Dastan E Ishq Mohabbat By Maryam Imran New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 24 August 2024

Dastan E Ishq Mohabbat By Maryam Imran New Complete Romantic Novel

Dastan E Ishq Mohabbat By Maryam Imran New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dastan E Ishq Mohabbat By Maryam Imran New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Dastan E Ishq Mohabbat

Writer Name:  Maryam Imran

Category: Complete Novel

مجھے جانے دو بہزاد میں سچ کہہ رہی ہو میں نے کچھ نہیں کیا۔۔

ایک غیر مرد کیساتھ رنگ رلیاں منارہی ہو اور کہہ رہی ہو میں نے کچھ نہیں کیا۔۔

بہزاد نے پسٹل لوڈ کرکے پہلے اس آدمی پہ گولی چلائی جس کیساتھ اسکی بیوی پکڑی گئی تھی ۔۔

نہیں بہزاددددددددد۔۔

لبنا کی ایک دلخراش چیخ نکلی اس نے ڈور کے اپنے عاشق کے بے جان وجود کو ٹتولہ مگر وہاں سانسیں تھم چکی تھی۔۔۔

اب کیوں نہ تمہیں بھی تمہارے عاشق کے پاس پہنچا دیا جائے۔۔

بہزاد نے دوبارہ پسٹل لوڈ کرکے لبنا کو نشانہ بنایا مگر افسوس اسکا نشانہ اسکا اپنا بیٹا بن گیا جو چھپ کے یہ سارا ڈرامہ دیکھ رہا تھا ۔۔

اپنی ماں پہ گولی چلتا دیکھ  اس بچے سے برداشت نہیں ہوا اور ڈورتا ہوا اپنی ماں سے لپٹ گیا اور اسی وقت بہزاد سے فائر ہوا۔۔

فاخررررررر۔۔

ایک چیخ کیساتھ بہزاد کی آنکھ کھل گئ۔۔

بہزاد کی آنکھیں پھر نم تھی یہ خواب اسے ہر رات آتا تھا ہر رات اسے وہ منظر نظر آتا جسمیں اس نے اپنا بچہ کھویا ۔۔۔

بہزاد نے خود کو نارمل کیا اور ٹائم دیکھا صبح کے سات بج رہے تھے ۔

وہ۔اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔

بہزاد راجپوت اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد۔۔

اگر بہزاد کے بارے میں یہ کہا جائے کے وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا تو غلط نہیں تھا۔

راجپوت مینشن میں اب بس تین لوگ رہتے تھے۔ 

بہزاد اسکے دائ جان اسکی ماں اور اسکا دوسرا بیٹا عاشر ۔۔

بہزاد کے دوستوں کی گنتی بہت معمولی تھی مگر اسکے دشمنوں کی لسٹ دیکھنے کے قابل تھی۔۔

مگر آج تک کسی دشمن میں اتنی جرات نہیں تھی کے وہ بہزاد پہ وار کرسکے ۔۔۔

بہزاد کے والد دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوچکے تھے۔۔

سارا بزنس اب بہزاد دیکھتا تھا۔۔

اسکی پرسنیلٹی بلکل اسکے نام سے میچ تھی ۔

اکڑ اور غرور اسکی شخصیت کی پہچان تھی۔۔

لبنا اسکی یونی کی محبت تھی مگر شاید وہ بہزاد سے نہیں اسکی دولت سے محبت کرتی تھی ۔۔

بہزاد کی بے شمار محبت چاہت بھی لبنا کی نیت بدل نہ پائ اسنے بہزاد سے محبت کا جھوٹا ناٹک خالی اپنے کزن کے کہنے پہ کیا تھا تاکہ بھر پور دولت کو بٹورہ جاسکے ۔۔

شادی کے بعد بھی اسنے اپنے کزن سے نجائز تعلق رکھے دو جڑواں بیٹوں کے بعد بھی لبنا کو بہزاد کی محبت نہ دیکھ سکی۔۔

بہزاد کا اللّٰہ نے بےشمار حسن عطا کیا تھا مگر اسکا غرور اسکی آنا اسکی شخصیت کا چار چاند لگاتی تھی ایسا بہزاد کو لگتا تھا۔۔

!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

بازل اللّٰہ کے واسطہ مجھے معاف کردو قسم سے یہ میں نے نہیں کیا۔۔

ہنزہ نے اپنی شیطانی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔۔

میں لاسٹ بار بول رہا ہو ہنزہ ٹیبل کے اردگرد گھومنا بند کرو اور شرافت سے میرے آگے سرینڈر کردو۔۔

یہ بول کے بازل نے ایک بار پھر اسے ٹیبل کے بائیں طرف پکڑنا چاہا مگر ہنزہ دائیں طرف مڑ گئ۔۔

اوہ دھمکی تو دیکھو سرینڈر کردو ۔۔حکم تو ایسے چلا رہے ہو جیسے کوئ پولیس والے ہو ۔۔

سرینڈر از مائے فٹ۔۔

اگر میرے ہاتھ آگئ نہ ہنزہ یقین مانو میں نے وہ حال کرنا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔

ایک سڑے ہوئے   boss  پرفیوم کے پیچھے تم میرے ساتھ اپنے تعلقات خراب کروگے یہ ہےتمہاری دوستی۔۔

ہنزہ نے یہ کہہ کے اپنے کمرے کی طرف ڈور لگائ۔۔

سڑا ہوا پرفیوم جاہل لڑکی پیرس سے منگوایا تھا میں نے اور تم نے اسے اپنے واش روم چھڑک دیا۔۔

ہنزہ جو فل اسپیڈ میں بھاگ رہی تھی اپنے آپکو جائل کہنے پہ صدمے میں چلی گئ اور رک کے اپنی پوکٹ میں سے کانچ کی گولیاں نکالی اور بازل کے راستے میں پھینک کے دوبارہ بھاگی۔۔

بازل جو اندھا دھند اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا بیچارا گولیاں نہ دیکھ سکا اور سیدھا پھسلتا ہوا بابر صاحب سے ٹکرا گیا ۔

بابر صاحب جو اپنے کمرے سے کسی سے فون پہ بات کرتے ہوئے نکل رہے تھے ہاتھ میں انکے انکا چائے کا مگ تھا بازل کے ٹکرانے پہ انکا موبائل ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گرگیا ۔اور چائے انکے کپڑوں پہ۔

جہاں یہ منظر دیکھ کے ہنزہ کا ہاتھ ایک دم اپنے منہ پہ گیا وہی آگے کا سوچ کے بازل نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔ 

کوئ پارک سمجھا ہوا ہے ؟

کیا گھر کو۔۔۔

بابر صاحب کی گرجدار آواز ہال میں گونجی۔۔

اتنے بڑے ہوگئے ہو تمیز کیا چھو کے نہیں گزری تمہیں جب دیکھو تب بچے بنے رہتے ہو ۔ساری شارٹ خراب کردی میری ۔۔

موبائل جو توٹا وہ الگ ۔۔مجھے تو لگتا آکے اس دنیا میں تم صرف میرا نقصان کرنے آئے ہو بازل۔۔

سوری ڈیڈ وہ غلطی سے۔۔بازل نے شرمندگی سے کہا ۔

نفیسہ نفیسہ۔

بابر صاحب نے غصہ میں اپنی بیوی کا نام پکارا۔۔۔

جی جی ۔۔۔

کچن میں کام کرتی نفیسہ بیگم کسی جن کی طرح  بابر صاحب کے سامنے حاضر ہوئ۔۔

دوسری شرٹ نکال کے دو مجھے ۔۔

یہ بول کے بابر صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھے ۔۔

نفیسہ بیگم نے ایک شکایتی نگاہ بازل پہ ڈالی تو وہ اور شرمندہ ہوا۔۔۔

چوہدری مینشن میں دو فیملیاں رہتی تھی ۔

سب سے پہلی بابر صاحب کی فیملی جنکا ایک ہی بیٹا تھا بازل اور ایک ہی بیٹی تھی تمنا جو شادی کرکے دبئ میں سیٹل تھی بابر صاحب کے غصہ سے گھر کا ہر فرد ڈرتا تھا ۔یہاں تک کے انکا چھوٹا بھائ بھی۔۔۔

دوسری فیملی تھی فہیم صاحب تھے جنکی ایک ہی بیٹی تھی ہنزہ جو ڈاکٹر بن رہی تھی۔۔۔

بابر اور فہیم صاحب کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے دولت کی ریل پیل تھی انکے گھر مگر وہ  سادہ لوگ تھے ۔بس اکثر اس گھر میں خاموشی کا راج ہوتا خاص کر جب بازل اور ہنزہ یونی گئے ہوئے ہوتے۔۔نفیسہ بیگم اور ہاجرہ بیگم۔۔

دونوں کچن کا کام خود سنبھالتی تھی یہ انکی ساس کا بھی آڈر تھا اور بابر صاحب کا بھی۔۔

نفیسہ بیگم کی ایک ہی بہن تھی جو پنڈی میں تھی۔۔

ہاجرہ بیگم اپنے والدین کی اکلوتی تھی۔۔

!!!!!!!!!!!!!!!!!!

پچھلے پندرہ منٹ سے عترت نماز میں دل لگانے کی کوشش کررہی تھی مگر ہمیشہ اسکا دیھان بٹ رہا تھا اور وجہ تھی لانج میں چلتا تیز آواز میں میوزک اور عترت اچھی طرح جانتی تھی کے یہ حرکت کس کی ہے۔۔

جیسے تیسے عترت نے نماز ختم ہی اور لانج میں پہنچ کے ساوئنڈ سسٹم کا وائر کھینچ کے پلگ سے نکالا۔۔

صنم جو اپنے ہاتھوں کے ناخنوں کو نیل پینٹ سے رنگ رہی تھی میوزک اوفف ہوتے ہی اس نے نگاہ اٹھائ تو سامنے غصے سے لبریز چہرہ لیے عترت کو کھڑا پایا۔۔

میوزک کیوں بند کیا اپی۔۔؟؟

صنم نے سائونڈ  سسٹم کا وائر دوبارہ لگانا چاہا تو عترت نے صنم کا بازو پکڑ کے اسے دباتے ہوئے غصہ سے کہا۔۔

کچھ تمیز تہزیب ہے تمہیں کچھ شرم۔ہے کے نہیں۔۔؟؟؟

ابھی عصر کی اذان ہوئے دو سیکنڈ ہوئے ہیں اور تم اتنی تیز آواز میں گانے سن رہی ہو یہ۔جانتے ہوئے بھی کے اس گھر میں دادی اور میں نماز پڑھتے ہیں۔۔

تو میں کیا کرو آپ یہ دادی۔اگر نماز پڑھتی ہیں تو اپنے لیے پڑھتی ہیں اپی۔۔

زرا سا چھٹی کے دن اگر میں سکون سے گزارنا چاہو نہ عترت آپی  آپکو نہ تو یہ بات ہضم ہوتی ہے اور نہ ہی میرا سکون ہضم ہوتا ہے۔۔

بات کو غلط رخ نہ دو صنم اتنے تیز اواز میں گانے سن رہی ہو شاید اور بھی لوگ رہتے ہیں اس گھر میں جنکو اتنا لاؤڈ میوزک پسند نہیں۔۔

پسند نہیں تو کان میں روئ۔لگا کر بیٹھا کرے خاص کر جب میں گھر میں ہو ۔۔

صنم نے غصہ میں عترت سے ہاتھ چھڑوانے ہوئے کہا۔ 

یہ کس انداز میں بات کررہی ہو عترت سے؟

بڑے چھوٹے کا لحاظ بھول گئ ہو کیا؟؟

شاہجہان بیگم کی آواز لانج میں گونجی۔۔

آپ آپی کو کچھ نہیں بولینگی؟؟

اس نے ایسا کچھ نہیں کیا جو میں اسے کچھ بولو غلطی تمہاری ہے جو اتنی تیز آواز میں گانے سن رہی ہو یہ جاننے کے باوجود کے اذان کےفورا بعد تمہاری آپی تمہاری دادی نماز پڑھتی ہیں خود تو تمہیں نماز کا ہوش نہیں ہے۔۔

مجھے میری قبر میں جانا ہے ماما آپ میری بخشش کروانے نہیں ائینگی۔۔

صنم کا لہجہ سرد ہونے لگا۔۔

صنم اااااا

شاہجہان بیگم۔کی آواز ایک بار پھر لانج میں گونجی۔۔۔

تم بہت زیادہ بدتمیز ہورہی ہو ایسا نہ تمہاری لگامیں کھینچنی پڑے مجھے۔۔

کیا کرینگی پوکٹ منی بند کرینگی ؟کھانا نہیں دینگی۔۔۔۔

صنم چپ ہوجاو پلیز اچھا چلو میں تمہیں سوری بولتی ہو۔۔عترت نے جب معاملہ بگڑتا دیکھا تو خودی جھک گئ۔۔

آپ کا تو کام ہی یہی ہے پہلے تماشہ لگاتی ہیں پھر آجاتے ہیں رش کم کرنے۔۔

ایک بار اور اگر تم نے عترت سے بدتمیزی کی تو صنم مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔۔

آپ سے برا کوئ ہے بھی۔۔ابھی صنم کی بات منہ میں ہی تھی کے شاہجہان بیگم کا طمانچہ صنم کا گال چمکا گیا۔۔

عترت سمیت شور سن کے کمرے سے نکلتی بی جان نے بھی منظر دیکھا اور کرب سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔

صنم نے ایک نظر شاہجہان بیگم کو دیکھا عترت پہ غصیلی نگاہ ڈالتے ہی اس نے ساؤنڈ سسٹم کو تحس نحس کردیا گاڑی کی چابی اٹھائ اور باہر نکل گئ ۔

عترت اسے آوازیں دیتی رہ گئ مگر وہ نہیں رکی۔۔

شاہجہان بیگم وہی پاس رکھے صوفے پہ ڈھیر ہوگئ۔

شاہجہان ولا جسے اظہر صاحب نے محبت سے بنایا تھا اپنی محبت کیلے ۔

مگر آج وہ اس گھر میں اکیلی رہتی اپنی ساس اور دو بیٹیوں کیساتھ۔۔

اظہر صاحب کا کاروبار بڑا وسیع تھا جیسے سنبھالنے کیلئے انہیں ایک بیٹا چاہیے تھا مگر دوسری بار بیٹی پیدا ہونے پہ اظہر صاحب کو تشویش ہونے لگی کے کہی وہ بنا وارث کے نہ مرجائے کیونکہ صنم کے پیدا ہونے کے بعد ڈاکٹر نے اظہر صاحب کو بتا دیا تھا کے اب انکی وائف دوبارہ ماں نہیں بن سکتی۔۔

ایک بیٹا کیلے انہوں نے دوسری شادی کرلی انہوں نے شاہجاں بیگم کو بہت سمجھایا مگر انہوں نے یہ کہہ کے اظہر صاحب سے اپنے راستے الگ کرلیے کے وہ محبت میں بٹوارا برداشت نہیں کرسکتی۔۔

آج بھی اظہر صاحب کے نام پہ بیٹھی ہیں مگر انہیں دیکھے آج بائیس سال ہوگئے ہیں۔۔

اظہر صاحب نے کئ بار شاہجاں کی مدد کرنی چاہی انہیں کہاں کے اس دولت پہ میری بیٹیوں کا بھی حق ہے مگر انہیں جب اظہر صاحب سے ہر تعلق توڑا تو انکی جائیداد میں سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا سوائے اس گھر کے جہاں وہ اپنی ساس کی خواہش پہ رہ رہی ہیں۔۔وہ اس شرط پہ کتے کبھی اظہر اس گھر میں نہیں ائینگے۔۔۔

اظہر صاحب کا غصہ پچھلے بائیس سالوں سے وہ صنم پہ نکالتی تھی جسکی وجہ سے صنم کی شخصیت میں ایک خلا تھا۔۔

اپنے والد کا بزنس شاہجاں بیگم نے بہت اچھا سنبھالا تھا اور آج انکا نام ایک فیمس بزنس وومن میں لیا جاتا ہے ۔

!!!!!!!!

دومنٹ کے اندر اندر شانزے تیار ہوکے نیچے آجا کیوں ؟.کہاں جانا ہے ا؟ایسا سوال ہرگز نہیں پوچھنا دماغ بہت شارٹ ہے۔۔

صنم نے گاڑی شانزے کے گھر کے آکے روک کے اسے فون کرکے کہا۔۔

آئ آئ میری جان بس دو منٹ ماما کو بتا کے آرہی ہو۔۔۔۔

ماما میں صنم کے ساتھ جارہی ہو ابھی اجاونگی تھوڑی دیر میں ۔۔

شانزے نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے نادیہ بیگم مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔

ارے ارے کہاں جلدی میری طوفان ایکسپریس۔۔شانزے جو تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی مراد کے راستے میں آتے ہی ایک دم رکی۔۔

مراد نے ایک دم شانزے کے راستے میں آتے ہوئے کہا ۔

یار صنم کا آج موڈ بہت خراب ہے باہر جارہی ہو اجاونگی تھوڑی دیر میں۔۔

افف ایک۔تو مجھے تمہاری اس دوست سے بہت مسئلہ ہے جب بھی میں تمہارے ساتھ جانے کا کہی سوچتا ہو یہ ہمیشہ درمیاں میں آجاتی ہے۔۔

مراد آج تو کہ دیا ہے آئندہ نہیں کہنا صنم زندگی ہے میری اور تم۔جان۔۔

یہ کہہ کے شانزے نے باہر کو ڈور لگائ ۔۔

مراد نے مسکرا کے جاتی ہوئ شانزے کو دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔

شانزے کی فیملی میں ٹوٹل 5 لوگ تھے ۔۔

وہ اپنی ماں باپ کی اکلوتی تھی ۔۔اسکی پھپھو اور اسکا بیٹا مراد انہیں کیساتھ رہتے تھے مراد کے فادرکی ڈیتھ ہوگئ تھی اور جواد صاحب کو اپنی بہن بہت عزیز تھی اسلیے انہوں نے اپنی بہن کو ہمیشہ کیلیے ساتھ رکھ لیا۔

شانزے اور صنم اسکول کے ٹائم سے دوست تھی اور دوسری وجہ انکی دوستی کی تھی انکا ڈانس ۔بہت سارے کمپیٹیشن وہ دونوں ایک ساتھ جیت چکی تھی دو جسم ایک جان والا سین تھا ان دونوں کا ۔۔

جواد صاحب نہ تو مڈل کلاس تھے اور نہ انکا شمار امیروں میں ہوتا تھا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں وہ مینجر تھے اور اب مراد کو بھی وہ اسی کمپنی میں لگانوانے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔

مگر صنم تجھے اچھا لگے یہ برا غلطی تیری ہے۔۔۔

صنم نے گھور کے شانزے کو دیکھا تو اس نے کندھے آچکا دیے۔۔

دیکھ صنم یہ بات تو تو تسلیم کر لے کے تیری نیچر میں اور عترت آپی کے نیچر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔

آنٹی نے تم لوگوں کو ،گھر کو بزنس کو ،پھر تمہاری دادی کو کسطرح سنبھالا ہے تمہارے سامنے ہیں۔۔

ٹھیک ہے اگر تو انکی توقعات پہ پوری اترنا نہیں چاہتی تو انکو جلانا انکو غصہ دلانا بھی چھوڑ دے ۔

شانزے کی باتیں کافی حد تک صحیح تھی ۔۔

صنم گردن جھکا کے شانزے کی ساری باتیں چپ کرکے سن رہی تھی اور یہ بات شانزے کو صنم کی پسند تھی کے جب اسے کچھ سمجھاؤ تو وہ سمجھ  جاتی ہے ۔

اب بتاؤ گھر چھوڑ رہی ہو مجھے ؟؟

کیوں کلب نہیں چلے گی؟

آج نہیں صنم آج میں ماما کو تھوڑی دیر کا بول کے آئ ہو اس ہفتہ پکا۔۔۔

چل ٹھیک ہے پھر....

########

وہاج بیٹا تمہاری چھٹیاں کب پڑینگی۔۔۔؟

ندا بیگم نے کمرے میں آکے یونیفارم پہنتے ہوئے اپنے فوجی بیٹے سے پوچھا۔

کیوں ماما آپکو کہی جانا ہے ؟

وہاج نے جوتے پہنتے ہوئے پوچھا۔۔

ہاں میں سوچ رہی تھی آپا کے پاس کراچی جانے کا۔۔

تو آپ میرا نتظار مت کرے تقریبا 10 15 دن لگ جائے ابھی چھٹیاں ہونے میں۔۔

نہیں جاؤنگی تو اب تمہارے ساتھ ہی جاؤنگی آپا بھی بول رہی تھی کے وہاج کو لے کے آنا جب سے اس نے ائیر فورس جوائن کی ہے اسکی شکل دیکھنے کیلیے ترس گئ ہو۔۔

اس بار ایک اور کام بھی ہے مجھے کراچی میں۔

وہاج نے بنا اپنی ماں کی طرف دیکھے کہا۔۔

میری شادی کا مت سوچیے گا؟

وہاج 28 کے ہوگئے ہو اکلوتی اولاد ہو میری کیا چاہتے ہو اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے چلی جاو۔۔یہ بول کے ندا بیگم کی آنکھیں بھر ائ۔۔

اوہ ہو اچھا نہ ڈھونڈ لیے گا میرے لیے لڑکی خوش۔۔

سچ کہہ رہے ہو نہ بعد میں مکرو گے تو نہیں ؟؟

میری پیاری امی جان نہیں مکرونگا اب جائے جلدی سے ناشتہ لگائے مجھے لیٹ ہورہا ہے۔۔

ہاں ہاں تم آجاؤ فٹا فٹ میں ہما (ماسی)سے کہہ کے ناشتہ لگواتی ہو۔۔

ندا بیگم کے جاتے ہی وہاج کے کچھ دیر پہلے مسکراتے لب ایک دم سکڑے۔۔اچانک کوئ چہرہ چھن کرکے اسکے سامنے ایا۔۔

دل کے کسی کونے نے گواہی دی۔۔

وہاج مان کیوں نہیں لیتے آج بھی تم اس سے محبت کرتے ہو؟؟.

نہیں کرتا وہ بیووفا ہے ۔۔

دل کی گواہی کو روندھ کے وہاج ناشتہ کرنے نیچے چلا گیا۔۔

######

بلاج بیٹا یہ صائم نہیں آیا ابھی تک ناشتہ کرنے۔۔

رخسانہ بیگم نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کے کہا۔

آپکو یاد نہیں کل سنڈے تھا تو آپکا لاڈلہ پوتا پوری رات اپنی دوستوں میں تھا رات دیر تک واپس آیا ہے۔۔

ہاں تو پورا ہفتہ تمہارے ساتھ آفس میں کام بھی تو کرتا ہے اگر دو دن اسے مل جاتے ہیں انجوائے کرنے کے تو اسمیں بھی تمہیں اعتراض ہے۔۔

بلاج صاحب نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ چائے کا گھونٹ لیا اور کہا۔۔

نہیں ماں آپکی کسی بات پہ اعتراض کرنا میں  نے سالوں پہلے چھوڑ دیا ۔۔

بلاج کی اس بات پہ رخسانہ بیگم کا دل کٹ کے رہ گیا۔۔بلاج اب تو معاف کردو اپنی ماں کو اب تو اتنے سال ہوگئے اس بات کو۔۔

نہیں ماں آپکا حق ہے مجھ پہ ایسا مت کہے بس آپ کیساتھ ساتھ مجھ پہ کسی اور کا حق بھی تھا ماں جو اپنے زبردستی کسی اور کو دلوادیا۔۔

ناصرہ کو مرے ہوئے ہوئے آج پورے دس سال ہوگئے ہیں وہاج آج بھی تم اس بات پہ ناراض ہو کے میں نے تمہاری مرضی جانے بغیر تمہاری شادی زبردستی اپنی بھانجی سے کروادی۔

نہیں ماں ناراضگی کا لفظ اب بہت دھندلا پڑ گیا۔۔

اب نے کسی کو صرف محبت کرنے کی سزا دی ماں اپنی زبان کے پیچھے ناصرہ میری بیوی تھی مجھے پتہ ہے اسے مرے ہوئے دس سال ہوگئے مگر ماں وہ بھی میری بیوی تھی جیسے دیکھے مجھے بیس سال ہوگئے۔ ۔مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کے وہ زندہ ہے یہ مرگئ۔۔بس یہ ہی دعا ہے مرنے سے پہلے ایک بار اسے دیکھ لو اچانک ہی صحیح وہ کہی سے میرے سامنے اجائے تو اس سے معافی مانگ لو کیوں کے اس نے وہ ہجر کاٹا ہے ماں جسکی وہ حقدار نہیں تھی اس نے نہیں آپکے بیٹے نے اسے پسند کیا تھا ۔اپکی قسم نے ماں مجھ سے میرے جینے کی وجہ چھین لی آج اگر میں زندہ ہو تو صرف صائم کیلیے آپ کے لیے دوبارہ میرے ماضی کو مت کریدنا ماں ۔ 

ضروری نہیں ہے ماں کے جو ظاہری زخم ہو وہی کریدنے پہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں کچھ اندرونی  زخم ایسے بھی ہوتے ہیں ماں جو ہرگزرتے دن کیساتھ خود بخود ہرے ہوجاتے ہیں۔۔

یہ بول کے بلاج صاحب رکے نہیں چلے گئے۔۔

رخسانہ بیگم کے پاس اب پچھتانے کے علاؤہ کچھ نہیں تھا۔

بلاج مینشن میں کل پانچ لوگ رہتے تھے ۔

بلال صاحب اور انکی بہو یعنی ناصرہ اب اس دنیا میں نہیں تھے۔۔

بلاج کسی مشین کی طرح دن رات کام کرتے تھے نجانے وہ کس سے بھاگ رہے تھے ۔۔انکا ایک ہی بیٹا تھا صائم جو انہیں عزیز تھا جسکی خاطر وہ جی رہے تھے وہاج صاحب کی ایک ہی بہن تھی جو لندن میں اپن

اپنے شوہر کیساتھ رہتی تھی اور ہر سال پاکستان آتی تھی۔۔

#######

نہیں سر ابھی تک اسکا کچھ پتہ نہیں چل سکا...

بہزاد کا مینجر اسکے سامنے گردن جھکا کے کھڑا تھا۔۔

زمیں کھا گئی یہ آسمان نکل گیا بہزاد نے ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ دیوار پہ مار کے کہا۔

سر ہم کئ دفعہ اسکے گھر گئے ہیں مگر ہر دفعہ اسکی بیوی بولتی ہے کے نہیں ہے گھر پہ۔۔

نظر رکھو اس گھر پہ کوئ تو ایسی کمزوری ہوگی دلاور کی جس کیلیے وہ ہمارے سامنے آئے گا۔۔

جی سر۔۔

جواد صاحب آگئے ہو تو انہیں میرے کیبن میں بھیجو۔۔

جی سر ۔

بہزاد فائنل دیکھنے میں مصروف تھا جب جواد صاحب کیبن میں ائے۔۔

جی سر اپنے بلایا۔۔

ہاں جواد صاحب وہ اپنے اپنے بھتیجے کی بات کی تھی میری ایک کولیگ کی کمپنی میں ویکنسی ہے کل آپ اسے وہاں بھیج دیجیے گا انشاء اللہ کام بن جائے گا۔۔

شکریہ سر اپکا۔۔

کوئ بات نہیں جواد صاحب آپ ہمارے اتنے پرانے ایماندار ایمپلائ ہیں اتنا تو کر سکتا ہو آپکے لیے۔۔

"#########

مس لیلی آپ نے فائل سائن نہیں کروائی ابھی تک سر وہاج سے۔۔

سر وہ ابھی میٹنگ میں ہے۔۔

مس لیلی جو کے ایک ہاٹ سی نازک سی لڑکی تھی جسے صائم نے اپنی پرسنل سیکریٹری کے طور پہ ہائر کیا تھا ۔

صائم اپنے کالج کے زمانے سے ہی پلے بوائے کے نام سے مشہور تھا ایسی کوئ لڑکی نہیں جس پہ صائم  وہاج نے اپنی پسند کی نگاہ ڈالے اور وہ اسکے جھانسے میں نہ پھنس جائے۔۔

اللہ نے شکل و صورت اتنی حسین دی تھی کے لڑکیاں ایک جھلک میں فدا ہو جاتی تھی اوپر سے دولت مند۔۔

صائم اب تک کافی لڑکیوں سے فلرٹ کرچکا تھے نجانے کتنوں کا دل توڑ چکا تھا ۔۔

مگر صائم پر کوئ فرق نہیں پڑتا کون روئ کون گئ کس کا دل ٹوتا۔۔

کیونکہ صائم کا ماننا تھا آج کے دور میں ایسی کوئ لڑکی نہیں جو دولت پہ نہ مرتی ہو۔

میٹنگ کا نام سنتے ہی صائم کا پلے بوائے والا روپ اون ہوا۔

مس لیلی آج تو آپ کافی ہاٹ لگ رہی ہیں۔۔۔

مس لیلی جو آج خاص کر شارٹ شرٹ جسکا گلہ کافی دیپ تھا اسکے ساتھ تنگ کیپری پہن کر آئ تھی صائم کی توجہ حاصل کرنے کیلیے اور اسکی محنت رنگ لے آئ تھی ۔

شکریہ سر۔۔

صائم کی تعریف پہ لیلی شرمانے لگی۔۔

مگر کیا ہے نہ لیلی مجھے آپ دور سے تھوڑی کم ہاٹ لگی رہی ہیں زرا قریب آئ تو پتہ چلے آپ کتنی ہاٹ ہیں۔۔

شاید لیلی صائم کے بولنے کا ہی ویٹ کررہی تھی۔۔

صائم کے ایک دفعہ کے بلانے پہ ہی لیلی صائم کی ران پہ جاکے بیٹھ گئ۔۔

آپ تو کافی ہاٹ ہیں مس لیلی ۔۔اور یہ ڈریس آپ پہ کافی سوٹ کررہا ہے صائم نے یہ بات بول کے مس لیلی کے چہرے کے بال کان کے پیچھے کیے۔۔اسے اندازہ نہیں ہوا کے اسکا یہ رومینٹک سین کوئ بہت غصہ سے دیکھ رہا ہے

یہ بول کے صائم اسکے لبوں پہ جھکنے لگا جب  ایک دم کسی نے چیخ کے کہا۔ 

تو یہ تمہاری بہت اہم میٹنگ جسکی وجہ سے تم مجھے اگنور کررہے ہو۔۔

صائم جو اپنا کام پورا ہوتا دیکھ بہت خوش ہورہا تھا ایک دم کسی جانی پہچانی آواز پہ ایک دم ہڑبڑایا۔۔

آپنے سامنے اپنی پرانی گرل فرینڈ جسی وہ اب اکتانے لگا تھا اور اسکے اکتانے کی وجہ تھی۔مدیحہ کا بار بار شادی پہ اصرار کرنا۔۔

مدیحہ کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کے صائم نے تقریبا پھیکنے والے انداز میں لیلی کو اپنی گودھ سے نیچے اتارا۔

مدیحہ نے آگے بڑھ کے صائم کا گریبان پکڑ کے کہا ۔۔

یو چیٹر،لائر، تم نے مجھے دھوکا دیا چھوڑونگی نہیں میں تمہیں۔۔

یہ بول کے جیسی ہی مدیحہ نے صائم کے منہ پہ چماٹ مارنا چاہا ویسے ہی صائم نے اسکا ہاتھ روک کے کہا۔

سوچنا بھی نہیں مدیحہ ڈارلنگ ورنہ مجھے جانتی نہیں تم ابھی۔

 ہوٹل میریٹ کے سوئیٹ روم میں گزارے ہمارے کچھ پلوں کی ویڈیو ہے میرے پاس جیسے لیک کرنے میں مجھے زرا بھی افسوس نہیں  ہوگا۔۔

صائم کے منہ سے سنے والی دھمکی سے مدیحہ کے چہرے پہ گھبراہٹ کے آثار رونما ہونے لگے۔۔

لیلی نے جب ان دونوں کے درمیان گہماگہمی ہوتی دیکھی تو فورا کیبن سے باہر چلی گئ۔۔

تم۔میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے صائم میں تم سے محبت کرتی ہو اپنا سب کچھ تو تم پہ وار چکی ہو پلیز میرے ساتھ ایسا نہیں کرو میں مرجاونگی۔۔

مدیحہ نے صائم کے بےحد قریب ہوکے اسکا چہرہ تھام کے کہا ۔

بے بی مجھ سے پہلے تم اپنا سب  کسی اور پہ بھی وار چکی ہو اگر چاہو تو ڈیٹیل دے سکتا ہو۔۔

صائم کے انکشاف پہ مدیحہ کی ساری اکڑ خاک میں مل گئ۔۔

تم کس ٹائپ کی ہو مدیحہ بے بی یہ تو میں اسی وقت سمجھ چکا تھا جب تم نے مجھ سے مہنگے مہنگے گفٹ مانگنا شروع کرے ،تمہاری شرافت کا اندازہ یہاں سے لگالو کے اپنے ماں باپ کو جھوٹ بول کے ایک غیر آدمی کیساتھ تم ہوٹل کے کمرے میں مزے لے رہی تھی   ۔۔

شرافت اور عزت تمہاری اسی میں ہے کے چپ چاپ یہاں سے چلی جاؤ اگر زرا بھی ہوشیاری کی نہ صائم وہاج کیساتھ تو یقین مانو اس شہر میں سانس لینا بھی مشکل کردونگا تمہارا

۔

مدیحہ جوشیرنی کی طرح ڈھارتی ہوئ آئ تھی بھیگی بلی کی طرح چلی گئ ۔۔

چھوٹی بی بی سائیں۔۔

ہاں لائبہ بولو ۔۔

بیبی جی وہ ہیر بیٹی کا رزلٹ آگیا ہے مگر وہ ہیں ہے رزلٹ دیکھنے کے بجائے کمرے میں بند ہیں صبح سے۔۔

لائبہ کی بات پہ خوشبو مسکرائ اور کہا۔۔

جانتی تو ہو لائبہ جب جب اسکا رزلٹ آتا ہے وہ ایساہی ریکٹ کرتی ہے ۔۔

تم جاؤ دیکھو کھانا بنا یہ نہیں میں دیکھتی ہو اسے۔۔

خوشبو واسق گاؤں کے ایک زمیندار کی بیٹی تھی ۔ماں  کے گزرنے کے بعد واسق صاحب نے ہی اسے ماں اور باپ دونوں بن کے پالا

۔مگر باپ کا سایہ بھی بھری جوانی میں اسکے سر سے اٹھ گیا وہ بھی اس وقت جس وقت اسے کسی اپنے کے ساتھ کی ضرورت تھی۔۔

 باپ کے مرنے کے بعد اسنے ہی گاؤں کا سارا نظام سنبھال لیا ہیر اسکی بھانجی تھی۔۔سب یہ بولتے تھے

اسکی اچھی پڑھائ کیلیے خوشبو فلحال کراچی میں تھی ۔لائبہ انکی پرانی ملازم تھی تقریبا سارے ملازم ہی آہستہ آہستہ خوشبو کا ساتھ چھوڑ گئے تھے مگر لائبہ اسکا شوہر ہمیشہ خوشبو کے ساتھ تھے۔۔

لائبہ کا شوہر اس وقت گاؤں میں تھا وہاں کی زمینوں کی دیکھ بھال اسکے ذمہ تھی ایک طریقے سے وہ منشی کا کردار ادا کرتا تھا ۔۔

بیس سالوں سے وہ وہ پوری ایمانداری سے خوشبو کو ایک ایک پیسہ کا حساب دیتا تھا۔

پیسے کی ریل پیل تھی مگر خوشبو کو اب کسی چیز کی لگن نہیں تھی وہ ہمیشہ سادہ سی رہتی تھی تھی 38 سال کی ہونے کے باوجود وہ اب بھی بہت جوان لگتی تھی۔۔

ہیر کو خوشبو نے ہی پالا تھا مگر ہیر کو اتنی جازت نہیں تھی کے وہ اپنے ماں باپ کے بارے میں سوال کرے کیوں کے خوشبو نے اسے یہ بتایا ہوا تھا کے اسکے ماں باپ نہیں ہیں وہ اسکی انی ہیں۔۔

کہاں ہیں ماں باپ ہیں بھی نہیں ایسا کوئ سوال ہیر  خوشبو سے نہیں پوچھتی تھی اور شاید یہ ہی خوشبو چاہتی تھی کے ہیر اس سے کوئ سوال نہ کرے۔۔

ہیر دروازہ کھولو جان۔

خوشبو کی آواز سن کے ہیر نے ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بغیر دروازہ کھول دیا۔۔

ہیر کو اللہ نے بے شمار حسن دیا اسکے گولڈن بال اسکی شخصیت میں چار چاند لگاتے تھے شاید کبھی اسکی ماں باپ نے اسکا۔نام ہیر رکھا تھا۔۔

خوشبو نے اندر آکے ہیر کو گلے سے لگایا اور پوچھا۔۔

کیا بات ہے ہیر کب سے لائبہ آپکا دروازہ بجا رہی تھی اپ دروازہ کیوں نہیں کھول رہی تھی۔۔

آج پکا رزلٹ تھا نہ کیا آیا رزلٹ۔۔؟؟

خوشبو سوال پہ سوال کررہی تھی مگر ہیر خاموش تھی۔

خوشبو کو لگا شاید رزلٹ اچھا نہیں ایا۔۔

اگر اس بار رزلٹ  اچھا نہیں آیا تو کوئ بات نہیں ہیر ۔۔

نہیں آنی میں نے ٹوپ کیا ہے پورے کالج میں ۔۔

کیا ۔۔۔اااااا

خوشبو کی خوشی کی کوئ انتہا نہیں رہی۔۔

تو پھر اداس کیوں ہو ؟؟.اب تو تم انٹیریئر ڈیزائنر بن سکتی ہو اچھی سی اچھی یونی میں ایڈمیشن ہوجائے گا تمہارا۔۔۔

نہیں آنی مجھے اب انٹیریئر ڈیزائنر نہیں بننا۔۔۔

یہ کیا بول رہی ہو ہیر یہ تو تمہارا خواب تھا۔ 

مجھے اسکالر شپ پہ 6 مہینے کیلیے کالج والے لندن بھیج رہے ہیں کورس کیلیے ایک دو اسٹوڈینٹ اور ہیں 

تو بس آپکو اکیلا یہاں چھوڑ کے جانے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتی ۔۔

یہ بول کے ہیر کمرے سے باہر چلی گئ۔۔۔

######

صنم نے صبح ناشتہ کی ٹیبل پہ خاموشی سے ناشتہ کیا ۔وہ تینوں بہت غور سے صنم کو ناشتہ کرتا دیکھ رہی تھی۔۔

آج صنم تھوڑا لگ ریکٹ کرہی تھی کیونکہ عموما جب وہ غصہ میں گھر سے باہر جاتی تو اگلے دن اسکا پورا دن کمرے میں گزرتا۔۔

عترت آپی کل کیلیے آئ ایم سوری غلطی میری ہے میں خود تو نماز پڑھتی نہیں اور آپکو بھی پڑھنے نہیں دی کل سوری ۔

صنم کے سوری کرنے پہ جہاں عترت کے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ چھلکا وہی شاہجاں بیگم اور بی جان بھی صدمے میں تھی۔۔

ماما واپسی میں مجھے دیر ہوجائے گی شانزے کیساتھ مارکیٹ جانا ہے ۔۔

یہ بول کے صنم چلی گئ مگر وہ تینوں صنم کے رویہ پہ ابھی تک شاکڈ تھی۔۔

########

عاشر آپکی رپورٹ کارڈ آج پھر خراب آئ ہے۔۔

بہزاد گاڑی میں بیٹھا عاشر پہ غصہ کررہا تھا مگر عاشر اس نے اپنے پاپا کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔۔

وہ ناراض تھا اپنے پاپا سے فاخر کے جانے کے بعد سے۔

ایک شاپ کے اگےبہزاد کی گاڑی رکی تو ساتھ میں اسکے گارڈز کی بھی گاڑی رکی ۔۔

یہ ایک بہت بڑی بیکری تھی عاشر کو اتنا ڈانٹنے کے بعد بہزاد اسکے لیے کچھ لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔

عاشر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔۔

بہزاد سامان لے کر واپس آیا تو اسکے نمبر پہ۔کال آنے لگی ۔۔

جسے سننے میں وہ  مصروف ہوگیا اسکے گارڈز اسکے آگے پیچھے تھے۔۔

عاشر جو کافی دیر سے ایک کتے کو دیکھ رہا تھا جو بہت چھوٹا تھا اور ایک گڈے میں پھنسا ہوا تھا۔۔

عاشر نے ایک نظر بہزاد کو دیکھا جو کال میں مصروف تھا اور اسکے گارڈز اسکی۔نگرانی میں۔۔

عاشر نے گاڑی کا گیٹ کھولا اور روڈ کے اس پار کتے کے پاس جانے لگا۔۔

#######

افف صنم آج تو شانزے یہ بول کے روڈ کراس کرہی تھی کے جبھی اسکی نظر عاشر  پہ پڑی جو بنا دیھان دیے روڈ کراس کررہا تھا۔اور اس بات سے انجان تھا کے ایک ٹرک تیزی سے اسکی طرف آرہا ہے۔۔

شانزے نے دور کے عاشر کو تیزی سے پکڑ کے کھینچا ایک ہلچل مچ گئی صنم کی بھی چیخ بلند ہوئی مگر ایک بہزاد تھا جو کال پہ مصروف رہا ۔

بیٹا آپکو لگی تو نہیں ۔

شانزے نے عاشر کو اٹھا کے پوچھا ۔۔

نہیں انٹی۔۔

کس کے ساتھ ہو اپ؟؟

شانزے کے پوچھنے پہ عاشر نے بہزاد کی طرف اشارہ کیا۔۔

شانزے غصہ میں بہزاد کی طرف بڑی اور اتنی تیزی سے بہزاد کے ہاتھ  سے موبائل کھینچ کے نیچے پھینکا کے اسکے گارڈز حیران رہ گئے۔۔

انہوں نے فورا شانزے کی طرف اپنی گنز کری۔۔

بہزاد دو منٹ کیلیے شانزے کی ہمت پہ حیران رہ گیا ۔

کچھ ہوش ہے یہ نہیں آپکو ۔

اگر بروقت میں اس بچے کو روڈ کراس کرنے سے نہیں روکتی تو آپکا بیٹا اللہ کو پیارا ہوچکا تھا۔

یہ اتنے موٹے موٹے  گارڈز کی اپنی نگرانی کیلیے رکھے ہیں۔

اتنے بڑے ہوکر خود کی نگرانی کروا رہے ہیں اور اتنی سے بچے کو لاوراثوں کی طرح چھوڑ دیا۔

بیٹا کون ہیں یہ اپکے؟؟

آنٹی پاپا ۔۔

لوجی ماشاءاللہ پاپا کو تو دیکو اپنے موبائل سے ہی فرصت نہیں ہے ایسا کونسا فون تھا بم بلاسٹ کروارہے تھی کہی جو دیھان نہی رہا اپنے خود کے بچے پہ۔۔

صنم جو بہزاد کو دیکھ کے اتنی دیر سے یہ سوچنے کی کوشش کررہی تھی کے اس نے بہزاد کو کہاں دیکھا ہے۔۔

مگر جب صنم۔کو یاد آیا تو وہ شانزے کا ہاتھ پکڑ کے کھینچنے لگی ۔

شانزے بس کرو تم جانتی نہیں انہیں یہ بہزاد چوہدری ہیں۔۔

ارے ہوگا کوئ بہزاد بغداد ۔۔

میری نظر میں تو یہ ایک دم بیکار شخص ہیں جو اپنا بچہ نہیں سنبھال سکتے۔۔

ارے ہٹ صنم ۔۔شانزے ایک بار پھر بہزادسے لڑنے جانے لگی جب صنم اسے کھینچتی ہوئ راڈ کراس کرنے لگی۔۔

مگر شانزے کی نیلی آنکھیں بہزاد کو غصہ میں گھور رہی تھی اور بہزاد کی اس پہ ۔۔

بہزاد نے  اس لڑکی کی  جرات پہ دل سے داد دی اور گاڑی میں بیٹھتے ہوئے صرف ایک لفظ دوہرایا۔۔

"شانزے "

کیا سوچا پھر تم نے ہیر۔۔۔؟؟

کیا کرنا ہے آگے ؟؟.

کچھ نہیں سوچا آنی اور آپ بھی سوچنا چھوڑ دے ہیر نے ناشتہ سےبھر پور انصاف کرتے ہوئے کہا ۔

مجھے جتنا پڑھنا تھا میں نےپڑھ لیا بس نہیں بننا کوئ انٹیریئر ڈیزائنر۔۔

ایسا کوئ بھی کام نہیں کرنا مجھے جس کی وجہ سے مجھے آپکو چھوڑ کے جانا پڑے۔۔

کیوں شادی نہیں کروگی؟؟.

نہیں ساری زندگی ایسی۔۔۔

اللّٰہ نہ کرے ہیر سوچ سمجھ کے بولا کرو کوئ بھی وقت قبولیت کا ہوتا ہے۔۔

خوشبو نے تقریبا اتنی زور سے یہ بات بولی کے پل بھر کیلیے ہیر ڈر گئ۔۔مگر ان کے ساتھ بیٹھی لائبہ خوشبو کا ڈرنا اچھے سے سمجھتی تھی ۔

خوشبو نے ناشتہ ادھورا چھوڑا اور کمرے میں بند ہوگئ ۔

ہیر نے مدد طلب نظروں سے لائبہ کو دیکھا مگر اس نے کندھے آچکا کے یہ صاف ظاہر کردیا کے وہ اسکی کوئ مدد نہیں کرسکتی۔

"#####

عترت ؟

جی ماما ۔۔

بیٹا ندا آنٹی کی کال آئ تھی وہ اگلے ہفتہ کراچی آرہی ہیں۔۔

ارے سچ ماما کافی ٹائم ہوگئے ندا آنٹی سے ملے ہوئے۔

ہاں یہ تو ہے میری یونی فرینڈ ہے ندا مگر نجانے خوشبو کہاں ہے جب سے یونی ختم ہوئی اس نے ہم دونوں سے رابطہ نہیں کیا مگر میں نے بھی اس بار سوچ لیا ہے اس ڈھونڈ کے رہونگی اسکے گاؤں جانا پڑے بھلے۔

جی۔ماما مجھے بھی خوشبو آنٹی سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے انہیں خالی تصویروں میں ہی دیکھا ہے۔۔۔۔

ہممم !!!

ندا اس بار اپنے بیٹے کیساتھ آرہی ہے ۔۔

بتا رہی تھی ندا ائیر فورس جوائن کرلی ہے اسکے بیٹے نے۔۔

ہممم ۔۔

اچھا یہ بتاؤ صنم کہاں ہے؟؟

ماما آپکو پتہ ہے آج ہفتہ ہے اپکی صنم آج وہ کلب جائے گی شانزے کیساتھ جسکی میمبر شپ حاصل کرنے کیلیے وہ کب سے خوار ہورہی تھی۔۔

اچھا اچھا چلو پھر تو آج اسے دیر ہو جائے گی۔۔

ہمم ۔۔

ماما میں زرا دائ جان کو دوائ دے او۔۔

ہاں بیٹا جاؤ مجھے بھی ایک دو کام ہے آفس کے وہ میں کرلو۔۔

########

بازل سیدھی شرافت سے دے دو مجھے نوٹس دن رات محنت کرکے بنائے ہیں پلیز۔۔۔۔

اووو ۔

۔۔اور میں نے وہ پرفیوم ایک مہینہ خواری کے بعد حاصل کیا ۔۔۔

ہاں تو بدلے میں تم نے میری میک اپ کٹ خراب کر تو دی۔۔

ہنزہ نے دوبارہ اسے پکڑتے ہوئے کہا۔ 

وہ بیڈ پہ چڑھتی تو  وہ بیڈ سے اترتا وہ چڑھتا تو وہ اترتی۔۔

پچھلے آدھے گھنٹے سے یہ سین چل رہا تھا۔

وہ میک اپ کٹ خراب کرکے مجھے سکون نہیں ملا یو نو واٹ سکون سکوں۔۔

بازل نے ایک لمبی سانس لے  کر کہا۔۔

اسی وقت منزہ نے اسکی شرٹ پکڑ کر جیسی ہی پکڑنا چاہا بازل جو بیڈ پہ کھڑا تھا اسکا بیلنس آؤٹ ہوا اسنے گرنے سے بچنے کیلئے ہنزہ کو تھاما دونوں کا بیلنس آؤٹ ہوا دونوں ایک دوسرے کے اوپر جیسی ہی گرے ان دونوں کے لب آپس میں ٹکرا گئے۔۔۔

منزہ بازل کے اوپر تھی ۔۔

دونوں کے ہونٹ اتنے اچانک ایک دوسرے سے ملے کے دو پل کیلیے بازل کی ہارٹ بیٹ مس ہوئ کچھ ایسا ہی حال ہی ہنزہ کا تھا ۔۔

ہنزہ کا شرم سے لال چہرہ بازل دیکھنے پہ مجبور ہوگیا۔۔

ہنزہ نے اٹھنے کی کوشش کری تو بازل کی نظر ہنزہ  کے گہرے گلے پہ پڑی بازل نے فورا اپنی نگاہ جھکا لی۔۔

ہنزہ جیسے تیسے بازل پہ سے اٹھی اور جتنی اسپیڈ میں وہ بازل کے کمرے سے بھاگ سکتی تھی وہ بھاگی ۔۔

مگر بازل اسکے چاروں شانے چت ہوچکے تھے اسکے لب دھیرے سے مسکرائے اس نے اپنا ہاتھ دل پہ رکھ کے دھیرے سے پوچھا۔۔

"سچ میں"

#######

اوہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہماری چھوٹے سے کلب میں۔۔

صائم کلب میں داخل ہوا تو کلب کا مالک جو اسکا بہت اچھا دوست تھا اسکو دیکھتے ہی اسکی طرف بڑھا۔۔

ہاں یار بس جب سے ڈیڈ نے بزنس جوائن کروایا ہے ٹائم۔ہی نہیں ملتا آج پورے دوہفتے بعد فری ہوا ہو تو سوچا کسی تتلی کے پروں سے ہی کھیل لو ۔

صائم نے آنکھ مار کے اپنے دوست سے کہا۔

تو دونوں کا ایک ساتھ قہقہ گونجا۔۔

مگر تیرے پاس تو تتلی تھی نہ اڑ گئ کیا؟

ارے اسکا تو نام مت لے خود تو اڑی اڑی ساتھ میں دوسری بھی لے  کے اڑی۔۔

اوہ چل میرے شیر کوئ بات نہیں یہاں سے کوئ تتلی شکار کرلے۔۔

اسی لیے تو یہاں آیا ہو۔۔۔

ویسے آئ کوئ نیو تتلی یہ سب پرانے باغ کی تتلیاں ہیں۔۔

صائم نے کلب میں نگاہ ڈوراتے ہوئے کہا۔۔

ہمم آئ تو ہیں دو لڑکیاں ہیں بھی بہت  خوبصورت مگر..

مگر ؟؟کیا؟؟

پوری بوم ہیں مجال نہیں یہ کسی کی انکے ساتھ فلرٹ کرسکے ایک دو نے کوشش کی تھی باپ رے اس لڑکے کا اتنا برا حال کیا ان میں سے ایک نے کے پوچھ مت۔۔

صائم۔نے ایک ائبرو آچکا ہے کہا۔۔

اصل کھلاڑی سے ابھی تک واسطہ نہیں پڑا نہ۔۔

مگر صائم ایمانداری سے کہو وہ دونوں ایسی ہیں بھی  نہیں جسے اکثر لڑکیاں یہاں آتی ہیں ۔۔

دونوں ایک دوسرے میں زیادہ مگن رہتی ہیں میں جو ہر چھ مہینے بعد ڈانس کمپیٹیشن رکھتا ہو دونوں نے اس میں حصہ لیا ہے۔۔

اوہ کم اون فیضان یہاں آنے والی ساری ایک جیسی ہوتی ہیں خیر یہ بتا ان میں سے کونسی ہیں۔۔؟؟

صائم نے سامنے نگاہ ڈالتے ہوئے فیضان سے پوچھا جہاں کافی لڑکیاں ڈانس کررہی تھی کوئ اسنوکر کھیل رہی تھی کوئ بار میں بیٹھی تھی۔۔

ابھی تک آئ نہیں ہے وہ بس انے والی ہونگی 9 بجے تک آتی ہیں ۔۔

صائم نے اپنی ڈرنک کو منہ  لگاتے ہوئے کہا ۔ہمم چلو دیکھ لیتے ہیں ایسی کونسی تتلی ہے جو شکاری کے جال میں نہیں پھنستی۔۔۔

لو آگئ ۔۔

فیضان کے کہنے پہ صائم نے ایک سر سری سے نگاہ ڈالی۔۔

بلیک ٹائٹ پینٹ بلیک شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے لمبے بالوں کو نیچے سے ہلکا ہلکا کرل کیے صنم گیٹ سے اندر آئ ۔۔

شانزے بھی انہیں کپڑوں میں تھی مگر صائم کی نگاہ صنم پہ تھی ۔

دونوں ایک ساتھ چلتی ہوئی فیضان تک آئ ۔

صائم پہ کوئ لڑکی نگاہ نہ ڈالے ایسا آج تک نہیں ہوا تھا مگر صنم ایسا کرچکی تھی۔۔

اسنے بنا صائم کی طرف دیکھے فیضان سے سلام دعا کی اور  ڈانس فلور کی طرف بڑھ گئ۔۔

صائم نے ایک نظر فیضان کو دیکھا اور کہا۔ 

"ناٹ بیڈ"

شاہجاں عترت کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟یونی ختم کیے اسے تین سال ہوگئے ہیں ۔۔

دائ جان کا اشارہ جس طرف تھا شاہجاں اچھے سے جاتی تھی۔

جانتی ہو امی بس دیکھ رہی ہو کوئ مناسب رشتہ جلدی انشاءاللہ اسکی شادی کردونگی۔۔

ہممم ۔

اظہر کی کال آئ تھی میرے پاس ۔۔

اظہر کے نام پہ شاہجاں بیگم کی ڈھرکن تیز ضرور ہوئ تھی مگر اب شاہجاں بیگم کا دل ویران ہوچکا تھا کوئ احساس جزبات باقی نہیں رہے تھے اظہر صاحب کیلیے ۔

بتارہا تھا کے 3 4 مہینوں میں مکمل طور پہ پاکستان شفٹ ہو جائے گا۔

بچیوں کا پوچھ رہا تھا خاص کر صنم کا۔۔

صنم کے نام پہ شاہجاں بیگم کے لب طنزیہ مسکرائے اور انہوں نے نفی میں گردن ہلائ۔۔

آپکے بیٹا ہے امی ۔۔

میں نے آپکو کبھی منع نہیں کرا ان سے بات کرنے کو یہ ان سے ملنے جانے کو۔۔۔

مگر میری بیٹیوں کا ذکر وہ شخص نہ کرے تو بہتر یوگا۔۔

شاہجاں اولاد نرینہ کی خواہش کرنا گناہ نہیں پچھلے 22 سالوں سے تم اسے سزائے  دے رہی ہو دوسری شادی کی جبکہ اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں۔۔

بلکل امی اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں اگر وہ کسی بیوہ کا ہاتھ تھامتے ،طلاق یافتہ کا ہاتھ تھامتے ،یی پھر جو مجبور ہوتی اسکا ہاتھ تھامتے مجھے افسوس نہیں ہوتا امی میں خود ان کی دوسری شادی کراوتی۔

جب مردوں کو دوسری شادی کرنی ہوتی ہے تو انہیں یہ یاد آ جاتا ہے کے اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 11 شادیاں کی ہیں مگر یہ یاد نہیں آتا کے انہوں نے بیوہ ،طلاق یافتہ عورتوں پہ زور دیا ہے جو مجبور ہو۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے بھی اس لیے شادی نہیں کے انہیں بیٹا چاہیے تھا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا نہیں تھا چار ماشاءاللہ بیٹیاں تھی۔۔

امی شاید آپ بھول رہی ہیں کے اولاد مرد کے نصیب سے ہوتی ہے عورت کے نہیں۔۔

جس بندے سے اللّٰہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اسے بیٹی دیتا پھر زیادہ خوش ہوتا ہے دوبارہ بیٹی دیتا ہے۔مگر افسوس امی آپکا بیٹا بد نصیب کے جسکو اللّٰہ نے بیٹیاں تو دی مگر انہوں نے قدر نہیں کی۔۔

بیشک اللہ نے عورت کو بہت حوصلہ اور ہمت دی ہے مگر امی کہی جگہ عورت بہت کمزور ہوجاتی ہے خاص کر جب جب اسکا شوہر اسکی محبت اسکی محبت میں شرک کرے۔۔

یہ بول کے شاہجاں بیگم دائ جان کو لاجواب کرچکی تھی۔۔

#######

یار تین مہینے رہ گئے ہیں یونی ختم ہونے میں کیا کرینگے ہم۔پھر؟؟

شانزے نے رجسٹر میں ہیں سے گول گول دائرہ بناتے ہوئے کہا ۔۔

کیا کرینگے ورلڈ ڈانس چیمپین 6 مہینے بعد جو ہونے والی ہے وہ جیتینگے۔۔

ہاں یار انشاء اللہ ۔۔

مگر مجھے لگتا ماما بابا میری شادی کا سوچ رہے ہیں کل میں نے ماما بابا کو بات کرتے ہوتے ہوئے سنا تھا کے وہ بہت جلد پھپھو سے بات کرینگے منگنی وغیرہ کے بارے میں۔۔

شانزے کے چہرہ پہ الگ ہی خوشی تھی یہ بات کرتے ہوئے۔۔ہائے ہائے میری جان کا مسکرانا تو دیکھو ۔۔

میں بہت خوش ہو شانزے تو جسکو چاہتی ہے وہی تیرا محرم بن رہا ہے اللہ تم دونوں کی جوڑی سلامت رکھے۔۔۔

امین ۔۔

صنم تو کیا ارینج میرج کریگی۔؟

یار ابھی تک شادی کا سوچا نہیں پھر بھی جس سے ماما کہینگی کرلو گی شادی تجھے پتہ ہے اپنی۔لائف میں کوئ ہیرو تو ہے نہیں نہ ہی محبت کا کوئ چکر ہے۔۔

ہائے صنم نام تیرا بلکل عاشقی معشوقی والا ہے اور شادی تو ارینج کریگی۔۔

جا بچہ شانزے بابی تجھے دعا دیتی ہے تجھے بھی عشق ہو اللّٰہ کرے جس سے ہو وہ بھی تجھ سے عشق لازوال کرے۔۔

شکریہ بابی جی۔صنم نے شانزے کے سامنے گردن جھکا۔کے کہا۔۔

دونوں دوستیں ایک دم کھلکھلا کے ہنس پڑی ۔

دور کھڑا آنے والا وقت ان دونوں دوستوں پہ صرف طنزیہ مسکرا سکا ۔۔۔

########

بابر ؟؟

ہمممم۔

اگلے ہفتہ ندا آرہی ہے ۔

اچھا یہ تو اچھی بات ہے کافی ٹائم ہوگیا سالی صاحبہ سے ملاقات نہیں ہوئ۔۔

ہمم بلاج کو بھی ساتھ لارہی ہیں ۔۔اس بار پکا ارادہ ہے انکا بلاج کی شادی کا۔۔

ہمم اچھی بات اب تو وہ ائیر فورس بھی جوائن کرچکا ہے ۔

بابر میں سوچ رہی تھی اب بازل بھی ماشاءاللہ پڑھائ ختم کرچکاہے بہت جلد آپکا آفس جوائن کرنے والا ہے ہنزہ کا بھی ایم بی بی ایس کمپلیٹ ہونے والا ہے تو کیا میں بات کرو ہاجرہ بھابھی سے بازل اور ہنزہ کی۔۔

میں بازل کیلیے لڑکی دیکھ چکا ہو میرے بزنس پارٹنر کی بیٹی ہے اچھا ہوا تم نے پہلے یہ بات مجھ سے کرلی بھابھی سے کرتی تو پھر انکو اور فہیم کو برا لگتا جب میں انہیں منع کرتا۔۔

مگر کیا برائ ہے بابر ہنزہ میں۔۔

میں نے کب کہا وہ بری ہے میرا خون ہے میری بھتیجی ہے مگر میں اپنے دوست کو زبان دے چکا ہو اب لائٹ اوفف کردو۔۔

نفیسہ بیگم نے ان   دونوں کے درمیان انجانی ہی صحیح محبت پنپتی ہوئ دیکھ چکی تھی ۔انکی خود کی بھی خواہش تھی ہنزہ کو اپنی بہو بنانے کی مگر بابر نے کبھی اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دی ۔۔یاللہ بابر کا یہ فیصلہ اس گھر کی بنیاد نہ ہلادے۔۔

نفیسہ کے دل سے نکلی دعا قبول ہوئی کے نہیں یہ تو فلحال وقت ہی بتاتا۔۔

#####

ہنزہ کو پڑھتے پڑھتے پانی کی پیاس لگی تو وہ کچن میں پہنچی۔۔

فریج کھولتے ہی اسکی بھوک بھی چمک اٹھی چاکلیٹ کیک دیکھ کے ابھی اس نے کیک سے انصاف کرا ہی تھا کے بازل کچن میں آگیا ۔۔

بیڈ والے واقعے کے بعد سے ہنزہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی کھانا کھا کے فورا کمرے میں بند ہوجاتی اور بازل کو یہ کہہ کے بہلا رہی تھی کے پڑھ رہی ہے ۔

ہنزہ نے ایک نظر بازل کو دیکھ کے اسمائل پاس کی اور تیزی سے کچن سے جانے لگی مگر افسوس اسکی کلائ بازل کے ہاتھ آ چکی تھی۔۔

بازل نے اسکو اپنی طرف کھینچا ۔۔

ہنزہ کا سر بازل کے سینے ٹکرایا۔۔۔

بازل کیا کررہے ہو ۔؟؟

یار لگ گئ میرے سر پہ ۔۔

ہنزہ نے اپنا سر سہلاتے ہوئے کہا مگر اسکی نگاہیں نیچیں تھی ۔

اوپر دیکھو ہنزہ میری طرف ۔بازل کے ہاتھ اب ہنزہ کی کمر پہ تھے۔۔ہنزہ کی ہارٹ بیٹ تیز ہونے لگی۔

بازل پلیز لیو می مجھے پڑھنا ہے۔۔

ہنزہ نے ابھی بھی بازل کی طرف نہیں دیکھا۔۔

پہلے میری طرف دیکھو پھر جانے دونگا ۔

بازل کی بات پہ ہنزہ نے نگاہ اٹھا کے بازل کو دیکھا اسکی آنکھیں ایک الگ انداز میں چمک رہی لبوں کی مسکراہٹ ہنزہ کو کوئ اور پیغام دے رہی تھی۔۔

مجھ سے بھاگ کیوں رہی ہو دو دنوں سے؟

ما۔مین۔۔میں کب بھاگ رہی ہو میں تو پڑھنے میں مصروف تھی۔۔ہنزہ۔نے بہت کوشش کی کے ہمت سے بازل کی بات کا جواب دے مگر اسکی زبان کی لڑکڑاہٹ نے بازل کی ہمت کو اور شے دی۔۔

ہنزہ؟؟

بازل کے لہجہ کی مٹھاس ایک بار پھر ہنزہ کو نگاہ جھکانے پہ مجبور کرگیا۔۔

ہنزہ آئ لو یو۔۔

بازل کی بات پہ ہنزہ کی آنکھیں حیرت سے کھل گئ۔۔

بازل نے مسکراتے اسے دیکھا اور کہا۔ 

کب کیسے کس وقت محبت نے میرے دل پہ دستک دی ہنزہ میں نہیں جانتا جان تو تم پہلے تھی ہی اب دھڑکن بھی بن چکی ہو۔ 

یہ دوستی کا رشتہ کب پیار میں بدلا پتہ ہی نہیں چلا ہنزہ۔

میں تم سے ابھی اسی وقت جواب نہیں مانگ رہا ۔ ضروری نہیں کے میں تم سے محبت کرنے لگا ہو تو تم بھی مجھ سے محبت کرو اگر انکار بھی کردوگی تب بھی ہم اچھے دوست تھے اور رہینگے۔۔

یہ بول کے  بازل نے ہنزہ کو آزاد کیا مگر اس بار ہنزہ بھاگی نہیں۔ بلکے غور غور سے بازل کو دیکھنے لگی ۔

بازل نے جھک کے اسکے گال پہ اپنے لب رکھے اور کہا۔۔

اب جاؤ ۔۔۔

ہنزہ نے اپنا ایک ہاتھ اس گال پہ رکھا جہاں ابھی بازل کے لب تھے اور الٹے قدم اٹھاتی ہوئ کچن سے باہر چلی گئ ۔۔

بازل بھی مسکراتا ہوا کچن سے نکل گیا۔۔

مگر کچن کے باہر کھڑی نفیسہ بیگم کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئ۔۔

کیا بات ہے شانزے کافی چپ چپ ہو۔۔؟؟

صنم جو آخری کلاس اٹینڈ کرکے آئ تھی یونی کے لان میں چپ چاپ بیٹھی شانزے اسے ہضم نہیں ہورہی تھی۔۔

کیا ہوا ہے شانزے کیوں اداس ہے بتا؟؟

یار جب سے مراد کی۔جاب لگی ہے بدل سا گیا ہے اب جبکہ پھپھو نے میری ایگزائم کے بعد کی تاریخ رکھی ہے شادی کی تب بھی اسکے چہرے پہ وہ خوشی نہیں ہے۔۔

اوہ شانزے یار کیا الٹا سیدھا سوچے جارہی ہے اسکی جاب تو دیکھ کتنی ٹف ہے اتنی بڑی کمپنی میں وہ ایمپلائے ہے یار بزی ہوگا۔۔

شاید تو بھول رہی ہے تجھ سے محبت کرتا ہے یار ۔کچھ الٹا سیدھا نہیں سوچ پاگل اب تو دو مہینے بعد ایک ہوجائوگے ۔۔تم دونوں۔۔

فضول میں تو ٹینشن لے رہی ہے۔۔

صنم اسکو سمجھا رہی تھی مگر شانزے کے دماغ میں صبح کا منظر گھوم رہا تھا جب پھپھو کے  شادی کی ڈیٹ فکس کرنے پرمراد کے چہرہ کا زاویہ ایک دم بدل گیا اور اسنے ناشتہ سے ہاتھ کھینچ لیا۔۔

اچھا یہ بتا آج کتنے بجے لینے او کلب کیلیے؟؟.

صنم کے پوچھنے پہ شانزے نے ایک لمبی سانس لی اور کہا۔۔۔

تو اکیلی چلی جا یار آج میرا موڈ نہیں طبیعت بھی خراب لگ رہی ہے مجھے اپنی۔۔

اچھا چل کوئ بات نہیں آجا چل تجھے گھر چھوڑ دو۔۔

###########

وہاج؟؟؟

ہمممم۔۔

بیٹا نساء آرہی ہے تین چار مہینوں میں پاکستان شفٹ ہورہی ہے ہمیشہ کیلیے۔۔۔

ہاں ماں اظہر بھائ سے بات ہوئ تھی میری ارادہ تو انکا یہی کراچی میں رہنے کا ہے۔۔

مگر ایک بار وہ۔اجائے میں انہیں مشورہ دونگا بلکے درخواست کرونگا کے یہی روک جائے اس گھر میں اتنا بڑا گھر ہے خالی خالی رہتا ہے تھوڑا اپکا۔دل بھی لگ جائے گا۔۔۔

ہاں بیٹا یہ تو تم نے بہت اچھی بات کہی پر کیا اظہر مانے گا۔۔

دیکھ لیتے ہیں ماں بات کرکے ۔۔۔

######

ساری پیکنگ ہوگئ اپکی۔۔؟؟

بالاج نے ندا بیگم کے کمرے میں آکے کہا۔۔

ہاں بیٹا کب نکلنا ہے ؟.بس آدھے گھنٹے میں نکلتے ہیں انشاللہ کل شام تک پہنچ جائے گے کراچی۔۔

بالاج نے فون استعمال کرتے ہوئے کہا۔۔

ہاں میں آپا کو کنفرم کردو۔۔

نہیں رہنے دے میں نے بازل کو ٹیکس کردیا ہے اجائے گا وہ ائیرپورٹ لینے ۔۔

اچھا چلو پھر ۔۔

ندا بیگم نکلنے لگی جب انہیں کچھ یاد ایا۔۔

بلاج ؟؟

جی ۔۔

پکا کروگے نہ شادی اس بار؟؟

ندا بیگم کی بات پہ وہاج مسکرایا اور کہا۔۔

ہاں ماں اس بار انکار نہیں پکا اب چلے۔۔..

######

ہنزہ آج اپنا آخری پیپر دے کے آئ تھی بہت خوش تھی کیونکہ اب وہ رزلٹ آنے کے بعدا پنی ہاؤس  جاب کرے گی ۔۔

ابھی ابھی نہا کے نکلی تھی کے اسکے نمبر پہ بازل کی کال آنے لگی۔۔

ہاں ہیلو۔۔۔

فریش ہوگئ ؟؟

ہاں  ابھی کوئ کام تھا؟؟.

تمہاری الماری میں ایک پیکٹ رکھا ہے کھولو پانچ منٹ بعد میں کال کرتا ہو؟

بازل کے فون رکھتے ہی ہنزہ نے اپنی الماری کھولی تو سامنے ایک گفٹ باکس رکھا تھا۔۔۔بازل کی دوبارہ کال اٹھانے میں بازل نے صرف اتنا کہا۔۔

میں ویٹ کررہا۔ہو۔۔؟؟

ہنزہ نے گفٹ اٹھایا تو اسکے نیچے ایک کارڈ تھا۔

ہنزہ نے کارڈ پڑھنا شروع کیا۔۔

اگر تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو ہنزہ تو یہ ڈریس پہن کے نیچے آجانا میں انتظار کررہا ہو اپنی کار میں۔۔

پیچھے کے دروازہ سے انا۔۔۔

ہنزہ نے کارڈ نیچے رکھ کے ڈریس دیکھا۔۔

ایک خوبصورت سی  وائٹ کلر کی انارکلی فراک تھی جس پہ خوبصورت سی گولڈن کڑھائی ہوئ تھی ۔۔

ہنزہ نے اپنے دل کو ٹٹولا وہ کوئ بھی فیصلہ جزبات کی رو میں بہہ کرنہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

بازل کے نام کی صدائیں اسکے دل کے چاروں طرف گونج رہی تھی۔مگر ابھی  بھی ہنزہ کا دل بیچین تھا اسے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کے بازل اور اسکے درمیان کچھ غلط ہونے والا ہے ۔

ہنزہ  ڈریس اٹھاکے چینج کرنے چلی گئ۔

وائٹ فراک میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی میچنگ کی چوڑیاں بالیاں اور کھوسے پہن کے وہ پیچھے کے دروازے سے نکلی تو بازل سامنے وائٹ کاٹن کے سوٹ میں اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔

ہنزہ کو سامنے سے آتا دیکھ بازل ایک دم ساکن رہ گیا اسے نہیں یاد اسے کبھی ہنزہ اتنی حسین لگی ۔۔

ادھر ہنزہ کا نگاہ اٹھانا مشکل ہورہا تھا شرمائ۔شرمائ سی وہ بازل تک پہنچی۔۔۔

بازل نے دومنٹ تک مہبوت ہوکے اسکو دیکھتا رہا ہنزہ کے دل کی دھڑکنیں عجیب ہورہی تھی اسکاے بازل کی طرف دیکھا بہت محال ہو رہا تھا ۔

اگر مجھے اسی ہی گھور کے کنفیوز کرنا ہے تو میں جارہی ہو۔۔

یہ بول کے ہنزہ مڑنے لگی تو بازل نے اسکی کلائ تھام کے کہا۔

ارے ارے میری شیرنی جانا نہیں پلیز ۔

یہ بول کے بازل نے اسکے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول دیا۔۔

#######

صنم آج ڈانس فلور پہ نہیں ایک ٹیبل پہ بیٹھ کے جوس پی رہی تھی اور مسلسل کسی کی نگاہوں میں تھی۔۔۔

شانزے نے آج آنے سے معزرت کرلی تھی دل اسکا بھی نہیں تھا آنے کا مگر گھر میں بیٹھ کو وہ بور ہوجاتی شاہجاں بیگم عترت اور دائ جان شاہجاں بیگم کی دوست کے پوتے کے عقیقہ میں گئے تھے صنم کو بھی انہوں نے چلنے کو کہا تھا مگر اس نے صاف منع کردیا۔۔

ہیلو جانمن یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟؟.

دو تین لڑکوں نے صنم کی ٹیبل پہ آکے ہوٹنگ شروع کردی۔۔

کلب میں اتنا شور اتنا رش تھا کے صنم کے طرف  وہاں موجود کسی کا دیھان نہیں گیا ۔

نشے میں موجود ان لڑکوں کو دیکھ کے صنم کی بھی ہوائیاں اڑنے لگی کیونکہ شانزے ساتھ ہوتی تھی تو ایک سہارا ہوتا تھا۔۔

ارے یار او ہم اس حسینہ کو زرا سی کمپنی دے دیں۔۔

یہ بول کے ان تینوں لڑکوں نے صنم کو قابو کیا۔۔

صنم نے اپنے آپکو چھڑوانے کی کوشش کی چیخی مگر میوزک اتنا لاؤڈ تھا کے صنم کی آواز کسی کو سنائ نہیں دے رہی تھی۔۔

ان میں سے ایک لڑکے نے جیسی ہی صنم کی جیکٹ کی طرف ہاتھ پڑھایا ایک دم کسی نے اس لڑکے ہاتھ وہی سے پکڑ کے اسے گھمایا اور ایک زور دار گھونسا اسکے منہ پہ مارا۔۔

دیکھتے دیکھتے صائم اور ان تینوں لڑکوں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہوگئ۔۔وہ تین تھے صائم ایک ۔صائم جتنا ان سے لڑ سکتا تھا لڑا مگر اچانک فیضاں نے آکے بیچ بچاؤ کروایا۔۔ایک عجیب سا ماحول بن گیا تھا۔۔

صائم نے فیضان  کو اپنے آپ سے چھروایا اور غصہ میں کہا۔۔

یہ کس قسم کے لڑکوں کو تم نے اپنے کلب میں اینٹری دی۔۔

کلب کے گارڈ نے ان تینوں لڑکوں کے کلب سے باہر پھینکا۔۔

جب اچانک صائم ڈری سہمی صنم کی طرف مڑا۔۔

تم ٹھیک ہو؟؟

صنم نے ایک نظر صائم کو دیکھا جسکے ہونٹ کے سائیڈ میں سے خون نکل رہا تھا ماتھے پہ سے بھی ہلکا سا بلڈ نکل رہا تھا۔۔۔

صائم نے سوال پہ صنم نے ہاں میں گردن ہلائ۔۔

گاڑی لائ ہو آپ ساتھ اپنے۔۔؟؟

صائم کے سوال پہ ایک بار پھر صنم نے ہاں میں گردن ہلائ۔۔

آئیے میں آپکو چھوڑ دو ٹائم زیادہ ہوگیا ہے۔۔

صنم اس واقعے سے کافی ڈر گئ اسے اندازہ نہیں تھا کے کلب میں ایسا کچھ میں ہوسکتا تھا۔۔

وہ صائم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔

اپنی کار کے پاس پہنچ کے صنم نے جیسی ہی صائم سے کچھ کہنا چاہا صائم نے اس سے چابی مانگی۔۔

میں چلی جاؤنگی۔۔

صنم کے کہنے پہ صائم نے اپنی آستین فولڈ کی جو شاید پھٹ گئ تھی۔۔

مجھے پتہ آپ خود ڈرائیو کرکے جاسکتی ہیں مگر فلحال آپ اس پوزیشن میں نہیں کے اکیلے جاسکے ۔

لائیے چابی دے دیں۔۔

صنم نے کافی ہچکچاتے ہوئے اسکے ہاتھ میں چابی دی۔۔

صائم گاڑی کا گیٹ کھول کے جیسی اندر بیٹھا DIVA پرفیوم کی مہک اسکے ناک سے ٹکرائی اور اس نے دل ہی دل میں صنم کی چوائس کی داد دی ۔ ۔۔

صنم کے  فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہی صائم نے گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھادی۔۔

آپکا نام کیا یے؟؟.

صنم نے صائم کے سوال پہ اسے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا۔۔

"صنم"

اوہ نائس نیم میں صائم وہاج وہاج گروپ اوف انڈسٹری کا CEO صائم نے یہ کہہ کے اسکے آگے ہاتھ بڑھایا تو صنم نے گردن جھکا کے دھیرے سے کہا۔۔

میں لڑکوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔۔

اوہہ۔۔

 صنم کی بات پہ صائم نے اپنے ہونٹ پورے گول کرکے کہا۔۔

ویسے آج اگر آپکی پارٹنر نہیں آئ تھی تو آپکو نہیں آنا چاہیے تھا کلب میں کلب کتنا ہی ہائے فائے  ہو مگر اسکا ماحول اچھانہیں ہوتا۔

اگر ا بھی گئ تھی آپ تو جلدی چلی جاتی۔۔

وہ اصل میں میں اس کلب میں بس ڈانس کمپیٹیشن جیتنے کے لیے آئ ہو۔۔

میں جلدی چلی جاتی مگر گھر میں ماما آپی اور دائ جان تھے نہیں تو اکیلے رہنے سے خوف آتا ہے مجھے اس لیے بس ٹائم گزار رہی تھی۔۔

تو پاپا تو ہونگے نہ گھر پہ وہ نہیں بولتے آپکو کچھ۔۔۔

پاپا لفظ پہ صنم کی آنکھیں ایک دم بھیگنے لگی آنکھوں کے نم گوشے اس نے بہت مہارت سے صاف کیے مگر پھر بھی اسکا یہ عمل صائم کی نگاہوں میں آچکا تھا۔۔

لگتا ہے میں نے کوئ غلط سوال پوچھ لیا۔۔

صائم کے بولنے پہ صنم نے نگاہ اٹھا کے اسے دیکھا کالی گہری سیاہ آنکھیں جنہیں دیکھ کے صائم پل بھر کیلیے مہبوت رہ گیا۔۔

نہیں ایسی بات نہیں پاپا ہمارے ساتھ نہیں رہتے انہیں آپی کے بعد بیٹا چاہیے تھا اور ہو گئ میں دوبارہ ماما انہیں اولاد کی خوشیاں دے نہیں سکتی تھی اس لیے انہوں نے ہمیں اور ماما کو چھوڑ کے دوسری شادی کرلی بیٹے کیلیے ۔۔

آئ ایم سو سوری صنم آپ کو ہرٹ کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا۔۔

نہیں کوئ بات نہیں۔۔

یہاں سے رائٹ موڑ کے بس سامنے میرا گھر ہے۔۔

صائم نے گاڑی روکی اور اتر کے صنم کو اسکی چابی واپس کرکے کہا۔۔

اپنا دیھان رکھیے گا۔۔صائم کے کہنے پہ صنم نے ایک دم نگاہ اٹھا کے اسے دیکھا اور کہا۔۔

آپ کیسے جائینگے؟؟

ایسے۔۔

یہ بول کے صائم نے صنم کے پیچھے اشارہ کیا جہاں صائم کا ڈرائیور گاڑی لے کر آچکا تھا۔۔

صائم نے ایک نظر بھر کے صنم۔کو دیکھا اور گاڑی میں جاکے بیٹھ گیا۔۔

صائم کے جاتے ہی صنم بھی گھر کے اندر داخل ہوئ مگر پلٹ کے صائم کو دیکھنا نہیں بھولی۔۔

#######

ہنزہ خاموشی سے گردن جھکا کے بیٹھی تھی اور بازل کو اسکی خاموشی چھب رہی تھی۔۔

ہنزہ ؟؟

ہاں۔

تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔؟

کیوں کیا ہوا.؟؟

نہیں مجھے لگا شاید تم زبان گھر چھوڑ کے آئ ہو۔۔

بازل نے مسکرا کے کہا تو ہنزہ بھی مسکرانے لگی۔۔

ایسی بات نہیں ہے ۔

ہنزہ نے بہت ہلکے سے کہا۔۔

ایک ایک منٹ ہنزہ یہ کیا ؟؟

کیا ہنزہ نے ایک دم کہا۔۔

یہ ہی کے تم مجھ سے شرما رہی ہو تمہارے گال یہ جو ریڈ ہورہے ہیں شرمانے سے ہورہے ہیں۔۔

بازل کی بات سن کے ہنزہ اور زیادہ بلش کرنے لگی اور اپنی نروس کو چھپانے کیلیے بازل کے ہاتھ پہ مارنے لگی۔۔

تم بہت زیادہ بدتمیز ہو بازل۔۔

مگر ہو تو تمہارا نہ یہ بول کے بازل نے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالا اور دوسرے ہاتھ ہنزہ کی۔گردن میں ڈال کے اسے خود سے قریب کیا ۔۔ہنزہ کے

ماتھے پہ اپنے لب رکھ کے بازل نے کہا۔۔

ہنزہ عشق محبت دونوں ہوچکا ہے تم سے سانس کی طرح ہوتم بازل بابر کیلے۔ ۔ 

بازل کے اتنے شدت والے انداز بیان پہ ہنزہ اسکے سینے سے سر ٹکا گئ۔۔

بازل کے دل کی ڈھرکن ہنزہ کے اندر ایک سرشاری پیدا کررہی تھی دو آنسو ہنزہ کی آنکھ سے بہہ نکلے اور اسنے بازل کے دل کے مقام پہ اپنے لب رکھ دیے ۔

ہنزہ کی اس حرکت پہ بازل اندر سےنہال ہوگیا اسنے دوبارہ ہنزہ کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے ۔۔

ہنزہ اس سے دھیرے سے الگ ہوئ اور بازل کی طرف دیکھنے سے کترانے لگی۔۔

گاڑی ایک خوبصورت سے ہٹ کے پاس جاکے رکی ۔۔

ہنزہ ایک نظر ہٹ کو دیکھا اور پھر بازل کو۔۔

اندر سرپرائز ہے تمہارے لیے چلو ۔۔۔

######

صنم تجھے شکریہ ادا کرنا تھا صائم کا۔۔

یار یاد ہی نہیں رہا اب کلب جاؤنگی تو خصوصی کردونگی ۔۔

تو بتا مراد کے کیا حال چال ہیں؟؟

کبھی بات کرلیتا ہے اور کبھی پاس سے بھی گزر کر ایسا بیہیو کرتا ہے جیسے جانتا نہیں۔۔۔

تو کیوں نیگیٹوو سوچ رہی ہے شانزے اچھا اچھا سوچ ۔۔

تو اسکی بچپن کی محبت ہے ۔۔

اچھا اچھا ہی سوچ رہی ہو ۔۔

ہممم گڈ گرل۔۔

ویسے ایک بات تو بتا صنم ؟؟

ہمم ۔۔

دیکھنے میں کیسا تھا صائم ؟؟

میں غور سے نہیں دیکھا۔۔

اووووووو۔۔۔

شانزے نے اتنا لمبا اوووو کیا جس پہ صنم نے دانت پیس کے کہا۔۔

شانزے بی بی اپنے دماغ زرا کم چلایا کرو اور سو جاؤ صبح تم نے اپنی موچھیں  بھی صاف کروانی یے۔۔

یہ بول کے صنم نے کال کٹ کردی ۔۔

ادھر شانزے صرف افسوس ہی کرسکی صنم کی بات پہ اسے جواب نہ دینے پہ کیونکہ اسے پتہ تھا اب صنم موبائل بند کرچکی ہوگی۔۔

صنم نے آنکھیں بند کری تو صائم کا چہرہ چھن کرکے اسکے سامنے ایا۔۔

صنم جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔

نیند اب اسکی آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔۔۔

ایک خوبصورت سے ہٹ کے اندر جیسی ہی ہنزہ نے قدم رکھا اسکی  آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئ۔۔

پوری ہٹ میں صرف ایک ہی ٹیبل تھی جیسے خوبصورت خوشبو دار کینڈل سے سجایا گیا تھا۔۔

ٹیبل کے چاروں طرف گلاب کے پھولوں کے خوبصورت بکے تھے۔۔

دیم لائٹ نے ایک الگ ہی ماحول بنایا ہوا تھا۔

ہنزہ نے پلٹ کے بازل کو دیکھا اور اندر بڑھتے ہوئے کہا۔۔

ویسے لگتے تو تم کافی ولن ٹائپ ہو یہ ہیرو والی خصوصیات کہاں سے آگئ تم میں۔۔

ہنزہ ولن لفظ کا استعمال کرکے بازل کی ہٹا چکی تھی ۔۔ہنزہ نے اپنی شیطانی مسکراہٹ چھپائی اور جاکے گلاب کے پھولوں کو چھونے لگی۔۔

ہنزہ کی بات پہ تپنے کے بعد اب باری ہنزہ کے تپنے کی تھی۔۔

ہمم وہ تو بلبٹوری کے ساتھ رہ رہ کے مجھ میں ولن کی خصوصیات ا گئ تھی۔۔

ہمم اکثر جو لوگ ہنزہ فہیم کی پرسنیلٹی سے جلتے ہیں وہ ایسی ہی بکواس کرتے ہیں۔ہنزہ نے ایک ادا سے اپنےبال۔پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔

ہاں جیسے تم مجھ سے جلتی ہو جبھی دل کی جلن کم کرنے کیلیے یہ ولن جیسے لفظ استعمال کرتی ہو۔

بازل نے بھی برابر کا جواب دیتے ہوئے کہا۔۔

 اب صحبت کا بھی تو اثر ہوتا ہے نہ ۔۔اگے کی بات بازل نے ہنزہ کی طرف جھک کے کہی۔۔

ہاں رومینٹک میں تمہاری کس لینے کے بعدہوا۔۔

ک۔۔و۔۔ن۔سی کس ؟؟

بازل کی بات پہ ہنزہ کی گھبراگئ۔۔

اسکے لہجے کی لڑکھڑاہٹ بازل کو بہت مزہ دے رہی تھی۔۔

ارے ہنزہ بی بی وہی کس جو ہم نے ایک دوسرے کے اوپر۔۔اگے کا جملہ بازل نے جان بوجھ کے ادھورا چھوڑا کیونکہ اسے پتہ تھا اسکا تیر نشانے پہ لگا تھا ہنزہ کے ٹمپریچر ہائ ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔

وہ تو غلطی سے ہوا تھا اور بازل۔بہت ہی کوئ بے شرم ہو حد ہوگئ ۔ہنزہ نے اپنی جھینپ مٹاتے ہوئے کہا۔۔

وہ تو میں ہو ..

یہ بول کے بازل نے تیزی سے ہنزہ کو اپنی طرف کھینچا۔۔۔

۔یہ کیا کررہے ہو بازل؟؟

چلو وہ۔کس غلطی سے ہوئ تھی آج۔جان بوجھ کر کرتے ہیں ویسی غلطی۔۔

اتنا بول کے بنا ہنزہ کی بات سنے جیسی ہی بازل ہنزہ۔کے لبوں کو چومنے لگا تبھی اسکا موبائل رنگ ہوا۔۔

موبائل پہ بابر صاحب کا نمبر دیکھ کے بازل فورا ہنزہ سے الگ ہوا۔۔

بابر صاحب کی کال بند ہوتے ہی بازل نے ایک افسردہ سی نگاہ ہٹ پہ ڈالی اور ہنزہ کو کہا۔۔

پاپا کی کال تھی بلاج بھائ کو ائیر پورٹ لینے جانا ہے انکی فلائٹ لینڈ ہوچکی ہے۔۔

سو سوری یار آج کیلیے میں نے کیا کیا سوچا تھا۔۔

کوئ بات نہیں بازل چلو چلتے ہیں۔۔

#######

صبح 6 بجے سے وہ لوگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہ تھے ۔

8 بجے کی ان لوگوں کی فلائٹ تھی اسکے ساتھ جانے والے سارے اسٹوڈینٹ تقریبا پہنچ چکے تھے چیکنگ اور بورڈنگ کے بعد آدھا گھنٹہ تھا ان کے پاس سارے تقریبا اپنے گھر والوں سے مل چکے تھے مگر ایک ہیر تھی جسکا رونا ابھی تک چل رہا تھا۔۔

ہیر بس کرو پچھلے آدھے گھنٹہ سے تم رو رہی ہو ارے یار آنٹی اپ تو سمجھائے ایسے الٹا آپ بھی اسکے ساتھ لگی پڑی ہے رونے میں۔۔

ہیر کی ایک دوست نے چڑ کے کہا۔۔

ہیر بیٹا بس کرو فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔۔

خوشبو نے اسے خود سے الگ کرکے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔

اپنا بہت سارا دیھان رکھنا ،روزانہ مجھے کال۔کرنا ،وقت پہ۔کھانا سدرہ بیٹا دیھان رکھنا اسکا۔۔

ارے آنٹی اپ فکر نہیں مگر پلیز ابھی تو جانے دیں فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔۔

آنی پلیز اپنا دیھان رکھیے گا پلیز میڈیسن ٹائم پہ لیجیے گا۔۔

اللّٰہ حافظ۔۔

ہیر کے اندر جاتے ہی خوشبو پلٹ گئ اس ائیر پورٹ سے اسے وحشت آنے لگی ہیر کے جانے کے علاؤہ بھی بہت سی تلخ حقیقت خوشبو کی اس ائیر پورٹ سےجڑی تھی۔۔

######

ماشاءاللہ ماشاءاللہ تم تو بہت خوبصورت ہوگئے ہو ینگ میںن۔

بابر صاحب کی تعریف پہ بلاج مسکرانے لگا۔۔

بلاج بھائ آپ مجھے کب بیٹھائینگے اپنے ائیر فورس کے جہاز میں۔۔؟؟

ہنزہ بھی اسے گھیرے بیٹھی تھی ۔

اب کے چلنا ہمارے ساتھ پھر جنتا دل کرے اتنا بیٹھنا۔۔ہنزہ بلاج کی بات پہ۔خوش ہوگئ تھی کبھی اسے اپنے پاس بازل کی سرگوشی سنائی دی

ابھی تم بازل کے نام کی ڈولی میں بیٹھنے کی تیاری کرو۔۔

بازل جو ہنزہ کے پاس ہی بیٹھا تھا اس نے ہلکی سی سرگوشی کی جو وہاں بیٹھے کسی نے سنی ہو یہ نہیں مگربلاج اسے سن چکا تھا اور سنتے ہی وہ ان دونوں کو دیکھ کے مسکرانے لگا ۔

دو بہنیں آپس میں بیٹھی تو نہ  تھمنے والا باتوں کا سلسلہ چل۔نکلا۔۔

بس آپا دعا کرو اس بار مجھے اپنے بلاج کیلیے کوئ اچھی سے لڑکی مل جائے اب وہ شادی کیلیے مانا ہے تو بس میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی۔۔

ہاں ہاں ندا اللّٰہ سب بہتر کرے گا۔۔

آپ بتائے بازل کیلے بات کری ہاجرہ بھابھی سے ہنزہ کی۔۔

ندا بیگم کے پوچھنے پہ سفیہ بیگم نے بابر صاحب کا فیصلہ اسے سنا دیا جیسے سن کے وہ بھی کافی افسردہ ہوئ۔۔

آپا کبھی تو بابر بھائ اپنے آپ سے نکل کے کچھ سوچے۔۔۔

بس ندا چھوڑو یہ باتیں۔

 یہ بتاؤ کل جاؤ گی شاہجاں کے گھر۔۔؟

ہاں آپا میں نے کال کردی تھی اسے یہاں آنے سے پہلے کل انشاللہ جاؤنگی بلاج کیساتھ ہی۔۔

ہمم چلو اب تم آرام کرو کافی تھک گئ ہوگی۔۔

#####

بازل اوربلاج بیڈ پہ بیٹھے تھے جب بلاج نے اسکا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ویسے مجھے پتا تھا تم دونوں کی داستان عشق محبت 🔥 ضرور ہوگی۔۔

بازل جو اپنی سوچوں میں ہنزہ کے سمائے خوش ہورہا تھا۔بلاج کے بولنے پہ ایک دم گھبرا گیا اور کہا۔

کن دونوں مطلب کن کی بات کرہے ہیں بھائ؟؟

او ننھے کاکے کو تو کچھ پتہ ہی نہیں بلاج نے بازل کی ناک کھینچتے ہوئے کہا۔۔

میرے سامنے تو یہ ڈرامہ بند کرو۔۔

بلاج کے کہنے پہ بازل مسکرا کے اسکے گلے لگ گیا۔۔

بس بھائ دعا کرے وہ میری ہوجائے۔ ۔۔

آمین آمین۔۔

میری دعا ہے تم دونوں کیساتھ۔۔۔

######

یار پہلے بولنا تھا تجھے پتہ ہے یہ راستہ کتنا سنسان ہے ی

اتنی دور تونے پالر کی بکنگ کروادی اور اب تو خود نہیں آرہی میں کیسے جاونگی یارصنم۔۔۔؟؟

یار ایڈجسٹ کرلے ماما کی بہت پرانی دوست آرہی ہیں اسپیشلی ماما نے گھر میں رکنے کو کہا ہے ۔۔

چل میںcareem منگواتی ہو پھر۔۔

ہاں پلیز یار سوری ۔۔

صنم کی۔کال کٹ ہوتے ہی شانزے نے گاڑی منگوائ ابھی وہ بات ہی کررہی تھی کے ایک گاڑی تیزی سے اسکے آگے سے گزری اور آگے جاکے پلٹ گئ۔۔

اسکے پیچھے دو گاڑیاں آئ ۔۔

دونوں گاڑیوں  ایکسیڈینٹ ہوئ گاڑی کے پاس اکے روکی۔۔

ان میں ایک گاڑی میں سے ایک شخص اترا اس نے الٹی پڑی گاڑی میں سے ایک زخمی شخص کو باہر نکالا ۔۔

شانزے دیکھ رہی تھی کے زخمی شخص گڑگڑا کر اپنی زندگی کی بھیگ مانگ رہا تھا مگر اس شخص کو رحم نہیں ایا اور اس نے اس شخص پہ ایک ساتھ تین فائر کرے۔۔۔

یہ منظر دیکھ کے شانزے کی دلخراش چیخ نکلی جیسی سن کے مطلوبہ شخص اور اسکے ساتھ موجود اسکے گارڈز نے پلٹ کو شانزے کو دیکھا مگر شانزے زیادہ دیر تک نہیں دیکھ پائ اور اسی وقت سڑک پہ بیہوش ہوگئ۔۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔

میری جان کیسی ہو؟؟

شاہجاں بیگم نے ندا بیگم کو زور سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

دونوں سہیلیاں گلے لگتے ہی رو پڑی۔۔

عترت اور صنم ان دونوں کو دیکھ کے تھوڑی غمزدہ ہوگئ تھی۔۔

اسلام وعلیکم آنٹی۔۔

عترت کی اواز پہ ندا کا دیھان عترت پہ گیا۔

وعلیکم اسلام ۔

یہ عترت ہے نہ شاہجاں؟؟

ندا بیگم نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

ہاں ۔۔

اسلام وعلیکم انٹی۔۔

صنم کے سلام کرنے پہ ندا تھوڑی کنفیوز ہوئ۔۔

یہ صنم ہے ندا میری دوسری بیٹی۔۔۔

شاہجاں نے ندا بیگم کی کنفیوزنگ دور کرتے ہوئے کہا۔ 

اوہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔۔

شاہجاں تمہاری دونوں بیٹیاں ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہیں۔ 

شکریہ انٹی۔۔

عترت اور صنم نے ایک ساتھ ندا بیگم کا شکریہ ادا کیا 

ندا بلاج نہیں ایا۔۔؟؟

ارے آیا ہے آنٹی کیوں نہیں آئے گا آپ بلائے اور میں نہ آؤ ماما سے ڈانٹ کھانی ہے کیا۔۔

بلاج کے بولنے پہ شاہجاں بیگم نے مسکرا کے اس کے سر پہ۔ہاتھ پھیرا۔۔

مگر کوئ تھا وہاں جو بلاج کو دیکھ کے پتھرا گیا تھا۔کچھ ایسا ہی حال بلاج کا بھی تھا۔۔

#######

شکر ہی بیٹا تمہیں ہوش آیا میں اور تمہاری ماں بہت پریشان ہوگئے تھے۔۔

شانزے کے ہوش میں آتے ہی اسکی نظر اپنے ماں باپ پہ پڑی۔۔

مگر بیٹا تم بیہوش کیسے ہوئ ؟؟

جواد صاحب کے سوال پہ شانزے کا ہاتھ اپنے سر پہ گیا کچھ ٹیسیں اسکے سر میں اٹھی۔۔

کچھ یاد آنے پہ جیسے اسکا پورا وجود لرزنے لگا اور رہی سہی کسر دروازے پہ دستک دینے والے شخص نے پوری کردی ۔۔

جواد صاحب نے جب ناکک کرتے ہوئے فرد کو دیکھا تو ڈور کے انکے پاس پہنچے اور کہا ۔

ارے بہزاد سر اپنے کیوں تکلیف کری آنے کی ۔۔

اس میں تکلیف کی کیا بات ہے جواد صاحب آپکی تکلیف ہماری تکلیف ہے ۔۔

شانزے بیٹا یہ ہے وہ جنہوں نے تمہیں بر وقت ہسپتال پہنچایا۔۔

شانزے بہزاد کو دیکھ کے کافی ڈر چکی تھی اسکے چہرے پہ موجود ڈر دیکھ کے بہزاد کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔۔

آپ لوگ باتیں کرو میں شکرانے کے نفل ادا کرلو شانزے کی ماما یہ بات بول کے روم سے باہر چلی گئ۔۔

جواد صاحب آپکو ڈاکٹر بلا رہے ہیں۔۔

اچھا بہزاد سر میں ابھی ایا۔۔

جواد صاحب کے جاتے ہی بہزاد اٹھ کے شانزے کے قریب آیا اسکی نیلی آنکھوں میں۔ اپنے لیے خوف دیکھ کے بہزاد کو بہت سکون مل رہا تھا۔۔

بہزاد نے شانزے کا جبڑا اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور دانت پیس کے کہا۔۔

اگر اپنی زبان کھولی شانزے بی بی تو دو تین نہیں پوری میگزین تمہارے والد صاحب کے اندر اتار دونگا۔۔

ویسے بھی کراچی جیسے شہر میں نامعلوم افراد قتل بہت کرتے ہیں ۔۔

یہ بول کے بہزاد نے شانزے کا چہرہ چھوڑا تو اسکی آنکھیں بھیگنیں لگی بہزاد نے ایک نظر اسکی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں میں دیکھا کچھ تھا جو بہزاد کو کو بیچین کرنے لگا اور وہ تیزی سے روم سے چلا گیا۔۔

#######

بلاج کی نظریں عترت پہ تھی مگر عترت وہ زیادہ دیر تک بلاج کی شعلہ اگلتی نگاہوں میں دیکھ نہیں پائ اور نگاہ جھکا گئ۔۔

ماما میں کھانا دیکھ لو۔۔

عترت نے شاہجاں کو بول کے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی بلاج کی نگاہوں نے اسکا دور تک پیچھا کیا۔۔

کچن میں پہنچ کے عترت سلپ پکڑ کے زور زور سے سانس لینے لگی اسے ایسا لگ رہا تھا اسکا دل بند ہو جائے گا۔ ۔۔

جو عترت ٹھنڈا پانی نہیں پیتی تھی آج اسنے فریج سے برف کا پانی نکال کے ایک سانس میں ختم کر ڈالا۔۔

عترت آپی آپ ٹھیک ہو کیا ہوا اپکو؟؟

صنم جو اسکی ہیلپ کروانے کچن میں آئی تھی اسکی حالت دیکھ کے ڈر گئ۔۔

صنم کی آمد پہ عترت نے فورا اپنی طبیعت سنبھالی اور کہا۔۔

ارے کچھ نہیں صنم وہ میں نے صبح سے کچھ کھایا نہیں تھا نہ تو اس وجہ سے چکر آرہے تھے اب ٹھیک ہو ۔

آر یو شیور؟؟

میں ماما کو بلاؤ؟؟

ارے ہاں ہاں پاگل ماما کو بولنے کی کیا بات ہے وہ خاماخای میں پریشان ہوجائینگی۔۔

کھانا کب لگانا ہے ؟ پوچھا ماما سے؟؟.

وہی بتانے میں آئ تھی کے کھانا لگانے کا بولا ہے ماما نے۔۔۔

عترت نے کھانا ٹیبل پہ لگادیا اب مسئلہ یہ تھا کے وہ شاہجاں بیگم کو کیسے بولنے جائے کے کھانا لگ گیا ہے صنم کے پاس کال آگئ تھی جیسے سننے میں وہ مصروف ہوگئے تھی ۔

عترت نے ہمت کری اب اس کا سامنا تو کرنا ہے عترت اور تم نے  کو نسا کچھ غلط کیا ہے۔۔عترت نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔

عترت نے اپنے آپکو تسلی دی اور ایک بار پھر وہ اس دشمن جان کے سامنے گئ ۔

بلاج کی طرف اسنے نگاہ ڈالنے کا گناہ بھی نہیں کیا۔۔

چلو آجاؤ بلاج بیٹا کھانا لگ گیا۔۔

وہ آنٹی ہاتھ دھونے تھے؟؟

عترت بیٹا بلاج کو واش روم کا بتادو۔۔

ندا آجاؤ ہم چلے ڈائینگ ٹیبل پہ۔۔

عترت کا ایسا لگا شاہجاں نے اسے موت کا پروانہ سنا دیا ہو۔۔

ندا اور شاہجاں کے جاتے ہی عترت نے نگاہ اٹھا کے بلاج کو دیکھا تو وہ اسے ہی خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

عترت نے اپنا خشک حلق تر کیا اور اسکے آگے چلنے لگی بلاج بھی خاموشی سے اسکے پیچھے چلنے لگا واش روم دیکھا کے جیسی عترت پلٹنے لگی۔۔اسکی کلائ بلاج کے ہاتھ میں اچکی تھی ۔۔

بلاج نے نے اسے واش روم کے ساتھ والی دیوار سے لگایا۔۔

عترت کا سر زور سے دیوار سےٹکرایا۔۔

مگر سامنے والے کو پرواہ نہیں تھی۔۔

تم زندہ کیسے ہو بیوفائ کرکے؟؟

بلاج نے اسکے بے حد قریب ہوکے پوچھا۔۔

عترت کا بلاج کی قربت میں سانس لینا مشکل ہونے لگا۔۔

آنسو اسکے گال پہ پھسلنے لگے۔۔

ایےےے یہ ناٹک مت کر میری سامنے ۔۔

بلاج نے تقریبا غراتے ہوئے کہا۔ 

مجھے تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دینا سنا تم نے جو چاہے مجھے سمجھو ۔۔

عترت نے اپنی بائیں طرف رکھا بلاج کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔

ہاں ہاں جانتا تھا میں منہ چھپا کے دلوں کے سودے کرنے کا تو تمہارا کام ہے بلاج نے اسکا منہ دبوچتے ہوئے کہا۔۔

ڈونٹ ٹچ میں بلاج۔۔۔

عترت نے اپنے منہ سے اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے غصہ میں کہا۔۔

اوہہ ہاں میں تو بھول گیا تمہیں تو کسی اور کی باہہوں کی عادت ہے ۔

بلاج کے کہے گئے جملے عترت کی روح پہ ایسی ضرب لگائی کے وہ ساکن نظروں سے بلاج کو دیکھنے لگی۔ 

اوہہ کہی بات باہوں سے آگے تو نہیں بڑھ گئ تھی۔۔

بلاج نے شیطانی مسکراہٹ سے پوچھا۔۔۔

عترت نے اسے خود سے دور کیا اور ڈورتی ہوئ وہاں سے چلی گئ۔۔۔

عترت کے جاتے ہی بلاج نے ایک زور دار ہاتھ دیوار پہ مارا۔۔

واہ شاہجاں کھانا بہت مزے کا ہے۔۔

عترت نے بنایا ہے میں تو آفس کے کاموں میں اتنا مشغول رہتی ہو گھر کی زمیداری ٹھیک سے نبھا نہیں پاتی میں تو یہ سوچتے ہو کے جب عترت کی شادی ہوجائے گی تو کیا کرونگی دوسروں سے تو امید بلکل نہیں ہے۔۔

شاہجاں نے صنم پہ ٹونٹ کرتے ہوئے کہا ۔

تو ندا کیساتھ ساتھ صنم بھی مسکرانے لگی۔۔

ارے شاہجاں ابھی تو بہت چھوٹی ہے جب زمیداری پڑے گی سر پہ تو اجائے  گا سارا کام۔۔

شکریہ آنٹی میری حمایت لینے کے لیے ورنہ ماما ہر وقت میرے سر پہ ہمیشہ میزائل داغے رہتی ہیں۔۔

صنم کے بولنے پہ سب ہی مسکرانے لگے سوائے عترت کے۔۔

کہی بات پکی کری کیا شاہجاں عترت کی؟؟

ندا بیگم کے اس سوال پہ بلاج کی دل کی ڈھرکن ایک دم تیز ہوئ اسنے نگاہ اٹھا کے عترت کو دیکھا مگر وہ خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھی۔۔

بلاج نے بھی اس بات کو اگنور کرکے کھانا کھانے کو ترجیح دی۔۔

نہیں ندا بس ڈھونڈ رہی ہو کوئ اچھا سا رشتہ۔۔۔

شاہجاں بیگم کے جواب پہ ندا بیگم کے لب کھل کے مسکرائے اور انہوں نے غور سے عترت کو دیکھا ۔

کھانے کے بعد  بلاج اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور یہ بات عترت کے لیے پر سکون تھی۔۔

ندا بیگم اور شاہجاں بیگم لان میں بیٹھی کافی پی رہی تھی جب ندا بیگم نے اظہر صاحب کا ذکر چھیرا۔۔

انکےذکر کرنے پہ شاہجاں بیگم نے جو ندا بیگم کو بتایا اسے سن کےندا بیگم کافی افسردہ ہونے کیساتھ ساتھ شاکڈ بھی تھی۔۔

شاجہاں مگر اظہر بھائ تو دیوانے تھے تمہارے تو پھر کیسے انہوں نے تم سے بیووفائ۔کرلی۔

بس ندا قسمتوں کے فیصلے ہیں یہ سارے مگر کبھی کبھی ڈر لگتا ہے ندا کے جب بیٹیوں کی شادی کرنے کھڑی ہونگی تو کیا جواب دونگی انکا باپ کہاں ہے۔۔؟

اللّٰہ سب بہتر کریگا شاہجاں تم پریشان مت ہو۔۔۔

ندا بیگم کی تسلی دینے پہ وقتی طور پہ ہی صحیح مگر شاجہاں بیگم پرسکون ہوگئ تھی۔۔

جاتے وقت ندا بیگم شاہجاں بیگم کے لاکھ منع کرنے پہ بھی عترت اور صنم کے ہاتھ میں کچھ کیش رکھ گئ تھی۔۔

بلاج نے جاتے ہوئے پلٹ کر ایک نگاہ عترت پہ ضرور ڈالی تھی مگر عترت اسنےایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔۔

#######

بہزاد کے ہاتھ میں شانزے کا موبائل تھا جو اسنے جان بوجھ کے اپنے پاس روک لیا تھا ۔۔

بہزاد کیلیے موبائل کا لاک کھلوانا کوئ مشکل کام نہیں تھا۔۔

شانزے کا موبائل اون ہوتے ہی وال پیپر پہ شانزے اور مراد کی پک شو ہوئ دونوں ایک ساتھ کافی قریب تھے۔۔

بہزاد کی آنکھوں نے جب یہ پک دیکھی تو نجانے کیوں اسکا دل جلنے لگا اس نے اسی وقت وہ پک ڈیلیٹ کردی۔۔

شانزے کے نمبر پہ صنم کی کال آنے لگی۔۔

کال کے ساتھ پک دیکھ کے بہزاد سوچنے لگا ہےاس نے اسے کہا دیکھا ہے اور یاد آنے پہ خالی مسکرایا۔۔

بہزاد نے کئ بار صنم کی کال کٹ کری۔۔۔

بہزاد جسطرح سے شانزے کو دھمکی دے کر آیا تھا اسے اتنا تو یقین تھا کے وہ اپنی زبان بند رکھے گی۔۔

مگر یہ بہزاد کی سب سے بڑی بھول تھی۔۔

######

سارے کام نبٹا کے عترت اپنے کمرے میں آئ کچھ سوچتے ہوئے اس نے الماری میں سے ایک باکس نکالا  ۔۔

اس باکس کو عترت نے آج تقریبا تین سال بعد کھولا تھا اور کیوں نہ کھولتی اسکا ماضی اسکی محبت آج تین سال بعد اسکےروبرو تھی۔۔

باکس میں سے ایک خوبصورت سی چاندی کی پائیل تھی جو شاید اپنا معیار اپنی چمک کھو بیٹھی تھی ۔عترت نے اسے ہاتھ میں لیا تھا پائیل ہاتھ میں لیتے ہی عترت کی آنکھیں بھیگنے لگی 

نہ چاہتے ہوئے بھی عترت اپنے ماضی کو یاد کرنے لگی۔۔

اففف آج یونی کا پہلا دن ہے اور پہلے دن ہی میں لیٹ ہوگئی یہ سب صنم کی وجہ سے ہوا ہے کبھی جلدی نہیں اٹھتی۔۔

عترت اپنی ہی دھن میں اپنے ڈاکومنٹس صحیح کرتے ہوئے آرہی تھی۔۔

فورم جمع کروانے گئ تو پتہ چلا دو تین جگہ اسکے سائن نہیں تھے اس نے وہی سائیڈ میں کھڑے ہوکے اپنا پین نکالا اور سائن کرنے لگی مگر کہتے ہیں نہ جب کسی کام کی جلدی کرو وہ اور دیر سے ہوتا ہے ایسا ہی کچھ عترت کے ساتھ ہوا۔۔

اسنے جیسی ہی فوم پہ سائن کرنے کیلیے پین چلا مگر ہائے رے قسمت وہ نہیں چلا ۔۔

عترت نے دو تین بار جھٹکا پین تو چل گیا مگر سامنے کھڑے شخص کی سفید چمکتی شرٹ کو داغدار کرگیا۔

عترت نے جیسے ہی سائن کرکے مسکرا کے سامنے دیکھا ۔۔

اسکا ہاتھ ایک دم اپنے منہ پہ گیا اسکے سارے پیپر زمیں پہ بکھر گئے ۔

بلاج نے جب اپنی فیورٹ شرٹ پہ بلیک انکک کے دھبہ دیکھے تو اسکا صدمہ سے برا حال ہوگیا اسکے ساتھ موجود زین نے اس شخص کی سلامتی کی دعا مانگی جس سے یہ غلطی ہوئ۔

بلاج نے غصہ میں اپنی مٹھیاں بھینچ کے جیسے ہی سامنے دیکھا تو اسکا غصہ اسی وقت اڑن چھو ہوگیا۔۔

لائٹ پنک کلر کے نفیس سے سوٹ پہ ہم رنگ اسکارف پہنے ہاتھوں میں تھوڑی تھوڑی چوڑیاں ڈالے حواس باختہ وہ ڈری سہمی سے کھڑی تھی بلاج کے اس طرح دیکھنے پہ اسکی لائٹ براؤن شفاف آنکھوں میں جس میں کاجل کی ہلکی ہلکی سی لائن تھی آنسوں سےبھیگنے لگی ۔۔

بلاج کو ایسا لگا جیسے اسکا دل بہت زور زور سے ڈھرک رہا ہے کچھ تھا ایسا انجانا سا احساس جس نے بلاج خان کی دنیا ایک پل میں ہلا دی۔۔

 عترت نے  ڈرتے ڈرتے بلاج سے کہا۔۔

ائ۔ایم سو سوری میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا۔۔

عترت کی اتنی مدہم آواز سن کے بلاج کے لب نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرائے اور اس نے کہا۔۔

کوئ بات نہیں اپنے جان بوجھ کے نہیں کیا ۔۔

بلاج کے منہ اسے اتنے میٹھی لفظ سن کے زین تو بیہوش ہوتے ہوتے بچا۔۔

بلاج نے جھک کے عترت کے سارے پیپر سمیت کے اسے دیے اور۔ زین کو کہا جو منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

چلے زین کلاس کا ٹائم ہورہا ہے۔۔۔

ہاں ہاں بھائ مجھے لے چل ایسا نہ ہو میں بیہوش ہوجاو۔۔

بلاج اور زین کے آگے جاتے ہی عترت بلاج کی پشت کو گھورنے لگی۔۔

مگر بوکھلائ تب جب بلاج نے بھی اسے پلٹ کر دیکھا۔۔

عترت نے فورا اپنا فورم سمیٹھ کروایا اور تقریبا ڈورتے ہوئے وہ کلاس میں پہنچی مگر افسوس کلاس اسٹارٹ ہوچکی تھی۔۔

اسٹوڈینٹ سے بھری کلاس دیکھ کے عترت کا تھوڑا بہت کانفیڈینس اڑن چھو ہوگیا ۔

اس پہ سونے پہ سہاگا سر بھی اسے کافی کھڑوس لگ رہے تھے ۔

آئ ایم۔کمن ان سر؟؟

سر جو بورڈ پہ لکھنے میں مصروف تھے نگاہ اٹھا کے عترت کو دیکھا اور کہا ۔

اتنی جلدی آپ کہاں سے آگئ مس ابھی تو یونی کا گیٹ کھولنے والا واچ مین بھی نہیں ایا۔۔۔

سر کی طنز پر پوری کلاس ہسنے لگی۔۔

مگر کوئ موجود تھا کلاس میں جس کی نگاہ عترت کی جھکی گردن پہ تھی۔۔

سوری سر آئندہ لیٹ نہیں ہونگی۔۔

عترت کی رونے جیسی آواز سن کے شاید سر کو اس پہ رحم آگیا انہوں نے عترت کو کلاس اٹینڈ کرنے کی اجازت دے دی۔۔

عترت خاموشی سے چلتی ہوئی پیچھے جاکے بیٹھ گئ مگر مسلسل کسی کی نگاہوں کے حصار میں تھی۔۔

عترت نے ایک دو دوفہ نگاہ اس پاس ڈورائ مگر اسکی نگاہیں ناکام لوٹی مگر تیسری بار میں اسکی نگاہ بلاج سے ٹکرائی جو اسی کلاس میں تھا۔۔۔

بلاج کو دیکھ کے اسکی شرٹ کا حال دیکھ کے عترت کو کافی شرمندگی ہوئ مگر اب وہ بیچاری کربھی کیا سکتی تھی۔۔

اج یونی کا دن جیسے تیسے گزر ہی گیا۔۔

گھر جاکر جہاں عترت تھک ہار کر سونے کا ارادہ رکھتی تھی۔ وہی صنم اسکی راہ تک رہی تھی بازار جانے کیلے اپنی فرینڈ کی برتھڈے کا گفٹ لینے کیلیے۔۔

عترت نے خاموشی سے صنم کیساتھ جانے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اسے انکار کرنے کا مطلب گھر میں بھونچال لانا ۔

تقریبا کوئ دس۔ بیس دکانیں ڈھونڈنے کے بعد آخر کار صنم کو گفٹ پسند ا ہی گیا وہ لوگ وہاں سے نکلنے لگے جب۔۔ عترت کی نگاہ شرٹ کی دکان پہ پڑی۔۔

صنم چوڑیاں دیکھنے میں لگ گئ اور عترت موقع سے فائدہ اٹھا کے دکان میں چلی گئ

اچانک اسکے سامنے بلاج کا سراپا آگیا کچھ سوچتے ہوئے وہ دکن دار کو سائز بتا کے شرٹ نکلوائ

اپنے اندازے کے مطابق اسنے ایک وائٹ کلر کی خوبصورت سی شرٹ پیک کروالی۔۔۔

۔۔۔

اگلے دن یونی میں پھر اسکی بلاج سے ملاقات ہوئی کلاس میں لائبریری میں مگر اس میں ہمت ہی نہیں ہورہی تھی بلاج کو شرٹ دینے کی ۔۔

یونی ختم ہونے پہ بس 5 منٹ باقی تھے اور عترت منہ لٹکائے یونی کی پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسکی نگاہ بلاج پہ پڑی جو اپنی کار میں بیٹھ رہا تھا پتہ نہیں عترت کو کیا ہوا ہے اسنے بلا جھجھک بلاج کو اسکے نام سے پکارا۔۔

اپنے نام کی پکار پہ بلاج نے ادھر ادھر دیکھا مگر جب اسکی سامنے نگاہ پڑی تو عترت تیزی سے اسکی طرف آرہی تھی اور بلاج کے حیرت ہورہی تھی کے اسنے اسے اوازدی۔۔

عترت بلاج کو آواز تو دے بیٹھی مگر اب اسمیں ہمت نہیں ہورہی تھی اسےشرٹ دینے کی۔۔

بلاج نے اسکا۔گھبرایا چہرہ دیکھا تو پوچھ بیٹھا ۔

کوئ پریشانی ہے آپکو عترت؟؟

نہیں نہیں وہ مج ھے ۔۔میر۔ امطلب۔۔۔

عترت کی لڑکھڑاہٹ سے بلاج نے اندازہ لگایا تھا کے ضرور کوئ بات ہے۔۔

عترت جو بھی بات آپ مجھ سے کہہ سکتی ہیں ڈرے نہیں۔۔

بلاج کے ایسے میٹھے لہجہ پہ عترت کو تھوڑی ہمت ہوئ اور اسنے کہا۔۔

وہ بلاج میں یہ آپکے لیے لائ تھی۔۔

اپنے بیگ سے ایک پیکٹ نکال کے اسنے بلاج کے آگے کیا ۔

بلاج نے خاموشی سے وہ پیکٹ تھاما اور سوالیہ نظروں سے عترت کی طرف دیکھا۔۔

وہ مجھ سے کل آپکی شرٹ خراب ہوگئ تھی تو میں آپکی لیے شرٹ لائ تھی۔۔

عترت کی بات سن کے بلاج کو ایسا لگا اس نے کچھ غلط سنا۔۔

کیا کہا عترت دوبارہ کہے؟؟

میں آپکے لیے شرٹ لائ تھی مگر بلاج آپ یہ مت سمجھیے گا کے میں کوئ ایسی ویسی لڑکی ہو۔۔۔

۔وہ مجھے پتہ ہے عترت جی آپ ایسی ویسی لڑکی بلکل نہیں ہے بلاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

وہ اصل میں میرا کوئ بھائ نہیں ہے تو۔۔۔۔

او ہیلو مجھے بننا بھی نہیں تمہارا بھائ ؟؟اس نے پیکٹ تقریبا   عترت پہ پھینکتے ہوئے کہا۔۔

بلاج کے پیروں کی نیچے سے زمین کھسک گئ عترت کی بات سن کے اس بہت شدید قسم کا شاکڈ لگا تھا۔۔

عترت نے بلاج کی  بوکھلاہٹ دیکھ کے مسکرائے بنا نہ رہ سکی اسنے پیکٹ دوبارہ اسے تھماتے ہوئے کہا ۔

ارے پوری بات تو سن لے بلاج میں یہ کہہ رہی ہو میں کبھی ایسی چیزیں خریدیں نہں اسلیے کوئ آئیڈیا نہیں ہے پتہ نہیں آپکو کیسی لگے۔۔

آپ نے دی ہے تو اچھی ہوگی ۔۔

شکریہ عترت ۔۔۔

نہیں شکریہ کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کرے یونی کا پہلا دن اور آپکی شرٹ خراب کردی تھی۔۔

اٹس اوکے۔۔۔

اوکے میں چلتی ہو اب ۔۔

عترت مسکراتے ہوئے پلٹ گئ۔۔

بلاج نے پیکٹ کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے گاڑی کا لاک کھولا اور یونی سے نکل گیا۔۔

گھر جاکر بلاج نے جب پیکٹ کھولا تو اسمیں وائٹ کلر کی حسین شرٹ تھی بلاج نے  عترت کی چوائس کو داد دی اور شرٹ پہننے لگا ۔

بلاج کافی شاکڈ تھا شرٹ پہن کے کیونکہ شرٹ اسکے بلکل پرفیکٹ آئ تھی ۔۔

بلاج شرٹ  پہنے پہنے بیڈ پہ لیٹ گیا ۔

ایک انجانی محبت کا آغاز ہوچکا تھا مگر انکی محبت کا انجام اتنا خطرناک ہوگا یہ عترت اوربلاج دونوں نے نہیں سوچا ہوگا وہ کہتے ہیں نہ۔۔

"شمع ہوئ ہے روشن جلنے لگے پروانے۔۔

آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے.."

اگلے دن عترت تھوڑا لیٹ یونی پہنچی کیونکہ اسکا ارادہ پہلا لیکچر لینے کا نہیں تھا بلکے لائبریری میں بیٹھ کے نوٹس بنانے کا تھا۔۔

کیا بات ہے اتنی دیر سے بیچین ہے تو بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا ہے کوئ خاص آنے والا ہے کیا۔۔

زین نے بلاج کا چہرہ جانچتے ہوئے پوچھا۔۔

ارے وہ اپنی کلاس میٹ عترت ۔۔۔

تجھے کب سے اسکا انتظار ہونے لگا۔۔؟؟

ارے تو سوال بہت پوچھتا ہے چل لائبریری چلتے ہیں۔۔۔

بلاج نے اسکا سوال اگنور کیا جو زین کو بلکل بھی اچھا نہیں لگا وہ خاموشی سے بلاج کیساتھ چلنے لگا۔۔

لائبریری میں قدم رکھتے ہی بلاج کو وہ سامنے کتابوں میں سر کھپاتے ہوئے دیکھائے دی۔۔

عترت کو دیکھ کے بلاج کے چہرے پہ جاندار مسکراہٹ پھیل گئ جو زین کو تو ہرگز اچھی نہیں لگی۔۔

زین تو یہی رک میں ابھی ایا۔۔

بلاج نے زین کو وہی روکا اور خود عترت کی ٹیبل پہ جانے لگا۔۔

عترت کے سامنے جاکے وہ بیٹھ گیا مگر وہ اتنی مصرف تھی کے اسے اندازہ نہی ہوا کے وہ کب سے بلاج کی نظروں کے حصار میں ہے۔۔

لگتا ہے بہت مصروف ہو؟

نہیں نہیں بس ہوگیا۔۔

عترت نے اپنی ہی دھن میں جواب دیا مگر جب سامنے  دیکھا تو پہلے گھبرائ اور جھجھکتے ہوئے بلاج سے کہا۔

او سوری میں نے آپکو دیکھا نہیں؟؟

اچھا تو اب دیکھ لو۔۔۔

بلاج کے کہنے پہ عترت کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھر گئے۔

بلاج کے یہ حیا کے رنگ بہت انوکھے لگے ۔اسنے عترت کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔

ویسے شرٹ ایک دم پرفیکٹ آئ ہے اور ہے بھی خوبصورت۔۔

اتنی غور سے دیکھا تھا میرا فیگر؟

عترت نے بلاج کی بات پہ اسے غصہ سے دیکھا اور کہا

۔

بلاج آپ بہت بہت؟؟

یہ بول کے عترت لائبریری سے جانے لگی بلاج بھی اسکے پیچھے خاموشی سے جانے لگا کیونکہ کے اب لائبریری میں سب کے سامنے تو اسے روک نہیں سکتا تھا۔۔

لائبریری سے نکلتے ہی بلاج نے فورا عترت کا راستہ روکا لائبریری کا راستہ تقریبا سنسان ہی رہتا تھا اسلیے بلاج نے بلاجھجک عترت کا راستہ روکا۔۔

عترت نے غصہ سے بلاج کی طرف دیکھا۔۔

عترت کا چہرہ غصہ میں لال ٹماٹر ہورہا تھا جو دیکھ کے بلاج کی ہنسی نکل گئ اور اسنے نجانے کس احساس کے تحت عترت کی ہلکی سے دبا کے کہا۔۔

غصہ میں تم بلکل باربی ڈول لگ رہی ہو میں تو مزاق کررہا تھا پاگل۔۔

بلاج کے چھونے پہ عترت کے دل انجانے سفر پی چلنے کے لیے پر تولنے لگا۔۔

عترت تھوڑا مسکرا کے آگے جانے لگی جب بلاج بھی اسکے ساتھ چلتے چلتے پوچھنے لگا ۔۔

کہاں جارہی ہو؟؟

مجھے بہت بھوک لگ رہے بلاج صبح جلدی جلدی میں میں نے ناشتہ بھی نہیں کرا

۔۔تین دن کی جان پہچان میں دونوں ایسے بات کررہے تھے جیسے بہت پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے کو

او اچھا چلو میں بھی چلتا ہو۔۔۔

کیوں آپ کلاس نہیں لینگے۔۔؟؟.

نہیں آج تمہاری کلاس لینگے۔

مطلب ؟؟

ارے ایک تو سوال بہت پوچھتی ہو آجاؤ جلدی کینٹین چلتے ہیں اب تو مجھے بھی بھوک لگنے لگ گئ۔۔

دونوں کینٹین کی طرف بڑھ گئے۔۔

مگر بلاج یہ بھول گیا کے اس کے ساتھ کوئ اور بھی تھا۔۔

دن ہفتوں میں میں بدلنے لگے بلاج اور عترت کی دوستی پروان چڑھتی گئ۔۔

جہاں بلاج عترت سے محبت کرنے لگے گا تھا وہی زین بھی اب عترت میں انٹرس لینے لگا تھا مگر عترت تھی جو زین کو بلکل اگنور کرتی تھی اور یہ ہی بات زین کو ناقابل برداشت تھی۔۔

ایک ایسا ہی دن جب یونی میں الیکشن تھی دو پارٹیوں کے درمیاں بحس شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یونی میدان جنگ بن گئ۔۔

زین نے اس کلاس کو باہر  سے کردیا جہاں عترت تھی۔۔

تاکے وہ عترت سے اپنے دل کی بات کہہ سکے۔۔

مگر جب گولیاں چلی یونی میں تو زیں ہونی سے بھاگ گیا۔

مگر بلاج اس نے دیوانہ وار عترت کو پکارنا شروع کردیا۔۔

عترت جو کمرے میں بند تھی اور گولیوں کی آوازیں سن کے زارا قطار رو رہی تھی۔۔

اچانک اسے بہت پاس سےبلاج کی آواز سنائ دی۔۔

عترت  بھی زور زور سے بلاج کو پکارنے لگی۔

بلاج کو عترت کی آواز سنائ دی تو اس نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا اچانک بلاج کی نظر ایک کمرے پہ پڑی جسکے باہر سے کنڈی لگی تھی ۔۔

بلاج نے جیسی کنڈی کھولی اسے عترت سامنے گھٹنے کے بل بیٹھی روتی ہوئی دیکھائی دی۔۔

عترت۔۔۔؟؟

اپنے نام کی پکار پہ عترت نے جب نگاہ اٹھائ تو سامنے بلاج کھڑا تھا۔۔

عترت تقریباً ڈورتی ہوئ اسکے سینے سے لگی۔۔

بلاج نے بھی اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا ۔

تم ٹھیک ہو؟؟

نہیں نہیں بلاج مجھے گولیوں کی آواز سے بہت ڈر لگتا ہے مجھے گھر جانا ہے۔۔

اچھا اچھا ادھر دیکھو میری طرف۔۔

بلاج نے اسکا چہرہ تھام کے اوپر کیا۔۔

عترت کا چہرہ آنسووں سے تر تھا۔۔

بلاج نے اسکا چہرہ صاف کیا اور کہا ۔

ڈرو نہیں میری جان میں ہونہ چلو میں تمہیں  گھر لے کر چلتا ہو۔۔

ڈرو نہیں پلیز عترت رونا نہیں اب یہ بول کے بلاج نے عترت کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

عترت جہاں تھی وہی کی وہی رہ گئ۔۔

مگر بلاج آج سکون میں تھا بہت سکون میں اس نے عترت کو صحیح سلامت ڈھونڈ لیا تھا۔۔

اسنے عترت کو اپنی جیکٹ پہنائے اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کمرے سے باہر نکلا۔۔

عترت  کسی کٹی پتنگ کی طرح اسکا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔۔

بلاج اور عترت بہت مشکلوں سے یونی سے باہر نکلے تھے۔۔

عترت کو گھر چھوڑ کے بلاج بھی اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔۔

شاہجاں بیگم نے خبروں میں یونی کی صورتحال پڑھ کر عترت کیلیے کافی فکر مند  تھی وہ بھی بہت پریشان تھی کیونکہ  عترت کا موبائل کم چارجنگ کی وجہ بند ہوگیا تھا۔۔

اسلیے شاہجاں بیگم اور پریشان ہورہی تھی۔

عترت کو گھر میں صحیح سلامت دیکھ کے شاہجاں بیگم نے اسے فورا گلے لگایا ۔۔

مگر انہوں نے عترت کے اوپر موجود جیکٹ پہ دیھان نہیں دیا۔۔

شاہجاں بیگم نے جب اس سے سوال کیا کے وہ گھر تک کیسے پہنچی تو عترت نے انہیں یہ تسلی دی کے وہ۔انجم کے ساتھ آئ ہے جو اسکی کلاس میٹ اور اچھی دوست تھی۔۔

عترت کمرے میں آئ جیکٹ اتار کے اسے ہاتھ میں لیے کے کچھ دیر پہلے کے لمحات جو سوچنے لگی ۔۔بلاج کے چہرے پہ اسے اپنے لیے ایک الگ ہی احساس دیکھنے کو ملا کسطرح سے سے اسنے عترت کو اپنے سینے میں چھپایا تھا عترت کو اپنا آپ معتبر لگنے لگا۔۔

فریش ہوکے عترت جو لیٹی تو اتنی گہری نیند سوئ کے  رات 9 بجے اسکی آنکھ کھلی۔۔

وہ نیچے اتر کے گئ تو شاہجاں بیگم ٹی وی لانج میں ہی بیٹھی تھی۔

عترت سیدھی انکے گودھ میں سر رکھ کے لیٹ گی۔۔

نیند پوری ہوگئ میری بیٹی کی ؟؟.

جی ماما مگر میں اتنی دیر تک سوتی رہی اپنے اٹھایا نہیں ؟؟

ارے تم کہاں آرام کرتی ہو یونی کیساتھ ساتھ گھر بھی دیکھتی ہو بس اسی لیے میں نے تمہیں اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔۔

صنم کہاں ہے؟ اور دادو؟

بیٹا وہ دونوں تو کب کی سوگئ۔۔

تم کچھ کھالو پھر آرام کرلو بیٹا۔۔

اپنے کھایا ؟؟

ہاں بیٹا تمہیں پتہ ہے میں رات کا کھانا جلدی کھالیتی ہو۔۔

چلے میں کھانا کمرے میں جاکر کھالونگی ۔اوکے بیٹا۔۔

عترت نے جاتے ہوئے اپنے ماما کا ماتھا چوما اور کھانا لے کر کمرے میں چلی گئ۔۔

اسنے ابھی کھانا ہی شروع کیا تھا کے اسے بیڈ پہ وائبریشن محسوس ہوئ۔۔

اسے یاد آیا اس نے آتے ہی اپنا موبائل چارج پہ تو لگادیا تھا مگر اسے وائبریشن سے ہٹانا بھول گئ۔۔

اسنے کھانا کا پہلا لقمہ لے کر موبائل اٹھایا۔۔

موبائل پہ نگاہ پڑتے ہی اسکا ہاتھ فورا اپنے منہ پہ گیا۔۔

100 سے زیادہ بلاج کی  مسڈ کالز آئ ہوئ تھی ۔۔

عترت نے بنا تاخیر کیے فورا بلاج کو کال بیک کی۔۔

مگر دوسری طرف سے وائس کال کٹ ہوئ اور وڈیو کال آنے لگی۔۔

پہلے پہل عترت نے سوچا کال کٹ کردے مگر کچھ سوچتے ہوئے اس نے کال پک کرلی ۔۔کیونکہ آج تک کبھی بلاج نے وڈیو کال نہیں کی۔۔

سامنے ہی اسے بلاج کا چہرہ دیکھائ دیا شرم کے مارے عترت نگاہ جھکا گئ۔۔

مگر بلاج وہ آج عترت کا بنا ہیڈ کور کے دیکھ کے مہبوت سارہ گیا اسکے لمبے گھنے بال دونوں طرف سے آگے کو ہوئے تھے سامنے اسکے کھانے کی ٹرے رکھی تھی ۔

وہ آپکی کال آرہی تھی موبائل وائبریشن پہ تھا ابھی میری آنکھ کھلی میں سوگی تھی۔۔

ہاں وہ میں پریشان ہورہا تھا کے تم کال ریسیو نہیں کررہی تھی تو۔۔

عترت نے اب بھی نگاہ نہیں اٹھائ تھی اور بلاج سمجھ۔ رہا تھا اسکی جھجک ۔۔

عترت مجھے لگ رہا ہے تم۔کھانا کھارہی ہو۔۔

جی ۔۔۔عترت نے   اسکی طرف نگاہ کرکے جواب دیا اور پھر نگاہ جھکا گئ ۔

اچھا وہ تین دن بعد یونی کھلے گی یہی بتانا تھا تمہیں اوکے اب تم کھانا کھاؤ اپنا دیھان رکھنا اللّٰہ حافظ ۔۔

بلاج کی کال کٹ ہوتے ہی عترت کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئ مگر چہرے پہ مسکراہٹ اگئ۔۔

تین دن ان لوگوں نے وائس میسج پہ خوب باتیں کی عترت کے چہرے پہ محبت کے رنگ بکھرنے لگے۔۔

یہ تین دن کیسے گزرے یہ کوئ بلاج اور عترت سے پوچھے دونوں ہی محبت کے تیر سے گھائل ہوچکے تھے ںبس اب اپنے اپنے گھائل دل ایک دوسرے کو دکھانے کا وقت تھا۔۔

آج یونی جانا تھا اورعترت کو بلاج کا میسج آچکا تھا کے لائبریری کے پاس والے گارڈن میں پہلے اس سے ملےبعد میں لیکچر لے۔۔

عترت گارڈن میں پہنچی تو بلاج اسکا انتظار کررہا تھا وائٹ کاٹن کے سوٹ میں وہ آج نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا عترت نے ہمیشہ اسے پینٹ شرٹ میں دیکھا تھا شلوار قمیض میں آج اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔۔

بلاج کے ہاتھ میں ریڈ روز کا بکے تھا اور ایک گفٹ باکس ۔۔

عترت کو آتا دیکھ بلاج بھی اسکی طرف بڑھاا۔۔

کیسی ہو؟؟

ٹھیک..

 آپ کیسے ہیں؟؟

میں بھی اب ٹھیک ہو تمہیں دیکھ کے ۔

عترت مجھے کچھ کہنا ہے تم سے یہاں بیٹھو میرے ساتھ بلاج اسے لے کر گھاس پہ بیٹھ گیا۔۔

سمجھ نہیں آرہا کیسے کہو مگر اگر نہ کہا تو وقت نکل جائے گا۔۔

عترت کو کچھ کچھ اندازہ تھا بلاج کیا کہنا چاہ رہا ہے مگر اسے شدت سے انتظار تھا بلاج کے لفظوں کا۔۔۔

وہ عترت میں تمہاری دوست انجم سے محبت کرتا ہو۔

عترت جو کچھ اور ایکسپٹ کررہی تھی بلاج کے منہ یہ سن کے شاکڈ ہونے کیساتھ ساتھ چیخ پڑی ۔

کیا؟؟

عترت اتنی زور سے چیخی یہ بات سن کے کے بلاج کو لگا اسکے۔کان کا پردہ پھٹ جائے گا ۔

کیوں تمہیں کوئ اعتراض ہے؟

بلاج نے عترت کا دھواں ہوتا چہرہ دیکھ کے بہت مشکل سے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔

نہیں مجھے کیا اعتراض ہوگا میرے بلا سے آپ کسی سے بھی محبت کرے۔۔

اچھا تمہیں فرق نہیں پڑے گا اگر میں تمہاری جگہ کسی اور سے محبت کرو۔۔

بلاج کی بات سن کے عترت کے آنسوں گرنے لگے اور اسنے غصہ میں بلاج کا کالر پکڑ کے کہا۔۔

میرے علاؤہ کسی اور کا سوچا بھی نہ تو جان لےلونگی آپکی آپ صرف میرے ہیں۔۔

عترت کے اس حسین اعتراف پہ بلاج کی آنکھیں خوشی سے بھیگنے لگی اسنے جھک کے عترت کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور کہا۔۔

اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے؟

کیوں آپ نہیں کرتے مجھ سے ؟

عترت نے الٹا سوال کیا۔۔

تم سے محبت نہیں محبت عشق دونوں کرتا ہو۔۔۔

یہ بول کے بلاج نے بہت احترام سے عترت کا گلے لگایا تھا۔۔

تو پھر آپ مجھے تنگ کررہے تھے؟؟.

ہاں نہ غصہ میں تم بلکل باربی ڈول لگتی ہو۔۔

بلاج نے یہ کہہ کے عترت کی ایک بار پھر ناک دبائ۔۔

عترت شرما کے اس سے پیچھے ہوئ تب بلاج نے اسکے آگے بوکے کرتے ہوئے کہا۔۔

عترت اظہر مجھے تم سے محبت عشق ہے پلیز میری محبت عشق قبول کرلو ۔

بلاج کے کہنے پہ عترت نے مسکرانے بکے تھام لیا۔۔

اب اپنے پاؤں آگے کروں دونوں۔۔؟

کیوں؟

کرو تو میں نے تمہیں گودھ میں نہیں بیٹھانا۔۔

بلاج۔۔۔۔۔۔

عترت نے شرما کے اسکا نام پکارا اور اپنے پاؤں آگے کرے ۔۔

بلاج نے باکس میں سے خوبصورت سی چاندی کی پایل نکال کے اسکے پاؤں میں پہنائ اور کہا۔۔

یہ میری محبت کا پہلا تحفہ۔۔۔

بلاج کے کہنے پہ عترت نے شرما کے اسکے کندھے پہ سر رکھ دیا۔۔

ڈور کھڑے کسی نے یہ سارا منظر اپنے موبائل میں ریکارڈ کرکے وہاں سے چلا گیا۔۔

واہ یار یو آر سو لکی۔۔

انجم نے اسکے پاؤں میں چاندی کی پایل دیکھ کے کہا ۔۔

ہاں انجم بس اللّٰہ تعالیٰ  ہماری محبت پہ کن کہہ دے۔۔

عترت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔

آمین آمین ۔۔

انجم نے عترت کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔

مگر انکے پیچھے کھڑا انکی باتیں سننے والا زین اس سے برادشت نہیں کرپایا۔۔

ایک دم۔ان دونوں کے سامنے آیا اور عترت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔

مجھے بات کرنی ہے تم۔سے عترت؟؟

ہاں بولے زین بھائ۔۔

یہاں نہیں زرا میرے ساتھ آؤ لائبریری کی طرف۔۔۔

عترت کیساتھ ساتھ انجم کو بھی زین کی یہ بات عجیب لگی۔۔

آپ کو جو کہنا ہے یہاں کہے۔۔

عترت نے روبرو جواب دیا کچھ ایسا زین کی آنکھوں میں تھا جیسے دیکھ کے عترت کو خوف آنے لگا۔۔۔

زین  نےایک غصیلی نگاہ عترت پہ ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔۔

اسکے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے عترت اس سے دور رہنا۔۔

ہاں انجم مجھے بھی آج زین بھائ کچھ عجیب لگے۔۔۔

ہیلو بیوٹی فل۔۔

بلاج نے آتے ہی عترت کی۔ناک دباتے ہوئے کہا۔

بلاج کو دیکھ کے عترت کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئ ۔۔

لو بھی آگیا عشق کا استاد اب میں تو چلی انجم نے اپنی کتابیں سمیٹتے ہوئے کہا۔۔

انجم کی بات سن کے دونوں مسکرانے لگے اور بلاج نے کہا۔

ہائے سالی ہو تو ایسی ہو کسے پرائیویسی فراہم کرتی ہے۔ 

بلاج نے جاتے ہوئے انجم سے کہا۔

بے فکر رہے دولہا بھائ سے اس پرائیویسی کا بھاری معاوضہ لونگی۔۔

ضرور ضرور سالی صاحبہ۔۔

انجم مسکرا کے چلی گئ جب بلاج نے عترت کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔

کچھ پریشان لگ رہی ہو عترت۔۔؟؟

ارے نہیں نہیں پریشان کیوں ہونگی زین والی بات عترت چھپا گئ اور یہ ہی اسکی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔

وہ آپ کل یونی نہیں آئینگے تو۔۔

ارے میری جان ایک دن کی تو بات ہے ایک دن میں کونسا ہم جدا ہوجائینگے۔۔

اللّٰہ نے کرے بلاج کیسی باتیں کرتے ہیں آپ ۔۔۔

عترت نے فورا بلاج کو ٹوکتے ہوئے کہا۔

آپکی جدائ مجھ سے برداشت نہیں ہوگئ یہ بولتے ہوئے عترت کی آنکھیں بھیگنے لگی۔۔

ارے ارے میری جان میں مزاق کررہا تھا ادھر دیکھو میری طرف ۔

عترت کے دیکھنے پہ بلاج نے اسکے آنسو صاف کیے اور کہا۔

پاگل ہمیں اللّٰہ کی ذات کے علاؤہ کوئ جدا نہیں کرسکتا پاگل ہے بلکل میری باربی ڈول یہ بول کے بلاج نے اسے گلے سے لگالیا۔۔

بلاج یونی میں نہی تھا تو عترت بھی یونی نہیں آئ آج بلاج کو گئے دوسرا دن تھا مگر آج عترت کو یونی جانا پڑا لائبریری سے اسے کچھ نوٹس بنانے تھے۔۔

وہ لائبریری سے باہر نکلی تو سامنے زین کھڑا تھا۔۔

اسے اگنور کرکے عترت سائیڈ میں سے گزرنے لگی جب زین نے اسکا ہاتھ تھام کے اسے گھسیٹا ہوا اپنے ساتھ لائبریری کے ساتھ بنے لان میں لے ایا۔

کیا بدتمیزی ہے زین بھائ آپکی ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔۔

عترت کا غصہ عروج پہ تھا زین کی اس حرکت پہ مگر زین کو کوئ فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔

میری بات سنو عترت ۔۔

میں تم سے محبت کرتا ہو تم میری محبت قبول کرکے میرے گلے لگو مجھے بولو میں بھی آپ سے محبت کرتی ہو زین پلیز عترت اس بلاج کو چھوڑ دو۔۔

زین کی بات سن کے عترت کے پیروں کے نیچے زمین کھسک گئ۔اسے زین کی دماغی حالت پہ شک ہونے لگا

۔

اس نے دور ہوتے ہوئے زین سے کہا۔۔

آپکا دماغ خراب ہوگیا ہے آپ ہوش میں تو ہیں میں بلاج سے محبت کرتی ہو مرتے دم تک کرتی رہوگی ۔۔

ٹھیک ہے تو پھر یہ دیکھ لو شاید تمہارا فیصلہ بدل جائے 

زین نے یہ بول کے بلاج اور ان دونوں کے درمیاں پایل پہنانے سے کے کر گلے لگنے تک بلاج کا عترت کے ماتھے پہ اپنے لب رکھنے تک پوری وڈیو اسکے سامنے چلادی۔۔

وڈیو دیکھ کے عترت کے ہوش وحواس اڑ گئے۔۔

اب بتاؤ کیا فیصلہ ہے تمہارا اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو یہ وڈیو نہ صرف پورے کالج میں پھیلا دونگا بلکے تمہاری ماما کو بھی بھیج دونگا۔۔

زین آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں میں نے کیا بگاڑا ہے آپکا؟؟ پلیز مجھ پہ رحم کرے پلیز

عترت نے باقاعدہ زین نے آگے ہاتھ جوڑ دیے زین نے وہی ہاتھ تھام کے کہا مان لو میری بات عترت ورنہ انجام کی ذمیدار تم خود ہوگئ۔۔

عترت نے ابھی فلحال زین کو چپ کرانے میں ہی عافیت جانی بلاج کے آنے تک ۔۔

عترت نے کہا۔۔

ٹھیک میں مان لونگی آپکی بات مگر آپ بلاج سے کچھ نہیں کہینگے میں خود انہیں سمجھا دونگی۔۔

ٹھیک ہے ٹھیک آؤ پھر لگو میرے گلے اور کہو میں تم سے پیار کرتی ہو۔۔

عترت  اپنے دل پہ پتھر رکھ کے زین کے گلے لگی اور کہا ۔

میں بلاج سے نہیں آپ سے محبت کرتی ہو زین۔۔

عتتترررت۔۔۔

ایک دلخراش چیخ  کیساتھ عترت کو اپنا نام سنائ دیا جو بولنے والا کوئ اور نہیں بلاج تھا۔۔

جو آج سرپرائز دینے عترت کو یونی آیا تھا انجم سے پوچھنے پہ اسے پتہ چلا کے عترت لائبریری میں ہے۔۔

یہ عترت کی بدقسمتی تھی کے بلاج نے وہی جملہ سنا جو اسکی دنیا ہلانے کیلے کافی تھا۔۔

بلاج کو سامنے دیکھ کر عترت کی روح فنا ہوگئ اور زین موقع سے فائدہ اٹھا کے وہاں سے نکل گیا۔۔

بلاج کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ریڈ روز اسکے ہاتھ سے نیچے گرگئے۔۔

الٹے قدم  اٹھاتا ہوا وہ واپس مڑگیا۔۔

بلاج بلاج میری بات سنے ایسا نہیں ہے جیسا اپنے دیکھا اور سنا۔۔

عترت نے ڈورتے ہوئے اسے پکڑا۔۔

عترت روتے روتے بلاج کے سینے سے لگنے لگی جب بلاج نے اسے خودسےالگ کرکے زور سے دھکا دیا۔۔عترت منہ کے بل زمین پہ گری

بلاج نے چیخ کے کہا۔۔

تم قابل نہیں ہو میرے مجھے اسی دن سمجھ جانا چاہیے تھا جب تم پہلی ہی ملاقات میں میری لیے شرٹ  لے کے آئ تھی۔۔کے تمہارا کیریکٹر کیسا ہے۔۔

بلاج نے نیچے جھک کے اسکا منہ پکڑ کے کہا۔۔

عترت کا ہونٹ پھٹ چکا تھا مگر بلاج کو پرواہ۔نہیں تھی ۔

میری بات سن لے  ایک بار بلاج پلیز ۔۔عترت نے اسکے پاؤں پکڑتے ہوئے کہا۔۔

نام مت لو میرا اپنی گندی زبان سے ۔۔

نفرت کرتا ہو میں تم سے عترت نفرت زندگی میں کبھی میں تمہارا چہرہ دیکھنا نہیں چاہونگا۔۔

یہ بول کے بلاج نے اسے خود سے دور کیا اور چلاگیا۔۔

عترت کے کانوں میں بلاج کے کہے لفظ گونجنے لگے۔۔

انجم جو ان دونوں کو تنگ کرنے آئ تھی عترت کو ایسا راستہ میں پڑا دیکھ تیزی سے اسکے قریب آئ مگر عترت تو ہوش میں نہیں تھی۔۔

گھر پہنچ کے عترت نے بے شمار وائس کال کیے بلاج کو مگر بلاج اسکا نمبر بلاک۔کرچکا تھا۔۔

عترت اسکے گھر بھی گئ مگر وہ وہاں بھی نہیں تھا۔۔

ایک ہفتہ دیوانہ وار عترت نے بلاج کے گھر کے کئ  چکر لگائے یونی میں اسکا انتظار کیا مگر وہ نہیں ایا۔۔

پھر اسے انجم سے پتہ چلا وہ یونی چھوڑ چکا ہے۔۔

عترت نے بھی یونی چھوڑدی۔۔

زین بھی اس دن سے غائب تھا بلاج کی کوئ خبر عترت کو نہیں ملی۔۔۔

عترت اپنا ماضی یاد کرکے تڑپ اٹھی چاندی کی پایل باکس میں رکھ کے اسے اپنے سینے سے لگاکے سو گئ۔۔

بلاج گھر آیا تو بنا کسی سے بات کیے کمرے میں چلا گیا۔۔

سالوں بعد عترت کو دیکھ کے اسکا دبا غصہ ایک بار پھر ابھرنے لگا ۔۔

اسنے زور سے اپنا ہاتھ دیوار پہ مار کے کہا۔۔

بیوفا۔۔۔۔

شانزے کی باتیں سننے کے بعد صنم شاکڈ تھی۔۔ کل سے  بات کرنے بعد سے وہ کال ہی ریسیو نہیں کرہی تھی صنم سمجھی شاید ناراض ہوگئ ۔

مگر آج جب اس نے اپنے ابو کے نمبر سے صنم کو کال کرکے گھر بلایا تو صنم کو معملہ گڑ بڑ لگا ۔۔

شانزے تو بھول جا سب دفعہ کر اسکی کرنی اسکے ساتھ ہم۔کیوں اس مسئلے میں کودے۔۔

شانزے کی باتیں سن کے صنم اچھی خاصی ڈر گئ تھی ڈری تو شانزے بھی تھی مگر وقتی طور پر ۔

ایسے کیسے چھوڑ دو صنم اس بہزاد کمینے کو مجھے دھمکی دینا اسے بہت مہنگا پڑے گا تم دیکھنا پہلے میں اسکے خلاف پولیس کمپلین کرونگی اور پھر پاپا کو سب بتاونگی کے وہ کیسے گھٹیا پلس قاتل انسان کے ساتھ کام کررہے ہیں تجھے پتہ ہے صنم یہ بہزاد اپنے بیٹے کو بھی مار چکا ہے۔۔

شانزے کی بات سن کے صنم بہت ڈر گئ اسے اندازہ تھا کے بہزاد کیا چیز ہے مگر شانزے کو اس وقت سمجھانا کافی مشکل تھا ۔

اب تیرے تو اسٹیچس لگے ہیں تین دن بعد کلب میں ڈانس کمپیٹیشن ہونے والا ہے اس میں تو تو ڈانس نہیں کر پائے گی ۔؟؟ صنم نے افسردگی سے کہا۔۔

ہاں صنم سوری یار ۔۔

چل کوئ نہیں میں منع کردونگی آج کلب جاکے ۔۔

ابھی دونوں باتوں میں مصروف تھے جب مراد اچانک کمرے میں ایا۔۔

بات سنو جب یہ تمہارے سر کی چوٹ صحیح ہو جائے تو بتا دینا مجھے شادی کی شاپنگ کرنے جانا ہے ۔

مراد نے بیزاریت سے یہ بات کہی اور چلا گیا۔۔

مراد کے جاتے ہی صنم نے تعجب سے شانزے کو دیکھا جو گردن نیچی کرکے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہی تھی ۔

یہ اسے کیا۔ہوا??

 شانزے یہ کس انداز میں تم سے بات کررہا ہے ??

جب سے اسکی جاب لگی ہے دو تین مہینے یہ ٹھیک رہا پھر اسکارویہ مجھ سے اسی طرح کا ہوگیا ہے جیسے بہت بیزار ہو مجھ سے۔۔

تمہیں میں کہتی تھی مگر تمہیں یقین نہیں آتا تھا آج تم نے دیکھ لیا خودد۔۔

شانزے تم پریشان نہ ہو انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجاے گا ۔۔صنم نے شانزے کو گلے لگا کر تسلی تو دے دی تھی مگر اسے خود مراد کا رویہ پریشان کرگیا تھا۔۔

#####

اللّٰہ رسول کا واسطہ ہے ہیر اب تو اٹھ جاؤ کل رات9بجے سے سورہی ہو۔

لندن کیاسونے ائ ہو؟؟.سدرہ نے باقاعدہ سوئی ہوئ ہیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔

ہیر نے  ایک آنکھ کھول کے سدرہ کو دیکھا اور اٹھ کے بیٹھ گئ اپنے لمبے سلکی سہنرے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے کہا۔۔

ہاں کل صبح سے میں لندن پہنچ کے بھنگڑا ڈال رہی تھی اسلیے تھک کے سورہی ہو ابھی تک ۔۔

ہیر کے طنز پہ سدرہ اپنی ہنسی چھپانے لگی ۔

جب سے وہ۔لوگ لندن پہنچے تھے جگہ جگہ ان لوگوں کی چیکنگ ہورہی تھی پھر ہاسٹل آکے ان لوگوں نے الگ فارمیلٹی پوری کرے کمرے کی صفائ سارا کمرہ سیٹ کرنے میں یہ لوگ اچھے خاصے تھک گئے تھے مگر ہیر صفائ کی کیڑی تھی اس وجہ سے وہ زیادہ تھک گئ۔۔

اچھا اچھا میری ماں مجھے اندازاہ کے تونے کل رات بہت زیادہ کام کیا ہے مگر اج یونی بھی جانا ہے وہاں جاکے کلاس وغیرہ دیکھنی ہےایڈمٹ کارڈ وغیرہ لینا ہے بہت کام ہے اس وجہ سے تجھےبول رہی ہو اٹھ جانے کو میٹرن بھی دو بار اچکی ہے ناشتہ کا بولنے اب جلدی سے ریڈی ہوجاو ۔

ابھی ہیر اور سدرہ اور باقی۔کے اسٹوڈینٹ اپنے اپنے فارم جمع کروانے باہر آئے ہی تھے کے ایک گروپ نے انہیں گھیر لیا  جنمیں  کچھ لڑکے اور لڑکیاں شامل تھی ۔

کچھ ان میں اردو اسپیکنگ بھی تھے اور تھی مگر انکا پہناوا پورا انگریزوں والا تھا لڑکوں نے لڑکیوں کی چیزیں پہنی تھی اور لڑکیوں نے لڑکوں والی

بات سنو ہمارا راستہ چھوڑو ۔۔۔

ہیر نے کافی غصہ سے کہا۔۔

جسکا جواب گروپ کی ایک لڑکے نے دیا۔۔

پہلے ہمارے باس زی کی پاس چلو ۔۔

کیوں چلے تمہارے باس زی پی ٹی کے پاس ہٹو راستہ سے ورنہ ابھی پرنسپل سے کمپلین کردونگی تمہاری۔۔

ہیر کے تیور دیکھ کے اس کے گروپ کے دو تین لوگ امپریس ضرور ہوئے تھے مگر فلحال انکے باس کا آڈر تھا کے نیو کمر کو پہلے انکے سامنے پیش کیا جائے تاکے انہیں ریگنگ کیساتھ ساتھ کچھ اصول بھی سمجھائے جائے۔۔

مگر شاید زوہان عرف زی یہ بات بھول گیا تھا کے اس بار اسکاا سامنا ہیر سےپڑھنے والا ہے جو نام اورشکل وصورت کی ہیر ضرور تھی مگر کسی ٹوپ سے کم نہیں تھی۔۔

ہیر نے سدرہ کا ہاتھ پکڑا اور ان لوگوں کے درمیان میں سے راستہ بناتی ہوئی بنا ڈرے چلی گئ۔۔

سب ہی ہیر کی اس جرات سے پہ جہاں حیران تھے وہی خوفزدہ بھی کیونکہ زی کا بلاوا ٹال کے ہیر اپنے لیے شامت بلا چکی تھی۔۔

لمبے کندھے تک آتے بال الٹے کان میں بلیک کلر کی بالی ہاتھ میں بے شمار بینڈز لائٹ گرین آنکھیں جو اب غصہ سے لال ہوچکی تھی۔۔

بیشک 23 سال کا زی   حسین لڑکا تھا مگر  اسنے اپنا حلیہ ایسا بنا رکھا تھا کے پہلے بار دیکھنے میں ہی لوگ اسے پہچاننے میں غلطی کرجائے کے وہ لڑکا ہے یہ چھککاا ۔۔

تم نے اسے بولا کے زی نے بلایا یے۔۔

زی نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا ۔

ہاں زی ہم نے اسے دو بار بولا مگر آگے سےا سنے کہا۔۔۔

آگے کی بات جیننفر کہتے کہتے رک گیا۔۔

کیا کہا اس نے؟؟

زی نے اسکا کالر پکڑ کر کہا ۔

اسنے کہا۔۔

زی ٹی پی سے کہو اگر تنگ کیا تو پرنسپل سے شکایت لگا دونگی۔۔

جنیفر کی بات سن کے زی نے غصہ میں اپنے بالوں پہ ہاتھ پھیرنے لگا

ریلکس ریلکس ڈارلنگ ۔۔

ماشا نے آگے بڑھ کے اسکے لبوں کو چومتے ہوئے کہا ۔۔جو تھی

اسکی ادھی ننگی گرل فرینڈ۔۔

کس ڈیپارٹمنٹ کی ہے وہ؟؟.

زی کے پوچھنے پہ جنیفر نے ہیر کے ڈیپارٹ کا بتایا۔۔

پہلے تو زی اپنی مخصوص جگہ پہ ہیر اور کے باقی دوستوں کے ساتھ ریگنگ کا ارادہ  رکھتا تھا مگر اب وہ اسکے ساتھ جو بھی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا پوری یونی کے سامنے کرنے کا رکھتا تھا۔۔زی نے فورا ہیر کے ڈیپارٹ کا رخ کیا

مجھ سے جو نظریں چرانے لگے ہو۔۔

لگتا ہے کوئ اور گلی جانے لگے ہو۔۔۔

بازل نے ہنزہ کے کمرے کے بیچ وبیچ کھڑے ہوکے گانا شروع کردیا۔۔

ہنزہ جو تین دن سے کمرے  میں بند ہوکے اپنے فائنل ٹرمز کی تیاری کررہی تھی۔۔

سب سے ہی تقریبا اس نے بات چیت بند کری ہوئ تھی کھانا بھی وہ اپنے کمرے میں منگوا لیتی تھی۔۔

ہنزہ جو آج سیکنڈ لاسٹ پیپر دیں کے آئ تھی اور لاسٹ پیپر کی تیاری کررہی ہے تھی بازل کے گنگنانے پہ وہ اچھی خاصی بھرم ہوچکی تھی۔۔

بازل کے بچے سیدھی۔۔ابھی ہنزہ کی بات منہ میں ہی تھی کے بازل نے فورا موقع سے فائدہ اٹھا کے کمرے میں گھس کے کمرے کا دروازہ بند کرکے کہا۔۔

ہائے کیا کہا بازل کے بچے ۔۔

کہاں ہے کدھر ہیں میرے بچے ؟

ہائے اللّٰہ کب آئینگے میرے بچے۔۔ویسے میرے کتنے بچے تم افورڈ کرسکتی ہو۔

بازل نے مجنوں والے اسٹائل میں دیوار پہ اپنا سر مارتے ہوئے کہا۔

بہت ہی کوئ بیہودہ انسان ہو تم بازل ابھی اسی وقت میرے کمرے سے دفعہ نہیں دفعان ہوجاو۔۔

ہیں کیا کہا بیہودہ؟؟

میڈم کونسی بیہودہ حرکت کی میں نے آپکے ساتھ ۔۔

آپکے لبوں کو چوما کیا ایسے میں نے ۔۔

بازل نے اسے کمرے سے تھام کے تیزی سے اسکے لبوں کو چوم کے کہا۔

یہ پھر کبھی آپکی گردن پہ ایسے لب رکھے میں نے۔۔

بازل نے اسے تیزی سے گھما کے اسکے بال ہٹا کے اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔

ہنزہ تو ہکا بکا رہ گئ یہ اسکے ساتھ ہوا کیا۔۔

یہ کبھی میں نے ایسے تمہیں کمر سے تھام کے خود سے قریب کرکے تمہارے ماتھے کو چوما۔۔

بازل نے اسےکمر سے تھام کے ماتھے پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔

بس وہی ہنزہ کو غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ بازل سے نگاہیں چرانے لگی۔۔

بازل کے لبوں پہ بہت ہی دلکش مسکراہٹ آئ اسے اندازہ تھا وہ اپنا مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے چھوٹی موٹی گستاخی کرکے۔۔

اچھا اوپر تو دیکھو میری طرف۔۔

بازل نے اسے خود سے لگائے لگائے کہا۔۔

نہیں تم جاؤ یہاں سے پلیز پڑھنے دو۔۔

ہنزہ نے بنا اسکی طرف دیکھے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا۔

اچھا اچھا اترا لو ہنزہ جانی کل لاسٹ پیپر ہیں نہ تمہارا مجھ سے بچ کے دیکھاؤ تم۔۔

ابھی تو جارہا ہو کیا یاد کروگی کیسے سخی  عاشق سے پالا پڑا ہے تمہارا۔۔

یہ بول کے بازل بنا اسے تنگ کیے ہنزہ کے کمرے سے چلا گیا۔

بازل کے جاتے ہی ہنزہ کی رکی سانس بحال ہوئ اور شرماتے شرماتے وہ دوبارہ پڑھنے لگ گئ جو کے اب بہت مشکل تھا 

۔

!!!!!!!!

پہلا لیکچر وہ لوگ ابھی لے کر  نکلے تھے کے زی کے گینگ نے انہیں گھیر لیا۔

بہت ہی ڈھیٹ ہو تم۔لوگ دوبارہ آگئے ۔۔

ہیر نے جنیفر کو دیکھ کے کہا ۔۔

زی جو یونی کے بیچ و بیچ اپنی بائیک روک کے انکا۔راستہ روک چکا تھا اور اچھی خاصی بھیڑ لگا چکا تھا۔۔ہیر کے بولنے پہ اسکے سامنے ایا۔۔

ہیر نے ایک نظر اوپر سے نیچے تک زی کو دیکھا اور کہا۔۔

اب تم کون ہو بھئ ۔۔؟

ہیر نے کچھ سوچتے ہوئے اسے دیکھ کے دوبارہ کہا۔۔اوہہ تم ہو زی۔۔۔

ویسے ہو کس کیٹیگری کے بوائے یہ گرل۔۔

یہ کہہ کے ہیر نے خودی قہقہ لگایا ۔۔

ہیر بس کر۔۔

سدرہ نے زی کا غصہ سے لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کے کہا۔

ارے بھئ میں تھوڑی انکا راستہ روک کے کھڑی ہو یہی نمونہ میرے سامنے کھڑا ہے۔۔

ہیر نے ایک بار پھر زی کو نمونہ کہا۔

اس سے پہلے وہ اور کچھ کہتی ہیر کے نمبر پہ خوشی کی کال آنے لگی۔۔

جیسی اس نے بیگ سے موبائل نکالا کال سننے کے لیے

زی نے آگے بڑھ کے اسکا موبائل چھینا اور نیچے زمین پہ زور سےمار کے اسے اپنے پیروں سے کچلا اپنے دوسرے ساتھی۔سے جوس  لے کر ہیر کے سر پہ انڈیل دیا۔۔

ساتھ ساتھ اسکے گروپ کے میمبروں کے ہاتھ میں جو جو کھانے کی چیزیں تھی زی نے ایک ایک کرکے ان سے لے کر ہیر پہ انڈیلنا شروع کردی۔۔

ہیر کا سکارف کپڑے بیگ سب ہی خراب ہوچکا تھا ہیر ایک دم سناٹے میں کھڑی تھی۔۔

پوری یونی کے سامنے ہیر کا تماشہ لگ چکا تھا ۔۔

اب کے قہقہ لگانے کی باری زی اور اسکے دوستوں کی تھی۔۔

اب بتاؤ گائز نمونہ کون لگ رہا ہے۔۔

زی کے کہنے پہ سب کا اشارہ قہقہوں کیساتھ ہیر کی طرف گیا۔

ویسے اب تم بتاؤ لگ کیا رہی ہو لڑکی ہہ۔۔۔۔۔

آگے کا جملہ زی کے کہنے پہ ہیر نے نگاہ اٹھا کے زی کو دیکھا ۔۔

کچھ تھا اسکی آنکھوں میں ایسا کے پل بھر کیلیے زی چونکا مگر پھر دوبارہ قہقہ لگانے لگا۔۔

اوو زی تم نے تو بیچاری کے سارے کپڑے خراب کردیے ۔۔

اب دیکھو اس حالت میں  یہ بیچاری یونی کیسے اٹینڈ کرے گی ہمیں اسکی مدد کرنی چاہیے۔۔

ماشا نے ہیر کا مزاق اڑاتے ہوئے جیسی ہی سن کھڑی ہیر کے اسکارف کو ہاتھ لگایا۔۔

بس ہیر کی ہمت وہی تک تھی اس نے وہی ماشا کا ہاتھ پکڑا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے منہ پہ مارا ۔۔

دو منٹ کیلیے پورے ہجوم میں ماتم چھاگیا۔

ابھی ماشا پہلے تھپڑ سے سنبھلی نہیں تھی کے ہیر کا ایک اور زناٹے دار تھپڑ پڑا اور ماشا وہی زمیں پہ گری۔۔

ہیر نے آگے بڑھ کے زی کا کالر پکڑا۔

اسکی اس ہمت پہ زی نے پہلے اسے دیکھا اور پھر اپنے کالر کو۔

ابھی کے ابھی میں تمہاری اس حرکت کا جواب دے سکتی ہو ۔

مگر افسوس مجھے میری آنی کی نصیحت ہے کے گندگی میں ہاتھ ڈالو گی تو ہاتھ خود کے گندے ہوگے۔۔

ہیر خان اس وقت گندگی کے ڈھیر میں ہااتھ ڈالنے کے موڈ میں نہیں۔

تم۔کیا ہو آج تم خود ثابت کرچکے ہو ایک لڑکی کے منہ لگ کے ۔

پوچھنا ضرور اپنی ماں سے کے تمہاری جینٹک ہے کیا

مرد میں تو تمہارا شمار ہوتا نہیں۔عورت والے بھی تم میں ڈھنگ نہیں ہاں چھکے ضرور لگتے ہو۔۔زی ٹی پی۔

یہ بول کے ہیر نے زی کالر چھوڑا نیچے گری ماشا کے گلے میں پڑا مفلر کھینچ کے اتار کے اپنا منہ صاف کیا اور وہی مفلر زی کے منہ پہ اچھالا اور انگلی دیکھا کے کہا۔

میرے راستے میں اب کبھی مت انا مسٹر زی بھلے ہو میں پاکستانی تو یہ مت سمجھنا کے غیر ملکی سمجھ کے مجھے دبا دوگے۔۔

ہم پاکستانی جہاں جاتے سامنے والے کو اچھے سے سمجھا کے آتے ہیں کے ہم کس ملک سے ہیں۔۔

مگر اس سے پہلے ایک لڑکی ہو اور وہ بھی ایسی لڑکی جو اپنا دفاع خود کرسکتی ہے اسے کسی کتے کی ضروت نہیں تمہاری طرح۔۔

یہ بول کے ہیر نے زی کو اپنے سامنے سے ہٹایا اور چلی گئ ۔

زی کی نظروں نے اسکا دور تک پیچھا کیا اور مسکرایا۔۔

سوچ لو ایک بار اور صنم تم دونوں بہت اسٹرونگ کنٹیسٹن ہو۔۔

نہیں فیضان سر شانزے کی کنڈیشن ایسی نہیں کے وہ ڈانس کرسکے اور دوسرا کوئ پارٹنر نہیں تو بس آپ کینسل کردے کمپیٹیشن سے نام۔۔

چلو صنم جیسی تمہاری مرضی۔۔

اچھا سر وہ آپکے کلب کے میمبر تھے نہ جنہوں اس رات میری ہیلپ کی تھی صنم نے فیضان سے جیسے صائم کا پوچھنا چاہا۔

کون صائم ؟

نام مجھے پتہ نہیں انکا۔۔

ہاں صائم ہی تھا کوئ کام تھا ان سے تمہیں۔۔

کس کو کس سے کام پڑگیا۔؟

اچانک دونوں نے اپنے پیچھے سے آتی ہوئی آواز پہ پلٹ کر دیکھا تو صائم تھا۔۔

ارے ویلکم صائم۔۔

فیضان نے اسکا  ویلکم کرتے ہوئے ہوئے اسے گلے لگایا۔

صنم نے بہت غور سے کچھ سوچتے ہوئے صائم کو دیکھا ۔

 اس رات اگر یہ ان لڑکوں سے نہیں لڑتا تو صنم تیرا کیا ہوتا۔۔

اسلام وعلیکم کیسی ہیں اپ؟

اب صائم باقاعدہ صنم کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔۔

بلیک شرٹ اور بلیو جینز میں صائم کافی ہینڈسم لگ رہا تھا اور اس بات کو صنم نے بھی تسلیم کیا۔

وعلیکم السلام میں ٹھیک اللّٰہ کا شکر۔۔

صنم نے تھوڑی مسکراہٹ کیساتھ صائم کو جواب دیا۔۔

صائم بھی یہ بات ایکسپٹ کرچکا تھا کے صنم کی خالی مسکراہٹ ہی نہیں وہ خود بھی بہت خوبصورت ہے۔۔

لو اچھا ہوا آگئے صائم تم ابھی صنم تمہارا ہی پوچھ رہی تھی۔۔

فیضان کے کہنے پہ صائم نے بہت خوشگوار انداز میں صنم کو دیکھ کے کہا۔۔

رئیلی؟؟

جی وہ آپکا شکریہ ادا کرنا تھا اس دن اگر آپ ان لڑکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

صنم نے آگے کی بات اُدھوری چھوڑی جو صائم سمجھ چکا تھا۔

چلو صنم میں ہٹا دیتا ہو کمپیٹیشن سے نام تمہارا۔۔

فیضان نے جاتے جاتے صنم کو کہا اور جیسے ہی جانے لگا صائم پوچھ بیٹھا۔۔

کیوں کیا ہوا آپ تو یہاں جیتنے آئ تھی نہ۔۔؟

ہاں مگر میری فرینڈ کے چوٹ لگ گئ ہے اور وہ پرفارم نہیں کرپائے گی اور اس کلب کی میمبر شپ بھی میں نے اسی وجہ سے حاصل کی تھی ایک وہی دوست ہی میری بچپن کی باقی ہے نہیں کسی سے اتنی دوستی جو تین دن کے اندر اندر میری پارٹنر بنے تو بس اس لیے۔۔

صنم کے لہجے کی اداسی صائم کو بہت کھلی اس نے کہا۔۔

اگر برا نہیں مانو صنم تو میں بن سکتا ہو اپکا پارٹنر۔۔

صائم کے کہنے پہ صنم نے گھور کے اسے دیکھا ۔۔

مطلب ڈانس پارٹنر۔۔۔صائم نے صنم کے گھورنے کا مطلب سمجھتے ہوئے فورا وضاحت دی۔۔۔

ارے ہاں صنم صائم بہت اچھا ڈانسر ہے یہ تو بزنس جوائن کرنے کے چکر میں اسنے اپنا یہ شوق چھوڑا ہے فیضان نے بھی صائم کی بات کی تردید کی۔۔

مگر میں ایسے کبھی کسی لڑکے کیساتھ آئ مین آپ سمجھ رہے ہیں میری بات۔۔

صنم کے کہنے پہ صائم صنم کے تھوڑا اور قریب ہوا صائم کے اس طرح قریب ہونے پہ صنم نے صرف پیچھے ہوئ بلکے اسکے چہرے پہ گھبراہٹ صائم نوٹ کرچکا تھا۔

لڑکا نہیں دوست سمجھ کے ڈانس کرلینا میرے ساتھ۔۔صائم کے کہنے پہ صنم نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا۔۔

دوست؟

ہاں کیوں میں دوستی کے قابل نہیں ؟؟

نہیں ایسی بات نہیں ہے صائم میں نے کبھی کسی لڑکے سے دوستی کی نہیں اب سمجھ  نہیں رہے ہیں میری کیفیت۔۔

اچھا میں سمجھ سکتا ہو مگر چلو ڈانس کمپیٹیشن جیتنے تک مجھ سے دوستی کرلو اگے پھر جو تمہارا فیصلہ ہو مجھے منظور ہے۔۔

یہ میرا وعدہ ہے کوئ ویڈیو نہیں بنے گی کمپیٹیشن کے دوران نہ ہی کوئ پکس لےگا ۔۔

صائم نے یہ کہہ کے اپنا ہاتھ آگے کردیا۔۔

صنم نے ایک نظر صائم کو دیکھا پھر اسکے پھیلے ہاتھ کو فیضان پہ نظر پڑتے ہی اس نے بھی ہاں میں گردن ہلائی تو صنم نے ہچکچاتے ہوئے صائم کا ہاتھ تھام لیا۔

صنم کے ہاتھ کا لرزنا صائم صاف محسوس کرسکتا تھا۔۔

پہلی بار صنم نے اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دیا اور وجہ تھی صائم کا اسکے لیے لڑنا۔۔

گڈ ہوگیا اب تم لوگ پریکٹس پہ دیھان دو پورے تین دن ہیں۔۔

فیضان کے بولنے پہ دونوں نے مسکرا کے ایک دوسرے کو دیکھا اور صائم نے اسے کل دوپہر کو ریہرسل کا ٹائم دیا۔۔

صنم تھوڑی دیر تک کلب میں رہ کے جلدی باہر نکل گئ ۔۔

#####

بلاج بیٹا فری ہو۔؟

ہاں ماما ۔۔

ندا بیگم نے بلاج نے کمرے میں داخل۔ ہوتے ہوئے پوچھا جو بازل کا بھی کمرہ تھا۔۔

بیٹا میں نے تمہارے لیے لڑکی پسند کرلی ہے۔۔

کیا ؟؟

بلاج حیران ہوکے ندا بیگم سے کہا۔

اب تم۔مکر رہے ہو اپنے عدہ سے بلاج۔۔

ارے نہیں ماما میں۔ تو بس اس لیے حیران تھا کے ابھی تین دن ہوے ہیں کراچی آئے ہوئے اور آپکو میرے لیے لڑکی بھی پسند اگئ۔۔

ہاں آگئ بس بتاؤ میں بات چلاو اگے۔۔

ارے کون ہے مجھے بھی تو بتائے۔۔۔

شاہجاں آنٹی کی بڑی بیٹی عترت۔۔

بلاج  کےچہرے پہ عترت کا نام سن کے ایک دم سختی اگئ۔۔

ماما کوئ اور دیکھے وہ نہیں۔۔

کیوں کیا برائ ہے اسمیں مجھے تو وہی پسند اگر تمہیں کوئ پسند ہے تو بتادو۔۔

نہیں ماما مجھے کوئ پسند نہیں جیسی آپکی مرضی میں آپکی خوشی میں خوش ہو۔۔

بلاج کے کہنے پہ ندا بیگم نے محبت سے اسکی پیشانی چومی اور کہا ۔۔

مجھے پتہ تھا میرا بیٹا میرا مان رکھے گا میں آج ہی شاہجاں  کو کال کرکے کل آنے کا بولتی ہو ۔

جیتے رہو بلاج۔۔

ندا بیگم تو چلی گئ مگر بلاج کی دنیا رک گی ۔۔

ایک وقت تھا جب وہ اللّٰہ سے دن رات اپنی محبت پہ کن فرمانے  کو کہتا تھا اب جب اسکے دل میں سوائے نفرت کے کچھ نہیں تو آج اسکی نفرت اسکی شریک حیات بن کے اسکی زندگی میں آرہی تھی

بلاج نے عشاء کی نماز پڑھ کے اپنے اللّٰہ سے دعا کی۔۔ ۔۔

یہ کیسا فیصلہ ہے اللّٰہ جب اسکے ساتھ کی تمنا تھی جب اسنے اپنا مکرو چہرہ دیکھا کے میری زندگی کو برباد کردیا۔۔

اب جب سنبھل گیا ہو تب آپ اسے دوبارہ میری قسمت میں لکھ رہے ہیں۔۔

بلاج نے اپنے اللّٰہ سے ہلکا سا شکوہ کیے جیسے کرتے ہوئے اسکی آنکھیں بھیگی تھی مگر بلاج کو شاید اندازہ نہیں اللّٰہ اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے۔۔اور پھر اتنے خوبصورت طریقے سے اسے اس آزمائش سے نکالتا ہے کے بندہ سجدہ شکر ادا کرتا ہے۔۔

شاہجاں بیگم ندا بیگم کی بات سن کے جہاں خوش تھی وہاں شاکڈ بھی۔۔۔صبح سے ہی انہوں نے صنم اور عترت کو گھر کی صاف صفائی میں ماسیو ں کیساتھ لگا رکھا تھا۔

ابھی تک یہ بات عترت کے زیر علم میں نہیں تھی کے ندا بیگم اپنی بہن کی فیملی کیساتھ منگنی کی چھوٹی سی رسم کرنے آرہی ہیں کیونکہ صنم دائ جان شاہجاں بیگم سب نے ہی بلاج کے حق میں فیصلہ دیا مگر جسکا فیصلہ جاننا زیادہ ضروری تھا وہ ابھی تک انجان تھی۔

شاہجاں بیگم کو اپنی بیٹی پہ پورا بھروسہ تھا کے وہ انکا فیصلہ سر خم کرکے مانے گی۔۔

پھر بھی انہوں نے ابھی تک عترت کو ندا بیگم کے آنے کے مقصد سے انجان رکھا۔۔

مگر اماں اچانک ہو تو زیادہ اچھا ہے۔۔

دائ جان صبح سے کئ بار شاہجاں بیگم کو بول چکی تھی کے عترت کو ندا کے آنے مقصد بتا دو اسکا حق ہے پورا انکار اقرار کا۔۔۔

مگر اب بتادو شاہجاں اسے ۔دای جان کے بے حد اصرار پہ شاہجاں بیگم نے عترت کو بتانے کا فیصلہ کیا

شاہجاں بیگم نے ندا بیگم کے آنے سے دس منٹ پہلے عترت کو اپنے کمرے میں بلایا ۔۔

ایک۔نفیس سا خوبصورت سا پیچ کلر کا ڈریس اسے دے کر تیار ہونے کو کہا۔

مگر ماما اتنا ہیوی ۔۔۔

ڈریس کس لیے میرے پاس اپنے کیجیول سوٹ ہیں اس میں سے پہن لونگی۔۔

عترت ندا آج یہاں خاص مقصد سے آرہی ہے

مطلب ماما۔۔؟

عترت کی چھٹی حس نے جیسے اسے کچھ انہونی ہونے کا اشارہ کیا۔۔

وہ اپنے بیٹے بلاج کیلیے تمہارا رشتہ پکا کرنے آرہی ہے منگنی کی صورت میں۔۔

عترت کو لگا اسنے کچھ غلط سنا اسنے وہی رکھی کرسی کو تھاما اور ایک بار اور شاہجاں بیگم  سے پوچھا۔۔

ندا آنٹی اپنے بیٹے بلاج کیلیے میرارشتہ لینے آرہی ہیں؟؟

ہاں بیٹا تمہیں کوئ اعتراض تو نہیں میں نے تمہاری مرضی جانے بغیر ہاں کردی۔۔

ماما مجھے آپکا ہر فیصلہ منظور ہے اپنی زندگی کے متعلق مگر کیا ندا آنٹی نے اپنے بیٹے کی مرضی پوچھی؟

ہاں میری جان ندا آنٹی نے بلاج کی رضامندی جان کے ہی مجھے کال کری ہے۔۔

مجھے فخر ہے عترت بیٹا کے تم نے میرا مان رکھ لیا اب جلدی سے تیار ہوجاو وہ۔لوگ آنے والے ہیں۔۔

عترت نے کسی بے جان وجود کی طرح اپنا جوڑا اٹھایا جو اسے اپنے کفن سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔

جیسے تیسے وہ کمرے میں پہنچی ٹپ ٹپ اسکی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے ۔۔

بیشک آج بھی وہ بلاج سے محبت کرتی ہے مگر بلاج کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت کی آخری حد اس نے دیکھی ہے۔۔

عترت نے تیار ہونے سے پہلے عصر کی نماز پڑھی دعا مانگتے ہوئے وہ بلک پڑی۔۔

"یاالہ تو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے تو جانتا ہے میں بے گناہ ہو یاللہ میرے حق میں اگر بلاج بہتر ہے تو میں تیری رضا میں راضی ہو میرے مالک مگر مجھے حوصلہ دینا کے میں اپنی ماں کے فیصلہ پہ ثابت قدم رہ سکو۔۔"

شاجہاں بیگم صنم اور دائ جان نے انکا بہترین استقبال کیا۔۔

سفیہ بیگم تو پہلے ہی شاہجاں بیگم کو جانتی تھی تو اجنبیت تو کوئ تھی نہیں بابر صاحب فہیم صاحب سب ہی کو شاجہاں بیگم کی فیملی اچھی لگی۔۔

اظہر صاحب کے متعلق سفیہ اور ندا بیگم پہلے ہی بابر صاحب کو بتا چکی تھی اسلیے انکے بارے میں کسی نے کوئ سوال نہیں کیا ۔

ہنزہ صنم بازل کی بھی اچھی انڈسٹینگ ہوگئ تھی۔۔

ایک بلاج تھا جو بظاہر سب کو دیکھانے کیلیے خوش تھا مگر اسکے اندر جو لاوا پک رہا تھا وہ صرف عترت پہ ہی پھٹنا  تھا۔۔

ہنزہ اور بازل عترت سے ملنے چلے گئے۔۔

بازل اور ہنزہ دونوں کو ہی اپنی کیوٹ سے بھابھی بہت اچھی لگی۔۔

شاہجاں رسم شروع کرے؟؟

ندا بیگم کے بولنے پہ شاہجاں بیگم نے صنم کو اشارہ کیا عترت کو لانے کو ۔

بلاج کے سامنے جانے کا سنتے ہی عترت کا دل زور زور ڈھرکنے لگا اسنے صنم کا۔ہاتھ بہت زور سے تھاما تھا۔۔

عترت نے تہیہ کرلیا تھا کے نہ تو وہ بلاج کی طرف دیکھے گی اور نہ ہی اسکے کسی طنز کا جواب دے گی۔۔

عترت کو سامنے سے آتا دیکھ بلاج نے گھور کے اسے دیکھا۔۔کچھ بھی تھا تھی تو محبت نہ اسکی وہ بھی پہلی۔۔

صنم نے بلاج کے برابر میں اسے بٹھا دیا تو منگنی کی رسم شروع ہوئ۔۔

بلاج نے ندا بیگم سے رنگ لے کے عترت کے سامنے اپنا ہاتھ کیا ۔۔

عترت نے تھوڑی ہچکچاہٹ سے بلاج کے ہاتھ میں ہاتھ دیا بلاج نے جیسی ہی عترت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اسکی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئ عترت کا حال بھی کچھ ایسا تھا ۔۔

بلاج نے اسکے ہاتھ کی تیسری انگلی میں ڈائمنڈ کی رنگ پہنا دی۔۔

عترت کو شاہجاں بیگم نے رنگ دی جو اس نے بلاج کی تیسری انگلی میں بنا اسکا ہاتھ ٹچ کیے پہنا دی۔۔

بازل،صنم۔،ہنزہ تینوں نے ان دونوں کے اوپر گلاب کی پتیوں کی بارش کردی یہ ہنزہ کا پلین تھا۔۔

کچھ دیر کیلے ہی صحیح دونوں ایک ساتھ ہنسے تھے

ارے بھئ اب ان بچوں کو تھوڑا اکیلا چھوڑو تاکے یہ لوگ ایک دوسرے کو جان سکے۔۔

دائ جان کی بات سن کے پانی پیتے بلاج کو پھندا لگ گیا۔

ارے ارے بیٹا دیھان سے۔۔۔

شاہجاں بیگم کے کہنے پہ بلاج نے ہاں میں گردن ہلائ۔۔

عترت کے ہاتھوں میں موجود گلاب اور موتیوں کے کنگن پہ کئ بار بلاج کی نگاہیں بھٹکی تھی۔۔

بلاج بھائ مجھ سے تو آپ ملے نہیں ۔۔

صنم نے ایک دم بلاج کی سامنے آکے کہا۔۔

بلاج نے مسکرا کے کہا۔۔

آپ سے ملے بغیر ہمارا گزارا کہاں ہے آخر کار ایکلوتی سالی ہیں۔۔

یہ کہہ کے بلاج نے اپنے پوکٹ میں سے ایک مخمل کی ڈبیہ نکال کے صنم کو دی اور کہا۔۔

تمہارے بھائ کی طرف سے تمہارے لیے۔۔

صنم نے پہلے شاہجاں بیگم کو دیکھا انہوں نے ہاں میں گردن ہلائی تو صنم اس ڈبیہ کو تھام لیا۔۔

عترت نے گردن گھما کے اس دشمن جان کو دیکھا بھلے اس سے نفرت کرتا ہے مگر اس سے جڑے رشتہ کا احترام ہے اسے۔۔

بلاج بھائ اپنا موبائل دے ہم نے پکس لینی ہے ۔۔

بازل ہے کہنے پہ بلاج نے اسے موبائل دے دیا ۔

دل کھول کر صنم بازل۔ہنزہ نے پکس بنائ۔۔

صنم نے بلاج کو موبائل واپس کرتے ہوئے ہلکی سی سرگوشی کی ۔

بلاج بھائ اسمیں آپی کو نمبر سیو کردیا ہے میں نے۔۔

صنم کے کہنے پہ عترت جو  ان دونوں کی سرگوشی سن چکی تھی اسکا دل چاہا گلہ دبا دے ۔۔صنم۔کو

سب ہی کھانا کھانے گئے تو وہ دونوں اکیلے رہ گئے جب بلاج نے اپنے طنز کے تیر چلانا شروع کرے۔۔

ہاتھ تو ایسے کپکپا رہے تھے تمہارے جیسے پہلی بار ہاتھ تھاما ہو تمہارا۔۔

اوہہ میں تو بھول گیا تمہیں تو کسی اور کی باہہوں کی عادت ہوگئ ہے ۔

منع کیوں نہیں کرا اس رشتہ سے۔؟

بلاج کے کہنے پہ عترت نے بلاج کو دیکھا۔۔

اس نے تہیہ کرلیا تھا کے بلاج کے کیسی طعنے کا جواب نہیں دے گی۔۔

مگر اسکا جواب دیناعترت نے ضروری سمجھا۔۔

اس سے پہلے عترت کچھ بولتی صنم نے اسے اور بلاج کو کھانے کیلئے آواز دے دی۔۔

عترت نے اٹھتے ہوئے بلاج سے کہا۔۔

میں تو منع نہیں کرپائ بقول آپکے ڈھیٹ اور بیوفا ہو۔۔

مگر آپ فرمابرداری کا ثبوت دیتے اپنی ماما کو منع کرکے..

عترت نے اسکے سارے طعنوں کا ایک جواب دے کے اسے لاجواب کردیا تھا۔۔

اففف آج تو بہت تھک گئے۔۔۔

صنم نے بستر پہ لیٹتے ہی کہا۔۔م

صبح وہ۔جلدی ریہرسل کرنے چلی گئ تھی صائم کیساتھ ۔۔

شانزے اور  صنم نے جو سانگ پلے کیا تھا اس پہ صائم کا ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا تھا۔۔

دوبارہ صائم نے اپنی پسند کا سانگ پہ ریہرسل کروائی صنم سے جس پہ صنم کی اچھی خاصی بینڈ بچ چکی تھی۔۔

صائم کے چھونے پہ صنم کئ بار ڈری جو صائم سے چھپ نہ سکا مگر پھر اسے ایڈجسٹ ہونا پڑا کمپیٹیشن جیتنے کیلیے۔۔

آج بہت نزدیک سے صنم نے صائم کو دیکھا تھا اچھا خاصا ہینڈسم لگا وہ صنم کو دل نے کئ بار صنم سے بے ایمانی کی مگر صنم ہر بار اسے روکتی۔۔

شانزے کو بھی وہ کال پہ سب بتا چکی تھی اور شانزے خوش تھی کے چلو صنم نے حصہ تو لیا۔۔

دوپہر میں شاہجاں بیگم کی کال آنے پہ صنم کو اپنی ریہرسل چھوڑ کے آنا پڑا۔۔

ابھی اسکی آنکھیں نیند سے بند ہورہی تھی جب اسکا موبائل بجا اسنے نمبر دیکھا تو انجان تھا اسنے لائن کاٹی اور دوبارہ لیٹ گئ ۔

پھر واٹس ایپ پہ میسج آنے لگے دھرا دھر اسی نمبر کے ہائے ہیلو کیسی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔

صنم کی بس یہی تک تھی ایک تو وہ اتنا تھک گئ تھی اس پہ یہ رانگ نمبر اسے سونے نہیں دے رہا تھا ۔۔

صنم غصہ میں آٹھ کے بیٹھی اور اس نمبر پہ وائس بھیجنا شروع کی۔۔

کون ہو آلو کے پٹھے کمینے گھر میں ماں بہن نہیں ادھی رات کو لوگوں کی نیند خراب کرتے ہو بدتمیز جاہل اب اگر میسج آیا تو پولیس بھجوادونگی تیرے گھر۔۔

یہ وائس بھیج کے صنم لیٹی ہی تھی کے ایک میسج اور آیا جس پہ رونے والا۔ایمیوجی کیساتھ لکھا تھا صائم۔۔۔

صنم نے جب صائم لفظ پڑا تو فورا کال ملادی۔۔

آگے سے صائم نے کہا۔

یار اچھی خاصی گالیاں بکتی ہو تم۔تو۔

کام بھی گالیوں والے تھے تمہارے انجان بن کے کیوں تنگ کررہے ہو۔۔

جب ٹھرکی پنا کروگے تو آگے سے گالیاں ہی۔۔۔۔

ایک منٹ ایک منٹ آگے کی بات بولنے سے پہلے صنم۔ چونکی۔۔

میرا نمبر کہاں سے آیا تمہارے پاس میں نے تو دیا نہیں۔۔

صنم کی بات سن کے فون کے اس طرف صائم مسکرایا اور کہا 

سامنے رکھے موبائل سے نمبر نکالنا کونسا مشکل کام ہے۔۔

کیوں تمہیں برا لگا میرا تم سے رانگ نمبر بن کے مزاق کرنا؟؟

اگر سیدھی طرح بول دیتے کے کون ہو تو برا نہیں لگتا رانگ نمبر والی حرکت غلط تھی ۔

کیوں کے اگر کال یہ ٹیکس ماما دیکھ لیتی تو انہیں سمجھانا مشکل ہوجاتا کیونکہ میں اور آپی اپنے اپنے موبائل میں پرائیویسی نہیں لگاتے۔۔۔

رئیلی؟؟

صائم۔صنم کی بات پہ۔کافی حیران ہوا ۔

اچھا سوری ۔۔

صائم کے سوری کرنے پہ صنم نے مسکرا کے کہا ۔۔

اٹس اوکے۔۔

وہ دراصل تم گھر سے کال آنے پہ ایک دم چلی گئ تو اسی وجہ سے میں پریشان ہوگیا تھا سب ٹھیک ہے۔؟

ہاں ہاں۔۔

صائم کے پوچھنے پہ۔صنم۔نے آج کی تقریب کا بتایا اور پھر نہ رکنے والا باتوں کا سلسلہ چل نکلا جس صنم کو ابھی نیند کے جھونکے لگ رہے تھے اب اسے بات کرتے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔

#######

اپنے ہاتھ میں موجود منگنی کی انگھوٹی دیکھ کے عترت مسکرائ تھی۔

بیشک اسکا رب اسے اسکی محبت لوٹا چکا تھا محرم کی صورت میں مگر ابھی بھی ایک خلا تھی نجانے کب وہ پر ہوگی جب اسے اسکی محبت مکمل ملے گی۔۔

ابھی عترت لیتی تھی کے ایک انجان نمبر سے اسے میسج موصول ہوا۔۔

عترت نے جیسی ہی میسج کھولا تو لکھا تھا ۔

ہرگز یہ مت سمجھنا کے میں سب بھول کے تمہیں اپناونگا تم۔سے رشتہ  جوڑنامجبوری ہے میری کیونکہ میری ماں کو تم پسند ہو آئ سمجھ تم نے میرے ساتھ جو کیا یے میں اسے اتنی آسانی سے بھول جاؤنگا تم سے محبت کرنے لگونگا تمہیں بیوی کا درجہ دونگا  یہ خوش فہمی مت پالنا۔۔عترت میڈم ۔۔

عترت نے نمبر سیو کیا تو واٹس ایپ پہ نمبر شو ہوا جس پہ بلاج کی پک تھی۔۔

وہ پہلے ہی میسج پورا پڑھ کے سمجھ گئ تھی کے کون ہے۔۔

عترت نے پہلے وائس کرنے کا سوچا مگر اب اس نے بھی بلاج کی تپانے کا پکا پکا ارادہ کرلیا تھا جب وہ بیوفا ہے ہی نہیں۔ تو ڈر کے کیوں سہے یہ الزام ۔۔

عترت نے خالی ایک میسج کیا جو بلاج کو آگ لگانے کیلیے کافی تھا۔۔

مسٹر بلاج خان۔۔

میں نے بھی بیکار کی سوچیں پالنا چھوڑ دی ہیں وہ ابھی ان لوگوں کیلیے جو دماغ سے خالی ہیں انہیں صرف اپنی بات سمجھ میں آتی ہے سامنے والے کی نہیں اور رہا سوال خوش فہمی کا تو میں عترت اظہر ایک بڑے سائز کا کتا ضرور پالنا گوارا کرونگی مگر بلاج خان کو لے کر خوش فہمی نہیں اب مجھے ڈسٹرب مت کریے گا آئ ایم سو ٹائرڈ یہ لکھ کے عترت نے میسج بھیجا اور مییسج جیسی ہی سین ہوا عترت نے موبائل بند کیا اور بلاج کا غصہ سے لال ہوتا چہرہ تصور کرکے ہنستی ہوئے۔۔ سو گئ۔۔

بلاج نے میسج پڑھ کے غصہ میں اپنا موبائل بیڈ پہ پٹخا اور کہا۔۔

ایک بار آجاؤ میرے پاس پھر دونگا تمہیں سزا بیووفائ کی۔۔

#####

بازل جو کھڑکی سے ہنزہ کے کمرے میں کودنے کی کوشش کررہا تھا ایک دم اپنے نام پکارنے پہ اسکا دل زور زور سے ڈھرکا مگر جب اسنے اپنے پیچھے آواز دینے والے کو دیکھا تو سکون کا سانس لیا۔

بلاج بھائ اپنے تو ڈرا دیا۔

میں سمجھا پاپا اگئے۔۔

بازل یہ کیا کرہے ہو؟

ایسے کسی لڑکی کے کمرے میں جانا یہ مناسب نہیں ہوتا۔۔

بازل بلاج کے لہجے سے اندازہ لگا چکا تھا کے بلاج کو بازل۔کی۔یہ بات پسند نہیں ائ۔۔

وہ۔بلاج بھائ ہنزہ گیٹ نہیں کھول رہی۔۔

تمہارا ابھی اس سے ایسا کونسا رستہ ہے جو وہ رات کی اس پہر تمہارے لیے اپنے کمرے کا۔گیٹ کھولے۔۔

تمہیں اس وقت اگر ایسے ہنزہ کے کمرے میں جاتے ہی ہوئے گھر کا کوئ بڑا دیکھ لیتا تو جانتے ہو کتنا فسانہ بن جاتا ۔

تمہارے تو کچھ نہیں جاتا ہنزہ کی ذات نشانہ بنتی ۔۔

اگر اتنا ہی شوق ہے اسے پہ اپنا حق جتانے کا تو اسے اپنے نام کرو اپنا محرم بناو پہلے حلال طریقے سے پھر حق جتانا اس پہ اور رات کے کسی پہر بھی اس کمرے میں جاؤگے کوئ  دیکھے گا بھی تو اعتراض نہیں کرے گا بازل بچے نہیں ہو اب ۔

ایک لڑکا لڑکی تنہائ میں جب ملتے ہیں تو تیسرا انکے درمیاں شیطان ہوتا ہے۔۔

بلاج کی باتیں بازل کو کافی صحیح لگی اور اسنے شرمندہ ہوکے کہا ۔۔

سوری بلاج بھائ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرونگا۔۔

چلو اب کمرے میں چلو اور سوچو ہنزہ کو اپنا بنانے کیلیے بابر انکل کو کیسے منانا ہے۔۔بلاج نے بازل کے کندھے پہ اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا

افف ایک تو بابا کسی ہٹلر سے کم نہیں انکی شکل دیکھتے ہی سامنے والا۔اپنے لفظوں سے تو کیا اپنی آواز سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔۔

بازل نے اتنی افسردہ شکل بنا کے یہ بات کہی کے بلاج کا قہقہ بلند ہوا۔۔

صنم اگلا نمبر۔۔۔۔۔اگے کی بات صائم کے منہ میں ہی رہ گئ صنم کو دیکھ کے۔۔

وائٹ اور بلیک کلر کے کنڑاس میں گہیر دار فراک پہنے بالوں کی اونچی پونی ٹیل باندھے سپمل سے میک اپ میں آنکھوں پہ لائنر کا پردہ ڈالے صنم صائم کو کوئ ڈانسنگ ڈول لگی۔۔

صائم کے لب مسکرائے تھے وہ۔جو بات کہنے آیا تھا بھول گیا مگر صنم اسکے پکارنے پر پریشانی کے عالم میں اس تک پہنچی اور کہا۔۔

صائم سب نے ایک سے بڑھ ایک پرفامنس دی ہے صنم یہ کہتے ہوئے باقاعدہ اپنی انگلی اپس میں چٹخا رہی تھی۔

صائم نے اسے کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور اپنی گرین آنکھیں اسکی سیاہ آنکھوں سے ملا کر کہا۔۔

ادھر دیکھو میری طرف صنم ۔۔

صنم نے بہت ہی افسردہ شکل بنا کی اسکی آنکھوں میں دیکھا تو صائم نے کہا۔۔

مجھ پہ بھروسہ ہے نہ صنم؟

تمہارے بھروسہ پہ تو یہاں کھڑی ہوتو

 بس ریڈی ہوجاو انشاللہ ہم ہی جیتتنگے ۔۔

اپنی نام اناونس ہونے پہ وہ دونوں اسٹیچ پہ پہنچے اور انکا سانگ پلے ہوا۔۔

In the sun and sand

And the sea the night 

And I am feeling alright 

And I am feeling alright

صائم نے صنم کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے قریب کیا۔۔

"کیوں لمحہ خراب کرے ۔۔

اغلطی بے حساب کرے۔۔۔

صائم نے صنم کے کو کندھے سے پکڑ کے گھمایا اور اسکی فنگر  پکڑ کے گول گول گھمایا۔۔

صنم کا ایک ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے تھا اور وہ واقعی کسی ڈانسنگ ڈول کی طرح ناچ رہی تھی۔۔

"دو پل کی جو نیند اڑی۔

اانپورے سارے خواب کرے۔۔

صائم نے صنم کو چھوڑا اور اپنے دونوں کندھے اوپر نیچے کرکے اسٹیپ کیا۔

کیا کرنے ہیں عمروں کے وعدے ۔۔

یہ جو رہتے ہیں رہنے نے ادھے۔۔

صائم نے صنم کے بیک پہ جاکے اسکے ساتھ ہاتھ نیچے کرکے دونوں ہاتھوں کو ملاکے ٹانگوں کو لفٹ رائٹ کرکے اسٹیپ کیا۔

دو بار نہیں ایک بار صحیح ۔۔

صائم۔نے صنم۔کے اپنے پاس کرکے اسکے لب کے بے حد قریب جاکے اسکے کس کرنے کی پوزیشن میں ایک اسٹیپ کیا۔۔

"

ایک رات کی کرلے تو یاری۔۔۔

صائم نے صنم۔کو آنکھ مارتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے اپنے چاروں طرف گھمایا۔

صبح تک۔مان کے میری بات 

تو اسے زور سے ناچی اج۔۔

کے گھنگھور ٹوتھ گئے۔۔

صائم اور صنم نے پھر اس گانے کا ہوک اسٹیپ ایک ساتھ کیا۔۔

چھوڑ کے ساری شرم اور لاج۔۔

صنم نے آگے بڑھ کے صائم کہ شرٹ پکڑ کے نیچے بیٹھتے ہوئے ایک اسٹیپ کیا۔

میں ایسے زور سے ناچی اج۔۔کے گھنگرو ٹوتھ گئے۔۔۔

صائم نے نیچے بیٹھی صنم گول گول گھماتے ہوئے اپنے قریب کھڑا کیا۔

دونوں اسی انداز میں بلکل گانے کے اوریجنل اسٹیپ پہ۔ناچ رہے تھے ہر طرف تالیوں کا شور تھا دونوں کی کیمسٹری لاجواب تھی۔۔

کئ بار دونوں ڈانس کرتے ہوئے ایک دوسرے کے بے حد قریب آئے تھے۔۔

صائم کا دل آج الگ انداز میں ڈھرک رہا تھا صنم بھی آج خوشی سے بھر انجوائے کررہی تھی۔۔

انکی پرفامنس ختم ہوئی انکے بعد ایک اور پرفامنس کے بعد رزلٹ اناونس ہوئے۔۔

اس کمپیٹیشن کے ونر اناونس ہوتے ہی جو صنم اور صائم تھے۔

صنم اپنا اور صائم کا نام سن کے خوشی سے صائم کے زور سے گلے لگ گئ۔۔

خوشی خوشی ان لوگوں نے ڈانس ٹرافی لی اور ایک پک ساتھ بنوائی ٹرافی لیتے ہوئے۔۔

سب ہی ان لوگوں کو مبارک باد دے رہے تھے صنم خوشی خوشی سب سے داد وصول کررہی تھی۔مگر اسکی نظر صائم پہ تھی جو موقع دیکھ کے وہاں سے جارہا تھا جب سب سے ایکسکیوز کرکے صنم نے اسے پکارا۔۔

صائم صائم۔۔۔

اپنے نام کی پکار پہ صائم مڑا تو صنم کو تیزی سے اپنی طرف آتا پایا۔

کہاں جارہے ہو؟؟

اپنے گھر تم جیت گئ تم خوش ہو بس میں یہی چاہتا تھا۔

اپنی دوست کو چھوڑ کے جارہے ہو۔۔؟

صنم کے بولنے پہ صائم مسکرایا اور کہا۔۔

چلو گی میرے ساتھ؟؟

صائم نے صنم کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔

جب صنم نے اسکے پھیلے ہاتھ کو دیکھا اور اس پہ اپنی اور اسکی ٹرافی کیساتھ لی گئے پک جو ایک مخصوص کیمرے سے لی گئی تھی  اور ہاتھ کے ہاتھ انہیں مل گئ تھی اسکے ہاتھ پہ رکھی اور ٹرافی بھی۔۔

ابھی انہیں گھر لے کر جاؤ ہماری دوستی کی پہلی نشانی میں جب تھام کے چلونگی تمہارا ہاتھ جب وقت آئے گا۔۔

صنم کے کہنے پہ صائم نے مسکرا کے ان دونوں چیزوں کو تھاما اور کہا۔

مجھے اس وقت کا انتظار رہے گا صنم جب تم میرا ہاتھ تھام کے میرے ساتھ چلو گی۔۔

صنم نے ایک نظر مسکرا کے صائم کو دیکھا اور کلب سے چلی گئ۔۔

صائم نے بھی اسی وقت گھر کی طرف چل پڑا۔۔

#####

بہزاد کی گاڑی  سگنل پہ رکی جب اسے ایک موبائل شاپ پہ شانزے کھڑی دیکھائے دی۔۔

بہزاد نے اسی سگنل پہ اتر کے ڈرائیور کو گاڑی آکے پارک کرنے کو کہا۔ 

بھائ مجھے گولڈن کلر میں ہی چاہیے پلیز۔۔

صنم موبائل والے سے کسی بات پہ بہس کرہی تھی بہزاد خاموشی سے اسکے پیچھے جاکے کھڑا ہوگیا۔

تو میں آپکو کہہ تو رہا ہو کہ آپ آئ فون پرو میکس لے لے گولڈن میں اس پہ آپ کہہ رہی ہیں آپ افورڈ نہیں کرسکتی۔۔موبائل۔والے کے کہنے پہ 

شانزے نے بہت دھیمی لہجے میں کہا۔

اچھا رہنے دے موبائل گولڈن میں وہ سلور ہی دے سیم سنگ کا ۔۔

شانزے موبائل لے کر جیسی ہی پلٹی تو پیچھے کھڑے بہزاد سے ٹکرائ۔

اگر بہزاد کے کوٹ کو نہیں پکڑتی تو دھرم سے نیچے گرتی۔۔

بہزاد کا ہاتھ شانزے کی کمر پہ تھا اسے تھامنے کیلیے اور شانزے کو بہزاد کا ہاتھ کسی گرم سلاخ جیسا لگا اپنی کمر پہ اس نے غصہ میں بہزاد کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹایا اور جانے لگی جب بہزاد نے اسکی کلائ تھام کے اسے اپنے قریب کیا اور موبائل والے کو آئ فون گولڈن والا پیک کرنے کو کہا۔۔

چھوڑے مجھے کیا بدتمیزی ہے یہ ؟؟.

چپ چاپ کھڑی رہو شانزے ابھی بدتمیزی کری نہیں میں نے  کرونگا تو دو دن تک اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ نہیں سکوگی یہاں تماشہ نہیں کرو چپ چاپ کھڑی رہو ورنہ رسوائ تمہاری ہوگی کیونکہ اگر تم چپ چاپ کھڑی نہی رہی میرے ساتھ تو جو بدتمیزی اسکے بدلے میں تمہارے ساتھ کرونگا وہ تمہیں تو ناگوار گزرے گی مگر یہاں کے لوگ بہت انجوائے کرینگے۔۔

بہزاد کی دھمکی سے شانزے ڈر گئ تھی کیونکہ اسے لگا اس پاگل آدمی سے اچھائ کی امید نہیں کری جاسکتی۔ بہزاد نے  موبائل والے سے موبائل لے کر شانزے کو دیا اور کہا۔

جو تمہیں پسند ہے وہ تمہارا ہے۔۔

بہزاد کی بات کا مطلب شانزے سمجھ نہیں پائے تھی اس نے بہزاد کے ڈر سے موبائل ہاتھ میں ضرور لیا تھا مگر اسنے پکا ارادہ کرلیا تھا کے وہ اس شاپ سے نکلنے کے بعد اس موبائل  کیساتھ کیا کرے گی۔

شانزے کے اتنے آرام سے موبائل لینے پہ بہزاد کے لب طنزیہ مسکرائے تھے سمجھ تو وہ بھی شانزے کو گیا تھا اچھی طرح سے ۔

موبائل شاپ سے نکلتے ہی بہزاد کی گاڑی اور گارڈ سامنے کھڑے تھے۔شانزے کی نظریں سامنے چلتے ہوئے روڈ پہ تھی اور بہزاد کہ اس پہ شانزے نے جیسی ہی موبائل کا ڈبہ چلتے ہوئے روڈ پہ یہ سوچ کے پھیکنا چاہا کے کوئ بھی گاڑی اسے روندھ دے گی مگر شانزے خالی ایسا سوچتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند ہی کیا تھا جو بلند ہوتے ہی بہزاد کے ہاتھ میں آچکا تھا

بہزاد نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنی طرف آرام سے کھینچا اور کہا۔

اگر یہ موبائل میں نے تمہیں یوز کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو جو تم۔اس موبائل کیساتھ ابھی کرنے کا سوچ رہی تھی وہ میں تمہارے ہونے والے شوہر مراد کیساتھ کرونگا۔۔

بہزاد کے منہ سے خالی اپنی سوچ سن کے ہی شانزے کی گہری نیلی آنکھیں پوری کھل گئ۔۔

یہ مت سمجھنا کے میں خالی خولی دھمکی دے رہا ہو چوبیس گھنٹے تم پہ نظریں ہیں میری اور تم یہ بات تو اچھے سے سمجھ چکی ہونگی کے میں ہو کیا چیز۔۔

لہزا اپنا ننھے سے دماغ پہ زیادہ زور مت دیا کرو بہزاد نے اسکی کنپٹی پہ اپنی دو انگلیاں مارتے ہوئے کہا جیسے شانزے نے بری طرح جھٹکا اور کہا۔۔

اپنے یہ غلاظت والے ہاتھ مجھ سے دور رکھا کرو بہزاد ۔

بہزاد نے اسے بھرپور طریقے سے دیکھ کے اپنے بلیک گلاسس لگائے اور گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے کہا۔

سوچ سمجھ کے اس موبائل کیساتھ کچھ کرنا بعد میں مجھے الزام مت دینا کیونکہ ویسے بھی کافی دن ہوئے کو ایڈوینچر کیے ہوئے۔۔

یہ بول کے بہزاد گلاسس نیچے کرکے شانزے کو آنکھ ماری جو شانزے کو تپانے کیلیے کافی تھی۔۔ گاڑی دھواں اڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئ۔۔

شانزے نے اپنے ہاتھ میں موبائل کو دیکھا اور پھر دور جاتی بہزاد کی گاڑی کو۔۔

شانزے نے چپ چاپ موبائل اپنے بیگ میں رکھ لیا اور رکشہ کرکے گھر کی طرف روانہ ہوگئ۔۔

شانزے کے وہاں سے جاتے ہی اسکے وہاں موجود ایک گارڈ نے بہزاد کو اپڈیٹ کیا جیسے سن کے بہزاد کے لب مسکرائے اور اس نے کہا۔

"ڈیٹس مائے گرل"

#####

کہاں ہے وہ بیوفا دوست جس نے چپکے چپکے منگنی کرلی ۔۔۔

انجم نے ہال میں آتے ہی زور زور بولنا شروع کردیا۔۔

کیسی ہو بیٹا۔۔؟

شاجہاں بیگم  جو کسی کام سے باہر نکل رہی تھی انجم کے اس طرح آنے پہ اور بولنے پہ مسکراتے ہوئے اسکا حال پوچھا۔۔

میں تو ٹھیک ہو آنٹی یہ آپکی بیٹی کہاں چھپی بیٹھی ہے چھوڑنا نہیں آج میں نے۔۔

شاہجاں بیگم نفی میں گردن ہلاتی ہوئی باہر کو چلی گئ

انجم نے باقائدہ اپنی آستینیں اوپر چڑھاتے ہوئے کہا۔۔

ارے انجم آپی آپ ؟

کیسی ہیں آپ ؟

آپکو کس نے بتایا آپی کی منگنی کا؟

صنم نے انجم کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔

بس کردو تم دونوں یہ میلو ڈارمہ عترت کی آواز پہ وہ دونوں گھومی۔۔

اوپر آجاؤ ڈرامہ کوئن میں سب بتاتی ہو اور جس نے آپکو انفارمیشن دی ہے منگنی کی اس نے یہ نہیں بتایا کے منگنی ہونے سے 10 منٹ پہلے مجھے بتایا گیا کے میری منگنی ہے۔۔

عترت نے صنم کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔

ارے انجم آپی آپ اوپر جائے آپی کے کمرے میں ۔۔صنم نے عترت کو اگنور کرتے ہوئے کہا۔۔

صنم۔نے باقاعدہ انجم کا ہاتھ پکڑ کے اسے سیڑھیوں کی طرف کرا۔۔

آپ جائے ہمارے بلاج بھائ کی پکس دیکھے میں گرما گرما اسنیکس لاتی ہو۔۔

صنم کے  منہ سے ادا ہونے والا نام سن کے انجم جو سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی ایک دم لڑکھڑائ ۔۔

ارے آرام سے انجم آپی ۔۔

صنم  نے آگے بڑھ کے اسے تھاما

کیا نام لیا صنم۔۔؟

کس کا؟

اپنے دولہے بھائ کا۔۔؟

بلاج بھائ۔صنم کے کہنے پہ انجم نے گردن گھما کے اوپر کھڑی عترت کو انکھیں بڑی کرکے دیکھا عترت انجم کے اس طرح سے دیکھنے پر اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔

انجم  بھی صنم کو چائے لانے کا بول کے تقریبا    سیڑھیوں پہ بھاگنے والے انداز میں چڑھنے لگی۔۔

صنم کندھے آچکا کے کچن کی طرف چلی گئ۔۔

انجم نے عترت کے کمرے میں پہنچ کے لمبا سانس لیا۔۔

یہ کیا کہہ رہی ہے صنم ؟

کہی میری چھٹی حس صحیح اشارہ تو نہیں دے رہی؟

یہ بلاج کہی وہ بلاج تو نہیں۔؟

انجم نے عترت کے روبرو آکے پوچھا۔

عترت نے ایک لمبی سانس لے کے منگنی تک کا سارا ڈرامہ بلاج کے طنز بھرے جملے سب انجم کو بتادیا۔۔

انجم سن کے خوش بھی تھی اور شاکڈ بھی۔

یار آج پکا یقین ہوگیا ۔

بے شک سچی محبت کرنے والوں کا اللّٰہ بھی ساتھ دیتا یے۔

جو سلسلہ ختم ہوچکا تھا امید بھی نہیں تھی جسکی وہ ہوا ہے عترت۔۔

بلاج کی آنکھوں میں میرے لیے صرف نفرت ہے انجم ۔۔مگر تم تو اس سے آج بھی محبت کرتی ہو۔۔

جب تم اسے حقیقت بتاوگی وہ نفرت محبت میں نہیں عشق میں بدل جائے گی۔۔عترت

جس رشتہ میں صفائیاں دینی پڑی وہاں محبت کیسی۔۔

جو اس نے دیکھا عترت اسکی جگہ اگر تم بھی ہوتی تو تمہارا بھی یہی ریکشن ہوتا۔۔

انجم نے عترت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

نہیں انجم میں کبھی یقین نہیں کرتی کیونکہ محبت کی پہلی شرط بھروسہ ہے یقین ہے۔جب آپ کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھ لیتے ہو تو شک کی گنجائش باقی نہیں رہنی چاہیے میری اسنے اس وقت سنی نہیں مجھے اتنی بڑی سزا سنادی  اس وقت انجم اور اب میں اسے کچھ بھی سنانا نہیں چاہتی میرے کرادر پہ انگلی اٹھا کے بنا میری بات سنے وہ مجھے چھوڑ گیا تھا انجم ۔۔

مگر ابھی وہ لوگ اور بات کرتے صنم چائے لےکر کمرے میںں  اچکی تھی اور انجم یہ بات جانتی تھی کے بلاج اور عترت کی محبت سے اسکے گھر والے انجان یے۔۔

######

ہیر اور اسکے گروپ والوں کو اس واقعے کے بعد زی گرپ نے تنگ نہیں کیا۔

یہ بات ہیر اور سدرہ کیلیے پر سکون تھی۔۔

ہیر اپنی اسٹڈی پہ ہی فوکس کررہی تھی اس نے ابھی تک لندن شہر دیکھا بھی نہیں تھا جبکے وہ پہلی بار اپنے شہر سے تو کیا اپنے ملک سے باہر نکلی تھی۔۔

آج وہ لوگ ایک اسائمنٹ بنانے کے چکر میں کافی تھک گئے تھے۔

ہیر کے گروپ کے باقی اسٹوڈینٹ ہاسٹل چلے گئے تھے مگر ہیر اور سدرہ ابھی ابھی لائبریری سے نکلی تھی۔۔

یار سدرہ کینٹین چلتے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے ۔؟

تو ہی کھا یہاں کا ابلا ہوا بد ذائقہ کھانا میں تو ہاسٹل جارہی ہو۔۔

یار چل تو لے کینٹین تک!

یار اللّٰہ کو مان ہیر تو نے اچھی خاصی میری بینڈ بجا دی ہے اس اسائمنٹ میں ۔۔

میں جارہی ہو ہاسٹل اگر ویج برگر ملے تو میرے لیے لیتی ہوئ  آجانا ورنہ میں وہی ہاسٹل کا کھانا کھالونگی۔۔

اچھا چل صحیح ہے تو جا۔۔

سدرہ ہاسٹل کی طرف بڑھی تو ہیر نے بھی کینٹین کی طرف رخ کیا۔

ابھی وہ برگر لے کر مڑی ہی تھی   کے سامنے زی کا گروپ کھڑا تھا مگر زویان ان میں شامل نہیں تھا۔۔

ہیر انکو اگنور کے کے فلحال جانے کا ارادہ رکھتی تھی کیونکہ ایک تو کینٹن تقریبا خالی تھی اوپر سے وہ اکیلی تھی اسلیے اسنے فلحال ان لوگوں کو اگنور کیا اور جانے لگی تبھی ماشا نے اسکا راستہ روکا اور اسکے ہاتھ سے جیسی ہی برگر چھینے لگی۔۔

کسی نے ماشا کا ہاتھ پکڑا۔۔

زی میں آج اسے چھوڑونگی نہیں اس تھپڑ کا بدلہ لے کر رہونگی۔چھوڑو میرا ہاتھ

ماشا میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ کے  ان کو تنگ نہیں کرنا ۔۔

زویان کے کہنے پہ ہیر نے نگاہ اٹھا کے اسے دیکھا۔۔

تم اسے کے پیچھے مجھے ہرٹ کررہے ہو زی۔۔۔

ماشا لیوو ہر۔۔

نو ۔۔

یہ بول کے ماشا نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور دوبارہ ہیر پہ حملہ کرنا چاہا جب زویان نے ایک گھومتا ہوا چماٹ ماشا کے منہ پہ مارا۔۔

ماشا سمیٹ اسکے گروپ کے سارے لوگ زویان کو دیکھنے لگے۔۔

ماشا نے آنکھوں میں حیرانی  لے کر کہا۔۔

تم۔نے اسکے پیچھے مجھے مارا۔۔۔

آپ جائے پلیز۔۔

زویان نے ماشا کو اگنور کرکے ہیر سے کہا جو ڈری سہمی کھڑی تھی۔۔

زویان کے بولنے پہ تیزی سے کینٹین سے نکلی اور ہاسٹل میں جاکے ہی سانس لیا۔

کمرے میں پہنچ کے ہیر لمبی لمبی سانس لینے لگی۔۔

سدرہ جو واش روم سے نکلی تھی ہیر کی ایسی حالت دیکھ کے گھبرا گئ۔۔

کیا ہوا ہیر ؟

تم اتنا گھبرائے ہوئ کیوں ہو؟

سدرہ کے پوچھنے پہ ہیر نے جو اسے بتایا وہ سدرہ کے لیے ناقابل یقین تھا۔۔

یقین نہیں آرہا مجھے ہیر آج زی نے ماشا کو تھپڑ مارا وہ بھی تمہارے لیے۔۔

یقین تو مجھے بھی نہیں آیا تھا جب زویان نے ماشا کو روکا تھا۔

افف اچھا ہو اوقت پہ زویان اگیا۔۔

سدرہ کے کہنے پہ ہیر نے ہاں میں گردن ہلائی

مگر بیٹا یہ ناممکن ہے؟؟

ناممکن کچھ نہیں ہوتا ماما میں نے آپکو بتا دیا ہے دو ہفتوں بعد مجھے بیس پہ ریپورٹ کرنا ہے پھر مجھے چھٹیاں کب ملے۔۔کچھ پتہ نہیں

بعد میں آپ مجھ سے شکوہ نہیں کرنا۔

بلاج اپنی بات کہہ کے چلا گیا اور ادھر ندا بیگم پریشان ہوگئ۔۔

آتی جلدی شادی کی تیاریاں کیسے ہونگی۔۔

ندا بیگم پریشان حال میں اپنی بہن کے پاس آئ جہاں بابر صاحب بھی بیٹھے تھے۔۔۔

ندا بیگم کی بات سن کے سفیہ بیگم اور بابر صاحب دونوں نے بلاج کے حق میں فیصلہ دیا۔۔

تم بات تو کرو شاہجاں سے دیکھو وہ کیا بولتی ہے۔۔

سفیہ بیگم کے بولنے پہ آج شام میں ندا بیگم نے شاہجاں بیگم کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔۔

#######

آج اسکا یونی جانے کا کوئ خاص موڈ نہیں تھا ۔مگر پھر بھی اسکی آنکھ جلدی کھل گئ۔۔

وہ۔نیچے ناشتہ کی ٹیبل پہ آکے بیٹھا اور میری کو ناشتہ کیلیے آواز لگانے لگا۔۔

اظہر صاحب جو کال پہ بات کررہے تھے کافی غصہ میں زویان کو گھور رہے تھے ۔

زویان کا حلیہ تو پہلے ہی انکی جان جلاتا تھا اوپر سے اسکا لاپرواہ انداز انکو یہ احساس دلاتا تھا کے انہوں نے بیٹے کی خواہش کرکے غلطی کردی۔۔

کال کٹ کرکے وہ ناشتہ کی ٹیبل پہ آئے اور دانت پیس کے کہا۔۔

میری تم سے عمر میں کافی بڑی ہے ہزار بار کہاں ہے انہیں آنٹی بولا کرو۔

نو ڈیڈ عمر میں بڑی ہو یہ چھوٹی ہیں تو میڈ نہ اور میڈ کو میڈ کی اوقات میں ہی رکھنا چاہیے۔۔

اوہ میں کیسے بھول گیا کے میں ایک انتہائ بدتمیز ،بدلحاظ انسان کو تمیز ،مینرز سمجھا رہا ہو۔۔

اظہر صاحب نے غصہ میں ٹیپل پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔

توڈیڈ اب اس عمر میں آپکو سمجھاتے ہوئے اچھا لگونگا کے کس کے منہ لگنا چاہیے کس کے نہیں ۔

زویان کی بات سن کے اظہر نے غصہ میں اپنا کوٹ اٹھایا اور  اافس کیلیے جانے لگے ۔

نمرہ بیگم جو خاموشی سے ان دونوں باپ بیٹوں کی بحس دیکھ کے بس صبر کررہی تھی اظہر صاحب کے اس طرح بنا ناشتہ کیے جانے پہ۔انکے پیچھے ڈوری۔۔

دروازے پہ ہی نمرہ بیگم نے اظہر صاحب کو بہت مشکلوں سے روکا۔۔

اظہر صاحب ناشتہ تو کرکے جائے آپکی شوگر ہائ ہوجائے گی۔شوگر ہائ ہوگئ ہے میری نمرہ بہت بڑی غلطی ہوگئ مجھ سے۔ 

اگر بیٹے ایسے ہوتے ہیں تو اچھا ہوتا میں تیسری بھی  بیٹی مانگ لیتا اپنے اللّٰہ سے نمرہ۔۔

اظہر صاحب اور زویان کا جب بھی  آپس میں ٹکراؤ ہوتا یہ وہ جب بھی زویان  کو سمجھاتے تو ایساہی کچھ ڈرامہ ہوتا نہ اظہر صاحب اپنے بیٹے کا لحاظ کرتے نہ زویان اپنے باپ کا مگر آج اظہر صاحب نے وہ بات کہہ دی جیسی سننے سے نمرہ بیگم ہمیشہ ڈرتی تھی۔۔

کاش وہ اپنی ماں اور خالہ کی باتوں میں آکے اپنی کزن کو دھوکا نہیں دیتی تو شاید آج کہانی کا رخ کچھ اور ہوتا اور آج ناصرہ بھی زندہ ہوتی۔۔۔

نمرہ بیگم اندر آئ تو زویان ناشتہ کرنے میں مگن تھا اسے کوئ فرق نہیں پڑا آکے اسکا باپ غصہ میں گھر سے چلا گیا شاید اسکی تربیت میں کوئ کمی رہ گئ تھی ایک اکیلےوہ ذمیدار نہیں زویان کی ایسی شخصیت کا اظہر کا بھی حق تھا اسکی تربیت کرنے کا۔۔

نمرہ بیگم افسردگی سے اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔

ادھر زویان جسکا ارادہ یونی جانے کا نہیں تھا وہ بھی یونی چلا گیا۔۔

#####

مگر ندا تم سمجھو بات کو دو ہفتے بہت کم ہیں میری پہلی بیٹی کی شادی ہے کیسے ہوگا یہ سب۔۔

شاہجاں ہوجائے گا ہم سب ہے نہ تمہارے ساتھ سفیہ بیگم کے بولنے پہ اسنے بی جان کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہاں میں گردن ہلائی عترت کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے اسنے اپنے کمرے میں جانا مناسب سمجھا۔

صنم سب کو دیکھ رہی تھی بازل اور ہنزہ آج نہیں آئے تھے۔۔

ورنہ ہنزہ اسکی کافی ہیلپ کرتی تھی۔۔

شاہجاں بیگم نے ندا کو ہاں میں جواب دیا تو دو دن بعد آنے والے جمعہ کو ندا نے بلاج اور عترت کا نکاح فکس کردیا۔۔

شہاجاں بیگم بھی خوش تھی کے انکی بیٹی انکی دوست کے گھر جارہی ہے مگر ہول انہیں ابھی بھی اٹھ رہے تھے کے دو دن میں نکاح کی تیاری کیسے ہوگی۔۔

بابر صاحب اور فہیم صاحب نے کھڑے ہوکر شاہجاں بیگم کے سر پہ ہاتھ رکھ انہیں تسلی دی۔۔

شاہجاں بیگم کی آنکھیں بھیگنے لگی اس وقت انہیں اس بندے کی شدت سے یاد آئ جیسے دیکھے انہیں 21 سال ہوگئے۔۔

عترت نے کمرے میں آکے بلاج کو نہ۔ چاہتے ہوئے کال ملائی اور بلاج بھی شاید اسی کی کال۔کا ویٹ کررہا تھا جو بم اس نے پھیکا تھا کوئ تو ریکشن سامنے آنا تھا۔۔

طنزیہ مسکراتے ہوئے بلاج نے عترت کی کال اٹھائ اور کہا۔کیوں فون کیا ہے مجھے ؟

اور اب کر  ہی دیا ہے تو جلدی بکواس کرو۔۔۔

مجھے بھی کوئ شوق نہیں ہے آپکو کال کرنے کا کوئ شاہ رخ خان نہیں ہے آپ جو میں بات کرنے کیلے مری جارہی   ہو  اور بکواس اپنے کی ہے شادی کا جلدی بول کے منع کرے ندا آنٹی کو میں نہیں کرونگی اتنی جلدی نکاح۔۔

کیوں کسی کا ویٹ کررہی ہو کے کوئ آئے گا اور مجھ سے چھین کے لے جائے گا تمہیں؟

بلاج کو خود نہیں پتہ چلا کے وہ کیا بول گیا ۔۔

آگ تو وہ عترت کے لگا چکا تھا مگر اب باری عترت کی تھی۔۔

چھین تو کوئ بہت پہلے چکا مجھے خیر آپکو اندازہ نہیں ہوا آپ چھینی ہوئ چیز آپکو دوبارہ چھینی ہے تو میں کیا کرسکتی ہو۔۔

یہ کہہ کے بلاج کو صحیح سے آگ لگا کے عترت موبائل بند کرچکی تھی اور ہر بار کی طرح بلاج خالی اپنا غصہ دیوار پہ اتار پایا۔۔

زی کا آج موڈ تو خراب ہو ہی چکا تھا جسکی وجہ سے وہ یونی کے پارکنگ ایریا میں بیٹھا مسلسل اسموکنگ کررہا تھا۔۔

ماشا کو وہ منا چکا تھا۔۔

مگر پھر بھی اسکو آج عجیب سی بے چینی ہورہی تھی اور وہی بیچینی دور کرنے کیلیے وہ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا۔

سامنے گیٹ پہ اسکی نگاہ تھی اور اسکا انتظار شاید ختم ہوا تھا وہ سدرہ کے ساتھ یونی میں اینٹر ہوئ تھی۔۔

زی اسے مسلسل دیکھ رہا تھا اور ماشا کا بس نہیں چل رہا تھا کے ہیر کو کہی غائب کروادے۔۔

ہیر جو سدرہ سے باتوں میں مگن تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئ اپنا اسائمنٹ جمع کروانے جارہی تھی اچانک کسی سے ٹکرائ۔۔

روبرٹ اور اسکے دوست جان بوجھ کے ہیر سے ٹکرائے تھے اور یہ بھی زویان دیکھ چکا تھا۔۔

اندھے ہو دیکھ کے نہیں چلتے؟

ہیر نے انگلش میں ان لوگوں کو ڈانٹا۔

نو بی بی۔۔

یہ کہہ کے روبرٹ نے جیسی ہی ہیر کا گال چھونا چاہا زی فورا درمیان میں اگیا۔

روبرٹ اسٹے آوے رائٹ ناو۔۔

یہ ڈونٹ انٹر فئیر دس میٹر ہو گو آوے رائٹ ناو۔۔روبرٹ نے تقریبا زویان کو دھکا دیتے ہوئے کہا 

(روبرٹ اس سے دور رہو۔۔

تم اس مسئلے میں نہیں گھسو زی جاؤ یہاں سے ابھی۔)

آپ جاؤ ۔

زی نے پلٹ کے ہیر کو دیکھ کے کہا۔۔

ہیر نے موقع غنیمت جانی اور جیسی جانے لگی روبرٹ ۔ے دوبارہ اسکا راستہ روکا۔۔

زی نے اسی وقت ایک زور دار مکا روبرٹ کے  منہ پہ جڑ دیا۔۔

دیکھتے دیکھتے ان دونوں کی ہاتھا پائی ہوگئ۔۔

ہیر اور سدرہ تو کافی گھبرا گئ تھی۔۔

پرنسپل کے آنے پہ معملہ تھاما دونوں کو لاسٹ وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔۔

ہیر کا نام اناونس ہوتے ہی ہیر اسائمنٹ جمع کروانے پہنچی مگر اسکا اسائمنٹ تو موجود ہی نہیں تھا۔۔

سدرہ میرا سائمنٹ نہیں یے؟

کیا کیا بول رہی ہے بہن تجھے پتہ ہے نمبر کٹ جائنگے ہمارے سسپینڈ کردیا جائے گا ہمیں دو دن کیلیے۔۔

کہی تو ہاسٹل میں تو بھول کے نہیں ا گئ۔۔؟؟

نہیں نہیں میں لائ تھی جب اس لفنگے نے میرا راستہ روکا تھا تب تک میرے ہاتھ میں تھا۔۔

ہیر تقریبا رونے لگی۔۔

جب پیچھے سے زی نے اسے پکارا۔۔

ہیر؟؟

اپنے نام کی پکار پہ وہ پلٹی تو زویان کھڑا تھا اسکے ہاتھ میں کچھ تھا جو اس نے ہیر کو دیتے ہوئے کہا۔۔

یہ اپکا۔یےشاید آپکا نام لکھا ہے وہی گرگیا تھا ۔۔

ہیر نے دیکھا تو وہ اسکا اسائمنٹ تھا۔۔

ہیر نے خوشی خوشی وہ لے لیا اور آگے بڑھ گئ مگر کچھ یاد آنے پہ جیسی پلٹی تب تک زی جا چکا تھا۔۔

سدرہ اور ہیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھا اور آگے بڑھ گئ۔۔

#######

دو دن ہے نکاح میں میرے تو بہت ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں کیسے ہوگا سب ابھی دعوت نامہ بھی دینے ہیں

۔۔اماں!!!!!!

شاہجاں بیگم کیٹرنگ والے کو آڈر دے کے بیٹھی تھی کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے دائ جان سے کہا۔۔

اماں؟؟

ہممم

خالہ جان کے ہاں دعوت دے آئے اپ؟؟

دائ جان جو آنکھیں بند کرکے بیٹھی تھی حیرانگی سے اپنی آنکھیں کھول کے شاہجاں بیگم کو دیکھنے لگی اور تعجب سے دوبارہ پوچھا۔۔

کیا بولا تم نے ابھی شاہجاں ؟؟

وہی خالہ جو اپنے سنا۔۔

لڑائ ناراضگی میری ہے عترت اور صنم کی نہیں جب عترت کا خاندان اسکے بڑے موجود ہیں تو پھر وہ کیوں لاوراثوں کی طرح اس گھر سے رخصت ہو۔۔

شاہجاں بیگم یہ بول کے آبدیدہ ہوگئ۔۔

تو پھر تو تمہیں سب سے پہلے عترت کے باپ کو کال کرنی چاہیے ؟

دائ جان نے اسکا چہرہ بھانپتے ہوئے کہا۔۔

نمبر نہیں ہے میرے پاس انکا؟؟

شاہجاں بیگم جس ٹوپک سے بچنا چاہ رہی تھی آج وہی ٹاپک انکی زندگی میں دوبارہ آگیا تھا ۔

آپ کردے کال انہیں؟

میں کیوں کرو بھئ مجھے تو معاف کرو پھر تم مجھ سے خفا ہوجاوگی کے اپنے کال کری؟ کیوں کری ؟؟

خالہ جان پلیز؟!!

شاہجاں 22 سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے کسی کو سزا دینے کیلیے تمہارا دل نہیں تو مت دو بلاوا کوئ مسئلہ نہیں ہے بیٹیوں کو جب 22 سالوں سے نہیں دیکھا تو اب اگر اپنے ہاتھوں سے رخصت نہیں کرے گا تو کوئ مسئلہ نہیں ہے۔۔۔

شاہجاں بیگم گردن جھکائے خاموشی سے دائ جان کی باتیں سن رہی تھی اور یہ موقع ٹھیک لگا دائ جان کو گرم لوہے پہ چوٹ مارنے کا۔۔

دائ جان نے اپنے موبائل سے اظہر صاحب کو کال ملاکے شاہجاں بیگم کو دے دی۔۔

یہ لو نمبر ملادیا ہے میں نے اب چاہو تو بات کرلو بیٹی کی ہی خاطر بھلے وہ خاموش ہے مگر اسکا دل بھی چاہتا ہوگا کے وہ کیوں بن باپ کے  رخصتِ ہو جبکے اسکا باپ زندہ ہے۔۔

میں زرا جوڑا دیکھ لو جو ندا نے بھیجوایا ہے۔

کال پہ رنگنگ ہوکے بند ہوچکی تھی ۔۔

شاہجاں بیگم اس سے پہلے دوبارہ ملاتی کال آنے لگی۔۔

شاہجاں بیگم کا دل زور زور سے ڈھرک رہا تھا 22 سالوں بعد آج وہ اظہر صاحب کی آواز سننے جارہی تھی ۔

کال یس کرتے ہی موبائل  شاہجاں بیگم نے کان سے لگایا۔۔

آگے سے اظہر صاحب بولے۔۔

سوری اماں وہ میٹنگ میں مصروف تھا اس وجہ سے کال اٹینڈ نہیں کرپائ

اظہر صاحب کی آواز اتنے سالوں بعد سن کے شاہجاں بیگم اپنی آنکھیں بند کرگئ ٹپ ٹپ انکی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔۔

ہیلو اماں آواز آرہی ہے آپکو ؟ بول کیوں نہیں رہی آپ کچھ ؟؟

اسلام وعلیکم !!!

اظہر صاحب اس سے پہلے آگے کچھ بولتے شہاجاں بیگم کی آواز سن کے انکے ہاتھوں میں موجود تمام فائلز نیچے گر گئ جن پہ وہ سائن کررہے تھے۔۔

شاہی یہ تم ہو ہیلو شاہی شاہی۔۔۔۔

اظہر صاحب کی بھی آنکھیں بھیگنے لگی انہیں لگا آج شاہجاں نے کال کرکے شاید انکی سزا ختم کردی مگر یہ انکی بھول تھی۔۔

جی میں شاہجاں بول رہی ہو۔

ہاں ہاں میں پہچان گیا شاہی تمہاری آواز میں لاکھوں میں پہچان سکتا ہو۔

اظہر صاحب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔

کیسی ہو تم ؟

عترت کا نکاح ہے دو دن بعد اور دو ہفتے بعد شادی میں نہیں چاہتی وہ بنا باپ کے رخصت ہو۔۔۔

اظہر صاحب کا سوال وہ گول کرگئ تھی اور یہ بات اظہر صاحب محسوس کرچکے تھے۔۔۔

میں آؤنگا انشاللہ شاہجاں کل ہی میں پاکستان کی فلائٹ بک کرواتا ہو۔۔۔

اوکے اللہ حافظ۔۔

شاہجاں بیگم نے فورا کال رکھ دی۔۔

کال رکھتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔

دائ جان جب کمرے میں۔ آئ تو شاہجاں بیگم رو رہی تھی انہوں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگالیا۔۔۔

########

صنم صنم ؟؟

صنم جو صائم سے بات کررہی تھی شاہجاں بیگم کی آواز پہ وہ صائم کی کال کٹ کرتے ہی تقریبا ڈورتی ہوئ نیچے ائ۔

جی ماما؟؟

فری ہو تم؟؟

جی ماما ۔۔

تو چلو میرے ساتھ پانچ منٹ میں تیار ہوکے آجاؤ میں ویٹ کررہی ہو گاڑی میں۔ انویٹیشن دینے جانا ہے۔۔

اوکے ماما میں آتی ہو آپ جائے۔۔۔

صنم تقریباً بھاگتے ہوئے اوپر آئ تھی کیونکہ پہلے دفعہ ایسا ہوا تھا کےشاہجاں بیگم نے اسے اپنے ساتھ کہی چلنے کو بولا تھا۔

صائم کو اس نے فورا ویٹ کا میسج کیا اور تقریبا بھاگتے ہوئے گاڑی تک پہنچی۔۔

شاہجاں بیگم نے ڈرائیور کو ایک اڈریس سمجھا کے وہاں چلنے کو بولا۔۔

صنم اڈریس سن کے وہاں کے مکین کا نام سن کے ایک دم چونکی اور شاہجاں بیگم سے پوچھا۔۔

ماما یہ بہزاد مینشن وہاں کون یے؟؟

بہزاد چوہدری کا نام تو سنا ہوگا تم نے میرے ماموں کا بیٹا ہے وہ ..

شاہجاں بیگم نے اتنے ریلکس انداز میں یہ بات کہی تھی جبکہ بہزاد چوہدری کا نام سن کے صنم کے سامنے سب سے پہلے شانزے کا چہرہ آیا تھا۔۔

گاڑی جیسی ہی بہزاد مینشن میں داخل ہوئ صنم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔

اتنا بڑا مینشن جو کسی محل سے کم نہیں تھا ہر طرف گارڈ تھے اور ایک بات صنم نے نوٹ کی نے سب ہی اسکی ماما کی گاڑی کو سلام کررہے تھے اسکا مطلب تھا ماما یہاں آتی جاتی ہیں 

گاڑی رکتے ہی دو تین نوکر صنم کی گاڑی کے آگے پیچھے جمع ہوگئے انہیں پروٹوکول دینے کیلیے۔۔

صنم کو اب سمجھ آیا بہزاد کے اٹیٹییوڈ کا اور کیوں نہ ہوتا دولت کیساتھ اللّٰہ نے حسسن بھی بے شمار دیا تھا۔

10.لاکھ سے زیادہ فولوفرز تھے بہزاد کی نیٹ ورلڈ میں۔

صنم نے یہ بات خالی تجسس سے شانزے کو جب بتائ تھی تب شانزے کا جو ریکشن سامنے آیا تھا وہ سوچتے ہوئے صنم نے جھرجھری لی۔۔

مینشن کے لیونگ ایریا میں قدم رکھتے ہی صنم کی آنکھیں پوری روشن ہوگئ اسنے شاہجاں بیگم سے کہا۔

ماما یہ واقعی آپکے ماموں کا گھر ہے؟؟

کیوں ؟

تمہیں شک ہے؟

نہیں ماما وہ کبھی آئے نہیں ہمارے گھر۔۔

صنم نے فورا نروس ہوکے کہا۔۔

ہاں آتا نہیں وہ گھر کیونکہ وہاں۔۔۔۔

آگے کی بات بولنے سے شاہجاں بیگم نے خود کو باز رکھا ۔

وہاں کیا ماما؟

کچھ نہیں ۔۔

وہ دونوں لیونگ ایریا میں جاکے بیٹھے تب  بہزاد سیڑھیوں سےا ترتا دیکھائ دیا لائٹ فیروزی کلر کی قمیض شلوار میں بہزاد چوہدری کہی کا شہزادہ لگ رہا تھا گرین کلر کی اسکی آنکھیں اسکی روبدار شخصیت میں چار چاند لگا رہی تھی۔۔صنم اسے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی

۔

ارے زہے نصیب آج تو شاہجاں ملکہ آئ ہیں۔۔

بہزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کے بہت احترام سے شاہجاں کو اپنے بازؤں کے حصار میں لیا تھا صنم دیکھ سکتی کے جس بہزاد کی آنکھوں میں اس نے ہمیشہ غصہ اور وحشت دیکھی جتنی بار بھی اسکا سامنا اس سے ہوا تھا اج اس کی انکھوں میں پیار احترام اور عزت تھی۔

کسی ہو صنم ؟

شاہجاں بیگم سے مل کے اب بہزاد صنم۔کی طرف متوجہ ہوا ۔

بہزاد نے مسکرا کے پوچھا اور بہزاد کی مسکراہٹ صنم کے تن بدن میں آگ لگانے کیلیے کافی تھی۔۔۔

ٹھیک ہو؟؟

بہزاد عاشر کہاں ہے؟

وہ ٹیوٹر ایا ہوا ہے اسکا ملکہ وہ پڑھ رہا پے۔۔

تم بعض نہیں آؤگے مجھے ملکہ کہنے سے۔۔

شاہجاں بیگم نے مسکرا کے کہا۔۔

نہیں بھئ بہزاد کے دل کی پہلی ملکہ اسکی دوست اسکی شاجہاں ملکہ ہے پلس آپا بھی۔۔

صنم نے بہزاد کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو بلا جھجھک مسکرا گئ کیونکہ وہ لگ ہی اتنا حسین رہا تھا مسکرا کے۔۔۔

عترت کا نکاح ہے دو دن بعد شرافت سے تشریف آوری لے آنا صبح سے۔

اچھا مجھے تو نہیں بتایا عترت نے بڑی چھپی رستم نکلی۔۔

بہزاد نے منہ بنا کے کہا۔۔

مطلب عترت آپی بھی جانتی ہیں بہزاد کو ایک میں ہی  دنیا جہاں سے بے خبر ہو صنم نے دل میں سوچتی ہوئے کہا۔

حال میں ہے نکاح ؟؟

بہزاد نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

صنم اسکے پل بھر میں سنجیدہ ہونے پہ حیران رہ گئ۔ہاں حال میں ہے نکاح تمہاری وجہ سے کیونکہ مجھے پتہ تھا اگر گھر میں رکھونگی تو نہیں آتے تم۔۔

ہممم۔۔بہزاد نے ہاں میں گردن ہلائی شاہجاں کی بیگم کی بات سنکے۔۔

اچھا ممانی کہاں ہے؟

 میں مل لو ان سے۔۔

وہ کمرے میں ہے نماز پڑھ رہی ہیں مل لو تم ۔

ہممم ۔۔۔

شاہجاں بیگم کے جاتے ہی بہزاد صنم کو دیکھ کے مسکرانے لگا صنم کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بہزاد کا منہ نوچ لے۔۔

صنم اسے اگنور کرکے جانے لگی جب بہزاد نے اسکا ہاتھ تھام کے اسے اپنے سامنے بیٹھایا۔۔

صنم نے بہزاد کی اس حرکت پہ اسے کچھ نہیں کہا۔۔

غصہ آرہا ہے مجھ پہ ؟.

بہزاد کے بولنے پہ صنم نے کہا۔۔

آپ کیوں شانزے کے پیچھے پڑے ہیں جب اپنے اسے دھمکایا تو وہ رک گئ نہ آپکے بارے میں کسی کو نہیں بولا تو پھر کیوں پریشان کرہے ہیں اسے۔۔۔صنم کو شانزے موبائل والا قصہ سنا چکی تھی ۔

آپ جانتے ہی جان ہے میری شانزے میں اور اسے پریشان کرنے والوں کو میں چھوڑتی نہیں۔۔

میں پریشان نہیں کررہا ہو اسے اور دوسرے بات تمہیں انٹر فیئر کرنے کی ضرورت نہیں اس معاملے میں ۔

یہ میرا پرسنل میٹر ہے اور ملکہ کے علاؤہ یہ حق کسی کو نہیں کے کوئ میرے پرسنل میٹر میں بولے ۔

جب آپکی ملکہ کو پتہ چلے گا کے آپ شانزے کو کس طرح ہیرس کرہے ہیں تو یہ ملکہ آپکا سر پھوڑ دے گی۔

کیونکہ شانزے انکے کیلے اتنی ہی اہم ہے جتنی میں اور عترت اپی۔۔

اچھا اور جب انہیں یہ پتہ چلے گا کے انکی لاڈلہ بیٹی کسی صائم نام کے لڑکے سے فون پہ بات کرہی ہے کلب میں اسکے ساتھ ڈانس کمپیٹیشن جیت رہی ہے تو آگے تم سمجھدار ہو کے وہ تمہارے ساتھ کیا کرینگی۔۔

بہزاد کی بات پہ صنم پانی پینا بھول گئ اور آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کے بہزاد کو گھورنے لگی۔۔

ایسے حیران نہں ہو بھول رہی ہو بہزاد چوہدری نام ہے میرا ۔

مجھے بلیک میل کررہے ہیں آپ ۔۔

بلکل نہیں بس خاموش رہنے کا بول رہا ہو اور ساتھ دینے کا بول رہا ہو میرا ۔۔

کس خوشی میں آپکا ساتھ دو زرا بتانا پسند کرینگے؟؟

صنم نے دانت پیس کے کہا۔۔

کیونکہ افشیلی ایک ہی ماموں ہو تمہارا ۔۔

ماموں ماہ فٹ۔۔

صنم نے غصہ میں گلاس پٹختے ہوئے کہا۔

تو چلو بی ایم بول لو یہ سمجھ لو۔۔

بی ایم ؟؟

صنم نے ناسمجھی میں کہا۔۔

بہزاد ماموں ۔۔

میں آپکو کچھ نہیں سمجھنے والی نہ آپکا ساتھ دینے والی کیونکہ جو شانزے کا دشمن وہ میرا دشمن۔۔

سوچ لو صنم مجھ سے دشمنی بہت مہنگی پڑے گی۔۔

دھمکی دے رہے ہیں؟

بہزاد نے غور  سے صنم کو دیکھا اور کہا۔۔

نہیں سمجھا رہا ہو۔۔ویسے۔۔۔؟؟

ویسے کیا؟؟

صنم نے ائبرو آچکا کے کہا۔۔

صائم تمہارے لائق نہیں وہ اچھا لڑکا۔نہیں ہے۔۔

اچھا اورا پکی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟

اللّٰہ کا شکر کبھی غرور نہیں کیا میں نے لوگ خودی ایمپریس ہوجاتے ہیں بہزاد چوہدری سے۔۔

ویسے دونوں سہیلیوں نے دو ٹکے کے لڑکے چنے ہیں اپنے لیے۔۔

صائم خالی میرا دوست ہے اور مراد سے شانزے بچپن سے محبت کرتی ہے ۔

ہممم محبت کو نفرت میں بدلنے میں ٹائم نہیں لگتا ۔

ابھی وہ دونوں اور بات کرتے شاہجاں بیگم نے باہر آکے صنم۔کو چلنے کو کہا ۔

ایسے کیسے ملکہ اتنے دونوں بعد آئ ہو خانساماں کو کھانے کا بولا ہے میں نے ۔۔

بہزاد نےشاجہاں کو روکتے ہوئے کہا ۔۔

نہں بہزاد پھر کبھی ابھی چھوٹی خالہ کے گھر جارہی ہو..

تمہارا دماغ خراب ہے بہزاد ایک دم ڈھارا۔۔

اسکی دھاڑ سے صنم ڈر گئ تھی مگر شاجہاں بیگم نے ریلکس انداز میں کہا۔۔

لڑائ ناراضگی بڑوں میں ہے بہزاد بچوں کو نہ رگڑے تو بہتر ہے۔۔

تم میری خاطر آرہے ہو ممانی میری بچی کو دعائیں دینے آرہی ہے ایک ہی ماموں ہے اسکا وہ بھی اگر نہیں آئے گا تو کیسا لگے گا عترت کو۔

ہمشیہ سے مجھے بلیک کرتی آئ ہو ملکہ۔۔

بہزاد نے سنجیدگی سے کہا۔۔

اچھا اچھا اب میں چلتی ہو خیال رکھنا اور وقت پر اجانا۔۔

اوکے صنم دیھان رکھنا اپنا۔۔

بہزاد نے صنم کو مخاطب کرکے مسکرا کے کہا ۔

صنم نے ایسا منہ بنایا بہزاد کی بات پہ کے بہزاد نے اسکا منہ دیکھ کے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا۔۔

#######

اب۔ شاہجاں بیگم کس  کے گھر دعوت نامہ لے کر جارہی تھی صنم۔کو کوئ آئیڈیا نہیں تھا ۔۔

ماما آپ جانتی ہیں کے بہزاد ماموں نے اپنے بیٹے کا۔۔۔۔

ابھی صنم پوری بات بول بھی نہیں پائ تھی کے شاہجاں بیگم نے غصہ میں کہا۔۔

تم۔نے دیکھا تھا اسے اپنے بیٹے کا قتل کرتے ہوئے؟؟

نہیں ماما وہ نیٹ پہ ۔۔۔

صنم سنی سنائی باتوں پہ یقین کرنے سے ہمیشہ اپنا نقصان ہوتا ہے دنیا تو نجانے کیا کیا بولتی ہے مارنے والے کے ہاتھ روکے جاسکتے ہیں کہنے والے کی زبان نہیں۔۔

سوری ماما۔۔۔

اٹس اوکے ۔۔

صنم خاموش ہوئ جب اسکے نمبر پہ شانزے کی کال آنے لگی جسے سننے کے بعد صنم نے شاہجاں بیگم سے کہا ۔

ماما شانزے کو شاپنگ کرنی ہے نکاح کی آپ مجھے لکی ون ڈارپ کردینگی۔۔۔

شہاجاں بیگم نے اسے ڈراپ کرکے وہاج ولا کی راہ لی۔۔

آج سالوں بعد اس نے اس دہلیز پہ قدم رکھا تھا کبھی اسکی جان اسکی جگر جسکے بغیر شاہجاں بیگم جو گزارا نہیں تھا رہتی تھی مگر اب وہاں صرف اسے دھوکا دینے والے رہتے ہیں۔

واچ میں نے گیٹ کھولا تو ایک گاڑی تیزی سے باہر نکلی اور شاہجاں بیگم کی گاڑی اندر داخل ہوئ۔۔

وہاج صاحب لان میں بیٹھے کسی سے کال پہ بات کررہے تھے جب انہوں نے شاجہاں بیگم کو دیکھا ۔۔

وہاج صاحب کو پل بھر کیلیے اپنی انکھوں پہ یقین نہیں ایا۔

انہوں نے فورا کال کٹ کی اور تیزی سے شاہجاں بیگم کے قریب آئے اور کہا۔

شاہجاں تم ۔۔

ہمارے گھر میں اتنے سالوں بعد۔۔۔

یہ بولتے ہوئے وہاج صاحب کی آواز رندھ گئ۔۔

او او اندر آؤ ماما تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔۔

نہیں وہاج میں یہی ٹھیک ہو۔۔۔

اب یہاں تک آئ ہو شاہجاں تو اندر آجاؤ میری خاطر۔۔

یہ بول کے وہاج صاحب شاہجہان بیگم کا ہاتھ تھام کے اندر لے گئے

شاہجاں بیگم کی خالہ نے جب انہیں دیکھا تو فورا صوفے کا سہارا لیا ورنہ وہ گرجاتی۔۔

روتے روتے انہوں نے شاہجاں بیگم کو گلے لگایا مگر شہاجہاں بیگم بلکل ساکن تھی۔۔

عترت کا نکاح ہے جمعہ کو آپ لوگ ضرور آئے گا۔

عترت نے اپنی خالہ کو دعوت دیتے ہوئے کہا۔

میں نے سب کو دعوت دی ہے وہاج بہزاد بھی آئے گا اور اظہر صاحب بھی ہاتھ جوڑ کے میرے درخواست ہے کے بچوں کے سامنے پرانے باتیں نہ دہرائی جائے تو بہتر ہے ۔

بے فکر رہو شاہجاں اب ایسا نہیں ہوگا ۔۔

صائم نظر نہیں ارہا۔۔

کافی بڑا ہوگیا ہوگا اب تو۔۔

ابھی ابھی باہر نکلا ہے شاجہاں مجھے پتہ ہوتا کے تم اوگی تو روک لیتی اسے۔۔

چلو کوئ بات نہیں نکاح میں مل۔لونگی۔۔۔

اچھا اب میں چلتی ہو ۔۔

کچھ دیر رک جاؤ شاہجاں ۔۔

وہاج کے والدہ نے منتیں کرنے والے انداز میں کہا۔۔

نہیں خالہ کچھ دیر اور رکی تو دم گھٹ جائے گا میرا۔۔

اپ۔لقگ ضرور آئیے گا۔۔

شہاجاں بیگم یہ بول کے تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئ چلی گئ۔۔

صنم شانزے کے ساتھ شاپنگ تو کررہی تھی مگر اسکا دماغ بہزاد کی باتوں میں الجھا تھا۔۔

نجانے اب بہزاد مام۔۔

آگے کی بات اسکے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گئ۔۔

کیا کہا تونے بہزاد؟؟؟

شانزے جو اسکے ساتھ چل رہی صنم کے بولنے پہ ایک دم چونکی۔۔

ارے نہیں بھئ پاگل ہے کیا بہزاد کیوں بولونگی میں نے کہا بیزار ہورہی ہو چل چل کے کہی بیٹھ کے کچھ کھاتے ہیں۔۔

شانزے نے اسے غور سے دیکھ کے کہا۔۔

تو مجھے کچھ پریشان لگ رہی ہے کیا بات ہے؟

صائم سے لڑائ ہوئ ہے کیا؟؟

ارے نہیں یار بس بھوک لگی ہے۔

اچھا چل پہلے کچھ کھا لیتے ہیں پھر شاپنگ کرتے ہیں۔۔

شانزے یہ کہہ کے اسکا  ہاتھ تھام کے چلنے لگی۔۔

اگر ابھی میں نے شانزے کو بتا دیا کے بہزاد چوہدری سے میرا رشتہ کیا ہے تو یقیناً مجھ سے بات نہیں کرے گی اور نہ عترت آپی کے نکاح میں آئے گی اور اگر یہ نہ آئ تو میں ماما کو کیا بولونگی اور اگر ماما کو اسکے نہ آنے کی وجہ بتادی تو بہزاد میری پول پٹی کھول دینگے۔۔

اففف یااللہ مجھے کہاں پھنسادیا۔۔

######

نمرہ نمرہ ؟؟

اظہر صاحب تقریبا خوشی سے چیختے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔۔

نمرہ جو میڈ سے گھر صاف کروارہی تھی ۔۔

اظہر صاحب کی آواز میں کھنک سن کے تیزی سے انکے پاس ائ۔۔

اظہر صاحب کی آنکھیں بھلے بھیگی ہوئی تھی مگر لب مسکرا رہے تھے۔۔

کیا بات ہے اظہر ؟

 نمرہ نے تجسسس سے پوچھا۔۔

اظہر صاحب نے نمرہ کو کندھے سے تھام کے کہا۔۔

میرے بلاوا آیا ہے نمرہ پاکستان سے۔۔

کیا ؟؟

نمرہ شاکڈ تھی سن کے کیونکہ 21 سالوں سے وہ لندن میں تھے اظہر صاحب سے جب سے شاہجاں بیگم نے قطع تعلق کرا تھا تب سے وہ پاکستان چھوڑ چکے تھے ۔۔

ہاں نمرہ شاہجاں کی کال آئ تھی عترت کا  نکاح ہے دو دن بعد اور دو ہفتے بعد شادی۔۔

میری جلدی سے پیکنگ کردو آج رات کی فلائٹ ہے میری۔۔

آپ اکیلے جارہے ہیں؟

تمہیں اگر کوئ اعتراض نہیں ساتھ چلنے میں تو چلو۔۔

ہاں میں بھی چلونگی آپکے ساتھ کیا پتہ اس بار شاہجاں سب بھول کے گلے لگا لے۔۔

نمرہ بیگم یہ بولتے ہوئے آبدیدہ ہوگئ۔۔

زویان سے پوچھ لو ساتھ چل رہا ہے تو؟؟

رہنے دے اسے وہاں جاکے اسے بہت سے سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے ہمیں اظہر ۔۔

ویسے بھی اسکے پیپر ہے اگلے ہفتے۔۔۔

سوالوں کے جواب تو جب بھی دینے ہیں نمرہ جو 2 مہینے بعد ہم ہمشیہ ہمیشہ کیلے پاکستان شفٹ ہوجائینگے۔۔

یہ بول کے اظہر صاحب نے اپنے کمرے کی راہ لی اور نمرہ بیگم نے ایک بار پھر ہمت باندھ لی تھی شاہجاں کا سامنا کرنے کی۔۔

########

یار نکاح ہورہاہے تمہارا کوئ تمہیں پھانسی نہیں ہونے والی جمعہ کو ۔

انجم نے جب اسے منہ پھلائے پالر جانے کیلیے  ریڈی ہوتے دیکھا تو بول پڑی۔۔

عترت نے اسکارف باندھتے ہوئے کہا۔

جو مجھے پالر چھوڑنے جا رہا ہے وہ کسی جلاد سے کم نہیں ۔

عترت کی بات پہ صنم قہقہ لگاکے ہنس پڑی۔۔

انجم کو ہنستا ہوا دیکھ کے عترت نے پاس رکھا تکیہ کھینچ کے انجم کے مارا اور کہا ۔

میں نے کوئ لطیفہ نہیں سنایا ہے انجم۔۔۔

گلا دبا دونگی تیرا ۔۔۔

عترت کا بس نہیں چل رہا کے انجم کا سر پھاڑ دے۔

یار تو بول ہی ایسے رہی کے ہنسی ہی نہیں رک رہی۔۔انجم نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا ۔

ویسے محبت کے بھی نام کمال کے ہیں۔۔

کبھی محبوب تو کبھی جلاد۔۔۔

اس سے پہلے عترت کچھ اور بولتی ماسی نے اسے آکے بتایا کے بلاج صاحب لینے آئے ہیں۔۔

لو جلاد کا نام لیا اور آگیا وہ اپنے محبوب کو تختہ دار پہ لٹکانے۔۔

انجم نے اپنا ڈوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔۔

انجم اور عترت ایک ساتھ نیچے اتر رہی تھی۔۔بلاج نے جب عترت کو دیکھا تو فورا اپنی نظروں کا ذاویہ بدلہ کیونکہ بلکل سادے سے بلیک  سوٹ پہ وہ سیدھا ایک بار پھر اسکے دل پہ اٹیک کررہی تھی۔۔

مگر جب اسکی نظر عترت کے پیچھے آتی انجم پہ پڑی تو بلاج مسکرایا تھا جو عترت کے ساتھ انجم نے بھی نوٹ کیا تھا۔۔

انجم نے آگے بڑھ کر بلاج کو جھک کے کہا۔

اسلام وعلیکم دولہے بھائ۔۔

بلاج اور انجم کی کوئ ناراضگی نہیں تھی اس لیے بلاج نے اس سے کوئ بھی اختلاف نہیں رکھے۔۔

وعلیکم اسلام کیسی ہیں آپ سالی صاحبہ؟؟

مجھےاور بھی کام۔ہے پالر جانے کے علاؤہ اگر میل ملاپ ہوگیا ہو تو چلے۔۔

عترت نے انجم کو گھور کے کہا اور آگے بڑھ گئ۔۔

بلاج نے ایک نظر عترت کو دیکھ کے   انجم کو آگے چلنے کا اشارہ کیا۔

بلاج جو سمجھ رہا تھا عترت آگے بیٹھی اور وہ اسے پھر ذلیل کرکے پیچھے بیٹھنے کا بولے گا مگر عترت پہلے ہی پیچھے بیٹھ گئ تھی..

انجم آگے جاکے خاموشی سے بیٹھ گئ۔۔

بلاج نے بیٹھتے ہی آگے کا شیشہ سیٹ کیا ۔۔

جہاں اسے پل بھر کیلیے عترت کا پھولا ہوا چہرہ دیکھائے دیا۔

جیسے دیکھ کے اسنے اپنے لبوں کی مسکراہٹ بڑے کمال سے چھپائ تھی۔۔

گاڑی اپنی منزل کی طرف گامزن تھی جب بلاج نے انجم سے پوچھا۔

کہاں غائب ہو میڈم بلکل بھی کوئ رابطہ نہیں کیا تم ۔۔انجم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

ہم تو وہی ہیں آج تک دولہے بھائ جہاں آپ چھوڑ کے گئے تھے  غائب تو آپ ہوئے تھے۔۔

غائب کیوں ہوا تھا یہ بھی جانتی ہو تم..

بلکل جانتی ہو مگر۔۔

تم۔چپ بیٹھ سکتی ہو انجم ۔۔

آگے کی بات بولنے سے عترت نے انجم کو روکا۔

تم سے بات نہیں کررہی وہ..بلاج نے غصہ میں عترت کو مرر میں سے گھورتے ہوئے کہا۔۔

اور میں بھی آپ سے بات نہیں کررہی۔۔۔

عترت کے دوبدو جواب پہ بلاج نے غصہ میں ٹرن لیا۔۔

اچھا بات سنو میں روکو پالر میں کیا تمہارے ساتھ؟؟

انجم کے پوچھنے پہ عترت نے نفی میں گردن ہلائی اور کہا۔

تم گھر جاؤ آنٹی اکیلی ہیں مجھے عادت ہے اکیلے مینج کرنے کی۔۔

عترت کے جواب پہ انجم سیدھی ہوکے بیٹھی اور بلاج ایک بار پھر  عترت کو دیکھنے پہ مجبور ہوگیا۔۔

گاڑی کو ایک گلی کو کونے پہ روک کے ان لوگوں نے انجم کو اتارا ۔۔

انجم کے جاتے ہی بلاج نے عترت سے کہا۔۔ ۔

آگے آکے بیٹھو۔۔۔

نہیں میں یہی صحیح ہو ۔

بات سنو میڈم میں ڈرائیور نہیں ہو تمہارا جو تم پیچھے بیٹھ رہی ہو آگے آکے بیٹھو۔۔

بلاج کے اس طرح کہنے پہ عترت خاموشی سے آگے آکے بیٹھ گئ۔۔

اس نے چپ کے سے اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو پونچھے جو بلاج کے لہجے کی وجہ سے آئے تھے۔۔۔

بلاج نے اسے دیکھا تھا اپنے آنسو پونچھتے ہوئے مگر خاموش رہا۔۔

سڑک کے اس پار گاڑی رکی اور اس پار پالر تھا۔۔

عترت نے خاموشی سے گیٹ سے اتر کے روڈ کراس کرنے لگی جو اسے آتا نہیں تھا۔۔

بلاج گاڑی سے باہر نکل کے اسکے پالر میں جانے کا ویٹ کرنے لگا۔۔

عترت روڈ کراس کرتے ہوئے پہلے بائیک والے سے بچی اور پھر کار سے۔۔

بلاج تیزی سے اس تک آیا اور اسکا۔ہاتھ تھام کے کہا۔

کیا کرتی ہو ابھی تک روڈ کراس کرنا نہیں آیا تمہیں ابھی لگ جاتی تمہیں چوٹ لگ جاتی ۔۔

عترت نے بلاج سے اپنا۔ہاتھ الگ کروایا اور کہا۔۔

جب بیوفائی جیسا لقب زخم کی صورت میں سہہ کے زندہ ہو تو یہ چوٹ کچھ بھی نہیں ۔۔

کوئ گاڑی والا مار بھی دے تو اچھا ہے نہ آپ کی مجھ جیسی بیوفا سے جان چھوٹ جائے گی۔۔

یہ کہہ کے عترت نے بلاج کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

عترت نے سنبھل کے بچتے بچاتے اکیلے روڈ کراس کرا اور پالر میں چلی گئ۔۔

یہ اچانک پاپا کو پاکستان جانے کا خیال کیسے اگیا۔۔؟

کیوں اب تمہیں انکے خیالات سے بھی اعتراض ہے؟

نمرہ بیگم نے زرا سخت لہجہ میں زویان کے سوال کے بدلے سوال کیا۔۔

ماما انہیں میری اتنی چیزوں پہ اعتراض ہے اس پہ آپکو اعتراض نہیں۔۔۔

انہیں جو اعتراضات ہیں بلکل صحیح ہے زویان تم نے کبھی غور سے دیکھا ہے اپنے آپکو 22  سال کے میچور لڑکے ہو تم ۔۔

تمہیں اندازہ نہیں ایک تمہارے وجود کو اس دنیا میں لانے کیلے کتنے ہی وجود کو فراموش کرا ہے تمہارے پاپا اور میں نے۔۔

اپنا حلیہ دیکھو زویان ۔۔

تمہیں اللّٰہ نے ایک خوبصورت مرد بنایا ے اس سے بڑی بات مسلمان بنایا ہے مگر تم دیکھوں اپنے آپکو ساری لڑکیوں والے چیزیں تم نے اپنائی ہوئی ہے ایک صرف ڈوپٹہ اوڑھنا رہ گیا ہے ۔۔

ماما یہ فیشن ہے..

رئیلی ا

نمرہ بیگم ایک آئی تو آچکا کے کہا۔۔

ایسا فیشن کسی ذلالت سے کم نہیں جسمیں انسان کا اپنا آپ اپنی پہچان اپنا عکس کھوجائے۔۔

نمرہ کی باتیں پہ فل وقت زویان خاموش ہوگیا تھا مگر اس پہ کوئ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔

نمرہ بیگم نے اسے ہزار نصیحتیں کی اظہر صاحب بھی اسکے گلے لگے اور خیریت سے رہنے کی تاکید کی اور ایک مہینے کیلے وہ دونوں پاکستان چلے گئے۔۔

اظہر صاحب اور نمرہ بیگم کو ائیرپورٹ چھوڑ کے زویان واپس آرہا تھا جب اسنے ماشا کو کال کی ۔

#########

اظہر صاحب کی فلائٹ لینڈ ہوئ تو انہیں ائیرپورٹ لینے وہاج صاحب پہنچے تھے۔۔

سالوں بعد اپنے بھائ سے مل کے نمرہ بیگم نے ائیرپورٹ کے باہر ہی رونا شروع کردیا ۔

ارے ارے نمرہ آپی بس کرو گھر چل کے باقی کا رونا دھونا کرلینا۔۔

وہاج صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔

دونوں ہی بہن بھائ اپنی ماں کی بے جا حسد اور ضد کا شکار ہوکے آج ایسی زندگی گزار رہے تھے۔

اظہر صاحب سے بغل گیر ہوتے ہوئے وہاج  کافی دیر تک انکے سینے سے لگے رہے اور انکے ایسا کرنے کی وجہ اظہر صاحب اچھے سے جانتے تھے۔۔

گاڑی اپنی منزل کی طرف گامزن تھی جب اظہر صاحب نے وہاج صاحب سے کہا ۔

وہاج مجھے شاہجاں کی طرف اتارنا اور نمرہ کو گھر لیجانا میں تھوڑی دیر رک کے اجاونگا۔۔

میں بھی چلتی ہو نہ آپکے ساتھ ۔

کیوں ابھی بھی ڈر ہے تمہیں وہ چھین لے گی مجھے تم سے ۔۔

ایسی بات نہیں ہے اظہر صاحب۔۔

نمرہ بیگم نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔۔

وہاج صاحب اس سارے عرصہ میں خاموش رہے کیونکہ جو ہوچکا تھا اسے بدلہ نہیں جا سکتا تھا نمرہ بیگم آج اگر اسیے طنز سنتی ہیں تو وجہ وہ خود ہے جان سے عزیز کزن کی کمر پہ انہیں نے چھرا گھونپا تھا آب  ہاتھ تو خود کے بھی زخمی ہونے تھے۔۔

 وہاج صاحب نے گاڑی شاہجاں بیگم کے گھر کے پاس روکی ۔۔

اظہر صاحب اتر کے خاموشی سے گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔۔

وہاج سے نے گاڑی فورا آگے بڑھا دی۔

فرنٹ مرر سے نمرہ کا چہرہ دیکھنے لگے جہاں اداسی تو تھی ہے شرمندگی بھی تھی۔۔

خوش ہو نمرہ تم۔۔؟؟

دوسروں کا حق مارنے والے کبھی خوش نہیں رہتے بھائ دیر سے ہی صحیح مگر اب میں چاہتی ہو کے شاجہاں اور اظہر دوبارہ ایک ہوجائے۔

یہ نہ ممکن ہے نمرہ اظہر بھائ کو شاہد شاہجاں معاف کر بھی دے مگر ان پہ اپنے دل کے دروازے اب شاید ہی کھولے۔۔

"دنیا کا امیر ترین انسان بھی ہونا اور اگر اس پہ اسے چاہنے والی عورت اس سے اپنی چاہت ختم کردے تو اس شخص کی مثال اس فقیر جیسے ہی جسکی جھولی میں ڈھیروں پیسہ ہو پھر بھی اسکا کشکول خالی ہو"

تم نے ڈھونڈا اسے۔ن؟

نمرہ کے سوال پہ وہاج کے لب طنزیہ مسکرائے ۔۔

جنہیں اپنے ہاتھوں سے کھوتے ہیں نہ نمرہ پھر انہیں ڈھونڈے کا ماجرا اللّٰہ پہ چھوڑتے ہیں اور مجھے میرے اللّٰہ پہ پورا بھروسہ ہے ایک نہ ایک دن وہ مجھے ملے گی۔۔

بس مرنے سے پہلے اس سے معافی مانگنا چاہتا ہو۔۔

########

اظہر نے گیٹ پہ کھڑے ہوئے تو ماضی کی چند باتیں انکے ذہن میں چلنے لگی۔۔

اچھا یہ بتاؤ لینے کب او؟؟

اظہر نے شاہجاں کو اسکے میکے اتارتے ہوئے کہا۔۔

کیوں آپ اندر نہیں ائینگے؟؟

او پلیز مجھے تو معاف کرو آج چھٹی کا دن ہے اور ہٹلر گھر میں ہونگے مجھے دیکھتے ہی انہیں ساری تمیز تہزیب تہمید یاد آجاتی ہے۔۔مجھے تو اپنی خالہ جانی سے ہمدردی ہے کیسے ایسے ہٹلررررررر 

اظہر اپنی دھن میں بول گیا مگر کچھ یاد آنے پہ اس نے دانتوں تلے زبان دبا کے گردن گھما کے شاجہاں کو دیکھا جو انہیں ہی غصہ میں گھور رہی تھی۔۔

ارے ارے میرا مطلب ہے ابھی خالو کی چھٹی ہے میں جاؤنگا تو انکا مزا خراب ہو جائے گا  انکی۔بیٹی اتنے ٹائم بعد جو گھر آئ یے۔۔

اظہر کان کھول کے میری بات سن لے ایک اور بار اگر اپنے بابا کو ہٹلر بولا تو میں یہی رک جاؤنگی ہمیشہ ہمیشہ کیلے آئیے گا پھر مجھ سے ملنے 22 23 سال بعد جب اگر میرے بابا نے اجازت دی تو دیدار کرونگی اپکا۔۔

شاہجاں کے بولنے پہ اظہر نے مسکراتا ہوئے اسکا چہرہ تھاما اور اسکے گال پہ دائیں بائیں اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔

تم سے چوبیس سیکنڈ کی دوری بھی مجھے مرنے کے مقام تک۔لے جاتی ہیں تو 23 24 سال تک دور کیسے رہونگا۔۔مرجاونگا۔۔

شاہجاں انکی باتوں پہ مسکراتی ہوئ اندر چلی گئ۔۔

اظہر صاحب نے ڈور بیل پہ۔ہاتھ رکھا تو انکی آنکھیں بھیگنے لگی 23 سال بعد وہ آج اس دہلیز پہ کھڑے تھے۔۔

جہاں انکا استقبال کرنے کیلیے نہ تو انکی جان سے پیاری خالہ موجود تھی اور نہ انکے ہٹلر خالو۔۔

دروازہ عترت نے کھولا اور کھولتے ہی جس شخص کو اسے دیکھا دیکھتے ہی اسکا ہاتھ بے ڈھرک اپنا منہ پہ گیا۔۔

آنسو آنکھوں سے تواتر جاری تھی اسنے اظہر صاحب کو چھو کے صرف اتنا کہا۔۔

بابا اپ؟؟

اظہر نے روتے روتے عترت کو گلے سے لگالیا۔۔

عترت انکو لے کر اندر بڑھی تو انہیں صوفے شاہجاں ٹیک لگائے دیکھائے دی جو شاید نماز پڑھ کے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے سوگی تھی۔۔

عترت نے آگے بڑھ کر جیسی ہی شاہجاں بیگم کو اٹھانا چاہا اظہر صاحب نے روک دیا۔۔

اظہر صاحب خاموشی سے بلکل شاہجاں بیگم کے قریب بیٹھ کے غور غور سے انکا چہرہ دیکھنے لگے آنسو کا نہ روکنے والا سلسلہ انکی آنکھوں سے جاری تھا۔

عترت نے ان دونوں کو اکیلا، چھوڑا اور دائ جان کو بلانے چلی گئ۔۔

زمانے نے شاجہاں بیگم کے حسن پہ کوئ ضرب نہیں لگائ تھی آج بھی انکا حسن لاجواب تھا ہاں بالوں میں سفید چاندنی ا گئ تھی۔۔جسے دیکھ کے اظہر  صاحب کو  کچھ یاد ایا۔۔

شاہجاں میں تو کہہ رہا ہو ہم ابھی سے بال صدا کالے کرنے والا کلر لگالیتے ہیں۔۔اظر نے اپنے ایکا دکا سفید بالوں کو شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنا مشورہ دیا۔

کیوں بھئ۔۔

میں تو کبھی نہیں لگاونگی بال کالا کرنے والا کلر جب بھی میرے بال سفید ہونگے انہیں میں ایسا ہی رہنے دونگی۔۔

سفید بالوں میں پرسنیلٹی الگ ہی لگتی ہے۔۔۔

اظہر صاحب پرانے باتیں یاد کرے ہلکا سا مسکرائے۔۔

کسی کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پہ محسوس کرتے ہوئے شاجہاں بیگم کی آنکھوں میں ہلکی سے جنبش ہوئ۔۔

انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور دائیں طرف دیکھتے ہی انہیں اظہر صاحب کا دیدار ہوا ۔۔

بلا جھجک انکا ہاتھ اپنے دل پہ گیا مگر انہوں نے فورا اپنا ہاتھ ہٹایا۔

یہ عمل اظہر صاحب سے چھپ نہ سکا۔۔

شاہجاں بیگم نے غور غور سے انہیں دیکھنا شروع کردیا ایک۔انسو انکی آنکھ سے نہیں گرا۔۔

مگر جب آگے بڑھ کے اظہر صاحب نے انہیں سینے سے لگایا وہی شاہجاں بیگم بلک پڑی۔

شاہجاں بیگم نے اپنے دونوں ہاتھ اظہر صاحب کے سینے  پہ رکھے تھے۔۔

بہت آرام سے وہ اظہر صاحب سے الگ ہوئ اور بنا اپنی آنکھیں اٹھائے انہیں کہاں۔۔

خالہ سے ملے اپ؟

مل لونگا ان سے وڈیو کال پہ بات ہوتی رہتی ہے تمہیں تو دیکھنا آج نصیب ہوا۔۔

اظہر صاحب نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور جیسے ہی انہوں نے شاہجاں بیگم کے آنسو پونچھنے چاہے وہ ایک دم کھڑی ہوگئ۔۔

میں خالہ کو بلاتی ہو یہ بول کے وہ جانے لگی جب سامنے عترت آتی دیکھائے دی دائ  جان کیساتھ۔۔۔

میرا اظہر اگیا۔۔

یہ بول کی دائ جان اظہر صاحب کی طرف بڑھنے لگی اظہر صاحب بھی ماں کے گلے لگ کے ایک بات پھر رو پڑے عترت کو ایک بار انہوں نے گلے لگایا ۔۔

سب ہی رورپے تھے جب اچانک ایک اواز گونجی۔۔

کون آیا ہے ماما؟؟

صنم کی آواز پہ اظہر صاحب کو شرمندگی ہوئ تھی اسی بچی کو پیدا ہوتے ہی  چھوڑ کے لندن چلے گئے تھے۔۔

اظہر صاحب جیسی ہی صنم کی آواز پہ پلٹے صنم جو سیڑھیاں اتر رہی تھی ایک دم انہیں دیکھ کے  صنم ریلنگ کو مظبوطی سے تھاما۔۔

صنم پاپا۔۔۔

عترت نے صنم کی طرف تیزی سے بڑھ کر کہا۔۔

پاپا تمہارے لیے ہونگے میرے یہ وہ شخص ہے جنہیں میرا وجود پسند نہیں تھا یہ یہ بھی بھول گئے ے بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے میں اپنے مرضی سے تو دنیا میں نہیں آئ تھی نہ۔۔۔صنم ایک دم پھٹ پڑی۔۔

صنم ۔۔۔

تمیز کے دائرے میں رہو۔۔

شاہجاں بیگم ایک دم غصہ میں صنم کے طرف بڑھتے ہوئے بولنے لگی۔۔

کیوں آپی کو انکا پیار ملا آپی نے انکی گودھ میں کھیلی انکی خوشبو محسوس کری پاپا کے لفظ سے بھی آشنا ہے ۔

مگر میرے لیے یہ صرف آپکے شوہر ہے اور عترت آپی کے والد میں یتیم ہو میرا باپ نہیں۔۔

اس جملے پہ شاہجاں بیگم نے اپنی آنکھیں کرب سے بند کری تھی اور عترت نے صنم کو ٹوکا تھا۔۔

صنم روتے روتے بول رہی برسوں کا غبار آج وہ نکال رہی تھی اظہر صاحب بھی خاموشی سے گردن جھکا کے سب سن رہے تھے انہیں اندازہ تھا کے جس دن وہ صنم سے ملینگے انہیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دائ جان صنم کے دل میں اپنے باپ کیلے نفرت اظہر صاحب کو بتا چکی تھی۔۔

صنم اظہر صاحب کے پاس آئ اور کہا۔

آپکو پتہ جب اللّٰہ تعالیٰ اپنے کسی بندے بہت خوش ہوتا ہے تو اسے پہل کی بیٹی دیتا ہے اور ذیادہ خوش ہوتا ہے تو پھر بیٹی دیتا ہے اور زیادہ خوش ہوتا ہے پھر بیٹی دیتا ہے اور جب بیٹی دیتا ہے

 تو فرماتا ہے میرا رب۔۔

"بیٹیوں پہ جو خرچ کرو کے انکا حساب میں نہیں لونگا کیونکہ وہ رحمت ہے ۔۔

بیٹوں پہ لگائ ایک ایک چیز کا حساب میں لونگا کیونکہ وہ نعت ہے۔۔""

آپ آئے میری آپی کی شادی میں مجھے خوشی ہے کیونکہ میری آپی خوش ہے ہمارے درمیان جو فاصلہ ہے ہرگز  کوشش مت کریے گا اسے مٹانے کی۔۔

صنم نے تیزی سے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائ اور باہر نکل گئ۔۔

اظہر صاحب وہی زمین پہ ڈھیر ہوگئے۔۔

ایک باپ کیلیے وہ دن کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا جب اسکی اولاد اسکے سامنے خود کو یتیم کہیے۔۔

شاہجاں بیگم۔ الٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئ دائ جان وہی صوفے پہ ڈھیر ہوگئ ۔۔

عترت نے اپنے باپ کو سنبھالا تھا۔۔

#####

نمرہ بیگم کی آمد پہ رخسانہ بیگم جیسے جی اٹھی تھی صائم سے ابھی تک نمرہ کی ملاقات نہیں ہوئ تھی۔۔

نمرہ بیگم تھوڑی دیر فریش ہوکے رخسانہ بیگم کے کمرے میں اگئ تھی۔۔

رخسانہ بیگم کی گودھ میں سر رکھ کے لیٹ گئ تھی انکا افسردہ چہرہ رخسانہ بیگم کو ایک بار پھر پچھتاوا دلانے لگا ۔

نمرہ بیٹا تم خوش تو ہونا ؟؟

نمرہ بیگم نے مسکرا کے لیٹے لیٹے کہا۔۔

آپکو لگتا ہے کسی خوشیاں چھین کے کسی کو دھوکا دے کے کوئ آباد تو رہ سکتا ہے مگر خوشی اور سکون اسے نصیب نہیں ہوتا۔۔

نمرہ بیگم کی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے تو رخسانہ بیگم کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا دونوں ماں بیٹی ماضی کی یادوں میں کھونے لگی۔۔

#######

سعود راجپوت  کی چار اولادیں تھی ۔۔

بڑی بیٹی افسانہ اس سے چھوٹی نغنہ پھر بیٹا زاہد اور آخر میں رخسانہ ۔۔۔۔

راجپوت کا نام کراچی کے رائیسوں میں لیا جاتا ہے سارے بچے نیچر میں بہت اچھے تھے سوائے رخسانہ کے۔۔

وہ بہنوں سے حسد کرتی خاص کر بڑی بہن  افسانہ بیگم سے۔۔۔جو حسن میں ان سے بڑھ کر تھی ۔

اپنے چار بچوں کی شادی سعود راجپوت نے آگے پیچھے کی تھی۔۔

رخسانہ بیگم کی شادی ایک بہت معزز آدمی سی ہوئ تھی جو ایک بزنس مین  تھے اور اصولوں کے پکے تھے افسانہ بیگم کی انکی زندگی میں آنے سے انکی ترقی پہ ہوتی چلی گئ افسانہ بیگم جن کو اللہ نے ایک ہی بیٹی دی شاہجاں   جو شادی کے دو سال بعد ہوئ تھی ۔

اسی سال اللہ نے رخسانہ بیگم کو بھی دو جڑواں بچوں سے نوازا تھا وہاج اور نمرہ پھر زاہد صاحب کو پہلے اللّٰہ نے ایک بیٹی دی ناصرہ جو ایک پیر سے معزور تھی اور وہاج اور نمرہ کی عمر کی تھی اور پھر 12 سال بعد اللّٰہ تعالیٰ نے زاہد صاحب کو ایک بیٹا دیا بہزاد ۔۔

ان سب میں سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے نغمہ بیگم کو اولاد دی اظہر۔۔

سارے ہی بچے ایک ساتھ جوان ہوگئے تھے رخسانہ بیگم کوشاہجاں سے اللّٰہ واسطے کا بیر تھا وہ حسن میں انکی بیٹی سے دس گناہ زیادہ تھی ۔۔۔

اصل انکی حسد پیسوں کی حوس جب پروان چڑی جب انکی سب سے زیادہ پیسے والی بہن نغمہ نے انکی بیٹی کو چھوڑ کے شاجہاں کا ہاتھ اظہر کیلیے مانگا۔کیونکہ اظہر صاحب محبت کرتے تھے شاہجاں سے۔۔

شاہجاں اس خاندان کی آنکھ کا تارا تھا  ماموں سے لے کر خالہ سب ہی کو وہ بہت پسند تھی سوائے رخسانہ بیگم کے۔۔

بہزاد کو شاہجاں نے ہی تقریبا پالا تھا کیونکہ انکی  مامی اکثر بیمار رہتی تھی اور ناصرہ اپنے آپکو سنبھالتی تھی یہی بہت تھا۔۔

بہزاد شاہجاں کو پیار سے ملکہ بولتا تھا۔۔

اظہر کے ایک کے  بعد جب ڈاکٹر نے انہیں یہ بتایا کے انکے ہاں دوسرے بھی بیٹی ہے اور اب شاہجاں بیگم دوبارہ ماں نہیں بن سکیں گی اس بچی کے بعد تو اظہر نے اللہ کی مرضی جان کے اسے قبول کرلیا تھامگر رخسانہ بیگم کیلے یہ۔موقع کسی سنہری موقع سے کم نہیں تھا انہوں نے جہاں اپنی بہن نغمہ بیگم کو اظہر کی دوسری شادی کیلے ورغلا نہ شروع کردیا  پوتے کیلیے ۔اظہر شروع شروع میں نہیں مانا تو انہوں نے نہ صرف خود مرنے کی دھمکی دی بلکے وارث ہونے کا بھی لالچ دیا۔۔ وہی انکی بیٹی نمرہ جو اظہر سے دل ہی دل میں محبت کرنے لگی تھی اسے بھی ورغلا نہ شروع کردیا۔۔

بہانے بہانے نمرہ اظہر کو اپنی طرف راغب کرنے لگی۔۔۔

یہاں تک کے اظہر اور شاہجاں میں جھگڑے ہونا شروع ہوگئے ۔۔

شاہجاں بیگم کچھ دونوں کیلے اپنے میکے آگئ اور اسی بات کا فائدہ رخسانہ بیگم نے اٹھایا نغمہ بیگم کو اور ورغلانہ شروع کردیا اور جب شاہجاں کو دس دن تک اظہر لینے نہ نہیں پہنچا تو وہ خود ایک بچی پیٹ میں لیے اور ایک بچی گودھ میں لیے جب اپنے گھر پہنچی تو انکی دنیا۔لٹ چکی تھی اسکی سب سے عزیز دوست اسکی جان اسکی کمر میں چھرا گھونپ چکی تھی۔۔

شہاجاں بیگم لٹی پیٹی جب گھر پہنچی تو افسانہ بیگم اور انکے شوہر گھر سے نکلے اظہر سے سوال کرنے مگر راستے میں ہی انکی کار کا ایکسیڈینٹ ہوگیا اور وہ  لوگ شاہجاں کو اکیلا چھوڑ گئے۔۔

اس سارے عرصہ میں جو شاہجاں کے ساتھ رہا وہ بہزاد تھا بہزاد کو اپنی خالہ سے نفرت ہونے لگی۔۔

مگر رخسانہ بیگم نے یہاں بس نہیں کیا بلکے پیسوں کی لالچ میں اپنے بھائ کی اپاہج بیٹی کو بہو بنا لیا۔

بہزاد بہت  چیخا شور مچایا کے وہ اپنی آپا کی شادی ہرگز وہاج سے ہونے نہیں دے گا مگر اسکی کسی نے نہیں سنی  ۔۔۔

رخسانہ بیگم کے شوہر نے اپنی بیوی کو بہت سمجھایا کے تمہارا بیٹا شادی کرچکا۔ہے یہ بات اپنی بہن کو بتا دو اور اپنی پہلی بہو کو تسلیم کرلو مگر انہوں نے اپنی بیٹی کی زندگی کیساتھ ناصرہ کی بھی زندگی برباد کردی جس محبت کی وہ حق دار تھی۔ وہاج اسے وہ نہی۔  دے پایا اور ایک کار ایکسیڈینٹ میں وہاج کے والد اور وہ جان کی بازی ہار گئے۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کے ناصرہ کی سانسیں چل رہی تھی مگر ان میں زندگی کی رمق نہیں تھی ۔

بہزاد نے ان سب سے قطع تعلق کرلیا اپنی۔ماں۔ سے بھی وہ خفا تھا مگر زاہد صاحب کے جانے بعد اس نے اپنی ماں سے ناراضگی کم کرلی۔۔

 نمرہ امید سے تھی اور ڈاکٹروں نے انہیں بیٹا بتایا تھا۔ اصل جھٹکا اظہر صاحب کو تب لگا جب

اچانک وہ ایک دن گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے رخسانہ بیگم اور نمرہ کو شاہجاں بیگم کا مزاق اڑتے سن لیا تھا کے جس طرح انہوں نے شاہجاں کو اظہر سے الگ کیا۔۔

مگر ابھی بس نہیں ہوئ اظہر صاحب کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس جب ہوا جب شاہجاں بیگم نے صنم کی پیدائش پہ اظہر صاحب سے ہر تعلق ختم کرلیا ۔۔

اظہر صاحب لندن تو چلے گئے تھے مگر جو نمرہ کیلے عزت تھی وہ ختم ہوچکی تھی اب وہ نمرہ کا ساتھ  نبھا رہے تھے کیونکہ وہ انکے بیٹے کی ماں تھی۔۔

سب ہی اپنے عزیر اس دنیا سے چلے رخسانہ بیگم کو آہستہ آہستہ پتہ چلا کے اپنے کیا۔یوتے ہیں جب انکی ایک بہن ایک بھائ اس دنیا سے چلے گئے بنا انہیں معاف کیے اور ایک بہن جو زندہ ہے وہ ان سے تعلق توڑ چکی ۔

آج اتنے بڑے گھر میں رخسانہ بیگم تنہا ہے بیٹا بھی آپ اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے رخسانہ بیگم کو نمرہ بیگم کو اپنی غلطی کا احساس بہت دیر سے ہوا تھا جب جب سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔۔

آج پھر یہ سب ایک ہونگے اب قسمت ان سب کے بچوں کیساتھ کیا کریگی  یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔۔

ساحل سمندر پہ بیٹھے صنم آنسوؤں سے رو رہی تھی جب بھی وہ اداس ہوتی یہی آتی ایک مخصوص جگہ تھی اسکی جس پر وہ اورشانزے اکثر آکر بیٹھتے تھے ۔ 

صنم کے موبائل پہ صائم کی کال آنے لگی۔۔جیسے صنم ڈسکنیکٹ کرچکی تھی ۔۔۔

آج دوسرا دن پورا ہونے والا تھا عترت کے نکاح کی تیاریوں میں وہ بہت ذیادہ مصروف تھی۔۔اسلیے صائم سے بات نہیں ہو پارہی تھی۔۔۔

دوسری دفعہ جب صائم کی کال آنے لگی تب صنم نے اپنے آنسو پوچ کے کال ریسیو کی..

بڑے افسوس کی بات ہے صنم کوئ ایسے کرتا ہے کل سے نہ کوئ میسج نہ وائس نہ کال کہاں بزی ہو تم؟؟

صائم جو شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔

ہیلو صنم ہیلو۔۔۔

صائم کو لگا شاید اسے اسکی آواز نہیں آرہی ۔۔

صائم۔۔۔

صنم کے بولنے پہ صائم ایک دم چپ ہوا ۔۔

کیا میں رات میں بات کرو تم سے؟؟

تم رو رہی ہو صنم ؟

صائم کے سوال پہ صنم نے بہت مشکلوں سے اپنے آنسوؤں کا گلہ گھونٹا۔۔۔

نہیں میں تو نہیں رو رہی آواز خراب ہے میری۔۔

جھوٹ مت بولو صنم تم رو رہی ہو ۔تمہاری آواز سے صاف پتہ چل رہا ہے اور یہ تم ہو کہاں ہ؟

 بہت شور ہورہا ہے جیسے بہت تیز ہوا چل رہی ہو۔۔

صائم۔ ے بیچینی سے صنم سے سوال کیا مگر صنم نے اسکی بات کا جواب دیے بنا کال کٹ کری اور موبائل اووف کردیا ۔

دوبارہ گھٹنوں میں سر دے کے رونے لگی۔۔

جب رو رو کے تھک گئ تو وہاں سے جانے کا سوچا کیونکہ اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔۔

صنم کھڑے ہوکے جیسی مڑی تو بہزاد کو خود کو تکتا پایا۔۔

بہزاد کو دیکھ کے صنم ایک دم غصہ میں ہوکے بہزاد سے روبرو آکے پوچھنے لگی۔۔

آپ مجھے فالو کررہے ہیں؟

یعنی حد ہوگئ پرائیویسی نام کی چیز اب میری زندگی میں ہے یہ نہیں۔۔

اگر پرائیویسی کا اتنا شوق ہے تو بند کمرے میں رونا تھا نہ یہاں کھلے آسمان کے نیچے سمندر کے سامنے کیوں میلو ڈرامہ لگایا ہوا ہے۔

بہزاد کے بولنے پہ صنم اسے اگنور کرکے جانے لگی۔۔

بہزاد بھی اسکے ساتھ چلنے لگا اور کہا۔ 

باپ ہے تمہارا دنیا کی کوئ طاقت یہ رشتہ بدل نہیں سکتی اب تم مانو یہ نہ مانو۔۔۔

بہزاد کے بولنے پہ صنم چلتے چلتے رونے لگی ۔۔

بہزاد کو اس لڑکی کو دیکھ کے کافی دکھ ہوا۔۔پیدا ہوتے ہی یہ باپ کے پیار سے محروم ہوگئ تھی۔۔

شاہجاں نے ابھی اسے آدھا گھنٹہ پہلے کال کرکے گھر میں ہوا تماشہ بتایا تھا اور صنم کا اسطرح جانا بھی صنم کو ڈھونڈنا بہزاد کیلیے کوئ مشکل نہیں تھا۔۔

آپ بول سکتے ہیں بی ایم۔۔

غصہ میں ہی صحیح مگر صنم بہزاد کے ساتھ اپنا اصل رشتہ قبول کرکے اسے نام دے چکی تھی اور بہزاد اسکا یہ لقب خود کیلے سن کے مسکرایا تھا۔۔

آپکو کیا پتہ باپ کے ہوتے ہوئے بنا باپ کے زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے۔۔۔

صنم کے کہنے پہ بہزاد کے چہرے پہ افسردگی چھائ اسنے صنم کو چلتے چلتے کہا۔۔

صحیح کہہ رہو جسکا باپ محظ 15 سال کے لڑکے کو اس دنیا میں  اکیلا چھوڑ کے چلا گیا اسے کیا پتہ کے بنا باپ کے زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے ۔تم خوش قسمت ہو صنم تمہارا باپ زندہ ہے تمہارے سامنے ہے جب چاہو ان سے غصہ شکوہ پیار کرسکتی ہومگر میں اس احساس سے محروم ہو۔۔

صنم نے جب بہزاد کی بات سنی تو رک کے انہیں دیکھنے لگی مگر ڈھونڈنے سے بھی صنم کو بہزاد کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نہیں ملے۔۔کیونکہ بہزاد راجپوت کو اپنا درد چھپانا اچھے سے آتا تھا۔۔

ایسے نہیں دیکھو مجھے پتہ ہے میں بہت ہینڈسم ہو۔۔

بہزاد کے اسطرح بولنے پہ صنم نے منہ بنایا۔۔

بہزاد نے اپنے گارڈز کو اشارہ کیا وہ صنم کی گاڑی میں بیٹھے اور صنم کو بہزاد نے اپنی گاڑی میں گھر چھوڑا۔۔۔

########

جسطرح سے اظہر صاحب گھر آئے تھے نمرہ کی ہمت نہیں ہوئ تھی کے ان سے پوچھے وہاں کیا ہوا۔۔

اگلے دن صائم کو وارن کردیا گیا تھا کے آج اسے فیملی کیساتھ ایک۔ایونٹ میں جانا ہے پوچھنے پہ صائم کو بتایا گیا کے رشتہ داروں کے ہاں انکی بیٹی کا نکاح ہے۔۔

  بلاج نے  وائٹ کاٹن کے سوٹ پہ گولڈن واسکٹ پہنی تھی اپنا پٹھانی قلہ پہن کے بلاج پہ بھی روپ آیا تھا دولہا بنے کا۔۔بلاج نے طنزیہ مسکراتے ہوئے اپنے آپکو شیشیہ میں دیکھ کے کہا۔۔

دن آیا بھی کب آیا جب دل اسکو اپنانے کے حق میں نہیں ۔۔

دروازے کی ناکک پہ ہنزہ نے اپنا ڈوپٹہ سیٹ کیا اور دروازے بجانے والے کو آنے کی۔جازت دی۔۔

دروازہ کھول کے بازل اندر آیا جو ہنزہ کو دیکھ اپنے سارے اوسان خطا کرچکاا تھا۔۔۔

لائٹ پپیچ اور سلور کلر کے انگ رکھے میں لمبے بالوں کو کرل کیے تھوڑی ہیوی جیولری پہنے ہنزہ پورے حق سے بازل کے دل پہ براجمان ہوچکی تھی ۔

جب آنے والا دو منٹ تک کچھ نہیں بولا تو ہنزہ نے پلٹ کے دیکھا اور بازل کو دیکھ کے اسے حیرت ہوئ 

۔

بازل تم دروازہ ناکک کرکے آئ ہو رئیلی۔۔۔؟؟

ہنزہ کی بات پہ بازل جو وائٹ کاٹن کے سمپل شلوار قمیض  پہ بلیک پشاوری پہنے ہنزہ کی بھی دل کی دنیا ہلا رہا تھا۔ اسکے قریب آیا اور اپنا موبائل نکال کے اسکی اور اپنی سیلفی لیتے ہوئے کہا۔۔

مجھے کسی نے کہا ہے کے جب تک لڑکی محرم نہ بن جائے اسے فاصلہ رکھو بھلے محبت نہیں عشق کرو مگر حلال طریقے سے۔۔۔

بازل کی بات پہ ہنزہ دل کھول کے مسکرائ اور اپنے ہاتھوں سے بازل کی نظر اتارتے ہوئے کہا۔۔

ہائے میں صدقے۔۔۔

بازل نے مسکراتے ہوئے ہنزہ کی ناک کھینچی اور کہا۔۔

پتہ اس وقت میرا دل چاہ رہا ہے کم از کم 10 منٹ تک میں تمہارے لبوں کو چومتا رہو۔۔

مگر اب جب تم محرم بن کے میری زندگی میں شامل ہوگی تو دس منٹ نہیں جب جب میرا دل چاہے گا میں تب تب  تمہیں چومونگا۔۔

اففف ۔۔

ہنزہ نے دل پہ ہاتھ رکھ کے گرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔۔

تو بازل نے قہقہ لگایا ۔

####

ایک خوبصورت سا حال بہزاد نے ارینج کیا تھا جسے اوریجنل وائٹ پھولوں سے سجایا گیا تھا اسٹیج کو دو حصوں میں بانٹا گیا تھا اور بیچ میں اصلی گلاب اور موتیے کے پھولوں کا پردہ تھا۔۔

حال کی شان اپنی آپ تھی اور کیوں نہ ہوتی اسے سجانے کی زمیداری بہزاد راجپوت نے جو لی تھی ۔

##########

وائٹ اور گولڈن کلر کے بہت ہی خوبصورت شرارے میں ہیوہ میک اپ کیساتھ   ہیوی جیولری پہنے ناک میں بڑی سی مغلیائ نتھ ڈالے ہاتھوں میں گولڈن کلر کی چوڑیاں پہنے ہاتھوں میں ٹکیوں کی صورت میں مہندی لگائے ریڈ کلر کے ڈوپٹہ سے گھوگھنٹ ڈالے عترت خود کو بھی  پہچاننے سے انکار کرچکی تھی۔۔

اہستہ۔اہستہ سارے مہمان کی آمد ہونا شروع ہوگئ تھی ۔۔

وہاج کی فیملی بھی اچکی تھی۔۔

صائم خاموشی سے بور ہونے والے انداز میں ایک ٹیبل۔پہ بیٹھا تھا جب اسے  ٹی پنک کلر کے شرارہ میں گھومتی صنم دیکھائے دی جو میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی اور ساتھ میں شانزے بھی سیم سیم ڈریس پہہنی ہوئ تھی ۔

صائم کا دل صنم کو دیکھ کے باغ باغ ہوگیا۔صنم کی نظر ابھی تک  صائم پہ نہیں پڑی تھی۔۔

بہزاد آج کے دن تو اپنے گارڈز چھوڑ کے آتے ۔۔

شاہجاں بیگم نے اسکے گارڈز کو دیکھ کے منہ بناتے ہوئے کہا ۔

ارے ملکہ تمہیں پتہ نہیں آج ہنگامہ آرائ لوگوں کی آمد ہے کچھ بھی وبال مچ سکتا ہے ۔

بہزاد کی بات کا مطلب سمجھ کے شاہجاں نے اسکے ہاتھ پہ ہلکا تھپڑ لگایا۔۔۔

اظہر صاحب جیسی ہی ان دونوں کے قریب آئے بہزاد وہاں سے چلا گیا۔۔

بہزاد نے ایک نظر بھی اظہر صاحب پہ نہی ڈالی تھی اور ایسا کرنے پہ اظہر صاحب کو بہزاد کی پچپن میں کہی بات یاد ائ۔۔

اظہر بھائ اگر اپنے کبھی بھی میری ملکہ کا دل دکھایا تو میں آپ سے ایسا ناراض ہونگا کے آپکی طرف دیکھوں گا بھی نہیں ۔

بلیک کلر کے سمپل شلوار قمیض پہنے اس پہ گرین انکھیں بہزاد کی شخصیت   وہاں سب کی توجہ کا مرکز بنا رہی تھی ۔۔

شانزے نے جب بہزاد کو وہاں دیکھا تو بہت مشکلوں سے صنم نے اسے جانے سے روکا تھا اور وجہ بتائ تھی بہزاد کے یہاں ہونے کی جیسے سن کے شانزے شاکڈ تھی۔۔

صنم نے اس سے کہا وہ صرف عترت آپی کا نکاح انجوئے کرے بہزاد سے وہ بات کرچکی ہے اب وہ اسے تنگ نہیں کرے گے۔

صنم نے شانزے کو تسلی دینے کیلیے یہ بات کہہ تو دی تھی مگر اسے آج خود بہت ڈر لگ رہا تھا نجانے کیوں۔۔

شاجہاں؟؟

اپنے نام کی پکار پہ جب وہ پلٹی تو سامنے نمرہ کھڑی تھی ۔

بہت کچھ انہیں یاد آیا جیسے فلحال وہ بیان نہیں کرسکتی تھی۔۔

کیسی ہو نمرہ؟

اس سوال کی نمرہ کو توقع نہیں تھی مگر وہ کیا جانے شاجہاں کے ظرف کو جو وہ بائیس سالوں سے صبر کے طور پہ دیکھارہی تھی۔

میں ٹھیک ہو۔۔

بہت بہت مبارک ہو بیٹی کا نکاح۔۔۔

خیر مبارک نمرہ۔۔

شاہجاں وہ میں۔۔نمرہ بیگم آگے کی بات کہنے سے رک گئ مگر شاجہاں سمجھ گئ تھی کے وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔۔

میری بیٹی کا نکاح ہے نمرہ میں بہت خوش ہو میں کوئ بھی ایسی بات اپنے ماضی کی دہرانا نہیں چاہتی جسے بیان کرتے ہوئے مجھے تکلیف ہو میں نے اپنا معملہ سالوں پہلے اپنے اللّٰہ پہ چھوڑ دیا تھا بیشک وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔۔

تم بھی ایک طریقے سے عترت کی ماں ہو اپنی بیٹی کو دعائیں دو خوش اور آباد رہنے کی اور یہ دعا خاص کر دینا کے اسکی قسمت اسکی ماں جیسی نہ ہو۔۔

یہ بول کے شاہجاں بیگم  نمرہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلی گئ۔۔

آج بھی نمرہ بیگم یہ سوچنے پہ مجبور تھی کے جیتا کون اظہر کو پاکے کیا وہ جیتی یہ آج  پورے وقار سے کھڑی انکے سامنے شاہجاں جیتی۔۔

نمرہ نم آنکھیں لیے پلٹی تو سامنے اظہر صاحب کھڑے تھے۔۔

بھلے انہیں نمرہ کی اصلیت معلوم ہوگئ تھی مگر انہیں اب یہ بھی معلوم تھا کے نمرہ کو اپنے کیے پہ بہت پچھتاوا ہے۔۔

کچھ وقت لگے گا نمرہ اسے بائیس سالوں کا زخم ہے اتنی آسانی سے نہیں بھرے گا ۔۔اظیر صاحب نے انکا ہاتھ پیار سے تھام کے کہا ۔

او عترت سے ملتے ہیں۔..

اظہر صاحب اور نمرہ بیگم ڈریسنگ روم میں عترت سے  ملنے چلے گئے۔۔

#####

اففف یہ میری شرٹ بولا بھی تھا صنم کو ٹائٹ ہے مگر یہ کہاں سنتی ہے ۔۔

شانزے سائیڈ میں سے اپنی شرٹ صحیح کرنے لگی تو چڑڑڑ کی آواز آئ ۔۔

شانزے کا منہ رونے والا ہوگیا۔۔

شانزے نے کسی بچے کو صنم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بلانے کا بول کے خود ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئ اور بچے کو بھی صنم کو وہی بھیجنے کو کہا۔۔

بہزاد کی نظریں شانزے پہ ہی تھی اس لیے اس نے بچے کو روک کے کسی اور کام میں لگایا اور کسی کو کال۔کرکے خود ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا ڈریسنگ روم زرا سائیڈ میں تھا اسلیے بہزاد پہ کسی کی نظریں نہیں گئ۔۔

ایک ڈریسنگ روم میں عترت اور انجم بیٹھی تھی۔۔

صنم آپی آپکو کوئ وہاں بلا رہا ہے۔۔

ایک بچے نے صنم کو بتا کے مطلوبہ جگہ پہ اشارہ کیا۔۔

بچہ بول کے چلا گیا اور صنم سمجھی شاید شانزے ہوگی کیونکہ اسے وہ دیکھائے بھی نہیں دے رہی تھی ۔

صنم جیسی ہی مطلوبہ جگہ پہ پہنچی کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ کے تیزی سے کھینچا اس سے پہلے صنم چیختی کوئ بہت مظبوط ہاتھ اسکے لبوں پہ رکھ چکا تھا۔۔

دیوار سے لگی صنم نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں  بند کرلی تھی اور صنم کو اسطرح دیکھ کے صائم کو اپنی ہنسی روکنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔

جب سامنے والے نے کچھ بولا نہیں تو صنم نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولی اور اپنے سامنے صائم کو دیکھ کے صنم کی آنکھیں حیرت سے کھل گئی تھی۔۔

ڈریسنگ روم کا دروازہ کھول کے بہزاد اندر داخل ہوا سامنے ہی شانزے ڈوپٹہ سے بے نیاز اپنی شرٹ میں پن لگانے میں مصروف تھی بہزاد نے ڈریسنگ کا ڈور لاک کیا ۔

یار صنم بولا تھا نہ تجھے کے میرے ٹائٹ ہے یہ شرٹ مگر تو۔۔۔۔

شانزے نے بولتے بولتے جیسی ہی گردن اٹھائ بہزاد کو دیکھ کے اسکے ہاتھ سے پن گر گئ ۔۔

بہزاد کو اسطرح سے ڈریسنگ روم میں دیکھ کے شانزے کے چہرے پہ گھبراہٹ ڈر بہزاد کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔

شانزے نے سائیڈ میں پڑا اپنا ڈوپٹہ فورا اوڑھا اور جیسے ہی بہزاد کے سائیڈ میں گزر کے جانے لگی۔۔بہزاد نے اسے کھینچ کے دیوار سے لگایا۔۔

بہزاد کا ایسا کرنا تھا کے شانزے کی نیلی آنکھوں میں اانسووں بھرنے لگے۔

یہ کیا کررہے ہیں آپ ؟

چھوڑے مجھے۔۔ورنہ۔۔

شانزے نے اپنی کمر پہ سے بہزاد کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔۔

ورنہ کیا شور مچاوگی اوہہ ہاں بھئ تم تو ہو بھی بہت ٹارزن ۔۔

شانزے کو لگا وہ اسکی بے بسی کا مزاق اڑا رہا ہے۔۔

 مگر شور مچا کے کیا کہوں گی کے میں بہزاد راجپوت تمہارے ساتھ اس ڈریسنگ روم میں ۔۔۔

آگے کی بات بولتے ہوئے بہزاد نے خود کو روکا مگر شانزے اچھی طرح سمجھ گئ تھی ۔

بلا جھجھک اس نے منتیں کرنے والے انداز میں بہزاد سے کہا۔

آپ پلیز مجھے جانے دے اگر کوئ آگیا تو بہت بڑا مسئلہ ہوجاے گا آپکو کوئ کچھ نہیں کہے گا مگر میری عزت خراب ہو جائے گی ۔

شانزے نے بہزاد کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑے دیے۔ 

بہزاد غور سے شانزے کو دیکھنے لگا پھر کسی کی کال آنے پہ وہ شانزے سے دور ہوا مگر پھر بھی شانزے میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ ڈریسنگ کا گیٹ کھول کے باہر جاسکے۔۔

کال سنتے ہی بہزاد نے بہت تھوڑا سا ڈریسنگ روم کا گیٹ کھول کسی سے پیکٹ لیا اور دروازہ فورا بند کردیا ۔

پیکٹ لے کر وہ شانزے کی طرف بڑھا اور پیکٹ اسے تھماتے ہوئے کہا۔

اگر عزت کی اتنی پرواہ ہے تو تھوڑا اپنے لباس پہ دیھان دے لیا کرو۔۔

اسے بدل کر باہر آجانا کیونکہ جو تم نے پہنا ہے وہ اب کسی کے سامنے پہننے کے قابل نہں۔۔

شانزے کے ہاتھ پہ پیکٹ رکھ کے بہزاد ڈریسنگ روم سے باہر جانے لگا مگر جاتے جاتے شانزے کو دروازہ لاک کرنے کا کہنا نہیں بولا ۔۔۔۔

بہزاد کی باتوں پہ شانزے شاکڈ بھی تھی اور حیران بھی اس نے پیکٹ کھولا تو اسے میں لائٹ پرپل اور لائٹ انگوری کلر کا بہت ہی حسین شرارہ تھا جیسے دیکھ کے شانزے کے لب مسکرائے تھے مگر وقتی طور  پہ یہاں تک کے اسکے اندر اس کی میچنگ کی جیولری بھی تھی ۔

شانزے نہ جب شرارہ پہنا تو شاکڈ ہوگی کیونکہ شرارے اسے پرفیکٹ آیا تھا۔۔

شانزے نے جل کر کہا۔۔

آنکھیں میں ایکسرے فٹ ہے ۔ہٹلر کھڑوس کے۔۔

شانزے جب تیار ہوکے باہر نکلی تو سب سے پہلی نظر اس پہ بہزاد کی ہی پڑی تھی۔۔

مگر وہ شانزے کو دیکھ کے نظر انداز کرچکا تھا۔۔

اففف صائم یہ تم تھے جان نکال دی تم نے میری اور ایک منٹ تم یہاں پہ کیسے؟؟

صنم سے زرا فاصلہ رکھ کے صائم نے کہا۔۔

بھی فیملی کیساتھ آیا ہو ۔۔

اچھا ماما جانتی ہیں تمہاری فیملی کو؟؟

ہاں شاید۔

صائم نے یہ کہہ کے دوبارہ صنم کو دیکھنا شروع کردیا صائم کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا جیسے دیکھ کے صنم نگاہیں جھکا چکی تھی۔۔

بہت خوبصورت لگ رہو ہو صنم آج میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوکے کہتا ہو کے میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہو ۔۔

صائم کے اظہار محبت پہ صنم کی دل کی کیفیت عجیب ہونے لگی وہ وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی مگر صائم اسکے فرار ہونے کے سارے راستہ بند کرچکا تھا۔۔

صائم نے صنم کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے اور کہا۔۔

اب تمہارے جواب کا انتظار ہے صنم ۔۔۔

مجھے نہیں پتہ ۔۔

یہ بول کے صنم نے صائم کو مسکرا کے دھکا دیا اور ڈورتی ہوئ وہاں سے چلی گئ۔۔

صائم نے مسکرا کے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور وہاں سے جانے لگا ابھی زرا سے ہی آگے بڑھا تھا کے اسکی ٹکر بہزاد سے ہوگی۔۔

آئ ایم سو سوری سر۔۔

صائم نے فوری اس سے ایکسکیوذ کرا۔۔

بہزاد نے غور سے صائم کو دیکھا تھا مگر بولا کچھ نہیں اور وہاں سے چلا گیا۔۔

صائم نے بہزاد کی پشت کو دیکھ کے کندھے آچکا ہے اور کہا۔

عجیب ہے بھئ۔۔۔

#####

بلاج لوگوں کی آمد ہوچکی تھی عترت کو بھی اسٹیج کے اس پار لا کرکے بیٹھایا گیا تھا۔ ۔۔

بلاج اور عترت کے درمیاں پھولوں کا پردہ تھا ۔

اظہر صاحب بھی بلاج سے ملے اور بابر اور فہیم صاحب بھی۔۔

مگر کسی نے بھی اظہر صاحب کو دیکھ کے کوئ غلط ریکشن نہیں دیا۔۔

یہ کیا پہن لیا تو نے شانزے کہاں سے آیا اتنا حسین شرارہ اور پہلے والے کو کیا ہوا ؟؟.صنم  کے پوچھنے پہ شانزے نے کہا۔۔

وہ پھٹ گیا تھا سائیڈ میں سے یہ میں پھر اپنی فرینڈ کا منگوایا ہے۔۔

پہلی بار شانزے صنم سے جھوٹ بول رہی تھی اسکا لہجہ اسکا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور یہ بات صنم نے غور نہیں کی کیونکہ اسکی نگاہیں مسلسل صائم۔سے ٹکرارہی تھی۔۔۔

پہلے بلاج کا نکاح ہوا پھر عترت کا ۔۔۔

نکاح ہوتے ہی شاجہاں بیگم عترت کے گلے لگ کے رونے لگی اظہر صاحب نے بھی عترت کا گلے لگایا۔۔

 وہاں سب بلاج کو مبارک باد دینے لگے۔۔

چلے بھی بلاج بھائ اب زرا یہ پردہ تو ہٹائے اپنی زوجہ محترمہ کا دیدار تو کرے۔۔

بازل کے کہنے پہ وہاں موجود سب ہی لوگ ہنسنے لگے۔۔

صنم اور شانزے بھی وہاں کھڑی مسکرا رہی تھی ہیر بھی بازل کے ساتھ کھڑی تھی اور بیتابی سے عترت کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی جو ریڈ ڈوپٹہ سے دھکا تھا۔۔

بلاج پھولوں کو پردہ ہٹا کے عترت کی طرف آیا تو سارے ہی شور مچانے لگے۔۔

سارے بڑے اسٹیج سے نیچے اتر چکے تھے۔۔

بلاج نے جیسی ہی عترت کا ڈوپٹہ پلٹا تو عترت کا روپ دیکھ کے مہبوت رہ گیا وہاں موجود سب نے ہی زور زور سے ماشاءاللہ کہا۔۔

بلاج نے آگے بڑھ کے بیٹھی عترت کا چہرہ تھاما تو عترت بلاج کی  اس حرکت پہ فورا نگاہ اٹھائ ۔

عترت کی نگاہیں اٹھتے ہی بلاج کے دل بے قابو ہوگیا ۔۔

اسی وقت صنم کے اشارے پہ بہزاد نے سانگ پلے کروایا۔۔

"آنکھ اٹھتی محبت نے پھر انگڑائ لی۔۔

دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں ۔

تیری نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا۔۔

لٹ گئے ہم تو پہلی ملاقات میں "

گانے کے بول پہ 

جہاں بہزاد نے شانزے کو دیکھا کچھ ایسا ہی حال صائم کا بھی تھا

بلاج نے جھک کے عترت کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیے سب نے زور زور سے ونس مور  کے نعرے لگائے اور جس پہ عترت تو گردن جھکا گئ  مگر بلاج نہیں اس نے دوبارہ اپنے لب اسکے ماتھے پہ رکھے۔۔

رخسانہ بیگم بلکل نغمہ بیگم کے سامنے بیٹھی  تھی مگر ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کے دو گھڑی اپنی بہن کے پاس بیٹھ جائے۔۔

وہاج نے دو تین بار بہزاد کو مخاطب کرا مگر بہزاد نے سن کے بھی ان سنا کرگیا۔۔

نمرہ بیگم کو دیکھ کے بہزاد نے بہت مشکل سے اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا۔وہ بھی اپنی ملکہ کے کہنے پر۔۔

شاہجاں سب مہمانوں کو دیکھ رہی تھی کھانے کا دور چل رہا تھا دولہا دلہن۔کا فوٹو شوٹ تھا۔۔

ادھر میم تھوڑا اور قریب سر میڈم کے شولڈر پہ ہاتھ رکھے۔۔

فوٹوگرافر کے ایسے پوز  کا بولنے پہ بلاج نے تو کوئ خاص ریکشن نہیں دیا مگر بلاج کے ہاتھ رکھتے ہی عترت کے تن بدن میں آگ لگ گئ اور اس نے کہا۔۔

ویسے تو بیوفا بیوفا کا راگ الاپتے رہتے ہیں اپپ اتنا چپک کے کیوں کھڑے ہیں منع کرے فوٹوگرافر کو کوفت ہورہی ہے مجھے۔۔۔

آپکے قریب آنے سےے۔۔

عترت نے مسکرانے کیساتھ ساتھ دانت پیس کے کہا ۔

زیادہ ہوا میں نہیں اڑنا  بلکل بھی نہیں۔۔

آئ بڑی کہی کی کوفت ہورہی ہے ۔۔

تو جب  خوشی خوشی ماتھا آگے کرا تھا میرے۔۔

جب کوفت نہیں ہورہی تھی مجھ سے اور بات سنو کہی کی لیڈی ڈائنہ نہیں ہو جو میں مرا جارہا ہو تمہارے ساتھ پکس کھیچوانے کیلے پالر والی کو سلام ہے میرا کے کسطرح ایک چڑیل کو انسان بنا دیا ۔۔

بدقسمتی سے اگر زرا سی اچھی لگ رہی ہو تو اپنے کو حسن کی ملکہ مت سمجھ لینا اصل ہو تم پچھل پیری ۔۔۔

بلاج کے دوبدو جواب پہ عترت نے گھور کے  بلاج کو دیکھا اور بلاج نے اسے اور وہی پوز فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔۔۔

دادو یہ لوگ آپکے ریلیٹیو ہیں کیا؟

صائم نے کھانا کھاتے ہوئے شاہجاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔

وہاج پانی پیتے پیتے رکا اور کہا۔۔

ہاں ریلیٹیو ہیں۔۔

آئے نہیں کبھی یہ گھر ہمارے؟؟

آئے تھے بیٹا تم گھر پہ نہیں تھے اس دن ۔

آگے کی بات رخسانہ بیگم نے پوری کی۔۔

صائم وہاج یہ تم ہو اوہہ مائ گاڈ یار۔۔۔

صائم کے پیچھے آتی آواز پہ سب ہی پلٹے مگر جب صائم نے بازل کو دیکھا تو خوش ہونے کیساتھ ساتھ شاکڈ بھی ہوا۔۔

ارے بازل بابر تم یہاں ؟

ہاں میرے کزن کا ہی نکاح ہے بلاج بھائ میری خالہ کے بیٹے ہیں۔۔

ارے یار اتنے سالوں کے بعد تم تو یونی کے بعد ایسے غائب ہوئے نہ کال نہ ملنا نہ کوئ رابطہ ۔۔

بازل نے ہلکا سا شکوہ کیا۔۔۔

یار میں لندن چلا گیا تھا پھپھو کے پاس وہاں سے آکے پھر پاپا کیساتھ بزنس میں مصروف ہوگیا۔

یہ ہیں میرے پاپا یہ دادو اور یہ میری پھپھو۔۔

صائم۔نے بازل کا تعارف اپنی فیملی سے کراتے ہوئے کہا ۔

ان لوگوں نے بھی مسکرا کے بازل سے ہیلو کیا۔۔

ارے بازل تمہیں ہنزہ بلا رہی ہے۔۔

اچانک صنم نے آکے بولا۔

صائم کی نظریں صنم کو دیکھ کے ایک دم چمکی تھی تو صنم کے لب بھی مسکرائے تھے اور آنکھیں شرم سے جھک گئ تھی۔۔

یہ عمل بازل سے نہیں چھپ سکا تھا مگر بازل خاموش ہوگیا تھا بولا کچھ نہیں اسکے لب سکڑے تھے مسکراتے ہوئے جو صائم نے نوٹ نہیں کیے۔۔

چل تو ٹچ میں رہنا صائم۔۔۔

بازل وہاں سے چلا گیا ۔۔

مگر صنم نے وہاں موجود سب سے کھانا کا پوچھا۔۔

رخسانہ بیگم نے پیار سے اسکے سر پہ۔ہاتھ پھیرا تھا ۔۔

نمرہ بیگم سے ابھی تک صنم کی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور ابھی ہوئ بھی تھی تو اسے پتہ نہیں تھا کے وہ اسکی سوتیلی ماں ہے۔۔

بازل ہنرہ کی بات سن رہا تھا جو اسے بول رہی تھی کے ندا آنٹی سے بول کے تھوڑی دیر کیلے عترت بھابھی کو اپنے ساتھ لے چلے۔۔

مگر بازل کا دھیان صائم اور صنم پہ تھا۔۔

بازل سن رہے ہو نہ میری بات تمہارا دیھان کدھر ہے۔۔

ہاں ہاں سن رہا ہو یار بس تھوڑا پریشان ہو۔۔۔

پریشان ہو مگر کیوں کیا ہوا؟؟

ہیر تمہیں وہ میرا یونی کا دوست یاد ہے صائم جسکے قصہ میں تمہیں سناتا تھا؟؟.

وہی نہ جو تمہاری یونی میں پلے بوائے مشہور تھا۔۔۔

ہاں ہاں وہی۔۔

تو کیا ہوا سے؟؟

وہ بھی اس تقریب میں آیا ہے ہیر اور۔۔۔۔۔۔

اور کیا بازل ؟؟

ہنزہ مجھے لگتا ہے اب اسکا ٹارگٹ صنم ہے۔۔۔

واٹ؟؟

بازل کیا بکواس کررہے ہو۔۔ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔

تم خود بتاتے تھے کے وہ کس ٹائپ کا۔لڑکا۔ہے تو صنم ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی وہ۔کسے اسکے ساتھ کیا پاگل ہوگئے ہو۔۔؟

ارے ہنزہ تم سمجھ نہیں رہے میری بات۔۔میں یہ کہہ رہا ہو مجھے لگتا ہے صائم نے اس بار صنم کو اپنے جال میں پھنسایا ہے اور پھر بازل نے جو کچھ دیر پہلے دیکھا وہ ہیر کو بتا دیا ہو۔۔۔

ہوسکتا ہے بازل تمہاری غلط فہمی ہو۔۔

اللّٰہ کرے ہنزہ میری غلط فہمی ہی ہو کیونکہ صنم میری بہنوں جیسی ہو اب تک صائم جتنی لڑکیوں کیساتھ بھی کھیلا ہے ان میں سے تقریبا دو تین فیصد ہی اچھی تھی باقی سب ہی صائم۔جیسی تھی مگر اس بار صائم وہاج نے جس پار ہاتھ ڈالا ہے نہ۔ہیر وہ بہت معصوم ہے۔۔

بازل نے یہ بول کے سامنے کھڑی صنم کو دیکھا جو ہنس ہنس کے شانزے سے بات کررہی تھی۔۔

######$

یار ابھی رک جا نہ تھوڑی دیر۔۔

یار صنم تجھے پتہ ہے نہ وہ ویسے ہی پاگل چل رہا ہے ابھی خاماخای میں باتیں سنائے گا اگر دیر ہوگئ۔۔

چل ٹھیک ہے پھر کل ائے گی نہ ۔۔؟؟

ہاں یار ۔۔

یہ بول کے شانزے ہال سے باہر نکلی تو مراد غصہ میں لالا پیلا گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑاتھا۔۔

شانزے تیزی سے اس تک پہنچی اس سے پہلے وہ ایکسکیوز کرتی مراد بھڑک اٹھا۔۔

کیا تماشہ کیا ہے تمہارا؟؟

میں پاگل لگ رہا ہو تمہیں پچھلے آدھے گھنٹے سے میں تمہارا ویٹ کررہا ہو کے کب میڈم باہر ائینگی۔۔

کچھ احساس ہے تمہیں شانزے اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں تمہیں ۔۔۔۔۔۔

مراد میں عیاشی نہیں۔۔

بس بلکل چپ بکواس نہیں کرنا ورنہ یہی چھوڑ کے چلا جاونگا۔۔

شانزے نے آنکھوں میں آنسوؤں بھرے اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا جو اسکی پچپن کی پسند تھی ۔۔

شانزے گاڑی میں بیٹھنے لگی جب اسکی نظر سامنے کھڑی بہزاد پہ پڑی۔۔

جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ایک عجیب سی شرمندگی نے اسے ان گھیرا۔۔

نگاہوں میں سے آنسوؤں صاف کرتی ہوئ وہ گاڑی میں بیٹھ گئ ۔

بہزاد جو کسی سے کال پہ بات کرتے کرتے باہر نکل آیا تھا کسی کے چیخنے پہ جب وہ پلٹا تو اسکی نظر مراد اور شانزے پہ پڑی مراد اسے بری طرح ڈانٹ رہا تھا ۔۔

بہزاد نے بہت غور سے یہ منظر دیکھا اور طنزیہ نگاہوں سے شانزے کو جو کسی مجرم کی طرح نگاہیں جھکا کے کھڑی تھی ۔۔

انکی گاڑی کے جاتے ہی بہزاد نے کسی کو کال ملائ۔۔کتنا ٹائم لگاے گا تمہیں؟؟.

آگے سے نجانے کیا کہاں گیا جیسے سننے کے بعد بہزاد کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئ ۔

######

مان جائے نہ آنٹی پلیز۔۔۔

ہنزہ نے تقریبا انکے گلے میں باہنیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔

ہم بھابھی کو دو گھنٹے بعد خود چھوڑ جائینگے۔۔۔

شاہجاں بیگم کی نظریں عترت پہ تھی جو مسلسل نفی میں گردن ہلا رہی تھی سب سے پیچھے بیٹھے ہونے کی وجہ سے وہ کسی کی نگاہوں میں نہیں تھی۔۔

مگر بلاج کی نگاہیں اس پہ پڑ چکی تھی۔۔۔

آنٹی میں خود چھوڑنے اجاونگا عترت کو۔۔

بلاج کے کہنے سب نے ہی ہوٹنگ کی اور شاہجاں بیگم داماد کے آگے ہار مان گئ۔۔

بلاج نے پلٹ کے عترت کی طرف دیکھا اور طنزیہ۔مسکرایا۔

عترت شرارہ سنبھالے بلاج کی گاڑی میں بیٹھ گئ اور باقی سارے اپنی اپنی گاڑیوں میں ۔۔

عترت منہ پھلائے بیٹھی تھی۔

بلاج نے اسے ایک نظر دیکھا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔

عترت خاموشی سے منہ پھلائے بیٹھی تھی ایک نظر بھی اس نے بلاج پہ نہیں ڈالی تھی۔۔

بلاج بھی گاڑی چلانے میں مصروف تھا مگر اسکی نگاہیں بھٹکی بھٹک کے عترت کے وجود سے ٹکرا رہی تھی۔۔

زین کے کیا حال چال ہیں؟؟

.بلاج نے جان بوجھ کے زین کا ذکر چھیڑا تھا اپنے اندر کی بھڑاس غصہ وہ عترت کو ایریٹیٹ کرکے نکلتا تھا۔۔

آپکو زیادہ پتہ ہوگا مجھ سے پہلے وہ آپکا دوست تھا۔۔

عترت نے آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگائے لگائے جواب دیا۔۔

میرا تو دوست تھا مگر تمہارا تو۔۔۔۔

آگے کی بات بلاج نے جان بوجھ کے ادھوری چھوڑی ۔

بلاج کی بات پہ عترت نے آنکھیں کھول کے بلاج کے دیکھا اسکی آنکھوں میں انسو جمع ہونے لگے اسکا دل چاہا بلاج کا گریبان پکڑ کے چیخ چیخ کے کہے میں بے گناہ ہو زین سے میرا کوئ تعلق نہیں مگر عترت نے اپنے آنسو واپس دھکیلے اور کہا۔۔

اگر زین میرا وہہہہہ ہے عترت نے بھی آگے جی بات جاں بوجھ کے ادھوری چھوڑی۔۔۔

تو پھر چھوڑدے مجھے ابھی اس کے لیے دے دیں طلاق  جانتے بوجھتے کیوں اپنے گلے میں بیوفا عورت کا طوق ڈال رہے ہیں۔۔

بلاج کو عترت سے ایسے جواب کی بلکل توقع نہیں تھی اس نے ایک دم گاڑی کو غصہ میں زور سے ٹرن کیا عترت کا سر اس سے پہلے ڈش بورڈ سے ٹکراتا عترت نے خود کو سنبھال لیا۔۔

عترت نے دل ہی دل میں خود کو داد دی۔۔۔

########

گاڑی گھر کے آگے روکی تو بازل اور اسکے دوستوں نے تھوڑی آتش بازی کی۔۔

بلاج گاڑی سے اتر کے اندر جانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر ایسا کرنے سے پہلے ہی۔ہنرہ تیزی سے اس تک ائ۔۔

بلاج بھائ بھابھی کو تو اپنے ساتھ لے ہم نے آپ دونوں کی ویڈیو بنانی ہے۔۔۔

اب بلاج ہنزہ کی بات نہیں ٹال سکتا تھا اس لیے مجبوری کے طور پہ اس نے عترت کی طرف کا گیٹ کھول کے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔بلاج 

عترت نے بھی اسکی طرف دیکھ کے طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ اسکی طرف ہاتھ آگے کیا۔۔

عترت کی باتوں سے عترت روکڈ اور بلاج شاکڈ ہوچکا تھا۔۔

عترت کا ہاتھ بلاج نے اپنے  ہاتھ میں ہاتھ سمجھ کے نہیں گردن سمجھ کے  دبایا تھا ایسا عترت کو لگا۔۔

عترت کا ہاتھ بلاج نے اتنی سختی سے دبایا تھا کے عترت نے اسکی تکلیف سے اپنے لبوں سے نکلنے والی چیخ بہت مشکل سے روکی تھی۔۔۔

بلاج عترت کو ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوا تو ندا بیگم نے ان دونوں کی خوب بلائے لی۔۔۔

سفیہ بیگم ہاجرہ بیگم دونوں نے اسکا استقبال اچھے سے کیا

بابر اور فہیم صاحب نے بھی اسے منہ دیکھائے دی جو اس نے بہت جھجک سے لی۔۔۔

بلاج ایک ضروری کال سننے چلا گیا ۔

ہیر نے سب سے پہلے عترت کو کھانا ۔کھلایا کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا تھا کے بھابھی نے کھانا نہیں کھایا ۔

ہیر اور بازل عترت کے آگے پیچھے تھے دونوں نے اسے اپنے طرف سے گفٹ بھی دیے۔۔

کھانا کھانے کے بعد ہنزہ عترت کے پاس ہی تھی جب عترت نے کہا۔۔

ہنزہ ایک بات پوچھو اگر مائنڈ نہ کرو تو؟؟

ارے نہیں نہیں بھابھی آپکی بات میں کیوں مائنڈ کرونگی ایکلوتی بھابھی ہیں میرے پوچھے پوچھے ۔۔

تم اور بازل ایک دوسرے سے میرا مطلب ہے کے ۔۔۔

عترت خود بھی یہ بات بولنے سے جھجک رہی تھی مگر ہیر سمجھ چکی تھی اس لیے مسکراتے ہوئے بولی۔۔

اپکا اندازہ بلکل ٹھیک ہے بھابھی ۔

وہ پاگل اس پاگل کی جان یے۔۔۔

ہنزہ کے اعتراف پہ عترت بہت خوش ہوئے تھی اور اس نے ان دونوں کے حق میں دعا کی۔۔م

ہنزہ مجھے فریش ہونا ہے۔؟؟

اچھا آئے بھابھی آپکو لے چلو۔۔۔

ہیر عترت کو روم میں لے کر آئ اور چھوڑ کے جانے لگی جب عترت نے کہا۔۔

ہنزہ یہ میرا ڈوپٹہ ہٹانا زرا۔۔۔

ڈوپٹہ سے آزاد ہوکے عترت نے خود کو نتھ سے بھی آزاد کیا اور  واش روم چلی گئ اور ہیر بھی چینج کرنے چلی گئ۔۔

عترت فریش ہوکے باہر آئ تو تھکن کے مارے بنا ڈوپٹہ اوڑھے دھرم سے بیڈ پہ گر گئ۔۔

اسی وقت ڈرسینگ روم کا دروازہ کھلا اور بلاج باہر آیا چینج کرکے۔۔

سامنے بیڈ پہ عترت کے لیٹا دیکھ بلاج نے ایک آئی برو  آچکا کے اسے دیکھا۔۔

مگر جب دروازہ کی آواز پہ عترت نے اسے دیکھا تو وہ اتنی اسپیڈ میں کھڑی ہو ئ جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔۔

مہندی سے لبریز ہاتھ دلہن کے روپ میں سجا اسکا سراپا۔۔

بنا ڈوپٹہ اسکے نشیب فراز بلاج کے ایمان کو ڈگمگا رہے تھے۔۔

بلاج بنا شرٹ کے تھا جیسے دیکھ کے عترت بہت نروس ہورہی تھی۔۔۔

عترت نے اپنا ڈوپٹہ اٹھاکے اوڑھا اور بنا بلاج کی طرف دیکھے تیزی سے دروازے سے نکلنے لگی جب بلاج نے اسکا ایک دم ہاتھ پکڑا۔۔

کہاں جارہی ہو ؟؟

آپکو اس مطلب اور میں نے کہا تھا ڈونٹ ٹچ میں عترت نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑواتے ہوئے غصہ میں کہا۔۔

بلاج نے غصہ میں اسے اپنی طرف کھینچا ایسا کرنے سے اسکے ڈوپٹہ وہی زمین پہ گرگیا اور وہ سیدھا بلاج کے چوڑے سینے سے آکے لگی۔۔

بلاج نے فورا اسے اسکی گردن سے پکڑا اور اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف خوف تھا ۔

عترت مسلسل بلاج کے سینے پہ ہاتھ رکھ اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔

تمہیں ہر جگہ ٹچ کرنے کا لائنسسس ہے اب میرے پاس اسلیے یہ ڈونٹ ٹچ  می کے بجائے ںزرا ٹچ می ٹچ می والا راگ الاپو۔۔۔

عترت نے غصہ میں اسے خود سے دور کیا اور کہا۔۔

 جاہل بیہودہ انسان۔۔۔

اور یہاں عترت ہ بیچاری سےا یک بار پھر غلطی ہوگئ۔۔

بلاج نے پھر اسے پکڑا اور دوبارہ اسکی گدی پہ ہاتھ رکھ اسے خود سے قریب کرکے کہا۔۔

کیا کہاں تم نے؟؟

وہی جو سنا اپنے۔۔

عترت کے کہنے پہ بلاج نے اسکی گردن چھوڑ کے اسکو بیڈ پہ دھکا دیا اس سے پہلے عترت کچھ سمجھتی بلاج اس پہ جھک کے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرکے اسکے لبوں کو نشانہ بنا چکا تھا۔۔۔

عترت کی آنکھیں پوری کھل گئ۔۔۔۔

مگر بلاج نے یہاں بس نہیں کی بلکہ اسکے ہاتھوں کو اور سختی سے دبا کے اسکی ٹانگوں کو اپنی ٹانگوں میں پھنسا کے وہ اب عترت کے لب کو آزاد کرچکا تھا اس سے پہلے عترت شور مچاتی بلاج نے کہا۔۔

مچاؤ شور بلاؤ سب کو اور دیکھاو کے بیوی کو ٹچ کیسے کرتے ہیں خاص کر جب جب بیوی شوہر کو بیہودہ کہے۔۔۔

آپ ہیں بیہودہ جاہل بدتمیز ۔مینرز نہیں آپ میں بلکل یہ بولتے ہوئے عترت کے آنکھیں بھیگی تھی۔۔

عترت میں کہہ رہا ہو زبان سنبھالو اپنی ۔۔

عترت اس وقت پوری کی پوری بلاج کے رحم کرم پہ تھی مگر پھر بھی  وہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے سے باز نہیں آرہی تھی۔

ہٹے میرے اوپر سے شرم آنی چاہیے آپکو پڑھ لکھ کے بھی آپ جاہل۔۔

آگے کی بات بیچاری عترت بول نہیں پائ بلاج پھر اسکا منہ اپنے لبوں سے بند کرچکا تھا۔۔

بلاج کے حدیں اب لبوں سے بڑھ کر گردن تک اچکی تھی عترت اس وقت بے بسی کی تصویر بنی ہوئ تھی کہی سے بھی وہ خود کو بلاج سے چھڑوا نہیں پارہی تھی۔۔

بلاج نے اسکی گردن پہ سرخ نشان  چھوڑا تھا جیسے دیتے   وقت بلاج کے انداز میں اتنی شدت تھی کے عترت کے آنسوؤں نکلنے لگے ۔

بلاج نے جب اسکی گردن کو آزاد کیا تو عترت کی آنکھیں بند تھی مگر اسکی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔۔

بلاج نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اسکے جسم۔کو آزاد کردیا۔۔

کھڑا ہوکر بلاج نے کہا۔۔

آئندہ میرے ساتھ تمیز سے بات کرنا ورنہ اس زیادہ دردناک انجام کیلے تیار رہنا۔۔۔

بلاج کی وارننگ پہ عترت خاموش رہی ۔۔

بلاج اسے اسی وقت بنا کسی سے ملائے اسکے گھر چھوڑ ایا۔۔

کیا؟

تم سچ کہہ رہی ہو؟

ہیر کو لگا اس نے کچھ غلط سنا۔۔۔

ہاں ہیر ابھی ابھی مجھے پتہ چلا ہے کے کل روبرٹ اور اسکے دوستوں نے زویان پہ حملہ کردیا تھا اکیلا دیکھ کے جب وہ ائیرپورٹ سے واپس آرہا تھا۔۔

سدرہ کی بات سن کے ہیر کو نجانے کیوں ہول اٹھنے لگے ۔۔

ہیر اس نے تمہارے لیے روبرٹ اور اسکے دوستوں سے پنگا لیا تھا اب دیکھو اس پنگا لینا کتنا مہنگا پڑ گیا۔۔

سدرہ کی باتوں سے ہیر کافی پریشان ہوچکی تھی شروع میں اسے زویان بہت برا لگتا تھا مگر جسطرح اس نے اسے۔ دو دفعہ پروٹیکٹ کیا تھا اس کے دل میں ایک سوفٹ کارنر زویان کیلیے بننا شروع ہوگیا تھا ۔

پتہ چلا کچھ بہزاد؟

شاجہاں بیگم نے بہزاد کو کال کرکے کسی کا پوچھا۔۔

کل ہی انہوں نے نکاح سے واپسی پہ بہزاد کو کسی کی تلاش کرنے کو کہا تھا۔

 اب ملکہ کچھ بولے اور بہزاد نہ کرے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔

ہاں ہاں ملکہ کنفرم ایڈریس ہے اور مزے کی بات یہ ہے اسی شہر میں ہے اب بولو کب چلنا ؟؟

شکر ہے اللّٰہ کا بہزاد وہ مل گئ۔۔

شکریہ شکریہ بہت بہزاد ۔۔

اب بتاؤ ملکہ میں ساتھ چلو یہ ایڈریس سینڈ کردو چلی جاوگی۔۔۔؟؟

ہاں تم ایڈریس سینڈ کرو میں اور ندا چلے جائینگے۔۔

چلو ٹھیک ہے ملکہ ۔۔۔

بہزاد سے بات کرنے کے بعد شاہجاں بیگم نے ندا بیگم کو کال کرکے فورا ریڈی ہونے کو کہا۔۔

ندا بیگم کو جب یہ پتہ چلا کے شاہجاں انہیں لے کر کہاں جارہی ہے تو وہ اب بیچینی سے انکا انتظار کرنے لگی۔

#######

کمر پہ کچھ چھبنے کی وجہ سے بلاج کی نیند ڈسٹرب ہوئ۔

بلاج نے کمر کے نیچے ہاتھ ڈال کے مطلوبہ چیز باہر نکالی تو وہ کان کا جھمکا تھا کچھ یاد پہ بلاج ججھٹکے سے اٹھ بیٹھا کل رات جو اس نے عترت کے رویہ کی وجہ سے جو اسکے ساتھ رویہ رکھا تھا زرا بھی افسوس نہیں تھا بلاج  کو اپنے رویہ پہ زرا بھی بچھتاوا نہیں تھا۔۔

بلاج نے موبائل سے اس جھمکے کی پک لی اور ایک وائس  کری۔۔

کل رات کا ٹریلر تو تمہیں اچھے سے یاد ہوگا اور یہ بھی یاد ہوگا کے میں نے ایسا کیوں کیا لہزا یہ مت سمجھنا نے وہ پرانا والا بلاج ہو جو تمہارے ایک آنسوؤں گرنے پہ۔ہریشان ہوجاتا تھا یہ جو بلاج ہے یہ تمہاری آنکھوں میں صرف آنسوؤں دیکھنا چاہتا ہے آج کے بعد مجھ سے تہزیب اور تمیز میں رہ کر بات کرنا اپنی اکڑ اپنے گھر چھوڑ کے آنا عترت بیبی۔۔

یہ وائس بلاج نے عترت کے نمبر پہ بھیج دی اور ساتھ میں اس جھمکے کی پک بھی ۔۔

بلاج نے دیکھا کے وائس سین ہوچکی ہے اور پک بھی مگر کوئ ریپلائے نہیں آیا عترت مسلسل ان۔لائن۔شو ہورہی تھی مگر اس نے بلاج کو جواب نہیں دیا۔۔

اچھا ہے ڈر کے رہے مجھ سے۔۔

بلاج نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا اور موبائل سائیڈ میں پھینک دیا۔۔

ادھر عترت وائس سن کے صرف اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کررہی تھی اسے پتہ تھا کے بلاج اپنی جگہ صحیح ہے بھلے اس پہ غصہ ہے مگر محبت وہ اس سے آج بھی کرتا ہے مگر آج جب عترت نے اپنے گلے پہ ریڈ نشان دیکھا بلاج کے رات والے رویہ سوچ کے وہ پھوٹ پھوٹ کے رودی اور اس نے خود سے ایک فیصلہ کیا۔۔

ارے لائبہ دیکھو کون ہے؟دروازے پہ۔۔

خوشبو آپ دیکھو میں زرا سالن بھون لو۔۔

خوشبو جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نماز پڑھ کر لیٹی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی دروازہ کھولنے چلی گئ

خوشبو نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے والے نے کچھ دیر اسے دیکھا اور گھومتا ہوا تھپڑ اسکے گال پہ مارا۔۔

کچھ دیر کیلے خوشبو کا لگا اسے دن میں تارے دیکھنے لگے ۔۔

######

تمہارا دماغ خراب ہے مراد میں ایسا کچھ نہیں کہونگی  بھائ صاحب کو۔۔۔

نائلہ بیگم نے غصہ میں مراد کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

ماما اگر آپ نہیں بول سکتی تو میں بول دونگا ۔۔

مراد تمہاری ہی ضد پہ میں نے شانزے کا ہاتھ مانگا تھا بھائ صاحب سے اور اب تم شادی سے ایک مہینہ پہلے بول رہے ہو کے میں یہ رشتہ ختم کردو۔۔

ہاں میں ہی کہہ رہا ہو کے اب مجھے شانزے سے شادی نہیں کرنی۔۔

کیوں نہیں کرنی کیا وجہ ہے؟

نائلہ بیگم کا پارہ کافی ہائ ہوچکا تھا مگر پھر  بھی انہوں نے اپنا لہجہ بہت دھیما رکھا تھا ۔

بس ابھی آپکو میں وجہ نہیں بتا سکتا مگر بہت جلد میں آپکو وجہ بتا دونگا۔۔

مراد ابھی اسی وقت میرے سامنے سے دفعہ ہوجاو میری بہو خالی شانزے ہی بنے گی۔

یہ آپکا آخری فیصلہ ہے؟؟

مراد کے پوچھنے پہ نائلہ بیگم رخ موڑ گئ اور مراد کو اپنا جواب مل گیا تھا۔۔

خوشبو شاہجاں کا تھپڑ کہاں کے دو منٹ کیلے سن۔ہوچکی تھی۔۔

شاہجاں تو؟؟

ہاں میں ۔۔

ارے بھئ راستے میں سے ہٹو تم دونوں مجھے اندر جانے دو بہت گرمی ہے باہر۔۔

یہ بول کے ندا بیگم نے ان دونوں کو سائیڈ میں کیا اور اندر بڑھ گئ۔۔

لائبہ بھی ان دونوں کو جانتی تھی اسلیے ان لوگوں کو دیکھ کے خوش بھی تھی اور شاکڈ بھی۔۔

اب اندر دفعان ہوگی یہ مجھے یہی کھڑا رکھنا ہے دھوپ میں۔۔۔

شاہجاں بیگم کے بولنے پہ خوشبو بیگم جو ابھی تک سن سی کی کیفیت میں تھی گال پہ ہاتھ رکھ کے سائیڈ میں ہوئ۔۔

خوشبو دروازہ بند کرکے اندر آئ اور تیزی سے شاہجاں کے گلے لگ کے بلک پڑی۔۔

خوشبو کے اس عمل سے شاہجاں کے بھی آنسو جاری ہوچکی تھے ندا کی بھی آنکھیں بھیگنے لگی تھی۔۔

کالج کے زمانے کی دوستیں تھی ایک دوسرے میں جان بسستی تھی ان لوگوں کی۔

لائبہ بہت غور سے شاہجاں ندا اور خوشبو کو روتے دیکھ رہی تھی جانتی تھی کے اب ان دونوں کے آنے کے بعد خوشبو کا ہجر تنہائ ختم ہو جائے گا۔۔

ارے لائبہ بھی پہلے کھانا لگاؤ بہت بھوک لگی ہے ۔

ندا کے بولنے پہ لائبہ نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائ۔۔

ارے بھئ بس بھی کردو یہ میلو ڈرامہ تم دونوں زیادہ لمبا ہوگیا ہے یہ رونے دھونے کا سین۔۔

ندا کے بولنے پہ وہ دونوں مسکرکے الگ ہوئ اور اب خوشبو ندا کے گلے لگ گئ۔۔مگر ندا نے گلے لگتے ہی کہا۔۔

سوچنا بھی نہیں کے بھی روئونگی۔۔

ندا کے اسطرح بولنے پہ وہ تینوں مسکرانے لگی۔۔

#######

تمہارا دماغ خراب ہے ہیر تم زویان کے گھر جاؤ گی اسکی عیادت کرنے۔۔سدرہ نے کافی غصہ میں یہ بات دوہرائ ہیر کے سامنے۔۔

سدرہ مجھے اسکے کلاس میٹ سے پتہ چلا۔ہے فریکچر آئے ہیں اسکے۔۔۔

تو تمہیں اتنی ہمدردی کیوں ہورہی ہے اس سے؟؟.

سدرہ کی ٹون اب تک ویسی تھی۔۔

ہمدردی کی بات نہیں ہے سدرہ اسکی یہ حالت میری وجہ سے ہوئ ہے نہ وہ میرے لیے اسٹینڈ لیتا اور نہ اسکا یہ حال ہوتا۔۔

ہیر کی بات کہی نہ کہی سدرہ کو بھی ٹھیک لگی۔۔

مگر ہیر تم جاوگی کیسے ؟؟

اگلے ایک ہفتہ تک جو لیکچرز ہیں وہ بہت امپورٹڈ ہے میں تو ہرگز ایک بھی لیکچر بنک نہیں کرنے والی۔

ہاں تو میں چلی جاتی ہو اکیلے تو جو لیکچر نوٹ کرے گی لے لونگی تجھ سے۔۔۔

ہیر کی بات پہ سدرہ نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا ۔۔

ابھی تک اس ہاسٹل سے ہم لوگ باہر نہیں نکلے تم اکیلے کیسے زویان کے گھر جاوگی ہیر ؟؟

میں چلی جاؤنگی جاہل نہی ہو پڑھی لکھی ہو راستہ پہ سائن بورڈ ہوتے ہیں ۔۔جو جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اسکے کلاس میٹ سے  اڈریس لے لیا ہے میں نے زویان کا

افف اب اگر تم نے جانے کی ٹھان ہی لی ہے تو پھر مل او اپنے زخمی ہمدرد سے۔۔

سدرہ کے منہ بنا کے کہنے پہ ہیر نے گھور کے اسے دیکھا۔۔

#######

مراد اب تم بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟

 آنٹی تو مان نہیں رہی۔۔۔

میں نے سوچ لیا ہے جبین میں تم سے اتنی محبت کرنے لگا ہو سوچ بھی نہیں سکتا تم سے الگ رہنے کا۔۔

شانزے سے بھی تو تم محبت کرتے تھے؟

او جبین کتنا طعنہ ماروگی اس بات کا بولا تو ہے کے وقتی اٹریکشن تھی اسکے ساتھ مگر جب سے تمہیں دیکھا تم سے بات کی تمہارے ساتھ وقت گزارا یقین جانو ہر پل صرف تمہارے بارے ۔ہں سوچتا ہو جبین ۔۔ 

اچھا اچھا اب یہ بتاؤ شانزے سے کیسے جان چھڑواوگے؟؟

وہ میں نے سوچ لیا ہے مگر مجھے آج تم سے ایک شکایت یے؟

مراد نے دنیا بھر کا پیار اپنے چہرے پہ سجائے جبین کا ہاتھ تھام کے کہا۔۔۔

بولو کیا شکوہ ہے مجھ سے ؟

جبین نے بہت مہارت سے اپنے ہاتھ اس سے چھڑواتے ہوئے کہا۔۔

تم شہباز کیساتھ اتنی فرینک ہوکے بات نہیں کیا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔

دیکھو مراد میں اس فرم کی باس ہو شہباز میرا مینجر ہے ہزاروں کام ہوتے ہیں مجھ سے اور بلا وجہ میں کسی سے روڈلی بات نہیں کرسکتی میرا اپنا معیار ہے۔

مراد یہ بات یاد رکھنا مجھے پابندیاں پسند نہیں ہے۔۔

جبین کے دو ٹوک جواب پہ مراد ایک دم خاموش ہوگیا۔۔

############

کیا کہا کون آیا یے؟؟

زویان نے میری (میڈ)سے دوبارہ پوچھا۔۔

زویان سن کوئ ہیر نام کی گرل آئ ہے ۔۔

فورا آپ اسے اوپر بھیجے میرے کمرے میں اور دوسری کوئ بات نہیں کرنا اس سے۔۔۔

زویان کے کہنے پہ میری نے ہاں میں گردن ہلائ

دس منٹ بعد ہیر زویان کے کمرے میں تھی اور زویان کی حالت دیکھ کے مسلسل اسکی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے اور یہ بات خود بھی ہیر کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کے وہ رو کیوں رہی ہے۔۔۔

آئ ایم سو سوری میری وجہ سے آپکے ساتھ یہ سب ہوگیا۔۔

ہیر جب سے آپ آئ ہیں مجھے دیکھ کے یا تو روئ جارہی ہیں یہ پھر یہ جملا بولے جارہی ہیں  ۔

اتنا بیزار تو میں اس بیڈ پر لیٹے لیٹے نہیں ہوا جتنا آپکو روتا دیکھ کے ہوچکا ہو مجھے روتی ہوئی لڑکیاں نہیں پسند بلکل بھی زویان نے کافی سڑا ہوا منہ بنا کے یہ بات کہی اور زویان کی بات سن کے ہیر کی لب مسکرا اٹھے جیسے دیکھ کے زویان دو پل کیلے ساکن رہ گیا تھا ۔۔

ہیر ایک بات کہو آپ سے اگر مائنڈ نہ کرے آپ تو؟؟

بولے میں مائینڈ نہیں کرونگی..

ہیر کے بولنے پہ زویان کی ہمت بندھی اور اس نے کہا۔۔

ہیر آپکی اسمائل بہت خوبصورت ہے ۔۔۔

زویان کے اسطرح کہنے پہ ہیر کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھر گئے تھے جو زویان کو کافی اچھے لگے۔۔

دونوں ہی خاموش تھے دونوں کو ہی سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیا بات کرے۔۔

جب زویان نے ہیر سے کہا۔۔

ہیر اگر آپ مائنڈ نہ کرے تو میرے بیک پہ رکھا پلو آپ صحیح کرسکتی ہیں یہ پھر نیچے سے میری کو بلا دے میرے بیک میں پین ہورہا ہے۔۔۔

نہیں اٹس اوکے میں کردیتی ہو۔

ہیر  زرا سا جھکی تو زویان کے چہرہ اسکے چہرے کے بلکل قریب ہوگیا۔۔

دونوں کی نظریں ملی ہیر کے پاس سےا ٹھنے والی Diva پرفیوم کی خوشبو زویان کو مدہوش سا کرنے لگی۔۔

ہیر نے فورا گھبرا کے اپنی نظروں کا زاویہ  بدلہ اور تکیہ صحیح کرکے فورا جگہ پہ بیٹھ گئ۔۔

زویان کے ہاتھ پہ فریکچر تھا اور گردن کی ہڈی پہ چوٹ تھی چہرے پہ بھی ہلکی ہلکی کھروچ تھی۔۔

اچھا اب میں چلتی ہو آپ کب آئینگے یونی ؟

ہیر کے جواب پہ زویان مسکرایا اور کہا۔۔

کیوں مس کررہی ہیں مجھے اپ؟؟

زویان کے سوال پہ ہیر مسکرائے اور کہا۔۔

میں چلتی ہو کافی دیر ہوگئ۔۔۔

########

خوشبو کی آپ بیتی سن کے شاہجاں اور ندا دونوں ہی شاکڈ تھے۔۔۔

شہاجاں کی تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کے وہ خوشبو کو تسلی دے یہ اس سے نظریں چرائے۔۔

جبکہ ندا کی نگاہیں مسلسل شاہجاں پہ تھی اور وہ اشاروں اشاروں میں بہت کچھ شاہجاں کو سمجھا چکی تھی۔۔۔

بہت مشکلوں سے لائبہ اور خوشبو عترت کی شادی میں چلنے کیلیے مانے تھے۔۔

دونوں ہی اپنی اپنی پیکنگ کرنے میں مصروف تھے جب موقع دیکھ کے ندا نے شاہجاں سے کہا۔۔

شاہجاں تمہیں اندازاہ ہے تم نے کس دبی چنگاری  کو ہوا دی ہے۔۔

ہاں ندا مجھے اندازاہ ہے اب یہ تو جل کے راکھ ہو جائے سب کچھ کسی چیز کا نام ونشان نہ رہے یہ پھر  جو ہو وہ خوشبو کے حق میں بہتر ہو۔۔۔۔

یہ کہانی اسی طرح اپنے انجام کو پہنچے گی ندا جو قصور وار ہے سر عام اب اسے سزا دیجائے گی۔۔

######

خوشبو اور لائبہ شاجہاں بیگم کے گھر پہنچ چکے تھے ہر طرف پیلے پھولوں کے نظارے تھے آج عترت کی مایوں تھی۔۔

صنم اور عترت خوشبو سے مل کے بہت خوش ہوئ تھی خوشبو کو بھی یہ دونوں ہیر جیسے لگی جبکہ ہیر کی تصویر دیکھ کے شاہجاں نے کہا تھا ۔

خوشبو اگر میرا کوئ بیٹا ہوتا تو ہیر میری ہوتی۔۔

سب ہی شام کے فنکشن کیلیے تیار ہورہے تھے گھر کے لان۔میں ہی چھوٹی سے مایوں کی تقریب رکھی گئ تھی جسمیں صرف خاندان والے شامل تھے۔۔

بہزاد بھی خوشبو سے مل چکا تھا مگر جب اسے خوشبو کی آب بیتی شاجہاں نے سنائ تو پہلی بار بہزاد راجپوٹ گھبرایا تھا اور اس نے شاہجاں سے وہی بات کہی جو ندا بیگم نے کہی ۔۔۔

ملکہ اس آگ کو ہوا دینا کا انجام تمہیں پتہ ہے؟

ہاں بہزاد مگر اب اور خوشبو یہ سزا نہیں بھگتے گی جو 20 سال سے وہ جھیل رہی ہے وہ بے قصور ہے بہزاد اسکو بھی جینے کا حق ہے ۔

شاجہاں کے اس جواب پہ بہزاد پہلی بار لاجواب ہوا تھا۔۔

آج اتنے سالوں بعد خوشبو تیار ہوئ تھی 42 سالوں نے اسکے بال ہلکے ہلکے سفید ضرور کرے تھے مگر آج بھی پہلے کی طرح انکے چہرے پہ  معصومیت اور بھول پن  تھا۔۔

مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی تھی ندا لوگوں کی فیملی بھی اچکی تھی سب ہی رسم کرنے میں مصروف تھے ۔۔

جب خوشبو  کے نمبر ہیر کی وڈیو کال آنے لگی جیسی اٹینڈ کرنے وہ لان کے پچھلے حصہ میں چلی گئ۔۔

آنی آپکو اندازہ نہیں آپ کتنی حسین لگ رہے ہیں اس یلو ڈریس میں ۔۔

ہیر کے بولنے پہ خوشبو شرمانے لگی۔۔

بس کردو ہیر اب اتنی بھی اچھی نہیں لگ رہی میں۔۔

ارے آنی ہماری نظروں سے دیکھے آپ ۔۔

اچھا مجھے سب کی پک بھیجنی ہے اپنے۔۔۔

ہاں ہاں میری جان اب میں اندر جارہی ہو لڑکے والے اچکے ہیںں۔

لائن کاٹ کے خوشبو بیگم اندر جانے لگی جب کسی سے بری طرح تکرائ۔۔

آئ ایم سو سوری میں نے اپکو۔۔۔۔۔

اخود سے ٹکرانے والے شخص کو دیکھ کے خوشبو کے باقی کے لفظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔بی یقینی سے کیفیت میں اسکی آنکھیں ضروت سے زیادہ کھل گئ۔۔

خوشبو نے اپنی چیخ روکنے کیلئے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا اور الٹے قدم اٹھا کے جیسی ہی چلی اپنے پیچھے رکھی ٹیبل پہ رکھے کانچ کے ڈیکوریشن سے برح طرح ٹکرائ۔۔

سارے کانچ کے برتن دھرام سے نیچے گرے۔۔

اتنے شور پہ سب ہی خوشبو کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔

خوشبو بیگم جنتا تیز اس انسان کے سامنے سے  بھاگ سکتی تھی بھاگ کے گھر کے اندر داخل ہوئ۔۔

ندا شاجہاں بہزاد تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔۔

جبکہ وہاج صاحب کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کے ابھی جس کو انہوں نے تھوڑی دیر پہلے دیکھا جو ان سے ٹکرائی تھی وہ خواب تھا یہ حقیقت ۔۔

وہاج صاحب نے فورا کرسی کا سہارا لیا اور دھیرے سے کہا۔۔

میری خوشبو۔۔۔۔۔۔

خوشبو کے اسطرح بھاگنے پہ وہاں موجود ہر شخص حیران تھا۔۔

عترت جو مایوں کے ڈریس میں ابٹن لگائے بیٹھی تھی ایک دم پریشان ہوگئ۔۔

صنم اور ہنزہ نے انکے پیچھے جانے کی کوشش کری تو ندا بیگم نے انہیں روک دیا۔۔

وہاج ابھی تک اسی جگہ اس پوزیشن میں کھڑی تھے انہیں لگا انہوں نے کوئ خواب دیکھا جیسے وہ 20 سالوں سے ڈھونڈ رہے تھے جو انکی پہلی بیوی پہلی محبت کا درجہ رکھتی تھی ہ اچانک 20 سالوں بعد سامنے آجائیں گی ایسا تو انہوں نے سوچا ہی تھا۔۔

وہاج کو ایک دم نجانے کیا ہوا کے وہ بھی اسی سمت بھاگنے لگے جہاں خوشبو بھاگی تھی مگر درمیان میں اچانک شاہجاں اگئ۔۔

شہاجاں وہ خوشبو ہے وہی میری پہلی بیوی ہے شہاجاں میں نے تمہیں بتایا تھا نہ میری پہلی محبت یہ یہی ہے یہ بولتے ہوئے وہاج صاحب شہاجاں بیگم کو چھوٹے بچے معلوم ہورہے تھے جو برسوں پرانا کھویا کھولنا  اچانک ملنے پہ خوش ہورہا ہو۔۔

وہاج صاحب جیسے ہی شاہجاں کو سائیڈ میں کرکے خوشبو کے پیچھے جانے لگے تب اچانک شاجہاں نے انکا ہاتھ پکڑ لیا۔

کہاں جارہے ہو؟؟

اندر شاہجاں۔۔۔

خوشبو کے پاس بیوی ہے میری وہ۔۔۔

وہاج اس وقت وہ میری مہمان ہے میں کوئ تماشہ نہیں چاہتی عزت اسی میں ہے کے تم ابھی اسی وقت گھر چلے جاؤ اس مسئلے میں ہم صبح بات کرینگے میری بچی کی خوشی کا معملہ ہے۔۔۔

شاجہاں کے لہجہ میں ایسا کچھ تھا کے وہاج کے قدم رک گئے اظہر صاحب بھی وہاں بت بنے کھڑے تھے انہیں اندازہ نہیں تھا کے ایسا کچھ ہوگا ۔۔

وہ تو رخسانہ بیگم ،صائم ،اور نمرہ بیگم آج آئ نہیں ورنہ تماشہ آج دوسرا ہوتا۔۔

نہیں میں ملے بغیر نہیں جاؤنگا اس سے بیوی ہے میری وہ۔

وہاج صاحب نے شاہجاں سے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا ۔

20 سال بعد یاد آیا بیوی ہے تمہاری اس بیوی کو تمہاری دوسری بیوی کا بیٹے کا پتہ ہے ۔۔۔؟؟؟

شاجہاں کی بات پر وہاج کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرف وہی رکھی کرسی پہ بیٹھ گئے آنسوؤں تھے جو انکی آنکھوں سے مسلسل بہہے جارہے تھے۔  

ایک دم  وہ اٹھے اور محفل سے چلے گئے۔۔

شاہجاں نے ندا کو سب کچھ سنبھالنے کا اشارہ کیا اور اندر بڑھ گئ۔۔۔

خوشبو روتے جارہی تھی اورا پنا سامان پیک کررہی تھی لائبہ خالی بت بنی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے کیسے روکے خوشبو کو۔۔

کہاں جارہی ہو؟ خوشبو پاگل مت بنو۔۔

تمہیں پتہ تھا کہ وہاج کون ہے ؟

خوشبو نے  روتے روتے پوچھا۔۔

ہاں مگر جب جب تم نے کل مجھے اپنا سب کچھ بتایا میں تمہیں اسی لیے یہاں لے کر آئ تھی خوشبو کے تم قصور وار نہیں ہو جو دنیا سے چھپتی پھر رہی ہو کوئ گناہ نہیں نکاح کیا تھا وہ بھی سب کی موجودگی میں خالو نمرہ سب شامل تھے تو پھر اس طرح منہ چھپانے کا فائدہ۔۔

قصور وار جو ہے وہ اب دنیا کو جواب دے کے اگر تم بیوی ہو اسکی تو اتنے سالوں سے کہاں تھی؟؟.

ادھر دیکھو میری طرف۔۔

شہاجاں نے خوشبو کا چہرہ تھام کے اسکے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

بہت کاٹ لی تم نے محبت کرنے کی سزا خوشبو۔۔

اب بس دنیا کو فیس کرو ایسے گھوموں سب کے سامنے کے کوئ تم پہ انگلی نہ اٹھا سکے۔۔

آج وہاج آیا ہے برات میں سب آئینگے تم یہاں اپنی بھانجی عترت کیلیے آئ ہو اور ادھر دیکھو میری طرف اب تمہیں وہاج سے حساب لینا ہے اپنی ہجر تنہائ کا بھاگنا نہیں ہے اس سے میں ندا میرے گھر کا ایک ایک فرد تمہارے ساتھ ہیں ۔۔۔بہزاد کو تم جانتی ہونہ کتنا پاگل ہے پوچھنے نہیں دے گا تم تک کسی کو بھی ۔۔

کب تک بھاگو گی خوشبو تم تو ہم دونوں سے ذیادہ بہادر تھی ۔۔۔

شاہجاں مجھ سے نہیں ہوگا۔۔

کوشش کروں خوشبو ایسے شخص کے ساتھ کا کیا فائدہ جو 20 سال تک تم سے دور رہا۔۔۔

مگر میں آج بھی محبت کرتی ہو ان سے شاجہاں۔۔۔

جانتی ہو اسی لیے کہہ رہی ہو کے محبت فرض کے آگے کچھ نہیں ہیر کا سوچو خوشبو جانتی ہونہ اسے جب پتہ چلے گا سب کچھ تو پھر اسی لیے اسکے آنے سے پہلے پہلے یہ سارا قصہ ختم کردو۔۔۔

کیسا قصہ شاجہاں جس پہ انتظار کی دھول جم چکی ہے۔۔

تو پھر جب تم وہاج کی یادوں کو اپنے دل ودماغ سے خرچ کر نکل چکی ہو تو پھر اسطرح بھاگنا کے کیا مقصد ہے؟؟

شاہجاں مین۔۔مج ںھے۔۔ آگے کی بات بولتے بولتے خوشبو کی ہچکی بندھ گئ۔۔

شاہجاں نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا اور اسکے آنسوؤں پونچھتے ہوئے کہا۔۔

ہم اس بارے میں کل بات کرینگے ابھی تم آرام کرو ۔۔

شاہجاں نے اسے آرام کا کہاں اورا لائبہ کو لے کر باہر اگئ۔۔

مگر خوشبو اسکے آنسوؤں ایک بار پھر تیزی سے بہنے لگے۔۔

بیڈ پر لیٹتے ہی ایک بار پھر وہاج کا چہرہ اسکے سامنے آیا مگر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی آنکھیں بند کری تو ماضی نے بند آنکھوں پہ دستک دے دی۔۔

#######

واسق صاحب آپکے کچھ مہمان آئے ہیں بیٹھک میں بیٹھے ہیں۔۔۔۔

منشی جی نہ واسق صاحب سے کہا۔۔

میرے مہمان کون آیا ہے منشی ؟؟

پتہ نہیں صاحب کہہ رہے ہیں شہر سے آئے ہیں۔۔

شہر سے ؟؟

واسق صاحب کچھ سوچتے ہوئے بیٹھک میں گئے اور وہاں بلال صاحب کو دیکھ وہ ایک دم خوشی سے چیخ پڑے۔۔

ارے بلال تو یو اچانک ۔۔؟؟

واسق صاحب نے بلال صاحب کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

دیکھ لے تیری یاد آئ تو اگیا مگر تجھے تو اتنی بھی فرصت نہیں۔۔

ارے یار تو جانتا ہے تیری بھابھی کے جانے کے بعد میرے پاس اب ٹائم کہا۔۔

ارے نمرہ بیٹی بھی آئ ہے۔۔

اسلام وعلیکم انکل۔۔۔

نمرہ نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔

وعلیکم اسلام جیتی رہو۔۔

ارے بلال بھابھی کو نہیں لایا۔۔

یار اصل میں  وہ اپنی بہن کے پاس ہیں انکی طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں نمرہ اور بلاج کی یونی کی چھٹیاں تھی تو میں نے سوچا ان لوگوں کو تجھ سے ملا لاو۔۔

ارے یہ تو تونے بلال بہت اچھا کیا مگر یہ وہاج کہا ہے؟؟

ارے باہر ہے اسکی کوئ کال آگئ تھی مگر تو یہ بتا یہ حویلی کو اتنا سجایا ہوا ہے کہی خوشبو بیٹی کی شادی تو نہیں کررہا ۔۔؟؟

بلال صاحب کی بات پہ واسق صاحب نے قہقہ لگایا اور کہا۔۔

ارے نہیں نہیں خوشبو تو ابھی پڑھ رہی ہے اصل میں اسکی پچپن کی دوست کی شادی ہے یہی پاس میں ہی رہتی ہو اب اسکا گھر چھوٹا پڑ رہا تھا باراتیوں کیلے تو بس اس نے فیصلہ کرلیا کے اسے اپنے گھر سے رخصت کرے گی۔۔۔

اچھا اچھا ۔۔۔

واسق صاحب کے ساتھ بلال اور نمرہ اندر چلے گئے تھے ۔

ارے یار بول تو رہا ہو کے اجاونگا تین چار دن میں بابا کی خواہش پہ آیا ہو وہاج جھنجھلا کے اپنے دوست سے بات کررہا تھا وہ سمجھا تھا اسکے بابا اسے ویکیشن پہ کہی اچھی جگہ لے کر جائینگے مگر جب انکی گاڑی گاؤن میں اینٹر ہوئ تو وہاج کا۔اچھا خاصا منہ۔بن گیا تھا

ارے خوشبو بیبی ارام سے۔۔

کسی کی اتنی تیز آواز پہ وہاج کال کٹ کرکے جیسی ہی پلٹا کوئ اسے لے کر دھرم سے نیچے گرااا۔

وہاج کا سر بر طرح زمین پہ لگا ۔۔

مگر سر سے زیادہ اسے اپنے سینے پہ زور محسوس ہوا۔۔

وہاج نے جیسی گردن نیچے کرکے دیکھا تو کوئ چہرہ دیکھا اسے نروس سا آنکھیں بند کیا ہوا اسکی شرٹ کو مظبوطی سے تھاما ہوا۔۔

خوشبو جو لان میں پانی ڈال رہی تھی اچانک پانی آنا بند ہوگیا وہی چیک کرنے وہ بیچارے نل کے پاس جارہی تھی جب اچانک اسکا پاوں پائپ میں  اٹکا اس نے خود کو  سنبھلنے کے چکر بلاج کا سہارا لیا تھا مگر وہ خود تو گری گری وہاج کو بھی  لےکے گری ۔

وہاج نے ایک دم جھٹکے سے اسے اپنے اوپر سے ہٹایا اور کھڑا ہوا ۔

خوشبو نے جیسی ہی اس سے ایکسکیوز کرنا چاہا اس نے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا۔۔

"جاہل ان پڑھ"

تیزی سے وہاں سے اندر چلا گیا۔۔

دوپہر کے کھانے پہ سب ٹیبل پہ بیٹھے اور باتوں میں مصروف تھے جب اچانک سلام کی آواز پہ سب سلام کرنے والے پر متوجہ ہوئے۔۔۔

ارے ارے آو او بیٹا یہ بلال انکل ہیں یہ نمرہ اور یہ ہیں وہاج بلال انکل کا بیٹا۔۔

اور بلال تم خوشبو کا پوچھ رہے تھے یہ ہے میری بیٹی خوشبو۔۔۔

کیسے ہیں انکل اپ؟

میں ٹھیک ہو بیٹا او ہمیں جوائن کرو کھانے پہ ۔۔

جی جی انکل ۔۔

وہاج نے ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو لائب پیرٹ کلر کے انگ رکھے میں بالوں کو کھلا چھوڑے ہاتھوں میں میچنگ کی چوڑیاں ڈالے اسکا حسن کسی کو بھی گھائل کرسکتا تھا ایسا اب وہاج کو لگا مگر تھوڑی دیر پہلے ہونے والے واقع کو سوچتے ہوئے وہاج نے ایک بار پھر سڑا ہوا منہ بنایا۔۔۔

خوشبو بیٹا کیا مصروفیات ہیں آپکی اجکل۔۔۔بلال صاحب کے پوچھنے پہ وہاج نے اپنی برابر میں بیٹھی نمرہ سے سرگوشی کرنے والے انداز میں کہا۔۔

ادھر ادھر گرنا اور فیشن کرنا ،مجھے نہیں لگتا پڑھائ سے اسکا کوئ تعلق ہے ویسے بھی گاؤں کی جو ہے ۔۔

وہاج کی سرگوشی پہ نمرہ نے اسے گھور کے دیکھا۔۔

انکل ابھی فزکس میں گریجویشن کیا ہے۔۔۔

خوشبو کی بات سن کے وہاج کو پانی پیتے ہوئے ایک دم پھندا لگا۔۔

اس نے حیران کن نظروں خوشبو کو دیکھا جو بلکل اسے اگنور کررہی تھی۔

بیٹا یہ بھی تو بتاؤ پوری یونیورسٹی میں تم  نے ٹاپ کیا ہے بھئ بلال ہماری بیٹی گولڈ میڈل جیت کے لائ ہے۔۔

واسق صاحب کے اگلے انکشاف پہ نمرہ نے وہاج کا چہرہ دیکھا جو کسی دکھی اتما سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔

اب کی بار بہت غور سے خوشبو نے وہاج کو دیکھا جو اب اسے شرمندگی کی وجہ سے اگنور کررہا تھا۔۔۔

بھائ یہ کہاوت تو اب آپ پہ فکس ہوگی ہے۔۔

ڈونٹ جج بائے بک ۔

اٹ کوررررر۔۔

افف خوشبو بس کرو میرا ہنس ہنس کے برا حال ہوجائے گا۔۔

لان میں رات کے کھانے کے بعد خوشبو نے نمرہ کیلیے کافی بنائ اور خود اسے افر کری لان میں واک کرنے کی 

اپنے گاؤں میں اپنی شرارتوں کے قصہ یونی میں اپنی دوستوں کے قصہ سنارہی تھی جیسے سن کے نمرہ کا ہنس ہنس کر برا حال ہوچکا تھا۔۔

وہ دونوں ہنس ہنس کے اپنے باتوں میں مگن تھی اور کوئ تھا جو اوپر کمرے کی کھڑکی سے ان دونوں کو دیکھنے میں مصرف تھا۔۔۔

افف خوشبو میرا تو ہنس ہنس کے جبڑے دکھ گئے۔۔۔

چلو میں تو اب چلو میں بہت تھک گئ ۔۔

تم بھی اجاو۔۔

نہیں یار میں تھوڑی دیر یہاں رکو گی تم۔جاو سفر سے آئ ہو ویسے بھی تھک۔گئ ہوگی۔۔

خوشبو کے کہنے پہ نمرہ چلی گئ۔۔

ٹھنڈ زیادہ بڑھ رہی تھی اسلیے خوشبو نے اپنی شال۔کو اچھی سے لپٹ لیا۔۔

سردیوں کی اندھیری رات میں وہ اسی رات کا حصہ لگ رہی ایسا اسکے قریب آتے ہوئے وہاج کو لگا جو نمرہ کے جاتے ہی نیچے آگیا تھا۔

ایک درخت کے پاس رک کے خوشبو اسکے پتوں کو چھو کے دیکھنے لگی جب پیچھے سے آتی آواز پہ ایک دم وہ چونکی۔۔

رات کے وقت درختوں کے اتنے قریب جانا اچھا نہیں۔۔

خوشبو وہاج کی آواز سن چکی تھی اسلیے بنا پلٹے کہا۔۔

کیوں یہ بھی ان پڑھ جاہلوں والے کام ہیں ؟؟

یہ بول کے خوشبو پلٹی تو وہاج کو اپنے بے حد قریب کھڑا پایا۔۔

وہاج کے اتنے قریب آنے پہ خوشبو تھوڑا گھبرائے تھی مگر وہاج وہ تو چاند کی روشنی میں خوشبو کا حسین معصوم چہرہ تکتے گیا۔۔

خوشبو اسے اگنور کرکے جانے لگی جب وہاج نے اسے دھیرے سے پکارا۔۔

خوشبو؟؟

وہاج کے پکارنے پہ خوشبو رکی ضرور تھی مگر پلٹی نہیں تھی۔۔

میں بہت شرمندہ ہو صبح کیلیے اصل میں ایک تو اتنا دور کا سفر تھا اوپر سے تھوڑا غصہ میں تھا تو اسلیے 

۔۔

خوشبو نے پلٹ کر اسے دیکھا  تو  خوشںبو کو اسکے چہرے میں واقعی ندامت محسوس ہوئی جیسے محسوس کرکے اس نے  کہا۔۔

اٹس اوکے مگر اتنا ضرور کہونگی کسی بھی جگہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں کے لوگوں کے بارے میں اپنی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے کبھی کبھی اونچی جگہ کے لوگ بھی جاہلیت کی اعلی مثال قائم کردیے ہیں اور کبھی کبھی چھوٹی جگہ کے لوگ بھی اخلاقیات کی داستان لکھ دیتے ہیں۔۔

خوشبو کی بات پہ وہاج لاجواب ہوچکا تھا۔۔

خوشبو پلٹ کے جانے لگی جب دھیرے سے  وہاج نے اسے دیکھ کے گنگنانا شروع کردیا۔۔

"ابھی تم ملے ہو ابھی تم نہ جانا۔۔

یہ دل ہوگیا ہے تمہارا دیوانہ"

کچھ کہا اپنے ؟؟.خوشبو نے اچانک پلٹ کے پوچھا۔۔۔

وہاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

اپنے کچھ سنا۔؟؟

مگر اسکا جواب خوشبو نے نہیں دیا۔۔

وہ اندر جانے لگی لگی جب وہاج جو اسکے پیچھے پیچھے آرہا تھا دوبارہ کہا۔۔

ویسے ایک کپ کافی  اگر مجھے بھی مل جائے تو؟

کل پلادونگی کافی ابھی کافی پی تو رات میں نیند نہیں آئے گی اپکو۔۔

خوشبو نے  چلتے چلتے یہ کہا اور اندر چلی گی۔۔

نیند تو ویسے بھی اب وہاج بلال کی اڑ چکی۔۔وہاج نے دل پہ ہاتھ رکھ کے سر گوشی کی ۔

خوشبو نے ان دونوں کو پورا گاؤں گھمایا تھا ۔دونوں بہہن بھائ خوشبو کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئے تھے۔۔

اپنی   دوست کی شادی میں جس طرح خوشبو نے سارے انتظامات کیے تھے اور ہر چیز بڑھ چڑھ کر ایسے کری تھی جیسی اسکی سگی بہن کی شادی ہو جہاں وہاج خوشبو کے اخلاق سے متاثر ہوا تھا وہی وہ خوشبو کو اپنے دل ودماغ میں بسا بھی چکا تھا۔۔

ایسا کوئی موقع ہاتھ سے وہاج جانے نہیں دیتا تھا جب اسے خوشبو کیساتھ وقت گزارنے کا  ملے۔۔۔

  آج یہ لوگ دریائے نیلم پہ گئے ہوئے تھے صبح سے شام تک وہ لوگ گھومنے پھرنے میں مصروف تھے خوشبو اور نمرہ نے ایک ساتھ کئ تصویریں بنائی تھی اور اسی دوران وہاج نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کے خوشبو کی چند تصویریں اپنے کیمرے میں قید کرلی تھی۔۔

وہاج کی آنکھوں کا پیغام خوشبو کو بہت اچھا لگا تھا وہ وہاج کو کہی نہ کہی پسند کرنے لگی تھی۔

ارے آوو نہ آگے چلتے ہیں خوشبو۔۔۔

ارے نہیں بھئ مجھے پیاس لگی ہے گاڑی میں جارہی ہو تم بھی اجاو فٹا فٹ۔

ہاں ہاں تم۔جاو میں آرہی ہو نمرہ نے اسے ٹالتے ہوئے کہا ۔

خوشبو گاڑی تک پہنچی تو گاڑی کے اندر وہاج۔انکھیں موندیں لیٹا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیسے اسکے پاس پڑی پانی۔کی بوتل اٹھائے۔۔

خوشبو نے بہت احتیاط سے اپنے ہاتھ وہاج کے اوپر سے گزار کے پانی کی بوتل اٹھانی چاہیے مگر افسوس اسی وقت وہاج کی آنکھ کھل گئ۔۔

خوشبو جو تقریبا پانی کی بوتل اٹھا چکی وہاج کے ایک دم اٹھنے پہ اسکے ہاتھ سے بوتل واپس گر گئ۔

وہاج خوشبو کو اپنے اتنے قریب دیکھ کے ایک دم سیدھا ہوا۔۔

وہ پانی کی بوتل لینی تھی اپ سو رہے تو اسلیے میں خودی۔۔

وہاج نے بہت غور سے خوشبو کے دیکھا تھا لائٹ بیلو کلر کے ڈریس وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔

وہاج نے اپنے پاس پڑی پانی کی بوتل اٹھائ اور بوتل کو منہ لگاکے پانی پیا اور پھر وہی بوتل خوشبو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔

ویسے پیاس مجھے بھی لگی تھی۔۔۔

خوشبو نے جھجھکتے ہوئے پانی کی بوتل پکڑی اور ادھر ادھر گلاس ڈھونڈنے لگی وہاج مسلسل اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

ویسے جان بوجھ کر انجان بنتی ہو یہ پھر واقعی تمہیں ابھی تک احساس نہیں ہوا۔۔۔۔وہاج نے کافی طنزیہ انداز میں کہا۔۔

کس چیز کا ؟خوشبو نے ناسمجھی انداز میں کہا۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔

یہ لو گلاس۔۔۔

وہاج نے اسکا ہاتھ تھام کے اسکے ہاتھ میں غصہ میں گلاس رکھتے ہوئے کہا۔۔

وہاج تھوڑی دور گیا ہوگا نمرہ  کو بلانے جب اسے خوشبو نے آواز دی۔

وہاج۔۔۔۔۔

کبھی کبھی کچھ باتیں نظروں سے سمجھنے میں  نہیں لفظوں سے سننے میں اچھی لگتی ہیں۔۔

یہ بول کے خوشبو نے وہاج کی منہ لگائ بوتل کو منہ لگا کے پانی پیا۔

جہاں وہاج خوشبو کی اس حرکت پہ مسکرایا تھا وہی خوشبو بھی شرما کے نگاہیں جھکا چکی تھی۔۔

ابھی وہ لوگ حویلی کے باہر تھے جب انہیں حویلی کے باہر لوگوں کا ہجوم نظر ایا۔

یہ اتنا ہجوم کیسا؟؟

وہاج نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔۔

مگر خوشبو اسنے وہاج کی بات کا جواب دیے بنا حویلی کے اندر ڈور لگائ جس بات سے اسکا دل ڈر رہا تھا ہجوم دیکھ کے وہی بات ہوئ واسق صاحب کو دل کا دورہ پڑا تھا مگر اب وہ ٹھیک تھے ۔یہ بات انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے خوشبو سے چھپانے کو کہا تھا۔۔۔

بابا کیا ہو آپکو یہ ڈاکٹر یہ کیا ہوا اپکو؟؟

خوشبو روتے روتے ایک دم چیخ چیخ کے پوچھنے لگی اور ڈورتے ہوئے واسق صاحب کے گلے لگ گئ۔۔

ارے خوشبو بیٹا ہلکا سا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا اب سب صحیح ہے بلال بتا نہ تو۔۔۔۔

واسق صاحب نے بلال صاحب کی طرف التجائ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ہاں خوشبو بیٹا سب ٹھیک تم ایسے پریشان مت ہو نمرہ بیٹا خوشبو کو لے کر کمرے میں جاو۔۔۔

نمرہ بہت مشکلوں سے نمرہ کیساتھ کمرے میں گئ اسکے جاتے ہی واسق صاحب۔ رونے لگے۔۔

ارے واسق توا گر ایسے ہمت ہارے گا تو خوشبو بیٹی کو کون سنبھالے گا۔۔۔؟؟

بلال بس اسی بات کی فکر ہے میرے بعد میری بیٹی کا کیا ہوگا اسے کون سنبھالے گا ڈاکٹروں نے کہا ہے اب جو اٹیک آیا تو میرا جسم برداشت نہیں کر پائے گا ۔۔۔

ارے واسق اللّٰہ بہت بڑا ہے انشاءاللہ کوئ نہ کوئ وسیلہ بنا ہی دے گا ۔۔۔

انکل آپ پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے اب آرام کرے ۔۔

پاپا اجائے باہر انکل کو آرام کرنے دے۔۔

وہاج کے کہنے پہ واسق صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی اور آنکھیں موندے گئے۔۔

بلال صاحب کچھ سوچتے ہوئے کمرے سے باہر آئے اور وہاج سے کچھ کہا۔۔۔

جیسے سنتے ہی وہاج نے صرف اتنا کہا ۔۔

پاپا میں تیار ہو۔۔

اسے یقین ہی نہیں آیا دو دن میں وہ خوشبو سے خوشبو بلاج بن گئ تھی۔۔

بلال صاحب نے وہاج کی رضامندی سے  خوشبو کا ہاتھ مانگا تھا واسق صاحب سے اور ساتھ میں سادگی سے نکاح کی خواہش بھی ظاہر کری تھی۔۔

واسق صاحب نے خوشبو سےا سکی مرضی پوچھ کے ہاں کردی۔۔رخساںہ بیگم کافی ناراض ہوئ تھی بلال صاحب کے اس فیصلے پہ مگر انہیں انکی پرواہ نہیں تھی۔۔۔

بیڈ پہ بیٹھی وہ مسلسل اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کو دیکھ رہی اسے یقین نہیں آرہا تھا کے جیسے اس نے ابھی چاہنا شروع کرا تھا وہ اسکا محرم بن چکا تھا۔۔

نمرہ اور بلال صاحب نکاح کی رسم ہوتے ہی شہر کیلیے روانہ ہوگئے تھے تاکے برات لانے کی تیاری کرسکے ۔۔

وہاج نے ایک دو دن تک آنے کو کہا تھا۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پہ خوشبو نے نگاہ اٹھائ تو وہاج مسکراتے ہوئے کمرہ کا دروازہ بند کررہا تھا۔۔

نکاح مبارک ہو خوشبو۔۔

آپکو بھی۔۔۔

وہاج اسکے برابر میں بیٹھ کے اسے غور غور سے دیکھنے لگا۔

خوش نہیں ہوکیا خوشبو اس نکاح سے۔؟

خوش ہو مگر ایک ڈر ہے اگر آنٹی نہ مانی تو پھر۔۔۔؟

ارے ماما مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں دیکھا 15 دن کے اندر ایسی شاندار برات لاونگا کے تمہارا پورا گاؤں دیکھتا رہ جائے گا۔۔۔

وہاج کے بولنے پہ خوشبو بہت غور سے وہاج کو دیکھنے لگی اسکی آنکھوں میں موجود سوال وہاج سمجھ چکا تھا۔۔

اسنے آگے باڑھ کر خوشبو کو اپنے باہنوں میں بھرا اور کہا۔۔غ

تم میری پہلی نظر کی محبت ہو خوشبو۔۔۔۔

مجھ پہ بھروسہ رکھو اللّٰہ نے جب ہمیں ایک کیا۔ہے تو جدا تھوڑی کریگا۔۔

ادھر دیکھو میری طرف ۔

وہاج نے اسکا چہرہ تھاما اور کہا۔ 

وہاج بلال تمہارا تھا اور رہے گا۔۔۔

یہ بول کے وہاج نے خوشبو کے لبوں پہ اپنے لب رکھ دیے ۔

خوشبو پوری جان سے لرز گئ اسنے وہاج کو خود سے دور کرنا چاہا مگر وہ ناکام رہی آہستہ آہستہ وہ گردن سے گلے تک آیا اور  جیسی ہی  انہوں نے گردن کے نیچے اپنے لب رکھ کے حدیں پار کری خوشبو نے روک دیا۔۔

 وہاج بس کرے ابھی صرف نکاح ہوا ہے ۔۔

تو بیوی ہو میری دنیا کا کوئ قانون مجھے ان سب سے روک نہیں سکتا اور اب تم بھی نہیں روکو ۔۔

ہمارا دین میں نکاح سب سےا ہم ہے۔۔

یہ بول۔کے وہاج نے اپنے اور خوشبو کے درمیان ساری دیوار گرا دی۔۔

اپنی شدتیں چاہتیں اس نے پوری رات خوشبو پہ لٹائ۔۔۔

خوشبو پوری رات وہاج کی محبتوں کو اسکی شدتوں کو اپنے جسم کے ہر حصہ پہ برادشت کررہی تھی۔۔

صبح خوشبو کی آنکھ کھلی تو وہاج کہی نہیں تھا ۔۔

مگر سائیڈ ٹیبل پہ ایک خط تھا جسمیں لکھا تھا ۔۔

خوشبو تمہارے وجود کی خوشبو اپنے وجود میں بسائے جارہا ہو ماما کا بلڈ پریشر اچانک شوٹ کرگیا تھا صبح ہی پاپا کی کال آئ تھی میں انکل سے مل۔ایا تم سو رہی تھی تمہیں اٹھانا مجھے مناسب نہیں لگا میرا نتظار کرنا خوشبو میں 15 دن کے اندر اندر آؤنگا تمہیں شاندار طریقے سے لینے۔۔۔

اور پھر وقت گزرتا گیا 15 دن کی جگہ 25 دن گزر گئے مگر وہاج نہیں آیا اسکا نمبر بھی مسلسل بند آرہا تھا ۔۔

واسق صاحب نے شہر جاکے معلوم کرا جہاں انہیں پتہ چلا کے انکی بیٹی کو دھوکا۔دے کے وہاج نے شادی کرلی دوسری۔۔

یہ خبر واسق صاحب کیلیے موت کا سبب بنی اور انہیں تیسرا اٹیک ہوا جو وہ برادشت نہیں کرپائے اور نہ خوشبو کو وہاج کی سچائی بتا پائے۔۔

باپ کے جانے کے بعد خوشبو کو پتہ چلا وہ اکیلی نہیں اسکے وجود میں ایک اور جان پل رہی تھی۔۔

خوشبو کی حالت عجیب ہونے لگی وہ سارا سارا دن دروازے کے پاس بیٹھ کے انتظار کرتی رہتی وہاج کا اگر لائبہ نہ ہوتی تو شاید خوشبو کب کی خود کشی کرچکی ہوتی ۔۔

لائبہ اسے لے کر کراچی آ گئ جہاں خوشبو کو اللّٰہ نے ایک بہت پیاری بیٹی دی جسکا۔نام خوشبو نے ہیر رکھا۔۔۔

ایک وجہ مل گئ تھی خوشبو کو زندہ رہنے کی ۔۔۔مگر خوشبو نے یہ بات ہیر سے چھپائے کے وہ اسکی اصل ماں ہے اگر سچائ بتا دیتی تو کیا جواب دیتی کے اسکا باپ کہاں ہے؟

فون کی مسلسل رنگ نے خوشبو کو ماضی کے اندھیروں سے باہر نکالا۔

خوشبو نے دیکھا تو ہیر کی کال تھی مگر خوشبو اس وقت بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اسلیے موبائل سائیلنٹ کرکے سو گئ۔۔۔

ماما اپنے مجھے دھوکے سے بلایا ؟؟.

پاپا اپنے بھی ماما کا ساتھ دیا میں جارہا ہو اسے لینے وہ بھی ابھی میری بیوی ہے وہ اور میں بیوی کا درجہ بھی دے چکا ہو اسے۔۔

وہاج صاحب غصہ میں شاہجاں کے کہنے پہ نکل تو گئے مگر  گاڑی چلاتے وقت انکے دماغ میں صرف ماضی کی باتیں گونج رہی تھی۔۔

اگر تم اسے لینے گئے یہ اس سے کوئ بھی رابطہ کرا تو میں اپنی جان لے لونگی وہاج۔۔۔

رخسانہ بیگم کی بات پہ وہاج صاحب نے جب انکو دیکھا تو ا نکے ہاتھ میں پستل تھی۔۔

وہاج صاحب کی گاڑی ضرورت سے زیادہ اسپیڈ پہ تھی آنسوؤں مسلسل بہہ رہے تھے انکے۔۔

ماما یہ پسٹل نیچے کرے۔پاپا نمرہ کچھ بولو ماما کو۔۔

ماما۔پلیز بھائ کی بات مان جائے خوشبو بہت اچھی ہے اپ۔کو بے حد پسند آئے گی ایسا نہیں کرے ماما۔۔

میں کہہ رہی بلاج کھاؤ میری قسم کے اس سے کوئ رابطہ نہیں رکھوگے اسسے اسکے پاس پلٹ کر نہی جاؤگے میں جہاں کہونگی وہاں شادی کروگے ۔۔

ورنہ میں اپنی اجان لے لونگی۔۔۔

رخسانہ بیگم نے ٹریگر پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔۔۔

ماما مت کرے ایسا میں اس  سے بہت محبت کرتا ہو اسکے بغیر مرجاونگا وہ میرا انتظار کررہی ہے ماما۔۔

وہاج صاحب روتے روتے وہی اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کے ان سے فریاد کرنے لگے مگر رخسانہ بیگم کے سر پہ بس دولت سوار تھی جو ناصرہ کی صورت میں انہیں ملنے والی تھی ۔

ٹھیک ہے اگر تم نے اسے چن لیا ہے تو پھر میرے زندہ رہنے کا کیا فائدہ میں مار لیتی اپنے اپکو۔۔۔

یہ بول کے رخسانہ بیگم  جیسے ہی ٹریگر دبانے لگی وہاج روتے روتے چیخ چیخ کے کہنے لگا۔۔

ٹھیک ہے میں نہیں رکھونگا اس سے رابطہ نہیں۔ جاؤنگا اسکے پاس پلٹ کے آپ جس سے کہی گی میں شادی کرونگا اس سے ماما یہ نیچے کردے پسٹل۔۔

اگر تم مکر گئے اپنی بات سے تو؟؟

آپکی قسم نہیں مکرونگا۔۔

بلال صاحب اس سارے معاملے میں خاموش تماشائ بنے رہے کیوں کے رخسانہ بیگم نے انہیں صاف کہا تھا کے وہ طلاق لے لینگی ان سے اگر وہاج کا ساتھ دیا تو۔۔۔

ماضی کی باتیں سوچتے ہوئے وہاج صاحب بہت دور نکل آئے تھے ۔۔

ساحل سمندر پہ گاڑی روک کے انہوں نے اپنا سر زور سے گاڑی کے اسٹیرنگ پہ رکھا اور زور زور سے رو کے اللّٰہ سے کہنے لگے۔۔

یااللہ مجھے موت دے دیں یہ پھر مجھے صبر دے دیں تو جانتا ہے میں کتنا مجبور تھا میرے مالک میں نے ماں اور بیوی میں سے ماں کو چنا اور بیوی کو انتظار کی سولی پہ لٹکا کے اسے دھوکا دیا مجھے سکون دے دے مالک اس بار میرے نصیب میں اسکا ساتھ لکھ دے اب جب کے وہ ایک بار پھر مجھے ملی ہے۔۔۔

رات کے نجانے کس پہر وہ گھر میں داخل ہوئے انہیں نہیں پتہ مگر نمرہ وہاج صاحب کا انتظار کررہی تھی اسے اظہر صاحب  آج تقریب میں ہوا تماشہ بتا چکے تھے جسے سن کے نمرہ شاکڈ تھی 20 سال بعد آج اچانک خوشبو کا سامنے آنا اس بات کی گواہی تھی کے اب قسمت ،وقت اور تاریخ نے کروٹ لینا شروع کردی ہے ۔۔

زویان اور صائم کو اب انکے ماں باپ کی اصلیت پتہ لگ جائے گی۔۔۔۔

نمرہ کو اس پہر جاگتا دیکھ وہاج صاحب کو حیرانگی نہیں ہوئ بلکے انکو یقین تھا نمرہ جاگ رہی ہوگی۔۔۔

دونوں بہن بھائ بلکل خاموش ایک دوسرے کے برابر میں بیٹھے تھے۔۔۔۔

تم کیوں جاگ رہی ہو سو جاو جاکے نمرہ ہماری قسمت کہ سیاہی رات اب ہماری اولاد پر بھی پڑے گی۔۔۔انہیں بھی پتہ چلے گا انکے ماں باپ کیا کرچکے ہیں 

بھائ میں مسلسل 21 سالوں سے جاگ رہی دوسروں کی نیندیں اڑا کے انکا۔سکون برباد کرکے کبھی کسی کو سکون کی نیند آئ ہے۔۔۔

وہاج نے اپنے آنکھوں سے بہنے والے اپنے آنسوؤں بے دردی سے صاف کیے اور کہا۔

جنکی مائیں ہماری ماں جیسی ہوتی ہیں نہ نمرہ انکی اولادیں ایسی ہی بے سکون رہتی ہیں ایک دولت کی خاطر رخسانہ بیگم نے چار  خاندان اجاڑ دیے۔۔

اپنے بھائ کے منہ سے اپن ہی ماں کا نام سن کے نمرہ نے غور سے وہاج کو دیکھا تھا اور دل کی میں کہا ۔۔

 چلو اسکی تو راضا شامل تھی اظہر سے نکاح میں مگر وہاج کی زندگی کو کتھ پتلی بنانے کیساتھ ساتھ امی نے ناصرہ کی بھی زندگی ویران کردی ایک ایسے شخص کی زندگی میں اسے زبردستی شامل کردیا جو دل۔کے ساتھ ساتھ اپنا جسم اپنی روح بھی کسی کے حوالے کرچکا تھا ۔

مرد  پہلی بار جسے دل سے محبت کرکے اسے اپنالے تو پھر بیشک ہزاروں عورتیں اسکی زندگی میں اجائے اسکی روح اسکی ذات کی تسکین کا سامان نہیں بنتی۔۔

وہاج صاحب خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور اپنے کمرے کی طرف چل دیے انکی چال میں لڑکھڑاہٹ نمرہ بیگم صاف محسوس کرسکتی تھی۔۔۔

#####

   ہیر ہیر؟

ہیر جو اپنی ہی دھن میں لائبریری سے نکل کے جارہی تھی اپنے نام کے پکار پہ بھی نہیں رکی نجانے کن سوچوں میں وہ چلی جارہی تھی جب زویان نے اسکے قریب آکے اسکا نام اسکے بلکل قریب سے پکارا تو وہ ایک  دم ڈر گئ۔۔

کہاں گم ہو اتنی زور زور سے آوازیں دے رہا ہو پوری یونی نے سن لیا مگر جسکو پکار رہا ہو وہ بے خبر ہے۔۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔

وہ زویان پتہ نہیں میں شاید اپنی ہی سوچوں میں تھی اسلیے شاید نہیں سنا آپ کیوں دے رہے تھے اوازیں؟؟

ہیر کے آپ کہنے پہ زویان نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا تھا۔۔

واقعی  میں وہ ایشین خوبصورتی تھی۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔

زویان نے پہلے اسکے سلام کا جواب دیا جس پہ ہیر کے لب مسکرائے تھے جو زویان دیکھ چکا تھا۔۔۔

مسکرا کیوں رہی ہو؟؟

زویان کے پوچھنے پہ ہیر نے چلتے چلتے کہا۔۔

اچھا لگتا ہے آپکو منہ سے سلام کا جواب ۔۔

اوہہ ہاں ماما سے سیکھا ہے ۔۔

ہممم کون کون ہے اپکی فیملی میں اس دن تو مجھے کوئ دیکھا ہی نہیں آپکے گھر؟

ہیر پوچھ کے چلنے لگی تو زویان نے بھی اسکے قدم سے قدم ملا کے جواب دیا۔۔۔

میں ماما اور بابا۔۔

بس ۔۔۔

اکیلے ہیں آپ ؟؟کوئ بہن بھائ نہیں؟

نہیں بس میں اکیلا ہو اور ماما بابا دادو اور ماموں سے ملنے پاکستان گئے ہیں ۔۔

آپ نہیں گئے؟.اب کے زویان مسکرایا ہیر کے آپ کہنے پہ ۔۔۔

جاؤنگا مگر ابھی سمسٹر تھا تو اسلیے نہیں گیا۔۔

ہمم۔۔۔

لمحہ بھر کیلیے ان دونوں کے درمیان خاموشی ہوئ جسے زویان نے توڑا۔۔۔۔

آپکے گھر میں کون کون ہیں؟

میں بھی اکیلی ہو۔۔۔ہیر نے مسکرا کے کہا مگر اسکی مسکراہٹ میں اداسی تھی جو زویان نے کافی محسوس کی۔۔

اتنا اداس کیوں ہورہی ہو میں بھی اکیلا ہو۔۔۔زویان کے کہنے پہ ہیر نے اپنا بیگ اپنے کندھے پہ صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔

آپ اکیلے ہیں مگر آپکے ماما بابا تو ہیں نہ میرے ماما بابا کی ڈیتھ ہوگئ تھی ایک کار ایکسیڈینٹ میں سو آنی کیساتھ رہتی ہو بچپن سے ۔۔

اوہ آئ ایم سو سوری ہیر۔۔۔۔

کوئ بات نہیں زویان۔۔

اچھا ایک بات پوچھو؟

 اگر مائنڈ نہیں کرے تو۔۔۔

تمہاری کسی بات کا اب برا نہیں مانو گا پوچھو؟

اس حلیے میں الجھن نہیں ہوتی اپکو؟

ہیر ایک بار پھر اسکے حلیے کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے کہا۔۔

زویان نے مسکرا کرکہا۔۔

تم کیسا چاہتی ہو میرا حلیہ؟

میں تو چاہتی ہو کے یہ اپنی آپ لمبی لمبی زلفے کٹ والے   ڈھنگ کے کپڑے پہنے یہ ٹیٹو نیٹو سب صاف کروائے اور ۔۔۔

ہیر اپنی ہی دھن میں بولے جارہی تھی جب اسنے زویان کو دیکھا جو بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔

۔۔ہیر نے فورا اپنی زبان کو بریک لگائ ۔۔۔

آئ ایم سو سوری میں کچھ زیادہ ہی بول گئ مجھے کیا حق آپکو بدلنے کا آپکی لائف ہے جیسے چاہے گزارے۔۔

زویان پھر بھی خاموش رہا ہیر نے کن اکھیوں سے اسکا چہرہ دیکھا جہاں خلاف تواقع مسکراہٹ تھی۔۔۔

اچھا اب میں چلتی ہو اللّٰہ حافظ۔۔۔

ہیر کو زویان کچھ عجیب لگا اس لیے اس نے فورا وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔

#######

ایک کام کرو مارو آو مل کے مجھے سارے مارو۔۔

ارے ارے اتنا غصہ کیوں کررہی ہے میں تجھے کونسا ابھی بلا رہی ہو۔۔

شانزے تصور میں صنم کا لال پیلا چہرہ دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔۔اور اسکے لہجے سے صنم اندازہ لگا چکی تھی کے وہ اپنی ہنسی روک رہی ہے ۔۔

ایک کام کر گھننی میسنی اپنی ہنسی کیوں روک رہی ہے قہقہ لگا میری حالت پہ۔

صنم کے بولنے کی دیر کے شانزے نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔

تو اپنی گاڑی لانی تھی نہ اوبر میں کیوں ائ۔۔

شانزے اگر تو شام تک تو رک سکتی ہے تو رک ورنہ خود چلی جا شاپنگ کرنے۔۔

مجھے 3 بجے آپی کو پالر سے پک کرنا ہے پھر انہیں ڈارپ کرکے انکے کام سے سنار کے پاس جانا ہے۔۔۔

اچھا چل تو آجا شام تک میں ویٹ کررہی ہو۔۔۔شانزے نے اسکی حالت پہ رحم کھاتے ہوئے اسے شام تک کی مہلت دے دی۔۔

اففف ایک تو اتنی گرمی ہورہی ہے اوپر سے اوبر نہیں آرہی ابھی تک۔۔۔۔

صنم  کا برا حال تھا گرمی میں اوپر سے تین بھی بجنے والے تھے اسے عترت کو پالر سے پک کرنا تھا۔۔

ایک بلیک لینڈ کروزر اسکے بلکل پاس اکے رکی ۔۔۔

بلاج جو اپنے کسی کام سے نکلا تھا راستہ میں اسکی نظر صنم پہ پڑی تو اس نے گاڑی روک دی۔۔

اتنی بڑی گاڑی اپنے آگے روکتے ہی صنم تھوڑی گھبراہی مگر جب گاڑی میں بیٹھے شخص کو دیکھا تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔

یہاں کھڑی کیا کررہی ہو ؟

بلاج بھائ آپ ایک منٹ بتاتی ہو۔۔یہ بول کے صنم تیزی سے گھوم کے گاڑی تک آئ تو بلاج نے اسکے لیے گیٹ کھولا۔۔

ایسی میں بے بیٹھتے ہی صنم نے سکون سے اپنی۔انکھیں بند کری اور کہا۔

افف بلاج بھائ بہت گرمی ہے آج ۔۔۔

صنم نے  آنکھیں بند کرے کرے کہا۔۔

ویسے تم دونوں بہنوں کو گرمی بہت لگتی ہے۔۔۔

بلاج نے صنم کا لال سرخ چہرہ دیکھ کے عترت کے گرمی میں لال چہرہ تصور میں لاتے ہوئے کہا۔۔

بلاج کی بات پہ صنم نے کن اکھیوں سے بلاج کو دیکھا اور کہا۔۔

واہ بھئ کیا کہنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں کے موسموں کی حال میں رہنا بھی پتہ لگ گیا واہ بھئ کیا بات ہے۔۔

صنم کے کہنے پہ بلاج نے مسکرا کے اسکے سر ہلایا۔

تو صنم بھی مسکرانے لگی بلاج کی صورت میں اسے بڑا بھائ جو مل گیا تھا۔۔

بلاج بھائ چھوٹا ہونا بھی کسی سزا سے کم نہیں ۔۔۔

کیوں ؟؟

سارے کام میرے ذمہ ہیں آپی کے ابھی انہیں پالر سے پک کرنا ہے انکی سروس اور مہندی لگوانی تھی آج دوسرا انہیں کے کام سے ایک جیولر کے پاس جانا ہے انہیں گھر چھوڑ کے تیسرا شانزے میرا ویٹ کررہی ہے اسے شاپنگ کرنی ہے۔۔۔

افف بلاج بھائ میں تو آج تھک کے چور ہوجاونگی میں کب مہندی لگوانگی کب فیشل وغیرہ کروانگی۔۔

صنم کی روتلی صورت دیکھ کے بلاج نے گاڑی کا رخ موڑا ۔۔

ارے بلاج بھائ پالر اس طرف ہے ۔۔۔

ہاں مجھے پتہ ہے تم ابھی شانزے کے گھر جارہی ہو باقی کے کام میں کردونگا آپکی آپی کو پک بھی کرلونگا اور جیولرز کا کیا کام ہے وہ بھی بتا دو۔۔۔

بلاج بھائ اگر آپی نے غصہ کیا کے میں نے انکا۔کام آپکو کیوں دیا تو ویسے بھی انہوں نے کہا تھا کے یہ۔کام۔خالی میں کرونگی بنا کسی کو بتائے ماما کو بھی بتانے کو منع کیا تھا۔۔

کونسا ایسا کام ہے ؟؟.بلاج کے چہرے پہ تشویش دیکھ کے صنم نے اسکے آگے ایک کیلوری کا باکس کیا جیسے دیکھتے ہوئے بلاج نے بہت مشکل سے گاڑی کا۔کنٹرول سنبھالا تھا۔۔

یہ دیکھے بلاج بھائ کتنی خوبصورت پائل ہے پوچھ پوچھ کے تھک گئ آپی سے یہ کب لی کہاں سے لی مگر بہت پکی ہیں بتاتی نہیں کچھ بھی اسی کو پالش کروانے کا کام دیا ہے آپی نے کہہ رہی تھی اپنی برات میں پہنوگی۔۔۔

اچھا سامنے دش بورڈ پہ رکھ دو۔۔۔

میں کروادنگا اور آج شام کی مہندی میں دے دونگا تمہیں چپکے سے۔

ہائے سچی بلاج بھائ آپ کتنے سوئیٹ ہیں پتہ عترت آپی کیوں آپکو کھر۔۔۔۔۔۔

آگے کی بات بلاتے بولتے صنم نے خود کو باز رکھا مگر بلاج نے وہی سے صنم کی بات پکڑی اور اپنی انکھیں بڑی کرکے صنم سے پوچھا۔

کھڑوس کہتی ہیں نے تمہارے بہن مجھے۔۔ن

اللّٰہ کا واسطہ ہے بلاج بھائ میری سوئیٹ سے بھائ ہیں نے پلیز پلیز آپی کا مت بولیے گا ۔۔

ارے بھئ میں کیوں بولونگا پاگل ہو ۔بلاج نے فلحال اسے ٹالا۔۔۔

اب بتاؤ کہاں سے ٹرن لو شانزے کے گھر کے لیے۔۔۔

بس یہی روک دے سامنے گلی میں ہے اسکا گھر۔۔۔

صنم کے گاڑی سے اترنے کے بعد بلاج نے گاڑی کا رخ پالر کیطرف موڑ دیا تھا اسکی نظر مسلسل ڈش بورڈ پہ رکھے باکس میں تھی کچھ سوچتے ہوئے اس نے باکس گاڑی میں آگے پیچھے رکھ دیا۔۔۔

سر وہ کہہ رہی ہیں میں خود اجاونگی جب مہندی سوکھ جائے گی آپ جائے۔۔۔

دس منٹ سے زیادہ بلاج کو ہوگئے تھے پالر کا انتظار کرتے کرتے مگر وہ تھی کے باہر ہی نہیں آرہی تھی۔۔۔

عترت کو جب پالر والی نے بتایا کے انکے شوہر انہیں لینے آئے تو عترت کا دل کیا صنم کا گلا دبا دے اب پالر والی کو اپنی شوہر سے ورلڈ وار کا کیا بتاتی اسلیے مہندی کا بہانہ کردیا۔۔

پالر والی  یہ بول کے واپس جانے لگی جب بلاج نے انہیں روک کے کہا۔۔

بات سنے سسٹر۔۔۔

جی۔۔

عترت مہندی سوکھ گئ ہیں نہ ۔۔؟

جی سر نہیں وہ ۔۔مطلب۔۔۔۔

دیکھے میں انکا شوہر ابھی یہاں آنے سے پہلے وہ مجھ سے ناراض ہوگئ تھی اسلیے میرے ساتھ نہیں جارہی اگر آپ تھوڑا کاپریٹ کرے تو میں اندر  اکے انہیں لے جاو۔۔

پالر والی نے بلاج کی بات پہ اپنے اونر کو کال کرکے سیٹویشن بتائ تو انہوں نے بلاج کو اندرا نے کی اجازت دے دی۔۔

عترت سکھ کا سانس لیے بیٹھی تھی کے چلو جن ٹلا اور وہ صنم کو کال کرنے لگی۔۔

تںبھی اچانک اسے کسی نے گودھ میں اٹھالیا۔

عترت کے تو مانو ہاتھ پاؤں پھول گئے جو اسنے اپنے آپکو بلاج کی گودھ میں دیکھا۔۔

سارے پالر کی ورکر ان دونوں کو دیکھ کے مسکرانے لگی۔

یہ کیا بدتمیزی ہے بلاج نیچے اتارے مجھے۔۔عترت نے دانت پیس کے ہلکے سے کہا۔۔

ارے میری پیاری بیوی کی مہندی سوکھی نہیں نہ تو اس لیے میں نے سوچا اپکی مہندی میں آپکو گودھ میں لے کے سکھ والو۔۔

یہ بول کے بلاج نے غور سے عترت کو دیکھا خوبصورت تو پہلے سے ہی تھی مگر آج سروس کے بعد اور چمک رہی تھے مایوں کے جوڑے میں اسکے جسم سے اٹھنے والی ابٹن کی خوشبو بلاج کا دل بے ایمان کررہی تھی ۔۔

بلاج اسے لے کر جانے لگا جب پالر والی نے کہا ۔

سر یہ میم کے کھوسے؟؟

بلاج نے عترت کا تھوڑا اونچا کرکے صحیح سے لیا تو اسکا سر بلاج کے چوڑے سینے سے لگا بلاج کی ڈھرکن وہ آسانی سے سن سکتی تھی  بلاج نے دو انگلیاں آگے کرکے پالر والی کو اشارہ کیا تو اسنے اس دو انگلیوں میں کھوسے تمادءے۔۔

گاڑی کے ڈور جیسے تیسے بلاج نے کھول کے عترت کو بٹھایا تو دونوں کے گال ایک دوسرے سے ٹکرائے ۔۔

عترت فوار اپنی نگاہیں جھکا گئ مگر بلاج اسنے اسکے پاؤں پکڑ کے اس پہ جھک کے اسکی سیٹ کو تھوڑا پیچھے کیا تاکے اسکے پاؤں اسٹریٹ رہے۔۔

بلاج کی ساری کاروائی عترت خاموشی سے دیکھ رہی تھی مگر بولی کچھ نہیں بس دل میں ایک ہی بات بولی۔۔

خیال تو ایسا کررہے ہیں جیسے بڑے عاشق ہیں میرے۔۔

گاڑی میں دونوں ہی خاموش تھے مگر بلاج کا دل چاہ رہا تھا آج عترت اس سے بات کرے مگر عترت نے آج بلاج کی طرف نگاہ بھی نہیں ڈالی تھی۔۔

گاڑی گھر کے پاس روکی تو بلاج نے کہا۔۔

میں چھوڑ کے او اندر؟؟

نہیں شکریہ میں نے خود چلنا سیکھ لیا ہے ۔۔

عترت کس بات پہ طنز کرکے گئ تھی بلاج اچھے سے سمجھ چکا تھا۔۔۔

عترت کو گھر چھوڑ کے بلاج نے جیولرز کا رخ کیا ۔۔

پائل کے ڈبہ کو جب شاپ والے نے کھولا تو اس کے نیچے سے ایک گلاب نکلا سوکھا ہوا بلاج نے کچھ دیر اس گلاب کو دیکھا اور اپنی جیب میں رکھ لیا۔۔

سر کل صبح تک ہوگی یہ پائل ۔۔؟

ٹھیک ہے اس پہ آپ چاندی کا ہی پانی پھیرے اور وہ جو سامنے رنگ  رکھی ہے نہ اس پہ مجھے نام چاہیے ۔۔

جی سر ہو جائے گا کیا نام لکھو ۔۔۔

"عترت بلاج"

وہاج صاحب آج آفس نہیں گئے اور یہ بات بہت شاکڈ تھی صائم کیلیے کیونکہ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اپنے باپ کو صرف کماتے دیکھا تھا۔۔

پاپا آج اپ آفس نہیں آئے میں تو ویٹ کررہا تھا اپکا لنچ میں۔۔۔

صائم نے دوپہر میں وہاج صاحب کو کال کرکے کہا۔۔

ہاں بیٹا بس تھوڑی طبیعت عجیب تھی اسلیے پھر آج برات میں بھی جانا تھا تو سوچا آرام کرلو۔۔

مگر پاپا کونسا ہمارے سگے رشتے دار ہیں وہ جو آپکا جانا ضروری ہے میں اور پھپھو چلے جائیںگے۔۔

ارے نہیں نہیں بیٹا میں جاؤنگا تم بھی آفس سے جلدی گھر اجانا۔۔۔

جی پاپا اجاونگا چلے آپ میڈیسن کھاکے آرام کرے۔۔۔

صائم سے بات کرکے وہ نیچے آئے شاہجاں کے گھر جانے کیلیے ۔۔۔

کل انکی ہمت نہیں ہوئ مہندی میں جانے کی مگر آج انہوں نے ٹھان لی تھی خوشبو سے بات  کرنے کی۔۔

رخسانہ بیگم کو نمرہ خوشبو کا بتا چکی تھی مگر اب وہ صرف افسوس کرسکتی تھی پچھتا سکتی تھی اپنے ہر عمل پہ وہاج کی سوجی آنکھیں دیکھ کے انکی ہمت نہیں ہوئ انہیں تسلی دینے کی کیونکہ اسکا۔حق اب وہ کھوچکی تھی۔۔

کیا سچ کہہ رہی ہو ملکہ؟؟

ہاں بہزاد وہاج کی پہلی بیوی کوئ اور نہیں بلکے خوشبو ہے اور ہیر وہاج کی بیٹی ۔۔

اففف یہ کیسی داستان لکھی ہے اللّٰہ نے وہاج بھائ کی ۔۔ایک بیوی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئ اور ایک 20 سال بعد ملی ہے جو کے نہ ملنے کے برابر ہے۔۔

 ۔وہاج کی حالت سچ میں مجھ سے دیکھی نہیں جاتی میں اسکے ہر راز سے واقف ہو مگر  خوشبو وہ۔واحد راز تھا جس سے اسنے مجھے بھی لاعلم رکھا۔۔

اس کہانی انجام کیا ہوگا بہزاد کیوں کے پہلے کا نہیں پتہ مجھے مگر اب جب خوشبو سامنے آگئ ہے تو وہاج پیچھے نہیں ہٹے گا۔

ملکہ مجھے نہیں لگتا خوشبو آپی اتنی آسانی سے وہاج بھائ کو معاف کریگی انتظار کی سزا شاید وہ معاف کر بھی دے مگر وہاج بھائ کی دوسری شادی کو وہ شاید ۔۔۔

آگے کی بات بولتے بولتے بہزاد کو گلا روندھ گیا بہزاد راجپوت نے جب سے ہوش سنبھالا تھا حالات کو اہمیشہ مات دی تھی مگر بعض جگہ بہزاد بہت بے بس ہوجاتا تھا بہت ذیادہ۔۔۔۔۔

شاہجاں سمجھ چکی تھی بہزاد کی کنڈیشن اسنے بہزاد کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے دلاسا دیا اور پوچھا۔۔

بہزاد کیا تم خوشبو سے ناراض ہو ؟؟

نہیں ملکہ کس بات پہ ناراض ہونگا ان سے میں سمجھتا تھا میری بہن کو استعمال کیا گیا شاید انکی دولت کی وجہ سے جو پاپا نے انکے حصہ میں لکھی تھی کے زیادتی صرف ناصرہ اپا۔کیساتھ ہوئ مگر خوشبو آپی ان کی داستان سننے کے بعد مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے ناصرہ آپا دس سال ہی صحیح رہی تو نہ وہاج بھائ کیساتھ صائم کو اسکا باپ کاساتھ آج تک میسر ہے مگر خوشبو آپی کو تو 20 سال سے نہ صرف انکے نام پہ بیٹھی ہے بلکے نہ کردہ جرم کی سزا بھگت رہی ہے اور ہیر اسے تویہ تک نہیں پتہ کے اسکے ماں باپ ہیں اور زندہ ہے تو اصل مظلوم تو خوشبو آپی اور ہیر ہوئ اور ظالم رہی رخسانہ پھپھو زندگی کے کسی حصہ میں بھی میں اس عورت کا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتا ملکہ جس نے اپنی لالچ میں اتنی زندگیاں برباد کری۔۔

ارے سو سوری یار وہ سامان مل نہیں رہا تھا ۔۔خو شبو نے گاڑی کا گیٹ کھول کے ایک دم بہزاد اور شاہجاں سے ایکسکیوز کیا تو دونوں نے اپنی باتوں کا سلسلہ وہی روک دیا کچھ ضروری سامان لینے خوشبو کو اپنے فلیٹ پہ جانا تھا اور شاہجاں کو مارکیٹ سے کام تھا اسلیے شاہجاں نے بہزاد سے کہا انہیں لے کر جانے کو۔۔

0

ویسے بہزاد ایک بات پوچھو۔۔۔۔

ہاں خوشبو آپی پوچھے۔۔

تم چھوٹے تھے تو سمجھ میں آتا تھا تم ڈرتے تھے واش روم جانے سے بھی باہر جانے سے ہر جگہ اپنی ملکہ عالیہ کو لے کر جاتے تھے ۔۔شاہجاں بیگم خوشبو کی بات کو مطلب سمجھتے ہوئے اپنی ہنسی کنٹرول کررہی تھی ۔

مگر اب تو اچھے خاصی بڑے ہوگئے اب کس چیز سے ڈرتے ہو جو اتنے گارڈز لے کر چلتے ہو۔۔۔۔

خوشبو کی بات پہ بہزاد نے ہنستے ہوئے انہیں دیکھا شاجہاں بیگم بھی ہنسنے لگی تھی۔۔

خوشبو آپی آپ آج بھی مجے چھیڑنے سے باز نہیں آئینگی ۔۔۔

نہیں بلکل نہیں تم ہونگے بزنس ٹائیکون مگر میرے لیے تو وہ ہی بہزاد ہو جو واش روم جانے سے بھی ڈرتا تھا

خوشبو کی بات پہ ان تینوں کا قہقہ گاڑی میں گونجا تھا۔۔

#######

یار حد ہوگئ انسانیت نام کی بھی چیز ہوتی ہے اگر بلاج بھائ لینے آگئے تمہیں تو کونسی قیامت آگئ تھی کہی کا ڈاکو نہیں آیا تھا تمہیں اغواہ کرنے اپکا۔خود کا ذاتی شوہر آیا تھا ۔۔

صنم کی اب صحیح مانو میں ہٹ چکی تھی کل مہندی سے جو عترت اسے اس بات پہ سنا رہی تھی کے وہ۔اسے پالر لینے کیوں نہیں آئ آج برات کا دن ان پہنچا تھا مگر عترت کا شکوہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔

افف انجم آپی سلام ہے آپکو جو آپ انہیں جھیلتی ہیں۔صنم نے ڈریسنگ روم میں اپنے آپکو شیشہ میں دیکھتے ہوئے انجم سے کہا۔۔

ہاں ہاں چلی جاؤنگی آج پھر کسی کو بھی مجھے جھیلنا نہیں پڑے گا یہ بولتے ہوئے عترت کا لہجہ اور انکھیں دونوں بھیگ گئ۔۔

انجم کے اشارہ کرنے پہ صنم نے پیچھے سے آکے عترت کو زور سے ہگ کیا اور کہا۔۔

ارے ہم پنڈی آکے جھیل لینگے آپکو شہر بدل رہا ہے آپکا ہمارا دل نہیں۔۔

صنم کی بھی آنکھیں بھیگنے لگی تھی اسکا بھی دل چاہ رہا تھا عترت کے گلے لگ کے رونے کا مگر وہ ضبط کرکے باہر نکلی تو شانزے بہزاد سے الجھ رہی تھی۔۔

مسئلہ کیا ہے آپکے ساتھ شرم نہیں آتی آپکو اپنے سے دس گناہ چھوٹی لڑکی پہ ٹرائ کرتے ہوئے ۔

شانزے کی بات پہ بہزاد اسکے تھوڑا قریب آیا تو وہ گھبراکے پیچھے ہوئی جب بہزاد نے اسکا بازو دبوچتے ہوئے کہا۔۔

ابھی قریب آیا تو شیرنی سے بھیگی بلی بن گی ہو اگر ٹرائ کرا نہ تم پہ کچھ بھی تو دو دن تک بستر سے نہیں اٹھوگی اور ہاں دس گناہ نہ نہیں صرف 8 سال چھوٹی ہو مجھ سے۔۔

میں بتا رہی ہو آپکو کے شانزے نے اسکی طرف انگلی وارن کرنے والے انداز میں کرکے کہا 

 ۔۔۔کے اب اگر آپ نے مجھے تنگ کیا تو۔۔۔۔۔

تو۔۔۔۔۔۔

بہزاد نے اسکی انگلی میں اپنی انگلی پھنسا کے  اسکی گہرے نیلی آنکھوں میں اپنی ہری آنکھیں گاڑتے ہوئے کہا۔

حد ہوگئ ہے یار شانزے اور بی ایم محفل موقع دیکھ کے بندے لڑتے ہیں ۔۔۔

میرے یہ۔کوئ۔جاننے والے نہیں ہیں جو میں ان سے محفل میں بہس کرو ا بیل مجھے مار یہ مثال ہے انکی شانزے نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔

انہیں سمجھاؤ صنم اچھے سے سمجھاؤ مجھے ان سے نفرت ہے گھن آتی ہے انہیں دیکھ کے میں صرف مراد سے محبت کرتی ہو آج کے بعد یہ میرے اس پاس بھی دیکھائی دییے یہ انہوں نے مجھے تنگ کیا تو پہلے تو میں اپنے بابا کو بولونگی دوسرا شاہجاں آنٹی کو اور تیسری میں کمپلین کرونگی انکے خلاف پولیس اسٹیشن جاکے کے انہوں نے میرے آنکھوں کے سامنے مڈر کیا یے۔۔

شانزے کے اس طرح بولنے پہ بہزاد سینے پہ۔ہاتھ باندھے اسے گھور رہا تھا مگر صنم کو فکر تھی کے شانزے کی اتنی باتیں سن کے بہزاد کچھ الٹا سیدھا نہ کردے مگر شکر ہے شانزے کی باتوں پہ بہزاد خاموش رہا۔۔

بارات کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔۔

بلیک کلر کی شیروانی میں ہلکی سے بریڈ کیساتھ بلاج جہاں بہت حسین لگ رہا تھا وہی عترت کو جب اسکے برا ر میں لاکے بیٹھایا گیا تو بلاج اسکا روپ دیکھ کے ہل گیا۔۔

سارے مہمان کو آؤ بھگت میں صنم اور شانزے لگے تھے آج مراد بھی آیا تھا تو بہزاد نے فلحال شانزے سے دوری بنائے رکھی مگر جسطرح شانزے کے والد اور مراد بہزاد کے آگے بچھے جارہے تھے یہ چیز شانزے کو برداشت نہیں ہورہی تھی۔۔

صنم کی نگاہیں مسلسل صائم کو ڈھونڈ رہی تھی اسکی فیملی اچکی تھی مگر وہ کہی اسے دیکھائے نہیں دے رہا ۔۔

صنم واہج سے دودھ پلائ کے پیسے لے کر ہٹی تو اسکے نمبر پہ صائم کا میسج آیا جسے پڑھ کے صنم کو تھوڑا تعجب ہوا اور وہ حال کے پیچھے چلی گئ ۔۔صنم فلحال تو سب سے بچتی بچاتی حال کے پیچھے گئ تھی مگر کوئ تھا جس نے اسکے پیچھے اپنے قدم بڑھا لیے تھے۔۔

صائم صائم کہاں ہو؟؟

صنم نے اندھیرا ہونے کی وجہ سے صائم کو آوازیں دی کے جبھی اسکا چوڑیوں سے لبریز ہاتھ کسی نے پکڑ کر کھینچا۔۔۔

اس سے پہلے صنم چیختی صائم نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے جب آئے ہوئے تو حال کے اندر کیوں نہیں آئے تم۔۔

صنم کے غصہ کی پرواہ کیے بغیر صائم نے اسکے ہاتھ میں ایک رنگ پہناتے ہوئے کہا۔۔

ہیپی برتھڈے مائ ڈانسنگ ڈول۔۔۔

صائم کے وش کرنے پہ صنم نے حیران ہوکے اپنے منہ پہ۔ہاتھ رکھا  اسکی آنکھیں خوشی سے بھیگنے لگی۔۔

تمہیں یاد تھا۔۔۔

ہاں میری جان۔۔

 اسنے اپنے ہاتھ میں انگھوٹھی دیکھتے ہوئے کہا ۔

صائم یہ بہت۔نن

چپ ابھی ایک تحفہ باقی ہے ۔۔اپنی آنکھیں بند کرو۔۔

صائم کے کہنے پہ صنم نے اپنی آنکھیں بند کری صائم نے اسکا چہرہ تھاما اور اسکے لبوں پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

صائم کی اس حرکت پہ صنم کی آنکھیں پوری کھل گئی اسے اندازہ نہیں تھا کے صائم ایسا کچھ کریگا۔۔۔

صنم نے اسے خود سے دور کیا اور لمبی لمبی سانس لینے لگی۔۔

ایک اور صنم پلیز ابھی دل نہیں بھرا میرا۔۔

صائم تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے یہ کیا حرکت کری تم نے اور ایک اور کا کیا مطلب ہے۔۔

کیوں کیا غلط کیا میں نے محبت کرتا ہو تم سے دل چاہ رہا تھا تمہیں پیار کرنے کا اتنی اچھی لگ رہی ہو اج۔۔

مگر صائم۔۔

اگر مگر کچھ نہیں ادھر آؤ میرے پاس صائم نے اسے دوبارہ اپنی طرف کھینچا اور اسکے لبوں پہ دوبارہ جھک گیا صنم نے اسکی قمیض کو مظبوطی سے تھام لیا صائم نے اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر پہ رکھ اسے خود سے اور قریب کرلیا ۔۔۔

صائم مدہوش ہونے لگ تو صنم نے اسے ایک بار خود سے دور کیا اور وہاں سے ڈور کے جیسی حال کے اندر آنے لگی  سامنے کھڑے نفوس کو دیکھ کے اسکے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کے نیچے گر گیا۔۔

ساری رسموں کے بعد عترت کو بلاج کے کمرے میں بیٹھایا گیا ۔

بھابھی کچھ چاہیے اپکو؟؟.ہنزہ کے کہنے پہ عترت نے نفی میں گردن ہلائ۔۔

اوہ بھابھی اب روئے تو نہیں ایک نہ ایک دن تو یہ لڑکیوں کیساتھ ہوتا ہے دیکھے وعدہ کرے مجھ سے اب آپ نہیں روئےنگی۔۔

ہنزہ نے جب دیکھا کے عترت پھر ایک بار رونے لگی تو وہ بول پڑی۔۔

رخصتی کے وقت عترت اور صنم کو الگ کرنا بہت مشکل ہورہا تھا دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے بے تحاشہ رو رہی تھی۔۔۔

شاہجاں بیگم نے اپنے آپکو بہت مضبوط بنایا ہوا تھا مگر پھر بھی ماں تو تھی آنسوں انکی آنکھوں میں ا ہی گئ۔۔

صنم کو روتا دیکھ صائم نے چپکے سے اسکی ویڈیو اور پکس بنائ تھی تاکے بعد میں اسے چڑائے۔۔۔

ہنزہ کے جانے کے پانچ منٹ بعد ہی بلاج کمرے میں آیا تو عترت کو شیشہ کے سامنے کھڑا دیکھ کے چونکا۔۔۔

وہ تو سمجھ رہا تھا بیڈ پہ بیٹھی گھوگھنٹ نکالے وہ اسکی راہ تک رہی ہوگی مگر یہ تو یہاں اپنی جیولری اتار رہی ہے۔۔۔

بلاج بلکل اسکے پیچھے کھڑا ہوا اپنی واچ اتار کے ڈریسنگ پہ رک کے اپنی شیروانی اتارنے لگا ۔۔

شیشہ میں سے عترت ترچھی نگاہوں کیساتھ بلاج کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔۔

عترت نے چوڑیاں اتارنے کے بعد اپنا ڈوپٹہ کھولنا چاہا تو ایک پن تھی جو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔

بلاج نے جب اسے ڈوپٹہ سے الجھتا ہوا دیکھا تو آگے بڑھ کے اسکا ہاتھ ڈوپٹہ سے ہٹایا اور خود اسکی پن۔کھولنے لگا۔عترت کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا مگر وہ ایسی بن گئ جیسے اس کو کوئ خاص پراو نہیں ۔۔

پن کھولتے ہی دھرم سے عترت کا ڈوپٹہ بلاج کے پیروں میں گرا۔۔

بلاج نے ڈوپٹہ اٹھا کے سائیڈ میں رکھا جب اسکی نظر عترت کی بیک پہ پڑی گردن کے لیفٹ سائیڈ پہ موجود ڈبل تل دیکھ کے وہ چونکا ایک ارمان جاگا اسکے دل میں۔۔

مگر فلحال وہ ضبط کرگیا۔۔

عترت نے اپنی ماتھا پٹی اتارنا چاہی تو وہ بالوں میں اٹک گئ اور وہی عترت کی بس ہوگئ ایک تو وہ بلاج کی نگاہوں سے کنفیوز ہورہی تھی اوپر یہ ہیوی جیولری۔۔

بلاج نے جب اسے جیولری سے کشتی لڑتے دیکھا تو دوبارہ اسکی ہیلپ کرنے آگیا ۔

ایک۔ایک کرکے وہ عترت کا چہرہ جیولری سے آزاد کررہا تھا جب اسکی نظر عترت کے غصہ میں پھولے ہوئے چہرے پہ گئ تو بلاج کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ اور وہ بے خودی میں بول گیا۔ن

غصہ میں پوری باربی ڈول لگ رہی ہو۔۔

بلاج کے جملے پہ جب عترت نے اسے نگاہ اٹھا کے دیکھا تو بلاج کو اندازہ ہوا وہ کیا بول گیا۔۔

اپنی جھینپ مٹانے کیلیے اس نے عترت سے کہا۔۔

ویسے تم پہلی دلہن ہو جو دولہے کے آنے پہ بیڈ پہ گھوگھنٹ ڈال کے نہں بیٹھی بلکے آئینہ کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔

ظاہر سی بات ہے اب ایک بیوفا کا چہرہ گھوگھنٹ میں تو ہونا نہیں چاہیے اور ہمارے درمیاں اب ایسا محبت سے لبریز کوئ سانحہ نہیں جیسے دہرانے کیلے میں گھوگھنٹ ڈال کے تمہارا انتظار کرو۔ 

یہ بول کے عترت ڈریسنگ کے پاس سے جانے لگی یہ جانے بغیر کے بلاج نے اسکی کسی بات کا برا نہیں بنایا بلکے خاموشی سے اسے آج دلہن بنی اپنی بیوی کے روپ میں دیکھ رہا تھا تھی کبھی خواہش تھی  اسکی  کے جب وہ اسکی زندگی میں دلہن بن کے آئے گی تو و

وہ رات وہ یاد گار بنا دے گا مگر آج جو رات اسکی زندگی میں آئ ہے اسے نہیں پتہ کے وہ کیا کرے۔۔

عترت جانے لگی تو بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی جانب کھینچا بلاج کے بنا شرٹ کے جسم پہ عترت کا جسم ٹکرایا۔۔

عترت نے نگاہیں اٹھا کے بلاج کو دیکھا جہاں آج صرف اسے محبت دیکھائ دی۔م

بلاج نے اسکا چہرہ تھاما اور اس کے لب پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

بلاج کے اس عمل پہ عترت کی آنسوؤں گرنے لگے۔۔

مگر بلاج نے یہاں بس نہیں کی آج وہ عترت اور اسکے تعلق کو ایک اور موقع دینا چاہتا تھا۔۔

اس نےعترت کو گودھ میں اٹھاکے اسے بیڈ پہ لیٹا کے دھیرے سے اسکی گردن پہ جھک گیا کبھی اسکے کان چومتا کبھی اسکی آنکھیں کبھی اسکے لب عترت خاموشی سے اپنی مٹھیاں بھینچی اسکی ساری کاروائی برادشت کررہی تھی ۔۔۔

بلاج نے  اسکے ماتھے پہ اپنے رکھے اور دونوں کی نگاہیں ملی  تب بلاج نے کہا۔۔

ایک بار کہہ دو بلاج مجھ سے غلطی ہوگئ۔۔

بلاج نے اسکو لبوں کو چومتے ہوئے اسکے نیچے والے ہونٹ کو زرا کھینچتے ہوئے کہا ۔۔

کیسی غلطی؟؟عترت نے بہت مشکل سے اپنے آپکو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔

وہی زین والی مجھ سے معافی مانگو میری جان میں معاف کردو گا۔۔

بلاج نے مدہوشی کے عالم میں اسکی شرٹ دونوں شولڈر سے نیچے کرتے ہوئے اسکی  گردن کو جگہ جگہ چومتے ہوئے گردن کے نیچے کا فاصلہ منٹوں میں طے کیا۔۔

پیٹ سے اوپر شرٹ کرتے ہوئے وہاں اپنے لب رکھ کے بلاج نے اٹھ کے دوبارہ عترت کے لبوں کو چوم کے کہا۔۔

بلاج کی آنکھیں مدہوشی کے عالم میں ریڈ ہورہے تھی عترت کے دونوں ہاتھ اسنے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ عترت کا پورا چہرہ بلاج چوم رہا تھا۔۔

مگر میں معافی نہیں مانگونگی میری غلطی نہیں یے۔۔

عترت کا کہنا تھا کے بلاج جو ابھی محبت میں پیار میں مدہوش تھا ایک دم اسکے چہرے پہ چٹان سے سختی آگئ اسنے اپنے ہاتھ میں موجود عترت کے ہاتھ کو زور سے دبایا۔۔

ہٹے میرے اوپر سے میں کسی بات کی معافی نہیں۔ مانگونگی جب میں نے کچھ کرا ہی نہیں ۔۔

تم۔نے میری محبت میں شرک کیا ہے عترت اور تم کہہ رہی ہو کے کچھ نہیں کرا تم نے ایک سے گزارا نہیں ہورہا تھا تمہارا کیا کمی رہ گئ تھی میری محبت میں جو تم نے زین کی باہوں میں پناہ ڈھونڈی۔۔۔

عترت کی آنکھیں بلاج کی باتوں سے افسوس سے بھرنے لگی اور اس نے جو کہا اسے اندازہ نہیں تھا کے آگے بلاج کا ردعمل یہ ہوگا۔۔

ہاں جو چاہے سمجھے نہیں ہے میرا گزارا ایک مرد کے ساتھ ہاں ملتا تھا مجھے سکون زین کی باہوں میں کاش آج بھی وہ ہوتا آپکی جگہ۔۔۔

بس یہ بات عترت نے کہہ کے اپنے لیے عزیت خرید لی تھی۔۔

عترت کی بات سن کے بلاج نے ایک جھٹکے سے اسکا شرارہ ٹانگوں سے اوپر کیا ۔۔

آج میں تمہیں بتاؤنگا کے بیوفا بیوی کیساتھ کیا کرا جاتاہے۔۔

بلاج نے اسکے دونوں ہاتھ کو سختی سے تکیہ پہ رکھ کے دبایا اور خود اس پہ جھک گیا بلاج کے اس عمل سے عترت کی ایک درد ناک چیخ نکلی جسے بلاج اسکا جبرا  پکڑ کے روک چکا تھا۔۔

عترت کا پورا وجود تکلیف میں آگیا تھا اسکے آنسوؤں تکیہ پہ جذب ہورہے تھے مگر بلاج پہ خون سوار تھا ۔۔

بلاج اسکے اوپر سے ہٹا تو عترت کی اٹکی سانس بحال ہوئ وہ جیسی اترنے لگی بیڈ سے بلاج نے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکر کے کہا۔۔

ابھی جو میں نے وصول کیا وہ شوہر کا حق تھا اب جو تمہارے ساتھ ہوگا وہ میری محبت کی توہین کا بدلہ ہوگا بیوفائی کا بدلہ ہوگا۔۔۔

بلاج چھوڑے مجھے درد ہورہا ہے عترت نے بلاج کا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹانا چاہے مگر اگلا عمل جو بلاج نے کیا عترت کی روح تک کانپ گئ۔۔

اسنے عترت کو الٹا کیااور اسکے ہاتھ پیچھے کمرے پہ باندھ دیے ۔

نہیں بلاج یہ نہیں کرے یہ گناہ ہے پلیز میں بیوی ہو آپکی پلیز نہیں۔۔۔۔

عترت کے رونے میں شدت آگئی تھی مگر بلاج آج بے رحمی پہ اتر چکا تھا۔۔۔

وہ عترت پہ ایک بار پھر جھکا عترت کی ٹانگیں اسکا پورا جسم ایک بار پھر تکلیف سے آشنا ہوا۔۔

عترت کی گردن پہ بلاج کے ہاتھوں کے نشان آگئے تھے۔۔

ایک دم خاموشی سی چھا گئ  جب بلاج عترت کو بیوفائی سزا دے کے اس پہ سے ہٹا۔۔عترت پہ سے ہٹنے کے بعد بلاج کروٹ لے کر لیٹ گیا اور عترت جسکا پورا وجود اس وقت برف ہوچکا تھا وہی الٹی لیٹے لیٹے وہ بیہوش ہوچکی تھی۔۔۔

بلاج کروٹ لے کر لیٹ تو گیا تھا مگر اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو اسنے نہیں روکا ۔۔

وہ آج عترت کے ساتھ سارے معاملات کلئیر کرنا چاہتا تھا پیار سے محبت سے مگر عترت کی بدزبانی نے اسے طیش دلادیا اور اسنے وہ گناہ کرلیا جسکی شاید معافی نہیں ۔۔۔

رات کے نجانے کس پہر اٹھ کے وہ نہایا اور اپنے رب کے آگے بلک پڑا اس گناہ کی معافی اپنے رب سے مانگنے لگا جو شاید رب اسے معاف کردے مگر جسکے ساتھ اسنے یہ قیامت ڈھائ وہ اسے معاف نہ کرے۔۔

دعا مانگ کے وہ اٹھا تو عترت کا جاکے چہرہ غور سے دیکھا ۔۔

ایک بار پھر اسے پچھتاوا ہونے لگا اپنے عمل سے مگر اچانک اس پپچتاوے کی جگہ غصہ نے لی ۔۔

بلاج نے اسکے بکھرے وجود کو بلیکنٹ سے دھکا اور خود صوفے پہ جاکے لیٹ گیا۔۔

#######

ایکسکیوزمی۔۔؟؟

میں یہاں بیٹھ سکتا ہو۔۔؟؟

ہیر اور سدرہ جو کسی لیکچر پہ ڈسکشن کررہے تھے ایک اجنبی کو خود سے مخاطب کرنے پہ پہلے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا مگر ہیر ایک منٹ کیلیے چونک گئ تھی اسکی آواز پہ ۔۔

ایک دم وہ لڑکا ہیر کے برابر میں بیٹھ گیا۔ہیر نے غصہ میں اس لڑکے کو گھورا۔۔

مگر جب غور سے اس لڑکے دیکھا تو فورا اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ کے کہا۔۔

"زویان"

شکر ہے میڈم تم نے مجھے پہچان تو لیا ویسے کیا اتنا چینج لگ رہا  ہو میں۔۔۔؟

اوہ۔مائ گاڈ زویان یہ تم ہو آئ ڈونٹ بلیو دس۔۔

سدرہ تو مانو شاکڈ میں تھی زویان بلکل ہی الگ رہا تھا اسکے جان پہچان والے اگر پہلی دفعہ اسے دیکھتے اس حلیہ میں تو پہچانتے نہیں۔۔

سدرہ مسلسل شاکڈ سی کیفیت میں بات کررہی تھی مگر ہیر بس زویان کو دیکھے جارہی تھی وہ خاموش تھی ایک دم خاموش۔۔

سدرہ زویان کی گیٹ اپ سے بہت خوش تھی مگر زویان نے جسکے لیے یہ سب کیا وہ بلک خاموش تھی۔۔

چلو یار میں تو کینٹن جارہی ہو بہت بھوک لگ رہی ہے تم۔لوگ آرہے ہو؟

سدرہ کینٹین جارہی ہو تو میرے لیے بھی برگر لا دو میں یہی بیٹھا ہو۔۔

ہیر تو چل رہی ہے؟؟

نہیں مجھے ابھی بھوک نہیں تم جاؤ میں یہی ہو پھر ہاسٹل چلی جاؤنگی تم وہی اجانا۔۔۔

ہیر کے کہنے پہ سدرہ چلی گئ جسکے جاتے ہی ہیر ہاسٹل جانے کیلیے کھڑی ہوئ جب زویان نے اسکا ہاتھ تھام کے اسے دوبارہ بیٹھایا اور کہا۔۔

کیا بات ہے چپ کیوں  ہوگئ تم اچانک۔۔۔؟؟

ہیر نے پہلے زویان کو دیکھا اور پھر کہا۔۔

یہ سب اپنے میرے لیے کرا ہے نہ اپنا حلیہ چینج ۔۔

ہاں تو کیا ہوا ۔۔۔

مجھے اخود بھی اچھا لگ رہا ہے اپنے چھوٹے بال کان اور ہاتھ آزاد ہیں میرے ہر اوٹ پٹانگ چیزوں سے مجھے اچھا لگ رہا ہے میرے کپڑے اچھے ہیں۔۔

مگر میرے لیے کیوں کیا آپنے یہ سب ؟؟.

ہمم یہ سوال اچھا ہے مگر اسکا جواب میں تمہیں کل دونگا جب جب یونی کے بعد تم۔میرے ساتھ لندن گھومنے جاوگی۔۔

اچھا اور یہ کب ڈیسائیڈ ہوا ہیر نے مسکراہٹ کیساتھ کہا۔۔

ابھی ہوا نہ اب کوئ بہانہ۔نہیں کرنا کل چلوگی نہ ؟؟

اچھا ٹھیک ہے مگر سدرہ بھی جائے گی۔۔

کیوں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے تمہیں؟

بات بھروسہ کی نہیں ہے زویان مجھے اچھا نہیں لگے گا ایسے آپکے ساتھ جانا اکیلے۔۔۔

تو پھر رہنے دو جا ہی نہیں رہے ہمممم۔زویان نے منہ بناکے کہا۔۔

ارے یہ کیا بات ہوئ۔۔۔ہیر نے زویان کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

یہی بات ہے اب ہمارے درمیان بات تبھی ہوگی جب تمہیں بھروسہ ہوگا اور اگر کل تک تمہیں مجھ پہ اتنا بھروسہ ہوجائے کے اکیلے میرے ساتھ جا سکو تو آجانا یونی کے باہر میری گاڑی کے پاس ورنہ میں سمجھونگا کے تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں۔۔

یہ کہہ کے زویان وہاں سے چلا گیا اور ہیر کتنی ہی دیر تک اسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔

####

بلاج کی آنکھ کھلی تو اسے عترت کہی دیکھائ نہیں دی اس سے پہلے کے بلاج اسے ڈھونڈتا وہ واش روم سے نکلی لائٹ پنک کلر کے ڈریس میں۔

آنکھوں کی سوجن بتا رہی تھی وہ کتنی ہی دیر روتی رہی ہے۔۔

عترت بہت آرام آرام سے چل رہی تھی اسکے چہرے سے اسکی تکلیف کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔۔اسے اس حالت میں دیکھ کے بلاج نے نگاہیں جھکالی۔۔۔

اب بلاج کو یہ فکر ہونے لگی تھی کے کہی عترت ابھی اپنے گھر والوں کے سامنے اسکا رویہ ظاہر نہ کردے۔

عترت نے ہلکا سا میک اپ کیا اور بنا بلاج پہ نگاہ ڈالے کمرے سے چلی گئ۔۔۔

اسکے جاتے ہی بلاج نے لمبی سانس لی غصہ میں جو اس نے کیا اسے خود بھی پچھتاوا تھا مگر افسوس اب کوئ فائدہہ نہیں ۔۔

بلاج فریش ہوکے نکلا تو عترت اپنا ضروری سامان۔ پیک کررہی تھی کیونکہ آج ولیمہ سے واپسی پہ انکی اسلام آباد کی فلائٹ تھی۔۔۔

بلاج کو کل صبح ہر حال میں بیس پہ ریپورٹ کرنی تھی اسی لیے وہ اور عترت ولیمہ سے واپسی پہ اسلام آباد جارہے تھے۔۔

جو ضروری سامان ہو تمہارا وہ رکھ لینا باقی ایک دو دن میں بازل پہنچا دے گا پنڈی۔۔

بلاج کے بولنے پہ بھی عترت نگاہیں جھکائیں خاموشی سے اپنا کام کرہی تھی اور بلاج چاہ رہا تھا وہ اس سے بات کرے۔۔

عترت اپنا کام مکمل کرکے نیچے ناشتہ کرنے جانے لگی جب بلاج نے کہا۔۔

ایسی شکل بنا کے بیٹھوگی تو سب یہی سمجھے گے کے میں نے کل رات تم پر بہت ظلم کیے ہیں لہزا اپنی یہ شکل درست کرو اور یاد رہے اگر کل رات کے بارے میں کوئ بھی بکواس تم۔نے روتے دھوتے کسی سے کری تو انجام کی ذمیدار تم خود ہوگی۔۔۔

بلاج کی بات ختم ہوتے ہی عترت باہر جانے لگی جب بلاج نے اسے کھینچ کے اپنے سامنے کیا ۔

کچھ بول رہا ہو تم سے ؟؟.

بلاج کے کہنے پہ عترت نے نگاہ اٹھا کے بلاج کو دیکھا ۔۔

میرے غصہ کو بار بار کیوں آزما رہی ہو عترت تمہیں پتہ ہے تمہاری خاموشی مجھے غصہ دلاتی ہے۔۔

تو اتار لے مجھ پہ غصہ کہاں سے اتارنا شروع کرینگے سیدھی لیٹو یہ پھر۔۔

عترت غصہ میں ایک دن پھٹ پڑی۔۔

۔۔اگے کی بات اس سے پہلے عترت بولتی بلاج اسکا جبڑا دبوچ چکا تھا۔۔

عترت زبان سنبھال کے بات کرو۔۔

میں نے ایسا کیا بول دیا اجو آپکو گوراہ نہیں ہوا وہی کہا جو اپنے کل رات کیا میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ۔۔۔

ایک بات یاد رکھیے گا بلاج خان مجھے عترت اظہر کو تم سے نفرت ہے صرف نفرت ۔۔۔

مگر اسکا یہ مطلب نہیں کے مجھے آپ سے نفرت ہے تو آپکی راحت کا سامان نہیں بنوگی۔۔

بنوگی جب جب بولینگے بنونگی میں بھی اپکی حیوانیت کی آخری حد دیکھنا چاہتی ہو بلاج مجھے اور اذیت دیجیے گا تاکہ مجھے ہر لمحہ آپکی قید میں احساس ہو کے میں نے غلط وقت پہ غلط انسان سے محبت کری تھی۔۔۔۔یہ بولتے ہوئے عترت نے بے دردی سے اپنے آنسوں رگڑے۔۔

یہ بول کے عترت نے بلاج کو اسی کی نگاہوں میں شرمندہ ر کردیا ۔

مجے شوق نہیں اپنی اجڑنے کی داستان دنیا والوں کو سنانے کی بے فکر رہے جب تک سانس ہے عترت اظہر آ۔۔۔

عترت اظہر نہیں عترت بلاج ہو اب تم۔۔۔

بلاج نے اسکی بات کاٹتے ہوئے غصہ سے کہا ۔

آپ کہہ سکتے ہیں مگر میں آج بھی عترت اظہر ہو کیونکہ کل رات میری شادی ہوئ تھی مگر میرے شوہر نے مجھ سے پیار نہیں میرے ساتھ زنا کرا ہے اور ایک عورت ایک زناکار کا نام کبھی اپنے نام کیساتھ نہیں جوڑتی۔۔۔۔

یہ بول کے عترت نیچے چلی گئ اور بلاج نے غصہ میں دیوار پہ مکا۔مارا۔۔۔

بلاج کے ایک بار پھر عترت کو دیکھ کے دنگ رہ گیا لائٹ پستائ کلر کی میکسی میں ماڈل میک اپ کیساتھ عترت آج برات سے ذیادہ حسسین لگ رہی تھی۔۔

صبح ناشتہ کی ٹیبل پہ عترت نے واقعی بلاج کو حیران کردیا تھا اسے دیکھ کے کوئ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کے اسکے تعلقات  بلاج سے خراب ہیں۔۔

فوٹو سیشن کے دوران کئ اسے پوز آئے جہاں عترت اور بلاج ایک دوسرے کے قریب آئے ایک پوز میں تو عترت اور بلاج ایک دوسرے سے اپنا سر ملا رہے تھے اور یہ پوز دیتے ہوئے عترت کا تو پتہ نہیں مگر بلاج کے سامنے اسکے اور عترت کے یونی کے لمحات گھومنے لگے۔۔۔

آج شانزے کافی خوش تھی اور اسکی خوشی کی وجہ مراد تھا جسکا رویہ آج شانزے کے ساتھ پہلے جیسا تھا بہزاد کو دیکھ دیکھ کے شانزے کافی اٹیٹییوڈ کا مظاہرہ کررہی تھی مراد کیساتھ مگر بہزاد کی جوتی کو بھی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسنے ایسی حرکت کراوئ تھی مراد سے کے شانزے کا بس نہیں چل۔رہا تھا بہزاد کا منہ نوچ لے۔۔

ارے شکریہ مراد میرے لیے تم جوس لے ائے۔۔۔

ارے نہیں بہزاد سر مجھے خوشی ہوگی کے میں آپکے کسی کام او۔۔۔

مرد بہزاد سے باتیں کررہا تھا جی جی کرکے اور بہزاد نے ایک ہی کام کیا تھا شانزے کو دیکھ کے جو شانزے کو آگ لگانے کیلیے کافی تھا۔۔

بہزاد کے آنکھ مارنے پہ شانزے کو آگ لگ چکی تھی اور اس سے بھی زیادہ مراد کا  بہزاد کے آگے پیچھے گھومنے پہ۔۔۔..

بازل ؟؟

ہمم ۔۔۔

یار کیسے دو اجنبی نکاح کے دو بولوں پہ ایک۔ہوجاتے ہیں۔۔۔

ہنزہ نے عترت اور بلاج کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

مگر میں تو اجنبی نہیں ہو۔۔

بازل نے ہنزہ کا ہاتھ تھامے ہوئے کہا۔

اگر بالفرض سوچ لو ایک مثال دے رہی ہو اگر میری شادی تم سے نہیں ہوئ یہ تمہاری مجھ سے نہیں ہوئ تو تم اپنی بیوی سے تو محبت کرنے لگو گے میں تویاد بھی نہیں اونگی تمہیں۔۔

ہنزہ کا کہنا تھا کے بازل نے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا اور وہاں سے اٹھ کے چلا گیا۔۔۔

ہنزہ اسے آوازیں دیتی رہ گئ مگر وہ نہیں رکا اب ہنزہ کو اور بھی زیادہ اپنے پوچھنے پہ افسوس ہونے لگا کے کیوں اس نے اس قسم کی بات بازل سے پوچھی۔۔۔

کیونکہ بازل کو منانا سو عورتوں کو منانے کے برابر تھا۔۔۔

آج کیوں نہیں آئے تم۔؟؟

صنم نے صائم کو کال کرکے غصہ میں پوچھا۔۔

یار ایک دوست کے گھر آیا ہوا ہو اسکی طبیعیت سہی نہیں تھی اسلیے نہیں ایا۔۔

اس سے پہلے صنم۔اور کچھ پوچھتی صائم سے کے جبھی اسے صائم کے پیچھے سے کسی لڑکی آواز آئ جو صائم کا نام پکار رہی تھی۔۔۔

تمہارے ساتھ کون ہے صائم؟؟

ارے واہ میری ڈانسنگ ڈول ابھی شادی ہوئ نہیں اور بیویوں والی حرکتیں شروع کردی۔۔

صائم نے صنم کی بات کو مزاق کا رنگ دیا۔۔صائم۔نہیں اسنے عاصم پکارا ہے اسکی بہن ہے جوس دینے آئ ہے اور مجھ سے بہت چھوٹی ہے میری جانمن۔۔۔

اچھا اچھا چلو پھر کل ملتے ہیں ؟؟

ضرور میری ڈانسنگ ڈول۔۔۔

صنم نے مسکراتے ہوئے کال کٹ کی تو اسے بہزاد کھڑا دیکھائ دیا جو شاہجاں بیگم سے کچھ بات کررہا تھا اور اشارہ اسکا صائم کے پاپا کی طرف تھا صنم نے سمجھنے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔۔

عترت اور بلاج کا ولیمہ خیرو عافیت سے نبٹ چکا تھا تھوڑا آرام کرکے وہ لوگ اب ائیرپورٹ کیلیے نکل گئے تھے بہزاد کی ایک ضروری کال آگئ تھی اس وجہ سے وہ عترت کو سی اوف کرنے نہیں گیا۔۔

شاہجاں بیگم نے عترت کو ہزاروں نصیحتیں کی اور عترت نے صنم کو۔۔

اظہر صاحب نے بھی اپنی بیٹی کو سینے سے لگایا اور داماد کو بھی ۔۔

سب کی نظروں میں خود کو خوش رکھنے والی  عترت سب کو الوداع کرتے ہوئے روپڑی۔۔۔

ایسا لگ رہا ہے میں اغواہ کرکے لے جارہا ہو جو رونا دھونا ہی کم نہیں ہورہا تمہارا۔۔

بلاج نے چیکنگ کرتے ہوئے اپنی برابر میں کھڑی روتی ہوئی عترت کو کہا۔

زنا تو کرہی لیا ہے اغواہ بھی کرلے آپکے لیے کونسی بڑی بات ہے۔

ایک بار پھر عترت اپنے جواب سے بلاج کو اندر تک ہلا۔گئ تھی۔۔

#####

آئسکریم کھاو گی جان میری۔۔۔۔

آج بہت دونوں بعد اچھا موڈ ہوا ہے تمہارا مراد آج جو بولوگے میں کرونگی۔۔

تو ایسا کرتے ہیں رائل چلتے ہیں ۔

مگر مراد وہ تو یہاں سے بہت دور ہو جائے گا۔۔

تو لانگ ڈرائیو بھی ہوجائے گی۔۔

مراد کی بات پہ شانزے مسکرانے لگی۔۔

ابھی انکی گاڑی مسلم سوسائٹی کے روڈ پہ آئ تھی کے ایک دم انکی گاڑی کے آگے پیچھے  گاڑیوں نے مراد کی گاڑی کو روکنے پہ۔مجبور کیا

شانزے اور مراد ایک دم ڈر گئے۔۔

گاڑی میں سے دو تین لڑکے اترے ان میں ایک نے مراد پ۔پسٹل تانی اور اسسے سب لے لیا۔۔

باقی دولڑکوں کی نظر سجی سنوری شانزے پہ پڑی۔۔

ارے اسے چھوڑ یہاں دیکھ پوری رات مست ہو جائے گی اپنی۔۔

خبر دار اسے ہاتھ لگایا تو۔۔

مراد کے بولنے کی دیر تھی کے ان میں سے ایک نے مراد کے سر پہ پسٹل کا بیک مارا۔۔

مرادددددڈ۔۔

شانزے مراد کے سر سے خون نکلتا دیکھ ایک دم چیخ کے گاڑی سے باہر نکل ائ۔۔۔

ان تینوں نے شانزے کو پکڑا اور گھیسٹتے ہوئے گاڑی میں ڈال کے لے گئے ۔۔

نہیں سدرہ میرا دل نہیں مان رہا اکیلے جانے کا۔۔

دل نہیں مان رہا وہ الگ بات ہے ہیر مگر میرا جانے کا ایشو مت بناو۔۔۔

ایک بات کہو ہیر برا نہیں ماننا۔۔۔

ہاں بولو۔۔۔

پہلے کے زویان میں اور اب کے زویان میں زمین آسمان کا فرق ہے مانتی ہو ہماری پہلی ملاقات اسکے ساتھ کافی خراب رہی مگر اسکے بعد اس نے کئ جگہ تمہارے لیے اسٹینڈ لیا۔۔

میرا تو مشورہ ہے کے تمہیں جانا چاہیے ہیر اور ویسے بھی مجے پرسوں کیلے پریزنٹیشن بنانی ہے تم آج سمٹ کروا چکی ہو کل کا اوفف ہے تمہارا چلی جاؤ اسکا دل رکھنے کیلے آفٹر آل تمہارے لیے زویان پورا بدل چکا ہے۔۔

سدرہ کی باتوں پہ ہیر فلحال خاموش رہی مگر اسکا دل مان چکا تھا زویان پہ بھروسہ کرنے کیلے۔۔

صبح زویان یونی کے باہر اپنی گاڑی سے ٹیک لگا کے کھڑا ہیر ویسے اسے منع کرچکی تھی مگر اسکا دل بول رہا تھا وہ اجائے گی اور شاید دل کبھی غلط نہیں ہوتا وہ اسے آتی دیکھائے دی وائٹ کلر کی سمپل فراک میں م۔

زویان کو وہ کوئ وائٹ پری لگ رہی تھی بالوں کو میسی سا جوڑا بنائے ہم رنگ اسکارف پہنے وہ مسکرا کے زویان کو دیکھ کے چلتی آرہی تھی۔۔

زویان کے قریب پہنچ کے ہیر نے مسکرا کے کہا۔۔

جو انسان میرے لیے خود کو بدل لے اس پہ بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔

ہیر کے لفظوں پہ پل بھر کیلیے زویان کہی کھو گیا۔۔۔

ہےےے۔۔۔

 چلنا نہیں ہے یہ میں جاو۔۔ہیر نے اسکے آگے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔۔

ہیر کے کہنے پہ زویان نے فرنٹ ڈور کھولا ۔۔ہیر کے بیٹھتے ہی زویان کے لب مسکرائے تھے گھوم کے آگے اسنے گاڑی کی فرنٹ سیٹھ سنبھالی اور گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔۔

######

چھوڑو مجھے کوئ ہے بچاؤ مجھے بچاو۔۔

شانزے ان لڑکوں سے گاڑی میں اپنے آپ کو چھڑوا رہی تھی جب ان میں سے ایک نے شانزے کو کلوروفوم سونگھا دیا۔۔

شانزے کے بیہوش ہوتے ہی تینوں نے شانزے کے جسم سے جیسی ڈوپٹہ ہٹایا ایک دم زور دار آواز آئ انکی گاڑی لڑکھڑاتے ہوئے سامنے فٹ پاٹھ سے ٹکرائ۔۔۔انکی۔گاڑی کا ٹائر پھٹ چکا تھا کسی کی گولی سے۔۔

اچانک کسی نے انکی گاڑی کا گیٹ کھولا اور باری باری ان تینوں کا باہر نکالا۔۔۔

تینوں کو باہر نکالتے ہی کسی نے آواز دی۔۔

سر یہ رہے وہ تینوں۔۔۔۔

گارڈ کی آواز سنتے ہی بہزاد ہاتھ میں ہنٹر لیے گاڑی سے باہر نکلا اور اندھا دھند ان لڑکوں کو مارنا شروع کردیا۔۔

سنسان سڑک پہ ان تینوں کی چیخی موت کی چیخیں معلوم ہورہی تھی۔۔

تھوڑی دیر بعد بہزاد نے ہنٹر اپنے گارڈ کے حوالے کیا اور کہا۔۔

ان تینوں کو اتنا مارو کے نہ تو ان میں زندہ رہنے کی امنگ ہو اور نہ موت انکو گلے لگائے۔۔۔

یہ تنیوں مجھے میرے فارم ہاؤس پہ چاہیے۔۔

یس سر۔۔

گارڈ نے بہزاد سے ہنٹر لیا اور دوبارہ انہی مارنے لگا 

بہزاد نے گاڑی کو گیٹ کھولا تو شانزے ہوش و خروش سے بیگانی بیہوش پڑی تھی ڈوپٹہ اسکا سیٹ سے نیچے گرا پڑا تھا۔

شانزے کو اس حالت میں دیکھ کے بہزاد کا غصہ ساتویں آسمان پہ پہنچ گیا۔

اسنے شانزے کو گاڑی سے باہر نکالنے کے بجائے دوبارہ ان لڑکوں کی طرف آیا اور ان میں سے ایک کو اپنے سامنے کھڑا کرکے ایک زور دار گھونسا اسے رسید کرکے پوچھا۔۔

کیا کیا ہے اسکے ساتھ اور کیوں؟؟؟؟

سر ہمیں معاف کردے ہمیں نہیں پتہ تھا یہ آپکی جاننے والی ہیں ورنہ ہم کبھی بہزاد راجپوت کی فیملی پہ ہاتھ نہیں ڈالتے ہمیں تو جان بوجھ کے یہ سب کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا تھا کے ہم جو چاہے انکے ساتھ ۔۔۔۔۔

مگر قسم لے لے سر ہم نے انہیں صرف بیہوش کرا ہے انہیں چھوا تک نہیں۔۔

یہ سن کے بہزاد نے ایک گھونسا اور اس لڑکے کے منہ پہ مارا اور کہا باقی کی اسٹوری میں تم سے بعد میں سنونگا۔۔

لے جاؤ ان سب کو۔۔۔

بہزاد نے گاڑی میں جھک کے پہلے شانزے کا ڈوپٹہ نیچے سے اٹھاکے اسے اڑایا اور پھر اسے اپنی باہنوں میں اٹھا کے اپنی گاڑی میں لٹایا۔۔

ڈارائیور سے چابی لے کر گاڑی خود ڈرائیو کرکے اسے اپنے فارم ہاؤس لے گیا۔۔

######

بازل کسی سے فون پہ بات کررہا تھا جب ہنزہ بنا ناک کیے اسکے کمرے میں داخل ہوئ ہاتھ میں چکن شاشلک وڈ رائس لے کر۔۔۔

بلیک سمپل سے سوٹ میں ہنزہ بازل کے دل کو بے ایمان کررہی تھی ۔۔۔مگر بازل نے یہ بات قبول۔کرنے سے اپنے دل۔کو منع کردیا۔۔

ہنزہ نے کھانے کی ٹرے اسکے بیڈ پہ رکھی اور کھانے لگی۔

بازل نے کال کٹ کرکے غصہ میں جو کے مصنوعی تھا ہنزہ کو کہا۔

میرے کمرے میں کیا کررہی ہو؟

دیکھ نہیں رہا تمہارا فیورٹ ڈش اپنے ہاتھوں سے بناکے لائ ہو اتنی ٹف روٹین کے باوجود ۔۔۔

ہاں تو مجھے نہیں کھانا جاؤ یہاں سے''

بازل اگر اب تم نے مجھے دھتکارا تو یاد رکھنا جب میں رٹھونگی تو ایسا غائب ہونگی کے یاد رکھوگے پورے 20.گھنٹوں سے میں منا رہی ہو تمہیں۔۔

بازل اسے گھورتا رہا مگر بولا کچھ نہں۔۔

ٹھیک ہے رہو ناراض اب میں بھی ناراض ہونے جارہی ہو۔۔

ہنزہ نے کھانے کے ٹرے وہی چھوڑی اور جیسی ہی جانے کیلے قدم بڑھائے اسکی کلائ۔بازل۔کے ہاتھ میں تھی بازل نے اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا ۔ہنزہ اسکے سینے سے ٹکرائی اور کہا۔۔

ترس نہیں آتا مجھ پہ کل سے منا رہی ہو۔۔

تمہں آیا ترس مجھ سے فضول کی بکواس کرکے۔۔

مزاق تھا بازل ۔۔۔

مجھے نہیں پسند نہ ایسا مذاق نہ ایسی بات جو مجھے تم۔سے دور رکھنے کے متعلق  ہو ۔

اچھا یہ لو کان پکڑ رہی ہو میرے بابا جانی کی توبہ آج کے بعد میں اسی کوئ بات کرو یہ پوچھو۔۔

اب چھوڑ بھی دو کہی کس وس تو کرنے کا نہیں سوچ رہے۔۔

ہنزہ کی بات پہ بازل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

تم مجھے خود سے صحیح طریقے سے ناراض بھی ہونے نہیں دیتی۔۔

یہ بول کے بازل نے ہنزہ کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

بلکل اور ہونا بھی نہیں چاہیے ناراض ہونے کا ڈیپارٹ میرا ہے ۔۔

اچھا میری جان اب جلدی سے کھلاؤ مجھے میری فیورٹ ڈش کل سے کچھ نہیں کھایا میں نے۔۔۔

ہنزہ اور بازل دونوں مل کے کھانا کھا رہے تھے جب بابر صاحب کی آواز پہ بازل کھانا چھوڑ کے نیچے گیا۔۔۔

########

عترت ویسے تو جہاز اڑتے وقت بہت زیادہ ڈر رہی تھی مگر بلاج پہ شو نہیں کرہی تھی۔۔

مگر عترت بھول رہی تھی کے بلاج اور اسکا ساتھ چند دنوں کا نہیں سالوں کا ہے۔۔

جہاز نےجسی اڑان بھری عترت نے پوری مضبوطی سے آنکھیں بند کرکے اپنا چہرہ بلاج کے سینے میں چھپا لیا اور اسکی شرٹ کو مضبوطی سے تھام لیا ۔

کسی احساس کے تحت بلاج نے بھی اسکے کندھے پہ اپنے ہاتھ پھیلائے تھے۔۔

بلاج کا ہاتھ رکھنا تھا کے عترت کرنٹ کھا کے اس سے دور ہوئ یہ لمحہ بلاج کیلے کافی شاکڈ تھا مطلب وہ خود تو اسکے پاس آئ تھی بلاج نے سوچتے ہوئے عترت کو دیکھا اور عترت نے آنکھیں بند کرکے جہاز کی سیٹھ کو تھام لیا۔۔

پورا سفر عترت نے ایسے گزارا جیسے بلاج اسکے لیے انجان ہو۔۔۔

پنڈی کے رستوں کو عترت کافی پرسکون انداز میں دیکھ رہی تھی اور جب وہ اپنے سسرال اپنے گھر پہنچی تو ہاں بلاج نے دیکھا وہ گھر دیکھ کے مسکرائے تھی۔۔۔۔

#######

اففف زویان مجے بہت ڈر لگ رہا ہے یہ بہت اونچا ہے۔۔۔

توکیا ہوا میں ہونا تمہارا ساتھ۔۔

لندن کے مشہور رولر کوسٹر میں بیٹھتے وقت ہیر کافی ڈر رہی تھی مگر زویان کی ضد پہ اسے بیٹھانا پڑا۔۔۔

رولر کوسٹر چلتے ہی ہیر کی چیخ نکلی 

ارے ہیر کیا کررہی ہو چیخ کیوں رہی ہو میری ماں پٹوانا ہے مجھے یہاں۔۔

زویان اسے رکواو پلیز۔۔۔مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔۔

ہیر تقریبا رونے والی ہونے لگی۔۔

اچھا ادھر آؤ میرے پاس زوین نے بہت پیار سے اسے اپنے پاس بلایا۔۔

ہیر جو زویان کے سامنے بیٹھی تھی تیزی سے زویان کے پاس ای۔۔زویان نے ایک۔ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھ کے اسے خود سے قریب کیا اور کہا۔۔

آنکھیں بند کرکے میرے ساتھ بیٹھی رہو ڈر نہیں لگے گا۔۔

زویان کے لہجہ میں کچھ ایسا تھا کے ہیر نے پہلے غور سے زویان کو دیکھا اور پھر اسکے سینے پہ سر کھ کے اسکی کمر کے پیچھے سے ہاتھ نکال کے اس سے لگ کے بیٹھ گئ۔۔۔

کب رولر کوسٹر روکا ہیر کو پتہ نہیں چلا مگر ہیر کے اتنی قربت پہ زویان کا خود کو سنبھلنا بہت مشکل ہوگیا۔

لندن برج پر کھڑے وہ دونوں کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے جب زویان نے اسکے آگے ایک گفٹ باکس دیا اور کہا۔۔

ہیر ۔۔۔

ہم یہ میرے طرف سے تمہارے لیے ۔۔۔

کیا ہے اسمیں؟؟

ہاسٹل جاکے دیکھنا مگر میں اس سے پہلے کچھ کہنا چاہتا ہو۔۔؟؟

ہیر اس سے پہلے کچھ سمجھتی زویان اسکے قریب آیا بے حد قریب اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

مجھے زویان اظہر کو تم۔سے محبت ہوگئ ہے ہیر ۔۔

کب کیسے پتہ نہیں مگر تم دل کا سکون بنتی جارہی ہو نہیں جانتا تمارا جواب کیا ہوگا مگر یہ دل تم پہ فدا ہے۔۔۔

زویان مجھے ہاسٹل جانا ہے ابھی۔۔

زویان نے ہیر کی گھبراہٹ دیکھتے ہوئے اسے ہاسٹل چھوڑا مگر گفٹ اسکے بیگ میں ڈالنا نہیں بھولا۔۔

بلاج اور عترت سفر کرکے تھک۔گئے تھے اسلیے آرام کرنے چلے گئے۔۔

لائبہ(ماسی)نے سارا گھر صاف کیا کھانا بنانے لگی جب عترت کی آواز پہ ایک دم چونکی۔۔۔۔

ہما کھانا میں بناونگی۔۔۔

مگر باجی آپ تو ابھی نئ نویلی دلہن ہیں کھیر میں بھی آپکا ہاتھ نہیں لگا ابھی تک۔۔

ارے یہ رسمیں میں نہیں مانتی جاؤ فریج سے چکن نکال کے لاؤ اور چاول بھی بھگو دو۔۔۔

عترت کی انسٹرکش پہ ہما پھرتی سے کام کررہی تھی سارا کھانا تیار کرنے کے بعد عترت فریش ہونے جیسی ہی روم میں گھسی اسے بلاج روم میں کہی دیکھائے نہی دیا اس نے سوچا شاید باہر ہوگا یہ سوچتے ہوئے اسنے جیسے ہی واش روم کا دروازہ کھولا اندر سے آتے بلاج سے اسکی زور دار ٹکر ہوئ۔۔

مگر بلاج نے اسے کمر سے تھام کے فل وقت تھام لیا۔واش روم لاکڈ کرکے بندہ وش روم یوز کرتا ہے۔۔۔

عترت نے بلاج سے دور ہوکے کہا۔

مجھے کیا پتہ تھا کوئ اچانک آئے گا اور سیدھا بنا ڈور ناکک کی واش روم کا دروازہ کھول دے گا۔۔

بلاج نے بھی دو دو جواب دیا۔۔

عترت کے لمبے سلکی بال جو جوڑے کی صورت میں تھے اوربلاج سے ٹکر ہونے پہ کھل گئے تھے۔۔

عترت انہیں باندھنے لگی اور ادھر بلاج اسکے لمبے بالوں کو دیکھتا رہ گیا۔۔

ویسے بال تو ڈائن جیسے ہیں تمہارے۔۔

بلاج نے واش روم کے اندر جاتی عترت پہ ٹونٹ کرتے ہوئے کہا۔۔

ظاہر سی بات ہے عشق جو افریقہ کے جن سے کر بیٹھی تھی تو اسکے مطابق کچھ تو موازنہ کرنا تھا نہ اپنا تو سوچا بال بڑھا لو کیونکہ کے وہ خود بالوں والا جن جو ہے۔۔

عترت کے جواب پر ایک بار  پھر بیچارا بلاج لاجواب ہوچکا تھا۔۔

بریانی کا چمچ منہ میں ڈالتے ہی بلاج بول پڑا۔۔

ارے واہ ہما تجھے تو بریانی بنانا آگئ واہ بھئ کیا بریانی بنائ ہے۔۔۔

ارے بلاج بھائ یہ بریانی یہ سارا کھانا میں نے نہیں عترت باجی نے بنایا ہے۔۔

ہما کی بات سنتے ہی بلاج کے منہ میں نوالہ پھنس گیا۔۔

اسنے جلدی سے پانی پیا اور غور سے عترت کو دیکھنے لگا مگر عترت اسے کوئ فرق نہیں پڑا وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔۔

پورا کھانا بلاج کی پسند کا تھا۔یہ ہی دیکھ دیکھ کے بلاج مسکرا رہا تھا۔۔

کھانا کھا کے وہ کمرے میں آکے اپنا یونیفارم پہننے لگا عترت جو آرام کرنے غرض سے کمرے میں آئ تھی بلاج کو یونیفارم میں دیکھ کے پل بھر کی ٹہر سی گئ اسے اندازہ نہیں تھا بلاج پہ ائیر فورس کا یونیفارم اتنا اچھا لگے گا۔۔

کچھ یاد آنے پہ عترت نے اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلہ اور سونے کیلے لیٹ گئ مگر ترچھی ترچھی نگاہوں سے بلاج کو دیکھ رہی اور یہ بات بلاج نوٹ کرچکا تھا ۔۔۔

بلاج نے عترت کے پاس رکھی سائیڈ ٹیبل پہ سے اپنی واچ اٹھائ اور دھیرے سے جھک کے عترت کو دیکھتے ہوئے کہا۔

تمہارا ذاتی پر منٹ شوہر ہو دور دور سے کیوں تاڑ رہی ہو یہ لو پاس آگیا ہو دیکھ لو جی بھر کے کیا پتہ پھر ملو نہ ملو۔۔

جن سے نفرت ہوتی ہوے انکے چہرے کو قریب سے دیکھنے میں گھن آتی ہے لہذا آئندہ میرے اتنے قریب مت آئیے گا۔۔

عترت کا ایسا بولنا بلاج کے غصہ کو ہوا دینے کیلے کافی تھا۔۔

اسنے جھٹکے سے عترت کو اپنے روبرو کھڑا کیا اور کہا۔ 

تو دعا کرو میرے مرنے کی عترت۔۔۔

بیوفائ تم نے کی میرے پیار کا مذاق تم۔نے بنایا میری محبت میں شرک تم نے کیا اور سزا مجھے دے رہی ہو تم۔۔۔

آپ مرے یہ جیے میری صحت پر اب کوئ اثر نہیں پڑے گا عترت نے اپنے آپکو چھڑواتے ہوئے کہا۔۔

پہلے بھی بولا تھا آج بھی بول رہی ہو جب دل چاہے یہ بے نام اذیت بھرا رشتہ ختم کردیجیے گا مجھے فرق نہیں پڑے گا بہت بھگت لی میں نے سزا بنا جرم۔کے اب بس اور ایک بات اور دوبارہ میرے قریب مت آئیے گا ورنہ مجھے نہیں پتہ میں کیا۔کر بیٹھونگی۔۔

ایک بار محبت کرنے کی قیمت چکا چکی ہو بار بار نہں چکاونگی۔۔

عترت کی بات سن کے بلاج غصہ میں چلا گیا اور عترت وہی رونے بیٹھ گئ۔۔

######

شانزے اور مراد کے ساتھ واقع کا سن کے شانزے کی ماں کا برا حال تھا جواد صاحب ہر جگہ شانزے کی تلاش کرچکے تھے ۔

صنم بھی بھر پور طریقہ سے شانزے کو ڈھونڈ رہی تھی مگر کوئ سوراخ نہیں مل رہا تھا اگلے دن کی صبح ہوگئ تھی۔۔جوان بیٹی ساری رات گھر سے باہر تھی یہی۔ سوچ سوچ کے شانزے کی ماں کی بری حالت تھی۔۔

مراد کے سر پہ دو ٹانکے آئے تھے اس لیے وہ سو رہا تھا ۔۔

یااللہ میری بچی کی حفاظت کرنا اسے اپنے حفظ وامان میں رکھنا۔۔۔شانزے کی ماں کا رو رو کر برا حال تھا۔۔

فکر نہیں کرے بھابھی شانزے ساتھ خیریت سے اجائے گی۔۔

جواد صاحب بلکل نڈھال گھر آئے اور آتے ہی رو ہڑے۔۔

ارے انکل۔اپ۔تو ہمت نہیں ہارے مل جائے گی انشاء اللہ شانزے مجھے بھروسہ ہے۔۔

صنم شاہجاں بیگم دونوں ہی انکے گھر پہ موجود تھی صنم کا خود برا حال تھا مگر وہ سب کو سنبھالے ہوئے تھے۔۔

صائم 10 دنوں کیلے لاہور گیا ہوا تھا کام۔کے سلسلے میں اسلیے صنم اپنے آپکو بہت اکیلا محسوس کررہی تھی۔۔۔

صنم کو اچانک کچھ یاد آیا اور وہ شاہجاں بیگم کو کچھ دیر میں آنے کا بول کے گھر سے نکلی اور نکلتے ہی اس نے بہزاد کو کال ملائ۔۔

آگے سے بہزاد کے کہنے پہ وہ دس منٹ گاڑی کا ویٹ کرنے لگی ۔گاڑی آتے ہی صنم اس میں سوار ہوگئ۔۔

گاڑی سیدھا بہزاد کے فارم ہاؤس پہ جاکے رکی ۔۔

صنم تیزی سے اندر بھاگی تو سامنے ہی اسے بہزاد دیکھائ دیا۔۔

بی ایم آپکو پتہ ہے شانزے کل رات سے غائب ہے اور آپ اتنے سکون سے یہاں بیٹھے ہیں۔؟

صنم کی بات سن کے بہزاد اسے ایک روم میں لے گیا جہاں وہی تین لڑکے آدھ مری حالت میں تھے۔۔۔۔

یہ لوگ کون ہے؟؟

یہی وہ لوگ ہیں صنم جنہوں نے شانزے کو اغواہ کیا تھا۔۔

بہزاد کے بولنے پہ صنم نے حیرت سے بہزاد کو دیکھا اور پوچھا۔۔

یعنی شانزے آپکے پاس ہے؟

ہاں ۔

افف شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہاں ہے شانزے؟

صنم ابھی بیہوش ہے کافی مقدار میں اسے کلورفام سنگھایا گیا ہے۔۔

بی ایم اسکا گھر جانا ضروری ہے اسکے والدین بہت بری حالت میں ہے۔۔

صنم تم نے پوچھا نہیں شانزے کو اغواہ کس نے کیا ؟؟

بی ایم انہیں لڑکوں نے کیا ہے نہ۔

نہیں صنم یہ تو مہرے ہیں اصل کھلاڑی تو کوئ اور ہے۔۔

مطلب میں سمجھی نہیں بی ایم۔۔۔

ایک منٹ یہ بول کے بہزاد نے ان لڑکوں کے پاس رکھا موبائل اٹھایا اور ایک نمبر ملا کے اس لڑکے کو ایک گھونسا مار کے بات کرنے کو کہا۔۔

کال پک ہوتے ہی جو آواز صنم نے سنی اگر ساتھ میں بہزاد نہیں کھڑا ہوتا تو یقینا صنم زمین بوس ہوجاتی۔۔

۔میں نے تم سے کہا تھا نہ جو کرنا ہے اس لڑکی۔کیساتھ کرو بس مارنا نہیں اسے اور اب فون نہیں کرنا مجھے تمہارے پیسے پہنچ جائینگے تم تک۔۔۔

مراد تو کہہ کے کال کٹ کرچکا تھا مگر صنم کتنی ہی دیر تک صدمے میں رہی ٹپ ٹپ اسکے آنسوؤں جاری تھے۔۔

بہزاد نے اس سے پہلے کچھ کہتا ماسی نے آکے بتایا کے کمرے والی بی بی کو ہوش اگیا ہے وہ چلا رہی ہے۔۔۔

صنم اور بہزاد فورا شانزے تک پہنچے۔

صنم کو بہزاد خاموش رہنے کیساتھ کمرے کے باہر ہی کھڑا ہونے کو کہا۔

بہزاد جیسی ہی کمرے کے اندر داخل ہوا۔

شانزے نے پہلے اپنے سر کو تھامتے ہوئے بہزاد کو دیکھا ۔۔

اپنے مجرم کے روپ میں بہزاد کو سامنے دیکھ کے شانزے آپے سے باہر ہوگئ۔

تم نے مجھے اغواہ کروایا۔۔؟؟

شانزے کے سوال پہ بہزاد چونکا نہیں کیونکہ اسے اندازہ تھا مگر اگلا عمل جو شانزے نے کرا اسکی توقع بلکل بھی بہزاد نے نہیں کری تھی۔

ایک زور دار چماٹ شانزے نے بہزاد کے منہ پہ دے مارا اسکا کالر پکڑ کے چیخ کے کہا۔

تم گھٹیا تو تھے یہ تو مجھے پتہ تھا مگر اتنا گھٹیا ہوگے اسکا مجھے اندازہ نہیں تھا اپنے مزے کی خاطر تم کسی لڑکی کی عزت سے کھیل گئے میں نے تم سے کہا تھا میں مراد سے محبت کرتی ہو دور رہو مجھ سے مگر تمہاری تو رال ٹپک گئ اپنی سے کئ گناہ چھوٹی لڑکی کو دیکھ کے صحیح کیا تھا تمہاری بیوی نے کسی اور کیساتھ۔۔

بسسسسس۔۔۔۔۔۔

آگے کی بات اس سے پہلے شانزے بولتی بہزاد اتنی زور سے چیخا کے شانزے کیساتھ ساتھ  باہر کھڑی صنم بھی ڈر گئ۔۔

شانزے کے بال بہزاد کی مٹھی میں تھے ۔۔۔

اہہہہہ چھوڑو مجھے جنگلی جانور چھوڑو مجھے۔۔شاںزے تکلیف سے کراہنے لگی۔۔

چھوڑونگا تو میں اب تمہیں بلکل بھی نہیں ابھی تک جو ہوا ہنسی مذاق تھا میری نظر میں مگر اب جو میں تمہارے ساتھ کرونگا تماری روح تک کانپ جائے گی ۔۔

یہ بول کے بہزاد نے شانزے کو زور سے زمین پہ پھینکا اسکا سر بری طرح زمیں سے ٹکرایا اور وہ بیہوش ہوگئ۔۔

بہزاد گیٹ کھول کے باہر آیا تو۔ صنم ڈری سہمی سی کھڑی تھی۔۔

صنم تم گھر جاؤ ابھی اور کسی سے بھی کوئ بات نہیں کرنا۔۔

بی ایم مجھے شانزے سے بات کرنے دے میں بتاونگی کے وہ غلط سمجھ رہی ہے آپکے بارے میں۔۔

میں تم سے کہا نہ صنم کے تم گھر جاو۔ممم

بہزاد کے لہجے میں ایسا کچھ تھا کے صنم ایک بار پھر ڈر گئ۔۔

شانزے  کے والدین بہت ذیادہ پریشان ہیں بی ایم ۔۔

ہونے دو پریشان تین دن اور اب یہ یہاں سے میری مرضی سے ہی جائے گی یاد رکھنا صنم اگر تم نے اپنا منہ کھولا تو اچھے کی امید مجھ سے بھی نہیں رکھنا

۔

بہزاد کی ہری آنکھیں آج انگارا بنی ہوئ تھی صنم نے بہزاد کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا اسے پتہ تھا بہزاد جو بولتا ہے وہ کرکے رہتا ہے اسلیے وہ بنا بحس کیے وہاں سے چلی گئ۔۔۔

بہزاد نے صنم کے جاتے ہی ایک بار پھر شانزے کے کمرے کی راہ لی۔۔

ہیر پوری رات سو نہ سکی زویان کا کیا اظہار بار بار  اسکے دماغ میں آرہا تھا ابھی ایک مہینہ تو ہوا تھا اسے زویان سے ملے ہوئے اتنی جلدی یہ سب ہوگیا بعض اوقات اسے یہ سب بہت عجیب سا لگتا مگر پھر زویان کا رویہ سوچتی تو سب کچھ اچھا لگتا۔۔

کیا ہے ؟

الوو کی طرح جاگ کیوں رہی ہو؟؟

سدرہ نے نیند میں ڈوبی آواز میں کہا ۔

یار سدرہ تو سوجا تو میری کوئ ہیلپ نہیں کرسکتی میں بہت بڑی مشکل میں پھنس گئے ہو۔۔۔۔

ہیںںںںںںںں...

کیا ہوا؟

سدرہ ایک جھٹکے سے اٹھ کے بیٹھ گئ اسکی نیند اڑن چھو ہوگئ تھی ہیر کی بات سن کے۔۔۔۔

ایسا کیا ہوگیا ہیر دیکھ مجھ سے مت چھپانا کیا ہوا تجھے ہائے اللہ خوشبو آنٹی نے مجھے تیرا دھیان رکھنے کو کہا تھا ۔ہیر سچ بتا کیا ہوا ہے؟

 کہی زویان نے تیرے ساتھ کچھ الٹا سیدھا۔۔۔۔۔

سدرہ نے کافی پریشانی میں جو بولنا شروع کیا تو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔۔

ارے یار بریک تو لگا اپنی زبان کو جب بھی بولتی ہے بکواس ہی کرتی ہے۔۔۔

ہیر کی بات پہ سدرہ نے سڑا ہوا منہ بناکے کہا۔

جس طرح تو رات کے اس پہر پچھل پیری کی۔طرح یہاں سے وہاں چکر لگا رہی ہے کوئ بھی نارمل بندہ تجھے دیکھے گا تو پہلے سوال اسکے دماغ میں یہ ہی آئے گا جو میں نے پوچھا۔۔۔۔

افف رک بتاتی ہو۔۔۔

یہ بول کے ہیر اپنے بیگ میں سےا یک گفٹ باکس لے کر ائ۔۔

جیسے دیکھتے ہی سدرہ فورا ایکسائیٹیڈ ہوکے پوچھنے لگی۔۔

یہ زویان نے دیا ہے؟

ہاں ۔۔

ہیر نے اسے زویان کے پربوزل کے بارے میں بتایا جیسے سن کے سدرہ بہت خوش ہوئ جب ہیر نے باکس کھولا تو اس میں ایک رنگ تھی بلیو ڈائمنڈ کی خوبصورت سی۔۔

ہیر اور سدرہ دونوں کی آنکھیں رنگ دیکھ کے کھلی کی کھلی رہ گئ ساتھ میں ایک لیٹر تھا۔۔

لیٹر اٹھا کے ہیر نے پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا تھا۔۔

"مجھے پتہ ہے تمہارے لیے یہ سب بہت شاکڈ ہوگا مگر ہیر مجھے تم سے پہلی نظر کا پیار ہوگیا کوشش کری میں نے بہت کے اس بات کو اگنور کرو کے دل تم سے محبت کرنے کیلے مچل رہا ہے بار بار مجھے اکسا رہا ہے تم سے محبت کرنے کیلے مگر دل کے آگے میں بے بس ہوگیا ہو بہت محبت کرتا ہو تم سے ہیر اگر تمہیں میرا ساتھ قبول ہے تو یہ رنگ پہن کے کل مجھے یونی کے لان میں ملنا ۔۔"

ہ

اوہہہ بھئ داستان عشق محبت عروج پہ ہے۔۔۔

سدرہ نے تقریبا ہیر کو پورا ہلا کے بولا۔۔

یہ وجہ ہے سدرہ میرے جاگنے کی۔

تو بتا یہ سب صحیح ہے میں کیسے ایسے ایکسپٹ کرو۔؟

مطلب زویان نے تمہارے لیے خود کو بدل لیا ہے مجھے لگتا ہے وہ بہت سیریس ہے تمہارے معاملے میں باقی تم دیکھ لو ہیر ۔۔

"ویسے میں نے سنا ہے دروازے پہ کھڑی محبت کو ٹھکراتے نہیں"

#####

شانزے کے رات کے پہر آنکھ کھلی سر میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے شانزے دوبارہ آنکھیں بند کرگئ۔۔

دوبارہ ہمت کرکے اٹھی مگر جیسی ہی اسکی نظر براںر میں لیٹے بہزاد پہ پڑی وہ ایک دم چیخ پڑی۔

شانزے کی چیخ سن کر بہزاد جو جاگ رہا تھا ایک دم ریلکس انداز میں اٹھ کے اسکے قریب آنے لگا۔

شانزے اس سے ڈر کے جیسی ہی پیچھے ہونے لگی اسکی نگاہ اپنے کپڑوں پہ گئ یہ وہ کپڑے نہیں تھے جسمیں وہ اغواہ ہوئ تھی۔۔

شانزے نے سکتہ کی حالت میں پہلے بہزاد کو دیکھا اور پھر اپنے کپڑوں کو ۔۔ایکدم اس نے بہزاد کا کالر پکڑ کے چیخ کے کہا۔۔

"کرلی تم۔نے اپنی حوس پوری بہزاد برباد کردیا مجھے اب اب مجھے مجھے۔۔

شانزے تیزی سے اٹھ کے دروازے کی طرف جانے لگی جب بھاگتے ہوئے بہزاد نے اسے کمر سے پکڑ کے لاکے دوبارہ بیڈ پہ پھینکا اور جیسی ہی اس پہ جھکا شانزے  ایک دم اسکے آگے ہاتھ جوڑ کے بلک بلک کے رو ہڑی۔۔

"مجھے جانے دو بہزاد مجھے برباد تو کردیا ہے تم نے مجھے مرجانے دو مجھے جینا نہیں ہے پلیز""

یہ جو تمہاری نیلی آنکھیں ہیں نہ آنسوؤں سے بھری زہر لگتی ہیں رونا بند کرو۔۔۔۔

شانزے نے اور زور زور سے رونا شروع کردیا

۔اگر گھر جاکے کسی کو بھی کچھ بتایا جو بھی تمہارے ساتھ   ہوا تو یقین جانو  تمہارے ماں باپ اسکی قیمت چکائنگے۔۔

اب یہ اپنے کپڑے بدلو گارڈ چھوڑ دینگے تمہیں۔۔۔

بہزاد کے اشارہ کرنے پہ شانزے کسی ریبورٹ کی طرح کپڑے اٹھا کے واش روم جانے لگی مگر فروٹ باسکٹ میں سے چھری اٹھانا نہیں بھولی مگر یہ بھول گئ تھی کے بہزاد بھی اسی کمرے میں موجود ہے شانزے جیسی ہی واش روم میں جانے لگی بہزاد نے چھری والا ہاتھ شانزے کا پکڑ کے کمرے کی طرف لیجاکے اسکے ہاتھ سے چھری لیتے ہوئے کہا۔۔

اگر آج کے بعد اپنے آپکو نقصان پہچانے کا سوچا تو تمہارے ماں باپ اسکا خمیازہ بھگتے گے ۔۔

یہ کہہ کر بہزاد نے شانزے کو چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

شانزے کو بہزاد کے گارڈ گھر کے پاس چھوڑ کے اگئے۔۔

شانزے اپنے گھر کی بیل بجاتے بجاتے بیہوش ہوگی۔۔

آج کچھ امپورٹڈ گیسٹ آرہے ہیں نفسیہ دوپہر میں لنچ کا ارینج کرلے نہ۔۔۔۔۔

کون آرہا ہے بابر؟

میرے بزنس فرینڈ اور انکی وائف آرہی ہیں۔

بازل کہاں ہے؟

ہنزہ کیساتھ ہے لان میں۔۔۔۔

اچھا چلو اچھا ہے گھر میں یے۔۔۔

بابر صاحب یہ بولتے ہوئے کمرے سے چلے گئے مگر نفیسہ بیگم کا دل ہولنے لگا۔۔

#######

شانزے اللّٰہ کا واسطہ ہے گیٹ کھول دو میرا کیا قصور ہے یار۔۔

صنم مسلسل دروازہ بجا بھی رہی تھی اور رو بھی تھی۔۔

شانزے گھر تو اچکی تھی ۔مگر نہ تو کسی سے بات کررہی ہے تھی نہ کمرے سے باہر نکل رہی تھی جواد صاحب اپنی اکلوتی بیٹی کی حالت دیکھ کے بستر سے لگ چکے تھے انکی وہ بہن جسے انہوں نے بیوگی میں سہارا دیا انکی رویہ انکی آنکھیں اب بدل چکی تھی ۔۔

جواد صاحب آنکھیں موندیں لیٹے تھے جب انکی بہن انکے کمرے میں داخل ہوئ۔۔

بھائ صاحب مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔

ہاں بولو نائلہ۔۔۔

بھائ صاحب کمپنی کی طرف سے مراد کو گھر ملا ہے آج شام ہم لوگ وہی شفٹ ہورہے ہیں۔۔

اچھا اچھا چلو اچھی بات ہے ۔۔۔

بھائ صاحب ایک اور بات کہنی تھی ۔

جواد صاحب کا دل جس بات سے ڈر رہا تھا وہی بات انکی بہن نے کہہ دی ۔

بھائ صاحب پورا محلے کو پتہ چل چکا۔یے کے شانزے کیساتھ کیا ہوا اسلیے وہ۔۔۔۔۔۔

کھل کے کہو نائلہ کیا کہنا چاہ رہی ہو؟

بھائ صاحب مراد نے انکار کردیا ہے شانزے سے شادی کرنے کو اب جوان اولاد ہے میں اسکے ساتھ زبردستی کو کر نہیں سکتی اس وجہ سے یہ رشتہ بھی آپ ختم سمجھے ۔۔۔

یہ بول کے نائلہ بیگم رکی نہیں بلکے چلی گئ یہ جانے بغیر کے انکے بھائ کی انکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔۔

صنم نے جیسے تیسے کرکے شانزے سے دروازہ کھلوالیا تھا مگر اندر جاکے جب اسنے کمرے کیساتھ ساتھ شانزے کی حلات دیکھی تو اسے رونا اگیا۔۔

شانزے میری جان بس کردو کیوں کررہی ہو اپنے ساتھ ایسا؟؟

صنم سب کچھ ختم ہوگیا بہزاد نے سب ختم کردیا۔۔

ہوسکتا ہے شانزے جو تم بی ایم کے بارے میں سوچ رہی ہو ویسا نہ ہو۔۔۔

یعنی تمہیں میری بات پہ بھروسہ نہیں صنم مجھے اغواہ کروانے والا  بہزاد تھا۔۔شانزے نے کافی غصہ میں یہ بات کہی تھی۔۔۔

مراد تو تم سے محبت کا دعویدار تھا تو کیوں چھوڑ گیا تمہیں اس حالت میں اکیلا یہ جانتے بوجھتے کے اسے اس وقت تمہیں اسکی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔

مراد چلا گیا ہے شانزے اس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔۔

صنم کی بات پہ شانزے صنم کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔

####$$$

تم جانتے ہو بہزاد تم۔کیا بول رہے ہو ؟؟

ہاں ملکہ مجھے پتہ بس تمہیں جو میں کہہ رہا ہو تم وہ کرو۔۔۔

مگر بہزاد وہ چھوٹی ہے تم سے بہت۔۔۔

تو کیا ہوا میں کونسا ساٹھ پینسٹھ کا ہو۔۔

جواد صاحب نہیں مانیں گے بہزاد اور نہ شانزے۔۔۔

وہ میرا کام ہے ملکہ جواد صاحب کو منانا تم بس پرسوں انکے گھر چلنے کی تیاری کرو۔۔۔

یہ کہہ کے بہزاد نے کال کٹ کر صنم کو ملائ۔۔۔

#######

زویان کافی دیر سے ہیر کا ویٹ کررہا تھا مگر وہ نہیں آئ ۔۔

زویان افسردہ سے وہاں سے جانے لگا جب پیچھے سے ہیر نے اسے پکارا۔۔۔

زویان۔۔

اپنے نام کی پکار پہ زویان پلٹا تھا اسنے ہیر کو مسکرا کے دیکھا تھا مگر زویان کی نظر ہیر کے ہاتھوں پہ۔تھی۔جہاں اسنے زویان کی دی ہوئی رنگ پہنی تھی۔۔

زویان نے ہیر کے ہاتھ میں انگھوٹی دیکھ کے  اسے گلے لگالیا۔

مگر دوسیکنڈ میں ہی اس ے الگ ہوکے کہا۔

ہیر تم کانپ کیوں رہی ہو؟؟

ہیر نے بہت مشکل۔سے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہا۔

کبھی کسی نے اسپیشل فیل نہیں کروایا سوچا نہیں تھا کے محبت کا احساس اتنا حسسین ہوتا ہے۔۔

ہیر بول کے مسکرانے لگی اور زویان اسکے لفظوں میں کہی کھویا۔

آگے بڑھ کے زویان نے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور اسکے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے کہا۔

تمہارا ساتھ کسی نعمت سے کم نہیں میرے لیے ہیر سوچا نہیں تھا کے کبھی کسی لڑکی سے سچی محبت ہو جائے گی پہلی نظر کا پیار ہو جائے گا۔۔۔۔۔ہیر نے بھی اسے کمر سے تھام لیا تھا۔۔

آنی سے شروع سے ہوکے آنی پہ ہی ختم تھی میری دنیا زویان ۔۔کچھ بھی کریے گا ڈانٹیے گا ،مار بھی لیے گا ،مگر کبھی مجھے دھوکا مت دیجئے گا میں برداشت نہیں کرپاونگی۔۔

ہیر کے بولنے پہ زویان کے الفاظ ختم ہوگئے تھے اسنے اپنے  گردن ہاں ہلائی اور اسے اپنے باہنوں میں اور مضبوطی سے لے لیا۔۔

######

بابر صاحب کے دوست نعمان صاحب کی فیملی اچکی خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا جارہا تھا۔۔

ہنزہ ان سب کے درمیان نہیں تھی کیونکہ آج ہسپتال میں ایمرجنسی ہوگئ تھی

نعمان صاحب وقفے وقفے سے بازل سے کوئ نہ کوئ سوال کرہے تھے نعمان صاحب کی مسسز حاجرہ بیگم نفیسہ اور ندا بیگم سے باتوں میں لگی تھی مگر وقفے وقفے سے بازل پہ نگاہ ڈال رہی تھی جبکہ انکی بیٹی سارا مکمل خاموش تھی ۔۔۔

جاؤ بازل بیٹا سارا کو لان میں لیجاو یہاں بڑوں میں بیٹھی بور ہورہی ہے ۔۔

نہیں انکل میں صحیح ہو۔۔۔۔

سارا تو ہلکا سا احتجاج کیا مگر اپنے پاپا کے گھورنے پہ وہ بازل کیساتھ لان میں آگئ بازل کو بھی اپنے پاپا کی یہ بات تھوڑی عجیب لگی مگر اس نے کوئ خاص ریکٹ نہیں کیا۔۔

سارا خاموشی سے لان میں ٹہل رہی تھی بازل۔اور وہ دونوں خاموش تھے جب بازل نے اس افسردہ سی لڑکی کو دیکھ کے کہا۔۔

ایسی خاموش رہتی ہیں یہ آج ہی زیادہ خاموش ہیں؟؟

نہیں ایسی بات نہیں ہے بس میں ذیادہ بات چیت نہیں کرتی ۔۔

ہممم ۔۔۔کیا مصروفیات کے آپکی اجکل۔۔؟

بازل خود بھی کنفیوز ہورہا تھا سارا کیساتھ اسلیے وہ اپنی جھینپ مٹانے کیلے وہ سارا سے باتوں میں لگ گیا۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ لان میں آئے تو سارا کی ممی نے اسے صوفے پہ بیٹھایا تو سفینہ بیگم نے اسے لال ڈوپٹہ اڑوادیا۔۔

اس سے پہلے بازل کچھ سمجھتا بابر صاحب نے اسے رنگ دے کے سارا کو پہنانے کو کہا۔۔

بازل کو لگا اس کو اوپر پورا گھر گھرگیا۔۔۔اسکے قدم ڈگمگائے تھے اسنے آنکھوں میں آنسوؤں لیے بے یقینی سی کیفیت میں بابر صاحب کی طرف دیکھ کے نفی میں گردن ہلائی ۔۔

بابا میں یہ نہیں کرسکتا..

میری عزت کا تماشہ نہیں بنانا سب کے سامنے اس لڑکی کو دیکھو خاموشی سے اپنے ماں باپ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا اور تم ہو خیال نہیں میرا ۔۔

یہ پکڑو انگھوٹی اور پہناؤ سارا کو۔۔

بازل نے ایک شکوہ بھری نظر سفینہ بیگم پہ ڈالی تو وہ نگاہ جھکا گئ فہیم صاحب حاجرہ بیگم بھی گم سم۔کھڑی تھے۔۔انہیں اندازہ نہیں تھا کے بابر صاحب ایسا کچھ کرینگے۔۔۔

بازل کسی لاش کی مانند سارا کے برابر میں بیٹھ گیا سفینہ بیگم نے بازل کا ہاتھ پکڑ کے اس سے سارا کو انگھوٹی پہنائ۔۔

تبھی کسی چیز گرنے کی آواز پہ سب دروازہ کی طرف متوجہ ہوے۔۔

جہاں ہنزہ ساکن نظروں سے یہ منظر دیکھ رہی جسکے ہاتھ سے بازل کیلے لایا ہوا گفٹ زمین بوس ہوچکا تھا۔۔

ایک جھٹکے سے وہ پلڑ سے لگی تھی۔۔

حاجرہ بیگم جو اپنی بیٹی کے دل کی ہر بات جانتی تھی ڈورتی ہوئ ہنزہ تک پہنچی اور اسکا ہاتھ تھام کے بازل اور سارا کے پاس لائ۔۔

ہنزہ نے بہت مشکل سے اپنے ہاتھوں سے ان دونوں کا منہ میٹھا کیا اور ایکسکیوز کرکے کمرے میں چلی گئ ۔

بابر صاحب نے نعمان صاحب کو جو کے کافی مشکوک نظروں سے ہنزہ کو دیکھ رہے تھے انکا شک دور کرنے کیلے بول پڑے۔۔

اصل میں بازل اور ہنزہ بہت اچھے دوست ہیں آج بازل کی منگنی ہے یہ بات اس نے ہنزہ سے چھپائ جبھی وہ ناراض ہوگئ۔۔

اوہ اچھا اچھا۔۔۔

بابر صاحب کے کہنے پہ نعمان صاحب نے سکون کا سانس لیا۔۔

#######

شانزے جواد کیا آپکو بہزاد راجپوت سے 1 کروڑ حق مہر سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے ؟؟؟

شانزے نے ایک۔نظر اپنے بابا کی طرف دیکھا جنکی آنکھوں میں صرف التجا تھی شانزے نے بہتی آنکھوں کیساتھ نکاح نامے پہ دستخط کردیے۔۔

بہزاد کے پرپوزل پہ جواد صاحب کافی حیران تھے مگر انکی بیوی کے سمجھانے پہ انہوں نے بنا شانزے کی مرضی جانے ہاں کردی۔۔

بہت زیادہ سادگی سے یہ نکاح ہوا تھا جسمیں صرف شاہجاں بیگم کی فیملی شامل تھی۔

بہزاد کی طرف سے دیے گئے جوڑے میں شانزے دولہن بن کے بہت حسین لگ رہی تھی مگر شانزے کو وہ سب کفن جیسا معلوم ہورہا تھا۔۔

شانزے نہ صنم سے کوئ بات نہیں کی۔اور نہ رخصت ہوتے ہوئے وہ اسکے گلے لگی۔۔

بہزاد مینشن میں قدم رکھتے ہی شانزے کی۔انکھیں حیرت سے کھل گئی ۔کیونکہ۔زندگی میں اسنے کبھی اتنا بڑا گھر نہیں دیکھا تھا نہ اس نے یہ سوچا تھا کے اسکا استمال دلہن بن کے ایسا ہوگا۔بہزاد اسے چھوڑ کے جا چکا تھا ۔۔

نغمہ بیگم نے اسکو گلے لگاکے اسکا استقبال کیا۔۔

نورا ماسی کے ذریعے اسے اسکے کمرے میں پہنچایا گیا ۔

شانزے نے جب کمرہ دیکھا جو بہت ہی شاندار فرینچر سے فرنشڈ تھا ۔سامنے دیوار پہ بہزاد کی بہت بڑی تصویر لگی تھی۔۔

پورا کمرے میں جگہ جگہ ریڈ روز کے بوکیڈ تھے۔۔

مگر شانزے کارل کررہا تھا اس کمرے کو آگ لگا دے۔۔

اچانک دروازہ کھلا اور بہزاد اندر ایا۔۔

بہزاد کمرے میں آیا تو وہ آئینہ کے سامنے بیٹھی جیولری اتار رہی تھی ۔وہ ترچھی انکھوں سے بہزاد کا آنا کمرے میں دیکھ چکی ہے تھی۔۔

بیشک وہ نیلی آنکھوں والی آج بہت زیادہ حسین لگ رہی تھی دلہن بن کے مگر بہزاد جسکو  اب صرف نفرت تھی اس سے صرف نفرت ۔۔

بہزاد نے اسکی پیچھے آکے اسکے کندھوں کو سختی سےتھاما۔۔

دو پل کیلیے اس نے نگاہ اٹھا کے سامنے دیکھا مگر فورا نگاہ جھکا گئ ۔۔

جب بہزاد نے طنزیہ اسکے کندھے پہ  اور زور دے کر پوچھا۔۔

کیسا لگ رہا ہے ایک بچے کے باپ سے شادی کرکے افسوس ہورہا ہوگا نہ بہت شرم آرہی ہوگی کہاں تم کہاں میں اب کیسے بتاؤ گی  سب کو کے تمہاری شادی 32 سال کے مرد سے ہوگئ جو کے ایک بچے کا باپ ہے۔۔

بہزاد کی بات سے سن کے  وہ مسکرا کے کھڑی ہوئ اور اسکے روبرو آکے کہا۔۔

مجھے کیوں افسوس ہوگا بھئ ؟؟

مجھ سے تو اپنے دھوکے سے شادی کری ۔۔

یہ بول کے شانزے  جانے لگی جب جاتے جاتے مڑ کے کہا۔۔

ہاں مگر آپکو شرم نہ آئے جب آپکے ریلیٹیو یہ۔اپکے دوست آپ سے پوچھے کے اتنی کم عمر لڑکی سے شادی کیوں کری ؟

یہ بول کے وہ بہزاد کے آگ لگا چکی تھی جانے کیلے مڑی جب اسکے پال بہزاد کی مٹھی میں تھے۔۔

بہزاد کی مٹھی میں شانزے کے بال تھے مگر اسنے پھر بھی بہزاد سے کہا۔۔

"مت سوچیے گا کے آپ مجھ پہ ظلم و ستم کرینگے تو میں سہتی رہونگی میرے ماں باپ نے بھلے مجبوری میں آپ سے شادی کری ہے مگر میں مجبور نہیں ہو۔۔"

چھوڑے مجھے آپ ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہے جس نے صرف مجھ سے جسمانی دلچسپی رکھتے ہوئے میری زندگی برباد کردی۔۔

بہزاد بہت غور غور سے شانزے کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں تکیلف کے آثار واضح نظر آرہے تھے مگر پھر بھی اسکی ہمت قابل دید تھی۔۔

یہ بات بہت پہلے ہی بہزاد ایکسپٹ کرچکا تھا کے شانزے جواد خوبصورت ہے۔۔۔

بہزاد نے بہت آرام سے اسکے بال۔چھوڑ دیے مگر اسے خود سے دور جانے نہیں دیا۔۔۔

بہزاد کی ہری آنکھیں میں غصہ کیساتھ ساتھ شانزے کو کچھ اور بھی محسوس ہوا اس نے بہزاد سے اپنے آپکو چھڑوانے کی بھی بھر پور کوشش کی مگر وہ دیو جیسا شخص شانزے جتنا اس سے خود کو چھڑوانے کی  کوشش کرتی بہزاد اسے اپنی باہنوں میں اتنا ہی قریب کرتا۔۔۔

فضول میں اپنی انرجی ویسٹ کررہی ہو دھان پان سی ہو جتنی اکڑ مجھے دیکھاوگی اتنا ہی نقصان اٹھاوگی۔

۔اپ سے شادی کرکے مجھے کونسی شہزادیوں والی فیلنگ آرہی ہے چھوڑے مجھے۔۔

شانزے ایک بات یاد رکھنا جو عورت مرد کو اکڑ دیکھاتی ہے خاص کر اسے جو اسکا محرم ہو تو یقین جانو اپنا ہی نقصان کرتی ہے اور نقصان بھی وہ جسکی بھرپائ وہ ساری زندگی نہیں کرپاتی۔۔

بہزاد نے اسکی کمر پہ اپنے مظبوط ہاتھ رکھ کے اسے خود سے اور قریب کیا اب عالم یہ تھا کے بہزاد کی ہری آنکھیں شانزے کی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں گڑی تھی۔۔۔

آپ میرا اور کتنا نقصان کرینگے بہزاد ۔۔۔

شانزے یہ بول کے روپڑی۔۔

ایک منٹ کے اندر اندر شانزے اگر تم نے اپنے یہ آنسوؤں نہیں روکے تو پھر تم مجھے نہیں روک سکوگی آج کی رات ۔۔

زہر لگتی ہیں مجھے تمہارے یہ۔انکھیں آنسوؤں کیساتھ۔بہزاد کے کہنے پہ شانزے نے اپنے دونوں ہاتھ ایک بار پھر اسکے سینے پہ رکھ کے اس سے دور ہونے کی۔کوشش کری اور کہا۔۔

میری آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ صرف آپ ہیں آپکو میری آنسوؤں زہر لگتے ہیں اور مجھے آپ ۔۔۔

زہر لگو یہ شہد اب تو تمہارا نصیب ہو۔۔۔

میں اپنا نصیب بدل لونگی۔۔

شانزے کی بات سن کے بہزاد کے لب مسکرائے اور اس نے کہا۔۔۔

جو شخص بہزاد کے نصیب میں اسکے رب نے لکھ دی ہے وہ اس سے صرف موت ہی چھین سکتی ہے ۔۔

میری نصیب میں میرے اللّٰہ نے تمہیں لکھا ہے اتنے چھوٹے سے دماغ میں یہ سوچ مت لانا کے  اپنا نصیب تم بدل لوگی۔

اس سے پہلے شانزے ایک بار پھر اسے جدا ہونے کی کوشش کرتی بہزاد نے اسکا چہرہ تھاما اور اسکے لبوں پہ۔اپنے لب رکھ دیے۔۔

شانزے کو لگا اسکے لبوں پہ کسی نے دہکتا ہوا کوئلہ رکھ دیا وہ دائیں بائیں اپنی گردن ہلانے لگی اسکی آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھل چکی تھی اسے لگا اسکا سانس بند ہو جائے گا۔

اپنی پیاس بجھانے کے بعد جب بہزاد نے اسکے لب چھوڑے تو شانزے کے لبوں سے خون رسسس رہا تھا۔۔

بہزاد نے اپنے ہونٹوں پہ لگا شانزے کا خون صاف کیا اور اسکے قریب آیا اسے قریب آتا دیکھ شانزے پیچھے ہونے لگی جب بہزاد نے اسے دوبارہ اپنے قریب کرتے ہوئے  کہا۔

آئیندہ اپنے نصیب بدلنے کی سوچ اپنے دماغ میں لانے سے پہلے میرے اس عمل کو زرا یاد کرلینا ابھی ہونٹوں سے خون نکلا ہے آگے نجانے کہاں کہاں سے نکلے تمہاری سوچ ہے۔۔

بہزاد یہ بول کے کمرے سے چلا گیا اور شانزے ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائ کے اسے بہزاد کے روپ میں کس گناہ کی سزا ملی ہے۔۔

#######

رات کے تقریبا 3 بجے کے قریب صائم کا موبائل رنگ ہوا۔۔

صائم نے نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے جب موبائل اٹھا کے چیک کیا تو صنم کی کال آرہی تھی۔۔

صائم نے کال ریسیو کری۔تو آگے سے صنم نے کہا۔۔

صائم سورہے تھے ۔۔؟

نہیں صنم لڈدوں کھیل رہا اجاؤ تم بھی جوائن کرلو ۔

صائم کے تپا لہجہ محسوس کرکے صنم کا افسوس ہوا کے اسنے اس وقت صائم کو کال کیوں کردی۔۔۔

نہیں وہ اصل میں آج میں بہت اداس اور پریشان تھی تو میں نے سوچا شاید تم بھی جاگ رہے ہو ہوگے تو اسلیے کال ملادی۔۔

صنم یہ کیا بولے جارہی ہو یار یہ بتاؤ کال کیوں کی۔۔۔؟

وہ میں سمجھ رہی تھی کے میں جاگ رہی ہو تو تم بھی جاگ رہے ہوگے۔۔

صنم کونسی گھٹیا۔فلم کو ڈائیلاگ ہے یہ۔؟

کونسا تم نے فضول قسم کا نول پڑھا ہے تم نے۔۔؟؟

تم اگر پریشان ہو یہ جاگ رہی ہو تو کس نفسیاتی انسان نے کہا ہے تم سے کے میں بھی جاگ رہا ہونگا ۔۔

یہ کس قسم کا لاجک لے کے کر بیٹھ گئ ہو رات کے 3 بجے اللّٰہ کا واسطہ ہے صنم خود بھی سوجاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔۔

یہ کہہ کے صائم نے بنا صنم کی بات سنے کال کٹ کردی ۔۔

 صنم کی آنکھوں میں صائم کی باتیں سن کے نجانے کیوں آنسوؤں آگئے اسنے پڑھا تھا کہی کے جب دو لوگ ایک دوسرے سے محبت میں مبتلا ہو تو ایک کی پریشانی اسکی اداسی دوسرے کو پتہ چل جاتی ہے مگر یہاں تو صائم کی باتیں سن کے صنم کو لگا اسنے غلط پڑھا شاید۔۔۔

######

بابا اپنے کس سے پوچھ کے میری شادی کی ڈیٹ فکس کردی میں سارا سے شادی کرنا نہیں چاہتا میں آپکو بول رہا۔ہو میں ہنزہ سے محبت کرتا ہو۔۔

بازل کی بات سن کے بازل صاحب نے غصہ میں اسکو دیکھا اور کہا ۔

میں بھی تمہیں بتا چکا ہو کے سارا بھی میرے گھر کی بہو بنے گی ہنزہ اچھی ہے بہت اچھی مجھے عزیز کے مگر اس سے ذیادہ مجھے میری زبان عزیز ہو جو میں نعمان سے کرچکا ہو۔۔۔

میری زندگی گزارنے کا مجھے پورا حق ہے بابا۔۔

ماں باپ کا بھی اتنا ہی حق ہوتا ہے اپنی اولاد پر کے وہ اسکے لیے اچھا فیصلہ کرے اور میں فیصلہ کرچکا ہو۔۔

مگر مجے آپکا فیصلہ قبول نہیں بابا۔۔۔۔

تو تھیک ہے پھر توڑدو مجھ سے اپنا ہر تعلق جو دل میں آئے وہ کرو مگر اتنا یاد رکھنا میرے مرنے پہ بھی تمہیں حق نہیں ہوگا کے میرا جنازہ دیکھ سکو ۔۔

بابا یہ آپ کیا بولے جارہے ہیں؟؟!بابر صاحب کی بات پہ بازل ایک دم چیخ پڑا ۔۔

وہی جو تم نے سنا اور تم جانتے ہو تمہارا بابا زبان کا کتنا پکا ہے جو کرنا سوچ سمجھ کے کرنا۔۔

بقبر صاحب کی بات سن کے بازل غصہ میں کمرے سے نکل گیا اور کمرے کے باہر دیوار کے پیچھے کھڑی ہنزہ وہی دیوار کا سہارا لے کر بیٹھتی چلی گئ۔۔۔

#########

کچھ دن اور رک۔جاتے اظہر بھائ؟؟

نہیں وہاج وہاں جاکے سارا بزنس وائینڈ اپ کرنا کے اب آؤنگا تو ہمیشہ کیلیے آؤنگا کیا پتہ سامنے رہو تو شاہجاں معاف کردے صنم کا دل بھی میری طرف سے صاف ہو جائے ۔۔

انشاء اللہ بھائ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

نمرہ بھی وہاج کے گلے لگی اور کہا۔۔

ایک بار اور خوشبو سے رابطہ کرو بھائ مجھے یقین ہے تمہیں معاف کردے گی۔۔

نہیں نمرہ جب تب میں نے اسکا خیال نہیں کیا تو آج وہ میرا خیال نہیں کرے گی چھوڑو ایک دفعہ اسے دیکھ لیا بس اب سکون سے مرسکونگا۔۔

وہاج صاحب کو دیکھ کے نمرہ بیگم روپڑی۔۔

ایک تو تمہارے آنسوں بلکل سامنے رکھے ہوتے ہیں اظہر صاحب نے اسکے کندھے پہ اپنی باہینں پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

ایک بات بولونگا وہاج جب قسمت آپکو ایک موقع اور دے اپنی محبت کو حاصل کرنے کا تو وہ موقع گوانا نہیں چاہیے روٹھی ضرور ہے خوشبو بھابھی مگر میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہو وہ آج بھی تم سے محبت کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت انکا انتظار ہے جو ابھی تک وہ تمہارا کررہی تھی۔۔

اظہر بھائ کی بات پہ وہاج صاحب طنزیہ مسکرائے اور کہا۔

صاف کہا ہے اس نے کے وہ اب کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرکے دیکھائے گی مجھ سے ۔۔

واہ بھئ واہ اور تم نے خاموشی سے یہ بات مان لی انکی اگر ایسا کرنا ہوتا تو وہ کب کی کرچکی ہوتی تمہیں خالی وہ اپنی ضد دیکھا رہی ہیں اور ایک مشورہ ہے میرا تمہیں ۔۔

"اگر محبوب کو منانے کیلیے تھوڑی بدمعاشی کرنی پڑی تو کوئ مضائقہ نہیں""

اظہر صاحب کی بات پہ وہاج صاحب مسکرا کے انکے گلے لگے اور کہا۔

ٹرائ کرتا ہو ورنہ بدمعاشی چھوٹے ہوئے زمانہ ہوا۔۔۔

وہاج صاحب کی بات پہ اظہر صاحب کا قہقہ گونجا

#######

شانزے کی عادت تھی فجر میں اٹھنے کی اسی لیے وہ فجر میں آٹھ گئ۔

اٹھتے کیساتھ ہی اسکی نظر جب سامنے پڑی تو بہزاد الٹا سیدھا صوفے پہ سویا تھا۔۔

سب کرکے آپ شرافت تو چیک کرو اس جن کی صوفے پہ جاکے سوگیا ۔

شانزے نے بہزاد کو دیکھتے ہوئے غصہ میں اپنے بال لپیٹے ہوئے کہا۔۔

نماز پڑھ کے وہ تھوڑی دیر نیچے اگئ۔۔

اچانک قدرتی طور پہ اسکے قدم نغمہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئے اسنے آہستہ سے انکے کمرے کا دروازہ ناکک کیا۔

اندر آنے کی اجازت پہ شانزے اندر گئ تو نغمہ بیگم قرآن پاک پڑھ رہی تھی ۔شانزے کو دیکھ کے ایک دم خوش ہوگئ اور اسے دعائیں دینے لگی۔۔

نفرت اسے بہزاد سے تھی اس گھر کے مکینوں سے نہں۔

ان سے باتوں میں شانزے کو ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا وہ ان سے اجازت لے کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب ایک روم کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے کسی بچے کی رونے کی آواز ائ۔۔

بچے کی آواز سن کے شانزے کو ایک دم یاد آیا کے بہزاد کا ایک بیٹا بھی تھا۔۔

شانزے نے کمرے کا دروازہ جیسی کھولا تو اندر کا نظارہ دیکھ کے چونک گئ۔۔

اس گھر کی ملازم عاشر کا منہ پکڑ کے زبردستی اسے دودھ پلارہی تھی۔

یہ کیا کررہی ہو تم؟؟

ماسی کسی کی آواز سن کے ایک دم ڈر گئ۔۔

یہ دودھ نہیں پہ رہا تھا اسلیے میں اسے پلارہی تھی۔۔

یہ۔کونسا طریقہ ہے پچے کو ٹریٹ کرنے کا ۔؟

آپ کون ہے اور ایسے کیسے مجھے ٹوک رہی ہیں میں گورنس ہو عاشر کی۔

میں کون ہو یہ تمہیں ابھی پتہ چل جائے گا مگر تم اسکی گورنس تھی ہو نہیں  نیچے جاو فورا تم سے میں نیچے آکے بات کرتی ہو۔

شانزے کے غصہ سے کہنے پہ گورنس غصہ میں عاشر کو گھورتی ہوئی نیچے چلی گئ۔۔

عاشر شانزے کو پہچان چکا تھا مگر وہ بہت ڈرا ہوا تھا۔۔

شانزے اسکے پاس آئ اور اسے اپنے سینے سے لگالیا۔۔

یہ پہلی بار ہوا تھا جب عاشر کو نغمہ بیگم کے علاؤہ کسی نے اپنی سینے سے لگایا تھا۔۔

شانزے نے عاشر کا منہ ہاتھ دھلوایا اسکا یونیفارم چینج کروایا ۔

عاشر یہ ساری کاروائی بہت خاموشی سے دیکھ رہا تھا جب شانزے اسکے بال بناے لگی تب عاشر نے کہا۔۔

آپ پاپا کی نئ وائف ہیں؟

ہاں پاپا کی وائف بھی ہو اور آپکی ماما بھی۔۔

نہیں میں آپکو ماما نہیں بولونگا..

کیوں میں آپکو پسند نہیں ائ۔۔ن

نہیں اگر میں آپکو ماما بولونگا تو پاپا آپکو بھی ماردینگے جیسے میری ماما کو مارا تھا۔

اتنی چھوٹے بچے کے منہ سے ایسے بات سن کے شانزے کافی شاکڈ ہوئ ۔

وہ عاشر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور  کہا۔۔

بیٹا پاپا کے بارے میں ایسا نہیں بولتے اپکی ماما نے کچھ کرا ہوگا تبھی پاپا نے انہیں مارا نہ۔۔

مگر اشعر اسے کیوں مارا اسنے تو کچھ نہیں کرا تھا نہ اپکو پتہ ہے وہ روزانہ مجھ سے کہتا ہے میرے پاس اجاو۔۔..میں بھی چلا جاؤنگا ایک دن پاپا کو چھوڑ کے۔۔

عاشر کی باتیں سن کےشانزے کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔۔۔

نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے آپ چلے جاوگے تو میرا دوست کون بنے گا۔۔؟

آپ مجھ سے دوستی کرینگی؟؟

ہاں نہ آج سے میں آپکی ماما بھی ہو اور دوست بھی اور میرا آپ سے وعدہ ہے  نہ مجھے آپکے بابا کچھ کہینگے نہ اپکو ۔۔

مگر بابا مجھ سے پیار نہیں کرتے۔۔۔

کرتے ہیں بلکل کرتے ہیں کل رات ہی انہوں نے مجھ سے کہا کے عاشر تو میرا شہزادہ ہے پرنس ہے اور شہزادہ پرنس تو ہم اسی کو کہتے ہیں نہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔۔

آپ سچ کہہ رہی ہیں پاپا نہ ایسا بولا۔۔۔؟؟

ہاں بلکل سچ ۔۔۔

اچھا اب آپ آج سے مجھے ماما بولوگے آپکو جو بھی بات کرنی ہو ماما سے کروگے پرامس۔۔۔

عاشر نے تھوڑی دیر شانزے کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے شانزے کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھنے بجائے شانزے کے گلے لگ گیا۔۔

شانزے نے اسے گودھ میں اٹھایا جیسے نجانے کتنے بچوں کی اماں ہو عاشر کی ایک ٹانگ شانزے کی کمر کے اس طرف دوسرے اس طرف ۔

اب نیچے چل کے ناشتہ کرتے ہیں اور تمہاری اس گورنر کو بتاتے ہیں کے میں ہو کون؟؟

شانزے اسے لے کر نیچے اتری اور انکی پیچھے انکی باتیں سننے والا بہزاد  جو اٹھنے کے بعد روزانہ عاشر کے روم میں آتا تھا 

۔آج پہلی بار دل کھول کے مسکرایا اور کہا۔۔

چلو ہم بھی نیچے چل کے دیکھتے ہیں کے پٹاخہ ہے کون۔۔

عزت سے اپنا سامان عاشر کے کمرے نکالو اور چلتی پھرتی نظر آؤ یہاں سے۔

ناشتہ کی ٹیبل پہ شانزے اپنے ہاتھوں سے عاشر کو ناشتہ  کرواتے ہوئے اسکی گورنس کو بول رہی تھی۔۔

میں کیوں جاؤ میں کانٹریکٹ پہ ہو بہزاد صاحب نے پانچ سال کا کانٹریکٹ کیا ہے مجھ سے آپ ہیں کون؟

ایسے کیسے میں جاو؟

میں مسسز بہزاد راجپوت ہو۔۔

شانزے کے جملے پہ ناشتہ کی ٹیبل پہ آتے بہزاد کے قدم پل بھر کیلے رکے تھے ۔۔

عاشر میرا بیٹا ہے اور جسطرح تم نے اسے ڈرا کے اسکی شخصیت کو مجروح کیا ہے میرا بس چلے نہ تو تمہیں کتوں کے آگے ڈالودو۔۔

چلو نکلو یہاں سے اٹھاؤ اپنا بوریا بستر۔۔

سر سر یہ دیکھے یہ کیا بول رہی ہیں میم مجھے۔۔

اس گورنس نے جب بہزاد کو آتے دیکھا تو اسکے آگے رونا دھونا شروع کردیا بہزاد کو دیکھ کے شانزے تھوڑا ڈری تھی اسے یہ ڈر تھا کے کہی وہ گورنس کے سامنے اسکی بے عزتی نہ کردے۔۔۔

مگر بہزاد نے جو بولا وہ شانزے کیلے بھی کافی شاکڈ تھا۔۔

تم نے سنا نہیں مسسز بہزاد نے کیا کہا آپ ابھی یہاں سے جائے آپکا سامان آپ تک پہنچ جائے گا ۔۔

مگر سر م۔۔۔۔۔اس ے پہلے گورنس کچھ اور بولتے بہزاد ایک دم غصہ میں ڈھارا۔۔اسکی ڈھار سن کے جہاں گورنس ڈری تھی وہی شانزے نے بھی اپنی آنکھیں بند کرکے کھولی تھی۔۔

گارڈز گارڈز۔۔

جی سر ۔۔۔

بہزاد کی ایک پکار پہ گارڈز جن کی طرح نمودار ہوئے ۔۔

انہیں حفاظت کے ساتھ جہاں یہ کہے انہیں چھوڑ کے او۔۔۔

گورنس فورا سے بھی پہلے وہاں سے چلی گئ۔۔

اسکے جاتے ہی بہزاد نے جن نگاہوں سے شانزے کو دیکھا تھا وہ نگاہ جھکا گئ تھی۔۔

ماما آپ مجھے اسکول چھوڑنے جائینگی؟

عاشر کا  شانزے کو  ماما کہنے پہ بہزاد کے دل کو ایک سوکن سا ملا تھا۔۔

ہاں میری جان میں چلونگی آپ جلدی سے ناشتہ فنش کرو میں چینج کرکے آتی ہو۔۔۔

شانزے یہ بول کے اوپر کمرے میں چلی گئ عاشر ناشتہ میں مصروف ہوا تو بہزاد بھی اپنے کمرے کی طرف گیا۔۔

شانزے چینج کرکے باہر آئ تو بہزاد کوٹ پہن رہا تھا ۔۔

جب شانزے اسکی سامنے آکے کہنے لگی۔۔

میں کونسی گاڑی لے کر جاؤ۔  

شانزے نے اتنے پیار سے کہنے پہ بہزاد نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا اور کہا۔ 

اتنی سیدھی تم ہو نہیں جتنی بن رہی ہو۔۔۔

بہزاد کی بات پہ شانزے کو پتنگے لگ گئے اور اسنے چڑ کے کہا۔۔

کیوں میں نے کیا ڈکیتیاں ماری ہوئ ہیں یہ پھر آتے جاتے لڑکوں کو سیٹیاں مار کے اپنے طرف مخاطب کرتی ہو جو آپ مجھے سیدھی نہ ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔۔۔

رہنے دیں میں چلی جاؤنگی خودی یہ بول کے شانزے جیسی جانے کیلے مڑی تو اسکی کلائی بہزاد کے ہاتھ میں تھی اسنے جھٹکے سے اسکی طرف کھینچا پھر ہری اور نیلی آنکھوں کا تصادم ہوا۔

مسسز بہزاد راجپوت ہونے کا دعوا کررہی ہو اور پھر بھی کوئ کام کرنے کی اجازت طلب کررہی ہو جس گاڑی میں جانے کا دل کرے وہ گاڑی لیجاو ۔۔

یہ بولتے ہوئے بہزاد نے شانزے کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور چلا گیا۔۔

بہزاد کے جانے کے بعد شانزے نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔

یہ دیو۔ اتنی جلدی سدھر کیسے گیا۔۔

######

زویان ماشا سے کھڑے ہوکر باتیں کررہا تھا جب ہیر نے دور سے ان دونوں کو دیکھ لیا زویان نے ہیر کو دیکھ کے ہاتھ ہلایا مگر وہ پلٹ گئ۔۔

شاید تمہاری گرل فرینڈ کو تمہارا مجھ سے بات کرنا پسند نہیں ایا۔۔۔

زویان ماشا کی بات پہ کچھ بولا نہیں اور تیز تیز چل کر ہیر تک پہنچا زویان کی سانس بہت اسپیڈ میں چل رہی تھی ۔

یار میں نے تمہیں ہاتھ ہلایا تم پلٹ کیوں گئ کوئ رسپانس نہیں دیا۔۔

کیا رسپانس دو جائے بات کرے اپنی اس ماشا تاشا سے۔۔

اہیییی تم جلیس ہورہی ہو ۔۔؟

زویان نے ایک دم اسے روک کے اسکا رخ اپنی طرف موڑ کے کہا۔

ایک تو ایک ہفتہ بعد اپنی شکل دیکھارہے ہیں اوپر سے مجھ سے ملنے کے بجائے اس ماشا سے بات کررہے ہیں ۔۔

ارے ارے اتنا غصہ کیوں کررہی ہو۔۔؟؟

نہ کوئ کال نہ کوئ ٹیکس اچانک غائب ہوگئے اور اب آئے تو سیدھا ماشا سے باتوں میں لگ گئے تو غصہ نہیں آئے گا تو کیا پیار آئے گا آپ پر۔۔

اچھا ادھر آؤ میری بات سنو ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔

میں نہیں آرہی جائے ماشا کو بتائے۔۔

ہیر سیریس بات ہے آرہی ہو یہ نہیں؟؟

زویان کے لہجہ میں افسردگی تھی جیسے سن کے ہیر چونکی تھی۔۔

زویان نے ہیر کا ہاتھ تھاما تو اس نے کوئ خاص ریکٹ نہیں کیا اور خاموشی سے اسکا ہاتھ تھام کے چلنے لگی۔۔

زویان نے اپنے سامنے ہیر کو بیٹھایا اسکے گلے لگ کے اچانک رونے لگا ۔

ہیر نے زویان کو روتا دیکھا تو گھبرا گئ اور پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگی۔۔

کیا ہوا ہے ؟

زویان ادھر دیکھے میری طرف پلیز روئے نہیں میرا دل بند ہو جائے گا پلیز بتائے کیا ہوا ہے کیوں رو رہے ہیں اپ؟؟

ہیر ہمارے درمیان جو پچھلے ایک مہینے سے جو ریلیشن تھا اسے بھول جاؤ ہیر ۔۔

زویان ۔۔۔۔۔ہیر ایک دم چیخی اور اسکا کالر پکڑ کے غصہ میں کہا۔

اگر یہ مذاق تھا تو بہت گھٹیا مذاق تھا میں اس کے لیے آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی ۔۔۔

زویان نے اسکے ہاتھ  آہستہ سے اپنے گریبان سے۔ ہٹائے اور کہا۔

میں اپنے ساتھ ساتھ تمہاری زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا ہیر بات سمجھو۔

 م اپنے میرے ساتھ ٹائم پاس کیا ؟

ہیر ۔۔۔اب کے چیخنے کی باری زویان کی تھی۔ 

میں نے ٹائم پاس نہیں کیا یہ لو پڑھو ۔۔

زویان نے اپنے بیگ میں سے کچھ نکال کے ہیر کو دیا جیسے پڑھ کے وہ ساکن رہ گئ۔۔

مجھے برین ٹیومر ہے ہیر ایک ہفتہ پہلے پتہ چلا مجھے کب کس وقت میری سانسیں بند ہو جائے کچھ پتہ نہیں میں تمہارے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنا چاہتا تھا ہیر بہت محبت کرتا ہو تم سے بول کے زویان نے روتے روتے ہیر کا چہرہ تھام لیا۔

مگر میں خود غرض ہوگیا تھا مگر اب مجھے سمجھ آگئ ہے اب تمہارے اور میرے راستے الگ ہیں ہیر۔۔

نہیں زویان ایسا مت کہے کوئ نہ کوئ حل نکل آئے گا۔

کوئ حل نہیں پاپا سب جگہ رپورٹ دیکھا چکے ہیں اب تو بس موت کا انتظار ہے ہیر۔۔

میرے لیے تم۔اپنی زندگی برباد مت کرو تمہیں اچھا سا اچھا لڑکا مل جائے گا ۔۔

نہیں زویان میری زندگی میں اب کوئ دوسرا شامل نہیں ہوسکتا آپکی جگہ میں کسی کو نہیں دے سکتی۔۔

ہیر نے روتے روتے پہلی بار زویان کو خود سے گلے لگالیا۔

۔پھر کرلو مجھ سے نکاح کل؟؟

کیا ؟

ہاں ہیر میںرے بچے کچے لمحہ تمہارے ساتھ محرم بن کے گزارنا چاہتا ہو ۔۔

مگر زویان میں ایسے کیسے۔۔؟

ہیر کے جواب پہ زویان ہلکا سا مسکرایا اور وہاں سے چلا گیا۔۔

ہیر خوشبو کیا آپکو زویان اظہر سے 2 لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت وقت نکاح قبول ہے؟؟

رات بھر سوچنے کے بعد اسنے فیصلہ کیا وہ زویان سے کل نکاح کرلے گی محرم بن کے اسکا دیھان رکھے گی اسے یقین تھا اسکی انی اسکی بات سمجھے گی اسکی دوست سدرہ نے اسکا ساتھ دیا تھا اسے یقین تھا ہیر جو کررہی ہے صحیح کررہی ہے ۔۔

قبول ہے ۔۔قبول ہے ،قبول ہے۔۔

زویان اور ہیر کا نکاح ہوچکا تھا ہیر نے ایک بار بھگتی آنکھوں سے اپنے برابر میں بیٹھے زویان کو دیکھا تھا ۔

سدرہ اور زویان کے ایک دو دوست اس نکاح میں شامل تھے یہ زویان کا ہی فلیٹ تھا فلحال اس نے اپنے پیرنٹس سے بھی یہ بات چھپائی تھی۔۔

ریڈ کلر کے سپل سے سوٹ میں ہلکا سا میک اپ کرے ہیر زویان کو بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔

ان دونوں کو آج رات اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا ۔۔

یقین نہیں آرہا ہیر تم میری بن گئ۔ 

یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا زویان بس اب میں آپکا دیھان رکھونگی انشاء اللہ آپ بہت جلد ٹھیک ہوجائیینگے۔۔

ہیر کے بولنے پہ زویان اسے دیکھتا رہا پھر اچانک اسکے لبوں کو چوم لیا ۔۔

ہیر نے اسے اپنے آپ سے الگ کرکے کہا۔۔

زویان یہ غلط ہے۔۔

کیوں غلط ہے ہیر بیوی ہو تم میری مجھے جینے دو یہ لمحہ کیا پتا یہ لمحہ ہی میری زندگی بڑھا دے۔۔

مگر زویان ۔۔

اگر مگر کچھ نہیں آج رات تم خود کو مجھے سونپ دو۔

یہ بول کے زویان نے اسکے لبوں کو ایک بار پھر چوما اسکا ڈوپٹہ اتار کے سائیڈ میں رکھا ۔۔

زویان پلیز ۔۔۔

ہیر پلیز آج مجھے نہیں روکو ہم کوئ غلط کام  نہیں کررہے ۔

زویان نے اپنی شرٹ اتاری اور ہیر پہ جھک گیا۔۔لائٹ بند ہوتے ہی زویان نے ہیر کو چومنا شروع کردیا۔۔

گلے پہ اپنے لب رکھتے ہی زویان نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبا لیے تھے۔۔۔

ہیر کی بس سانسیں چلنے کی آواز آرہی تھی زویان اس پہ۔اہنا پیار بھر پور طریقے سے نچھاور کررہا تھا ہیر نے زویان کے کندھوں کو مظبوطی سے تھاما ہوا تھا ہیر کے پورے جسم پہ زویان قبضہ کرچکا تھا اسنے ہیر کو اتنا چوما کے ہیر کی سانسیں تیز چلنے لگی ۔

زویان اظہر ہیر خوشبو سے تعلق جوڑ چکا تھا اس سے اپنا حق وصول کرچکا تھا جب اسنے ہیر کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں پہ اپنے لب رکھے تھے پوری رات زویان ہیر کو اپنے عمل سے بتا رہا تھا وہ اس سے پیار کرکے کتنا پرسکون یے۔۔۔

صبح ہیر کی آنکھ کھلی تو اسکا سر زویان کے سینے پہ تھا اسنے آہستہ سے اپنے کپڑے اٹھائے اور فریش ہونے چلی گئ ۔۔

مگر جب فریش ہوکے باہر نکلی تو زویان اسے نظر نہیں آیا وہ کمرے سے باہر نکل کے ٹی وی لانج تک گئ مگر وہاں کا نظاراا دیکھ کے اس کے منہ سے خالی نکلا۔۔

زویان۔۔

زویان ماشا کے لبوں پہ جھکا اسے چوم رہا تھا۔۔

ہیر کو دیکھ کے اسنے اور شدت سے ماشا کے لبوں کو چومنا شروع کردیا دیکھتے دیکھتے زویان کے گروپ کے سارے لڑکے لڑکیاں جمع ہوگئے روبرٹ اور اسکا گروپ بھی آگیا تھا۔۔

ہیر کو لگا وہ اگلی سانس نہیں لے پائے گی۔۔

زویان دھیرے سے چلتا ہوا ہیر کے پاس آیا اور کہا۔

 ویسے اب پتہ تو چل گیا ہوگا تمہیں پوری رات کے میں مرد ہو یہ کھڈرا۔۔۔

زویان کے لفظ پہ ہیر کے قدم لڑکھڑائے تھے اسنے دیوار کا سہارا لیا۔۔

جب روبرٹ نے اسے شرٹ جیتنے کی مبارک باد دینے کیساتھ ساتھ پچاس ہزار ڈالر بھی دیے۔۔

افف کیا کیا ناٹک۔کرنا پڑا تمہیں خالی اپنے بستر تک لانے کیلے ہیر میڈم بہت اڑ رہی تھی نہ یونی کے پہلے دن ۔۔

یو تم نے میرے جنسس کو نشانہ بنایا تھا زویان نے غصہ میں ہیر کے بالوں کو اپنی مٹھی میں لیا ۔

مگر ہیر اسکی نظر ساکن تھی جو زویان پہ گڑی تھی اسکے چہرے پہ کہی بھی تکلیف کے آثار نہیں تھے وہ بس ساکن تھی۔۔

ویسے ہو تم بہت ہاٹ مزہ آیا کل رات۔۔

زویان نے اسکے بالوں کو چھوڑتے ہوئے کہا۔۔

ماشا نے آگے بڑھ کے اسے ایک زور دار تھپڑ مارا پھر بھی ہیر کی نظریں زویان پہ سے نہیں ہٹی۔۔

وہ کسی لاش کی طرح اس جگہ سے جانے لگی جب زویان نے کہا۔

آج کوئ ہنگامہ نہیں کرونگی ویسے جنس میری ہے کیا یہ تو پوری رات تمہیں میں نے اچھے سے سمجھا دیا مگر یہ بات بھی سنتی جاؤ میں صرف ماشا سے محبت کرتا ہو۔۔

ہیر نے پھر بھی کچھ نہیں کہا وہ خاموشی سے وہاں سے جانے لگی جب زویان نے پھر اسکا راستہ روکا۔اور کہا۔

آج ماروگی نہیں مجھے ۔۔

میں تو سوچ رہا۔ تھا آج گڑگڑاوگی میرے اگے؟؟

ہیر نے ایک نظر زویان کو دیکھا اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

میں نے اپنا معملہ اللہ پہ چھوڑا اپنے مجھ سے بدلہ لیا مگر میں تو محبت کی تھی آپ سے گڑگڑاکے بھی اپنے مجھے دھتکارنا ہے تو اپنے اللّٰہ کے آگے نہ گڑگڑا لو۔۔

 بس اتنا کہونگی۔۔

"اپنوں کے علاؤہ کسی پہ بھروسہ نہیں کرنا۔

پردیس میں کسی سے محبت نہیں کرنا

۔

ہیر کے قدم کڑکھڑا رہے تھے مگر وہ پھر بھی وہاں سے چلی گئ بنا زویان سے کوئ شکوہ کیے۔۔۔

ندا بیگم نے جب بازل کی منگنی کا بتایا تو عترت کافی شاکڈ ہوئ اسے فورا ہنزہ کا خیال آیا نمبر تو وہ لے آئ تھی ہنزہ کا بات بھی تقریبا وہ روز ہی کرتی تھی مگر کبھی لگا نہیں اسکی باتوں سے کے وہ اتنے دکھ و تکلیف سے گزر رہی ہو۔۔

۔اچا عترت تم۔دیکھ لینا رات کے کھانے کی سیٹنگ ہلکا پھلکا جو بنانا چاہو بلاج تو مشن پہ ہے جب مشن پہ ہوتا ہے تو کئ کئ دن گھر نہیں آتا صبح جانے سے پہلے کال آئ تھی اسکی۔۔

جی ماما۔۔۔

عترت تھوڑی پریشان سی اپنے کمرے میں جانے لگی جب ندا بیگم نے اسکی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا۔

کیا بات ہے عترت تم۔کچھ پریشان لگ رہی ہو؟

نہیں ماما وہ۔میں تو سمجھ رہی تھی تین چار دن سے گھر نہیں آئے اسنو فال ہورہا ہے  اسلیے گھر  نہیں آئے مگر مجھے نہیں پتہ تھا وہ مشن پہ گئے ہیں۔۔

ارے بیٹا پریشان مت ہو تمہیں اسلیے نہیں بتایا ہوگا کے تم پریشان نہ ہوجاو ۔۔

اجائے گا ایک دو دن میں۔۔

عترت خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئ اسکا ارادہ شاور لینا کا تھا اسنے الماری کھولی اپنے کپڑے نکال کے جیسے ہی پلٹی کچھ دیکھ جانے پہ وہ دوبارہ الماری کی طرف متوجہ ہوئ ۔۔

کچھ چابیاں تھی اسنے چابیاں ہاتھ میں لی اور غور سے دیکھنے لگی اسے نہیں یاد آیا کےاس کمرے میں ایسا کوئ لاک ہے جسکی چابیاں ہو سوائے ۔۔۔۔۔۔

کچھ یاد آنے پہ عترت نے اپنے کپڑے بیڈ پر پھینکے اور چابیاں اٹھا کے الماری میں بنے بلاج کے خانے کی طرف بڑھی ۔۔۔

اسکا خانہ کھلا تو وہاں ایک سییو تھی۔۔

عترت نے اسکی سیو کھولی تو وہاں اسکی۔کافی چیزیں تھی کچھ پیسے تھے کچھ فائلز تھی ایک باکس بھی تھا۔۔

عترت نے جیسے وہ باکس کھولا پہلی نظر اسکی جس چیز پہ پڑی وہ وہی شرٹ تھی جس پر عترت سے انکک گری تھی۔۔

عترت نے وہ شرٹ اٹھا کے دیکھی تو اسکی نیچے جو تھا وہ دیکھتے ہی عترت کی آنکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے۔۔

اسکی اور بلاج کی بہت ساری پکس تھی  یونی کے ٹائم کی ایک پکس دیکھ کے عترت نے اس پہ ہاتھ پھیرا جس میں بلاج عترت کے گال پہ زور سے کس کررہا ہے اور یہ پک انجم نے لی تھی۔

عترت نے ساری چیزیں دیکھ کے سییو اور الماری بند کی اور فریش ہونے چلی گئ۔۔

رات میں اسکے پاس بہزاد کی کال آئ جسے سنتے ہی اسنے بھر پور شکوہ کیا صنم اسے شانزے اور بہزاد کی شادی کیساتھ مراد کی اصلیت بھی بتا چکی تھی۔۔

زیادہ اترا رہی ہو شادی کے بعد۔۔۔بہزاد کے شکوے پہ عترت نے دوبدو جواب دیا ۔

آپکا اپنے بارے میں کیا خیال ہے میں یاد نہیں آئ آپکو نکاح کرتے ہوئے۔۔۔

یار جانتی ہو تم کن حالات میں نکاح ہوا اب دیکھو کل ولیمہ ہے تو کال کری ہے  نہ تمہیں اجاو کل صبح کی فلائٹ سے۔۔

بی ایم میں نہیں آسکتی ندا آنٹی کل آئ ہے آج میں انہیں بول دو جانے کا ۔۔۔

اکیلے انہیں چھوڑ کے میں جا نہیں سکتی۔۔۔وہاج بھی گھر نہیں آرہے دو تین دن سے۔۔۔

میں ندا باجی سے کنفرم کرکے تمہیں کال کری ہے کل صبح کی فلائٹ سے تم آجانا شام کی فلائٹ واپس چلی جانا یہ میرا کام ہے تمہیں واپس پہچانا کوئ کپڑے وغیرہ رکھ کے مت لانا تمہارا اور شانزے کا ڈریس میں ریڈی کروا چکا ہو بس انے کی کرو۔۔

رہا سوال بلاج کا اس سے تم پوچھ لو اور اتنا تو مجھے پتہ ہے منع کرے گا نہیں پہلی محبت جو ٹہری تم۔۔۔۔

بہزاد کی بات پہ عترت کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتےچھوٹتے بچا۔۔

بی ایم آپ ۔۔۔مطلب۔۔

جو لوگ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں انکی میں پل پل کی خبر رکھتا ہو مجھے سب پتہ ہے عترت۔بلاج اور تم ایک دوسرے کو جانتے بھی ہو پہلے سے اور محبت بھی کرتے ہو ۔۔

تو بی ایم آپ یہ بھی جانتے ہونگے کے ہمارا رابطہ ختم ہوچکا تھا۔۔

ہاں جانتا ہو اور ختم ہونے کی وجہ بھی مگر میں اس معاملے میں بلاج کی سائیڈ لونگا اسکی جگہ اگر میں ہوتا تو میرا ریکشن اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ۔بلکے ایک ریکشن تم جانتی ہو میرا ۔۔۔۔

قسمت والے ہو تم دونوں جو اللّٰہ تم پہ دوبارہ مہربان ہوا ہے لڑائ جھگڑے میں یہ پل ضائع مت کرو جو ہوا اسے بھول کے آگے بڑھنے کی کرو بلاج کی جو جاب ہے عترت اسمیں زندگی کی کوئ گارنٹی نہیں اور میں نے سنا ہے پہلے تو وہ مشن پہ جاتا تھا مگر ندا باجی کی وجہ سے کم جاتا تھا مگر اجکل وہ جس مشن پہ ہے وہ اسنے جان بوجھ کے لیا ہے اور سننے میں آیا کے مشن کافی خطرناک ہے۔۔

بہرحال تمہیں سمجھانا میرا فرض تھا تم بلاج سے بات کرکے پوچھ لو صبح 8 بجے کی ٹکٹ کنفرم کردی ہے میں نے تمہاری ایک گھنٹے بعد ٹکٹ تمہیں مل جائے گی۔۔

بہزاد کی کال رکھنے کے بعد عترت اپنے اور بلاج کے رشتہ پہ غور وفکر کرنے لگی اس نے ہمت کرکے واٹس اپ میں بلاج جو سلام کا ٹیکس کیا۔۔

########

ہیر سدرہ کی گودھ میں سر رکھ کے بے تحاشہ روئ تھی مگر ایک بار بھی اسنے زویان کو بدعا نہیں دی تھی ۔

سدرہ بھی اسکے ساتھ اسکا درد بانٹ رہی تھی مگر جو کل۔رات ہیر اور زویان کے درمیاں ہوا سے لےکر سدرہ کافی ڈری ہوئی تھی مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔

۔۔

ہیر تم پاگل ہوگئ ہو ایسا موقع پھر نہیں ملے گا۔؟؟.

سدرہ اگر یہاں رہی تو وہ۔نظر آئے اسے دیکھنا نہیں چاہتی میں اب بس نہیں بننا انٹیریئر ڈیزائنر بس ۔۔۔یہ بول کے ہیر ایک بار پھر روپڑی۔۔

خوشبو  آنٹی کو کیا بولوگی واپس جاکے کے کیوں آگئ لندن سے پڑھائ چھوڑ کے۔۔

وہ مجھے نہیں پتہ سدرہ کے آگے میرے  ساتھ نجانے کیا ہو مگر میں فلحال یہاں سے واپس جانا چاہتی ہو۔۔

#####

آج تین دن ہوگئے تھے ہنزہ کو ہسپتال میں۔۔

اس نے اپنی دن رات کی ڈیوٹی لگوائ ہوئ تھی اور وجہ تھی بازل وہ بازل کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی وہ جانتی جب بازل اسکے سامنے آئے گا تو وہ بکھر جائے گی سارا اور بازل کا ساتھ اسنے قسمت کا فیصلہ سمجھ کے قبول کرلیا تھا مگر آج جب اسکی ماما کی کال آئ انکے اصرار پہ وہ گھر کیلے نکل رہی تھی۔۔

وہ نکلنے لگی جب ڈاکٹر ہارون سے اسکا ٹکراؤ ہوگیا شوخ چنچل ڈاکٹر ہارون جو پور ے ہسپتال کی جان تھے ۔

ارے شوخ حسینہ کہاں جلدی۔۔

ہنزہ جو اپنے کیبن میں اپنا سامان سمیٹ رہی تھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے بول پڑی ۔

ڈاکٹر ہارون شرم کرلے تھوڑی کسی اینگل سے آپ ڈاکٹر نہیں لگتے۔۔

ہائے اب ہم نے کیا اپنی ادائیں دیکھائ ہیں  جو آپ ہمیں شرم کرنے کا بول رہی ہیں۔۔

ہارون کے منہ بناکے بولنے پہ ہنزہ بے ساختہ ہنس پڑی ۔۔

ہنزہ اپنے سامان سمیٹ کے باہر نکلی تو ہارون بھی اسکے پیچھے پیچھے ایا۔

اسکا ارادہ ابھی اور ہنزہ کو تنگ کرنے کا تھا مگر نرس کے اواز دینے وہ پلٹ گیا۔

ہنزہ باہر نکلی تو بازل کو اپنا منتظر پایا۔۔

ہنزہ نے بنا کوئ بحس کیے بازل کی گاڑی میں بیٹھنے میں ہی عافیت جانی۔۔

کیوں کے بازل کے چہرے کے ایکسپریشن سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کے وہ۔بہت غصہ میں۔۔

ہنزہ کے گاڑی میں بیٹھتے ہی بازل نے گاڑی تیزی سے آگے بڑھا دی

گاڑی ایک گھر پہ جاکے رکی جو ہرگز ان لوگوں کا نہیں تھا ۔

بازل۔نے گاڑی سے اتر کر ہنزہ کی طرف کا دروازہ کھولا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے تیزی سے اسے اپنا ساتھ اندرلے گایا۔۔

یہ کس کا گھر ہے بازل ہم یہاں کویں آئے ہیں۔۔؟؟

بازل نے اسکی کسی بات کا جواب نہیں دیا بلکے اسکے ہاتھ میں  سامنے ٹیبل پہ رکھا باکس دیا اور چینج کرنے کو کہا۔

یہ کیا ہے ؟ اور میں چینج کیوں کرو؟

ہنزہ کے سوال پہ بازل نے اسے کہا۔

ہمارا نکاح ہے 10 منٹ کے اندر۔۔

تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے بازل میں ایسا کچھ نہیں کرونگی۔۔

ہنزہ میرے پاس وقت نہیں ہے بحس نہیں کرو چینج کرکے او۔۔

مجھے گھر جانا ہے یہ فضول کا تماشہ بند کرو۔۔

ہنزہ میں آج اس گھر سے تبھی نکلونگا اور تمہیں بھی تبھی جانے دونگا جب ہمارا نکاح ہوگا۔۔

میں اپنی جان لے لونگی مگر نکاح نہیں کرونگی تم سے تایا ابو نے تمہاری منگنی کردی ہے اگلے تین ہفتوں میں شادی ہے تمہاری۔۔

میں نہیں کرونگا سارا سے شادی سنا تم نے۔۔

وہ تمہارا مسئلہ ہے مگر میں اسطرح اپنے ماں باپ کی عزت نیلام کرکے اپنے باپ کو اسکے بھائ کے سامنے شرمندہ کرکے نکاح نہیں کرونگی۔۔

بھول جاؤ مجھے بازل سارا ہی تمہارا نصیب تھی۔۔ہنزہ نے اچانک بازل کا چہرہ تھامتے ہوے کہا۔۔

میں سارا سے شادی نہیں کرونگا مگر آج ایسا ضرور کچھ کرونگا کے تم مجھ سے نکاح کرنے پہ راضی ضرور  ہوگی۔۔

یہ کہتے ہی بازل نے بنا ہنزہ کو موقع دیے اسکے لبوں پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

ہنزہ اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگی مگر بازل پہ جنون سوار تھا ہنزہ کو پانے کا ایک یہ ہی راستہ اسے دیکھا ہنزہ کا نام اپنے نام سے جڑنے کا۔۔

ہنزہ نے اپنے آپکو پوری طاقت سے بازل سے چھڑایا اور کہا۔

بازل پاگل ہوگئے ہو کیوں ہماری محبت کا تماشہ بنا رہے ہو۔

تماشہ بن چکا ہنزہ خاموشی سے میرے پاس اجاو۔۔

بازل اس وقت ہنزہ کو کوئ جانور معلوم ہورہا تھا اسنے وہاں سے بھاگنے میں ہی۔عافیت جانی جیسی ہی وہ بھاگنے لگی بازل نے پھر اسے قابو کیا اور زمیں پہ اسے دھکا دیا ۔۔

اس پہ جھک کےبازل نے اسکے ہاتھوں کو قابو کیا اور اسکی گردن پہ جھک کے جابجا چومنے لگا۔۔

بازل کے ہاتھ ہنزہ کے جسم کے ہر حصہ میں چل رہے تھے ۔۔

ہنزہ زور زور سے رو رہی تھی منع کررہی تھی بازل کو ۔۔

مگر بازل پہ جنون سوار تھا۔۔

جیسی ہی حدیں کراس ہونے لگی بازل نے ہنزہ کے سینے پہ سے اسکی شرٹ ہٹانی چاہی وہی ہنزہ بول پڑی۔۔

تمیں میری قسم بازل اب اگر تم نے اس سے ذیادہ کچھ کیا۔

بازل کے ہاتھ وہی رک گئے ہنزہ نے جب دیکھا کے بازل رک چکا ہے تو اسنے اپنے اوپر سے بازل کو دھکا دیا اور فورا کھڑی ہوئ اپنا ڈوپٹہ اٹھا کے اوڑھا تو بازل پھر اسکے راستہ میں آیا اسکی آنکھیں ضروت سے زیادہ سرخ ہورہی تھی ۔۔

یہاں سے نہیں جاسکتی تم ہنزہ۔۔۔

یہ کہنا تھا کے ہنزہ نے ایک زور دار تھپڑ بازل کے منہ پہ مارا اور اسکا کالر پکڑ کر کہا۔

مجھ سے غلطی ہوئی جو تم جیسے حیوان سے محبت کری میری عزت کے آگے میری محبت بھاڑ میں گئ سنا تم نے آج کے بعد اگر میرے اس پاس بھی دیکھائی دیے تو جان لے لونگی خود کی سنا تم ۔۔۔

یہ کہہ کے ہنزہ نے بازل کو دھکا دیا تو وہ بھی چیخ پڑا۔۔

میں مرجاونگا ہنزہ تمہارے بغیر محبت کرتا ہو تم سے یار ۔

یہ بولتے ہوئے بازل گھٹنوں کے بل بیٹھ کے رونے لگا مگر ہنزہ نے  اسے ایسا ہی روتا چھوڑا اور اس گھر سے نکل گئ۔۔

ہنزہ گھر سے نکل کے تیز تیز سڑک پہ چلنے لگی اسکی۔انکھوں سے تیزی سے آنسوؤں جاری تھے اسے اندازہ نہیں تھا بازل اسکے ساتھ ایسا بھی کرسکتا ہے ۔

"کس سے پوچھو ۔

ہے ایسا کیوں۔۔۔

بے زبان سا یہ جہاں ہے"

ہنزہ اس سے پہلے کسی ٹیکسی کو روکتی بازل ایک بار پھر اسکے سامنے اپنی کار لے کر اگیا۔

مگر وہ گاڑی سے نہیں اترا اس نے گاڑی کے پیچھے کا دروازہ ہنزہ کیلیے کھول دیا۔۔

سنسان سڑک تھی گاڑی بھی ایکا دکا چل رہی تھی۔۔ہنزہ نے پھر بھی بازل کی گاڑی کا رخ نہیں کیا۔۔

وہ آگے چلنے لگی جب بازل گاڑی سے اتر کر اس تک آیا ۔۔

گاڑی میں بیٹھو ہنزہ۔۔

اپنی شکل گم کرو پیدل چلی جاؤنگی ت گھر مگر تمہارے ساتھ نہیں جاونگی۔۔

بیٹھ جاؤ ہنزہ مجھے اور مت ستاو۔۔بازل یہ بول کے رونے والا ہوگیا۔

میں ستا رہی ہو تمہیں دماغ جگہ پہ تمہارا کیا بکواس کررہے ہو۔۔

اچھا ٹھیک ہے جو چاہے سزا دے لو بس گاڑی میں بیٹھ جاؤ میں با حفاظت تمہیں گھر چھوڑ دو پھر جو چاہے مجھے سزا دینا۔۔۔

ابھی بیٹھ جاؤ پلیز۔۔۔۔

بازل کا لہجہ اسکی آنکھیں اسکی حالت بیان کررہی تھی ہنزہ  خاموشی سے اسکی گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔

#######

بلاج کا مشن کامیاب ہوا تھا وہ گھر لوٹنے کی تیاری کررہا تھا اسکے موبائل پہ بپ۔ہوئ تو اسنے موبائل چیک کیا۔

عترت کا میسج دیکھ کے اسنے اسکو ڈائریکٹ وڈیو کال ملادی۔۔

عترت جو نماز پڑھ کے بیٹھی اپنے نمبر پر بلاج کی وڈیو کال دیکھ کے اسنے کچھ دیر سوچا کال ایک بار آکے بند ہوچکی تھی دوبارہ کال آنے پہ اسنے کال اٹھالی۔

عترت کو سامنے دیکھ کے بلاج کچھ پل ٹہر سا گیا نماز کی طرح ڈوپٹہ باندھے وہ سیدھی اسکے دل میں اتر رہی تھی۔۔

وعلیکم السلام ۔۔

بلاج نے اسکے سلام کا جواب اسکے روبرو آکے دیا۔

خیریت آج میسج آیا تمہارا۔۔

بلاج نے انجان بن کے پوچھا جب کے اسکی تھوڑی دیر پہلے بہزاد سے بات ہوچکی تھی۔۔

وہ آپ سے اجازت لینی تھی۔۔؟

کس چیز کی؟

بی ایم کا ولیمہ ہے کل ۔۔

بی ایم کون ؟

بہزاد ماموں انہیں میں اور صنم بی ایم کہتے ہیں ۔۔

اچھا تو ؟؟

میں چلی جاو۔۔۔

مجھ سے اجازت لینے کیلے کال کری ہے تم نے ؟

بلاج نے اسے گھورتا ہوئے کہا۔

جی ۔۔عترت یہ کہہ کے نگاہ جھکا گئ ۔

ٹھیک ہے چلی جاؤ ۔۔۔

کل صبح کی فلائٹ ہے شام تک واپس اجاونگی ۔

ہمم اور ؟؟

بلاج جان بوجھ کے اسکی بات کو طویل دے رہا تھا یہ جانتے ہوئے کے وہ اسیے ویڈیو کال سے گھبراتی ہے۔۔

کچھ نہیں ۔۔عترت نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مرورتے ہوئے کہا۔۔

اوکے دیھان سے جانا۔۔۔

یہ بول کے بلاج کال کٹ کرنے لگا جب عترت بول پڑی۔۔

اپ کب واپس ائینگے۔۔؟

کچھ پتہ کیا پتہ کبھی واپس نہ آؤ ویسے بھی تمہیں تو    سکون ہوگا میں نہیں ہو ۔۔

بلاج نے یہ کہہ کے کال کٹ کردی۔۔بلاج کے ایسا کہنے پہ

عترت کی آنکھیں بھیگنے لگی۔۔۔

######

ابھی تو تم آئے ہو صائم پھر جارہے ہو؟؟

صنم کام بھی تو کرنا ہے۔۔

اچھا ادھر آؤ دور کیوں بیٹھی ہو۔؟

صائم  اسے اپنے ایک دوست کے فلیٹ پہ لایا تھا ملنے کیلئے کیونکہ اسنوپیوں پہ ملنا صنم کو پسند نہیں تھا۔۔

صائم نے جھٹکے سے اسے اپنے طرف کھینچا اور اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔

صنم نے اسے پیچھے دھکیلنا چاہا مگر ناکام رہی صائم نے نے اسکے گلے کو چومنا شروع کردیا دیکھتے دیکھتے وہ اسکی شرٹ نیچے کرکے کندھوں پہ اپنے لب رکھ ے لگا ۔

صنم کو یہ سب تھوڑا عجیب لگا اسنے فورا جھٹکے سے صائم کو خود سے دور کیا اور ایک دم کھڑے ہوکر کہنے لگی۔۔

صائم یہ سب شادی کے بعد ابھی نہیں پلیز۔۔

صنم میں محبت کرتا ہو تم سے شادی بھی کرونگا بھروسہ نہیں تمہیں مجھ پہ بھروسہ کی بات نہیں ہے بھروسہ نہیں ہوتا تو یہاں اکیلی نہیں آتی تمہارے ساتھ بس یہ سب اب شادی کے بعد اب اٹھو مجھے گھر چھوڑو شام میں بی ایم کا ولیمہ کا۔۔

صنم کے کہنے پہ صائم نے غصہ میں گاڑی کی چابی اٹھائ اور فلیٹ سے نکل گیا پورے راستے صائم نے اس سے بات نہیں کری صنم کو گھر کے پاس چھوڑ کے صائم غصہ میں وہاں سے چلا گیا۔

صنم کو اندازہ ہوگیا تھا وہ ناراض ہوگیا ہے مگر اسے یہ بھی یقین تھا وہ اسے منالے گی ۔۔۔

#######

عترت ہمت کرکے جہاز میں بیٹھ تو گئ تھی مگر اب اسے ڈر لگ رہا تھا ایک تو وہ اکیلے سفر کررہی تھی اوپر سے جہاز اڑنے والا تھا۔۔

اس نے اپنی آنکھیں کس کے بند کری اور جہاز کی سیٹھ کو مضبوطی بسے تھام لیا جب اسکے ہاتھ پہ کسی نے ہاتھ رکھا عترت نے ڈر کے اپنی آنکھیں کھولی ۔۔

اپنے برابر میں بیٹھے بلاج کو دیکھ کے جو  عترت کو اگنور کیے بیٹھا تھا عترت نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا۔۔

آپ بھی کراچی چل رہے ہیں بی ایم کے ولیمہ میں۔۔

عترت کی۔کسی بات کا جواب بلاج نے نہیں دیا وہ خاموشی سے آنکھیں موند کے  سیٹھ سے ٹیک لگالی۔۔صبح بلاج نے بھی اسے آنے کو کہا تھا اور اگر وہ نہ بھی کہتا تو اسے ایک ضروری کام سے کراچی جانا تھا۔۔

جہاز نے جیسی اڑان بھری عترت نے بلاج کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کو اور دباؤ ڈالا۔۔

بلاج نے ٹیک اوف کرتے ہی عترت  پہ سے اپنا ہاتھ ہٹالیا۔

کراچی ائیرپورٹ پہ بہزاد کے گارڈز پہلے سے گاڑی کے ساتھ موجود تھے۔۔

عترت کو انکے ساتھ بلاج نے روانہ کیا اور خود ایک ضروری کام سے چلا گیا۔

####

شکریہ یار بلاج تو اتنی دور سے ماما کو بلڈ دینے آیا ۔۔

ارے نہیں سلیم تو دوست ہے اور آنٹی میری ماں جیسی ہے یار شکریہ نہیں کر۔۔

چل اب میں چلتا ہو آنٹی کو دیھان رکھنا اوکے ۔۔

بلاج ہسپتال سے نکلنے لگا جب اسکا نام کسی نے پکارا۔۔

بلاج اپنے نام کی پکار پہ مڑا تو زین کھڑا تھا۔۔

زین کی شکل دیکھ کے ایک بار پھر بلاج کے زخم ہرے ہوگئے۔۔

وہ زین کو اگنور کرکے جانے لگا جب زین اپنی اسٹک کے سہارے تیز تیز چل کے بلاج تک پہنچ کے اسے روکا۔

شاید پہچانا نہیں تونے مجھے بلاج۔۔

جو دوست بن کے دغا کرتے ہیں انکی شکل بھولنے کے قابل نہیں ہوتی۔۔

دو منٹ پلیز کہی بیٹھ کے بات کرتے ہیں پلیز انکار مت کرنا۔۔

تجھے لگتا ہے زین آج بھی ہمارے درمیان کوئ بات ہوگی۔۔

پلیز بلاج۔۔۔

زین کے لہجے کی التجا سن کے بلاج اسکے ساتھ ایک کافی شاپ پہ آگیا ۔۔

زین نے دو کافی کا اڈ دیا اور کہا۔

آج اللّٰہ نے میری سن لی بلاج کب سے دعا مانگ رہا تھا کے ایک بار تم مل جاؤ تو میں اپنے دل کا بوجھ اتار لو۔۔

کیسا بوجھ۔۔؟؟

بلاج عترت بے قصور ہے اسکی کوئ غلطی نہیں تھی اس دن۔۔

زین عترت کے بارے میں ہم بات نہ کرے تو بہتر ہے بلاج نے غصہ میں ٹیبل پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

نہیں بلاج اللّٰہ نے مجھے کسی معصوم کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی سزا دی ہے اور میں نہیں چاہتا میں ساری زندگی اپنے ضمیر کی عدالت میں۔ مجرم بنا کھڑے رہو۔۔

اسکے بعد زین نے یونی میں ہوا سارا واقعہ بلاج کو سنا دیا کے کس طرح اسنے عترت کو فورس کیا۔

زین کے منہ سے سچ سن کے بلاج کی آنکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے۔

زین تجھے اندازہ نہیں تونے کیا کرا ہے اس چیز کی میں نے بہت بھیانک سزا دی ہے عترت کو بیوی ہونے کے باوجود اسکے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا ہے۔۔

بلاج نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا۔۔

کیا عترت سے شادی ہوگئ تیری یاالٰہی تیرا شکر ہے۔۔

بلاج اس نے خالی تیری عزت کی خاطر اس دن وہ سب کیا وہ تجھ سے محبت نہیں عشق کرتی ہے پلیز اب اسکے ساتھ کچھ غلط نہیں کرنا اور یہ دیکھ۔ میں ہاتھ جوڑ کے تجھ سے معافی مانگتا ہو کہے تو تیرے پاؤں پکڑ لو

۔زین نے واقعی میں بلاج کے پاؤں کا ہاتھ لگالیا۔

کیا کررہا ہے یار۔۔

بلاج نے اسے سینے سے لگایا تو زین بھی بلک پڑا۔۔

مجھے معاف کردے بلاج تجھ سے دوستی توڑ کے کبھی مجھے دوست نہیں ملا  دیکھ کسی کے ساتھ غلط کرنے کی اللّٰہ نے ایسی سزا دی کے ایک ایکسیڈینٹ نے مجھ سے میرا بچہ  میری بیوی کو لے لیا میں اپاہج ہوگیا۔۔

زین میں نے تجھے معاف کیا زین مگر تجھے عترت سے بھی معافی مانگنی چاہیے ۔۔

کہاں ہے عترت لے چل میں معافی مانگ لونگا اس سے۔۔

او مائ گاڈ آپی یہ آپ ہو ۔؟؟

صنم نے جب عترت کو ریڈ ساڑھی میں دیکھا تو حیران رہ گئ۔۔

یار مجھے تھوڑا عجیب لگ رہا ہے کبھی ساڑھی پہنی نہیں پہنے۔۔۔

آپی کوئ عجیب وجیب نہیں لگ رہا قسم سے قیامت لگ  رہی ہو آج تو بلاج بھائ کی خیر نہیں۔۔

وہ کہاں آئینگے آج  انہیں کام تھا کوئ؟

ہیں کیا بول رہی ہو باہر جاکے دیکھو محفل کی شان بنے ہوئے ہیں ڈنر سوٹ میں ۔۔

کیا بلاج اگئے؟.

آپی تم آج پاگلوں جیسی باتیں کیوں کررہی ہو ویسے کوئ ایک پاگل بنا ہو ا گلے تک نہیں لگی وہ میرے۔۔

صنم کا اشارہ جس طرف تھا عترت سمجھ چکی تھی۔۔

صنم جاکے اسکی غلط فہمی دور کرو تاکے اسکے اور بی ایم کے درمیان اختلافات بھی صحیح ہو۔۔

وہ۔ہاتھ تو آئے جب جاتی ہو اسکی طرف راستہ بدل لیتی ہے۔۔

اچھا میں کچھ کرتی ہو۔۔

شانزے پستئ کلر کی میکسی میں پرستان کی کوئ پری لگ رہی تھی بہزاد کا ولیمہ بہت اعلی درجہ کا تھا شانزے کو تو ایسا لگ رہا تھا پورا شہر اٹھ کے آگیا ہے ۔۔

بہت سارے جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تو جو ااسکی اور بہزاد کی ایک ساتھ پکس بنا رہے تھے۔۔

بہزاد اور شانزے کی جوڑی کو ہر کوئ سراہا رہا تھا عاشر شانزے کے پیچھے پیچھے تھا وہ ماما ماما کہتے کہتے نہیں تھک رہا تھا اور شانزے جی میری جان کہتے کہتے ۔۔

سب ہی اس چھوٹی سی لڑکی کو ولیمہ کی دلہن بنے دیکھ رہے تھے جس نے بن ماں کے بچے کو دو تین دونوں میں اپنا اسیر کرلیا تھا ۔۔

شانزے کو کوئ فرق نہیں پڑے رہا تھا کوئ کیا بول رہا ہے ہاں مگر وہ بہزاد کی نظروں سے ضرور کنفیوز ہورہی تھی۔

جواد صاحب شانزے کی ماں اللّٰہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے بہزاد  اب جواد صاحب کی پہلے سے زیادہ عزت اور احترام کررہے تھے۔۔

اتنی بڑا بزنس ٹائیکون انکے آگے پیچھے تھا۔

یہ دیکھ کے شانزے خوش ہوئ تھی۔۔

لو آگئ آپکی وائف۔۔۔بہزاد نے بلاج کو ڈریسنگ روم سے باہر آتی عترت کی طرف متوجہ کیا۔

ریڈ ساڑھی میں عترت کو دیکھ کے بلاج اپنے ہاتھ موجود گلاسں میں سے جوس پینا بھول گیا جو اسکے لبوں کے قریب تھا۔۔

آج بلاج کی غلط فہمی دور ہوگئ عترت آج اسے اور زیادہ جان سے پیاری ہوگئ تھی وہ دھیرے سے چلتا ہو عترت کے پاس آیا عترت جو اپنی ساڑھی ٹھیک کررہی تھی بلاج کو سامنے دیکھ کے اسکے ہاتھ تھم چکے تھے اور بلاج کو بلیک  ڈنر سوٹ میں دیکھ وہ بھی اپنی ساڑھی ٹھیک کرنا بھول گئ تھی۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو !!!!

بلاج کی تعریف پہ عترت بلاج کو گھورنے لگی اور وہاں سے چلی گئ۔۔

بلاج نے ایک لمبی سانس لی اور وہی کرسی پہ بیٹھ گیا۔

شانزے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی تو وہاں کوئ نہیں تھا ۔۔

شاہجاں آنٹی تو کہہ رہی تھی عترت بلا رہی ہے ۔۔

یہ سوچتے ہوئے شانزے پلٹی تو سامنے صنم غصہ میں لال پیلی کھڑی تھی۔۔

شانزے نے اسے دیکھ کے منہ بنا کے کہا ۔۔

راستہ چھوڑو میرا ۔۔

زیادہ۔اترا نہیں شانزے میں بتا رہی ہو بہت ہوا تیرا ناٹک اگر اب تو اور زیادہ اترائی تو میں ایسی ناراض ہونگی کے ساری زندگی تجھ سے بات نہیں کرونگی۔۔

یہ صحیح ہے بھئ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔

شانزے نے سڑا ہوا منہ بنا کے کہا۔۔

بات سن شانزے آج اگر تو یہاں صحیح سلامت کھڑی ہے تو وجہ صرف بی ایم ہیں۔۔

تو نے پھر بی ایم کا راگ الاپنا شروع کردیا۔۔

افففف جو سچ ہے وہی بتا رہی ہو شانزرے۔۔۔

جس مراد کو تو آج تک سوگ منا رہی ہے وہی تیرا اغواہ کار ہے۔۔

صنم تجھے پتہ ہے تو کیا بول رہی ہے؟

ہاں پتہ ہے اور ثبوت بھی ہے میرے پاس سن .  

صنم کے ایک کے بعد ایک ثبوت دینے پہ شانزے سکتہ کی حالت میں صوفے پہ بیٹھ گئ اسکی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسوؤں گرنے لگے۔۔۔۔۔

شانزے میری جان ایسے نہیں رو اب جو ہوگیا وہ ہوگیا اللّٰہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے تجھے تو شکر ادا کرنا چاہیے کے تنگ کرنے کیلے ہی صحیح بی ایم تیرے پیچھے تو تھے تو یہ شکر کر کے انہوں نے اپنے گارڈز تیرے پیچھے لگائے ہوئے تھے۔ وہ بہت پہلے مراد کی اصلیت سے واقف ہوچکے تھے مگر اگر تجھے سمجھاتے تو تو انہیں ہی غلط سمجھتی اب جو ہوا سو ہوا ۔۔

ہاں شانزے بی ایم بہت اچھے ہیں ان کی قدر کر آج اگر تم عزت سے صحیح سلامت ہو تو وجہ بی ایم ہیں۔۔

عترت کی آواز پہ شانزے اور صنم دونوں نے اسے دیکھ تھا شانزے اٹھ کے عترت کے گلے لگ کے رونے لگی ۔

ارے بہن رو مت تیرا اتنا ایکسپینسو میک اپ خراب ہوجائے گا اور تیرا بی ایم ہر جگہ اپنے گارڈز پھیلا دے گا کے جاؤ دیکھو پتہ کرو شانزے کیوں روئ۔۔

صنم نے اس انداز سے کہا۔کے وہ تینوں ہنسے لگی۔۔

ماما ماما!!!!!

عاشر کی آتی آواز پہ شانزے نے اپنے آنسوؤں فورا صاف کیے اور دروازے کی طرف بڑھی مگر بڑھنے  سے پہلے صنم کے گال۔چومنا نہیں بھولی۔۔

شانزے باہر نکلی تو اسے بہزاد نظر آیا جو شاید اسے ڈھونڈ رہا تھا۔

شانزے نے  غور سے اسے دیکھا اسکے چہرے پہ پریشانی صاف جھلک رہی تھی ۔بہزاد راجپوت ایک بہت بڑا نام تھا اسے اندازہ نہیں تھا کے بہزاد نے اسکی عزت بچائی وہ کوئ اتنی حسین بھی نہیں تھی جسکے پیچھے بہزاد پاگل ہورہا تھا اسنے دیکھا کئ بار کئ جگہ لڑکیاں ٹرائے کرتی  تھی بلاج کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس پر اسکی خوبصورتی سامنے والے کو چٹ کرنے کا۔ہنر رکھتی تھی مگر وہ پھر بی شانزے کے پیچھے تھا کیوں ۔۔۔۔

شانزے نے جاکے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔

بہزاد نے جب اپنے پیچھے شانزے کو دیکھا تو ایک لمبی سانس لے کر بولا ۔۔

کہاں تھی کب سے ڈھونڈ رہا ہو؟؟

مجھے صنم نے بلایا تھا۔۔

اچھا مزاکرت ہوگئے تم دونوں کے؟؟

ہممممم۔۔۔

شانزے نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔بہزاد نے جب غور سے شانزے کا چہرہ دیکھا تو پوچھا۔۔

ایک منٹ تم روئ ہو؟؟.بہزاد نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔

نہیں میں کیوں رونگی وہ میں عاشر کو دیکھ لو۔۔

یہ بول کے شانزے وہاں سے جانے لگی جب بہزاد نے اسکا ہاتھ تھام کے اسے اپنے قریب کیا اور اسکی آنکھوں کے پاس جمع آنسو اپنی انگلی سے پوچھتے ہوئے کہا۔

مجھ سے کوئ بات چھپانے کیلیے ابھی بہت چھوٹی ہو تم ۔۔۔

میں نے کہا ہے نہ تم سے زہر لگتے ہیں مجھے تمہاری نیلی آنکھوں میں انسووں۔۔

مگر شانزے وہ خاموشی سے دو منٹ کیلے بہزاد کو دیکھتے رہی اور پھر دھیرے سے اسکے چہرے پہ۔ہاتھ رکھ کے بولی۔۔

"اب نہیں روانگی"

یہ عمل ایک جرنلسٹ نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا تھا۔

شانزے وہاں سے چلی گئ مگر بہزاد وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا اسے یقین نہیں آیا یہ شانزے تھی بہزاد کچھ سوچتا ہوا آگے جانے لگا جب اسکی نظر عترت اور صنم پہ پڑی ۔۔

ان دونوں نے اسے ویکٹری کا نشان دیکھایا اور وہ سمجھ گیا کے شانزے کے بدلے رویہ کی وجہ یہ دونوں ہے بہزاد نے مسکرا کے  گردن نیچے کرکے گردن ہلائ اور ان دونوں کو فلائنگ کسس پاس کی جو ان دونوں نے تیزی سے پکڑ لی

#####

کوئ تو وجہ بتائ ہوگی خوشبو ہیر نے کے کیوں آگئ اتنی جلدی پڑھائ چھوڑ کے۔؟

شہاجاں بیگم نے خوشبو سے پوچھا جو بظاہر تو نارمل۔لگ رہی تھی مگر تھی وہ پریشان ۔

خوشبو نے آج شاجہاں بیگم سے معزرت کرلی تھی بہزاد کے ولیمہ میں آنے کی اور جب وجہ پوچھیں تو انہوں نے ہیر کی امد کا بتایا۔

خوشبو۔ پریشان نہ ہو کیا پتہ واقعی اسکا دل نہ لگا ہو وہاں پر اسلیے ٹینشن نہیں لو اب یہاں وہ کرلے گی باقی کا کورس ۔۔

شاہجاں بیگم کی باتوں نے خوشبو کو واقعی میں تسلی دی تھی۔

"کسی نے سچ ہی کہا ہے بہترین مخلص دوست اللّٰہ کی طرف سے تحفہ ہے"

#######

بہزاد اور عترت دونوں ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے ولیمے والے ہی کپڑوں میں عترت نے صنم کی شال اوڑھی ہوئی تھی ۔۔ 

بہزاد نے عترت کو ویٹنگ روم میں بیٹھایا اور پانی لینے چلا گیا۔۔

آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا انکی فلائٹ میں۔۔

عترت!!!

اپنے نام کی پکار پہ عترت نے جب پکارنے والے کو دیکھا تو زین کھڑا تھا۔۔

زین کو سامنے کھڑا دیکھ کے عترت کی ہوائیاں اڑ گئ وہ بار بار وہ ویٹنگ روم کے باہر دیکھ رہی تھی کے کہی بلاج نہ اجائے اور ایک بار پھر وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔۔

تم یہاں سے چلے جاؤ زین اور کتنا برباد کروگے مجھے میں ہاتھ جوڑتی ہو تمہارے آگے ۔۔

پلیز یہ بول کے عترت رونے والی ہوگئ جب زین ایک دم اسکے پاؤں پہ جھک گیا۔۔

عترت مجھے معاف کردو میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا مجھے اسکی اللّٰہ نے بہت بھیانک سزا دی ہے پلیز معاف کردو تم معاف کردو کی تو اللّٰہ بھی شاید مجھے معاف کردے۔۔

عترت کی تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کے یہ ہو کیا رہا ہے۔۔عترت نے جب قدم پیچھے کیے تو بلاج سے ٹکرائ۔۔

عترت نے بلاج کو دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا سالوں بعد آج عترت کو بلاج کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھائ دیا تھا۔۔

معاف کردو عترت اسے میں بھی معاف کرچکا ہو۔۔۔

آپ مل چکے ہیں زین سے ؟

ہاں کل ہسپتال میں ملاقات ہوئ تھی ۔۔۔

عترت نے ایک پرشکوہ نظر بلاج پہ ڈالی جسے دیکھ کے بلاج کو اندازہ ہوگیا تھا کے اسے اتنے آسانی سے معافی نہیں ملے گی۔۔

پلیز عترت مجھ پہ رحم کھاؤ مجھے معاف کردو پلیز تاکے مجھے سکون مل جائے۔۔۔

ایک دم انکی فلائٹ کی اناوسمنٹ ہوئ تو عترت نے گھٹنوں کے بل بیٹھی زین کو دیکھ کے کہا۔

سوچا تھا اب جب بھی تم سے سامنا ہوگا تو تمہیں جان سے ماردونگی مگر مارے ہوئے کو میں اور کیا مارو ۔۔

جاؤ زین میں نے تمہیں معاف کیا ۔مگر کوئ اور مجھ سے معافی کی توقع نہ کرے۔۔

عترت نے آخری کا جملہ بلاج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ویٹنگ روم سے نکل گئ۔۔

پوری فلائٹٹ میں پورا راستے عترت اگر خاموش رہی تو  بولا بلاج بھی نہیں کچھ تھا ہی نہیں اسکے پاس بولنے کو۔۔

رات کے ایک بجے وہ لوگ گھر میں داخل ہوئے ندا بیگم اس وقت سو چکی تھی اس لیے انکو اٹھانا عترت نے مناسب نہیں سمجھا۔۔

عترت اپنے کمرے میں پہنچی تو بلاج بھی پہنچ چکا تھا۔۔

عترت نے شال اتاری تو ایک بار پھر بلاج اسکے سراپے کو دیکھنے لگا مگر عترت کا غصہ آج ساتویں آسمان پہ تھا اس نے غصہ میں۔ جیولری اتاری اور ساڑھی چینج کرنے کیلے جیسی ہی جانے لگی بلاج نے اسکی ساڑھی کا۔پلو پکڑ لیا۔

کہاں جارہی ہو ؟

ساڑھی چھوڑے میری مجھے چینج کرنا ہے۔۔

مگر میں تو ابھی تک دیکھا نہیں تمہیں ۔۔

یہ بول کے بلاج نے ساڑھی کے پلو سمیت اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

بلاج نے عترت کو غور سے دیکھا تھا مگر عترت نے آنکھوں میں آنسوؤں لیے اسکی طرف انگلی دیکھا کے کہا۔

معافی کو سوچیے گا بھی نہیں بلاج میں آپکو آپکی بے اعتباری کیلے معاف کر بھی دیتی مگر جو اپنے شادی کی رات میرے ساتھ سلوک کیا اسکے لیے میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔

مگر میں نے تو تم سے معافی مانگی ہی نہیں بلاج نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔۔۔

میں تو تمہیں بس اپنے پاس دیکھنا چاہتا ہو ۔۔۔

عترت نے اپنے اپکو بلاج سے جھڑاونے کی کوشش کی تو بلاج نے اسے اور اپنے قریب کرلیا ۔۔

مجھ سے زور آزمائی میں ہمیشہ ہاری ہو عترت مت ہلکان کرو اپنی جان۔۔

ہار تو میں اسی دن گئ تھی جس دن اپنے میرے ساتھ جانوروں جس سلوک کیا تھا ،ہار تو میں اسی دن گئ تھی جس دن اپنے مجھے غیر آدمی کے طعنے دیے تھے۔۔

عترت نے یہ بول کے ایک بار پھر اپنے آپکو بلاج سے چھڑوانا چاہا۔۔

مانتا ہو جو شادی کی رات ہوا بہت غلط ہو امیں قابل نہیں مجھے معاف کیا جائے مگر میں نے اس رات تم سے کہاتھا کے میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتا ہو بدلے میں تم نے کیا کہا تھا یاد یے۔۔۔؟

وہ میں سب نہیں جانتی بس میں آپ سے محبت نہیں کرتی ہو اور نہ ہی آپکو معاف کرونگی؟؟

مگر میں تو محبت کرتا ہو۔۔

یہ محبت اصلیت پتہ لگنے کے بعد ہوئ آپکو اس سے پہلے اپنے مجھے کتنا زلیل کیا بھول گئے اپ۔۔

عترت نے پھر کوشش کری خود کو چھڑوانے کی۔۔

نکاح نامہ پہ سائن کرتے ہوئے میں اپنے دل سے ہر پرانی بات نکال چکا تھا اس بات کا گواہ میرا رب ہے کے میں نے تمہیں دل سے اپنایا تھا ۔۔

بلاج کی وضاحت پہ بھی جب عترت کچھ نہ بولی تو بلاج نے اسے چھوڑ دیا اور الماری میں سے کچھ پیپرز نکال کے عترت کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے کہا۔۔

یہ طلاق نامہ ہے۔۔بلاج کے کہنے پہ عترت  ڈگمگائی تھی جسے بر وقت بلاج نے سنبھال لیا تھا۔۔

جب مجھے زین نے حقیقت بتائ تھی تبھی میں نے فیصلہ کرلیا تھا ایک بار کوشش کرونگا تمہیں منانے کی تم سے معافی مانگنے کی اگر تم نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں تمہیں اپنی قید سے آزاد کردونگا اور تمہارے ساتھ زیادتی نہیں کرونگا۔

یہ پیپر تبھی کھولنا جب ان پہ سائن کرنے لگو کوئ زبردستی نہیں ہے عترت تم پر کوئ انگلی نہیں اٹھائے گا میں ہر الزام اپنے سر لے لونگا ۔۔

عترت نے بے یقینی سی کیفیت میں پہلے بلاج کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ میں موجود طلاق نامہ کو ۔۔

عترت نے سب سے پہلے طلاق نامہ پھاڑا اور پھر ایک زور دار چماٹ بلاج کے منہ پہ  مارا جسے کھاکے بلاج کا کان سن ہوچکا تھا۔

عترت نے بلاج کالر پکڑ کے کہا۔

کیا سمجھتے ہیں مجھے کوئ کھلونا ہو جب دل چاہا دل لگایا لیا جب چاہا چھوڑ کے چلے گئے جب دل چاہا لوٹ ائے۔۔

تو معاف کردو مجھے پھر آنے دو قریب خود کے کرو مجھ سے پیار کرو مجھ سے محبت کا اظہار ۔کیونکہ بلاج خان تو تم سے بے تحاشہ عشق کرتا ہے۔۔

یہ بولتے ہوئے بلاج کی آنکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے۔۔

نہیں کرونگی میں آپکو معاف سنا اپنے اور نہ چھوڑ کے جاؤنگی آپکو نفرت کرتی ہو آپ سے سنا اپنے نفرت ۔۔

یہ بولتے ہوئے عترت بلاج کے گلے لگ چکی تھی۔۔

بلاج نے بھی سے اپنے سینے میں چھپا لیا تھا اسکا چہرہ تھام کے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے دونوں رو رہے تھے مگر لب انکے مسکرا رہے تھے۔۔

بلاج نے جھک کے عترت کو اپنی باہنوں میں اٹھا کے بیڈ  پہ لیٹایا تھا۔۔

اسکے چہرے کو بے تحاشہ چوما تھا آج بلاج اس سے بے پناہ پیار کرنا چاہتا تھا جتنی عزیت وہ عترت کو دے چکا تھا ان سب تکلیف کا آج ازالہ کرنا چاہتا تھا۔۔

بہت آرام سے محبت سے اسنے عترت کے لبوں کو چوما تھا۔۔

بلاج نے اسکے دائیں بائیں گال پہ اپنے لب رکھتے ہوئے ایک بار پھر سوری کہا تھا۔۔

عترت نے بھی بلاج کے ماتھے کے بال سیٹ کرکے وہاں اپنے لب رکھے تھے ۔۔

بلاج نے آج عترت سے بہت مان سے پیار سے اپنا حق وصولہ تھا آج عترت کی آنکھوں میں تکلیف کے نہیں خوشی کے آنسوؤں تھے دیر سے ہی صحیح مگر اسکی محبت نے آج اسے مان بخشا تھا۔۔

ماما ایک بات پوچھو؟؟

عاشر جو تقریبا سونے ولا ہورہا تھا شانزے سے کچھ پوچھنے کے چکر میں اس نے اپنی بند آنکھیں دوبارہ کھول لی۔

ہاں میری جان پوچھو۔۔؟؟

ماما اپ۔کبھی مجھے چھوڑ کے تو نہیں جائینگی نہ ؟

نہیں میری جان کبھی نہیں مگر ابھی آپ سوجاؤ ماما بھی بہت تھک گئ ہے کمرے میں جاکے چینج کریگی۔۔

شانزے دلہن کے لباس میں ہی سوئے ہوئے عاشر کو کمرے میں لیٹانے آئ تھی مگر اسے بیڈ پہ لیٹاتے ہی عاشر نے پٹ اپنی آنکھیں کھول لی۔۔

5 منٹ بعد عاشر سو چکا تھا شانزے بہت آرام سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔۔

بہزاد کمرے میں نہیں تھا  اس نے گارڈز کے ہاتھ ان لوگوں کو گھر پہنچا دیا تھا ۔۔۔

شانزے نے جیولری اتار کے ڈریسنگ پہ رکھی۔۔

ارادہ اسکا شاور لینے کا تھا۔۔

الماری میں سے ڈھیلا سا سوٹ نکالا اور میکسی اٹھاے واش روم میں گھس گئ۔۔

شانزے نے اپنی میسکی اتاری اور تولیہ اپنے جسم پہ باندھ کے جسے پلٹی سامنے بہزاد کھڑا تھا اپنی پوری آنکھیں کھولے اسکے ہاتھ میں موجود سارے پیپرز نیچے گر چکے تھے۔۔

بہزاد کو دیکھ کے شانزے اس سے پہلے چیخ مارتی بہزاد نے اسکے جسم پہ بندھے تولیے کو آگے سے پکڑ کے کھینچا تو وہ اسکے سینے سے ا لگی۔ مگر  شانزے نےاپنے ہاتھ اپنے تولیے پہ۔سے نہیں ہٹائے۔۔

آپ واش روم میں کیا کررہے ہیں؟ آپ کب آئے ؟

 بہزاد اور اگر مجھے دیکھ لیا تھا کپڑے چینج کرتے ہوئے تو بول نہیں سکتے تھے کے شانزے رک۔جاو مجھے جانے دو۔

شانزے نے  اپنا تولیہ صحیح کرتے ہوئے کہا۔

بہزاد  نے اسکے ماتھے پہ نھننے پسینے کے قطرے صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

" جسکی بیوی اتنی ہاٹ ہو اور سونے پہ سہاگہ اتنے وی آئ پی نظارے کروا رہی ہو بنا بولے کوئ کمبخت شوہر ہی ہوگا جو اپنی موجودگی کا اعلان کرے گا۔۔

ویسے شانزے یہ بول کے بہزاد اسکی کمر پہ ہاتھ رکھ اسے اور خود سے قریب کیا۔۔

وہ جو تمہاری کمرے کے نیچے۔ تل ۔۔۔اس سے پہلے بہزاد پوری بات کرتا شانزے نے تیزی سے اسکے لبوں پہ ہاتھ رکھ کے کہا ۔

کچھ تو شرم کرے اتنی غور سے کون دیکھتا ہے اپنی بیوی کو۔۔۔

ایک شریفنس آدمی صرف اپنی بیوی کو ہی غور سے دیکھتا ہے اور یہ جو تمہارے ۔۔یہ کہہ کے بہزاد نے جیسی ہی نگاہیں نیچی کرنی چاہی شانزے نے فورا اسکی ٹھوڑی پہ انگلی رکھ کے اسے ایسا کرنے سے روکا ۔۔

خبرد دار اگر نیچے دیکھا تو کچھ تو شرم کرے کوئ اپنی بیوی کی مجبوری کا ایسا فائدہ نہیں اٹھاتا۔جیسے اپ اٹھا رہے ہیں بہزاد۔۔

واہ بھئ واہ تولیہ میں تم مجھ سے لپٹی پڑی ہو ہمارے درمیان یہ محنوس تولیہ تم نے دیور بنایا ہو اہے اور شرم میں کرو۔۔

چلو نہ اسے ہٹاؤ ہم ایک ساتھ نہاتے ہیں ۔۔

بہزاد یہ بول کے اپنی شرٹ کے بٹن کھلونے لگا۔۔

اففف بہزاد آپ جائے یہاں سے؟ اور یہ واش روم میں فائلیں کون رکھتا ہے۔۔؟

شانزے نے اسکا دماغ ہٹانا چاہا ۔۔

اس دیوار کے پیچھے میرا لوکر ہے میں تو اپنی فائل لینے آیا تھا مگر مجھے نہیں پتہ تھا یہاں اتنا حسین نظارہ دیکھنے کو ملے گا ۔۔

بہزاد ایک منٹ کے اندر اندر اگر اپنے مجھے نہیں چھوڑا تو ۔۔۔۔۔۔

تو۔۔۔بہزاد نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔

پلیز جائے نہ بہزاد۔۔شانزرے نے یہ کہہ کے اپنی گردن جھکالی بہزاد دیکھ سکتا تھا اسکا چہرہ شرم سے لال ہوچکا تھا۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے میں جارہا ہو ایک ضروری کام سے کل صبح تک آؤنگا فٹا فٹ مجھے زرا سی کس دے دو۔۔

بہزاد کی بات پہ شانزے کو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور اسنے غصہ میں اپنے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔

کوئ ٹافی مانگ رہے ہیں مجھ  سےکیا جو زارا سا بول رہے ہیں۔۔

ہاں ۔۔

کیونکہ جب میں خود سے کسس لونگا تو وہ زرا سی نہیں ہوگی۔۔

مگر تمہیں نہیں دینی تو  ٹھیک ہے پھر جانا کینسل آجاؤ ساتھ نہاتے ہییں۔۔

شانزے ایک بار پھر اسے شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے دیکھا ۔۔

اچھا اچھا دے رہی  اپنی آنکھیں بند کرے۔۔

ہاں گڈ گرل یہ بول کے بہزاد نے اسے دوبارہ اپنے آپ سے لگایا اور آنکھیں بند کرے اسکے قریب اپنے ہونٹ کیے۔۔

شانزے نے اتنی قریب سے پہلی بار اسکا چہرہ پیار سے دیکھا تھا اس نے بہت آرام سے بہزاد کے گال پہ اپنا ہاتھ رکھا اور اپنی آنکھیں بند کرکے بہزاد کے لبوں پہ جھک گئ اور فورا ہٹ گئ۔۔

شانزے یہ چیٹنگ ہے۔۔۔

ہاں چینٹنگ ہی سمجھے پلیز اب جائے نہ میں بہت تھک گئ ہو۔۔

بہزاد نے اسکا چہرہ دیکھا  جہاں تھکن کے آثار تھے اسنے شانزے کو خود سے دور کیا اور اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھ کے کہا۔۔

اپنا دیھان رکھنا اوکے۔۔

یہ کہہ کے بہزاد جانے لگا شانزے نے شکر کا سانس لیا مگر بہزاد جیسے ہی واش روم کے گیٹ تک پہنچا کچھ یاد آنے  پہ مڑ کے کہنے لگا۔۔

ویسے کمر تمہاری بہت پتلی یے اور 32 کا ۔۔۔۔۔۔۔

بہزاد پلیز۔۔۔

شانزے نے تیزی سے آگے بڑھ کے دوبارہ اسکے لبوں پہ اپنے ہاتھ رکھے۔۔

بہزاد نے اپنے لبوں پہ رکھے اسکے ہاتھ کو چوما اور مسکراتا ہوا چلا گیا

شانزے نے واش روم کا دروازہ لاکڈ کیا اور مسکراتے ہوئے نہانے لگی۔۔

##########

مگر ہیر ایک ہفتہ بعد بازل کا نکاح ہے تم اپنے بیسٹ فرینڈ کے نکاح میں شامل نہیں ہوگی۔۔

بابر صاحب نے ناشتہ کی ٹیبل پہ جب ہیر کے جانے کا سنا تو بول پڑے ۔۔

نکاح کا سن کے بازل نے اپنے ہاتھ  میں موجد ڈبل روٹی کے سلائس کو اپنی مٹھی میں زور سے تھاما ۔۔اور ہیر نے ایک نظر بازل کو دیکھاتھا۔

تایا ابو جانا ضروری ہے ہماری کیمپنگ ہے گاؤں میں اس لیے ۔

اچھا ماما میں چلتی ہو ہارون ویٹ کررہا ہوگا۔۔

ہیر نے اپنی ماں سے کہا اور باہر جانے لگی۔۔

بازل کی نگاہوں نے اسکی پشت کا پیچھا کیا پھر اچانک بازل کو نجانے  کیا ہوا وہ ناشتہ چھوڑ کے ہیر کے پیچھے گیا۔۔

مگر تب تک ہیر ہارون کیساتھ گاڑی میں بیٹھ کے جاچکی تھی بازل کا بس نہیں چل رہا تھا وہ خود کو ختم کرلے۔

ہیر کو جاتا دیکھ اسکی آنکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے اور وہی گھر کی دہلیز پہ بیٹھ ۔۔

" کل مجھ کو اجازت ہو نہ ہو۔۔

کل مجھ سے محبت ہو نہ ہو۔۔

ٹوتے دل کے ٹکڑے لے کر۔

تیرے در پہ ہی رو جاونگا۔۔

میں پھر بھی تم۔کو چاہونگا"

#######

بلاج کی آنکھ کھلی تو  عترت اسکے سینے سے لگ کے سو رہی تھی۔۔

بلاج نے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور چہرے پہ آئے اسکے بال کان کے پیچھے کیے۔۔

کل رات اس نے عترت کو دھمکانے کیلیے خالی کاغذات کو  طلاق کے کاغذات شو کیے تھے اسے پتہ تھا عترت اس سے بے حد محبت کرتی ہے بس ضد میں ہے اور شاید یہ ضد بھی اسی کی وجہ سے تھی عترت کو۔

بلاج نے بہت آرام سے عترت کا سر تکیہ پہ رکھا تھا مگر وہ پھر بھی جاگ گئ تھی۔۔

مسکراتے ہوئے اس نے بلاج سے پوچھا کہاں جارہے ہیں۔۔؟

آج نکلنا ہے عترت ایک مشن پہ کتنا وقت لگے پتہ نہیں۔۔

مشن کا سن کے عترت کی آنکھیں بھیگنے لگی مگر وہ انکار بھی نہیں کرسکتی تھی بلاج کو اسکی جاب ہی ایسی تھی ۔۔

اب اگر تم مجھے ایسے وداع کروگی رو کے تو میرا جانا مشکل ہو جائے گا۔۔

بلاج فریش ہوکے باہر آیا تو عترت گم سم سی بیڈ پہ بیٹھی تھی اسکی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔

نہیں آپ جائے۔۔

 اللّٰہ کی حفاظت میں دیا میں نے آپکو ۔۔۔۔

یہ کہہ کے عترت دوبارہ بلاج کے سینے سے لگ گئ۔۔

بلاج نے اسے اپنے اپ میں بھینچا مگر جانے سے پہلے اس نے ایک نگاہ بھی عترت پہ نہیں ڈالی ورنہ اسکا جانا مشکل ہو جاتا۔۔

#######

ماما ہیر تھوڑی چپ چپ نہیں تھی ۔۔

صنم نے گاڑی چلاتے ہوئے شاہجاں بیگم سے پوچھا۔۔

آج وہ لوگ خوشبو کے ہاں ڈنر پہ گئے تھے۔۔

ہاں بیٹا مجھے بھی لگا مگر خوشبو بتا رہی تھی جب سے لندن سے آئ ہے چپ چپ سی ہے وہاں کے حالات بگڑ گئے تھے جنہیں دیکھ کے وہ ڈر گئ تھی۔۔

ہممم۔۔۔

صنم کے نمبر پہ اسکی دوست فاریہ کی کال آئ جسے سنتی ہی وہ بھڑک پڑی۔۔

ابے یار فاریہ رات کے 11 بجے رہے تجھے اس وقت میں اپنی بلک والی سینڈل لاکے دو تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔

ارے یار مجھے کیا پتہ تھا کے میری سینڈل مجھے دھوکا دے دے گی ۔۔

افف یار میں گھر پہنچ چکی ہو اب یہاں سے اتنی دور دوبارہ ڈی ایچ اے او تیری کزن کی مہندی میں تجھے سینڈل دینے  حد ہے یار۔۔

صنم نے کافی سڑا ہوا منہ بناکے کہا جیسے سن کے فاریہ نے بھی منہ بناکے کہا۔

اچھا بھی نہ لاؤ ایک  سینڈل پہ اتنا سنا رہی ہو یہ کہہ کے فاریہ نے کال کٹ کردی۔۔

ارے بیٹا دے او اسے سینڈل ضرورت ہے تبھی تو وہ مانگ رہی ہے بس دے کے آجانا فورا۔۔

فٹافٹ صنم نے شاہجاں بیگم کو گھر چھوڑا سینڈل اٹھائ اور فاریہ کو دینے نکل پڑی۔۔

سگنل پہ گاڑی رکی تو اسے ایک گاڑی میں صائم دیکھا کسی لڑکی کیساتھ ۔۔لڑکی کو صنم دیکھ نہیں پائ۔

یہ دیکھ کے صنم کافی حیران ہوئ کیونکہ اج ہی صائم نے اسے کہا تھا کے اسے لاہور سے واپس آنے میں تین چار دن لگ جائینگے۔۔

صنم نے ایک بار پھر صائم کا کال کری تو اسنے نہیں اٹھائ

سگنل گرین ہوتے ہی صائم کی گاڑی تیزی سے آگے نکل گئ صنم نے پریشانی حالت میں پہلے فاریہ کو سینڈل دی اور دوبارہ ایک بار پھر صائم کو کال کری مگر اس بار صائم نے لائن بزی کردی۔۔

اپنا شک دور کرنے کیلے اسنے لوکیشن سرچ کی کیونکہ اسے لگ رہا تھا ہو سکتا اسکا دھوکہ ہو

مگر جو لوکیشن آرہی تھی وہ اسی جگہ کی تھی جہاں جانے سے پہلے صائم اسے لے کر گیا تھا جو اسکے دوست کا فلیٹ تھا۔

صنم کا دل انجانے خوف سے ڈھرکنے لگا اسکے کانوں میں بار بار بہزاد کے الفاظ گونجنے لگے ۔۔

"ویسے وہ تمہارے قابل نہیں صنم"

صنم نے گاڑی اسی فلیٹ کی طرف موڑ دی رات کے 12 بج چکے تھے مگر اسے اب اپنے شک کو وہم میں تبدیل کرنا تھا کیونکہ دل بار بار بول رہا تھا صائم ایسا نہیں ہے مگر دماغ کچھ اور ہی سگنل دے رہا تھا۔۔

صنم  فلیٹ کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی اسنے اپنے دل کو قابو میں رکھ کے بیل بجائ۔۔

دو تین  بار بیل بجانے پہ دروازہ کھلا۔۔

کوئ لڑکی تھی نائٹی میں۔۔

جی آپ کون؟؟

اوہ ائ۔ایم۔سو سوری میم۔ وہ میں اس ے سے پہلے آگے کی بات وہ بولتی۔۔

کون ہے لیلہ؟؟

اندر سے آتی آواز پہ صنم نے ایک بار اس لڑکی کو دیکھا اور پھر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ فلیٹ کا دروازہ  دھکیلتی ہوئ فلیٹ کے اندر گھس گئ لیلہ اسے روکتی رہ گئ مگر جب وہ سامنے والے کمرے میں گھسی وہاں کا نظارہ دیکھ کے صنم کی آنکھیں ساکن رہ گئ ۔

صائم بنا کپڑوں کے چادر لپیٹ کے بیڈ پہ لیٹا تھا ۔

کون ہے لیہہہہہہ۔

آگے کی بات صائم کے منہ میں ہی رہ گئ۔۔

صنم تم۔۔؟

صائم کے چہرے کی ہوائیاں اڑ چکی تھی اسے اندازہ نہیں تھا کے انتنی جلدی صنم کو اسکی اصلیت پتہ چل جائے گی۔۔

صنم کی نظر فرش پہ پڑے لیلہ کے کپڑوں پہ پڑی۔۔

وہ وہی زمین پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کے رونے لگی مگر نظریں صائم پہ تھی۔۔

صائم تیزی سے اس تک آیا اور اسے بہلانے لگا ۔

صنم میں سمجھاتا ہوں ۔۔

یہ بول کے صائم نے جیسے ہی اسے ہاتھ لگانے لگا صنم کو ہوش آیا اور اس نے چیخ کے کہا ۔۔

مجھے ہاتھ مت لگانا ۔۔

صنم میری بات ۔۔۔۔صائم۔نے دوبارہ اسے چھونا چاہا تو صنم نے ایک گھومتا ہوا چماٹ اسکے منہ پہ دے مارا چماٹ اتنا زور دار تھا کے صائم لڑکھڑا گیا۔۔

کیا سنو میں کیا سنو صنم چیختے ہوئے صائم کے سینے  پہ ہاتھ رکھ کے اسے زور سے دھکا دیا۔۔

کیوں کیا میرے ساتھ ایسا صائم کیوںںںںںںںںں؟؟.صنم اپنے بال مٹھی میں لے کر چیخنے لگی۔۔

صنم نے اپنا ہاتھ زور سے سامنے لگے شیشیہ پہ دے مارا ۔

کیوں کیا صائم کیوں؟؟

صنم زور زور سے روتے روتے چیخنے لگی لیلہ اس لڑکی کی حالت دیکھ کے ڈر گئ تھی کچھ ایس ہی حال صائم کا تھا اسے صنم کی حالت دیکھ کے جہاں حیرانگی تھی وہی ڈر بھی۔۔

صنم نے اپنے آنسوؤں بے دردی سے صاف کیے اور جانے لگی مگر رک کے وہ دوبارہ صائم کے پاس آئ اسے پراوہ نہیں تھی کے اسکے ہاتھ سے تیزی سے خون نکل رہا تھا مگر صائم کی نظر اسکے ہاتھ پہ تھی۔۔

"اللّٰہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اچھا ہوا تمہاری اصلیت میری سامنے آگئ ورنہ تم جیسے زناخور شخص جو نجانے کتنی اور لڑکیوں کو اپنے بستر کی زینت بنا چکا ہے اس نے لیلہ کی طرف طنزیہ نگاہ کرکے کہا۔۔

تم سے اگر میری شادی ہو بھی جاتی اور اگر مجھے اللّٰہ پہل کی بیٹی دے دیتا تو تمہارے اس زنا کا قرض وہ اتارتی کسی اور کے بستر کی زینت بن کے۔۔"

صنم کے الفاظوں پہ صائم سن ہوگیا تھا اسنے ایک دم۔صنم کو دیکھا تھا۔

آج کے بعد اگر میرے اس پاس بھی دیکھائی دیے تو تمہیں اندازہ نہیں صائم وہاج صنم چیز کیا ہے ۔۔

یاد رکھنا صائم اللّٰہ تعالیٰ زنا کبھی معاف نہیں کرتا زنا قرض ہے  جو کرنے والے کی بیٹی بہن یہ بیوی کو اتارنا پڑتا یے۔۔

صنم یہ بول کے تیزی سے فلیٹ سے نکل گئ۔۔

گاڑی چلاتے ہوئے اسکے سامنے بار بار صائم اور لیلہ آرہے تھے اس کمرے میں بکھرے صائم اور لیلہ کے کپڑے آرہے تھے اچانک اسکے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا کیونکہ اسکے ہاتھ سے خوں بہت بہہ چکا تھا ایک دم اسنے آنکھیں بند کرکے کھولی تو سامنے ایک گاڑی تھی اس سے پہلے وہ گاڑی سنبھالتی صنم کی گاڑی اس گاڑی سے ٹکرائی اور پلٹ گئ۔۔۔

زویان ٹیک اوف کرنے لگا تو اسکے پاس ماشا کی کال آنے لگی مگر اسنے ایک کال بھی ریسیو نہیں کی۔۔

کل یونی سے نکلنے کے بعد نجانے کتنی ہی دیر وہ یونی کے بیک سائیڈ  پہ بیٹھا،ا رہا اسنے ماشا کیلیے کیا کچھ نہیں کیا اپنے پاپا کے پیسے تک چرائے تھے ۔۔

ماشا کے کہنے پہ وہ جہاں ہیر کو اچھا خاصا سبق سیکھا چکا تھا جس دن اسکی ہیر سے لڑائ ہوئ تھی اسنے اسکی کہی بات کو اگنور کردیا تھا۔ مگر وہ ماشا اور روبرٹ ہی تھے جنہوں نے زویان کو اکسایا تھا ۔

پاکستان سر زمین پہ پیر رکھتے ہی زویان نے صرف ایک ہی دعا مانگی تھی ۔۔

کاش اسے ایک بار ہیر مل جائے تو میں اس سے معافی مانگ لو۔

"کیوں یہ مرد ذات عورت کی ذات کو اسکی عزت کو کھلونا بناتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کے اگر اس نے اپنا معملہ اللّٰہ پہ چھوڑ دیا تو ہمارا کیا ہوگا ؟اگر اسکے دل سے نکلی اہہ سیدھی عرش تک گئ تو ہمارا کیا ہوگا؟

کوئ بھی ہو اس میں یاد رکھو جب ظلم سہنا والا،عزیت سہنا والے آپکے ہر ظلم پہ خاموش ہوجائے پلٹ کر آپ پہ وار نہ کرے تو ڈرو کیونکہ وہ اپنی شکایت اللّٰہ تک پہنچا چکا ہوتا ہے اپنی جنگ میں اللّٰہ کو شامل کرچکا ہوتا ہے اور بیشک میرا رب بہترین انصاف کرنے والا ہے"

نمرہ بیگم نے جب اپنی ماں کی حالت دیکھی تو بلک پڑی کیونکہ انکی ریڑھ کی ہڈی توٹھ چکی تھی اور گرنے کی وجہ بنی

 ہارٹ اٹیک۔۔۔

نمرہ بیگم کے سر پہ اور ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئ تھی وہ پیرا لائز حالت میں بستر پہ پڑی تھی۔۔

نمرہ بس کرو یار تمہیں امی کو حوصلہ دینا چاہیے اور تم ہی ہمت ہار رہی ہو۔۔

وہاج صاحب نے نمرہ بیگم چپ کرواتے ہوئے کہا ۔

صائم اور زویان دونوں ہی خاموش تھے ایک دوسرے سے بھی رسما دعا سلام ہوئ ورنہ یہ لوگ اسکائپ پہ۔جب بات کرتے تھے تو ان لوگوں کی باتیں کبھی ختم ہی  نہیں ہوتی تھی صائم کی پاس باتیں ہوتی تھی کے کتنی لڑکیوں کو وہ بیوقوف بنا چکا اور زویان کی پاس باتیں ہوتی کے یونی میں اسکی پاپولیشن کتنی بڑھ گئ ہے ماشا کے ساتھ آج اسنے یہ کیا وہ کیا اتنی بار کسس کی بلا بلا ڈھیروں باتیں کرتے تھے دونوں مگر آج دونوں ہی خاموش تھے۔۔

ہاں صائم شاکڈ ضرور ہوا تھا زویان کا حلیہ دیکھ کے کیونکہ زویان کو اپنے حلیے سے عشق تھا خاص کر اپنے لمبے بالوں سے مگر اب جو زویان صائم دیکھ رہا تھا اسنے اسکی شخصیت کو ایک نئی پہچان دی تھی۔۔

نمرہ بیگم نے وہاج کو دیکھا جو پہلے سے بھی زیادہ توٹے ہوئے لگ رہا تھے۔۔۔

نمرہ بیگم کو رخسانہ بیگم نے ہوش میں آتے ہی بلایا۔۔

نمرہ بیگم نے جب اپنی ماں کی بات سنی تو بول پڑی۔۔

امی یہ نہ ممکن ہے وہ نہیں مانے گی؟؟.

میری زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں بیٹا میں اپنی بچی کچی زندگی میں سب ٹھیک کرنا چاہتی ہو کیا پتہ اسکے بعد میری قبر کا عزاب تھوڑا کم ہوجائے۔۔۔

#####

اماں میں سوچ رہی تھی کے اب صنم کیلیے بھی کوئ رشتہ دیکھو۔۔

ہاں شاہجاں یہ تو اچھی بات ہے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے  گھر کی ہوجائے اتنا اچھا ہے۔۔

وہ دونوں باتوں میں مصروف تھی جب ڈور بیل بجی۔۔۔

شاجہاں بیگم نے جب گیٹ کھولا تو نمرہ بیگم کو کھڑا پایا۔۔

انکی آنکھوں سے شاہجاں اندازہ لگا چکی ہے تھی کے وہ کتنا روئ ہے ۔۔

مگر ان سب سے ذیادہ انہیں تشویش اس بات کی تھی کے اتنی جلدی نمرہ لندن سے واپس کیسے اگئ؟

کہی اظہر کو تو کچھ۔۔۔۔۔۔۔

شاجہاں بیگم نے دماغ میں بے شمار  سوچیں ابھرنا شروع ہوگی ۔۔

میں اندر آجاؤ شاہجاں ۔۔۔

نمرہ نے پوچھنے پہ شاہجاں نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا ۔۔

اندر آتے ہی نمرہ شاجہاں کے پیروں میں گر گئ ۔

نمرہ کے اس عمل سے شاہجاں ایک دم بوکھلا گئ کچھ ایسا ہی حال ہال میں بیٹھی نغمہ بیگم کا بھی تھا۔۔

ارے نمرہ یہ کیا کررہی ہو ؟؟

ہوا کیا ہے ؟؟

شاجہاں بیگم نے نمرہ بیگم کو اپنے پیروں پہ سے اٹھاتے ہوئے پوچھا نمرہ بیگم کا بلکنا شاجہاں بیگم کو کسی انہونی کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔

نمرہ ہوا کیا ہے ؟بتاو پلیز؟؟؟

شاہجاں ماما سیڑھیوں سے گر گئ ہیں ۔۔

یاالٰہی۔۔۔

نغمہ بیگم نے ایک دم  اپنےدل پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔

ماما کی ریڑھی کی ہڈی توٹھ گئ ہیں شاہجاں ڈاکٹر کوئ مسبت جواب نہیں دے رہے ہیں ہم انہیں گھر لےکے آگئےہیں وہ بس تم سے ملنا چاہ رہی ہیں۔۔

پلیز شاہجاں منع نہیں کرنا تمہیں اللّٰہ کا واسطہ میرے ساتھ چلو ماما نے تمہیں لینے بھیجا ہے۔۔

اچھا اچھا چلتی ہو رونا تو بند کرو۔۔

خالہ اپ۔۔۔۔۔؟؟

ہاں ہاں میں چلتی ہو چلو۔۔۔

#######

مسلسل کسی کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پہ محسوس کرکے شانزے کی نیند میں خلل پڑا اس نے آدھی بند آدھی کھلی آنکھوں سے دیکھا تو بہزاد اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

صبح بخیر !!!

میری جان۔۔۔ 

یہ کہہ کے بہزاد نے جھک کے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔  

آپ کب سے جاگ رہے ہیں؟

شانزے نے اپنی نگاہیں نیچے کرتے ہوئے کہا اور بہزاد دیکھ سکتا تھا کے وہ اس سے شرما رہی تھی۔۔۔

میں تو پوری رات سویا ہی نہیں....

کیوں؟..

شانزے نے اپنے کندھے سے ڈھلکتی بہزاد کی شرٹ ٹھیک کرتے ہوئے کہا جو کل رات اسنے بہزاد کے کہنے پہ پہنی تھی۔۔۔

بس اتنا سکون جو ملا تمہاری باہنوں میں ویسے میں سوچ رہا تھا بہزاد نے ایک دم اس پہ جھکتے ہوئے کہا۔

بہزاد سوچیے گا بھی نہیں!!! شانزے نے اسکی آنکھوں میں خمار دیکھتے ہوئے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔

کیا ؟؟

میں کیا سوچنے لگا ہو زرا بتانا؟؟

بہزاد نے اسکے لبوں کو نشانہ بناتے ہوئے پوچھا۔۔

بہزاد نہ کرے پلیز ۔۔۔

میں یہ ہی تو پوچھ رہا ہو میں ایسا کیا کررہا ہو ؟

جو تم مجھے روک رہی ہو؟؟.

بہزاد نے اسکے اوپر آکے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے پوچھا۔۔

شانزے کے چہرے پہ ایک بار پھر شرم کے دھنک رنگ بکھرنے لگے چاہتے ہوئے بھی وہ بہزاد کی بڑھتی ہوئی گستاخی نہ روک سکی ۔

بہزاد نے اسکی گردن پہ اپنے لب رکھے اور کہا۔

مجھے نہیں پتہ تھا کے میری زندگی میں بھی کوئ رات اتنی حسین آئے گی۔

تمہاری جسم کی خوشبو سے دل ہی نہیں بھر رہا ۔۔

بہزاد ایک بار پھر اسکے جسم پہ قابض ہونے لگا ۔۔

دھیرے دھیر اسنے ایک بار پھر شانزے کو بے بس کردیا۔۔

شانزے کی شرٹ کے بٹن کھولے بنا اسے نیچے کرکے شانزے کے دل کے مقام پہ بہزاد اپنے لب رکھ چکا تھا۔۔

ایک پھر خماری کا عالم تھا ایک بار پھر دونوں نفوس ایک دوسرے میں گم ہونے لگے ۔۔

تبھی ایک دم دروازہ بجا۔۔

بہزاد بہزاد۔۔۔۔؟؟

ہما بیگم کی آواز اپنے کمرے کے باہر سے سن کے بہزاد اور شانزے دونوں بوکھلائے۔۔

شانزے نے تو ڈور کے واش روم کی راہ لی اور بہزاد نے پریشانی کے عالم میں جلدی سے دروازہ کھولا۔۔

تمہیں ضرورت نہیں تھی سدرہ اسکے منہ لگنے کی۔۔

ہیر کی بات پہ سدرہ نے ایک لمبی سانس لی اور کہا۔

کیا ہوگیا ہے ہیر تمہیں ؟

تم ایسی تو نہ تھی ۔۔

پہلے تو تم ہر  اس شخص کو سبق سیکھاتی تھی جو کسی لڑکی کیساتھ غلط کرتا تھا۔۔

 ارم والے واقعے میں کیسے تم نے جنید کو سبق سیکھایا تھا پوری یونی میں اسکی وڈیو وائرل کرکے ۔۔

اب جب تمہارے ساتھ غلط ہوا ہے تو تم خاموش ہو ..

کیوں ہیر؟؟

کیونکہ میں محبت کرنے لگی تھی سدرہ اس سے ۔۔۔

سدرہ کی باتوں پہ ہیر ایک دم چیخ پڑی۔۔

محبت میں بدلہ نہیں لیا جاتا سدرہ نہ کوئ بدعا دی جاتی ہے شاید میرے نصیب میں ایسی دوغلی محبت لکھی تھی شاید یہ میری سزا تھی جو میں نے اپنی انی کو دھوکا دیا انکے علم میں لائے بغیر نکاح جسا بڑا کام انجام دیا ۔

سدرہ کے پاس ہیر کے اندیشے کا کوئ جواب نہیں تھا وہ کہی نہ کہی خود کو بھی ہیر کے ساتھ ہوئے دھوکے کا قصور وار مانتی تھی کاش وہ ہیر کو روک لیتی تو شاید آج ہیر کی قسمت کچھ اور ہوتی۔۔

#######

میں نے آپ سے کہا ہے نہ ماما اپ وہاں نہیں جائینگی؟؟

میں تم سے پوچھنے نہیں آئ ہو بتانے آئ ہو کے میں جارہی ہو سنا تم نے ۔۔

ہما بیگم نے جب بہزاد کو رخسانہ بیگم کے ساتھ ہوئے حادثہ کیساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کے وہ وہاں جارہی ہیں یہ بات سن کے بہزاد آگ بگولہ ہوگیا۔۔

آپ اس گھر میں جارہی ہیں جس گھر سے آپکی بیٹی کا جنازہ نکلا تھا اس عورت کی عیادت کو جارہی ہیں جنہوں نے دھوکے سے اپکی بیٹی کو اپنے گھر کی بہو بنایا۔۔

بہزاد اگر آج غصہ میں تھا تو ہما بیگم نے بھی آج ارادہ کرلیا تھا اس قصہ کو ختم کرنے کا۔۔

ہاں جارہی ہو کیونکہ میری بیٹی کی موت ایسی ہی لکھی تھی ۔۔۔ہمابیگم نے غصہ میں کہا ۔

ماما آپ اتنی آسانی سے یہ  بات کیسے کہہ سکتی ہیں اور بھول گئ آپ وہاج بھائ کا دھوکا آپ بھول گئ کے کیسے میری آپی خوشیوں کو ترستی تھی بھول گئ آپ ماما سب۔۔۔

تمہاری بہن نے خود ایسے انسان کا انتخاب کیا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کے وہ ایک بٹا ہوا انسان ہے۔۔

ہما بیگم کی بات پہ بہزاد ایک دم شاکڈ ہوا۔۔

مجھے اندازہ تھا جس دن تمہیں یہ بات پتہ چلے گی کچھ ایسا ہی ریکشن ہوگا تمہارا۔۔

وہاج نے کوئ دھوکہ نہیں دیا تھا ناصرہ کو بلکے اسنے اسکی مدد مانگی تھی کے وہ اس شادی سے انکار کردے کیونکہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے اور نکاح بھی کرچکا ہے مگر تمہاری بہن نے صرف اپنا سوچا اور تمہاری پھپھو کا ساتھ دیا۔

اگر وہ وہاج کی محبت کو ترستے ترستے اس دنیا سے چلی گئ تو یہ اسنے اپنے ساتھ  ایساخود کیا۔۔

ایک بات اور بہزاد مت بھولو کے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے تم نے ہمیں نہیں تو لہذا آئندہ زرا تمیز سے بات کرنا مجھ سے ۔۔

آج تک تمہاری ہر غلط بات پر غصہ میں خاموشی سے برداشت کرتی آئ کیونکہ تمہیں حالات نے بڑا کرا۔۔

لبنا کی دفعہ میں بھی تم نے اپنی مرضی چلائ اورخمیازہ ہمارے پوتے کو بھگتا پڑا۔۔

تمہارے پاپا  جب جاتے جاتے اپنی بہن کو معاف کرگئے تو تم کون ہوتے ہو مجھے وہاں جانے سے روکنے والے۔۔

ابھی تک میں اسلیے  رخسانہ سے واسطہ ختم کیے بیٹھی تھی کیونکہ انتظار تھا مجھے ایک نہ ایک دن تم اپنا دل صاف کرلوگے مگر لگتا کچھ زیادہ ہی تمہیں نشہ چڑ گیا ہے اپنی دولت کا اسلیے بڑے چھوٹے کی تمیز بھول گئے ہو۔۔

یہ بول کے ہما بیگم رکی نہیں ۔۔

ہما بیگم کی باتیں سن کے بہزاد خاموش ہوچکا تھا ..

میں جارہی ہو اور خبر دار اپنا کوئ بھی گارڈ میرے ساتھ یہ میرے پیچھے بھیجا۔۔۔

ہما بیگم کے کمرے سے جاتے ہی واش روم میں گھسی شانزے باہر نکلی ۔۔

کچھ دیر پہلےجو بہزاد کا موڈ تھا اسکی جگہ اب غصہ نے لے لی تھی اور اس نے غصہ میں ڈریسنگ کو زور سے لات ماری جس سے شانزے ایک دم ڈر گئ اب اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کے وہ الماری میں سے اپنے کپڑے نکال کے فریش کیسے ہو..!!!

بہزاد جو غصہ میں تھا اسکی نظر جب ڈری سہمی کھڑی شانزے پہ پڑی تو وہ سمجھ گیا کے وہ اسے غصہ کرتا دیکھ چکی ہے۔۔

بہزاد شانزے کی طرف بڑھنے لگا اور شانزے اسنے کس کے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرلی۔۔

بہزاد شانزے کے چہرے پہ خوف کے آثار واضح طور پہ دیکھ سکتا تھا ۔۔۔

اسنے آگے بڑھ کے شانزے کی کہ بند مٹھیاں کو دھیرے سے کھولا اور اسکی کمر پہ اپنے دونوں ہاتھ آپس میں جوڑ کے اسے خود سے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔

تم کیوں ڈر رہی ہو تم پہ تھوڑی غصہ اتار رہا ہو نہ اتار سکوگا آئندہ کبھی۔۔۔۔۔

بہزاد نے شانزے کی گہرے نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ 

بہزاد کے لہجہ کی نرماہٹ محسوس کرکے شانزے نے اپنی بند مٹھیاں دھیرے سے کھول کے بہزاد کو کمرے سا تھاما اور اسکے سینے پہ سر رکھ کے کہنے لگی۔ 

کبھی مجھ پہ غصہ آیا تب بھی نہیں؟

تب کرونگا مگر غصہ کی سیکنڈ فوم یوز کرونگا۔۔۔

سیکنڈ فوم مطلب؟؟.شانزے نے ایک دم سر اٹھا کے پوچھا۔۔

ہاں سیکنڈ فوم ۔۔۔

جس دن مجھے تم پہ غصہ آئے گا نہ اس رات تم میری بے شمار شدتیں ،پیار ،جنون سب برادشت کرنا ہوگا تمہارے جسم سے لے کر تمہاری روح تک کو میرا غصہ برداشت کرنا ہوگا میرے جنون ،میری شدت پیار کی صورت میں۔۔۔

بہزاد کے کہنے پہ شانزے شرما کے گردن جھکا گئ اسکے چہرے کی لالی بہزاد کو بہت اچھی لگی۔

شانزے فریش ہونے گئ تو بہزاد ایک بار پھر ہما بیگم کی باتیں سوچنے لگا۔۔۔

######

زویان کے نمبر پہ اسکے لندن کی دوست کی کال آئ جو اس سے اسکی اور اپنی ایک ساتھ کی پکس مانگ رہا تھا۔۔

لان میں بیٹھا زویان اپنی گیلری میں سے اپنے دوست کی پکس ڈھونڈ رہا تھا جب اسکے سامنے ہیر کی اور اسکی پکس آگئ پل بھر کیلیے زویان کے ہاتھ تھم گئے اسے تو یاد ہی نہیں تھا کے اسکے موبائل میں ہیر کی پک ہے۔۔۔

زویان نے آہستہ آہستہ آگے دیکھنا شروع کی پکس ہیر اور اسکی ایک ساتھ بہت سے پکس تھی ایک پکس ایسی تھی جسمیں زویان تو سیلفی لیتے ہوئے سامنے دیکھ رہا ہے مگر ہیر مسکراتے ہوئے زویان کو دیکھ رہی ہے نجانے کیوں زویان کی آنکھیں نم ہونے لگی ۔۔اور آگے کرنے پہ ہیر اور اسکے نکاح کی پکس آئ ایک دم زویان شاکڈ ہوا اسکے دل نے کہا۔۔

بیشک اسے سبق سیکھانے کیلے ہی مگر تو اسے آفیشلی اپنا بنا چکا ہے زویان وہ اب بھی تیری نکاح میں ہے تیری بیوی ہے وہ تیری ہے۔  

زویان کے آنکھیں روتے روتے مسکرائ تھی ۔۔

 دماغ نے ایک دم غصہ میں کہا۔۔

نجانے کس خوش فہمی میں  خوش ہورہے ہو زویان۔۔

جو کچھ تم ہیر کیساتھ کرچکے ہو  اسکے بعد تم  میں اتنی ہمت ہے  کے تم ہیر کا سامنا کرے۔۔۔۔

زویان اور آگے تصویریں دیکھنے لگا یہ جانے بغیر کے کوئ اور بھی اسکے پیچھے کھڑے ہوکے ساری تصویریں دیکھ رہا تھا۔۔

ویسے یہ ماشا تو نہیں۔۔۔

اپنے پیچھے سے آتی صائم کی آواز پہ زویان ایک دم اچھل کے کھڑا ہوا۔۔۔

صائم جو ابھی ابھی نماز پڑھ کے آیا تھا لان میں بیٹھے زویان کو دیکھا تو وہی چلا آیا مگر جب صائم اسکے  قریب پہنچا تو زویان پکس دیکھنے میں مصروف تھا صائم بھی اسکے پیچھے کھڑے ہوکے اسکے موبائل میں دیکھنے لگا اسکو کچھ کچھ تو شک ہوا تھا زویان کے بدلے بدلے رویہ پہ مگر اس نے زویان سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔

مگر آج جب اسنے زویان کی پکس کسی اور لڑکی کیساتھ دیکھی خاص کر نکاح نامہ پہ سائن کرتے ہوئے تو وہ چونکا تھا۔۔

آپ کب آئے؟

 صائم بھائ۔۔۔۔

میں تو کب سے آیا ہوا ہو اور بہت کچھ دیکھ بھی چکا ہو اندازہ تو تمہیں دیکھتے ہی ہوگیا تھا کے کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوئ ہے اور آج میرا شک یہ پکس دیکھ کے یقین میں بدل گیا ہے لہذا مجھ سے کچھ نہیں چھپانا زویان سچ سچ بتاؤ کیا کر آئے ہو لندن میں زویان۔۔

صائم کے پوچھنے پہ زویان کی آنکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے مگر صائم نے اسے گلے نہیں لگایا ۔۔۔

صائم بھائ کسی سے بہت بھاری قیمت وصول کرلی ہے میں نے اسکی محبت کی اندازہ نہیں تھا کے یہ قیمت مجھے ہی چکانی پڑے گی اپنی توہین  کی صورت میں۔۔

پھر زویان نے ایک ایک بات صائم کو بتا دی اور روتے روتے صائم کے گلے لگ گیا۔۔

صائم بھائ مجھے اندازہ نہیں ہوا کے میں ماشا سے نہیں ہیر سے محبت کرنے لگا ہو ماشا میرے ساتھ اتنے سالوں سے تھی مگر کبھی بھی اسکے ساتھ شادی کرنے کا خیال نہیں ایا۔۔

وہ بنا کچھ بولے خاموشی سے وہاں سے آگئ صائم بھائ نہ مجھ سے لڑی نہ مجھ سے کوئ شکوہ کیا صائم بھائ ۔۔

وہ آج بھی میری محرم میں ہے میرے نکاح میں اس سے کھیل کھیلنے کے چکر میں میں نے اس سے نکاح اصلی کرلیا تھا ایک پل کیلیے یہ خیال میرے دل میں یہ ماشا روبرٹ کے دل میں نہیں آیا کے نکاح بھی نقلی ہونا چاہیے ۔۔

میں اب اسے کہاں ڈھونڈو بھائ وہ پاکستان میں ہے بھائ مگر کہاں کس جگہ کس شہر نہیں پتہ۔۔۔

زویان ابھی تک صائم کے گلے لگا تھا مسلسل روتے روتے وہ صائم سے بول رہا تھا۔۔

صائم کے پاس کوئ الفاظ نہیں تھے اسے تسلی دینے کیلیے کیونکہ وہ خود کسی کی سچی محبت کو بے مول کرچکا تھا۔۔

زویان صائم سے الگ ہوا تو دیکھا صائم کا چہرے پہ بھی شرمندگی کے آثار تھے جیسے زویان کی حالت دیکھ کے صائم کو شک ہوا تھا کچھ ایساہی حال زویان کا بھی تھا صائم کی حالت دیکھ کے۔۔

تم سوچ رہے ہوگے زویان کے میں تمہیں کوئ تسلی کیوں نہیں دے رہا مگر زویان میں اس قابل نہیں کے کسی کو محبت کی معنے سمجھا سکو کسی کو بتا سکو کے محبت کے نام پہ کسی کے سچے جذبات کو سر عام نیلام کرنے پہ اسکی روح تک ہمیشہ کیلیے نیلام ہوجاتی ہے۔ن

مطلب صائم بھائ اپنے بھی کسی کیساتھ ۔۔ ؟؟

صائم نے ایک زخمی مسکراہٹ کیساتھ صنم اور اپنی کہانی بھی اسے بتادی ۔

زویان وہ جاتے جاتے میرا ضمیر جگا گئ زنا کار تھا میں اسنے مجھے وہ آئینہ دیکھا دیا زویان جس میں میرے چہرے کیساتھ ساتھ میرا ضمیر بھی زخمی ہے بس اپنے زخموں کے مرہم کیلیے اپنے ضمیر کے سکون کیلیے زور اپنے اللّٰہ سے معافی مانگتا ہو کے میرے کیے کی سزا مجھ جڑا کوئ رشتہ نے بھگتے۔۔۔

صائم بھائ اگر میں بھی اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگو تو کیا ہیر مجھے مل جائے گی۔۔؟؟؟

ہاں زویان وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے وہ تو ہماری ایک توبہ پہ ہمیں معاف کر دیتا اگر توبہ سچے دل سے مانگی گئ ہو۔ 

یہ بول کے صائم وہاں سے جانے لگا جب پیچھے سے زویان نے کہا۔۔

صائم بھائ ؟؟

ہمم۔۔۔

اپ کو صنم نے محبت ہوگئ ہے نہ۔۔۔؟؟

پتہ نہیں زویان شاید میں اس سے محبت نہیں عشق کرنے لگا ہو مگر اب کوئ فائدہ نہیں وہ مر تو جائے گی مگر میرا ساتھ کبھی قبول نہیں کرے گی۔۔

ابھی آپ نے ہی تو کہا کے اللّٰہ تعالیٰ جو بھی دل سے مانگو تو وہ دیتا ہے ۔۔

اب بھی صنم کو نہیں مانگے گے۔۔؟؟

مانگا ہے زویان مگر میری یہ دعا قبول ہوگی یہ نہیں یہ تو صرف میرا اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے ۔۔

 میں نے کہی پڑھا تھا زویان کے کسی کا دل توڑنا اللّٰہ کے نزدیک سب سے ذیادہ ناپسندیدہ عمل ہے۔۔

کیونکہ توٹے دل کی دعا اور بدعا دونوں عرش تک جاتی ہیں۔۔۔

یہ نہ ممکن ہے خالہ ۔۔۔

کچھ ممکن نہیں۔۔۔۔شاجہاں تم کرسکتی ہو مجھے پتہ ہے میری موت کو آسان بنادو شاہجاں ۔۔۔۔۔

یہ بولتے ہی رخسانہ بیگم کی سانس اکھڑنے لگی۔۔

وہاج جو وہاں سر جھکائے بیٹھے تھے اپنی ماں کیلیے آسانی کی دعا مانگ رہے تھے ایک۔دم اٹھ کے انہیں نیمولائز کرنے لگے۔۔

نمرہ بیگم ایک بار پھر رونے لگی کچھ ایسا ہی حال نغمہ بیگم کا بھی تھا۔۔۔

اس سے پہلے شاہجاں کچھ بولتی ایک دم رخسانہ بیگم کے روم کا دروازہ کھلا اور زویان ہما بیگم کیساتھ کمرے میں داخل ہوا۔۔

ماما یہ نانو سے ملنے آئ ہیں۔۔۔

زویان کا نمرہ کو ماما بولنا شاہجاں کو چوکنے پہ مجبور کرگیا اس نے بہت غور سے زویان کو دیکھا تھا شاہجاں کو ایسا لگا جیسے وہ صنم کی پرچھائ ہو اسکی آنکھیں ہو بہو صنم جیسی تھی۔۔۔

شاہجاں نے فورا اپنے دیکھنے کا زاویہ بدلا۔۔

وہاج اور نمرہ نے تیزی سے اٹھ کے ہما بیگم کا ہاتھ تھاما ۔۔

دونوں ہی ہما بیگم کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے روپڑے ۔۔

سالوں بعد آج انہیں اپنی مامی جو ماں جیسی تھی کے گلے لگنا نصیب ہوا تھا۔۔

ہما بیگم نے آکے رخسانہ بیگم کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا تو ایک بار پھر رخسانہ بیگم نے انکے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ 

ہما بیگم نے آگے بڑھ کر انکے لیٹے وجود کو گلے سے لگایا تو ایک بار کمرے میں موجود ہر شخص رو پڑا ۔

زویان بہت غور غور سے شاہجاں بیگم کو ہما بیگم کو دیکھ رہا تھا ۔۔

نغمہ بیگم کی تو وہ تصویر دیکھ چکا تھا رخسانہ بیگم کیساتھ اسلیے انہیں پہچانتا تھا۔۔۔

زویان پانچ منٹ بعد ہی کمرے سے نکل گیا۔

مجھے پتہ ہے میری شاہجاں میری موت کو آسان بنائے گی ۔۔

گھر آکے شاہجاں مسلسل رخسانہ بیگم کی باتیں سوچ رہی تھی ان کی حالت واقعی قابل رحم تھی مگر جو انہوں نے اسے کرنے کو بولا تھا وہ نہ ممکن تھا۔۔

ماما کہاں گئ تھی اپ؟؟

صنم نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔

ایک کام سے گئ تھی صنم ۔۔۔

مگر تم کہاں جارہی ہو؟؟

انہوں نے اسکی تیاری کو جانچتے ہوئے پوچھا۔۔

ماما شانزے کی طرف جا رہی ہو بس بی ایم سے بھی مل لونگی۔

شاہجاں نے کچھ سوچتے نے ہوئے صنم سے کہا۔۔

تو چلو میں بھی ساتھ چلتی ہو مجھے بہزاد سے کام ہے آج چھٹی ہے تو وہ گھر پہ ہی ہوگا۔۔

چلے اور دادو؟؟

دادو گئ ہوئ ہیں اپنی بہن کے ہاں وہی رکے گی ابھی۔۔

شاہجاں کی بات پہ صنم کو تھوڑا تعجب ہوا یہ بات نہیں تھی کے صنم کو پتہ نہیں تھا کے اسکی دادو کی۔کوئ بہن ہے بس تعجب اس بات پہ ہوا کے اس بار اسکی ماں نے یہ بات کہتے ہوئے کوئ منہ نہیں بنایا۔۔۔۔۔ 

######

کیا بات ہے عترت اتنی گم سم سی کیوں رہنے لگی ہو؟؟

ندا بیگم نے لان میں بیٹھی عترت کو دیکھتے ہوے پوچھا جو ڈوبتے سورج کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

کچھ نہیں ماما بس ایسی ہی ۔

عترت نے ندا بیگم کو دیکھ کے فورا اپنے آنسوؤں چھپائے۔۔۔

میں جانتی ہو عترت تم بلاج کو یاد کرکے افسردہ ہو۔۔

بیٹا اسکی پروفیشنل ہی ایسا ہے جب کسی مشن پہ جاتا ہے تو کئ کئ دن گھر نہیں اتا۔۔

تم پریشان مت ہو بس اللّٰہ سے اسکی سلامتی کی دعا مانگو۔۔

آجاؤ میری بچی اندر چلتے ہیں ۔۔۔

یہ بول کے ندا بیگم نے اسے کندھے سے تھام کے خود سے لگایا تو چند آنسوؤں عترت کی آنکھوں سے پھسل گئے۔۔

جب سے بلاج گیا تھا دو تین دن تک تو عترت نے خود کو گھر کے کاموں میں مصروف رکھا مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے عترت کو ہول اٹھنے لگے بلاج کی طرف سے۔۔

ہر گزرتے دن کیساتھ اسے پیچینی سے بلاج کا انتظار ہونے لگا نگاہیں اسکی دروازے پہ جمی رہتی۔۔۔

کئ بار کالز کرنے پہ بھی اسکا موبائل اوف اتا۔۔۔

عترت ندا بیگم کیساتھ اندر آئ ۔۔

ندا بیگم سے الگ ہوکے وہ تھوڑا ہی چلی تھی کے ایک دم چکر آیا اور وہ زمین بوس ہوگئ۔۔

######

صنم جو دو تین دن سے اپنا درد بھلائے بیٹھی تھی ضبط کیے بیٹھی تھی شانزے کو سامنے دیکھتے ہی اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ 

شانزے خود صائم کی حقیقت جان کے شاکڈ تھی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے کسطرح وہ صنم کو دلاسا دے۔۔۔

صنم بس کردو کتنا رووگی۔۔؟؟

جو ہوگیا اسے بھولنے کی کوشش کرو۔۔

میں محبت کرتی تھی اس شانزے تو جانتی ہے اتنا آسان نہیں ہوتا ان لوگوں سے نفرت کرنا یہ ان لوگوں کو بھولنا جو دل میں بستے ہو۔۔

#####$###

تم پاگل ہوگئ ہو ملکہ میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔۔

شاہجاں کی بات سن کے بہزاد ہتھے سے اکھڑ گیا۔۔

بات سمجھنے کی کوشش کرو بہزاد وہ بہت اذیت میں ہے۔۔

تو میں کیا کرو اپنے عمل سے اپنی حرکتوں سے انکی موت اتنی مشکل ہوگئ ہے۔۔۔

بہزاد کی باتیں سن کے شاہجاں کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے کافی افسردگی سے کہا۔۔

یقین نہیں آتا میرے سامنے بیٹھا بہزاد راجپوت اتنا سگندل ہوگیا ہے میں اس بہزاد کو نہیں جانتی میں جس بہزاد کو جانتی تھی وہ تو ایک طوطے کے پر کاٹنے پہ زارو قطار روتا تھا۔۔۔

وقت اور حالات انسان کو وقت سے پہلے بڑا کردیتے ہیں۔۔

بہزاد کے دو ٹوک جواب پہ شاجہاں بیگم پھر بولی۔۔

انہوں نے جو کیا بہزاد اسکی سزا اللّٰہ انہیں دے چکا ہے اور دے رہا ہے۔۔

انکی موت اللّٰہ نے مشکل بنادی ہے تین دن سے وہ بلکل زندگی لاش کی طرح بستر پہ پڑھی ہیں اس صورت میں اگر اللّٰہ نے ہمیں چنا ہے کے ہم انکی موت آسان کرنے کا ذریعہ بنے تو تم انکی قبر بھی بھاری کرنے پہ تلے ہوئے ہو۔۔۔

یہ صحیح ہے بھئ ساری زندگی دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے رہو اور جب خود کو موت نظر آئے تو معافی معافی کا نعرہ لگانے لگ جاؤ ۔۔

بہزاد نے غصہ میں تقریبا چیختے ہوئے کہا ۔

غلط بات مت کرو بہزاد انہیں اپنی غلطی کا احساس ناصرہ باجی کی موت سے بھی پہلے ہوگیا تھا وہ تقریبا سب سے ہی سے ہر دوسرے تیسرے دن معافی مانگتی تھی ۔

ٹھیک ہے ملکہ مجھے تو تم اتنا بڑا لیکچر دے رہی ہو تم اظہر بھائ کو معاف کرسکتی ہو؟؟؟

بہزاد کی بات پہ ملکہ نے بہت غور سے بہزاد کو دیکھا اور کہا۔۔۔

میرے معاف کرنے سے اگر انکو سکون ملے گا یہ نمرہ کو سکون ملے گا تو میں اللّٰہ کی رضا کیلیے انہیں معاف کردونگی بہزاد۔

اللّٰہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔

اب سیدھی شرافت سے تم چل رہے ہو میرے ساتھ بنا کوئ بکواس کیے کوئ اپنا پرانا لوجک جھاڑے۔۔۔

شاجہاں بیگم نے کافی غصہ میں یہ بات کہی تھی جیسے سن کے بہزاد نے اچھا خاصا سڑا ہوا منہ بنایا۔۔

میں شانزے کو بتا کے آتا ہو کے آج ہم معافی معافی سیزن کھیلنے جارہے ہیں۔۔

بہزاد طنز کے تیر چلانا بند کرو اور جلدی شانزے کو بتا کے آؤ ۔۔

####$

بس کردے صنم یہ سوچ وہ تیرے نصیب میں نہیں تھا۔۔

اللّٰہ نے تجھے اس سے بچالیا۔

شانزے میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگی اللّٰہ اسے کبھی سکون نصیب نہیں کرے گا۔۔صنم نے یہ بول کے بے دردی سے اپنے آنسو پونچے۔۔۔

اچانک بہزاد کی آواز کمرے کے باہر سے آنے لگی۔۔

شانزے شانزرے۔۔۔

بہزاد کی آواز پہ صنم نے فورا اپنے آنسوؤں صاف کیے اور شانزے کا ہاتھ تھام کے کہا۔

شانزے بی ایم کو کچھ نہیں بتانا پلیز ۔۔

صنم اسکے آگے منتیں کرنے لگی۔

صنم صنم کیا ہوگیا ہے یار تجھے۔۔

اچھا کھڑی ہو جاؤ فریش ہو میں انہیں دیکھو ۔۔۔

تو کچھ نہیں بتائے گی بی ایم کو؟صنم نے ایک بار پھر شانزے سے یقین دہانی چاہی۔۔

ہاں ہاں نہیں بتاونگی۔۔۔شانزرے کے بولتے ہی صنم واش روم میں گھسی اور وہاں سے بہزاد کمرے کا دروازہ کھول کے اندر ایا۔۔

شانزے بہزاد کو دیکھتے ہی فورا بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے لگی اور اسی انداز میں بہزاد سے پوچھنے لگی۔۔

آپ آواز دے رہے تھے؟

ہاں وہ میں کہہ رہا تھا یہ بولنے کیساتھ بہزاد نے ایک دم شانزے کا ہاتھ پکڑ کے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔

اچانک بہزاد کے اس عمل سے شانزے بوکھلا گئ۔

بہزاد نے اسے اپنے بے حد قریب کرکے اسکی کمر پہ۔دونوں ہاتھ رکے اور کہا۔

مجھ سے نظریں کیوں چرا رہی ہو اور ایک منٹ بہزاد نے یہ بول کے غور سے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکا اور کہا۔۔

تم روئ ہو ؟

نہیں کیا ہوگیا آپکو میں کیوں روئنگی۔۔۔

شانزے مجھ سے جھوٹ بولنے کیلے ابھی تم بہت چھوٹی ہو سچ سچ بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟

یہ صنم کہاں ہے؟؟

بہزاد کے پوچھنے پہ شانزے نے پہلے واش روم کے بند دروازے کی طرف دیکھا اور بہت دھیمی آواز میں کہا۔

"بہزاد ابھی پلیز کوئ سوال نہیں کرے میں آپکو سب کچھ بتاونگی مگر پلیز ابھی نہیں۔ ۔۔

اچھا ٹھیک ہے یہ کہہ کے بہزاد نے اسے خود سے دور کیا اور کہا ۔

ایک ضروری کام سے ملکہ کیساتھ جارہا ہو تھوڑی دیر بھی لگ سکتی ہے تب تک صنم کو یہ ہی روکنا ملکہ نے کہا ہے۔۔

ٹھیک ہے آپ جائے ۔

بہزاد نے آگے بڑھ کے شانزے کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور ایک نظر واش روم کے بند دروازے پہ ڈال کے چلا گیا۔

######

جی جی نعیم صاحب وہ فائل شاید میرے پاس ہے آپ دس منٹ رکے میں فائل دیکھ کے آپکو کال بیک کرتا ہو۔۔

صائم  کال کٹ کرکے الماری میں فائل ڈھونڈنے لگا جب الماری میں موجود اسکی  نظر اپنی اور صنم کی کمپیٹیشن کی تصویر پہ نگاہ پڑی ۔۔

اسکے فائل ڈھونڈتے ہاتھ ایک دم تھم گئے۔۔۔

صائم نے وہ تصویر الماری میں چھپا کے رکھ دی تھی وہاج اور رخسانہ بیگم کی وجہ سے تاکے انکی نگاہوں میں یہ تصویر نہ ائے۔۔

صائم نے وہ تصویر نکالی اور آکے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔

بے خودی میں صائم کے ہاتھ تصویر میں موجود صنم کے مسکراتے چہرے پہ چلنے لگے۔۔۔۔

صائم جب ہماری شادی ہوجائے گی نہ ہم اپنی کمپیٹیشن والی تصویر انلاج کرکے دیوار پہ لگائینگے۔۔

صنم کی بات پہ صائم مسکرایا اور کہا ۔

اچھا اور ہم ایسا کیوں کرینگے۔۔؟؟

ارے کل کو ہمارے بچے ہونگے تو انہیں بھی تو پتہ چلنا چاہیے نہ کے انکے ماں باپ کتنے ہونہار تھے۔۔۔

صنم نے مسکراتے ہوئے یہ بات کہہ کے صائم کے دونوں گال نوچے۔۔

ااااہہہہہ صنم میرے گال !!!!!

تم بلکل پاگل ہو صنم۔۔۔۔۔صائم نے اپنے دونوں گال سہلاتے ہوئے کہا۔۔

ہممم کہہ سکتے ہو مجھے پاگل کیوں کے میں ہوگئ ہو پاگل تم سے محبت کرکے۔۔۔۔۔

پرانی باتیں یاد کرکے صائم کی آنکھیں بھیگنے لگی۔

" مانا کے تم ساتھ نہیں ہو۔۔۔۔

میرے دل کے پاس نہیں ہو۔۔۔۔۔

میں نے یہ مانا۔۔۔۔۔۔

پھر بھی اس لگی ہے دل میں۔۔۔۔۔

تم آؤ گی مجھ سے ملنے۔۔۔۔۔

چپکے چپکے کہہ دل میں۔۔۔۔

"دیوانہ"

پھر سے آئینگی وہ راتیں۔۔

وہ میٹھی میٹھی سی باتیں۔۔۔۔۔

کرتی تھی جو دیوانہ۔۔۔۔۔۔۔

آنکھوں میں تیرا ہی چہرہ۔۔۔

ڈھرکن میں تیری ہی یادیں۔۔۔

کرتی ہیں دیوانہ۔۔۔۔۔۔

خوشبو بیگم کو ایسا لگا انہوں نے کچھ غلط سنا !!!

کیا بولا شاہجاں تم نے پھر سے کہو؟؟؟

جو ہوگیا اسے بھول جاؤ خوشبو خالہ موت کی دہانے پہ کھڑی ہیں ہر ایک سے ہاتھ جوڑ کے اپنی موت اسان کرنے کی بھیک مانگ رہی ہیں!!!!

تو میں کیا کرو اسمیں!!

خوشبو بیگم نے یہ بات اتنی زور سے کہی کے پاس بیٹھے چائے پیتے بہزاد کے ہاتھ بھی پل بھر کیلئے تھم گئے۔۔

بات سمجھنے کی کوشش کرو خوشبو مجھے پتہ ہے تمہارے لیے یہ سب اتنا آسان نہیں ہے مگر کب تک آخر کب تک ایسے رہوگی ۔۔۔

کسی کی بیوی ہو تم !!

میں کسی کی بیوی نہیں ہو سنا تم نے شاہجاں ابھی اسی وقت تم یہاں سے چلی جاؤ میں تم سے کسی قسم کی بھی بدتمیزی کرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔

خوشبو یہ بول کے اٹھ کے جانے لگی جب شاہجاں بیگم نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بات کہی جو وہ کہنا نہیں چاہتی تھی۔۔

ہیر کا تو سو۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے شجہاں اگے کی بات بولتی خوشبو ایک بار پھر چیخ پڑی...

زبان سنبھالو اپنی شاہجاں ورنہ میں بھول جاؤنگی کے تم میری دوست ہو۔۔۔

میری زبان سنبھالنے سے تم حقیقت بدل نہیں سکتی خوشبو ۔

شاہجاں نے بھی اسکے روبرو اکے اسی کے انداز  میں کہا ۔

اگر وہاج نے تمہارے ساتھ غلط کیا تو تم بھی برابر بھی گہنگار ہو۔۔ کس حق سے اپنے ضمیر سے مطمئن ہو۔۔؟؟

تم نے ایک اولاد سے اسکے ماں باپ کی پہچان چھپائ ایک لڑکی کو ساری زندگی ایک جھوٹے رشتے کی بنیاد پہ پالا۔

 اس سے اتنی بڑی حقیقت چھپائ کے تم اسکی ماں ہو اور وہاج اسکا باپ ۔۔

تم جانتی نہیں ہو خوشبو اپنے غصہ میں تم ہیر کا کتنا بڑا نقصان کرچکی ہو ۔۔

تم وہاج سے نفرت کرتی ہو نہ کے اسنے تمہیں انتظار کی سولی پہ لٹکا کے تم سے اپنا تعلق جوڑ کے تمہیں دھوکا دے کے کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔۔

تو خوشبو جب ہیر کو   پتہ چلے گا کے اسکی انی ہی اسکی سگی ماں ہے اسکی سگی ماں نے ہی اسکی پہچان کو سوالیہ نشان بنادیا تو تمہیں کیا لگتا وہ یہ برداشت کر پائے گی ؟تمہیں معاف کر پائے گی؟؟

یہ اسمیں اتنا حوصلہ ہوگا کے وہ تم سے پہلے کی طرح پیار کرے؟؟

پچپن سے ہی اسکے دماغ میں تم نے  یہ بات بٹھا دی کے وہ ایک یتیم اور مسکین ہے۔

جس دن یہ بات وہاج کو پتہ چلے گی نہ خوشبو کے تم اس سے اسکی اولاد کا وجود چھپایا ہے تمہیں اندازہ نہیں ہ

وہ کیا کریگا ابھی تک تم نے اسکی صرف پیار بھرا یہ پھر گڑگڑانے  والا انداز دیکھا ہے اسکا غصہ نہیں دیکھا خوشبو۔۔

بہزاد جو ان ساری باتوں میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا اسے اندازہ ہو رہا تھا  بات کی سنگینیت کا۔۔۔

اس لیے وہ بول پڑا ۔۔۔

اپنے ہیر کے ساتھ واقعی غلط کیا خوشبو آ پی اسکی پہچان اس سے چھپائ ۔۔

وہاج بھائ نے بیشک میری آپا سے شادی کی تھی مگر انہوں نے بہت مجبوری میں یہ فیصلہ لیا تھا میری آپا انکی بچپن کی دوست تھی مگر انہوں نے بھی وہاج بھائ کا ساتھ نہیں دیا اور اپنی یک طرفہ محبت کی خاطر پھپھو کا ساتھ دیا اور وہاج بھائ کی زندگی میں شامل ہوگئ مگر کبھی وہ اپکی جگہ نہیں لے سکی۔۔

اج تم دونوں کو کیا ہوگیا ہے یہاں اس دھوکے باز انسان کی وکالت کرنے ائے ہو ؟؟

مجھے پتہ ہے میں نے کیا کیا ہے کیا نہیں ؟

تم دونوں سے مجھے مشورہ نہیں چاہیے اب تم دونوں یہاں سے جاسکتے ہو اس سے پہلے ہیر آ جائے  بہتر یہ ہی ہوگا چلے جاو تم دونوں یہاں سے ؟؟

ویسے بھی ملکہ اور بہزاد تم دونوں کا کام اب ختم ہوچکا واقعی میں اب تم لوگوں کو یہاں سے چلے جانا چاہیے باقی کے معملات میں خود دیکھ لونگا اب۔۔۔

اچانک وہاج کی اواز سن کے بہزاد اور شاہجاں ایک دم چونکے تھے جبکے خوشبو کے اچھے خاصے اوسان خطا ہوچکے تھے۔۔۔۔

ان تینوں میں سے کسی کو امید نہیں تھی وہاج یہاں ائے گا ۔۔۔

وہاج صاحب کو اندازہ نہیں تھا کےا ج انکے سامنے اتنا بڑا سچ ائے گا وہ تو اپنے طور پہ اپنی ماں کی خاطر خوشبو سے بات کرنے ائے تھے اندازہ نہیں تھا اج انہیں ایسا راز پتہ چلے گا جس سے شاید وہ کبھی واقف نہ ہوتے اگر یہاں نہ اتے ۔۔

انکھوں میں غصہ لیے اپنی مٹھیوں کو بھینچے وہ ان تینوں کی طرف بڑھے مگر نگاہیں انکی خوشبو کی طرف ہی تھی۔۔

شاید تم دونوں نے سنا نہیں میں نے کیا کہا؟

وہاج صاحب کے لہجے میں ایسا کچھ تھا کے شاہجاں بیگم اور بہزاد دونوں ہی خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔۔

ان دونوں کے جاتے ہی وہاج صاحب نے دروازہ لاک کیا اور خوشبو کی طرف بڑھنے لگے..

خوشبو نے ہمت کرکے پوچھا۔۔

اپکی ہمت کیسے ہوئ یہاں انے کی؟ا

دروازہ کیوں لاکڈ کیا اپنے؟؟؟

مگر وہاج صاحب نے اسکی کسی بات کا جواب نہیں دیا خوشبو ایک ایک کرکے اپنے قدم پیچھے اٹھانے لگی مگر زیادہ دیر تک وہ یہ کام کرنہیں پائ اور دیوار سے لگ گئ ۔۔

وہاج صاحب خوشبو بیگم کے بے حد قریب تھے اج سالوں بعد وہ دونوں ایسے حالت میں موجود تھے کے دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی ۔۔

اچانک وہاج صاحب نے خوشبو بیگم کے بال اپنی مٹھی میں جکڑے اور دانت پیس کے کہا۔۔

ہمت کیسے ہوئ تمہاری میری اولاد کو مجھ سے چھپانے کی ؟

ہمت کیسے ہوئ میری بیٹی کی پہچان اسکے ماں باپ کا وجود اس سے چھپانے کی؟؟

جواب دو مجھے خوشبو؟؟

ویسے ہی جیسے اپکی ہمت ہوئ مجھے استعمال کرکے دھوکہ دینے کی ۔۔

خوشبو بیگم نے اپنے بال جھٹکے سے ان سے چھڑوا کے انکو دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔

وہاج صاحب نے  اگے بڑھ کے خوشبو بیگم کا منہ ڈبوچتے ہوئے کہا ۔۔

استعمال نہیں کیا تھا حق لیا تھا تم سے  اپنا وہ بھی تمہاری مرضی کیساتھ بیوی ہو میری۔۔

خوشبو بیگم نے دوبارہ اپنے اپکو وہاج صاحب سے آزاد کروایا اور کہا۔۔

بیوی ہو نہیں تھی ۔

۔کس رشتے کا تقاضہ کرنے یہاں ائے ہیں اپ ۔۔

ایک بار پھر خوشبو بیگم نے وہاج صاحب کو دھکا دیا۔۔

عورت سے خالی اپنا حق لینے کیلیے اسے بیوی نہیں بنایا جاتا اور بھی بہت سے تقاضے ہوتے ہیں اس رشتے کے۔۔

میں تمہیں بتا چکا ہو میں بہت مجبور تھا ۔۔

وہاج صاحب کی بات پہ ایک دم خوشبو بیگم کا طنزیہ قہقہ گونجا انہوں نے وہاج صاحب کا گریبان پکڑ کے کہا ۔

میں نہیں مانتی کے ایک مرد مجبور ہوسکتا ہے خاص کر جب جب وہ ہزاروں لوگوں کے درمیان کسی عورت کو اپنے نکاح میں لے چکا ہو۔۔

نکاح کے نام پہ اس سے اپنا حق لے چکا ہو۔۔

یہ کہہ کے خوشبو بیگم نے وہاج صاحب کا گریبان چھوڑا ۔۔

کس کتاب میں لکھا ہے کے مرد مجبور نہیں ہوتا ؟؟

ایک بار پھر خوشبو بیگم کو وہاج صاحب اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔۔

مرد کیا انسان نہیں ہوتا اسکے ساتھ مسئلہ نہیں ہوتا ۔۔

خالی تم عورتوں کو فیملی کی طرف سے پریشر ہوتا ہے ۔۔

مانا کے مرد کو اللّٰہ نے عورت کا حاکم بنایا ہے مگر یہ ہی عورت ذات مرد کو  مجبور کرتی ہے۔۔

کبھی ماں ،کبھی بیٹی ،کبھی بیوی  ،کبھی بہن بن کے۔۔۔

میں کتنا مجبور تھا اب میں تمہیں یہ نہیں بتاؤنگا۔۔۔

کان کھول کے سن لو کل کی تاریخ میں تم میری بیٹی کو میرے گھر لے کر آؤ گی۔۔

کیسے لاؤ گی کسطرح لاؤ گی یہ تمہارا مسئلہ ہے۔۔۔

اپ سے کس نے کہا وہ اپکی بیٹی ہے ؟؟

کیا پتہ میں کسی اور کیساتھ ۔۔۔۔

ابھی خوشبو بیگم کی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی کے وہاج صاحب نے انکی گردن  ڈبوچ  لی ۔۔

مجھے تو تم کنواری ہی ملی تھی اور اسکا اندازہ مجھے نکاح کی رات ہوگیا تھا۔۔

وہاج صاحب کی منہ سے اتنی بے باک بات سن کے خوشبو بیگم چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔۔

وہاج صاحب نے انکی گردن چھوڑی اور کہا۔۔

کل تک اگر تم نہ ائی تو مجھ سے کسی بھی قسم کی کوئ امید مت رکھنا کے میں اپنی بیٹی کو لیجانے کیلیے کوئ صحیح راہ اپناؤ نگا ۔۔

وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں ائی تھی تمہارا ریپ نہیں کیا تھا میں نے جو تم نے اس سے میرا تو چھوڑو اپنا رشتہ چھپایا مجھے بھلے مار دیتی مگر خود کی پہچان تو نہ چھپاتی۔۔

ا

کل کا دن ہے خوشبو تمہارے پاس کل کی تاریخ میں مجھے میری بیٹی وہاج مینشن میں چاہیے ورنہ انجام کی ذمیدار تم خود ہوگی۔۔

یہ بول کے وہاج صاحب گیٹ کھول کے چلے گئے انکے جاتے ہی پانچ  منٹ بعد لائبہ اور ہیر نے گھر میں قدم رکھا لائبہ وہاج صاحب کو گھر سے نکلتا ہوا دیکھ چکی تھی مگر لائبہ نے یہ شکر کیا کے ہیر کی نگاہیں سیڑھیاں چھڑتے ہوئے نیچے تھی۔۔

عترت کو جو خبر سننے کو ملی تھی اس خبر سے بھی اسکی اداسی ختم نہیں ہوئ تھی اسے شدت سے بلاج کی یاد آرہی تھی۔۔

ندا بیگم دادی بننے کی خبر سن کے واری جارہی تھی عترت کے مگر وہ دیکھ سکتی تھی اسکی اداسی۔۔۔۔۔

ندا بیگم نے شاجہاں کو بھی یہ خوشخبری سنانی چاہی مگر انکا نمبر بند آرہا تھا۔۔

ندا بیگم رات میں عترت کیلئے سوپ تیار کررہی تھی۔ کیونکہ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا بس اداس تھی ۔۔۔

رات کے تقریبا آٹھ بج رہے تھے مگر ایک عجیب سا سناٹا ہوجاتا تھا ائیر فورس والوں کے گھروں کی طرف۔۔

عترت کو اکثر ڈر لگتا تھا رات میں۔۔

ندا بیگم کچن میں سوپ بنانے میں مصروف تھی کھانا عترت دوپہر میں بنا چکی تھی اسلیے کوئ خاص کام بھی نہیں تھا انہوں نے دعا کو بھی سرونٹ کوارٹر بھیج دیا تھا۔۔

کیا بنایا جا رہا ہے؟؟

 میری سوئیٹ ماما!!!

ندا بیگم بلاج کی اواز،پہ ایک دم چونکی ۔۔اپنے سامنے بلاج کو دیکھ کے ایک دم اس سے لپٹ گئ اور بھیگی اواز سے کہنے لگی ۔

ارے میرا بچہ اگیا ۔۔۔۔

ندا بیگم نے اسے ڈھیروں پیار کیا۔۔۔

کیا بنارہی تھی اپ؟

عترت کہاں ہے ؟دعا بھی نہیں دیکھ رہی؟

ارے ارے ایک دم اتنے سوال پہلے کچھ کھا تو لو۔۔۔

نجانے مشن میں کچھ کھایا بھی ہوگا یہ نہیں ۔۔

نہیں ماما ابھی فریش ہونگا پھر کھاونگا۔۔۔

اچھا اوپر جا رہے ہو تو یہ عترت کیلئے سوپ بھی لیجاو۔

سوپ کیوں ؟کیا ہوا عترت کو ؟طبیعت تو ٹھیک ہے نہ اسکی؟؟

ہاں ٹھیک ہے۔۔

 بس اج صبح سے اسنے کچھ نہیں کھایا ہے بس تمہیں یاد کرکے اداس تھی اب ڈاکٹر نے بولا ہے اسکا کافی دیھان رکھنے کو۔۔

یہ بات بولتے ہوئے ندا بیگم کے لب مسکرائے تھے۔۔۔

بلاج نے ناسمجھی کی حالت میں اپنی ماما کو دیکھا اور کہا۔۔

ابھی تو اپنے کہاں کے وہ ٹھیک ہے ابھی اپ کہہ رہی ہیں ڈاکٹر نے اسکا دیھان رکھنے کو کہاں ہے۔۔

ارے میرا بچہ اب تو پاپا بننے والا ہے اسلیے عترت کا کافی دیھان رکھنا ہے۔۔۔ندا بیگم نے ایک بار پھر بلاج کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔۔۔

اچھا مگر۔۔۔۔۔

کیا کیا کہا اپنے ماما؟؟؟

بلاج پہلے تو بات نہیں سمجھا مگر جب سمجھا تو شاکڈ انداز میں دوبارہ ندا بیگم سے پوچھا۔۔

ہاں میری جان تم پاپا بننے والے ہو۔۔۔

بلاج کی انکھوں سے خوشی کے انسووں گرنے لگے اس نے ندا بیگم کو اپنے سینے سے لگایا اور کہا۔۔

اب اپ دیکھے ابھی دس منٹ میں اپکی بہو ہشاش بشاش نیچے ائے گئ۔۔

یہ سوپ بھی پیئے گی۔۔

ہاں ہاں میں جانتی ہو تم اگئے ہو تمہیں دیکھتے ہی وہ ٹھیک ہوجائے گی۔۔

جاو اس سے ملو ۔

بلاج نے ندا بیگم کو انکے کمرے میں چھوڑا اور تقریبا ڈورتا ہوا  اپنے کمرے میں پہنچا۔۔

کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا تھا بلاج بہت آہستہ سے اندر داخل ہوا تو عترت اسے سامنے ہی نظر ائ راکنگ چیئر پہ سوتی ہوئ۔۔

بلاج کے چہرے پہ ایک دلکش سی مسکراہٹ اگئ۔۔

وہ ہلکے ہلکے اس تک پہنچا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کے عترت کو غور سے دیکھنے لگا۔۔

دھیلے سے جوڑے میں کچھ بال نکل کے اسکے چہرے پہ بکھرے تھے گردن ایک طرف ڈھلکی ہوئ تھی بلاج کو اندازہ ہو رہا تھا وہ بہت گہری نیند سورہی ہے بلاج کی نظر اچانک اسکے سینے سے چپکے فریم کی طرف گئ جو الٹا ہوکے اسکے سینے سے چپکا پڑا تھا بلاج نے بہت احتیاط سے وہ فریم اس سے الگ کیا تو یہ دیکھ کے اسکے لب ایک بار مسکرائے تھے کیونکہ وہ اسکی ہی پک تھی مگر اس سے ذیادہ اسے عترت پہ یہ دیکھ کے ٹوتھ کے پیار ایا کے وہ اسکی ٹی شرٹ پہنے سورہی تھی ۔۔

بلاج نے اٹھ کے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور بہت آرام سے اسے اپنی باہنوں میں اٹھا کے بیڈ پہ لیٹایا۔۔

عترت کو بہت آرام سے بیڈ پہ لیٹا کے پہلے فریش ہونے چلا گیا۔۔

فریش ہوکے باہر نکلا تو ابھی بھی عترت اسی پوزیشن میں لیتی تھی جس پوزیش میں بلاج ۔ے اسے بیڈ پہ لیٹایا تھا۔۔۔

بلاج نے بال خشک کیے اور دھیرے سے عترت کے بلکل پاس ایا۔۔

اسنے  اپنا ایک ہاتھ عترت کے پیٹ پہ رکھا اور جھک کے وہاں اپنے لب رکھے یہ عمل کرتے ہوئے بلاج کی انکھوں میں خوشی کے آنسوؤں جھلملانے لگے۔۔

اسنے بہت ارام نے عترت کے دائیں بائیں اپنے ہاتھ رکھے اور جھک کے اسکے کھلے لبوں  ہو  اپنے لبوں میں دبا یہ ۔

بلاج کئ دونوں کی  اپنی تشنگی عترت کے لبوں سے مٹانے لگا ۔۔

عترت کو نیند میں اپنا سانس رکتا محسوس ہوا اسنے جیسی اپنی انکھیں کھولی تو بلاج کا چہرہ اسے دیکھا ۔۔

بلاج کا چہرہ دیکھ کے ہی وہ رونے لگی ۔۔

بلاج نے اسکے آنسوؤں صاف کیے اور کہا ۔

عترت جانتی ہو نہ میری جاب میرا فرض پھر بھی اپنی یہ حالت بنائ یے۔۔

تو اپ بھی تو جاکے غائب ہوگئے ایک ٹیکس نہیں کیا اپنی خیریت کا۔۔۔

عترت کے ہلکے سے شکوہ پہ بلاج نے دوبارہ اسکا چہرہ چوما اور کہا۔۔

ویسے غصہ میں پوری باربی ڈول لگتی ہو۔۔۔

بلاج کے کہنے پہ عترت نے گھور کے اسے دیکھا اور شرما گئ۔۔

بلاج نے اس کی جھکی نظریں دیکھی تو کہا۔۔

مجھے نہیں پتہ تھا عترت میڈم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں۔

بلاج کے کہنے پہ عترت اور ذیادہ بلش کرنے لگی جب بلاج نے دوبارہ اپنا ہاتھ عترت کے پیٹ پہ رکھا اور کہا۔۔

شکریہ میری جان مجھے دنیا کا  سب سے حسسسین  تحفہ دینے کیلئے ۔۔

بلاج کے کہنے پہ عترت بلاج کے سینے میں چھپ گئ ۔۔

بلاج نے بھی اسے اپنے سینے میں چھپالیا۔۔

دھیرے  دھیرے ایک بار پھر وہ اسے پیار کرنے لگا کبھی اسکے لب چومتا کبھی اسکا ماتھا کبھی جھک کے اسکے دل کے مقام پہ اپنے ہونٹ رکھتا کبھی اسے پھر اپنے سینے میں چھپاتا۔۔

جب  اچانک عترت کو کچھ یاد ایا اور اس نے بلاج سے پوچھا۔۔

اپنے کچھ کھایا؟؟

بلاج نے معصوم بچے کی طرح ہونٹ نکال کے نفی میں گردن ہلائ تو عترت ہنسنے لگی۔۔

ہٹے میں کچھ لاؤ اپکے لیے کھانے کو؟؟

نہیں تم بیٹھو میں لاونگا اور اپنے ہاتھوں سے کھلاونگا۔۔۔

بلاج نے یہ کہہ کے دوبارہ اسکا ماتھا چوما اور کھانا لینے چلا گیا۔۔

#########

اظہر صاحب بھی اچکے تھے خوشبو بیگم کے گھر سے نکلتے ہی اظہر صاحب کی کال وہاج صاحب کے پاس ائ اور انہوں نے اپنے انے کی اطلاع دی۔۔

کھانا کھاکے وہ اور اظہر صاحب ٹیرس پہ بیٹھے چائے پی رہے تھے جب اظہر صاحب نے نوٹ کیا کے وہاج  بہت چپ چپ ہے اظہر صاحب سمجھ رہے تھے شاید خالہ کی بیماری کی وجہ سے پریشان ہیں مگر انکی انکھیں کچھ اور ہی بیان کررہی تھی۔۔

اظہر صاحب نے وہاج صاحب کے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھا اور کہا۔۔

کیا بات ہے وہاج اج بہت ذیادہ اپسیٹ ہو ؟؟

اظہر صاحب کا پوچھنا تھا کے وہاج صاحب کی انکھوں سے آنسوؤں گرنے لگے۔۔

اظہر صاحب نے جب وہاج صاحب کو روتا دیکھا تو ایک دم پریشان ہوگئے۔۔

کیا ہوا ہے وہاج خالہ کی وجہ سے ۔۔۔۔۔

اسنے مجھ سے میری بیٹی کو دور رکھا اظہر بھائ  وہ وہ صرف مجھ سے نفرت کرتی ہے ۔۔۔

کون وہاج؟؟

کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ گے ؟؟

اظہر صاحب کے پوچھنے پہ وہاج صاحب نے اج خوشبو کے گھر میں ہوئ ساری بات اظہر صاحب کو بتا دی۔۔

یہ سب سن کے اظہر صاحب کافی شاکڈ تھے ۔۔

میں نے کہی سنا تھا وہاج کے عورت اگر ضد اور غصہ میں اجائے تو اپنے ساتھ بہت کچھ تہس نہس کردیتی ہے ۔۔

شاجہاں نے بھلے مجھ سے قطع تعلق کیا تھا مگر میری بیٹیوں کو کبھی مجھ سے دور نہیں کیا یہ الگ بات ہے صنم مجھ سے نہیں ملتی۔۔

مگر خوشبو نے تو اپنی خود کی بیٹی کی پہچان ہی مٹا دی۔۔۔

میں اسے اس حرکت کیلیے کبھی معاف نہیں کرونگا اظہر بھائ نہ کرے مجھے معاف کرتی رہے مجھ سے نفرت مگر اب بس بہت ہوا اگر کل وہ ہیر کو یہاں نہیں لائ تو انجام کی ذمیدار وہ خود ہوگی

خوشبو اور ہیر کون ہیں ڈیڈ؟؟

صائم کی اواز پہ وہ دونوں ایک دم چونکے صائم جو نمرہ کے کہنے پہ اظہر کو چھت پہ بلانے ایا تھا اپنے باپ کے منہ سے یہ نام سن کے ایک دم چونکا تھا۔۔

######

میں نے کہا تھا اپ سے خوشبو آپی کے ہیر بی بی کیساتھ اتنا بڑا ظلم مت کرے مت چھپائے ان سے کے اپ انکی انی نہیں انکی ماں ہیں ۔۔۔

اس سے پہلے لائبہ کچھ اور کہتی اچانک کچھ ٹوتنے کی اواز پہ ان دونوں نے چونک کے پیچھے دیکھا تو ہیر بیہوش پڑی تھی۔۔

ہیر۔۔۔۔۔۔

خوشںبو  چیختی ہوئ ہیر تک پہنچی۔۔۔

ہیر ہیر۔۔

اٹھو ہیر۔۔۔

لائبہ کے بھی ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اس نے ڈور کے اپنا موبائل اٹھایا اور کسی کا نمبر ڈائل کیا۔

ہاں لائبہ کیا ہوا؟

 سب خیریت ہے؟

شاجہاں آ پی وہ وہ ہیر بی بی۔۔۔۔

کیا ہوا ہیر کو؟؟

وہ پتہ نہیں شاید انہوں نے ہماری باتیں ۔۔۔۔۔

کیا باتیں صحیح صحیح بتاؤ کیا ہوا ہے ؟

لائبہ نے کچھ دیر پہلے ہونے والی اپنی اور خوشبو کی باتیں شاجہاں کو بتا دی اور ساتھ اپنا شک بھی ظاہر کیا کے شاید ہیر نے انکی باتیں سن لی اسلیے بیہوش ہوگئ۔۔۔

تم فکر نہ کرو لائبہ کیں ابھی آرہی ہو ۔۔۔

شاہجاں جو ابھی ابھی صنم کیساتھ گھر پہنچی تھی لائبہ کی کال پہ دوبارہ ہڑبڑا کے گھر سے نکلنے لگی۔۔

کیا ہوا ماما ؟اپ اتنی گھبرائ ہوئ کیوں ہے ؟

کہاں جارہی ہیں؟؟

صنم کیا تم ایک فیور کرسکتی ہو میرے لئیے۔۔

ہاں ماما بولے۔۔۔

بیٹا ابھی اسی وقت ہمیں ہیر کے گھر جانا ہے وہ بیہوش ہوگئ ہے۔۔

مگر ماما کیسے ؟کیا ہوا اسے؟؟

وہ سب میں تمہیں بعد میں بتاؤ نگی اچھی چلو جلدی۔۔

اپ گاڑی تک پہنچے میں چابی لے کر آ ئ۔۔

شاہجاں بیگم نے گاڑی میں بیٹھتے ہی بہزاد کو کال کرنی چاہی مگر پھر کچھ سوچ کے رک گئ اور وہاج صاحب کو کال ملا دی۔۔

########

بیٹا تم نے شاید کچھ غلط۔۔۔۔۔۔!!!ااگے کی بات اس سے پہلے اظہر صاحب مکمل کرتے وہاج صاحب بول پڑے۔۔۔

نہیں اظہر بھائ اب وقت آگیا ہے کے اسے بھی اس راز سے واقف ہوجائے ۔

کونسا راز ڈیڈ؟صائم نے انکے روبرو اکے پوچھا۔۔

اس سے پہلے وہاج صاحب کچھ بولتے انکے موبائل بجنے لگا۔۔

شاہجاں کی بات سننتے ہی وہاج صاحب جے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ۔

انہوں نے صرف اتنا کہا۔۔۔!!!!

میں آرہا ہو پانچ منٹ میں آرہا ہو۔۔۔

کیا ہوا ہے وہاج کس کا فون تھا؟؟

ملکہ کی کال تھی اظہر بھائ لگتا ہے اج قدرت کا کچھ اور ہی منظور ہے۔۔۔

مطلب؟؟

اکے سمجھاتا ہو۔۔تم چلو صائم میرے ساتھ۔۔۔

#########

عاشر ؟؟

ہمم ماما !!!

آپ سے ایک  بات پوچھو۔۔۔؟

پوچھے ماما یہ بول کے عاشر ایک دم شانزے سے لپٹ گیا۔۔

اپ بابا سے بات کیوں نہیں کرتے؟؟

مجھے ڈر لگتا ہے ان سے انہوں نے فاخر کو مارا ہے !!

کوئ پاپا بھلے اپنے بیٹے کو مارتا ہے انہیں ہم دونوں سے محبت نہیں اپکو پتہ ہے وہ اج تک میرے ساتھ نہیں سوئے اج تک مجھے پیار نہیں کیا مجھے لگتا ہے ایک دن وہ مجھے بھی۔۔۔

نہیں نہیں میری جان ایسی بات نہیں ہے یہ باتیں اپکو کس نے سیکھائیں ہیں؟؟

ماما میرے سارے دوست میرا مذاق اُڑاتے ہیں اپکو پتہ سب یہ ہی بولتے ہیں۔۔

بیٹا اپکے پاپا اپ سے بہت محبت کرتے ہیں بس انہیں جتانا نہیں اتا دیکھنا ایک دن اپ خود بولو گے اپکے پاپا ورلڈ کے بیسٹ پاپا ہیں۔۔

چلو اب اپ سوجاؤ میں زرا پاپا کو کال کرو ابھی تک نہیں ائے۔۔

اوکے ماما۔۔۔۔۔۔

شانزے کے کمرے سے جاتے ہی عاشر کے موبائل پہ کسی کی کال انے لگی۔۔

عاشر نے اپنا چھپا ہوا موبائل نکالا اور ہلکی اواز میں کہا ۔۔

"ہیلو ماما""

#######

شانزے نے عاشر کی بات کو سوچا مگر دل پہ نہیں لی کیونکہ اسے اندازہ تھا کے جو حادثہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اسکا اتنا ریکشن بنتا تھا۔۔۔

شانزے نے  کئ بار بہزاد کو کال کی مگر اسنے اٹھائ نہیں۔۔

وہ فریش ہوکے باہر نکلی اور ساونڈ سسٹم پہ گانا پلے کرکے خود بھی گنگنانے لگی اور بیڈ شیٹ صحیح کرنے لگی۔۔

"دل یہ میرا تیرے دل سے جا جڑا ہے۔۔۔

رب سے جو تھا مانگا تو وہ حوصلہ ہے"

شانزے اپنے مگن انداز میں کمرے کے چھوٹے موٹے کام کررہی تھی نائٹ ڈریس میں گیلے بال لیئے ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی بہزاد جو کمرے کے دروازے سے لگ کے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

بہزاد نے اپنا کوٹ سائیڈ میں رکھا اور پیچھے سے جاکے شانزے کو تھام کے خود سے لگالیا ۔مگر شانزے ڈری نہیں کیونکہ اسے پتہ بہزاد مینشن میں ایک چڑیا بھی ہر نہیں مار سکتی بہزاد کی اجازت کے بنا۔۔

شانزے مسکراتے ہوئے مڑی اور اور بہزاد کی گردن پہ ہاتھ ڈال کے کہنے لگی۔۔

اتنی دیر سے کال کررہی تھی اپکو اٹھا کیوں نہیں رہے تھے؟؟

مگر بہزاد چپ رہا اور غور غور سے شانزے کا چہرہ دیکھنے لگا۔

کیا دیکھ رہے ہیں ؟؟

بہزاد اسے لے کر بیڈ پہ بیٹھا اور اسے گود میں بیٹھا کے اسکی کمر تھام کے کہا۔۔

مجھ پہ غصہ نہیں اتا تمہیں شانزے ؟؟

کس بات پہ؟؟

تمہاری مرضی بغیر تم سے نکاح کرلیا اور پھر ۔۔۔۔

ہممم نہیں ایا تھا شروع شروع میں مگر اب نہیں اب تو پیار تا ہے اپ پر۔۔

شانزے کے کھلم کھلے اظہار پہ بہزاد کے لب کھل کے مسکرانے تھے اسکی ہیزل گرین انکھوں نے شانزے  کی سمندر  جیسی  نیلی آنکھوں کو جھکنے پہ مجبور کردیا۔۔۔

بہزاد نے گود میں لیے لیے بیڈ پہ گر گیا ۔۔

اسکی آنکھوں کو چومتے ہوئے وہ اسکی گردن پہ اپنا پیار نچھاور کرنے لگا۔۔

اسکے سارے بال اپنے ہاتھوں سے سنوارنے کے بعد بہزاد نے بہت مان سے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے ۔

اتنے مان پہ شانزے کے لب مسکرائے تھے اسنے بھی بہزاد کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے ۔۔

شانزے کی اس حرکت پہ بہزاد کی آنکھوں میں نمکین پانی بھرنے لگا۔۔

اپ رو رہے ہیں بہزاد؟؟

نہیں میری جان ۔۔

بہزاد نے اپنے انکھوں کو صاف کرکے کہا۔۔

ائ لو یو شانزے۔۔۔

ائ لو یو مور مور مور۔۔۔۔

شانزے نے کہہ کے خود بہزاد کے لبوں کو چوما ۔۔

بہزاد نے شانزے کی اس حرکت پہ ایک آئ برو اچکا کے اسے دیکھا اور دیوانہ وار اسکے لبوں کو چومنے لگا ۔

######

خوشبو اور لائبہ کی کوشش سے ہیر ہوش میں توا چکی تھی مگر اسنے اپنے اپکو کمرے میں بند کرلیا تھا۔۔۔

اتنی دیر میں صنم اور شاہجاں بیگم بھی آ چکی تھی انہوں نے بھی بہت کوشش کی مگر ہیر نے دروازہ نہیں کھولا۔۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کے  وہاج اور صائم ائے۔۔

صائم نے جب صنم کو اپنے روبرو دیکھا تو اسکا دل پھر بے قابو ہونے لگا۔

جبکہ صنم نے اس پہ ایک نگاہ ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا۔۔

خوشبو کو دیکھ کے صائم اسے فورا پہچان گیا۔۔

ہیر دروازہ کھولو پلیز ۔۔

ہیر پلیز میری جان ۔۔

خوشبو دیوانہ وار دروازہ بجانے لگی۔۔

مگر بے سود ۔۔۔

وہاج کی حالت بھی کچھ ایسی تھی جو صائم کی سمجھ سے باہر تھی۔۔

جب سب کی کوششوں سے دروازہ نہیں کھولا تو صائم نے دروازہ توڑ ڈالا سامنے کے منظر دیکھ کے ہ

خوشبو کیساتھ ساتھ شاہجاں کی بھی چیخ نکل گئ۔۔

ہیر اپنے اپکو پھانسی لگا رہی تھی اگر ایک دو منٹ کی بھی دیر ہو جاتی دروازہ توڑنے میں تو شاید ہیر حرام موت مرجاتی۔۔

صائم نے اگے بڑھ کے اسکو نیچے اتارا مگر وہ صائم سے خود کو چھڑوانے لگی۔۔

صائم نے جب ہیر کو دیکھا اور بار پھر شاکڈ ہوا کیونکہ وہ زویان کی ہیر تھی۔۔

صائم سے جب وہ قابو میں نہیں آ رہی تو پتہ نہیں اسے کیا ہو اسنے ایک گھومتا ہوا ٹھپڑ اسے دے مارا۔۔

ایک دم جیسے سناٹا سا چھا گیا۔۔

ہیر صائم کے ہاتھ کا ٹھپڑ کھاکے ایک دم سںن ہوگئ کچھ ایسا ہی حال صائم کا بھی تھا اسے سمجھ میں ہی نہیں ایا کے اسکا ہاتھ کیسے اٹھا۔۔

ہیر میں بچی میری جان۔۔

مت کہے مجھے بیٹی ۔۔۔۔

ہیر خوشبو کے بولنے پہ ایک دم چیخ پڑی۔۔

بتائے مجھے حرام کی ہو نہ میں جبھی اپ نے مجھ سے میری پہچان چھپائ۔۔۔

ہیر کےا یسے جملے پہ خوشبو ساکن رہ گئ اور وہاج کا حال بھی کچھ ایسا تھا۔۔ 

صنم سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کے چل کیا رہا ہے۔۔

بتائے مجھے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا اپنے ۔۔ 

ہیر نے تقریبا خوشبو کو جھنجھوڑ ڈالا۔۔

اتنی ہی اپکے لیے شرم کا باعث تھی تو ماردیتی مجھے دنیا میں انے سے پہلے۔۔

بتائے مجھے میرا کیا قصور تھا گناہ اپنے کیا اور۔۔۔۔

گناہ نہیں کیا تھا ہیر تمہاری ماں نے نکاح کیا تھا مجھ سے ہزاروں لوگوں کے درمیان۔۔۔

وہاج صاحب کے بولنے پہ صائم نے چونک کے اپنے باپ کو دیکھا تھا جبکہ خوشبو نے کرب سے اپنی انکھیں بند کی تھی۔۔

اسلام وعلیکم پاپا۔۔۔۔۔!!

میں کب سے کال ملا رہی تھی اپکو؟؟

ہنزہ نے ہلکا سا شکوہ کیا۔۔۔۔

دراصل میں بیٹا تمہاری ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو انہیں کے پاس تھا موبائل میرا سائیلنٹ پہ تھا ابھی سوئ ہیں تمہاری ماما تو موبائل دیکھا میں نے۔۔

کیا ہوا ماما کو؟؟ہنزہ ایک دم بیچین ہوکے پوچھنے لگی ۔

ارے ارے تم اتنا پریشان نہ ہو بخار تھا بازل لے کے گیا تھا ڈاکٹر کے پاس ابھی دوائ کے زیرِ اثر سورہی ہیں ۔۔

تم بتاؤ کیسا چل رہا ہے کیمپن؟؟

پاپا میں توا بھی کراچی سے ہی بول رہی ہو واپس اگئ ہو وہاں دو تین ڈاکٹرز  آ گئے تھے تو اس وجہ پرانے اسٹاف کو اوف  دے دیا ہے۔۔

اچھا اچھا تم بتاؤ مجھے کہاں ہو ؟

میں اتا ہو لینے۔۔۔

ارے نہیں پاپا اپ فکر نہیں کرے میں ابھی پہلے ہاسپٹل جاؤ نگی وہاں کچھ سامان دینا ہے دیر ہوجائے گی مجھے اب ارام کرے میں آ جاونگی اسٹاف کی وین میں اپ سوجائے بس چوکیدار بابا کو بولنا موبائل اون رکھے میں اکے انہیں کال کرونگی تو وہ گیٹ کھول دے ۔۔

اوکے بیٹا دیھان سےا نا ۔۔۔

ہنزہ نے ہاسپٹل کا کام جلدی جلدی نبٹایا اور گھر پہنچی ۔

رات کافی ہوگئ تھی اسی وجہ سے تقریبا سب ہی سوگئے تھے۔۔

ہنزہ خاموشی سے اپنے کمرے میں ائ فریش ہوکے سیدھا کچن میں ائ بھوک اب شدت اختیار کرچکی تھی۔۔

ہنزہ نے کچن میں موجود کھانا چیک کیا تو کڑاھی بنی تھی۔۔

ہنزہ نے اسے گرم کیا تو اسکی آنکھیں بھیگنے لگی بازل کیساتھ گزارے کچھ پل اسکے سامنے چلنے لگے۔۔

افف ایک تو تمہاری اتنی لیٹ کھانے کی عادت کب جائے گی۔۔

ہنزہ جو اپنی ہی دھن میں فریج میں کچھ ٹٹول رہی تھی بازل کی آواز پہ ایک دم چونکی۔۔

افف بازل ایک تو تم میری جاسوسی کرنا کب چھوڑو گے ڈرا دیا مجھے۔۔

جس دن تم راتوں کو کھانا چھوڑ دوگی۔۔

بازل نے اسے پیچھے سے ہگ کرتے ہوئے کہا۔۔

بازل بلکل بھی ابھی میرا رومینس کا موڈ نہیں پڑھ پڑھ کے دماغ کی بینڈ بج چکی ہے اوپر سے بھوک سے برا حال ہے۔۔

ہنزہ نے اسے خود سے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔

ہاں تو کھانا بنا تو ہے !!!

میں کسی قیمت پہ بھی یہ بریانی قورمہ نہیں کھانے والی۔۔

ہنزہ نے سڑا ہوا منہ بناکے کہا۔۔!!!!

جانتا ہو اسلیے پیزا آرڈر کرچکا  ہو اپنی جان کیلئے اور ساتھ میں چلڈ کوک بھی۔۔

بازل نے اسے خود سے لگاتے ہوئے کہا۔۔

شکریہ میرے جانو ہنزہ نے اسکے دونوں گالوں کو نوچتے ہوئے کہا ۔۔

ویسے تمہیں نہیں لگتا ایک عدد کسس ملنی چاہیے ؟؟

باذل نے اسکے اگے اپنے ہونٹ کرتے ہوئے کہا۔۔

ہممم یہ تو ہے۔۔

یہ بول کے ہنزہ نے اسکے دونوں گالوں کو چوم ڈالا۔۔

ہنزہ یہ پپی ہے کسس نہیں۔

ہاں تو پپی سے کام چلاؤ ابھی ۔۔

ہنزہ کے بولنے پہ بازل نے مسکرا تے ہوئے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔۔

ہنزہ نے اپنے آنسوؤں پونچے اور کھانا نکال کے وہی ٹیبل پہ بیٹھ کے کھانے لگی۔۔

بازل جو اسکے انے سے واقف تھا کچن کی دیوار سے لگ کے اسے خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

"آرام اتا ہے دیدار سے تیرے۔۔

مٹ جاتے ہیں سارے غم۔۔

ہے یہ دعا کے دیکھتے دیکھتے تجھ کو ۔۔

نکل جائے دم"

بازل نے اپنے انکھوں سے بہنے والے آنسوؤں صاف کیے۔۔

یہ دن بھی اسکی زندگی میں ائے گا اسے اندازہ نہیں تھا وہ ہنزہ کو یو چھپ چھپ کے دیکھا ایسا اسنے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔

اچانک ہنزہ کو پھندا لگا۔۔وہ پانی لینے کیلئے اٹھنے لگی جب خاموشی سے بازل نے اسکے اگے پانی کی بوتل کری۔۔

ہنزہ نے ایک نظر پانی کی بوتل کو دیکھا اور پھر بازل کو۔۔

مگر اسکے ہاتھ سے پانی کی بوتل نہیں لی۔۔

فریج سے پانی لے کے وہ تیزی سے ادھورا کھانا چھوڑ کے کچن سے چلی گئ۔۔

ایک بار جب پھر ہنزہ کے رویے سے بازل کی آنکھیں بھیگنے لگی۔۔۔

#######

ڈیڈ یہ اپ؟؟؟

صائم کی ماتھے پہ شکنیں ابھری اسے اندازہ نہیں تھا اسکا باپ ایسا کچھ بھی کرسکتا ہے۔۔

ہیر نے بھی بہت  غور سے وہاج کو دیکھا اور پھر خوشبو کو۔۔

شاجہاں بیگم اور لائبہ کسی بت کی طرح کھڑے تھی ۔

مگر صنم اس نے بہت غور سے ہیر اور صائم کو دیکھا تھا۔۔

کچھ کچھ معملہ اسے سمجھ آرہا تھا۔۔۔

ڈیڈ یہ کیا بول رہے ہیں اپ؟؟

صائم ایک دم چیخ پڑا ۔۔

صائم کے چیخنے پہ ہیر اور خوشبو دونوں ڈری تھی۔۔

اس سے پہلے وہاج صائم کو کچھ بتاتا انکے نمبر پہ اظہر صاحب کی کال انے لگی۔۔

کال سنتے ہی انہوں نے صرف اتنا کہا۔

اج تم دونوں کو اور بہت سے لوگوں کو سارے سوالوں کا جواب مل جائے گا ۔۔

ملکہ اماں کی طبیعت بگڑ گئ ہے وہ سب کو بلا رہی ہیں۔۔

پلیز بہزاد کو کال کرو۔۔

ہیر تمہیں چلنا ہوگا میرے ساتھ تمہاری دادی کی اخری سانسیں چل رہی ہیں پلیز۔۔

یہ بولتے ہوئے وہاج صاحب کی آنکھیں بھیگی تھی کچھ بھی تھا تھی تو انکی ماں نہ۔۔

ہیر اور خوشبو بنا کسے بحث کے انکے ساتھ چل پڑے کیونکہ ہیر کو جاننا تھا اسکے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔۔

صائم فلحال غصہ میں وہاں سے نکلا تھا۔۔

####

بہزاد جو ابھی شانزے کیساتھ کچھ اور ہی کرنے کے موڈ میں تھا اپنے نمبر پہ ملکہ کی کال انے پہ ایک دم سیدھا ہوا۔۔

کال سننے کے بعد بہزاد نے صرف اتنا کہا۔۔

میں ارہا ہو ملکہ تم پہنچو۔۔۔۔۔

کہاں جارہے ہیں بہزاد؟؟؟

شانزے تم عاشر کے کمرے میں جاؤ میں رات گھر نہیں اونگا ۔۔موبائل اپنا اپنے پاس ہی رکھنا ایک دو گھنٹے بعد میں کال کرونگا۔۔

بہزاد کے لہجہ میں کچھ ایسا تھا کے شانزے اس سے اگلا سوال نہیں کرپائ ۔۔۔

پورے راستہ ان چاروں نے خاموشی سے گزارا گھر کے پاس گاڑی رکتے ہی وہاج ہیر کو لے کر اندر بڑھ گیا اور خوشبو سب کرکے بھی کسی ہارے ہوئے  جواری کی طرح  جواری بھی وہ جو اپنا سب کچھ ہار گیا ہو اندر بڑھ گئ۔۔

رخسانہ بیگم کے کمرے کے باہر پہنچ کے وہاج نے جیسی ہی دروازہ کھولا تو بہزاد کو رخسانہ بیگم کے گلے لگا پایا ۔۔

جو بچوں کی طرح ان سے چپک کے رو رہا تھا۔۔۔

سب ہی اس ملن سے اج خوش تھے۔۔۔

باری باری اس خاندان کا ایک ایک نفوس اس کمرے میں داخل ہوچکا تھا سوائے خوشبو کے اور صنم کے۔۔

رخسانہ  بیگم نے جب ہیر کو دیکھا تو بیتابی سے پوچھنے لگی اسکی پہچان۔۔۔

وہاج کے بتانے پہ انہوں نے  ہیر کو اپنے پاس بلایا اور دیوانہ وار اسے اپنے ساتھ لگالیا۔۔

خوشبو کا پوچھا ۔۔تو وہاج صاحب نے انہیں تسلی دی جے وہ باہر ہے رخسانہ بیگم کے بولنے پہ وہاج صاحب نے شاجہاں کو اشارہ کیا۔۔

وہاج کے اشارہ کرنے پہ شاہجاں بیگم اسے لینے باہر گئ۔۔

مجھ میں ہمت نہیں ہے شاہجاں پلیز میں جارہی ہو واپس۔۔

خوشبو معاف کرنے والوں کو اللّٰہ پسند کرتا ہے وہاج کو نہ صحیح ایک مرتے ہوئے انسان کو تو معاف کردو۔۔

صنم تم بھی اندر آؤ۔۔۔

ابھی تک زویان اس کمرے میں نہیں ایا تھا اور وجہ تھی وہ ڈاکٹر کو لینے گیا تھا ڈاکٹر کو لانے کا کوئ فائدہ نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اپنی ماما کے رونے پہ انہیں لینے چلا گیا۔۔

شاہجاں بیگم خوشبو کیساتھ ساتھ صنم کو بھی زبردستی اندر لے ائ۔۔

خوشبو کو دیکھتے ہی رخسانہ بیگم نے اسکے اگے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔۔۔

خوشبو وہاج بے قصور ہے اسنے صرف میری زندگی بچانے کیلیے تم سے تعلق توڑا۔۔۔۔

وہ ہاتھ جوڑے لیٹی تھی خوشبو کے اگے۔۔

وہاج سے یہ منظر دیکھا نہیں جارہا تھا وہ خاموشی سے گردن جھکائے بیٹھا تھا۔۔

صائم کا بھی حال کچھ ایسا تھا اس پہ اج جو راز کھلا تھا اسے خاموش کروانے کیلیے کافی تھا۔بہزاد کی نظریں مسلسل صائم پہ تھی اج سالوں بعد اسنے اسے اپنے رشتے کی نظر سے دیکھا تھا کچھ بھی تھا تھا تو وہ اسکا بھانجا۔۔

رخسانہ بیگم نے ماضی کی کتاب کا  ایک ایک صفحہ  سب کے سامنے کھول کے رکھ دیا ۔۔

نمرہ نے سب کے سامنے شاہجاں سے معافی مانگی تھی اور اسنے اسے کھلے دل سے معاف کردیا تھا اسکے ساتھ جو ہوا اظہر صاحب کی طرف سے ہوئ بیوفائ اسنے قسمت کا فیصلہ سمجھ کے قبول کرلی تھی۔۔

صنم اپنا اور صائم کا رشتے سن کے حیران تھی مگر صائم کی نظریں ہیر پہ تھی۔ اج اسے اندازہ ہوا تھا کے کسی کی بہن بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے پہ خود کی بہنیں بھی محفوط نہیں رہتی۔۔

زویان جو ہیر کیساتھ کرچکا تھا وہ سب وہ صائم کو بتا چکا تھا۔

کچھ بھی تھا صائم چاہ کر بھی اس رشتے کو جھٹلا نہیں سکتا تھا کے ہیر اسکی بہن ہے ۔۔

رخسانہ بیگم کے ہاتھوں نے ابھی بھی خوشبو کے ہاتھوں کو تھاما ہوا تھا۔۔

مجھے معاف کر دو خوشبو تمہارے ساتھ کی گئ ہر زیادتی کی وجہ میں ہو۔۔

خوشںبو کی ہچکیاں ہر کوئ سن سکتا تھا ۔۔

اسنے رخسانہ بیگم کے ہاتھوں کو نرمی سے دبایا اور کہا۔۔

میں نے اپکو معاف کیا انٹی اللّٰہ اپکے لیے اسانی کرے۔۔

خوشبو کے معاف کرتے ہی رخسانہ بیگم آنکھیں بند نرکے پرسکون انداز میں لیٹ گئ۔۔

جبھی  زویان ڈاکٹر صاحب کو لے کر کمرے میں داخل ہوا۔۔

اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کے زویان کو لگا اسکی نانی نہیں رہی مگر نمرہ نے اشارہ کیا تو اسے سمجھ ایا۔۔

وہ۔جیسی ہی رخسانہ بیگم کے پاس بیٹھا انکے ساتھ  گردن جھکائ بیٹھی ہیر کو دیکھ کے زویان نے تیزی سے ہیر کو پکارا۔۔

ہیر یہ تم ہو؟؟

ہیر جو خود ہر چیز سے بے نیاز بیٹھی تھی زویان کی اواز پہ وہ ڈری اور جب اسنے اپنے سامنے زویان کو دیکھا تو ساکن رہ گئ۔۔

اس سے پہلے زویان ہیر کو پہچان کے کوئ اور بات کرتا ایک دم نمرہ بیگم کی دلخراش  چیخ گونجی۔۔

امییییییی امییییی۔

نمرہ بیگم کے چیخنے پہ سب انکی طرف متوجہ ہوئے مگر انکی نگاہیں رخسانہ بیگم کے برابر میں لگے مونیٹر پہ تھی۔۔

جو بلینک ہوچکا تھا۔۔

رخسانہ بیگم کا دل بند ہوچکا تھا۔۔

نمرہ بیگم پاگلوں والے انداز میں رخسانہ بیگم کا چہرہ پکڑ کے ہلانے لگی۔۔

وہاج صاحب صدمے سے وہی کرسی پہ ڈھیر ہوچکے تھے۔۔

سب ہی کے سامنے انکا دم نکلا اور یہ ہی انکی خواہش تھی۔۔۔

######

بہزاد نے رات کو ہی مرتضی (گارڈ )کے ذریعے شانزے کو بلوالیا تھا۔۔

نمرہ بیگم کسی صدمے کی حالت میں اپنی ماں کے جنازے سے  لگ کر بیٹھی تھی تدفین کا وقت ہورہا تھا مگر کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی  کے انہیں ان سے   الگ کرے۔۔

زویان نے دو تین دفعہ کوشش کری مگر ناکام رہا وہاج صاحب الگ ٹوتے ہوئے تھے مگر خوشبو نے ایک دفعہ بھی انہیں دلاسہ نہیں تھا۔

شاہد وہ پتھر کی ہوچکی تھی۔

بہزاد جس نے خالی اپنی رخسانہ پھپھو سے اپنا دل صاف کیا تھا نمرہ بیگم کو بلکتا دیکھ کے اس سے رہا نہ گیا۔

اس نے خاموشی سے اگے بڑھ کے نمرہ بیگم کو اواز دی۔۔

خوشبو آپی!!!

بہزاد کے پکارنے پہ انہوں نے ایک نظر بہزاد کو دیکھا اور پھر روتے روتے کہنے لگی۔

بہزاد۔

۔۔انہوں نے خالی اسکا نام پکارا تھا اور بہزاد نے انہیں اپنے سینے سے لگالیا۔۔۔

وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اسکے سینے سے لگ کے بلکنے لگی۔۔

زویان نے بہت غور سے بہزاد راجپوت کو دیکھا تھا اسے تعجب اور حیرانگی اس بات پہ ہورہی تھی کے یہ شخص اس گھر کا حصہ نہیں ہے پھر بھی اسکی اتنی ویلیو کیوں؟؟

نمرہ بیگم کو روتا دیکھ ہیر ،صنم ،شانزے ،ہنزہ سب کی ہی انکھیں نم تھی۔۔

بازل کی فیملی کی بھی شاہجاں بیگم کی وجہ سے صائم لوگوں سے جاں پہچان ہوگئ تھی اس وجہ سے وہ لوگ بھی اس جنازے میں شامل ہوئے تھے۔۔۔

صائم تو بازل کو دوست تھا اس وجہ سے اسکا انا اور ضروری تھا۔۔

جبکے صائم ان سب میں نہیں تھا بہزاد نےا یک دو بار اسے اس پاس دیکھا بھی مگر وہ اسے دیکھا نہیں۔۔

نمرہ بیگم بہزاد کے گلے لگی رہی اور اظہر صاحب نے اشارہ کرکے جنازہ اٹھانے کا کہا۔۔

نمرہ  بیگم کافی روئ تڑپی مگر جسکے جانے کا وقت ہوتا ہے اسے جانا ہی ہوتا ہے۔۔

بہزاد کو بھی جنازہ میں شرکت کرنی تھی اسی لیے  اس نے شاہجاں کو اشارہ کیا ۔۔

صائم نے جب اپنی دادی کی قبر پہ مٹی ڈالی تو وہ  بچوں کی ظرح روپڑا اسکی اور اسکی دادی کی بہت اچھی انڈرسٹینگ تھی۔۔

بہزاد کو اسکو ایسا روتا دیکھ  کے عجیب سا لگ رہا تھا اس نے صائم کو اٹھایا اور صائم بے خودی میں اسکے گلے لگ گیا جبکہ زویان کی انکھوں میں صرف آنسوؤں تھے کیونکہ اسکی نانی اسکے اتنے قریب نہیں تھی جتنی صائم کی دادی اسکے ۔۔۔

#######

ہر طرف جیسے وہاج مینشن میں ہو کا عالم تھا۔۔۔اج رخسانہ بیگم کو گئے تیسرا دن تھا۔۔

ہیر تھوڑی بہت وہاج سے بات کرنے لگی تھی ۔نمرہ بیگم کا بھی اسنے کافی دیھان رکھا تھا جبکہ صائم خاموش تھا بلکل خاموش۔۔

شانزے گھر واپس جا چکی تھی مگر بہزاد کیساتھ روز آتی تھی ۔وہاج صاحب بھی سنبھل چکے تھے مگر خاموش تھے۔۔

ہیر اور زویان کا ابھی تک دوبارہ سامنا نہیں ہوا اکیلے میں نہ ابھی تک زویان نے کوشش کی۔۔

خوشبو بیگم خاموشی سے رخسانہ بیگم کے انتقال کے دوسرے دن چلی گئ۔۔۔

انہوں نے جانے سے پہلے ہیر سے ملنا چاہا مگر ہیر نے انکو دیکھنا بھی گوارا نہیں۔۔

#######

بہزاد سب سے باتیں کررہا تھا جب اسے صائم کا خیال ایا۔۔

وہاج بھائ صائم کہاں ہے؟؟

صائم کا پوچھنے پہ وہاج صاحب نے چونک کے بہزاد کو دیکھا تھا۔۔

ایسے مت دیکھے مجھے !!!

بہزاد کے بولنے پہ سب ہی وقتی طور پہ ہی صحیح مگر مسکرائے تھے ۔

بہزاد نے باہر لان میں نکل کے صائم کو ڈھونڈا تو وہ اسے کونے میں بیٹھا نظر ایا گم سم سا۔۔۔۔

بہزاد کے جاتے ہی زویان نے ہیر کو اشارہ کیا اوپر انے کا مگر ہیر اگنور کرگئ۔۔

اسے اب زویان سے ڈر لگنے لگا تھا کے کہی وہ اس سے بدلہ لینے کیلیے اسکا اور اپنا نکاح یہاں شو نہ کردے۔۔

بہزاد خاموشی سے صائم کے برابر میں بیٹھ گیا۔۔

صائم نے ایک نظر اسے دیکھا مگر بولا کچھ نہیں۔۔

سب کہتے تھے کے تم ہو بہو اپا کی کاپی ہو بہت چھوٹے تھے جب میں نے تمہیں گود میں لیا تھا۔۔۔

صائم نے ایک نظر بہزاد کو دیکھا مگر بہزاد کو اسکی آنکھیں دیکھ کے افسوس ہوا جو آنسوؤں سے لبریز تھی۔۔۔

اپکو اتنے سالوں بعد یاد ایا مجھے سے اپنا رشتہ؟؟

سالوں سے اسے رشتے کو بھلانے کی وجہ بھی تم جانتے ہو؟؟

تو اج بھی بھول جائے رشتہ مجھ سے ؟؟

بھول جاتا اگر تمہاری شکل نہیں دیکھتا جو اپا سے تو نہیں مجھ سے ضرور ملتی ہو بس آنکھوں کا کلر الگ ہے۔۔

صائم جو ہوا اسے بدلہ نہیں جاسکتا پھپھو کی موت اسی ہی لکھی تھی میں جانتا ہو تم ان سے بہت اٹیچ تھے 

مگر ایسے کب تک رہوگے وہاج بھائ کو تمہاری ضرورت ہے انہیں تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔

مجھے بھی تو بچپن میں ماں کی ضرورت تھی مگر ان کو میری نہیں تھی جب ہی اکیلا چھوڑ کے چلی گئ۔۔

کہتے ہی ماموں لفظ کے معنی ماں ہوتا ہے کیونکہ اسکے شروع کا لفظ منہ سے  ماں ہی ادا ہوتا ہے۔۔

مگر انہیں بھی اپنی انا پیاری تھی ایک دفعہ بھی پلٹ کے میری خبر نہیں لی انہوں نے۔۔

یہ کہتے ہوئے صائم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔

جبھی بہزاد نے اسے اپنے سینے سے لگالیا۔۔

صائم بہزاد کے گلے لگ کے ہچکیوں سے رونے لگا جس صائم پہ بہزاد کی شروع سے نظر تھی جس صائم سے بہزاد صنم کو دور رکھنا چاہتا تھا اس صائم میں اور اس صائم میں ذمین اسمان  کا فرق تھا۔۔

صائم کو خود سے الگ کرکے بہزاد نے اسکے آنسوؤں پونچے اور کہا۔

اب کبھی تمہیں تنہا نہیں چھوڑونگا۔

مگر صائم تم نے صنم کیساتھ بہت غلط کیا ہے وہ تم سے بے تحاشہ محبت کرنے لگی تھی میں نے اسے کئ بار روکا تھا تمہارے ساتھ تعلق رکھنے سے مگر وہ مجھ سے بھی لڑی تھی۔

بہزاد کے منہ سے صنم کے بارے میں سن کے صائم شرمندہ ہوا اور کہا۔۔

اپ جانتے ہیں اسکے اور میرے درمیان ہوئے معملات کو؟؟

میں جب سے تمہارے معملات جانتا ہو جب تم نے پہلی بار ڈانس بار کی سب سے حسین لڑکی کو کسس کی تھی اور دس ہزار کی شرٹ جیتے تھے۔۔

بہزاد کے اس انکشاف پہ صائم کے چہرے پہ شرمندگی ائ تھی۔۔

تم سے دور ضرور تھا مگر غافل نہیں۔۔۔

صنم سے مجھے محبت ہے یہ بات اسے کھونے کے بعد سمجھ ائ ۔۔

ہر چیز سے توبہ کرچکا ہو پوری کوشش کرتا ہو اسکو اپنے دل سے نکال دو مگر ناکام رہا۔

محبت کرتے ہو صنم سے ؟؟

بہزاد کی بات پہ صائم مسکرایا اور الٹا سوال بہزاد سے کیا۔۔

زندگی میں شامل کرسکتے ہیں اسے دوبارہ میری؟؟

صائم کے سوال پہ بہزاد نے مسکرا کے نفی میں گردن ہلائ۔ اور کہا۔۔

بھول گیا تھا ہو تو تم بہزاد راجپوت کے بھانجے۔۔۔

تھوڑی اڑیل ہو وہ بہت جتن کرنے پڑینگے۔۔

میری بنے کیلے اگر اسنے جان بھی مانگی تو دے دونگا۔۔

صائم کی بات پہ بہزاد مسکرایا اور کھڑے ہوتے ہوئے اسکے اگے اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

"یہ عشق نہیں اسان بس اتنا سمجھ لیجیے 

ایک اگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے"

بہزاد کی بات پہ صائم نے مسکرا کے اسکا پھیلا ہاتھ تھاما اور کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔

"اکے دنیا میں بھی اگر پیار نہ کیا تو کیا کیا"""

#######

ہیر عشاء کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئ تو کچھ دیر ایسی جاء نماز پہ بیٹھی تھی کچھ آنسو اسکی انکھوں سے ٹوتھ کے گرے۔۔

اسے شدت سے اپنے اکیلے ہونے کا احساس ہورہا تھا ۔۔۔

اس نے روتے روتے دعا کیلے ہاتھ اٹھائے۔۔۔

جب اچانک اسکے کمرے میں ایک اواز گونجی۔۔

"بدعا نہیں دینا ہیر "

زویان کی اواز پہ ہیر ایک دم ڈری۔۔

ہیر کے ڈری سہمی سی آنکھیں دیکھ کے زویان کو شدت سے احساس ہوا کے وہ اس لڑکی کیساتھ کتنا بڑا ظلم کرچکا۔۔۔

ہیر نے فورا اپنے ڈر پہ قابو پایا دعا مانگ کے اٹھی اور زویان کے پاس سے گزر کے جانے لگی جب زویان نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔

"میں بہت شرمندہ ہو ہیر"

زویان کا ایسا کرنا تھا کے ہیر نے ایک نظر زویان کے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ کو دیکھا اور ایک زور دار طمانچہ زویان کے منہ پہ دے مارا۔۔

ٹھپڑ اتنا شدید تھا کے زویان کے چہرے پہ ہیر کی انگلیوں کے نشان چھپ چکے تھے۔۔

اج کے بعد مجھے چھوا تو جان سے ماردونگی۔۔

ہیر کے کہنے پہ زویان کے چہرے پہ مسکراہٹ ائ جو ہیر کا خون جلانے کیلئے کافی تھی ۔

مجھے پتہ ہے تمہاری اس طنزیہ مسکراہٹ کی وجہ۔۔۔

تم نے جو بھی میرے ساتھ نکاح کے نام پہ کیا اس میں میری رضا شامل تھی اس لیے شاید میں سزا بھگت رہی ہو  اور شاید میرے ساتھ ایسا ہونا تھا کیونکہ جو لڑکیاں اپنے گھر والوں کے بھروسے کو توڑتی ہیں انکے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔

تم نے جو کرنا تھا میرے ساتھ کر چکے زویان تمہاری گرل فرینڈ  بھی مجھ سے اپنا حسب برابر کرچکی تم نے بھی کوئ کسر نہیں چھوڑی مجھ سے بدلہ لینے میں تو اب کس حق سے تم نے میرا راستہ روکا؟؟

اب بھی تم میرے نکاح!!!!

زویان اس سے پہلے اپنی بات مکمل کرتا ہیر نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اٹھایا مگر زویان نے اسکا ہاتھ درمیان میں ہی روک لیا۔۔

اس بات کو تم جھٹلا نہیں سکتی ہیر!!

ہیر نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھرڑوایا اور کہا۔۔

اس پاک رشتے کا  نام اپنی زبان سے مت نکالنا اس نام کا سہارا لے کر تم مجھ میرا سب کچھ چھین چکے ہو زویان ۔۔۔

اب کیوں میرے پیچھے ہو میں نے تمہیں کچھ کہا تمہیں کوئ الزام دیا  کوئ شکوہ کیا تم سے ؟؟

نہیں نہ !!!!!

تو پھر اب کیوں میرے پیچھے پڑے ہو؟؟

ہیر نے تقریبا چیختے ہوئے کہا۔۔

مانا میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے تم سے محبت کا ڈراما کیا تم سے جھوٹ بولا تم سے نکاح کے نام پہ وہ سب۔۔

مگر ہیر میں بہت شرمندہ ہو۔۔

زویان ہیر کے سامنے  بے بسی سے کہا۔۔

تمہاری شرمندگی مجھے میری عزت،میرا غرور ،میری محبت ،میرا بھرم لوٹا سکتی ہے۔۔

جب تمہاری محبت تمہیں کسی اور کی باہنوں میں دیکھی جب تمہارے بھروسہ کہ دھجیاں اری  جب تمہیں یاد ایا کے تم نے میرے ساتھ غلط کرا زیادتی کری۔۔۔

نکاح کی بات کررہے ہو نہ تم۔۔

ہیر نے اسکا گریبان پکڑ کے کہا۔۔۔

نہیں مانتی میں اس نکاح کو سنا تم نے۔۔

زویان نے بہت غور سے ہیر کا چہرہ دیکھا تھا جہاں صرف تکلیف تھا کرب تھا۔۔

مانا میں نے سب تمہارے ساتھ دھوکے سے کیا تھا مگر ہمارا نکاح اصل تھا نکاح نامہ اصلی تھا۔۔

تم اتنی اسانی سے مجھ سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔۔

زویان کے کہنے پہ ہیر نے اسکا گریبان چھوڑا اور کہا۔۔

محبت کی بہت بھاری قیمت چکائ ہے میں نے اب نہیں۔۔

کیا کروگے ؟

سب کو بتاؤ گے ہمارے نکاح کے بارے میں۔؟

بتاؤ شوق سے بتاؤ زویان اظہر۔۔۔

اچھا ہے میری جان بھی چھوٹے گی ۔۔

تمہاری سوچ ہے کے میں تم سے نکاح ختم کرونگا ہیر!!!

زویان نے ایک بار پھر اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا اب کی بار اسکی گرفت میں سختی تھی۔۔

اس بار تم ہیر کو شکست نہیں دے سکتے تمہارے کوئ بھی لفظ کوئ بھی بہانہ کوئ بھی چال مجھے میرا فیصلہ بدلنے پہ  مجبور نہیں کرسکتی ۔۔

جاؤ میرا بلا سے اعلان کر دو اس رشتے کا مجھے فرق نہیں پڑتا ۔۔

میں تم سے الگ ہوکے بھی دیکھاؤ نگی اور تمہارے سامنے تمہیں کسی اور کی ہوکے بھی دیکھاؤ نگی یہ وعدہ ہے میرا تم سے زویان۔۔

ہیر یہ کہہ کے کمرے سے جانے لگی جب زویان کی مٹھی میں ہیر کے بال اچکے تھے۔۔

ااا چھوڑے مجھے بدتمیز انسان چھوڑو۔۔۔۔زویان اپنا چہرہ ہیر کے قریب لایا

اس نے غصہ سے پھنکارتے ہوئے کہا۔۔

سوچنا بھی نہیں کسی اور کی ہونے کا تم صرف میری ہو سوچا تھا تم سے معافی مانگونگا جب تک تمہیں مناؤ گا جب تک تم مجھے معاف نہیں کردیتی ۔۔

مگر  اب نہیں ۔۔۔۔

میں بھی دیکھتا ہو تمہیں مجھ سے اللّٰہ کی ذات کے علاوہ کون چھینتا ہے تمہیں سب کی موجودگی میں رخصت کرکے اپنے گھر نہیں لایا تو میرا نام بھی زویان اظہر نہیں۔۔

زویان نے کہہ کے جھٹکے سے اسکے بال چھوڑے۔۔

ہیر نے بھی بنا ڈرے اسے کہا۔

لگاؤ ایڑھی چوٹی کا زور زویان اظہر ۔۔

تمہارے ساتھ دوبارہ تعلق جوڑنے سے پہلے میں موت کو گلے لگاؤ نگی زویان مجھے گھن اتی ہے اپنے اپ سے کے میں تم نے سے محبت کی ۔۔

گھن اتی ہے اپنے جسم سے دل چاہتا کے جلا لو خود کو اس حصہ کو جہاں تم نے چھوا مجھے۔۔

کاش کوئ ایسا معجزہ ہو اور ایک بار مجھے موقع ملے اپنی پچھلی زندگی کے گزرے لمحوں میں جانے کا تو اگ لگا دو ان لمحوں کو جن لمحوں میں مجھے تم سے محبت ہوئ جن لمحوں میں تم میرے قریب ائے۔۔

یہ بولتے ہوئے ہیر زویان کے بے حد قریب تھی اسکی آنکھیوں سے آنسوؤں جاری تھے۔۔

زویان نے بے خودی میں اسکا چہرہ تھاما اور کہا۔۔

ایک موقع دے دو ہیر مجھ سے غلطی ہوگئ میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہو۔۔۔

زویان کی بات سن کے ہیر نے قہقہ لگایا اور کہا۔۔

"آ زمائے ہوئے کو ازمایا نہیں جاتا"

محبت کا لفظ اپنے منہ سے نکال کے اسکی توہین نہیں کرو۔

مجھے تم سے نفرت ہے زویان گھن اتی ہے تمہیں دیکھ کے بہتری اسی میں ہے کے مجھے طلاق دے دو ۔

ورنہ الگ تو میں تم سے ہوہی جاؤ نگی کسی اور کی بن کے۔۔

جب میں طلاق ہی نہیں دونگا تو کسی اور کی کیسے بنوگی؟؟

طلاق نہیں دوگے تو میں خلا لونگی بولتا رہے زمانہ کچھ بھی مجھے کسی کی پرواہ نہیں

یہ بول کے ہیر نے جانے کیلئے جیسی ہی کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے خوشبو کو کھڑا پایا ۔۔

انکی شکل دیکھ کے ہیر کو اندازہ ہوگیا تھا کے وہ سب کچھ سن چکی ہیں۔۔

ہیر نے ایک نظر انہیں دیکھا اور چلی گئ۔۔

خوشبو اندر بڑھی تو زویان گھٹنوں کے بل بیٹھ کے رورہا تھا۔

زویان ؟؟؟

خوشبو کی اواز پہ زویان نے نگاہ اٹھا کے اپنی ماں کو دیکھا کھڑے ہوکے انکے گلے لگ گیا۔

زویان جو بھی ہیر نے کہا سچ ہے ؟تم نے اس سے نکاح کیا ہے؟؟

خوشبو کے پوچھنے پہ زویان نے انہیں سب کچھ بتادیا جیسے سن کے خوشبو جھٹکے سے بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔

تمہیں پتہ ہے ہیر کون ہے زویان؟وہ کیوں اس گھر میں ہے؟

نہیں ماما مجھے!!!

یہ بات بولتے ہوئے زویان چونکا اس نے یہ تو سوچا ہی نہیں کے ہیر یہاں کیا کررہی ہے اسکا اس گھر سے کیا رشتہ ہے۔۔

نہیں ماما؟؟؟

زویان یہ تم نے کیا کیا؟

 ایک بار پھر ماضی دہرایا ہے پھر ایک بار اس خاندان کا فرد کسی کیلئے تکلیف کا باعث بنا ہے۔۔

ماما اپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ؟کھل کے کہے ؟؟

زویان ہیر تمہارے ماموں کی بیٹی ہے اور صائم کی بہن۔۔۔۔۔

خوشبو کے انکشاف پہ زویان نے حیران کن نظروں سے خوشبو کو دیکھا اور کہا۔

یہ کیا کہہ رہی ہیں ماما اپ؟

زویان کے ایسے شاکڈ انداز پہ خوشبو نے زویان کو ایک بار پھر ماضی بتایا مگر صرف وہاج صاحب کا ۔۔۔

شاید وہ اپنا کیا اپنے بیٹے کو بتانے کی ہمت نہیں کرپارہی تھی۔۔

######

لائبہ تم نے اسے دوائ دی۔۔

ہاں شاجہاں اپا مگر وہ نہیں لے رہی بس ایک جگہ بیٹھی رہتی ہے بہت زبردستی کرنے پہ کچھ کھاتی ہیں۔۔۔

اور کل وہ؟؟

کیا کل ؟لائبہ کچھ مت چھپانا مجھ سے ۔۔۔

اپا کل وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے گاؤں جارہی ہیں کبھی نہ انے کیلئے ۔۔۔

شاجہاں اپا کچھ کرے پلیز۔۔۔

یہ کہہ کے لائبہ نے کال کٹ کردی۔۔

وہاج صاحب کو ابھی ابھی شاجہاں بیگم نے خوشبو کا کیا  فیصلہ اور  اسکی طبیعیت دونوں بتائ۔۔

کیا سوچ رہے  ہو وہاج ؟؟

انکے ساتھ تم نے زیادتی کری ہے وہاج ۔۔۔

اظہر بھائ میں نے کب منع کرا ہے مگر وہ کچھ سنے تو ۔۔۔

اتنی ضدی تو مجھے نہیں لگی تھی وہ جب مجھ سے ملی تھی۔۔

22 سالوں سے جو کسی کی راہ تک رہا ہو جس نے کسی کو  اسکو چھوڑ جانے کی وجہ بھی نہیں بتائ ہو جس نے نکاح کرکے بنا رخصتی کے اس سے اپنا حق مانگ لیا ہو اور پھر انتظار کی سولی پہ لٹکا دیا ہو ۔۔

اس شخص سے کیا تم صبر کی امید رکھتے ہو !!

معافی کی امید رکھتے ہو۔۔

22سالوں کا غبار ہے وہاج نجانے کتنے دونوں میں نکلے۔۔

ضدی ضرور ہوگئ ہونگی بھابھی  مگر مجھے اتنا پتہ ہے وہ اج بھی تم سے محبت کرتی ہیں جبھی تمہارے نام پہ بیٹھی ہیں۔۔

اظہر بھای میں  اسے اگر لے بھی آؤ تو کیا صائم اسے قبول کرے گا۔۔

ابھی تک اس نے ہیر کو قبول نہیں کیا اپ کو اندازہ نہیں ہورہا سب جاننے کےبعد مجھ سے دور ہوگیا ہے۔۔

میں دور نہیں ہوا پاپا اپ سے؟

صائم کی آواز پہ ان دونوں نے گھوم کے اسے دیکھا جو لان میں انہیں کھانے کیلیے بلانے ایا تھا ۔۔۔

مجھے خوشبو ماما سے کوئ اعتراض نہیں انکے ساتھ واقعی زیادتی ہوئ ہے اور رہا سوال ہیر کا تو اسکے معملے میں اپ نہ پڑے اسے میں دیکھ لونگا ۔۔۔

اپ جائے خوشبو ماما کو لائے۔۔۔۔انہیں بھی حق ہے خوشیوں کا۔۔

صائم کی بات پہ وہاج صاحب نے صائم کو گلے سے لگالیا۔۔

انکی انکھوں سے چند آنسوؤں گر پڑے۔۔۔

انہوں نے فورا خوشبو کے گھر کی راہ لی۔۔

انہیں پتا تھا انہیں کیا کرنا ہے اظہر صاحب پہلے ہی انہیں آئیڈیا دے چکے تھے۔۔

######

وہاج صاحب کو دیکھ کے لائبہ نے بنا خوشبو کی اجازت لیے فلیٹ کا دروازہ کھول دیا۔۔

لائبہ نے انہیں ایک کمرے کیطرف اشارہ کیا اور خود تھوڑی دیر کیلئے باہر چلی گئ۔۔

وہاج کمرے میں گئے تو وہ بیڈ پہ سورہی تھی۔۔

وہاج صاحب انکے بے حد قریب جاکے بیٹھ گئے۔۔۔

بے خودی میں انہوں نے خوشبو بیگم کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔۔

کسی کا لمس اپنے چہرے پہ محسوس کرکے خوشبو بیگم نے پٹ اپنی آنکھیں کھولی۔۔

اپنے سامنے وہاج صاحب کودیکھ کے وہ ایک دم اٹھ کے بیٹھی اور اپنا دوپٹہ ڈھوڈنے لگی۔ 

جو وہاج صاحب کے پیچھے تھا۔۔

خوشبو نے لائبہ کو اوازیں لگائ جب وہاج صاحب نے کہا وہ گھر پہ نہیں ہیں۔۔

تو اپ کیا کررہے ہیں یہاں؟

اپکی اولاد پہنچا تو دی اپ تک اب اپ یہاں کیا کررہے ہیں؟؟

خوشبو بیگم ڈوپٹہ سے بے نیاز انکے روبرو کھڑی تھی۔۔

وہاج صاحب کو ایسا لگا وقت 20 سال پیچھے چلا گیا۔۔

میں اپنی بیوی لینے ایا ہو!!!

وہاج صاحب کی بات پہ خوشبو بیگم طنزیہ ہنسی اور کہا۔۔

20 سال بعد اپکو  یاد ایا کے اپکی ایک بیوی ہے۔۔۔۔

ماما تمہیں سب بتا چکی ہیں خوشبو اپنے گھر چلو اب۔۔

اپ جائے یہاں سے مجھے کہی نہیں جانا۔۔۔

یہ بول کے خوشبو بیگم کمرے سے نکلنے لگی جب وہاج صاحب نے انکا ہاتھ پکڑ کے تیزی سے اپنی طرف کھینچا۔۔

خوشبو بیگم ایک دم انکے سینے سے لگ گئ۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ چھوڑے مجھے!!!

بدتمیزی کرے ہوئے تو مجھے 20 سال ہوگئے اگر تم بولو تو ابھی دوبارہ کرسکتا ہو بدتمیزی۔۔

وہاج صاحب کی انکھوں میں اج عجیب سا نشہ تھا خوشبو بیگم نے اپنے اپکو چھڑواتے ہوئے کہا۔۔

مجھے اپ سے اب کوئ تعلق نہیں رکھنا سنا اپنے نہیں جانا اپکے ساتھ جانے دے مجھے۔۔

میں ایک بار پھر معافی مانگتا ہو خوشبو پلیز بس کردو پتہ نہیں کب یہ سانسیں بند ہوجائے۔۔

وہاج صاحب کے لہجے میں ایسا کچھ تھا جسے محسوس کرکے خوشبو بیگم لرز گئ۔۔

مگر اپنی ضد پہ قائم رہی۔۔

اچھا ٹھیک ہے نہیں رہنا میرے ساتھ ٹھیک ہے ۔۔

یہ کہہ کے وہاج صاحب نے خوشبو بیگم کو الگ کیا اور اپنی جیب میں سے ڈیورس پیپر نکال کے انکے اگے رکھے اور کہا۔۔

ٹھیک ہو آزاد ہوجاو اج تم اس رشتے سے یہ لو سائن کردو ان ڈیورس پیپر پر۔۔۔اپ زبردستی نہیں باندھ کے رکھونگا اس رشتے میں تمہیں۔۔

وہاج صاحب نے پین نکال کے پیپرز پہ زور سے رکھا۔۔

خوشبو بیگم کے اگے کاغز رکھ تو دیے تھے وہاج صاحب نے مگر انکا دل لرز رہا تھا یہ پلین اظہر صاحب کا تھا کیونکہ انہیں اندازہ تھا وہ کبھی سائن نہیں کرینگی۔۔

خوشبو بیگم نے سکتے کی کیفیت میں پہلے وہاج صاحب کو دیکھا اور پھر پیپرز کو۔۔

 کانپتے ہاتھوں سے پیپرز کھولے تو وہ واقعی ڈیورس پیپرز تھے۔۔۔

انہوں نے پین اٹھایا سائن کرنے کیلئے تو وہاج صاحب کا دل ایک دم ڈھرکا۔۔۔

مگر سائن کرتے وقت خوشبو بیگم رونے کیساتھ ساتھ کپکپا بھی رہی تھی۔۔

انکے ہاتھ میں پین تھامتے ہوئے اتنی لرزش تھی کے پین بھی پورا ہل رہا تھا۔۔

انکی ایسی حالت دیکھ کے وہاج صاحب کو انکا جواب مل گیا تھا انکے لب کھل کے مسکرائے تھے۔۔

انہوں نے خوشبو بیگم کے اگے سے پیپرز اٹھا کے انہیں پھاڑا تو خوشبو بیگم کے رونے میں شدت اگئ۔۔

جب نہیں چھوڑ سکتی مجھے تو چلو نہ میرے ساتھ ایک بار پھر تھام لو میرا ہاتھ اس بار موت ہی وہاج  کو خوشبو سے دور کریگی۔۔

یہ کہہ کے وہاج صاحب نے خوشبو بیگم کی طرف اپنی باہینں کھولی۔۔

مگر خوشبو بیگم ٹس سے مس نہیں ہوئ اپنی جگہ سے۔۔

وہاج صاحب نے پھر کہا ۔۔

"اجاو یار ترس گیا ہو تمہیں سینے سے لگانے کیلیے "

یہ بولتے ہوئے وہاج صاحب کی انکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔

خوشبو بیگم نے جب وہاج صاحب کی انکھوں سے آنسو گرتے دیکھے انکی پھیلی باہیں دیکھی تو خاموشی سے اانکے سینے سے لگ گئ ۔

خوشبو بیگم کے سینے سے لگتے ہی وہاج صاحب نے انہیں اپنے سینے میں بھینچ لیا ۔۔

خوشبو بیگم نے بھی انہیں کس کے کمر سے تھام لیا۔۔

دونوں ہی بے اواز رو رہے تھے دونوں کا ہی 20.سالوں کا انتظار  ختم ہوچکا تھا۔۔

وہاج صاحب نے خوشبو بیگم کو خود سے الگ کیا اور غور سے انکا چہرہ اج بھی انکے چہرے پہ پہلی جسی معصومیت تھی۔۔

وہ بے خودی میں انکے لبوں پہ جھک گئے۔۔

وہاج صاحب کی اس حرکت پہ خوشبو بیگم شرمسار ہوکے انکے سینے سے دوبارہ لگ گئ۔۔۔

خوشبو بیگم کو وہاج صاحب گھر تو لے ائے تھے مگر وہ خاموش تھی۔۔

وہاج صاحب نے ہر طرح سے ان سے معافی مانگی تھی انکا دل صاف کرنے کی کوشش کری تھی۔

مگر پھر وہ صحیح طرح سے اس گھر کیں ایڈجسٹ نہیں ہورہی تھی۔۔

وہاج صاحب نے جب اظہر صاحب سے اس متعلق ۔۔

تو انکا یہ ہی کہنا تھا۔۔

وہاج سالوں پر گردد ہے آہستہ آہستہ ہی چھٹے گی۔۔

مگر ہیر نہ تو اپنی ماں سے بات کرتی تھی نہ اپنے باپ سے بلکے زویان کی حرکت کے بعد اسنے خاموشی سے یہاں سے جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔۔

اسے نہیں پتہ تھا وہ کہاں جائے گی؟

مگر فل حال اسے یہاں سے جانا تھا ۔۔

وہ خاموشی سے اپنی پیکنگ کرچکی تھی بس 12 بجنے کا ویٹ کررہی تھی۔۔

12 بجے وہ اپنے کمرے کا گیٹ کھول کے جیسے ہی باہر نکلنے لگی تو صائم کو کھڑا پایا۔۔

ہیر کے ہاتھ سے بیگ چھوٹ کے نیچے گرا ۔۔

صائم نے بیگ زمین سے اٹھایا اور کمرے میں لیجاتے ہوئے ہیر سے کہا۔۔

اندر آؤ اور دروازہ بند کر دو۔۔

ہیر خاموشی سےا ندر ائ

صائم کے لہجے میں ایسا کچھ تھا جو ہیر کو ڈرانے کیلیے کافی تھا۔۔ 

 صائم نے بلکل اسکے  سامنے کھڑے ہوکے کہا۔

کہاں جارہی ہو رات کے اس وقت؟؟

اپکو کوئ حق نہیں مجھ سے کچھ بھی پوچھنے کا۔۔

ہیر نے صائم کو دیکھ کے کافی غصہ میں یہ بات کہی۔۔۔

۔میرا بیگ مجھے دے مجھے جانا ہے۔۔

اچھا کہاں جانا ہے؟؟

اپکو اس سے کوئ سروکار نہیں ہونا چاہیے میں کہاں جاؤ کہاں نہیں۔

کیوں سروکار نہیں ہونا چاہیے کیوں۔۔؟؟

 بھائ ہو تمہارا دو تین مہینے چھوٹا ہو تو کیا ہوا مگر ہو تو بھائ ۔۔

صائم کے کہنے پہ ہیر نے چونک کے صائم کو دیکھا۔

صائم کی بات سن کے   ہیر کی انکھوں سے انسو گررہے تھے تو صائم کا بھی کچھ حال ایسا تھا اسکی آنکھوں میں بھی نمکین پانی جمع تھا۔۔

تم اگر خوشبو ماما کی وجہ سے یہاں جارہی ہو تو ہیر تم سراسر انکے ساتھ غلط کررہی ہو ۔۔

میں مانتا ہو تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئ ہے مگر تم انکی جگہ خود کو رکھ کے سوچو ۔۔۔

جو بھی ہو مگر میرے ساتھ زیادتی ہوئ ہے۔۔

اپکو کیا پتہ اپکے ساتھ تو پاپا بھی تھے اور اپکی ماما بھی۔۔

ہاں سچ کہہ رہی ہو مجھے کیا پتہ۔۔جس کی ماں محض دس سال کا اسے چھوڑ کے مرگئ ہو۔

ہاں سچ کہہ رہی ہو مجھے کیا پتہ جب راتوں میں مجھے ڈر لگتا تھا تو مجھے دلاسہ دینے والا کوئ نہیں تھا۔۔

ہاں سچ کہہ رہی ہو مجھے کیا پتہ جب میں نے پہلی بار سگریٹ پی تھی چھپ کے تو مجھ سے ناراض ہونے والا۔مجھے ڈانٹنے والا کون تھا۔؟

ہاں سچ کہہ رہی ہو مجھے کیا پتہ۔۔؟؟

اپ سمجھ نہیں رہے صائم بھای مجھے جانا ہے میں نہیں رہ سکتی !!!

یہ بول کے پیر بلک بلک کے روپڑی۔۔۔

ہیر کے بھائ کہنے پہ صائم اس تک ایا اور اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

ماں کے علاوہ اور جس وجہ سے تم یہاں سے جانا چاہ رہی ہو میں وہ وجہ جانتا ہو۔۔

صائم کے بولنے پہ ہیر نے گھبرا کے صائم کو دیکھا تھا۔۔

میں سب جانتا ہو ہو ہیر زویان مجھے سب بتا چکا ہے اپنے اور تمہارے بارے میں۔۔

بے فکر رہو تم اب تمہار بھائ کھڑا ہے تمہارے ساتھ اگر تم زویان سے کوئ تعلق نہیں رکھنا چاہتی تو وہ تم تک پہنچ نہیں سکتا تمہاری مرضی کے بنا یہ میرا وعدہ ہے اپنی بہن سے۔۔۔

صائم نے یہ بول کے ہیر کو بہت احترام سے اپنے گلے لگایا جب ہیر بلک پڑی اور کہا۔۔

مجھے نفرت یے بھائ زویان سے مجھے اس سے کوئ تعلق نہیں رکھنا ۔۔

ہیر کی بات سن کے صائم خاموش رہا ۔۔۔

زویان کا ہیر کیلیے تڑپنا  اس سے چھپا نہیں تھا۔۔

مگر وہ وہی کریگا جو ہیر کہے گی۔۔۔یہ وہ سوچ چکا تھا سالوں بعد ملی اپنی اس بہن کو وہ اپنے پچپن کی دوستی پہ فوقیت دے چکا تھا ۔

#######

اظہر اپ سے ایک بات پوچھو؟؟

نمرہ بیگم نے انہیں چائے دیتے ہوئے کہا۔

ہاں پوچھو !!

اپ نے ابھی تک شاہجاں سے معافی نہیں مانگی مجھے اس نے معاف کردیا تو اپ کو بھی۔۔۔اگے کی بات نمرہ بول نہیں پائ۔

نمرہ کسی بھی عورت کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے اپنی محبت کو باٹنا۔۔

میں بچپن سے محبت کرتا ہو شاجہاں سے مگر کیا کرا سکے ساتھ۔۔

دوسری بیٹی کی پیدائش پہ چھوڑ دیا اسے یہ کہہ کے کے وہ مجھے بیٹا نہیں دے سکتی۔۔

کہاں گئ تھی اس وقت میری محبت جب میں تم سے محبت کے وعدے کررہا تھا۔۔

میں اگر اس سے معافی مانگ لو بظاہر وہ مجھے معاف کردے گی مگر دل سے یہ بات شاید ہی نکال پائے کے میں اسکی محبت میں شرک کیا اسکی محبت میں کسی کو حقدار بنایا۔

اسکی جگہ میں ہوتا تو شاید اسے چھوڑ چکا ہوتا۔۔۔

اظہر صاحب کی بات سن کے نمرہ رونے لگی۔۔

سب میری غلطی ہے کاش میں امی!!!

نہیں نمرہ اب خالہ اچھی جگہ ہیں ہمیں انکی مغفرت کی دعا مانگنی چاہیے۔۔

جو ہوا اب اسے بدلہ نہیں جاسکتا تم تھی میری قسمت میں۔۔

میری لیے یہ ہی بہت ہے کے وہ مجھ سے بات کرلیتی ہے ،میری طرف دیکھ لیتی ہے ۔۔

بس بہت ہے اتنی سزاتو بنتی ہے میری۔۔

اظہر صاحب کے لہجہ انکے دل کی عکاسی کررہا تھا ایک بار پھر نمرہ بیگم پچھتا رہی تھی کے کاش وہ ان دونوںکے درمیان نہیں اتی۔۔۔

#######

کیا بات ہے بھائ بہن کیا ملی مجھے بھول گئے اپ؟؟

صائم عشاء کی نماز پڑھ کےا یا تو لان۔میں اسے زویان نے روک لیا۔

صائم نے زویان کی بات پہ مسکرا کے کہا۔

ایسی بات نہیں ہے بس تھوڑا مصروف تھا اگر میں نے ایا تم تک تو تم مجھ تک اجاتے۔۔

ہمممم۔۔زویان مسکرایا۔۔۔

ہیر کو تو پہچان چکے ہونگے اپ؟؟

ہمم جب پہلی بار اسے موت کے منہ سے بچایا تھا جبھی پہچان گیا تھا۔۔

موت کے منہ سے مطلب ؟؟زویان نے  گھبرا کے پوچھا۔۔

زویان کے پوچھنے پہ صائم۔نے اسے خوشبو بیگم کے فلیٹ والا قصہ سنایا۔۔

صائم کی بات سن کے زویان چپ ہوگیا جب ایک بار پھر صائم نے کہا۔۔

اسکی اس نفرت کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے جو وہ تم سے کرتی ہے مجھ سے اسنے کہا ہے وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔

مگر شاید اس نے اپکو یہ نہیں بتایا کے میں اسے کسی قیمت پہ نہیں چھوڑونگا یہ بات نہیں بتائ اس نے!!!!!

 ۔!!زویان کی شدت پسند لہجے پہ صائم کے ماتھے پہ تیوریاں چڑھی اور اس نے بھی زویان کے ہی انداز میں اسے کہا۔۔

میں اپنے بہن سے وعدہ کرچکا ہو کے جیسا وہ چاہے گی ویساہی ہوگا۔۔

صائم کی بات پہ زویان طنزیہ مسکرایا اور کہا۔

اچھا یعنی اپنے کل کی ملی بہن کو بچپن کی دوستی پہ فوقیت دے دی ۔۔

چلو اچھا یے جو ہو اب سارے لحاظ مروت سائیڈ میں رکھ کے ہو۔۔

ایک بات اپ بھی سن لے ہیر کے بھائ صائم بھائ میں نےبھی اپنی محبت کی قسم کھائ ہے کے وہ صرف میری ہی رہے گی ۔۔

یہ بول کے زویان جانے لگا جب پیچھے سے صائم نے کہا۔۔

اس تک پہنچنے سے پہلے تمہیں اسکے ہر راستے میں  میں ملونگا۔۔

زویان نے بنا مڑے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں ہر اس چیز کو روندھ دونگا جو اسکے اور میری درمیان میں ائے گی۔۔

اپنے بلایا ڈیڈ؟؟

بازل نے کمرے کا دروازہ ناک کرکے اندر جھانک کے پوچھا۔۔

ہاں !!

اپنی شیروانی پسند کرلیتے تم؟؟نکاح کی۔۔

اپ دیکھ لے ڈیڈ جو اپکو پسند ہو میں وہی پہن لونگا۔۔

بازل نے انکے سامنے بہت احترام سے کہا۔۔

نکاح تمہارا ہے ؟بازل میں کیسے پسند کرو تمہارے لیے کچھ؟

کیوں ڈیڈ لڑکی بھی تو اپنے پسند کری ہے جبکہ زندگی مجھے گزارنی ہے تو پھر کپڑے بھی اپ سیلیکٹ کرلے کیا ہوا اگر پہننا مجھے ہیں۔۔۔

یہ کہہ کے بازل کمرے میں رکا نہیں۔

بابر صاحب کی بات سن کے بابر صاحب جہاں تھے وہی کے وہی کھڑے رہ گئے۔۔

انکے دماغ میں بازل کی باتیں گونجنے لگی۔۔۔

وہ اپنی سوچ میں اتنا گم تھے کے انکے موبائل پہ جب سے سارا کے ڈیڈ کی کال آرہی تھی مگر انہیں ہوش نہیں۔۔

نفیسہ بیگم نے کمرے میں انکے موبائل کی آواز سن کے ائ ۔

مگر انہیں سوچوں میں غرق دیکھ کے انہیں جھٹکا لگا ۔۔

انہیں ڈرتے ڈرتے بابر صاحب کا کندھا ہلایا۔۔

بابر بابر؟؟؟؟

ہاں ہاں !!!

کیا ہوا ؟؟.

کب سے اپکا موبائل بج رہا ہے ؟؟نفیسہ بیگم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

موبائل صاحب نے جب اپنا موبائل چیک کیا تو سارا کے ڈیڈ کی 30 سے بھی ذیادہ کالز تھی۔۔

انہوں نے فورا انہیں کال کی۔

سارا کے ڈیڈ بولتے جارہے تھے اور بابر صاحب کو لگا پورا گھر گھوم رہا ہے۔

نفیسہ بیگم انکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کے بات سمجھنے کی کوشش کررہی تھی مگر ناکام رہی۔۔

کال کٹ ہوتے ہی بابر صاحب نے کہا۔۔

نفیسہ !!!

ہاں بابر کیا ہوا ؟؟

کیا بول رہے تھے بھائ صاحب؟؟؟

نفیسہ سارا نے کورٹ میرج کرلی اج اپنے کزن سے ۔۔

کیا ؟؟؟یہ کیا بول رہے ہیں اپ؟؟

کل نکاح ہے بازل کا پورا خاندان ائے گا ہم کیا جواب دینگے بابر سب کو؟؟

نفیسہ ؟؟

فیہم اور ہاجرہ کو بلا کے لاؤ فورا۔۔۔

یہ بولتے ہوئے بابر صاحب کے پسینے  چھوٹنے لگے۔۔

نفیسہ بیگم کو انکی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی وہ ڈورتی۔ہوئ گئ اور ان لوگوں کو بلا کرلے ائ۔۔۔

مگر انکے ساتھ ہنزہ بھی تھی جو اج گھر پہ تھی۔۔

ہنزہ نے فورا بابر صاحب کا بلڈ پریشر چیک کیا جو حد سے ذیادہ بڑھا ہوا تھا۔۔

تایا جان کیا ہوا ہے اپکو؟؟

اتنا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے اپکا ؟؟؟

ہنزہ کے چہرے پہ پریشانی کیساتھ ساتھ فکر بھی تھی۔۔

وہ بہت غور سے ہنزہ کا چہرہ دیکھ رہے تھے اپنے گھر کے ہیرے کو ٹھکرا کے انہوں نے کوئلہ چنا۔۔ اور انہوں نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔

#######

اجائے نہ بہزاد !!!

شانزے تم جاو نہ میں نے کب روکا ارام سے خود بھی نہاؤ سوئمنگ پول میں !!

پلیز اپ بھی ائے نہ۔۔

شانزے تنگ مت کرو مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے ۔۔

تم جاؤ نیچے میں مرتضی کا بول دیتا ہو سارے گارڈ وہاں سے ہٹا دے ۔۔۔۔

تم سکون سے عاشر کیساتھ انجوائے کرو۔۔۔

عاشر سو رہا ہے!!

یار پلیز نہ تنگ کرو جاؤ نہ انجوائے کرو..

شانزے نے جب اسے کال پہ بزی دیکھا تو خاموشی سے کپڑے اٹھائے اور واش روم میں نہانے گھس گئ ۔

بہزاد نے ایک نظر واش روم کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر کال پہ موجود آدمی کو بعد میں کال کرنے کا کہہ کے لائن ڈسکنیکٹ کی ۔۔

بہزاد نے اپنی شرٹ اتاری اور واش روم کی طرف بڑھا ۔۔

شانزے جو شاور کے نیچے انکھیں بند کرکے کھڑی تھی اسے اندازہ نہیں ہوا کے واش روم میں بہزاد اچکا ہے۔۔

شانزے کو دیکھ کے بہزاد نے نے واش روم کا دروازہ لاکڈ کیا اور خاموشی سے جا کے شانزے کی کمر کو اپنے سینے سے لگالیا۔

شانزے کا دل اچھل کے حلق میں اگیا اسے اندازہ نہیں تھا کے بہزاد ایسے اسکے پیچھے واش روم میں ائے گا۔۔

بہزاد نے اسکا رخ دھیرے سے اپنی طرف موڑا مگر شانزے کا نگاہ اٹھا کے بہزاد کو دیکھنا محال تھا۔۔

شانزے کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔

ایسا نہیں تھا کے اس نے بہزاد کی قربت محسوس نہیں کری مگر اسطرح سے نہیں۔۔

بہزاد اسے مکمل اپنے اپ سے لگایا اور شاور کے پیچے موجود باتھ ٹب کا نل کھول دیا۔۔

شانزے نے بہزاد کی کمرے کو مضبوطی سے تھاما تھا اسکی انگلیاں بھی کپکپارہی تھی۔۔

ویسے مجھے نہیں پتہ تھا بیوی شوہر کے ساتھ نہاتے ہوئے اتنا شرماتی ہے۔۔۔

بہزاد کا ایسا بولنا تھا جب شانزے نے انکھیں بند کرے کرے اسکے سینے سے لگے لگے کہا۔

اپ بہت بے شرم ہے بہزاد ۔۔۔!!

ہیں بے شرم میں نے کیا بے شرمی کی زرا بتانا۔۔

بہزاد اسکی جھجک مٹانے کیلیے اسے باتوں میں لگا رہا تھا ۔

وہ جانتا تھا جس حالت میں وہ اس سے چپکی کھڑی ہے کبھی بھی نگاہ اٹھا کے اسے نہیں دیکھے گی۔۔۔

ویسے ایک بات ہے یہ تمہارے کمر کے نیچے جو تل ہے وہ !!!!!

اس سے پہلے بہزاد کچھ اور بولتا شانزے نے اسکے لبوں پہ اپنا  ہاتھ رکھ دیا۔۔

بہزاد پلیز نہ کرے۔۔

کوئ شوہر ایسا کرتا ہے جب اسکی بیوی نہارہی ہو۔۔

بہزاد نے اسکے ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹائے اور اسکے لبوں پہ۔جھکتے ہوئے کہا۔۔

اوروں کا پتہ نہیں مگر بہزاد راجپوت کرتا ہے اپنی جان سے عزیز بیوی کیساتھ ۔۔

یہ بول کے بہزاد نے اسے گود میں اٹھایا اور گود میں اٹھائے اٹھائے پانی کے ٹب میں لیٹ گیا۔۔

بہزاد نے شانزے کی کمرے پہ اپنے لب رکھ چکا تھا دھیرے دھیرے بہزاد کے پیار میں شدت انے لگی جس سے شانزے ڈرتی تھی ۔۔

بہزاد ایک بار اسکے لبوں پہ اپنے لب رکھے ۔۔

شانزے ابھی تک بہزاد کے سینے سے لگی تھی شانزے نے اپنا اپ بہزاد کے حولے کیا ہوا۔ تھا۔۔

بہزاد اپکو نہیں لگتا ہمارا نہانہ ہوچکا!!!!

بہزاد نے مسکرا کے اسے دیکھا اور کہا۔۔

اچھا مگر ابھی تو تم مچلی پڑی تھی میری ساتھ کھلے اسمان کے نیچے نہانے میں۔۔

غلطی ہوگئ مجھ اج کے بعد میری توبہ جو اپکو نہانے کا بولو۔۔

شانزے کے کہنے پہ بہزاد کو اس پہ بہت پیار ایا اس نے شانزے کی گردن پہ اپنے لب رکھ کے اسے خود سے ازاد کیا اور کہا۔

اب تم سکون سے نہاؤ میں جارہا ہو ۔۔۔

یہ کہہ بہزاد نے اسے ٹب میں چھوڑا اور خود واش روم سے نکل گیا۔۔

بہزاد کے جاتے ہی شانزے ایک بار پھر شرمانے لگی۔

#######

بازل گھر میں ایا تو ہنزہ کے ہاتھوں میں مہندی لگی تھی ۔

بازل ایک دم چونکا !!!

وہ تو سمجھ رہا تھا کے وہ اسکے نکاح کے دن بہت روئے گی گھر سے چلی جائے گی مگر وہ تو یہاں انجوائے کررہی ہے اسکا نکاح ۔۔

ہنزہ جو اپنی مہندی سے لبریز ہاتھوں کو سنبھال سنبھال کے چل رہی تھی  اپنے سامنے بازل کو کھڑ دیکھ کے اسے کوئ خاص فرق نہیں اور وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔

ہنزہ کی اس حرکت پہ بازل کی انکھیں بھیگنے لگی اور وہ ڈورتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا ۔

اس نے غصہ میں کمرے کا حشر نشر بگاڑ دیا مگر یہ ہی اسکی بس نہیں ہوئ اس نے فورا ہنزہ کے کمرے کی راہ لی ۔۔

ہاں ہاں لگوا لی مہندی دیکھو ۔۔

ہنزہ ہارون سے ویڈیو کال پہ بات کررہی تھی جب بازل کسی طوفان کی طرح ایا ۔۔۔

ہنزہ جو ہارون کا اگے پیچھے کرکے اپنی مہندی دیکھا رہی تھی بازل کے ایک دم اپنے سامنے انے پہ ہنزہ نے ہارون سے کہا۔۔

ہارون میں بعد میں کرتی ہو اپ سے بات؟؟

بازل کا تو مانو خون ہی کھول گیا اس نے ہنزہ کا موبائل لیا۔۔

کیا بدتمیزی ہے یہ ایسے کیسے تم میرے کمرے میں ائے کو اور یہ موبائل واپس کرو میرا۔۔۔ہنزہ کے کہنے پہ بازل نہ موبائل زور سے

 سامنے دیوار پہ دے مارا۔۔

مگر ہنزہ ایک دم ریلکس رہی اسے اندازہ تھا بازل کچھ ایسا ہی کریگا۔۔

بازل نے یہ ہی بس نہیں کیا اسے مہندی سے لبریز ہاتھوں کو جیسے ہی تھامنا چاہا وہی ہنزہ نے اسے انگلی اٹھا کے وارن کیا۔۔

ٹچ نہیں کرنا مجھے ورنہ انجام کے ذمیدار تم خود ہوگے۔۔

بازل کی انکھوں سے صاف پتہ چل رہا تھا کے وہ رو کے ایا ہے۔۔

اسے ہنزہ کی دھمکی سے کوئ فرق نہیں پڑا۔۔

بازل نے قریب اکے اسے کمر سے تھام کے خود سے قریب کیا اور کہا۔۔۔

تو اج تم نے یہ مہندی اپنے یار ہارون کیلیے لگائ ہے اسکی فرمائش پہ لگائ ہے۔۔

ایسا بولتے ہوئے بازل کی انکھوں سے انسو گررہے تھے۔۔

ہاں لگائ ہے اپنے یار کیلیے مہندی تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے۔

میں کون ہوتا ہو میں؟؟

یہ بول کے بازل نے غصہ میں اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا!!

میں جو پل پل مررہا ہو تمہارے نہ ملنے سے تم میری پچپن کی محبت ہو ہنزہ اور تم بھی مجھے پچپن سے چاہتی ہو ۔۔

اور پھر تم مجھے یہ بتا رہی کے میں ہوتا کون ہو ؟؟؟

ہاں کرتی تھی تم سے محبت بے تحاشہ کرتی تھی بلکہ عشق ہوگیا تھا تم سے جبھی تو بنا جھجھک کے تمہیں قریب انے دیا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا تمہاری نیت صاف ہے تمہارے دل میں ہنزہ فہیم کیلیے صرف محبت ہے ۔۔

مگر تمہیں تو میری جسم کی ہوس تھی جبھی اس دن تم میری عزت کیساتھ کھیلنے والے تھے۔۔

یہ بولتے ہوئے ہنزہ کے بھی آنسو گرنے لگے

بازل نے اسکے بال چھوڑ کے اسکا چہرہ تھاما اور کہا۔

تم نے بھی تو میرا ساتھ نہیں دیا۔!!

بازل نے بے بسی سے کہا۔۔

ہنزہ نے دوبارہ اسے خود سے دور کیا اور کہا۔۔

تو اسکا مطلب تم مجھ سے میری عزت چھین کے اس پہ اپنی محبت کا جھنڈا گاڑو گے۔۔

مجھے نفرت ہے تم سے بازل ابھی اسی وقت یہاں سے دفعہ ہوجاو ورنہ میں  اپنے ساتھ کچھ کر بیٹھونگی۔۔

میری محبت کی یہ عزت تھی تمہاری نظر میں کے تم نے میری جگہ کسی اور کو دے دی۔۔بازل نے سے بے بسی سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

جو چاہے سمجھو یہاں سے ابھی کے ابھی نکلو۔۔۔

ہنزہ اسے دھکا دینے لگی بازل نے غصہ میں ایک زور دار مکا سامنے ڈریسنگ کے شیشے پہ مارا ۔۔

بازل نے ایک نظر اسے دیکھا مگر ہنزہ کی نظر اسکے ہاتھ سے نکلنے والے  خون پہ تھی۔۔

بازل   نے ایک بار پھر ہنزہ کے قریب اکے کہا۔۔

نئ محبت مبارک ہو۔۔۔

یہ کہہ کے بازل کمرے سے جانے لگا جب ہنزہ نے بھی پیچھے سے کہا۔۔

تمہیں بھی نکاح مبارک ہو۔

بازل ہنزہ کے کمرے سے نکلا تو اپنی ماں کو کھڑا پایا۔۔

بازل نے ایک پر شکوہ نظر اپنی ماں پہ ڈالی اور گھر سے باہر نکل گیا ۔

رش ڈرائیونگ کرکے وہ سی سائیڈ کی سب سے خاموش جگہ پہ جاکے چیخ چیخ کے رونے لگا۔۔۔

اسکے نمبر پہ گھر سے باری باری  سب کال کررہے تھے مگر اسنے کسی بھی کال نہیں اٹھائ !!!

بازل کے سامنے بار بار ہنزہ کا وہ مسکراتا چہرہ گھوم رہا تھا جس مسکراتے چہرے کیساتھ وہ ہارون سے ویڈیو پہ بات کررہی تھی۔۔

بازل نے اپنے موبائل نکالا اور اپنی اور ہنزہ کی وہ پک نکالی جو پرائیویٹ فولڈر میں تھی جس پک میں بازل ہنزہ کے لبوں کو چوم رہا تھا۔۔

بازل تصویر دیکھ کے ایک بار پھر روپڑا۔۔

"نادان دل!!!

ہے ڈھونڈتا!!!!!

قربت تیری

تصویر میں!!!!

ممکن نہیں ہے۔۔

تجھ جو بھلانا۔!!

دیکھے خدایا

دو عاشقاں دیا تباہیاں!!!!

وے بڑی لمبی سی جدائیاں۔۔۔

ایک بار پھر بازل کا موبائل بجنے لگا مگر اس بار اسکے نمبر پہ وہاج کی کال تھی۔۔

بازل نے کال اٹھائ تو اس سے پہلے بازل کچھ بولتا وہاج بول پڑا۔۔

او بھائی کہاں ہے آدھا گھنٹہ ہوگیا مجھے ائے ہوئے۔۔۔۔

اپ پہنچ گئے؟؟

ہاں !

کب ائے گا۔۔۔؟

بس آرہا ہو۔۔۔

بازل کی کال کٹ ہوتے ہی وہاج نے اپنے برابر میں بیٹھے نفوس کو دیکھا مگر وہ نفوس خاموشی سے وہاج کے برابر میں سے اٹھ گیا۔۔

#######

ویسے ہیر تمہاری چوائس بہت اچھی ہے۔۔۔

ہیر نے صنم کی بات پہ مسکرا کے کہا۔۔

مگر بعض دفعہ ہم اپنی زندگی کیلئے سب سے گھٹیا چیز کا انتخاب کر لیتے ہیں۔۔۔

ہیر کی بات سیدھا صنم کے دل پہ لگی اسے شروع دن سے ہیر بہت افسردہ لگی اسکی آنکھیں نے کبھی اسکی مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دیا۔۔

ویسے بازل کے نکاح کیلیے میں بہت ایکسائیٹیڈ ہو!!!

صنم کے کہنے پہ ہیر مسکرائ اور کہا۔۔

ہاں میں تو خیر جا بھی نہیں رہی مگر صائم بھای نے زبردستی کہا چلنے کو تو اسی وجہ سے تھوڑی بہت شاپنگ کرنے اگئ۔

صائم کا نام سنتے ہی صنم کی انکھوں میں غصہ ابھرنے لگا مگر فل حال اسنے اپنے دل و دماغ سے صائم کا خیال جھٹکا اور کہا ۔۔

اچھا میں شانزے سے پوچھتی ہو کہاں تک پہنچی پھر ایک ساتھ لنچ کرتے ہیں ۔۔

ہاں ٹھیک ہے پوچھ لو میں جب تک سامنے اسٹال سے چوڑیاں لے لو ۔

ہیر چوڑیاں لے کر مڑی تو شانزے اچکی تھی۔۔

تینوں نے ہائپر اسٹار میں بنے فوڈ کوٹ میں  لنچ کرنے کا سوچا۔۔

تینوں اپنا اڈر دے کر بیٹھی باتیں کررہی تھی ہیر کافی گل مل گئ تھی ان دونوں سے ۔۔

شانزے کی اسٹوری صنم ہیر کو سنا چکی تھی اسے بہت ا اشتیاق ہورہا تھا پرسنلی بہزاد سے ملنے کا۔۔

وہ لوگ کھانے میں مگن تھی جب صنم کو کسی نے پکارا۔۔

صنم !!!

اپنے نام کی پکار پہ جب صنم نے پلٹ کے دیکھا تو نہال کھڑا تھا۔۔۔

ارے اپ !!

صنم  نے بھی مسکرا کے نہال سے کہا۔۔!!

اپ تو عید کا چاند ہوگئ نہ کال کی نہ کوئ بات۔۔۔

نہال کے شکوے پہ صنم مسکرائ اور کہا۔۔

ایکچوئلی اپ کا کارڈ مجھ سے مس ہوگیا تھا۔۔۔

شانزے اور ہیر دونوں بہت اشتیاق سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔۔

ایک دم نہال کی نظر ہیر اور شانزے پہ پڑی تو وہ ایک دم چپ ہوا۔۔

نہال کے چپ ہوتے ہی صنم کی نظر نہال پہ پڑی جو ہیر اور شانزے کو دیکھ رہا تھا۔۔

اوہ ائ ایم سو سوری میں تعارف کروانا بھول گئ۔۔

یہ ہیر اور یہ شانزے دونوں میری بیسٹ فرینڈ اور کزن بھی ہیں۔

اسلام وعلیکم ۔۔۔

خوشی ہوئ اپ لوگوں سے مل کے۔۔۔

ہمیں بھی ۔۔۔۔

ان دونوں نے ایک ساتھ کہا۔۔

نہال تھوڑی دیر ان لوگوں کیساتھ بیٹھا اور پھر وہاں سے چلا گیا مگر صنم کو اپنا نمبر دینا نہیں بھولا ۔

#####

ہیر کا موڈ اج بہت اچھا تھا اسے صنم اور شانزے کیساتھ ٹائم  گزار کے کافی اچھا لگا۔۔

وہ اپنے اور صائم کیلئے اچھی سی کافی بنا رہی تھی جب زویان کچن میں پانی پینے ایا اور ہیر کو دیکھ کے اسکا موڈ بھی خوشگوار ہوگیا۔۔

لائٹ پرپل اور وائٹ کلر کے سادے سے سوٹ میں اپنے بالوں کو فولڈ کرکے ہلکا سا کیچر لگائے وہ مگن انداز میں کافی بنا رہی تھی۔۔ہلکا۔ہلکا مسکرا بھی رہی تھی۔۔

زویان کا دل کیا شدت سے اسے اپنے سینے سے لگانے کا مگر فلحال اسنے اپنی اس خواہش کو سائیڈ میں کیا اور بنا اواز کیے ہیر کے پیچھے جاکے کھڑا ہواا۔

ہیر جو اتنی مگن انداز میں کافی مگوں میں نکال رہی تھی کے اسے پتہ ہی نہیں چلا کے کب زویان اسکے پیچھے اکے کھڑا ہوا۔۔

زویان نے بہت ارام سے جھک کے اچانک ہیر کے گال کو چوم لیا۔۔

ہیر اس افت پہ ایک دم بوکھلائ۔م

مگر زویان کو اپنے سامنے مسکراتا دیکھ ہیر کا دل کیا یہ گرم گرم کافی اس کے منہ پہ پھینک دے۔۔

یہ کیا بیہودگی ہے؟؟

ہیر نے دانت پیس کے کہا۔۔

اسے بیہودگی نہیں پیار کہتے ہیں۔

زویان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

ویسے ایک کپ مجھے بھی بنادو کافی۔۔

ہیر اسے مکمل اگنور کرکے کافی کے مگ ٹرے میں رکھنے لگی۔

زویان دیکھ رہا تھا اسکے  گال ایک دم  ریڈ ہورہے تھے۔۔

اس سے پہلے زویان اور کچھ کہتا ایک دم صائم نے کہا۔

ہیر !!!

جی بھائ ۔۔صائم کی اواز سن کے ہیر کو تھوڑا حوصلہ ہوا۔۔

کوئ مسئلہ؟؟

ہاں مسئلہ ہے نہ مسئلہ فلسطین۔۔

مسئلہ کشمیر۔۔۔

زویان کے جملے پہ صائم نے بہت گھور کے زویان کو دیکھا اور کہا۔۔

مسئلہ نمٹانے میں بہت ماہر ہو زویان۔۔

بھائ میں جارہی ہو اجائے کافی پی نے فالتو لوگوں کے منہ نہ لگے۔۔

ہیر کے کہنے پہ صائم نے گھور کے زویان کو دیکھا اور اسکے پیچھے چل دیا۔۔

اس سالے کا تو کچھ کرنا پڑے گا ۔۔

اچھا خاصا اپنی بیوی کو کسس کرنے والا تھا میں !!!!

کس رو میں اج لے کر رہونگا۔۔۔

بازل بلاج کے سامنے صرف روئے جارہا تھا۔۔

ارے یار بازل بس کرو مرد ہوکے اتنا رو رہے ہو۔۔۔!

وہاج کی بات پہ بازل کو پتنگے لگ گئے اور اسنے تقریبا غصہ میں کہا!!!

بھائ محبت جب رولانے پہ اتی یے مرد عورت  نہیں دیکھتی اور کہاں کا اصول ہے یہ کے رونے کا حق صرف عورت کو ہے۔۔

اچھا اچھا !! اب بتاؤ کرنا کیا یے؟؟

بلاج نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا!!

کچھ نہیں بھائ میں نے سوچا ہے نکاح کے بعد میں یہاں سے چلا جاؤنگا ۔۔۔

مجھ میں اتنی ہمت نہیں اسے کسی اور کیساتھ دیکھو نہ ہ۔اتنی ہمت ہے کے اسکی جگہ کسی اور کو دو۔۔

بلاج بھائ کیوں ماں باپ نہیں سمجھتے کے اولاد کو زندگی گزارنی ہوتی ہے ان کو نہیں ۔

ہمیں کیوں نہیں حق دیتے اپنی مرضی کے ساتھی کے انتخاب کا۔۔

کبھی کوئ قسم دیے دیتے ہیں !!کبھی کوئ مجبوری ہمارے سامنے لاکر رکھ دیتے ہیں کیوں ہمیں حق نہیں دیتے فیصلہ کرنے کا۔۔

مجبوری میں جوڑے رشتے بے دلی کے رشتے صرف نبھائے جاتے ہیں محسوس نہیں کرے جاتے!!!!

بازل اپنی بات کہہ کے جاچکا تھا مگر بلاج چاہ کر بھی اسے کچھ کہہ نہیں پایا  تھا !!!!!

#######

رات کے تقریبا دو بجے پانی پہنے سے غرض سے ہیر اٹھی کے کچن میں گئ تو وہاج صاحب کو کچن میں چائے بناتے دیکھا۔۔

میں بنا دیتی ہو چائے؟؟؟

ہیر نے بہت جھجھک کیساتھ یہ بات کہی۔۔۔

ہیر کے کہنے پہ بلاج صاحب نے کہا۔۔

نہیں نہیں بنالونگا!!!

بس یہ بتا دو خوشبو چینی کم پیتی ہے یہ زیادہ؟؟

انی اس وقت چائے نہیں پیتی!!ہیر کو کافی حیرانگی ہوئی۔۔

وہ اصل میں اسکی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے پوری پوری رات جاگ جاگ کے اسکے سر میں درد رہنے لگا ہے ابھی بھی جاگ رہی ہے اور روئے جارہی ہے ۔۔

وہاج صاحب کے بولتے ہی ہیر رونے لگی ۔وہاج صاحب جانتے تھے کے وہ بھی خوشبو کے بغیر نہیں رہ سکتی بس غصہ میں اس سے دوری بنائے ہوئے ہے اسکا غصہ اپنی جگہ صحیح تھا اسکے ساتھ غلط ہوا تھا ۔۔۔

ہیر زیادہ کچھ نہیں کہونگا شاید ذیادہ کہنے کا حق میرے پاس نہیں مگر اتنا ضرور کہونگا اس نے پہلے ہی بہت کچھ برداشت کرا ہے تم سے اگر اپنا اور تمہارا رشتہ چھپایا تو صرف اس ڈر سے کے کہی تم اسے چھوڑ کے میرے پاس نہ آجاؤ۔۔

ورنہ کسی ماں کیلئے کسی عزیت سے کم نہیں ہوتا وہ لمحہ جب وہ اپنی اولاد سے اسکا اور اپنا رشتہ چھپائے اور اگر کوئ عورت ایسا کرتی ہے تو وہ مجبوری کی انتہا پہ ہوتی یے ۔

وہاج صاحب کی باتوں سے ہیر اور ذیادہ رونے لگی جب وہاج صاحب نے اگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو گلے سے لگالیا ۔

وہ جو باپ کی اغوش سے محروم تھی انکے گلے لگتے ہی بلک بلک کے ونے لگی بلاج صاحب کی انکھوں سے بھی آنسو گر رہے تھے۔

ائ ایم سو سوری بیٹا مجھے معاف کردو اگر اس وقت میں  مجبور نہ ہوتا تو اج معملات کچھ اور ہوتے ۔۔۔۔

ہیر ان سے الگ ہوئ اور کہا۔

میرے ساتھ بہت غلط ہوا تھا مگر اللّٰہ نے مجھے اسکے بدلے م سارے رشتے بھی تو لوٹا دیے اب میں ناشکری کرونگی تو اللّٰہ ناراض ہوگا۔۔

مجھے اب کسی سے کوئ شکایت نہیں ہے پاپا۔۔۔

ہیر کے پاپا کہنے پہ وہاج صاحب نے اگے بڑھ کے بہتی انکھوں کیساتھ ہیر کی پیشانی کو چوم لیا۔۔

ائے اب اپکی بیوی کا بھی سر درد کم کرے۔۔

ہاں چلو چائے نکال لو میں۔۔

نہیں پاپا چائے نہیں انہیں ہیر کی ضرورت ہے ۔۔

وہاج صاحب اور ہیر کمرے میں پہنچے تو خوشبو انکھوں پہ ہاتھ رکھے لیتی تھی۔۔۔

ہیر اگے بڑھ کر بیڈ پہ بیٹھی ۔

کسی کی موجودگی محسوس کرکے خوشبو بیگم نے انکھوں پہ سے ہاتھ ہٹایا تو ہیر کو اپنے اتنے پاس دیکھ کے ایک بار پھر رونے لگی۔۔

ہیر نے انکا ہاتھ سیدھا کیا اور ان سے چپک کے لیٹ کے انکھیں بند کرلی۔ہیر کے اس عمل سے خوشبو بیگم اور ںے اواز رونے لگی۔۔۔

یہ ہیر کا پچپن کا طریقہ تھا جب بھی وہ خوشبو سے ناراض ہوتی تھی تو مان بھی خودی جاتی تھی یہ عمل کرکے۔۔

خوشبو بیگم۔نے بھی ہیر کو اپنے سینے میں بھینچ لیا اور اس سے معافی مانگنے لگی۔۔۔

ماما بس اب نہیں روئے یار کتنا روئے گی۔۔۔

صائم کی اواز اتے ہی وہاج صاحب نے چونک کے اپنے پیچھے دیکھا تو ہیر اور خوشبو کی نگاہ بھی گیٹ پہ گئ۔۔

صائم کو دیکھتے ہی ہیر اور خوشبو بیڈ پہ اٹھ کے بیٹھ گئ ۔۔

خوشبو بیگم نے ہاتھ کے اشارے سے صائم کو اپنے پاس بلایا تو وہ بھی تیزی سے ان تک ایا۔۔

خوشبو بیگم نے اسے بھی فورا اپنے گلے لگالیا۔۔

خوشبو بیگم کے ایک طرف ہیر تھی تو ایک طرف صائم جب انکی نظر وہاج صاحب کی طرف گئ۔

وہاج صاحب انکو دیکھ کے اج دل کھول کے مسکرائے تو خوشبو بیگم بھی مسکرا پڑی۔۔

خوشبو بیگم کو مسکراتا ہوا دیکھ کے وہاج صاحب نے دل سے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔۔

"بیشک میرے رب کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں"

########

ہائے اپی میں اپکو بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہو !!

میرے چنو منوں انے والے ہیں!!

صنم نے کوئ تیسری بار یہ بات کہی تھی ۔۔

صنم کی خوشی دیکھ کے شاہجاں اور انکی ساس دونوں مسکرائے جارہی تھی۔۔

بس شاہجاں اب صنم کے بارے میں بھی کچھ سوچو اسے بھی اہنے گھر کا کرو۔۔

ہاں خالہ بس اب یہ ہی کرنا ہے۔۔

کہاں ہو میڈم میکے اتے ہی شوہر نامدار کو بھول گئ۔۔۔

رات کو عترت لیتی تو وہاج کی کال انے لگی۔۔

اپ بھولنے والی چیز ہیں ؟

بلاج وہ سب کیساتھ نیچے بیٹھی تھی تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا موبائل بھی میرا کمرے میں تھا۔۔

اچھا جی ۔

اپ کب ائینگے ؟؟

ابھی تو بازل کیساتھ ہی ہو رو روکے اسکا برا حال ہے۔۔

مطلب ؟؟

عترت نے ناسمجھی سے کہا!!

کچھ نہیں تم سوجاؤ کل میں اتا ہو صبح پھر بتاتا ہو۔۔

اوکے ۔۔۔

اچھا سنو؟؟عترت جیسے ہی فون رکھنے لگی بلاج نے کہا۔

جی!!

ائ۔لو یو۔۔

وہاج کے کہنے پہ عترت شرمائ اور ریٹرن کہا۔

ائ لو یو 2

######

ارے یار پاپا یہ لیڈیز تیار ہونے میں کتنا وقت لگاتی ہیں۔۔

صائم نے ٹائم دیکھتے ہوئے چڑ کے کہا۔۔

بس بیٹا کیا کرے۔۔۔

اظہر صاحب اور نمرہ تیار ہوکے ائے اور انکے پیچھے خوشبو بھی ائ جو بلیک سمپل ساڑھی میں کہی سے بھی جوان لڑکی کی ماں نہیں لگ رہی تھی۔۔

وہاج سب کو لگا وقت سالوں سال پیچھے چلا گیا۔۔

ان کی انکھوں میں اپنے لیے ستائش دیکھ کے خوشبو نے شرما کے گردن جھکا لی جب صائم نے کہا۔۔

اگر اپ دونوں کا ایک دوسرے سے اشارے والی محبت کا اظہار ہوگیا ہو تو اپ لوگ جانا پسند کرینگے ہمیں کافی لیٹ ہوگیا ہے۔۔

صائم کے کہنے پہ وہاج نے اسے گھور دیکھا اور کہا۔۔

انے دے بیٹا تیرا بھی وقت پھر پوچھو نگا ۔۔

وہاج صاحب کی بات سن کے وہاں سب ہی ہنسنے لگے۔۔

سب ہی اگے پیچھے نکلے جب صائم اور ہیر بھی نکلنے لگے زویان نے آواز دے کے کہا۔۔

بہن بھائ کے رشتے کے علاوہ اور بھی کچھ رشتے ہیں صائم بھائ ۔

زویان کے کہنے پہ وہ دونوں پلٹے مگر زویان کی نظر بلڈ ریڈ ڈریاس  میں ملبوس ہیر پہ پڑی تو وہ ششدد رہ گیا۔۔

 صائم اسکی دل کی کیفیت اچھے سے جانتا تھا وہ چاہتا تھا کے ہیر اسے ایک موقع دے مگر اس معملے وہ صرف سوچ سکتا تھا کچھ بول نہیں سکتا تھا وہ ہر حال میں وہی کریگا جو ہیر کہے گی۔۔

اجاو منع نہیں کرا تمہیں۔۔۔۔

بھائ یہ جائے گا تو میں نہیں جاؤ نگی گاڑی میں۔۔

زویان نے ایک نظر اپنی پٹاخہ کو دیکھا جو سج دھج کے پوری بوم لگ رہی تھی۔۔

ہیر کے اسطرح کے کہنے پہ زویان مسکرایا اور کہا۔۔

اپ میری اس پھولجڑی کو لے جائے میں اجاونگا بائیک پہ۔۔

زویان کے جملے پہ ہیر صائم کے سامنے سوائے مٹھیںاں بھیجچنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکی۔۔

زویان خاموشی سے بائیک پہ چلا گیا۔۔

انے دیتی اسے بھی میں ساتھ تھا تو تمہارے کچھ کہتا نہیں تمہیں وہ۔۔

صائم کو افسوس ہوا زویان کے اسطرح ساتھ نہ چلنے پہ اور کیوں نہیں ہوتا بچپن کا دوست جو تھا۔۔۔

اپکو بڑی ہمدردی ہورہی ہے اس گھٹیا انسان سے۔۔

ہیر میں خالی بول رہا ہو یار۔۔

نام بھی مت لے میرے سامنے اسکا بہت جلد میں پاپا کو بتادونگی سب کچھ وہی دلوائینگے اس سے طلاق۔۔

طلاق لینے کے بعد بھول جاؤ گی زویان کو اسان ہے تمہارے لیے۔۔

صائم کی بات پہ ہیر نے اپنی انکھیں کرب سے بند کی اور کہا۔

عورت سب کچھ برداشت کرسکتی بس تین چیزیں نہیں بھائ۔۔

ایک اسکی محبت میں شراکت،،،

دوسرا دھوکہ !!

تیسری اپنی ذات کی دھتکار۔۔

ہیر کی باتیں سن کے صائم کے سامنے چھن کرکے صنم کو چہرہ ایا۔۔

بازل اج خاموش تھا بلکل خاموش۔۔

صبح اسنے شدت سے چاہا کے وہ ایک بار ہنزہ کو اپنے گلے سے لگائے اخری بار مگر وہ اج صبح سے گھر سے غائب تھی ۔

خوشبو بیگم خاموشی سے شاہجاں کے گلے لگ گئ۔۔

ندا شاہجاں اج بہت خوش تھی اپنی دوست کیلئے!!

ابے یار کہاں ہو بی ایم خود تو لیٹ ہوئے ہو میری دوست کو بھی لیٹ کروادیا جلدی او۔

صنم ہال کے اندر اتے ہوئے بہزاد سے بات کررہی تھی جب اس نے اپنے سامنے سے اتے صائم کو نہیں دیکھا نہ صائم نے اسکو جو اپنا موبائل چیک کرتا ہوا ارہا تھا۔

دونوں کی ایک دم ٹکر ہوئ اس سے پہلے صنم گرتی اسنے بنا دیکھے  ٹکرانے والا کون ہے اسکے کرتے کے کالر کو تھاما۔۔

افف شکر بچ گئ۔۔

یہ بول کے صنم نے جسے نظر اپنے سامنے کھڑے شخص پہ ڈالی جسکا ہاتھ صنم کی کمر پہ تھا۔۔

صنم کا دل زور زور سے ڈھرکنے لگا۔۔بہت کچھ اسکے سامنے ایک بار پھر چلنے لگا۔۔

جبکہ صائم فرصت سے صنم کو دیکھنے میں مگن تھا۔۔کتنے دنوں بعد وہ اسکے اتنے قریب ائ تھی کتنے دونوں بعد صائم۔نے اسکا چہرہ اتنے قریب سے دیکھا تھا۔۔

سیم ہیر جیسا ڈریس پہنے ہوئ تھی وہ اس پہ اسکی تیاری صائم وہاج کو ساکن کرنے کیلئے کافی تھی۔۔

صنم نے تیزی سے اسکا ہاتھ اپنی کمر پہ سے ہٹایا اور تیزی سے اندر بڑھ گئ۔۔

بازل خاموشی سے  اسٹیج پہ پھولوں کے پردے کے اس پار بیٹھا تھا اور اس پار اسکی ہونے والی دلہن کیساتھ ہیر شانزے عترت اور صنم۔۔۔

قاری صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔

بازل بابر کیا اپکو ہنزہ فہیم سے دس لاکھ روپے مہر سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے۔۔؟؟

بازل اتنا سن بیٹھا تھا کے اسنے مولوی صاحب کے بولنے کے  باوجود دلہن کا نام صحیح سے نہیں سنا  نہ جواب دیا۔۔

ایک بار پھر قاضی صاحب نے اپنا جملہ دہرایا اب بھی بازل سن بیٹھا  رہا۔۔

جب وہاج نے زور سے کہا۔۔

لگتا ہے بازل  کو ہنزہ فہیم سے نکاح قبول نہیں ۔۔۔

ہنزہ نام سنتے ہی بازل جو سن تھا ایک دم چونکا۔۔

پہلے انکھیں پھاڑ پھاڑ کے وہاج کو دیکھا اور پھر اپنے سامنے پھولوں کے پردے کے پیچھے بیٹھی دلہن کو ۔جو گھونگھٹ میں ہونے کی وجہ سے اسے نظر نہیں ائ

بازل نے اپنے برابر میں بیٹھے قاری صاحب ںسے ہلکلاتے ہوئے کہا۔۔

دولہن کا کیا نام لیا اپنے ؟؟

قاضی صاحب کیساتھ ساتھ وہاں کھڑے ہر شخص کا قہقہ نکلا۔۔

ارے قاضی صاحب ایک بار پھر ہماری ہونے والی بھابھی کا نام پکارے۔۔

صائم کے کہنے پہ صنم نے اسے نگاہ اٹھا کے دیکھا پھر فورا نگاہ جھکا گئ۔۔

قاضی صاحب نے ایک بار پھر اپنا جملہ دہرایا سارا کی جگہ ہنزہ نام سن کے بازل نے پہلے حیران ہوکے وہاج کو دیکھا جس نے مسکراتے ہوئے انکھ ماری اور پھر اپنے بابا بابر صاحب کو ۔۔

جنہوں نے مسکرا کے ہاں میں گردن ہلائ۔۔

بازل کی انکھیں ایک دم برس پڑی ۔

وہ رو بھی رہا تھا اور مسکرا بھی رہا تھا۔۔

ہنزہ اس پار سے بہت غور سے بازل کو دیکھ رہی تھی ۔۔

ارے بھئ ہاں کہہ بھی دو بازل یار!!

صنم نے پردے کے اس پار سے اواز لگائ

قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔

دل وجان سے قبول ہے ہنزہ فہیم۔۔۔۔

بازل کے بولتے ہی سب کا یاہووووو کا نعرہ لگا اب باری تھی ہنزہ کی سب کی نظریں ہنزہ پہ تھی۔۔۔

ہنزہ نے ایک نظر سامنے دیکھا تو بازل اسے ہی دیکھ کے مسکرا رہا تھا ۔

ہنزہ  نے پھر اپنی دائیں جانب دیکھا تو اسکے ماں باپ بہت ہی خوش کھڑے تھے اور منتظر تھے کے کب انکی بیٹی انکی خواہش کا احترام کرے۔۔

کبھی یہ خواہش ہنزہ کی بھی تھی کے بازل کے نام کی دلہن بنے مگر حالات ایسے ہوئے کے اسکی یہ خواہش اسکے دل میں دفن ہوگئ۔۔

ایک دن پہلے اپنے تایا کے معافی مانگنے پہ اپنے ماں باپ کے اصرار پہ انکے خاندان کی عزت بچانے کیلیئے وہ اس نکاح کیلیے راضی تو ہوگئ تھی مگر بازل کو پانے کی اب اسکی چاہ نہیں رہی تھی ۔۔

ہر لڑکی کو اپنی عزت محبت سے بڑھ کے عزیز ہوتی ہے اور یہ ہی عزت اپنی محبت پانے کے چکر میں بازل داؤ پہ لگا چکا تھا۔

ہنزہ نے انکھیں بند کی اور کہا۔۔

قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔۔

ایک دم تالیوں کا شور بج اٹھا۔۔

ارے بھائ اب یہ نازک سا پردہ تو انکے درمیان سے ہٹاؤ !!!

ہمارا دولہا مچلا پڑا ہے اپنی دولہن کے دیدار کو۔۔۔

وہاج کے بولنے پہ بازل کی طرف سے صائم اور ہنزہ کی طرف سے صنم جلدی جلدی پھولوں کا پردو سائیڈ میں کرنے لگے

جب اچانک صائم کے ہاتھ کے نیچے صنم کا ہاتھ اگیا۔۔

صائم کو لگا سب کچھ جیسے تھم سا گیا۔

صنم نے بنا نگاہ صائم پہ ڈالے اپنا ہاتھ تیزی سے صائم کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا۔۔

 پھولوں کی دیوار ہٹ چکی تھی بازل کو بہت جلدی تھی ہنزہ کو دیکھنے کی۔۔

وائٹ کلر کا غرارہ پہنے جس پہ گولڈن کام تھا ہیوی گولڈن کلر کی جیولری پہنے سر پہ ریڈ کا ڈوپٹہ ڈالے وہ گردن جھکا کے بیٹھی تھی۔۔

بازل کے قدم جیسے جیسے اسکی طرف بڑھ رہے تھے اتنا ہی ہنزہ کا دل عجیب ہورہا تھا۔۔

بازل نے اگے بڑھ کے ہنزہ کا گھونگھٹ اوپر کیا۔

ہنزہ کو دیکھتے ہی بازل کے لب کھل کے مسکرائے تھے اس کے لبوں سے فورا نکلا۔۔

"ماشاءاللہ"

اسنے فورا جھک کے ہنزہ کی پیشانی پہ اپنے لب رکھے ۔

بازل کی انکھیں ایک بار پھر اپنے رب کی مہربانی پہ بھیگنے لگی۔۔۔

بازل نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اسے اپنے سینے سے لگالیا۔۔

ایک دم جیسے ایک سکون سا اسکے سینے میں اتر گیا ۔اسے پراوہ نہیں تھی کے اکفی لوگ تھے وہاں اسے تو بس اپنا سکون پانا تھا ۔

سب نے ہی ان دونوں کو اسطرح دیکھ کے پرجوش انداز میں تالیاں بجائ تھی۔۔

ہیر بہت غور سے یہ منظر دیکھ رہی اسکی انکھوں میں ایک عجیب سی  اداسی  تھی۔۔

اسے اپنا نکاح یاد ایا تو بے دردی دو آنسو اسکے گالوں پہ پھسل گئے جنہیں بہت مہارت سے ہیر نے پونچھ ڈالا۔۔

مگر زویان جسکی نظر ہیر پہ ہی تھی اس سے یہ منظر چھپ نہ سکا اور وہ جانتا تھا ہیر کے آنسوؤں کی وجہ ایک بار اسکا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا۔۔

دولہا دولہن اسٹیج پہ ایک ساتھ بیٹھ چکے تھے۔۔

بازل بار بار گردن گھما کے ہنزہ کو دیکھ رہا تھا مگر ہنزہ نے ایک نگاہ بھی اس پہ نہیں ڈالی ۔

ہارون اور ہنزہ کے دوست اسے مبارک باد دینے اسٹیج پہ ائے جب بازل کے گلے لگتے ہارون نے کہا ۔

ائ ہوپ اب اپ مجھ سے بدگمان نہیں ہونگے  ہنزہ میری بہن ہے۔۔۔

کل رات کی ہنزہ اور بازل ساری باتیں ہارون سن چکا تھا بظاہر ہنزہ سمجھ رہی تھی کے ہارون کی کال کٹ ہوگئ مگر ہارون کال پہ ہی تھا۔۔

ہارون یہ کہہ کے بازل سے الگ ہو اتو بازل نے اسکی بات پہ اس سے معذرت کری اور اسکا شکریہ ادا کیا۔۔

ہیر صنم اور شانزے کیساتھ باتوں میں مصروف تھی جب ایک اواز پہ تینوں پلٹی۔۔

ارے ہیر اپ؟

جعفر بھائ اپ؟؟

ہیر انہیں دیکھ کے بہت خوش ہوئ وہ تقریبا 23 24 سال کا خوبرو لڑکا تھا۔۔

مجھے تو لگا تھا اب دوبارہ اتنی ہونہار انٹیریر ڈیزائنر سے ملاقات نہیں ہوگی !!

انکی تعریف پہ ہیر مسکرا کے شرمانے لگی ۔۔

ہیر نے صنم اور شانزے کا تعارف ان سے کروایا۔۔صائم نے جب ہیر کو کسی لڑکے کیساتھ باتیں کرتے دیکھا تو فورا وہاں پہنچا اور جعفر کو دیکھ کے کہا۔۔

 تو جانتا ہے ہیر کو؟؟

ہاں مگر تو کیسے جانتا ہے؟

میری بہن ہے !!!

کیا سچ میں؟

جعفر ایک دم ہنس پڑا اور کہا۔۔

ارے صائم تو جو بول رہا تھا نہ میرے افس کا انٹیریر کس نے ڈیزائن کیا؟؟

یہ ہی مس ہیر !!

صائم خوش ہونے کیساتھ ساتھ شاکڈ بھی ہوا سے نہیں پتہ تھا کے ہیر انٹیریر ڈیزائنر ہے

جعفر صائم اور بازل کے یونی کا دوست تھا اور صائم بزنس کے حوالے سے بھی اسے جانتا تھا۔۔صائم باتیں تو جعفر سے کررہا تھا مگر 

صائم کی نظریں بار بار بھٹک  کے گردن جھکائ صنم پہ تھی۔۔۔

صنم جو صائم کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پہ محسوس کرچکی تھی وہاں سے چلی گئ اور اسکے پیچھے شانزے بھی۔۔

صائم بہزاد کے بلانے پی اسکے پاس چلا گیا۔۔

اب ہیر اور جعفر اپس میں بات کررہے تھے اور ہیر مسلسل مسکرا رہی تھی۔۔

ادھر زویان جسکا بس نہیں چل رہا تھا کے جعفر کا سر پھاڑ دے۔۔

ہیر جعفر سے ایکسکیوز  کرکے واش روم گئ تو اسکے پیچھے زویان بھی سب سے بچتا بچاتا ہیر کے پیچھے گیا۔۔

کھانا کھایا تم نے؟؟

اظہر صاحب کی اواز پہ پانی پیتی شاجہاں نے انہیں دیکھا اور ہاں میں گردن ہلائ مگر بولی کچھ نہیں۔۔

جبکے اظہر صاحب کا اج شدت سے دل کیا تھا رائل بلو کلر کے سوٹ میں شاہجاں کو گلے لگانے کا!!

عترت اور وہاج عترت کی طبیعت کی وجہ سے جلدی چلے گئے تھے ۔۔زویان نے بہت کہا وہاج کو گھر چلنے کا مگر وہ عترت کو لے کر اپنے سسرال اگیا۔۔

ہیر واش  روم  سے فریش ہوکے نکلی۔۔

ہاتھ دھو رہی تھی جب پیچھے سے زویان کی آواز ائ۔۔

کون تھا وہ؟؟

زویان کی آواز سن کے ہیر نے اسے اگنور کیا اور ہاتھ دھوکے وہ اسے اگنور کرکے جانے لگی۔۔

جب زویان نے اسکے کھینچ کے اپنے سامنے کیا۔۔

میں کچھ بکواس کررہا ہو تم سے!!!

ہیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا۔۔

مجھے بکواس سننے کی عادت نہیں راستہ چھوڑو میرا۔۔

ہیر میں تم سے آخری بار پوچھ رہا ہو وہ لڑکا کون تھا۔۔؟؟

ہیر نے جھٹکے سے اپنے اپکو اس سے چھڑ وایا اور کہا۔۔

اپنا کام کرو ؟؟

میری مرضی میں کسی سے بھی بات کرو کچھ بھی کرو تمہیں حق نہیں مجھ پہ حق جتانے کا ۔۔۔

ہیر ایک بار پھر اسے اگنور کرکے جانے کیلیے  اگے بڑھی۔۔

جب زویان نے اسے دوبارہ اپنے طرف کھینچا مگر اس بار اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔

ایسا کرنے سے ہیر کے اوسان خطا ہونے لگے وہ اپنے اپکو زویان سے چھڑوانے لگی جب اسکی کلائ میں موجود چوڑیاں شور کرنے لگی۔

زویان نے اسے اور خود کے قریب کیا اور کہا۔۔

مجھے تمہارے یہ لپسٹک سے لبریز ہونٹ بہت پسند ہے۔۔۔۔

اتنا کہہ کے زویان اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔

ہیر نے اسے دھکا دے کے جھٹکے سے اپنے اپ سے الگ گیا۔۔

تم کل بھی بے غیرت تھے اج بھی بے غیرت ہو گھٹیا انسان ہمت کیسے ہوئ مجھے دوبارہ۔۔۔

زویان جسکا نشہ ہیر کے لبوں کو چومنے کے بعد ابھی بھی اترا نہیں تھا جو ہیر کی بکواس کو اگنور کرکے بھر پور انداز میں ہیر کی گردن پہ فوکس کیے ہوئے تھا۔۔

دوبارہ تیزی سے ہیر کی طرف بڑھا اور ہیر کو واش بیسن کی سلپ سے لگا کے اسکی گردن پہ جھک کے اسے چومنے لگا۔۔

ہیر کے اوسان خطا ہوگئے مگر اسنے پھر بھی ہمت نہی ہاری اور بھر پور طریقے سے زویان کے کندھے پہ کاٹ لیا۔۔

اسکے کاٹنے میں اتنی شدت تھی کے زویان کی چیخ نکل گئ وہ تکلیف سے کراہنے لگا اور وہی اپنا کندھا پکڑ کے نیچے بیٹھ گیا۔

ہیر اسے ایسی تکلیف میں چھوڑ کے وہاں سے نکل گئ۔۔

تقریب ختم ہوچکی تھی سب ہی اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے تھے مگر اظہر صاحب اج شاجہاں بیگم کیساتھ گھر گئے تھے۔۔

صنم کو اچھا خاصا غصہ چڑھا تھا مگر وہ دادی کی وجہ سے خاموش تھی۔۔

گھر پہنچ کے اظہر صاحب تھوڑی دیر اپنی ماں کے پاس بیٹھ کے شاہجاں کے کمرے میں گئے تو وہ چینج کرکے ڈریسنگ روم سے باہر نکل رہی تھی۔۔

اتنی جلدی چینج کرلیا تم نے؟؟

اظہر صاحب کے جملے پہ شاہجاں بیگم ایک دم سٹپٹائ ۔۔۔

ہاں وہ مجھے عادت نہیں ہیوی ڈریس کی۔۔

اظہر صاحب اپنا کرتا اتار کے وہی بیڈ پہ بیٹھ گئے اور غور غور سے شاہجاں کو دیکھنے لگے جو ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ کے اپنے ہاتھ پاؤں پہ لوشن لگا رہی تھی۔۔

اظہر صاحب کی نگاہوں سے وہ کافی کنفیوز تھی کئ سالوں پہلے وہ ان نگاہوں کی عادت ختم کرچکی تھی۔۔

بیڈ پہ اکے انہوں نے ایک نظر مسکراکے اظہر صاحب کو دیکھا اور پوچھا۔۔

کچھ کہنا ہے اپکو؟

نہیں کیوں؟؟؟

وہ اپ مسلسل دیکھ رہے تھے اس وجہ سے مجھے لگا شاید کوئ بات کرنی ہو اپکو۔۔

نہیں بات تو کرنی ہے تم سے کرونگا مگر اس سے پہلے ایک کام  کرنا ہے۔

کونسا کام ؟شاہجاں کے پوچھنے پہ اظہر صاحب انکے قریب ائے بے حد قریب اور انکے سینے سے لگ کے لیٹ گئے۔۔

اظہر صاحب کی اس حرکت پہ شاجہاں بیگم بوکھلائ اور کہا۔۔

اظہر صاحب یہ اپ!!!!

پلیز شاہجاں اج مت روکو باخدا صرف سوونگا اپنا کوئ حق نہیں مانگو گا پلیز ۔۔۔

اظہر صاحب کے لہجے میں ایسی التجا تھی کے شاہجاں بیگم منع نہیں کرپائ۔۔

#####

ماما پاپا کہاں ہے؟؟

زویان جسکی شرٹ پہ کندھے کی طرف ہلکا سا بلڈ لگا نظر ارہا تھا جسکو چھپانے وہ کامیاب ہوچکا تھا نمرہ بیگم کے کمرے میں وہ پائیودین  لینے ایا جب اس نے اظہر صاحب کو نہ پاکر انکا۔پوچھا۔۔

زویان وہ کسی کام سے اپنے دوست کی طرف گئے ہیں کیا پتہ صبح ائے۔۔نمرہ نے بہت مہارت سے جھوٹ بولا۔۔

تم یہ بتاو یہ پائیودین کیوں چاہیے ؟؟

وہ ماما بائیک سے ہلکا سا کٹ لگ گیا تھا ران پہ تو بس اسے پہ لگانا تھا۔۔

ذیادہ تو نہیں لگی زویان۔۔؟؟

نہیں ماما میں ٹھیک ہو اپ ارام کرے۔۔

زویان پائیودین لے کر نکلا مگر اب اسکے قدم ہیر کے کمرے کی طرف تھے۔۔

ہاں کل ملتے ہیں مجھے ایک کام بھی ہے اپنی یونی سے !!

ہیر صنم سے باتوں میں مصروف تھی جب ایک دم دروازہ کھول کے زویان اندر ایا۔

زویان کو اندر اتا دیکھ ہیر کی رگیں تن گئ ۔۔

صنم میں تم سے بعد میں بات کرتی ہو۔۔۔

یہ بول کے ہیر نے اپنا موبائل بیڈ پہ پھینکا یہ دیکھے بنا کے کال کٹ ہوئ یہ نہیں۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئ یہاں انے کی نکلو فورا !!

زویان نے اسے دیکھ کے کمرے کا دروازہ لاکک کیا اور کہا۔

میری ہمت کی بات نہیں کرا کرو شوہر ہو تمہارا بہت ہمت ہے مجھ میں۔۔۔

ہاں صحیح کہاں  تم نے ایک حوس پرست شوہر جس نے خالی ایک لڑکی کو اپنے بستر کی زینت بناے کیلے نکاح جیسے پاک۔رشتے کا مزاق بنایا۔۔۔

ہیر میں کہہ چکا ہو مجھ سے غلطی ہوگئ۔۔

زویان نے بے بسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔

واہ واہ مسٹر زویان داد دینی پڑے گی کیا کھا کے تمہاری ماں نے تمہیں پیدا کرا ہے۔۔۔ہیر نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔۔

ہیر ؛!!ماما کو درمیان میں مت لاو۔۔

زویان ایک دم ہائپر ہوا۔۔۔

تم کمرے سے جارہے ہو یہ میں شور مچاؤ!!

اچھا چلو مچاؤ شور اج یہ قصہ  سب کے سامنے منظر عام پہ اجائے کے مجھ سے تمہارا رشتہ کیا ہے۔۔

زویان کے مسکرا کے یہ بات کہنے پہ ہیر کو اگ لگ گئ۔۔

اس نے زویان کو دھکا دیا دھکا اتنا شدید تھا کے زویان اگر ڈریسنگ کا سہارا نہیں لیتا تو یقینا شیشہ میں اسکا سر 

لگتا۔۔

میرے کوئ نہیں لگتے تم سنا تم نے مجھے نفرت ہے تم سے تمہاری سوچ سے ذیادہ اپنی اوقات سے زیادہ!!

تم نے مجھ سے نکاح نہیں زنا کرا تھا میری ایک کہی ہوئ بات پہ تم نے مجھے میری پی نظروں میں گرا دیا نکاح جیسے پاک۔رشتے کو ایک گالی بنا دیا۔۔

ہیر کافی غصہ میں یہ بات کہہ رہی تھی رونا نہیں چاہتی تھی پھر بھی رو رہی تھی۔۔

زویان جیسے تیسے اٹھا اسکے کندھے میں کافی تکلیف ہورہی تھی

۔وہ اٹھ کے ہیر کے پاس ایا اور اسکا کندھا تھام کے کہا۔۔

مجھے معاف کردو ہیر میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہو بھول جاؤ سب تمہیں اللّٰہ کا واسطہ تم کہو تو میں تمہارے پاؤں تک پکڑتا ہو ۔۔

یہ بول کے زویان نے واقعی ہیر کے پاؤں کو ہاتھ لگایا۔۔

ہیر ایک دم پیچھے ہوئ اور کہا۔۔

ٹھیک ہے میں معاف کردونگی تمہں۔۔

ہیر کے بولنے پہ زویان کے چہرے پہ ایک دم سکون ایا۔۔

مگر پہلے مجھے میری عزت لوٹاو۔۔۔

میری خواب جو تمہاری وجہ سے توٹا وہ لوٹاو۔۔

تمہاری وجہ سے جو ترپی روئ اسکا ازالہ کرو۔۔

ہیر کی باتوں پہ زویان سن ہوگیا۔۔

اب کیا ہوا بولتی بند ہوگئ۔۔ہیر نے طنزیہ انداز میں اسکا کالر تھاما اور کہا۔۔

ایک لڑکی کو محبت میں پھانسا کے نکاح کے نام پہ اسکا۔سب کچھ لوٹ کے اپنی گرل فرینڈ سے اسکے منہ پہ ٹھپڑ مار کے خود اسے بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکال کے اسے بے دردی سے مار کے ااپنے دوستوں کے سامنے اسکے ساتھ گزارے پیار کے لمحات کا مذاق اڑا کے معافی نہیں ملتی زویان اظہر۔۔۔۔۔

میرا بس چلے تو میں تم سے تمہاری سانسیں چھین لو۔۔

یہ بول کے ہیر نے اسکا کالر چھوڑا۔۔۔

ماشا کے مارے تھپڑ ایک وقت میں شاید میں بھول جاو مگر تمہارے مارے ہوئے تھپڑ میری روح پہ لگے ہیں۔۔

جب ایک عورت نکاح نامے پہ سائن کرتی ہے تو اپنا سب کچھ اپنے شوہر کو دے دیتی ہے جس جسم اور عزت کی حفاظت وہ پچپن سے کرتی اتی نکاح کے دو بولو پہ وہ اپنا سب کچھ ایک غیر کے نام کردیتی ہے اور پتہ ہے ایسا کیوں کرتی ہے ۔۔

کیونکہ  نکاح میں گواہ کوئ اور نہیں اللّٰہ ہوتا ہے۔۔

تم سے معافی مانگی تھی زویان میں نے اپنے کہے الفاظوں کی  تم سے سچی محبت کی تھی میں نے۔۔

جب تم نے میری معافی مانگنے کے باوجود میرے وجود میری ذات میری عزت کی ڈھجیاں اڑا دی تو تمہیں کیسے معافی ملے گی۔۔۔

نکلو یہاں سے زویان۔۔

ا

رہا سوال اس نکاح کا تو میں خود پاپا کو بتاؤنگی تم سے اپنا ہر رشتہ میں تمہیں توڑ کے دیکھاونگی۔۔

تمہاری ماشا کی اصلیت جب تمہارے سامنے ائ جب تمہیں احساس ہوا کے تمہیں مجھ سے محبت ہوگئ۔۔

بھاڑ میں گئے تم اللّٰہ کرے تم مرجاؤ زویان اظہر۔۔

زویان جو اتنی دیر سے خاموشی سے ہیر کی ساری باتیں سن رہا تھا اسکے اخری جملے میں اسکی انکھوں سے انسو نکلے اور اسنے بے یقینی سی۔کیفیت میں ہیر کو دیکھا۔۔

ہیر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر دھکا دیا اور زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا۔۔

ہیر بے اواز وہی دروازے سے لگ کے رونے لگی اور وہاں فون پہ موجود صنم لگا اب اگر اسنے فون بند نہیں کیا تو اسکا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔

زویان کسطرح اپنے کمرے میں ایا اسے نہیں پتہ وہ وہی دروازے لگ کے بے تحاشہ رونے لگا اور اللّٰہ سے ایک موقع کی بھیک مانگنے لگا۔۔

######

بازل اج بہت خوش تھا اسنے وہاج سے بھی کال۔کرکے ڈھیروں باتیں مگر جس سے اسے باتیں کرنی تھی وہ تو جیسے سات پردو میں چھپ گئ تھی۔۔

بازل نے سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کیے اور ہنزہ کے کمرے کی طرف بڑھا اج اسکے کمرے میں داخل ہونے کیلئے اسے چور راستہ کی ضرورت نہیں تھی۔۔

اج وہ اسکی تھی اسکی محرم تھی  اسنے ہنزہ کے کمرے کا دروازہ کا لاک گھومایا تو وہ کھل گیا مگر کمرے میں اندھیرا تھا۔۔

کمرے کی دیم لائٹ اون کرکے اسنے دروازے کو بند کیا ا ور بنا اواذ کیے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا۔۔

اسے تھوڑا افسوس ہوا کے ہنزہ نے اسکا انتظار نہیں کیا اور چینج کرکے سو گئ۔۔

اسے تمنا تھی اسکے دلہن بنے سراپے کو جی بھر کے دیکھنے اسکی تعریف کرنے کی اسے  اپنے سینے سے لگانے کی مگر یہاں تو سب کچھ الٹا تھا۔۔۔

بازل ہنزہ کے قریب ایا تو وہ سو رہی تھی۔۔

بازل اسے بہت پیار دیکھنے لگا۔۔

جھک کے اسکے ماتھے پہ اپنے رکھے اور دھیرے سے کہا۔۔

"بازل کی جان"

بازل کی نظر اسکے مہندی سے لبریز ہاتھوں پہ گئ تو بے خودی میں وہ۔اسکی ہتھیلوں کو چومنے لگا۔۔

ہنزہ جو پہلے سے جاگ رہی بازل۔کے انے پہ۔سوتی بن گئ تھی ایک بار پھر اس نے اپنی انکھیں کھول لی۔۔

بازل نے جب دیکھا کے ہنزہ جاگ گئ ہے تو ایک دم اسکے اوپر ایا اور  مسکرا کے اسے دیکھنے لگا اور کہا۔۔

میری زندگی میں تو تم شامل پچپن میں ہی ہوگئ تھی مگر اج میری ہر چیز پہ میری سانوں پہ۔میرے دل پہ پورے حق سے قابض ہوچکی ہو۔۔

یہ بولتے ہی بازل ہنزہ لبوں پہ جھک گیا۔۔

بے تحاشہ اسکے لبوں کو چومنے لگا کبھی شدت اتی اسکے چومنے میں کبھی پیار مگر زیادہ دیر تک وہ یہ عمل کرنہیں سکا کیونکہ اسے لگا ہنزہ رو رہی ہے۔۔

بازل ۔نے جب اسے دیکھا تو وہ واقعی رو رہی تھی۔۔

بازل ایک دم پریشان ہوا۔۔

اس پہ سے یٹا اور خود بھی اسے اٹھا بیٹھایا۔۔۔

ہنزہ تم رو رہی ہو ؟

مگر کیوں۔۔؟؟

تمہارے چھونے پہ اپنی بے بسی پہ مجھے رونا ارہا ہے۔۔۔

ہنزہ کے کہنے پہ بازل نے شاکڈ انداز میں اسے دیکھا اور دھیرے سے کہا

"ہنزہ"

مجھے اج اپنی بے بسی پہ بہت رونا ارہا ہے بازل کے جس شخص نے میری عزت کو داغدار کرنا چاہا صرف اپنی محبت کی جیت کیلیے ۔۔

اج اسی کے نام سے جڑی ہو۔۔

جس شخص نے مجھ سے میرا دوست میری محبت چھین لی میرے کرادر کو نشانہ بنایا اج اسی کا نام میرے نام سے جڑا ہوا کے۔۔

مت چھو مجھے بازل مجھے گھن اتی ہے تم سے۔۔

تم سے نکاح تمہاری محبت میں نہیں بلکے اس لیے کیا کیونکہ تمہاری ہونے والی بیوی بھاگ گئ اپنے تایا کی عزت اپنے ماں باپ کی خواہش پہ تم۔سے نکاح کیا ہے ۔

مجھے ہاتھ مت لگاو۔۔

یہ بول کے ہنزہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رونے لگی اور بازل الٹے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے نکلا۔۔

صبح ناشتے کی ٹیبل  پہ اج بہت عرصے بعد اظہر صاحب موجود تھے۔۔

دائ جان تو اپنے بیٹے کو یو اپنی فیملی میں بیٹھا دیکھ بہت خوش ہورہی تھی۔۔

شاجہاں بیگم کا چہرہ دیکھ کے کوئ اندازہ نہیں لگا پارہا تھا کے وہ خوش ہیں یہ نہیں البتہ عترت بہت خوش تھی وہاج کئ بار انکھوں ہی انکھوں میں اسکی نظر اتار چکا تھا ۔۔

ان سب کے درمیان  واحد صنم تھی جو خاموش بیٹھی تھی اور اپنا غصہ انڈے پہ نکال رہی تھی۔۔۔

صنم بیٹا اپکی پڑھائ کیسی جارہی ہے؟؟

اظہر صاحب نے کافی خوشگوار موڈ میں یہ بات کہی تھی مگر صنم کے وجود کو ریزہ ریزہ کرنے کیلیے یہ سوال کافی تھا اس سے پہلے وہ کوئ تلخ جملہ کہتی اسکے برابر میں۔ بیٹھی عترت نے ڈائنگ ٹیبل کے نیچے موجود اسکا ہاتھ زور سے دبایا۔۔۔

صنم نے پھر بھی جاتے جاتے اتنا ضرور کہا۔۔

اظہر صاحب میں جب تین سال کی تھی جب سے پڑھ رہی ہو حیرت ہے یہ سوال اج اپکو یاد ایا۔۔

صنم کیا بدتمیزی ہے!!!

صنم کے لہجہ پہ شاجہان بیگم نے ایک دم اسے ڈانٹا۔

اگر اپ چاہتی ہیں کے میں بدتمیزی نہ کرو تو اچھا رہے  کے یہ صرف اپ سے اور آپی سے تعلق رکھے میرے وجود کو یہ بہت پہلے فراموش کر چکے ہیں۔۔

یہ بول کے صنم رکی نہیں اور گھر سے باہر چلی گئ اسے ہیر کی یونی جانا تھا۔۔

اظہر صاحب گردن جھکا کے بیٹھے تھے  ایک دم ماحول افسردہ ہوگیا تھا مگر عترت نے فورا کہا۔۔

پاپا اپ اداس نہیں ہو ایک دن سب صحیح ہوجائے گا اپکی یہ ہی بیٹی اپکے گلے لگے گی۔۔

وہاج صاحب کو پتہ تھا صنم کا رویہ اظہر صاحب کے ساتھ اچھا نہیں مگر کبھی اسنے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر اب وہ جاننے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔

شاہجاں بیگم بھی نگاہیں جھکا کے بیٹھی تھی انہوں نے بہت کوشش کی تھی صنم کے رویہ کو چینج کرنے کی مگر ناکام  رہی۔۔۔

#######

ویسے مجھے لگتا تھا ہیر ہم بہت اچھے دوست ہیں؟

صنم نے کافی کا گھونٹ پیتے ہوئے کہا۔۔

ہیر جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھی صنم کے سوال پہ ایک دم چونکی اور کہا۔۔

تم میری سب سے اچھی دوست ہو صنم !!یہ بات تم نے کیسے سوچی کے ہم اچھے دوست نہیں۔۔۔

اگر سب سے اچھی دوست ہوتی تو زویان کے بارے میں مجھ سے نہیں چھپاتی۔

ککا۔۔اااا۔ مطللب!!!

ہیر کے گھبراہٹ دیکھتے ہوئے صنم نے اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

میں کل رات سب سن چکی ہو ہیر تم نے کال کٹ نہیں کری تھی۔۔۔

صنم کے بولنے پہ ہیر کی انکھوں میں نمکین پانی بھرنے لگا ۔۔

صنم جس شخص سے نفرت  ہو اس شخص کا ذکر اپنوں سے نہیں کیا جاتا ۔۔۔

میں نے فیصلہ کرلیا ہے اس سے علیحدگی کا۔۔

مجھے اسکی شکل سے بھی نفرت ہے میں بہت جلد پاپا کو سب بتادونگی۔۔۔

بھائ نے بھی میرا ساتھ دینے کو کہا ہے۔۔

چلو یہاں تو اسنے کچھ غیرت کا ثبوت دیا۔۔صنم نے ہیر کی بات پہ کافی طنزیہ کہا۔۔

صنم جب بھی میں نے بھائ کا ذکر تمہارے سامنے کیا ہے یہ تو تم اس جگہ سے چلی جاتی ہو یہ پھر غصہ میں کچھ بڑبڑاتی ہو ۔۔

کیا بھائ نے تمہارے ساتھ کچھ غلط۔۔!!!اگے کی بات بولتے ہوئے ہیر نے خود کا بعض رکھا ۔۔

ہیر کبھی کبھی ہم غلط وقت پہ غلط شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔۔

ہیر کیا تم بھائ سے !!!؟؟

صنم مجھے سچ سچ بتاؤ بھائ نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے تمہیں ہماری دوستی کی قسم

ہیر کے پوچھنے پہ صنم نے اپنی اور صائم کی ساری اسٹوری اسے سنا دی۔۔

صنم کی انکھوں سے مسلسل آنسو گررہے تھے مگر اسنے زیادہ دیر تک انہیں بہنے نہیں دیا اور بے دردی سے رگڑ ڈالا۔۔

تمہارے بھائ ایک زناکار ہے ہیر ۔۔۔

میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگی !!!

کبھی نہیں میں نے توٹھ کے چاہا تھا میری زندگی میں انے والا وہ پہلا مرد تھا۔۔

میں نے تو کبھی کسی غیر ادمی سے تعلقات نہیں رکھے تو میرے نصیب میں اللّٰہ نے ایک زناکار کا ساتھ کیوں رکھا ۔۔۔۔۔۔

صنم کے کسی سوال کا جواب ہیر کے پاس نہیں تھا۔۔۔

######

 ہیر گم سم سی لان میں بیٹھی تھی رات کا کھانا بھی اس نے ٹھیک طریقے سے نہیں کھایا۔۔

زویان اور اسکا سامنا کھانے کی ٹیبل پہ ہوا تھا مگر زویان نے اسے نہیں دیکھا تھا۔۔

ہیر خاموشی سے اسمان کی طرف دیکھ رہی تھی جب صائم اسکے برابر میں اکے بیٹھا اسنے نوٹ کیا تھا کے ہیر بہت چپ چپ ہے۔۔۔

######

ہاں  خالہ جان اظہر مجھ سے وہاج کے بیٹے  صائم کے رشتے کی بات کرکے گئے ہیں صنم کے لیے میں نے بھی وہ لڑکا دیکھا ہے اچھا اور نیک لڑکا ہے مجھے تو دل سے یہ رشتہ قبول ہے میں سوچ رہی ہاں کردو وہاج میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے بہت خوش رہے گی صنم وہاں۔۔

اپکے شوہر ہوتے کون ہے ؟؟

میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے۔۔۔۔

صنم جو چائے دینے ائ تھی دائ جان اور شاہجاں کی باتیں سن کے اگ بگولہ ہوکے چیخنے لگی۔

صنم کی بات سن کے شاہجاں اگے بڑھی اور ایک زور دار چماٹ اسکے منہ پہ دے مارا۔۔۔

دائ جان کیساتھ ساتھ صنم نے بھی شاکڈ انداز میں اپنی ماما کو دیکھا۔۔۔۔

بس بہت ہوا بہت دنوں سے تمہاری بدتمیزی برداشت کررہی ہو میں۔۔

تمہارا باپ ہے وہ یہ حقیقت بدل نہیں سکتی تم ۔۔

اج میں تمہیں بتاتی ہو انہیں اپنی غلطی کا احساس تمہارے پیدا ہونے سے پہلے ہوگیا تھا یہ میں تھی۔

جس نے ان سے تعلق توڑا۔۔

اپ کے شوہر ہونگے میرے کچھ نہیں لگتے اور اج یہ بات میں انکو اچھے سے سمجھا دونگی۔۔

یہ بول کے صنم نے گاڑی کی چابی اٹھائ اور تیزی سے گھر سے نکلی۔۔

#####

بھائ پتہ ہے کبھی کبھی ماں باپ کا کچھ غلط کرا اولاد کے اگے اتا ہے۔۔

پاپا نے ماما کا ساتھ مجبوری میں چھوڑا تو انکی بیٹی سے کسی نے نکاح صرف دیکھاوے کیلیے کیا۔۔

کہنا کیا چاہ رہی ہو تم ہیر۔۔

صائم کو تھوڑا تعجب ہوا ہیر کے لہجے پہ۔۔۔

اسی طرح بھائ کا کیا ہوا بہنوں کے اگے اتا ہے بھلے وہ کتنی دور ہو ۔۔

صاف صاف بولو ہیر !!صائم کی چھٹی حسس کچھ اور اشارہ کررہی تھی۔۔

بھائ اپکو دل بہلانے کیلیے صنم ہی ملی ۔۔ہیر کا کہنا تھا کے صائم نے فورا اپنی نگاہیں جھکائ۔۔۔

اپکو پتہ بھائ وہ اپ سے اتنی محبت کرتی تھی کے اپ سوچ بھی نہیں سکتے بھائ۔۔اسکی زندگی میں انے والے اپ پہلے مرد تھے۔۔

اپ نرد جو ہر عورت کے دل سے اسکی نیت سے واقف ہوتے ہو اسی عورت کا دل کیوں توڑتے ہو جو اپ سے مخلص ہوتی ہے۔۔

اپنے اسکی محبت کو کسی اور کیساتھ۔  اگے کی بات اس سے پہلے وہ بولتی ۔۔۔

ایک گاڑی زن کرکے گھر کے اندر داخل ہوئ۔۔

اس سے پہلے صائم کچھ سمجھتا ہیر نے ایک دم کہا۔۔۔

صنم اس وقت ۔۔۔

ہیر اس سے پہلے صنم تک پہنچتی صنم تقریبا ڈورتے ہوئے اندر گئ ۔

ہیر بھی اسکے پیچھے بھاگی اور صائم بھی۔۔

اظہر صاحب اظہر صاحب ۔۔

صنم نے ٹی وی لانج میں چیخ چیخ کے اظہر صاحب کو پکارا۔۔

اظہر صاحب جو وہاج صاحب سے صنم اور صائم کے رشتے کا ذکر کرہے تھے تیزی سے نیچے پہنچے ۔۔

دیکھتے دیکھتے پورا گھر نیچے جمع ہوگیا۔

صنم بیٹا تم اس وقت سب خیریت؟؟

اظہر صاحب نے جیسے ہی پوچھا ہیر ایک بار دوبارہ چیخ پڑی۔۔

مجھے بیٹا مت بولے اپ اظہر صاحب ۔۔

و

زویان صائم ہیر سب ہی سن کھڑے تھے جبکہ نمرہ بیگم کو ہول اٹھنے لگے صنم کو دیکھ کے۔۔

اپ ہوتے کون ہیں ؟میرے لیے کسی کا رشتہ لانے والے ؟؟

ہیں کون اپ میرے؟؟

زویان جسکا دماغ پہلے ہی ہیر کی وجہ سے خراب ہورہا تھا ۔۔

غصہ میں صنم کی طرف بڑھا اور کہا۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئ میرے ڈیڈ سے اسطرح بات کرنے کی۔۔

زویان کا ایسا بولنا تھا صنم جو پہلے ہی غصہ میں تھی زویان کے منہ پہ ایک زور دار تھپڑ مارا اور کہا۔۔

فورا پیچھے جاکے کھڑے ہو اپنی ماں سے پتہ کرنا میں کون ہو ؟پوچھنا ان سے کے انہوں نے تمہارے باپ سے شادی کرنے کیلئے کتنی زندگیوں کو داو پہ لگایا۔۔

صنم کا ٹھپڑ کھاکے زویان دو منٹ کیلئے ہوگیا اسے لگا اسکے کان میں سوئیاں چبھ رہی تھی۔۔

اپنے کسے سوچا میرے بارے میں ؟؟

جس بیٹی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنے اسے دھتکار دیا اسکے بارے میں کیسے سوچا اپنے۔۔۔

وہاج کو اب سمجھ میں ایا بات کیا یے۔۔

وہ صنم کی طرف بڑھا اور کہا۔۔

صنم بیٹا میں اپکو سمجھاتا ہو اپ اندر او میرے ساتھ۔۔

مجھے کسی کی کوئ بات نہیں سننی ۔۔۔

صنم مسلسل رو رہی تھی جب اسکی نظر صائم پہ پڑی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

صنم نے وہاج صاحب کو  جھٹکا اور تیزی سے صائم کی طرف بڑھ کے اسکا کالر پکڑ کے کہا۔۔

ہمت کیسے ہوئ میرے لیے رشتہ بھیجنے کی۔۔؟؟

صائم نے غور سے اپنے سامنے کھڑی صنم کو دیکھا بکھرے بال جو پونی میں قید تھے کاجل بھری انکھوں سے بہتے آنسو اسکا حلیہ دیکھ کے صائم کے دل پہ گھونسہ سا لگاا۔۔

صنم مجھے نہیں ہتہ اس معملے کا !!.صائم نے ہلکا سا کہا۔

واہ صائم وہاج واہ کیا کہنے تمہارے ایواڈ ملنا چاہیے تمہیں تمہاری اس بیغیرتی پہ۔۔

ویسے اس خاندان کے مردوں سے غلطیاں  بہت ہوتی ہے اور پھر مظلوم بن کے معافی معافی کا بینل اپنے گلے لگائے گھومتے ہیں۔۔

ایک نے بیٹے کے چکر میں بیٹی کا وجود فراموش کرا اب اکے وہ کہتے ہیں غلطی ہوگئ۔۔۔۔

اظہر صاحب نے کرب سے اپنی انکھیں بند کی جبکے زویان نے فورا اپنی ماں کو دیکھا !!

ایک نے نکاح کے نام پہ ایک عورت کو انتظار کی سولی پہ لٹکایا اب اکے کہتے ہیں غلطی ہوگئ۔۔

وہاج صاحب کی نظریں شرم سے جھک گئ صنم کے جملے پہ۔۔

ایک نے نکاح جیسے پاک رشتے کو ہتھیار بناکے ایک لڑکی کی محبت کی دھجیاں اڑا دی اسکا سب کچھ چھین لیا۔۔اب اسے یاد ارہا ہے اسے محبت ہوگئ اپنی منکوحہ سے۔۔

صنم کے اس جملے پہ سب نے اسے دیکھا۔۔۔۔

اب کی بار اسکی نظریں زویان پہ تھی جو گال پہ ہاتھ رکھے اسے ہی گھور رہا تھا مگر صنم کے بولنے پہ بلا جھجک اسکی نگاہ ہیربپہ گئ جو نگاہ جھکا کے کھڑی تھی۔۔

اور تمہارے تو کیا کہنے مسٹر صائم وہاج ۔۔۔۔

کسی کی  محبت کو بہت ارام سے کسی اور کیساتھ بستر پہ روندھ کے اسے دھوکا دے کے اج شرفا بنے بیٹھے ہو۔۔

مجھے تم سے نفرت ہے صائم تمہارا وجود میری نظر میں کچڑا ہے۔۔

اوقات نہیں تمہارے میری زندگی میں انے کی۔۔

وہاج بہت غور سے صائم اور صنم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

برائے مہربانی مسٹر اظہر صاحب اج کے بعد میرے لیے  کسی!!!

 ابھی اگے کی بات صنم بولتی شاہجاں بیگم جو اسکے ہیچھے ائ تھی اور اندر اتے ہوئے صنم کی ساری باتیں سن چکی تھی تیزی سے اگے بڑھی اور صنم کو رخ اپنی طرف موڑ کے ایک کے بعد ایک طمانچہ اسے مارا۔۔۔

مارے ماما جتنا مارنا ہے مارے میرے وجود کو فراموش کرنے والا میرا باپ نہیں ہوسکتا مجھے نفرت ہے اظہر صاحب اپ سےنفرت۔۔۔۔

صنم اس سے پہلے کچھ اور بولتی۔۔۔

ایک دم لانج میں نمرہ کی اواز گونجی۔۔

اظہر ۔۔۔۔۔

نمرہ کے چیخنے پہ سب اظہر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے جو اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے نیچے بیٹھتے جارہے تھے ۔۔

عاشر کو سلا کے وہ کمرے میں ائ تو بہزاد کمرے میں تھا ۔

ارے یہ کب ائے؟؟

بیڈ پہ سر کے نیچے ہاتھ رکھ کے وہ بنا چینج کیے سو رہا تھا۔۔

شانزے دھیرے سے اسکے قریب ائ اور اسکے پاؤں جوتوں سے اذاد کرنے لگی۔

بلیک قمیض شلوار میں مہرون واسکٹ پہنے وہ بہت حسین لگ رہا تھا۔شانزے بے خودی میں اسے تکتے گئ۔۔

شانزے کتنی بار اپنے رب کا شکر ادا کرچکی  تھی کے اسکی زندگی میں بہزاد  شامل ہوا۔۔۔

شانزے دھیرے سے اسکے چہرے قریب ائ تو ایک بار پھر اسکے لب مسکرائے۔۔

شانزے کے کہنے پہ اسنے بریڈ کیساتھ مونچھیں رکھی تھی جو اس پہ کافی جچ رہی تھی۔

اسکے پاس سے اتی پرفیوم کی خوشبو شانزے کو بہت پسند تھی۔

اچانک شانزے کی نگاہیں مونچھوں کے نیچھے چھپے بہزاد کے  لبوں پہ پڑی۔۔

اسنے اپنے بال سمیٹے اور بہت ارام سے بہزاد کے لبوں پہ جھک گئ۔۔

اسکے جھکتے ہی بہزاد کی انکھیں کھل گئ۔۔

شانزے دو منٹ میں ہی اسکے لبوں کو چھوڑ چکی تھی جب بہزاد نے ایک دم اسکی گردن پہ ہاتھ رکھ کے اسے اپنے قریب کیا!!

اووووو ہائے بہزاد اپ جاگ رہے تھے؟؟.

پہلے یہ بتاؤ تم کس کرنے میں اتنی کنجوسی کیوں کرتی ہو؟؟

افف چھوڑے مجھے اپ شانزے کے چہرے پہ بے شمار حیا کے رنگ تھے اسنے شانزے کی گردن چھوڑ کے اسکا چہرہ تھاما اور کہا!!!

اب جب میری بیوی خود میرے پاس ائ ہے مجھے اتنا سکون دیا ہے تو کچھ میرا بھی فرض بنتا ہے۔۔

اس سے پہلے شانزے بہزاد کی بات سمجھتی بہزاد نے فورا اپنی پوزیشن بدلی ۔۔۔۔

بہزاد کوئ موقع اپ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے نہ۔۔۔

بلکل نہیں !!!

بہت کم ایسا ہوتا ہے کے تم مجھے خود سے اپنی قربت سے آشنا کرواتی ہو۔۔۔

یہ بول کے بہزاد نے پہلے اسکی دونوں انکھوں کو چوما اسکے بعد اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔

بے خودی کا یہ عالم تھا کے بہزاد نے اسکی کمر کے نیچے سے ہاتھ نکال کر اسے خود سے قریب کیا ہوا تھا اور شانزے نے اسکی کمر کو تھاما ہوا تھا جب اچانک بہزاد کا موبائل بجنے لگا !!

ایک بار موبائل بج بج کے بند ہوچکا تھا مگر شانزے اور بہزاد کا خمار نہیں ٹوتا۔۔۔

جب ایک بار پھر موبائل بجنے لگا تب بہزاد نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کے موبائل اٹھایا ۔۔

شاجہاں کی کال اتا دیکھ بہزاد نے کال یس کرتے فورا کان سے لگایا۔۔

شاہجاں کی بات سنتے ہی بہزاد نے صرف اتنا کہا۔۔

میں ارہا ہو ملکہ دس منٹ میں پہنچ رہا ہو۔۔۔۔

کال کٹ کرتے ہی بہزاد تیزی سے اٹھا۔

اسکے چہرے پہ پرہشانی دیکھ کے شانزے بھی پریشان ہوگئ اور پوچھنے لگی۔۔

بہزاد کس کا فون تھا ؟کہاں جارہے ہیں اپ؟

شانزے اظہر بھائ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے جلدی چلو ۔

#######

پورا کوریڈور بھرا پڑا تھا شاہجاں نمرہ کا رو روکے برا حال تھا ۔

عترت الگ رو رو کے ہلکان تھی۔۔۔

وہاج اسے سنبھالا ہوا تھا۔۔۔

زویان خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا تھا اسکے چہرے پہ۔پریشانی واضح تھی۔

اتنے میں بہزاد اور شانزے پہنچے۔۔۔

بہزاد کو دیکھتے ہی نمرہ اور شاہجاں دونوں اسکے گلے لگ کے رونے لگی جبکہ شانزے کی نگاہیں صنم کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔

جو اسے اس کوریڈور میں کہی نہیں دیکھ رہی تھی وہ تیزی سے عترت کے پاس پہنچی جسکا رو روکے برا حال تھا۔۔

عترت اپی صنم کہا ہے؟؟

نام مت لو اسکا مرگئ وہ میرے لئے۔۔۔

شانزے کی بات سن کے شاہجاں ایک دم چیخ پڑی۔۔۔

بہزاد نے بے یقینی کی کیفیت میں پہلے شاہجاں بیگم کو دیکھا اور پھر اسکی نگاہ اپنے سامنے کھڑے صائم پہ پڑی۔۔جو صرف گردن ہلا رہا تھا ۔۔

تھوڑی دیر بعد اپریشن ٹھیٹر کے روم کا دروازہ کھلا۔۔

دو ڈاکٹر اور ہنزہ باہر ائ۔۔۔

ہنزہ کیا ہوا ؟

بتاؤ مجھے وہ ٹھیک ہیں؟؟

شاجہاں بیگم نے فورا لپک کے ہنزہ کو تھاما۔۔

انٹی انٹی اپ ریلکس کرے ورنہ اپکی طبیعت خراب ہوجائے گی ۔ہنزہ نے انہیں کندھے سے تھام کے فورا کرسی پہ بیٹھایا۔

اس دوران زویان بلکل چپ تھا اسے کچھ کچھ کہانی سمجھ میں ارہی تھی مگر یہ وقت نہیں تھا پوچھنے کا۔۔

دیکھے انکا ہارٹ اٹیک بہت شدید تھا اگلے 48 گھنٹے ہم لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔

ہنزہ کیساتھ ائے ڈاکٹرز نے انہں جواب دیا اور وہاں سے چلے گئے انکے پیچھے ہنزہ بھی گئ۔۔

زویان نے جب یہ سنا تو غصہ سے کوریڈور سے باہر گیا جسکی دیوار سے لگ کے صنم بیٹھی تھی سب سے چھپ کے۔۔

صائم جانتا تھا زویان کا کے وہ کس کے پاس گیا یے  غصہ میں وہ بھی اسکے پیچھے گیا اور اسکے پیچھے بہزاد بھی۔۔۔

اب یہاں بیٹھ کے کس کا سوگ منا رہی ہو؟؟.زویان نے صنم کے وجود کو کندھے سے تھام کے خود کے روبرو کھڑا کرکے کہا۔۔

اگر صنم رو رہی تھی تو زویان کی بھی انکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔

زویان میری بات سنو ام!!صائم نے فورا اگے بڑھ کے اسکی گرفت سے صنم کو ازاد کیا اور خود انکے درمیان اگیا۔

جاؤ مناو اب خوشیاں لے ائ تمہاری نفرت انہیں موت کے منہ تک۔۔۔

زویان بس کرو۔

بہزاد کی بات پہ اسنے غصہ میں کہا۔۔

ابھی نہیں بہزاد بھائ اج نہیں۔۔

صائم بھائ ہٹ جائے درمیان میں سے۔۔۔

یہ تھی وہ بیٹی جسکا طعنہ میں بچپن سے سنتا ایا تھا ۔۔

جب سے ہوش سنبھالا یہ ہی سنا کاش مجھے اللّٰہ بیٹی دیتا بیٹا نہیں ۔۔

نمرہ کاش میں اپنی دوسری بیٹی صنم کیساتھ رہتا تمہارے اس بیٹے کو نہیں دیکھنا پڑتا اسکی حرکتوں پہ جلنا نہیں ہڑتا مجھے۔۔۔

یہ وہ باتیں تھی جو میں بچپن سے سنتا ایا تھا مجھے پتہ ہے میرے باپ کی پہلی شادی کا انکی بیٹیوں کا مگر میں نے اج تک اپنے باپ سے شکوہ نہیں کیا ۔۔

تم کیسی بیٹی ہو جو اپنے باپ کو موت کے منہ تک لے ائ ارے بیٹیاں تو اپنے باپ کی مارے کھا کے بھی انکے ہاتھوں ذلیل ہوکے بھی ان سے نفرت نہیں کرتی۔۔

تم یہ بولتی ہو کے تمہارے ساتھ غلط ہوا اور جو میری ذات کو مجروح کیا پچپن سے ہوتا ایا جو میرے ساتھ۔  ہر بار یہ سننے کو ملتا کے کاش میری تیسری بھی بیٹی ہوتی۔۔

پھر بھی میں نے اپنے باپ سےکبھی شکوہ نہیں کیا نفرت تو بہت دور کی بات ہے۔

اگر میرے باپ کو کچھ ہوا نہ صنم تو میں تمہیں چھوڑونگا نہیں۔۔

یہ بول کے زویان غصہ میں وہاں سے چلا گیا۔۔

جب صائم نے اپنے پیچھے کھڑی گردن جھکائ روتی صنم کو دیکھا ۔۔

چاہ کے بھی وہ اسے اپنے سینے سے لگا نہیں سکتا تھا اس نے بہزاد کو اشارہ کیا اور خود دوبارہ زویان کی طرف گیا۔۔

بہزاد نے اگے بڑھ کے صنم کو سینے سے لگالیا۔۔

شاہجاں پانی پی لو پلیز۔۔

تمہاری طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔

نہیں خوشبو جب تک اظہر کو ہوش نہیں آ جاتا مجھے سکون نہیں ائے گا۔۔

نمرہ تم تو پی لو؟؟

نمرہ بیگم نے نفی میں گردن ہلا دی۔۔

بہزاد نے صنم کو سینے سے لگا کے کوئ شکوہ نہیں کیا اسے پتہ تھا وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔۔

قصور ہے تو بس حالات کا۔۔

ہنزہ نے بھی اپنی ڈیوٹی صبح تک کی لگ والی تھی ۔منٹ منٹ وہ اظہر صاحب کی کنڈیشن چیک کررہی تھی۔۔۔

کچھ کھالو عترت پلیز میری خاطر۔۔

وہاج نے بہت منت کرکے اسے سینڈوچ کھلایا تھا اسکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سب کے کہنے پہ وہاج اسے گھر لے گیا تھا۔۔

صنم ابھی بھی اسی جگہ بیٹھی تھی۔۔۔شانزے اسی کے پاس تھی ۔۔

صنم کچھ کھالو۔۔۔؟؟

صنم نے انکھیں بند کرے کرے نفی میں گردن ہلائ 

۔شانزے نے فورا بہزاد کی طرف دیکھا ۔۔۔

بہزاد نے ایک بار پھر شانزے کے پاس اکے اسے کھڑا کیا اور کہا۔۔

صنم پلیز میری خاطر اندر چلو پلیز ۔

بی ا۔۔۔ایم۔۔۔و۔۔پ۔۔۔اا

صنم ہکلاتے  ہوئے ایک بار پھر  اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بلک پڑی۔۔۔

صائم جو خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا اسکی انکھوں میں بھی نمکین پانی بڑھنے لگا اسے یہ سوچ سوچ کے اپنے اپ سے نفرت ہورہی تھی کے اپنے مزے کی خاطر اسنے صنم کی زندگی برباد کردی ۔۔

اصل غصہ اسی کا تھا جو صنم نے وہاج مینشن میں اتارا۔۔

بس کرو یار صنم جو ہوا اب تمہارے رونے سے بدلہ نہیں جائے گا ۔۔

مگر ایک بات ضرور کہونگا تمہیں اظہر بھائ سے اتنی بدتمیزی سے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔۔۔

جانتا ہو تمہارے ساتھ زیادتی ہوئ ہے مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کے تم ملکہ کی تربیت کو سوالیہ نشان بنا دو۔۔۔

بہزاد کے بولنے پہ صنم ایک بار پھر رونے لگی۔۔

ویسے اسکے اس عمل کی وجہ اپ جانتے ہیں تو اس انسان کا دماغ تھوڑا درست کیوں نہیں کرتے جسکی وجہ سے اسکے غصہ کا نشانہ کوئ اور بنا۔۔

شانزے کو غصہ میں دیکھ کے بہزاد ایک دم حیران ہوا!!!

شانزے تم ابھی بات کو بڑھا رہی ہو۔!!بہزاد نے اسے روکنا چاہا!!

ہاں بڑھا رہی ہو میں اگر میں ابھی تک خاموش ہو تو وجہ صرف میری صنم کی قسم ہے ورنہ اسکو تکلیف دینے والوں کا دماغ میں بہت اچھے طریقے سے درست کرنا جانتی ہو۔۔۔

شانزے نے ایک غصیلی نظر صائم پہ ڈالی۔۔

اتنی سی بات اپ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کے اگر اسے اظہر انکل سے  بدتمیزی کرنی ہوتی تو اتنے ٹائم سے یہاں ہے  وہ کب کی کرچکی ہوتی کئ بار کرچکی ہوتی وجہ ہے تو صرف یہ کے اس سے بنا پوچھے اس شخص کیساتھ اسکی زندگی کا فیصلہ کیا جارہا تھا جس نے اسکی محبت کی اسکے بھروسہ کی ڈھجیاں اڑائ ہیں۔۔

اب شرفا بن کے گھوم رہاہے۔۔!!

بہزاد خاموشی سے شانزے کو دیکھ رہاتھا اور صائم گردن جھکا کے کھڑا تھا۔۔۔

بھانجا ہوگا وہ اپکا لحاظ کرے اپ اسکا اگر اب میری صنم اسکی وجہ سے ہرٹ ہوئ تو ساری زندگی اپکا بھانجا سکون کیلئے ترس جائے گا۔۔

یہ بول کے شانزے نے بہزاد کا ہاتھ صنم کے ہاتھ سے الگ کیا اور اسے اپنے ساتھ کینٹین کی طرف لے گئ۔

بہزاد کو نہیں یاد جب سے شانزے اور وہ ایک رشتے میں بندھے تھے شانزے کو کبھی اسنے اتنے غصہ میں دیکھا ہو یہ اتنی غصہ میں اسنے اس سے بات کری ہو۔۔

شانزے کے جانے کے بعد بہزاد نے صائم کو دیکھا جو خاموش تھا اسنے اگے بڑھ کر اسکا کندھا سہلایا اور کہا۔۔

اب اتنا تو برداشت کرنا پڑے کا صائم۔۔!!!

جانتا ہو ماموں مگر ایک موقع تو ملنا چاہیے مجھے پلیز۔۔۔۔!!

صائم کے لہجہ میں کیا کچھ نہیں تھا

بے سبی ،پچھتاوا،افسوس!!!!!!!!

مگر اج بہزاد کے پاس اسے دینے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا تسلی بھرے الفاظ بھی نہیں!!!

#########

فجر کے بعد جاکے اظہر صاحب کو ہوش ایا تھا ۔۔۔

شاہجاں اور نمرہ فورا شکرانے کے نفل ادا کرنے چلی گئ۔۔

وہاج صاحب کی جان میں جان ائ تھی کیونکہ ایک یہ ہی رشتہ اب انکے پاس تھا انکے بڑوں کے روپ میںں۔

دائ جان کو ابھی تک اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا نے انکا بیٹا موت اور زندگی کے درمیان ہے۔۔۔

نہ بہزاد کی ماں کو خبر کی گئ۔۔۔

صبح ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ائ جنہوں نے اظہر صاحب کو چیک کیا۔۔

فلحال تو انہوں ہوش اگیا تھا مگر انکی کنڈیشں ٹھیک نہیں تھی۔۔

دیکھے فلحال اظہر صاحب کو ہوش اگیا ہے مگر ابھی ہم انہیں ائ سی۔یو میں شفٹ کررہے ہیں شام تک اپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔۔۔

یہ بول کے سارے ڈاکٹرز چلے گئے۔۔

پلیز بہزاد تم بات کرو ان سے بس ایک بار میں بات کرلو ان سے۔۔

ملکہ ملکہ دیکھو شام میں دل کھول کے بات کرلینا ابھی ڈاکٹرز منع کرکے گئے ہیں۔

وہاج بھائ اپ ملکہ کو لے کر گھر جائے ۔۔۔

زویان تم بھی گھر جاو نمرہ اپی کو لے کر میں ہو یہاں صائم ہے میرے ساتھ۔۔

بہزاد بھای میں یہاں رکتا ہو پاپا کیساتھ!!

نہں زویان تم ہیر اور نمرہ اپی کو لے کر گھر جاؤ ۔۔

ہیر جو صائم۔کے پاس بیٹھی تھی چونک کے ایک دم بہزاد کو دیکھنے لگی۔۔

مگر یہ وقت بحس کا نہیں تھا اسی وجہ سے وہ خاموشی سے زویان کے پیچھے چل دی۔۔۔

##########

صنم شانزے کیساتھ کینٹین سے اچکی تھی اور ائ سی یو کے شیشے سے اظہر صاحب کے وجود کو دیکھ رہی تھی جو مشینوں میں جکڑا ہوا تھا۔۔

صائم بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا جبکہ شانزے بہزاد سے اچھا خاصا منہ بنائے ہوئے تھی اور بہزاد کو سمجھ میں نہیں ارہا تھا اسکا کیا قصور ہے۔۔۔

ارے صنم تم یہاں؟؟؟

اچانک انے والی اواز پہ صنم چونک کے پیچھے مڑی تو نہال کھڑا تھا جسکی صبح کی ڈیوٹی لگی تھی اور وہ اظہر صاحب کو چیک کرنے ایا تھا۔۔

صائم کے کان ایک دم کھڑے ہوئے نہال کے منہ سے صنم کا نام سن کے۔

نہال تیزی سے اسے تک پہنچا تو وہ نہال کو دیکھ کے ایک بار پھر رونے لگی۔۔

نہال وہ پاپا !!

صنم نے روتے ہوئے ائ سی یو کی طرف اشارہ کرا۔۔۔

اوہہ۔

نہال نے اگے بڑھ کے صنم کا ہاتھ پکڑا اور اسے لیے کے کرسی پہ بیٹھا۔۔

صائم کی انکھوں سے یہ منظر چھپ نہیں سکا جبکہ بہزاد ایک نظر ان دونوں کو دیکھ کے صائم کو دیکھا جسکی نگاہیں مسلسل نہال کے ہاتھ میں موجود صنم کے ہاتھ میں تھی۔۔

سب سے پہلے اپنے یہ آنسو صاف کرو بہت بری لگتی ہو روتے ہوئے ۔۔

نہال کے کہنے پہ صنم نے اپنے انسو صاف کیے اور کہا۔

نہال پاپا کی طبیعت ؟؟؟

انکل ٹھیک ہے اب ۔۔۔

تم بلکل پریشان نہ ہو۔۔۔کون ہے تمہارے ساتھ!؟

میں ہو نہال بھائ!!!

شانزے کے کہنے پہ نہال نے پلٹ کے دیکھا اور مسکرایا۔۔

کیسی اپ شانزے ؟

جی میں اللّٰہ کا شکر !!

نہال یہ میرے ماموں ہیں!!.

صنم نے بہزاد کی طرف اشارہ کیا ۔۔

ارے اپ تو بہزاد راجپوت ہے نہ !!

بہزاد نے مسکرا کے نہال سے ہاتھ ملایا۔۔

اپ ؟؟؟

یہ میرے دوست ہیں بی ایم کچھ ٹائم پہلے جو میرا ایکسیڈنٹ ہوا نہ انہیں کی گاڑی سے ٹکرائ تھی۔ 

نہال اس سے پہلے جواب دیتا صنم نے بولا

صنم نے یہ بات بول کے صائم کو دیکھا تھا جس کی نگاہیں نیچیں تھی۔۔۔

اچھا اب تم جاو گھر فریش ہوکے ملو مجھ سے مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

اوکے !!تم یہی ہوگے۔۔۔؟؟

ہاں !!!

اوکے اب میں چلتا ہو راوئنڈ کا ٹائم ہے میرا دیھان رکھنا اور اب رونا نہیں انکل ٹھیک ہے۔۔

نہال نے یہ بات بول کے صنم کے گال پہ ہاتھ رکھا اور بہزاد سے مل کے چلا گیا۔۔

صائم شاید تھوڑے فاصلے پہ تھا اسلیے اس سے تعارف نہیں ہوا۔۔

شانزے تم چھوڑ دو مجھے!!

ہاں ٹھیک ہے ۔

بہزاد میں اسے چھوڑ کے گھر چلی جاؤ نگی۔۔

اوکے دیھان سے جانا۔۔

صنم اور شانزے نکلے جب بہزاد صائم کے برابر میں اکے بیٹھا اور کہا۔

اللّٰہ سے دعا مانگو صائم وہ دل سے نکلی دعا رد نہیں کرتا۔۔

صائم نے اسے آنسوؤں سے لبریز انکھوں سے دیکھا اور ایک دم اسکے گلے لگ گیا۔۔

ہنزہ رات بھر سے ڈیوٹی دے رہی تھی ۔۔۔

صبح تقریباً 7 بجے وہ گھر ائ تھی۔۔۔

منہ ہاتھ دھو کے وہ باہر نکلی تو بازل کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی۔۔

آجاؤ ہنزی مل کے ناشتہ کرتے ہیں!!

بازل نے ناشتے کی ٹرے بیڈ کے درمیان میں رکھ کے ہنزہ سے کہا۔۔

اسنے سوچ لیا تھا ہنزہ اسے کتنی ہی طنزیہ باتیں کہے مگر وہ اپنے اور اسکے درمیان سب صحیح کرکے رہے گا۔۔۔

ہنزہ اسے اگنور کرکے کمرے سے جانے لگی جب بازل نے ایک دم اسکا ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔

میں ناشتہ لایا ہو ہنزہ ناشتہ تو کرلو کھانے سے کیسی دشمنی!!!

میں کیوں کھانے سے دشمنی نکالو نگی!!!

ہنزہ نے یہ کہہ کے اپنا ہاتھ تیزی سے بازل کے ہاتھ سے چھڑوایا۔۔۔۔

مجھے تمہارے ساتھ بیٹھ  کے تمہارے ہاتھ کا بنا ناشتہ نہیں کھانا ۔۔۔

یہ بول کے ہنزہ دوبارہ کمرے سے جانے لگی جب بازل نے اسے اس بار کمر سے پکڑ کے خود سے لگایا اور کہا۔۔

میرے غصہ کو ہوا مت دو ہنزہ بازل بہت پچھتاؤ گی!!!!

پچھتاوا تو اب ساری زندگی کا ہے بازل کے میں اس شخص کی بیوی ہو جو چند دن پہلے میری عزت کو نیلام کرنے والا تھا جس نے مجھے ہوس کا نشانہ بنانا چاہا صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے ۔۔۔

یہ بول کے ہنزہ نے ایک بار بار پھر بازل کو خود سے چھڑ وایا۔

میں ان سب کیلئے تم سے اس  وقت بھی اور ابھی بھی معافی مانگ چکا ہو۔۔

تمہارے معافی مانگنے سے کیا میرا ٹوتا ہوا مان جڑ جائے گا میری محبت پہ میرا بھرم دوبارہ قائم ہوپائے گا۔۔

بھاڑ میں گئ تمہاری معافی۔۔۔۔۔۔

تم مرد اپنے اپکو سمجھتے کیا ہو ؟؟

بڑے سے بڑا ظلم عورت کیساتھ کرلیتے ہو بعد میں دیدا دلیری سے معافی مانگنے آ جاتے ہو شرم نہیں اتی کوئ غیرت نہیں آتی اسی عورت کے سامنے دوبارہ جانے سے۔۔۔

بازل سینے پہ ہاتھ باندھے فرصت سے ہنزہ کا سارا غصہ دیکھ رہا تھا اسے پتہ تھا وہ غصہ میں ہے !!

کان کھول کے ایک بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو۔ !!.

تم سے نکاح میں نے اس خاندان کی عزت بچانے کیلیئے کیا تھا محبت کی وجہ سے نہیں !!!!

محبت تو اسی دن ختم ہوچکی تھی جس دن تم نے ہماری دوستی کو ہمارے ساتھ کو ایک ہوس کی نظر کرنے والے تھے۔۔

کچھ دنوں بعد میں تم سے خلا  لے لونگی ائ سمجھ !!

ہنزہ کا اتنا بولنا تھا کے بازل نے اگے بڑھ کے اسے اپنے قابو میں کیا اور لیجا کے پیچھے الماری سے لگایا۔۔

بازل چھوڑو مجھے !!!!

ہنزہ اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگی بازل کا وجود اپنے اپ سے چھڑوانے کیلیے۔۔۔

کیا کہا پھر سے کہو؟؟؟

بازل نے انکھوں میں آنسوؤں لیے ہنزہ سے پوچھا!!

ہنزہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اسکی انکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا۔

وہی جو تم نے سنا میں تم سے خلا اس سے پہلے ہنزہ اپنا پورا جملہ مکمل کرتی بازل پورے استحاق سے اسکے لبوں پہ جھک گیا ۔۔

اسکے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ پہ قابو کرکے اپنا دوسروں ہاتھ اسکے پورے جسم پہ چلانے لگا۔۔۔ 

بازل کے اس عمل سے ہنزہ ہچکیوں سے رونے لگی مگر بازل کو اس پہ رحم نہیں ایا۔۔

چند منٹ بعد اس نے ہنزہ کے وجود کو اذاد کیا تو ہنزہ اسی ۔پوزیشن میں الماری سے لگ کے کھڑی رہی جس پوزیشن میں بازل نے اسے چھوڑا تھا ۔

پہلے میں نے سوچا تھا میں نے واقعی گناہ کیا تھا تمہیں پانے کیلئے تمہارے ساتھ زبردستی کرکے مگر اج مجھے یقین ہوگیا ہے کے میری بے جا محبت اور کئیر نے تمہیں عرش پہ بیٹھا دیا ہے اور وہاں بیٹھ کے تم اپنے اپکو کوئ اپسرا سمجھنے لگی ہو اور مجھے حقیر۔۔

ایک بات کان کھول کے سن لو ہنزہ بازل!!!

 تم پہلے میری محبت تھی مگر اب میری ضد ہو مجھ سے دور جانے کا خیال نکال دو اپنے اس بیکار دماغ سے بازل نے باقاعدہ اسکی دماغ کے سائیڈ پہ اپنا ہاتھ مارا۔۔

تمہیں چھوڑونگا نہیں کسی قیمت پہ بھی بلکے تمہیں اس قابل نہیں چھوڑونگا کے تم مجھے چھوڑ سکو۔۔۔

یہ بول کے بازل کمرے سے جانے لگا ابھی اس نے اپنا ایک پاؤں کمرے کے باہر ہی رکھا تھا کے ناشتے سے بھری ٹرے اسکے سائیڈ کی دیوار پہ اکے زور سے لگی۔

ہنزہ نے غصہ میں کہا۔۔

تم سے تو کیا تمہارے وجود سے تمہارے سائے سے بھی مجھے نفرت ہے اپنا یہ محنوس چہرہ ائیندہ مجھے مت دیکھانا بازل۔۔

اتنا کہہ کے ہنزہ واش روم میں بند ہوگئ۔۔

بازل نے ایک نظر ذمین پہ پڑی ناشتے کی ٹرے کو دیکھا اور خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔

!!!!!!!!

نمرہ زویان اور ہیر ایک ہی گاڑی میں تھے۔۔۔

گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئ نمرہ نے جب اترنے لگی تب اسنے دیکھا کے ہیر بے خبر سوئ ہوئ ہے۔۔

زویان یہ تو سو رہی ہے !!!

اپ جائے میں اسے لاتا ہو۔۔۔۔

نمرہ نے ہاں میں گردن ہلائ اور اندر بڑھ گئ۔۔

زویان نے پیچھے کا دروازہ کھول کے ہیر کو آواز دی۔۔

ہیر ہیر!!

مگر ہیر اتنی بے خبر سورہی تھی کے اسنے اتنے قریب سے اتی زویان کی اواز کو بھی نہیں سنا۔۔

زویان نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔

اپنے چاروں طرف اسنے چادر لپیٹے ہوئ تھی پاؤں سیٹ کے اوپر رکھ کے سو رہی تھی۔

زویان نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا اج بھی وہ پہلے کی طرح معصوم تھی بس فرق تھا تو اتنا اب اسکے دل میں زویان نہیں تھا۔۔

زویان نے کچھ سوچتے ہوئے پہلے اسکے کھوسے اپنے ہاتھ میں لیے اور پھر جھک کے اسے اپنی گودھ میں اٹھالیا اور ارام سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔۔

زویان اسے لے کے ارام ارام سے چلنے لگا۔۔

ہیر نے نیند میں ہی زویان کے شرٹ کو تھاما اور اسکے سینے سے اپناسر لگالیا!!!

ہیر کی اس حرکت سے زویان کا دل بے ایمان ہونے لگا پل بھر کیلئے اس قدم رک گئے مگر پھر اس نے اپنے قدم بڑھائے اور دل میں کہا۔۔

زیادہ خوش مت ہو زویان اظہر ابھی نیند میں ہے ہوش میں وہ تیرے سینے پہ اپنی گردن نہیں بلکے تیرا گلا ہی دبائے گی۔۔۔

بہت آرام سے اس نے ہیر کو اس کے کمرے میں لیٹایا اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھ کے اس نے اسے چادر اڑائ چادر اڑا کے وہ جیسی ہی پلٹا چونک کے ایک دم وہ دوبارہ ہیر کی طرف گھوما۔۔

اسنے ہیر کا سیدھا ہاتھ تھاما تو پل بھر کیلئے حیران ہوکے اس نے دوبارہ سوئ ہوئ ہیر کا چہرہ  دیکھا

ہیر جسکے سیدھے ہاتھ کی تیسری انگلی میں اج بھی زویان کی دی ہوئ پرپوز ڈے والی رنگ تھی۔۔۔

یعنی یہ اج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے؟؟

زویان نے خودی خودی اندازہ لگایا۔۔

زویان نے کچھ سوچتے ہوئے بہت ارام سے اسکے ہاتھ سے رنگ نکال لی۔۔۔

#########

ماما مجھے اپ سے بات کرنی ہے؟؟

ہیر کے کمرے نے نکل کے زویان نے نمرہ بیگم کے کمرے کا رخ کیا۔۔

نمرہ بیگم جو ابھی ابھی شکرانے کے نفل پڑھ کے بیٹھی تھی زویان کے کہنے پہ انکا دل انہونی خدشات سے ڈرنے لگا۔۔

ہاں بیٹا بولو!!!!

ماما مجھے یہ بات تو پہلے سے پتہ تھی کے پاپا کی اپ دوسری وائف ہیں میں نے کئ بار پاپا کو اپ سے کہتے سنا تھا کے میں نے تمہارے لیے شاہجاں کو دھوکا دیا۔۔۔

اج اپ مجھے خلاصہ کرے ماما کونسا دھوکا دیا پاپا نے اور اپنے شاجہاں انٹی کو ؟؟

کیوں صنم پاپا سے اتنی بدگمان ہے؟؟

مجھے سچ جاننا ہے ماما؟؟؟

نمرہ بیگم ایک ٹھنڈی اہ بڑھ کے بیڈ پہ بیٹھ گئ جس سوال  کا سامنا کرنے سے وہ ڈر رہی تھی اج وہی سوال انکے سامنے انکا بیٹا دہرا رہا تھا۔۔

نمرہ بیگم نے سب کچھ سچ سچ زویان کو بتا دیا!!!

ساری بات جاننے کے بعد زویان سکتے میں تھا اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے کیا بولے۔۔۔۔۔

ماما اپنے اپنی لالچ میں زبردستی کی محبت پانے  تعویز گنڈو کا استمال کیا۔۔

شاہجاں انٹی کی دوست ہوکے انکے شوہر پہ ہاتھ ڈالا۔۔۔

افف ماما یہ کیا کیا اپنے؟؟.

زویان ایک دم چیخ پڑا۔۔۔

ایک لڑکی کی ذات کو پیدا ہونے سے پہلے سوالیہ نشان بنادیا۔۔۔

مجھے شرم اراہی ہے ماما اپنے اپ سے ۔۔۔

سلام ہے صنم کو وہ اپکو اور پاپا کو اپنے سامنے برداشت کرتی ہے چپ رہتی ہے۔۔

واقعی اعلیٰ ضرف کی مالک ہے شاہجاں انٹی کے انہوں نے اپکو معاف کردیا نانی کو معاف کردیا پاپا کی تکلیف پہ وہ ٹرپ گئ ۔۔

مگر صنم اتنی ذلت کی حقدار نہیں وہ اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہے پاپا کو کوئ حق نہیں اسکی زندگی کا کوئ بھی فیصلہ کرنے کا۔۔

وہ اپنی انکھوں کے سامنے اپ دونوں کو برداشت کرتی ہے یہ ہی اسکے ضرف کی مثال ہے اسکی جگہ اگر میں ہوتا تو پتہ نہیں اپ دونوں کے ساتھ میں کیا کر بیٹھتا

اس شخص کا نجانے کیا حال کرتا جس نے میرا وجود میری شخصیت کو سوالیہ نشان بنادیا۔۔

یہ بول کے زویان غصہ میں کمرے سے نکل گیا اور نمرہ بیگم ایک بار پھر پچھتاوے کی اگ میں جلنے لگی۔۔

#########

بہزاد کافی دیر سے شانزے کا انتظار کررہا تھا وہ صبح ہی صنم کیساتھ ہسپتال سے نکل گئ تھی بہزاد دوپہر میں ایا تو اسے پتہ چلا  شانزے ابھی تک گھر نہیں ائ پہلے اسے پریشانی ہوئ مگر جب اسکے نمبر پہ شانزے کا ٹیکس ایا کے وہ شام تک گھر اجائے گی ابھی صنم کیساتھ ہے تو وہ ریلکس ہوگیا شام سے رات ہونے کو تھی مگر شانزے کا کچھ پتہ نہیں تھا اس پہلے بہزاد غصہ میں کمرے سے نکلتا شانزے نے کمرے میں قدم رکھا۔۔

تم نے کہا تھا شام تک آجاؤ نگی !؟

بہزاد نے غصہ میں شانزے سے پوچھا!!!

شانزے نے اپنا بیگ سائیڈ میں رکھا اور بیڈ پہ تقریباً لیٹتے ہوئے کہا۔۔

ہاں میں صنم کیساتھ تھی اسلیے لیٹ ہوگئ۔۔۔

اپ کو بتایا تھا میں نے دیر سویر ہوجاتی ہے ۔۔

یہ بول کے شانزے بہزاد کو اگنور کرکے جانے لگی تب بہزاد نے اسکا ہاتھ تھام کے کہا۔۔

مجھ سے کس بات کی ناراضگی ہے شانزے میں نے کیا کیا ہے؟؟

بہزاد اس ٹاپک کو نہ ہی چھیڑے تو بہتر ہوگا !!

 یہاں بیٹھو ۔۔

بہزاد نے اسے صوفے پہ بیٹھایا اور  کہا۔۔

اب بتاؤ میرا کیا قصور ہے؟

بہزاد صنم کا کیا قصور ہے یہ بتائے مجھے۔۔۔

کیوں اسے ہر دفعہ تنہائ کی سزا سنائ جاتی ہے کیوں ہر دفعہ اسے شاہجہاں انٹی ذلیل کرتی ہیں۔۔

اب نے بھی اسے ہی قصور وار ٹہرایا۔۔۔

کیوں؟؟

شانزے تم جانتی ہو اظہر بھائ کی حالت اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو۔۔۔

میں یہ سب نہیں جانتی بہزاد اپنے خالی صنم پہ نظر رکھی ہوئ تھی میں نے اسکے ساتھ وقت گزارا ہے۔۔

پچپن سے میں اسکے ساتھ ہو۔۔

اگر اظہر انکل نے اسکے ساتھ ناانصافی کی تو انصاف شاہجہاں انٹی نے بھی نہیں کیا۔۔

12 سال کی بچی تپتی ہوئ دھوپ میں سزا میں اسلیے کھڑی ہوتی تھی کیونکہ اسکی ماں کے پاس اسکو پڑھانے کا ٹائم نہیں ہوتا تھا ۔

جس دن رزلٹ ہوتا تھا سب کے پیرنٹس اتے تھے مگر صنم کی ماما بزنس میٹنگ میں مصروف ہوتی تھی۔۔

صنم  جب بالغ ہوئ تو اگے کے معملات اسکی ماں کے ہوتے ہوئے میری ماں نے سمجھائے۔۔۔

کیوں بہزاد کیوں؟؟

عترت اپی کی واہ واہ کرتے نہیں تھکتی تھی انٹی اور صنم کی چھوٹی سی غلطی پہ بھی شاہجاں انٹی اسے باپ کا طعنہ دینا نہیں بھولتی تھی۔۔

کیوں بہزاد کیوں ؟؟

کیا وہ اپنی مرضی سے دنیا میں ائ تھی ۔۔

جب صنم  7 سال کی تب شاہجاں انٹی نے اسے اسکی شرارت پہ پہلا تھپڑ یہ کہہ کے مارا تھا۔

باپ تو پہلے ہی اسکی وجہ سے مجھے زمانے میں رسوا کر گیا اب یہ بھی میرا نام خراب کرے گی۔۔

اسکی شرارت کیا تھی خالی یہ کے اسنے سامنے والی آنٹی کی دروازے کی بیل بجائ تھی وہ بھی اس وجہ سے کے انکا کتا گھر سے کودنے کی کوشش کررہا تھا۔۔

شانزرے روتے روتے صنم کے ساتھ ہوئے ظلم گنوا رہی تھی۔۔

اظہر انکل کی اج شاجہاں انٹی کو اتنی لگ رہی ہے کے انکی زندگی کی دعائیں مانگ رہی ہیں تو پہلے معاف کردیتی نہ انہیں  تہ کے ایک لڑکی کی  ذات تو مجروح نہں ہوتی اسے یہ طعنہ تو سننا نہیں پڑتا کے اس محنوس کی وجہ سے اسکا باپ چھوڑ کے گیا۔۔

کاش یہ پیدا ہی نہیں ہوتی۔۔

ایک شخص کو دل میں جگہ دی تھی اس پہ بھروسہ کرنا شروع کیا تھا مسکرانے لگی تھی صنم بھولنے لگی تھی اپنا پچپن تو اسنے بھی اپنی اوقات دیکھا دی ۔۔

اب جب وہ اپنے حق کیلئے بولی تو اسے ہی قصور وار بنادیا اپ سب نے۔۔

شانزے بے تحاشہ رو رہی تھی ادھر بہزاد بھی خاموش تھا اسے اندازہ نہیں تھا کے اسکی ملکہ اس بچی کو اس جرم کی سزا بچپن سے دیتی ائ ہے جو اسنے کیا ہی نہیں۔

بہت تکلیف تھی نہ سب کو صنم سے اسکی ذات سے چلی گئ ہے وہ سب سے دور کبھی واپس نہ انے کیلئے ۔۔۔۔

کہاں گئ ہے صنم شانزے مجھے بتاؤ !!!

بہزاد نے پریشان ہوے پوچھا۔۔

کوئ ضرورت نہیں اپکو اسکے لئے پریشان ہونے کی اپ صرف اپنی ملکہ اپنے بھانجے کیلئے پریشان ہو۔۔

قسم ہے اپکو بہزاد اگر اپنے یہ بات شو کی کے صنم گھر پہ نہیں ہے یہ چلی گئ ہے کہیں۔۔!!

اگر اپنے ایسا کیا تو یقین جانے میں اپ سے کبھی بات نہیں کرونگی۔۔

شانزے یہ بول کے کمرے سے چلی گئ۔۔

میں بھی اپکے ساتھ چلتی ہو وہاج؟

ارے میری جان اتنی جلدی جلدی تمہارا سفر کرنا سیو نہیں ہے ماما بھی یہ ہی ہیں ابھی تم اکیلی وہاں کیا کروگی۔۔

تمہاری کنڈیشن ابھی ٹھیک نہیں ہے۔۔

وہاج کے کہنے پہ عترت ایک دم منہ لٹکا کے بیٹھ گئ۔۔

وہاج جو اپنی پیکنگ کررہا تھا ایک گھنٹے میں اسکی فلائٹ تھی عترت کو ایسا افسردہ دیکھا تو پیکنگ چھوڑ کے اسکے پاس اکے بیٹھ اور کہا۔۔

ادھر دیکھو میری طرف!!!!

وہاج کے کہنے پہ عترت نے افسردہ شکل بنا کے اسے دیکھا ۔

اسکی شکل دیکھ کے وہاج کو اس پہ بہت پیار ایا اس نے جھک کے اسکے لبوں کو چوما اور کہا۔۔

اب ایسی شکل بناؤ گی تو میرا جانا مشکل ہوجائے گا!!!

تو پھر مجھے بھی ساتھ لے کر چلے نہ!!!

دیکھو عترت یہاں انٹی کو تمہاری ضرورت ہے مانا انکے ساتھ انکی پوری فیملی ہے مگر پھر بھی انہیں تمہاری ضرورت ہے مجھے نہیں لگتا آنٹی ابھی فلحال صنم سے کوئ بات کرینگی یہ اسکی شکل بھی دیکھے گی۔

پلیز مجھے ہنستے ہنستے وداع کرو دو ہفتوں کی تو بات  ہے پھر آجانا پنڈی !!!

وہاج کے سمجھانے پہ عترت کافی سنبھل گئ تھی۔۔

#######

بلاج صاحب نے فلحال صائم سے بلکل بات چیت بند کری ہوئ تھی انہیں کہی نہ کہی اندازہ تھا کے صنم کیساتھ صائم نے کچھ کرا ہے وہ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔۔۔

اظہر صاحب کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئ تھی فلحال وہ  وہاج صاحب کے گھر پہ تھے مگر جب سے ہسپتال سے ائے تھے بلکل خاموش تھے اگر کوئ  بات کرتا تو کرتے ورنہ اکثر خاموش ہی رہتے ۔۔

شاہجاں بیگم کسی سائے کی طرح انکے ساتھ تھی جبکے نمرہ نے اپنے قدم۔پیچھے کرلیے تھے۔۔

اس دوران کسی ایک کو بھی ایک بار صنم کا خیال نہیں ایا اور یہ بات بہزاد کیلئے کافی حیران کن تھی اسے کہی نہ کہی شانزے کی بات کافی حد تک صحیح بھی لگی۔۔

یہاں تک کے ایک بار بھی عترت کو بھی اپنی بہن کا خیال نہیں ایا۔۔

دائ جان کو وہاج نے فلحال اپنے گھر میں بلالیا تھا اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کے انکی حالت بہت مشکل سے سنبھلی تھی۔۔

بلاج بازل سے کافی ناراض ہوکے پنڈی گیا تھا جس دن ہنزہ اور بازل کی لڑائ ہوئ اس دن بازل کے پاس کسی کام سے انے والا بلاج سب سن چکا تھا مگر اسنے بازل  پہ یہ بات ظاہر نہیں کی تھی کے وہ ان دونوں کے خراب تعلقات جان چکا ہے ۔۔

ائیرپورٹ پہ ہی بلاج بازل کی کافی عزت افزائی کرچکا تھا اور اسنے صاف صاف لفظوں میں بازل کو کہہ دیا تھا اب وہ کراچی جبھی ائے گا اور جب ہنزہ اسے معاف کردے گی اور ان دونوں کے درمیان سب کچھ صحیح ہوجائے گا اس سے پہلے وہ اس سے بات بھی نہیں کرے۔۔

#########

اج وہاج مینشن میں قران خوانی رکھی گئ تھی۔۔۔

اظہر صاحب کی صحت یابی کے باعث ۔۔۔

پورا خاندان ہی انکا جمع ہونے والا تھا جب شاہجاں نے بہزاد کو کال کرکے صنم کو بھی لانے کو کہا۔۔

ملکہ کی بات پہ بہزاد کو دل بہت دکھا تھا اج ایک ہفتہ بعد اسے یاد ایا کے انکی ایک بیٹی بھی ہے ۔۔۔

بہزاد کو یہ سوچ سوچ کے حیرانگی ہورہی تھی کے یہ بات خالی شانزے اور وہ جانتے ہیں کے صنم گھر پہ نہیں ۔۔

مگر شاہجاں کے علم یہ ہی بات ہے وہ ایک ہفتہ سے گھر پہ ہے ۔

جوان جہاں بیٹی ایک ہفتے سے اکیلی ہے اور شاہجاں نے ایک بار بھی اسکی فکر نہیں کی اگر خود غصہ میں تھی تو کم از کم اسے یہ شانزے کو تو کال کرکے بول سکتی کے صنم کی خیریت لے لو۔۔۔

پوری قران خوانی ختم ہوگئ مگر صنم کو الٹے سیدھے الفاظ بولنے سے شاہجاں باز نہیں ائ۔۔۔

رات کے ڈنر کے بعد سب ہی لانج میں جمع تھے بازل کی تقریبا ساری فیملی چلی گئ تھی صرف ندا بیگم ہنزہ اور بازل تھے جنہیں شاہجاں نے روک لیا۔۔

سب ہی کے درمیان شاجہاں نے شانزے کو مخاطب کرکے کہا!

شانزے ؟؟

جی آنٹی!!!

شرم انی چاہیے ویسے صنم کو ؟

شاہجاں کا ایسا بولنا تھا کے شانزے نے ایک نے نظر وہاں بیٹھے سب نفوس کو دیکھا اور پھر ایک لمبی سانس لے کر کہا۔۔

سوری انٹی میں سمجھی نہیں اپکی بات !!

کون صنم ؟کس صنم کی بات کررہی ہیں اپ؟؟؟

وہی جو غلطی سے اپکی بیٹی ہے !!

شانزے !!!

بہزاد نے ایک دم اسے ٹوکا۔۔۔۔

اج نہیں بہزاد اج بلکل نہیں بولینگے اپ!!

معاف کریے گا انٹی مگر اپ کہی اپنی اس بیٹی کی تو بات نہیں کررہی جیسے اپ بچپن سے اس بات کی سزا دیتی ائ ہیں کے ایک تو وہ بیٹی ہے اور دوسرا وہ لڑکی پیدا ہوئ ہے اور تیسرا اپکا شوہر اسے اپکی وجہ سے چھوڑ کے چلا گیا۔۔

سب کے سامنے   شانزے نے ایک ایک بات وہی دوہرائ جو اسنے بہزاد کے سامنے کہی۔۔

جیسے سن کے شاجہاں سن تھی وہی زویان نے گھوم کے اپنی ماں باپ دونوں کو دیکھا !!

معاف کریے گا انٹی اگر اپکو انکل کو معاف کرنا تھا تو پہلے کردیتی اپ اج سارے یہاں پر مل کے بیٹھے ہیں  جو ماضی میں کوئ نہ کوئ گناہ کر چکا ہےنہیں ہے تو صرف وہ جسکا کوئ قصور ہی نہیں قصور ہے تو صرف اتنا کے وہ ایک لڑکی ہے اور اپ عترت اپی اپکی شان میں کونسی گستاخی کردی تھی صنم نے

اپی اپی کرتے وہ تھکتی نہیں تھی عترت اپی اپکو بھی اپنی بہن کا خیال نہیں ایا۔۔۔

عترت بھی کافی شرمندہ ہوئ!!

ایک بات یہاں بیٹھا ہر نفوس سن لے اج۔۔

چلی گئ ہے صنم اپ سب کی زندگی سے بہت دور کبھی واپس نہ انے کیلئے سکون سے رہے اپ سب!!

کہاں گئ ہے صنم؟؟

شہاجاں بیگم ایک دم بول پڑی۔۔

اپکے لیے تو وہ ایک ہفتہ پہلے مرگئ ہے انٹی اپ فکر نہ کرے۔۔

شانزے یہ کہہ کے صائم کی طرف مڑی اور کہا۔۔

صنم نے کبھی اپنی زندگی میں غلط فیصلہ نہیں لیا۔کبھی کوئ گھٹیا فیصلہ نہیں کرا۔۔

مگر تم سے تعلق جوڑنے میں واقعی وہ گھٹیا فیصلہ کرگئ ۔

تمہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا صائم یاد رکھنا۔۔

یہ بول کے شانزے وہاں رکی نہیں چلی گئ عاشر کو لے کے۔۔

شاہجاں بیگم گھنٹوں ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی!

اج جو آئینہ شانزے انہیں دیکھا کے گئ اس میں انہیں کا عکس داغدار  تھا۔۔

اظہر صاحب نے اکے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ بلک پڑی۔۔۔

اظہر نے انہیں خاموشی سے اپنے اپ سے لگالیا۔۔

اللّٰہ اپنی عبادت میں اپنی ذات میں شرک برداشت نہیں کرتا شرک کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔۔

شرک کسی بھی رشتے میں ہو اسکی بنیاد ہلا دیتا ہے ۔۔

عورت سب کچھ برداشت کر جاتی ہے بس اپنی محبت میں شرک نہیں !!!

اظہر صاحب نے نہ صرف انکی محبت میں شرک کیا بلکے انکو اس حد تک مجبور کردیا اس حد تک تنہا کردیا کے وہ اپنا سارا فرسٹیشن صنم پہ نکال نے لگی۔۔

اپنی جوانی کا ادھورا پن اپنی تنہائ کا قصور وار وہ صنم کو سمجھنے لگی !!

انکی انا نے انکی زندگی کے کافی سال برباد کردیے ایک لڑکی کی  ذات کو سوالیہ نشان بنادیا۔۔۔

بس کرو شاجہاں !!.

اظہر نہ میں اچھی بیوی بن پائ نہ ماں۔۔

میں اپنی ہی بیٹی کو اپنے برباد ہونے کی ناگہانی سزادی اسے اس جرم کی سزا دی جو اس نے کی ہی نہیں ۔۔!!!!!

نہیں شاجہاں اصل قصور وار میں ہو ۔۔

نہ میں تمہیں دھوکا دیتا نہ ایس کچھ ہوتا نہ اج صنم کی ذات مجروح ہوتی 

میں نے ہی اپنی محبت میں شرک کیا شاہجاں میں ہو تمہارے ہر دکھ کا مجرم کیوں بھول گیا تھا میں کے اولاد مرد کے نصیب سے ہوتی ہے !!

بھول گیا تھا میں کے اللّٰہ اپنے جس بندے سے سب سے ذیادہ خوش ہوتا ہے اسکے گھر بیٹیاں پیدا کرتا ہے !

جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے اس گھر میں ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سلام اتا ہے کتنا بد بخت ہو میں شاجہاں کے میں نے انکے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔۔

اگر تم نے صنم کے ساتھ ذیادتی کری ہے تو میں نے بھی زویان کی شخصیت کو مجروح کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی۔۔۔

اج دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کررہے ہے دونوں ہی بلک رہے تھے پچھتاوا ہی اب انکا مقدر تھا!!

مگر اج یہ دونوں کتنا ہی پچھتا لے پرانا وقت لوٹ کے نہیں ائے گا۔۔۔

(اگر قیامت والے دن اللّٰہ اولاد سے سوال کرے گا کے اپنے ماں باپ کیلئے کیا کیا!!

تو ماں باپ سے بھی سوال کیا جائے کے اپنی اولاد کیلئے کیا کیا۔۔)

کوئ بھی چور ،ڈاکو،زناکار ،بدتمیز ،جاہل ،نشئ ،جواری ،لڑکی باز ،یہ بگڑی ہوئ یہ بگڑا ہوا

پیدائشی نہیں ہوتا ان سب کے پیچھے ہاتھ ہوتا ہے ماں باپ کا انکی لاپرواہی انکی خودغرضی انکے بچوں کی ذات کو سماج کے سامنے بے مول کردیتی ہے!!

وقت نکلنے کے بعد پھر ماں باپ کہتے ہیں ہمارے ہاتھ سے نکل گیا مگر یہ بھول جاتے ہیں وقت نکالنے میں انہیں کا ہاتھ ہے۔۔

#############

پاپا بھائ کی بات تو سن لے!!

ہیر نے ہلکا سا احتجاج کیا جب مسلسل ایک گھنٹے سے صائم کے پکارنے کے باوجود  وہاج نے اس کی پکار کی جواب دینا تو بہت دور اسکی طرف دیکھا تک نہیں ۔

خوشبو بھی اس معملے میں خاموش تماشائی بنی تھی وہاج نے اسے سختی سے منع کردیا تھا اس معملے میں بولنے کو۔۔

پاپا میری بات تو سن لیں میں مانتا ہو میں نے صنم کیساتھ غلط کیا مگر اب میں اس سے محبت کرنے لگا ہو اپنی ہر غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہو پلیز۔۔

میں تمہاری بات جب ہی سنوگا صائم جب صنم تمہیں معاف کردے گی !!

اس سے پہلے نہ تو مجھے اپنی یہ شکل دیکھانا جس نے میری تربیت پہ یہ داغ لگایا کے صائم وہاج ایک پلے بوائے ہے جسکا۔شوق لڑکیوں کے جزبات سے کھیل کے انہیں اپنے بستر تک لیجانا ہے۔۔۔

وہاج صاحب کے منہ سے ایسی بات سن کے خوشبو اور ہیر شرم سے رخ پھر گئ جبکہ صائم کا دل کیا کے زمین پھٹے  اور وہ اسمیں سما جائے ۔۔

دفعہ ہوجاو اپنی شکل لے کر یہاں سے جبھی اپنی یہ شکل دیکھانا جب صنم تمہں معاف کردے۔۔۔

صائم انکھوں میں آنسو لیے تیزی سے کمرے سے نکلا تو سامنے زویان کو کھڑا پایا بھیگتی آنکھوں سے اسے دیکھا اور جانے لگا جب زویان نے اسے کھینچ کے اپنے سینے سے لگالیا۔۔

صائم زویان کے سینے سے لگ کے بے اواز رونے لگا۔۔۔

#######

صائم نے کچھ سوچتے ہوئے ہنزہ کے ہسپتال کا رخ کیا کے شاید نہال سے صنم کا پتہ مل جائے !!.

زویان بھی اسی کیساتھ تھا۔۔

وہ دونوں  گاڑی پارک کرکے اندر جارہے تھے جب انھیں بازل نظر ایا۔۔

ان دونوں نے سوچا چلو اس سے بھی دعا سلام کرلے !!

وہ دونوں تھوڑا اگے بڑھے تو ہنزہ بھی تھی جو کافی غصہ میں تھی۔۔

میری ذمیداری تمہیں اٹھانے کی ضرورت نہیں بولا تھا نہ تمہیں کے یہ نکاح فرضی ہے میں بچی نہیں ہو ابھی جاؤ گی اور چلی بھی جاونگی ۔۔۔

یہ کہہ کے ہنزہ اندر بڑھ گئ اور بازل نے اسکے جاتے ہی زور دار مکا گاڑی کی بونٹ پہ مار کے ایک دم پلٹا تو ان دونوں کو خود کو تکتا پایا۔۔

########

وہ تینوں کیفت ٹیریا میں بیٹھے تھے بازل  بھی اپنی غلطی انکے اگے رکھ چکا تھا مگر اصل اسے جھٹکا زویان کے کارنامے سے لگا تھا۔۔

اب ایک ہی حل ہے ہم تینوں کے پاس۔۔۔۔؟

زویان نے سر کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

کونسا حل ؟؟

صائم نے تجسسس سے پوچھا۔۔

میں تم دونوں کو رات کو ایک اڈریس بھیجونگا وہاں تم دونوں اجانا وہی ڈسکس کرینگے کے اپنی اپنی بیویوں کو کیسے اپنے پاس واپس لایا جائے۔۔

شاید بھول رہا ہے تو صنم میری بیوی نہیں!!!

صائم نے کافی منہ بنا کے یہ بات کہی۔۔۔

تو بنانا تو چاہتے ہیں نہ ؟؟

ہاں ہاں ؛!!

تو بس کل ملتے ہیں ہم ۔۔!!!

#######

وہ تینوں مطلوبہ جگہ پہ جمع تھے زویان انہیں اپنا پلان بتانے والا تھا جب وہاں بہزاد ایا جیسے دیکھ کے زویان نے کافی سڑے ہوئے منہ بنا کے کہا۔۔

یار ایک تو یہ کوہ قاف کا جن ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔۔

زویان نے بہزاد کو فلیٹ میں اینٹر ہوتے ہوئے  دیکھ کے سڑا ہوا منہ بناکے  طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

انہیں کس نے بتایا ہم یہاں ہے؟؟

زویان نے صائم کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ہاں میں نے بتایا ۔۔۔

زویان کے شک کو صائم نے یقین میں بدل کے کہا۔۔

بیٹا یہ کوہ قاف کا جن ہی تجھے تیرے باپ سے بچا سکتا ہے اور عزت سے تیری بیوی تجھ تک لا سکتا ہے۔۔

ورنہ جو تو میری بہن کیساتھ کرچکا مت پوچھ میں کیسے برداشت کرکے بیٹھا ہو۔۔۔

صائم نے زویان کو غصہ میں گھورتے ہوئے کہا۔

ہاں تم نے تو جیسے داستان عشق محبت لکھی ہے میری بہن کیساتھ۔۔

زویان نے بھی حساب برابر کرتے ہوئے کہا۔۔

ایک کام کرو بہن بہن کھیل لو تم دونوں اپنی اپنی بیویاں سے ہم  قبر میں مل لینگے۔۔

بازل نے دونوں کو غصہ سے کہا۔۔

بات سن زویان یہ جیسے تم کو قاف کا جن بول رہے ہو آج میں خوبصورتی میں ہم تینوں کو مات دیتے ہیں۔۔

صائم  نے  بہزاد کو بلیک قمیض شلوار میں آتا دیکھ کے کہا۔۔

ہیلو بوائز !!!

مجھے دیر تو نہیں ہوئ انے میں صائم۔۔۔!!

نہیں ماموں ۔۔۔۔

زویان نے بہزاد کے دیکھ کے کافی سڑا ہوا منہ بنایا ہوا تھا جیسے دیکھ کے بہزاد نے کوئ غصہ نہیں کیا بلکے زویان کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

یار تم مجھ سے اتنی خار کیوں کھاتے ہو؟؟

میں کیوں خار کھاؤ نگا اپ سے بہزاد بھا!!!!!اسے سے پہلے زویان اپنا جملہ پورا کرتا بہزاد نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا!!

میں تمہارا بھی ماموں ہو سگا نہیں ہوا تو کیا ہوا نمرہ اپی میری بہنوں کی طرح ہیں۔۔

ٹھیک ہے اب اگر صائم نے یہاں اپکو بلایا ہے بہزاد بھا۔۔مطلب بہزاد ماموں تو اپ ہی بتائے ہم کیسے اپنی اپنی بیویوں کو اپنے پاس واپس لے کر ائے وہی انکی پرانی محبت کیساتھ۔۔۔

زویان کے کہنے پہ بہزاد ایک دم سیریس ہوا اور کہا۔۔

تم تینوں نے انکے تینوں کیساتھ بہت برا کیا ہے اتنا تو ان تینوں کا حق بنتا یے ناراض ہونے کا۔۔۔

مگر میں اج ایک بات کہو!!

ہوسکتا ہے میں ان تینوں کو سمجھاؤ تو وہ لوگ سمجھ جائے اور خاموشی سے تم تینوں کی زندگیوں میں شامل ہوجائے مگر یہ وہ سمجھوتہ کرینگی تم محبت نہیں۔۔۔

ان تینوں کیلیے جو کرنا ہوگا تم تینوں نے خود کرنا ہوگا انہیں یقین دلانا ہوگا کے تم لوگ بدل چکے ہو بازل کا معملہ اتنا بڑا نہیں ہاں مگر غلط بازل نے بھی ہنزہ کیساتھ کیا ہے۔۔

مگر زویان تمہارے لیے ایک بری خبر ہے؟؟

کیا بہزاد ماموں؟؟

زویان نے کافی گھبرائے ہوئے انداز میں بہزاد کی طرف دیکھا۔

ہیر نے خلا کے پیپرز تیار کروا لیے ہیں اور کل وہ سب کے سامنے تمہارا اور اپنا رشتہ بتا کے تم سے سب کے سامنے خلا لے گی۔

ایسا نہیں ہو سکتا بہزاد ماموں میں اسے ایسا کرنے نہیں دونگا ۔۔

یہ بول کے زویان تیزی  سے فلیٹ سے نکلا!!

وہ تیون بھی اسکے پیچھے بھاگے۔۔

وہاج مینشن میں قدم رکھتے ہیں زویان نے چیخ چیخ کر ہیر کو پکارا۔۔

ہیر ہیر!!

زویان کے اتنی تیز اواز پہ پورا گھر جمع ہوگیا۔۔

وہاج اور اظہر صاحب بھی پریشانی کے عالم میں کمروں سے نکلے۔۔۔۔

ہیر جانتی تھی ایس کچھ ضرور ہوگا ۔۔کیونکہ اسے پتہ تھا بہزاد یہ خبر اس تک ضرور پہنچائے گا

وہ ریلکس انداز میں نیچے گئ مگر ساتھ میں خلا کے پیپرز لیجانا نہیں بھولی ۔۔

ہیر کو اپنے سامنے دیکھ کے زویان جسکی انکھوں سے تیزی سے آنسو جاری تھے ایک دم اس تک پہنچا اور کندھوں سے تھام کے کہا۔۔

تم مجھ سے خلا لے رہی ہو؟؟

زویان کے الفاظ تھے یہ پھر کوئ بم !!

خوشبو بیگم نے فورا وہاج کا کندھا تھاما اور اظہر صاحب نے بے یقینی کی کیفیت میں زویان کو دیکھا۔۔

ہاں !!!

ہیر نہیں کرو میرے ساتھ ایسا میں تم سے بہت کرتا ہو بلکے عشق کرنے لگا ہو اللّٰہ کا واسطہ تمہہیں ہیر۔۔۔۔

زویان نے اسکے اگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے جب ہیر نے نے غصہ میں کہا۔۔

نفرت ہے مجھے تم سےزویان اظہر اس گھٹن سے میں اذاد ہونا چاہتی ہو میں۔۔

یہاں ہو کیا رہا ہے کوئ بتائے گا مجھے ؟؟

اظہر صاحب نے کافی زور سے کہا جسکی وجہ سےانکے ہارٹ میں تکلیف ہوئ تو شاجہاں اور نمرہ دونوں نے انہیں تھاما۔۔

میں بتاتی ہو انکل اپکو!!

ہیر نے یہ بول کے لندن میں ہوا سب کچھ اظہر صاحب کو بتا دیا۔۔

جسے سن کے خوشبو ایک دم سناٹے میں تھی ادھر اظہر صاحب نے اگے بڑھ کے ایک زناٹے دار تھپڑ زویان کے منہ پہ مارا۔۔

یہ تو میں جانتا تھا تم بگڑے ہوئے ہو مگر یہ نہیں جانتا نہ اتنا یقین تھا کے تم نکاح جیسے رشتے کا سہارا لے کر کسی لڑکی کی زندگی برباد کروگے۔۔۔

یہ بول کے جب دوبارہ اظہر صاحب زویان کو مارنے لگے تب بہزاد نے اکے انکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

چھوڑو مجھے بہزاد میں اج اسے جان سے ماردونگا۔۔۔

اظہر بھائ پلیز غصہ نہ کرے اپکی طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔

اچھا ہے بہزاد مجھے مرجانے دو۔۔

اج اس نے کوئ کسر چھوڑی بہزاد!!.اظہر صاحب بلک پڑے۔۔

پاپا میں محبت کرتا ہو ہیر سے مرجاونگا اسکے بنا !!

تو مرجاو زویان اظہر ۔۔۔

ہیر نے چیخ کے کہا۔

میں اس قصہ کو اج ہی ختم کردونگی۔۔

یہ بول کے اپنے ساتھ لائے خلا کے پیپر پہ جیسے ہی ہیر سائن کرنے لگی۔۔

زویان نے کہا۔۔

اگر تم نے ایساکیا ہیر تو میں جان لے لونگا۔۔۔

یہ بول کے زویان نے اپنے پاس موجود پسٹل نکالی جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔۔

یہ کیا بچوں والی حرکت ہے زویان ۔۔۔۔

پسٹل نیچے کرو۔۔۔۔

صائم نے اگے بڑھ کے کہا۔۔

نہیں صائم بھائ میرے قریب مت اائیے گا میں ماردونگا۔۔۔

زویان پسٹل نیچے کرو۔۔

وہاج صاحب بھی ایک دم بول پڑے۔۔

کیا سمجھتے ہو خود کو ایسے پسٹل دیکھا کے تم مجھے ڈرا دوگے تو یہ بھول ہے تمہاری !!

مجھے تمہارے ساتھ رہنا سے ذیادہ موت کو گلے لگانا منظور ہے چلاو پسٹل زویان اظہر۔۔۔

تم سے کس نے کہا یہ تمہارے لیے ہے۔۔۔

تم زندگی سے جاؤ گی تو ویسے بھی جینا مشکل ہوجائے گا تو کیوں نہ اج ہی اس وجہ کو ختم کردو جو مجھے مجبور کرے تمہارے بعد جینے پہ۔۔

یہ بول کے زویان نے ایک نظر مسکراکے ہیر کو دیکھا اور اپنے دل پہ پسٹل رکھ کےگولی چلا دی۔۔۔۔

زویان کے سینے سے خون نکلتا دیکھ سب کی ہی دلخراش چیخیں نکلی سوائے ہیر کے۔۔

نمرہ بیگم سکتے کی کیفیت میں وہی صوفے پہ گر گئ۔۔

زویان !!!!!!!

صائم نے پوری ڈھار کیساتھ زویان کے گرتے وجود کو سنبھالا ۔۔

بازل ہونقوں کی طرح گھٹنوں کے بل ذمین پہ بیٹھا تھا اس نے بھی بھر پور طریقے سے صائم کیساتھ زویان کے وجود کو سنبھالا تھا!!

ہیر جو سمجھ رہی تھی زویان خالی دھمکی دے رہا ہے اسنے جب زویان کے سینے سے بلڈ نکلتا دیکھا اگے بڑھ کے اسنے زویان کے دل کے مقام پہ اپنا ہاتھ رکھا پلٹ کر اپنا ہاتھ دیکھا تو زویان کا خون اسکے ہاتھ پہ لگا تھا۔۔

 اسنے ایک نظر اپنے ہاتھ کو دیکھا اور بیہوش ہوگئ۔۔۔

اظہر صاحب سن کھڑے تھے جب کے بہزاد کے قدم ڈگمگائے تھے ۔۔

اسے یقین نہیں ارہا تھا کے یہ ایسا کچھ کرے گا مگر یہ وقت ہوش سے کام لینے کا تھا اسنے زویان کے وجود کو اپنی باہوں  میں اٹھایا اور باہر بھاگا۔۔

صائم نے ہیر کو گود میں اٹھایا تو اسکا ہاتھ ایک طرف ڈھلک گیا۔۔

ہیر ہیر ۔۔۔!!

انکھیں کھولو ہیر۔۔۔

بازل تم سب کو لے کر ہسپتال پہنچو میں ہیر کو لے کر جاتا ہو۔۔۔

بہزاد زویان کو لے گاڑی کی  پچھلی سیٹ پہ پیٹھا اور اپنی قمیض اتار کے اسکے دل پہ رکھی جہاں بلڈ بہت تیزی سے نکل رہا تھا۔۔

مرتضی کسی سگنل پہ گاڑی نہیں روکنا جتنی اسپیڈ میں گاڑی چلا سکتے ہو گاڑی چلاو۔۔

بہزاد اتنی زور سے چیخا کے مرتضی اسکا گارڈ جو سالوں سے بہزاد کے ساتھ تھا نجانے کتنے لوگوں سے بہزاد کو بچاتے ایا تھا اج اسکے ہاتھ گاڑی کے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے کپکپا رہے تھے۔۔

بہزاد زویان کے وجود کو ہسپتال کے اندر لے کر پہنچا ۔۔۔

ڈاکٹر ڈاکٹر !!

بہزاد کی ڈھار اتنی تھی کے اس وقت جتنے ڈاکٹرز  ہسپتال میں موجود تھے سب تقریبا ڈورتے ہوئے باہر ائے۔۔

بہزاد نے اسے اسٹیچڑ پہ لیٹایا اور چیخ کے ڈاکٹرز کو کہا۔۔

اسے بچانا یے ڈاکٹر  اپ نے ؟

مگر سر یہ توپولیس کیسس ابھی اگے کی بات ڈاکٹر کی مکمل  نہیں ہوئ کے بہزاد نے اسکے کالر پکڑ کے چیخ کے کہا۔۔

بہزاد راجپوت ہو میں ایک سیکنڈ کے اندر اندر اگر اپنے اسکا علاج شروع نہیں کیا تو یہ ہسپتال اس شہر کے نقشے سے غائب ہوجائے گا۔۔۔

بہزاد راجپوت کی دھمکی سے ڈاکٹرز زویان کو فورا اپریشن ٹھیٹر میں لے کر گئے۔۔۔

اتنی دیر میں صائم ہانپتا کانپتا ہیر کے وجود کو اٹھا کے اندر لایا۔

بہزاد فورا اس تک لپکا جب صائم نے تقریبا روتے ہوئے کہا۔۔

ماموں اسکی سانسیں بہت اہستہ چل رہی ہیں۔۔

بہزاد نے ہیر کی ٹریٹمنٹ بھی فورا شروع کروائ۔۔

پورا خاندان جمع ہو چکا تھا بہزاد کا وائٹ بنیان پورا لال ہوچکا تھا۔۔

ہیر کو بھی ابھی تک ہوش نہیں ایا تھا اسے اکسیجن لگا تھا ڈاکٹروں کا کہنا تھا اسکی ہارٹ بیٹ بہت سلو ہے۔۔۔

زویان کا آپریشن ابھی چل رہا تھا شانزے کو بھی بہزاد نے انفارم کردیا تھا ۔۔

نمرہ شاہجاں عترت تقریبا وہاں موجود ہر شخص زویان کہ صحت کیلئے دعاگو تھا۔۔۔

صائم اور بازل سن تھے دونوں کے کپڑوں پہ زویان کا خون لگا لگا ہوا تھا۔۔ انہیں رہ رہ کے زویان کا ہنستا ہوا چہرہ یاد ارہا تھا۔۔

بہزاد تو بس ادھر سےا دھر ٹہل رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے اپریشن ٹھیٹر کے اندر چلے جائے۔۔۔

بہزاد اب بیٹھ جائے انشاء اللہ زویان کو کچھ نہیں ہوگا۔۔

شانزے اج ہی تو اس نے مجھے ماموں کہا تھا اج ہی تو ہم۔لوگ قریب ائے تھے شانزے یہ بولتے ہوئے بہزاد کی آنکھیں بھیگنے لگی۔۔۔۔

بہزاد اپ دعا کرے اسکے لیے۔۔

ہیر کے پاس گئ تھی تم؟

ہاں بہزاد ابھی تک اسے ہوش نہیں ایا یے ۔۔

اظہر بھائ پلیز رونا بند کرے اپکی طبیعت بگڑ جائے گی۔۔

کیسے نہ رو  وہاج یہ میرے ہی برے کرموں کا نتیجہ ہے جو اج میری اولاد کے سامنے اراہا ہے ۔۔

ایسا نہیں بولے ااظہر بھائ اللّٰہ سے دعا کرے۔۔۔

ہیر کو ہوش ایا؟؟

نہیں بھائ خوشبو اسی کے پاس ہے !!!

آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھول ڈاکٹرز باہر ائے !!.

بہزاد تیزی سے ان تک پہنچا اور پوچھا۔۔

کیسا ہے زویان؟؟

دیکھے بہزدا سر ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے بلٹ ہم نے نکال دی ہے مگرا نکا بلد کافی ضائع ہوگیا ہے اگر اگلے دس منٹ کے اندر اندر انہیں بلڈ نہیں ملا تو وہ بچ نہیں پائینگے۔۔۔

کونسا بلڈ گروپ ہے اسکا ڈاکٹر ؟صائم نے ایک دم پوچھا۔۔۔

0نگیٹو !!

100 میں سے 10 لوگوں کا یہ بلڈ گروپ ہوتا ہے بہزاد صاحب ہم بلڈ بینک میں چیک کروایا ہے اپ بھی معلومات کرے۔۔۔

میرا گروپ ہے 0 نگیٹو!!!

انے والی آواز پہ سب نے مڑ کے دیکھا تو صنم کھڑی تھی سب ہی حیران ہوئے اسے اس وقت یہاں دیکھ کے۔۔

صنم سب کو اگنور کرکے ڈاکٹرز تک پہنچی اور کہا۔۔

میرا بلڈ 0 نگیٹو ہے ڈاکٹر !!

اوکے اپ ائے میرے ساتھ۔۔

ڈاکٹر صنم کو لے کے تیزی سے روم میں گئے۔۔

سب ہی حیران  تھے صنم کی اس اچانک آ مد پہ مگر بہزاد وہ صرف شانزے کی طرف دیکھ رہا تھا اسے شک نہیں یقین تھا کے صنم کو یہاں لانے والی اور کوئ نہیں صرف شانزے ہے۔۔!!!

#####

صنم کہی نہیں بلکے شانزے کے والدین کے گھر تھی ۔۔

اج شانزے نے اسے زویان کا بتایا جسے سن کے اسے کافی دھچکا لگا ساتھ میں ہیر کی بھی اسے فکر ہونے لگی مگر پھر بھی وہ ہسپتال نہیں آرہی تھی مگر جب شانزے نے اسے سمجھایا تو وہ انسانیت کے ناطے ہسپتال اگئ۔۔۔

#########

زویان اب ائ سی یو میں شفٹ تھا صنم جیسے ائ تھی ویسے چلی بھی گئ تھی نہ تو اس نے کسی سے بات کی نہ کسی سے ملی۔۔۔

ہیر کو ہوش تو اچکا تھا مگر وہ بلکل خاموش تھی بلکل خاموش !!!

ہیر کچھ تو کھالو ۔۔؟؟

ہیر نے نفی میں گردن ہلا دی۔۔

صائم اور بہزاد ڈاکٹرز سے ملنے انکے روم گئے۔۔۔

ڈاکٹر اپنے بلایا۔۔۔؟؟

دیکھے بہزاد صاحب بیشک زویان کو بلڈ مل گیا ہے مگر ا سے ہم فلحال بچا پائے ہیں !!

فلحال بچا پائے ہیں مطلب ڈاکٹر ؟؟صائم نے پریشان ہوکے پوچھا۔۔

دیکھے زویان کا ہارٹ ایک انچ بلٹ سے بچا ہے بہزاد صاحب اسے کوئ معجزہ کہہ لے کے انکی سانسیں چل رہی ہیں مگر بہزاد صاحب ۔۔۔۔

مگر کیا ڈاکٹر کلئیر بولے۔۔!!!

کب انکی سانسیں بند ہوجائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ابھی ہم نے انہیں ونٹیلیٹر پہ رکھا ہے انکا بلڈ پریشر بھی کافی ہائ ہے اللّٰہ نہ کرے انکی دماغ کی رگ بھی پھٹ سکتی ہے۔۔

میں صرف اتنا کہونگا کے اگر دو گھنٹے میں اگر انہیں ہوش نہیں ایا تو وہ بچ پائینگے یہ نہیں ہم کہہ نہیں سکتے !!!یہ ہوسکتا ہے ہمیشہ کیلئے کومہ میں چلے جائے۔۔۔

#######

چلو خوش ہوجاو ہیر !!!

سانسیں رکنے والی ہیں اسکی کبھی بھی وہ تمہارا پیچھا ہمیشہ کیلئے چھوڑ کے جاسکتا ہے۔۔۔

صائم جب ڈاکٹر کے روم سے نکلا سیدھا ہیر کے روم میں پہنچا جہاں وہ چھت کو گھورنے میں مصروف تھی صائم کے بولنے پہ اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔

معافی مانگ تو رہا تھا ہیر تم سے پاؤں بھی پکڑے تمہارے اگے ٹرپا  بھی پھر بھی تمہیں رحم نہیں ایا ۔۔۔

نعوذباللہ تم خدا سے بڑھ کے ہوگئ ارے وہ بھی ہمارے اتنے گناہ پہ ہمارے ایک دفعہ معافی مانگنے پہ ہمیں معاف کردیتا ہے ۔۔

اب پڑھو شکرانے کے نفل !!!

دو گھنٹے میں اگر اسے ہوش نہیں ایا تو مرجائے گا وہ یہ ہمیشہ کیلے کومہ میں چلا جائے گا۔۔۔

صائم یہ بول کے کمرے سے باہر چلا گیا اور اسکے جاتے ہی ہیر رونے لگی۔۔

#######

بہزاد کے کہنے پہ ہیر کو ائ سی یو میں جانے کی اجازت ملی تھی۔۔

ہیر نے اندر قدم رکھا تو سامنے ہی اسے زویان دیکھا مشینوں میں جکڑا ہوا۔۔

مجھے معاف کردو ہیر۔۔۔

میں بہت محبت کرنے لگا ہو تم سے !!

ایک موقع دے دو!!!

جب تم ہی زندگی میں نہیں تو اس وجہ ہی کو ختم کردو جو جینے کی وجہ ہو ۔۔

ایک دم ہیر کے سامنے زویان کو خود کو گولی مارنے کا سین چلنے لگا۔۔

اسکے دماغ میں اسکے کانوں میں اسکی منتیں کرنا اسکی فریاد کرنا اسے معافی مانگنے یاد انے لگا۔۔

ہیر کی انسو ایک بار پھر گرنے لگے۔۔

"دکھ لاندے نیں دل وچ ڈیرے!

چارے پاسے دسن ہنیرے!!

دنیا وچھڑے نیں پراوہ!!

دلدار نہ بچھڑے۔۔۔

کسے دا یار نہ وچھڑے"

ہیر انکھوں میں آنسو لیے زویان کی طرف بڑھی۔۔

وہ زویان کی موت نہیں چاہتی تھی صرف اسے یہ بتانا چاہتی تھی کے جب دل ٹوٹتا ہے تو کیسا لگتا یے۔۔جب بھروسہ  توٹتا ہے تو زندگی کیسی ہو جاتی ہے جب جان سے عزیز جان کا دشمن بن جائے تو زندگی عزاب لگنے لگتی ہے مگر یہاں تو سب کچھ الٹا ہوگیا زویان اظہر ایک بار پھر اسے خود کی طرف لانے میں شاید کامیاب ہو چکا تھا مگر شاید اب دیر ہوگئ تھی ۔۔

ہیر اسکے بے حد قریب تھی اتنی کے اسکے چہرے کی سوجن وہ دیکھ سکتی تھی۔۔

ہیر کی نظر اسکے دل کے مقام پہ گئ جہاں پٹی تھی سائیڈوں کو مشینوں سے کور کیا ہوا تھا اسکے جسم پہ شرٹ نہیں تھی تھی تو صرف مشینوں کی تارے جس نے اسکے جسم کو جکڑا ہوا تھا۔۔

ہیر کی انکھوں سے انسو مسلسل گررہے تھے اس نے بھلے منہ سے کتنی دفعہ بولا تھا زویان کو مرجانے کا مگر دل وہ اپنے ہی کہے ہوئے الفاظوں پہ اللّٰہ نے کرے بولتی تھی۔۔۔

عورت ایک بار جس مرد سے محبت کرلے نہ تو اسکی جگہ کسی کو دیتی ہے نہ اس سے کبھی نفرت کرتی ہے ۔۔۔

ہیر نے اپنا ہاتھ  بہت ارام سے زویان کے دل کے مقام پہ رکھا۔۔

ہیر کا ایسا کرنا تھا کے زویان کے دونوں ہاتھ زور زور سے ہلنے لگے۔۔

ہارٹ کی سی ٹی اسکین مشین میں اسکی ہارٹ بیٹ تیز تیز چلنے لگی۔۔

زویان کی انکھوں میں جنبش ہوئ اسکے لبوں نے دھیرے سے کہا۔۔

"ہیر"

ہیر نے بہت غور سے اپنا نام سنا تھا اسنے زویان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا تو زویان نے بند انکھوں میں بھی اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھام لیا۔۔

بہزاد جو ہیر کے اندر جانے کے بعد شیشے کے اس پار سے اندر کا سارا نظارہ دیکھ رہا تھا اسنے زویان کا ہیر کا ہاتھ تھامنے والا عمل بھی دیکھا تھا۔۔

بہزاد نے تقریبا چیختے ہوئے ڈاکٹر کو اواز دی تھی۔۔

دس منٹ بعد ڈاکٹرز زویان کے روم سے باہر نکلے اور کہا۔۔

اسے معجزہ کہہ لے کے زویان کو ہوش اگیا ہے۔۔

ڈاکٹر کی بات سن کے ہیر نے انکھیں بند کرکے ایک لمبی سانس  لی تھی وہاں کھڑا ہر نفوس خوش تھا ۔۔

مگر بہزاد سر ایک بات میں اپکو واضح کردو !!

کیا ڈاکٹر !؟

اس بار پوچھنے والے اظہر صاحب تھے۔۔۔

زرا سی بھی کوئ پریشانی یہ کوئ دکھ کوئ تکلیف انکے ہارٹ اٹیک کا سبب بن سکتی ہے۔۔

بیشک انکا دل ڈھڑکنے لگا یے مگر اب انکا دل کمزور ہوچکا ہے ہم انکا دل پہلے طرح مضبوط کرنے کی کوشش کرینگے دوائیوں کے ذریعے مگر اسمیں وقت لگے گا۔۔

یہ بول کے ڈاکٹرز چلے گئے !!!

سب ہی تقریبا خوش تھے جب ہیر نے صائم سے کہا۔۔

بھائ مجھے گھر چھوڑ دے ۔۔

سب ہی کو بہزاد نے زبردستی گھر بھیج دیا اور خود رکنا چاہ۔رہا تھا مگر ڈاکٹر نے انہیں بھی گھر جانے کو کہا کیونکہ ہارٹ پیشنٹ کیساتھ وہاں کسی کو بھی رکنے کی اجازت نہیں تھی وہ لوگ خود دیھان رکھتے تھے ۔

##########

بازل جب سے ہسپتال سے ایا تھا بہت چپ چپ تھا۔

زویان کی اس حرکت پہ وہ کچھ سوچنے پہ مجبور تھا۔۔

اس نے ہر طرح سے ہنزہ کو منانے کی کوشش کری تھی معافی تک مانگی تھی مگر وہ تھی کے اسے ایک موقع بھی دینے کو تیار نہیں تھی۔۔

ابھی وہ انہیں سوچوں کو سوچ کے انکھیں موندیں صوفے سے ٹیک لگا کے بیٹھا تھا جب کسی کی باتوں کی اواز پہ اسنے انکھیں کھول کے دیکھا تو ہنزہ کسی سے کال پہ بات کرتی ہوئ اندر آرہی تھی ۔

ہنزہ کی نظر جب بازل پہ پڑی تو وہ اسے ہیں دیکھ رہا تھا اور چند سیکنڈ بعد وہاں سے اٹھ کے اپنے کمرے کی طرف جانے لگا ۔

ہنزہ کی نگاہوں نے اسکا دور تک پیچھا کیا وہ بات بات کرتے کرتے دو پل کیلئے رک چکی تھی ایسا پہلی بار ہوا کے ہنزہ کو دیکھ کے بازل نے اپنا راستہ بدلہ تھا اور یہ بات ہنزہ کے دماغ پہ لگی تھی۔۔

########

وہاج اپ چپ کیوں ہوگئے؟

 میری بات سن کے کچھ تو بولے۔۔۔

کیا بولو عترت میں۔۔۔صنم اپنی جگہ صحیح ہے۔۔

انٹی نے کوئ کسر نہیں چھوڑی اسکی ذات کو مجروح کرنے میں ۔۔

واقعی میں اگر شانزے اسکے ساتھ نہیں ہوتی تو وہ اج ایک سائیکو چائلڈ ہوتی۔۔۔

انٹی کا اور صنم کا مسئلہ تھا تم تو کم از کم اس سے اپنے تعلق خراب نہیں کرتی۔۔۔۔

وہاج مجھے بس غصہ تھا اسنے پاپا کیساتھ اسطرح سے بات کری تو !!!

پاپا وہ تمہارے تھے خالی عترت !!

صنم کے وجود کو پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ فراموش کرچکے تھے دوسری بیٹی کی پیدائش کا سن کے ہی انہوں نے اپنی محبت سے بیوفائ کی اور بیٹے کی خواہش میں ہی انہوں نے دوسری شادی کی۔۔۔

وہاج مگر !!

اگر مگر کچھ نہیں عترت جب تمہارے اور میرے درمیان بیوفائ کی جھوٹی دیوار ائ تھی یاد ہے ہم چار سال الگ رہے اور واقعی میں اگر مجھے سچائ پتہ نہیں چلتی تو نجانے کتنی دفعہ میں اب تک  تمہیں بیوفا سمجھ کے سزا دے چکا ہوتا۔۔

جس پہ بیتی ہے عترت وہی جانتا ہے ۔

میں تم سے بس اتنا کہونگا تمہیں صنم کا ساتھ دینا چاہئے تھا اور میں چاہتا ہو پرسوں تک تم صنم کیساتھ اپنے سارے معاملات کلئیر کرلو کیونکہ اسکے بعد تم کراچی نہیں ا سکو گی ڈیلوری تک۔۔

وہاج نے ایک دو باتیں اور کرکے کال بند کردی کچھ دیر سوچنے کے بعد عترت نے شانزے کو کال کی۔۔۔

##########

ویسے ماننا پڑے گا تم تو مجھ سے بھی دو ہاتھ اگے نکلی۔۔۔

بہزاد نے ڈریسنگ  کے سامنے بال بناتے ہوئے شانزے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

جو اپنے ہاتھ پاؤں پہ لوشن لگا رہی ہے تھی۔۔

بہزاد کی بات سن کے اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا۔۔

کیوں میں نے کونسا کسی سے گن پوائنٹ پہ نکاح کرا ہے جو میں اپ سے بھی دو ہاتھ اگے ہو۔۔

شانزے کے طعنے پہ بہزاد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

اسنے بیڈ پہ چڑھ کے شانزے کے دونوں پاؤں پکڑ کے کھینچے اور اس پہ جھکتے ہوئے کہا۔

تمہارے دماغ میں ابھی تک یہ بات ہے کے میں نے تم سے نکاح تمہاری مرضی کے بغیر کیا۔۔۔

ہاں تو اپ مردوں کے دل ودماغ سے جب عورت کی چھوٹی سے غلطی چھوٹی سے بیوفائی نہیں نکلتی تو اپ مرد حضرات یہ امید خالی عورت سے کیوں رکھتے ہیں کے وہ سب کچھ بھول کے اپنا دل صاف کرلے اور معاف کردے اپکے اگے پیچھے کے سب گناہ ۔۔

شانزے کا اشارہ کس طرف تھا بہزاد اچھے سے جانتے تھا ۔

زویان کو خود اذیت دینا اس بات کی دلیل ہے کے وہ کسی قیمت پہ بھی ہیر کو کھونا نہیں چاہتا۔۔

بھلے ہیر اسکے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو ۔؟؟

بہزاد نے شانزے کے بولنے پہ اسکے بال کان کے پیچھے بہت پیار سے کیے اور کہا۔

ہیر زویان سے بہت محبت کرتی ہے جبھی اسکو تکلیف میں دیکھ کے بیہوش ہوگئ۔۔

میں نے خود اسے سجدے میں اللّٰہ سے اپنے شوہر کی زندگی مانگتے دیکھا ہے یہ اطراف کرتے دیکھا ہے کے وہ نہیں رہ سکتی زویان کے بنا۔

بہزاد کے کہنے پہ شانزے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ۔۔

اسنے اپنی آنکھوں کو سکڑتے ہوئے کہا ۔

اچھا !!سن لیا میں نے اپکا لیکچر اب میرے اوپر سے ہٹے۔۔۔

زیادہ ننھے کاکے نہ بنا کرے میرے سامنے اپکو اچھے سے ہتہ تھا صنم کہا ہے!!!.

نہیں سچ میں مجھے نہیں پتہ میں تو اس شہر کا ایک عام سا بندہ ہو۔۔۔۔

بہزاد  نے اپنی چہرے پہ کافی مظلومیت لاکے یہ بات کہی ۔

ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے اپ کتنے مظلوم اور معصوم شہری ہیں اس شہر کے !! مرتضی کو دیکھ لیا تھا  میں نے پاپا کے گھر کے باہر جو آئسکریم والا تو ایسے بن کے ایا تھا جیسے پوری igloo والوں کی آئسکریم وہ اج ہی بیچ دے گا۔۔۔

شانزے نے اتنا سڑا ہوا منہ بنا کے یہ بات کہی کے۔۔

بہزاد کا قہقہ پورے کمرے میں گونجا اور اسنے جھک کے شانزے کے لبوں کو چوم لیا۔

جتنا میں سمجھتا تھا اتنی معصوم ہو نہیں تم اچھی خاصی چالاک ہو۔۔

ہاں ہو اور ایک چالاکی ابھی کرنے والی ہو میں۔۔

اس سے پہلے بہزاد کچھ سمجھتا شانزے نے اسکے ہاتھ  پہ زور سے چٹکی نوچی  تا کے وہ تکلیف محسوس کرکے اسے چھوڑے مگر افسوس شانزے کے نازک ہاتھوں کی چٹکی ۔۔جو بہزاد کے پھولے مسلز پہ پتہ بھی نہیں چلی۔۔

شانزے نے افسوس سے بہزاد کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

اپکو پتہ نہیں چلا میرا نوچنا۔۔۔۔

نہیں نہ جان مگر ایک ٹرائ تم نے کرا مجھےخود سے دور کرنے کا اب ایک ٹرائ میں کرونگا تمہیں مدہوش کرنے کا۔۔

اس سے پہلے شانزے کچھ سمجھتی بہزاد اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قابو کرکے اسکی گردن پہ جھک چکا تھا ۔۔۔

########

ہاں ہاں نوشی تم نکلو میں تمہیں راستے میں پک کرتا ہو ۔۔

باذل نے ہہ کہہ کے کال کٹ کی جب اچانک اپنے سامنے ہنزہ کو کھڑا پایا جو بہت ہی مشکوک انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔۔

مگر بازل نے اسے اگنور کیا اور اسکے سائیڈ میں سے نکل کے ناشتے کی ٹیبل پہ ایا۔۔

اسٹڈی کمپلیٹ ہونے کے بعد بازل نے اب اپنے بابا کا بزنس جوائن کرلیا تھا۔۔۔

سب ہی ناشتے میں مصروف تھے  جب بابر صاحب نے فہیم صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔۔

فہیم اج این جے گروپ کیساتھ میٹنگ ہے۔۔

جی بھائ !!

تو پھر ہم لوگ ایک ساتھ نکلتے ہیں۔۔۔

بھائ ایک پروبلم ہے۔!

کیا فہیم ؟؟

بھائ وہ گاڑی کل سے بہت تنگ کررہی تھی اسلیے بننے دی ہے میں نے ابھی ایک ہفتہ لگے گا!!

اپکی والی گاڑی جابر (ڈرائیور ) اپکے کسی کام سے لے کے گیا ہے۔۔

اوہو یہ تو مسئلہ ہوگیا۔

بابر صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

ارے پاپا اور تایا اپ لوگ میری گاڑی لیجائے میں کریم سے چلی جاؤں گی۔۔۔

ارے بیٹا کریم سے کیوں بازل چھوڑ دے گا تمہیں!!

بابر صاحب کے کہنے پہ ہنزہ نے ایک نظر بازل کو دیکھا تھا مگر اسنے ایک نگاہ بھی ہنزہ پہ نہیں ڈالی اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔۔

#######

بازل گاڑی سے ٹیک لگائے اسکا ویٹ کررہا تھا اسکے اتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھ گیا ہنزہ بھی خاموشی سے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولنے لگی جب بازل نے کہا۔۔

پیچھے بیٹھ جاو  مجھے اپنی ایک دوست کو پک کرنا ہے۔۔

ہنزہ کو لگا اس نے کچھ غلط سنا ۔۔اسکے دل میں کچھ چھن سا توٹا۔۔۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کے بازل نے اسکے لیے  گیٹ نہیں کھولا تھا خود جھک کے اسکی سیٹ بیلٹ نہیں باندھی تھی۔۔۔

ہنزہ خاموشی سے پیچھے بیٹھ گئ۔۔

بازل نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اگے بڑھا دی۔۔

بازل نے کچھ سوچتے ہوئے میوزک پلے اون کیا۔۔

"مجھے لگتا ہے کے باتیں دل کی۔

ہوتی لفظوں کی دھوکے بازی۔۔۔

تم ساتھ ہو یہ نہ ہو کیا فرق ہے۔۔"ہنزہ نے سامنے مررر پہ دیکھے تھا مگر وہاں صرف بازل کی انکھیں نظر ائ تھی جو سامنے مرکوز تھی۔۔

ایک دم گاڑی کو بریک لگا۔۔

ہنزہ جو اپنی دھن میں مگن تھی ایک دم گاڑی رکنے پہ دیکھا تو ایک بہت ہی خوشگوار شکل کی لڑکی بازل کی فرنٹ سیٹھ پہ اکے بیٹھی۔۔

ہنزہ نے ایک آ ئیبرو اچکا کے اسے دیکھا ۔۔

اففف شکر ہے بازل تو ٹائم پہ اگئے۔۔

میڈم اپ کہے اور بازل نہ ائے ایسا ہوسکتا ہے۔۔

میٹنگ کب کی ہے۔۔؟؟

ابھی بس ایک گھنٹے بعد ۔۔

شکریہ بازل تمہاری وجہ سے مجھے یہ جاب ملی۔۔

ارے نوشی میری وجہ سے نہیں تمہیں تمہاری قابلیت نے جاب دلوائ ہے۔۔

وہ دونوں اپس میں باتیں کررہے تھے اور پیچھے بیٹھی ہنزہ کا  وجود بازل بھلا چکا تھا۔

تب اچانک نوشی کی نظر  پیچھے بیٹھی ہنزہ پہ پڑی۔۔

ارے یہ بیوٹی فل لیڈی کون ہے بازل ؟؟

کزن ہے میری۔۔

بازل کے تعارف پہ ہنزہ کی نظر فورا بازل پہ گئ !!

نوشی وقفے وقفے سے اس سے بات کررہی تھی۔۔

ہسپتال کے پاس گاڑی روکتے ہی ہنزہ اتر کے اندر جانے لگی۔۔

جب بازل نے تیزی سے گاڑی اگے بڑھا دی جسکا پیچھا ہنزہ کی نگاہوں ںے دور تک کیا۔۔

ایک ہفتہ بعد اج زویان کو ڈسچارج کیا گیا تھا۔۔

جہاں اظہر صاحب اسکے گلے لگ کے بے تحاشہ روئے وہی زویان کا بھی حال کچھ ایسا تھا۔۔

نمرہ بیگم کے گلے زویان فلحال دیکھاوے کیلیے لگا اسے اج بھی نمرہ بیگم سے شکوہ تھا ۔

بہزاد اس کے بالکل برابر میں بیٹھا تھا جب زویان نے ہلکی سی سرگوشی کرکے پوچھا۔۔

میری والی دیکھائی نہیں دے رہی۔۔؟؟

ارے ہاں میں تو بھول گیا وہ تو تیرے استقبال میں پلکیں بچھا کے بیٹھنے والی تھی ۔۔

صائم جو زویان کے بائیں طرف بیٹھا تھا اور زویان کی بہزاد کیساتھ سرگوشی سن چکا تھا تپ کے بول پڑا۔۔

زویان نے دانت پیس کے صائم کو دیکھا جو اسے اپنی بتیسی کی فل نمائش کرا رہا تھا زویان نے بہت ہی ہلکی اواز میں کہا۔۔

اللّٰہ تیرا جسا سالہ اور بھائ کسی کو نہ دے۔۔

مگر میرا حوصلہ دیکھ میں اللّٰہ سے تجھے ہی سالے کے روپ میں مانگتا ہو۔۔۔

زویان اسکی بات پہ طنزیہ مسکرایا اور کہا۔

اچھا ہے اچھا ہے بلے کو خواب میں چھیچھڑے ہی دیکھتے ہیں۔۔

مگر ہم وہ بلے ہیں جو خواب میں بھی چھیچھڑے چھین کے کھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔۔

وہ دونوں اپس میں طنز کے تیر چلا رہے تھے جب ہال میں ہیر کے سلام کی آواز گونجی۔۔۔

زویان نے اسکی آواز پہ فورا اسے دیکھا جو سب کو چائے سرو  کررہی تھی مگر زویان کا کپ اسنے اسکے ہاتھ میں دینے کے بجائے ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔

ہیر کی اس حرکت پہ زویان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ اسنے بہزاد اور صائم کے ہاتھوں میں چائے کا کپ دیا تھا۔۔

زویان کی شکل دیکھ کے صائم نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کیلئے فورا اپنا کپ اپنے لبوں سے لگایا مگر زویان سے یہ عمل چھپ نہ سکا ۔۔

ہنس ہنس لو ایک دن اگر تم سے منتیں نہ کروائیں اپنی بہن سے ملنے کیلئے تو میرا نام بدل دینا۔۔

زویان نے یہ کہہ کے دوبارہ نگاہ ہیر پہ ڈالی جو سفید اور ڈارک پرپل کی سمپل فراک میں شانزے کے برابر میں بیٹھی تھی ۔

مجھے کب ملوانے لے کر چل رہی ہیں صنم سے؟؟

ابھی تو وہ مجھ سے بھی ملنے نہیں جارہی نہال کیساتھ بزی ہے منگنی کے چکر میں کل رنگ ونگ لینے جارہی ہے ۔

ہیں سچ بول ری ہو شانزے ؟

ہاں تو بتایا تو تھا تمہیں نہال بھائ کا؟؟

ہاں یار بھول گئ۔۔

وہ دونوں اپنی اپنی باتوں میں لگی تھی جب نمرہ کی فیملی ائ جسمیں عترت بازل اور ہنزہ بھی تھے۔۔

بازل نے بھی زویان کو جاکے جوائن کیا اب وہ چاروں باتیں کررہے تھے۔ جب عترت نے بہزاد کو کچھ اشارہ کیا جسے سمجھ کے بہزاد نے زویان کے کان میں کچھ کہا۔۔

زویان نے بہزاد کی بات سن کے ہاں میں گردن ہلائ اور کہا۔۔۔

شانزے ؟؟

شانزے کو پکارنے پہ بہزاد نے اسے آ ئیبرو اچکا  دیکھا جب زویان نے صاف کہا۔۔

بھئ میں تو نہ مامی بولنے والا نہ بھابھی کیونکہ مجھ سے عمر میں چھوٹی ہے تو جیسے صنم ہے ویسے شانزے بھی ۔۔

شانزے مجھے صنم سے ملنا ہے؟؟

زویان کے بولنے پہ ہال میں جیسے ایک دم سناٹا سا چھا گیا۔۔۔

زویان اس بارے میں ہم بعد کیں بات کرینگے۔۔۔

شانزے نے فلحال اسے ٹالنا چاہا۔۔

نہیں شانزے مجھے اج ہی صنم سے ملنا ہے اور جب تک وہ مجھ سے ملنے نہیں ائے گی میں کوئ میڈسن نہیں لونگا۔۔

زویان یہ کیا بچوں والی ضد یے؟؟

اظہر صاحب ایک دم بول پڑے۔۔

پاپا میں جو کہہ دیا وہ کہہ دیا مجھے پتہ ہے مجھے بلڈ اسی نے دیا یے اور بھی بہت سی باتیں اس سے کرنی ہے لہذا اسکو  اپ اج کی تاریخ میں لے او ۔۔

تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے شاید !!

شانزے ایک دم غصہ میں میں بولنے لگی۔۔

شانزے !!!!

بہزاد نے فورا شانزے کو ٹوکا۔۔۔

مجھے مت بہزاد اسے سمجھائے یہ پاگل ہوگیا ہے۔۔

صنم کبھی نہیں ملے گی کس سے کبھی نہیں اس نے مجھے وارن کیا ہے اگر میں نے اسے فورس کیا تو وہ مجھ سے بھی دور ہوجائے گی۔

ٹھیک ہے میں اپکو فورس نہیں کررہا شانزے ۔۔

زویان ایک دم بول پڑا !!مگر مجھے صنم سے ملنا ہے میں اسکو بہت کچھ غلط بول چکا ہو۔۔۔

اپ مجھے بس اسکا نمبر دے دیں اتنا تو کرسکتی ہیں۔۔؟.

افف زویان تم کیوں نہیں سمجھ رہے وہ کسی سے رابطہ کرنا نہیں چاہ رہی!!

اپ مجھے دے دیں نمبر پلیز۔۔

میں دے دونگا میرے پاس ہے اسکا نیو نمبر بھی!!

بہزاد کے اچانک بولنے پہ شانزے نے منہ کھولے اسے دیکھا تو پلٹ کے بہزاد نے اسے انکھ ماری۔۔۔۔

سب ہی تھوڑی دیر بیٹھ کے چلے گئے ۔۔

زویان کو صائم اور بازل نے اسکے کمرے میں پہچایا۔۔

زویان دو منٹ سکون سے لیٹا جب اسنے بازل کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

تیرا معملہ کہاں تک پہنچا ؟.مانی ہنزہ بھابھی؟؟

زویان کے پوچھنے پہ بازل  جو ڈریسنگ پہ سے اسکی میڈسن اٹھا رہا تھا طنزیہ مسکرایا اور کہا۔۔

چھوڑدونگا اسے اسکی خوشی کیلئے زبردستی ایک بار کرچکا ہو دوبارہ نہیں کرونگا۔

کیا تیرا دماغ!!!اسسے پہلے زویان کچھ کہتا ایک دنم اسکے روم کا دروزاہ بجا۔۔

اجائے۔۔۔۔۔

اجازت ملتے ہی ہنزہ نے نے ہلکا سا کمرے میں جھانکا جسے جھانکتا دیکھ بازل رخ موڑ گیا!!

وہ مجھے ہسپتال کیلئے نکلنا ہے نمرہ انٹی اور عترت اپی ابھی یہ ہی ہیں تو کیا تم چھوڑ دوگے مجھے ہسپتال۔۔۔؟

ہنزہ کے کہنے پہ صائم اور زویان دونوں نے بازل کی طرف دیکھا جو ہلکا ہلکا مسکرا رہا تھا۔۔

اپنی مسکراہٹ چھپائ اور بنا رخ موڑے کہا۔۔

نہیں!!

 مجھے ابھی زرا اپنی ایک دوست کو پک کرنا ہے افس سے تم چلی جاو۔۔۔

بازل کی بات سن کے ہنزہ کا چہرہ ایک دم رونے والا ہوگیا جیسے دیکھ کے صائم اور زویان نے فورا انگاہ جھکائ ۔۔

ہنزہ نے اوکے کہا اور زور سے دروازہ بند کرکے چلی گئ۔۔

اسکے جاتے ہی بازل کے لب کھل کے مسکرائے تھے بازل کو مسکراتا دیکھ بازل اور صائم بھی مسکرانے لگے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا۔۔

"بہت بڑا کمینا ہے سالے"

ان دونوں کے ایسا کہنے پہ بازل کا قہقہ گونجا اور  اسنے کہا ۔

اگر اسکے منہ سے نہ کہلوایا نہ کے یہ نہیں رہ سکتی میرے بنا۔۔

تو میرا نام بھی بازل بابر نہیں۔۔ ۔۔

محبت کرتی ہے مجھ سے بہت نہیں رہ سکتی میرا بنا نہ مجھے برداشت کرسکتی ہے کسی اور کیسی کے ساتھ اسی لیے اسکے ساتھ یہ ڈارمہ کررہا ہو فرینڈ والا جسکی شروعات اسی کے سامنے ہوئ تھی ۔۔

یہ مشورہ کس نے دیا تجھے۔۔؟

زویان کے پوچھنے پہ اس سے پہ بازل کچھ بولتا صائم بول پڑا۔۔

ایک ہی تو ہے جس سے کوئ نہیں جیت سکتا۔۔

"بہزاد راجپوت"

تمہیں نہیں لگتا رات ذیادہ ہوگئ اور تمہارا یہاں اکیلے بیٹھنا سیو نہیں۔۔

صنم جو سمندر کی لہروں میں اپنا عکس تلاش کررہی تھی جیسے اندازہ ہی نہیں ہوا کے ایک تو کب سے اسکا موبائل بج رہا تھا اور دوسرا بہزاد اسکے بلکل برابر میں اکے بیٹھا ہوا تھا۔۔

بہزاد کے بولنے پہ صنم نے پلٹ کے اسے دیکھا تو بہزاد کو ایک بار پھر ندامت کا سامنا کرنا پڑا ۔۔

صنم کی آنکھوں میں آنسوں بھرے تھے۔۔۔

وہ بہزاد کو بنا کچھ بولے وہاں سے اٹھ کے جانے لگی اسے یہ بھی ڈر خوف نہیں تھا کے اتنی رات کو وہ اکیلے ڈرائیو کرکے گھر جائے گی۔

"کہتے ہیں جب اندر سے دل ویران ہو  تو پھر کسی ویرانے سے ڈر خوف نہیں لگتا"

صنم میری بات سنو پلیز !!!

بی ایم مجھے اپ کی کوئ بات نہیں سنی !!!

صنم نے اسکے روکنے پہ کہا۔

شانزے کو چوٹ لگی ہے وہ وہاج بھائ کے گھر پہ ائ تھی وہاں سے گر گئ ہے کب سے تمہیں کال کررہے ہیں مجبورا مجھے پھر تمہارے کال ٹریس کرکے تم تک پہنچنا پڑا۔۔۔

کیا ؟کہاں ؟ کیسے؟ گر گئ شانزے اپ کہاں تھے۔۔؟

صنم نے فورا پریشان ہوکے بہزاد سے پوچھا!!

ارے چائے لا رہی تھی پاؤں پھسل گیا۔۔!!!

تو اسے ڈاکٹر کے پاس کیوں لے کر نہیں گئے اپ؟؟

وہ بار بار تمہیں بلا رہی ہے ایک تو اتنی ضدی ہے وہ !!

اففف چلے جلدی چلے!!.صنم تقریبا ڈور تے  ہوئے بہزاد کی گاڑی تک پہنچی بہزاد نے مرتضی کو اشارہ کیا تھا صنم کی گاڑی گھر تک پہنچانے کا۔

بہزاد نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اگے بڑھا دی مگر وہ یہ ہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہا تھا کے عترت کی منتیں کرنے پہ شانزے نے یہ ڈراما کر تو دیا اور بہزاد کو بھی اسمیں شامل کیا کے وہ جاکے صنم سے بولے کے میں گر گئ ہو اسی صورت میں وہ پریشان ہوکے اپکے ساتھ ائے گی مگر اب بہزاد کو اپنی بیوی کو بچانا تھا صنم سے کیونکہ جب صنم کو پتہ چلے گا کے سب ڈراما تھا اسے عترت اور زویان سے ملانے کیلے تو نجانے وہ کیسا ریکٹ کرے۔۔۔

#####

شانزے شانزے؟؟

صنم نے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے پکارنا شروع کردیا۔۔

ا گئ عترت اپی صنم  شانزے نے فورا اسکی اواز سن کے کہا!!.

زویان صائم بھی اسکی اواز سن چکے تھے صائم کے لاکھ منا کرنے کے باوجود زویان کی ضد پہ صائم اسے لے کر نیچے جانے لگا ۔

صنم نے جب شانزے کو اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھا اور برابر میں عترت کو دیکھا تو اسکا غصہ ساتویں اسمان پہ پہنچنے لگا۔۔

صنم نے بولا کچھ نہیں بس غصہ میں وہان سے جانے لگی جب عترت اور زویان دونوں نے ایک ساتھ اسے پکارا۔۔

اظہر صاحب شاہجاں بیگم بھی چاہتے تھے اج وہ نہ جائے سارے گلے شکوے دور کردے۔۔۔

زویان دھیرے سے چلتا ہوا صنم کے پاس ایا جو رخ موڑے کھڑی تھی ۔۔

زویان دھیرے سے چلتا ہوا صنم تک ایا اور ایک ہاتھ سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔۔

صنم نے نگاہ اٹھا کے زویان کو دیکھا!!

جانتا ہو اپکا بہت دل دکھایا ہے اپکو جانتا  بھی نہیں تھا پھر بھی اپ سے بہت تلخ لہجے میں اپ سے بات کی پھر بھی اپنے میری جان بچانے کیلئے مجھے بلڈ دیا۔۔۔

تمہاری جگہ کوئ اور بھی ہوتا تب بھی میں اسے بلڈ دیتی۔۔۔

صنم نے ہلکا سا اپنا موقف بیان کیا۔

مگر مجے تو پتہ چلا تھا اپکو انجیکشن سے بہت ڈر لگتا ہے اور خاص کر بلڈ دینے سے۔۔۔

زویان کی بات کا صنم کے پاس جواب نہیں تھا۔۔

اپی بھی بول سکتا ہو اپکو مگر ہم دونوں میں ذیادہ فرق نہیں اگر بچپن سے اپکی ذات کو مجروح کیا گیا یے تو عرش پر مجھے بھی نہیں بیٹھایا گیا شاید تربیت کی خامی تھی جبھی عورت ذات کی ذات میری سامنے کچھ نہیں تھی۔

موت کی دہلیز کو چھوا ہے جبھی رشتوں کا تقدس جانا ہے۔۔

بچپن سے اکیلا رہتا ایا ہو صنم اب اللّٰہ نے جب دو دو بہنوں سے نوازا ہے تو انکا ساتھ کھونا نہیں چاہتا مجھے نہیں پتہ ہمارے پیرنٹس کے بیچ کے معملات کیا ہے !!

مگر میں اب اپنی فیملی کیساتھ رہنے چاہتا ہو جسمیں میری دو مائیں میری دو بہنیں میری کزن میرے ماموں اور میری بیوی شامل ہیں۔۔

بیوی کے لفظ پہ جہاں ہیر نے زویان کو پر شکوہ نگاہوں سے دیکھا تھا وہی زویان نے بھی اسے اپنی نگاہوں میں سمایا تھا۔۔

زویان کے چپ ہوتے ہی صنم کی ہچکیاں ہال میں گونجنے لگی جو نگاہیں نیچیں کرکے رونے میں مصروف تھی۔شانزے اگے بڑھی اسے سہارا دینے کیلئے مگر بہزاد نے اج اسے روک لیا وہ چاہتا تھا اج صنم ایک اخری بار رو کے دل ہلکا کرلے۔۔

صنم کو روتا دیکھ عترت نے بھی  اگے بڑھ کے اسکے سامنے اپنے دونوں کان پکڑ کے سوری کہا ۔۔

یار تمہارے چنوں منوں روز اپنی خالہ کو پوچھتے ہیں۔۔

عترت کے ایسے بولنے پہ صنم نے روتے روتے مسکراتے ہوئے عترت کو دیکھا اور کہا۔۔

نام میں رکھو نگی ان دونوں کا !!

یہ کہہ کے وہ عترت کے گلے لگ گئ۔۔

یار میں بھی کھڑا ہو سینے پہ گولی کھاکے مجھے بھی تو پتہ چلے میرے لیے دوسری بہن کے جزبات۔

۔۔زویان کی انکھوں سے بھی آنسو گر رہے تھے۔۔

صنم نے ایک نظر زویان کو دیکھا اور اسکے کھلے ہاتھ کو ا!

کچھ سوچتے ہوئے وہ زویان کے ہاتھوں میں سما گئ اور ایک بار پھر بلک بلک کے رونے لگی زویان نے عترت کو بھی اشارہ کیا تو وہ اپنے بھائ کے گلے لگ گئ۔۔

اج دونوں بہنوں کو انکا محافظ مل گیا تھا ایک ہی صحیح مگر انکا اج مان تھا کے انکا بھی بھائ ہے۔۔

اس ملن پہ وہاں کھڑے ہر شخص کی انکھیں نم تھی۔۔

صنم کی نظر اظہر صاحب بھی گئ۔۔

جو نگاہیں نیچے کرکے شاید رو رہے تھے ۔۔

صنم زویان سے الگ ہوئ اور اظہر صاحب کی طرف بڑھنے لگی شاجہاں بہزاد وہاج اور خاص کر زویان کو پل بھر کو سانپ سونگھ گیا۔۔

صنم اظہر صاحب کے پاس پہنچی اور دھیرے سے انہیں پکارا۔۔

"پاپا"

صنم کے بولنے پہ وہاں کھڑا ہر شخص شاکڈ ہونے کیساتھ ساتھ خوش بھی تھا۔۔

صائم اج بہت غور سے صنم کو دیکھ رہا تھا اس نے کیا کھویا تھا صنم کے روپ میں اج اسے شدت سے افسوس ہورہا تھا مگر وہ جانتا تھا وہ اسے حاصل کرلے گا۔۔۔

صنم کے پاپا بولنے پہ اظہر صاحب نے شاکڈ انداز میں نگاہ اٹھا کے اپنے سامنے کھڑی صنم کو دیکھا۔۔

اس سے پہلے اظہر صاحب کچھ اور کہتے صنم انکے سینے سے لگ کے روتے روتے کہنے لگی۔۔

ائ ایم سوری پاپا مجھے اپ سے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔

اظہر صاحب کی تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کے انکا رب ان پہ اتنی جلدی مہربان ہوجائے گا انکی بیٹی اتنی جلدی انہیں معاف کردے گی۔۔

نہیں میرا بچہ معافی تو مجھے مانگنی چاہیے !!

میں نے  تو تمہارا بچپن تم سے چھینا ہے ۔

بس پاپا پرانی باتین بھول جائے اب مجھے اب کسی سے کوئ شکوہ نہیں مجھے میری فیملی مل گئ یہ ہی بہت ہے۔۔

جیسے زویان کی دو دو مائیں ہیں ایسی میری بھی ہیں۔۔

یہ بول کے پہلے صنم نمرہ کے گلے لگی تو ایک بار نمرہ بیگم نے اس سے معافی مانگی۔۔

جب شاجہاں کے پاس گئ صنم تو انہوں نے بھی اسکے اگے ہاتھ جوڑے مگر صنم نے فورا انکے ہاتھوں کو پکڑ کے  چوما اور کہا۔۔

ماما مجھے اتنا گہنگار مت کرے۔۔

یہ بول کے صنم انکے گلے لگ کے پھر رونے لگی ۔۔

عترت بھی انکے گلے اکے لگ گئ جب شاہجاں بیگم نے زویان کی طرف اشارہ کیا ۔۔

وہ بھی اکے ان تینوں کے گلے لگ گیا۔۔

اج سب کے ہی دلوں سے سب کیلئے نفرت ،بدگمانی نکل گئ تھی مگر صائم وہاج یہ سوچ سوچ کے پریشان تھا کے وہ کسے صنم سے بات کرے اس سے معافی مانگے تا کے وہ اسے ایک چانس دے دے۔۔

#######

سب ہی اپنے اپنے کمروں میں تھے اظہر صاحب اب ذیادہ تر شاہجہاں بیگم کے ساتھ ہوتے تھے اور نمرہ بیگم کو اب کوئ اعتراض بھی نہیں تھا۔۔صنم بھی اب وہی تھی مگر صائم کو اسنے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا تھا ہاں عترت چلی گئ تھی کیونکہ اسکی کل دوپہر کی آسلام آباد کی فلائٹ تھی ۔۔

شانزے اور بہزاد بھی جا چکے تھے کیونکہ کے عاشر کے اسکول میں رزلٹ تھا جو شانزے کو لینے جانا تھا۔۔

خوشبو بیگم کمرے میں ائ تو کچھ پریشان سی تھی وہاج صاحب کو بھی چائے دیتے ہوئے وہ بہت چپ چپ تھی اور یہ بات وہاج صاحب سے چھپ نہیں سکی ۔۔

کیا بات ہے خوشبو ؟اتنی چپ چپ کیوں ہو؟

وہاج میں ہیر کی طرف سے پریشان ہو پتہ نہیں اسکا کیا ہوگا وہ زویان کیساتھ رہنا نہیں چاہتی اور زویان اسکا رد عمل اسکے سامنے ہے۔۔۔

وہ ہیر کو کسی قیمت پہ نہیں چھوڑے گا۔۔

وہاج نے خوشبو بیگم کو اپنے پاس بیٹھایا اور کہا۔۔

اللّٰہ کے ہر کام میں کوئ نہ کوئ مصلحت ہوتی ہے تم ہیر کا معملہ اللّٰہ پہ چھوڑ دو بیشک وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔۔

#####

بیٹا مان جاؤ میری بات تم کیسے کروگے شرٹ چینج ؟؟

نمرہ بیگم پچھلے بیس منٹ سے اسکے اگے منتیں کررہی تھی مگر وہ تھا کے ضد پہ اڑا تھا کے شرٹ وہ خود چینج کرلے گا۔۔یہ پھر اسکی بیوی اسکے کام کرے گی اور اگر اسنے منع کیا تو وہ خود کرے گا اپنے کام کسی کا حسان نہیں لے گا۔۔

زویان یہ سب اس لیے کررہا تھا تاکے ہیر اسکے پاس ائے اس سے لڑے اس سے بات کرے تاکے اسے موقع ملے پہلا جیسا سب ٹھیک کرنے کا۔۔

اپنے اس پلین میں وہ صائم کو شامل کرچکا تھا اور اپنے پاپا اور بہزاد کو بھی!

نمرہ بیگم ہار مانتی ہوئ باہر نکلی تو رونے لگی انہیں دیکھ رہا تھا کے زویان کا ہاتھ پلسٹر بیگ سے زرا سا ہلنے پہ ہی اسکو تکلیف ہورہی تھی مگر وہ تھا کے ضد پہ اڑا تھا۔۔

وہ اپنے انسو صاف کرتے ہوئے کچن میں ائ تو ہیر سے انکا سامنا ہوا۔۔

ہیر انکی آنکھوں میں نمی دیکھ چکی تھی اسلیے فورا پریشن ہوکے پوچھنے لگی۔۔

انٹی کیا بات ہے اپ رو رہی ہیں ؟

کیا کرو بیٹا رو نہیں تو وہ زویان۔۔۔۔۔

کیا ہو ازویان کو ہیر کا دل ایک دم تیز ڈھرکا!!

پاگل ہوگیا ہے کہتا ہے شرٹ خود چین کرونگا !!.

اب بتاو وہ کیسے کرسکتا ہے خود سے ابھی تو ہسپتال سے ایا ہے ۔۔۔

میں نے کہا میں چینج کروادیتی ہو تو غصہ کرنے لگا ۔۔

کہنے لگا یہ تو خود چینج کرونگا یہ پھر !!!!اگے کی بات بولتے ہوئے نمرہ بیگم کو تھوڑی جھجھک ہوئ۔۔

یہ پھر انٹی ؟کیا بولا انہوں نے ۔۔

یہ پھر میری بیوی میرے سارے کام کریگی !!!.نمرہ بیگم کے بولنے ہیر کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔

اسے زویان پہ بہت غصہ ایا جو بہر حال اس نے نمرہ بیگم کے سامنے ظاہر نہیں کیا اور خاموشی سے کچن سے چلی گئ۔۔

کچن سے نکل کے اسکا رخ سیدھا صائم کے کمرے کی طرف تھا ۔

دروازہ ناک کرکے اسنے اندر جھانکا تو صائم کچھ فائلوں کو  دیکھ رہا تھا ہیر کو دیکھ کے اس نے فائلوں کو بند کیا اور کہا۔۔

خیریت ہیر تم اس وقت ؟

ہاں بھائ وہ اصل میں ہیر نے یہ بات بول کے نمرہ بیگم والی ساری بات صائم کو بتا دی۔۔

بھائ اپ جاکے چینج کروادے!!

ہیر میں گیا تھا میں نے کہا بھی کے میں رکتا ہو تیرے پاس تو غصہ سے کہنے لگا مجھے احسان نہیں چاہیے۔۔

اب تم بتاو میں کیا کرو۔۔

میں نے کہا میں بازل سے کہہ کے ہنزہ بھابھی کے ہسپتال سے کوئ وراڈ بوائے رکھوا دیتاہو تو اور غصہ کرنے لگا وہی نمرہ انٹی والی بات دہرائ اگر میری بیوی میرا کام کریگی تو صحیح ہے ورنہ میں خود کرونگا بھلے میرے دل میں کتنی بھی تکلیف ہو۔۔

صائم یہ بول کے غور سے ہیر کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں فکر مندی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا۔۔

ہیر ایک بات پوچھو؟

جی بھائ۔۔

اللّٰہ کو حاضر رکھ کے جواب دینا!!

پوچھے بھائ۔۔

تم اج بھی محبت کرتی ہو نہ زویان سے؟

اج بھی اسے شوہر مانتی ہو نہ اپنا؟

صائم کے پوچھنے پہ ہیر تھک کے وہی صوفے پہ بیٹھ گئ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا۔۔

ہیر ادھر دیکھو میری طرف !!!.صائم نے اسکا چہرہ تھام کے اوپر کیا تو وہ رو رہی تھی۔

ہیر اج بھی وہ تمہارا شوہر ہے بھلے تم اس سے غصہ ہو اسکے دھوکے سے تمہارا دل توٹا  ہے مگر یقین جانو وہ تم سے دیوانوں کی طرح محبت نہیں  عشق کرتا ہے۔۔

ایک بار اسے موقع دے کے دیکھ لو ۔۔

اج وہ بہت تکلیف میں ہے محبت کے ناطے نہ صحیح شوہر ہونے کے ناطے اسکی خدمت کرلو۔۔

میں جانتا ہو اسے بہت ضدی ہے وہ اگر تم نہیں گئ تو وہ غصہ میں شرٹ چینج کرلے گا اور اپنے اسٹیچس بھی خراب کرلے گا۔۔۔

ہیر نے اپنے انسو صاف کیے اور کھڑے ہوکے کہا۔۔۔

محبت کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھوٹا ہے زویان نے بھائ ہاں مگر میں پھر بھی جاؤں گی کیونکہ میں اج بھی اسکے نکاح میں ہو۔۔

اسلیے نہیں کیونکہ مجھے اس سے محبت ہے   بلکے اسلیے کیونکہ اللّٰہ کا فرمان ہے ۔۔

"کے اگر میرے بعد دوسرے سجدے کا حکم ہوتاتو شوہر کو ہوتا"

صرف اللّٰہ کی رضا کیلئے میں انکی خدمت کرونگی جب تک وہ صحیح نہیں ہوجاتے رہونگی انکے ساتھ کرونگی سارے کام نہیں چھورنا چاہتے نہ چھوڑے مجھے مگر میں اب کبھی ان سے محبت نہیں کرسکوں گی ۔

اتنا بول کے ہیر کمرے سے نکلی تو صائم  نے اپنی جیب میں رکھا موبائل اپنے کان سے لگایا جس میں زویان کی کال لگی تھی جو صائم نے زویان کے کہنے پہ کری تھی  زویان نے کہا تھا جیسی ہیر تیرے پاس ائے تو مجھے کال لگا کے موبائل جیب میں ڈال لینا۔۔تاکے وہ ہیر کی باتیں سن سکے۔۔

سن لیا تونے ؟؟

صائم کے کہنے پہ زویان مسکرایا اور کہا۔۔

ایک بار میرے پاس انے دیں اسے صائم اتنا یقین ہے مجھے خود پہ اور اپنی محبت پہ کے دوبارہ اسے خود سے محبت کرنے پہ مجبور کردونگا۔۔

#######

ہیر زویان کے کمرے کے پاس کھڑی تھی اندر جانے کیلئے اسکے پاؤں بہت بھاری ہورہے تھے مگر اسے کرنا تھا یہ سب ۔۔۔

اس نے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر جھانکا تو زویان الماری میں سے اپنی شرٹ نکل کے کھڑ ا تھا۔۔

ہیر نے کمرے کا دروزہ بند کیا تو زویان نے پلٹ کے دروازہ کی طرف دیکھا۔۔

لائٹ اورنج اور یلو کلر کے سوٹ میں بالوں کا اونچا سا جوڑا بنائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

زویان لمحہ بھر کیلئے اسے دیکھ کے ساکن رہ گیا۔۔

ہیر خاموشی سے چلتے ہوئے اس تک ائ اور اس کے ہاتھ سے شرٹ لے کر کہا۔۔

اب بیٹھ جائے میں کروادیتی ہو چینج !!

ہیر کی نگاہیں نیچیں تھی جبھی وہ زویان کے چہرے کی مسکراہٹ نہ دیکھ سکی۔۔

زویان خاموشی سے جاکے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔

ہیر اس تک ائ بہت ارام سے اسنے پلسٹر بیگ میں سے اسکا فولڈ ہوا ہاتھ باہر نکالا۔اور نگاہیں نیچے کرکے شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔۔

ہیر زویان کے بے حد قریب تھی اتنی کے ہیر کی سانسوں کی گرماہٹ اپنے سینے پہ محسوس کررہا تھا۔۔

ہیر نے اسکے دائیں ہاتھ سے اسکی ایک آستین باہر نکالی دوسری نکالنے لگی جب زویان تھوڑا اگے ہوا اور اسکے لب خود پہ جھکی ہیر کی گردن سے ٹکرائے۔۔۔

پل بھر کیلئے ہیر کے ہاتھ تھم گئے اسے لگا اسکے پوری جسم میں کرنٹ سا لگا اسنے تیزی سے دوسری آستین باہر نکالی اور فورا زویان سے تھوڑے فاصلے پہ ہوئ۔۔

ہیر کا چہرہ پورا سرخ ہوچکا تھا اور زویان کا دل چاہ رہا تھا کے وہ اس وقت اسکے سینے سے لگ جائے۔۔

بنا شرٹ کے زویان کا جسم جو کافی کسرتی تھا حالانکہ اسکی عمر اتنی نہیں تھی پھر بھی اسکے سینے پہ بال تھے ہیر اسکا جسم دیکھ کے نگاہیں چرانے لگی اسنے مکمل طور پہ زویان سے نگاہیں موڑ لی تھی اور اسے ایسا کرتے ہوئے زویان کو تھوڑا غصہ ایا اور اسنے غصہ میں دل میں کہا۔۔

ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی غیر کے پاس بیٹھی ہے ۔۔۔

تھوڑا سا صاف کردو سینا میرا گیلے کپڑے سے دوائیوں کی بدبو  آ رہی یے اور ڈریسنگ کردو یہاں کی ۔۔۔

زویان  نے اپنے زخمی دل پہ انگلی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

ہیر نے ایک نظر اسکے دل کے مقام پہ ڈالی جہاں پٹی بندھی تھی ۔۔

ہیر نے ہاں میں گردن ہلائ اور اسکی سینے پہ سے پٹی ہٹانے کی کوشش کرنے لگی ایسا کرتے ہوئے اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے جو زویان اچھے سے محسوس کرسکتا تھا۔۔۔

پٹی ہٹتے ہی زویان نے تکلیف کی وجہ سے ہیر کا ہاتھ تھام لیا ہیر اندازہ لگا سکتی تھی کے اسے تکلیف ہورہی ہے۔۔

ٹانکوں کی  چار پانچ لائن تھی۔۔۔

ہیر کی انکھوں میں انسو جھلملانے لگے وہ نگاہیں نیچی کرکے زویان کی ٹانکوں پہ پولی فیکس لگانے لگی مگر ہیر کا ہاتھ دور پڑھ رہا تھا وہ تھوڑی اور زویان کے قریب ائ ۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی ہیر کی انکھوں سے آنسو گرنے لگے جسے دیکھ کے زویان نے ہاتھ بڑھا کے جیسے ہی اسکے آنسوؤں کو  صاف کرنا چاہا ہیر نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔۔

زویان نے دوبارہ ایسا نہیں کیا کیونکہ اسے پتہ تھا ابھی وہ غصہ میں ہے۔۔

ہیر نے زویان کی ساری دوائیاں پڑھی کھانا تو وہ کھا چکا تھا اسلیے تھوڑی دیر اسکے زخم کو کھلا چھوڑا اور اسے دوائیاں دی اسکے بعد اسکا زخم پہ ڈریسنگ کرکے ایک رومال گیلا کرکے لائ اور اسکا بدن صاف کیا !!

ہلکی سی شرت پہنا کے اسنے زویان کے اوپر پرفیوم لگایا زویان کے لب بہت مشکل سے ہنسی روک رہے تھے ہیر اسکو ایسا تیار کررہی تھی جیسے وہ کوئ بچہ ہو۔۔

سب کام کرکے ہیر جیسے کمرے سے جانے لگی زویان نے اواز دے کے کہا۔

اگر مجھے رات میں پیاس لگی یہ کچھ چاہیے ہوا تو۔۔؟

ہیر پل بھر کیلئے رکی اور پھر کمرے سے چلی گئ ۔۔

زویان نے ایک اس بھری نظر دروازے پہ ڈالی اور گردن پیچھے کرکے آنکھیں موند لی۔۔

تھوڑی دیر بعد دروازہ پھر کھلا۔۔جسکی اواز پہ زویان نے دروازے کی طرف دیکھا۔۔

ہیر کو دوبارہ کمرے میں اتا دیکھ زویان کے لب کھل کے مسکرائے تھے ۔۔

ہیر کے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا اور کچھ کپڑے تھے ۔ ا

ہیر نے زویان کی طرف پانی کا جگ رکھا اور کپڑے لے کر واش روم چلی گئ۔

تھوڑی دیر بعد ہیر واش روم سے نکلی تو اسکا ڈریس چینج تھا۔۔

ڈھیلی سی شرٹ اور ٹراوزر میں تھی۔۔

زویان نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا وہ کوئ گڑیا لگ رہی تھی چھوٹی سی پنک ٹراؤزر  اور شرٹ میں۔۔

ہیر نے مکمل طور پہ زویان کو اگنور کیا ہوا تھا۔۔

اسنے ڈریسنگ کے پاس کھڑے ہوکے اپنے بالوں کو جوڑا کھولا جسکے کھلتے ہی پیر کے لمبے بال اسکی کمر پہ چھا گئے۔۔

زویان کا دل چاہا وہ اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپائے مگر افسوس ایسا وہ صرف سوچ سکتا تھا۔۔

ہیر نے بالوں میں برش کیا بیڈ کے پاس اکے وہاں سے تکیہ اٹھایا چادر اٹھائ اور جیسے ہی صوفے پہ جانے لگی جب زویان نے کہا۔۔

تمہیں لگتا ہے میں تمہیں اس حالت میں چھو سکتا ہو!!.

اپ مجھے کسی  حالت میں بھی چھو نہیں سکتے !!.

ہیر کے دوبدو جواب پہ زویان نے مسکرا کے اسے دیکھا اور کہا۔

تو پھر خود پہ بھروسہ نہیں جو صوفے پہ سونے جارہی ہو !!

زویان نے جان بوجھ کے ایسی بات کی تاکے ہیر غصہ میں اسکے برابر میں اکے لیٹے اور وہی ہوا۔۔

ہیر نے غصہ میں زویان کو گھورا اور خاموشی سے زویان کے برابر میں زرا فاصلے پہ کروٹ سے لیٹ گئ۔۔

زویان کی نظر اسکی پشت پہ تھی اسے نیند ہی نہیں آرہی تھی اور وجہ تھی زخم پہ اٹھتا پین۔۔۔۔

زویان نے کافی کوشش کی سونے کی مگر ناکام رہا ۔۔

مجبورا اسنے کھڑے ہوکے کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا ۔۔

ہیر جو مکمل سوئ نہیں تھی انکھیں کھول کے زویان کو دیکھنے لگی جو ادھر ادھر ٹہل رہا تھا ۔

کیا ہوا؟

ہیر ایک دم اٹھ کے بیٹھ کے زویان سے پوچھنے لگی۔۔

کچھ نہیں تم سوجاؤ ۔۔۔

ادھی رات کو ایسے کمرے میں جنوں کی طرح گھومے گے تو مجھے کیا خاک نیند ائے گی۔۔

ہیر نے اسکے روبرو اکے کہا۔۔

زویان نے اسے غور سے دیکھا اور کہا!!

میری تکلیف میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں سوجاؤ 

بڑی جلدی خیال اگیا اس چیز کا ۔!!

ہیر نے بہت آ ہستہ کہا تھا مگر زویان سن چکا تھا۔۔

ا تو گیا نہ پشیمان تو ہو نہ اپنی غلطی پہ بھگت رہا ہو نہ اب ۔۔۔

یہ بولتے ہوئے زویان کافی چڑ چڑا ہو رہا تھا ہیر دیکھ سکتی تھی تکلیف سے اسکی انکھوں میں نمی تھی۔۔

ہیر نے اپنے بال باندھے اور اسکا ہاتھ تھام کے اسے بیڈ پہ بیٹھایا ۔۔

لیٹے میں دیکھتی ہو کوئ پین کلر!!

ہیر نجانے کیا کیا بولے جارہی تھی مگر زویان ابھی تک اپنے اس ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جو ہیر نے تھاما تھا۔۔

ہیر نے ڈاکٹر کی پیرسکرپشن پڑھ کے ایک اور گولی زویان کودی۔۔

سر درد کی بھی دے دو بہت درد ہورہا ہے۔زویان نے انکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔

سر درد کی گولی کا مجھے اندازہ نہیں اورا بھی اپ کو کوئ اور میڈیسن دے نہیں سکتی۔۔

لیٹ جائے میں دبا دیتی ہو۔۔۔

نہیں رہنے دو تم خاما خائ میں پریشان ہوگی۔۔

یہ بات یہاں زخم دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھی

ہیر نے اسکے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

زویان نے اسکی بات پہ کچھ نہیں کیا اور خاموشی سے انکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔۔

ہیر اسکے بے حد قریب ائ اور اپنا ہاتھا اسکے ماتھے پہ رکھ کے دبانا شروع کردیا۔۔

زویان بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا اور ہیر اسکے ایسے دیکھنے سے نروس ہورہی تھی۔۔

جب زویان نے دیکھا وہ کافی نروس ہورہی ہے تو اسنے اپنی انکھیں بند کرلی۔۔۔

اسے ایک سکون سا اپنے دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوا سر میں بھی ارام انا شروع ہوا۔

دس پندرہ منٹ میں ہی زویان سوگیا ۔۔

تھوڑی دیر بعد  اپنی   سیدھی طرف زویان کو بوجھ سا محسوس ہوا تو اسنے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کے دیکھا ۔

ہیر بلکل اس سے لگ کے سورہی تھی اسکا چہرہ زویان کے چہرے کے کافی قریب تھا ایک ہاتھ سے اسنے زویان کی شرٹ کو تھاما ہوا تھا۔۔۔

زویان نے دل سے دعا کی کے ہیر ایسے اسکے قریب رہے ہمیشہ۔۔۔

زویان کی نظر ہیر کے لبوں پہ گئ۔۔

ایک دوسرے میں پیوست ہونے کے باوجود وہ زویان کو اپنے طرف  کھیچنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔۔

زویان نے اپنا سر تھوڑا اور ہیر کے قریب کیا اور بہت ارام سے اسکے لبوں کو چوم لیا کبھی اوپر کا ہونٹ چومتا کبھی نیچے کا۔۔

ہیر  شاید تھکی تھی جبھی اسکی نیند میں خلل نہیں پڑا۔۔

زویان نے اسکے لبوں سے اپنے لب ہٹائے اور اسکے بالوں میں منہ چھپا کے سوگیا۔۔

ماشاءاللہ عاشر میں بہت ذیادہ ایمرو منٹ ائ ہے۔۔

سارے سبجیکٹ میں۔۔

عاشر کی ٹیچر مسلسل عاشر کی تعریف کررہی تھی۔۔

اسکول میں تقریبا سب ہی شانزے کو غور غور سے دیکھ رہے تھے۔۔

ظاہر سی بات ہے عاشر کی عمر کے حساب سے شانزے ابھی چھوٹی تھی اسکی ماں کے درجے کے لحاظ سے مگر یہ۔ بات اسکول والے بول نہیں سکتے کے اپ تو کہی سے بھی عاشر کی ماما نہیں لگتی۔۔

کیونکہ بہزاد راجپوت سے شانزے کی شادی  پورے شہر سے تو کیا پورے ملک سے چھپی نہیں تھی۔۔۔

رزلٹ لے کے شانزے باہر نکلی جب عاشر نے کسی کو پکارا!!

ماما!!!؟

عاشر کے پکارنے پہ شانزے جو گاڑی کا لاک کھول رہی تھی مسکراتے ہوئے پلٹی مگر اسکو یہ دیکھ کے کافی شاکڈ لگا کے عاشر نے اسے نہیں بلکے انکے زرا فاصلے پہ کھڑی ایک عورت کو ماما کہا۔

عاشر ڈورتا ہوا لبنہ کے گلے لگ گیا!!

عاشر کے اس عمل پہ شانزے کے دل  میں اہک چبھن سی ہوئ۔۔

میرا بیٹا میری جان کیسے ہو اپ؟؟.

میں ٹھیک ہو ماما !!

عاشر نے لبنا کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔

لبنا گلے عاشر کے لگی تھی مگر غور غور سے شانزے کو دیکھ رہی تھی!!!

ویسے تمہیں دیکھ کے لگتا ہے کے بہزاد کی چوائس کافی خراب ہوگئ۔۔

لبنا نے سینے پہ ہاتھ باندھ کے اوپر سے نیچے تک شانزے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ڈارک پرپل کلر کے عاصم جوفا  کے ڈیزائنر  قمیض شلوار میں سمپل سے کھوسے پہنے اونچی سی پونی ٹیل بنائے بنا میک اپ سے پاک شانزے کو ٹونٹ کرتے ہوئے کہا۔۔

شانزے نے اسکی بات کو برا منائے بنا کہا۔۔

ہم کہہ سکتی ہیں اپ لیکن بہزاد کی چوائس پہلے خراب تھی اب نہیں جبھی تو اپکا انتخاب کیا تھا۔

شانزے کے دوبدو جواب پہ لبنا کے چہرے کی طنزیہ مسکراہٹ پل بھر کیلئے غائب ہوگئ تھی۔۔

عاشر میرا بیٹا ہے اور میں اسے تم سے چھین کے رہونگی۔۔

بس یہ ہی اس بچے کی بدقسمتی ہے کے تم جیسی عورت اسکی ماں ہے جس نے اپنی جسمانی ہوس پوری کرنے کیلئے پیسوں کی لالچ میں ایک بے پناہ محبت کرنے والے شوہر  کی عزت کو داغدارکیا اپنے یار کیساتھ جسمانی تعلقات رکھتے ہوئے ایک بار بھی۔۔

اس سے پہلے شانزے اپنی بات پوری کرتے لبنا نے اسے تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا شانزے نے وہی ہاتھ درمیان میں رک کے دوسرے ہاتھ سے لبنا کا منہ دبوچتے ہوئے کہا۔

نہ نہ لبنا انٹی!!

انٹی کہنے پہ لبنا نے غصہ میں شانزے سے اپنا منہ چھڑوانا چاہا۔۔

 یہ غلطی مت کرنا شاید اپ میرا پورا نام نہیں جانتی شانزے بہزاد راجپوت ہو میں ۔۔۔

میں بہزاد اور عاشر کیلئے اپنی جان دے بھی سکتی ہو اور کسی کی جان لے بھی سکتی ہو۔۔

ہہ بولتے ہوئے شانزے نے اسکے ہاتھ کیساتھ اسکا منہ بھی چھوڑا اور کہا۔

۔اچھے سے جانتی ہو  میں کیوں تمہیں اچانک اپنے بیٹے سے محبت کیسے  جاگ گئ۔۔

مگر اس بار تم عاشر کو بہزاد سے چھین نہیں سکتی یاد رکھنا ایک موبائل فون دینے سے تم عاشر کو تو ممتا کے جھوٹے جال میں پھانس سکتی ہو مگر اسے چھین نہیں سکتی ۔

یہ کہہ کے شانزے نے عاشر کا ہاتھ تھاما اور گاڑی اسٹارٹ کرکے چلی گئ۔۔

بہزاد جس نے شانزے کو کال تھی جو شانزے نے پک تو کرلی تھی مگر بات نہیں کرپائ اور یہ بھی بھول گئ کے بہزاد کال پہ ہے۔۔

اسلیے بہزاد نے لبنا اور اسکے درمیان کی ساری گفتگو سن کے مسکراتے ہوئے کہا۔

"میری پٹاخہ"

فجر کی نماز پڑھ کے تھوڑا سا قرآن پاک پڑھ کے ہیر نے پاس جاکے زویان کو دیکھا جو سویا ہوا تھا ایسا ہیر کو لگا۔۔

ہیر  نےاس پہ جھک کے ہلکی سے پھونک ماری اور خاموشی سے گیٹ کھول کے باہر جانے لگی۔

دروازہ بند ہوتے ہی زویان کی انکھیں کھلی اور اسکے لب مسکرائے تھے کل کی رات اسکی سب سے خوبصورت رات تھی۔۔

ہیر نے جس طرح اسکا خیال رکھا تھا زویان کو بہت شرمندگی ہورہی تھی وہ بہت ذیادہ ہیر کو تکلیف پہنچا چکا تھا۔۔

مگر اب وہ ہیر کو اتنی محبت اور عزت دینا چاہتا تھا کے وہ زویان کی دی گئ  تکلیف دل سے بھلا دے

ہیر زویان کے کمرے سے نکلی تو اسکا سامنا شاہجاں سے ہوا جو زویان کو دیکھنے اراہی تھی نمرہ کی تھوڑی طبیعت ناساز تھی اس وجہ سے وہ ائ تھی۔۔

مگر ہیر کو کمرے سے نکلتا دیکھ جہاں انہیں یہ دیکھ کے حیرت ہئ وہاں خوشی بھی۔۔

مگر ہیر شاہجاں بیگم کو دیکھ کے کافی گھبرا گئ تھی اور ساتھ میں نروس بھی ہورہی تھی۔۔

شاجہاں بیگم نے مسکراہٹ کیساتھ اسے کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا۔

جانتی ہو معاف کرنا اسان نہیں ہوتا ہیر بیٹا خاص کر اس شخص کو جس سے اپنے سب سے زیادہ محبت کی ہو اور وہی اپکی ہر تکلیف کی وجہ ہو۔۔

مگر اللّٰہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔

اللّٰہ تمہں اور زویان کو ایک ساتھ ہمیشہ خوش رکھے ایک موقع اسے دے کے تم نے ثابت کردیا کے نسل کیساتھ ساتھ اولاد کی پرورش میں ماں کی تربیت بھی ہوتی ہے ۔

یہ بول کے شاہجاں بیگم کمرے میں جانے کے بجائے وہاں سے چلی گئ اور ہیر نے کچن کا رخ کیا۔۔۔

گھر میں سب کو جلدی اٹھنے کی عادت تھی اسی وجہ سے سب اٹھ گئے تھے۔۔

سب ناشتہ کی ٹیبل پہ اچکے تھے جسمیں صنم بھی شامل تھی۔مگر ہیر نے ایک ناشتہ کی ٹرے تیار کی اور اوپر جانے لگی۔۔

ٹیبل پہ بیٹھا ہر شخص بہت غور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا سب ہی خوش تھے اظہر صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ وہ دل سے چاہتے تھے کے زویان اور ہیر الگ نہ ہو۔۔

صائم بھی خوش تھا ہیر اور زویان کیلئے مگر صنم کی زبان میں کھجلی ہوئ اور اسنے اوپر جاتی ہیر کو اواز دیتے ہوئے کہا۔

بھابھی جان !!.صنم کے ایسے پکارنے پہ ٹیبل پہ بیٹھا ہر شخص مسکرانے لگا صائم بھی صنم کو دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

جی نند صاحبہ کہیے۔۔۔

پیر نے بھی اسے اسی ٹون میں جواب دیا۔۔

وہ اصل میں سوچ رہی تھی اگر اپ میرے بھائ کی خدمت سے فری ہوکے میرے ساتھ زرا نہال کے گھر تک چلتی ؟؟

صنم نے کافی مسکرا کے نہال کا نام لیا تھا جو وہاں بیٹھے کسی نفوس نے نوٹ کیا ہو یہ نہ کیا ہو صائم نے ضرور کیا تھا۔۔

جی نہیں انکی ذمیداری اپ پہ ہے اور اپ ہی انہیں اچھے سے ہینڈل کرسکتی ہیں لہزا مجھے بخشے۔۔

یہ کہہ کے تقریبا بھاگنے والے انداز میں ہیر سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ہیر کی اس حرکت پہ ایک بار پھر سب کا قہقہ گونجا مگر صائم کے حلق سے ناشتہ اترنا اب مشکل تھا۔۔

ہیر کمرے میں ناشتہ لے کر پہنچی تو زویان اٹھ چکا تھا ۔۔

ہیر نے اسکے سامنے ناشتہ کی ٹرے رکھی اور ٹول گیلا کرکے اسکے ہاتھ صاف کرنے لگی اسے اندازہ ہوگیا تھا کے وہ منہ دھو چکا ہے اور برش بھی کرچکا ہے۔۔

ہیر نے اسے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروایا جبکے اسکا سیدھا ہاتھ ٹھیک تھا زویان نے ایک دم اس سے پوچھا۔۔

تم نے کیا ناشتہ ؟؟

نہیں ابھی موڈ نہیں۔۔۔

زویان اہیر کی بات پہ خاموش ہوکے اسے دیکھنے لگا۔۔

زویان نے پاس رکھا چائے کا کپ اپنے ہونٹوں سے لگاکے تھوڑی سی چائے پی اور پھر وہی کپ ہیر کی طرف بڑھا دیا۔۔

میرے ساتھ کرلو ناشتہ؟؟

نہیں!!

ہیر نے خاموشی سے نگاہیں جھکا کے کہا اور زویان کے لیے سلائس کا لقمہ توڑنے لگی۔۔

ہیر ںاشتہ کرو میرے ساتھ۔۔

نہیں !!.ٹھیک ہے ہھر لیجاو مجھے بھی نہیں کرنا۔۔

ہر بات پہ ضد کیوں کررہے ہیں۔۔؟

یہ لو چائے پیو !!

زویان نے اسکے اگے چائے کا کپ کیا اسکی بات اگنور کرکے۔۔۔

میں نہیں پی رہی۔۔

دل پہ ماری ہے گولی میں نے  کوڑھ نہیں مجھے جو میرا جھوٹا نہیں کھاسکتی۔۔۔

ہر بات میں بکواس کیوں کرتے ہیں اللّٰہ نہ کرے اپ کو کچھ ہو انٹی اور انکل کا خیال نہیں اپکو۔۔

تو پھر کرو ناشتہ میرے ساتھ جب اتنا کررہی ہو میرے لیے تو مت دلاو مجھے ضد ۔۔

ہیر نے اسکے ہاتھ سے خاموشی سے چائے کا کپ لے کے اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔۔

زویان نے مسکراتے ہوئے بہت  دھیرے سے  اگے بڑھ کے اسکے ماتھے کو  اپنے لبو سے چھوا تھا۔

ایسا کرنے پہ ہیر پیچھے نہیں ہوئ تھی مگر غصہ میں اپنا ماٹھا ضرور صاف کیا تھا اور ہیر کی اس حرکت پہ زویان نے مسکراتے ہوئے نفی میں گردن ہلائ تھی۔۔

ہارون اپنی ہی دھن میں ہسپتال میں داخل ہوا مگر سامنے ہنزہ کو دیکھ کے پل بھر کیلئے اسکے پاؤں تھم گئے۔۔

وہ شاکڈ نظروں سے ہنزہ کو دیکھنے لگا جو دوسرے ڈاکٹر سے ڈسکشن کررہی تھی۔۔۔

ہنزہ بھی ہارون کا حیران ہونا دیکھ چکی تھی ۔۔

دوسرے ڈاکٹر سے ایکسکیوز کرکے وہ ہارون تک ائ اور کہا۔۔

اتے اتے رک کیوں گئے تم؟

اتنے حیران کیوں ہورہے ہو مجھے دیکھ کے کیا سینگ نکل ائے میرے؟؟

کیا ہوا میں غائب ہوکے تم یہاں ائ ہو؟؟

کیا ؟؟کیا پاگل ہوگئے ہو؟

یار ابھی میں اپنی چھوٹی بہن کو پزا پوائنٹ پہ چھوڑ کے ایا ہو اسکے فرینڈ کی سالگرہ کی پارٹی تھی تو وہاں میں نے ۔۔۔۔۔

ہارون کچھ سوچتا ہوا ایک دم خاموش ہوگیا اور ہنزہ سے پوچھنے لگا۔۔

تم کب ائ ہسپتال ؟؟

مجھے تین سے چار گھنٹے ہوگئے !!ہارون کیا ہوا ہے جب سے ائے ہو پاگلوں کی طرح ریکٹ کررہے ہو۔۔۔

کچھ نہیں تم بتاو وہ ہارٹ پیشنٹ کی ایی سی جی ائ۔۔

ہارون اسکے سوال کو اگنور کرکے اگے بڑھنے لگا جب ہنزہ نے ایک دم اسکا راستہ روکا اور کہا ۔

پزا پوائنٹ میں کیا دیکھا تم نے ہارون ؟؟مجھے سچ سچ بتانا ورنہ بھول جانا ہم کبھی دوست تھے۔

ہارون نے دوبارہ اسے ٹالنا چاہا مگر ہنزہ ضد میں قائم رہی تو ہارون اسے اپنے کیبن میں لے ایا اور کہا۔۔

دیکھو ہنزہ ہو سکتا ہے میرا وہم ہو مگر تم بازل بھائ سے لڑنا نہیں!!

اب اگر تم نے گول گول بات کی تو میں تمہارا سر پھاڑ دونگی بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔

مجھے ایسا لگا میں  نے بازل بھائ کو پزا پوائنٹ میں کسی لڑکی کیساتھ دیکھا تھا کافی کلوز بیٹھے تھے دونوں میں سمجھا شاید تم ہوگی جبھی ڈسٹرب نہیں کیا مگر ہوسکتا ہے ہنزہ میرا وہم ہو۔۔

نہیں ہارون تمہارا وہم نہیں تھا وہ بازل ہی ہوگا!!

تم اتنے کانفیڈینس سے کیسے کہہ سکتی ہو  وہ بازل بھائ  تھے۔۔

وہ تم سے بچپن سے محبت کرتے ہیں نہ تم انکی  محبت ہونے کیساتھ ساتھ دوست بھی ہو اور تم نے ہی مجھے بتایا تھا کے تمہارے علاوہ اسکی کوئ لڑکی دوست نہیں !!

تو پھر یہ سب؟؟

مجھے بتاو ہنزہ کیا چل رہا ہے سب ؟؟

ہارون کا پوچھنا تھا کے ہنزہ بے اواز رونے لگی اور پھر اسنے بازل کی حرکت سے لے کر نکاح کے بعد اپنا بازل کے ساتھ رویہ ،بازل کی بار بار معافی مانگنا سب بتا دیا۔۔۔

تم شاید پہلی لڑکی ہو ہنزہ جس نے اپنی محبت کو اپنی انا کی وجہ سے اتنا تھکا دیا کے اس نے کسی اور کے ساتھ میں سکون ڈھونڈنا شروع کردیا۔۔۔

ہارون کی بات پہ ہنزہ نے پرشکوہ نگاہ ہارون پہ ڈال کے کہا۔۔

تم بھی مجھے غلط بول رہے ہو؟؟

نہیں ہنزہ میں مانتا ہو کے بازل بھائ کا طریقہ غلط تھا مگر انہوں نے یہ سب تمہاری قربت حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا  بس تمہیں پانے کیلئے کیا تھا۔۔اسکے بعد تم۔سے معافی بھی مانگی اور روئے بھی۔۔

بہت خوش نصیب ہوتی ہے وہ عورت جسکو پانے کیلئے کوئ مرد روئے۔۔

ادھر دیکھو میری طرف۔۔

ہارون کے کہنے پہ ہنزہ نے نگاہ اٹھا کے اسے دیکھا ۔۔

محبت کرتی ہو بازل بھائ سے۔۔۔۔۔۔!؟

ہنزہ نے کسی معصوم بچے کی طرح گردن ہاں میں ہلائ۔۔

تو جاؤ بتاو انہیں کے تم بھی غصہ میں تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی ہو ہنزہ بتاؤ انہیں ایسا نہ ہو کے دیر ہوجائے۔۔۔۔

######$#

میں کیسے نہلاو اپکو ؟؟اپ خود نہائے جاکے۔۔۔

یار میرا ہاتھ اوپر نہیں اٹھے گا سر ڈھونے کیلئے اج ہی تو ٹانکے کھلوا کے ایا ہو شیمپو کیسے کرونگا بالوں میں۔۔۔

زویان کی بات پہ ہیر نے گھور کے اسے دیکھا اور کہا ۔۔

اتنے معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے ہے نہیں اپ ۔۔۔

میں صرف اپکے شیمپو کرکے واپس آجاؤں گی۔۔۔۔۔

اوکے ڈن۔۔۔!!زویان نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔۔

ہیر نے اپنی شرٹ بدلی اور زویان کے پاس واش روم میں گئ جہاں وہ اسکا انتظار کررہا تھا ۔۔

ہیر ہائٹ میں زویان سے تھوڑی چھوٹی تھی اسلیے زویان کو شاور کے نیچے بیٹھ کے اپنا سر دھلوانا پڑا۔۔

ہیر اسکے بالوں کو واش کرکے جانے لگی تھی جب زویان نے ایک دم اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اور شاور اون کردیا۔۔

زو۔۔یا۔۔۔زویان۔۔۔یہ کیا کیا اپنے؟؟

مجھے نہانا تھا اپنی بیوی کیساتھ۔۔۔

اتنا بول کے زویان نے ہیر کی کمر سے تھام کے خود سے لگایا۔

ہیر کے انکھیں مسلسل زویان کے چہرے پہ تھی جسکی انکھیں اج بہت الگ ہی منظر بیان کررہی تھی۔۔۔

مجھے جانا ہے زویان اب نہائے۔۔

اتنا بول کے ہیر نے اپنے اپکو زویان سے الگ کروانا چاہا۔۔۔جب زویان نے اسے اور مضبوطی سے تھام کے خود سے لگایا اور کہا۔۔

جانتا ہوں ہیر چاہ کر بھی میں تمہارے دماغ سے یہ بات نہیں نکال سکتا جو میں نے تمہارے ساتھ کیا ۔۔

مگر میں اب تمہیں کھونا نہیں چاہتا اسلیے اپنے اپکو اذیت دی جب تم نے مجھ سے دور جانے کی بات کی۔۔۔

معاف کردو ہیر ایک موقع دے دو میں تمہارے سارے زخم بھردو نگا بس ایک بار مجھ پہ اعتبار کرکے دیکھو لو۔۔

زویان اور ہیر دونوں شاور کے نیچے کھڑے تھے زویان کے ایک دفعہ روکنے پہ ہیر نے دوبارہ اس سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کی۔۔۔

زویان نے جب دیکھا کے ہیر بلکل خاموش کھڑی ہے اور بس اسے تکے جارہی ہے۔

۔۔زویان نے بہت ارام سے اسکا چہرہ تھاما اور اسکے گلابی ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

بہت بہت چاہتا ہو ہیر تمہیں !!

اتنا کہہ کے زویان اسکے لبوں پہ جھک گیا زویان کے اس عمل سے ہیر پوری لرز گئ زویان کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کے کبھی وہ اسکے ہونٹوں کو چومتا کبھی اسکی گردن پہ اپنے لب رکھتا اسکی کمر پہ بار بار ہاتھ رکھ کے وہ اسکے گیلے جسم کو خود سے لگائے جارہا تھا اور ہیر کی سمجھ نیں نہیں ارہا تھا کے وہ اپنے اپکو زویان سے الگ کیوں نہیں کررہی۔۔۔۔

######

صنم کو نہال چھوڑنے ایا تھا گھر تک اور یہ منظر صائم نے اپنی کھڑکی سے دیکھا تھا۔۔

صنم نے جیسی ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا تو گپ اندھیرا تھا اس نے جیسی ہی لائٹ جلانی چاہی کسی نے اسکی کمر تھام کے اسے خود سے لگایا۔۔۔

اس سے پہلے صنم چیختی صائم نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔

تم صرف میری ہو!!ا

اتنا کہہ کے صائم نے اسکے ہاتھ سے وہ رنگ اتاری ۔۔۔

صنم کو اچھے سے اندازہ ہوگیا تھا کے یہ حرکت کسی کی ہے اسلیے اسنے اپنے اپکو ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔

صنم کے ایسا کرنے پہ صائم نے اسکے منہ سے ہاتھ ہٹایا ۔۔۔

صنم نے پہلے کمرے کی لائٹ کھولی تو سامنے صائم کو کھڑا پایا جسکی انکھیں ضرورت سے ذیادہ سرخ تھی۔۔

مجھے تمہارے ذات سے گھن اتی ہے صائم تمہاری ہونے سے بہتر ہے میں موت کو گلے لگالو۔۔

صنم میں معافی مانگتا ہو اپنے ہر عمل کیلئے یقین مانو میں نے اس رات کے بعد اپنے ہر گناہ سے توبہ کرلی ہے۔۔

صائم نے اسکے پاس اکے اسکا چہرہ تھام کے منتیں کرنے والے انداز میں کہا۔۔

صنم نے اسے دھکا دیا اور کہا۔۔

ہاتھ نہیں لگاؤ مجھے اور یہ اپنی بکواس بند کرکے رنگ دو میری۔۔

کیوں تمہارے یار نے جو تمہیں اتنی محبت سے پہنائ ہے اسلیے۔۔

صائم کی بات سن کے صنم نے اگے بڑھ کے غصہ میں اسکے منہ پہ زور دار تھپڑ مارا اور کہا۔۔

اپنی بکواس بند کرو کہا نہ میں نے۔۔

کیوں ؟؟

صائم۔نے اگے بڑھ کے اسے دیوار سے لگایا اور کہا۔۔

میں نے تمہیں دھوکا دیا نہ میں دھو کے باز تھا تمہارا اپنے بارے میں خیال ہے۔۔

تم تو مجھ سے محبت کی دعویدار تھی نہ۔۔

صنم نے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے اذاد کروانے چاہے جو صائم نے دیوار سے لگائے رکھے تھے۔۔۔

محبت کا تو تم نے بھی دعوا کیا تھا کیا کیا پھر اس محبت کا کسی اور کی باہنوں میں کسی بستر پہ روندھ ڈالا اسے۔۔۔

صنم نے یہ بات تقریبا چیختے ہوئے کہا۔۔

میں کہہ تو رہا ہو مجھ سے بہت بڑا گناہ ہوگیا ہر رات ہر سجدے میں اپنے اللّٰہ سے اپنے گناہوں سے معافی مانگتا ہو۔۔

مجھے معاف کردو صنم پلیز مجھ سے دور مت جاو۔۔

یہ کہہ کے صائم نے صنم کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکائے رونے لگا۔۔

صائم کی اس حرکت پہ صنم پل بھر کیلئے سن ہوگئ۔۔

صائم نے اسکے ہاتھ چھوڑے اور اسے بیڈ پہ بیٹھا کے اسکے پاوں میں بیٹھ گیا اور کہا۔۔

میں زناکار تھا سب کچھ تھا مگر میں نے کبھی تمہارا فائدہ نہیں اٹھایا۔۔

وہ تو موقع نہیں ملا تمہیں۔۔

صنم نے غصہ سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔

موقع تو بہت دیے تم نے صنم ۔۔

یہ بات بولتے ہی صائم جو ابھی رو رہا تھا اپنی مسکراہٹ دبا گیا۔۔

جب جب میں نے تمہارے لبوں کو چوما تو صرف تمہارا چہرہ تھاما تمہرے جسم پہ کہی ہاتھ نہیں لاگیا۔۔

جب جب تم میری گود میں بیٹھی تو صرف تمہیں کمر سے تھام کے خود سے لگایا کبھی کچھ اور نہیں۔۔

مجھے تم سے اب عشق ہونے لگا ہے صنم مجھے چھوڑ کے مت جاو مت تھامو نہال کا ہاتھ۔

۔صائم کی بات پہ صنم نے اسے شاکڈ انداز میں دیکھا۔۔

نہال کا اور تمہارا کوئ جوڑ نہیں وہ تمہارے جیسے نہین ہیں ائ سمجھ۔۔

صنم کا اتنا کہنا تھا کے صائم نے اسے ایک دم بیڈ پہ دھکا دیا اور اس پہ جھک کے اسکے لبوں کو چوم لیا ۔۔

صنم مسلسل اسکے سینے پہ مکے مارتی رہی مگر صائم پہ۔کوئ اثر نہیں ہوا ۔۔

صائم نے جب اسے چھوڑا تو صنم کا نچلا ہونٹ بری طرح زخمی تھا۔۔

تکلیف کے باعث صنم کی انکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔

ماردونگا جان سے نہال کو سنا تم نے ۔۔۔

تم صرف میری ہو۔۔

اتنا کہہ صائم اسے روتا چھوڑ کے کمرے سے چلا گیا۔۔

#######

ہنزہ ہسپتال سے اچکی تھی اسنے فیصلہ کرلیا تھا کے اج وہ بازل سے اپنے سارے معاملات کلئیر کرلے گی۔۔

ابھی وہ اپنے روم میں ائ ہی تھی جب پیچھے سے بازل اسے کمرے میں ایا ۔۔

جو کافی تیار تھا ۔۔

سنو مجھے تمہارا  NIC   چاہیے اور شاید نکاح نامہ بھی تمہارے پاس ہے مجھے دے دو تم ڈائیورس پیپر تیار کروانے ہیں ملائشیا جانے سے پہلے۔۔

یہ کہہ کے بازل جیسے ایا تھا ویسے چلا گیا مگر ہنزہ کے پاؤں کے نیچے سے ذمین نکل گئ۔۔

اسکی انکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔

تھوڑی دیر تو وہ روتی رہی مگر پھر غصہ میں اٹھ کے بازل کے کمرے میں گئ ۔۔

دروازہ کھولنے والی تھی جب اسے اندر سے بازل کی اواز ائ۔۔

ہاں ہاں میری جان بول دیا اسے بس کچھ دن اور پھر میں اور تم۔۔۔

ابھی بازل پوری بات کرتا ہنزہ غصہ میں کمرے میں داخل ہوئ۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے تمہیں ناکک کرکے انا چاہیے تھا۔۔

ابھی بتاتی ہو تمہیں بد تمیزی کیا ہوتی ہے۔۔

ہنزہ نے اسکے کمرے مجود ڈریسنگ کے پاس اکے پرفیوم کی شیشی کھینچ کے بازل کے ماری وہ تو بازل سائیڈ میں ہوا تھا ورنہ اسکا سر پھٹ جاتا۔۔

ہنزہ کیا پاگل ہوگئ ہو۔۔

ہاں پاگل ہوگئ ہو ۔۔

اتنا کہہ کے ہنزہ نے اسے دوبارہ ٹشیو پیپر کا باکس مارا جو بازل کی ٹانگ پہ لگا۔۔

اہہہہ!!

 ہنزہ لگ رہی یار ۔۔۔

ہنزہ نے جب دوبارہ شوںپیس اٹھایا بازل کو مارنے کیلئے تو بازل بیڈ پہ چڑھ کے بلینکٹ اوڑھ کے لیٹ گیا اور اسکے اندر سے بولنے لگا چڑیل لگ جائے گی میرے۔۔

ہنزہ نے شوپیس غصہ میں وہی ذمین پہ پھینکا اور اس کے اوپر چڑھ کے بیٹھ گئ ۔۔

روئ بھی جارہی تھی اور اسے مار بھی رہی تھی۔۔

ارے ارے ہوا کیا ہے ہنزہ ۔۔۔

بازل نے اسے اندر سے ہی کہا۔۔

ہنزہ نے اسکے اوپر بیٹھے بیٹھے بلینکٹ اترا اورا سکے بال نوچتے ہوئے کہا۔۔

میرے ہو تم سنا تم نے !!.جان سے مار دونگی تمہیں بھی اور اس نوشی پوشی کو بھی

ہنزہ کے منہ سے یہ بات سن کے بازل کے لب کھل کے مسکرائے۔۔

اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کے ہنزہ کو غصہ کیساتھ ساتھ رونا بھی ایا وہ اتر کے جیسی جانے لگی۔۔

بازل نے اسے کمر سے تھام کے ایک دم اپنی پوزیشن بدلی اور کہا۔

تمہیں تو چاہے تھی نہ مجھ سے طلاق نفرت تھی نہ تمہیں مجھ سے گھن اتی تھی نہ مجھ سے۔۔

ہاں میں جو بھی کہو نگی تمہیں سننا پڑے گا کیونکہ تم پہ صرف میرا حق ہے اور میں کسی اور کو یہ حق چھیننے نہیں دونگی ۔۔

ہنزہ کا بولنا تھا کے بازل مسکرانے لگا ۔۔

ہاں ہاںا ہنسو ہنسو مجھ پہ ۔۔۔یہ بول کے ہنزہ ایک دم رونے لگی۔۔

جب بازل نے اس پہ جھک کے اسکے لبوں کو چوم لیا۔۔ہنزہ نے بھی اسکی گردن کو تھام لیا۔۔

مگر ابھی بھی ہنزہ رو روہی تھی جب بازل نے اسکے لبوں کو چھوڑا اور باری باری اسکی انکھوں سے آنسو چنے۔۔

میں صرف تمہارا تھا تمہارا ہو اور تمہارا ہی رہونگا۔۔

جھوٹ تم مجھے چھوڑنے والے تھے اس نوشی کے چکر میں۔۔۔

ایسا کبھی نہیں ہوسکتا میری جان بازل کے دل کا ایک ہی حکمران ہے اور وہ ہے صرف ہنزہ بازل ۔۔۔

یہ بول کے بازل ایک بار پھر ہنزہ پہ شدت سے جھکا کئ مہینوں کی اپنی پیاس اسکے لبوں سے بجھانے لگا ۔۔

اسکی گردن پہ جھکا وہ اپنی پیاس بجھا رہا تھا جب ہنزہ۔ ے اسے کندھے سے پکڑ کے روکا اور کہا۔۔

تو پھر وہ نوشی اور وہ جو تم موبائل پہ بات کررہے تھے وہ؟؟؟

ابھی پیار کرنے دو مجھے بعد میں بتاؤ گا سب مگر اتنا جان لو تمہیں سیدھا کرنے کیلئے بازل نے ٹیڑھا راستہ اپنایا۔۔

اتنا کہہ کے بازل نے اسکے کندھے سے شرٹ نیچیں کرکے وہاں اپنے لب رکھے ا۔۔

بازل پلیز۔۔۔

جب بازل کی شدتیں بڑھنے لگی تب ہنزہ نے اسے روکا ۔۔

بازل کی لال سرخ آنکھوں کو دیکھ کے ہنزہ نگاہیں جھکانیں پہ مجبور ہوگئ تھی مگر بازل نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہنزہ کے اوپر سے ہٹا اور اسکے سائیڈ میں لیٹ کے اس سے چپک گیا۔۔

اچھے کام دھندے پہ لگایا ہے تو نے نہانہ تجھے ہے اور تیری ڈھیلی ڈھیلی شرٹس میں لاو۔۔۔

صائم کو پچھلے آ دھے گھنٹے سے لکی ون مال میں گھوم رہا تھا زویان کے کہنے پہ اب چڑنے لگا تھا۔۔

ہاں ہاں بھئ صحیح ہے ایک کام بولا ہے صائم بھائ اپکو وہ بھی اپ سے نہیں ہورہا مجبور ہو میں ذیادہ چل نہیں سکتا ورنہ میں خود ڈھونڈ لیتا اپنی شرٹس ۔۔۔

اچھا اچھا ذیادہ ڈرامے نہیں کرو ڈھونڈ رہا ہو جو ملے نہ خاموشی سے پہن لینا!!

ہاں ہاں بس کلر اچھے اچھے لانا بڈھو والے کلر مت لانا۔۔

زویان کی فرمائش پہ صائم کو تو مانو خون ہی کھول گیا اسنے تپ کے زویان سے کہا۔۔

زویان کوئ تو نو مہینے والی پریگننٹ عورت نہیں ہے جو تیرے لیے ڈھیلی شرٹس تو ڈھونڈو ڈھونڈو اوپر سے کلر بھی اچھے اچھے ۔۔

لاحول ولا قوت وہ تو اپکی بیوی ہوگی میری بیوی ہوگی۔۔زویان نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے صائم سے یہ بات کہی اور تصور میں اسکا چہرہ لاتے ہوئے اپنی ہنسی روکنے لگا۔۔

صائم نے ایک پھر دانٹ پیس کے کہا۔۔

کوئ بہت ہی بیہودہ بے شرم۔انسان ہے مجھے اج دلی ہمدردی ہورہی ہے اپنی بہن سے فون رکھ اب۔۔۔۔

ائے ہائ نوسو چوہے کھاکے بلا حج کو چلا جگہ جگہ گرم گرم حلوہ کھانے کے بعد اج صائم بھائ کو ٹھنڈا حلوہ چاہیے۔۔۔

زویان کے ٹونٹ کرنے پہ اس سے پہلے صائم اسے کوئ جواب دیتا سامنے کا منظر دیکھ کے اسکے لب تھم سے گئے۔۔

ہیلو ہیلو صائم بھائ۔

لگتا ہے کاٹ دی کال زویان نے خودی اندازہ لگاتے ہوئے کال کٹ کردی۔۔

######

تم ائے تو ایا مجھے یاد گلی میں اج چاند نکلا۔۔

بازل موبائل پہ گنگناتا ہوا لانج یں داخل ہوا۔۔

اسکے چہرے پہ بہت حسین مسکراہٹ تھی جو ہنزہ بہت غور سے دیکھ رہی۔۔

بازل اس بات سے بے خبر ہر گز نہیں تھا کے ہنزہ ٹی وی لانج میں بیٹھی ہے مگر وہ اسے جان بوجھ کے دیکھ کے بھی ان دیکھا کررہا تھا۔۔

افف نوشی تمہارے اواز بہت حسین ہے اور واقعی میں تم سے گانوں کے کمپیٹیشن   میں کوئ نہیں جیت سکتا واقعی میں تم دل میں گھر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو میں تو یہ ہی سوچ رہا تھا کے اگر تم میری زندگی میں نہیں اتی تو جانے میرا کیا ہوتا ۔۔۔

ہاں ہاں میری جانو چلے گے نہ جہاں تم بولو ۔۔۔

بازل اپنی دھن میں بولے جارہا تھا اور ادھر ہنزہ کا وہاں سانس لینا مشکل ہورہا تھا اس نے فورا اپنے کمرے کی  رہ لی۔۔

اسکے کمرے میں جاتے ہی زور سے دروازہ بند کرتے ہی بازل کے لب کھل کے مسکرائے اور اسنے فون پہ موجود نوشی سے کہا۔

کام ہوگیا نوشی بس اج اخری کیل اس تابوت میں ٹھو کنی ہے ۔۔

اج گھر میں کوئ نہیں صرف بازل اور ہنزہ تھے عترت اور ندا بیگم کو چلی گئ تھی اور باقی سب گاؤں کی طرف گئے تھے اور کل انا تھا کسی کی شادی تھی وہاں۔۔

ہنزہ نے کمرے میں اکے غصے میں اپنی پرفیوم کی بوتل توڑ دی۔۔

مگر یہ ہی تو وہ چاہتی تھی کے بازل اسے چھوڑ دے پھر اسے غصہ کیوں ارہا ہے۔۔

ہنزہ جس نے اج چھٹی لی تھی تھوڑی دیر کیلئے دوبارہ ہسپتال چلی گئ ۔۔

########

یار اسمیں ڈائمنڈ بہت چھوٹا نہیں۔

نہال نے رنگ ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے کہا۔۔

صنم اور نہال جیولری شاپ میں رنگ پسند کررہے تھے اور صائم ان دونوں کے پیچھے کھڑے ہو ان کو دیکھ رہا تھا۔۔

مگر نہال یہ بہت اچھی ہے !!صنم نے اس رنگ کو بہت غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

تمہیں پسند ہے؟؟

ہاں بہت ۔۔۔

صنم نے کہنے پہ نہال نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسکے ہاتھ۔ میں موجود رنگ اسکی فنگر میں ڈال دی۔۔

صائم نے جب یہ منظر دیکھا تو اسکی انکھوں کو اگے منظر دھندلا نظر انے لگا اور وجہ تھی اسکی انکھوں میں جمع ہونے والے آنسوؤں اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے ایک دم اسکی انکھوں سے تیزی سے آنسوؤں جاری ہونے لگے۔۔

اسنے ایک نظر صنم کو دیکھا اور اسکے ساتھ کھڑے نہال کو جیسے دیکھ کے صائم کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسے جان سے مار دے۔۔

صائم نے اپنے آنسوؤں صاف کیے اور جیسے تیسے زویان کی شرٹس لے کے مال سے نکل گیا۔۔

########

زویان کے ٹانکے اب کھل چکے تھے اج اسے نہانہ تھا جبھی اس نے ڈھیلی سی شرٹیں صائم سے منگوائی تھی تا کے زخم پہ نہ ٹچ ہو۔۔

زویان کو ٹانکے کھلواتے ہوئے  بہت تکلیف ہوئ اور اس بات کا  اندازہ ہیر کو اس بات سے ہوا کے اس نے بہت طاقت سے ہیر کا  ہاتھ تھاما ہوا تھا۔۔۔

ہیر کا دل شاید اب پگھلنے لگا تھا ایک ہفتے سے وہ زویان کیساتھ اسی کے کمرے میں  تھی اور جب تک وہ اسکے کمرے میں رہتی زویان اسے اپنی نگاہوں میں رکھتا اور مسکراتے رہتا۔۔

ہیر زویان کا کھانا بنانے گئ تھی جب صائم اسکے کمرے میں شرٹس دینے ایا۔۔

ابھی فلحال مجھے یہ ہی ملی بعد میں اور لادونگا۔۔

صائم نیچے نگاہیں کرکے شرٹس رکھ کے جانے لگا جب زویان نے ایک دم اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

صائم بھائ کیا ہوا ہے؟

کچھ نہیں مجھے کام ہے بعد میں بات کرتا ہو ۔۔

صائم اپنا ہاتھ چھڑا کے دوبارہ جانے لگا جب ایک بار پھر زویان نے اسکا ہاتھ تھام لیا ۔

ادھر دیکھے میری طرف کیا ہوا ؟؟

زویان کے پوچھنے پہ صائم نے مال میں نہال اور صنم کا انکھوں دیکھا منظر اسے بتا دیا ۔

زویان دیکھ سکتا تھا کے صائم کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو گرنے لگے۔۔۔

صائم بھائ مجھے ایک بات کا جواب دے اج سچ سچ۔۔۔

ہاں پوچھو۔۔۔

محبت کرتے ہیں صنم سے۔۔۔؟؟

یہ سوال تم پوچھ رہے ہو جو سب جانتے ہو!

مجھے جاننا ہے !!

اپکو محبت ہے صنم سے اسے شامل کرناچاہتا ہے اپنی لائف میں؟؟

ہاں محبت نہیں  عشق ہونے لگا ہے اس سے نہیں جی سکتا اس کے بنا نہ اسے کسی اور کا ہوتے دیکھ سکتا ہوا۔۔۔

تو پھر جائے اج اسے بتائے کے اپ سے غلطی ہوگئ منائے اسے بتائے اپ اسے کے محبت نہیں عشق کرنے لگے ہیں۔۔

مگر وہ نہال کیساتھ۔۔

ابھی رنگ انگلی میں پہنی ہے نکاح نامے پہ سائن نہیں کیا ۔۔۔

اج گھر میں خالی میں اور اپ ہیر اور صنم ہیں۔۔

سب گھر والے بازل کی فیملی کیساتھ کسی گاؤں میں گئے ہیں جو ریلیتف ہیں دونوں فیملی کے۔۔

وہاں بازل بھی اج اپنا معملہ کلئیر کرنے والا ہے اور اج میرا بھی کچھ ایسا ارادہ ہے ۔۔

اج اس قصہ کو فائنل کردے بھائ یقین سے تو مانگی تو دعا بھی تقدیر بدل دیتی ہے پھر تو یہ صنم کا دل ہے جائے۔۔۔

زویان کسی بھی صورت میں ہیر کو چھوڑ نہیں رہا تھا اور ہیر کا لگا اسکا سانس رک جائے گا اسنے پوری طاقت لگا کے زویان کو خود سے دور کیا ۔۔۔

پاگل ہوگئے ہیں کیا!!؟

ہیر نے لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے غصہ میں کہا  اور واش روم سے چلی گئ۔

زویان نے ہیر کے جاتے ہی ایک لمبی سانس لی اور یہ مانا کے واقعی اسکی کسس کا  دورانیہ کچھ ذیادہ ہی لمبا ہو گیا تھا۔۔

زویان نے باقی کا نہانہ خود کیا اور یہ سوچتے ہوئے کیا کے پتہ نہیں ہیر اسے معاف کری گی یہ نہیں۔۔

زویان جب باہر نکلا تو ہیر کمرے میں نہیں تھی !!!

ہیر کی غیر موجودگی محسوس کرکے زویان کا دل پھر اداس ہونے لگا ۔۔

اس نے بہت بیزاری سے اپن ٹراؤزر بدلہ اور ساتھ میں بڑبڑانے لگا۔۔

بہت بڑا ہیرو سمجھتا ہے زویان تو خود کو یہ بہت ہی کوئ۔ہینڈسم ہے تو جو تو اپنی بیوی کو کس کرے گا اسے پیار کرے گا تو وہ تیری ساری غلطیوں کو  بھولا دے گی۔۔۔

ہوننہہہ۔!!!

زویان پتہ نہیں کیا کیا بڑبڑا رہا تھا یہ دیھان دیے بنا کے ہیر اسکے کمرے میں اسکے لیے گرم گرم کافی لے کے بیٹھی تھی اور مسکرا کے اسکی باتیں سن رہی تھی۔۔

اگر اپکا بڑبڑانہ پورا ہوگیا ہو تو یہ کافی پی لیں۔۔

ہیر کی اواز پہ زویان جو غصہ میں اپنی شرٹس دیکھ رہا تھا ایک دم پلٹ کے حیران کن نظروں سے ہیر کو دیکھنے لگا۔

زویان نے دیکھا تھا کے اس کے چہرے پہ کچھ انوکھا سا ۔۔

ہاں تھا انوکھا کچھ زویان نے سوچا اور غور کرنے پہ معلوم ہوا کے وہ انوکھی چیز کچھ اور نہیں ہیر کی مسکراہٹ تھی۔۔

ہاں ہیر زویان کو دیکھ کے مسکرا رہی تھی ۔۔

زویان دھیرے سے اسکے پاس ایا اور بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔

ہیر نے پاس رکھا ٹول اٹھایا اور زویان کے سامنے اکے اسکے  بال خشک کرنے لگی۔۔

زویان نے دھیرے سے اسے کمر سے تھام کے خود سے قریب کیا اور اپنا سر اسکے پیٹ پہ رکھ دیا۔۔

زویان کے اس عمل سے ہیر کے ہاتھ تھم گئے۔۔۔

زویان نے نگاہ اٹھا کے ہیر کو دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی مگر اسکی انکھوں میں آنسو تھے۔۔۔

زویان کو پتہ تھا اسکے رونے کی وجہ !!

زویان نے اسکے ہاتھ سے ٹول لے کے سائیڈ پہ رکھا اور اسے اپنی تھائ پہ بیٹھا کے اسے کمر سے تھاما۔۔

ہیر  نگاہیں نیچے کرکے مسلسل روئے جارہی تھی !!

زویان نے اسکے گیلے لمبے بال جو اسکے چہرے پہ تھے کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔

ہیر ادھر دیکھو میری طرف!!

زویان کے کہنے پہ ہیر نے نگاہ اٹھا کے زویان کو دیکھا تو زویان اسکی انکھیں دیکھ کے پل بھر کیلئے ٹہر سا گیا۔۔

غصہ ہو مجھ سے ؟؟

زویان کے سوال پہ ہیر نے نفی میں گردن ہلائ۔۔

مگر میں تم سے ایک بار پھر معافی مانگتا ہو اپنے ہر اس عمل کی جس سے تمہارا دل بری طرح ٹوتا ہے۔۔

یہ کہہ کے زویان نے اسکے دونوں گالوں کو باری باری چوما جہاں اسنے ٹھپڑ مارے تھے اسکے سر کے اس حصے کو چوما جہاں سے اسنے اسکے بالوں کو مٹھی میں لیا تھا۔۔

ہیر اج میں تم سے اللّٰہ کو گواہ بنا کے کہتا ہو۔۔۔

جس دن میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا اسی دن تمہاری ان انکھوں نے مجھے اپنی طرف اٹریکٹ  کیا تھا مگر میں نے اپنے دل کی نہیں سنی۔۔

میں تم سے بدلہ لینا نہیں چاہتا تھا مگر ماشا اور روبرٹ کی باتوں میں اکے  وہ سب کیا ۔۔

مگر دیکھو سب کچھ ڈراما تھا مگر اللّٰہ نے ہمارا نکاح ڈراما نہیں رکھا وہ تو سچ مچ تم سے ہوگیا۔۔

میں تم سے محبت عشق دونوں کرتا ہو دل کی ڈھرکن تھمنے لگتی ہو جب تم دور جاتی ہو۔۔

پلیز ایک بار خالی ایک بار اعتبار کرلو مجھ پہ۔۔۔۔

زویان کے لہجہ میں کیا کچھ نہیں تھا التجا ،افسوس ،ندامت۔۔

ہیر اسے تھوڑی دیر تک دیکھتے رہی اور کہا۔۔

میں نے اپکو معاف کیا زویان!!!

یہ بول کے ہیر زویان کے گلے لگ گئ۔۔

زویان کو لگا اج اللّٰہ نے اسے فرش سے عرش پہ پہنچا دیا وہ ہیر کو اسی انداز میں لیے لیے بیڈ پہ گر گیا ۔۔

اپنی پوزیشن بدل کے ہیر کے چہرے کو چومتے ہوئے کہا۔۔

سچ میں مجھے معاف کردیا نہ!!!

ہیر نے اسکے چہرے پہ ہاتھ رکھا اور کہا۔۔

ہاں زویان میں نے اپکو دل سے معاف کیا اگر زندگی میں دوبارہ اپنے میرا اعتبار توڑا تو موت کو گلے لگا لونگی۔۔۔۔

ہیر کہ بات سن کے زویان نے فورا اسکے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھا اور کہا۔۔

اگر دوبارہ تم نے اپنے مرنے کی بات کی تو میں ہمیشہ کیلئے ناراض ہوجاو گا۔۔

یہ بول کے زویان ہیر کے لبوں کو چومنے لگا جب ہیر نے فورا اسکے لبوں پہ ہاتھ رکھا اور پوچھا۔۔

نکاح والے دن جو اپنے میرے سامنے ماشا کو کس کیا تھا اسکی سزا اپکو ملے گی۔۔

ہیر!!!!

زویان نے حیران ہوکے ہیر کو دیکھ کے کہا۔

ہاں اور اپکی سزا یہ ہے کے اب اپ میرے ہونٹوں کو جبھی چومیں گے جب میں چاہونگی۔۔

اوہ ہیلو !!

یہ کیسی سزا ہے ہیر میں نہیں مانتا۔۔۔۔

یہ بول کے زویان ہیر کے لبوں چومنے کیلئے جھکا جب ہیر نے فورا کہا۔۔

اپکو میری قسم !!!

ہیررررر!!

 یہ غلط ہے نہ کرو پلیز چومنے دونہ۔۔۔۔

نہیں اب ہٹے میں کھانا لاؤ اپکے لیے !!

ہیر کے ایسے کہنے پہ زویان نے مسکرا کے اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور کہا۔

جاؤ جانی کھانا لاؤ تم پہ ایسی ہزاروں کس قربان۔۔۔۔

##########

صنم کے کمرے سے جب صائم اپنے کمرے میں ایا تو اسکے ہونٹوں پہ صنم کے ہونٹوں کا خون لگا تھا۔۔

وہ ایسا صنم کیساتھ کرنا نہیں چاہتا تھا بس غصہ میں ہوگیا۔۔

صائم نے غصہ میں اپنا ہاتھ زور سے ڈریسنگ کے مرر پہ مارا۔۔

اسکے ہاتھ سے بھی تیزی سے خون نکلنے لگا۔۔

اتنے میں اسکے کانوں میں عشاء کی اذان کی اواز ائ۔۔۔

صائم نے پہلے اپنے ہاتھ سے خون بہنا روکا اور پھر وضو کرکے مسجد چلا گیا۔۔

جتنی دفعہ بھی وہ سجدے میں گیا اتنی بار رو روکے اپنے اللّٰہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔۔

نماز پڑھنے کے بعد  اسنے میڈیکل اسٹور سے صنم کیلئے ایک کریم لی اور گھر اگیا۔۔

اسنے دھیرے سے صنم کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے صنم کہی نہیں دیکھی مگر واش روم کی لائٹ اون تھی  وہ بیڈ پہ بیٹھ صنم کے واش روم سے باہر انے کا  ویٹ کرنے لگا۔۔

صنم واش روم سے باہر نکلی تو صائم کو دیکھ کے بل بھر کیلئے وہ ڈر کے وہی رک گئ۔۔

صائم نے پہلی بار صنم کے چہرے پہ ڈر کو دیکھا تھا اور اسے اپنے کیے پہ پچھتاوا ہونے لگا۔۔

صائم نے اس تک پہنچ کے اسکا ہاتھ تھاما جو صنم نے بہت چھڑوانا چاہا اور ایسے کرتے ہوئے وہ رو رہی تھی۔۔

صائم نے اسے بیڈ پہ بیٹھایا اور خود بھی اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔

اپنی جیب سے ٹیوب نکال کے وہ صنم کے ہونٹوں پہ لگاتے ہوئے کہنے لگا۔۔

ائ ایم سوری ایک بار پھر میں تمہاری تکلیف کی وجہ بنا یہ کہتے ہوئے صائم کا گلا رندھ گیا۔۔

صائم نے اسکے ہونٹوں کے زخم پہ ٹیوب لگا کے اسکا ہاتھ تھاما اور گردن جھکا کے کہنے لگا۔۔

مجھے کوئ حق نہیں تمہارے ساتھ زبردستی کرنے کا تمہیں پورا حق ہے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا ۔۔۔

صائم نے یہ کہہ کے اپنی جیب سے نہال والی انگھوٹی نکال کے اسکے ہاتھ میں رکھ دی ایسا کرتے ہوئے صائم کے ہاتھ لرزے تھے ۔۔

صنم نے بہت غور سے صائم کے جھکے سر کو دیکھا تھا جس پہ ٹوپی تھی اس سے نکلتے بال تھوڑے تھوڑے گیلے تھے ۔۔

صنم کے سامنے پل بھر کیلئے پہلے والے صائم کو روپ ایا اس صائم میں اس صائم میں بہت فرق تھا۔۔

صائم نے انگوٹھی رکھنے کے بعد اسکے اگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اور کہا۔۔

معاف کردو صنم مجھے میرے لیے نہ صحیح اللّٰہ کی رضا کیلئے تاکے مجھے سکون مل جائے۔۔

یہ بول کے صائم خاموشی سے چلا گیا اور صنم صائم کے اس عمل سے پتھرا گئ۔۔

########

ہنزہ مسلسل اپنے سامنے بیٹھے ہارون کو گھور رہی تھی اور وہ تھا کے ایپل جوس سے انصاف کررہا تھا۔۔

تم اتنے گھنے میسنے نکلو گے  اسکا مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔

ہنزہ نے اسکے اگے سے جوس اپنے طرف کھینچتے ہوئے کہا۔

اسکے عمل سے بازل کیساتھ ساتھ نوشی کی بھی ہنسی نکلی۔۔

افف کتنا بڑا ڈراما کیا ہارون تم نے پزا ہٹ کا ۔۔ہنزہ نے باقاعدہ اسے مکا دیکھاتے ہوئے کہا۔۔

ہاں تو تم تھی کے بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی بازل بھائ کی انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا تمہاری خوشی کیلئے تمہیں چھوڑ دینگے ۔۔

اپنا یہ فیصلہ وہ بہزاد بھائ کو بتا رہے تھے جب میں نے سن لیا۔

ایک منٹ !!

تم بہزاد بھائ کو کیسے جانتے ہو۔۔۔؟؟

میری وجہ سے !!

اچانک نوشی بولی ۔۔۔

میں بہزاد سر کی مینیجر ہو میرے سامنے ہی بازل بھائ اپنا فیصلہ انہیں بتا رہے تھے ایسا کرتے ہوئے وہ رو رہے تھے۔۔

نوشی کی بات پہ ہنزہ نے بازل کو دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔

میں جو اپنی پچپن کی منگیتر کو پک کرنے گیا تھا سارا معملہ سمجھ گیا اور میں نے یہ ڈراما کیا ۔۔

ہارون کی بات پہ ہنزہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

نوشی تمہارے بچپن کی منگیتر ہے یہ بات تم نے مجھے تو نہیں بتائ گھنے میسنے۔۔۔۔

مگر اس سب ڈرامے کے اصل ڈاریکٹر بہزاد بھائ ہے انہوں نے ہی ہمیں یہ کرنے کو کہا۔۔

چلو نہ اب چھوڑو کیا بچے کی جان لوگی۔۔بازل نے ہنزہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔

ہارون نے مظلوم شکل بنا کے ہاں میں گردن ہلائ تو ہنزہ ہنس پڑی اور نوشی سے کہا۔

سوری یار تمہیں غلط سمجھا۔۔۔

ارے نہیں ہنزہ تم نے مجھے غلط سمجھا جبھی اج تم نے صحیح فیصلہ کیا۔۔

ارے ایسی ہی میں ان پہ پچپن سے فدا نہیں۔

ہارون نے یہ کہہ کے نوشی کو انکھ ماری جہاں نوشی نے شرما کے نگاہ جھکائ وہی سب کا قہقہ گونجا۔۔

####

سب ہی اس فیصلے پہ خوش تھے کے ہیر نے زویان کو معاف کردیا ہے اب سارے گھر والے ان دونوں کی شادی کا سوچ رہے جسکا فلحال ابھی زویان اور ہیر نے منع کردیا تھا اور وجہ تھی صائم اور صنم۔۔

اج چھٹی کا دن تھا سب ہی لان میں بیٹھ کے  شام کی چائے پی رہے تھے اور خلاف توقع ان سب کے درمیان صائم اور صنم بھی تھے۔۔۔

مگر وہ دونوں بلکل خاموش تھے۔۔

جبھی ایک گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہوئ جسے دیکھ سب ہی اجنبیت دیکھا ریے تھے تبھی اسمیں سے نہال نکلا  اور ساتھ میں ایک خوبصورت سی لڑکی۔۔

صائم نے جب نہال کو دیکھا تو اٹھ کے اندر جانے لگا جب نہال نے اسے اواز لگا کے کہا۔۔

صائم ایک منٹ!!

نہال کے روکنے پہ صائم رک گیاجبکہ صنم نے نہال کو کافی غصہ میں دیکھا تھا۔۔

صنم نے باری باری نہال کا سب سے تعارف کروایا ۔۔

سب ہی کے درمیاں وہ دونوں بیٹھ گئے جب نہال نے ایک کارڈ نکال کے اظہر صاحب کو دیا۔۔

انکل یہ میری شادی کا کارڈ ہے اپ لوگوں کو ضرور انا ہے ۔۔

ہاں مگر میں اپنی نند کو دو دن پہلے لے جاو نگی۔۔۔

ان دونوں کے انکشاف پہ صائم نے حیران ہوکے صنم کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔

انکل یہ میری منکوحہ ہے صائمہ !!

میں صنم کا جتنا شکر ادا کرو کم یے۔۔

اگر یہ ہم دونوں کو نہیں ملاتی تو اج ہم دونوں نجانے کہاں ہوتے ۔۔۔

صائمہ کے انکشاف پہ صائم کو دیکھ کے زویان کی ہنسی نکلی جو وہ کافی مہارت سے چھپا گیا۔۔

کیونکہ کل رات ہی صائم نے اسے بتایا تھا کے وہ صنم اور نہال کے درمیان نہیں ائے گا۔

وہ دونوں تھوڑی دیر بیٹھ کے چلے گئے باقی سب بھی باری باری اندر چلے گئے جب زویان نے صائم کے پاس اکے دھیرے سے کہا۔

"اپنی تو جیسے تیسے تھوڑی ایسے یہ ویسے کٹ جائے گی۔۔۔

اپ کا کیا ہوگا جناب عالی"

اتنا کہہ کے زویان نے اندر کو ڈور لگائ اور صائم بیچارا صرف اسے گالیوں سے ہی نواز سکا وہ بھی دل میں۔۔

اج وہ چاروں پھر ایک ساتھ جمع تھے اور زویان کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔۔

بہزاد نے گھورتے ہوئے زویان کو ٹوکا ۔۔

ارے  ماموں میں کیا کرو میری ہنسی ہی نہیں رک رہی اپ ہوتے نہ اس وقت وہاں جب نہال بھائ نے کارڈ نکال کے پاپا سے کہا۔۔

یہ ہے انکل میری شادی کارڈ۔۔۔

افف ماموں صائم بھائ کی شکل دیکھنے والی تھی۔

اب کی بار بازل کا بھی قہقہ چھوٹ گیا جو وہ کافی دیر سے روکے ہوا تھا اور کچھ ایسا ہی حال بہزاد کا بھی تھا۔۔

اب کے اگر تم خاموش نہیں ہوا زویان تو میں تیرا منہ توڑ دونگا۔۔

کوئ بات نہیں میری بیوی مجھے ٹوتے ہوئے منہ کیساتھ بھی قبول کرلے گی ۔۔

اپ کا کیا ہوگا جناب عالی۔۔

صائم اسے جیسی مارنے کیلئے اٹھا بہزاد نے فورا صائم کو روکا اور ساتھ میں زویان کو بھی خاموش رہنے کا کہا۔۔

اچھا اچھا صائم بھائ اب بلکل سیریس قسم سے ۔۔۔

زویان نے واقعی سیریس ہوکے کہا۔۔

ماموں بتائے اب کیا کرنا یے کیونکہ یہ تو صنم سے کہہ ائے ہیں میں اب تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کرونگا اور سونے پہ سہاگہ انہوں نے صنم کیو۔۔۔

ائییییییییی۔۔

۔اس سے پہلے زویان کس والی بات بہزاد کو بتاتا صائم نے ٹیبل کے نیچے اپنا پاؤں سے زویان کے پاؤں پہ مارا۔۔

کیا ہوا؟؟

زویان کی تکلیف پہ بہزاد ایک دم چونکا۔۔۔اور کہا۔۔

کیا ہوا؟؟؟

کچھ نہیں لگتا ہے کسی زہریلے کیڑے نے کاٹ لیا۔۔

ماموں اپ اسے چھوڑے یہ دونوں یہاں میرا مذاق اڑانے ائے ہیں خالی اپ بتائے کیا کرو اب؟

او ہیلو اگر ہم نے اپنی اپنی بیویوں کو راضی کیا ہے تو بھائ تجھے اندازہ نہیں کتنے پاپڑ بیلے ہیں۔

یہ بیچارا تو موت کو چھو کے ایا ہے بازل نے اخری بات زویان کی طرف اشارہ کرکے کہی۔۔

ہاں اور نہیں تو کیا !!شہر کی ساری لڑکیوں سے فلرٹ کرکے اب اپنی والی کو پٹانے کا انکو طریقہ ہی نہیں آرہا ۔۔۔

زویان نے بھی حساب برابر کرکے کہا۔۔۔

ایک منٹ یار تم دونوں خاموش رہو۔۔۔۔

بہزاد نے دونوں کو ٹوکا۔۔۔۔

دیکھو صائم ایک آئیڈیا ہے میرے پاس اور یہ اخری موقع ہے یہ ہاتھ سے نکل گیا تو بھائ تو اپنا کہی اور بندو بست کر لینا ۔۔

بہزاد کے آ ئیڈیا بتانے کے بات زویان اور بازل  تو ہونقوں کی 

بہزاد کو منہ کھولے دیکھنے لگے۔۔

جب کے  صائم کے  بھی اچھے خاصے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔

ماموں اپ جانتے ہیں کے اگر گھر کے بڑوں کو اس بات کا علم ہوگیا تو کیا ہوگا یہ بیچارا مفت میں مارا جائے گا۔۔

زویان نے صائم کی طرف اشارہ کرکے کے کہا!!.

تو صائم کیساتھ بازل نے بھی زویان کی بات سے متفق کیا۔۔

ارے گھر کے بڑوں کو کیسے ہینڈل کرنا ہے وہ میں زویان کو بتا دونگا !!

ایک منٹ ایک منٹ زویان کو بتادو نگا مطلب ماموں !!!!

اوہ ہیلو مجھے بخشو !!

!پاپا ویسے ہی  بہت مشکل سے مجھے سے راضی ہوئے ہیں۔۔

یار کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہوگا میں کہہ رہا ہو نہ بس اس پلان میں تمہیں نہال کو شامل کرنا ہے۔۔۔

بہزاد کی بات پہ ان  تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر صائم نے کہا۔۔

ماموں نہ کل اپ ہونگے شادی میں نہ بازل۔۔

تو پھر میں اور زویان کیسے مطلب وہ تم مجھ پہ چھوڑ دو میں نہال سے خود بات کرلو نگا۔۔

بہزاد کے کہنے پہ صائم نے ایک ٹھنڈی اہ بھری نجانے کل اسکی نییا پار لگے گی یہ نہیں۔۔۔۔۔

########

یار شانزے تیری بھی دعوت تھی اور تو ہے نخرے دیکھا رہی ہے۔۔

یار صنم نخرے کی بات نہیں ہے پاپا کی طبیعت کافی خراب ہے اور سونے پہ سہاگہ۔۔۔۔اگے کی بات بولتے ہوئے شانزے رکی۔۔

سونے پہ سہاگہ کیا۔۔؟؟

صنم نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔

یار یہاں پہ پھپھو اور مراد ائے ہوئے ہیں دو دن سے رکے ہیں یہ بات میں نے ابھی تک بہزاد کو نہیں بتائ ۔۔

کیا شانزے تو پاگل ہے۔۔؟

پہلی فرصت میں  تو یہ بات بی ایم کو بتا خاما خائ میں کوئ مسئلہ نہ ہوجائے۔۔۔

ہاں یار میں بھی یہ ہی سوچ رہی ہو اج اجائے بہزاد میں انہیں بتا دونگی کے مراد بھی یہ ہی رکا ہوا ہے۔۔

چل ٹھیک میں زرا صائمہ بھابھی کو ڈارپ کرکے خود بھی گھر جاؤ گی تیار ہونے!!

صنم نے یہ کہہ کے کال کٹ کری تو ادھر شانزے نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے پاپا کے کمرے کا رخ کیا۔۔

##########

عترت مسلسل ادھے گھنٹے سے جاگ رہی تھی اور وجہ تھی اسکی بھوک۔۔۔

جب سے اسے پتہ چلا تھا کے اسکے ٹوئنز ہے بلاج اسکا اور بھی بہت دیھان رکھتا تھا خاص کر اسکے کھانے  پینے کا۔۔

ابھی بھی اسنے اچھا خاصا ڈنر کیا تھا عترت کو کھاتا دیکھ بلاج کو اس پہ پیار بھی بہت اتا اور اس پہ ترس بھی جو لڑکی اپنی فیگر کو لے کے کافی کونشس تھی ابھی پوری باربی ڈول لگ رہی تھی  مگر بلاج کو وہ اس روپ میں بھی پہت ذیادہ پیاری لگتی تھی۔۔۔

بلاج نے زرا سے کروٹ لی تو عترت کو جاگتا دیکھ ایک دم اٹھ بیٹھا اور پریشان ہوکے پوچھنے لگا۔۔

عترت کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟

ہاں بلاج طبیعت تو ٹھیک ہے مگر!!

مگر کیا۔۔۔؟؟

وہ نہ مجھے بھوک لگی ہے!!!

عترت کے بچوں والے انداز سے کہنے پہ بلاج نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا  اور جھک کے  اسکے لبوں کو چومتے ہوئے کہا ۔۔

کیا کھائے گی میری جان؟

بلاج کے پوچھنے عترت نے فورا خوش ہوکے کہا!!

ایک باربی کیو پزا وہ بھی لارج ذیادہ چیز کیساتھ ،ایک چلڈ کوک اور ایک باؤنٹی آئسکریم وہ بھی ٹرپل اسکوب۔۔۔بسس۔۔

بسس !

!بلاج نے ہونقوں کی طرح اس سے پوچھا!!

عترت کے بولنے پہ بلاج نے اپنی گھڑی اٹھا کے ٹائم دیکھا تو رات کے 2.30 بج رہے تھے اس وقت پزا ملنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن تھا پر اسے لانا تو تھا کیونکہ اس کی بیوی اسکی نسل کو پیدا کررہی تھی ۔۔

اسکی ہر خواہش کا احترام کرنا اسے خوش رکھنا اس کا فرض تھا۔۔

بلاج نے اٹھ کے شرٹ پہنی اور جاتے جاتے عترت سے کہا۔

تھوڑی دیر لگے گی لانے میں مگر سونا نہیں یہ بول کے بلاج نے عترت کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے گاڑی کی چابی اٹھائ نکل گیا!!

تقریبا ایک گھنٹے بعد وہ واپس ایا۔

کہاں رہ گئے تھے؟؟

جانی پنڈی میں مغرب کے بعد سب بند ہوجاتا ہے تو فاسٹ ڈرائیونگ کرکے اسلام آباد سے لایا یہ سبب۔

آئسکریم میں فریزر میں رکھتا ہوا ایا ہو  پگھل  گئ ہوگی تم جب تک یہ پزا کھاو۔۔

بلاج نجانے کیا کیا بول رہا تھا مگر عترت کی آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے وہ دھیرے سے اٹھی اور بلاج کے سینے سے لگ کے رونے لگی۔۔

ائےےے کیا ہوا؟؟

عترت ادھر دیکھو میری طرف!

رو کیوں رہی ہو؟؟

اپ صرف میری خواہش پہ اتنا دور گئے ا!!

بلاج کی بات سمجھ میں تو اسنے بہت ارام سے عترت کو اپنی باہوں میں اٹھایا تھا حالانکہ اسکا آٹھواں مہینہ  چل رہا تھا اچھا خاصا اسکا وزن تھا پھر بھی بلاج کیلئے وہ پھولوں کی طرح تھی۔۔۔۔

بلاج نے اسے لیٹا کے اسکے دونوں گالوں کو چوما اسکے ہونٹوں کو چوم کے کہا۔۔

اگر تم مجھے اج دوسرے ملک سے بھی کچھ لانے کیلئے کہتی تو میں وہ بھی لے اتا۔۔

تم مجھے اتنی بڑی خوشی دے رہو میری نسل پیدا کرتے ہوئے نجانے کتنی تکلیف سے گزرو گی اور میں تمہارے لیے زرا سا دور نہیں جاسکتا ۔

بہت بہت بہت محبت کرتا ہو عترت جانو اپ سے بس اب جلدی سے ان چنوں منوں کو پیدا کرو تاکے میں اپنی بیوی کو اپنے سینے سے لگا سکو۔

بلاج کی باتوں پہ عترت مسکرا کے کھانے سے انصاف کرنے لگی اور بلاج اسے کھاتا دیکھ مسکرانے لگا۔۔۔

#########

زویان میرا موبائل اپکے کمرے میں تو نہیں۔۔۔

زویان جو ریڈی تھا بس اپنے بالوں میں برش کررہا تھا ہیر کو دیکھ کے اسکا ہاتھ وہی رک گیا۔لائٹ فیروزی کلر کے انگ رکھے میں ہلکا سا میک اپ کیے لائٹ سے جھمکیاں کانوں میں ڈالے ہاتھوں میں میچنگ کی چوڑیاں،پاوں میں کھوسہ اور لمبے بالوں کو کھلا چھوڑے نیچے سے کرل کیے ہوئے وہ بے ساختہ زویان کی نگاہوں کو ساکن کرگئ۔۔

افف شکر اللّٰہ کا مل گیا موبائل۔۔

ہیر نے ااسکے تکیے کے نیچے سے اپنا موبائل اٹھایا اور جیسے جانے کیلئے مڑی تو زویان کے سینے سے ٹکرا گئ۔۔

زویان نے اسے فورا کمر سے تھاما اور کہا۔۔

ہیر جان اج ہماری شادی نہیں ہے نہال بھائ کی ہے۔

زویان نے چہرے پہ حسین مسکراہٹ لیے ہیر سے کہا۔۔

زویان کی بات پہ ہیر نے شرما کے نگاہیں جھکائ اور کہا۔۔

زویان چھوڑے مجھے دیر ہورہی ہے۔۔

نہال بھائ کو دو بار فون اچکا یے صنم کے پاس۔۔

ہیر واپس لے لو اپنی قسم چومنے دو یہ اپنے گلابی ہونٹ جس پہ تم نے ریڈ لپسٹک لگا کے انہیں اور ظالم بنا دیا ہے۔۔

زویان کی التجا پہ ہیر نے زویان کو خود سے دور کیا اپنے موبائل کا کیمرہ اون کیا اور زویان کے قریب اکے اسکے گالوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کے دھیر سارے سیلفی لی۔۔

ابھی فلحال اسی سے کام چلائے اور چلے۔۔

یہ کہہ ہیر نے اپنی انکھوں سے تھوڑا سا کاجل لے کے زویان کے کان کے پیچھے لگایا اور کہا۔

بہت بہت پیارے لگ رہے ہیں اج اپ بلیک قمیض شلوار میں کہی میری ہی نظر نہ لگ جائے اپکو۔۔

یہ بولتے ہوئے جہاں ہیر مسکرائ وہی زویان نے بھی مسکراتے ہوئے ہیر کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔۔

########

افف نہال آرہی ہو بس۔۔۔

کیا پاپا لوگ پہنچ گئے؟؟

ہاں بس تم زویان ہیر اور صائم رہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔

اچھا چلو اب کال رکھو ہم نکلتے ہیں اتنا بول کے صنم نے جیسی ہی سیڑھیاں اترنے لگی  وہی اسکا بیلنس ڈس بیلنس ہوا اس سے پہلے صنم سیڑھیوں سے نیچے گرتی اسکے پیچھے اتے صائم نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اور ایسا  کر نے سے صائم کا بیلنس بگڑا اور وہ ہیر کو لے کے پیچھے گرا مگر شکر ہے سیڑھیوں پہ نہیں گرا۔۔

صائم کے ہاتھ صنم کی کمر پہ تھے اور صنم کا چہرہ صائم کی گردن پہ۔۔

صنم فورا ہڑبڑا کے اٹھی اور اپنے کپڑے صحیح کرنے لگی صائم بھی فورا اٹھا اور اپنا وائٹ کاٹن کا سوٹ جھاڑنے لگا شکر ہے وہ کہی سے گندا نہیں ہوا تھا صاف صاف کرتے ایک دم جب صائم نے نگاہ اٹھا کے صنم کو دیکھا تو دوبارہ نگاہ جھکانا بھول گیا۔۔

بے بی پنک کلر کی شرارے میں وہ تیار ہوئ صائم وہاج کی دنیا ہلا گئ۔

اپنے کپڑے صحیح کرنے پہ صنم نے نگاہ اٹھا کے صائم کو شکریہ کہا مگر جیسی ہی صنم کی نظر اسکی گردن پہ گئ اسکی نگاہیں شرم سے جھک گئ۔۔

وہ تمہاری گردن پہ کچھ لگا ہے صاف کرلو ۔۔

کیا لگا ہے صائم نے اپنی گردن پہ ہاتھ لگا کے دیکھا مگر اسکا۔ہاتھ اس لپسٹک کے نشان تک نہیں پہنچا جو صنم کے اسکے اوپر گرنے سے اسکی گردن پہ لگا تھا۔۔

صنم نے ادھر ادھر دیکھا اسے کچھ نظر نہیں ایا جس سے وہ صائم کی گردن کا نشان صاف کرسکے۔۔

رومال ہے تمہارے پاس؟صنم نے اچانک صائم پوچھا۔۔

ہاں ہے !!

یہ بول کے صائم نے اپنی جیب میں سے رومال نکال کےا سے دیا۔۔

صنم نے اس سے رومال لے تو لیا اب مسئلہ تھا اسکی گردن سے وہ نشان مٹانے کا ۔۔

ایک منٹ اپنی انکھیں بند کرو!!

کیا؟؟؟

صائم نے شاکڈ انداز میں اس سے پوچھا ۔۔

انکھیں بند کرو!!

صنم کے دوبارہ کہنے پہ صائم نے اپنی انکھیں بند کری۔۔

صنم نے تھوڑا صائم کے قریب ہوکے رومال کا کونا پکڑ کے اسکا نشان صاف کرنا شروع کیا۔

صائم جو تھوڑی بہت انکھیں کھولا ہوا تھا صنم کو اپنے اتنے قریب محسوس دیکھ کے بہت مشکل سے اپنی مسکراہٹ چھپا رہا تھا۔۔

جبکہ صنم  کی نگاہیں نشان صاف کرتے ہوئے بار بار صائم کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔۔

وہ ایک حسین لڑکا تھا یہ بات کئ بار صنم اسے بول چکی تھی۔۔اور اج وائٹ کاٹن کے سوٹ کے ساتھ براؤن پشاوری چپل پہنے لگ بھی بہت حسین رہا تھا۔۔

نشان صاف ہوتے ہی صنم اس سے پیچھے ہوئ تو صائم نے اپنی انکھیں کھولی صنم مڑ کے جانے لگی جب صائم نے ایک دم اسکا ہاتھ تھاما اور کہا۔۔

میرا رومال؟؟

صنم نے جھجھکتے ہوئے اپنا ہاتھ اس سے چھڑوایا اور اسکا رومال اسے دیتے ہوئے کہا۔۔

پھینک دینا اسے بیکار ہے اب یہ۔۔

یہ بول کے صنم چلی گئ جب صائم نے رومال کھول کے دیکھا تو اس پہ لپسٹک لگی تھی۔۔

صائم نے ایک نظر جاتی ہوئ صنم کو دیکھا اور پھر رومال کو ۔۔

مسکراتے ہوئے رومال اپنی جیب میں رکھا لیا!!

#######

شادی میں کافی لڑکیوں کی نظریں زویان اور صائم پہ تھی مگر وہ تھے کے اپنی جان متاع پہ نگاہیں رکھے ہوئے تھے۔۔

ایک دو لڑکیوں نے تو باقاعدہ صائم سے بات بھی کرنا چاہی مگر صائم اپنا دامن بچا کے وہاں سے کھسک گیا۔۔

کچھ دیر بعد نہال نے صنم سے ڈریسنگ روم میں سے صائمہ کا ڈوپٹہ لانے کو کہا۔۔

صنم کے ڈریسنگ روم  کی طرف جاتے ہی  نہال نے زویان کو انکھ ماری۔۔

زویان نے صائم کی طرف دیکھا تو وہ حال سے باہر نکل گیا۔۔

صنم جیسی ہی ڈریسنگ روم میں داخل ہوئ تو کسی نے اسکے منہ پہ رومال رکھ کے اسے بیہوش کردیا اور ڈریسنگ روم کے پیچھے کے دروازہ سے اسے گود میں اٹھا کے ایک گاڑی میں لیٹایا۔۔

یہ لے بھائ تیری امانت اور یہ دیکھ جڑے ہوئے ہاتھ اج یہ معملہ کلئیر کرلینا۔۔

زویان کے کہنے پہ صائم اسکے گلے لگا اور گاڑی میں بیٹھ کے گاٹی تیزی سے اگے بڑھا لے گیا۔۔

زویان تھوڑی دیر تک جاتی گاڑی کو دیکھتا رہا اور جیسے پلٹا تو اپنے سامنے کھڑے نفوس کو دیکھ کے اسکے قدم لڑکھڑائے ۔۔

#######

کیسی ہو؟؟

شانزے جو دو دن سے اپنے میکے میں روکی تھی اور وجہ تھی اسکے پاپا کی طبیعت!!

 جن کیلئے وہ سوپ بنانے  کچن میں ائ تھی جب اسکے پیچھے پیچھے مراد بھی اگیا۔

پہلے تو شانزے کا دل چاہا اسکے اس سوال پہ اسکے منہ پہ رکھ کے چماٹ مار دے مگر فلحال وہ کوئ تماشہ نہیں چاہتی تھی۔۔

دو دن سے وہ یہاں اکیلا پھپھو کیساتھ رکا تھا مگر اسے وہ لڑکی نہیں دیکھی جسکی خاطر اسنے اسکی عزت سے کھیلنا چاہا تھا۔۔

میں ٹھیک ہو اللّٰہ کا شکر!!

شانزے میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہو میں بہت پچھتا رہا ہو تمہیں ٹھکرا کے ۔۔۔

اتنا بول کے مراد نے شانزے کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

بہزاد نے بہت غور سے یہ منظر دیکھا اور چلا گیا۔۔

ہیر کو اپنے سامنے ہونقوں کی طرح دیکھ کے زویان جتنی گالیوں سے صائم کو نواز سکتا تھا نواز چکا تھا ہیر زویان کے قریب ائ اور کہا۔۔

یہ کونسی گھٹیا حرکت کی ہے اپنے؟

بھائ ایسے اسطرح صنم کو لے کے کہاں گئے ہیں ؟

کیا  کرنے والے ہیں ؟صائم بھائ انکے ساتھ ؟؟

اففف میری کراچی ایکسپریس تھوڑا بریک مارو !!.زویان نے اگے بڑھ کے اسکے ہونٹوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔

بتاتا ہو سب چلو میرے ساتھ!!!

زویان اسکا ہاتھ پکڑ کے ڈریسنگ روم میں لے ایا۔۔۔

#######

شانزے نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں  موجود مراد کے ہاتھ کو دیکھا اور ایک نظر مراد کو !!

شانزے نے اپنا  ہاتھ بڑے آرام سے مراد کے ہاتھ سے چھڑوایا اور ایک زناٹے دار تھپڑ مراد کے منہ پہ دے مارا۔۔

تھپڑ اتنا شدید تھا کے جہاں مراد کے پاؤں اپنی جگہ سے ہلے وہی اسکے چہرے پہ بھی شانزے کی انگلیاں چھپ چکی تھی۔۔

شانزے نے غصہ میں اسکا کالر تھاما اور کہا۔۔

اج کے بعد شانزے راجپوت کے اس پاس اتے ہوئے اسکو چھوتے ہوئے یہ تھپڑ زرا یاد کرلینا!!!!

تمہارے جیسے مرد وقت انے پہ اپنی بہن بیٹیوں کو بھی داؤ پہ لگا سکتا ہے اپنی ضروریات کیلئے ۔۔

شانزے !

!مراد غصہ میں چیختے ہوئے دوبارہ اس تک ایا جب شانزے نے ایک اور تھپڑ کو اسکے گال کی زینت بنایا اور کہا۔۔

پورا نام لو میرا!!

شانزے بہزاد راجپوت!!!!

اتنا کہہ کے شانزے نے بہت ارام سے سوپ کا باؤل اٹھایا اور کچن سے نکل کے اپنے پاپا کے کمرے کا رخ کیا ابھی کمرے میں پہنچی تھی کے وہاں بہزاد کو بیٹھا دیکھ کے چونکی  بھی اور ساتھ ساتھ خوش بھی ہوئ۔۔

آسلام علیکم بہزاد!!

وعلیکم السلام!!

اپ کب ائے؟؟

بس ابھی ابھی ایا۔۔

عاشر کو نہیں لائے اپ؟؟

اسے وہاج بھائ اپنے ساتھ لے گئے تھے نہال کی شادی میں ماما بھی وہی گئ ہیں صبح آئینگے!!!

بہزاد نے مسکرا کے شانزے کو دیکھا اور شانزے اسکی گہری گرین انکھوں میں چمک دیکھ کے سمجھ گئ کے اج اسکا ارادہ کیا ہے۔۔۔

شانزے بیٹا اج اپ بہزاد کے ساتھ چلی جاؤ اپنا گھر بھی دیکھو دو دن سے یہاں رکی ہو۔۔۔

ارے نہیں نہیں انکل ابھی شانزے اپ کے پاس ہی رکے گی۔

بہزاد نے کس دل سے یہ بات کہی تھی یہ وہی جانتا تھا کس طرح اس دو دن بیڈروم میں بغیر شانزے کے گزارے یہ وہی جانتا تھا۔۔۔

اسلئے اج اسکا شدت سے دل چاہ رہا تھا شانزے کو اپنی باہوں میں لینے کا۔۔

بھلے ایک دو دن میں یہ دوبارہ آجائے۔۔۔مگر ابھی یہ تمہارے ساتھ جائے گی کیونکہ میں بلکل ٹھیک ہو۔۔

جواد صاحب کے تھوڑے بھرم سے بولنے پہ بہزاد نے مسکرا کے شانزے کو دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی۔۔

تھوڑی دیر بیٹھ کے وہ لوگ جانے لگے جب باہر لان میں بہزاد اور شانزے کا ٹکراؤ مراد سے ہوا۔۔

ارے مراد کیسے ہو؟

بہزاد نے رک کے اسکا حال چال پوچھا اور مراد بہزاد کو ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی اسے جان سے مار دیے گا۔

میں ٹھیک ہو!

اتنا کہہ کے مراد اگے جانے لگا جب بہزاد نے اسے دوبارہ روک کے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔

یار یہ تمہارے گال پہ کس کا ہاتھ چھپا ہے ۔۔

بہزاد کے بولنے پہ شانزے اگے بڑھ گئ اور اسکے اگے بڑھتے ہی بہزاد نے غصہ میں اسکا کالر پکڑ کے جھٹکا دیا۔۔

شانزے کے ٹھپڑ سے تو خالی اسکے قدم ڈگمگائے تھے مگر بہزاد کے خالی کالر پکڑنے سے وہ پورا کا پورا ہل گیا تھا ۔

بہزاد نے جب اسکے ہلتے وجود کو دیکھا تو طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔

ایسی حالت نہیں تمہاری کے کوئ بھی تیز ہوا کا جھونکا برداشت کرسکو لہذا اپنی حالت پہ ترس کھاؤ ۔۔

اج جو تم نے جرات کی ہے نہ مسسز راجپوت کا ہاتھ پکڑنے اسکے بدلے کا ردعمل تم نے بہت اچھے سے اپنے اس گال پہ محسوس کیا ہوگا مسسز بہزاد راجپوت سے اسلیے تمہیں بہزاد راجپوت ارام سے سمجھا رہا ہے کیونکہ اگر میں نے، شانزے کے طریقے سے تمہیں سمجھایا تو خاما خائ میں جو تمہارے یہ دودھ کے دانت ہے نہ جبڑے سمیت ٹوٹھ جائینگے اسلیے ائندہ احتیاط رہے۔

اتنا بول کے بہزاد نے اسکا کالر چھوڑا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔

######

کیا ؟؟ اپ لوگ پاگل ہوگئے ہیں؟؟

ہیر تقریبا چیخ پڑی زویان کی ساری بات سن کے۔۔

زویان نے ایک بار پھر اسے خود سے قریب کرکے اپنا ہاتھ اسکے منہ رکھا اور کہا۔۔

چیخ کیوں رہی ہو یار تمہیں میری قسم اگر اب تم چیخی تو!!

زویان نے یہ کہہ کے ہیر کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تو وہ غصہ میں زویان کو گھورنے لگی۔۔

ہیر دیکھو صائم بھائ اج پوری کوشش کرینگے اپنے معملات صنم کیساتھ صحیح کرنے میں تم بجائے اپنے بھائ کیلئے دعا کرنے کے یہاں مجھ سے لڑ رہی ہو۔۔۔

زویان یہ کونسا طریقہ ہے کسی سے اپنے معاملات کلئیر کرنے کا؟؟

 اگر صنم نے کوئ ہنگامہ کردیا پھر!!!

یار تم اتنا نگیٹیو کیوں سوچ رہی ہو اچھا سوچو نہ!!

اچھا اور ابھی نہال بھائ صائمہ باجی نے پوچھ لیا صنم کا پھر؟؟

ان دونوں کو پتہ ہے سب وہ بھی اس پلان کا حصہ ہیں!!!

زویان کی بات پہ ہیر کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ 

زویان نے اسکے گال پہ اپنے ہونٹ رکھے اور کہا۔۔

اتنی حیرانگی تم پہ سوٹ نہیں کرتی بس اب تمہیں اتنا کرنا ہے اپنے بھائ کیلئے کے جب گھر کے سب بڑے پوچھے کے صنم کہاں ہے تو کہنا شانزے کی طرف گئ اسکی طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں۔۔

زویان میں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔۔ہیر نے معصوم سی شکل بنا کے کہا!!

کوئ بات نہیں کچھ چیزیں انسان زندگی میں پہلی بار کرتا ہے۔۔

زویان نے اسکا ہاتھ تھام کے اگے بڑھتے ہوئے کہا!!.

اب کس زندگی تم نے پہلی بار کی تھی نہ مجھے۔۔؟؟زویان نے اڈے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔

اپ سے کس نے کہا کے میں نے کس پہلی بار کری وہ بھی اپکو!!!

ہیر نے یہ بات بول کے بہت مشکل سے اپنی مسکراہٹ دبائ اور اگے بڑھ گئ۔

مگر زویان وہ اس بات پہ ناراض ہونے کے بجائے اسکی گالوں پہ کس کرتے ہوئے کہا۔۔

واقعی میں میری بیوی کو جھوٹ بولنا نہیں اتا۔۔

زویان کی بات پہ ہیر نے اسے حیران کن نظروں سے دیکھا اور مسکرانے لگی۔

#######

صائم صنم کو بہزاد کے فارم ہاوسں پہ لے ایا جو ذیادہ دور نہیں تھا۔

گاڑی سے اتر کے صائم نے بہت ارام سے وہ صنم کو اپنی باہنوں میں اٹھایا اور اندر بڑھ گیاا۔۔

احتیاط سے اسے بیڈ پہ لیٹایا اور گھڑی میں ٹائم دیکھا تو اسے لگا پہلے وہ عشاء کی نماز پڑھ لے۔۔

وضو کرکے اسنے عشاء کی نماز کی نیت باندھی تب صنم کو ہوش ایا اسکا سر بری طرح سے بھاری ہو رہا تھا اسنے انکھیں کھول کے چھت کو گھورا دو منٹ تم اسے سمجھ نہیں ایا کے وہ ہے کہاں!!

مگر جیسی ہی اسے اسکے ساتھ ہوا کارنامہ یاد ایا تو وہ بیڈ سے اتر کے جیسی ہی کمرے سے نکلنے لگی اسکی نظر نماز پڑھتے صائم پہ پڑھی اسکو سب سمجھ میں ایا مگر وہ بھاگی نہیں بلکے غصہ میں بیڈ پہ بیٹھ کے صائم کی نماز ختم ہونے کا ویٹ کرنے لگی۔۔

 نماز پڑھ کے صائم نے دعا کیلے ہاتھ اٹھائے تو بہت غور سے صنم نے اسے دیکھا ایک الگ ہی اسکا لگاؤ تھا دعا مانگتے ہوئے۔۔

صائم نے نماز پڑھ کے رخ موڑا تو صنم کو غصہ میں خود کو گھورتا پایا۔۔

صنم غصہ میں اس تک ائ اسکا کالر پکڑ کے پوچھا۔۔

اس گھٹیا حرکت کی وجہ جان سکتی ہو۔؟؟

کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟؟

صائم نے اسکے ہاتھ اپنے کالر پہ سے ہٹائے نہیں بلکے انہیں ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کے اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا!!

غلط ارادے سے نہیں لایا اللّٰہ گواہ ہے میرا!!.بس تم تک اپنی دل کی بات ایک اخری بار پہنچانی تھی۔۔

صائم کے لہجے میں اسکی انکھوں میں نمی محسوس کرتے ہوئے صنم نے اسکا کالر چھوڑا اور کہا۔۔

کیوں سنو میں تمہاری بات ہاں !!

کیوں سنو۔ ۔

صنم نے صائم کے کہنے  پہ اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ ،رکھ کے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔

مجھے دھوکا دیتے ہوئے دل نہیں کانپا تمہارا میں نے تو نہیں سوچا اج تک تمہارے علا۔۔۔۔۔۔

اگے کی بات بولتے ہوئے صنم رونے لگی اور جاکے غصہ میں بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔

صائم تو لاجواب ہوچکا تھا صنم کی بات کا اگے کا مطلب سمجھتے ہوئے۔۔

صائم اسکے برابر میں اکے بیٹھا اور کہا۔

مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگی صنم میں نے تمہاری محبت کی قدر نہیں کری نجانے کتنا زیادہ گناہوں کے دلدل میں پھنسا تھا ۔۔

میں نے ہر اس لڑکی کا فائدہ اٹھایا ہے جو لڑکی میری زندگی میں ائ ہے مگر جب جب میں نے  تمہارا فائدہ اٹھانا چاہا میرے دل نے مجھے روک دیا۔۔

اللّٰہ کو گواہ بناکے کہتا ہو اس دل نے ہر گناہ سے توبہ کرلی ہے۔۔صائم کی آخری بات پہ صنم نے اسے گھورا اور کہا۔۔۔

اچھا تو یہ کیا تھا پھر !!

صائم کی بات پہ صنم نے غصہ میں اپنے ہاتھ کا اشارہ اپنے ہونٹ کے زخم کی طرف کیا ۔۔۔

وہ تو تم نے غصہ دلایا تھا مجھے تو یہ ہوگیا مجھ سے۔۔۔

صائم نے نگاہیں جھکا کے اعتراف کیا۔۔

یہ صحیح ہے بھئ دھوکا بھی خود دو اور غصہ بھی خود کرو۔۔

صنم نے اپنے اپ بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

ایک منٹ یہ بتاؤ مجھے بیہوش کس نے کیا۔؟؟

صنم کے پوچھنے پہ صائم کے دماغ میں زویان کو چہرہ ایا مگر اس نے جھوٹ بولا

 وہ میں نے ہی کیا تھا۔۔

ادھر دیکھنا زرا میری طرف ۔۔صنم کے کہنے پہ صائم نے اسے نگاہ اٹھا کے دیکھا مگر ہمیشہ کی طرح صنم اسکی انکھوں میں زیادہ دیر تک دیکھ نہیں پائ اور نگاہ جھکاگئ۔

صائم صنم کی یہ کمزوری جانتا تھا کے وہ صائم کی انکھوں میں زیادہ دیر تک نہیں دیکھتی اسلیے اسنے بہت کمال مہارت سے اپنی مسکراہٹ چھپائ۔۔

مجھے گھر لے چلو اب۔۔!!

مگر فیصلہ تو تم نے میرا کرا نہیں !!

صائم کے کہنے پہ صنم نے اسے دیکھ کے کہا۔۔۔

سوچ کے جواب دونگی تمہیں معاف کرنا ہے یہ نہیں!!

اچھا ٹھیک ہے یہ رکھو اپنے پاس !!

یہ بول کے صائم نے اپنی جیب میں سے ایک مخملی ڈبیا نکال کے اسکے ہاتھ میں رکھی اور کہا۔۔

کل صبح تک کا ٹائم ہے کوئ زبردستی نہیں تمہارے ساتھ صنم  اگر چاہو تو مجھے معاف کرکے میری زندگی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرکے یہ اس باکس میں موجود چیز پہن لینا۔۔

اگر معاف نہ کرو تو؟؟

صنم نے اسے کھوجتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

صائم کے چہرے پہ ایک زخمی مسکراہٹ ائ اور اسنے بہت ارام سے صنم کے گال پہ اپنا ہاتھ رکھ کے اپنے انگھوٹے سے اسکا زخمی ہونٹ سہلاتے ہوئے کہا۔

تو پھر بھی میں ساری زندگی تمہارا انتظار کرونگا۔۔

صائم کی بات پہ صنم نے بہت غور سے اسے دیکھا ۔۔

پھر کھڑے ہوکر کہنے لگی مجھے گھر جانا ہے۔

صائم نے اسے ایک نظر دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

#####

بہزاد  پورے راستے مسکراتا رہا اور یہ بات شانزے نے بھی نوٹ کی۔۔

سونے پہ سہاگہ بارش بھی ہوگئ۔۔

بہزاد کا ہر عمل اج شانزے کیلئے شاکڈ تھا ۔۔

بہزاد جسکو بارش پسند نہیں تھی اج اس نے بارش  میں گاڑی روک کے بھیگتے ہوئے اسکے لیے گجرے لیے۔۔

بہزاد اپ پورے بھیگ گئے !!

ہاں تو کیا ہوا تمہیں گجرے بھی تو پسند ہے!!

مگر میں نے لینے کو تو نہیں بولا تھا۔۔۔

مگر انکھیں تو تمہاری کہہ رہی تھی کے بہزاد گاڑی روک کے گجرے لے لو۔۔

بہزاد کی بات پہ شانزے نے بہت پیار سے اگے بڑھ کے اسکے گال پہ پیار کیا۔

میرا اج اس چھوٹے موٹے پیار سے گزارا ہونے والا نہیں میں اج بہت سارا پیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو !!

بہزاد کی بات پہ شانزے شرم سے نگاہ جھکا گئ۔۔

#######

صائم اور صنم ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے مگر شکر ہے انہیں تھوڑا ٹائم ذیادہ ہوگیا تھا کیونکہ اچانک بارش ہونے کی وجہ سے صائم بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا مگر پھر بھی ان کی گاڑی تیز بارش ہونے کی وجہ سے بند ہوگئ تھی۔۔

صائم نے جیسے تیسے کرکے گاڑی ٹھیک کی اور گھر تک پہنچتے پہنچتے صنم تو بھیگنے سے بچی رہی کیونکہ گاڑی کے اندر تھی مگر صائم اچھا خاصا بھیگا ہوا تھا ۔۔

صائم کمرے میں پہنچا تو اسکے پیچھے پیچھے زویان بھی کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھنے لگا۔

کیا ہوا بات بنی ؟؟.صائم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

آثار تو لگ رہے ہیں باقی اللّٰہ مالک ہے!!!!

انشاللہ میرا دل بول رہا ہے صائم بھائ اپکے حق میں ہی فیصلہ ہوگا۔۔۔

ا(آمین)

صنم نے کمرے میں اتے ہی فورا کپڑے بدلے اور سکون سے بلینکٹ میں گھس کے لیٹ گئ لیٹتے ہی اسکی انکھوں میں تھوڑی دیر پہلے کا منظر چلنے لگا !!

گاڑی بند ہوتے ہی صائم نے تیز بارش میں اتر کے گاڑی ٹھیک کری موبائل کو منہ میں دبائے اسکی ٹارچ سے گاڑی کا پلک چیک کررہا تھا صنم نے جیسی دروازہ کھولا باہر نکل کے صائم کی مدد کرنے کیلئے صائم نے اسے باہر انے کو منع کیا اور کہا۔

صنم گاڑی میں بیٹھی رہو بارش کیساتھ ساتھ ہوا بھی بہت تیز چل رہی ہو کپڑے بھیگ جائینگے تمہارے پلیز گاڑی میں بیٹھو ۔

اسکے چہرے پہ اپنے لیے  فکر دیکھ کے صنم کا فیصلہ کرنا اور اسان ہوگیا۔۔

وہ کتنی ہی دیر یوہی صائم کے بارے میں سوچتی رہی پھر کچھ یاد انے پہ اس نے وہ مخملی ڈبیہ اٹھائ جو اسے صائم نے دی تھی۔۔

#######

بہزاد اور شانزے جسی ہی گھر میں داخل ہوئے بہزاد نے اسے گود میں اٹھالیا۔

بہزاد نیچے اتارے پلیز۔۔۔

نہیں دو دن دور رہی ہو مجھ اج تو تمہیں خود سے جدا ہی نہیں کرنا۔۔

بہزاد شانزے کو لے کر کمرے میں پہنچا اور اسے بیڈ پہ لیٹاتے ہی اسکے لبوں پہ جھک گیا۔

دو دن کی اپنی تشنگی مٹانے لگا۔۔

شانزے کو ایسا لگا اسکا سانس رک جائے گا وہ بہزاد کے کندھے پہ ہاتھ مارکے اسے پیچھے کرنے لگی۔۔

بہزاد کو بھی اس پہ رحم اگیا اور اسکے لبوں کو چھوڑا۔۔۔

اففف بہزاد کیا ہوگیا سانس تو لینے دیں!!.

شانزے کے خفا ہونے پہ بہزاد نے اٹھ کے اپنی شرٹ اتاری اور اسے لے کر لیٹ گیا اسکے ماتھے پہ اپنے ہونٹ رکھ کے کہا۔۔

ویسے اچھا خاصہ بھاری ہاتھ ہے تمہارا؟؟

مراد کا تو جبڑا ہل گیا ہوگا تمہارے ہاتھ کا ٹھپڑ کھا کے۔۔

بہزاد کا بولنا تھا کے شانزے نے حیران ہوکے پہلے گردن اٹھا کے اسے دیکھا اور کہا ۔۔

اپ دیکھ رہے تھے سب؟؟

نہیں بس وہاں تک کا ڈراما دیکھا جہاں تک مراد نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا۔۔

ہمم داستان عشق سنا رہا تھا اپنی میں نے  بھی اسکا منہ لال کرکے کہانی ہی ختم کردی۔۔

بہزاد نے شانزے کی بات پہ جھک کے اسکا ماتھا چوما اور کہا۔۔

جبھی تو میری پٹاخہ ہو تم۔۔۔

اپ کو غصہ نہیں ایا مجھ پہ جب مراد میرے اتنے قریب کھڑے ہوکے میرا ہاتھ تھاما!!!

نہیں کیونکہ جب تم لبنا کو اسکی اوقات یاد دلا سکتی ہو تو پھر یہ کس کھیت کی مولی ہے۔۔

شانزے نے بہزاد کی بات پہ سکون سے اپنی انکھیں بند کرکے بہزاد کے سینے پہ رکھی جب بہزاد نے کہا۔۔

شانزے ؟؟

ہمم !!

مجھے کس کرو اج !!

بہزاد کی فرمائش پہ شانزے نے اسے گھور کے دیکھا !!

ایک کس ہی مانگی ہے مجھ معصوم نے !!

خود کو معصوم نہ بولا کرکے بہزاد سوٹ نہیں کرتا اپ پہ۔۔

یہ بول کے شانزے اسکی خواہش رد کرکے دوبارہ اسکے سینے پہ سر رکھ کے لیٹ گئ ۔

مگر بہزاد اب خاموش ہو چکا تھا شانزے نے گردن اٹھا کے بہزاد کو دیکھا تو وہ اپنی انکھوں پہ ہاتھ رکھ چکا تھا ۔

شانزے نے مسکرا کے اسے دیکھا اور تھوڑا اٹھ کے اسکے لبوں پہ اپنے لب رکھ دیے۔۔

شانزے کا ایسا کرنا تھا کے اسکے بعد بہزاد نے اس پہ جھک کے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔۔

صائم نے ساری رات سوتے جاگتے گزاری زندگی میں کبھی اسے اتنا ڈر نہیں لگا جتنا اسے صبح ہونے سے لگ رہا تھا۔۔

فجر کی نماز پڑھ کے وہ ایا تو لان میں ہی بیٹھ گیا جب اسکے نمبر پہ بہزاد کی کال انے لگی۔۔

آسلام علیکم ماموں!!!

وعلیکم اسلام ۔۔۔

صائم بتایا نہیں پھر تم نے کل رات کا کچھ بھی !!

میں نے اپکو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا دو دن بعد تو اپکی وائف گھر ائ تھی اور عاشر اور نانو بھی یہاں تھے تو مجھے مناسب نہیں لگا۔۔

یہ بات بول کے صائم نے اپنی مسکراہٹ چھپائ تو ادھر صائم کی بات کا مطلب سمجھ کے بہزاد نے مسکراتے ہوئے نفی میں گردن ہلائ اور کہا۔۔

اتنے سیدھے کب سے ہوگئے اپ صائم وہاج!!

جب سے اپکی بھانجی سے عشق ہوا ۔صائم کے جواب پہ دونوں کا مشترکہ قہقہ گونجا ۔۔!!

بہزاد نے بلکل سیریس ہوکے پوچھا!!

کہاں تک پہنچا مسئلہ یہ بتاؤ ؟؟

بہزاد کے پوچھنے پہ صائم نے کل رات ہوئ اپنی اور صنم کے درمیان ہوئ ساری بات بہزاد کو بتادی۔۔

مان جائے گی صائم محبت وہ تم سے اج بھی کرتی یے بس اس منظر کو بھولنا اسکے لئے مشکل ہے جس منظر نے اسکا۔دل توڑا۔۔

مگر میں اتنا بھی جانتا ہو تم وہ منظر اسکے دماغ سے نکال دوگے۔۔

بس ماموں اپ میرے لئے دعا کرے اج فیصلہ میرے حق میں۔۔

انشاللہ صائم تمہارے حق میں ہوگا۔۔

#######

سب ہی ناشتے کی ٹیبل پہ  بیٹھے تھے  ہفتے کا دن تھا تو افس کا اج اوف تھا ۔۔

صائم بھی ٹیبل پہ موجود تھا اور بہت بیچینی سے صنم کا ویٹ کررہا تھا ۔۔

ہیر اور زویان ایک ساتھ بیٹھے تھے اور دونوں کسی بات پہ۔مسکرا رہی تھے ۔۔

زویان جو باتیں تو ہیر سے کررہا تھا مگر اسکا سارا دیھان صائم پہ تھا جو بار بار اوپر سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے صنم کو انا تھا صائم کو اتنا بیچین دیکھ کے زویان کے ہاتھوں میں کھجلی ہوئ اور اسنے صائم کے نمبر پہ ٹیکس کردیا۔۔

انتہا ہوگئ انتظار کی۔۔۔

ائ نہ کچھ خبر میرے یار کی۔۔۔

ٹیکس پڑھ کے صائم نے غصہ نہیں کیا بس زویان کو دیکھ کے مسکرایا ۔۔

جب زویان نے پھر ٹیکس کیا۔۔

اجائے گئ بھائ صبر صبر۔۔۔

ابھی وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے جب ہال میں صنم کے سلام کی اواز گونجی۔

آسلام علیکم ۔۔۔

بوتل گرین اور بلیک کنٹراس کی سپل قمیض شلوار میں بالوں کا اونچا جوڑا بنائے وہ صائم کو  اپنی طرف متوجہ کرچکی تھی۔۔

مگر وہ مسلسل صائم کی طرف دیکھنے سے گریز کررہی تھی جبکے صائم کی نگاہیں اسکے ہاتھوں کی طرف تھی وہ وہ انگوٹھی دیکھنا چا رہا تھا جو اس نے کل رات اسے دی تھی وہ انگھوٹی ہی صائم وہاج کی زندگی کا فیصلہ کرنے والی تھی۔۔

زویان بھی کس ایسی ہی سیٹویشن میں تھا مگر افسوس  وہ بھی رنگ دیکھنے میں ناکام رہا صنم کے ہاتھ ڈوپٹے میں ذیادہ تھے اسی وجہ سے ۔۔۔

صنم نے نگاہ اٹھا کے صائم کو دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

صنم کو اج وہاج کی لائٹ گرین انکھوں میں ایک امید دیکھی ایسی امید جسے مرنے والے کو زندگی کی نوید سنائ جانے والی ہو ۔۔

صائم کو دیکھتے ہوئے صنم نے اپنے الٹے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا  اور وہی لمحہ تھا  جب صائم نے اسکے ہاتھ کی تیسری انگلی میں اپنی  دی ہوئ انگھوٹی دیکھی  جہاں صائم کے لبوں پہ  حسین مسکراہٹ ائ وہی صنم نے بھی اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے چاہے کا کپ اپنے لبوں سے لگالیا۔۔

زویان نے جب ان دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو خود قہقہ لگاتے ہوئے ہنس پڑا ۔

بیٹا طبیعت ٹھیک ہے اپکی ؟اظہر صاحب نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔

کیونکہ زویان کو ایسا ہنستا ہوا دیکھ کے سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے سوائے ہ صنم اور صائم کے کیونکہ وہ دونوں  جانتے تھے اسکے ہنسنے کی وجہ۔۔جبکے ہیر بھی کنفیوز ہوکے زویان کو دیکھنے لگی

ہاں پاپا اب تو سب صحیح یے۔۔

صائم کا بس نہیں چلا رہا تھا جا کے صنم کو ابھی اسی وقت سب کے سامنے گلے لگا لے۔۔

مگر افسوس ایسا ناممکن تھا۔۔

صائم کی نظریں مسلسل صنم پہ تھی اور وہ تھی کے اب نگاہیں نہیں اٹھا رہی تھی۔۔۔

ہیر نے ناشتہ کرتے کرتے صنم سے پوچھا ۔۔۔

چلنا ہے کیا پھر ہنزہ کی طرف؟؟

ہاں ہاں بس ایک گھنٹے میں نکلتے ہیں شانزے بھی ابھی یہاں انے والی ہے۔۔

خوشبو میرے کمرے میں چائے لے آؤ ۔۔وہاج صاحب نے خوشبو بیگم کو بولتے ہوئے کمرے کی راہ لی

باقی سارے بڑے بھی اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے جب صائم نے اج ہی وہاج سے بات کرنے کی ٹھانی ۔۔

سب کے جاتے ہی صائم اٹھ کے صنم کے پاس انے لگا تو اس نے  اسے انکھیں دیکھا کے انے سے روکا۔۔

زویان جو سارے اشارے دیکھ رہا تھا۔۔

ہیر کو مخاطب کرکے کہنے لگا۔۔

کچھ لوگوں نے اشارے کرنے میں اور سمجھنے میں پی ایچ ڈی کری ہوئ ہے 

۔زویان کے بولنے پہ صائم نے کے اسکی گردن میں اپنا ہاتھ پھنسایا جب کے ہیر ابھی تک کنفیوز تھی کے ہو کیا رہا مگر جب صنم کو مسکراتا دیکھا تو معملہ سمجھ کے خوش ہوکے صنم سے پوچھنے لگی۔۔

صنم ادھر دیکھو ؟؟سچ میں!!

ہیر کے پوچھنے پہ صنم نے ہاں میں گردن ہلائ جب خوش ہوکے ہیر اسکے گلے لگ گئ۔۔ادھر زویان بھی خوشی میں صائم کے گلے لگ گیا۔۔

اج وہاج مینشن میں ایک بار پھر خوشیاں بکھر رہی تھی بس اب صائم کو وہاج کو منانا تھا تاکے وہ اظہر صاحب سے بات کرے شادی کی..

صائم نے وہاج کے کمرے کے باہر کھڑے  ہو کے لمبی سانس لی اور دروازہ بجانے لگا۔۔

آجاؤ ۔۔۔۔۔

اجازت ملتے ہی صائم اندر گیا۔۔

وہاج کو دیکھ کے چائے پیتے وہاج نے ایک ائیبرو اچکا کے اسے دیکھا اور دوبارہ چائے پینے لگا جب کے وہاج کو ایسے کمرے میں دیکھ خوشبو بھی حیران تھی۔۔

پاپا مجھے اپ سے بات کرنی ہے!!.

میں نے بھی تمہیں کہا تھا کے جب تک صنم تمہیں معاف نہیں کردیتی ہمارے درمیان کوئ اور بات نہیں ہوگی۔۔

ارے یار ماما اپنے شوہر کو بولے دو منٹ بات سن لے میری نخرے ایسے دیکھا ریے جیسے میں نے شاہ رخ خان سے اپوائنٹمنٹ مانگنے کا بولا ہو۔۔صائم کی بات پہ وہاج نے ا ہونقوں کی طرح اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔

وہاج صحیح بول رہا یے صائم بات تو سنو اسکی کہہ کیا رہا ہے۔

ہاں تو !!صائم بھی بول پڑا۔۔

وہاج نے گھور کے دونوں کو دیکھا اور دوبارہ چائے پینے لگا جب خوشبو کے اشارہ کرنے پہ صائم نے اپنی بات کہنا شروع کی۔۔

پاپا اپ اج اظہر چاچو سے میری اور صنم کی شادی کی بات کرے۔۔۔

وہاج  صائم کی بات سن کے طنزیہ ہنسا اور کہا۔۔

مجھے لگتا ہے اج تم نے اپنے بیٹے کو ناشتے میں کوئ نشہ اوار چیز کھلائ ہے جبھی بہکی بہکی باتیں کررہا ہے جاو جاکے اسے لیموں چٹاو۔۔۔

پاپا میری بات تو سنے پوری!!!!

کیا سنو تم بول کیا رہے ہو تمہیں پتہ ہے ایک بار پہلے بھی اس بات کو لے کر تماشہ ہوا تھا یاد تمہیں اب تم کیا چاہتے ہو دوبارہ کوئ تماشہ؟؟؟

پاپا میری بات سنے پہلے۔!!

صائم کے بولنے پہ لمحہ بھر کیلئے وہاج خاموش ہوا جب صائم نے کہا۔۔

پاپا  میں نے صنم کیساتھ اپنے معاملات کلئیر کرلیے ہیں اسنے معاف کردیا ہے مجھے !!.

کیا ؟؟

سچ کہہ رہے ہو؟؟

ہاں پاپا اسلئے میں چاہتا ہو اپ اج ہی اظہر چاچو سے بات کرے میری شادی کی۔۔

ہان ہاں کرلینگے بات ابھی ہاتھ پہ سرسوں مت جماؤ ۔۔

وہاج صاحب نے فلحال اسے ٹالا۔۔۔

پاپا خود  تو اپ دو دو کرکے بیٹھ  گئے دونوں سے ایک ایک سیمپل بھی اپنے لانچ کردیا میرے باری میں اپ مجھے بول رہے ہیں رکو۔۔۔

صائم کے بولنے پہ جہاں چائے پیتے وہاج کے منہ سے چائے چھلکی  اور وہ ہونقوں کی طرح وہاج کو دیکھنے لگا وہی خوشبو کی بھی ہنسی نکلی۔۔

میں بتا رہا ہو پاپا اج رات تک اپ اظہر چاچو سے بات کرلے ویسی ہی میرے بچے بہت لیٹ ہوگئے ہیں دنیا میں انے کیلئے ۔۔

اتنا بول کے صائم وہاج کو حیران چھوڑ کے کمرے سے باہر نکلا وہی خوشبو بیگم ہنسنے لگی۔۔

اج بہت دونوں بعد وہاج صاحب نے انہیں ہنستے ہوئے دیکھا تو اٹھ کے انکے قریب اکے انہیں کمر سے تھام کے خود سے لگایا اور کہا۔۔

اپنے بیٹے کی بات پہ بہت ہنسی آرہی ہے ؟؟

یہ بول کے وہاج صاحب جیسی ہی خوشبو بیگم کو چومنے کیلئے جھکے خوشبو بیگم نے انکے سینے پہ ہاتھ رکھ کے روکا اور کہا۔۔

وہاج کچھ تو عمر کا لحاظ کرے۔۔۔

جان وہاج مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا وہ جب چاہے جس وقت چاہے جس عمر میں چاہے پیار کرسکتا ہے اپنی بیوی کو۔۔

مگر پاپا مجھے ابھی جوانی میں ہی اپنی بیوی کو پیار کرنا۔ہے اپکی طرح بڑھاپے میں نہیں۔۔

صائم نے ایک دم دروازہ کھول کے یہ بات کہی !!

جہاں خوشبو بیگم گڑبڑائ کچھ ایسا ہی حال وہاج کا بھی تھا۔۔

ویسے پاپا رومینس میں اپنے اپنے بیٹے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اتنا بول کے صائم مسکراتا ہوا چلا گیا ۔۔

اسکے جاتے ہی وہاج نے افسوس کہا۔۔

زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اس نالائق کو بہزاد کے ہاتھوں سے گھٹی دلوانا۔۔

کیا ؟

شانزے تو ایک دم چیخ پڑی صنم کا فیصلہ سن کے۔۔

جبکہ شانزے کو ایسا چیختا دیکھ ہنزہ اور ہیر کے ساتھ ساتھ پل بھر کیلئے صنم بھی خاموش ہوگئ تھی۔۔

صنم تم کیسے یہ فیصلہ کرسکتی ہو ؟جانتی ہونہ اس نے کیا کیا تھا تمہارے ساتھ۔۔۔

ایک موقع سب کا حق ہے شانزے جو محبت میں صائم کی آنکھوں میں ہمیشہ سے ڈھونڈتی آرہی تھی جب میں اسے ریلیشن میں تھی وہ مجھے اب اسکی آنکھوں میں دیکھائ دی ہے شانزے ۔۔۔

تم جانتی ہو میں جذباتی لڑکی ہرگز نہیں ہو میں نے  بہت سوچ سمجھ کے اپنی زندگی کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔

ادھر دیکھ میری طرف صنم اٹھ کے شانزے کی طرف گئ اور اسکا چہرہ تھامتے ہوئے کہا۔۔

مجھے پتہ ہے تو میرے لیے بہت بہت فکر مند رہتی ہے مگر یقین جان شانزے اب مجھے صائم میں بی ایم کا  عکس نظر اتا ہے۔۔

اتنا سب کچھ بی ایم نے تیرے ساتھ کیا تھا پھر بھی تو نے انہیں موقع دیا تھا اج دیکھ تجھے پچھتاوا تو نہیں نہ اپنے فیصلے پہ۔۔

انشاللہ ایسے مجھے بھی اپنے فیصلے پہ پچھتانا نہیں پڑے گا ۔۔صنم بول کے چپ ہوئ جب ہیر بول پڑی۔۔

شانزے میرا بھائ اب اتنا برا بھی نہیں میں نے انہیں صنم کیلئے روتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔

ہیر نے بہت افسردہ ہوکے یہ بات کہی پل بھر کیلئے شانزے سمیٹ ہنزہ اور صنم نے بھی ہیر کو دیکھا ان چاروں میں سب سے چھوٹی تھی وہ اور بہت جلدی ہر بات دل پہ لے لیتی تھی۔۔

صنم کے اشارہ کرنے پہ شانزے نے اگے بڑھ کے اسے گلے سے لگایا اور کہا۔

یار میں تمہارے بھائ کو برا نہیں بول رہی بس تھوڑا ڈر رہی تھی مگر اب وہ ڈر بھی ختم ہوگیا کیونکہ تم ہوگی نہ ہر وقت اپنی بھابھی کا دیھان رکھنے کیلئے ۔۔

شانزے کے کہنے پہ ہیر کے چہرے پہ مسکراہٹ ائ تو شانزے ۔نے اسے گلے سے لگالیا باری باری ہنزہ اور صنم بھی ان دونوں کے گلے لگ گی۔۔

#########

ہر طرف شادیوں کی شہنائیاں بجنے لگی۔۔

جہاں وہاج صاحب کی بات کرنے پہ اظہر صاحب نے صنم کی مرضی جان کے  رضامندی دے دی وہی ان تینوں نے ڈیسائیڈ کیا کے تینوں شادیاں ایک ساتھ ہونگی۔۔

سب سے پہلے ہنزہ کی رخصتی ہوگی پھر زویان کا نکاح ،کیونکہ یہ سب بڑوں کا فیصلہ تھا کے نکاح دوبارہ ہو۔۔ اور رُخصتی اخر میں صائم اور صنم کی شادی ۔۔

یہ فیصلہ تینوں لڑکیوں کی فرمائش پہ ہوا کیونکہ تینوں ایک دوسرے کی شادی انجوائے کرنا چاہتی تھی۔۔

ہاں ولیمہ تینوں کا ایک ساتھ ہوگا ایسا لڑکوں کی فرمائش پہ۔ہوا۔۔

بازل کے گھر والوں کو بھی کوئ اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ بھی اب کافی اٹیچ ہوگئے تھے بہزاد اور اسکی فیملی سے۔۔

مگر مسئلہ ان سب میں ارہا تھا عترت کا جسکی ڈیلوری کے کچھ دن بچے تھے اور بلاج کا ایک مشن اگیا تھا جسکی وجہ سے اسے جانا تھا عترت کا رورو کے برا حال تھا اور ساتھ ساتھ وہ اس سے ناراض بھی تھی کے وہ اسے اس حال میں چھوڑ کے جارہا تھا۔۔

پھر بہزاد اور شانزے پنڈی پہنچے ندا بیگم اور عترت کو لینے۔۔

بہزاد اپنا پرائیویٹ جیٹ میں ان دونوں کو لے ایا اور بلاج بھی بے فکر ہوکے مشن پہ چلا گیا اپنے وطن کے دشمنوں کو۔منہ توڑ جواب دینے کیونکہ اب اسکی فیملی اللّٰہ کے بعد ایک مضبوط سائبان کے زیر سائے تھے بلاج جب عترت کو بہزاد کے حوالے کررہا تھا تو اسکی انکھوں میں آنسو تھے وہ عترت کے سامنے تو نہیں بہے مگر بہزاد کے گلے لگتے ہی بہہ گئے ۔

بہزاد بھائ میری عترت اور بچے اللّٰہ کے بعد اپکے حوالے ہیں۔۔

ارے بلاج تم بے فکر رہو میں ہونہ انشاللہ میں پورا دیھان رکھونگا۔۔

بس تم جلد اذ جلد انے کی کرنا کیونکہ میں لاکھ سنبھال لو عترت کو مگر اسے ضرورت تمہاری ہی ہوگی۔۔

بہزاد بھائ انشاللہ پوری کوشش کرونگا جلد اذ جلد انے کی مگر زندگی اور موت اللّٰہ کے ہاتھ میں اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو اوپر اللّٰہ اور نیچے اپ ہیں میری فیملی کا دیھان رکھنے کیلئے ۔۔

بلاج مرنے ورنے کی باتیں کری نہ تو لگاؤں گا ایک۔۔

بہزاد نے اسے ڈانٹ کے گلے سے لگالیا اور اسکی فیملی کو لے کے کراچی اگیا۔۔

#### 

  صنم ابھی اپنے کمرے میں اکے ٹھک کے لیتی تھی دو دن سے مسلسل وہ شاپنگ میں مصروف تھی اپنے بھانجوں کی شاپنگ کیساتھ ساتھ اسے ہنزہ کی برات کی بھی شاپنگ میں وہ گھن چکر بنی ہوئ تھی۔۔

صنم کو لیتے لیتے مسلسل ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئ اسے گھور رہا ہے ..

صنم نے اٹھ کے کمرے کی لائٹ کھولی تو صائم کو صوفے بیٹھا دیکھ کے ایک دن حیران رہ کے اسے دیکھنے لگی۔۔

صائم اپ یہاں کیا کررہے ہیں؟؟

کوئ اجائے گا پلیز جائے!!!

صائم جو اسے مسلسل اپنے نظروں کے حصار میں لیا ہوا تھا  اٹھ کے اسکے پاس انے لگا۔۔۔

صنم کے بلکل پاس  اکے صائم نے اسے کمر سے تھام کے خود سے قریب کیا اور غور غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔

صنم بھی خاموش تھی بس اسے تکے جارہی تھی۔۔

صائم نے بہت سیریس ہوکے اسکے چہرے کو کھوجتے ہوئے کہا۔

جب سے رشتہ پکا ہوا ہے ہمارا تم نے تو میرے سامنے ہی انا چھوڑ دیا۔۔

وہ جو پانچ منٹ لیٹ انے پہ مجھے سے پاگلوں کی طرح لڑتی تھی جو اتے ہی سب سے پہلے میرے گلے لگتی تھی مجھ سے ہر دو منٹ بعد  فون پہ بات کرنے والی صنم  جو مجھ سے ملتے ہی پہلے میری انکھوں کی نظر اتارتی تھی وہ صنم  تو کہی کھو گئ ۔۔

اب جو صنم میرے سامنے ہے اس میں اور میری صنم میں بہت فرق ہے ۔

مجھے میری پرانی صنم چاہیے!!

صنم نے مسکرا کے اسے دیکھا اور کہا۔

 جو ہو جیسے ہو اسی حال میں قبول کرو پرانی صنم کو اپنے کھودیا۔۔

صنم کی بات پہ صائم کی انکھوں میں ایک کرب سا اتر ایا اسنے صنم کی کمر کو چھوڑا اور اسکا ہاتھ تھام کے بیڈ پہ بیٹھایا اور کہا ۔

جو تمہیں دھوکا ملا اسے بھولنا بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔جب میں نے گمراہی کا گناہ کا راستہ چھوڑ کے اللّٰہ کی طرف جانے والے راستے پر چلنا چاہا تو مجھے بہت مشکل ہوئ اتنی کے تمہیں اندازہ نہیں مگر دیکھو اج میں تمہارے سامنے ہو۔۔

اگر تم خوش نہیں دوبارہ مجھ سے تعلق جوڑنے میں تو کوئ زبردستی نہیں صنم۔۔

اگر میری منتیں کرنے پہ میرے معافی مانگنے پہ اگر تم مجھ پہ ترس کھا کے یہ رشتہ جوڑ رہی ہو تو مت جوڑو صنم۔۔صائم نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے اپنی محبت سے بھی ذیادہ جب تم ہی خوش نہیں ہوگی تو پھر اگے کہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجائے گا۔۔۔تم مجبوری میں رشتہ نبھاؤ اس سے بہتر ہے یہ رشتہ ہی نہ بنے۔۔۔

میں خوش ہو صائم !!

مجھے جب تک میری پرانی صنم اس صنم میں نہیں دیکھے گی میں تمہاری اس بات پہ کبھی یقین نہیں کرونگا کے تم خوش ہو۔۔

مجھے تھوڑا وقت دے صائم !!!

ہاں تو ٹھیک ہے لو جتنا بھی وقت لینا ہے میں اگے بڑھا دیتا ہو شادی کوئ بھی بہانہ کرکے۔۔

نہیں نہیں صائم شادی اپنے وقت پہ ہہ ہوگی !!

صائم نے ایک بار پھر اسکا چہرہ دیکھا اور کہا۔

میں ساری زندگی اپنی پرانی صنم کا انتظار کرسکتا ہو۔۔

یہ بات بول کے صائم نے صنم کے ماتھے پہ اپنے کب رکھے۔۔

کچھ دیر تک وہ اسی پوزیشن میں رہا اور کہا۔

مرکر تمہیں دیکھا نہیں سکتا کے اس دل میں اب تم کیا مقام رکھتی ہو۔

کیونکہ ساری زندگی تمہارے ساتھ گذارنا چاہتا ہو۔۔

صائم کی گرین انکھوں میں نمی دیکھ کے صنم نے کہا۔۔

ایک بات پوچھو ؟؟

اپ سے اگر سچ سچ جواب دے تو۔۔

ہاں پوچھو!!!

جو اپنے میرے ساتھ کیا اگر وہی میں نے اپکے ساتھ کیا ہوتا اپکی جگہ اگر میں اپکو کسی کیساتھ ایسے ملتی تو۔۔۔

صنم کے سوال صائم کے چہرے پہ چٹان جیسی سختی ائ جو صنم سے چھپ نہیں سکی مگر صائم نے کمال ضبط سے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کہا۔۔

اگر میں تمہیں ایسے دیکھتا تو تمہیں جان سے ماردیتا اور خود بھی مرجاتا۔۔

کیونکہ ایک مرد سب کچھ برداشت کرسکتا ہے بس اپنی من پسند بیوی یہ من پسند عورت کی بیوفائ نہیں بھلے وہ پھر کسی روپ میں ہو۔۔

بیشک اللّٰہ نے مرد کو عورت کا حاکم بنایا ہے مگر اسمیں قربانی کا صبر کا برادشت کا جزبہ عورت سے کئ گناہ  کم رکھا ہے۔۔

مجھے بیشک تم سے شروع میں محبت نہیں تھی صنم مگر جب بھی میں تمہارے ساتھ کچھ غلط کرنے کا سوچتا میرا دل مجھے روکتا ۔۔۔مجھے نہیں یاد میں نے تم سے محبت کرنے سے پہلے کتنی لڑکیوں کیساتھ فلرٹ کیا ہے مگر اگر میں نے انکے ساتھ فلرٹ کیا تو دودھ کی دھلی وہ بھی نہیں تھی۔۔

مگر جب تم سے ملا تو دل الگ انداز میں ڈھرکا۔۔

اسی لیے جب تمہارے سامنے وہ سب ایا تو میرے پاؤں سے اس وقت بھی ذمین نکل گئ تھی اور جب تمہیں نہال کیساتھ دیکھا تب بھی۔۔

اج جو صائم تمہارے سامنے ہے وہ صرف صنم کا ہے۔۔یہ بول کے صائم نے اسکا ہاتھ تھام کے اپنی دی ہوئ انگھوٹی پہ اپنے لب رکھے اور چلا گیا۔۔

##########

عترت نے دو خوبصورت بچوں کو پیدا کیا تھا ہر کوئ خوش تھا زویان تو ڈھیروں کھلونے لے کر ہسپتال پہنچ گیا۔۔

تو ادھر صنم نے اسکے ویلکم کیلے پورا گھر سجا دیا۔۔

بازل اور ہنزہ نے بھی عترت اور اسکے دونوں بچوں کیلئے ڈھیڑوں شاپنگ کی تھی۔۔

ہنزہ  بھی اسکی ڈیلوری میں ڈاکٹروں کی ٹیم میں تھی۔۔

بہزاد نے اپنے دونوں بھانجے کہہ لو یہ نواسوں کی پیدائش پہ پورے ہسپتال میں جہاں مٹھای بانٹی وہی نرسوں کو بھی پھر پور بخشش دی۔۔

سب ہی خوش تھے سوائے عترت کے خوش تو عترت بھی تھی مگر اندر سے کافی اداس تھی اور وجہ تھی بلاج۔۔۔

######

اج بچوں کی پیدائش کو پورے دس دن ہوگئے تھے مگر ابھی تک بلاج نہیں ایا تھا۔۔

سب ہی عترت کی مایوسی محسوس کررہے تھے مگر اسکا دل بہلانے کی کوشش بھی کررہے تھے۔۔

گھر میں شادیوں کا ہنگامہ تھا اسلیئے عترت نے بھی اپنے اپکو مصروف رکھنے کا سوچا۔۔۔

ارے یار سالے تو تو کافی خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔

زویان نے بازل  کو شیروانی پہناتے ہوئے کہا۔۔

لائٹ گرین کلر کی شیروانی میں بازل کی گوری رنگت کافی دمک رہی تھی۔۔

صائم نے اسکو قلا پہناتے ہوئے کہا۔

بیٹا بچ کے رہنا تھوڑا اپنا روب رکھنا اج کے دن زن مرید بننے کے عہد نامے پہ سائن مت کردینا۔۔

لو جی بول بھی کون رہا ہے یہ بات جو خود زند مرید کے ریکارڈ توڑنے والا ہے۔۔۔

بازل کے کہنے پہ صائم نے اسکی کمر پہ ایک گھونسا مارا۔۔

ارے یار کتنا ٹائم لگاو گے تم لوگ!!

ہنزہ پہنچ چکی ہے ہال چلو جلدی۔۔

بہزاد کے تھوڑا غصہ کرنے پہ وہ لوگ فورا ریڈی ہوکے بارات لے کے نکلے۔۔

بارات کا شاندار استقبال بال کیا گیا۔۔

زویان اور صائم شامل تو برات کیساتھ ہوئے تھے مگر وہاں پہنچتے ہی ہنزہ کی طرف سے شامل ہوکے بھائیوں کا حق ادا کرنے لگے۔۔

عترت فلحال اپنے دونوں بچے لے کے سائیڈ میں بیٹھی تھی شانزے ،ہیر اور صنم پوری محفل سنبھال رہے تھیں۔

ہارون بھی اپنی فیملی کیساتھ ایا ہوا تھا اور ساتھ میں نوشی بھی۔۔

ہیر شانزے اور صنم نے ایک جیسی ڈریسنگ کری ہوئ تھی ڈارک بلو اور ریڈ کنٹراس کی ہیوی قمیض شلوار کیساتھ ہیوی جیولری پہنے وہ تینوں شان محفل بنی ہوئ تھی۔۔

یار ان لڑکیوں کے اتنے نخرے کیوں ہوتے ہیں خاص کر جب یہ تیار ہوتی ہیں۔۔

زویان کے کہنے پہ صائم نے مسکرا کے اسکے سر پہ ہاتھ مارا اور کہا تو کبھی نہیں سدھر سکتا ادھر دیکھ ہنزہ اگئ۔۔

ریڈ اور پستائ کلر کے ہیوی ڈریس میں اس پہ ہیوی راجپوتوں اسٹائل میں جیولری پہنے ہنزہ کو جو دیکھ رہا تھا ماشاءاللہ کہہ رہا تھا۔۔

بازل نے جب ہنزہ کو دیکھا تو پلکیں جھکانا بھول گیا ۔۔ بے خودی میں وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور ہنزہ کی طرف اگے ہاتھ بڑھایا ۔۔

صنم اور ہیر نے اسکا شرارہ اسٹیج پہ چھوڑا تو وہاں سے بازل نے اسے تھام لیا۔۔

ایک فوکس لائٹ ان پہ پڑی اور ڈھیروں گلاب کی پتیاں بھی۔

بے شمار انکی پکس لی گئ۔۔

بہزاد کے کہنے پہ زویان اور ہیر صائم اور صنم کا بھی فوٹو سیشن کراویا گیا۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو صنم!!

صائم کی گرین انکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھتے ہوئے صنم مسکرائ اور کہا۔۔

تم پہ بھی یہ ڈراک براؤن کلر کافی سوٹ کرتا ہے خوبصورت لگ رہے  ہو مگر مجھ سے کم۔۔

صنم کے لہجے کو محسوس کرکے صائم چونکا تھا۔۔

بات سنو اس محفل میں تمہارا ایک عدد شوہر بھی موجود ہے۔۔

زویان نے ہیر کے کمر پہ ہاتھ رکھ کے تصویر کھچواتے ہوئے کہا۔۔

مجال ہے جو تم نے ایک نگاہ بھی ڈالی ہو۔۔

اوہ اچھا مجھے تو دیکھائ ہی نہیں دیا میرا شوہر ۔۔

ہیر نے اپنی لائٹ براون انکھوں کو گھوماتے ہوئے کہا۔۔

رات میں اچھے سے بتاونگا شوہر کے بارے میں۔۔

عترت اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے صائم کے پاس تھے جب بہزاد نے کہا۔۔

عترت تم بھی پکس بن والو ۔

نہیں بہزاد بھائ میرا موڈ نہیں۔۔

سامنے اسٹیج پہ نگاہ ڈالو کیا پتہ ارادہ بدل جائے۔

بہزاد کے کہنے پہ عترت نے سرسری نگاہ اسٹیج پہ ڈالی تو بلاج اپنے دونوں بچوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

عترت کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں رہا وہ تیزی سے اسٹیج کی طرف جانے لگی مگر جاتے جاتے بہزاد کے گلے لگنا نہیں بھولی۔۔

یار میری والی کہاں ہے؟؟

بہزاد نے ادھر ادھر نگاہ ڈوارتے ہوئے کہا ۔۔

تو شانزے اسے ڈریسنگ روم سے نکلتی دیکھائ دی۔

اسکا چہرہ کافی تھکا تھکا سالگ رہا تھا۔۔

کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے ؟؟

بہزاد نے فکرمندی سے اسکا چہرہ تھامتے ہوئے پوچھا!!

ہاں ہاں وہ بس تھکن ہورہی ہے بہت ذیادہ دل بھی بہت عجیب ہورہا ہے۔۔

ویٹر ویٹر۔!!.

ویٹر کو آواز دینے پہ وہ اس تک ایا۔جب بہزاد نے کہا۔

ایک ٹھنڈا اورینج جوس لاو فورا۔۔۔

بہزاد نے اسے کمر سے تھام کے خود سے لگایا اور اسکے چہرہ کو پیار سے سہلایا۔۔

خیال نہیں رکھتی تم اپنا بلکل بھی ایک ہی جان ہے میری اسے بھی ہلکان رکھتی ہو۔۔۔

اتنا کیوں پریشان ہو رہے ہو بہزاد ؟میں ٹھیک ہو جان!!

شانزے کے بہزاد کو جان کہنے پہ بہزاد کے لبوں پہ جان لیوا مسکراہٹ ائ اور اس نے کہا۔۔

جب تم مجھے یہ جان کہہ کے پکارتی ہو تو دل چاہتا ہے تم پہ جان وار دو اپنی۔۔۔

اللّٰہ نہ کرے بہزاد کبھی اپکو مجھے پہ اپنی جان وارنی پڑے ۔۔

ویٹر نے ٹھنڈا جوس لاکے دیا جو اپنے سامنے بہزاد نے شانزے کو پلایا۔۔

پاپا پاپا!!!

عاشر ایک دم بھاگتا ہوا ان دونوں تک ایا بولنے وہ کچھ اور ایا تھا مگر شانزے کا چہرہ دیکھ کے ایک دم اسکا چہرہ تھام کے پریشان ہوکے پوچھنے لگا ۔

ماما اپ ٹھیک ہو؟

پانچ سال کے بچے کی اتنی کئیر پہ شانزے نے اسے جھک کے پیار کیا اور کہا۔۔

عاشر کی ماما بلکل ٹھیک ہے۔۔

ویسے لٹل چیم اپ کیا بولنے ائے تھے ۔؟؟

بہزاد نے اسے اپنی گود میں اٹھا کے اسے بال سنوارتے ہوئے کہا۔۔

پاپا وہ زویان ماموں تیسری بار میں گال نوچ چکے ہیں !!

عاشر نے اتنی معصوم انداز میں یہ بات کہی کے بہزاد اور شانزے کا ایک ساتھ قہقہ گونجا اور کہا۔۔

چیم تھوڑا برداشت کرو انے دو زویان ماموں کا لٹل چیم ہم دونوں ملے کے اسکے گال نوچے گے۔۔

بہزاد کے بولنے پہ عاشر نے خوش ہوکے اپنے پاپا کو گلے لگالیا۔۔

وہ دون اگے جانے لگے جب عاشر دوبارہ پیچھے جاکے شانزے کا بھی ہاتھ تھاما اور دونوں کا ہاتھ تھام کے چلنے لگا۔۔

جب بہزاد کو یہ پتہ چلا تھا کے عاشر لبنا سے موبائل پہ چھپ چھپ کے باتیں کرتا ہے تو وہ عاشر کو ڈاٹنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اسے شانزے نے یہ کہہ کے روکا کے اگر اپنے اسے اسکی ماں اور بھائی کے جانے کے بعد توجہ اور محبت دی ہوتی تو اسکی نوبت نہیں اتی۔۔

شانزے کے سمجھانے پہ ہی اب بہزاد روازنہ ٹائم نکال کے عاشر سے باتیں کرتا اسکا خیال رکھتا اسکی ضرورتوں کا خیال رکھتا اور بہزاد کے اس عمل سے یہ فائدہ ہوا کے عاشر نے آہستہ آہستہ لبنا سے بات کرنا بلکل ختم کردی۔۔۔

######

بازل بھائ اپنے ہماری ڈاکٹر ہنزہ کو دیکھا ہے اصل میں میں ا میری منگیتر کیساتھ انکی شادی میں ایا تھا مگر وہ تو کہی دیکھ ہی نہیں رہی۔۔

ہارون نے مسکراہٹ دبا کے ہنزہ کے سراپے پہ نگاہ ڈالتے ہوئے بازل کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔

ہاں یار میں بھی اپنی چڑیل کو ڈھونڈ رہا ہو جو نہ جانے کہاں کھو گئ اب جو یہ میرے برابر میں بیٹھی ہے یہ تو کوئ اپسرا ہے۔۔

بازل کی بولنے پہ چاروں مسکرانے لگے جبکہ ہنزہ کا چہرہ شرم سے لال ہوچکاتھا۔۔

ہنزہ کی رخصتی کا وقت ایا تو باری باری زویان اور صائم نے اسکے سر پہ قرآن مجید رکھ کے اسے رخصت کرا۔۔

بھلے وہ ایک ہی گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں رخصت ہوکے جارہی تھی مگر رونا تو اسے پھر بھی ارہا تھا ایک ہی گھر میں صحیح مگر ہو تو وہ پرائ گئ تھی نہ۔۔۔

#######

ہنزہ کا اپنے ہی گھر میں بھرپور استقبال کیا گیا تھا اور اسکے پیچھے صنم  ہیر شانزے  تھے۔۔

بہزاد ہال سے ہی اپنے گھر چلا گیا کیونکہ کل اسکی امپورٹڈ میٹنگ تھی۔۔

ہما بیگم کو صائم اپ نے ساتھ گھر لے ایا تھا۔۔

زویان بھی ہیر اور صنم کیساتھ تھا۔۔

کیونکہ بہزاد نے زویان کی ذمیداری لگائ تھی کے ساری رسموں کے بعد شانزے کو باحفاظت گھر پہنچانا تھا۔۔

ہنزہ کو بازل کے کمرے میں بڑی شان سے بیٹھایا گیا۔۔

مگر ہنزہ کا دل اج بہت تیز تیز ڈھڑک رہا تھا۔۔

اچھا ہنزہ یار ہم لوگ چلتے ہیں کل اجائے گے ٹھیک ہے۔۔

صنم کے کہنے پہ ہنزہ ان سے گلے ملی اور وہ لوگ گھر کیلئے روانہ ہوگئے۔۔۔

بازل کمرے میں ایا تو ہنزہ کمرے میں گھونگھٹ نکال کے بیٹھی تھی۔۔

بازل نے اپنا قلا اتارا اور اسکے پاس اکے اسکا گھونگھٹ اوپر کیا۔

بازل کے چہرے پہ اج الگ ہی مسکراہٹ تھی اسنے بہت ارام سے بہت مان سے ہنزہ کو اپنے سینے سے لگا کے دھیرے سے کہا۔

محرم رشتہ میں بندھ کے اپنے محبوب کو گلے لگانے کا مزہ ہی الگ ہے۔۔۔

بازل کے کہنے پہ ہنزہ شرما گئ جب بازل نے اسکا ڈوپٹہ اسکے سر سے ازاد کرتے ہوئے کہا۔۔

یار تم لڑکیوں پہ بھی افرین ہے اتنا ہیوی میک اتنا ہیوی ڈریس پہن کے اتنی دیر تک بیٹھتی ہو وہ بھی صرف اپنے شوہر کیلئے ۔۔

یہ کہہ کے بازل نے ہنزہ کو گود میں اٹھایا جب ہنزہ نے اسکی شیراونی پکڑتے ہوئے کہا۔۔

۔بازل وہ میں خود۔۔۔۔دددددد!!

ہمیشہ جو شیرنی بنی رہتی تھی اج بھیگی بلی بنی ہوئ تھی اور اس روپ میں وہ بازل کی نیت بار بار خراب کررہی تھی۔۔

بازل جو اسے ڈریسنگ روم لے جانے کا ارادہ رکھا مگر پھر  کھڑے ہوکے اپنی شیراونی اتاری۔۔۔

بازل کے ننگے بدن کو دیکھ کے ہنزہ نے اپنی گردن جھکائ۔۔

بازل اسکے پاس اکے بیٹھا اور دراز میں سے ایک مخمل کا باکس نکال کے کھولا اور اسمیں سے خوبصورت سے کنگن نکال کے ہنزہ کو پہنائے۔۔

ہنزہ نے جب یہ کنگن دیکھے تو شاکڈ انداز میں بازل کو دیکھ کے کہنے لگی۔۔

بازل یہ تو وہی کنگن ہے نہ!!!

ہاں ہنزہ یہ وہی کنگن ہے جو تمہیں 15 سال کی عمر میں پسند ائے تھے اور تم نے مجھ سے فرمائش کی تھی کے میں تمہیں دلاو۔۔

مگر اس وقت میرے پاس اپنے خود کے پیسے نہیں تھے مگر میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کے جس دن تم میری محرم بن کے میری زندگی میں شامل ہوگی اس دن میں تمہیں یہ اپنی کمائ سے خرید کے پہناؤ گا۔۔

بازل کی بات پہ ہنزہ بازل کے سینے سے لگ گئ۔

تشکر کے آنسو اسکی انکھوں سے بہنے لگے۔۔

اب تم ایسے مجھ سے چپک کے مجھے بے ایمان کررہی ہو۔۔

بازل کے کہنے پہ ہنزہ اسے مسکراتے ہوئے الگ ہوئ اور اسکے کندھے پہ ہلکی سے چپت لگائ۔۔

بازل نے دھیرے دھیرے اسکا وجود جیولری سے اذاد کیا۔۔

خاموشی سے اسے تکنے کے بعد بازل اسے لیٹا کے اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔

ہنزہ کی دل کی ڈھرکن بازل بہت اسانی سے سن سکتا تھا وہ لرز رہئ تھی اسکے لرزتے وجود کو بازل نے بہت مان اور عزت سے اپنے وجود میں چھپایا تھا۔۔

######

اپ کب ائے تھے۔۔؟؟

عترت نے اسکے سینے پہ سر رکھتے ہوئے کہا۔۔

دوپہر میں پہنچا تھا اتے ہی سب سے پہلے اپنے بیٹوں سے ملا۔۔۔

شکریہ عترت مجھے باپ کے عہدے پہ فائز کرنے کیلئے یہ کہہ کے بلاج نے کروٹ لی اور عترت کے لبوں پہ جھک گیا۔۔

####

ایک شادی ختم ہوئ تو زویان اور ہیر کی شادی کا دن ان پہنچا۔۔

زویان کی بے صبری دیکھ کے بازل اور صائم نے اسکا کافی رہکارڈ لگایا تھا۔

وائٹ کلر میں زویان دولہا بن کے بلکل شہزادہ لگ رہا تھا تو ادھر ہیر بھی لائٹ پنک اور وائٹ کلر کے کنٹڑاس میں مغلیہ جیولری پہنے زویان کی ٹکر پہ تھی۔

سب سے پہلے ان دونوں کا نکاح ہوا اور نکاح ہوتے ہی زویان نے ہیر کواپنے سینے سے لگایا بنا کسی کی پراہ کیے۔۔

بہزاد اگے بڑھ کر ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا کے زویان کے کان میں کہا۔

کچھ تو شرم کرلے گھر کے سب بڑے موجود ہے تجھے اپنی بیوی کو سینے سے لگانے سے فرصت نہیں۔۔

کیا کرو ماموں بے شرمی اپ سے ہی سیکھی ہے اپ بھی تو ابھی کچھ دیر پہلے شانزرے کو اشارہ کرکے ڈریسنگ روم میں بلا رہے تھے جب بھی گھر کے سب بڑے ہال میں موجود تھے۔۔

زویان کے جواب پہ بہزاد قہقہ لگائے بنا نہ رہ سکا۔۔

کچھ دیر کیلیے ہال کی لائٹ بند ہوئ اور ایک فوکس لائٹ ہیر اور زویان بھی تھی ۔

ان پہ بھی ڈھیروں گلاب کی پتیاں ڈالی گئ جیسے دیکھ کے ہیر کے چہرے پہ بہت حسین مسکراہٹ ائ تھی۔۔

اج شانزے ہنزہ اور صنم نے ایک جیسی ساڑھی باندھی تھی۔۔

صائم کی نگاہ کئ بار بھٹک کے صنم پہ گئ تھی بس ایک دن کی بات تھی کل وہ اسکی ہونے والی تھی۔۔

بات سنو ؟

باذل نے ہنزہ کے پیچھے جاکے بہت ارام سے کہا۔

جی!!!

کل رات کے بعد کافی خوبصورت نہیں ہوگئ تم میری قربتوں نے کافی خوبصورت بنادیا ہے تمہیں۔۔

بازل کیا کررہے ہیں!!ہنزہ نے شرماتے ہوئے کہا۔۔

کیا اپنی بیوی کی تعریف کررہا ہو بھئ کسی کی ڈری ہے کیا۔۔

نہیں ڈری نہیں ہے مگر ایسا ہے یہ باتیں اگر کوئ کنوارہ سنے تو اسکے ارمان کافی ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔۔

صائم نے اکے بہت رازداری سے بازل کے پیچھے اکے یہ بات کہی جیسے سن کے ہنزہ نے فورا وہاں سے جانے میں عافیت سمجھی ۔

بازل نے بہت خونخوار نظروں سے صائم کو دیکھا جو اپنی بتیسی نکال کے اسے دیکھا رہا تھا۔۔

اچھا اچھا چل ذیادہ سینٹی نہ ہو باقی کی تعریف کمرے میں کرلینا ابھی ہیر کی رخصتی کا ٹائم ہورہا ہے۔۔

خوشبو بیگم اور وہاج کے گلے لگ کے ہیر رونے لگی تو خوشبو بیگم کے بھی آنسوؤں گرنے لگے۔۔

ارے یار مامی اسی گھر میں ارہی ہے اپکی بیٹی جس گھر میں اپ رہتے ہیں اتنا رولائنگی میری بیوی کو اسکا میک اپ خراب ہوجائے گا ابھی تک میں نے کھل کے تعریف بھی نہیں کی۔۔۔

زویان کے کہنے پہ وہاج اور خوشبو سمیٹ سب کا قہقہ گونجا ۔

شاجہاں بیگم نے مسکراتے ہوئے اظہر صاحب کو دیکھا اور کہا

۔کچھ ایسا ہی اپنے نے بھی کہا تھا یاد یے ۔۔۔

اج شاہجاں بیگم کو اتنی پرانی باتیں کرتا دیکھ اظہر صاحب بہت خوش تھے۔

انہوں نے بہت ہلکے سے شاہجاں بیگم کی کمر پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

میں اج بھی اپکو اچھے سے بتا سکتا ہو اپ کتنی خوبصورت ہیں۔۔

اظہر صاحب کی بات پہ شاجہان بیگم نے انہیں گھور کے دیکھا جب کے نمرہ بیگم اج اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش تھی۔۔

زویان نے ساری رسموں کو بہت انجوائے کیا اور جیسی کمرے میں جانے لگا صائم اور بازل نے اسے روک لیا۔

ارے ارے دولہے راجا اتنی بھی کیا جلدی ہے زرا دوستوں کو بھی وقت دے دو۔۔

عزت سے مجھے تم دونوں جانے دو ورنہ بعد میں پچھتانا پڑے گا۔۔

اہاں 

دھمکی صائم نے اسکی گردن میں ہاتھ پھنسا کے کہا۔۔

ارے پاپا !!

زویان کے کہنے پہ اچانک صائم نے اسے چھوڑا تو وہ ڈورتا ہوا کمرے میں چلا گیا اور دروازہ لاکڈ کرلیا۔جبکے زویان کے ہاتھوں بیوقوف بننے پہ صائم اور زویان کی شکلیں دیکھنے کے قابل تھیں۔۔

ہیر جو دلہن بن کے بیٹھی تھی زویان کے انتظار میں اسطرح سے زویان کے انے پہ ایک دم بوکھلا کے پوچھنے لگی۔۔

زویان کیا ہوا اپ اطرح سے ؟؟

ارے یار تمہارے دونوں بھائ مجھے اندر انے نہیں دے رہے تھے اسلیے چکما دے کے ایا انہیں۔۔

ویسے ایک بات بتاؤ ؟؟

زویان نے یہ کہہ کے اپنا ایک ہاتھ اسکے اگے کیا جو ہیر نے فورا تھام لیا۔۔

پوچھے۔۔ ہیر نے اسکے روبرو اکے کہا۔۔

تم اج کس سے پوچھ کے اتنی خوبصورت لگ رہی ہو میری نگاہیں ہی نہیں ہٹ رہی تم پہ سے۔۔

زویان کے بولنے پہ ہیر مسکرا کے گردن جھکا گئ۔۔

ہیر کی اس ادا پہ زویان نے اسے کمر سے تھام کے خود سے لگایا اور میوزک سسٹم پہ لگایا۔۔

دیکھا ہزاروں دفعہ اپکو۔۔

یہ بول کے زویان نے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور اسے گول گول گھمایا۔۔

پھر بیقراری کسی ہے!!

زویان نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کے اپنے گردن پہ ڈالے۔۔

سنبھالے سنبھالتا نہیں یہ دل ۔۔

زویان نے اسکی دونوں انکھوں کو چوما۔۔

کچھ بات اپ میں ایسی یے ۔

زویان نے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور گول گول گمایا۔

اپنی گود میں بیٹھا کے اسنے ہیر کے ساتھ کافی پکس لی اور پھر اپنی شیروانی اتار کے اسکی جیلوری اتارنے لگا۔

زویان !!

ہمم۔۔

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے!!

کس سے؟میری قربت سے۔۔

یہ بول کے زویان  ہیر کو اپنی باہوں میں لے کر بیڈ پہ گراور اس  پہ جھکنے لگا۔۔

اسنے ہیر کی گردن پہ بشمار پیار کیا اور دوبارہ اسے دیکھتے ہوئے کہا..

سوچا نہیں تھا میں نے کے ایک رات میری ایسی بھی ائے گی۔۔

تم نے مجھے معاف کرکے مجھے دوبارہ زندگی دی ہے ہیر۔۔

زویان پرانی باتیں نہ دہرائے میں سب کچھ بھول کے نئے سرے سے اپکے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہو۔۔

یہ بول کے ہیر نے اپنا چہرہ اٹھا کے زویان کے لبوں پہ اپنے لب رکھ کے فورا ہٹائے۔۔

ہیر کے اس عمل سے زویان کے چہرے پہ ایک دلکش مسکراہٹ ائ۔۔.

یعنی قسم ختم اپکی؟؟

ہیر نے شرما کے اسکے سینے میں اپنا چہرہ چھاپا لیا۔۔

زویان نے اسے سیدھا کیا تو ہیر کی انکھیں ابھی بھی بند تھی۔۔

زویان کی نظر اسکے ہونٹوں پہ جیسی گئ زویان ان پہ جھکنے لگا پھر ایک دم اسے کچھ یاد ایا تو وہ اٹھ کے الماری میں سے کچھ نکال کے لایا۔۔

ہیر اسکی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔زویان نے اسے منہ دیکھائ میں میں ایک خوبصورت سا لوکٹ پہنایا جس پہ ڈائمنڈ سے زویان لکھا تھا اور دوسری چیز جب ہیر کی انگلی پہنائ تو ہیر نے شاکڈ انداز پہ زویان سے کہا۔۔

یہ اپکے پاس تھی؟؟

ہاں جی ۔۔۔اتنا بول کے زویان ہیر کے لبوں پہ جھک چکا تھا ۔۔

زویان کی بڑھتی جسارتوں سے کبھی ہیر اپنی انکھیں کھولتی کبھی بند کرتی۔۔

زویان نے اپنے جس عمل سے یہ ثابت کرا تھا ہیر پہ کے وہ اس سے کتنی نفرت کرتا ہے اج اپنے اسی عمل سے اسے بتایا کے اس سے وہ محبت نہیں عشق کرتا ہے۔۔

صبح ہیر کی انکھ کھلی تو زویان  اسے لپٹا ہوا تھا ۔۔

ہیر  نے بہت ارام سے زویان کا ہاتھا اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور اپنے ارد گرد اچھے سے چادر لپیٹ کے وہ جسی ہی اٹھنے لگی زویان نے تیزی سے اسکی چادر سمیت اسے پکڑ کے کھینچا۔۔

دوبارہ زویان کی مدہوش ہوتا دیکھ ہیر نے اپنے لب بہت مشکل سے زویان سے الگ کیے اور کہا۔۔

زویان نے اپنی گرین انکھوں میں شکوہ لیے اسے دیکھا اور کہا۔۔

چپ چاپ لیتی رہو مجھے ابھی سکون چاہیے جو صرف تمہاری قربت میں ہی ملے گا۔۔

زویان یہ بول کے دوبارہ اسکے لبوں پہ جھکنے لگا جب ہیر نے اسکے لبوں پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

شرم کرلے کچھ اج اپکی بہن کی شادی ہے اور اپ یہاں رومینس کررہے ہیں۔۔

تو کس نے کہا ہے کے جس دن بہن کی شادی ہوتی ہے اس دن رومینس پہ دفعہ ایک سو چولیس لگی ہوتی ہے۔۔

افف ہٹے اوپر سے ابھی کی ابھی ورنہ۔۔ہیر نے اپنی چادر سنبھالتے ہوئے اپنی انگلی دیکھا کے اسے وارن کیا۔۔

اہہہ !!

ائ لائک یور اسٹائل !!زویان نے اسکے لبوں کو چھوتے ہوئے کہا ۔

ویسے تمہیں نہیں لگتا کے تم ابھی اس پوزیشن میں نہیں کے مجھے دھمکی دو۔۔۔

زویان نہ کرے پلیز !!

اففف اچھا بھئ لو ہٹ گیا۔۔

زویان کے ہٹنے کی دیر تھی کے ہیر نے چادر سنبھالی اور واش روم کی طرف ڈور لگائ۔۔۔

#####

افف صنم تم تو پہچاننے میں ہی نہیں آرہی!!

عترت کے بولنے پہ باقی ان تینوں نے بھی انکی ہاں میں ہاں ملائ۔۔

صنم خود اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کے حیران تھی۔۔

بلڈ ریڈ اور بوتل گرین کنٹڑاس کے ہیوی شرارے میں ہیوی میک اپ کیساتھ انڈین ہیوی جیولری پہنے صنم کو جو پہلی بار دیکھتا پہچان نہیں پاتا۔۔

اس پہ اسکے دودھیا ہاتھ جو مہندی سے لبریز تھے۔۔

مہندی تو باقیوں نے بھی لگائ تھی مگر سمپل لگائ تھی مگر صائم کی فرمائش پہ صنم کے ہاتھ اور پاؤں میں بھر بھر کے مہندی لگائ گئ تھی۔۔۔۔

نکاح نامہ پہ سائن کرتے ہوئے صنم نے ایک بار نگاہ اٹھا کے بہزاد کو دیکھا تو  بہزاد نے مسکرا کے ہاں میں گردن ہلائ تھی۔۔

نکاح کے بعد صائم جو ڈارک بوتل گرین کی شیروانی میں تھا بے صبری سے صنم انتظار کررہا تھا۔۔

جب وہ سامنے سے اتی دیکھائ دی جسکے ایک طرف وہاج تھا تو دوسری طرف بہزاد۔۔۔۔

صائم نے جب صنم کے دلہن بنے روپ کو دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ باندھ کے ہلتے ہلتے رونے لگا۔۔

زویان اور بازل نے جب صائم روتے دیکھا تو دونوں نے ہی اپنے یار  کو گلے سے لگالیا۔۔۔

وہاج صاحب نے بھی اپنے بیٹے کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے اپنے سے لگایا۔

ہیر شانزے عترت ہنزہ سب ہی کی انکھیں صائم کو روتا دیکھ بھیگ چکی تھی۔

بلاج اور بہزاد نے اسٹیج کے قریب جاکے صنم کا ہاتھ چھوڑا تو صائم نے اسٹیج کی ایک سیڑھی اتر کے صنم  کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔

صنم نے ایک نظر اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا اور پھر اسے دیکھا جو اس وقت دولہے کے روپ میں  بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔انکھوں میں بھلے اسکے آنسوؤں تھے مگر چہرے پہ دلکش مسکراہٹ تھی۔۔

صنم نے تھوڑی دیر تک اسے دیکھا اور جیسے ہی اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھنے لگی ایک دم رک گئ ۔۔

اسکا یہ عمل وہاں کھڑے کسی نفوس سے چھپ نہ سکا اور صنم کی اس حرکت سے صائم کو لگا اسکے پاؤں کے نیچے سے کسی نے ذمین کھینچ لی۔۔

صنم کے ہاتھ پیچھے کرنے پہ ایک دم ہال کی لائٹس بند ہوئ دو فوکس لائٹ صائم اور صنم پہ اکے ٹہری جب ایک سانگ پلے ہوا۔۔

کیا کرنے ہے عمروں کے وعدے!!

یہ جو رہتے ہیں رہنے دیں آدھے!!

صنم نے بجتے گانوں کے بول خود بھی دہرائے اور صائم کی طرف ہاتھ بڑھایا مسکراتے ہوئے۔۔

کم اون صائم ۔۔۔۔

ایک دم بہزاد کی اواز گونجی۔۔۔

جہاں صائم ایک دم شاکڈ ہوا!!

وہی حال میں موجود سب لوگوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔

صائم نے ہنستے ہوئے اپنا قلا اتار کے پاس کھڑے زویان کو دیااور صنم کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے کمر سے تھاما۔۔۔

 "یہ جو رہتے ہیں رہنے دیں آدھے "

"ایک  بار نہیں دو بار صحیح ایک رات کی کرلے تو یاری۔۔"

صائم نے صنم کے دلہن بنے سراپے کو گول گول گھما کے اسے کمر سے تھام کے اونچا کیا۔

صبح تک مان لے میری بات۔۔

صنم نے صائم کی چاروں طرف گھومتے ہوئے ہاتھ صائم کے کندھے پہ رکھ کے نیچے بیٹھی۔

"تو ایسے زور سے ناچی اج"

صائم نے صنم کو گول گول گھماتے ہوئے کھڑا کیا۔

"کے گھنگھورو ٹوٹ گئے۔۔

دونوں نے  ایک ساتھ گانے کا اصل ہک اسٹیپ کیا۔۔

پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔۔۔۔

صائم نے مسکراتے لب اور بھیگتی آنکھوں سے صنم کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔۔

اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔۔

ایک دم ہال کی لائٹ اون ہوئ اور ان دونوں پہ بے شمار گلاب کے پھولوں بارش ہوئ ۔

پورے ہال میں تالیاں ایک بار پھر  بجنے لگی سب ہی ان دونوں کو دیکھ کے خوش ہورہے تھے۔۔

زویان بازل نے تو خوشی سے صائم کو گلے سے لگالیا ادھر شانزے ہیر ہنزہ تینوں نے صنم کو دیکھ کے خوب ہوٹنگ کی۔۔

######

صنم کو ساری رسموں کے بعد صائم کے کمرے بیٹھایا گیا ۔۔

ہنزہ شانزے ہیر تینوں وہی براجمان تھی۔۔

تینوں ہی ڈانس والے آئیڈیا پہ صنم کو خوب چھیڑ رہی تھی۔۔

تو صائم کو بھی وہاج بازل زویان اور بہزاد چاروں نے گہرا ہو تھا۔۔۔

ویسے بہزاد ماموں یہ ڈانس والا آئیڈیا کس کا تھا۔۔؟

زویان نے کافی تجسس سے پوچھا !!

صنم کا اور کس کا !!اسی کا پلان تھا ویسے جب صنم نے صائم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیا تھا صائم کی شکل دیکھنے والی تھی ۔۔

بہزاد نے جہاں یہ بات کہہ کا قہقہہ لگایا وہی ان سب کا بھی قہقہ نکلا اور صائم بیچارا  شرم سے گردن جھکا گیا۔۔

وہ لوگ پھر باتوں میں لگ گئے جب صائم نے مظلومانہ شکل بنا کے بہزاد کو دیکھا اور منتیں کرنے والے انداز میں اسے آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔

بہزاد نے اسکی آنکھوں کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے کہا ۔۔

چلو بھئ بہت تھکن ہوگئ ویسے بھی کل ولیمہ ہے تین کپل کا ایک ساتھ اٹھ جاؤ چلو شاباش ۔۔۔

بہزاد کے بولنے پہ سب ہی اٹھنے لگے صائم نے مسکرا کے بہزاد کو دیکھا اور اسکا دیکھنا زویان سے چھپ نہ سکا اسنے مسکراتے ہوئے صائم سے کہا۔۔

ہاں بھئی ہمیں بھی پتہ ہے بہت جلدی ہے آپ کو کمرے میں جانے کی مگر زرا ٹہرے ہمیں نیک تو دے۔۔

شرم کرلے زویان پچھلے دو ہفتوں سے تو میرا کافی بینک بیلنس لوٹ چکا ہے اب عزت سے مجھے جانے دے ورنہ۔۔

اوہ دھمکی !! 

زویان کے کہنے پہ صائم سمیٹ سب ہنسنے لگے وہاج اور بہزاد تو چلے گئے کیونکہ وہ دونوں کافی تھک گئے تھے اور کل کا سارا انتظام دیکھنا تھا۔

بازل اور زویان کو پھر سے وہی بیٹھتا دیکھ صائم کی بس ہوگئ اس نے زویان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے زبردستی کھڑا کرا۔

زویان نے ایک نظر صائم کو دیکھا اور دوسری نگاہ اپنے ہاتھ میں ڈالی جو صائم کے ہاتھ میں تھا ایک آ ئیبرو اچکا کے صائم کو دیکھا اور کہا۔

زرا پیار سے بھائ ایسا نہ ہو پوری رات کمرے کے باہر گزارنی پڑے۔۔

ارے میرے باپ یہ دیکھ میرے جڑے ہاتھ خود تو تم لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں بھر پور انجوائے کیا اور جلدی کمرے میں گھس گئے میری باری میں تم لوگوں  کو نجانے کون کون سی باتیں یاد آرہی ہے۔۔

صائم کے چڑنے پہ بازل اور زویان کا قہقہہ گونجا اور زویان نے کہا۔

اچھا اچھا اب ذیادہ روتلو نہ بنو جاو کیا یاد کرو گے مگر جانے سے پہلے یہ بتاؤ میرا کام کرا۔۔۔

ارے ہاں میرے بھائ ولیمے کے ایک ہفتہ بعد تیرا کام ہوجائے گا۔۔

اب جاو اپنی اپنی بیویوں کو کمرے نکالو ۔۔

بہت مشکلوں سے وہ سب گئے تو صائم نے فورا اپنے کمرے میں گیا۔۔

کمرے میں گھستے ہی صائم نے فورا دروازہ کو لاک کیا اور دروازے سے لگ کے سانس لینے لگا۔

جبھی اسکی نگاہ ڈریسنگ کے پاس کھڑی صنم پہ پڑی جو اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی۔۔

صائم نے دھیرے سے اسے کمر سے تھام کے خود سے لگایا۔۔

صائم کی اس عمل سے چوڑیاں اتارتی صنم کے ہاتھ پل بھر کیلئے تھمے۔۔

میرا ویٹ نہیں کرا ؟

صائم نے اسکا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے کہا۔۔۔

صائم پچھلے 6 گھنٹوں سے میں نے یہ ہیوی ڈریس اور جیولری پہنی ہے۔۔

صنم کے بولنے پہ صائم مسکرانے لگا۔۔

صائم مجھے ایک بات بتائے؟؟

پوچھو جان صائم!!.

اتنی ہیوی جیولری ،اتنا ہیوی ڈریس کیوں لیا اپنے میرا۔۔؟

بس میری خواہش تھی تمہیں ایشین دلہن کے روپ میں دیکھنے کی۔۔

یہ بولتے ہوئے صائم نے اسکی کلائیاں چوڑیوں  سے اذاد کری اور اسے گود میں اٹھالیا۔۔

صائم نے اسے واپس بیڈ پہ بیٹھایا اور کہا۔۔

افف صنم بہت ذیادہ ہیوی ڈریس ہے یہ تو۔۔

صائم نے اپنی کمر کو پکڑتے ہوئے کہا۔۔

اب پتہ چلا !!

میرا سوچے میں کب سے پہنی ہوئ ہو یہ ڈریس۔۔

اچھا ایک کام کرو پہلے ڈریس چینج کرو۔

اتنا بول کے صائم نے الماری میں سے ایک نائٹی نکال کے اسے دی جو پیور بلیک تھی اور پوری نیٹ کی تھی۔۔

صنم نے ایک نظر  صائم کو دیکھا اور پھر ہونقوں کی طرح نائٹی کو۔۔

اپ تو کہہ رہے تھے اپ سدھر گئے!!!

صائم جو اپنی شیراونی اتار رہا تھا صنم کے سوال پہ ایک  دم چونکا اور کہا۔

ہاں تمہاری قسم !!میں بلکل سدھر گیا ہو !!

مگر تم نے یہ سوال کیوں پوچھا۔۔۔!؟؟؟

اس کو دیکھ کے لگ تو نہیں رہا اپ سدھر گئے۔۔

صنم نے اپنے دانت پیستے ہوئے نائٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔

صنم کے اشارہ پہ صائم نے بہت مشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی  اور کہا۔۔

شادی کی پہلی رات اپنے بیوی کو نائٹی میں دیکھنا گناہ تو نہیں نہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے میں بگڑا ہوا ہو۔۔

صائم میں یہ نہیں پہنے والی۔۔

صنم نے اسے سائیڈ میں رکھتے ہوئے کہا۔

اگر تم نے یہ نہیں پہنی تو میں خود تمہیں پہناو گا ۔

صائم نے اسے خود سے بے حد قریب کرکے کہا۔

صائم کی انکھوں میں اج جو خمار تھا صنم نگاہ جھکانے ہہ مجبور ہوگئ۔۔

صائم نے ایک نظر اسے دیکھا اور کمرے کی لائٹ بند کردی۔۔

صنم کے پاس اکے صائم نے  اس کا دھیرے سے ڈوپٹہ اتارا۔۔

آہستہ آہستہ اسکی جیولری اتار کے اسکی چولی کی بیک کی دوری کھولی۔۔

صائم کی اتنی قربت پہ صنم کا دل بہت  تیز تیز ڈھڑک رہا تھا اسکی انکھیں بند تھی ۔۔

صائم نے چولی کی دوریاں کھولی تو صنم کی پشت اسکے سامنے اوپن ہوگئ ہیوی ہونے کی وجہ سے صنم کی شرٹ کندھوں سے نیچے کھسک رہی تھی۔۔

صائم نے اسکی پشت پہ اپنے لب رکھ کے اسکے سینے پہ اپنا ہاتھ رکھ اسے اپنے سے لگالیا۔۔

صائم کی جسارتیں اب بڑھنے لگی اسنے صنم کے کندھوں پہ۔ب اپنے ہونٹ رکھے اور اسکی چولی اسکے تن سے جدا کردی۔۔

سائیڈ میں پڑی نائٹی اسے اٹھا کے دی اور کہا۔

مجھے اج اپنی پرانی صنم واپس ملی ہے صنم میں اج اسکے اور اپنے درمیان صرف پیار محسوس کرنا چاہتا ہو ۔۔

اتنا کہہ کے صائم نے ایک نظر نگاہیں نیچیں کرکے کھڑی صنم کو دیکھا جیسی اسکی نظر اسکے پھڑپھڑاتے ہوئے لبوں پہ گئ صائم سے برادشت نہیں ہوا۔۔

اس نے صنم کو اسکی پشت سے تھاما اور اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔

صنم میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کے صائم کو خود سے دور کرسکے اسنے بہت زور سے صائم کے سینے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے تھے مگر کوئ فائدہ نہیں تھا۔۔

کس کا دورانیہ تھوڑا لمبا ہوا تو صنم نے اپنے ناخن صائم کے سینے میں چبھوئے تب جاکے وہ صنم سے پیچھے ہوا اور اپنے ہونٹوں سے صنم کے ہونٹوں کی لپسٹک صاف کرنے لگا۔۔

صنم  نے ایک پرشکوہ نگاہ صائم پہ ڈالی جب صائم نے کہا۔۔

ایسے مت دیکھو میں اس سے اگے بھی بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو جلدی سے جاؤ چینج کرکے او۔۔۔

صنم جو اپنی تک بنا چولی کے کھڑی تھی اور مسلسل صائم سے نگاہ چرا رہی تھی نہ چاہتے  ہوئے بھی نائٹی اٹھا کے چینج کرنے چلی گئ۔۔

صائم نے اپنے کپڑے چینج کیے اور کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکے صنم کا انتظار کرنے لگا۔۔

20منٹ ہوگئے مگر صنم سے ابھی تک نائٹی نہ پہنی گئ۔۔

ہاں بہت شوق تھا نہ تجھے  صنم بی بی بھرے ہال میں اپنے شوہر کیساتھ ڈانس کرنے کا اب بگھتوں۔۔۔

صنم نجانے کیا کیا بڑبڑا رہی تھی دو بار اس نے نائیٹی نکال کے دیکھی اور واپس رکھی۔۔

صنم پانچ منٹ کے اندر تم اگر باہر نہیں  ائ تو پھر میں اندر اکے تمہارے ساتھ نہانے کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔

صائم نے دروازے سے لگ کے یہ بات کہی۔

جیسے سن کے صنم کے ہاتھ سے نائٹی چھوٹتے چھوٹتے بچی۔۔اسنے جیسے تیسے پسینے میں شرابور ہوکے نائیٹی پہنی اور دروازہ کھولا۔۔

دروازہ کھلتے ہی کمرے کا نظارہ بلکل چینج تھا۔۔

کمرے میں لائٹ پرپل کلر کی دیم لائٹ اون تھی ہر جگہ خوشبو والی کینڈل جل رہی تھی۔

صنم کسی سحر میں جکڑے جیسے اپنے قدم اہستہ اہستہ بڑھانے لگی۔

جب وہ کمرے کے بیچ وبیچ پہنچی تو دھیر سارے موتیے کے پھول اس پہ گرے۔۔

تبھی اسے پیچھے سے اکے صائم نے کمر سے تھاما اور اسکے کندھے پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔

ایسا ہی کچھ تم چاہتی تھی نہ ہماری کی شادی پہلی رات۔۔

صائم کے کہنے پہ اسنے گھوم کے صائم کو دیکھا تو اسکی انکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی ۔۔

اپ کو یاد تھا؟؟صنم نے اسکا چیرہ تکتے ہوئے کہا۔۔

صائم نے بہت ارام سے اسکی انکھوں کی نمی کو اپنے لبوں سے چھوا اور کہا۔۔

ابھی تو سرپرائز شروع ہوئے ہیں۔۔

یہ کہہ کے صائم نے اسے گود میں اٹھا کے بیڈ پہ لیٹایا اور اے سی فل کرکے کمفٹر اوڑھا اور لیٹتے ہی اپنا ایک ہاتھ سیدھا کرکے صنم کو اشارہ کیا۔

صنم بہت ارام سے اسکے ہاتھ پہ اکے کیٹ گئ جب صائم نے اسے اور خود سے لگایا اور سائیڈ دراز میں سے ایک بڑی ڈیری ملک چاکلیٹ نکالی ساتھ ساتھ اسکی منہ دیکھائ بھی۔۔

چاکلیٹ اس نے صنم کو دی تو مسکرانے لگی۔۔

کھاؤ ؟؟صائم کے کہنے پہ صنم نے تھوڑی سے چاکلیٹ منہ میں ڈالی تو صائم نے کہا۔۔

مجھے بھی کھلاؤ!!

صائم کی بات پہ صنم نے اسے چاکلیٹ کا ٹکڑا توڑ کے دیا جو صائم نے صنم سے لے کر دوبارہ صنم کے منہ ڈالا اور اسکے منہ سے چاکلیٹ کھانے لگا۔۔

صائم کی اس حرکت سے صنم کی سانسوں میں ہل چل ہونے لگی۔۔

صائم نے ادھی سے ذیادہ چاکلیٹ ایسی ہی کھائ پھر اسے منہ دیکھائ دی۔۔

ایک خوبصورت سے ڈائمنڈ کے ٹوپس ،ایک خوبصورت سی رنگ جس پہ صں بنا تھا اور اخر میں ایک لاکٹ جس پہ ڈوبل S لکھا تھا۔۔

صائم نے اس رات سب وہ کام کیے تھے جو کبھی صنم نے اسکے سامنے اپنی خواہش کا نام دے کے ظاہر کیے تھے یہاں تک کے منہ دیکھائ بھی صنم کی پسند کی تھی۔۔۔

صائم نے دھیرے سے اسپے جھکا اور کے جسم پہ نگاہ ڈالنے لگا جب  صنم نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔۔

صنم کی اس حرکت پہ صائم نے اسکے دونوں ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹائے اور اسکے بالوں پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔

اب تو ناراض نہیں ہو نہ صنم مجھ سے !!؟

صنم کی زبان جو فر فر چلتی تھی اسے تو ایک دم بریک لگ چکا تھا صائم کی قربت سے اس نے نفی میں گردن ہلائ۔۔

صائم کی گہرے گرین انکھوں میں اج اسے اپنے لیے عزت احترام محبت دیکھی۔۔

اجازت ہے؟؟

صائم کے اجازت مانگنے پہ صنم نے اپنی انکھیں بند کرکے اپنی رضامندی ظاہر کی۔۔

صائم  بہت ارام سے اسکے لبو پہ جھکا اور اسکے گلے کی دوریاں کھولنے لگا۔ دوریاں کھول کے اس نے اسکے دل کے مقام پہ اپنے لب رکھے تو صنم نے اسکے کندھوں کو اپنے ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیا۔

صائم نے اسکی گردن پہ لو بائٹ کی تو صنم نے اسکے کندھے پہ اپنے ناخن گاڑھ دیے مگر صائم پہ اج صنم کی قربت کا نشہ تھا اسکے جسم کی خوشبو وہ اج اپنے اندر پھر پور سمانا چاہتا تھا ۔

صنم کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کے اس نے صنم کو اج اپنا بنالیا تھا۔۔

########

پی سی ہوٹل میں شاندار ولیمہ کی تقریب جاری تھی ۔۔

تینوں کپلز اج شان محفل بنے ہوئے تھے۔۔

ڈارک مہرون میکسی میں ہنزہ تھی تو اسی کلر کے کوٹ میں بازل۔لائٹ بے بی پنک کلر کی میکسی میں ہیر تو اسی کلر کے کوٹ میں زویان ،ڈارک گرے کلر کی میکسی میں صنم تھی تو اسی کلر کے کوٹ میں صائم تھا۔۔

مگر ان سب کو بہزاد مات دے رہا تھا جو بلیک ڈنر سوٹ میں جان محفل تھا۔۔

بہزاد ماموں ایک منٹ بات سنے۔۔

بہزاد جو وہاج سے بات کررہا تھا۔ وہاج جو لائٹ گرین کلر کے کوٹ میں تھا  دونوں نے ایک ساتھ اسے دیکھا تب بہزاد نے زویان سے کہا۔

ہان زویان بولو!!.

بہزاد ماموں ولیمہ ہمارا ہے !!!

ہاں تو!!

بہزاد نے ناسمجھی کی حالت میں زویان کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ولیمہ ہمارا ہے اور "جان محفل "اپ بنے ہوئے ہیں۔۔

زویان کے اتنے سڑے ہوئے منہ بناکے کہنے پہ بہزاد کیساتھ ساتھ وہاج کا بھی قہقہ نکلا۔۔

وہ دیکھے بسکٹی کلر کی ساڑھی میں جو دو لیڈیر ہیں نہ انہوں نے مسلسل اپکو نظروں کے حصار میں لیا ہوا ہے ۔۔

زویان نے دو خوبصورت سی لیڈیز کی طرف اشارہ کرا جو واقعی میں بہزاد کو دیکھ رہی تھی ۔

مگر بہزاد نے انہیں اگنور کیا اور زویان کا رخ شانزے کی طرف  کر کے کہا۔۔

جو جٹ بلیک ساڑھی میں نیلی آنکھوں کیساتھ  پوری محفل کا تو پتہ نہیں مگر بہزاد کی "دل جانم "بنی تھی ۔

میری نگاہیں صرف اسی پہ ہیں ۔۔

اسی نوک جھونک میں بہت اچھے طریقے سے ولیمہ نمٹ گیا۔

تھا ۔۔

ساری دلہنوں کو بہزاد نے وہاج کیساتھ گھر کی طرف روانہ کیا۔۔

باقی تینوں دولہے بہزاد کی ہیلپ کرنے رکے تھے کیونکہ کے ولیمہ کا انتظام بہت ہائ پیمانے پہ تھا۔۔

اپ نہیں چل رہے ؟؟

شانزے نے بہزاد سے کہا جو اسے اور عاشر کو مرتضی کیساتھ گھر روانہ کررہا تھا۔۔

میں ایک گھنٹے تک آجاؤ نگا اور ہاں میرا ویٹ کرنا اج تو۔م۔۔

بہزاد نے یہ بول کے جیسے شانزے کو پیار کرنا چاہا زویان نے اکے گلا کھنکھنارتے ہوئے بہزاد اور شانزے کی طرف ایا اور کہا۔۔

ویسے بہزاد ماموں اج تو کیا میں سمجھا نہیں !!

زویان نے بہت ہی معصومانہ انداز میں بہزاد سے پوچھا۔۔

جیسی سن کے شانزے تو شرما کے چلی گئ اور زویان کی گردن بہزاد کے بازوؤں میں تھی۔۔

سب نمٹا کے تقریبا پونے گھنٹے بعد بہزاد گھر کی طرف نکلنے لگا جب اسکے موبائل پہ ایک ویڈیو ائ۔۔

بہزاد جیسے جیسے ویڈیو دیکھنے لگا  اسکے ہاتھ پاوں ڈھیلے پڑنے لگے۔۔

اس ویڈیو  میں کوئ مرتضی کو بہت برا مار رہا تھا اور شانزے کے منہ پہ لگاتار کوئ تھپڑ مار رہا تھا۔۔

اسکا بیٹا عاشر بلک بلک کے رو رہا تھا۔۔

شانزے!!!!!!!!!

بہزاد اتنی زور سے چیخا ویڈیو دیکھ کے صائم زویان بازل تینوں اسکے پاس ڈورتے ہوئے ائے۔۔

ان تینوں نے پہلی بار بہزاد راجپوت کے چہرے پہ ڈر اسکی انکھوں میں آنسو دیکھے  تھے۔۔

کیا ہوا ماموں؟؟

صائم نے چیخ کے پوچھا۔۔۔۔

تبھی اسکے نمبر پہ ایک کال ائ۔۔

دیکھ تو لیا ہوگا اپنے پیاروں کا حال تو بنا دیر کیے اس اڈریس پہ اجاو جو میں نے ویڈیو کیساتھ بھیجا ہے    اور ہاں اکیلے ورنہ یہاں تمہیں اپنے پیارے نہیں صرف اسکی لاشیں ملے گی۔۔

اتنا کہہ کے کال کٹ ہوئ تو بہزاد ڈورتا ہوا حال سے باہر بھاگا اور وہ تینوں بھی اسکے پیچھے بھاگے جب بہزاد   مڑ کے دوبارہ چیخا اور کہا۔۔

کوئ نہیں ائے گا پیچھے !!!

سکون سے شانزے اور عاشر انکھیں بند کرکے گاڑی  میں بیٹھے تھے ۔۔تھکن اتنی ہوگئ تھی کے شانزے کو گاڑی میں ہی نیند اگئ۔

مرتضی بھی اپنی دھن میں گاڑی چلا رہا تھا کے ایک دم مرتضی نے گاڑی کو بریک لگایا۔۔۔

شانزے ایک دم جھٹکے سے اٹھی ۔۔۔

مرتضی بھائ گاڑی کیوں روک دی۔۔؟

بھابھی دیکھے شاید وہ کوئ پڑا ہے روڈ پہ خون بھی پڑا ہے سڑک پہ۔۔

شانزے نے مرتضی کے کہنے پہ سامنے دیکھا تو واقعی کوئ روڈ پہ پڑا تھا اور اسکے سر کے پاس بہت سارا خون بھی پڑا تھا۔۔

مرتضی بھائ اپ جاکے دیکھے!!

نہیں بھابھی۔ویسے ہی یہ سڑک سنسان ہے میں ایسے رسک نہیں لے سکتا تھا۔

ارے مرتضی بھائ بچارے کو کوئ مار کے چلا گیا جاکے دیکھے زندہ ہو کیا پتہ۔۔۔

شانزے کے اصرار پہ مرتضی نیچے اترا مگر افسوس اسکی گن گاڑی میں رہ گئ۔۔

مرتضی نے جیسے ہی ذمین پہ پڑے بندے کا صحیح کیا  اسنے مڑتے ہی فورا مرتضی پہ چاقو سے وار کیا۔۔

ادھر مرتضی پہ وار ہوا ادھر شانزے کے اوسان خطا ہوئے ۔

اس سے پہلے وہ گاڑی کا ڈور لاک کرکے گاڑی خود چلاتی کسی نے اسکی طرف کا گیٹ کھولا اور اسکے ماتھے پہ پسٹل رکھ کے اسے باہر انے کا اشارہ کیا۔۔

شانزے نے جیسی ہی پسٹل رکھنے والے کو دیکھا تو غصہ میں کہا۔۔

مراد جانے دو ہمیں ورنہ بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی تمہیں۔۔

شانزے کی بات پہ مراد نے اسکو بالوں سے پکڑ کے باہر نکالا تو گاڑی میں بیٹھا عاشر رونے لگا۔۔

مراد نے اسے باہر نکال کے ایک زور دار تھپڑ شانزے کے منہ پہ مارا ایک دم اسکا سر گاڑی سے ٹکرایا تو خون نکلنے لگا۔۔

مراد اور اسکے ساتھیوں نے ان تینوں کو اپنی گاڑی میں ڈالا اور لے گئے۔۔

مرتضی بری طرح زخمی تھا پھر بھی اسے وہ لوگ بری طرح مار رہے تھے جبکے دوسری طرف مراد کیساتھ لبنا کو دیکھ کے شانزے جھٹکوں میں اگئ۔۔

لبنا نے جیسی ہی شانزے کو ٹھپڑ مارا عاشر ڈورتا ہوا شانزے سے لپٹ گیا۔۔

عاشر بیٹا میرے پاس آؤ یہ اچھی عورت نہیں ہے میں اپکی۔ماما ہو۔۔

نہیں ہو اپ میری ماما!!.عاشر نے کافی چیخ کے یہ بات کہی جیسے سن کے لبنا دو منٹ کیلئے  لبنا خاموش ہوگئ ۔۔

مگر اسنے پھر بھی  عاشر کو کھینچتے ہوئے شانزے سے دور ہوا اور لگاتار شانزے کے منہ پہ ٹھپڑ مارے۔۔

لبنا کی انگلیوں میں موجود انگھوٹی لبنا کا چہرہ کافی زخمی کرچکی تھیں۔۔۔

لبنا مار کے ہٹی تو مراد شانزے کو مارنے کیلئے جسی اگے بڑھا بہزاد کی اواز گونجی۔۔

ایک اور ہاتھ لگایا تونے اسے مراد تو ساری زندگی تو اپنے ہاتھوں کیلئے ترسے گا۔۔

اتنا بول کے جیسی ہی اگے بڑھنے لگا کسی نے پیچھے سے اسکے سر پہ زور سے ڈنڈا مارا ۔۔

ڈانڈا اتنا زور سے مارا گیا کے بہزاد کے سر سے تیزی سے خون۔نکلنے لگا۔۔

بہزاد نے جب گردن گھما کے مارنے والے کو دیکھا تو لبنا تھی۔۔

بہزاد اپنا سر پکڑ کے تیزی سے نیچے بیٹھا۔۔

بہزاد۔۔۔۔۔شانزے کی ایک دلخراش چیخ نکلی وہ ڈورتی ہوئ بہزاد کے پاس جانے لگی تب مراد نے اسکا ہاتھ پکڑ کے کھینچا۔۔

اج میں تمہیں بتاؤ گا کے تمہارے ٹھپڑ کتنی زور سے پڑا تھا میرا۔۔

اتنا بول کے مراد نے شانزے کی ساڑھی کا پلو پکڑ کے کھینچا۔۔

نہیں نہیں مراد۔۔شانزے بری طرح چیخنے لگی مگر مراد نے اسے اپنے طرف کھینچا ۔۔

بہزاد کھولتی بند انکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا مگر پھر بھی ہمت کرکے اٹھا اور مراد کو گدی سے پکڑ کے شانزے سے دور کیا۔

لبنا نے جیسی ہی بہزاد پہ فائر کرنا چاہا ایک تیز دھار چاقو لبنا کا ہاتھ چیرتا ہوا چلا گیا۔

لبنا اپنا ہتھ پکڑتے ہوئے بری طرح چیخنے لگی۔۔

زویان کا نشانہ کبھی نہیں چوکتا۔۔

زویان نے خود کو داد دی۔۔

ماموں۔۔

صائم کی نظر جیسے ہی بہزاد پہ پڑی وہ اس تک تیزی سے ایا۔۔

زویان اور بازل نے لبنا مراد ااور اسکے ساتھیوں کی خوب دھلائ کی اتنے میں پولیس بھی پہنچ گئ۔۔

مگر بہزا اور شانزے بیہوش ہوچکے تھے۔۔

عاشر اور مرتضی کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔

پولیس مراد اور لبنا کو پکڑ کے لیجا چکی تھی۔۔

زویان ماموں اور شانزے کی حالت ٹھیک نہیں انہیں فورا ہسپتال لے کے چلو۔۔۔

صائم نے شانزے کو گودھ میں اٹھایا۔

زویان اور بازل نے مرتضی عاشر اور بہزاد کو جیسے تیسے گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال کیلئے نکلے۔۔

#######

ہسپتال کا پورا کوریڈور بھرا تھا مگر ہر طرف خاموشی تھی بہزاد کو ہوش اگیا تھا مگر شانزے ابھی تک ائ سی یو میں تھی ایک گھنٹہ ہونے کو ایا تھا مگر کوئ ڈاکٹر ابھی تک ائ سی یو سے باہر نہیں ایا تھا۔۔

بہزاد اپنی تکلیف کی پراوہ کیے بنا شانزے کی زندگی کیلئے دعاگو تھا۔۔

مزید ادھے گھنٹے بعد ائ سی یو کا روم کھلا تو ڈاکٹرز باہر ائے۔۔

میری وائف کیسی ہے ؟؟بہزاد نے تقریبا روتے ہوئے یہ بات پوچھی۔۔

اپکی وائف اپ ٹھیک ہے اور اپکے بے بیز بھی !ڈاکٹر نے مسکرا کے یہ بات کہی۔۔

بے بیز مطلب؟؟

بہزاد کیساتھ ساتھ یہ بات تقریبا وہاں موجود سب نے ایک ساتھ پوچھی۔۔

جی بہزاد سر اپکی وائف پریگننٹ ہے اور اپکے ٹریپل ہیں بے بیز۔۔

ڈاکٹر کی بات پہ بہزاد خوشی سے ایک دم شاکڈ ہوگیا اور وہی سجدے میں گرگیا۔۔

######

ایک سال بعد !!

ایک سال میں بہت کچھ بدل گیاتھا جہاں سب ہی خوش تھے زویان اور ہیر لندن سے واپس ارہے تھے زویان ہیر کو لندن لے کے گیا تھا تاکہ وہ اپنا خواب پورا کرسکے جو اسکی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا۔۔

ابھی وہ دونوں ائیرپورٹ کیلئے نکل رہے تھے کیونکہ پرسوں بہزاد کے بچوں کا عقیقہ اور پہلی سلگرہ تھی۔

زویان نے گاڑی سگنل پہ روکتے  ہوئے ایک نظر اپنی برابر میں بیٹھی ہیر کو دیکھا جو مزے سے ملک شیک پی رہی تھی۔۔۔

بازل کی نظر ہیر سے ہوتی ہوئی سامنے گئ جہاں گاڑی میں موجود دو لڑکے مسلسل ہیر کو دیکھ رہے تھے اور وجہ زویان اچھی طرح جانتا تھا ۔۔

زویان نے اپنی مٹھیاں بھینچی اور ہیر سے کہا۔۔

ہیر؟مم۔۔

میری گودھ میں آکے بیٹھو۔۔

ہیر جو مزے سے شیک پی رہی تھی زویان کی بات سن کے ایک دم اسے پھندا لگا اور اس نے کہا۔۔

واٹ ؟

میں نے کہا میری گودھ میں آکے بیٹھو۔۔

زویان مگر میں کیسے یہاں گاڑی میں پاگل ہوگئے ہو۔۔۔

ایک دفعہ اور تم نے بحس کی تو انجام بھگتے کیلیے تیار رہنا۔۔

ہیر جانتی تھی زویان کو اس لیے اسنے بحس کرنا ترک کیا اور خاموشی سے زویان کی گودھ میں بیٹھنے کیلئے اٹھی زویان نے اسٹیرنگ پہ سے ہاتھ ہٹایا ایک ہاتھ ہیر کی کمر پہ رکھ کے اسے   اپنی گودھ میں بیٹھایا۔۔

ہیر کا چہرہ   زویان کی  گردن میں چھاپا تھا زویان نے اسی پوزیشن میں گاڑی کا اسٹرینگ سنبھالا۔۔

ایک نظر جیسی ہی اسنے ان لڑکوں پہ ڈالی ان لڑکوں نے فورا اپنی نگاہ کا زاویہ تبدیل کیا۔۔۔۔

#####

ماما !!

ہاں ماما کی جان۔۔

شانزے نے روحان کو تیار کرتے ہوئے حاشر سے کہا جو ہاتھ میں ٹائ لے کے اداس سا شانزے کا پکار رہا تھا۔

ماما میں نے پاپا سے کہا پاپا میری ٹائ باندھ دیں تو کہنے لگے میں اپنی پرنسس کو تیار کو کررہا ہو ۔۔

"سوری"

عنایہ کو نجانے کون کون سے کلپ لگا لگا کے چیک کررہے ہیں مجھے ٹائ نہیں باند رہے۔۔

کیا ایسا کہا پاپا نے؟؟شانزے نے کمر پہ ہاتھ رکھ کے غصہ سے پوچھا۔۔

ہاں ماما!!

ابھی بتاتی ہو اس کنگ اور اسکی پرنسز کو ہمت کیسے ہوئ میرے شہزادے کو منع کرنے کی۔۔۔

شانزے نے روحان اور ارحان کو تیار کرکے نیچے پارٹی میں بھیجا گورنرس کے ہاتھ اور خود بہزاد کی خبر لینے پہنچی مگر افسوس وہ اپنی پرنسز کو لے کر پارٹی میں جا چکا تھا۔۔

پارٹی اپنے عروج پہ تھی بہزاد کا اج پورا خاندان اس خوشی میں شریک تھا۔۔

بلاج اور عترت بھی ائے ہوئے تھے اپنے دونوں  بیٹوں کے ساتھ صنم صائم زویان ہیر بازل اور ہنزہ اج سب نے ایک جیسے ڈریسنگ کری تھی۔

بلیک ڈنر سوٹ میں بہزاد اج پھر سب کو مات دے رہا تھا اور شانزے بلڈ ریڈ ساڑھی میں اسکی جان بنی ہوئ تھی۔۔

ابے یار شانزے بھوک کے مارے برا حال ہورہا ہے کب کھلے کا کھانا!!!؟؟

زویان نے  کافی سڑی ہوئ شکل بنا کے کہا۔۔

زویان بہزاد کے کوئ بہت پرانے دوست لاہور سے انے والے ہیں بس انہیں کا انتظار ہے۔۔

اچھا چلو میں اتنے سلاد سے کام چلاو۔۔

زویان یہ کہہ کے وہاں سے گیا جب بہزاد کسی کولے کر ان سب کے پاس ایا۔۔

بھئ ان سے ملو یہ ہیں میرا سب سے اچھا دوست ہمایوں اور یہ ہے انکی وائف اعیرہ۔۔

سب ہی ان دونوں کو دیکھ کے حیران تھے صائم اور بازل کی تو سمجھ میں نہیں ایا کے بہزاد ذیادہ خوبصورت یے یہ ہمایوں وہی حال لڑکیوں کا بھی تھا انکی بھی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کے شانزے کی انکھیں زیادہ خوبصورت ہے یہ اعیرہ کی۔۔یہ اعیرہ کے گودھ میں موجود اسکے تین سال کے بیٹے کی۔۔

افف سلاد سے تھوڑا گزرا ہو۔۔۔

ابھی زویان ٹیبل پہ اکے پوری بات کرتا اعیرہ کو دیکھ کے ایک دم رکا اور کہا۔۔

بھئ بتایا نہیں کسی نے کے باربی ڈول بھی انوائیٹ ہیں پارٹی میں۔۔

زویان کی بات پہ بہزاد اور ہمایوں کا قہقہ گونجا جب زویان نے پلٹ کے ہمایوں اور بہزاد کو دیکھا جب کے اعیرہ زویان کی تعریف پہ اچھی خاصی نروس ہوچکی تھی۔۔

ہمایوں اور بہزاد کو ایک ساتھ کھڑا دیکھ کے زویان نے سڑا ہوا منہ بناکے بازل اور صائم سے کہا۔۔

اوہ بھائ چلو بھائ ہمیں یہاں کوئ نہیں دیکھنے والا جب  تک یہ دونوں یہاں پہ ہیں۔۔

زویان کے کہنے پہ ایک بار پھر سب کا قہقہ گونجا۔۔

جب ہمایوں نے بہزاد سے پوچھا۔۔

یہ ہی زویان ہے؟؟

ہاں یار چھیچھوڑا ۔۔۔بہزاد نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔

ہمایوں بھائ میں ابھی بتا دو میں اعیرہ کو ہرگز بھابھی نہیں بولنے والا کیوں کے یہ کسی اینگل سے بھابھی مٹیریل نہں اور دوسری بات مجھ سے عمر میں چھوٹی ہے۔۔زویان کی بات پہ جہاں اعیرہ نروس ہوئ وہی ہمایوں نے زویان کی بات سن کے ہاں میں گردن ہلائ

زویان کے کہنے پہ اعیرہ نے گھبرا کے ہمایوں کو دیکھا جو انکھوں میں شرارت لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

ہمایوں جب مسکرایا تب صنم ہیر ہنزہ نے کہا۔۔

بی ایم ہمایوں بھائ کی مسکراہٹ اپ سے ذیادہ خوبصورت ہے۔۔

شکریہ لیڈیز۔۔۔

ہمایوں نے جھک کے انکی تعریف قبول کی۔۔

ویسے لگتا ہے کافی جگرانہ ہے اپ دونوں کا ایک تو دونوں کی  انکھیں گرین دونوں کی وائف کی انکھیں بلیو دونوں کی خوبصورت بے مثال ۔۔عترت کے کہنے پہ سب نے اسکی ہاں میں ہاں ملائ۔۔

کھانا کھانے کے بعد ہمایوں اور اعیرہ چلے گئے انکی فلائٹ تھی دبئ کی۔

ائستہ آہستہ مہمان چلے گئے جب زویان نے ڈی جے کی طرف اشارہ کیا اور اسنے ایک سانگ پلے کیا۔۔

ایک فوکس لائٹ بہزاد اور شانزے پہ تھی۔۔

جب سب نے انہیں ڈانس کیلے فورس کیا۔۔

گانے کے بول پہ بہزاد نے خود بھی گانا شروع کیا اور شانزے کا ہاتھ تھام کے اسے گول گول گھمایا۔

"سانسوں میں تیری مہک ۔

ہو ہاتھوں میں ہاتھ تیرا۔۔

بہزاد نے اسے گول گول گھما کے ایک دم اسکی پشت اپنے اپ سے لگا کے اسے پیٹ سے تھاما۔۔۔

"میرے سینے کی ڈھرکن ہے تو بن گیا""

دوبارہ اسے گھوما کے اسے اپنے اپ سے لگایا۔۔

"ماہیا میرے ماہی ۔۔

جانیا دل جانی۔۔

کتنا سوہنا تو سوہنا تو ہاں۔۔

اخری میں بہزاد نے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔۔

پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔

جب زویان نے اپنے برابر میں کھڑے صائم سے کہا۔۔

یار میں زندگی میں ماموں جیس بننا چاہتا ہو سب سے الگ جیسے اللّٰہ نے سب کچھ انوکھا دیا ہو بیوی بچے وہ بھی ماشاءاللہ تین تین ایک ساتھ پیسہ شہرت دولت حسن۔۔

مگر زویان یہ نامکن ہے !!صائم کے کہنے پہ زویان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔

کیوں؟؟

صائم نے مسکراتے ہوئے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

کیونکہ "بہزاد راجپوت "جیسا کوئ نہیں۔

صائم کے بولنے پہ زویان نے  ہنستے ہوئے کہا۔۔

ہاں یہ تو ہے۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dastan E Ishq Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dastan E Ishq Mohabbat  written by Maryam Imran .Dastan E Ishq Mohabbat by Maryam Imran  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages