Janaa By Fatima Malik New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 23 August 2024

Janaa By Fatima Malik New Complete Romantic Novel

Janaa By Fatima Malik New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Janaa By Fatima Malik Complete Romantic Novel 


Novel Name: Janaa

Writer Name: Fatiam Malik

Category: Complete Novel

کمرے میں داخل ہوتے ہی تیز پھولوں کی خوشبو کی لہر علی کے وجود کے ساتھ ٹکڑائی اس نے گہری سانس لی اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھا وہ آج بہت خوش تھا اس کی خواہش پوری ہو چکی تھی آخرکار اس نے اپنی محبت کو حاصل کر لیا تھا وہ محبت کے میدان میں جھنڈے گاڑ کے آیا تھا چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا تھا اس کی خوشی حیرانگی میں تب بدلی جب اس نے بیڈ کو خالی پایا اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا تھوڑا سا آگے بڑھتے ہی اس کی نظر چینجنگ روم پر پڑی وہ آگے بڑھا اس نے نیچے سے اوپر تک فاطمہ کو دیکھا وہ سلیپنگ ڈریس میں تھی آئینے علی کو دیکھ وہ دوبارا چیزیں سمیٹنے لگ گئی... علی نے زور کا سانس لیا اور اسے بازو سے پکڑ کر آرام سے اپنے سامنے کیا..

کیا ہوا؟ انداز بہت نرم تھا

مقابل شخص نے نفی میں سر ہلا دیا. اور دوبارہ اپنے پہلی والی جگہ پر جا کر دوبارا مصروف ہو گی.. علی بہت حیران تھا اور پریشان بھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے.

کوئی پرابلم ہے؟ اس نے دوبارا سوال کیا. مگر اس دفعہ کوئی جواب نہیں آیا. دونوں اطراف خاموش پھیل گئی. اور فاطمہ وہاں سے نکلنے لگی کہ علی نے دوبارا بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا. فاطمہ بازو چھڑوانے لگی لیکن علی مسلسل اسے گھور رہا تھا

کس سے پوچھ کر تم نے چینج کیا؟ اس دفعہ انداز سخت تھا

مجھے چھوڑے!

پہلے میرے سوال کا جواب دو!

میری مرضی! میں نے اپنی مرضی سے کیا

مگر کیوں جاناں؟ وہ ایک دم پھر نرم ہو گیا

فاطمہ نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوا لیا

میں آپ سے نفرت کرتی ہوں. دوسری بات یہ کہ مجھے ہاتھ لگانے کی ذرا بھی کوشش نہ کیجیے گا

اس نے ایک ایک الفاظ علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا. یہ کہہ کر وہ آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ علی کے سوال نے روکا

نفرت کی وجہ جان سکتا ہوں؟

وہ واپس پلٹی اور علی کے بالکل سامنے آ کھڑی ہوئی

آپ خود ہیں وجہ! یہ سب آپکی زبردستی کا نتیجہ ہے مسٹر علی...

میں محبت کرتا ہوں تم سے! اور یہ سب کچھ بھی اسی لیے کیا..

آپ کو کیا لگتا ہے.. میرے گھر آکر میرے ماں باپ کو دھمکا کر مجھ سے شادی کر لیں گے اور میں ہنسی خوشی مان جاوں گی

دھمکی نہیں دی تھی اظہارِ خیال کیا تھا

چلیں پھر اظہارِ خیال اپنے پاس ہی رکھے... اور مجھ سے سو فٹ کا فاصلہ... وہ یہ کہتی ہوئی باہر آگئی اور بیڈ سے ایک چادر اٹھا کر صوفے پر لیٹ گی..

باہر آتے علی کی ان پھولوں پر پڑی جو چند منٹ پہلی کھلے ہوئے تھے اور اب اسے مرجھائے ہوئے لگ رہے تھے وہ ٹانگیں لٹکائے بیڈ پر بیٹھ گیا سامنے سر سے لے کر پاوں تک چادر میں لپٹی فاطمہ کو دیکھنے لگا علی کو شدید غصہ آنے لگا....کیا غلطی ہے میری کے میں نے صرف محبت کی؟ یہ کسے ٹھکڑا سکتی ہے میری محبت کو؟ کیا اب سب کچھ ایسا ہی رہے گا؟ نہیں ہرگز بھی نہیں.. میں تمہیں ایسا کرنے نہیں دوں گا... میری محبت مذاق نہیں ہے... جو تمہیں اڑانے دوں! میں پاگل ہوں جس نے تم سے اتنی مشکل سے نکاح کیا اور اب تم سے دور رہوں ہرگز نہیں.. میں تمہیں اتنی محبت دوں گا جاناں کے تم مجبور ہو کر آو گی میرے پاس.. یہ میرا چیلینج ہے... وہ اٹھ کر صوفے کے قریب گیا اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا... اور کان کے پاس ہلکی سی سرگوشی کرنے لگا..

Mission start right now!

I love you janna 💕

مسکراتا ہوا چینجنگ روم میں گھس گیا

🌺..................... 🌺

گڈ مارننگ!

فاطمہ کی مکمل آنکھیں علی کی آواز پر کھلی... اس نے علی کی طرف دیکھا جوکہ بیڈ پر بیٹھا مسکرا رہا تھا.. فاطمہ نے کوئی جواب نہیں دیا اٹھ کر سیدھا واش روم میں داخل ہو گی... واپسی پر اس نے ہلکا سا دروازہ کھول کر دیکھا کمرے میں کوئی نہیں تھا. وہ سکون کا سانس لیتی ہوئی باہر آگئی....

آپ کو کسی نے ایٹیکٹس نہیں سیکھاۓ جاناں! اچانک اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی.. فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو علی تھا وہ کمرے میں ہی کہیں چھپا ہوا تھا.

ایکسیوز می؟ فاطمہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا

یہی کہ جب کوئی گڈ مارننگ کہے تو آگے سے پیار سے گڈ مارننگ کہتے ہیں. 

جی جی بالکل درست فرمایا آپ نے مگر انہیں جو پیار کے لائق ہوں

علی نے کمر سے پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لگایا 

کیوں کر رہی ہو ایسے؟ جانتی ہو نا؟ کتنی محبت کرتا ہوں.. تکلیف ہوتی ہے تمہاری بے رخی سے... آواز میں تکلیف تھی.... اس نے دونوں ہاتھ علی کے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو کو پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نا ہوا 

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے کہ کس کو کتنی تکلیف ہوتی ہے.. مجھے چھوڑے... علی  اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا وہ بالکل بےباک تھیں 

شوہر ہوں تمہارا! حلال رشتہ ہے تم سے! حق ہے میرا تم پر.... 

علی پلیز چھوڑیں! وہ مسلسل مذمت کر رہی تھی.. بجھائے اس چھوڑنے کے وہ اسے مزید قریب کرتا گیا اور ایک وقت آیا کے اُس نے اس کے لبوں کو قید کر لیا.. سب کچھ بے بس ہو گیا... شور ختم ہو گیا.. علی نے گرفت ڈھیلی کر دی اور آرام سے اسے اپنے آپ سے الگ کیا... فاطمہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی جسے علی بآسانی محسوس کر سکتا تھا 

بہت برے ہیں آپ! بہت برے... وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی... اس کا لمس ابھی تک ہونٹوں پر دہک رہا تھا.. 

 🌺.............. 🌺

کب تک چلے گا ایسے؟

یہ تو شادی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا.... کاٹن کا پیس اٹھاتے ہوئے کہا

آج ولیمے کی رات تھی فاطمہ ابھی تک ناراض تھی دونوں چینج کر کے کل والی نشستوں پر براجمان تھے..

ایسا بھی کیا کردیا جاناں جو اتنی بڑی سزاء دے رہی ہو... مان جاو نا پلیز! علی نے معصومہ انداز میں کہا

جس انسان کو یہ ہی نہیں پتہ کہ اس نے کِیا کیا ہے اس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟ اس نے کاٹن کے پیس کو ناخنوں کے اوپر رگڑتے ہوئے کہا

لیکن.....

خیر! جو بھی ہے میں روز روز یہ بحث نہیں کر سکتی لہذا مجھے بخش دیں.. کاٹن کے ٹکڑے کو ڈسٹ بن میں پھینک کر آکر لیٹ گئی.

🌺........... 🌺

یہ سب آپکی غلطی سے امی... وہ مسلسل چیخ رہی تھی....

چپ کر جا باہر کوئی سن لے گا

تو سن لینے دے! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں.. وہ غصے سے لال تھی

فی الحال چپ کر جا یہ میرے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ.. رضوانہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا

ہاں ہاں کروا دیں چپ... یہ جو کل ہوا ہے یہ چپ رہنے کا ہی نتیجہ ہے...

اچھا! کیا تو کیا لیتی تو؟ ہمہم؟

کچھ بھی کرتی علی کی شادی نہ ہونے دیتی... نمرہ نے پراعتماد ہو کر کہا

تیرا نا دماغ خراب ہو گیا ہے... اور میرا بھی کرے گی.. رضوانہ کہتی ہوئی باہر چلی گئی..

نمرہ نے غصے سے تکیہ اٹھا کر زمین پر مارا

 🌺...... 🌺

علی زبیر شاہ؛

اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی. ذہانت اور حُسن اسے اللہ کی طرف سے انعام میں ملا تھی. حال ہی میں وہ  اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ پر فائز ہوا تھا.

فاطمہ بنت اسد؛

چار بہن بھائیوں میں سب سے اول نمبر پر تھی. حسین لفظ اس کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا. وہ بنک میں بطور مینجر کام کرتی تھی.

🌺......... 🌺

آج انہیں سب سے ملنے گاوں جانا تھا... علی شروع سے ہی شہر میں رہتا تھا. ویک اینڈ پر گاؤں چکر لگا آتا تھا.

زبیر شاہ؛ اپنے علاقے کے سب سے رئیس انسان تھے

علی انکی اکلوتی اولاد تھی.. کم عمری میں ہی علی کی والدہ انتقال کر گئیں جس کے بعد زبیر شاہ نے دوسری شادی کر لی مگر وہاں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.. زبیر شاہ تین بھائی تھے... نعمان شاہ. اور عدنان شاہ. زبیر اول نمبر پر تھا.. اور تین ہی بہنیں تھیں جس میں سے ایک رضوانہ طلاق یافتہ انہی کے پاس رہتی تھی..

وہ دونوں گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے

جاناں؟ اس نے بڑے محبت سے پکارا..

آگے سے کوئی جواب نہیں آیا.. وہ مسلسل گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی

جاناں سنو نا؟

وہ پھر لا جواب رہی. اس نے اسٹیرنگ سے ایک ہاتھ ہٹاتے ہوئے.. فاطمہ کا ہاتھ پکڑا.. جس سے فوراً ہی وہ حرکت میں آگی اور جھٹ سے ہاتھ چھڑا لیا. 

کیا مسئلہ ہے آپ کو؟ 

میری بات کیوں نہیں سن رہی؟ 

وہ سیدھا ہو کر بیٹھی.. میں نے کب کہا تھا کہ میں آپ کی بات سنو گی؟ 

غصہ چھوڑ بھی دو نا اب؟ چلو اور کچھ نہیں کم از کم بات تو کر سکتی ہو نا کہ نہیں؟ 

نہیں! 

میں تم سے معافی مانگ لیتا ہوں... جو کہو گی کر لو گا مگر ایسا ظلم تو نا کرو! 

گاڑی تیزی سے سڑک پر بھاگ رہی تھی 

بولو نا؟ چپ کیوں ہو؟ 

علی پلیز چپ کر جائیں! میرا دماغ پہلے ہی بہت زیادہ خراب ہے مزید اپنی گھسیی پیٹی باتوں سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے. 

کیا ہوا کوئی ٹینشن ہے تمہیں؟ 

یہ شادی کسی ٹینشن سے کم نہیں ہے.. پتہ نہیں اب وہاں جا کر کیا حال ہو گا؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا 

تم بے فکر رہو تمہیں وہاں کوئی کچھ نہیں کہے گا.. میں گارنٹی دیتا ہوں... اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا 

بڑی مہربانی آپکی! پہلے تو تماشہ بنا دیا ہے اب مزید بن جاے تو فرق نہیں پڑتا.. اس نے طنز کے تیر چلاے

تمہیں مجھ پر بھروسہ ہونا چاہیے جاناں! تمہیں مان ہونا چاہیے کہ تمہارا شوہر تمہاری عزت کرے گا بھی اور کرواے گا بھی... اس نے دوبارا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا 

یہ تو وقت ہی بتائے گا! اس نے آرام سے چھوڑا تے ہوئے کہا..... اتنے میں گاڑی زن سے ایک بڑے سے گیٹ سے گزرتے ہوئے اندر داخل ہوئی.. سامنے بہت بڑی حویلی تھی.. شاید حویلی لفظ چھوٹا ہو اسے محل کہا جا سکتا تھا. وہ پرانے زمانے کے طرز سے بنائی گئی تھی.. بادشاہوں کے زمانے کی بڑے بڑے دروازے اور چھوٹی چھوٹی بالکونی اور کھڑکیاں... انسانی آنکھ کو حیران کرنے میں ماہر تھا وہ.... 

آجاو!.. فاطمہ علی کی آواز پر چونکی جو گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا تھا.. گاڑی سے باہر نکل کر وہ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ علی کے پیچھے چلنے لگی... حویلی کے اندر داخل ہوتے ہی بڑا سا حال تھا جس کی سائیڈوں پر کچھ فاصلے پر ستون تھے.. حال میں پرانے طرز کے لکڑی سے بنے میز اور صوفے تھے حال میں سب اپنی اپنی نشست پر براجمان تھے.. بچے بوڑھے سب موجود تھے 

جیسے وہ سب انہی کے آنے کا انتظار کر رہے ہوں..علی نے آرام سے فاطمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور چلنا شروع کیا... جاتے ہی علی نے سب سے پہلے دادی کو سلام کیا. فاطمہ نے بھی وہی روش دھرائی.. باری باری سب سے مل کر وہ دونوں بھی بیٹھ گئے... وہ سب علی کی شادی سے بہت خوش تھے.. اور فاطمہ سے مل کر بھی..مگر ان میں سے چند لوگ تھے جو اس شادی کے سخت خلاف تھے.. سب سے پہلے رضوانہ

پھپھو... 

ان کا صرف گھر ہی قدیم زمانے کا نہیں تھا رہن سہن بھی ویسا ہی تھا سادہ اور صاف ستھرا... سب فاطمہ کو انتہائی حیرانگی سے دیکھ رہے تھے.. وہ بھی نظریں جھکائے بیٹھی تھی... وہ وہاں موجود تمام خواتین میں سے سب سے زیادہ حسین تھی.. شاید یہ وجہ تھی یا علی کا سب کے خلاف جا فاطمہ سے شادی کرنا یہ وجہ تھی.. وجہ جو بھی تھی وہ بہت گلٹ محسوس کر رہی تھی.. پتہ نہیں کیوں؟ مگر کر رہی تھی 

علی بیٹا! ذرا بیٹھک تک آو گے تم سے کچھ ضروری معاملات طے کرنے ہیں! خاموشی کا زور عدنان نے توڑا 

جی ضرو! اس نے فوراً حامی بھر لی. سب مرد اٹھ کر وہاں سے چلے گئے...

خاندان میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور سمجھ دار ہونے کا اعزاز بھی علی کو ہی حاصل تھا... گھر کے معاملات سے لے کر کاروبار کے معاملات تک اس کے مشورے سے کیے جاتے تھے اور ہمیشہ ہی کامیاب ہوئے... اسی لیے سب اس کی عزت کرتے... اور ڈرتے بھی کیونکہ ذہانت کی طرح غصے میں بھی علی کو کوئی مات نہیں دے سکتا... سب اس کے غصے سے ڈرتے تھے یہاں تک کہ زبیر شاہ خود بھی 

شہر سے ہی ہو؟ سکینہ نے سوال کیا 

جی! فاطمہ نے اثبات میں سر ہلا دیا 

کیا کرتی ہو؟

می... میں بنک مینیجر ہوں! 

مطلب نوکری کرتی ہو؟ 

جی...! 

جا سکینہ کھانے کا انتظام کر بچے بھوکے آۓ ہیں. کیا سوالوں میں لگ گی ہو؟ کوثر (دادی) نے حکم دیا 

عورتیں بھی کھانے کے انتظام کے لیے چلی گئیں 

بھابھی! آپ بہت پیاری ہیں... ساتھ بیٹھی صائمہ نے کہا جوکہ جب سے وہ آئی تھی مسلسل دیکھی جا رہی تھی.. 

شکریہ! اس نے مسکراتے ہوئے کہا 

آپ تھک گی ہوں گیں! آکر آرام کر لیں. اقراء نے کہا 

وہ سب اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئیں.. کمرے اوپر کی جانب تھے.. 

تم سب بھی یہی بیٹھ جاو! فاطمہ نے انہیں آفر کی 

وہ بھی آس پاس بیٹھ گیئں. 

آپ بہت خوش قسمت ہیں بھابھی! اقراء نے ہنستے ہوئے کہا 

اچھا! وہ کیسے؟ 

یہ ہی کہ آپ کو علی بھائی ملے.... بہت پیار کرتے ہیں وہ آپ سے.. شادی سے پہلے سب علی بھائی کے خلاف تھے کہ وہ خاندان سے باہر نہیں کر سکتے مگر انہوں نے کسی کی بھی نا سنی اور سب کو راضی کر لیا... 

ہمہم! فاطمہ نے سر ہلا کر کہا 

وہ بہت غصے والے ہیں نا اسی لیے سب انکی بات مان لیتے ہیں.. صائمہ نے وضاحت دی 

اچھا!... تو اور سناو؟ کیا کرتی ہو تم دونوں؟ 

میں صائمہ ہوں.. میں نے ایف اے کیا ہے.. اور آگے نہیں پڑھا اجازت نہیں ملی.. اور ہفتہ پہلے ہی میری منگنی ہوئی ہے.. اقراء کے بھائی آزر سے... 

میں اقراء ہوں اور ابھی میٹرک کر رہی ہوں... اور نعمان شاہ میرے بابا ہیں.. ہم دو بہنیں ہیں اور دو بھائی 

اوہ! گڈ.. بہت اچھا لگا تم دونوں سے مل کر 

میں عدنان شاہ کی بیٹی ہوں ایک ہی بہن ہوں اور دو بھائی ہیں.. صائمہ نے کہا 

 وہ سب مل کر باتیں کرنے لگیں.. 

🌺........ 🌺

باہر آجا کھانے پر.. 

مجھے نہیں آنا... 

کیوں ؟

ابھی بھی آپ پوچھ رہی ہیں کیوں؟ دل کرتا ہے اسے جان سے مار دوں... 

اب کیا کر سکتے ہیں؟ جو ہونا تھا ہو گیا.. علی نے کر لی ہے شادی اب کچھ نہیں ہو سکتا.. رضوانہ نے کہا 

یہ ہی تو وجہ ہے کہ کیوں کی امی اس نے اس لڑکی سے شادی کیا کمی تھی مجھ میں؟ وہ جانتا تھا نا میں اسے پسند کرتی ہوں.. آپ نے ماموں سے بھی بات کی تھی.. وہ تو ماموں کی بات مان لیتا ہے پھر یہ کیوں نہیں؟ 

نمرہ! .. یہ شہر کی لڑکیاں بہت تیز ہوتی ہیں.. تمہیں ان کا نہیں پتہ.... مجھے امید ہے کہ اس لڑکی نے بھی علی کی جائیداد دیکھ کر ہی اسے ورغلایا ہو گا.. بیچارا ہمارا بچہ باتوں میں آگیا 

بیچارا؟ امی وہ بیچارا نہیں ہے.. یہ بھول ہے آپکی.. 

جو بھی تو چھوڑ اس بات کو اب چل باہر.. سارے ماموں تیرا پوچھ رہے ہیں.. میں کرتی ہوں اس لڑکی کا بھی علاج... 

دونوں اٹھ کر باہر آگیں 

🌺........ 🌺

بیٹا! آپ کو یہاں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ 

نہیں انکل! بالکل بھی نہیں... فاطمہ نے مودبانہ جواب دیا.... وہ دونوں اس وقت زبیر شاہ کے کمرے میں موجود تھے... اگر کوئی چیز چاہیے ہو تو بلاجھجک بتا دینا.... 

جی ضرور! 

علی تم سے شکایت ہے! زبیر اب علی کی طرف ہوا 

مجھ سے؟ مثلاً؟ 

تمہاری ماں نے کی ہے کہ تم نے انہیں بلایا نہیں... 

بابا! میں آپ کو ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ یہ میری ماں نہیں ہیں.. 

علی کے اس جواب پر فاطمہ نے آنکھیں  پھاڑ کر علی کو دیکھا 

مگر بیٹا!..... 

بابا پلیز! آپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں سے چلا جاؤں؟ 

نہیں نہیں! تم بیٹھے رہو... فاطمہ کو علی کا یہ عمل سخت ناگوار لگا.

🌺............ 🌺

شام کے وقت موسم بہت خوشگوار ہو گیا.. آسمان بادلوں سے بھر اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگی.... کمرے کی بالکونی سے یہ مناظر بہت دلکش لگ رہا تھا... اور حویلی کی دوسری اطراف بھی نظر آرہی تھیں... جہاں ایک حصہ میں گاڑیاں تھیں اور دوسری طرف بہت سی نسلوں کے گھوڑے اصطبل میں موجود تھے... ٹھنڈی ہوا جب جھونکے کی صورت میں ٹکراتی تو روح کے اندر تک سکون جاتا... فاطمہ اپنی دنیا میں مگن یہ مناظر دیکھ رہی تھی.. حصار کی گرمائش نے اسے ہوش دلوایا.. علی نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا... 

علی چھوڑ دیں! اس دفعہ وہ بھڑکی نہیں تھی بلکہ آرام سے کہا تھا.. 

اکیلی کیا کر رہی ہو؟ اس نے رخسار پر بوسہ دیتے ہوئے کہا... اس دفعہ اس نے مذمت کی تھی مگر ہر بار کی طرح بے سود رہی.. 

آپ کو آنٹی کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے..... اس کی سوئی ابھی تک ادھر ہی اٹکی ہوئی تھی 

مسسز زبیر کی بات کر رہی ہو؟ 

ہمہم! اس نے سر ہلایا 

کیا غلط کہا ہے میں نے؟ 

وہ ماں ہے آپکی. ماں ماں ہوتی ہے.. چاہے سوتیلی ہو.. کتنا خیال کرتی ہیں وہ.. آج آپ کے پیچھے پیچھے تھیں.

سوتیلے لفظ کے ساتھ ماں لگا دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتا... یہ نفرت بھی انہوں نے خود ہی حاصل کی ہے.. جتنا خیال وہ اب کرتی ہیں اتنا اگر تب کیا ہوتا جب مجھے انکے ضرورت تھی تو آج میں انہیں ماں کا ہی درجہ دیتا 

مطلب؟ وہ آرام سے حصار سے نکلتے ہوئے سامنے ہوئی.. اگر انہیں اتنا ہی احساس ہے تو  احساس تب کہاں تھا جب سکول کی پی ٹی ایم میں مجھے انکی ضرورت تھی. تب کہا تھا جب شرارت کرنے پر یہ مجھے پورا دن بھوکا رکھ کر کمرے میں بند کر دیتیں. تب کہاں تھا مجھے میرے ہی باپ سے دور کرنے کی کوشش کرتیں اور جب وہ ملنے آتے تو کوئی نا کوئی بہانہ بنا دیتی اور مجھے ملنے نا دیتی.. تب کہاں تھا جب ساری رات بخار رہتا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا 

تو پھر اب کیسے؟ اس نے اچنبھے سے سوال پوچھا 

علی نے مسکراتے ہوئے ہوا سے جھولتے ہوئے بالوں کو کان کے پیچھے کیا 

یہ تو میں نہیں جانتا! ہاں المیہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں کوئی اولاد نہیں دی شاید انہیں اسی بات کا احساس ہوا... 

المیہ تو یہ بھی ہے کہ حالات جو بھی ہوں ماں باپ کی عزت ہمیشہ ہی کرنی چاہیے..ورنہ مکافات عمل کے لیے تیار ہو جائے... جو آج خود عزت نہیں کرتے کل پھر خود بھی گلہ نہیں کرنا چاہیے  وہ آگے جا کر گرل پر ہاتھ ٹیکاۓ کھڑی ہوگی 

علی نے اصطبل کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا دیا. اور مسکرا کر آگے بڑھا 

لیکن جاناں جتنی ظالم تم ہو مجھے نہیں لگتا کہ بچے ہوں گے!.... وہ کچھ ہی فاصلے پر گرل ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا. وہ فوراً چونکی... اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا بس نیچے دیکھتی رہی.. 

🌺........ 🌺

فاطمہ سے بات ہوئی؟ 

جی! شام کو ہوئی تھی... فرزانہ نے چادر کو طے لگاتے ہوئے کہا.. 

کیسی ہے وہ؟ خوش تو ہے نا؟ اسد نے فکر مندی سے پوچھا... 

کہہ تو رہی تھی کہ ٹھیک ہے اور خوش بھی.. مگر وہ اداس ہی لگی. 

اداس ہو گئی ہو گی ملنے بلا لینا تھا 

وہ سسرال گئی ہوئی ہے اپنے کہہ رہی تھی کہ واپس آکر ملنے آئے گی. 

چلو اچھا ہے! اللہ اس کا نصیب اچھا کرے. علی اچھا لڑکا ہے مجھے امید ہے کہ وہ اسے خوش رکھے گا.. ہمارا فیصلہ غلط ثابت نہیں ہوگا.. 

انشاءاللہ! آپ صحیح کہہ رہے ہیں.. وہ سسرال گی ہوئی ہے بس اسی بات کا ڈر ہے کہ پتہ نہیں ان لوگوں نے اسے قبول کیا ہو گا کہ نہیں. 

اللہ خیر کر گا! ذرا مجھے ایک کپ چائے بنا دو فرزانہ بیگم! 

جی اچھا! فرزانہ چادروں کو الماری میں رکھ کر کچن میں گھس گی. 

بڑا ہی افسوس ہوا! اتنی بےعزتی کے بعد کوئی بےغیرت ہی ہوگا جس نے شادی کروا دی.. کمرے میں آتے ہی رضوانہ نے اپنی کڑوی زبان سے شیرینی بکھیری 

فاطمہ بھی ایک دم سیدھی ہوئی. 

آپ عمر، رشتے اور رتبے سب میں مجھ سے بڑھی ہیں میں نہیں چاہتی کہ میں آپ سے بدتمیزی کروں. میرے والدین کے بارے میں آپ ایسا کہنے سے پہلے سو بار سوچیے گا. 

بھولو مت لڑکی تم ہمارے گھر کھڑی ہو! ہم تمہیں یہاں سے نکال بھی سکتے ہیں.. 

فاطمہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی آگے ہوئی 

اچھا! ایسی بات ہے تو نکال کر دکھائیں.. اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا 

تم تو بہت ہی بدتمیز ہو! چار جماعتیں کیا پڑھ لی اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو؟ رضوانہ بھڑک اٹھی 

تو کیوں آئیں ہیں میرے پاس؟ میں نے تو نہیں بلایا... 

اپنی زبان سنبھال لو ورنہ اچھا نہیں ہوگا... 

جی بہتر! اور آپ بھی.. میں وہ دن بھولی نہیں ہوں. وقت آنے پر بدلہ ضرور لوں گی.. فاطمہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا 

ہاں! ہاں دیکھے ہیں تم جیسے بہت... دو دن میں باہر نکال کر کھڑا کر دے گا علی! اسے زبان دراز لڑکیاں بالکل نہیں پسند.. 

وہ مسکرائی! اوہ! میں تو ڈر گی.. اب کیا ہو گا آنٹی علی تو مجھے چھوڑ دیں گے.. میں تو مر جاوں گی.. 

پلیز مجھے بچا لیں...

بدتمیز! رضوانہ کہتی ہوئی دروازے کی طرف چلنے لگی... سنئیے میم!

وہ پلٹی.. یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کو نکالے گا.. وہ مسکرانے لگی اور رضوانہ ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے باہر چلی گئی

پتہ نہیں لوگ یہ اصول کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر عزت دو گے تو ہی عزت لو گے.. وہ بڑبڑائی 

🌺........ 🌺

مانا کہ تیری شادی ہو گئی ہے مگر مجال ہے ہم غریبوں کے لیے بھی وقت ہو؟ آزر نے آتے ہی طنز مارا 

نہیں یار! میں کل سے چچی سے تمہارا پوچھ رہا ہوں. علی نے فوراً وضاحت دی 

کہاں تھے تم؟ علی نے استفسار کیا 

بس ایک ضروری کام تھا.. وہی کررہا تھا.. 

اچھا! 

اور سنا! کر لی شادی.. بڑا خوش ہے؟ 

ہمہم! کر لی.. اس نے سر ہلا دیا 

کیا ہوا ہے بھائی پرسوں شادی ہوئی ہے اور آج بیوہ جیسی شکل بنائی ہوئی ہے.. 

نہیں! آزر.. یار وہ ناراض ہے.. علی نے آزر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

اچھا! مگر کیوں؟ 

پتہ نہیں یار... وہ کہتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں.. صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کرتی.. زیادہ کچھ پوچھو تو چپ ہو جاتی ہے.. تم جانتے ہو نا کتنی محبت کرتا ہوں اس سے؟ 

ہاں! یار ہم سب جانتے ہیں کہ تم بھابھی کو بہت پسند کرتے ہو.. انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے.. 

ہمہم!..... 

چل تو ٹینس نہ ہو... آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا... تو بھی زیادہ اس کے سامنے بیبا بچہ نہ بنی.. مرد بن کر اپنی ساری باتیں منوا لے.. آہستہ آہستہ جب تیری عادت ہو جائے گی تو محبت بھی ہو جائے گی. 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا 

تو بھی تو پاگلوں کی طرح منہ اٹھا کر ان کے گھر گھس گیا تھا.. رشتہ مانگنے.. ارے بھائی اگر کہیں دیکھ کر پسند آ گی تھی تو صبر رکھ لیتا.. بندہ پہلے دوستی کرتا ہے پھر پروپوزل بھیجتا.. 

بس کر آزر! "گڑے مردے نہ اکھیڑ"پسند آگی تھی تو ہی عزت سے رشتہ بھیجا تھا نا اعتراض والی بات تو نہیں بنتی؟ بات یہ نہیں ہے.. بات کوئی اور ہے جو ہمیں نہیں پتہ.. 

کہیں بھابھی کسی کو پسند تو نہیں کرتیں؟ 

ہوش میں ہے تو کیا کہی جا رہا ہے؟ علی کے دل کو ہلکی سی چبھن ہوئی 

نہیں یار ویسے ہی کہہ رہا ہوں ماشاءاللہ سے بھابھی خوبصورت ہیں پڑھی لکھی ہیں... ایسا ہو بھی سکتا ہے.. نہیں ایسی بات نہیں ہے! علی نے اپنے آپ کو تسلی دی 

ہاں شاید ہمارا ہی وہم ہو.. 

تو پریشان نہ ہو.. سب ٹھیک ہو جے گا.. اور سنا کل کا کیا سین ہے؟ آزر نے انگڑائی لیتے ہوئے ٹیک لگائی وہ دونوں باہر لاؤنج میں بیٹھے تھے.. آج بھی کل کی طرح ہوا کا راج تھا 

کل واپسی ہے یار... 

کل.... ؟اتنی جلدی ابھی دو دن ہوئے ہیں.. کل ہی تو آیا ہے.. 

ہاں بس کل جانا! کچھ کام ہیں وہ کرنے ہیں. چھٹیاں بھی ختم نہ ہوجایں.. چل اوکے! اب ملنے آجایا کریں بھول نہ جائیں ہمیں.. آزر نے علی کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا. ضرور! علی مسکرایا 

چل سونے چلتے ہیں رات بہت ہو گئی ہے علی کھڑا ہوا 

ہاں چل!.. دونوں اندر کی جانب گامزن ہوئے.. 

کل میچ کون جیتا؟ 

ہار گیا پاکستان... آزر نے بتایا دونوں حال سے گزرتے ہوئے باتیں کر رہے تھے.. آواز ہر طرف گونج رہی تھی. یہ اس بات کی نشاندہی تھی کہ سب سو گئے ہیں 

🌺.........🌺

آج فاطمہ اپنی امی سے ملنے گی تھی وہ سارا دن وہی رہی... بہنوں اور بھائیوں سے مل کر بہت خوش ہوئی.. موڈ بھی فرش ہوگیا اور مرجھایا ہوا چہرہ بھی کھل اٹھا... اس کا واپسی کا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا مگر اسد اور فرزانہ نے بہلا کر زبردستی بھیج دیا.. علی سونے کے لیے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ وہ گھٹنوں میں سر دئیے صوفے پر بیٹھی روء رہی تھی.

علی پریشان ہو کر اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا.. 

جاناں! کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟ علی نے بے چینی سے پوچھا. اس نے آنسوں صاف کیے 

کچھ نہیں! اس نے چہرہ صاف کیا 

کسی نے کچھ کہا ہے؟ بتاو مجھے؟ 

اس نے علی کی طرف دیکھا.. بہت فکر ہے میری؟ 

علی نے اس کے دونوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما 

بہت زیادہ...! اتنی کے تم سوچ بھی نہیں سکتی.. محبت تو اتنی کے میں پوری دنیا کے سامنے دعوٰی کر سکتا ہوں کہ کوئی بھی تم سے مجھ سے زیادہ محبت نہیں کر سکتا.. ایک موقع تو دے کر دیکھو؟ صرف ایک.... اس نے ہاتھ چھڑوا کر دوبارا آنسو صاف کیے 

بہت مشکل ہے.. بہت! کوئی بھی اس تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتا جو میں نے اور میرے ماں باپ نے برداشت کی ہے... 

کون سی تکلیف؟ 

چھوڑیں.. آپ کو اس سے کیا؟ 

تم سے ایک بات پوچھوں؟

اس نے سر ہلایا.. آنسو ٹپ ٹپ برس رہے تھے وہ بار بار صاف کر رہی تھی 

تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟علی نے دل پر پتھر رکھ کر سوال کیا 

فاطمہ کے چودہ طبق روشن ہو گئے.. وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر علی کو دیکھ رہی تھی 

نہیں! میرا مطلب ہے کہ.... 

کیا مطلب ہے؟ ہاں؟.. فاطمہ نے علی کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے کہا 

ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی اور پسند ہو؟ اس نے بمشکل کہا 

آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے؟ آپ کو شرم آنی چاہیے علی کوئی اپنی بیوی کے بارے میں ایسا کہتا ہے؟ 

نہیں جاناں! میرا ہرگز وہ مطلب نہیں تھا.. میری بات سنو... وہ بوکھلا گیا 

مجھے آپ سے اس گھٹیا سوچ کی ذرا بھی امید نہیں تھی علی.. اس نے علی کے کندھوں کو ہلکا سا جھٹکا.. وہ دوبارا زار زار رونے لگی.. پلیز چلے جائیں آپ یہاں سے.. مزید نفرت ہو رہی ہے آپ سے 

اچھا! I am so sorry! پلیز مجھے معاف کرو میرا مقصد ہرگز تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا.. وہ بس رو رہی تھی.. وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگا معافی مانگ رہا تھا 

"تمہارا بیڑا تر جائے آزر "پتہ نہیں وہ کون سا منہوس وقت تھا جب میں تمہاری باتوں میں آگیا علی دل ہی دل میں آزر کو کوث رہا تھا 

آپ جاتے ہیں یا میں جاوں؟ 

اچھا ٹھیک ہے پلیز تم رو نہیں میں چلا جاتا ہوں.. علی اٹھ کر باہر نکل آیا.. وہ ٹیرس پر ٹہلنے لگا 

یہ سب بیوقوف آزر کی وجہ سے ہوا ہے.. خوامخواہ میں نے فاطمہ کو ناراض کردیا.. اتنی دیر بعد تو اسکے قریب جانے کا موقع ملا تھا وہ بھی ضائع کر دیا. دیکھا میں نے کہا تھا نا جاناں ایسا نہیں کرسکتی جب میں نے نہیں کیا تو میری بیوی کیوں کرے گی.. جب میں پاک ہوں تو مجھے بنا سوچے سمجھے بغیر ہی بڑے فخر سے کہنا چاہئے کہ میری بیوی بھی پاک ہے 

"نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں" 

یہ تو قرآن کہتا ہے.. اب کیسے مناو میں اسے وہ تو پہلے ہی مجھ سے بہت بدگمان ہے... اسے دشمنِ جان کا کیسے کروں گا سامنا... میں تو اپنی ہی نظروں میں گر گیا... وہ نجانے رات کے کس پہر کمرے میں داخل ہوا.. وہ سو چکی تھی.. علی اس کے قریب ہی بیٹھ گیا.. آنکھوں کے کنارے نم تھے...علی نے ہاتھ کی پوروں سے چھوا وہ بہت نرم تھے... 

I am really sorry janna.. Really sorry! 

I love you 💞

اس نے چادر ٹھیک طرح سے اوڑھی اور بیڈ کی جانب چلا گیا اور اوندھے منہ لیٹ گیا کب نیند کی آغوش میں چلا گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا.. 

🌺..........🌺

صبح اٹھتے ہی طبیعت پر  بہت بوجھ تھا... سر میں شدید درد تھا... اٹھتے ہی اس نے موبائل ہاتھ میں لیا دن کے 11 بج چکے تھے.. 

11 بج گئے؟ میں اتنی دیر کیسے سوتی رہی؟ اس نے بال سمیٹتے ہوئے سوال کیا.. 

اف! یہ سر درد. وہ دونوں ہاتھوں میں سر لیے بیٹھ گی 

میرا دماغ پھٹ جائے گا.. اس نے ادھر ادھر نظر گھمائی کمرے میں کوئی نہیں تھا.. اٹھنے کی بالکل بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی.. وہ صوفے کی ٹیک کے ساتھ ہی سر ٹیکاۓ بیٹھ گئی..آنکھیں موند لیں. بخار بھی لگ رہا تھا 

طبیعت  ٹھیک ہے جاناں؟ علی نے اپنی انگلیوں کو اس کے رخساروں سے مس کیا.. وہ فوراً کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی.. وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گیا 

اس سے فاطمہ کچھ بولتی علی نے بات شروع کی 

دیکھو پلیز! ایک دفعہ خاموشی سے میری بات سن لو فاطمہ پھر چاہے جو مرضی کرنا 

رات جو کچھ بھی ہوا میں اس کے لیے دل و جان سے معافی مانگتا ہوں.. میرا مقصد بالکل بھی تمہیں دکھ دینا نہیں تھا. میرے دل میں ایک وہم تھا جو میں صاف کرنا چاہتا تھا.. تمہیں برا لگا میں مانتا ہوں تم جو سزا دو گی مجھے قبول ہے.. علی کی آنکھوں میں شرمندگی تھی.. جو سامنے والا بآسانی محسوس کر سکتا تھا 

اس نے گہرا سانس لیا! ایک آنسو کا قطرہ تیزی سے بہتہ ہوا رخسار سے نیچے گرا.. اس نے جھٹ سے ہاتھ سے صاف کیا.. آپ یہ چاہتے ہیں نا میں خوش رہوں؟ 

ہاں بالکل! 

تو میرے پر ایک احسان کرے.. مجھے چھوڑ دیں... فاطمہ کی یہ کہنے کی دیر تھی کہ علی پر پہاڑ ٹوٹ گیا.. اس نے جھٹ سے فاطمہ کو بازو سے دبوچا اور اپنے سامنے کیا.. وہ غصے سے لال ہو گیا.. اس نے دوسرا ہاتھ اس کے بالوں میں دیا 

آج تو تم نے یہ کہہ دیا اگر آئندہ ایسی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہے سمجھ آئی تمہیں؟ 

فاطمہ نے دوبارا سے رونا شروع کیا.. وہ اس عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی اور نہ ہی ایسا کبھی سوچا تھا... اگر تم نے ایسا سوچا بھی تو میں تمہیں بھی مار دوں گا اور اپنے آپ کو بھی.. میرے علاوہ تم کسی کی بھی نہیں! اس کے ایک ایک الفاظ میں چبھن تھی.. آہستہ آہستہ اس نے گرفت ڈھیلی کی اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا.. وہ مکمل طور پر ڈر چکی تھی 

علی واقعی بہت غصے میں تھا.. اس نے بھی بلا جھجک سر سینے ساتھ لگایا وہ جانتی تھی کہ اس وقت مزمت کرنا اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے.. وہ اس کی ڈھرکنوں کو با آسانی محسوس کر سکتی تھی دل بہت تیز ڈھڑک رہا تھا.. وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی پورا کمرہ خاموشی میں ڈوبا علی نے بھی اس چپ نہیں کروایا.. تھوڑی دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد علی نے خاموشی کا زور توڑا.. شاید غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہو گیا تھا 

میں نے پہلے اپنی سب سے عزیز ترین چیز ماں کو کھویا ہے اب تمہیں نہیں کھونا چاہتا! وہ اسے آغوش میں لیے چھوٹے بچے کی طرح سہلا رہا تھا 

تم بھی چھوڑ جاو گی تو کیا کروں گا میں؟ مارنا چاہتی ہو مجھے ہاں؟ 

تم مجھ سے سو بار جھگڑا کرو، سو بار شکوہ کرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا.. لیکن چھوڑ کر جانے والی بات نہیں. اوکے جاناں؟ آئندہ نہیں کرنی وہ بچوں کی طرح اسے سمجھا رہا تھا.. علی نے اسے پیچھے کو کیا اس کا چہرہ سرخ ہوا پڑا تھا

کیا ہوا ہے مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی! علی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو حیراں رہ گیا کہ اسے بہت بخار تھا..

آو جاناں ڈاکٹر پاس چلیں؟

مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ... اس نے فوراً رخ پھیرا

ضد نہیں کرتے نا آو چلیں! طبیعت زیادہ خراب ہو جائے گی... علی اب مکمل طور پر نارمل تھا.. اسی بات نے فاطمہ کا حوصلہ بڑھا دیا ورنہ تھوڑی دیر پہلے والے علی کو وہ کبھی انکار نہ کرتی

آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں! پلیز! اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا

علی چپ چاپ اٹھ کر باہر آگیا.. تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ داخل ہوا... ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور کچھ میڈیسن لکھ دی...

علی دوبارا کھانے کے ساتھ داخل ہوا...

چلو کھانا کھا لو پھر میڈیسن بھی لینی ہے...

میں نے آپ کو منع کیا تھا نا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا.. وہ غصے میں بولی

تو ہاں! میں کب ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا.. ڈاکٹر خود آئی تھی... علی نے بے تکا سا جواب دیا

یہ لو کھاو.. اس نے نوالہ اس کے منہ کے قریب کیا.

فاطمہ نے رخ بدل لیا...

فاطمہ جان! بہت ضدی ہو تم.. میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہو تم.. چلو شاباش جلدی سے کھا لو..

آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ مجھے نہیں کھانا اور آپ کے ہاتھ سے تو بالکل بھی نہیں.. اس نے اکھڑے انداز میں کہا.. جاناں پلیز!...

مجھے آپ کا کوئی احسان نہیں چاہیے.. آپ جائے.. بلکہ آپ کیوں جائے گے میں ہی چلی جاتی ہوں.. وہ ایک سیکنڈ سے پہلے کمرے سے نکل آئی

بہت ضد کرتی ہے یہ لڑکی! کیا بنے گا؟ کھانا تو کھانا ہی پڑے گاوہ ڈیش اٹھاتے ہوئے اس کے اس کے پیچھے چل دیا.

🌺.......🌺

آج طبیعت تقریباً ٹھیک تھی.

مجھے دو دنوں کے لیے کہیں کام جانا ہے

میں تمہیں اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا.. علی نے پیچھے سے آتے ہوئے کہا

فاطمہ جو کہ ابھی تک بڑے انہماک سے کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی...

آج تم چاہو تو یہ دو دن اپنی امی کے گھر چلی جاو.. موڈ بھی فریش ہو جائے گا اور دل بھی لگ جائے گا.

علی ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ فاطمہ کی آنکھوں میں چمک آگئی وہ فوراً پلٹی

ہاں میں چلی جاوں گی! میں امی گھر رہ لوں گی آپ آرام سے کام کر لیجیے گا. اس کی آنکھیں خوشی سے بھر گئیں اور چہرہ کھل اٹھاتم نے مجھےمعاف  تو کر دیا نا.. اس رات والی بات پر؟

ہاں ہاں کر دیا!.. ڈانٹ وری! میں تیاری کر لوں؟ اس نے چینجبگ روم کی طرف اشارہ کیا.

علی نے اثبات میں سر ہلا دیا

🌺.........🌺

امی کیا کر رہیں ہیں آپ؟ فاطمہ نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا.. شام کے کھانے کی تیاری کر رہی ہوں!

اچھا! اس نے گاجر کا پیس اٹھا کر منہ میں ڈالا

دیکھو فاطمہ تمہارے ابو تمہاری طرف سے بہت پریشان ہیں.. انہیں لگتا ہے کہ تم خوش نہیں ہو. 

نہیں امی میں خوش ہوں... اس نے مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا 

تو پھر لگتا کیوں نہیں ہے؟ ہمیں لگتا ہے کہ تم نے علی کو ابھی تک قبول نہیں کیا.. وہ اچھا لڑکا ہے تمہیں پسند کرتا ہے خیال کرتا ہے.. تمہارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کا خیال رکھو.. 

امی علی نے کچھ کہا ہے؟ 

اس بیچارے نے کیا کہنا... چہرے بتا دیتے ہیں جذبات جس خوشی سے وہ تمہارا رشتہ لینے آیا تھا.. وہ اب نہیں ہے جبکہ اب تو اسے زیادہ ہونی چاہیے.. 

امی دل نہیں مانتا انہیں قبول کرنے کو.. جب انہیں دیکھتی ہوں پچھلے سارے دن یاد آجاتے ہیں.. اس نے معصوم انداز میں کہا 

بیٹے اس سب میں علی کا کیا قصور تھا؟ اسے تو شاید علم بھی نا ہو؟ 

امی وہ اتنے بھی معصوم نہیں کہ انہیں کچھ پتہ نہ ہو 

برحال جو بھی ہے! اب تو جو ہونا تھا ہو گیا.. بھول جاو سب اب وہ تمہارا شوہر ہے.. میری جان! شوہر کے بہت حقوق ہوتے ہیں.. انہیں پورا نہ کرنے سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے.. تم تو اتنی پرہیزگار ہو اس معاملے میں غفلت کیسے کر سکتی ہو؟ 

جانتی ہوں! 

تو مانو بھی! چھوڑ دو غصہ.. یہ نہ ہو کہ تمہاری بے رخی علی کو تم سے دور لے جائے.. پھر پچھتاو گی! 

مرد کو ذہنی سکون چاہیے ہوتا ہے اسے جہاں ملے گا وہ وہی کا ہو کر رہ جائے گا.. قسمت والوں کو ملتے ہیں ایسے شوہر.. قدر کرو! 

ہمہم! 

اب صرف سر ہی نہ ہلاتی رہ جانا عمل بھی کرنا اور جاتے وقت اپنے باپ کو مطمئن کرکے جانا کہ خوش ہو وہ مزید دکھ برداشت نہیں کر سکتے... 

اچھا امی! کوشش کروں گی.. اسے نے تھکے انداز میں کہا.. چلو یہ سبزیاں دھو لاو.. وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی.... 

🌺.......🌺

کتنا سکون ملتا ہے نا اسے مجھے اذیت دے کر.. کل سے اتنی کالز کی ہیں مگر مجال ہے کہ اس دشمن جان کو ذرا بھی احساس ہو.. ایک کال بھی ریسیو نہیں کی.. انسان حال ہی بتا دیتا.. کوئی بات نہیں جاناں تمہاری بے رخی بھی برداشت کرے گے ہم.. ایک دن تو آئے گا جب تمہیں بھی ہم سے محبت ہو گی 

علی اپنے آپ سے باتیں کرنے میں مصروف تھا 

شاید امی ٹھیک کہہ رہی ہیں کیا پتہ علی کو نہ پتہ شاید نجانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہو.. مجھے معاف کر دینا چاہیے.. نہیں! اتنی جلدی نہیں انہوں نے مجھ پر شک کیا تھا نا کہ میرا کسی ساتھ افیرء ہے میں تو نہیں معاف کرتی بدلہ لوں گی. اتنا تنگ کروں گی کہ آئندہ ایسی بات سوچے گے بھی نہیں.. مجھے ڈانٹا بھی تھا نا؟ اس کا بدلہ بھی تو رہتا ہے.. سارے بدلے لوں گی پھر منت سماجت کریں پھر جا کر معاف کروں گی.. اگر محبت واقع کرتے ہوئے تو برداشت کرنا پڑے گا ورنہ چل جائے گا پتہ کہ محبت ہی تھی کہ باتیں.. وہ بھی اپنے آپ سے گفتگو کر رہی تھی 

🌺...........🌺

وہ صوفے کے قریب آئی تو علی وہاں پہلے سے ہی علی بازو کا تکیہ بنا کر لیٹا چھت کو گھور رہا تھا.. اس نے سوالیہ نظروں سے علی کو دیکھا.. وہ میں کہہ رہا تھا کہ میں صوفے پر جاتا ہوں تم بیڈ پر لیٹ جاوء!.. 

Ok as you wish! 

فوراً جواب آیا 

فاطمہ نیچے ٹیبل پر جھک کر موبائل اٹھا کر واپس پلٹنے لگی ہی تھی علی نے اس بازو سے کھینچ کر اپنے اوپر گرا لیا.. اور فوراً مضبوطی سے اس کی کمر پر ہاتھ باندھ لیے.. اب وہ دونوں بالکل آمنے سامنے تھے.. وہ اس کے اس قدر قریب تھی کہ سانسوں کو بآسانی محسوس کر سکتی تھی.. 

علی یہ کیا بدتمیزی ہے؟ فاطمہ نے غصے سے کہا چھوڑے مجھے! وہ ہل جل کر رہی تھی مگر علی کو ذرا بھی فرق نہیں پڑا وہ مسلسل اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا.. وہ مکمل طور پر اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی 

مجھے اگنور کر کے مجھ سے دور رہ کر بہت خوشی ہوتی ہے نا تمہیں؟ وہ اس کے ہر عمل کو نظرانداز کر کے اس سے شکوہ کر رہا تھا.. وہ کافی سنجیدہ لگ رہا تھا اور شاید ناراض بھی.. 

پچھلے دو دنوں میں تم نے میری ایک بھی کال پک نہیں کی.. ایک بھی میسج کا جھوٹے منہ جواب نہیں دیا.. خیریت تھی؟ 

مجھے یاد نہیں رہا! اس بار فاطمہ نے بھی جواب دیا 

پلیز اب چھوڑ دیں! اس نے التجا کیا 

کیا اب میں اس قدر غیر اہم ہوں کہ تم دو دنوں میں مجھے بھول جاوں؟ 

یہ بات بیٹھ. کر آرام سے بھی کی جا سکتی ہے اس طرح ضروری ہے کیا؟ 

کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری بے رخی.. تمہارا نظرانداز کرنا مجھے کتنا ہرٹ کرتا ہے؟ پہلی بار جب تمہیں بنک میں دیکھا تھا تو نجانے کیوں زندگی میں پہلی بار کسی کی طرف اتنی اٹریکشن ہوئی تھی.. پہلی نظر میں ہی تم سے محبت ہوگئی تھی... پاک محبت ہوئی تھی عزت سے تمہیں اپنا نام دینا چاہتا تھا.. اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا تا کہ تمہیں پیار کر سکوں تمہارا خیال رکھ سکوں.. مگر تم کچھ بھی کرنے نہیں دیتی جاناں! 

تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے علی جو آپ کے دل میں آیا آپ نے وہ کیا.. اب جو میرے دل میں آیا میں اب وہ کروں گی.. میرا مقصد کسی کو بھی ہرٹ کرنا نہیں آپ مجھ سے کوئی امید ہی نا رکھے جس کے نہ پورا ہونے سے آپ کو تکلیف ہو.. میں کسی کی پابند نہیں ہوں! 

جہاں تک حقوق کی بات ہے بیوی ہونے کے ناطے میں سارے حقوق اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورے کروں گی اس سے آگے مجھ سے کوئی بھی امید نہ رکھیے گا اور میں ایک ہی بات بار بار کرنے کی قائل نہیں ہوں.. اس نے دو ٹوک جواب دیا 

کتنا آسان ہے بہ تمہارے لیے یہ سب کہنا! 

ہاں ہو سکتا ہے! وہ اس کی ٹی شرٹ پر لگے بٹنوں کو اپنی انگلی سے گھما رہی تھی 

جب بنک میں ملی تھی تب تو بہت پیار سے بات کرتی تھی اب لہجے میں سختی کیوں؟ 

وہ جاب ہے میری! کلائنٹس کے ساتھ کرنا پڑتا ہے... اس نے چہرہ اوپر کو اٹھایا اس نے علی کی آنکھوں میں جھانکا.. اب چھوڑنے کا کیا ارادہ ہے؟ اس نے اپنے گرد اس کے بازو کے حصار کی طرف اشارہ کیا 

تم ان کمفرٹ ٹیبل ہو؟ 

جی بہت! 

عادت بنا لو! اب تو ساری زندگی کا سوال ہے 

آگے بھی دیکھی جائے گی مگر فی الحال آزادی چاہیئے.. وہ دوبارا بٹنوں کے ساتھ لگ گئی 

لیکن یہ تو ناممکن ہے! 

کیوں؟ علی یہ زیادتی ہے.. میں نے سکون سے آپکی بات سنی اب آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ میری بات مانے... اس نے چونکتے ہوئے کہا.. علی نے جواب نہیں دیا وہ بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے کر رہا تھا 

آپ میری بات سن سکتے ہیں؟ اس نے اپنی طرف متوجہ کیا 

ہاں! اس نے مختصراً کیا 

تو پھر چھوڑے مجھے بہت نیند آرہی ہے.. اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اوپر ہونے کی کوشش کی مگر گرفت مضبوط تھی.. تو سو جاو نا! علی نے اس کا سر اپنے سینے پر رکھ دیا اور بالوں کو سہلا نے لگا.. میں ایسے نہیں لیٹ سکتی مجھے جانے دیں.. اس نے دوبارا سر اٹھایا.. سو جاو جاناں تمہیں نیند آرہی ہے.. دوبارا سر رکھ دیا.. وہ جانتی تھی کہ اب یہاں سے جانا ناممکن

ہے علی ضد میں اس سے دو ہاتھ آگے ہیں اس دن بھی اس نے کھانا کھلا کر ہی سانس لیا تھا... تھوڑی دیر بعد وہ سو گی تھی... لیکن علی ابھی تک جاگ رہا تھا فاطمہ کا رویہ بار بار اسے تکلیف دے رہا تھا... مگر آج تھوڑی خوشی بھی تھی کہ اس نے علی کی تحمل سے بات بھی سنی تھی اور اس کے بہت قریب بھی ہے.. جو کہ علی کے لیے گولڈنٹائم تھا.. اس نے بڑی محبت سے اس کے سر پر بوسہ دیا وہ بچوں کی طرح گہری نیند میں تھی علی نے بھی آنکھیں موند لیں

🌺.........🌺

ناشتے میں کیا لیں گے؟

جو تم دے دو!

زہر دے دوں؟

تمہارے ہاتھ سے وہ بھی منظور ہے.. مار تو چکی ہو زہر سے کیا فرق پڑتا ہے..

How cheap?

وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گی... وہ مسکرایا.. ہر ادا ہی جان لیوا ہے.. چل بھئ علی اٹھ جا.. اس نے انگڑائی لیتے 

ہوئے کہا

جب وہ نیچے آیا تو ڈائنگ ٹیبل پر ناشتہ تیار تھا.. وہ آکر بیٹھ گیا.. وہ بھی قریب ہی بیٹھ گی.. دونوں نے ناشتہ شروع کیا

یہ تم نے بنایا ہے؟

ہمہم!

بہت اچھا ہے.. علی نے تعریف کی

اس نے جواب میں سر ہلا دیا.. اور کھاتی ہی رہی.. اس نے سر اٹھا کر ایک دفعہ علی کو نہیں دیکھا بس اپنے کام میں مصروف تھی اور علی جو ہر نوالے کے بعد اسے دیکھتا ہی رہتا.. تم واقعی اتنی خوبصورت ہو جاناں یا میری محبت کا اثر ہے.... اب وہ کھانا مکمل کر چکی تھی اپنی پلیٹ اٹھا کر کچن کی طرف بڑھ گی..

🌺..........🌺

السلام علیکم! 

وعلیکم السلام! دوسری طرف سے آواز ابھری 

کیسی ہو؟ ہانیہ.. فاطمہ نے کہنی کے نیچے تکیہ دیتے ہوئے کہا... میں ٹھیک تم سناؤ؟ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ وہ ہنسی.. ہانیہ فاطمہ کی اچھی دوست تھی.. دوستی تقریباً بچپن سے ہی تھی.. شادی کے بعد آج اس کا فون آیا تھا.. وہ کمرے میں موجود تھی بیڈ پر بیٹھی بات کر رہی تھی اور وہاں صوفے پر بیٹھا علی لپ ٹاپ میں مصروف تھا

وہ بھی مسکرائی میں بھی ٹھیک!

بھائی کیسے ہیں؟

ٹھیک ہیں!

ہمہم! تو اب بتاؤ ملنے کب آنا ہے؟

ملنے؟ دیکھو جب ٹائم ملے گا.. اس نے ٹانگیں سیدھی کرکے بیڈ کروان کے ساتھ ٹیک لگائی

بھلا یہ کیا بات ہوئی فاطمہ؟ میں نے اتنی ساری باتیں کرنی ہیں.. تم سے ملنا ہے..

ہاں! کرنی تو میں نے بھی ہیں مگر مشکل ہے اب تھوڑا.. You know! اب پہلے جیسا کچھ نہیں رہا... فاطمہ نے نظر اٹھا کر علی کی طرف دیکھا جو کہ مسلسل لپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں جماۓ بیٹھا تھا اور انگلیاں مسلسل کی- بورڈ پر دوڑ رہی تھیں

ایسا بھی کیا ہو گیا ہے فاطمہ؟ تم خوش تو ہو نا؟

فاطمہ مسکراتی ہوئی بیڈ سے نیچے اتری اور باہر ٹیرس پر آگئی

یار تم سب کو ایسا کیوں لگتا ہے؟

کیونکہ ہم سب تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں. 

مثلاً؟ 

مثال کے لئے بہت کچھ ہے 

یار ہانیہ پتہ نہیں کیوں یار میرا دل نہیں لگتا ادھر.. مجھے تم سب بہت یاد آتے ہو امی گھر ملنے جاوں تو واپس آنے کا دل نہیں چاہتا.. لیکن امی زبردستی بھیج دیتیں ہیں.. ان کا کہنا ہے کہ اب یہ ہی میرا گھر ہے.. 

کہہ تو آنٹی بالکل ٹھیک رہی ہیں.. تم علی بھائی کے ساتھ دل لگاو نا.. اتنے اچھے تو ہیں.. اتنے ہینڈسم ہیں 

مجھے تو شروع دن سے وہ بہت پسند تھے.. 

اللہ اللہ لڑکی آپ تھوڑا بریک لگائیں... تم اچھی طرح جانتی ہو مجھے وہ ہرگز نہیں پسند... میں رہ بڑی مشکل سے رہی ہوں انکے ساتھ.. دل لگانا تو دور کی بات ہے.. 

بدتمیز عورت! بہت ہی ناشکری ہو تم.. اور کیا چاہتی تھی تم.. بالکل پرفیکٹ تو ہے.. کسی لنگڑے لوڑے سے کروا دیتے شادی تمہاری پھر راضی تھی تم؟ ہانیہ غصے میں بولی 

خیر اب میں نے ایسا بھی نہیں کہا! وہ مسکرائی 

میری بات کان کھول کر سن لو! 

سناو جی! 

شرافت سے نا تم ٹھیک ہو جو.. محبت کرنے والوں کی قدر کی جاتی ہے.. خاص طور پر ان کی جو آپ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں... مجھے پتہ تھا تمہارا کہ تم نے ابھی تک قبول نہیں کیا ہو گا... اب آرام سے میری باتوں پر عمل پیرا ہونا.. ورنہ گھر آکر بتاؤں گی تمہیں! 

اچھا اچھا دادی اماں آپ بے فکر رہیں 

اگر میرے پاس اتنا خوبصورت شخص ہوتا تو میں صبح شام اس کی آرتی اتارتی 

اوہ! بڑا خوش نصیب ہوگا پھر تو وہ! 

ہاں یہ تو ہے! ویسے فاطمہ خوش نصیب ہو تو تم جیسا.. ماشاءاللہ سے رشک آجاتا ہے

وہ  جواباً مسکرائی 

اچھا اور سناو؟ 

ہم شدید سنگل لوگ کیا سناے تم بتاؤ کچھ؟ 

یار میرا ایک اور مسئلہ ہے 

اب وہ کیا ہے؟ 

تمہیں پتہ ہے نا مجھے بولنے کی کتنی عادت ہے؟ 

ہاں جی.. آپ کی اس خوبی سے تو ہم خوب آشنا ہیں ہانیہ قہقہہ لگا کر ہنسی 

اور یہاں کوئی مجھ سے بات کرنے والا نہیں.. اتنا بڑا گھر سارا ہی فارغ.. میں نے بڑا کنٹرول کیا ہوا.. میرا دل کرتا ہے تم سب کو یہاں لے آوں.. 

نہ بھئی ہم تو نہیں آتے! 

کیوں؟ 

میم آپکی اور آپ کے ہسبینڈ کی privacy خراب ہو جائے گی.. 

ہانیہ شرم کرو! بکواس نہ کیا کرو.. 

اچھا نا مذاق کر رہی تھی...

تم آجاؤ نا ملنے.... مجھے خوشی ہو گی 

اچھا چل بناتے ہیں کسی دن پروگرام.. 

ہمہم!.... وہ دونوں کافی دیر باتیں کرتی رہیں.. فون بند ہونے کے بعد وہ کمرے میں گی تو علی ابھی تک لپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا.. وہ موبائل چارجنگ پر لگا کر.. ڈریسنگ کی طرف بڑھی.. وہاں سے لوشن کی بوتل اٹھا کر بیڈ پر آگئی.. یونہی لوشن کو ہاتھوں کے گرد لگاتے لگاتے اس کی نظر بے ساختہ علی پر پڑی 

وہ بہت ہینڈسم ہے! یک دم ذہن میں ہانیہ کی آواز گونجی... ہمہم! یہ بات تو ہے ہانیہ ٹھیک کہہ رہی تھی 

خوبصورت تو وہ واقعی بہت تھا

کیا دیکھ رہی ہو جاناں؟ علی مسکراتا ہوا اس کے سامنے آ بیٹھا.. وہ فوراً ہوش میں آئی

کچھ نہیں! اس نے سر ہلا دیا.. وہ سر جھکا کر اپنے کام میں مصروف ہوگی.. ہانیہ کی باتیں ذہن میں چل رہی تھیں.. لبوں پر غائبانہ مسکراہٹ بھی تھی. علی جو کہ بڑے انہماک سے یہ سب دیکھ رہا تھا

آج بہت خوش لگ رہی ہو؟

جی! اس نے سر اٹھایا.. میری دوست ہانیہ کا فون تھا

بس اسی وجہ سے

کبھی ہم سے بات چیت کر لیا کرو.. ہم عاشقوں پر بھی کبھی عنایت کر دیا کرو

عنایت خاص لوگوں پر ہی کی جاتی ہے.. ان پر جو آپ کے لیے بہت خاص ہوں.. جن کے بغیر آپ کچھ بھی نہ ہوں.. آپ میرے لیے کوئی خاص نہیں اسی لیے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں گیا... اس نے بڑے فخر سے کہا... پر میرے لیے تو تم بہت خاص ہو!

یہ تو آپ کا انتخاب ہے مجھے اس سے کیا؟

میری غلطی تو بتاؤ کہ میں نے کیا کیا ہے..؟

رات کو کھانے میں کیا پکانا ہے؟ اس نے فوراً بات ہی پلٹ دی.. علی کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہا

بتائیں بھی؟

ڈنر باہر کر لیں گے!

لیکن میں نہیں جاوں گی نہیں.. میں پہلے ہی بتا رہی ہوں.. بعد میں کوئی گلہ نہ کیجیے گا

وجہ؟

بس ویسے ہی.. مجھے کہیں آپ کے ساتھ جانا پسند نہیں.. مجھے خاصی بوریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے

علی آگے کو ہوا جس سے وہ پیچھے کو ہوئی اور مکمل طور پر بیڈ کروان کے ساتھ جا لگی.. علی بالکل اس کے اوپر تھا.. جانا تو تمہیں پڑے گا.. بےشک پسند ہو یا نہ ہو... ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا

آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں! اس نے علی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بمشکل کہا

علی مزید آگے کو ہوا جس سے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور وہ اس کے لبوں پر جھک گیا. پھر ہمیشہ کی طرح ہر چیز بے بس ہو گی.. علی پیچھے کو ہوا اور کے ماتھے پر بوسہ دیا

مجھے نہ تنگ کیا کرو جاناں! بہت پریشان کرتی ہو مجھے.. آئی لو یو ❤️... وہ بیڈ سے اٹھ گیا.. تیار رہنا!

کہتا ہوا باہر چلا گیا.. یہ ہی بات مجھے زہر لگتی ہے انہیں کیا لگتا ہے کہ مجھ سے سارے کام زبردستی کروا لیں گے.. ایسا نہیں ہو گا.. لیکن ایسا ہو گیا ہے.. اس نے روہانسی سا منہ بنایا. اس نے بیڈ سے کشن اٹھا کر زمین پر مارا.. کیا مصیبت ہے یار اب ڈنر پر جانا پڑے گا.. ورنہ علی بخشیں گے نہیں.. بس پہلی اور آخری بار ہی جاوں گی.. کہہ دوں گی صاف صاف.. اٹھ کر کشن دوبارا بیڈ پر رکھا اور لوشن کی بوتل کو ڈریسنگ پر.. اور پھر دوبارا فون لے کر بیٹھ گی

🌺..........🌺

وہ تیار ہو کر نیچے آگئی تو علی پہلے سے ہی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا.. اسے آتے دیکھ کر اس نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا.. فاطمہ نے علی کو دیکھ کر رخ پھیر لیا اور نخرہ سا دیکھا کر گاڑی میں بیٹھ گئی.. علی نے ہنستے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا اور نفی میں سر ہلاتا ہوا خود بھی بیٹھ گیا...بہت خوبصورت لگ رہی ہو! اس نے فاطمہ کے کان میں سرگوشی کی.. فاطمہ نے گردن گھما کر اسے دیکھا جو اب اس کے بالکل قریب تھا اور ہاتھ آگے بڑھا کر سیٹ بلٹ کو کھینچ رہا تھا.. پھر سیٹ بلٹ باندھ کر سیدھا ہوا اور خود بھی باندھ کر گاڑی اسٹارٹ کر لی.... کچھ دیر یونہی گاڑی سڑک پر خاموش سی چلتی رہی.. خاموشی میں خلش علی نے پیدا کیا

اوہو! جاناں اتنا غصہ؟ اس نے فاطمہ کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا... وہ لاجواب رہی

علی نے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا.. چلو چھوڑو بھی دو ناراضگی! اس نے ہاتھ فوراً چھڑوا لیا

میری ناراضگی سے آپ پر اور آپکی کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس نے جیسا شکوہ کیا

تمہیں یہ کس نے کہا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا؟

کس چیز کا گلہ ہے آپ کو  ہر کام تو زبردستی آپ کروا لیتے ہیں.. بس آپ کو اپنی مرضی کی فکر دوسرا کیا چاہتا ہے یہ فرق نہیں پڑتا! اس نے پھر شکوہ کیا 

تو تم مان لیا کرو نا میری بات آرام سے مجھے زبردستی نا کرنی پڑے! 

جو بھی ہے! 

چلو ٹھیک ہے آئندہ نہیں کرتا جاناں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی اب ٹھیک ہے؟ 

ہمہم! 

اب موڈ تو ٹھیک کر لو. 

ٹھیک ہوں میں.. 

اتنی دیر میں ریسٹورنٹ آگیا.. دونوں نے وہاں کھانا کھایا.. اس نے وہاں بھی زیادہ بات نہیں کی اس کے بقول بات کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں.. گھر آکر دونوں نے چینج کیا... میں صوفے پر ہی لیٹوں گی.. کوئی مجھے بیڈ کے لیے فورس نہ کرے...! اس نے اعلان کیا 

علی مسکرایا.. جو حکم آپ کا! 

وہ لیٹ گی اور منہ تک چادر اوڑھ لی 

🌺..........🌺

آج علی کا آفس تھا.. وہ صبح صبح ہی اٹھ گیا تھا نماز کے بعد اسے سونے کی عادت نہیں ہے ہاں البتہ اس کی بیگم ضرور نماز کے بعد نیند کے نشے میں چور ہو جاتی تھی وہ اس کے اٹھنے سے پہلے ہی تیار کھڑا تھا 

آدھ کھلی آنکھوں کے ساتھ وہ اسے دیکھ رہی تھی.. 

آپ کہاں جا رہے ہیں؟ مکمل ہوش آنے پر اس نے پوچھا 

جاناں آفس ہے آج میرا! اس نے ایک پاوں پر 

جراب پہنتے ہوئے کہا

اچھا! وہ اب آنکھوں کو مسل رہی تھی.. وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں گھس گی.. پھر نیچے آکر کھانا تیار کیا....ناشتے کے بعد علی نکلنے لگا

دروازے تک چھوڑنے نہیں آو گی؟

وہ چپ چاپ اٹھ کر دروازے پر پہنچ گئی اور ایک ہاتھ سے دروازہ کھول دیا

جائیے جناب! دوسرے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا

علی ہنستا ہوا اس تک پہنچا اسے ہاتھ سے کھنچ کر ساتھ لگایا اور ماتھا چوما

خدا حافظ! اپنا خیال رکھنا.. یہ کہہ کر باہر نکل گیا

اور وہ غصے سے دروازہ بند کر کے اندر آگئی

ہر کام میری توقع سے ہٹ کر ہی ہو رہا ہے.. لیکن اب مجھے الرٹ رہنا ہو گا.. گولی مارو ان سب کو شکر ہے آج علی گھر نہیں ہے سکون سے رہ سکوں گی.. اتنا بڑا دن ہے سارا دن کیا کرو گی فاطمہ؟ چلو کوئی پلین بناتے ہیں.. کوئی مووی دیکھتے ہیں.. ملازمہ سے سارے کام کروا کر اب وہ بالکل فارغ تھی.. وہ اپنا لپ ٹاپ لے کر بیڈ پر آگئی.. کون سی مووی دیکھوں؟ کوئی ایڈونچر والی دیکھتی ہوں! اس نے Jungle curse کا انتخاب کیا اور آرام سے دیکھنے بیٹھ گی

🌺............🌺

وہاں گاؤں میں آزر اور صائمہ کی شادی کی بات چل رہی تھی.. علی کی شادی کوئی اتنی دھوم دھام سے نہیں کی گئی تھی.. لیکن اب یہ والی شادی پورے جوش خروش سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا.. سب بہت خوش تھے.. علی کے بعد ان کے گھر میں دوسری شادی تھی.. اسی لیے زبیر شاہ نے اور دوسرے گھر کے بڑوں نے شہر آکر ان دونوں کو خاص طور پر شادی پر آنے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا

🌺..........🌺

سارا دن وہ بور ہی ہوئی.. مووی دیکھنے کے بعد وہ پورے گھر میں پاگلوں کی طرح ٹہلتی رہی... اسے پتہ نہیں کیوں علی کی بہت یاد آئی.. اس کا کہنا تھا کہ اگر علی ہوتا تو تھوڑی بہت لڑائی کرکے ہی وقت گزر جاتا مگر آج وہ بھی نہیں تھا.. اللہ اللہ کر کے وقت گزرا اور شام ہوئی.. اس نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا اور میٹھا بھی...اور خود تیار ہو کر بیٹھ گئی.. باہر گاڑی کے ہارن سے پتہ چل گیا تھا کہ وہ آگیا ہے.. گاڈ نے دروازہ کھولا

وہ اندر موبائل لے کر صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی تاکہ علی کو پتہ نہ چلے کے وہ اس کا انتظار کر رہی تھی.. کوٹ بازو پر ڈالے.. ڈھیلی سی ٹائی گلے میں جھولتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا... وہ جان بوجھ کر موبائل میں ہی مصروف رہی.. وہ آکر سامنے صوفے پر بیٹھ گیا.. چند منٹ اسے ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہا

فاطمہ!.....

جی.. اس نے سر اٹھایا

جان میں آگیا ہوں

مجھے پتہ ہے! اس نے موبائل بند کرکے سائیڈ پر رکھا

ایک گلاس پانی مل سکتا ہے؟.. علی نے جیسے اسے اس کی ذمہ داری یاد کروائی

ضرور وہ اٹھ کر کچن میں سے ایک گلاس پانی کا لے آئی... وہ پاس ہی بیٹھ گئی.. اور گلاس پکڑ کر دوبارا ڈش میں رکھ دیا

تم نے مجھے مس کیا؟ علی نے ٹائی اور ڈھیلی کرتے ہوئے پوچھا

یہ خوش فہمی کب ہوئی؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا

(علی بہت کیا) یہ اس نے دل میں ہی کہا

میرے دل نے! وہ بھی جواباً مسکرایا

دل کی اتنی نا مانا کرے .. سنا ہے دل پاگل ہوتا ہے ! وہ یہ کہتے ہوئے کچن میں چلی گئی

ہاۓ! جاناں پاگل تو واقعی بہت ہے.. وہ سوچتا ہوا اوپر چلا گیا

🌺...........🌺

بھول گیا نا؟

نہیں یار ایسی بات نہیں ہے بس مصروفیات بہت تھیں.. علی نے وضاحت دی 

ماشاءاللہ بہت مصروف انسان ہیں آپ!

جی ہاں اور آپ ماشاءاللہ سے بہت فارغ! علی نے برابر طنز کیا... آزر قہقہہ لگا کر ہنسا

بھابھی ٹھیک ہیں؟ تم نے پتہ کیا؟ 

ہاں! کمینہ انسان پتہ نہیں کیوں میں تیری باتوں میں آگیا؟ تیری وجہ سے وہ اور مجھ سے ناراض ہوگئی.. میری توبہ ہے اگر آیندہ تیری باتوں میں آیا تو..

لو جی! اب میرا کون سا تجربہ تھا میں نے مشورہ ہی دیا تھا.. اب ہو رہی ہے شادی آہستہ آہستہ ہو جائے گا تجربہ..

کیا مطلب؟ تیری شادی کب؟

ہاں یار اسی لیے تو فون کیا ہے.. بتانے کے لیے کے دو ہفتوں کے بعد ہے..

وہ تو ٹھیک ہے مگر آنا مشکل لگ رہا ہے

کیوں؟

آج ہی چھٹیاں ختم ہوئیں ہیں.. دوبارا کرنا مجھے مناسب نہیں لگ رہا ہے

اوہ! بے فکر رہ... ویک اینڈ پر رکھی ہے.. خاص طور پر آپ کے لیے جناب.!

اچھا! پھر ٹھیک ہے.... یہ تو بہت اچھا ہو گیا.. تو تو بہت خوش ہوگا.. مجھے یقین ہے تیرے دانت ہی نہیں اندر جا رہے ہوں گے

اکلوتی شادی ہے میری. اب بھی خوش نہ ہوں؟

ہو ضرور ہو!

آزر اور علی کی بہت بنتی تھی.. باقی چچازاد بھائی بھی تھے.. مگر علی کو سخت ناپسند تھے.. وہ اپنی دولت کی بدولت عیاش ہو گئے تھے.. نشے اور جوے میں مگن مہینوں مہینوں گھر نہ آتے.. سب کافی پریشان تھے انکی وجہ سے.. مگر انہیں انہی کے حال پر چھوڑ دیا تھا... شاید اسی وجہ سے سب علی کی عزت کرتے اور اسے پسند کرتے.. تمام چچا بھی چاہتے تھے کہ ان کے بچے اس جیسا بنے مگر وہ کسی اور دنیا میں تھے

🌺............🌺

کچھ دن یونہی گزر گئے... علی کا تو روز آفس جانا تھا

وہ صبح جاتا شام کو ہی واپس آتا... فاطمہ بھی پیچھے سے جیسے تیسے وقت گزار ہی لیتی.. شام ہوتے ہی کچن میں گھس جاتی اور روز نئے سے نئے کھانے بناتی اور روز میٹھا بھی.. گھر میں ملازمہ تھی مگر علی کے کام وہ اپنے ہاتھوں سے ہی کرتی... اسے پسند تھا بےشک ان دونوں کے درمیان زیادہ بات چیت نہیں تھی کئی بار تو ایسا ہوتا کہ سارا دن بغیر بات کے ہی گزر جاتا.. لیکن پھر بھی وہ یہ سب کچھ شوق سے کرتی.. صبح سے اس کی جاب بھی سٹارٹ تھی.. اس نے شادی کے بعد بھی جاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر علی اس بات سے لاعلم تھا

ٹی وی لاؤنج میں علی بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا.. وہ اوپر سے نیچے آئی تھی

میرا صبح سے بنک سٹارٹ ہے! اس نے بیٹھتے ہوئے اعلان کیا

مطلب کے تم ابھی بھی جاب کروں گی؟

ہاں جی! اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے کہا.. کوئی اعتراض؟ اس نے سوال کیا

اگر میں کہوں کہ ہاں پھر؟

تو پھر رہے! میں آپ کو صرف بتانے آئی ہوں نا کہ پوچھنے... لہجہ مغرور تھا

وہ مسکرایا.. جیسا آپ کہے جناب! ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے! مجھے کوئی اعتراض نہیں

اچھی بات ہے! ہونا بھی نہیں چاہیے

وہ اٹھ کر جانے لگی تو علی نے اسکی کلائی پکڑ لی

اس نے سوالیہ نظر سے علی کو دیکھا

میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے! کافی دیر سے دینا چاہ رہا ہوں مگر موقع نہیں ملا.... وہ کلائی چھڑوا کر پاس ہی بیٹھ گی

مطلب؟ اس نے کچھ سمجھ نہ آنے والی انداز میں پوچھا... علی نے اپنے ٹراوزر کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی.. اس کو کھول کر فاطمہ کے آگے کیا.. اس میں انتہائی خوبصورت انگوٹھی تھی

فاطمہ نے ایک نظر انگوٹھی پر ڈالی اور دوسری علی پر.. یہ تمہارے لیے ہے فاطمہ!

اس نے نفی میں سر ہلایا.. میں یہ نہیں لے سکتی.

مگر کیوں جاناں؟

بس ویسے ہی

یہ میری طرف سے تحفہ ہے تمہارے لیے.. تم اسے انکار نہیں کرسکتی.. تمہیں اسے قبول کرنا ہی ہوگا

اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی علی نے ڈبی میں سے انگوٹھی نکال کر.. اس کے ہاتھ میں ڈال دی.. اور پھر اس کے ہاتھ کو چوم کر آرام سے چھوڑ دیا.. وہ جو اسے بڑی حیرانی سے دیکھ رہی تھی.. انگوٹھی اس کے ہاتھوں میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی.. بتانا مشکل تھا کہ ہاتھ زیادہ خوبصورت ہے یا انگوٹھی

کیا واقع یہ شخص اتنی محبت کرتا ہے؟

دکھاوا بھی تو ہو سکتا ہے؟ دل جیتنے کے لیے؟ پتہ نہیں کیوں مجھے اس شخص پر یقین نہیں آتا.. جو جو مصیبت ہم پر گزری سب اسی کی وجہ سے تھی میں اتنی جلدی کیسے معاف کردوں؟.. ہمیں دکھ دے کر یہ کیسے خوش رہ سکتا ہے؟

نہیں..! اس نے فوراً نفی میں سر ہلا دیا اور انگوٹھی اتار کر صوفے پر رکھ دی.. اور فوراً وہاں سے چلی گئی

علی کو اس کا سخت ناگوار لگا.. اوپر جانے تک اسے گھورتا رہا.. پھر اس نے انگوٹھی کو دیکھا..میں ایسا کیا کروں کہ جاناں خوش ہو جائے؟ وہ دلی پر بہت اداس ہو گیا.. اور انگوٹھی اٹھا کر دوبارا ڈبی میں رکھ دی....

🌺.........🌺

آج صبح وہ جلدی اٹھ گئی تھی کیونکہ اسے بھی بنک جانا تھا.. ناشتے کے بعد وہ نکلنے لگے تھے...

اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں ڈراپ کردوں ؟

نہیں ضرورت نہیں ہے! میرے پاس ایک عدد گاڑی موجود ہے. بس اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ علی بھی چپ چاپ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا.... 5 بجے وہ بنک سے واپس آئی آکر اس نے کھانا بنایا 

کیسا گزرا آج کا دن؟ علی نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا.. اچھا! اس نے بس مختصراً جواب دیا 

ناراض ہو؟ اس نے دوبارا سوال پوچھا 

نہیں! پھر اس نے مختصراً جواب دیا.. وہ ہمیشہ کی طرح کھانے میں ہی مصروف تھی 

کھانا اچھا بنا ہے! وہ اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا 

شکریہ!.. اب وہ بھی خاموش ہوگیا.. 

وہ ٹیرس پر کھڑی تھی جب پیچھے سے علی نے حصار میں لیا.. اور اپنے لب اس کے کان کے قریب کیے 

ایک بات جانتی ہو جاناں.. خدا محبت اور نعمت کی قدر نہ کرنے والوں سے سب کچھ چھین لیتا ہے.. ناشکری کرنے والے آخر میں خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں 

اس نے بس اتنا ہی کہا اور اسے حصار سے آزاد کرتے ہوئے واپس چلا گیا.... فاطمہ نے فوراً پیچھے مڑ کر اسے دیکھا. وہ وہاں سے جا چکا تھا.. وہ بس اسے احساس دلوانے آیا تھا.. اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے.. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ 

وہ بہت کنفیوز تھی.

🌺.......🌺

آج شام گاؤں سے بابا وغیرہ آرہے ہیں.. اس نے کف کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا

اوکے! اس نے سر ہلا دیا

شام کو گھر آ کر جلدی جلدی اس نے کھانا بنایا..علی بھی جلدی گھر آگیا تھا دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی...رات والی بات کے بات اس کی ہمت ہی نہیں علی سے بات کرنے کی کچھ ہی دیر میں مہمان آگئے.. زیبر شاہ، سکینہ، نعمان شاہ اور رضوانہ آئے تھے

وہ ان سب سے بہت گرم جوشی سے ملی کھانا کھانے کے بعد سب باتیں کرنے بیٹھ گئے... فاطمہ سکینہ کے ساتھ باتیں کرتی کرتی اپنے کمرے میں آگئی.. ان دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی تھی.. سکینہ بھی اسے بتانے لگ گئی کہ اللہ نے اسے اولاد نہیں دی اور وہ علی سے کہی بار معافی مانگ چکی ہیں

آنٹی آپ ٹینشن نہ لیں ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا.. جو کچھ بھی ہوا وہ ماضی تھا غلطی تھی اور ہر انسان کو حق ہے کہ اسے اپنی غلطی سدھارنے کا موقع ملے

ٹھیک کہہ رہی ہو تم بیٹا. لیکن وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا.. میں ماں لفظ سننے کے لیے ترس گئی ہوں.. اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے 

آپ روۓ نہیں آنٹی پلیز! سب ٹھیک ہو جائے گا میں بات کروں گی علی سے.. اس نے دلاسہ دیا

سچ کہہ رہی ہو؟ تم بات کرو گی؟

جی بالکل.!

شکریہ بیٹا..

شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض ہے

تم بہت اچھی ہو! علی کا انتخاب بہت اچھا ہے

وہ جواباً مسکرائی.. بس بیٹا میری ایک بات دھیان سے سنو! سکینہ نے سرگوشی کی

یہ جو پھپھو ہے نا علی کی اس سے ہوشیار رہنا.. بہت تیز عورت ہے. اسکی نظر تم پر ہی ہے

لیکن وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟

اس کی بیٹی ہے ایک نمرہ پسند کرتی ہے وہ علی کو یہ بات پورا خاندان جانتا ہے... رضوانہ چاہتی تھی کہ ان دونوں کی شادی ہو جاۓ.. لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا.. اب وہ لڑکی پاگل ہو چکی اس سے بچ کر رہنا...

اور علی؟ کیا وہ بھی پسند کرتے ہیں؟ اسے نجانے کیوں ایک شبہ سا ہوا

پاگل ہو.. ہرگز بھی نہیں.. وہ تو تمہیں کرتا ہے.. دیکھا نہیں کتنی چاہت سے وہ تم سے شادی کرکے تمہیں یہاں لایا ہے..

ہمہم!

دھیان رکھنا میرے بچے کا.... اس کا خیال رکھا کرو. بہت حساس ہے وہ..

جی! وہ مسکرائی

چلو اب نیچے چلتے ہیں اس سے پہلے کہ رضوانہ اوپر آجائے.. وہ کھڑی ہو گئی

چلیں! وہ دونوں چل پڑیں.... کچھ ہی دیر میں وہ واپس گاؤں کے لیے نکل پڑے.. ان کا کہنا تھا کہ وہاں بہت سارے کام ہیں جانا ضروری ہے.. دروازہ بند کر کے وہ دونوں لاؤنج میں آۓ تو علی نے ہاتھ بڑھا کر اُسے روک لیا.. مسسز زبیر سے دور رہا کرو جاناں وہ اچھی نہیں ہیں! اس نے بس اتنا ہی کہا اور اوپر چلا گیا 

ہاں بس یہی تک ہی تھی محبت علی صاحب تھک گئے؟ دعویٰ تو ہر کوئی کر لیتا ہے نبھانا مشکل کام ہے. 

تب تو کہہ رہے تھے کہ ہر بار بے رخی برداشت کر لیں گے اب بات بھی نہیں کرتے! وہ کھڑی دل میں سوچ رہی تھی اچھا ہی ہوا کہ میں نے زیادہ انٹرسٹ نہیں لیا 

اور اصلیت جلدی ہی سامنے آگئی... وہ کھڑی نجانے کیا حول فول سوچ رہی تھی 

🌺.........🌺

اسی ہفتے ویک اینڈ پر شادی تھی اسے تیاری بھی کرنی تھی.. آفس میں بھی کام زیادہ تھا وہ تھک جاتی تھی.. اور ایک پتہ نہیں کیوں علی کے بارے میں سوچ سوچ کر ذہنی دباؤ میں آگئی تھی...سر میں بھی شدید درد تھا لیٹ کر اس نے منہ تک چادر اوڑھ لی 

جاناں؟ علی اس کے سامنے ٹیبل پر آکر بیٹھا 

اس نے چادر منہ سے ہٹائی 

بس بہت ہوا جاناں.. آو بیڈ پر.. علی نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا.. وہ دردِ سر کے اٹھ کر بیٹھی 

کیا؟ اس نے حیرانگی میں پوچھا 

ہاں نا! کب تک صوفے پر لیٹوں گی؟ آو نا سارا بیڈ خالی پڑا ہے.. وہاں آرام سے لیٹ جاو.. کمفرٹ ٹیبل فیل کرو گی. ایکسیوز می! اس نے سینے پر ہاتھ باندھے 

آپ کو کس نے کہا کہ میں وہاں آپ کے کہنے پر آوں گی؟ آپ نے سوچا بھی کیسے؟ 

کسی نے نہیں کہا.. میں خود کہہ رہا ہوں.. آو! مجھے اچھا لگے گا.. پلیز جاناں انکار نہیں کرنا! 

سوری! میں نہیں آسکتی... ویسے بھی میرے احسانات آگے کم ہیں جو میں اور کردوں؟ 

کیسے احسان؟ وہ حیران ہوا 

یہ ہی کہ آپ کے کام کرنا.. خدمت کرنا اور بھی بہت سارے ہیں.. اس نے بے پرواہی سے کہا 

تم انہیں احسان سمجھتی ہو؟ تم پر بوجھ ہیں یہ سب؟ اس نے بمشکل پوچھا 

تو اور کیا؟ وہ بہت بےپرواہی سے کہہ رہی تھی شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ سامنے والے شخص کے دل پر کیا گزری ہے... مزید کرنے کی ضرورت نہیں ہے! وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا.. اس کے کہنے کا انداز بہت سنجیدہ تھا.. جسے اب وہ محسوس کر رہی تھی.. مگر اب کیا فائدہ اب تو یہ وہ چلا گیا تھا.. میں نے کچھ برا کہا کیا؟.. اس نے اپنے آپ سے سوال کیا.. سر میں درد بڑھ گئی وہ لیٹ گئی اور جلد ہی سو گی.. 

مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی جاناں! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم کبھی ایسا کرو گی؟ کیا میں نے تمہیں کبھی فورس کیا تھا کہ تم میرے کھانے بناو؟ میرے کام خود کرو؟ تم اپنی مرضی سے سب کچھ کرتی تھی.. نہیں! ٹھیک کہہ رہی تھی وہ احسان ہی تو ہیں اس کے مجھ پر... اگر تمہیں یہ سب کچھ کرنا نہیں پسند تھا تو ایک دفعہ کہہ دیتی میں خود تمہیں کسی چیز کو ہاتھ لگانے نہ دیتا.. مگر بہت افسوس ہوا.. بہت ہرٹ کیا تم نے.. میں ہی پاگل تھا جو سمجھتا رہا کہ تم اپنا فرض سمجھ کر کر رہی ہو.. اچھا ہوا آج کہہ دیا.. آئندہ مزید احسان کرنے نہیں دوں گا! 

🌺.........🌺

آجائے علی ناشتہ کر لیں! اس نے علی کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھ کر کہا.. وہ بنا کچھ کہے گھر سے باہر چلا گیا.. انہیں کیا ہوا؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا 

وہ تھوڑی دیر انتظار کرتی رہی وہ نہیں آیا.. باہر نکل کر اس نے گاڈ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو کب سے چلے گئے.. اندر آکر اس نے تھوڑا بہت ناشتہ کیا اور بنک کے لیے نکل گئی.. شام کو بھی بھی علی سیدھا کمرے میں ہی آگیا جب اس نے کھانے کا پوچھا تو کہا کہ وہ کھا کر آیا ہے.. وہ بہت حیران تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟.. اب وہ لیٹ گئی اور کل رات والا واقع یاد کرنے لگی کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ علی ناراض ہو گئے؟ 

تھوڑا زور دینے پر اسے سارا کچھ یاد آگیا.. اب اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کتنا برا کر چکی ہے.. سر میں درد کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں آہی تھی اسی لیے شاید بے دھیانی میں اس نے سب کچھ کہہ دیا. اب کیا ہو گا بیوقوف؟ 

کسی کو بھی ایسا نہیں کہنا چاہئیے؟ اور تم نے اپنے ہی شوہر کو کہہ دیا.. اب معافی مانگ لینی چاہیے. لیکن بہت مشکل ہے معافی مانگنا خاص طور پر علی سے جس کے سامنے تمہارا نخرے ہی سانس نہیں لیتے... چلو کوشش کروں گی... شاید مان جائیں 

🌺.........🌺

علی! اس نے پھر ناشتے کیلئے پکارا 

میں باہر سے کھا لوں گا.. آئندہ میرے لیے کھانا نہ بنانا اور نہ ہی کسی اور کام کو ہاتھ لگانا.. تمہارے پہلے ہی بہت احسان ہیں. میں مزید افورڈ نہیں کرسکتا... وہ گہرا طنز مار کر باہر چلا گیا.. اور وہ کھڑی اس کا منہ ہی دیکھتی رہ گئی... اسے یقین نہ آئے یہ وہی علی ہے جو اس کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے... واقع قدر نہ کرنے والوں کی قدر نہیں کی جاتی.. بے نیاز ایک آنسو آنکھ سے نکلا اور تیزی سے گال پر بہہ کر نیچے گر گیا 

یہ بات ایک دن ہی نہیں چلی اسے ہفتہ ہونے والا تھا آج جمعرات کی رات تھی.. صبح انہیں گاؤں کے لیے جانا تھا.. وہ اب ہی پیکنگ کر رہی تھی.. کیونکہ دونوں کو صبح ہاف لیو لے کر سیدھا گاؤں کے لیے نکلنا تھا 

وہ تقریباً اپنی پیکنگ مکمل کر چکی تھی.. اب وہ علی کے لیے کر رہی تھی.. ابھی اس نے ایک سوٹ ہی نکالا تھا کہ علی کمرے میں آگیا.. اپنے کپڑے اس کے ہاتھ میں دیکھ کر فوراً اس سے پکڑ لیے 

میں خودی کر لوں گا! 

وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھنے لگ گئی.. وہ الماری سے کپڑے نکال نکال کر بیگ میں رکھ رہا تھا.. وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی پھر ٹیرس پر آگئی.. اگر وہی کھڑی رہتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاتی 

علی کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے میں مانتی ہوں کہ انجانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہے. لیکن انہیں کوئی حق نہیں بنتا کہ مجھے وہ بات بات پر طنز کریں 

وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگی 

ٹھیک ہے اگر انکی یہ ہی مرض ہے تو میں بھی یہی کروں گی.. کرے خودی اپنے کام.. بہاڑ میں جائیں! 

🌺........ 🌺

پلین کے مطابق وہ دونوں گاؤں کے لیے نکل گئے تھے

اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتا دو؟ نجانے اسے کہاں سے خیال آیا

اس نے نفی میں سر ہلا دیا

خاموشی سے سفر گزر گیا... وہ شام کے وقت حویلی پہنچے... پوری حویلی لائٹوں سے سجائی گی تھی.. جس نے اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے تھے

حویلی میں بہت رونق تھی باقی دو پھپھو بھی آئیں ہوئیں تھیں.. فاطمہ ان سے پہلی بار ملی تھی.. وہ وہاں ہر کسی سے اچھے سے ملی تھی.. یہ اسکی تربیت تھی کہ علی سے لاکھ اختلافات ہونے کے باوجود بھی اس نے کبھی وہاں کسی کو نخرہ نہیں دکھایا تھا وہ جیسے تھے یہ بھی وہاں جا کر ویسی ہی ہو جاتی

تھوڑی دیر بعد اقراء اس کے کمرے میں مہندی والی کو لے آئی.. اس نے بھی خوشی خوشی لگوا لی.. رات ہو چکی تھی حویلی پر لگیں لائٹس روشن کر دیں گئیں.. سب نے مہندی کی تیاری شروع کر دی.. مہندی کا انتظام حویلی کے لاؤنج میں کیا گیا تھا جو خود حویلی جتنا تھا.

اس کے ہاتھوں پر لگی مہندی ابھی گیلی تھی وہ اسے ٹہل ٹہل کر سُکھا رہی تھی.. تھوڑی دیر بعد علی کمرے میں داخل ہوا.. وہ شاید تیار ہونے آیا تھا.. فاطمہ کے کہ لیے وہ نیاء علی تھی... وہ پہلی بار اسے سنجیدگی میں دیکھ رہی تھی.. ورنہ باقی گھر والوں کے لئے تو وہ شروع سے ہی ایسا تھا.. اس نے سوٹ کیس اٹھاکر ٹیبل پر رکھا.. اس میں سے اپنے کپڑے نکالے.. وہ سادہ سیاہ شلوار قمیص تھی.. وہ نہانے چلا گیا.. واپس آکر ڈریسنگ پر بال وغیرہ کنگی کیے اس کے قمیص کے کف کھلے تھے.. اسے یاد آیا کہ وہ تو سٹڈ لانا ہی بھول گیا.. وہ کف کی طرف دیکھ رہا تھا

آپ کے سٹڈ میرے بیگ میں ہیں! اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا.. اور خود بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی....    اس نے بیگ میں سٹڈ نکالے اور لگاکر باہر چلا گیا

ایٹیٹوڈ تو دیکھو اس بندے کا اس نے آنکھیں مچ کرکہا

ہمیں کیا؟ جو مرضی کریں؟ اس نے کندھےاچکائے اور واش روم میں داخل ہوگئی.... وہ آج بہت پیاری لگ رہی تھی لانگ اورنج فراک زیب تن کر رکھی تھی

پیروں میں پائل اور کھسہ تھا.. ہلکا سا میک اپ تھا.. لمبے کمر تک آتے بال.. کانوں میں جھمکے.. دیکھنے والوں کو وہ حیران کر سکتی تھی

وہ تیار ہوکر نیچے حال میں آئی تو کچھ ہی لوگ وہاں بیٹھے تھے زیادہ تر اپنے اپنے کمروں میں تھے.. وہ کوثر بی بی کے پاس بیٹھ گی.. اور علی کی پھپھو زاہدہ بھی وہی بیٹھیں تھیں...

ماشاءاللہ اچھی لگ رہی ہو! زاہدہ نے کہا

شکریہ! وہ مسکرائی.. آپ بھی.! وہ بھی آگے سے ہنس پڑیں.. کیسی ہیں آپ؟ فاطمہ نے پوچھا 

اللہ کا شکر ہے! ان کے پاس ایک چھوٹی سی تقریباً سات آٹھ سال کی بچی آئی اور گود میں بیٹھ گی وہ کچھ ہی دیر فاطمہ کو دیکھتی رہی.. وہ بھی محسوس کر رہی تھی.. اس نے پیار سے بچی کو اپنے پاس بلایا وہ بھی دوڑی آئی.. کیا نام ہے آپ کا؟ 

عشاء فاطمہ! 

ہمہم! میرا نام بھی فاطمہ ہے اس نے مسکراتے ہوئے کہا.. کون سی کلاس میں ہو؟ 

ٹو..وہ فوراً جواب دے رہی تھی... آپ کون ہیں؟ اب اس نے سوال کیا 

میں فاطمہ! 

نہیں آپ تو بھابھی ہیں! اس نے معصومیت سے کہا 

آپ کو کس نے بتایا؟ اس نے ہنستے ہوئے پوچھا 

امی نے! اس نے زاہدہ پھپھو کی طرف اشارہ کیا وہ بچی بہت ایکٹیو تھی وہ فاطمہ سے چٹ پٹ باتیں کر رہی تھی.. اس نے فاطمہ کو مزید حیران تب کیا جب وہ اس کے ہاتھ پر مہندی میں چھپے علی کے نام کو پڑھ رہی تھی جسے اقراء نے زبردستی مہندی میں لکھوا دیا تھا 

یہ علی بھائی کا نام ہے نا؟ اس نے تفتیش شروع کی

جی! 

آپ نے کیوں لکھوایا؟ 

ویسے ہی! وہ میرے شوہر ہیں نا! اسے سمجھ نہ آئے کہ اسے کیا جواب دیے.. فاطمہ نے اس کا دھیان یہاں سے ہٹوانے کیلئے اسے اقراء کو بلانے بھیج دیا... اور خود مہندی کو دیکھنے لگ گئی... اور افسردہ سا منہ بنا لیا جس کا نام اسے ہوش ہی نہیں ہے.. وہ ادھر دیکھنے لگی لیکن علی پتہ نہیں کہاں تھا... کچھ ہی دیر میں سب تیار ہو گئے تھے.. مہندی کا فنکشن شروع ہو چکا تھا.. اور بقول فاطمہ کے اس موڈی شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا... توبہ ہے فاطمہ تم کیوں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی ہو. تمہیں کب سے فکر ہو گئی.. بہاڑ میں جائیں میری بلا سے.. وہ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی  تھوڑے سے ہی فاصلے پر اقراء تھی.. وہ تھوڑا سا پیچھے ہوئی تو اسے سخت چیز محسوس ہوئی.. اس نے فوراً پیچھے دیکھا تو علی کھڑا تھا.. بازو پیچھے کی طرف باندھے ہوئے تھے. اسے دیکھ کر وہ فوراً  سیدھی ہو گئی.. علی کب آۓ؟ اپنے آپ ہی سے سوال کرنے لگ گئی . کوئی اپنی بیوی کے ساتھ ایسا کرتا ہے کیا؟ 

لاکر اکیلا چھوڑ دیا ہے! اوپر سے دیکھا بھی نہیں... 

سارا فنکشن ہی ایسے گزر گیا.. وہ رات کمرے میں بھی نہیں آیا 

🌺........ 🌺

آج بارات تھی.. بارات گھر سے ہی جانی اور گھر ہی واپس آنی تھی... صبح سب جلدی جلدی تیار ہو رہے تھے. سب کو وقت کی پابندی کا حکم دیا گیا تھا.. علی بھی کمرے میں بس تیار ہونے ہی آیا تھا.. آج انابی شلوار قمیض کے اوپر ویس کوٹ کا انتخاب کیا گیا تھا 

اور وہ تیار ہوکر واپس چلا گیا.... وہ بھی جلد ہی تیار ہو گی تھی پستہ شرٹ اور ٹی پنک کیپری کے اوپر پستہ ہی دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا.. وہ سب میرج حال کے لیے نکل رہے تھے.. وہ گاڑی میں آکر بیٹھی اور آرام سے دروازہ بند کیا.. علی پہلے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا.. اس نے پرس میں اپنا موبائل نکلا اور ہینڈ فری بھی.. کانوں میں ہینڈ فری لگا کر اس نے موبائل آن کیا 

واٹس اپ کھولتے ہی ہانیہ کے بے شمار میسجز تھی 

السلام علیکم محترمہ! 

کیسی ہو!.. کہاں گم ہو؟ اور ابھی بھی ٹائپنگ ہو رہی تھی.. میں ٹھیک ہوں.. بس یار بزی تھی.. اس نے بھی جواب دیا 

کہاں؟ 

بتایا تھا نا سسرال شادی ہے وہی آئے ہیں 

ہمہم! یاد آیا.. کافی انجوائے کر رہی ہو گی؟ 

بہت کچھ ایکسٹرا ہی! 

ناشکری عورت! اپنی اور بھائی کی پکس ضرور بھیجنا.. اچھا؟ 

اچھا!. تم کیا کر رہی ہو؟ 

فارغ ہی بیٹھی تھی سوچا تمہیں تنگ کر لوں! 

ہاہاہاہا!  میں تو تنگ ہوئی نہیں 

آپ کے کیا کہنے! اب تو آپ اسسٹنٹ کمشنر کی وائف ہیں ہم غریبوں سے کیا تنگ ہوں گی 

ایسی بات تو نہیں ہے ہانی! تم سب تو آج بھی اتنے ہی اہم ہو.. 

اچھا نا سیریس نہ ہو مذاق کر رہی تھی.. چل اوکے باۓ! تم انجوائے کرو! اور ہاں پکس؟ 

اوکے اللہ حافظ! بھیج دوں گی 

اس کے بعد اس نے موبائل واپس بیگ میں ڈال دیا.. اس بے ساختہ نظر اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی پر گئی.. جہاں علی کا نام لکھا تھا.. اس نے علی کی طرف دیکھا جو دنیا مافیا سے بے نیاز اپنی مستی میں گاڑی چلا رہا تھا . کچھ ہی دیر میں حال آگیا پیچھے اور بھی گاڑیاں تھیں وہ سب اکٹھے ہی پہنچے تھے.. بارات کا فنکشن جلد ہی ختم ہو گیا تھا.. وہ سب گھر آگئے اور چینج وغیرہ کیا... وہ کمرے میں اکیلی تھی.. اس نے سوچا کہ باقی لڑکیاں آپس میں بیٹھی ہیں وہ بھی چلی جائے ویسے بھی بور ہو رہی تھی... وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی جہاں ساری کزنز بیٹھی تھیں.. آپس میں گپ شپ کر رہیں تھیں.. بھابھی آپ آئیں نا! روحہ (زاہدہ پھپھو کی بیٹی ) نے دور سے دیکھتے ہی کہا

تم کیوں آئی ہو یہاں؟ نمرہ نے سوال کیا 

وہ سب حیران ہو گئیں... نمرہ کیا کہہ رہی ہو تم؟ اقراء نے تنقید کی.. وہ وہی دروازے پر ساکن ہو گئی 

تمہیں کس نے اجازت دی اس کمرے میں آنے کی ہاں؟ وہ غصے میں بول رہی تھی...اس گھر میں آکر سکون نہیں ملا جو ہمارے سروں پر بھی آگئی ہو؟.. تم جیسی چالاک لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی.. وہ مسلسل بول رہی تھی.. وہاں موجود ایک ایک شخص حیران تھا اور وہ تو جیسے جم گئی... آج تک کسی نے اس کی اتنی انسلٹ نہیں کی.. جو آج اس کی سب کے سامنے ہوئی.. وہ شرم سے ڈوب رہی تھی.. آنکھوں سے موتی بہنے لگے 

دفعہ ہو جاو یہاں سے.. یہاں کھڑی ہماری شکل کیا دیکھ رہی ہو؟ پتہ نہیں علی کو تم میں کیا نظر آیا جو لاکر ہمارے سروں پر بیٹھا دیا؟ 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ وہاں سے نکل آئی وہ اپنے کمرے میں آگئی.. وہ دونوں ہاتھوں میں منہ دیے رونے لگ گئی 

نمرہ تم ہوش میں ہو کہ تم نے کیا کیا ہے؟ روحہ نے فوراً کہا.. جو ہونا تھا ہو گیا اب تو ہونے والے تماشے کی فکر کرو جو علی کرے گے...! سعدیہ نے آنے والے حالات کی پیش گوئی کی 

مجھے تو ابھی سے ڈر لگ رہا ہے.. نمرہ اب تمہاری خیر نہیں.. تمہاری ہمت کیسے ہوئی بھابھی کو یہ سب کہنے کی؟ وہ کوئی تمہارے نشئی بھائی کی بیوی نہیں تھی جس کو جو کچھ کہو گی تمہارے بھائی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا.. وہ علی زبیر شاہ کی بیوی ہے وہ تمہاری زبان کھینچ لے گا! روحہ بولی 

بہت غلط کیا تم نے! اقراء نے کہا 

بس کردو تم سب.. میرا دماغ پہلے ہی بہت زیادہ خراب ہے مزید کرنے کی ضرورت نہیں ہے.. دیکھ لوں گی علی کو بھی... کم از کم اسی بہانے آۓ گا تو صحیح میرے پاس..! نمرہ نے کہا 

دعا کرو اسے یہ بات نہ پتہ چلے!... ورنہ ہم سب کی بھی خیر نہیں.. سعدیہ نے کہا 

اقراء اٹھی.. میں بھابھی پاس جا رہی ہوں... وہ اس کے کمرے میں آگئی.. میں بھی روحہ بھی آگئی.. وہ دونوں اس کے ارد گرد بیٹھ گئیں اور اسے چپ کروانے لگیں.. بھابھی پلیز مت روئیں!.. وہ غصے میں بول رہی تھی... مگر وہ مسلسل رو رہی تھی 

بھابھی آپ اسکی باتوں کا برا نہ مانیں وہ شروع سے ایسی ہے.. آپ پلیز چپ کر جائیں 

فاطمہ نے اپنا چہرہ صاف کیا 

آپ ٹھیک ہے نا؟ 

ہمہم! اس نے سر ہلا دیا 

آنکھیں سرخ ہو گئیں تھیں آنسوؤں بار بار نکلتے وہ بار بار صاف کر لیتی.. اتنی میں علی کمرے میں داخل ہو گیا.. ان دونوں کے تو علی کو دیکھ کر حواس ہی اڑ گئے 

 اس نے سرسری نظر فاطمہ پر ڈالی مگر اس کی سرخ آنکھیں پھر بھی نظر آ گئیں 

کیا ہوا ہے فاطمہ ؟ وہ مکمل طور پر ان کی طرف ہوا 

کچھ نہیں ہوا! Don't worry! اس نے جیسے یقین دلوایا 

رو کیوں رہی ہو؟ اب اقراء اور روحہ اٹھ کر باہر جانے لگیں.. رکو اقراء! علی نے آواز دی 

وہ اب ان دونوں کی طرف ہوا.. 

کیا ہوا ہے بتاو مجھے؟ 

علی کچھ بھی نہیں ہوا.. فاطمہ نے وضاحت دی 

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم دونوں سے کوئی جواب دے سکتا ہے کہ نہیں؟ اس نے سختی سے پوچھا 

وہ بھائی....! اقراء نے کڑوا گھونٹ بھرا 

کیا بھائی؟ وہ غصے سے بولا 

اقراء نے الف سے لے کر یہ تک ساری بات علی کے گوش گزار کر دی...علی نے ایک نظر فاطمہ پر ڈالی جوکہ سر جھکائے بیٹھی تھی.. آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے.. کہاں ہے وہ؟ 

اپنے کمرے میں. روحہ نے فوراً کہا 

وہ بنا کچھ کہے باہر نکل آیا 

تم دونوں کو نہیں بتانا چاہیئے تھا خوامخواہ تماشہ ہوگا!... فاطمہ نے کہا 

اچھی بات ہے بھابھی اسے اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیئے.. روحہ نے کہا 

🌺........🌺

علی نے دھڑام سے کمرے کا دروازہ کھولا اور زور سے اسے مارا.. وہ سامنے ہی کرسی پر بیٹھی تھی. علی کو دیکھ کر فوراً کھڑی ہو گئی. 

ذھے نصیب ہو! بڑی دیر بعد ہمارے غریب خانے کا رخ کیا ہے آپ نے؟ وہ ڈھٹائی سے مسکرا رہی تھی.. 

علی نے جاتے ہی اسے زور دار تھپڑ رسید کیا.. تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو کچھ کہنے کی؟ تم نے اس کے سامنے بکواس کی بھی کیسے؟ 

بہت فکر ہے تمہیں اس کی.. میری کوئی فکر نہیں؟ 

اپنی بکواس بند رکھو! میں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا! وارننگ دینے آیا ہوں.. اگر آئندہ تم میری بیوی کے آس پاس بھی نظر آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا! سمجھی؟ وہ تقریباً چیخا تھا.... اتنے میں رضوانہ پھپھو کمرے میں آگئی..... کیا ہوا ہے علی بیٹا بیٹھ کر آرام سے بات کر لیتے ہیں! 

مجھے آپ کے گھٹیے مشورے کی ضرورت نہیں ہے.. 

میں یہاں ایک ہی بات کہنے آیا ہوں.. آئندہ آپ دونوں میں سے کوئی بھی میری بیوی کے آس پاس نظر بھی آیا تو نقصان کی ذمہ دار آپ خود ہوں گیں... وہ دھمکی دیتا ہوا باہر نکل آیا اور سیدھا زبیر کے کمرے میں داخل ہو گیا 

بابا! اس نے آتے ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا 

کیا ہوا بیٹا غصے میں کیوں ہو؟ زبیر نے ایک دم حیران ہوتے ہوئے پوچھا 

میں اسی شرط پر یہاں آیا تھا کہ یہاں فاطمہ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا؟ اور آپ نے بھی وعدہ کیا تھا؟ 

ہاں! مجھے یاد ہے میں نے سب کو کہہ دیا تھا...کوئی بات ہوئی ہے کیا؟ 

کوئی بات؟ نمرہ نے سب کے سامنے میری بیوی کی انسلٹ کی ہے! آپ اپنا وعدہ نہیں نبھا سکے.. میں جا رہا ہوں یہاں سے اور آئندہ نہیں آوں گا.. وہ کھڑا ہو گیا

علی میری بات سنو! گھر میں شادی ہے تمہارا ہونا ضروری ہے ایسے کیسے جا سکتے ہو؟ ایک دفعہ شادی ختم ہو جائے پھر تفصیل سے بات کریں گے تم ابھی نہ جاو!

مجھے اس وقت بہت غصہ آرہا ہے میرا بس نہیں چل رہا ہے کہ میں اسے قتل کر دو... میں مزید اس کی شکل برداشت نہیں کر سکتا

میں کہہ دوں گا رضوانہ کو.. نمرہ نہیں آۓ گی تمہارے سامنے.. بس تم یہاں سے نہ جاو سب مہمان آئیں ہوئے ہیں کیا سوچیں گے؟ زبیر اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا

اس نے ہاتھ نیچے کیے.. بابا پلیز ایسا نہ کریں... نہیں جاتا میں لیکن وہ نمرہ مجھے میری بیوی کے آس پاس نظر نہ آئے میں آخری دفعہ کہہ رہا ہوں

ہاں ہاں! تم بے فکر رہو.. وہ معافی بھی مانگ لے گی

زبیر نے اسے یقین دلوایا.. وہ وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا... وہ گھٹنوں میں منہ دیئے رو رہی تھی... وہ قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا.. اس کی طرف سے میں معافی چاہتا ہوں جاناں!.. آئندہ کوئی بھی تمہیں کچھ نہیں کہے گا.. یہ میرا وعدہ ہے!.. پورا کمرہ خاموش تھا بس سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی..

یہ ہی تو چاہتے تھے آپ کے مجھے ذلیل کیا جائے اب جب کیا جا رہا ہے تو معافی کس بات کی... وہ سسکیوں کے ساتھ ہی کہہ رہی تھی. وہ وہاں سے بنا کچھ کہے بالکونی میں آگیا.. جاناں ہمیشہ مجھے ہی غلط کہتی ہے.. شاید وہ. میری محبت کا کبھی بھی یقین نہیں کرے گی! وہ وہی پر ٹہلتا رہا.. جب وہ واپس کمرے میں آیا تو وہ سو گئ تھی

آج ولیمہ تھا اور آج شام ہی انہیں واپس چلے جانا تھا.. سب تیاریاں کر رہے تھے... علی تیار ہو کر پہلے ہی نیچے آگیا تھا.. تقریباً سب گھر والے تیار ہوکر نکل ہی رہے تھے زیادہ تر حال جا چکے تھے... وہ نیچے گاڑی کے پاس ہی کھڑا تھا.. بیگم اسکی ابھی تک نیچے نہیں آئی تھی.. اس نے پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور اسے میسج ٹائپ کیا

I am waiting!

دو منٹ بعد ہی میسج سین ہو گیا لیکن جواب نہیں آیا.. علی جانا نہیں؟ آزر پاس ہی اپنی گاڑی سے نکلا

بس فاطمہ کا ویٹ کر رہا ہوں

اچھا! مجھے بھی صائمہ کو پارلر سے پک کرنا ہے.. پانچ منٹ تک.. چل اکٹھے ہی نکلتے ہیں

ہمہم! علی نے کہا... علی نے سر اٹھایا تو سامنے نظریں ہی ٹھہر گئیں.. دل تو جیسے اچھل کر باہر آنے کو تھا.. وہ سیاہ ساڑھی زیب تن کیے.. اونچی ہیل کے ساتھ آرام آرام سے دروازے کی سیڑھیوں کو عبور کر رہی تھی.. ہوا سے بال جھول رہے تھے.. اور آج تو علی نے بھی سیاہ تھری پیس پہن رکھا تھا.. اتفاقاً میچنگ ہو گئی تھی.. اف جاناں! لگتا ہے آج تو ناراضگی ختم کرنی پڑے گی! وہ بالکل اس کے قریب آچکی تھی.. گلے میں خوبصورت نیکلس تھا.. جیسے وہ اسی کی گردن کے لیے بنایا گیا تھا.. مگر آنکھوں کے کنارے ابھی بھی نم تھے.. جو چہرے کی معصومیت کو اور بھی زیادہ بڑھا رہے تھے... ایک پل کے لیے تو علی کو اس پر بہت ترس.. دل کرے کے ساری ناراضگی ختم کرکے اسے گلے سے لگا لے.. وہ پاس آ کر کھڑی ہو گی.. بالوں کو بار بار کان کے پیچھے کر رہی تھی

چلیں؟ علی نے اس سے پوچھا

جی! اس نے سر ہلا دیا علی نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا وہ آرام سے اندر بیٹھ گئی.. وہ بھی اس کے برابر آکر بیٹھ گیا.. کچھ ہی دیر میں وہ حال پہنچ گئے...اسے گاڑی سے اترتے وقت مشکل ہو رہی تھی علی نے ہاتھ آگے بڑھا دیا.. اس نے ایک نظر ہاتھ پر ڈالی دوسری علی پر.. لیکن اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا

نو تھینکس! یہ کہہ کر خودی کوشش کرکے نکل گئی

 علی نے گہرا سانس لیا اور اس کے پیچھے چل پڑا

اتنے حسن پر اتنا غرور تو جائز ہے! وہ سوچنے لگا

حال میں سب کی نظریں اسی پر تھی.. ایک ایک بندہ تعریف کر کے گیا تھا.. مگر وہ زیادہ خاموش ہی تھی  اور ایک جگہ ہی بیٹھی رہی..آزر کیمرہ مین کو علی کے پاس لے آیا.. یار چل تو اور بھابھی بھی فوٹو بنوا لو! 

نہیں آزر رہنے دو! 

چل بنوا لے نخرے کیوں کر رہا ہے؟ 

اچھا! پر اسے کون مناۓ گا؟ علی نے دور بیٹھے خاموش وجود کی طرف اشارہ کیا 

میں ہوں نا! آزر کہہ کر اس کے پاس گیا 

بھابھی! آئیے گا ذرا.. آزر نے ریکویسٹ کی 

پر کہاں؟ اس نے حیرانی سے پوچھا 

وہاں! اس نے علی کی طرف اشارہ کیا جو کیمرہ مین سے کچھ کہہ رہا تھا.. دیکھیے پلیز انکار مت کیجئے گا! اس نے اس کے جواب سے پہلے ہی جواب دیا 

وہ کھڑی ہو گئی.. اسے پک ویسے بھی بنوانی تھی ورنہ ہانیہ اس کا سر پھاڑ دیتی.. وہ آزر کے ساتھ چلتی ہوئی ان تک پہنچی.. علی حیران تھا کہ وہ واقعی اسے لے آیا.. وہ علی کے ساتھ کھڑی ہو گئی.. علی نے اسے کمر سے پکڑ کر مزید اپنے ساتھ کیا.. دوسرا ہاتھ اس کا اپنی جیب میں تھا 

کسی کی مجبوری کا اتنا بھی فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے مسٹر علی! اس نے دھیمی آواز میں کہا.. اس کا ہاتھ ابھی تک اس کی کمر میں تھا 

سمائل پلیز! کیمرہ مین نے کہا 

وہ دونوں کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے 

تصویر کے بعد علی نے اسے چھوڑ دیا.. بہت احسان ہے تمہارا مجھ پرشکریہ! وہ کہہ کر چلا گیا.. لیکن اسے نہیں پتہ کہ وہ اس کے دل پر ضرب لگا کر گیا ہے 

 شام کو ولیمہ ختم ہو گیا اور وہ دونوں واپس آگئے اس نے جلدی جلدی چینج کر لیا بہت ان کمفرٹیبل فیل ہو رہا تھا اور جلد ہی سو گئی

🌺...........🌺

آج آفس جانا تھا وہ جلد ہی اٹھ گئی تھی.. تیار ہوئی اور

نیچے گئی.. علی پہلے ہی نکل چکا تھا.. اسے ابھی بھی

علی کا کل والا طنز یاد آر ہا تھا.. وہ اکیلی ٹیبل پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی.. بے ساختہ نظر علی کی کرسی پر گئی جو خالی پڑی تھی.... میں نے علی کی وجہ سے ان کی پھپھو اور کزن سے اتنی بےعزتی برداشت کی... ان کے ساتھ رہنے پر کمپرومائز کیا.. کیا صلہ دیا انہوں نے مجھے میری ایک چھوٹی سی غلطی کو معاف نہیں کر سکتے... بار بار مجھے طنز کرتے ہیں.. کیا ایسے ہوتے ہیں شوہر؟ کیا ایسی ہوتی ہے محبت؟ کیا تم نے معافی مانگی؟ کیا تم نے اسے احساس دلوایا کہ تمہیں اپنے کیے پر شرمندگی ہے؟

ایک دم کہیں سے آواز آئی.. جب تم نے معافی مانگی ہی نہیں تو وہ کیسے معاف کر دے؟.. اب نوالہ حلق سے نیچے نہیں جا رہا تھا.. اب آنسو نکل پڑے

بہت مشکل ہے اس شخص سے معافی مانگنا... کیوں ہے مجھے اس کی اتنی فکر.. ناپسیندگی کے باوجود بھی؟ سوال ہی سوال تھے. مزید کھانا کھایا نہیں جا رہا تھا... ٹھیک ہے آج میں معافی مانگ لوں گی.. لیکن صرف ایک دفعہ ہی. اگر کر دیا تو ٹھیک ہے ورنہ ان کی مرضی... اس نے چہرہ صاف کیا اور آفس چلی گئی

🌺........🌺

اسے آج ضروری کوئی میل بھیجنی تھی.. وہ لپ ٹاپ لے کر صوفے پر آگئی.. علی پہلے سے ہی بیڈ پر موجود موبائل میں مصروف تھا.. اس نے ابھی تک کوئی معافی نہیں مانگی تھی... کیا مصیبت ہے یار؟ وہ انٹر کے بٹن پر کلک کر رہی تھی مگر مسلسل error آرہا تھا اب کیا ہو گا یار؟ آج میل بھی ضروری ہے.. وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں دیئے بیٹھی تھی.. وہ کچھ سوچنے لگی... اس نے علی کی طرف دیکھا.. ہو سکتا ہے مدد کر دیں؟.. کوشش کرکے دیکھتی ہوں.. رہنے دو فاطمہ!.. نہیں پاگل پھر کس سے کہو گی؟.. کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ لپ ٹاپ اٹھا کر بیڈ پر آئیں.. علی دائیں طرف تھا وہ بائیں طرف سے گئ... لپ ٹاپ اس نے علی کی سامنے رکھ دیا..

خود گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی.. علی؟

علی نے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا اور بھنویں اچکائیں.. یہ! اس نے لپ ٹاپ کی طرف اشارہ کیا وہ ٹیک چھوڑ کر آگے ہوا.. سامنے ہی سکرین پر ایرر کا سائن آرہا تھا.. وہ سمجھ گیا

وہ کی بورڈ پر انگلیاں دوڑانے لگ گیا.. وہ پاس ہی بیٹھی کبھی علی کو دیکھتی جو بڑی سنجیدگی سے کام کر رہا تھا اور کبھی لپ ٹاپ کو.. کمرے میں مدھم سی ہی روشنی تھی صرف لیمپ ہی چل رہے تھے..

اور لپ ٹاپ کی روشنی علی کے چہرے کو روشن کر رہی تھی.. ایک بٹن پر کلک کرنے کے بعد لوڈنگ شروع ہو گئی وہ انتظار کرنے لگا.. یونہی اس نے گردن گھما کر فاطمہ کی طرف دیکھا.. جو ہلکی ہلکی روشنی میں بھی چمک رہا تھا... وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی.. علی کی نظریں اس کے ہونٹوں پر گی.. اسے پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد حائل کر کے اپنی طرف کھینچا اور اس کے لبوں کو اپنے بس میں کر لیا.. پھر یک دم چھوڑ دیا جیسے ہوش آیا  دوبارا لپ ٹاپ پر جھک گیا.. تب تک اس کا کام بھی بھی ہو چکا تھا.. ہو گیا! اس نے دوبارا اس کی طرف دیکھتے ہوئے لپ ٹاپ بڑھا دیا.. اس کی آنکھوں میں نمی آگئی 

I am so sorry Ali! 

اس نے بمشکل کہا.. میں مانتی ہوں کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی. مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا.. پتہ نہیں میں نے کیسے کہہ دیا.. میرا یقین کریں میں ہوش میں نہیں تھی.. میرے سر میں بہت درد تھا.. وہ آنسوؤں کے ساتھ وضاحت دے رہی تھی.. پتہ نہیں کیوں لیکن دے رہی تھی 

میں ناراض نہیں ہوں بس مزید احسان نہیں لینا چاہتا

نہیں علی آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میاں بیوی میں کیسے احسان؟ یہ تو حق اور فرض کی کہانی ہے 

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.. 

تم پلیز رو مت! 

پلیز مجھے معاف کردیں! 

اچھا نا رونا تو بند کرو.. کر دیا معاف پلیز رو نہیں! علی نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا 

سچ میں؟ 

ہاں! 

میں آئندہ کبھی بھی نہیں کہوں گی.. میں وعدہ کرتی ہوں.. اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا 

اوکے! 

میں کھانا لاوں آپ کے لیے؟ 

نہیں میں نے کھا لیا تھا! 

میں نے کیک بیک کیا ہے آپ کے لیے! 

اچھا وہ تو کھانا ہی پڑا ہی پڑے گا 

میں ابھی لائی.. وہ دوڑتی ہوئی نیچے گئی 

وہ کیک لے کر آئی اس نے علی کے سامنے رکھ دیا.. 

ہمہم! بہت اچھا ہے تم بھی لو! 

نہیں میرا دل نہیں کر رہا.. آپ نے واقع ہی معاف کر دیا نا؟ اسے جیسے شبہ ہوا 

اگر معاف نہ کیا ہوتا تو کبھی کیک نہ کھاتا! 

 ٹھیک ہے اس نے آخری آنسو بھی صاف کیا 

میں بیڈ پر لیٹ جاوں گی ہم درمیان میں تکیہ رکھ لیں گے.. وہ اس طرح احتیاط سے بات کر رہی تھی کے جیسے اسے ڈر ہو کہ وہ دوبارا ناراض نہ ہو جائے..رویے سے بہت حیران تھا 

ایک بات پوچھوں؟ درمیان ٹھیک ہے! وہ اس  میں تکیہ بھی کیوں؟ علی نے پوچھا 

یہ تو میں نے اپنی غلطی کی معافی مانگی ہے اور ازالہ کیا ہے.. ناپسیندگی تو ابھی بھی ہے.. اس نے بڑی معصومیت سے کہا....وہ آگے سے مسکرایا 

اور یہ جناب کی ناپسیندگی  پسندیدگی میں کب بدلے گی؟ ایک اور سوال 

پتہ نہیں! اس نے شانے اچکا دیۓ. اور اپنا لپ ٹاپ لے کر سیدھی ہو گی... کام ختم ہونے پر اس نے لپ ٹاپ اٹھا کر رکھ.. پھر بقیہ کیک نیچے فریج میں رکھ کر آئی.. منہ دھونے کے لیے واش روم میں گھس گئی.. منہ دھونے کے بعد اس نے اپنے آپ کو شیشے میں دیکھا..آنکھیں دو تین دن مسلسل رونے سے سوجھی پڑی تھی.. اس نے اپنی ہاتھ کی پوروں سے اسے چھوا.. ایسی تو نہیں تھی میں! لیکن اب بن گئی ہوں! اپنے آپ سے ہی سوال اور جواب کر رہی تھی.. منہ خشک کیا اور باہر آگئی. علی لیٹ چکا تھا.. درمیان میں تکیہ رکھا اور خود بھی لیٹ گئی اور سر تک چادر اوڑھ لی 

وہ لیٹا چھت کو گھور رہا تھا اور ایک نظر ساتھ والی پر ڈالی...صوفے سے بیڈ پر لے آیا ہوں جاناں اب درمیان سے دوریاں بھی ختم ہو جائیں گی.. وہ مسلسل چھت پر نظریں جماۓ لیٹا تھا.. مجھے آج بھی یاد وہ تم سے پہلی ملاقات.. میری زندگی کی پہلی اور آخری محبت

وہ ماضی میں چلا گیا؛ 

دیکھیے میڈم میں بہت مجبور ہوں.. آپ میری مجبوری کو سمجھیے.. میری بیٹی اس وقت ہسپتال میں داخل ہے.. آپریشن بہت ضروری ہے.. 

جی سر! میں آپ کی بات کو سمجھ رہی ہوں یہ میرے اختیار میں نہیں ہے. بنک کی جو پالیسی ہے اس کو پورا کیے بغیر آپ لون نہیں لے سکتے.. آپ کوسیکورٹی کے لیے کچھ دینا پڑے گا.. ورنہ بنک لون ایشو نہیں کرے گا! وہ تیسری بار یہ کہہ چکی تھی.. مگر سامنے بیٹھا شخص التجا کر رہا تھا.. وہ کچھ دیر چہرے پر پریشانی سجاۓ اسے دیکھتی رہی.. اسے بے حد ترس آرہا تھا.. آپ ویٹ کریں میں آفیسر سے بات کرکے آتی ہوں! وہ اٹھ کر بنک آفیسر کے آفس کی طرف بڑھی 

دروازہ پر دستک دینے کے بعد اس نے اندر جھانکا. اندر شاید کوئی گیسٹ آئے ہوئے تھے 

آجائیے! 

فاطمہ اندر کی طرف بڑھی 

مس فاطمہ آپ؟ 

جی سر ایک ضروری بات کرنی ہے پانچ منٹ چاہیے 

ضرور پہلے ان سے ملیے یہ میرے دوست بھی ہیں اور حال ہی میں اپنے سٹی کے اے سی بنے ہیں.. آفیسر نے علی کا تعارف کروایا 

السلام علیکم سر! اس نے سرسری نظر ڈالی 

علی یہ مس فاطمہ ہیں ہمارے بنک میں نئی ہی مینجر کی پوسٹ پر آئیں ہیں.. بہت ہی قابل ہیں! 

وعلیکم السلام! علی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. وہ اسے پہلی نظر میں ہی پسند آئی تھی اس میں ذرا بھی شوخیاں نہیں تھیں جو عموماً اس کے سامنے لڑکیاں مارتی تھیں.. وہ بالکل سادہ تھی. چہرے پر پریشانی تھی 

سر صرف پانچ منٹ! پلیز! اس نے ریکویسٹ کی 

جی! وہ اٹھ کر وہاں سے سائیڈ پر پڑے صوفے پر بیٹھ گیا.. اور اس سے کچھ فاصلے پر فاطمہ... علی نے چیئر ترچھی کر لی جس وہ اس کا چہرہ صاف دیکھ رہا تھا 

آج سے پہلے اس نے کبھی کسی لڑکی کو ایسے نہیں دیکھا تھا.. وہ اسے اچھی لگ رہی تھی بس یونہی بے وجہ ہی.. اس کے بولنے کا انداز.. وہ کچھ سمجھا رہی تھی 

دیکھیے مس فاطمہ! ہم نے بنک فلاحی کاموں کے لیے تو نہیں نہ کھولا.. ہم کیسے ایک راہ چلتے کو اتنی رقم لون کے طور پر دے دیں؟ 

سر! انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے نا؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ واپس کر دیں گے!. انکی بیٹی بہت بیمار ہے 

آپ جانتی ہیں نا یہ بات بنک پالیسی کے خلاف ہے؟ 

جی جانتی ہوں! 

تو انہیں کہیے کہ سیکورٹی کے لیے کچھ دے دیں اور لون لے جائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں.. 

سر وہ بہت غریب ہیں.. مجبور ہیں. پیسوں کی ضرورت ہے.. اتنی جلدی کیسے ہو گا؟ 

مس میری بات مانیں آپ ان چکروں میں نہ پڑیں.. 

وہ کچھ دیر خاموش رہی.. سر اگر میں شیورٹی دے دوں؟ پھر تو لون ایشو ہو سکتا ہے نا؟ 

آپ؟ 

جی میں! میں مدد کر دیتی ہوں... آپ لون ایشو کر دیں پلیز.. میرے پاس کچھ گولڈ ہے.. وہ اٹھ کھڑی ہوئی 

ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی! بنک کو تو سیکورٹی چاہیے.. آپ انکی طرف سے دے دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں... 

تھینک یو سر! وہ باہر نکل گئی 

وہ واپس اپنی جگہ پر آگیا.. اچھا یار اور کسی چیز کی ضرورت؟ 

نہیں میں بس نکلتا ہوں! علی کھڑا ہو گیا.. وہ کمرے سے نکل آیا 

آپ بے فکر رہیں لون ایشو ہوگیا ہے بنک کی کچھ ریکوائرمنٹ ہیں.. کچھ ڈاکومنٹس ہیں وہ فل کر دیں اس نے اس آدمی کو دلاسہ دیا.... 

شکریہ میڈم! وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دعائیں دے رہا تھا.. اس نے اس آدمی کو ڈاکومنٹ کے ساتھ آفیسر کے پاس بھیج دیا.. اور خود گہرا سانس لے کر بیٹھ گئی 

وہ نجانے کیوں وہاں کھڑا تھا اسے دیکھ رہا تھا وہ جانے کی لیے نکلا تھا مگر فاطمہ کو دیکھ کر وہی رک گیا.. سر اٹھا کر اس نے چیزیں سمیٹیں.. چہرے پر ہاتھ پھیرا.. اپنا ڈوپٹہ صحیح کیا.. وہ بے اختیار قدموں کے ساتھ آگے بڑھا. وہ اس کے سامنے آگیا.. اس نے حیرانی سے علی کو دیکھا 

جی سر؟ آپ کو کچھ چاہیے؟ 

ہمہم! اس نے سر ہلا دیا 

جی شیور! پلیز ٹِیل می! 

مجھے اکاؤنٹ کھلوانا ہے.. آپ کے بنک میں! 

شیور! پلیز سیٹ ڈاؤن.. اس نے سیٹ کی طرف اشارہ کیا.. وہ بیٹھ گیا.. اور خود بھی بیٹھ گی.. بالکل ایک پروفیشنل کی طرح بات کر رہی تھی 

میں آپ کو اکاوئنٹ کے بارے میں کچھ انفارمیشن دے دیتی ہوں اور کچھ پالیسیاں بھی ہیں.. آپ کو انہیں فالو کرنا ہو گا.. کہنے کے بعد وہ فائلوں کو ادھر اُدھر کرنے لگی.. وہ اپنے ہی دھیان میں تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ سامنے بیٹھا شخص اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟.. وہ مسلسل اسے ہی دیکھی جا رہا تھا.. اس نے ایک فائل کھول کر اس کے سامنے پیش کی.. 

Plz read it! 

آپ سمجھا دیں پلیز! علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا 

اوکے! وہ اسے سمجھانے لگ گئی.. وہ کبھی فائل کو دیکھتی کبھی علی کی جانب دیکھتی.. وہ تو اپنا کام کر رہی تھی... وہ جب اسے دیکھتی تو وہ اثبات میں سر ہلا دیتا... 

اوکے! آپ اکاؤنٹ کھول دیں.. 

آپ کتنی آماونٹ سبمنٹ کروائیں گے؟ 

جتنی آپ کہیں؟ 

سر میں کچھ سمجھی نہیں؟ 

وہ مسکرایا.. آگے بڑھ کر اس نے کاغذ پر رقم لکھ دی اور اس کی طرف بڑھا دیا.. رقم پڑھ کر وہ حیران رہ گئی.. پانچ لاکھ. اس نے گہرا سانس لیا 

اوکے! ہو جائے گا ڈانٹ وری.. اس کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی..یہ آپکی سلپ اس نے علی کی طرف بڑھا دیا.. اس نے فوراً پکڑ لی 

تھینک یو سر! وہ ہلکا سا مسکرائی 

اس نے سر کو ہلکا سا خم دیا... وہ دوبارا اپنے کام میں مصروف ہو گئی.. اس نے محسوس کیا کہ وہ ابھی تک یہی بیٹھا تھا.. اس نے سر اٹھایا 

سر آپ کو کچھ چاہیے؟ اس نے سوال کیا 

جی میں دیکھ رہا تھا کہ آپ کے بنک میں اپنے کلائنٹس کو چاۓ یا کافی کا نہیں پوچھا جاتا؟ 

اوہ سوری سر! جیسے اسے احساس ہوا.. کیا لیں گے آپ؟.. جو آپ پلا دیں.. وہی پی لیں گے! 

اوکے! اس نے فون اٹھا کر چائے کا آڈر دے دیا 

کچھ ہی دیر میں چاۓ آگئی.... نظریں ابھی بھی اسی پر تھیں.. اس نے ایک دفعہ بھی اس کے ساتھ فری ہونے کی کوشش نہیں کی تھی.. یہ ہی ادا مزید دیوانہ بنا رہی تھی... ورنہ عموماً لڑکیاں اس سے بات کرنے کے مختلف بہانے ڈھونڈھتی.. چاۓ ختم ہونے کے بعد وہ کھڑا ہوا.. وہ بھی احتراماً کھڑی ہوئی 

اچھا لگا آپ سے مل کر! 

شکریہ! ایک بات پوچھوں اف یو ڈانٹ مائنڈ؟ 

ضرور! 

آپ اسسٹنٹ کمشنر ہیں.. اتنی اچھی پوسٹ پر ہیں.. لیکن بہت ہی فارغ ہیں کیسے؟ 

وہ مسکرایا! فارغ تو نہیں ہوں لیکن کبھی کبھی خاص بندوں کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے.. وہ کہہ کر باہر چلا گیا.. عجیب تھا! اس نے شانے اچکاتے ہوئے کہا 

علی نے کروٹ بدلی وہ اس کے برابر میں ہی سوئی ہوئی تھی.. درمیان میں پڑے تکیہ کو دیکھ کر مسکرایا 

کوئی حال نہیں جاناں!.. اس نے آنکھیں بند کر لیں 

🌺..........🌺

جاناں ایک بات پوچھوں؟ 

اس نے سر ہلا یا 

کیا واقع میرے کام کرنا تم پر بوجھ ہیں؟ 

وہ نوالہ لیتی لیتی رکی 

نہیں! بس میرے منہ سے نکل گیا تھا.. میں نہیں جانتی کہ سب کیسے ہوا؟ 

واقعی؟ 

ہمہم! 

میں تمہیں فورس نہیں کروں گا... تم اگر نہیں بھی کرو گی تو مجھے تب بھی کوئی شکایت نہیں ہو گی 

نہیں ایسی بات نہیں ہے.. اس نے وضاحت دی 

وہ کھڑا ہو گیا.. میں چلتا ہوں.. اللہ حافظ! 

وہ کہتا ہوا. باہر نکل آیا 

وہ شام کو مسکراتا ہوا گھر داخل ہوا.. وہ کچن میں تھی.. آپ آگئے ؟اس نے علی سے پوچھا 

ہاں! اس نے مختصراً جواب دیا.. پانی کا گلاس پکڑانے کے بعد وہ دوبارہ کچن میں آگئی.. وہ اس کے پیچھے داخل ہوا... جاناں! دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں؟ 

کیا؟ اس نے چیزیں سمیٹتے ہوۓ کہا 

اس نے گجرے آگے بڑھاے 

وہ کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھی 

اچھے ہیں رکھ دیں! یہ کہتے ہوئے وہ باؤل اٹھا کر ڈرائینگ ٹیبل پر رکھ آئی 

پہنوں گی نہیں! وہ جیسے ہرٹ ہوا 

رکھ دیں پہن لوں گی ابھی بزی ہوں! وہ واپس آئی اور پلیٹیں اٹھائیں 

میں پہناوں؟ 

رہنے دیں علی.. آپ جلدی سے چینج کر آئیں کھانا تیار ہے.. وہ بڑی بے نیازی سے کہہ رہی تھی اور پلیٹیں اٹھا کر ٹیبل پر رکھ آئی 

علی نے افسردگی سے نظر گجروں پر ڈالی جسے وہ پہلے سے ہی اس کے ہاتھوں میں تصور کرکے لایا تھا.. انہیں شلف پر رکھ کر وہ اوپر چلا گیا... جو مرضی کر لو جاناں مجھ سے خوش ہوتی ہی نہیں ہے! کتنی محبت سے لایا تھا میں.. وہ ٹوٹے دل کے ساتھ کھانے کی میز پر آگیا.. کھانا کھانے کے بعد وہ لاؤنج میں ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا... وہ کام ختم کر کے اوپر چلی گئی.. تھوڑی دیر بعد وہ بھی اوپر جانے کے لیے اٹھا.. لائٹس آف کرتے وقت اچانک اس کی نظر پاس پڑی ڈسٹ بن میں پڑی.. جہاں اس کی محبت کی توہین کرکے پھینکا گیا تھا. واقعی گجرے ڈسٹ بن میں تھے... دل مزید ریزہ ریزہ ہو گیا.. وہ اوپر آگیا.. وہ موبائل میں مصروف تھی.. اس نے بھی کوئی بات نہیں کی کوئی گلہ نہیں کیا چپ چاپ آکر لیٹ گیا.. جاناں لائٹ آف کر دو پلیز! اس نے تکیے سے سر اٹھاتے ہوئے کہا

اچھا! اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر لیمپ بند کر دیا اور خود دوبارا موبائل پر لگ گئی

🌺.........🌺

تمہارا گھر تو بہت پیارا ہے..

ہمہم! فاطمہ نے سر ہلایا

اچھا اب گونگوں کی طرح سر ہی ہلاتی رہو گی

تو اور کیا کروں میڈم؟ وہ ہنسی

ڈوب کر مر جاو بس تم!

آج ویک اینڈ پر ہانیہ اس سے ملنے آئی تھی.. علی گھر پر نہیں تھا وہ کہیں کام سے گیا تھا.. وہ جب سے آئی تھی فاطمہ پر تنقید ہی کر رہی تھی

کیوں مروں؟ اب کیا کر دیا میں نے؟

بہت ناشکری ہو!

اچھا نا چھوڑوں اسے آو تمہیں شادی کی اور پیچرز دیکھاتی ہوں.. جو آزر نے انہیں بھیجی تھیں

ہاں ضرور!

میں لپ ٹاپ لے کر آتی ہوں.. وہ اوپر چلی گئی.. ایک منٹ میں ہی وہ لے کر نیچے ٹی وی لاؤنج میں آگئی

اسے پیچرز دیکھنے لگ گئی

واوء یار تم دونوں ماشاءاللہ سے بہت پیارے لگ رہے تھے.. اس نے ولیمے کی تصویر پر کہاں.. اور ساڑھی بھی اچھی لگ رہی.. میچنگ کی تھی؟

نہیں اتفاقاً! وہ مسکرائی.

اوہ! یہ کون ہے...

فاطمہ اسے باقی ساروں کا تعارف میں مصروف ہو گئی... اتنے میں علی گھر میں داخل ہوا

السلام علیکم! اس نے آتے ہی کہا

وہ دونوں اس کی آواز پر الرٹ ہوئیں.. فاطمہ کھڑی ہوئی یہ میری دوست ہے ہانیہ! اس نے ہانیہ کی طرف اشارہ کیا

السلام علیکم! علی نے اسے دوبارہ سلام کیا

وعلیکم السلام! ہانیہ نے جواب دیا

آپ لوگ باتیں کریں میں چلتا ہوں.. وہ یہ کہہ کر اوپر چلا گیا.. فاطمہ اس کے پاس دوبارا بیٹھ گئی

یار ماشاءاللہ سے لائیو تو اور بھی ہینڈسم دیکھتے ہیں بھائی.. وہ آگے سے مسکرائی

بس مسکراتی رہنا قدر نہ کرنا!

کرتی تو ہوں اب کیا سر پر بیٹھا لوں.. اس نے منہ سا بنایا.. ہاں ایسا ہی کرو!

اف ہانی تم بھی نا.. چلو آگے دیکھتے ہیں.. وہ دوبارا دیکھنے لگ گئیں... تھوڑی دیر بعد چینج کرکے وہ نیچے آیا.. اس نے فاطمہ کو اپنے پاس بلایا

جاناں ایک کپ چائے مل سکتا ہے؟ اگر بزی نہیں ہو تو؟ اس نے مدھم آواز میں کہا

اچھا لاتی ہوں!

اوکے! یہ کہہ کر وہ واپس اوپر چلا گیا

وہ کچن میں چلی گئی.. ہانیہ بھی اس کے پاس آگئی

او جاناں؟ ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا.. آواز بہت مدھم تھی لیکن پھر بھی اس نے سن لیا تھا

شرم کرو! ہانی

لو جی میں نے کیا کیا ہے؟

تم کیوں ہنس رہی ہو؟

یار ویسے ہی! دیکھ لو کتنی محبت ہے تم سے جاناں!

محبت الفاظوں میں نہیں ہوتی.. اس نے سنجیدگی سے کہا

اچھا اتنی تم جون ایلیا.. بس کرو شہزادی صاحبہ نزاکتیں دکھانا..

تمہیں بھی میں ہی غلط لگتی ہوں سب کی طرح؟

کیونکہ تم غلط ہو.... ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں

وہ لاجواب ہی رہی..

اچھا چلو چھوڑو یہ باتیں تم تو سیریس ہی ہو جاتی ہو اور سناؤ؟.. کچھ دیر باتیں کرتی رہی.. چاۓ بن گئی تھی وہ اوپر اسے دینے گئ تھی.. وہ ٹیرس پر کھڑا تھا

اس نے آگے جا کر کپ بڑھا دیا اس نے بھی فوراً پکڑ لیا

تھنک یو!

کھانا کھائیں گے آپ؟

نہیں! وہاں میٹنگ تھی تو ریفریشمنٹ میں تھوڑا بہت کھا لیا تھا اب بھوک نہیں

اچھا! وہ واپس مڑنے لگی تو علی نے اس کی کلائی پکڑ لی... آئی لو یو....!

خیریت؟ اس نے چھڑاتے ہوئے پوچھا

بس ویسے ہی دل کیا! وہ  مسکرایا

وہ واپس چلی گئی.. وہ چاۓ پینے لگا... پیتے پیتے وہ پھر ایک بار ماضی میں چلا گیا

گھر آکر بھی اسے وہی چہرہ بار بار یاد آر ہا تھا.. اس کے بولنے کا انداز اس کا مسکرانا سب پرفیکٹ تھا... وہ بس اچھی لگی تھی اس میں کوئی بڑی وجہ نہیں تھی وہ بس اچھی لگی تھی.. اسے جمال(بنک آفیسر ) کا فون آیا.. یار اگر تمہیں اکاؤنٹ کھلوانا تھا تو مجھے بتاتا! تم نے خود کیوں اتنی زحمت کی؟ 

وہ آگے سے مسکرایا.. کھلوانے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن بس کھلوا لیا.. بعض اوقات کچھ کام ارادے کے بغیر ہی ہو جاتے ہیں. 

ہمہم! کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ 

نہیں بالکل بھی نہیں.. بہت اچھا مینجر ہے آپکا. انہوں نے کوئی پریشانی نہیں ہونے دی 

اچھا یہ تو گڈ ہو گیا! 

ہاں! یار ایک اور کام تھا تم سے 

حکم کرو کمشنر صاحب! 

وہ جو تم لوگوں کی مینجر ہے نا فاطمہ اس کے بارے میں تھوڑی انفارمیشن چاہیے 

اچھا.. لیکن خیریت؟ 

ہمہم! بس خیریت نہیں ہے.. وہ ہنسا 

کوئی کمپلین ہے اس کے بارے میں؟ 

ناں! ہرگز بھی نہیں... بالکل مجھے تو بہت پسند آئی ہے. 

اچھا! میں بھیجتا ہوں.. 

ہمہم! تھینک یو 

مینشن نوٹ! چند باتوں کے بعد اس نے فون بند کر دیا 

🌺........🌺

تمہاری دوست چلی گئی؟ 

ہمہم! اس نے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے کہا 

صحیح! 

ایک بات تو بتائیں علی؟ 

ہاں پوچھو.. 

اگر کوئی میری جگہ ہوتا تب بھی اس کے ساتھ ایسے ہی کرتے؟ 

تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا ہی نہیں.. 

نہیں نا جسٹ ایمیجن.. 

ناں! تصور میں بھی تم ہی ہو جاناں.. تم نہیں تو کوئی بھی نہیں 

یہ کیا بات ہوئی؟ سپوز ہی تو کرنا تھا 

کیوں تمہیں میری محبت پر شک ہے؟ 

شک؟ شک تو وہاں ہوتا ہے نا جہاں یقین ہو.. مجھے تو یقین بھی نہیں ہے 

پر کیوں؟ ایسا کیا کروں کہ یقین آجائے؟ . کیا تمہیں محبت پر یقین نہیں؟ 

آپ کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں.. مجھ سے دور رہیں.. میں اسی میں خوش ہوں.. اب بالوں میں کیچر لگاتے ہوئے کہا.. اب وہ بیڈ پر آگئی جہاں وہ پہلے سے ہی موجود تھا اس نے درمیان میں تکیہ رکھا

ایسا کب تک رہے گا؟ ایسی زندگی کا انتخاب تو نہیں کیا تھا میں نے.. میں خوشحال زندگی چاہتا تھا تمہارے ساتھ..

مگر افسوس آپ نے غلط انتخاب کر لیا.. پچھتاوا ہو رہا ہو گا؟ ہے نا؟ اس نے چادر کھولتے ہوئے کہا

نہیں بالکل بھی نہیں.. بلکہ اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں کہ ایک دن تمہیں احساس ہوگا.. انشاءاللہ! تم واپس میرے پاس ہی آو گی.. بے فکر رہنا جاناں میرے دل کے دروازے کھلیں رہیں گے

یہ تو وقت ہی بتائے گا.. کمشنر صاحب! وہ پھیکا سا مسکرائی.. اور لیٹ گئی.. وہ بھی لیٹ گیا اور لائٹس آف ہو گئیں... نجانے رات کا کون سا پہر تھا.. نیند کا نام ونشان نہیں تھا.. وہ کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی.. آخر تنگ آکر بیٹھ گئی.. اس نے برابر میں لیٹے علی کی طرف دیکھا.. وہ سو رہا تھا.. اس نے پانی پیا اور دوبارا لیٹ گئی.. تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا ہی نہیں!.. علی کے الفاظ کانوں کے ساتھ ٹکرانے لگے.. آنسوؤں کا ریلہ شروع ہو گیا.. پتہ نہیں کیوں رونا آگیا.. لیکن آرہا تھا

اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا. تاکہ آواز نہ نکلے.. کتنا پسند آیا تھا یہ شخص مجھے.. کیوں ہوئی نفرت مجھے اس سے.. وہ ماضی میں ڈوب گئ.

وہ بنک سے گھر واپس آئی تھی... ایمان! اس نے آتے ہی آواز دی.. بیگ سائیڈ پر رکھ کر وہ جوتے اتار رہی تھی.. ہاں جی آپی؟ وہ اس کے پاس آئی

کیا ہو گیا ہے اتنی خاموشی کیوں ہے؟ امی ابو کہاں ہیں؟ اس نے ڈوپٹہ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا

وہ ڈرائنگ روم میں ہیں.. کوئی ملنے آیا ہے

اچھا! لیکن کون؟ اس نے اچنبھے سے پوچھا

پتہ نہیں! کوئی آدمی ہی ہے..

اچھا ٹھیک ہے..

آپی آپ چاۓ بنا دے پلیز امی ابھی مجھے کہہ کر گئیں ہیں.. میرا ڈرامہ لگا ہوا ہے پلیز..

کچھ تو خیال کرو میں ابھی تھکی ہاری آئی ہوں. اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا

بنا دیں پھر کیا ہوا؟ میں جا رہی ہوں ٹی وی دیکھنے آپ بنا لیں.. وہ کہتی ہوئی چلی گئی

کیا مصیبت ہے یار؟ وہ ہاتھ دھو کر کچن میں گھس گئی... میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں.! 

اس نے شائستگی سے کہا 

وہ تو ٹھیک ہے بیٹا مگر آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں آیا؟ میں ایسے کیسے رشتہ دے دوں؟ اسد نے کہا 

آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں.. میں شہر میں اکیلا ہی رہتا ہوں.. اپنی جاب کی وجہ سے اور پڑھائی بھی یہی کی اسی وجہ سے.. بابا گاؤں رہتے ہیں.. میں آج اس لیے آیا کہ آپ اس بارے میں اچھی طرح سوچ لیں.. تسلی وغیرہ کروا لیں.. پھر جب آپ کہیے گے میں بابا کو لے آوں گا... آپ بے فکر رہیں! علی نے انہیں تسلی دی.. ہم اپنی بیٹی سے پوچھ کر آپ کو بتایئں گے! 

جی ضرور! جیسا آپ کو بہتر لگے.. میں چلتا ہوں. وہ کھڑا ہو گیا.. نہیں نہیں بیٹا ایسے کیسے میں چاۓ لاتی ہوں! فرزانہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی 

اسد نے بیٹھنے کا اشارہ کیا.. وہ بیٹھ گیا 

اور بتاو اپنے بارے میں.. بیٹا برا نہ ماننا آخر بیٹی کا معاملہ ہے.. 

جی انکل حق ہے آپکا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ اچھی طرح تفتیش کروا لیں.. دل کو تسلی دیں 

میں نے جیسا آپ کو بتایا کہ ابھی اسسٹنٹ کمشنر لگا ہوں.. میں اکلوتی اولاد ہی ہوں اپنے بابا کی.. وہ اپنے بارے میں معلومات دے رہا تھا 

وہ کپوں میں چاۓ ڈال رہی تھی.. ہاۓ ہاۓ! تم کیوں لگ گئی ابھی تو آفس سے آئی ہو؟ 

امی یہ بدتمیز ایمان کے کام ہیں.. خود ڈرامہ دیکھ رہی ہے... اس کو تو میں بعد میں پوچھتی ہوں! 

امی کون آیا ہے؟ اس نے ٹرے میں بسکٹ رکھتے ہوئے پوچھا.. بتاتی ہوں بعد میں! فی الحال ایسا کرو تم یہ چاۓ کی ٹرے لے آو میں یہ یہ والی لے جاتی ہوں.. 

میں؟.. ہاں لے آو کوئی بات نہیں.. جلدی کرو 

اچھا جی! وہ باہر آئی ڈوپٹہ سر پر لیا اور ٹرے اٹھا کر بے نیازی سے اندر چلی گئی... سامنے علی کو بیٹھے دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئی.. اس نے ڈش ٹیبل پر رکھ دی.. تم بھی بیٹھ جاو! اسد نے حکم دیا.. وہ بیٹھ گئی 

بیٹا یہ علی ہے.. تمہارا رشتہ لے کر آئیں ہیں.. اسد نے کہا... اس کے سارے طوطے ہی اڑ گئے.. اس نے چونک کر علی کی طرف دیکھا.. وہ آگے سے مسکرایا 

بیٹا تمہیں کوئی اعتراض؟ وہ اسد کی طرف متوجہ ہوئی... اسد نے سوال دوبارا دھرایا 

جیسے آپ لوگوں کی مرضی.. اس نے مشرقی لڑکیوں کی طرح سب کچھ ماں باپ پر چھوڑ دیا 

اسد مسکرایا.. مجھے پتہ تھا یہ یہی کہے گی 

بیٹا چاۓ تو دیں.. فرزانہ نے کہا 

جی! فاطمہ نے کپ آگے بڑھا دیا 

اس نے پکڑ لیا.. چاۓ کے درمیان تھوڑی گپ شپ ہوئی 

اس نے کوئی خاص حصہ نہیں اس میں.. وہ بس خاموش تھی.. وہ واپسی کے لیے کھڑا ہو گیا سب سے ملنے کے بعد.. اس نے محبت بھری نظر اس پر ڈالی وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی.. فاطمہ اسے گیٹ تک سی آف کرنے آئی.. یہ شاید اسد کا بہانہ تھا کہ وہ کوئی بات کر لیں ایک دفعہ..میرا ایڈریس کس نے دیا؟ اس نے بھنویں اچکائیں... وہ ہنسا.. بس مل گیا!

پھر بھی اور کسی کا نہیں ملا صرف میرا ہی ملا؟

اور کسی کا ڈھونڈا ہی نہیں.. آپ کا چاہیے تھا مل گیا

مجھ سے شادی کرو گی؟ علی نے پوچھا

سوچوں گی!  وہ مسکرائی.. وہ گیٹ میں کھڑی تھی اور وہ باہر

کیوں پسند نہیں آیا میں؟

دراصل مجھے لوگ کم ہی پسند آتے ہیں... اور فارغ تو بہت ہی مشکل سے پسند آتے ہیں.. اس نے سینے پر ہاتھ باندھے.. وہ مسکرایا

تمہیں میں ہمیشہ فارغ ہی کیوں لگتا ہوں؟

کیونکہ آپ فارغ ہیں!

جیسا آپ کا حکم! اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو خم دیا.. اللہ حافظ! فاطمہ نے کہا

اللہ حافظ!.. وہ دروازہ بند کرنے لگی ہی تھی

سنو!.. اس نے پکارا

جی! فرمائیے...؟ 

سوچنا ضرور میں انتظار کروں گا!

اس نے سر ہلا دیا اور دروازہ بند کر کے اندر آگئی 

اسد اور فرزانہ نے سوچا کہ ایک دفعہ علی اور اسکے خاندان کے بارے میں معلومات لے لی جائے تاکہ مزید تسلی ہو جاۓ انہیں علی بہت پسند آیا تھا.. اور فاطمہ کو بھی پہلی ملاقات میں اس نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی.. اس نے دوسرے لڑکوں کی طرح اسے امپریس کرنے کے لیے طرح طرح کے چونچلے نہیں کیے تھا.. نہ ہی پیچھا کیا اور نہ ہی اسے تنگ کیا.. بلکہ وہ عزت سے گھر رشتہ لے آیا تھا.. یہ بات اسے امپریس کرنے کے لیے بہت تھی 

نیند کا نام ونشان نہیں تھا.. مسلسل آنسو بہہ رہے تھے

🌺.........🌺

آج صبح اٹھی تو طبیعت بوجھل سی تھی آج سنڈے بھی تھا اور آف بھی.. وہ لیٹ اٹھی تھی 

علی میں آج امی کی طرف جانا چاہتی ہوں.. اس نے چاۓ کا کپ منہ کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا 

ہاں چلی جاو! مجھے کوئی اعتراض نہیں.. میں ڈراپ کر دوں گا اور پک بھی.. 

ہمہم! اس نے دوبارا کپ منہ کے ساتھ لگایا... ڈنر وہی کر لیجیے گا.. اس نے آفر کی 

اوکے!.. وہ تھوڑی دیر میں تیار ہو گئی علی نے اسے ڈراپ کر دیا.. اور خود اپنے آفس کی طرف نکل گیا ویسے. تو اسے آف تھا مگر کچھ ضروری کام نکل آیا تھا کچھ پیپرز سائن کرنے تھے... 

شام کو وہ اسے لے آیا تھا...ہر بار کی طرح اس بار بھی فرزانہ نے اسے بے شمار ہدایتوں کے ساتھ بھیجا تھا..وہ لیٹ گئی.. علی تکیہ ہٹا کر اس کے اوپر آگیا.. وہ یک دم حیران ہوئی.. وہ بالکل آمنے سامنے تھے  

علی پیچھے ہٹ جائے نا؟ اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا..... کیا ہوا ہے؟ اس نے گردن پر بوسہ دیتے ہوئے کہا 

کچھ بھی نہیں! 

کچھ تو ہوا ہے؟ رات سوئی نہیں نہ تھی؟ 

سوئی تھی! اس نے جھوٹ بولا 

تو آنکھوں سے کیوں نہیں لگ رہا ہے؟ وہ آنکھوں کے کناروں کو اپنی پوروں سے چھو رہا تھا 

نیند نہیں آئی! 

تمہیں اپنے شوہر کا ذرا سا بھی احساس ہے؟ 

اب کیا ہو گیا؟ 

جب اپنی امی گھر چلی جاتی ہو ہمیں تو بھول ہی جاتی ہو وہاں تو پہچانتی ہی نہیں ہو.. ایک بھی دفعہ کال نہیں کی؟ 

میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی علی! اس نے وضاحت دی... علی نے ماتھا چوما.. اسی لیے تو پوچھا تھا جاناں کیا ہوا ہے؟ بے اختیار ایک آنسو آنکھ کے کنارے سے نکل کر سائیڈ پر بہہ گیا 

ڈاکٹر کے پاس چلیں؟ 

میں نے میڈیسن لے لی تھی.. اب ٹھیک ہوں! 

کیوں دیتی ہو مجھے اور اپنے آپ کو اتنی اذیت؟ 

مجھے سونا ہے... اس نے خواہش ظاہر کی 

علی نے گہرا سانس لیا.. اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا.. سو جاو!.. وہ کس کے لیے آگے کو ہوا 

مگر اس نے علی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا.. اور نفی میں سر ہلا دیا..ٹھیک ہے جاناں! وہ مرجھایا ہوا منہ لے کر سائیڈ پر ہو گیا. اور وہ کروٹ لے کر سو گئی 

🌺........🌺

اگر طبیعت نہیں ٹھیک تو میں ڈراپ کر دیتا ہوں! 

نہیں! ٹھیک ہوں.. پہلے سے بہتر ہے آپ کو خوامخواہ ڈبل روٹ پڑے گا.. میں چلی جاؤں گی.. 

ڈرائیور کو بھیج دیتا ہوں... 

ڈانٹ وری میں ٹھیک ہوں! دیکھیں میں بالکل ٹھیک بیٹھی ہوں! اس نے اپنی طرف اشارہ کیا 

ٹھیک ہے مجھے بس تمہاری فکر ہے. 

میں پہنچ کر فون کر دوں گی اب نکلتی ہوں میں..! وہ  چلی گئی.. آفس پہنچ کر اس نے علی کو میسج کر دیا تھا.. اس کی پریشانی تھوڑی کم ہو گئی.. 

************

آج بنک آنا بھی ضروری تھا میٹنگ تھی.. میٹنگ لیٹ ہو گئی تھی 

ابھی بہت وقت پڑا تھا.. وہ اپنے کیبن میں آ گئی اور ایک کپ چائے منگوا لی تاکہ طبیعت بحال رہے 

جی خیریت؟ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا 

وہ برابر مسکرایا.. مجھے اپنا اکاؤنٹ اپ ڈیٹ کرنا ہے کچھ انفارمیشن دیں اس بارے میں... 

ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ نے کھلوایا ہے اور آج اپ ڈیٹ.. واؤ مسٹر! 

بس جی اور کوئی بہانہ نہیں تھا ملاقات کا! 

بتایۓ کیا خدمت کر سکتی ہوں میں آپ کی؟ 

وہ مسلسل اسے دیکھی جا رہا تھا... آپ دل میں اکاؤنٹ کے بارے میں بتا سکتیں ہیں؟ 

یہ بنک ہے یہاں صرف ہم اپنے کلائنٹس کو منی اکاؤنٹ کے بارے میں بتا سکتے ہیں یہ چیزیں ہمارے لیے الیگل ہیں.. آپ کہیں اور رابطہ کریں! 

اب کہی اور جانے کا دل ہی نہیں کرتا.. ایون کہ اپنے آفس بھی! علی نے گہرا سانس لے کر ٹیک لگاتے ہوئے کہا 

وہاں تو آپ پہلے بھی نہیں جاتے تھے.. اس نے مسکراتے ہوئے کہا 

ابھی تک کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟ علی نے پوچھا 

امی ابو کی مرضی مجھے اس سے کیا؟ اس نے فائل سامنے کرتے ہوئے پوچھا 

تو کرو نا تم ان سے بات! 

ہمہم! اس نے سر ہلایا.. مل جائے گا اتنی بے صبری کس بات کی ہے؟ 

بس اور ویٹ نہیں ہوتا.. اس نے ٹیک چھوڑتے ہوئے کہا 

اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا. وہ کھڑا ہوگیا 

میں انتظار کروں گا!.. وہ بھی کھڑی ہو گئی 

اس نے سر کو خم دیا بہت بہت شکریہ آپ کا آپ نے اپنے فارغ وقت میں سے ہمیں وقت دیا! اس نے پھر طنز کیا 

Your's welcome! 

وہ جھکا.. اجازت ہے؟ 

جی اجازت ہے! اس نے پلک جھپک کر کہا 

وہ مسکراتا ہوا نکل گیا.. وہ بھی مسکراتی ہوئی سر ہلا کر بیٹھ گئی اور دوبارا کام میں مصروف ہو گئی 

ہر چیز اب بھی ویسے ہی تھی وہی کیبن، وہی کرسیاں جہاں دو بار وہ آکر بیٹھا تھا.. کہنے کو تو اس کی صرف دو دفعہ ہی ملاقات ہوئی تھی اور ملاقات اتنی گہری نہیں تھی کہ وہ اسے اپنے حواس پر سوار کر لے اسے وہ بس پسند تھا.. یونہی بے سبب ہی.. آہستہ آہستہ اچھا لگ رہا تھا..

وہ لگاتار سامنے پڑی کرسی کو گھور رہی تھی جہاں وہ آکر بیٹھ جاتا تھا.. اس کی چاۓ بھی ختم ہو گئی تھی.. تھوڑی دیر میں ہی اسے میٹنگ کے لیے پیغام آگیا وہ اندر چلی گئی 

وہ بار بار اسے فون کر رہا تھا مگر نمبر بند جا رہا تھا.. رات کے آٹھ بج گئے تھے وہ ابھی تک گھر نہیں آئی تھی 

اس نے ایمان کو بہانے سے فون کیا مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی.. پریشانی سے برا حال تھا.. عجیب وسوسے دماغ میں گھوم رہے تھے.. وہ مسلسل ٹہل رہا تھا.. فاطمہ کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا.. دروازہ کھلا تو وہ اندر داخل ہوئی.. وہ بھی اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھی.. 

فون کہاں ہے تمہارا؟ اس کو دیکھتے ہی علی تقریباً چیخا... تمہیں اندازہ ہے کہ میں کس قدر پریشان تھا؟ اس کے الفاظوں میں سختی تھی.. وہ بہت غصے میں تھا.. آج سے پہلے اس نے کبھی فاطمہ سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی.. وہ حیران ہو گئی.. اس نے ٹوٹا ہوا فون آگے کر دیا 

اتنی دیر؟ کہاں تھی تم؟ کم از کم جہاں بھی تھی کسی سے فون لے کر بتا تو سکتی تھی کہ نہیں؟ وہ پھر چیخا.. دھڑا دھڑ آنسو شروع ہو گئے.. اسکی یہ حالت دیکھ کر علی اسے صوفے پر لایا اور پانی کا گلاس اسے دیا.. بمشکل دو گھونٹ پینے کے بعد اس نے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا.. وہ پھر سے رونے لگی.. وہ اس کے پاس ہی بیٹھا تھا 

کیا ہوا فاطمہ؟ اس نے پریشانی سے پوچھا 

علی! وہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور پھر رونے لگ گئی 

ہاں بتاو میں میں سن رہا ہوں! 

وہ چپ رہی.. اور سسکیوں کی آواز گونج اٹھی 

علی کو اس وقت اس پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے سامنے پڑا شیشے کا گلاس اٹھا کر زمین پر مارا 

وہ اور سہم گئ.. ایک منٹ کے لیے علی نے سر جھکا لیا شاید وہ اپنے آپ کو ٹھنڈا کر رہا تھا.. پھر وہ دوبارا اس کی طرف ہوا... اس اور اپنے پاس کیا.. اور آرام سے اس کے بالوں کو سہلانے لگا 

بتاو جاناں کیا ہوا؟ 

علی آج میٹنگ لیٹ ہو گئی... وہ سسکیوں کے ساتھ بتانے لگی.. اچھا پھر؟ وہ آرام سے چھوٹے بچے کی طرح اسے سہلا رہا تھا 

میں وہاں سے نکلنے لگی تو میرا فون گر کر ٹوٹ گیا.. اور پھر آگے بہت ٹریفک تھی.. مجھے جلدی گھر آنا تھا 

میں نے شورٹ کٹ لے لیا.. وہ رک رک کر بتا رہی تھی 

وہ کوئی چھوٹا سا علاقہ تھا.. میں آ رہی تھی تو اچانک ایک گھر سے بچہ نکلا اور گاڑی کے سامنے آگیا. میری سپیڈ تیز تھی.. تو اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا.. یہ کہنے کی دیر تھی کہ وہ پھر سے رونا شروع ہو گئی 

علی نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا.... مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا میں نے اسے پیچھے مڑ کر دیکھا بھی نہیں اور گھر آگئی.. اچھا! تم پلیز ایسے رو تو نہیں جاناں! یہ سب باۓ چانس ہوا ہے تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا.. یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے.. اب کیا ہوگا.. اس نے علی کے سینے سے منہ نکال کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا.. تم فضول میں ٹینشن لے رہی ہو!.. ہم صبح جائے گے وہاں ان سے معافی مانگ لیں گے اور جو کوئی نقصان ہوا ہو گا وہ بھر دیں گے... 

ٹھیک ہے؟ 

ہمہم!.. 

چلو شاباش رونا بند کرو.. مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے جاناں جب تم ایسے روتی ہو... وہ آنسو پونچھ رہا تھا 

اب وہ بالکل غصے سے باہر تھا.. اسے کبھی فاطمہ پر غصہ آتا ہی نہیں تھا.. جو مرضی ہو جائے 

تم فریش ہو جاو! میں کھانا لے کر آتا ہوں.. علی نے اسے آرام سے الگ کرتے ہوئے کہا 

اوکے! پلیز جلدی.. اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ کہا 

فکر نہ کرو جلدی آجاوں گا!... وہ چلا گیا 

تھوڑی دیر بعد واپس آگیا.. اس نے بمشکل ہی کھایا تھا 

وہ چینج کر کے کروٹ لے کر لیٹ گئ.. علی اس کے پیچھے ہی بیٹھا تھا.. وہ اس کے پیچھے آکر لیٹ گیا اور 

اپنے حصار میں لیا.. اس کے سر پر بوسہ دیا

علی اگر مجھے پولیس پکڑ کر لے گئی تو؟ اس نے معصومیت سے سوال کیا

کیوں جاناں؟ تمہیں کیا لگتا میں تمہیں جانے دوں گا؟ تمہارا شوہر پولیس میں ہو اور تمہیں پولیس لے جائے ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ 

لیکن! میں نے غلطی تو کی ہے نا؟ 

غلطی کی معافی بھی مل جاتی ہے.. تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا.. وہ اس وقت بہت معصوم بچے کی طرح لگ رہی تھی.. اسے بالکل بھی ہوش نہیں تھا کہ علی اس کے کس قدر قریب ہے اور وہ بھی پرسکون ہے.. اصل میں اسے ہوش ہی نہیں تھا.. اس واقعے کو اس نے سر پر سوار کر لیا تھا.. اس نے کروٹ بدلی اور رخ علی کی طرف کیا 

میرا فون بھی ٹوٹ گیا! اس نے جیسے بتایا ہو 

کوئی بات نہیں میری جان صبح نیا لے لیں گے.. اس نے آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے کہا.. رو رو کر آنکھیں سرخ تھیں.. وہ کل سے مینٹل سٹریس میں تھی.. دماغ پھٹنے کو آ رہا تھا 

طبیعت نہیں نہ صحیح؟ 

اس نے نفی میں سر ہلا دیا 

سر میں درد ہے؟ 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا 

وہ اٹھا اور دواء لے کر.. واپس اس تک آیا یہ کھا لو.. 

اس نے چپ چاپ کھا لی.. پھر واپس لیٹا کر علی نے لائٹ آف کر دی.. خود بھی لیٹ گیا.. اس کا سر اس کے بازو پر تھا مگر کروٹ لی ہوئی تھی... اگر یہ ہوش میں ہوتی تو کبھی بھی ایسے نہیں لیٹی.. علی نے مسکراتے ہوئے اپنا بازو اس کے گرد حائل کرکے آنکھیں موند لیں.. 

🌺........🌺

تم آج نہیں جاو گی! اس نے جیسے حکم دیا 

ہمہم! لیکن جلدی آجاوں گی.. بہت کام ہے چھٹی افورڈ نہیں کر سکتی.. اس نے تھکے ہوئے انداز میں کہا... لیکن جاناں!... وہ ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ اس نے بات کاٹی 

پلیز!... اس نے التجا کی 

ٹھیک ہے! لیکن جلدی آنا.. 

ہمہم! 

ایسا کرو کہ میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا اور پک بھی اور واپسی پر وہ کام بھی کر لیں گے.. کیا خیال ہے؟ 

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا 

پلین کے مطابق علی اسے چھوڑ آیا تھا اور اب واپسی پر پک بھی کر لیا تھا... وہ اس کے بتائے ہوئے راستہ پر ہوتے ہوئے وہاں پہنچ گئے... آنکھیں خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھی.. ایک عجیب سی بے چینی تھی.. دل کی دھڑکنیں بہت تیز تھیں.. طرح طرح کے وسوسے دماغ میں آرہے تھے کہ کہیں ڈیٹھ ہی نہ ہو گئی ہو...! وہ دونوں اس وقت اس چھوٹے سے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے.. علی نے دستک دی.. ساتھ کھڑے وجود کی تو جیسے جان ہی نکلی پڑی تھی 

ایک آدمی نے دروازہ کھولا 

صاحب آپ؟ اس شخص نے فوراً پہچان لیا 

شوکت! علی نے بھی فوراً کہا 

آپ یہاں؟ اندر آئیے.. اس نے جگہ دیتے ہوئے کہا 

فاطمہ نے ناسمجھی نظروں سے علی کی طرف دیکھا 

میرے آفس میں کام کرتا ہے.. مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اس کا گھر ہے.... وہ انہیں اندر ایک بیٹھک میں لے گیا 

صاحب آپ ہمارے غریب خانے میں کیسے؟ ہمیں تکلیف سے دی ہوتی؟ 

نہیں کیسی باتیں کر رہے ہو شوکت؟ دراصل اس نے کل والا سارا واقع اس کے گوش گزار کر دیا 

شوکت نے اپنی بیوی سے کہہ کر اپنے بیٹے کو بلایا 

وہ تقریباً سات سال کا بچہ تھا.. سر اور ہاتھ پر سفید پٹیاں تھی.. اسے دیکھنے کی ہی دیر تھی وہ پھر سے رونے لگی.. اسے سر اور ہاتھ پر چوٹ آئی تھی.. 

میں بہت شرمندہ ہوں.. میں معافی چاہتی ہوں.. اب وہ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھی 

نہیں میڈیم آپ ایسا مت کریں.. یہ سب تو اللہ کی طرف سے ہوا ہے.. آپ ہمیں شرمندہ کر رہی ہیں 

اس نے بچے کو پاس بلایا اور اسے پیار کرنے لگی 

I am sorry beta! 

وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی 

شوکت ہم ایک دفعہ پھر معذرت کرتے ہیں.. ہوسکے تو معاف کر دینا.. یہ تو سچ ہے کہ اس بچے کی تکلیف کا ازالہ ہم نہیں کرسکتے.. مگر جو کچھ بھی ہوا انجانے میں ہوا.. میری بیوی کی طبیعت خراب تھی اسی وجہ سے ایسی غلطی ہوئی.. 

ہم نے معاف کیا صاحب! آپ بھی بہت اچھے ہیں آفس میں سب کا خیال رکھتے ہیں آپ کے احسان کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں... 

علی نے کچھ پیسے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیے یہ ہماری طرف سے بچے کو اچھے سے دوا دلوا دینا اور خیال بھی رکھنا.. اور ہاں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلاجھجک کہہ دینا.. آج تم نے معاف کر کے بہت بڑا احسان کیا ہے مجھ پر... میں ہمیشہ تمہارے لیے حاضر رہوں گا... 

مہربانی کریں صاحب! آپ شرمندہ نہ کریں! 

اس نے سر ہلا دیا 

اچھا ہم چلتے ہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتانا! 

نہیں صاحب بس انتظار کریں چاۓ آرہی ہے..! 

چاۓ کی کیا ضرورت ہے؟ 

آپ پہلی بار ہمارے گھر آئیں ہیں.. 

علی آگے سے مسکرایا.. تھوڑی دیر بعد وہ وہاں سے نکل آۓ... اب جا کر اسے تھوڑا سکون ہوا تھا.. مگر ملال ابھی بھی تھا.. 

اچھا تو اب جاناں نے موبائل لینا ہے! علی نے سٹیرنگ کو گھوماتے ہوئے کہا 

اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا.. وہ کہی اور ہی تھی.. اس کے بعد اس نے موبائل خریدا اور پھر ڈنر کرکے وہ گھر آگئے.. وہ زیادہ تر خاموش ہی تھی مگر کل والی حالت سے بہت بہتر تھی.. میڈیسن لے کر وہ سو گئی.... 

🌺.........🌺

علی کو صبح ہی گاؤں سے زبیر کا فون آیا تھا.. وہ اسے وہاں بلا رہا تھا کوئی زمینی معاملات طے کرنے تھے.. اس نے آفس سے جلدی کام ختم کرکے نکلنے کا فیصلہ کیا.. فاطمہ کو ہرگز بھی ساتھ نہ لے جانے کا فیصلہ کیا ایک تو اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی اور دوسرا آزر کی شادی پر ہونے والے تماشے کے بعد تو بالکل بھی نہیں اسے اپنی بیوی کی عزت بے حد عزیز تھی شاید بیوی ہوتی تو وہ معاف بھی کر دیتا مگر وہ تو من چاہی بیوی تھی اس کے معاملہ میں ہرگز بھی کمپرومائز نہیں... فاطمہ کو وہ اس کی امی کے گھر چھوڑ آیا تھا... اس کا کہنا تھا کہ وہ تھوڑی فریش بھی ہو جائے گی.. وہ شام کے وقت گاؤں کے لیے نکل گیا 

زندگی اب تھوڑا سا یو ٹرن لے رہی تھی.. وہ پہلے سے کافی بدل گئی تھی.. مگر مکمل طور پر نہیں.. علی کو وہ دن یاد آگیا.. جب وہ گاؤں سب کو اس کے بارے میں بتانے کے لیے آیا تھا 

(وہ جب گاؤں پہنچا تو اس نے تھوڑی دیر بعد ہی سب کو حال میں جمع کر لیا تھا... اس نے بلا جھجک ہی بات شروع کر دی.. 

بابا!.. دادو...! میں آپ سب کو کچھ کہنا چاہتا ہوں.. میں شادی کرنا چاہتا ہوں. 

وہاں موجود ہر شخص کے چہرے کھل گئے 

یہ تو بہت اچھا فیصلہ ہے.. میں بلکہ اس بارے میں تم سے بات کرنے ہی والا تھا.. زبیر نے خوش ہوتے ہوئے کہا.. 

ہمہم! اس نے سر ہلایا 

دیکھا بھائی جان مجھے پتہ تھا کہ علی ایک دن ضرور ہی مان جائے گا! 

علی نے رضوانہ کی بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی 

تو پھر نمرہ کے ساتھ تمہارا رشتہ پکا کر دیں؟ زبیر نے پوچھا.. علی نے چونک کر سر اٹھایا 

بابا! میں نے آپ سے یہ کہا ہے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں یہ نہیں کہ نمرہ سے کرنا چاہتا ہوں.. 

کیا مطلب؟ 

یہ ہی کہ میں کسی کو پسند کرتا ہوں.. اور شادی بھی اسی سے کرنا چاہتا ہوں...وہاں کھڑے ہر شخص کے یک دم چہرے کے تاثرات بدل گئے 

جب سارے فیصلے کرکے آئے ہو تو ہم سے کیا چاہتے ہو؟ زبیر نے غصے سے پوچھا 

یہ ہی کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور ان کے گھر رشتہ مانگیں! اس نے پرسکون ہو کر ٹیک لگا کر کہا. 

بھول ہے تمہاری علی... میں نہیں جاؤں گا اور تم نے سوچا بھی کیسے خاندان سے باہر شادی کرنے کا؟ 

چھوڑ دیں بابا یہ جاہلیت کے شادی صرف خاندان میں ہی کرنی ہے.. اور دوسری بات یہ ہے کہ جانا تو آپ کو پڑے گا.. ورنہ انجام کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے بعد میں کوئی گلہ نہیں کیجیے گا 

علی بیٹا جب خاندان میں تمہارے جوڑ کی لڑکی موجود ہے تو باہر کیوں جھانکیں؟ عدنان نے کہا 

کیونکہ کے میں اسے پسند کرتا ہوں.. محبت ہے مجھے اس سے...! اور یہ مجھے یہ نمرہ بالکل بھی پسند نہیں ہے. میں اس سے شادی نہیں کر سکتا.. 

تو تمہاری وہاں بھی نہیں ہو گی! زبیر نے فیصلہ سنایا 

بابا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی کیا؟ اب وہ بھی غصے میں آیا.. 

زبیر کرے جہاں بچہ کہہ رہا ہے... ہرج ہی کیا ہے؟ کوثر نے حمایت کی 

اماں! وہ خاندان سے باہر کرنے کو کہہ رہا ہے.. اور تمہاری نواسی کو انکار کر رہا ہے.. میری بیٹی کی تمہیں کوئی فکر نہیں؟ رضوانہ نے احتجاج کیا 

آپ کو بولنے کا کس نے کہا ہے؟ اپنے کام سے کام رکھیں! علی نے اسے ٹوکا 

شادی تو میں وہی کروں گا.. جانا بھی آپ کو پڑے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں! وہ کھڑا ہو گیا.. پورے غصے میں.. تیاری کر لیں! اس نے زبیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور جاتے جاتے پاس پڑا گلدان غصے سے زمین پر مار دیا 

بھائی جان یہ غلط بات ہے میں آپ سے پہلے ہی نمرہ اور علی کی بات کر چکی ہوں.. میری بیٹی کے ساتھ زیادتی نہ کریں! 

رضوانہ بہت ضدی ہے تمہیں نہیں پتہ کیا؟ اس نے فیصلہ کر لیا ہے تو وہ نہیں مانے گا! عدنان نے کہا 

لیکن اس کی یہ ضد میں پوری نہیں کروں گا! زبیر نے کہا.. بھائی ذرا دھیان سے جوان خون ہے اور اوپر سے محبت کا معاملہ ہے..! عدنان نے الرٹ کیا 

ہمہم! زبیر نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلا دیا 

شام کو وہ زبیر کے کمرے میں گیا 

پھر کر لی تیاری آپ نے؟ اس نے آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا... کہاں کی؟ زبیر نے پوچھا 

میں ساتھ شہر جانے کی اور فاطمہ کے گھر جا کر رشتہ مانگنے کی... 

ہرگز نہیں! میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں نہیں جاوں گا! 

ٹھیک ہے پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لیں..آپ کو نہیں آنا تو نہ آئیے. میں شادی تو اسی سے ہی کروں گا.. اور آج کے بعد نہ میں گاؤں آؤں گا اور نہ ہی میرا آپ سب سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ہوگا.. مرگیا میں.. یہ دھمکی نہیں ہے زبیر شاہ.. آپ جانتے ہی ہیں کہ میں ضد اور اپنی بات کا کتنا پکا ہوں.. مجھ سے کسی بھی رابطے کی ضرورت نہیں.. 

علی! تم ہوش میں تو ہو نہ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ لڑکی تمہیں ہم سے زیادہ عزیز ہو گئی کیا؟.. اس کے لیے تم ہمیں چھوڑ دو گے؟ 

ہاں! وہ مجھے ہے عزیز اور ہمیشہ ہی رہے گی.. اگر آپ بات مان لیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی.. مگر افسوس آپ کو اپنی اولاد سے زیادہ بہن اور اسکی بیٹی عزیز ہے..

جا رہا ہوں میں.. اللہ حافظ... دوبارا ملاقات نہیں ہو گی..! وہ وہاں سے نکل گیا اور اپنے کمرے میں آگیا اور بچا کچا سامان باندھنے لگا

زبیر وہ اکلوتی اولاد ہے اپنی.. کچھ تو خیال کریں.. مجھے پتہ ہے اس کا وہ واپس نہیں آئے گا

ہاں بھائی جان... آپ تو جانتے ہیں نا وہ کتنا بڑا سرمایہ ہے اپنے لیے.. کاروبار اسی کے دم سے ہے!

سب زبیر کو سمجھانے لگ گئے.. مگر زبیر، رضوانہ اور نعمان اس کے سخت خلاف تھے..

زبیر اس کے کمرے میں آیا.. وہ تقریباً تیار ہی تھا

میں چلوں گا تمہارے ساتھ!

سوچ لیں کیونکہ میں بعد میں اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی برداشت نہیں کروں گا!

ہمہم! سوچ لیا ہے وہ ویسے اس سے ناراض ہی لگ رہا تھا.. اوکے! ہوجائیں تیار پھر! 

زبیر سر ہلاتا ہوا کمرے سے نکل آیا 

بھائی جان وہ تو بچہ ہے اسے کیا پتہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں.. زندگی کا اتنا بڑا فی کیسے کرلے خودی؟ 

رضوانہ میں اس وقت بہت بے بس ہوں.. تمہیں پتہ ہے نا کہ اب اس نے کسی کی نہیں سننی.. 

تو نمرہ کا کیا بنے گا؟ 

اسے سمجھا دو کہ اسے بھول جا ۓ.. اللہ اس کا نصیب بھی اچھا کرے گا.. 

تو آپ خاندان سے باہر کریں گے شادی؟ برسوں پرانی روایت آج ٹوٹ جائے گی؟ 

وہ آگے سے لاجواب رہا 

تھوڑی دیر بعد ہی وہ لوگ شہر کے لیے نکل آۓ.. علی راستے میں انہیں فاطمہ کے بارے میں بتا رہا تھا 

وہ لوگ بہت اچھے ہیں آپ کو مل کر خوشی ہو گی! 

شادی کے بعد بھی تم شہر ہی رہو گے؟ 

جی بابا! 

گاؤں آکر نہیں رہو گے ہمارے ساتھ؟ 

نہیں.. میری جاب کا مسئلہ ہے 

تو چھوڑ دو یہ نوکری کس چیز کی کمی ہے تمہیں.. آدھے سے زیادہ گاؤں تمہارا ہی ہے انہیں سنبھالو.. ویسے بھی تم یہ شوقیاں ہی کرتے ہو! 

میں اسے نہیں چھوڑ سکتا میری ذمےداری ہے یہ اور  اس کے علاوہ بھی نہیں گاؤں رہ سکتا آپ جانتے ہی ہیں.. تھوڑی دیر میں وہ شہر پہنچ گئے اور وہ انہیں فاطمہ کے گھر لے گیا... وہاں سارے معاملات طے ہوۓ اور ان دونوں کا رشتہ پکا کر دیا گیا.. علی کی تو خوشی کی انتہا ہی نہیں تھی.. فاطمہ کو ویسی ہی خوشی تو جو ایک عام انسان کو ہوتی ہے.. مگر علی کی خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے...) 

کتنا تصور کیا تھا میں نے جاناں کو اپنی زندگی میں کچھ بھی ویسا نہیں ہوا.. کیا ہوا تھا بعد میں کہ جاناں کو اس قدر مجھ سے نفرت ہوئی.. اسی کشمکش میں گاؤں آگیا.. وہاں جا کر اس نے اپنا زمینی معاملات طے کیے اس کی واپسی کا ارادہ رات ہی تھا مگر دیری کی وجہ سے وہاں رکنا پڑا.. اس نے سوچا کہ فاطمہ کو بتا دے.. چار مس کال کے بعد اس نے بالآخر پانچویں دفعہ کوشش کی.. کال ریسیو ہو گئی.. 

السلام علیکم! پہل وہاں سے ہوئی 

وعلیکم السلام! کیسی ہو؟ طبیعت کیسی ہے؟ 

ٹھیک ہوں! پہلے سے بہت بہتر ہوں.. اس نےشاسائستگی سے جواب دیا 

ہمہم! گڈ خیال رکھنا.. میں صبح آوں گا! 

اوکے! آواز مدھم تھی 

اور کیا ہو رہا ہے؟ 

کچھ نہیں لیٹی تھی 

اچھا!!!... کچھ دیر خاموشی رہی 

موسم کیسا ہے؟ اسے جیسے اور کوئی بات نہیں ملی 

اس کے اس سوال پر وہ مسکرائی 

گوگل کر لیں! اس نے تجویز دی 

نہیں میں نے ویسے ہی پوچھا تھا.. دلیل پیش کی 

کوئی بات نہیں!... پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی.. شاید ان کے درمیان کوئی بات ہی نہیں تھی کرنے کو.. شاید وہ دنیا کے واحد میاں بیوی تھے 

تمہیں آج بھی میں بھول گیا؟ 

ہاں تقریباً! مگر اس دفعہ وہ مزاق کر رہی تھی اس نے ہنسی دبائی تھی 

بالکل بھی یاد نہیں آئی؟ 

نہیں! پتہ نہیں کیوں آتی ہی نہیں؟ 

ہمہم!.. وہ بہت سنجیدہ تھا.. دل چھلنی ہو کر رہ گیا تھا... مجھ سے پوچھو کہ تمہاری کتنی آئی؟ 

کتنی؟ 

بہت زیادہ! اتنی کے تمہاری سوچ ہے 

اچھا واہ! 

فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی؟ 

دل نہیں کر رہا تھا! جب کے یہ جھوٹ تھا... موبائل تو ساتھ والے کمرے میں چارجنگ پر تھا 

جاناں لگتا ہے جان لو گی کسی دن اپنی بےرخی سے! 

اب میں نے کیا بے رخی دکھائی بات کر تو رہی ہوں؟ 

ہمہم! 

میرا نام فاطمہ ہے جاناں نہیں! اس نے احتجاج کیا 

میرے لیے تو جاناں ہو! اور یہ ہی رہو گی .. وہ مسکرایا 

اب کیا کر سکتے ہیں ہم! اس نے اپنے آپ سے کہا 

ہم عاشقوں پر رحم! 

وہ کیسے؟ 

ہمیں قبول کر کے! 

اور کوئی خواہش؟ 

یہ ہی قبول کر لیں بہت ہے.. وہ مسکرانے لگا 

سوچتے ہیں! 

ضرور! کب تک؟ 

یہ بھی سوچتے ہیں کہ کب تک! 

جی حضور جیسے آپ کی مرضی... 

بالکل! وہ ہنسی 

جاناں؟ 

فرمائیے! 

ایسے ہی رہا کرو نا ہنستے ہوئے.. بہت اچھی لگتی ہو 

اب میں اتنی زیادہ خواہشات پوری نہیں کر سکتی ایک بتائیں قبول کروں کہ ہنستی رہوں؟ 

بس خوش رہو!... میرے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے.. لیٹرلی! میں یہ ہی چاہتا ہوں.. 

اچھا جی! وہ ہنسی 

ہاں جی! وہ بھی برابر ہنسا.. اچھا فاطمہ میڈیسن ضرور لے لینا.. تاکہ طبیعت اور بہتر ہو جائے.. اوکے؟ 

لے لی ہے باس آپ کے کہنے سے پہلے ہی.. مجھے اپنی آپ سے زیادہ فکر ہے.. اس نے معصومیت سے کہا 

لیکن لگتا نہیں ہے... 

ہمہم!.. 

تم بور ہو رہی ہو؟ 

مطلب؟ 

مطلب یہ ہی کہ تم مجبور ہو کر بات تو نہیں کر رہی؟ 

آپ کو کیا لگتا ہے؟ اس نے کروٹ لیتے ہوئے سوال کیا 

شاید ہاں! 

وہ شخص اس سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ اس کا پازیٹو کام میں بھی اسے لگتا کہ وہ مجبوری میں یا بے دلی سے کر رہی ہے.. وہ آگے سے لاجواب ہی رہی جواب توقع کے برعکس جو تھا 

چلو چھوڑو اس بات کو یہ بتاو تم مجھے مس کر رہی ہو؟ جواب نہ پا کے اس نے سوال ہی بدل دیا 

بالکل بھی نہیں! یہ کام فارغ لوگوں کے ہیں جیسا کہ آپ نہ کہ ہم جیسوں کے! 

پتہ نہیں میں زندگی کے کس مقام پر جا کر مصروف ہوں گا.. 27 سال کی زندگی میں نے فراغت میں ہی گزار دی.. 

اب پچھتاوا کیسا؟ 

ٹھیک کہا آپ نے جناب!!! 

شکریہ! اب سونے کا کیا ارادہ ہے؟ آج کے لیے اتنا کافی نہیں؟ 

آپ کے ساتھ جتنا ہو اتنا کم ہے! جہاں تک نیند کی بات ہے اب کہاں آنے والی ہے.... 

خیریت ہے نیند کو؟ 

تمہارے  بغیر کہاں آتی ہے جاناں؟ 

شادی سے پہلے تو سوتے تھے کہ نہیں؟ 

ہاں تب تو مگر بنک والی ملاقات کے بعد نہیں! 

لیکن مجھے تو فی الحال بہت نیند آرہی ہے...

تو سو جاو! 

فون بند کریں میں سو جاوں گی... 

ویسے جاناں تم اپنی امی کے گھر تو بہت خوش ہوتی ہو.. میرے ساتھ اتنا غصہ آتا ہے؟ 

اپنے امی ابو گھر تو سب ہی خوش ہوتے ہیں... ویسے بھی یہ سب مجھے پسند ہیں... 

اور میری ناپسیندگی کب بدلے گی؟ 

Don't know! I think this is forever.. 

ناں جاناں.. ہمیشہ والا ظلم تو نہ کرو.. مجھ غریب پر بھی رحم کرو. میرا بھی دل کرتا ہے اپنی بیوی کو پیار کروں.. ہمارے بھی بچے ہوں.. ساری زندگی ایسے تھوڑی نہ چلے گا؟ 

یہ تو شادی سے پہلے سوچنا تھا... 

سوچا تھا تو تمہارا انتخاب کیا تھا.. میرا یقین کرو میرا مقصد کسی کو ہرٹ کرنا نہیں تھا نہ ہی کوئی ضد تھی.. میں چاہتا تھا کہ تم میرے پاس ہو.. میں تمہارا خیال رکھوں.. تمہیں محبت دوں.!!! 

اچھا خیال تھا.. اب مجھے بہت زیادہ نیند آ رہی ہے.. 

ٹھیک ہے تم سو جاوں.. اپنا خیال رکھنا.. اللہ حافظ 

ہمہم! اللہ حافظ.. اتنا کہہ کر اس نے فون بند کر دیا 

بہت عجیب ہے یہ شخص.. اس نے سر ہلاتے ہوئے فون سائیڈ پر رکھ دیا اور سو گئی... 

ہاۓ. جاناں.. بات کرو تو بے چینی نہ کرو تو بے چینی ہے.. اب نہیں آتی نیند.. اس نے کروٹ لی.. بائیں حصہ خالی پڑا تھا... بڑی عادت ہوگئی ہے تمہیں اپنے برابر سوتے دیکھنے کی.. اب کچھ خالی خالی سا لگتا ہے وہ مسکرایا.. مجھے تم سے بہت محبت ہے جاناں! اوہ فاطمہ.. ادائیں تو ساری ہی جان لیوا ہیں بلاشبہ وہ بے رخی کی ہی کیوں نہ ہو..

کل وہ بنک سے سیدھا اپنے گھر ہی آگئی تھی.. علی بھی گاؤں سے سیدھا آفس چلے گئے تھے.. سر میں بڑا درد تھا اب تو یہ معمول بن گیا تھا.. طبیعت آج بھی خراب ہی تھی مگر وہ بالکل بھی ظاہر نہیں کر رہی تھی.. علی کو ٹیرس پر چاۓ دینے آئی تھی.. دوسرے ہاتھ میں اپنے لیے کپ تھا.. وہ واپس جانے لگی تو علی نے روک لیا.. 

جاناں میرے ساتھ چائے پیو نا! 

نہیں علی مجھے کچھ کام ہے.. وہ کرنا ہے بہت ضروری ہے... وہ اتنا کہہ کر اندر آگئی اور لپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئی.. دماغ کی نسیں پھٹنے کو تھیں.. پتہ نہیں کیوں اتنا سردرد رہنا لگ گیا تھا.. پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا.. علی کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی وہ سو گئی تھی... دو تین دن تو ایسے ہی گزر گئے.. مگر وہ پہلے سے تھوڑی سی بدلنے لگی تھی.. اب کھینچی سی نہیں رہتی تھی.. ایک دن تو سر درد کی حد ہی ہو گئی.. دل بھی بہت گھبرا رہا تھا.. علی پاس ہی بیڈ پر بیٹھا موبائل استعمال کر رہا تھا.. اسے بھی جاناں کے عمل نارمل نہیں لگ رہے تھے.. وہ کہی بھی سو جاتی تھی ایک دن تو وہ آفس سے آیا تو وہ صوفے پر ہی سوئی ہوئی تھی.. وہ موبائل پر مصروف تھا 

وہ اچانک اٹھی اس نے نیم دراز آنکھوں سے علی کی طرف دیکھا وہ موبائل چلانے میں مصروف تھا.. فاطمہ کو اس پر غصہ آیا.. اس نے تکیہ اٹھا کر اس کی گود میں رکھا اور اوپر اپنا سر.. اس عمل سے علی چونک گیا.. وہ حیران ہو گیا.. علی پلیز میرا سر دبا دیں... اس نے علی کا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھا.. وہ بھی دبانے لگ گیا.. وہ مدہوشی میں ہی تھی 

ویسے بڑی محبت ہے بیوی کا ذرا بھی خیال نہیں آپ کو! اس نے روٹھے ہوئے طریقے سے کہا.. وہ سر دبا رہا تھا.. بیوی کچھ بتاۓ تو ہی شوہر کو پتہ چلے گا! اس نے برابر شکوہ کیا 

نو جی! جنہیں احساس ہوتا ہے انہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی... 

وہ مسکرایا! ٹھیک ہے میری ہی غلطی ہے معافی طلب ہے.. بتاو کیا ہوا ہے؟ 

وہ اٹھ کر اس کے سامنے بیٹھی.. آنکھوں میں سرخی مائل تھی.. کمر تک آتے لمبے بال بکھرے ہوئے تھے 

وہ اپنے بالوں میں انگلیاں دینے لگی.. 

سر میں بہت درد ہے... میں مر جاؤں گی! 

پاگل ہو گئی ہو جاناں کیسی باتیں کر رہی ہو کچھ نہیں ہو گا چلو میرے 

ساتھ ڈاکٹر کے پاس.. علی نے بھی بالوں میں بھی ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا.. وہ اسے ہسپتال لے گیا.. وہاں ڈاکٹر نے معائنہ کیا

مسڑ علی آپ کی وائف کو مائگرین migraine کا اٹیک ہوا ہے.. اٹیک اتنا سوئیر نہیں ہے.. آپ کو خیال رکھنا ہو گا کہ وہ کسی بھی قسم کی پریشانی نہ لیں.. ورنہ یہ بڑھ بھی سکتا ہے... صحت اور جان دونوں کے لیے بہت مضر ثابت ہو گا.. میں میڈیسن دیتی ہوں وہ انہیں ریگولر دیں.. انشاءاللہ ٹھیک ہو جائے گا

جی! لیکن ڈاکٹر اب تو زیادہ پریشانی کی بات نہیں نہ ہے؟

نہیں! احتیاط کی جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے

اوکے!

ڈاکٹر نے اسے دواء لکھ دی.. وہ گھر آگئے علی اسے دواء کھلائی

جاناں کس چیز کی ٹیشن لے رہی ہو؟ بتاو مجھے؟

 کسی کی بھی نہیں!

تو مائگرین ایسے ہی تو نہیں نا  ہو جاتا،

مجھے نہیں پتہ کیوں ہوا ہے؟

اچھا چھوڑو اس بات کو.. اب تم نے بہت احتیاط کرنی ہے.. سنا تھا نا ڈاکٹر نے کیا کہا تھا.. کوئی بھی پریشانی نہیں لینی!

ہمہم!

میری ہی غلطی ہے میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکا!

وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی

چلو تم سو جاوں! اس نے تکیہ سیدھا کرکے لیٹا دیا اور اوپر چادر اوڑھ دی.. لائٹ بھی آف کر دی....

🌺......🌺

وہ تھوڑے دن اپنی امی کے گھر چلی بقول علی کے وہ وہاں بہت خوش رہتی تھی اور خاص تلقین کی تھی کہ بالکل بھی ٹیشن نہیں لینی اور وقت پر میڈیسن لینی ہے.. آفس سے واپسی پر وہ بھی چکر لگا آتا ہے

آج وہ اسے واپس لا رہا تھا...وہ پہلے سے بہت ہی زیادہ بہتر تھی.. علی کو بھی بہت اطمینان تھا

تمہارا گھر آنے کو دل نہیں کرتا؟

سچ بولوں کے جھوٹ؟ اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا

ظاہر ہے جاناں سچ بتاو!

دل کرتا ہے!

تو پھر واپس کیوں نہیں آتی؟

آپ نے خودی تو بھیجا تھا..

تو تم منع بھی کر سکتی تھی آگے تو جیسے میری ساری باتیں مانتی ہو؟

توبہ توبہ شوہر کی بات کو منع کرنا گناہ ہے بیوی کے لیے..پتہ ہے کتنے حقوق ہیں شوہر کے؟

اب تو حقوق یاد آگۓ پہلے تو اور کسی معاملے میں حقوق یاد نہیں آۓ؟

وہ دونوں واپس آ رہے تھے.. کھانا وہی کھایا تھا

علی میں نوٹ کر رہی ہوں آپ بہت taunt مارتے ہیں مجھے.. مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا.. اس نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے ہلکی سی ناراضگی دکھائی

علی مسکرایا.. اس کا ہاتھ پکڑا

اب نہیں مارتا.. گستاخی معاف کیجئے!

ہرجانہ بھرنا ہوگا..

حکم کریں؟ بندہ حاضر ہے! اس نے ہلکا سا خم دیا سر کو.. فاطمہ نے گہرا سانس لیا

آئسکریم کھلانی ہو گی!!

کیوں نہیں؟ ابھی کھاتے ہیں

لیکن معافی پھر بھی نہیں ملے گی اور بھی ہرجانہ بھرنا ہو گا! 

ضرور... بتایۓ ؟

ابھی نہیں.. پہلے یہ وہ وقت آنے پر 

جیسا آپ کا حکم.. 

علی نے آئسکریم کارنر پر گاڑی روکی 

کون سا فلیور؟ 

اب بیوی کے پسندیدہ فلیور کا بھی نہیں پتہ؟ اس نے آنکھیں میچتے ہوئے کہا 

اب بیوی نے کبھی بتایا ہو یا کبھی ساتھ کھائی ہو تب ہی ہے نا؟ 

پھر بھی! 

جاناں میرا تعلق کسی نجومی خاندان سے نہیں ہے. میں پیش گوئیاں نہیں کر سکتا یا مجھے الہام بھی نہیں ہوتا! وہ مسکرایا 

اچھا ٹھیک ہے.. قلفہ میرا فیورٹ ہے.. 

شکریہ ! میں ابھی آیا.. وہ اتنا کہہ کر گاڑی سے نکل گیا.. اور پانچ منٹ بعد دونوں ہی قلفہ ہاتھوں میں لیے آگیا 

شکریہ! اس نے پکڑتے ہوئے کہا 

شکریہ کیسا؟ یہ تو میرا فرض تھا.. وہ مسکرایا 

تھوڑی دیر بعد وہ گھر آگئے.. چینج کر کے بیڈ پر آ گئے 

جاناں اب تو تکیہ نہ رکھو! 

شاید میں نہ رکھتی لیکن یہ گستاخی کی سزا میں سے ایک سزا ہے.. 

لیکن وہ تو پوری کر دی تھی! 

نہیں! میں نے کہا تھا نا کہ باقی بعد میں.. اب اچھے بچے کی طرح سو جائیں.. اتنا کہہ کر خود بھی لیٹ گئی.. اس نے بھی گہرا سانس لیا اور لیٹ گیا 

🌺.......🌺

وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا تھا جب وہ اسے چاۓ کا پوچھنے آئی.. علی نے انکار کر دیا.. فاطمہ مجھے تم سے بات کرنی ہے! 

ہاں جی کریں! وہ پاس ہی کھڑی تھی 

علی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی آغوش میں کیا دونوں آمنے سامنے تھے.. 

کیا ہوا ہے؟ فاطمہ نے سوال کیا 

ایسا کیا ہوا تھا کہ تمہیں مجھ سے اچانک نفرت ہو گئی اور بات رشتہ ختم کرنے تک آگئی تھی؟ 

کچھ بھی نہیں ہوا! اس نے جیسے ٹالا 

نہیں آج نہیں تمہیں بتانا ہی ہوگا ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاوں گا اور یقین کرو کبھی بھی بات نہیں کرو گا! 

علی... 

بات بتاو اور کچھ بھی نہیں... اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا.. بتاو جاناں! اس نے گردن پر بوسہ دیتے ہوئے کہا 

وہ بالکل اس کے بالمقابل تھی.. ایک بے اختیار آنسو نکلا جسے گرنے سے پہلے ہی علی پونچھ چکا تھا 

نہیں رونا نہیں! بتاو مجھے تم تو خوش تھی نا اگر اعتراض ہوتا تو پہلے دن ہی کہہ دیتی کوئی تو بات ہے 

علی دراصل ماں بابا سب اس رشتے سے راضی تھے مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا.. شادی کی ڈیٹ فائنل ہونے کے بعد سب تیاریاں کر رہے تھے.. انہی دنوں کچھ لوگ ایمان کا رشتہ لے کر آئے تھے وہ مہمان ہمارے گھر ہی موجود تھے دروازے پر دستک ہوئی میں نے جا کر دروازہ کھولا تو وہاں آپکی پھپھو موجود تھیں...( آنسو زار زار بہہ رہے تھے. اور علی بہت انہماک سے اس کی بات سن رہا تھا)... تب ہمارے لیے وہ بالکل ہی انجان تھیں.. وہ اندر آئیں اور زور زور سے میرا نام لینے لگیں 

کون ہے فاطمہ؟.. گھر میں سب مہمان بھی موجود تھے.. ہن سب بہت حیران ہو گئے 

جی میں ہوں! آپ کون ہیں؟ 

اچھا تو تم ہو فاطمہ.. اوپر سے نیچے تک رضوانہ نے اسے دیکھا.. شرم نہیں آتی تمہیں دوسروں کے بیٹوں کو پھنساتے ہوئے؟ اچھی طرح جانتی ہوں میں تم جیسی تیز لڑکیوں کو.. بہت طریقے ہیں تم لوگوں پاس 

امیر لڑکا دیکھا اور اسے اپنے قبضے میں کر لیا.. 

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں آپ کو اندازہ ہے؟ فاطمہ نے بھیگی آواز سے کہا 

بہت اچھی تربیت ہے آپ کی ماشاءاللہ سے بیٹیاں باہر پھیرتیں ہیں اور دوسروں کے بچوں پر قبضہ کرتیں ہیں اب وہ اسد اور فرزانہ کی طرف ہو گئی 

یہ کون ہیں اسد صاحب اور یہ خاتون کیا کہہ رہی ہیں؟ گھر آئے مہمانوں میں سے ایک نے سوال کیا 

میں بتاتی ہوں میں کون ہوں؟ یہ جو ان کی بڑی بیٹی صاحبہ ہے نا جس کا تھوڑی دیر پہلے ہی انہوں نے رشتہ کیا ہے اس لڑکے کی پھپھو ہوں میں.. ہمارا معصوم بچہ ان کی باتوں میں آگیا.. 

مہربانی ہے آپ کی آپ جائیے یہاں سے! اسد نے کہا 

ہاں ہاں میں تو چلی جاوں گی پہلے علی کے ساتھ رشتہ ختم کریں.. ہم یہ آوارہ لڑکی کو کبھی اپنے گھر کی بہو نہیں بنائیں گے.. ہم خاندانی لوگ ہیں.. 

وہاں کھڑے مہمانوں بھی چہ میگوئیاں کرنے لگے 

میں آخری دفعہ کہہ رہی ہوں یہ رشتہ ختم کردیں میں اچھی طرح جانتی ہوں علی کو جب وہ ہوش میں آۓ گا تو خودی طلاق دے دے گا اس کو... وہ یہ کہہ کر چلی گئیں.. 

معذرت ہے اسد اللہ صاحب ہم یہ رشتہ نہیں کر سکتے ہیں! وہ مہمان بھی یہ کہہ کر چلے گئے 

آج تک میرے ماں باپ کی کسی نے انسلٹ نہیں کی تھی اور آپ کی پھپھو نے ان کی سالوں کی عزت ایک دن میں تار تار کر دی.. ان کے جانے کی دیر تھی کہ بابا کو ہارٹ اٹیک آگیا.. اتنی ذلت وہ برداشت نہیں کر سکے... ڈاکٹر نے بتایا کہ انہوں نے بہت ٹینشن لی ہے 

ہوش میں آنا مشکل ہے... لیکن اللہ کے فضل وہ ہوش میں آگئے.. 

نہیں کرنی بابا مجھے علی سے شادی! منع کر دیں آپ.. فاطمہ نے روتے ہوئے کہا 

ویسے تو اپنے آپ کو خاندانی لوگ کہتے ہیں ایسے ہوتے ہیں خاندانی لوگ؟ دوسروں کو ذلیل کرنے والے؟ فرزانہ نے کہا 

سوچ لو بیٹا! اسد نے دوبارا کہا 

ہرگز نہیں بابا میں اتنی بےعزتی کے بعد وہاں شادی نہیں کر سکتی! انہوں نے آپ کی انسلٹ کی آپ کی تربیت کو برا بھلا کہا. 

ٹھیک ہے میں منع کر دیتا ہوں! اسد نے بھی حامی بھر لی.. اسد نے علی اور زبیر کو اپنے گھر بلایا 

میں بہت معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یہ شادی نہیں کر سکتے! 

انکل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ علی کے تو حواس ہی اڑ گئے... زبیر بھی حیران تھا 

میں بہت شرمندہ ہوں اور معذرت خواہ بھی! 

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے.. انکل میں فاطمہ سے ہی شادی کروں گا! اس نے اعلان کیا 

اسد صاحب پہلے تو کوئی اعتراض نہیں تھا اب اچانک جبکہ شادی کی تاریخ بھی قریب ہے. 

کچھ وجوہات ہیں! بتائیں نہیں جا سکتیں.! 

انکل میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں اور یہ بات بھی آپ جانتے ہیں کہ میں فاطمہ کو پسند کرتا ہوں.. اور اس سے شادی کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں.. اگر آپ نہ مانیں تو میں کوئی اور راستہ بھی اختیار کر سکتا ہوں..! اس نے دھمکی دی 

اسد نے چونک کر اسے دیکھا.. مجھے کچھ وقت چاہیے! 

ٹھیک ہے اسد اللہ صاحب آپ سوچ لیں لیکن اس بات کا خیال رکھیے گا کہ یہ دو خاندانوں کی عزت کا سوال ہے.. زبیر کھڑا ہو گیا اور علی بھی 

ہمہم! اسد نے سر ہلایا... 

اگلے دن بنک کے باہر اسے علی ملا. وہ مکمل اسے نظر انداز کر رہی تھی. وہ پارکنگ کی طرف جا رہی تھی. 

کیوں نہیں کرنی تم نے مجھ سے شادی؟ 

شاید میرے باپ سے آپکی بات ہو چکی ہو گی.. 

فاطمہ میری بات سنو! کیا ہوا ہے یار پہلے تو کوئی اعتراض نہیں تھا..؟ 

اس نے کوئی جواب نہیں دیا 

علی کو مزید غصہ آیا وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا 

شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہو گی... چاہے جو بھی ہو.. اس کے لیے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں 

یہ بات میں تمہارے باپ کو میں بتا چکا ہوں.. اسے دھمکی نہ سمجھنا.. وہ اتنا کہہ کر وہاں سے نکل آیا 

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Janaa Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Janaa written by Fatima Malik. Janaa by Fatima Malik is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages