہتا اسکے بنا کیسے گزارا ہوتا اسکا اسکے بنا۔۔۔ جسکے بنا وہ اب سانس بھی نہیں لینا  چاہتا تھا۔۔۔

آج کے بعد ایسا مزاق کبھی مت کرنا ، میں سب کچھ  برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔" مگر تمہارا خود سے دور جانا کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔" 

وہ ایک جذب کے عالم میں نم لہجے میں بولا تھا کہ نیناں کو دھچکا لگا اسکے رویے پر ۔۔۔ وہ تو بس اسے روکتے پکڑنے کو مذاق کر رہی تھی اسے کیا معلوم تھا کہ اسکا مزاق وریام کے لیے اتنا حساس ہو گا ۔۔"

وریام آئی ایم سوری مجھے نہیں تھا معلوم کہ تمہیں  اتنا برا لگے گا۔  میں تو بس تمہیں پکڑنے کے لیے مزاق کر رہی تھی۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اسے کالر سے پکڑتے دوبارہ سے اپنی جانب کھینچتے بولی کہ وریام مسکرایا اسکی رونی شکل دیکھتے۔۔۔"

ڈونٹ وری جان ! آئی نو میری نین کسی کا برا نہیں چاہ سکتی اور میرا تو بالکل بھی نہیں۔۔ سو ڈونٹ وری ایم فائن۔۔۔۔۔۔" وہ محبت سے جھکتے اسکے پیشانی پہ ہونٹ رکھتے سکون سے آنکھیں موندتے بولا تھا۔۔۔۔"

یہ لو میرا فون اور گرینڈ ماں سے بات کر لو ۔۔۔۔" مجھے معلوم ہے کہ تم انہیں مس کر رہی ہو۔۔۔" 

وہ اپنا فون پاکٹ سے نکالتے اسکے پاس رکھتے محبت سے بولا تھا کہ نیناں نے جھٹ سے نظریں اٹھاتے اسے دیکھا۔۔۔"

مجھے یقین ہے کہ اب میری نین صرف میری ہے اور مجھے چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جائے گی۔۔۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں چھپے سوال کو پڑھتے محبت سے بولا تھا کہ نیناں اسکے انداز پر مسکراتے سکی پشت کو دیکھ اپنے رب کے آگے  شکر گزار ہوئی تھی ۔۔"

جس نے بن مانگے اسے اتنی خوشیاں اور سب سے بڑھ ایک اچھا اور محبت کرنے والا ہمسفر دیا تھا۔۔۔" 

اب وہ پرسکون تھی اسکی خوشیاں اسکی جنت جس میں وہ اور وریام ہوں گے اور کوئی غم کوئی تکلیف انکے آس پاس بھی ناں بھٹکے گی۔۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تیار ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔" وہ اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے گرفت میں لیتے سامنے کھڑی شاہ ولا کی بلڈنگ کو گھورتے ہوئے بولا ۔۔"

ہممممممم.…..." 

تو چلو پھر چلتے ہیں۔۔۔!" 

اسکے ہنکارہ بھرنے پر وہ مسکراتے اسے لیے اندر کی جانب بڑھا۔

"

اسلام علیکم۔۔۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک جانب صوفے پر سلمیٰ جو کہ حیا کی مالش کر رہی تھیں ، ایک جانب کھڑی یسری اور بی جان اور انکے پاس بیٹھے حامد صاحب کو دیکھتے وہ بآواز بلند سلام کرتے آگے بڑھا۔۔".

اشعر کی آواز پر مڑتے سب نے اس کی جانب دیکھا۔۔۔ جو کہ رمشہ کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوتے سیدھا ایک جانب بیٹھی بی جان کے پاس گیا۔۔۔"

اشعر مم میرے بچے کیسے ہو تم دونوں وہ خوشی سے نہال ہوتے اسکے سر پہ محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی تھی۔۔"

 پچھلی دفعہ بھی تو وہ بنا ملے چکے گئے تھے۔۔ کتنا دل تھا انکا دونوں سے ملنے کا انہیں ایک ساتھ دیکھنے کا ۔۔ اور ابھی ایسے اچانک سے انہیں دیکھتے وہ خوشی سے نہال ہی تو ہوئی تھیں ۔۔۔"

رمشہ ادھر آؤ میری بچی کیسی ہو ۔۔۔۔۔۔؛' اشعر سے ملتے ہی وہ اسکے پیچھے شرمائی لجھائی ایک الگ روپ میں کھڑی رمشہ کو دیکھ بولیں۔۔۔'

جسکا انگ انگ ممتا کے نئے روپ سے نکھرا ہوا تھا۔۔۔ اور چہرہ ایک الگ ہی روپ سے دمک رہا تھا جسے دیکھتے ہی بی جان کو کچھ کچھ اندازہ تو ہو چلا تھا مگر وہ بولیں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔"

میں ٹھیک ہوں دادو۔۔۔۔ آپ کیسی ہیں ۔۔ " وہ فوراً سے انکے سینے سے سر اٹھاتے مسکراتے ہوئے بولی ۔۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

رمشہ میری بچی ماں سے بھی مل لو۔۔۔۔۔" سلمیٰ رمشہ کو یوں ہی دادی کے پاس چپکا دیکھ خود ہی حیا کو یسری کے حوالے کرتے آگے بڑھتے ہوئے بولی تھی ۔ کہ رمشہ نے چونکتے انکی جانب دیکھا۔۔۔۔٫

مما ۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔۔ وہ فوراً سے انہیں دیکھتے دوڑتے انکے سینے سے لگی تھی۔۔ کہ وہ خوشی سے اسکا سر ماتھا چومنے لگی ۔۔۔۔"

میں ٹھیک ہوں میری جان۔۔  تم بتاؤ کچھ کہا تو نہیں اس انسان نے ،کہاں لے گیا تھا تمہیں۔۔۔۔۔ " وہ خون آشام نگاہوں سے حامد کے پاس ہاتھ باندھے کھڑے اشعر کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولی ۔۔۔۔".

نن نہیں مما آنہوں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔" وہ ایک نظر اشعر کو دیکھتے فوراً سے نظریں چراتے ہوئے بولی کہ سلمیٰ نے شکر بھرا سانس خارج کرتے دوبارہ سے اسے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔

بابا کیسے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔" وہ پاس ہی کھڑے خاموشی سے اپنی جانب دیکھتے اپنے بابا کو دیکھ دوڑتے انکے سینے سے جا لگی۔۔۔۔۔".

میری بچی۔۔۔ میں ٹھیک یوں۔۔۔ تم سناؤ کیسی ہے میری بچی ۔۔ وہ محبت سے اسے اپنے سینے سے لگاتے اسکے سر پہ ہونٹ رکھتے ہوئے سکون سے بولے ۔۔۔۔۔" 

میں ٹھیک ہوں دیکھیں ایک دم فٹ۔۔۔ وہ کھلکھلاتے انکی جانب دیکھتے بولی۔۔ کہ وہ مسکرائے اپنی لاڈلی کو یوں خوش اور پرسکون دیکھ۔۔۔۔۔"

آج وہ پرسکون ہو چلے تھے، اسے یوں خوش اور مطمئن دیکھ۔۔۔ یقیناً اشعر نے اسکا حیال رکھا تھا اسی لیے تو وہ خوش تھی۔۔۔ اور کھلکھلاتے باتیں بھی کر رہی تھی۔۔۔"

ماما یہ کون ہیں۔۔۔۔" وہ جو اپنی ماما بابا کے بیچ میں بیٹھی مسکراتے کب سے ان سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک سے یسری کو ایک جانب دبکی سی حیا کو لیے بیٹھی تھی اسے دیکھتے بولی۔۔۔۔۔۔"

بیٹا یہی ہے وہ جس کی وجہ سے تمہارے بھائی نے ہوتے خاندان کے سامنے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔ وہ زخرحند نظروں سے اسے دیکھ نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے بولیں تھی کہ انکی کڑوی باتوں پہ وہ خاموش آنسو پیتی حیا کو چپ کروانے لگی۔۔۔۔۔ جو روئے جا رہی تھی۔۔۔"

ماما ایسا تو مت بولیں۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ بھابھی ، میں رمشہ آپ کی نند ، ۔۔۔۔۔وہ اٹھتے یسری کے پاس جاتے بولی کہ وہ جھجکتے اسکے ہاتھ کو دیکھتے ایک نظر سامنے بیٹھی اپنی ساس کو دیکھنے لگی جو اسے ہی گھور رہی تھی۔۔۔"

کسی ہو تم رمشہ۔۔۔۔ یسری اسکے ہاتھ کو تھامتے محبت سے بولی تھی ۔ پہلی بار حسن کے گھر میں سے کسی نے اتنی محبت سے اسے بلایا تھا بلکہ اپنا رشتہ بھی تو دیا تھا اسے کہ وہ اسکی نند تھی وہ کیسے خوش نا ہوتی۔۔۔"

بھابھی یہ میری بھیجتی ہے ناں ۔۔۔ وہ چہکتے اسکے ہاتھوں میں موجود نرمو نازک سی بچی کو دیکھتے ہوئے بولی کہ یسری مسکراتے سر کو ہاں میں ہلا گئی ۔۔۔۔۔"

لائیں مجھے دیں۔۔۔۔۔۔ وہ پیار سے اسے اٹھاتے اسکے خوبصورت نقوشِ کو ہونٹوں سے چھوتے محبت سے اسے اسے لیے اشعر کی جاب بڑھی۔۔۔۔"

اشعر دیکھیں تو کتنی پیاری ہے یہ بالکل بھائی پر گئی ہے ناں۔۔

" وہ حیا کو اسکی گود میں دیتے چہکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ 

دھیان سے بیٹا ادھر مجھے دو بچی گر ناں جائے۔۔۔۔۔۔" بی جان اشعر کے متفکر چہرے کو دیکھتے بولی۔۔۔۔۔"

نہیں بی جان ابھی اٹھاؤں گا تو ہی عادت ہوگی ناں۔۔۔۔ وہ مسکراتا حیا کی پیشانی پہ بوسہ دیتے بولا کہ حامد ، سلمیٰ سمیت سب نے چونکتے اسے اور ایک نظر سرخ ہوتی رمشہ کو دیکھا جو سب کی نظریں خود پہ ٹکی پاتے فورا سے آگے پیچھے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ "

مطلب بیٹا کھل کر بتاؤ کیا کہنا چاہ رہے ہو ۔۔۔۔" حامد نے ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھتے پاس کھڑی رمشہ کو بھی اپنے پاس ایک جانب بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ چارو ناچار سر جھکاتے انکے دائیں جانب بیٹھیں۔۔۔۔"

وہ انکل دراصل میں اور رمشہ اسی لیے واپس آئے ہیں کہ اپنی خوشی میں اپنے گھر والوں کو بھی شامل کر سکیں۔۔۔۔۔"

آپ نانا بننے والے ہیں۔۔۔۔" وہ مسکراتے انکو بتاتا شرماتے چہرہ جھکا گیا۔۔۔ "

اشعر۔۔ کیا تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔" وہ بت یقینی سے اسکا کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ کہ وہ ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی سلمیٰ کا دھواں دھواں چہرہ دیکھتے  وہ مسکراہٹ دباتے اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔"

مبارک ہو میرے بیٹے ۔۔۔۔۔" اللہ پاک خوش رکھیں تم دونوں کو ۔۔۔۔" حامد مسکراتے اسے گلے لگاتے ہوئے بولے تھے۔۔۔" کہ وہ بھی مسکراتا انکی مبارک باد وصول کر گیا۔۔۔"

رمشہ ادھر میرے ساتھ۔۔۔۔ سلمیٰ اٹھتے ایک دم سے اسکا ہاتھ پکڑتے کھینچتے اندر لے گئیں۔۔۔۔۔۔"

کہ پیچھے اشعر نے مسکراتے نفی میں سر ہلایا۔  جانتا جو تھا کہ اب آگے کیا ہونے والا تھا۔۔۔ اسی لیے تو وہ پریشان سی بیٹھی بی جان اور حامد کو ہر سکون کرنے لگا۔۔۔"

ماما کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ " رمشہ پریشان سی  انکے ساتھ کھیچتے روم میں جاتے ہی بولی تھی ۔ کہ سلمیٰ اسکے آہستگی چھوڑتے بڑھتے دروازہ لاک کر گئیں۔۔۔۔_

بیٹھو ادھر آؤ۔۔۔۔۔ وہ آرام دہ انداز میں اسے کندھوں سے تھامتے بیڈ پر کے جاتے بٹھاتے ہوئے بولی۔۔ کہ وہ بھی سہمی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔"

میری بات کا جواب دو مجھے رمشہ کیا تم سچ میں ماں بننے والی ہو وہ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے آنکھوں میں زوال لیے اسے دیکھ بولیں۔۔۔۔۔"

جی ماما بھلا اس میں کیا جھوٹ ہو سکتا ہے۔۔۔۔" وہ کنفیوز سی انکی بات پر جھنجھلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔،"

کیا تم اس اشعر کے ساتھ خوش ہو کیا تم اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔۔۔۔ ؟ 

وہ پھر سے اپنا اگلا سوال لیے کھڑی تھیں کہ رمشہ کو سوالوں سے جھنجلاہٹ ہونے لگی۔۔۔"

ماما میں نے آپ کو کتنی بار پہلے بھی سمجھایا ہے کہ وہ میرے شوہر ہیں اور میں بہت زیادہ خوش ہوں انکے ساتھ۔۔۔ وہ میری سوچ سے بھی زیادہ میرا خیال رکھتے ہیں۔۔۔۔"

وہ جانتی تھی کہ وہ اسکے لیے فکر مند ہیں اب وہ آرام سے انکے ہاتھوں پک گرفت مضبوط کرتے ٹانگیں بیڈ کے اوپر کرتے سر انکی گود میں رکھ چکی تھی۔۔۔۔"

میری تو یہی دعا ہے کہ تم دونوں خوش رہو ، دو ہی بچے ہو تم میرے ۔۔۔۔ بھلا مجھے تم دونوں کی خوشی کے علاؤہ اور کیا چاہیے ، پیار سے اسکے بالوں کو سہلاتے وہ محبت سے اسکی پیشانی چومتے بولیں کہ وہ انکا ہاتھ تھامتے بوسہ دیتے مسکرائی تھی۔۔۔۔"

کتنا پریشان تھیں وہ رمشہ کو لے کر ، اپنی آنکھوں سے ہی تو اسے روتا ، بکھری حالت میں دیکھا تھا ، اور ویسے بھی وہ کیسے اس اشعر پہ یقین کرتی ۔۔۔ ، جو انہیں شروع دن سے ہی اچھا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔"

مگر اب اپنی بیٹی کو خوش اور پرسکون دیکھ وہ بھی اندر سے پرسکون ہوئی تھیں۔...."

 مما کوئی آیا ہے باہر۔ ۔۔۔۔ دروازے پر ہوتی دستک کو سنتے وہ سلمیٰ کو دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

میری بیٹی تم آرام کرو اب سے تم میرے پاس رہو گی میرے کمرے میں ، میں خود اپنی جان کا اور اپنے آنے والے ناتی بکا خیال رکھوں گی ۔۔۔۔'"

وہ مسکراتے اسکا سر تکیے پہ رکھتے اٹھتے دروازے کی جانب بڑھی ۔۔۔

تم کیا لینا ہے تم نے۔۔۔۔" وہ غصے سے تیز لہجے میں۔ اسے سامنے موجود دیکھ بولی تھی۔۔۔"

ارے ساسوں ماں ، میری پیاری سی بیوی آپ کے پاس ہے ۔۔ تو ظاہر سی بات ہے میں اسی کے لیے ہی آیا ہوں اور اپنے بچوں کے لیے۔۔۔" وہ مسکراتے انکے بازوؤں کو تھامتے انہیں ساتھ کیے اندر داخل ہوتے بولا۔۔۔"

نہیں کوئی ضرورت نہیں میں خود خیال رکھوں گی اپنی بیٹی کا تمہاری ضرورت نہیں۔۔۔۔" وہ اسے رمشہ کی جانب بڑھتا دیکھ ہاتھ پکڑتے پیچھے کرتے بولیں۔۔۔۔۔"

ارے کیوں ضرورت نہیں ، بیوی ہے وہ میری اور میرے بچوں کی ماں بننے والی ہے تو میرا اس کے پاس ہونا ضروری ہے۔۔۔۔ " وہ دوبارہ سے انہیں پیچھے کرتے خود آگے بڑھتا بولا۔۔۔۔"

بچوں کیا مطلب بچوں ۔۔۔ سلمیٰ اس کی بار بار دہرائی گئی بات پہ غور کرتے اپنے دوپٹے کو کستے سر پہ لیتے بولیں۔۔۔۔"

مطلب یہ کہ آپ ایک نہین دوبچوں کی نا ی بننے والی ہیں۔۔ وہ سرشار سا ہاتھوں کو فضا میں جھکائے انہیں خوشی سے دیکھتا ہوا بولا کہ وہ چونکتے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی۔۔کو شرماتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔۔"

ہائے میری بچی۔۔ جگ جگ جیو۔۔۔ اللہ سلامت رکھے میری جان کو اور کیرے دونوں ناتیوں کو بھی۔۔۔ اب تو میں تمہیں قدم بھی ناں اٹھانے دوں گی بس اب یہیں رہنا ہو گا تمہیں۔۔۔۔۔"

وہ پیار سے اسکے ماتھے کو چومتے اپنے ساتھ لگاتے بولی۔۔۔ کہ اشعر ہاتھ دونوں کمر پہ ٹکائے آنکھیں چھوٹی کرتے انہیں گھورنے لگا۔۔۔۔"

کیا مطلب آپ کا ، کہ رمشہ آپ کے ساتھ رہے گی۔۔۔ اس ساری بات میں جو بات اسکے کانوں میں سوئیاں چھبو چکی تھی وہ تڑپتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔" 

ارے میاں ! خبردار  جو میری بیٹی کے نزدیک گئے تو ، نکلو یہاں سے میرے ہوتے کسی دوسرے کو اس کی فجر کرنے کی ضرورت نہیں ، میں خود خیال رکھوں گی اپنی بچی کا۔۔۔۔۔"

وہ غصے سے اسے جھڑکتے بولیں تھی ان کا بس چلتا تو ابھی اٹھاتے اسے گھر سے باہر پٹھک دیتی۔۔۔۔"

آپ شاید بھول رہی ہیں کہ رمشہ میرے بچوں کی ماں بننے والی ہے اگر آپ نہیں چاہتی کہ میں رمشہ کے پاس رہوں تو کوئی مسلئہ نہیں ، میں ابھی رمشہ کو لے کر جا رہا ہوں ، جب میری بیوی کو ہی مجھ سے دور رکھا جائے گا تو مجھے کوئی شوق نہیں اپنی بیوی کو یہاں پہ رکھنے کا۔۔۔۔

چلو رمشہ۔۔۔ وہ چلتا بیڈ کے پاس جاتے اپنا ہاتھ رمشہ کے آگے کرتے بولا۔۔۔۔۔"

اشعر یہ تم کیا کہہ رہے ہو تم کسیے رکھو گے اسکا خیال اکیلے۔۔۔۔۔وہ تڑپتے رمشہ کو اشعر کے ساتھ جاتا دیکھ بولیں تھیں۔۔۔"

ساسوں ماں آپ مجھے میری بیوی کے ساتھ نہیں رہنے دے رہیں اور میں اسکے بغیر رہ نہیں سکتا تو اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی لے جاوں کم از کم میں اسکے پاس تو ہوں گا ۔۔۔۔۔"

وہ سر ہلاتے انہیں سچویشن سمجھاتے ہوئے بولا کہ وہ سنتی غور کرنے لگی۔۔۔

رکو تم رمشہ کو یہی رہنے دو میرے پاس ۔۔۔ ہاں ہاں ٹھیک ہے وہ تمہارے ساتھ ہی رہے گی اپنے والے کمرے میں۔۔ مگر اب سے تم دونوں یہیں رہو گے۔۔۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔۔".

وہ اسے گھورتے  ہوئے ناک چڑھاتے بولیں کہ رمشہ اور اشعر دونوں نے بیک وقت اپنی امڈتی ہنسی کو بمشکل کنٹرول کیا۔۔۔۔

یہ کیا پہنا دیا تم نے مجھے ۔۔۔۔" مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔"

ڈونٹ وری بیت اچھی لگ رہی ہو اور موسم بھی خراب ہے تو اس لیے یہ زیادہ ضروری ہے۔۔۔" اسے بلیک فل آوور کوٹ جس میں وہ بالکل پاؤں تک چھپی ہوئی کوئی چھوٹی بچی دکھ رہی تھی ،وہ محبت سے اسے دیکھتا ہاتھ سے اسکے سر پہ پہنائی کیپ کو پکڑتے ٹھیک کرنے لگا۔۔۔۔"

اتنی ٹھنڈ نہیں ہے یہاں پر اور میں اتنی بھی کمزور نہیں ہوں کہ اتنی سی سردی برداشت ناں کر سکوں۔۔۔۔ " وہ ناک چڑھاتے فوراً سے دوبدو جواب دیتی اپنے پاس سے گزرتے ہجوم کو دیکھنے لگی۔۔۔۔"

    وہ تو میں جانتا ہوں میری بہادر شیرنی اس سردی کو تو برداشت کر سکتی ہے مگر میری زرا سی قربت میں اسکے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔۔۔ اپنے بلیک لیدر جیکٹ کو گریبان سے پکڑتے درست کرتے وہ بازوؤں کا حصار اسکے گرد بناتے مخنی خیزی سے بولا تھا کہ وہ ایک دم سے اسکی مخنی خیزی سے کہی گئی بات پہ سٹپٹاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

وریاممم۔۔ ایک بات تو بتاؤ ، یہاں پر کیا سب ایسے ہی جاگتے رہتے ہیں رات بھر وہ سڑک پر جابجا گزرتے لوگوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔ 

ہمممم ۔۔۔۔ اور زیادہ تر لوگ اس وقت آڈیٹوریم میں بھی جاتے ہیں ۔۔ یہاں پر گیمز کو بہت زیادہ لائک کیا جاتا ہے۔۔ اور ویسے بھی یہاں لوگ دن کو سوتے ہیں اور رات کو گھومتے پھرتے ہیں۔۔۔۔"

وہ ایک جانب چلتے سڑک پہ ٹرن کرتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔ گاڑی تو وہ دور پیچھے ہی چھوڑ آئے تھے۔۔۔ اور اب وہ پیدل سفر کے دوران اس سے ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہا تھا۔۔۔۔"

وریاممم وہاں دیکھو ۔۔۔ رش کیوں لگا ہے وہاں پر۔۔۔ اپنے چھوٹے سے نازک ہاتھ کی انگلی کو اٹھاتے وہ سامنے سڑک کے ایک جانب کھڑے لوگوں کو دیکھ بولی تھی جہاں سے آتی ہلکی ہلکی میوزک کی آواز ماحول میں بکھرتے ایک الگ ہی پر فسوں ماحول بنا رہی تھی۔۔۔

نین ہمیں جانا ہے یار رافع اور فدک ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ اسکی توجہ اس جانب پاتے وہ گہرا سانس خارج کرتے فوراً سے بہانا بناتے ہوئے بولا تھا۔۔ کچھ نہیں ہوتا وریام مجھے دیکھنا ہے بس ایک بار دیکھتے واپس آ جائیں گے۔۔۔۔ "

وہ اسکے بازوؤں میں اپنی بازوؤں کو ڈالے آنکھیں مسکراتے جھپک کر بولی تھی کہ وہ سر جھٹکتے کندھے اچکاتے اسکے ساتھ ہوا تھا۔۔۔۔"

اور اسے ساتھ لیے بڑھتا آگے بڑھا، جہاں پہ لوگ کافی مقدار میں کھڑے تھے اور ایک جانب آگ جلاتے خوبصورت سی روشنی کرتے ماحول کو خوشگوار بنایا گیا تھا۔۔۔ ایک جانب کھڑے تین نوجوان لڑکے ہاتھوں میں وائلنٹ تھامے ایک محسوس انداز میں ایک ہی ترتیب سے اسے بجاتے کہ ایک پرسوز سی دھن فضا۔ میں پھیلتی اور بھی خوبصورت بنا رہی تھی۔۔۔،" 

جبکہ ان کے درمیان میں ایک لڑکا اور لڑکی جو کہ سیم ریڈ کلر کی ڈریسز میں مہارت سے ڈانس کر رہے تھے کہ کبھی وہ لڑکا اٹھاتے لڑکی کو کمر سے پکڑتے فضا میں لہراتا تو کبھی وہ لڑکی اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیے گول گول گھومتے  اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ وہ دونوں بالکل نوجوان شاید کوئی یونی کے سٹوڈنٹس تھے

۔۔۔ اور اب یہاں پہ اکٹھے انجوائے کرنے کو آئے تھے۔۔۔ "

تماشائی مسکراتے ہولے ہولے تالیاں بجاتے انکو داد دے رہے تھے۔۔۔ جبکہ نیناں اور وریام جو ابھی اس ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لیتے انکے رقص میں کھوئے تھے کہ اگلے ہی لمحے سامنے ڈانس کرتے لڑکے نے اس لڑکی کو اپنی ایک بازوؤں پہ ہلکا سا گراتے خود بھی اسی سٹائل سے جھکتے اسے کس کرنے لگا کہ نیناں نے اپنی آنکھوں کو فل کھولے ایک دم شاک سے اسے نئے ڈانس کو دیکھا ۔۔۔ جبکہ وریام جانتا تھا ابھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے اسی لیے تو وہ اسے یہاں نہیں لا  رہا تھا۔۔۔۔

مگر اب کیا کر ہو سکتا تھا۔۔ وہ خود بھی تو اس فورا سے پڑتی کاروائی پر گردن گھمائے اسے دیکھنے لگا اور اسکے کھلے منہ اور حد سے زیادہ پھٹی آنکھوں کو دیکھ وہ ہاتھ بڑھاتے اسکی آنکھوں پر رکھتے اور دوسرا  ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے کھینچتے اپنے حصار میں لیتا وہاں سے نکلا تھا۔۔۔'"

کہا تھا ناں کہ رہنے دو نہیں چلتے مگر تم مانتی ہی کب ہو میری بات۔۔۔" ایک دم سے اسے دوبارہ اسی راستے پہ لاتے وہ ہاتھ اسکی کمر سے گراتے اپنی جیکٹ میں۔ ڈالے مسکراہٹ دباتے اسکی سرخ رنگت کو دیکھ سر جھٹکتے ہوئے بولا تھا۔۔۔"-

اور کتنا چلنا پڑے گا ہمیں مجھے نیند آ رہی ہے۔۔اسکی بات کو اگنور کیے وہ اپنے گلے میں لپیٹے مفلر کو درست کرتے بولی ۔۔۔ بس آگے تھوڑی ہی دور ہے۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتے اسکی حرکت پہ بمشکل سے بولتے پھر سے اسکے گرد حصار بنا گیا۔۔۔۔۔"

نیند کیوں آ رہی ہے کیا رات کو سوئی نہیں تم۔۔۔۔۔ وہ کہاں باز آنے والا تھا ۔۔۔ اسے تو شروع دن سے ہی نیناں کو چڑھانے اسے تنگ کرنے میں مزہ آتا تھا اور پھر جب وہ اسکی باتوں سے چڑھتے غصے سے ایک دم سے سرخ لال انگارہ ہوتی تو وہ صدقے واری جاتا اسکے قاتل مدہوش کن روپ پہ ، مگر یہ اور بات تھی کہ وہ کبھی اپنی فیلنگز اتنی گہرائی سے اس پہ ظاہر نہیں کرتا تھا جانتا جو تھا کہ اگر اسکے اس قدر شدت ، جنون کا جھونکا بھی اس تک پہنچا تو وہ نازک جان اس جھونکے سے ہی آدھی ہو جائے گی  کجا کہ اسے جھیلنا اور برداشت کرنا۔ کہاں ممکن تھا اسکے لیے۔۔۔۔۔"

وریاممم۔۔۔۔۔ اگر اب تم نے تنگ کیا تو مجھے نہیں چلنا تمہارے ساتھ۔۔۔۔ اسکی مخنی خیز باتوں اور نظروں کو مسلسل خود پہ محسوس کرتے وہ چڑھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔

اوکے اب کچھ نہیں کرتا میں سوری مائی لٹل جان۔۔۔۔ وہ اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے سامنے ہی ایک  اسٹال کے پاس کھڑے رافع اور فدک کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔"

کہ نیناں نے منہ پھلاتے اسے گھورا۔۔۔ اور فوراً سے نظریں سڑک پہ مرکوز کرتے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

السلام علیکم......! کیسے ہو تم دونوں انکے پاس جاتے ہی وہ سلام کرتے رافع کے گلے لگتے محبت سے بولا تھا جبکہ فدک خود ہی چھوٹتے نیناں کو زور سے ہگ کرتے اسے بھی جھلانے لگی اپنے ساتھ خوشی میں۔۔۔"

ہم ٹھیک ہیں۔۔۔؛" اور ہمارا سفر بھی اچھا گزرا ہے ۔۔۔ اب تم بتاؤ زیادہ تنگ تو نہیں کیا میری بہن کو۔۔۔۔۔ رافع مسکراتے اسکی پیٹ تھپکتے فدک کے ساتھ چمٹی نیناں کو دیکھ بولا تھا۔۔۔"

تنگ ہی تو نہیں کرنے دیتی ورنہ ارادہ تو بہت کچھ کرنے کا۔۔۔۔۔"۔ اسکے پاس جھکتے وہ سرگوشی میں بولتے ہاتھ سے اپنے بالوں کو سیٹ کرنے لگا۔۔۔۔"  

توں ناں سدھری۔۔۔۔۔۔ رافع سنتا افسوس میں سر کو ہلاتے ایک زور دار دھموکہ اسکی کمر پر رسید کرتے ہوئے بولا ۔۔۔" 

ہاں اب ہر کوئی تیرے جیسا شریف تو ہونے سے رہا ۔۔۔ وہ اسے دیکھ تمسخر اڑاتے ہوئے لہجے میں بولا تھا کہ رافع ایک دم سے غصہ کنٹرول کرنے کے چکر میں سرخ چہرہ لیے مٹھیاں بھینج گیا۔۔۔۔"

آپ دونوں زرا ہم سے بھی بات کر لیں کہ بس بچھڑی محبوباؤں کی طرح ایک دوسرے سے دل ہی نہیں بھر رہا 

۔۔۔۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں کرتے دیکھ فدک نے انہیں چھیڑتے اپنی جانب متوجہ کیا تھا کہ وہ دونوں چونکتے ان کو دیکھنے لگے۔۔۔

کیسی ہے میری پرنسز۔۔۔۔۔۔ "

 میں ٹھیک ٹھاک اور ایک دم سے فٹ۔۔۔۔۔" وریام کے پوچھنے پر وہ کھلکھلاتے ہوئے بولی تھی کہ رافع نظریں ترچھیں کیے اسکے مسکراتے چہرے کو بغور دیکھتے نظریں گھما گیا۔۔۔"

آؤ اس جانب ۔۔۔۔۔" فدک کے پاس کھڑی نیناں کو کھنچتے اپنی جانب کرتے وہ ہاتھ سے انہیں اشارہ کرتے بولا تھا کہ وہ دونوں۔ بھی مسکراتے انکے پیچھے ہوئے تھے۔۔۔ 

ہاتھ کنٹرول میں رکھو ورنہ توڑ دوں گی۔۔۔۔" وریام اور نیناں کو تھوڑا آگے کی جانب بڑھتا دیکھ وہ فدک کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے کھینچتے اپنے ساتھ لگائے ہوئے تھا ۔۔ جو کہ خفا خفا سی فوراً سے غصے سے مگر دھیمی آواز میں وارننگ دیتے بولی تھی۔۔۔۔۔"

اوہہہہہ۔۔۔۔۔۔ سوری ناں یار اب میڈیسن تو ضروری ہوتی ہے ناں کھانا۔۔۔۔ وہ صبح سے اس سے ناراض تھی جس نے دھوکے سے جانے کتنی دوائیاں اسے زبردستی بنا اسکے رونے دھونے کی غور کرتے  کھلائی تھی۔۔۔"

تب سے وہ جانے کتنی بار اسے منا چکا تھا مگر اب فدک کا موڈ نہیں تھا اسے معاف کرنے کا اسے لیے فورا سے اسکے ہاتھوں کو جھٹکتے وہ قدم اٹھاتے آگے ہوئی جہاں پر وریام اور نیناں چلتے خوبصورت سی اسٹال کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔"

یہاں پہ کیا کوئی فیسٹول ہے۔۔۔۔؟ ' وہ آگے بڑھتی وریام سے سوال کرنے لگی۔۔۔

فیسٹول ہے مگر ابھی نہیں دو ہفتوں کے بعد ۔۔۔۔۔۔وہ محتصر سا بتاتے ایک جانب لگے اسٹال کی جانب بڑھا تھا ۔۔

یہ کیا ہے بھائی۔۔۔۔ فدک اسکے ہاتھ میں پکڑے خوبصورت سے برسلیٹ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ کہتے ہیں کہ یہاں پہ لگے اسٹول میں سے اگر کوئی چیز کوئی شادی شدہ جوڑا لے کر پہنائے اپنی بیوی کو تو اس سے پیار زیادہ ہوتا ہے۔۔ اور اسی لیے میں لایا ہوں۔۔۔۔ وہ مسکراتے متغیر رنگت کے ساتھ کھڑی نیناں کو بھرپور نظر سے دیکھتے اسکے دائیں ہاتھ کو تھماتے ، خوبصورت سے بنے اس نازک سے چمکتے برسلیٹ کو نیناں کی کلائی میں باندھنے لگا ، جس کی جھکی نظریں اس برسلیٹ میں سے چمکتے حرف وی پر تھیں۔۔۔ 

جبکہ رافع ، فدک کی جانب دیکھتے سٹپٹا گیا جو کہ غصے سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔" 

فورآ سے دوڑتے وہ اسٹال کی جانب بھاگا تھا ۔۔ کیا ہے۔؟

اپنے کندھے پر  سے اسکے ہاتھ کو  جھٹکتے پیچھے کرتے وہ منہ پھلاتے ہوئے بولی تھی۔۔ جبکہ رافع اسکے مزید خفا ہونے پہ پاس ہی کھڑے نیناں کے ہاتھ کو تھامے وریام کو گھورتا رہ گیا جو کہ خود سے جانے کیسے آگ لگانے والی عورتوں کی طرح محبت ، برسلیٹ جانے کیا کیا باتیں بناتا ، اس کے لیے مشکل کھڑی کرتے اسکے دیکھنے پر آنکھ دبا گیا۔۔

رافع کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسی گھنے میسنے انسان کو مار ڈالے، جو فتور ڈالتے اب ایک جانب مسکراتا کھڑا تھا۔۔۔"

وہ جانتا تھا کہ بھائی کی چیلی اس کی بات تو ماننے سے رہی سو اسی لیے اب زبردستی اسکی کلائی کو تھامتے ، اسکا رخ اپنی جانب کرتے ، اسکے ہاتھ میں ایک خوبصورت سی انگوٹھی ڈال چکا تھا جو کہ بالکل پرفیکٹ اسکی انگلی کے سائز کی تھی۔۔۔

اششششش۔۔۔۔ اتارنا مت ۔۔ کیونکہ محبت چیزوں سے نہیں ہوتی دینے والے کی طرف سے اسکی محبت ، کا احساس ہوتی ہے اور بریسلٹ میں آگے ہی تمہاری کلائی میں پہنا چکا ہوں اس لیے میری خوبصورت سی بیوی کے لیے خوبصورت سا تخفہ۔۔۔ محبت سے وہ اسے دیکھتے ایک نظر وریام کو دیکھنے لگا جو نیناں میں مگن جیسے اکیلا ہی اس دنیا میں گھومنے آیا تھا۔۔

پسند آیا۔۔۔۔ وہ مسکراتے فدک کی توجہ اس ہارٹ شیپ چھوٹی نازک سی انگوٹھی پر پاتے مسرور سا بولا تھا ۔۔۔۔۔

چلیں فدک۔۔۔ اسکے جواب سے پہلے ہی وریام کی آواز پر وہ چونکتے سحر سے نکلی تھی اور فوراً سے اسے اگنور کرتی ان دونوں کے ساتھ قدم ملاتے آگے کو بڑھی۔۔۔

پیچھے وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے اپنے آپ پر کنٹرول کرنے لگا ایک بات تو آج اس پر واضح ہو چکی تھی کہ جو رضا انکل اس بے شرم انسان کی وجہ سے روتے تھے ، اسکی حرکتوں کی وجہ سے عاجز آئے ہوئے تھے ۔۔ وہ سچ میں ہی انہیں اتنا تنگ کیے رکھتا تھا کہ وہ خود اس سے جان چھڑانے کے لیے تڑپتے تھے۔۔۔

آج وہ سچ میں ان کے دکھ سے واقف ہوا تھا۔۔ اور اس کا بس نہیں تھا کہ وہ اس کمینے کا گلا گھونٹ دیتا جو پہلے سے ناراض اس کی بیوی کو اور بھی ناراض کروا رہا تھا اس سے ۔۔۔۔۔"

رافی جان آ جاؤ۔۔۔۔ اسے وہی غصے سے تیز تیز سانس لیتا دیکھ وریام مسکراہٹ دباتے مڑتے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولا  ، کہ وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے آنکھیں میچتے خود کو پرسکون کرتے آگے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔"

وریام۔۔۔۔۔۔  بھوجھل سی نیند سی بھرپور آواز سنتے ہی وہ گردن نیچی کرتے  اپنے ساتھ چلتی اپنی نازک سی جان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

ہیے نین یار سونا مت۔۔۔ بس تھوڑی دور ہے ہوٹل ہم پہنچنے والے ہیں ۔۔ اسے اپنے بازوؤں کے ساتھ ٹیک لگائے نیند میں جاتا دیکھ وہ فوراً بسے ہڑبڑاتے ہوئے بولا تھا۔۔

کیا ہوا نیناں کو اتنی نیند کیوں آ رہی ہے اسے۔۔۔۔" فدک نے چونکتے اسے نیند میں جاتا دیکھ حیرانگی بسے پوچھا۔۔۔۔۔"

کہ رافع سمجھتا ہنسی کنٹرول کرنے کو منہ موڑ چکا تھا۔۔ جبکہ وریام پریشان سا اسکے سوال پہ اچانک گڑبڑایا تھا اب اسے کیسے بتاتا کہ پوری رات تو اسے سونے نہیں دیا تھا تو اب اس نیند کی دیوانی نے سونا ہی تھا۔۔۔ یہ بھی شکر تھا کہ ابھی تک جانے کیسے صبر کیے وہ جاگی تھی۔۔ورنہ اسکی نیند کو وریام سے بہتر کون جان سکتا تھا۔۔ جو اسکی نیند کا فائدہ اٹھاتے جانے کتنی بار چھوٹی چھوٹی سی جسارتیں بھی کر چکا تھا۔۔۔۔"

لگتا ہے نیناں سوئی نہیں ۔۔ شاید اسی لیے اسے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔ رافع نے موقع دیکھتے اس پہ چوٹ کی تھی۔۔ جو کہ بلبلا  کہ رہ گیا اور خونخوار نظروں سے اسے دیکھا جو اسکے دیکھنے پہ اب کندھے اچکا گیا تھا۔۔ 

نین۔۔۔۔ وہ رکتا اسے جھنجوڑتے اٹھانے لگا مگر وہ بجائے اٹھنے کے اپنے دونوں ہاتھ اسکی گرد لپیٹتے سر اسکے سینے پہ ٹکاتے بھرپور نیند میں تھی۔۔۔۔"

کہ اسکی حرکت پہ وہ مسکراتے زرا سا جھکتے اسے بانہوں میں بھرتے اٹھا چکا تھا۔۔ " اور مسکراتے بنا فدک ، رافع کی پرواہ کیے وہ اسکی پیشانی پہ اپنی محبت بھری مہر ثبت کرتے آگے کو بڑھا تھا۔۔"

"جبکہ رافع کڑھتے دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نوازتے فدک کی جانب دیکھ دونوں بازوؤں پھیلا گیا۔۔ جیسا کہہہ رہا ہو کہ نیند آئی ہے تمہیں تو آؤ میں لے چلوں اٹھاتے ۔۔۔۔"

جبکہ فدک ناک چڑھاتے سر کو جھٹکتے آگے بڑھی تھی۔۔۔۔۔"

ہیلو سر ۔۔۔۔ "

آپ کے رومز کی کیز....."وہ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ایک جانب کھڑے مینیجر کے پاس پہنچے تھے ، جو کہ ہکا بکا سا وریام کو دیکھ رہا تھا جو نیناں کو بازوؤں میں بھرے ایک جانب پیچھے کھڑا تھا۔۔ وہ چونکا تھا آج پہلی بار تو رافع اور فدک اپنے ساتھ لڑکیوں کو لائے تھے۔۔۔ مگر وریام کا یوں کسی کو اٹھائے کھڑے رہنا وہ مشکوک سا ہوا تھا ، یہ پہلی بار تو نہیں تھا کہ وہ ان کے ہوٹل میں آئے تھے مگر آج اس طرح سے آنا کچھ عجیب بھی لگا تھا مگر پھر پاس کھڑی ملازمہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔ 

جسے سنتے وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے مسکرایا تھا اور پرسکون سا ہوتے رافع کے آگے کیز بڑھائیں تھی جسے تھامتے وہ شکریہ کہتے آگے کو بڑھے تھے۔۔۔"

یہ تیرے روم کی چابی ہے ۔۔۔ آل دی بسٹ۔۔۔۔۔ " اسکے ہاتھ سے چابی کو پکڑتے وہ دوسری چابی خود لیتا اپنے والی اسے تھماتے بولا تھا ۔جبکہ کان میں اسکے سرگوشی کرنے پہ وہ چونکتے اسے دیکھنے لگا تھا جو مسکراتے ایک ہاتھ سے روم کا ڈور کھولتے اندر بڑھا تھا۔۔۔۔"

رافع چلیں۔۔۔۔۔۔"

ہمممم چلو۔۔۔۔ فدک کی آواز پر وہ ہوش میں آتے اسے لیے سامنے والے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔

دروازہ کھولتے ہی تروتازہ مہکتے پھولوں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تھی۔۔ ایک دم سے اسکے دماغ میں وریام کی بات لہرائی تھی اور وہ دلکشی سے مسکراتا جیب سے موبائل نکالتے لائٹس کو ڈھونڈتے آن کر چکا تھا۔۔۔۔۔"

اور ایک بھرپور نظر خوبصورت سے ڈیکوریٹٹڈ روم پر ڈالتے وہ مبہوت سی منہ کھولے کھڑی فدک کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

جو کہ پنک کلر کے مفکر اور بلیو آوور کوٹ پہنے ہوئے تھی۔۔ اسکی دمکتی گلابی پڑتی رنگت کو دیکھ وہ مسکرایا تھا دل سے۔۔۔۔۔۔"

کیسا لگا سرپرائز۔۔۔۔۔ پیچھے سے اسے حصار میں لیتے وہ ہاتھ اسکے پیٹ پر باندھتے محبت سے سرگوشی کرتے بولا تھا کہ وہ ایک دم سے سرخ پڑی تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔

"اچھا ہے۔۔۔ خاموشی سی لب دبائے وہ بمشکل سے بولی تھی۔۔۔۔ صرف اچھا۔۔۔۔ " وریام کی  محنت ہی اپنا نام لگاتے وہ تعریف بٹورتے ہوئے بولا ۔۔ جانتا تھا کہ وریام نے ہی اس کے لیے یہ سب کروایا تھا ۔۔۔۔"

وہ مسکرایا تھا اسکو یاد کرتے۔۔۔۔"

بہت زیادہ والا اچھا۔۔۔۔"

اسکے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھتے وہ نہایت آرام سے بولی تھی کہ رافع بمشکل سے اسکی سرگوشی کو سن پایا تھا۔۔۔۔۔"

" طبیعت کیسی ہے ابھی۔۔۔' وہ ہاتھ سے اسکے مفلر کو نکالتے ایک جانب رکھتے ، اسکا رخ سامنے کرتے محبت سے بولا تھا کہ فدک کیا جواب دیتی۔۔۔ 

یہ پرفسوں سا ماحول، روم میں کی گئی سجاوٹ وہ بخوبی ان سب کا مطلب سمجھتی تھی ۔۔۔ اسی لیے تو خاموشی سے کھڑی تھی،  اسکا جواب دینے کی ہمت کہاں سے لاتی۔۔۔۔"

جانتی ہو۔۔۔۔ کچھ نعمتیں بے مول ہوتی ہیں جس طرح سے کچھ لوگ بے مول ہوتے ہیں۔۔۔ انکے آنے سے پہلے زندگی ، تو ہوتی ہے ، ۔۔۔۔ مگر وہ زندگی زندگی نہیں ہوتی ۔۔۔ بلکہ زندگی تو اسے کہتے ہیں جب ہم مسکرائیں ، کھلکھلائیں اپنی خوشی ، اپنا غم کسی اپنے سے شئیر کر سکیں۔۔۔۔ اور میری زندگی میں وہ شخص تم ہو۔۔ موم کے جانے کے بعد ڈیڈ کو بہت مشکل سے سنبھالا تھا میں نے، مگر خود کو کیسے سنبھالتا ایک اچھا بیٹا بنتے بنتے میرے اندر کا وہ مسکراتا انسان کہیں سو چکا تھا۔۔ وری میرے ساتھ ہوتا تھا ایسا نہیں کہ میں کبھی اکیلا ہوا ہوں ۔ میرے اپنے ، میرے چاہنے والے میرے ساتھ رہیں ہیں۔۔۔ 

مگر یہ جو دل ہے ناں اس میں ہمیشہ سے اک خلش ہی رہی ہے۔۔ اور وہ خلش تمہارے میری زندگی میں آنے سے پوری ہوئی ہے۔۔۔ 

میں چاہتا ہوں کہ میں جب بھی سوؤں تو تمہیں اپنی بانہوں میں لیتے سوؤں ۔۔ جب جاگوں تو تمہارا پیار بھرا میٹھا سا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کروں۔۔۔ جب بھی کوئی خوشی نصیب ہو اسے تمہارے ساتھ بانٹو اور تمہارے حصے کے ہر غم کو چن لوں۔۔۔۔۔"

وہ بیان کر رہا تھا اپنے دل میں چھپی اپنی ننھی ننھی سی خواہشوں کو ، اپنے چھپائے ہر دکھ کو ، اور وہ خاموش اسکی بانہوں میں کھڑی اسکی خوبصورت کانچ کی مانند آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ بنا جھجکے بنا بولے، بس خاموش ۔۔ اس خاموشی میں اسکی باتوں کو اپنے اندر اتارتے وہ اپنے آپ کو پرسکون کر رہی تھی۔۔ 

آج وہ پھر سے خود کو خؤش نصیب محسوس کر رہی تھی ، کہ اللہ نے اسکے نصیب میں ایک محبت کرنے والا ، دنیا کی آندھیوں ، طوفانوں سے بچاتے اپنے دامن میں چھپائے رکھنے والا سہارہ میسر کیا تھا اسے۔۔۔ "

وہ خوش تھی مکمل طور پر وہ آسودگی سے مسکراتے ایک دم سے اسکے سینے سے لگتے اپنی آنکھیں سکون سے موند گئی۔۔۔۔۔

در رافع۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے اسکے ایک دم سے خود کو اٹھاتے بازوؤں میں بھرنے سے ڈرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں چکڑتے سہمتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ 

جی جان رافع۔۔۔۔۔۔۔ اسی محبت ، سے وہ حمار آنکھوں سے اسے بیڈ پہ لٹاتے اسکے ماتھے کو چومتے بولا تھا کہ وہ ڈرتے آنکھیں زور سے میچ گئی۔۔۔"

میں چاہتا ہوں کہ آج میں ہمارے رشتے کے درمیان یہ حائل ساری دوریاں مٹا دوں۔۔۔ ، میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں فدک اپنی سانسوں سے بھی زیادہ نزدیک ۔۔۔۔ اپنے دل میں پنپتے اس ڈر ،خوف و وخشت کو مات دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔ وہ اسکی بند آنکھوں اور لرزتی پلکوں کو دیکھتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اپنے ہونٹ اسکے کان کی لو پہ رکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

کہ فدک کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی آنے والے لمحات کا سوچتے ہی اسکی جان آدھی ہو رہی تھی ۔۔۔ 

اپنے ہاتھوں میں اسکی شرٹ کو جکڑتے وہ گردن پہ اسکے بہکتے لمس اور گرم جھلسا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے تیز تیز سانسیں بھرتے خود کو پرسکون کرنے لگی۔۔۔۔"

ررر رافع۔۔۔۔۔ ایک دم سے اسے اوپر ہوتے شرٹ اتارتے دیکھ وہ آنکھیں پھاڑے اسکے کشادہ سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔"

جبکہ وہ مسکراتے اسکے ہاتھوں کو ایک طرف کرتے اپنا ایک ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے سر اونچا کرتے اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ کمفرٹر دونوں پہ اوڑھتے اسے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لیتے اپنی شدتیں ، اپنی محبت نچھاور کرنے لگا۔۔۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

نین ۔۔۔ جاناں اٹھو ۔۔۔۔ یار۔۔۔ روم کے خوبصورت پرفسوں ماحول کو دیکھتے وہ پھر سے اسکے بالوں کو ہاتھ سے سہلاتے نرمی سے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔"

 جو بنا اسکی کسی بات کو سنے۔ اپنی نیند کو پورا کرنے میں مگن تھی۔۔۔۔

یا اللہ۔۔۔۔۔ ساری پلاننگ میں نے کری ، اور میری بیوی خود گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔۔۔۔ وہ دکھ اور بیچارگی سے آسمان کو دیکھتے ہوئے شکوہ کرنے لگا۔۔۔۔۔"

مگر نیناں کو ایسے ہی بنا ٹس سے مس ہوتا پاتے وہ افسوس کرتا سر کو نفی میں ہلاتے خود ہی بیڈ پر سے اٹھا تھا۔۔۔ " 

اور روم کا ٹمپریچر بڑھاتے وہ مڑتا بیڈ تک آیا ، ایک ہاتھ اسکی گردن کے نیچے لے جاتے وہ احتیاط سے اسکا مفلر گلے سے نکالتے مسکراتے ایک جانب رکھتے اسکی خفگی سے کھڑی چھوٹی سی سرخ ہوتی ناک کو دیکھ لب دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔ شاید اپنی نیند میں خلل اسے پسند نہیں تھا آ رہا۔۔۔۔"

وریام آرام سے پاؤں کو فولڈ کرتے اوپر ہوتے بیڈ پر بیٹھا تھا اور احتیاط سے ایک بازو آوور کوٹ سے نکالتے وہ دوسرا بھی نکال چکا تھا اور آرام سے اسے اٹھاتے اپنی گود میں بھرتے وہ کوٹ کو ایک جانب پڑے صوفے پر پھینکتے ہاتھ کی مدد سے بیڈ پر بچھائے مہکتے گلاب کے پھولوں کو اتارتے نیچے ایک جانب پھینک گیا ۔۔۔"

اور گہرا سانس خارج کرتے اپنی گود میں اٹھائی اس چھوٹی سی جان کو بھرپور گہری نظروں سے دیکھتے وہ مسکراتے اسے بیڈ پر لٹاتے ، اسے رخ موڑتا دیکھ فوراً سے جھکتے اس کی ناک کو پیار سے چھوتے مسکراتے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔"

جو اب کروٹ بدلتے لیٹ چکی تھی مطلب صاف تھا کہ اسے سونا تھا۔۔۔۔ "

وہ اٹھتا اپنی شرٹ کو اتارتے نیچے پھینکتے دوبارہ سے اسکی کروٹ لی سائیڈ پر آیا تھا اور پیار سے اسکے سامنے لیٹتے ، مسکراتے اسے دیکھ وہ کمفرٹر  اوڑھتے اپنا ایک بازو اسکے سر کے نیچے لے جاتے اپنے قریب کر گیا ۔کہ نیناں نے فوراً سے اپنے بازوؤں اسکے گرد لپیٹتے منہ اسکے سینے میں چھپایا تھا۔۔۔ 

اور اسکی حرکت پر وہ غش کھانے کو تھا کہ محترمہ کو نیند بھی چاہیے اور میری  قربت بھی۔۔۔ وہ مسکرایا تھا دل و جان سے ، اور نرمی سے اسکی پیشانی کو چھوتے وہ اپنا دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں ڈالتے اسے پرسکون کرنے لگا۔۔ 

اب خود نیند کہاں آنی تھی اسے ،مگر وہ اپنی وجہ سے اسکی نیند برباد نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ جانتا تھا کل رات کی اسکی گستاخیوں اور شدتوں کو جھیلتے وہ اب کہاں اسکا سامنا کرتی اور ویسے بھی تو اس نے کہاں اسے سونے دیا تھا جو ابھی پھر سے اسکی نیند برباد کرتا۔۔۔" 

وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اسکے ریمشی گھنے بالوں میں منہ چھپاتے اسکی خؤشبو میں گہرے سانس بھرتے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

  مسلسل بے دھڑک بجتے موبائل کی آواز پر وہ کروفت سے سر اٹھاتے تکیے پر پٹھکتے مندی مندی سی آنکھیں کھولتا چھت کو گھورنے لگا ۔۔۔

  "

اچانک سے اعصاب  پرسکون ہوتے کہ وہ ہوش میں آیا اور نظریں جھکائے وہ اپنے ہونٹوں کو دیکھنے لگا جہاں ہر اسکا ہاتھ پورے استحقاق کے ساتھ پھیلا ہوا تھا۔۔ 

آنکھیں جھپکتے اب اس کا دھیان اپنے بالوں کی جانب تھا جہاں اسکے نرم و نازک انگلیوں کے لمس کو محسوس کرتے وہ سر موڑتے رخ اس کی جانب کر چکا تھا۔۔۔۔"

جو نیند میں بھی اسکی قربت کو محسوس کرتے پرسکون سی لیٹی تھی۔۔۔"

مسکراتے اسکے ہاتھ کو پیار سے چومتے وہ اپنی گردن کے گرد لپیٹتے کھسکتے اسکے قریب ہوا کہ اچانک سے بجتی  موبائل کی رنگ نے پھر سے مداخلت کی ۔"

وہ رخ گھمائے خونخوار نظروں سے فون کو گھورنے لگا ، بس نہیں تھا ایک ہی جھٹکے میں اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتا ۔۔۔۔"

 وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اسکی پیشانی کو نرمی سے کو آرام سے چھوتے اٹھا کہ نیناں کے گردن کے گرد لپٹے ہاتھ نے اسے روکا تھا کہ وہ آڑھا  ترچھا سا ہوا آدھا بیٹھا اور آدھا لیٹا تھا۔۔۔۔"

کیا آگے ہی کم تنگ کیا ہے ، جو اب کسر پوری کر رہی ہو۔۔۔ مسکراتے اسکے ہاتھ کو گردن سے نکالتے وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھا تھا ایک نظر باہر کی جانب دیکھتے وہ سر جھٹکتے کھڑکی کے پاس گیا اور پردے برابر کرتے فون اٹھا چکا تھا۔۔۔"

  ہیلو وریام کاظمی اسپیکنگ۔۔۔۔۔ " پاکستان کے نمبر کو دیکھتے وہ فوراً سے اپنا تعارف کرواتے اپنا نام بتا گیا۔۔۔ 

کمشنر اشعر ہئیر۔۔۔۔۔۔ " اسی کے انداز میں مقابل نے بھی گہری مسکراہٹ سجائے جواب دیا تھا کہ وہ سنتا فوراً سے اسے پہچان گیا اسے بھلا وہ کیسے بھول سکتا تھا۔۔۔۔"

ہممم تو بولیے کمشنر سر۔۔۔ کیسے یاد کر لیا آپ نے ہمیں۔۔ انتہائی برا منہ بناتے وہ ایک نظر نیناں ہر ڈالتے پاس پڑا اپنا تکیہ اٹھاتے اسکے سامنے رکھ چکا تھا اور خود چلتے وہ ایک جانب صوفے پر بھیٹتے اپنے بالوں کو ٹھیک کرنے لگا۔۔۔"

ہماری ایک قیمتی چیز آپ چرا کر لے گئے ہیں اپنے ساتھ، اسی لیے آپ کو کال کرنے کی زخمت کی۔۔۔۔"

ٹھنڈے ٹھار لہجے میں اس کے دل پر چھریاں چلاتے وہ ایک ہی جست میں چئیر سے اٹھا تھا۔۔۔" 

کیز اٹھاتے وہ اپنے آفس روم سے باہر کو بڑھا تھا کہ ابھی اسے گھر جانا تھا رات سے ہی وہ آفس میں تھا اور اسی وجہ سے اسکی بیوی یقیناً اس سے ناراض ہو گی مگر ساس نے کیا کیا پھول پروئے ہوں گے یہ تو اسے جاتے ہی پتہ لگنا تھا۔۔۔"

وریام کاظمی کسی کی چیزوں پر ڈاکہ نہیں ڈالتا البتہ اپنی کوئی چیز کسی کی گرفت میں سے نکالتے اس دنیا سے اوجھل کرنا باخوبی جانتا ہے۔۔۔۔ " غصے سے لال انگارہ ہوتے وہ نیناں کی نیند کا سوچتے ایک ایک لفظ پر زور دیتے دھیمے لہجے میں بولا تھا کہ مقابل مسکراتے سر جھٹک گیا۔۔۔"

مجھے اپنی دوستتت سے بات کرنی ہے تو کیا آپ کروا دیں گے۔۔۔ " بات بدلتے وہ پھر سے اسے چھیڑنے کے سے انداز میں شریر لہجے میں بولا تھا۔۔

بہن ، بہن بولو پہلے بھی کہا تھا کہ وہ بہن ہے تمہاری ، اس کا دوست ، اسکا پیار اس کا آج ، اس کا کل ، سب کچھ میں ہوں۔۔ اس کے علاؤہ ایک عدد بھائی کی کمی بھی پوری ہو چکی ہے۔۔ اور مجھے بالکل پسند نہیں کہ میری بیوی سے کوئی فالتو میں رشتے داریاں بڑھائے ، تو اسی لیے آج کے بعد اس نمبر پر کال مت کرنا۔۔۔۔"

ہمت بھی کیسے ہوئی تھی اس کی کہ وہ نیناں کو دوست کہتا اور وہ بھی جان بوجھ کر ، اگر سامنے ہوتا تو ضرور اسے مزہ چکھا چکا ہوتا۔۔۔" 

ڈائلاگ اچھا تھا مگر کچھ کمی لگی مجھے۔۔۔ گاڑی ریسورس کرتے وہ مزے سے مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا ، 

جبکہ وریام فون پر گرفت مضبوط کرتے یک ٹک اپنے سامنے لیٹی نیناں کو دیکھ رہا تھا۔۔  " 

بھونکو کال کیوں کی ہے ، نہیں تو اب کال مت کرنا ۔۔۔۔"

 بتایا تو اپنی دوست سے بات کرنے کو ۔۔۔۔"

وہ کہاں باز آنے والا تھا ۔۔ جب سے اسے اپنے پاپا بننے کی نیوز ملی تھی تب سے وہ ہر کسی کے ساتھ ہنستا ، مزاق کرتا ایک الگ اشعر بنا تھا ۔۔۔ کیسی عجیب سی فیلنگز تھیں اس کی جیسے جانے ، وہ مکمل ہو چلا تھا۔۔ اسکی اولاد آئے گی ۔۔ اور اسکے بچے اسکے دائیں بائیں اسکے قریب سوئیں گے۔۔۔  

اس کی تو جیسے دنیا ہی رب نے بدل دی تھی ایک خوبصورت سی دنیا میں مقید جہاں صرف وہ ، رمشہ اور انکے بچے تھے۔۔۔۔""

نین گیٹ اپ۔۔۔۔۔ ایک دم سے وہ فون کو سامنے کاوچ پر رکھتے ، وہ نیناں کے پاس جاتے ہی اسے بازوؤں سے پکڑتے جھنجھوڑتے ہوئے اٹھانے لگا۔۔۔۔'

کہ وہ اچانک سے ہڑبڑاتے اسے دیکھنے لگی جو غصے سے لال انگارہ چہرہ لیے اسی کو دیکھ رہی تھا۔۔۔

بات سنو میری ، تمہارے اس پاکستانی بھائی کی کال آئی ہے۔۔ ابھی تم اس سے بات کرو گی اور میرے سامنے ہی اسے بھائی بولو گی ۔۔ اوکے ڈن ، چلو اب ۔۔ ایک دم سے اسے بازوؤں سے پکڑتے وہ بیڈ سے نیچے اتارتے فورآ سے سب کچھ سمجھا گیا۔۔ جس کی سمجھ میں خاک کچھ بھی ناں آیا تھا بس منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

مم میرا کون سا بھائی آ گیا۔۔ اسے خود معلوم نہیں تھا کہ اب اسکا کون سا بھائی ہے جو پاکستان میں پیدا بھی ہو گیا اور خود اسے علم تک نہیں تھا۔۔" وہ اسکے ساتھ چلتی فوراً سے اسکے ہاتھ کو کھینچتے ہوئے بولی تھی کہ وریام گردن گھمائے آنکھیں سکوڑے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

اس کمشنر کی بات کر رہا ہوں میں۔۔۔ وہ ایک جھٹکے میں ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اپنے نزدیک کرتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا تھا کہ نیناں اچانک سے اس کی برق رفتاری پر اور اوپر سے اس سرگوشی کو سنتے اشعر کا سوچتے حیران ہوئی تھی۔۔۔۔"

اشعر کی کال ہے۔۔۔ خوشی سے چہکتے وہ فوراً سے چیختے ہوئے بولی تھی کہ وریام کا غصے سے لال بھبھوکا چہرہ دیکھ فوراً سے خاموش بھی ہوئی۔۔۔

اٹھاؤ فون۔۔۔ فون کی جانب اشارہ کرتے وہ پیچھے سے اسے ساتھ لگاتے حصار میں لے گیا ، ۔۔۔

ہیلو۔۔۔ مدہم سے آواز میں کچھ وریام کی قربت میں وہ جھجھکتے ہوئے بولی تھی کہ اسکی آواز پر اشعر نے مسکراتے سکون سے آنکھیں موندیں ۔۔ اسے یقین تھا کہ وہ خوش اور پرسکون ہوگی ۔۔ جبھی تو کبھی اسے ڈسٹرب نہیں کیا اور کچھ وریام کی جنونی طبیعت کا اندازہ اسے باخوبی ایک ہی ملاقات میں ہو چلا تھا۔۔ اسی لیے  وہ مداخلت کرتے اسکی زندگی میں دشواریاں پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔"

اور ابھی بھی تو وہ گڈ نیوز سنانے کو کال کر رہا تھا۔۔۔"

السلام علیکم ، چڑیل کیسی ہو۔۔۔ لہجے میں گھلتی نمی کو بامشکل دھکیلتے وہ خود  پہ قابو پاتے بولا تھا۔۔ کیا کچھ ناں آ سمایا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے بچپن کے وہ سارے پل جب وہ اپنے حصے میں ملی آدھی سوکھی روٹی بھی چھپاتے اسکے لیے لاتی تھی ۔ کتنا منع کرتا تھا وہ مگر وہ کہتی تھی کہ تمہاری بہن نہیں تو اس لیے میں لاتی ہوں کیونکہ میں بھی تمہاری بہن ہوں ۔ کتنا پیارا سا ایک احساس کا رشتہ تھا دونوں کا۔۔۔"

مگر آج تک کبھی ایک دوسرے پر بھی اس حقیقت کو عیاں ناں ہونے دیا تھا کہ وہ کتنی محبت کرتے تھے اپنے اس مقدس رشتے کی۔۔۔ بچپن کے دکھ درد بانٹتے بانٹتے جانے کب ان میں یہ پیارا سا رشتہ قائم ہوا تھا مگر وہ دونوں اس کا تقدس رکھتے ہمیشہ دوستی کے نام میں چھپائے آئے تھے۔۔ مگر یہ حقیقت تھی کہ اشعر کی بہن تھی وہ ، بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ بہنوں سے بھی زیادہ عزیز تھی اسے۔۔۔ اب اس خوشی کے موقع پر اسے خود سے دور سوچتے ہی اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔۔۔"

میں ٹھیک ہوں کمشنر ممم میرا مطلب بھائی میں ٹھیک ہوں۔۔۔ ایکدم سے وہ بوکھلاتے فوراً سے تصدیق کرتے بولی تھی کیونکہ وریام کے وارننگ دیتے ہاتھ اسکی کمر پر سفر کرتے اسے باور کروا رہے تھے کہ اگر کچھ غلط بولا تو۔۔۔ نتائج کی زمہ دار تم خود ہو گی۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔لگتا ہے وہ جن بھی پاس ہی ہے۔۔ جو ہماری چڑیل کو اڑا لے گیا۔۔۔۔ اسکے بھائی بولنے پر ایک جاندار قہقہہ لگاتے وہ فوراً مزے سے بولا تھا۔۔۔"

کہ وہ جو کان قریب کرتے اب سن رہا تھا اس کمشنر کے قہقہ لگانے پر بیچ و تاب کھا کر رہ گیا ۔"

انسان بنو اشعر ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔  اسکا وریام جو جن کہنا  نیناں کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا اسی لیے وہ ٹوکتے غصے سے جھڑک بھی گئی ۔۔ 

جبک دوسرہ جانب وہ محفوظ ہوتے سر ہلا گیا۔۔۔ "

اچھا سنو ایک گڈ نیوز دینی تھی تمہیں۔۔۔۔ تنگ کرنے کا اردہ ترک کرتے وہ مسکراتے کام کی بات پر آیا۔۔۔۔"

کیا ہوا کونسی گڈ نیوز ہے۔۔۔ اچانک سے اسکی بات ہر وہ ماتھے پر بل ڈالے بولی۔۔ "

تم خالہ اور پھپھو بننے والی ہو اور وہ بھی دو دو بچوں کی ۔۔۔۔ وہ خوشی سے سرشار لہجے میں مٹھاس سموئے بولا کہ نیناں منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔۔ '

ہیں یہ کب ہوا۔۔۔۔ اسکی سمجھ سے باہر تھا کیا اتنی جلدی رمشہ نے اسے معاف کر دیا اور کیا کچھ ہوا تھا ان سب کی زندگی میں اسے تو کچھ خبر ہی ناں تھی۔۔ جب سے وریام آیا تھا اسکی زندگی میں وہ تو بھول بھی چکی تھی کہ اس کا ایک عرصہ کہیں دیار غیر سے دور اپنے ملک میں گزرا تھا۔۔۔"

یہ سب تمہارے جن کی کرم نوازی ہے۔۔ ناں وہ اس دن تمہیں اٹھاتے لے جاتا اور ناں ہی یہ یہ سب کچھ ہوتا۔۔ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ کیونکہ میری رخصتی بھی مایوں والے دن ہی ہوئی تھی۔۔ اور دیکھو اب الحمدللہ ترقی کر چکا ہوں۔۔ باپ بننے والا ہوں۔۔۔ 

تمہیں اور کوئی کام نہیں جو صبح صبح کال کر کے سر کھا رہے ہو ۔۔ ضبط کا پیمانہ لبریز ہونے پر وہ فون اسکے ساتھ سے لیتے خود سے دانت کچکچاتے ہوئے بولا تھا۔۔"

تمہارے وہاں ہو گی صبح جہاں تو آٹھ بج رہیں ہیں۔۔۔ ایک نظر کھڑکی سے جھانکتے سورج کو دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔

ڈفر یہاں ہر تو ابھی چار بجے ہیں۔۔۔۔ اب بس کر ، باقی باتیں پھر کبھی کرنا بائے۔۔۔ بنا اسکی سنے وہ اپنی کہتا کھٹاک کے ساتھ فون بند کر گیا۔۔" 

وریامم۔۔۔۔۔ آج میں بہت بہت خوش ہوں۔۔ ابھی وہ سنبھلتا کہ ایک دم سے اسکے گلے میں بازو ڈالے  وہ فوراً سے اسکے سینے میں منہ دیے بولی تھی۔۔۔"

اچھا ایسا بھی کیا ہو گیا کہ میری نین اتنی خوش ہے۔۔ مسکراتے اسکی خوشی میں اپنا فائدہ دیکھ وہ خود بھی اسکے گرد حصار بناتے پیار سے بولا تھا۔۔

تمہیں پتا ہے کہ اشعر پاپا بننے والا ہے ۔۔ اور میں خالہ۔اور پھپھو دونوں۔۔ خوشی کی انتہا تھی کہ واقعی میں اسے خالہ ، پھپھو کہنے والا کوئی اس دنیا میں آنے والا تھا۔۔۔" 

یہ تو واقعی میں خوشی کی بات ہے۔۔۔"  مسکراتے اسکے سر پہ ہونٹ رکھتے وہ  محبت سے بولا تھا کہ نیناں مسکراتے آنکھیں موند گئی اسکے پرسکون مخفوظ حصار میں۔۔۔۔"

اتنی نیند کہاں سے آتی ہے تمہیں۔۔ بنا اسے دیکھے بھی وہ اسکی تیز تیز چلتی سانسوں کو محسوس کرتے لب دباتے ہوئے بولا تھا۔۔ کہ نیناں نے آنکھیں کھولتے سر اسکے سینے سے نکالتے اسے دیکھا۔۔"

اتنی مطلب کتنی۔۔ تھوڑا سا تو سوتی ہوں۔۔۔"  وہ منہ بسورتے اسکے بازو پر سر رکھتی لاڈ سے بولی کہ وریام مسکرائے بنا ناں رہ سکا۔۔۔۔"

اتنا سوتی ہو کہ میری گولڈن نائٹ سپوئل کر دی ۔۔۔۔مخنی خیزی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ کان کی لو کو ہلکا سا کاٹتے لب رکھتے پیچھے ہوتے اسکی سرخ پڑتی رنگت کو  دیکھنے لگا۔۔۔۔"

ڈونٹ وری ابھی بہت موقع آئیں گے۔۔ میں وضو کر لوں ہم آج اکھٹے نماز ادا کریں گے۔۔۔ محبت سے اسے حوصلہ دیتے وہ ساتھ اپنے ارادوں سے بھی آگاہ کر گیا کہ وہ سٹپٹاتے اسکی پشت کو گھورنے لگی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہائے۔۔۔۔ بولو کیسے کال کی۔۔۔۔ بے زار سے لہجے میں بات ختم کرنے کے سے انداز میں بولی تھی کہ دوسری جانب موجود شخص بڑھک اٹھا اسکی بات پر۔۔۔۔"

تمیز سے بات کرو ، پیسے لے کر کام کرتا ہوں اسکا مطلب یہ نہیں کہ غلام ہوں تمہارا۔۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا کر کہتے وہ اسکا خون کھولا گیا ۔۔۔

یو باسٹرڈ ۔۔۔۔ اگر کام مکمل ناں ہوا ناں تو پھر پوچھوں گی تجھے۔۔۔۔

ہاتھوں سے اپنے بالوں کو نوچتے وہ ہزیانی ہوتے چلائی تھی کہ پاس بیٹھے گریگ نے اسکی پیٹھ سہلاتے اسے ریلیکس کیا ۔۔۔۔"

میرے کام کی فکر مت کرو پوری نظر رکھے ہوئے ہوں میں۔۔ اس وقت وہ ہوٹل میں ہی ہیں کام ہوتے ہی کال کروں گا مگر تب تک میرے پیسے تیار رکھنا سمجھی۔۔۔ اسی کے انداز میں جواب دیتے وہ فوراً سے کال کاٹتے اپنے روم سے باہر نکلا۔۔۔۔"

ڈونٹ وری بے بی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اسکے پاس صوفے پر بیٹھتے وہ تسلی دیتے بولا۔۔۔"

میں اس وی کو نہیں چھوڑوں گی یو ول سی ۔۔۔۔۔ وہ غصے حقارت سے کہتی ہاتھ میں موجود شراب کے گلاس کو زمین پر پٹھک چکی تھی ۔۔"

پچھلے چند دنوں سے وہ یہاں اسکے پاس چھپی ہوئی تھی کہ وریام جگہ جگہ اسے ڈھونڈ رہا تھا اور تو اور ملک سے باہر جانے کے سارے راستے بھی اسی پر بند کروا چکا تھا  کہ وہ جو رات چھپتے بھاگنا چاہ رہی تھی مگر ائیرپورٹ کے باہر وریام کے باڈی گارڈ کے ساتھ روکی کو دیکھتے وہ سمجھ گئی کہ اس کی چال ہے ضرور اسے پکڑنے کی۔۔۔

پھر وہ واپس تو آئی تھی مگر ایک نئی چال ایک  نئے خربے کے ساتھ۔۔۔ اور اب اسے بس موقع کی تلاش تھی اور بس ایک ہی تیر میں وہ دو شکار کرے گی۔۔ وریام بھی بدلا چکائے گا اور اس دیسی میڈم کو تو وہ واپس بھیج کر ہی دم لے گی۔ ۔۔ 

تم نے مجھے ۔۔۔۔ مجھے ہرٹ کیا ہے وی۔۔۔ اب دیکھو ، تمہاری ساری زندگی ہی میں نے خراب ناں کر دی تو میرا نام بھی لیلی نہیں۔۔۔" 

گریگ کے گلے لگے وہ غصے اور نفرت سے وی کو یاد کرتے بولی تھی۔۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

    " کیا ہوا ہے ساسوں ماں ، وہ جب سے آیا تھا اپنی ساس کے غصے سے عاجز اب ناچاہتے ہوئے بھی بول پڑا تھا۔ جو اسے ساری رات تھانے میں رہنے کے جرم میں اب صوفے سے ایک قدم بھی بیڈ کی جانب ناں بڑھانے دے رہی تھی۔۔۔۔"

وہ مدد طلب نظروں سے پاس ایک جانب بیٹھی بی جان جو دیکھنے لگا معصومیت سے۔۔۔ وہ بھلا کیا مدد کرتی اس کی ، انکے لیے تو یہ بھی غنیمت تھا کہ اب سلمیٰ کا رویہ قدرے بہتر ہی تھا انکے ساتھ۔۔۔۔ وہ خود پریشان تھیں کہ یسری کے ساتھ سلمیٰ بالکل برا برتاؤ کر رہی تھی۔۔ 

" یاں تو حیا کو چھین لیتی یا تو سارا سارا دن کاموں میں لگائے رکھتی۔۔ مگر انکے آگے بولنے کی  ہمت کون لاتا۔۔  اپنی بہو کی سرد مہری اور رویے پر وہ خود ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ جاتی۔۔۔"

اے لڑکے خبردار جو میری بچی کو ہاتھ بھی لگایا۔۔ چلو بیٹھو واپس وہیں۔ اسے اٹھتے بیڈ کے نزدیک آتا دیکھ وہ غصے سے ٹوکتے بولیں تھیں جو کہ بنا  اثر لیے آگے بڑھا تھا۔۔۔"

کیا ہوا ہے اسے ، اس کی رنگت پیلی کیوں پڑ رہی ہے۔۔۔" رمشہ کو نڈھال سا کب سے آنکھیں بند کیے دیکھ وہ بے چینی سے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا تھا۔ " 

اب ساری رات الٹیاں کرے گی تو ایسی ہی ہو گی ناں رنگت کہ گلاب کی طرح سرخ ہوتی۔۔ اسے جھڑکتے وہ شرم بھی دلاتے بولیں۔۔ 

جو چونکتے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔"

کیا مطلب کہ ساری رات الٹیاں کرتی رہی ، اور آپ نے ڈاکٹر کو نہیں بلایا۔۔ وہ حیرت اور بے یقینی سے ششدر ایک دم سے کہتے بیڈ پر سے کھڑا ہوا تھا۔۔"

 بات سنو میری ، کسی کو فون مت کرنا ، آئ سمجھ۔۔ یہ عام سی بات ہے اور ایسی حالت میں یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تم میری بات کا جواب دو۔۔ 

اسے تھوڑا بہت سمجھاتے وہ پھر سے اپنی بات پر آڑی کہ اشعر مشکوک ہوا کہ اب کیا رہ گیا۔۔۔"

تم نے کہا تھا ناں کہ تم اسکے ساتھ رہو گے تو پھر رات کہاں چلے گئے۔۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ  تم اس قابل نہیں ہو اسے میرے پاس رہنے دو ، مگر مجال ہے جو کسی بھی بات کا اثر ہو تمہیں۔۔۔۔" 

" وہ گھورتے رمشہ کا سر دباتے بولا رہیں تھی جو بولنے کی ہمت کرتی جیسے ہی منہ کھولتی دونوں طرف سے ہوتی گولہ باری میں بری طرح سے الجھتے اب چپ رہنے میں ہی عافیت جان چکی تھی۔۔۔"

ساسوں ماں اب کچھ زیادہ ہو رہا ہے۔۔ مجھے ضروری کام آن پڑا تھا ورنہ میں کبھی ناں جاتا اور پلیز ابھی مجھے سونا ہے پوری رات نہیں سو پایا تو پلیز آپ جائیں ۔۔ مسکراتے انہیں جواب دیتے وہ بیڈ پر چڑھتے رمشہ کا سر اپنی گود میں رکھتے بولا کہ سلمیٰ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی جو بنا شرم و لخاظ کے انکے سامنے ہی انکی بیٹی کو گود میں لٹاتے مسکرا رہا تھا۔۔۔"

چلیں بی جان ۔۔۔۔۔ " وہ غصے سے اسے دیکھتے دانت کچکچاتے ہوئے بی جان کے پاس آئی اور انہیں لیتے کمرے سے نکلی ۔۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انکی بڑبڑاہٹ کو سنتے وہ کافی لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔"

" اشعر میں ٹھیک ہوں آپ تھک گئے ہیں ۔۔ میں کھانا لاؤں۔۔۔ اسے اپنا سر دباتے دیکھ وہ ہاتھ پکڑتے اٹھنے لگی۔۔۔ نہیں جاناں میں کھا آیا ہوں اب میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ساس پر مجھے بالکل بھروسہ نہیں کیا پتہ کیا کچھ ملا دیں کھانے میں ، وہ بالکل رازداری میں اسکے کان کے قریب جھکتے ہوئے بولا تھا۔

وہ ماں ہیں میری اور آپ سے بس تھوڑا چڑتی ہیں بس اور کوئی بات نہیں۔۔۔!" وہ خفگی سے جتاتے انداز میں بولی تھی۔۔۔"

اچھا رمشہ بات سنو ، میں نے اپنے بچوں کے نام سوچیں ہیں۔۔ بیٹے کا نام ہم شاہمیر رکھیں گے اور بیٹی کا رانیہ کیسے لگے۔۔۔ وہ پھر سے اسے کندھے سے تھامتے تکیے پر لٹاتے بالوں کو سہلاتا گویا ہوا۔۔"

اچھے ہیں۔۔ مسکراتے کہتی وہ چہرہ کمفرٹر میں چھپا گئی کہ اسکی شرماہٹ ہر وہ قہقہہ لگا اٹھا۔۔۔۔"

ہائے میرے بچوں کی شرمیلی ماں۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ، اسے چھیڑتے وہ لب دانتوں تلے دبا گیا کہ اچانک سے کھلے دروازے پر ہوتی دستک سے دونوں اس جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔"

ارے تم۔۔۔۔" آؤ اندر آؤ باہر کیوں کھڑے ہو۔۔۔۔" اسے ہاتھ باندھے ایک جانب کھڑا دیکھ وہ اٹھتا اسکے پاس گیا اور پیار سے کندھا تھپکتے اسے اندر آنے کو بولا ۔۔۔۔۔"

جو کچھ جھجھکتے ہوئے ایک نظر اپنی بہن کو دیکھتا اسکے پاس  ہی آ  گیا۔۔۔" 

لیٹی رہو رمی۔۔۔ " اسے اٹھنے کی کوشش کرتا دیکھ وہ کہتے ہی اسکے پاس بیٹھا تھا کہ آج اتنے وقت کے بعد حسن کے اتنا پیار سے بلانے کر وہ ایک دم سے بھاگتے اسکے سینے سے لگتے آنسو بہانے لگی۔۔۔۔"

رو کیوں رہی ہو یار چپ کر جاؤ ورنہ بابا نے دیکھا تو کہیں گے کہ ضرور میں نے پھر سے تنگ کر دیا ہے انکی لاڈلی کو ، مسکراہٹ دباتے وہ پیار سے اسکے سر پہ ہونٹ رکھتے سکون سے بولا تھا کہ وہ روتے سے مسکرائی۔۔۔"

معاف کرو گی اپنے بھائی کو ۔۔۔ اسکے آج تک کے برے رویے کے لیے۔۔۔ پاس کھڑے اشعر کو دیکھ وہ مسکراتے ہوئے مان سے بولا کہ رمشہ سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ 

آپ کس بات کی معافی مانگ رہے ہیں بھائی۔۔ " 

معافی تو مجھے مانگنی چاہیے ، میں نے آپ سب کو ہرٹ کیا۔۔ سوری۔۔۔ وہ نظریں جھکائے کہتی دوبارہ سے اسکے ساتھ لگی۔۔۔"

سوری تمہیں نہیں بلکہ مجھے کہنا چاہیے جو تم سے اتنے برے طریقے سے بات کی ۔۔ معزرت خواہ ہوں، اپنے اس نکمے سے بھائی کو معاف کر دو۔۔۔ وہ آنکھوں میں التجا لیے ایک نظر پاس کھڑے اشعر کو  دیکھ بولا جو سر ہلاتے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں پرسکون رہنے کا بول رہا تھا۔۔۔"

اگر یہ نکما تنگ کرے تو مجھے بتانا ، میرے ہوتے میری بہن کو اگر اس نے زرا سا بھی تنگ کیا تو اس کی خیر نہیں۔۔۔۔"

وہ تیکھی نظروں سے اشعر کو دیکھتے بولا کہ رمشہ کھلکھلا پڑی۔۔۔"

جبکہ اشعر نے منہ کھولے اس آفت کو گھورا۔۔۔ جو بہن کے پاس جاتے ہی اس کی ساری کرم نوازیوں کو بھول چکا تھا ، کس طرح اس نے اسے سمجھاتے مدد کری تھی کہ اب حامد اس سے خفا بھی تھے تو اس قدر نہیں کہ بات چیت بھی ناں کرتے بلکہ وہ ہلکی پھلکی باتیں کر ہی لیتے تھے ، اور اسے ایک اچھے بیٹے کی ساری صلاحیتوں سے اسی نے تو واقف کرایا تھا اور اب ایک اچھا بھائی کیا بنا ، اسکی ساری محنت کو پس پشت کر چکا تھا۔۔۔"

ابھی ہم سونے لگے ہیں ، توں نکل یہاں سے۔۔۔ ایک دم سے غصے سے لال بھبوکا ہوتے وہ اسے بازوؤں سے تھامتے باہر کا رستہ دکھا گیا کہ رمشہ منہ پر ہاتھ رکھ چکی تھی کہ اب کوئی نیا بکھیڑا ناں بنے، جبکہ حسن مسکراتے اس سمجھتا اسکے گال کو پیار سے سہلاتے روم سے نکلا۔۔۔۔"

ہم کہاں جا رہے ہیں اتنی صبح صبح۔۔۔ چار سوں پھیلے اندھیرے کو دیکھتے وہ شال کو ٹھیک سے لپٹتے اسے دیکھ بولی تھی جو ہلکا سا مسکرایا اسکی بات پر۔۔۔"

" چل کر بتاتا ہوں۔۔۔ " اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ پیار سے بولا کہ نیناں بھی خاموش ہو گئی۔۔۔"

تمہاری کتنی لڑکیوں سے دوستی ہے وریام۔۔۔ وہ کتنے دنوں سے اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پارٹی میں اتنی زیادہ لڑکیوں کو وہ دیکھ چکی تھی ، اب اپنے دماغ میں مچلتے سوال پر وہ خود کو روک ناں پائی۔۔۔"

" کیوں تم کس لیے پوچھ رہی ہو۔۔ حیرت سے اسے دیکھتے وہ ائبرو اچکاتے اسے دیکھ بولا کہ وہ کندھے اچکا گئی۔۔

اہسے ہی پوچھ لیا۔۔۔ " پاؤں کے نیچے پتھر کو محسوس کرتے وہ ہلکی سے گھلتی صبح کی روشنی میں قدم دھیمے سے اٹھاتے آگے بڑھی۔۔۔"

بہت زیادہ تھیں۔۔۔ اور ان میں سے بہت سی نے مجھے پیار سے کس بھی کرا۔۔۔۔ مسکراہٹ دباتے وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے رازدارانہ انداز میں بولا۔۔"

" ہیں۔۔کک کہاں پر کک کس کیا۔۔۔ وہ سنتی ایک دم سے غصے سے رکتی اسے دیکھنے لگی کہ اسکے رکنے پر وہ سرد آہ کھینچتے اپنے سامنے کھڑی اسے  کو دیکھنے لگا۔۔۔ "

یہاں پر۔۔ اپنا دایاں گال قدرے جھکتے وہ اسکے سامنے کرتے انگلی گال پر رکھتے ہوئے بولا کہ وہ غصے سے اپنی شال کو پکڑتے قدرے اونچی ہوتے اسکے گال کو رگڑتے صاف کرنے لگی۔۔۔۔"

وہ مسکراہٹ دباتے دل ہی دل میں خوش ہوا اسکے جیلسی والے انداز پر ، دل چاہا کہ ابھی ڈانس کرنا شروع کر دے۔۔ مگر پھر بھرپور ایکٹنگ کرتے وہ منہ پھیرتے دوسرا گال بھی اسکے سامنے کر گیا۔۔۔۔" 

کہ نیناں پھر سے اسکے گال کو رگڑتی زور زور سے صاف کرنے لگی۔۔۔"

" یہاں بھی اپنے ماتھے کی جانب اشارہ کرتے وہ آنکھ اٹھاتے بولا ، 

اور یہاں بھی اب وہ ناک اسکے سامنے کرتے ہونٹ دباتے بولا اسکا پورا چہرہ اس وقت حد سے زیادہ سرخ ہوا پڑا تھا ۔۔ جس طریقے سے وہ صاف کر رہی تھی وریام کو یقین تھا کہ آئندہ بھی کسی بھی قسم کے  لڑکیوں کے جرمز اس کے قریب ناں بھٹکیں گے۔۔۔"

اب وہ غصے سے اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی حصہ رہ ناں گیا ہو۔۔۔۔" 

" تم نے اتنی محنت کری ہے مجھے سرخ کرنے میں اور میں ایک سیکنڈ میں تمہیں سرخ کر دوں تو۔۔۔ ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے وہ گھمبیر آواز میں سرگوشی میں بولا کہ نیناں آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔۔" 

مگر پہلے ہمیں اپنی منزل پر جانا ہے۔۔۔ وہ ارادہ ترک کرتے اسے ساتھ لگاتے دوبارہ سے چلنے لگا۔۔۔"

ہاتھ دو ۔۔۔ آگے بنے راستے پر موجود کھڈے کو دیکھتے وہ جمپ کرتے نیناں کو اشارے سے ہاتھ آگے بڑھانے کا بولنے لگا۔۔" 

" وہ ہاتھ آگے کرتی کہ ایک دم سے فضا میں ایک چیخ گونجی اور ساتھ ہی وریام کا جاندار قہقہہ بھی اس خاموش فضا میں بکھرا۔۔۔ وہ ہاتھ پکڑنے کی بجائے ایک دم سے اسے کھینچتے اٹھاہ چکا تھا کہ نیناں ڈرتے ایک دم سے  خود کو فضا میں دیکھ چیخی ۔۔۔ 

وریاممممم۔۔۔۔ غصے سے اسے قہقہہ لگاتے دیکھ وہ ہاتھوں کے مکے بناتے اسے مارنے لگی۔۔"  

سامنے دیکھو۔۔۔' وہ آنکھوں سے اسے سامنے کی طرف اشارہ کرتے بولا کہ وہ گردن گھماتے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔"

جہاں ایک مکمل خوبصورت سا منظر واصخ تھا۔۔ ایک خوبصورت سے بہتے اس چشمے کے پانی آواز ماحول میں خوبصورت سا رقص چھیڑ رہی تھی۔۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ،  اور سامنے بنے اس پہاڑ کے اوپر سے نکلتے سورج کی مدہم سی کرنیں پھوٹتی ایک پر فسوں ماحول برپاں کر چکی تھی کہ وہ منہ پر ہاتھ رکھتے اس سارے ماحول کو مبہوت سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔۔" 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہم کہاں جا رہے ہیں اتنی صبح صبح۔۔۔ چار سوں پھیلے اندھیرے کو دیکھتے وہ شال کو ٹھیک سے لپٹتے اسے دیکھ بولی تھی جو ہلکا سا مسکرایا اسکی بات پر۔۔۔"

" چل کر بتاتا ہوں۔۔۔ " اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ پیار سے بولا کہ نیناں بھی خاموش ہو گئی۔۔۔"

تمہاری کتنی لڑکیوں سے دوستی ہے وریام۔۔۔ وہ کتنے دنوں سے اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پارٹی میں اتنی زیادہ لڑکیوں کو وہ دیکھ چکی تھی ، اب اپنے دماغ میں مچلتے سوال پر وہ خود کو روک ناں پائی۔۔۔"

" کیوں تم کس لیے پوچھ رہی ہو۔۔ حیرت سے اسے دیکھتے وہ ائبرو اچکاتے اسے دیکھ بولا کہ وہ کندھے اچکا گئی۔۔

اہسے ہی پوچھ لیا۔۔۔ " پاؤں کے نیچے پتھر کو محسوس کرتے وہ ہلکی سے گھلتی صبح کی روشنی میں قدم دھیمے سے اٹھاتے آگے بڑھی۔۔۔"

بہت زیادہ تھیں۔۔۔ اور ان میں سے بہت سی نے مجھے پیار سے کس بھی کرا۔۔۔۔ مسکراہٹ دباتے وہ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے رازدارانہ انداز میں بولا۔۔"

" ہیں۔۔کک کہاں پر کک کس کیا۔۔۔ وہ سنتی ایک دم سے غصے سے رکتی اسے دیکھنے لگی کہ اسکے رکنے پر وہ سرد آہ کھینچتے اپنے سامنے کھڑی اسے  کو دیکھنے لگا۔۔۔ "

یہاں پر۔۔ اپنا دایاں گال قدرے جھکتے وہ اسکے سامنے کرتے انگلی گال پر رکھتے ہوئے بولا کہ وہ غصے سے اپنی شال کو پکڑتے قدرے اونچی ہوتے اسکے گال کو رگڑتے صاف کرنے لگی۔۔۔۔"

وہ مسکراہٹ دباتے دل ہی دل میں خوش ہوا اسکے جیلسی والے انداز پر ، دل چاہا کہ ابھی ڈانس کرنا شروع کر دے۔۔ مگر پھر بھرپور ایکٹنگ کرتے وہ منہ پھیرتے دوسرا گال بھی اسکے سامنے کر گیا۔۔۔۔" 

کہ نیناں پھر سے اسکے گال کو رگڑتی زور زور سے صاف کرنے لگی۔۔۔"

" یہاں بھی اپنے ماتھے کی جانب اشارہ کرتے وہ آنکھ اٹھاتے بولا ، 

اور یہاں بھی اب وہ ناک اسکے سامنے کرتے ہونٹ دباتے بولا اسکا پورا چہرہ اس وقت حد سے زیادہ سرخ ہوا پڑا تھا ۔۔ جس طریقے سے وہ صاف کر رہی تھی وریام کو یقین تھا کہ آئندہ بھی کسی بھی قسم کے  لڑکیوں کے جرمز اس کے قریب ناں بھٹکیں گے۔۔۔"

اب وہ غصے سے اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی حصہ رہ ناں گیا ہو۔۔۔۔" 

" تم نے اتنی محنت کری ہے مجھے سرخ کرنے میں اور میں ایک سیکنڈ میں تمہیں سرخ کر دوں تو۔۔۔ ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے وہ گھمبیر آواز میں سرگوشی میں بولا کہ نیناں آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔۔" 

مگر پہلے ہمیں اپنی منزل پر جانا ہے۔۔۔ وہ ارادہ ترک کرتے اسے ساتھ لگاتے دوبارہ سے چلنے لگا۔۔۔"

ہاتھ دو ۔۔۔ آگے بنے راستے پر موجود کھڈے کو دیکھتے وہ جمپ کرتے نیناں کو اشارے سے ہاتھ آگے بڑھانے کا بولنے لگا۔۔" 

" وہ ہاتھ آگے کرتی کہ ایک دم سے فضا میں ایک چیخ گونجی اور ساتھ ہی وریام کا جاندار قہقہہ بھی اس خاموش فضا میں بکھرا۔۔۔ وہ ہاتھ پکڑنے کی بجائے ایک دم سے اسے کھینچتے اٹھاہ چکا تھا کہ نیناں ڈرتے ایک دم سے  خود کو فضا میں دیکھ چیخی ۔۔۔ 

وریاممممم۔۔۔۔ غصے سے اسے قہقہہ لگاتے دیکھ وہ ہاتھوں کے مکے بناتے اسے مارنے لگی۔۔"  

سامنے دیکھو۔۔۔' وہ آنکھوں سے اسے سامنے کی طرف اشارہ کرتے بولا کہ وہ گردن گھماتے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔"

جہاں ایک مکمل خوبصورت سا منظر واصخ تھا۔۔ ایک خوبصورت سے بہتے اس چشمے کے پانی آواز ماحول میں خوبصورت سا رقص چھیڑ رہی تھی۔۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ،  اور سامنے بنے اس پہاڑ کے اوپر سے نکلتے سورج کی مدہم سی کرنیں پھوٹتی ایک پر فسوں ماحول برپاں کر چکی تھی کہ وہ منہ پر ہاتھ رکھتے اس سارے ماحول کو مبہوت سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔۔" 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کتنا حسین منظر ہے ناں ۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔ وہ مبہوت سی اس خوبصورت سے ماحول میں کھوئی ایک جذب کے عالم میں مسکراتے ہوئے بولتے اپنی گہری کالی آنکھوں کو بند کیے وہ ہاتھوں کو پھیلائے اس کھلی ، پرسکون فضا میں گہرا  سانس لینے لگی۔۔۔" 

کہ وہ پیچھے ہاتھ باندھے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ایک جانب پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھتے پاؤں جوتوں سے آزاد کرنے لگا۔۔۔جبکہ  نظریں ہنوز اسکے مسکراتے چہرے پر تھیں ۔ 

وریام تم یہاں آئے ہو کبھی پہلے بھی۔۔۔ وہ سانس لیتی خود پر کسی کی گہری نظروں کو محسوس کرتے جھٹ سے آنکھیں کھولتی سامنے دیکھنے لگی جو دلچسپی سے اسکی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔"

یس جان وریام۔۔۔ میں اور تمہارا نیا بننے والا بھائی آ چکے ہیں یہاں۔۔ اسکے ہاتھ کو پکڑتے وہ اپنے پاس آگے کی جانب بٹھاتے تھوڑی اسکے کندھے پر ٹکاتے بولا۔۔۔۔۔" 

اوہ۔۔۔ تو اسی لیے ہمیں بھی یہاں لائے۔۔۔" وہ سمجھتی فوراً سے گردن گھماتے اسکی بھوری پرشوک آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔ جو اسکے دیکھنے پر آنکھ ونک کر گیا۔۔۔"

آہ۔۔۔ لایا تو بہت کچھ کرنے کو تھا مگر اب کیا کریں ۔۔ کچھ کچھ کام بنا کچھ کچھ نہیں۔۔۔۔ ہاتھ آگے کی جانب لے جاتے وہ مضبوطی سے اسے حصار میں لیتے مسکراتے ہوئے بولا تھا کہ نیناں نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے گھورا۔۔۔۔۔"

آوچ۔۔۔۔ ظالم مار دیا۔۔۔۔ اسکے نازک ہاتھ کے تھپڑ کو اپنے تواناں ہاتھ پر محسوس کرتے وہ ایکٹنگ کرتے بولا۔۔ کہ وہ ایک دم سے کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔"

سنو ۔۔۔ اب بولنا مت اور ناں ہی ٹوکنا اوکے۔۔ ابھی میری باری۔۔ وہ اسے وارن کرتے انگلی دکھاتے بولا کہ نیناں فورآ سے سر کو ہاں میں ہلا گئی کہ ٹھیک ہے۔۔۔۔"

" میں چاہتا ہوں کہ تم ایسے ہی میرے ساتھ رہو ، ہنستی ، مسکراتی ، کھلکھلاتے۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بونے بونے سے بچے ہوں، زیادہ نہیں تو دس بارہ چلیں گے۔۔ میں جب کام سے تھکا ہارہ  آؤں تو ان میں میرے بیٹے میرے پاؤں دبائیں ، میرے ہاتھوں کو دبائیں ، سر دبائیں اور میری بیٹیاں میرے دائیں بائیں پھیل کر سوئیں۔۔" اور پھر جب وہ سب سو جائیں تو تم اٹھ کر میرے لیے تیار ہو کر آؤ ، سرخ جوڑا پہنتے ، بالوں کو کھولے ، کانوں میں جھمکے ڈالے ، ہونٹوں پر لپسٹک لگائے ۔۔ اور پھر میں مسکراتے ہوئے تمہارے روپ کو نہارتے اپنی آنکھوں کے رستے دل میں بساؤں ۔۔۔ اور پھر تمہیں خود میں قید کر لوں ہمیشہ کے لیے۔۔"

بس یہی ہیں میری چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں۔۔۔ اسکی پھیلی آنکھوں کو دیکھتے وہ آنکھیں مٹکاتے انتہائی معصومیت سے کہتے جھکتے اسکی دونوں آنکھوں کو چوم چکا تھا ۔۔۔ 

اچھا تم بھی اپنی کوئی خواہش شئیر کر دو میرے ساتھ ، ورنہ میری ہی سننی پڑیں گی کیونکہ ابھی لسٹ بہت لمبی ہے۔۔۔ وہ تنبیہ کرتے گھماتے اسے گود میں بھر چکا تھا کہ وہ مجبوراً اسکی جانب دیکھتے لب کچلنے لگی۔۔۔"

میری خواہش ۔۔۔۔۔۔ میری خواہش یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی ایک ساتھ رہیں۔۔۔ وہ کہتے فوراً سے اسکے سینے میں منہ چھپا چکی تھی کہ وریام نے اپنے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ سرشاری میں پرسکون ہوتے اسکے سر پر ہونٹ رکھتے آنکھیں میچیں۔۔۔

جانے کتنے ہی لمحے گزر چکے تھے مگر وہ دونوں ہنوز ایسے ہی بیٹھے تھے پرسکون سے ایک دوسرے کو محسوس کرتے ایک دوسرے میں کھوئے،  ماحول میں بکھرتی آہستگی سے نکلتے سورج کی کرنوں کے ساتھ ہی آبشار سے بہتے پانی کی آواز پر وہ  دھیمے سے آنکھیں کھول گیا۔۔۔"

ویسے ایک بات کہوں۔۔۔  تمہارے چھوٹے اور کمزور ہونے کا مجھے کافی فائدہ رہا ہے ۔۔۔"

ایک دم سے اسکی آواز پر وہ ہوش میں آتے سنبھلی اور شرم و خفت سے اپنی حرکت پر چہرہ چھپانے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"

" یار پوچھو تو آخر مجھے کیوں فائدہ رہا ہے۔۔۔ اسے یونہی شرماتے دیکھ وہ خود سے بول اٹھا کہ ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔'

تمہیں قابو کرنا آسان رہا ناں ۔۔ بچوں کی طرح بندہ جہاں مرضی اٹھاتے لے جائے اور تمہیں پتہ ہے کل رات کو جب میں  تمہیں اٹھا کر لایا تھا ناں تب یہاں کی ایک ایپملائی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ یہ بچی آپ کی کیا لگتی ہے۔۔ تو میں نے اسے صاف بتا دیا کہ یہ میری بیوی ہے خبردار جو اب بچی بولا کیونکہ اسے بچی کہنا بالکل بھی پسند نہیں۔۔"

اسکی غصے سے تپتی رنگت کو دیکھتے وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا کہ نیناں نے فوراً سے اسکے ہاتھ کمر پر سے کھولے اور ایک جانب کھڑے ہوتے رخ پھیرتے ناراضگی جتائی۔۔۔۔"

یار سچی میں ،میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں اپنی بیوی کو بچی کہتا ہوں جو بچوں جتنی دکھتی ہے ۔۔ وہ لب دباتے بیچارگی سے ہاتھ اٹھاتے صفائی دینے لگا کہ نیناں نے غصے سے گردن گھماتے اسکی جانب دیکھا۔۔۔" 

ویسے میں نے اسے نہیں بتایا کہ میری بیوی خوبصورت دکھنے کے ساتھ ساتھ ہاٹ بھی ہے کافی۔۔۔ اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے وہ بھاگتا اسکے سمجھنے سے پہلے ہی قہقہہ لگاتے اس سے دور ہوا تھا کہ نیناں غصے اور شرم سے سرخ ہوتے اسے مارنے کو اسکے پیچھے لپکی۔۔۔۔۔"

دیکھو نین پانی میں ناں  آؤ بیمار پڑ جاؤ گی۔۔۔ اسے اپنے پیچھے ہی بہتے پانی میں جوتا اتارتے آتا دیکھ وہ سمجھانے کی کوشش کرتے بولا تھا۔۔۔۔"

نہیں پڑتی میں بیمار اور تم ایک بات یاد رکھنا ، آج کے بعد تم اسی ایمپلائی کی تعریف کرو گے جو لمبی ، چوڑی  موٹی بھی بھینس کے  جیسے دکھتی ہو گی۔۔ وہ بھاگتے اسے پکڑ رہی تھی جو کب سے اسے بھگا رہا تھا کہ اب وہ تھکتے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے غصے سے بولی۔۔۔ 

یار وہ موٹی تو نہیں تھی ، وہ کہتے ساتھ ہی اسکی نم آنکھوں کو دیکھتے زبان دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔

ہیے۔۔۔ یار مزاق تھا۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ وہ دوڑاتے اسے واپس جاتا دیکھ ہانی میں سے بھاگتا دو قدم کے فاصلے کو مٹاتے آگے بڑھتے اسے ہگ کرتے اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔"

بات مت کرو، اور جاؤ انہی کے پاس ۔۔ وہ  غصے سے اسکی کمر پر مکے رسید کرتے بولتے اسے خود سے دور کرنے لگی جو اسکی کوشش کو ناکام بناتے اب اسے ریلکیس کرنے لگا۔۔۔۔"

اششششش۔۔۔کالم ڈاؤن یار۔۔۔۔ ریلکیس۔۔ ۔۔ 

بات مت کرو مجھ سے۔۔۔ وہ سنتے غصے سے بولتی اسکے سینے پر ناک رگڑنے لگی۔۔۔"

اب کہہہ دو کہ محبت ہو گئی ہے اپنے شوہر سے۔۔۔ اتنی سی تو بات ہے ۔۔۔ " 

وہ مسکراہٹ دباتے اسکے ماتھے پہ ہونٹ رکھتے ہوئے سکون سے بولا تھا کہ وہ سٹپٹا گئی اسکی بات پر۔۔۔"

تت تمہیں کک کس نن نے کہا کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔۔ متغیر ہوتی رنگت کے ساتھ وہ بمشکل سے اپنی لڑکھڑاتی زبان پہ قابو پاتے ہوئے بولی کہ وہ مسکرایا اسکے سوال پہ۔۔۔۔"

" کیونکہ تمہارے یہ بہتے آنسو ، یہ پوزیسو ہونا صاف بتا رہا ہے کہ تمہارا یہ دل اب میرے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔۔ سنو اسکی دھڑکنیں۔۔۔ وہ ہاتھ اسکے سینے پہ ہاتھ کے مقام پہ رکھتے بولا کہ وہ آنکھیں جھپکتی ، گہرا سانس خارج کرتے سر کو نفی میں ہلا گئی۔۔ ۔" 

"ہم چلیں واپس ۔۔۔۔ ماحول میں پھیلی مخنی خیز خاموشی کو محسوس کرتے وہ فوراً سے اسکی گود سے نکلتے بولی کہ ایک دم سے اسکے اٹھنے پر وہ کھینچتے اسے دوبارہ سے گود میں بٹھاتے ہاتھ اسکی گردن میں ڈالتے ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا ۔۔ کہ وہ آنکھیں بند کرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑتے اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔"

جو کہ ناممکن سا تھا وہ مسکراتے سر اسکے سر کے ساتھ جوڑتے اسے دیکھنے لگا جو اب کھلی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔ " 

   او لگتا ہے کہ میں نے ڈسٹرب کر دیا۔۔۔ وہ ان لمحوں کے سحر میں کھویا اسے دیکھنے میں مگن تھا کہ پاس سے آتی اچانک سے آواز پہ دونوں نے چونکتے پیچھے کو دیکھا ، جہاں وہ سامنے مسکراتے، نکھرا سا کھڑا تھا۔۔ "

آ گیا کمینہ۔۔۔ وہ خاصا بدمزہ ہوتے نیناں کے فوراً سے گود سے اٹھتے ایک جانب کھڑے ہونے پہ برا سا منہ بناتے بڑبڑاہا۔۔۔ کیا کچھ کہا تم نے۔۔ جیجا جی۔۔۔"

اسکی بڑبڑاہٹ کو واضح وہ سن چکا تھا جبھی اسے چھیڑتے وہ مزید تنگ کرنے لگا۔۔۔"

کچھ نہیں کہا منحوس ۔۔ وہ تپتہ بالوں کو ٹھیک کرتے نیناں کو دیکھنے لگا جو سر جھکائے ایک جانب کھڑی ناخن کھانے میں مگن تھی.۔"

  " ویسے اتنی صبح صبح یہاں پر ، کیا کوئی حاص کام تھا۔۔ مسکراہٹ دباتے وہ وریام کا سرخ تپا چہرہ دیکھ مزے سے بولا تھا ۔۔ جو اچانک سے اسکے ٹپکنے ہر خاصا بدمزہ سا ہوتے بیٹھتے اپنے شوز پہننے لگا تھا۔۔۔"

بب بھائی فدک کہاں ہے۔۔ "   آئی نہیں آپ کے ساتھ۔۔ وریام کو غصے سے بڑبڑاتا دیکھ وہ رافع کو مخاطب کرنے لگی جو ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وریام کی بڑبڑاہٹ پر مزے اسے دیکھتا سامنے پڑے ایک پتھر پر بیٹھا ہوا تھا۔۔"

ہاں یار بتا فدک کہاں ہے دکھ نہیں رہی۔۔۔ اس کی اڑتی رنگت کو دیکھتے ،وہ چلتا نیناں کی گردن میں ہاتھ ڈالتے تفتیش کے انداز میں بولا تھا ۔۔" کہ رافع سٹپٹا گیا اچانک سے انکے پوچھنے پر۔۔۔"

" وہ اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تو ابھی آرام کر رہی یے۔ کچھ ناں سوجھنے پر وہ فوراً سے بات بناتے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا تھا کہ اچانک سے وریام کا قہقہہ فضا میں گونجا تھا۔۔ کہ رافع نے ہاتھ کا مکہ بناتے اسے دکھایا جبکہ نیناں خود اسکے اچانک قہقہ لگانے پر اسے گھورتے دیکھ رہی تھی کہ آخر اسے کیا ہوا۔۔۔"

" وہ میرا حیال کے کہ ڈاکٹر کو کال کرنی چاہیے، ویسے  بھی تو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ، یہ ناں ہو بعد میں کوئی مسئلہ بن جائے۔۔۔" 

نیناں کے دیکھنے پر وہ سنجیدہ ہوتے فورآ سے مشورہ دیتے فون نکالتے بولا تھا۔۔ کہ رافع غصے سے اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔"

نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے وہ ٹھیک ہے اب۔۔۔ مم میرا مطلب ہے کہ آگے سے کافی بہتر ہے۔۔ اور ویسے بھی تھوڑی دیر میں ہم نکلنے ہی والے ہیں۔۔ وہ وریام کے ہاتھ سے فون جھپٹتے نیناں کی سوالیہ نظروں کو خود پر ٹکا پاتے بولا تھا کہ اسکی پتلی ہوتی حالت پر وہ بمشکل چہرہ گھمائے مسکراہٹ دبانے کے چکر میں سرخ ہو چکا تھا۔۔"

میرے خیال میں اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔۔" وہ کہتا وریام کو سخت گھوری سے نوازتے آگے بڑھا ،،،،"

" انہیں کیا ہوا وریام۔۔ ابھی تو اتنے خوش تھے اور ابھی ایسے منہ کیوں بنا لیا وہ ناسمجھی سے رافع کی پشت کو  دیکھ بولی کہ وریام اسکے دیکھنے اور سوال پہ کندھے اچکا گیا کہ مجھے کیا معلوم۔۔۔"

" تمہاری بات ہوئی تھی گرینڈ ماں سے ۔۔۔۔ وہ چلتا اسے باتوں میں الجھانے لگا ۔۔۔"

" نہیں ہو سکی ، " وہ بتاتے اداس سی ہوئی۔۔۔

کیوں کیوں نہیں ہوئی۔۔۔ وہ حیرانگی سے سنتا اسے دیکھ پوچھ بیٹھا ۔۔

" کال کی تھی کسی نے اٹھایا ہی نہیں۔۔۔ وہ سرد آہ خارج کرتے اداسی سے بولی ۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔ میں کروا دوں گا گھر جاتے ہی اوکے۔۔ اسکے اداس ہونے پر وہ مسکراتے اپنے حصار میں لیتا  نرمی سے بولا کہ ایک خوبصورت سی مسکراہٹ نیناں کے چہرے پر بکھری۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آرام آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔" کمرے میں داخل ہوتا وہ اسے دیکھتے  صوفے پہ بیٹھ پوچھنے لگا ۔۔ جو آنکھیں بند کیے ہاتھ ماتھے پر ٹکائے لیٹی ہوئی سی تھی۔۔۔"

"  اب آگے سے کافی بہتر ہوں۔۔۔ حسن کی آواز کو سنتے وہ سیدھی ہوتے بیٹھتے جواب دے گئی۔۔۔"

" حیا کہاں ہے۔۔۔" کوٹ اتارے وہ ایک جانب رکھتا حیا کو بیڈ پر ناں پاتے پوچھ بیٹھا ۔۔۔" 

امی کے پاس ہے ۔ وہ بتاتے اپنے اندر سے اٹھتی ٹیسوں کو دبانے لگی۔۔ کہ اسکی نمی گھلی آواز کو وہ بخوبی پہچانتے سختی سے لب بھینج گیا۔۔۔"

" تم آرام کرو میں لے آتا ہوں اسے۔۔ نرمی سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے وہ محبت سے بولا تھا کہ یسری ڈبڈباتی شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ " 

کتنے عرصے بعد آج پہلی بار وہ اس سے مسکراتے پیار سے بات کر رہا تھا۔۔ ورنہ تو جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہو چکا تھا اسکے بعد تو وہ بالکل اجنبی سے بن چکے تھے ایک دوسرے کے لیے۔۔۔۔"""

" حسن ، آپ رہنے دیں اسے امی کے پاس ہی۔۔ وہ دل پہ پتھر رکھتے بمشکل سے اسے روکتے ہوئے بولی  ، ۔۔

میں لا رہا ہوں ناں ، اب خاموش آواز ناں ائے۔۔۔ محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے وہ اٹھتا باہر کو نکلا تھا۔۔"

الے میلا پالا شا بچہ۔۔۔۔ پاپا کو مش کیا آج آپ نے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ حیا کو اٹھاتے اپنے ساتھ لایا تھا جو کھلکھلاتے اپنے پاپا کو دیکھ ہاتھ پاؤں چلاتے باتیں کر رہی تھی ۔۔ ماما کو بھی مش کیا چلو آج تھوڑا سا پار مما کو بھی کر لیں میری بچی۔۔۔۔" 

" مسکراتے یسری کی چمکتی خوشی سے لبریز آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ حیا کے گالوں کو پیار سے چھوتے اسکی گود میں بھر گیا جو صبح سے تڑپتی اپنی ممتا کی پیاس بجھاتے اسے چوم رہی تھی۔۔"

بس کر دو یار کیا رلانا چاہتی ہو میری بچی کو۔۔ "۔ حیا کے بگڑتے منہ کے زاویوں کو دیکھ وہ فوراً سے اسے باز رکھتے کہنے لگا کہ وہ اسے خود میں بھینجتے سینے سے لگا گئی ۔۔۔"

حسن۔۔۔۔ کیا ہمارا گناہ اس قدر بڑا ہے کہ آپکی امی ہمیں ابھی تک معاف نہیں کر رہیں۔۔۔"  ناچاہتے ہوئے بھی آج اسکے منہ سے شکوہ نکلا تھا کہ وہ کہتے لب بھینج گئی۔۔۔"

" ایک بات بتاؤں میں تمہیں یسری۔۔۔ ہماری امی نے ہمیں کبھی دادو کے پاس بیٹھنے نہیں دیا۔۔ میری کزن نیناں جسکی خوبصورتی پر مرتے میں اس سے شادی کر رہا تھا ، کبھی اس یتیم کے چاہنے کے باوجود بھی ہمیں اسکے ساتھ کھیلنے نہیں دیا۔۔ "..

ضروری نہیں کہ مکافات عمل کی سزا انسان کو موت یا بیماری کے روپ میں ہی ملے۔۔ اور دیکھ لو ، آج انکا مکافات عمل انکی اولاد کے روپ میں انکے سامنے ہے۔۔۔"

" پورا خاندان باتیں بنا رہا ہے اور تو اور رشتہ تک توڑ دیا ہے ہم سے ، صرف اسی وجہ سے کہ حسن نے شادی کے بغیر ایک لڑکی کو ماں بنایا ہے اور اپنے ساتھ اپنے گھر میں بھی رکھا ہوا ہے۔۔۔۔"

" دیکھا جائے تو ہر کوئی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔۔ ہم نے اپنے ماں باپ کی قدر نہیں کی دیکھ لو آج ہم خود برباد ہوتے ہوتے بچیں ہیں۔۔۔ ،" اور رہی بات ماما کی تو وہ صرف ابھی غصہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ شاید ان کا رویہ تھیک ہو جائے اور شاید نہیں بھی ہو۔۔۔" 

" مگر ایک بات ہے جو ہمیںں ہمیشہ یاد رکھنی ہے۔۔ کہ ہم دونوں کو مل۔کر اپنی بیٹی کے نصیب کو سنوارنا کے اسکی بہتر سے بہتر تربیت کرنی ہے۔۔ کون کہتا ہے کہ بیٹے ہی باپ کا سب کچھ ہوتے ہیں۔۔ یہ بیٹیاں ہی تو ہیں جو باپ کا دکھ درد بانٹتی ہیں۔۔ اور میری حیا کو میں ایسا باکردار بناؤں گا کہ لوگ اسکے باپ اور ماں کے کردار کو بھولتے اسکے اعلی ، بااخلاق کردار کی باتیں کرتے گواہی دیں گے۔۔"

دو گی ناں میرا ساتھ۔۔۔ مسکراتے اپنے کندھے پر رکھے اسکے سر کو دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا کہ وہ آسودگی سے اپنی گود میں بھری اس ننھی سی پری کو دیکھ سر کو ہاں میں ہلا گئی۔۔

  فدک جاناں اٹھو یار۔۔۔۔ وہ کب سے بھاگتا اندر داخل ہوتے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا جو منہ بسورتے آرام سے سونے میں مگن تھی۔۔ وہ خاصہ زچ آتے ایک ہی جھٹکے میں کمفرٹر کو اتارتے اس پر سے دور پھینک گیا تھا کہ وہ بنا کسی ری ایکشن کے یوں ہی لیٹی رہی ،" 

اسے اپنی قسمت پر شبہ ہوا تھا کہاں وہ ایک نکما دوست اسکی قسمت میں لکھا تھا رب نے اور کہاں ایسی بیوی جو اپنی ضد ہر اڑ جائے تو اسے منانا ممکن ہی ناں ہوتا ۔۔

وہ جانتا تھا اچھے سے کہ وہ اس سے رات میں کی من مانیوں کا بدلہ لے رہی ہے ، جبھی تو وہ اس کی کسی بھی بات پر کان نہیں دھر رہی تھی۔۔۔"

" فدک پلیز میری چھوٹی سی جان آٹھ جاؤ یار۔۔ میری توبہ جو آج کے بعد تمہیں اگنور کیا۔۔۔ وہ پاس بیٹھتے منت بھرے لہجے میں بولا تھا کہ وہ سنتی لب دانتوں تلے دبا گئی۔۔"

" اب تو آٹھ جاؤ یار۔۔ کیا اب پاؤں پکڑتے ہی اٹھو گی۔۔ وہ منہ ٹیڑھا کرتے اسکے سفید دودھیا پاؤں پر انگلی گول گول گھماتے ہوئے بولا کہ وہ ایک دم سے اچھلتے بیٹھی۔۔۔"

" کیا ہوا جاناں ۔۔۔ انتہائی معصومیت چہرے پر سجاتے وہ اسکی سرخ پڑتی ناک کو کھینچتے ہوئے بولا۔۔"

" کک کچھ نن نہیں  ، وہ ہڑبڑاتے ہوئے بمشکل سے بولی۔

ویسے اتنی سرخ کیوں ہو رہی ہو کہیں پھر سے بخار تو نہیں ہو رہا۔۔۔ وہ اچانک سے سیرئیس ہوتے ہاتھ کی پشت اسکے دہکتے گال پر رکھتے کھسکتا اسکے قریب ہوا تھا کہ وہ ڈرتی پیچھے ہونے لگی۔۔۔"

" ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔ اسکی غیر ہوتی حالت کو دیکھتے وہ مزے سے بولا تھا کہ وہ ڈرتی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی، نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔۔"

اسکے کہنے کی دیر تھی وہ فورآ سے انکار کرتے ہوئے بولی۔۔۔"

" تو اگر تم ٹھیک ہو تو یہ سرخ کیوں پڑ رہی ہو۔۔ اس پر جھکتے وہ مزے سے اسے تنگ کرتے ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھتے ہوئے بولا تھا کہ وہ لب دباتے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ جو اسکے تکیے پر سر ٹکاتے ہی ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھتے جھکتا جا رہا تھا کہ وہ دیکھتی اسکی حرکت کو بھانپتے پیچھے ہونے لگی۔۔۔"

" آہاں۔۔۔۔ ایسے کیسے۔۔۔ وہ سرزنش کرتے ہاتھوں سے اسے پکڑتے دوبارہ سے تکیے پر لٹاتے ہوئے بولا کہ وہ لرزنے لگی اس کی بہکتی نظروں کو خود پر یوں ٹکا دیکھ وہ آنکھیں جھپکتے رونے کی تیاری پکڑنے لگی۔۔۔"

" پوری رات تو وہ اس کی منمانیاں سہتی رہی تھی اب کہاں اس میں ہمت تھی دوبارہ سے اسکی شدتیں ، سہنیں کی۔۔"

" اگر ایک بھی آنسو باہر آیا تو آئی سویر۔۔۔۔ ابھی دو منٹ میں تمہارا دماغ ٹھکانے لگا دوں گا۔۔ اور تم جانتی ہو کہ آئی مین اٹ۔۔۔۔۔ سخت سرزنش کرتے لہجے میں وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتے جھکتے اسکی گردن ہر اپنی محبت دوبارہ سے برساتے بے خود سا ہونے لگا۔۔۔

" بب بھائی انتظار کر رہے ہوں گے ررر رافع۔۔۔۔ اسکی بڑھتی جسارتوں پر وہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو اسکے سینے پر رکھتے پیچھے کرنے کی ناکام سی کوشش کرتے منمنائی تھی۔۔۔"

" تو ، کرنے دو تھوڑی دیر انتظار۔۔۔۔۔ میں اس وقت اپنی بیوی کے ساتھ ہوں اور اس کمینے کا سننا بھی نہیں چاہتا۔۔۔ " 

وہ زرا سی گردن اٹھاتے اسے دیکھ بولا تھا جو آنکھیں بند کیے یونہی لیٹی لمبے لمبے سانس بھرتے خود کو ریلکس کر رہی تھی۔۔

" آپ نے تت تو کہا تھا کہ ہم جا رہے ہیں۔۔۔ وہ بھرائی آواز میں اسکی جانب دیکھتے اسے اسکی ہی کہی  بات یاد کرواتے بولی کہ رافع کو ڈھیر سارا پیار آیا اسکی معصومیت پر۔۔۔" 

جائیں گے مگر تھوڑا سا پیار کرنے کے بعد ۔۔۔ وہ مسکراتے ہاتھ سے اسکے بالوں۔ کو سہلاتے نرمی سے جھکتے اسکے ہونٹوں پر اپنے دہکتے لب رکھتے اسے خود میں بھینج گیا کہ رفتہ رفتہ وہ اسکی بڑھتی شدت پر نڈھال سی ہوتی گئی۔۔ جو مدہوش سا پھر سے اپنی من مانیوں پر اتر آیا تھا۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️

  " رمشہ یار لے لو ناں میڈیسن ۔۔۔ وہ کب سے ہاتھ میں میڈیسن لیے اسکی منتیں کر رہا تھا ۔۔ 

جبکہ رمشہ نے تو آج قسم کھائی ہوئی تھی کہ وہ ناں دعا لے گی اور ناں ہی اس کی کوئی بھی بات مانے گی۔۔۔ 

ایک تو رات دو بجے وہ اسکی نیند خراب کرتے اسے اٹھا چکا تھا۔۔ کہ وہ بیچاری جو رات سے بامشکل سے اپنی خراب طبیعت کی وجہ سے آنکھ لگنے پر گہری نیند میں تھی کہ اچانک سے لاڈ صاحب کے اٹھانے پر ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔۔ 

کیا ہوا ہے اشعر اللہ خیر کرے ۔۔ کیوں آدھی رات کو جگایا کیا کچھ ہوا ہے۔۔ وہ سخت پریشانی سے بولی تھی ۔۔ نہیں یار ہوا تو کچھ نہیں ، مگر مجھے ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔ " 

معصوم سی شکل بناتے ایک معصوم سی خواہش کی گئی تھی وہ آنکھیں رگڑتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

کک کیا ہوا۔۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے۔۔۔"

یار مجھے یہ پوچھنا تھا کہ ہم اپنے دونوں بے بیز کو اپنے ساتھ بیڈ پر کیسے سلائیں گے۔۔ کیونکہ وہ تو ہمیں تنگ کریں گے اور میں نے سنا ہے کہ چھوٹے بیبیز خوبخود آگے پیچھے جاتے ہیں تو پھر اسکا مطلب ہمیں جاگتے انکی خفاظت بھی کرنی ہوگی اور انکے لیے الگ سے بیڈ بھی لے لیتے ہیں اپنے ہی روم میں رکھیں گے۔۔

وہ اپنی ہی ہانکنے میں مصروف تھا جبکہ رمشہ حیرت کی زیادتی سے پھٹی آنکھیں لیے اس بندے کو گھور رہی تھی جس نے مخض اتنی سی بات پوچھنے کو اسے جگایا تھا۔۔۔".

" اشعر کیا آپ نے بس یہی پوچھنا تھا۔۔ وہ بالوں کا جوڑا بناتے سیدھی ہوتے بیٹھتے ہوئے بولی تھی کہ وہ اسے دیکھ سر کو زور شور سے ہلا گیا۔۔۔ 

اوہ۔۔۔۔ تو آپ یہ بات صبح بھی تو پوچھ سکتے تھے ناں آدھی رات کو میری نیند خراب کری آگے ہی تو اتنی مشکل سے نیند آئی تھی۔۔۔۔"

وہ زچ آتے اسے دیکھ بولی تھی اور فوراً سے تکیہ اٹھاتے اپنی موم کے روم میں جانے کو اٹھی۔۔۔"

" یاررررر۔۔۔۔ کیا کر رہی ہو کچھ تو خیال کرو کہاں جاؤ گی آدھی رات کو۔۔ دیکھو میں مانتا ہوں کہ مجھے یہ سوال بعد میں پوچھنا چاہیے تھا مگر یاد مجھ سے رہا نہیں گیا اور کب سے مجھے نیند بھی نہیں تھی آ رہی تو سوچا کیوں ناں تم سے ہی پوچھ لوں۔۔۔"

وہ چلتا اسکے پاس جاتے ہاتھ پکڑتے پیار سے بولا کہ وہ گھورتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

اگر اب آپ نے مجھے تنگ کیا ناں تو اشعر کل سے میں مما کے پاس ہی سوئوں گی ۔۔ یاد رکھیے گا۔۔۔ وہ کہتی دوبارہ سے پاؤں پٹکھتے بیڈ پر آتے ہی کروٹ بدلتے لیٹی تھی۔۔

کچھ یاد آیا۔۔۔۔۔" 

اسے کھویا دیکھ وہ ہاتھ اسکے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے بولی کہ وہ ہڑبڑاتے سر کو ہاں میں ہلا گیا۔۔۔"

" تو اب مجھے سونا ہے رات کو جو تنگ کرنا تھا آپ نے کر لیا ابھی میرے موڈ نہیں دوا لینے کا۔۔ وہ تڑخ کر بولتے دوبارہ سے کمفرٹر میں دبکی تھی۔۔۔"

ایسے کیسے دوا تو تمہیں لینے ہی پڑی گی۔۔۔ وہ بھی جتاتے انداز میں اب میڈیسن ٹیبل پر رکھتے دونوں بازوؤں فولڈ کرتے کھڑا ہوا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی زور زبردستی کرتے اسے دوا کھلاتا ایک فلگ شگاف چیخ گونجی تھی رمشہ کی۔۔۔ اور دوڑتے سلمیٰ اندر داخل ہوئیں تھیں۔۔۔

ارے رمشہ میری جان کیا ہوا۔۔۔۔ اسکے چیخنے پر وہ جو سوپ لیتے ادھر ہی آ رہی تھی کانپتے دل پر ہاتھ رکھتے دوڑتے اندر آئیں تھی۔کہ انہیں آتا دیکھ اشعر زبردستی بتیسی دکھاتے بیڈ کی جانب بڑھائے اپنے ہاتھ کو پیچھے کرتے بالوں میں پھیرتے ایک جانب ہوا۔۔۔۔"

" آئیے ساسوں ماں۔۔۔۔ کب سے آپ کا انتظارِ کر رہے ہیں ہم ۔۔۔ خود کو گھورتا دیکھ وہ فوراً سے مسکاتے لہجے میں بولا کہ اس کی اداکاری پر وہ سر سے پاؤں تک  ا سے گھورتے  سر جھٹک گئی ۔۔ کہ جیسے کہنا چاہ رہی ہوں کہ  مجھے نہیں پتہ کتنا یاد کیا ہے ، جھوٹا انسان ۔۔۔۔۔"

رمشہ میری جان اٹھو تھوڑا سا سوپ پی لو۔۔۔ محبت سے اسکے پاس بیٹھتے وہ ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولیں تھی ۔۔۔"

مما مجھے نہیں پینا پلیز ابھی سونے دیں۔۔۔ وہ پیار سے انہیں دیکھ معصومیت سے بولی کہ وہ اسکی حالت سمجھتے مسکراتے اسکی پیشانی چوم گئی۔۔۔

مما انہیں ہے لے جائیں اپنے ساتھ ، نہیں تو مجھے سونے نہیں دے گا یہ بندہ۔۔ وہ کان میں گھستے سرگوشی میں بولی کہ سلمیٰ سنتے مسکرائی مگر جلد ہی پر قابو کرتے وہ سامنے انہی کو گھورتے اشعر کو دیکھ اٹھی تھی ۔۔".

" اچھا رمشہ تم آرام کرو ، میں اور اشعر آج بازار جا رہے ہیں بچوں کے لیے کپڑے اور ضروری سامان لانے بھائی آج سے ہی تیاری کریں گے تو سب ہو گا۔۔۔"

وہ مسکراتے اشعر کی آڑی رنگت دیکھ چلتے اسکے پاس آئیں اور انگلی سے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہہنہ کرتی باہر کو نکلی۔۔"

تمہیں تو میں دیکھ لوں گا ، رم۔۔۔ وہ غصے سے اسے مسکراتا دیکھ انگلی سے وارن کرتے پاؤں پٹھکتا باہر نکلا تھا۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️

" چلیں ۔۔۔۔  ان دونوں کو روم سے نکلتا دیکھ وہ چلتا نیناں کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتے بولا تھا ۔۔ 

کہ رافع بھی مسکراتے سر کو ہاں میں ہلا گیا ۔۔"

ادھر آؤ بات کرنی ہے تم سے۔۔۔ کچھ سوچتے وہ موبائل پر ٹیکسٹ کو دیکھتا جیب میں رکھتے بولا تھا کہ فدک اور نیناں دونوں ایک جانب بینچ پر بیٹھی۔۔۔۔۔"

یار۔۔ ایک بات تو بتاؤ نیناں۔۔۔۔  یہ تمہیں کیا واقعی میں اتنی نیند آتی ہے یا پھر رات کو کوئی اور سین تھا۔۔۔ وہ مسکراتے اسے ٹہوکا مارتے ہوئے بولی کہ اسکی مخنی خیز کی بات کا مطلب سمجھتے وہ پل میں ہی سرخ ہوئی تھی۔۔ جسے دیکھتے ہی فدک کا قہقہہ گونجا تھا فضا میں۔۔۔"

 وہ تو میں ٹھیک سے سو نہیں پائی اسی وجہ سے نیند آ گئی۔۔۔ وہ ہونٹ چباتے فوراً سے بات بناتے بولی تھی کہ فدک اس کے گڑبڑانے پر مخفوظ ہوتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

اچھا تو یار  کیا اتنی نیند آئی تھی تمہیں کہ تم راستے میں ہی وریام بھائی کے ساتھ چپکتے سو گئی کہ وہ تمہیں بانہوں میں بھرتے ہوئے لائے  تھے۔۔۔"

بولو بولو۔۔۔ آنکھیں پٹپٹاتے وہ جھکتے اسکے تاثرات دیکھنے لگی۔ اسکا شرم وحیاء سے گلنار ہوتا چہرہ دیکھتے ہی وہ ماشاءاللہ کہے بغیر ناں رہ سکی تھی۔۔"

نیناں بخوبی سمجھتی تھی اس کی چالاکی ، آخر بہن بھی تو اس چالاک لومڑ کی تھی ۔" اور ابھی اسکی باتوں سے اسے اچھے سے انداز ہو چلا تھا کہ اچھا ہی تھا کہ کم ملاقاتیں ہوئیں اس سے ورنہ یہ تو ردا سے بھی پہنچی چیز تھی۔۔"

تت تم یہ بب بتاؤ۔۔ کہ اتنی دیر سے کیا کر رہی تھے تم لوگ۔۔ جبکہ ہم لوگ دس منٹ سے انتظار کر رہے تھے باہر۔۔۔ 

اب سٹپٹانے کی باری فدک کی تھی۔۔ اچانک سے نیناں کے منہ سے ایسی غیر متوقع بات سنتے وہ پل میں ہی ہڑبڑای تھی کہ اب اسکی حالت سے مخفوظ ہوتے نیناں نے پرجوش سا قہقہہ  لگایا تھا کہ وہ چپت اسکے سر پر مارتے منہ بنا گئی کہ نیناں دوبارہ سے مسکرائی اس کی حالت پر۔۔۔۔"

ہاں اب بول کیا کہنا ہے۔۔۔" ایک جانب کھڑے ہوتے وہ مسلسل نیناں کو نظروں کے حصار میں لیے بولا تھا کہ رافع اسکا دھیان وہیں اٹکا دیکھ افسوس کرتے رہ گیا۔۔۔"

یہ دیکھ لیلیٰ کی تصویر ۔۔۔ یہ آج ہی لی گئی ہے کچھ دیر پہلے۔۔۔۔ اور وہ یہیں پر ہے۔۔ دیکھ وریام میں جانتا ہوں کہ توں مجھ سے بہتر ہر معاملے کو حل کر سکتا ہے مگر اس وقت میں چاہتا ہوں کہ اس لیلی نام کی بلا کو پکڑ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کانڈ کر دے۔۔۔۔"

رافع ماتھے پر بل ڈالے سنجیدگی سے بولا تھا کہ وریام گہرا سانس خارج کرتے رہ گیا ۔۔

ڈونٹ وری یار۔۔۔۔ مجھے پہلے سے سب پتہ ہے اور آج ہی اس کو پکڑتے میں پولیس کے حوالے کرنے والا ہوں ۔۔ وہ اسکا کندھا تھپکتے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا تھا کہ رافع سنتا سکون سے مسکرایا ۔۔۔ 

تو فائنلی اب انکی زندگیوں میں رونق ہوگی کوئی پریشانی کوئی مصیبت نہیں اب وہ آرام سے زندگی گزاریں گے۔۔۔"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

  ہائے موم۔۔۔۔ نیناں کا ہاتھ تھامے میں مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا تو نظریں سیدھی اپنی موم پر گئی جو صوفے پہ  ہی بیٹھی چائے پی رہی تھی۔۔۔"

" وریام میرا بچہ آ گئے تم۔۔۔۔۔" اس کی مسکراتی آواز کانوں میں گھلتے ہی جیسے وہ جی اٹھی تھیں ایک ہی جست میں کپ کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اٹھتے اسکے قریب گئیں تھی۔۔ اور پیار سے اپنے لاڈلے کی پیشانی چومتے محبت سے پوچھا۔۔۔۔۔"

" مجھے تو آنا ہی تھا ناں موم، آخر آپ کے بغیر کب تک رہ پاتا

 شریر انداز میں وہ کہتے محبت سے انکے گلے لگا کہ وہ ہنس پڑی اسکی بات پر۔۔۔۔"

 ۔

" نیناں میری جان کیسا گزرا کل کا دن ، وریام نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا ناں ۔۔۔۔ " مسکراتے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھتے وہ پیار سے ساتھ لگاتے ہوئے بولی کہ وہ نظریں اٹھائے اپنے سامنے کھڑے وریام کو دیکھتی دوبارہ سے چہرہ جھکا گئی۔۔۔"

موم پوچھ لیں پوچھ لیں ۔۔۔۔" کہیں آپ کو بھی کوئی شک و شبہ ناں رہ جائے کہ میں نے  آپکی اس معصوم سی بیٹی کو کتنا ستایا ہے ، جبکہ ظلم تو مجھ معصوم ہر ہوا ہے ۔۔۔" اسکے پاس سے گزرتے وہ ہلکا سا بڑبڑایا کہ نیناں سنتے ہی اسکی بات کا مطلب سمجھتی پل بھر میں سٹپٹائی تھی۔۔۔۔"

موم میں فریش ہو لوں۔۔۔۔ اپنی موم کو ہاتھ سے فلائنگ کس پاس کرتے وہ کہتا اوپر اپنے روم کی جانب بڑھا ۔۔۔۔

بیٹا جاؤ تم بھی فریش ہو آؤ۔۔۔۔۔ " اسکی تھوڑی کو نرمی سے چھوتے وہ محبت سے بولی کہ نیناں بھی جی کرتی اوپر کی جانب بڑھی۔۔۔۔"

آں۔۔۔ ایک دم سے دروازے کے کھلنے اور خود کو کھینچتے کسی کے حصار میں محسوس کرتے ایک مدہم سی چیخ اسکے منہ سے برآمد ہوئی۔۔۔۔"

" کتنی بار کہوں۔۔۔

 کہ چیخا ناں کروں میں ۔۔۔۔ اس کی آدھی بات وہ اچکتے پورا کرتے بولی۔۔۔۔۔'

ہائے میری جان۔۔ تو سمجھدار ہو گئی۔۔ ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے وہ اسے خود میں بھینجتے محبت سے بولا کہ نیناں ہڑبڑائی اسکی حرکت پر اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔۔۔"

" میرا اتنا پیارا پلان خراب کر دیا تم نے اب ، بدلے میں مجھے بھی تو کچھ چاہیے۔۔۔ اسکی کان میں جھکتے وہ گھمبیر بھاری آواز میں سرگوشی کرتے اپنی محبت بھرا لمس  چھوڑتے وہ دوبارہ سے اسکی مشکل بڑھانے لگا۔۔۔۔"

     " وو وریاممممم۔۔۔۔۔۔۔ وہ دوبارہ سے اسکے تنگ حصار میں پھڑپھڑائی کہ وہ جھکتے انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش کروا گیا۔۔۔۔۔"

" تھوڑی دیر کے لیے  مجھے خود کو محسوس کرنے دو یار ، پھر ویسے بھی کام سے جا رہا ہوں۔۔۔ لہجے میں التجا سموئے وہ محبت سے بولتے اسکی گردن پر جھکا تھا کہ وہ سنتی آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔"

       " میں چاہتا ہوں کہ آج رات تم خود کو سجاؤ ، اپنے پور پور کو اپنے ہاتھوں سے سنوارو،   میرے لیے ۔ کہ میرے دل میں  اٹھتے اس جنون عشق کو بھی تو پتہ چل سکے کہ میرا  جنون بھی تو مجھ سے عشق کرتا ہے۔۔۔۔ وہ ایک  ہاتھ اسکے بالوں اور دوسرے سے اسکے کمر کو پکڑتے خود میں بھیجتے مدہوش سا ہوتے بولا تھا کہ وہ سنتی کانپنے لگی۔۔۔ ۔

کیسے وہ اسے خود دعوت دیتی ، کیسے اسکی شدتوں کو برداشت کرتی ، کہاں تھی اس میں اتنی سکت کہ وہ اسکی پاگل جنونی شدتوں بھرے لمس کو سہہ پاتی۔۔۔۔۔"

 ابھی مجھے کام سے جانا ہے، کوشش کروں گا کہ جلد ہی لوٹ آؤں۔۔۔ میرا انتظار کرنا۔ مسکراتے اسکی تھوڑی کو پیار سے چھوتے وہ اٹھاتے اسے بیڈ پر لٹاتے محبت سے بولا کہ اس کی باتوں کو سنتے وہ  تھوک نگلنے لگی۔۔۔

اور سنو آئی لو یو۔۔۔۔۔ میرا انتظار کرنا۔۔۔۔ 

محبت ، مان ، فرمائش بھرے الفاظ وہ جاتے ہوئے بھی اس پر اپنی محبت کی بارش کر چکا تھا کہ وہ جانے کتنی دیر اسکے جانے کے بعد بھی خود میں  ، اپنی سانسوں میں گھلی اسکی مہک کو محسوس کرتے شرماتے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔۔"

    "کچھ دیر یونہی وہ اسکی خؤشبو کو محسوس کرتے اٹھی تھی کہ اب خود میں سے آتی اسکی خوشبو کو سانسوں میں اترتا دیکھ وہ کپڑے چینج کرنے کا ارادہ ترک کرتے ایسے ہی منہ ہاتھ دھوتے نیچے آ گئی جہاں پر شمائلہ بیٹھی اسی کا انتظار کر رہیں تھیں۔۔۔"

آؤ میری بچی۔۔۔ چینج نہیں کیا۔۔۔ اسکو ہاتھ سے پاس آنے کا اشارہ کرتے وہ مسکراتے اسکے سر کو پیار سے چومتے ہوئے بولی۔۔ کہ نیناں ہونٹ چبانے لگی کہ اب کیا بولتی کہ آپ کے بیٹے کی خؤشبو کو محسوس کرنے کے لیے نہیں اتارا، "

"اچھا خیر چھوڑو۔۔۔ آؤ یہ دیکھو ، وری کی بچپن کی فوٹوز نکالی ہیں میں نے ، آؤ دونوں ماں بیٹی مل۔کر دیکھیں۔۔۔ 

اسکی مشکل کو محسوس کرتے وہ مسکراتے بات بدل گئی کہ نیناں بھی آگے ہوتے غور سے تصویریں دیکھنے لگی۔۔۔ جہاں کسی تصویر میں وہ بالکل چھوٹا سا حاصا کمزور تھا تو کسی میں شرٹ اتارے کھڑا تھا ۔۔۔" 

اسکی کئی تصویروں کو دیکھتے وہ کھلکھلا رہی تھی جن میں وہ رضا کو تنگ کرتے بھاگ رہا تھا اور رضا اسکے پیچھے مسکراتے اس کو پکڑنے کی کوشش میں تھے۔

" بیٹا دیکھو شاید تمہارا موبائل بج رہا یے۔۔۔ فون کی رنگ سنتے ہی شمائلہ نے اسے مخاطب کرتے کہا تھا کہ وہ برے سے منہ بناتے رہ گئی۔۔۔۔

" رہنے دیں موم ، بعد میں بات کر لوں گی ابھی ہم تصویریں دیکھتے ہیں۔۔۔۔" 

وہ فوراً سے منع کرتے بولی ، جانتی تھی کہ اس کے فون ہر سوائے وریام کے اور کسی کی کال نہیں آ سکتی۔۔۔ " 

اور اس وقت وہ ویسے بھی پھپھو کے ساتھ ہی خوش تھی ، اسے مزہ آ رہا تھا وریام کی گزری زندگی کی یادیں دیکھ۔۔۔"

" جاؤ میری بچی ہو سکتا ہے کسی کو کوئی کام ہو، بار بار بجتے موبائل کو دیکھ وہ محبت سے اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔ کہ نیناں منہ بناتے ہوئے اٹھتی ٹیبل تک گئی۔۔۔

ان ناون نمبر دیکھ وہ پہلے تو حیران ہوئی مگر پھر کچھ سوچتے وہ فون یس کرے کان سے لگا گئی۔۔۔'"

"السلام علیکم! کون۔۔۔۔ ؟ " سلام کرتے ہی وہ فوراً سے پوچھ بیٹھی۔۔۔۔"

" اگر وریام کا سچ جاننا چاہتی ہو تو باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ جاؤ چپ چاپ۔۔۔۔" 

ہیلو ہیلو کون کون۔۔۔۔۔!!" کھٹاک سے بند ہوتے فون کی آواز پر وہ گھبراتے فون کو دیکھنے لگی۔۔۔۔" 

کس کا فون تھا بیٹا۔۔۔؟' شمائلہ اسے یونہی پریشان حال سا کھڑا دیکھ متفکر سا ہوتے بولیں۔۔۔

" کک کسی کا نہیں موم، وہ دراصل وریام کو کوئی کام تھا گاڑی بھیجی ہے کہہ رہے ہیں کہ آؤ، تو کیا مم میں جج جاؤں۔۔۔ کچھ سوچتے وہ زندگی میں پہلی بار جھوٹ بول گئی۔۔۔"

" ہاں بیٹا ضرور جاؤ ، یہ لڑکا بھی ناں ،اسے بالکل بھی آرام نہیں ، تم جاؤ میری بیٹی آرام سے جانا۔۔ اسے تسلی سے کہتی وہ اندر سے شال لاتے تھما گئی۔۔۔۔"

کہ وہ مسکراتے جی اچھا کہتے شاک تھامتے ہوئے اپنے اوپر اچھے سے لپیٹتے باہر کو نکلی تھی۔۔۔ 

گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی فورآ سے سٹارٹ ہوئی تھی۔۔ 

اترو۔۔۔ اسے یونہی ڈرا سہما بیٹھا دیکھ وہ ڈور کھولتے بولا تھا کہ نیناں نے ڈرتے سہمی آنکھوں سے اس  کالے خبشی کی جانب دیکھا۔۔۔۔

چلو اندر چلو۔۔۔ اسے باہر آتا دیکھ وہ اندر ہوٹل کے اندر کی جانب جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔"

وہ تھوک نگلتے خود کو پرسکون کرنے لگی مگر اس کا دل انجانے خوف سے لرز رہا تھا مانو ابھی نکلتے باہر آ جائے گا۔۔ مگر اسکا آنا بھی ضروری تھا۔۔ کہ وہ خود وریام کو کسی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔"

ناک کرو اسے۔۔۔ اسے خیالوں میں کھویا دیکھ وہ آدمی گن کا دباؤ اسکی پشت پر بڑھاتے ہوئے بولا تھا کہ وہ ڈرتے کپکپاتے ہاتھوں سے دروازے کھٹکا گئی۔۔۔۔"

وہ ڈرتے اپنے خوف پر قابو پانے لگی مگر یہ سب کہاں ممکن تھا۔۔ وریام کا سوچتے ہی اسکا دل جیسے بند ہونے کو تھا۔۔ وہ کیسے بھی کرتے اس تک پہنچنا چاہتی تھی ۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں اس قدر کھوئی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے حالی حالی نظروں سے سامنے دیکھا۔۔

مگر سامنے کا منظر دیکھ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی تھی ،  ۔۔۔۔جہاں دروازے کھولے لیلیٰ بکھری ہوئی حالت میں وریام کی ہی تھوڑی دیر پہلے پہنی سکن وائٹ شرٹ کو پہنتے اسکے بٹن بند کر رہی تھی جبکہ دوسری نظر اسکی بیڈ پر پڑی تھی۔۔۔ جہاں وریام شرٹ لیس اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا جبکہ گردن کے پیچھے جابجا پڑے لپ اسٹک کے نشانات کو دیکھتے وہ لڑکھڑاتے قدموں سے بمشکل سے خود کو سنبھالتے بھاگتے اسکے پاس آئی تھی۔۔۔""***

*****دو ماہ بعد*****

" سر رئیلی سوری آج کے بعد ایسی کوئی بھی غلطی نہیں ہو گی آپ جیسا کہیں گے بالکل ویسا ہی ہو گا۔۔۔"

" مگر آگے کا میں کیا کروں گا ، جو ابھی غلطی ہوئی اس کا ہمیازہ کون بھگتے گا، دونوں ہاتھوں کو آپس میں باندھتے وہ قدرے سنجیدگی سے بولا تو سامنے کھڑا شخص سر جھکا گیا۔۔۔"

" ابھی کے لیے جاؤ اور میرے لیے اچھے سے کافی بنا کر لاؤ اگر ٹیسٹ اچھا ہوا تو سوچوں گا۔۔۔ سرد مگر نرم آواز میں کہتے وہ دوبارہ سے سامنے کھلی فائلز کو باری باری دیکھتے کام میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔"

" ارے ڈیڈ آپ۔۔۔۔۔ اچانک سے خود پر کسی کی گہری نظروں کو محسوس کرتے وہ جو پورے دھیان سے اپنے کام میں مشغول سا تھا کہ نظریں اٹھاتے سامنے دیکھنے لگا جہاں اسکے ڈیڈ کھڑے اسے ہی گھور رہے تھے۔۔۔"

" اگر تمہیں ہماری یاد ناں آئے گی تو اب ہم کو ہی آنا پڑے گا ملنے کیا کریں اولاد چاہے جو مرضی کر لے مگر ماں باپ تو انہیں کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔۔۔

سوری ڈیڈ ۔۔۔ یار ضروری میٹنگ تھی اور اب اپنے طنز کے تیر برسانا بند کر دیں۔۔۔ وہ منہ بناتے اٹھتا انکے گلے لگتے پیار سے بولا کہ رضا نے خود میں بھینجتے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو بند کرتے خود کو ریلکس کیا۔۔۔"

" ایسی بھی کیا میٹنگ کے پچھلے چھ دن سے گھر نہیں آئے ۔۔۔ وہ جانتے تھے اسکے انکار کی وجہ ، اس کے گھر ناں جانے کہ وجہ مگر کیا کرتے باپ تھے ، اپنے ہنستے ، کھلکھلاتے ، زندگی سے پرجوش بیٹے کا یوں ایک دم سے مرجھا جانا ، ایک دم سے خاموش ہو جانا ، وہ تو جانے دن میں کتنی دفعہ اسکی حالت کو دیکھ تکلیف سے مرتے تھے۔۔ مگر وہ مجبور تھے کچھ۔ بھی تو ناں تھا انکے ہاتھوں میں۔۔۔۔۔۔"

" ویسے تو دو منٹ نہیں چھوڑتا اپنی ماں کو اور آج وہ تیرا غم لگائے بیمار پڑی ہے کیا مجال جو اسی کو دیکھ لے۔۔۔۔۔٫ 

وہ جانتے تھے اسے کیسے گھر لے کر جانا ہے اسی لیے ہمیشہ کی طرح محسوس رگ پر پاؤں رکھا تھا کہ وہ سنتے ایک دم سے چونکا۔۔۔۔"

ڈیڈ گھر چلیں۔۔ بنا کوئی شکوہ ،کوئی لڑائی جھگڑا کیے وہ خاموشی سے کہتے اپنا کوٹ اٹھاتے باہر کو نکلا تھا۔۔۔"

" موم کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔۔۔۔" آپ ٹھیک تو ہیں۔۔ وہ گھر جاتے ہی دوڑتا گاڑی سے اترا تھا۔۔ چاہے زندگی جتنی مرضی کٹھن ہو مگر وہ اپنی موم کو کیسے بھول سکتا تھا۔۔ کیسے انکو اگنور کر سکتا تھا اسے خود پر بے تخاشہ غصہ آ رہا تھا مگر فلحال وہ اپنی موم کے سامنے ضبط کرتے بیٹھا رہا۔۔۔"

" وری میری جان۔۔۔۔۔ تم آئے ہو ناں۔۔۔ اسکی آواز سنتے ہی وہ گردن موڑتے اسے دیکھنے لگی ۔۔ جو بڑھی داڑھی ، بکھرے بھورے بال جو اسکے ماتھے پر گرتے اسے اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے وہ دیکھتے اپنے جگر کے ٹکڑے کو اٹھتے ہی اسکو چومنے لگی۔۔۔ کبھی اس کا سر کبھی ماتھا تو کبھی اسکے گالوں کو پیار سے چھوتے وہ ایکدم سے بےاواز رونے لگی۔۔۔۔ "

جبکہ وریام انکے بخار سے تپتے لمظ پر جبڑے بھینجتے خاموش تھا۔۔ 

میری جان ناں دور جایا کرو، میں مر جاؤں گی۔۔۔۔ وہ روتے اسکے سینے سے لپٹتے بمشکل سے ہچکیوں میں بولیں تھی۔ کہ وہ ضبط کرتا آنکھیں موندے ہونٹ انکے سر پر رکھ گیا۔۔۔۔۔"

" اب سے تمہارے ڈیڈ بھی تمہیں نہیں ڈانٹیں گے ۔۔ میں نے بتا دیا ہے انکو ، تم جو کہو گے میں وہی کروں گی۔۔ تمہارے ڈیڈ کو بھی نہیں بلاؤں گی اور پاکستان بھی نہیں جاوں گی۔۔ بس تم ۔۔ تم میرے پاس رہنا ،میری جان۔۔ تمہارے بغیر میں ایک پل ناں گزار سکوں اور تم چھ دن سے گھر نہیں آئے ، جانے کب سے میں تمہاری مسکراہٹ دیکھنے کو ترس رہی ہوں ۔۔ اتنی بڑی سزا ناں دو خود کو میری جان۔۔۔۔۔ "......

وہ جانے کیا کیا بول رہی۔ تھی مگر وریام کی یہی پر بس تھی۔۔۔ وہ تو اپنے ڈیڈ تک کو  اپنی موم کو تنگ ناں کرنے دیتا کجا کہ اسی کی وجہ سے وہ تکلیف میں تھیں۔۔

" اششش۔۔۔ پلیز موم اگر آپ اب روئی تو میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو شوٹ کر لوں گا۔۔۔۔ وہ اپنے بھوری سرخ ہوتی آنکھوں سے انہیں دیکھتے اپنے ہاتھ سے پیار سے انکے آنسو صاف کرنے لگا۔۔۔"

" میں نہیں روتی ، بس تم میری ایک بات مان لو۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو تھامتے وہ پیار سے چومتے بولیں ۔۔۔

حکم۔کریںں موم آپکے لیے جان بھی حاضر ہے۔۔۔۔" انکی پیشانی پر لب رکھتے وہ اپنی موم سے ملتے سکون کو خود میں اتارتے ہوئے بولا ۔۔۔۔"

" نیناں کو لے آؤ ، بیٹا وہ معصوم ہے، وہ تمہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی ، میں جانتی ہوں وہ تم سے بہت محبت کرتی ہے بیٹا میں نے دیکھا ہے اسکی انکھوں میں۔۔۔۔ جانے کیوں اور کہاں چلی گئی میری بچی، تم ڈھونڈ لاؤ گے ناں۔۔۔۔

"جس ذکر سے وہ بچتے گھر سے دور تھا اب دوبارہ سے اسی کی باتیں سنتا وہ سختی سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینج گیا۔۔۔ 

" موم آپ پریشان ناں ہوں میں جلد اسے ڈھونڈ لوں گا۔۔ آپ آرام کریں۔۔۔۔۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔ انہیں بہلاتے ہوئے کہتے وہ اپنے ڈیڈ کو انکا خیال رکھنے کا کہتا اٹھتے اپنے روم کی جانب گیا۔۔۔۔۔۔"

" دروازہ کھولتے ہی اسکے پاؤں منجمد ہوئے تھے۔۔۔ وہ لب بھینجتے آج دو ماہ بعد بھی اپنے روم سے ، اس کمرے اس گھر کی فضا میں اسکی بکھری خؤشبو کو محسوس کر سکتا تھا۔۔۔" 

" اسی وجہ سے تو وہ گھر کم آیا کرتا تھا وہ چاہتا تھا کہہ اب اسکی یادیں اسکی خوشبو اسکی کھلکھلاہٹ ، جسے دیکھتے ہی اسکا دل دھڑک اٹھتا تھا آج وہ خود ہی اس سے دور جانا چاہتا تھا۔۔۔ دور تو وہ خود چلی گئی تھی۔۔ شاید آگے بھی بڑھ چکی تھی اپنی زندگی میں۔۔۔۔۔

مگر وریام۔۔۔ ہاں وریام کاظمی کی زندگی تو وہیں پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔۔۔" 

اہہہہ۔۔۔۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو وریام ۔۔۔۔۔ کیا تم ایک لڑکی کو نہیں بھول سکتے ۔۔۔۔ کتنی ہی تو آئی ہیں زندگی میں اور چلی بھی گئیں ۔ تو کیا اس ایک لڑکی کو نہیں بھول سکتے تم۔۔۔۔ اسکے اندر سے کہیں سے  آواز آئی تھی وہ جو جانے کب سے ضبط کرتے ہوئے خود کو مضبوط ثابت کر رہا تھا وہ اندر سے مر رہا تھا ، اسکا روم روم اندر سے بکھرتے ریزہ ریزہ ہو رہا تھا ،،،،" 

مگر وہ جو اپنے ساتھ اسکا چین سکون لے گئی تھی ، ایسی گئی کہ پلٹ کر دیکھا تک ناں کہ اسکا وریام کس حال میں ہوگا۔۔۔ اب وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے شاید کبھی محبت ہوئی ہی نہیں تھی وریام کے ساتھ ، یہ تو اسکا دل تھا جو اسکے نام سے دھڑکتا تھا۔۔ اگر وہ بھی اس سے اسی جنون سے محبت کرتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ وہ وریامم کو چھوڑتے جاتی۔۔۔۔"

کاش کہ یہ دل کبھی تم سے نفرت کر پائے۔۔۔۔۔۔۔ وہ بمشکل سے اپنے آنسوں پر ضبط کے پہرے  بٹھاتا  وہ سر کو جھٹکتے آگے بڑھا اور شرٹ کو اتارتے ایسے ہی پھینکتے وہ وارڈروب کی جانب گیا۔۔ مگر وہاں پر بھی اپنے سامان کے ساتھ اسکے سامان کو دیکھ ، وہ پھر سے اذیت سے دوچار ہوا تھا۔۔۔

کپڑے نکالتے ہی وہ ٹھاہ کے ساتھ دروازہ بند کرتے باتھروم کی جانب بڑھا۔۔۔"

پانچ منٹ کے بعد ہی وہ فریش ہوتا ایسے ہی نم۔بالوں میں  شرٹ کو پکڑتے وہ باہر کو بڑھا تھا۔۔۔۔۔"

 " وری۔۔۔۔ یار کیسا ہے توں۔۔۔۔ اچانک سے سیڑھیوں پر ہی وہ اسے زور سے گلے لگاتے سرشاری سے بولا کہ وہ چونکتے حیالوں سے نکلا اور خود سے لپٹے رافع کو دیکھ وہ کندھا تھپکنے لگا اس کا۔۔۔٫

یار کتنے دنوں کے بعد آیا ہے توں۔۔۔۔ کب سے ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔ اسے پیار سے ساتھ لگاتے رافع پھر سے سرشاری سے بولا تھا۔۔۔۔"

رضا نے ہی اسے فون کرتے بلایا تھا کہ وریام کا موڈ رافع کے آنے سے کچھ بہتر بنا سکیں۔۔۔"

ٹھیک ہوں توں سنا۔۔۔ زیادہ تنگ تو نہیں کیا ناں فدک کو ۔۔۔ وہ ہاتھ سے پنج اسکے پیٹ پر مارتے ہوئے ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا کہ وہ بھی اسکی بات سنتے مسکرایا۔۔۔۔۔"

" نہیں یار کہاں تنگ کرتا ہوں میں اسے ، اور اب تو وہ بالکل ٹھیک ہے اور اپنے پاپا کے ساتھ مل کر دونوں باپ بیٹی میری واٹ لگاتے ہیں۔

۔۔

اچھا وہ کیسے۔؟ "..

اسے برے سے منہ بناتے دیکھ وہ صوفے پر بیٹھتے کشن گود میں رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ 

" دونوں نے ہفتے کے دو دن کا سارے گھر کا کام میرے نازک سے کندھوں پر ڈال دیا ہے اور ظلم خدا کا اوپر سے کھانے پر فرمائشیں ایسی کہ توبہ اففف۔۔ میں تو پورا باورچی بن چکا ہوں اس شادی کے چکر میں۔۔ سوچا تھا کہ اتنی معصوم سی لڑکی ہے ، میری زندگی گلنار کر دے گی۔۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ گلنار کے ساتھ مجھے بخار بھی کر دے گی۔۔۔۔۔"

ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ سئیریسلی یار۔۔۔۔۔۔ " اسکی بات کو سنتے وہ مسکراتے اسکا کندھا تھپکتے بولا کہ رافع نے سکون بھرا سانس خارج کیا اسے یوں اتنے دنوں کے بعد مسکراتا دیکھ کر۔۔۔۔"

لے آتا یار انکو بھی ساتھ۔۔۔۔۔ وہ فدک اور اظہر کا بولتے صوفے پر ٹانگیں پھیلائے ہوئے لیٹا ۔۔۔۔۔ توں کیا چاہتا ہے کہ یہاں بھی جو میری عزت ہے وہ اتر جائے۔۔۔۔ رہنے دے دونوں باپ بیٹی کو ایک ساتھ۔۔۔۔ بیٹی کیا ملی میرے بابا نے تو اپنی ٹیم ہی بدل ہی ، پہلے تو میرا رافع، میرا رافع کہتے نہیں تھکتے تھے اور اب دیکھو ۔۔۔ میری فدک ، میری فدک۔۔۔۔"

یار ایسے تو ناں بول ۔۔۔ اگر وہ فدک سے محبت کرتے ہیں تو وہ تیری ہی تو بیوی ہے۔۔۔ انتہائی معصومیت چہرے پر سجائے وہ اسے سمجھانے کے سے انداز میں بولا۔۔

۔

رہنے دے یار ،، اس دنیا میں تیرے سوا کوئی میرا اپنا نہیں ساری دنیا ہی مطلبی ہے۔۔۔ زرا سا پیار کیا کروں محترمہ کو رونا آ جاتا ہے۔۔۔ یہ ساے میرا موڈ خراب کرنے کے بہانے ہوتے اسکے ۔۔۔"

 جانتی جو ہے کہ اسکے آنسو برداشت نہیں ہو پاتے ۔۔۔۔ بس اب میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ وہ کہتا ایک دم سے سیدھا ہوتے کندھے اکڑائے بولا۔۔۔۔"

کک کیسا فیصلہ وریام چونکا اسکی بات پر۔۔ جبکہ دھیان ہنوز دروازے پر تھا جہاں اظہر اور فدک دونوں ہی ہاتھ باندھے سرخ لال ٹماٹر چہرے لیے کھڑے تھے۔۔۔۔"

اب میں دوسری شادی کروں گا اور اسی بیوی سے پیار بھی کروں گا ، گھر کے کام کاج بھی وہی کرے گی۔۔۔ 

اچھا تو پھر فدک اور انکل انکا کیا کرے گا۔۔۔ " اسے مزید بولنے پر اکساتے وہ فدک کو دیکھتے لب دانتوں تلے دبا گیا۔ جو فل غصے میں ایسے کھڑی تھی جیسے ابھی وہ رافع کو دومنٹ میں حتم کر دے۔۔۔۔"

ان دونوں کو کون بتا رہا ہے میں تو اسے الگ۔۔۔۔۔۔۔۔"

رافع۔۔۔۔ ایک دم سے پیچھے سے آتی زور دار آوازوں پر وہ شیر کی طرح بولتے بھیگی بلی کی طرح کپکپاتی آواز میں رکا اور اچھلتے دونوں پاؤں صوفے کے اوپر کرتے وہ گردن گھمائے باہر دیکھنے لگا۔۔ جہاں اسکی موت کے فرشتے بنے فدک اور اظہر خونخوار نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ 

مم مممم۔ مرر گگ گیا۔۔۔ کک کمینے ببب بتایا کک کیوں نہیں۔۔۔۔ وہ ڈرتے انکو اپنی جانب بڑھتا دیکھ لڑکھڑاتے ہوئے بمشکل سے بولا تھا کہ اسکی کپکپاہٹ کو محسوس کرتے وریام کا چہرہ ہنسی روکنے کے چکر میں سرخ ہو چلا تھا۔

۔

"اچھا تو ہم لوگ ظالم ہیں۔۔ 

تم سے پیار نہیں کرتا میں۔۔۔۔ ٹیم بدل لی۔۔"؟؟؟!

تم دوسری شادی کرو گے۔۔۔۔ وہ دونوں ایک کے بعد ایک سوال پوچھتے اسکے پاس آ رہے تھے کہ وہ کبھی اظہر تو کبھی فدک کو دیکھتے گردن کو ڈرتے نفی میں ہلاتا۔۔۔

بھاگو۔۔۔۔۔۔ انکے پاس آنے سے پہلے ہی وہ چیختے کہتا ایک دم سے صوفے پر سے چھلانگ لگاتے سیڑھیوں کی جانب بھاگا۔۔۔۔

رافع واپس آؤ۔۔۔۔ آج نہیں چھوڑو گی تمہیں میں۔۔۔ اسے اوپر بھاگتا دیکھ فدک غصے سے بولتے اسکے پیچھے ہی اوپر گئی تھی کہ اظہر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے وریام کے پاس بیٹھے اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگے۔۔

انکے دیکھنے پر وہ بھی ایک دم خاموش ہوا اور پھر اچانک سے ہی فضا میں ان دونوں کے قہقہے گونجے تھے۔۔۔

انکل۔۔۔۔ اسے کچھ مت کہیں یار۔۔۔۔ بیچارہ معصوم ہے۔۔۔ وہ مسکراتے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔"

کہ اچانک سے فون کی رنگ نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔ وہ چونکتے نمبر دیکھ اپنی جگہ پر سے اٹھا۔۔۔۔"

ہاں کہو روکی۔۔۔ اظہر سے اکسکیوز کرتے وہ ایک جانب جاتے کال پک کرتے ہوئے بولا۔۔۔"

میں آ رہا ہوں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔" وہ کہتے ساتھ ہی وہ کال کٹ کرتے فون جیب میں رکھ گیا۔۔۔۔'"

انکل ابھی مجھے جانا ہے آپ پلیز بیٹھیں اور ڈیڈ کو بھی بتا دیجیے گا کہ ضروری کام سے گیا ہوں۔ اور میرے آنے تک  موم کا خیال رکھیں ۔۔۔۔"

وہ سرد لہجے میں ، بے تاثر چہرہ لیے کہتا تیز تیز ڈھگ بھرتے بار کو بڑھا کہ اظہر چونکے اسکے انداز اسکی بات پر۔۔۔۔۔"

*******🔥🔥🔥🔥🔥🔥*******

" کب تک یہاں رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔ "

میں تم سے بات کر رہی ہوں یار۔۔۔۔" ایک دم سے اسکے چلانے کی آواز پر وہ چونکتے ہوش میں آئیں۔۔۔ ہہہ ہاں کک کیا ہوا۔۔۔ وہ فون کو مضبوطی سے پکڑتے دوبارہ سے کان پر لگاتے ہوئے بولی۔۔۔۔"

میں نے کچھ پوچھا ہے نینوں ۔۔۔۔ جواب دو گی۔۔۔۔ 

کب تک یونہی اپنے آپ کو سزا دیتی رہو گی۔۔۔ واپس آ جاؤ یار۔۔۔۔ وہ تھک چکی تھی اسے سمجھاتے سمجھاتے جو کہ شاید ہی اسکی کسی بات کا اثر لے رہی تھی۔۔ وہ تو اپنی ہی دنیا میں حیالوں میں گم سم سی رہتی تھی۔۔۔۔"

ابھی کچھ دن یہاں رہوں گی۔۔ میرا دل لگ گیا ہے اس جگہ پر۔۔۔۔ کھڑکی کے باہر ہوتی برف باری کو دیکھ وہ ہاتھ شیشے پر رکھتی سرد  آہ بھرتے ہوئے بولی تھی کہ ردا سنتے افسوس سے سر ہلا گئی۔۔۔۔۔"

" دل لگ گیا ہے یا پھر  خاموشی سے دوستی کر لی ہے۔۔ "  دیکھو تم نے کہا تھا کہ اس بابت کسی کو بھی ناں بتانا، میں نے سب سے چھپاتے تمہیں اپنے اپارٹمنٹ میں۔ رکھا ہوا ہے۔۔مگر یار کب تک ایسے اکیلی رہو گی ۔۔ میرے پاس آ جاؤ۔۔۔ میں نے ارسلان کو بھی بولا ہے وہ بھی کہہ رہا تھا کہ یوں انجان جگہ پر اکیلے رہنا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔"

اکیلی کہاں ہوں۔۔۔۔؟؟ "

وہ سنتے ہلکا سا مسکرائی کہ ردا ٹھٹکی اسکی بات پر۔۔۔۔ کیا مطلب ہے۔۔ تمہاری بات کا۔۔۔۔ وہ چونکتے صوفے پر بیٹھتے بولی۔۔۔۔'....

میرا مطلب کے آنٹی بھی تو ہیں۔۔۔ اور رشیدہ آنٹی میرا اچھے  سے حیال بھی رکھ رہی ہیں۔۔ تم بے فکر رہو۔۔۔ " 

کیسے بے فکر رہوں یار وہ ایک ملازمہ ہیں اور ایسے کیسے میں تمہیں کسی کے بھی سہارے چھوڑ دوں ابھی تو چلو تمہارے گھر والوں سے چھپا ہوا ہے یہ سب ۔۔ مگر سوچو اگر وریام نے کسی کو کچھ بتا دیا یا پھر تمہاری پھپھو نے تو پھر۔۔ پھر کیا ہو گا۔۔ 

" اس اشعر کو تو جانتی ہو ناں کہ کس قدر جزباتی سا ہے اور اسکا شک مجھ پر ہی آنا ہے۔۔۔ تم پلیز ایک بار واپس آ جاؤ یہاں۔۔۔ وہ تحمل سے اسے سمجھاتے ارسلان کو دیکھنے لگی۔۔ جو ہاتھ سے اسے ٹھیک ہے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔۔۔"

" نہیں ردا ، میں یہیں ٹھیک ہوں اور میں جانتی ہوں کہ وریامم کسی کو کچھ نہیں بتائے گا اور ناں ہی پھپھو کو بتانے دے گا۔۔۔۔" وہ کہتی اس ستمبر کو یاد کرتے آنکھیں بند کر گئی۔۔"

اگر اتنا ہی یقین تھا تو چھوڑ کر کیوں آ گئی۔۔۔۔۔۔" ردا نے افسوس کرتے اسکے ننھے سے پاگل دماغ پر دکھ سے کہا۔۔۔

جبکہ دوسری جانب وہ سنتی فوراً سے کال کٹ کر گئی۔۔۔۔"

******🔥🔥🔥🔥🔥🔥*******

"کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔گاڑی سے نکلتے ہی وہ سامنے کھڑے روکی کو دیکھ بولا تھا جو کہ اس کے آنے پر فورا سے آگے بڑھتے گاڑی کا ڈور کھول چکا تھا۔۔۔"

" اندر ہے سر۔۔۔ سر جھکائے وہ ایک جانب ہوتے بولا۔۔ کہ وریام ہممم کرتے اندر داخل ہوا۔۔۔ یہ اسی کا اپارٹمنٹ تھا جو آجکل روکی کے زیر استعمال تھا۔۔۔۔"

" تم جاؤ۔۔۔۔کمرے کے اندر جاتے ہی وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹوں میں پھنسائے اندر بڑھا تھا ۔۔۔۔۔

کہ اسے دیکھتے ہی وہ قہقہ لگاتے ہوئے ہنسی۔۔؟"

وی ۔۔۔۔۔ تم آ گئے۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ دیکھو تو میں نے کہا تھا ناں کہ وہ تمہیں چھوڑ جائے گی کیونکہ تم اسے ڈیزرو ہی نہیں کرتے تھے۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔ وہ نشے سے جھولتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے بولی جبکہ اسکی باتوں کو سنتے ہی وہ ضبط سے کھڑا اسے ہی دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔۔"

" ایسا کیا کہا تھا تم نے اس سے کہ وہ میری محبت ، میرے عشق کو بھی بھول گئی اور تمہاری باتوں پر یقین کرتی مجھ سے دور ہوگئیں۔۔"

اسکے پاس جاتے وہ جھٹکے سے اسکے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے اسکے چہرے پر دھاڑا تھا کہ اسکی سخت گرفت پر وہ بلبلاتے ہوئے رہ گئی۔ 

بتاؤ مجھے ورنہ آج تمہاری کھال اتار دوں گا۔۔۔ " ٹھنڈے پانی کے جگ کو اسکے چہرے پر انڈیلتے وہ غصے سے بولا تھا کہ ایک ہی پل میں اسکا غصہ اڑن چھو ہوا تھا۔۔۔۔

وی نن نو۔۔۔ دد دیکھو جانے دو مجھے۔۔۔ اسے چاقو پکڑے اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ وہ اسے خود سے دور ہونے کا کہنے لگی۔۔۔۔"

دو منٹ میں تمہاری یہ گردن دھڑ سے الگ کر دوں گا اگر جھوٹ بولا ، مجھے مجبور مت کرو کہ میں لڑکی ہونے کی عزت بھولتے تمہیں اپنے ہاتھوں سے سزا دوں۔۔۔۔ وہ چاقو اسکی  گردن پر پھیرتے سرسراتے ہوئے لہجے میں سرد آواز میں بولا۔۔۔۔" 

فلیش بیک*****

"وریام کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔۔۔ اٹھو ناں وریام۔۔۔ دیکھو میں نین ۔۔۔ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔۔۔ وہ پاس جاتے ہی اسے بےہوش اوندھے منہ پڑا دیکھ اسے بشمکل سے اپنے نازک ہاتھوں سے سیدھا کرتے اسکے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے بولی۔۔۔"

یار کیا مسئلہ ہے تمہیں ۔۔ دیکھ نہیں رہی وہ سو رہا ہے اور ابھی میں بھی تھک گئی ہوں مجھے بھی سونا ہے تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔" 

لیلی اسکے پاس جاتے اسکا ہاتھ وریام پر سے جھٹکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔"

دور رہو گھٹیا لڑکی خبردار جو اب اپنے ان گندے ، غلیظ ہاتھوں سے میرے وریام کو چھوا۔۔۔۔"

نیناں غصے سے اسے دیکھ چیختے ہوئے بولی تھی کہ وہ داد دینے والے انداز میں اسے دیکھ تالی بجا گئی۔۔۔

" کیا تم دودھ پیتی بچی ہو جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی تمہیں سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہاں پر کیا کچھ ہوا ہے۔۔۔ وہ مسکراتے اسکے پاس جاتے وریام کے جانب اور اپنے جسم پر موجود اسکی شرٹ کی جانب اشارہ کرتے بولی کہ نیناں نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔

منہ بند کرو اپنا۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے اپنے وریام پر۔۔۔ وہ ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کر سکتے اب تم جاؤ یہاں سے کہ دھکے دے کر نکالوں ۔۔۔ وہ اپنے وریام پر اس کے گھٹیا الزامات کو سنتے ہی خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے غصے سے بولی کہ لیلی اسکا اعتماد  دیکھ چونکی۔۔۔۔۔"

تمہیں کیا واقعی ہی اس پر اتنا یقین ہے۔۔۔۔ وہ اسکے سامنے کھڑے ہوتی وریام کو دیکھ بولی۔۔۔۔"

"اتنا یقین ہے کہ اگر وہ خود بھی مجھ سے آتے کچھ کہے گا ناں تو میں یقین نہیں کروں گی۔۔مجھے خود سے زیادہ اپنے وریام کے عشق پر یقین ہے۔۔۔ مسکراتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ ایک جذب کے عالم میں بولی کہ لیلی تلملا کہ رہ گئ۔۔۔۔

اوکے فائن ۔۔ تو سنو۔۔۔ یہ سب کچھ جھوٹ ہے سنا تم نے۔۔۔ مگر ایک بات ہے جو سچ ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے وریام کو زہر دیا ہے۔

 اور اگر اسکا اینٹی ڈوڈ جو کہ میرے پاس ہے بروقت اسے ناں ملا تو وہ آہستہ آہستہ اپنی سانسیں کھو دے گا۔۔۔وہ مر جائے گا۔۔۔ اسکی سفید پڑتی رنگت کو دیکھ اب وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔

کہ۔نیناں نے ڈرتے اسکی جانب نگاہیں اٹھائے دیکھا۔۔۔۔

نن نہیں لیلی۔۔۔ نو پلیز تم اسے کچھ مت کہو چاہے تو مجھے مار دو مگر میرے وریام کو چھوڑ دو ۔۔۔ وہ روتے اسکے ہاتھوں کو تھامتے منت بھرے لہجے میں بولی تھی کہ لیلی تنفر سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی۔۔۔"

تمہیں مارنا کوئی اتنا بھی مشکل کام نہیں۔ اس دن بھی اگر وریام ناں پہنچتا تو تمہارا تو سانس گھٹنے کی دیر تھی اور تمہاری موت واقع ہو جانی تھی ۔۔۔۔"

پر افسوس اس دن بھی وی پہنچ گیا اور تبھی میرا پلین چینج ہوا ، کیونکہ مجھے تم دونوں کو الگ کرنا ہے کیونکہ اگر تو تمہیں مار دیا تو پھر وہ مجھے نہیں چھوڑے گا تو اسی لیے اگر تم چاہتی ہو کہ میں اسکی جان بخش دوں تو تمہیں خودبخود ہی اسکی زندگی سے جانا ہو گا۔۔۔۔

نیناں نے سنتے ہی اپنی منہ پر ہاتھ رکھا، اسکا چہرہ آنسوں سے تر تھا ۔۔  دل و دماغ درد سے پھٹنے کو تھا ، کیسے وہ کیسے اسے چھوڑ جاتی جسکے بغیر وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر پاتی تھی۔۔ 

جلدی فیصلہ کرو کیونکہ وی کے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔"

اسے خیالوں میں  کھویا دیکھ وہ یاد کرواتے ہوئے بولی تھی۔۔۔"

پیپ پلیز ایسا مم مت کرو میں مر جاؤں گی وریام کے بغیر۔۔ وہ رو ہی تو پڑی تھی ، کیسے اسکے بغیر جیتی وہ ، تھا ہی کون جو وریام کے جیسے اسکے لاڈ ، نازو نخرے اٹھاتا۔۔۔۔ وہ تو اب عادی ہو چلی تھی اسکی ۔۔۔ کیسے جیتی اسکے بغیر۔۔۔ ابھی تو وہ مکمل ہوئی تھی اندر سے اپنے آپ میں وریام کو محسوس کرتے وہ الگ سی نیناں ہی تو بن گئی تھی ۔۔ جسے کسی کی باتوں ، طعنوں کا فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔" 

" کیونکہ اسکے وریام نے اسکی الگ سے دنیا جو بنائی تھی جہاں پر وہ دونوں تھے اور اس نے اپنی محبت کی دیواریں اپنی نین کے آگے پیچھے کھڑی کرتے اسے مکمل طور پر اپنے محفوظ حصار میں لے لیا تھا۔۔۔۔" 

اب کیسے وہ اسکے بغیر جیتی ۔۔۔۔"

تم جاؤ گی کہ نہیں ۔۔۔۔ وہ پھر سے چلاتے ہوئے بولی تھی کہ وہ سہمتے اپنی بہتی آنکھوں کو رگڑتے دھندلی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جو اسکے پاس ہوتے بھی اس سے دور تھا۔

۔ 

گڈ گرل۔۔۔۔ میرے آدمی تمہیں پاکستان بھیج دیں گے اور ادھر تم پاکستان روانہ ہوئی ادھر وی بالکل ٹھیک ۔۔۔ ایک ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہتے وہ مسکراتے وریام کو دیکھنے لگی۔۔۔۔"

مگر میں کیسے مان لوں کہ تم وریام کو کچھ نہیں کرو گئ۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بمشکل سے بولی تھی کہ لیلی مسکرائی۔۔۔۔"

اب یقین کے علاؤہ کوئی اور چارہ بھی نہیں۔۔ ویسے بھی تمہارے جانے کے یہ تو ویسے ہی مر جائے گا مجھے ضرورت ہی نہیں پڑے گی اسے مارنے کی۔۔۔۔

*****

   تو اس کا مطلب یہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ تم نے کیا ہے۔۔۔۔۔ وہ سنتا ایک دم سے غصے سے دھاڑا تھا۔۔ اسکے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ بھی ہوا ہو گا۔

وہ خاموشی سے وریام کے دیکھنے پر گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔اورجب میں ہوش میں آیا تو جو خط مجھے ملا تھا نیناں کا۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے بولا ۔۔ 

ووو وہ میں نے اس سے لکھوایا تھا۔۔ 

وہ تو اس خط کو پڑھتے ہی ڈھ سا گیا تھا کیسے یقین کر لیتا وہ کہ نیناں نے خود سے کہا تھا کہ میں تمہارا اصلی روپ دیکھ چکی ہوں اور اب تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،خبردار جو مجھے ڈھوڈنے کی کوشش کی ۔۔۔۔"

وہ تو اس خط کو پڑتے کی جانے کتنی دفع بے یقینی سے اسے دیکھے گیا تھا۔ ۔۔۔"

تم گھٹیا عورت تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری نین کو بلکہ میل کرنے کی۔۔۔۔" وہ غصے سے اسکے پاس جاتے اپنے ہاتھ کو ہوا میں اچھالتے اسے تھپڑ مارنے لگا کہ وہ سہمتے اپنے بندھے ہاتھوں کی وجہ سے اپنے چہرے کو نیچے کر گئی۔۔۔"

وہ تو پچھلے دو ماہ سے ترقی میں چھپی ہوئی تھی۔  اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وی اسے ترقی سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔۔

" اگر تو میری نین کو کچھ ہوا تو تمہاری خیر نہیں یاد رکھنا ، لیلیٰ اپنے ہاتھوں سے تمہیں جان سے ماروں گا۔۔۔۔" 

روکی لے جاؤ اسے ، اس کے لیے پاگل خانے ہی اسکا بہترین علاج ہے ، اس جیسی پاگل عورت وہی جگہ ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔"

"نو وی پلیز نو۔۔۔ دیکھو میں نے سچ بتا دیا اب تو مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے پاگل خانے میں مت بھیجو ، پلیز ۔۔۔ میں تمہاری وائف سے بھی معافی مانگ لوں گی ، پلیز نو

۔۔۔

روکی لے جاؤ اسے۔۔۔ وہ سنتے ایک دم سے دھاڑا کہ روکی دوڑتے کمرے میں آیا۔۔۔۔۔"

ہیلو ۔۔۔۔۔ نین کہاں ہے۔۔۔؟"" 

وہ چلتا روم سے باہر آیا تھا ۔ اور مطلوبہ نمبر نکالتے ہی وہ فوراً سے بنا سلام دعا کے اپنے کام کی بات پر آیا تھا۔۔ کہ وہ سنتی سٹپٹا گئی۔۔"

" کک کون ۔۔۔؟ کچھ ناں سوجھنے پر وہ بمشکل سے بات بناتے ہوئے بولی تھی اور اب وہ دوڑتے ارسلان کےکمرے کی جانب جا رہی تھی کہ اس سے مدد لے سکے۔۔۔۔۔"

ارسلان۔۔۔۔۔۔ وریام کی کال ہے اور وہ نیناں کا پوچھ رہا ہے کیا بتاؤں۔۔ وہ فون پر ہاتھ رکھتے ارسلان کے منہ کے آگے سے فائلز اٹھاتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولی۔۔۔۔

بولو کہ مجھے نہیں پتا۔۔۔ وہ اسے اپنے پاس بٹھاتے ہی فون اسپیکر پر ڈالتے بات کرنے کا بولنے لگا۔۔۔۔"

" میں وریام کاظمی بات کر رہا ہوں۔۔ نین کا ہزبینڈ۔۔ ابھی تو پتہ چل چکا ہو گا کہ میں کون ہوں۔۔ وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولتے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔"

 تمہارے پاس میرا نمبر کیسے آیا۔۔۔ اسے باتوں میں الجھانے کی خاطر وہ بولی کہ وہ سنتا سر کو نفی میں ہلا گیا۔۔۔"

" یہ تمہارا سر درد نہیں ، مجھے نین کا بتاؤ  کہ وہ کہاں ہے۔۔۔ اسکے بے تکے سوال پر وہ دبے دبے غصے سے بولا تھا

مم مجھے نہیں پتہ ، وہ کہاں ہے میری اس سے بات ہی نہیں ہوئی۔۔۔وہ فوراً سے ارسلان کے ہاتھ کو تھامتے بے بسی سے منہ بناتے ہوئے بولی کہ وہ اسکی حالت پر  مزے سے ہنسی  دبانے لگا۔۔۔ 

اوہ۔۔۔ کیا تمہیں واقعی نہیں پتہ کہ نین کہاں ہے۔۔ ؟'

کچھ سوچتے ہوئے وہ سر کو ہلاتے گاڑی راستے پر ٹرن کرتے ہوئے بولا کہ وہ ٹھٹکی اسکی بات پر۔۔۔۔۔"

کیا میں تمہارے فیانسی سے بات کر سکتا ہوں۔۔۔۔  چہرے پر آتے بالوں کو وہ ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے بولا کہ وہ سنتے فوراً سے موبائل اسپیکر سے ہٹاتے کان کو لگا گئی۔۔

جبکہ ارسلان نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔"

"کک کیوں تت تمہیں کیا بات کرنی ہے اس سے۔۔۔ " 

"وہ فورآ سے ایک جانب کونے میں کھڑی ہوتی ہوائیاں اڑے چہرے سے گردن موڑے خود کو گھورتے ارسلان کو دیکھ پھیکی سی ہنسی ہنسی۔۔۔۔"

"  کچھ حاص نہیں بس اسے بتانا ہے کہ تمہارا دل کس پر آیا ہے۔۔۔  اور وہ بھی نین نے تمہیں دھوکہ دے دیا تمہاری کوئی بات ہی نہیں بننے دی۔۔۔۔"

" وہ بول رہا تھا جبکہ فون اسکے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچا۔۔ وہ حیرت زدہ سی تھی کہ یہ سب تو اس نے نیناں سے کہا تھا مگر پھر یہ سب کچھ اسے کیسے پتہ۔۔۔۔"

"تت تمہیں کک کیسے پتہ۔۔۔ وہ ارسلان کو اشارے سے پرسکون ہونے کا کہتی خود اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔ کہ وریام سنتے سر جھٹک گیا۔۔ 

مجھے تو اور بھی بہت کچھ محلوم ہے مس ردا ۔۔۔ اوہ سوری  مجھ پر پانچ منٹ میں  مجھے دیکھتے ہی فدا ہونے والی سالی صاحبہ۔۔۔۔ "

" تو اب بتاؤ تم مجھے نین کا پتہ دو گی یا پھر میں اپنے طریقے سے نکالوں۔۔۔۔۔ گھر کے سامنے پہنچتے ہی وہ گاڑی ایک جانب روکتے ہاتھ سٹیرنگ پہ رکھتے بولا کہ ردا پل بھر میں سرخ ہوئی تھی اس چالاک بندے کی چالاکیوں پر۔۔۔ یہ تو دومنٹ میں اسے پورا گھما چکا تھا ۔۔ جانے نیناں کیسے اسکے ساتھ رہ پاتی تھی وہ سوچتے آنکھیں بند کرتی سر جھٹک گئی۔۔۔۔"

کیا تم خود سے اسے ڈھونڈ نہیں سکتے ، جو میرے پاس آئے ہو اور پورے دو ماہ بعد اسکی یاد آئی تمہیں۔۔۔ اب وہ بات بدلتے اسے چھیڑ رہی تھی۔۔"

" مجھے اتنا ٹائم ویسٹ کرنے کا کوئی شوق نہیں ، جب میں جانتا ہوں کہ تم اچھے سے جانتی ہو وہ کہاں ہے تو میں کیوں پاگلوں کی طرح اپنا وقت ضائع کروں اور دوسری بات دو ماہ وہ مجھ سے اپنی مرضی سے  دور رہی ہے اور یہ اس کی تا عمر کی سزا بنے گی۔۔ کہ وہ مجھ سے دو ماہ دور رہی۔۔۔ اڈریس میل کرو مجھے ، ورنہ اگلے دو منٹس میں اگلی کال ارسلان کو کروں گا۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی فون کاٹ گیا جبکہ ردا منہ کھولے حیرت سے بند موبائل کو گھورتی رہ گئی۔۔

" تم نے اچھا نہیں کیا نین اس لیلی کی باتوں میں آتے مجھے دو ماہ تک اذیت دی ہے مجھے خود سے دور رکھا ہے تو اب تم بھگتو گی اسکی سزا ۔۔۔ اس بار تمہیں تمہاری غلطی کی سزا ملے گی۔۔ 

ہر بار تمہیں معاف نہیں کر سکتا میں ، کیونکہ کر بار تم سے دور جانے کی سکت نہیں ہے مجھ میں ۔۔ "

میں آ رہا ہوں تمہارے پاس ۔۔۔ اب بچ کے دکھانا۔۔۔ پراسرار سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ سوچتا گاڑی سے نکلتے ہی اندر بڑھا تھا۔۔۔۔

نہیں آپ رہنے دیں ہمیں یہ نہیں چاہیے۔۔۔۔"

وہ اسکے ہاتھ سے پکڑتے بچوں کے کپڑے لیتے دوبارہ سے واپس رکھتے بولا۔۔۔"

" ارے کیوں نہیں لینے ہر بار آپکی مرضی نہیں چلے گی اشعر مجھے یہ ہی ایک جیسے دو سوٹ لینے ہیں اپنے بیٹوں کے لیے۔۔۔۔" رمشہ ضدی انداز میں کہتے دوبارہ سے اس چھوٹے سے بلیو سوفٹ سوٹ کو پکڑتے نرمی سے چھوتے ہوئے بولی تھی۔۔۔"

" نہیں ہم یہ لے رہیں اپنی بیٹیوں کے لیے اور بس اور کچھ نہیں۔۔۔ وہ بھی ضدی انداز میں ہاتھ میں پکڑی گلابی فراکس دوکاندار کے ہاتھوں میں پکڑاتے اسے پیک کرنے کا بولا ۔۔۔۔۔"

" ارے بھائی صاحب یاد رکھنا مجھے یہ سوٹ چاہیے۔۔۔ اور اسے ابھی پیک کر کے دو۔۔۔"۔ وہ گھورتے انگلی اٹھاتے دوکاندار کو وارن کرتے بولی ۔۔۔۔"

"رم۔۔۔ یار پلیز مجھے لینے دو یہ مجھے بہت زیادہ پسند ہے اور پچھلے دو ماہ سے ہی تو تم اور تمہاری وہ ماں دونوں ہی لڑکوں کی شاپنگ کر رہی ہو اگر میں اپنی بیٹی کے لیے لے لوں گا تو کیا قباحت ہے اس میں۔۔۔ اسے بالکل بھی اچھا نہیں تھا لگ رہا یوں اپنی اس پہلی بار پسند آئی فراک کو یوں چھوڑتے جانا۔۔۔۔"

"خدا کا خوف کریں آپ اشعر ، روز تو ڈیوٹی سے واپسی پر جو ڈھیروں بچیوں کی شاپنگ کر لاتے ہیں ، جانے کیا کیا خرید لائے ہیں آپ ۔۔ جوتے ، چوڑیاں اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔ اور اب آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔۔۔"

" ہمیں تو آپ نے دو بار سے زیادہ بازار ہی نہیں جانے دیا اور اب بھی دیکھیں خود ہی چیک اپ کے بہانے میرے ساتھ آ گئے ۔۔ کہا بھی تھا کہ مما کو لے آتی ہوں کم از کم ہم دونوں سکون سے شاپنگ تو کر لیتی مگر نہیں جی کون سمجھائے کمشنر اشعر کو۔۔۔۔ "

اب بس بہت ہو گیا ۔۔ مجھے لڑکوں کی ہی شاپنگ کرنی ہے۔۔۔ وہ حتمی انداز میں کہتے کاوئنٹر پر پڑے ڈھیروں فراکس کو اٹھاتے واپس سے رکھتے بولی تھی۔۔ 

یار ایک ہی تو پسند آیا ہے مجھے یہ تو لینے دو۔۔ اسکا غصے سے تپہ روپ دیکھ وہ منت پر اتر آیا تھا ۔۔ 

یہ سب دیکھیں آپ نے مجھے بس ایک ، بس ایک کہتے دس سوٹ لے لیے ہیں اور ابھی تک مجھے کچھ بھی ڈھنگ کا خریدنے نہیں دیا۔۔۔  رمشہ منہ کھولتے ناراضگی کا اظہار کرتے رخ پھیر گئی۔۔۔ کہ اشعر ہاتھ جیبوں میں ڈالے سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔۔"

" یار سوری جان ۔۔ تم لے لو جو بھی لینا ہے۔۔۔ وہ پیار سے اسے کندھوں سے تھامتے دوبارہ سے بے بی بوائے کپڑوں کی جانب لے گیا۔۔۔ کہ وہ گھورتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ اچھا یہ والا بھی لے لیں۔۔۔ وہ پانچ منٹ تک پرسکون سی شاپنگ کرتی ہر چیز کو چھوتے دیکھتی رہی یہ سب اس کے لیے ایک نیا احساس تھا ، ایک الگ سی خوشی تھی  اپنا آپ جیسے مکمل ہو رہا تھا ۔۔۔"

" اور اشعر کی محبت اور توجہ نے اسے پہلے سے بھی زیادہ نکھار دیا تھا کہ وہ ہر بات پر ضد کرنے لگی تھی اور جب تک وہ پوری ناں ہو پائے ناں خود سکون سے بیٹھتی تھی اور ناں ہی اشعر کو سکون لینے دیتی۔۔۔۔"

"  اشعر۔۔۔۔ وہ ہاتھ میں پکڑے سوٹ کو اشعر کو دکھانے لگی مگر اسے وہاں نا پاتے وہ چونکی ۔ اور مڑتے دو قدم پیچھے لیے ہی تھے کہ سامنے وہ بےبی گرل والی سائڈ پر کھڑا نظر آ گیا ۔۔۔ "

اشعر۔۔۔۔ وہ کچھ قدم اسکے پاس جاتے غصے سے دبے دبے لہجے میں بولی کہ پاس کھڑا دوکاندار جو ایک گھنٹے سے ان دونوں کی نوک جھوک سے لطف اندوز ہو رہا تھا اب اچانک سے اشعر پر حملہ ہوتے دیکھ قہقہہ  لگا اٹھا۔ اشعر نے چونکتے اپنے پاس کھڑے دوکاندار کو دیکھتے ایبرو اچکاتے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہے۔۔ کیوں دانت نکال رہے ہو ۔۔۔!!"

" دوکاندار اسکا اشارہ سمجھتے اسے آنکھوں سے ہی پیچھے دیکھنے کا بولنے لگا کہ وہ بھنوئیں اچکاتے پیچھے مڑا جہاں سامنے ہی اسکی بیوی پنک کلر کے بالکل سوفٹ سوٹ میں اپنے اوپر بڑی سے کالی چادر لپیٹے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اسکی غصے سے تپی رنگت اور پھولے گالوں کو دیکھتے زبان دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔"

" بے بی کیا ہوا۔۔۔!!' چہرے پر حیرانگی ، پریشانی ، سجائے وہ فوراً سے سارے کپڑوں کو دوبارہ سے ٹوکری میں پھینکتے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خود سے چند قدم دور رمشہ کے پاس پہنچا۔۔۔۔"

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے وہ قدرے تلغ جتاتے ہوئے لہجے میں بولی۔۔ کہ اشعر سٹپٹا گیا ۔۔ 

کک کچھ نہیں جان وہ تھانے سے کال آئی تھی بس وہی سن رہا تھا۔۔۔" 

وہ گھبراتے فوراً سے چھوٹ بول گیا ۔۔"

اچھا تو موبائل کدھر ہے۔۔۔ " اسکے حالی ہاتھوں کو دیکھ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔ موبائل ہاں موبائل یہ رہا موبائل۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔ وہ فوراً سے جیب سے فون نکالتے اسکے سامنے کر گیا۔۔ 

اگر آپ بات کر رہے تھے تو پھر آپکا فون آپکی جیب میں کیسے گیا ۔۔ کیا آپ اسے جیب میں رکھتے ہی بات کرتے ہیں۔۔۔"

نن نہیں مم میرا مطلب تھا کہ کال آنے والی ہے مجھے ایسا لگا۔۔ اسی لیے تو میں وہاں گیا تھا۔۔۔ وہ بات بگڑتے دیکھ ہڑبڑاتے جو منہ میں آتا بولتے چلا گیا۔۔۔۔۔" 

" اگر اب آپ نے کوئی ہوشیاری کی تو یاد رکھیں میں اج سے مما کے پاس سوؤں گی اور وہ بھی ایک دن یا پھر ہفتے کے لیے نہیں ، جب تک ڈیلیوری نہیں ہو جاتی تب تک۔۔۔ ویسے بھی روز رات کو آپ کو خواب آ جاتے ہیں ، اور اپنے ساتھ میری بھی نیند خراب کر دیتے ہیں آپ۔۔۔ اب بس بہت ہو گیا ۔۔ میں اس بار سچ میں ایسا ہی کروں گی۔۔۔ 

نو جان یہ کیا کہہ رہی ہو ، میں کہہ تو رہا ہوں کہ ہم آج نہیں بلکہ آج کے بعد ساری شاپنگ ہی بیٹوں کے لیے ہی کریں گے اوکے ڈن۔۔۔ اسے غصے میں فیصلہ لیتے دیکھ وہ فوراً سے اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے نرمی سے بولا ۔۔ جانتا تھا کہ آگے ہی اسے بہت تنگ کر رہا تھا وہ اجکل ، جو روز رات گئے تک اس کی بے تکی باتوں کو سنتی رہتی تھی ۔۔ اسکی اپنے بچوں کے لیے کی گئی ساری تیاری ، پلینگ جو وہ جانے دن میں کتنی بار بناتا تھا وہ اسے ہی تو سناتا تھا ،

اگر وہ سچ میں اس کی لڑاکا ساس کے پاس چلی جاتی تو وہ کیسے رہتا اپنے بچوں اور بیوی کے بغیر جبھی تو وہ سوچتے اسے پیار سے منانے لگا۔۔۔۔"

تو پھر ٹھیک ہے اب طے ہوا ، جب تک ہم آپ کی کی ساری شاپنگ جو آپ نے بے بی گرلز کے لیے کیں ہے اسکے برابر بےبی بوائے کی شاپنگ نہیں کرتے آپ کوئی بھی ہوشیاری نہیں کریں گے اور ساری کی ساری شاپنگ میرے ساتھ ہوتے مکمل کروائیں گے۔۔۔۔۔".

اوکے ڈن جو حکم میری جان کا۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے اسے ساتھ لگاتے پیار سے بولا کہ وہ سٹپٹاتے دو قدم پیچھے ہوتے اسے گھورنے لگی۔۔۔۔""

" جبکہ اشعر مسکراتے اسے دوبارہ سے شاپنگ میں مصروف دیکھ اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا جس نے اتنی حسین ہمسفر اسکے نصیب میں لکھی تھی۔۔ جو تھوڑی بہت کم عقل تھی اور شاید معصوم بھی اسی لیے تو آسانی سے ہر کسی پر بھروسہ کر لیتی تھی۔۔۔ مگر اب وہ مکمل طور پر سمجھدار تھی کیونکہ وہ اشعر کی محبت میں قید تھی ہر بری نظر، سے ہر برے انسان سے مخفوظ۔۔۔۔ جو اسکی خوشی کی خاطر ابھی تک ناچاہتے ہوئے بھی اپنے سسرال میں موجود تھا ۔۔۔۔ 

ورنہ اپنی اس چڑیل ساس کو تو وہ کبھی بھی اپنے بچوں کے اور بیوی کے قریب ناں آنے دے مگر ابھی اس کی مجبوری تھی یہ سب کرنا ، اور وہ سوچ چکا تھا کہ ڈیلیوری کے بعد وہ اپنے گھر میں شفٹ ہوں گے۔۔ اور اپنی ساس کے سائے سے اپنے بچوں کو بچائے گا۔۔۔۔ ورنہ اسے کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ اسکی ساس اسکے معصوم بچوں کو ورغلاتے اپنے باپ کے ہی خلاف کر دے۔۔۔ جبھی تو وہ فل پروف مستقبل کی پلاننگ بنا چکا تھا۔۔۔"

******🔥🔥🔥🔥🔥🔥*******

بی بی جی دودھ پی لو۔۔۔۔۔ کھانا بھی نہیں کھایا آپ نے ۔۔۔۔۔" ویسے ہی طبیعت خراب رہتی ہے یہ ناں ہو کے مزید بیمار پڑ جائیں۔۔۔ رشیدہ صبح سے اسکی بجھی بجھی سی سست روی کو نوٹ کر رہی تھی اور رات میں اس نے کھانے سے بھی انکار کر دیا تھا اسی لیے وہ اب سوچتے ہوئے دودھ گرم کر لائی تھی ""

" تاکہ اسے دودھ پلاتے وہ دوا بھی دے سکے۔۔۔۔"

مجھے نہیں پینا میرا دل نہیں کر رہا آپ پلیز  لے جائیں اسے۔۔۔۔ وہ فوراً سے منہ بناتے ہوئے بولی کہ رشیدہ نے افسوس سے گردن ہلاتے اسے تسبیح کرتے دیکھ گلاس میز پر رکھا۔۔۔۔"

بی بی اگر ایسا کرو گی تو کیسے چلے گا۔۔ میری بات مانو اور دودھ پی لو ۔ اسے اٹھتا دیکھ وہ فوراً سے گلاس پکڑنے گئی کہ ایک دم سے کچھ گرنے کی آواز پر وہ مڑتی پیچھے دیکھنے لگی ۔۔۔ جہاں وہ زمین بوس ہوئی پڑی تھی۔۔

بی بی ۔۔۔۔۔ رشیدہ گھبراتے ہوئے گلاس وہیں چھوڑتے نیناں کے بے ہوش وجود کے پاس ائی۔۔۔ اسکی کم چلتی نبض کو دیکھتے وہ گھبراتے سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔"

یا اللہ اب کیا کروں۔۔۔ مجھے تو نمبر بھی نہیں ملانا آتا۔۔۔۔ بی بی۔۔۔۔۔ وہ اسکا گال تھپکتے اسے ہوش دلانے لگی مگر وہ ویسے ہی بے ہوش پڑی تھی کہ رشیدہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔۔ وہ بھاگتے کمرے سے باہر نکلی کہ اپنے شوہر کو بتا سکے جو انیکسی میں تھا۔۔۔"

" آپ۔۔۔ آپ کون۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے سے آتے اسے دیکھ وہ حیرانگی سموئے رات کے اس پہر کسی انجان کو یوں دیکھ حیران ہوئی۔۔ پیچھے ہٹو ۔۔۔ ایک نظر اسے دیکھتا وہ اپنا بیگ وہیں اسکے پاس پھینکتے اندر بڑھا تھا کہ وہ بھی ڈرتے بیگ کو تھامے اندر آئی ۔۔۔۔۔"

کون ہیں آپ بتائیے۔۔۔۔۔"

اسے یوں ہر جگہ گھومتا دیکھ اب رشیدہ سچ میں گھبرا چکی تھی۔۔۔ کہیں کوئی چور ور تو نہیں تھا۔۔۔"

نین کہاں ہے۔۔۔ اسے ناں پاتے وہ ہاتھ کمر پر ٹکاتے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے بولا کہ رشیدہ چونکی۔۔۔۔ کون نیناں بی بی۔۔۔ وہ تصحیح کرتے بولی۔۔۔۔۔

ہاں وہی۔۔۔۔" وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولا ، 

وہ اندر اس جانب۔۔۔ سنو تو۔۔۔۔ وہ ابھی اشارہ ہی کر رہی تھی کہ اسکے اشارے کو دیکھتے وہ بھاگتا کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔

جہاں  وہ سامنے ہی دوپٹہ کا حجاب کیے بے سدھ بے ہوش پڑی تھی۔۔

"

نین۔۔ وہ چیختے اسے پکارتا گھٹنوں کے بل اسکے پاس بیٹھا تھا۔۔۔۔" 

نین کیا ہوا یار آنکھیں کھولو دیکھو میں ، وریام ۔۔ میں آیا ہوں یار ۔پلیز اوپن یور ائز۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں لیتے تڑپتے ہوئے بولا تھا بس نہیں بڑھا کہ ابھی جھنجھوڑتے اپنے سامنے  کھڑا کر دے۔۔۔۔۔"

آپ کون ہو ۔۔۔۔' اور بی بی کے کیا لگتے ہو۔۔۔۔۔" 

رشیدہ پریشان سی وریام کو دیکھتے بولی جو کہ نیاں کے بے ہوش پڑے وجود کو اٹھاتے ہوئے بیڈ پر لٹاتے  اسی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ 

شوہر ہوں اسکا آئی سمجھ اور اب جاؤ کسی ڈاکٹرنی کو بلاؤ۔۔۔ وہ کہتا غصے سے دھاڑا تھا کہ وہ ڈرتی جی صاحب کہتے باہر کو بڑھی۔۔۔۔ 

" نین پلیز یار آنکھیں کھولو ، یہ کیا ہے میں جب بھی سوچتا ہوں کہ اب تم مجھے مناؤ گی تم پہلے ہی روتھ جاتی ہو، دیکھو محسوس کرو ان دھڑکنوں کو تمہارے بنا یہ کیسے مدہم سی چل رہی ہیں۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح اسکے ایک ایک نقوش کو چھوتے محسوس کرتے ہوئے بولا رہا تھا۔۔۔ جبکہ وہ ہنوز  ہوش و حواس سے بے گانہ پڑی تھی۔۔۔۔۔"

صاحب ڈاکٹرنی آ گئی۔۔۔ ساتھ والے اپارٹمنٹ میں مقیم ڈاکٹر سحرش جو کہ رشیدہ کے شوہر کے بلانے پر دوڑتے آئیں تھی اب وریام کو یوں نیناں کے پاس بیٹھا دیکھ وہ چونکی تھی مگر پھر جلد ہی خود پر قابو ہایا۔

آپ سب باہر جائیں میں انکا چیک اپ کر لوں۔۔۔ وہ پاس آئیں تو وریام ہنوز اسکے ایک ہاتھ کو تھامے بیٹھا تھا کہ سحرش کو خود ہی سے کہنا پڑا باہر جانے کا۔۔۔۔"

"۔ آپ میرے سامنے ہی علاج کریں اور دیکھیں اسے بالکل ٹھیک کر دیں ، پلیز۔۔۔ منت بھرے لہجے میں وہ کہتا نیناں کے ہاتھ کو تھامتے لبوں سے لگا گیا۔۔۔۔ 

" کہ سحرش حیران ہوئی اسکے انداز پر ، مگر پھر اسکی حالت دیکھتے وہ سر جھٹکتے نیناں کی جانب متوجہ ہوئیں۔۔۔۔

کیا ہوا ہے ڈاکٹر نین ٹھیک تو ہے۔۔۔ ڈاکٹر کے پریشان چہرے کو دیکھتے وہ فوراً سے بیٹھتے دم کے ساتھ ایک انجانے خوف سے بولا ۔۔۔۔۔ "

" میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ انکی حالت ٹھیک نہیں ایک تو پہلے سے ہی کمزور ہیں اور اوپر سے پراپر ڈائٹ بھی نہیں لے رہیں اور ٹینشن اس قدر لے رہیں ہیں کہ اب اگر انہیں کچھ ہوا تو میں اس کی زمہ دار نہیں ہوں۔۔۔ آپ انکے شوہر ہیں تو ایسی حالت میں آپ کو انکا خیال رکھنا چاہیے ناکہ یوں چھوڑ جانا ،۔۔۔۔۔ " ڈاکٹر نے افسوس سے اسے دیکھتے سر افسوس سے ہلایا۔۔۔۔۔"

' کک کیا مطلب ۔۔۔ ڈاکٹر کیا ہوا ہے نین کو کیا کوئی بڑی بات ہے پلیز آپ مجھے بتائیں میری نین کو کیا ہوا۔۔۔ ایک دم سے فق چہرے کے ساتھ وہ ڈاکٹر کی بات سنتے تڑپتے انکے پاس گیا تھا۔۔۔ کہ وہ اسکی حیرانگی اور سوال پر شدید حیران ہوئی ۔۔۔۔

" آپ کی وائف ون منتھ پریگننٹ ہیں کیا آپ کو نہیں پتہ  ۔۔۔۔  وہ سوالیہ نظروں سے وریام کو دیکھتے پوچھنے لگیں۔۔

ایک منٹ کیا کہا آپ نے۔۔۔ کون پریگننٹ ہے۔۔۔ وہ حیرت سے کنگ پھر سے پوچھ بیٹھا اسے لگا کہ شاید سننے میں غلطی ہوئی ہے جبکہ ڈاکٹر تو اسکے انداز پر مشکوک سی اسے گھور رہیں تھی ۔۔۔"

میں آپ کی وائف کی بات کر رہی ہوں۔۔۔ " مس نیناں کی۔۔۔ ڈاکٹر دوبارہ سے جتاتے ہوئے بولی کہ وریام نے بے یقینی سے بیڈ ہر پڑی اس نازک سی جان کو دیکھا۔  جو اتنی بڑی بات اس سے چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔ دیکھیں یہ میڈیسز انکو دیں پراپرلی اسکے علاؤہ انکی ڈائٹ کا بھی زیادہ سے زیادہ حیال رکھیں ۔۔ "

اگر آپ چاہتے ہیں کہ نیناں اور آپکا بچہ ٹھیک رہیں تو آپ ابھی سے اسکی کئیر شروع کریں۔۔ " 

مگر ڈاکٹر کیا کوئی گھبرانے والی بات ہے ، پلیز مجھے سچ سچ بتا دیں ، میں سننا چاہتا ہوں سب۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے ایک نظر اسے دیکھ ڈاکٹر کو دیکھتے بولا۔۔۔۔

نہیں آپ پرسکون رہیں ۔۔ سٹارٹنگ میں یہ سب نارمل ہوتا ہے مگر آپ کو ابھی سے انکا حیال کرنا پڑے گا کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی سی غلطیاں ہی بعد میں سنگین مسئلہ بن جاتی ہیں۔۔ اور بس آپ اپنے پیار محبت سے انکی کئیر توجہ کریں تو وہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے اسے آرام سے سمجھاتے ہوئے بولی کہ وہ سنتا شکر بھرا سانس خارج کرتے خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔۔"

اب میں چلتی ہوں ، خیال رکھیے گا انکا ۔۔۔ وہ کہتی روم سے نکلی کہ وریام بڑھتے دروازہ بند کرتے واپس مڑتے اس کے پاس آیا تھا۔۔۔ 

" اتنی بڑی بات تم نے مجھ سے چھپائی نین ۔۔۔ اب اس کا حساب تو تمہیں دینا ہی ہو گا۔۔۔۔" اسکے پاس بیٹھتے وہ بغور اتنے دنوں کے بعد اسے دیکھنے لگا۔۔ جو پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوئی تھی اور آنکھوں کے نیچے پڑتے حلقے دیکھ وہ لب دانتوں تلے دباتے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔"

"  کہا تھا ناں کہ تم چاہے جہاں مرضی چلی جاؤ مگر میرے سائے سے دور نہیں جا پاؤ گی ۔۔۔۔  پورے دو ماہ جس طرح میں نے ایک ایک منٹ ایک ایک لمحہ تڑپتے گزارہ ہے سب کا حساب ہو گا۔۔۔ " اور میرے بے بی کو مجھ سے چھپائے رکھنے کی سزا الگ سے دوں گا۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اسکی بند آنکھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے پرسکون ہوتے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔ "

اسکا دل ابھی بھی اتنے ہی شور سے دھڑک رہا تھا کہ کہیں یہ سب خواب تو نہیں جو وہ اٹھے اور پل بھر میں ہی  ٹوٹ جائے مگر اور اب وہ اپنی نین سےدور نہیں جانا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ یہ سب حقیقت ہو، اسکی نین اسکے پاس موجود ہو ۔۔۔ "

آئی لو یو مور اینی تھنگ آف ورلڈ۔۔۔ اسکے گالوں پر کب رکھتے وہ اپنے اندر اترتی اسکی مہکتی خوشبو کو محسوس کرتے مسکرایا تھا دل سے ، تم پر صرف اور صرف میرا ، وریام کاظمی کا حق ہے۔۔ تم مجھ سے دور تو جا سکتی ہے۔ مگر مجھے خود سے الگ کبھی نہیں کر سکتی۔۔۔۔ "

اسکی ناک کو پیار سے چھوتے وہ مسکراتے اپنی ناک رگڑتے سرگوشی میں اسے اپنے ہونے کا یقین دلانے لگا۔۔۔۔ اب جتنا ٹرپایا ہے پہلے اس کا حساب ہو گا۔۔ مائی لٹل جان۔۔۔۔۔ اسکی تھوڑی پر لب رکھتے وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہوا تھا اور ایسے ہی بیڈ پر لیٹتے اسے اپنے مضبوط حصار میں لیتے سینے میں بھینجتے وہ ہونٹ اسکے سر پر رکھتے سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔"

*******🔥🔥🔥🔥🔥🔥*******

  " وہ گہری پرسکون نیند میں ہی اپنے چہرے پر پانی کے قطروں کو گرتا دیکھ منہ بناتے ہوئے آنکھیں مسلتے اٹھی ،۔  " 

کہ سامنے ہی اسے خود پر یوں جھکا دیکھ وہ دوبارہ سر تکیے پر ٹکائے ایسے ہی خود پر جھکے اسے دیکھنے لگی۔۔۔"

" کتنا خوبصورت خواب دیکھا تھا آج صبح ہی صبح ۔۔۔ وہ سوچتے ہلکا سا مسکرائی کہ اسکے گال میں پڑتے ڈمپل نے عرصے بعد اپنے دیدار کروائے تھے۔۔۔ کہ وہ آج پھر سے اتنے دنوں کے بعد ان ڈملپز کو دیکھتے اسکے ایک ایک نقش کو اپنی نظروں سے عقیدت دیکھ رہا یے۔۔۔"

" وہ چونکا تو تب جب اپنے چہرے پر اسکے نرم وملائم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا، وہ ہوش میں آتا ایک دم سے اس کی گہری کالی آنکھوں میں دیکھنے لگا، جن میں چھائی اداسی اور نمی وہ واضح محسوس کر سکتا تھا۔۔ اگر تو یہ خواب ہے تو میں چاہتی ہوں کہ کبھی بھی ختم ناں ہو۔۔ 

وہ دونوں ہاتھوں میں اسکے چہرے کو تھامے اسے خود پر یونہی جھکا دیکھ  رہی تھی بنا پلکیں جھپکائے کہ شاید اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے چھوڑ نا جائے۔۔۔ " 

" وریاممممم۔۔۔۔۔ ایک دم سے اسے پیچھے ہوتے اپنے سے دور جاتا دیکھ وہ تڑپتے اسے پکارتے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ جبکہ وہ بنا اثر لیے چہرے پر سرد تاثرات سجائے ۔۔ مرر کے سامنے گیا تھا اور اب بالوں میں برش کرتے اسکا مکمل دھیان اپنے پیچھے کھڑی اس نازک سی جان میں اٹکا ہوا تھا ، جو ڈیپ بلیو کلر کی شارٹ فراک پہنے ، دوپٹے سے عاجز ، کھلے کالے بال جو اسکے کندھوں پر بکھرتے اسکی کمر پر جھول رہے تھے ، دودھیا رنگت میں گھلی لالی وہ مبہوت سا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

اسکے بڑھتے قدموں کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ اب اسکی نظریں اسکے سرخ و سفید پاؤں پر تھیں ۔۔ وہ لاکھ اپنے دل کو ڈپٹنے کے باوجود بھی اپنی نظریں اس نرم و گداز وجود پر سے ناں ہٹا پایا تھا کہ وہ قدم قدم چلتی اسکے پیچھے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔"

اسکا بالوں کو برش کرتا ہاتھ فضا میں ہی تھما تھا وہ اس کے یوں خود کو دیکھنے پر یک ٹک اسکی کالی آنکھوں میں مرر سے اسکی جانب دیکھتے اب رخ موڑتا اسکے سامنے تھا ۔۔ کہ نیناں گہرا سانس لیتی اسکی خوشبو کو خود میں اتارنے لگی۔۔۔"

کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ ؟" اسے ایسے ہی خود کو دیکھتا پا کر وہ نا چاہتے ہوئے بھی پوچھتے نظریں پھیر گیا۔۔۔ "

آپ سچ میں ہیں۔۔۔" اپنا دایاں ہاتھ بڑھاتے وہ زرا سا اوپر ہوتی اسکے چہرے پر پھیرتے اسے محسوس کرنے لگی کہ وریام ٹھٹکا اسکی حرکت اسکے ہاتھ کے نازک سے لمس پر اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ،  "

تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔۔۔!!' ایک دم سے اسکے ہاتھ کو تھامتے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے گویا ہوا تھا کہ وہ ہنس پڑی۔۔۔۔

" میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوا تو اب کیا خاک ہو گا، سر جھٹکے وہ خود ہی  اپنی کہی بات کا مزاق اڑاتے ہوئے بولی۔۔۔"

" وہ سنتا اسکی بات پر لب بھینج گیا۔۔۔ " 

" اگر میں کہوں کہ میں سچ میں ہوں تو۔۔۔۔۔۔" اسکے تھامے ہاتھ وہ پیچھے لے جاتے اسکی کمر سے لگاتے اسے اپنے قریب کرتے سرگوشی میں بولا کہ نیناں نے حیرت و بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔۔"

"  میں جانتی ہوں کہ یہ خواب ہے جو مدت پوری ہوتے ہی حتم ہو جائے گا۔۔ تو کیوں آتے ہو تم میری  تکلیف بڑھانے ، کیا مار کر ہی دم لو گے۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ بھرائی آواز میں بولی تھی کہ وریام جبڑے بھینجتے خاموش ہو گیا اسکی بات پر۔۔۔۔۔ 

" اگر میں یہ یقین دلا دوں کہ میں سچ میں  ہوں تو۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اپنا گال اسکی دہکتے گال سے مس کرتے بولا کہ نیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔۔۔"

" مگر شرط یہ ہے کہ شکایت مت کرنا ۔۔ اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ ہلکا سا اسے کھینچتے جھکتے اسکے ہونٹوں کو اپنی پرحدت گرفت میں لے گیا مگر آج وہ خاموش کھڑی تھی بنا کسی مزاحمت کے وہ اسے اپنا خواب تصور کر رہی تھی مگر وریام جانتا تھا کہ اسے کیسے خوابوں سے کھینچتے ہوش کی دنیا میں لانا ہے جبھی تو وہ اپنی شدت میں اضافہ کرتے اسکی سانسوں کو روکنے لگا تھا ۔۔۔۔۔"

" کہ وہ اپنے رکتے سانس کے ساتھ تڑپتے اپنی آنکھوں کو کھولتے خود پر جھکے وریام کو دیکھنے لگی جو مدہوش سا آنکھیں بند کیے اسے محسوس کر رہا تھا ۔۔۔ اسکی سانسوں کو خود میں اتارتے وہ پرسکون ہو رہا تھا ، جبکہ دوسری جانب وہ ایک دم سے جیسے ہوش میں آئی تھی اسکی مہکتی خوشبو کو خود میں اترتا دیکھ وہ اپنے نازک ہاتھوں میں اسکی شرٹ کو دبوچتے اسے ہوش دلانے لگی۔۔۔ جو اسے ہوش میں لاتا اب خود مدہوش سا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔"

" تو کچھ ہوش آیا۔۔۔ اسے گھماتے ہوئے اپنے سینے سے اسکی پشت لگاتے وہ دوبارہ سے سرگوشی میں بولا تھا کہ اب وہ اسے دیکھنے سے گریز کر رہاتھا کہ اس کا دل جو بہک رہا تھا اسے قابو میں رکھنا اسکے بس سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ "

تت تم ووو وریامم۔۔۔۔ "

بامشکل سے اپنے سرخ ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ بولی تھی۔۔۔ 

افکورس وریام۔۔۔۔ " وہ ہاتھ اسکے پیٹ پر لے جاتے سرسراتے ہوئے لہجے میں بولا تھا کہ نیناں اسکے ہاتھ کے لمس کے ساتھ اپنی گردن پر اسکی ناک سے نکلتی گرم جھلسا دینے والی سانسوں کو اپنی گردن پر محسوس کرتی اپنا خلق تر کرنے لگی۔۔۔۔۔۔"

"۔ تت تم جج جاؤ یہ یہاں سے۔۔۔۔ وہ بمشکل سے اپنی آواز میں گھلتی نمی کو دھکیلتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ " 

" ایسے کیسے جاؤں جس کے لیے آیا ہوں اسے لے کر ہی جاؤں گا۔۔۔۔۔ وہ سنتا ایک پراسرار سی مسکراہٹ سجائے بولا کہ نیناں ٹھٹکی اسکے انداز اسکے لہجے پر ۔۔۔ وہ ایسا تو نہیں تھا کیا اسے یقین ہو چلا تھا کہ نیناں اسے سچ میں چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔ "

" اپنے بچے کو لینے آیا ہوں میں ۔۔۔۔ اور اسے لے کر ہی جاؤں گا۔۔۔ " ایک دم سے اسے گھماتے وہ سامنے کرتے بولا کہ وہ اچانک سے اسکے کھینچنے پر اپنے دونوں ہاتھ اسکے کندھوں پر رکھتی تیز تیز سانسیں لیتی خود کو پرسکون کرنے لگی۔۔۔۔ "

" کک کون سا بچہ۔۔۔ نظریں جھکائے وہ بمشکل سے بولی کہ وریام مسکراتے ہاتھ اسکی تھوڑی کے نیچے رکھتے اسکا چہرہ اوپر کر گیا۔۔۔ "

" تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلی آؤ گی اور مجھ سے میرے بچے کی بابت بھی چھپاؤ گی تو مجھے علم نہیں ہو گا۔۔۔ میں اپنے خون کی بات کر رہا ہوں ، اپنے بچے اپنی اولاد کی ، جو تم میں پرورش پا رہا ہے۔۔۔ سرسراتے ہوئے لہجے میں وہ مضبوطی سے اسکی تھوڑی کو دبوچتے ہوئے بولا کہ نیناں نے ڈرتے اپنی آنکھوں کو زور سے میچا۔۔۔ "

" وہ پریشان ہوئی تھی حقیقت میں کہ وریام کو آخر کیسے پتہ چلا ان سب کے بارے میں ۔۔۔ " 

تمہیں تو کبھی مجھ پر بھروسہ نہیں رہا ۔۔۔۔ کبھی تم فون کال کو سنتے اپنے پاس سے مجھ پر الزام لگاتی ہو، کبھی اس لیلی کی باتوں میں آتے مجھے چھوڑ کر آ گئی۔۔۔۔ ایک بار بھی نہیں سوچا کہ تمہارے اس قدم سے مجھ پر کیا بیتے گی۔۔۔ جانتی ہو تمہارا وہ خط پڑھتے مجھ پر کیا بیتی ، کیا کچھ نہیں سہا میں۔۔۔۔۔ مگر پھر جب لیلی سے مجھے معلوم پڑا تو میں نے سوچا شاید ڈر گئی ہو گی تم۔۔۔ اور اسی لیے میں سب کچھ بھولائے ہمیشہ کی طرح بے وقوف بنتا چلا آیا، مگر دیکھو یہاں ہر بھی دھوکہ ہی ملا مجھے۔۔۔۔۔"

وہ رندھی آواز میں کہتے ایک دم سے اپنے بالوں کو ہاتھوں کو جکڑتے اچانک سے ہنس پڑا۔۔۔۔"

" وہ ڈاکٹر وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنی بیوی کا خیال نہیں ، میں تمہارا خیال نہیں رکھ رہا ایسی حالت میں مجھے تمہارے پاس ہونا چاہیے مگر میں جانے کہاں تھا ۔۔۔"

مگر کیا کریں قصور اسکا بھی تو نہیں ، اسے کیا معلوم کہ وہ شخص جو جانے کب سے اپنے بے بی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ سنے گا کہ وہ باپ بننے والا ہے ، مگر یہاں پر ، یہاں پر تو وہ خود ہی نہیں جانتا تھا کہ وہ باپ بننے والا ہے۔۔ کیا تم نے ایک بار بھی میرا نہیں سوچا نین۔۔۔ کیا ایک بار بھی تمہارے دل میں یہ خیال نہ آیا کہ وریام کو بتا ہی دیتی ہوں آخر اسکا بھی تو حق ہے سب جاننے کا۔۔۔۔"

" نہ نن نہیں وریام مم میری بات تت تو سس سنو۔۔ وہ تڑپتے اسکے الزام کو سنتے اسکی جانب بڑھی تھی کہ وہ ہاتھ سے اسے دور رہنے کا اشارہ کرنے لگا۔۔۔ اب اس دل میں کوئی بھی محبت کوئی چاہت باقی نہیں رہی ، مجھے صرف اپنے بچے سے غرض ہے اب اس دل پر تمہارے یہ آنسو یہ تڑپنا کام نہیں کرتا ۔۔۔۔ صرف آٹھ ماہ آٹھ ماہ تک میرے بے بی کا خیال رکھنا ہو گا اور اسکے بعد میں اسے لے جاؤں گا اپنے ساتھ۔۔۔۔ وہ غصے سے سرخ ہوتی اپنی بھوری آنکھوں سے اسے دیکھتے ایک ایک لفظ چبا چبا کے بولا تھا کہ نیناں نے تڑپتے اس ستمگر کو دیکھا۔۔۔

" جو اتنی بڑی سزا سنا رہا تھا 

اسے۔۔۔۔۔

دد دیکھو وریام پہ پلیز مم مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ میں نے غلط کیا ہے میں جانتی ہوں مگر پلیز میرے بچے کو مجھ سے الگ مت کرنا۔۔۔ "" وہ روتی ہچکیوں میں کہتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔۔۔۔ " 

اگر تمہاری وجہ سے میرے بے بی کو کچھ بھی ہوا تو یاد رکھنا ابھی تک تم نے میرا پیار دیکھا ہے۔۔۔۔ مگر مجھے مجبور مت کرنا کہ اپنا دوسرا روپ تم پر آشکار کروں۔۔۔۔ دو منٹ میں اپنا فیس واش کرو اور یہ سارا ناشتہ فنش کرو اگر کچھ بھی بچا نظر آیا تو مجھ سے برا کوئی ناں ہو گا۔۔ اسکے آنسو کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے وہ سخت لہجے میں وارن کرتا باہر نکلا کہ نیناں لب دبائے اپنی ہچکی روکتے اسکی پشت کو دیکھنے لگی۔۔۔۔"

******🔥🔥🔥🔥🔥🔥******

" بی بی جی کھانا کھا لیں صاحب نے سختی سے بولا ہے۔۔ کہ ان کے آنے سے پہلے آپ کھانا حتم کر لیں۔۔ "

 " آنٹی آپ لے جائیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولتی اپنی جگہ سے اٹھتے باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔"

" بی بی باہر مت جائیں موسم سرد ہو رہا ہے صاحب نے منع کیا ہے۔۔۔۔" اسے باہر جاتا دیکھ رشیدہ فوراً سے اسکا راستہ روکتے ہوئے بولی کہ وہ غصے سے مڑتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔"

کیا ہر بات پر صاحب، صاحب۔۔۔۔۔۔ میری اپنی بھی کوئی مرضی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ وہ منہ بناتے کہتے ایسے ہی پاؤ پٹھکتے ہوئے اندر اپنے کمرے کی جانب گئی تھی۔۔۔ ایک ہفتہ ہو چکا تھا وریام کو آئے ہوئے مگر اسکا رویہ آج بھی ویسا ہی تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔ وہ اسکی مکمل کئیر کرتا تھا ہر ایک چیز کا دھیان رکھتا تھا ، مگر اب پہلے کے جیسے بولنا ، باتیں کرنا ، اس سے پیار کرنا جیسے یہ سب وہ بھول چکا تھا۔۔۔ " 

" وہ کتنی بار اسے منانے کی کوشش کر چکی تھی مگر شاید وہ طے کر چکا تھا کہ اب وہ اسکی ایک بھی ناں مانے گا۔۔۔ وہ اداس سی اسکے رویے کا سوچتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی کہ اچانک سے اسکے دماغ میں جھناکا ہوا تھا۔۔۔۔ ردا نے تو بات ہی نہیں کی تھی اس سے اور ویسے بھی وہ اپنے اور وریام  کے معاملے میں کسی تیسرے کی مدد نہیں لینا چاہتی تھی ۔۔۔ 

مسکراتے ایک نظر ٹائم کو دیکھتے وہ فوراً سے کچن کی جانب گئی۔۔۔ آنٹی کھانا دیں مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ وہ گھڑی پر وقت دیکھتے فوراً سے بولی کہ رشیدہ نے چونکتے اسے دیکھا۔۔ جو آج اسکے کہنے پر ہی مانتے سات بجے ہی کھانا کھانے کو مان چکی تھی۔۔۔"

جی بی ںی۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی کھانا اسکے سامنے میز پر لگا گئی۔۔ کہ وہ مسکراتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ اچھا آنٹی ۔۔ آج تو آپ کو جلدی جانا تھا ناں آپ جائیں میں باقی کا کام سنبھال لوں گی۔۔۔ وہ جان بوجھ کر دودھ کے گلاس کو منہ سے لگاتے ہوئے بولی کہ رشیدہ اسے دودھ اتنے آرام سے پیتا دیکھ اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔ 

سچی بی بی میں جاؤں۔۔۔۔ وہ اسکے پاس آتے مسکراتے ہوئے بولی کہ نیناں نے مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلاتے اجازت دی ۔ وہ خوشی سے اسے شکریہ کہتے باہر نکلی کہ اسے جاتا دیکھ نیناں فوراً سے جگہ سے اٹھی تھی اور دوڑتے دروازے کو لاک کیا۔۔۔

اب اسکا رخ کچن کی جانب تھا۔  آج تو وہ کسی بھی حال میں اسے منا کر رہے گی یہ تو طہ تھا۔۔۔۔۔ "

وہ کاوئنڑسے اپنا مطلوبہ سامان  نکالتے سامنے رکھتے اسے دیکھنے لگی کہ پھر کچھ سوچتے وہ سٹور روم کی جانب گئی اور تقریبا دس منٹ کی محنت کے بعد اسکے ہاتھ کچھ کارامد سامان لگ چکا تھا جسے دیکھتے ہی وہ اب پرسکون سی کمرے میں رکھتے اب دوبارہ سے کچن میں آتے اپنے کام میں جت گئی۔۔۔۔۔

آج تو وہ سے منا کر ہی رہے گی۔۔۔۔ وہ سوچتے اپنی سوچ پر مسکراتے ایک شکر بھرا سانس خارج کرتے تیاری میں مصروف ہوئی تھی۔۔۔  کیک تیار کرتے ہی وہ ایک نظر گھڑی کو دیکھنے لگی جہاں رات کے آٹھ بجنے ہی والے تھے۔۔۔ وہ جلدی سے ہاتھ صاف کرتے کچن کو سمیٹتے اب روم کی جانب گئی تھی اور اب اس سامان کو دیکھتے وہ سوچنے لگی کہ اس  سارے سامان کو وہ کیسے اور کس طرح سے استعمال میں لا سکتی تھی۔۔'"

تقریباً آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد وہ تھوڑی بہت مطمئن ہوئی  تھی اور اب وہ ایک نظر خود کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ 

پھر کچھ سوچتے وہ وارڈروب کی جانب بڑھی تھی اور اپنے پاس موجود سب کپڑوں کو دیکھتے وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔۔

ایک ریڈ کلر کی پاؤں کو چھوتی خوبصورت سی میکسی جسکے گلے اور دامن پر گولڈن اور ریڈ نگینوں سے  خوبصورت سی کڑھائی کی گئی تھی وہ مسکراتے اسے لیتے چینج کرنے  چلی گئی مگر باہر نکلتے ہی خود کو آئینے میں دیکھتے وہ منہ بناتے رہ گئی کیونکہ میسکی فل پاؤں کو چھو رہی تھی ، اور اس نے پہلے پہنی بھی نہیں تھی شاید کبھی اسے اندازہ نہیں تھا ، مگر پھر وہ سوچتے اپنی پینسل ہیل جوتے کو نکالتے پاؤں میں پہنتے اب بالوں کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔ بالوں کو ڈرائی کرتے ہی وہ ہلکا سا پن کرتے باقی کے سارے بالوں کو کھولتے کندھوں پر پھیلاتے اب کاجل اٹھاتے اسے گھورنے لگی۔۔۔ مگر پھر خود میں ہمت پیدا کرتے وہ جلدی سے اسے لگاتے ساتھ ہی اپنی ریڈ لپ اسٹک کو ہونٹوں پر لگاتے ہی اپنا مکمل جائزہ لینے لگی۔۔۔ 

وہ ٹھٹھکتے خود کو آئینے میں دیکھنے لگی مخض تھوڑی سی تیاری میں  ہی وہ بےتخاشہ نکھری اور خوبصورت دکھ رہی تھی۔۔۔ وہ مسکراتے وریام کے کلون کو دیکھنے لگی اور اگلے ہی پل وہ اسے اٹھاتے خود پر اچھے سے اسپرے کرتے وریام کی نظروں کا سوچتے ہی شرم سے سرخ پڑتے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔"

" اسے یاد تھا وریام نے اپنی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اسے اپنے لیے تیار دیکھنا چاہتا تھا اور اب وہ اسکے رہ ایکشن کا سوچتے ہی لال ٹماٹر ہو چلی تھی اتنی تیاری تو وہ کر چکی تھی مگر اب اسکے سامنے جانے ، اسکی نظروں کا سوچتے ہی وہ بری طرح سے نروس ہو رہی تھی اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے تر ہو رہی تھی اور ماتھے پر چمکتے ننھے ننھے قطروں کو اچھے سے ٹشو سے صاف کرتے اپنا دوپٹہ شانوں پر سیٹ کرتی ، لمبے لمبے سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے لگی کہ معا بار سے ڈور کھلنے کی آواز پر اسکا دل جیسے اچھلتے حلق میں آیا تھا۔۔۔ " وہ بھاگتی کمرے سے نکلتے ساتھ والے روم میں بند ہوئی تھی ۔۔۔۔"

وہ دروازے کو بند دیکھ چونکا ضرور مگر پھر سر جھٹکتے وہ کوٹ اتارتے صوفے پر پھینکتا کچن میں گیا مگر وہاں بھی رشیدہ کو ناں دیکھ وہ خود سے ہی کھانا گرم کرتے ہلکا پھلکا سا کھاتے ہی اٹھا تھا ، اب اسکا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا ، اور وہ جانتا تھا کہ نیناں ابھی تک سو رہی ہو گی اسی لیے وہ سوچتے افسوس کرتے سر کو نفی میں ہلاتا اپنے کف کے بٹن کھولتے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ 

مگر روم میں جاتے ہی ٹھٹھکا تھا اسے خالی دیکھ۔۔۔ وہ ایک نظر پورے روم پر دوڑاتے فضا میں بکھری خوشبو کو محسوس کرتے ، آگے بڑھا تھا اور اپنا سوٹ نکالتے شاور لینے چلا گیا۔۔۔

نیناں دس ، منٹ تک یونہی دروازے کے پیچھے کھڑی اسکا انتظار کرتی رہی مگر اسکو ناں آتا دیکھ وہ دکھ اور غصے سے ہونٹ ہلاتے  جوتے اتارنے کو جھکی کہ اچانک سے ڈور کھلنے کی آواز پر وہ ایک دم سی سیدھی ہوئی اور دم سادھے دیوار کے ساتھ لگے کھڑی ہو گئی۔۔۔ 

جبکہ وریام اندھیرے میں بھی اسے محسوس کرتے دروازہ بند کرتا اپنے موبائل کی لائٹ سے چلتا بورڈ تک گیا اور سوئچ آن کرتے ہی اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی تھی۔۔۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے کمرے کو دیکھنے لگا۔۔۔  اور نظریں سامنے ہی دیوار پر لگے اس پیپر ہر ٹہری جس پر واضح بڑے بڑے الفاظ میں لکھا گیا تھا۔  (sorry papa to be.....)۔   وہ پڑھتے ساتھ ہی سر جھٹکتے مسکرایا اور اپنی بےتاب سی نظروں کو آگے پیچھے گھماتے وہ اسے تلاشنے لگا۔۔۔ کہ نظریں دروازے کے پیچھے دبکی چھپی اپنی آنکھوں کو بند کیے کھڑی نین پر پڑی وہ مسکراتے ہونٹ دانتوں تلے دباتے اسکے پاس گیا ۔۔۔۔"

" پوچھ سکتا ہوں کہ یہ سب کس لیے۔۔۔۔ اپنے لہجے کو سنجیدہ بناتے وہ سرد آواز میں بولا کہ نیناں نے ڈرتے اپنی آنکھیں کھولتے اسے دیکھا اور اسے دیکھتے ہی فورا سے گردن ناں میں ہلائی۔۔۔۔۔۔"

کیوں کیوں نہیں پوچھ سکتا۔۔۔۔۔ وہ اسکی گردن کو ناں میں ہلتا دیکھ اپنی شیو کو انگوٹھے سے مسلتے تشویش کے سے انداز میں بولا۔۔۔۔"

" مم مم مجھے دد ڈر لگ رہا بب بتاتے۔۔۔ بمشکل سے اپنے خشک حلق کو تر کرتے وہ بولتے ہی چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی کہ وریام اسکی حالت پر اور اس طرح سے سجے سنورے روہ کو دیکھ باغ باغ ہو گیا۔۔ دل تو اسکا ناچنے کو کر رہا تھا مگر ابھی وہ تھوڑا اور ستانے کے موڈ میں تھا۔۔۔۔۔"

" بتاؤ یہ کیک ، یہ سجاوٹ ان سب کا میں کیا مطلب سمجھوں۔۔ اسکے سرد پڑتے ہاتھوں کو تھامتے وہ اسے لیے روم کے سینٹر میں آیا جہاں پر پھولوں کے بیچ میں کیک سجایا گیا تھا۔۔۔ "

" وہ اوپر لکھا ہے ناں اس لیے۔۔۔ وہ فوراً سے اوپر کی جانب اشارہ کرتے بولی کہ وہ سمجھتا سر کو ہاں میں ہلا گیا۔۔۔ 

" مگر میں معاف نہیں کر رہا ۔۔۔۔ وہ منہ بناتے نارمل سے انداز میں کہتے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال گیا۔۔۔

معاف کر دیں وریام پلیز آج کے بعد کبھی بھی ایسی ویسی کوئی حرکت نہیں کروں گی۔۔ آپ کی ہر بات مانوں گی اور آج کے بعد تم نہیں آپ کہوں گی۔۔ اور اشعر کو بھی بھائی بولوں گی۔۔۔ اور آپ جو کہیں گے وہ سب مانوں گی۔۔۔ اظہر انکل کو بھی انکل بولوں گی پاپا نہیں کہوں گی ۔۔  " وہ ایک دم سے اسکے انکار کو سنتے اسکے ساتھ لگتے روتے ہوئے ہچکیوں میں بولنے لگی کہ وہ جو ڈرتے اسکے رونے پر بوکھلایا تھا اب اسکی باتیں سنتا  سرشاری سے مسکرایا۔۔۔۔۔ بس ایک اور بات مان لو پھر راضی ہو جاؤں گا۔۔۔ وہ لب دباتے ہوئے بولتے اسکے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھتے بولا کہ وہ ناک اسکی شرٹ سے رگڑتے پوچھ بیٹھی۔۔ کونسی بات۔۔۔۔۔۔؟؟"

"یہی کہ اگر ہماری بیٹی ہوئی تو ہمارے پاس ہی رہے گی مجھے کوئی اعتراض نہیں اور اگر کوئی شودا ہوا تو وہ اپنی دادی دادا کے پاس رہے گا۔۔ ڈن۔۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی اسکے سر پر ہونٹ رکھ گیا۔۔ 

کہ نیناں چونکی اسکے مطالبے پر۔۔۔۔ ایک منٹ آپ شودا (شوخا) کسے کہہ رہے ہیں ۔ وہ سر اسکے سینے سے نکالتے حیرانگی سے آنکھیں چھوٹی کرتے بولی۔۔۔۔"

میری جان جو ہوگا اسے بولا تم یہ سب چھوڑو اور مجھے یہ بتاؤ کہ یہ اتنی تیاری، کیا میرے لیے کی ہے۔۔۔۔۔۔"

وہ مسرور سا ہوتے اسکے بالوں میں چہرے چھپائے مدہوش سا بولا کہ نیناں نے ڈرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچا۔۔۔ ۔۔"

" میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہو کہ تم بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتی ہو جتنی کہ یہ دل تم سے کرتا ہے۔۔۔۔"

" وہ رفتہ رفتہ اسکے کان میں سرگوشیاں کرتے اسکی نازک جان پر بن آیا تھا۔۔۔ کہ وہ منہ چھپاتے اسکے سینے میں دبکی رہی۔۔۔"

" سنو۔۔۔۔ بول دو ۔۔۔۔۔ وہ ناجانے کیوں اسکے منہ سے یہ اعتراف سننا چاہتا تھا کہ اسکے دل میں سکون سا اتر آئے۔۔۔ 

جبکہ وہ ہلکا سا چہرہ اٹھاتے اسکی التجا کرتی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔ ووو وہ کک کیک۔۔۔۔ اسے کیک کی جانب اشارہ کرتے وہ دھیان بھٹکانے لگی کہ وہ اسکی چالاکی سمجھتے سر ہلا گیا ۔۔۔۔"

چلو آؤ۔۔۔۔۔ اسے ہاتھ سے پکڑتے وہ کیک کے پاس لے گیا اور اسکے ہاتھ کو تھامتے کیک کاٹتے ہی اسے کھلانے لگا۔۔۔ وہ جھجھکتے کیک اٹھاتے اسکے سامنے کر گئی کہ وریام نے مسکراتے اسکے ہاتھ سے کیک کھاتے اسکے انگلی کو دانتوں تلے دبایا ، اسکی حرکت پر ایک سنسناہٹ سی اسکی پورے جسم میں گردش کر گئی۔۔۔۔ کہ وہ ہاتھ کھنچتے ایک دم سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔_

" اب ایک بار بول دو۔۔۔ اسے پیچھے کھسکتا دیکھ وہ فوراً سے ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اپنے نزدیک کرتے بولا کہ وہ ڈرتے آنکھیں میچ گئی۔۔۔"

" آ آ آئی لل لو یہ یو۔۔۔۔۔ وہ ہمت کرتی اسکی ناراضگی کا حیال کرتے بشمکل سے آنکھیں بند کیے بولی تھی کہ وہ سنتا ایک دم سے اسے خود میں بھینج گیا۔۔۔ آئی لو یو ٹو 

۔ مائی نین۔۔۔۔ " 

وریام مم مجھے نن نیند آئی ہے۔۔۔" وہ اسے بانہوں میں بھرتے بیڈ کی جانب بڑھا تھا کہ وہ ڈرتے ایک دم سے سپید پڑتی رنگت کے ساتھ بولی۔۔۔۔ "

" ابھی تو تمہاری معافی پکی نہیں ہوئی ، کیا چاہتی ہو معافی کینسل کر دوں وہ قدم روکتے ایک دم سے اسے دیکھتے سنجیدگی سے بولا ۔۔۔  کہ وہ سنتی فوراً سے گردن ناں میں ہلا گئی۔۔۔۔

تو پھر اچھی لڑکیوں کی طرح خاموش ہو جاؤ اور خود کو میرے سپرد کر دو۔۔۔۔  اسے بیڈ پر لٹاتے وہ محبت سے اسکے نقوش کو چھوتے پیار سے بولا کہ نیناں نے ہاتھ اسکے سینے پر رکھتے اسے خود سے دور کرنا چاہا ، جو کہ مسکراتا اسکے ہاتھوں کو تھامتے اپنی گردن میں لپیٹتے اسے خود میں سمونے پر مجبور کر گیا۔۔ کہ وہ  خود بھی اسکی قربت میں پرسکون سی اپنا آپ اسکے سپرد کر گئی ۔۔۔ "

******🔥🔥🔥🔥🔥🔥******

******* آٹھ ماہ بعد۔۔۔*****

وریام پریشان ناں ہو سب ٹھیک ہو گا۔۔۔ رافع اسے کب سے یونہی چکر کاٹتے اپنے ہاتھوں کو مڑورتے دیکھ چلتا اسکے پاس آتے بولا تھا۔۔ کہ وہ پریشانی سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔۔۔

یار وہ ٹھیک تو ہو گی ناں ۔۔۔ ایک خوف تھا اسکے دل میں اگر اسے کچھ ہو جاتا تو وہ کیسے اسکے بغیر رہ پاتا ان آٹھ مہینوں میں ایک ایک لمحہ وہ اسکے پاس رہا تھا اسکی چھوٹی بڑی ہر چیز کا خیال رکھا تھا۔۔ ،۔  "

"ہر ضد ، ہر فرمائش پر وہ مسکراتے ہوئے بنا وقت دیکھے دوڑ پڑتا تھا کہ اسکی نین نے اس سے فرمائش کی تھی۔۔ اور اسکے ساتھ ساتھ شمائلہ نے بھی تو اسکو ہاتھوں کا چھالا بنا رکھا تھا۔۔۔  اور رضا تو ہر وقت وریام کے کانوں میں پھونکتے رہتے تھے کہ انکی جائیداد کا اصلی حقدار انکا وارث ، آنے والا ہے جو ایک ایک چیز کا حساب لے گا۔۔۔۔"

اور وہ مسکراتے کہتا تھا کہ دیکھ لیں گے  کیا ہوتا ہے۔۔۔۔"

یار میں ٹھیک ہوں  ، توں فدک کو گھر لے جا وہ بھی رات سے ادھر ہی ہے اسکی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ فدک کی جانب دیکھتے ہوئے بولا تھا جو خود ماں بننے والی تھی ،""

"مگر یار تجھے چھوڑ کر ایسے کیسے۔۔۔۔ رافع کو بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر یہ بھی ٹھیک تھا کہ فدک کو اس حالت میں آرام کی ضرورت تھی۔

میری فکر مت کر اللہ ہے میرے ساتھ توں میری بہن کو لے  جا اور اچھے سے دھیان رکھنا۔۔۔۔اسکا کندھا تھپکتے ہوئے وہ مان اور پیار سے بولا کہ وہ مسکراتے اسکے گلے ملتے اسے پرسکون رہنے کا بولتے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔"

" مسٹر کاظمی۔۔۔۔۔۔ اندر سے آتی ڈاکٹر کی آواز پر وہ چونکتے ہوئے پیچھے مڑا ، دل زوروں سے دھک دھک کر رہا تھا ایسے جیسے ابھی پسلیاں توڑتے نکل آئے گا۔۔۔۔"

" گونگریچولیشن۔۔۔۔۔ بیٹا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔" وہ سنتا ایک دم سے اپنے پاس کھڑے ڈیڈ کے گلے ملا ۔۔

۔۔

شمائلہ نے مسکراتے اپنی تسبیح کو چومتے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔۔۔۔ "

ڈاکٹر میری وائف۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اسکا پوچھ بیٹھا ۔۔۔ جس کی ہر تکلیف پر وہ بھی اسکے ساتھ جانے کتنی راتیں جاگا تھا۔۔۔ اسے روتے ہوئے سے ہنسایا تھا ، اور اب وہ وریام سے زیادہ حساس ہو گئی وریام کے لیے۔۔ کہ اسے ہر وقت اپنے پاس چاہتی تھی وہ۔۔۔۔"

وہ بھی ٹھیک ہیں آپ تھوڑی دیر میں مل سکتے ہیں ان سے ہم انہیں روم میں شفٹ کر لیں۔۔۔ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے بولتی اپنے کیبن کی جاب بڑھی۔۔۔۔

موم سنا آپ نے میں پاپا بن گیا اور آپ دادی۔۔۔۔" موم سیرئیسلی کتنی بڑی بات ہے ناں ۔۔۔۔ وہ خوشی سے اپنی موم کو گود میں اٹھاتے چکر کاٹتے بولا کہ رضا نے آگے بڑھتے اس بازوؤں سے تھامتے روکا۔۔۔ 

اللہ خیر بیٹا میری نازک سی بیوی ہے اور ایک ہی ہے۔۔۔ کیوں اسے مارنا چاہتے ہو اسکے ہاتھوں سے شمائلہ کو لیتے وہ ساتھ لگاتے انکا چکراتا سر تھپکتے بولے کہ وریام قہقہہ لگاتے ہنس پڑا۔۔۔۔۔۔

اشعرررررررر۔۔۔۔۔۔۔ "

کک کیا ہوا ۔۔ ررر رم مم میری جان کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔ وہ ہڑبڑاتے دوڑتا اپنے ہاتھوں میں فیڈر تھامتے روم میں آیا تو اسے سامنے ہی روتا دیکھ وہ ہڑبڑا گیا ۔۔۔۔"

سنبھالو ان دونوں شیطانوں کو۔۔۔ کب سے بیں بیں کرتے روئے جا رہے ہیں۔۔ میرے سر میں درد لگا دی ہے۔۔۔" وہ غصے سے اپنے دائیں بائیں لیٹے خود کو گھورتے اپنے گول مٹول بیٹوں کو دیکھتے اشعر کی جانب دیکھتے ہوئے بولی کہ وہ ہڑبڑا گیا۔۔۔۔

جان یہ دیکھو فیڈر بنا لایا ہوں میں انکے بس انکے منہ ڈالنے ہیں۔۔ وہ دانت دکھاتے رمشہ کو تسلی دیتا اپنے بیٹوں کے سامنے فیڈر کر گیا کہ فیڈر کو دیکھتے ہی وہ دونوں گلا پھاڑتے زور زور سے رونے لگے۔۔۔ کہ انکو دوبارہ سے روتا دیکھ اب رمشہ نے بھی رونا شروع کر دیا۔۔۔

رم جان ۔۔ پلیز چپ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ وہ گڑبڑاتے اب اسے یوں زاروقطار روتے دیکھ بولا تھا کہ رمشہ نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔

یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا ہے سمجھے۔۔ اب سنبھالو ان دونوں شیطانوں کو ۔۔ رات بھی باجا بجائے رکھتے ہیں اور اب بھی رو رو کے میرے کان کھا دیے ہیں دونوں نے۔۔۔۔ وہ غصے سے اٹھتی بڑبڑاتے کمرے سے نکلی کہ اشعر اسکی پشت کو دیکھتے ایک گہرا سانس خارج اب اپنے سامنے لیٹے اپنے شیطانوں کی جانب متوجہ تھا جو اسے دیکھتے کھلکھلا رہے تھے۔۔۔۔۔

کیوں تنگ کرتے ہو بدمعاشوں اپنے ماں کو۔۔۔ میری ایک ہی ہے۔۔ یار کچھ تو خیال کرو۔۔ وہ رازداری سے جھکتے انکے پاس ہوتے بولا کہ وہ دونوں جو اپنی گول گول بڑی بڑی سی آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہے تھے اسکی بات سنتے ہی پھر سے کھلکھلا اٹھے۔۔۔ جبکہ انکی مسکراہٹ ہر وہ بھی مسکراتا جھکتا دونوں کو اپنے بازوؤں میں اٹھاتا باہر کو بڑھا۔۔۔۔ چلو اب تمہاری ماں کو بھی مناتے ہیں۔۔۔ اب نو مستی اوکے۔۔۔ وہ باری باری گردن گھماتے اپنے تین ماہ کے شیطانوں کو دیکھتے بولا کہ وہ منہ سے آوازیں نکالتے کھلکھلا اٹھے ۔۔۔۔"

ڈاکٹر یہ میرا بے بی ہو ہی نہیں سکتا آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ نیناں کے ہوش میں آتے ہی وہ اسکے ساتھ ہی آپ ہی بے بی کو دیکھنے کا بولتے اب اپنے بے بی کو لانے کا بولنے لگا کہ نیناں نے دیکھتے ہی اپنے اس قدر پیارے بیٹے کو چومنا شروع کر دیا جبکہ وریام اسے ایسے ہی کھڑا گھورنے لگا۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ اس سے گر ناں جائے۔۔۔ مگر اسے دیکھتے ہی وہ فوراً سے انکار کر گیا اپنا بیٹا ماننے سے۔ ۔۔۔ کہ نیناں سمیت سب نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔"

" سر یہ آپ کا ہی بے بی ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھتے اسے یقین دلایا کہ شمائلہ اور رضا بھی چونکے اسکے انداز پر۔۔ جبکہ وہ ڈاکٹر کے بتانے پر نیناں کی گود میں موجود اپنے اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھنے لگا۔۔۔

" جو بالکل اسکے جیسے دکھ رہا تھا وہی بھورے بال وہی بھوری شرارتی مسکراتی آنکھیں مگر اسے جس چیز کا دھچکہ لگا تھا وہ اسکے گالوں میں ابھرتے ڈمپل تھے۔۔۔ جسے دیکھتے ہی اسکے اندر جیلسی جیسی فیلنگز نمودار ہونے لگی۔۔۔ 

کیسے کوئی اسکی نین کے ڈمپل لے سکتا تھا چاہے وہ اسکا بیٹا ہی کیوں ناں ہو ۔۔ "

وریام آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ ہمارا ہی بیٹا ہے۔۔ اور میں جانتی ہوں۔۔ نیناں اسے دیکھ کہتی مسکراتے اپنے لاڈلے کے گالوں کو چومنے لگی کہ وہ کھلکھلا اٹھا نیناں کے چھونے پر۔۔۔ بھائی ثابت ہوا کہ یہ وریام کا ہی بیٹا ہے۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔ نیناں کے پیار کرنے پر اس کے  کھلکھلانے کو دیکھتے ہی رضا مسکراتے سرشاری سے بولتے ہی قہقہ لگا اٹھے۔۔۔۔۔۔

جبکہ وریام کا دھیان اپنے چھوٹے پیس پر تھا ۔۔۔  جو اب اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

 جبکہ وریام اسے اگنور کرتے اپنی نین کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔ میری زندگی میں آنے کا ، بہت بہت شکریہ میری زندگی۔۔۔۔۔۔ مسکراتے اسکی پیشانی کو چومتے وہ محبت ،سے بولا تھا کہ وہ آسودگی اسے آنکھیں موند گئی ۔۔جبکہ اسکی گود میں موجود وہ چھوٹا پیس اب رونے کی تیاری پکڑ چکا تھا۔۔۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Junoon E Ishq Season 1 Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Junoon E Ishq Season 1  written by Zainab Rajpoot  . Junoon E Ishq Season 1  by Zainab Rajpoot is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages