Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 1 By Hina Asad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 25 August 2024

Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 1 By Hina Asad New Complete Romantic Novel

Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Season 1 By Hina Asad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jugnuon Se Bhar Do Aanchal By Hina Asad New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Jugnuon Se Bhar Do Aanchal

Writer Name: Hina Asad

Category: Complete Novel

شام کے دھندلکے پھیل چکے تھے ، تیز چلتی ہوا کے باعث بال اڑ اڑ کر اسکے گالوں کو چھو رہے تھے ، وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر کھڑکی میں کھڑی ڈوبتے ہوئے سورج کا اداس منظر آنکھوں میں بسائے اپنی ہی سوچوں میں مدغم تھی ۔

رسائی اور نارسائی کے درد سے بوجھل ،ملن اور جدائی کے احساس سے جل تھل نین، سلگتے ہوئے جذبات سے گھائل ہوتی روح کا نوحہ ،اس کی محبت مگر باپ کی غیر موجودگی میں پروان چڑھتی ہوئی اس کی بیٹی ، وہ تنہا روتی مگر اسکے سامنے مسرور رہتی ۔۔۔محبت میں درد و الم،سوز ہی کیوں ہمیشہ مقدر ٹہرتا ہے ؟؟ہر محبت مکمل ہونے کے لیے آنسوؤں اور ہجر کا خراج مانگتی ہے ،مگر جن سے محبت ہوتی ہے ،ان کا ہجر بھی سرور انگیز محسوس ہوتا ہے۔اس کے واپس لوٹنے کی موہوم سی آس باقی تھی ابھی ،

_______________

حویلی کے باہر لگا پتھر اور اس پر کیا گیا نقش و نگار اس کے مالک کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔جو بھی ایک نظر اسے باہر سے دیکھتا ،وہ ایک بار ضرور ٹھٹھک کر رہ جاتا ۔۔۔عامر خان جو پشاور کے رہائشی تھے جدی پشتی رئیس تھے ۔والد کی وفات کے بعد انہوں نے پشاور میں سب کچھ فروخت کیے اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے شہر کا رخ کیا ۔مگر وہاں بھی آکر اپنی روایات اور رہن سہن کے ماحول کو قائم رکھااور شہر کے ایک پوش علاقے میں دو سو گز پر محیط یہ شاندار حویلی تعمیر کروائی ۔جہاں وہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔باہر سے گزر کر جانے والا اس حویلی کی شان و شوکت دیکھ کر ایک بار مڑ کر اسے دوبارہ ضرور دیکھتا ۔

حویلی کے باہر بڑا سا لان تھا جس میں چاروں طرف باڑ لگا کر قدرتی پھولوں سے مزین کیاریاں بنائی گئیں تھیں ۔لان کے بیچوں بیچ ایک فوارہ لگایا گیا تھا  جس میں سے چوبیس گھنٹے پانی پھوٹتا ۔۔۔ماحول کو سحر انگیز بنائے ہوئے تھا۔۔۔۔ بیرونی گیٹ سے اندر جانے کے لیے سنگ مر مر کے پتھروں کی راہداری بنائی گئی تھی جس میں سے گزر کر اندر جایا جاتا تھا ۔۔۔۔اندر داخل ہوں تو بڑے سے ہال میں تین نہایت قیمتی سنہرے فانوس آویزاں دکھائی دیتےجو اپنی چکا چوند سے دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر دیتے ۔۔۔۔

 بڑے بڑے خوبصورت اور نفیس صوفے ،کرسیاں  اور وہاں لگے ہوئے قیمتی اور بیرون ملک سے منگوائے گئے ڈیکوریشن پیسز اپنی مثال آپ تھے۔۔۔ غرض یہ کہ حویلی  کا چپاچپا اسی طرح کی نفیس اور خوبصورت آرائش سے سجا ہوا تھا ۔۔۔۔

 آخر کو یہ کسی عام شخص کی رہائش گاہ تو  نہیں تھی بلکہ یہ تو ملک کے نامور بزنس مین عامر خان کی رہائش گاہ تھی جو اپنی بے تحاشا  دولت اور شہرت کے باعث مشہور و معروف تھے۔۔۔انہوں نے پشاور سے آکر اپنا بزنس شروع کیا تو چند سالوں میں ان کا بزنس آسمان کی اونچائیوں کو چھونے لگا ۔یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ ہاتھ لگی مٹی بھی سونا بن جاتی۔۔۔

عامر خان پٹھان تھے ،پٹھانوں کی طرح دراز قد ،چوڑی چھاتی۔بس ایک بات ان میں زرا مختلف تھی اب پٹھانوں سے وہ یہ کہ ان کا رنگ عام پٹھانوں کے رنگ سرخ وسفید کی بجائے تھوڑا گندمی تھا ،یا سیدھے لفظوں میں کہیں تو زرا زیادہ ہی گندمی تھا۔انہیں دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھاکہ وہ پٹھان ہیں۔

عامر خان کی زوجہ بسمہ خان انکی پھپھی کی بیٹی تھیں۔جو صحیح پٹھانی تھیں اور لگتی بھی تھیں سرخ و سفید رنگت بڑی بڑی آنکھیں ستواں ناک ۔جب تک پشاور تھیں پشتو ہی بولتی تھیں مگر جب سے شہر میں آئیں تھیں یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے کے بعد اردو بولنے لگی تھیں مگر ان کے بات کرنے کے انداز میں ابھی بھی پشتو کا ٹچ نظر آتا تھا۔۔۔ان کے تین بیٹے تھے ،

سب سے بڑا ذریار خان ۔

دوسرے نمبر پر زیگن خان ۔

سب سے چھوٹا زمارے خان ۔

جو تینوں پڑھائی میں مصروف تھے ۔۔۔

"تم سب کا سکول کیسا جا رہا ہے "؟

عامر خان نے تینوں کو مخاطب کیے پوچھا ۔

"ٹھیک ہے خان صاحب "دو نے بیک وقت کہا ۔۔۔۔

ان کی نصف بہتر بسمہ انہیں خان صاحب کہتی تھیں اسی لیے تینوں بچوں نے بھی اپنی ماں کی دیکھا دیکھی انہیں بچپن سے ہی خان صاحب کہنا شروع کردیا تھا۔۔۔۔

زمارے ہمیشہ کی طرح خاموش تھا۔

"ہمممم ۔۔۔اس بار مجھے رزلٹ ہنڈرڈ پرسنٹ چاہیے "

"خاص کر تمہیں کہہ رہا ہوں زمارے "

وہ اس سے مخاطب کیے بولے جو سر جھکائے اپنی پلیٹ پر متوجہ تھا ۔جیسے پلیٹ میں گھس جانے کا ارادہ ہو ۔۔۔۔

زمارے بالکل اپنے باپ عامر خان پر گیا تھا ۔یا یوں کہہ لیں کہ اس کا رنگ زرا زیادہ گندمی تھا ۔۔۔کلاس کے سب بچے اسے مختلف نام لے کر چھیڑتے تھے ۔۔

 وہ گھر میں کسی سے زیادہ  بات نہیں کرتا تھا ۔اور نا ہی کسی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ۔۔۔۔

ہر وقت خود کو کمرے میں قید کیے رکھتا ۔۔۔بسمہ ماں ہونے کی حثیت سے اسے لاکھ سمجھاتی مگر وہ اس کے سمجھانے پر زیادہ اشتعال انگیز ہو جاتا اور کمرے کی چیزیں توڑنے لگتا ۔۔۔بسمہ نے اسے اسی کے حال پر چھوڑ دیا ۔۔۔کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی سنبھل جائے گا ۔۔۔۔

"جی خان صاحب "زمارے نے نظریں جھکائے ہوئے جواب دیا ۔۔۔اور پھر بھاگ کراپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

"میرے تو پچھلی بار بھی ٪99آئے تھے زیگن نے فرضی کالر اچکا کر کہا ۔۔۔

"تم تو میرے سب سے ذہین بیٹے ہو ۔۔۔شاباش ۔۔۔عامر خان کی نظروں میں اسکے لیے چمک اور ستائش تھی ۔۔۔

"زریار تمہاری ماں بتا رہی تھی آج کل سکول سے واپسی پر تمہیں دیر ہوجاتی ہے "

"نہیں خان صاحب روز نہیں ایک دو بار ہوا تھا ۔وہ بھی میرے دوست کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔۔۔

وہ خان صاحب کی تفتیشی نظروں سے گھبرا کر بولا ۔

"ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھنا مجھے کوئی شکایت نا ملے ۔۔۔"

وہ تنبیہی انداز سے بولے ۔۔۔۔

"جی "کہتے ہی وہ منہ میں دوسری بائیٹ ڈالنے لگا ۔۔۔۔

__________________________

"رانی !!!! او رانی اٹھ بھی جا اب اس کی امی کی آواز کانوں میں سنائی دی مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے بستر پر پڑی رہی۔

"اٹھ جا تیرے ابو کہہ رہے ہیں تیرا چہرہ دیکھے بنا باہر پر نہیں جائیں گے ".

اس بار انہوں نے اسے جلدی اٹھانے کی وجہ بتائی۔

"آئی امی "وہ چارپائی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی اور جلدی جلدی سے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے اور صابن سےچہرہ رگڑ رگڑ کر دھویا ۔۔۔

آنکھوں کو بھی شاید بار بار دھونے سے ہی اس پر چھائی ہوئی دھند چھٹ جائے۔مگر ایسا کر نے سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔۔۔ابھی بھی ویسا ہی سب کچھ دھندھلا سا دکھائی دے رہا تھا۔

اس کی نظر بہت زیادہ کمزور تھی ۔اور نائٹ بلائنڈنیس کی بیماری تھی ۔رات کو تو بالکل ہی نظر آنا بند ہوجاتا تھا۔رات کا اندھا پن یا نائٹیکلوپیا آنکھوں کا عارضہ ہے جس کی وجہ سے مریض کو رات کو یا کسی تاریک جگہ پر دیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

یہ بیماری سے اپنے ابو سے وراثت میں ملی تھی ۔

اس کے ابو اسلم حویلی کے مالک عامر خان کے ڈرائیور تھے ،مگر اب اسلم کی بینائی کو دیکھتے ہوئے وہ مزید کوئی رسک نہیں لے سکتے تھے ،اسی لیے انہوں نے اسلم کو کچھ رقم دے کر اس کا حساب چکتا کردیا۔تاکہ وہ اپنا اور اپنی بیٹی کا علاج کروا سکے ۔

اسلم دوسرے شہر جاکر ایک لوئر کلاس علاقے میں ایک گھر کرایے پر لے آیا تھا۔کیونکہ عامر خان نے اسے نوکری سے فارغ جو کردیا تھا۔اسلم اپنی نو سالہ بیٹی رانی اور اپنی بیوی ثریا کے ساتھ حویلی کے باہر ایک سرونٹ کواٹر میں رہائش پذیر تھا۔

مگر اب نوکری چھوٹی تو یہ رہائش بھی چھوٹنے والی تھی ۔اسی لیے اس نے گھر کا انتظام کیا۔۔۔

"ثریا !!!رہنے دے میری رانی دھی کو سونے دے "اسلم نے اسے روکا۔

"صبح بخیر ابو جان !! میں آگئی ",وہ اپنا فریش سا چہرہ لے کر ان کے ساتھ آبیٹھی ۔

"کیسی ہے میری دھی ؟

"مجھے کیا ہونا ہے ؟میرے ابو میرا اتنا خیال جو رکھتے ہیں "

"رانی اپنی ماں کے ساتھ سامان باندھ لے کل صبح سویرے ہم یہاں سے نکل جائیں گے "

"مگر ابو جان !!!!وہ افسردہ ہوئی۔

"کیا بات ہے ؟وہ اس کے پیارے سے معصوم چہرے کو اونچا کیے پوچھ رہے تھے ۔

"میں یہیں پیدا ہوئی ،جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی حویلی کو دیکھا ہے اس حویلی سے لگاؤ سا ہوگیا ہے ۔یہاں سے جانے کا من نہیں "

"پر بیٹا اب آپ کے ابو جان کو یہاں سے جانا ہوگا ۔یہاں سے نوکری ختم ہوگئی ہے۔

"مگر ابو یہاں میرا دوست ہے "وہ یاسیت بھرے انداز میں بولی۔

"مجھے پتہ ہے چھوٹے خان صاحب نے تجھے اپنی چھوئی بہنوں کی طرح رکھا تیرا خیال کرتے ہیں ۔ان کی کوئی بہن نہیں نا تینوں بھائی ہیں ۔ایسے میں بہن کی کمی تو محسوس ہوتی ہی ہوگی انہیں ۔بس انہوں نے وہی کمی تیرے زریعے پوری کی ۔

"جی بابا وہ بہت اچھا ہے ۔میرا بہت خیال رکھتاہے میرے ساتھ کھیلتا بھی ہے۔مجھے کھانے کے لیے چاکلیٹ بھی لاکر دیتاہے۔وہ۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ اسکے اور قصیدے پڑھتی ۔۔۔۔

"رانی دھی وہ آپ سے بڑے ہیں اور بڑوں سے تمیز سے پیش آتے ہیں "ثریا نے گھرکا ۔

"ثریا تم کیوں بات بات پر میری بیٹی کو ڈانٹتی ہو ؟یہی تو عمر ہوتی ہے۔۔ بے فکری کی ہنسنے کھیلنے کی ۔پھر تو شادی کے بعد وہی معمول زندگی ۔۔۔

"لیں بھلا کل کو بڑی ہوگی تو سسرال نہیں بھیجنا اسے ۔۔۔آج سے تمیز سیکھے گی تو آگے جاکر کام آئے گی ۔

ورنہ سب کہیں گے ماں ہی بد سلیقہ تھی جس نے اسے کچھ نہیں سکھایا۔

سسرالی باربار ماں کو ہی کوستے ہیں ۔

انہوں اچھی خاصی چھاڑ پلا ڈالی ۔۔۔

اسلم نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا جہاں معصومیت اور فطری پن کی جھلک تھی ۔

"سیکھ لے گی سب کچھ زیادہ بوجھ مت ڈال میری پھول جیسی بچی پر "

انہوں محبت بھرے انداز میں کہا 

"سنیے جی بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں زیادہ دل مت لگاؤ اس سے جب دور جائے گی تو گزارا کرنا مشکل ہو جائے گا۔

"میں اپنی بیٹی کو کہیں جانے ہی نہیں دوں گا ۔

"اجی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔کبھی کبھی منہ سے نکلی باتیں سچ بھی ہوجاتی ہیں ۔جانے کونسی قبولیت کی گھڑی ہو ۔

"پہلے ہی اس کی نظر کو لے کر پریشان ہوں ۔۔۔

"تم فکر مت کرو بس دعا کرو جلد ہی کوئی اچھی سی نوکری مل جائے دوسرے شہر چل کر کسی اچھے سے ڈاکٹر سے اس کا علاج کروائیں گے ۔پھر دیکھنا میری دھی بھلی چنگی ہو جائے گی ۔

"یہ لیں آپ روٹی کھائیں ۔

ثریا نے ٹرے میں دو روٹیاں رکھ کر ساتھ دو کپ چائے کے رکھے ۔

"سالن نہیں ہے ؟؟؟اسلم نے پوچھا ۔

"نہیں ۔۔۔راشن ختم ہوگیا اسی لیے اور وہ بیگم صاحبہ نے بھی رات بچا ہوا سالن نہیں دیا ۔شاید انہیں یاد نہیں رہا ۔

"اچھا چلو کوئی بات نہیں میں تو اپنی دھی رانی کے لیے پوچھ رہا تھا۔

"میری دھی رانی چائے کے ساتھ کھا لے گی ؟؟؟

"جی ابو جان مجھے تو چائے اور روٹی بہت پسند ہے ۔"وہ خوشدلی سے آنکھیں چھپکاتے ہوئے بولی ۔

"چلو پھر باپ بیٹی ملکر بسمہ اللہ کرتے ہیں "

دونوں نے عاجزی و انکساری سے بسمہ اللہ پڑھ کر دعا مانگتے ہوئے کھانے کا آغاز کیا ۔۔۔۔

ثریا اپنے لیے توے پر روٹی ڈالنے لگی ۔۔

____________________________

"رانی تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟وہ اپنا کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھتے ہوئے باہر آیا ۔۔۔

وہ لان میں موجود فوارے کے پاس کھڑی تھی ۔۔۔۔

"تم سے ملنے آئی تھی "

"مجھ سے ملنے ؟؟؟کیا کوئی ضروری بات تھی ؟؟؟

"ہاں نا بہت ضروری تھی ۔۔۔

اس نے اس گڑیا جیسی دکھنے والی نازک لڑکی کی طرف دیکھا ۔۔۔

چاند کی روشنی اس کے معصوم سے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔۔۔۔

"اس وقت تو تمہیں ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا اور تمہاری مما تمہیں باہر آنے بھی نہیں دیتی پھر کیوں آئی ۔۔ ؟

"تم بھی مجھے ہی ڈانٹو گے ؟؟؟اس کی معصوم سی شکل رونے والی ہوگئی ۔۔۔۔

"صبح امی نے ڈانٹا اب تم "

"تم میرے واحد دوست ہو جو میرے ساتھ باتیں کرتا ہے میرے ساتھ کھیلتا ہے ۔اب تم مجھ سے دور ہو جاؤ گے "وہ منہ پھلا کر بولی ۔۔۔

"میں بھلا کیوں دور ہونے لگا تم سے ۔۔؟

"ارے بُدھو تم دور نہیں جا رہے ہم دور جا رہے ہیں ۔اس نے سر پر ہاتھ مار کر کہا 

میرےبابا کی یہاں سے نوکری ختم ہوگئی ہے اس لیے ہم سب یہاں سے جا رہیے ہیں ۔مجھے یہ دکھ ہے کہ اب میں تم سے دور جارہی ہوں پتہ نہیں پھر کبھی مل بھی پاؤں گی یا نہیں ۔

کہتے ہی وہ رونے لگی ۔۔۔

"چپ کر جاؤ رانی ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔تم میری دوست ہو اور ہمیشہ رہوگی ۔

تم دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نا چلی جاؤ ۔تمہیں میں ڈھونڈھ نکالوں گا ۔۔۔۔

"ویسے تم یہاں کیسے آئی ؟؟؟

"مجھے تو کواٹر سے یہاں آتے ہوئے ایک ایک قدم یاد ہوگیا ہے ۔بچپن سے اور کیا ہی کیا ہے۔؟

یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنے کے سوا ؟"

"میں قدم گن لیتی ہوں اور چلنے لگتی ہوں قدم خود بخود مجھے یہاں لے آتے ہیں ۔اس کا ہاتھ فوارے سے نکلتے ہوئے پانی کو چھو گیا تو اس نے تھوڑا سا جھک کر اپنی مٹھی کو پانی سے بھرا اور اس کی طرف اچھال دیا ۔۔۔

"یہ کیا کیا میرے سارے کپڑے گیلے کر دئیے وہ اپنی شرٹ کو گیلا دیکھے چلا کر بولا ۔۔۔

"اب خود بچ کر کہاں جاؤ گی ۔۔۔۔

اس نے بدلہ لینے کے لیے دونوں مٹھیاں پانی سے بھر کر اس کی طرف اچھالی ۔۔۔ 

وہ جو خیال میں اس کی حالت دیکھ کر ہنس رہی تھی ۔۔۔اپنے اوپر پانی گرتے دیکھ جھنجھنا اٹھی ۔۔۔۔

"یہ کیا ۔۔۔امی ماریں گی مجھے میرے گیلے کپڑے دیکھ کر ۔۔۔۔

اس کی نظر اسکے بغیر دوپٹے کے وجود پر پڑیں ۔۔۔۔

جس نے ابھی جوانی کی دہلیز پر ٹھیک سے قدم رکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔

اس نو خیز کلی کے خدو خال دیکھ اس کی نظروں کا زاویہ بدلہ مگر دل عجیب سی کیفیت کا شکار ہوا ۔۔۔

یہی وہ عمرہوتی ہے جہاں انسان جلد شیطانی بہکاوے میں آ جاتا ہے ،

"رانی !!!! اس نے کھوئے ہوئے انداز میں پکارا ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔اس من موجی لڑکی نے لا پرواہی سے کہا اور اپنے کپڑوں کو جھٹک کر سکھانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔

"مجھے تم سے پیار ہوگیا ہے "وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"یہ پیار کیا ہوتا ہے "

"او اچھا ۔۔۔جیسے میرے ابو اور امی کرتے ہیں مجھ سے ۔۔۔۔ابو نے کہا ہے کہ تم میرے بھائیوں جیسے ہو ۔تمہیں بہن کی کمی محسوس ہوتی ہے اسی لئیے تم مجھ سے پیار کرتے ہو 'میں بھی نا بالکل پاگل ہوں "

وہ اپنی عادت کے مطابق پھر سے اپنے سر پر ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔۔

وہ جس کی نظریں ابھی بھی اسکے خد و خال میں الجھی ہوئیں تھی۔

"نہیں میں تم سے وہ والا پیار نہیں کرتا ۔۔۔دوسرا کرتا ہوں "

"یہ دوسرا والا پیار کیا ہوتا ہے ؟وہ بھولپن سے بولی ۔

"آؤ تمہیں بتاتا ہوں ۔۔۔۔

"یہ کہاں لے کر جا رہے ہو تم مجھے """

وہ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی ۔۔۔۔

"تمہیں اپنے دوست پر یقین نہیں۔ "

"ایسی بات نہیں ۔۔دیکھو تم مجھ سے ناراض مت ہونا ۔میں تمہیں ناراض کر کے یہاں سے جانا نہیں چاہتی۔۔۔۔

بسمہ نے صبح فجر کے وقت اٹھنا ہوتا تھا اسی لیے وہ جلدہی سو جاتی ۔اور اسکا اور خان کا مشترکہ کمرہ اوپری منزل پر تھاجبکہ تینوں بیٹوں کا نیچے ۔۔۔۔

حویلی کی لائٹس آف تھیں ۔۔۔

وہ اسے تقریبا گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔۔

اور اندر لا کر چھوڑا ۔۔۔۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر رانی ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔۔نظر تو پہلے ہی کچھ نہیں آرہا تھا مگر وہ آنکھوں کو رگڑ کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ایسے لوگوں کی سنوائی کی حس بھی بہت تیز ہوتی ہے ۔اسکے کانوں میں دروازہ بند ہونے کی آواز صاف سنائی دی۔۔۔

"رانی تم مجھ سے پیار کرتی ہو ؟

وہ اسکے شاید بہت قریب کھڑا تھا ۔

اسی لیے رانی کو اس کی سانسیں اپنے چہرے پر پڑتی ہوئیں محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔

"امی مجھے ڈھونڈھ رہی ہوں گی ناراض ہوگی مجھ سے ۔۔۔مجھے باہر چھوڑ آو "وہ روہانسے لہجے میں بولی ۔

"پہلے میرے سوال کا جواب دو "

وہ قطعیت سے بولا۔

"ہاں میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں جیسے اپنی امی اور ابو سے کرتی ہوں ۔اب چلو یہاں سے ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔

وہ ہاتھ سے ارد گرد کی چیزیں ٹٹولتے ہوئے بولی ۔۔۔

مگر اسنے رانی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر اسے بستر پر دھکا دیا۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی ۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔کیاکر رہے ہو """

اسکی نظریں رانی کے چہرے پر تھیں ۔

پھیلیں ہوئی سیاہ آنکھیں ،تیکھی ناک باریک ہونٹ ،سونے جیسی دمکتی رنگت ،چھوٹی عمر ہونے کے باوجود کمر تک آتے لمبے بال جو ہونی ٹیل میں مقید تھے ۔۔۔۔

وہ جوانی کے نشے میں چور درندہ صفت نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔

"تم مجھ سے کل دور چلی جاؤ گی ۔جانے سے پہلے مجھے تم سے جی بھر کر پیار کر لینے دو ۔۔۔۔وہ اس پر جھکا ۔۔۔

رانی کی رنگت ایک دم زرد پڑ گئی ۔۔۔۔

آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئی۔۔۔۔

 "مجھے جانے دو ز۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھنے لگی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بول پاتی۔۔۔۔

"شششششششش"!!!!!

اس نے رانی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی آواز بند کردی ۔۔۔

پھر واپس بستر پر پھینکا۔۔۔

اور اس نرم و نازک پھول کو بری طرح مسلنے لگا۔۔۔۔

اس کی دبی دبی سسکاریاں پورے کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔

"امی مجھے بچا " ۔۔۔۔

"ابو مجھے درد "

اس کے درد بھرے  بے ربط الفاظ سن کر در و دیوار بھی کانپ کر رہ گئے ۔۔۔

مگر مقابل کو زرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ 

وہ وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی مگر فرار کے سارے راستے مسدود کیے وہ اس پر پوری طرح سے حاوی تھا۔۔۔

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے اس کی گرفت میں تڑپ رہی تھی ۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلا رہی تھی ۔۔۔۔

مگر وہ اس کی ذات کا غرور اس کی سب سے قیمتی متاع اسکی عزت داغ دار کر گیا تھا۔۔۔۔

جسے شاید ابھی اس وحشیانہ پیار کی الف ب کا بھی نہیں پتہ تھا۔۔۔۔

اس کی آہ و بکا وہ گریہ زاری کسی کام نا آئی۔۔۔۔

کچھ ہی دیر وہ اسکی وحشتوں کو برداشت کر سکی پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔

زیگن خان ،میوزک کی دنیا کا نیا ابھرتا ستارہ ،ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں اس کی سحر انگیز آواز کےفین تھے ،یا یوں کہہ لینے میں کوئی عار نہیں ہوگا کہ وہ میوزک کے شعبے میں آتے ہی ہزاروں دلوں پر راج کرنے لگا تھا،حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کی آواز میں اتنی ہی تاثیر تھی جتنی دلکش اور جاذب نظر اس کی پرسنالٹی،

دوسرے تمام سنگر سے ہٹ کر اس کے گانے کا انداز ،اسے سب سے منفرد بناتا تھا ۔

اسی لیے تو آج کنسرٹ میں ہزاروں کی تعداد میں اس کے فینز کا جمِ عفیر اسے سننے اور قریب سے دیکھنے امڈ آیا تھا ۔

دیکھتے ہی دیکھتے سارا ہال کھچا کھچ لوگوں سے بھر گیا وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔

زیگن بلیو جینز میں بلیک شرٹ پر ریڈ لیدرجیکٹ پہنے ،ایک ہاتھ میں مائیک پکڑے جس میں ڈھیروں رنگ برنگے بینڈز تھے ،دوسرے ہاتھ میں ایک مخصوص ڈیزائن والا بریسلٹ پہنے ،پاوں میں سنیکرز ،اور چہرے کے تو کیا ہی کہنے رب نے صنف مخالف کو کیا خوب بنایا تھا ،مگر اس خوبرو مرد کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید مصر یوسف کے حسن کا کافی حصہ اس میں سمٹ آیا ہے۔پٹھانوں سا سرخ وسفید رنگ،پرکشش،تیکھے نقوش ،بھوری چمکدار آنکھیں۔ستواں ناک ،لبوں پر مسکراہٹ ،

وہ لوگوں کی دلوں کی دھڑکنیں بڑھا رہا تھا خاص کر صنف مخالف کی،

اس کی سحر زدہ آواز نے اپنا جادو جگانا شروع کیا تو سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا،

سر پھرے فینز اچھل اچھل کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے ،

رفتہ رفتہ صنم تم سے ملی نظر،

تو ہوا ہے اثر ،،،،

خواب سا یہ جہاں۔

فرش دھواں دھواں

جنتوں کا شہر۔

ہم تیرے ہوگئے یا خدا عشق میں۔

گمشدہ دل جگر۔

رفتہ رفتہ۔۔۔۔۔

اس کے دھیمے سر ماحول میں جادو جگا رہے تھے۔

تو ہی تو ہر سو تو ہی تو۔

تو ہی خواب ہے ،تو ہی روبرو۔

قدماں وچ تیرے اسی تلیاں وچھائیے ۔۔

نین نیناں توں چرائیے ۔

نین تک کے نا مر جائیے ۔۔۔

رفتہ رفتہ صنم ۔۔۔

سٹیج کے قریب لڑکیاں اپنا ہاتھ آگے کر رہی تھیں اسے چھونے کے لیے ۔۔۔۔

اس نے اپنے فینز کی طرف فلائنگ کس اچھالیں ۔۔۔

لڑکیاں اس کی ادا پر مر مٹنے والی ہوچکیں تھیں۔

اس نے گانا گاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سٹیج کے قریب موجود عوام  کے قریب سے گزارا ۔۔۔۔

سب نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ٹچ کیا ۔۔۔۔گانا ختم ہوا تو

کچھ دل پھینک لڑکیاں سٹیج پر چڑھ گئیں اور اس کے ساتھ سیلفیز لینے لگیں ۔۔۔۔

مگر کسی کی آنکھوں میں اشتعال انگیز شرارے پھوٹنے لگے یہ منظر دیکھ کر وہ آنکھیں تھیں ۔زیگن خان کی خالہ زاد یمنی کی ،جو خاص طور پر اس کے لیےکنسرٹ میں آئی تھی ۔

وہ غصے میں اندھا دھند باہر نکلنے کو تھی ،کے کسی کے پاؤں پر اپنا ہیل والا جوتا رکھ گئی ۔۔۔

"آہ !!!!!کسی کی درد بھری چیخ نے اسے ہوش دلایا ۔۔۔۔

"اندھی کہیں کی چڑیل نا ہوتو میرا پاؤں زخمی کر دیا "

وہ تلخ لہجے میں اس پر چلایا ۔۔۔۔

اور یمنی کو اپنے پاؤں سے پیچھے دھکا دیا ۔۔۔۔

اگر پیچھے زمارے نا ہوتا تو وہ اب تک گر چکی ہوتی ۔۔۔۔

اس نے مقابل کو گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اب ایسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو ؟؟؟

"جو عمل تم نے کیا یہ اس کا ردعمل تھا بس"

"اندھی میں ہوں یا تم ؟؟

"اور شکل دیکھی ہے کبھی شیشے میں ۔۔۔؟؟؟

"لگتا ہے کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوگا ۔ورنہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا بتا دیتا تمہیں کہ تم انسان نہیں شکل سے ہی کوئی خلائی مخلوق لگتے ہو ،ایلین نا ہوتو "وہ اپنی غلطی ماننے کی بجائے اس کے سر پر چڑھ دوڑی ۔۔۔۔۔

"ہنہہ"اسنے ہنکارا بھر کر سر کو نخوت سے جھٹکا دیا ۔

اور آگے بڑھی ۔۔۔۔

"اے رک  ۔۔۔۔یہ ایلین کس کو بولا ؟؟؟

وہ درشت لہجے میں بولا۔۔۔

"سوری برو "دراصل غلطی میری سسٹر کی ہی ہے۔مگر وہ اسوقت غصے میں ہے۔ان کی طرف سے میں معزرت خواہ ہوں"زمارے جو پیچھے ساری کاروائی ملاحظہ فرما رہا تھا جلدی سے اس کے پاس جا کر بولا ۔۔۔۔

"اوکے "اس نے زمارے کے معزرت خواہانہ انداز کو دیکھ کر معاملہ رفع دفع کیا اور پھر دونوں اپنے اپنے راستے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

"تمہیں کیا ضرورت تھی خواہ مخواہ اس سے بات بڑھانے کی فضول میں ""زمارے نے یمنی کے پاس آتے کہا جو گاڑی میں بیٹھ رہی تھی ۔۔۔

"تم نے دیکھا تھا کس طرح بکواس کر رہا تھا وہ میرا تو دل تھا اس لفنگے کا منہ توڑ دیتی ۔"وہ منہ پھلا کر بولی ۔

"اسی لیے میں کسی کے ساتھ کہیں جاتا نہیں ۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بولا۔

"ایک تو وہ تمہارا بھائی زیگن ،

ڈریگن ،منہ سے ہمیشہ میرے لیے آگ اگلتا ہے "

"اور یہاں دیکھو کیسے لڑکیوں کے سامنے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے تھے جناب کے "

"کیسے منہ سے پھول برس رہے تھے ان کمینیوں سے بات کرتے ہوئے ،وہ حدردرجہ برہمی ظاہر کرتے ہوئے دھاڑ سے اپنی طرف کا دروازہ بند کر گئی ۔۔۔

"جب تمہیں پتہ ہے کہ بھائی کے کنسرٹ میں یہی سب کچھ ہوتا ہے تو آتی ہی کیوں ہو دل جلانے "وہ ڈرائیونگ پر نظریں مرکوز کیے بولا۔

"زمارے !!!

ہممممم۔۔۔۔وہ کہاں اتنا بولنے کا عادی تھا ۔

فقط اتنا ہی بولا۔

"تمہارے بھائی کو میری آنکھوں میں اپنے لیے پیار نظر نہیں آتا جو وہ میری ذات کو یوں نظر انداز کرتا ہے ۔جیسے کہ میں ہوں ہی نہیں "وہ یاسیت سے بولی ۔۔۔

زمارے عادت کے مطابق اپنے خول میں سمٹ چکا تھا اسی لیے اس کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔۔

وہ کچھ دیر اسکے جواب کا انتظار کرتی رہی پھر ونڈو سے باہر نظر آنے والے مناظر پر نظریں جما دیں مگر سوچیں ابھی بھی زیگن کے خیالات کے میں مگن مختلف تانے بانے بُن رہی تھیں ۔

____________

"یہ آپ کا سوٹ "

وہ جو شاور لے کر آیا تھا اپنے کپڑے اس کے ہاتھ سے لیے ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔

کچھ دیر بعد ۔۔۔

برگنڈی کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس برگنڈی شرٹ پہنے باہر آیا ۔

"یہ آپ کی ٹائی "صلہ نے ٹائی اس کی طرف بڑھائی ۔

جسے اس نے اپنے گلے میں ڈال کر مہارت سے ایک منٹ میں باندھ لیا۔

"یہ سٹڈز "صلہ نے سٹڈز کا باکس اسکی طرف بڑھایا ۔

وہ سٹڈز لگانے کے بعد اپنی بیش قیمتی گھڑیوں والا باکس کھولے ان میں سے ایک گھڑی نکال کر اپنی کلائی میں سجا گیا ۔

بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ آئینے میں خود کی تیاری پر آخری تفصیلی نگاہ ڈالنے لگا ۔۔۔

صلہ نے نگاہ بھر کر اسے دیکھا۔

دراذقامت, ورزشی بدن،وجیہہ تیکھے نقوش ،مگر ہمہ وقت سنجیدہ ، اپنے کام سے کام رکھنے والا۔

صلہ کا روز کا یہی معمول تھا کہ وہ اپنے شریک حیات کی تیاری میں اس کی مدد کرتی ،اس کا ایک ایک کام اپنے ہاتھ سے کرتی ۔

زریار اور صلہ کی شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے مگر ابھی تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے ،

زریار نے صلہ کو کبھی بھی اس حوالے سے کوئی طعنہ نہیں دیا تھا۔مگر وہ خود ہی اس کمی کو بری طرح محسوس کرتی تھی ۔اسکے دل میں یہ بھی وسوسہ پیدا ہوچکا تھا کہیں زریار اسے چھوڑ نا دے ۔۔۔وہ جب بھی آفس سے گھر آتا صلہ سائے کی طرح اسکے پیچھے پیچھے رہتی ۔

وہ اپنی تیاری مکمل کیے باہر نکلا تو ڈائینگ ٹیبل پر سب موجود تھے ۔

"صبح بخیر خان صاحب !!!اس نے اپنے ازلی سنجیدہ انداز میں کہا۔

"صبح بخیر !خان صاحب جو اخبار پڑھ رہے تھے اسے تہہ کیے ایک طرف رکھ کر بولے۔

"ام کہتاہے کیوں نا آج صلہ کو ایک ڈاکٹر کے پاس لے جائے ۔ام کو سوسائٹی کی ایک عورت نے بتایا ہے اس ڈاکٹر کے بارے میں "بسمہ جو خان صاحب کو ناشتہ سرو کر رہی تھیں وہ زریار کو دیکھ کر بولیں ۔

"مام آپ  کو جو مناسب لگے "وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے اپنی بلیک کافی کا مگ اٹھا کر لبوں سے لگا گیا۔

"ایک تو تم صبح صبح یہ کڑوی کافی پی کر اپنا کلیجہ جلاتے ہو۔سیب کھاؤ نا "بسمہ نے پیار بھرے انداز میں ڈپٹتے ہوئے زریار کے آگے سیب کی پلیٹ کی جس میں اس کی قاشیں کٹی ہوئی پڑیں تھیں ۔

"میں آفس کے لیے نکلتا ہوں ،آج ایک بہت اہم میٹنگ ہے "

وہ ان سنی کرتے ہوئے باقی بچی کافی بھی وہیں رکھے اپنی جگہ سے اٹھا اور کوٹ کا ایک درمیانی بٹن بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"یہ آپ کے لیپ ٹاپ کا بیگ "صلہ اس کے پیچھے بھاگ کر آئی ۔

"تھینکس "وہ کہہ کر رکا نہیں گاڑی میں جا بیٹھا اور دوسری سیٹ پر لیپ ٹاپ والا بیگ رکھا جس میں آفس کی اہم معلومات سیو تھیں ۔

اس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی ۔

اس نے آنکھوں پر گلاسسز لگائے ۔۔۔

"صلہ نے پیچھے سے ہاتھ ہلایا ۔۔۔

مگر ان کی گاڑی تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

وہ ہاتھ ڈھیلا چھوڑتی ہوئی واپس آئی جہاں سب ناشتے میں مشغول تھے۔

"آج اکیڈمی میں فرسٹ ڈے ہے ٹائم سے پہنچ جانا "

خان صاحب رعب دار آواز میں زمارے کی طرف دیکھ کر بولے ۔

وہ بنا کوئی جواب دئیے نیپکن سے ہاتھ پونچھ کر اپنا مختصر سا بیگ کاندھے کے ایک طرف ڈالے باہر نکل گیا ۔۔۔

خان صاحب نے ایک تاسف بھری نگاہ اسپر ڈالی ۔۔۔

"بچہ ہے ٹھیک ہو جائے گا "بسمہ نے خان صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔

"یہی جھوٹھے دلاسے تم مجھے کئی سالوں سے دئیے آ رہی ہو یہ نہیں سدھرے گا"

"اور تم ؟؟؟

وہ زیگن کی طرف دیکھ کر بولے ۔

"جی خان صاحب !

"کب تک ایم ۔بی۔اے ختم ہوگا ؟

"خان صاحب لاسٹ سمیسٹر ہے "

"زریار کب تک بزنس اکیلا سنبھالے گا ۔جلدی پڑھائی ختم کر کے اپنے بھائی کا ساتھ دو ۔

"مگر خان صاحب میں بزنس میں نہیں آنا چاہتا ۔۔۔وہ منمنا کر بولا ۔۔۔۔

"کیا کہا زرا اونچی بولو ۔

"خان صاحب ایم۔بی۔اے میں  صرف آپ کی خواہش پر کر رہا ہوں ورنہ ۔۔۔۔

"زیگن میں دن چڑھے مزید کوئی بکواس سننے کے موڈ میں نہیں ۔جو کہا ہے اس پر فوکس کرو ۔۔۔۔

وہ اپنی بات کہہ کر اس کا ری ایکشن جانے بغیر باہر لان کی طرف نکل گئے ۔۔۔۔

کیونکہ انہیں ناشتے کے بعد بھی چہل قدمی کی عادت تھی ۔

"زیگن مجھے بھی یونیورسٹی چھوڑ دو ۔۔۔۔

یمنی اپنی تیاری مکمل کیے بھاگتی ہوئی ڈائننگ ٹیبل پر پہنچی ۔

پنک کلر کی شارٹ فراک اور کیپری میں ملبوس شولڈر پر ایک طرف دوپٹہ رکھے لائٹ سا لپ گلوز لگائے وہ بالکل تیار تھی ۔

"یمنی ناشتہ تو کر لو "بسمہ نے جلد بازی پر اسے ٹوکا ۔

"اللّٰہ حافظ"زیگن اپنی جگہ سے اٹھا ۔

"مجھے بھی جانا ہے "یمنی نے اسے پیچھے سے ہانک لگا کر یاد کروانا چاہا۔

"مام گھر میں ڈرائیور موجود ہے اور گاڑی بھی ۔

"زیگن لے جاؤ بچی کو ساتھ "انہوں نے یمنی کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر زیگن سے کہا 

"مام میرے پاس ہیوی بائیک ہے ۔میں اس پر لڑکیوں کو نہیں بٹھاتا ۔ویسے بھی راستے میں سے مجھے دوست کو پک کرنا ہے یونی کے لیے میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں "وہ جان چھڑوانے کے انداز میں بولا۔

سبکی کے احساس سے یمنی کی آنکھیں بھر آئیں ۔"کیا یہ مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ مجھے جواب دے ۔

وہ اس کی بے اعتنائی پر کُلس کر رہ گئی ۔۔۔۔

"دل چھوٹا نا کرو ام ابھی ڈرائیور سے کہتاہے کہ گاڑی نکالے ۔بسمہ اسے تسلی بخش انداز میں کہتے ہوئے باہر نکلیں ۔

"دیکھا ہے نا آپی ۔۔۔آپ نے زیگن کا رویہ میرے ساتھ "وہ خاموش بیٹھی ہوئی صلہ کو مخاطب کر کہ بولی ۔

صلہ نے اس کی بات پر اپنے خیالوں کو جھٹکتے ہوئے چونک کر سر اٹھایا ۔

"صلہ ہم کسی کو خود سے پیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے "

وہ نم لہجے میں بولی 

اس کے اندر کا درد سوائے اس کے اور اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔

اس کی ماں جائی اس کی بہن یمنی بھی نہیں ۔

"یمنی آجاؤ "باہر سے اس کی  بسمہ خالہ کی آواز آئی تو وہ اپنا بیگ لیے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

یمنی اور صلہ دونوں بسمہ کی بہن کی بیٹیاں تھیں۔یمنی اور صلہ کے والدین کی اچانک وفات کے باعث بسمہ ان دونوں کو چند سال پہلے اپنے پاس حویلی میں لے آئیں۔۔۔تب سے وہ دونوں یہیں پرورش پانے لگیں ۔۔۔۔ 

  انہیں آج بھی وہ دن اچھے سے یاد تھا جب انہوں نے اپنے بڑے بیٹے زریار سے صلہ کے ساتھ شادی کی بات کی تھی ۔

وہ تو یہ سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا ۔۔۔۔

مگر بسمہ نے اسے ایسا ایموشنل بلیک میل کیا کے اسے ماننا ہی پڑی ۔۔۔۔

یوں آج سے پانچ سال پہلے زریار کی تعلیم مکمل کرتے ہی اسے اور صلہ کو نکاح کے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیا گیا ۔۔۔۔

____________

"زمارے پرنسپل آرہے ہیں "وہ  کتاب میں سردئیے اہم پوائنٹس یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔جو کلاس میں شور ہونے کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہے تھے کہ وہ پڑھ کیا رہا ہے کیا نہیں ۔۔۔۔

"کیا مصیبت ہے یار کونسی قیامت آگئی ہے جو تم نے مجھے اس طرح  کھینچ رہے ہو۔ساری شرٹ کی پریس خراب کرکہ رکھ دی"

زمارے نے دانت پر دانت جماتے ہوئے غصے سے واصف کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔

"یہ پرنسپل صاحب کسے ساتھ لا رہے ہیں ؟۔"

 واصف نے دروازے سے باہر جھانک کر کہا ۔۔۔۔۔۔

"ہیلو کلاس! گڈ مارننگ۔۔کیا حال ہے؟ "

پرنسپل شفقت زئی نے خوشگوار موڈ میں کلاس میں داخل ہوکر سٹوڈنٹس سے پوچھا۔ 

"گڈ مارننگ سر۔ ہم ٹھیک ہیں۔آپ کیسے ہیں"

ساری کلاس نے بیک وقت کہا۔

زمارے اپنی جگہ خاموش بیٹھا تھا۔صرف اسی کی آواز نہیں نکلی ۔۔۔۔

"کیا بات ہے زمارے؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟ "پرنسپل شفقت زئی نے زمارے کو خاموش اور الجھا ہوا دیکھ کر کہا ۔۔۔

"یس سر ۔۔۔اوہ نو سر ۔۔۔آئی مین سب ٹھیک ہے ۔۔۔وہ گھبرا کر بولا۔۔۔۔

پرنسپل شفقت زئی زمارے کے والد عامر خان کے قریبی دوست تھے اسی لیے اس پر اتنا مہرباں تھے ۔۔۔

"تو کلاس آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرے ساتھ آئی یہ نئی شخصیت کون ہیں۔ تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ہیں آپ کی نئی ٹیچر "مس گل " ۔جو آج سے آپ کو بائیو پڑھائیں گی۔

"So Miss Gul now you can join your class, if you have any problem, then please ask me."

پرنسپل شفقت زئی نے مس گل  سے کہا۔

"جی سر"

گل نے ہلکی سی آواز میں  فقط اتنا کہا۔

سر کے کلاس چھوڑتے ہی کلاس میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔

"سائیلنٹ کلاس"

گل نے اونچی آواز میں کہا۔ 

"مس یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ "

واصف نے مصنوعی معصومیت چہرے پر سجاتے ہوئے مس گل کے ساتھ کھڑی ہوئی دوسری لڑکی کے بارے میں پوچھا ۔

واصف نے زمارے کو کہنی ماری۔ 

"یار مس کے ساتھ والی لڑکی کو دیکھ " 

زمارے نے نظریں اٹھاکر مس گل کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا ۔

درمیانہ قد ،متناسب سراپا،صاف رنگت ،بڑی بڑی سیاہ آنکھیں،ستواں ناک اور باریک لب،چہرہ کسی بھی میک سے پاک ،صاف و شفاف تھا،نقوش پرکشش تھے،جیولری کے نام پر صرف چھوٹے چھوٹے جھمکے پہن رکھے تھے۔

" بکواس بند کر "وہ واصف کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔

"یہ میری سسٹر ہیں زرشال "گل نے اپنے ساتھ کھڑی ہستی کا تعارف کروایا۔

"دراصل یہ بی۔ایس۔سی کے پیپرز دے کر فری ہوئی ہیں رزلٹ کے انتظار میں ہیں ۔تو وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ میں یہاں آکر ایم ۔کیڈ کی کلاسز کیسے لیتی ہوں یہاں سے کچھ نا کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں "گل نے زرا سا فری انداز میں کہا تاکہ کلاس اسے بات کرتے یا کچھ پوچھتے ہوئے ہچکچائے نہیں ۔

زمارے سب سے فرسٹ بینچ پر تھا اور اس کے ساتھ واصف تھا۔

"کیا نیم ہے آپکا "؟

مس گل نے واصف سے پوچھا۔

"مس میرا نام واصف ہے "اس نے اپنی بتیسی نکال کر کہا 

"اوکے "آپ ایسا کریں دوسرے بینچ پر چلے جائیں "

وہ برا سا منہ بناتے ہوئے پیچھے چلا گیا۔

اس کی جگہ خالی ہوتے ہی زرشال تھوڑا سا فاصلہ بناتے زمارے کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

اس کے قرب سے اٹھتی مہک زمارے کو بار بار اسے دیکھنے پر اکسانے لگی ۔۔۔۔

مس گل اپنا لیکچر ڈیلیور کرنے لگی ۔۔۔

وہ جتنے دھیان سے یہ لیکچر اٹینڈ کرنا چاہتا تھا ۔۔۔نگاہیں اور دماغ بار بار بھٹک کر ساتھ بیٹھی ہستی پر جا رہا تھا۔۔۔

اسے کچھ بھی ہوش نہیں تھا کب مس گل کا لیکچر ختم ہوا اور کب وہ کلاس سے باہر گئیں۔۔۔

اس نے اپنے ارد گرد دیکھا سارے سٹوڈنٹس بھی کلاس سے باہر نکل چکے تھے ۔

وہ اپنی بکس سمیٹ کر بیگ میں ڈالتے ہوئے ابھی کلاس کے دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ کسی کی زوردار ٹکر سے ڈگمگا کر رہ گیا۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ غصے میں کچھ کہتا ۔۔۔

سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔

"ایم سوری "وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولی۔

وہ پیچھے ہٹنے ہی لگی تھی کہ اس کے کان میں موجود جھمکا اس کی شرٹ کے بٹن میں پھنس گیا۔۔۔۔زمارے کی گرم سانسیں زرشال کے چہرے کو چھو رہی تھیں،

زرشال نے خجالت سے سر اٹھا کر دیکھا اور جھمکا نکالنے کی کوشش کی۔۔۔

زمارے کی آنکھوں سے نکلتی عجب سے چمک اسے ٹھٹھکا گئی ۔۔۔۔وہ شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی ۔

"وہ دراصل گل آپی کا بیگ اندر رہ گیا تھا۔"اس نے کلاس میں واپس آنے کی توجیہہ پیش کی۔

وہ خاموش رہا ۔۔۔پہلی بار اس نے زمارے کو مخاطب کیا تھا ۔

زمارے کے رگ و پے میں سکون سرائیت کرنے لگا ۔۔۔۔وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔۔۔۔

وہ زندگی میں پہلی بار مبہم سا مسکرایا ۔۔۔۔

اس کے اپنے ہی لب اس کی مسکراہٹ سے نا آشنا تھے ۔

زرشال کی جھنجھلاہٹ کا لطف لیتے ہوئے زمارے نے اس کا جھمکا شرٹ سے الگ کیا۔

وہ اس کی طرف دیکھے بنا  بیگ اٹھا کر روم سے باہر بھاگ گئی ۔۔۔۔اور کمپیوٹر لیب میں آکر ہی دم لیا جو اس وقت خالی تھی ۔۔۔

وہ دیوار سے لگے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

اس کی ٹانگیں ابھی بھی کپکپا رہی تھیں،پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔دل یوں دھڑک رہا تھا مانو پسلیاں توڑ کر ابھی باہر آجائے گا۔

کسی بھی صنف مخالف کی اس قدر قربت کا یہ پہلا تجربہ تھا ۔۔وہ خود بھی اپنی کیفیت سے نابلد تھی ۔بس خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ گھر پہنچ کر کمرے میں بند ہوگیا ۔۔۔۔

اس کا سہما ہوا روپ ابھی بھی اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرا رہا تھا۔اسے دل و دماغ میں عجب سی بیقراری پھیلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔طبیعت میں یکدم بے کلی سی چھا گئی۔دل کسی ان دیکھے جزبے کی گرفت میں پھنسنے لگا ۔

"یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ؟

کیوں میں بار بار اسے ہی سوچے جا رہا ہوں ؟

کیوں آنکھیں بار بار وہی منظر دکھا رہی ہیں ؟

ساری رات وہ کروٹیں بدلتا انہیں سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا۔

عامر خان کی زوجہ بسمہ ہے۔اور ان کے تین بیٹے،زریار،زیگن ،زمارے،انکی کے ڈرائیور کی بیٹی نو سالہ رانی سے ان تینوں میں سے کسی نے زیادتی کی۔وہ لوگ کہاں گئے یہ بعد میں پتہ چلے گا۔

بسمہ کی بہن کی بیٹیاں یمنی اور صلہ ہیں۔بہن اور بہنوئی کی وفات کے بعد وہ دونوں اپنی خالہ بسمہ کے ساتھ حویلی میں رہتی ہیں۔صلہ کی شادی ذریار سے ہو چکی ہے۔یمنی زیگن میں انٹرسٹڈ ہے۔

زمارے اپنی اکیڈمی ٹیچر گل کی بہن زرشال میں دلچسپی رکھنے لگا ہے۔اب پڑھیے آگے ۔۔۔۔

صلہ کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے ساتھ والی جگہ پر ہاتھ مار کر ٹٹولا۔

وہاں کوئی بھی نہیں تھا،اس نے لیمپ کی مدھم سی روشنی میں اسے ڈھونڈھنا چاہا۔

وہ آج پھر تہجد کے وقت کمرے کے ایک طرف جائے نماز بچھائے ،سادہ سے شلوار قمیض میں ملبوس ،سر پر ٹوپی پہنے،پورے خشوع و خضوع سے نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا،آخر میں ہاتھ اٹھائے دعا میں پوری طرح محو تھا،ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے انسان کی آنکھوں سے جاری آنسو کی روانگی دیکھ وہ پل بھر کے لیے حق دق رہ گئی،جانے کتنی تڑپ تھی اس کی دعا میں یا کتنی شدت وہ صرف دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔جانے کونسی بات تھی جس کے لیے وہ ایسے رو رو کر دعا کر رہا تھا۔دعا مانگتے ہوئے وہ سجدے میں گر گیا اور سسکیوں سے رونے لگا۔وہ دن میں شان و شوکت سے رہنے والا انسان رات کے اندھیرے میں کیسے تڑپ رہا ۔۔۔صلہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں اسے یوں دیکھ کر ۔

"کہیں یہ اولاد کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے تو نہیں "اس نے دل میں سوچا۔ 

زریار نے کچھ دیر بعد سجدے سے اٹھ کر جائے نماز تہہ کی تو صلہ نے جھٹ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ،اور پھر سے سوتی ہوئی بن گئی۔۔۔۔ 

وہ آہستگی سے جائے نماز ایک طرف رکھتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر آیا اور کمفرٹر لیے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا مگر نیند کس کو آنی تھی ،کئی سالوں سے وہ ایسی ہی کیفیت کا شکار تھا۔

_____________

وہ سر کو دائیں سے بائیں ہلا رہا تھا۔گہری نیند میں تھا شاید ، صبیح پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔جسم بھی چند لمحوں میں پسینے سے شرابور ہو چکا تھا،،اور ٹھنڈا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔

"نہیں !!!!!!

وہ زور سے چلایا۔۔۔

اور خود سے کمفرٹر اٹھا کر پیچھے پھینکتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔

بسمہ خان جو فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے اٹھی تھیں ،زیگن کے روم کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے چلانے کی آواز سنی تو فورا سے بیشتر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔

"زیگن کیا ہوا ؟؟

"تم ٹھیک تو "؟

وہ اس کے پاس آکر بستر پر بیٹھ کر استفسار کرنے لگی۔

اور اپنے دوپٹے سے اس کی پیشانی پر آیا پسینہ صاف کرنے لگیں۔

"مام وہ ۔۔۔

وہ کسی خواب کی سی کیفیت میں بولا۔

"کیا زیگن بیٹا بتاؤ مجھے ؟؟؟

"کوئی برا خواب دیکھ لیا ؟؟؟

وہ پیار بھرے انداز میں پوچھ رہی تھیں ۔۔۔

"م۔ممم۔میں ٹھیک ہوں آپ جائیں پلیز "وہ اٹک اٹک کر بولا اور پھر واپس اپنی جگہ لیٹ کر اپنا چہرہ کمفرٹر میں چھپا گیا ۔۔۔۔۔

وہ اسے تھوڑی دیر بعد پرسکون سوتا ہوا دیکھ کر روم سے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔

زیگن نے انہیں باہر جاتے ہوئے دیکھا تو اپنا چہرہ کمفرٹر سے باہر نکالا۔۔۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے چھت پر لگے پنکھے کو دیکھ کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

___________

زمارے !!!وہ چلا تو نہیں گیا ۔

زمارے جو ڈائننگ پر بیٹھا خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا ،یمنی کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا ،

اور نفی میں سر ہلایا ۔

وہ واپس اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور اپنا بیگ اور ہاتھ میں دو بکس لیے جتنی تیزی سے اندر گئی تھی اتنی ہی پھرتی سے چیزیں لیے واپس باہر آئی۔۔

 وہ اندھا دھند بھاگتی ہوئی ڈائننگ تک پہنچتے ہوئے سامنے سے آنے والے وجود کے چوڑے سینے سے بری طرح ٹکرائی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ سنبھلتی یا ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے پیچھے کی طرف گرتی ۔زیگن نے اس کے بازو سے پکڑ کر اسے  سیدھا کھڑا کیا۔

"Nonsense"

وہ اس کی طرف کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے درشت آواز میں بولا۔

وہ جو ابھی ٹھیک سے خوش بھی نا ہوپائی تھی کہ زیگن نے اسے پہلی بار چھوا تھا ۔۔۔۔

"محترمہ یہ گھر ہے ،کوئی کھیل کا میدان یا پارک نہیں جہاں ریسنگ ٹریک پر آنکھیں میچ کر دوڑے چلی جا رہی ہیں "

چبھتا ہوا لہجہ لیے،چہرے پر بلا کے سنجیدہ تاثرات سجائے وہ اس کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر گیا۔

اس کا لہجہ اور انداز محسوس کیے اسکی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔

وہ یونیورسٹی جانے کی بجائے سبکی کے احساس سے روتے ہوئے واپس کمرے میں بھاگی ۔۔۔ 

وہ سر جھٹک کر ڈائننگ کی طرف چلا گیا ۔۔۔

"خان صاحب کدھر ہیں "؟

زیگن نے اپنی والدہ بسمہ سے پوچھا۔

"ان کی طبیت ٹھیک نہیں اپنے روم میں ہیں "

"مام کیا ہوا انہیں "؟اس نے تشویش کا اظہار کیا۔

"گھبرانے والی کوئی بات نہیں بس بی۔پی ہائی ہے "دوائی لی ہے۔تھوڑی دیر تک ٹھیک ہو جائیں گے ۔

"برو کدھر ہیں "؟

اس نے ڈائننگ ٹیبل کو ویران دیکھ کر سب کے بارے میں پوچھا ۔

زریار کی کوئی امپورٹینٹ میٹنگ تھی وہ کافی دیر پہلے آفس چلا گیا ۔صلہ ملازمین سے کچن کی صفائی کروا رہی ہے۔اب بس تم دونوں ہی ہو ناشتہ کر لو ۔میں زرا خان صاحب کو دیکھ لوں کسی  چیز کی ضرورت نا ہو" وہ زیگن سے کہہ کر پلٹنے لگیں ۔

"کیا مام اتنے سالوں سے دیکھ رہی ہیں خان صاحب کو ابھی تک بور نہیں ہوئی "زیگن نے شرارتی انداز میں کہا۔

"چل ہٹ بے شرم ۔۔۔ماں سے مذاق کرتا ہے "

وہ اس کے سر پر ہلکی سی پیار بھری چپت رسید کرتے ہوئے چلی گئیں۔

"کیا یار تم نے کیا سیریس ہونے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے "

اس نے زمارے کو خاموش بیٹھے دیکھ کر پوچھا ۔

اس نے نظریں اٹھا کر زیگن کی طرف دیکھا ۔

اس کی آنکھیں سرخی مائل دکھائی دے رہی تھیں۔

" کہیں اتنی سی عمر میں عشق وشق کا روگ تو نہیں لگا بیٹھے ،یہ سرخ آنکھیں ۔یہ کسی کے خیالوں میں کھوئے کھوئے رہنا ۔بھوک کا نا لگنا ۔وہ اس کی پلیٹ میں ناشتہ جوں کا توں پڑا ہوا دیکھ کر آنکھ ونگ کیے بولا۔

"آپ کو بڑا تجربہ ہے عشق وشق کا "

وہ ابرو اچکا کر پوچھ رہا تھا ۔

"یار میری مان تو ان چکروں میں نا پڑ "

"پیار شیار  کچھ نہیں ہوتا بس مفت میں کمیٹی ڈالنے والی بات ہوتی ہے کبھی نا کبھی نکل آتی ہے ۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔۔

زمارے نے اپنے بھائی کو یوں مسکراتے ہوئے حسرت سے دیکھا ۔۔۔۔

زیگن کی مسکراہٹ کتنی خوبصورت تھی ۔جب وہ مسکراتا تھا تو دائیں گال پر ڈمپل پڑتا تھا یہی اس کی خصوصیت تھی ۔کئی لوگوں کے دو گالوں پر ڈمپل پڑتے تھے مگر زیگن کے ایک گال پر ۔وہ اپنے بھائی کے خوش باش خوبرو چہرے سے نظریں چرا گیا ۔۔۔۔

"ویسے تیرے چہرے سے صاف دکھائی دیتا ہے میرے چھوٹے بھائی کو عشق کا کیڑا کاٹ گیا ہے ۔کیوں ؟؟؟

"ایسا کچھ نہیں "وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔

”ع“ کے بعد”غ“ کا ہونا لازمی ہے 

مرشد  

عشق ہو اور غم نہ ہو ۔

ہو نہیں سکتا۔

وہ زمارے کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر چھیڑنے کے انداز میں بولا۔

زیگن کی بات سن کر بلا اختیار زرشال کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔۔

"دیکھا میں نے کہا تھا نہ "

زیگن نے اس کے قریب آتے ہی کہا ۔۔۔۔

"بھائی "وہ فقط اتنا ہی بولا ۔

پھر زور سے زیگن کے گلے لگا۔۔۔

"ڈونٹ ٹیک ٹینشن برو ،

جب بھی میری مدد کی ضرورت ہو گی، مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے"زیگن نے اسے کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ کر اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا ۔۔۔

"تھینکس "وہ مسکراتی ہوئی آنکھوں سے بولا ۔پھر زیگن یونیورسٹی کے لیے نکل گیا اور زمارے اکیڈمی کے لیے ۔  

_____________

آج اس کی پیاسی نظریں سارا دن زرشال کی متلاشی رہیں مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی ۔۔۔۔

مس گل سے پوچھنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا اسکے بارے میں اسی لیے خاموشی اختیار کر لی۔

وہ ابھی اکیڈمی سے واپسی پر کچھ دور گیا ہی تھا کہ ایک کمیپ لگا نظر آیا۔۔۔وہ کچھ لڑکیوں کے ساتھ عام افراد سے بلڈ لے رہی تھی ۔

اسکی نظریں اسے لاکھوں میں سے پہچان سکتی تھیں۔

زمارے بائیک کھڑی کرتے ہوئے وہاں لگے کیمپ کےپاس آیا۔جہاں سب جمع تھے۔

"تمہیں کہیں دیکھا ہے۔ایک لڑکے نے زمارے کو دیکھ کر کہا ۔

"مگر کہاں یاد نہیں آ رہا !!!وہ سوچنے کے انداز میں بولا۔

زمارے نے مقابل کو دیکھ کر دماغ پر زور ڈالا۔

دونوں کو بیک وقت یاد آیا۔

"ہاں کنسرٹ میں .....

"جی مجھے بھی یاد آگیا "زمارے نے کہا ۔

"یہ کیمپ کس لیے لگایا گیا ہے ؟زمارے نے اس سے پوچھا۔

"غریب مریضوں کے لیے بلڈ کا ارینج کرنے کے لیے کیمپ لگایا ہے۔زرشال کی یونیورسٹی کی طرف سے ۔

اوہ سوری یہ تو بتایا ہی نہیں زرشال میری چھوٹی بہن ہے۔اسی کی یونیورسٹی کی طرف سے کیمپ لگایا ہے میں تو صرف اس کی مدد کے لیے یہاں آیا ہوں۔۔۔

"آپ کا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں ۔۔ویسے میرا نام زمارے خان ۔اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔

"میرا نام شہریار ہے۔"اس نے اپنا تعارف کروایا۔

"تم بلڈ ڈونیٹ کرو گے ؟شہریار نے پوچھا۔

"بالکل "زمارے نے کہا

آؤ پھر ۔۔۔وہ اسے اپنے ساتھ لے آیا۔

"زرشال یہ بھی بلڈ ڈونیٹ کرنا چاہتے ہیں "

"جی بھائی "اس نے ایک نظر زمارے پر ڈالی پھر فورا نظروں کا زاویہ تبدیل کیا۔بھائی کے سامنے اسے دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ۔۔۔

زمارے نے پاس کھڑی ہوئی زرشال پر گہری نگاہ ڈالی ۔

وہ اس کی نبض ڈھونڈھ کر خون نکالنے کے لیے بنولہ لگانے لگی ۔۔۔

"ویسے کنسرٹ میں ملاقات پھر یہاں اتفاقا ۔شہریار جو پاس کھڑا تھا زمارے سے بولا ۔۔

"وہ میرے بھائی زیگن کا کنسرٹ تھا "

"اوہ ۔۔۔ویسے میں بھی زیگن خان کی سنگنگ کا فین ہوں ،شہریار نے بتایا۔

"آپ سے ملواؤں گا بھائی کو "

"ہاں ضرور "

زمارے شہریار سے بات کر رہا تھا مگر نظریں بار بار بھٹک کر زرشال کے چہرے پر جا رہی تھیں جو شاید اپنے بھائی کی موجودگی میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی ۔

"میرے خیال میں ہم میں دوستی ہو سکتی ہے "زمارے نے دوسرا خالی ہاتھ آگے کیا ۔۔۔یہ دوستی جو شاید مستقبل میں اس کے کام آنے والی تھی۔

"شیور "شہریار نے اس کا ہاتھ تھام کر زور سے ہلایا ۔۔۔

پھر زمارے اور شہریار نے ایک دوسرے کا نمبر ایکسچینج کیا ۔۔۔

_________

دن یونہی گزرنے لگے ۔۔۔۔

ایک دن وہ اکیڈمی کے گراؤنڈ میں گھاس پر دو زانو بیٹھی تھی ساتھ میں گل نا جانے کون کون سے پیریڈ کے متعلق کے بارے میں بتا رہی  تھی۔ لیکن اس کا دھیان گل کی باتوں پر نہیں بلکہ دور سامنے پلر سے ٹیک لگاۓ کھڑے زمارے پر تھی جو اپنے گروپ کے ساتھ خاموش کھڑا تھا۔ بلیو شرٹ اور بلیک جینز پہنے ، عجیب سی کشش تھی اس میں وہ اپنی آنکھوں کا زاویہ چاہ کر بھی تبدیل نہیں کر پارہی رہی تھی جانے کیسا سحر تھا اس میں جو اسے بار بار اپنی اوڑھ کھینچ رہا تھا۔۔۔۔۔وہ میٹرک میں بورڈ ٹاپر تھا ۔چہرے سے ذہانت ٹپکتی دکھائی دیتی تھی اسکے ۔۔۔ اسی لیے اکیڈمی  کی کئی لڑکیوں کی پسند تھا جن میں سے ایک اب وہ بھی شامل ہوگئی تھی ۔ جس دن سے اس نے اکیڈمی آنا شروع کیا تھا۔اور اس سے ٹکراؤ ہوا تھا ۔۔۔ اسی دن سے وہ نا چاہتے ہوئے بھی زمارے کو سوچنے لگی تھی جب بھی وہ نظر آتا اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی جسے زمارے  نے کبھی نوٹ نہیں کیا۔یہ اس کا اپنا خیال تھا ۔۔ جب کہ وہ خود کو اس کے قابل نہیں سمجھ رہی تھی ۔وہ اکیڈمی میں آنے والی فیشن ایبل لڑکیوں کی طرح بالکل بھی نہیں تھی ۔ کہیں سے بھی ان کے مقابل نہیں تھی ایکدم سادہ سی اب بھی اس نے پرپل کلر کی فراک اور وائٹ چوڑی دار پاجامہ اور وائٹ دوپٹہ پہنا ہوا تھا جو اس نے شانوں پر پھیلا رکھا تھا۔ بالوں کی ڈھیلی ڈھیلی سی چوٹی بنائی ہوئی اور  کسی بھی قسم کے میک اپ اور جیولری سے بے نیاز ۔اس دن کے واقعہ کے بعد کانوں میں موجود جھمکے بھی اتار کر رکھ چکی تھی ۔...

"زرشال تم سن بھی رہی ہو میں کیا کہہ رہی ہوں"

زرشال  کو مسلسل ہوں ہاں کرتے دیکھ کر گل نے اسے غصے سے دیکھتے ہوۓ اس کا بازو جنجھوڑا  وہ ایک دم ہوش میں آئی۔۔۔

جی...جی.... ہاں جی... میں سن رہی ہوں نا بولیں آپ ۔۔۔

جانے دو مجھے نہیں بولنا چلو یہاں سے ۔۔۔۔۔

گل  اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوۓ بولی

ارے لیکن ابھی تو آپ کا ایک لیکچر باقی ہے ۔۔۔

زرشال بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوکر بولی ۔

"زرشال میں تب سے نوٹ کر چکی ہوں تمہاری نگاہوں کا زاویہ ۔۔اور یہ بات مجھے آج سے نہیں پہلے دن سے ہی پتہ چل چکی ہے ۔

گل کی گوہر افشانی پر زرشال نے فق نگاہوں سے اسے دیکھا۔

پھر خفت کے مارے نظریں جھکا لیں ۔۔۔۔

"میں اب بور ہوگئی ہوں  کیونکہ تمہیں تو اپنے پرنس چارمنگ کو دیکھنے کے علاؤہ اور کوئی کام نہیں  اور میں کبھی ان پودوں سے کبھی ان ہواؤں سے اور کبھی ان دیواروں سے باتیں کرتی رہی ہوں۔۔۔۔

"آپی وہ مجھ سے چھوٹا ہے بس یہی سوچ مجھے کھائے جا رہی ہے۔دل جانے کس اوڑھ لے چلا ہے "وہ افسردگی سے بولی ۔

"مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ بھی ایسی ہی فیلنگ رکھتا ہے یا نہیں "اس بار لہجے میں یاسیت گُھلی تھی ۔

"زرشال ویسے وہ تمہیں اتنا پسند کیسے آیا میں تو یہ سوچ کر حیران ہوں ....

"کیا مطلب آپی ؟؟؟وہ حیرانگی سے بولی۔

"اس کی رنگت ۔۔۔۔گل نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔

"آپی مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی،سب انسان اللّٰہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں ،حضور پاکٌ  نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ۔۔۔ 

-" يا ايها الناس! إن ربكم واحد وإن اباكم واحد، الا لا فضل لعربي على عجمي ولا عجمي على عربي ولا احمر على اسود ولا اسود على احمر إلا بالتقوى * (إن اكرمكم عند الله اتقاكم) *، الا هل بلغت؟ قالوا: بلى يا رسول الله! قال: فيبلغ الشاهد الغائب".”لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں،

"مجھے فخر ہے اپنی بہن کی سوچ پر مجھے تو صرف تمہارا نظریہ جانچنا مقصود تھا۔گل نے مسکرا کر کہا۔

زرشال بھی ہنس دی ۔

"آپی میرے لیے ظاہری خوبصورتی کوئی معنی نہیں رکھتی اصل خوبصورتی تو دل کی روح کی خوبصورتی ہوتی ہے ،روح کا تقلق روح سے جڑ جائے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔۔۔۔

"مگر پھر بھی ایک بات کہنا چاہوں گی ۔اس کے اور ہمارے سٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس کا تعلق ایک رئیس گھرانے سے ہے جبکہ ہم ٹہرے مڈل کلاس سکالرشپ پر پڑھنے والے۔اور آج کل کے دور میں یہی دیکھا جاتا ہے ۔زرشال میں نہیں چاہتی تم کسی ایسی لا حاصل راستے پر نکل جاؤ جس کی کوئی منزل نہیں "وہ اپنے تئیں اسے حقیقت سے آشنا کروانا چاہتی تھی ۔

"یہ نا ہو مجھے تمہیں اپنے ساتھ یہاں لانے کا کوئی بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے"

"ایسا مت سوچیں آپی ۔۔۔۔میرے لیے میرے والدین کی عزت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں یہ بات صرف میرے اور آپ کے درمیان رہے گی۔اور مجھے میرے جذبات پر پورا اختیار حاصل ہے۔میں کبھی بھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھاوں گی "وہ اٹل لہجے میں بولی۔

"ہممممم ۔۔۔

" چلو زرشال کینٹین میں چل کر کچھ کھاتے ہیں....... 

گل نے اس کی توجہ بھٹکانے کے لیے کہا ۔۔۔زرشال نے زمارے کو دیکھ کر گہری سانس لی اور اس کی جانب پلٹی

"اوکے چلیں....."

وہ دونوں کینٹین کی طرف چلی گئیں ۔

__________

آج اتوار کا دن تھا اسی لیے سب سوئے ہوئے تھے ابھی تک صرف عامر خان باہر لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے ،

"صاحب جی باہر کوئی سبحان خان آئے ہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے "باہر موجود گارڈ نے اندر آکر مؤدب انداز میں کہا ۔۔۔

"اوہ ۔۔۔سبحان آیا ہے ۔۔بھیجو ۔۔اسے اندر دوست ہے میرا "انہوں نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے اشتیاق بھرے انداز میں کہا ۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ہی سبحان خان شلوار قمیض میں ملبوس شانوں پر چادر پھیلائے اندر آیا ۔۔۔

"اسلام وعلیکم !کیسا ہے تو ؟

"وعلیکم السلام !ام دیکھو تمہارے سامنے ہے ایک دم فٹ۔۔۔وہ پرجوش انداز میں گلے ملتے ہوئے بولا 

آج اتنے دنوں بعد کیسے یاد آگئی میری "عامر خان نے ہلکا سا قہقہ لگا کر پوچھا ۔

"جب دوست کو مدد کی ضرورت ہو تو وہ ایک دوست کے پاس ہی آتا ہے۔سبحان خان ٹہرے ہوئے انداز میں بولا۔

"سب خیریت تو ہے نا ؟

عامر خان نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔

سبحان خان کے چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا ۔۔۔۔

"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے "وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔

"ایک منٹ "عامر خان نے اسے کہا۔۔۔۔

بسمہ دیکھو کون آیا ہے "انہوں نے چہرہ اندر کی طرف کرتے ہوئے آواز لگائی ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں بسمہ باہر آئی ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم بھائی صاحب کیسے ہیں آپ؟

"میں بالکل ٹھیک ہوں بھابھی "

سبحان خان جو عامر خان کے چچازاد اور بچپن کے دوست کے رتبے پر فائز تھا ۔ان سے ملنے آیا تھا ۔۔۔۔

"بسمہ تم ایسا کرو سبحان کے لیے چائے کا انتظام کرو "عامر خان نے کہا۔

"جی ٹھیک ہے "وہ کہتے ہوئے اندر چلی گئیں۔۔۔۔

"اب بتاؤ کیا بات ہے "؟

"وہ بات دراصل کچھ یوں ہے کہ ۔۔وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے پھر بولے ۔

"یہ بات میں نے آج تک تمہیں بھی نہیں بتائی کے میں آج سے اٹھارہ سال پہلے شادی کرلی تھی ،اور میری ایک بیٹی بھی ہے "وہ سر جھکائے ہوئے بولا ۔۔۔

"سبحان خان تم نے اپنی زندگی کی اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی اور اب توقع رکھتے ہو کہ میں تم سے ناراض بھی نا ہوں ۔عامر خان خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولے۔

"بتاؤ بھابھی اور میری بیٹی کہاں ہے ؟

"عامر دراصل وہ ۔۔۔کیلاش میں ہیں "سبحان خان نے آہستہ آواز میں کہا۔

"کیاکہہ رہے ہو ؟؟؟کیلاش مطلب کافرستان .....

"تم مسلمان ہوکر ایک کافر لڑکی سے کیسے شادی کر سکتے ہو ؟

وہ زرا اونچے کرخت لہجے میں بولے ۔۔۔

__________

آج سے اٹھارہ سال پہلے جب میں کچھ دوستوں کے ساتھ پشارو سے کیلاش گیا یہ تب کی بات ہے۔سبحان خان سوچنے کے انداز میں کھویا ہوا بولنے لگا ۔۔۔جیسے ماضی میں گزرے ہوئے واقعات وہی منظر کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے تھے ۔۔۔۔

کیلاش کا مطلب ہے ’کالے کپڑے پہننے والے‘، اس نام کی وجہ مقامی لباس کو دیکھنے پر معلوم ہوجاتی ہے۔پہلی رات جب میں وہاں پہنچا۔

مہوڈنڈ جھیل کے بہتے نیلگوں پانیوں سے دس قدم دور دیودار کے لمبے تڑنگے درختوں کے اس پار، اس رات خیمے میں سرد ہوا سے بچتے نرم و گرم  سلیپنگ بیگ میں دبکنے میں ہی عافیت تھی لیکن دل میں خواہش تھی کہ باہر نکل کر دیکھا تو جائے کہ شام سے گھرے بادلوں کے ساتھ ہوا نے کیا سلوک کیا؟؟؟؟

جی میں آیا کہ مہوڈنڈ کے رنگ دن کی روشنی میں تو زمانے نے دیکھے ہیں تو کیوں نا میں رات کی تاریکی میں مہوڈنڈ کی خوبصورتی کو سمیٹنے کی کوشش کروں۔

جیسے ہی میں نے خیمے سے باہر جھانکا ۔۔۔ بادلوں کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ تیز ہوا کے جھونکے بادلوں کو کہیں دور دیس اڑا کر لے گئے تھے اور سامنے  مہوڈنڈ جھیل کے عین اوپر تاروں کی کہکشاں رقص کر رہی تھی۔

میں نے اس منظر کو ان لمحات کو اپنے کیمرے میں حسین یادوں کی صورت محفوظ کرلیا۔۔۔

وہاں موسم انتہائی سہانا تھا ،ہلکی ہلکی بوندیں من کوخوب سرشار کر رہی تھیں ۔اور ٹھنڈک میں بھی کافی اضافہ ہو چکا تھا۔مگر میری فطری تجسس کی طبیعت مجھے وہاں کچھ اور بھی دیکھنے اور ڈھونڈھنے کا اشارہ دے رہی تھی ۔میں اکیلا چلتا ہوا ندی کے کنارے بنے ایک گھر  کے پاس پہنچا ۔جس کے باہر لکھا تھا کہ "چھونا منع ہے"

"میں گہری سوچ میں ڈوب گیا بھلا یہاں ایسا کیا ہوگا جو اندر جانے یا چھونے سے منع کیا گیا ہے ۔

 وہ جگہ کالاش مذہب کی خواتین کے لئے مخصوص احاطہ بشالینی کہلاتا تھا جہاں کالاش عورتیں مخصوص ایام گھر کے بجائے اس چار دیواری میں گزارتی تھیں اور وہ یہاں پر سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔ خواتین اسے بد شگون قرارد یتی ہیں، کہ اگر وہ ان مخصوص ایام میں مردوں کے درمیان رہیں گی تو اس سے ان کے رزق سے برکت جاتی رہے گی، چاہے کڑاکے کی سردی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ مخصوص ایام میں اپنا گھر چھوڑ لیتی ہیں۔ اور بشالینی میں ان لئے گھر سے کھانا آتا ہے اور انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اس احاطے کی دیوار کو مردوں کے لئے چھونا بھی منع ہے، کسی خاتون کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ چالیس دن تک گھر کے ایک کمرے میں مقید ہوکر کسی سے بات نہیں کرتی۔

سبحان نے سنجیدگی سے کہا ۔

"اور یہ سب تمہیں کس نے بتایا ؟عامر خان نے سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"تمہاری بھابھی نے بعد میں مجھے بتایا ۔۔۔۔

دراصل وہ مجھے پہلی بار وہیں ملی تھی ۔۔۔

پہلی بار ہی اسے دیکھتے میں اس پر اپنا دل ہار بیٹھا۔۔۔۔

وہ بشالینی کے باہر بنی ندی سے نہانے کے لیے آئی تھی ۔بس وہیں ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پسند کر لیا۔

سبحان نے زرا سا مسکرا کر کہا

تم تو کبھی اس سائیڈ پر نہیں گئے ہوگے ۔۔۔دراصل  پاکستان کے برفیلے علاقے چترال شہر سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر کافرستان واقع ہے جو بنیادی طور پر تین دروں بمبوریت، رمبور اور بریر پر مشتمل ہے۔ جن کی کل آبادی بقول ان کے چار ہزار ہے۔ اور یہ کالاشہ نامی مذہب کے پیروکار ہیں۔ کئی خداؤں پر یقین رکھنے والے کالاشی لوگوں کی زبان اور رسم و روایات بالکل الگ ہیں۔ یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہواہے۔ اسی سبب سیاحوں کے لئے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دلچسی کا باعث ہیں۔ میں بھی اسی اسرار و رموز کو جاننے کی چاہ میں وہاں گیا تھا سیاحت کے بہانے ۔۔یہی وہ خصوصیات ہیں جو سیاحوں کو چترال اور خاص کر وادی کالاش کی سیر کی دعوت دیتی ہیں۔ اور لوگ ان تہواروں میں جوق درجوق شرکت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ جن میں ”چلم جوش“ کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔

تمہاری بھابھی "لیزا " جو شادی سے پہلے کا نام تھا مجھ سے شادی کے بعد لالہ رخ رکھ دیا تھا ۔اس نے مجھے بتایا کہ کل سے وہی چلم جوش کا روایتی تہوار شروع ہو رہا ہے ۔

موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوش کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ چلم جوش جشن بہار اں کی تقریب ہے۔ مقامی افراد اس تہوار کے لئے کافی پہلے سے اوربہت سی تیاریاں کرکے رکھتے ہیں۔ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہوتے وہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور چار سو خوشبوں کا ڈیرہ پڑجاتا ہے۔ ندیوں اور دریاؤں میں پگھلتی ہوئی برف کا شفاف پانی موجزن ہوتا ہے جبکہ پہاڑوں پر سبز جنگلات کے بیچوں بیچ برفانی شیشوں سے روشنی منعکس ہوتی ہے۔

کالاش مذہب میں خدا کا تصور تو ہے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور نہیں،  

تہوار کے آخری روز کیلاش مرد ایک میدان میں اکٹھے ہوجاتے ہیں، جہاں وہ اخروٹ کی ٹہنیاں ، پتے اور پھول ہاتھوں میں لیے اس میدان کی طرف بڑھتے ہیں جہاں خواتین بھی ہاتھوں میں سبز پتے لیے ان کا انتظار کررہی ہوتی ہیں۔

غیر مقامی یا غیر مذہب کے لوگ اس رسم میں شامل نہیں ہو سکتے۔ جب مردخواتین کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو وہ پتے اور پھول ایک دوسرے پر نچھاور کرتے ہیں اور سب مل کر رقص کرتے ہیں۔

میں بھی وہاں پہنچ گیا مگر ان میں شامل نہیں ہوسکا ۔کیونکہ یہ ممکن نہیں تھا میں دور کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔

چلم جوشی کے آخری دن ایک دوسرے کو پسند کرنے والے جوڑے بھاگ کر شادی کا اعلان کرتے ہیں ، فیسٹیول ختم ہونے کے چند دن بعد پتا چلتاہے کہ اس مرتبہ کتنے جوڑے شادی کے بندھن میں بندھے۔ اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو لڑکا لڑکی کو بھگا کر گھر لے جاتا ہے،لڑکے کے گھر پررسومات ادا کی جاتی ہیں ۔لڑکی اور لڑکے کے گھر والے اس میں دیوار نہیں بنتے ۔بلکہ انہیں سپورٹ کیا جاتا ہے ۔ ۔کیلاشی لڑکی جب کسی مسلمان سے شادی کرتی ہے تو وہ مسلمان ہو جاتی ہے۔

لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لیجانی ھوتی ھے.لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ھاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ھے، یوں رشتہ ھو جاتا ھے.اسکے بعد دعوت کا اھتمام ھوتا ھے جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ھیں.شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ھے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ھیں ، اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ھے.

حیران کن بات یہ ھے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ھے.اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ھو تو اسکے سابقہ شوھر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔

اچانک میری نظر ایک نوجوان کیلاش پر پڑی وہ ہاتھوں پر مہندی لگائے، چترالی ٹوپی پہنے رقص کرنے والی لڑکیوں کو گھور رہا تھا۔ ان تک پہنچنے سے پہلے ہی دو لڑکیاں ان سے بات کرنا شروع ہوئیں اور گائیڈ نے کہا کہ ایسے موقع پر لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کو شادی کی پیشکش کرتے ہیں اور رضامندی کی صورت میں وہ دونوں بھاگ جاتے ہیں۔ میں نے اس لڑکے سے بات کرنا چاہی لیکن وہ اردو نہیں جانتا تھا اور وہاں تعینات پولیس والے کو مترجم بنا کر جب ان سے شادی کے متعلق پوچھا تو وہ شرما کر دوسری طرف نکل گیا۔

میری راہ میں بھی زیادہ مشکلات نہیں آئیں میں نے لیزا کو مسلمان کر کے اس سے نکاح کر لیا۔

 ۔کیلاش قبیلے کے لوگوں کی زمینوں پر اخروٹ کے درخت بہت ہیں اور یہ لوگ ان سے معمولی کھانے پینے کی چیزوں کے بدلے درخت گروی رکھوالیتے تھے۔ اخروٹ کا ایک بڑا درخت سات آٹھ من پیداوار دیتا ہے اور چالیس سے پچاس ہزار روپے اس کی مالیت بنتی ہے۔میری بیوی لالہ رخ کی ملکیت میں بھی کچھ درخت تھے ،جب میں نے واپس آنا چاہا تو لالہ رخ کے بھائیوں نے مجھے روک لیا وہ چاہتے تھے کہ میں وہیں رکوں ۔لالہ رخ کے حصے کی درخت گروی رکھ کر میں نے وہاں ایک کام شروع کیا ۔مگر وہ گروی رقم اس کاروبار میں ڈوب گئی ۔۔۔

لالہ رخ کے بھائی مجھ سے اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے ۔میں کہاں سے واپس کرتا ؟؟؟؟

اب نا تو میرے پاس اتنی رقم تھی کہ میں انہیں ادا کر کے اپنی جان اس معاملے سے چھڑوا لیتا ۔شادی کے کچھ ماہ بعد ہی ان کی نظروں سے بچتے ہوئے میں وہاں سے بھاگ کر پشاور جانے کی بجائے یہاں آگیا ۔۔۔۔

"وہ لوگ ابھی بھی میری تلاش میں ہیں "

"سبحان تم اتنے سالوں سے کچھ رقم کی وجہ سے اپنی بیوی اور بیٹی سے دور رہے ۔تم ایک بار مجھ سے اپنی پریشانی شئیر تو کرتے آخر دوست ہی تو مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں "

عامر خان نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔

"بس یار ہمت ہی نہیں ہوئی تم سے کچھ کہنے کی "

"اب کیا چاہتے ہو تم "؟

"عامر لالہ رخ کا مجھ ایک دن پہلے فون آیا تھا ،وہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہاں میری بیٹی کو خطرہ ہے ۔

"کس قسم کا خطرہ ؟؟؟عامر خان نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"وہاں مجھے زیادہ تفصیل سے تو نہیں بتا سکی ۔بس اتناہی کہا ہے ۔

"میں نے اسے کہا ہے کہ کسی بھی طرح وہ ذوناش کو میرے پاس یہاں بھیج دے "

"مگر بھابھی ؟؟؟

"وہ دونوں اکٹھی ایک وقت میں وہاں سے نہیں نکل سکتی ابھی صرف ذوناش کو ہی بھیجے گی یہاں ۔میں فی الحال وہاں نہیں جا سکتا ۔اتنے سال ہوگئے وہاں گئے ۔لالہ رخ کے بھائی مجھے دیکھتے ہی مجھ پر ٹوٹ پڑیں گے "

"اچھا ٹھیک ہے۔تم فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔کسی بھی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ پاؤ گے "عامر خان نے تسلی بخش انداز میں کہا ۔

__________

"آج ویکینڈ انجوائے کریں پزا ہٹ سے پزا آرڈر کریں ....یمنی نے زمارے کو مشورہ دیا .

"کیوں زیگن بھائی آپ کیا کہتے ہیں ؟زمارے نہیں اس سے پوچھا جو ٹی وی پر کوئی ڈاکیومینٹری مووی دیکھنے میں محو تھا ۔

"اوکے میں ابھی آرڈر کردیتا ہوں ",اس نے اپنا موبائل نکال کر آرڈر کردیا ۔۔۔۔

"یہ زریار بھائی کہاں ہیں "؟

یمنی نے خاموش بیٹھی ہوئی صلہ سے دریافت کیا۔

"کہہ رہے تھے کسی پروجیکٹ کے لیے آؤٹ آف سٹی جانا ہے۔تو وہیں گئے ہیں شاید ایک دو دن میں آجائیں "اس نے افسردگی سے کہا۔

"اوہ ۔۔۔چلیں کوئی نہیں آج ہمارے ساتھ انجوائے کریں ۔۔یمنی نے ہشاش بشاش لہجے میں بولی ۔

ڈور پر بیل ہوئی تو ۔۔۔

"جاو چھوٹے ڈور کھولو "زیگن بولا

'میں کیوں کھولوں گارڈ کدھر ہے "؟زمارے نے چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا 

"آج وہ چھٹی پر ہے ،اپنے گاؤں گیا ہے "

"میں نہیں جاؤں گا آپ جائیں "زمارے نے ضدی انداز میں کہا۔

"پزا کا آرڈر  میں نے کیا تھا اب لینے تم جاؤ گے "زیگن نے ریموٹ سے چینل چینج کرتے ہوئے نا اٹھنے کی وجہ بتائی ۔

"بندہ ذلیل ہو ،کمینہ ہو ...ڈیش ہو .....مگر گھر میں چھوٹا نا ۔۔۔۔۔....ڈیش والی زندگی ہے چھوٹوں کی ۔۔۔۔وہ جلتا بھنتا ہوا پاؤں پٹخ کر باہر نکلا ۔۔۔۔۔

زمارے باہر آیا تو ڈیلیوری بوائے ہاتھ میں پزا لیے اسی کے انتظار میں تھا پاس ہی بائیک کھڑی تھی ۔۔۔

"ارے تم ؟؟؟اس نے سر پر موجود ہیلمٹ کا شیشہ اٹھا کر۔۔۔

"آپ ؟؟؟زمارے نے اسے ڈیلیوری بوائے کے ڈریس میں دیکھ کر حیرت زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا 

"پارٹ ٹائم جاب کرتا ہوں یہ "

وہ ہلکا سا مسکرا کر دیکھا ۔۔۔

"مگر یہ جاب کیوں ؟؟؟

"حق حلال روزی کمانے کے لیے کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ۔کام تو کام ہوتا ہے ۔میرے خیال میں "شہریار نے سنجیدگی سے کہا۔

"جب بھی آپ سے ملتا ہوں بہت اچھا لگتا ہے "

"یہ ہیلمٹ تو اتار لیں "زمارے نے کہا ۔۔۔۔

"یار یہ ہیلمٹ بھی نا بہت اہم ہے ۔اس کی اہمیت مجھ سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے ؟؟وہ پراسرار مسکراہٹ لیے بولا ۔۔۔

"کیوں ایسا کیا ہوا تھا ؟؟زمارے نے آخر کار پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔

"یہ پزا لینے گیا تھا یا خود بنانے چلا گیا ہے "زیگن نے اسے ابھی تک واپس نا آتے دیکھ کر کہا ۔۔۔

"میں نے اسے اوپر روم کی کھڑکی سے دیکھتی ہوں باہر کیا کر رہا ہے ؟؟؟

یمنی کہتے ہوئے اوپر کی طرف گئی ۔۔۔۔

دو سال پہلے میری والدہ نے مجھ پر شادی کے زبردست دباؤ ڈالا ۔میں مان گیا ۔۔اسی وجہ سے مجھے ایک خوبصورت لڑکی سے ملوایا گیا..

ملنے کے بعد لڑکی نے میری چھوٹی موٹی پرائیویٹ کمپنی کی جاب کو لیکر نا پسند کرتے ہوئے مجھے انکار کر دیا۔

میں نے زچ ہو کر کہا تم غلطی کر رہی ہو، دیکھنا یہی نوکری محض دو سالوں میں مجھے کتنی بلندی تک پہنچائے گی۔

البتہ ایک سال بعد اس لڑکی کی شادی ہوگئی جو ہونی ہی تھی۔

دو سال بعد اسی خوبصورت لڑکی کو اس کے شوہر کے ساتھ BRAND NEW AUDI کار میں ایک ٹریفک سگنل پر دیکھا۔

اس وقت میں اپنی بائیک کو کک مار رہا تھا کیونکہ اس کی بیٹری کام نہیں کر رہی تھی۔ اس نے اپنی کار سے میری طرف دیکھا لیکن سر پر ہیلمیٹ ہونے کی وجہ سے وہ مجھے پہچان نہ سکی اور دوسری طرف دیکھنے لگی۔

اس وقت مجھے ہیلمٹ کی اہمیت کا احساس ہوا، لہذا اپنی حفاظت کے لئے ہیلمیٹ ضرور پہنیں، جو آپ کو سر اٹھا کر جینے کی راہ دکھائے گا، کبھی شرمندگی کا احساس نہ ہونے دیگا۔ اور ہاں صرف فلموں میں ہی عاشق دو تین سال میں کروڑ پتی بن جاتے ہیں، اصل زندگی میں دو تین سالوں میں بدلاؤ کچھ زیادہ نہیں ہوتا بس پرانی 70 کی جگہ نئی 125 آجاتی ہے. 

براہ مہربانی میرا خلوص دل سے مشورہ ہے کہ ہیلمیٹ کا استعمال ضرور کریں۔"

"ہا ہا۔ہا۔۔۔زمارے نے زندگی میں پہلی بار قہقہہ لگایا اس کی بات پر ۔۔۔۔

"اوکے پھر میں چلتا ہوں "وہ واپس بائیک پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"یہ چارجز وصول کرلیں "زمارے نے اسے پیسے پکڑائے تو اس نے لے کر اپنی پاکٹ میں رکھے .

شہریار نے اچانک نظر اٹھا کر اوپر دیکھا تو کھڑکی میں سے وہی موصوفہ اسے جھانک رہی تھی جس سے اس دن کنسرٹ میں نوک جھوک ہو گئی تھی۔

یمنی نے اسے ایک پزا بوائے کے یونیفارم میں دیکھ کر نخوت سے ناک بھوں چڑھا کر سر جھٹکا ۔۔۔۔

اور واپس اندر چلی گئی ۔۔۔۔

شہریار کے لبوں پر ایک زہر خند مسکراہٹ ابھری ۔۔۔۔

وہ بائیک سٹارٹ کیےواپسی کی راہ پر گامزن ہوا جبکہ زمارے پزا لیے اندر آیا ۔۔۔۔

"زمارے اتنی دیر ۔۔۔یار اب تو پزا ٹھنڈا ہوگیا ہوگا ....زیگن بولا۔

"اوون کس لیے بنے ہیں "

"جاو یمنی گرم کر کہ لاؤ "زمارے نے نیچے اترتی ہوئی یمنی سے کہا ۔

"میں کیوں جاؤں ؟تم جاؤ گرم کر کہ لاؤ "وہ دھپ کر کہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔

"زیگن بھائی نے آرڈر دیا ۔میں باہر سے اندر لے کر آیا ۔اب تمہاری باری اس کام میں حصہ ڈالنے کی جاؤ شاباش گھما لاؤ اوون میں "

"میں نہیں جا رہی ۔۔۔۔

وہ منہ پھلا کر بولی۔

"لاؤ دو میں ہی گرم کر لاتی ہوں ۔بالاخر صلہ نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہا ۔۔۔اور پزا لیے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"یمنی تم تو بہت نکمی ہو ،کوئی کام وام کرنا سیکھ لو کل کو اگلے گھر بھی جانا ہے,وہاں جا کر کام کرنے پڑے تو لگ پتہ جائے گا  "زمارے کاموڈ آج بہتر تھا ،یہ شاید زرشال کی محبت کا اثر تھا ۔۔۔اسی لیے اتنی باتیں کر رہا تھا ۔۔۔

"میں کیوں جاؤں کہیں ؟؟میں یہیں رہوں گی اسی گھر میں ... اور میرا شوہر امیر ہوگا ۔مجھے کوئی بھی کام نہیں کرنے دے گا ۔۔میرے آگے پیچھے نوکر چاکر ہوں گے تو مجھے کیا پڑی ہے کام سیکھنے اور کرنے کی ۔۔۔۔

"اللّٰہ کرے تمہاری شادی کسی غریب گھر میں ہو اور شوہر اپنا پر کام تم سے کروائے ۔۔۔اور۔۔۔۔۔اس سے پہلے وہ کوئی گل افشانیاں کرتا ۔۔۔

"ارے بس بس بس ۔۔۔۔ایک بھی لفظ اور منہ سے نا نکالنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نا ہوگا "وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔

"منہ اچھا نا ہوتو بندہ کم از کم بات ہی اچھی کر لیتا ہے "

یمنی نے زمارے سے کہا ۔۔۔

اس کی بات سنتے ہی زمارے جو فریش موڈ میں تھا یکلخت اس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ۔۔۔

اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اور دھاڑ سے دروازہ بند کردیا۔۔۔

زیگن نے ایک تاسف بھری نگاہ یمنی پر ڈالی ۔۔۔

وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی ۔۔۔۔

زیگن بھی ٹی وی آف کرتے ہوئے اپنے روم میں چلا گیا ۔۔۔

"یہ دونوں کہاں گئے "؟

صلہ جو گرما گرم پزا لیے وہاں آئی تھی اور ان دونوں کو غائب دیکھ کر یمنی سے پوچھ رہی تھی ۔

"دونوں اپنے اپنے روم میں چلے گئے ۔۔۔

"کیوں کیا ہوا ؟؟

"کچھ نہیں آپی ۔۔۔میں بھی روم میں جارہی ہوں ایک ضروری اسائنمنٹ تیار کرنی ہے وہ بھی پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے اندر کی طرف چلی گئی ۔۔۔

صلہ اکیلی پزا لیے ہونقوں کی طرح وہیں کھڑی معاملہ سوچنے لگی کہ آخر ہوا کیا ہے تھوڑی دیر پہلے تو سب ویکینڈ انجوائے کرنے کی باتیں کر رہے تھے۔ اور اب سب نکل گئے اسے اکیلا چھوڑ کر۔۔۔۔

___________

" ' وہ آفس میں بیٹھا کوئی فائل ریڈ کر رہا تھا جب دروازے پہ دستک ہوئی تھی ..

" اس نے فائل سے بغیر سر اٹھائے دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دی تھی ..

" اسکے اجازت ملتے ہی ایک لڑکی آہستہ سے قدم اٹھاتی اندر داخل ہوئی تھی .

" ' وہ اس وقت یہاں کس طرح سب سے چھپ کر آئی تھی یہ بس اسکا دل ہی جانتا تھا ..

لیکن اسکا پھر بھی آفس میں آنا اسکی مجبوری تھی ..وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی ۔اپنے اگلے سال کی فیس کے لیے اس کے پاس رقم نا کافی تھی اسی لیے اس نے جاب کرنے کے بارے میں سوچا 

" اب وہ خاموشی سے کھڑی تھی اسکی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح سے بات شروع کرے ..

'جی کہیں کچھ یا یوں ہی خاموش کھڑے رہنے کا ارادہ ہے ..

وہ فائل پہ نظریں جمائے بولا تھا ..

'زریار کی بات پر زرشال  دو قدم اور آگے بڑھی تھی۔تھوک نگل کر سانس بحال کیا ...

" ' مجھے آپ کی کمپنی میں جاب کرنی ہے اس لئے میں یہاں آئی ہوں  ..

وہ ہاتھ میں تھامی ہوئی فائل  اسکی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تھی .

" ' اسکی بات پہ زریار  نے یکدم سے سر اٹھایا اور اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا ...

 ۔

اسکو اپنی طرف  دیکھتا پاکر زرشال نے وہ فائل اس بار اسکی ٹیبل پہ رکھ دی...

زریار نے اس کی فائل کھول کر دیکھی ۔۔۔

"میڈم آپ شاید بے وقوف ہیں یا مجھے بیوقوف سمجھنے کی غلطی کر رہی ہیں "

"آپ کی کوالیفکیشن بی۔ایس۔سی ہے "آپ میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہیں اور کام آپ کو آفس میں کرنا ہے ۔جہاں اکاؤنٹس یا بزنس کی ڈگری درکار ہے۔"وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

"آپ کو جاب نہیں دینی تو صاف صاف بتائیں یوں بعزتی کرنے کی بھلا کیا تُک ہے "

" زرشال لہجہ تلخ ہوا تھا جس سے زریار کے ماتھے پر بل پڑے تھے ...

"میڈم میں نے آپ کو ریئلٹی بتائی ہے "پلیز میرا وقت برباد مت کریں کسی اپنے تعلیمی ریکارڈ سے متعلق شعبے میں جاب ڈھونڈھیں ۔۔۔۔

زرشال کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کے دل نے جانے کیوں اس کے لیے دلی ہمدردی محسوس کی ۔۔۔

"ایک منٹ رکیں "زرشال جو وہاں سے باہر نکلنے لگی تھی ،

زریار کی آواز سن کر رکی اور  پیچھے مڑکر اسے دیکھا ۔۔۔۔ 

"آپ یہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں "؟

"سر نارمل سی بات ہے ۔ہر کوئی پیسوں کے لیے ہی جاب کرتا ہے "زرشال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

"ہمممم۔مگرکچھ لوگ شوقیہ بھی کرتے ہیں "اس بار زریار نے اپنا رویہ تھوڑا سا نرم کیا۔

"یہ لیں "

زریار نے ٹیبل کے فرسٹ ڈراور سے اپنی چیک بک نکال کر اس پر اپنے سگنیچر کیے ۔۔۔

"یہ کیاہے "؟

زرشال نے حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔

"یہ چیک ہے ۔آپ کو جتنی رقم چاہیے اس میں بھر لیں ۔

"اور یہ عنائیت کس خوشی میں ؟؟؟

"آپ کو پیسوں کی ضرورت تھی ۔۔۔سومیں نے ضرورت پوری کردی اب یہ سوال جواب کیوں ؟؟؟

"کیا کوئی بھی آپ سے پیسے مانگے تو آپ ہر ایک کو ایسے ہی بلینک چیک دیتے ہیں ؟اس بار رویہ اور انداز دونوں سخت تھا ۔

"ہر کسی پر یہ مہربانی نہیں کرتا مگر مجھے لگے کے وہ ضرورت مند ہے تو اسکی  مدد ضرور کرتا ہوں "

"میں کسی کا مفت میں احسان نہیں لیتی "

وہ لٹھ مار انداز میں بولی ۔

"اگر آپ مجھے پیسے دے رہے ہیں تو اس کے پیچھے ضرور آپ کا کوئی مطلب پوشیدہ ہوگا ؟....

"ہاں سچ پہچانا مطلب تو ہے مجھے "وہ سنجیدگی سے بولا۔

"دیکھیے مجھ سے آپ نےکوئی بھی فضول گویائی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا "وہ دھمکی آمیز انداز میں انگلی اٹھا کر بولی ۔

"کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اسکے مثبت پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے ناکہ منفی کو ۔۔۔

زریار نے سپاٹ انداز میں کہا۔

"میں فقط اتنا چاہتا ہوں آپ یہ رقم نکلوا کر اپنی سٹڈی پر فوکس کریں ۔جب بھی آپ کے پاس یہ رقم آئے مجھے لوٹا دیجیے گا ۔رکھ لیں اسے ادھار سمجھ کر ۔۔۔۔

"مگر مجھ پر یہ مہربانی کیوں میرا سوال ابھی بھی وہیں ہے ؟؟؟

"ضرورت مند کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لیے سچے دل سے دعا کریں کہ میں جو چاہتا ہوں وہ مجھے مل جائے "

وہ کرب زدہ آواز میں بولا۔

"زرشال اس کے لہجے میں چھپے ہوئے غم کو محسوس کیے تھوڑا نرم پڑی ۔۔۔

"ضرورت مند کی دعائیں اتنا اثر رکھتی ہوتی تو مجھے خود کی دعا نا لگ جاتی ۔"وہ یاسیت سے بولی ۔

"خود کے لیے مانگی گئی دعا شاید خود کے لیے زیادہ جلدی مقبول نہیں ہوتی مگر کسی دوسرے کی دعا کی گئی دعا جلدی قبولیت کا درجہ پاتی ہیں ۔مجھے ایسا لگتا ہے ۔

"خدا نے مجھے آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے وسیلہ بنایا ہے ۔میں نے آپکی پریشانی دور کردی ۔اب آپ بھی میرے لیے دعا کر کے یہ بدلہ چکا سکتی ہیں ۔۔۔

وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولا۔

"میں آپکے لیے ضرور دعا کروں گی مگر میں یہ پیسے نہیں رکھ سکتی ۔۔۔اس نے وہ چیک لینے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔

"سمجھ لیں ایک بھائی اپنی بہن کو دے رہا ہے "وہ دینے پر بضد ہوا۔

"میرا بھائی سلامت ہے وہ مجھے سب دینے کا اہل ہے۔میں آپ سے یہ نہیں لوں گی ۔

زریار اس کی خوداری سے امپریس ہوا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے آپ یہ مت لیں مگر میں آپ کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔آپ بتائیں اگر فنانشلی میری مدد نہیں لینا چاہتی تو کسطرح آپکی مدد کرسکتا ہوں ۔؟

وہ سوچنے لگی پھر بولی ۔۔۔

"میری آپی ایک اکیڈمی میں جاب کرتی ہیں ان کی کوالیفکیشن تو اس جاب کے لیے کافی تھیں اسی لیے انہیں وہاں جاب مل گئی ۔آپ ہو سکے تو وہاں کے پرنسپل سے بات کر کہ مجھے بھی وہیں سیکنڈ ٹائم جاب دلوا دیں ۔میں سٹڈی کے ساتھ جاب بھی کرنا چاہتی ہوں تاکہ سٹڈی کے لیے اخراجات خود برداشت کر سکوں ۔۔۔

"ٹھیک ہے آپ مجھے پرنسپل کے بارے میں ڈیٹیل سے بتائیں میں کچھ کرتا ہوں "

زریار نے اس کی مشکل کا حل نکالا ۔۔۔

_____________

ایم کیڈ کاپیپر ہونے سے پہلے اکیڈمی نے ایک گرینڈ ٹیسٹ رکھا تھا ۔۔۔۔

اسی ٹیسٹ کی رپورٹ آج پرنسپل شفقت زئی کے سامنے آئی تو وہ دنگ رہ گئے اپنی اکیڈمی کے ٹاپر زمارے کی رپورٹ دیکھ کر ۔۔۔۔

"ہیلو !

اسلام وعلیکم !عامر خان۔۔

"وعلیکم اسلام !جی عامر خان سپیکنگ ...

"میں شفقت زئی بات کر رہا ہوں وقت نکال کر اکیڈمی آؤ ۔

"سب خیر تو ہے ؟انہوں نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔

"ہمممم۔۔۔۔اب خیریت ہے بس کچھ اہم بات کرنی ہے "

"ٹھیک ہے میں ابھی آتا ہوں "

عامر خان جو ابھی یہ سوچ کر گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ آج آفس کا چکر لگائیں گے ۔پرنسپل کی کال سن کر ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی زمارے کی اکیڈمی کی طرف موڑ لو ۔۔۔

ڈرائیور نے انہیں چند منٹوں کی ڈرائیو کیے انہیں اکیڈمی میں پہنچا دیا ۔۔۔

اکیڈمی میں داخل ہوئے تو ہر طرح کے لڑکے لڑکیاں ادھر ادھر چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آئے ۔۔۔

وہ سیدھا شفقت زئی کے آفس میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے ہی ایک بچی موجود تھی ۔

جو پرنسپل سے بات کر رہی تھی ۔۔۔

"کیا بات تھی اب بولو "وہ بنا وقت ضائع کیے مدعے کی بات پر آئے ۔۔۔

"ارے بیٹھو تو سہی تم تو آتے ہی شروع ہوگئے "شفقت زئی نے دوستانہ انداز میں انہیں بیٹھنے کی پیشکش کی۔

عامر خان کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئے ۔۔۔

"یہ زمارے کی رپورٹ "انہوں نے ریورٹ ان کے آگے سرکائی ۔۔۔

وہ پڑھنے لگے ۔۔۔فزکس،کیمسٹری ،انگلش میں پورے مارکس مگر بائیو میں زیرو ۔۔۔۔

وہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے۔۔۔

"اس سبجیکٹ میں کیا مسلہ ہے "؟

"عامر خان نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔

"مجھے تو خود بھی پتہ نہیں زمارے کو اس سبجیکٹ میں کیا ہوا ۔اس کا ٹیسٹ میں نے منگوا کر دیکھا تھا ۔بائیو کا ٹیسٹ بالکل صاف و شفاف تھا اس پر ایک بھی لفظ لکھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی تھی۔میں تو خود حیران رہ گیا ۔۔۔

شفقت زئی بولے ۔

"اس سبجیکٹ کو پڑھاتا کون ہے میری بات کرواؤ اس سے ...اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔مجھے زمارے کا ایم کیڈ میں ہنڈرڈ پرسنٹ رزلٹ چاہیے ۔۔۔عامر خان نے اٹل انداز میں کہا ۔

"اس سبجیکٹ کی ٹیچر مس گل ہیں ۔وہ بہت ہی ٹیلنٹڈ ٹیچر ہیں۔ان کی وجہ سے ہی اس بار سوائے زمارے کے ساری کلاس کا نائنٹی پرسنٹ رزلٹ آیا ہے۔

"ایکسکیوز می! شفقت زئی کے موبائل پر کسی کی کال آنے لگی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دوسری طرف چلے گئے ۔۔۔۔

"سر زمارے کا دھیان بائیو میں نہیں بلکہ بائیو کی ٹیچر اور اس کی سسٹر میں رہتا ہے "فرحین جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی ہوئی ان دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو سن رہی تھی پرنسپل کے جاتے ہی آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔۔

"آپ کون ہو بیٹا؟

وہ پر شفقت انداز میں بولے ۔

"میں زمارے کی ہی کلاس میٹ ہوں ۔میرے نمبر زمارے سے کم تھے مگر صرف زمارے کے بائیو میں نمبر نا آنے کی وجہ سے اس بار میں نے ٹاپ کیا ہے اسی لیے میں یہاں آئی تھی اپنی پروگریس رپورٹ لینے ۔۔۔وہ خوش دلی سے بولی ۔

"بہت شکریہ بیٹا مجھے بتانے کا "

بس آپ ایک بار مجھے ان دونوں بچیوں کی نشاندھی کر کہ بتادیں کہ وہ دونوں کون ہیں ۔باقی کام میں خود کو لوں گا ۔

"آئیے انکل میرے ساتھ "

عامر خان فرحین کے ساتھ باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔

"انکل وہ دیکھیں گراؤنڈ میں وہ دونوں سامنے ہیں ۔ایک گرے سوٹ والی جنہوں نے شال لی ہے وہ مس گل ہیں اور ان کے ساتھ پنک کپڑوں والی ان کی سسٹر زرشال۔

"بہت شکریہ بیٹا "

اٹس اوکے انکل "

عامر خان نے ایک اچٹتی سی نگاہ ان دونوں پر ڈالی پھر باہر کی جانب اپنے قدم بڑھادئیے ۔۔۔

"اب آئے گا مزہ مسٹر زمارے ٹاپر ۔۔۔مجھے نظر انداز کیا تھا نا ۔۔۔اب پڑھائی میں بھی پیچھے اور لڑکی بھی گئی ہاتھ سے ۔۔۔وہ زہر خند انداز میں کہتے ہوئے تصور میں زمارے کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر  مسکرائی ۔۔۔۔۔

"صاحب اب آفس جانا ہے ؟ڈرائیور نے عامر خان سے پوچھا ۔

"نہیں مجھے ایک جگہ اور جانا ہے رائیٹ سائیڈ پر گاڑی موڑ دو ۔

"جی صاحب "اس مؤدب انداز میں بول کر گاڑی کا رخ تبدیل کیا۔

" دو لڑکیاں ہیں ۔گل اور زرشال نام ہیں ان کے کل تک مجھے ان کے خاندان کے بارے ساری معلومات چاہیے ایک ایک بات ساری ہسٹری الف سے یہ تک مجھے ملنی چاہیے "وہ ایک ایجینٹ سے خفیہ انداز میں کہہ رہے تھے ۔

"یہ دونوں اکیڈمی میں پڑھاتی ہیں یہ اکیڈمی کا ڈریس باقی سب تم مجھے پتہ کر کہ بتاؤ گے ۔۔۔

"آپ کا کام ہو جائے گا "

"ہممم۔۔۔۔دیٹس گڈ "

وہ اس سے مل کر باہر نکلے تو ڈرائیور نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔

ٹریفک جام کی وجہ سے راستہ بلاک تھا ۔وہ کافی دیر ٹریفک میں پھنسے رہے ۔

اچانک ان کی نظر روڈ پر لگی ہوئی ایک بڑی سی سکرین پر پڑی ۔جہاں میوزک کا کوئی لائیو شو چل رہا تھا ۔

انہوں نے نظریں نخوت سے دوسری طرف پھیریں ۔مگر آواز کچھ جانی پہچانی لگی ۔۔۔

انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی تجسس کے ہاتھوں دوبارہ سکرین کی طرف دیکھا جہاں زیگن ہاتھ میں مائیک لیے زور و شور سے گانا گا رہا تھا ۔۔۔

اور عوام اچھل اچھل کر اسے داد دیتے ہوئے اس کے گانے کی پذیرائی کر رہی تھی ۔۔۔

یہ منظر دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے شعلے لپکنے لگے ۔۔۔

زیگن کو گاتے دیکھ ان کے تن بدن آگ بگولہ ہوا۔۔۔

ڈرائیور گاڑی گھر کی طرف کرو اب مزید کچھ اور دیکھنے کی ہمت نہیں مجھ میں آج کے دن انہوں نے تھکے ہوئے انداز میں اپنا سر سیٹ کی پشت سے لگایا ۔۔۔اور گہری سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرنے لگے ۔۔۔۔

_________

شام کے دھندلکے پھیل چکے تھے ، تیز چلتی ہوا کے باعث بال اڑ اڑ کر اسکے گالوں کو چھو رہے تھے ، وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر کھڑکی میں کھڑی ڈوبتے ہوئے سورج کا اداس منظر آنکھوں میں بسائے اپنی ہی سوچوں میں مدغم تھی ۔

رسائی اور نارسائی کے درد سے بوجھل ،ملن اور جدائی کے احساس سے جل تھل نین، سلگتے ہوئے جذبات سے گھائل ہوتی روح کا نوحہ ،اس کی محبت مگر باپ کی غیر موجودگی میں پروان چڑھتی ہوئی اس کی بیٹی ، وہ تنہا روتی مگر اسکے سامنے مسرور رہتی ۔۔۔محبت میں درد و الم،سوز ہی کیوں ہمیشہ مقدر ٹہرتا ہے ؟؟ہر محبت مکمل ہونے کے لیے آنسوؤں اور ہجر کا خراج مانگتی ہے ،مگر جن سے محبت ہوتی ہے ،ان کا ہجر بھی سرور انگیز محسوس ہوتا ہے۔اس کے واپس لوٹنے کی موہوم سی آس باقی تھی ابھی ،

سبحان خان کو اسے یہیں چھوڑ کر گئے ہوئے اٹھارہ سال ہوچکے تھے اس نے ایک بار بھی اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا کر نا دیکھا ۔وہ تو اس کی پیدائش سے پہلے ہی یہاں سے چلا گیا تھا ۔

جانے سے پہلے وہ لالہ رخ کو اپنا نمبر دے گیا تھا ۔لالہ رخ جب بھی بھاشیلینی سے باہر آتی قریبی ٹیلی فون بوتھ سے سبحان کا نمبر ملا کر اس سے بات کرتی ۔اسکے پاس موبائل فون جیسی سہولت مفقود تھی ۔بس اس کے بھائیوں کے پاس تھے فون ۔جنہیں چھیڑنے کی کسی کو بھی جراءت نہیں تھی۔کئی بار سبحان اور ذوناش کی بھی بات ہوتی رہتی تھی فون پر ۔وہ دونوں اکٹھے بھاشیلینی جاتی تھیں اسی لیے۔

ہر درد سے بڑا درد ہوتا ہے درد جدائی 

اک لمحہ جینے کےلیئے سو بارمرنا پڑتاہے۔۔۔یہی کیفیت تھی لالہ رخ اور ذوناش کی سبحان کے بغیر ۔۔۔

یورپین این ۔جی اوز یہاں آکر ان کی مالی امداد کرتی ہیں۔

 حالیہ عرصے میں شادی سے قطع نظر کیلاش لڑکیوں میں اسلام تیزی سے پھیل رھا تھا۔ جس سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ یورپین این جی اوز بھی پریشان ھیں جو اس علاقے میں کام کر رھی ھیں چنانچہ ان این جی اوز کی جانب سے ھر کیلاش فردکے لئے ایک بنک اکاؤنٹ کھولا گیا ھے جس میں ھر ماہ پابندی کے ساتھ بیرون ملک سے رقم ڈالی جاتی ھے جسکے عوض فقط یہی مطالبہ کیا جاتا ھے کہ مسلمان بننے سے پرھیز کیا جائے اور اگر کیلاش مذہب سے بیزار ھوں تو عیسائی بن جائیں لیکن مسلمان بننے سے گریز کریں.

ان دنوں ایک یورپی شخص کی نظر ذوناش پر پڑ گئی تو وہ لالہ رخ کے بھائی یعنی ذوناش کے ماموں سے اس کا رشتہ مانگ رہا تھا۔۔۔

اسکے ماموں نے کہا تھا کہ چلم جوش کا تہوار آنے والا ہے ۔تم ذوناش کو بھگا کر لے جاؤ ۔اسے اپنی طرف کر لو ۔ہم تمہاری شادی کردیں گے ۔

یہ بات لالہ رخ کے علم میں آئی تو اس نے اپنی بیٹی ذوناش سے اس سلسلے میں ُاس کی رائے پوچھی۔

وہ لوگ وہاں کی مقامی زبان ہی بولتی تھیں ۔مگر سبحان سے بات کے دوران ذوناش اردو کے بھی کافی الفاظ سیکھ چکی تھی ۔

ذوناش نے حال ہی میں میٹرک کے پیپرز دئیے تھے ۔کیلاش میں سکولز ان یورپی این جی او نے ہی تعمیر کروایا تھا۔جس میں وہاں کی لڑکیاں اور لڑکے جو علم حاصل کرنے کے شوقین تھے وہ پڑھتے تھے ۔

ذوناش کو جب اس انگریز کے بارے میں پتہ چلا تو وہ لالہ رخ اپنی ماں کے سامنے رونے لگی ۔اور کہا کہ ابھی وہ مزید پڑھنا چاہتی ہے۔اور اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔

یہی بات جب انہوں نے سبحان کو بتائی تو اس نے مشورہ دیا کہ ذوناش کو چلم جوش سے پہلے ان کے پاس یہاں بھیج دے کسی بھی طرح ۔۔۔۔لالہ رخ یہی سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ آخر وہ کس طرح یہ سب کرے گی ۔کیسے بچائے گی وہ اپنی بیٹی کو ان سب سے ۔۔۔

__________

"کیسی ہو بریرہ ؟

"شکر الحمد للّٰہ میں بالکل ٹھیک"

"آج تمہیں کیسے یاد آگئی میری اتنے سالوں بعد ؟"وہ میٹھا سا طنز کر گئی ۔

"چلو مجھے تو پھر بھی یاد آہی گئی مگر تم سے تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ خود بھی کبھی کال کر کہ حال پوچھ لوں مر گئی ہے صلہ یا ذندہ ....

"کیسی باتیں کر رہی ہو ؟صلہ!!!

"تم ٹھیک تو ہو ؟؟ورنہ پہلے کبھی تم نے اس لہجے میں بات نہیں کی ۔وہ تشویش بھرے انداز میں بولی۔

"سوری بریرہ ۔۔۔میں شاید کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گئی تھی ۔۔۔زندگی میں تلخیاں ہوں تو زبان میں بھی اپنے آپ تلخیاں گُھل جاتیں ہیں ۔وہ افسردگی سے بولی ۔

"کوئی بات نہیں دوست ہوتے کس لیے ؟؟؟اسی لیے کہ بندہ بلا جھجھک ان پر اپنا غبار نکال کر ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے ۔تمہیں بھی پورا حق ہے مجھ پر جو مرضی کہو مجھے برا نہیں لگے گا۔بس اپنی تلخی کی وجہ بتاؤ ...

"آہ !!!اس نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔"وجہ یوں فون پر نہیں بتا سکتی ملوں گی تو تفصیل سے بتاؤں گی ۔

"اچھا ٹھیک ہے جیسا تمہیں مناسب لگے "

"تم کہاں ہو ؟؟؟صلہ نے پوچھا ۔

"وہیں جہاں آج سے سالوں پہلے مجھے چھوڑ کر گئی تھی ۔

"واقعی تم ابھی بھی اسی گھر میں رہتی ہو ؟

"ہاں تو اور کہاں جانا ہے میں نے "

"شادی کی ؟؟؟

"صلہ کتنی بار کہا ہے اس ٹاپک پر مجھ سے بات مت کیا کرو .

"اچھا بابا نہیں کرتی "

"آنٹی کیسی ہیں ؟صلہ نے اسکی خفگی کے خیال سے  بات بدل کر پوچھا 

"امی کی طبیعت ٹھیک نہیں."

کیوں کیا ہوا انہیں ؟؟

"یار یہ امیروں والی بیماری نے ہم جیسے غریبوں کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے ۔وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولی ۔

"بریرہ بتاؤ بھی ؟پہلیاں مت بجھواو مجھے پریشانی ہو رہی ہے ۔

"امی ہسپتال میں ہیں ڈاکٹر نے امی کو ہارٹ سرجری کے لیے کہا ہے ۔"

"اوہ یہ تو واقعی پریشانی والی بات ہے "

"ہاں یہ تو ہے ۔میں جس سپیشل سکول میں پڑھاتی ہوں وہاں سے صرف اتنا ہی ملتا ہے کہ کچھ دوائیاں اور گھر کے چھوٹے موٹے اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔سرجری کے پیسے کہاں سے لاؤں ؟

"تم فکر مت کرو اللّٰہ اپنے بندوں کو ان کی استعداد کے مطابق دکھ دیتا ہے اس سے بڑھ کر نہیں یہ ایک کڑا وقت ہے نکل جائے گا تم بس ہمت مت ہارو ۔

"بہت شکریہ صلہ تم نے کال کی ۔۔۔تم سے بات کر کہ خود کو بہت ہلکا پھلکا سا محسوس کر رہی ہوں ۔واقعی دوست بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔بنا غرض کے ہمہ وقت ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ۔بریرہ ممنون انداز میں بولی ۔

"مجھے آج بھی وہ سکول کے دن یاد آتے ہیں کو ہم نے اکٹھے گزارے تھے ۔تم کتنا چپ چاپ رہنے والی لڑکی تھی ۔پہلے پہل تو میں تمہیں اپنے حسن پر نازاں ایک مغرور سی لڑکی سمجھتی تھی ۔مگر تم سے بات کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ تم مغرور نہیں ہو ۔بس اپنے آپ میں رہنے والی ایک رحمدل لڑکی ہو ۔جس کی صورت کے ساتھ ساتھ دل بھی حسین ہے۔

"بس ۔۔۔اب اتنی بھی تعریف مت کرو "

تم خود اچھی ہو اسی لیے تمہیں باقی سب بھی اچھے لگتے ہیں "بریرہ نے اسکی تعریف کرنے پر جوابا کہا۔

"میں جلد ہی تم سے ملنے آؤں گی "صلہ بولی ۔

"مجھے اس دن کا شدت سے انتظار رہے گا "

"اوکے اپنا اور آنٹی کا خیال رکھنا "

"ٹھیک ہے تم اپنا اور بھا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ مزید کچھ کہتی کال کٹ چکی تھی ۔۔۔

بریرہ نے فون ایک طرف رکھ دیا اور صلہ کے ساتھ گزرے ان بہترین دنوں کو یاد کرنے لگی ۔۔۔۔ 

_________

کیلاش قبیلے کے لوگ کزنز کو بھی بھائی سمجھتے ہیں اور قریبی رشتوں جیسے فرسٹ کزن وغیرہ سے شادی بھی جائز نہیں ۔دور کے رشتہ داروں سے شادی جائز ہے ۔یہ لوگ صرف اپنے قبیلے میں شادی کرتے ہیں ۔اگر کوئی مسلم یا قبیلے سے باہر شادی کرے تو یہ لوگ ناراض ہوجاتے ہیں اور قطع تعلق کر لیتے ہیں ۔جب لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں تو پھر لڑکے والے رشتہ مانگنے لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں ۔اگر لڑکی کے گھر والے نہ مانیں تو پھر لڑکا اور لڑکی بھاگ کر بھی شادی کر لیتے ہیں ۔کیلاش قبیلے میں پسند کی شادی کے علاوہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا تصور بھی نہیں۔کیلاش قبیلے میں پسند کی شادی کو مذہبی درجہ حاصل ہے ۔لالہ رخ اس لیے اپنے کسی قریبی سے بھی اس سلسلے میں مدد نہیں لے سکتی تھی ۔۔۔چلم جوش کا مذہبی تہوار شروع ہوگیا۔۔۔۔

۔تقریباً سبھی کیلاشی خواتین سلائی کڑھائی اور کھانا بنانے کا ہنر جانتی ہیں ۔اپنے ملبوسات خود ہی سلائی کرتی ہیں ۔کیلاشی ملبوسات بازار سے نہیں ملتے چونکہ ان ملبوسات کو بنانا بہت مشکل کام ہے۔ایک لباس کی تیاری میں دس ہزار کا خرچہ آتا ہے اگر کسی درزن سے سلائی کروائیں تو وہ ایک ہزار روپے لیتی ہے۔تہوار کے موقع پر کیلاشی خواتین اپنی سجاوٹ کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں اور گھر سے ہی تیار ہو کر آتی ہیں ۔نہ چاہتے ہوئے بھی کیلاشی خواتین کو اپنے کلچر کے تمام پہلووں پر عملدر آمد کرنا پڑتا ہے ۔جیسے بھاری بھرکم لباس دن رات پہننا کیلاشی خاتون کیلئے بہت مشکل ہے جس کا چوری چھپے اظہار بھی کیا جاتا ہے ،مگر تمام مشکلات کے باوجود وہ اسکو ترک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی چونکہ کیلاشی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگریہ لباس پہننا چھوڑ دیا تو کلچر کو گزند پہنچے گی۔۔لالہ رخ اور ذوناش دونوں تیار ہو کر سارا دن اس تہوار میں شامل رہیں ۔مگر شام ڈھلتے ہی جب  لالہ رخ نے دیکھا کے سب تھکاوٹ کے باعث سو چکے ہیں تو اس نے ایک بڑی سی شال ذوناش کے سر پر لیپٹ دی ۔

"یہ کچھ پیسے ہیں رکھ لو "

"یہاں سے پشاور جانا "

پھر آگے سے گاڑی ملے گی وہ تمہیں لاہور پہنچا دے گی ۔

"مگر میں اکیلی کیسے ؟؟

وہ تذبذب کا شکار ہوکر بولی ۔

"ان لوگوں سے بچنا ہے تو تمہیں ہمت کرنی پڑی گی ورنہ وہ لوگ تمہاری شادی کردیں گے میں بھی کچھ نہیں کر پاؤں گی ۔

"جاؤ یہاں سے جلدی "

وہ دونوں اپنی زبان میں بات کر رہی تھیں ۔

لالہ رخ نے اسے گلے سے لگا کر کہا ۔

ذوناش نے اپنی ماں کے گرد دونوں بازو مضبوط کیے۔جیسے وہ اس سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی ۔

"اپنے بابا کے پاس جا کر خوش رہنا ۔میں بھی جلدی آؤں گی "

وہ ذوناش کو روتے ہوئے دیکھ تسلی دینے کے انداز میں بولی ۔

دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے رو رہی تھیں۔

ذوناش نے لالہ رخ کے آنسو پونچھے تو لالہ رخ نے اس کے بہتے ہوئے آنسو صاف کیے ۔۔۔

ذوناش آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اندھیروں میں گم ہو گئی ۔۔۔۔

لالہ رخ اسے اندھیروں میں گم ہوتا دیکھ اسکی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی ۔۔۔۔۔

"سر ان کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔بھائی پرائیویٹ فرم میں جاب کرتا ہے اور پھر سیکنڈ ٹائم پزا ہٹ میں ڈیلیوری بوائے کا کام کرتا ہے والد حیات نہیں ایک بوڑھی ماں ہے ۔وہ چوبیس گھنٹے گھر رہتی ہے۔بڑی بیٹی گل اکیڈمی میں پڑھاتی ہے پھر گھر میں ٹیوشن سینٹر کھولا ہوا ہے۔چھوٹی بیٹی زرشال نے بی۔ایس ۔سی کیاہوا ہے .ابھی فارغ ہے اور جاب کی تلاش میں گھوم رہی ہے۔اس کے علاؤہ اور کچھ جاننا ہے آپ کو ؟اس پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو نے عامر خان کو ساری معلومات بہم پہنچائیں ۔

"بس ٹھیک ہے تمہارا اتناہی کام تھا۔

__________

"شفقت زئی گل اور زرشال دونوں کو اکیڈمی سے نکال دو "

"یہ کیا کہہ رہے ہو ؟

"میں ایسے کیسے بلاوجہ اسے اکیڈمی سے نکال دوں ؟

وہ حیرت زدہ آواز میں بولے ۔

"سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تمہارا دوست تمہیں ایسا کرنے کے لیے کہہ رہا ہے "عامر خان نے درشت آواز میں کہا۔

"مگر عامر میں ؟؟؟وہ شش و پنج میں مبتلا ہوئے ۔۔۔

"ٹھیک ہے مت نکالو انہیں ...اب تمہیں دوست سے زیادہ وہ دونوں عزیز ہوگئیں ۔عامر خان نے انہیں ایموشنل بلیک میل کیا ۔۔۔۔

"ایسی بات نہیں ہے عامر "

"اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو سمجھو ہماری دوستی ختم "اس بار عامر خان نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔

"اچھا میں کچھ کرتا ہوں "شفقت زئی نے مصلحانہ انداز میں کہا۔

"اسلام وعلیکم !

وعلیکم السلام !

کیسے ہیں پرنسپل صاحب آپ ؟

"شکر الحمد للّٰہ میں بالکل ٹھیک "

ابھی عامر خان کا فون رکھا ہی تھا کہ زریار خان کا فون آگیا ۔۔۔۔

"پرنسپل صاحب آپ سے ایک ریکوئسٹ کرنی تھی "

"بولو بیٹا کیا بات ہے ؟

"دراصل میری ایک جاننے والی فیملی ہے ۔ان کی بیٹی زرشال بالکل میری بہنوں جیسی ہے۔میں چاہتا ہوں آپ انہیں اپنی اکیڈمی میں جاب پروائڈ کردیں ۔ان کی بڑی سسٹر شاید آپکے پاس جاب بھی کرتی ہیں 

"

شفقت زئی نے موبائل کو کان سے ہٹا کر گھورا ۔۔۔۔

"باپ کہتاہے ان دونوں کو اکیڈمی سے نکال دو ۔اور بیٹا کہہ رہا ہے دوسری کو بھی رکھ لوں۔۔۔۔

"یہ میں کہاں پھنس گیا "

وہ اپنے سر کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے خود سے بولے ۔۔۔

"اوکے بیٹا میں دیکھتا ہوں "یہ کہہ کر انہوں نے کال کٹ کردی ۔

کافی دیر سوچنے کے بعد انہوں نے پیون کو بلایا ۔

________

"میڈم گل یہ آپ کے لیے "گل جو کلاس کو لیکچر ڈیلیور کررہی تھی ۔پیون کی آواز سن کر کلاس روم کے دروازے پر دیکھا ۔

گل نے اینویلپ پکڑ کر الٹ پلٹ کر دیکھا ۔

"اس میں کیاہے "؟

"اور کس نے دیا ہے "؟

گل نے حھیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے پوچھا ۔

"میڈم یہ آپ کے کچھ ڈیوز ہیں ۔پرنسپل صاحب نے دیے ہیں ۔کہہ رہے تھے کے کل سے آپ اکیڈمی میں پڑھانے مت آئیے گا "وہ مؤدب انداز میں سر جھکائے بولا۔

"مگر ایسے کیسے وہ مجھے اچانک فارغ کرسکتے ہیں ۔؟

"کوئی ریزن تو ہوگی مجھے ایسے نکالنے کی "

اس کے صبر کا پیمانہ چھلکا تو وہ اونچی آواز میں بولی۔

ساری کلاس میں دھیمی دھیمی سرگوشیاں ہونے لگیں ۔۔۔

زمارے نے مس گل کا اہانت آمیز سرخی مائل چہرہ دیکھا پھر ساتھ کھڑی زرشال کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔

"مس آپ پرنسپل صاحب سے خود بات کریں "زمارے نے تجویز پیش کی۔

"پرنسپل صاحب آفس میں ہیں ؟

گل نے پیون سے پوچھا ۔

"نہیں میڈم انہیں دوسرے شہر کی برانچ میں جانا تھا وہ چلے گئے شاید اب ہفتے بعد ہی لوٹیں "پیون نے وہی بتایا جو اسے شفقت زئی نے کہنے کے لیے بولا تھا۔

"انہوں نے گل کو اکیڈمی سے نکالنے کا حکم دے تو دیا تھا ،مگر اس کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں مفقود پائی اسی لیے وہاں سے نکل گئے ۔۔

گل اپنی چیزیں سمیٹ کر رنجیدہ انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔

"بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے "فرحین نے طنزیہ انداز میں لہلہاتے ہوئے زرشال کو دیکھ کر شعر پڑھا ۔۔۔

زمارے نے گھور کر فرحین کی طرف دیکھا ۔

لیکچر ختم ہوچکا تھا اسی لیے سٹوڈنٹ کلاس سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

زمارے چلتا ہوا زرشال کے پاس آیا جو باہر نکلنے کو پر تول رہی تھی ۔

زمارے کو پاس آتے دیکھ وہیں رک گئی۔۔۔

اور گنگ سی اسے تکنے لگی۔

"عجب پاگل سی لڑکی ہوں،

ان خوابوں کو چُنتی ہوں۔

جنہیں پورا نہیں ہونا،

دعا وہ مانگتی ہوں جسکو اذنِ

باریابی ہی نہیں ملنا،

میں ہونے اور نا ہونے کی،

عجب کشمکش سہتے ہوئے۔

زندہ ہوں اور اس دل کی سنتی ہوں۔

معلوم ہے مجھکو اب جس راستے پر چلنا ہے ،

وہاں پر میرے لیے بس اک بھرم ہے ساتھ چلنے کا،

وہاں کے خار تلوں میں چبھے گے۔

مگر مجھکو اف نہیں کرنا،

مگر میں پھر بھی سر جھکائے اس راستے پر چلتی ہوں ،

مگر میں پھر بھی جیتی ہوں ،

عجب پاگل سی لڑکی ہوں ،

وہ سوچوں کے بھنور میں ڈوبی ہوئی تھی ،،،،

"بڑی ہواؤں میں اڑ رہے تھے اب آئے نا زمین پر "فرحین پاس سے گزرتے ہوئے بھی فقرہ کسنا نا بھولی ۔۔۔

"اب ہوا نا میرا بدلہ پورا "

وہ فرضی کالر اچکا کر بولی ۔۔۔

"یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے نا ؟وہ خشمگیں نگاہوں سے فرحین کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔

"ہاں میں نے ہی کیا ہے ۔۔۔لو اب بدلہ تم بھی "وہ زمارے کے سامنے تن کر کھڑی ہوئی ۔

"تم جیسی چھچھوندر اس قابل نہیں کے زمارے اس سے بدلہ لے۔بے شک بہترین منصف اعظم وہ اللّٰہ پاک کی ذات ہے۔کسی کے ساتھ برا کرنے والے خود بھی کبھی سکون سے نہیں رہتے ،

"زرشال آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے "

وہ پورے حق سے فرحین کے سامنے زرشال کا ہاتھ پکڑ کر اس کے قریب سے گزرتے ہوئے باہر نکلا۔۔۔

دونوں کو ساتھ دیکھ فرحین کی آنکھوں میں مرچیاں سی بھرنے لگیں ۔

زرشال تو اس کے ہاتھ پکڑنے سے کانپ کر رہ گئی ۔۔۔۔

"یہ۔یہ ۔۔۔کیاکر رہے ہو؟؟؟

"چھوڑو میرا ہاتھ "وہ باہر آتے ہی اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کرواتے ہوئے بولی۔

دل تو خوشی سے جھوم اٹھا ،مگر دماغ اسے سرزنش کرنے لگا ،،،یہ سب ٹھیک نہیں ۔

"زرشال !!!پلیز میری بات سنو "

زرشال جو دماغ کی سن کر پلٹ کے جانے لگی تھی زمارے کی آواز پر رکی ۔

اس عرصے کے دوران شاید ہی ان دونوں نے آپس میں کوئی بات کی ہو گی ۔

صرف آنکھوں کی زبان ہی بولتی تھی ۔

آج زرشال کو خود سے دور جاتے دیکھ زمارے میں چھپی ہوئی ہمت بیدار ہوئی اور اس نے زرشال سے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

"بولو "وہ سنجیدگی سے بولی ۔

"کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو صرف محسوس کیے جاتے ہیں میں بھی اُن ان دیکھے رشتے میں بندھنے لگا ہوں ،

"جانے ایسی کونسی کشش ہے تم میں جو مجھے تمہاری اوڑھ کھینچنے لگی ہے "

"میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں کہ میں تم سے ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنے دلی جذبات کو اس پر عیاں کرتا ہے ۔

"پلیز زمارے میں کوئی بھی بات نہیں سننا چاہتی "

"تم اپنی سٹڈیز پر توجہ دو ،میں نے دیکھا ہے تمہارا رزلٹ ،نا خود بدنام ہو اور نا مجھے کرواؤ ۔۔۔۔جب کچھ بن جاؤ گے ،تب میرے پاس آنا اپنے دلی جذبات لے کر "

"تب میں دیکھوں گی کہ یہ جزبات وقتی تھے یا ۔۔۔۔

وہ بات ادھوری چھوڑ کر پلٹ گئی ۔۔۔زمارے وہیں ساکت سا کھڑا رہ گیا۔۔۔۔۔

گویا وہ اس کے جزبات سے آشنا تھی ،اسی بات نے اس کے دل و دماغ میں سرشاری سی بھر دی ۔

وہ زرشال اور گل کے پیچھے باہر نکلا تو شہریار باہر ہی کھڑا تھا ۔

"اسلام وعلیکم دوست کیسے ہو ؟شہریار نے زمارے سے ہاتھ ملا کر اس کا احوال دریافت کیا۔

"وعلیکم السلام میں بالکل ٹھیک ",وہ پر جوش لہجے میں بولا۔

"خیریت آپ مارکیٹ سے آرہے ہیں ؟

زمارے نے شہریار کی بائیک پر کافی سارے سامان کے شاپنگ بیگز لٹکے دیکھ کر پوچھا ۔

"او ۔۔۔ہاں آج میری سسٹر کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں اسی لیے کچھ کھانے پینے کا سامان لیا ہے ۔سوچا ان دونوں کو بھی پک کرلوں ۔مگر سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں رکشہ میں بٹھا دیاہے اب بائیک ساتھ ساتھ لے کر چلوں گا ۔

"اوکے پھر ملاقات ہوگی ۔یہ نا ہو رکشہ آگے گزر جائے "وہ جلدی سے کہہ کر بائیک سٹارٹ کرنے لگا ۔

"اٹس اوکے آپ جائیں ۔ان شااللہ جلد ہی ملاقات ہو گی "زمارے نے سوچنے کے انداز میں کہا۔

"ہمممم۔ان شااللہ۔"

__________

"زمارے کیا بات ہے بیٹا ؟؟؟

کیوں اتنا اندھیرا کیا ہوا ہے کمرے میں ؟ 

اور آج کھانا کھانے باہر بھی نہیں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بسمہ نے آکر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

زمارے بیڈ پر اوندھے منہ بنا شرٹ کے لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔مگر کمرے کی ہر چیز ترتیب وار سجی ہوئی تھی وہ بہت صفائی پسند تھا۔اپنی چیزوں کی یونہی حفاظت کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"

زمارے اب اٹھ بھی جاو خان صاحب بھی آنے والے ہوں گے ۔۔۔۔بسمہ نے اس کی پیشانی پر بکھرے اسکے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیا کرنا ہے اٹھ کے بھی "زمارے  نے کروٹ بدلتے ہوئے بسمہ کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زمارے  کیا بات ہے ؟طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری ؟بسمہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سب ٹھیک ہے مام بس آپ یونہیں ہمیشہ مجھ سے پیار کرتی رہا کریں ۔۔۔وہ ان کا ہا تھ چومتے ہوئے پیار بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مام ایک بات پوچھوں آپ سے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔

"پوچھو ۔۔۔بسمہ نے اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" 

"مام مجھے کوئی بہت پسند ہے ،میں اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں ،کیا آپ اسے پانے میں میری مدد کریں گی "زمارے  نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا  ۔۔۔۔۔۔بسمہ جو غور سے زمارے  کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زمارے ابھی یہ مت سوچیں  چھوڑیں ایسی باتیں ،،،،ابھی تمہاری عمر نہیں ہے یہ سب کرنے کی ، پڑھائی پر توجہ دیں ۔۔۔اور جلدی سے فریش ہو کر نیچے آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور کھانا کھاؤ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ نا ہو کہ خان صاحب کو غصہ آجائے ۔۔۔۔

وہ پیار بھری سرزنش کرتے ہوئے باہر چلی گئیں ۔۔۔۔

_________

"بلاؤ اس نالائق اولاد کو کہاں ہے "؟

وہ اونچی آواز میں دھاڑے تو ان کی آواز پوری حویلی میں گونجی ۔۔۔

"خان صاحب کیا بات ہے ؟

"کسے بلا رہے ہیں "؟

بسمہ نے آکر پوچھا ۔

زمارے کو شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے نیچے اتر رہا تھا ۔۔سیدھا چلتا ہوا عامر خان کے پاس آیا ۔۔۔۔

"دیکھا ہے میں نے تمہارا رزلٹ شرم تو نہیں آرہی شہر کی سب سے بہترین اکیڈمی میں تمہیں پڑھا رہا ہوں اور تم میرے پیسے برباد کر رہے ہو "

"جہاں تمہارا دھیان ہے نا آج کل سب جان چکا ہوں میں ....

"میں نے وہ وجہ ہی ختم کر دی ہے ،اب دماغ کو پڑھائی کی طرف لگاؤ "

وہ درشت آواز میں بولے ۔

زمارے سن کر حیرت زدہ رہ گیا ۔۔۔اس کے دماغ میں فورا کلک ہوا ۔۔۔

"کہیں آپ نے تو نہیں زرشال کو وہاں سے نکلوایا "؟

وہ سپاٹ انداز میں ان سے من میں آیا سوال کر گیا ۔۔۔۔

"میں تمہیں بتانے کا پابند نہیں جتنا کہا جائے اتنا کرو "

"ویسے بھی وہ مڈل کلاس لوگ ہمارے پائے کے نہیں "

"تمہاری شادی میں وقت آنے پر اپنی برداری کی کسی لڑکی سے کروں گا "

"یہ مڈل کلاس کیا ہوتا ہے ؟سب مسلمان برابر ہیں ۔اور الحمدللہ وہ مسلمان ہیں ۔میں نے کونسا کسی غیر مذہب کی لڑکی کو پسند کیا ہے جو آپ کو اتنا غصہ آ رہا ہے ۔"

"آپ میرا رشتہ لے کر جائیں زرشال کے گھر "وہ سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

"تم پہلے زمین سے پوری طرح اُگ تو لو پھر عشق معشوقیاں بھی لڑا لینا ۔۔۔۔انہوں نے اپنی رعب دار آواز میں کہا

"آپ سمجھتے کیوں نہیں ان کی شادی کہیں اور ہو جائے گی ۔۔"

"کیا کہوں وہاں جا کر میرے ایف -ایس-سی پاس بیٹے کا رشتہ لایا ہوں ،جسے ایم- کیڈ کی پڑھائی کرتے اس کی اکیڈمی کی ٹیچر سے عشق ہوگیا ۔۔۔۔"وہ کاٹ دار نظروں سے دیکھتے ہوئے دھاڑے ۔۔۔

زمارے نے ان کی گل کی بجائے زرشال کی تصیح کرنا مناسب نا سمجھا ۔

"ویسے بھی اپنی شکل کبھی ملاحظہ کرو آئینے میں ...تمہیں کس نے لڑکی دینی ہے ؟؟؟"انہوں نے اسے آئینہ دکھایا۔۔۔۔

"آپ کو بھی تو اپنی امارت کے بل پر میری ماں جیسی حسین لڑکی مل گئی تھی تو مجھے کیاکیڑے پڑے ہیں ؟"

وہ بھی انہیں کا خون تھا جو انہیں کے انداز میں جواب دے رہا تھا۔

"زبان کاٹ دوں گا ناہنجار "!!!

وہ دو قدم اس کی طرف بڑھ کر بولے ۔۔۔

بسمہ فورا ان دونوں کے درمیان آئی ۔۔۔

"ام کہتا ہے تم معافی مانگو خان سے "وہ زمارے کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔

اس وقت وہ اپنے شریک حیات کا غصہ دیکھ چکی تھیں ۔انہیں پرسکون کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو معافی مانگنے کے لیے کہا۔۔۔

"باپ کا نام  عامر خان ہے مگر بیٹے میں شاہ رخ خان جیسی رومانس کی جانے کونسی روح حلول کر گئی ہے ۔جو اس کی زبان پہلی بار باپ کے سامنے فراٹے بھر رہی ہے ۔"

ابھی بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔۔۔۔

"نام زمارے رکھا جسکا مطلب شیر ...

"مگر تیرے کام تو ۔۔۔۔۔وہ دانت پیس کر بات ادھوری چھوڑ گئے ۔۔۔

"میں آپ کو آخری بار کہہ رہا ہوں زرشال سے ہی شادی کروں گا ۔۔۔آپ نے بات نہیں مانی تو .....وہ انگلی اٹھا کر بولا۔

"تو ۔۔۔تو ؟؟؟کیا کرے گا تو ؟؟؟وہ اسکے قریب آتے ہی اسے کالر سے دبوچ کر غرائے۔۔۔

"خان صاحب یہ کیا کر رہے ہیں "؟

زیگن یونیورسٹی سے زریار ابھی آفس سے لوٹا تھا ،دونوں بیک وقت حویلی میں داخل ہوئے تو خان صاحب کو زمارے پر جھپٹتے ہوئے دیکھ کر ان کے پاس آئے ۔۔۔۔

"تم دونوں بھی وہیں کھڑے رہو میرے قریب بھی مت آناورنہ اس عمر میں بھی تم دونوں کا لحاظ نہیں کروں گا دو دو ہاتھ دھروں گا تمہارے منہ پر بھی ۔

وہ زریار اور زیگن کی طرف دیکھ کر غرائے۔۔۔۔

"بڑی اولاد دیکھو شادی کو پانچ سال ہونے کو آئے ہیں ابھی تک ایک پوتے کی شکل نہیں دکھا سکا مجھے لگتا ہے یہ حسرت لیے ہی قبر میں اتر جانا ہے میں نے "وہ زریار کی طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔

صلہ نے جب ان کی بات سنی تو آنکھوں میں آنسو لیے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔ذریار اس کی حالت کے پیش نظر اس کے پیچھے لپکا ۔۔۔

"میں کہہ تو رہا ہوں میری شادی کردیں ایک تو کیا اکٹھی کرکٹ ٹیم جتنے پوتے پوتیوں کے منہ دکھا دوں گا "

زمارے نے خان صاحب کے غصے کی پرواہ کیے بنا مسکرا   کر کہا ۔۔۔۔

بسمہ تو اپنے بیٹے کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر شرم سے پانی پانی ہو گئیں ۔۔۔

"بکواس بند کرو اپنی "

خان صاحب زمارے کی بات سن کر گرجے۔۔۔

"یہ ایک اور گندی اولاد دیکھو ۔۔۔۔باپ دادا کا نام ڈبونے چلا ہے ۔میراثی بن کر "وہ زیگن کی طرف دیکھ کر پھنکارے ۔۔۔۔

"اس نے کیا کردیا ؟؟؟بسمہ نے زیگن پر عامر خان کو غصہ کرتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"اصل غلطی تمہاری ہے،تم نے ان کا دھیان نہیں رکھا یہ کیا کیا گل کھلاتے پھرتے ہیں ۔

وہ سب کے ساتھ اپنی زوجہ بسمہ کو بھی رگید گئے ۔۔۔۔

"جناب میراثیوں کی طرح گانے بجانے لگے ۔ادھر میں سوچ سوچ کر ہلکان ہو گیا ہوں کہ کیسے ان کا مستقبل سنواروں ۔

اور یہ پڑھائی چھوڑ کر ۔۔۔ٹی وی پر گاتے پھر رہے ہیں ۔

"ان تینوں نے تو مجھے مل کر زلیل وخوار کر دیا ہے "

وہ اپنی دُکھتی ہوئی پیشانی کو سہلاتے ہوئے بولے ۔۔۔

"آپ پریشان مت ہوں آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی میں سمجھاتی ہوں انہیں "

بسمہ نے زمارے اور زیگن کو اشارہ کیا کہ فی الوقت وہ یہاں سے غائب ہوجائیں ۔۔۔

وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔۔۔۔

بسمہ عامر خان کا سر دبانے لگیں۔۔۔۔

__________

"تم یہاں بیٹھی ہو اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں٠٠٠ 

زریار ،صلہ کے پاس آتے ہی بولا۔

"جی بس کچھ دیر اکیلا رہنے کا دل کیا تو میں یہاں آ کر بیٹھ گئی ..صلہ نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوۓ بولی ...

"ٹھیک ہے تو پھر میں چلا جاتا ہوں "

"نہیں ۔۔نہیں آپ بیٹھیں نا  ...."

زریاراس کے برابر میں بیٹھ گیا....

جبکہ صلہ بس ایسے ہی خاموش بیٹھی رہی تھی ....

"کیا تم خان صاحب والی بات پر اداس ہو ...زریار  اسکی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوۓ بولا ....

"کیا وہ بات اداس ہونے والی نہیں تھی ؟؟؟

صلہ افسردگی سے بولی تھی بولتے ہوۓ اسکی آواز کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں میں بھی نمی تھی...

"صلہ میں تمہیں یوں اداس اور روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا "

"تم نا امید مت ہو صلہ دیکھنا ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا اسکو یقین دلاتے ہوئے بولا ....

ذریار کی بات سن کر وہ بس خاموش ہی رہی تھی مگر اسکے  دل نے  زریار کی بات پر آمین کہا تھا...

.... شام کا وقت تھا موسم کافی اچھا بھی ہو رہا تھا ،ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی وہ دونوں ٹیرس پر موجود تھے ۔۔۔۔

 "کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کی انسان جب کسی کے لیے کچھ اچھا کرتا ہے تو جانے انجانے میں اس سے کچھ غلط بھی ہو جاتا ہے کسی کو خوشی دینے کے ساتھ ساتھ وہ کسی کے غموں کی وجہ بھی بن جاتا ہے....

زریار کھوئے ہوئے انداز میں بولا صلہ اس کی آنکھوں میں وہ کرب آسانی سے دیکھ سکتی تھی....

" قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے ،ہم چاہ کر بھی کچھ  نہی کر سکتے ،

"اپنی زندگی کا نچوڑ میں نے یہی نکالا ہے کہ کسی چاہ کر بھی ہم اپنی ذات تک محدود نہیں کر سکتے ،یہ جو دلوں کے معاملے ہوتے ہیں نا ،ان پر کوئی زور نہیں ،اگر کوئی آپکے لیے دل میں محبت نہیں رکھتا تو اپنا آپ اس پر تھوپنے کی بجائے خودی پیچھے ہٹ جائیں ۔خود ٹوٹ کر بکھرنے سے پہلے ہی خود کو سمیٹ لیں،شاید ہم نظر انداز ہونے کی اذیت ناک موت سے بچ جائیں ،

وہ یاسیت بھرے انداز میں بولی۔

"صلہ میں نے تمہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا "

"ہمیشہ تمہاری ذات کو اہمیت دی بن کہے ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی ہے،یہ تو خدا کے معاملے ہیں،وہ جسے چاہے عطا کرے "

زریار نے سپاٹ انداز میں کہا۔

""من پسند انسان کا کوئی 

متبادل نہیں ہوتا ،نا خیالوں میں ،نا زمیں اور نا آسمانوں پر""

وہ دل میں سوچ کر رہ گیا مگر لب سلے ہوئے تھے ۔۔۔۔

ابھی وہ درد باقی ہے،

اگر چہ وقت مرہم ہے،

مگر کچھ وقت لگتا ہے۔

کسی کو بھول جانے میں۔

دوبارہ دل بسانے میں،

ابھی کچھ وقت لگنا ہے،

ابھی وہ درد باقی ہے،

میں کس طرح نئی الفت میں،

اپنی زات گم کردوں ،

کہ میرے جسم و وجدان میں،

ابھی وہ فرد باقی ہے،

ابھی اس شخص کی،

مجھ پر نگاہِ سرد باقی ہے،

ابھی تو عشق کے رستوں کی ،

مجھ پہ گرد باقی ہے،

ابھی وہ درد باقی ہے ،

"زریار !!!! صلہ نے اسے چپ دیکھ کر پکارا 

ہمممم۔۔۔وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا ۔

"آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ؟؟؟

"یہ کیسا سوال ہے ؟؟؟وہ تندہی سے بولا۔

"آپ مجھے جواب دیں "وہ بضد ہوئی ۔۔۔

"ہاں کرتا ہوں ",اس کی آواز دور کسی کھائی سے آتی ہوئی معلوم ہوئی ۔۔۔

"پھر مجھے آج اپنے پیار کا ثبوت دیں "وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی ۔

"کیسا ثبوت ؟؟؟وہ ابرو اچکا کر بولا۔

"میری بات مان کر "

"کون سی بات "؟

"صاف صاف کہو "

"اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو دوسری شادی کر لیں "

وہ ایک ہی جست میں دل میں آیا خیال کہہ گئی ۔۔۔۔

"صلہ !!!

"تم اسطرح کی بات سوچ بھی کیسے سکتی ہو ؟؟؟

"مجھے تمہاری ہر بات منظور ہے مگر یہ نہیں "

"پلیز مجھے فورس مت کرنا اور دوبارہ مجھ سے اس ٹاپک پر بات بھی مت کرنا۔

"وہ قطعیت سے بولا۔

"ہمیشہ یاد رکھی جانے والی چیز  ہمارے دشمن کا ظلم نہیـــــــــں  بلکہ ہمارے اپنوں کی خاموشی ہے......!!

"زریار آپکی خاموشی اور اجنبیت مجھے اندر ہی اندر مار رہی ہے ،میں نے ان پانچ سالوں میں لمحہ لمحہ محسوس کیاہے۔آپ میرے پاس ہوکر بھی میرے نہیں "

مگر یہ بات وہ زریار کے سامنے نہیں کہہ پائی صرف سوچ کر رہ گئی۔۔۔۔ شادی سے پہلے بھی وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا ،مگر شادی کے بعد بے شک  زریار نے اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ،وہ شروعات میں ہی سمجھ گئی تھی ،کہ زریار خان سارے کا سارا اسے میسر ہے سوائے اس کے دل کے "

ایک بیوی کے لیے اس سے بڑے دُکھ کی بات اور کیا ہوگی کہ وہ اپنے شریک حیات کے دل پر راج نا کر سکے ،اس پر کسی اور کی حکمرانی ہو ،

ایک بات پوچھوں؟

اس نے دھیمی آواز میں زریار کو غصے میں دیکھ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے  ہوئے پوچھا تو وہ ہلکے سے اثبات میں سر ہلا گیا۔

"اگر مجھے کچھ ہوگیا یا میں نہیں رہی تو ؟؟۔۔۔۔

صلہ کے الفاظ منہ میں رہ گئے جب زریار نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا سیاہ رنگ آنکھیں ایک پل میں سرخ ہوئیں تھیں،

"صلہ ۔۔۔ایسے کیوں۔۔۔بول۔۔رہی ہو تم ؟۔۔۔۔۔

"فضول باتیں مت کرو،کوئی بھی وقت قبولیت کا ہوتا ہے "

"اب تو میں مر بھی جاؤں تو مجھے کوئی غم نہیں "

آپ کے ہاتھوں میں جان نکلے اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہوگی میرے لیے "

وہ نم جھلملاتی ہوئی آنکھوں سے بولی ۔

"اگر تم نے دوبارہ ایسی کوئی بھی فضول بات اپنے منہ سے نکالی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔

"آپ تو دنیا کے سب سے اچھے انسان ہیں آپ بھلا کیسے برے ہوسکتے ہیں۔۔میں تو بس یونہی پوچھ رہی تھی۔۔۔

زریار نے اس کی بہتی ہوئی آنکھوں کو پونچھا ۔۔۔

"زریار مجھے یہ سمجھ نہیں آتی پیار میں درد ملتا ہے یا خوشی  ؟

"محبت کی کوئی مخصوص  ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی صلہ

سب آوًٹ آف سلیبس ہوتا ہے،جو ہم نے سوچا بھی نا ہو،یہ کبھی رگ رگ درد دیتی ہے ،تو کبھی روح تک سیراب کردیتی ہے۔"

،وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے ۔۔۔۔

کچھ لمحے یونہی خاموشی سے بیت گئے ۔۔۔

"زندگی میں دو چیزیں ہیں جو ہمیشہ چھوڑ جائیں گی 

ساتھ اور سانس 

سانس چھوٹنے سے انسان مر جاتا  

لیکن جو دل کے قریب ہوں ان کا ساتھ چھوٹنے سے انسان  پل پل مرتا ہے۔"وہ ڈوبے دل سے بولا آنکھیں بند کیں تو کسی کی شبیہہ لہرائی ۔۔۔۔وہ فورا آنکھیں کھول گیا ۔

اب تو اس کی شبیہہ سے بھی ڈرنے لگا تھا کحجا کہ اس کا سامنا کرنا ۔

صلہ نے اسے جی بھر کر دیکھنے کے بعد لمبی سانس لی پھر زریار کے ہاتھ پر اپنے لب رکھ گئی ۔۔۔زریار جو حیرت کی مورت بنا اسکے اس انوکھے عمل کو دیکھ رہا تھا،،

صلہ نے اسکے سینے پر سر رکھ کر مطمئن سی ہوکر آنکھیں موند لیں،

"،زریار پلیز صرف ایک بار میری بات مان لیں "

"صلہ پھر سے مت دہرانا وہ سب میں کچھ بھی سننا نہیں چاہتا "

"میں خالہ سے بات کروں گی وہی ان کو سمجھائیں گی "صلہ نے دل میں مصمم ارادہ کیا۔"

_________

لالہ رخ جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی جب دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھلا اس نے فوراََ اپنے آنسو صاف کیے اور مڑ کر دیکھا سرخ آنکھیں لیے  اسکا بھائی اندر داخل ہواتھا

" ایک سیکنڈ میں کھڑی ہو اور بتاؤ ذوناش کہاں ہے ؟"اس کا چہرہ رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا.

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولتا ہوا غرایا ۔۔۔ 

"میں۔۔۔میں نہیں جانتی میں نے اسے نہیں دیکھا ۔۔۔

مجھے نہیں پتہ وہ کدھر ہے "لالہ رخ نے اپنے دوپٹے سے  آنسو رگڑ کر کہا وہ جو پہلے ہی غصے میں تھا ۔سارے گھر میں ذوناش کو کہیں نہیں دیکھ کر اس کی بات سن کر اس کا دماغ گھوم گیا۔۔۔وہ  بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے آیا وہ اس دیو ہیکل جیسے وجود کے ساتھ کھینچی چلی جارہی تھی آنسو زاروقطار آنکھوں سے گر رہے تھے "میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے ؟؟؟

وہ مُسلسل انکار اور  مزاحمت کر رہی تھی،،،،

"تمہیں ذرا احساس نہیں وہ لوگ باہر ذوناش کا انتظار کر رہے ہیں ہم سب کو باہر کیا منہ دکھائیں گے ۔تم ماں ہو ،تم انجان نہیں ہو سکتی کہ وہ کہاں گئی ۔۔۔ویسے تو چوبیس گھنٹے تمہارے گھٹنے سے لگی ہوتی ہے ۔اور اب تم انکار کر رہی ہو ۔۔۔جلدی بتاؤ کہاں گئی؟

 وہ سفاکیت سے بولا۔

"اگر وہ یہاں سے بھاگ گئی تو دیکھنا اسے بھی ڈھونڈھ کر ذندہ زمین میں گاڑھ دوں گا اور تمہیں بھی ۔۔۔۔

اس نے قہر آلود نظروں سے  دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکائے فرش پر گرے ہوئے رونے میں مگن تھی۔۔۔۔

"رونا بند کر اور جواب دے کہاں بھیجا اسے "وہ اس پر دھاڑ اٹھا ۔۔۔جس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔۔۔۔مگر اس نے چپ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا

"ضرور اپنے باپ کے پاس گئی ہوگی ۔اچھا ہے ۔بہت سالوں سے اس حرام خور سے بھی حساب لینا ہے ،اس بار نہیں بچے گا میرے ہاتھوں سے "

وہ پھنکارتا ہوا لالہ رخ کو پاؤں سے زوردار  ٹھوکر رسید کرتے ہوئے باہر نکلا ۔۔۔۔

لالہ رخ روتے ہوئے اپنی بیٹی اور اپنے شریک حیات کی زندگی کی حفاظت کے لیے دعا کرنے لگی ۔۔۔۔

اس کی بھابھیاں اسے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں مگر کسی میں ہمت نہیں تھی اسے سہارا دینے کی ۔۔۔۔

__________

وہ اکیڈمی سے واپس آئی تو ہال میں کافی مہمان بیٹھے تھے۔ زرشال نے غور کیا تو یہ پتہ چلا کہ وہ گل کے سسرال والے تھے۔۔۔ وہ سب سے مل کر اندر چلی گئی کپڑے چینج کرنے ۔۔۔ سدرہ بھی اس کے پیچھے ہی چلی آئیں۔۔

کپڑے چینج کر کے جلدی باہر آجاو بیٹا اور آکے کھانا بناو۔مہمان کھانا کھا کر جائیں گے آج ۔گل کا ہاتھ بٹاو ۔۔۔۔ وہ اسے کہہ کر واپس چلی گئیں۔۔۔

 اور وہ کچھ بھی نہ کہہ پائی کہ فی الحال اس کا دل کسی بھی کام میں نہیں لگے گا ۔۔۔

کپڑے چینج کر کے وہ بوجھل دل سے کچن میں چلی آئی اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی مہمان ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی آئے تھے اور شام کو جاتے تو خاطر تواضع تو ضروری تھی۔۔۔۔

 سدرہ باہر مہمانوں کے ساتھ بیٹھیں تھیں گل اپنی ساس اور نند کے ساتھ براجمان تھی جبکہ شہریار اپنے کمرے میں جا چکا تھا ۔۔۔۔

 زرشال اکیلی کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔۔ دو گھنٹے میں اس نے کباب، بریانی، قورمہ ، سلاد اور فروٹ کسٹرڈ بنا لیا تھا۔۔۔ اتنے وقت میں وہ اتنا ہی کر سکتی تھی۔۔۔

اس نے کھانا ٹیبل پر لگا کر سب کو اطلاع دی اور جب سب آگئے ۔۔۔سب آپس میں بیٹھے گل کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کے متلق باتیں کر رہے تھے ۔وہ کام ختم کیے اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔۔

آج ہم یہاں شادی کی تاریخ لینے آئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اب جلد ہی شادی کر دیں اپنے بیٹے کی۔۔۔۔۔ گل کی ساس فرزانہ بیگم نے اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔

جی جی ضرور جو آپ کو بہتر لگے ،

"دراصل ہم  شادی کی تاریخ جلدی کی رکھنا چاہتے ہیں ،خیر سے میرے بیٹے کو  چھٹی مشکل سے ہی ملتی ہے اور ہم چاہ رہے تھے کہ اس بار کی چھٹیوں میں اس فریضے سے فارغ ہو جائیں ۔۔۔۔

"مگر ۔۔۔ابھی کچھ تیاریاں باقی ہیں ،سدرہ نے جھجھکتے ہوئے کہا۔

"بہن ہمیں دو کپڑوں میں اپنی بیٹی چاہیے میرا بیٹا فوج میں ہے ۔بڑا ہی اصول پسند ہے ،اس نے یہاں آنے سے پہلے ہی مجھے کہہ دیا تھاکہ وہ جہیز کی فضول رسم کے سخت خلاف ہے اور آپ کو بھی سختی سے منع کردوں کہ ہمیں جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں چاہیے ۔

"لیکن پھر مجھ سے جتنا ہوسکا میں ضرور کروں گی ،میری بیٹی کی ہر خوشی کو پورا کرنا چاہتی ہوں ،

جی ٹھیک ہے پھر آپ ہی بتائیں کون سی تاریخ مناسب رہے گی۔۔۔۔ سدرہ نے نرمی سے کہا۔۔۔

اگلے ماہ کی پانچ تاریخ ٹھیک رہے گی ایک دن مہندی دو دن بعد بارات اور تیسرے دن  ولیمہ۔۔۔

جی یہ کُچھ جلدی نہیں ہے؟ سدرہ حیرانی سے بولیں کیونکہ پانچ  تاریخ میں صرف اٹھارہ دن بعد باقی تھے۔۔۔۔

نہیں بہن یہی تاریخ مناسب ہے اور تیاریاں تو سب ہی مکمل ہیں پھر دیر کس بات کی۔۔۔ .  فرزانہ بیگم نے جواب دیا۔

چلیں پھر ٹھیک ہے یہی تاریخ فائنل کرتے ہیں۔

سدرہ کے شوہر ایک سرکاری ملازم تھے ،ان کی ماہانہ پینشن خرچ کرنے کی بجائے سدرہ اسے بینک میں ہی رہنے دیتی ،تاکہ گل کی شادی کے لیے مناسب رقم کا انتظام ہوسکے ۔اسی لیے وہ کچھ مطمئن تھیں اس اچانک شادی والے فیصلے پر ، 

زرشال ، زمارے کو منع تو کر آئی تھی مگر دل اس سے ناراض تھا شاید ،،،جو اسے کچھ بھی اور سوچنے نہیں دے رہا تھا ۔

وہ بار بار اپنے دلی جذبات کو ڈپٹ کر سلانے کی کوشش کرتی مگر وہ پھر سر ابھارے اسے عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا کردیتے ۔۔۔اپنی اس کیفیت کو وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی ،

اے زندگی تجھے کیا کہوں،

میرے ساتھ تو نے کیا کیا،

جہاں آس کا کوئی دیا نہیں،

مجھے اس نگر پہنچا دیا۔

نا میں بڑھ سکوں نا میں رک سکوں،

نا کسی کو کچھ بھی میں کہہ سکوں ،

تجھے کیا کہوں رونے کیا کیا،

مجھے منزلوں کی خبر تو دی،

پر راستوں کو الجھا دیا،

اے زندگی تجھے کیا پتہ،

یہاں کس نے کس کو گنوا دیا،

اے زندگی تجھے کیا کہوں،

میرے ساتھ تو نے کیا کیا ،

_________

چترال سے کچھ لڑکیاں اسلام آباد کی یونیورسٹی اور کالجز میں پڑھتی تھیں ،اس لیے وہاں کے لوگوں نے اس اکیلی لڑکی کو جاتے ہوئے نہیں روکا ،لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ پڑھائی کے لیے واپس ہاسٹل جا رہی ہے،

وہ پشاور تو پہنچ چکی تھی ،مگر وہاں کے بس اسٹینڈ پر کھڑی تھی،بڑی بس کھچا کھچ مردوں سے بھرنے لگی ،

عجیب و غریب چہرے کچھ جھنجھلائے ہوئے ،کچھ سنجیدہ ،کچھ کی لوفرانہ نظریں،غرض ہر قسم کے مرد موجود تھے وہاں ،اس نے اکیلے اس مردوں سے بھری ہوئی بس میں سوار ہونے کی ہمت خود میں مفقود پائی۔جانے کس کے ساتھ جگہ ملے ،وہ کچھ سوچتے ہوئے وہاں سے رکشہ لے کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چلی گئی ،تاکہ ٹرین کے زریعے لاہور پہنچ سکے اپنے بابا کے پاس ۔۔۔۔

__________

یمنی کھانے کے دوران چور نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے زیگن کو دیکھ رہی تھی  مگر اس ستم گر نے اسے ایک بار بھی دیکھنا گوارا نہیں کیا  اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ اپنی پلیٹ کر جھکا کھانا کھانے میں مصروف تھا ۔۔۔

اسے یوں خود سے بے نیاز دیکھ اچانک ہی اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا بھلے ہی اس گھر کے مکینوں کا رویہ اس کے ساتھ بہت اچھا تھا مگر زیگن کا ہمہ وقت بےحد سرد رویہ اس کے دل پر نشتر  چلاتا تھا، وہ بمشکل اپنے آنسو روکے پلیٹ سے چائنیز رائس کے تین چار چمچ سے زیادہ حلق سے نہ اتار پائی تھی کھانے چھوڑ کر وہ اپنے  کمرے میں آکر تنہائی ملتے ہی  زار و قطار رونے لگی ۔۔۔اس کی بے اعتنائی یاد آنے پر اس کے رونے میں اور شدت آ گئی تھی ۔

"تم صرف میرے ہو "....وہ تنہائی میں اس کے عکس سے ہمکلام تھی ۔

_________

نیا دن طلوع ہوچکا تھا،سورج اپنے پورے آب و تاب سے چہار سو روشنی پھیلا چکا تھا،پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر خوراک کی تلاش میں آسمان پر اڑتے ہوئے اس کی رونق بڑھا رہے تھے،وہ جو رات اندھیرے لاہور کے لیے نکلی تھی دن نکلے ٹرین پر سوار ہوکر لاہور کی حدود میں داخل ہو چکی تھی ،بس دو سٹیشن بعد وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے والی ،ٹرین دو اسٹیشن پہلے ہی وہ رکی تو کچھ مسافر اس پر سے اترنے لگے ،وہ بھی تیزی سے باہر نکلی اور ٹیلی فون بوتھ کے پاس جا کر اپنے بابا کے نمبر پر کال ملا کر انہیں اپنی لاہور آمد کی خبر دی ،انہوں نے اس سے جلد از جلد پہنچنے کا وعدہ کیا ،وہ مطمئن سی ہو کر واپس ٹرین پر سوار ہوگئی ۔۔۔۔

 __________

"ہیلو کہاں ہو عامر ؟

"یار میں گھر پہ اور کہاں جانا ہے "

"عامر میری بیٹی ذوناش لاہور پہنچنے والی ہے ،

میں تو شیخوپورہ آیا ہوں واپس آتے ہوئے ایک گھنٹہ لگ جائے گا ،یہ نا وہ اسٹیشن پر میرا انتظار کرتی رہے ،تم اسے وہاں سے لا سکتے ہو ؟

"ٹھیک ہے تم فکر مت کرو میں کرتا ہوں کچھ "

انہوں نے وقت دیکھا ،زمارے اس وقت اکیڈمی میں ہوگا ۔

اور زریار آفس جا چکا ہے ،

"اممممم۔۔۔۔"زیگن کدھر ہے ؟

انہوں نے اسے کال ملائی ۔۔۔

"پاکستان کے ابھرتے ستارے،اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہے اپنے اس ناچیز باپ کے لیے تو ۔۔۔ کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے کہ آپ کدھر وقت برباد کر رہے ہیں "؟

ان کے لہجے میں چھپا ہوا طنز زیگن نے بھانپ لیا ،مطلب ان کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔

"خان صاحب میں یونیورسٹی میں ہوں "

"جدھر بھی ہو فورا ریلوے اسٹیشن پہنچو "وہ سپاٹ انداز میں بولے ۔

"کیوں سب خیریت ہے نا ؟وہاں جا کر کیا کرنا ہے؟

"میرے دوست سبحان خان کی بیٹی ذوناش آرہی ہے،اسے لے کر آؤ وہاں سے ۔

"مگر خان صاحب میں اسے کیسے پہچانوں گا ؟

بات تو پتے کی ِکی تھی اس نے 

وہ خود سوچ میں پڑ گئے ۔

"وہ کیلاش سے آرہی ہے،شاید حلیہ کچھ ویسا ہی ہو تم بھی تھوڑا دماغ استعمال کر لیا کرو کبھی ۔

"مجھے نہیں پتہ جیسے مرضی ڈھونڈھو اسے ۔

وہ قطعیت سے بولے۔

"مگر خان صاحب....

"میں بھی آتا ہوں عامر کے ساتھ تمہارے پیچھے مگر ہمیں پہنچنے میں شاید وقت لگے جائے تمہاری یونیورسٹی اسٹیشن کے قریب ہے اسی لیے کہا ہے ،جاو جلدی ۔

"جی خان صاحب "اس نے جھجھنجلا کر فون کٹ کیا،

جانے کا دل نہیں تھا ،مگر انہیں منع کر کہ مزید ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔اس لیے یونیورسٹی سے باہر نکلا ۔۔۔

 ________

جب وہ اپنے بابا کو فون کر کہ واپس آئی تو کچھ آوارہ لڑکے ٹرین پر سوار ہوچکے تھے ، ان کی نظریں مسلسل اس کا طواف کر رہی تھیں۔انہوں نے جب دیکھا کہ وہ اکیلی ہے اور اس کے ساتھ کوئی نہیں تو وہ اور بھی شیر ہو گئے ۔۔۔۔

منزل آنے پر ٹرین رکی تو وہ اپنے گرد لپیٹی ہوئی شال کو مزید خود پر پھیلائے باہر نکلنے کے لیے اٹھ کر چلنے لگی  ۔۔۔۔

"ہائے مر جاواں گُڑ کھاکہ " !!!!!

وہ سینے پر ہاتھ رکھے آہ بھر کر بولا۔

"لچکیلی کمریا تو دیکھو نیلی آنکھوں والی گڑیا کی ....."

وہ جو بڑی سی شال میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھی صرف نیلی آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔

اس اوباش نوجوان نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر خباثت سے کہا۔۔۔۔

"یار کھیر اکیلا نا کھا جائیں ۔۔ہمیں بھی کھیر چکھنی ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھیوں میں سے ایک اپنی بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ رگڑتے ہوئے کمینے پن سے بولا۔

وہ انکی باتیں تو زیادہ نہیں سمجھ سکی مگر خطرہ محسوس کران کے تیور دیکھے وہ پلٹ کر بھاگنے لگی ۔۔۔اور ٹرین سے باہر نکلنے ہی لگی جو ابھی ابھی رکی تھی۔

وہ تیز رفتاری سے اس کی طرف بڑھے کہیں ان کا شکار ہاتھ سے نا چھوٹ جائے ۔۔۔

ایک نے اس کی شال کے کونے سے اسے کھینچنا چاہا۔۔۔۔

مگر وہ ان سے بچنے کے لیے تیزی سے باہر کود گئی ۔۔۔

زیگن جو کسی کو ڈھونڈھنے آیا تھا۔۔ٹرین کے دروازے میں سے جھانک کر اندر دیکھنے لگا تھا کہ ایک وجود دھڑام سے اس پر گرا ۔۔۔

شال پیچھے موجود ایک لوفر لڑکے کے ہاتھ میں رہ گئی ۔۔۔

وہ اس سچویشن کےلیے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔

وہ دونوں ایک ساتھ زمین بوس ہوئے 

 زیگن نیچے اور ذوناش اس کے اوپر ۔۔۔

زیگن اپنے اوپر گرے ہوئے وجود کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔

حسین دلکش نقوش سے سجاچہرہ بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں سے ٹپکتی ہوئی وحشت اور ڈر سے کپکپاتی گھنی پلکیں ،سرخ و سفید تمتماتے ہوئے سیبی گال ،ساحرانہ نقوش سے سجا فسوں خیز ُحسن ،

خمدار تھوڑی پر تین سیاہ تل ۔۔۔۔

اسے لگا دنیا کا ساری خوبصورتی  سمٹ کر اس کے چہرے پر آگئی ہو  ۔۔۔

وہ اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔۔۔

زیگن کو اس کے ہاتھ بالکل اپنے دل کے مقام پر رکھے ہوئے محسوس ہوئے ۔

"دل پر پہلی بار محبت نے دستک دی "

وہ جو پیار و محبت کو بکواس سمجھتا تھا،اسی عشق کے آکٹوپس نے اسے پر اپنا پہلا وار کردیا تھا۔۔۔۔وہ اس جال میں خود کو پھنستا ہوا محسوس کرنے لگا ،

انہیں یوں گرے دیکھ ریلوے اسٹیشن پر موجود ساری عوام اکٹھا ہوگئی۔۔۔

وہ جلدی سے اس پر سے اٹھی ۔۔۔

تو زیگن نے بھی اٹھ کر اپنی جینز اور بلیک لیدر جیکٹ کو جھاڑا ۔۔۔

ایک بار پھر نظر اس پری وش پر اٹھی ۔

جو بڑے سے سیاہ فراک میں ملبوس ۔۔جس پر رنگا رنگ کڑھائی کی گئی تھی ۔ 

 سر کو ڈھانپنے والی ٹوپی بھی پہن رکھی جو پیٹھ کی طرف سے آکر سر کے اوپری حصے پر گولائی میں پھیلی ہوئی تھی ۔ اس ٹوپی نما حصے پر درجنوں کی تعداد میں سیپیاں، گھونگے، سکے، بٹن اور رنگین پَر و دیگر سجاوٹ کی چیزوں کو نہایت خوبصورتی سے ٹانکا گیا تھا۔

"اوئے نکل یہاں سے ،نہیں تو"

وہ اپنے ساتھیوں سمیت ٹرین سے باہر نکل کر بولا۔۔۔۔

زریار کو معاملہ سمجھنے میں ایک لمحہ ہی لگا۔۔۔۔

اس کی براؤن آنکھیں شرارے اگلنے لگیں ۔۔۔۔

"یہ تو کافرستان (کیلاش )سے آئی لگتی ہے ۔یہ کافر ہے ۔۔۔اسے سنگسار کردو """

عوام میں موجود ایک انتہا پسند اس لڑکی کو نخوت سے دیکھ کر اونچی آواز میں بولا ۔۔۔۔

عوام نے بنا معاملہ جانے ارد گرد پتھروں کی تلاش میں نظر دوڑائیں ۔۔۔

اسے مارنے کے لیے ۔۔۔۔

ہجوم میں سےایک آدمی کو پتھر کی بجائے اینٹ دکھائی تھی تو اس نے اینٹ اٹھاکر اس کی طرف پھینکی ۔۔۔

اس سے پہلے کے اینٹ اسے لگتی زیگن اس انجان لڑکی کو بچانے کے لیے اس کے آگے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہوا ۔اور اس کی طرف آتی ہوئی اینٹ کو اپنے فولادی بازو سے روکا۔۔۔۔

اوباش نوجوانوں کے گروہ نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔۔۔۔

 "خبردار جو کوئی بھی اس کے نزدیک بھی آیا "زیگن بھاری گرجدار آواز میں بولا تو ذوناش وہاں کھڑی سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگی تھی۔

وہ اوباش لڑکے ذوناش کی طرف بڑھ رہے ،زیگن کو اکیلا دیکھ کر ۔۔۔

 "یہ انجان فرشتہ نما انسان کون تھا جو  اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا تھا،ذوناش نے دل میں سوچا ۔اس نے صدق دل سے دعا کی تھی کہ کاش یہ لڑکا اسے یہاں اکیلا چھوڑ کر مت جائے ۔

کچھ لڑکے قہقہے لگاتے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے تھے ،

"اپنی زندگی چاہتا ہے تو ابھی بھی وقت ہے چلا جا  ۔"وہاں موجود آدمی مغرور لہجے میں بولتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔

"لعنت ہو تم سب پر جو مذہب کے نام پر انسانیت کی دھجیاں اڑا رہے ہو "

وہ مجمے کی طرف دیکھ کر غرایا ۔۔۔۔

ایک لڑکے نے چپ چاپ پیچھے سے آکر ذوناش کو اپنی طرف کھینچا ،اس کے سر پر رکھی ہوئی ٹوپی نیچے گری ۔۔۔وہ  اس کے نازک وجود کو اپنی طرف گھسیٹنے لگا۔۔۔

ذوناش کی بے ساختہ چیخیں گونجیں ۔۔۔وہ شاید اپنی مقامی بولی میں مدد مانگ رہی تھی ،

زیگن نے اس کی چیخیں سن کر اپنے پیچھے دیکھا  ۔۔۔

جہاں ایک شخص اسے ریلوے ٹریک پر گھیسٹ رہا تھا 

اور وہ خوف کے باعث چیخیں مار رہی تھی ۔۔۔۔

زیگن کا دل اسے اس حالت میں دیکھ کر چلنا بند ہوا۔۔۔۔

اس نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا نیچے گری ہوئی اینٹ کو جھک کر اچکتے ہوئے اوپر اٹھایا۔۔۔ اور سامنے کھڑے شخص کی طرف نشانہ تاکتے ہوئے پھینکا ۔۔۔۔

قریب کھڑے ہوئے ایک آدمی کے منہ پر جاندار قسم کا پنچ مارا پھر گھوم کر پیچھے کھڑے ہوئے لڑکے کے سینے پر اپنا جوگرز والاپاؤں اٹھا کر مارا۔۔۔۔وہ دور جا گرا۔۔۔۔وہ اس گروہ کے ساتھیوں میں سے ایک کا بازو پکڑ کر مروڑ گیا ۔۔۔وہ باری باری اس کے سامنے آ رہے تھے ۔۔۔۔زیگن نے کسی پر ہاتھ سے وار کیا تو کسی پر پاؤں سے ۔

ان لوگوں نے جب دیکھا کہ وہ اکیلا سب پر بھاری پڑ رہا ہے ۔

جانے کیسے وہ ان سب سے مقابلہ کر رہا تھا ۔وہ اس کی بہادری پر حیران تو ہوئے لیکن جلد ہی سنبھل کر سب ایک دفعہ اکٹھا ہو کر اس کی طرف جارحانہ انداز میں بڑھے۔۔۔زیگن  نے دائیں جانب سے آتے آدمی کے اپنی طرف بڑھتے ہاتھ کو ایک ہاتھ سے پکڑا اور اپنی طرف زور سے کھینچتے ہوئے سائیڈ سے گزار کر زمیں پر دھکیل دیا۔وہ منہ کے بل اوندھا ہوکر نیچے گرا تھا اور کچھ لمحوں کے لیے اسے سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔دوسرے کا وار اس نے جھک کر خالی  جانے دیا اور اٹھتے ہوئے اچھلا تھا۔گھوم کر اس کے منہ اور سینے پر پاؤں مارے اور اسے پیچھے کی جانب گرنے پر مجبور کر دیا تھا۔اتنے میں پیچھے گرا شخص بھی سنبھل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور سامنے والا بھی اس کے سر پہنچ گیا تھا۔اس نے آگے والے کے دو مکے اپنی کلائیوں پر روکے تو پیچھے والے نے اس کی کمر میں بازو ڈال کر اسے جکڑ لیا۔وہاں موجود عوام فری کا تماشا دیکھ رہی تھی ۔جبکہ ذوناش اسے اتنے لوگوں سے اکیلا لڑتا دیکھ بھونچکا رہ گئی ۔۔۔

"کتنا بہادر اور نیک دل انسان ہے یہ جو بنا جانے اس کے لیے سب سے لڑ رہا ہے "اس نے دل میں سوچا ۔

زیگن نے اپنا آپ  آزاد کروائے اوپر اٹھا اور اس کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے اس نے دونوں ٹانگیں اٹھائیں اور سامنے والے کے سینے پر دے ماریں۔وہ اچھل کر پیچھے جا گرا اور اسے پکڑنے والے شخص کا توازن بھی کھو گیا۔نتیجتاً اس کی گرفت بھی تھوڑی ڈھیلی پڑی اور زیگن  نے اسے جھٹکا دے کے پیچھے کی جانب دھکیلا۔وہ شخص کمر کے بل زور سے زمین پر گرا۔

زیگن نے پلٹ کر اسے نفرت سے دیکھا۔وہ ورزشی جسامت کا آدمی تھا اسی لیے زیگن  کچھ دیر کیلیے اس کی گرفت میں آ گیا تھا۔ اور اس بات کا غصہ اس نے اس آدمی کے چہرے پر پھر سے پنچ مار کر نکالا تھا۔اسے نڈھال  کرنے کے بعد وہ دوسروں کی طرف بڑھا۔

 جو ہوش میں ہونے کے باوجود اٹھ نہیں سکے تھے۔

ایک ایک وار کر کے انہیں بھی ان کے کئیے کی سزا دی ۔

ریلوے اسٹیشن پر موجود عوام میں سے شاید کسی نے اس معاملے کی پولیس کو خبر کردی تھی ۔دور سے ہی پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی ۔۔۔

"ان غنڈوں کا شروع کیا ہوا کھیل ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ فاتح بن کر ان سب کے درمیان کھڑا تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ اسے بچا لے گا ۔لڑنے کی وجہ سے بازوؤں میں ہلکا سا درد جاگ اُٹھا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ لڑکی زرا دور  کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

زیگن درد کے باوجود بھی اس کی طرف بڑھا اس کی حالت کے پیش نظر اپنی لیدر جیکٹ اتار کر اس کے شانوں پر پھیلائی ۔وہ تھر تھر کانپ رہی تھی  ۔شاید وہ خوفزدہ ہو چکی تھی اس کی نیلی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرا رہے تھے ۔وہ اس کی سمندر کی طرح گہری شفاف  آنکھوں میں اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔

"کاش ان آنکھوں پر ہمیشہ کے لیے میری دسترس حاصل ہو جائے " اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر سوچا ۔مگر دوسری طرف ذوناش سوچ رہی تھی کہ اگر وہ اس کی مدد نہ کرتا تو اب تک پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا ہو چکا ہوتا یہی سوچ سوچ کر اس کے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے ،

پولیس پہنچ چکی تھی اور ان غنڈوں کو کھینچ کھینچ کر گاڑی میں ڈال رہی تھی ۔

"تم دونوں ٹھیک ہو "عامر خان اور سبحان خان اکٹھے وہاں پہنچے تو لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر حیرانی سے بولے ۔

عامر خان نے زیگن کو دیکھا جسے چھوٹی چھوٹی خراشیں آئیں ہوئیں تھی ۔

"کیا ہوا تمہیں "؟ان کی جہاندیدہ نظریں معاملہ بھانپ چکیں تھیں۔

"کچھ نہیں خان صاحب سب ٹھیک ہے "

"بابا "

ذوناش سبحان خان کو پہچان چکی تھی ،کیونکہ اس نے سبحان خان کو ہمیشہ تصویر میں ہی دیکھا جہاں اس کی اور اس کی والدہ لالہ رخ کی شادی ہوئی تھی ،وہی تصویر وہ ہر وقت دیکھ کر تو وہ اپنے بابا کو یاد کرتی تھی ۔بس اتنا فرق پڑا تھا کہ اب ان کے چہرے پر جھریاں نمایاں ہونے لگیں تھیں،

"میری بچی "

سبحان خان نے والہانہ محبت سے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔

اور اپنے کندھوں پر موجود شال اتار کر ذوناش کو دی ۔

ذوناش نے شال اوڑھتے ہوئے زیگن کی جیکٹ اتار کر اسے واپس دی ۔نظریں ملانے سے گریز برتا ۔

دوسری طرف زیگن اس کی نظریں بدلنا محسوس کر گیا ۔

جسکے لیے وہ سب سے لڑا موصوفہ گھر والے ملنے پر اسے نظر انداز کر رہی تھیں ۔اس نے چبھتی ہوئی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا جو ایک بار پھر سے اپنے نازک وجود کو شال میں چھپا چکی تھیں۔

وہ سر جھٹک کر رہ گیا ۔آخر میں کیوں اس کی توجہ کا طالب ہونے لگا "اس نے دل میں خود کو ڈپٹا ۔

اور نظریں پھیر لیں ۔

پولیس انسپکٹر اس کی طرف آئے اور زیگن سے معاملے کی تحقیقات کرنے لگے ۔۔۔وہ انہیں اپنے ساتھ لیے دوسری طرف گیا ۔۔۔۔تاکہ انہیں اصل بات بتا سکے ۔۔۔۔

"عامر کہیں لالہ رخ کے بھائی نا آجائیں "

سبحان خان اپنے دل میں آئے ہوئے خدشے کو ظاہر کیے بولا۔

"آ بھی گئے تو کیا ہوگا ؟یہ تمہاری بیٹی ہے ،اور تم اسے اپنے پاس پورے حق سے رکھ سکتے ہو "عامر خان نے اسے حقیقت بتلائی ۔

"پر عامر میں اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

"اکیلے میری بات ہوتی تو اور بات تھی ،مگر میں ذوناش کو کیسے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں ،یہ نا ہو وہ لوگ اس کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ جائیں ،ہمیںں کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ۔

"کچھ سوچتے ہیں "فی الحال تم چلو یہاں سے "عامر خان نے اسے احساس دلایا کہ وہ لوگ ابھی تک ریلوے اسٹیشن پر موجود ہیں۔

عامر خان نے سبحان خان ذوناش کو اپنی گاڑی میں بیٹھا دیا ۔۔ 

وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے ۔۔۔

"عامر خان اگر آج میں تم سے کچھ مانگوں تو انکار تو نہیں کرو گے "سبحان خان کی بوجھل آواز سن کر عامر نے تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھا۔

"تم کُھل کر کہو کیا کہنا چاہتے ہو "؟

"میں چاہتا ہوں میری بیٹی کی حفاظت کی ذمہ داری ہمیشہ کے لیے تمہیں سونپ دوں ،تم اسے اپنی بیٹی بنا لو .تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہنا چاہتا ہوں ،بے شک میں حثیت اور مرتبے میں تمہارے برابر نہیں ۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھ عامر خان کے آگے جوڑتے ہوئے عاجزانہ درخواست کرنے لگا 

"ایسی باتیں مت کرو "عامر خان نے اس کے جُڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ سے نیچے کرتے ہوئے کہا۔

"یہ میری ہی بیٹی ہے،تم نا بھی کہتے تو کافی دنوں سے میں یہی سوچ رہا تھا ،بس  اتنی جلدی اور ایسے یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا ۔

مگر وقت کا تقاضا شاید یہی ہے کہ ہمیں ابھی یہی قدم اٹھانا ہوگا"وہ مدبرانہ پن سے سوچتے ہوئے بولے 

"اوکے خان صاحب میں یونیورسٹی واپس جا رہا ہوں "

زیگن انہیں آگاہ کرتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگا ۔

"رکو زیگن "عامر خان کی گھمبیر آواز سن کر وہ رکا ۔

"جی "

مجھے تم سے بات کرنی ہے ،

"جی کیا بات کرنی ہے ؟"

"ایسا کرو تم بائیک پر کورٹ چلو "وہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈال کر بولے ۔

"مگر کورٹ کیوں "؟

"جتنا کہا ہے اتنا کرو "وہ ماتھے پہ تیوریاں چڑھا کر درشت آواز میں بولے ۔

زیگن بھناتا ہوا اپنا سارا دن ضائع ہوجانے کے خیال سے واپس اپنی بائیک پر آکر بیٹھا اور اسے سٹارٹ کی۔

کچھ ہی دیر میں وہ سب کورٹ کے باہر موجود تھے ،

سبحان تم اندر جا کر وکیل سے بات کرو ساری تفصیل بتاؤ میں بس آ رہا ہوں ۔

عامر خان نے سپاٹ انداز میں کہا ۔

"اچھا ٹھیک ہے "وہ کہتے ہوئے ذوناش کو اپنے ساتھ لیے کورٹ میں داخل ہوگئے ۔

وہ اپنے بابا کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔

"ذوناش بیٹا تم بھی کہتی ہوگی کہ کیسا باپ ہے ؟

جو ساری عمر تم سے دور رہا ،تمہارے لیے کچھ نا کر سکا ۔مگر یقین جانو میں بہت بے بس تھا۔میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا جو میں تمہارے ماموں کو ادا کرپاتا اور تم دونوں کو وہاں سے نکال کر یہاں لے آتا ۔

میں قرضدار ہوں تمہارا بھی اور لالہ رخ کا بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر دو ۔

وہ دونوں چلتے ہوئے رکے تو سبحان خان نے نم آنکھوں اور بھیگی ہوئی آواز سے کہا۔

"وہ تڑپ کر رہ گئی ۔

"بابا میں آپ سے بہت پیار ۔۔۔۔مجھے کوئی گلہ نہیں ،"

اسنے ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے کی کوشش کی ۔

"شاید میں اب بھی تمہاری حفاظت نہیں کر سکوں گا ،ان بوڑھی ہڈیوں میں اب اور جان باقی نہیں "وہ کرب زدہ آواز میں بولے ۔

"تمہارے بابا نے تمہارے لیے فیصلہ لیا ہے ،کیا تم اپنے بابا کی بات مانو گی ؟؟؟وہ مان بھرے انداز میں پوچھ رہے تھے ۔

"وہ عامر خان اور اپنے بابا کے درمیان ہوئی گفتگو سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ کیا کہنے والے تھے ۔وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ شادی سے بچ کر تو یہاں آئی تھی ان کے پاس کیونکہ وہ ابھی اور پڑھنا چاہتی تھی ۔مگر ان کا مان بھرا انداز دیکھ انہیں انکار کر نے کی ہمت خود میں مفقود پائی ۔

"جی بابا "وہ سر جھکائے ہوئے بولی ۔

"بہت شکریہ میرا مان رکھنے کا "وہ اس کے سر پہ شفقت بھرا  بوسہ دیتے ہوئے رندھی آواز میں بولے ۔

_________

زیگن میں تمہارا نکاح سبحان کی بیٹی سے کروا رہا ہوں وکیل کے سامنے حامی بھر لینا "

وہ دو ٹوک انداز میں بولے ۔

"یہ۔۔۔یہ کیاکہہ رہے ہیں ۔۔۔آپ کو اندازہ بھی ہے کچھ "؟

وہ کڑے تیوروں سے پلٹ کر بولا۔

"اب تم مجھے سمجھاؤ گے کہ کیا غلط ہے کیا ٹھیک ؟؟؟

"مت بھولو کہ میں تمہارا باپ ہوں نا کہ تم "وہ قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولے ۔

"نا کوئی جان نا پہچان ۔۔۔میں ایسے کیسے کسی کو بھی ساری زندگی کے لیے اپنے سر پر سوار کر لوں "

وہ دوبدو تلخ لہجے میں بولا۔

"زیگن اگر تم نے انکار کیا تو ؟؟؟عامر خان نے انگلی اٹھا کر اسے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔

"او ۔۔۔خان صاحب!!!!

"پلیز اب مجھے وہ پرانی فلموں کی طرح جائیداد سے عاق کر دینے کی دھمکی بالکل بھی مت دینا "

"نہیں برخوردار دھمکی کیوں دوں گا ۔ابھی کچھ دیر پہلے جو تم ساری عوام کے سامنے بڑے ایکشن ہیرو بنے پھر رہے تھے ۔اسی عوام کے سامنے منہ پر دو رکھوں گا نا سارا ایکشن نکل جائے گا "

"مار لیں جتنا چاہیں مگر مجھ سے قطعا ایسی کوئی امید مت رکھیے گا ابھی میں نے شادی وادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں ،میری سٹڈیز میرا کیرئیر اس سب کا کیا ؟؟؟؟

"دیکھو زیگن میں سبحان کو زبان دے چکا ہوں ,

اس بار انہوں نے لہجے میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا ۔

"تم چاہتے ہو کہ تمہاری وجہ سے میں اپنے دوست کے آگے چھوٹا پڑ جاؤں ؟؟؟

"لگتا ہے پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانے کی حسرت لیے ہی مر جاؤں گا وہ افسردگی سے بولے ۔۔۔

"خان صاحب یہ جو آپ نے ایموشنل بلیک میلنگ کا نیا طریقہ نکالا ہے نا ۔۔۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔۔

"خان صاحب مام نہیں مانیں گی ۔۔۔۔کیا کہیں گی وہ ؟؟؟اس نے زچ ہونے کے انداز میں کہا۔

"اس کی فکر میں گُھلنے کی ضرورت نہیں"مجھے اپنا جواب بتاؤ تم اس بچی کو اپنا نام دے کر اسکی حفاظت کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہو یا نہیں "؟

وہ قطعیت سے بولے ورنہ میں زریار یا زمارے کو بلاؤں ؟؟؟

"ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ ؟؟؟زریار بھائی شادی شدہ ہیں اور زمارے کسی اور کو پسند کرتا ہے "

"جب تم نہیں مانو گے تو ظاہر سی بات ہے کسی کو تو کہنا ہی ہے "

زیگن کی آنکھوں کے سامنے کچھ دیر پہلے کا منظر لہرایا۔

جب اس نے ذوناش کی نیلی آنکھوں کو دائمی طور پر پانے کی تمنا کی تھی ،کیا خبر تھی کہ وہ محترمہ اتنی جلدی پوری کی پوری اس کے نام ہو جائیں گی ۔دل میں تو خوشی سے جھوم اُٹھا۔۔۔مگر چہرے پر سنجیدگی طاری کیے بولا ۔

"ٹھیک ہے خان صاحب مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے"

"شاباش دل خوش کردیا .انہوں نے فرط مسرت سے لبریز انداز میں اسے اپنے گلے سے لگایا ۔

"پتہ ہے آج تم پہلی بار مجھے اتنے پیارے لگے ہو "انہوں نے مشفقانہ انداز میں کہا۔

"چھوڑو یار "زیگن ان کے گلے لگا تو جیسے پیچھے ہٹنا بھول گیا ۔۔۔۔

"خان صاحب آج آپ نے اتنے پیار سے گلے لگایا ہے تو پیچھے ہٹنے کا دل ہی نہیں کر رہا "۔وہ اور زور سے انہیں خود میں بھینچ گیا ۔

"کہیں اتنی اچھی لڑکی مل جانے دل میں لڈو تو نہیں پھوٹ رہے جو باپ ہر اتنا پیار آ رہا ہے ؟؟؟وہ بھی آخر اس کے باپ تھے ،اس کا ہر انداز جانتے تھے ۔

"اب آپ کو دیر نہیں ہو رہی ؟؟وہ بات بدلتے ہوئے بولا ۔

"ہاہاہا ۔۔۔وہ مسکرائے ۔۔۔

"ویسے یہ آپ کے پوتے پوتیوں والی خواہش سن کر عمل کرنے کو دل کرنے لگا ہے ۔۔۔میرا وعدہ ہے خان صاحب سب سے پہلے میں ہی آپ کو آپکے پوتے پوتی کا منہ دکھاوں گا ۔وہ مبہم سا ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔

"میرا شیر بیٹا "وہ اس کا شانہ تھپتھپاکر کر مان بھرے انداز میں بولے ۔

"میری ایک شرط ہے ۔۔وہ تو میں بھول گیا ۔۔۔۔

"اب کونسی شرط ؟

"خان صاحب آپ مجھ سے وعدہ کریں آپ زمارے کی شادی اسکی پسند سے کروائیں گے ....

"یہ کیا فضول بکواس ہے ،اب تم مجھے بلیک میل کرو گے ؟؟؟

"پلیز خان صاحب ۔۔۔

"اچھا سوچوں گا ۔

"آؤ اندر چلیں ۔عامر خان نے کہا ۔

وہ انہیں نیم رضامند دیکھ کر مطمئن ہوا ۔۔۔پھر وہ دونوں ساتھ ساتھ وکیل کے آفس میں پہنچ گئے جہاں سبحان اور ذوناش دونوں پہلے سے موجود تھے ۔

کچھ ضروری معلومات درج کیے چند لمحوں میں ہی وہ دونوں نکاح کے پاکیزہ مضبوط بندھن میں بندھ گئے۔

وکیل صاحب نے ہاتھ ملا کر زیگن کو مبارکباد دی جسے اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے وصول کیا۔

سبحان خان اور عامر خان نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی ۔پھر زیگن کو ۔

عامر خان نے ذوناش کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دائمی خوشیوں کی دعا دی ۔

زیگن تم ایسا کرو بہو کو گھر لے جاؤ ۔میں بھی بس تمہارے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں وکیل صاحب سے کاغذات لے کر ۔۔۔"خان صاحب آپ خود ڈرائیو کریں گے ؟

"ہاں تو اور کیا ؟؟؟آج ڈرائیور بیمار تھا تو خودی چلا کر آیا ہوں سبحان کو اسکے گھر چھوڑ کر آجاؤں گا ۔تم جاؤ 

"جی ٹھیک ہے "وہ کہتے ہوئے ذوناش کی طرف دیکھنے لگا ۔

جو سبحان خان کے گلے لگے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔

سبحان خان نے سسکتی ہوئی ذوناش کو پیار کیے محبت بھرا دلاسہ دیا ۔

اور اس سے جلد ملنے کا وعدہ کرتے ہوئے خود سے الگ کیا ۔۔۔

وہ آخری نگاہ اپنے بابا پر ڈال کر زیگن کی طرف آئی ۔۔۔

مگر ایک بار بھی نظر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا جس سے آج عمر بھر کے لیے اک نیا رشتہ جُڑ گیا تھا۔

وہ دونوں ہمقدم باہر نکلے ۔۔۔

کورٹ کے باہر ہی زیگن کی ہیوی بائیک کھڑی تھی ،

وہ جاکر اس پر بیٹھ گیا اور اس کے پیچھے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگا ۔

ذوناش پہلے کبھی بائیک پر نہیں بیٹھی تھی اور یہ تو ہیوی بائیک تھی جو شاید اس نے یہاں آکر پہلی بار دیکھی تھی ۔وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ کیا کرے ۔۔۔اپنی اوپر اوڑھی ہوئی شال کے کونے کو انگلی پر لپیٹے ہوئے سوچوں میں گم تھی ۔۔۔

"بیٹھ جاؤ "زیگن کی بھاری آواز سن کر اس کے قدم لڑکھڑائے۔۔۔زیگن کا کچھ دیر پہلے والا روپ آنکھوں کے سامنے لہرایا جب وہ اتنے آدمیوں کو اکٹھے ِپیٹ رہا تھا ۔

وہ جلد ہی ہمت کیے بائیک پر بیٹھی ۔پچھلی سائیڈ زرا اوپر تھی ۔اسے بیٹھنے میں دشواری ہوئی ،زیگن نے بائیک سٹارٹ کی تو ۔۔ذوناش نے ڈر کے مارے آنکھیں زور سے بند کیں۔

ہیوی بائیک ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے روڈ پر رواں ہوئی تو ذوناش نے دائیں ہاتھ سے اس کی جیکٹ کو جکڑا اور بایاں اس کے شانے پر مضبوطی سے رکھا ۔۔۔

زیگن جو پہلی بار کسی صنف مخالف کو اپنی بائیک پر بٹھائے ہوئے تھا ۔خود پر اس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت محسوس کیے مڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔۔۔

ذوناش اسے خود کو پیچھے مڑ کر تکتا ہوا پاکر اپنی مقامی زبان میں کچھ بولی۔۔۔۔

"What ?????"

زیگن نا سمجھی سے بولا ۔

"Look ahead to "

وہ اسی کے پوچھنے کے انداز میں اس بار انگلش میں ہی بولی ۔

زیگن نے سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ کر بجلی کی رفتار سے فورا بائیک کا رخ تبدیل کیا۔

مگر دماغ ابھی بھی 

Look ahead to

میں ہی اٹکا ہوا تھا۔

وہ جو اس کو گاؤں کی کوئی اَن پڑھ لڑکی سمجھ رہا تھا۔اس کو انگلش بولتا دیکھ دنگ رہ گیا۔

ہیوی ٹریفک میں بھی اسے ماہرانہ انداز میں تیز بائیک چلاتے دیکھ وہ اندر ہی اندر ڈر رہی تھی ۔

ٹریفک سگنل پر بائیک رکی تو وہ جھٹکا کھا کر زیگن کی پشت سے لگی۔

زیگن کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ رینگ گئی ۔۔۔

اس نے اپنے شانے پر اس کا سفید مرمریں سا ہاتھ دیکھا جس کی مخروطی انگلی میں باریک سا چھّلا تھا۔اس پر نیلے رنگ کا ہی چھوٹا سا نگ جڑا تھا،وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ پر بہت جچ رہی تھی ۔زیگن نے گردن کو ٹیڑھا کیے اپنا گال اس کے ہاتھ پر رکھا ۔۔۔

ذوناش کو اپنے ہاتھ کی پشت پر اس کی بئیرڈ کی چبھن محسوس ہوئی تو اس نے ہاتھ فورا پیچھے کھینچا۔

سگنل کھلنے پر زیگن نے بائیک تیزی سے آگے بڑھائی ۔۔۔۔

رفتار اتنی تیز تھی کے ایک بار تو ذوناش چکرا کر رہ گئی اور خوف سے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکی جیکٹ کو پیچھے سے پکڑ لیا ۔۔۔۔

زیگن چند منٹوں میں باقی کا سفر طے کرتے ہوئے حویلی پہنچ گیا ۔۔۔

سارے سفر کے دوران اس کے ساتھ ساتھ ایک گال میں پڑا  ڈمپل بھی مسلسل مسکراتا رہا۔۔۔

"اسلام وعلیکم مام !

زیگن نے اندر آتے ہوئے کہا ۔

"وعلیکم السلام !

انہوں نے زیگن کے پیچھے ایک انجان لڑکی کو اچنبھے سے دیکھا۔

"یہ کون ہے ؟

بسمہ نے اس سے پوچھا۔

"مام یہ خان صاحب کے دوست سبحان انکل کی بیٹی ۔

ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کہ اس کی پاکٹ میں موجود فون رنگ کرنے لگا ۔

"ایکسکیوز می مام !

وہ کہتے ہوئے اپنا فون نکال کر کان سے لگا گیا ۔۔۔

"کیا ؟؟؟؟؟

اس کی آواز ساری حویلی میں گونجی ۔۔۔۔

فون چھوٹ کر اس کے ہاتھ سے گرا ۔۔۔۔۔

"کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو ملی خوشیوں کی عمر بہت تھوڑی ہوجاتی ہے ،ذیگن کو اچانک ملنے والی اس خوشی کی عمر بھی یہیں تک تھی،شاید  ،یا کبھی روٹھ جانے والی خوشیاں دوبارہ لوٹ کر آ ملیں۔۔۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔

کیا تم نے کبھی دیکھیں ہیں انتظار بھری آنکھیں؟؟؟

"نہیں دیکھیں تو آکر میری دیکھو "

"تمہیں پتہ ہے انتظار کر درد جھیلنا کرنا دوبھر ہے ؟

"یہ انتظار کر ناسور ہماری نسوں میں گُھل کر انہیں نیلا کردیتا ہے، جسم کے مردہ ہونے سے قبل ہماری آنکھیں مردہ ہوجاتی ہیں،مگر یہ انتظار بھری آنکھیں مر کے بھی نہیں مرتی۔بس ایک بار لوٹ آؤ ان منتظر نگاہوں کی خاطر !!!!

وہ آفس میں موجود تھا ،ساری فائلز چیک کیے فراغت ملتے ہی اس کو کسی کی یادوں نے گھیر لیا ۔۔۔وہ پور پور ان انہیں میں کھویا ہوا۔۔۔۔

ریوالنگ چئیر کی پشت سے سر لگائے آنکھیں موندے ہوئے تھا۔۔۔

"یس "

"ٹک ۔۔ٹک۔ٹک ۔۔۔باہر سے آفس کا ڈور کسی نے ناک کیا تو اس نے آنکھیں کھول کر باہر جو کوئی بھی تھا اسے اندر آنے کی اجازت دی ۔

"اسلام وعلیکم سر !

"وعلیکم اسلام !

"میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا پھر بھی آپ نے ایسا کیوں کیا ؟وہ آتے ہی سوالیہ انداز میں بولی ۔

"زرشال آپ بیٹھیں پلیز !

زریار نے اسے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔

وہ بیٹھ گئی ۔۔۔

"میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔وہاں شاید آپ کو جاب نہیں مل سکی اس لیے میں نے ڈائریکٹ آپ کی پرابلم کو حل کردیا ۔

"مگر سر میں اتنی بڑی اماونٹ نہیں لے سکتی ِبنا کسی ریزن کے "یہ کہتے ہی وہ لب بھینچ گئی ۔۔۔

  "میں نے آپ کے ایم ۔ایس۔سی کی فیس جمع کروا دی ہے اب آپ بنا کسی روکاوٹ کے اپنی تعلیم مکمل کریں "

مگر سر !!!

"پلیز منع مت کیجیے گا "

It's a humble request...

"بہت شکریہ میں صرف یہی کہہ سکتی ہوں۔

"No need sis"

_________

کامیابی کو نہیں ہم نے تم کو چاہا ہے ،

ہم تمہارے ہیں ،بھلے ہوگئے ناکام بھی تم ،

میں مسیحا ہوں اگر میرا وظیفہ ہو تم،

میں مجرم،تو میری جاں میرا الزام ہو تم ،

مختلف حیلوں ،بہانوں سے مجھے سوچتے ہو،

اک دن کُھل کے پکارو گے میرا نام بھی تم ،

رات دن تم کو فقط ،تمکو سوچنا ہے ،

میری فرصت بھی تمہیں،میرا ہر کام بھی تم،

وہ اپنی ڈائری پر اپنے دل کے احساسات لکھتا ہوا اسے بند کر گیا ۔پین کو ایک طرف رکھے ،اپنی آنکھیں بند کر گیا ،آج وہ ایم کیڈ کا پیپر دے کر آیا تھا ،جو بہت بہترین ہوا تھا ۔وہ اپنی محبت کی بات کیسے ٹال سکتا تھا۔

زرشال نے آخری بار اس سے کہا تھا ،کہ وہ اپنی سٹڈیز پر توجہ دے اور اس نے ان چند دنوں میں ہی سارا سلیبس کور کر لیا تھا۔آج پیپر دے کر فراغت ملی تو پھر سے اسی کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔

نجانے وہ کیسی ہوگی کیا کر رہی ہو گی ؟؟؟؟

دوپہر کے کھانے کا وقت ہونے والا تھا اس سے پہلے کہ اس کی مام بسمہ اسے لنچ کے لیے بلانے آتی وہ خودی اپنے روم سے باہر نکلا ۔۔۔

ان کے پاس ایک انجان لڑکی کھڑی تھی ،اور زیگن کو تیزی سے باہر کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو وہ تیزی سے ان کی طرف آیا۔۔۔

"کیا ہوا مام ؟؟؟

"زمارے کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا مجھے زیگن نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔

""ت۔۔ت۔۔۔تم جاؤ دیکھو کیا ہوا ہے ؟؟؟

وہ سراسیماں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔

ذوناش بھی حق دق سی کھڑی معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

________

"کون ہے تُم لوگ۔۔۔؟"

سامنے موجود افراد نے اپنے چہروں پر نقاب چھڑھا رکھے تھے ۔۔سبحان خان نے غصے میں پوچھا،تبھی ایک نے نقاب چہرے پر سے ہٹایا تو سبحان خان کے تاثرات پل میں بگڑے،

"۔۔تُم ؟؟؟۔۔"

"تمہاری موت مقابل موجود شخصیت نے تمسخر سے کہا،

"چھوڑ دو اسے ۔۔"

عامر خان سرد لہجے میں بول کراس کی مدد کے لیے آگے بڑھے،

"کیوں دوست کے لیے جان دینی ہے ؟؟؟؟اپنی زندگی پیاری نہیں ؟؟؟؟

"جان کی امان چاہتا ہے تو چپ چاپ نکل لے .....

وہ عامر خان کی طرف گن کا رخ کیے اشارہ کرتا ہوا بولا ۔۔۔

"میں نے کہا چھوڑ دو اسے اس کے بدلے میں تمہارا قرض چکانے کو تیار ہوں ....عامر خان سبحان کے ڈر کی وجہ سمجھ چکے تھے اور اندازہ لگا چکے تھے کہ یہ لالہ رخ کے بھائی ہیں ۔

"ذوناش کہاں ہے اسے واپس کرو "وہ غرایا ۔۔۔

"وہ تمہیں نہیں ملے گی "سبحان خان نے کہا ۔۔۔۔

"مجھے ذوناش چاہیے "ورنہ تم دونوں کو اڑا دوں گا ....

سبحان خان اور عامر خان جو کورٹ سے نکل کر گھر جانے والے راستے پر گامزن تھے اچانک ان افراد نے راستے میں ان کی گاڑی روکتے ہوئے انہیں گھیر لیا ۔۔۔۔وہ لوگ ذوناش کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ چکے تھے ۔

"بتاتا ہے یا نہیں " آج میرے جنون کو ہوا دی ہے تو نے ، اپنے دیرینہ حریف کو ختم کرنے کا نشہ ہی کچھ اور ہے ۔۔۔"

طنزیہ ہنسی ہنس کر آخر میں وہ جنونی لہجے میں کہا ساتھ ہی بنا کوئی وقت ضائع کیے سبحان پر گن سے نشانہ بنایا،

عامر خان آگے بڑھے ۔۔۔

وہ بے گناہ عامر پر گولی نہیں چلانا چاہتے تھے ان کی دشمنی سبحان خان سے تھی مگر اچانک درمیان میں بچاؤ کے لیے عامر خان کے آتے ہی فضا میں اچانک ٹھاہ ۔۔۔ٹھاہ ۔۔۔کی آواز گونجی ۔۔۔۔ 

سبحان !!!!

اس کے لبوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی،اچانک اٹھتی تکلیف کے ساتھ ساتھ ان کا دماغ بھی یکدم بھک سے اڑا

سبحان خان کے  ساتھ ہی ہی عامر خان کی بھی دردناک چیخ فضا میں بلند ہوئی،ان لوگوں نے کچھ حیرت میں ان دونوں کو  لڑکھڑا کر نیچے گرتے ہوئے دیکھا تو وہاں سے فرار ہوگئے ۔۔۔۔

__________

ہاسپٹل میں بیٹھا وہ زیرِ لب یہی دُعا کررہا تھا کہ انہیں کچھ نہ ہو،اپنے خون سے رنگین ہاتھوں کو دیکھ وہ اذیت سے آنکھیں میچا،اس کے ہاتھوں پر انہیں کا خون لگا تھا جسے اتنے سالوں سے اسے پال پوس کر بڑا کیا تھا ۔ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ انہیں ہنستا مسکراتا چھوڑ کر آیا تھا پھر کیسے ان کی خوشیوں کو نظر لگ گئی ۔۔۔آج وہ کتنا خوش دکھائی دئیے تھے اسے اور آج ہی اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔۔۔

جس روڈ پر ان دونوں کے ساتھ حادثہ ہوا تھا ۔۔قریب سے گزرتے ہوئے کسی فرشتہ صفت انسان نے عامر خان کے ہی فون سے لاسٹ ڈائلڈ نمبر پر کال کر کے ان کے لواحقین کو ان کے ساتھ پیش آئے ہوئے حادثے کی اطلاع  کی تو زیگن بنا ایک لمحے کی تاخیر کیے وہاں پہنچا اور انہیں لوگوں کی مدد سے انہیں ہسپتال لایا ۔۔۔۔

جانے کن لوگوں نے نفرت میں اندھا ہوکر ان دونوں کی زندگی تنگ کردی تھی؟؟؟وہ یہی سوچ رہا تھا ۔۔۔۔

 "سبحان خان تو موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے گولی ان کے سینے کے آر پار ہوئی تھی ،مگر پھر بھی وہ انہیں کسی معجزے کے لیے ہسپتال لایا تھا ۔مگر ڈاکٹر نے ان کی بند نبض کو دیکھ کر ان کی کچھ دیر پہلے ہونے والی موت کی تصدیق کردی ۔۔۔جبکہ عامر خان کے سر سے گولی چھو کر گزری تھی ،

تبھی آپریشن تھئیٹر کھلا تھا اور زیگن چونک کر کھڑا ہوا ۔۔۔  ڈاکٹر کو نکلتے دیکھ جلدی سےان کی طرف آگے بڑھا،

"ڈ۔۔ڈاکٹر۔۔وہ۔۔"

گھبراہٹ جس قدر طاری تھی اس پر وہ بول بھی نہیں پایا تھا،بس جسم کا ہر عضو کان بنا ڈاکٹر کے منہ سے یہ لفظ سننے کا منتظر تھا کہ وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ مگر ناجانے کیوں دل عجیب خوفزدہ تھا مقابل کھڑے ڈاکٹر کے مایوس چہرے کو دیکھ،

"تحمل سے بات سنیں مسٹر۔۔۔ہم نے اپنی طرف سے مکمل کوشش کی لیکن سر پر گولی  لگنے کے باعث خون بہت بہہ چکا تھا۔سوری پیشنٹ کوما میں چلے گئے ہیں۔۔"

ڈاکٹر پیشہ وارانہ انداز میں کہہ رہا  مگر زیگن اپنی پتھرائی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہ گیا،دل میں درد کی جو بری ٹیس اٹھی تھی اسے لگا وہ اس کا سینا چیر دے گی،ڈاکٹر کے کہے الفاظ اسے انگارے کے مانند اپنے جسم کو جلاتے محسوس ہوئے،اتنا مضبوط انسان ہو نے کے باوجود بھی یہ دل دہلا دینے والی خبر سن کر بےجان ہوئے قدموں کی وجہ سے لڑکھڑاتا وہ گرنے ہی لگا تھا کہ 

زمارے اور زریار نے اسے سہارا دیا ۔۔۔۔

وہ دونوں بھی ڈاکٹر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر بھونچکا رہ گئے تھے ۔۔۔۔

"ہوسکتا ہے انہیں چند دنوں میں ہوش آجائے یا چند ماہ یا پھر سال بھی لگ سکتے ہیں۔۔۔اور یہ بھی کہ شاید کوما میں ہی ان کی موت واقع ہوجائے۔۔"

ان تینوں کی زباں پر موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا،ڈاکٹر کی اس بات پر ۔۔۔۔

وہ تینوں اپنے باپ کی حالت کا سن کر حد درجہ نڈھال ہو چکے تھے ،مگر ابھی سبحان خان کی تجہیز و تکفین کے مراحل سے بھی گزرنا تھا ، کڑے وقت نے خان حویلی کے مکینوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا۔۔

___________

چونکہ وہ ابھی آپریشن تھئیٹر میں ہی تھے تبھی ڈاکٹرز نے اندر جانا فلحال الاؤ نہیں کیا تھا،جیب میں رکھے فون پر مسلسل ہوتی رنگ اسے سوچ کی دنیا سے نکال کر حال میں لائی،کال ریسیو کرتا وہ فون کان سے لگایا،

"ہیلو زیگن۔۔۔بیٹا بتاؤ مجھے کیا بات ہے ؟تم تینوں میں سے مجھے کوئی کچھ بتاتا کیوں نہیں ؟؟؟۔۔۔"

دوسری جانب ان کی والدہ بسمہ تھیں،ان کی بھیگی آواز پر زیگن نے تھکی ہوئی سانس کھینچی،

"کون ؟"

زریار نے اس سے اشارے میں پوچھا ۔

"مام "وہ بوجھل آواز میں بولا۔

"ابھی نہیں "زمارے نے اسے منع کیا ۔

"زیگن نے فون زریار کی طرف بڑھایا ۔

"مام سب ٹھیک ہے ۔ہم بس تھوڑی دیر میں آ رہے ہیں "زریار نے سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے فون رکھا۔

"زیگن تم خان صاحب کے پاس رکو زمارے تم مام کے پاس جاؤ میں سبحان صاحب کی تدفین کے انتظامات دیکھتا ہوں ،زریار نے ہمت کیے خود کو اس ٹراما سے باہر نکالا آخر کار وہ سب سے بڑا تھا تو ہمت بھی اسے ہی دکھانی تھی ۔

وہ ان دونوں کا شانہ تھپتھپاکر کر بولا۔۔۔

تینوں نے جھلملاتی ہوئی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر وہ دونوں زریار کے گلے لگے ۔۔۔۔تینوں بے آواز آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کا غم بانٹنے لگے ۔۔۔ 

زمارے گھر آیا تو بسمہ خان تو

اندر داخل ہونے پر اس نے دیکھا کہ وہ اب تک رورہی تھیں جبکہ ان کے پاس بیٹھی صلہ ،یمنی اور وہ انجان لڑکی بھی کافی پریشان لگ رہی تھی،

"میرا دل عجیب ہورہا ہے کہ کہیں اسے کچھ ہوا نہ ہو۔۔۔بتاو مجھے ؟؟؟۔۔"

ان کی بات پر زمارے کے تاثرات پل میں بدلے ،وہ ان دونوں سے عہد کر کہ آیا تھا کہ بسمہ کے سامنے ثابت قدم رہے گا مگر انہیں روتا دیکھ خود بھی ٹوٹنے لگا تھا ۔۔۔

"مام سبحان انکل کی ڈیتھ ہوگئی ہے "

الفاظ تھے یا گویا صور اسرافیل جو اس کے کانوں میں پھونک دیا گیا تھا ،اسے تو یوں لگا جیسے اس کی کُل کائنات ہی ویراں ہوگئی ہے ،آج اتنے برسوں بعد اسے باپ کی شفقت ملی تھی ۔کیا اتنی کم عمر تھی میری خوشیوں کی ،ابھی تو ٹھیک سے آنکھیں سیراب بھی نا ہو پائیں تھیں اپنے والد کو دیکھ کر ،کہ اسطرح اچانک وہ اسے پھر سے اکیلا چھوڑ گئے ۔۔۔۔جن کے لیے وہ یہاں تک آئی تھی کیا اس کا یہاں آنا رائیگاں گیا تھا ؟؟؟

وہ بلک بلک کر رونے لگی ۔۔۔۔

"مام خان صاحب بھی ان کے ساتھ تھے دونوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں یہ حادثہ پیش آیا ہے ۔

"مام۔۔وہ۔۔وہ خان صاحب کوما میں چلے گئے ہیں۔۔"

کچھ دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوا تو نہایت اذیت میں کہتا آنکھیں میچ کر بولا،

بسمہ جو ابھی سبحان خان کی موت کے صدمے سے ہی نا نکلی تھیں خان صاحب کے بارے میں سن کر  بےساختہ الفاظ گم ہوئے،وہ بےیقینی سے زمارے کو دیکھنے لگیں ،۔۔۔

"زمارے بولو کہ تم جھوٹ کہہ رہے ہو ؟؟؟۔۔"

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ زمارے کی شرٹ کو جھنجھوڑتے ہوئے صدمے کی کیفیت میں چلا کر بولیں ۔۔۔۔

صلہ اور یمنی بھی صدمے کی کیفیت میں تھیں ۔۔۔۔

ادھر ذوناش کا تو رو رو کر برا حال ہو چکا تھا ۔۔۔۔اس کا دل روتے کُرلاتے ہوئے پھٹنے کے قریب تھا ،

___________

وقت اپنی رفتار سے گزرنے لگا بھلا گزرنے والے وقت کو بھی کوئی روک پایا ہے آج تک مگر کچھ لوگوں کی زندگیاں وہیں رک چکیں تھیں۔دن یونہی بوجھل بوجھل سے گزرنے لگے تھے،خان صاحب کو کوما میں گئے چھ مہینے ہوچکے تھے،زیگن بہت حد تک چپ سا ہوچکا تھا،ایم بی اے کلئیر ہوچکا تھا ،خان صاحب کی سنگنگ کے لیے ناگواریت کو لے کر اس نے اپنے گانا گانے کے شوق کو خیر آباد کہہ دیا تھا اب وہ زریار کے ساتھ مل کر اپنا فیملی بزنس سنبھالنے لگا تھا ۔۔۔اکثر راتیں ہاسپٹل پر گزارے وہ خان صاحب کے پاس گزارتا ۔ہمہ وقت تو بسمہ ہی ان کے پاس رہتیں۔وہ ان کی  صحت یابی کے لیے دعائیں مانگتی رہتیں،وہ ان کو یوں دیکھ کر خود کی تکلیف میں مبتلا روز بروز کمزور ہوتی جارہی تھیں،

________

اسکی آنکھ روز کے معمول پر کھلی تھی اسنے جلدی سے اٹھ کر نماز ادا کی  جیسے ہی اسنے دعا  کے لئے ہاتھ اٹھائے تو وہی منظر اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جب اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بابا کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا وہ ان کی مغفرت کی دعا کرنے لگی ۔۔۔

اور وہ سب یاد کر وہ ہر بار کی طرح آج پھر سے دکھ سے ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔اس حویلی کے مکین اس سے مناسب رویہ اختیار کیے ہوئے تھے سب اپنی اپنی ذات میں گم تھے ،خوشیاں جیسے روٹھ گئی تھیں سب سے ۔۔۔

  ...اسکی آنکھوں میں  آنسوں ٹوٹ ٹوٹ کر اسکی ہتھیلی کو بھیگو رہے تھے....

اپنی ماں کو یاد کر کہ روتے ہوئے اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھی ...

نہ جانے کتنے دیر تک ایسے ہی روتے ہوئے دعا کرتی رہی تھی اپنے رب سے اپنے لئے صبر مانگتی رہی تھی ....

اسنے نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کی پھر  کالج کے لئے  تیار ہونے چلی گئی ....

آج اس کے کالج کا پہلا دن تھا ۔

زیگن آفس جانے کے لیے تیار ہوئے نیچے اترا ۔بلیو جینز پر بلیو شرٹ اور اس پر بلیک لیدر جیکٹ پہنے ،وہ آفس میں بھی فارمل سوٹ پہننے کی بجائے رف اینڈ ٹف حلیے میں ہی جاتا تھا, 

"گڈ مارننگ مام !!!

اس نے آتے ہی بسمہ سے کہا ،

"صبح بخیر !!!انہوں نے نرم نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے جواب دیا ۔

خان صاحب ؟؟؟؟

زیگن نے پوچھا ۔

"ویسے ہی ہیں "وہ فقط اتنا ہی بولیں ۔

دو تین دن پہلے ہی تینوں بھائی ڈاکٹر سے مشورہ کیے عامر خان کو گھر لے آئے تھے ،

وہ ہنوز پہلے دن کی طرح آنکھیں بند کیے بے سُدھ پڑے ہوئے تھے ۔

"اسلام وعلیکم آنٹی !!ذوناش نے باہر آکر انہیں ہلکی سی آواز میں کہا ۔

"وعلیکم السلام !!!

ان چھ ماہ میں بسمہ اور ذوناش کی آپس میں کافی گھل مل گئیں تھیں ،ذوناش کے والد کی وفات کے بعد اسے اکیلا دیکھ بسمہ نے اسے کافی سہارا دیا۔جس سے اس کی ابتر حالت میں بہتری آئی تھی ،ورنہ وہ تو گم سم سی ہوکر رہ گئی تھی۔

زیگن نے ناشتے کی پلیٹ سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔

سیاہ عبائے میں ملبوس،سیاہ حجاب میں لپٹا بیضوی سفید دمکتی رنگت والا دلنشیں،دلسوز چہرہ ، تھوڑی پر بنے تین تِل اسے مسمرائز کر گئے ،اتنے عرصے سے وہ اسے تو بھول ہی چکا تھا ،دماغ میں بس ایک ہی بات گھوم رہی تھی کہ خان صاحب اور سبحان خان کے ساتھ یہ سب کیاکس نے ؟؟؟ایک تو دنیا میں ہی نہیں رہے اور دوسرے دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے ،تو آخر اس کو اس کے سوالوں کا جواب کون دیتا ۔یہی گرہ سلجھانے کی کشمکش میں مبتلا وہ اس کی ذات کو تو بھلا ہی بیٹھا تھا۔

 ذوناش نے باتوں ہی باتوں میں بسمہ کو آگے پڑھنے کی خواہش میں بتایا تو انہوں نے زیگن سے کہہ کر اس کا کالج میں داخلہ کروا دیا تھا۔

کالج میں داخلہ کروانے جانے سے پہلے اس نے ذوناش سے پوچھا تھا کہ وہ کس سیبجیکٹ میں پڑھنا چاہتی ہے ؟؟

"جو آپ کو پسند ہو ؟

اس کا جواب سن کر وہ حیران ہوا ۔

"پڑھنا تم نے ہے۔تم بتاؤ کیا پڑھنا ہے ؟

"مجھے بس یہ پتہ ہے کہ مجھے زیادہ سا پڑھنا ہے ،یہ نہیں پتہ کیا پڑھوں ؟؟؟

"جو آپ پڑھتے تھے میرا داخلہ بھی اسی میں کروا دیں ۔تاکہ آپ سے مدد لے سکوں "

ذوناش اپنے اور اس کے رشتے کو پہچان چکی تھی اسی لیے اس سے اتنا خاص رشتہ ہونے کے ناطے کُھل کر بات کر گئی ،ورنہ وہ پہلے دن کے بعد اس سے پھر کبھی مخاطب نہیں ہوئی ۔یا یوں کہہ لو کہ موقع ہی نہیں ملا۔

 "زیگن میرا آج فرسٹ پیپر ہے پلیز مجھے یونی ورسٹی ڈراپ کردو گے ؟؟؟

یمنی نے ہمیشہ کی طرح آکر اسے کہا ۔مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔۔۔وہ ان سنی کرتا ہوا ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی جگہ سے اٹھا ۔

"اچھا مام میں چلتا ہوں "

اس نے اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ ایک شانے سے گذار کر پہنا ۔

"چلو ذوناش "اس نے سپاٹ انداز میں ذوناش سے کہا ۔۔۔

وہ حیرت زدہ نظروں سے اسے کبھی زیگن کو دیکھتی تو کبھی یمنی کو ۔۔۔جس کی آنکھیں غصے کی زیادتی سے شعلہ بار ہو چکیں تھیں،

"ذوناش کا کالج میرے آفس کے راستے میں ہے ،جبکہ تمہاری یونیورسٹی میرے راستے کے بالکل opposite sideپر ہے "وہ کہہ کر رکا نہیں باہر نکل گیا ۔

"جاؤ بچے بھائی کے ساتھ  !!!بسمہ نے زیگن کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔

"توبہ نعوذباللہ "زیگن ان کے بھائی بولنے پر منہ میں بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔۔

ذوناش اپنا بیگ اٹھا کر تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے باہر نکلی ۔۔۔۔اسے ابھی تک زیگن کا وہ غصے والا روپ یاد تھا جب اس نے اتنے غنڈوں کو مارا تھا ۔۔۔وہ اس کے غصے کے ڈر سے تیزی سے اس کے پیچھے لپکی ۔کہیں وہ اس کے دیر سے باہر آنے پر غصہ نا ہوجائے ۔۔۔

یمنی بھی ان دونوں کے پیچھے باہر آئی ۔۔۔

زیگن اپنی ہیوی بائیک سٹارٹ کر چکا تھا ۔

اس بار ذوناش نے اپنے ایک  ہاتھ سے بائیک کو پیچھے سے پکڑا تو دوسرے سے ایک سائیڈ سے ۔۔۔

"گر جاؤ گی مجھے پکڑ کر بیٹھو "زیگن کی بھاری آواز آئی ۔۔۔

اس نے فورا اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

زیگن نے پیچھے مڑ کر گیٹ کے پاس کھڑی ہوئی یمنی پے ایک نگاہ ڈالی ۔جو قہر برساتی نگاہوں سے ان دونوں کو ساتھ بیٹھے دیکھ رہی تھی ۔

وہ لب بھینچے تیزی سے بائیک لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔

"خالہ یہ زیگن نے کبھی مجھے اپنی بائیک پر نہیں بٹھایا ۔ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ میں لڑکیوں کو اپنی بائیک پر نہیں بٹھاتا اور اب اس ذوناش کو کیوں بٹھایا ؟؟؟

وہ واپس اندر آتے ہی بسمہ سے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی۔

"بیٹا وہ اپنے بابا کی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ذوناش خان صاحب کی مہمان ہے ۔ان کی ذمہ داری ہے ۔مجھے فخر ہے اپنے بیٹوں پر جنہوں نے اپنے آپ کو اور اس گھر کو اتنے اچھے سے  سنبھال لیا ۔

"زیگن آئے گا تو اسے سمجھاؤں گی ۔کہ تم سے ڈھنگ سے بات کیا کرے ",

یمنی کو ان کی بات پر کچھ خاص تسلی نہیں ہوئی وہ تن فن کرتی اپنی چیزیں اٹھا کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔

ذوناش بہت نروس تھی ۔۔۔ کیوں کی آج کالج کا فرسٹ ڈے تھا ۔۔ ہر کسی سے انجان نا ہی کوئی فرینڈ ۔۔۔ وہ کلاس میں بیٹھی آتے جاتے لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔۔ ذوناش کی خوبصورتی سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی ۔۔ اس کے لیے یہ سب مشکل لگ رہا تھا یہاں کے لوگوں سٹائل ان رویہ سب مختلف تھا۔۔وہ خاموشی اور دھیان سے اپنی کلاس اٹینڈ کرنے لگی۔

_________

زیگن، ذوناش کو کالج چھوڑ کر آفس کی طرف آرہا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی اس کی بائیک کو ٹکر ماری ۔۔بائیک ڈس بلیینس ہوئی مگر وہ بروقت سنبھال گیا ۔فورا بائیک کو روکتے ہوئے نیچے اترا ۔۔۔

"ابے نکل باہر !!!!!

"اندھا ہے کیا روڈ سینس ہے بھی یا نہیں ؟؟زیگن نے مشتعل آواز میں کہا۔۔۔

مقابل موجود شخصیت جو گاڑی میں سے نکلی اسے یوں دیکھ حیران ہوا ۔۔۔

""زیگن یار تو ؟؟؟حمدان نے اسے غصے میں دیکھ کر کہا ۔

کیسا ہے ؟؟؟وہ چلتے ہوئے زیگن کر قریب آیا ۔

"ٹھیک ہوں "وہ لٹھ مار انداز میں بولا ۔

"کیا یار غلطی ہوگئی ۔۔۔اب کیا آنکھوں سے نگلنے کا ارادہ ہے ۔؟؟؟

وہ مسکرا کر کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھینچ کر سائیڈ پر لایا کیونکہ ان کی وجہ سے ٹریفک رکی ہوئی تھی ۔

"تم تو یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔وہ خوشدلی سے بولا۔

"بس اپنے بابا کی وجہ سے پریشان ہوں ،ان کی حالت کو لے کر اور ویسے بھی آفس جوائن کر لیا ہے اس لیے وقت کی نہیں ملتا ۔"زیگن نے سنجیدگی سے کہا۔

"ویسے تم پہلے تو ایسے نہیں تھے ...

"کیسا نہیں تھا ؟وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔

"یار پہلے سے اتنا غصیلا نہیں تھا تو ۔۔۔

"یار پتہ نہیں کیوں بات بات پر غصہ آجاتاہے ۔

"کوئی اور ٹینشن ہے تو بتا مجھے .وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔

"نہیں باقی سب ٹھیک "

"ویسے کہتے ہیں کہ غصے کا  علاج ہے ۔۔۔۔حمدان آنکھ ونگ کیے شرارتی لہجے میں بولا۔

"اور وہ کیا؟؟؟ زیگن نے پوچھا۔

"کہتے ہیں غصے کے دو ہی علاج ہیں شراب اور شباب ۔

شراب تو پیتا نہیں اور شباب تیرے پیچھے پیچھے ہے مگر تو انہیں منہ نہیں لگاتا ۔

"بکواس مت کر "وہ حمدان کے بازو پر ہلکا سا مکا رسید کرتے ہوئے بولا ۔

"اچھا پھر ملیں گے آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں "

"چل ٹھیک ہے "مگر پھر بھول مت جانا کسی سنڈے کو سب دوست گیٹ ٹو گیدر کریں گے ۔

"ہممم ٹھیک ہے "

"اوکے پھر ۔

وہ دونوں ایک دوسرے سے ملکر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔

۔۔خان انڈسٹریز کی شاندار عمارت کے سامنے ہیوی بائیک آ کر رکی ۔۔۔ اس کی شیشوں  سے بنی ہوئی بلڈنگ لوگوں کو ایک بار اپنی طرف متوجہ ضرور کرتی ،خان انڈسٹریز بزنس کی دنیا کا جانا مانا نام تھا۔۔۔

زیگن لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس میں داخل ہوا ۔۔

گڈ مارنگ سر """" سبھی اسٹاف ممبرز ادب سے کھڑے ہو گئے ۔۔۔ کیوں کے اپنے اس  باس کی سخت طبیعت سے سبھی واقف تھے ۔۔۔ 

گڈ مارنگ ۔۔ زیگن سر کو ہلکی سی جنبش دیتا ہوا جوابا بولا ۔۔

"سر آپ کو زریار صاحب اپنے کیبن میں بلا رہے ہیں ...پیون نے آکر زیگن کو پیغام دیا ۔وہ جو اپنے کیبن میں جانے لگا تھا ۔اس کا پیغام سن کر زریار کے آفس کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی سامنے زریار کا دھیمی سی مسکرا والا چہرہ دکھائی دیا  ۔۔۔ زیگن کچھ پل زریار کو دیکھتا رہا ۔۔ 

"آؤ بیٹھو "زریار نے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔

"جی بھائی کیا بات ہے ؟؟؟

"زیگن مجھے تمہاری شکایت ملی ہے ....

"وہ کیا ؟؟؟اس نے ابرو اچکا کر حیرت کا اظہار کیا ۔۔۔

"تم آج کل سٹاف پر کچھ زیادہ ہی غصہ کرنے لگے ہو ۔

"اوہ تو انہوں نے آپ سے شکایت کی؟؟؟

"نہیں شکایت نہیں کی میں نے سٹاف کو کھلا ماحول دے رکھا ہے ،وہ جب چاہیں اپنی ہر پرابلم مجھ سے شئیر کرتے ہیں۔

"اوہ بھائی آپ یہ سب دیکھتے ہوں گے ۔مجھے یہ سب نہیں پسند ۔سب یہاں کام کرنے آتے ہیں تو کام کریں ناکہ ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہوئے سارا دن گزار دیں ۔۔۔جب بھی میں دیکھتا ہوں کام چھوڑ کر ایک دوسرے سے گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں ۔مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ،کام کے وقت صرف کام ہونا چاہیے ۔اور جو ڈیپارٹ میرے انڈر ہے ،اسے میں اپنی مرضی سے چلاؤں گا ۔آپ فضول میں ان کے نخرے اٹھاتے ہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا ۔۔۔

"کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے "؟

زریار نے اس کے لہجے اور انداز میں تلخی دیکھی تو پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

"وہ گہری سانس لے کر اس کی طرف دیکھنے لگا ۔

"نہیں بھائی کوئی بات نہیں "پہلے ہی اولاد کو لے کر مسلہ پھر خان صاحب کو لے کر،،،، آفس کے ہزار جھنجھٹ ہیں زریار بھائی کو میں اپنے مسلے بتا کر انہیں مزید پریشان نہیں کروں گا "اس نے دل میں سوچا ۔

"اچھا ٹھیک ہے ،بس سٹاف پر ہاتھ زرا ڈھیلا رکھو بدظن ہو جائیں گے ۔

"ٹھیک ہے بھائی "

یہ فائلز دینی تھی تجھے ۔۔ آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں آفس آنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔ آج تم دیکھ لو انہیں زریار نے فائلز اس کی طرف بڑھائیں۔۔۔

"ہممم ۔۔میں دیکھ لیتا ہوں ۔ 

"دو مگ کافی منگوائیں آپ کے ساتھ بیٹھ کر کافی پئیے کافی دن ہوگئے "

زریار نے پیون کو کال کر کے دو مگ کافی کے لیے کہا ۔۔۔۔اور ایک بار پھر سے زیگن کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ 

"یہ ہمدانی گروپ آف کمپنیز کا ٹینڈر ہے اس میں کتنی کوٹیشن فائل کرنی ہے ۔؟؟؟

"آپ بتائیں بھائی آپ اس معاملے میں زیادہ تجربہ کار ہیں ۔؟

"ویسے شادی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟؟؟

زریار نے بات بدل کر پوچھا۔

اتنی اہم بات کے درمیان یہ شادی کی بات کہاں سے آگئی ۔؟؟؟

"میں نے سوچا اکثر لڑکے شادی کی بات پر خوش ہوجاتے ہیں ۔اسی لیے تمہارا موڈ بہتر کرنے کے لیے پوچھ لیا۔۔۔۔

"شادی کے بارے میں بہت ہی نیک خیال ہیں ۔آپ کہیں اور ہم ٹال دیں ایسا ہو سکتا ہے ؟آپ کا حکم سر آنکھوں پر!!!ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری شادی ۔۔۔۔ 

اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا۔۔۔۔

""MAY I come in Sir"" 

زریار کا پرسنل سیکرٹری باہر کھڑا اجازت طلب نظروں سے دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔

ان کی بات ادھوری رہ گئی ۔۔۔

"یس" زریار نے ہلکے سے سرزنش کی ۔۔۔السلام علیکم سر ان فائل پر آپ کی signature چاہیے ہم وہ پروجیکٹ تیّار کر چکے ہیں نیکسٹ  ویک آپ کی ملک کنسٹرکشن کمپنی کے ایم ،ڈی  صاحب کے ساتھ میٹینگ ہے۔۔۔۔

"ہممم ۔۔ٹھیک ہے " زریار نے اس سے وہ فائل لے کر پڑھتے ہوئے اس پر signature کیے۔۔۔

پیون ٹرے میں کافی کے دو مگ  لیے اجازت لیتا ہوا اندر  داخل ہوا ۔۔

___________

"خالہ !!! یہ لیں چائے صلہ ،بسمہ کو چائے کا کپ تھماتی  ہوئی بیڈ کے کچھ فاصلے پر بیٹھی ۔۔۔خان صاحب سے ہمیشہ کی طرح غافل بے سدھ لیٹے ہوئے تھے ۔اور بسمہ بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئیں تھی۔صلہ ان کے لیے چائے لے کر ان کے کمرے میں آئی تھی ۔

"خالہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ۔وہ جھجھکتے ہوئے بولی۔

"کہو بیٹا اس میں ہچکچائے والی کیا بات ہے ؟

انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر کہا ۔۔۔

میں نے زریار کے بارے میں کچھ سوچا ہے ۔۔۔۔

"کیا بیٹا ؟؟؟انہوں نے اچنبھے سے پوچھا ۔

"خالہ ہم دونوں نے سارے ڈاکٹروں کو دکھا لیا سب علاج کروا کر دیکھ لیے مگر پھر بھی میری ماں بننے کی کوئی آس نہیں ۔زریار کی رپورٹس تو بالکل ٹھیک ہیں ۔وہ تو باپ بن سکتے ہیں پھر میں انہیں اپنی وجہ سے اس خوشی سے محروم کیوں رکھوں؟؟؟

"خالو جان کو بھی بچوں کی بہت خواہش ہے ۔۔۔ 

"صاف صاف کہو صلہ تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟؟؟؟

 "خالہ میں چاہتی ہوں کہ ہم زریار کا نکاح کسی اور لڑکی سے کروا دیں تاکہ مجھے زریار کا بچہ مل جائے میری پیاسی ممتا کو بھی قرار مل جائے اور اس خاندان کو اس کا وارث ۔

"صلہ یہ تم کیسی فضول باتیں کر رہی ہو ۔ان سب کا مطلب بھی جانتی ہو۔اپنے شوہر کی محبت میں کسی اور کی شراکت داری برداشت کرلو گی ؟؟؟

"خالہ کچھ پانے کے لیے کچھ تو کھونا پڑتا ہے ۔میں برداشت کر لوں گی ۔

",صلہ تم اس وقت جذباتی فیصلہ کر رہی ہو ۔دنیا کی کوئی۔ بھی عورت ہو اپنے شوہر کے ساتھ کبھی کسی دوسری عورت کو برداشت نہیں کر سکتی ۔

"خالہ ہم کسی ایسی لڑکی سے ان کی شادی کریں گے جو ہمیں وارث دے کر چلی جائے ۔

"بالکل بے وقوفوں جیسی باتیں کر رہی ہو صلہ بھلا ایسی لڑکی ہمیں کہاں ملے گی ؟؟؟

"مل جائیں گی ۔ڈھونڈھنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔

"آپ کی نظر میں ہے کوئی لڑکی ؟صلہ نے پوچھا ۔

"اممممم۔۔۔۔ذوناش کیسی رہے گی ۔بھئی میرے نزدیک تو وہی ہے ؟؟؟وہ کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے بولیں ۔

 "خالہ وہ بہت چھوٹی ہے ،ابھی اٹھارہ کی ہی بمشکل ہوگی ۔اور اوپر سے خان صاحب کے دوست کی بیٹی ،کیا پتہ خالو کو یہ بات بری لگے ۔کہیں وہ ناراض نا ہو جائیں ۔اس نے من میں آئے خدشات بیان کیے ۔

ہاں ۔۔۔کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو ....

"ایسا کرو تم ڈھونڈو خود ہی اپنی کوئی جان پہچان والی ۔

"اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی رفتار سے کوندا ۔۔۔۔

"خالہ ایک لڑکی ہے میری نظر میں ۔۔۔۔۔مگر پتا نہیں وہ مانے یا نہیں ۔۔۔۔

"تم ایک بار اس سے بات کرلو نہیں مانے تو پھر خدا کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جاؤ ۔صلہ ویسے بھی زریار نہیں مانے گا ۔۔۔وہ افسردگی سے بولیں ۔کیوں کہ کہیں نا کہیں ان کے دل میں بھی بچوں کو گود میں کھلانے کے ارمان پنپ رہے تھے ۔۔۔

"خالہ اصل مسلہ ہی تو یہی ہے ۔آپ پلیز زریار سے بات کریں انہیں منائیں شادی کے لیے ۔۔۔

"کوشش کر کہ دیکھتی ہوں ۔۔۔

"خالہ کوشش نہیں آپکو یہ کام کرنا ہی ہے "

پلیز خالہ ۔۔۔۔میرے لیے ۔۔۔

"اچھا شام کو زریار واپس آتا ہے تو بات کرتی ہوں ۔

_________

زمارے ایم کیڈ کلئیر کرنے کے بعد اب لاہور کے بہترین میڈیکل کالج سے ایم ۔بی۔ بی۔ ایس کر رہا تھا۔

لیکچر ہال کے ایک کونے کی طرف بیٹھا وہ اپنی سوچوں میں گم تھا۔ کیونکہ کے لیکچر ختم ہوچکا تھا ۔۔کھڑکی سے اندر آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اسکو چھو کر گزر رہی تھی۔وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن زرشال کے ساتھ گزارے اسی طرح کے لیکچر روم  کے لمحوں کو یاد کر رہا تھا۔ وہی یادیں جو اسکے دل کے بہت قریب تھیں۔ جنہیں سوچ کر وہ اپنی دل کی دنیا کو مسرت سے بھر دیتا تھا۔ بچپن سے اس کی رنگت کو لے کر کیسے ڈی گریڈ کیا جاتا تھا ،وہ کچھ بھی نہیں بھولا تھا۔اس نے کیسے وہ سب جھیلا یہ وہی جانتا تھا،اس نے ظاہری خوبصورتی سے ہٹ کر اپنے اندر کی خوبصورتی کو باہر لانے کا سوچا ۔اس نے اپنی تعلیم پر توجہ دی ،اور آج وہی لڑکیاں اور لڑکے جو اسے ہمیشہ ٹونٹ کرتے تھے وہی اس کی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے اسے رشک سے دیکھتے تھے ۔

زرشال ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند اس کی زندگی میں آئی اور اس کی روح کو سیراب کر گئی ۔۔۔اس کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھ اسے خود پر ناز ہونے لگا۔کتنا خوش کن احساس ہوتا ہے نا جب آپ کو پتہ چلے کہ آپ جسے چاہتے ہیں وہ بھی آپ کو دل وجان سے چاہتا ہے۔ایسے لگتا ہے کل کائنات ہماری ُمٹھی میں قید ہوگئی ہے ۔۔۔وہ ابھی تک اپنی سوچوں کی دنیا میں گم تھا کہ اسکا فون بجنے لگا۔ اس نے فوراً فون اٹھایا نمبر کسی اور کا تھا۔ کسی انجان شخص کا۔۔۔زمارے نے کچھ سوچتے ہوئے آخر کار فون اٹھا ہی لیا۔

"ہیلو!"

"ہیلو! میں ہسپتال سے بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ کسی شہریار نامی شخص کو جانتے ہیں؟"

ہسپتال سے کال آنا اور پھر اس سے شہریار کے بارے میں پوچھنا اسے تشویش میں مبتلا کر گیا۔

"جی جانتا ہوں وہ دوست ہیں وہ میرے۔" اس نے بمشکل تھوک نگلا۔ وہ فون کے دوسری طرف والے کے جواب کا منتظر تھا۔

"جی میرے پاس ایک بری خبر ہے آپ کیلئے۔"

"ک۔۔۔کیا؟" زمارے کی آواز کپکپانے لگی۔

"آپکے دوست کا  ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ اس وقت ہسپتال  میں ہیں۔ آپ جلد سے جلد اس ہسپتال پہنچ جائیں۔" ۔  

وہ مزید وہاں ٹھہر نہیں سکا اور دوڑتا ہوا باہر کی طرف بھاگا۔  سب سٹوڈنٹس اسکو یوں بھاگ کر جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

__________

ہسپتال کے گیٹ سے پریشانی کے عالم میں زمارے اندر آیا ۔۔۔

زمارے نے شہریار کو ڈھونڈھ لیا ۔اس کا بائیک سے گرنے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ،چوٹیں زیادہ گہری نہیں تھیں ۔مگر کافی خراشیں آئیں تھیں۔ایک بازو زیادہ زخمی ہوگیا تھا ۔زمارے شام تک اس کے ساتھ ہی رہا ۔پھر وہ اسے گھر تک چھوڑنے گیا ۔۔۔

دروازہ کھٹکھٹایا تو زرشال نے دروازہ کھولا۔۔۔۔

زمارے کو سامنے دیکھ پہلے تو وہ حیران ہوئی پھر اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ ساتھ ہی اس نے اپنی بھائی شہریار پر نظر ڈالی جسے زمارے سہارا دئیے کھڑا تھا ۔۔۔اسکی حالت دیکھ کر اسکے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی ۔ شہریار کا چہرہ زرد تھا ، چہرے اور جسم پر خراشیں آئیں ہوئیں تھیں۔بازو پر پٹی بندھی تھی ۔۔۔وہ حیران ہوئی ۔۔۔

"شہریار بھائی ! یہ کیا ہوا ؟"

"زرشال پیچھے ہٹو بھائی کو اندر آنے دو "پیچھے سے اس کی والدہ کی آواز آئی ۔۔۔اپنےبںیٹے کو یوں زخمی حالت میں دیکھ کر وہ بھی تڑپ اُٹھیں 

زمارے شہریار کو سہارا دئیے اندر لایا ۔۔ ۔۔۔ 

اسلام وعلیکم آنٹی !!

"وعلیکم اسلام بیٹا !!

"آنٹی گھبرانے والی بات نہیں ہے اب یہ ٹھیک ہیں "اس نے ان کی دُکھی حالت کو دیکھ کر تسلی بخش انداز میں کہا ۔

انہوں نے پیار سے شہریار ماتھے پر بوسہ دیا۔

"امی یہ میرا دوست ہے زمارے اس نے میری بہت مدد کی۔شہریار نے اسکا تعارف کروایا۔۔

"بہت بہت شکریہ بیٹا شہریار کی مدد کے لیے  ۔۔۔

"یہ تمہارے بازو پر کیاہوا ؟؟وہ آنسووں سے لبریز آنکھوں سے بولی۔ اس کی حالت پرانکا دل دہل اٹھا۔

"امی تھوڑا سا زخمی ہوگیا ہے ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان مت ہوں میں ٹھیک ہوں "

"اچھا میں چلتا ہوں "زمارے نے ایک نگاہ زرشال پر ڈالی جو دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی ۔

"بیٹھو بیٹا چائے پی کر جانا "انہوں نے اخلاقاً کہا۔

"نہیں آنٹی اس کی کوئی ضرورت نہیں۔پھر کبھی صحیح ۔۔۔میں کل پھر آؤں گا ۔شہریار بھائی کا حال پوچھنے ۔۔وہ عمر میں اس سے بڑا تھا تو زمارے کو اس کے نام  سے پکارنا تھوڑا معیوب لگا اسی لیے اس نے شہریار کے ساتھ بھائی کا صیغہ لگایا ۔۔۔

"بیٹا آتے جاتے رہنا ۔انہوں شفقت سے پُر انداز میں کہا۔۔۔

زمارے زرشال پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر الوداعی کلمات ادا کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔

کتنے عرصے بعد اسے دیکھا تھا ۔

دل اور آنکھوں میں سرور سا بھرنے لگا تھا ۔۔۔دوسری طرف زرشال کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔

__________

اچانک شام کے وقت بسمہ کی طبیعت خراب ہوئی تو صلہ نے کال کر کے اپنی فیملی ڈاکٹر کو بلالیا ۔۔۔

انہوں نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ ان کا شوگر لیول اور بی۔پی۔کافی ہائی ہے۔انہیں ٹینشن سے دور رکھیں ہائی بلڈ پریشر والے پیشنٹ کے لیے یہ سب خطرناک ہے۔کیونکہ بی پی۔زیادہ شوٹ کر چکا تھا۔۔۔

انہوں نے چند ایک ہدایات دیں اور میڈیسن لکھ کر دیں پھر وہ چلی گئیں ۔

زیگن ،زمارے اور زریار تینوں گھر پہنچ چکے تھے ۔

"ڈاکٹر کے وہاں سے جاتے ہی وہ تینوں بسمہ کے پاس آئے ۔

"مام اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟زریار نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ۔

"تم سب یہاں سے جاؤ مجھے زریار سے اکیلے میں بات کرنی ہے "وہ سپاٹ انداز میں بولیں۔

زمارے اور زیگن ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے ۔

پھر صلہ اور یمنی باہر نکلی تو ان کے پیچھے ذوناش بھی باہر نکل گئی ۔صلہ اور ذوناش کچن میں شام کے کھانے کی تیاری کرنے لگیں ۔جبکہ یمنی اپنے روم میں چلی گئی ۔۔۔کیونکہ یمنی کسی بھی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی ۔

زمارے اور زیگن دونوں اکٹھے باہر نکلے ۔۔۔

"زمارے تمہاری سٹڈیز کیسی جا رہی ہیں ؟؟زیگن نے اس سے پوچھا ۔

"زبردست بھائی "

ہممم۔۔۔۔صحیح۔۔۔۔

وہ دونوں آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوئے لاونج میں بیٹھ گئے ۔۔۔

"جی مام کیا بات ہے "؟

زریار نے سب کے وہاں سے چلے جانے کے بعد پوچھا ۔

"زریار تم مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو یا نہیں ؟؟؟

"مام یہ کیسا سوال ہے ۔یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟؟؟میں آپ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں ۔

"تو پھر جو میں کہوں وہ مانو گے ؟؟؟؟

"مام آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں آپ صرف حکم کریں ....

"ٹھیک ہے تو پھر میں چاہتی ہوں کہ تم دوسری شادی کر لو ۔۔۔۔

ان کی بات سن کر اس کا ماتھا ٹھنکا ۔۔۔۔

"مام ضرور آپ سے یہ سب صلہ نے کہا ہوگا ۔۔۔اس کا خود کا تو دماغ خراب ہوچکا ہے ۔اب آپ کا بھی کر رہی ہے ۔

"بات کو گھماؤ نہیں زریار مجھے اپنا جواب بتاؤ ؟؟وہ امید بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔

"مام پلیز مجھے پھر سے ایک بار مجبور مت کریں ۔پہلے بھی نا چاہتے ہوئے میں نے آپ کی بات مانی تھی ،میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا پھر بھی آپ کے کہنے پر کی ۔۔پر اس بار نہیں ۔

"زریار اگر تم نے شادی کے لیے ہاں نا کی تو اپنی ماں کا مرا ہوا منہ ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ منہ سے نکالتی زریار ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روک گیا ۔۔۔۔

زریار کی آنکھ کے ایک کونے سے آنسو نکلا ۔۔۔

جسے وہ فورا چہرہ پھیر کر چھپا گیا ۔۔۔

"ٹھیک ہے مام جیسے آپکی مرضی "وہ رخ پھیرے ہوئے ہی بولا ۔اور بنا ان کی طرف دیکھے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

_________

"خالہ یہ آپ کے لیے فریش گاجر کا جوس بنایا ہے" ۔صلہ، بسمہ کے لیے جوس کا گلاس ٹرے میں رکھے اس کے پاس آئی ۔حالا نکہ ان کے پاس آنے کا مقصد کچھ اور ہی تھا۔

 "شکریہ بیٹا ",وہ ممنون انداز میں بولیں۔

"خالہ پھر کیا کہا زریار نے ؟

اس سے مزید صبر نا ہوا تو وہ سیدھے مدعے کی بات پر آئی ۔

"مان گیا ہے ....انہوں نے ہلکا سے مسکرا کر جواب دیا۔

"واہ خالہ آپ نے تو کمال کردیا ۔۔۔وہ پرجوش انداز میں ان کے ساتھ لپٹی ۔۔۔۔

"صلہ ایک بار پھر سوچ لو یہ نا ہو بعد میں تم اپنے فیصلے پر پچھتاؤ ۔۔۔۔انہوں نے تنبیہی انداز میں کہا۔

"خالہ کچھ بھی نہیں ہوگا ۔",وہ بے فکری سے بولی ۔

"میں ابھی بریرہ کو کال کر کے پوچھتی ہوں کہاں ہے وہ ....

"کون بریرہ ؟؟؟

"خالہ بریرہ میری بہت اچھی دوست ہے ہم ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے ۔یہاں آنے سے پہلے جب مما ۔بابا زندہ تھے ۔ہم میں بہت گہری دوستی تھی بلکہ وہ دوستی ابھی بھی قائم ہے ۔بہت غریب ہے۔ایک ہی والدہ ہے اسکی والد وفات پا چکے ہیں۔اکلوتی بیٹی ہے۔والدہ بہت بیمار رہتی ہے۔مجھے پورا یقین ہے ۔وہ میری مدد ضرور کرے گی اس سلسلے میں۔

"صلہ اگر اس نے منع کردیا تو ؟؟؟انہوں نے اپنے من میں ابھرتا ہوا خدشہ ظاہر کیا۔

"ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔وہ میری بات ضرور مانے گی ۔اور اگر نا مانی تو مجھے اپنی بات منوانے کے لیے کیا کرنا ہے۔یہ مجھے اچھے سے آتا ہے۔

"میں ابھی کال کرتی ہوں اسے "کہتے ہی اس نے اپنے موبائل سے اس کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔۔

کوئی دس بار وہ کال ملا چکی تھی مگر بار بار ۔۔۔ ناٹ رسپانڈنگ آرہا تھا ۔۔۔۔

"خالہ مجھ سے اور صبر نہیں ہو رہا میں کل ہی دوسرے شہر جاکر اس سے ملوں گی ۔

"آپ چلیں گی میرے ساتھ ؟؟؟

"نہیں تم ایسا کرنا ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا شام تک واپس آ جانا۔میں نہیں جا سکتی ایک تو خان صاحب کے پاس بھی کسی کو رہنا ہے دوسرا میری طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں "

"ٹھیک ہے خالہ میں کل ہی جا کر اسے سے بات کرتی ہوں "

کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔

رات کی تاریکی چہار سو اپنے پر پھیلا چکی تھی،سب اپنے اپنے کمروں میں وادی ِ نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔وہ آہستگی سے اپنے بستر سے اٹھا اور کچھ کمروں کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پہلی بار ایک مخصوص کمرے کی طرف آیا۔

دروازے کو کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ اپنے آپ ہی کھلتا چلا گیا ۔شاید اندر سے لاک نہیں کیا گیا تھا۔وہ سامنے ہی اپنے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی خواب ِ خرگوش کے مزے لوٹتی ہوئی دکھائی دی ۔

وہ دھیرے دھیرے دبے پاؤں چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔

نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی میں اس کا دودھیا چہرہ سنہری دکھائی دے رہا تھا۔۔۔لمبے بالوں کی چوٹی بستر پر پڑی تھی ،چہرے کے اطراف بکھری پڑیں شریر لٹیں اسے کے پھولے پھولے شہابی گالوں کو چھو رہی تھیں۔اس نے ہاتھ بڑھا کر ان لٹوں کو اسکے کان کے پیچھے اڑسا۔۔۔۔۔بند آنکھوں کی مژگانیں بھی ساکت تھیں۔تھوڑی پر موجود تین تل ہمیشہ کی طرح اس کا قرار لُوٹنے کے در پہ تھے۔جانے کیوں اس بار دل بے قابو ہوا ۔۔۔

وہ خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا۔

تھوڑا سا جھک کر اس کی تھوڑی پر موجود ِتلوں پہ اپنے لب رکھ گیا ۔۔۔

وہ اجنبی لمس سے تھوڑا سا کسمسائی مگر نیند گہری ہونے کے باعث پھر سے سو گئی ۔۔۔

اسکی بھٹکتی ہوئی نظریں اس کے جسمانی نشیب و فراز سے الجھ رہی تھیں ،مگر وہ حق رکھتے ہوئے بھی خود پر قابو پا گیا۔

"ابھی یہ سب ٹھیک نہیں "

"اس کی اجازت کے بغیر یہ سب نا مناسب ہے "اس نے خود کلامی کی ۔۔۔

اس نے اُچٹتی نظر غافل وجود پر ڈالی ۔۔۔کٹاو دار لب اسے اپیل کر رہے تھے ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر انگوٹھے سے نچلے لب کو سہلایا ۔۔۔

"جان جی  !!!!   آپ تو ہماری جان نکال رہی ہیں "

زیگن ہولے سے اس کے کان کے قریب ہوئے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔

اپنی انگلی کی پور کو وہ لبوں سے تھوڑی پہ پھر گردن کا فاصلہ طے کرتے ہوئے تھوڑا نیچے لایا ۔۔۔۔اس کی بیوٹی بون کو سہلا کر محسوس کرنے لگا ۔۔۔ 

"کچھ دل کی کہنا چاہتا ہوں آپ سے ۔۔۔۔بہت کچھ سننا چاہتا ہوں ۔۔۔وہ دن بھی ضرور آئے گا جب ہم ساتھ ہوں گے ۔۔۔"وہ آہستگی سے بولا۔ 

اس سے پہلے کہ اسے اتنے قریب دیکھ کہ وہ اپنا آپا کھو بیٹھتا ۔۔۔

پھر سے ایک بار اسے نگاہوں میں بھرتے ہوئے اس پر کمفرٹر درست کرتے وہاں سے باہر نکل گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج صبح ہوتے ہی وہ زریار کے آفس جانے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ لاہور سے گجرانوالہ روانہ ہوچکی تھی ،راستے میں بریرہ کو کال ملائی اس بار اس نے تیسری بیل پر ہی کال ریسیو کر لی اور اسے بتایا کہ وہ ایک سرکاری ہسپتال میں اپنی والدہ کے ساتھ ۔

صلہ اس کے بتائے گئے پتے پر پہنچ چکی تھی ،

"ڈرائیور انکل آپ یہیں رکیں میں تھوڑی دیر تک آجاؤں گی "وہ کہتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی ۔

کارڈیالوجی وارڈ میں گئی جہاں اس کی والدہ اور وہ دونوں موجود تھیں ۔

"اسلام وعلیکم آنٹی کیسی ہیں آپ ؟"وہ انہیں دیکھ کر انکی خیریت دریافت کرنے لگی۔

"وعلیکم اسلام !بس بیٹا اس عمر میں تو ایسی بیماریاں لگی رہتی ہیں "

صلہ اور بریرہ اتنے عرصے بعد ملیں تو ایک دوسرے کے گلے لگیں۔

"کیسی ہو ؟

"میں ٹھیک "

"تم سناؤ "

"یہاں بھی سب ٹھیک ہے "

"بریرہ ہم باہر چل کر بات کرتے ہیں یہاں آنٹی ڈسٹرب ہوں گی ۔

"ہاں ٹھیک ہے ",

"امی ہم یہیں باہر ہیں ۔میں ابھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟

"نہیں بیٹا تم جاؤ اپنی سہیلی کے ساتھ کچھ دیر باتیں کر لو دل بہل جائے گا "

"ٹھیک ہے امی "

وہ دونوں وارڈ سے چلتے ہوئے باہر نکل کر ہاسپٹل کی گراؤنڈ میں آگئے ۔ ہری ہری گھاس پر بینچ لگے ہوئے ۔جہاں مریضوں کے لواحقین کے بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی تھی ۔وہ دونوں بھی وہیں بیٹھ گئی ۔

"وہ دن بہت یاد آتے ہیں جب ہم اکھٹے سکول میں ملتے تھے ایک دوسرے سے اپنے غم بانٹ لیتے تھے ۔جب سے تمہاری شادی ہوگئی تم تو اپنے گھر میں مصروف ہو گئی ہو "بریرہ نے کہا۔

"ہاں یار شادی کے بعد روٹین بدل جاتی ہے ۔گھریلو مسلوں میں الجھ کر دوستی کم ہی  نبھانے کا موقع ملتا ہے۔۔دیکھو لو میں نے پھر بھی تمہیں یاد رکھا ۔

"بہت شکریہ جناب آپ کا ۔نوازش کرم اب اور کیا کہوں ؟؟

بریرہ  مسکرا کر بولی ۔

"چلیں آپ کا شکریہ قبول کیا۔

جوابا صلہ نے ہنس کر کہا ۔

"آنٹی کے بارے میں ڈاکٹرز کی کیا رائے ہے ؟

" بتایا تو تھا کہ انہیں ہارٹ سرجری کے لیے کہا ہے ۔اور تمہیں پتہ ہے کہ سرکاری ہسپتال میں کیا چلتا ہے آج کل ۔۔۔اور تم سے کیا چھپانا ۔۔۔پرائیوٹ سرجری کروانے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔  وہ افسردگی سے نچلا ہونٹ دانتوں میں کُچلتے ہوئے افسردگی سے بولی ۔

"اچھا چلو چھوڑو یہ سب میں تمہیں کیوں پریشان کر رہی ہوں ۔میرے تو دُکھڑے ختم نہیں ہونے ۔اتنی دیر بعد ملی ہو کچھ اپنا سناؤ سب ٹھیک ہے گھر میں ۔؟؟

"تمہارا سسرال کیسا ہے ؟؟؟بریرہ نے پوچھا

"شکر الحمد للّٰہ سب ٹھیک ہے ۔اور سسرال تو بہت اچھا ہے ۔میری خالہ جو ہیں ۔وہ اترا کر بولی ۔

"اوہ اچھا ....

"پر .....وہ کہتے ہوئے اچانک خاموش ہو گئی ۔۔۔

"کیا ہوا صلہ ؟؟؟

"کوئی پریشانی ہے "

"ہاں یار ۔۔۔تم میری دوست ہو اپنی پریشانی تم سے شئیر نہیں کروں گی تو اور کس سے کروں گی ۔

" صلہ بتاؤ مجھے تمہیں کیا پریشانی ہے ۔دوست ہوتے کس لیے ہیں۔ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔انہیں مورل سپورٹ کرتے ہیں۔میں اور کچھ نہیں کر سکتی تو کیا ہوا تمہاری بات سن تو سکتی ہوں نا ۔۔۔

"بریرہ تمہارے پاس ہی میری پریشانی کا علاج ہے ....

"میرے پاس ؟؟؟وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"بتاؤ بریرہ مجھ سے جو بن سکا میں کروں گی ۔میرے لیے اس بڑھ کر اور خوشی کی بات کیا ہوگی کہ میں اپنی دوست کے کام آسکوں ۔۔۔

"صلہ میں ماں نہیں بن سکتی "

یہ کیاکہہ رہی ہو ؟؟وہ اسکی بات سن کر حیران ہوئی ۔

"سب ڈاکٹرز سے چیک اپ کروا کر دیکھا ہے۔سب کی یہی رائے ہے کہ میں ماں نہیں بن سکتی میں بانجھ ہوں ",

وہ زخمی انداز میں بولی ۔

"صلہ کیا اس بات کو لے کر تمہارے سسرال والے غلط سلوک کرتے ہیں تمہارے ساتھ ؟؟؟

"نہیں۔۔ نہیں  ۔۔ایسی بات نہیں خالہ تو بہت اچھی ہیں ۔انہوں نے کبھی بھی مجھے طعنہ نہیں دیا ۔اس بات کا ،اور میرے شوہر تو ہمیشہ مجھے تسلی دیتے ہیں کہ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں،کوئی نا کوئی معجزے ہو جائے گا  ۔مگر میرے خالو جان جو اب بہت بیمار ہیں ان کی یہی خواہش ہے کہ ہمارے گھر اولاد کی خوشی دیکھ پائیں ۔گھر میں سب کو ننھے مہمان کی چاہ ہے ۔مگر میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔

بریرہ پانچ سال ہو گئے ہیں مجھے اولاد کی خوشی کے لیے ترستے ہوئے میں اس حویلی میں قلقاریاں گونجتے سننا چاہتی ہوں ۔

"صلہ تم کسی بچے کو اڈاپٹ کیوں نہیں کرلیتی ؟اس نے مشورہ دیا ۔

"نہیں بریرہ وہ اس حویلی کا وارث اس حویلی کا خون نہیں ہوگا ۔جبکہ میں اپنے شوہر کا حقیقی بچہ پالنا چاہتی ہوں ،وہ تو بچہ پیدا کر سکتے ہیں ۔میں انہیں اس خوشی سے محروم نہیں رکھنا چاہتی اپنی وجہ سے "

"ہمممم۔۔۔مگر یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی ہے بریرہ وہ جسے چاہے نواز دے "وہ دُکھی دل سے بولی ۔۔۔

"جب سب دروازے بند ہو جاتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ایک نیا در  کھول دیتا ہے ۔جہاں سے ہمیں نئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔

میری اس اندھیری زندگی میں وہ نئی امید کی کرن تم ہو بریرہ "

وہ نم لہجے میں کہتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی ۔

"میں کیسے ؟؟؟کیا کہنا چاہتی ہو تم ۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔وہ عجب مخمصے کا شکار ہوئی ۔۔۔۔

"بریرہ آج میں اپنا دامن پھیلا کر تم سے کچھ مانگوں تو انکار مت کرنا "

"تیرے لیے تو میں اپنی جان بھی دے دوں صلہ۔۔۔ میرے پاس اور  ہے ہی کیا تجھے دینے کے لیے ؟

"ٹھیک ہے تو پھر وعدہ کر جو میں تم سے مانگوں وہ تو مجھے دے گی "

"ہاں صلہ تو ایک بار مانگ کر تو دیکھ "

بریرہ تو میرے شوہر سے شادی کر لے "

بریرہ اس کی بات سن کر اپنی جگہ ساکت کھڑی رہ گئی ۔۔آنکھوں کی پتلیاں حیرت کی زیادتی سے پھیل گئیں۔چہرے کا رنگ فق ہوا۔۔۔

"یہ۔۔۔یہ ۔۔تم کیا کہہ رہی ہو ؟؟؟وہ اٹک اٹک کر بولی ۔

"صلہ تجھے پتہ ہے کہ میں کبھی بھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی اسی لیے ابھی تک کی بھی نہیں ۔اور شادی وہ بھی تمہارے ہی شوہر سے ۔۔۔

ہر گز نہیں ۔۔۔۔وہ قطعیت سے بولی ۔

"لعنت ہے مجھ پر اپنی ہی دوست کے شوہر سے شادی کر کہ اس کا گھر خراب کروں "

"نہیں صلہ یہ مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔پلیز ۔۔اس نے ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

"بریرہ اللّٰہ کے سوا میں نےکبھی کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلایا آج پہلی بار تیرے آگے اپنا دامن پھیلا کر تجھ سے اپنی خوشیاں مانگی ہیں۔اور تو ہے کہ انکار کر رہی ہے ....."

"صلہ یہ کیسا امتحان لے رہی ہے تو میرا ؟؟؟؟

"بریرہ اب اگر مجھے اولاد کی خوشی نا ملی تو میں ۔۔۔۔میں تنگ آکر اپنی جان لے لوں گی ۔۔۔

ہاں میں خو کشی کر لوں گی "

یہ کیسی نا امیدی کی باتیں کر رہی ہو تم صلہ "

"میری امیدوں کو توڑ دو گی تو ایسی باتیں ہی کروں گی نا ۔"

"دُکھوں سے گھبرا کر خودکشی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے صلہ اللّٰہ پاک بہتر کریے گا ۔"

بریرہ مان جاؤ پلیز ۔۔۔میں ۔۔۔

مجھے مکمل کردو ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں بولی۔

"میں اپنے آپ میں ہی ایک ادھوری نامکمل لڑکی ہوں جس کی ذات خود ذرہ بے نشاں ہے وہ کسی کو کیا مکمل کرے گی ۔۔۔۔

"صلہ پلیز مجھے مجبور مت کرو میں ایسا کچھ نہیں کروں گی ۔وہ رخ موڑ گئی ۔۔۔۔اور وہاں سے اٹھ کر واپس اندر کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔

"رک جاؤ بریرہ !!!اس نے پیچھے سے آواز دی ۔

وہ اس کی آواز سن کر رکی مگر پلٹی نہیں ۔

"اگر تم نے میری بات مان لی تو میں تمہاری امی کی سرجری کا سارا خرچ اٹھاوں گی ۔اس کے بدلے تمہیں صرف نکاح نامے پر دستخط کرنے ہوں گے ۔"

"صلہ یہ تم ہی ہو نا ۔یاآج میں کسی اور سے مل رہی ہوں ۔وہ پلٹ کر صدمے کی حالت میں بولی ۔۔۔

"تم اپنی دوست سے سودے بازی کرو گی ؟؟؟

"اتنی خود غرض کب سے ہوگئی تم صلہ ؟؟؟؟

"تمہارے لیے میں اپنی جان بھی دے دوں بنا سوچے سمجھے اور تم مجھے شادی کرنے کے لیے بلیک میل کرو گی ؟؟؟؟

"جب تم پیار سے بات نہیں سن رہی تو یہی کرنا پڑے گا ۔وہ اپنے گالوں پر آئے آنسو پونچھ کر بولی ۔

"میں ویسا کچھ نہیں کروں گی جیسا تم چاہتی ہو "وہ اٹل انداز میں بولی ۔

"سوچ لو اس میں فائدہ ہے تمہارا ۔اپنی ماں کی زندگی بچانے کا ایک موقع ہے تمہارے پاس ۔یہ نا ہو وقت رہتے تم اس موقع کو گنوا دو ۔اور بعد میں پچھتاوا مقدر بن جائے ۔۔۔

پھر روتی پھرو گی ۔کہ کاش میں صلہ کی بات مان لیتی اور میری ماں کی جان بچ جاتی "

بریرہ نے بھیگی ہوئی شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا ۔

"بریرہ تمہاری امی ....ایک لڑکی جو اس کی امی کے ساتھ والے بیڈ کے پیشنٹ کی بیٹی تھی اس نے باہر آکر اسے اطلاع دی ۔وہ اس کی بات سن کر اندر بھاگی ۔۔۔

صلہ بھی اسکے پیچھے اندر گئی ۔۔۔۔

بریرہ کی والدہ کی اچانک پھر سے طبیعت بگڑ چکی تھی ۔۔۔وہ درد سے تڑپ رہی تھیں۔

ڈاکٹر ان کا چیک اپ کرنے لگے ۔۔۔۔

"ڈاکٹر کیاہوا انہیں ؟؟؟وہ فورا ان کے پاس جا کر پوچھنے لگی ۔

"دیکھیں بی بی آپ کو کتنی بار ان کی سرجری کے لیے کہا ہے ۔فنڈمیں رقم نا کافی ہے ۔آپکو ان کے لیے رقم کا انتظام کرنا ہوگا ورنہ پھر جو بھی ہوا ہم ذمہ دار نہیں  ہوں گے ۔وہ دبے لفظوں میں اسے حقیقت سے آشنا کروا گئے ۔۔۔۔

بریرہ نے آنسو بھری نگاہوں سے پیچھے کھڑی ہوئی صلہ کی طرف دیکھا ۔۔۔

"صلہ مجھے منظور ہے "

"امی کا علاج کرواؤ گی نا "؟

اپنی زندگی کا واحد رشتہ کیسے اپنے ہی ہاتھوں سے کھو دیتی ۔۔۔۔

وہ آس بھری نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔

"ہاں وعدہ میں کراؤں گی ۔

"اس جمعہ کو نکاح ہوگا اور ہفتے کو تمہاری امی کی سرجری ۔۔۔بولو منظور ہے ؟؟؟

"ہمممم۔۔۔وہ نظریں چراتےہوئے دھیمے لہجے میں دلگرفتگی سے بولی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"خالہ یہ جوڑا دیکھیں کیسا رہے گا ۔؟"

"صلہ نے لائٹ پیچ کلر کا ہلکے سے کام والا بیش قیمتی سوٹ ان کے آگے رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"یہ تم نے اپنے لیے لیا ہے یا بریرہ کے لیے "

"افکورس خالہ بریرہ کے لیے نکاح پر پہننے کے لیے ۔میرے پاس تو اتنے نیو ڈریسز ہیں کوئی بھی پہن لوں گی ۔"

"خیر ہے آج کل گھر میں یہ زوروں شوروں سے شاپنگ اور یہ کس چیز کی تیاریاں ہو رہی ہیں ؟؟؟

آج اتوار ہونے کے باعث سب گھر میں تھے ۔لنچ سے فراغت کے بعد سب لاونج میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے ۔تو زمارے نے اپنی والدہ بسمہ سے پوچھا ۔

"تمہارے بھائی کا نکاح ہے اس جمعہ "انہوں نے وہاں بیٹھے سب افراد کے سروں پر بم پھوڑا۔۔۔۔

سب ایک دوسرے کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔

"زیگن کا ؟؟؟سب سے پہلے یمنی نے زیگن کی طرف کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ۔۔۔

"نہیں زریار کا "بسمہ نے سب کو آگاہ کیا۔۔۔

اس بات پر تو سب کے رنگ اُڑے۔۔۔۔

زریار ہاتھ میں موجود کافی کا مگ رکھ کر سنجیدہ چہرہ لیے باہر لان کی طرف نکل گیا ۔۔۔

سب اسے یوں اٹھ کر جاتے ہوئے دیکھنے لگے ۔۔۔۔

"یہ کیا مام بھائی پہلے سے شادی شدہ ہیں ..پھر سے انہیں کی شادی ؟؟؟؟

"جو بیچارے کنوارے ہیں زرا ان پر بھی ترس کریں رحم کریں ہم بیچاروں پر "زمارے نے ان کے قریب آکر بیٹھتے ہوئے دہائی دی ۔

"مام آپ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا بھی کیسے آخر صلہ بھابھی کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں ؟زیگن نے اپنی والدہ کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا ۔

"ایسا میں نہیں تمہاری بھابھی ہی چاہتی ہے ۔وہی کروا رہی ہے اپنے شوہر کی دوسری شادی اپنی سہیلی سے اولاد کے لیے ۔

"ہاں زیگن خالہ سچ کہہ رہی ہیں ۔یہ سب میری رضامندی سے ہو رہا ہے ۔صلہ نے ان کی بات پر تصدیق کی مہر لگائی ۔۔۔

"مگر آپی آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔؟؟؟

"یہ ٹھیک نہیں ۔۔۔"میرا شوہر دوسری شادی کرنے کا نام تو لے میں تو اس کی جان لے لوں گی ۔۔۔۔

یمنی نے بیچ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

"ارے جان لینے کی کیا ضرورت ہے ۔جس سے تمہاری  شادی ہوگی دوسرے دن وہ خودی خودکشی کر لے گا ۔۔۔

"ایسی کوڑھ مغز اور ہڈ حرام لڑکی سے اللّٰہ بچائے اس معصوم کو "زمارے نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

"کیوں زیگن بھائی آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟؟اس نے خاموش بیٹھے زیگن کو بھی درمیان میں گھسیٹا ۔۔۔۔

"اس بارے میں ہم دونوں کے خیالات بہت ملتے ہیں میں بھی سو فیصد متفق ہوں تمہاری بات سے "زیگن نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

زیگن کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔۔۔

وہ بھناتی ہوئی وہاں سے اٹھی اور تن فن کرتی پیر پٹخ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

"تم دونوں کیوں تنگ کرتے ہو اس معصوم کو "بسمہ نے یمنی کے یوں اٹھ کر چلے جانے پر زمارے اور زیگن کو ڈپٹا ۔۔۔

"اف توبہ کریں مام ۔۔۔وہ اور معصوم ۔۔۔۔دنیا کا آخری جھوٹ ہوگا یہ ۔۔۔۔اس سے بڑی فتنی کوئی نہیں کام چور کہیں کی ۔۔۔ذمارے نے دل کی بھڑاس نکالی ۔۔۔زیگن اس کی باتوں پر مسکرایا ۔۔۔

"زمارے بری بات ....اس بار صلہ نے بھی بہن کی سائیڈ لی ۔

"مام اس نکاح پر ہم اپنے دوستوں کو بلا سکتے ہیں ؟زمارے نے پوچھا ۔

"بیٹا خان صاحب کی حالت ایسی ہے مجھے بڑے پیمانے پر یہ سب کرنا اچھا نہیں لگ رہا ۔اللہ پاک انہیں جلد صحت یابی عطا فرمائے۔

انہوں نے دل سے دعا کی ۔

"آمین "

زمارے ،زیگن اور ذوناش تینوں نے ایک ہی وقت میں کہا ۔

"بس سادگی سے نکاح کریں گے ہم گھر کے ہی لوگ ہوں گے ۔،"

"مگر مام میں اپنے ایک دوست کی فیملی کو انوائیٹ کرنا چاہتا ہوں بس تین لوگ ہوں گے وہ ۔"زمارے نے کہا ۔

"اچھا ٹھیک ہے کر لو "انہوں نے اسے اجازت دی ۔

پھر صلہ اور بسمہ نکاح کی تیاری کے سلسلے میں آپس میں بات چیت کرنے لگیں ۔۔۔

آئیں خالہ میں آپ کو باقی کی بھی شاپنگ دکھاؤں ۔۔۔۔

"یہ دوست کی فیملی کا کیا چکر ہے ؟؟؟زیگن نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے پوچھا ۔

"وہی فیملی ہے جسے میں خاص طور پر مام سے ملوانا چاہتا ہوں ۔تاکہ ایک دوسرے سے مل لیں ۔

"واہ میرا بھائی تو بڑا جینئیس ہے ۔اپنے مستقبل کی پلاننگ ابھی سے "

"بس بھائی اپنے لیے اتنا تو کرنا پڑتا ہے ۔دنیاکہاں سے کہاں نکل گئی ہے ۔اور ہم وہیں کے وہیں ۔

"نہیں جی دنیا کہاں اکیلی آگے نکلی ہے ۔آپ بھی برابر انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔زیگن نے اسے چھیڑا۔۔۔۔

"نکل تو ہاتھوں سے کچھ اور لوگ بھی گئے ہیں۔مگر انہیں لگتا ہے ۔کہ وہ جو بھی کریں گے کسی کو نظر نہیں آئے گا ۔مگر انہیں کیا پتہ کہ ہم بھی عشق کے کھیل کے پکے کھلاڑی ہیں "زمارے نے فرضی کالر اچکا کر سامنے بیٹھی ذوناش کی طرف اشارہ کر کہ اسے شرارتی انداز میں کہا ۔۔۔

زیگن حیران ہوا اسے کیسے پتہ چلا ۔۔۔

زمارے اسکی حیران نظروں کو دیکھ کر اس کے من میں آئے سوال کا اندازہ لگا گیا ۔۔۔

"بھائی آپ کی آنکھیں کب سے ایک ہی چہرے کا طواف کررہی ہیں۔یہ بات تو کوئی بچہ بھی جان جاتا میں تو آخر زمارے دا عشق کنگ ہوں "وہ کہتے ہی وہاں سے بھاگا ۔۔۔

کیونکہ زیگن اس کی بات سن کر اسے پیٹنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔

اسکی بات اور انداز پر زیگن کے گال میں پڑا گڑھا گہرا ہوا ۔۔۔

ذوناش جو کب سے چوری چھپے زیگن کو دیکھ رہی تھی ۔اسے اپنے پاس آتے دیکھ ٹھٹھکی ۔۔۔

زیگن اس کے ساتھ آکر صوفے پر بیٹھا ۔۔۔

وہ کھسک کر تھوڑا دور ہوئی ۔۔۔

زیگن نے اس کا پیچھے ہٹنا محسوس کیا مگر ظاہر نا ہونے دیا ۔۔۔۔

"سٹڈیز میں کوئی پرابلم تو نہیں ؟؟؟

"نہیں سب ٹھیک ہے۔

"اکاونٹننگ کی سمجھ آرہی ہے ؟

"تھوڑی بہت "

"یہ کیا بات ہوئی تھوڑی بہت ؟؟؟

"نہیں سمجھ آتی تو بتاؤ تو سہی ....

"آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔شام کو آپ آفس سے تھکے ہوئے آتے ہیں پھر آپ کو تنگ کرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔

"اچھا جی اتنی پرواہ ہے میری تھکاوٹ کی ؟؟؟؟.

وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے پوچھ رہا تھا۔۔۔

وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکھ گھبرانے لگی ۔۔۔۔پلکیں شرم سے لرزنے لگیں ۔۔۔اور ہتھیلی پسینے سے نم ہونے لگی ۔۔۔ہاتھ ایک دم ٹھنڈے پڑ گئے ۔۔۔۔زیگن اس کی اٹھتی گرتی پلکوں کے رقص پر مبہوت رہ گیا ۔۔۔۔

"ہوش میں ایک ہاتھ پکڑ لینے پر یہ حال ہے جان جی کا اگر کل رات مجھے ہوش میں اتنے قریب دیکھ لیتی تو یقیناً بے ہوش ہو جاتی ۔۔۔وہ سوچ کر مسکرانے لگا ۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ۔۔۔۔ہنستے ہوئے ۔۔۔۔۔

اس کے منہ سے پھسلا۔۔۔۔

"کیا میں ہنستے ہوئے ۔۔۔آپ بات کو یوں ادھورا نہیں چھوڑ سکتی ۔۔۔چلیں اسے کمپلیٹ کریں ۔اس نے مصنوعی رعب جھاڑا ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ میں نے کچن میں چائے رکھی تھی چولہے پر ۔۔۔وہ کہتی ہوئی جان چھڑوا کر وہاں سے بھاگی ۔۔۔۔

زیگن اس کی چالاکی سمجھ میں آتے ہی دل کھول کر مسکرایا ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

جس دن کا صلہ اور بسمہ کو شدت سے انتظار تھا بالآخر وہ دن آن پہنچا ۔۔۔۔

سب اپنی اپنی تیاریوں سے فارغ ہوکر خان صاحب کے کمرے میں اکٹھا ہوئے ۔۔۔

زریار نے آکر ان کی پیشانی چومی ۔۔۔۔باری باری زیگن اور زمارے نے بھی اس تقلید کی ۔

کیا ہوا کہ وہ ہوش میں نہیں تھے ۔ان کی کمی محسوس تو ہوتی تھی ۔وہ تینوں کبھی بھی انہیں کسی کام میں نہیں بھولتے ۔ہمہ وقت ان کا خیال رکھتے روز سونے سے پہلے ان سے مل کر جاتے ۔اور آج بھی ان سے مل کر سب گھر سے نکلے ۔۔۔۔

ایک گاڑی میں زیگن جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ساتھ بسمہ اور پچھلی سیٹوں پر ذوناش اور یمنی تھیں ۔جبکہ دوسری گاڑی میں زریار اور صلہ تھے ۔۔۔تیسری گاڑی میں زمارے اکیلا تھا کیونکہ اس نے راستے میں سے شہریار کی فیملی کو بھی لینا تھا ۔۔۔۔

سب مل کر گجرانوالہ پہنچ چکے تھے ۔بریرہ کی والدہ ابھی بھی ہاسپٹل میں تھیں ۔بریرہ نے صلہ سے کہا تھا کہ بے شک جمعہ کو نکاح ہو جائے مگر اپنی والدہ کی سرجری کے بعد ہی رخصتی ہوگی ۔

صلہ نے بلا چوں چراں کیے اس کی بات مان لی ۔

بریرہ کی ہاسپٹل میں ایک لڑکی سے کافی جان پہچان ہو چکی تھی ۔وہ ساتھ والے بستر پر لیٹی پیشنٹ کی بیٹی تھی ۔بریرہ نے اسے کچھ گھنٹے اپنی والدہ کی ذمہ داری سونپ دی ۔

"یہ کہتے ہوئے کہ مجھے ایک بہت ضروری کام ہے ۔میں دو تین گھنٹوں میں واپس آجاؤں گی تب تک آپ میری والدہ کا خیال رکھنا اور خدا نخواستہ کوئی بھی بات ہو تو مجھے کال کر لینا ۔بریرہ نے اسے اپنا فون نمبر بھی لکھوا دیا تھا ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️  

"یہ لو تمہارا جوڑا "یہ پہن کر تیار ہو جاؤ جلدی "

صلہ نے اسکے گھر میں پہنچ کر اسے کی طرف کچھ چیزیں بڑھائیں ۔مجھے پہلے ہی پتہ تھاکہ تم یونہی سر جھاڑ منہ پھاڑ بیٹھی ہوگی ۔اسی لیے سارا انتظام خودی کیا ہے ۔

"اس کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟بریرہ نے جھنجھلا کر کہا ۔

"تھی ضرورت ۔۔۔بس تم جاؤ جلدی کرو دیر ہو رہی ہے مولانا صاحب باہر انتظار کر رہے ہیں۔

بریرہ خاموشی سے ڈریس لے کر واش روم میں چلی گئی ۔

وہ سب باہر صحن میں موجود تھے جہاں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔اور چار کرسیاں پڑیں تھیں۔سب خاموشی سے وہیں بیٹھے اس خستہ عمارت کا جائزہ لینے میں محو تھے ۔

"مام یہ میرے دوست ہیں شہریار بھائی اور یہ ہیں ان کی والدہ "

"اسلام وعلیکم !سدرہ خاتون نے بسمہ کی طرف دیکھ کر سلام کیا ۔

وعلیکم اسلام۔

"بہت بہت مبارک ہو آپ کو بیٹے کے نکاح کی ۔سدرہ خاتون نے شائستگی سے کہا ۔

"خیر مبارک بہت شکریہ "

انہوں نے ایک نظر زمارے کے ساتھ کھڑے ہوئے شہریار پر ڈالی ۔۔۔جو بلیو جینز پر بلیک شرٹ پہنے، وجیہہ نقوش کا حامل  کافی سوبر سا لگا ۔۔۔

پھر ان کی ساتھ بیٹھی ان کی بیٹی کی طرف دیکھا ۔

جو ڈارک براؤن کلر کے فراک اورچوڑی دار پاجامے میں ملبوس لائٹ سے میک اپ میں کافی پر کشش لگی ۔وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہیں۔سچ یہی تھا کہ انہیں پہلی نظر میں ہی وہ بچی اچھی لگی ۔

مگر وہ چپ رہیں۔

"یہ میری بیٹی زرشال ہے "سدرہ نے اسکا تعارف کروایا 

بسمہ نے چونک کر زمارے کی طرف دیکھا ۔

جو شریر سا مسکراتا ہوا سر کھجانے لگا ۔۔۔۔

اس بار بسمہ نے گھوری ڈالی زمارے کو ۔۔۔

وہ دل کھول کر ہنسا ان کے غصے پر ۔۔۔۔

"تمہیں تو میں واپسی پر پوچھوں گی "دل میں تہیہ کیے بولیں ۔

زیگن بھی زرشال کا نام سن کر چونکا ۔۔۔پھر زمارے کو مسکراتا دیکھ معاملہ سمجھنے میں اسے ایک لمحہ ہی لگا ۔۔۔

"لاؤ تمہارا ہلکا سا میک اپ کردوں "صلہ نے بریرہ سے کہا۔

مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے سوٹ کے ساتھ کا دوپٹہ سر پہ لینے لگی ۔۔۔۔

"یہ اتنا بڑا سا گھونگھٹ کیوں اوڑھ لیا ۔؟؟؟صلہ نے اسے گردن تک دوپٹہ اوڑھے دیکھ بوکھلا کر کہا ۔

"دیکھو صلہ میں نے تمہاری ہر بات مانی ہے ۔تمہارے کہنے پر ڈریس بھی چینج کر لیا ۔میری ماں ہسپتال میں ہے۔مجھ سے نہیں ہوتی ایسی فضول کی تیاریاں ۔۔۔۔"وہ اسے ٹوک گئی ۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔میں تو اسی لیے کہہ رہی تھی ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے ،اپنی شادی پر اچھا سا تیار ہونے کی بس اسی لیے۔۔۔کہہ رہی تھی ۔

"ہر لڑکی نا مجھ جیسی ہوتی ہے اور نا ہر لڑکی کی مجھ جیسی قسمت !!!!

"خدا نا کرے کسی بھی لڑکی کی قسمت میرے جیسی ہو "

جلدی کراؤ یہ سب ختم مجھے اپنی امی کے پاس واپس ہسپتال بھی جاناہے۔"

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے اپنا موبائل اٹھا کر اس کے ساتھ باہر نکلی ۔

صلہ اس کی باتوں پر خوب تلملائی مگر موقع کی مناسبت سے فی الحال خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی ۔

صلہ نے اسے لاکر ایک خالی کرسی پر بٹھایا ۔

بریرہ کی نظر گھونگھٹ میں سے ساتھ والی کرسی پر پڑی جہاں کسی کی بلیک ڈریس پینٹ اور نیچے پاؤں میں پہنے بلیک چمچماتے ہوئے شوز دکھائی دے رہے تھے ۔

وہ ضبط کی حدود کو چھوتے ہوئے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔

مولانا صاحب نے نکاح کی رسم کا آغاز کیا۔۔۔

بریرہ کے ہاتھ میں موجود موبائل عین اسی وقت رنگ کرنے لگا ۔۔۔۔

"لاؤ مجھے دو میں دیکھتی ہوں "

صلہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹ لیا ۔۔۔اور آنے والی کال ریسیو کی ۔۔۔ 

بریرہ کا دھیان کال پہ باتیں کرتی ہوئی صلہ پر تھا ۔

اسے کچھ سنائی نہیں دیا کہ مولوی صاحب نے کیا پوچھا ۔۔

کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو اس نے بے دھیانی میں تین بار کہا 

"قبول ہے،"قبول ہے "قبول ہے "

زریار میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں "صلہ زریار کے پاس جھک کر اس کے کان میں بولی ۔

"مگر کہاں جارہی ہو ؟؟

"آپ  نکاح کرو میں آکر بتاتی ہوں "وہ کہتے ہی تیزی سے باہر نکلی ۔۔۔۔

"اس نکاح سے پہلے ہی اس کا دل اچاٹ تھا ،اوپر سے صلہ کا یوں اچانک بنا بتائے کہیں چلے جانا ۔۔۔پھر ایک اور انجان ہستی کا اس کی زندگی میں داخل ہونا ۔۔آنکھوں کے پردوں پر کسی اور کی شبیہہ لہرانا ۔۔۔

وہ اسی کشمکش میں مبتلا جانے کب اور کیسے نا چاہتے ہوئے بھی کسی اور کو بھی اپنی اس ویران زندگی میں شامل کر گیا۔ اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی ۔

دونوں طرف سے ایجاب و قبول طے پاتے ہی دعا کے لیے ہاتھ بلند ہوئے ۔پھر سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی ۔۔۔

نکاح کی رسم ختم ہوتے ہی بریرہ اپنے کمرے میں واپس چلی گئی ۔۔۔محلے میں سے ایک عورت موجود تھی ۔وہاں ،،،جب بریرہ اکیلے گھر ہوتی تو وہ اس کا خیال رکھتی تھی ۔محلے دار ہونے کی وجہ سے اس کی مدد کرتی وہ  اسے  اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی اور نکاح میں آئے سب کے لیے کولڈ ڈرنکس کا انتظام کرنے لگی ۔۔۔۔

زریار کی کوٹ کی پاکٹ میں پڑا موبائل بجنے لگا تو اس نے نکال کر فورا کان سے لگایا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ برق رفتاری سے باہر نکلتا ۔۔۔۔

"زریار !" بسمہ نے اسے روکنا چاہا مگر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

"زریار !" بسمہ نے اسکی کلائی تھام لی وہ ابھی تک گومگوں کی کیفیت میں کھویا ہوا تھا۔

"زریار۔۔۔کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک تو ہے؟"

"وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔" اسکے منہ سے الفاظ نکل نہیں پا رہے تھے۔

"کیا ہوا ہے بولو نا...!"

"ص۔۔۔صلہ!" اسکا سانس رکنے لگا۔۔۔آواز اسکی گلے میں رہ گئی۔ بسمہ اور باقی سب اس کی حالت دیکھ کر  گھبرا گئے۔

"بتاؤ مجھے ۔۔۔کیا ہوا ہے ؟"

 بسمہ خود بھی ابھی اس کے جواب کیلئے تیار نہیں تھی۔ انہوں نے دل پر ہاتھ رکھ لیا اور پھر زریار کے چہرے کو دیکھنے لگی۔

زریار کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔الفاط جیسے ختم ہوگئے تھے ۔۔۔

"بولیں بھی زریار بھائی کیا ہوا ہے؟" زیگن نے گھبرا کے پوچھا کیونکہ وہ اسکی حالت دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ بات کوئی چھوٹی موٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

زیگن ! صلہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔" 

"یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گئی تھیں ۔۔

کہاں گئی تھی ؟؟؟

"میں نے دیکھا تھا وہ تم سے کچھ کہہ رہی تھی زریار ۔۔۔بولو کہاں گئی تھی ؟؟؟

بسمہ نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے اپنی بات مکمل کی۔

مجھے خود سمجھ میں نہیں آ رہا ابھی ہسپتال سے  کال تھی اُنہوں نے یہی بتایا ہے!"زریار بولا ۔۔۔

اس کی بات سن کر بسمہ نے اپنا سر تھام لیا۔

زیگن  نے زریار کا فورًا ہاتھ پکڑا اور باہر نکل کر گاڑی کی طرف تیز تیز قدم بڑھائے 

"جلدی بیٹھیں بھائی ! ہمیں فورا ً وہاں جانا ہوگا!"

وہاں موجود سب حیرت کا اظہار کر رہے تھے ۔۔۔

سب دلہن کو بھلائے فی الوقت اپنی اپنی گاڑیوں میں ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔

راستے میں سب شدید اضطراب کا شکار تھے۔ مگر زیگن  نے ہمت کی اور ڈرائیونگ پر توجہ مرکوز کی۔۔۔

اس نے ساتھ بیٹھے زریار کو دیکھا  جو شدید ذہنی دباؤ میں بار بار اپنی پیشانی کو مسل رہا تھا ۔۔۔

" زیگن ! سپیڈ بڑھاؤ پلیز مجھے جلدی وہاں پہنچنا ہے۔"وہ بولا۔۔۔

 زریار کے لہجے کا خوف اور بےبسی سب صاف محسوس کر سکتے تھے۔۔۔۔۔۔

"بھائی فکر مت کریں دیکھنا ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوگا " اسنے اسٹیرنگ سے ایک ہاتھ ہٹا کر زریار کے کندھے کو تھام لیا اور تھپک کر اسے تسلی دی ۔

وہ سب ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ زریار فوراََ گاڑی سے اترا اور اسکے پیچھے پیچھے باقی  بھی ہسپتال کے اندر داخل ہوئے۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے وہ دونوں پریشانی کے عالم میں ایمرجنسی وارڈ کی جانب بڑھے۔ زریار ہمت کرتے ہوئے آخر کار ریسیپشن پر پہنچا۔

"پلیز... بتائیے گا یہاں سے مجھے کال آئی تھی۔۔۔ایک ایکسیڈنٹ کیس  کے سلسلے میں ۔۔۔میں شوہر ہوں ان کا۔۔۔۔پلیز بتائیے گا وہ کیسی ہے؟؟؟

۔۔وہ کہاں ہے؟؟

"سر آپ ایک منٹ رکئیے اور حوصلہ رکھیں میں ابھی آپ کی بات ڈاکٹر سے کرواتی ہوں ۔"ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے کہا اور فون پر بات کرنے کے بعد زریار  کو آئی سی یو کی طرف اشارہ کر دیا وہ دونوں اسطرف بھاگے اور انتظار کرنے لگے دونوں کے لیے یہ انتظار کسی عذاب سے کم نہ تھا  زریار پریشانی کے عالم میں ٹہل رہا تھا۔ اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔اور اسکے ساتھ باقی  کھڑے افراد بھی صلہ کی حالت جاننے کیلئے منتظر کھڑے تھے۔۔

تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹرز آئی سی یو سے نکل کر باہر آئیں۔ زریار اور زیگن فورًا ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔۔۔

"آپ پیشنٹ کے شوہر ہیں؟ "ڈاکٹر نے آتے ہی کہا۔

"جی میں ان کا شوہر ہوں۔ کیسی کنڈیشن ہے اس کی ؟؟؟ وہ ٹھیک تو ہے نا؟ "زریارچنے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔

۔ڈاکٹر نے سر جھکا کر ایک طویل سانس اندر کھینچا اور زریار کے کندھے کو تھپک کر اسے حوصلہ دیا۔۔

"آپ کی مسسز کا بہت سیریس کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔اور انکا کافی خون بہہ چکا تھا ۔یہاں لانے میں انہیں  کافی دیر ہوگئی ۔

I am sorry ...

ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی مگر ہم انہیں بچا نہیں سکے ۔۔۔۔

She is no more ....

 سب اپنے جگہ پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے خوشیوں سے بھرے گھر میں ایک بار پھر صفِ ماتم بچھ گئی تھی ۔۔۔۔جیسے غموں نے ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا ۔

صلہ نے جب بریرہ کے موبائل پر کال ریسیو کی تو ایک لڑکی نے بتایا کہ بریرہ کی والدہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے۔اس وقت اس نے بریرہ کو بتانے کی بجائے خود ہاسپٹل جا کر صبح کی بجائے ابھی سرجری کروانے کا سوچا اور ہسپتال کی طرف خود گاڑی ڈرائیو کیے جا رہی تھی کہ ایک بڑے سامان سے لدے ہوئے ٹرک سے ایک جاندار قسم کی ٹکر کے نتیجے میں اس کے ساتھ ایک بھیانک حادثہ پیش آیا ۔۔۔اور روڈ پر موجود لوگوں نے اسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا۔۔۔

مگر وہ شاید قسمت میں اتنی عمر ہی لکھوا کر لائی ۔۔۔۔

_________

بریرہ نے باہر آکر دیکھا سب مہمان وہاں سے جا چکے تھے ۔اس نے اپنا فون چارپائی پر پڑا ہوا دیکھا جو صلہ جانے سے پہلے تیزی میں کال سن کر وہیں پھینک گئی تھی ۔۔۔۔

اس نے فورا لپک کر اپنا فون اٹھایا اور لاسٹ نمبر دیکھا تو اسی لڑکی کی کال تھی جو اس کی امی کے پاس تھی ۔

وہ بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے فورا ہسپتال پہنچی ۔۔۔

"اللّٰہ جی میری امی کو کچھ نہ ہو"

"میری امی ہی تو ہیں میرے پاس میری زندگی کا آخری سہارا ۔۔۔ان کی زندگی میرے لیے بہت اہم ہے۔اسکی بے قرار دھڑکنوں کا سکون ِچھن رہا تھا ۔وہ سارا راستہ ان کی حفاظت کی دعا کرتی ہوئی آئی تھی ۔۔۔وہ سب بھول چکی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے اس کا نکاح ہوا تھا ۔۔۔

اس وقت وہ خود ایک کرب سے گزر رہی تھی۔۔وہ کیسے نا رب سے ان زندگی مانگتی؟ اُنہیں کی زندگی کے نظر آتے اندھیروں ہی میں تو بریرہ کے دل کی روشنی قید تھی۔ بریرہ نے آنکھوں کے کناروں سے آنسو بہنے لگے ۔۔۔

جب بریرہ ہسپتال کی کارڈیک وارڈ میں پہنچی اپنی والدہ کو ڈھونڈھتے ہوئے ۔۔۔ اس کے قدم وہیں رک گئے ۔آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئیں۔۔۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔

آخر کب تک حقیقت سے نظریں چراتی ۔۔۔اس نے بمشکل ہمت کیے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔

اور چلتی ہوئی ان کے قریب آئی ۔۔۔۔

سامنے اپنی والدہ کا مردہ وجود دیکھ کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔آج اس سے اس کا آخری سہارا بھی چھن گیا تھا ۔اس کے سر پر دست شفقت رکھنے والے ہاتھ بے جان ہو گئے تھے ،ایسے لگا اچانک اسے کسی نے گلستاں سے لا کر تپتے ھوے صحرا میں لا کھڑا کیا ہو ۔۔۔۔

محلے داروں نے اس کی والدہ کی تجہیز و تکفین کا سارا انتظام کیا ۔۔۔۔وہ روتے بلکتے ہوئے انہیں اپنی آخری آرام گاہ میں جاتا ہوا دیکھتی رہی ۔۔۔۔

___________

وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ دیکھ نہیں سکتے، چھو نہیں سکتے، محسوس نہیں کر سکتے، لیکن وہ مسلسل اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔وقت کا پہیہ گھوما اور اپنے ساتھ دو ماہ اور بہا کر لے گیا ۔۔۔۔

حویلی میں ابھی بھی سوگواریت چھائی ہوئی تھی ،

خان صاحب ابھی بھی کومہ میں دنیا و مافیہا سے بیگانہ بستر پر پڑے ہوئے تھے ،بسمہ کی حالت کافی خراب تھی ،صلہ کی موت سے انہیں کافی گہرا صدمہ پہنچا تھا ،وہ ہمہ وقت خاموش رہنے لگیں ۔تھیں۔دل ہی دل میں وہ اپنی بہن سے شرمندہ تھیں کہ وہ اس کی نشانی کا دھیان نہیں رکھ سکیں۔اسی پشیمانی میں ان کا بی۔پی ہائی رہنے لگا تھا۔۔۔

زیگن ایک بزنس میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا ۔۔۔۔

جبکہ زمارے فی الحال ہاسٹل شفٹ ہوچکا تھا ۔کیونکہ گھر کے ماحول میں اس سے سٹڈیز پر فوکس کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

یمنی کے لاسٹ سمیسٹر کے پیپرز چل رہے تھے وہ بھی اپنے کمرے تک محدود تھی۔ بہن کی اچانک موت نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔مگر پھر بھی وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دے رہی تھی ۔

ذوناش کا بھی کالج چل رہا تھا۔صلہ کی وفات کے ایک ہفتے بعد اس نے کالج جانا شروع کر دیا تھا ۔

زریار ہر صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد قبرستان جاتا اور صلہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتا ۔۔۔۔۔پھر واپس آکر تیاری کیے آفس روانہ ہوجاتا۔

آج کتنے دنوں بعد بسمہ اپنے کمرے سے نکل کر باہر آئیں اور لاونج میں بیٹھیں ۔۔۔۔

ملازمین کو ٹھیک سے صفائی کرنے کی ہدایات دے رہی تھیں۔

"بیگم صاحبہ آج آپ بتائیں کھانے میں کیا بنائیں ؟؟؟؟

"جو مرضی بنا لو ....

"آنٹی آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے ؟ذوناش نے ان کا من بدلنے کے لیے بات بڑھائی ۔

"سب کھا لیتی ہوں "

"مگر کچھ تو زیادہ پسند ہوگا ...آج جو آپ کو پسند ہے وہی بنے گا ۔اور میں خود بناؤں گی ۔۔۔۔

"بتائیے نا پلیز "

"مجھے تو بریانی اور کباب پسند ہیں"انہوں نے سوچتے ہوئے بتایا ۔۔۔۔

"مگر مجھے تو کوفتے پسند ہیں "باہر سے آتا ہوا زمارے درمیان میں بولا ۔۔۔

"ارے زمارے تم کب آئے ؟؟؟بسمہ نے پوچھا ۔

"ابھی ابھی مام ۔۔۔۔آج ویکینڈ کی وجہ سے ہاسٹل میں چھٹی ہے ۔اسی لیے سوچا گھر کا چکر لگا لوں "

"ہممم۔۔۔۔بہت اچھا کیا۔۔۔۔

"مام بھابھی کو کب لانا ہے ؟

"زمارے نے پوچھا ۔۔۔

"اوہ ۔۔۔۔۔میرا دماغ دیکھو ۔۔۔۔

اس عمر میں بالکل کام کرنا چھوڑ گیا ہے ۔مت ہی ماری گئی ہے میری ۔۔۔۔

ذوناش تم تو مجھے یاد کروا سکتی تھی ۔۔۔۔انہوں نے پاس بیٹھی ہوئی ذوناش کو گُھرکا۔

"کیا آنٹی ؟؟؟اس کی نیلی آنکھوں میں حیرت ابھری ۔۔۔

"یہی کہ زریار کی بیوی کی رخصتی کی ہی نہیں ۔صلہ کے اچانک چلے جانے کے غم میں اتنا ڈوب گئے کہ اس بیچاری بچی کی پلٹ کر دوبارہ خبر نہیں لی ۔۔۔جانے کس حال میں ہوگی بچی ۔۔۔؟؟؟

"جانے کیا سوچتی ہوگی ہمارے بارے میں وہ ؟؟؟

وہ دماغ میں آئے سوال پریشانی سے بول رہی تھیں ۔۔۔

"زمارے تمہیں گھر کا پتہ تو ہے نا جہاں  ہم نکاح والے دن گئے تھے ۔

"جی مام پتہ ہے "

"تو پھر جاؤ تم اسے جا کر لے آؤ "

"مام میں کیوں جاؤں ؟؟؟

"آپ زریار بھائی کو فون کر کہ بولیں کہ وہ خود لے کر آئیں انہیں ۔میں بھلا وہاں جاتا اچھا لگوں گا ۔۔۔۔

وہ زریار کی طبیعت سے خوب واقف تھیں۔وہ کبھی بھی نہیں جاتا اسے لینے ۔۔۔۔

"زمارے میں جتنا کہہ رہی ہوں اتنا کرو "

"اچھا ٹھیک ہے مام ۔دراصل مجھے اپنے کسی دوست سے ملنا ہے ۔اس سے مل لوں پھر شام کو چلا جاؤں گا انہیں لینے ۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔دھیان سے جانا ۔"

"جی مام !.

____________

زرشال یونیورسٹی سے باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے زمارے کو گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا دیکھا ۔۔۔۔

زمارے نے اسے دیکھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا ۔۔۔اور اسے اشارہ کیا اندر آکر بیٹھنے کا ۔۔۔

زرشال نے دور کھڑے ہی نا ۔۔۔۔کا اشارہ کیا۔۔۔

"پلیز ""اس نے بنا آواز کے اشارے سے کہا ۔۔

زرشال اس کے لبوں سے اس کے الفاظ کا اندازہ لگا کر ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔پھر چلتے ہوئے اس کے پاس آئی ۔۔۔۔

"ہیلو کیسی ہو "؟

"میں ٹھیک ہوں آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ...اس نے اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"اُف یہ "آپ " کہہ کر پکارنے کا انداز دل کو لگا ٹھاہ کر کہ ۔۔۔

وہ سینے پر ہاتھ رکھے چھچھورے پن سے بولا ۔۔

" پلیز زمارے تنگ مت کریں "

"اچھا نہیں کرتا چلو تمہیں گھر تک چھوڑ دوں "اس نے آفر کی ۔

"نہیں میں خودی چلی جاؤں تھینکس "

"خودی تو روز جاتی ہو آج میرے ساتھ جانے میں کیا مسلہ ہے ۔کہیں مجھ پر بے اعتباری تو نہیں ؟؟؟؟

اس نے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا ۔

"چلو "وہ فقط اتنا ہی بولی اور گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ زور سے بند کرلیا ۔۔۔۔

"اب کیوں بیٹھی ؟؟؟

"وہ دیکھو سامنے فرحین جیسی ایک چڑیل تمہیں کب سے دیکھ رہی ہے ۔دل کرتا ہے اس کی آنکھیں نوچ لوں ۔۔۔کیا ضرورت تھی اتنا شیار ہو کر آنے کی ۔۔۔۔؟

وہ کڑے تیوروں سے برس پڑی ۔۔۔

"یہ تو آپ کا حسن نظر ہے محترمہ ورنہ بندہ خاکسار اس قابل کہاں ۔۔۔۔

"حوروں سے کہو کسی گمان میں نا رہیں۔

وہ فرش پر بھی میرا ہے ،اور عرش پر بھی میرا ہوگا"

وہ تفاخر ایک ہی لے میں بولی ۔۔۔اور بولنے کے بعد پچھتائی ۔۔۔فورا اپنے لبوں پر ہاتھ رکھا ۔۔۔مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔۔۔وہ شعر کے زریعے اظہار محبت کر چکی تھی ۔۔۔۔

زمارے تو خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا ۔۔۔

"زرشال تم نہیں سمجھ سکتی کہ تم میرے لیے کیا ۔

"بس اتنا کہوں گا کہ تم زندگی ہو میری..! 

زندگی پتہ ہے کسے کہتے ہیں؟

 سانس لینے کو؟؟ نہیں! ۔۔۔

زندہ رہنے کو ؟؟نہیں!.. 

تمہاری آواز کو.. تمہاری دید کو.. تمہیں کہتے ہیں زندگی.."وہ جذب سے بولا 

بولتے وقت اس کے چہرے اور جسم کا ایک ایک عضو اسکے کھرے جذباتوں کی گواہی دے رہا تھا ۔۔۔۔ایک ایک بات ایک ایک انداز سے محبت ٹپک رہی تھی ۔۔۔۔

وہ خود کی قسمت پر جتنی نازاں ہوتی اتنا کم تھا ۔۔۔

اس کے پاؤں بھی خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔۔۔۔

"زرشال میں جلد ہی اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر لاؤں گا ۔۔۔تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟؟؟

وہ خاموشی سے نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔

"اس کا کیا مطلب سمجھوں ؟؟؟

"کہ تمہاری طرف سے انکار ہے ؟؟؟

"میں نے ایسا کب کہا ؟؟؟اس نے فورا سر اٹھا کر دیکھا ۔

"تو پھر اقرار ہے ؟؟؟

"میں نے ایسا بھی نہیں کہا ...

"تو پھر انہیں حوروں سے رابطہ کروں کیا جن کو کچھ دیر پہلے آپ سُنا رہی تھیں ؟؟؟

"خبردار جو میرے سوا  کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ۔"وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔تو زمارے دھیرے سے ہنس دیا ۔۔۔

اسے ہنستے دیکھ زرشال بھی ہنسی ۔۔۔

"اوہ تم ہنس رہی ہو اسکا مطلب ہاں "

"میرے ہنسنے سے ہاں کا مطلب کیسے اخذ کر لیا ؟؟؟

"ارے وہ کہتے ہیں نا لڑکی ہنسی تو سمجھو پھنسی "

وہ شرارتی لہجے میں بولا۔۔۔

"تم نا زمارے بہت ہی کوئی خراب انسان ہو۔۔۔۔وہ اس کے شانے پر دھپ رسید کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"ویسے اگر تشدد ہی کرنا ہے تو ہاتھوں کی بجائے ہونٹوں سے بھی کیا جا سکتا ہے "

زمارے کی ذومعنی بات سن کر اس کے گال دہکنے لگے ۔۔۔۔

"فضول باتوں سے پرہیز کرو "

وہ مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے چلتی گاڑی سے باہر دیکھنے لگی ۔۔کیونکہ فی الحال وہ اس کی نظروں کا سامنا نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔

__________

ٹھک۔ٹھک ۔ٹھک۔۔۔باہر سے دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی تو وہ اٹھ کر باہر گئیں ۔۔۔

بریرہ ان کی واپسی کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔

"کون ہے خالہ ؟"

"بیٹا باہر تمہارا دیور آیاہے ۔کہہ رہا ہے تمہیں لینے آیا ہے۔"انہوں نے واپس آکر اسے اطلاع دی ۔

"مجھے نہیں جانا کسی کے ساتھ کہہ دیں اسے ۔۔۔"

"بیٹا اب وہی تمہارا گھر ہے۔"

چلی جاؤ اس کے ساتھ "

"دو ماہ انہیں یاد آگیا مجھے واپس لے جانا ؟؟اس کے لہجے میں اپنے آپ ہی تلخی اتر آئی ۔۔۔

"بیٹا اب وہ لوگ ہیں تمہارے اپنے ہیں "

"میری امی کی وفات پر کوئی بھی نہیں آیا ۔۔انہیں محلے داروں نے دفنایا ۔۔۔۔

"کیا ایسے ہوتے ہیں اپنے ؟؟"

"بیٹا ان کے گھر خود موت ہوئی تھی ۔ان کی بہو کی بیٹا وہ خود جوان موت سے غمزدہ تھے ۔ایسے میں تمہیں بھول گئے تو انہیں معاف کر دو ۔دل بڑا کرو ۔اور اپنے گھر چلی جاؤ ۔میں اور کتنے دن ذندہ ہوں ۔ایک لڑکی اکیلے زندگی نہیں گزار سکتی ۔میری مانو تو وہ عزت سے لینے آیا ہے ۔چلی جاؤ ۔

"اور جس کی عزت ہوں اس نے تو لینے آنا بھی گوارا نہیں کیا۔

اس کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔

"کیا پتہ بیٹا اسے کوئی ضروری کام ہو ۔۔۔بڑے لوگ ہیں۔ان کے بڑے کام ۔

اسی عورت نے ایک دن صلہ کے نمبر پر کال کی جو یمنی نے اٹھائی تھی ۔انہوں نے اس سے صلہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ صلہ کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔اس دن انہوں نے بریرہ کو بتایا تھا کہ اس کی دوست صلہ اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔

بریرہ یہ سن کر بھونچکا رہ گئی ۔۔۔

پھر وہ اپنی دوست کی مغفرت کے لیے دل سے دعا کرنے لگی  ۔۔۔۔

"جاؤ بیٹا چادر لے لو "

"ایسا کرو میں اسے باہر صحن میں بٹھاتی ہوں کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہن لو ،پہلی بار سسرال جا رہی ہو "انہوں نے مشورہ دیا ۔

"خالہ رات ہوگئی ہے ۔اور آپ جانتی ہیں میری بیماری کو مجھے رات کو دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔

"رکو میں تمہیں کپڑے نکال دیتی ہوں تم تبدیل کرلو ۔۔۔

"ابھی کسی پر ظاہر نا ہونے دینا اپنی بیماری بیٹا ۔یہ نا ہو وہ لوگ تمہیں ۔۔۔۔تم سمجھ رہی ہو نا میری بات ؟؟؟

"خالہ میں جھوٹ نہیں بولوں گی ۔۔۔پلیز ۔۔۔۔

"وہ کچھ دیر سوچتی رہیں پھر اٹھ کر لکڑی کی پرانی سی الماری سے اس کے کپڑے نکال کر اسے دئیے تو وہ کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

_________

زمارے باہر صحن میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

"اسلام وعلیکم بھابھی !!

وہ چادر لے کر باہر آئی تو زمارے نے مؤدب انداز میں اسے سلام کیا ۔

"وعلیکم السلام !

اس نے جواب دیا ۔۔۔

زمارے آگے آگے باہر نکلا تو خالہ  بریرہ کا ہاتھ پکڑے باہر گاڑی تک چھوڑنے آئی ۔۔۔

زمارے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو خالہ نے پچھلی سیٹ پر بریرہ کو بٹھا کر دروازہ بند کیا اور اسے ڈھیروں ڈھیر دعائیں دے کر الوادع کیا۔۔۔۔

گجرانوالہ کی حدود سے نکل کر گاڑی لاہور کی حدود میں داخل ہوئی تو اچانک موسم نے انگڑائی لی ۔اور آسمان پر سرخی مائل بادل گِھر آئے ۔۔۔۔

کچھ فاصلہ اور طے کیا تو گرج چمک کے ساتھ بادل برسنے لگے ۔۔۔پل بھر میں سماں جل تھل ہوگیا ۔۔۔۔

بارش کی تیز بوچھاڑ نے ونڈ سکرین پر قبضہ جما رکھا تھا ۔مگر سکرین کے باہر تیزی سے چلتے وائیپر زمارے کو راستہ دیکھنے میں مدد دے رہے تھے۔

بمشکل وہ راستہ طے کیے ہوئے حویلی میں داخل ہوا ۔۔۔۔

حویلی میں گاڑی اینٹر ہوئی تو اچانک لائٹ چلی گئی ۔۔۔۔

اس نے پچھلی طرف کا دروازہ کھول کر بریرہ کو باہر آنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

وہ باہر نکلی تو ٹھنڈی ہوا کے ٹھٹھرا دینے والے جھونکے اور بارش کی تیز بوچھاڑ نے اسے پوری طرح بھگو دیا ۔۔۔

وہ کانپ کر رہ گئی ۔۔۔۔لان میں چلتا ہوا فوارہ بھی اچانک بند ہوا ۔۔۔۔۔

ساری حویلی اندھیرے میں ڈوب گئی ۔۔۔۔

بریرہ کو تو ویسے بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اوپر سے تیز بارش میں وہ اندازہ بھی نہیں لگا پا رہی تھی ۔۔

دراصل وہ رات کو ساتھ موجود ہستی کے قدموں کی چاپ سن کر اندازہ لگاتی تھی راستے کا ۔۔۔مگر اب بارش کے شور میں وہ ساتھ کھڑے اپنے دیور کے قدموں کی چاپ بھی نہیں سن پا رہی تھی ۔۔۔

"سنو !!!بریرہ نے اسے آواز دی ۔

اتنی ٹھنڈ میں اس سے اور برداشت نا ہوا تو وہ بولی ۔

"مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔پلیز مجھے راستہ بتاؤ ...

اس نے بلا جھجھک کہا۔۔۔

پہلے تو وہ تھوڑا حیران ہوا اس کی بات پر  پھر سر جھٹک گیا ۔۔۔۔

"آئیں بھابھی ۔پلیز مجھے اپنا بھائی ہی سمجھیے گا ....

اس نے بریرہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے ساتھ لیے اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

تیز ہوا کے جھونکوں سے کھلی ہوئی کھڑکیوں کے پٹ آپس میں بج کر شور مچا رہے تھے۔

ہوا کے دوش پر پھڑپھڑا تے ہوئے سفید پردے اڑ اڑ کر خوابناک ماحول پیدا کر رہے تھے ۔۔۔۔

"ذوناش کھڑکیاں بند کرو "

"بسمہ نے اسے بلند آواز میں کہا ۔۔۔

"جی ابھی کرتی ہوں "وہ بھاگ بھاگ کر کھڑکیاں بند کر رہی تھی ۔۔۔۔

"بسمہ ہاتھ میں کینڈل لیے کھڑی تھیں ۔جو تیز ہوا اندر آنے کے باعث پھڑپھڑا رہی تھی ۔۔۔

زمارے کے ساتھ کسی لڑکی کو اندر آتے دیکھا پہلے تو وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ یہ کون ہے۔پھر یاد آیا کہ خودی تو اسے زریار کی دلہن کو گھر لانے کے لیے کہا ۔وہ اس لیے اسے پہچان نہیں پائی تھیں کیونکہ نکاح والے دن  وہ گھونگھٹ اوڑھے ہوئے تھی۔۔۔وہ سمجھ گئیں ۔

کیسی ہو بیٹا ؟بسمہ نے نرم لہجے میں پوچھا ۔۔۔

ان کی آواز بریرہ کو کچھ شناسا لگی ۔۔۔۔

"جی میں ٹھیک ہوں " 

"مام لائٹ گئی ہے تو جرنیٹر کیوں آن نہیں کیا؟؟؟زمارے نے پوچھا ۔۔۔

"زمارے جرنیٹر میں تیل ختم ہوگیا ہوا شاید اسی لیے نہیں چلا ۔۔۔۔

"ذوناش وقت بہت زیادہ ہوگیا ہے اسے زریار کے روم میں چھوڑ آو ۔زریار آچکا ہے۔ابھی تو ویسے بھی لائٹ نہیں ۔"

بسمہ نے پاس کھڑی ہوئی ذوناش کو آہستہ آواز میں کہا ۔

"بریرہ بیٹا تم ایسا کرو بہن کے ساتھ اپنے روم میں جاؤ ۔تھک گئی ہوگی ۔آرام کرو ۔صبح تفصیلی ملاقات ہوگی "وہ خوشدلی سے اونچی آواز میں بولیں۔۔۔۔

"جی "وہ فقط اتنا ہی بولی ۔

"آئیے بھابھی ...ذوناش اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔اور دروازے کے پاس آکر کھولا تو وہ آرام سے کھل گیا ۔

"بھابھی یہ آپ کا روم "

وہ اسے اندر کیے دروازہ بند کر کہ واپس مڑ گئی ۔۔۔۔

جیسے ہی بریرہ کمرے میں داخل ہوئی لائٹ آگئی ۔۔۔اور تاریک کمرہ یکلخت روشنیوں میں نہا گیا۔۔۔۔

زریار جو کچھ دیر پہلے ہی تھکا ہارا آفس سے واپس آیا تھا۔کمرے میں موجود صوفے پر نیم دراز سا تھا۔ڈریس پینٹ پہنے ، شرٹ کی بازو کو کہنیوں تک موڑے  ،کوٹ اتار کر صوفے کی ایک طرف رکھے ہوئے تھا۔۔۔ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر کہ ابھی تک گلے میں ہی تھی ۔۔۔۔

کسی کی نامانوس مہک اور موجودگی کے آثار کمرے میں محسوس ہوئے تو زریار نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔

سامنے ہی کوئی صنف مخالف اس کی طرف پشت کیے کھڑی تھی ۔شاید وہ اس کی موجودگی سے نا بلد تھی اسی لیے جسم پر موجود بارش کے باعث ہوئی گیلی چادر اتار کر رکھنے کے لیے ٹٹول کر جگہ دیکھنے لگی ۔۔۔۔

اس کا ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرایا تو اس نے چادر اس پر رکھی ۔اور کانوں سے چھوٹے چھوٹے آویزے اتار کر ایک طرف رکھے ۔۔۔۔

زریار خاموشی سے اس کی حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا۔

اس لڑکی کے لمبے سنہری بھیگے بال اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے جو تھوڑے تھوڑے نم تھے ۔

اس کی آنکھوں کے سامنے وہی لمبے سنہری بالوں والی پونی ٹیل لہرائی جو وہ آج سے کئی سال پہلے دیکھتا تھا۔۔ 

وہ آنکھیں بند کر کہ پھر سے کھول گیا۔۔۔۔

"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا"اس نے خود کو سرزنش کی ۔

"وہ پلٹی تو زریار حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔۔

وہی چہرہ ،بس وقت گزرنے سے نقوش میں تھوڑا سا بدلاؤ آیا تھا  ،وہی باریک لب،وہی سیاہ آنکھیں ،وہی ناک ،وہ کیسے اسے بھلا سکتا تھا اسے۔

جسے ہر پل چاہا ، جسے پل پل دعاؤں میں مانگا ۔۔۔

"کیا میری دعائیں رنگ لے آئیں؟؟؟؟ کہ خدا نے مجھے اس سے ملا دیا ۔۔۔۔

زریار کا فون رنگ ہوا تو زریار نے فورا اٹھا کر کان سے لگایا ۔۔۔۔

بریرہ نے فون کی آواز پر چونک کر محسوس کیا ۔کہ اس کے سوا بھی اس کمرے میں کوئی ہے ۔۔۔

"زریار تمہاری دلہن کو کمرے میں بھیجا ہے۔بیٹا اس سے اچھا سلوک کرنا ۔مجھے شکایت کا موقع نا ملے "بسمہ نے کال پر کہا۔

"جی مام"وہ فقط اتنا ہی بولا۔

"ک۔ک۔کون ہے کمرے میں ؟؟؟اس کی سہمی ہوئی سی آواز زریار کو سنائی دی تو وہ فون ایک طرف رکھتے ہوئے ٹائی اتار کر ایک طرف پھینک کر اس کی طرف آیا ۔۔۔

"آپ کا شریک حیات "

وہ سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔

بریرہ کی سماعتوں میں اس کی آواز گُھلی ۔۔۔تو تن بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔

"نہیں یہ وہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔

میرے حواسوں پر وہ اتنا سوار ہے کہ مجھے اس کی آواز میں بھی اُسی کی آواز سنائی دے رہی ہے۔"اس نے دل میں سوچا ۔

وہ اسے آنکھوں کے رستے دل میں اتار رہا تھا 

"کچھ لوگ دعاؤں میں نہیں بلکہ خود ایک دعا ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہمارے دل اور ہونٹوں پہ رہتے ہیں۔۔تم بھی میرے لئے وہی دعا ہو رانی ۔

"خدا نے تمہیں مجھے عطا کر کہ شاید مجھے توبہ کرنے کا ایک موقع عطا کیا ہے "

اتنے سالوں جس کا انتظار کیا ۔جسے اتنا کھوجا تھا  اسے پھر سے ایک بار اپنے سامنے دیکھ وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوئے اس کے بے حد قریب آیا  ۔۔۔۔

پھر اسے اپنے حصار میں لیتے اس کی صراحی دار گردن پر جھک کر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا۔۔۔۔

جیسے برسوں کی ملی تشنگی مٹانے کا ارادہ ہو۔۔۔۔

وہی شناسا لمس محسوس ہوا تو اس کے رونگھٹے کھڑے ہوئے۔۔۔۔

اس کا پرتپش لمس اپنی گردن کو گرم بھاپ کی طرح جھلساتا ہوا معلوم ہوا۔۔۔۔ 

وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی اس کے جان لیوا لمس سے ۔۔۔۔

رگ رگ میں فشار خون بلند ہوا ۔۔۔۔

”ت۔۔۔ت۔۔۔تم ۔۔۔۔تم وہی ہو ۔۔۔۔۔وہی ہو نا جس نے میرے وجود پر اپنی بربریت کی چھاپ چھوڑی تھی ۔۔۔“وہ اسے خود سے پیچھے جھٹک کر غرائی ۔

"ہاں تم وہی ہو اس لمس کو میں کیسے بُھلا سکتی ہوں ۔۔۔اس لمس نے میرا بچپن اجاڑ دیا ۔۔چھین لیا مجھ سے میرا سب کچھ ۔۔۔زنا کیا تھا تم نے  ۔۔۔۔

وہ جی جان سے ہانپتی ہوئی آواز میں کانپ کر بولی ۔۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو ۔؟بکواس بند کرو ۔۔۔وہ میرا پیار تھا ۔۔۔۔"

 اسے دونوں بازوؤں سے جکڑتا ہوا اس کی آنکھوں میں جھانک کر غرایا ۔

"تم نے پہلے بھی میری بینائی نا ہونے کا فائدہ اٹھایا ۔۔۔مگر آج نہیں ۔۔۔

میرے قریب بھی مت آنا۔۔۔۔وہ تڑپ کر اس کی مضبوط گرفت سے باہر نکلی ۔ ۔۔

"میں تو چھوٹی تھی نا سمجھ تھی تمہاری باتوں میں آگئی ۔۔۔۔تم تو بڑے تھے مجھ سے سمجھدار تھے نا ۔۔۔پھر کیوں چھین لیا مجھ سے میرا سب کچھ ۔۔۔۔تم نےاس کالی رات میں ہمیشہ کے لیے میری زندگی کو سیاہی مائل بنا دیا ۔۔۔

وہ اسے قریب محسوس کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکا دے کر بولی  ۔۔۔۔

"جھوٹ بولتے ہو تم کہ وہ تمہاری محبت تھی ۔۔۔ہوس تھی وہ تمہاری ۔کسی کھلونے کی طرح مجھ سے کھیل کر ،

تحقیر آمیز انداز میں میرے وجود کی دھجیاں اڑا کر کہتے ہو کہ وہ تمہارا پیار تھا ؟؟؟

"رانی مجھ سے انجانے میں غلطی ہو گئی تھی "

"میں بہک گیا تھا ،مگر میرے جذبات سچے تھے " زریار نے تڑپ کر کہا 

"تمہاری اس غلطی کو عمر بھر کا پچھتاوا نا بنادیا تو میرا نام بدل دینا ۔۔۔۔"

وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔۔

"شرم نہیں آتی تمہیں اپنے جرم کو پیار کا نام دیتے ہوئے ۔

نو سال کی عمر میں میری معصومیت چھین لی ,رات کے اندھیرے میں میری عزت لوٹنے والے لُٹیرے ہو تم """"

میرا وجود کرچی کرچی کر دیا۔۔۔

دوستی کے نام میرے اعتماد کو توڑ دیا ۔۔۔

میرے دامن کو داغ دار کر کہ کیا ملا تمہیں بتاؤ ؟؟؟؟

وہ بے ساختہ چیخ ُاٹھی ۔

 ""میرے وجود کو روند ڈالا تم نے ظلم کیا تھا مجھ پر ",

"ظلم کیا تھا "

اس نے آگے بڑھ کر اس کی شرٹ کر جھنجھوڑ ڈالا۔۔۔

"زندگی میں جو درد میں نے سہا ہے تمہاری وجہ سے ۔۔۔

"تم بھی تڑپو گے زریار !!!! مگر تمہیں کبھی سکون نہیں ملے گا ۔۔۔۔

"کبھی چین نہیں پاؤ گے تم !!!!

وہ بدعائیہ انداز میں بولی۔

"رانی مجھے تمہاری ہر سزا قبول ہے میں مانتا ہوں مجھ سے نادانی میں بچپنے میں وہ گناہ سرزد ہوا تھا ۔۔۔۔مگر ایک بار مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ اس رات کے بعد ایک بھی رات سکون سے سو نہیں پایا ہوں ۔۔۔۔

"میری ہستی کو ذندہ درگور کر کہ مجھ سے معافی کے طلبگار بنتے ہو ؟؟؟؟؟

اس کی پلکوں سے آنسو ٹوٹ کر لڑیوں کی مانند سرخ گالوں کو بھگو رہے تھے ۔۔۔۔

"رانی کے الفاظ اسے نشتر کی طرح لگے ۔وہ بلبلا اٹھا ۔۔۔۔۔

"دیکھو رانی اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں میری زندگی میں شامل کر کہ مجھے توبہ کرنے کا ایک موقع دیا ہے۔

"نام بھی مت لو اپنی غلیظ ترین زبان سے میرا !!!!!

"اور تمہارے ساتھ جُڑا رشتہ میرے لیے کسی گالی سے کم نہیں ۔۔۔لعنت بھیجتی ہوں میں تم پر اور تمہارے اس رشتے پر جو پہلے درندوں کی طرح عزت نوچ کر پھر عزت کا جھوٹھا رشتہ قائم کرتا ہے "

وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔

"رنگوں اور تتلیوں سے کھیلنے کی عمر میں تم نے میرے وجود کو ایسا روگ لگا دیا کہ میں سب رنگوں سے محروم ہوگئی ۔۔۔

"خسارہ صرف میرے مقدر میں آیا ۔۔۔۔کیوں ؟؟؟

"میں تو تم سے نفرت بھی نہیں کرتی کیونکہ میں تم سے نفرت کا رشتہ بھی رکھنا نہیں چاہتی ۔۔تم اس قابل بھی نہیں"

وہ پھنکاری ۔۔۔

"میری ذات سے تمہیں جو تکلیف پہنچی ہے میں جانتا ہوں کہ میں اس قابل بھی نہیں ،کہ تم سے معافی مانگ سکوں "

وہ اسے دیکھ کر بول رہا تھا ۔

"مگر میں نے تم سے ہمیشہ محبت کی ہے اور اپنی آخری سانس تک صرف تمہیں سے محبت کرتا رہوں گا ۔یہ بات تم مانو یا نا مانو "زریار نے اس کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے یقین دلانا چاہا۔۔۔

"رحم کرو مجھ پر "

"ہاتھ بھی مت لگاؤ مجھے ۔۔۔۔۔میں تمہیں تمہارے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔ 

"اور رحم کروں تم پر ؟؟؟؟

"تم نے کیا تھا اس رات مجھ پر رحم ۔۔۔۔

"کتنا چیخی تھی چلائی تھی میں ۔۔۔کتنا گڑگڑائی تھی میں ۔۔۔تب رحم آیا تھا مجھ پر ؟؟؟؟

"اب اگر تم نے مجھے ہاتھ بھی لگایا  نا تو میں ۔۔۔۔تو میں خودکشی کر لوں گی ۔۔۔۔

زریار کی سماعتوں میں یکدم سناٹا سا اتر آیا تھا ۔۔۔۔اس کے الفاظ اسے چابک کی طرح لگ رہے تھے ۔۔۔۔

"ہاں میں خودکشی کر لوں گی ۔۔۔۔اس کے ہاتھ لگانے پر احساس ذلت نے اسکے سر پر خون سوار کر دیا تھا ۔۔۔

اس وقت بریرہ کی خالی آنکھوں میں سفاکیت تھی ،اور انداز میں جارحیت کی جھلک دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

زریار اسے سراسیماں نظروں سے دیکھ کر متوحش ہوا ۔۔۔

وہی تو تھا ان آنسوؤں کی المناکی کا سسب ۔۔۔۔

اس وقت بریرہ کا دل لہو لہان تھا ۔خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔۔

وہ ڈریسنگ ٹیبل سے کی طرف واپس گئی جہاں کچھ دیر پہلے گیلی چادر رکھی تھی ۔۔۔ٹٹولنے پر اسے ڈریسنگ پر پرفیوم کی بوتل ملی ۔۔۔اس نے اسے ہاتھ میں لے کر دوبارہ پوری قوت سے ڈریسنگ پر مارا ۔۔۔۔

پورے کمرے میں پرفیوم کی مہک پھیلی۔۔۔۔

پھر بنا ایک لمحے کی تاخیر کیے اس نے اپنے بازو پر وہ شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل پھیری ۔۔۔۔

بھل بھل خون بہنے لگا ۔۔۔

زریار اس کی طرف تیزی سے بڑھا ۔۔۔

بریرہ کا دماغ انتہائی ابتر حالت میں تھا۔اچانک زریار کے سامنے آجانے سے پرانے غم تازہ ہوئے تو وہ برداشت نہیں کر پائی ۔۔۔۔فورا ہوش وحواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔

اس کے لہرا کر گرتے وجود کو زریار نے تھام کر بستر پر لٹایا ۔۔۔

پھر میڈیکل باکس سے بینڈج نکال کر اس کی بازو پر کی ۔۔۔

اس نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا زخم گہرا تھا مگر رگوں تک نہیں پہنچا تھا ۔۔۔کہ سٹیچز لگوانے پڑتے ۔اس نے کریم لگا کر بینڈج کر دی ۔اور اس کا سر تکیے پر رکھ کر اس کے گرد کمفرٹر پھیلایا ۔۔۔حالانکہ اس کے کپڑے گیلے تھے ۔۔۔۔مگر وہ اس کے کپڑے تبدیل کر کہ مزید اس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔۔۔

روشندان سے دھوپ کا ٹکڑا آ کر میرے پاس گرا 

اور پھر سورج نے کوشش کی مجھ سے آنکھ ملانے کی 

ایک سیاہ رات سے جنگ لڑے صبح کے سورج نے طلوع ہوکر اس  وقت اپنی روشن کرنوں کی چمک و شفافیت چہار سو پھیلائی ۔۔۔ٹھنڈی تھنڈی چلتی تر وتازہ ہوا خوشگوار فضا، پرندوں کی چہچہاہٹ،پر اس نے جب کسمسا کر آنکھیں کھولیں تو خود کو نرم گرم بستر پر پایا،دھندھلا منظر آہستہ آہستہ صاف ہونے لگا، یہ ایک بڑا کھلا اور شاندار کمرہ تھا ،جس کی ایک ایک چیز عمدہ ترین تھی , جہازی سائز کے بیڈ پر وہ لیٹی ہوئی تھی،مخملیں بستر اور ملائم کمفرٹر میں ،سامنے ہی ڈریسنگ ٹیبل جہاں پر اس کی چادر موجود تھی ،اور ساتھ دیگر سامان بکھرا پڑا تھا،

اس سے پہلے کہ وہ کسی اور چیز پر نظر ڈالتی کوئی واش روم کا دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔چھ فٹ کو چھوتا ہوا قد،ورزشی جسامت ،سرخ و سفید رنگ چوڑا سینہ ،وہ شانے کے ایک طرف ٹاول رکھے ایک ہاتھ سے سر کے گیلے بالوں کو رگڑتا ہوا باہر آیا ۔صرف بلیک ٹراؤزر میں تے تھا ،وہ شیشے کے سامنے کھڑا ہوا اب اپنے بالوں میں برش پھیر رہا تھا،بریرہ نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی ،

سرخ و سفید چہرہ ،گھنی مونچھیں ،ہلکی ہلکی بئیرڈ ،ستواں ناک ،بھوری آنکھیں ،بھرے بھرے لب آپس میں باہم پیوست تھے ،

زریار کی نظر شیشے میں سے ہوتے ہوئے پیچھے بستر پر لیٹی بریرہ پر پڑی ۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا کر پلٹا ،

بریرہ اس کے پلٹنے پر نظریں پھیر گئی ۔۔۔۔

"رات کو ؟؟؟میں یہاں ؟؟؟رات کے گزرے ہوئے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائے تو فورا ہوش میں آئی ۔۔۔

اب وہ سولہ سالہ دبلا پتلا سا لڑکا نہیں ایک بھرپور مرد بن چکا تھا،کیا رات کو میں اس کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی ،؟؟؟اگر یہ دیو ہیکل مرد چاہتا تو اپنے بھاری ہاتھ سے میرا منہ بند کروا دیتا،اس نے سوچ کر جھرجھری سی لی ۔۔۔

"بریرہ حوصلہ کرو ،یہ اس قابل نہیں کہ تم پر وار کرے ،تمہیں اپنے لیے خود لڑنا ہوگا،ہمت کرو،یہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا "اس کے اندر سے آواز آئی ۔۔۔۔

  "تم دنیا کے سب سے بڑے گھٹیا اور بے شرم انسان ہو "

وہ اٹھتے ہی اس پر برس پڑی ۔۔۔

"اب میں نے کیا کردیا ؟؟وہ حیرانی سے خود کو شیشے میں دیکھ کر بولا۔

جب نظر اپنی شرٹ لیس باڈی پر پڑی تو اس کی بات سمجھ میں آئی ۔زریار نے کبرڈ سے ہینگ کی ہوئی شرٹ نکال کر پہنی اور اس کے بٹن بند کیے ۔

"تم روم سے باہر جاؤ گی یا واش روم میں ؟؟؟

بریرہ نے اس کی بات کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔

"مجھے باقی کے کپڑے تبدیل کرنے ہیں۔بعد میں تمہیں ہی مسلہ ہوگا میرا تو کچھ نہیں جائے گا "وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی پینٹ پکڑ کر بولا۔

بریرہ خود سے کمفرٹر اٹھا کر پیچھے پھینکتی ہوئی تن فن کرتی واش روم میں چلی گئی اور دھاڑ سے دروازہ بند کیا،جس کی آواز پورے کمرے میں گونجی ۔

بریرہ منہ ہاتھ دھوئے باہر آئی اور اپنی چادر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹی ۔اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔

وہ باہر نکلنے کو تھی ۔۔۔

"کہاں جا رہی ہو تم ؟؟؟پیچھے سے زریار کی آواز پر قدم رکے مگر وہ پلٹی نہیں ۔۔۔

"میں تمہارے جیسے زانی مرد کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتی ۔جا رہی ہوں میں اللّٰہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی دنیا بہت بڑی ہے ،کہیں بھی جگہ مل جائے گی سر چھپانے کو ،"

"تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گی  "

وہ رعب دار آواز میں بولا۔

"تمہاری اتنی اوقات نہیں کہ تم مجھے روکو "

وہ اس کے حکمیہ انداز پر تلملاتی ہوئی پلٹ کر غرائی ۔۔۔

"اب تم میرے نکاح میں ہو اور میرا پورا حق ہے تم پر بھی ۔اور تمہیں روکنے پر بھی "

"گھٹیا انسان میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی کحجا کے تمہارے ساتھ اس کمرے میں رہوں "

"رہنا تو تمہیں پڑے گا،ورنہ دنیا کے جس بھی کونے میں کیوں نا چلی جاؤ اٹھا لاوں گا وہاں "

وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔

"دور رہو مجھ سے ایک بار کی کہی ہوئی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی "وہ دو قدم الٹے لیتے ہوئے تھوڑا پیچھے کو ہوئی ۔۔۔

"رانی میں تمہارا قصوروار ہوں ،مجھے تمہاری دی گئی ہر سزا قبول ہے،مگر میرے گھر والوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ،اس معاملے میں انہیں مت گھسیٹنا "اس نے تنبیہی انداز میں کہا۔

"کیوں نا گھسیٹوں انہیں "

ان کے سامنے مہان بننے کا ڈرامہ رچانے دوں تمہیں ؟؟؟؟

"آخر انہیں بھی تو پتہ چلے ان کے بیٹے کی کرتوتوں کا "

"انہیں بھی تو پتہ چلے ان کا لاڈلہ کسی کی زندگی برباد کر چکا ہے ،میں چپ بالکل بھی نہیں رہوں گی ۔دنیا کو چیخ چیخ کر بتاؤں گی تم نے کیا کیا تھا میرے ساتھ "وہ پھنکاری ۔۔۔۔

"دیکھو رانی میری بات .....

"نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بھی بات ۔۔۔۔تم کہتے ہو "میرے باپ کو ان سب میں مت لاؤ ۔۔۔۔تمہارے ماں باپ آسمان سے اترے کوئی فرشتے ہیں؟؟؟

ان کی پرواہ ہے تمہیں ۔۔۔اور میرے ماں ان کا کیا ؟؟؟؟"

"پتہ ہے تمہیں جب میں اپنے زخمی وجود کو گھسیٹتے ہوئے یہاں سے نکلی تھی ،تو اپنے گھر کے دروازے کے آگے اپنے باپ کو بے ہوش پڑی ملی ۔۔۔۔

میرے ماں باپ کی موت اسی وقت میرا روندا ہوا وجود دیکھ کر ہوگئی تھی ۔۔۔۔اس سب کے زمہ دار تم ہو ۔۔۔صرف تم ۔۔۔۔

وہ انگلی اٹھا کر چلائی ۔۔۔۔

"آہستہ بولو "زریار نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کروانا چاہا کیونکہ باہر چہل پہل شروع ہوچکی تھی ،اس کا مطلب تھا کہ باہر سب اٹھ چکے تھے ۔

"کیوں چپ ہوجاوں میں ؟؟؟

"نہیں کروں گی چپ "

وہ اسے دھکا دے کر بولی ۔

"پتہ ہے میرے بابا کو جب ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے میرے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے میں بتایا ۔تو کیسے دھاڑیں مار مار کر روئے تھے ؟؟؟؟

"اس دن میں ایک بار پھر مری تھی ۔۔۔۔

"وہ میرا دکھ برداشت نہیں کر پائے اور مجھے اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکیلا چھوڑ گئے ۔اور اس کی وجہ تھے تم ۔ان کی موت کے زمہ دار ہو تم ۔۔۔۔

"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی "

وہ کہتے ہوئے ہانپنے لگی۔۔۔۔اس کا سانس پھولنے لگا،رونے اور چلانے سے حلق خشک سا محسوس ہونے لگا۔۔۔

زریار نے پانی کا گلاس بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔

بریرہ نے ہاتھ مار کر گلاس دور پھینکا جو ماربل کے فرش پر کرتے ہی چھناکے کی آواز سے چکنا چور ہوگیا ۔۔۔۔

وہ زخمی نگاہوں سے اسے دیکھ کر سر جھٹک گئی ۔۔۔۔۔

باہر سے گزرتے ہوئے بسمہ کو جب اندر سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تو انہوں نے دروازہ ناک کیا ۔

بریرہ نے اپنی چادر سے رگڑ کر چہرہ صاف کیا۔

زریار نے جا کر دوارزہ کھولا۔

"صبح بخیر مام !

"صبح بخیر !!!

"کیا ہوا زریار ؟؟؟

"کچھ نہیں مام بس ہاتھ سے گلاس چھوٹ گیا تھا ،

"بریرہ اٹھ گئی ہے ؟

"جی مام "اس نے کہتے ہی انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔

"کیسی ہو بریرہ ؟؟

"جی ٹھیک ہوں "آواز میں ابھی بھی نمی گھلی ہوئی تھی ۔بریرہ نے انہیں پہلی نظر میں پہچان لیا تھا ،مگر شاید انہوں نے بریرہ کو نہیں پہچانا آخر پہچانتی بھی کیونکر اتنے سال گزرنے کے بعد ایک ڈرائیور کی بیٹی کو کون یاد رکھتا ہے...اس نے دکھی دل سے سوچا ۔۔۔

بسمہ نے اس کی آواز میں نمی کومحسوس کیا مگر اس بارے میں استفسار نہیں کیا ۔

"آؤ باہر چلیں آج سنڈے ہے،سب گھر پہ ہیں ۔تمہارے ہی اٹھنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں،رات کو ملاقات نہیں ہوپائی نا تم سے اس لیے ملنے کو بیتاب ہیں ۔تمہیں سب سے ملواتی ہوں "

وہ اسے اپنے ساتھ باہر لے گئیں ۔۔۔۔

ان دونوں کے جاتے ہی اپنے سر کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے کرب ناک حالت میں بستر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

آج بھی اسے وہ دن یاد تھا ،جب وہ صبح اٹھا تو رانی بستر سے غائب تھی ،زریار نے اسے ساری حویلی میں ڈھونڈا۔

پھر باہر جا کر سارا کواٹر چھان مارا وہ اسے کہیں بھی نہیں ملی ۔کواٹر خالی تھا ،ان کا سامان بھی وہاں نہیں تھا،یعنی کہ وہ لوگ یہاں سے جا چکے تھے ۔زریار نے انہیں بہت ڈھونڈا مگر وہ اسے کہیں نہیں ملی ۔۔۔

وہ اپنی غلطی پر اپنے کیے ہوئے گناہ پر ۔۔۔۔

وہ گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔چلتے چلتے نجانے کب پل تک پہنچ گیا ۔۔۔

سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی ۔وہ پل کے کارنر پر کھڑا تھا ۔۔۔۔

رانی کے ساتھ کیے گئے گناہ نے اسے پوری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔

"اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں بھی زندہ نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔وہ اسی زہنی کشمکش میں مبتلا تھا ۔۔۔۔دماغ اعتراف جرم کے انتہائی دہانے پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔

اس نے نیچے کود کر اپنی جان دینی چاہی۔

"رکو !!!!یہ کیا کر رہے تھے ؟؟؟ایک بزرگ شخص نے اسے اپنی طرف کھینچ کر نیچے گرنے سے بچایا ۔۔۔۔

"مجھے مر جانے دیں ۔۔۔مجھے جینے کا کوئی حق نہیں "وہ روتے ہوئے کرب زدہ آواز میں  بولا ۔

 میں خود کو یہ سوچنے سے نہیں روک سکتا کہ میں نے کیا گناہ کردیا ہے ۔۔۔۔ میرا بدصورت چہرہ، میرا وہ فعل بار بار مجھے ڈرا رہا ہے ۔۔۔

"بیٹا خود کشی کسی بھی مسلے کا حل نہیں "وہ بزرگ  ہستی بردباری سے سے بولے۔

"انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسی بھی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔

تم کون ہوتے ہو اسے ختم کرنے والے ۔۔۔۔اپنی زندگی ختم کر کہ تم گناہ کے مرتکب ہورہے ہو ۔۔۔انہوں نے سمجھایا ۔۔۔

ارشا ربانی ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo

’،اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘

البقرة، 2: 195

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًاo

،

’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہے۔ اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔

النساء، 4: 29، 30۔

"مگر آپ نہیں جانتے مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ہے ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"کسی لڑکی کی عزت سے کھیل گیا میں "وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

"آپ بتائیں میں خود کو کیا سزا دوں ؟؟؟؟

وہ بزرگ اس کی بات سن کر کچھ لمحے خاموش رہے ۔پھر متانت سے بولے ۔۔۔۔

زنا کی سزا: اسلام عصمت وعفت کو سب سے بڑی قیمتی متاع قرار دیتا ہے اور اس کی حفاظت کو ہر شے پر مقدم رکھتا ہے۔  زنا اسلامی معاشرہ میں انتہائی گھناؤنا اور بدترین جرم ہے اور اسلامی تعزیرات میں اس جرم کی سخت ترین سزا مقرر ہے۔  اسلام ہر اس راہ کو بند کرتا ہے جو انسان کو اس گناہ کیطرف لے جاتی ہو۔ مثلا بے پردگی وبے حیائی، اختلاط مردوزن، مخلوط مجالس، زیب وزینت کی نمائش، زیورات کی جھنکار وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کردیا ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے

’’وَلاَ تَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآئَ سَبِیْلاَ‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 17۔۔ آیت 32)

اور زنا کے قریب مت جاؤ بلاشبہ وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ اس آیہ کریمہ میں زنا سے اس طرح روکا گیا ہے کہ زنا تو نہ کرو بلکہ زنا کے قریب ہی نہ جاؤ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا ایک بہت بری چیز ہے۔

زریار ان کی باتوں کو غور سے سن کر دل پر نقش کر رہا تھا ۔۔۔

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

’’وَالَّذِیْنَ لَایَدْعُوْنَ مَعَ اللہ اِلٰہًا آخَرَ وَلَایَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہ اِلَّابِاالْحَقِّ وَلَایَزْنُوْنَ، وَمَنْ یَفْعَلْ ذَالِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔ یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ اْلِقَیامَۃِ وَیَخْلُدُ فِیْہِ مُہَانًا۔ ‘‘

(سورۃ الفرقان۔ ۲۵۔ آیت ۶۸۔ ۶۹)

اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کرنے کو ماسوا حق کے حرام کردیا ہے۔ اور زنا نہیں کرتے اور جو ایسے کرے گا وہ (اپنے کیے کی)سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کو دوہرا (دوگنا) عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل وخوار رہے گا۔

بیٹا ۔۔۔۔۔اگر شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا رجم(سنگسار) ہے یعنی ان کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ اور اگر غیر شادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ عورت زنا کریں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے ( کوڑے ) لگائے جائیں گے۔ اسی طرح اگر بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت بدکاری کریں تو ان کو بھی سنگسار کیا جائے گا۔

ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہ تھی کہ زنا کرنے والی شادی شدہ عورتوں کو تا حیات گھروں میں بند کردیتے تھے۔ اور کنواری لڑکیوں یا غیر شادی شدہ مردوں کو زنا کرنے پر زجر و توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی تھی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور جو تمہاری عورتیں زنا کریں تو ان پر چارمردوں کی گواہی طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند کردو تاوقتیکہ ان کو موت آجائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستہ بیان کردے۔ اور تم سے جو لوگ زنا کریں تو تم ان کو (ڈانٹ ڈپٹ سے ) اذیت پہنچاؤ، پس اگروہ توبہ کرلیں اور ٹھیک ہوجائیں تو ان کو کچھ نہ کہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃ النسآء۔ ۴۔۔ آیت۱۵۔ ۱۶)

ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہی تھی لیکن بعد میں اس سزا کو منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان (زنا کرنے والوں ) کا راستہ مقرر کردیاہے۔ اگر کنوارہ شخص کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کو سوکوڑے مارو اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو اس کو ایک سو کوڑے مارو اور رجم (سنگسار) کرو۔ (مسلم، ابوداؤد)

زنا کی سزا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَافَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہ اِنْ کُنْتُمْ تُؤُمِنُوْنَ بِ اللہ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃنور۔ ۲۴۔ آیت۔ ۲)

زانی عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہرایک کو سو سودرے (کوڑے )مارو۔ اور اللہ تعالیٰ کے دین (شرعی سزا کے نفاذ) میں ان پر ترس نہ کھاؤ اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ ان کو سزا دینے کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو۔ یہ سزا کنوارے اور زانی اور زانیہ کی ہے۔

کوڑوں کی جسمانی سزا کے علاوہ بدکار مردوں اور بدکار عورتوں کی دوسری عبرتناک سزا معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) ہے کہ اب وہ اسلامی معاشرہ میں گھٹیا درجے کے افراد شمار ہوں گے۔ پاکباز اور شریف رشتوں سے محروم رہیں گے۔ گویا درودیوار ان سے نفرت کریں گے اور شریف لوگ انہیں منہ نہ لگائیں گے۔

"میں کیا کروں آپ بتائیں مجھے "؟

"بیٹا اللّٰہ کے ہاں توبہ کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے ،سچے دل سے توبہ کرو ۔بے شک اللّٰہ پاک بڑا غفور و الرحیم ہے،

"توبہ کے آنسو کا یہ کمال ہے کہ گرتا باہر ہے مگر اندر کی صفائی کردیتا ہے "

اپنی روح کی صفائی کرو ،

وہ کہتے ہوئے اسکے پاس سے اٹھ کر چلے گئے مگر جاتے جاتے اس کے لیے سوچوں کے نئے در واہ کرگئے ۔۔۔۔۔

وہ گھر واپس آیا تو ایک بدلا ہوا زریار تھا ۔۔۔۔۔۔۔کسی کو اس حادثے کا نہیں پتہ چل سکا۔۔۔۔

وہ واپس اپنے کمرے میں آیا اور نہا کر وضو کیا ۔جائے نماز بچھائے اس نے نماز پڑھنے کے بعد اللہ تعالٰی سے رو رو کر دعائے مغفرت کی۔

تب وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا،برے دوستوں کی صحبت میں بگڑ گیا تھا،اس کے دوست سکول سے چھٹی کے بعد کمبائن سٹڈی کے بہانے اکٹھے ہوتے اور فحش موویز دیکھتے جو اس کے دماغ پر اثر انداز ہو رہی تھیں۔یہ سب انہیں کا نتیجہ تھا،اس واقعہ کے بعد زریار واپس سکول نہیں گیا۔صرف پیپرز دینے گیا۔ان دوستوں سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لی۔اور مزید پڑھائی کے لیے کالج کے بھی ان سے مختلف چنا ۔۔۔۔تب سے شروع ہوا اس کی نمازوں میں کی گئی دعاؤں میں مغفرت کا سلسلہ جو آج بھی جاری تھا۔۔۔۔

__________

"گڈ مارننگ بھابھی !کیسی ہیں آپ ؟

"بریرہ نے مخاطب کرنے والے کو دیکھا ۔

"ارے پہچانا نہیں مجھے میں ہی تو کل رات آپ کو ساتھ لایا تھا ؟؟؟

"چلیں میں آپ کو اپنا تفصیلی تعارف دیتا ہوں "

وہ خوشدلی سے بولا۔

"میرا نام ہے زمارے خان "

"میں ایم۔بی۔بی۔ایس کا سٹوڈنٹ ہوں ،اور اس گھر میں سب سے چھوٹا ہوں ،

"مگر شادی کی اس کو سب سے جلدی ہے "زیگن نے بات سے بات ملائی "

بریرہ نے اس کی طرف دیکھا ۔وہ وہاں موجود سب سے وجیہہ انسان تھا ،

"میں بھی آپ کا دیور زیگن خان ۔اسلام وعلیکم اینڈ ویلکم ٹو یور ہاؤس "

بریرہ آنکھیں کھولے سب کی بے تکلفی نوٹ کر رہی تھی ،سب کیسے اس سے پہلی ملاقات میں اچھے سے بات کررہے تھے وہ حیران ہوئی ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم بھابھی "ذوناش نے ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر لگاتے ہوئے اسے کہا ۔۔۔

"وعلیکم اسلام !

اس بار بریرہ نے جواب دیا ۔

کیونکہ اسے وہ چھوٹی سی گڑیا کی طرح دیکھنے والی پرکشش لڑکی بہت پیاری لگی ۔

وہ زیادہ دیر خاموش نا رہ پائی ۔۔۔

"سلام کرو بیٹا "بسمہ نے خاموش بیٹھی ہوئی یمنی سے کہا ۔۔۔

"میرے سلام کرنے سے کیا ہو جائے گا ۔سب نے کر تو دی ،

وہ روکھے انداز میں بولی۔

"بھابھی کچھ لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ انہیں عزت دی جائے ۔آپ ایسے لوگوں کو اگنور کرنا یہ میرا فری کا مشورہ ہے "زمارے نے ماحول میں یمنی کی وجہ سے پھیلی تلخی کا اثر زائل کرنے کے لیے کہا۔

"چلو سب ناشتہ شروع کرو ساتھ ساتھ ورنہ ٹھنڈا ہوجائے گا "بسمہ نے پیار بھرے انداز میں کہا۔

ذوناش سب کو ناشتہ سرو کرنے لگی ۔۔۔۔

"بھابھی آپ سے ایک بات پوچھوں ؟

زمارے نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا ۔

"جی پوچھیں "بریرہ نے سادگی سے کہا۔

"بھابھی پلیز فارمل نا ہوں ،ایسے کہیں نا ہاں بولو ۔۔۔

بریرہ اس کے بات کرنے کے انداز پر ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔۔

"آپ کو رات میں دکھائی نہیں دیتا ؟؟؟

"ہمممم۔۔۔مجھے نائٹ بلائنڈنیس کی بیماری ہے ،

"اوووو۔۔۔۔بھابھی پھر تو کوئی بھی رات کو آپکی اس بلائنڈنیس کا فایدہ اٹھا سکتا ہے "

زریار جو باہر نکل رہا تھا ۔ذمارے کی بات سن کر وہیں رکا۔۔۔

بریرہ نے زریار کو باہر آتے دیکھ لیا تھا ۔۔۔

"سچ کہا تم نے اس دنیا میں ایسے بہت سے گھٹیا لوگ ہیں جو دوستی کی آڑ میں چھپ کر معصوم لوگوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ کہہ تو زمارے سے رہی تھی مگر سنا جسے رہی تھی وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا ۔۔۔

"ایکسکیوز می !!!وہ کہتے ہی وہاں سے اٹھ کر واپس کمرے میں چلی گئی کیونکہ زریار وہاں آچکا تھا ۔۔۔۔

"زریار تم کہاں جا رہے ہو ؟؟؟

زریار کو ناشتے کی میز پر آنے کی بجائے باہر جاتے دیکھ بسمہ نے پیچھے سے ہانک لگائی ۔۔۔

"مام ایک ضروری کام ہے "

وہ بنا مڑے بولا۔

"بیٹا ناشتہ تو کر لو "

"مام مجھے بھوک نہیں "

"بیٹا آج تو آفس سے چھٹی ہے پھر کونسا کام ؟؟؟

"مام ہے ایک ضروری کام آ جاؤں گا تھوڑی دیر تک واپس ۔۔۔۔وہ کہہ کر باہر کی طرف نکل گیا ۔۔۔۔

________

ذوناش ختم ہوگئے کام ؟؟؟

وہ جو کچن سے ابھی باہر نکلی تھی دوپہر کا کھانا بنا کر زیگن کے سوال پر اسے دیکھنے لگی ۔

"جی ہوگئے "وہ نظریں جھکائے دھیمے انداز میں بولی ۔

"جاؤ پھر بکس لاؤ ۔کچھ سمجھنا ہے تو سمجھ لو ۔آج وقت ہے میرے پاس ۔

"نہیں کچھ بھی نہیں سمجھنا مجھے "

وہ منمنا کر بولی ۔

"سب آتا ہے ؟؟؟زیگن نے کرخت آواز میں پوچھا۔

"جی "وہ نچلا لب دانتوں میں کُچلتے ہوئے بولی ۔

"تو پھر ٹیسٹ لے لوں ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

"نہیں میں بکس لاتی ہوں "وہ بھاگ کر اپنے روم میں چلی گئی ۔۔۔۔

وہ لاونج میں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔اور اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔

"زیگن مجھے بھی کچھ ٹاپکس سمجھنے ہیں "

یمنی جو کب سے پیچھے کھڑی ان کی گفتگو سن رہی تھی ۔اچانک سامنے آکر بولی ۔۔۔۔

زیگن نے اس کی بات پر دانت پیسے ۔۔۔۔

"تمہارے سبجیکٹس ڈفرنٹ ہیں ۔"وہ جان چھڑوانے کے انداز میں کوفت زدہ آواز میں بولا 

ذوناش اپنی بکس لیے باہر آئی اور سامنے رکھی ہوئی میز پر رکھیں ۔

"ذوناش میرے سر میں بہت درد ہے ایک کپ چائے بناؤ ۔۔۔

وہ غصے میں کافی کی بجائے چائے کا کہہ گیا ۔

"میں ؟؟؟ذوناش نے پوچھا ۔۔۔

"ہاں تم "وہ اونچی آواز میں دھاڑا ۔۔۔

وہ دھاڑ سے ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔

اس کی کرخت آواز سے سہم کر اسکی آنکھوں میں آنسو بھر گئے ۔۔۔وہ بھاگتی ہوئی کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔

زیگن کو غصہ یمنی پر تھا کہ وہ چھپ چھپ کر ان کی باتیں کیوں سن رہی تھی اور وہ غصہ ذوناش پر نکل گیا ۔۔۔

"یہ ذوناش کے اور تمہارے سبجیکٹس بھی ایک جیسے اور راستے بھی ایک جیسے ۔۔۔

ہے نا کمال کی بات ؟؟؟وہ تیکھے لہجے میں  کاٹ دار نظروں سے گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"تمہیں کیا تکلیف ہے ؟؟اپنے کام سے کام رکھو ۔۔۔وہ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولا 

"دیکھو زیگن تم ہر بار مجھے یوں بعزت نہیں کر سکتے ....وہ انگلی اٹھا کر غرائی ۔۔۔

"جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے تم سے بات کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تو پھر کیوں بار بار ڈھیٹوں کی طرح منہ اٹھا کر بعزت ہونے آجاتی ہو ؟؟؟

وہ کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔

"تمہیں تو میں دیکھ لوں گی ۔۔۔وہ کہتے ہوئے پلٹ گئی ۔۔۔

"کوئی فائدہ نہیں مجھے دیکھنے کا "

زیگن نے پیچھے سے اونچی آواز میں ہانک لگائی ۔۔۔۔

اور کچن کی طرف بڑھ گیا جہاں اس نے تھوڑی دیر پہلے اسے ڈانٹ کر بھیجا تھا ۔۔۔

وہ دبے قدموں سے چلتے ہوئے اندر آیا وہ چولہے کے سامنے کھڑی چائے بنا رہی تھی ۔

"کافی بن گئی ؟؟ذیگن نے  پیچھے سے ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیا اور تھوڑی اس کے شانے پر ٹکائی ۔۔۔

"آ۔۔۔آپ نے چائے کا کہا تھا ۔۔۔وہ بوکھلا کر بولی ۔

"مگر میں تو چائے نہیں کافی پیتا ہوں "

"مگر آپ نے چائے کا۔۔۔۔۔وہ کہہ کر رکی ۔۔۔۔انداز خفگی بھرا تھا۔

منہ بھی ناراضگی سے پھولا ہوا تھا۔

زیگن اسکی ناراضگی والے انداز پر مسکرا اٹھا ۔۔۔

"گلے لگے ہیں وہ منہ بنا کہ۔

ہائے اتنا غرور میں صدقے ۔۔"

اس نے ذوناش کے کان کے پاس سرگوشی نما آواز میں کہا ۔۔۔۔

ذوناش کو اسکی اس قدر قربت پر اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔اس نے اپنی کمر کے گرد بندھے ہوئے زیگن کے بازوؤں کا حصار توڑنے کی کوشش میں ان پر اپنے ہاتھ رکھے ۔۔۔۔

"زیگن "

بسمہ کی آواز پر دونوں نے ایک ہی وقت میں کچن کے دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

زیگن کو باہر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو وہ وقت رہتے ہی ذوناش سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور کیبنٹ میں سے مگ نکالنے لگا۔

"زیگن تم یہاں کچن میں کیا کر رہے ہو ؟بسمہ کی آواز سن کر وہ دونوں کچن کے دروازے کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔

"مام چائے پینے کا دل تھا اسی لیے ذوناش سے چائے کا کہنے آیا تھا "

اس نے وضاحت دی ۔

"مگر پہلے تو تم چائے نہیں پیتے تھے ۔۔۔وہ حیرانی سے پوچھنے لگیں۔

"مام اس بار کچھ نیو ٹرائی کرنے کا من کر رہا تھا ،دل ہے کہ کسی کو بانہوں میں لے کر چائے کا لطف اٹھاؤں۔اس نے بسمہ کے گلے میں پیار سے بانہیں ڈال کر کہا ۔۔۔

ذوناش نے اس کی بات پر  پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔

زیگن نے آنکھ ونگ کیے مسکرا کر اسے دیکھا ۔

ذوناش نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ تبدیل کیا اور چائے کپ میں انڈیلنے لگی ۔

"بہت بدمعاش ہوتے جارہے ہو تم "لگتا ہے تمہاری لگامیں کھینچنے والی بھی کوئی ڈھونڈھنی پڑے گی "وہ اس کے شانے پر پیار بھری چپت رسید کرتے ہوئے بولیں ۔

"مام نیکی اور پوچھ پوچھ "

وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔

"زیگن مجھے تم سے اسی سلسلے میں ایک ضروری بات کرنی ہے "

"زرا میرے ساتھ باہر تو آؤ "

وہ اسے اپنے ساتھ باہر لاونج میں لے گئیں .

"جی مام بتائیے کیا بات ہے؟

"زیگن میں چاہتی ہوں کہ تمہاری اور یمنی کی ۔۔۔۔

"بس مام یہیں رک جائیے ۔پلیز میں اس ٹاپک پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا ۔اور خاص کر یمنی کے بارے میں "وہ قطعیت سے بولا۔

"زیگن پہلے ہی میں اپنی بہن کی نشانی صلہ کو کھو چکی ہوں ،اب یمنی کو کھونا نہیں چاہتی ،میں چاہتی ہوں کہ وہ ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہے ۔تمہارے ساتھ کی صورت میں "

"مام آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ان بہنوں کو ہم بھائی راس ہی نہیں آتے ۔پلیز اس کے لیے آپ کوئی دوسرا بندوبست کریں "

"کیا باتیں ہو رہیں ہیں ؟؟؟

زمارے نے آتے ہی درمیان میں ٹانگ اڑائی ۔

"یہ آپکی چائے "

ذوناش نے چائے کا کپ زیگن کے پاس رکھا ۔۔۔

"ذوناش زرا جا کر بھابھی کو دیکھو کہاں ہے ؟؟بلا کر لاؤ انہیں "زمارے نے اسے کہا ۔

"جی ابھی کہتی ہوں "وہ کہتے ہی بریرہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

"ٹک ۔۔۔ٹک۔۔ ٹک 

کمرے کے باہر دستک ہوئی تو بریرہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔

"بھابھی آپ باہر آجائیں گی کچھ دیر کے لیے "ذوناش نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ۔

"کیوں کیا بات ہے "؟

"وہ زمارے بھائی کہہ رہے ہیں کہ آپ آ جائیں ۔

"اچھا ٹھیک ہے "وہ باہر نکل کر ذوناش کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی لاؤنج میں آئی۔

"واہ جی بھابھی آگئیں ۔۔۔"وہ پرجوش انداز میں بولا۔

"بھابھی ادھر آئیں میرے ساتھ بیٹھیں "اس نے اپنے ساتھ ٹو سیٹر صوفے پر کشن اٹھا کر اسکے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ۔۔۔۔

"بھابھی آپ میرا ووٹ ہیں آج سے "

"اب بتائیں میرا ساتھ دیں گی۔؟؟؟وہ سوالیہ نظروں سے مسکرا کر پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"کس سلسلے میں ؟؟وہ حیرت  زدہ نظروں سے دیکھ کر پوچھنے لگی ۔

"بھابھی یہ دیکھیں بچہ شادی کے قابل ہوگیا ہے "وہ اپنی طرف توجہ دلا کر بولا ۔

"مگر یہاں کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔

"بھابھی آپ مام سے میری سفارش کریں نا کہ میری شادی کردیں "

"زمارے خاموش ہو جاؤ ۔ابھی زیگن کی شادی کے بعد تمہاری باری آئے گی ۔بسمہ نے اسے گُھرکا ۔

"زیگن بھیا پتہ نہیں کب کرتے ہیں کب نہیں ۔بھلا جو تیار ہے ۔بندہ اس کے بارے میں سوچے نا کہ جو چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھا ہے ۔اسکے بارے میں "

مام زمارے ٹھیک کہہ رہا ہے ،فی الحال آپ اس کی شادی کردیں "زیگن نے اس کا ساتھ دیا ۔۔۔

بھابھی کہیں نا مام کو "

وہ آپ کی بات ضرور مانیں گی "وہ بریرہ سے اصرار کرنے لگا "

اتنی لگاوٹ اور پیار بھرا انداز دیکھ کر وہ زیادہ دیر بیگانگی نہیں برت پائی ۔بے اعتنائی کا خول چٹخنے لگا ۔۔۔بھلا اس سب میں ان لوگوں کا کیا قصور ؟؟؟اس نے دل میں سوچا ۔

"مام پلیز آپ زمارے کی بات مان لیں "

زمارے کے منہ سے بسمہ کے لیے بار بار مام کا لفظ سن کر بلا اختیار ہی بریرہ کے منہ میں سے بھی بسمہ کے لیے لفظ مام نکلا ۔۔۔۔

بریرہ کے منہ سے اپنے لیے مام سن کر وہ خوشی کے مارے انہوں نے ہاتھ بریرہ کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

وہ ان کا اشارہ سمجھتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی ،اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تو بسمہ نے اسے اپنے ساتھ والی خالی جگہ پر بٹھایا ۔۔۔۔

"مجھے بہت اچھا لگا تم نے مجھے مام کہا ۔

صلہ اور یمنی بھی میری بیٹیوں کی جگہ دی ۔کیا ہوا جو میری ایک بیٹی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ،خدا نے اس کے بدلے مجھے ایک اور بیٹی دے دی ۔وہ پیار بھرے انداز میں بولی۔

اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔

کچھ دیر کے لیے بریرہ سب بھول گئی ۔کیونکہ اسے بسمہ کے ساتھ لگے ویسا سکون ملا جیسے اپنی ماں کے ساتھ لگنے پر ملتا تھا 

یہ بسمہ کا پر شفقت لمس تھا جو اسے ایسا محسوس ہوا۔

اس کی آنکھوں میں نمی گھلی۔۔۔۔

"آپ لوگ پلیز یہ جذباتی سین کسی اور وقت ارینج  کر لینا ۔پہلے اس غریب کی دہائی بھی کوئی سن لے "

زمارے نے اونچی آواز میں دہائی دیتے ہوئے کہا۔

"کیا چاہتے ہو تم "؟

بسمہ نے زمارے سے سخت آواز میں پوچھا ۔

"مام زرشال سے تو آپ مل ہی چکی ہیں ۔۔۔پلیز ان کے گھر جا کر رشتہ مانگیں اور سادہ سی بات ہے کہ میرا نکاح طے کردیں۔

رخصتی بعد میں کر لیں گے جب آپ چاہیں "زمارے نے اپنے تئیں اچھا مشورہ پیش کیا۔

بھابھی آپ کو بھی جلد ہی آپکی دیورانی سے ملواؤں گا پھر دیکھ کر بتانا میری چوائس ۔۔۔۔زمارے نے بریرہ کو مخاطب کیے کہا ۔

"زمارے میں وہاں تمہارا رشتہ طے نہیں کروں گی ،وہ قطعی انداز میں بولیں۔

"وہ کیوں مام ؟؟؟

"خان صاحب کو یہ رشتہ پسند نہیں تھا ،دیکھا نہیں تھا ،جب ان کو تمہاری اور زرشال کی بات پتہ چلی تھی تو اس دن گھر میں کتنا بھونچال آگیا تھا تم وہ سب  بھول سکتے ہو مگر میں نہیں "

زمارے نے خاموش بیٹھے زیگن کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا ، اور اسے اپنا ساتھ دینے کے لیے اشارہ کیا ۔

"مام میری اس سلسلے میں خان صاحب سے بات ہوئی تھی ،جس دن ان کے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ سوچیں گے ،نیم رضامند تھے وہ "زیگن نے انہیں حقیقت سے روشناس کرایا۔

"زیگن تم سچ کہہ رہے ہو "؟

وہ اس سے تصدیق چاہ رہی تھیں اس بات کے لیے ۔۔۔

"تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں خان صاحب کے خلاف جا کر یہ رشتہ کبھی بھی  نہیں کروں گی ۔۔۔"

"مام میں جھوٹ کیوں بولوں گا ؟؟؟سچ کہہ رہا ہوں میں "

"اچھا ٹھیک ہے ،مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت دو ".وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔

"پھر نظریں ساتھ بیٹھی ہوئی بریرہ پر گئیں ،جو سادہ سے سوٹ میں ملبوس بڑی سی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔

"بریرہ تم میرے ساتھ چلو "

"م۔۔۔مگر کہاں "؟

"ابھی بتاتی ہوں "انہوں نے بریرہ سے کہا۔

"زمارے تم ہاسٹل واپس کب جاؤ گے ؟؟؟

"مام رات کو واپس چلا جاؤں گا صبح سے کلاسسز ہیں "

"اچھا ٹھیک ہے ۔پھر ہمیں کچھ دیر کے لیے مارکیٹ لے چلو "

"مگر میں کیا کروں گی وہاں جا کر "بریرہ نے اچنبھے سے پوچھا ۔

"اب تم میری بیٹی ہو ،اور تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھنا میرا فرض ہے'

زریار تو سارا دن آفس کی فائلوں سے سر کھپاتا رہتا ہے،ورنہ وہ تمہیں خود شاپنگ کرواتا ،چلو کوئی نہیں اپنی بیٹی کو میں خود شاپنگ کرواؤں گی ۔

"مگر اس کی کیا ضرورت ہے؟

میرے پاس کپڑے ہیں "

"میں آج ہی کبرڈ سے صلہ کے سارے کپڑے نکلوا کر دارلامان کی غریبوں لڑکیوں کو بھیج دیتی ہوں ،اب تم وہاں اپنے کپڑے سیٹ کرو "

وہ اتنے مان بھرے انداز میں بول رہی تھیں کہ بریرہ کو انہیں صاف صاف انکار کرنا نا مناسب لگا ۔وہ خاموش رہی ۔

"ذوناش تمہیں کچھ چاہیے ؟؟بسمہ نے اس سے بھی اخلاقی طور پر پوچھا ۔۔۔

"نہیں میرے پاس تو سب کچھ ہے "

اس نے جواب دیا ۔۔۔ "اچھا ٹھیک ہے "

"چلو زمارے "

"جی چلیں " وہ تینوں باہر نکل گئے ۔۔۔۔

اب ذوناش اور زیگن پھر سے اکیلے لاونج میں رہ گئے ۔۔۔

زیگن نے لاونج میں لگی ایل۔ سی ۔ڈی کو آن کیا تو وہاں زیگن کے کسی پرانے میوزک کنسرٹ کی ویڈیو چل رہی تھی ۔۔۔۔

وہ ہاتھ میں مائیک پکڑے گانا گا رہا تھا اور لڑکیاں ہاتھ ہلا ہلا کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہیں تھیں ۔

زیگن نے چینل بدل دیا ۔۔۔

"پلیز لگائیں نا مجھے وہ دیکھنا تھا "ذوناش جو پیچھے  کھڑی تھی ۔اس کے چینل چینج کرنے پر ایک دم بولی ۔

"کہاں ہیں آپ سامنے آئیں ....

"زیگن نے پیچھے مڑ کردیکھے بنا کہا ۔۔۔۔

میں وہ ۔۔۔۔۔۔

"آؤ "وہ فقط اتنا ہی بولا۔

ذوناش سامنے والے صوفے پر بیٹھنے ہی لگی تھی ۔

"یہاں آؤ "اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ کی طرف دیکھ کر اسے وہاں بیٹھنے کے لیے  آنکھوں سے اشارہ کیا ۔

وہ جھجھکتے ہوئے بیٹھ گئی ۔ابھی کچھ دیر پہلے والی زیگن کی بے باکی اس کے ذہن پر نقش تھی ۔

"وہ میرا ان سے پوچھنا کہاں ہیں آپ ؟؟؟

"ان کا من میں مجھ سے کہنا آپکے دل میں "

"ہائے اس ادا پہ ہزار بار صدقے"

اس نے تھوڑا سا ذوناش کی طرف جھک کر شعر پڑھا۔۔۔

وہ سراسیماں نظروں سے دیکھتی ہوئی تھوڑا سا پیچھے کھسکی۔۔۔۔

زیگن نے واپس اسی چینل پر لگایا ۔۔۔۔

اس نے نگاہ سے کیا سلام ہے،

دل میں ہے درد سا پھر بھی آرام ہے،

تھم گیا یہ سماں ،

ہوش ہے لاپتہ تیرا دیدار کر 

رفتہ رفتہ صنم تجھ سے ملی نظر تو ہوا ہے اثر ۔۔۔

وہ منہمک انداز میں سکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔۔۔

گانے کے بول سن کر ذوناش نے زیگن کی طرف دیکھا ،

"یہاں بندہ خاکسار پورے کا پورا سامنے موجود ہے ،اور آپ  ہمیں چھوڑ ادھر سکرین کو دیکھ رہی ہیں "اس نے شکوہ کناں انداز میں کہا ۔۔۔

وہ گھبرا کر رہ گئی ۔۔۔۔

"ایک بات کہوں آپ سے "؟

وہ آہستہ آواز میں بولی۔

"ہممم۔۔۔۔

"آپ کے ہاتھوں میں مائیک بہت اچھا لگتا ہے "وہ نظریں جھکائے بولی ۔

وہ جو سمجھ رہا تھا کہ ابھی اس کے منہ سے اپنے تعریف سنے گا ۔ہاتھوں میں مائیک کا سن کر بری طرح جل اٹھا ۔

"جان جی !!!!

وہ خمار زدہ آواز میں بولا ۔۔۔

ذوناش اس کے طرز تخاطب پر متوحش ہوکر اپنی نیلی آنکھوں کی پتلیاں سکڑتے ہوئے  اسکی جانب متوجہ ہوئی ۔

"مجھے تو لگتا ہے میرے ان ہاتھوں میں آپکے کے ہاتھوں کے علاؤہ اور کوئی بھی چیز خوبصورت نہیں لگ سکتی "

وہ ذوناش کا ہاتھ پکڑ کر ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔۔

"آہم ۔۔۔۔آہم ۔۔۔۔کسی نے گلا کنگھار کر انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔۔۔۔پیچھے سے آنے والی آواز پر دونوں نے بیک وقت مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔زمارے کو دیکھ کر دونوں کے اوسان خطا ہوئے ۔

"بھائی میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا قسم سے "

وہ دونوں ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے بولا ۔جیسے پکڑے جانے پر مجرم ہاتھ کھڑے کرتا ہے 

"کچھ دیکھ لیتا تو آنکھیں بھی  پھوڑ دیتا پھر اپنی دلہن کو دیکھنے کے ارمان دل میں لیے ہی رہ جاتا "

زیگن نے اسے کھلے عام دھمکی دی ۔

ذوناش تو زمارے کے سامنے سبکی کے خیال سے ہی وہاں سے بھاگ چکی تھی ۔

"ویسے بھائی اتنے کھلے عام رومانس کچھ زیب نہیں دیتا "

اپنا منہ بند رکھنا ,ورنہ ۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں بولا۔

"ایک بات کہوں ؟؟؟زمارے شرارتی انداز میں بولا

"بول "

"ذوناش کچھ زیادہ چھوٹی نہیں ؟" لیکن، پسند آپکی خوب ہے ۔۔۔وہ توصیفی انداز میں بولا 

"تجھ سے مشورہ نہیں مانگا ،جو بھی ہے جیسی بھی 

اب تیری بھابھی ہے "

",ہیں یہ بھابھی والا سین کب ہوا ؟؟؟

"یار جس دن خان صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اسی دن ہمارا نکاح کروایا تھا انہوں نے ۔

"بڑے بے وفا اور چلاک نکلے آپ تو ،منہ سے بھاپ بھی نہیں نکالی،،، اکیلے اکیلے نکاح بھی کر لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں ...وہ شکوہ کر گیا ۔

"اس دن کے بعد وقت ہی کہاں ملا کسی کو بھی کچھ بتانے کا ۔

خان صاحب کے ایکسیڈنٹ اور پھر مام کی طبیعت کی وجہ سے میں کسی کو بھی کچھ بتا ہی نہیں سکا ۔"

"آپ مام کو بتا کیوں نہیں دیتے ؟؟؟

"زمارے اس بارے میں ،میں نے بہت سوچا کہ انہیں بتا دوں مگر ہمت ہی نہیں ہوتی نجانے اس بات پر ان کا کیا ری ایکشن ہو ؟؟؟؟

پہلے ہی خان صاحب کی حالت ٹھیک نہیں ،اب ہماری ماں ہی ہمارا واحد سہارا ہیں فی الحال ،اور انہیں میں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا،

تمہیں تو پتہ ہے ان کا بلڈ پریشر ہر وقت ہائی رہنے لگا ہے,ڈاکٹر نے اس بار سختی سے منع کیا تھا کہ انہیں کوئی ٹینشن نا دی جائے ۔میں نہیں چاہتا کہ میری بات سن کر انہیں کسی بھی قسم کا صدمہ پہنچے ،میں ان کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔میں ہر وقت یہی دعا کرتا ہوں کہ ہمارے والدین ہمارے سروں پر ہمیشہ سلامت رہیں،اور خان صاحب جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ،وہ خود مام کو یہ خبر سنائیں ،کیونکہ خان صاحب کے کیے گئے فیصلے کو وہ کبھی رد نہیں کریں گی ،وہ اپنی پریشانی شئیر کرنے لگا ،

"ہمممم ۔۔کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہے ہیں "

زمارے پر سوچ انداز میں بولا 

"

ویسے مجھے ایک بات تو بتاؤ ؟؟؟

"تم تو مام کے ساتھ شاپنگ پر گئے تھے ،پھر یہ اچانک واپسی کس خوشی میں ؟؟؟

"وہ نا ابھی ہم باہر ہی نکلے تھے کہ سامنے سے زریار بھائی آگئے تو مام نے انہیں اپنے ساتھ گھسیٹ لیا ۔اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ شاپنگ پر چلے گئے ۔۔۔

"آپ کو تو پتہ ہے ،زریار بھائی کرنا چڑتے ہیں ۔۔۔عورتوں کے ساتھ مارکیٹ جانے پر ۔۔۔کیونکہ گھنٹوں سے پہلے ان کی خریداری ختم نہیں ہوتی ۔شکر ہے میں بچ گیا ،وقت رہتے ۔۔۔

قسم سے ان کا بیچارا سا منہ دیکھنے والا تھا ۔جب مام نے انہیں اپنے ساتھ شاپنگ پر جانے کے لیے کہا تھا ۔

وہ زریار کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا ۔

زیگن بھی اس کی بات پر ہنسنے لگا ۔۔۔

"تمہارے بھی دن دور نہیں جب تم نے بھی ہاتھوں میں شاپنگ بیگ اٹھائے ہونے ہیں اور ساتھ ساتھ بیگم صاحبہ کا پرس بھی "زیگن نے اسے چھیڑا ۔۔۔۔

"میں تو خوشی خوشی اٹھانے کو تیار ہوں ،سر کے بل چل کر شاپنگ کرواؤں گا،اپنی اُن کو  ۔۔۔ہائے !!!کوئی موقع تو دے "

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

زیگن اس کی باتوں پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا ۔

___________

زریار ان دونوں کے ساتھ مارکیٹ میں آیا ،وہ اپنی والدہ بسمہ اور بریرہ سے دو قدم پیچھے چل رہا تھا ۔

بڑے سے شاپنگ مال میں داخل ہوتے ہی وہ بریرہ کو اپنے ساتھ لیے اس کے لیے ڈریسز پسند کرنے لگی ۔وہ ڈریس منتخب کرنے میں اس کی رائے لے رہی تھی وہ بے دلی سے ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی ،

ڈمی پر موجود ایک ڈارک بلیو فراک اور کیپری جس پر نفیس سا کام کیا گیا تھا ،ساتھ ہم رنگ دوپٹہ جسکے بارڈر بھی بھرے بھرے سے تھے،زریار کو بہت پسند آیا ۔اس نے وہ ڈریس بھی پیک کروایا ۔۔۔ بسمہ جو بھی سامان لے کر دے رہی تھی وہ زریار پکڑے جا رہا تھا ،اس نے انہیں شاپنگ بیگز میں وہ بھی مکس کر دیا ،کیونکہ اسے پتہ تھا ،کہ وہ اس کی پسند کا ڈریس کبھی بھی نہیں پہنے گی ۔ایک گھنٹے کی تھکا دینے والی شاپنگ کے بعد وہ لوگ مال سے باہر نکلے تو زریار نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔

"یہ کدھر لے کر جا رہے ہو زریار ؟؟؟بسمہ نے گھر واپس جانے والے راستے کی بجائے زریار کو کسی اور راستے پر گامزن دیکھ کر پوچھا ۔

"ابھی پتہ چل جائے گا "

بریرہ نے ایک بھی لفظ نہیں بولا ۔وہ خاموشی سے ونڈو سے باہر نظر آنے والے مناظر پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔

کچھ دیر بعد گاڑی لاہور کے ایک مشہور پرائیوٹ ہسپتال کے سامنے رکی ۔

"آئیے مام اندر "

وہ گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے گویا ہوا۔

"آؤ بیٹا "انہوں نے خود باہر نکل کر بریرہ سے کہا ۔

"میں یہیں ٹھیک ہوں آپ ہو آئیں ۔

بریرہ بولی ۔

"مام ہسپتال میں میں اپنا یا آپکا چیک اپ کروانے نہیں جا رہا ،جس کا کروانا ہے ،اسے کہیں باہر نکلے ،ورنہ مجھے اٹھا کر لے جانے سے کوئی روک نہیں سکتا "

اس کی بھاری آواز بریرہ کو سنائی دی تو وہ دانت پیس کر رہ گئی ۔۔۔۔

گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور گھور کر اسے دیکھا ۔

زریار نے بنا اس کی گھوری کی پرواہ کیے ،آگے آگے چلنے لگا ۔

مجبورا اسے بھی بسمہ کے ساتھ ساتھ چلنا پڑا ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ ایک ماہر ِ امراض ِ چشم کے پاس تھے ۔۔۔۔

"جی تو یہیں ہیں وہ پیشنٹ جن کے بارے میں آپ نے بتایا تھا "ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں زریار سے پوچھا ۔

"جی یہیں ہیں "اس نے بریرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔

"میں آپکو بتاتا چلوں کہ ۔۔۔۔

رات کا اندھا پن یا نائٹیکلوپیا آنکھوں کا عارضہ ہے جس کی وجہ سے مریض کو رات کو یا کسی تاریک جگہ پر دیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ رات کا اندھا ہونا کوئی بیماری نہیں ہے ، بلکہ ایک خاص بیماری کی وجہ سے ہونے والی علامت ہے۔

رات کے اندھا ہونے کا سبب وٹامن اے کی کمی یا دیگر بیماریوں جیسے موتیابند ، نزاکت ، یا گلوکوما کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ وجہ کا تعین کرنے کے لئے ، ۔۔

کہتے ہوئے ڈاکٹر نے بریرہ کے ریٹنا کی حالت کو دیکھنے کے لئے آنکھ کی مکمل جانچ شروع کی ۔۔۔۔

رات کے اندھے پن کا علاج اس کی شدت اور اسباب کے مطابق کروں گا ،وہ ساتھ ساتھ مشینری سے جانچ رہے تھے ساتھ ساتھ انہیں آگاہی بھی دے رہے تھے ،

" مثال کے طور پر ، اگر حالات ہلکے ہوں تو ، رات کے اندھے ہونے کا علاج کانٹیکٹ لینس یا شیشے سے کیا جاسکتا ہے۔

",آپ ان کی ڈائیٹ میں  وٹامن اے کی  مقدار کا اضافہ کریں ، ان کو وٹامن اے سے بھرپور غذائیں کھلائیں  ، جیسے جگر ، انڈے کی زردی ، مچھلی کا تیل ، اور پیلا ، اورینج یا سرخ سبزیاں وغیرہ ۔۔۔

گلوکوما کی وجہ سے رات کے اندھے پن کا علاج آنکھوں کے قطروں کے ساتھ کیا جاتا ہے جس میں پراسٹاگ لینڈینس ، بیٹا بلاکرز اور الفا ایڈنریجک اگوونسٹ ہوتے ہیں ۔ اگر ضرورت ہو تو ، سرجری بھی کی جاسکتی ہے۔ علاج کا مقصد آنکھ پر دباؤ کم کرنا ہے ، اس طرح آنکھوں کے ٹشووں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنا ہے۔

عام طور پر جینیاتی عوامل کی وجہ سے رات کے اندھے پن کا علاج نہیں کیا جاسکتا

وہ جانچ کر کہ فارغ ہوئے تو بتایا کہ انہیں یہ بیماری مورثی نہیں ہے،اس لیے اس کا علاج ممکن ہے ،

میں ان کو کچھ ڈراپس اور میڈیسن لکھ کر دے رہا ہوں ان کا باقاعدگی سے استعمال کریں ،ان شاللہ جلد ہی بہتری آئے گی ۔

انہوں پریسکرپشن لکھ کر زریار کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

بریرہ نے ساری کاروائی میں چہرہ سپاٹ ہی رکھا ،وہ دل ہی دل میں تلملا کر رہ گئی ،کہ وہ بسمہ کے سامنے اس کی خاموشی کا اچھے سے فائدہ اٹھا رہا تھا،

وہ لوگ وہاں سے باہر نکلے تو زریار نے فارمیسی سے میڈیسن لیں اور پھر وہ گھر روانہ ہوئے ۔

انہیں واپس آتے ہوئے شام ڈھل چکی تھی ۔

_________

"آج مام گھر نہیں پھر کیا خیال ہے برو ہو جائے ؟؟؟زمارے نے زیگن سے ابرو اچکا کر اشارے سے پوچھا ۔

اور اشارہ کی سٹینڈ پر لٹکتی ہوئی ہیوی بائیک کی چابیوں کی طرف کیا۔

"لیٹس گو "....

زیگن نے آنکھ ونگ کیے کہا ۔۔۔

"ذوناش آپ خان صاحب کا خیال رکھیے گا ۔۔۔ہم کچھ دیر میں واپس آتے ہیں ،دراصل مام گھر نہیں ،اسی کہا ،اور اس یمنی سے تو کچھ کہنا ہی فضول ہے۔سڑی مرچی سے

 "جی زمارے بھائی میں ان کا دھیان رکھوں گی ۔"

"تھینکس "

وہ دونوں ایک ساتھ باہر نکلے اور گیراج میں سے زمارے نے اپنی ہیوی بائیک نکالی جو پچھلی برتھ ڈے پر زریار نے اس کی فرمائش پر گفٹ کی تھی ،مگر بسمہ اسے چلانے نہیں دیتیں ۔اسی لیے وہ زیگن کے ساتھ چھپ کر رائڈنگ پر جاتا تھا ۔آج انہیں پھر سے ایک بار موقع ملا تو وہ دونوں اپنی اپنی ہیوی بائیک پر نکلے ۔۔۔۔

450سی سی ہیوی بائیکس اپنی تیز رفتاری سے خالی شاہراہ پر آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔

کبھی زیگن کی بائیک آگے تو کبھی زمارے کی ۔۔۔۔۔۔

ریڈ بائیک پر موجود زمارے نے ہیلمٹ کا شیشہ اٹھا کر زیگن کو ایک آنکھ ونگ کی اور بائیک کو خطرناک حد تک تیز ترین رفتار پر لاتے لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوا۔۔۔۔۔۔

جبکہ دوسری بائیک پر موجود زیگن جو اسے بچہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا تھا ،اسے اپنی قابلیت کا دکھانے کا موقع کیسے جانے دیتا ۔۔۔ زمارے کا پیچھا کرتے ہوئے اس کی  بائیک کا میٹرتیز رفتاری کی آخری حدود کو چھونے لگا ۔

اور زمارے کی بائیک کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے اسے دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے آنکھ ونگ کیے اس کے قریب سے گزرا۔۔۔۔۔۔

ہارنا زمارے نے بھی کہاں سیکھا تھا۔۔۔۔

بائیک کو مزید ریس دیتے ہوئے اس کا تعاقب کیا۔۔۔۔

سامنے ہی فائنل ڈیسٹینیشن پر نظر پڑتے دونوں بجلی کی رفتار سے وہاں ایک ساتھ پہنچے۔۔۔۔۔

نا ایک کم نا ایک زیادہ۔۔۔۔

دونوں برابر تھے۔۔۔۔۔

زمارے اور زیگن نے نیچے اتر کر اپنے اپنے ہیلمٹ اتارے اور پاس آتے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا ۔پھر ہاتھ کھینچ کر مسکراتے ہوئے  آپس میں گلے لگے ۔۔۔۔

چھوڑو مجھے!" وہ ِچلانا چاہتی تھی مگر اسکے جبڑوں پر مقابل کی گرفت بہت سخت تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کا زور لگا کر اسکا ہاتھ اپنے منہ سے پیچھے ہٹانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی مگر زریار کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔

اس نے زبردستی اس کا منہ کھول کر میڈیسن اندر ڈالیں۔اور اس کے منہ سے پانی کا گلاس لگایا ۔۔۔۔

بریرہ نے مزاحمت کرتے ہوئے اپنا چہرہ دائیں سے بائیں ہلایا ۔۔۔۔اسی عمل میں کچھ  پانی حلق سے نیچا اترا جو اپنے ساتھ منہ میں موجود گولیاں نگل گیا ،جبکہ کچھ پانی چھلک کر اس کے کپڑوں کو گیلا کر گیا ۔۔۔۔

 زریار نے اسے زبردستی بستر پر دھکا دیا ۔۔۔۔

"چھوڑو مجھے "وہ ایک بار پھر سے چلائی ۔

مگر مقابل پر کسی چیز کا اثر نا ہونے کے برابر تھا ۔۔۔

اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اور اسکے بازو پر اپنے ناخن گاڑھ دیے ۔۔۔۔جسکا زریار پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا تھا۔ 

"کوشش کر لو مگر جتنا مجھ سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کرو گی کوئی فائدہ نہیں  میں اپنا کام پورا کر کہ رہوں گا ،خود کرلیتی تو بہتر تھا ۔مگر تم نے ہی مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے "۔ اسکا سرد لہجہ بریرہ کی روح کو کپکپا گیا ۔

زریار نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ سے قابو کیا اور دوسرے سے اس کی آنکھوں میں ڈارپس ڈالے ۔۔۔۔

"تمہیں زبردستی کے علاؤہ اور کرنا بھی کیا آتا ہے ",وہ ہمت مجتمع کیے تلخ لہجے میں بولی ۔۔۔۔ آنکھیں میں غم و غصہ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔

 زریار اسے گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بڑی بڑی پانیوں سے بھری آنکھیں، بھیگی پلکیں،سنہری بالوں کی چند آوارہ لٹیں چہرے پر جھول رہی تھیں ، کپکپاتے ہونٹ اور ستواں ناک وہ لڑکی آج بھی اس کا ایمان ڈگمگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ اس کے ہوشربا سراپے سے نظریں چرا گیا۔

اور جاکر صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا ۔۔۔

جیسے خود سے لڑتے لڑتے تھک گیا تھا ۔۔۔۔

"ابھی تو شروعات ہے ،تمہاری زندگی جہنم نا بنادی تو کہنا "

وہ غصے میں کہتے ہوئے ہاتھ سے ٹٹول کر کمفرٹر کو سر سے پاؤں تک اوڑھے لیٹ گئی ۔۔۔۔

جبکہ زریار ایک بار اس کی طرف دیکھ کر وہیں بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند گیا ۔۔۔

جانے کتنی دیر یونہی گزر گئی ،ہمیشہ کی طرح آج بھی نیند اس سے روٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔

____________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"مام پلیز جائیں نا زرشال کے گھر رشتے کے لیے ،،،پلیز 

اس بار زمارے ایک ماہ بعد  ہاسٹل سے واپس آیا تو وہی شادی کی رٹ شروع کر دی ۔۔۔۔

"مام پلیز مان جائیں "

بریرہ اس کی حمایت میں بولی ۔۔۔۔

"جی آنٹی پلیز مان جائیں نا زمارے بھائی کی بات "ذوناش بھی اس کے لیے بولی ۔۔۔

"مام اچھے لوگ ہیں آپ ان سے مل تو چکیں ہیں .میں تو کہتا ہوں جا کر سیدھا نکاح کی بات کریں "

زیگن نے تو جیسے بیٹھے بیٹھے ہتھیلی پر سرسوں جمائی ۔۔۔

"زمارے تم نے ان سب کو کیا رشوت دی ہے ۔جو سب تمہارے حق میں بول رہے ہیں ؟

بسمہ نے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"میں نے کسی کو بھی کوئی رشوت نہیں دی ،سب حق کے ساتھ ہیں ،سب چاہتے ہیں گھر میں کوئی فنکشن ہو جائے ،

"کیوں یہی چاہتے ہیں نا سب ؟؟؟اس نے سب کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"جی مام ۔۔۔۔سب بولے ۔

اچھا ٹھیک ہے۔کل چلیں گے "

Hurrah !!!!

وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔۔

Mom you are the best mom ever.

وہ ان کے گال کا بوسہ لیتے ہوئے ۔زیگن کی طرف آیا ۔اور اس کے آگے ہاتھ کیا ۔۔۔

زیگن نے نا سمجھی سے دیکھا ۔۔۔

مگر ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ۔۔۔

وہ خود لڑکی بنا زیگن کی انگلی پکڑ کر جھومتے ہوئے اس کے بازو پر گرا ۔۔۔۔

زیگن نے مسکرا کر اس کے منہ پر پیار بھری چپت رسید کی ۔۔۔۔

سب اس کی خوشی کے انداز پر کھکھلانے لگے ۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اگلے دن بسمہ خان زرشال کے گھر پہنچ گئیں ۔ پھر انہوں نے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔

"سدرہ دراصل  ہم آپ سے زرشال  کے رشتے کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔۔۔۔

ہمیں ہمارے بیٹے زمارے کے لیے زرشال پسند ہے۔آپ زرشال کو ہمیں سونپ دیں ۔ہم ہمیشہ اسے اپنی بیٹی بنا کر رکھیں گے ۔۔۔۔

بسمہ  نے سدرہ سے کہا۔۔۔

"جی یہی مناسب عمر ہوتی ہے لڑکیوں کی شادی کی "

"مگر جہاں تک مجھے پتہ ہے زمارے تو ابھی پڑھ رہا ہے "سدرہ نے کہا

"جی خیر سے ایم ۔بی۔ بی۔ ایس کر رہا ہے ،ہم چاہتے تھے کہ اگر آپ یہ رشتہ قبول کر لیتے ہیں تو ہم نکاح کے پاکیزہ بندھن میں انہیں باندھ دیں مگر رخصتی ہم زمارے کے ڈاکٹر بن جانے پر کریں گے "

زیگن ،ذریار ،بریرہ جو ان کے ساتھ گئے تھے وہ بھی ان کی باتوں سے مستفید ہورہے  تھے ۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران زمارے بھی وہاں چلا آیا۔۔۔

"تم یہاں کیا کررہے ہو؟؟؟بسمہ نے زمارے کو آنکھیں دکھائیں ۔۔۔۔"

"ہاہاہاہا ۔۔۔مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا گھر میں۔۔۔۔ جانے وہاں کیا بنتا ہے ۔میں سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا ۔۔۔بھئی آخر میرے رشتے کی بات ہورہی اور میں ہی وہاں نہ ہوں یہ تو سراسر نا انصافی ہے ۔۔"

وہ زیگن کو آنکھ ونگ ہوئے بولا۔۔۔۔

"بری بات زمارے "زریار نے اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا ۔۔۔۔

اسلام وعلیکم !شہریار نے سب کو وہاں دیکھ کر مشترکہ طور پر سلام کیا ۔۔۔

اسی دوران زرشال سب کے لیے   چائے لے کر آ گئی۔۔۔۔

شہریار تم تو زمارے کو اچھے سے جانتے ہو اور تم دونوں میں دوستی بھی اچھی ہے تو تم ہی جواب دو ۔۔۔۔سدرہ نے اس سے پوچھا ۔۔۔

اس نے ایک نظر زریار کے ساتھ بیٹھے ہوئے زمارے کو دیکھا ۔۔۔

زمارے جس نے ابھی چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا ،شہریار کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر حلق میں بری طرح پھندا لگا۔۔۔۔۔

جبکہ زریار اور زیگن ایک دوسرے کو تشویش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔

"کیا ہوا زمارے سب ٹھیک ہے۔۔۔"

شہریار نے پریشانی سے استسفار کیا۔۔۔۔

جبکہ زمارے سکتے کی کیفیت میں شہریار کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔جانے وہ کیا جواب دیتا ہے ؟کہیں اس کی نیا پار لگنے کی بجائے پہلے ہی ڈوب جائے ۔۔۔۔

"امی انہیں کون نہیں جانتا ،شہر کے مشہور ترین بزنس مین زریار خان ہیں،ان کے گھرانے سے تعلق بنانا ہمارے لیے باعث عزت ہوگا ۔

اگر انہوں نے اپنا سٹیٹس بھلا کر ہمارے گھر قدم رکھا ہے،تو ہمیں بھی ان کے بڑے پن کی  قدر کرنی چاہیے "

مجھے تو کوئی اعتراض نہیں "شہریار کی بات سن کر زمارے کی کب سے رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں ۔۔۔۔

"پھر آپ کوئی مناسب دن دیکھ لیں نکاح کے لیے"بسمہ نے کہا ۔

"بہن جو آپ کو مناسب لگے "

سدرہ نے کہا ۔

چلیں اس جمعہ کو اس مبارک فریضے سے فارغ ہوجائیں ۔

بسمہ نے کہا ۔

"جی ٹھیک ہے "سدرہ نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔

زرشال تو چائے رکھ کر جوں کچن میں غائب ہوئی پھر دکھائی نہیں دی ۔

زمارے کی نظریں اسے ہی تلاش کر رہی تھیں ۔۔۔

"کنٹرول لٹل ماسٹر ۔۔۔۔۔"زریار نے زمارے کو ادھر ادھر تانکتے جھانکتے دیکھ کر اسکا ہاتھ دباتے ہوئے موقع محل کا احساس کروایا ۔۔۔۔

"بھائی یہ جمعہ کب آئے گا ؟؟؟

"آئے تو ہوئے تھے میں تو کہتا ہوں آج ہی اس کام سے فارغ ہوجائیں "

سب اچانک ہی خاموش ہوئے تھے ،اس لیے زمارے کی باتیں سب نے سن لیں ۔

سب ایک ساتھ ہنسنے لگے تو وہ کھسیانا ساہو کر سر کھجانے لگا ۔۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گھر میں نکاح کی تیاریاں زوروں شوروں سے چل رہی تھیں۔زرمارے ہاسٹل سے واپس گھر شفٹ ہوچکا تھا۔نکاح کی خوشی میں بسمہ کے ساتھ بازاروں کے چکر بھی ہنسی خوشی لگارہا تھا،بسمہ نے تینوں بیٹوں کے لیے ایک جیسے ڈریس منتخب کیے،ذوناش کے لیے اپنی پسند کا ڈریس لے آئیں،جبکہ یمنی نے ان کے ساتھ جا کر اپنی پسند سے لیا ۔بسمہ نے بریرہ سے بھی کہا کہ اس فنکشن کے حساب سے جوڑا خرید لے ۔

مگر اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو شاپنگ کی تھی ،ان میں سے کوئی بھی پہن لے گی ۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بہت انتظار کے بعد بالآخر وہ خوشیوں بھرا دن آن پہنچا ۔۔۔

 چونکہ نکاح پہ زیادہ لوگ نہیں تھے اسلیئے اس کا انتظام بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لوگوں نے نکاح کی رسم کے لیے گھر کے صحن کو ہی ترجیح دی۔

بیوٹیشن بھی زرشال کو تیار کرنے آچکی تھی 

اور وہ بھی ماہرانہ انداز میں میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ اسے تیار کر چکی تھی ۔۔۔۔۔

اناری رنگ کے کامدار لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھی، وہ لباس اس کی قدرتی سرخ و سفید رنگت پر بہت جچ رہا تھا جیولری کے نام پہ ماتھے پر چھوٹا سا ٹیکا لگا رکھا تھا ۔چھوٹے چھوٹے آویزے اور باریک سا نفیس نیکلس پہنے ہوئے تھی،

"ماشاءاللہ "سدرہ اندر آئیں تو اپنی بیٹی کو یوں سجا سنورا دیکھ کر بلا اختیار بولیں ۔۔۔

"اللہ پاک  نصیب بھی اچھے کریں میری بیٹی کے "

وہ آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا کر بولیں۔۔۔۔۔

ان کو آزردہ دیکھ کر زرشال  نے بڑی مشکلوں سے اپنے آنسوؤں پہ بندھ باندھا تھا۔۔۔۔۔

"واؤ آج تو میری بہنا بہت حسین لگ رہی ہے  ۔۔۔۔۔"

گل نے اس کی تیاری کو سراہتے ہوئے کہا۔۔۔

اور ماحول میں چھائی افسردگی کو اپنے الفاظ سے ختم کیا ۔۔۔۔

سدرہ انتظامات دیکھنے باہر نکل گئیں۔

"تو پھر میری بہنا کو اس کا پیار مل ہی گیا "

گل نے اسے چھیڑا ۔۔۔

"آپیییی۔۔۔۔وہ نروٹھے انداز میں چلائی ۔۔۔

"ارے تو اس میں غلط کیا کہا ،ویسے تم بہت خوشنصیب ہو زرشال۔۔۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی محبت پا لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ اور سلامت رکھے "گل نے اسے دل سے دعا دی ۔

"تھینک یو آپی "

گل ابھی کچھ دیر پہلے اپنی ساس فرزانہ بیگم کے ساتھ آئی تھی ،کیونکہ ان کے فوجی شوہر تو اپنی ڈیوٹی پر تھے ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زریار اپنے آفس میں فائلز پر کام کرنے میں مصروف تھا فون بجنے پر اس کی سمت متوجہ ہوا جہاں مام کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔۔۔۔

اس نے جلد ہی کمپوز ہوتے ہی فون اٹھا کر سلام کیا۔۔۔

"زریار تم آئے نہیں ابھی تک یہاں زمارے بھی تمہارا پوچھ رہا ہے جلدی آجاؤ۔۔۔۔۔بسمہ اس پر غصہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

"مام میری طبیعت تھوڑی خراب ہے،اور آفس میں بھی بہت کام ہے۔۔۔۔۔۔"

زریار ان کو ٹالتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

"زریار تمہارے بھائی کا نکاح ہے کسی غیر کا نہیں  ۔۔۔۔۔"

"اوکے مام میں آتا ہوں۔۔۔۔۔"

ان کی زریار کی تھکان زدہ آواز سنائی دی۔۔۔۔۔

"یا اللّٰہ میرے بیٹے کو بھی خوشیوں کا منہ دکھا دے "بے ساختہ زریار کے لیے ان کے منہ سے دعا نکلی ۔۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اس دن مام مجھے یمنی سے شادی کرنے کے لیے کہہ رہی تھیں ۔اب مام کو کون سمجھائے کے میں ایسا نہیں چاہتا ۔مگر وہ میری کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں ۔بار بار مجھے ایموشنل بلیک میل کر رہی ہیں "زیگن نے زمارے کو بتایا ۔

ذوناش جو زمارے کے پریس شدہ کپڑے لے کر آئی تھی ،ان دونوں کی باتیں سن کر وہیں سے پلٹ گئی ۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"بریرہ مٹھائی رکھوا دی گاڑی میں ؟؟؟

"جی مام رکھوا دی "

"بریرہ نکاح کے بعد بانٹنے والے چھوارے وغیرہ بھی رکھوا دئیے نا "

"جی مام وہ بھی رکھوا دئیے "

بے شک وہ زریار سے ناراض تھی ،مگر بڑوں کی عزت کرنا اور ان سے تمیز سے پیش آنا ہی اس کی تربیت میں شامل تھا ,اور وہ اسی پر عمل پیرا تھی ،بسمہ اور باقی گھر والوں سے ان کے اچھے برتاو کی وجہ سے وہ جلدی ہی ان سے گھل مل گئی تھی ۔ 

"جاؤ کام سب مکمل ہوئے گئے ہیں اب تم بھی تیار ہو جاؤ ،ایک منٹ کی بھی دیری ہوئی تو زمارے نے پورا گھر سر پر اٹھا لینا ہے "

"جی مام "

"بریرہ کونسا ڈریس پہنو گی ،آخر کو تم اس گھر کی بڑی بہو ہو ،

"مام کوئی سا بھی پہن لوں گی ۔

"چلو آؤ میں تمہیں بتاؤں "

وہ دونوں ایک ساتھ کمرے میں آئیں ۔بریرہ نے الماری کھولیں ابھی کچھ تک شاپنگ بیگز ویسے کے ویسے پڑے تھے ۔

بسمہ نے سارے شاپنگ بیگز چیک کیے ،

"یہ کب لیا تھا ہم نے مجھے تو یاد نہیں "وہ ایک ڈارک بلیو کلر کا ڈریس دیکھ کر بولی ۔

"مجھے بھی نہیں یاد "وہ بھی نا سمجھی سے بولی ۔

"یہی پہنو ۔۔۔بہت اچھا لگ رہا ہے ۔

"مگر یہ تھوڑا بھاری ہے "

"بیٹا اب تم شادی شدہ ہو،اسطرح کی ڈریسنگ ہی کرنی چاہیے ۔چلو شاباش جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔

وہ کہتے ہوئے باہر نکل گئیں ۔اور وہ ڈریس لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

بریرہ کی وجہ سے نکاح کا فنکشن رات کی بجائے شام پانچ چھ بجے کا رکھا گیا تھا ،تاکہ وقت سے واپسی ہو جائے ۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمارے تیار ہو کر باہر نکلا ،اس نے بلیک کلر کی شلوار قمیض پر میرون واسکٹ پہن رکھی تھی ،جو اس کی گندمی رنگت پر خوب جچ رہی تھی ۔۔۔۔

"ماشاءاللہ آج تو میرا بیٹا بہت پیارا لگ رہا ہے ،بسمہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"کبھی غرور نہیں کیا "وہ اپنے بالوں کو انگلیاں پھیر کر سیٹ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"غرور کرنے والی چیز ہی نہیں ہو تم "

سیڑھیوں سے اترتی ہوئی یمنی نے طنزیہ انداز میں کہا۔

یمنی ریڈ کلر کے شارٹ فراک جس پر موتیوں کا باریک کام کیا گیا تھا اسکے ساتھ کیپری پہنے ۔ریڈ میک کیے ہوئے تھی ۔

"شکل دھوو جا کر اپنی ۔قسم سے چڑیل لگ رہی ہو ،اس ریڈ رنگ کے فراک میں ،اور یہ سرخ لپسٹک ایسا لگ رہا ہے تازہ تازہ کسی گائے کا خون پی کر آئی ہو "

"اور یہ لال رنگ کس خوشی میں پہنا ،شادی میری ہو رہی ہے نا کہ تمہاری "

" تمہیں تو فیشن کی بالکل بھی سینس نہیں تمہیں کیا پتہ آج کل ریڈ کلر کتنا اِن ہے "

وہ مغرورانہ انداز میں اپنے سڑیٹ بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولی ۔

"میں بھی کس کے منہ لگ رہا ہوں ،وہ بھی آج کے دن ،وہ تاسف سے سر ہلاتا ہوا ،خان صاحب کے کمرے کی طرف گیا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے بسمہ گئیں تھیں۔

زیگن جو تیزی سے باہر سے اندر آرہا تھا ،اچانک یمنی سے ٹکرایا ۔۔۔۔

اور ہاتھ میں موجود باسکٹ نیچے گری ۔۔۔۔۔

"دیکھ کر نہیں چل سکتی آنکھوں کی جگہ کہیں بٹن تو نہیں فِٹ کروا رکھے "

زیگن نے قہربار نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ۔

جبکہ یمنی کی نظریں اس باسکٹ میں سے نکل کر گرے پھولوں سے بنے زیور پر تھیں۔

"یہ کس کے لیے لائے ہو "؟

"تم سے مطلب ۔۔۔اپنے کام سے کام رکھا کرو "

وہ کہتے ہی باسکٹ اٹھا کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔

وہ آج کی رسم کے مطابق آتشی گلابی  رنگ کے لانگ فراک اور چوڑی دار میں ملبوس تھی ۔۔۔ سیدھی مانگ نکالے دونوں ہاتھوں میں بھر بھر کے کانچ کی چوڑیاں پہنے کانوں میں خوبصورت جھمکے پہنے ہوئے ،بالوں کو ایک طرف سے میڈھیوں میں باندھا گیا تھا باقی کھلے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔وہ لبوں پر ہلکی سی پنک لپسٹک لگا کر جوں ہی پلٹی سامنے زیگن کو کھڑا دیکھ کر بری طرح سے سٹپٹا سی گئی ۔

وہ جلدی سے اس کی سائیڈ سے نکلی لیکن۔۔۔زیگن نے اس کے پاس سے گزرتے ہی اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ذوناش کی سانسیں حلق میں ہی پھنس گیئں۔۔

پ۔پلیز مجھے جانے دیں ۔۔۔

 وہ سراسیمگی کی کیفیت میں بولی ۔

 سیاہ سوٹ میں ملبوس مغرور نقوش اور سلیقے سے سنورے بالوں میں وہ اسے دنیا کا وجیہہ ترین مرد لگ رہا تھا ۔  

اس کی آنکھوں میں شوریدہ جذبات دیکھ ذوناش نے فورا نظریں جھکائیں۔۔۔ 

 زیگن نے آہستگی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس میں تازہ گلاب اور موتیے سے بنا خوبصورت گجرہ اسکی کلائی میں پہنا دیا۔۔۔

پھر دوسری کلائی میں بھی ویسا ہی گجرہ پہنایا ۔۔۔۔

"پ۔۔ پلیز جانے دیں کوئی آ جائے گا "۔ وہ شرم و خوف سے ملے جلے تاثرات کے ساتھ روہانسی آواز میں بولی ۔ 

"مجھے کسی کی پرواہ نہیں "وہ بے خوفی سے کہتے ہوئے دھیرے سے اپنے لب اس کے گجرے سے مزین نازک و ملائم ہاتھ پہ رکھ گیا۔۔

 وہ اسکی پہلی پیار بھری جسارت پر خود میں سمٹتی ہوئی نروس ہو گئی ۔۔ 

زیگن نے اس کے کان سے جھمکا نکال کر باسکٹ میں سے موتیے سے بنی بالی اٹھا کر اس کے ایک کان میں پہنائی ۔۔۔۔

ذوناش کو اس کی پر تپش سانسیں اپنے چہرے پر محسوس رہی تھیں۔۔۔

بالی پہنا کر اس کی کان کی لو پر اپنے لب رکھے ۔۔۔

وہ تو جی جان سے کانپ اٹھی ۔۔۔

"پلیز اب آپ لمٹس کراس کر رہے ہیں "وہ دھیمی آواز میں بمشکل بولی ۔۔۔کیونکہ اس کی اس قدر قربت اسکی جان نکالنے کے در پہ تھی ۔

"میاں بیوی میں کیسی لمٹس ؟؟؟

اس نے ذوناش کی ٹھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر تھوڑا اوپر اٹھایا۔ تو ذوناش کی سانسیں بے ترتیب سی ہو گئیں ۔ 

 "میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں "

وہ کہتے ہوئے اس کے دوسرے کان میں بھی بالی پہنا گیا ۔۔۔

"لگا تو نہیں ؟؟؟وہ سوالیہ انداز میں بولا۔۔۔۔

ذوناش نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔

"میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں ۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بول کر اسکی رہی سہی جان بھی نکال گیا ۔۔۔۔

شرم سے سرخ پڑتے عارض پر اپنی پرشوق نظریں دوڑا رہا تھا۔۔۔جو اسے اپیل کر رہے تھے ۔۔۔ 

"میرے ساتھ تو آپ کی شادی زبردستی ہوئی تھی ،جائیں اسی سے کرلیں شادی جس سے آپ اور آپ کی مام چاہتی ہیں "

اس کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔۔۔

"اچھا تو جان جی ،،،،اس بات پر ناراض ہیں "

"تو کیا نہیں ہونا چاہیے ؟؟؟

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی ۔۔۔۔

"آپ اپنی مام کے سامنے ہمارے رشتے کو ظاہر نہیں کرتے،اس کا یہی مطلب ہوا کہ آپ کی نظر میں ہمارے اس رشتے کی کوئی حثیت نہیں،"

"میں صحیح وقت کا انتظار کر رہا ہوں "

"اور وہ صحیح وقت آنے سے پہلے ہی آنٹی آپکی شادی یمنی سے کروا دیں گی ۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ کر کسی بھی ایری غیری سے شادی کروں گا """

وہ کچھ کہے بنا خفگی سے چہرہ پھیر گئی ۔۔۔۔ 

زیگن نے بستر پر پڑا زرتار آنچل اٹھا کر اس کے سر پر رکھا ۔۔۔۔

"جگنوؤں سے بھر دوں آنچل 

بیت جائے کہیں نا یہ پل کل جو ہوگا دیکھ لیں گے کل ۔۔۔۔

زیگن نے اپنی میٹھی آواز میں اس کے کان کے قریب آتے ہی گانے کے بول بولنے شروع کیے ۔۔۔

مانگ میں تیری آسماں بھر دوں ۔

اس نے اس کی بندیا کو درست کرتے ہوئے کہا۔۔۔

تیرے قدموں میں دو جہاں رکھ دوں ۔

جھک کر پاؤں میں پازیب پہنائی ۔۔۔۔

ڈھانپ کر رکھ دوں تجھ کو پلکوں میں ۔

آچھپا لوں میں تجھ کو سانسوں میں ۔

وہ اپنی خواہشوں کو دل میں دبانے والوں میں سے قطعاً نہیں تھا فورا عمل کرنے والوں میں سے تھا ۔اس نے جھک کر آہستگی سے باری باری اس کے دونوں گالوں پر پیار بھری جسارت کی ۔۔ ۔۔ذوناش کے رخسار اناری ہوئے شرم سے تمتمانے لگے۔۔۔

تیری آنکھوں کا خواب ہو جاؤں ۔

اوڑھ کر تیرا تن میں سوجاوں ۔

ایک دوجے میں آج کھو جائیں۔

بھول کر خود کو ایک ہو جائیں ۔

اس کی فسوں خیز آواز اسے ایک نئی دنیا میں لے جاچکی تھی ۔۔۔۔

"ہمارے درمیان جو رشتہ ہے وہ تو مجھے آپ کے اتنے قریب آنے کی اجازت دیتا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب آجائیں کہ ہم میں سے ہوا بھی نا گزر سکے ۔۔۔اور آپ  لمٹس کراس کرنے کی بات کرتی ہیں "۔وہ شرارتی لہجے میں کہتے ہوئےاس کی کمر سے تھام کر اپنے قریب کر گیا ۔۔۔

"پ ۔۔پل۔۔۔پلیز ۔۔۔۔وہ التجیائیہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

"اپنے حسن کے جلوے بکھیر کر کہتی ہیں کہ میں لمٹس کراس کر رہا ہوں ....آج تو آپ کا حسین اور شرمایا لجایا سا روپ مجھے میری تمام لمٹس کراس کرنے کے لیے اکسا رہا ہے "وہ اس کے کپکپاتے ہوئے لپسٹک سے سجے ہوئے گلابی بھرے بھرے ہونٹوں کو نظروں میں فوکس کیے بولا ۔۔۔۔اور مزید اسکے قریب ہوا۔۔۔

وہ اپنے دوپٹے کو مٹھیوں میں جکڑے زور سے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔

"ذوناش تیار ہوگئی ہو تو باہر آجاؤ !!!

باہر سے بسمہ کی آواز آئی تو وہ زیگن کو دھکا دئیے اس سے فورا پیچھے ہوئی ۔۔۔

اور دوپٹے کوسنمبھالتی ہوئی پھولی سانسوں سمیت بند دروازے کی طرف دوڑی۔ 

"اگلی بار یہیں سے کنٹینیو کریں گے "پیچھے سے زیگن کی شوخ آواز نے اس کے بڑھتے قدم روکے ۔۔۔مگر اس نے واپس مڑنے کی غلطی نہیں کی ۔۔۔اور دھڑکتے دل سے باہر بھاگی ۔۔۔وہ مسکرا کر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرکے آنکھوں کو بند کیے اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتار رہا تھا ۔۔ابھی بھی ایسے لگ رہا تھا کے وہ خود تو جاچکی ہے مگر اپنی خوشبو یہیں چھوڑ گئی ہے۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ایک نرس اور دو ملازمہ خان صاحب کے دھیان رکھنے کے لیے مقرر کیے وہ سب گھر سے نکلنے لگے ۔۔۔

"ارے یہ بریرہ کہاں ہے ؟

"زریار کہاں ہے بریرہ ؟

بسمہ نے پوچھا ۔

"میں دیکھ کر آتا ہوں "

"ارے رہنے دو آگئی ۔۔۔۔

سامنے سے ہی بریرہ اسی کے خریدے گئے بلیو ڈریس میں ملبوس لائٹ سے میک اپ میں اپنے سنہری بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے باہر آرہی تھی ،

اس نے ایک نظر سامنے کھڑے زریار کی طرف دیکھا جس کا دراز قد بلیک شلوار قمیض میں 

مزید نمایاں ہو رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش دیکھ کر ٹھٹھکی ۔۔۔مگر فورا نظروں کا زاویہ بدل گئی ۔۔۔۔

ایک گاڑی میں زیگن ،زمارے اور ذوناش بیٹھی ،

یمنی ذوناش کو اس گاڑی میں بیٹھتے دیکھ غصے سے دوسری گاڑی کی طرف آگئی جہاں بسمہ بیٹھی تھیں۔

بریرہ زریار کے پاس سے گزر کر گاڑی میں بیٹھنے کے لیے آ رہی تھی کہ زریار نے ہاتھ بڑھا کر اس کے جوڑے میں لگی واحد پِن نکال دی ۔۔۔اور اس کے سنہری بال پشت پر بکھر کر لہرانے لگے ۔۔۔۔

وہ حق دق سی رہ گئی اس کی سب کے سامنے کی گئی جسارت پر ۔۔۔۔

سامنے گاڑی میں موجود زمارے اور زیگن جو فرنٹ سیٹ پر موجود تھے ،اپنے بڑے بھائی کی جسارت پر ایک دوسرے کو دیکھ کر شرارت سے  مسکرائے ۔۔۔۔

"مام میں بال باندھ کر ۔۔۔وہ تھوڑا سا جھک کر گاڑی میں بیٹھی بسمہ سے بولی ۔۔۔

"بیٹا پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے ۔اتنا انتظار کروانا مناسب نہیں ۔کھلے بال بھی ماشاءاللہ بہت اچھے لگ رہے ہیں ۔آو گاڑی میں بیٹھو ۔

زریار نے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔

اس کے لیے تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی کیونکہ پیچھے بسمہ اور یمنی بیٹھ چکی تھیں۔

زریار نے آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔تو سب زرشال کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب مہمان وہاں پہنچ چکے تھے ۔سدرہ نے بھرپور طریقے سے ان کا استقبال کیا۔

کاموں کے چکر میں وہ صحیح گھن چکر بنی ہوئی تھیں۔

شہریار بھی ان کی مدد کروا رہا تھا ۔۔۔۔

مولوی صاحب وہاں پہنچ چکے تھے ۔

"زرشال ولد اشفاق علی آپ کو زمارے خان ولد عامر خان بعوض حق مہر دس لاکھ سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے "

انہوں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے تو اس نے انہیں قبولیت کی سند بخشی ۔۔۔۔

دوسری طرف زمارے سے بھی پوچھا ۔۔۔۔تو اس نے بھی دل و جان سے اپنی آمادگی ظاہر کی۔۔۔

دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ ختم ہوا تو سب نے ان دونوں کی آنے والی زندگی کی کے لیے دعا کی ۔پھر سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی ۔۔۔۔

"خالہ آپ نے ذوناش پھولوں کا زیور دیکھا ہے؟

"نہیں میں نے نہیں دیکھا "

"وہ دیکھیں سامنے بریرہ کے ساتھ بیٹھی ہے "یمنی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔

"ہاں ذوناش اچھی لگ رہی ہے ان میں "انہوں نے اس پر پیار بھری نظر ڈال کر کہا ۔

"اور آپ کو پتہ ہے یہ زیور کس نے لاکر دیا ہے ؟؟؟

"نہیں مجھے تو نہیں پتہ "انہوں نے زرشال کی طرف دیکھ کر کہا جو اس وقت زمارے کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی ،

"خالہ میں نے زیگن کو اس کے لیے یہ جیولری لے کر آتے دیکھا تھا۔۔اس نے اپنے تئیں زیگن کی درگت بنوانا چاہی ۔

",ارے تو پھر کیا ہوا ؟؟؟بچی کا دل کر رہا ہوگا پہننے کو اگر اس نے منگوا لیے تو اس میں حرج ہی کیا ہے "

چھوڑو سب دیکھو زرمارے اور زرشال ساتھ میں کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔لگتا ہی نہیں زرشال بڑی ہے زمارے سے "وہ مسکرا کر بولیں۔

"یمنی ان کی لاپرواہی پر غصے سے کھول کر رہ گئی۔

اور وہاں سے اٹھ کر ایک خالی جگہ کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ راستے میں کسی سے زور دار ٹکر ہوئی ۔۔۔

وہ ایکدم چکرا کر رہ گئی ۔۔۔

شہریار جو سب مہمانوں کو کولڈ ڈرنکس سرو کر رہا تھا اس کے ہاتھ میں موجود ٹرے میں سے کولڈرنکس گر کے ،یمنی کے کپڑوں کو داغدار کر گئی ۔۔۔۔

"اندھے ہو کیا ؟؟؟

Low standard pizza delivery boy .

لو سٹینڈرڈ پزا ڈیلوری بوائے "

وہ حددرجہ نخوت سے بولی ۔۔۔

"کیوں پزا ڈیلوری بوائے انسان نہیں ہوتے ،؟؟؟

وہ زہر خند انداز میں بولا۔

"تم جیسے مڈل کلاس لوگوں سے بات کرنا بھی گوارا نہیں مجھے ۔یو چیپسٹر ہٹو میرے راستے سے "

"اپنی اوقات مت بھولو ۔۔۔

وہ تنفر زدہ آواز میں بولی۔

"کس کی کیا اوقات ہے ۔۔۔وہ تو نظر ہی آرہا ہے """

"اور جن ہواؤں میں تم اڑ رہی ہو نا ،یاد رکھو جتنی بلندی سے گرو گی نا چوٹ اتنی ہی گہری لگے گی "وہ دو بدو بولا۔

" تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو کیا ؟؟؟یوں چٹکیوں میں اڑا دوں تم جیسے ذروں کو ",

وہ اس کے چہرے کے سامنے دو انگلیوں سے چٹکی بجا کر حقارت سے بولی ۔۔۔

"زمین پر آؤ میڈم پھر دیکھو ہماری اوقات ۔۔بلندی پر ذروں کا اندازہ نہیں لگایا کرتے "

"زبان لڑاتے ہو مجھ سے تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں "

یمنی نے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ شہریار کے چہرے پر نشان چھوڑتا ۔۔۔

شہریار نے اسے ہوا میں ہی قابو کیا ۔۔۔

اور اشتعال انگیز انداز میں جھٹک دیا ۔۔

"تمہارے تکبر سے زیادہ ہے گستاخ ہو سکتا ہے میرا لہجہ 

میرا ظرف مت آزماؤ مجھے خاموش رہنے دو "

اتنی بلندی بھی کس کام کی کہ انسان اس پرچڑھے اور انسانیت سے ہی گر جائے "

وہ اسے شانے سے دھکا دے کر پیچھے ہٹاتا ہوا راستہ بناتا ہوا وہاں سے اندر کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔

وہ پہلے ہی غصے سے بھری بیٹھی تھی ،اوپر سے شہریار کے ساتھ تلخ کلامی پر تو وہ آگ بگولہ ہوگئی۔۔۔۔

"ایکسکیوز می !!!اس نے وہاں ایک عورت کو کہا ۔۔

"جی "

مجھے واش روم جانا ہے ڈریس واش کرنے پلیز بتائیں کس طرف ہے ۔

"وہ اندر دائیں ہاتھ کے کمرے میں چلی جاؤ ۔

وہ اندر کی طرف بڑھی ۔۔۔

ذلیل انسان ،کمینہ ' وہ اسے دل ہی دل میں بے نقد سنا رہی تھی ۔

وہ آنٹی نے کس طرف کہا تھا ۔دائیں طرف یا بائیں طرف ؟

وہ اندر آنے تک اسے گالیاں دیتے ہوئے کمرہ بھول گئی تھی ۔۔۔

وہ بائیں طرف کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔

اور اندر سے دروازہ بند کیا۔۔۔

دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا ۔

اپنا گیلا فراک جھٹکا۔۔۔

اور واش روم کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زریار دیکھو آج میری بہو کتنی پیاری لگ رہی ہے ،یمنی کے وہاں سے اٹھ کر جانے کے بعد زریار بسمہ کے ساتھ آکر بیٹھا تو انہوں نے اس سے کہا۔

"جی مام "

وہ بریرہ پر ایک تفصیلی نگاہ ڈال کر بولا ۔۔۔

جو اس کے من پسند کپڑوں میں ملبوس اس کے دل کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی ،

"بیٹا تم سارا دن آفس میں مصروف رہتے ہو ،کبھی بیوی پر بھی توجہ کر لیا کرو ۔۔۔"بسمہ نے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

"مام آپ دنیا کی پہلی ایسی ساس ہیں جو کہہ رہی ہیں کہ بیوی پر توجہ دو ،ورنہ ماں کو بیٹوں سے یہی شکایت ہوتی ہے کہ ،بیوی کے پلو سے لگے رہتے ہو،کبھی ماں کو بھی پوچھ لیا کرو "،اس نے ان کی سیریس بات کو مزاح کا رنگ دیا ۔

"زریار میں سنجیدہ ہوں ،وہ گھور کر بولیں ۔

"بیٹا بیوی اپنے شوہر سے اور چاہتی ہی کیا ہے ؟؟؟صرف محبت اور تھوڑی سی توجہ ،

اسے تھوڑا وقت دیا کرو ،ایک دوسرے کو جانو پہچانو،

"تم میری خواہش کو بھول گئے ہو کیا ؟؟؟

"مجھے تم سے بہت امیدیں ہیں ،مجھے مایوس مت کرنا "

آخر میں ان کا لہجہ تھوڑا بھیگ گیا ۔۔۔

"مام پلیز کیا کر رہی ہیں ۔۔۔یہاں سب لوگ موجود ہیں،اگر انہوں نے آپ کو یوں دیکھ لیا تو جانے کیا سوچیں گے ۔مجھے آپ کی ہر بات یاد ہے۔

"آپ پلیز بتائیں کہ اب آپ کیا چاہتی ہیں مجھ سے ۔۔۔۔

"ایسا کرو یہاں فنکشن تو ختم ہونے والا ہے۔بس کھانا کھانا ہی رہ گیا ہے،

میں بریرہ سے کہتی ہوں کہ خان صاحب کو دیکھنے کے لیے تم دونوں کو جلدی واپس بھیج رہی ہوں ۔تم اسے اپنے ساتھ لے جاؤ گھر اور ساتھ میں اچھا سا ٹائم سپینڈ کرو "

اور ہاں اس کی تعریف بھی کرنا ۔۔۔بسمہ نے اپنے بیٹے کو بیوی کو خوش کرنے کے سارے گُر بتائے۔ ۔۔۔۔

"بس یا اور کچھ بھی ہے ؟؟؟زریار نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

"جاؤ بھی اب "

"جی مام "  

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اسلام وعلیکم ٹیچر جی کیسی ہیں ؟؟؟

"اوہ سوری اب تو سالی آدھے گھر والی ہوگئی ہیں آپ بھی ۔۔۔

وہ شوخ پن سے مسکراتے ہوئے بولا ۔

"نہیں جی ہمیں آپ کی آدھی گھر والی بالکل بھی نہیں بننا ۔ہم پہلے ہی کسی کی پوری گھر والی بن چکے ہیں۔"گل نے بھی اسی کے انداز میں جواب لوٹایا ۔

"چلیں ٹھیک ہیں ،ہمیں ہمارے والی ہی کافی ہیں "زمارے ہنس کر بولا۔

"ویسے آپ سے تھوڑی مدد چاہیے تھی "وہ مدعے کی بات پر آیا ۔

"وہ کس سلسلے میں "؟

"بھلا نکاح کے بعد دولہے کو کیا مسلہ ہو سکتا ہے،اس بات سے آپ نا واقف تو نہیں ہوں گی ،آخر آپ بھی اب تجربہ کار ہیں "

گل نے اس کی بات سمجھ میں آتے ہی مسکرا کر دیکھا ۔

"ملنا ہے زرشال سے ؟؟؟

"ارے واہ ایسے تو نہیں کہتے استاد بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں "

صحیح پہچانا "

"زمارے تم پہلے تو کبھی اتنے دل پھینک نہیں لگتے تھے بڑے سلجھے ہوئے لگتے تھے مجھے "

"محبت تو بڑے بڑوں سلجھے ہوؤں کو الجھا دیتی ہے، کیا بتاؤں بس آپکی بہن کی محبت کا اثر ہے،مجھے سرتا پا بدل دیا۔۔۔۔

وہ شوخی سے لبریز لہجے میں بولا۔

"اوکے آؤ میں تمہیں زرشال کے پاس لے چلوں "وہ کہہ کر خود آگے آگے چلنے لگیں۔۔۔

"یہ امی کا کمرہ ہے،اس نے دائیں طرف اشارہ کیا ،اور یہ شہریار کا کمرہ اس نے بائیں طرف اشارہ کیا ۔

اور میرا اور زرشال کا کمرہ کبھی ہوا کرتا تھا ۔اب صرف زرشال کا ۔جائیں جی اندر آپ کی دلہن اندر ہی ہے،مل لیں ۔

"تھینک یو سو مچ آپی ...

زمارے نے کہا ۔تو گل نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔

"جلدی آجانا "

پھر اس کا گال تھپتھپاکر کر باہر چلی گئی ۔۔۔۔

آہم ۔۔۔۔آہم ۔۔۔۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو گلا کھنگار کر کہا ۔۔۔

زرشال نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔وہ دروازے کے بیچ و بیچ ایستادہ کھڑا ہوا تھا۔

"آ۔۔۔آپ یہاں کیوں آئے ؟؟؟

"کوئی دیکھ لے گا ۔۔۔گھر میں سب مہمان ہیں ابھی ",

وہ خوف اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت میں بولی ۔

"اب تو اکیلے میں ملنے کا فُل پرمٹ لے کر آیا ہوں ،کیا مجال جو مجھے یہاں آنے سے روکے !!

یہاں سے ابھی کے ابھی اٹھا کر لے جانے کی ہمت رکھتا ہوں ،میڈم چیلنج مت کرئیے گا۔وہ فرضی کالر اچکا کر بولا۔

اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا جوں جوں اس کے قریب آرہا تھا اسے اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

بے شک وہ ایک بار اکیلے میں ملے تھے جب زمارے نے اسے گھر ڈراپ کیا تھا،مگر آج رشتہ بدل چکا تھا،

"زرشال !!!!

زمارے نے خمار زدہ آواز میں پکارا ۔۔۔

وہ جو اسے یک ٹک دیکھنے میں محو تھی ،

ہمممم۔۔۔چونک کر بولی ۔۔۔۔

May I.....

زمارے نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔

زرشال نے شرم سے تمتمانے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔

زمارے نے اپنی واسکٹ میں سے ایک مخملی کیس نکال کر اس میں سے ایک عمدہ ڈیزائین کی انگوٹھی برآمد کی ۔اور نرمی سے اسکے مومی ہاتھ کی انگلی میں پہنا دی ۔۔۔

اس انگلی کی نسیں دل تک جاتی ہیں۔تو کیا میرا دل آپکے دل تک رسائی پائے گا ؟؟؟

وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیے پوچھ رہا تھا۔۔۔

یہ پہلی بار تھا کہ زمارے نے اس کا ہاتھ تھاما تھا ،اسے اپنی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔

"جو پہلے سے ہی دل پر قبضہ کیے ہوں ،انہیں پھر سے رسائی کی کیا ضرورت "

اب تو وہ اس کا محرم تھا ،پھر دلی جذبات کا اظہار کرنے سے کیسا گریز ۔۔۔وہ لجاتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار کر گئی ۔۔۔

"اچھا جی "

وہ نچلا لب دانتوں میں دبا کر شرارت سے بولا۔

"چلیں تو پھر مل کر ایک دوسرے کو نکاح کی مبارکباد دیتے ہیں۔

وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے قریب کر گیا۔۔۔

زرشال کو اتنی قربت پر اپنا دل کانوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔

"زمارے پلیز "وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے روک گئی ۔۔۔

چہرے پر حیا کی گھنگور گھٹائیں رقص کررہی تھیں۔

وہ اس کے چہرے پر چھائے دلکش رنگوں کو دیکھ کر مسمرائز ہوا۔۔۔

لگتا ہے ساری کائنات کاحسن آج کی رات آپ کے چہرے پر سمٹ آیا ہے۔

"یہ چہرے کی نزاکت۔ہونٹوں پہ شرارت۔آنکھوں میں بغاوت ،دھڑکنوں میں چاہت۔

"زرشال آپ اتنی پیاری کیسے ہوسکتی ہیں یار !!!!

وہ محبت بھری آہ بھر کر رہ گیا ۔۔۔

میرے سینے سے لگ کر سن وہ دھڑکن،

جو ہر پل تجھ سے ملنے کا ورد کیا کرتی ہے،،،، 

اس کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے وہ اسے خود میں بھینچ گیا۔۔۔دونوں آنکھیں موندے ایک دوسرے کو محسوس کرتے ہوئے دنیا و مافیہا سے بیگانہ تھے کہ باہر سے آتے ہوئے شور کی آواز پر ٹھٹھکے ۔۔۔

دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

"آؤ دیکھتے ہیں۔"

کہتے ہوئے زمارے اسے اپنے ساتھ لیے باہر نکلا۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھی ونڈو سے نظر آتے تیزی سے گزرتے ہوئے مناظر دیکھ رہی تھی ،جبکہ زریار ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے گرد ہوا سے اڑتی ہوئی لٹوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

دل کیا ہاتھ بڑھا کر انہیں چھو لینے کا ،مگر اسے پورا یقین تھا کہ اس کے ایسا کرنے سے مقابل موجود شخصیت اس پر جھپٹ پڑتی ،

مام انہیں جس مقصد کے لیے تنہائی فراہم کر رہی تھیں،انہیں کیا پتہ کہ اس بات کی بھنک ان کی بہو کو ہوجاتی تو وہ اسے سالم نگل لیتی ۔۔۔۔

گاڑی میں خاموشی کا راج تھا،

دونوں نے ایک دوسرے کو بلانے کی کوشش نہیں کی ،برہرہ تو اسے بلانا ہی نہیں چاہتی تھی ،جبکہ زریار بلانا تو چاہتا تھا ،مگر چاہ کر بھی بلا نہیں سکتا تھا ،

_________

یمنی دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھتی ہوئی کمرے میں موجود اس سے ملحقہ واش روم کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتی ،دروازہ اپنے آپ کھلا ۔۔۔

اور اندر سے شہریار باہر آیا ۔۔۔

"تم یہاں میرے روم میں کیا کر رہی ہو "

وہ ماتھے پر بل ڈالے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔تمہارا کمرہ تھا ؟؟؟

وہ جو اتنی بولڈ بنی پھرتی تھی ،اسے شرٹ لیس دیکھ کر ساری بولڈنیس ہوا ہوئی ۔۔۔۔

اور بنا سوچے سمجھے بھاگتی 

واش میں گھس گئی ،جہاں سے ابھی وہ تھوڑی دیر پہلے نکلا تھا ،

شہریار اپنی شرٹ چینج کرنے آیا تھا ،جوکچھ دیر پہلے کولڈ ڈرنکس گرنے سے گندی ہو گئی تھی ،

آ۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔۔۔بچاو ۔۔۔۔۔

وہ چیخ مارتی ہوئی واپس باہر نکلی ۔۔۔۔

شہریار جو شرٹ ہاتھ میں لیے اسے ابھی پہننے ہی لگا تھا ۔

اس کی چیخوں کی آواز سن کر مڑا ۔۔۔۔یمنی اندھا دھند بھاگتی ہوئی باہر نکلی تھی،ہیل والے شوز سے پاؤں رپٹ گیا اور وہ شہریار کے اوپر گری ۔۔۔وہ اس اچانک پڑنے والی افتاد کے لیے کہاں تیار تھا ۔اس کا بیلنس بگڑا اور دونوں روم میں پڑے شہریار کے سنگل بیڈ پر دھڑام سے گرے ۔۔۔۔

بیڈ سدرہ کے جہیز کا تھا کافی پرانا اور خستہ حال تھا،ان دونوں کے گرنے سے بیڈ درمیان سے چٹخ کر ٹوٹا اور وہ دونوں بیڈ میں دھنسے ۔۔۔۔

"دماغ خراب ہے تمہارا بے وقوف لڑکی جو ایسے چیخیں مار رہی تھی ؟؟؟"وہ دھاڑا ۔۔۔

"ہٹو پیچھے "

"وہ ۔۔وہ ۔۔۔اندر کاکروچ !!! وہ سہمی ہوئی آواز میں بولی ،اس کی آنکھوں میں اچھی بھی ڈر کی پرچھائی واضح دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔

 اس سے پہلے کہ وہ اسے خود پر سے پیچھے ہٹاتا کسی نے دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔

"ہائے یہ دیکھو ادھر کیا آفت آئی پڑی ہے ",فرزانہ بیگم جو گل کی ساس تھیں ،وہ دروازہ کھول کر اندر دیکھتی ہوئی منہ واپس باہر نکال کر اونچی آواز میں بولی ۔۔۔۔

شہریار اور یمنی تو گویا سکتے کی کیفیت میں تھے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔پل بھر میں سب وہ اکٹھا ہوچکے تھے ،بیڈ ٹوٹا ہوا اور یمنی شہریار پر گری ہوئی تھی ، جبکہ شہریار کو شرٹ لیس دیکھ سب نے آنکھیں پھیریں۔۔۔

شہریار نے اسے دھکا دے کر خود سے پیچھے کیا ۔۔۔

اور اپنی جگہ سے اٹھ کر فورا شرٹ پہنی ۔۔۔

"امی آپ نے جو دیکھا ایسا کچھ نہیں بس ایک حادثہ تھا "شہریار نے لوگوں کی تحقیر آمیز نظروں کا جواب دیتے ہوئے سدرہ سے کہا ۔۔۔۔

"ہائے توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے ،چوری چھپے کیا کرتے پھر رہے ہیں ۔۔۔اوراس لڑکی کے کارنامے تو دیکھو ایک انجان لڑکے کے کمرے میں بھلا یہ کیا کر رہی تھی ؟؟؟

"ہاں بہن ٹھیک کہا ،ضرور اس لڑکی کی اپنی مرضی ہوگی جو یہاں تک چلی آئی ،ورنہ کون لڑکا اپنے ہی گھر میں کسی غیر لڑکی سے ۔۔۔۔۔حد ہے بھئی ۔۔۔آج کل کی لڑکیاں تو شتر بے مہار ہو گئیں ہیں،اس محلے دار خاتون نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا ۔جیسے فرزانہ بیگم کی ہاں میں ہاں ملائی ہو ،

"ضرور ان دونوں کا پہلے سے کوئی چکر ہوگا ،

جتنے لوگ تھے اتنی باتیں بنا رہے تھے ،

"خالہ ایسا کچھ نہیں "یمنی نے بستر سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانے پر پھیلایا ،پھر چلتی ہوئی جامد کھڑی بسمہ کی طرف آئی ۔۔۔۔

لوگوں کی آپس میں ان دونوں کو لے کر چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔۔

یمنی نے جلدی سے مہمانوں کا لحاظ کیے بنا بسمہ کا بازو پکڑ کر کہا تو انہوں نے زور سے یمنی کا ہاتھ جھٹکا۔

ہاتھ مت لگائیے ہمیں۔۔۔گھن آرہی ہے ہمیں آپ سے۔۔۔بلکہ اپنے آپ سے ،،،ہم نے ایسی تربیت تو نہیں کی تھی کہ آپ کسی غیر لڑکے کے کمرے میں اس طرح سے ۔۔

بسمہ کا کراہیت آمیز لہجہ یمنی کے دل پر کاری ضرب لگارہا تھا۔۔۔کیوں وہ اس کی بات کا یقین نہیں کر رہی تھیں۔کیوں آنکھوں دیکھا سچ مان رہی تھیں؟؟؟سب کے سوالوں کو سچ ثابت کر رہی تھیں ۔۔؟؟؟

"شہریار وہ اگر غلطی سے ادھر آبھی گئی تھی ،تو تمہیں تو سب اونچ نیچ کا علم تھا ،تو تم نے اسے کیوں باہر جانے کا نہیں بولا ۔۔۔۔سدرہ نے اپنے بیٹے کو بے نقد سنا ڈالیں ۔۔۔۔

شہریار بلکل گنگ ہوگیا بس اسکی ساکت نظریں اپنی والدہ  پر تھیں۔۔۔جنہوں نے آج تک اسے کبھی ڈانٹا نہیں تھا۔۔۔اور اب۔۔

"امی !!!

اس کے لب آہستہ سے پھڑپھڑائے...

آج تم نے شرمندہ کروادیا مجھے۔۔۔

سدرہ نے اذیت سے کہا جبکہ بسمہ لڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے جا لگیں ۔۔۔ ۔

"امی آپ لوگ میری ایک دفعہ بات تو سن لیں۔۔۔میں کہہ رہا ہوں نا کہ جیسا آپ لوگ۔۔۔

شہریار نے لہو رنگ آنکھوں سے ایک نظر سب کو دیکھا کئی لوگوں کی اس پر تمسخر اڑاتی نظریں تھیں۔۔۔اسکا دل چاہا پوری دنیا جلا ڈالے۔کیسے سب ان دونوں کی عزت کی دھجیاں بکھیر گئے تھے ۔۔

"ارے اتنی ہی آگ لگی تھی تو بیاہ رچا لیتے یوں چھپ چھپ کر گناہ کرنے سے تو بہتر تھا "پھر سے کسی کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔

یمنی تو شرم سے ڈوب مرنے کے مقام پر خود کو کھڑا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔

شہریار کو لوگوں کے الفاظ کسی طمانچے کی صورت میں خود پر پڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔۔کچھ لوگوں کی طنزیہ دبی دبی ہنسی اور سرگوشیاں سُن کر یمنی نے اذیت سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔

شہریار کا دل چاہا یا تو خود کو ختم کر ڈالے یا پھر سامنے کھڑی اس لڑکی کو جو اپنے ساتھ ساتھ اسکی بعزتی کا باعث بنی تھی ۔۔۔ 

"دراصل ہم نے زرشال اور زمارے کے نکاح کے ساتھ ان دونوں کی منگنی بھی کرنی تھی ،ان دونوں کا رشتہ طے کر چکے ہیں، لیکن اب ہم مزید دیر نہیں کریں گے ۔قاضی صاحب ابھی یہیں ہیں کیوں نا ہم آج ہی ان کا بھی نکاح پڑھوا دیں ۔

سدرہ نے بسمہ خان کی طرف دیکھ کر بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔وہ معاملہ سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ورنہ سارے محلے میں کیاعزت رہ جاتی ۔

بسمہ خان نے ممنون نگاہوں سے سدرہ کی طرف دیکھا ،کتنی خوش اسلوبی سے وہ ان کی بچی کچی عزت بچارہی تھیں۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔"انہوں نے لمحوں میں فیصلہ لیا۔۔۔

زریار اور بریرہ وہاں سے جا چکے تھے اس لیے اس واقعے سے لا علم رہے۔جبکہ زیگن اور ذوناش باہر گاڑی سے مٹھائی نکالنے گئے تھے جو وہ جلدی میں گاڑی ہی میں بھول آئے تھے ۔۔۔زمارے اور زرشال بھی روم سے نکل کر وہیں آئے اور سب معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگے کہ آخر یہ بھیڑ کیوں اکٹھی ہوئی تھی ۔

"خالہ میں یہ نکاح کسی صورت نہیں کروں گی "سب کے باہر جاتے ہی بسمہ پھٹ پڑی ۔۔۔۔

"جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں تو میں اس دوکوڑی کے انسان سے کیسے نکاح کر سکتی ہوں "

"یہ تو تمہیں یہاں آکر ہماری عزت نیلام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔"وہ دو ٹوک انداز میں بولیں ۔۔۔

"دیکھو یمنی اگر تمہیں زرا سا بھی میری عزت کا خیال ہے ،تو اس نکاح کے لیے حامی بھر دو ۔جو آج لوگوں نے دیکھا ہے،تمہیں اس لڑکے کے سوا اور کوئی نہیں اپنائے گا "

"مگر خالہ !!!!

"اگر میری بات نا مانی تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی ۔۔۔۔لوگوں کی نظروں میں تو تم پہلے ہی مجھے گرا چکی ہو ۔

وہ خاموش کھڑی آنسو بہانے لگی ۔۔۔۔

"اور جن ہواؤں میں تم اڑ رہی ہو نا ،یاد رکھو جتنی بلندی سے گرو گی نا چوٹ اتنی ہی گہری لگے گی "

کچھ دیر پہلے کہی گئی شہریار کی بات سچ ثابت ہو گئی تھی ۔۔۔۔

"معافی کب تک ملے گی ؟؟

زریار نے کمرے میں آتے ہی پوچھا ۔

وہ جو چینج کرنا چاہ رہی تھی ،زریار کی کمرے میں۔ لائٹ آن کرنے سے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،انہیں گھر پہنچتے ہوئے رات ہوچکی تھی،بریرہ کو کم دکھائی دینے لگا،وہ چاہ کر بھی کبرڈ سے اپنے لیے کپڑے نہیں نکال سکی ،جانے وہ کیا پکڑے اور کیا نکل آئے ۔۔۔یہی سوچ کر اس نے کپڑے تبدیل کرنے کا منصوبہ چھوڑ دیا ،

زریار گاڑی پورچ میں کھڑی کیے لاک کر کہ اندر آیا تو بریرہ کو کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے کھڑا دیکھا تو اس کے قریب آ کر پوچھا ۔۔۔

بریرہ کو اس کے کلون کی مہک اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تو اس نے دو قدم پیچھے لیے ۔۔۔

"مرتے دم تک نہیں "

"کیا چاہتی ہو ؟؟؟ کیا کروں میں ؟؟؟کیسے معاف کرو گی ؟؟؟وہ دو قدم مزید آگے ہوا ۔۔۔

",میں سب کو بتا دوں گی تمہاری اصلیت "

"میری اصلیت بتاؤ گی سب کو ؟؟؟

",میرے بارے میں بتاؤ گی ،تو بدنامی تمہاری بھی ہوگی "

"کیا سب کی نظروں میں اپنے لیے حقارت دیکھ پاؤ گی ؟؟؟

"جب اتنا کچھ سہہ چکی ہوں تو وہ بھی سہہ لوں گی ۔تم اپنی فکر کرو جو جہنم کا ایندھن بننے والے ہو "

"تمہارا کردار کتنا اچھا ہے سب کو بتاؤں گی ۔جو چہرے پر معصومیت کا مکھوٹا چڑھائے ہوئے ہو تمہارے دوہرے روپ دکھاؤں گی "

"بے شک مجھے کردار بدلنے میں مہارت ہوگی !!!!

"لیکن اگرمیں نے تمہیں مجھ سے پیار کرنے پہ مجبور کر کہ ساری کہانی ہی بدل دی تو کیا کرو گی ؟؟؟وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر جذب سے بولا

"گناہ کرکہ خوش فہمیاں پالنا کوئی تم سے سیکھے "

"اور کس حق سے میرا ہاتھ پکڑا تم نے "؟

وہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑوا کر غرائی ۔۔۔

"تمہارے سارے حقوق اپنے نام کروا چکا ہوں ،ہاتھ پکڑنے کے بھی اور بھی بہت کچھ "

"ابھی بھی تم سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ،

جب چاہے اپنا حق وصول لوں تم سے ،وہ اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کر گیا ۔۔

بریرہ کو اس کی سخت انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔

"مگر اس بار میں تمہیں تمہاری مرضی کے بغیر چھووں گا بھی نہیں ،وہ اسے جھٹکا دے کر چھوڑتے ہوئے بولا۔

"پیار کرتا ہوں تم سے ۔۔۔

"ڈیم اٹ !!!!

تمہیں اتنی سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی "؟؟

"اگر میں میں تمہیں کچھ دے سکتا تو تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت دیتا،تب تمہیں احساس ہوگا کہ تم میرے لیے کتنی خاص ہو"

"نہیں چاہیے مجھے تمہاری حوس زدہ آنکھیں "

"رانی میرے پیار کو حوس کا نام مت دو "مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ،غلطیاں تو خدا بھی معاف کردیتا ہے،"

"تم چاہتی ہو مجھے اپنے کیے کی سزا ملے "؟؟؟؟

"ہاں جو تم نے میرے ساتھ کیا  تمہیں اس کی بھیانک سزا ملنی چاہیے " اس کے لہجے میں اژدھوں کی سی پھنکار تھی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے "وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

گھر ابھی تک خالی تھا،اس کا مطلب کہ باقی سب ابھی تک نہیں واپس نہیں آئےتھے ۔۔۔

سٹور روم سے اپنے مطلب کی چیز اٹھائے وہ ثابت قدمی سے واپس آیا ۔۔۔

Hit me ......

زریار نے بریرہ کے ہاتھ میں ہنڑ پکڑا کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے پختہ لہجے میں کہا 

بریرہ نے فورا اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔

"میں یہ نہیں کروں گی" .

"میں تمہارا گنہگار ہوں ،تو دو سزا مجھے اپنے ہاتھوں سے "

زریار نے اس بار سرد لہجے میں کہا تھا۔۔

بریرہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنے ہاتھ میں موجود ہنٹر واپس زریار کو پکڑایا۔۔۔۔

I said hit me....just hit me damn it....

"تم اللّٰہ کے بنائے ہوئے اصولوں سے منحرف ہوئے تھے ،اس سے پناہ مانگو اسی سے سزا مانگو ۔۔۔میں یہ نہیں کروں گی ۔۔۔

"یہی تو تم چاہتی تھی کہ مجھے اپنے کیے کی سزا ملے ،لو ۔۔مارو مجھے سو کوڑے یہی سزا ہے نا زانی کی "

"میں ایسا کبھی نہیں کروں گی "وہ اس کے انداز و اطوار محسوس کیے سہمی ۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔ہنٹر اس کے جسم پر پڑنے کی آواز سن کر بریرہ کا دل دہلا ۔۔۔۔کمرے میں چھائے ہوئے سناٹے میں ہنٹر کی چیر دینے والی آواز گونجی ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی رہ گئی۔۔۔۔

"گنو رانی ۔۔۔۔

زریار آنکھیں زور سے بند کیے اپنی پشت پر ہنٹر برسا رہا تھا،

"ایک ،دو ،تین،چار ،دس،سترہ،

اپنے آپ کو مار کر گنتے ہوئے ،اس کی آواز مضحمل سی ہوگئی،مگر درد کی شدت برداشت کیے ،ہنٹر برساتا رہا اور گنتا رہا ،

"تریسٹھ"وہ کہتے ہوئے نڈھال ہوا ۔۔۔گھٹنوں کے بل زمین پر گرا ،،،درد حد سے سوا تھا،،،،

بریرہ کا دل اس وقت آٹھ آٹھ آنسو رو رہا تھا،مگر زبان پر قفل بندی تھی،دل مچل مچل کر اسے دُہائی دے رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اسے ایسا کرنے سے روک دے ،دل میں اٹھتی ٹیسوں کو نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

وہ ہمت مجتمع کیے پھر سے اٹھا ۔۔۔۔

اس کی شرٹ ہنٹر کے تیز وار سےپھٹ چکی تھی اور پشت بری طرح  زخمی ہوچکی تھی،خون رسنے لگا ،،

"پچانوے ،،ستانوے،ننانوے ۔۔۔گنتے گنتے سو ہوئے ،وہ ایک بار پھر سے درد کی شدت سے بلبلا کر رہ گیا۔۔۔۔

"بولو رانی اور کتنے ماروں ؟؟؟؟

اس کی درد بھری آواز سن کر رانی نے اپنی آنکھیں زور سے میچیں۔۔۔۔اور اپنے دوپٹے کو مٹھیوں میں جکڑا ہوا تھا،ضربیں اسے لگی تھیں ، مگر جسم اس کا کپکپا رہا تھا،

وہ دل میں سوچ رہی تھی ،اچھا ہوا اسے رات کو دیکھائی نہیں دیتا ،ورنہ وہ اسے خود پر ظلم کرتے ہوئے کیسے دیکھتی ،وہ بستر پر بیٹھتی چلی گئی،کمرے میں زریار کی پھولی ہوئی سانسوں کی مدھم آواز سنائی دے رہی تھی،کمرے میں ایک بار پھر خاموشی نے بسیرا کیا۔۔۔۔

"زریار کہاں ہو تم ؟؟؟

وہ آنکھوں کے سامنے چھائے اندھیرے میں ہاتھ مار کر اسے ٹٹول رہی تھی ،

مگر وہ ہوش میں ہوتا تو جواب دیتا ۔۔۔۔

وہ آہستہ آہستہ عالم غنودگی میں جانے لگا،اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتے ہی کمرے میں فرش پر گرا بے دنیا و جہاں سے بیگانہ ہو گیا ۔۔

اچانک بریرہ کے پاؤں سے کوئی چیز ٹکرائی اور وہ لڑکھڑا کر گری ۔۔۔۔

وہ اٹھ کربیٹھی ۔۔۔اس کا ہاتھ زریار کی زخمی پشت پر لگا۔۔۔

جو منہ کے بل زمین پر گرا ہوا تھا،

اسے اپنا ہاتھ گیلا محسوس ہوا تو اس نے سونگھ کر دیکھا۔

"یہ تو خون !!!!

اس کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ کر پھیلیں۔۔۔۔

دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔

اسکی حالت کے بارے میں سوچتے ہوئے ،،،وہ چکراتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھے لہرا کر رہ گئی ۔۔۔۔

__________

شہریار کو اپنی امی سے اس بات کی قطعاً توقع نا تھی کہ وہ اسے ایسا سمجھیں گی،وہ ان سے ناراض تھا،مگر سب کے سامنے ان کے لیے ہوئے فیصلے پر اگر انکار کرتا تو خود کی نظروں میں کبھی سرخرو نہیں ہوپاتا،آخر کو والدین کی حکم عدولی کرنے والی اولاد کبھی سُکھی رہی ہے ؟؟؟؟

ان کی سب کے سامنے دی گئی زبان کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی ۔۔۔۔

اور خاموشی سے نکاح کی حامی بھر لی ۔۔۔۔

بس چند لمحوں میں وہ دونوں نکاح کے مضبوط بندھن میں بندھ گئے ۔۔۔

لوگ تو بھونچال مچا کر نکاح کے بعد اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوگئے تھے ،

یمنی ہارے ہوئے جواری کی طرح وہیں اسی صوفے پر بیٹھی تھی ،جہاں اس کا نکاح پڑھایا گیا تھا ۔۔۔

"سدرہ بہن آپکا بہت بہت شکریہ آپ نے اس آزمائش کے وقت ہماری مدد کی ،آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی "بسمہ تشکر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

"میں ایک دو دنوں میں یمنی کے جہیز کے سامان کا بندوست کر کہ یہاں پہنچا دوں گی "

بسمہ نے کہا۔

شہریار جو کب سے بت بنا بیٹھا تھا ،ان کی بات سن کر چونکا ۔۔۔۔

"مجھے کسی کی ایک چیز بھی نہیں چاہیے اس گھر میں ۔۔۔اگر اس گھر میں رہنا ہے تو جو اس گھر میں موجود ہے اسی سے گزارا کرنا ہوگا ،اگر میری یہ شرط قبول نہیں تو ابھی کے ابھی اسے اپنے ساتھ واپس لے جائیں "

"دیکھو شہریار میری بات !!!!

اس سے پہلے کہ زیگن کچھ کہتا ۔۔۔شہریار نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا ۔۔۔۔

"پلیز مجھ سے اور کوئی امید مت رکھیے گا ،پہلے ہی اپنی مرضی کے خلاف بہت کچھ کر چکا ہوں ,اب اور نہیں ۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اٹل لہجے میں بولا 

بسمہ نے یمنی کو اپنے ساتھ واپس لانے کی کوشش بھی نہیں کی ۔کہیں یہ نا ہو وہ ان کے ساتھ جائے اور پھر اپنے سسرال واپس نا آئے تو وہ کیا کر لیتی۔۔۔اب اس کا اس گھر سے رشتہ جڑ چکا تھا،اسے ان لوگوں کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔

"ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی "

"چاہتی تو میں تھی کہ یمنی کی رخصتی اچھے سے اپنے گھر سے کرتی مگر ۔۔۔۔۔

"بیٹا ہم ریسپیشن کی ذمہ داری اپنے سر لینا چاہتے ہیں،تاکہ باقی رشتے داروں کو بھی پتہ چل جائے ،

"اس کی کوئی ضرورت نہیں فی الحال ",

شہریار سپاٹ انداز میں کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

زمارے خاموش تھا ،زرشال بھی گم سم سی کھڑی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی ،ذوناش بھی اس سب پر حیران تھی ۔

   "چلیں مام "زیگن نے بسمہ سے کہا ۔۔۔

وہ خاموشی سے بیٹھی یمنی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دعا دے کر پھر زرشال کے پاس گئیں ،اسے پیار دیا ،پھر سدرہ ،اور گل سے مل کر وہاں سے باہر نکل گئیں۔ذوناش ،زیگن زمارے بھی ان کی تقلید میں میں پیچھے نکلے ۔۔۔۔

"ویسے برو آپ کے راستے کا کانٹا تو اپنے آپ نکل گیا "زمارے نے زیگن کو کہنی مار کر کہا ۔۔۔وہ دونوں گھر سے باہر نکل رہے تھے ،

"جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا ۔۔۔اسطرح سے نہیں ہونا چاہیے تھا ۔مگر تیری بات بھی ٹھیک ہے  "آخر میں وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔۔

پھر سب گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔۔

__________

بسمہ شکستہ وجود لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا تھا آج کے دن ۔۔۔وہ یہی سوچتی ہوئی اپنے بستر پر ڈھ سی گئیں۔۔۔۔

زمارے بھی اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

ذوناش اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو زیگن کو اپنے پیچھے آتے دیکھ اس نے جھٹ سے دروازہ اندر سے بند کیا۔۔۔

وہ اس سے ان دونوں کے رشتے کی بات کرنا چاہتا تھا ۔

جبکہ ذوناش یہ سمجھی کہ وہ فنکشن پہ جانے سے پہلے والی بات کو پورا کرنے کے لیے اس کے پیچھے آیا ہے،اس نے ڈر کے مارے دروازہ لاک کر لیا۔۔۔

"ذوناش دروازہ کھولو"باہر سے زیگن کی بھاری آواز سنائی دی ۔

"م۔۔۔مجھے نیند آرہی ہے "وہ ڈرتے ہوئے بولی ۔۔۔

Zonash !!!open the door...

کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد بھی دروازہ نہیں کھلا ۔۔۔

زیگن نے غصے میں دراوزے کو پاؤں کی زوردار ٹھوکر رسید کی ۔۔۔

اور تن فن کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا 

ذوناش نے اس کے دور جاتے ہوئے قدموں کی چاپ سنی تو دراوزہ کھول کر دیکھا وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔

"کہیں ناراض تو نہیں ہوگئے ؟؟؟اس نے دل میں سوچا۔۔۔

اب اسے یہی خیال ہولائے دے رہا تھا کہ اگر وہ واقعی میں ناراض ہوگیا ہوگا تو کیا ہوگا ؟؟؟

__________

"زرشال تم جاؤ بیٹا یہ لباس تبدیل کر کہ آرام کرو تم بھی تھک گئی ہو گی ،"سدرہ نے اسے کھڑے دیکھ کر کہا،ان کا انداز تھکاوٹ بھرا تھا۔۔۔

"جی امی "وہ مؤدب انداز میں کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔اور جا کر اپنی جیولری اور عروسی ملبوس چینج کرنے لگی ۔۔۔

"آؤ دلہن تمہیں بھی تمہارا کمرہ دکھاؤں "سدرہ نے اسے محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔

"پتہ ہے مجھے آپکے منحوس بیٹے کے منحوس کمرے کا ،اسی کمرے نے ہی تو میری زندگی برباد کر ڈالی اسے کیسے بھول سکتی ہوں "

وہ تنفر زدہ لجہے میں کہتے ہوئے تن فن کرتی شہریار کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

پیچھے کھڑی سدرہ حق دق کھڑی اسے دیکھتے ہی رہ گئیں ۔۔۔وہ اس سے کتنے پیار سے پیش آ رہی تھیں،لگاوٹ کا مظاہرہ کر رہی تھیں ،اور ایک وہ تھی ،بد لحاظ،بد تہذیب،بدزبان ،جو ان کے منہ پر ان کے اکلوتے بیٹے کو منحوس کہہ کر گئی تھی ،،،

کتنی ہی دیر وہ اسی جگہ کھڑی رہیں،اور اکیلے ہی اپنا غم غلط کرنے لگی ۔کچھ دیر بعد باعث تھکان وہ بھی ڈھیلے ڈھالے وجود کو سمیٹتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

"شہریار ابھی تک نہیں آیا ۔۔۔میں نے پرائی بچی کی عزت بچانے کےلیے سب کے سامنے اپنے بیٹے کو موردالزام ٹہرایا ۔

شہریار کو میں منا لوں گی ،وہ دل میں مصمم ارادہ کیے لیٹ گئیں۔۔۔۔اور اسی بارے میں سوچنے لگیں۔سوچتے سوچتے جانے کب ان کی آنکھ لگی انہیں خود بھی خبر نا ہوئی ۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"کیا ہو رہا تھا ؟؟؟زمارے نے بستر پر لیٹتے ہی زرشال کو کال ملائی ۔۔۔

"جو وہاں ہو رہا ہے ،وہی یہاں بھی ہو رہا ہے "وہ جوابا مسکرا کر بولی ۔

"آہ !!!! ہم تو ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں ،آپ کے بنا ،کتنا اچھا ہوتا یہ آج ہی رخصتی ہو ھو جاتی ،یہ ایم ۔بی۔بی۔ایس کے بعد رخصتی والا کھڑاگ پالنا بہت ہی بیکار آئیڈیا تھا۔",

اور تم میرے نزدیک ہوتی ۔۔۔میں تمہیں جی بھر کر دیکھتا ۔۔۔

"ابھی آپ بھی اپنی پڑھائی پر فوکس کریں اور مجھے بھی کرنے دیں ،وہ تکیہ گود میں لیے اب اٹھ بیٹھی ۔

"ارے یار ابھی جس چیز پر فوکس کر رہا ہوں اسی پر کرنے دو نا "صبح سے تو پھر وہی پڑھائی شروع ،

"چلیں جی پھر کر لیں آپ  فوکس"وہ اپنے ہاتھ پر نظریں جمائے ہوئے تھی جس میں زمارے کی دی ہوئی انگوٹھی جھلملا رہی تھی ۔

"میں ویڈیو کال کرتا ہوں ،تمہیں دیکھے بنا نیند نہیں آئے گی "

"نو ۔۔۔نو۔۔۔نو ۔۔۔بالکل بھی نہیں اچھے بچوں کی طرح سو جائیں صبح جلدی اٹھنا ہے،مجھے بھی یونی ورسٹی جانا ہے "

"اچھا سنو !!!

"جی سنائیں....

"تمہیں بچے پسند ہیں ؟؟؟زمارے نے شرارت سے پوچھا 

"جی مجھے بچے بہت پسند ہیں،مگر پڑوسیوں کے ،،،دور دور سے "زرشال نے اس کی بات سمجھتے ہوئے اسے شرارت سے الٹا ہی جواب دیا ۔۔۔

"ہنی مون پر کہاں جائیں گے ؟؟؟

"زمارے جی ابھی ان باتوں کا وقت ب۔۔۔ہ۔۔۔۔ہ  ۔۔بہت دور ہے،

اس نے بہت کو لمبا کھینچا ۔۔۔

لگتا ہے آپ کا سونے کا وقت ہوگیا ہے۔اسی لیے بہکی بہکی باتیں شروع کردیں ہیں ۔اب آپ کو سو جانا چاہیے ،اوکے اللّٰہ حافظ۔۔۔

وہ کہتے ہی فون کٹ کر گئی ۔۔۔

زمارے بند فون کو گھورتا رہ گیا ۔۔۔

پھر اس کی چالاکی سمجھ میں آتے ہی ہنسنے لگا ۔۔۔

اسی کے خوابوں کو آنکھوں میں بسائے نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔۔

__________

رات گئے شہریار گھر واپس آیا ،آہستگی سے دروازہ بند کرتے ہوئے اپنے کمرے میں آیا ۔۔

ہلکے ہاتھ سے دروازہ کھولا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا ۔۔۔

سامنے ہی وہ کمرے میں ٹہل رہی تھی ،،جیسے باغ ِ جناح میں گھومنے آئی ہو ۔۔۔

شہریار نے اندر آکر دروازہ بند کیا تو ۔دروازہ کھل کر بند ہونے کی آواز پر یمنی نے مڑ کر آنے والی شخصیت کو قہربار نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔

شہریار کی نظر جب اس کے چہرے پر پڑی جو اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ،اس کی اپنی آنکھیں اسے اپنے کمرے میں واپس دیکھ کر شعلے اگلنے لگیں ۔۔۔

وہ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔

یمنی اسے اپنی طرف آتا دیکھ اپنی جگہ ساکت ہوئی اور پھٹی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ،جو لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب آ رہا تھا ۔۔۔۔

شہریار اس کے قریب آتا جا رہا تھا ،

۔د۔د۔۔دور ۔۔۔رہو مجھ سے "وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔

"تم اس قابل نہیں کہ تمہارے پاس آیا جائے ،شیشے میں اصلیت نظر آتی ہے،شاید کبھی دھیان سے دیکھا نہیں ہوگا "۔

وہ تھوڑا سا جھک کر بستر سے اپنا واحد تکیہ اٹھاتے ہوئے نیچے فرش پر پھینک چکا تھا ۔۔۔۔بستر سے چادر اٹھاکر فرش پر بچھائی ۔۔۔کیونکہ سنگل بیڈ تو کچھ دیر پہلے والے حادثے میں ٹوٹ چکا تھا ،

شہریار کی بات تو اس کے سر پر لگی تلوں پر بجھی ۔

"دیکھو !!!اس سے پہلے کہ وہ گوہر افشانی کرتی ۔۔۔

"فی الحال تمہیں دیکھنے کا کوئی شوق نہیں مجھے ،.

آگے بڑھ کر اس نے الماری میں سے اپنے لیے ٹراؤزر شرٹ نکالا اور باتھروم میں غائب ہو گیا۔۔ چینج کر کے وہ واپس آیا تو بھی اس کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔۔وہ وہیں کھڑی تھی ۔۔۔۔

"لائٹ آف کرو مجھے سونا ہے "وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے فرش پر بچھائے گئے بستر پر لیٹا ۔

" میں کونسا مری جا رہی ہو تم جیسے مڈل سٹینڈرڈ سے بات کرنے کے لیے "

" بس اتنا بتاؤ کہاں سوؤں میں "؟

وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی ۔

"اوہ ۔۔۔تو میڈم عرش سے اتر کر آئیں ہیں ان کے لیے ابھی مخملیں بستر لگواتا ہوں "وہ طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔

"میرا دماغ مت خراب کرو ،جہاں جگہ ملتی ہے ،سو جاو ورنہ شوق سے کھڑی رہو ساری رات ۔۔۔۔"شہریار نے لیٹ کر آنکھوں پر بازو رکھا ۔۔۔

وہ کچھ دیر خاموش کھڑی رہی ۔۔۔پھر کوئی بھی چیز نا پاکر ۔

"تکیہ دو مجھے "

یمنی نے اس کے سر کے نیچے سے تکیہ کھینچا ۔۔۔

"ادھر دو میرا تکیہ اس کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی "شہریار نے اس کے ہاتھ سے تکیہ کھینچا۔۔۔۔

"تکیہ تو ایسا کھینچا جیسے تکیہ نہیں چھینا ،تمہاری کسی محبوبہ کو چھین لیا تھا ۔۔۔۔وہ تلخ لہجے میں بولی ۔

"بکواس بند رکھو ،میرے سامنے زبان چلائی نا تو کاٹ کر گلی کے کتوں کو کھلا دوں گا "اس نے تیوری چڑھائی۔۔۔

"تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو ،تم سے نکاح کے دو بول کیا بول لیے تم تو میرے سر پر ہی چڑھے آرہے ہو ۔۔۔۔وہ اس کی شرٹ کو جھنجھوڑ کر بولی ۔۔۔

شہریار نے اس کے دونوں ہاتھ جو اپنی شرٹ پر جمے تھے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے پیچھے جھٹک دئیے ۔۔۔

"اپنی حد میں رہو ،اپنی زبان اور ہاتھ دونوں کنٹرول میں رکھو گی تو بہتر رہے گا تمہارے حق میں ،ورنہ ہاتھ اور زبان میرے بھی سلامت ہے،وہ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔

"دو ٹکے کے گھٹیا انسان سونے کے لیے بستر تو دے نہیں سکے ،اور باتیں سنو جیسے کہیں کے ۔۔۔۔""

"تمیز سے پیش آ رہا ہوں تو بدلے میں تمیز ہی کی امید رکھتا ہوں ،آخری وارننگ ہے یہ میری ،اپنے بھوسے بھرے دماغ میں بٹھا لو ،ورنہ پچھتاؤ گی ۔۔۔۔

وہ واپس لیٹتے ہوئے کروٹ بدل گیا ،انداز ایسا تھا کہ مزید بات نا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔

وہ وہیں فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔۔۔اپنی اکڑ میں کتنی دیر وہیں بیٹھی رہی ،ٹھنڈے فرش پر سردی لگ رہی تھی ،اور بیٹھ بیٹھ کر کمر تختہ ہو گئی تھی ،وہ جو نرم بستر پر سونے کی عادی تھی ،فرش پر سونا اسے کسی عذاب سے کم نہیں لگ رہا تھا،

"کتنے آرام سے سویا ہے فرش پر جیسے ہمیشہ اسی پر سوتا آیا ہے ،دو ٹکے کا انسان "وہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئے اسے کوسنے لگی ۔۔۔۔

پھر نیند سے بوجھل آنکھوں سے اسے سوئے دیکھا تو خود بھی وہیں دیوار کے ساتھ لگ گئی۔۔۔ نیند جانے کب اس پر حملہ آور ہوئی اسے خود بھی پتہ نہیں چلا ۔۔۔نیند کا کیا ہے وہ تو کانٹوں پر بھی آجاتی ہے،

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کمرے کی کھڑکی سے سورج کی چھن چھن کر آتی چمکتی ہوئیں کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں ۔۔۔

اور خود کو بستر کی بجائے فرش پر پایا ۔۔۔۔

پاس ہی وہ بھی بے سدھ سا پڑا تھا،پھٹی ہوئی شرٹ میں سے جھانکتے زخم جو اس کی رات والی حالت کے غماز تھے ،زخموں سے رسنے والا خون اب جم چکا تھا ،

"زر۔۔۔۔زر ۔۔زریار ۔۔۔۔وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولی ۔۔۔

"اٹھو !!!!

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔

تھوڑی دیر بعد زریار نے اسکے ہلانے پر اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔

زریار نے بریرہ کی مضطرب  آنکھوں میں بے چینی سے دیکھی ۔۔۔ 

بریرہ  کی پانی سے بھری بھوری آنکھوں میں اس وقت اسے خوف دکھائی دیا ۔۔۔ وہ کانپتی ہوئی اس کے شانے سے ہلا کر اسے جگا رہی تھی ۔۔۔ اور وسوسوں کا شکار ہوئے ساتھ ساتھ  لب کاٹ رہی تھی۔

زریار پھر سے آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔

اسے اسقدر زخمی حالت میں دیکھ کر ناجانے ایک ساتھ کتنے موتی اس کے گالوں پر ٹوٹ کر پھسل رہے تھے ۔۔۔

 "زریار اٹھو بستر پر چلو ",وہ ایک بار پھر بولی ۔۔۔۔

اس کے جسم زخم دیکھتے ہوئے وہ روانی سے روتی اسے سہارا دینے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔

زریار نے جب اس کی غیر ہوتی حالت دیکھی تو کرب میں ہونے کے بعد بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی جسے تکلیف کی شدت نے بہت جلد مانند کر دیا تھا۔۔۔

زریار ہمت کیے اٹھا ،مگر جسم میں سے اٹھتا ہوا درد نا قابل برداشت لگا ۔۔۔وہ اٹھنے کی صورت میں لڑکھڑایا ۔۔۔۔بریرہ  نے ناچاہتے ہوۓ بھی اس کے لرزتے جسم کو سہارا دے چکی تھی ۔۔۔۔پھر اسے بستر پر لیٹنے میں مدد دی ۔۔۔۔

 جب پیچھے ہٹی تو نیچے جھک کر اس کے شوز پاؤں سے الگ کر کہ ایک طرف رکھے اور سوکس بھی اتار دیں۔۔۔۔

برداشت کی حد ختم ہوتے ہوتے اس کی آنکھوں میں سرخی مائل دکھائی دے رہی تھیں ۔۔۔

بریرہ جب اسے سہارا دئیے اٹھا رہی تھی ،تب ہی اس کے جسم سے نکلتی حدت اسے یہ باور کروا گئی تھی کہ وہ اس کا بدن بخار کی شدت سے پھنک رہا ہے،زریار بستر پر اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھا ،کیونکہ پشت بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔۔۔۔

بریرہ باہر نکلی ،صبح کا وقت تھا ،بسمہ نماز فجر اپنے کمرے میں ہی ادا کرتی تھیں۔کوئی بھی باہر دکھائی نہیں دیا ۔۔وہ کچن میں آئی ملازمین بھی ابھی تک نہیں آئے تھے ،اس نے دودھ گرم کیا ،اس میں ہلدی ڈال  ،دو انڈے بوائل کیے ،پھر ٹرے میں رکھ کر واپس کمرے میں آنے سے پہلے باہر میڈیسن باکس میں سے دو پین کلر لیتی ہوئی اندر آئی ،

"یہ میڈیسن لے لیں "

اس نے زریار کے قریب آکر کہا ۔۔۔

اس نے اپنی بوجھل آنکھیں کھولیں اور تھوڑا سا سیدھا ہوا ۔۔۔

"تم نے معاف کردیا !!!وہ اس کی میں دیکھے سوال کر گیا ۔۔۔

"دوائی لیں ،ابھی آپ کو اس کی ضرورت ہے "وہ بے لچک انداز میں بولی ،اور دودھ کا گلاس اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔

زریار نے خاموشی سے اس کے ہاتھ سے ٹیبلیٹس لے کر منہ میں رکھی اور ایک گھونٹ دودھ کا بھر کر انہیں حلق سے نیچے اتارا ۔۔۔۔

"اب بتاؤ ؟؟؟

"اپنے آپ کو میری جگہ رکھ کر دیکھو ،کوئی بھی لڑکی اپنی عزت لوٹنے والے کو کبھی دل سے معاف کر سکتی ہے،؟؟؟

"میرا دل شاید اتنا بڑا نہیں ،۔۔۔۔

"میں بیتی ہوئی باتیں بھلانے کی بہت کوشش کرتی ہوں ۔۔۔مگرجب جب میں تمہیں سامنے دیکھتی ہوں ،میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں،میری روح پر لگے گھاؤ ناسور بن کر مجھے جھنجھنوڑتے ہیں۔"

"یا تو تم کہیں چلے جاؤ میری نظروں کے سامنے سے یا پھر مجھے جانے دو """

"میں انسان تھی تم نے مجھے پتھر بنا دیا ،میں بہت کم ظرف اور ظالم عورت ہوں ،مجھ سے معافی کی توقع مت رکھنا ۔۔۔

"اب مزید مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا "۔وہ ٹرے وہیں رکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

زریار اس کے منہ سے نکلنے والا زہر خند الفاظ سن اوندھے منہ وہیں شکستہ سا ڈھ گیا ۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح الارم کے مسلسل بجنے سے  اس کی انکھ کھلی تھی۔۔ وہ اسے نظر انداز کیے وہیں دیوار کے ساتھ لگے ابھی مزید سونے کا ارادہ رکھتی تھی ،کیونکہ کچھ دیر پہلے ہی تو آنکھ لگی تھی ۔پر الارم لگتا تھا کہ آج اسے اٹھا کر ہی دم لینے والا تھا ۔ 

شیشے کے سامنے کھڑا شہریار  بال بناتا ہوا اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا۔۔ ۔

یمنی نے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر موجود الارم کلاک زور سے ہاتھ مار کر نیچے پھینکا ۔۔۔مگر اس کا باجا پھر بھی بند نہیں ہوا تھا ،،، 

شہریار نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی جس پہ ابھی سات بجکر پانچ منٹ ہوئے تھے ۔

"جب سے اس گھر میں قدم رکھا ہے،زندگی حرام ہوگئی ہے میری ،مجال ہے جو دو گھڑی سکون ملے "وہ تیز آواز میں چیخی۔۔۔

" تم اسے خود بھی بند کر سکتےتھے نا ؟؟۔۔ اپنی نیند خراب ہونے پہ یمنی کو تپ ہی تو چڑھ گئی تھی۔۔

"میں کیوں بند کرتا جب میں نے ہی اسے تمہیں اٹھانے کے لیے لگایا تھا۔۔۔اور زرا اپنی لینگویج درست کرو ،"یہ تم کسے کہا ؟؟؟؟

 بات کہتے وہ سیدھا ہو گیا اب وہ شیشے کی بجائے اسے سامنے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔۔

"زندگی تو میری حرام ہوئی ہےتم جیسی بدزبان لڑکی عذاب بن کر میرے سر پہ مسلط ہونے کی وجہ سے "

 "ہنہہ۔۔۔یمنی نے اسکی بات پر تنفر سے ہنکارا بھرا 

"کیوں کیا تم شہزادہ چارلس ہو جو تمہیں آپ کہہ کر بلاؤں اور وجہ پوچھ سکتی ہوں کس خوشی میں یہ الارم میرے سر پر بجایا ؟؟؟۔۔یمنی نے بھی اسی کے انداز میں پوچھا۔۔

"ناشتہ کرنے کی خوشی میں اور کس خوشی میں؟۔۔ شہریار نے ابرو اچکائی۔۔ 

"ناشتہ ؟؟ اس وقت؟؟ ابھی تو 7 بجے ہیں۔۔میں اتنی جلدی ناشتہ نہیں کرتی ۔۔۔۔وہ بیزاری سے جمائی روکتی ہوئی بولی ۔۔۔

"او میڈم !! نیند سے باہر آؤ ۔۔۔میں تمہیں ناشتہ کروانے کی آفر نہیں دے رہا ۔۔۔بلکہ یہ کہہ رہا ہوں ،جا کر میرے لیے ناشتہ بناؤ "

"کیوں میرے آنے سے پہلے تمہیں اس گھر میں ناشتہ نہیں ملتا تھا "وہ تڑخ کر بولی۔

"زرشال یونیورسٹی کے لیے تیار ہورہی ہوگی ،اور امی نے بہت کر لیں ،ہماری خدمتیں جب بہو گھر میں آئے تو اسی کا کام ہے۔اپنے شوہر کو کھانا دینا ،اور کسی کا کوئی کام کرو نا کرو میرے سارے کام آج سے تم کرو گی ۔۔۔"

"مجھ پر شوہر ہونے کا فضول قسم کا رعب جمانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ۔"

"میں اپنے وقت سوؤں گی اور اپنے وقت پہ ہی اٹھوں گی اور رہی بات میرے ناشتہ بنانے والی وہ خوابوں میں سوچنا ۔تم جیسے فضول انسان کے لیے میں ۔۔۔

"میں اپنے ان نازک ہاتھوں سے ناشتہ بناؤں ۔۔۔۔بہت بڑی بھول ہو گی تمہاری ۔۔۔

"اچھا واقعی ؟؟۔۔ 

شہریار نے اس کی طرف ابرو اچکا کر دیکھا اور پھر ایک اپنے قدم اس کی طرف بڑھاتا چلا گیا۔۔ جبکہ یمنی ٹس سے مس ہوئے بغیر وہیں ڈٹی کھڑی رہی۔۔ بلکہ اعتماد سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔۔

شہریار کے بے حد نزدیک آنے پہ بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔۔۔ 

"چلو اچھا ہے یہ تو مانتی ہو نا کہ میں تمہارا شوہر ہوں ،وہ بھی فضول قسم کا ،فضول شوہروں کی حرکتیں ابھی تم نے دیکھیں ہی کہاں ہیں،چلو پھر پہلی صبح تھوڑا سا ڈیمو دے دیا جائے ۔۔۔۔اس کی کاٹ دار نظریں یمنی کے چہرے پر جمی تھیں ۔۔۔۔

وہ ابھی بھی رات والے ریڈ فراک میں ملبوس تھی،دائیں شانے پر دوپٹہ بےنیازی سے جھول رہا تھا،

وہ دونوں ہاتھوں سے اس کے دونوں شانے جکڑتا ہوا پھنکارا ۔۔۔

وہ اس کہ یکدم بدلتے تیور دیکھ کر ٹھٹھکی ۔۔۔۔

"دیکھو اگر تم نے مجھے ہاتھ بھی لگایا "وہ اسے انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دینے لگی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ۔۔۔

شہریار نے اس کے بائیں شانے سے فراک کھسکاتے ہوئے اس پر اپنے دانت گاڑے ۔۔۔۔

"آہ ۔۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔۔۔اس کہ منہ سے درد بھری چیخ نکلی ۔۔۔۔

"چھوڑو مجھے جنگلی وحشی انسان ،وہ اپنا آپ چھڑوا کر دو قدم پیچھے ہٹی ۔۔۔

اپنے برہنہ شانے پر فراک دوبارہ برابر کیا ۔۔۔۔

"تم ایک نہایت ہی گھٹیا ۔۔۔

شہریار نے اسے پھر سے "تم" کی گردان کرتے ہوئے دیکھا تو جارہانہ تیوروں سے اس کی کلائی کھینچ کر دوبارہ قریب کیا ۔۔۔اور گردن پر دانت گاڑے ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھوں کے ناخنوں سے اس پر حملہ آور ہونے لگی تھی کہ ،شہریار نے باکمال مہارت سے اسے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ قابو کیے ،،،

"شیر کے آگے جنگلی بلی کی نہیں چلتی "وہ کڑک آواز میں بولا۔

ابھی شانے کی جلن ہی کم نہیں ہوئی کہ گردن بھی دُکھنے لگی ۔۔۔۔

"ہاں اب بولو "تم "

وہ گھمبیر آواز میں بولا

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔مگر اس بار زبان چلانے کی کوشش نہیں کی ۔  

"دس منٹ میں ٹیبل پر میرا ناشتہ موجود ہو "ورنہ ۔۔۔۔

"ورنہ کیا ہاں ؟؟؟ اگر میں نا جاؤں تو؟؟۔۔ 

"رسی جل گئی مگر بل نا گیا "

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا ۔۔۔

"واقعی کچھ لوگ بالکل ڈھیٹ ہوتے ہیں۔اور تم اس مثال پر پوری اترتی ہو "

"اگر مزید اپنے نئے نویلے شوہر کی فضول حرکتیں نہیں دیکھنا چاہتی تو جو کہا ہے فورا کرو ،

"پھوٹو منہ سے کیا کھانا ہے ؟؟؟وہ پھر بدتمیزی سے باز نہ آئی۔

وہ اسے دیکھ تاسف سے سر ہلانے لگا۔۔۔

"جاؤ آج تمہارا پہلا دن ہے اس گھر میں اسی لیے اتنی چھوٹ دے رہا ہوں ،جو مرضی بنا لو ناشتے میں۔کل سے یہ رعایت بھی نہیں ملے گی ۔وہ کہتے ہوئے اپنے شوز پہننے لگا ۔۔۔

""مجھے کچھ بھی بنانا نہیں آتا ۔۔۔گھر میں تو میں خود اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتی تھی"

"واہ بہت اچھی خوبیاں ہیں "!!وہ تاسف زدہ آواز میں بولا۔

"جلدی جاؤ مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے "

تمہارے گھر والوں کی طرح مِلز نہیں چل رہی جو دو دن نا جاؤں تو سب میسر ہو جائے ،غریب سا بندہ ہوں محنت  کروں گا تو پیسے کماؤں گا "

وہ اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی ۔۔۔

"روٹی کھانی ہے نا، تو کمانا بھی پڑتا ہے ،پھر ہی ملے گی "

"یہ شخص تو میری جان کا عذاب بن گیا ہے"۔۔ وہ غصے میں بڑبڑاتی ہوئی پیر پٹختی ہوئی باہر نکل گئی ۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ناشتے کی میز پر سب اکٹھا تھے ،زیگن بھائی زرا وہ جوس تو پاس کریں ،زمارے نے اس سے جوس والا جگ مانگا ۔

اس سے پہلے کہ زیگن اسے پکڑتا ،ذوناش نے آگے بڑھ کر اس کے گلاس میں جوس انڈیل دیا ۔

"آپ یہ آلو کو پراٹھا لیں ،اس نے زیگن کی پلیٹ میں پراٹھا رکھنا چاہا ۔

اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔

اور اپنی پلیٹ میں ٹوسٹ نکال کر رکھا ۔

ذوناش اس کی خفگی محسوس کر چکی تھی،کیونکہ آج ایک بار بھی زیگن نے اسے نظر بھر نہیں دیکھا تھا۔

"بیٹا زریار نہیں آیا ابھی تک ناشتے پر اسے آفس نہیں جانا "؟

انہوں نے سامنے بیٹھی ہوئی بریرہ سے استفسار کیا ۔

وہ جو کب سے سیب کی دو قاشیں پلیٹ میں رکھے کب سے ویسے ہی بیٹھی تھی ،ان کے سوال پر چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔

"وہ ان کی طبیت ٹھیک نہیں"وہ جھجھکتے ہوئے بولی ۔

"کیوں کیاہوا اسے ؟؟رات تک تو ٹھیک تھا ؟؟؟

"جی مام ۔۔وہ۔۔۔وہ انہیں بخار ہو گیا ہے "

اچھا میں دیکھتی ہوں اسے ،وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

"نن۔۔نہیں مام ۔۔۔میں نے انہیں میڈیسن دیں تھیں ،وہ سو رہے ہیں",سچ میں کچھ جھوٹ کی ملاوٹ کر بولتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑائی۔۔۔

"جانے وہ کیسے لیٹا ہوگا ،اگر مام نے اسے دیکھ لیا تو پریشان ہو جائیں گی "اس کے چہرے پر سوچ کی پرچھائی واضح دکھائی دے رہی تھی۔

"مام یمنی دکھائی نہیں دے رہی "بریرہ نے بات بدل کر ان کا دھیان بھٹکانے کے لیے پوچھا ۔کیونکہ اسے صبح سے یمنی گھر میں دکھائی نہیں دی تھی ۔

"ارے کیا بتاؤں میں تمہیں کل تم لوگوں کے گھر جانے کے بعد وہاں کیا ہوا ۔۔۔۔وہ بریرہ کو کل کے واقعے کے بارے میں بتانے لگیں۔

 زیگن آفس کے لیے نکل گیا۔اور زمارے بھی ،ذوناش ڈوبے ہوئے دل سے ناشتے کے برتن سمیٹ رہی تھی ،ملازمین انہیں اٹھا کر کچن میں لے گئے ۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ نماز ظہر ادا کر کہ کمرے میں آئی تو زریار کپڑے تبدیل کیے نماز ادا کر رہا تھا ،وہ اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوئی۔۔۔۔اتنی بیماری کی حالت میں بھی وہ کیسے نماز ادا کرر رہا تھا ۔۔۔۔وہ کچھ کہے بنا خاموشی سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔

"یا اللّٰہ ! "میں جانتا ہوں میرے جسم کا گناہ بہت بڑا ہے۔۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے جسم کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالوں ۔۔۔شاید اس طرح میرا درد کچھ کم ہوجائے ،مجھے خود سے گھن آتی ہے۔۔ میرے وجود سے غلاظت لپٹی ہے ،میں کیسے اسے خود سے ہٹاوں ۔مجھے کوئی راہ دکھا ،اے میرے مولا۔ !!! جذب سے دعا مانگتے ہوئے اس کا گلا رندھ گیا تھا

تو ُتو خالق کائنات ہے، اپنے بندوں کو توبہ کرنے پر معاف فرما دیتا ہے،میں بھی تیری معافی کا طلبگار ہوں۔مجھے بھی اپنے اعمال کے لیے معاف فرمادے،۔۔۔

اس کے توبہ کے آنسو لڑیوں کی مانند ٹوٹ ٹوٹ کر اسکی دعا کے لیے پھیلی ہوئی ہتھیلیوں کو بھگو رہے تھے۔

 یا رب العالمین ! آپ نے اسے واپس میری زندگی میں بھیج کر مجھے میرے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا موقع دیا ہے ،اس کے لیے میں آپ کا کروڑوں بار شکر گزار ہوں ،بس ایک خواہش اگر آپ نے ایک پاکدامن لڑکی کو میرے مقدر میں لکھ ہی دیا ہے تو اس کے دل میں میرے لیے نرمی بھی پیدا فرما دے ،۔۔۔جس نے آسمان کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا اس کے لیے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں،بس آپ کے ایک کُن کی دیر ہے ،یااللہ آپ تو غفور الرحیم ہیں۔مجھے بھی بخشش عطا فرمائے۔۔۔

اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔۔

عصر اور مغرب کی نماز بھی اس نے کمرے میں ادا کی پھر دوبارہ سے بستر میں لیٹ گیا۔

دل فی الحال ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ 

بریرہ نے اسے ساری نمازیں ادا کرتے ہوئے دیکھا ۔طویل دعائیں مانگتے اور طویل سجدوں میں گرے دیکھا ۔۔۔۔

بریرہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ،وہ اس کے طویل سجدوں سے متوحش ہوکر رہ گئی تھی ،کہ اس جیسا ہوس پرست انسان کیسے اتنا بدل سکتا ہے ؟وہ کیسے اپنی سزا بخوشی جھیل گیا تھا ،اگر اس کے سجدوں اور دعاؤں کو قبولیت کی سند حاصل ہو گئی تو اس کا کیا ؟؟؟؟

اس وقت اس کا وجود انجانے خدشوں میں گھرا تھا۔۔

"کیسے ہو زریار ؟؟

بسمہ سے مزید رہا نہ گیا تو وہ شام ڈھلے اس کے کمرے میں آئیں ۔وہ کمفرٹر لیے چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا ۔۔۔

"جی ٹھیک ہوں "

"سارا دن ہوگیا کمرے سے باہر بھی نہیں آئے مجھے پریشانی ہو رہی تھی ،وہ تشویش بھرے انداز میں بولی۔

"بس مام آج آرام کرنے کو دل کر رہا تھا ۔۔۔

"چلو کوئی بات نہیں ایک دن آرام بھی کرلیا تو ،

"میرے بیٹے کا کیا کھانے کا دل ہے ،ابھی بنواتی ہوں "وہ پیار بھرے انداز میں بولی۔

"مام کچھ بھی نہیں بس ایک مگ کافی کا بھجوا دیں۔

"یہ بار بار خون جلانے والی کافی مت پیا کرو "انہوں نے اسے پیار بھری ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ۔۔

 "اچھا چلو تم آرام کرو میں تمہارے لیے بھجواتی ہوں کافی ہی "کہتے ہوئے وہ مطمئن ہو کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اسلام وعلیکم مام  !

"وعلیکم اسلام !

"زیگن تم منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا لگواتی ہوں "

"نہیں مام ابھی نہیں ،سر میں بہت شدید درد ہے "وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے بولا ۔۔

اور شرٹ کے دو اوپری بٹن کھولے ۔۔۔گھبراہٹ کی وجہ سے ۔۔۔ٹھنڈ کے موسم میں بھی اسے ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے ۔

ذوناش جو اس کی آواز سن کر اسکے لیے پانی کا گلاس لے کر آ رہی تھی ۔اس کی آخری بات سن گئی تھی ۔۔۔

"بیٹا کچھ کھا کر میڈیسن لے لو "

"جی مام ۔۔۔

"کوئی پریشانی تو نہیں "انہوں نے زیگن سے پوچھا ۔

"کچھ خاص نہیں مام بس آفس کی ہی ٹینشن تھی ،آج زریار بھائی جو نہیں گئے سارا کام مجھے اکیلے کو دیکھنا پڑا ،سب ورکرز کو انہوں نے اتنی چھوٹ دے رکھی ہے ،مجال کوئی کام ڈھنگ سے کرتے ہوں ،ایسے لگتا ہے ،وہ مالک ہیں اور میں ان کے انڈر کام کرتا ہوں ،وہ بیزاری سے بولا ۔

",زیگن زیادہ غصہ کرنا صحت کے لیے اچھا نہیں "

"زریار نرم دل ہے،سب کا خیال رکھتا ہے ،تم بھی زرا پیار سے کام لیا کرو ورکرز سے تمہاری بات بھی سنیں گے "انہوں نے مشورہ دیا ۔۔۔

"جی مام 'اس نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"اچھا میں زرا خان صاحب کو دیکھوں کب سے یہیں بیٹھی تھی ،وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔

وہ سکون کے لیے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی آنکھیں موند گیا۔۔۔

پیشانی پر نرم گرم سا لمس محسوس ہوا ،اسے ان پر حدت ہاتھوں سے سکون ملنے لگا۔۔

ذوناش اس کے وجیہہ و دلکش چہرے کو نہار رہی تھی ،سرخ و سفید رنگت ،ہلکی سی بئیرڈ ،عنابی لب باہم پیوست ،چہرے پر چھائی ہوئی سنجیدگی ۔اس کی وجاہت کو مزید سحر انگیز بنا رہی تھی ،وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔۔۔

زیگن نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔

وہ سنجیدہ چہرہ لیے کھوئی ہوئی سی اُسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

اس نے زیگن کی آنکھوں میں دیکھا جو سرخی مائل دکھائی دے رہی تھیں ۔

Don't touch me.

Just go away from here.....

وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔

ذوناش کی آنکھیں پل بھر میں پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔اس کے روکھے انداز پر ۔۔۔

مگر ہاتھ ابھی بھی پیشانی سے  نہیں ہٹایا ۔۔۔

دروازے سے اندر آتے ہوئے شہریار اور یمنی نے یہ منظر بخوبی دیکھا۔۔۔

شہریار کی آنکھوں میں انہیں ایسے دیکھ حیرت تھی ،اور یمنی کی آنکھوں میں جلن اور حسد ،۔۔۔۔۔

ذوناش ان دونوں کو سامنے دیکھ کر فورا اپنا ہاتھ کھینچ چکی تھی ،

پھر تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوئی ،ایک دم وہاں سے بھاگ جانا بھی مناسب نہیں لگا ،آخر شہریار پہلی بار ان کے گھر آیا تھا ۔

"اسلام وعلیکم !شہریار نے آگے بڑھ کر زیگن سے ہاتھ ملایا ۔

"وعلیکم اسلام !

کیسے ہو "

"شکر الحمد للّٰہ بالکل ٹھیک "

"بہت اچھا لگا تم دونوں آئے "زیگن خوش اخلاقی سے پیش آیا ۔۔۔

"جی دراصل میں آفس سے واپس آیا تو امی بتا رہی تھیں،کہ یمنی صبح سے ضد لگا کر بیٹھی ہے،ایک بار گھر جانے کی بس اسی لیے لے آیا۔

اس نے اپنی آمد کی وضاحت کی۔

ذوناش نے ان دونوں کو مشترکہ طور پر سلام کیا۔۔۔تو جوابا شہریار نے سلجھے ہوئے انداز میں جواب دیا ۔مگر یمنی نخوت سے سر جھٹک کر اوپر بسمہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"بہت اچھا کیا ،

جاؤ ذوناش چائے کا انتظام کرواؤ "زیگن نے اسے کہا تو وہ تیز قدموں سے کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔

دونوں آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے ۔۔۔

باتوں ہی باتوں میں شہریار اپنے دماغ میں ابھرتا ہوا سوال آخر کار زبان پر لایا ۔۔۔

"If you don't mind....

ایک بات پوچھوں ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ شہریار اس سے مزید کچھ کہتا ۔

زیگن پہلے ہی اس کا مطلب اخذ کر چکا تھا ۔

"وہ میری منکوحہ ہے،"ہمارا نکاح میرے ڈیڈ نے کروایا تھا میری والدہ ابھی اس سے لاعلم ہیں "

اس نے گویا تمام سچائی اسے گوش گزار کی۔

وہ پہلے ٹھٹھکا پھر مسکرا کر بولا ۔

"Congratulations "

جواباً زیگن نے کہا۔

"Thanks"

"مجھے مارکیٹ سے کچھ خریدنا ہے میں واپسی پر یمنی کو لیتا جاؤں گا ،

"اتنی جلدی ۔۔پہلی بار آئے تو مام آتی ہی ہوں گی مل کر جانا ۔اور ابھی تو چائے بھی نہیں پی "

"پھر کبھی سہی ۔دراصل مجھے امی کی میڈیسن لینی تھیں "

کہتے ہوئے شہریار وہاں سے اٹھا اور اس سے ملتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔

"کیسی ہو ؟

"میں آپ سے ناراض ہوں خالہ... آپ نے یہ میرے ساتھ کیا کردیا "

وہ جنگلی وحشی انسان کے ساتھ مجھے چھوڑ آئیں ۔۔۔

"یہ دیکھیں کیا کِیا ہے اس نے میرے ساتھ "وہ اپنی گردن سے دوپٹہ ہٹا کر انہیں دکھانے لگی ۔۔۔

اسکی گردن پر دانتوں کے نشان دیکھ کر وہ خود ہی شرمندہ ہوئیں ۔۔۔۔

"بیٹا یہ سب باتیں میاں بیوی کے بیچ کی باتیں ہوتی ہیں،کسی دوسرے کو بتانے سے گناہ ملتا ہے "انہوں نے بردباری سے اس سمجھانا چاہا ۔۔۔

"جو بھی ہوا مجھے تو خود ابھی تک یقین نہیں آ رہا ۔مگر میں مجبور تھی بیٹا وقت کی نزاکت یہی تھی کہ سب کے سامنے ہی تم دونوں کو ایک بندھن میں باندھ دیا جائے اگر میں ایسا نہیں کرتی تو تمہارے کردار پر ہمیشہ کے لیے ایک بد نما داغ لگ جاتا،جسے میں چاہ کر بھی کبھی مٹا نہیں پاتی ۔

"میری باتوں کی آج گانٹھ باندھ لو ۔۔۔اب سے وہی تمہارا گھر ہے،جیسا بھی ہے ،تمہارا شوہر ہے،اس سے پیار سے پیش آؤ گی تو وہ کبھی بھی تم سے ایسا رویہ اختیار نہیں کرے گا،اسے تھوڑا وقت دو ،اور خود کو بھی ۔۔آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ جاؤ گے ،بیٹا دل بڑا کرو ،اور اپنے دونوں کے درمیان موجود رشتے کو پہچانو ۔۔۔اس کی عزت کرو۔۔۔مجھے تو وہ بچہ شروع دن سے ہی بہت پسند ہے سادہ سا سلجھا ہوا "

وہ جو ان سے اپنے حق میں ہمدردی کی توقع کر رہی تھی ،اور سوچ رہی تھی کہ شہریار کی حرکتیں بتا کر بسمہ کا سہارا لیے وہ اس سے پیچھا چھڑوا لے گی ۔۔۔

مگر وہ تو شہریار کا ساتھ دئیے الٹا اسے ہی سمجھانے لگیں۔اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔۔۔

"آپ کو پتہ بھی ہے ،گھر میں چوری چھپے کیا گل کھلائے جارہے ہیں ؟؟

"کیا بات کر رہی ہو ؟

"خالہ پھر نا کہنا میں نے وقت رہتے بتایا نہیں تھا  وہ حسین ڈائن ذوناش زیگن ہر ڈورے ڈال رہی ہے "

وہ تنفر زدہ آواز میں بولی۔

"یمنی بس چپ کر جاؤ کیوں اس معصوم کے پیچھے پڑ گئی ہو "؟

"خالہ میری باتوں پر آپ کو یقین نہیں آئے گا ۔۔جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی تب ہی پتہ چلے گا آپ کو بقول آپکے اس معصوم کی کرتوتوں کا "

اس نے انہیں ذوناش کے خلاف بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔۔

"یمنی تم ادھر کی فکر چھوڑ دو میں دیکھ لوں گی سب ،تم اپنے گھر پر توجہ دو ،ابھی سب نیا ہے،تمہیں سب کو سمجھنے میں وقت لگے گا،بیٹا اپنی ساس کے ساتھ اچھا برتاو کرنا بہت ہی نیک دل خاتون ہیں ۔جس طرح انہوں نے ہمارے برے وقت میں ہمارا ساتھ دیا میں تو دل سے ان کی شکر گزار ہوں ۔

"خالہ میں کل سے اسی جوڑے میں ہوں ،اپنے روم سے اپنے کپڑے لے لوں ؟"وہ ان کی باتوں کو نظر انداز کیے اپنی ہی بولی 

"ہاں بیٹا جاؤ بیگ میں ڈال کپڑے ۔اس کے علاؤہ بھی کچھ چاہیے ہو تو مجھے بتانا میں بھیج دوں گی ۔

"جی خالہ"کہتے ہوئے وہ ان کے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

رات ہوچکی تھی ،اور اچانک ہی موسم تبدیل ہوا،آسمان پر سیاہ بادلوں کی جگہ اب سرخی چھانے لگی ،بارش نے تیز ہواؤں کے زریعے اپنی آمد کا عندیہ دیا۔۔۔۔

"ذوناش !!!

بسمہ نے اسے آواز دی ۔۔۔

"جی آنٹی !!!وہ بوتل کے جن کی طرح ان کی پہلی آواز پر ان کے سامنے حاضر ہوئی ۔

"بچے اوپر چھت پر آج ہی سارے کپڑے دھو کر پھیلائے تھے ملازمہ نے ،وہ سب تو کواٹر میں چلے گئے ۔ایسا کرو چھت سے جلدی سے کپڑے اتار لو ۔یہ نا ہو تیز ہوا سے اڑ کر باہر گر جائیں ۔۔۔

اور بارش کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کس وقت برس جائے ۔۔۔۔

"جی میں ابھی اتارتی ہوں جا کر "کہتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر چھت پر چلی گئی ۔۔۔اور الگنی سے کپڑے اتارنے لگی ۔۔۔۔

تیز ہوا کے باعث سارے کپڑے زوروں سے اڑ رہے تھے ،وہ جلدی جلدی ایک ایک کپڑے کو اتار کر اپنے بازو پر رکھنے لگی ۔۔۔

تیزی میں ایک چادر ہٹائی تو اس کے پیچھے زیگن کو کھڑا پایا ۔۔۔

وہ اس کی یہاں موجودگی دیکھ حیران رہ گئی۔۔۔

زیگن نے اس کے ہاتھ سے کپڑے لیے اور چھت پر بنے سٹور روم میں رکھ دئیے ۔۔۔

وہ اسی جگہ سر جھکائے ہوئے کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی ۔۔۔

"خالہ ذوناش کہاں ہے ؟؟؟

یمنی نے اپنی شاکی طبیعت کے زیر اثر ان سے پوچھا ۔۔۔

"میں نے اسے چھت پر بھیجا ہے کپڑے اتارنے "

"تم آج رات یہاں ہی رک جاؤ موسم ٹھیک نہیں ،کال کر کہ بتا دینا یاد سے شہریار کو تاکہ وہ بھی خراب موسم میں باہر نا نکلے ۔۔ویسے بھی رات کافی ہوگئی ہے،میری طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی میں اب اپنے کمرے میں آرام کروں گی ۔تم بھی جاو اپنے روم میں آرام کر لو۔ اب صبح ملاقات ہوگی ۔"بسمہ اسے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں۔

"خالہ میں بھی زرا چھت پر ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے لوں پھر آتی ہوں "

 وہ کہتے ہی اوپر چھت کی طرف ۔۔۔

وہ دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی ۔۔۔۔

"باہر بائیک رکنے کی آواز آئی تو کمرے میں جاتے ہوئے بسمہ کے قدم وہیں تھمے ۔۔۔۔

"ارے شہریار بیٹا تم ؟؟؟

"کیسے ہو ؟؟

"اسلام وعلیکم!اس نے مؤدب انداز میں کہا۔

"وعلیکم السلام !

"جی شکریہ میں ٹھیک ،بیٹھو نا بیٹا اب آئے ہو تو کھانا کھا کر جانا "

"نہیں آنٹی اس کی ضرورت نہیں۔آپ یمنی کو بلا دیں ،اس سے پہلے کہ موسم زیادہ خراب ہو جائے ہمیں نکلنا چاہیے "

"تو بیٹا یہ بھی آپ کا گھر ہے ،آج رات یہیں رک جاؤ ۔۔۔

"دراصل آنٹی میں امی کی میڈیسن لینے گیا تھا ۔وہ ہر رات یہی لے کر سوتی ہیں، دوائی میں ناغہ ہو جائے گا ۔پھر کسی دن سہی "

"اچھا جیسے تم خوش "

یمنی ابھی ابھی چھت کی طرف گئی ہے،میں اسے بلاتی ہوں "

"آنٹی آپ کیوں زحمت کرتی ہیں ۔آپ آرام کریں میں خود ہی اسے بلاتا ہوں "

وہ بھی اس کے پیچھے سیڑھیاں اوپر چڑھنے لگا۔۔۔

"I am really very sorry"

"پلیز مجھے معاف کردیں ۔مجھ سے آپ کی یہ ناراضگی اب برداشت نہیں ہو رہی ،میں ڈر گئی تھی ،وہ زیگن کا ہاتھ پکڑ کر نم آنکھوں سے ملتجی لہجے میں بولی۔

"لیں ہم کان پکڑتے ہیں اب تو معاف کردیں ،وہ اپنے دونوں کان کی لووں کو چھو کر بولی ۔۔۔۔

زیگن نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔

عین اسی لمحے یمنی چھت پر پہنچی اور سامنے کا منظر دیکھ اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے ،،

"شرم نہیں آرہی ،،،ایسے ہی رہنا میں ابھی خالہ کو بھی دکھاتی ہوں یہ منظر ",وہ شرر بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زہر خند انداز میں بولی۔

زیگن اور ذوناش دونوں اچانک اس کی آمد اور الفاظ پر حیران ہوئے ۔

زیگن ذوناش کو اپنے پیچھے کیے خود اس کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہوا ۔۔۔۔

شہریار اوپر آیا تھا معاملہ سمجھنے میں اسے لمحہ ہی لگا ۔۔۔

"چلو یہاں سے "وہ یمنی کی بازو سے پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھینچنے لگا ۔۔۔

"چھوڑو مجھے "وہ اس کی فولادی گرفت سے اپنی بازو آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔

زیگن نے شہریار کو ممنون نگاہوں سے دیکھا۔

جبکہ شہریار نے اسے آنکھوں کے اشارے سے تسلی کا احساس کروایا ۔۔۔

"چھوڑو مجھے وحشی انسان۔۔۔میں آج خالہ کو ان کی اصلیت دکھا کر رہوں گی "وہ چلائی ۔۔۔

"خاموش ۔۔۔۔ایک لفظ بھی تمہارے منہ سے نا نکلے ورنہ اچھا نہیں ہوگا ۔" 

وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا نیچے لایا ۔۔۔

"کیا ہوا شہریار ؟؟؟بسمہ نے اسے دیکھ کر کہا ۔۔۔

"کچھ نہیں آنٹی پھر بات کریں گے ابھی ہمیں اجازت دیں "

وہ کہتے ہوئے یمنی کو اپنے ساتھ باہر لایا ۔۔۔۔

بسمہ خود شہریار کے سخت روئیے سے خائف ہوئیں۔انہیں امید نہیں تھی اس سے اتنے سخت روئیے کی ۔۔۔وہ دل میں فیصلہ کرنے لگیں کہ صبح ہی سدرہ سے بات کریں گی ۔کہ وہ خود شہریار کو سمجھائیں کہ یمنی کے ساتھ اپنے برتاؤ میں تھوڑی نرمی لائے ۔۔۔۔

پھر اپنے فیصلے پر مطمئن ہوتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

"چھوڑو مجھے جنگلی۔۔۔وہ گھر سے باہر آتے ہی اس پر چیخی ۔۔۔

"اپنے آپ ہی بیٹھ جاؤ "

وہ خود بائیک پر بیٹھ کر اسے بیٹھنے کے لیے بولا 

"نہیں بیٹھنا تمہاری پھٹیچر بائیک پر "

"خود نہیں بیٹھی تو مجھے بٹھانا آتا ہے "وہ جارہانہ تیوروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔

"اور واقعی تم اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں تمہاری جگہ اُس گاڑی پر ہے "

شہریار نے استہزایہ انداذ سے مسکرا کر کہا ۔

یمنی نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو بھنا کر رہ گئی ۔۔۔کیونکہ وہ گدھا گاڑی کی طرف اشارہ کر کہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

"میں تمہاری جان لے لوں گی "

وہ نا چاہتے ہوئے بھی بائیک پر 

بیٹھ کر اس کی پشت پر مکے برساتے ہوئے دھاڑی۔۔۔۔

"گھر چل کہ یہ خواہش بھی پوری کرلینا ۔اگر دم ہوا تو ۔۔۔

"دم کی تو تم بات ہی مت کرو مجھ سے ۔۔۔۔

شہریار نے اس کی باتوں سے اکتا کر بائیک سٹارٹ کی ۔اور گھر کے راستے پر ڈال دی ۔۔۔

زیگن جو چھت پر کھڑا یمنی کو شہریار کے ساتھ جاتا دیکھ چکا تھا ۔۔۔واپس ذوناش کی طرف پلٹا۔۔۔۔

"ویسے اگر تم لوگوں کے گھر اُجاڑنے کی بجائے اپنا گھر بسانے پر توجہ دو گی تو زیادہ بہتر رہے گا "

شہریار گردن ٹیڑھی کیے بولا 

"مجھے رہنا ہی نہیں تم جیسے وحشی کے ساتھ تو گھر کیوں بساوں ؟"

"کتنی بار سمجھا چکا ہوں  تمہیں تمیز سے بات کیا کرو ۔۔۔یہ تم کی گردان اگر بند نا کی تو یہیں پھینک جاؤں گا،"

وہ رات کے اس پہر سنسان راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔

بارش ہونا شروع ہوچکی تھی وہ دونوں بارش میں بھیگتے ہوئے گھر پہنچے ....

__________

"



وہ چھت پر دور کھڑی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔

زیگن نے نظریں اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا ،،،

جہاں سے کن من برستی بوندیں اب تیز بوچھاڑ کا روپ دھارنے لگیں ۔۔۔۔

سہانے موسم کا اثر تھا یا تنہائی کا،دل کچھ بھی سمجھنے سے انکاری ہوا۔یکخلت دلی جذبات نے کروٹ لی ،اور من میں پوشیدہ احساسات ابھر کر سامنے آنے لگے ۔۔۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو رہے تھے ۔۔۔

رم جھم یہ ساون جو برساتیں لے آیا ہے۔

موسم محبتوں کا خود چل کر آیا ہے،

اس کی سحر انگیز آواز نے ماحول میں جادو جگایا۔۔۔اس نے اپنی دلی جذبات کو الفاظ کا پیراہن گانے کی صورت میں دیا ۔۔۔۔

سارے شہر میں صرف ہم کو بھیگایا ہے،

رم جھم یہ ساون پھر برساتیں لے آیا ہے۔

"کیسی بے خودی طاری تھی آج اس پر ؟؟؟

پہلی محبت ہے اور پہلی یہ بارش ہے،

بھر لو بانہوں میں آسماں کی نوازش ہے۔

اس نے اپنی دونوں بانہیں واہ کر کہ اسے گردن ترچھی کیے اپنی بانہوں میں سمانے کا اشارہ دیا ۔۔ ۔

آسماں پر بادل زور سے گرجے ۔۔۔

کتنا خوش ہے دیکھو نا یہ آسماں ۔

لمحوں نے اس پر اپنا سحر پھونکا ۔۔۔

وہ کیسے اس کی خواہش رد کرتی ۔۔۔جبکہ دونوں دل ایک ہی تال پر محو رقصم تھے ۔۔

ہے خوش نصیبی یہ سارے زمانے میں،

جو ہمسفر تو نے مجھ کو بنایا ہے۔

وہ بنا سوچے اپنے محرم کی خواہش پر بھاگتی ہوئی اس کی بانہوں میں سما گئی ۔۔۔

دونوں کا دل آج پہلی بار ایک ساتھ دھڑکا،

کیسی محبوبانہ گرفت تھی اس کی !!!

کیسی دیوانگی تھی اسکی فسوں خیز قربت میں !!!!۔

زیگن کی شرٹ کے اوپری بٹن کھلے ہونے کی وجہ سے اسے اپنا چہرہ اسکے چوڑے سینے سے چھوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

اس کی وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

وہ اس وقت خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکیوں میں شمار کر رہی تھی کیونکہ دنیا کے وجیہہ ترین مرد وہ بھی جو اسکا محرم تھا اسکی بانہوں میں تھی ۔۔۔۔

راہیں اب ساری جا کہ تجھ سے مل جاتیں ہیں۔

ہنستے ہنستے آنکھوں سے بوندیں گر جاتی ہیں۔

دونوں کے وجود میں طلاطم برپا تھا۔۔۔

تو جو آیا بدلی موسم کی ہوا ۔

وہ اس کے گال سے اپنے گال لگا کر اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔

جتنی بے چینی میں تھا یہ سفر میرا ۔

وہ اسے اپنے قریب دیکھ آج سب اختیار کھونے کو تھا،

اتنا سکون میں نے تجھ میں اب پایا ہے۔

رم جھم یہ ساون پھر برساتیں لے آیا ہے۔

ذوناش کو اس کی قربت میں اپنا وجود شعلوں سا دہکتا محسوس ہوا ۔۔۔

موسم محبتوں کا خود چل کہ آیا ۔

 گردن پر اس کی بھاپ اڑاتی سانسوں سے اپنی جلد جھلستی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

اپنی گردن پر جا بجا اس کا پرحدت لمس اسے خاکستر کیے دے رہا تھا ۔۔۔۔

سارے شہر میں صرف ہمکو بھیگایا ہے۔

اس کی سانسوں کی رفتار بتا رہی تھی اس کے اندر کی حالت ٹہرے ہوئے پانیوں میں طوفان کی آمد ۔۔۔

اس کے لرزتی بھیگی پلکیں،دہکتے سرخ گال ،گداز کپکپاتے ہوئے لب،

"ہر لمحہ ،ہر روپ حسین ہے آپ کا ،دل گستاخ ہونے کی غلطی نا کرے تو اور کیا کرے ؟؟

اپنے قیامت خیز سراپے سے ہمیں بہکا کر پھر موردالزام بھی ہمیں ہی ٹہرائیں گی ،

"ہم تو سراپاِ احتجاج ہیں "نگاہیں اسی کے پرکشش خدوخال پر جمیں تھیں،

ذوناش نے نم مژگانوں کو جنبش دئیے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ،

اس کی آنکھوں میں شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا،

اونچا لمبا قد ،اپنی وجاہت سے مقابل کو زیر کرلینے والا ساحر اپنی بھوری آنکھوں میں اس کے لیے عشق لیے پورے طمطراق سے براجمان تھا،

وہ بار ِحیا سے پلٹنے کو تھی 

"پہلے قریب آنے کا بہانہ !!

"پھر یہ دوری کیوں ؟؟؟؟

زیگن نے اس کی کلائی تھام کر واپس کھینچا۔۔۔

وہ اس کے سوالیہ نظروں سے گھبراتے ہوئے لب کچلنے لگی ۔

"اونہہ۔۔۔!!!

"یہ ظلم مت کریں ،یہ کام تو ہمارا ہے "وہ شرارتی لب و لہجے میں کہتے ہوئے ایک آنکھ ونگ کیے بولا 

وہ اس کی بے باک الفاظ پر ساکت رہ گئی۔۔۔

جبکہ ذوناش کے اٹھتے گرتے عارض دیکھ اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

وہ اسے بانہوں میں بھر کر سیڑھیاں نیچے اترنے لگا ،پھر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

دلوں پر چھائی بے چینی حد سے سوا تھی ۔

آج ساری حدود و قیود ٹوٹنے کے کاگار پہ تھیں۔۔۔

اسے اندر لاکر نیچے اتارا۔پھر دروازہ لاک کیا ۔۔۔۔

دونوں بارش میں پوری طرح سے بھیگ چکے تھے ۔

وہ ٹھنڈ سے کپکپاتی ہوئی ،نظریں زمین پر گاڑے انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔۔

زیگن دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔

اس کی تھوڑی کو پوروں سے چھو کر اوپر کیا۔۔۔

اس کے کپکپاتے نیلاہٹ مائل لب ،اسے اپیل کر رہے تھے ،

اس نے سرشاری سے ذوناش کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گڑیا کی مانند اوپر اٹھایا ۔

"کیوں ڈر سے بند کرتی ہو آنکھیں ؟؟

"یقین رکھو کوئی چومنے سے نہیں مرتا۔۔۔

کہتے ہوئے اس کی سانسیں روک گیا ۔۔۔۔

وہ اس کے منہ زور جذبات پر پھڑپھڑا کر رہ گئی ۔۔۔

اس کی شدتیں برداشت کرتے ہوئے اس کی سانسوں کی رفتار مدھم ہوئی ۔۔۔۔

وہ اسکی سانسوں کا زیروبم محسوس کرنے لگا ۔۔۔پھر

زیگن نے اس کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے اسے نیچے اتارا۔۔۔

وہ دل پر ہاتھ رکھے پھولی ہوئی سانسوں سے کھانسنے لگی ۔۔۔۔

پھر چہرہ اٹھا کر شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔

"کیا ہوا جو میرے لب تمہارے لبوں سے لگ گئے۔

ناراض کیوں ہو رہی ہو ،بدلہ لے لو تم !!!وہ ابرو اچکا کر شرارت سے بولا ۔

اچانک خراب موسم کے باعث لائٹ چلی گئی ۔۔۔۔

"لا۔۔۔لا ۔۔ئٹ جلائیں ...وہ ڈر کر بولی ۔

"ہماری محبت کی روشنی ہی کافی ہے ،

ویسے بھی کسی شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے ،

شب وصل ہے۔گُل کردو ان چراغوں کو

خوشی کے موقع پر کیا کام ان جلنے والوں کا؟

وہ اسکے قریب آتے اس کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھنسانے انہیں سہلانے لگا۔۔۔۔

"پلیز ۔۔۔وہ منمنائی۔۔۔اس کی سرگوشی کی آواز صرف اسی تک پہنچی ۔گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔ 

وہ اسے اپنے ساتھ بستر پر لے آیا ۔۔۔

"پ۔۔۔پلیز ۔۔۔مجھے جانے دیں ۔۔اس لے گلے سے پھنسی ہوئی آواز نکلی ۔۔۔

شششش۔۔۔۔۔آج نہیں ۔۔۔۔

اسے زیگن کا سرسراتا ہوا ہاتھ اپنی شرٹ کی زپ پر محسوس ہوا تو وہ جی جان سے کانپ کر رہ گئی ۔۔۔۔اسے اپنی دھڑکنیں منتشر ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔

باہر تیز برستی بارش کا طوفان تھا ،اور اندر ان کی محبت کا،

آج وہ اسے نرمی سے سہج سہج کر چھو رہا تھا،،،

وہ اس کی بڑھتی ہوئی جسارتوں سے سمٹنے لگی۔۔۔

وہ اسے اپنی محبت کی بارش میں پور پور بھگو کر دونوں کے درمیان حائل سب دوریوں کو مٹا گیا تھا۔۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھ کھلی تو اسے سامنے صوفے پر دراز پایا ۔۔۔

عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ لیٹا تو جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے کچھ خبر نہیں ہوئی۔اب جاگا تو دیکھا کہ وہ صوفے پر سوچکی تھی،

ہر روز وہ زریار کے روم میں آنے سے پہلے اس کا تکیہ صوفے پر رکھ دیتی تھی ،یعنی کہ اس کی جگہ یہیں ہے ،اور وہ بلا چوں چراں کیے وہاں لیٹ جاتا مگر آج وہ اسے بیڈ پر سوتا ہوا دیکھ خود صوفے پر لیٹ چکی تھی ۔

باہر سے بارش برسنے کی آواز سنائی دی تو زریار نے بستر سے نکل کر کھڑکی کھولی۔تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔وہ کھڑکی کے دونوں پٹ پر ہاتھ رکھے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا،

اس نے مڑ کر سوئی ہوئی بریرہ کی طرف دیکھا ،

پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔۔۔

تیری آغوش میں مل جائے پناہ 

ہائے !!!ہم اتنے خوشنصیب کہاں ؟وہ دل میں سوچتے ہوئے تھوڑا سا جھکا اور اس کی صبیح پیشانی پر اپنا پر حدت لمس چھوڑا ۔۔۔

اس کے جاگتے ہوئے تو وہ کبھی ایسی جسارت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔۔

وہ نیند میں ہلکا سا کسمسائی ۔۔۔

زریار فورا پیچھے ہوا معاً کہیں اس کی نیند میں خلل نہ پیدا ہو۔اور جاکر واپس بستر پر لیٹ گیا ۔مگر نظروں کے حصار میں اسی دلربا کا چہرہ تھا۔۔۔۔

________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمارے کچھ دیر پہلے ہی ایک دوست کے گھر سے کمبائن سٹڈی کر کہ واپس لوٹا تو چاروں طرف خاموشی کا پہرہ تھا ،سب سو چکے تھے ،اس کے کپڑے بارش سے بھگ چکے تھے ،اس نے کمرے میں آکر سب سے پہلے کپڑے تبدیل کیےپھر موبائل لیے بستر پر گرا ۔۔۔

اور زرشال کو ویڈیو کال ملائی ۔۔۔

جو تیسری رنگ پر ریسو کر لی گئی ۔۔۔

"آہ  !!!  دل کو قرار آگیا "وہ اس کا فریش چہرہ دیکھتے ہی ٹھنڈی آہ بھر کے بولا 

"اچھا جناب "

وہ کھکھلائی اس کے انداز پر ۔

"کیاکر رہی تھی ؟؟؟

"سکون "وہ نیم دراز سی لیٹے ہوئے بولی ۔

"اور تم ؟؟؟

"آہ ہمارے نصیب میں سکون کہاں ؟؟؟

"کیوں کیا ہوا ؟؟

"جو سکون آپ کی بانہوں میں آیا تھا ،وہ سکون اکیلے کیسے میسر ہوسکتا ہے ؟

وہ خمار زدہ آواز میں بولا ۔۔

وہ اس کی رومان پرور بات سن کر سٹپٹا گئی ۔۔۔

اور چہرہ جھکا کر فون کا رخ تبدیل کیا ۔۔۔

"کہاں گئی یار اب کیا دور سے دیکھنے پر بھی پابندی عائد کرو گی ؟؟

"پہلے ایسی باتیں کرنا بند کریں "

"اوکے سامنے آؤ "

اس نے دوبارہ سے فون کی سکرین اپنی طرف کی ۔

"باہر سے شیری بھائی کی بائیک کی آواز آرہی ہے ،لگتا بھائی آگئے ،میں جا کر دروازہ کھولتی ہوں "

اوکے بائے پھر بات کریں گے "وہ کہتے ہوئے جلدی سے کال کاٹ گئی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر نکلی ۔۔۔

دروازہ کھولا تو شہریار نے بائیک اندر کھڑی کی ،

"زرشال یہ امی کی دوائیاں ",اس نے دوائیوں والا شاپر اس کی طرف بڑھایا ۔۔

یمنی بنا زرشال کی طرف دیکھے تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

"جی بھائی میں امی کو دے دیتی ہوں ",

"بھائی آپ کا بیڈ ٹوٹا ہوا تھا ،وہ میں نے اور امی نے مل کر باہر نکال دیا تھا ،اور گل آپی والا سنگل بیڈ آپکے کمرے میں رکھ دیا ہے "اس نے آگاہ کیا ۔۔۔

"زرشال تم نے اور امی نے  کیوں کیا سب ؟کہیں چوٹ لگ جاتی اتنا بھاری بیڈ اٹھاتے ہوئے تو ؟؟؟

میں خودی کر لیتا ۔۔۔

"کوئی بات نہیں بھائی فارغ تھے تو کر لیا ۔آپ فکر نہیں کریں ،سب ٹھیک ہے ،آپ آرام کریں اور کپڑے بھی بدل لیں ،ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی ،وہ فکرمندی سے بولی ۔

"ہمممم۔۔۔۔۔۔میں کرلیتا ہوں گڑیا"وہ پیار سے اس کا گال تھپتھپاکر کر اندر چلا گیا ۔۔۔

"میرے سارے کپڑے بھگو دئیے بارش میں جاہل انسان ۔۔۔اب میں کیا پہنوں گی ؟

"اچھا بھلا اپنی چیزوں کا بیگ تیار کیا تھا ،

وہ بھی وہیں رہ گیا ۔۔۔۔

اس کے جاہل انسان کہنے پر شہریار جارہانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"کیا کہا تم نے زرا ایک بار پھر سے بولو "

اس کی رعب دار آواز یمنی کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔

"وحشی ،جنگلی ،جاہل ،آوارہ ،گھٹیا ،فضول ۔۔۔۔۔جانے اور بھی کیا کیا ۔۔۔۔دنیا کے سارے برے الفاظ استعمال کروں گی تمہارے لیے "

وہ دوبدو تلخ لہجے میں بولی ۔

"ہاتھ اٹھانا میری سرشت میں شامل نہیں ورنہ تمہارے ان لفظوں کے جواب میں ایک تھپڑ پڑتا نہ تو اچھی عقل ٹھکانے لگ جاتی "

تربیت بولتی ہے ،اسی لیے برداشت کر رہا ہوں ،جس دن میرے صبر کا پیمانہ چھلک گیا نہ تو بہت پچھتاؤ گی ۔۔۔

وہ اس کی گردن دبوچ کر دھاڑا ۔۔۔

"ایک بات میری کان کھول کر سن لو ،جو چیز شہریار کی ملکیت میں آجائے وہ اسے مرتے دم تک نہیں چھوڑتا،

"اس لیے مجھ سے پیچھا چھڑوانے کی یا اس گھر سے دور جانے کی بات کی نا تو زندہ سلامت تو یہاں سے جا نہیں پاؤ گی ۔اور مر کر بھی جانے نہیں دوں گا "وہ دھمکی آمیز انداز میں پھنکارا۔۔۔

"مجھے میری چیزوں میں کھوٹ و ملاوٹ سے سخت عداوت ہے ،

"اور ہاں ایک بات اچھے سے زہن نشین کر لو۔۔۔۔

"اگر تم نے میرے علاؤہ کسی غیر مرد کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھا تو یہ آنکھیں نوچ لوں گا "

وہ اسے زیگن کی طرف متوجہ ہوئے دیکھ چکا تھا ،اتنا بھی کم فہم نہیں تھا کہ معاملہ نا سمجھتا ۔۔۔

"میری آنکھیں میری مرضی "

وہ بدتمیزی سے گویا ہوئی ۔

"یقین جانو آج تمہیں میرے قہر سے بچانے والا کوئی بھی نہیں"

غصے کی شدت سے اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر خود پر قابو پانے لگا ۔۔۔

"Shut up....."

"تم ہوتے کون ہو ؟مجھ ہر پابندیاں لگانے والے ۔۔۔

وہ بھی چلائی ۔۔۔۔

"شٹ اپ کہا تم نے مجھے "

"اب تمہیں بتاتا ہوں اصل میں شٹ اپ کہتے کسے ہیں "

"دوبارہ شٹ اپ کہنے کے قابل نہیں رہو گی "...

شہریار ، یمنی کی صراحی دار گردن کو ہاتھ میں جکڑتے ہوئے اپنے قریب کر گیا ۔۔۔۔

 وہ اس کے عمل پر حق دق رہ گئی ۔۔۔سانسیں حلق میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

شہریار اسکے لبوں کو قید کر گیا ۔۔۔۔

وہ اس کی سخت گرفت میں جھٹپٹا رہی تھی ،،،

یمنی نے اپنے تیز ناخن اس کی گردن میں گاڑے ۔۔۔

مگر وہ ٹس سے مس نا ہوا ۔۔۔

وہ جارہانہ انداز میں اسے ناخنوں سے زخمی کرنے لگی ۔۔۔

وہ جتنی زور سے خراشیں ڈالتی مقابل کی گرفت اور مضبوط ہو جاتی ۔۔۔۔

وہ پیچھے ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔مگر شہریار نے اس کی گردن پر اپنی پکڑ اتنی مضبوط کر رکھی تھی ،کہ وہ ایک انچ بھی نہ ہل سکی ۔۔۔

اب تو اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ایک پل بھی اور سانس نہیں آیا تو وہ مر جائے گی ۔۔۔۔

شہریار نے اس کے کانپتے ہوئے وجود کو دھکا دے کر بستر پر گرایا ۔۔۔

وہ منہ کے بل بستر پر گری ۔۔۔اور گہرے سانس لیتے ہوئے  اپنی سانسوں کو بحال کرنے لگی ۔۔۔۔انگلی اپنے زخمی لبوں پر رکھ کر دیکھا تو خون اس کے انگلی سے لگا ۔۔۔

"اب بولو گی کسی سے بھی شٹ اپ ؟؟؟

وہ اپنے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔

شہریار اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتارتے ہوئے جارہانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔۔

"یہ تم کیا کر رہے ہو "پلیز ایسا مت کرو ",وہ منمنا کر بولی۔

وہ اس پر جھکا تو یمنی سے اسے اپنے سے پیچھے ہٹانے کے لیے دھکا دینے کی کوشش کی ۔

"ت۔۔۔تم ۔۔۔کیا چاہتے ہو ۔۔۔۔

وہ اس کی رونی صورت دیکھ کر مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

"ابھی پتہ چل جائے گا "

وہ اس کے گال کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتا ہوا بولا ۔۔۔

یمنی کو اس وقت اس کے ارادے بہت خطرناک لگے ۔۔۔۔

"دیکھو ایسے مت کرو ۔۔۔ م۔م۔میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں ۔۔۔۔۔بس مجھے چھوڑ دو "وہ منت بھرے انداز میں بولی۔

"سب سے پہلے 'تم 'کہنا بند کرو "

"ٹھیک ہے "آپ "وہ جھٹ بولی ۔

"صبح وقت پر اٹھ کر میرا ناشتہ بناؤ گی "

"ٹھیک ہے بناؤں گی ",وہ بے دلی سے مان گئی ۔

"میرا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرو گی "

"ہاں میں کروں گی "

"امی کے ساتھ تمیز سے پیش آؤ گی "

"میں کیوں اس بڑھیا سے "

وہ یہ بات سنتے فورا چہرے کے زاوئیے بدل کر غصے سے بولی ۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر ۔۔۔۔وہ اس کا دوپٹہ کھینچ کر نیچے پھینکتا ہوا اس کے نزدیک ہوا کہ یمنی کا تو حال مانو بالکل مرنے والا تھا ۔۔۔

اس دیو قامت انسان کے نیچے وہ دب کر رہ گئی تھی ،اس کے وزن سے اپنی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔

"ہاں ۔۔۔ہاں میں ٹھیک سے بات کروں گی ۔وہ ڈرتے ہوئے اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگی ۔

"میرے علاؤہ تمہاری آنکھیں کسی غیر مرد کو نہیں دیکھیں گی "

"ہاں ۔۔۔میرا مطلب ہے جی ۔۔۔ایسا ہی ہوگا ۔۔۔

"ہوں تو مجھے کیا کہنا ہے آئیندہ سے "؟

"آ۔آ۔۔ آپ ۔۔۔۔اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی  ۔۔۔

"ہمممم ۔۔۔گڈ گرل ۔۔۔۔وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔

پھر اٹھ کر اپنی کبرڈ کی طرف بڑھا اپنی شرٹ اور ٹراؤز نکالا اور واش میں چلا گیا تاکہ چینج کر سکے ۔۔۔

وہ ابھی تک حیرت سے یہ ہی سوچ رہی تھی کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ،۔۔۔۔

وہ تھوڑی دیر میں کپڑے تبدیل کیے باہر آیا ۔۔۔

"تم بھی کپڑے تبدیل کرلو ،ٹھنڈ لگ جائے گی "

"میرے پاس کپڑے نہیں "

اب کی بار نرمی سے بولی 

میں زرشال سے لادیتا ہوں "

"نہیں میں کسی کے کپڑے نہیں پہنتی ۔۔۔۔وہ انکاری ہوئی ۔۔

شہریار نے اپنا ایک اور ٹراؤز اور شرٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی ۔۔۔

"میرے بھی نہیں "وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا ۔۔۔

"آپ سے میرا کوئی خاص رشتہ ہے جو آپکے کپڑے پہنوں ؟؟؟

"ہے تو بہت خاص رشتہ اگر تم سمجھو تو "

وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

 اس کی فورا کایا پلٹ دیکھ دل میں حیران ہوا مگر چہرے پر تاثر نہیں آنے دیا ۔۔۔

یمنی اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئی ۔کچھ دیر بعد وہ چینج کیے واپس آئی تو روم کی لائٹ بند تھی ۔وہ زمین پر بستر بچھائے کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔

اس نے خالی بستر کی طرف دیکھا ۔پھر اس پر لیٹتے ہی کمفرٹر اپنے اوپر پھیلایا ۔۔۔

کل رات بھی بے چینی میں گزری تھی ،اور آج کا دن بھی ۔۔۔اب اسے نرم گرم بستر دیکھ کر سکون ملا ۔۔وہ اس پر لیٹی تو کچھ دیر میں ہی اسے نیند آگئی ۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 صبح ہوئی تو زریار باتھ لے کر باہر آیا اب اس کی طبیعت کافی بہتر تھی ۔وہ آفس جانے کے ارادے سے کبرڈ سے کپڑے نکال رہا تھا ،پہلے تو یہ کام صلہ کرتی تھی،اسے ایک ایک چیز مہیا کرتی ،اسے تیار ہونے میں مدد دیتی مگر جب سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی تھی ،زریار اپنا ہر کام خودی کرنے لگا تھا ۔۔۔

بریرہ صوفے پر بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔مگر بیچ بیچ میں نظریں اٹھا کر اسے بھی دیکھتی کہ وہ آخر کر کیا رہا ہے ،

زریار کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیاپہنے ۔۔۔وہ جھجھنجلا کر کبرڈ بند کرتے ہوئے پلٹا ۔۔۔اور اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔

"مجھ سے کوئی امید مت رکھنا "وہ سپاٹ انداز میں بولی۔

زریار نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی جو اپنی بات کہہ کر دوبارہ تلاوت میں مشغول ہو چکی تھی ۔۔۔۔

"بیوی ہو میری ۔۔اور بیوی ہونے کے ناطے میرا کام کر لو گی تو کچھ بگڑ نہیں جائے گا ",

جانے کیوں دل ضد پر اڑے ہوئے تھا کہ آج وہی اسے کپڑے نکال کر دے ۔۔۔

"ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں۔ور ناپاک مرد  ناپاک عورتوں کے لئے ، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں۔

(سورت النور،آیت 26)"

"میں ناپاک تھی ،جو تم جیسا شخص میرے مقدر میں لکھ دیا گیا ۔۔۔

وہ قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹ کر رکھتی ہوئی بولی ۔۔

’’ اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْمُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لَایَنْکِحُہَآ اِلَّازَانٍ اَوْمُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَالِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ‘‘ (سورۃ نور۲۴۔ آیت۔ ۳)

"زانی مرد صرف زانیہ عورت یا مشرکہ عورت سے نکاح کرسکتاہے اور زانیہ عورت بھی بدکار مرد یا مشرک کے سوا کسی کے نکاح میں نہیں آسکتی اور یہ اہل ایمان پر حرام ہے۔ ‘‘

زنا کی سزا بھگتنے کے بعد یہ ان کے لیے دوسری معاشرتی سزا ہے کہ زانی، زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ، زانی اور مشرک سے نکاح کریں گے۔ یعنی زانی اور زانیہ ان کے علاوہ اور کسی کے نکاح میں نہیں آسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صریحاً فرمادیا ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام ہیں

"میں کیا گناہ کیا تھا جو میں تمہارے نکاح میں آئی ۔۔۔

قصور تم تھے ،تو سزا مجھے کیوں ؟؟؟

وہ اس وقت ذہنی اذیت میں مبتلا تھی ۔۔۔عجب کشمکش کا شکار تھی ،یہ بعد کی بجائے دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔

"تم آخر میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے ۔۔۔وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔

"تم کیا چاہتے ہو تمہاری بچھائی گئی مہروں کی بساط پر ہمیشہ تمہیں فتح ملے ،؟؟؟

جو تم چاہتے ہو وہی ہو ،میں کوئی کھلونا ہوں جس سے جب جی چاہا کھیل لیا جب جی چاہا توڑ کر پھینک دیا ۔۔۔

دوبارہ اسی سے کھیلنے کا من کیا تو پھر سے اسی ٹوٹے ہوئے کھلونے کو جوڑنا چاہا ۔۔۔"

"ہر بار فتح مقدر نہیں ہوتی اس بار شکست سے دو چار ہو گے تم "

الفاظ تھے یا کوئی نوکیلا خنجر جو اس کے جو زریار کو اندر تک لہوہان کر گئے تھے ۔سماعتوں میں یکدم سناٹا اتر آیا تھا۔۔۔۔

"تم کیا چاہتی ہو "؟

وہ اس کی طرف دیکھ کر گھمبیر آواز میں بولا ۔۔۔

"خدا کے لیےمیری جان چھوڑ دو "وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی ۔۔۔آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے ۔۔۔۔

"ایسا مت کہو رحم کرو مجھ پر ،بہت پیار کرتا ہوں تم سے ، نفرت کی آگ میں اسقدر آندھی ہوچکی ہو تم کہ تمہیں میرا پیار دکھائی نہیں دیتا ،"

بریرہ کا دماغ ماضی کے تلخ واقعے کوسوچ سوچ کر شل ہو چکا تھا۔۔۔۔

وہ دروازہ کھول کر باہر کی طرف بڑھی  ۔۔۔۔

"تم مجھ سے فرار پاکر خود کو بھی تنہا کر دو گی اور مجھے بھی "

وہ ایک پل کو دہلیز پہ رکی۔۔

"تم یہی چاہتی ہو کہ میں اپنی تنہائی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے گُھٹ گُھٹ کر مرجائوں ؟؟؟

"تو آج یہ بھی سہی ۔۔۔۔

"اب تم کبھی مجھے  واپسی کےلیے پکارو گی بھی تو میں نہیں آؤں گا ",

وہ کرب زدہ آواز میں بولا۔

مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔۔

زریار نے اپنے شکستہ وجود کو شیشے میں دیکھا ۔

پھر اٹل فیصلہ لیتے ہوئے اپنے کپڑے لیے واش روم میں چلا گیا۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"گڈ مارننگ جان جی !

وہ اس کی تین تلوں والوں کٹاؤ دار تھوڑی پر لب رکھے بولا۔۔۔

مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔

"اٹھ جاؤ دیکھو کیا ٹائم ہوگیا ہے "

"سونے دیں نہ۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو سوئی تھی ",وہ نیند سے بوجھل آواز میں بولی۔

"بعد میں مجھ سے گلہ مت کرنا ،اپنی پوزیشن بھول گئیں ہیں شاید،،، آپ مجھے رات والے موڈ میں آتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لگے گا "

زیگن کی شوخ آواز اس کے کانوں میں سنائی دی تو اس نے اپنی حالت کے پیش نظر جھٹ سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔

اور شانے سے کمفرٹر برابر کیا ۔۔۔

"اب کیا فائدہ جان جی ؟"

وہ حسب عادت آنکھ ونگ شرارتی انداز میں بولا۔

اس کی بات کا مطلب جان کر وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی۔۔

پھر پُھرتی دکھاتے ہوئے سر کے نیچے سے تکیہ نکال کر زیگن کے منہ پر اچھالا اور بھاگ کر واش روم میں بند ہوگئی ۔۔۔

کچھ دیر میں وہ نہا کر باہر آئی تو دیوار گیر کلاک پر نظر پڑی جو نو بجا رہا تھا۔

"ُاف آج مجھے کالج سے دیر ہوگئی۔۔۔اور ۔۔۔وہ کہتے ہوئے خاموش ہوئی  "وہ جھجھنجلا کر بولی ۔۔۔اس کے چہرے پر درد کے آثار تھے ۔۔۔

"کوئی بات نہیں۔۔ آج ریسٹ کرو "تمہیں آج ریسٹ کی ضرورت ہے ،

"آپ کو کیسے پتہ چلا "؟وہ اپنی بالوں میں برش پھیر کر ان کا میسی سا جوڑا بنائے سر پر دوپٹہ اوڑھنے لگی ۔۔۔

"وہ سب چھوڑو ۔۔۔تم نے مجھے گڈ مارننگ تو کہا نہیں ۔۔۔ادھر آؤ ۔۔۔وہ بستر پر نیم دراز سا لیٹے ہوئے اسے اپنی طرف آنے کا کہہ رہا تھا۔

"پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے،آنٹی پتہ نہیں کیا سوچ رہی ہوں گی ۔روز تو میں ناشتہ لگواتی ہوں ،اور آج ناشتے پر بھی باہر نہیں گئی ۔۔۔وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی اور لاک کھولا ۔۔۔

"رکو ۔۔۔"زیگن کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

"مجازی خدا کی بات نا ماننے والی بیویوں پر فرشتے سارا دن لعنت بھیجتے رہتے ہیں ،تم نافرمان بننا چاہتی ہو ؟؟؟

وہ اس کی بات سن کر مرے مرے قدموں سے اس کی طرف آئی ۔دل ڈر رہا تھا ،کہ باہر نہ جانے کیا حالات ہوں گے ،اور ادھر مجازی خدا رات سے اپنی ہی من مانیاں کیے جا رہیے ہیں۔

وہ اس کے قریب آئی ۔۔۔

گڈ مارننگ ۔۔۔دھیمے سے بولی ۔

انگلیوں میں دوپٹے کو لپیٹتے ہوئے ۔۔۔

"یہاں پر "گڈ مارننگ کس چاہیے "وہ اپنے لبوں پر انگلی رکھ کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔

وہ تھوڑا نیچے جھکی اور اپنی من پسند جگہ اس کے ڈمپل والے گال پر لب رکھے تیزی سے پیچھے ہٹی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ واپس بھاگتی ۔زیگن نے اس کی چالاکی سمجھتے ہوئے اس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔۔۔

وہ کچی ڈال کی مانند اس کے شرٹ لیس سینے پر آن گری ۔۔۔

عین اسی لمحے دروازہ کھلا اور بسمہ جو زیگن کو آفس سے لیٹ ہو جانے پر جگانے کے لیے اندر آئیں ۔۔۔اندر کا منظر دیکھ وہیں ساکت رہ گئیں۔۔۔

"زیگن !!!!

ان کی کاٹ دار آواز سن کر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔۔۔

انہوں نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔پھر دروازہ زور سے پٹخ کر وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔

"اب کیا ہوگا ؟؟؟وہ تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھے نم لہجے میں سہم کر بولی ۔۔۔

"تم فکر مت کرو ،میں بات کرتا ہوں ان سے ۔۔۔وہ اپنی شرٹ اٹھا کر پہنتا ہوا بولا ۔۔۔۔

ذوناش اپنی جگہ پر جامد کھڑی تھی یوں جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں ۔بسمہ کے آگے سے پیش آنے والے روئیے اور ان کی ناراضگی کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کی جان فنا ہو رہی تھی ۔۔۔۔

بسمہ اپنے آپ کو کمرے میں بند کر چکی تھیں۔

ٹھک ۔۔۔ٹھک ۔۔۔ٹھک ۔

وہ باہر سے ہاتھ مار کر دروازہ بجا رہا تھا۔مگر انہوں نے دروازہ نہیں کھولنا تھا تو نہیں کھولا۔

زیگن پریشانی کی حالت میں باہر کھڑا پیشانی مسلنے لگا ۔اس کے ماتھے پر شکنوں کا جال بننے لگا۔

"کہیں مام غصے میں آکر کچھ۔۔۔۔نہیں ....وہ اپنے ہی خیال کو جھٹک کر واپس نیچے بھاگا ۔۔۔

اور کیز سٹینڈ سے کمرے کی ڈبلیکیٹ چابیاں اٹھاکر واپس ان کے کمرے کی طرف آیا۔۔۔

اور لاک کھول کر اندر آیا۔۔۔

"رک جاؤ وہیں ۔۔۔اندر ایک قدم بھی مت رکھنا "وہ جو خان صاحب کے پاس بستر پر بیٹھیں تھیں۔کی کاٹ دار آواز میں بولیں۔

"مام پلیز ایک بار میری بات تو سن لیں ",وہ ملتجی نگاہوں سے بولا ۔

"مت کہو مجھے مام ۔۔۔۔مر گئی تمہاری مام ۔۔۔

"اللّٰہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ "اس نے ان کے پاس آتے کہا ۔۔۔

"تم نے تو اپنی طرف سے مجھے مرا ہوا ہی سمجھا ہوا ہے نا جو میری آنکھوں سے اوجھل کارنامے سر انجام دیتے پھر رہے ہو ۔۔۔

"مام ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہی ہیں"

"زیگن میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ،اور تم اسے جھٹلا رہے ہو "

"مام مجھ پر بھروسہ نہیں آپ کو ؟؟

"کیا میں کبھی کوئی غلط کام کرسکتا ہوں "؟

وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر مان بھرے انداز میں بولا۔۔

"تھا بھروسہ تم پر ۔۔۔مگر میرا بھروسہ ایسے ہی نہیں ٹوٹا بلکہ میں نے تمہیں وہ کرتے دیکھا ہے جس کی مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی ۔سچ کہتے ہیں ،انسان کو امیدیں نہیں لگانی چاہیے ۔جب امیدیں ٹوٹتی ہیں۔تو انسان خود بھی ٹوٹ جاتا ہے"وہ نم جھلملاتی ہوئی آنکھوں سے بولیں۔۔۔

"مام کبھی کبھی ہمیں خاموش رہنا پڑتا ہے ،اس لیے نہیں کہ ہمارے دل میں چور ہوتا بلکہ اس لیے کہ ہمیں ہمارے اپنے ہمیں جان سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں،

وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"مجھے تو اس لڑکی پر بھی غصہ ہے۔اتنے عرصے سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہے۔اسے میں نے کبھی اپنی بیٹیوں سے کم نہیں جانا ۔۔اسے تو کم از کم اپنی عزت کا خیال کرنا چاہیے تھا ۔یوں۔۔۔۔۔

"مام پلیز اسے کچھ مت کہیں ۔اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا ۔۔۔

"ہاں سارا قصور تو میرا ہے۔جاو تم دونوں کی جو من مرضیاں ہیں وہ کرتے پھرو "

"مام آپ بنا سچائی جانے ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں ؟؟

"مجھے جو سچائی جاننی تھی وہ میں جان چکی ۔اس سے زیادہ جاننے کی خواہش نہیں ۔وہ قطعیت سے بولی۔

"مام ہمارا نکاح ہو چکا ہے،

وہ بالآخر ہمت مجتمع کیے بول اٹھا ۔۔۔

زیگن کی بات تھی یا گویا بم جو ان کی نحیف سماعتوں پر گرا تھا ۔

ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔وہ فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگیں۔چہرے کا رنگ ایک دم پھیکا پڑ گیا ۔۔۔

"مام جس دن خان صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا یہ اس دن کی بات ہے۔اس نے شروع سے لے کر آخر تک ساری بات ان کے گوش گزار کی ۔کہ کیسے خان صاحب نے اس کو ذوناش سے نکاح کرنے کے لیے کہا تھا ۔

"مام اگر آپ کو ابھی بھی میری بات پر یقین نہیں تو میں خان صاحب کی قسم کھانے کو تیار ہوں ۔یہی سچ ہے ۔کہ وہ میری بیوی ہے ۔

"اگر آپ کو یقین نہیں تو میرے پاس نکاح نامہ ہے۔جس پر سبحان انکل اور خان صاحب کے سائن ہوئے ہیں۔وہ دکھا دیتا ہوں "

"چلو میں مان بھی لوں کہ وہ تمہاری بیوی ہے ۔تو تم نے مجھ سے اتنی بڑی سچائی چھپائی کیوں ؟؟ان کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔

"مام خان صاحب کے ایکسیڈنٹ کے بعد ہم سب کو سنبھلنے کے لیے کچھ وقت لگا اس دوران آپ کی طبیعت خراب رہنے لگی ۔میں نے کئی بار سوچا کہ آپ کو بتادوں 

مگر بس یہی سوچ کر خاموش رہا کہ جانے آپ یہ سچائی جان کر کیسا ری ایکٹ کریں گی ۔مجھے آپ کی صحت اور زندگی سے کوئی چیز بھی عزیز نہیں ۔آپکے خیال سے ہی خاموش رہا۔اور خان صاحب کے اٹھنے کے انتظار میں تھا ،

کہ وہ خود اٹھ کر آپ کو سچائی بتائیں۔

"خان صاحب کے اٹھنے کے انتظار میں تھے تو تھوڑا سا صبر بھی کر لیتے ۔بیوی کو ماں کے بغیر خودی رخصت  کروا کر کمرے میں لے گئے ۔۔۔

کب سے چل رہا ہے یہ سب ؟؟

وہ ان کی بات سن کر خجل سا ہوا اور کان کھجا کر دھیما مسکرایا۔

"مام کل رات ہی ۔۔۔۔

I swear....

قسم سے ۔۔۔

"مجھے تم دونوں سے ہی بات نہیں کرنی تم دونوں باپ بیٹے نے مجھے کانوں کان ہوا بھی نہ لگنے دی ۔۔۔وہ ناراضگی سے بولیں ۔۔۔

"اور ایک یہ ہیں ۔اکیلے ہی کارنامے کر کہ مجھے روٹھنے کا موقع دئیے بغیر خود روٹھ کر ایسے بیٹھے ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔۔۔

"زیگن ان سے تم کہو نا ۔۔شاید تمہاری بات ہی مان لیں اور اٹھ جائیں ۔۔۔وہ برستی ہوئی نم آنکھوں سے بولیں۔۔۔۔

"مام ان شاءاللہ سب بہتر ہوگا ۔دیکھنا خان صاحب جلد اٹھیں گے ۔ہم سب کے ساتھ پہلے جیسے ہنسے گے بولیں گے ۔مجھے پوری امید ہے ایک دن ایسا ضرور ہوگا ۔مجھے اپنے پروردگار پر پورا بھروسہ ہے ہمارا رب  ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا۔وہ پر یقین انداز میں بولا۔

اس نے اپنے ہاتھوں سے بسمہ کے آنسو پونچھے اور ان کے شانے سے لگا ۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انہیں پیار سے سہلانے لگیں۔

"مام!!!؟وہ آہستگی سے بولا۔

"ہمممم۔۔۔۔

"مام آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ؟؟؟

"پہلے تھی مگر اب نہیں ۔۔۔مجھے خان صاحب کا کیا گیا فیصلہ دل و جان سے قبول ہے ،"وہ نرمی سے بولیں۔

"پھر ذوناش کو بھی کچھ مت کہیے گا "

"ابھی سے بیوی کی وکالت شروع ۔۔۔؟؟؟

"تمہیں میں کیا اتنی ظالم ساس لگتی ہوں ؟؟؟

وہ اس کا سر پیچھے کیے بولیں ۔۔۔

"ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔نہیں مام بس ویسے ہی ۔۔۔بیچاری پر زرا رحم کرنا پہلے ہی آپ کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی پڑی ہے ۔

سب میری ہی غلطی ہے ۔اس میں ذوناش کا کوئی قصور نہیں۔ "

"چلو آؤ زرا اس کی بھی کلاس لے کر تھوڑی سی جان اور نکالتے ہیں۔

وہ زیگن کے ساتھ کمرے سے باہر آئیں۔تو چہرے پر سنجیدگی کا خول چڑھایا۔۔۔

بریرہ اور ذوناش دونوں ڈائننگ پر ناشتے کے لوازمات سجائے سب کے آنے کا انتظار کر رہی تھیں اور وہیں کھڑی تھیں۔

"زریار کہاں ہے ؟؟وہ سپاٹ انداز میں پہلے بڑی بہو سے مخاطب ہوئیں۔تاکہ چھوٹی بہو پر رعب بن جائے ۔۔۔

بریرہ نے پہلی بار ان کا یہ سپاٹ انداز دیکھا تو بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔ورنہ پہلے تو ہمیشہ پیار اور نرمی سے پیش آتی تھیں۔جو آج لہجے میں مفقود تھی ۔

"مام وہ آفس چلے گئے ۔۔۔بریرہ گھبرا کر بولی ۔

"بنا ناشتہ کیے ہی آفس بھیج دیا ۔اپنے اندر اچھی بیویوں والی خصوصیات پیدا کرو ۔جو اپنے خاوند کو بنا ناشتہ کیے گھر سے جانے نہیں دیتیں۔اب سارا دن بیچارا میرا بچہ بھوکا رہے گا ۔اور وہ سڑی ہوئی کافی پی پی کر اپنا خون جلاتا رہے گا "

بریرہ ان کی بات پر دل مسوس کر رہ گئی۔

"اور تم آج کالج کیوں نہیں گئی ؟

وہ اب کی بار ذوناش کی طرف رخ موڑ کر بولیں ۔

جو پہلے ہی سہمی ہوئی تھی ۔ان کے بات کرنے کے انداز پر اس کا اور بھی خون خشک ہوا ۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ منمنا کر بولی۔

"بتاؤ بھی کیا ۔۔۔وہ۔۔ وہ لگا رکھی ہے ۔؟

وہ اپنی جگہ جامد کھڑی بنا آواز کے رونے لگی ۔آنسو لڑیوں کی مانند اس کے نرم گال بھگونے لگے ۔۔۔

"ادھر آؤ "بسمہ کی بارعب آواز اس کے کانوں میں سنائی دی تو اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں ۔۔

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے ان کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔

زیگن خاموش کھڑا تھا ۔اس بمشکل اپنا سر اٹھا کر مدد طلب نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔

"ارے اس کی طرف کیا دیکھ رہی ہو ۔یہاں آؤ۔۔۔میں تمہیں کوئی جلاد لگتی ہوں ؟؟؟  کھا نہیں جاؤں گی تمہیں۔اس بار وہ ہنستے ہوئے بولیں۔

ان کے چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے دیکھ ذوناش کی جان میں جان آئی ۔۔۔

جو قدموں کی روانی میں اضافے کا باعث بنی۔

"تم پہلے بھی میری بیٹی تھی ،اور رشتے کی سچائی جاننے کے بعد بھی تم میری بیٹی ہی رہو گی ۔"وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں ۔

ذوناش نے ان کی بات سنتے ہی اپنی بانہیں ان کے گرد ڈال دیں۔جیسے وہ اپنی ماں سے پیار کرتی تھی بالکل ویسے ہی ۔آج اسے پھر سے ایک بار اپنی ماں کی یاد شدت سے آئی ۔۔۔اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔

"ارے ابھی تو میں نے تمہیں کچھ کہا بھی نہیں تو تم نے آنسوؤں کی ندیاں بہا دیں۔اگر کچھ کہتی تو جانے کیا حال ہوتا تمہارا ۔۔۔

"چلو جلدی سے چپ کر جاؤ ورنہ ٹیپکل ساس بن جاؤں گی ۔انہوں نے اسے پیار بھری ڈانٹ پلائی ۔۔۔

ذوناش ان کے شانے سے لگی تو زیگن نے بھی ان کے شانے پر سر رکھا ۔۔۔

بریرہ ان تینوں کو ساتھ دیکھ کر ان کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوئی ۔

مگر کبھی کبھی دعاؤں کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا وہ اوپر آسمان پر جا کر اپنی قبولیت کا انتظار کرتی ہیں۔اور کہتے ہیں کہ جو دعا دنیا میں مستعجاب نہیں ہوتی وہ آخرت میں ہوگی۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ واشروم سے نہا کر نکلا تو بیڈ پہ ابھی تک یمنی کو بے خبر سوتا ہوا پایا۔۔

"اُف کتنا سوتی ہے یہ لڑکی۔۔ بالوں کو ٹاول سے رگڑتا وہ بڑبڑایا۔۔ شیشے میں وہ اس کا عکس واضح دیکھ رہا تھا۔۔ جو اوپر تک کمبل اوڑھے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔

اپنے بال کنگھی کر کے اس نے ٹاول صوفے پہ پھینکا اور بیڈ پہ اس کے پاس آیا۔۔

"اٹھ جاؤ۔۔ کتنا سونا ہے اور ۔"

شہریار اس کے اوپر سے کمبل ہٹاتا وہ اس کو جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اس کی اونچی آواز اور کمبل ہٹانے کی وجہ سے ٹھنڈک کے احساس سے وہ ذرا سا کسمسائی۔۔

"اونہہ۔۔سونے دو نا ۔۔۔۔ مندھی آنکھوں سے دیکھتے وہ بولی۔۔ 

"میڈم اگر آپ کو یاد ہو تو ناشتے کا وقت ہوگیا ہے،اور آپ نے رات کو ہی میرے لیے ناشتہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔۔تو مجھےناشتہ کر کے جانا ہے ۔۔" وہ کمبل دوبارہ منہ پہ اوڑھنے لگی تھی پر شہریار نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا۔۔

"اچھا اٹھتی ہوں ",وہ چار و ناچار اٹھ کر بیٹھی اور کمفرٹر پیچھے کیے ،بالوں کو جوڑے کی صورت لپیٹتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھی ،پھر فیس واش کیے واپس آئی ۔۔۔

چہرہ دھونے سے کچھ بال بھی بھیگ چکے تھے ۔۔۔

اس نے اپنے بھیگے بالوں کی لٹوں کو کان کے  پیچھے کر کے ایک نظر شہریار کی طرف دیکھا جو بلیک پینٹ اور براؤن شرٹ میں ملبوس کافی فریش لگ رہا تھا ،تازہ شیو کی وجہ سے نیلاہٹیں نمایاں تھیں ۔یمنی نے اسے پہلی بار نظر بھر کہ دیکھا ۔۔۔بندہ اتنا بھی برا نہیں ۔اسے دیکھتے ہی پہلا خیال یہی من میں آیا۔۔۔

شہریار نے اسے اپنے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس دیکھا ،ٹراوزر کے پائنچے نیچے سے فولڈ کیے گئے تھے ،اور ٹی شرٹ اس کے گھٹنوں کو چھو رہی تھی ۔ شہریار کی نظر اس کپڑوں سے ہٹ کر اس کے چہرے پر پڑی ۔۔۔مگر ہونٹوں پہ جم سی گئی۔۔ چہرہ تر ہونے کی وجہ سے پانی کی چند بوندیں اس کے زخمی ہونٹوں پہ ٹہری ہوئی تھیں۔۔

 اس وقت شہریار کے من میں شدت سے ان بوندوں کو جذب کرنے کی خواہش اٹھی تھی۔۔ اور اس نے اپنی خواہش کی تکمیل اس کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کر پوری کر دی تھی۔۔

جبکہ یمنی اس کی اس حرکت پہ حیرت زدہ سی اس کو دیکھ رہی تھی۔۔رات کو تو اپنی بات منوانے کے لیے یا اسے سزا دینے کے لیے سب کیا ،،،تو پھر اب کیا تھا ؟؟؟وہ سوچنے لگی ۔۔۔۔

وہ اس کی دیدہ دلیری پہ شاکڈ سی رہ گئی تھی ۔۔

اس کی طرف سے کوئی احتجاج یا روک ٹوک نا پاکر  کر وہ پھر سے اس کے ہونٹوں کی طرف جھکا ہی تھا کہ یمنی پھر فورا سے پیچھے ہوئی اور باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔پھولی ہوئی سانسوں سے کچن میں آکر ہی دم لیا ۔۔۔

"لوفر ۔۔۔۔کمینہ۔۔ ٹھرکی۔۔ اس کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتی وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی ۔۔۔۔

کچھ وقت ہی گزرا تھا وہ اس کے پیچھے کچن میں موجود تھا ۔۔۔

اس کی وہاں موجودگی محسوس کر کہ یمنی کے ایک بار پھر سے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ۔۔۔

انڈہ فرائی کرتے ہوئے چھینٹیں اس کے بائیں بازو پر گریں ۔بائیں ہاتھ سے اس نے فرائنگ پین کو ایک طرف سے پکڑ رکھا تھا۔

"آ۔۔۔۔آ۔۔۔آہ۔۔۔گرم گھی کی چھینٹوں سے ہوتی جلن سے وہ زور سے چلائی ۔۔۔

سدرہ جلدی سے اپنے کمرے سے نکل کر باہر آئیں ۔۔۔

"خدا خیر کرے کیا ہوا ؟؟؟وہ تشویش بھرے انداز میں بولیں۔

"کچھ نہیں امی آپ فکر مت کریں۔سب ٹھیک ہے ",شہریار نے انہیں تسلی آمیز انداز میں کہا۔

"انہوں نے ایک نظر کچن میں موجود یمنی پر ڈالی جو اب روتے ہوئے اپنی بازو پر پھونک مار کر جلن کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

"شہریار مجھے بتاتے میں ناشتہ بنا دیتی ،نئی نویلی دلہن کو کام پر لگا دیا "

"اور دیکھو اس کا بازو بھی جل گیا ۔"

"لاؤ مجھے دو میں بناؤں ناشتہ "وہ کچن میں جا کر یمنی کو پیچھے کرتے ہوئے بولیں۔

"جاؤ بیٹا تم آرام کرو "انہوں نے پیار بھرے انداز میں یمنی سے کہا ۔۔۔

"امی آپ رہنے دیں ۔یہ کرے گی ہی تو آئے گا نا کام کرنا ۔۔۔

اور خدا نخواستہ ایسا کون سا جل گیا ہے کہ کام نہیں ہوگا ۔۔۔

ویسے بھی الٹے ہاتھ پر لگا ہے ۔سیدھا ہاتھ تو سلامت ہے ۔اسی سے بنالے گی ۔"

آپ جائیں اور آرام کریں ۔

"مگر بیٹا !!!

"امی میں کہہ رہا ہوں نا کہ کچھ بھی نہیں ہوتا "وہ ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

"دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ،

ایک بار غلطی ہوئی ہے ،آئندہ سے خودی دھیان رکھے گی "

وہ انہیں کہتے ہوئے باہر نکلنے لگا تو مڑ کر یمنی کی طرف دیکھا ۔۔۔جو بھیگی شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

سدرہ کو وہ ان کے کمرے میں چھوڑ کر کچھ دیر میں واپس آیا ۔۔۔

اتنی دیر وہ بریڈ سینک کر انڈہ فرائی کر چکی تھی ،چائے ایک کپ میں نکال کر ٹرے میں سجایا سب پھر باہر لے کر آئی جہاں وہ ایک کرسی پر بیٹھا تھا اسی کے انتظار میں۔

وہ ٹرے سامنے موجود ٹیبل پر رکھ کر واپس مڑنے لگی ۔۔۔۔

"بیٹھو ادھر "

شہریار کی بھاری آواز سنائی دی ۔۔۔

وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھ گئی ۔۔۔

مگر منہ ہنوز پھولا ہوا تھا۔

وہ اس کی خفگی کی وجہ کو سمجھ چکا تھا ۔۔۔

"پہلی بائٹ بنا کر اس کے منہ کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

جو اپنی کہی گئی سخت باتوں کا ازالہ تھا ۔۔۔

یمنی حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔

اپنے والدین کی اچانک وفات کے بعد وہ خان حویلی میں آگئی تھی ۔وہاں بے شک اس کی خالہ بسمہ اور خالو اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔مگر جو پیار ایک ماں دے سکتی ہے،اسے وہ کمی ہر وقت کِھلتی رہتی تھی ۔وہ اپنی ماں کی توجہ کی خواہاں تھی ۔۔۔مگر وقت نے اس سے سب چھین لیا ۔۔۔وہ ادھورے پن میں ضدی اور ہٹ دھرم ہوگئی ۔۔۔۔

آج اتنے عرصے بعد کسی نے اس کے منہ کی طرف لقمہ بڑھایا تھا ،

اس کی آنکھیں فورا آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔

یمنی نے منہ کھولا ۔۔۔

تو شہریار نے اس میں بائٹ ڈالی ۔۔۔

وہ اپنی ہتھیلیوں سے آنسو رگڑ کر صاف کرنے لگی ۔۔۔کیونکہ آنکھوں کے سامنے آنسوؤں سے دھند جو چھا گئی تھی ۔۔۔وہ آنکھیں صاف کر کہ اسے دیکھنا چاہتی تھی ،

شہریار نے اسے اپنی طرف تکتا پا کر مسکرایا ۔۔۔

پھر اس نے خود بھی ناشتہ کیا اور ساتھ ساتھ یمنی کے منہ میں بھی بائٹ ڈالتا رہا ۔۔۔

وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ سے کھاتی رہی ۔۔۔

جاتے ہوئے شہریار اس کی بازو پر آئنٹمینٹ لگانا نہیں بھولا ۔۔۔

جاتے ہوئے اللّٰہ حافظ کہا اور اپنی  والدہ کی دعائیں لیں ۔۔۔پھر اپنی بائیک پر بیٹھ کر چلا گیا ۔۔۔

جانے کتنی دیر وہ اپنی بازو کو دیکھنے لگی جہاں اس نے آئنٹمینٹ لگائی تھی ۔۔۔اسے اب جلن کی بجائے اس جگہ پر ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا ۔۔۔

 __________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ متوازن  چال چلتا ہوا جیسے ہی آفس میں داخل ہوا تو ...

وہاں کام کرتے سبھی ورکرز اسکے آنے پر اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر اسکو سلام کرنے لگے جسکا جواب وہ سر کے اشارے سے دے رہا تھا ....

اسکے آفس میں کام کرتے سبھی ورکرز  اس کی اچھی طبیعت سے واقف تھے ،اسے پسند کرتے تھے ،وہ سب سے نرمی سے پیش آتا ،ان کے مسائل سنتا۔اسی لیے سب اس کے لیے دل میں خاص مقام رکھتے تھے   ...

کچھ دیر بعد زیگن بھی آفس آگیا ۔۔۔۔

 زیگن کی کچھ تو پرسنلیٹی ہی ایسی تھی کی سب اسکے سامنے بولنے سے پہلے سوچتے تھے اوپر سے اسکی غصیلی عادت سے سب واقف تھے کیونکہ  وہ غصے میں سب کچھ بھول جاتا تھا ..اسکو اپنا کام بہت صفائی اور اچھے طریقے سے کرنا پسند تھا .....وہ اپنے کام میں کوئی بھی غلطی برداشت نہیں کرتا تھا۔۔ 

۔۔وہ سیدھا اپنے روم میں آکر رکا تھا اسکا آفس بھی اسی کہ طرح شاندار تھا ۔۔۔پھر کچھ سوچتے ہوئے زریار کے کیبن کی طرف قدم بڑھائے ۔۔۔۔

زریار نے اپنے عنابی لبوں میں دبی سگریٹ سے اس نے ایک گہرا کش لیا اور دھوئیں کا مرغولہ بناتے ہوئے ہوا کے سپرد کیا ۔۔۔۔اس کی سنجیدہ آنکھیں اسوقت حدردرجہ سرخی مائل ہو رہی تھیں ۔۔۔اس کا چہرہ اسکے اندرونی خلفشار کی غمازی کر رہا تھا جیسے صدیوں کا سفر طے کیے لوٹا ہو۔۔۔۔۔۔

"زریار بھائی  !"نام کی پکار کہیں قریب سے آئی تھی،ساتھ ہی کسی کے کھانسنے کی آواز پر وہ جو کیبن کی ونڈو سے باہر دیکھ رہا تھا ۔۔سگریٹ فرش پر پھینک کر اپنے بوٹ سے مسلتا پلٹا،جہاں زیگن کھڑا ہوا  اپنے دونوں ہاتھوں سے دھواں جھٹک کر بری طرح کھانس رہا تھا ۔۔۔۔کیونکہ کیبن سارا سیگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔

وہ لمحوں میں فاصلہ طے کرتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔

"آپ نے یہ سب کب سے شروع کیا ۔؟؟؟پہلے تو آپ نے کبھی بھی سیگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا "۔

وہ تشویش بھرے انداز میں بولا ۔۔۔جبکہ مرکز نگاہ اس کا شاندار سا بھائی زریار ہی تھا ۔

"تم کیوں آئے یہاں ؟"

"تمہیں کوئی کام تھا ؟"وہ اس کا سوال نظر انداز کر کے سنجیدگی سے بولا۔ 

"کیوں میں آپ کے پاس نہیں آ سکتا ہے "؟

زیگن نے تحیر بھری نظروں سے اسے دیکھا کہ آج سے پہلے وہ یوں مخاطب نہ ہوا تھا۔

"آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے ۔۔۔بتائیں بھائی کیا بات ہے ۔۔۔"؟

"کچھ بھی نہیں ۔تم بتاؤ کیا بات ہے "؟

...میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں اور سیدھا آپ کے کیبن میں چلا آیا۔۔وہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولا ....

"اچھا کیا تمہاری لاشاری گروپ اینڈ انڈسٹریز سے میٹنگ کیسی رہی ؟؟؟زریار نے اپنے سامنے موجود فائلز میں سے ایک کو کھولتے ہوئے زیگن سے پوچھا ۔۔۔

"بہت اچھی رہی "...زیگن بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بولا ..تھا 

"بھائی اس کانٹریکٹ کے سارے پیپرز میں نے تیار کروا دئیے ہیں ۔مگر ۔۔۔۔

"کیا مگر ؟زریار نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"مگر یہ کہ اس پروجیکٹ کو بھی آپ ہی ہینڈل کریں گے ۔۔۔

"وہ کیوں ؟؟؟

"بھائی مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا کافی عرصے سے اس سے پہلے کہ آپ کو یہ بات کسی اور سے پتہ چلے اور آپ ناراض ہو جائیں ۔میں خودی آپ کو بتا دیتا ہوں ۔دراصل خان صاحب نے حادثے والے دن میرا اور ذوناش کا نکاح کروا دیا تھا۔

"Wow that's wonderful"

زریار حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بولا۔

"Congratulations"

اس نے مبارک باد دی۔

""Thanks bro "

وہ خوش دلی سے بولا ۔

"اور کل رات میں نے خودی رخصتی کروا لی تھی "وہ خجالت سے مسکراتا ہوا ایک اور انکشاف کر گیا ۔

"تم تو بہت فاسٹ نکلے "

زریار دھیمے سے مسکراتے ہوئے بولا۔

"بس برو جانے کتنی عمر لکھوا کر آئے ہیں،ہمیں تو اگلے پل کا بھی بھروسہ نہیں ،جانے اگلا سانس لے بھی پائیں گے یا نہیں ،اسی لیے میرا ماننا ہے۔جتنی خوشیاں سمیٹی جا سکتی ہیں سمیٹ لیں،

"مجھے آپ سے ایک اور بات بھی کرنی تھی ۔۔۔

"ہممم بتاؤ کیا بات ہے ؟؟وہ کہتے ہوئے منہمک انداز میں اس کی بات سننے لگا ۔۔۔۔

زیگن نے اسے رازدارنہ انداز میں کچھ کہا ۔۔۔۔۔تو وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا ۔۔۔پھر بولا ۔۔۔

ٹھیک ہے ،اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔

"جی بھائی ۔۔۔۔اور آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا "

وہ پیار بھرے انداز میں کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے کیبن سے باہر نکل گیا ۔۔۔

زریار نے اس کے جاتے ہی ایک ڈیلر سے فون پر بات کی اور اسی شہر میں اپنے لیے ایک فلیٹ خریدنے کا کہا ۔کیونکہ اب وہ اس نے گھر واپس نا جانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا،بزنس کی وجہ سے کسی دوسرے شہر بھی منتقل نہیں ہوسکتا تھا۔بے شک وہ بریرہ کے کہنے کے مطابق اس سے دور رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا،مگر وہ اپنی وجہ سے اپنے والدین کو کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا ۔خان صاحب کی اس حالت کے باعث  فی الحال وہی اس گھر کا سربراہ تھا ،تو وہ اپنی زمہ داریوں سے پیچھے کیسے ہٹ جاتا ۔وہ گھر سے دور رہ کر ذمہ داریوں کا نبھانے کا ارادہ باندھ چکا تھا۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اسلام وعلیکم امی "شہریار بائیک باہر ہی کھڑی کیے اندر آیا اور سدرہ سے کہا ۔وہ جو تخت پوش ہر بیٹھیں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد استغفار کی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔

وعلیکم السلام !اس کے سلام کے جواب میں بولیں ۔

"امی یہ میری تنخواہ ہے ۔یہ آپ رکھ لیں ۔اس میں سے میں نے کچھ پیسے لیے ۔یمنی کے پاس کپڑے نہیں تو سوچا اسے کے لیے کچھ کپڑے لے لوں اگر آپ کی اجازت ہو تو ؟

"اس میں اجازت کی کیا بات ہے بیٹا ۔اب وہ بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔بہت اچھا سوچا تم نے جاؤ لے جاؤ بچی کو ساتھ شاپنگ کروا دو اس کی پسند سے "

"جی امی "

"امی زرشال سے کہیں کہ عبایا لا دے اپنا ۔

"اچھا میں کہتی ہوں اسے "وہ اٹھ کر اندر چلی گئیں ۔۔۔

"یمنی تیار ہو جاؤ "

وہ جو بستر پر بیٹھی ٹی ۔وی پر کوئی سیریل  دیکھنے میں محو تھی ۔اس کی آمد پر فورا اپنی جگہ سے اٹھی ۔وہ ابھی تک اسی کے ٹراوزر شرٹ میں تھی ۔۔۔

"کہاں جانا ہے ؟؟؟

"بازار جانا ہے۔اہنی پسند سے کپڑے لے لو اپنے لیے "

"میرے پاس تو چادر نہیں ",

"یہ لیں بھائی ۔۔۔زرشال نے دروازے پر ناک کر کہ کہا۔

"تھینکس ", شہریار نے باہر سے زرشال کے ہاتھوں سے عبایا لیا اور اسے شکریہ کہہ کر واپس اندر آیا۔۔۔

"یہ پہن لو پھر چلتے ہیں"

"یہ کیا ہے ؟؟وہ حیرت انگیز نظروں سے عبایا دیکھ کر بولی ۔۔۔

"عبایا ہے ،اور کیا """

"مگر میں یہ نہیں پہنتی ۔پہلے کبھی بھی نہیں پہنا میں نے "

"تو کیا ہوا جو کام پہلے کبھی نہیں کیا ۔ضروری تو نہیں کہ انسان کرے ہی نہیں،بقول تمہارے لائف میں کچھ تھرل ہونا چاہیے۔تو اسے پردہ نا سہی تھرل سمجھ کر ہی پہن لو ۔۔۔

وہ اس کی بات پر لب بھینچ گئی ۔۔۔

پھر عبایا پہنے سر پر سکارف لیا ۔

"حجاب بھی کرو ",اگلا حکم جاری ہوا۔۔

"ایک بار کر کہ تو دیکھو پھر بتانا تمہیں کیسا لگا "وہ اسے قائل کر رہا تھا ۔۔۔

"دماغ اسے نفی کا اشارہ دے رہا تھا ۔مگر دل دماغ کے اشارے پر باغی ہو رہا تھا ۔

نجانے اب اس دل کے ساتھ کیا مسلہ ہو گیا تھا۔

وہ تھوڑی سی کوشش کے بعد حجاب کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔

پھر دونوں بائیک پر بیٹھے مارکیٹ تک آئے ۔۔۔۔

وہ دونوں بائیک پارکنگ میں کھڑی کیے اب قدم سے قدم ملا کر بازار میں داخل ہوئے ۔۔۔

یمنی نے پہلی بار حجاب کیا تھا اسے سانس لینے میں تھوڑی سی دشواری پیش آ رہی تھی ۔مگر اس نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ پہلے جب وہ بازار آتی تھی ،کئی لوگوں کی نظریں اس پر ہوتیں تھیں۔مگر آج وہ خود کو محفوظ تصور کر رہی تھی،کسی کی بھی میلی نظر اس کے چہرے پر نہیں پڑ رہی تھی ۔۔۔۔

"عورت جب بے پردہ ہوکر باہر نکلتی ہے تو غیر مردوں کے لیے تفریح کا سامان بن جاتی ہے،اور میں نہیں چاہتا میری بیوی کسی کی تفریح بنے "شہریار اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بولا۔

"یمنی آج یہ میری یاد رکھنا ،میں کبھی بھی تم سے کسی بھی چیز کے لیے زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا،مگر تم نے ہی مجھے مجبور کیا تھا تم پر سختی کرنے پر ،اگر شوہر کبھی بیوی پر زبردستی کرتا ہے ،تو خود کو کبھی حاکم نہیں سمجھتا ،دراصل وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ہوتا ہے ،اپنے سے منسلک رشتوں کی ۔مرد کے نزدیک اپنی عورت کی عزت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔مجھے تمہاری عزت کا خیال تم سے بھی بڑھ کر ہے،اور امید کرتا ہوں ،کہ تم بھی میری عزت کا پاس رکھو گی ۔

وہ دھیرے دھیرے اسے سمجھاتا جا رہا تھا ،اور وہ اس کی باتیں خاموشی سے سنی جارہی تھی ۔۔۔۔

پھر مارکیٹ سے مناسب قیمت کے کچھ جوڑے خریدے ۔۔۔

"تمہیں پسند ہیں ؟؟شہریار نے باہر نکل کر واپسی پر پوچھا ۔۔

"ہممم اچھے ہیں۔۔۔۔اس نے جواب دیا۔

"چلیں گھر یا کچھ کھانا کا موڈ کے تو بتاؤ ۔

اس نے اردگرد نظریں دوڑائیں۔۔۔

"نہیں پھر کھانے کے لیے حجاب اتارنا پڑے گا "

شہریار اس کی بات سن کر خوش بھی ہوا اور مسکرایا بھی ۔

"مجھے امید نہیں تھی میری جنگلی بلی اتنی جلدی میری باتوں کا اثر لے گی ۔۔۔

"شہریار !!!وہ اس کے شانے پر ہلکا سا مکا رسید کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

سنو جاناں ،

کسی کے چھوڑ جانے سے ۔

نہ واپس لوٹ آنے سے ۔

یہ سانسیں رک نہیں جاتیں،یہ دھڑکن تھم نہیں جاتی 

بدلتا کچھ بھی نہیں جاناں

گزرتا پھر بھی جیون ہے

فقط انداز جینے کے زرا تبدیل ہوتے ہیں۔

مگر یہ لوگ کہتے ہیں 

مرہم وقت ہوتا ہے۔

گزرے دن اداسی کے خوشی میں ڈھل ہی جاتے ہیں۔

کچھ ماہ بعد ۔

"پلیز او پوٹیٹو بلڈ کا ارینج کریں جلدی ",نرس آپریشن تھیٹر میں سے باہر نکل کر کہا۔

"زمارے جاؤ بیٹا ",بسمہ نے پاس کھڑے ہوئے زمارے کو دیکھ کر کہا۔

"جی مام ابھی بلڈ بینک سے پتہ کرتا ہوں ،کہتے ہوئے وہ سیکنڈ فلور پر گیا جہاں بلڈ بینک تھا ۔

"نرس کیسی ہے ذوناش سب ٹھیک تو ہے ؟؟؟بسمہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"دیکھیں آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ وہ بہت کمزور ہیں،اوپر سے ان کی کم عمری کی وجہ سے کافی کمپلیکیشنز ہیں۔۔۔۔ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ،،،آپ بس دعا کریں ۔۔۔۔

بسمہ خان وہیں کوریڈور میں ایک طرف جائے نماز بچھائے ذوناش کی خیر و عافیت کے لیے صدق دل سے دعا کرنے لگیں۔۔۔بریرہ ہاتھ میں تسبیح لیے اس کی اور بچے کی صحت و تندرستی کے لیے دعا گو تھی ،

زریار آفیشل میٹنگ کے سلسلے میں فی الحال اسلام آباد گیا ہوا تھا اس لیے وہ یہاں نہیں پہنچ سکا ۔زمارے ہی ان کے ساتھ ہاسپٹل میں موجود تھا ،

ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر اپنے ہاتھ میں موجود گلوز اتارتے ہوئے آپریشن تھیٹر سے باہر نکلیں۔

"بہت بہت مبارک ہو ،آپ دادی کے رتبے پر فائز ہوگئیں ہیں،آپ کا پوتا ہوا ہے "ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں مسکرا کر انہیں خوشخبری سنائی ۔۔۔

"ذوناش تو ٹھیک ہے ؟؟؟انہوں نے سب سے پہلے اسی کے بارے میں پوچھا ۔۔۔

"جی شکر ہے۔اب وہ ٹھیک ہیں،مگر ابھی انہیں  ہوش نہیں آیا ۔آپ کچھ دیر بعد مل لیجیے گا جب انہیں وارڈ میں منتقل کر دیا جائے گا ۔"وہ کہہ کر آگے بڑھ گئیں۔

"مام بہت مبارک ہو "بریرہ نے بسمہ کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔

"خیر مبارک ۔۔۔اب جلدی سے مجھے تم بھی ایسی ہی خوشخبری سنا دو ۔"مگر ۔۔۔۔

وہ بے دھیانی میں کہہ تو گئیں تھیں ۔پھر خاموش ہوگئیں ۔۔۔

"یہ لیں "نرس نے لائٹ بلیو کلر کے کمبل میں لپٹا ہوا بچہ بریرہ کے ہاتھ میں پکڑایا۔۔۔

"دیکھیں مام کتنا پیارا ہے!!!!وہ خوشی سے لبریز انداز میں بولی۔

"ہاں ماشاءاللہ ! بالکل اپنے باپ کی کاپی ہے،زیگن بھی جب پیدا ہوا تو اتنا ہی پیارا تھا،انہوں نے اسے اپنی گود میں اٹھا کر پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

زمارے میڈیسن لیے وہاں آیا تو ۔۔۔

"بہت بہت مبارک ہو زمارے تم چاچو بن گئے "بریرہ نے زمارے کو مسکرا کر کہا ۔۔۔

"لائیں دکھائیں مجھے بھی ",اس نے مسرت بھرے لہجے میں کہہ کر اسے اٹھایا ۔۔۔

"واؤ کتنا گولو مولو سا ہے  ۔۔۔۔

 اس نے بچے کے سرخ و سفید نرم و ملائم گالوں پر ہاتھ لگا کر کہا ۔۔۔۔

وہ اپنی بند آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔

"مام دیکھیں اس ہی ڈسم نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے مجھے دیکھا ہے۔اس کا نام بھی میں ہی رکھوں گا ۔اور اسے گُھٹی بھی میں ہی دوں گا ۔

"ارے میں نے اپنے پوتے کو کوئی عاشق صفت تھوڑی بنانا ہے تمہارے جیسا ۔نام بے شک تم رکھ لو گُھٹی اسے اس کے دادا ہی دیں گے ۔

"مگر مام وہ کیسے "؟

زمارے نے حیرت انگیز لہجے میں پوچھا۔

"تم ان کا ہاتھ پکڑ کر گُھٹی دلوا دینا ۔

"مام پھر تو خان صاحب کے ساتھ ساتھ کچھ عادتیں میری بھی تو آ ہی جائیں گی ۔وہ شرارت سے بولا۔

"اللّٰہ معاف رکھے تم جیسے اتاولے سے تو "وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولیں۔

"لاؤ اسے مجھے پکڑاو ابھی تو میں نے اسے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔ اور جاکر جلدی سے مٹھائی لاؤ میں سارے ہاسپٹل میں تقسیم کروں گی ۔آخر کو میرا پہلا پوتا میری گود میں آیا ہے ،

"جی مام ابھی لاتا ہوں ،وہ کہہ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

ذوناش کو ہوش آچکا تھا ،اس کی نظریں وارڈ کے دروازے پر تھیں۔

"تمہاری نظریں جسے ڈھونڈھ رہی ہیں،وہ یہاں نہیں ہے" ",بسمہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر  نم لہجے میں کہا۔

"آنٹی انہیں کہیں نا جہاں کہیں بھی ہیں واپس آ جائیں ۔۔۔میں نے تو ان نو ماہ میں ان کی واپسی کے لیے بہت سی دعائیں مانگی ہیں ،میری تو ایک دعا بھی قبول نہیں ہوئی ۔آپ مانگیں شاید آپکی قبول ہو جائے ۔۔۔وہ ہاسپٹل کے بستر پر لیٹے ہوئے رندھے لہجے میں کہہ رہی تھی ،اور نیلی آنکھوں سے موتی برس رہے تھے ۔۔۔۔ 

"میں تو ماں ہوں ،ایک ماں کی اپنے بیٹے کی جدائی میں کیا حالت ہے،تم سے کوئی ڈھکی چھپی ہوئی تو نہیں،جتنی تم اس کی واپسی کے لیے دعا کرتی ہو ۔میں بھی اتنا ہی اس کے واپسی کے ساتھ اس کی سلامتی کی دعا کرتی ہوں ،

"آنٹی وہ گئے کدھر ؟؟؟مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔۔

"اور کتنا انتظار کروں ،اب تو میری آنکھیں بھی ترس گئی ہیں ان کی راہ تکتے ہوئے  "وہ بوجھل آواز میں بولی۔

"ہماری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے ،ہمارا بیٹا ،اور وہ اس خوشی سے بےخبر ہیں،مجھے جس وقت ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی،تبھی وہ میرے ساتھ نہیں ۔۔۔

"حوصلہ مت ہارو بیٹا ،خدا سے ہمیشہ بہتری کی امید رکھو ،

وہ اس کا دھیان بھٹکانے کے لیے بولیں

"ابھی تم خود بھی اٹھ نہیں پا رہی تو اس چھوٹو کو کیسے دیکھو گی ۔ایسا کرتی ہوں میں بریرہ کو تمہارے پاس چھوڑ دیتی ہوں ،اور اسے لے کر گھر چلی جاتی ہوں ،کل تمہیں چھٹی مل جائے گی ۔

"جی آنٹی جیسا آپ بہتر سمجھیں "

وہ کہتے ہی پھر سے دوائیوں کے زیر اثر غنودگی میں چلی گئی ۔۔۔۔

اگلے دن زریار کی واپسی ہوئی تو اسے زیگن کے بیٹے کا پتہ چلا ،زمارے نے اسے کال پر بتایا کہ بریرہ اور وہ ہسپتال میں ذوناش کے پاس ہیں ،اور لٹل چیم مام کے پاس گھر ہے ،آج ذوناش بھی ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوجائے گی ۔۔۔اس کی بات سن کر  وہ گھر آیا اور بسمہ سے ملا ۔۔۔۔

"کیسا ہے میرا بیٹا ؟؟؟

انہوں نے زریار کو اتنے ماہ بعد سامنے دیکھ کر پوچھا ۔

",ٹھیک ہوں مام ",

زریار نے ننھے فرشتے کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے بسمہ کو جواب دیا ۔۔۔

"زریار مجھے تم سے اس کی امید تھی ،جب تم ہی اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہو گے تو ۔۔۔۔

وہ ان کی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ چکا تھا ۔

"مام میں اتنے دنوں بعد گھر آیا ہوں ،پلیز ایسا ٹاپک مت چھیڑیں۔مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ۔

"اپنی حالت دیکھو کیا بنا لی ہے تم نے "

وہ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے دیکھ کر پریشانی سے بولیں۔

تقریبا نو ماہ ہوچکے گھر سے گئے ہوئے ۔۔۔باہر کا کھانا کھاؤ گے تو کیا خاک صحت بنے گی ۔۔۔

"بتاؤ مجھے کیا کھاؤ گے میں ابھی بنواتی ہوں ۔نہیں بلکہ میں اپنے بیٹے کے لیے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لاتی ہوں ۔

"نہیں امی آپ فکر مت کریں ،مجھے بھوک نہیں "

"زریار مجھے بتاؤ تو صحیح کہ بات کیا ہے ،ادھر تم چپ ہو اور جب میں بریرہ سے پوچھتی ہوں تو وہ بھی مجھے کوئی جواب نہیں دیتی ۔۔۔تم دونوں نے مجھے پریشان کر کہ رکھ دیا ہے "

"مام آپ اپنا خیال رکھیں ،اس سب پر توجہ نہ دیں ،

میں بس اسے دیکھنے آیا تھا ۔

وہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور لٹل چیم کو بسمہ کی گود میں واپس دیا ۔۔۔

"زریار تھوڑی دیر اور رک جاؤ ۔۔۔"

"مام میری ایک ضروری میٹنگ ہے "وہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھ کر بولا 

"زیگن کا کچھ پتہ چلا ؟

"نہیں مام ۔۔۔۔میں نے اس جگہ پتہ کروالیا ہے جہاں کا وہ مجھے بتا کر گیا تھا ۔۔۔

مگر وہاں سے کچھ بھی معلومات حاصل نہیں ہوئیں ،وہاں کے ایریا کی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ بھی درج کروا رکھی ہے ،مگر وہاں سے بھی ابھی تک کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی ۔وہ لوگ بھی ابھی تک کچھ سراغ نہیں لگا پائے۔۔۔

"آخر کہاں گیا زیگن ؟؟؟

"زریار اسے کہیں سے بھی ڈھونڈھ نکالو "وہ ملتجی نگاہوں سے بولیں ۔۔۔

"مام میں پتہ کروا رہا ہوں ،پرائویٹ ڈیٹیکٹیو بھی ہائیر کر رکھا ہے ،مگر کہیں سے بھی کوئی اتہ پتہ نہیں مل رہا ۔۔۔۔

میں تو خود بہت پریشان ہوں ،سارا شہر چھان مارا ہے ۔مجھے خود سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں ؟؟؟کہاں ڈھونڈھوں اسے ؟؟؟

باہر حال میں کوشش کر رہا ہوں آپ پریشان نہ ہوں ،اپنا خیال رکھیے گا اور ذوناش کو بھی میری طرف سے پوچھیے گا ۔میں اب چلتا ہوں ۔وہ جھک کر بسمہ کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ہمیشہ خوش رہو "انہوں نے دوسرا ہاتھ اس کی پشت پر پھیرتے ہوئے شفقت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔

"زریار گھر واپس آجاؤ ۔۔۔زیگن بھی نہیں تم بھی مجھ سے دور ہو ،مہینوں سے آنکھیں ترس گئیں ہیں۔اپنے بچوں کو اپنے سامنے دیکھنے کی "وہ لاچارگی سے بولیں ۔

"جی مام "وہ انہیں چاہ کر بھی مثبت جواب نہیں دے پا رہا تھا ۔۔۔۔

پھر مزید کچھ کہے بنا بریرہ اور باقیوں کے گھر آنے سے پہلے ہی باہر نکل گیا ۔۔۔۔

دن یونہی بےروی سے گزرنے لگے تھے،زریار نے اس دن کے بعد سے بریرہ سے نا توکوئی بات کی اور نا ہی کوئی رابطہ رکھا۔۔۔

ادھر بریرہ کا رویہ سب گھر والوں کے ساتھ کافی بہتر تھا ۔وہ سب سے اچھے سے گھل مل گئی تھی ۔۔۔کافی حد تک سنبھل چکی تھی ۔۔۔۔

ذوناش کو اس شاندار حویلی میں  اپنا آپ قیدی سا لگنے لگا تھا،شروع میں دم گھٹتا تو راتوں کو اٹھ کر اس کی جدائی پر تنہا روتی رہتی تھی ۔۔۔ پر اب آنسو بھی سوکھنے لگے تھے،دل میں جیسے اس کے واپس آنے کی امید ختم ہوچکی تھی۔۔

بسمہ کو اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی خاموشی عجیب لگتی پر زیگن  کی غیر موجودگی کو وجہ سمجھتے وہ کچھ نہیں بولتی تھیں۔ذوناش اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ،ساتھ والے تکیے پر ہاتھ پھیر رہی تھی ،پھر اسے قریب کیے اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگی ۔اسے زیگن کے تکیے سے ابھی بھی اسی کی مہک آتی تھی ،اسی کے بستر پر اسی کے ساتھ گزاری وہ دو راتیں یاد آتی تھیں ،جو انہوں نے ساتھ گزاریں ،بسمہ نے جب ان دونوں کے رشتے کو قبول کر لیا تھا ،تو وہ سب کے سامنے پورے طمطراق اور حق سے اپنے کمرے میں لایا ۔۔۔

"باہر سب کیا سوچ رہے ہوں گے ",ذوناش نے پریشان کن انداز میں کہا۔

"سب کی چھوڑو یہ سوچو اس وقت تمہارا پرنس چارمنگ تمہارے بارے میں کیا سوچ رہا ہے "وہ ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"زی پلیز "وہ اس کی بے باک نظروں کا مطلب جان کر شرم سے دوہری ہوئی ۔۔۔

" زی کی جان ادھر آئیں "وہ خود بستر پر لیٹ کر اسے انگلی کے اشارے سے اپنے پاس بلا رہا تھا ۔۔۔

"زی پلیز آج نہیں آپ کو کچھ پتہ بھی ہے ،کل کے بعد سے میری طبیت ٹھیک نہیں ",

"میرے پاس آنے سے تمہاری طبیعت خراب ہو جاتی ہے ؟؟؟

اس نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

زیگن کے بدلتے رنگ نے اس کے ہاتھ پاؤں پُھلا دئیے 

"ٹھیک ہے تم آرام کرو "وہ کہتے ہی اٹھ کر لائٹ آف کرتے ہوئے واپس بستر پر کروٹ کے بل لیٹ گیا ۔۔۔۔

جو کہ صاف صاف اس کی ناراضگی کا اظہار تھا ۔۔۔

"زی میری بات کو سمجھنے کی کوشش۔۔۔۔نہیں وہ میں نے ایسے ہی کہہ دیا ۔۔۔۔

م۔۔۔میری بات تو سنیں ۔۔۔۔

اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اسے منانے کے لیے کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔

وہ ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹا رہا ۔۔۔۔

"I am sorry....

وہ معزرت خواہانہ انداز میں بولی۔۔۔۔

مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا ۔۔۔

اور پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھا گیا لیمپ بھی بجھا دیا ۔۔۔کمرے میں گہرا اندھیرا چھا گیا۔۔۔

سکوت پھیل گیا۔۔۔اس گھمبیر خاموشی میں ذوناش کی سسکیوں کی آواز واضح طور پر سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔

اب وہ اسے اتنی دیر روتا بھی کہاں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔

مڑ کر اسے دیکھا جو رونے کا شغل فرما رہی تھی ۔۔۔۔

زیگن نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کھینچا اور اپنے سینے پر گرایا ۔۔۔۔

اندھیرے میں بھی اس کی نیلی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔

زیگن نے اس کے نرم گالوں سے گرم بہتا سیال صاف کیا ۔۔۔۔

"جب ہمت نہیں ناراضگی برداشت کرنے کی تو ناراض کرتی ہی کیوں ہو "؟

"اب نہیں کروں گی "

"تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ابھی میں مانا نہیں ہوں ،مجھے مناؤ اچھے طریقے سے پھر ہی مانوں گا "وہ فرمائشی انداز میں بولا ۔۔۔

"چھوڑیں نا مجھے اتنے قریب سے سانس بھی نہیں آرہا ۔۔۔

"ابھی تو میں نے سانس روکا بھی نہیں پھر بھی "وہ قہقہہ لگا کر بولا ۔۔۔

"آپ نے مجھ سے کوئی بیہودہ بات کی تو اب کی بار میں آپ سے ناراض ہوجاوں گی "

جان جی بیوی سے بیہودہ بات نہیں کروں گا تو کس سے کروں گا ۔؟؟؟

"یہ نا ہو کوئی اور ڈھونڈھ لوں پھر پچھتائیں گی آپ ۔۔۔۔

"میرے علاؤہ کسی اور کو دیکھا بھی تو میں اپنی جان دے دوں گی "

"سچ میں اتنا پیار کرتی ہیں ؟؟؟وہ اس کے نچلے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"مجھے نہیں پتہ میں آپ سے کتنا پیار کرتی ہوں ،بس اتنا جانتی ہوں ،آپ کے بنا میں کچھ بھی نہیں "

آنکھیں پھر سے برسنے لگیں ۔۔۔

"روئیں مت "وہ اسے واپس اس کے تکیے پر لٹاتے ہوئے اس پر جھکا ۔۔۔

"میں آپ کو پھر سے بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے کتنا پیار کرتا ہوں ۔۔۔میری موجودگی میرے پیار کو محسوس کریں ۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے اس کا دوپٹہ گلے سے نکال کر ایک طرف رکھتے ہوئے اس کی گردن پر اپنے پر حدت لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔

"زی مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے "وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اونہہ۔۔۔۔ابھی نہیں ۔۔۔اسے اپنے کام میں خلل ناگوار گزرا ۔۔۔۔

"میں جانتا ہوں میری جان جی کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔

ابھی صرف مجھے یاد رکھیں اور میری محبت کو "

وہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں پر اپنے لب رکھ کر انہیں بند کروا گیا اور ۔۔۔

اسے پھولوں کی طرح نرمی سے چھوتے ہوئے ایک بار اسے پھر سے اپنے پیار کی مہک سے پور پور مہکا گیا تھا ۔۔۔

اگلی صبح وہ اس سے اور اپنی والدہ بسمہ سے مل کر ایسا گھر سے نکلا کہ آج تک واپس نہیں آیا ۔۔۔۔اسے اگلے ماہ ہی اپنی ماں بننے کی خبر ملی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی ،مگر ایک ماہ کا گیا زیگن ابھی بھی نہیں واپس آیا تھا ۔اسکا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا ۔کالج جانا ترک کر چکی تھی ،جس پڑھائی کرنے کی خواہش دل میں لیے وہ یہاں آئی تھی ۔وہ بھی بیچ میں ہی چھوٹ گئی تھی ۔۔۔ایسی حالت میں کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا ،گری ہوئی طبیعت ،اوپر سے زیگن کی غیر موجودگی اسے آدھا کر گئی تھی ۔۔۔۔۔

 ____________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"شہریار مس اقراء سے آج آپ کی میٹنگ ہے،آپ کو انہیں اپنی پراڈکٹ سیل کرنے کے لیے راضی کرنا ہی ہوگا ۔۔۔وہ کافی ایکسپرٹ ہیں اس کام میں ان کے پاس کافی سٹاف بھی موجود ہے۔اگر وہ ہماری کمپنی کے ساتھ کام کریں گی تو ہمیں بہت پرافٹ ہوگا ۔۔۔

"مگر سر میں کیسے انہیں راضی کروں ",وہ اچنبھے سے بولا ۔۔۔

"شہریار آپ مت بھولیے کی حال ہی میں آپ کی اچھی کارکردگی دیکھ کر آپ کو سیلز مینیجر کی پوسٹ دی گئی ہے اور یہ کام  بھی آپکی ذمی داریوں میں سے ایک اہم کام ہے۔

"جی سر میں پوری کوشش کروں گا "وہ کہہ کر ان کے سامنے والی سیٹ سے اٹھا ۔

"مسٹر شہریار آپ کو کوشش نہیں یہ کام کرنا ہی ہوگا ۔ورنہ محنتی لوگوں کی کمی نہیں ہمارے پاس "وہ بنا لگی لپٹی بولے ۔

شہریار نے اپنے باس کے قطعیت بھرے انداز پر سخت ناگواری محسوس کی،مگر دلی   تاثرات کو چھپائے رکھا ،اور چہرے کو سپاٹ رکھا ۔

"جی سر "وہ کہتے ہوئے ان کے کیبن سے باہر آیا ۔۔۔۔

اور آکر اپنی سیٹ پر بیٹھا۔۔۔

کچھ دیر سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوچنے لگا ،ایم ۔بی ۔اے کرنے کے باوجود بھی وہ ذلیل و خوار ہو رہا ہے، حلال روزی کمانے کے لیے یہ بھی سہی ۔۔۔

آج وہ معمول کے مطابق جلدی گھر واپس آیا ۔۔۔

اس نے کچن میں جھانکا وہ کچن میں ہی موجود تھی ۔۔۔

دو تین ماہ اس نے سدرہ سے کھانا بنانا سیکھا اب وہ خود کھانا بنانے لگی تھی ،بہت اچھا تو نہیں مگر کھانے کے قابل ضرور بنا لیتی تھی ،ابھی بھی سیکھنے کا عمل جاری تھا۔

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔شاور لے کر فریش ہوا اور پھر باہر آیا ۔۔۔

"آپ کب آئے "؟

یمنی نے اسے گھر کے آرام دہ کپڑوں میں پوچھا ۔۔۔جس کے بال گیلے تھے ۔جو اسکے شاور لینے کی گواہی دے رہے تھے ۔مگر چہرے پر سنجیدگی تھی ۔

"کچھ دیر پہلے ہی "وہ فقط اتنا ہی بولا۔پھر کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔

"کھانا لگاؤں "؟

"بھوک نہیں "وہ بیزاری سے بولا ۔۔۔

"یہ کیا بات ہوئی ؟؟؟؟

"آپ کو پتہ ہے آج میں نے آپ کی پسند کی نہاری بنائی ہے "وہ پرشوق انداز میں بولی ۔

"سچ میں دل نہیں کچھ بھی کھانے کو "

اصل میں وہ ایک لڑکی سے ڈیلنگ کا سوچتے ہوئے گھبرا رہا تھا ۔کیونکہ پہلے کبھی اس نے کسی صنف مخالف سے کام کے سلسلے میں بات نہیں کی تھی یہ پہلا تجربہ تھا ۔

یہی سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ وہ اسے قائل کیسے کرے گا اپنی کمپنی کےبساتھ کام کرنے کے لیے ۔۔۔۔

"پلیز میرے لیے تھوڑا سا ۔۔۔

وہ اس کے پاس کھڑی ہوئی کہہ رہی تھی اور وہ خاموش تھا ۔

"شہریار بچے تمہارا دھیان کہاں ہے ؟؟یمنی کتنے پیار سے پوچھ رہی ہے کھانے کا ۔۔۔

سدرہ کی آواز پر وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا ۔

"ہممم۔۔۔اچھا لگاؤ کھانا سب مل کر کھاتے ہیں ۔

"آپ بیٹھیں بھابھی میں تازہ روٹیاں بناتی ہوں "زرشال نے اسے کچن میں جاتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"کوئی بات نہیں میں بنا لوں گی "یمنی نے زرشال سے میٹھے لہجے میں کہا۔

"چلیں پھر دونوں مل کر بنا لیتے ہیں ،جلدی بن جائیں گی ۔پھر ہم سب مل کر کھائیں گے ۔ذرشال نے دوستانہ انداز میں کہا تو اس نے مسکرا کر حامی بھری ۔۔۔

یمنی کا رویہ آہستہ آہستہ سب سے ٹھیک ہوچکا تھا ،اور یہ سب شہریار کی بار بار سلیقے سے کی گئی برین واشنگ کا نتیجہ تھا ۔۔۔کہ آج وہ پہلے والی یمنی سے کافی بدل گئی تھی ،اس کے بات کرنے میں ادب و آداب دکھلائی دیتا ،اور لہجے میں میٹھا پن جو پہلے کبھی اس کی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا ۔۔۔

خوشگوار ماحول میں رات کا کھانا کھایا گیا ۔پھر چائے کا دور چلا ۔۔۔

رات گئے وہ برتن سمیٹ کر کمرے میں آئی تو شہریار آفس کے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا ۔۔۔۔

اسکی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر چل رہی تھیں جیسے وہ کچھ ٹائپ کر رہا ہو ۔۔۔

یمنی کچھ دیر شیشے کے سامنے کھڑی رہی اپنے بالوں میں برش پھیرا انہیں اطراف سے پکڑ کر ڈھیلا سا کیچر لگایا پشت پر بال بکھرے ہوئے تھے ۔ہلکا سا خود پر پرفیوم کا چھڑکاؤ کیا ۔۔۔

سارے کمرے میں اس کی مہک پھیلی۔۔۔شہریار جو کام میں مصروف تھا ۔ایک اچٹتی ہوئی نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔

جو بلیک کلر کی سادہ سی شلوار قمیض ملبوس تھی ۔بنا دوپٹے کے کھلے عام اپنے حسن کی رعنائیاں بکھیر رہی تھی ۔۔۔

یمنی نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ رخ پھیر کر اسے دیکھا ۔۔۔

وہ فورا نظروں کا زاویہ پھیر گیا ۔۔۔اور واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔وہ اس کی بے اعتنائی پر غصے سے بل کھا کر رہ گئی ۔۔۔۔

پھر آہستگی سے چلتے ہوئے اس کے پاس آئی اور بستر پر بیٹھ گئی۔۔۔

"تمہیں نیند آئی ہوگی تم لیٹ جاؤ میں اپنی جگہ پر چلا جاتا ہوں ",وہ کہہ کر بستر سے اٹھنے لگا تھا ۔۔۔

"اگر آپ چاہیں تو یہاں لیٹ سکتے ہیں "

"نہیں سنگل بیڈ ہے تم ان کمفرٹیبل ہوگی ۔میں نیچے ہی ٹھیک ہوں "وہ کہہ کر بستر سے اترا ۔۔۔اور لیپ ٹاپ بند کیے ایک طرف رکھا ۔۔۔

شروع دن سے جو دوریاں تھیں وہ ابھی بھی برقرار تھیں۔

بے شک وہ دونوں ہر ویک اینڈ پارک میں جاتے کبھی لانگ واک پر جاتے گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ایک دوسرے کی پسند نا پسند جان چکے تھے ،یا یوں کہہ لیں کہ ان میں اچھی دوستی ہو چکی تھی مگر اب بھی ایک فاصلہ برقرار تھا ۔۔۔۔

شہریار جا کر نیچے فرش پر اپنا گدا بچھائے لیٹ گیا ۔یمنی غصے سے اٹھی اور لائٹ بند کی ۔۔۔واپس مڑنے لگی تو پاؤں شہریار کی ٹانگ میں پھنسا اور وہ ایک ہی جھٹکے میں اس پر گری ۔۔۔

شہریار کو کہاں امید تھی اس حادثے کی وہ اس افتاد پر بوکھلا کر رہ گیا۔۔۔۔

یمنی کے لب اس کے گال سے چھو گئے ۔۔۔۔

یہ سب بس لمحوں میں ہوا ۔۔۔

یمنی خود اس حادثے پھر اوپر سے اپنے عین زاوئیے پر گرنے سے گھبرا گئی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے کھری کھری سنادیتا ۔۔۔یمنی کے بال اس کے چہرے پر بکھر گئے ۔۔۔

ان میں سے آتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو اسے اپنے حواسوں پر چھاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھ گیا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے اس کے لبوں کا نرم سا لمس محسوس ہوا تھا ۔۔۔

یمنی نے اس پر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ اس کے گرد اپنے دونوں بازو پھیلا کر اپنا حصار مظبوط کر گیا ۔۔۔۔

"جانے دیں "۔۔۔۔وہ اس کی سخت گرفت میں مچلتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ایک بار پھر سے "

پھر جانے دوں گا "وہ آدھی ادھوری بات بولا ۔۔۔۔

"وہ میں نے نہیں ۔۔۔۔وہ تو خود ہی ۔۔۔۔۔شرم کے مارے یہی بول پائی ۔۔۔

"چلو اس بار خود ہی کر لو ،"

"نہیں "وہ شرارتی انداز میں بولی۔

"جاؤ سوجاؤ "

وہ سپاٹ انداز میں اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے بولا۔

یمنی اس کے یوں چھوڑ دینے پر ہکا بکا رہ گئی۔وہ تو سوچ رہی تھی کہ وہ اسے تنگ کرے گی ۔پھر وہ اسے پیار سے منائے گا ۔مگر وہ تو ۔۔۔۔

وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی جگہ واپس آئی ۔۔۔۔

اور پھر لیٹ کر سوچنے لگی ۔۔۔

میرے جیسی لڑکی شاید تمہارے معیار کی نہیں ۔میں نے تمہارے لیے خود کو کرنا بدل کیا شہریار لیکن تمہیں اندازہ نہیں "

وہ دل میں سوچنے لگی ۔۔۔۔

"میں تمہیں خود سے پیار کرنے پر کبھی مجبور نہیں کروں گا ۔میں اس وقت کا انتظار کروں گاجب تم دل کی رضا سے میرے پاس آؤ گی ۔",وہ بھی آنکھیں بند کیے اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"شیر زمان تم اپنے دادا کے پاس لیٹو دادی ابھی وضو کر کہ آتی ہے "وہ ننھے شیر زمان کو بے سدھ لیٹے ہوئے خان صاحب کے پاس لٹا کر خود واش روم کی طرف بڑھ گئیں۔

زمارے نے اس کا نام شیر زمان رکھا تھا ۔

شیر زمان زیادہ تر بسمہ کے پاس رہتا تھا۔

شیر زمان خان صاحب کے ساتھ لیٹا ہوا اب زور زور سے پاؤں چلانے لگا تھا ۔۔

اسے چھت پر لگا چلتا ہوا پنکھا دیکھنا بہت پسند تھا ۔جب بھی پنکھے کی طرف دیکھتا یونہی جوش و خروش سے ٹانگیں چلاتا ۔۔۔۔

اس کی وہیں زور سے چلتی ہوئی ٹانگیں تقریبا پانچ منٹ سے خان صاحب کی بازو پر لگ رہیں تھیں ۔۔۔

اچانک خان صاحب کے ہاتھ کی  انگلیوں میں جنبش ہوئی ۔۔۔۔

پھر پاؤں نے ہلکی سی حرکت کی ۔۔۔

آہستہ آہستہ آنکھیں کھلنے لگیں ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ان کی مندی ہوئی آنکھیں پوری طرح سے کھل گئیں ۔۔۔۔انہیں اپنے ہوش و حواس میں لوٹنے میں کچھ لمحے لگے ۔۔۔۔

 ننھی ننھی سی زور دار ٹانگیں ان کو اپنے بازو پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی تو انہوں نے زرا سا گردن ترچھی کر کہ دیکھا ۔۔۔۔وہ ایک گول مٹول سا پیارا سا بچہ تھا ۔۔۔۔

دل کیا ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے پاس کریں ۔۔۔

ہاتھ اٹھا کر اسے پکڑنا چاہا ۔۔۔مگر ہاتھ اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے ۔۔۔۔ان کے ہاتھ بری طرح کپکپا رہے تھے ۔۔۔۔

بسمہ جو وضو کیے واش روم سے باہر نکلیں ۔خان صاحب کو ہوش میں دیکھ خود خوشی سے سکتے میں آگئیں ۔۔۔۔

"خان صاحب !!!! ان کے منہ سے مسرت بھری چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

ناول🎀🎀 Surprise 💞

#جگنووں سے بھر دوں آنچل

#رائـــــــٹر✍️

#حــــــــنا_اسد

#قســـــط:24

Don,t copy paste without my permission 📵

"بریرہ آپی آپ کیا اندر جا کر میرے حصے کی منت مانیں گی ۔؟"

ہاسپٹل سے واپسی ذوناش نے بریرہ سے کہا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے ،تم بتاؤ مجھے کیا منت ماننی ہے "؟

"یہ بھی کوئی بتانے کی بات ہے .ذوناش نے نم آواز میں کہا۔

"تم زیگن کی واپسی کے لیے منت ماننا چاہتی ہو ؟؟؟اس نے ایک بار کنفرم کرنا چاہا ۔

"جی ",وہ دکھی دل سے بولی ۔

زمارے نے سائیڈ پر گاڑی روکی تو بریرہ لیڈیز والی سائیڈ سے درگاہ کے اندر جانے لگی ۔۔۔۔

تھوڑا فاصلہ طے کیے وہ اندر گئی اور فاتحہ پڑھ کر منت مانی ۔جب وہ باہر نکل رہی تھی تو اسے پیچھے سے کسی نے پکارا ۔۔۔

"تم غلط کر رہی ہو "

وہ کسی ضعیف انسان کی نحیف سی آواز تھی ۔بریرہ رک گئی ۔۔۔اور مڑ کر دیکھا ۔

وہ بزرگ تھے جنہوں نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی ،سفید داڑھی ،جھریوں ذدہ چہرہ ،مگر چہرے پر نور ہی نور تھا۔۔۔جانے کیا کشش تھی ان میں ۔۔۔وہ انہیں دیکھ کر خود بخود ان کی طرف بڑھی ۔۔۔

"میں نے کیا غلط کیا ؟وہ ان کے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔

"تقدیر اسی کو کہتے ہیں ،جن سے آپ بھاگ رہے ہوں ،جن سے آپ فاصلے بڑھا رہے ہوں ،تقدیر انہیں ہی آپ کے پاس لے آتی ہے اور آپکے پیدا کردہ فاصلے مٹا دیتی ہے۔"

"آپ اس شخص سے نہیں بلکہ  تقدیر سے لڑ رہے ہوتے ہو اور جو انسان تقدیر سے لڑتا ہے اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے "

"جب تقدیر نے اس کا ساتھ تمہارے مقدر میں لکھ دیا ،تمہارے نزدیک شاید ابھی بھی وہ گناہوں سے لتھڑا شخص ہوگا ،کیا پتہ وہ رب کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر مغفرت پا چکا ہو پھر تپ کر کندن بن چکا ہو ،ایک ہی زندگی میں دوسرا جنم لے کر پارسا بن گیا ہو ،جسے تمہاری آنکھیں دیکھ نہیں پا رہی ،اسے دماغ کی نہیں دل کی آنکھوں سے دیکھو سچائی واضح ہو جائے گی ۔"

"آپ میرے بارے میں یہ سب کیسے جانتے ہیں ؟

وہ حیرت زدہ آواز سے بولی ۔

وہ تم چھوڑو بس یہ یاد رکھو۔

" انتقام کی آگ میں اندھا ہوکر تم شیطان کو خوش کر رہی ہو"

"اپنی زمہ داریوں اور فرائض سے منہ موڑ رہی ہو "

جو تم کر رہی ہو وہ بھی تو گناہ ہے ،اب تم اس شخص کے نکاح میں ہو "

اس کو گنہگار سمجھ رہی ہو تو دیکھا جائے تم بھی تو گناہ کی مرتکب ہو رہی ہو " 

وہ ان کی باتیں سن کر دنگ رہ گئی۔۔۔۔

"کوئی پلٹ کر آئے تو اس کا ہاتھ تھام لینا چاہیے ،اس کی امید نہیں توڑنی چاہیے۔

اللّٰہ عزوجل بھی تو یہی کرتا ہے ،یہ اسی کی صفت ہے،تو کیا تم اس صفت کو اپنی شخصیت کا خاصہ نہیں بناؤ گی ۔وہ پروردگار بھی اپنے بندوں کی امید نہیں ٹوٹنے دیتا ۔۔۔

 "مگر میں ماضی کے ان تلخ بابوں کو اپنی زندگی سے کیسے نکال پھینکوں ؟"وہ بے بسی سے بولی ۔

"اللّٰہ تعالیٰ بھی تو انسان کے ایک بار دل سے معافی مانگنے پر پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ،

اور وہ تو کتنی بار تم سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہے ۔

"غلطی تمہاری بھی تھی بے شک تم تب نا سمجھ تھی مگر تمہیں رات کے پہر اکیلے وہاں نہیں جانا چاہیے تھا ،

شیطان تو کمزور نفس کے مرد کو تنہا دیکھ اس پہ غلبہ پا لیتا ہے،

وہ ان کی بات سن کر اپنا محاسبہ کرنے لگی ۔۔۔۔

کہیں نا کہیں ان کی بات بھی درست لگی ۔۔۔۔ہمارے والدین بچیوں کو کم عمری میں دنیا سے چھپا کر رکھتے ہیں،انہیں کوئی اونچ نیچ نہیں بتاتے ،کہ کسی غیر مرد کے پاس نہیں جانا ۔۔۔اگر کوئی تمہیں چھووئے تو کیا کرنا ہے ،وہ بچپن میں اپنی بچیوں کے ذہن کو پختہ نہیں کرتے ،حالانکہ وہی عمر تو نازک ہوتی ہے،انہیں بتانا چاہیے غیر مرد سے دوری بنائے رکھیں چاہے وہ کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نا ہو "سگے بھائی کے علاؤہ کوئی بھائی نہیں ۔کوئی محرم نہیں ،کسی کو خود کو چھونے نہ دے ۔وہ اپنے کمرے میں بیٹھے اس دن کی ان بزرگ سے کی گئی باتیں یاد کر رہی تھی ۔۔۔۔اور سوچوں کے دھاروں میں بہے جا رہی تھی کہ باہر سے بسمہ کی اونچی آواز سن کر وہ کمرے سے باہر بھاگی ۔۔۔۔۔

زمارے جو ابھی ابھی حویلی پہنچا تھا ۔اپنی مام کی آواز سن کر وہ بھی انکے کمرے کی طرف بھاگا ۔۔۔۔

"کیا ہوا مام "

جب کمرے میں سامنے نظر پڑی تو بسمہ خان صاحب کے شانے سے لگیں زار و قطار رو رہی تھیں ۔۔۔۔

اور خان صاحب کی آنکھیں کھلیں ہوئیں تھیں ۔۔۔

"خان صاحب !!!زمارے بھی انہیں پکار ہوا ان کے پاس گیا ۔۔

"اور خوشی سے ان سے لپٹ گیا ۔۔۔

"یہ ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔وہ شیر زمان کی طرف اشارہ کیے اسکے بارے میں پوچھنے کی کوشش کر رہے تھے ،بولتے ہوئے زبان لڑکھڑائی ۔۔۔۔

"خان صاحب آپ کی پوتے کی خواہش پوری ہوگئی ۔۔۔

یہ زیگن کا بیٹا ہے آپ کا پوتا "بسمہ نے اپنی نم آنکھوں کو پونچھا اور انہیں بتایا ۔۔۔۔

زمارے نے شیر زمان کو اٹھا کر ان کے چہرے کے پاس کیا ۔۔۔۔

تو خان صاحب نے اسے نظر بھر کر دیکھا ۔۔۔ان کے چہرے پر آسودہ مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔۔

"خان صاحب اٹھیں نا آپ کو لیٹے ہوئے دیکھ کر بہت برا لگتا ہے "بسمہ نے کہا ۔

انہوں نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر جسم اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔

زمارے بیٹا ڈاکٹر کا کال کر کہ بلاؤ "

جی مام میں ابھی کال کرتا ہوں وہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا اپنا فون لینے ۔۔۔۔

"یہ کون ہے ؟"

خان صاحب نے کب سے دروازے میں کھڑی ایک انجان لڑکی کو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"یہ آپ کی بہو ہے ،زریار کی بیوی بریرہ "انہوں نے اس کا تعارف کروایا ۔۔۔

"اسلام وعلیکم!

اس نے اندر آکر مؤدب انداز میں سلام کیا ۔

"وعلیکم اسلام !انہوں نے بھی جوابا کہا ۔۔۔

انہوں نے سوالیہ نظروں سے بسمہ کو دیکھا ۔۔۔۔

"خان صاحب آپ اتنا لمبا عرصہ نیند میں رہے کہ بہت کچھ بدل گیا ۔",وہ شکستہ لہجے میں بولیں ۔۔۔

"آہستہ آہستہ سب بتاؤں گی "

وہ ان کی بات سن کر پھر سے اپنی پوتے کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔

جو ہاتھ پاؤں چلا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا ۔۔۔

"کافی دیر کومہ میں رہنے کی وجہ سے ان کی باڈی اتنی جلدی رسپانس نہیں کر رہی انہیں کچھ وقت لگے گا نارمل ہونے میں ،انہیں پراپر ایکسرسائز کروائیے ان شاءاللہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے پھر سے چلنے پھرنے لگیں گے ۔۔۔۔

ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیے انہیں بتایا ۔۔۔۔

خان صاحب کے ہوش میں آجانے سے گھر میں اتنے دنوں بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"امی زمارے جی کا برتھ ڈے آنے والا ہے ،سوچ رہی ہوں ان کے لیے کچھ گفٹ لے لوں اگر آپ اجازت دیں ",زرشال نے جھجھکتے ہوئے سدرہ سے کہا ۔

"تمہارا دل ہے تو لے مجھے بھلا کیونکر اعتراض ہوگا ،اب تم اس کے نکاح میں ہو ،کوئی معیوب فرمائش نہیں کر رہی جو مجھے اعتراض ہوگا "وہ پیار بھرے انداز میں بولیں۔

"تھینک یو امی ۔۔۔آپ دنیا کی سب سے پیاری ماں ہیں "

"ہر بچہ اپنی ماں کو یہی کہتا ہے ۔میں بھی اپنی امی سے یہی کہتی تھی ۔سدرہ نے مسکرا کر کہا ۔

"امی تو پھر میرے ساتھ بازار چلیں ۔"

"ایسا کرو تم اپنی بھابھی کے ساتھ چلی جاؤ "انہوں نے مشورہ دیا ۔

"ایک منٹ میں پوچھ کر آتی ہوں "وہ کہتے ہی یمنی کے پاس گئی جو مشین لگا کر کپڑے دھونے ہی لگی تھی ،

"بھابھی بھابھی یہ مشین والا ظلم مت کرئیے گا ۔کل لگا کر کپڑے دھوئیں گے آج مجھے وقت دیں تھوڑا سا "وہ یمنی کے پاس آکر بولی ۔

"کیوں کیا ہوا"؟

مجھے نا زمارے کے لیے گفٹ لینا ہے آپ میرے ساتھ چلیں نا بازار ۔

"وہ تو ٹھیک ہے ۔مگر شہریار کو کہیں برا نا لگے ۔۔۔یمنی سوچ کر بولی ۔

"انہیں بھلا کیوں برا لگنے لگا ؟وہ حیرت سے بولی ۔

"ان سے پوچھا نہیں نا جانے کا اگر انہیں پتہ چل گیا تو ؟؟؟

"ہممممم۔۔۔۔ایساکرتے ہیں ہم تینوں چلتے ہیں ۔امی کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں ۔امی ساتھ ہوں گی تو بھائی غصہ نہیں کریں گے "

"ہاں یہ ٹھیک ہے ،میں عبایا پہن کر آتی ہوں تم امی کو بھی تیار کر لو "وہ بھی شہریار کی دیکھا دیکھی اب سدرہ کو امی کہہ کر بلانا شروع ہو چکی تھی ۔

"ٹھیک ہے "وہ کہہ کر واپس سدرہ کے پاس گئی۔

پھر تینوں گھر کو باہر سے تالا لگائے رکشہ پر بیٹھ کے مارکیٹ چلی گئیں ۔۔۔۔

کیونکہ مارکیٹ گھر کے راستے سے کافی دور تھی ۔

وہ تینوں ایک پلازہ کے سامنے اتر گئیں ۔پھر مارکیٹ کی طرف بڑھیں ۔۔۔

زرشال ،زمارے کے لیے گفٹ پسند کرنے لگی ۔۔۔۔اور وہ اس کی مدد کرنے لگی ۔۔۔۔۔

اس کے لیے گفٹ خریدے وہ مارکیٹ سے باہر نکلیں ۔

"امی وہ دیکھیں کتنا پیارا ڈریس ہے "زرشال نے سدرہ کی توجہ ڈمی پر موجود ایک شیفون کے ہلکے سے کامدار پنک کلرکے لانگ فراک پر دلائی 

جو روڈ کراس کر کے سامنے والے مال کی ایک شاپ پر لگا تھا ۔مگر یہاں سے بھی واضح دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

"امی چلیں نا اس کی قیمت پوچھتے ہیں اگر مناسب ہوا تو لے لیں گے "

"زرشال تم مال دیکھو اتنا بڑا ہے اس میں موجود کپڑوں کی قیمت تو آسمان کو چھوتی ہو گی ",سدرہ نے کہا۔

"امی ایک بار پوچھنے میں کیا حرج ہے "

"اچھا چلو "وہ تینوں روڈ کراس کیے دوسری طرف آئیں ۔۔

سامنے ایک کیفے سے گزرتے ہوئے یمنی کی نظر اندر بیٹھی ہوئی دو شخصیات پر پڑیں تو پلٹنا بھول گئیں۔۔۔

کیفے وال گلاس پر مبنی تھا ۔

اسی لیے باہر سے اندر کا سارا منظر دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

شہریار کرسی پر بیٹھا تھا اور کوئی لڑکی اس کے سامنے بیٹھے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے "

یہ منظر دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مرچیاں سی بھرنے لگیں ۔۔۔۔

اسے رکے ہوئے دیکھ کر سدرہ اور زرشال نے اس کی نظروں کے تعاقب میں اندر دیکھا تو وہ بھی حیرت زدہ رہ گئیں ۔۔۔

"ابھی پوچھتی ہوں اسے تم فکر مت کرو "سدرہ غصے میں کہتی ہوئیں اندر جانے لگیں ۔

"نہیں امی ابھی نہیں ۔باہر یہ سب تماشا لگانا مناسب نہیں گھر چل کر بات کریں گے "زرشال نے انہیں ایسا کرنے سے روکا ۔

"چلو یہاں سے "

وہ یمنی کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھیں ۔۔۔

"یمنی بیٹا میں تمہیں بھی کہنا چاہوں گی ،بے شک مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر گزرتا ہے ،تم نے اس کے رنگ میں خود کو ڈھال لیا ہے ،مگر خود پر توجہ دینا چھوڑ دی ہے ،بیٹا مرد تب ہی باہر دیکھتا ہے جب اسے گھر میں توجہ نا ملے ۔۔بیٹا سجا سنورا کرو ۔وہ دبے لفظوں میں اسے باور کروا رہی تھیں ۔

اس نے انکی باتوں پر سوچا ۔۔۔واقعی وہ خود پر توجہ دینا تو کب کی چھوڑ چکی تھی ۔

"بھابھی یہ خرید لیں ۔رات کو پہن کر بھائی کو شاک دیجیے گا ۔پھر دیکھنا میرے معصوم سے بھائی کیسے چاروں شانے چت ہوجاتے "وہ ایک دکان پر لگی ہوئی ریڈ کلر کی جدید طرز کی نائیٹی کی طرف اشارہ کر کہ بولی ۔۔۔۔

"تمہارا بھائی اور وہ بھی معصوم ؟؟؟ابھی کچھ دیر پہلے اس کی معصومیت ملاحظہ نہیں فرمائی ۔۔۔۔وہ منہ پھلائے تڑخ کر بولی ۔۔۔

"امی آپ یہیں رکیں میں اور بھابھی ایک منٹ میں آئے ۔

زرشال اس کی بات کی پرواہ کیے بنا اسے اپنے ساتھ دکان میں لے گئی ۔اور اس کے نا۔۔۔نا کرنے کے باوجود اسے وہ خرید کر دی ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ایک ماہ ہوگیا تھا خان صاحب کو ہوش میں واپس آئے اب وہ پہلے سے چلنے پھرنے لگے تھے ،

صلہ کی موت کی خبر سن کر انہیں کافی دھچکا لگا ،

پھر یمنی کی شادی کا بھی پتہ چلا ۔۔۔۔

اور ساتھ ہی ساتھ جب زمارے کے نکاح کا پتہ چلا تو پہلے تو کافی بھڑکے مگر پھر زمارے کی خوشی کا سوچتے ہوئے خاموش ہوگئے ۔۔۔۔

اس دوران شہریار اور یمنی ایک بار حویلی کا چکر لگا کر خان صاحب سے مل گئے ۔۔۔شہریار سے مل کر انہیں بہت اچھا لگا ۔یمنی کے لیے انہیں اس سے بہتر اور کوئی نہیں لگا ۔۔۔

وہ مطمئن ہوگئے ۔بریرہ ان کا کافی خیال رکھ رہی تھی ،

ذوناش بھی ان سے اچھے سے ملی ۔

مگر جب جب وہ اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھتے انہیں رہ رہ کر زیگن پر غصہ آتا کہ بنا بتائے آخر وہ گیا تو گیا کہاں ۔۔۔۔

"خان صاحب یہ آپکے لیے فریش اورنج جوس بنایا ہے "اس نے بھی سب کی دیکھا دیکھی انہیں خان صاحب کہنا شروع کردیا تھا ۔

بریرہ بچے بیٹھو یہاں "انہوں شفقت بھرے انداز میں اسے مخاطب ہوئے اپنی پاس رکھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا ۔

"جی "وہ بیٹھ کر بولی اور انکی طرف دیکھتے ہوئے انکی اگلی بات کا انتظار کرنے لگی ۔

"زریار گھر کیوں نہیں آ رہا ؟؟؟

انہوں نے بنا لگی لپٹے ڈائیریکٹ پوچھا ۔

وہ ان کے ایک دم پوچھنے پر بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔

"پ۔۔۔پتہ نہیں """

وہ گھبرا کر بولی ۔

"بیٹا جی آپ ان کی نصف بہتر ہیں آپ کو نہیں پتہ ہوگا تو اور کسے ہوگا ۔

"اسکے بارے میں خبر رکھنا آپکی زمہ داری ہے "

"مجھ سے ملنے بھی ایک بار نہیں آیا وہ نا ہنجار !!!

ان کے لہجے میں خفگی اور غصے کا ملا جلا تاثر تھا ۔

"ابھی میرے سامنے اسے کال کر کہ بلائیں "

"م۔۔۔۔میں کال کروں ؟؟؟؟

وہ بولتے ہوئے کپکپائی ۔۔۔

"جی بیٹا جی بیوی کی کال ہر دیکھنا کیسے سر کے بل دوڑتا ہوا آئے گا ۔باپ کی تو اسے کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔۔

وہ ان کی بات پر کشمکش کا شکار ہوئی ۔۔۔۔

"میرے پاس میرا فون نہیں "وہ فی الوقت جان چھڑوانے کے لیے بولی ۔

"ذوناش !!!!انہوں نے اونچی آواز میں اسے آواز دی ۔

وہ نماز ادا کرکہ ابھی باہر نکلی ہی تھی کہ خان صاحب کی آواز سن کر ان کے پاس آئی ۔۔۔

"جی چچا جان "

"بیٹا بہن کے کمرے سے اس کا موبائل لائیں ۔

"جی ابھی کافی ہوں "

وہ بریرہ کو وہاں سے غائب ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے ۔ان کی نیا بھی پار لگانے کا آج مصمم ارادہ کیے ہوئے تھے ۔

"یہ لیں "ذوناش نے اس کی طرف موبائل بڑھایا۔

"میرے پاس ان کا نمبر نہیں "اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

"آپ کیسی بیوی ہیں ؟؟؟عورتیں تو دن میں ہزار بار فون کر کہ اپنے شوہروں کا دماغ چاٹ جاتیں ہیں اور ایک آپ ہیں کہ آپ کے پاس اپنے شوہر کا نمبر نہیں ۔آپ سے مجھے اس بے وقوفی کی بالکل بھی امید نہیں تھی ۔

وہ پیار بھری ڈانٹ پلاتے ہوئے بولے ۔۔۔۔

یہ لیں نمبر انہوں نے اپنے موبائل سے نمبر بریرہ کو لکھوایا ۔

اس نے زریار کا نمبر نا چاہتے ہوئے بھی ملا کر کان سے لگایا ۔۔۔۔

"ہیلو "اس کی بھاری آواز سنائی دی تو بریرہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔

"ہیلو کون ؟؟؟وہ اس سے پوچھ ریا تھا ۔

"میں ۔۔۔۔بریرہ ۔۔۔

زریار نے پہلے تو انجان نمبر دیکھ کر کال اٹھانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا مگر پھر یہی سوچ کر کال ریسیو کی کہ کہیں زیگن کے بارے میں کچھ معلوم ہو جائے ۔

مگر بریرہ کی کال پہ آواز سن کر اس نے فون کو کان سے ہٹا کر غور سے دیکھا ۔جیسے اسے یقین کرنا ناممکن لگا کہ یہ واقعی اسی کی کال ہے ۔۔۔۔

"بہو کہو اسے میں نے لنچ پر اس کی فیورٹ بریانی بنائی ہے آج وہ لنچ گھر پہ سب کے ساتھ کرے گا "خان صاحب نے بریرہ کو خاموش دیکھ کر اگلی بات بتائی ۔۔۔

وہ پریشانی سے انہیں دیکھنے لگی ۔دل کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی کہ اس سے وہ سب کیسے کہے جو خان صاحب اسے کہنے کے لیے بول رہے ہیں۔اس کے گلے سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔۔۔

"زریار آج ۔۔۔می ۔میں نے بریانی بنائی ہے آپ گھر پہ آکر لنچ کریں "وہ بمشکل اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔۔

"زریار اس کی پہلی بار ایسی  فرمائش سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔۔

وہ اسے خود سے گھر بلا رہی ہے ،اور اسے کیسے پتہ چلا کہ مجھے بریانی پسند ہے ؟؟؟

وہ اسی بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔۔

 دوسری طرف سے کال کٹ ہوچکی تھی ۔

اس نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی جو ابھی بارہ بجا رہی تھی ۔۔۔۔وہ جلدی جلدی اپنا  پینڈنگ کام مکمل کرنے لگا ۔۔۔۔

"جاؤ بہو جلدی سے اپنے ہاتھوں سے بریانی بناؤ اور اچھے سے تیار شیار ہو جاؤ میرا بیٹا آریا ہے "انہوں نے نیا حکم جاری کیا ۔۔۔۔

وہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں آئی ۔۔۔۔

تو ذوناش اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی ۔

"آپی آپ کو مدد کی ضرورت ہے ؟

"نہیں ذوناش تم آرام کرو "

بلکہ یہ جوس لو میں نے خان صاحب کے لیے اور تمہارے لیے بنایا تھا ۔

بریرہ نے گلاس میں فریش اورنج جوس اسے ڈال کر دیا ۔۔۔

"نہیں آپی میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا "

"پی لو ذوناش خود کا خیال رکھو دیکھو کتنی کمزور ہوگئی ہو ۔۔۔اپنا نہیں تو اپنے چھوٹے سے بیٹے کا خیال کرو اسے تمہاری ضرورت ہے "

"مگر مجھے جس کی ضرورت ہے جب وہی میرے پاس نہیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔"

ذوناش دعا کرو وہ جلدی واپس آئے گا ۔

"اور واپس آکر تمہیں اس حالت میں دیکھ کر اس کے دل پر کیا گزرے گی ۔۔۔

"یہ حال بھی تو ان کی جدائی نے کیاہے ۔۔پھر بھلا کیسا شکوہ ؟؟؟

"مجھے تو ابھی تک خود پر حیرت ہے ۔میں بھلا ان کے بغیر اتنی دیر جی بھی کیسے کا رہی ہوں ،اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں کب کی کر چکی ہوتی ۔وہ کہتے ہوئے ٹوٹے دل سے رونے لگی ۔

"ہمت مت ہارو ذوناش اللّٰہ تعالیٰ سے بہتری کی امید رکھو ۔وہ اسے ساتھ لگائے دلاسہ دینے لگی ۔۔۔۔

"آپی آپ کام کر لیں میں شیر کو دیکھتی ہوں کہیں آنٹی کو تنگ نہ کرتا ہو "

وہ کہتے ہوئے بسمہ کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔

"او مجنوں کی اولاد باپ کو دیکھنے نہیں آیا بیوی کے پہلے بلاوے پر کیسے بھاگتا آیا ہے "

خان صاحب کی آواز نے دروازے پر کھڑے زریار کے قدم روکے ۔

"اسلام وعلیکم خان صاحب!

وہ خجالت سے سر جھکائے ہوئے بولا ۔

وعلیکم السلام آئیے برخوردار خوش آمدید اپنے ہی گھر میں آپکا "وہ طنزیہ انداز میں بولے زریار ان کا طنز بخوبی سمجھ گیا تھا ۔

"کیسے ہیں آپ "؟

اس نے پوچھا ۔

"بہت جلدی یاد آگئی یہ""" پوچھنے کی ۔۔۔۔لہجہ چبھتا ہوا تھا ۔

" "اب آپ مجھے شرمندہ کر رہیں ہیں "وہ سنجیدہ چہرہ لیے بولا۔

"بیٹا شرمندہ تو تم نے مجھے کردیا ہے،چھوٹے میاں پوتا دے کر غائب ہیں ۔اور تم پوتا دئیے بنا ہی غائب "

خان صاحب مجھے لگتا ہے واپس جانا چاہیے "

"خبردار جو اس گھر سے قدم بھی باہر نکالا ۔۔۔ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری "

وہ رعب دار آواز میں بولے ۔

بہت دیر بعد ان کی گرجدار آواز اس حویلی میں گونجی ۔۔۔بسمہ تو خوشی سے مسکرانے لگیں ۔۔۔

"مام آپ میری بیعزتی پر ہنس رہی ہیں "زریار نے بسمہ کو ہنستے ہوئے دیکھ منہ پھلا کر خفگی سے کہا ۔

"زریار بیٹھو بیٹا لنچ لگ گیا ہے "

انہوں نے ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی کو دور کرنا چاہا ۔۔۔

وہ چپ چاپ بیٹھ گیا ۔۔۔

ذوناش رائتہ والا باؤل لے کر آئی جبکہ  بریرہ پانی کا جگ اور سلاد لیے کچن سے باہر آئی ۔

زریار نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو سکائی کلر کی سادہ سے کڑھائی والے سوٹ میں ملبوس لائٹ پنک کلر کی لپسٹک لگائے ہوئے فریش سی لگی ۔۔۔اتنی تیاری بھی وہ خان صاحب کے کہنے پر کر گئی ۔۔۔ورنہ ان سے کچھ بعید نہ تھا کہ سب کے سامنے اسے سنا  دیتے ۔۔۔۔زریار نے نظر بھر کر اسے دیکھا ۔۔۔

ملازمہ پہلے ہی ٹرے میں بریانی رکھے جا چکی تھی ۔اب وہ ملازمہ گلاس لے کر آئیں۔

گرما گرم بھاپ اڑاتی ہوئی تہہ دار بریانی دیکھ کر اس کی بھوک دوبالا ہوئی ۔۔۔۔

"بیٹا اپنے شوہر کو ڈال کر دو پہلے "بسمہ نے بریرہ سے کہا۔۔۔

  "جی "کہتے ہوئے وہ زریار کے پاس آئی اور اس کے سامنے پلیٹ رکھ کر اس میں بریانی ڈالنے لگی ۔۔۔۔

پھر سلاد اٹھا کر ایک سائیڈ پر رکھا ۔۔۔

اور تھوڑا سا رائتہ ڈالا ۔

زریار کی نظریں اس کے مخروطی انگلیوں پر تھیں جو خالی تھیں ۔

بریرہ نے پھر خان صاحب کی پلیٹ میں بریانی ڈالی ۔

"تم بیٹھ جاؤ باقی سب خود ہی ڈال لیں گے "

بسمہ نے بریرہ سے کہا تو وہ زریار کے ساتھ والی خالی چئیر پر بیٹھ گئی ۔۔۔

"بھائی کیسی بنی ہے "؟زمارے نے شوخی سے پوچھا 

زمارے کو بھی کال کر کہ بلا لیا گیا تھا ۔۔۔۔

"اچھی ہے "وہ سر جھکائے ہوئے بولا۔

"بھابھی نے بنائی ہے,بھائی کیوں نا اپنے ہاتھوں سے انہیں بھی کھلائیں آپ "

اس نے نیا چُٹکلہ چھوڑا۔

زریار نے اسے گھور کر دیکھا اور اشارے سے سامنے بیٹھے خان صاحب کی موجودگی کا احساس دلایا ۔۔۔

"تو کیا ہوا خان صاحب بھی اپنی جوانی کی عمر میں مام کو کھلاتے ہوں گے ۔اب بوڑھے ہوگئے ۔۔۔تو پہلے والا دم خم نہیں رہا ۔

"اوئے سڑک چھاپ عاشق یہ بڈھا کس کو کہا ۔ابھی کہ ابھی تجھے ہزار جوتے لگا سکتا ہوں "

"خان صاحب پہلے میری بات مان لیں پھر مجھے ہزار کیا دس ہزار جوتے لگالجیجیے گا اف تک نہیں کروں گا ۔

"اب کیا نیا شوشہ ہے ؟؟"پھر سے دماغ میں کونسی نئی کھچڑی پک رہی ہے "؟

وہ خائف نظروں سے دیکھتے ہوئے زمارے سے پوچھ رہے تھے ۔

'خان صاحب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔وہ تھوڑی دیر رکا پھر بولا ۔

"سب خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے "

"مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہوتا ۔ایم ۔بی۔بی۔ایس کمپلیٹ کرنے کا میری بیوی کی رخصتی کروا دیں "

بالآخر وہ ہمت مجتمع کیے بول اٹھا۔

"نا ہنجار، بیغرت تجھے شرم نہیں آتی بھائی لاپتہ ہے اور تجھے اپنی خوشیوں کی آگ لگی ہے "وہ غصے میں غرائے ۔

سب نے زمارے کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا ۔

"خان صاحب میں جانتا ہوں یہ کڑا وقت ہے ہم سب پر مجھے بھی مورل سپورٹ کی ضرورت ہے "

"وہ مورل سپورٹ تجھے میں بھی دے دوں گا ۔"خان صاحب نے کڑک آواز میں کہا۔

"دراصل بھائی نے ہمیں شیر زمان کو دے کر شاک کیا تو میں نے بھی سوچا میں بھی ان کے آنے پر انہیں کسی اور ننھے منھے کا شاک دیں ،

"زریار میری گن تو لاؤ آج اس کا دماغ ٹھکانے لگاؤں "

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دھاڑے ۔۔۔

"ارے خان صاحب آپ تو میری باتوں کو سیریسلی ہی لے لیا ۔۔۔ ارے میں تو مذاق کر رہا تھا "وہ دانت نکال کر بولا ۔

"اتنے دنوں سے گھر میں عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی بس اسی لیے "اس نے وضاحت دی ۔

""بیٹھ جائیں خان صاحب آپ کی صحت کے لیے اتنا غصہ کرنا ٹھیک نہیں "بسمہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔

وہ اپنی جگہ پر بیٹھے تو سب کھانے میں مشغول ہو گئے۔۔۔۔

زریار کھانے کے دوران نظر اٹھا کر اسے بھی دیکھ رہا تھا ،جو چاولوں والی پلیٹ میں تب سے چمچ گھما رہی تھی مگر منہ میں ایک بائیٹ بھی نہیں ڈالی تھی ۔

"زریار بیٹا بیوی کو کہیں گھمانے پھرانے لے جاؤ ۔خان صاحب نے زریار سے کہا ۔

"جی اچھا "

وہ فقط اتنا ہی بولا ۔

خان صاحب اور بسمہ کھانے سے فارغ ہوئے شیر زمان کو دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔۔

ذوناش وہاں بیٹھی انہیں سوچوں میں گم تھی ۔۔۔میرا مقدر کہیں میری ماں جیسا تو نہیں جو ساری زندگی اپنے شوہر کے بغیر ان سے دور رہیں "

اس کے آنسو دل پر گر رہے تھے "

زریار اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے آرام دہ سوٹ پہلے ہی نکال کر بستر پر رکھا گیا تھا ،،،

وہ حیران ہوا ۔

پھر سوٹ اٹھا کر واش روم میں چلا گیا ۔

واپس آیا تو کمرے میں ہی موجود تھی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی کانوں میں موجود چھوٹے چھوٹے ائیر رنگز اتار کر ایک طرف رکھ رہی تھی ۔

زریار نے کمرے کا جائزہ لیا ۔جہاں کچھ بدلاؤ آیا تھا ۔مگر کیا ؟؟؟اس نے نظریں دوڑائیں ۔

پہلے وہاں تھری سیٹر صوفہ موجود تھا ۔مگر آج کمرے میں جہازی سائز بیڈ کے علاؤہ کچھ نہیں تھا ۔

"تو کیا وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ دونوں ایک ساتھ "وہ خوشفہمی میں مبتلا ہوا ۔

حالانکہ جب بسمہ کو پتہ چلا تھا کہ زریار دوپہر کو واپس گھر آرہا ہے ،انہوں نے دیکھا بریرہ کچن میں کھانا بنانے میں مگن ہے تو انہوں نے ملازمین سے کہہ کر صوفہ ان کے کمرے سے باہر نکلوا دیا تھا ۔

وہ آرام سے بستر پر دراز ہوا اور کمرے میں موجود دیوار پر نصب ایل س ڈی کو ریموٹ کنٹرول اٹھا کر آن کیا ۔۔۔

"ایک مگ کافی ملے گی "؟

وہ بظاہر تو سکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔مگر مخاطب وہی تھی ۔

وہ اس کی آواز سن چکی تھی ۔

اپنا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔اور کچن میں جا کر کافی بنانے لگی ۔

خان صاحب اور بسمہ روز دوپہر کو تھوڑی دیر سستاتے ۔اسلیے وہ اپنے کمرے میں تھے ۔

ذوناش شیر زمان کے ساتھ لاونج میں بیٹھی تھی ،جبکہ زمارے اپنے موبائل پر زرشال کے ساتھ میسجنگ پر لگا ہوا تھا ۔بیچ بیچ میں شیر زمان کے ساتھ بھی کھیلتا ۔۔۔

بریرہ کافی تیار کیے واپس کمرے میں آئی تو وہ فون کال پر مصروف تھا ۔اس نے کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

اور جا کر بستر کی دوسری طرف بیٹھ گئی ۔۔۔

زریار کا دھیان فون کال پر تھا 

مگر بریرہ کو اپنے ساتھ ایک ہی بستر پر بیٹھے دیکھ چونکا ۔

"وہاں کے پولیس اسٹیشن سے کیا خبر ملی ؟

"سر وہ لوگ کسی کام کے نہیں ہیں ،کچھ بھی نہیں کر پائے ابھی تک ۔میں نے خود سارے علاقے کا چکر لگایا تھا ۔مگر کوئی بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔"

بریرہ ایل ۔سی۔ڈی کو دیکھ رہی تھی جہاں اس نے کوئی سپورٹس چینل لگا رکھا تھا ۔جہاں ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ لگا تھا ۔اسے کرکٹ سے سخت کوفت تھی ۔

اس نے زریار کی بے توجہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے پاس پڑا ہوا ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور چینل تبدیل کر دیا ۔۔۔

اے آر وائی پر کوئی سیریل آرہا تھا ۔

"ٹھیک ہے تم اپنی کوشش جاری رکھو ۔جیسے ہی زیگن کا کوئی سراغ ملے مجھے فورا انفارم کرنا "

جی سر ۔۔۔۔

وہ فون سائیڈ پر رکھ کر کافی کا مگ اٹھا گیا ۔پھر لبوں سے لگاتے ہوئے ایک گھونٹ بھرا ۔

بہت دنوں بعد بلیک کافی کی بجائے نارمل کافی پی تھی ،دماغ کو سکون ملا۔۔۔

اس نے واپس سکرین پر دیکھا جہاں کوئی سیریل چل رہا تھا ۔وہی ساس بہو کی چالاکیاں اور لڑائیاں ۔۔۔اس کو ان ڈراموں سے سخت چڑ تھی ۔

زریار نے ریموٹ کنٹرول اٹھا کر واپس میچ والے چینل پر جمپ کا بٹن پریس کیا ۔

بریرہ نے پھر سے میچ لگا دیکھا تو غصے سے اس کے ہاتھ سے ریموٹ کھینچا اور جمپ کا بٹن پریس کیا تاکہ وہی سیریل لگ جائے مگر قسمت خراب کہ جمپ کا بٹن پریس ہونے کی بجائے اگلا چینل لگ گیا ۔۔۔

اور وہ کوئی انگلش چینل تھا جہاں انگلش مووی کا کوئی بولڈ سین چل رہا تھا۔۔۔

اسکے ہاتھ کپکپائے ۔۔۔۔

نجانے اس ریموٹ کو بھی ابھی کچھ ہونا تھا ۔اس نے لاکھ بار چینل تبدیل کرنے کے لیے مختلف بٹن پریس کئیے مگر وہ ریموٹ تھا کہ چل کہ نہیں دے رہا تھا۔۔۔

زریار اس کی پتلی حالت پر دل ہی دل میں مسکرایا ۔مگر چہرے کے تاثرات سنجیدہ رکھے ۔

بریرہ کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔اس نے ریموٹ اٹھا کر زریار کی طرف پھینکا ۔۔اور خود چہرے کا رخ تبدیل کیا۔۔۔۔

اب مزید اس کی سامنے بیٹھ کر وہ مزید شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے کمرے سے ہی واک آؤٹ کر گئی ۔۔۔

زریار اس کے شرم سے تمتماتے ہوئے چہرے کو سوچ کر حذ اٹھا رہا تھا  اور ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ کی بنی کافی کا لطف اٹھانے لگا ۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اٹھو "

"وہ کیوں۔؟"

وہ کمفرٹر کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔

اس نے کمفرٹر اٹھا کر پیچھے پھینکا ۔۔۔

فری۔۔۔وہ اسکے پکارنے پر منہ بسور کر بغیر کمفرٹر کے لیٹ گئی۔۔۔

فری چلو ایکسرسائز کے لئے ۔۔وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر بٹھا کر کہنے لگا۔۔۔

میں نہیں اٹھ رہی ہوں جاؤ خود۔۔

"تم نے خود ہی کل کہاتھا کہ میرے ساتھ ایکسرسائز کرو گی ۔۔

"دو منٹ ہیں تمہارے پاس ۔۔

وہ  آئی برو اچکا کر سپاٹ انداز میں پیش آیا۔

نہیں اٹھ رہی۔۔۔وہ بھی ڈھیٹ بن کر اٹھ بیٹھی۔۔۔

وہ اسے کھڑا کر کے اگلے ہی پل  اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے چینجینگ روم۔میں لا کر چھوڑ گیا ۔۔۔۔

دو منٹ سے پہلے باہر آو۔۔۔

وہ کہتا دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا۔۔

ایکسرسائز ایریا وہیں تھا۔۔اسی شاہ  ولا میں۔۔۔

انہیں یہاں آئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔۔

وجاہت شاہ جو بلیک ٹراوزر اور بلیک ویسٹ میں موجود تھا،پش اپس لگاتے ہوئے اس کی سفید رنگت پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو رہی تھیں۔

فرحین کو ابھی بھی نیند آ رہی تھی۔

وہ ٹریڈ مل روک کر کے جمائی روکتے ہوئے وجاہت کے پاس آئی ،جو اپنے نام وجاہت کی طرح وجاہت کا شاہکار تھا۔۔۔۔

اس کے کسرتی بازو ویسٹ میں سے جھلک رہے تھے۔۔۔

وہ کچھ دیر وہیں کھڑی کچھ سوچنے لگی پھر اس کی پشت پر بیٹھ گئی۔۔۔

وہ جو پش اپس لگا رہا تھا اس کے اچانک بیٹھ جانے سے بھی اس کے عمل میں کوئی فرق نہیں آیا ۔وہ ویسے ہی پش اپس لگارہا ۔۔۔جبکہ فرحین اس کی پیٹھ پر بیٹھی مسکرا کر اپنی طرف سے جھولے لے رہی تھی 

"فری بس بہت ہو چکا تمہارا اب نیچے اترو "اس کی گھمبیر آواز سن کر وہ فورا نیچے اتری اس کے غصے سے وہ اچھی طرح واقف تھی ۔خوش ہوتا تو دنیا بھلا دیتا اور غصے میں ہوتا تو دنیا کو تہس نہس کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔۔۔

وہ اسکے اٹھنے کے بعد خود کھڑا ہوا اور ٹاول سے اپنا پسینہ پونچھنے لگا ۔۔۔۔

فری وہیں کھڑی اس کے ایک ایک عمل کو نہار رہی تھی ۔۔۔

"کیا ضروری ہے تمہارا ہر وقت مجھے یوں دیکھنا۔۔؟؟؟

وہ اسکی محبت پاش نظروں سے تنگ تھا۔۔۔ اسے بار بار فری کے دیکھنے پر یوں الجھن سی ہوتی تھی۔۔

تمہیں مجھے یوں ہی ایکسیپٹ کرنا ہے۔۔۔یہ میرا انداز ہے اپنی محبت کو دیکھنے کا "

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولی ۔۔۔

وہ تاسف سے سر ہلاتا وہاں سے نکلنے لگا۔۔۔۔

"مجھے تمہاری یہ بے باک نظریں اور باتیں دونوں ہی نا پسند ہیں ،وہ سرد مہری سے بولا ۔۔۔

تمہاری نفرت کا اظہار میرے لیے تمہارے بڑھتے ہوئے جنون کو نہیں روک سکتا۔۔۔

 "انگیجمینٹ ہوئی ہے ناکہ شادی ۔۔۔۔اس رشتے کی ایک حد ہے  "

وہ سپاٹ انداز میں بولا

تم میرے جنون کو آخری حد تک پہنچا رہے ہو۔۔کتنی بار کہوں تم سے عشق ہے مجھے وہ بھی جنون کی حد تک ۔

اور جنونی انسان اپنے جنون میں کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔

جنون عشقم کی کوئی حدود نہیں ۔اس میں انسان اپنی جان دے بھی سکتا ہے اور اگر عشق نا ملے تو جان لے بھی سکتا ہے ،تمہاری ذات صرف مجھ سے وابستہ رہے یہ بات دماغ میں بٹھا لینا اگر مجھ سے بیوفائی کی تو جان لے لوں گی تمہاری بھی اور اپنی بھی ۔۔۔

اس کے ہر انداز میں وجاہت شاہ کے لیے دیوانگی جھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔

____________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

جہاں روز شیر زمان کی قلقاریاں گونجتی آج اس کے رونے کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔

کیا ہوا اسے کیوں رو رہا ہے اتنا ؟؟؟خان صاحب نے اسے ذوناش کی گود سے لت کر پوچھا ۔۔۔

"پتہ نہیں چچا جان کیوں بس روئے چلا جا رہا ہے ",وہ پریشانی سے بولی ۔۔۔

"اس کی نظر اتاری ہے ؟؟؟

"نہیں وہ تو نہیں اتاری ...

"بیٹا کتنی بار کہا ہے کہ اس کی نظر روز اتار لیا کرو اسے ہماری ہی کسی کی پیار بھری نظر لگ جاتی ہے ",بسمہ نے کہا ۔۔۔۔

",اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں "خان صاحب اسے مسلسل روتے ہوئے دیکھ کر پریشانی سے بولے ۔۔۔۔

خان صاحب میں اسے پیناڈول انفینٹ دے دیا ہے ،ڈاکٹر نے پہلے بھی یہی دیا تھا ۔۔ بس تھوڑی دیر میں بخار اتر جائے گا ۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے ،تم اسے چپ کرواؤ",انہوں نے شیر زمان کو واپس ذوناش کی طرف بڑھایا ۔۔؟

کچھ دیر گزری تو اس کا بخار اتر گیا ۔۔۔وہ ایک بار پھر سے کھیلنے لگا ۔۔۔۔۔

آئیے خان صاحب اب شیر ٹھیک ہے،آپ کچھ دیر آرام کر لیں صبح صادق کے اٹھے ہوئے ہیں ۔

بسمہ نے کہا ۔۔۔۔

"زمارے دو دن بعد تمہاری برتھ ڈے ہے کیا گفٹ لینا ہے ؟؟؟

زرشال کا میسج آیا ۔

"جو گفٹ مجھے چاہیے پہلے بتاؤ وہی دو گی ؟؟؟

"تم مانگ کر دیکھ لو اگر حثیت رکھتی ہوئی تو ضرور دوں گی "

"کاش اک خواہش پوری ہو عبادت کے بغیر 

وہ آکر گلے لگا لیں میری اجازت کے بغیر "۔اس نے اپنے دلی جذبات کو الفاظ کے پیراہن میں لپیٹ کر اسکی طرف روانہ کیا۔۔۔۔

زرشال نے اس کی بے تکی فرمائش پڑھ کر فی الوقت اپنا موبائل سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔اور اسی کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگی ۔۔۔

زمارے تم نے فرحین کی اینگیجمینٹ کی تصاویر دیکھیں ؟؟؟اس کے دوست عماد کا میسج تھا واٹس ایپ پر ۔وہ زرشال سے بات کرکہ ابھی فری ہوا تھا کہ اس کا میسج آیا ۔

"نہیں یار ۔۔۔اور مجھے دیکھنے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے "زمارے نے ریپلائے کیا ۔

"یار امریکہ میں کی ہے،ابھی کل ہی واپس آئی ہے ،کیا شاندار تقریب تھی وہاں کے ایک شاندار ہوٹل میں "

تمہیں ویڈیو سینڈ کرتا ہوں دیکھنا ۔

"رہنے دے یار "

"یار دیکھ تو صیحیح جتنا شاندار ہوٹل تھا اتنا شاندار اس کا فیانسی بھی ہے "

ابھی بھیجتا ہوں "

"اچھا چل بھیج "

"بھیا آپ زرا کچن سے شیر کا دودھ لا دیں گے ؟

ذوناش نے پوچھا ۔

"ابھی لا دیتا ہوں ۔اس نے کہتے ہوئے فون سائیڈ پر رکھا ۔اس کی بھیجی ہوئی ویڈیو ڈاؤن لوڈ ہو رہی تھی ۔

ملے ہو تم ہمکو بڑے نصیبوں سے۔

چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے۔

ذوناش نے زمارے کے فون پر گانے کی آواز سنی تو موبائل اٹھاکر دیکھا ۔۔۔۔

فون کی سکرین پر چلتے ہوئے منظر نے ایک پل کے لیے اس کی آنکھوں کی پتلیوں کو ساکت کر دیا ۔۔۔۔۔

________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اسلام وعلیکم امی "

"وہیں کھڑے رہو "

وہ جواب دینے کی بجائے سپاٹ انداز میں بولیں۔

"کیوں امی سب خیریت ہے ؟؟وہ تشویش بھرے انداز میں پوچھنے لگا 

"تم خیریت رہنے کہاں دیتے ہو۔۔۔"

"مجھے یہ بتاؤ کہاں تھے تم ؟

"امی یہ کیسا سوال ہے ؟

"آفس میں تھا اور کہاں تھا "

"شہریار مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی "

"امی کیا امید نہیں تھی ؟؟؟میں نے آخر ِکیا کیا ہے ؟

"تم اب مجھ سے بھی جھوٹ بولنے لگے ہو ،میں نے تمہیں خود اپنی ان گنہگار آنکھوں سے باہر کسی لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا ۔میرے ساتھ زرشال اور یمنی بھی تھیں وہ بھی گواہ ہیں "

"پہلے تو مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ لوگ باہر کس خوشی میں گئیں تھیں وہ بھی بنا بتائیں "

"میرے باپ دادا بننے کی کوشش مت کرو "

"میں تمہاری بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی "

"پہلے میری بات کا جواب دو "

وہ تلخ لہجے میں بولیں۔

"میری ایک آفیشل میٹنگ تھی ایک کلائنٹ سے اسی کے سلسلے میں کیفے گیا تھا ۔بس یا اس کے علاؤہ بھی کچھ پوچھنا ہے ؟؟؟

وہ جو غصے سے آگ بگولہ ہو رہی تھیں اسکی بات سن کر ٹھنڈی پڑیں۔

یمنی کمرے میں تھی مگر اس کے کان باہر ہی لگے ہوئے تھے شہریار کی بیعزتی پر ۔۔۔زرشال بھی اپنے کمرے میں تھی  ۔

وہ باہر ہی واش بیسن سے منہ ہاتھ دھو کر ان کے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔

"امی آپ تو مجھ پر اعتبار کریں ۔۔میں کچھ بھی غلط نہیں کروں گا ۔کافی دنوں سے اسی بات سے ٹینشن میں تھا کہ ایک لڑکی سے ڈیلنگ کیسے کروں گا ۔شکر ہے سب اچھے سے ہوگیا ۔پرائیویٹ نوکری کا یہی تو مسلہ ہے بندہ اپنی نہیں چلا سکتا باس کی جی حضوری کرنی پڑتی ہے،سوچ رہا ہوں کچھ پیسے جمع کر کہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا بزنس شروع کر لوں "

"اللّٰہ پاک میرے بچے کو کامیاب کرے ",انہوں نے دعائیہ انداز میں کہا۔

"کھانا لگواوں ؟؟؟

"جی امی "

سب نے مل کر کھانا کھایا ۔۔۔وہ ابھی بھی سدرہ کے پاس باہر بیٹھا ہوا تھا ۔

"جاؤ بیٹا کافی رات ہو گئی ہے جا کر آرام کرو '

"جی امی شب بخیر "

"شب بخیر ",انہوں نے جوابا کہا۔

تو وہ اپنے کمرے میں آیا ۔۔۔۔

تو اپنی مسسز پر نظر پڑی ۔۔۔

جو اس وقت ریڈ کلر کی نائیٹی پہنے کلائیوں پر لوشن لگا رہی تھی ۔

وہ اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

اپنی لانگ نائٹی کو گوری پنڈلیوں تک اٹھاتے ہوئے اب وہاں لوشن لگا رہی تھی ۔۔۔

شہریار نے اس کی تیاری پر تفصیلی نگاہ ڈالی ۔۔۔

پشت پر بکھرے سیاہ گھنے بال ،ڈیپ ریڈ لپسٹک سے مزین ہونٹ ،مرمریں بدن پر سلک کی نائیٹی میں جھلکتے دلکش خدوخال ،اس کے دل کو بھا رہے تھے ۔۔۔وہ یک ٹک سا اسے دیکھے گیا۔۔۔۔

وہ ادا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کی گردن کے گرد اپنے دونوں بازو حمائل کیے ۔۔۔

"کیا ارادے ہیں مسسز ؟

کہیں شیر کا شکار تو نہیں کرنا چاہتی ؟

وہ ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"ارادہ تو بہت خطرناک ہے ،شکار کو اپنے جال میں پھنسانے کا "وہ اس کی گردن سے ہاتھ نکال کر اب اس کی شرٹ کے بٹنوں کو کھولتے اور بند کرتے ہوئے بولی۔۔۔

"شکار اگر پہلے سے ہی آپ کے جال میں پھنسا ہو تو !!!!

"ویسے آگ سے کھیلنے کا انجام جانتی ہو ؟؟؟

وہ اس کی تھوڑی کو اپنی ایک انگلی سے اوپر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"انجام کی پرواہ کسے ہے۔۔۔وہ شمع ہی کیا جو آگ سے ڈر جائے ۔ !!!

"وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔

"سہہ پاؤ گی جھلس جانے کی جلن ؟؟؟وہ اس کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسائے ترش لہجے میں بولا 

"آزما کر دیکھ لو ۔وہ کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے بولی ۔

شہریار نے اس کے بالوں کو مٹھی میں بھرتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا ۔۔۔

اس کی مضبوط گرفت سے یمنی کے لبوں سے سسکی نکلی۔

"مت بھولیے ابھی کسی نے بہت بلند و بانگ دعوے کیے ہیں "شہریار کے لب اس کے کان کی لووں کو چھو رہے تھے ۔۔۔

"سب یاد ہے "وہ چہرے پر بے خوفی سجائے بولی ۔۔۔۔

"ان پر میری شدت کہ رنگوں کے علاؤہ اور کوئی رنگ نہیں سجتا "اس نے اپنے انگوٹھے سے اس کے لبوں پر لگی ڈیپ ریڈ لپسٹک مٹاتے ہوئے خمار آلود آواز میں کہا۔۔۔

اور اس کے پھپھڑاتے ہوئے لبوں کو قید کر گیا ۔۔۔۔

نائٹی کےسٹیپس شانے سے کھسکاتے ہوئے جابجا اپنے لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔

اس کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ دیکھ اس کی جسارتوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔۔۔

دل اتنی قربت پر اسے اپنے کانوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا ۔۔۔۔سانسیں اتھل پتھل ہو رہیں تھیں۔آخر کب تک سہار پاتی ۔۔۔۔

"بس پلیز ۔۔۔۔

وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اس کو پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ اس کی ازحد قربت پر  ہانپنے لگی ۔۔۔

واقعی مزید اس کی قربت سہارنا اس کے بس سے باہر تھا ۔۔۔

"تم نے پہل کی تھی ،اس کا خمیازہ بھی تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا "

مجھے آگ میں جھونک کر خود نکل جانا کہاں کا انصاف ہوا "؟

"دل میں لگی آگ کی چنگاریوں کو تم نے ہوا دی ہے،آج بچنا نا ممکن ہے "وہ اسے واپس اپنے حصار میں بھر کر خود میں بھینچ گیا ۔۔۔

"مجھے نیند آ رہی ہے "وہ اس کی گرفت میں جل بن مچھلی کی طرح تڑپ کر بولی ۔۔۔

"بہت پرانا بہانہ ہے ۔کچھ نیا سوچو "

وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر لے آیا ۔۔۔

اور خود جا کر کمرے کی لائٹ آف کردی۔

"آپ اپنی جگہ پر جائیں ",

وہ اسے اپنے ساتھ سنگل بیڈ پر لیٹتے ہوئے دیکھ کر بولی ۔

"میری اصل جگہ تو یہی ہے،آپ کے پہلو میں "

وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کر گیا ۔۔۔

یمنی کی تو جان پر بن آئی ۔وہ تو اس کی تھوڑی سی توجہ کی خواہاں تھی ۔جناب کو ہاتھ کیا پکڑایا یہ تو رائتے کی طرح پورا ہی پھیل رہے ہیں۔"وہ محض دل میں سوچ کر رہ گئی ۔۔۔

"سوچ رہا تھا ،ڈبل بیڈ لے ہی لوں مگر آج مجھے سنگل بیڈ کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے ،کم از کم بیوی ناراض ہو کر دوسرے کونے میں تو نہیں سوئے گی ۔"

آپ کا مجھے ناراض کرنے کا ارادہ ہے ؟؟؟

"نہیں جناب اتنے رومینٹک ماحول میں ہم کیوں آپ کو ناراض کرنے لگے یہ تو محبتیں لٹانے کا وقت ہے،ناراضگیاں جتانے کا تھوڑی ۔۔۔

"تو پھر بتائیں آپ ہمارے ساتھ اپنا رشتہ آگے بڑھانا چاہتی ہیں ۔

وہ سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر پوچھ رہا تھا۔

وہ خاموش تھی ،اپنے ہی منہ سے کیسے اقرار کرتی ،،،ازلی شرم و حیا عود کر آئی ۔۔۔۔

"چلیں ابھی من نہیں تو کوئی بات نہیں ویسے بھی میں زور زبردستی کا قائل نہیں"

اسنے یمنی کے گرد بندھی اپنی گرفت ڈھیلی کی ۔۔۔

"میں نے ایسا کب کہا ؟؟؟

وہ اس کی خفگی کے خیال سے جھٹ بولی۔

"یعنی کہ منظور ہے ؟؟؟

وہ تھوڑا سا اٹھ کر اس کی نظروں میں دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔کھڑکی سے آتی ہوئی چاند کی چاندنی میں اس کا گلال چہرہ شرم سے تمتماتے ہوئے عجب رنگ دکھلا رہا تھا ۔

وہ اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر اسی کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔

آسمان پر چمکتے ہوئے چاند ستارے بھی ان کے اس خوبصورت ملن پر پورے آب و تاب سے جگمگا رہے تھے ۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"ز۔۔۔۔زمارے ۔۔۔۔۔

ذوناش کے لبوں سے یہ لفظ بمشکل برآمد ہوئے۔۔۔۔

پھر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔

وہ ذوناش کو اس طرح دیکھ کر اس کے پاس آیا اور اپنا موبائل اس کے ہاتھ سے لے کر خود دیکھا ۔۔۔کہ اس نے ایسا کیا دیکھ لیا اس پر کہ اس کی یہ حالت ہوئی ۔۔۔۔

اس کی اپنی نظریں اس منظر کو دیکھ کر ساکت ہوئیں ۔۔۔۔

وہ اپنا موبائل لیے زریار کے کمرے کی طرف بھاگا ۔۔۔۔

زریار نے بھی وہ سب دیکھا ۔

اور پھر خان صاحب سے اس کے متلق بات کی ۔۔۔۔

وہ تینوں ایک ساتھ حویلی سے نکلے ۔۔۔۔زریار ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔جبکہ خان صاحب ساتھ والی سیٹ پر اور زمارے پیچھے ۔۔۔۔

"عماد یار فرحین کا ایڈریس سینڈ کر "

زمارے نے اسے میسج کیا ۔

"یار وہ لاہور میں نہیں رہتی کراچی شفٹ ہوچکی ہے "عماد نے اس بتایا ۔

"پھر اب ؟؟؟

"مجھے کیسے بھی کر کہ اس کا پتہ ڈھونڈھ کر دو "زمارے نے اس بار سیدھا کال کر کہ کہا ۔

"بھائی وہ لوگ لاہور میں نہیں کراچی میں ہیں"اس نے زریار کو بتایا ۔

"خان صاحب آپ بتائیں کیا کرنا ہے ؟

وہ انہیں خاموش دیکھ کر پوچھنے لگا۔ 

"کرنا کیا ہے ،گاڑی ائیر پورٹ کی طرف لے چلو ،وہاں سے پہلی فلائٹ سے کراچی پہنچتے ہیں اور کیا ؟ ۔",

"جی ٹھیک ہے "

ابھی وہ سب ائیر پورٹ پر پہنچے۔ ہی تھے کہ عماد نے فرحین کا ایڈریس سینڈ کر دیا ۔۔۔

"بھائی ایڈریس مل گیا "اس نے زریار کو ِدکھایا ۔

________

وہ تینوں اس وقت شاہ ولا کے باہر موجود تھے .

"جی کس سے ملنا ہے آپ کو۔۔۔

 "؟گیٹ کے باہر کھڑے ہوئے گارڈ نے ان سے پوچھا ۔

"ہمیں زیگن سے ملنا ہے "انہیں بتاؤ باہر تمہارا باپ آیا ہے "

"سوری سر آپ غلط پتے پر آئے ہیں یہاں کوئی زیگن صاحب نہیں رہتے یہ تو شاہ صاحب کا گھر ہے ،

"کون شاہ صاحب ؟؟؟

",شہزاد شاہ اور ان کی بیٹی کے ساتھ ان کے ہونے والے دماد وجاہت شاہ ہیں اس گھر میں ۔اس کے علاؤہ اور کوئی نہیں وہ لوگ کچھ دنوں پہلے ہی یہاں شفٹ ہوئے ہیں "اس نے اطلاع دی۔

"ان کی بیٹی کا نام فرحین ہے ؟؟زمارے نے پوچھا ۔

"جی صاحب یہی نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

بی بی جی کا "

"پھر ہمیں اندر جانے دو "زریار نے آگے بڑھ کر اندر جانے کی کوشش کی ۔

"لیکن صاحب آپ ایسے اندر نہیں جا سکتے بڑے صاحب ہم سے ناراض ہوگے ۔ابھی وہ گھر پہ نہیں "

"آپ بعد میں آئیے گا "

"فرحین گھر پہ ہے "؟

"اس سے کہو کہ زمارے ملنے آیا ہے ،وہ جانتی ہے مجھے "

"بی بی جی تو گھر پہ نہیں وہ یونیورسٹی گئی ہیں"

تو گھر پہ ہے کون ؟؟؟

زریار اس کی فضول کی بحث پر اونچی آواز میں بولا۔

"کون ہے عبدل ؟؟؟وجاہت شاہ نے باہر نکل کر پوچھا ۔

وہ جو باہر لان میں بیٹھا شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔عبدل کی کسی سے الجھنے کی آواز سن کر باہر آیا۔۔۔۔

خان صاحب سمیت زریار اور زمارے سب نے اس باہر آنے والے انسان کو دیکھا۔

وہی وجیہہ نقوش وہ قد کاٹھ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس،رف اینڈ ٹف حلیے میں تھا۔مگر جب اس کی آنکھوں پر نظر پڑی تو تینوں چونکے ۔۔۔

اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا ،

"بابا یہ زیگن بھائی ؟؟؟؟زمارے نے حیرت سے اسے دیکھ کر کہا۔

"لینز لگائے ہوں گے "خان صاحب نے اندازہ لگایا۔

اور ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھ میں ڈالا تاکہ لینس نکال سکیں۔۔۔

"آپ لوگ پاگل واگل تو نہیں ۔۔۔؟؟؟

"یہ میری اپنی آنکھیں ہیں ۔۔۔وجاہت شاہ ان سے پیچھے ہو کر غرایا ۔۔۔۔۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟

"گھر چلو واپس "خان صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

"کونسا گھر ؟؟؟

"کس کا گھر ؟؟؟

"دیکھیں آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"

وہ دو قدم پیچھے لیتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ہمیں کوئی  بھی غلط فہمی نہیں ہوئی زیگن گھر چلو "

خان صاحب اٹل انداز میں بولے۔۔

"میں اتنی دیر سے آپ سب سے تمیز سے پیش آ رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لوگوں کا جو جی میں آیا وہ بولتے چلے جائیں گے ۔

میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں 'کہ آپ لوگ کسطرح زبردستی میرے گھر میں گھس رہے تھے "

وہ سرد مہری سے بولا۔

"اس کے دماغ کا پیچ ڈھیلا ہوگیا ہے اس الو کے پٹھے کا۔۔۔ ،لے چلو اسے ساتھ گھر لے جا کر سارے سکرو ٹائٹ کرتا ہوں ",

وہ زرمارے اور زریار کی طرف دیکھ کر حکمیہ انداز میں بولے ۔۔۔

زریار اور زمارے نے ایک ایک بازو سے پکڑ کر اسے کھینچا ۔۔۔

مگر وجاہت شاہ نے اشتعال انگیزی سے اپنے دونوں بازو ان کی گرفت سے ایک جھٹکے میں آزاد کروائے ۔۔۔۔

"نالائقوں !!! ہڈ حراموں سارا کھایا پیا برباد کردیا ۔۔۔۔

جان نہیں تم دونوں میں ؟؟؟

"اس اکیلے کو قابو نہیں کر پا رہے !!!!

"تم اسے بھائی سمجھ کر ہاتھ ڈھیلا رکھ رہے ہو،جبکہ اس وقت اسکا دماغ ساتویں آسمان پر ہے "

"اٹھا کر ڈالو اسے گاڑی میں "

انہوں نے اونچی آواز میں کہا۔۔

زریار اور زمارے اسے گاڑی کی طرف کھینچنے لگے ۔۔۔۔

ائیر پورٹ سے نکل کر انہوں نے پرائیویٹ گاڑی ہائیر کی تھی جس میں ڈرائیور بھی موجود تھا ۔جو خاموشی سے اندر بیٹھے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔آج کل کے دور میں بھلا کون پرائے پھڈے میں پڑتا ہے اس کی یہی سوچ تھی ۔

"چھوڑ دو میرے صاحب کو باہر موجود عبدل گارڈ نے اپنی رائفل ان پر تانی ۔۔۔۔

"اپنے صاحب کی سلامتی چاہتے ہو تو ہمیں لے جانے دو اسے ۔

خان صاحب نے اپنی قمیض کے نیچے بندھے گن ہولڈر میں سے گن نکال کر وجاہت شاہ کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ احتیاطاً گن ساتھ لائے تھے اور اس کی ضرورت بھی پڑ گئی تھی ۔۔۔۔

"چلو 'انہوں نے ان دونوں کو اشارہ کیا ۔۔۔

زریار اور زمارے اسے اپنے ساتھ گھسیٹ کر پچھلی سیٹ پر بٹھا چکے تھے ،وہ ان دونوں کے قابو نہیں آ رہا تھا ۔مگر وہ دونوں بھی پوری کوشش کر رہے تھے ۔۔۔

خان صاحب ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھے تو گاڑی سٹارٹ ہوکر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئی ۔۔۔۔

انہیں وہاں سے نکلتے ہوئے رات  ہوگئی تھی ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح کا سورج اپنی بھرپور آب و تاب کے ساتھ چمک کر اپنی کرنیں چاروں طرف بکھیر رہا تھا ۔۔۔۔۔ کھڑکی کے پردے سے آتی ہوئی سورج کی روشنی شہریار کے چہرے پر پڑی تو وہ  کسمسانے کے بعد دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھول گیا۔ اور پُر شکن ماتھے کے ساتھ ناگواری سے روشنی کی جانب دیکھا۔۔۔

آج سے پہلے اسے سورج کی کرنیں اتنی بُری کبھی نہیں لگی تھیں جتنی اس وقت لگ رہی تھیں۔۔۔۔

اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرنا چاہا تو اپنے سینے پر یمنی کو سوتے ہوئے پایا ۔۔۔جو اپنی ٹانگیں اس کی ٹانگوں پر رکھے اور سر بھی اس کے سینے پہ دھرے پر سکون نیند کے مزے لوٹ رہی تھی ۔۔۔اس نے نرم نگاہوں سے اپنی شریک حیات کو دیکھا،،،تو اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی ۔۔۔

یمنی نے اس کی سخت گرفت محسوس کرتے ہوئے اپنی مندی ہوئی آنکھیں واہ کیں شہریار کی ذومعنی نظریں دیکھ کر اسے رات کا سارے مناظر یاد آنے لگے ۔۔۔

وہ شرم سے دوہری ہوتے اسی کے سینے میں واپس منہ چھپا گئی ۔۔اس کے انداز پر شہریار کا جاندار قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زرشال کو دوپہر سے رات ہوگئی اسے میسجز کرتے ہوئے مگر زمارے نے کوئی ریپلائے نہیں دیا۔پھر ساری رات وہ اسے کال ملاتی رہی مگر اس کا فون آف جا رہا تھا۔۔۔۔

ادھر زمارے کے فون کی بیٹری ڈیڈ ہو چکی تھی اسی لیے اسے زرشال کی کالز کا پتہ نہیں چل سکا ۔۔۔

زرشال سے مزید انتظار نا ہوا تو اس نے گھر کی لینڈ لائن پر کال ملائی جو بسمہ نے اٹھائی ۔

رسمی سلام دعا کے بعد اسنے زمارے کے متلق پوچھا ۔

"بیٹا مجھے پوری بات کا تو نہیں پتہ مگر زمارے اپنی کسی دوست فرحین کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔ادھر ہی گیا ہے "بسمہ کی بات اس کے کانوں میں ہتھوڑے کی طرح لگی ۔۔۔

فرحین کا نام سنتے ہی اس کا دماغ چکرانے لگا ۔۔۔۔

"بیٹا زمارے کیا خان صاحب اور زریار بھی ساتھ گئے ہیں جلدی میں جانے کیا بات ہے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا۔۔۔

اسے اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا کہ بسمہ کیاکہہ رہی ہیں ۔کانوں میں بس ایک ہی لفظ گونج رہا تھا ۔زمارے فرحین کے ساتھ ۔۔۔۔۔

اس نے بے توجہی سے فون بند کیا ۔۔۔۔مگر جسم میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔

اس کی آنکھیں جلنے لگیں ۔تصور میں زمارے کو فرحین کے ساتھ دیکھ کر ۔۔۔۔

وہ جلے پیر کی بلی کی مانند ادھر سے ادھر چکر کاٹنے لگی ۔۔۔اور آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگی ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ اسے اپنے ساتھ زبردستی لیے حویلی میں داخل ہوئے ۔۔۔

اندر آتے ہی اس نے ایک بار پھر سے زمارے اور زریار کے بازو جھٹکے ۔۔۔۔

"دیکھیں آپ لوگ مجھے زبرستی یہاں نہیں رکھ سکتے ....

"میں کہہ رہا ہوں کہ میں آپ سب کو نہیں جانتا "

"تم بے شک نا جانو ہمیں ہم تمہیں اچھے سے جانتے ہیں "

زریار نے اس کی بات کاٹی ۔

"زیگن مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تم ہمیں پہچاننے سے انکار کیوں کر رہے ہو ؟؟؟

خان صاحب کی کاٹ دار آواز گونجی تو بسمہ کے ساتھ ساتھ بریرہ بھی باہر آئی ۔۔۔

جبکہ ذوناش کچن میں کھڑی شیر زمان کے لیے دودھ ابال رہی تھی ۔سب کی آوازیں سن کے دروازے تک آئی تو اس دشمن جاں کو سامنے دیکھ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

کتنا تڑپی تھی وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو اور آج جب وہ بہ نفسِ نفیس اس کے سامنے موجود تھا تو قدم اٹھنے سے انکاری ہوگئے ۔۔۔۔

 دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا ۔۔۔۔

وہ ناراض تھی اس سے ،بھلا یوں بھی بنا بتائے کوئی چھوڑ کر جاتا ہے ؟؟؟وہ دل میں اس سے شکوے کرنے لگی ۔۔اور دروازے کے ساتھ لگی بے آواز رونے لگی ۔۔۔۔

"میں یہاں ایک پل بھی نہیں رکوں گا ",وہ برف سے سرد لہجے میں بولا۔

"اور ہم تمہیں یہاں سے جانے نہیں دیں گے "خان صاحب نے اس کو گھور کر کہا ۔

"آپ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں مجھ سے ؟؟؟

",آپ ہمارے بھائی ہیں ،،،،،ہم آپ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں "اس کے علاؤہ اور کچھ نہیں "

"مگر میرا کوئی بھائی نہیں اور نا ہی کوئی رشتہ دار "

"ٹھیک ہے آج ہی اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا "خان صاحب نے رعب دار آواز میں کہا تو سب کی نظریں ان پر جم گئیں ۔۔۔کہ وہ کیا فیصلہ کرنے والے ہیں۔

"ہم ڈی ،این ،اے ٹیسٹ کروا لیتے ہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔

"ٹھیک ہے "وہ ان کی بات مان گیا کیونکہ اسے خود پر پورا یقین تھا ۔۔۔۔

"جاؤ زریار ڈاکٹر کو گھر بلاؤ سیمپل لے اور ٹیسٹ کر کہ رپورٹ بھجوائے ۔۔۔

"جی میں بلاتا ہوں "

"بیٹھ جاؤ "خان صاحب نے اسے تب سے کھڑے ہوئے دیکھ کر بیٹھنے کے لیے کہا۔

بسمہ اس کے پاس آئیں اور اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے سکون محسوس کرنے لگیں۔۔۔کتنے عرصے بعد اپنے بیٹے سے ملیں تھیں۔وہ بیزاری سے ان سے فورا پیچھے ہوا جیسے کسی نے کانٹا چبھا دیا ہو ۔۔۔

بسمہ کا دل کٹ کر رہ گیا اس کے اجنبی روئیے پر ۔۔۔

بریرہ وہاں موجود خاموشی سے بیٹھی تھی ۔

زمارے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔اور اندر جا کر پہلے فون کو چارجنگ پر لگایا ۔۔۔

پھر واش روم سے منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلا تو فون آن کیا ۔۔۔ساتھ ساتھ چارجنگ بھی ہورہی تھی ۔۔۔۔

فون آن ہوتے ہی زرشال کے ڈھیروں ڈھیر میسجز اور مسڈ کالز دیکھ کر اس نے فورا اسے کال ملائی ۔۔۔۔

بیلز جا رہی تھیں مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہی تھی ۔

زمارے نے پھر سے ملایا ۔۔۔

اس بار زرشال نے کال کاٹ دی ۔۔۔زمارے نے غور سے فون کو دیکھا جیسے اسے یقین نہ آیا ہو ۔۔۔۔کہ زرشال اس کی کال کاٹ بھی سکتی ہے ۔

اس نے ہار نہیں مانی ایک بار پھر سے کال ملائی ۔۔۔

اس بار زرشال نے غصے میں کال ریسیو کر کہ موبائل  کان سے لگایا۔

"زرشال تم میری کال کیوں کاٹ رہی تھی ؟؟؟

زمارے تلخ انداز میں بولا ۔کیونکہ اسے زرشال کی یہ حرکت ناگوار گزری تھی۔

"کیوں مجھ سے کیا ضرورت پڑ گئی کال پر بات کرنے کی جس سے مل کر آئے ہو باتیں بھی اسی سے کرو "

وہ تڑخ کر بولی ۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو ؟؟؟

"کیوں تمہارے کان زرا کم سنتے ہیں جو سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔

"زرشال یہ تم کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو ؟؟

"اسی لہجے میں جس کے تم قابل ہو "

"دیکھو زرشال اب تم حد سے بڑھ رہی ہو "

"حد سے میں بڑھ رہی ہوں یا تم حد سے بڑھ چکے ہو ؟؟؟

"خود جس کے ساتھ مرضی رنگ رلیاں مناتے پھرو اور میری باتیں چبھ رہی ہیں ۔سچ کہتے ہیں ۔سچ ہمیشہ کڑوا ہے"

"بکواس بند کرو'"

"بکواس تو تم بند کرو اپنی مجھے تم جیسے دوغلے ،دغا باز انسان کے ساتھ کوئی رشتہ ہی نہیں رکھنا "وہ تقریباً چلا کر بولی۔۔۔

"اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ تم کیا بول رہی ہو ؟؟؟

"بالکل اندازہ ہے ،مجھے طلاق کے کاغذات بھجوا دو ،تمہارے نام کے ساتھ اب میں اپنا نام بھی برداشت نہیں کر سکتی ۔اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو میں خود کورٹ سے خلع لے لوں گی ۔

"اپنے الفاظ پر بہت پچھتاؤ گی۔ زرشال !!!!

"پچھتا تو میں رہی ہوں ۔۔۔وہ بھی تم جیسے انسان سے رشتہ جوڑ کر"

"تمہیں پتہ تھا نہ کہ مجھے دنیا میں صرف ایک لڑکی سے نفرت ہے ۔اور تم سب جاننے کے باوجود بھی اس سے ملنے گئے نا ""

زمارے نے اس کی اگلی بات سنے بنا کال کاٹ دی ۔۔۔۔اور چلتے ہوئے بستر کے پاس آیا پھر اوندھے منہ گر گیا ۔۔۔۔

زرشال کی باتیں سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو چکا تھا۔آنکھیں سرخی مائل دکھائی دینے لگیں۔۔۔۔

کافی دیر سوچنے کے بعد وہ ایک فیصلے پر پہنچا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔باہر آیا تو ڈاکٹر بلڈ سیمپل لے رہے تھے ۔وہ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دوارزہ کھٹکنے کی آواز سن کر شہریار باہر نکلا تو سامنے زمارے کو کھڑے ہوئے دیکھ کر حیران ہوا ۔

"تم یہاں "؟

"کیوں میں یہاں نہیں آ سکتا "

"ہاں ہاں کیوں نہیں ۔جب چاہے آؤ تمہارا ہی گھر ہے ،وہ خوش دلی سے بولا۔

وہ اسے اپنے ساتھ لیے اندر آیا ۔۔۔

اسلام وعلیکم آنٹی !اس نے سدرہ کو دیکھ کر سلام کیا جو باہر صحن میں تخت پوش پر براجمان تھیں ۔

زمارے نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دی ۔

"وعلیکم اسلام "!

"کیسے ہو بیٹا ؟۔"

"جی شکر ہے خدا کا بالکل ٹھیک "

"چائے پیو گے یا کھانا کھاؤ گے بلا تکلف بتاؤ ؟؟؟

شہریار نے اس سے پوچھا ۔

یمنی زمارے کو اندر آتے دیکھ چکی تھی وہ اس کے لیے گلاس میں جوس ڈال کے لے آئی اور اس سے مل کر اسے گلاس تھمایا ۔۔۔۔

"اس کی ضرورت نہیں تھی "

اس نے گلاس سامنے موجود ٹیبل پر رکھا ۔

"دراصل مجھے آپ سے کچھ خاص بات کرنی تھی اسی سلسلے میں آیا ہوں "زمارے نے سدرہ کی طرف دیکھ کر بات کا آغاز کیا ۔۔۔

اس کی آواز سپاٹ اور لہجہ سنجیدہ تھا ۔چہرے کے نقوش بھی تنے ہوئے تھے ۔

سدرہ کو اس کے چہرے سے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا ۔۔۔

"ہاں جی بیٹا بولو کیا کہنا چاہتے ہو"؟

"آنٹی میں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں ۔اسے میرے ساتھ ابھی رخصت کر دیں "

وہ متانت سے بولا ۔۔۔

شہریار ،یمنی اور سدرہ اس کی بات سن کر حیرت زدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔

"بیٹا مگر سب کے بغیر رخصتی کچھ معیوب نہیں لگتی ۔سدرہ نے سوچ سمجھ کر کہا ۔

"زرشال میری بیوی ہے ،اور میں اس پر حق رکھتا ہوں ،

اسی حق سے اسے لے جانے آیا ہوں ۔

"اگر اسے رخصت کروانا تھا تو اپنے گھر سے کسی بڑے کو ساتھ لاتے ایسے کیسے تم اسے اکیلے رخصت کروانے آگئے ۔۔۔بات اس کی بہن پر آئی تو شہریار چپ کیسے رہتا وہ بھی بھڑک اٹھا۔

"نکاح مجھ سے ہوا تھا ناکہ میرے گھر والوں سے "وہ بھی دوبدو تلخ لہجے میں بولا ۔

یمنی پہلی بار زمارے کو اتنا غصے میں دیکھ رہی تھی ورنہ وہ اسطرح کبھی نہیں کرتا تھا۔

"امی آپ اس سے بات کریں میں آتا ہوں "شہریار انہیں  کہتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔

باہر آکر اس نے خان صاحب کو کال ملائی اور انہیں زمارے کے بارے میں بتایا کہ وہ یہاں پہنچا ہوا ہے خود کی اپنی بیوی کی رخصتی کروانے ۔۔۔

خان صاحب اپنے بیٹے کی حرکت پر تلملا کر رہ گئے ۔

اور اسے یقین دلایا کہ وہ وہاں آکر سب سنبھال لیں گے ۔۔۔

شہریار مطمئن سا واپس گھر آیا ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"بسمہ تمہارے ان سپوتوں نے مجھے پاگل کر دیا ہے ،

ایک گھر میں آکر ہمیں پہچانے سے انکار کر کہ پاگلوں والی حرکتیں کر رہا ہے ۔

جبکہ دوسرا نواب زادہ اپنے سسرال پہنچ کر دلہن کو رخصت کروانے پر بضد ہیں "

"اف اللہ !انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

"ایک کے ہوش ٹھکانے آئے نہیں کہ دوسرا ہمارے ہوش اڑانے چلا ہے ۔

"اٹھو جلدی جا کر دیکھیں انہیں "

"جی آپ چلیں میں چادر لے کر آتی ہوں "

"تم کدھر جا رہے ہو"؟

زریار کو باہر جاتے دیکھ انہوں نے آواز دی ۔

"خان صاحب اسلام آباد والی فیکٹری میں ورکرز نے ہڑتال کردی ہے ۔مجھے جلد سے جلد وہاں پہنچنا ہے۔مینجر بتا رہا تھا ۔انہوں نے وہاں کافی توڑ پھوڑ کردی ہے ۔

"یااللہ !! یہ ساری مصیبتیں ایک ہی وقت میں آنی تھیں۔؟؟وہ نظریں اوپر اٹھا کر بولے ۔۔۔

"زیگن تم یہیں رکو میں ابھی آتا ہوں ،جب تک رپورٹس نہیں آ جاتیں تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گے ۔

بریرہ اور ذوناش تم اس پر نظر رکھنا ۔

باہر دو اسلحے سے لیس گارڈز موجود ہیں ۔اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو وہ خودی دیکھ لیں گے ۔

جاؤ زریار تم "

انہوں نے اسے جانے کی اجازت دی تو وہ باہر نکل گیا ۔۔۔

خان صاحب اور بسمہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ زرشال کے گھر روانہ ہوئے۔۔۔۔

"ہاں جی برخوردار !!!

"ایسی کون سی آگ لگی تھی جسے بجھانے آپ خود یہاں اکیلے ہی تشریف لے آئے ؟؟؟

خان صاحب نے وہاں پہنچتے ہی زمارے کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولے ۔۔۔۔

"چلیں اچھا ہوا آپ خودی یہاں پر آگئے ۔۔۔میں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں ،

"تم سے صبر نہیں ہوا ۔؟؟؟

"اتنی کونسی جلدی پڑ گئی تھی رخصتی کی ؟؟؟

" مجھے آج ہی اپنی بیوی چاہیے "

وہ بضد ہوا ۔۔۔

"جیتی جاگتی انسان ہے کوئی لالی پوپ نہیں کہ دکان سے لے کر اپنے مُنے کی خواہش پوری کر دوں "

"آپ لوگ سیدھے سیدھے میرے حوالے کردیں میری بیوی ورنہ اچھا نہیں ہوگا ۔

وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے دھمکی آمیز انداز سے بولا ۔

"ورنہ کیا ؟؟؟

"کر لے جو کرنا ہے ،

پڑھائی ابھی پوری ہوئی نہیں چلے ہیں لاٹھ صاحب بیاہ رچانے ،خان صاحب نے غّرا کر کہا ۔۔۔

سدرہ،شہریار اور یمنی وہیں موجود ان باپ بیٹے کی بحث میں خاموش تماشائی بن کر رہ گئے تھے ۔۔۔۔

"زمارے بیٹا بات کو سمجھو ایسے یہ سب ممکن نہیں "بسمہ نے اپنے تئیں اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔

"مام آپ پلیز کچھ بھی مت بولیں ۔

"اور آپ سب لوگ یہ بات کان کھول کر سن لے اگر تو ٹھیک طریقے سے میری بات مان کر زرشال کو میرے ساتھ رخصت کردیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ۔۔۔

مجبوراً مجھے پولیس کی مدد لینی پڑے گی ۔بتاوں گا انہیں کہ آپ لوگ میری بیوی میرے حوالے نہیں کر رہے "

زمارے !!!!!

خان صاحب نے بلند گرجدار آواز میں کہا۔۔۔۔

اور جارحانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھے ۔۔۔۔

"بھائی صاحب رک جائیے ۔۔۔

ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،،،،

جوان بچہ ہے گرم خون ہے ،

اس پر ہاتھ مت اٹھائیے ۔۔۔

بیٹھ کر آرام سے بات کرتے ہیں۔

سدرہ نے درمیان میں آکر کہا تو خان صاحب غصے سے زمارے کو گھورتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔ ۔۔۔

"خان صاحب مان جائیں ۔ویسے بھی زمارے کی تعلیم بھی مکمل ہونے والی ہے ،بسمہ نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔

وہ گہرا سانس بھر کر ان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔۔

بسمہ نے انہیں آنکھوں سے سکون میں رہنے کا اشارہ دیا ۔اور ان لوگوں سے اپنے نازک  تعلق کا احساس دلایا۔۔۔

"بیٹھیں نہ بھائی صاحب "

سدرہ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ دیا ۔۔۔۔

"جاو یمنی بچے کھانا لگاؤ شام کا کھانا ہم  سب ساتھ کھائیں گے "سدرہ نے خوشدلی سے کہا ۔۔۔

"ارے نہیں نہیں بہن اس کی کوئی ضرورت نہیں "

"بہن بھی کہہ رہی ہیں اور تکلف بھی کر رہی ہیں ۔ہم سب بھی کھانا کھانے ہی والے تھے ،مل کر کھائیں گے بہت اچھا لگے گا "

"جی امی ابھی لگاتی ہوں "

یمنی ان سے سلام لے چکی تھی ۔۔۔ بہت ادب سے بات سدرہ کو جواب دے کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

چند منٹوں میں اس نے دسترخوان سجا دیا ۔۔۔۔

خان صاحب ،بسمہ کے ساتھ ساتھ زمارے بھی اس کی پُھرتیوں اور رکھ رکھاؤ سے حیران ہوا ۔۔۔

"کیا یہ وہی یمنی ہے جو گھر میں ایک گلاس پانی بھی اٹھ کر نہیں پیتی تھی ؟؟؟

زمارے نے اپنے ساتھ بیٹھی اپنی والدہ بسمہ سے کہا ۔۔۔

"سسرال میں آکر لڑکیاں وہ وہ کام کرتی ہیں جو انہوں نے کبھی میکے میں نہیں کیے ہوتے ۔۔۔یہی تو اچھی لڑکی صفات ہیں ۔بسمہ نے اسے توصیفی نگاہوں سے دیکھ کر زمارے سے کہا ۔۔

"سلام ہے شہریار بھائی آپ کو ۔۔۔۔کیسی کیسی چیزوں کو تیر کی طرح سیدھا کردیا "ماحول میں چھائی تلخی ختم ہوئی تو وہ اپنے ازلی انداز میں واپس آیا۔۔۔

اور شرارتی انداز میں بولا

"بیٹا جی گھر چلیں ،یہاں تو سسرال والوں کی وجہ سے بچ گئے ۔۔۔خان صاحب کے تیور مجھے ابھی بھی خاصے خراب لگ رہے ۔گھر جا کر تیر کی طرح تو آپ بھی سیدھے ہونے والے ہیں ۔۔یقینًا شہریار نے جوابا کہا ۔۔۔۔

وہ شہریار کی بات پر مسکرانے لگا۔۔۔

"زرشال بیٹا باہر تمہارے سسرال والے آئے ہیں جلدی تیار ہو جاؤ ....

وہ جو زمارے سے لڑ جھگڑ کر ابھی کچھ دیر پہلے سوئی تھی ۔اپنی والدہ کی آواز سن کر مندی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔

"کیوں وہ لوگ کیوں آئے ہیں ؟؟؟

"بیٹا وہ لوگ تمہیں رخصت کروا کر لے جانے آئے ہیں "

"مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔

اور ایسے کیسے آگئے رخصتی کروانے ۔۔۔جب مجھے ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا تو رخصتی کیسی ؟؟؟؟

"زرشال کیا فضول الٹا سیدھا ہانکے جا رہی ہو ؟؟؟

"امی مجھے اس بے وفا انسان کے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔آپ کو پتہ بھی ہے ،وہ ابھی بھی اس چڑیل فرحین سے ملتا ہے ۔۔۔

وہ کمفرٹر پیچھے ہٹا کر اپنے بستر سے باہر نکلی ۔۔۔۔

بسمہ جو اس سے ملنے اندر آرہی تھیں اس کی آخری بات سن کر وہیں رک گئیںں۔۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اندر آئیں ۔۔۔

 ان کے نئے رشتے میں آئی غلط فہمی کو وہ ہی دور کر سکتی تھیں  ۔۔۔۔

"زرشال بیٹا "

انہوں نے اندر آکر اسے مخاطب کیا ۔

"اسلام وعلیکم آنٹی !

اس نے ادب سے سلام کیا۔اور سیدھی ہوئی ۔۔۔۔

"وعلیکم اسلام !

"زرشال جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں "

"زمارے کا بڑا بھائی زیگن جس کے بارے میں تمہیں علم ہوگا کہ وہ کئی ماہ سے لاپتہ تھا ۔دراصل وہ فرحین کے ساتھ تھا ۔زمارے اسے ہی لینے گیا تھا۔زریار نے مجھے بتایا تھا کہ وہاں زیگن کے علاؤہ کوئی اور موجود نہیں تھا ۔اسی لیے وہ اسے با آسانی اپنے ساتھ لے آئے ۔اگر فرحین یا اس کے والد وہاں ہوتے تو زیگن کو واپس نہیں آنے دیتے بیچ میں ضرور کوئی نا کوئی مسلہ کھڑا کرتے ۔۔۔ابھی بھی ان لوگوں سے کچھ بعید نہیں ۔جانے کب وہ لوگ آئیں اسے لینے ۔۔۔

بس اتنی سی بات تھی اور تم اپنے دل و دماغ میں جانے کیسے کیسے وسوسے پال کر بیٹھ گئی ۔۔۔

بیٹا اتنی جلدی کوئی بھی فیصلہ نہیں لینا چاہیے ۔فیصلہ کرنے سے قبل ایک بار اس کے پیچھے چھپی ساری سچائی جان لینی چاہیے ۔انہوں نے اسے طریقے سے سمجھانا چاہا۔

"بسمہ بہن بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔میں ان کی بات سے متفق ہوں ۔بیٹا وہ تمہارا شوہر ہے ۔نیا نیا رشتہ ہے ،آہستہ آہستہ سب سمجھ جاؤ گی ۔میاں بیوی کے رشتے کی مضبوطی کے لیے سب سے اہم جزو ہے اعتماد ۔۔۔۔

تمہیں اس پر اعتماد ہونا چاہیے ۔۔۔اب یہ نادانیاں کرنا چھوڑو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔۔

بسمہ کے منہ سے سچائی سن کر زرشال کو 440والٹ کا جھٹکا لگا ۔۔اسے اپنے ہاتھ پاؤں پھولتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔

"میں نے اسے غصے میں کیا کیاکہہ دیا ۔۔۔۔جانے کیسا ری ایکشن ہوگا اس کا ۔۔۔

"یقیناً غصے میں ہی ہوگا "

زمارے کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا ۔۔۔

سدرہ نے اس کے جہیز کے سامان میں سے ہی ایک خوبصورت جوڑا نکالا اور اس کے ہاتھ میں دیا ۔۔ 

"جاؤ جلدی سے تبدیل کر کہ آؤ ۔۔۔

پھر بسمہ اور سدرہ باہر نکل گئیں۔۔۔

زرشال کپڑے تبدیل کیے باہر آئی تو یمنی اس کے پاس آئی ۔۔۔

"آؤ زرشال تمہیں ہلکا پھلکا سا میک اپ کردوں "

"اب زمارے کو اچانک رخصتی کی جلدی پڑ گئی تو سب جلدی جلدی میں ہو رہا ہے ۔

یمنی اسے شیشے کے سامنے بٹھائے اسے تیار کرنے لگی ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شہریار میں تم سے کافی دنوں سے بات کرنا چاہ رہا تھا ۔مگر اپنے گھریلو مسائل میں اتنا الجھا کہ پھر دماغ سے نکل گیا ۔۔۔

"جی خان کہیے "شہریار نے کہا۔

"جیساکہ تم جانتے ہو ۔۔یمنی اور صلہ دونوں بسمہ کی بہن 

کی بیٹیاں ہیں۔انہیں ہم نے پالا ہے۔ان دونوں کے والدین کی وفات کے بعد ۔صلہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔۔۔۔وہ اسکے ذکر پر افسردہ ہوئے ۔۔۔

اب جو کچھ بھی ہے وہ یمنی کا ہی ہے ،دراصل اس کے والد کی ایک کمپنی تھی جسے میں دیکھ رہا تھا ۔پھر میں نے سارا بزنس اپنا بھی اور یمنی کے والد کا بھی زریار کے حوالے کردیا ۔۔۔

بے شک وہ بخوبی سب سنبھال رہا ہے ۔مگر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے میں وہ بیچارا گھن چکر بن کر رہ گیا ہے۔

اب جب تم ہو تو اپنی بیوی کے حصے میں ذمہ داریاں بھی خود سنبھالو ۔۔۔۔

"میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں.

وہ نا سمجھی سے بولا 

"یمنی کے نام جو کمپنی ہے ،اسے اب سے تم دیکھو گے ۔اصولا جو یمنی کا ہے وہ تمہارا ہی تو ہے۔

"مگر خان صاحب میں ایسا بالکل بھی نہیں کروں گا ۔

I am sorry....

اس نے انکار کردیا۔

"میں جانتا ہوں تم بہت خودار ہو ۔کسی کی دی ہوئی چیز نہیں لوگے ۔مگر یہ یمنی کی ہے۔وہ تو جاکر آفس سنبھالنے سے رہی ۔تو اپنی بیوی کی جگہ تم ہی تو سب سنبھالو گے ۔کیونکہ زریار کے پاس خود بھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔

یمنی جو شہریار کے ساتھ بیٹھی خان صاحب کی اور اس کی آپسی گفتگو سن رہی تھی ۔

شہریار کے ہاتھ پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

اس کی آنکھوں میں مان بھرے دئیے جل رہے تھے ۔وہ کیسے ان دیوں کی جوت بجھا دیتا ۔۔۔

"جی ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں گے "

بالآخر وہ بول پڑا ۔۔۔

یمنی اسکے فیصلے پر کِھل اُٹھی ۔۔۔۔

"اچھا جی  !!!  اب ہمیں اجازت دیں"خان صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تو سب اٹھ گئے ۔۔۔

سدرہ اور یمنی جا کر زرشال کو اندر سے لے کر آئے ۔۔۔

اس نے سر پر پڑی سی چادر اوڑھ رکھی ۔۔جس سے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا 

وہ سب کی دعاؤں میں رخصت ہوکر ان کے ساتھ حویلی میں آگئی ۔۔۔۔

________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بریرہ زرشال کو زمارے کے کمرے میں چھوڑ آو "

بسمہ نے گھر میں آتے ہی اسے کہا ۔۔۔

ذوناش اور بریرہ زرشال کو اسطرح سجا سنورا دیکھ کر حیران ہوئیں ۔۔۔۔

"ضرور تم دونوں حیران ہوگی زرشال کو اسطرح اچانک گھر دیکھ کر تمہارے دیور سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے ۔جناب اپنے سسرال پہنچے ہوئے تھے بیوی کو لینے "

ان کی بات سن کر دونوں مسکرانے لگی ۔۔۔واقعی ایسے کام کی توقع صرف زمارے سے ہی کی جاسکتی تھی ۔

بریرہ اسے زمارے کے کمرے میں چھوڑ آئی ۔۔۔

"بسمہ زیگن سے کہو اپنے روم میں جائے صبح رپورٹس آئیں گی تو دیکھ لے "انہوں نے کہا تو بسمہ سے تھا مگر نظریں وجاہت شاہ پر تھیں ۔

"کتنی بار کہوں میرا نام وجاہت شاہ ہے "

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔

"پہلے ہی میرا دماغ بہت گرم ہے ۔بسمہ ان سب سے کہو کہ اپنے اپنے کمروں میں دفعہ ہو جائیں "

بسمہ بیچاری سب کے بیچ میں ہمیشہ یونہی پھنستی تھیں۔

"چلو بیٹا تم بھی جاؤ اپنے کمرے میں "

"کونسا کمرہ ہے ؟؟؟وہ اکھڑ لہجے میں بولا ۔

انہوں نے اشارہ کر کہ سامنے والے کمرے کا بتایا ۔تو وہ ان کے بتائے گئے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔

سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو بسمہ سیڑھیوں سے گزر کر اوپر اپنے روم میں جانے لگیں ۔۔۔انہوں نے شیر زمان کے رونے کی آواز وہاں کے ایک کمرے سے سنی تو حیران ہوئیں ۔۔۔

پھر اپنے قدم اسی کمرے کے طرف بڑھائے ۔۔۔

"ذوناش تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟

آنٹی میں یہیں ٹھیک ہوں "

"یہ کیا بات ہوئی ؟؟؟

"چلو اٹھو اپنے کمرے میں جاؤ میں زیگن کو وہیں چھوڑ کر آئی ہوں اور تم یہاں بیٹھی ہو ۔

"ذوناش میں جانتی ہوں بیٹا کہ تم اس کے اتنا عرصہ تک غائب رہنے پر ناراض ہو ۔مگر بیٹا یہ وقت ناراضگی جتانے کا نہیں ۔۔۔

"بلکہ اسے اپنے رشتے کا احساس کروانے کا ہے "

"وہ تو ہم سب کو پہچاننے سے انکاری ہوا بیٹھا ہے۔

"میری ساری امیدیں تم سے کی وابستہ ہیں اب ۔

"اسے اپنی محبت کا احساس کرواؤ ۔

"مانو گی نہ میری بات " وہ مان بھرے انداز میں بولیں۔

وہ محض سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔

پھر شیر زمان کو اٹھا کر اپنے اور زیگن کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔۔۔

"کون ہو تم ؟؟؟

"اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟

وہ اجنبی مگر کرخت لہجے میں بولا 

اس کا پہلا سوال ہی جان لیوا تھا ۔۔۔

ذوناش کی آنکھیں پل بھر میں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔۔۔

وہ شیر زمان کو بیڈ پر لٹا کر اس کے اردگرد تکیے لگانے لگی تاکہ وہ نیچے نا گر جائے ۔۔۔۔

پھر اس کی طرف آئی ۔۔۔

وہ ابھی بھی وہیں کھڑا اس کی حرکات ملاحظہ کر رہا تھا 

بسمہ کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہیں تھیں۔

دل تو تھا جو باغی بن بیٹھا تھا اپنے دشمن جاں کو سامنے دیکھ کر ۔۔۔

وہ بار بار اسے اکسا رہا تھا ۔۔۔

جا کر اس سے لپٹ جانے پر ۔

کتنا تڑپی تھی وہ اس کی دوری پر ۔کتنا ترسی تھی وہ اسے دیکھنے کے لیے ۔

اس بار ساری جھجھک اور شرم بالائے طاق رکھ کر اسے ہی پیش رفت کرنی تھی ۔

وہ خود میں ہمت مجتمع کیے اسکی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔۔

اس کے قریب آتے ہی ایڑیوں کے بل زمین سے اوپر ہوئی ۔۔

ایک لمبی سانس لی ۔

 اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیے اسکے عنابی لبوں پر اپنے لب رکھ گئی ۔۔۔

ایسا کرتے ہوئے اس کا پورا جسم کپکپا رہا تھا ۔

 وہ جو اس کے عمل پر حیرت کا مجسمہ بنا ہوا تھا ایک دم ہوش میں آیا ۔۔۔

اور ذوناش کو خود سے پیچھے دھکیلتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیا ۔۔۔

وہ اچانک پڑی اس افتاد کے لیے کہاں تیار تھی۔۔۔

ایک تو دھان پان سی تھی اس کے جاندار تھپڑ کی تاب نہ لاپائی اور لہراتی ہوئے زمین پر گری ۔۔۔۔

وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"ابھی کے ابھی نکل جاؤ اس کمرے سے اور ہاں اسے بھی لے جاؤ ۔

وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے شیر زمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھنکارا ۔۔۔۔

وہ اس وقت ذلت کے احساس سے خود کو پستیوں میں گرتاہوا محسوس کر رہی تھی  ۔۔۔۔

ذوناش بنا اس کی طرف دیکھے شیر زمان کو اٹھائے بھاگنے کے انداز میں اس کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔

پیچھے سے دھاڑ کی آواز سے اس کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی ۔۔۔۔مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔۔۔

اور واپس اسی خالی کمرے میں آگئی ۔۔۔

شیر زمان اسکے پاس لیٹا ہوا کھیل رہا تھا۔۔۔۔

"شیر !!! میری زندگی بھی کتنی عجیب ہے نا ،سب کچھ مجھ سے چھین لیا اس نے ۔۔۔

پہلے بابا کا سایہ سر سے اٹھا ۔۔۔پھر ماما بھی دور ہوئی۔اور اب !!!!

ہم جس کی چاہت کو اپنی زندگی کا منبع مان لیتے ہیں ،اگر ایک دن وہی ہمیں دھتکار دیں ،ہماری ذات کو ریزہ ریزہ بکھیر دیں تو کیا رہ جاتا ہے باقی ؟؟؟

میری زندگی کے یہ امتحان کب ختم ہوں گے ؟

کب سب ٹھیک ہو گا ؟؟؟

ان گردش ایام کی آزمائش پر پورا اترتے ہوئے میں تھکنے لگی ہوں ".

جب نا آشنا ہی بننا تھا تو کیوں میری زندگی میں آئے؟؟؟ کیوں مجھے اپنا عادی بنایا۔؟؟

کیوں میری زندگی خراب کی ؟

"کہاں سے سیکھا آپ نے محبت دے کر بدل جانا ،؟؟

بچھڑ جانا .....

اس نے ننھے شیر زمان کو اپنے سینے سے لگایا صرف وہی تو تھا جو اس کے غم بانٹتا تھا ۔

اسکے اپنے وجود کا حصہ ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمارے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور پھر اندر اسے اسے لاک لگایا ۔۔

زرشال جو شیشے کے سامنے کھڑی اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی ۔اس کی آہٹ پہچان کر پیچھے مڑی ۔۔۔

زمارے نے ایک تفصیلی نگاہ اسکے سجے سنورے روپ پر ڈالی ۔۔۔جو میرون رنگ کے شارٹ فراک اور پلازو میں ملبوس شانے کے ایک طرف دوپٹہ رکھے ہوئے تھی ۔۔۔

ہاتھوں میں میرون اور گولڈن امتزاج کی چوڑیاں کی چھنکار تھی ۔۔۔جو اسے اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔

جیولری شاید وہ اتار چکی تھی ۔

زرشال نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

مگر اسکی نظروں میں سرد تاثر دیکھ کر ٹھٹھکی ۔پھر نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

اس کی گھنی پلکیں جو مسکارے کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں ۔۔۔زمارے کے غصے کے ڈر سے گالوں پر لرزنے لگیں 

 زمارے نے اس کی لرزتی ہوئی پلکوں کا جھلملانا دیکھا ،اس کے یاقوتی کٹاو دار لب جو ڈارک میرون لپسٹک سے سجے تھے ،اسکی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہے تھے ۔۔۔۔

اس رات کے لیے اس نے نجانے کیا کیا خواب سجائے تھے ۔

مگر آج وہ سب کے سب خواب دھرے کے دھرے رہ گئے تھے زرشال کی بیوقوفی کی وجہ سے ۔۔۔۔

وہ شرٹ کہ بٹن کھولتا ہوا اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

زرشال نے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔جو شرٹ دور پھینکتا ہوا جارحانہ انداز میں اس کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں حیرت در آئی ۔۔۔۔

"زمارے ۔۔۔۔میں تم سے معافی ۔۔۔۔

اس کے حلق سے گُھٹی ہوئی آواز نکلی ۔۔۔۔

"شششششش۔۔۔۔۔اس نے اس کے لبوں پہ انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روکا ۔۔۔۔

"طلاق چاہیے تھی نا تمہیں مجھ سے ؟؟؟

وہ اسکے دونوں شانوں کو جھنجھوڑ کر بولا۔۔۔۔

"ن۔۔نہ۔۔۔نہی۔ نہیں ۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

زمارے نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کی اور اسکی ایک بھی بات سنے بنا اسے بانہوں میں بھر کر بیڈ پر پٹخا ۔۔۔

"زمارے میں تم سے معافی مانگ رہی ہوں نا ۔۔۔پلیز تم ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ "

"چھوڑو مجھے "

"سب کے سامنے نکاح پڑھوا کر لایا ہوں کوئی اغوا کر کہ نہیں لایا ۔۔۔

"تمہیں بھی پتہ چلے بنا سچائی جانے دوسرے پر الزام لگانے کا انجام "

وہ اس کا دوپٹہ کھینچ کر دور پھینکتے ہوئے بولا ۔۔۔

پھر اس پر حاوی ہوا۔۔۔

اسکی بے باک حرکتوں پر زرشال کا نازک وجود کانپنے لگا ۔۔۔

وہ اسکی مضبوط گرفت میں مچلنے لگی ۔۔۔

وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنے لگی ۔مگر سینہ شرٹ لیس دیکھ ہاتھ واپس کھینچے ۔۔۔۔۔

اس کی مزاحمتیں زمارے کے جنون کو مزید ہوا دے رہی تھیں۔

وہ زیادہ دیر تک اس کے جنون کا مقابلہ نہیں کر سکی اور خود کو اس کے سپرد کر گئی ۔۔۔

اسکی سسکیاں خاموش کمرے میں گونج رہی تھیں۔مگر مقابل کو اس وقت کونسی پرواہ تھی ۔۔۔۔

زمارے کے بجتے ہوئے فون نے اس ماحول میں خلل ڈالا ۔۔۔

"دیکھو کس کی کال ہے "وہ زرشال سے کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ سے آزاد کیے بولا 

زرشال نے اسکی لہجے کی سختی دیکھ سکرین پر دیکھا ۔۔۔جہاں فرحین کا نمبر جگمگا رہا تھا ۔

"فون آف کر کہ سائیڈ پر رکھ دو "اس نے اگلا حکم صادر کیا ۔

"اس وقت میں ہم دونوں کے سوا کسی تیسرے کی موجودگی کو برداشت نہیں کر سکتا "

زرشال نے ویسا ہی کیا ۔۔۔

اس نے زرشال کی باتوں کا حساب اپنے عمل سے چُکتا کیا ۔۔۔

کچھ دیر بعد زرشال نے رخ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا جو اسے بے سکون کیے خود پرسکون نیند سوچکا تھا ۔۔۔۔اس سب میں صرف ایک بات جو اسے اچھی لگی تھی ،وہ تھا زمارے کا فرحین کی کال کو اگنور کرنا ۔اس کی طرف سے کی گئی زیادتی بھی ماند پڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمارے صبح اپنے وقت پر اٹھا یونیورسٹی جانے کے لیے اس نے اپنے قریب موجود زرشال کا چہرہ دیکھا جہاں ابھی بھی ان گِنت آنسوؤں کے ان مٹے  نشانات  موجود تھے ان نشانات کو دیکھ کر اسے ایک لمحے کیلئے اپنا آپ مجرم محسوس ہوا مگر اگلے ہی لمحے اس کیفیت کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور نظریں سوتی ہوئی زرشال پر جمائیں ۔۔۔

اس کی پیشانی پر لب رکھ   کے اس پر کمفرٹر درست کیا اور اُٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔ 

باتھ لینے کے بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔۔۔۔ ابھی اس نے بالوں میں پھیرنے کے لیےبرش اٹھایا ہی تھا کہ اس کی نظر ایک بار پھر بلا اختیار زرشال پر پڑی جو ابھی تک سوئی ہوئی تھی کیونکہ وہ رات کو کافی دیر سے سوئی تھی ۔۔۔۔

ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے ہٹ کر اس نے اپنے قدم بیڈ کی کی طرف بڑھائے ۔۔۔

"کاش۔۔۔۔ کاش زرشال تم وہ سب نہ بولتی تو آج یہ سب یوں نا ہوتا ۔۔۔۔!!!

 مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے ۔مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا سب زبردستی ۔۔۔مگر تمہیں سبق سکھانا بہت ضروری تھا ورنہ تم پھر سے وہی غلطی دہراتیں۔۔۔۔۔!!

یہ کہتے ہی ذمارے نے اس کے چہرے پر آئی لٹوں کو پچھے کیا ۔۔۔اور اس کے گال کو سہلاتے ہوئے گہری سانس لی۔۔۔

پھر اٹھ کر تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

____________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"سر آپ جو ٹیسٹ کروائے تھے ان کی رپورٹس تو آگئیں ہیں ،مگر مجھے کچھ اور ٹیسٹ کرنے ہوں گے پھر ہی تفصیل سے کچھ بتا سکوں گا ۔

آپ کو انہیں اپنے ساتھ ہاسپٹل لانا ہوگا ۔

اگلی صبح انہیں ڈاکٹر کی کال آئی تو وہ سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔

"بسمہ زمارے کدھر ہے ؟؟

"خان صاحب وہ تو یونیورسٹی چلا گیا "انہوں نے آگاہ کیا۔

"رات اسے دلہن لانے کی جلدی تھی اور اب اسے چھوڑ کر یونیورسٹی نکل گیا ۔۔۔واہ قربان جاؤں اس کی حرکتوں پر ....وہ دانت پیس کر بولے ۔۔۔

"وہ بتا رہا تھا کہ آج اس کا لیب میں کچھ اہم کام ہے اسی لیے گیا ہے "

ناشتے کے وقت جو زمارے نے بسمہ کو بتایا تھا انہوں نے وہی خان صاحب کے سامنے گوش گزار کر دیا۔

"آپ کیوں پوچھ رہے تھے اس کا ؟؟؟

"زیگن کو ساتھ لے کر ہاسپٹل جانا ہے۔اب وہ ٹہرا جوان جہان میرے اکیلے کے قابو کہاں آئے گا ۔اگر ہوشیاری دکھاتے ہوئے ہاسپٹل سے بھاگ نکلا تو میں کیا کر پاؤں گا اکیلے ۔

انہوں نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی ۔

"زریار نے اندر آتے ہی انہیں سلام کیا۔۔۔

"تم آ بھی گئے ؟؟؟بسمہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

"جی مام ۔فلائٹ لے کر گیا تھا اور پھر فلائٹ سے ہی واپس آگیا  "وہ صوفے پر بیٹھا ۔۔۔اس کے ہر انداز میں تھکاوٹ نظر آرہی تھی ۔۔۔

آنکھیں رتجگے کی وجہ سے سرخی مائل دکھائی دے رہی تھیں۔

"وہاں سب ٹھیک ہوگیا "؟

خان صاحب نے استفسار کیا۔

"جی سب ٹھیک ہے اب "

"مجھے پتہ ہے کہ تم تھک گئے ہو مگر تمہیں اس وقت میرے ساتھ چلنا ہوگا "

"کہاں خان صاحب ؟

"زیگن کو لے کر ہاسپٹل جانا ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کچھ اور ٹیسٹ ہوں گے "

اچھا ٹھیک ہے ،آپ اسے کہیں تیار ہو جائے ۔میں زرا شاور لے کر فریش ہوجاوں اورکپڑے تبدیل کر لوں ۔ایسے تو آنکھیں ہی کھل رہیں ۔

"اچھا ٹھیک ہے۔تم جاؤ "

"جی "کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

_________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ تینوں ایک ساتھ ہاسپٹل پہنچ چکے تھے ،

ڈاکٹر نے مزید کچھ ٹیسٹ کیے اس کے پھر سٹی سکین کیا ،

اور انہیں باہر ویٹینگ پر بٹھا دیا ۔۔۔یہ کہتے ہوئے کہ کچھ دیر میں وہ انہیں بلا کر سب بتائیں گے ۔

"وجاہت تم ان لوگوں کے ساتھ یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟

"تمہیں پتہ ہے تمہیں میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ۔۔۔

"ابھی کہ ابھی چلو میرے ساتھ "وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولی ۔

"میں بھی کوئی شوق سے ان لوگوں کے ساتھ نہیں آیا تھا ۔زبردستی لائے ہیں یہ لوگ مجھے ۔

میں صرف اس لیے چپ چاپ انکی بات مان رہا ہوں کہ ایک بار سچ سامنے آ جائے اور یہ لوگ بار بار مجھے تنگ نہیں کریں اپنا بیٹا اپنا بیٹا کہہ کر ۔ورنہ مجھے یہاں سے جانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔

وہ تنفر زدہ آواز میں بولا۔

"ہم ان لوگوں پر اغواء کا یا ہراسمینٹ کا کیس کردیں گے ۔

تم چلو یہاں سے "وہ چلا کر بولی ۔۔۔۔

"یہ کیا ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے آپ نے ؟؟؟

"یہ آپ کا گھر نہیں ہاسپٹل ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر نے باہر آکر انہیں آپس میں بحث کرتے ہوئے دیکھ کر سخت گیر لہجے میں کہا۔

"آپ آئیے میرے ساتھ اندر "

انہوں نے خان صاحب اور وجاہت شاہ کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔

تو وہ دونوں ان کے پیچھے اندر چلے گئے ۔

"دیکھیں آپ پلیز یہاں سے چلی جائیں یہی بہتر ہوگا آپ کے لیے "زریار نے نے کہا۔

"میں وجاہت کو لیے یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔

وہ اٹل انداز میں بولی۔

"سب سے پہلی بات کے رپورٹس کا رزلٹ پازیٹیو آیا ہے 

ڈی ۔این۔اے میچ کر گیا ہے ۔

خان صاحب نے ایک تیز نظر ساتھ بیٹھے ہوئے زیگن پر ڈالی ۔

دراصل کسی خطرناک  حادثے میں ان کی یاد داشت جا چکی ہے۔ان کے دماغ فی الحال پچھلی ساری باتیں بھول چکا ہے ،ایسا اکثر ہوجاتا ہے ۔

مگر زیادہ پریشان ہونے والی بات نہیں علاج کے زریعے  آہستہ آہستہ ان کی یاداشت کو واپس لایا جا سکتا ہے۔

ایک اور بات جو مجھے پتہ چلی ہے کہ حال ہی میں ان کی آنکھوں کی سرجری کی گئی ہے "

خان صاحب نے چونک کر زیگن کی طرف دیکھا ۔

"یہ ڈاکٹر بھی آپ کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔آپ نے ہی کہا ہے اسے ایسا بولنے کے لیے ،

وہ اپنی جگہ سے چئیر کھینچ کر اٹھا ۔۔۔

"مجھے اس ڈاکٹر کی کسی بھی بات کا یقین نہیں ",

زیگن بات سنو میری ",خان صاحب نے اسے اشتعال میں دیکھ کر کہا ۔

"مجھے کسی کی بھی بات نہیں سننی میں جا رہا ہوں یہاں سے"

"زیگن میں تمہیں کہیں بھی نہیں جانے دوں گا "

ڈاکٹر صاحب آپ ہی کچھ کریں ۔۔۔

انہوں نے ڈاکٹر سے اسے پرسکون کرنے کے لیے کہا۔

ڈاکٹر نے پیچھے کھڑی نرس کو اشارہ کیا اس نے بے حد پُھرتی سے اس کی بازو میں نیند آور انجیکشن لگایا ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر اور خان صاحب دونوں نے آگے بڑھ کر اس کے بے ہوش ہوتے وجود کو سہارا دئیے چئیر پر بٹھایا ۔

"آپ انہیں گھر لے جائیں ۔میں میڈیسن لکھ دیتا ہوں ان کا پراپر استعمال کروائیں ۔

اکثر یہ کہاوت دہرائی جاتی ہے کہ پرانی باتوں کو بھول کر آگے بڑھیں لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پرانی باتوں کو دہرانے سے ہماری یاداشت بہتر ہوتی ہے۔

حال ہی میں ہونے والی کئی تحقیقات یہ اشارے دیتی ہیں کہ جب ہم پرانے تجربوں کو اپنے ذہن میں دہراتے ہیں تو ان کی یادیں مضبوطی سے ہمارے ذہن میں رجسٹر ہو جاتی ہیں

انہیں پرانی باتیں یاد کروانے کی کوشش کریں ۔۔۔۔

انہوں نے مشورہ دیا۔۔۔

خان صاحب باہر آئے تو زریار کے ساتھ ساتھ فرحین بھی ابھی تک وہیں موجود تھی ۔

"تم ابھی تک یہیں ہو لڑکی ؟؟؟

انہوں نے کڑے تیوروں سے فرحین کو دیکھ کر کہا۔

"میں وجاہت کو ساتھ لے کر جاؤں گی "

"وہ میرا بیٹا زیگن ہے ،کوئی وجاہت شاہ نہیں "اور اس بات کا ثبوت ہے یہ ڈی ۔این ۔اے رپورٹس ۔

انہوں نے رپورٹس اس کی طرف کیں۔

"اس سے پہلے کہ میں تمہیں اپنے بیٹے کے اغواء کرنے کے یا اس کا دماغ خراب کرنے کے جرم میں اندر کرواؤں چپ چاپ نکل جاؤ یہاں سے ۔

وہ دھمکی آمیز انداز میں بولے ۔

"بتاؤ مجھے کہاں ملا تھا یہ تمہیں ؟؟؟

"میں آپ کے سوالوں کا جواب دینے کی پابند نہیں"

وہ غصے میں پھنکاری ۔

"اس کی آنکھوں کو کیا ہوا تھا ؟؟؟

خان صاحب نے ایک اور سوال پوچھا ۔۔۔

"نہیں بتاؤں گی "

"سیدھے سیدھے بتاؤ گی یا پولیس کو کال کروں وہ اپنے طریقے سے اگلوائیں گے تم سے سب "

"میں اپنے بابا کے ساتھ آؤٹ آف سٹی جا رہی تھی کہ یہ مجھے راستے میں زخمی حالت میں ملا ۔ہم اسے گھر لے گئے تھے ۔اسکی آنکھیں کسی حادثے میں ضائع ہو چکیں تھی ۔

ایک ماہ پہلے امریکہ سے اس کی آنکھوں کی سرجری کروائی ہے ۔اس نے پولیس کے ڈر سے ساری سچائی اُگل دی ۔

"پلیز انکل وجاہت شاہ کو مجھے دے دیں میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔میں اس سے بہت پیار کرتی ہوں ....وہ التجائیہ انداز میں بولی۔

"بہت بیہودہ اور بے شرم قسم کی لڑکی ہو تم "

"میرا بیٹا شادی شدہ ہے،ایک بیٹا بھی ہے اس کا ۔اس کی بیوی اسکے غم میں آدھی ہوگئی ہے ،اور تمہیں اپنی پڑی ہے۔

خبردار جو میرے بیٹے کے پاس نظر بھی آئی دوبارہ ۔اپنا راستہ ناپو بی۔بی ۔۔۔"

"وہ ہے باہر کا راستہ "

وہ سپاٹ انداز میں بولے ۔

"آؤ زریار اسے گھر لے چلیں "

____________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کا کھانا کھائے خان صاحب اور بسمہ اپنے کمرے میں جا چکے تھے،آج کا دن خان صاحب کے لیے خاصا تھکان بھرا ثابت ہوا تھا۔اسی لیے وہ آرام کمرے جلدی ہی اپنے روم میں چلے گئے ۔

لاونج میں صرف ینگ پارٹی ہی تھی ۔۔۔۔

"آپ لوگ پھر مجھے یہاں لے آئے ؟؟؟

زیگن بیدار ہوا تو خود کو پھر سے حویلی میں دیکھ کر کرخت آواز میں بولا۔

"بھائی پلیز ہمیں کچھ وقت دے دیں ۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا "

زمارے نے زیگن سے کہا ۔

زمارے کے منت بھرے انداز پر اس کا دل پسیجا ۔۔۔

جانے کیوں وہ اس کی بات رد نہیں کر پایا ۔مگر چہرے کے نقوش تنے ہوئے تھے۔

"برو کیوں نا آپ کا کوئی گانا سنا جائے ؟؟؟زمارے نے خان صاحب کے کہنے پر اسے پچھلی باتیں یاد کروانے کی ٹھانی ۔تو اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا کیوں نہ اسے اس کا گانا سنایا جائے ۔۔۔۔

زمارے نے اس کے ایک کنسرٹ میں گایا ہوا گانا لگایا۔

"زرشال نے زیگن کا گٹار لا کر اسکے ہاتھ میں دیا ۔۔۔

"جب سنگر خود موجود ہوں تو سکرین پر کیوں دیکھیں ۔۔؟

"زیگن بھائی آپ گانا سنائیں نا...اس نے فرمائش کی۔

زمارے نے اسے ممنون نگاہوں سے دیکھا۔

جبکہ زرشال نے اس پر نظر پڑتے اپنی نظروں کا زاویہ پھیر لیا ۔۔۔

وہ زرشال کے منہ پھلانے والی ادا پر مسکرا اٹھا۔۔۔۔

"مگر مجھے گانا گانا آتا ہی نہیں۔ ۔۔"وہ بیزاری سے برلا۔۔۔

"ذوناش تم بتاؤ کبھی زیگن نے تمہیں گانا سنایا ہے ؟؟؟بریرہ نے پوچھا ۔۔۔

وہ جو شیر زمان کو اپنی گود میں سلا چکی تھی اور اب اسے بستر پہ لٹانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی ۔بریرہ کے سوال پر اس نے نظریں اٹھا کر زیگن کی طرف دیکھا ۔

جس نے ایک بھی نظر اس پر ڈالنا گوارا نہیں کیا تھا۔

وہ دل مسوس کر رہ گئی۔

اسے وہی پل یاد آنے لگے تھے ،جب زریار  کے نکاح کے روز زیگن نے اس کے سر پہ دوپٹہ اوڑھاتے ہوئے اسے گانا سنایا تھا ۔۔۔

"جگنوؤں سے بھردوں آنچل،

بیت جائے کہیں نا یہ پل،،،۔

پھر بارش والی رات جب وہ دونوں ایک ہوئے تھے ۔۔۔۔

سب حسین پل اسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرانے لگے ۔۔۔۔

اس کی آنکھیں انہیں یاد کر کہ نم ہونے لگیں۔۔۔۔

"میں شیر زمان کو اندر لٹا دوں اس کی نیند خراب ہو جائے گی۔",وہ کہتے ہوئے اندر  جانے لگی  ۔۔۔۔

"بھابھی جی شیر کو لٹا کر واپس آئیے "زمارے کی آواز اسے اپنی پشت پر سنائی دی ۔

وہ نا چاہتے ہوئے بھی شیر زمان کو لٹا کر واپس آئی ۔

"بھائی زیگن برو نے تو انکار کر دیا مجھ بے سُرے کو تو گانا آتا نہیں ۔آپ ٹرائی کریں نہ "

اس نے زیگن سے گٹار لے کر زریار کو پکڑایا ۔۔۔۔

شاید گٹار بجانے سے ہی اسے کچھ یاد آجائے "

زریار نے گٹار پکڑ تو لیا تھا ۔مگر اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ گانا گائے بھی یا نہیں ...

"سنائیں نہ بھائی بریرہ آپی کے لیے کچھ سپیشل ہو جائے "

زرشال نے کہا ۔۔۔۔

اس نے گٹار ہاتھوں میں لیے اس کی تاروں کو چھیڑ کر نئی دلکش دھن بجائی۔۔۔۔

یہ سوچ کہ دل میرا زوروں سے دھڑکتا ہے 

کسی اور کی چھت پہ کیوں چاند چمکتا ہے۔

ہم ڈوب گئے جاناں  آنکھوں کے پانی 

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو کنارہ ملا ۔۔۔۔

بے دردی سے پیار کا سہارا نہ ملا ،،،

سہارا نہ ملا ،،،

ایسا بچھڑا وہ ہم سے نہ دوبارہ ملا ،،،

اس کی دلسوز آواز میں اس کے دل میں چھپا کرب نمایاں تھا۔۔۔۔

ہمیں پیار اب دوبارہ ہونا بہت ہے مشکل ،،،

چھوڑا کہاں ہے تم نے ہم کو کسی کے قابل ،،،،

اس کے الفاظ پر بریرہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

چھوڑا کہاں ہے تم نے ہمکو کسی کے قابل ،،،،

وہ بریرہ کی قاتلانہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گانے کے بول ادا کررہا تھا ۔۔۔۔

ہم نے چراغ لے کہ چھانے ہیں رستے سارے ،،،

پایا نہیں کسی کو دل میں سوا تمہارے ،،،،،

کہتے ہیں ڈھونڈھو تو رب بھی مل جاتا ہے ،،،

ہائے نصیبا عشق نہ ہم کو ہمارا ملا۔

بے دردی سے پیار کا سہارا نہ ملا۔

اس کی انگلیاں تاروں پر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں ،،،

اور اتنی ہی شدت اور تیزی سے وہ اپنی غمازی کر رہا تھا۔۔۔

اک دیوانگی تھی اس کے ہر عمل میں ۔۔۔

ہر وقت یہ میرا ہے دل میں چاہے دھوپ رہے یا رات رہے ،،،

کچھ بھی تو نہیں بدلا ہم میں،،،

برباد تھے ہم برباد رہے ۔،،،،

ہم جس کے لیے دنیا بھولے،،، 

اس کو بھی کہاں ہم یاد رہے ،،،

بریرہ کو اس کی سریلی آواز میں اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

ہمیں اپنے مقدر سے بس ایک شکایت ہے ،

کیا بات ہوئی کیوں ساتھ نہ ہمکو تمہارا ملا ۔۔۔؟؟؟

بریرہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اندر بھاگی ۔۔۔۔

زریار شکستہ سا کرسی پر سر ٹکائے ڈھ گیا۔۔۔

"سب ٹھیک ہے نا آپکے اور بھابھی کے درمیان ۔۔۔؟

زمارے نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔۔۔

"بھائی مجھے لگتا ہے کہ آپکو بھابھی کو کچھ وقت دینا چاہیے اکیلے میں "آپ آرام کریں رات کافی ہوچکی ہے "

'ہمممم"وہ کہتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔

اپنے کمرے میں آیا تو وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی ، آسمان پر دکھائی دیکھتے روشن ستاروں کو تکنے میں محو تھی ،اور کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔

اک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھے ،،،

ایسا لگتا ہے میرا نام نہیں کوئی ،،،

بس اسی بات پر اکتایاہوا پھرتا ہوں ،

تو ہے مصروف،تجھے چاہنے کے سوا مجھے کام نہیں کوئی ،،،،

بریرہ اس کی آواز سن کر پلٹی ۔۔۔۔

تمہیں پتہ ہے ،تمہارے روٹھ جانے سے کیا ہوا ،؟

مجھے تنہا چھوڑ کر میری ہمت چلی گئی تھی۔۔۔

اس سے پہلے کہ میری ہمت جواب دے جائے لوٹ آؤ ۔۔۔

اس کی ذات کر گرد بندھا بے رخی کا خول کب کا چٹخ چکا تھا ۔اب تو ہلکی سی ضرب لگنے کی دیر تھی ،اور وہ بکھر جاتی ۔۔۔۔جانے کیوں وہ خود کو بہت ہارا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔

واقعی اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور میں اپنے رب کا عطا کردہ سب کچھ کھو دوں ،مجھے اسے ہر حال میں قبول کرنا ہے ۔کیونکہ یہی میرے رب کی رضا ہے۔اگر وہ چاہتا تو کیا نہیں کر سکتا تھا،مگر اس پروردگار نے اسے ہی میرے مقدر میں لکھا ۔

وہ بارگاہ ِ ربی میں اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہوگا ،

مگر جو میں کر رہی ہوں وہ ٹھیک نہیں ۔۔۔

وہ اپنا احتساب کرنے لگی ۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔۔

پہل کسی کو تو کرنی ہی تھی ۔۔۔

زریار نے اپنی انا کو بیچ میں لائے بغیر ایک آخری کوشش کی اور اس کے گرد بازوؤں کا حصار کھینچا تو وہ اور بھی شدت سے رونے لگی ۔۔۔۔

اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک بار پھر اسکے اتنے قریب آئے گی ۔۔۔۔

بریرہ کے بہتے ہوئے آنسو اس کی شرٹ کو بھگو گئے ۔۔۔

کچھ دیر بعد جب اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو اس نے زریار کی گرفت سے اپنا آپ آزاد کروانے کی کوشش کی ۔

"پلیز ابھی نہیں ،،،کچھ دیر اور !!!!!  وہ اس کی مزاحمت کے جواب میں فقط اتنا ہی بولا۔

اس کی آواز میں التجا تھی ،اور آنکھیں نم ۔۔۔

وہ حقیقت تھی یا خیال ابھی تک اندازہ نہیں لگا پایا تھا ۔

اس کے دل و دماغ میں ایک سکون بھری لہر سرایت کر گئی تھی ۔

جیسے بنجر زمین پر برسات نے جل تھل کر دی ہو ،صدیوں کی پیاس ،اس کی تشنگی مٹانے کا ارادہ تھا ،مگر ابھی تو وہ اس کے قریب آئی تھی ایک بھی غلط قدم اسے پھر سے بدظن کر سکتا تھا اسے ۔

وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر کے بستر پہ لایا ۔۔۔اسے کسی قیمتی متاع کی طرح اپنی مضبوط پناہ میں بھرے رکھا ۔۔۔۔۔۔ 

وہ اس کے وجود کو خود میں تحلیل ہوتا دیکھ ابھی تک تحیر میں مبتلا تھا،،،

وہ آج اس کے پاس تھی بے انتہا قریب ،،،،

یہ حقیقت جھٹلا دینے والی نہیں تھی ،،،

وہ اسے دل و جان سے محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

جس انسان نے اس کے ہر احساس کو مار ڈالا تھا ،

وہی شخص آج اسے نئے احساسات سے روشناس کروا رہا تھا ۔۔۔۔۔

جانے کتنی دیر اسی حالت میں لیٹا رہا ،وہ بھی روتے روتے تھک کر اس کی نرم گرم آغوش میں سوگئی تھی ،،

اس کے چہرے کو اپنی آنکھوں میں بسائے وہ سالوں کی تشنگی مٹانے لگا ۔۔۔۔

اس نے دل میں اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا ۔۔۔۔

اسی کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ بھی نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔۔۔۔کیونکہ اس کی بھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی ۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بھابھی شیرو تو سو گیا ہے۔میں اور میری وائفی کمرے میں جا رہے ۔آپ زیگن بھائی کو کھانا کھلا دیجیے گا۔انہوں نے رات کا کھانا نہیں کھایا ۔

زمارے کہتے ہوئے زرشال کا ہاتھ پکڑ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

زرشال نے سب کے سامنے تو اسے اپنا ہاتھ پکڑنے سے نہیں روکا مگر کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کروایا۔۔۔۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی ۔۔

"کیوں تم کیا چاہتی تھی کچھ اور پکڑوں ؟؟؟

وہ اس کی کمر سے تھام کر اپنے قریب کرتے ہوئے فاصلے مٹا گیا۔۔۔اور ذومعنی نظریں اس کے دلکش سراپے پر جمائیں۔۔۔

"شرافت سے رہو "

وہ وارننگ دینے والے انداز میں بولی ۔۔۔

"وائفی نا تو میرا نام شرافت ہے۔اور نا ہی مجھ سے شرافت کی توقع رکھنا "

"وائفی کے سامنے شرافت ۔۔۔ہاہ۔ہا ہا ۔۔۔۔بھول جاؤ ۔۔۔۔

اسے اپنے ہونٹوں کے نزدیک آتے دیکھ وہ تھوڑا سا پیچھے کو سرک گئی ۔۔۔

"میری لپسٹک خراب ہو جائے گی "

وائفی اگر لپسٹک لگانا لڑکیوں کی بیوٹی ہے تو ،اسے بگاڑنا لڑکوں کی ڈیوٹی ہے ",وہ آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا۔

"اگر تمہیں یاد نہ ہوتو اطلاع کے لیے بتادوں میں ناراض ہوں تم سے "

"تو اتنی دیر سے کیا کر رہا ہوں وائفی آپ کو منا ہی تو رہا ہوں 

"کیا لیں گی ماننے کا ؟؟؟

",ایک پرسکون نیند "

"میرے رہتے ہوئے پرسکون نیند کے بارے میں سوچنا بھی مت بہت کرلیں نیند پوریں میکے میں ۔یہاں زمارے ہوش اڑانے کے لیے لایا ہے ۔

"اس کی بات کا مطلب سمجھ میں آتے ہی زرشال نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔

وہ اسے اپنے ساتھ لیے بستر پر گرا ۔۔۔۔

دونوں کی پیار بھری لڑائی میں ایک اور خوبصورت رات کا اختتام ہوا ۔۔۔۔

ذوناش زیگن کے آگے کھانے کی ٹرے رکھ کر واپس اپنے روم میں چلی گئی جہاں وہ آج کل مقیم تھی ۔اس رات کا تھپڑ اسے ابھی بھولا نہیں تھا ۔۔۔

پہلے تو وہ اس سے ناراض تھی مگر اس واقعے کے بعد جب بھی اس کی طرف دیکھتی اسے سخت غصہ آتا ۔۔۔۔

ذوناش اب اسے اتنی آسانی سے معاف نہ کرنے کا دل میں عہد کر چکی تھی ۔۔۔۔

________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 وہ جیسے ہی واشروم سے نکلا تو اسکی نظر بستر پہ خاموش بیٹھی بریرہ پر پڑی جو اپنے سامنے ٹرے میں کافی کا مگ  رکھے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی ..

" زریار صبح روز آفس جانے سے پہلے ناشتے میں صرف کافی پینے کا عادی تھا اسی لیے وہ اس کے لیے کافی بنا کر روم میں لے آئی تھی .

'زریار نے اسے اپنے لیے پہلے سے ہی کافی تیار کر کہ رکھے دیکھا تو اس کے لب مسکرا دیے تھے .

اور ایسا شاید پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس کے لیے خود بنا کہے کوئی کام کی تھی  ..

' " یہ کافی آپ کے دیکھنے کے لئے نہیں ہے اسے پینا بھی ہے.

"آپ بنائیں اور ہم انکار کریں ایسا بھلا ممکن ہے ؟؟

" ' وہ رومان پرور آواز میں اس سے مخاطب ہوا اور آہستہ سے چل کر اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ..

بریرہ نے نظر اٹھا کر جیسے ہی اسکی طرف دیکھا اس پر نظر پڑتے ہی اس نے اتنی ہی جلدی سے اپنی نظریں جھکا لی تھیں ..کیونکہ اس کی نظروں کا مفہوم پڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔۔۔۔

" اسکا چہرہ شرم سے لال ہوا تھا ..

" اپنے ہاتھوں سے پلائیں گی  ..؟

وہ اس کی فرمائش پر سٹپٹا کر رہ گئی ۔۔۔

اسکے بری طرح سٹپٹانے کو محسوس کر کے زریار  نے مگ اٹھا کر اپنے لبوں سے لگایا ..

"بریرہ  نے پھر سے اسکی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کہ تھی ..

جبکہ زریار آرام سے سامنے کھڑا اسکی گھبراہٹ کا حذ اٹھا  رہا تھا ..

 وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اسکی طرف کیوں نہیں دیکھ رہی ہے ..

کیونکہ وہ اس وقت صرف پینٹ میں موجود تھا ..

 اچھا اگر آج کافی اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے تو ،،، میرے لئے آج شرٹ بھی اپنی پسند کی نکال دو  ..

وہ اسکے جھکے سر کو دیکھتا ہوا بولا ..

بریرہ اس کی طرف ایک نگاہ بھی ڈالے بغیر اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور وارڈراب کی طرف بڑھی تھی .

' " وارڈراب کے پاس کھڑی وہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ کون سی شرٹ نکالے ..

اس میں ہر رنگ کی شرٹس موجود تھیں ..

"اگر میں کچھ اپنی پسند سے نکالوں تو پہنیں گے ؟؟؟

"آپ حکم کریں آپکے لیے تو جان بھی حاضر ہے .

وہ اس کی پشت پر آکر رکا اور خمار زدہ آواز میں بولا۔۔۔۔ اس وقت وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ بولتے وقت اسکے لب بریرہ  کے کان کی لو کو چھو رہے تھے ..

اس کی وجود میں برقی رو سی دوڑ گئی۔۔۔۔

اسکے پھر سےاتنے قریب آ جانے پر بریرہ کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا اس نے کانپتے ہاتھوں سے بامشکل ایک شرٹ نکالی اور ساتھ نچلی ڈراور سے اس کے پرانے کپڑوں میں سے بلیو جینز ۔۔۔۔

' وہ جیسے ہی زریار کو شرٹ دینے کے لیے پلٹی تو اس کے سینے سے ٹکرا گئی .

" وہ اسکے بہت قریب کھڑا تھا کہ بریرہ کا وجود اسکے چوڑے سینے میں چھپ سا گیا .

زریار نے ایک نظر اسکے  گھبراۓ اور لرزتے ہوئے وجود کی طرف دیکھا پھر اس کے ہاتھ میں موجود جینز اور شرٹ کو دیکھا ۔۔۔۔

"میں جینز نہیں پہنتا اب "

"آپ نے کہا تھا کہ جو میں کہوں گی آپ وہی پہنیں گے،پھر اب  "؟؟؟

"یار اب میں بڈھا ہوگیا ہوں اس عمر میں جینز پہنتے ہوئے اچھا لگوں گا ؟؟؟

"آپ کی عمر کو کیا ہوا ہے ،؟؟؟

"آپ کا حسن نظر ہے محترمہ ورنہ بندہ خاکسار اس قابل نہیں"

وہ اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر واش روم میں بند ہوا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد واپس آیا تو بریرہ نے اسے سر تا پا دیکھا ۔۔۔

جو آج سوٹ کی بجائے جینز اور شرٹ میں اپنی عمر سے کئی گنا کم لگ رہا تھا۔۔۔۔

"بالوں کو جیل مت لگائیے گا "

ایک اور فرمائش آئی ۔۔۔

وہ مسکرا کر اپنے بالوں میں برش پھیر کر پلٹا ۔۔۔

اس کے بال سلکی ہونے کی وجہ سےاب پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔

"جیسے آپکی کی کچھ خواہشات ہم نے پوری کیں ہیں ویسے اب آپکو بھی ہماری کچھ خواہشات پوری کرنی ہوں گی ۔۔۔۔

ہماری زندگی کا ایک سنہری دور جو ہم نے ناراضگیوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔۔۔اسے واپس لانا چاہتا ہوں ۔

آج آپ میرے ساتھ ڈیٹ پہ چلیں گی ۔؟؟؟ہم پھر سے ایک نئی شروعات کریں گے "

کریں گی نا ؟؟؟زریار نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔

"بریرہ نے اس کی چوڑی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔

"تھینکس "وہ اسے کہتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

اسکے جانے پر بریرہ  نے اپنا کب سے رکا ہوا سانس بحال کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو قرار دیا۔۔۔۔

___________

"بہت شکریہ شہریار آپ نے سب کے سامنے میرا مان رکھا"

یمنی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے ممنون لہجے میں کہا ۔

"اس میں شکریہ والی کیا بات ہے ؟؟؟تمہاری ساری ذمہ داریاں اب میری ہیں۔

"میں کافی دیر سے کچھ سوچ رہی تھی "

"وہ کیا ؟؟؟شہریار نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"آپ وہ کمپنی جوائن کریں مگر اس میں رولز میرے بتائے گئے ہوں گے ۔

"جی میڈم جی بتائیں کیا رولز ہیں آپ کے ....

"اس کمپنی میں سارا میل سٹاف ہوگا ایک بھی لیڈی ورکر نہیں ہوگی ۔۔۔

"بھلا یہ کیسا رول ہے ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔

"یہی تو سب سے کام کا رول ہے ۔نہ آفس میں کوئی لڑکی ہو گی نا وہ میرے ہینڈسم سے ہزبینڈ کو تاڑیں گی ۔۔۔۔

"ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔اس کی بات پر شہریار نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔

"اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے ؟؟وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔

"آپ کو اپنے ہزبینڈ پر اعتبار نہیں ؟؟؟

قسم لے لیں ان آنکھوں کو صرف آپ کو دیکھنے کے سوا اور کسی کی چاہ نہیں ",

"مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے مگر باقی لڑکیوں پر نہیں ۔کہیں آپ کو دیکھ کر فدا ہوگئیں تو میں تو گئی کام سے نا ...

"ارے آپ کام سے کیوں گئی ،ابھی تو آپ کو بہت سے کام کرنے ہیں ...

"وہ کیا بھلا ؟وہ اچنبھے سے بولی ۔

"ابھی تو آپ کو اس گھر کو بچوں سے بھرنا ہے "

"میں کوئی ٹیوشن سینٹر کھولنا ہے جو گھر میں بچے بھر جائیں گے ؟؟؟

"بے وقوف میں ہم دونوں کے بچوں کی بات کر رہا ہوں "

"فضول باتیں مت کیا کریں "

وہ اس کی بات سمجھ میں آتے ہی اسکے سینے پر مکا برسا کر مصنوعی ناراضگی سے بولی ۔۔۔

__________

"واؤ زریار بھائی یہ آپ ہیں ۔۔۔

What a fantastic change "

زمارے جو ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کے لیے بیٹھا تھا ۔زریار کو معمول سے ہٹ کر آج جینز

اور شرٹ میں ملبوس دیکھا تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے کہا 

"تھینکس زمارے "وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولتے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھا ۔۔۔۔

"کہیں یہ چینج بھابھی کو امپریس کرنے کے لیے تو نہیں ؟؟؟

اس نے زریار کو چھیڑا ۔۔۔۔"

"زمارے اب تو شادی شدہ ہوچکے ہو ۔سنجیدہ ہو جاؤ "

خان صاحب نے اسے گھور کر کہا ۔۔۔۔

"سب یہاں اکٹھے ہیں تو میں سب کو کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔

ان کی بات پر سب نے چونک کر خان صاحب کی طرف دیکھا۔کہ نجانے وہ کیا بات کرنے والے ہیں ۔۔۔

"زمارے اور زریار کے نکاح کے وقت میں ہوش میں نہیں تھا۔

اور زیگن کا نکاح بھی جس طرح ہوا ۔ویسا بھی میں نہیں چاہتا تھا ۔اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھ ہی نہیں پایا 

اسی لیے میں نے سوچا ہے کہ حویلی میں ریسیپشن کی ایک تقریب رکھ لیں ۔

"یہ تو بہت اچھا خیال ہے "زمارے نے پھر سے بات میں ٹانگ اڑائی ۔

"تم سے دو منٹ بھی منہ بند کیوں نہیں رکھا جاتا ۔کیوں نئی نویلی دلہن کے سامنے میرے ہاتھوں سے پِٹنا چاہتے ہو ۔؟؟؟انہوں نے اسے گُھرکا۔۔۔

"جاؤ سب اپنی اپنی بیویوں کو اچھی سی شاپنگ کراؤ ان کی پسند کی کل ریسپیشن ہے ۔

سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی سوائے ذوناش اور زیگن کے ۔

_________

ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کروانے کے بعد زریار اسے ایک اعلی ترین ہوٹل میں لے آیا۔۔۔

جہاں اس نے ایک پورا سیٹنگ ایریا بک کروا رکھا تھا ۔۔۔

بریرہ اسکے ساتھ اندر داخل ہوئی تو وہاں کی قدرتی پھولوں اور بلونز سے کی گئی سجاوٹ دیکھ دنگ رہ گئی ۔۔۔

وہاں جگہ جگہ پر 

Zaryar Loves Bareera.

مختلف انداز میں لکھا گیا تھا۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل تک 

لایا جس پہ سفید رنگ کی ریشمی چادر بچھا کر اسے گلاب کی پتیوں سے سجایا گیا تھا ۔اطراف میں کینڈلز لگائی گئیں تھیں۔درمیان میں چاکلیٹ فلیور کیک تھا۔اسپر بھی واضح طور پر زریار لوز بریرہ لکھا گیا تھا۔۔۔

اس نے چئیر کھسکائی اور بریرہ کو اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔وہ اس پر بیٹھ گئی تو وہ سامنے والی سیٹ پر آکر بیٹھا۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔

کینڈلز کی مدھم روشنی یہ رومینٹک ماحول بریرہ کا دل دھڑکا گیا ۔۔۔۔

سب کتنا حسین ہوگیا تھا ایک دم ۔۔۔اتنا حسین کے کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔اس کے ایک ہاں کرنے کی دیر تھی ۔۔۔سب بدل گیا ۔۔۔۔

May I .....?

زریار نے اسکے آگے اپنا ہاتھ پھیلایا ۔۔۔

بریرہ نے اسپر اپنا نازک سا ہاتھ دھر دیا۔۔۔۔

زریار نے ڈائمنڈ رنگ اس کی مخروطی انگلی کی زینت بنائی ۔۔ اس کے گورے ہاتھ میں آکر وہ مزید جگمگانے لگی ۔۔۔

"آپ میرے ساتھ ڈیٹ پر آئیں ہیں ۔تو کیا ڈیٹ پر آکر کرنے والے عمل سے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ؟؟؟

وہ دھیمے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

اسکی آواز کا سحر تھا یا ماحول کی فسوں خیزی۔۔۔بریرہ کو اپنے دل کی دھڑکنوں کا شمار کرنا نا ممکن لگا۔۔۔۔

"ڈیٹ پر ایسا کیا ہوتا ہے جو آپ کو میری اجازت لینی پڑی رہی ہے۔؟وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

"ادھر زرا قریب آئیں تو بتاؤں ۔اتنی دور سے آپ کو سمجھ میں نہیں آئے گا "وہ ذومعنی انداز میں بول کر اسے سہما گیا۔

بریرہ کو اس کی آنکھوں میں جذبات کا سمندر آباد نظر آیا۔۔

وہ نظریں چرا گئی۔۔۔

"آئیں !!!!

زریار کی آواز پر وہ ہمت کیے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

زریار کے پاس آئی تو اس نے ہاتھ کھینچ کر اسے اپنی تھائی پر بٹھایا ۔۔۔۔

"یہ۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟

کو۔۔۔کوئی دیکھ لے گا ؟؟؟وہ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔

زریار نے ٹیبل پر گلابوں کا بوکے دیکھا تو اس میں سے ایک گلاب اٹھا کر بریرہ کے گال پر پھیرا ۔۔۔۔

بریرہ کو اس کی نرمائی محسوس ہوئی تو جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔

"کوئی نہیں دیکھے گا ۔یہاں آپ کے اور میرے سوا کوئی اور نہیں "

وہ اس کے بالوں میں وہی گلاب لگا کر بولا ۔۔۔

زریار کا ہاتھ اپنے گال پر محسوس کیے اس کے رخسار تمتمانے لگے ۔۔۔۔

وہ اٹھنے ہی کو تھی کہ زریار نے اس کا دلکش چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرا ۔۔۔

دونوں کی قربت میں انہیں ایک دوسرے کی سانسیں اپنے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔

بریرہ اتنی قربت پر نظریں جھکا گئیں ۔۔۔

زریار تو اس کے لجانے کی ادا پر نثار ہوا۔۔۔

اوپر سے اس کی خمدار پلکیں جو اس کے سرخی مائل رخساروں پر جھلملا رہی تھیں ۔۔۔انہیں چھونے کو دل بیتاب ہوا ۔۔۔۔

اس کے باریک گدازلب اسے اپیل کر رہے تھے ۔

آج اسے اپنا دل بے قابو ہوتا ہوا لگا ۔۔۔

جانے کیوں دل ساری حدود و قیود توڑنے کا خواہاں تھا ۔۔

اس نے بعد میں ہونے والے ردعمل کی پرواہ کیے بنا اپنے دل کی خواہش پر عمل کر ڈالا ۔۔۔

اس کے لبوں کو قید کیے اپنی محبت لٹانے لگا ۔۔۔

اس کے عمل میں اتنی نرمی تھی کہ بریرہ کو اپنا آپ کسی پھول کی مانند محسوس ہوا جسے وہ ایسے چھو رہا تھا جیسے اگر زور سے چھوا تو نہیں پھول سے پتی ٹوٹ کر گر نا جائے ۔۔۔۔

وہ اس کی شرٹ کے کالر کو اپنی مٹھیوں میں زور سے جکڑ گئی ۔۔۔۔

ایک دل تھا جو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہر نکل آئے گا ۔۔۔

اس کی یہ کیسی تشنگی تھی جو مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

 جب اسے بریرہ کی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی تو اس نے نرمی سے اسے چھوڑا ۔۔۔

وہ اس سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔۔گالوں پر گلال ٹوٹ کر بکھرا۔۔۔۔

"سالوں کی تشنگی ہے۔چند لمحوں میں کیسے جائے گی ؟؟؟اس کے سحر کن الفاظ میں اس کا دل یکبارگی سے دھڑک اٹھا۔۔۔۔

 "Thanks for giving me this honor"

وہ پھر سے بولا اور خود کی گرفت سے رہائی دی ۔۔۔

وہ تیزی سے اپنی جگہ واپس آئی ۔۔۔۔

"بہت تڑپایا ہے آپ نے ریسیپشن کے بعد سب سود سمیت وصول کروں گا "

"مجھے بھوک لگی ہے "

وہ جان لیوا موضوع بدلنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔

"اچھا چلیں بتائیں کیا کھائیں گی ؟؟؟زریار نے مینو اس کی طرف بڑھا کر پوچھا ۔۔۔۔

__________

'خان حویلی ' میں آج رونقیں ہی رونقیں تھیں ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا اس کئی گز پر مبنی محل نما حویلی  کو آج بے حد خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ہر طرف روشنیاں جگ مگ کر رہیں تھیں خوبصورت اور نایاب پھولوں اور نفیس پردوں سے سجا ہوا لان آج ایک شاندار منظر پیش کر رہا تھا۔۔ ملازمین ہاتھوں میں کولڈرنک اور جوسز کی ٹرے لیے مہمانوں کو سرو کر رہے تھے

 چند مہمان ہاتھوں میں کولڈرنک تھامے کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے تو چند مہمان خصوصی صوفوں پر براجمان محو گفتگو تھے 

خان صاحب بھی مہمانوں کے ساتھ  اپنی بھرپور شان و شوکت سے اپنے مخصوص مغرور انداز میں محو گفتگو تھے زریار خان کسی مہمان کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا یقینا آج وہ بہت خوش تھا۔۔۔۔

سٹیج کا منظر کچھ یوں تھا کہ زیگن خان ایک طرف موبائل پکڑے کھڑا ہوا تھا۔جو نجانے اس میں سے کیا تلاش کر رہا تھا ۔۔۔جس نے آف وائٹ کلر کا قیمتی اور نفیس برینڈڈ سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔۔۔اس کا چہرہ بے تاثر تھا،،،نیلی  آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں تھے بھوری بئیرڈ پر ہاتھ پھیرتا وہ فون پر شاید کوئی گیم کھیل رہا تھا۔۔۔ کسی کو ایک آنکھ نا دیکھنا اور اپنے آپ میں محو رہنا ہی اس ریاست کے شہزادے کو مغرور بناتا تھا وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح ہر  آنکھ کا مرکز بنا ہوا تھا کئی لوگ اس  کی پُر وقار شخصیت کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے

سٹیج پر ایک طرف صوفے پر بسمہ براجمان تھیں جو اپنے بیٹوں پر جانے کتنی مرتبہ واری صدقے جا چکیں تھیں اور نظر بد کی دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہیں تھیں ۔

دوسری طرف سٹیج پر زرشال اور زمارے تھے جنہوں نے ایک جیسے رنگ کے ڈریسز کا انتخاب کیا تھا۔

زرشال نے گرے میکسی جس پر سلور موتیوں کا باریک کام کیا گیا تھا۔وہ زیب تن کر رکھی تھی جبکہ زمارے نے گرے کلر کر تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔دونوں کی ہنستی مسکراتی جوڑی بہت شاندار لگ رہی تھی ۔۔۔۔

زریار مہمانوں سے ملکر واپس اپنی جگہ پر آیا جہاں بریرہ سجی سنوری بیٹھی تھی ۔۔۔

زریار نے اسے پہلی بار اتنا تیار دیکھا تھا ۔۔۔آج وہ خاص اس کے لیے سجائی گئی تھی ۔۔۔سرخ رنگ کے بے حد خوبصورت اور قیمتی شرارے پر نایاب موتیوں اور کورے کا کام ہوا تھا بلاشبہ وہ لباس عروسی اس کی قدرتی سرخ و سفید رنگت پر بہت جچ رہا تھا  جیولری کے نام پر اس نے ماتھے کے ایک طرف جھومر ، ناک میں نتھ جو کہ اس کے ہونٹوں کو چھو رہی تھی جھمکے ، نیکلس اس کی سرخ و سفید گردن کو اور خوبصورت بنا رہا تھا بلاشبہ وہ ایک حسین لڑکی تھی مگر آج تو دولہن بن کر عجب روپ چڑھا تھا اس پر کہ نظر ہی نہ ہٹ رہی تھی بریرہ پر سے ۔۔۔

بسمہ نے شیر زمان کو سنبھالا تو ذوناش سب سے آخر میں تیار ہوئی تھی کیونکہ شیر زمان اسے تنگ کر رہا تھا ۔۔۔

وہ اپنی لائٹ پنک کلر کی ٹیل فراک کو سنبھالتی ہوئی سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے سٹیج کی طرف آ رہی تھی ،زیگن کی نظر اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی ۔۔۔۔

اسے ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا تھاکہ زندگی میں کبھی اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی ہوگی جتنی آج وہ لگ رہی تھی ۔

ٹیل فراک میں وہ بالکل نازک سی مومی گڑیا دکھائی دے رہی تھی ۔اوپر سے بیوٹیشن نے اسے دیکھتے ہوئے اس کے بالوں کا ہائی بن بنا کر سر پر سلور رنگ کا موتیوں والا کراؤن پہنا دیا تھا ۔۔۔۔

ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی مس ورلڈ کا تاج پہن کر آئی ہو ۔

ذوناش نے زیگن کی نظریں خود پر مرکوز پائیں تو سر جھکا گئی ۔ویسے بھی اتنے مہمانوں کے سامنے یوں سج دھج کر آنا اسے پہلے ہی کنفیوز کیے دے رہا تھا ۔۔۔

وہ آکر اپنی خالی جگہ پر بیٹھی تو بسمہ نے زیگن کو اس کے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

مہمانوں نے تینوں کپلز کو گفٹس اور وشز دیں ۔پر تکلف ماحول میں ڈنر کیا گیا ۔۔۔۔

یہ رنگا رنگ تقریب بالآخر خوش اسلوبی سے اپنے اختتام کو پہنچ گئی ۔۔۔۔

___________

وہ جب اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو اس وقت تقریبا سب مہمان جا چکے تھے جبکہ حویلی میں کافی کمروں کی لائیٹس آف ہو چکیں تھیں ۔۔۔

بسمہ شیر زمان کو اپنے ساتھ لے گئی اور ذوناش کو سمجھا بجھا کر واپس زیگن کے کمرے میں چھوڑ گئیں ۔اسے سب تفصیل سے بتا کر گئیں کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ۔۔۔۔

اور اسے ہی زیگن کو اس کی پچھلی زندگی یاد کروانی ہوگی۔ان کے درمیان بیتے ہوئے پل یاد کروانے ہوں گے  ۔۔۔اس پر اپنی ذات مسلط کرو ۔بتاو اسے کہ تم اسکی بیوی ہو ۔۔۔

اس نے شیشے کے سامنے کھڑی اپنے سر سے کراؤن اتار کر ایک طرف رکھا پھر دوپٹہ اتار کر رکھا ۔۔۔اب کانوں میں موجود ائیر رنگز اتار رہی تھی کہ وہ کمرے میں آیا ۔۔۔۔

اور ذوناش کو پھر اسے ایک بار کمرے میں دیکھ کر ۔۔۔۔

 اس کے چہرے پر سخت تاثرات نمودار ہوئے سپاٹ چہرہ لیے اپنی مخصوص چال چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔۔

" اتنی بے خوفی سے تم پھر میرے کمرے میں آگئی ۔۔۔اس دن والا تھپڑ بھول گیا ؟؟؟ ۔۔ 

میں نے کہا تھا نہ کہ دوبارہ یہاں مت آنا تم نے میری بات کو سیریس نہ لینے کی جرآت کیسے کر لی ؟؟؟؟ 

'"ممم۔۔۔۔میں ۔۔۔آپکی کی بیوی ہوں ۔بس آپ کی تھوڑی سی توجہ کی منتظر ہوں ۔۔۔الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر اسکے حلق سے نکلنے لگے ۔۔۔۔

"توجہ چاہیے تمہیں میری ؟؟؟؟

وہ جارہانہ تیوروں سے اسکی طرف بڑھا ۔۔۔۔

ذوناش ڈر کے مارے رخ پھیر گئی ۔۔۔۔

 مدھم روشنی میں وہ اس کے حسین سراپے سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔دوپٹہ ایک طرف پڑا تھا ۔۔پشت سے فراک کا گلہ کافی ڈیپ تھا جو دوپٹے نے کور کر رکھا تھا ۔۔۔۔لیکن اب جب دوپٹہ ہٹ چکا تھا تو سب صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔اسے یاد پڑ رہا تھا کہ اس نے پہلے  کبھی ذوناش کو اتنے غور سے یا بغیر دوپٹے کے نہیں دیکھا تھا۔۔وہ نازک سی گڑیا اسے بہکا رہی تھی ۔۔

"توجہ چاہتی ہو نا میری ؟؟؟

وہ اس کے کان کے پاس سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔

 ذوناش اس کے انداز پر اندر سے سہم گئی زیگن اس کا اڑا رنگ دیکھ مطمئن ہوا۔۔۔ اور اس کے بازو سختی سے دبوچ لیے۔۔۔۔

اس کی گرفت اس قدر سخت تھی کہ ذوناش کو اس کی انگلیاں اپنے بازؤں میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی

" نہیں ۔۔۔کچھ نہیں چاہیے پلیز  دور رہے مجھ سے ۔۔ "

وہ اس کی آواز میں سرد پن محسوس کر چکی تھی ۔۔

"یہ دوری اب ناممکن ہے "

"بقول تمہارے تم میری بیوی ہو اور میری توجہ کی منتظر ہو تو پھر توجہ دینا تو بنتا ہے نا ۔۔۔۔اسے اپنی کمر پر زیگن کا سرسراتا ہوا ہاتھ محسوس ہوا تو مانو جان ہوا ہونے لگی ۔۔۔۔

 اسے اپنے بازو کی گرفت میں جکڑ کر وہ اس کا رخ پلٹ گیا ۔۔۔

اسکی بے داغ پشت پر اپنے دانت گاڑے ۔۔۔

ذوناش اسے کے عمل سے سسک کر رہ گئی ۔۔۔۔

یہ تو اس کی اپنی کی گئی نیکی تھی جو اسکے اپنے ہی گلے پڑ چکی تھی ۔۔۔

گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی نہ تو اُگل پا رہی تھی نہ نِگل پا رہی تھی ۔۔۔۔

کمر پر جابجا نشان بنانے کے بعد وہ اس کی گردن کو نشانہ بنائے ہوئے تھا ۔۔۔۔

ذوناش کی درد بھری سسکاریاں کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

آج وہ بھی بے زبان بنی اس کی آخری حد دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ذوناش کی طرف سے کوئی بھی مزاحمت نا پا کر وہ اور بھی اشتعال انگیز ہوا ۔۔۔۔

وہ تو اسے سبق سکھانا چاہتا تھا ۔مگر وہ اف تک نہیں بولی ۔۔۔

اسکی سزا کو بڑھانے کے لیے زیگن نے اس کے مرمریں لبوں کو دانتوں کا نشانہ بنایا ۔۔۔۔

وہ اس کا مزید وحشیانہ پیار برداشت نا کرسکی اور اسے دھکا دیتی ہوئی کمرے کا دروازہ کھول کر باہر بھاگی ۔۔۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جائے تو آخر جائے کہاں اس ظالم انسان سے بچ کر ۔۔۔۔

وہ ٹیل فراک کو سنبھالتی ہوئی اوپر چھت کی طرف بھاگی ۔۔۔

زیگن اسے یوں بھاگتا دیکھ اسکے پیچھے آیا۔۔۔۔

"کیوں کیا ہوا ؟؟؟

"اب پیار کرنے دو نہ ؟؟؟

وہ تمسخرانہ انداز میں مسکرا کر بولا ۔۔۔

جس سے اس کے ایک گال میں پڑا ہوا ڈمپل مزید گہرا ہوا۔۔۔

جس کی ذوناش ہمیشہ سے دیوانی تھی ۔۔۔آج اسے یہ ڈمپل بھی سخت زہر لگ رہا تھا۔۔۔۔

"آپ کا یہ روپ دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئی ۔۔۔

وہ زور سے چلا کر بولی۔

وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آ رہا تھا ۔۔۔۔

"میرے پاس مت آنا"

وہ لرزتے ہوئے وجود سے بولی اور الٹے قدم لینے لگی ۔۔۔

اب وہ چھت پر بنے ہوئے ٹیرس کے دہانے پر کھڑی تھی ۔۔۔۔

اس کے مزید پاس آنے پر ذوناش نے اور پیچھے ہونا چاہا ۔۔۔وہ ٹیرس پہلے ہی کافی کمزور تھا ۔اس کی مرمت ہونے والی تھی ۔۔۔۔کیونکہ بارش کی وجہ سے لوہے کی گرل زنگ آلود ہوچکی تھی ۔۔۔اور کافی خستہ حال بھی ۔۔۔۔

وہ گرل جھٹکے سے ٹوٹی اور ذوناش ٹیرس سے نیچے گرنے لگی ۔۔۔۔

اس کی دلخراش آواز ہوا میں بلند ہوئی ۔۔۔۔

ریسپشن کے اختتام کے بعد زریار اپنے فلیٹ میں بریرہ کو لے آیا ۔۔۔جس کی راہداری اس نے پہلے ہی گلاب کی پتیوں سے سجارکھی تھی ۔۔۔۔

وہ پھولوں سے بھری ہوئی راہداری سے گزرتی ہوئی سامنے روم کی طرف آئی ۔۔۔زریار اسے وہاں چھوڑ نجانے باہر کیا لینے گیا تھا ۔۔۔۔اس نے ہینڈل گھما کر اس ماسٹر بیڈ روم کا ڈور کھولا ۔۔۔۔

کمرہ عجب جھب دکھلا رہا تھا۔زریار نے سارے کمرے کو تازہ گلابوں سے مہکا رکھا تھا۔ہر طرف گلابوں اور موتیے کی مسحورکن خوشبو پھیلی ہوئی تھی.. کینڈلز کی مدھم روشنی اس ماحول کو اور بھی فسوں خیز بنا رہی تھیں.. وہ ڈیپ ریڈ رنگ کا بھاری لہنگا پہنے اس وقت خود کو بہت بےآرام محسوس کر رہی تھی..... سونے کے بھاری زیورات میں اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

بالوں کو خوبصورتی سے جوڑے کی شکل میں باندھ کر اوپر سے دوپٹہ ڈالا گیا تھا۔۔۔

روم میں بستر پر بیٹھے اسکا انتظار کرتے اب کمر اکڑ کر تختہ ہونے کو تھی ۔تنہائی میں

اسے شدت سے اپنے والدین کی یاد آئی.. اس کے دل میں ایک کسک اٹھی اور آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے کو بیتاب ہونے لگیں...

تبھی دروازہ کھلا اور زریار اندر آیا۔۔۔

آج ریسپیشن میں بھی اس کی نظریں بریرہ کے دلکش چہرے کا طواف کرتی رہی تھیں۔

وہ اپنا کوٹ اتار کر ہینگ کیے اب شرٹ کے کف کو کہنیوں تک موڑے ۔۔قدرے آرام دہ حالت میں آتے اس کے پاس چلتا ہوا بستر تک آیا۔

"تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا ؟؟

"میں نے سوچا آپ کو برا نا لگے...

"اچھا جی یہ ہمارے برا لگنے کی فکر کب سے ہونے لگی ؟؟

انداز سادہ سا تھا ۔

"میں چینج کر کہ آتی ہوں ",

وہ کہتے ہی بستر سے نیچے اتری تو چوڑیوں اور پائل کی جھنکار پورے کمرے میں گونج اٹھی۔جو اسے اپنے دل پر لگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔اور اس کے مہندی سے سجے ہوئے حنائی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔

اور مہندی کی دلفریب مہک کو اپنے سانسوں میں اتارنے لگا۔۔۔

اس کی گوری کلائیاں مہندی کے دلکش ڈیزائن سے سجی ہوئی تھیں۔

"مم۔۔۔میں چینج ...اس کی جسارت پر وہ اتنا ہی بول پائی ۔۔۔

"آپکی مدد کرنے کے لیے خادم حاضر ہے "

وہ ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

"مجھے نہیں چاہیے مدد ",

وہ ہاتھ چھڑواتے ہوئے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی ۔۔۔

زریار اس کے انداز پر مسکرایا ۔۔۔پھر کبرڈ سے اپنی شلوار قمیض نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

تھوڑی دیر میں چینج کیے وضو کر کہ آیا تو وہ بھی چینج کر چکی تھی ۔۔۔۔

"جاؤ تم بھی وضو کرلو آج ہم مل کر نوافل ادا کریں گے "

بریرہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

"میں اپنے اللّٰہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے تمہیں مجھے عطا کر کہ مغفرت کا موقع دیا۔

اور تم سے ریکوئسٹ ہے کہ تم بھی ہمارے لیے دعا کرنا "

وہ اس کی بات سن کر وضو کرنے چلی گئی ۔۔۔

دونوں نے نوافل ادا کئے ۔۔۔

اور پھر اپنی اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے ۔۔۔۔

"بریرہ میں چاہتا ہوں سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے.. میں پھر سے ایک بار ہمارا پرانا رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں.. ہماری دوستی کا رشتہ.. وہ رشتہ جس میں اعتبار تھا بھروسہ تھا محبت تھی..." اس کی بھوری آنکھیں اس کے لہجے کی سچائی کو ثابت کر رہی تھیں..

بریرہ مخمصے کا شکار ہوئے  اپنا نچلا ہونٹ دھیرے سے دانتوں تلے کچلا.. وہ جو بھی کہہ رہا تھا.. جانے کیوں دل واپس اس پر بھروسہ کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں ہمارا بیٹا ہو۔۔ کہتے ساتھ ہی زریار خان نے اسے بازوں کے گھیرے میں لیا۔۔ وہ خود کو چھڑوانا چاہتی تھی پر اس کی گرفت خاصی مضبوط تھی ۔

اوہ۔۔ تو آپ کا شمار بھی پھر ان سو کالڈ آدمیوں میں ہی ہوا نا جو بیٹی کی جگہ بیٹا چاہتے ہیں۔۔۔

بالکل بھی نہیں مائے لائف۔ غلط سمجھی ہیں آپ۔۔ بیٹا میں اس لیے چاہتا ہوں کیونکہ۔۔ وہ رکا۔۔

کیونک؟؟؟؟۔۔ اس کے ذیادہ دیر خاموش ہونے پہ بریرہ نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ ہی لیا۔۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ جو دکھ میں نے انجانے میں کسی کی بیٹی کو دیے ہیں وہ مکافات عمل میں میری بیٹی کو ملیں چاہے انجانے میں ہی سہی۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے بریرہ۔۔ اتنا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں ۔۔ اتنا صبر نہیں ہے۔۔ اتنی برداشت نہیں ہے۔۔ کہ مکافات عمل سہہ سکوں۔۔

اپنے سر سے اس کے سر کو ٹکاتا وہ آنکھوں میں آنسو لیے بول رہا تھا اور بریرہ ٹرانس کی کیفیت میں اس کے آنسووں سے تر چہرےکو دیکھ رہی تھی جو وہ اس وقت سے نجانے کتنی بار اس کے سامنے بہا چکا تھا۔۔

مت روئیں۔۔ اس کے آنسو بریرہ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیے۔۔

کیوں۔۔ ؟؟؟؟زریار خان کو اس کے یوں خود آنسو پوچھنے سے انجانی سی خوشی ہوئی۔۔

مجھے ڈر ہے مجھے تمہارے آنسو میرا دل پگھلا نہ دیں۔۔ دل کا خوف لبوں پہ آ ہی گیا۔۔ اس کی بات پہ زریار نے ہلکا قہقہہ لگایا۔۔

"کاش جتنی محبت مجھے تم سے ہے۔اتنی محبت تمہیں بھی مجھ سے ہو جائے "

ویسے بھی دل کا پگھلاؤ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ اپنے بیٹے کو یہی گُر سکھاوں گا کہ اگر اس کی ماما کبھی اس سے ناراض ہو جائیں تو اس کے سامنے بس تھوڑے سے آنسو نکالو گے تو۔۔ وہ جھٹ مان جائے گی ۔

اللہ نہ کرے۔۔ میرا بیٹا کیوں روئے۔۔ میں اس سے کبھی ناراض ہوں گی ہی نہیں۔۔اور نا ہی کبھی رونے دوں گی ۔ روانی میں وہ مزید بولنے لگی تھی جب زریار کے قہقہے نے اسے احساس دلایا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔۔ اس نے فورا اپنی زبان اپنے دانتوں تلے دبائی۔۔

"خان صاحب کی خواہش کی تکمیل کے لیے آپ کی اجازت درکار ہے ...وہ اسے تکیے پر لٹا کر اس پر جھکا ۔۔۔۔

"میری منہ دکھائی تو دی ہی نہیں "

وہ اس کا دھیان بھٹکانے کے لیے بولی ۔

"آپ کی منہ دکھائی بھی آپکے لیے سرپرائز ہے ",

زریار نے تھوڑا سا اٹھ کر سائیڈ ٹیبل کے ڈراور سے ایک اینویلپ نکالا۔۔۔

پھر اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔

"یہ کیا ہے ؟؟؟

"کھول کر دیکھ لیں "

بریرہ نے اینویلپ کھولا تو اس میں سے عمرے کے ٹکٹ دیکھ کر حیران ہوئی ۔۔۔۔

"میں نے سوچا جس رب نے ہمیں ایک دوسرے کی ہمراہی عطا کر کے خوش کر دیا ۔تو ہمیں بھی اس کے قائم کردہ فرائض انجام دے کر اسے بھی خوش کرنا چاہیے ۔۔۔

"تھینک یو سو مچ زریار آپ سوچ بھی نہیں سکتے آج آپ نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے "

"آپ کو آپکی خوشی ملی اب آپ ہمیں ہماری خوشی دے دیں۔

وہ کہتے ہی اس کی صراحی دار گردن پر اپنے لب رکھ گیا ۔۔

بریرہ کو اپنی شہہ رگ پر اس کے پر حدت لمس محسوس ہورہے تھے جس پر مونچھوں کی چبھن بھی شامل تھی ۔۔۔

اس کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہ۔۔۔نہیں۔۔۔زریار ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے "

وہ اس پیچھے دھکیلنے لگی ۔۔۔

"مائی لائف بھول جاؤ پچھلی باتوں کو ۔۔۔صرف میرے عشق کو محسوس کرو جس کے ہر عمل میں تمہیں پیار اور عقیدت نظر آئے گی ۔۔۔۔

بریرہ نے زریار کی آنکھوں میں دیکھا جس میں پنپتے ہوئے شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔ اس عشق کے سمندر کی لہریں بریرہ  کے دل میں بھی ہلچل مچا گئیں ۔۔۔۔

"آپ کی آنکھوں میں مجھے سچائی نظر آرہی ہے "وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بے خود سی بولی ۔۔۔۔

زریار ایک دم چونکا ۔۔۔

"بریرہ اب تمہیں رات کے اس وقت سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہے ؟؟؟

وہ حیرانگی سے یاد کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

"ہممممم۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی کیونکہ اسے زریار کی قربت پر اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

"وہ کیسے ؟؟؟

"آپکے جانے کے بعد مام (بسمہ)مجھے باقاعدگی سے چیک اپ کے لیے وہیں لے جاتی رہیں اور اپنی نگرانی میں میڈیسن بھی کھلاتی رہیں ۔اسی لیے۔۔۔۔اب میں ٹھیک ہوں ۔وٹامنز کی کمی کی وجہ سے تھا کہ سب موروثی بیماری نہیں تھی جو ٹھیک نہیں ہوتی ۔

وہ اپنے تکیے پر سر رکھ کر لیٹا اور ہاتھ اس کی کمر میں ڈالتے ہوئے اسے کھینچ کر خود پر گرایا۔۔

"آپ نے کتابیں پڑھیں ؟؟؟زریار نے پوچھا۔

"جی پڑھیں ہیں "

"آپ نے کبھی کسی کی سوچ پڑھی ہے "؟

",جی پڑھی ہے "

"آپ نے کبھی کسی کی آنکھیں پڑھیں ہیں ؟؟؟

"یہ کیسا سوال ہوا ؟؟

"بتائیں نا پڑھیں ہیں "؟

"نہیں "

"چلیں تو آج پھر میری آنکھیں پڑھ کر بتائیں ان میں کیا ہے ؟؟؟

"بریرہ نے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔ 

اس کی آنکھوں میں موجود امیدوں کے جگنوؤں کو دیکھ دل پھڑپھڑا سا گیا۔۔۔سانسیں ڈوبنے لگیں۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں موجود فرمائشوں، گزارشوں ، امیدوں،امنگوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ان پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ گئی ۔۔۔۔

زریار نے اپنی آنکھوں سے اس کے دونوں ہاتھ ہٹائے اور انہیں اپنے لبوں کے پاس لے جاکر اپنے لمس سے معتبر کردیا۔۔۔

"کبھی بھی مجھ سے دور مت جانا مائے لائف ورنہ یہ دل دھڑکنا بھول جائے گا ۔

وہ اسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھے ہوئے بولا۔۔۔

"اس دل کی کچھ فرمائشیں پوری کریں گی ؟؟؟وہ مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے مدھم آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔

بریرہ اس کی ذومعنی بات پر آنکھیں میچ گئی ۔۔۔

زریار اس کی خود سپردگی کے اس انداز پر جی جان سے مسکرایا ۔۔۔پھر اسے اپنی آغوش میں لیتے ہوئے اسے اپنی محبت میں پور پور مہکا گیا ۔۔۔۔برسوں پہلے جو درندگی دکھائی تھی ۔۔۔

بریرہ کو اس کا وہی انداز یاد تھا اس لیے ہی ڈر رہی تھی ۔مگر آج اس کے ہر انداز میں اتنی نرمی تھی کہ اسے اپنا آپ کسی کانچ کی گڑیا کی مانند لگا جسے وہ سہج سہج کر چھو رہا تھا کہ زرا سی بھی سخت گرفت ہوئی تو وہ کانچ کی گڑیا چھنک کر ٹوٹ نا جائے ۔۔۔

********

اس سے پہلے کہ ذوناش نیچے گرتی زیگن نے ہاتھ بڑھا کر اس کو گرنے سے روکنا چاہا ۔۔۔

وہ ذوناش کو تو کھینچ کر ٹیرس سے نیچے گرنے سے بچا چکا تھا مگر اچانک اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تو خود کا توازن برقرار نا رکھ سکا اور چھت  سے لہراتا ہوا نیچے گرنے لگا  ۔۔۔۔

"زیگن۔ن۔ن۔ن۔ن۔ن۔ن۔ن !!!!!!!

اسے ہوا میں معلق دیکھ ذوناش کی دلخراش چیخ نے سارے گھر کو دہلا دیا ۔۔۔۔

سب اپنے اپنے کمروں سے باہر بھاگے ۔۔۔۔

وہ چھت سے لہراتا ہوا گارڈن میں سر کے بل گرا ۔۔۔

اس کے سر سے خون کا فوارہ چھوٹا ۔۔۔۔

لمحوں کی دیر تھی ۔اسے خون سے لت پت دیکھ ذوناش خود ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔

زمارے اور خان صاحب دونوں باہر نکلے خان صاحب چھت پر گئے جبکہ زمارے باہر گارڈن میں نکلا ۔۔۔

خان صاحب نے ذوناش کو بے ہوش دیکھا ۔۔۔

ان کی آنکھیں حیرت زدہ رہ گئیں۔

جب انہوں نے زمارے کی آواز سنی جو بسمہ اور انہیں آوازیں دے کر انہیں بلا رہا تھا ۔۔۔

جو آواز گارڈن سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تو انہوں نے چھت سے جھانک کر نیچے دیکھا ۔۔۔

زیگن کی حالت دیکھ انہیں اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔

خان صاحب اور زمارے ڈرائیور کے ساتھ زیگن کو فوری طور پر ہسپتال لے گئے ۔۔۔۔

جبکہ بسمہ تو زیگن کی حالت دیکھ خود نڈھال تھیں۔

ایسے برے وقت میں زرشال نے ان کی ہمت بندھائی ۔۔۔

ذوناش جو اب ہوش میں آ چکی تھی ۔ہوش میں ہوکر بھی اس کی حالت نا قابل ِ دید تھی ۔

وہ خود کو اس کی حالت کا ذمہ دار ٹہرا رہی تھی ۔۔۔۔

رو رو کر اس کا برا حال تھا۔بسمہ اور زرشال زیگن کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔

"دیکھیں میں آپ کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔پیشنٹ کا کافی خون بہہ چکا ہے اور تو اور سر پرکافی سیرئیس چوٹیں آئیں ہیں۔ فلحال ہم نے انہیں خون چڑھا دیا ہے مگر مزید خون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ آپ جلد ازجلد بندوبست کریں۔ بس اتنا کہوں گا اللہ پر بھروسہ رکھیں دعائیں تقدیریں بدل دیتی ہیں"

یہ خبر سن کر خان صاحب اور زمارے پر غموں کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔ زمارے کی آنکھیں دھندھلانے لگیں ۔۔۔ وہ خلاؤں میں دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا۔

"میرے بھائی کو کچھ ہو گا تو نہیں؟ ؟؟؟

زمارے نے موہوم سی آس لیے ڈاکٹر سے پوچھا

"جوان! حوصلہ رکھو۔۔۔۔ اور  جلد از جلد خون کا بندوبست کرو یہ زیادہ اہم ہے اسوقت ۔"وہ اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس کو تھپکتے ہوئے ایک طرف سےنکل گئے ۔ خان صاحب کے چہرے پر آئے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر زمارے  نے آگے بڑھ کر ان کے گلے لگا ۔۔۔۔

"آنٹی وہ کیسے ہیں ؟؟؟ذوناش تڑپ کر درد بھرے انداز میں بولی ۔۔۔

"اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرو ذوناش اس کے لیے ۔۔۔۔بسمہ خود ڈوبے دل سے بولیں ۔۔۔۔

وہ اب انہیں  کیسے بتاتی کہ زیگن اسکی زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔اسکی بے قرار دھڑکنوں کا سکون ہے۔ایک شیر زمان اور زیگن ہی تھے اس کی زندگی کے سب سے اہم افراد ۔۔۔جن کے لیے وہ جی رہی تھی ۔

اس وقت وہ خود ایک کرب سے گزر رہی تھی۔ وہ خود اسکی لمبی زندگی کیلئے دعا کر رہی تھی۔ وہ کیسے نہ کرتی اسکے لیے دعائیں؟ ۔وہ کیسے نا رب سےاسکی زندگی مانگتی؟ وہی تو تھا اس کی زندگی کا روشن سویرا 

جس کے ہونے سے اس کی زندگی بہار تھی اور نا ہونے سے کھنڈر نما قلعہ ۔۔۔۔۔ ذوناش کی آنکھوں کے کناروں سے بہتے ہوئے اشکوں نے اس کے گال بھگو رکھے تھے ۔ اس نے زیگن کی حالت کے بارے میں سوچتے ہوئے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔

___________

"آ۔۔۔..ڈرا دیا ۔۔۔

"کیا ہوا ڈر کیوں گئی ؟؟

"مجھے لگا پتہ نہیں یوں اچانک سے کون آگیا۔

"تمہارے اتنے پاس میرے علاؤہ کون آسکتا ہے ؟وہ اس کی پشت سے اسے خود میں جکڑ کر بولا۔۔۔۔

"آج میں تمہارے لیے ڈریس منتخب کروں گا۔

"ٹھیک ہے "

شہریار نے کبرڈ سے اس کے لیے سی گرین کلر کا ڈریس نکالا۔۔۔

"یہ والا ۔۔۔۔اممممم۔۔۔۔

"نہیں "

اس کے ساتھ لگا کر دیکھا ۔۔۔پھر واپس رکھ دیا ۔۔۔

پھر پرپل کلر کا ڈریس نکالا ۔۔۔

یہ والا ۔۔۔

"پرفیکٹ "

"آج تم یہ ڈریس پہن کر ریڈی ہو جاؤ پھر ہم لانگ ڈرائیو پر جائیں گے کسی ایسی جگہ جہاں ہمارے علاؤہ کوئی اور نہ ہو ۔۔۔

"ویسے یہ روم بھی کچھ بری جگہ نہیں رومانس کے لیے"

"آپ اپنی بے تکی سوچوں کو اپنے تک ہی محدود رکھیں "

وہ کہہ کر پلٹی ۔۔

وہ اسکے دوپٹے کا سرا اپنے ہاتھ میں لپیٹنے لگا۔

"جانے دیں نا "وہ پیچھے مڑ کر بولی۔۔۔

"کیوں جانے دوں "؟وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا ۔۔

"باہر امی انتظار کررہی ہوں گی ناشتے کے لیے "

"اچھا مام کی اتنی فکر اور بیٹے کو اگنور کیا جارہا ہے ۔

وہ اس کی پشت کو اپنے سینے سے لگا کر کان کے قریب چہرہ کیے مدھم آواز میں بولا۔

"دیر ہورہی ہے جانے دیں نا !!

"روکا کس نے ہے جاؤ نہ !!

"آپ چھوڑیں گے تو جاؤں گی نا !!

"آپ جائیں گی تو چھوڑوں گا نا !!!

شہریار چھوڑیں نا۔۔۔

"یمنی جاؤ نہ ...

"شہریار بیٹا کہاں ہو ؟؟؟،تم سے ضروری بات کرنی ہے  ؟

باہر سے سدرہ کی آواز آئی ۔۔۔

"آیا امی !!

"یار اس گھر میں اچھے سے رومانس بھی نہیں کر سکتا ۔۔۔وہ منہ پھلا کر باہر نکلنے لگا ۔۔۔

"شہریار جی۔۔۔۔کہاں چلے ؟؟

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف واپس کھینچ کر بولی ۔

"رومانس نہیں کرنا ۔۔۔؟؟

"امی بلا رہی ہیں "

"ارے ایسے کیسے آپ کو تو میرے ساتھ رومانس کرنا تھا نا ۔وہ اسکے گلے میں بانہوں کا ہار پہنا کر شرارتی انداز میں بولی۔۔۔

"بعد میں ....وہ سرگوشی نما آواز میں بولا۔

"بالکل بھی نہیں جو ہوگا ابھی ہوگا ۔۔۔

"شہریار بیٹا !!!! باہر سے ایک بار پھر سدرہ کی آواز آئی ۔۔۔

""میں آپ کو جانے نہیں دوں گی "وہ اسکی گردن کے گرد اپنی بازو کی پکڑ کو مضبوط بنائے بولی ۔

"تمہیں میں رات کو پوچھوں گا "

وہ اسے دھمکاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔

باہر آیا تو ایک روح فراساں خبر اس کی منتظر تھی ۔۔۔یمنی بھی اس کے ساتھ باہر آئی تو سدرہ سے انہیں زیگن کے ساتھ ہوئے حادثے کا پتہ چلا ۔۔۔یمنی کے چہرے سے ایک سایہ آکر گزر گیا ۔۔۔۔

شہریار نے اس کے چہرے کے بدلے تاثرات محسوس کیے مگر چپ رہا ۔۔۔

"بیٹا جاؤ ہسپتال سے ہو آؤ اس وقت ہم میں سے کسی کا وہاں جانا بنتا ہے ۔"سدرہ نے تفکر بھرے انداز میں کہا۔

"جی اچھا امی "

"تم چلو گی ؟؟؟

"نہیں آپ ہو آئیں ابھی ہاسپٹل ۔جب سب گھر واپس آئیں گے پھر میں اور امی آپ کے ساتھ جا کر مل لیں گے "اس نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"اوکے "وہ کہتے ہوئے سدرہ  سے دعائیں لیتے گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

__________

صبح کی دھوپ اسکے بے داغ چہرے پر سرخی گُھلانے لگی تو وہ آنکھیں مسلتے ہوئے  کروٹ بدل گئی۔۔۔اور زریار کے شرٹ لیس سینے پر ہاتھ رکھے۔۔۔۔۔تو اسکی جھٹکے سے آنکھ کھلی۔۔۔وہ وہاں پر تھا۔یہ کوئی خواب نہیں حقیقت تھا ۔۔۔وہ اٹھ کر بیٹھی اور گھڑی پر نظر دوڑائی۔۔۔صبح کے نوبج رہے تھے۔۔۔۔

وہ جلدی سے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ کر کمفرٹر پیچھے ہٹاتے ہوئی اٹھی ۔۔۔۔اچانک کمفرٹر زریار کے منہ پر گرا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔جو کچھ دیر پہلے شاور لیے اس کے اٹھنے کے انتظار میں دوبارہ لیٹ چکا تھا ۔۔۔۔

مائی لائف صبح صبح جنگ کرنے کا ارادہ ہے؟؟؟

اس نے شرارتاً ایک آنکھ کھول کر پوچھا  تو بریرہ نے سبکی محسوس کرتے ہوئے اپنے لب دانتوں میں دباگئی۔۔۔

"کافی دیر سے ہم دونوں میں جنگ نہیں ہوئی ۔۔عادت جو ہوگئی تھی اسکی ۔۔۔مسکرا کر کہتے وہ بھاگ کر جلدی سے واشروم میں غائب ہوگئی۔ 

کچھ دیر بعد نہاکر وہ بالوں کو خشک کرتے ہوئے روم میں آئی

اس نے جلدی جلدی بال سنوارے اور دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کچن میں ناشتہ بنانے کے غرض سے گئی۔۔۔پر ڈائیننگ ٹیبل پر پہلے سے ہی ناشتہ تیار دیکھ اسے اچھنبا ہوا۔۔۔تبھی پیچھے سے زریار نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا

"کیسا لگا؟؟؟۔۔۔

وہ گردن گھما کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی

"زریار آپ نے کیوں۔۔۔؟؟؟

"کیوں اچھا نہیں لگا۔۔؟؟؟

اسکی بات کاٹتے ہوئے زریار نے مصنوعی خفگی سے پوچھا تو بریرہ  جلدی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔

",اچھا ہے پر آپ نے کیوں بنایا۔۔؟

اس نے پھر ڈائننگ ٹیبل پر سجے ناشتے کو دیکھ کر کہا

"آپ کی جدائی نے یہ کام بھی سکھا دیا ۔۔۔اتناعرصہ اکیلے اس فلیٹ میں گزارا ہے۔آپکی جدائی میں بس تبھی سیکھ لیا ۔۔۔۔

", ڈرو نہیں ...اب اتنا بھی برا نہیں بناتا میں ۔۔۔

 وہ اس کی بات پر  بےساختہ ہنس دی۔۔۔اسے ہنستا دیکھ زریار  بھی مسکرادیا۔۔۔پھر اسے چئیر پر بیٹھا کر ناشتہ سروو کیا۔۔۔۔ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد زریار اسے میں بانہوں میں بھر کر واپس روم میں لے کر آگیا پھر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ؟؟

"تمہیں دیکھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں کو یقین دلا رہا ہوں کہ تم میرے پاس ہو میرے قریب ہو "

"اور آپ کیا دیکھ رہی ہیں ؟؟

"میں دیکھ رہی ہوں کہ اتنی جدائی اور برے حالات کے بعد بھی ہم ساتھ ہیں"

"مگر کہیں نا کہیں دل میں اک ڈر سا ہے کہیں پھر سے ۔۔۔۔۔

"ششششش""""

وہ اسکے لبوں پر انگلی رکھ کر بولا۔۔۔

"پہلے تمہاری چاہت ہوئی پھر تمہاری عادت ہوئی پھر لت لگی ۔۔۔مگر اب تمہاری ضرورت ہے ۔۔۔

چاہت ہوتی تو خود کو روک لیتا ،عادت ہوتی تو خود کو بدل لیتا ،لت ہوتی تو چھوڑ دیتا مگر اب تم میری ضرورت بن چکی ہو ۔اسی لیے ضروری ہو ،کبھی مجھ سے دور جانے کے بارے میں سوچنا بھی مت ورنہ بہت برا پیش آؤں گا"

وہ پیار پیاری دھمکی دیتے ہوئے بولا۔۔۔

اس کے فون پر زمارے کی کال آئی تو وہ تیزی سے وہاں سے نکلا اور بریرہ کو حویلی میں  چھوڑ کر خود ہاسپٹل چلا گیا۔۔۔ 

___________

تین دن سے ڈاکٹرز کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل پا رہا تھا۔ زمارے مسلسل اسی بینچ پر بیٹھا ہوا تھا  ۔خان صاحب  بھی ابھی تک اس کے ساتھ ہی بیٹھے تھے ۔اس کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ نہ ہی وہ سو سکے تھے اور نہ ہی وہ صحیح سے جاگ سکے تھے۔ زمارے اپنے والد کو اس حالت میں دیکھ کر وہ مزید پریشانی کا شکار ہو رہا تھا۔ سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے زیگن  کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔

"خان صاحب آپ اب گھر چلے جائیں بھیا کی حالت اب بہتر ہے۔"زمارے نے ایک بار انکو گھر بھیجنے پر آمادہ کرنا چاہا۔

"کیسے چلا جاؤں میں اسے اس طرح چھوڑ کر ؟ اس نے تو ابھی تک آنکھیں بھی نہیں کھولیں۔ اسکی بند آنکھیں دیکھی نہیں جا رہی زمارے مجھ سے اسے کہو نا آنکھیں کھولے ۔" 

"خان صاحب آپ کی اپنی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں پلیز اپنا خیال کریں اور گھر چلے جائیں کچھ دیر کیلئے ۔تھوڑا سا آرام کر لیں پھر آجائیے گا  ۔"زریار نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

"میں اور زمارے ہیں یہاں زیگن کے پاس "

بسمہ جائے نماز پر  سجدے میں گر گئیں۔۔ آج ان کا دل ایک بار پھر کرب سے گزر رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔۔۔ان بہتے ہوئے اشکوں میں فریاد تھی اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے بھیک تھی ایک تڑپ تھی ایک آس تھی

"یا اللّه اب اور امتحان نہ لینا مجھ سے۔پہلے خان صاحب کے ساتھ ہوئے حادثے سے ہی نہیں سنبھلی کہ اب میرے بیٹے کے ساتھ یہ سب؟؟؟ 

۔۔۔۔ اے میرے مالک !مجھ پر اپنا رحم کر میرے بیٹے کو مجھ سے جدا نہ کرنا۔ اب مجھ میں اتنی سکت باقی نہیں یہ سب برداشت کرنے کی ۔۔

خان صاحب جو ڈرائیور کے ساتھ ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ ان کے فون پر کال آنے لگی ۔انہوں نے کال اٹھائی ۔۔۔۔

۔

"خان صاحب! زیگن کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ اسے ہوش بھی آ گیا ہے۔"زریار نے  خوشی سے لبریز لہجے میں بتایا۔۔۔۔

بسمہ کو جب یہ بات پتہ چلی تو انہوں  نے فوراََ سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔۔۔

ذوناش کو جب اس کے صحیح سلامت ہوش میں ہونے کا پتہ چلا  اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھاگتی ہوئی یا اڑ کر کسی بھی طرح  اسکے پاس پہنچ جائے ۔۔۔۔ 

آنکھوں میں پڑتی ہوئی تیز روشنی اور قریب سے آتی آوازیں اسے لاشعور سے شعور میں کھینچ لارہی تھیں۔۔۔دماغ اندھیری کھائیوں کو عبور کرتا اسے حال میں لا رہا تھا ۔۔۔

وہ نیم غنودگی میں دائیں سے بائیں سر کو زور سے جنبش دے رہا تھا ۔۔۔۔

حسین دلکش نقوش سے سجاچہرہ بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں سے ٹپکتی 

ہوئی وحشت اور ڈر سے کپکپاتی گھنی پلکیں ،سرخ و سفید تمتماتے ہوئے سیبی گال ،ساحرانہ نقوش سے سجا فسوں خیز ُحسن ،

خمدار تھوڑی پر تین سیاہ تل ۔۔۔۔

اسے لگا دنیا کا ساری خوبصورتی  سمٹ کر اس کے چہرے پر آگئی ہو  ۔۔۔

وہ اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔۔۔

زیگن کو اس کے ہاتھ بالکل اپنے دل کے مقام پر رکھے ہوئے محسوس ہوئے ۔

"دل پر پہلی بار محبت نے دستک دی تھی "

وہ جو پیار و محبت کو بکواس سمجھتا تھا،اسی عشق کے آکٹوپس نے اسے پر اپنا پہلا وار کردیا تھا۔۔۔۔وہ اس جال میں خود کو پھنستا ہوا محسوس کرنے لگا۔

اس نے اپنے شانے پر اس کا سفید مرمریں سا ہاتھ دیکھا جس کی مخروطی انگلی میں باریک سا چھّلا تھا۔اس پر نیلے رنگ کا ہی چھوٹا سا نگ جڑا تھا،وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ پر بہت جچ رہی تھی ۔زیگن نے گردن کو ٹیڑھا کیے اپنا گال اس کے ہاتھ پر رکھا ۔۔۔

ماضی کے ایک اور لمحہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا ۔۔۔

"اچھا تو جان جی ،،،،اس بات پر ناراض ہیں "

"جگنوؤں سے بھر دوں آنچل 

بیت جائے کہیں نا یہ پل کل جو ہوگا دیکھ لیں گے کل ۔۔۔۔

مختلف مناظر تیزی سے گزر رہے تھے ۔۔۔

دونوں بارش میں پوری طرح سے بھیگ چکے تھے ۔

وہ ٹھنڈ سے کپکپاتی ہوئی ،نظریں زمین پر گاڑے انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔۔

زیگن دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے قریب آرہا تھا ۔۔۔۔

کسی نے اس کے سر پر پیچھے سے وار کیا۔۔۔۔

اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔

اور اپنے سر پر ہاتھ رکھا جہاں سے خون نکل کر اس کے ہاتھ کو سرخ کر گیا تھا۔۔۔۔

تمام مناظر آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے ۔۔۔۔۔

ذوناش !!!!!

وہ یکدم بستر پر اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

 "Every thing is all right???

"Be calm .....

پاس کھڑے ڈاکٹر نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

"زمارے ذوناش ٹھیک ہے نا ؟؟؟

زمارے تو حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔

وہ خود سے ذوناش کا پوچھ رہا تھا ۔۔۔

اس نے ایک نظر پاس کھڑے ہوئے ڈاکٹر پر ڈالی ۔۔۔

"ڈاکٹر کیا ان کی یاد داشت ؟؟؟

وہ سوالیہ نظروں سے پوچھ رہا تھا۔۔۔

ڈاکٹر نے اس کے سوال پر مثبت جواب دیا۔۔۔۔

"برو "

"آپ کو پتہ ہے میں نے کتنا مس کیا آپ کے منہ سے اپنا نام سننا"وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور اس کے گلے لگا ۔۔۔۔

_________

وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا تھا ۔۔۔سر پر پٹی بندھی تھی ۔رائیٹ سائیڈ کے بازو پر بھی دباؤ آیا تھا ۔۔۔اس لیے ابھی وہ اسے ٹھیک سے موو نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔

آنکھیں جس کی راہ تک رہی تھیں جسکی منتظر تھیں وہ آکے ہی نہیں دے رہی تھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئی اسے انتظار کی سولی پر چڑھا رہی تھی ۔۔۔۔

سب اسے ہاسپٹل دیکھنے آئے اسی کی خیریت دریافت کرنے آئے ایک وہی نہیں آئی ۔۔۔۔

آج اسے گھر آئے سارا دن بیت چکا تھا مگر ابھی تک اس کے سامنے نہیں آئی ۔۔۔۔

زیگن کو اسکے گزارے پچھلے کچھ لمحات یاد آئے تو اس نے احساس شرمندگی سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔

بسمہ نے ہمیشہ کی طرح زبردستی اسے زیگن کے کمرے میں یہ کہہ کر بھیجا کہ بیمار کی عیادت کرنے سے ثواب ملتا ہے اور دوسرا اسے بیوی ہونے کے ناطے اپنا فرض نبھانا چاہیے ۔۔وہ ان کے کہنے پر ڈھیلے وجود سے کمرے میں تو چلی آئی تھی مگر دل میں کچھ ڈر تھا ۔کچھ خفگی ،

اس نے شیر زمان کو بستر پر لٹایا ۔۔اور ایک بھی نظر زیگن ہر ڈالے بغیر کمرے کی چیزوں کو سمیٹنے لگی جو تھوڑی بہت بکھری ہوئی تھیں۔

"ذوناش !!!!زیگن کی بھاری آواز سنائی دی تو جو کبرڈ میں منہ دئیے شیر زمان کے کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھی ۔۔۔

اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی ۔۔۔فی الحال وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

کبرڈ بند کیے بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

زیگن کی نیلی آنکھوں کے کونے سے آنسو نکل کر اس کے گال کو بھگونے لگا۔۔۔۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ دیو ہیکل انسان کسی کی بے رخی پر رویا تھا ۔۔۔۔

جب کوئی مرد کسی عورت کے لیے روئے تو اس عورت کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی کی اور کوئی بات نہیں ۔۔۔۔

زیگن کو اپنے ہاتھ پر ننھا سا لمس محسوس ہوا تو اس نے اپنے پاس لیٹے شیر زمان کو دیکھا ۔۔۔۔وہ آج اسے اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

نیلی شرارتی آنکھیں ،پھولے پھولے نرم گال،سرخ و سفید ملائی جیسی رنگت ،

وہ ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے زیگن کی انگلی پکڑ رکھی تھی ۔۔۔۔

زیگن نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا اور اپنے سینے پر لٹا لیا۔

وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ہنسنے لگا۔۔۔۔

ہو بہو زیگن کی طرح اس کے بھی ایک گال میں ڈمپل پڑ رہا تھا ۔۔۔۔

زیگن بلا اختیار مسکرایا ۔۔۔۔

وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ زیگن کے چہرے پر مارنے لگا ۔۔۔۔

زیگن نے اسکا ایک ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا ۔۔۔اسے شاید اس کی مونچھیں چبھیں تھیں اب وہ کھکھلا کر ہنسنے لگا ۔۔۔۔

زیگن اسے بار بار ہنسانے کے لیے اب اس کے پھولوں گالوں کو چومنے لگا ۔۔۔۔وہ اور زور سے ہنسنے لگا۔۔۔۔

دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے میں مست اپنا غم غلط کر رہے تھے ۔۔۔۔

شیر زمان ہی ذوناش کی تنہائی کا ساتھی تھا ۔اور اب زیگن کی تنہائی کابھی ۔۔۔۔

  __________

💕💕💕💕💕💕💕

بسمہ زیگن کو دیکھنے اس کے کمرے میں آئیں جہاں زیگن اور شیر زمان آپس میں کھیل رہے تھے بستر پر شیر زمان کے کھلونوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور زیگن اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سی باتوں میں مگن تھا ۔۔۔۔ذوناش اس کے اٹھنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل جاتی اور رات گئے کمرے میں آتی ۔رات کا شیر زمان کو ُسلا کر بے بی کارٹ میں ڈالے وہ خود صوفے پر سوجاتی ۔۔۔زیگن اسے دور سے دیکھ کر رہ جاتا ۔۔۔۔۔وہ خود بھی شرمندہ تھا کیسے اسے منائے ؟؟؟یہی ڈور سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔

"ذوناش کہاں ہے "؟

بسمہ نے پوچھا ۔۔۔

"پتہ نہیں مام"

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔بات کرنا تو دور میری کوئی بات سننے کو بھی تیار ہی  نہیں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔بار بار غصّہ کرتی رہتی ہے،بات کا جواب نہیں دیتی بس گھورتی رہتی ہے۔۔۔سارا دن دوسرے کمرے میں گزار دیتی ہے وہاں جاؤ تو منہ پر دروازہ بند کر دیتی ہی مجھے بات کرنے کا معافی مانگنے کا موقع ہی نہیں دے رہی ۔۔۔۔ ایسے وقت میں اس کا ساتھ دینا چاہتا ہوں اس کا غم خوار بننا چاہتا ہوں ۔اس کے سارے دکھ درد بانٹ لینا چاہتا ہوں ۔

میں جانتا اتنی بڑی بات سن کر اسے صدمہ لگا ہے۔وہ تنہا ہے۔میں اس کی تنہائی بانٹنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔مگر وہ موقع تو دے ۔۔۔

بیٹا اس وقت وہ تکلیف میں ہے ۔تمہارے بنا اس نے بہت برا وقت کاٹا ہے۔اور تمہارے واپس آجانے کے بعد بھی تمہارا اس کے ساتھ جو رویہ تھا 

وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا ۔۔۔اس کے پاس ایک ہی سگا رشتہ بچا تھا اس رشتے کے کھو جانے کا غم بہت بڑا ہے ۔۔۔اسے اپنے آپ کو سمنبھلنے کے لیے وقت درکار ہے ۔۔۔میں جتنی مرضی اسے تشفی دوں ۔مگر سگی ماں کی کمی کو تو پورا نہیں کر سکتی ۔۔۔۔اور رہی بات اسکا تم پر غصہ کرنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل ٹوٹا ہے اسکا۔۔۔۔۔اور تمہیں اُسے سنبھالنا  ہوگا۔اسے سمجھانا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔اسے اپنے پیار کا احساس کرواؤ عورت کا وجود بہت نرم مٹی سے بنا ہے۔اسے جس سانچے میں ڈھالو گے ڈھل جائے گا ،شرط صرف محبت اور نرمی کی آبپاری ہے۔

'میں کوشش تو کر رہا ہوں نہ مام۔۔۔۔میرے لیے بھی بہت مشکل وقت تھا ۔۔۔ مگر میں پھر بھی پیچھے نہیں ہٹا ۔۔یہ سب کس کے لیے کیا ؟؟؟

"سب اسی کی خوشی کے لیے ہی تو کیا تھا ۔مجھے لگا تھا کہ اسے اس کی ماں سے ملوا دوں تو وہ خوش ہو جائے گی جسطرح سے وہ مجھے آپ سے ملتے دیکھ حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھی ۔۔اس کی سب حسرتوں کو پورا کرنا چاہتا تھا۔۔تبھی گیا تھا کیلاش ۔۔۔

وہاں میں کسی کو جانتا نہیں  تھا ۔ایک گائیڈ نے مجھے وہاں کے بارے میں معلومات دیں ۔۔۔۔اس نے بتایا تھا کہ جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ھے اسی طرح اسکا مرنا بھی خوشی کا موقع ھے.

چنانچہ جب کوئی مرتا ھے تو ھزاروں کی تعداد میں مردوزن جمع هوتے هیں- میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ھال میں رکھ دیا جاتا ھے ، مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ھیں اور شراب کا انتظام کیا جاتاھے.تیار ھونے والا کھانا خالص دیسی ھوتا ھے.

آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ھے.ان کا عقیده هے که مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاهیۓ.جشن میں شراب ، کباب ، ڈانس اور هوائی فائرنگ ھوتی ھے ۔مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ ، سگریٹ رکهی جاتی هے-

 پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے ، آج کل کچھ لوگوں میں مردے کو دفنانے کا رواج ھے.کیلاش میں ھونے والی فوتگی خاندان کو اوسطاَ اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ھے جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پینتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ھے۔۔۔

جب میں نے سبحان خان کے بارے میں۔ پوچھا ۔اس کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا ۔میں نے سبحان خان کے گھر سے جو معلومات حاصل کیں تھیں 

اس کے حساب سے ذوناش کی والدہ کا نام جو پہلے لیزا تھا اور سبحان چچا سے شادی کے بعد لالہ رخ رکھا جا چکا تھا ۔ان کے بارے میں ان سے پوچھا تو پتہ چلا کہ کل ہی ان کی موت ہارٹ فیل کی وجہ سے ہو چکی ہے۔کچھ عورتوں کا کہنا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا تھا ۔ان کی بیٹی ذوناش کے بارے میں جاننے کے لیے مگر اس نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔

اب یہ معاملہ ایک راز تھا کہ لالہ رخ کی موت کیسے ہوئی ۔۔یہ تو لالہ رخ کے گھر والے ہی بتا سکتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔

اس نے بیٹی کی جدائی کا صدمہ لیا اسی لیے ایسا ہوا ۔

اس کے وجود کو کمیونٹی ہال میں رکھ دیا گیا تھا۔۔۔

مجھے ان کی وفات کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ۔میں انہیں اپنے ساتھ لانا چاہتا تھا ۔

تاکہ ذوناش آخری بار ان کا چہرہ دیکھ لے اور دوسری اور سب سے اہم بات میں ان کا پوسٹ مارٹم کروا کر انکے مجرموں کو انکی سزا دلوانا چاہتا تھا ۔۔۔

مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کر پاتا ۔۔۔۔

شاید ذوناش کے ماموں لوگوں کو کسی نے میری کاروائی کی خبر پہنچا دی ۔۔۔

ان سب نے مل کر مجھ پر حملہ کردیا ۔۔۔۔۔

بس پھر کیا ہوا میرے ساتھ مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔۔

جب ہوش میں آیا تو خود کو شاہ ہاؤس میں پایا ۔۔۔

فرحین اور اس کے والد شاید زخمی حالت میں مجھے وہاں سے لے جا چکے تھے ۔میں نہیں جانتا کب فرحین مجھ میں انٹرسٹڈ ہوئی ۔۔۔مگر میں نے کبھی بھی اس میں انٹرسٹ محسوس نہیں کیا ۔۔۔

اس نے مجھے بتایا تھا کہ میرے والدین اللّٰہ نہ کرے حیات نہیں ۔اور میرا اور اس کا بچپن کا رشتہ طے ہوچکا ہے ۔میری ایک کار ایکسیڈنٹ میں آنکھیں ضائع ہوگئیں ہیں۔اس لیے اس نے امریکہ سے ڈونر لیے وہاں سے میری آنکھوں کی سرجری کروائی ۔۔۔پھر وہیں ہماری انگیجمینٹ ہوئی۔اگر مجھے یہ سب یاد ہوتا تو میں کبھی ویسا نہیں کرتا ۔۔۔۔مام میرا یقین کریں میں نے ہمیشہ اپنی حدود کو یاد رکھا ہے۔۔۔۔

 میں بھی تو ذوناش  کا غصّہ اُس کی بے حسی سب برداشت کر رہا ہوں  ۔۔

 میں سب کچھ بھول گیا تھا مجھے میری شادی یاد تک یاد نہیں تھی ۔۔۔میں پھر سے ایک نئی شروعات کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔صرف اسی لیے میں بار بار اُس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیگن  کے لہجے میں صاف ظاہر ہو رہا تھا کے ذوناش کی بے اعتنائی برتنے پر کتنا ناراض تھا لیکن ذوناش کو اُس کا رویہ ٹھیس پہنچا چکا تھا۔۔۔ جب زیگن نے اس پر تشدد کیا تھا ۔۔۔

وہ بہت سمجھدار اور سلجھی ہوئی بچی ہے زیگن ، میں نے خود پہلی بار اُسے اسطرح کا برتاؤ کرتے دیکھا ہے  اور شاید اُس کی ناراضگی جائز ہے اتنا کچھ کرنے کے بعد کم سے کم یہ نہیں ڈیزرو کرتی تھی وہ۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے لیکن اُس کی بھی تو کوئی غلطی نہیں ہے نہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔۔۔۔

جی مام وہ ان کی گود میں سر رکھے ہوئے تھا ۔بسمہ اس کے بالوں کو سہلا رہی تھیں۔۔۔۔

__________

💕💕💕💕💕💕💕

رات کو کھانے کے بعد شہریار اپنے روم میں بیڈ پر بیٹھا آفس کا کوئی کام کررہا تھا،لیپ ٹاپ پر انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں،جب سے اس نے نئی کمپنی سنبھالی تھی  یہ اسکے روز کا معمول بن گیا تھا،وہ جو پہلے کافی وقت یمنی کو دیتا تھا اب جب پوری کمپنی کی ذمہ داری اس پر آئی تھی وہ خوب دل جمعی سے کام کر رہا تھا ،،،

وہ تینوں یمنی کی بار بار فرمائش  اور  مجبور کرنے پر یمنی کے والدین والے بنگلے میں شفٹ ہو چکے تھے کیونکہ وہ کئی سالوں سے خالی تھا۔۔۔یمنی کا کہنا تھا کہ اس کی اس گھر سے بچپن کی اور اسکے والدین کی یادیں جڑیں ہیں ۔اس لیے یمنی کی جذباتی بلیک میلنگ سے مجبور کر سدرہ اور شہریار یہاں شفٹ ہوچکے تھے ۔۔۔

سدرہ اس کے کام میں دل لگنے پرخوش تھیں وہی تھوڑی بہت مایوس بھی تھیں،وجہ شہریار کا یمںنی  کی بے توجہی تھی ۔۔۔۔وہ اپنی مصروفیات میں اسے مکمل بھلائے بیٹھا تھا،خود یمنی کچھ بولتی تو ہوں ہاں میں جواب دیتا ورنہ کام میں مصروف رہتا ،شہریار کے اس رویے پر یمنی کو بہت غصہ آ رہا تھا ۔۔۔ 

"میری سوتن سے ہی چمٹے رہیں گے ؟؟؟

وہ کمر پر ہاتھ رکھے لیپ ٹاپ کو دیکھ کر لڑاکا انداز میں بولی ۔۔لب و لہجہ طنزیہ تھا۔

شہریار آدھا کام ختم کرنے پر وہ اپنی آنکھیں مسلتا لیپ ٹاپ سائیڈ میں رکھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔

"کام کر رہا تھا یار "

وہ تھکاوٹ سے چور لہجے میں بولا ۔۔۔

"بند کریں اسے اور لائٹ بھی مجھے نیند آرہی ہے۔"

وہ لائٹ آف کیے اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی ۔۔۔۔

یمنی کو آج بھی وہ دن یاد تھا جب وہ شہریار کے ساتھ اس گھر میں آئی تھی ۔۔۔۔

بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہی جب اس کی نظر بیڈ پر پڑی تو وہ جھٹ واپس مڑی اور شہریار کے سینے سے ٹکرائی ۔۔۔

"Not again.....

وہ تلخ لہجے میں بولی ۔۔۔

شہریار دل کھول کر ہنسا ۔۔۔۔

"مسسز شہریار ہم جہاں بھی چلے جائیں یہ سنگل بیڈ ہمارے ساتھ ساتھ جائے گا ۔

وہ شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔

اس سنگل بیڈ کا ہماری زندگی سے گہرا ناطہ ہے۔

یمنی اس کی بات سن کر مسکرا گئی ۔۔۔۔ 

  وہ یمنی کو مخالف سمت کروٹ لیے لیٹا دیکھ رہا تھا ۔۔۔ریشمی بال بیڈ پر بکھرے تھے،پیچھے سے گلا ڈیپ ہونے کی وجہ سے سفید پشت واضح تھی،وہ انجان نہ تھا جو اسکی ناراضگی نا سمجھتا ۔۔۔اتنے دنوں سے وہ آفس کے کام میں مگن اسے بری طرح نظر انداز کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔

"یمنی ۔۔۔!"

کتنے دنوں بعد وہ اسے پیار سے پکارا تھا،یمنی اس کی خمار زدہ آواز سن کر  ششدہ رہ گئی 

"یمنی۔۔۔!"

ایک بار پھر اسکی بھاری آواز کان سے ٹکرائی،

"ہمم۔۔۔"

حلق خشک ہونے کے باعث وہ صرف یہی بول سکی،

"آئی لو یو یار ۔۔۔"

یمنی کو بلکل توقع نہ تھی اسکے کھلے الفاظ میں اظہار محبت کی ۔۔۔ تبھی جھٹکے سے اٹھتی وہ شہریار کو دیکھنے لگی  جس کی نظریں اسی  پر جمی تھیں،

"کیا۔۔"

اسے شبہ ہوا کہ شاید کچھ غلط سنا ہو،

"محبت ہو گئی ہے آپ سے ۔۔۔"

اب کے اس کی طرف دیکھ کر شہریار  ٹہرے لہجے میں بولا،انداز دلفریب تھا۔

 تبھی یمنی کے پورے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔ جب اسکی کلائی شہریار کی گرفت میں آئی۔

جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا،اگلے ہی لمحے وہ اس کے مضبوط حصار میں تھی ،اس نے بوکھلاکر پیچھے ہونا چاہا پر اپنی کمر پر مقابل کی مضبوط گرفت کی وجہ سے ہل تک نہ سکی،شہریار کے سینے پر بازو رکھے وہ تھوڑا فاصلہ قائم کرنے لگی،،

کچھ پل تک یونہی دیکھنے کے بعد چہرہ تھوڑا اونچا کرتے شہریار نے اسکے گال پر اپنے لب رکھے۔۔۔

دوسرے گال پر بھی دہکتا لمس محسوس کر کے وہ مچلنے لگی تھی،۔۔۔

"بیگم آپ کو ہی شکایت تھی وقت نا دینے کی اب وقت آگیا ہے آپ کی سبھی شکایتیں دور کرنے کا ۔۔۔۔۔"وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے اس پر اپنے پیار کی بوچھاڑ کرنے لگا ۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کی قربت میں سکون محسوس کرتے ہوئے اپنی دائمی خوشیوں کی دعا کر رہے تھے ۔۔۔۔آج ایک سکون پرور اور آسودہ زندگی ان کی منتظر تھی ۔

"وہ ایک لڑکی تھی جس نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ذوناش کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی ۔وہ تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ذوناش موبائل ساتھ لے کر گئی تھی ۔

میں نے اس کی مسڈ کال دیکھ کر زیگن کو اس کے پیچھے بھیجا ۔۔۔۔بسمہ خان صاحب کو آج صبح ذوناش کے ساتھ پیش آیا حادثہ بتا رہی تھیں۔۔۔۔۔مگر زیگن نے وقت رہتے ہی وہاں پہنچ کر ان لوگوں سے ذوناش کو بچا لیا۔وہ اس وقت شیر زمان کے ساتھ کالونی کے پارک میں گئی تھی ۔یہ ضد کر رہا تھا اسی لیے اسے بہلانے کے لیے  وہ اسے وہاں لے گئی تھی۔اس نے مجھے بتایا ہے کہ ایک لڑکی وہاں آئی اور اسے زبردستی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہ رہی تھی۔۔ لیکن جب ذوناش نے انکار کر دیا ۔پھر اس نے اپنے غنڈوں کو وہاں بلایا  وہ لوگ اسے اغوا کرنے وہاں پہنچ گئے۔

شکر ہے شیر زمان بحفاظت رہا ۔۔۔ اور زیگن نے ان  آدمیوں سے مقابلہ کر کے اسے بچایا ۔۔۔

"کون تھی وہ لڑکی ؟خان صاحب نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

"فرحین "

زیگن نے جواب دیا ۔۔۔

ذوناش نظروں کا رخ پھیر گئی اس کے انداز سے جلن واضح دکھائی دے رہی تھی ۔جیسے فرحین زیگن کو دیکھ رہی تھی اسے دیکھ دیکھ کر آہیں بھر رہی تھی ۔اپنے پیار کے واسطے دے رہی تھی کہ اس کے پاس واپس لوٹ آؤ ۔۔۔

ذوناش تو حق دق رہ گئی۔فرحین کی زیگن کو لے کر جنونیت دیکھ کر ۔۔۔۔

 وہ تب سمجھی تھی کہ وہ اسے اپنے ساتھ کیوں لے کر جانا چاہتی تھی۔تاکہ اسے اپنے اور زیگن کے راستے سے ہٹا دے اور خود اسکی جگہ لے لے۔"

جب زیگن نے اس کے خریدے ہوئے غنڈوں کو دھول چٹائی تو اس نے ذوناش پر گن تان لی ۔۔۔اور ٹریگر دبایا۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ گن سے نکلی ہوئی گولی ذوناش کو لگتی زیگن اسکے سامنے آیا ۔۔۔

مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا .......

زیگن کی طرف آتی ہوئی گولی کو فرحین کے بابا نے اپنے سینے پر لے لیا۔۔۔

وہ شروع سے ہی فرحین کی شدت پسندانہ عادت سے خائف تھے ۔اپنی بیٹی کی وجہ سے کسی اور کی زندگی کیسے برباد ہوتا دیکھ سکتے تھے ۔۔۔انہوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں ہوئی غلطی کو اپنے جان پر لے لیا ۔۔۔لمحوں کا کھیل تھا ۔۔۔

سب کچھ بدل گیا ۔۔۔۔

اب فرحین کے بابا خون سے لت پت نیچے گرے ۔۔۔۔

فرحین کے تو حیرت کے مارے ساتوں آسمان قیامت بن کر اس پر ٹوٹ پڑے ۔۔۔

کہاں وہ سب پانے چلی تھی اور کہاں وہ تہی داماں رہ گئی تھی سب کچھ لٹا چکی تھی اپنی شدت پسندی اور غرور کی وجہ سے ۔۔۔

پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز آئی اور چند لمحوں میں پولیس فرحین کو گرفتار کیے اپنے ساتھ لے گئی ۔۔۔۔

"اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ہے۔اس نے تمہیں اور شیر زمان کو محفوظ رکھا "

خان صاحب نے بسمہ سے ساری بات سن کر دعائیہ انداز میں کہا۔۔۔۔

"اچھا سب ٹھیک ہوگیا نا ۔اب چھوڑیں سب افسردہ باتیں ۔آج زیگن بھائی کی برتھ ڈے ہے۔کیوں نا سیلبریٹ کی جائے ۔خوشیوں کا موقع تو ہمیں خود تلاش کرنا پڑتا ہے "

زمارے نے مشورہ دیا ۔ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی کو دور کرنے کا ۔

"جیسے سب کو ٹھیک لگے بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا "خان صاحب نے کہا ۔۔۔

زریار اور بریرہ بھی عمرے کی ادائیگی کیے واپس آ کے تھے اب معمول کے مطابق سب کے ساتھ ہر دکھ سکھ میں شریک تھے ۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ دونوں قبرستان گئے تھے صلہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کے لیے ۔۔۔کہیں نہ کہیں صلہ ہی تو وسیلہ بنی تھی ان دونوں کو ملانے کا ۔وہ دونوں ملکر اسکی مغفرت کے لیے دعا کر کہ آئے تھے ۔۔۔۔

زریار اور زمارے نے مل کر برتھ ڈے کی ساری تیاریاں شروع کردیں ۔

شہریار اور یمنی بھی سدرہ کے ساتھ وہاں سالگرہ پر آچکے تھے ۔۔۔۔

زیگن اپنے روم سے تیار ہو کر باہر نکلا اس نے بلیک جینز پر بلیک شرٹ اور ریڈ لیدر جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور بالکل اس جیسی ڈریسنگ شیر زمان کی بھی تھی ۔اس نے بھی زیگن کی طرح جینز اور ریڈ کلر کی چھوٹی سی جیکٹ پہن رکھی تھی ۔۔۔

بسمہ ان باپ بیٹے کو دیکھ کر ان کی دل ہی دل میں نظر اتارنے لگیں۔۔۔

"برو آج موقع بھی اور دستور بھی میں نے موقع پیدا کر دیا ہے اب بھابھی کو منانا آپ کا کام ہے ",زمارے نے زیگن کے قریب آکر سرگوشی نما آواز میں کہا۔

"تمہیں کیسے پتہ کہ وہ مجھ سے ناراض ہے ؟؟؟

وہ خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔

"بھائی آپ کی شکل پر جو ہر وقت بارہ بجے رہتے ہیں ۔کوئی بھی جان جائے آپکے اندر چھپے مجنوں کی حالت "وہ تمسخرانہ انداز میں بولا۔

"انسان بن جاؤ ""زیگن نے اسے گُھرکا ۔۔۔

"وہ کیا ہوتا ہے ؟؟؟وہ دانت نکال کر بولا ۔۔۔

"میری چھوڑیں ادھر دیکھیں "

اس نے ذوناش کی طرف اسکی توجہ دلائی جو بسمہ کے اصرار کرنے پر بلیک اور ریڈ کلر کا لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھی ۔۔شانوں پر شیفون کا دوپٹہ پھیلائے ۔لائٹ سے میک اپ میں حسین ترین لگ رہی تھی۔۔۔

سب تیار ہوئے وہیں موجود تھے ۔۔۔

زمارے نے پارٹی پاپرز پھاڑے ۔۔

زریار نے گلیٹر بھرے بلونز پن مار کر پھوڑ دئیے ۔۔۔

زیگن نے نائف ہاتھ میں لے کر کیک کٹ کرنا چاہا تواپنے دوسرے ہاتھ سے پاس کھڑی ذوناش کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نائف والے ہاتھ پر رکھا ۔ذوناش سب کی موجودگی کی وجہ سے خاموش رہی کیونکہ وہ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر کوئی تماشہ کریٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔نائف پر سب سے پہلے شیر زمان کا ہاتھ تھا پھر زیگن کا اور اسپر ذوناش کا ۔

تینوں نے ملکر برتھ ڈے کا کیک کٹ کیا۔

زرشال سب کو کولڈ ڈرنکس سرو کر رہی تھی ۔جبکہ بریرہ سنیکس وغیرہ ۔۔۔

سب نے ملکر خوب ہلہ گلہ کیا۔

یمنی کی نظر زیگن کی چھوٹی سی خوبصورت فیملی پر تھی ۔شہریار نے یمنی کی طرف دیکھا ۔۔۔

"شہریار ۔۔۔۔وہ صرف خوبصورتی کی وجہ سے اٹریکشن تھی ۔جو وقت رہتے ختم ہوگئی ۔اصل محبت کیا ہوتی ہے وہ مجھے آپ سے ملکر اندازہ ہوا ۔۔۔میرے دل میں پنہاں تمام وفائیں صرف آپکے لیے ہیں۔میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتی ہوں جو آپ جیسے اعلی ظرف انسان میری زندگی میں آئے ۔۔۔وہ آسودگی سے شہریار کے شانے پر سر ٹکا گئی ۔۔۔سب اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے ،اس لیے انہیں کو نوٹ نہیں کرپایا ۔۔۔

شہریار نے پیچھے سے بازو گزار کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ کا احساس دلایا ۔۔۔۔۔ 

پارٹی ختم ہوئی تو شہریار اپنی فیملی کے ساتھ گھر واپس چلا گیا ۔حالانکہ بسمہ نے انہیں رکنے کے لیے اصرار کیا مگر وہ سہولت سے منع کرگیا ۔۔۔۔

سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔۔

جبکہ زمارے اور زیگن کچھ دیر کے لیے بائیک ریسنگ کے لیے چلے گئے ۔۔تاکہ انجوائے کر کہ اس دن کو مزید یادگار بنا  سکیں ۔۔۔۔

شیر زمان کے سونے کا وقت ہوا  

تو ذوناش اسے کمرے میں سُلانے کے لیے لے گئی ۔۔۔

زرشال اور بریرہ نے ملازمین کے ساتھ مل کر سارا بکھرا ہوا سامان سمیٹا ۔۔۔۔پھر وہ بھی آرام کی غرض سے روم میں چلی گئیں ۔۔۔۔

__________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"کیا کر رہی ہو زری ؟؟؟

زمارے نے پیچھے سے آکر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔

"میرے خیال میں اسے کپڑے استری کرنا کہتے ہیں "

وہ تھوڑا سا پیچھے مڑ کر بولی ۔۔۔

"لیکن تم تھک گئی ہوگی آرام کرلیتی ۔کپڑے صبح میں خود پریس کر لیتا یا کسی اور سے کروا لیتا "

"کسی اور سے کیوں ؟؟؟

"مجھے آپ کا ہر کام اپنے ہاتھوں سےکر کہ خوشی ملتی ہے ۔

"سارا دن جب آپ کی نظر آپکے کپڑوں پر پڑے گی تو آپ کو میری یاد آئے گی کہ یہ میں نے پریس کیے تھے "

"زری !!!ادھر دیکھو میری طرف ...وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر بولا ۔۔۔

"یاد تو ان کو کیا جاتا ہے جنہیں بھولا جائے ۔تم تو میرے پاس نا ہوکر بھی میرے پاس ہوتی ہو۔

"یہاں میرے دل میں ۔"وہ دل کے مقام پر انگلی رکھ کر بولا۔

"ویسے آج اتنی پیاری لگ رہی ہو تھوڑی تعریف کرنا تو بنتی ہے ۔۔۔وہ اس کے چہرے پر جھکا ۔۔۔۔

زرشال نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا ۔۔۔۔

"ڈاکٹر زمارے لگتا ہے آپکا دماغ گھوم گیا ہے ۔پہلے اپنے دماغ کا  علاج کروائیے ۔۔۔۔ "

"دماغ کا نہیں ،میرے تو دل کا علاج ہونے والا ہے ۔اور میرے دل کی ڈاکٹر صرف آپ ہیں ۔کریں نا چیک اپ ڈاکٹر زری ۔۔۔وہ زرشال کا ہاتھ پکڑ کر بولا ۔۔۔

"آپ کو دیکھ کر زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے ،آپ کو پیار کرنے کی فرمائشیں کرتا ہے ،یہ چاہتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔"

"بس ۔۔۔بس۔۔۔بس ۔۔۔بہت ہی کوئی فضول اور آوارہ دل ہے آپ کا اور اس کی فضول سی فرمائشیں ۔۔۔وہ جھنجھلاہٹ سے بولی ۔اور استری کا پلگ نکال کر رکھا ۔۔۔۔

"ادھر آؤ زری ۔۔۔زمارے بیڈ پر نیم دراز ہوئے اسے بلا رہا تھا جو استری شدہ کپڑے ہینگ کر رہی تھی ۔۔۔۔

"کیا چاہیے ؟؟؟وہ وہیں سے پوچھنے لگی ۔۔۔

"سکون "زمارے نے یک لفظی جواب دیا وہ بھی ذومعنی انداز میں۔۔۔

"ابھی لائٹ آف کرتی ہوں سکون سے سو جائیں ",

وہ بھی پلٹ کر بولی ۔

"ہائے جو تجھے بانہوں میں بھر کر ملتا ہے سارا سکون اسی پل میں ہے ۔"وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ۔۔۔۔

"زمارے آپ اتنے پیارے کیوں ہیں؟؟

وہ زمارے کے ساتھ آکر لیٹتی ہوئی اسکے بازو پر سر رکھ کر بولی ۔۔۔

 "آج ہم پر پیار کیسے آگیا ظالم حسینہ کو ؟.وہ اسے خود میں بھینچ کر بولا ۔۔۔۔

"سچ بتاؤں ؟؟؟

"میں نے سچ ہی پوچھا ہے ۔۔۔

"آج اس فرحین کا کانٹا نکل گیا اسی لیے "

وہ صاف و شفاف دل کی مالک تھی دل میں کسی کے لیے کوئی بات نہیں رکھتی تھی ۔جو آتا تھا منہ میں فٹ بول دیتی تھی اور آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔۔۔۔

"زری وہ پہلے بھی کبھی ہماری لائف میں exist نہیں کرتی تھی ۔تم نے خواہ مخواہ دل میں وہم پال رکھے تھے ۔

"آپ نے پوچھا اور میں نے بتا دیا ۔اب اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے ہم اپنی باتیں کریں گے ۔۔۔

"ٹھیک ہے اپنی باتیں کرنے کے لیے تو کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔کہاں سے شروع کروں ؟؟؟وہ اس کے گلے سے دوپٹہ نکال کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔۔

"رات بہت ہوگئی اب سونا چاہیے "زرشال نے اسکے ارادے بھانپ کر کہا۔۔۔

"  بالکل بھی نہیں ابھی تو شروعات ہے فیملی پلاننگ کی"

"زمارے پلیز تنگ مت کریں "زمارے  کی پیار بھری شرارتوں سے اسکی  کھکھلاہٹوں کی آواز کمرے میں گونجنے لگی ۔۔۔۔

"میں بہت تھک گئی ہوں واقعی "

"میں جذب کر لوں ساری تھکاوٹیں تیری ،

تو ایک بار میرے بازوؤں میں آتو سہی "زمارے کی مخمور آواز اسکے کانوں میں رس گھول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح سے اس کی طبیعت کچھ گری گری سی تھی.. کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا.. کچھ کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا.. کچھ بھی کھاتی تو ایسا لگتا معدے سمیت سب  باہر آجائے گا... ابھی بھی وہ اپنے کمرے کے باتھروم کی واش بیسن پر جھکی بری طرح سے الٹیاں کر رہی تھی.. صبح سے یہ چوتھی یا پانچویں مرتبہ وہ بیسن پر جھکی تھی  .. اپنی گری ہوئی باعث وہ پریشان تھی .. 

"کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو..؟" وہ واش بیسن پر جھکی ہوئی تھی کہ پیچھے سے آنے والی فکرمندانہ آواز پر چونک کر سر اٹھایا تو اس زریار کو اپنے پیچھے کھڑا پایا.. آپ کب آئے..؟

"بریرہ تمہاری تو ٹھیک ہے نا..؟؟ کیا ہوا ہے؟؟.." وہ  فکرمندی سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔

بریرہ جو چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی خود بھی اپنی حالت سے انجان تھی..

"کچھ نہیں..  میں بالکل ٹھیک ہوں بس طبیعت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی.." ٹاول سے اپنا چہرہ صاف کرتی وہ اس کی طرف مڑی جو چانچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا..

"آپ.. آپ کب آۓ..؟"

"بس ابھی آیا.. تمہاری طبیعت کو کیا ہوا ہے..؟" وہ اب بھی اسی بات پر اٹکا ہوا تھا..

"کچھ نہیں ہوا ہے بس معمولی سی الٹیاں ہو رہی ہیں..شاید کچھ ایسا کھا لیا جو ٹھیک سے ہضم نہیں ہوا" اس کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتی وہ دھیرے دھیرے چلتی بیڈ پر آکر بیٹھ گئی.. اچانک ہی اسے کمزوری کا احساس ہونے لگا تھا.. اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا جہاں ہلکا ہلکا درد ہونا شروع ہو گیا تھا..

"الٹیاں ہو رہی ہیں اور..؟ کیا پیٹ درد کر رہا ہے..؟ تکلیف محسوس ہو رہی ہے..؟" اس کی نظروں سے اس کے ہاتھ کا پیٹ پر جاتا ہوا چھپا نہ رہ سکا.. وہ پریشانی سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا..

"بس الٹیاں ہو رہی ہیں اور کچھ نہیں.." اپنے درد کو نظر انداز وہ نارمل لہجے میں بولی نہیں چاہتی تھی کہ وہ پریشان ہو..

"ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں.." وہ اٹھتا ہوا بولا..

" نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ہوں..اور رات بھی بہت ہوگئی ہے "وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھاتی ہوئی بولی تو وہ بھی اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا اس کے پاس بیٹھ گیا..

 بات کرتے ہوئے ہلکی سی سسکاری کے ساتھ اس نے دوبارہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو زریار جو ریلیکس ہوا تھا ایک دم  سیدھا ہوگیا..

"تمہیں تکلیف ہو رہی ہے رانی .. چلو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتا ہوں تمہیں.." اس کے چہرے تشویش ظاہر ہو رہی تھی ..

"نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں.. آپ پریشان نہ ہوں.."

"کہاں ٹھیک ہو.. الٹیاں ہو رہی ہیں تمہیں بیوقوف لڑکی.. کچھ عقل بھی استعمال کرو کہ الٹیاں کیوں ہو رہی ہیں.." وہ جیسے اس کی ضد سے چڑ گیا تھا..

"کیوں ہوتی ہیں الٹیاں.. مجھے کیا پتا.. کھا لیا ہوگا کچھ الٹا سیدھا.." وہ نادانی سے بولی تو اسے بس دیکھتا رہ گیا..

"تم واقعی میں نادان ہو...وہ مسکرا کر بولا 

مگر وہ اتنا نادان نہیں تھا کہ اس کی حالت کی وجہ نہ سمجھ پاتا.. 

"کیا مطلب؟؟؟.." 

"ڈاکٹر کے پاس چلو تو میں تمہاری ساری نادانیاں دور ہو جائیں گی.." اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا وہ معنی خیزی سے بولا تو بریرہ نے چونک کر اس کے چہرے کو دیکھا..

"ڈاکٹر کے پاس جاکر کون سا خزانہ مل جانا ہے۔.." وہ اپنی دھن میں منہ بناکر بولتی ہوئی اٹھی ہی تھی کہ چکرا کر دوبارہ گرنے لگی تھی..زریار نے تیزی سے اسے تھاما..

"سنبھالو اپنے آپ کوابھی گر جاتی تو ہمارا کتنا بڑا نقصان ہو جاتا.."  اسے اپنے مضبوط بازؤوں کے حصار میں لئے آرام سے بیڈ پر بٹھاتا ہوا بولا..

"مجھے سنبھالنے کے لیے آپ موجود ہیں تو نقصان کیسا.." دل کی گہرائی سے اس نے اعتراف کیا تو زریار سرشار سا مسکرا دیا..

وہ دونوں آرام سے بنا آواز کیے باہر نکل گئے اور ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر واپس آئے تو دونوں بہت خوش تھے ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسے جیسے انہیں ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو ۔

"میں بہت خوش ہوں ،اور ان خوشیوں کی وجہ تم ہو ۔۔۔مجھے معاف کر دو بریرہ .. میں اپنی ہر کوتاہیوں، لغزشوں کی تم سے معافی مانگتا ہوں .. میرا یقین کرو میرا دل اور میری روح پر صرف تم ہی قابض ہو.. میں تمہارے علاوہ کسی کا نہیں ہوں، .." اس کی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لئے اس کے سامنے  بیٹھا تھا ۔۔۔

"آپ بار بار ایسا مت کہا کریں مجھے اچھا نہیں لگتا"

"اچھا ٹھیک آج آپ بھی کچھ اپنے دل کی سنائیں۔۔ ۔۔۔۔وہ پرشوق نگاہوں سے تکتا اسکے جواب کا منتظر تھا ۔

"حساب عمر کا بس اتنا سا گوشوارہ ہے۔

تمہیں نکال کر دیکھا تو سب خسارہ ہے "

وہ شعر کے زریعے اظہار محبت کر گئی ۔۔۔۔

"سچ ؟"

"آپ کو کیا لگتا ہے ؟"

"وہی جو آپ کو لگا "

"بریرہ بہت شکریہ مجھے اتنا خوبصورت تحفہ دینے کے لیے ۔

"آپ کا بھی وہ زریار کے گال پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے بولی ۔

"آئیں آرام کریں ",

وہ اس کے سر کے نیچے تکیہ درست کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟

اسے اپنی گردن پر جھکتا ہوا دیکھ بریرہ کی گھگھی بندھ گئی۔۔۔۔

"اپنے بے بی کی مما کو پیار کر رہا ہوں ۔آخر مما نے اتنا پیارا گفٹ دیا ہے ۔ انہیں بھی تو گفٹ ملنا چاہیے ۔

"زریار یہ کونسا آرام ہے ؟؟؟ !!!!وہ اس کی بڑھتی ہوئی جسارتوں پہ بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔۔۔

"اذیت کے بدلے اذیت دے کر جس تسکین کی انسان کو تلاش ہوتی ہے وہ کبھی نہیں ملتی ۔دل کو سکون معاف کر دینے سے ہی آتا ہے ۔آج وہ اسے معاف کر کہ بہت پر سکون تھی ۔اپنی خوشیوں بھری  زندگی سے مطمئن ۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زیگن جو ابھی کچھ دیر پہلے زمارے کے ساتھ بائیک ریسنگ کیے واپس آیا تھا ۔کمرے میں آیا تو چونکا ۔۔۔اسے صوفے پر اتنی جلدی سوتے دیکھ وہ حیران ہوا۔۔،شیرزمان اپنے کارٹ میں سو رہا تھا ۔۔۔۔

"ذوناش !!!۔۔"

وہ پکارا تھا اسے مگر مقابل ان سنی کیے سوتی بنی رہی،

"اٹھو ذوناش!!!۔۔"

زیگن  نے اس کے قریب آکر پکارا مگر بےسود،وہ خوب سمجھا تھا اس کا سوتے بنے رہنے کا ڈرامہ تبھی اب جھک کر اسے بازوؤں میں لیتا بیڈ پر آیا،اب اور انتظار نا ممکن تھا ۔۔۔آج زیگن کو ہاسپٹل سے گھر آئے ایک ماہ سے اوپر ہوچکا تھا ۔۔۔ذوناش کی ناراضگی اتنی لمبی چلے گی اسے امید نہیں تھی آج وہ سب حساب بے باک کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔

ذوناش کی آنکھیں پٹ سے وا ہوئیں اپنے آپ کو اس کے قریب محسوس کیے ،گھبراکر اس کے آہنی بازوؤں سے آزاد ہونے کے لیے وہ زیگن کے سینے پر ہاتھ مارنے لگی ۔۔ مگر شرٹ اس کے شرٹ لیس ہونے پر تو وہ بری طرح بوکھلاتی ہوئی سُرخ پڑی،نازک وجود لرز کر رہ گیا جسے بخوبی محسوس کرتا زیگن آہستگی سے اسے بیڈ پر لٹا گیا ۔۔۔۔

"آپکی جگہ یہ ہے۔۔۔۔۔"

اس کی گھبرائی حالت دیکھ وہ سخت لہجہ اختیار نہ کیا،البتہ انداز باور کرانے والا تھا،اسے اپنے برابر میں لیٹتے دیکھ ذوناش کی کیفیات عجیب ہونے لگی،ابھی معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے اوپر زیگن  جھکا،کمرے میں جلتی مدھم لائٹ میں خود سے بےحد نزدیک مقابل کے وجیہہ چہرے پر پتھریلے تاثرات دیکھ ذوناش کی سانسیں رک گئیں۔۔۔۔،دل جس تیزی سے دھڑک رہا تھا اسے لگا ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا،

وہ بستر سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر نکلتی زیگن نے پھرتی دکھاتے ہوئے اسے جا لیا ۔۔۔پھر اسے کھینچ کر دیورا کے ساتھ پِن کرتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں اردگرد جمائے ۔۔۔اور اس کے فرار کی تمام راہیں مسدود کر دیں ۔۔۔۔

"اصل جگہ تو دل میں ہے۔جہاں صرف آپکی اجارہ داری قائم ہے۔۔۔اب مجھ سے دور ہوئی تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی "

اس کے گھمبیر لہجے پر ذوناش کا خون سوکھا،گھنیری پلکیں لرز کر جھکیں،گالوں پر لزرتی پلکوں کی چلمن دلکش لگ رہی تھی  ۔۔۔گہری نظریں اس کے گلال بکھرتے عارض پر ڈال کر  ہاتھ ذوناش کے پیچھے لے جاتا اس کے ریشمی بالوں کو جوڑے سے آزاد کیا تھا،

وہ مضطرب سی آنکھیں پھیلائے حیرت  سے زیگن  کو دیکھنے لگی،نیلی آنکھوں کے گرد وہ سرخ ڈورے زیگن کو بے چین کر گئے ۔۔۔۔

"کیا چاہتی ہو کہ تمہارے ساتھ زبردستی کروں۔۔؟"

ریشمی بالوں میں انگلیوں کو الجھتا وہ ان کی نرمی محسوس کر رہا تھا ساتھ ہی ایک لٹ کو انگلی میں گھماتا سرگوشی میں بولا،ذوناش کی جان نکلنے کو ہوئی،جھلساتی سانسوں کے چہرے پر پڑنے سے وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی،زیگن کے قرب سے اٹھتی کلون کی خوشبو اس کے حواس معطل کر رہی تھی ۔۔۔۔

"I am sorry ۔۔"

""میں نے بہت غلط کیا میں اپنی غلطی مان تو رہا ہوں ۔۔۔

"مجھے ہمیشہ تمہیں دیکھ کر پیار آتا تھا ۔مگر میں اپنے رشتے سے انجان تھا ۔اس لیے ریزرو رہتا تھا ۔۔۔۔میں خود کو تم سے پیار کرنے سے روک نہیں پا رہا تھا ۔سزا مجھے خود کو دینی چاہیے تھی ۔مگر غصہ تم پر نکالا ۔۔۔۔

دل سے معافی مانگ رہا ہوں۔معاف  کردو جان جی "

ایک مرتبہ پھر سرگوشی کے ساتھ اس نے انگلی میں لپیٹی لٹ کھینچی۔۔۔ ذوناش سسک کر آنکھیں میچے نفی میں سرہلانے لگی ،اس کی قربت ذوناش پر سانسیں تنگ کرنے لگی،میچی آنکھوں سے  موتی ٹوٹتے ہوئے اسکے گالوں پہ گرنے لگے،وہ جو بےتابانہ نظروں سے اس محبوب لڑکی کا خوبصورت چہرہ دیکھ رہا تھا،اس کی پلکوں پر نمی محسوس کرتے ہی اس کی آنکھوں پر جھکا،ساتھ ہی باری باری ان پر اپنے جلتے لب رکھ دئیے،اور تب سے اپنا آپ ادھورا محسوس کرتا زیگن  آج خود کو مکمل محسوس کر رہا تھا۔۔،ایک سکون سا سرایت کیا تھا اس کے پورے وجود میں

"کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو؟؟؟۔۔۔۔۔ کیا  آپ کو میری کوئی پروا نہیں ہے جو مجھے ہر بار تکلیف دیتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔  کیا آپ کو مجھے پریشان دیکھ کر خوشی ملتی ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ ہے کتنا گھبرا گئی تھی میں اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو کیا ہوتا میرا۔۔۔۔۔۔۔ہر بار آپ ایساہی کرتے ہیں ۔خود کو خطرے میں ڈال کر میری جان نکالنے کا مزہ آتا ہے آپکو"

 پہلے آپ کہا کرتے تھے مجھے کبھی رونے نہیں دیں گے اور اب جب سے واپس آئے ہیں مجھے تکلیف پر تکلیف دیئے جا رہے ہیں آپ کو نا تو میرے  رونے سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ میری اداسی  سے ۔۔۔وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی

"جان جی اگر وہ سب نہیں ہوتا تو تمہارے دل کے جذبات زبان پر کیسےآتے  اتنے دنوں تک جب تم چپ تھی  خاموش تھی  مجھے کتنی تکلیف ہو رہی تھی اس کا بات اندازہ بھی ہے تمہیں ؟؟؟

 آج کم سے کم اسی بہانے تم نے اپنے جذبات کا اظہار تو کیا 

زیگن نے اُس کے چہرے پر نظریں جمائے کہا ذوناش کچھ پل کے لیے خاموش ہو کر اُسے دیکھنے لگی

"تو اور کیا کرتی میں کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے آپ کی بات سن کر کی آپ مجھے بھول گئے آپ مجھے کیسے بھول سکتے ہیں ؟؟؟؟ ہمارا رشتہ تو دل کا تھا نا 

برداشت نہیں ہو رہا تھا مجھ سے آپ کے چہرے پر اپنے لئے اجنبیت دیکھ کر آپ کا بدلہ ہوا لہجہ انداز میری جان نکال رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذوناش نے نظریں جھکا کر نم لہجے میں کہا زیگن  نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا 

"میں سمجھتا ہوں لیکن کیا تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا ذوناش کے  اس میں میری کیا غلطی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا میرے ذہن سے اگر وہ ساری باتیں بھول چکی تھیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ جب میں نے تمہیں اس دن دیکھا تو مجھے تمہارا چہرہ اجنبی لگا مجھے یاد نہیں تھا کہ تم میری بیوی ہو مجھے ہمارا نکاح یاد نہیں تھا بھلے ہی میرے ذہن سے تمہاری ساری یادیں مٹ  چکی تھیں۔ مگر میں پھر بھی تمہیں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا تھا ۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری ناراضگی سے مجھے فرق پڑتا تھا تمہیں روتا دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی تھی ۔۔۔۔

اب جب کہ میں کتنے دنوں سے تم سے بات کرنا چاہتا تھا  تمہیں سمجھانا چاہتا تھا تمہیں منانا چاہتا تھا تمہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میری زندگی میں تمہاری کیا اہمیت ہے ۔مگر تم کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی ۔۔۔میں جانتا ہوں تمہیں تکلیف ہوئی ہے اور یہ تکلیف میں نے ہی دی تھی۔

اسی لیے میں اب ایک لمحہ بھی نہیں گنوا نا چاہتا ،ان بیتے ہوئے پلوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔مجھے تمہاری ضرورت ہےجان جی ۔میں سب دکھوں کا مداوا کر دوں گا ۔ ۔۔ ۔

ذوناش اُس کی طلسمی جذبات لٹاتی ہوئی نظروں کو سیدھے اپنے دل میں اترتا محسوس کر رہی تھی غلطی تو اُس سے بھی ہوئی تھی واقعی اس بار وہ زیگن  کو سمجھ نہیں پائی تھی ۔۔۔۔

"مجھ سے ناراض رہ کر مجھے یوں تکلیف مت دو۔اور برادشت نہیں ہوتا ۔۔۔ 

زیگن  نے اُس کا چہرہ اُسی طرح تھامے ہوئے تھا اور وہ چپ ہو کر خالی نظروں سے اُسے دیکھے جا رہی تھی

"زندگی میں آج وہی بیتے ہوئےلمحے پھر سے آگئے ۔دیکھو  آج ہم  دونوں کے دل پاس پھر سے پاس کتنے پاس ہیں ۔آو ان لمحات کو جی لیں ،

وہ اسے بانہوں میں بھینچ کر بولا ۔۔۔۔۔

"آپکے قدموں کے چھوڑے ہوئےنقش پر قدم رکھ کر چلنے کی عادی تھی میں آپ کیسے خود کو مجھ سے دور کر سکتے تھے ۔ایک اور شکوہ اس کی زبان سے پھسلا ۔۔۔۔ 

"میری آنکھوں کی آخری منزل صرف یہ دلکش چہرہ ہے۔اسے  دیکھتے دیکھتے سانسیں تمام ہوجائیں تو کوئی غم نہیں ۔۔تم پر فنا ہوجانے کا جی چاہتا ہے

"تم نے ہی تو جینے کی ادا سکھائی ہے "وہ آنچ دیتے مدھم سی آواز میں بولا۔۔۔

"آپ ہی تو میری سانسوں کی ہوا ہیں۔ورنہ میری سانسیں تھم جائیں !!!!

وہ اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھتے ہوئے بلا اختیار کہہ گئی ۔۔۔۔

"میرا یہ دل یہ پہلے سینے میں تھا مگر کبھی دھڑکا نہیں تھا۔جب تم نے پہلی بار اس دل پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔تمہاری آہٹیں اس دل کو دھڑکن دے گئیں تھیں "

وہ اسکی خمدار تھوڑی پر نرمی سے لب رکھے بولا ۔۔۔ 

اب ہمارے درمیان کوئی بھی نہیں آ سکتا ذوناش اب ہمیں اس خدا کے علاؤہ اور کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا۔

" زیگن خان ایسا کبھی ہونے ہی نہیں دے گا۔یہ میرا وعدہ ہے تم سے"

کیونکہ میں اپنی جان جی کو اب  اپنے اتنے قریب رکھوں گا ۔وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر لایا اور اسے خود میں بھی کسی قیمتی متاع کی طرح بھینچ لیا ۔۔۔

"اتنے پاس  ۔۔

دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے ۔دونوں کو ایک دوسرے کی دھڑکنوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔۔۔

"وعدہ "ذوناش نے ہتھیلی پھیلائی ۔۔۔

",وعدہ "اس نے جوابا کہا۔

"پکا وعدہ ؟؟؟زیگن نے اسکا مخملی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اٹل انداز میں کہا ۔۔۔

"بالکل پکا والا وعدہ"

پر پھر بھی میں آپ سے زیادہ پیار کرتی ہوں "

ایسا ہی نہیں ہو سکتا کیوں میں جب جب اپنی جان جی کو دیکھتا ہوں نا میرا پیار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

"اونہہ۔۔۔۔اس نے زیگن کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اسے قریب آنے سے روکا۔

میرا پیار آپ سے اس لیے زیادہ ہے کیونکہ جب جب میں آپ کو سوچتی ہوں میرا پیار کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔

"جان جی !!!وہ دیکھیں ...وہ اسکی توجہ کھڑکی سے باہر نظر آتے ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان پر دلاتا ہوا مدھم  لہجے میں بولا۔

"ستارے بھی وہیں ہیں وہی چاند ہے ۔مگر روشنی کل سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔۔۔

"وہ کیوں ؟؟؟اس نے حیرت سے پوچھا ۔

"آپ کے پاس آنے سے "اس نے مخمور نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔اس کی نیلی آنکھوں میں محبت کے ہزاروں رنگ دکھائی دئیے ۔۔۔۔

"آپکی نظروں سے چھلکتے ہزاروں رنگ جیسے زندگی میں بہار لے آئے ہیں۔ورنہ !!!! آپکے بنا تھا یہ موسم کل تلک سادہ ۔۔۔۔

"یہ بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہے جان جی اس کو ثابت کر کہ بتائیں پھر مانیں گے ۔

"وہ کیسے ؟؟؟ذوناش نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا ۔

ذوناش اس کی نگاہوں کا مرکز دیکھ کر سٹپٹا گئی ۔۔۔۔اس کی پچھلی جسارتیں یاد آتے گلابی عارض دہکنے لگے ۔

"شیر زمان اٹھ جائے گا "اس نے بودا سا بہانہ بنایا۔

"میرا بیٹا بہت سمجھدار ہے مما بابا کو بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرتا "

"ویسے بھی میں اپنے بیٹے کی خواہش پر عمل کرنے جا رہا ہوں "

وہ اس کے دہکتے ہوئے گال پر لب رکھ کر بولا ۔

"وہ تو بولتا نہیں "ذوناش نے حیرانی سے کہا۔

"آپ دل کی زبان نہیں سمجھتی۔۔۔اسی لیے آپ کو پتہ نہیں جان جی !!!

اس کی نیلی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ کر پھیلیں۔

"ورنہ آپکو پتہ چل جاتا کہ اسوقت میرا دل کیا چاہتا ہے ۔۔۔ویسے بھی میرے بیٹے کی خواہش ہے کہ جلد ہی اسکے ساتھ کوئی کھیلنے والا ایک اور ننھا منا سا آ جائے ۔

وہ اسکی ذومعنی بات پر جی جان سے لرز کر رہ گئی ۔۔۔

"زیگن اپنے عنابی لبوں سے اسکے شنگرفی لبوں کو چھو کر اسکے دل کی دنیا زیر و زبر کر گیا جہاں جہاں زخم لگائے تھے وہیں اپنے لبوں سے مرہم لگاؤں گا ۔۔۔وہ اس کی گردن پر نرمی سے لب رکھا تھا ۔۔۔پھر اسے پلٹتے ہوئے اپنے سراسراتے ہوئے ہاتھ سے فراک کی زپ کھولتے ہوئے اس کی پشت پر جا جا اپنے لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔کھڑکی سے جھانکتے ہوئے چاند تارے بھی انہیں دیکھ کہ جھلملانے لگے ۔۔۔۔۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

"آپ بڑی مما کو پیار کر رہے ہیں ؟؟؟ضامن نے شرارتی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے زیگن اور ذوناش کو گلے لگے ہوئے دیکھا تو پوچھا ۔۔۔

وہ دونوں جھٹ سے الگ ہوئے ۔

"یہ کس شیطان نے دیکھ لیا۔۔۔سمجھو پورے گھر کو پتہ لگ گیا ۔

ضامن باہر لاونج کی طرف بھاگا جہاں ویک اینڈ کی وجہ سے سب اکٹھا تھے ۔ 

""آپ سب کے لیے ایک تازہ خبر !!!!وہ ہاتھ کا مائیک بنا کر اونچی آواز میں بولا ۔۔۔

وہ حویلی کا رپورٹر بچہ مشہور تھا ۔ہر ایک کی خبر اسے معلوم ہوتی ۔

"بڑے پاپا بڑی مما سے پیار کر رہے تھے جیسے رات کو بابا نے مما سے کیا تھا ۔۔۔

"اوئے ڈرامے باز تو جاگ رہا تھا ؟؟؟زمارے نے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔

وہ دانت نکال کر ہنسنے لگا ۔۔۔

"جیسا نالائق باپ ہے ویسا ہی بیٹا نکلا "ناہنجار ،خبیث انسان بچوں پر بھی دھیان دے بگڑ رہے ہیں تیری طرح ۔۔خود نہیں سدھرا انہیں تو سدھار لے کم از کم "خان صاحب کی رعب دار آواز گونجی تو زمارے خفیف سا مسکرا دیا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسے خان صاحب کی بیعزتی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔

زیگن اور ذوناش باہر آئے تاکہ اسے روک سکیں مگر وہ شیطان کا چیلا ان کا بھانڈا پھوڑ چکا تھا ۔۔۔

زیگن اور ذوناش کے دو بیٹے شیر زمان اور شاہ ِمن تھے ۔

زمارے کے تین بچے ضامن اور دو جڑواں بیٹیاں جنت اور منت تھیں۔

زریار اور بریرہ کے بھی دو بچے زیان اور زائشہ تھے ۔

جبکہ شہریار اور یمنی بھی دو بیٹے ابتسام ،حسام اور پھر سب سے چھوٹی بیٹی ہیر تھی ۔۔۔سب اپنے اپنے بچوں کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہے تھے کسی کی زندگی میں کوئی خلش باقی نا تھی ۔زندگی خوشی اور غم کی تصویر ہے ۔کبھی ڈھیروں ڈھیر خوشیاں عطا کرتی ہے کبھی غم سے آشنا کروا جاتی ہے ،آزمائش زندگی کا لازمی جزو ہے جس کا ہر انسان سے واسطہ پڑتا ہے۔بس ثابت قدمی سے ہر آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کریں۔کیونکہ مشکلوں کے بعد آسانی آپکی منتظر ہوگی ۔

___________

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 چوبیس سال بعد !!!

رات کے اندھیرے جہاں کسی زی روح کے نا ہونے کے آثار نمایاں تھے ۔وہاں ایک سایہ نما وجود بے خوف سا چل رہا تھا۔ سیاہ جینز کے ساتھ سیاہ ہڈی پہنے، ہاتھوں میں سیاہ ہی گلوز پہنے جبکہ منہ پر کالے  رنگ کا ماسک چڑھائے وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ۔۔۔اس کی  آنکھوں میں وحشتوں کا جہاں آباد تھا۔  

اس شہر سے دور جگہ پر خاموشی کا راج تھا ۔۔۔

دور کہیں گیڈروں کی آواز ماحول میں چھائے سکوت میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ۔اس دیو ہیکل وجود کے چلنے سے درختوں کی شاخوں سے ٹوٹ کر گرے سوکھے پتے اس کے پیروں کے نیچے آتے عجب ہی آواز پیدا کر رہے تھے۔  

چلتے چلتے وہ  ایک بوسیدہ مکان میں داخل ہوا۔۔۔۔

اپنے پاس کسی کے بھاری بوٹوں کی دھمک سنی تواسنے

 اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے بہ مشکل اپنی بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے  ہوش و حواس میں آنے میں آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹنے لگا تو حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔۔۔  سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔

 اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا وہ ایک سنسان جگہ تھی جس میں ایک خستہ ہال جگہ تھی ۔۔۔۔  

وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند  اردگرد دیکھ رہی تھی تبھی ایک ہیولہ اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔اسکے قریب آنے پر ہیر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر پاس آنے والے کو دیکھا۔۔۔

بے شک اس دیو ہیکل وجود کے چہرے پر ماسک چڑھا تھا مگر یہ نیلی آنکھیں تو وہ ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھی۔یہی آنکھیں تو بچپن سے اس پر تسلط جمائے ہوئے تھیں۔وہ کیسے نا پہنچاتی انہیں ۔۔۔۔

 "ش۔۔۔شی۔۔۔۔شیر۔۔۔۔شیزمان آپ ؟؟؟؟؟؟۔۔ سامنے موجود  شخص کو دیکھتے  اسکی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئی تھیں۔۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔

"کیا کہا تھا میں نے ؟؟؟وہ اس کی صراحی دار نازک سی گردن کو اپنے مضبوط ہاتھ میں دبوچ کر اسے دیوار سے پن کر کہ اوپر اٹھا گیا۔۔۔ 

اب وہ دیورا سے لگی زمین سے تھوڑا اوپر تھی 

"کی۔کیا؟؟؟اس کے سوکھے ہوئے حلق سے آواز نکلنے سے انکاری ہوئی ۔۔۔۔

"ضامن سے دور رہنا "اس کی گھمبیر آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

"اب اپنے انجام کی زمہ دار تم خود ہو "اس کی پراسرار آواز سے ہیر کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔۔وجود ڈر کے باعث کپکپانے لگا ۔۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلانا چاہتی تھی مگر اسکے ڈر سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی ۔

"یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟

وہ خوف زدہ گُھٹی ہوئی آواز میں بولی۔

جب اس نے شیر زمان کے ہاتھ میں اپنا دوپٹہ دیکھا جو وہ اس کے وجود سے ہٹا چکا تھا ۔۔۔ اگر تم میری بات مانتی تو آج یہ آنچل جگنوؤں سے بھر دیتا مگر اب !!!!!!

(اختتام )

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Jugnuon Se Bhar Do Aanchal Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Jugnuon Se Bhar Do Aanchal written by Hina Asad . Jugnuon Se Bhar Do Aanchal by Hina Asad   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages