Jaan e Jageer By Angel Urooj New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 8 August 2024

Jaan e Jageer By Angel Urooj New Complete Romantic Novel

Jaan e Jageer By Angel Urooj New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jaan E Jageer By Angel Urooj Complete Romantic Novel 


Novel Name: Jaan E Jageer 

Writer Name: Angel Urooj

Category: Complete Novel


ہر سو رنگ برنگی لائٹس جل رہی تھیں۔۔۔ جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے تھرکتے نظر آرہے تھے جسے وہ کافی ناگواریت سے ہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔

بہت سی لڑکیوں نے اسے اپنی اداؤں سے لبھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ہر چیز سے بےنیاز آنکھوں میں کوفت اور ناگواری لیئے بیٹھا گھونٹ گھونٹ ہاتھ میں پکڑا مشروب اپنے اندر اتارتا رہا۔

اسے اس ماحول سے سخت نفرت تھی لیکن آج اسے ایک بہت ہی اہم ڈیل فائنل کرنے کے لیئے یہاں آنا پڑھا تھا۔

وہ یہاں کبھی نہیں آتا آگر اسکا کلائنٹ یہ نا کہتا کے پہلے وہ اسکا دل خوش کرے پھر وہ اسے یہ ڈیل دے گا۔۔۔ اور دل خوش کرنے سے جو اسکا مطلب تھا وہ یہ وہ بہت اچھے سے سمجھ گیا تھا ۔

اور یہ ڈیل اسکے کیئے کتنی ضروری تھی یہ وہ بہت اچھے سے جانتا تھا۔۔۔ ایک بار یہ ڈیل سائن ہو جائے پھر وہ اس شخص کو اچھے سے سیدھا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جس نے اسکا اتنا وقت برداد کیا تھا۔

بزنس کی دنیا کا جانا مانا نام جاگیردار رائد خان جو اپنی ذہانت اور با رعب پرسنیلٹی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔۔۔ جس کی نظروں میں آنے کے لیئے لوگ اسکے آگے پیچھے گھومتے تھے۔۔۔ وہ جس شخص کے ساتھ بھی ڈیل کرتا تھا وہ شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ جاتا تھا۔۔۔ 

مگر اج جس کے ساتھ وہ ڈیل سائن کرنے والا تھا وہ تھوڑا رنگین مزاج شخص تھا۔۔۔ جاگیردار رائد خان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کے وہ کیسا ہے کیونکہ انکے خاندان میں خود یہ سب عام سی بات تھی مگر اسے عورت ذات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ وہ اپنے خاندان میں اس معاملے میں سب سے الگ تھا۔۔۔ جہاں اسکے باپ دادا کو راتیں رنگین کرنے کا شوق تھا وہیں وہ عورت ذات سے دور رہنا پسند کرتا تھا۔ 

وہ ایک راجا تھا مغرور اور انا پرست۔۔۔ باپ دادا کی جائداد کے علاوہ اسنے بزنس میں اپنا نام بنا کے وہاں سے بھی کافی جائداد بنا لی تھی۔

وہ اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کے پیدا ہوا تھا۔۔ جب سے پیدا ہوا تھا اسنے پوری دنیا کو اپنے قدموں میں پایا تھا جو چیز اسنے چاہی وہ ہر چیز اسے حاصل ہوتی تھی۔۔۔ ہر کوئی اس سے متاثر ہوتا تھا۔۔۔ کچھ اسکی پرسنیلٹی سے تو کچھ اسکی دولت سے۔۔۔ مگر وہ ان سے سے باخبر ہو کے بھی بےخبر بنا رہتا تھا۔

اسے بیٹھے ابھی دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے جب ایک لڑکی جس نے بہت ہی نازیبا لباس پہنا ہوا تھا وہ ہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑے اسکے پاس آئی۔

اسے اپنے پاس آتے دیکھ رائد نے اپنی نظریں پھیر لیں تھیں جس پہ وہ لڑکی دلکشی سے مسکراتی رائد کے ساتھ چپ کے بیٹھ گئی جس پہ رائد خان سرخ آنکھوں سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔

کب سے دیکھ رہی ہوں میں تمہیں ہنڈسم ۔۔۔ تم یہاں اکیلے بیٹھے ہو ۔۔۔ یہاں پہ اتنی لڑکیاں ہیں لیکن تم کسی کی طرف دیکھتے ہی نہیں ہو آخر بات کیا ہے۔۔۔ وہ لڑکی بےباکی سے اسکی گردن میں ایک بازوں حائل کرتی بولی تو رائد نے غصے سے اسکا بازو جھٹکا۔

اوقات میں رہوں اپنی۔۔۔وہ اسے خود سے دور کرتے دھاڑا تو انکے آس پاس کھڑے لوگ اس طرف متوجہ ہوئے جب کے وہ لڑکی اپنی تذلیل پہ بغیر کچھ بولے سرخ چہرہ لیئے اٹھ گئی۔

کیا ہوا مسٹر رائد۔۔۔ اسکا کلائنٹ ایک لڑکی کی باہوں میں باہیں ڈالے اسکے پاس آیا۔

آگر آپ کا ہو گیا ہو تو کیا ہم یہ ڈیل سائن کر سکتے ہیں۔۔۔ کیونکہ میرے پاس اور بھی بہت ضروری کام ہیں یہاں بیٹھنے کے علاوہ۔۔۔ رائد اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ضبط سے بولا تو سامنے کھڑے آدمی نے اپنے پہلو میں کھڑی لڑکی کو جانے کا اشارہ کیا جو اسکے گل پہ لب رکھتی وہاں سے چلی گئی۔

مسٹر رائد آپ کو بھی تھوڑی مستی کر لینی چاہیئے۔۔۔ شراب کے ساتھ شباب ہو تو اور اچھا لگتا ہے۔۔۔ اسکا کلائنٹ ایک فائل پہ سائن کرتے اسکے ہاتھ میں شراب کا گلاس دیکھتے مسکرا کے بولا تو رائد نے سر جھٹکا۔

سائن ہوتے ہی وہ فائل اٹھائے تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔ اسنے رک کے اس سخص سے ہاتھ ملانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔ 

ڈیل سائن ہوگئی تھی اسے بس یہی چاہیئے تھا ۔۔۔ باقی اسے اب کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ آگے وہ سب خود اچھے سے سنبھال سکتا تھا۔

۔⁦🌺 🌺 🌺

ایمل۔۔۔۔ دیار صاحب اپنی اکلوتی بیٹی کو آواز  لگا رہے تھے۔۔۔ پر ایمل تو جیسے سامنے نیوز میں آتے شخص کو گھورنے میں مصروف تھی۔

ایمل کب سے ایک ہی نیوز دیکھ رہی ہو بیٹا آگے پیچھے بھی کرلو تھوڑا۔۔۔ ایمل آنکھوں میں نفرت کی چنگاری لیئے کب سے اسکرین پہ چمکتے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جب اسکے بابا نے اسے ٹوکا

ایک بار میں جرنلسٹ بن جاؤ پھر سب سے پہلے اس شخص کا چہرہ بے نقاب کروں گی۔۔۔ وہ اسکرین میں نظر آتے خوش شکل ہنڈسم سے نئے ابھرتے سیاستدان کو دکھتی ایک عزم سے بولی 

بیٹا یہ بڑے لوگ ہیں ۔۔۔ چھوٹے موٹے صحافی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔ دیار خان نے سامنے ٹیبل پہ رکھا اخبار اٹھایا۔

میں جانتی ہوں بابا اس ملک میں آواز اٹھانے والوں کو ان جیسے لوگ ہمیشہ کے لیئے خاموش کروا دیتے ہیں۔۔۔ لیکن میں جاگیردار جزلان خان جیسے لوگوں سے نہیں ڈرتی۔۔۔

ایک دن آئے گا جب میں اس کی حقیقت پوری دنیا کے سامنے لاؤں گی۔

جس طرح سے یہ لوگوں کی مدد کر کے انکی ہمدردیاں حاصل کر رہا ہے۔۔۔ جو لوگ اس جیسے سیاستدان کو سپوٹ کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کے یہ ایک وحشی درندہ ہے۔۔۔

کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کر چکا ہے یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ ایمل غصے اور افسوس سے بولی تو دیار صاحب نے اپنی بیٹی کو دیکھا جس کے چہرے پہ سامنے اسکرین میں نظر آتے شخص کے لیئے جتنی نفرت تھی وہ شاید ہی اسکا اندازہ لگا سکتے تھے۔

چھوڑو بیٹا۔۔۔ بس آپ اپنی پڑھائی پہ توجہ دو۔۔۔ پیپرز ہونے میں بس کچھ ہی ماہ باقی ہیں۔۔۔ باقی ان سب کا حساب کرنے کے لیئے اللہ ہے نا۔۔۔ دیاد خان نے بہت پیار سے کہا تو ایمل نے مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھا۔

اللہ تو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔۔۔ مگر ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھانی پڑھتی ہے۔۔۔ ایمل مسکرا کے کہتی اٹھ کے اپنے کمرے کی جانب چل دی پیچھے دیار صاحب تاسف سے اسکرین کو دیکھتے رہ گئے۔

۔🌺 🌺 🌺

جیسا میں نے کہا ہے سارا کام ویسے ہی ہونا چاہیئے۔۔۔ کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہئے۔۔۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو یاد رکھنا تمہاری موت تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے اپنے سامنے موجود لوگوں سے بولا  تو سب نے حلق تر کرتے ہاں میں سر ہلا دیا۔

اس وقت وہ سب اسکے فارم ہاؤس میں بیٹھے میٹنگ کر رہے تھے یا یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ وہ لوگ الیکشن میں جیتنے کے لیئے نئی نئی چالیں بن رہے تھے۔

مگر سر اس میں تو وقت۔۔۔۔ اسکے خاص آدمی نے کچھ کہنا چاہا جب اسنے ہاتھ کھڑا کرتے اسے آگے کہنے سے روکا۔

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ مجھے بس وقت پہ کام چاہیئے ۔۔۔ 

الیکشن سر پہ ہیں اور مخالف پارٹی ہماری ایک غلطی کی منتظر ہے۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا کے انہیں کوئی بھی موقع ملے۔۔۔

اس لیئے جو کچھ کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا اور اگر ضرورت پڑی تو مخالف پارٹی پہ حملہ بھی کروا دینا۔۔۔ کیونکہ آج کل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس پہ حملہ ہوا ہے اسنے خود ہی جان بوجھ کے کروایا ہے،، تا کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکے۔۔۔۔ اسنے اپنے شاطر دماغ سے کام لیتے کہا۔

ایسے ہی تو وہ سیاست میں نہیں آیا تھا۔۔۔ اسکا دماغ اتنا تیز تھا۔۔۔ اسے کیا چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے یہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا۔

وہ اپنے آدمیوں سے بات کر رہا تھا جب اسکا فون بجا۔

اسنے اسکرین پہ چمکتا نام دیکھا جس پہ ناز لکھا آ رہا تھا۔۔۔ ناز انتہائیں خوبصورت تھی جس کی خوبصورتی کا دیوانہ​ ہوتے خزلان خان اسے اپنا دل بہلانے کے لیئے استعمال کرتا تھا۔۔۔

مگر یہ دیوانگی بھی بس چند دن کی ہوتی تھی ۔۔۔ ادھر اسے کوئی اور شکار ملا ادھر اسنے پہلے والے شکار کو اچھے سے استعمال کر کے ٹیشوپیپر کی طرح پھیک دیا۔

وہ پوری طرح اپنے باپ دادا پہ گیا تھا۔۔۔ وہ لڑکیاں ایسے بدلتا تھا جیسے کپڑے بدلتا ہو۔

اسکا ایک اصول تھا وہ کبھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا تھا۔۔۔اسنے کبھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا دولت کے لالچ میں لڑکیاں خود اسکے پاس آتی تھیں اور وہ خوب انکا اچھے سے استعمال کر کے دل بہلاتا تھا۔

اسے غرور تھا کہ کوئی لڑکی اسے ٹھکرا نہیں سکتی اور ہوا بھی یہی تھا آج تک اسے کسی لڑکی نے نہیں ٹھکرایا تھا۔

فون بج بج کے بند ہو چکا تھا جب اسکرین پہ ایک میسج موصول ہوا۔

وہ اسکے بابا کا میسج تھا جو اسے فورن حویلی بلا رہے تھے۔

تم لوگ سارا کام دیکھ لینا مجھے ابھی جانا ہے۔۔۔ وہ ٹیبل پہ رکھی اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتے اٹھ گیا تو ساتھ ہی اسکے سارے آدمی بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

جواد ایک غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔ وہ اپنے خاص آدمی جواد کو انگلی اٹھا کے باور کرواتا باہر نکل گیا۔

اسکی گاڑی کے ساتھ ہی اسکے گارڈز کی گاڑیاں بھی اسکے ساتھ ہی نکلیں تھیں۔۔۔ 

وہ گاؤں جانے والے راستے پہ گام زن تھا جب اسے ایک لڑکی سڑک کے کنارے کھڑی نظر آئی۔

اس لڑکی نے بلیک جینز کے ساتھ وائٹ کُرتی پہنی ہوئی تھی دوپٹہ ایک کندھے پہ بےنیاز جھول رہا تھا۔۔۔اسہی کندھے پہ ایک بیگ ڈالا ہوا تھا۔۔ آنکھوں پہ سن گلاسس لگائے اس لڑکی کی سنہری رنگت کافی چمک رہی تھی۔

اس لڑکی کو دیکھتے ہی جزلان خان کا دل مچلنے لگا تھا۔۔۔ اس لڑکی کی چاہ کرنے لگا تھا۔۔۔ اور ایک بار اسکا دل جس کی چاہ کرتا ہے اسے جاگیردار جزلان خان کیسی بھی قیمت پہ حاصل کر کے رہتا ہے۔

اسنے اپنی گاڑی اس لڑکی کے سامنے روکی تو وہ لڑکی ڈر کے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔ مگر پھر اندر بیٹھے شخص کو دیکھتے اسکی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوئیں۔

جزلان خان آپ ۔۔۔ کیا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔ اس لڑکی کے چہرے پہ بےیقینی دیکھتے جزلان گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے دھیرے سے مسکرایا ۔۔

اسکی مسکراہٹ دیکھتے وہ لڑکی تو جیسے اپنا دل دے بیٹھی تھی اسے۔

آپ کہیں جا رہی ہیں محترمہ۔۔۔ اسنے شیرین لہجے میں استفسار کیا

جی شہر جا رہی تھی یہاں گاؤں کسی کام سے آئی تھی پر راستے میں ہی میری بس خراب ہوگی۔۔ آگے سے پیدا چلتی چلتی آرہی تھی کہ آپ ایک دم سے آگئے۔۔۔ وہ لڑکی ہاتھ نچا نچا کے بولی جب کے جزلان خان اسکا باریک بینی سے جائزہ لینے میں مصروف تھا۔

آپ کو میرے گارڈز آپ کے گھر تک باحفاظت چھوڑ آئیں گے۔۔۔ لڑکی کو کہتے ساتھ اسنے ہاتھ باہر نکال کے پیچھے گاڑی میں بیٹھے گارڈز کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا جس پہ اسکے گارڈز فورن اسکے سامنے حاظر ہوئے۔

بہت بہت شکریہ آپ کا۔۔۔ آگر آپ نہیں ہوتے تو نا جانے مجھے اور کتنی دیر یہاں کھڑے رہنا پڑھتا۔۔۔ وہ لڑکی تو جیسے خوش ہوگئی تھی۔

آپ اپنا نمبر مجھے دے دیں تا کے گھر پہنچنے کے بعد میں پوچھ سکوں کے میرے گارڈز نے آپکو باحفاظت پہنچا دیا ہے۔۔۔ جزلان خان نے سائڈ مسکان کے ساتھ کہا تو اس لڑکی نے جلدی سے اپنا نمبر اسے لکھوا دیا۔

آخر لکھواتے بھی کیوں نا اتنا امیر کبیر ہینڈسم جس پہ لاکھوں لڑکیاں مرتی تھیں آج وہ خود اس سے اسکا نمبر مانگ رہا تھا یہ تو اسکے لیئے کسی خواب سے کم نہیں تھا۔

ویسے آپ جتنے اچھے ٹی وی میں دکھتے ہیں نا اس سے کہی زیادہ اچھے ہیں آپ۔۔۔ اس لڑکی کی بات سنتے جزلان کو اپنا کام آسان ہوتا نظر آرہا تھا۔

آپ کا نام۔۔۔ اسنے ایبرو اچکائے پوچھا۔

مہوش۔۔۔۔ 

تھینک یو مس مہوش۔۔۔ اب میں چلتا ہوں میرے گارڈز آپ کو گھر چھوڑ دیں گے۔۔۔ ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ اسنے گاڑی کا شیشہ اوپر چھڑہایا اور زن سے گاڑی آگے بھگا لے گیا۔

شہر سے تھوڑے فاصلے پہ ایک گاؤں شان سے آباد تھا جس کا سارا نظام وہاں کے جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ 

اس گاؤں کے سردار جاگیردار تراب خان تھے۔۔۔ جنہوں نے اپنے باپ کی وفات کے بعد اس گاؤں کا سارا نظام سمبھال رکھا تھا۔۔۔۔ وہ جتنے ذمیدار تھے اتنے ہی ظالم و جابر بھی تھے۔

ان کے نام سے گاؤں کا ہر بچہ بچہ کانپتا تھا۔۔۔  گاؤں والوں کے لیئے انکا انصاف برابر تھا لیکن اپنی اولاد کے معاملے میں وہ انصاف بھول جاتے تھے۔

انکی جان انکے بیٹوں میں بستی تھی جب کے بیٹی کو تو وہ آنکھ بھر کے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

بیٹی کیا وہ ہر عورت ذات کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھا کرتے تھے۔۔۔ یہاں تک کے اپنی بیوی جن سے انہوں نے پسند کی شادی کی تھی انہیں بھی وہ کسی کھاتے میں نہیں لاتے تھے۔

بات بات پہ جھڑکنا غصہ کرنا جیسے وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی انکا بیٹا بھی اپنی ماں سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا اور وہ اپنے بیٹے کو سینے سے لگانے کے لیئے ہمیشہ تڑپتی رہتی تھیں۔

وہ اب بھی ادھر سے ادھر ٹہلتے اپنے بیٹے کا انتظار رہے تھے جب کچھ ہی دیر بعد ہو بڑی شان سے چلتا داخلی دروازے سے اندر داخل ہوا۔

سفید کاٹن کی شلوار قمیض پہنے آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیئے انکے پاس آیا

میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ ڈیرے سے دور رہ کے کرو مگر تم سنتے ہی نہیں ہو میری ۔۔۔ تمہیں کتنی بار منا کیا ہے کہ لڑکیوں کو حویلی تک نا لایا کرو۔۔۔

تمہارا فارم ہاؤس ہے ،،وہاں ایک رات گزارو اور صبح ہوتے ہی ان لڑکیوں کو چلتا کرو۔۔ مگر نہیں تم سنتے ہی کب ہو۔۔۔ اسکے آتے ہی وہ برہمی سے اس پہ برس پڑے جب کے اپنے شوہر کی آواز سنتے کچن میں موجود نور بیگم​ فورن بھاگ کے ہال میں آئی تھیں

لیکن جو موضوع وہاں چل رہا تھا ۔۔۔ اس کے بارے میں وہ زیادہ سن نہیں سکتی تھی اس لیئے دکھ اور افسوس سے واپس کچن میں چلی گئیں۔

اس خاندان کے مردوں کا یہی کام تھا بیوی کے ہوتے ہوئے بھی باہر کی عورتوں کے ساتھ رات گزارنا اور اب بیٹا بھی بلکل باپ کے نقشے قدم پہ چل رہا تھا۔۔۔ اور وہ اتنی بےبس ماں تھیں کے اپنے بیٹے کو اچھا برا بھی نہیں سمجھا سکتیں تھیں۔۔

بچپن سے ہی تراب خان نے اپنے بیٹوں کو اپنے ساتھ رکھا تھا جس وجہ سے وہ بلکل باپ کی طرح بن گئے تھے۔۔۔ انکی طرح ہی ظالم، سفاک اور بےحس۔

ہوا کیا ہے بابا۔۔۔ جزلان خان نے پرسکون انداز میں پوچھا جیسے اسے کچھ پتہ ہی نا ہو ۔۔۔ جب کہ وہ سب جانتا تھا کہ اسکا باپ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔

تم آج کل جس لڑکی کے ساتھ گھوم رہے تھے نا وہ آج یہاں تک آ پہنچی تھی تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔۔۔ وہ دانت پیس کے کہتے اپنے مغرور بیٹے کو دیکھ گئے۔

 اس سے کیا فرق پڑھتا ہے بابا۔۔۔ وہ شان بےنیازی سے کہتا صوفے پہ بیٹھ گیا جب کے اسکا لاپرواہ سا انداز تراب خان کے ماتھے پہ ڈھیروں بل لے آیا تھا۔

جزلان خان شاید تم بھول رہے ہو کے الیکشن سر پر ہیں اور ایسے میں آگر یہ خبر میڈیا والوں تک پہنچی کے تمہارا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چل رہا ہے تو جانتے ہو تمہارا کتنا نقصان ہوگا۔۔۔

اور صرف یہی نہیں اس سب کی دیکھا دیکھ اور پہلے کی جتنی بھی لڑکیاں ہیں جنہیں تم نے اپنے بستر کی زینت بنا کے پھینک دیا ہے وہ بھی اس حالات سے فائدہ اٹھا سکتیں ہیں ۔۔۔

اس لیئے میں کہتا ہوں جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے تم ان سب چیزوں سے دور رہوں۔۔۔ اور پھر جب الیکشن جیت جاؤں گے تو جو دل کرے وہ کرنا میں تمہیں کسی چیز سے نہیں روکوں گا۔۔۔ انہوں نے اسے سمجھایا مگر جزلان خان اب بھی ایک دم مطمئن نظر آرہا تھا۔

بابا آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔۔۔ لیکن آپ جانتے ہیں نا آگر ہفتے میں دو بار کوئی نیا شکار نا ملے تو میں کتنا بور ہوجاتا ہوں۔۔۔ مگر آپ فکر نہیں کریں میں سب سمبھال لوں گا اور اب آئندہ یہاں کوئی لڑکی نہیں آئے گی۔۔۔ جزلان نے انہیں اپنے ساتھ بیٹھاتے کہا تو انہوں نے خوشی اور فخر سے اپنے بیٹے کا کندھا تھپتھپایا۔۔۔۔ وہ واقعی انکی طرح تھا ہر سچویشن کو اچھے سے سمبھالنے والا۔

چلو جاؤ فریش ہوجاؤں پھر کھانا کھاتے ہیں ساتھ۔۔ ان کے کہنے پہ وہ ہاں میں سر ہلا کے ابھی اٹھا ہی تھا کہ داخلی دروازے سے رائد ہاتھ میں فائل پکڑے داخل ہوا۔

بلکل ٹھیک ٹائم پہ آئے ہو رائد ۔۔۔ تم بھی فریش ہو کے آجاؤ پھر تینوں باپ بیٹے ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔۔۔ تراب خان بہت پیار سے بولے جس پہ رائد اور جزلان دونوں کے آگے بڑھتے قدم رکے تھے۔

مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔ رائد بغیر انکی جانب دیکھے لمبے لمبے قدم بھرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔۔ پیچھے تراب خان ہمیشہ کی طرح مایوس ہوگئے۔

تراب خان کے جھکے کندھے دیکھ کے جزلان کو رائد پہ بے حد غصہ آیا تھا۔۔۔ جس شخص سے پورا گاؤں ڈرتا تھا جو شخص سر اٹھا کے بارعب انداز میں چلتا تھا اسکا اپنا بیٹا ہی اسے سر جھکانے پہ مجبور کر دیتا تھا

اداسی اور رنج سے اپنے باپ کے جھکے کندھوں کو دیکھتے جزلان خود پہ ضبط کرتے انکے پاس آتے زمین پہ پنجوں کے بل بیھٹا۔

بابا آپ کیوں اپنا دل چھوٹا کر رہے ہیں اسکی تو ہمیشہ سے عادت ہے ۔۔۔۔ وہ تو شروع سے ہی بدلحاظ ہے۔۔ آپ جانتے ہیں پھر بھی بار بار اسے مخاطب کرتے ہیں۔۔۔ جزلان کافی ضبط سے انہیں سمجھا رہا تھا ورنا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جا کے رائد کا منہ توڑ دے۔

نہیں بیٹا وہ پہلے سے ایسا نہیں تھا۔۔۔۔ میری ایک غلطی کی وجہ سے وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ آگر میں اس۔۔۔۔ اِس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتے جزلان نے بیچ میں انکی بات کاٹی۔

بابا چھوڑیں آپ اسے۔۔۔ میں ہوں نا آپ کا بیٹا بس کافی ہے۔۔۔ چلیں اب اٹھیں کھانا کھانے چلیں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ وہ بچوں کی طرح معصومیت سے بولا تو تراب خان اپنی آنکھوں کے بھیگے کونے صاف کرتے اسکے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

تراب خان جیسے ظالم و جابر شخص کی آگر کوئی کمزوری تھی تو وہ انکی اولاد تھی انکے بیٹے تھے جنہیں وہ اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتے تھے۔

مگر سالوں پہلے کی گئی اپنی ایک غلطی کی وجہ سے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو خود سے بہت دور کردیا تھا۔

رائد ان سے نفرت کرتا تھا ان سے کیا اس گھر میں رہنے والے ہر فرد سے ہی رائد کو نفرت تھی۔۔۔ 

یہ بات حویلی کے ملازموں سے لے کر گاؤں کا ہر فرد جانتا تھا۔۔۔ بہت سے لوگوں نے تو اس بات کا کافی فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر تراب خان بھی کسی سے کم نا تھے انہوں نے ہر چیز کو اسے سے سمبھالا تھا۔۔

بس ان سے نہیں سنبھلتا تھا تو وہ تھا انکا اپنا بڑا بیٹا جاگیردار رائد خان۔۔۔جیسے اس نے انکے ہر فیصلے کے خلاف جانے کی ٹھان رکھی تھی۔۔۔ مگر تراب خان نے کبھی اسے کچھ نہیں کہا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

آئمہ بیٹا آپ کے لیئے ایک رشتہ آیا ہے۔۔۔ سب رات کا کھانا کھا رہے تھے جب مرزا صاحب نے اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔۔۔

سر پہ اچھے سے جما ہوا دوپٹہ جس میں سے اسکا سفید پرنور چہرہ دیکھائی دے رہا تھا،،، ہر طرح کے میک اپ سے پاک وہ سادگی میں بھی بہت پیاری اور معصوم لگ رہی تھی۔

مرزا صاحب کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا بیٹا پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔۔۔ جب کے آئلہ نے ابھی کچھ وقت پہلے ہی اسلامک یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

بابا ہم نے اپنی شادی کا ہر فیصلہ آپ پہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔بس ہماری جو شرط ہے اگر وہ لڑکے والوں کو منظور ہے تو ہمیں پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ آئلہ دھیمی آواز میں انہیں دیکھ کے بولی تو مرزا صاحب نے گہری سانس خارج کی۔

بیٹا میں نے انہیں آپ کی شرط کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔ مگر انکا کہنا ہے کہ آپ جب باہر جائیں تو ضرور نقاب کریں لیکن آگر کوئی فیملی فنگشن ہو یا کوئی بزنس ڈنر تو وہاں نقاب نا بھی کریں تو چلے گا۔۔۔ مرزا صاحب چمچہ پلیٹ میں رکھتے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھسائے سنجیدگی سے بولے۔۔۔ جس پہ چمچے میں چاول بھرتا آئلہ کا ہاتھ تھما۔

پھر آپ نے کیا کہا۔۔۔ وہ اپنے ازلی دھیرے نرم انداز میں استفسار کرنے لگی۔

جب کے اسکی ماں پریشانی سے کبھی باپ تو کبھی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کو بہت اچھے سے جانتی تھیں جسے نقاب کرنا بہت پسند تھا۔۔۔ اسنے جب پہلی بار کالج میں قدم رکھا تھا جب سے ہی وہ نقاب کرتی آئی تھی۔۔۔ اور اب چاہے کوئی ڈنر ہو یا شادی وہ بغیر نقاب کیئے کہیں نہیں جاتی تھی۔

بہت سے لوگوں نے اسکا مزاق بھی اڑایا تھا مگر اسنے کبھی بھی کسی کی بھی بات پہ کان نہیں دھرے تھے۔۔۔ وہ اپنے اللہ کا حکم مانتے خوش دلی سے نقاب کرتی تھی۔

میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ میں نے کہا کے چاہے کچھ بھی ہو جائے اپ نقاب کرنا نہیں چھوڑو گی۔۔۔ چاہے کوئی فنگشن ہی کیوں نا ہو آپ نقاب ضرور کرو گی۔۔۔ 

مگر انہوں نے پھر بھی کہا کے ایک بار میں آپ سے بات کروں آگر تو آپ انکی بات پہ راضی ہوجاتی ہو تو ٹھیک ہے ورنا۔۔۔۔ مرزا صاحب نے  دونوں کو دیکھتے بات ادھوری چھوڑی۔۔۔ تو دونوں ہی انکی بات سمجھ گئی تھیں۔

ٹھیک ہے بابا پھر ورنا ہی ٹھیک ہے۔۔۔ ہم نقاب کرنا نہیں چھوڑیں گے اور آگر کوئی ہمیں اس نقاب کے ساتھ قبول کرتا ہے تو ہم دل سے اس سے شادی کریں گے ورنا آپ ایسے آئے پرپوزلز کو پہلے ہی انکار کر دیا کیجئے۔۔۔ آئلہ نرمی سے کہتی دو تین چمچے میں پلیٹ صاف کر کے اٹھ گئی۔

آپ جانتے ہیں اسے پھر بھی آپ اسکے سامنے یہ پرپوزل لے کے آئے۔۔۔ آپ کو پہلے ہی انکار کر دینا چاہیئے تھا۔۔۔ تبسم بیگم نے زرا خفگی سے کہا۔

ہممم میں جانتا ہوں میری غلطی ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔ مگر انہوں نے کہا کے اس عمر میں اگر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کردو تو ٹھیک ہے ورنا وہ ساری زندگی گھر بیٹھی رہی جاتی ہیں۔۔۔

اور تم جانتی ہو،،، ہم اب تک آئلہ کے لیئے آئے ہوئے کتنے پرپوزلز ریجکٹ کر چکے ہیں۔۔۔ بس اس لیئے میرے دل میں ایک ڈر سا جاگا تھا تو میں نے سوچا ایک بار آئلہ سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔ انہوں نے اپنی صفائی دی۔۔۔ 

آخر وہ باپ تھے اور کون باپ چاہے گا کہ اسکی بیٹی ساری عمر گھر بیٹھی رہے۔۔۔ بس مرزا صاحب بھی اسہی وجہ سے ڈر گئے تھے۔۔

ہماری بیٹی کیا آپ کے لیئے بوجھ ہوگئی ہے مرزا صاحب۔۔۔ تبسم بیگم بھرائی آواز میں پوچھنے لگیں۔

نہیں تبسم ۔۔۔ بیٹی کبھی بوجھ نہیں ہوتی۔۔۔ بس ماں باپ کو اسکے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔۔۔  اور نا جانے ہماری بیٹی کے نصیب میں کیا لکھا ہے یہ میں نہیں جانتا۔۔۔۔مگر جب لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں نا میری بیٹی کے بارے میں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔ مرزا صاحب کے لہجے میں دکھ کی رمک تھی۔

آپ پریشان نہیں ہوں۔۔۔ دیکھے گا اللہ نے ضرور ہماری بیٹی کے نصیب میں اچھا ہی لکھا ہوگا۔۔۔ اور سہی وقت آنے پہ وہ اسے مل بھی جائے گا۔۔ تبسم بیگم کافی اچھے سے انکی پریشانی​سمجھ رہی تھیں۔۔۔ تبھی تحمل سے گویا ہوئی تو مرزا صاحب محض اثبات میں سر ہلا کے رہ گئے۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کا تقریباً ڈھائی بجے رہا تھا۔۔۔ ہر سو سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔ اس سناٹے کو چیرتی ایک چنگاڑتی آواز کمرے کی خاموش فضا میں پھیلی۔

وہ جو مزے سے کمبل منہ تک تانے سو رہی تھی۔۔۔ فون بجتے ہی ایک دم ہڑبڑا کے اٹھی

جلدی سے تکیے کے سائڈ میں رکھا فون اٹھاتے کال ریسیو کی۔

اتنی رات میں کیوں فون کیا ہے آپ نے ۔۔۔ میں نے آپ کو منا بھی کیا تھا۔۔۔ آگر فون کی آواز باہر چلی گئی ہوتی تو اور آگر کوئی سن لیتا تو ۔۔۔ میری شامت آجاتی۔۔۔ وہ گھبراہٹ میں بار بار دروازے کی طرف دیکھتی چہرے پہ آیا پسینہ دوپٹے سے صاف کرنے لگی۔

یہ سوچ ہی سوہان روح تھی کہ آگر کوئی سن لیتا تو اسکے ساتھ کیا ہو سکتا تھا وہ بہت اچھے سے جانتی تھی۔

تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔ کسی نے نہیں سنا ہو گا۔۔۔ بلکے سب اپنے اپنے کمروں میں مزے سے آرام کر رہے ہوں گے جیسے تم کر رہیں تھیں۔۔۔مجھے یہاں تڑپتے ہوئے چھوڑ کے مزے سے سو رہی تھیں۔۔۔ وہ آہستگی سے کہتا آخر میں شکوہ کر گیا۔

ایسی بات نہیں ہے حسام۔۔۔ آج دونوں بھائی اور بابا بھی حویلی میں ہی تھے میں کیسے آپ سے بات کرتی۔۔۔ اسنے اپنی مجبوری بیان کی

نوال میں اب اور دوری برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔ وہ گھمبیرتا سے گویا ہوا تو نوال کا دل زور سے دھڑکا۔

اور ہمارے گھر والے ہماری شادی کے لیئے کبھی مانے گے نہیں​ ۔۔۔ وہ گہری سانس بھر کے بولی۔

تم کوشش تو کرو اپنے بابا سے بات کرنے کی یا اپنی ماما سے بات کرو وہ تو تمہارا ساتھ دیں گی نا۔۔۔ حسام نے اسے مشورہ دیا۔۔ جس پہ نوال کے لبوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ آگئی

حسام آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ اس گھر میں میری اور ماما کی حثیت سے واقف نہیں ہیں۔۔۔

بابا ماما سے ٹھیک سے بات نہیں کرتے۔۔۔ اور میں مجھے تو وہ صرف اپنی ایک ذمیداری سمجھتے ہیں جسے وہ جلد از جلد ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اور رہے بھائی۔۔۔ تو آپ انہیں بھی اچھے سے جانتے ہیں ۔۔۔ رائد بھائی تو سب سے ہی نفرت کرتے ہیں اور جزلان بھائی ان کو میری ذات سے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔۔۔ اسنے بےبسی اور تلخی سے کہا۔۔۔۔ تو حسام کے دل کو کچھ ہوا۔

ہممم میں جانتا ہوں ۔۔۔ اور میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہوں اپنے گھر والوں کو منانے کی مگر تم جانتی ہو جو کچھ ہمارے خاندانوں کے بیچ میں ہے۔۔۔ اس کے رہتے وہ لوگ کبھی ہماری شادی نہیں کروائیں گے۔۔۔

اس لیئے میں کہتا ہوں بھاگ چلو میرے ساتھ۔۔۔ ہم ان لوگوں سے، ان رسموں رواجوں سے، ان لڑائی جھگڑوں سے بہت دور چلے جائیں گے۔۔

وہاں ہم اپنی ایک الگ دنیا بسائیں گے جس میں، میں اور تم ہمیشہ خوش پیار اور محبت سے اپنی زندگی بسر کریں گے۔۔۔ حسام جذب کے عالم میں بولا تو نوال نے ایک گہری سانس خارج کی۔

آپ جانتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔ اور آگر ہم ایسا کر بھی لیتے ہیں تو بھی آپ ہمارے گاؤں کی سزا سے تو واقف ہیں نا۔۔۔ جانتے ہیں نا بھاگنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔۔۔ 

آگر لڑکا لڑکی نا ملیں تو ان کے گھر والوں میں سے ہی کسی ایک کو بھرے پنڈال میں پتھر مار کے انہیں ہمشیہ کے لیئے مار دیا جاتا ہے۔۔۔

اور میں جانتی ہوں آگر میں بھاگ گئی تو میرے بعد میرے کیئے کی سزا میری ماں کو ملے گی اس لیے میں کبھی ایسا نہیں کروں گی۔۔۔ اسکی آواز بھاری ہوگئی تھی آنسوں لڑیوں کی صورت گال پہ پھسل رہے تھے۔

رو نہیں نوال ۔۔۔ دیکھنا ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ حسام کو یقیناً اس کے لیئے بہت برا لگا تھا۔

وہ اور نوال تقریباً چار سال سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔۔۔ محبت ہونے کے باوجود نوال نے بہت بار حسام کو اپنا راستہ بدلنے کا کہا تھا۔۔۔ 

وہ جانتی تھی ان کی شادی کبھی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ان کے گھر والے آپسی دشمنی کی وجہ سے کبھی ان کی شادی نہیں ہونے دیں گے۔

اس لیئے اسنے حسام کو بھی اور خود کو بھی اس راستے پہ چلنے سے بہت روکا تھا مگر سب رائگاں گیا۔

حسام اس سے سچی محبت کرتا تھا اس لیئے اسنے اسکا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ وہ پرامید تھا کہ ایک نا ایک دن نوال ضرور اسکی ہوگی۔۔۔۔

جب کے اپنے باپ بھائیوں کے رویوں کی وجہ سے نوال تو ہر امید چھوڑ بیٹھی تھی۔

تم سو جاؤں نوال رات کافی ہوگئی ہے۔۔۔ اسکی طرف سے خاموشی محسوس کرتے حسام نے پیار سے کیا۔۔۔ وہ جانتا تھا اس وقت نوال کی کیا حالت ہوگی

باپ بھائیوں کے پیار کو ترسی ہوئی وہ لڑکی ٹوٹ جایا کرتی تھی۔۔۔ مگر کسی سے کبھی کچھ نہیں کہتی تھی۔

آپ بھی۔۔۔ وہ دھیرے سے کہتی ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کر گئی۔

ہممم میں بھی سوؤں گا اور لمبی تان کے سوؤں گا تا کے دیر تک تمہیں خوابوں میں اپنے پاس رکھ سکوں۔۔۔ حسام کی شوخی بھری آواز پہ نوال دھیرے سے ہنس دی۔

خدا حافظ۔۔۔ 

خدا حافظ۔۔۔دونوں نے آخری کلمات کہتے فون رکھ دیا۔

حسام تو اس کے خوابوں میں کھو گیا تھا جب کے نوال بستر پہ لیٹی آنسوں پی رہی تھی۔۔۔

نا جانے اس کی قسمت میں کیا لکھا تھا۔۔۔ آگے کیا ہونے والا تھا ۔۔۔ پتہ نہیں اسکے نصیب میں حسام تھا بھی کہ نہیں اور اگر وہ اسے نا ملا تو۔۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

ماں کے بعد اگر اس سے کسی نے پیار کیا تھا تو وہ تھا حسام اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی

وہ آج یونیورسٹی سے کافی لیٹ ہوگئی تھی۔۔۔ جس وجہ سے وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتی اپنی کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسے ایک لڑکی کی چہکتی ہوئی آواز آئی

وہ لڑکی جس شخص کے بارے میں بات کر رہی تھی اسکا نام سن کے ہی ایمل کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔

یار جزلان خان حقیقت میں اتنا ہینڈسم ہے کے میں تمہیں بتا ہی نہیں سکتی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کے اتنا امیر ہونے کے باوجود اس میں زرا سا بھی غرور نہیں ہے۔۔۔ وہ لڑکی جس کا نام مہوش تھا وہ چہک چہک کے اپنی دوستوں کو بتا رہی تھی ۔۔ جب کے ان سے کچھ فاصلے پہ کھڑی ایمل کے اندر ایک نفرت کی لہر ڈور گئی۔

تمہیں پتہ ہے وہ اتنا اچھا ہے کہ جب اسکے گارڈز مجھے میرے گھر چھوڑ کے گئے تو اسنے خود فون کر کے پوچھا تھا کہ میں باحفاظت گھر پہنچ گئی ہو۔۔۔ مجھے کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔۔۔ مہوش دل پہ ہاتھ رکھے جزلان کی تعریفوں کے پھُل باندھے جا رہی تھی۔

جب ایمل سے برداشت نا ہوا تو وہ غصے سے ان لڑکیوں کی جانب بڑھی۔

تم جس جزلان خان کو اتنا اچھا ،پیارا ، اور ہمدرد سمجھ رہی ہو نا وہ اصل میں انسان کے روپ میں چھپا ایک بھیڑیا ہے۔۔۔ جو لاکھوں لڑکیاں کو کھا چکا ہے۔۔۔

اس لیئے میری صلاح ہے کہ تم اس سے جتنا ہو سکے دور رہوں ورنا وہ تمہیں بھی کھا جائے گا۔۔۔ ایمل نے ایک اچھے انسان کا فرض نبھاتے اسے سمجھایا تھا جب کے وہ لڑکیاں اسے غصے سے گھور رہی تھیں۔

اکسکیوز می مس۔۔۔ اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔۔۔ اور خبر دار جو تم نے جزلان خان کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔ مہوش انگلی اٹھا کے بولی۔۔۔ اسے کہاں گوارہ تھا کہ کوئی جزلان خان کو برا بھرا بولے۔

میں مشورہ نہیں دے رہی ایک اچھی انسان ہونے کے ناطے تمہیں سمجھا رہی ہوں۔۔۔

وہ ویسا نہیں ہے جیسا وه دیکھتا ہے۔۔۔ اس نے تم لوگوں کی آنکھوں پہ اپنی جھوٹی خدمت اور ہمدرد کی پٹی باندھی ہوئی ہے ۔۔۔ 

اور یہ پٹی ایک دن میں اتار کے رہوں گی۔۔۔ اس کا اصل چہرہ سب کے سامنے لا کے رہوں گی۔۔۔ وہ پیار سے سمجھتی آخر میر درشتی سے بولی

تم ضرور اسکی مخالف پارٹی میں سے ہوں گی تبھی تم جزلان خان کے بارے میں ایسی بکواس کر رہی ہو۔۔۔ مہوش ناگورای سے بولی۔

تم سب کو سمجھانا ہی بیکار ہے۔۔۔ تم لوگ ان میں سے ہو جب تک تم لوگوں کے ساتھ کچھ برا نہیں ہوگا تب تک تم لوگ کسی کی بات پہ یقین نہیں کرو گی۔۔۔ 

خیر میرا کام تھا سمجھانا وہ میں کر چکی ہوں باقی تمہاری مرضی ہے جو دل میں آئے وہ کرو۔۔۔ ایمل سپاٹ لہجے میں کہتی سر جھٹک کے اپنی کلاس کی جانب بڑھ گئی۔

اسنے اپنی طرف سے انہیں سمجھانے کی پوری کوشش کی تھی اب آگر وہ لوگ خود اپنے پیر پہ کلہاڑی مارنا چاہ رہی تھیں تو اس میں ایمل کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان بستر پہ اوندھے منہ لیٹا سو رہا تھا جب اسکا فون بجا۔

فون کی آواز سے اسکی نیند میں خلل پیدا ہوا جس پہ اسنے منہ بناتے ہاتھ مار کے بیڈ پہ پڑا فون اٹھایا۔

یہ صبح صبح کس کو موت آگئی ہے جو میری نیند خراب کر رہے ہو۔۔۔ وہ کال ریسیو کرتے فون کان سے لگائے دبا دبا غرایا تو فون کی دوسری طرف اسکے خاص آدمی جواد نے فون کان سے ہٹائے فون کو گھورا۔

سر وہ ناز میڈم آئی ہیں یہاں فارم ہاؤس پہ ۔۔۔ اور یہاں آگے کافی شور شرابا کر رہی ہیں کے انہیں آپ سے ملنا ہے۔۔۔ جواد نے اسے فون کرنے کی وجہ بتائی تو جزلان نے سیدھے ہوتے اپنا ہاتھ منہ پہ پھیرا۔

ٹھیک ہے اسے وہیں روک کے رکھو میں آرہا ہوں ۔۔۔ اور ہاں وہ کوئی میڈم ویڈم نہیں ہے سمجھے۔۔۔ جزلان نے سختی سے کہتے کال کاٹ دی اور پھر اٹھ کے ایک بھرپور انگڑائی لی۔

آج اس ناز کا بھی پتہ کٹ کرتا ہوں۔۔۔ وہ بڑبڑاتا ہوا ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔

تقریباً دس منٹ کے بعد فریش سا براؤن پینٹ پہ ہاف بازوں کی وائٹ شرٹ پہنے تیار شیار ہوکے نیچے آیا تو ہال میں اسکی ماں اور بہن بیٹھے سے۔۔۔ وہ انہیں کچھ بھی بتائے بغیر سیدھا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

جزلان بیٹا اتنی صبح کہاں جا رہے ہو۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔ نور بیگم نے اسے باہر نکلتے دیکھ نرمی سے پوچھا

کام سے جا رہا ہوں۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں کہتا آگے بڑھ گیا۔

بھائی ناشتہ تو کر لیں۔۔۔ نوال نے اسے پکارہ تو وہ آنکھوں میں غصہ لیئے اسکی جانب پلٹا۔

میں نے کہا نا کام سے جا رہا ہوں پھر بھی پیچھے سے کیوں آوازیں دے رہی ہو۔۔۔ ایک بار کی کہیں بات سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔ اسنے غصے سے نوال کو جھٹکا تو وہ رونے والی ہوگئی۔

جزلان وہ تو بس تم سے پوچھ رہی ہے۔۔۔ اسے تمہاری فکر ہے اس لیئے۔۔۔ نور بیگم نے جزلان کا غصہ دیکھتے تھوڑی سختی سے کہا۔۔۔۔ابھی وہاں انکے شوہر موجود نہیں تھے تبھی وہ تھوڑا سختی سے بولیں تھی ورنا انکے سامنے تو وہ انکے بیٹوں کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں۔

اپنی فکر اپنے پاس رکھیں مجھے نہیں چاہیئے۔۔۔ جزلان بےروخی سے کہتا جانے کے لیئے مڑا جب نوال کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے نور بیگم نے اسے ٹوکا۔

جزلان یہ کیسے بات کر رہے ہو۔۔۔ چھوٹی بہن ہے تمہاری ۔۔۔ 

اونہہ چھوٹی بہن۔۔۔ بابا سے کہتا ہوں جلد ہی کوئی رشتہ دیکھیں اور اس ذمیداری سے سبک دوش ہو جائیں۔۔۔ جزلان ایک آخری نظر ماں اور روتی ہوئی بہن پہ ڈال کے تیزی سے باہر نکل گیا۔

نوال رو نہیں میرا بچہ۔۔۔ تم تو جانتی ہو اپنے بھائی کو پھر بھی اسکی بات کا برا منا رہی ہو۔۔۔ نور بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگا۔۔۔۔ جب کے نوال کا دل ایک بار پھر اپنے بھائی کے رویہ پہ ٹوٹ گیا تھا۔

ماما جب سب ہی مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ مجھے ایک ذمیداری سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتے تو پھر مجھے پیدا ہوتے ہی کیوں نہیں مار دیا تھا۔۔۔ 

کیوں زور مجھے اپنے رویوں سے اذیت دیتے ہیں۔۔۔ کیا بیٹی ہونا اتنا بڑا گناہ ہے جو یہ سب میرے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں۔۔۔ نوال کرب سے کہتی روتی ہوئی اٹھ کے اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔۔۔۔نور بیگم نے دکھ سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔

یا اللہ میری بچی کو صبر دے۔۔۔ اسکے باپ بھائیوں کے دل میں اس کے لیئے محبت پیدا کردے۔۔۔ نور بیگم نم آنکھوں کو صاف کرتی  دعا گو ہوئی۔

انکے ساتھ بھی شادی سے پہلے یہی ہوا تھا لیکن جب تراب خان کا رشتہ آیا اور انہیں یہ پتہ چلا کے وہ انہیں پسند کرتے ہیں تو ان کے دل میں ایک کرن جاگی تھی کے چاہے انکے باپ بھائی ان سے محبت نا کریں مگر انکا شوہر تو ان سے محبت کرتا ہوگا

مگر شادی کے دوسرے دن ہی تراب خان نے انہیں صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کے وہ بھلے انہیں پسند کرتے ہوں۔۔۔ مگر وہ عورتوں کو زیادہ سر نہیں بڑھاتے اس لیئے وہ اپنی اوقات میں رہیں اور انکے فیصلے یا کسی بھی بات کے بیچ نا ہی بولیں تو انکے لیئے ہی اچھا ہے۔

اور انہوں نے ایسا ہی کیا تھا کبھی ان سے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ مگر انہوں نے اپنے پہلے بیٹے کا پیدا کیا تو بیٹے کی پیدائش کے بعد تو جیسے تراب خان بلکل بدل سے گئے تھے۔۔۔ اور پھر جب انہیں دوسری بار ماں بنے کی خوش خبری ملی تو جب بھی تراب خان نے انکا بہت خیال رکھا۔۔۔ انکا ایک اور وارث آنے والا تھا۔۔۔ وہ بہت خوش تھے مگر جب نور بیگم نے نوال کو جنم دیا تو تراب خان بھر سے پہلے جیسے ہوگئے تھے۔

وہ ایک اور بیٹا چاہتے تھے جب کے انہوں نے بیٹی کو پیدا کیا تھا جس کا زمیدار بھی انہوں نے نور بیگم کو ٹھیرایا تھا

جب سے لے کر آج تک تراب خان کا رویہ ناہی نور بیگم کے ساتھ ٹھیک تھا اور نا ہی نوال کے ساتھ۔۔

۔🌺 🌺 🌺

فارم ہاؤس کے باہر گاڑی روکتے مضبوط قدم اٹھاتے اندر بڑھا۔

وہ لاؤنچ میں پہنچا تو ناز سامنے ہی صوفے پہ بیٹھی تھی۔۔۔ 

اسنے پنک کلر کی شوٹ ڈریس پہن رکھی تھی۔۔۔ شاید وہ آج بھی جزلان خان کو اپنی اداؤں کے جال میں پھنسانے آئی تھی مگر وہ جزلان خان کو جانتی نہیں تھی۔

ڈارلنگ تم میری کال کیوں نہیں اٹھا رہے تھے کل بھی میں تمہارے ڈیرے پہ گئی تھی وہاں سے تمہیں اتنی کالز کی تھیں مگر تم نے میرا ایک فون بھی ریسیو نہیں کیا ۔۔۔ کہاں تھے تم اتنے دنوں سے۔۔۔ ناز ایک ادا سے اٹھتی اسکے پاس آتی اسکے گلے میں باہیں ڈالے خفگی سے بولی تو جزلان کے چہرے پہ ایک شاطر سی مسکراہٹ آگئی۔

جب کے جواد اور اسکے گارڈز ناز کی حرکت پہ گردن جھکا گئے۔

جواد۔۔۔۔ جزلان نے جواد کو آواز دی جو فورن اسکی پکار کا مطلب سمجھتے اپنی جیب سے ایک چیک اور پین نکالتے جزلان کے پاس آیا۔

جزلان نے ناز کی باہیں دھیرے سے اپنی گردن سے نکالیں اور جواد سے چیک اور پین لیتے ۔۔۔ چیک پہ سائنس کر کے ناز کی جانب بڑھا دیا۔

یہ کیا ہے ڈارلنگ۔۔۔ ناز نے ناسمجھی سے چیک کو دیکھا۔۔۔ اسنے جب بھی جزلان سے پیسے مانگے تھے تو اسنے ڈائریکٹ اسکے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے تھے مگر آج یہ چیک دیکھ کے ناز الجھی تھی۔

میرے ساتھ اتنے دن رہنے کی یہ تمہاری قیمت ہے۔۔۔ جزلان چیک اسکی جانب اچھالتے اطمینان سے صوفے پہ آکے بیٹھ گیا جب کے ناز تو بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو جزلان۔۔۔۔میں کوئی طو+ئف نہیں ہوں جو تم مجھے میری قیمت دے رہے ہو۔۔۔ ناز نے مٹھیاں بھیجے کہا۔۔۔ وہ کیسے اس موٹی اسامی کو ہاتھ سے جانے دے سکتی تھی۔

جواد ۔۔۔ اسنے پھر جواد کو پکارہ اور اس بار بھی جواد اسکی پکار کا مطلب سمجھتے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکلاتے ناز کی جانب بڑھا گیا 

ناز نے ایک نظر صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے سکون سے بیٹھے جزلان کو دیکھا اور پھر جواد کے ہاتھ سے لفافہ جھپٹا۔

اسنے لفافہ کھولا تو اس میں تصویریں موجود تھیں۔۔۔ اس نے جیسے ہی تصویریں نکال کے دیکھنا شروع کیں اسکی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھیلتی چلیں گئیں۔

ہاں تو تم کیا کہہ رہیں تھیں۔۔۔ جزلان اسکی حالت سے لطف اندوز ہوتے مزے سے بولا۔

ی۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔ ناز کی زبان لڑکھڑائی۔۔۔۔ لفافے میں جو تصویریں موجود تھیں انہیں دیکھتے ناز کے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔

ان تصویروں میں ناز الگ الگ لڑکوں کے ساتھ کافی نازیبا حرکات کرتی نظر آرہی تھی۔۔۔ ناز کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب جزلان کے پاس کیسے آئیں۔

کیا تمہیں دیکھ نہیں رہا۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں میں بتا دیتا ہوں۔۔۔ جو تم نے اپنے یاروں کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں تھی یہ اس کی تصویریں ہیں۔۔۔ جزلان نے مسکراتے لہجے میں کہا تو ناز کو سانپ سونگھ گیا۔

اب بولو کیا اب بھی تم کسی طو+ئف سے کم ہو۔۔۔ جزلان طنزیہ گویا ہوا۔

ی۔۔۔یہ ۔۔س۔۔سچ نہیں ہے۔۔۔ جزلان کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ ناز نے بہانا کرنا چاہا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے بھی جاگراد جزلان خان ہے ایک شاطر سیاستدان۔

مجھے اور بھی بہت سے کام ہے اس لیئے میں اس بحث میں بلکل نہیں پڑوں گا کے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔۔

کیونکہ میں سچ جانتا ہوں۔۔۔ اور یہ تو صرف تصویریں ہیں۔۔۔ باقی ان کی ساری ویڈیوز بھی پڑی ہیں میرے پاس۔۔۔ 

تم چاہتے کیا ہو۔۔۔ ناز ان تصویروں کو مٹھی میں بھیجتی غصے سے چلائی۔

آواز نیچی۔۔۔۔جتنی تیز ناز کی آواز تھی اس سے چار گنا تیز جزلان دھاڑا تھا۔۔۔ جیسے سن کے ناز ایک پل کے لیئے کانپ گئی۔

اج کے بعد میں تمہیں اپنے اردگرد بھی نا پاوں۔۔۔ اس لیئے خاموشی سے یہ زمین پہ پڑا چیک اٹھاؤ اور اپنا منہ لے کے یہاں سے دفا ہوجاؤ۔۔۔ وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا تو ناز کے جسم میں ایک دم سنسناہٹ ہوئی۔۔۔۔ مگر وہ ڈھیٹ لڑکی جلد ہی سنبھل گئی۔

میں تمہارے خلاف میڈیا میں جاؤں گی۔۔۔۔ وہ  بغیر سوچے سمجھے بولی تو لاؤنچ میں جزلان کا جاندار قہقہہ بلند ہوا۔

ہاہاہاہاہاہا بےوقوف لڑکی۔۔۔ 

تم میڈیا میں جانا چاہتی ہو ۔۔۔ شوق سے جاؤ ۔۔۔ میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔۔ بس تمہاری تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پہ ڈال دوں گا پھر تم جانو اور تمہارے گھر والے۔۔۔ جزلان شانے اچکائے لاپروائی سے بولا

ت۔۔۔تم ایسا۔۔۔ک۔۔۔چھ نہ۔ہیں کرو گے۔۔۔ ناز کے حلق سے آواز نکلنے سے انکاری تھی۔۔۔

وہ یہ سوچ کے ہی کانپ گئی تھی کہ آگر جزلان نے واقعی اسکی تصویریں اور ویڈیوز وائرل کر دیں تو وہ کیا منہ دکھائے گی سب کو۔۔۔ اور اسکے گھر والے جو اسے ایک شریف لڑکی سمجھتے ہیں وہ تو اسکی حرکتوں پہ اسے زندہ زمین میں دفن کر دیں گے۔

نہیں پلیز ایسا نہیں کرنا میں ۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ آج کے بعد کبھی تمہارے راستے میں نہیں آؤ گی ۔۔۔ پر پلیز یہ تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پہ نہیں ڈالنا۔۔۔پلیز۔۔۔ ناز نے خوف زدا ہو کے اسکے آگے ہاتھ جوڑے۔

ٹھیک ہے پھر دو منٹ کے اندر اندر اپنی شکل گم کرو یہاں سے۔۔۔ جزلان کے کہنے کی دیر تھی کے ناز گدھے کے سر سے سینگ کی طرح وہاں سے غائب ہوئی تھی۔۔۔ جب کے بیس لاکھ کا چیک ابھی بھی زمین پہ پڑا تھا۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ دو ٹکے کی عورت مجھ سے ہوشیاری کر رہی تھی۔۔۔ اسکے جاتے ہی جزلان پیچھے کی جانب سر گرائے زور سے ہنسا۔

تم سب جاؤ یہاں سے اور تم میرے لیئے بیئر لے کے آؤ۔۔۔ جب تک میں اپنی نئی حسینہ سے بات کر لیتا ہوں۔۔۔۔ وہ اپنے گارڈز کو کہتا جواد سے مخاطب ہوتے جیب سے فون نکالتے اپنے نئے دل بہلانے والے کھلونے کو فون کرنے لگا۔

کیونکہ اسکے نزدیک لڑکیاں صرف ایک کھلونا تھیں جنہیں صرف یوز کیا جاتا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺 

ماما ہم اپنی ایک دوست کی طرف جا رہے ہیں۔۔۔ کچھ دیر میں واپس آجائیں گے۔۔۔ آئلہ اپنی ماں سے کہتی باہر نکل گئی

اسنے پرپل ابائے کے ساتھ ہم رنگ حجاب کیا ہوا تھا جس سے اسکی صرف سرمئی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔

وہ گاڑی میں بیٹھتی ڈرائیور کے ساتھ اپنی دوست کے گھر کے لیئے نکل گئی۔۔۔ 

انکل کسی بیکری پہ روک دے گا۔۔۔ وہ کافی دن بعد اپنی دوست کے گھر جا رہی تھی اس لیئے وہ اسکے لیئے کچھ لے کے جانا چاہتی تھی۔

ڈرائیور  نے اسکے کہے کے مطابق گاڑی ایک بہت بڑی بیکری کے آگے روک دی تھی۔

وہ اپنا پرس لیئے ڈرائیور کو دو منٹ کا کہتے گاڑی سے اتر گئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ بیکری سے کیک لے کے باہر نکلی تو تھوڑی ہی آگے ایک پھولوں والے کی دکان تھی۔۔۔ 

وہ پھول لینے کی غرض سے اس دکان کی جانب بڑھی جب ہی اسے روڈ کے کنارے ایک ضعیف خاتون نظر آئیں جو غالباً روڈ کراس کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔ مگر تیز رفتار میں آتی گاڑیوں کے باعث وہ بےبسی سے وہی کھڑی ہوئی تھی۔

آنٹی کیا آپ کو روڈ کراس کرنا ہے۔۔۔ آئلہ انکے پاس آتی پیار سے استفسار کرنے لگی تو اس خاتون نے مسکرا کے ہاں میں گردن ہلائی۔

آئیں ہم آپ کو روڈ کراس کروا دیتے ہیں۔۔۔ وہ اس خاتون کا ہاتھ پکڑے احتیاط سے انہیں لیئے آگے بڑھی۔

شکریہ بیٹا۔۔۔ میں کب سے کھڑی تھی مگر کسی نے میری مدد نہیں کی۔۔۔ مگر تم نے کی۔۔۔ تم واقعی ایک بہت اچھی لڑکی ہو۔۔۔ تمہارے ماں بات نے تمہاری تربیت بہت اچھی کی ہے۔۔۔ وہ خاتون آہستہ آہستہ چلتی آئلہ کی تعریف کرنے لگیں۔۔۔ وہ اس سے کافی امپریس ہوئیں تھی۔

جب کے دھیان سے روڈ کراس کرتے انکی بات سن کے آئلہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔

اسے اپنے آپ پہ فخر ہوا تھا کہ آج کسی کی مدد کرنے سے نا کے اسکی بلکے اسکے ماں باپ کی بھی تعریف ہوئی تھی۔۔۔ یہ بات اس کے لیئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔

وہ ادھر اُدھر دیکھ کے ہی آگے بڑھ رہی تھی جب ایک تیز رفتار گاڑی نے ایک دم ان کے سامنے آتے بریک مارا۔

ہائے اللہ۔۔۔ ان دونوں کے قدموں کو بریک لگی۔۔۔ آنٹی نے تو باقائدہ دل پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔

آئی ایم سوری۔۔۔۔ اسنے آنٹی سے اور گاڑی میں بیٹھے شخص سے معذرت کی

جس پہ گاڑی میں بیٹھے آدمی نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے سر کو ہلا کے ٹھیک ہے کا اشارہ کیا جس پہ وہ تشکر سے اسے دیکھتی آنٹی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھ گئی۔

رائد آفس جا رہا تھا جب اسکے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا تھا۔۔۔ 

جب اسنے گاڑی کو ایک دم بریک لگائی تھی تب اسے کافی غصہ آیا تھا لیکن سامنے موجود لڑکی کی نقاب سے جھانکتی سرمئی آنکھوں میں ایک سحر تھا جس کی وجہ سے وہ غصہ بھولے اسکی آنکھوں میں گھو گیا تھا۔

اسے ایسا لگا تھا جیسے ان آنکھوں میں کوئی مقناطیسی طاقت ہے جو اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔۔۔

ٹریفک روانی سے روا دوا تھا مگر اسے تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔۔۔ 

وہ بیچ روڈ پہ گاڑی روکے سہولت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

آئمہ ان خاتون کو روڈ کے پار چھوڑ کے واپس اپنی گاڑی کے پاس بھی آگئی تھی مگر رائد تو جیسے وہیں گم ہوگیا تھا۔۔

اور پھر جب تک آئلہ کی گاڑی نظروں سے اوجھل نا ہوئی وہ ویسے ہی گاڑی روکے گھڑا رہا۔

آئلہ کی گاڑی جاتے ہیں وہ بھی تیزی سے گاڑی آگے بھگا لے گیا۔۔۔ مگر اس گاڑی کے جاتے جاتے وہ ایک چیز نوٹ کرنا نہیں بھولا تھا اور وہ تھا آئلہ کی گاڑی کا نمبر۔

اسنے بہت سی لڑکیاں دیکھیں تھیں مگر وہ سرمئی آنکھوں والی لڑکی اسے ان سب سے الگ لگی تھی۔۔۔ 

اسنے صرف اسکی آنکھیں دیکھیں تھیں مگر اس آنکھوں کو دیکھ کے اسے پتہ چل گیا تھا کہ نقاب کے پیچھے ایک حور چھپی ہے اور اس حور نے ایک منٹ میں اسکے دل کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔

گڈ مارننگ سر۔۔۔ وہ سوٹ بوٹ پہلے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیئے۔۔۔ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لیئے آفس میں داخل ہوا تو سب نے اسے اٹھ کے آداب سے گڈ مارننگ کہا۔

وہ سر کے اشارے سے جواب دیتا ناک کی سیدھ میں چلتے سیدھے اپنے آفس روم میں گھس گیا۔

اسکے پیچھے ہی اسکا سیکٹری احمد بھی ہاتھ میں چند فائلز پکڑے داخل ہوا۔

سر کچھ پیپلز پہ آپ کے سائن چاہیئں اور یہ آج کی میٹنگ کی فائل۔۔۔احمد نے اسکے سامنے فائلز رکھتے کہا۔

احمد تم یہ سب چھوڑو اور میرا ایک بہت ضروری کام کرو۔۔۔

میں تمہیں ایک گاڑی کا نمبر بھیج رہا ہوں!!! دو گھنٹے کے اندر اندر مجھے ساری ڈیٹیل چاہئے کہ وہ کس کی گاڑی ہے ۔۔۔ کون ہے وہ،،، کیا کرتا ہے،،، کہاں رہتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکی پوری فیملی کی بھی ڈیٹیل مجھے ٹھیک دو گھنٹے بعد یہاں اپنی ٹیبل پہ موجود چاہیئے۔

آگر دو گھنٹے سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہوا تو تم اپنے لیئے دوسری جاب ڈھونڈ لینا۔۔۔ رائد فون پہ گاڑی کا نمبر اسے بھیجتے سخت لہجے میں کہتا فائل کھول کے پڑھنے لگا۔۔ جس کا مطلب تھا اب تم جا سکتے ہو۔

احمد بھی اپنا فون چیک کرتا اوکے سر کہتے باہر نکل گیا۔

احمد  کے باہر جاتے ہی رائد نے فائلز بند کی اور آنکھیں بند کرتے کرسی کی پشت سے ٹھیک لگا گیا۔

بند آنکھوں کے سامنے سرمئی آنکھیں لہرا گئیں۔۔۔ جس کی وجہ سے اسکے لبوں پہ ایک دلکش مسکراہٹ اگئی۔

وہ بے چینی سے بیٹھا احمد کا انتظام کر رہا تھا۔۔۔ اسے گئے ڈیڑھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔۔۔ اور اس ڈیڑھ گھنٹے میں ہر ایک منٹ بعد رائد کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔

وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑہائے اضطرابی کیفیت میں ایک پاؤں مسلسل ہلا رہا تھا۔۔۔

مزید پانچ منٹ گزرے تھے جب احمد ہاتھ میں ایک فائل پکڑے روم میں داخل ہوا۔

اتنی دیر لگا دی تم نے۔۔۔ اسکے آتی ہی رائد فورن سیدھا ہوا۔

سر ابھی تو دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے۔۔۔ میں تو ٹائم سے پہلے ہی آگیا ہوں۔۔۔ احمد نے اسکی اطلاع میں اضافہ کیا تو رائد نے اسے گھورا

فالتو باتیں مت کرو۔۔۔۔ اور مجھے ساری ڈیٹیل دو۔۔۔۔ رائد زرا تیز لہجے میں بولا تو احمد نے گڑبڑا کے فائل کھول کے اسکے سامنے رکھ دی۔

سر یہ گاڑی محمد مرزا کے نام پہ ہے۔۔۔۔ مرزا صاحب کا اپنا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ہے۔۔۔ انکی زیادہ بڑی فیملی نہیں ہے دو بچے ہیں ۔۔۔ ایک بیٹی ہے آئلہ جو اپنی پڑھائی مکمل کر کے گھر میں ہی رہتی ہے اور ایک بیٹا ہے حسین جسے انہوں نے باہر پڑھنے بھیجا ہوا ہے۔۔۔۔ اور بیوی ہاوس وائف ہیں۔۔۔ احمد نے سکون سے ساری تفصیل اسکے گوش گزار کی ۔

ہمم اور ان کے گھر کا اڈرس۔۔۔ دلچسپی سے سنتے آخر میں ایک ایبرو اچکائے سوال کیا۔

جی سر اس فائل میں موجود ہیں ۔۔۔ ان کے گھر کا اڈرس بھی اور آفس کا اڈرس بھی۔۔۔۔ اور صر ساتھ ساتھ سب کے فون نمبر بھی ہیں۔۔۔ احمد نے فائل کی جانب اشارہ کیا جو اسنے دیکھنے تک کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔

ٹھیک ہے اب تم جا سکتے ہو۔۔۔ وہ واپس کرسی کی پشت سے ٹھیک لگائے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کیئے اطمینان سے بولا۔

سر جو فائلز پہ سائن کرنے تھے وہ۔۔۔۔

میں نے کہا جا سکتے ہو۔۔۔ اسنے سپاٹ انداز میں کہا تو احمد ہاں میں سر ہلاتا باہر نکل گیا

اسکے باہر جاتے ہی رائد نے ہاتھ بڑھا کے وہ فائل اٹھائی اور ایک ایک لفظ غور سے پڑھنے لگا۔۔۔ مگر جہاں اسکی زبان رکھی تھی وہ لفظ آئلہ تھا۔۔۔

کتنی ہی دیر تک وہ آئلہ کا نام دوہراتا رہا پھر خود ہی اپنی حالت پہ مسکراتا سر جھٹک کے دوسری جانب متوجہ ہو گیا۔

🌺 🌺 🌺۔

جزلان سیون اسٹار ریسٹورینٹ میں بیٹھا مہوش کا انتظام کر رہا تھا۔۔۔ یہ اسکا فیوریٹ ریسٹورینٹ تھا جہاں وہ اکثر آتا جاتا رہتا تھا۔۔۔

رش سے الگ رسٹورینٹ کے بیک سائیڈ پہ پول کے ساتھ شاندار سی میز اور کرسیاں رکھی تھی جو صرف اور صرف جزلان خان کے لیئے ہوتی تھیں۔

آج جزلان یہاں مہوش سے ملنے کے لیئے آیا تھا۔۔۔ اسنے فون کر کے مہوش سے ملنے کا پوچھا تھا اور جیسے مہوش تو اسہی انتظار میں بیٹھی تھی۔۔۔ یہاں جزلان نے پوچھا وہاں مہوش نے ہاں کی۔

جزلان اپنے آدمی کو بھیجنا چاہتا تھا اسے لانے لیکن اسنے انکار کر دیا۔۔۔اور جزلان سے لوکیشن پوچھ کے خود ہی آرہی تھی۔

مہوش ایک میڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے گھر والوں کو پتہ چلے کہ وہ کسی لڑکے سے ملنے جا رہی ہے۔۔۔ تبھی خاموشی سے اپنے گھر سے نکلی تھی۔

جزلان یہاں پچھلے آدھے گھنٹے سے بیٹھا مہوش کا انتظام کر رہا تھا۔۔۔ اسے انتظار کرنا سخت ناپسند تھا مگر یہ اسکی مجبور تھی کہ اسے انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔

وہ ایسے ہی تو مہوش جیسی حسین دوشیزہ کو ہاتھ سے جانے تو نہیں دے سکتا تھا۔

وہ اپنے فون میں مصروف تھا جب مہوش کو اسکا گارڈ وہاں چھوڑ کے گیا۔

اسنے کچھ گارڈز دروازے پہ ہی کھڑے کر دیئے تھے تا کہ آگر مہوش آئی تو کوئی اسے روکے نہیں اور وہ آسانی سے اسکے پاس اجائے۔

سوری مجھے دیر ہوگئی۔۔۔ وہ معزرت خواہ لہجے میں کہتی اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔

کوئی بات نہیں۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔ اسنے نرمی سے کہتے کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ مسکراتی ہوئی ہاتھ میں پکڑا کلچ ٹیبل پہ رکھتی بیٹھ گئی۔

کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا نا تمہیں یہاں تک پہنچنے میں۔۔۔ جزلان نے مسنوعی فکرمندی سے پوچھا۔

تھوڑا سا ہوا تھا ۔۔۔۔ مہوش انگھوٹے اور انگلی کے درمیاں فاصلہ اسے دیکھاتی آنکھیں چھوٹی کیئے بولی تو وہ ہنس دیا۔

میں نے تو کہا تھا گاڑی بھیج دیتا ہوں مگر تم نے ہی منا کردا۔۔۔ وہ آپ جناب کا تکلف بھول کے دوستانہ انداز میں بولا

اصل میں۔۔۔ میں جس محلے میں رہتی ہوں آگر وہاں مجھے لینے ایک شاندار سی گاڑی آتی تو سب لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرائی

ہممم میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ جزلان نے ایک اچھے انسان کی طرح کہا۔

کچھ آرڈر کریں۔۔۔ اسنے مینیو کارڈ اسکے سامنے کیا۔۔۔۔ تو مہوش نے جھجھکتے ہوئے پڑھنا شروع کیا۔

وہاں ہر چیز ہی بہت مہنگی تھی۔۔۔ اسے تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا منگوائے۔۔۔ اس لیئے اپنے لیئے بس سینوچ ہی منگوا لیا۔

آرڈر دینے کے بعد جزلان نے تذبذب سے لب چباتی مہوش کو گہری نظروں سے دیکھا۔

وہ بار بار کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولتی اور پھر واپس بند کر لیتی۔۔۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں پا رہی تھی۔

کیا بات ہے تم کچھ کہنا چاہتی۔۔۔ جزلان کے پوچھنے پہ اسنے جھجھکتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔

وہ۔۔۔۔ ہماری یونی میں ایک لڑکی ہے ۔۔۔ وہ آپ کے بارے میں کچھ الٹی سیدھی باتیں کر رہی تھی۔۔۔ مہوش صبح سے ہی ایمل کی باتیں سنے کے بعد تھوڑی پریشان ہوگی تھی اس لیئے اب اسنے اس بارے میں سیدھے جزلان سے ہی بات کرنے کا سوچا تھا

کیا کہہ رہی تھی۔۔۔۔ وہ سکون سے بولا

یہی کہ آپ ٹھیک انسان نہیں ہیں۔۔۔ جیسا آپ ہمیں دیکھاتے ہیں ویسے آپ ہیں نہیں اور آپ ۔۔۔۔نے بہت سی لڑکیوں کی۔۔۔۔ زندگی بھی

۔۔برباد۔۔۔کی ہے۔۔۔۔ وہ رک رک کے محتاط انداز میں بولی کے کہیں اسے برا نا لگ جائے۔

جب کے جزلان خان اسکی بات سنے کے بعد دل میں سوچنے لگا کے وہ لڑکی کہہ تو ٹھیک رہی تھی۔۔

تو تم بتاؤ تمہیں میں​ کیسا لگتا ہوں۔۔۔ کیا تمہیں لگتا ہے جیسا اس لڑکی نے کہا تھا میں ویسا ہی ہوں۔۔۔ جزلان نے ڈھیروں معصومیت چہرے پہ سجائے پوچھا۔

اسے فرق نہیں پڑھتا تھا کہ لوگ اسکے بارے میں کیا بات کر رہے ہیں۔۔۔ اسکے بہت سے دشمن تھے۔۔۔ کوئی بھی اسے نیچا دکھانے کے لیئے یہ بات کر سکتا تھا مگر جزلان خان بھی اپنے نام​ کا ایک تھا ۔۔۔ اسنے لوگوں کے سامنے اپنی ایمیج اتنی اچھی بنائی ہوئی تھی کہ اس کے سپوٹرز ہمیشہ بڑھتے ہی تھے۔

مجھے آپ بلکل ویسے نہیں لگتے جیسا اس لڑکی نے کہا تھا۔۔۔ مجھے تو آپ بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ رحم دلی، ہمدرد اور نرم مزاج۔۔۔ مہوش نے دل سے اسکی تعریف کی۔۔۔ آگر تو وہ جان لیتی کہ سامنے بیٹھے شخص میں ایک بھی وہ خاصیت نہیں ہے جو اسنے بتائی ہیں تو یقیناً اپنے منہ پہ دوتھپڑ لگاتی۔

اسکی بات سنتے جزلان کا دل قہقہہ لگانے کا چاہا۔۔۔۔ وہ کتنا غلط سوچتی تھی اسکے بارے میں۔۔۔ وہ اسے کتنا اچھا انسان سمجھتی تھی مگر جزلان تو اچھے کا الف بھی نہیں تھا۔

چلو تم چھوڑو یہ سب باتوں کو ۔۔۔ تمہاری نظر میں میں اچھا ہوں میرے لیئے یہی کافی ہے۔۔۔ جزلان نے پہلا پنہ پھیکتے ہوئے ہلکے سے ٹیبل پہ رکھا اسکا ہاتھ تھپتھپایا جس پہ پہلے تو مہوش چونکی پھر ایک شرمیلی مسکان کے ساتھ سر جھکا گئی۔

ویسے سچ کہوں جب تمہیں پہلی بار وہاں سڑک پہ کھڑا دیکھا تھا۔۔۔ تب ہی تم مجھے بہت اچھی لگیں تھی۔۔۔ سادہ سے حلیہ میں تم انتہائی خوبصورت لگ رہیں تھیں۔۔۔ جزلان نے اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکتے گھمبیر لہجے میں تیر چلایا تھا۔۔۔ جو مہوش کے شرمیلے تاثرات سے یہ بات اس پہ واضح کر گیا تھا کہ تیز ایک دم نشانے پہ لگا ہے۔

جزلان نے پاس رکھے باکس سے ڈائمنڈ کی رنگ نکالی اور اسکے انگلی میں پہنا دی۔

کیسی لگی۔۔۔ اسنے مہوش کا ہاتھ چھوڑتے پوچھا ۔جب کے مہوش تو حیرت سے اس چمکتے ہوئے ہیرے کو دیکھ رہی تھی۔

بہہت اچھی۔۔۔ وہ ہیرے پہ انگلی پھیلتی خوشی سے بولی 

اب کچھ کھا لیتے ہیں پھر تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔۔۔ آرڈر آتے ہی جزلان نے اسکا دھیان کھانے کی جانب دلایا تو وہ مسکرا کے ہاں میں سر ہلاتی اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوئی۔

مہوش کے چہرے سے اسکی خوشی کا اندازہ صاف لگایا جا سکتا تھا جسے دیکھ کے جزلان دل ہی دل میں بہت خوش ہوا تھا ۔۔ اسے اب اپنی منزل کافی قریب نظر آرہی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

نوال ۔۔۔۔ نور بیگم دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولتی اندر آئیں تو وہ اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔

نوال تمہارے بابا نے کہا ہے آج رات کو تمہیں لڑکے والے دیکھنے آئیں گے تو تیار رہنا۔۔۔ نور بیگم دروازے پہ کھڑے ہی بولیں جس پہ نوال ایک جھٹکے سے سیدھی ہوتی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں اور بےیقینی لیئے انہیں دیکھ گئی۔

میں تمہارے لیئے کچھ کھانے کو بھیج دیتی ہوں تم نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے صرف۔۔۔

پہلے کچھ کھالو اسکے بعد تیار ہو جانا۔۔۔۔  نور بیگم اس سے نظریں چراتی کمرے سے نکل گئیں۔

وہ جانتی تھیں کے نوال ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے پیچھے وجہ کیا ہے۔۔۔۔ اور نا ہی انہوں نے کبھی اس سے پوچھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ ان کے لیئے صرف نوال کی خوشی اور اسکے چہرے کی مسکراہٹ ضروری تھی۔

باپ بھائی کا پیار تو اسے ملا نہیں تھا مگر انہوں نے ہمیشہ نوال کو سینے سے لگا کے لگا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے ایسے روتے نہیں دیکھ سکتیں تھیں۔۔۔  انہوں نے ہمیشہ کوشش کی تھی کہ نوال کی آنکھوں میں آنسوں نا آئیں۔۔۔ مگر ہر کوشش کامیاب نہیں ہوتی وہ یہ بھی جانتی تھیں۔

بچپن سے ہی انہوں نے نوال کو سب سے زیادہ پیار کیا تھا۔۔۔ اسے باپ بھائی کے پیار کی کمی محسوس نا ہو اس لیئے وہ ہر وقت اسکے ساتھ رہتی تھیں۔۔۔ 

مگر وہ جانتی تھی کہ انسان کو ہر رشتے کا پیار چاہیئے ہوتا ہے۔۔۔ ماں چاہے اپنی اولاد کو کتنا بھی پیار کر لے لیکن باپ باپ ہوتا ہے۔۔۔ اسکے پیار کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے بہت بار تراب صاحب سے اس بارے میں بات بھی کی تھی کہ بھلے وہ نوال کو وقت نہیں دیتے بھلے وہ اسکی کسی چیز کا ہوش نہیں رکھتے مگر جب نوال پیار سے بابا پکارتی ہے تو ایک بار ہی سہی اسکی طرف پیار سے دیکھ لیں۔۔۔ پیار سے اسکے سر پے ہاتھ رکھ دیں ۔۔۔ مگر تراب صاحب کا تو جیسے خون سفید ہو گیا تھا۔

ان کے جاتے ہی نوال نے تیزی سے تکیہ کے نیچے سے فون نکالا اور حسام کو ملایا

ہیلو۔۔۔ دو بیل کے بعد ہی فون اٹھا لیا گیا تھا۔

حسام بابا ۔۔۔۔۔ بابا میری شادی کر رہے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے آج لڑکے۔۔۔ والوں کو بلایا ہے۔۔۔ می۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ میں مر جاؤں گی حسام آپ کے بغیر۔۔۔ میں نہیں کر پاؤں گی کسی اور سے شادی۔۔۔ نوال ہچکیوں کے بیچ بڑی مشکل سے اپنی بات مکمل کرتی زار و قطار رو دی۔

اسکے رونے کی آواز سنتے حسام کا دل ڈوبنے لگا تھا۔۔۔ جب کے اسکی شادی کا سنتے اسکا دل مانوں جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔

نوال تم رو نہیں۔۔۔ میں ہوں نا میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔ تم فکر نہیں کرو۔۔۔ بس مجھے یہ بتاؤں کون لوگ ہیں وہ جو آج آنے والے ہیں۔۔۔حسام پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے استفسار کرنے لگا۔

مجھے نہیں پتہ۔۔۔ وہ اب تک رو رہی تھی۔۔۔ سیاں آنکھوں سے آنسو تیزی سے رواں تھے۔

اچھا چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ تم پریشان نہیں ہو میں کچھ کرتا ہوں ہمم۔۔۔۔ حسام اسے تسلی دیتے فون بند کر گیا تو نوال بھی تھوڑی ریلیکس ہوتی آنسوں پونچھ گئی۔

پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب اسکا فون دوبارہ بچا۔

حسام کی کال آتے دیکھ اسنے جلدی سے کال ریسیو کی۔

کچھ ہوا۔۔۔ کال ریسیو کرتے ہی اسنے بےچینی سے پوچھا۔

نوال میری بات غور سے سنو۔۔۔ جیسا تمہارے گھر والے کہہ رہے ہیں ویسا ہی کرو سمجھ گئیں۔۔۔ حسام کی بات سنتے نوال چونکی۔

مگر میں ان کے سامنے نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔ وہ روندھی آواز میں بولی۔

بے فکر ہو جاؤ تمہیں کسی کے سامنے نہیں جانا پڑے گا بس جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہی کرنا ہممم۔۔۔ حسام کے پیار سے کہتے پہ وہ ایسے ہاں میں سر ہلا گئی جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہو۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں ہوں نا یہاں سب سمبھال لوں گا۔۔۔ تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔۔۔ حسام مسکراتے لہجے میں بولا تو نوال کے لبوں پہ بھی مسکان آگئی۔

میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔ اسنے پیار سے کہا تو وہ جی کہتی کال کاٹ گئی۔

اب وہ قدرت ریلیکس ہوگئی تھی۔۔۔ اسے حسام پہ پورا یقین تھا کہ وہ سب سمبھال لے گا۔۔۔ 

اس لیئے وہ مطمئن ہوتی اٹھ کے الماری کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔ آخر گھر والوں کے کہے کے مطابق اسے تیار بھی تو ہونا تھا۔

رات کے گیارہ بج گئے تھے مگر رائد ابھی تک حویلی نہیں گیا تھا۔۔۔ وہ اپنے سارے کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کلفٹن والے گھر آگیا تھا۔۔۔

وہ ایک بہت خوبصورت گھر تھا۔۔۔ زیادہ بڑا نہیں تھا مگر پورے گھر پے یہاں تک کے دیواروں پہ بھی سفید ماربل لگے ہوئے تھے۔

گھر کے چاروں اطراف پھول پودے لگے ہوئے تھے۔۔۔۔ خوبصورت لان میں ہر طرح کے پھول موجود تھے۔۔۔ جب کے گھر کے بیک سائڈ پول بنا تھا جس کے پاس رائد بیٹھا ایک ہاتھ میں سگریٹ تو دوسرے ہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑے ہوئے سامنے ٹیبل پہ رکھے اپنے فون پہ نظریں جمائے ہوئے تھا۔

وہ کب سے آئلہ کو فون کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ مگر پھر ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کہیں اسے برا نا لگ جائے۔۔۔ مگر آج یا کل تو اسے بات کرنی ہی تھی اس لیئے سگریٹ دو انگلیوں میں پھساتے اسہی ہاتھ سے فون اٹھاتا آئلہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

جب اسکے پاس نمبر آیا تھا اسنے جب ہی آئلہ کا نمبر دیکھتے ہی اپنے ذہن میں فٹ کر لیا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ سے ہی بہت ذہین تھا۔۔۔ جس بھی چیز کو دیکھتا تھا اسے ساری زندگی بھولتا نہیں تھا۔

وہ فون کان سے لگائے کال کے ریسیو ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ کئی کال جانے کے بعد بھی فون اٹھایا نہیں گیا تھا۔

اسنے ایک بار پھر کوشش کی تو اب کی بار تین بیل جانے کے بعد فون اٹھا لیا گیا تھا۔

اسلام و علیکم۔۔۔ جی کون بات کر رہا ہے۔۔۔ کال ریسیو ہوتے ہی نرم سی میٹھی آواز سنائی دی جس سے رائد کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔

رائد خان۔۔۔ اسنے گھمبیر لہجے میں اپنا نام بتایا۔

آپ کو کس سے بات کرنی ہے۔۔۔ پھر اسہی دھیمے لہجے میں پوچھا گیا۔

تم سے۔۔۔ اسکے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی

معزرت ہم آپ کو نہیں جانتے۔۔۔۔ لگتا ہے آپ نے غلط نمبر ملایا ہے

نمبر بلکل ٹھیک ہے مس آئلہ۔۔۔ اسنے آئلہ پہ زور دیا تو فون کی دوسری جانب آئلہ چونکی۔

آپ ہمارا نام کیسے جانتے ہیں۔۔۔ اسپیکر سے اسکی حیران زده آواز آئی

تمہارا نام کیا میں تو تمہارے پورے خاندان کو جانتا ہوں۔۔۔ خیر یہ باتیں تو بعد میں بھی ہوتی رہیں گی مگر اس سے پہلے مجھے تم سے ایک بہت اہم بات کرنی ہے۔۔۔ جب اسے اپنی انگلیوں پہ جلن کا احساس ہوا تو اسنے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کی جانب دیکھا جو جل جل کے ختم ہوگئی تھی۔

بائیں ہاتھ میں پکڑے شراب کے گلاس کو منہ سے لگاتے وہ ایک ہی سانس میں گلاس خالی کرکے ٹیبل پہ رکھتا فون بائیں ہاتھ میں پکڑ کے کان سے لگایا۔

معاف کیئے ہم انجان لوگوں سے بات نہیں کرتے۔۔۔ آئلہ تھوڑے سخت لہجے میں بولی تو رائد نے اوو کی شیف میں ہونٹوں کو گول کیا۔ 

اسہی اجنبیت کو تو ختم کرنے کے لیئے فون کیا ہے۔۔۔ انگلیوں میں پھنسی سگریٹ پھیکتے اپنی انگلیوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ جہاں ہلکی ہلکی سرخی نظر آرہی تھی۔

کیا مطلب ۔۔۔ وہ یقیناً الجھی تھی۔

یقیناً تم مجھے بھول گئی ہوں گی ۔۔۔ مگر تمہاری نقاب سے جھلکتی سرمئی آنکھوں نے مجھے بےچین کر دیا ہے۔۔۔

تمہارا چہرہ دیکھے بغیر ہی صرف ایک نظر میں ہی مجھ تم سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔۔۔ وہ گھمبیر لہجے میں کہتا آئلہ کو غصہ دلا گیا تھا

دیکھیں مسٹر۔۔۔ آپ جو بھی ہیں ۔۔۔ ہمیں آپ کی باتوں میں کوئی انٹرس نہیں ہے۔۔۔اپنا مطلب پورا کرنے کے لیئے سارے لڑکے ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔۔۔

 محبت وحبت کوئی نہیں ہے آپ کو۔۔۔ آگر آپ کو اتنی ہی محبت ہوتی نا تو یوں رات کے سناٹے اور اندھیرے میں فون کر کے شادی کی بات نا کرتے بلکے دن کے اجالے میں عزت سے اپنے والدین کو ہمارا ہاتھ مانگنے بھیجتے۔۔۔ 

اور ہاں آخری بات خبردار​جو آج کے بعد ہمیں دوبارہ فون بھی کیا تو۔۔۔ ہم ویسی لڑکی نہیں ہے جو آپ جیسے لڑکوں کی دو چار محبت سے کی گئی باتوں پہ یقین کرلیں گے۔۔۔ 

اس لیئے برائے مہربانی دوبارہ فون کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔۔۔۔ وہ سختی سے کہتی فون بند کر گئی۔

فون بند ہوتے ہی رائد نے کان سے فون ہٹا کے مسکراتے ہوئے اسکرین کو دیکھا۔۔۔ آج تک اس سے کسی نے سختی سے بات نہیں کی تھی مگر آج آئلہ کا سخت لہجے سن کے اسے بہت اچھا لگا تھا۔۔۔

وہ ایک اچھی اور شریف لڑکی تھی۔۔۔ جو آج کل کی لڑکیوں سے بلکل مختلف تھی۔

چند منٹوں میں ہی وہ ایک فیصلہ پہ پہنچتا ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائے باہر کی جانب بڑھ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

حسام آپ نے کیا کیا ہے جو وہ لوگ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔۔۔ کافی دیر بعد بھی جب کوئی مہمان نا آیا تو نوال نے حسام کو فون ملا کے پوچھا۔

میں نے تو کچھ نہیں کیا سب کچھ میرے آدمیوں نے کیا ہے۔۔۔ دوسری طرف سے حسام مزے سے بولا

حسام پلیز بتائیں نا۔۔۔ اسنے ضدی انداز میں پوچھا تو چارو نا بار حسام کو بتایا ہی پڑا۔

کچھ نہیں یار بس اس لڑکے کی دو تین آدمیوں سے اچھے سے پھینٹی لگوائی ہے اب وہ کم سے کم بھی ہفتہ دس دن بستر سے نہیں اٹھے گا اس لیئے تم اب ریلیکس ہوجاؤں۔۔۔۔  حسام نے لاپرواہ سے انداز میں کہا تو نوال کا منہ گھل گیا۔

حسام آپ نے اسے پٹوایا ہے۔۔۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے بولی۔

ہاں۔۔۔۔ اس نے اک لفظی جواب دیا۔

مگر آپ کو ایسا کروانے کی کہا ضرورت تھی۔۔۔ 

تم اسکی وجہ سے روئی تھیں نا ۔۔۔ وہی لڑکا تھا نا جس کی وجہ سے تم پریشان ہو رہیں تھیں۔۔  وہی تھا نا جو تمہیں دیکھنے آنے والا تھا۔۔۔ 

اور مجھے یہ بلکل منظور نہیں کے کسی بھی وجہ سے تمہاری آنکھوں میں آنسوں آئیں ۔۔۔ کسی بھی وجہ سے تم پریشان ہو۔۔۔ یا پھر کوئی اور تمہادا رشتہ لائے۔۔۔یہ سب میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا بس اسہی لیئے میں نے اسے رات میں سورج دیکھا دیا۔۔۔ حسام کے لہجے میں ایک جنون تھا جیسے سننے کے بعد نوال کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔

نوال ل ل ل ل۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی نیچھے سے اسکی ماما کی آواز آئی۔

ایک منت۔۔۔۔ وہ جلدی سے حسام کو ایک منٹ کہتی فون ہاتھ میں پکڑے ہی کمرے سے باہر نکلی۔

جی ماما۔۔۔ وہ اوپر گرل میں کھڑی پوچھنے لگی۔

بیٹا جو لوگ آنے والے تھے ان کے بیٹے کا اکسیڈینٹ ہو گیا ہے اس لیئے وہ اب نہیں آرہے ۔۔۔ تو آپ بھی کپڑے چینج کر کے آرام کرو۔۔۔۔ نور بیگم نے نیچھے ہال میں بیٹھے ہوئے بتایا۔۔۔

ابھی تراب صاحب کے پاس فون آیا تھا ۔۔۔ جس میں لڑکے والوں نے اکسیڈینٹ کا بہانا بنا کے نا آنے کی وجہ بتائی تھی۔۔۔ تراب خان نے نور بیگم کو بتاتا تو انہیں نے نوال کو بلا کے اسے بتا دیا تا کہ وہ ان کا انتظام نا کرے بلکے چینج کر کے آرام کرے۔

جی اچھا۔۔۔ وہ دھیرے سے کہتی واپس اپنے کمرے میں جانے کے لیئے پلٹی ہی تھی جب اسے نیچے سے ہی اپنے بابا کی آواز آئی۔

نا جانے کیسی منحوسیت ہے تمہاری بیٹی کے ساتھ جو ہر بار آئے ہوئے رشتے کے ساتھ کچھ نا کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔ پتہ نہیں کب شادی ہو گئی اور کب میرے کندھوں سے اس ذمیداری کا بوجھ اترے گا۔۔۔ وہ ناگواری سے سر جھٹک گئے تو نور بیگم نے انہیں تاسف سے دیکھا ۔۔۔ کچھ بھی کہنا سنا بیکار تھا اس لیئے وہ خاموش ہی رہیں۔

جب کے اوپر کھڑی نوال کا دل اپنے باپ کی بات سنتے بری طرح زخمی ہوا تھا۔۔۔ آنکھوں کی باڑ توڑتے آنسوں بہہ نکلے تھے۔۔۔

فون کی دوسری جانب موجود حسام بھی انکی بات سنتے مٹھیاں بیجھ کے رہ گیا۔

وہ خاموشی سے آنسوں بہاتی کمرے میں آئی۔۔۔ دروازے کو لاک لگائے بیڈ پہ آکے بیٹھ گئی۔

ہیلو نوال۔۔۔ اسپیکر سے حسام کی آواز آئی تو اسنے جلدی سے خود کو نارمل کرتے فون کان سے لگایا۔

کیا ہوا نوال ۔۔۔ حسام نے نرمی سے پوچھا۔

کچھ نہیں۔۔۔ اسنے بہت مشکل سے آنسوں پہ بندھ باندھتے جھوٹ کہا۔۔۔۔مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ حسام کال پہ ہی تھا اور وہ تراب خان کی فضول گوئی سن چکا تھا جس پہ اسے ڈھیروں افسوس بھی ہوا تھا۔

کچھ تو۔۔۔ وہ اسکا موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر شوخی سے بولا۔

آپ کی یاد آرہی تھی۔۔۔ وہ بھاری ہوتی آواز کے درمیاں بولی۔

تم  نے یاد کیا اور میں آگیا۔۔۔ نوال کو ایک دم اپنے پیچھے سے آواز سنائی تھی جس پہ اسنے چونک کے مڑ کے دیکھا تو بالکونی کے دروازے کے پاس حسام سینے پہ بازو باندھے کھڑا تھا۔

آپ۔۔۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔ کسی کو پتہ چل گیا تو۔۔۔ پہلے وہ خوش ہوئی مگر کسی کو پتہ چلنے کے ڈر سے ایک دم خوف زداہ ہوگئی۔

تم اتنی اچھی تیار ہوئیں تھی تو سوچا تمہاری تیاری رائگا نہیں جانی چاہیئے اس لیئے میں آگیا۔۔تمہاری تیاری کو خراج بخشنے۔۔۔

 براؤں شلوار قمیض پہنے جس پہ گولڈن کام ہوا وا تھا۔۔ ساتھ ہم رنگ دوپٹہ ہاتھوں میں کانچ کی سنہری چوڑیاں پہنے بال پشت پہ کھلے چھوڑے وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ حسام اس میں گم ہوتے اسکی جانب قدم اٹھانے لگا جب نوال نے اسے بیچ میں ہی روک دیا۔

بس بس زیادہ آگے نہیں بڑھیں۔۔ ابھی شادی نہیں ہوئی۔۔۔ وہ ہاتھ سے روکتی تھوڑا پیچھے ہوئی

او ہاں سوری جذبات میں آکے بھول گیا تھا۔۔۔ وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا خفت سے بولا تو نوال مسکرا دی۔

حسام اکثر ایسے ہی چھپ کے نوال سے ملنے آتا رہتا تھا اسنے اپنا ایک خاص آدمی یہاں چھوڑا ہوا تھا جو یہاں کام بھی کرتا تھا اور یہاں کی انفومیشن اسے دیتا رہتا تھا۔۔۔ ابھی بھی وہ اسہی کی مدد سے پیچھے کے دروازے سے حویلی میں گھسنے میں کامیاب ہوا تھا۔

اچھا چلو ایک سیلفی ہی لے لیتے ہیں۔۔۔ حسام نے اپنا فون نکالا تو نوال اسکے برابر میں تھوڑے فاصلے پہ آکے کھڑی ہوئی۔

جلدی لیں اور جائیں یہاں سے۔۔۔۔ اسے بار بار زاویہ بدلتے دیکھ نوال گھبراہٹ سے دروازے کی جانب دیکھتی بولی

تمہاری ہائٹ کم ہے مجھے تو لگتا ہے بیڈ پہ بیٹھ کے لینی پڑھے گی۔۔۔ حسام شریر لہجے میں کہتا بیڈ پہ بیٹھا تو نوال نے اسے گھورا۔۔۔ پھر دوبارہ دروازے کی طرف دیکھتی بولی۔

حسام پلیز جلدی کریں۔۔۔ سب گھر میں ہیں کبھی بھی کوئی بھی آسکتا ہے۔۔۔ وہ انگلیاں مسلتی گھبرائی ہوئی سی بولی تو حسام نے بھی اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے دو تین تصویریں لیکن اور واپس جانے کے لیئے بالکنی کی جانب بڑھ گیا۔

نوال اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے فون کرنا رونے نہیں بیٹھ جانا سمجھیں۔۔۔ دیکھنا بہت جلد وہ دن آئے گا جب میں تمہیں اپنا بنا کے یہاں سے لے جاؤں گا۔۔۔ حسام دھیرے سے کہتا جہاں سے آیا تھا وہیں سے واپس نکل گیا۔

پیچھے نوال مسکراتی ہوئی ڈریسنگ روم میں گھس گئی۔

۔🌺 🌺 🌺 

رات ایک بجے رائد حویلی واپس آیا تھا۔۔۔ حویلی میں اس وقت ایک دم سناٹا تھا ۔۔۔ سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے مگر رائد اس سب کی پرواہ کیئے بغیر تراب خان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا

تراب خان کے کمرے سے کچھ فاصلے پہ ہی جزلان کا کمرا تھا۔۔۔ 

رائد ابھی انکے دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب جزلان اپنے کمرے سے باہر نکلا اسکے ہاتھ میں خالی پانی کا جگ تھا شاید وہ پانی لے نے جا رہا تھا۔

بابا سو گئے ہیں تو انہیں تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتے آگے بڑھنے لگا جب پیچھے سے رائد بول پڑا۔

تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔ وہ رعب سے ماتھے پہ بل ڈالے بولا۔

اپنے کام سے کام رکھ کے ہی رکھ رہا ہوں کے انہیں ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جو بھی لڑائی جھگڑا کرنا ہے وہ صبح کر لینا۔۔۔ جزلان اسے دیکھے بغیر سپاٹ لہجے میں بولا تو رائد کی آنکھوں میں سرخی اتری۔

میں اگر ان سے نفرت کرتا ہوں تو اس سب میں سب سے زیادہ ہاتھ تم لوگوں کا ہی ہے۔۔۔ رائد غصے سے غرایا تو جزلان نے لاپرواہ انداز میں آنکھیں گھمائیں۔

اس سے پہلے پھر وہ دونوں شروع ہوتے تراب خان کے کمرے کا دروازہ کھلا۔

کیا ہوا۔۔۔ تم دونوں اس طرح لڑ کیوں رہے تھے۔۔۔ اور رائد تم یہاں سب خیریت تو ہے نا۔۔۔ تراب خان کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی رائد کو اپنے دروازے پہ دیکھ کے ورنا تو ایک عرصہ ہو گیا تھا نا رائد انہیں مخالف کرتا تھا اور نا ہی غلطی سے بھی انکے کمرے کی جانب جاتا تھا۔

ان دونوں کی بحث چونکہ تراب خان کے کمرے کے دروازے کے باہر ہو رہی تھی اس لیئے آوازیں سن کے تراب خان خود ہی باہر آگئے تھے۔

 آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ رائد سپاٹ انداز میں بولا جب کے اسکی بات سن کے جزلان کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔ 

آخر اتنے سال بعد ایسی کون سی بات تھی جسے کرنے کے لیئے رائد خان اپنی انا کو پیچھے رکھ کے اپنے باپ کے دروازے پہ اکھڑے ہوتے خود سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔ اسے تجسس ہوا جس وجہ سے وہ بھی وہیں رک کے انکی باتیں سنے لگا

آؤ بیٹا اندر چل کے بات کرتے ہیں۔۔۔ تراب خان تو جیسے خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔۔۔ آج اتنے سالوں بعد انکا بیٹا ان سے بات کرنے آیا تھا۔

نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔ رائد سنجیدگی سے بولا ۔۔۔ اتنی دیر میں نور بیگم بھی دروازے پہ آگئی تھیں۔

اچھا بولو کیا بات کرنی ہے۔۔۔ وہ آرام سے بولے ۔۔۔ انہوں نے اسے اندر آنے کے لیئے بلکل فورس نہیں کیا تھا۔۔۔ کے کہیں وہ ناراض نا ہوجائے۔

مجھے ایک لڑکی پسند ہے اور آپ لوگ چونکہ میرے ماں باپ ہیں اور وہ لڑکی کافی اچھے گھر سے ہے اس لیئے میں چاہتا ہوں کے کل ہی آپ لوگ میرا رشتہ وہاں لے کے جائیں اور جلد سے جلد شادی کی تاریخ رکھیں۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ کمر پہ باندھے اطمینان سے کہتا وہاں موجود سب کو جھٹکا دے گیا۔

ہاں بیٹا ضرور جیسا تم بولو ۔۔۔ ہم کل ضرور جائیں گے اس لڑکی کے گھر۔۔۔ مگر لڑکی کا نام تو بتاؤ۔۔۔ تراب خان فورن اسکی بات مان گئے۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کو خود سے کوئی شکایت کا موقع نہیں دے نا چاہتے تھے۔

آئلہ نام ہے۔۔۔ 

ٹھیک ہے بیٹا جب چلنا ہو تو بتا دینا۔۔

 وہ پیار سے بولے تو رائد بغیر کچھ بولے واپسی جانے کے لیئے پلٹا جب جزلان بول پڑا۔

مگر بابا ایسے کیسے پہلے پتہ تو چلے کے کیا خاندان ہے اس لڑکی کا۔۔۔ جزلان نے اعتراض کرنا چاہا۔

جزلان تم چپ رہو میرے اور میرے بیٹے کے بیچ مت بول۔۔۔ تراب خان نے رائد کے چہرے کے بگڑتے تاثرات دیکھتے جزلان کو ڈانٹا جس پہ جزلان کا منہ گھلا۔۔۔۔ جب کے رائد اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

واہ بیٹے نے دو چار باتیں کیا کرلیں آپ تو اپنے دوسرے بیٹے کو ہی بھول گئے۔۔۔ جزلان نے ڈرامائی دکھ بھرے انداز میں کہا تو تراب خان نفی میں سر ہلاتے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔ تو جزلان بھی منہ بناتا کچن کی جانب بڑھ گیا۔

کیا ہوا بابا یہ اتنا ٹریفک کیوں جام ہے۔۔۔ وہ دیار صاحب کے ساتھ یونی جا رہی جب اسے راستہ بےحد جام ملا۔

شاید کوئی سیاسی آدمی گزرنے والا ہے اس لیئے آگے سے پورا روڈ بند کیا ہوا ہے۔۔۔ دیار صاحب گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولے۔۔۔ وہ ابھی آگے سے دیکھ کے اور پوچھ تاج کر کے آئے تھے جس پہ انہیں یہی معلوم ہوا تھا کے کوئی بڑا آدمی یہاں سر گزرے گا۔

ایک تو ہمارے ملک میں امیر غریب میں فرق بہت کیا جاتا ہے۔۔۔ ایک امیر آدمی جس کے پاس اتنا پیسا ہے کہ وہ کوئی بھی کام کسی سے بھی کروا سکتا ہے۔۔۔ آرام سے بیٹھ کے کھا سکتا ہے 

مگر یہ لوگ اس ٹریفک میں پھنسی غریب عوام کا نہیں سوچتے جو آگر آفس دیر سے پہنچے تو ان جیسے ہی لوگ انکی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں ۔۔۔ بچے جو اسکول جا رہے ہیں وہ لیٹ ہوجائیں تو انکی تعلیم کا کتنا نقصان ہوگا یہ نہیں جانتے۔

اور آگر خدا نا خواستہ اس ٹریفک میں کوئی ایمبولینس پھنس جائے تو بیچارا مریض جس کے بچنے کے چانسز ہوں وہ بھی مر جائے۔۔۔ وہ سر جھٹک کے نفرت سے ان بےحس امیروں کے بارے میں سوچنے لگی جن کی زندگی میں تو کچھ نہیں بدلے کا مگر اس ٹریفک میں پھنسے غریب لوگوں کی زندگیاں برباد ہو سکتی ہے۔

کیا کہہ سکتے ہیں بیٹا۔۔۔ دیار صاحب نے افسوس سے سر ہلایا

ابھی صرف پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب پیچھے سے ایمبولینس کی آواز آئی اور ایک آدمی تیزی سے انکی گاڑی کے برابر سے گزر کے آگے بڑھا۔

ایمل نے چونک کے گاڑی کی کھڑکی سے باہر سر نکلا تو ان سے کچھ فاصلے پہ ایمبولینس کھڑی تھی جس میں کوئی مریض بھی موجود تھا۔

اسنے ایک پل آنکھیں بند کر کے کھولیں اور گہرا سانس بھرتی گاڑی سے نکلی

کہاں جا رہی ہو بیٹا۔۔۔ اسے باہر نکلتے دیکھ دیار صاحب فکرمند ہوئے۔

لوگوں کی مدد کرنے۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں ایمبولینس کو دیکھتی آگے بڑھ گئی۔۔

دیار صاحب کو اپنی بیٹی پہ فخر ہوا کے وہ آج کل کے لوگوں کی طرح خود غرض اور بےحس نہیں ہے بلکل وہ خود سے پہلے دوسروں کا سوچتی ہیں۔۔۔ ان کی مدد کو ہمیشہ آگے رہتی ہے۔۔۔ اور یہی سوچتے دیار صاحب کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ آگئی۔

پلیز سر ٹریفک کھول دیں پیچھے میرا بھائی ایمبولینس میں پڑا ہے۔۔۔۔ اسکی جان کو خطرہ ہے اسے جلد ہی اسپتال لے کے جانا ہے پلیز سر جانے دیں۔۔۔۔ وہ آگے پہنچی تو ایک آدمی پولیس افسر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا گڑگڑا رہا تھا مگر وہ پولیس اہلکار جیسے بہرے بنے کھڑے سب تماشہ دیکھ رہے تھے۔

آپ لوگوں کو سنائی نہیں دے رہا وہ آدمی کب سے ہاتھ جوڑے آپ لوگوں سے منت کر رہا ہے۔۔۔ اسکا بھائی مر رہا ہے اور آپ لوگ ہیں کے ٹریفک کھول ہی نہیں رہے۔۔۔ وہ جھنجھلا کے دبا دبا چیخی

دیکھیں بی بی ابھی یہاں سے جزلان خان نے گزرنا ہے ہمیں اوپر سے آرڈر آیا ہے اس لیئے ہم نے ٹریفک روک کھا ہے۔۔۔بس کچھ ہی دیر کی بات ہے پھر ٹریفک بحال ہو جائے گا۔۔۔ افسر نے سکون سے کہا۔

چاہے اتنی دیر میں وہ آدمی مر جائے۔۔۔جزلان خان کے نام پہ وہ جبڑے بھیجے غصے سے غرائی تو سامنے کھڑے افسر نے سر جھٹکا۔

آپ کے جزلان خان کے گزرنے سے زیادہ ضروری اس آدمی کی جان اہم ہے۔۔۔ آگر وہ تھوڑی دیر یہاں رک بھی جائے گا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن آگر ہم نے زرا بھی دیر کی تو یقیناً وہ آدمی نہیں بچے کا۔۔۔ وہ سرد مہری سے بولی مگر ان پولیس والوں نے اسکی بات پہ کان نا دھرے۔

آنٹی میرے بابا کو سانس لینے میں مسئلہ ہو رہا ہے ۔۔۔ آگر میرے بابا کو کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے ہمارے یہاں تو کوئی اور ہے بھی نہیں جو بابا کی جگہ لے۔۔۔ ایک بارہ سالہ بچہ اسکے پاس آتے آنسوں سے تر چہرہ لیئے بھیگی آواز میں بولا تو ایمل کی آنکھیں بھر آئیں۔

وہ ضبط سے مٹھیاں بھیجے پیچھے کھڑی گاڑیوں کی جانب مڑی اور باآواز بلند سب سے مخاطب ہوئی۔

آپ سب جانتے ہیں پیچھے ایک ایمبولینس پھنسی ہے جس میں ایک مریض کافی تفتیش ناک حالت میں ہے۔۔۔ مگر اس کے باوجود بھی آپ لوگ آواز بلند نہیں کر رہے۔۔۔۔ جتنا ممکن ہو سکتا تھا اسنے اتنی اونچی اپنی آواز رکھتے اپنی بات لوگوں تک پہچائی تھی۔

آج اس ایمبولینس میں جو آدمی ہے کل کو اسکی جگہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔ زرا سوچیں آگر آپ کا کوئی پیارا ایسی حالت میں پھنسا ہو تو آپ کے دل پہ کیا گزرے گی۔۔۔ وہ بلند آواز میں چلائی ۔۔۔ گاڑی سے باہر کھڑے دیار صاحب نے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔۔۔ جو ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی تھی۔

بیٹا مگر ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ آگے پولیس والے کھڑے ہیں ہم کیسے ان کا مقابلہ کریں گے۔۔۔ ایک آدمی اپنی گاڑی کی کھڑکی سے جھانکتا پریشانی سے بولا

انکل ان پولیس والوں کو دیکھیں وہ لوگ بس بارہ ہیں جب کے ہم لوگ ہزاروں میں ہیں۔۔۔ آگر ہم یہاں سے نکلیں گے بھی تو بھی یہ ہمارا کچھ نہیں بکڑار سکتے۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی۔

مگر انکے پاس گن ہے ۔۔۔۔

ہاں اور آگر وہ ہمارے سامنے آئے تو ہمیں پھر بھی تو بریک لگانی پڑے گی نا۔۔۔

آگر ہمیں پولیس والوں نے پکڑ لیا تو ہمارے گھر والوں کا کیا ہوا۔۔۔ 

ایسی بہت سی مختلف آوازیں اسے سنائی دیں۔

پہلی بات وہ لوگ گولی نہیں چلائیں گے اور دوسری بات کس نے بولا ہے آپ سے بریک لگائیں۔۔۔ اپنے مضبوط ارادے لیئے آپ آگے بڑھیں وہ لوگ خودہی پیچھے ہٹ جائیں گے اور رہی تیسری بات آگر اس بچے کا باپ مر گیا تو اسکے گھر والوں کا کیا ہوگا۔۔۔ وہ بلند آواز میں کہتی آخر میں سوالیہ نظریں سب طرف دوڑانے لگی۔

اسکی بات سن کے لوگوں میں آہستہ آہستہ آواز بلند ہونا شروع ہوئی تھی۔۔۔

بی بی یہ عوام بہت ڈرپوک ہے کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔ ان پولیس والوں میں بڑا افسر آگے بڑھتے بولا۔

اور آگر انہو نے ایسا کیا تو۔۔۔ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چیلنجنگ انداز میں بولی تو افسر نے عوام کو دیکھا اور پھر واپس اسکی جانب متوجہ ہوا۔

آگر ان میں سے بیس لوگ بھی آگے بڑھے تو ہم خود پیچھے ہٹ جائیں گے۔۔۔ وہ افسر بھی اسکی باتوں سے متاثر ہوا تھا اس لیئے دھیرے سے نرم لہجے میں بولا تو ایمل کے لبوں پہ مسکراہٹ اگئی۔

گوووووو۔۔۔۔ وہ اونچی آواز میں ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو آگے بڑھنے کا بول رہی تھی جس پہ آگے کھڑی گاڑیوں نے نکلنا شروع کیا ۔۔۔

گاڑیوں کو اسپیڈ سے نکلتے دیکھ پولیس افسر نے اپنے ساتھیوں کو ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کر دیا جس پہ گاڑیوں اور آسانی سے نکل سکتی تھیں۔۔۔ 

آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ ایمبولینس اسکے پاس رکھی جس میں بچے اور اس آدمی نے بیٹھنے سے پہلے اسکا شکریہ ادا کیا تھا جس پہ اسنے مسکراتے سر ہلا دیا۔

بیٹھ جاؤ۔۔۔ دیار صاحب گاڑی لیئے اسکے پاس آئے تو وہ خوشی سے مسکراتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔

مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پہ۔۔۔ وہ مسکرا کے اسے دیکھتے خوشی سے بولے تو ایمل مسکرا دی۔۔۔

اسے اچھا لگا تھا کسی کے کام آکے۔۔۔وہ ہمیشہ سے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی تھی اور آج اسنے اٹھائی بھی اسے بہت اچھا لگا تھا آج۔

گاڑیاں تیزی سے نکل رہی تھیں جب پیچھے سے جزلان کی گاڑی آئی۔

تم لوگوں نے روڈ کلیئز نہیں کروایا تھا۔۔۔ جزلان سامنے سے گزرتے ٹریفک کو دیکھتے افسر کو اپنے پاس بلا کے سختی سے استفسار کرنے لگا۔

سر ہم نے کروایا تھا مگر ٹریفک میں ایک ایمبولینس پھنسی تھی ۔۔۔ اس میں مریض بھی تھا۔۔۔ ایک لڑکی نے وہ ایمبولینس نکالنے کے لیئے لوگوں کو ورغلایہ جس پہ لوگ اسکا ساتھ دیتے گاڑیاں تیزی سے آگے بڑھا گئے۔

ہم نے بہت کوشش کی روکنے کی مگر لوگ زیادہ تھے اور ہم لوگ کم۔۔۔ وہ افسر سر جھکائے چہرے پہ پشیمانی لائے بولا تو جزلان سر جھٹک کے رہ گیا۔۔۔ اب اسے یہاں کھڑے ہو کے انتظار کرنا تھا کہ کب وہ گاڑیاں کم ہوں اور وہ نکلے۔۔۔ آگر اسکے الیکشن نا آنے والے ہوتے تو یقیناً وہ سب کو کچلنے ہوئے یہاں سے نکل جاتا مگر اسے ان ہی لوگوں کی سپورٹ چاہیئے تھی اس لیئے ضبط کے گھونٹ بھرتا گاڑی میں بیٹھا رہا جب کے اسکے آدمی گاڑیوں سے اتر کے روڈ کلیئر کروا رہے تھے۔

۔🌺 🌺 🌺

تراب صاحب نور بیگم اور رائد تینوں آئلہ کے گھر کی طرف رواں دواں تھے۔۔۔ ان کے پیچھے گارڈز کی ایک گاڑی بھی تھی۔

تراب خان آج بہت خوش تھے کے انکے بیٹے نے انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کیا تھا۔۔۔ اور وہ اسکی خوشی کے لیئے بغیر لڑکی کے بارے میں کچھ بھی جانے رشتہ لے کے جا رہے تھے۔

جب کے نور بیگم کو بھی خوشی ہوئی تھی کے چلو ویسے نا سہی مگر اب تو وہ انہیں اپنی ماں بنا کے لے جا رہا تھا ان کے لیئے یہی کافی تھا۔

رائد نے گاڑی آئلہ کے گھر کے باہر روکی۔۔۔

تراب خان نے ایک نظر پورے گھر کو دیکھا۔۔۔ وہ ایک بہت ہی خوبصورت بنگلہ تھا جس کے باہر دو گارڈز کھڑے تھے۔

اس سے پہلے تراب خان گاڑی سے اترتے رائد نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔

اندر جا کے میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتا۔۔۔ وہ لڑکی میری محبت ہے میری خوشی ہے اور میں شادی اسہی سے کروں گا اس لیئے جیسا میں نے کہا تھا آپ ویسا ہی کرے گا۔۔۔ جتنا جلدی ہو شادی کی تاریخ رکھ دے گا۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں کہتا گاڑی سے نکل گیا تو تراب خان بھی اسکی بات سمجھتے باہر نکلے۔

جاگیردار رائد خان کو ہر کوئی جانتا تھا اس لیئے اسے دیکھتے ہی گارڈ نے پہچانتے ہوئے سلیوٹ کرتے ان کے لیئے دروازہ کھولا دیا۔

لاؤنچ میں اس وقت صرف تبسم بیگم موجود تھیں جو فون پہ کسی سے محو گفتگو تھیں۔۔۔ جب انکی نظر لاونچ میں داخل ہوتے ان خوش شکل لوگوں پہ پڑی۔۔۔

میں بعد میں فون کرتی ویں۔۔۔ وہ فون کی دوسری جانب موجود شخص سے کہتی کھڑی ہوتی ان لوگوں کی جانب متوجہ ہوئیں۔

جی آپ لوگ کون۔۔۔ ان لوگوں کے پیچھے دو آدمیوں کو ہاتھوں میں پھل فروٹ کی ٹوکریاں پکڑے اور کچھ شوپنگ بیگز پکڑے دیکھ وہ الجھیں۔

معزرت ہم لوگ بغیر بتائے آگئے۔۔۔ میں جاگیردار تراب خان ہوں اور یہ میری بیوی نور اور یہ رائد ہے میرا بیٹا۔۔۔ اصل میں ہم یہاں آپ کی بیٹی کا رشتہ لے کے آئے ہیں۔۔۔تراب خان رسان سے بولے تو تبسم کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

آپ لوگ کھڑے کیوں ہیں آئیں بیٹھیں نا۔۔۔ تبسم بیگم نے انہیں بیٹھنے کا کہا تو وہ لوگ صوفے پہ بیٹھ گئے۔۔۔ باقی تحائف اور ٹوکریاں سامنے ٹیبل پہ رکھ کے گارڈز باہر جا چکے تھے۔

آپ لوگ تھوڑی دیر انتظار کر لیں آئلہ کے بابا آفس میں ہیں میں انہیں فون کردیتی ہوں وہ تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔۔۔ تبسم بیگم کو سمجھ نا آیا وہ کیا کہیں اس لیئے وہ جلدی سے مرزا صاحب کو فون کرنے کا کہتی کچن کی جانب بڑھ گئیں۔

بنگلہ تو کافی اچھا ہے اور ان کے رہن سہن کو دیکھ کے مجھے لوگ بھی معقول لگ رہے ہیں۔۔۔ تراب خان اس خوبصورت سے لاؤنچ میں چاروں طرف نظریں گھماتے بولے

لاؤنچ کی ہر دیوار پہ برے برے شیشے لگے ہوئے تھے۔۔۔ جن کے چاروں اطراف میں پھول موجود تھے۔۔۔۔ جہاں وہ لوگ بیٹھے تھے اسکے دائیں جانب دیوار پہ بری سی ایل ئی ڈی لگی ہوئی تھی جس کے اردگرد لکڑی کے ریک بنے ہوئے تھے جہاں بہت سے خوبصورت اور قیمتی شوپیز موجود تھے۔

ماما کھانا بن گیا ہے کیا ۔۔۔۔ وہ مہمانوں کی موجودگی سے بےخبر فون میں مصروف نیچے آرہی تھی جب اسکی آواز پہ ان تینوں نے گردن اٹھا کے سیڑھیاں اترتی آئلہ کو دیکھا۔

وہ اورنج شلوار قمیض پہ ہم رنگ دوپٹہ اچھے سے سر پہ ڈالے آہستہ آہستہ سیڑیاں اتر رہی تھی۔

اسکا پرنور چہرہ دیکھتے رائد تو مبہوت رہ گیا۔۔۔ سرمئی آنکھوں پہ پلگھوں کی جھالر گرائے چہرہ ہر طرح کے میک اپ سے پاک ۔۔۔ بلا کا معصوم تھا۔

آپ آئمہ ہو بیٹا۔۔۔۔وہ آخری سیڑھی سے تین سیڑھیاں اوپر تھی جب نور بیگم کی آواز پہ اسنے چونک کے صوفوں کی جانب دیکھا اور سب کو اپنی طرف متوجہ پا کے اسنے جلدی سے اپنے دوپٹے میں چہرہ چھپایا۔

آگر صرف نور بیگم ہوتیں تو وہ چہرہ نا چھپاتی مگر ان کے ساتھ دو مرد بھی تھے جن سے اسے چہرہ چھپانا تھا۔

اسکی حرکت پہ جہاں تراب خان اور نور بیگم حیران ہوئے تھے وہیں رائد نے اپنی نظریں جھکالیں تھیں۔

وہ جانتا تھا وہ پردہ کرتی ہے وہ اسکے بارے میں ساری انفارمیشن نکلوا چکا تھا۔۔۔ تبھی وہ ان کمفٹیبل نا ہو اس لیئے اسنے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں تھی۔

اسلام و علیکم،،، جی میں آئلہ ہوں۔۔۔ وہ سلام کرتی نور بیگم کی جانب آئی۔

وعلیکم اسلام۔۔۔ ماشاءاللہ آپ تو بہت پیاری ہو۔۔۔ پر آپ نے نقاب کیوں کر لیا ۔۔۔ نور بیگم اسکی دل سے تعریف کرتی اسکے چہرہ چھپانے کی وجہ پوچھنے لگیں۔

جس طرح کا انکا گھر تھا انہیں یہی لگا تھا کہ لڑکی ماڈرن ہوگی مگر یہاں تو کہانی ہی الٹی تھی۔

پردہ کرنا میرے اللہ کا حکم ہے اور مجھے پسند بھی ہے۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی تو نور بیگم بھی مسکرادیں البتہ تراب خان نے رائد کو گھورا تھا جو نظریں نیچی کیئے باظاہر تو اپنے فون پہ مصروف دیکھائی دے رہا تھا مگر اسکے کان آئلہ کی طرف ہی تھے۔

آؤ بیٹا میرے پاس بیٹھو۔۔۔ نور بیگم نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا تو وہ دھیرے سے انکے برابر میں آکے بیٹھ گئی۔

سوری مگر آپ لوگ کون ہیں۔۔۔ جو سوال کب سے اسکے دل میں اٹھ رہا تھا آخر اسنے پوچھ ہی لیا۔

آئلہ بیٹا آپ زرا کچن میں جاؤ اور وہاں کے انتظام دیکھو۔۔۔ اس سے پہلے کوئی جواب دیتا تبسم بیگم وہاں آتی بولی تو وہ جی کہتی اٹھ کے کچن کی جانب بڑھ گئی

میں نے آئلہ کے بابا کو فون کر دیا ہے وہ بس آتے ہی ہوں گے۔۔۔ تبسم بیگم انکے برابر والے صوفے پہ بیٹھتی بولی

جب تک وہ آتے ہیں تب تک ہم آپ سے ہی بات کر لیتے ہیں۔۔۔اصل میں ہمارا بیٹا آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہے۔۔۔۔ ویسے تو ایلسے کسی چیر کی کمی نہیں ہے لیکن یہ اپنے شوق کے لیئے بزنس بھی کرتا ہے۔۔۔ اور اس بزنس کو اسنے شہرت کی بلندیوں پہ بھی پہنچایا ہے۔۔۔۔ تراب خان کے انداز میں غرور جھلک رہا تھا۔۔۔ جیسے رائد اچھے سے محسوس کر گیا تھا۔

ماشاءاللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے اللہ اور کامیاب کرے۔۔۔ تبسم بیگم کو رائد کافی اچھا لڑکا لگا تھا اس لیئے انہوں نے شائستگی سے دعا دی۔

آپ کی بیٹی ہمیں بھی بہت پسند ہے۔۔۔

 ہم اسے جلد سے جلد اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتے ہیں۔۔۔ تراب خان نے بات کو گھمانے پھرانے کی بجائے سیدھی بات کی۔

اتنی جلدی۔۔۔ ابھی تو آپ لوگ آئیں ہیں پہلے تھوڑی جان پہچان ہو جائے پھر شادی وغیرہ بھی دیکھ لیں گے۔۔۔ تبسم بیگم نے مناسب لفظوں میں اپنے خیال کا اظہار کیا۔۔۔ جس پہ تراب خان نے رائد کی جانب دیکھا جو چہرے پہ بغیر کوئی ثاترات لیئے بیٹھا تھا۔

اسلام و علیکم۔۔۔ تراب خان کچھ کہتے جب مرزا صاحب سلام کرتے کاؤنچ میں داخل ہوئے۔۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔۔ رائد نے اٹھ کے ان سے ہاتھ ملایا جب کے تراب خان نے اٹھنے کی بھی زحمت نا کی تھی۔

انکل میں را۔۔۔۔۔

ارے آپ کو کون نہیں جانتا ہمارے ملک کے نامور بزنس مین میں سے ایک ہو آپ۔۔۔ رائد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی مرزا صاحب بول پڑے۔۔۔ جس پہ رائد مسکرا دیا

میں رائد کا والد ہوں تراب خان اور یہ ماں ہیں رائد کی۔۔۔ تراب خان نے اپنا اور نور بیگم کا تعارف کروایا جس پہ مرزا صاحب نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

مرزا صاحب ویسے تو ہم نے اپنے یہاں آنے کی وجہ آپکی بیگم کو بتا دی ہے مگر ہم ایک بار پھر آپ سے اپکی بیٹی کا رشتہ مانگتے ہیں۔۔۔

ہمارا بیٹا آپ کی بیٹی کو بہت پسند کرتا ہے۔۔۔ اس لیئے ہم یہاں تشریف لائے ہیں کہ آپ اپنی بیٹی کو ہمارے گھر کی بہو بنا دیں۔۔۔ تراب صاحب نے اپنی بات سامنے رکھی تو مرزا صاحب نے کچھ پریشانی سے اپنی بیگم کو دیکھا جو انہیں ہی دیکھتی کچھ کہنے کا بول رہی تھیں۔

اپ لوگ یہاں آئے ہمیں بہت اچھا لگا۔۔۔ آپ نے رشتہ مانگا اس پہ بھی ہمیں بہت خوشی ہوئی مگر ہماری بیٹی کی ایک شرط پے۔۔۔ مرزا صاحب مسکرا کے کہتے آخر میں ہچکچائے۔

کیسی شرط۔۔۔۔ تراب خان نے بہت مشکل سے اپنے ماتھے پہ آتے بلوں کو روکا تھا۔۔۔ آج تک انکے سامنے کسی نے کوئی شرط رکھنے کی ہمت نہیں کی تھی مگر یہاں تو بہو بنے سے پہلے ہی شرطیں رکھی جا رہی تھیں۔

وہ دراصل ہماری بیٹی پردے کی پابند ہے۔۔۔ وہ کہیں بھی جاتی ہے تو پردہ کرتی ہیں۔۔۔ تو اسکی شرط یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد بھی پردہ کرے گی اور کوئی اسے منا نہیں کرے گا۔۔۔ مرزا صاحب نے آئلہ کی شرط سامنے رکھی تو تراب خان نے ایک نظر نور بیگم کو دیکھا۔۔۔۔ جو انکی بات سے مطمئن لگ رہی تھیں۔

انکل مجھے آئلہ کے پردہ کرنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے وہ جیسے چاہے رہ سکتی ہے۔۔۔ تراب خان کے بولنے سے پہلے ہی رائد احترام سے بولا تو مرزا صاحب کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آگئی۔

مرزا صاحب جب ہمارے بیٹے کو ہی کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوگا۔۔۔ تراب خان کو چارو ناچار رائد کی وجہ سے مانا پڑا۔۔۔۔ ورنا وہ اندر سے آئلہ کے حق میں بلکل نہیں تھے۔

مجھے پھر بھی ایک بار آئلہ سے پوچھنا ہوگا۔۔۔۔ مرزا صاحب اٹھنے لگے جب تراب خان کی بات نے انکے قدم روکے۔

ارے بھائی صاحب کیا ضرورت ہے پوچھنے کی ۔۔۔ آپ بڑے ہیں آپ کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔۔۔ تراب خان ٹانگ پہ ٹانگ چڑہائے اپنے ازلی مغرور انداز میں بولے تو مرزا صاحب دھیرے سے مسکرا دیئے

مانا ہم اس کے بڑے ہیں۔۔۔۔ مگر یہ زندگی آئلہ کی ہے۔۔۔ آگے اسے پوری زندگی گزارنی ہے اس لیے اس رشتے میں اسکی رضامندی ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ تبسم بیگم نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تو تراب خان زبردستی مسکراتے ہوئے سر ہلا گئے ۔۔

بیٹی سے اسکی مرضی پوچھنا انہیں یہ سب بیوقوفی لگتی تھی مگر یہاں تو سب کچھ ہی الٹا تھا اور سونے پے سوہاگا وہ کچھ کہ بھی نہیں سکتے تھے آخر انکے بیٹے کا سوال تھا۔

آپ لوگ بیٹھیں ہم زرا آئلہ سے بات کر کے آئے۔۔۔۔ مرزا صاحب خوش اخلاقی سے کہتے تبسم بیگم کو ساتھ لیئے کچن کی جانب بڑھ گئے۔

پیچھے رائد بےصبری سے اسکے جواب کا منتظر ہو گیا۔

آمنہ(ملازمہ) تم یہ باہر لے کے جاؤ ۔۔۔ تبسم بیگم کچن کاؤنٹر پہ رکھے لوازمات کی جانب اشارہ کر کے بولیں۔۔۔ تو وہ جی کہتی پلیٹس ٹرے میں رکھنے لگی۔

آئلہ بیٹا باہر وہ لوگ آپ کا رشتہ لے کے آئے ہیں۔۔۔ مرزا صاحب ملازمہ کے کچن سے نکلتے ہی کاؤنٹر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی آئلہ سے بولے

بابا آپ نے ان لوگوں کو ہمارج شرط کے بارے میں بتایا ہے۔۔۔ وہ سیدھی ہوتی سوال کرنے لگی

ہاں بیٹا بتا دیا ہے اور انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ اس لیئے ہم تمہارا فیصلہ سننے آئے ہیں۔۔۔ وہ پیار سے بولے 

بابا ہماری شرط انہیں منظور ہے تو ہم کیا کہ سکتے ہیں۔۔۔ آپ لوگوں کی جیسی مرضی ۔۔۔ ہم نے اپنی شادی کا اختیار آپ لوگوں کو دیا ہوا ہے۔۔۔

بس ہم یہی چاہتے ہیں کے جس سے بھی آپ لوگ ہماری شادی کروائیں وہ ہمارے پردہ پہ کوئی اعتراض نا کرے۔۔۔ اور یہ لوگ ہمیں ایسے ہی قبول کر رہے ہیں تو پھر آپ لوگوں کو جیسا ٹھیک لگے۔۔۔۔ آئلہ رخ موڑنے گردن جھکا گئی۔۔۔ تو مرزا صاحب مسکرادئے۔

مجھے تو لگ رہا ہے آج ہی منگنی کی تاریخ رکھ کے جائیں گے۔۔۔ مگر ایسی کسی بھی بات سے پہلے آپ ایک بار لڑکے کے بارے میں معلومات کروالیں تو اچھا ہوگا ۔۔۔ تبسم بیگم فکرمندی سے مرزا صاحب سے بولیں۔۔۔ 

انہیں باظاہر تو لوگ اچھے ہی لگے تھے پر وہ ماں تھیں اور آج کل کے حالاتوں کو اچھے سے جانتی تھیں اس لیئے وہ پہلے ہی رائد کے بارے میں سب جاننا چاہتی تھیں۔

یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔ لڑکا بہت اچھا ہے۔۔۔ پوری دنیا جانتی ہے اسے۔۔۔ پورے ملک میں ایک نام ہے اسکا۔۔۔ آئے روز تو اسکی کامیابی کی خبریں نیوز پیپر میں چھپتی رہتی ہیں۔۔۔ اور تم کہہ رہی ہو میں اسکے بارے میں معلومات کروں ۔۔۔ مطلب حد کرتی ہو یار۔

میں جانتا ہوں تھوڑا سنجیدہ ہے مگر بہت اچھا لڑکا ہے ۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کے اسے اور اسکے گھر والوں کو ہماری بیٹی کے پردہ کرنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔ 

اس لیئے ہمیں بھی کم سوچنا چاہیئے اور جیسا وہ لوگ چاہ رہے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔۔۔ مرزا صاحب نے اپنی بیگم کو تسلی دیتے سمجھایا تو وہ سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا گئیں جب کے دونوں آئلہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے کچن سے نکل گئے۔

جی تو پھر کیا مرضی ہے آپکی بیٹی کی۔۔۔ ان دونوں کے لاؤنچ میں آتے ہی تراب خان چائے کا کپ نیچے رکھتے مرزا صاحب سے مخاطب ہوئے۔۔۔۔ تو رائد نے بےچینی سے انکے مسکراتے چہروں کو دیکھا۔

ہماری بچی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ ہماری طرف سے ہاں ہے۔۔۔ مرزا صاحب خوش خبری سناتے میٹھائی کی پلیٹ ٹیبل سے اٹھا کے تراب خان کے سامنے کر گئے۔

جب کے رائد کے بےچین دل کو جیسے چین مل گیا تھا۔۔۔۔ وہ اتنا خوش تھا کہ اسکا دل کر رہا تھا ابھی جائے اور پورے شہر میں میٹھایاں باٹے۔

ارے بھئی بہت بہت مبارک ہو پھر تو۔۔۔ تراب خان پلیٹ سے میٹھائی اٹھاتے رائد کے منہ کی جانب کر گئے تو رائد نے انکے ہاتھ سے میٹھائی لیتے خود ہی منہ میں ڈالی جب کے ایک پل کے لیئے تراب خان کا دل بجھ گیا۔ 

انکل میں صاف اور سیدھی بات کروں گا۔۔۔ ہم زیادہ لمبی چوڑی چیزوں میں نہیں پڑھنا چاہتے ۔۔۔ میں بس جلد از جلد آئلہ کو اپنا بنانا چاہتا ہوں جتنا جلدی ہو سکے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ رائد ہلکی سی مسکان کے ساتھ بولا تو مرزا صاحب نے پریشانی سے اپنی بیگم کو دیکھا

بیٹا اتنی جلدی شادی۔۔۔۔ تبسم بیگم نے کچھ کہنا چاہا جب رائد نے انکی بات کاٹی۔

بلکل جلدی نہیں ہے آنٹی۔۔۔ ہم بیس دن بعد شادی کریں گے اور ہمیں کون سا جہیز وغیرہ چاہئے جو آپ لوگوں کو ٹائم لگے۔۔۔ رائد پرسکون انداز میں خود ہی اپنی شادی کی تاریخ بھی طے کر گیا جب کے تراب خان ضبط کرتے رہ گئے۔

وہ انہیں لایا تھا سارے معاملات طے کرنے کے لیئے مگر وہ یہاں آکے سب کچھ خود ہی طے کرنے میں لگا ہوا تھا ۔۔۔ یہ بات انہیں بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی مگر وہ مجبور تھے کچھ کہہ جو نہیں سکتے تھے۔

مگر بیٹا پھر بھی اور بہت سی چیزیں ہوتی ہیں کم سے کم ہمیں دو مہینے تو دو۔۔۔ مرزا صاحب نے سمجھانا چاہا مگر رائد نے تو قسم کھا رکھی تھی جیسے آج ہی بیس دن بعد کی تاریخ پکی کروائے گا۔

انکل آپ کو مجھ پہ یقین ہے نا۔۔۔ رائد نے امید سے انکی طرف دیکھا تو مرزا صاحب ہاں میں سر ہلا گئے۔

تو بس پھر آپ شادی کی تیاریاں شروع کریں میں ٹھیک بیس دن بعد مطلب بائیس تاریخ کو بارات لے کے آؤ گا اور آپ کے پاس سے اپنی امانت لے جاؤں گا۔۔۔ رائد اطمینان سے کہتا آخر میں مسکرایا تو مرزا صاحب کچھ کہہ ہی نا سکے۔

مرزا صاحب اب جب ہمارے بیٹے نے شادی کی تاریخ رکھ ہی دی ہے تو آپ سب تیاریاں شروع کردیں۔۔۔تراب خان کھڑے ہوتے ایک طنزیہ نظر رائد پہ ڈالتے بولے تو وہ سب بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔

جب کے رائد کو کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ لوگ بیٹھے تو کھانا کھا کے جائے گا۔۔۔۔ مرزا صاحب نے انہیں روکنا چاہا ۔

پھر کبھی سہی ابھی ہمیں یہاں سے ایک اور بہت اہم کام کے لیئے جانا ہے ۔۔۔ تراب خان کی بات پہ رائد نے انہیں ترچھی نگاہوں سے دیکھا جو جھوٹ بول رہے تھے۔

وہ جانتا تھا کہ وہ ایسا کیوں بول رہے ہیں انہیں رائد کی بات بلکل اچھی نہیں لگی تھی اور وہ زیادہ دیر اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے اس لیئے جانے کے لیئے کھڑے ہوگئے تھے۔

آپ کو ضروری کام ہے تو میں روک بھی نہیں سکتا۔۔۔ مگر جب اگلی بار آئیں گے تو کھانا ضرور کھائے گا۔۔۔۔ مرزا صاحب خوش اخلاقی سے بولے تو تراب خان زبر،دستی مسکراتے ان سے مل کے باہر نکل گئے۔۔۔ ان کے پیچھے نور بیگم اور رائد بھی نکلے جب کے لاؤنچ کے دروازے پہ کھڑی آئلہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہوگئی۔

۔🌺 🌺 🌺 

رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔ آئلہ کچھ دیر پہلے ہی کھانا کھا کے اور شادی کی شوپنگ کی لسٹ بنا کے اوپر اپنے کمرے میں آئی تھی ۔۔۔ 

جتنا جلدی جلدی سب کچھ ہو رہا تھا وہ اسنے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔

انہوں نے حسین کو بھی فون کر کے شادی کا بتایا تھا۔۔۔ مگر اسکے فائنل پیپر ہونے والے تھے جس وجہ سے وہ نہیں آنے والا تھا۔

آئلہ نے کہا بھی کہ وہ لوگ شادی کی تاریخ آگے کر والیں گے مگر حسین نے انہیں صاف صاف منا کردیا کہ جو کام جس وقت ہو رہا ہے اسے ہونے دیا جائے ۔۔۔ وہ یہاں بیٹھے بیٹھے فون پہ ہی شادی انجوائے کر لے گا۔۔۔ جس پہ ان لوگوں کو اسکی بات ماننی پڑی۔

وہ فریش ہوکے ابھی بیڈ پہ بیٹھی ہی تھی کے اسکا فون بچ گیا۔

یہ وہی انون نمبر تھا جس سے اسے کل بھی فون آیا تھا۔۔۔۔ فون بج بج کے بند ہونے کے بعد دوبارہ آرہا تھا جب اسنے جھنجھلا کے کال ریسیو کی۔

ہم نے آپ کو منا بھی کیا تھا پھر بھی آپ ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔۔۔۔ وہ فون کان سے لگائے  غصے سے غرائی۔

لگتا ہے اب بھی تم مجھے نہیں پہچانی۔۔۔۔ دوسری طرف سے رائد کی خوشگوار آواز آئی۔

ہم بہت اچھے سے پہچان گئے ہیں آپ کو۔۔۔ آپ وہی آوارہ لڑکے ہیں جو ہمیں فضول میں تنگ کر رہے ہیں کل سے۔۔۔ وہ دوبدو بولی تو رائد نے خود کو آوارہ کہے جانے پہ کان سے فون اٹھا کے اسے گھورا۔

تمیز سے لڑکی ہونے والا شوہر ہوں تمہارا۔۔۔ آج ہی ہماری شادی کی تاریخ پکی ہوئی ہے اور تم آج ہی اپنے ہونے والے شوہر سے بدتمیزی کر رہی ہو۔۔۔ رائد رعب دار لہجے میں بولا تو آئلہ چونگی۔

آپ وہ ہیں جو آج رشتہ لے کے آئے تھے۔۔۔ آئلہ نے آنکھیں چھوٹی کیئے کنفرم کیا۔

میرے علاوہ اور کوئی جرت نہیں کر سکتا تمہیں کال کرنے کی۔۔۔ رائد نے دلکشی سے اسکی بات کا جواب دیا تو ایک پل کے لیئے آئلہ کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔۔ اسنے تو اسے کوئی آوارہ لڑکا سمجھ کے اچھی خاصی سنائی دی تھی کہیں اسنے برا ہی نا منا لیا ہو۔

سوری ہمیں لگا کوئی ایسے ہی ہمیں تنگ کررہا ہے۔۔۔۔۔ آئلہ شرمندہ لہجے میں معذرت خواہ ہوئی۔

کوئی بات نہیں تم نہیں جانتی تھیں اس لیئے ایسا کہہ دیا ورنا میں جانتا ہوں تم سب کی کتنی عزت کرتی ہو۔۔۔ رائد کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا جب کے رائد کی باتیں آئلہ کو سر جھکانے پہ مجبور کر رہی تھیں۔

آپ نے کیوں فون کیا۔۔۔ 

ایسی ہی۔۔۔ رائد نے سکون سے کہا۔

مگر ہم مصروف ہیں۔۔۔ وہ ہچکچائے بہانا کر گئی۔۔۔۔ رائد سے بات کرنا اسے دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اسکا لہجہ جو بول رہا تھا اس سے اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔

ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو میں پھر فون کروں گا۔۔۔ رائد نے مسکراتے لہجے میں کہا تو آئلہ کہ آنکھیں پھیلیں۔

پھر کیوں فون کریں گے۔۔۔ میرا مطلب ہے شادی تو ہونے والی ہے تب ہی ساری باتیں کر لیں گے۔۔۔ وہ روانی میں بول گئی مگر احساس ہونے پہ اپنی بات کی صحیح کر گئی

ویسے رائد خان کسی کی سنتا نہیں ہے مگر تم بہت ہی خاص ہو اس لیئے مان لیتا ہوں تمہاری بات۔۔۔۔ اب شادی والے دن ہی بات ہوگی تفضیل سے۔۔۔ وہ گھمبیر لہجے میں کہتا آخر میں ذومعنی انداز میں بولا تو آئلہ مسکرا دی۔

ایک بات کہنی تھی۔۔۔ اس سے پہلے وہ فون بند کرتا وہ بول اٹھی۔

میں سن رہا ہوں۔۔۔ رائد کا روم روم سماعت بن کے آئلہ کی بات منتظر تھا۔

تھینکیو سو مچ ۔۔۔ ہمیں ہمارے حجاب کے ساتھ قبول کرنے کے لیئے۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی تو رائد کے لبوں پہ مسکراہٹ اگئی۔

ابھی اپنا تھیک یو سمبھال کے رکھو۔۔۔ شادی کی رات اچھے سے کہا۔۔۔ وہ معنی خیزی سے کہتا فون بند کرگیا۔۔۔ آگر وہ کچھ دیر اور بات کرتا تو آئلہ کی طلب بڑھ جاتی جس وجہ سے اسنے فون ہی بند کر دیا۔۔۔ جب کے آئلہ مسکرا کے فون کو دیکھنے لگی۔

وہ اللہ کا بہت شکر ادا کر رہی تھی کہ وہ اسے ایسا ہمسفر دے رہا ہے جسے اسکی قدر ہے ۔۔۔ جس کے لیئے اسکی ہر بات اہم ہے۔۔۔ اسے اسکے نقاب کرنے پہ بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکے وہ اس نیکی کے کام میں اسکا ساتھ دے رہا ہے ۔۔۔ اس کے لیئے وہ چتنا اپنے رب کی شکر گزار ہوتی اتنا کم تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

کچھ دن بعد۔۔۔۔

فارم ہاؤس کے باہر گاڑی رکتے ہیں جزلان گاڑی سے اترتا گھوم کے دوسری طرف آتے فرنٹ ڈور اوپر کر کے ہاتھ آگے بڑھا گیا۔

اسکے بڑھائے ہوتے ہاتھ پہ مسکراتے ہوئے مہوش نے اپنا ہاتھ رکھا اور گاڑی سے نکلی۔

پچھلے چار دن سے یہ ان دونوں کے زور کا معمول بن گیا تھا۔۔۔ زور ہی جزلان اپنے سارے کام نمٹا کے مہوش کو ساتھ لیئے یہاں آجاتا اور خود کسی کھیلنے کی طرح اس سے کھیلتا رہتا ۔۔۔ اور بیچاری مہوش یہ سمجھ کے کہ وہ اس سے پیار کرتا ہے اسکے سامنے اپنا آپ پیش کر گئی۔۔۔۔ جسے جزلان بہت اچھے سے استعمال کر رہا تھا۔

وہ پہلی بار مہوش کو فارم ہاؤس دیکھانے کا بہانا کر کے لایا تھا ۔۔۔وہ مہوش کا دل تو پہلے ہی جیت چکا تھا مگر مزید دو چار پیار بھری باتیں کر کے اسنے پوری طرح مہوش کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔۔۔ 

اور مہوش اسنے بغیر کبھی بھی سوچے سمجھے ۔۔۔۔ بغیر اپنے گھر والوں کی پرواہ کیئے جزلان کے ساتھ ساری حدیں پار کر دیں تھی۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اسکی غلطی کی کتنی بڑی سزا ملنے والی ہے۔

مہوش کے ساتھ رہتے رہتے اب اسکا دل بھر گیا تھا۔۔۔ وہ آج اس گلاب کی خوشبو میں آخری بار سانس لیتا اس گلاب کو مسلنے جا رہا تھا۔۔۔ جب کے مہوش اس سب سے انجان اسکا ہاتھ پکڑے بیڈ روم تک آگئی تھی۔

جزلان۔۔۔۔ اسنے کچھ کہنا چاہا مگر جزلان نے فورن اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھتے چپ کروایا۔

کچھ مت کہو۔۔۔ بس ان حسین لمحات کو محسوس کرو۔۔۔ وہ اسکے لبوں پہ پوری شدت سے جھکتا اپنا و،حشی پناہ اس کے لبوں پہ اترارنے لگا۔۔۔

اسکے انداز میں بےرحمی محسوس کرتے مہوش نے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر جتنا وہ اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرتی اسکی شدت میں اتنا ہی اضافہ ہوجاتا۔

کچھ دیر بعد وہ اسکے لبوں کو آزاد کرتے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پہ دھکا دیتے اسکے اوپر اپنا سایہ بنا گیا جس پہ مہوش کو گھبراہٹ ہوئی کیونکہ آج جو روپ وہ جزلان کا دیکھ رہی تھی وہ نیا تھا۔۔۔۔ ورنا اس سے پہلے تو وہ ہمیشہ اسے نرمی سے چھوتا تھا مگر آج ناجانے اسے کیا ہو گیا تھا۔

مگر مہوش اسکی محبت کی جنونیت سمجھتی خاموشی سے اسکی پناہوں میں پڑی تھی۔

وہ جابجا اسکا لمس اپنی گردن پہ محسوس کر رہی تھی جب کے دونوں ہاتھ اسکے جزلان کے ہاتھ میں قید تھے۔

جزلان نے زور سے اسکی کان کی لو کو دانتوں تلے دبایا تو وہ سسک اٹھی۔

ایک شکوہ کناہ نگاہ سے اسنے جزلان کو دیکھا جسے دیکھتے جزلان پراسرار سا مسکراتا جیسے بغیر سمجھے مہوش شرماتے ہوئے آنکھیں بند کرگئی۔

اسکے چہرے پے پھیری سرخی کو دیکھتے جزلان کے لبوں پہ ایک کمینگی سی مسکراہٹ آئی جس کے ساتھ وہ اپنی تمام تر وحشتوں سمت پھر سے مہوش پہ جھک گیا جیسے مہوش اسکا پیار سمجھ کے براشت کرتی رہی۔

مہوش کے والدین نے اسے گھر سے باہر نکلنے دیا تو صرف اس پہ اعتبار کر کے مگر مہوش نے اپنے والدین کا اعتبار توڑا تھا جس کی سزا اسے ملنے والی تھی۔

وہ جزلان کی ڈھیلی سی شرٹ اور ٹروزار​ میں موجود ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے نم بالوں کو سکھاتی مہوش کی نظریں مسلسل بیڈ پہ بیٹھے سگریٹ پیتے جزلان پہ تھی۔۔

وہ ابھی فریش ہوکے نکلی تھی جب کے اندر سے دل کافی گھبرا رہا تھا جیسے کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے۔۔۔ وہ بار بار دل کو جھٹک دیتی مگر اسکے دل کو سکون نہیں مل پارہا تھا۔

جزلان یہ سب کب تک چلے گا۔۔۔ آپ اپنے گھر والوں کو کب بھیجیں گے میرے گھر رشتہ لے کے۔۔۔ مہوش شیشے سے اسکا عکس دیکھتی تھوڑا پریشانی دے بولی تو ہوا میں دھواں اڑاتے جزلان نے اسکی جانب دیکھا۔

اسکی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ مہوش کو تھوڑی دیر کے لیئے خوف محسوس ہوا۔

اسکے چہرہ پے پھیلی پراسرار مسکراہٹ مہوش کی گھبراہٹ بڑھا گئی تھی۔

جزلان بولیں نا۔۔۔ کب بھیجیں گے اپنے گھروں والوں کو۔۔۔ مہوش بامشکل اپنی کیفیت پہ قابو پاتی اسکے سامنے آئی۔

کیا میں نے کبھی ایسا کچھ کہا تھا۔۔۔ جزلان معصومیت سے ایک ایبرو اچکائے گویا ہوا تو مہوش کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔

آپ نے۔۔۔ کہا تھا ۔۔۔ ہم ۔۔۔۔ ایک دن۔۔۔ ایک ہوں گے۔۔۔ وہ رک رک کے بولی تو کمرے کی خاموش فضا میں ایک دم جزلان کا قہقہہ بلند ہوا۔۔۔ جس سے مہوش کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔۔۔

میں نے کہا تھا ہمیں کبھی نا کبھی ایک ہونا ہی ہے تو ابھی ہو جاتے ہیں۔۔۔ اور لو دیکھ لو ہم ایک ہوگئے ہیں۔۔۔ جزلان اپنے کپڑوں میں قید اسکے سراپہ پہ گہری نظریں جمائے بولا تو مہوش کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا

ی۔۔۔۔۔یہ آ۔۔۔پ کی۔۔۔یا۔۔۔ کہہ۔۔۔ رہے۔۔۔ہیں۔۔۔ اسکے حلق سے الفاظ نکلنے سے انکاری تھے۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ اسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔

ارے مہوش میری جان تم فکر نہیں کرو تمہیں خالی ہاتھ نہیں جانے دوں گا۔۔۔ یہ لو یہ پورے دس لاکھ کا چیک ہے جاؤں اور انجوائے کرو۔۔۔ وہ مہوش کی جانب چیک بڑھاتا مزے سے بولا تو مہوش کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔

اسے اپنا آپ اس وقت کسی طو+ائف سے کم نا لگا۔۔۔ اسکے دل میں اب شدت سے احساس جاگا تھا کہ وہ کتنی بڑھی غلطی کر چکی ہے۔

آپ تو۔۔۔ مجھ سے۔۔۔ محبت کرتے ہیں۔۔۔ نا۔۔۔ وہ دل میں ایک امید لیئے بولی کے جیسے ابھی جزلان بولے گا ہاں کرتا ہوں۔۔۔ بہت محبت کرتا ہوں،،، اور جو سب میں نے کہا قہ میں مزاق کر رہا تھا۔۔۔ مگر سامنے والا کتنا بےحس تھا وہ نہیں جانتی تھیں۔

کسی بھی کھلونے سے میری محبت صرف تین چار دن کے لیئے ہوتی ہے۔۔۔۔ جہاں میرا اس سے کھیل کے دل بھرا ادھر ہی محبت ختم۔۔۔ وہ سفاکیت سے کہتا مہوش کی روح فنا کرگیا

اسکے قدم لڑکھڑائے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکے قدموں میں بیٹھتی چلی گئی۔

سامنے بیٹھا شخص جس سے محبت کر کے ۔۔۔ جس کی محبت پہ یقین کر کے اسنے اپنا آپ اسکے آگے پیش کیا ۔۔۔ کسی کے بارے میں نا سوچ کے اسکے بارے میں سوچا اور اس شخص نے اسے صرف ایک کھیلونے سے زیادہ کبھی اہمیت ہی نہیں دی تھی۔

سہی کہتے ہیں لوگ گناہ کی سزا کسی کسی کو دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔۔۔ اور آج مہوش کو مل گئی تھی۔۔۔ وہ اپنی عزت گھو بیٹھی تھی ایک غیر شخص کے اگے۔

اسنے بھی گناہ کیا تھا۔۔۔ دنیاوی محبت میں مبتلا ہوکے وہ حرام حلال سب بھول گئی تھی۔۔۔جو اپنا آپ پیش کرنے سے پہلے اپنے والدین کی عزت کو بھول گئی تھی اسکے ساتھ یہی ہونا تھا۔۔

وہ اب پچتا رہی تھی کہ اسنے کیوں جزلان کی بات مانی کیوں وہ اسکے دھوکے میں آئی۔۔۔ اسے اچانک ایمل کی بات یاد آئی کے وہ انسان کے روپ میں چھپا ایک بھیڑیا ہے جو کتنی ہی لڑکیوں کی زندگی برباد کر چکا ہے آگر وہ اسکی بات جب مان لیتی تو آج وہ اس مقام پہ نا ہوتی۔۔۔

اسکے دل میں ایک ہوک اٹھی جس کے ساتھ انسوں میں روانی اگئی۔

جلدی اٹھو اور جا کے اپنے کپڑے چینج کر کے آؤ۔۔۔باقی کا سوگ اپنے گھر جا کے منانا ۔۔۔ مجھے ابھی نکلنا ہے کسی کام کے لیئے!!! جلدی کرو۔۔۔ وہ کھڑا ہوتے سائڈ کورنر سے اپنی چیزیں اٹھانے لگا تو مہوش نے جلدی سے آگے بڑھ کے اسکے پیر پکڑ لیئے۔

پلیز میرے ساتھ ایسا مت کریں۔۔۔ میں نے تو آپ سے سچی محبت کی ہے۔۔۔ آپ کے سامنے کچھ نہیں دیکھا۔۔۔ آپ کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔۔۔ میں برباد ہو جاؤں گی پلیز ایسا نا کریں ۔۔۔۔ پلیز مجھ سے شادی کرلیں ۔۔۔ وہ روتے ہوئے اسکے پیر پکڑے منت کر رہی تھی جب جزلان ایک دم جھکتے اسکے چہرہ کو اپنی مضبوط گرفت میں لیئے اپنا چہرہ اسکے چہرے کے بلکل نزدیک لائے پھنکارا۔

تم جیسی لڑکیاں بہت دیکھیں ہیں میں نے،،، جو پہلے خود ہی میری دولت کے لالچ میں میرے پاس آتی ہیں اور پھر بعد میں یہ شرافت کا ڈرامہ روتی ہیں۔۔۔ اس لیئے میرے سامنے تو یہ سب کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اسکا چہرہ چھوڑتا سیدھا ہوا

میں آپ کی دولت کے لالچ میں آپ کے پاس نہیں آئی بلکے آپ کی محبت میں آپ کے پاس آئی تھی۔۔۔ پلیز مجھے اوروں جیسا مت سمجھیں ۔۔۔ پلیز مجھے ایسے نا چھوڑیں۔۔۔ میں کیسے سب کو منہ دیکھاؤں گی۔۔۔ وہ ایک بار پھر سسک اٹھی جب کے جزلان بےرحمی سے سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔

دس منٹ ہیں تمہارے پاس چینچ کر کے باہر آ جاؤ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ آخر تم نے مجھے اتنے اچھے سے انٹرٹین کیا ہے تو میں تمہیں آخری بار گھر تک تو چھوڑ ہی سکتا ہوں۔۔۔ جزلان چہرے پہ مسکان سجائے دروازے میں کھڑا بولا تو مہوش کو اپنا آپ گھٹیا لگنے لگا۔

آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔ آپ یوں مجھے برباد کر کے نہیں جا سکتے۔۔۔ وہ روتے ہوئے اپنے بال نوچتی ہزیانی انداز میں چیخی۔

میں نے تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی تھی۔۔۔ تم خود اپنی مرضی سے میری باہوں میں سمائیں تھیں۔۔۔ جزلان نے سکون سے جواب دیا۔

آپ سے محبت کی تھی آپ کو ایک سچا اور اچھا انسان سمجھ کے اپنے قریب آنے دیا۔۔۔ مگر آپ۔۔۔ حلق میں آنسوں کا گولا ہٹکا تھا جس سے اسکی بات ادھوری رہ گئی۔

یہ تمہاری غلطی تھی۔۔۔ اور ہاں غلطی سے بھی کسی کو بتاتے کی کوشش نہیں کرنا ورنا میرے پاس ہمارے گزرے ہوئے لمحات کی ساری یادیں موجود ہیں۔۔۔ وہ میں ان کے ساتھ کیا کر سکتا ہوں یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ سائڈ مسکراہٹ کے ساتھ مغرور انداز میں دھمکی دیتے بولا۔۔۔ تو مہوش کا دل کیا ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ مجھے میرے کیئے کی سزا تو مل گئی ہیں مگر میری بددعا ہے آپ بھی کبھی سکون سے نہیں رہیں گے۔۔۔ ایک دن آئے گا جب دنیا کے سامنے اپکی یہ جھوٹی شکل سامنے آئے گی۔۔۔ کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا ۔۔۔ کبھی نہہں۔۔۔ وہ پیچھے سے چیختی رہی جب کے جزلان مسکراتے ہوئے سر جھٹک کے باہر نکل گیا۔

وہ بھول گیا تھا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔۔ ابھی تو اللہ نے اسکی رسی ڈھیلی چھوڑی ہوئی تھی مگر جس دن اسنے رسی کھینچی اس دن وہ منہ کے بل گرے گا۔

۔🌺 🌺 🌺

مما مجھے لگتا ہے ہم نے کافی شوپنگ کر لی ہے اب ہمیں چلنا چاہیئے۔۔۔ نوال اور نور بیگم کافی دیر سے شوپنگ کر رہی تھیں۔۔۔ اب تو نوال بھی تھک گئی تھی مگر نور بیگم تو جیسے رائد کی شادی میں کوئی کمی چاہتی ہی نہیں تھی اس لیئے ہر ایک دکان چھان کے اچھے سے دیکھ بھال کے چیزیں لے رہیں تھیں۔

دو تین چیزیں اور لے لیں پھر چلتے ہیں۔۔۔ نور بیگم اوپر جانے کی خاطر لفٹ کی جانب بڑھیں ۔

انہوں نے لفٹ کا بٹن دبا اور جیسے ہی تھوڑی دیر بعد لفٹ کا دروازہ کھلا سامنے لفٹ میں کھڑے شخص کو دیکھتے نوال کی سانس روک گئی۔۔۔ 

نوال اندر آؤ بیٹا۔۔۔ اسے لفٹ کے باہر ہی ساکت کھڑے دیکھ نور بیگم نے پکارہ تو وہ چونک کے ہوش میں آتی اندر قدم بڑھا گئی

وہ لوگ لفٹ کے بائیں جانب کھڑیں تھی جب کے دائیں جانب نوال کے چہرے کا رنگ آڑے دیکھ زیر لب مسکراتا حسام کھڑا باظاہر فون میں مصروف تھا۔

 لفٹ تیسرے فلور پہ رکی تو ایک ایک کر کے لفٹ سے سب باہر نکلے تھے اور ان کے پیچھے ہی حسام بھی باہر نکلتا دوسری سمت بڑھ گیا تو نوال کو سکون کا سانس آیا۔

حسام کو کوئی جانتا نہیں تھا مگر ان کے ساتھ جو دو گارڈز آئے ہوئے تھے وہ بہت اچھے سے حسام کو جانتے تھے اس لیئے وہ کسی کو کوئی شک کا موقع نہیں دے سکتی تھی۔

وہ لوگ ابھی ایک کپڑوں کی دکان میں داخل ہی ہوئے تھے کے کندھے پہ لٹکے بیک میں اسکا فون وائبریٹ ہوا۔۔۔ وہ جانتی تھی کس کا فون ہوگیا اس لیئے ایک سائڈ میں جاکے اسنے بیگ سے فون نکالا۔

حسام آپ جانتے ہیں میں ماما کے ساتھ ہوں ابھی بات نہیں کر سکتی ۔۔۔ وہ آگے پیچھے دیکھتی بہت ہی ہلکی آواز میں بولی۔

میں لاسٹ فلور پہ بنے کیفے میں تمہارا انتظار کررہا ہوں پانچ منت کے اندر اندر پہنچو ورنا میں وہیں سب کے سامنے آکے تم سے ملوں گا ۔۔۔۔ حسام سیریس انداز میں دھمکی دیتے اسکی سنے بغیر ہی فون بند کر گیا جب کے نوال فون کو گھور کے رہ گئی۔

میں کیسے جا سکتی ہوں۔۔۔ 

کیا کروں اب میں۔۔۔ ہاں دوبارہ فون کر کے منا کر دیتی ہوں۔۔۔ وہ پریشانی سے ماتھے پہ ہاتھ پھیرتی جلدی سے حسام کو فون ملانے لگی۔۔۔ مگر اسنے اسکا فون ہی نہیں اٹھایا۔

اب کیا کروں ۔۔۔ اگر سچ میں آگئے تو۔۔۔۔ وہ اضطراب میں مبتلا ہوتی سوچنے لگی مگر اسے کوئی حل نہیں مل رہا تھا۔۔۔

اسنے اپنا دل مضبوط کرتے ایک فیصلہ کیا اور نور بیگم کی جانب بڑھائے۔

ماما اور کتنی دیر لگے گی۔۔۔ وہ کپڑے دیکھتی نور بیگم کے پاس کھڑے ہوتے دھیرے سے پوچھنے لگی۔

آدھا ایک گھنٹہ تو لگے گا۔۔۔ تم نے اپنے لیئے کچھ پسند کیا۔۔۔ نور بیگم مصروف انداز میں ٹائم کا بتاتی آخر میں استفسار کرنے لگیں۔

وہ ماما مجھے۔۔ واش۔۔روم جانا ہے ۔۔۔ کیا میں جاؤ۔۔۔ بہانا بناتے ہوئے ڈر کے مارے اسکی زبان لڑکھڑائی۔

ہاں چلی جاؤ اور شاہدہ کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ نور بیگم نے ساتھ آئی ملازمہ کو لے جانے کا کہا تو نوال ایک دم گھبرا گئی ۔۔۔وہ کسی بھی قیمت ہی شاہدہ کو ساتھ نہیں لے کے جانا چاہتی تھی۔

نہیں ماما میں اکیلی چلی جاؤ گی۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ اسنے جلدی سے کہا تو نور بیگم ایک نظر اسے دیکھ کے ہاں میں سر ہلاگئیں۔

اچھا ٹھیک ہے چلی جاؤ مگر جلدی آنا۔۔۔ میں یہاں سے برابر والی دکان میں جاؤں گی اگر یہاں نا ملوں تو وہاں آجانا ۔۔۔ نور بیگم کے اجازت دینے پہ وہ جی کہتی جلدی سے باہر نکل گئی۔

نور بیگم نے اسے کبھی بھی کسی بھی چیز سے منا نہیں کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ آج بھی جلد ہی اسکے اکیلے جانے پہ مان گئیں تھیں۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی دھڑکتے دل کے ساتھ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر جا رہی تھی۔۔۔

دل کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔۔۔ وہ کبھی ایسے باہر اکیلے حسام سے نہیں ملی تھی ۔۔۔ بار بار دل میں ایک ہی ڈر آ رہا تھا کہ کہیں کوئی دیکھ نا لے۔۔۔

کیفے کے باہر رکتے گہرے گہرے سانس لیتی خود کو نارمل کرتے کیفے کے اندر قدم بڑھائے تو رائٹ سائڈ دیوار کے ساتھ کی ایک ٹیبل پہ وہ بلو جینز پہ خاکی شرٹ پہنے جس کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں۔۔۔ ایک ہاتھ میں فون پکڑے جب کے دوسرا ہاتھ ٹیبل پہ رکھے دروازے کی جانب ہی متوجہ تھا 

گندمی رنگت۔۔۔۔ شہد رنگ آنکھیں ۔۔۔۔ کھڑی ناک۔۔۔ہلکی داڑھی موچھوں میں وہ بہت جازب لگ رہا تھا۔۔۔ نوال ایک بار پھر پیچھے مڑ کے دیکھتی مسکراتے ہوئے خود کو تکتے حسام کی جانب بڑھی۔

آپ نے مجھ کیوں بلایا ہے یہاں ۔۔۔ آپ جانتے ہیں نا اگر کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔۔۔ وہ خوف سے کہتی اسکے سامنے والی کرسی کھینچ کے بیٹھ گئی۔۔۔ جب کے حسام تو اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔

ہرے فراک میں براؤن چادر سے خود کو اچھے سے کور کیئے۔۔۔ سر پہ دوپٹہ جس میں سے دو لٹیں چہرے کے اعتراف میں جھول رہی تھیں ۔۔۔ معصوم سے چہرے میں ڈر صاف واضح دیکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔ جو باریک نین نقش والی نوال کو اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔

حسام اب کچھ بولیں بھی کیوں بلایا تھا۔۔۔ مجھے واپس بھی جانا ہے پھر۔۔۔۔ اسکی نظروں سے کنفیوز ہوتی وہ جھنجھلا کے بولی تو حسام کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

میں تمہیں ایسے یہاں کبھی نہیں بلاتا نوال مگر تمہارے بھائی کی شادی کیا ہو رہی ہے تم تو تیاریوں میں اتنی مصروف ہوگئی ہو کے مجھ سے بات کرنے تک کا وقت نہیں ہے تمہارے پاس ۔۔۔ مجھے تو جیسے بھول ہی گئی ہو تم۔۔۔ وہ خفا خفا انداز میں بولا تو نوال کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی ۔۔

حسام آپ میرے لیئے سب سے بڑھ کے ہیں ۔۔۔ میں خود کو بھول سکتی ہوں مگر آپ کو نہیں ۔۔۔ 

بس آج کل حویلی میں بہت کام ہوتا ہے اور ماما زیادہ تر مجھے اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔۔۔ نوال نے پیار سے سمجھایا تو حسام منہ بنا گیا۔

ایسے منہ نہیں بنائیں ۔۔۔ آپ کو بھی شادی پہ انوائیٹ کیا جائے گا ضرور آئے گا آپ ۔۔۔۔۔  نوال آنکھوں میں شرارت لیئے بولی۔

 پکاہ آؤ میں۔۔۔ حسام نے کنفورم کرنا چاہا 

ہاں۔۔۔ نوال نے سکون سے جواب دیا۔

دیکھ لو۔۔۔سوچ لو اچھے سے ۔۔۔ ایسا نا ہو میرے آنے سے وہاں کوئی بدمزگی ہو جائے۔۔۔ حسام نے اسے ڈرانا چاہا مگر نوال پرسکون تھی۔

ایک ویٹر کے آنے سے بھلا کیسی بدمزگی ہوگی۔۔۔ وہ انجان بنتی مسکراہٹ دبا کے پوچھنے لگی تو حسام اسکی بات سمجھتے آنکھیں چھوٹی کیئے اسے گھور کے رہ گیا۔

میڈم میں جاگیردار تراب خان کا ہونے والا داماد ہوں ۔۔۔ سمجھ رہی ہیں نا ۔۔۔ کوئی عام بندہ نہیں ہوں۔۔۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹھیک لگائے سکون سے بولا تو نوال نے لب گول کرتے اوو کہا اور پھر ہنس دی۔

ہنسوں نہیں یار۔۔۔۔ وہ اسکے ہنسنے پہ مسنوعی برا منائے بولا تو نوالا اچھے بچوں کی طرح منہ پہ انگلی رکھتے خاموش ہوگئی۔۔۔۔ مگر چند ہی سیکنڈ کے بعد پھر سے ہنس دی۔۔۔

اچھا کیا کھاؤ گی بتاو۔۔۔ اسکی ہنسی ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرتے حسام نے اسکے مسکراتے خوبصورت چہرے سے نظریں ہٹائیں۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اسکی ہی نظر نا لگ جائے اسے۔

میں اب چلوں گی۔۔۔ ماما کو واشروم کا کہہ کے آئی تھی اور اب بیس منٹ ہونے والے ہیں وہ پریشان ہو رہی ہوں گی۔۔۔ اور ایسا نا ہو پریشانی میں ملازمہ کو واشروم میں دیکھتے بھیج دیں۔۔۔ آگر وہ وہاں گئی اور اسے میں وہاں نا ملی تو نا جانے پھر کیا ہوگا ۔۔۔ اس لیئے اب مجھے چلنا ہوگا۔۔۔ سامنے دیوار پہ لگی گھڑی میں ٹائم دیکھتے جلدی سے کہتی کھڑی ہوگئی۔

ٹھیک ہے۔۔۔ مگر یاد سے رات کو مجھے فون کرنا اوکے۔۔۔۔ حسام نے بھی سمجھتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دی تو وہ مسکراتے ہوئے اسے خدا حافظ کہتی باہر نکل گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

قاسم ۔۔۔ واسم۔۔۔۔ کہا مرگئے ہو سب کے سب۔۔۔ جزلان کب سے اپنے پرانے ملازموں کو آواز رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے آدمیوں کو مہوش کو گھر چھوڑنے کا کہتا خود اپنے دوستوں میں نکل گیا تھا اور اب رات آٹھ بجے گھر آیا تھا وہ اپنے آدمیوں کو بلا رہا تھا۔۔۔ مگر کافی دیر بعد بھی جب کوئی نہیں آیا تو وہ کمرے سے باہر آتے لاؤنچ میں کھڑا اونچی آواز میں ڈھارا تو لاؤنچ میں صوفے پہ بیٹھے رائد نے ناگواری سے اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔

چھوٹے خان وہ قاسم اور واسم اب سے حویلی میں نہیں آئیں گے۔۔۔ بلکے کوئی بھی مرد ملازم حویلی میں نہیں آئے گا۔۔۔ یہ بڑے خان کا حکم ہے۔۔۔ ان کی پرانی ملازمہ نے وہاں آتے اسے غصے میں دیکھ کے جلدی سے کہا تو بڑے خان کے نام پہ اسنے صوفے پہ بیٹھے لیپ ٹاپ میں مصروف رائد کو دیکھا،، جو وہاں ایسے بیٹھا تھا جیسے اس کے علاوہ وہاں اور کوئی موجود ہی نا ہو۔۔۔ اسکے اردگرد کیا ہو رہا ہے جیسے اسے کچھ معلوم ہی نا ہو۔

اور یہ بڑے خان ہوتے کون ہیں ایسے حکم دینے والے۔۔۔ اور کس خوشی میں یہ حکم دیا گیا ہے۔۔۔ وہ پھر سے غصے سے سرخ آنکھیں لیئے بولا تو ملازمہ نے اپنا حلق تر کیا۔۔۔۔وہ بلا وجہ ہی ان دونوں بھائیوں کے بیچ میں پھس کے رہ گئی تھی۔

وہ جی آنے والی بڑی بہو بیگم پردہ کرتیں ہیں ان کی وجہ سے سارے مرد ملازم حویلی سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔۔۔ ملازمہ گردن جھکائے ادب سے بولی تو جزلان نے ضبط سے مٹھیاں بھیجیں۔

ابھی آئیں تو نہیں ہیں نا تو ابھی سے انہیں کیوں حویلی کے باہر کے کام سونپے ہیں۔۔۔ وہ ضبط کرتے غرایا تو ملازمہ کانپ گئی۔۔۔۔ ان خانوں کے غصے سے تو پورا گاؤں واقف تھا ۔۔۔ جب انہیں غصہ آتا تھا تو کچھ نہیں دیکھتے تھے۔۔۔

تم جاؤ اپنا کام کرو۔۔۔ باقی جسے جو بھی کام ہے وہ خود کر لے گا۔۔۔رائد مصروف انداز میں لیٹ ٹاپ کی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر بولا تو ملازمہ اپنی جان خلاصی ہونے پہ جلدی سے وہاں سے نکلی

کس کی اجازت سے تم نے میرے آدمیوں کو باہر نکالا ہے۔۔۔ جزلان غصے سے برا اسکے سر پہ پہنچا۔

مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ رائد اپنے کام میں لگا سکون سے کہتا اسکا خو+ن کھولا گیا۔

میرے آدمیوں کو باہر نکالنے سے پہلے میری اجازت کی ضرورت ہے۔۔۔۔ وہ اپنی بات پہ زور دے کے بولا تو رائد ایک نظر اسے دیکھتے اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے اٹھ کھڑا ہوا۔

میری ایک بات کان کھول کے سن لو۔۔۔ تمہارا کوئی بھی ملازم آج کے بعد حویلی میں نظر نہیں آئے ورنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔ رائد وارن کرتا اسے غصے میں لال پیلا چھوڑ اوپر بڑھ گیا جب کے ٹیبل پہ رکھا واز اٹھاتے جزلان نے غصے سے زور سے زمین پہ مارا اور کمرے میں جاتے ٹھا کی آواز کے ساتھ دروازہ بند کر گیا۔

اوپر اپنے دروازے پہ کھڑے رائد نے ناگواری سے اسکی حرکت پہ سر جھٹکا۔۔۔۔ وہ جزلان تو کیا اس گھر میں موجود کسی بھی فرد سے زیادہ بات کرنے کا قائل نہیں تھا اور وہ اب بھی یہی کرتا اپنے کمرے میں چلاگیا تھا۔

جزلان کا یہ روز کا کام تھا وہ جب گھر واپس آتا تھا تو اپنے خاص آدمیوں یعنی قاسم اور واسم دونوں کو ہی کبھی کسی تو کبھی کسی کام سے بار بار اپنے کمرے میں بلاتا رہتا تھا۔۔۔

مگر اب جب رائد کی شادی میں دس دن بچے تھے تو اسنے آئلہ کے پردے کو مدے نظر رکھتے ہوئے سارے مرد ملازموں کو باہر کے کام سونپ دیئے تھے جب کے حویلی کے اندر کے لیئے کئی نئی ملازمائیں رکھ لی گئی تھی۔

رائد نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی بس صبح جانے سے پہلے اسنے سرسری سا تراب خان کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اور سپاٹ لہجے میں نور بیگم کو نئی ملازمائیں رکھنے کا کہہ دیا تھا۔

نور بیگم کو تو اسکے فیصلے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔۔۔ بلکے وہ بہت خوش تھیں کے رائد اپنی ہونے والی بیوی کی خاطر کیا کچھ نہیں کر رہا ہے ۔۔۔ انہیں یقین تھا وہ اپنے باپ کے جیسا تو ہرگز نہیں بنے گا۔۔۔ بلکے ایک بہت اچھا شوہر ثابت ہوگا۔۔۔ مگر تراب خان انہیں فکر لاحق ہوگئی تھی۔۔۔ ان کا بیٹا شادی سے پہلے ہی آئلہ کی اتنی فکر کر رہا تھا نا جاتے شادی کے بعد وہ کیا کرتا۔۔۔ اور یہ بات ان کے خاندان کی شان کے خلاف تھی۔

ان کے خاندان میں عورتوں کو زیادہ سر پہ نہیں چڑھایا جاتا تھا مگر انکا بیٹا تو اپنے خاندان سے بلکل ہی الٹ چل رہا تھا۔۔۔ جس پہ انہیں غصہ اور افسوس بھی تھا۔۔۔ مگر وہ رائد کو کچھ کہہ کے اپنے بیٹے کو خود سے دور نہیں کر سکتے تھے اس لیئے خاموشی سے اسکی ہر بات مان رہے تھے۔۔۔۔ جب کے اپنے باپ کو رائد کی ہر بات مانتے دیکھ جزلان کو بہت غصہ آتا تھا۔۔۔ جس کا اظہار وہ بہت بار تراب خان سے کر چکا تھا مگر انہوں نے یہی کہہ دیا کے وہ اپنے بیٹے کو اور خود سے ناراض نہیں کر سکتے جس پہ جزلان بھی ضبط کر کے رہ جاتا تھا۔

پتہ نہیں مہوش کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔ گھر سے باہر ہی نہیں نکلتی ہے۔۔۔

ہاں میں گئی تھی اسکے گھر کافی بیمار رہنے لگی ہے اور کمزور بھی بہت ہوگئی ہے۔۔۔۔ وہ پہلے والی مہوش تو لگتی ہی نہیں ہے۔۔۔ نا جانے کیا ہوگیا ہے اسے۔۔

 کینٹین کے دروازے سے قریب ہی ایک میز پہ مہوش کی دو دوستیں بیٹھیں آپس میں باتیں کر ہیں تھیں۔۔۔۔ جب وہ اپنی کلاس لے کے کینٹین میں داخل ہوئی تو انکی آواز اس تک باآواز پہنچ گئی تھی۔۔۔ جس پہ اسکے چلتے قدم تھم گئے تھے۔

کیا تم نے اس سے یونی آنے کا پوچھا تھا۔۔۔ اب تو ایک ہفتہ ہونے والا ہے اسے یونی سے چھٹیاں کرتے کرتے۔۔۔ پہلی لڑکی نے فکرمندی سے سامنے بیٹھی لڑکی سے پوچھا۔

ہاں یار میں نے پوچھا تھا کہہ رہی تھی کہ اب شاید کبھی یونی نا آ سکے۔۔۔ دوسری نے خاصی پریشانی سے بتایا۔

جب کے دروازے میں کھڑی ایمل کے دماغ میں انگنت سوچوں آرہیں تھی۔۔۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی ان لڑکیوں کی جانب قدم بڑھا گئی۔

سنو مجھے مہوش کے گھر کا اڈرس چاہیئے۔۔۔ اسنے بغیر لگی پٹی کے ڈائریکٹ کہا۔

تمہیں کیوں چاہیئے۔۔۔ پہلی دوست قدرے حیرت سے استفسار کرنے لگی۔۔۔ 

مجھے اس سے کچھ کام ہے۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں بولی تو دونوں لڑکیوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اثبات میں سر ہلاتے اسے مہوش کے گھر کا اڈرس لکھوا دیا۔

ایمل سے انکی کوئی دوستی نہیں تھی وہ بس ان کی سینیئر تھی۔۔۔ اور پوری یونی میں ذہین اسٹوڈنٹس کی فہرست میں شامل ہوتی تھی ۔۔۔ پوری یونی جانتی تھی کہ وہ ایک بہادر اور باہمت لڑکی ہے ۔۔۔ اس لیئے مہوش کی دوستوں نے زیادہ سوال کیئے بغیر اسے پتہ لکھوا دیا تھا۔

تھینکس۔۔۔ وہ پتہ لیتی فورن ہی کینٹین سے نکل گئی تھی۔۔۔ اسکی کوئی خاص کلاس نہیں تھی جبھی اسنے فورن ہی مہوش کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا تھا

اسکے دل میں کئی سوالات پیدا ہو رہے تھے ۔۔۔   جس کا جواب صرف مہوش دے سکتی تھی۔

تقریباً بیس منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد اسکا رکشہ اسکے مطلوبہ پتہ پہ رکا۔۔۔ 

رکشے سے اتر کے رکشے والے کو پیسے دیتے اسنے ایک نظر اس چھوٹی مگر کھلی گلی پہ ڈالی جہاں دوپہر کا وقت ہونے کی وجہ سے سناٹا تھا۔۔

اسنے گہرا سانس پھرتے مہوش کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔ 

کون۔۔۔ دو منٹ بعد ہی اندر سے کسی لڑکی کی آواز ائی۔

جی میں ایمل ہوں مہوش کی دوست ۔۔۔ اسنے اپنا تعارف کروایا تو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دروازہ کھل گیا۔

کیا مہوش گھر پہ ہے۔۔۔ میں اس سے ملنے آئی ہوں۔۔۔ دروازہ کھولتے سامنے سترہ سال کی لڑکی کو کھڑا دیکھ اسنے مسکرا کے پوچھا۔

جی ہیں وہ۔۔۔ آپ آئیں۔۔۔ اس لڑکی نے سائڈ ہوتے اسے اندر آنے کا راستہ دیا تو اسنے مسکراتے ہو اندر قدم رکھا۔۔ 

آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔ورنا اس سے پہلے جو مہوش آپی کی دوستیں ہیں ان سے میں مل چکی ہوں۔۔۔ وہ لڑکی دروازہ بند کرتی اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے بولی 

میں اسکی نئی دوست ہوں۔۔۔ وہ کافی دن سے یونی نہیں آرہی تھی اس لیئے اس سے ملنے چلی آئی۔۔۔ ایمل ایک نظر میں پورے گھر کا جائزہ لیتی بولی تو اس لڑکی نے سمجھتے ہوئے سر ہلادیا۔

گھر زیادہ بڑھا نہیں تھا۔۔۔ تین کمرے تھے اور باہر ایک آنگن تھا۔۔۔ وہیں چھوٹا سا کچن بنا ہوا تھا

کون آیا ہے۔۔۔۔ دائیں جانب بنے کمرے سے ایک خاتون باہر آئی جو شاید ایمل کی ماما تھیں۔

اسلام و علیکم۔۔۔ میں ایمل ہوں مہوش کی دوست سنا تھا اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیئے دیکھنے چلی آئی۔۔۔۔ ایمل نے مسکرا کے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔

اچھا اچھا جاؤ بیٹا مل لو وہ سامنے ہی اسکا کمرہ ہے۔۔۔ انہوں نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔

ویسے آنٹی مہوش کو ہوا کیا ہے۔۔۔

پتہ نہیں بیٹا ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے مگر اسکا بخار ہی نہیں اتر رہا۔۔۔۔ تھوڑا سہی ہو جاتا ہے مگر پھر واپس بخار تیز ہو جاتا ہے۔۔۔

ایک بار بہت مشکل سے دوائی دلا کے لائی تھی ۔۔۔ مگر کوئی فرق نہیں پڑا اور اب وہ دوبارہ جا ہی نہیں رہی ہے۔۔۔ 

پانچ دن پہلے اپنی کسی دوست کے گھر سے آئی تھی اس کے بعد سے تو جیسے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے۔۔۔ کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتی۔۔۔ بس ہر وقت کمرے میں ہی رہتی ہے۔۔۔۔ اللہ جانے پتہ نہیں میری بیٹی کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔۔۔ تفصیل سے بتاتے مہوش کی والدہ کی آواز آخر میں نم ہوئی۔

آپ فکر نا کریں آنٹی وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ ایمل کے تسلی دینے پہ وہ نم آنکھیں دوپٹے سے صاف کر گئیں۔

جاؤ بیٹا آپ مل لو اس سے۔۔۔ اچھا ہے اسکا دل بہل جائے گا۔۔۔ ان کے کہنے پہ ایمل دھیرے سے سر ہلاتی سامنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

وہ ہلکے سے دروازے پہ دستک دیتی اندر داخل ہوئی تو سامنے دیوار کے ساتھ لگے دو سنگل بیڈ پہ سے ایک پہ کوئی جیسے صدیوں سے بیمار وجود لیٹا ہوا تھا۔

مہوش۔۔۔ وہ اسے پکارتی دھیرے سے دروازہ بند کر کے اسکے بیڈ کے پاس آئی۔

تم۔۔۔ اسکی آواز پہ مہوش نے آنکھیں کھولتے اٹھنے کی کوشش کی مگر بخار کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا تھا جس وجہ سے اس سے اٹھا نا گیا۔

میں مدد کرتی ہوں۔۔۔ ایمل نے آگے بڑھ کے اسے سہارا دینے کے لیئے اسکے بازو پہ ہاتھ رکھا تو اسے لگا جیسے اس نے کسی گرم توے پہ ہاتھ رکھ لیا ہو۔

مہوش تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔ تم نے کوئی دوائی لی۔۔۔ اسے پیچھے ٹیک لگا کے بیٹھے وہ اسکے ساتھ ہی بیڈ پہ بیٹھتی فکرمندی سے بولی۔

تم یہاں کیسے۔۔۔ تمہیں میرے گھر کا پتہ کیسے ملا۔۔۔ مہوش اسکے سوال کو نظر انداز​کرتی سپاٹ لہجے میں بولی۔

مجھے پتہ چلا کہ تم اتنے دنوں سے یونی نہیں آرہیں اور بیمار بھی ہو تو میں تمہاری دوستوں سے پتہ لے کے تم سے ملنے آگئی۔۔۔ ایمل اسکے چہرے کو گہری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔زرد چہرہ۔۔۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے۔۔۔ چہرے پہ ایک درد تھا جو ایمل دیکھ سکتی تھی۔۔۔ 

ہم میں اتنی اچھی بات چیت تو نہیں تھی جو تم مجھے دیکھنے آئی ہو۔۔۔ مہوش اسہی انداز میں بولی ۔۔۔ اسکے لہجے میں نا جانے کیا تھا جو ایمل کا دل گھبرا رہا تھا۔

میں جانتی ہوں مہوش ہماری اتنی اچھی دوستی تو نہیں ہے۔۔۔ دوستی تو کیا ہماری تو اتنی بات چیت بھی نہیں ہے مگر ۔۔۔ ایمل نے دانستہ اپنی ابتدائی ادھوری چھوڑی۔

مگر کیا۔۔۔ مہوش کے تاثرات ابھی تک سپاٹ تھے۔۔۔ نا غصہ نا بےچینی ناالجھن کچھ نا تھا اسکے چہرے پہ۔

مہوش کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔ وہ اسکے سوال کو نظرانداز کرتی اسکے چہرے پہ نظریں جمائے پوچھنے لگی تو مہوش کے چہرے کا رنگ ایک دم سے فق پڑا۔۔۔ جسے ایمل کی تیز نظروں نے اچھے سے محسوس کیا تھا۔

مہوش مجھے اپنا دوست سمجھو اور جو بھی بات ہے مجھے بات دو۔۔۔ آئی پرومس میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گی ۔۔۔ ایمل اسکے زرد ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتی اسے یقین دلانے لگی مگر مہوش تو جیسے ساکت ہوگئی تھی۔۔۔ 

وہ وہیں پانچ دن پہلے پیچھے چلی گئی تھی۔۔۔ جزلان کا دھوکا۔۔۔ اسکا رونا سسکنا منتیں کرنا سب جیسے ایک بار پھر آنکھوں کے آگے لہرا گیا تھا۔۔۔ اسنے اذیت سے آنکھیں زور سے میچیں پر کسی کا ہاتھ اپنے ہاتھ کو تھپتھپاتا محسوس کرتے اسنے ایک جھٹکے سے آنکھ کھولی۔

مہوش تم ٹھیک ہو۔۔۔ اسکے چہرے کا اڑا رنگ دیکھتے ایمل فکرمند ہوئی۔۔۔۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھ گئی کے ضرور مہوش کے ساتھ کچھ بہت برا ہوا ہے مگر کیا یہ اسے پتہ لگانا تھا۔

وہ ایک جرنلسٹ بن رہی تھی۔۔۔ اسے لوگوں کی مدد کرنا بہت پسند تھا ۔۔۔ سب کی مدد کے لیئے وہ ہمیشہ آگے آگے رہتی تھی بس ایسی وجہ سے وہ مہوش سے کوئی بھی دوستی نا ہونے کے باوجود جو مہوش کے دل میں چل رہا تھا اسے سنے آئی تھی۔۔۔ مگر یہاں آکے اسنے جو مہوش کی حالت دیکھی تھی وہ قابلِ رحم تھی۔

ک۔۔۔چھ نہ۔۔۔ہیں ہوا۔۔۔ت۔۔۔۔تم جاؤ۔۔۔ یہاں سے۔۔۔ مہوش گھبراتے ہوئے اٹھک اٹھک کے کہتی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے جھٹک گئی۔

اس سے پہلے ایمل کچھ اور پوچھتی دروازے کھلا جس پہ مہوش نے ہراسائی نظروں سے دروازے کی سمت دیکھا مگر وہاں سے اپنی چھوٹی بہن کو ہاتھ میں چائے کی ٹرے پکڑے اندر آتے دیکھ اسے تھوڑا سکون ہوا۔

یہ آپ کی چائے۔۔۔ وہ سائڈ کورنر پہ ٹرے رکھتی بولی ۔۔۔ تو ایمل نے مسکرا کے شکریہ کہا جس پہ مہوش کی بہن مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔اسکے کمرے سے نکلتے ہی ایمل ایک بار پھر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔

مہوش تمہیں ڈرنے گھبرانے یا پریشان ہونے کی بلکل ضرورت نہیں ہے جو بھی بات ہے تم مجھے بتا سکتی ہو۔۔۔ ہو سکتا ہے میرے پاس​تمہاری پریشانی کا کوئی حل ہو۔۔۔ ایمل ایک مخلص دوست کی طرح اسکی پریشانی پوچھ رہی تھی مگر مہوش کے کانوں میں جزلان کی آواز گونجی رہی تھی 

(اور ہاں غلطی سے بھی کسی کو بتاتے کی کوشش نہیں کرنا ورنا میرے پاس ہمارے گزرے ہوئے لمحات کی ساری یادیں موجود ہیں۔۔۔ وہ میں ان کے ساتھ کیا کر سکتا ہوں یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے)۔۔۔

مہوش۔۔۔۔ ایمل نے نرمی سے اسے پکارہ۔۔۔

جاؤں یہاں سے مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی جاؤ تم۔۔۔ ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹاتی غرائی تو ایمل پریشان ہوگئی۔

مہوش آگر تم اپنی پریشانی کسی کے ساتھ شیئر کرو گی تو تمہیں اچھا لگے گا۔۔۔ ایمل نے پھر سمجھایا۔

مجھے کسی کے ساتھ کچھ شیئر نہیں کرنا پلیز چلی جاؤ تم یہاں سے چھوڑ دو مجھے اکیلا۔۔۔ ۔مہوش اسکے سامنے ہاتھ جوڑے رو دی جس پہ آگے بڑھ کے ایمل نے اسے اپنے گلے لگایا۔

کسی کا ساتھ پا کے۔۔۔ مہوش جو اتنے دنوں سے اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی ایمل کے گلے لگتے ہی زاروں قطار روتی اپنے دل کا غبار آنسوں کی صورت بہانے لگی۔

ایمل نے بھی اسے رونے دیا۔۔۔ وہ بس خاموشی سے اسکی پیٹ سہلاتی رہی ۔۔۔ جب کافی دیر بعد مہوش کچھ نارمل ہوئی تو وہ اسے خود سے دور کرتی سائڈ کورنر پہ رکھی پانی کی چھوٹی بوتل کا ڈھکن کھول کے اسکے منہ سے لگا گئی۔۔۔ جس سے مہوش نے چند گھونٹ بھرتے ہی پانی کی بوتل کو پرے دھکیل دیا تھا۔۔۔ جس پہ ایمل نے پانی کی بوتل واپس بند کرتے اسکی جگہ پہ رکھ دی۔

ایمل کی چائے بلکل ٹھنڈی ہوچکی تھی مگر اسے پروا کہا تھی وہ تو بس مہوش کی اس حالت کے بارے میں پتہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اسکا جو بھی دکھ ہے وہ بانٹنا چاہتی تھی۔۔۔ اسکی پریشانی حل کرنا چاہتی تھی مگر یہ تبھی ہوتا جب مہوش اس پہ یقین کر کے اسے بتاتی اور اسے اب مہوش کو خود کا یقین دلانا تھا۔

مہوش مجھے نہیں پتہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے کیوں تم اتنی پریشان ہو۔۔۔ پتہ نہیں کیوں تم نے اپنا یہ حال بنایا ہوا ہے۔۔۔ مگر مہوش آگر تم اپنے دل کا حال کسی کے ساتھ شیئر کرو گی تو تمہارا دل ہلکا ہوگا۔۔. میں جانتی ہوں اس سے مسئلہ حل تو نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن کیا پتہ میرے پاس تمہاری پریشانی کا کوئی حل ہو۔۔۔ جس وجہ سے تم اتنی پریشان ہو رہی ہو شاید ہو پریشانی اتنی بڑی ہو ہی نا جتنی تم نے سوچ رکھی ہے ۔۔۔

مہوش ہر مسئلے کا کوئی نا کوئی حل ہوتا ہے۔۔۔ جو آگر ہم ڈھونڈیں تو ہمیں مل جائے گا۔۔۔ مگر اس طرح سے کمرے میں بند ہوکے۔۔۔ خود کو تکلیف دے کے،،، اپنے گھروالوں کو پریشان کر کے کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔ بلکے تمہاری وجہ سے تمہارے ماں باپ پریشان ہوں گے اور وہ پریشانیاں اور فکر انہیں اندر ہی اندر کھائیں گی۔۔۔ بڑھاپے کی وجہ سے جھکے کندھے تمہاری پریشانی کی وجہ سے اور زیادہ جھکتے انہیں وقت سے پہلے مزید بوڑھا کر دیں گے۔۔۔ تم سمجھ رہی ہوں نا میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔ اسنے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔ جب کے مہوش کی نظریں اسکے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ پہ تھیں۔۔۔ 

دل و دماغ میں ایک الک جنگ چل رہی تھی۔۔۔  وہ ایمل کے خلوص کو دیکھتے اسے سب بتانا چاہتی تھی مگر اگلے ہی پل جزلان کی دھمکی یاد آجاتی جس وجہ سے وہ اپنی زبان کو پھر سے تالا لگا دیتی۔

دیکھو مہوش میں نہیں جانتی کہ وجہ کیا ہے تم کیوں کچھ بھی نہیں بتانا چاہ رہیں۔۔۔ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کے کوئی ایسی بات ضرور ہے جو تمہیں کسی کا بھی سامنا کرنے نہیں دے رہی۔۔۔ ایمل کی بات پہ مہوش نے جھٹکے سے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔ وہ کیسے جان گئی کے وہ شرمندہ ہے اور کسی کا سامنا نہیں کر پا رہی کسی سے نظریں نہیں ملا پا رہی۔۔۔ اسے کیسے یہ سب پتہ چلا۔۔۔ 

مجھ پہ بھروسہ کر سکتی ہو۔۔. اسے خود کو تکتے دیکھ ایمل اسکے ہاتھ پہ گرفت مضبوط کرتی پیار سے بولی مہوش کی آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب بہہ نکلا۔۔۔ اور وہ ایک نتیجے پہ پہنچتی اسے سب بتاتی چلی گئی۔

جزلان سے پہلی خوشگوار ملاقات سے لے کے آخری تکلیف دہ ملاقات تک سب کچھ بتاتی ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو دی جب کے ایمل تو اسکی ساری بات سنتے جیسے شوکڈ رہ گئی تھی۔۔۔ وہ جزلان کو تو جانتی تھی مگر مہوش اسنے جزلان کی باتوں میں آکے خود اپنی عزت خراب کی تھی یہ بات سنتے اسکے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔

تم سہی کہتی تھیں جزلان خان کے بارے میں ۔۔۔ وہ واقعی ایک بھیڑیا ہے۔۔۔ وہ کھا گیا ہے مجھے،،، برباد کردی ہے اسنے میری زندگی۔۔۔ وہ روتے ہوئے بےبسی سے سر ہاتھوں میں گرا گئی۔

اسے کیوں بول رہی ہو۔۔۔ تم خود اسکے پاس گئی تھی اسنے تمہارے ساتھ زور زبر،دستی نہیں کی تھی۔۔۔ صرف اسے کوسنے کا تو جواز ہی پیدا نہیں ہوتا,,, جو کچھ ہوا ہے اس میں تمہاری مرضی بھی شامل تھی۔۔۔ تو اب بیٹھ کے رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔ ایمل نے چھبتے ہوئے لہجے میں کہا تو مہوش کا دل پھٹنے کے قریب ہو گیا۔۔۔ وہ سہی تو کہہ رہی تھی۔۔۔ اسکے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ساری غلطی اس میں اسکی اپنی ہی تھی نا وہ جزلان کے ساتھ زیادہ فری ہوتی۔۔۔ نا وہ اسکی باتوں میں آتی۔۔۔ آگر محبت کر بھی لی تھی تو شادی سے پہلے اسے اپنے قریب تو بلکل نہیں. آنے دیتی مگر جیسے اسے جزلان کے علاوہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔

جزلان تو تھا ہی شکاری۔۔۔ لیکن آگر وہ اسے اپنے قریب نا آنے دیتی تو اسکی ہمت نا ہوتی اسے ہاتھ لگانے کی مگر اسنے بھی جزلان کا برابر کا ساتھ دیا تھا۔۔۔ وہ اپنے آپ کو اس وقت خود کا مجرم محسوس کر رہی تھی۔۔۔ سر شرمندگی سے جھک گیا تھا

تم سہی کہہ رہی ہو غلطی میری ہے ۔۔۔ ساری غلطی میری ہی ہے۔۔۔ مجھے اسے اپنے قریب آنے ہی نہیں دے نا چاہیئے تھا۔۔۔ وہ وقت نکل جانے کے بعد اب پچھتا رہی تھی جس کا کچھ فائدہ ہی نہیں تھا۔

مہوش اب تمہیں بہت ہمت سے کام لینا ہے ۔۔۔ ایسے بستر پہ بڑی رہوں گی تو تمہارے گھر والے پریشان ہوتے رہیں گے۔۔۔ میں نے تمہاری وجہ سے آنٹی کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے ہیں۔۔۔ وہ بہت فکرمندی ہیں تمہارے لیئے۔۔۔ تم اپنے لیئے نا سہی پر اب تم اپنے گھر والوں کے لیئے جیو۔۔۔ جو ہو چکا ہے اسے بھلایا نہیں جا سکتا نا ہی بدلہ جا سکتا ہے مگر اس سب کو پیچھے چھوڑ کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔۔۔ جانتی ہوں یہ مشکل ہے اور اس میں کافی وقت لگے گا لیکن دیکھنا ایک دن آئے گا جب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ایمل نے نرمی سے اسے سمجھایا ۔۔۔ وہ بہت کچھ اسے کہنا چاہتی تھی اسے بتانا چاہتی تھی کہ عورت کے پاس صرف اسکی عزت ہی ہوتی ہے جو اسنے اپنی بےوقوفی میں گوا دی تھی مگر وہ اسکی ذہنی حالت کو دیکھتے کہہ نا سکی۔

میں کچھ نہیں کر سکتی ایمل۔۔۔ میں دنیا کا سامنا نہیں کر سکتی۔۔۔ آگر میں باہر نکلنا کا سوچتی بھی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے سب مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔ میرے چہرے پہ چھائی اذیت کو پڑھ پا رہے ہیں۔۔۔ میں کیسے سب کو منہ دیکھاؤ گی ایمل کیسے۔۔۔ وہ سسک اٹھی ایمل نے اسے دکھ سے دیکھا۔

آگر تم اس طرح گھر میں ڈر کے بیٹھی رہوں گی تو وہ تمہیں کمزور سمجھ کے اور ڈرائے گا۔۔۔ تم ہمیشہ اس سے ڈرتی ایک کمرے میں قید ہوکے رہ جاؤ گی۔۔۔۔ تم باہر نکلو اپنی پڑھائی مکمل کرو کسی مقام پہ پہنچو پھر دیکھنا تمہارے سارے ڈر خود باخود ختم ہو جائیں گے۔۔۔ ایمل نے اسے ہمت دی تھی مگر مہوش کا دل اب بھی جیسے ماننے کے لیئے تیار نا تھا۔

ایمل میرا ایک کام کرو گی۔۔۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد مہوش نے امید سے پوچھا

ہمم بولو۔۔۔۔

کیا تم جزلان کے خلاف سوشل میڈیا پہ پوسٹ کر سکتی ہو۔۔۔ کیا تم اسکا چہرہ بے نقاب کر سکتی ہو۔۔۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کے میری طرح اور کوئی معصوم لڑکی اسکے جال میں پھنسے۔۔۔ مہوش کی بات سنتے ایمل سوچ میں پڑھ گئی۔۔۔ وہ ہمیشہ ہی ظل+م کے خلاف آواز اٹھاتی تھی تو کیا وہ اس بار نہیں اٹھا سکتی تھی۔۔۔ اور لڑکیوں کو محفوظ نہیں کر سکتی تھی۔

ایمل میں کمزور ہوں ڈرپوک ہوں میں کچھ نہیں کر سکتی مگر تم ،،،، تم بہت بہادر ہوں برائی کے خلاف لڑ سکتی ہو۔۔۔ پلیز،،، پلیز میرا نام آئے بغیر اس کے خلاف پوسٹ کرو تا کے زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اس سے بچ سکیں۔۔۔ مہوش نے پرامید بھرے لہجے میں کہا تو ایمل نے گہری سانس بھرتے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تک ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ میں جب جرنلسٹ بنو کی وہ تب کی تب دیکھی جائے گی مگر ابھی سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہم بغیر کچھ بنے بھی صرف ایک فاور فل پوسٹ کردیں تو وہ بہت تیزی سے وائرل ہوتی ہے۔۔۔ اور میرے اندر اتنی ہمت ہے کے میں ظل+م کے خلاف آواز اٹھا سکوں۔۔۔

تم فکر مت کرو میں آج ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ پوسٹ کرتی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ ایک بہت بڑا آدمی ہے لیکن اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہوتا آگر اللہ نے چاہا تو جزلان خان کا چہرہ جلد بےنقاب ہوگا۔۔۔ وہ ایک عزم سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

میں اب چلی ہوں تم اپنا خیال رکھنا۔۔۔ میں تم سے کانٹیکٹ میں رہوں گی۔۔۔ ایمل جھک کے اس سے گلے ملی۔

بیٹھو چائے تو پیلو،،، یہ ٹھنڈی ہو گئی ہے میں دوسری منگواتی ہوں۔۔۔ مہوش نے اسے روکنا چاہا۔۔۔ اس سے بات کر کے مہوش کے دل کا بوجھ کافی کم ہو گیا تھا اور اب ہو اپنے آپ کو تھوڑا ہلکا ہلکا محسوس کر رہی تھی۔

پھر کبھی ابھی میں چلتی ہوں۔۔۔ اور ہاں تم بھی دوائی لے آنا اور ٹھیک ہو کے جلد سے جلد واپس یونی جوائن کرنا۔۔۔ ایمل مسکرا کے بولی تو مہوش نے بھی مسکرا کے ہاں میں سر ہلا دیا۔

مہوش کو ایمل پہلے بلکل پسند نہیں تھی۔۔۔ کیونکہ ایمل اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی اس لیئے مہوش اسے مغرور سمجھتی تھی۔۔۔ مگر آج ایمل خود اسکے پاس آئی۔۔۔ اسکو سمجھایا۔۔۔ اسکی مدد کی تو مہوش کو پتہ چلا کے وہ اتنے سالوں سے غلط تھی ایمل ایک بہت اچھی لڑکی تھی جو بغیر کسی غرض کے سب کی مدد کرنا جانتی تھی۔

روشنیوں میں نہائی حویلی اس وقت دلہن لگ رہی تھی۔۔۔ پوری حویلی کو گولڈن لائٹس سے سجایا گیا تھا۔۔۔ ہر طرف تازہ پھول لگے ہوئے تھے جس کی خوشبو سے پوری حویلی مہک رہی تھی۔

آج آئلہ کے گھر مایوں تھی جب کے رائد نے مایوں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ اسکا کہنا تھا اسکے پاس اور بھی بہت سے ضروری کام ہیں ایک جگہ بیٹھنے کے علاوہ اور اسنے وہ کیوں کہا تھا تراب خان اچھے سے جانتے تھے۔۔

تراب خان کے کافی ارمان تھے اپنے بیٹوں کی شادی کو لے کے مگر رائد نے جیسے قسم کھا رہی تھی کہ وہ انکا کوئی ارمان پورا نہیں کرے گا۔

نوال اور نور بیگم کے ساتھ خاندان کی چند خواتین آئلہ کی طرف جارہیں تھیں۔۔۔بارات دو دن بعد تھی مگر حویلی میں ابھی سے بارات والا ماحول لگ رہا تھا۔۔۔ ہر کوئی تیاری میں مگن ادھر سے ادھر مصروف انداز میں آتا جاتا نظر آ رہا تھا۔

مگر ایسے میں کوئی بہت ہی فرست سے پرسکون سا اپنے کمرے میں لیٹا فون چلانے میں مصروف تھا۔۔۔ جب کے دوسرے ہاتھ میں سگریٹ پکڑے تھوڑی تھوڑی دیر بعد گہرے گہرے کش لگا رہا تھا۔۔۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں وہ بس اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔۔۔ کہ دفعتاً اسکا فون بجا ۔

اپنے خاص آدمی جواد کی کال آتے دیکھ اسنے فورن فون اٹھایا۔۔۔

ہاں بولو۔۔۔ فون کان سے لگائے آنکھیں موندے سگریٹ لبوں میں دبائے گہرا کش لگایا ۔

سر آپ کے خلاف ایک نیوز سوشل میڈیا پہ کافی تیزی سگ وائرل ہو رہی ہے۔۔۔ جواد نے تھوڑا گھبرا کے عطلاح دی۔

جواد تم نے مجھے صرف یہ بتانے کے لیئے فون کیا ہے۔۔۔ یار ایسی خبریں تو آئے روز میرے خلاف چلتی رہتی ہیں۔۔۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے۔۔۔ وہ لاپرواہی سے بولا کیونکہ اس کے لیئے یہ عام سی بات تھی۔۔۔ جب سے وہ سیاست میں آیا تھا تب سے ہی اسکے خلاف خبریں آنا شروع ہوگئیں تھیں۔

سر یہ خبر ہے تو چھوٹی مگر اس سے آپ کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔۔۔ جواد نے خطرے سے آگاہ کیا۔

کیا مطلب۔۔۔ اسکے ماتھے پہ بل آئے۔

سر ایک لڑکی نے ہر فلیٹ فارم پہ آپ کے خلاف ایک نیوز بریک کی ہے کہ آپ نے بہت سے لڑکیوں کے ساتھ زیاد+تی کی ہے۔۔ انہیں اپنے پیار کے جال میں پھنسا کے انکا فائدہ اٹھایا ہے۔۔۔ اور جب اپنا مطلب پورا ہو گیا تو ان کو دھمکایا بھی ہے کہ آگر انہوں نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو ان کی ویڈیوز​ اور تصویر وائرل کر دیں گے۔۔۔ اور یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح فیل گئی ہے۔۔۔ پورے سوشل میڈیا پہ یہی نیوز چل رہی ہے اور ہر ٹی وی چینل پہ بھی۔۔۔لوگ آپ کے خلاف کھڑے ہو۔ا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔ جس کا فائدہ ہماری مخالف پارٹی اٹھا رہی ہے۔۔۔ جواد نے جلدی جلدی ساری بات اسکے گوش گزار کی جس سے جزلان ایک جھٹکے سے اٹھ کے بیٹھا

تو تم لوگوں نے کچھ کیا کیوں نہیں۔۔۔ تم لوگ بھی میڈیا کو جما کر کے اس خبر کے جھوٹا ہونے کا بیان دو۔۔۔ جزلان غصے سے دھاڑا۔۔۔ اس کے لیئے بہت سی خبریں چلیں تھی مگر اسنے آرام سے سب کو اگنور کر دیا تھا مگر یہ خبر اگنور کرنے والی نہیں تھی۔۔۔ اس ایک خبر کی وجہ سے اسکی کرسی جا سکتی تھی۔

سر ہم نے بیان دے دیا ہے مگر اسکا پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔ آہستہ آہستہ لوگ آپ کے خلاف ہونا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔ جواد نے اسکے غصے میں مزید اضافہ کیا تھا۔

کون ہے وہ لڑکی جس نے یہ خبر پھیلائی ہے۔۔۔ وہ جبڑے بھیجے ایک ایک لفظ چبا چبا کے بولا۔۔۔ اسکے شدید غصے کا پتہ اسکے ہاتھ اور گردن کی پھولی رگیں دے رہیں تھیں۔

ایمل خان نام ہے اسکا۔۔۔جرنلسٹ بن رہی ہے اور گلش میں رہتی ہے۔۔۔ جواد پہلے سے ہی ساری انفرمیشن نکلوا کے بیٹھا تھا۔

ٹھیک ہے میں آرہا ہوں تم مجھے شہر شروع ہونے والے راستے پہ ملو۔۔۔ جزلان ضبط سے کہاتا لال سرخ آنکھیں لیئے جلتا سگریٹ زمین پہ پھینکتے اس پہ سے چلتا ہوا تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔

رکو جزلان۔۔۔ اسے جلدی میں حویلی سے نکلتے دیکھ لان میں موجود تراب خان نے اسے روکا۔

بابا میں ابھی جلدی میں ہوں۔۔۔ وہ انہیں سپاٹ انداز میں جواب دیتا انکی سنے بغیر تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔ وہ جتنے غصے میں تھا یہاں رک کے کوئی تماشا نہیں لگانا چاہتا تھا۔۔ بس جلد سے جلد اس لڑکی کے گھر پہنچنا چاہتا تھا جس نے جزلان خان سے پنگاہ لیا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

شام کے ساتھ بج رہے تھے آسمان نے کالی چادر اوڑھنی شروع کر دی تھی۔۔۔  آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلنے لگا تھا اور آسماں کا چاند زمین پہ اتر آیا تھا۔

پیلے ہرے گھیر دار فراک کے ساتھ ہرا چوڑی دار پجامہ ساتھ ہم رنگ دوپٹہ سر پہ اوڑھے بالوں کی چوٹی بنائے جو کندھے سے آگے جھول رہی تھی۔۔۔ چمکتا ہوا اجلا اجلا چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے پاک وہ آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔۔

ہر کوئی اسکی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا جب کے تبسم بیگم تو اپنی بیٹی کی بار بار نظر اتار رہیں تھیں۔۔۔

آئلہ کی مایوں گھر میں ہی رکھی گئی تھی۔۔۔ مایوں میں زیادہ لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا بس آئلہ کے ننیال اور دادھیال والے اور اسکی چند دوستیں تھی۔

عورتیں ساری اندر لاؤنچ میں تھیں جب کے آئلہ کے پردے کو مد نظر رکھتے ہوئے مرد حضرات کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔

سب ہی رسم کرنے میں مصروف تھے جب چار ملازمائیں ہاتھوں میں تھال پکڑے لان میں داخل ہوئیں ان کے ساتھ نور بیگم اور نوال بھی تھیں۔

تبسم بیگم ان کے استقبال کے لیئے آئلہ کے پاس سے اٹھ کے انکی لوگوں کی جانب بڑھیں۔

آئیئے آپ ہی لوگوں کا انتظام تھا۔۔۔ نور بیگم نے باری باری انہیں سب سے ملوایا تو تبسم بیگم نے مسکراتے ہوئے انہیں خوشآمدید کہا۔

کیا میں اپنی بھابھی سے مل لوں۔۔۔ نوال نے اکسائٹڈ ہوتے تسبم بیگم سے پوچھا تو وہ مسکرادیں۔

آئلہ بھی کب سے آپ کا ہی انتظار کر رہی ہے۔۔۔ جب میں نے اسے بتایا تھا نا کہ اسکی ایک نند بھی ہے تب سے ہی وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔۔۔ تبسم بیگم شائستگی سے بولیں۔

شادی کی تاریخ رکھنے کے بعد تراب خان نے انہیں حویلی کھانے پہ بلایا تھا جب ہی تبسم کی نوال سے ملاقات ہوئی تھی۔۔ وہ انہیں بہت اچھی لگی تھی۔۔۔ سیدھی سادھی بہت معصوم سی لڑکی انہیں کافی پسند آئی تھی۔۔۔

واؤ!!! میں ابھی جا کے ملتی ہوں ۔۔۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی تیزی سے آئلہ کی جانب بڑھ گئی۔

اسلام و علیکم بھابھی۔۔۔ نوال اسکی جانب ہاتھ بڑھاتی اسکے برابر میں جا بیٹھی۔

آپ نوال ہو۔۔۔ اسنے دھیرے سے مسکرا کے خوبصورت نین نقش والی لڑکی کو دیکھا۔۔

جی میں ہی نوال ہوں۔۔۔ اور بھابھی ماشاءاللہ سے آپ تو اتنی پیاری ہیں کے میں نے سوچا بھی نہیں تا کہ آپ اتنی پیاری ہوں گی۔۔۔ آئلہ کے دھیرے سے پیار سے پوچھنے پہ وہ خوشی سے بولی۔

شکریہ۔۔۔ وہ سر جھکائے اپنی تعریف پہ شرما گئی۔

یہ لیں۔۔۔نوال نے ٹیبل پہ رکھی میٹھائی کی پلیٹ سے چھوٹا سا میٹھائی کا ٹکڑہ اسکے منہ کی جانب کیا تو آئلہ نے منہ کھول دیا اور  بدلے میں آئلہ نے اس سے چمچہ لیتے تھوڑی سی میٹھائی اسے کھلائی۔۔۔ اسے اپنی اکلوری نند کافی اچھی لگی تھی۔

بس دو دن کی بات اور ہے بھابھی پھر آپ کے آنے سے ہماری حویلی میں رونق ہو جائے گی۔۔۔ اور مجھے امید ہے آپ رائد بھائی کو بھی بدل دیں گی۔۔۔ نوال خوشی سے کہتی آخری بات دل میں بولی۔۔۔ اسے نور بیگم نے بتایا تھا کہ آئلہ ایک ملنسار اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے۔۔۔ اور رائد جس طرح دیوانوں کی طرح اس سے محبت کرتا ہے انہیں یقین تھا آئلہ آکے اسے ضرور بدل دے گی۔۔۔ رائد کے دل سے ان سب کے لیئے نفرت کو مٹا دے گی۔

رونق تو اب بھی ہوتی ہوگی آخر آپ گھر بھر کی اکلوتی بیٹی جو ہیں۔۔۔ دو بھائیوں کی ایک پیاری سی جان۔۔۔ بابا کی لاڈلی۔۔۔ آپ کے ہونے سے بھلا کون سا گھر سونا ہو سکتا ہے۔۔۔ آئلہ پیار سے مسکرا کے بولی تو نوال کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔۔ 

ایک ایک کر کے باپ بھائی کی غصے سے بھری باتیں طنز طعنے سب یاد آگئے۔۔۔ ایک دم دل بھر آیا۔۔۔ آنکھیں نم ہوگئیں۔

کیا ہوا آپ کو۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ آئلہ فکرمندی ہوئی۔

کچھ نہیں۔۔۔ وہ بڑی سی زخمی مسکراہٹ لبوں پہ سمجھائے اسے اپنے سہی ہونے کا یقین دلانے لگی۔

ہممممم۔۔۔۔ہم جانتے ہیں آپ بھی اپنے بابا اور بھائیوں سے بہت پیار کرتیں ہیں نا۔۔۔تبھی ان کے پیار کے ذکر پہ اپکی آنکھیں نم ہوگئی۔۔۔ وہ  اسکے رونے کا کچھ اور ہی مطلب لے گئی تھی۔۔۔ جب کے نوال کا دل زخمی ہو رہا تھا مگر اس میں آئلہ کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اسکے باپ بھائی کے لاڈ پیار کو۔۔۔ کو اسے صرف ایک بوجھ اور فالتو چیز سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتے تھے۔۔. اور رائد وہ تو کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔

ماشاءاللہ میری بہو تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ نوال بات کا رخ بدلنے کے لیئے کوئی موضوع ہی تلاش کر رہی تھی جب اسکی یہ مشکل نور بیگم نے وہاں آتے ختم کردی

اسنے فورن ہی اٹھ کے نور بیگم کو بیٹھنے کی جگہ دی اور خود انگلی کے پوروں سے آنکھیں صاف کرتی ایک سائڈ پہ چلی گئی۔

وہ جتنا آنکھیں صاف کر رہی تھی اتنے ہی آنسوں آنکھوں میں پھر بھرے جا رہے تھے۔۔۔ وہ سب سے الگ ایک کونے میں کھڑی کافی دیر تک خود پہ قابو کرتی رہی۔۔۔ مگر پھر آئلہ کو اپنے بابا کے ساتھ اپنے ہی فون میں تصویر بنواتے دیکھ اسکا دل ایک بار پھر بھر آیا۔۔۔ آئلہ کے بابا پیار سے آئلہ کا ماتھا چومتے تو اسکے اندر ایک احساس کمتری جگہ بنانے لگتی ۔۔۔ اسے تراب خان کی باتیں سہی لگنے لگتیں۔۔۔ اسے اپنا آپ بےمعنی لگنے لگا تھا۔۔۔ اسکے دل میں ہوک اٹھی تھی۔۔۔ 

وہ حسرت بھری نظروں سے وہ منظر دیکھ رہی تھی۔۔۔ جہاں بیٹی اپنے بابا کے ساتھ خوشی خوشی اپنے فون میں تصویریں بنوا رہی تھی۔۔۔ چھن سے ایک موتی لڑک کے اسکی آنکھیں سے گرا جسے وہ بےدردی سے صاف کرگئی۔

اپنی طرف تبسم بیگم کو آتے دیکھ اسنے جلدی سے خود کو نارمل کیا۔

بیٹا آپ یہاں کیوں کھڑی ہو وہاں سب آپ کا پوچھ رہے ہیں اور آئلہ وہ تو کتنی بار اپنا پوچھ چکی ہے ۔۔۔۔ تبسم بیگم نے پیار سے کہا

بس آنٹی وہ فون آیا تھا تو وہی سنے یہاں آگئی تھی۔۔۔ وہ جلدی سے بہانا کر گئی۔

اچھا چلو آجاؤ اب۔۔۔ تبسم بیگم کے کہنے پہ وہ انکے ساتھ ہی ضبط کرتی زبردستی چہرے پہ مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

بیٹا دروازہ اچھے سے اندر سے بند کر لو مجھے آنے میں تھوڑی دیر ہو جائے گی۔۔۔ دیار صاحب اپنے آفس والوں کی طرف سے کسی پارٹی میں جارہے تھے جب جاتے جاتے ایمل کو حدایت کرنا نا بھولے

جی بابا آپ بےفکر ہو جائیں میں اچھے سے دروازہ بند کرلوں گی۔۔۔ ایمل انہیں بےفکر کرتی اسنے پیچھے ہی دروازے تک آئی۔

جب تک وہ چلے نا گئے وہ دروازے پہ کھڑی انہیں دیکھتی رہی اور ان کے جاتے ہی دروازے کو اچھے سے لاک کر کے اندر آگئی۔

اندر آتے ہی وہ کچن میں گھستی اپنے لیئے چائے بنانے لگی۔۔۔ دس منٹ بعد وہ چائے اور بسکٹ لیئے لاؤنچ کہ صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھنے کے ساتھ چائے انجوائے کر رہی تھی۔

چینل بدلتے ہی اسکی نظر نیوز سے گزری جہاں جزلان خان کے خلاف اسکی کی گئی پوسٹ کے اوپر چرچے ہو رہے تھے۔۔۔ اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی اسکی پوسٹ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔۔۔

وہ ابھی ٹی وی میں مگن مسکراتے ہوئے جزلان خان کے خلاف چلتی ہڈلائن کو دیکھ پڑھ رہی تھی جب ہی دفعتاً باہر کا دروازہ بجا۔۔

وہ چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتی ہاتھ میں پکڑا بسکٹ منہ میں ڈالتے باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔ 

کون۔۔۔۔ اس نے دروازے پہ رک کے آواز لگا کے پوچھا۔۔۔۔ 

ایمل خان۔۔۔ باہر سے اپنے نام کی بھاری پکار پہ اسنے دروازہ کھول دیا مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔

ہیلو مس کیسی ہو۔۔۔۔ جزلان خان سرخ آنکھیں لیئے قدم بڑھاتا گھر میں داخل ہوا تو ایمل بےساختہ دوقدم پیچھے ہٹی۔

جزلان کے پیچھے اسکے کچھ گارڈز اندر تو کچھ گارڈز باہر دروازے پہ ہی رک گئے جب کے وہ سکون سے اندر آتا پورے گھر پہ ایک طائرانہ نظر ڈال رہا تھا۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں گھسنے کی۔۔۔ وہ غصے سے اسکی جانب بڑھتی غرائی تو جزلان نے اوپر سے نیچے تک داد دینے والے انداز میں دیکھا۔

آتی تم میرے قد کے برابر بھی نہیں ہو مگر ہمت تم میں بڑی ہے جو جزلان خان سے پکاہ لیا ہے۔۔۔ اپنے کندھے سے نیچے آتے اسکے وجود کو دیکھتے اسنے طنز کیا تو ایمل منٹھیاں بھیج کے رہ گئی۔

ابھی اور ایسی وقت یہاں سے نکل جاؤ ورنا میں پورے محلے کو جما کرلوں گی۔۔۔ وہ دبا دبا دھاڑتی اسکی آنکھوں میں اپنی شربتی آنکهیں ڈالے بےخوف لہجے میں کہتی جزلان کو مسکراتے پہ مجبور کر گئی۔

وہ پہلی لڑکی تھی جو جزلان خان کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آواز اونچی کرنے کی ہمت کر گئی تھی ورنا جزلان خان کسی کے باپ کی اونچی آواز برادشت نا کرے۔

جانتی ہو تم میں ہمت بہت ہے لڑکی مگر تمہاری ہمت سے مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے۔۔۔ تمہاری ایک کی ہوئی پوسٹ کی وجہ سے میرے سپوٹرز کم ہو رہے ہیں۔۔۔ اس لیئے تم ابھی اور اسہی وقت ایک اور پوسٹ کرو گی جس میں تم صاف صاف لوگوں کو بتاؤ گی کے تم نے یہ سب میرے مخالفتوں کے کہنے پہ کیا ہے مگر تم اب مزید جھوٹ کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔۔۔ اس لیئے یہ پوسٹ کر کے سچ بتا رہی ہوں کے جزلان خان پہ لگائے گئے الزام بے بنیاد ہیں ۔۔۔جزلان پشت پہ ہاتھ باندھے سکون سے اسکے سامنے کھڑا اسے حکم سنا رہا تھا جس پہ ایمل نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔۔۔۔ میں نے تم جیسے بےحس اور مفاد پرست شیطان کا چہرہ بےنقاب کرنے میں بہت دیر کر دی ہے مگر کہتے ہیں نا دیر آئے درست آئے۔۔۔ بس اب مجھے انتظار ہے تمہاری بربادی کا۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں کہتی جزلان کو غصہ دلا گئی۔

تم خود کو شاید کوئی توپ چیز سمجھتی ہو مگر تم ابھی جزلان خان کو نہیں جان تھیں ۔۔۔ آگر جان جاتیں تو یہ حرکت نا کریں جو تم کر چکی ہو۔۔۔وہ حد درجہ سخی سے بولا جس پہ ایمل نے سر جھٹکا

تمہیں اچھے سے جانتی ہوں تبھی یہ حرکت کی ہے۔۔۔۔تم جیسے دھوکے باز شخص کے ساتھ یہی ہونا چاہیئے تھا جو معصوم لڑکیوں کو استعمال کر کے انہیں ساری زندگی کے لیئے برباد کرتا ہے۔۔۔تم نہایت ہی گھٹیا انسان ہو جسے دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ غصے اور نفرت میں بولتی چلی گئی جس کے بعد اسکے سامنے کھڑے جزلان خان کا زور دار قہقہہ گونجا۔

ویسے تم بھی کسی کی بہن بیٹی ہو اور کافی خوبصورت بھی ہو۔۔۔ وہ ڈھیلے سے کُرتے پجامے میں موجود اس کے وجود کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے کمینگی سے کہتا اسکی جانب قدم بڑھانے لگا تو ایمل کے وجود میں انگارے بھڑک اٹھے۔۔۔ اس سے پہلے ان کے بیچ انچ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ایمل جلدی سے پیچھے ہوئی۔

یہاں سے چلے جاؤں جزلان خان ورنا میں پورا میڈیا یہاں جما کرلوں گی۔۔۔ ایمل نے انگلی اٹھاتے دانت پیستے دھمکی دی جس سے جزلان کے چہرہ پہ ایک استہزاء​ مسکراہٹ آگئی۔

وہ اتنا بڑا آدمی تھا کہ اسے یقین تھا پولیس والے خود اس کے انڈر کام کرتے ہوں گے وہ یہاں آ کے بھی اسکا کچھ نہیں بغاڑیں گے بس ایک میڈیا ہی تھا جو اسکا بہت کچھ بگاڑ سکتا تھا اس لیئے اسنے میڈیا کی دھمکی دی۔

جس کو بلانا ہے بلا لو میں یہیں بیٹھا یوں۔۔۔ جزلان سکون سے جا کے لان میں رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا جس پہ ایمل صبر کے گھونٹ بھرتی اندر بڑھ گئی۔۔۔ 

تقریباً پانچ منٹ بعد وہ ہاتھ میں فون پکڑے باہر آتی سیدھے جزلان کے سامنے کھڑی ہوئی۔

میں میڈیا رپورٹرز کو فون کر چکی ہو۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے تمہارے پاس چلے جاؤ یہاں سے اور کبھی دوبارہ میرے راستے میں مت آنا۔۔۔ وہ گہری سانس بھرتی ضبط سے بولی مگر جزلان پہ کوئی اثر نا ہوا وہ ویسے ہی سکون سے بیٹھا اسے مسکرا کے دیکھتا رہا ۔۔۔ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ جاننا ایمل کے لیئے نا ممکن تھا مگر وہ اس سے ڈرنے والی نہیں تھی یہ تو طے تھا۔

پندرہ منٹ بعد ہی چار پانچ گاڑیاں آگے پیچھے اس کے دروازے پہ رکھیں۔۔۔ گلی میں ہلچل کے سبب لوگ گھروں سے نکل کے باہر آگئے تھے ۔۔۔مگر دیار صاحب جیسے شریف آدمی کے دروازے پہ ہٹے کٹے آدمیوں اور میڈیا کے نمائندوں کو دیکھتے سب ہی حیران تھے کہ آخر معجرا کیا ہے۔۔۔ 

سب ہی باہر گھرے تماشہ دیکھ رہے تھے مگر کسی نے اندر جا کے پوچھنے کی زحمت نا کی تھی

کیا آپ ایمل ہیں۔۔۔ ایک لڑکی ہاتھ میں مائک پکڑے ایمل کے پاس آئی جو اب دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی۔

جی میں ہی ایمل ہوں اور میں نے ہی آپ سب لوگوں کو یہاں بلایا ہے۔۔۔۔ یہ جزلان خان میرے گھر میں زبردستی گھس کے مجھے ہر+س کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی تو جزلان خان مسکراتے ہوئے آٹھ کے ان میڈیا والوں کی طرف بڑھ گیا جو خود بھی ایمل کی بات کی تفتیش کرنے اسکی جانب بڑھ رہے تھے۔

سر کیا یہ سچ ہے۔۔۔سارے رپوٹر مائک اسکے سامنے کیئے اسکے جواب کے منتظر تھے۔۔۔ ہر کیمرہ جزلان خان پہ ٹکا ہوا تھا۔

میری ہونے والی بیوی مجھ سے کچھ خفا ہے اس لیئے ایسی باتیں کر رہی ہے۔۔۔ جزلان کے جواب پہ جہاں میڈیا والے شوگڈ تھے وہیں ایمل کو بھی چار سو چالیس ولٹ کا جھٹکا لگا تھا۔

یہ کیا بکواس ہے۔۔۔ وہ چیخی،،، جس پہ جزلان مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھا۔

ڈارلنگ دیکھو جو بھی ناراضگی ہے وہ مجھ سے ہے،،، مانتا ہوں میں نے چیٹنگ کی ہے پہلے تمہیں ہی وہ میرے خلاف پوسٹ کرنے کا کہا اور پھر خود ہی آکے تم پہ غصہ بھی کر رہا ہوں مگر میں کیا کروں۔۔۔ لوگ اسے سہی سمجھ رہے ہیں۔۔. وہ ویسے بھی میں نے تمہیں صرف ایک گھنٹے کا ڈیئر دیا تھا اس کے بعد تو وہ پوسٹ ڈیلیٹ ہی کرنی تھی نا۔۔۔ مگر تم بھول گئیں اس لیئے مجھے تھوڑا غصہ آگیا جس وجہ سے میں نے تمہیں ڈانٹ بھی رہا مگر اسکا یہ مطلب تو نہیں کے تم میڈیا والوں کو بلا کے ایسی باتیں کرو گی۔۔۔جزلان بولے جا رہا تھا جب کے ایمل تو آنکهیں پھاڑے اسکی گوہر افشانج سن رہی تھی۔۔۔ وہ کیا بول رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ آخر وہ کرنے کیا جا رہا تھا۔۔۔ اسکی باتیں سن کے اسکا دماغ تو بس سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔

یہ جھوٹ۔۔۔

ڈارلنگ بس اب جانے بھی دو نا ناراضگی ختم کرو انکل بھی بس آنے ہی والے ہوں کے میں ان سے تمہاری شکایت کروں گا کہ تم مجھے بہت تنگ کرتی ہو۔۔۔۔ وہ اسکی بات کاٹتے اسکے سامنے کھڑا مسکرا کے بولا

تمہارے بابا اس وقت جس پارٹی میں موجود  ہیں وہاں میرا بندا ان پہ نشانہ سادھے کھڑا ہے ۔۔۔ باقی آگے تم خود سمجھدار ہو۔۔۔ وہ بہت ہی آہستگی سے اسکی جانب جھکتے بولا تو ایمل نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔۔. وہ کیسے بھول گئی کے اس آدمی سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے

مس ایمل یہ سر کیا کہہ رہیں ہیں۔۔۔

کیا یہ سچ ہے مس ایمل ۔۔۔

کیا وہ پوسٹ ڈیئر تھی۔۔۔

کیا واقعی آپ لوگوں کی شادی ہونے والی ہے۔۔۔ اب سارے رپورٹز کے مائک اور کیمراز ایمل کی جانب تھے۔۔۔ وہ پے در پے اس سے سوال کررہے تھے مگر ایمل کا دماغ تو اپنے بابا میں اٹھک گیا تھا۔۔۔

اسکے بابا ہی اسکی کل کائنات تھے۔۔۔ ماں تو بچپن میں ہیں چھوڑ کے چلی گئی تھیں اسکے بابا نے ہی اسے ماں باپ دونوں بن کے پالا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے بابا پہ کوئی انچ نہیں آنے دے سکتی تھی ۔۔۔ وہی تو اسکے جینے کی وجہ تھے۔۔۔ وہ انہیں کیسے کچھ ہونے دے سکتی تھی۔

ایمل یہ لوگ منتظر ہیں تمہارے جواب کے۔۔۔ اسے سوچوں میں گم دیکھ کے جزلان نے پکارہ تو وہ ہوش میں لوٹتی جلدی سے ہاں میں سر ہلاگئی۔

جو کچھ جزلان نے کہا وہ سب سچ ہے۔۔۔ دل پہ تپھر رکھ کے کہتی وہ سر جھکائے آنکھیں میچ گئی۔۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ آج ایک ظا،لم  سے ہار گئی۔۔۔ آج وہ خود سے شرمندہ ہو کے کے رہ گئی تھی۔

چند ایک مزید جزلان سے سوال کرنے کے بعد میڈیا والے وہاں سے جا چکے تھے۔۔۔ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ پوسٹ صرف ایک ڈیئر تھی۔۔۔ اور ایمل جزلان خان کی ہونے والی بیوی۔۔۔ انہیں تو ایک اور بریکنگ نیوز مل گئی تھی۔۔۔ وہ لوگ جا چکے تھے مگر ایمل ابھی تک وہیں سر جھکائے کھڑی تھی۔

بہادر کے ساتھ سمجھدار بھی ہو۔۔۔ اور میرے ٹکر کی بھی۔۔۔ اب مزا آئے گا تمہارے ساتھ مقابلے میں۔۔۔ تیار ہو جاؤں جزلان خان سے ہارنے کے لیئے۔۔۔ جزلان خان تمسخرانہ انداز میں کہتا گھر سے باہر نکل گیا تو ایمل نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور دروازے کے ساتھ لگتی اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگی۔۔۔ اسکے ساتھ یہ اچانک کیا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ اسنے تو جزلان خان کو ہرانے کے لیئے میڈیا کو یہاں بلایا تھا۔۔۔ اسکا مکروہ چہرہ دیکھانے کے لیئے انہیں بلایا تھا مگر جزلان خان جیسے شاطر آدمی نے اسکی چاک اسہی پہ الٹ کے اسے بہت بری طرح بھنسایا تھا۔۔۔جب کے خود تو وہ آرام سے بری الزمہ ہوگیا تھا۔۔۔ایمل کے لیئے اس مشکل سے نکلنا شاید ہی اب کبھی ممکن تھا۔۔۔۔ مگر وہ خود سے عزم کر چکی تھی کے چاہے جو بھی ہو جائے وہ ہمت نہیں ہارے گی ۔۔۔ ہر وقت جزلان خان کا ڈٹ کے مقابلہ کرے گی اور اسے ہرائے گی بھی۔

چھوٹے خان آپ کو خان صاحب نے اپنے کمرے میں بھلایا ہے۔۔۔رات ایک بجے ہال میں بیٹھی ملازمہ تراب خان کا پیغام جزلان تک پہچانے کے لیئے اسکا انتظار کر رہی تھی جب اسے اندر داخل ہوتے دیکھ جلدی سے کھڑی ہوتی ادب سے بولی تو وہ گہری سانس بھر کے تراب خان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔ وہ جانتا تھا انہوں نے کیوں بلایا ہے۔۔۔ اب تک تو اسکی شادی کی خبر پھیل گئی ہوگی اور یقیناً​ تراب خان کے پاس فون بھی آنا شروع ہوگئے ہوں گے۔

آجاؤ۔۔۔اسنے دروازے پہ دستک دی تو اندر سے تراب خان کی آواز آئی۔

بابا آپ نے مجھے بلایا تھا۔۔۔ کمرے کے وسط میں انہیں ٹہلتے دیکھ جزلان انکی جانب بڑھتا ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا ہوا۔۔۔ جانتا تھا اب اسکی کلاس لگنے والی ہے۔

جزلان خان یہ ہم کیا سن رہیں کے تم شادی کرنے والے ہو۔۔۔ تراب خان نے سنجیدگی سے پوچھا جب کے بیڈ پہ بیٹھی نور بیگم پریشانی سے دونوں بات بیٹے کو دیکھ رہیں تھیں مگر بیچ میں مداخلت بلکل نہیں کی تھی کہ یہ تراب خان کو پسند نہیں تھا

جی بابا آپ نے سہی سنا ہے۔۔۔ وہ اطمینان سے بولا تو تراب خان کے ماتھے پہ بل پڑے۔

تم ہوش میں تو ہو۔۔۔ یہ کیا بول رہے ہو۔۔۔ کسی بھی ایری غیری لڑکی سے شادی کرلو گے۔۔۔ وہ غصے سے دھاڑے مگر جزلان تو ویسے ہی سکون سے کھڑا رہا۔

بابا میں کیا کرتا اس وقت سچویشن ہی کچھ ایسی تھی کہ مجھے یہ بولنا پڑا۔۔۔ آپ کو نہیں پتہ اس لڑکی نے میرے خلاف ایک پوسٹ کی تھی جس کا مجھے بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے اس لیئے میڈیا والوں کے سامنے میں نے اس لڑکی کی چال اسہی پہ الٹ دی۔۔۔ اب دیکھیں پچھلے تین گھنٹے میں اس پوسٹ کو بار بار جھوٹا کہا جا رہا ہے اور میری شادی کا چرچا ہر جگہ ہو رہا ہے۔۔۔ جس سے مجھے کافی فائدہ بھی پہنچا ہے۔۔۔ جزلان نے انہیں مختصر سی بات بتائی۔

تو کیا اب تم اس لڑکی سے شادی کروں گے۔۔۔ سب سنے کے بعد وہ ضبط سے بولے

کرنی پڑے گی بابا۔۔۔ وہ اطمینان سے مسکراہٹ دبا کے تراب خان کے سرخ چہرے کو دیکھتے مزے سے بولا۔

نا جانے کس خاندان کی لڑکی ہے جسے تم ہماری بہو بنانے کا اعلان ساری دنیا میں کر آئے ہو۔۔۔ تراب خان سر جھٹک کے نور بیگم کو پانی کا اشارہ کرتے بیڈ پہ بیٹھ گئے۔

یہ سوال تو آپ نے اپنے بڑے بیٹے سے بھی نہیں پوچھا تھا بس اس کے کہنے پہ لڑکی کا نام جانے بغیر ہی رشتہ لے کے جانے کے لیئے تیار ہو گئے تھے۔۔۔ مگر میری باری میں ایسا کیوں۔۔۔ جزلان زرا خفگی سے بولا تو تراب خان نے اسے گھورا۔

جزلان تم جانتے ہو اس کے پیچھے کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔ رائد ہم سب سے نفرت کرتا ہے اور میں نے ایک کوشش کی ہے اپنے بیٹے کے دل میں جگہ بنانے کی۔۔۔ میں مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بیٹے کو سینے سے لگانا چاہا ہوں۔۔۔ جانتا ہوں کے وہ مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے کے میرے مرنے کے بعد میرے جنازے کو بھی کندھے نا دے مگر میں اسکی یہی نفرت ختم کرنا چاہا ہوں۔۔۔ تراب خان بےبسی سے نور بیگم کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے بولے

بابا میں ہوں نا آپکا بیٹا سب کافی ہے گو+لی مار،یں رائد خان کو۔۔۔ جزلان جل ہی تو گیا تھا اپنے باپ کی رائد کے لیئے محبت دیکھ کے۔

جزلان اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔ ہم رائد کی شادی کے بعد اس بارے میں بات کریں گے۔۔۔ تراب خان بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گئے۔۔۔۔ انہیں وہ منظر یاد آگیا تھا جب آٹھ سالہ رائد نے پہلی بار ان سے نفرت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ ایک درد تھا جو انکے دل میں اٹھا تھا۔

اب کیا بات کرنی،، اس کی شادی ہو جائے پھر میری بارات لے کے جانے کی تیاری کریں۔۔۔ جزلان شریر لہجے میں بولا۔

آگر میری بات مان کے اپنی عیاشیوں کو بریک لگا لیا ہوتا تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑھتا۔۔۔ تراب خان آنکھیں بند کیئے طنز کر گئے جب کے ان کے برابر میں بیٹھی نور بیگم نے افسوس سے سر جھٹکا۔

میں آپ پہ ہی گیا ہوں بابا۔۔۔ وہ انہیں چھیڑتے ہوئے شوخی سے بولا تو تراب خان نے پٹ سے آنکھیں کھولتے اسے گھورا۔

فکر مت کریں بابا وہ لڑکی میری کامیابی کی سیڑھی ہے۔۔۔ ایک بار میں اوپر چڑھ گیا پھر اس سیڑھی کو چھوڑ دوں گا۔۔۔ 

جزلان تم بھول رہے ہو ہم جاگیردار ہیں اور ہمارے یہاں طلاق نہیں دی جاتی۔۔۔ مرنے تک اپنے ساتھ جڑے نام کو اپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔۔۔ تراب خان کی بات پہ جزلان کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی

تو پھر میں آپکی پسند سے دوسری شادی کرلوں گا۔۔۔ وہ مزے سے بولا تو تراب خان نے بڑھ مشکل سے اپنی مسکراہٹ کو روکا۔

جاؤ اب ہمیں آرام کرنا ہے۔۔ وہ ٹھیک سے اپنی جگہ پہ لیٹتے کروٹ بدل گئے تو وہ بھی کمرے سے نکل گیا۔

وہ ایمل سے شادی تو نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یہ اسکی مجبوری تھی کیونکہ وہ ساری دنیا کے سامنے اسے اپنی ہونے والی بیوی کہہ چکا تھا اور وہ اب اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا مگر اسنے دل میں پکاہ ارادہ کرلیا تھا ایمل سے اپنی بدنامی کا بدلہ لینے کا۔

۔🌺 🌺 🌺

ایمل یہ کیا نیوز چل رہی ہے ٹی وی پہ کیا تم واقعی اس سے شادی کرنے والی ہو۔۔۔ دوسرے دن ہی صبح سب سے پہلے مہوش کا فون آیا تھا جس نے نیوز دیکھتے ہی ایمل کو فون ملایا تھا۔

ایمل رات کو دیار صاحب کے آنے سے پہلے ہی سو گئی تھی۔۔۔ اس وجہ سے وہ نہیں جانتی تھی کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے بارے میں دیار صاحب کو پتہ چلا ہے کے نہیں مگر وہ اتنا ضرور جانتی تھی کے صبح کا اخبار پڑهنے کے بعد انہیں یقیناً پتہ چل گیا ہو گا اور وہ اسکا انتظار بھی کر رہے ہوں گے۔

مہوش مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔کل جزلان خان نے جس طرح سے ساری بازی الٹی مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا۔۔۔  مجھے تو سمجھ نہیں آرہا کے میں اب کیا کروں گی۔۔۔ سب کو ہی پتہ چل گیا ہوگا۔۔۔ ایمل کل سے ہی بہت پریشان تھی وہ بار بار کچھ نا کچھ کرنے کا سوچتی مگر پھر اسے اپنے بابا یاد آجاتے۔۔۔ جس طرح کل جزلان نے اسے دھمکی دی تھی اس سے کوئی بعید نا تھی کہ وہ اپنی دھمکی پہ عمل بھی کر دیتا۔۔۔ مگر وہ ایسے خاموش بھی نہیں بیٹھ سکتی تھی اس لیئے اسے کچھ نا کچھ تو کرنا ہی تھا۔

اب تم کیا کرو گی۔۔۔ مہوش نے فکرمندی سے پوچھا۔

پتہ نہیں ۔۔۔ فلحال تو میں ابھی باہر جا رہی ہوں بابا میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ ایمل کنپٹی مسلتے بولی۔

سوری ایمل میری وجہ سے تم اس مصیبت میں پھنس گئیں۔۔۔ مہوش کی شرمندہ آواز اسپیکر سے ابھری۔

مہوش میرے نصیب میں یہ ہونا لکھا تھا۔۔۔خیر میں پھر بات کرتی ہوں۔۔۔ ایمل سنجیدگی سے کہتی فون رکھتی باہر نکل گئی۔

وہ باہر آئی تو دیار صاحب نیوز لگائے صوفے پہ پریشان سے بیٹھے دیکھائی دیئے۔

بابا۔۔۔۔ وہ ایک نظریں ٹی وی پہ چلتی اپنی اور جزلان کی خبر پہ ڈالتی ان کے برابر میں بیٹھتے ان کو مخاطب کیا

ایمل بیٹا یہ کیا ہے۔۔۔ وہ حیران پریشانی سے اسکی جانب متوجہ ہوئے۔

بابا میں آپ کو سب بتاتی ہوں۔۔۔ وہ نرمی سے کہتی پوری بات دیار صاحب کو بتا گی۔

ایمل اتنا سب کچھ ہو گیا اور آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔ آپ جانتی ہو جزلان کتنا خطر+ناک ہے وہ آپ کو کچھ بھی نقصان پہنچا سکتا ہے میرے بیٹے۔۔۔۔ وہ کافی پریشانی سے بولے۔۔۔۔ ان کے لیئے انکی بیٹی ہی تو تھی جو انکی زندگی تھی ورنا اپنی بیوی کے جانے کے بعد تو وہ جیسے جینا ہی چھوڑ چکے ہوتے آگر ایمل انکی زندگی میں نا ہوگی تو۔

بابا آپ فکر نا کریں میں سب سمبھال لوں گی۔۔۔۔ اس نے انہیں فکرمند کرنا چاہا مگر وہ باپ تھے کیسے مطمئن ہو سکتے تھے۔

مگر بیٹا یہ جو خبر چل رہی ہے۔۔۔۔ دیار صاحب فکرمندی سے ٹی وی کی جانب دیکھتے بولے۔

بابا وہ ایک مڈل کلاس لڑکی سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔۔۔ یہ سب اسنے خود کو بچانے کے لیئے کیا ہے اس لیئے آپ پریشان نا ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ایمل نے انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے مسکرا کے تسلی دی جس پہ دیار صاحب پریشانی سے سر ہلاگئے۔

آپ نے ناشتہ کیا۔۔۔ ایمل نے پیار سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئے۔

چلیں آجائیں میں ناشتہ بناتی ہوں دونوں ساتھ مل کے کریں گے۔۔۔ وہ مسکرا کے کہتی اٹھ کے کچن کی جانب بڑھ گئی جب کے اسکی پشت کو دیکھتے دیار صاحب گہری سوچ میں پڑھ گئے۔

۔🌺 🌺 🌺

وقت اتنی تیزی سے گزرا تھا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کے کب شادی کا دن آگیا۔۔۔ چاروں اور شہنائیوں کے ساتھ بارات دھوم دھام سے آئلہ کے دروازے پہ پہنچی تھی۔۔۔ 

رائد کے چہرے پہ خوشی صاف جھلک رہی تھی۔۔۔ ہر وقت سنجیدہ رہنے والا رائد آج مسکرا رہا تھا۔۔۔ تراب خان اپنے بیٹے کے اوپر سے بار بار نوٹ وار رہے تھے مگر رائد نے ایک بار بھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔

وہ مہرون شیروانی پہ اپنی علاقائی پگڑی پہنے شان سے چلتا اپنے دوستوں کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا۔۔۔دروازے پہ کھڑے مرزا صاحب نے ان لوگوں کا استقبال کیا۔۔۔ عورتوں اور آدمیوں کا ارینجمنٹ الگ الگ کیا گیا تھا۔۔۔ تو رائد کو آدمیوں والے حصے میں لے گئے۔

رائد کو اسٹیج پے لے جایا گیا اس کے ساتھ تراب خان زبردستی بےزار کھڑے جزلان خان کو اپنے ساتھ لیئے اسٹیج پہ آئے جہاں مولوی صاحب نکاح کی تیاری کر رہے تھے۔

لڑکی سے اجازت لینی ہے۔۔۔ مولوی صاحب کے کہنے پہ وہ مولوی صاحب کو لیئے عورتوں کی طرف برائڈل روم کی جانب بڑھ گئے۔

خوش رہوں بیٹا۔۔۔ مرزا صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

وہ سرخ لہنگے میں چہرے کے گرد سرخ نقاب کیئے۔۔۔ جس سے اسکی صرف سرمئی آنکھیں نظر آرہی تھی۔۔۔ جو نفاست سے کیئے میک اپ کے ساتھ اور بھی پیاری لگ رہی تھیں۔۔۔ بھاری زیورات پہنے سر پہ لہنگے کا دوپٹہ اوڑھے سر جھکائے بیٹھی بےحد پیاری لگ رہی تھی۔

آئلہ مرزا ولد مرزا شاہ آپکا نکاح رائد خان ولد تراب خان سے ایک کڑوڑ حق مہر کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔ مولوی کی آواز پہ وہ دھیرے سے قبول ہے کہہ گئی۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔ 

قبول ہے۔۔۔ دو موتی ٹوٹ کے آنکھوں سے پھسلتے اسکے نقاب میں جذب ہوئے۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔ 

قبول ہے۔۔۔ آخری بار کہتے اپنے بابا کے نام کی جگہ کسی اور کا نام لگا گئی۔۔۔ آج سے وہ آئلہ مرزا نہیں رہی بلکے اب سے وہ آئلہ رائد خان بن گئی تھی۔

مبارک ہو۔۔۔ مرزا صاحب نم آنکھوں سے اسکے جھکے سر پہ بوسہ دیتے مولوی صاحب کو لیئے باہر نکل گئے۔

آج اپنے گھر سے رخصت ہونے پہ وہ اپنی ماں کے گلے لگتی رو دی۔۔۔۔ یہ احساس ہی بہت الگ تھا کہ وہ اپنے باپ کے گھر کو چھوڑ کے جا رہی ہے۔۔۔ آج سے وہ کسی اور کی ملکیت ہوگئی تھی۔

رائد خان ولد تراب خان آپکا نکاح آئلہ مرزا ولد مرزا خان سے ایک کڑوڑ حق مہر کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔ مولوی صاحب کے پوچھنے پہ اسنے خوشی خوشی قبول ہے کہا۔

رائد نے حق مہر خود رکھا تھا وہ تو اور زیادہ رکھنا چاہتا تھا مگر مرزا صاحب نے منا کر دیا وہ پہلے ہی کافی زیادہ رکھ چکا تھا۔۔۔ اسکا بس چلتا تو وہ اپنی پوری جائداد آئلہ کے نام کر دیتا۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔ مسکراتے لہجے میں کہا۔۔۔ وہ اردگرد کی ہر چیز سے بےخبر اس لمحے کے زیر اثر تھا۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔ تیسری بار کہتے اسنے اپنی پہلی نظر کہ محبت کو اپنے نکاح میں لیا۔۔۔ اسے ایسا لگ رہا تھا اتنے سالوں بعد جیسے اسکی زندگی میں پھر سے خوشیاں لوٹ آئی ہوں۔

ایجاب و قبول کا مرحلہ طے پاتے ہی مولوی صاحب نے دعا کی جس کے بعد مبارک باری کو شور اٹھا۔

مبارک ہو بیٹا۔۔۔۔ سب سے پہلے تراب خان نے اٹھ کے اسے گلے لگایا تھا جب کے کوئی تماشہ نا بنے اس لیئے رائد بھی چپ چپ سرسری سا انکے گلے لگ گیا تھا۔۔۔ باری باری سب رائد کو مبارک بادی دے رہے تھے مگر جزلان نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت نا کی تھی ۔

جزلان۔۔۔ تراب خان نے اسے اپنی جگہ سے ہلتے نا دیکھ تنبیہہ انداز میں پکارتے گھورا تو وہ منہ بناتے اٹھ کے رائد سے نا ملنے کے برابر گلے ملا جب کے رائد کا بھی یہی حال تھا۔

آئلہ کو اسٹیج پے لا کے بیٹھا دیا گیا تھا۔۔۔ نوال اسکے ساتھ ساتھ ہی تھی ۔۔۔ وہ نقاب میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ جہاں لوگ اسکی تعریف کر رہے تھے وہیں کچھ لوگ اسکے نقاب پہ تنقید بھی کر رہے تھے مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا۔

کچھ دیر بعد ہی رائد کو وہاں لایا گیا ۔۔۔ رائد کے ساتھ تراب خان اور مرزا صاحب موجود تھے۔۔۔

رائد کی نظر جیسے ہی اسٹیج پہ سر جھکائے بیٹھی آئلہ پہ گئی اسے نقاب میں دیکھ اسکے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔ عورتوں میں کوئی مرد تھا تو نہیں مگر فوٹو گرافر کی وجہ سے اسکے آج بھی نقاب کیا ہوا تھا۔

دھیرے دھیرے تھے رائد اسٹیج پہ اسکے ساتھ آکے بیٹھا تو نوال اسٹیج سے اتر کے ایک طرف ہوگئی۔

ویلکم ٹو مائے لائف۔۔۔ رائد نے دھیرے سے اسکے کان کے قریب جھکتے بغیر کسی کی پروا کیئے کہا تو وہ مسکرا دی

کھانا کھا اور پھر اسکے بعد رخصتی کا شور اٹھا۔۔۔ 

حسین آ تو نہیں سکا تھا مگر اس نے ویڈیو کال پہ اس سے بات کی تھی اور اپنی بہن کو دلہن بنے دیکھ وہ رو دیا تھا جس پہ آئلہ بھی اپنے آنسوں پہ قابو نہیں رکھ سکی تھی۔

قرآن کے سائے میں رخصت ہوتے وقت اسے شدت سے اپنے بھائی کی یاد آئی تھی جس پہ وہ اپنے بابا کے گلے لگتے بہت روئی تھی۔۔۔

بیٹا کسی کو کوئی شکایت کا موقع نہیں دینا ہمم۔۔۔ مرزا صاحب نے اسے اپنے ساتھ لگاتے کہا۔۔۔ جس پہ وہ روتے ہوئے اثبات میں سر ہلاگئی۔

رائد بیٹا اگر کبھی۔۔۔۔

انکل آپ فکر نا کریں آپکی بیٹی بہت اچھی ہے مجھے پورا یقین ہے وہ مجھے کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دے گی۔۔۔ رائد انکی بات کاٹتے بولا تو وہ دھیرے سے مسکرا دیئے۔

میں اور آئلہ الگ گاڑی میں آئیں گے۔۔۔ اکیلے۔۔۔ گاڑی میں بیٹھتے وقت نور بیگم اور نوال کو اپنی گاڑی میں بیٹھتے دیکھ رائد سپاٹ لہجے میں بولا تو وہ دونوں خفت سے پیچھے ہٹ گئیں۔۔۔۔ جب کے تراب خان نے بہت مشکل سے خود پہ قابو کیا تھا۔

آئلہ کو اسکا انداز کافی عجیب لگا تھا ۔۔۔ مگر اسنے فلوقت زیادہ دھیان نہیں دیا۔

ہاں بیٹا کیوں نہیں۔۔۔ نور بیگم مسکرا کے کہتی دوسری گاڑی کی جانب بڑھ گئیں۔

رائد نے آئلہ کے لیئے آگے کا دروازہ کھولا تو وہ جھجھکتے ہوئے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی۔۔۔ 

دروازہ بند کرتے رائد مرزا صاحب سے گلے ملتا گاڑی میں بیٹھتے زن سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

راستہ لمبا تھا اور گاڑی میں گھمبیر خاموشی۔۔۔ رائد بار بار مسکراتی نظریں نروس بیٹھی آئلہ پہ ڈال رہا تھا ۔۔۔ جس سے وہ مزید نروس ہو رہی تھی۔

آپ بار بار مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ وہ دھیرے سے گود میں دھرے اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بولی تو اسکی میٹھی نرم آواز سنتے رائد دلکشی سے مسکرایا۔

یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کے میرا خواب کیا واقعی سچ ہو گیا ہے۔۔۔ کیا واقعی میری محبت میری ہوگئی ہے وہ بھی اتنی آسانی سے اتنی جلدی۔۔۔ وہ سامنے دیکھتا پرتپش لہجے میں بولا تو آئلہ کے دل میں گدگدی ہوئی۔

آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نہیں ہے پھر مجھ سے محبت کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ آئلہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اسکی نظریں خود پہ دیکھتے نظریں جھکا گئی۔

تمہارا یوں مجھ سے شرما کے پلکھیں جھکانا میرے دل کے سارے تار چھیڑ دیتا ہے۔۔۔ رائد دل پہ ہاتھ رکھتے جذب کے عالم میں بولا تو آئلہ کے نقاب میں چھپے لبوں پہ مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

پہلی بار تم جب ان خاتون کو روڈ پار کروا رہیں تھی تب میں نےصرف تمہاری آنکھوں کو دیکھا تھا اور اس وقت سے ہی مجھے تمہاری آنکھوں سے عشق ہو گیا۔۔۔ رائد گھمبیرتا سے کہتا اسکا ہاتھ تھام کے لبوں سے لگا گیا تو آئلہ سے نظریں اٹھا مشکل ہو گیا۔

اسے ایک دم ہی یاد آیا تھا کہ رائد وہی شخص تھا جس کی گاڑی سے وہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تھیں۔۔۔ رائد ایک بہت بڑا بزنس مین تھا اسنے اسکا نام بھی سن رکھا تھا مگر قسمت انہیں ایسے ملا دے گی یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔

آئلہ میں جتنا پیار کرنے والا ہوں اتنا ہی اصول پسند بھی ہوں ۔۔۔ مجھے جھوٹ سے نفرت ہے ۔۔۔ تو کبھی بھی غلطی سے بھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گا اور میرا غصہ تم سہ نہیں پاؤں گی۔۔۔ رائد نے پیار سے سمجھایا تو اسنے حیرت سے اپنی سرمئی نظریں اٹھا کے ڈرائیو کرتے رائد کو دیکھا۔

آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔۔۔ وہ معصوم سے استفسار کرنے لگی۔۔۔ تو رائد کا قہقہہ بےساختہ تھا

نہیں میری جان۔۔۔ سمجھا رہا ہوں۔۔۔ تا کہ تمہیں کبھی میرے غصے کا سامنا نا کرنا پڑے۔۔۔ ویسے تمہیں میرا غصہ ٹھنڈا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔۔۔  محبت سے کہتے آخر میں لہجہ شریر ہوا۔

وہ کیسے۔۔۔ بےاختیار اسکے منہ سے نکلا۔

اپنے خوبصورت وجود میں الجھا کے تم میرا غصہ اڑن چھو کر سکتی ہو۔۔۔۔ آئلہ جو انہماک سے اسکی بات سن رہی تھی اسکی جذبات اگلتی نظریں اور معنی خیز لہجے میں کہی گئی بات سنتے شرم سے نظریں جھکا گئی۔

اسکا پھر سے نظریں جھکانا رائد کو بےتاب کر گیا تھا۔۔۔ وہ جلد سے جلد اس راستے کو ختم کر کے حویلی پہنچنا چاہتا تھا۔

گھر آتے ہی رائد اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ڈیرے پہ چلا گیا تھا۔۔۔ وہ جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر اسکے کچھ دوست باہر سے آئے ہوئے تھے اور وہ صبح کی فلائٹ سے واپس جانے والے تھے اس لیے رائد کو مجبوری میں جانا پڑھا۔

بہو لانے کے بعد تو تراب خان اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اور یہی حال جزلان کا بھی تھا۔۔۔ جب کے نور بیگم اور نوال دونوں نے مل کے اسے رائد کے کمرے میں بیٹھا دیا تھا

ماشاءاللہ۔۔۔۔ کمرے میں آکے آئلہ نے جیسے ہی نقاب کھولا نوال کے منہ سے بےساختہ نکا۔

وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ نور بیگم نے فٹافٹ اسکے سر سے پیسے وارتے ساتھ کھڑی ملازمہ کو دئے۔

بھابھی آپ تو بہت خوبصورت ہیں۔۔۔ اپنی تعریف سنتے آئلہ جھنپ گئی۔

اللہ ہر بڑی نظر سے نچائے۔۔۔ نور بیگم نے پیار سے کہا۔

چلو نوال بیٹا بھابھی کو آرام کرنے دو۔۔۔اتنی دیر میں رائد بھی آجائے گا۔۔۔نور بیگم مسکرا کے کہتی نوال اور ملازمہ کو لیئے باہر نکل گئیں۔

دروازہ بند ہونے کے بعد اسنے ایک نظر خوبصورتی سے سجے کمرے پہ ڈالی۔۔۔ پورے کمرے کو سفید گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔ ہر طرف پھولوں کی مسحور کن مہک پھیل کے کمرے میں ایک سحر طاری کر رہیں تھیں۔۔

اسے رائد کا انتظام کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا جب اسے کمرے کے باہر سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔۔۔ 

وہ جلسی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا لہنگا ٹھیک سے بیڈ پہ پھیلاتی نظریں جھکائے بیٹھ گئی۔

کمرے کا دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا تو ایک دم اسکے قدم لڑکھڑائے۔۔۔ مگر وہ مضبوط مرد تھا۔۔۔ اپنے حواسوں پہ قابو پانا اچھے سے جانتا تھا۔۔۔ جلد ہی خود کو سمبھالتا دروازہ بند کر کے جیسے ہی پلٹا نظر بیڈ پہ عروسی جوڑا پہنے خاندانی بھاری زیورات سے سجی اسکے دل کی ملکہ بیٹھی تھی۔۔

وہ بھاری مضبوط قدم اٹھاتا اسکی جانب بڑھا۔

وہ جو گردن جھکائے بیٹھی تھی اسکی آمد پہ خود میں سمٹنے لگی۔۔۔ دل آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کے کانپنے لگاتا۔

وہ اسکے ساتھ ہی جگہ بناتے بیڈ پہ بلکل اسکے قریب بیٹھتا چہرہ اسکے چہرے کے نزدیک لے گیا۔

اسے اپنے اتنے پاس بیٹھے دیکھ آئلہ کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہوئی تھیں۔۔۔ اور پھر جب وہ چہرہ اسکے قریب تر لایا تو ایک ناقابلِ فہم بدبو اسکے تھنوں سے ٹکرائی ۔۔۔ مگر اسنے یہ سوچ کے سر جھٹک دیا کے کہیں باہر سے آرہی ہوگی۔

سر جھکائے بیٹھی اپنی ملکہ کا چہرہ اسنے تھوڑی کے نیچے دوانگلیان رکھ کے اوپر اٹھایا

حور۔۔۔۔ اسکی لرزتی پلکھیں اور نورانی چہرے کا حسن دیکھ کے اسکے منہ سے صرف یہ تین حرف نکلے تھے۔

جب کے وہ جس میں پلکھیں اٹھانے کی ہمت نہیں تھی ایک دم چونک کے پلکھیں اٹھاگئی۔۔۔ ایک ناقابلِ قبول بدبو جسے وہ سمجھ رہی تھی کے کہیں باہر سے آرہی ہے وہ کہیں باہر سے نہیں بلکے اسکے شوہر کے منہ سے آرہی تھی۔

وہ اسکی سرخ بھوری آنکھوں میں اپنی خوفزدہ سرمئی آنکھیں ڈالے سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ سلیقے سے بنے بال، مغرور کھڑی ناک، ہلکی داڑھی اور مونچھوں تلے عنابی لب۔۔۔ وہ دیکھنے میں کافی خوبرو تھا۔۔۔ لیکن جو انکشاف ابھی اس پہ ہوا تھا اس پہ یقین کرنا اسکے لیئے بہت مشکل تھا۔

رائد اسے خود کو تکتے دیکھ دلکشی سے مسکراتے اسکی آنکھوں پہ پھونک ماری جس پہ وہ اس بدبو سے بچنے کے لیئے فورن اپنا ہاتھ ناک اور منہ پہ رکھتی چہرہ پھیر لگی

اسکی اس حرکت سے رائد کے ماتھے پہ بل پڑے۔۔۔ اسنے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے ایک جھٹکے سے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ جس پہ وہ نازک لڑکی ڈر کے مارے اس سے فاصلہ بنانے کے لیئے اسکے کندھوں پہ ہاتھ جما گئی۔

اس حرکت کی وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔ وہ سخت لہجے میں استفسار کرنے لگا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں غصہ دیکھتے آئلہ نے اپنا حلق تر کیا۔

آپ نے شراب پی ہوئی ہے۔۔۔۔ وہ ڈرتے کانپتے ہمت کر کے گویا ہوئی تو مقابل اسکی بات سنتے جی جان سے مسکرایا۔

اس میں کون سی بڑی بات ہے ۔۔۔۔ ہم جاگیردار لوگ ہیں اور ہمارے خاندان میں شراب پینا، کوٹے پہ جانا، مجرا دیکھنا اور راتیں رنگین کرنا یہ سب عام بات ہے۔۔۔ مقابل گھمبیرتا سے کہتا اسکے ہوش اڑا گیا تھا۔

اسے تو یہ ساری باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا ۔۔۔ اسے تو یہ تک نا پتہ تھا کہ اسکی شادی جاگیرداروں میں ہو رہی ہے۔۔۔ اسنے تو اپنے بابا کے فیصلے کا احترام کیا تھا۔۔۔ مگر یہ کیا تھا ۔۔۔ اسکے بابا نے اسے کیسے لوگوں میں رخصت کیا تھا۔۔۔۔ وہ تو کہتے تھے وہ جانتے ہیں ان لوگوں کو مگر اسکا شوہر کیا کہہ رہا تھا۔

اسنے تو اللہ سے ہمیشہ ایک نیک ہمسفر کی دعا کی تھی مگر جو ہمسفر اسے ملا تھا وہ تو شادی کی پہلی رات ہی اسکے پاس حرام پی کے آیا تھا۔۔۔ اور اب جو باتیں اسنے کہیں تھی وہ سنتے اسے اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔

تم فکر نہیں کرو تمہارا شوہر ان سارے کاموں میں سے صرف شراب پیتا ہے ۔۔۔ باقی عورتوں میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ 

تم پہلی لڑکی ہو جسے میں نے اپنے دل کی ملکہ بنایا ہے۔۔۔ ورنا میں لڑکیوں سے سو قدم دور رہنا پسند کرتا ہوں۔۔۔ اسکی آنکھوں میں بےیقینی دیکھتے مقابل نرمی سے کہتا اسکے چہرے پہ جھکنے لگا جس کے باعث اسکی گرفت کمزور ہوئی۔۔۔ جب اسنے اپنا پورا زور لگاتے اسے خود سے دور دھکیلا۔۔۔

وہ اس حملے کے لیئے تیار نا تھا اس لیئے اسکے دھکا دینے پہ پیچھے بیڈ پہ گرا۔۔۔۔ اسکے گرتے ہی وہ جلدی سے بیڈ سے اتری۔

اسکی اس حرکت نے مقابل کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔۔۔

تم نے مجھے دھتکارا۔۔۔ جاگیردار رائد خان کو۔۔۔ وہ تیش میں اٹھتا سائڈ کورنر پہ رکھا پانی کا جگ اٹھا کے پوری قوت سے زمیں پہ دے مارا جو چھناکے کی آواز کے ساتھ پاش پاش ہوگیا۔۔۔ جس پہ آئلہ ہلکی سی چیخ کے ساتھ پیچھے دروازے سے جا لگی۔

وہ بےپناہ غصے میں اسکی جانب بڑھتا اس سے پہلے ہی وہ ڈری سہمی فورن اپنے پیچھے دروازے کو کھولتے اندر گھس گئی۔

وہ اسٹیڈی روم تھا۔۔۔ جو کافی خوبصورت تھا لیکن ابھی اسے اسکی خوبصورت کہا دیکھائی دے رہی تھی ابھی تو وہ اپنی قسمت پہ رو رہی تھی۔۔۔ 

فورن باہر آؤ ورنا میں تمہارا وہ حشر کروں گا جو تم ساری زندگی یاد رکھو گی۔۔۔ وہ زور سے دروازے پہ ہاتھ مارتے غرایا تو دروازے کے ساتھ لگی زمین پہ بیٹھی آئلہ کا دل ایک دم اچھل کے حلق میں آیا۔

وہ نشے میں تھا۔۔۔اور وہ اسے حرام شے پی کے اپنے قریب نہیں آنے دے سکتی تھی۔۔۔ اس لیئے وہ خود کو وہیں کمرے میں بند کیئے بیٹھی روتی رہی جب کے باہر اس مغرور انا پرست جاگیردار​ نے ایک لڑکی کے خود سے دور کرنے پہ غصے سے پاگل ہوتے پورا کمرا تہس نہس کر گیا تھا۔

وہ بزنس کی دنیا کا ایک چمکتا ہوا نام تھا۔۔۔ لڑکیا جس کی قربت پانے کے لیئے تڑپتی تھیں۔۔۔ اسکی توجہ اپنی طرف دلانے کے لیئے جو نئی نئی چالیں چلتیں تھی آج اسے ہی ایک چھوٹی سی لڑکی جو اسکی بیوی بھی تھی ۔۔۔ اسنے اسے خود سے دور کیا تھا جو اسکی انا برداشت نہیں کر رہی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

ایمل۔۔۔ ایمل ناشتہ کر رہی تھی جب دیار صاحب نے اسے پکارہ۔

جی بابا۔۔۔ وہ منہ میں نوالہ ڈالتی انکی جانب متوجہ کوئی

میں نے تمہاری ٹکٹس کروا دیں ہے تم کچھ دنوں کے لیئے اپنی خالہ کے پاس دبئی چلی جاؤ۔۔۔ دیار صاحب کچھ تذبذب سے بولے

مگر کیوں بابا۔۔۔ ابھی تو میرے پیپرز ہونے والے ہیں میں ایسے کیسے جا سکتی ہوں۔۔۔ اسنے چونک کے آنکھیں دیکھا جو کچھ پریشان لگ رہے تھے۔

او اچھا اب میں سمجھی آپ مجھے یہاں سے کہوں بھیجنا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ جزلان خان سے ڈر کے اپنی بیٹی کو خود سے دور کر رہیں ہیں۔۔۔

بابا جب میں چھوٹی تھی اور ماما کے انتقال کے بعد جب خالہ نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا کہا تھا تب تو آپ نے منا کر دیا تھا کہ ماما کے بعد آپ کے لیئے اگر کوئی جینے کی وجہ ہے تو وہ میں ہوں اور اب آپ مجھے ایک شخص کے ڈر سے خود سے دور بھیج رہے ہیں۔۔۔ وہ افسردگی سے بولی۔

بیٹا میں تمہیں اپنے سے دور کبھی نہیں بھیجنا چاہا مگر تم جزلان خان کو نہیں جانتی۔۔۔ وہ اپنے مطلب کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔۔۔ تم اسکے خاندان کو نہیں جانتیں وہ لوگ بہت ظا+لم اور بےحس لوگ ہیں۔۔۔ اپنا مفاد کے لیئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔

اور جزلان خان نے تو میڈیا کے سامنے تمہیں اپنی ہونے والی بیوی کہا ہے جس سے اسے کافی فائدہ بھی حاصل ہو رہا ہے وہ ایسے ہی تمہیں نہیں چھوڑے گا۔۔۔ اور میں اپنی بیٹی کو اس جہنم میں گرتا نہیں دیکھنا چاہا۔۔۔۔  اس لیئے کہتا ہوں تم چلی جاؤ کچھ وقت کے لیئے یہاں سے۔۔۔ دیار صاحب تفکر سے بولی۔۔۔ وہ باپ تھے انہیں اپنی بیٹی کی فکر تھی۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کو کسی مصیبت میں پھنستے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

ایمل انکی پریشانی سمجھ رہی تھی مگر وہ ان میں سے ہرگز نہیں تھی جو مشکل وقت سے ڈر کے بھاگ جاتے ہیں۔۔۔ بلکے وہ ہر مشکل کا بہادری سے سامنا کرنا جانتی تھی۔

بابا آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میری قسمت میں جو لکھا ہوگا وہ ہو کے رہے گا۔۔. اللہ بہت بڑا ہے۔۔۔ وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اس لیئے ہمیں جزلان خان جیسے سفاک آدمی سے ڈر کے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آگر میں آج ڈر کے بھاگ گئی یا میں نے سب کو چھوڑ کے صرف اپنے بارے میں سوچا تو اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔۔۔ میرے اندر ہمت ہے جزلان خان کا مقابلہ کرنے کی اور میں کروں گی۔۔۔ کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔۔ ایمل مضبوط لہجے میں کہتی ہلکا سا مسکرائی تو دیار خان بھی اسکی بات سمجھتے مسکرا دیئے۔

یہ ہوئی نا بات چلیں اب جلدی سے ناشتہ ختم کریں ورنا آپ کے چکر میں مجھے یونی سے دیر ہو جائے گی۔۔۔ وہ انہیں مسکراتا دیکھ پرسکون ہوتی نوالہ بنائے انکے منہ کے قریب لے گئی تو دیار صاحب اسکے انداز پہ ہلکے سے ہنستے منہ کھول گئے۔

ان کی بیٹی ٹھیک کہہ رہی تھی آگر وہ یہاں سے چلی جاتی تو لوگ اسے بزدل کہتے جب کے انکی بیٹی تو بہت ہمت والی تھی بہادر تھی ۔۔۔ احساس کرنے والی تھی۔۔۔ خود کے لیئے اور دوسروں کے لیئے آواز بلند کرنے والی تھی ۔۔۔ 

دیار صاحب نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب سے وہ بھی اپنی بیٹی کا پورا پورا ساتھ دیں گے۔۔۔ اس اس نیک کام میں ہر پل اسکی مدد کریں گے۔۔۔ ہر وقت اس کے قدم سے قدم ملا کے چلیں گے مگر یہ تو وقت نے طے کرنا تھا کہہ ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔

🌺 🌺 🌺 ۔

اسٹیڈی روم کی دیوار گیر کھڑکی سے چھن کر کے روشنی اندر آرہی تھی۔۔۔ وہ جو روتے روتے وہیں دروازے سے ٹھیک لگائے سوگئی تھی تیز روشنی سے نیند میں خلل پیدا ہوا جس کی وجہ سے وہ آنکھوں کے آگے ہاتھ کرتے دھیرے دھیرے اپنی سرمئی سرخ آنکھیں کھولنے لگی۔

آنکھیں کھول کے کمرے میں نظر دوڑائی تو رات کا واقع یاد آیا جس سے ایک بار پھر اسکی آنکھوں میں آنسوں آنا شروع ہوگئے۔

رات جب وہ رخصت کروا کے لا رہا تھا تب ہو کتنا اچھا تھا مگر پھر جب وہ کمرے میں آیا تو اسکا ایک الگ ہی روپ دیکھنے کو ملا تھا۔۔۔ اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسکی پہلی رات ہی اتنی درد ناک ہوگی۔

وہ کتنی خوش تھی۔۔۔ اسے اپنی قسمت پہ رشک آرہا تھا کہ اسے رائد جیسا چاہنے والا انسان ملا ہے جو اس سے بےپناہ محبت کرتا ہے۔۔۔ مگر کل رات ہوئے انکشاف پہ تو جیسے اسکا دل ہی ٹوٹ گیا تھا۔

وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں میں انہیں منا کروں گی شراب پینے سے ۔۔۔۔ ہاں وہ محبت کرتے ہیں مجھ سے میری بات ضرور مانے گئیں۔۔۔ وہ ہمکلام ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

دروازے کے لاک پہ ہاتھ رکھتی وہ اضطراب کا شکار تھی۔۔۔ کل کے رائد کے غصے کو یاد کرتے اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی اسکے سامنے جانے کی مگر وہ یہاں چھپ کے بھی تو نہیں بیٹھ سکتی تھی نا۔۔۔ اس لیئے دھیرے سے لاک گھماتی آہستہ سے دروازہ گھول کے گردن باہر نکال کے جھانکا تو اسے رائد کہیں دیکھائی نا دیا۔۔۔ مگر کمرے کی ابتر حالات دیکھتے اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔

زمیں پہ بکھرے کانچ ،،، ٹوٹے پرفیوم ،،، سفید گلاب کے پھول جو کل تک کھلے ہوئے کمرے کو مہکا رہے تھے آج زمین پہ پڑے اپنی بےقدری پہ رو رہے تھے۔۔۔ 

وہ ساری چیزوں سے بچتی بیڈ کے سامنے لگی بڑی سی شیشے کی الماری کے سامنے آئی۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ سلائڈ ڈور سرکاتی کسی نے اسکا بازو پکڑ کے اسے اپنی جانب موڑا جس سے وہ ایک جھٹکے سے مڑتی اس شخص کے چوڑے سینے کا حصہ بنی تھی۔۔۔

وہ ابھی فریش ہوکے نکلا تھا جب آئلہ کو الماری کے پاس کھڑے دیکھ اسکی کل کی حرکت یاد کرتے غصے سے اسکے پاس پہنچتے اسے اپنے ساتھ لگا گیا تھا۔

آئلہ نے ڈرتے ہوئے پلگھیں اٹھائیں تو نظریں رائد کے چہرے کے تنے نقوش سے ٹکرائیں۔۔۔ بھوری آنکھیں سرخی جھلکا رہیں تھی۔۔۔ جب کے اسکے بازو پہ رائد کی گرفت مضبوط تھی جس پہ وہ کانپ کے رہ گئی۔

میں تم سے محبت کرنا ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں دھتکار برداشت کرلوں گا۔۔۔ عورت آگر مرد کو دھتکارے تو مرد کی انا برداشت نہیں کرتی۔

اور تم نے مجھے خود سے دور دھکیل کے میری انا کو للکارا ہے۔۔۔ اب بتاؤ کیا چاہتی ہو،،، کیا سزا دوں تمہیں۔۔۔ وہ اپنی لہو چھلکاتی آنکھیں اسکی ڈری سہمی سرمئی آنکھوں میں گاڑے سرد لہجے میں گویا ہوا تو آئلہ کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔

مجھ۔۔۔ مجھے معاف کر۔۔۔دیں۔۔۔آپ۔۔۔کل نشے۔۔۔ می میں تھے ۔۔۔ اس ۔۔ لیئے۔۔۔ میں ن نے وہ سب۔۔۔آہ۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔ اسکی آدھی بات سنتے ہی وہ اسکے بازو کو ایک جھٹکا دیتا اسے اپنے بےحد قریب کر گیا کے اب ان کے بیچ انچ بھر کا فاصلہ بھی نہیں رہا تھا۔

میں نے تمہیں بتایا تھا کہ مجھے عورتوں میں کوئی دلچسپی​ نہیں ہے تو کیا چاہتی ہو تم،،، کیا میں گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے باہر کی عورتوں میں دلچسپی لینا شروع کردوں؟؟؟۔۔۔ وہ بےحد سرد لہجے میں گویا ہوا۔

نہیں۔۔۔ آئلہ کے منہ سے تڑپ کے بےاختیار نکلا تو رائد کے تنے اعصاب تھوڑے ڈھیلے پڑے۔

آپ شراب پینا چھوڑ دیں۔۔۔اسکے چہرے کے اعصاب نرم پڑتے دیکھ وہ دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتی اسکی آنکھوں میں امید سے دیکھتی بولی۔۔۔ تو رائد کے چہرے پہ ہلکی سی مسکان آگئی۔۔

میں اسے نہیں چھوڑ سکتا وہ میرا نشہ ہے۔۔۔ رائد اسکا بازو چھوڑا اسکی کمر میں اپنا بازو ہائل کرتے سپاٹ انداز میں بولا

مگر وہ حرام ہے۔۔۔ آئلہ نے اسے گناہ سے روکنا چاہا۔

مگر مجھے پسند ہے۔۔۔ اور جو چیز مجھے پسند ہو اسے میں زندگی بھر نہیں چھوڑتا۔۔۔  اسکے چہرے کے قریب اپنا چہرے کیئے پرتپش لہجے میں کہتا آئلہ کی دھڑکنیں بڑھا گیا۔

مگر۔۔۔۔

آئلہ یہ تمہاری پہلی غلطی سمجھ کے معاف کر رہا ہوں۔۔۔ آگر آج کے بعد تم نے مجھے خود سے دور کرنے کی غلطی ،،غلطی سے بھی کی تو تم میرا وہ روپ دیکھو گی جو تم نے کل رات کو بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔ آئلہ کی بات کاٹتے نرمی سے ہاتھ کی پشت سے اسکا گال سہلاتے کہا تو اپنے گال پہ اسکا لمس محسوس کرتے آئلہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پھیل گئی۔

جاؤ جا کے جلدی سے چینج کرلو۔۔۔ اور یاد رکھنا آج رات کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے آج رات میں اپنا حق وصول کروں گا وہ بھی سود سمیت۔۔۔ اسکے ماتھے پہ اپنا پرحدت لمس چھوڑتا اسے ساکت کھڑا چھوڑ خود اسٹیڈی روم میں گھس گیا۔

آئلہ اپنے دھڑکتے دل کو سمبھالتی تیزی سے سلائڈ ڈور سرکاتی اپنے کپڑے لیئے واشروم میں گھس گئی۔

اسے پندرہ منٹ لگے تھے تیار ہونے میں۔۔۔ وہ ہلکے نیلے آسمانی رنگ کی کام دار فراق پہنے کمر تک آتے بالوں کا جوڑا بنائے۔۔۔ نازک سی جیولری ساتھ میک اپ کے نام پہ صرف لائٹ پنک لب اسٹک لگائے وہ سادگی میں بھی کمال لگ رہیں تھی۔

رائد اس کے پیچھے ہی صوفے پہ بیٹھا فرست سے اسے تیار ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ کریمی قمیض شلوار میں اچھے سے بالوں کو پیچھے کی طرف سیٹ کیئے آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرے ایک ہاتھ میں برینڈڈ گھڑی ساتھ پیشاوری چپل پہلے آنکھوں میں ڈھیروں خذبات لیئے اسے دیکھا رہا تھا۔

آئلہ کو اسکے دیکھنے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی مگر وہ کچھ بھی کہے بغیر اپنی تیاری میں لگی تھی۔

چلیں ۔۔۔ اسے سینڈل پہن کے تیار کھڑے دیکھ رائد نے کہا تو وہ جی کہتی اسکے ساتھ ہی باہر نکلی۔

وہ دونوں نیچے پہنچے تو ہال بلکل خالی تھا جب کے بائیں جانب کچن کے سامنے بنے ڈائنگ روم میں جزلان کے علاوہ سارے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔

انہیں آتے دیکھ تراب خان فورن انکی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔

ماشاءاللہ آؤ بیٹا ناشتہ کرو۔۔۔ تراب خان دونوں کو ساتھ دیکھتے بولتے تو آئلہ نے آگے بڑھ کے انہیں سلام کیا۔۔۔ جس کا جواب انہیں نے محض سر ہلا کے دیا۔

ماشاءاللہ اللہ تم دونوں کو همیشہ شاد آباد رکھے۔۔۔ نور بیگم نے پیار سے دونوں کو دعا دی جس پہ آئلہ نے مسکرا کے انہیں دیکھا جب کے رائد تو چہرے پہ نولفٹ کا بوڈ لگائے کھڑا تھا۔

بیٹھیں بھابھی ناشتہ کریں۔۔۔ نوال نے خوشی سے کہتے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

چلو آئلہ۔۔۔ آئلہ ابھی کرسی کھسکا کے بیٹھتی کے رائد بول پڑا جس پہ آئلہ سمیت سب ہی چونکے تھے۔

کہاں جانا ہے اس وقت۔۔۔ تراب خان نے حیرت سے پوچھا۔

ہم آئلہ کے گھر جا کے ناشتہ کریں گے۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا کلائی پہ بندھی کھڑی میں ٹائم دیکھنے لگا۔

مگر کیوں۔۔۔ آج میرا پہلا دن ہے اس گھر میں مجھے تو سب کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیئے نا۔۔۔ آئلہ نے ناسمجھی سے کہا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا رائد کیوں اسے لے کے جا رہا تھا۔

رائد بیٹا بعد میں چلے جانا آج بچی کا پہلا دن ہے اسے ہم سب کے ساتھ ناشتہ کرنے دو۔۔۔ نور بیگم نے پیار سے کہا تو رائد نے بےتاثر نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔ تو وہ اداسی سے چہرہ جھکا گئیں۔

آئلہ تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے۔۔۔ آئلہ پہ نظریں جمائے حد درجہ سنجیدگی سے کہا۔

جی۔۔۔ میں چادر اور حجاب کر آو۔۔۔ اسے جھبڑے بھیجے دیکھ آئلہ منمنائی۔

پانچ منٹ ہیں بس تمہارے پاس۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہال میں رکھے صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔۔ مطلب صاف تھا وہ وہی بیٹھا اسکا انتظار کر رہا ہے تو وہ جلدی کرے۔۔۔ 

آئلہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانتی کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔ اور ٹھیک پانچ منٹ بعد ہی وہ چادر اور حجاب کیئے اسکے سامنے کھڑی تھی۔

چلو۔۔۔ رائد اسکا ہاتھ تھامتے اسے اپنے ساتھ لیئے باہر کی جانب بڑھ گیا جب کے ایک نظر آئلہ نے ان سب کے اداس چہروں پہ ڈالی تھی۔۔۔

رائد نے ایسا کیوں کیا یہ تو وہ نہیں جانتی تھی مگر رائد کا انداز اپنے ماں باپ سے بات کرتے وقت اسے کافی عجیب لگا تھا۔۔۔ مگر وہ سمجھی کے شاید کل ہوئی بدمزگی کی وجہ سے وہ ایسا ریئکٹ کر رہا ہے اس لیئے اسنے نظر انداز کردیا۔

یہ لو بیٹا یہ پہن لو۔۔۔ یہ ہمارے خاندانی کنگن ہیں۔۔۔ جو ہمشیہ گھر کی بڑی بہو کو دیئے جاتے ہیں۔۔۔ نور بیگم نے اسے سونے کے کنگن کا باکس تھمایا 

آج ولیمہ تھا جس کے لیئے وہ خود ہی تیار ہو رہی تھی۔۔۔ اسنے پالر وغیرہ سے تیار ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا اسے میک اپ زیادہ پسند نہیں تھا اس لیئے وہ خود ہی تیار ہونا چاہتی تھی اہلکا پھلکا تھا۔۔۔ وہ اپنی بارات میں بھی خود ہی تیار ہوئی تھی اور اب ولیمہ میں بھی خود ہی ہو رہی تھی۔

بہت پیارے ہیں آنٹی۔۔۔ وہ کنگن نکالے انکا خوبصورت ڈیزائن دیکھتی مسکرا کے بولی۔

آنٹی نہیں ماما۔۔۔ نور بیگم نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔ بیٹے نے انہیں کبھی ماں کہہ کے نہیں پکارہ تھا تو کیا ہوا مگر بہو تو ماں کہہ سکتی تھی نا۔

ماما صبح جو کچھ ہوا ہمیں اس پہ بہت افسوس ہے۔۔۔ ہم نے دیکھا تھا آپ لوگ ہمارے ساتھ ناشتہ کرنا چاہتے تھے مگر شاید انکا موڈ خراب تھا تبھی وہ آپ لوگوں سے کافی روکھے لہجے میں بات کر رہے تھے۔۔۔ آئلہ نے صبح کے لیئے معززت کرنی چاہی۔

وہ پہلے کون سا ہم سے ٹھیک طرح سے بات کرتے تھے۔۔۔ 

نوال۔۔۔۔ نوال کے اچانک کمرے میں آکے کہنے پہ نور بیگم نے اسے گھور کے تنبیہہ کروایا۔

کیا مطلب۔۔۔ آئلہ نے الجھن بھری نظروں سے باری باری دونوں کو دیکھا۔

کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔ نور بیگم نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی وہ جانتی تھی ایک نا ایک دن بات ضرور کھولے گی مگر اتنی جلدی وہ یہ نہیں چاہتیں تھیں۔

کیا کچھ ایسا ہے جو ہم نہیں جانتے۔۔۔ وہ نرمی سے کہتی ان دونوں کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی۔۔۔

نور بیگم کے چہرے پہ صاف پریشانی تھی جب کے نوال کے چہرے پہ اداسی۔

بھابھی یہاں بہت کچھ ایسا ہے جو آپ نہیں جانتیں۔۔۔ آپ ابھی نئی ہیں اس لیئے کچھ نہیں جانتیں ۔۔۔ مگر آہستہ آہستہ آپ کو سب سمجھ آجائے گا کہ یہاں جو دیکھ رہا ہے ویسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ نوال تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتی کمرے سے نکل گئی تو آئلہ نے ناسمجھی سے نور بیگم کو دیکھا۔

باہر مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں میں انہیں دیکھتی ہو تم بھی جلدی سے تیار ہو جاؤ ہممم۔۔۔ نور بیگم اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی اسکی سوالیہ نگاہوں سے نظریں چراتی باہر نکل گئیں۔۔

پیچھے آئلہ نوال کی باتوں میں الجھ کے رہ گئی تھی۔۔۔ وہ آخر کہنا کیا چاہتی تھی۔۔۔ اسکی بات کے پیچھے آخر مطلب کیا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی مگر اتنا ضرور سمجھ گئی تھی کہ ضرورت کوئی بہت بڑی بات ہے کوئی بہت بڑا راز جو اسے جاننا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

شام میں فنگشن زور و شور سے شروع تھا۔۔۔ رائد نے آئلہ کی وجہ سے مرد اور عورتوں کا الگ الگ انتظار کروایا تھا جو تراب خان کو بہت ناگوار گزر رہا تھا۔۔۔ مگر وہ سوائے صبر کے گھونٹ بھرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

حویلی کی پچھلی جانب عورتوں کا انتظام تھا جب کے آگے کی طرف مردوں کا۔۔۔

نوال کمرے میں اپنا میک اپ دیکھنے آئی تھی وہ پرپل میکسی میں ہلکے میک اپ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ 

کمرے میں آکے اسنے دو تین اپنی تصویریں لیں اور اسہی وقت حسام کو بھیج دیں۔۔

ایک مسکراتی نظر فون پہ ڈالتی خود کو شیشے میں دیکھی کمرے سے نکل گئی۔

ابھی اسنے دو سیڑھیاں ہی پھلانگیں تھی کہ سامنے سے ایک ویٹر جوس کی ٹرے لیئے اس کے سامنے آیا جس سے اسکے قدموں کو بریک لگی۔

یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔ اور آپ یہاں اوپر کہاں جارہے ہیں۔۔۔ مہمان باہر ہیں سارے باہر جائیں۔۔۔ کانپتے دل کے ساتھ وہ لہجے کو مضبوط کرتی سامنے کھڑے اونچے قد قامت والے ویٹر کو دیکھ کے بولی۔ ۔۔۔ جس کے چہرے پہ گھنی داڑھی مونچھویں اور سر پہ کیپ تھی۔۔۔ جب کے وہ بڑی دلفریبی سے اسے مسکرا کے دیکھ رہا تھا۔

میڈم جوس۔۔۔ بھاری آواز میں کہتے ٹرے اسکے سامنے کی جب کے نظریں اسکے معصوم چہرے پہ جمی ہوئیں تھیں۔

نہیں چاہیئے۔۔۔ وہ ٹرے ہاتھ سے پرے دھکیلتی دو سیڑھیاں تیزی سے اتری۔

ارے میڈم ایسے کیسے،،، جوس تو لے لیں۔۔۔ وہ ویٹر ویسے ہی بھاری آواز میں کہتا تیزی سے اسکے آگے آیا تو نوال اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

یہ کیا حرکت ہے۔۔۔ وہ غصے سے دبی آواز میں چیخی جب کہ وہ دانتوں کی نمائش کیئے ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا۔

ابھی اپنے بابا کو جا کے تمہاری شکایت کرتی ہوں۔۔۔ وہ انگلی دیکھا کے کہتی اسکے سائڈ سے گزر کے نیچے کی جانب بڑھ گئی۔

نوال۔۔۔ اپنے نام کی پکار پہ اسکے سیڑھیاں اترتے قدم منجمد ہوئے۔۔۔ وہ اس آواز کو اچھے سے جانتی تھی۔۔۔مگر وہ پلٹی نہیں ف

تھی۔ 

بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔ مسکراتا محبت سے بھرپور لہجے ۔۔۔ وہ اس آواز کو تو سو سال بعد بھی پہچان سکتی تھی۔

حسام۔۔۔ ایک جھٹکے سے مڑتے دھیمی آواز میں کہا تو وہ سکون سے مسکرا دیا ۔۔۔

نوال نے فورن سے ادھر ادھر دیکھا مگر وہاں کسی کو نا پا کے اسے جلدی سے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

آ بھی جائیں اندر کیا سب کو پتہ چلنے کا انتظام کر رہیں ہیں۔۔۔ اسے دروازے پہ کھڑا دیکھ وہ جھنجھلائی تو وہ اپنی ہنسی روکتے کمرے میں قدم رکھ گیا۔

اسکے اندر آتے ہی اسنے جلدی سے دروازہ بند کیا ۔

میڈم آپ کو زیب نہیں دیتا ایسے ایک ویٹر کو اپنے کمرے میں بلانا۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تو نوال نے اسے اوپر سے لے کے نیچے تک گھور کے دیکھا۔۔۔۔ وہ نقلی داڑھی مونچھوں میں بلکل پہچان میں ہی نہیں آرہا تھا۔

حسام آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں۔۔۔ آگر کسی نے پہچان لیا تو بہت بڑی گڑبڑ ہو جائے گی۔۔۔ وہ فکرمندی سے بولی اسے تو یہ سوچ سوچ کے ہی حول اٹھ رہے تھے کے نا جانے وہ کب سے محفل میں گھوم رہا تھا اور آگر اسے کوئی پہچان لیتا تو۔۔۔۔

تم نے ہی تو کہا تھا کہ ایک ویٹر کے آنے سے بھلا کون سی بدمزگی ہوگی۔۔۔ وہ مزے سے شانے اچکا کے بولا تو نوال نے اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔

اسے بلکل توقع نہیں تھی کہ حسام اسکی بات کو سیریس لے لے گا۔۔۔

حسام میں مزاق کر رہی تھی۔۔۔ وہ بےچارگی سے بولی۔

لیکن میں تو سیریس تھا نا۔۔۔ وہ دوبدو بولا

افففف حسام۔۔۔ آپ جائیں یہاں سے پلیز۔۔۔۔ اسنے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ گھبراتے ہوئے منت کی۔

چلا جاؤں گا پہلے تمہیں جی بھر کے دیکھ تو لوں۔۔۔ حسام ہاتھ میں پکڑی ٹرے بیڈ پہ رکھتا دونوں ہاتھ سینے پے باندھے نظریں اسکے وجود پہ ٹکائے بولا

بس بہت دیکھ لیا تصویریں بھیجیں ہیں اس میں دیکھ لے گا باقی ابھی جائیں.۔۔۔ اس سے پہلے میری غیر موجودگی کو محسوس کر کے کوئی مجھے ڈھونڈھنے آئے آپ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔ وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی مگر حسام پہ کوئی اثر نا ہوا۔۔۔ وہ ویسے ہی کھڑا اسے مسکراتی نظروں سے دیکھتا رہا۔

حسامممممم۔۔۔ اسنے نام کو اچھا خاصا کھینچا تو وہ کھل کے ہنس دیا۔

ہاہاہاہا جارہا ہوں یار،،، تم خواہ مخواہ ڈر رہی ہو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔  وہ ٹرے اٹھائے دروازے کی جانب بڑھا جب اچانک ہی دروازہ نوک ہوا۔۔۔

نوال بیٹا ۔۔۔۔ باہر سے نور بیگم کی آواز آتے دیکھ نوال کی تو گویا سانسیں ہی تھم گئیں۔۔۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑھ گئے۔۔۔ آگر تھوڑی دیر میں کچھ نا ہوا تو وہ یقیناً بےہوش ہوجاتی۔۔

نوال۔۔۔۔ بیٹا ٹھیک ہو آپ۔۔۔ کچھ بول کیوں نہیں رہیں۔۔۔ آپ کمرے میں ہونا۔۔۔ نور بیگم کی پھر آواز آئی۔۔۔ حسام اسے مسلسل کچھ کہنے کا بول رہا تھا مگر اسکی آواز تو جیسے حلق میں اٹک گئی تھی۔

نوال بولو انہیں کہ تم ٹھیک ہو۔۔۔ حسام ہلکی آواز میں سختی سے بولا تو اسنے آنسوں سے بھری نظریں اٹھا کے اسے دیکھا۔

نوالللل۔۔۔باہر نور بیگم فکرمندی سے دروازہ بجائے جا رہیں تھی مگر نوال کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

نوال ادھر دیکھو تم باہر جاؤ گی اور کہو گی کے تم واشروم میں تھیں سمجھیں۔۔۔ آخر کار نوال کو کوئی حرکت نا کرتے دیکھ حسام نے اسکا ایک بازو پکڑتے جھنجھوڑا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔

اور آپ ۔۔۔۔۔ اپنی ماں کی باہر سے آتی مسلسل آواز پہ وہ اپنے بند ہوتے دل کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ پائی۔

تم باہر جاؤ اور جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہی کرو۔۔۔ انہیں مطمئن کر کے باہر لے جاؤں ۔۔۔ میں بھی تم لوگوں کے پیچھے ہی راستہ صاف دیکھتے ہی نکل جاؤں گا۔۔۔۔سمجھ گئیں۔۔۔ حسام نے نرمی سے سمجھایا تو وہ مرے مرے انداز میں گردن اثبات میں ہلاگئی۔

نواللللل۔۔۔۔ نور بیگم نے پریشانی​ سے پکارہ۔

آ۔۔۔۔آئی۔۔۔ وہ بامشکل حلق تر کرتے دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔ حسام جلدی سے دروازے کے پیچھے چپ گیا۔

کھولو۔۔۔ لاک پہ ہاتھ رکھے دروازے کی دیوار کے ساتھ کھڑے حسام کو ڈر سے دیکھ رہی تھی جب حسام نے دھیمی آواز میں کہتے اسے آنکھیں دیکھائیں تو وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھول گئی۔

نوال کیا ہوا ہے تم ،،، یہاں کیا کر رہی ہو اور اتنی دیر سے دروازہ کیوں نہیں کھول رہیں تھیں۔۔۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے یا کسی نے کچھ کہا ہے۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی نور بیگم نے سوالات کی برسات کردی۔

ماما میں بلکل ٹھیک ہوں بس واشروم میں تھی اس لیئے دروازہ کھولنے میں دیر ہوگئی۔۔۔ نوال کافی سمبھل کے لہجہ ناومل رکھتے بولی تو نور بیگم مطمئن ہوگئیں۔

اچھا چلو نیچے سب تمہارا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔

جی۔۔۔ وہ دروازہ بند کرتی انکے ساتھ ہی نیچے اتر گئی جب کے جاتے جاتے بار بار مڑ کے کمرے کے بند دروازہ کو دیکھ رہیں تھیں۔

ان لوگوں کے نکلنے کے پانچ منٹ بعد ہی حسام خاموشی سے دبے باؤں حویلی سے نکل گیا۔۔۔۔ وہ بس یہاں نوال سے ملنے آیا تھا۔۔۔ اس سے مل لیا اسے دیکھ لیا اب اسکا یہاں کوئی کام نا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

کیسی ہیں بھابھی صاحبہ۔۔۔ آئلہ جو رائد کے ساتھ اسٹیج پہ بیٹھی نقاب کے نیچے سے کھانا کھا رہی تھی اسے اپنے عقب سے آواز آئی۔

اسنے اور رائد دونوں گردن گھما کے پیچھے دیکھا تو جزلان مسکراتے ہوئے ان کے سامنے آیا

آپ نے مجھے پہچانا۔۔۔ وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے بولا۔

آپ جزلان بھائی ہیں نا۔۔۔ ان کے بھائی۔۔۔ آئلہ نے اسے پہجانتے دھیمے لہجے میں جواب دیا

جی میں انکا ہی بھائی ہوں۔۔۔ جزلان شوخی سے رائد کو دیکھتا انکا پہ زور دے کے بولا تو رائد ناگواری سے گردن موڑ گیا۔

بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کے۔۔۔ وہ خوشی سے بولی۔۔۔ جب کے رائد کے چہرے کے تاثرات دیکھتے جزلان کو بہت مزاح آ رہا تھا۔

مجھے بھی بہت خوشی کوئی آخر اتنی اچھی بھابھی جو ملیں ہیں۔۔۔لگتا ہے آپکی اور میری خوب جمے گی۔۔۔۔ جزلان رائد کو چڑھانے کی خاطر شرارت سے بولا اور وہی ہوا جس کا اسے انتظار تھا رائد ضبط کرتے کھڑا ہوگیا تھا

چلو آئلہ ہو گیا ولیمہ ختم۔۔۔۔ اور تم۔۔۔ تمہیں زیادہ میری بیوی سے رشتے داری جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ رائد آئلہ کا ہاتھ تھامے نرمی سے آئلہ سے کہتا سختی سے جزلان کو باور کرتا حویلی کے اندرونی جانب بڑھ گیا۔۔۔ پیچھے سب اسے دیکھ کے وہ گئے۔

ارے میں نے کیا کیا ہے۔۔۔ جزلان کندھے اچکا کے ایسے بولا جیسے اسنے کچھ کیا ہی نا ہو یا اسکی اپنے بھائی سے بہت دوستی ہو جو وہ پہلی بار ایسے سختی سے بات کر کے گیا تھا۔

ان کو جاتے دیکھ نور بیگم اور نوال بھی پریشان ہوگئیں تھیں مگر یہ انکی مجبوری تھی کے وہ رائد سے جا کے کچھ پوچھ نہیں سکتیں تھی۔۔۔ اس لیے وہ بھی مہمانوں کی طرف متوجہ ہوگئیں۔

ہمیں ایسے اندر نہیں آنا چاہیئے تھا باہر سب مہمان ہیں کیا سوچ رہے ہوں گے ۔۔۔ اسنے کمرے میں آکے آئلہ کا ہاتھ چھوڑا تو وہ اپنا نقاب ہٹاتی فکرمندی سے بولی

جسے جو بھی سوچنا ہے سوچتا رہے مجھے فرق نہیں پڑھتا۔۔۔ وہ سگریٹ سرگا کے لبوں میں دبا گیا۔۔۔ آئلہ کو ایک اور جھٹکا لگا تھا مطلب وہ اسموکنگ بھی کرتا ہے۔۔۔ مگر اسموکنگ اتنی بڑی بات نہیں تھی جتنی شراب بڑی بات تھی۔

آپ نے جزلان بھائی سے یہ کیوں کہا کے وہ ہم سے رشتے دادی جوڑنے کی کوشش نا کریں۔۔۔جب کے ہمارے بیچ رشتہ تو ہے نا اب۔۔۔بھابھی دیور کا۔۔۔ آئلہ نرمی سے کہتی اسکے پیچھے آکے کھڑی ہوئی جو اسکی جانب پشت کیئے کھڑا اپنے اندر کے غصے کو دھوئیں کی صورت باہر نکال رہا تھا۔

کوئی رشتہ نہیں ہے ہمارا اس کے ساتھ سمجھیں۔۔۔ وہ ایک دم مڑتا غصے سے دھاڑا تو آئلہ ڈر کے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔ آئلہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیوں اپنے ہی بھائی سے رشتہ نہیں رکھنا چاہا ۔۔۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو رائد ایسے بیہیو کر رہا ہے

اسکی آنکھوں میں خوف دیکھتے رائد ایک گہرا کش بھرا دھواں ہوس میں چھوڑتے دو قدم کا فاصلہ ایک قدم میں طے کرتا اسکے مقابل کھڑا ہوا۔

آئلہ بس تم اتنا سمجھ لو آگر اس گھر میں تمہارا کسی سے کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف میرے ساتھ ہے سمجھیں۔۔۔ رائد بہت نرمی سے اسکے شانے تھامے سمجھا رہا تھا جس پہ اس وقت سوائے ہاں میں گردن ہلانے کے آئلہ کے پاس اور کوئی چارا نا تھا۔

وہ اسکے اس دھوپ چھاؤں جیسے رویہ کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔ ایک دم وہ بلکل نرم پڑھ جاتا تھا اور دوسرے ہی پل غصے سے لال پیلا ہو جاتا تھا۔۔۔ آئلہ پہلے اچھے سے اسکے نیچر کو سمجھنا چاہتی تھی پھر وہ اس سے تفصیل سے بات کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔

ماضی کی یادیں ایک دم اسکے دماغ میں گھوم گئیں۔۔۔ اور پھر جزلان کا اسے چھیڑنا 

۔۔ اسے مزید غصہ دلا رہا تھا وہ آئلہ کے سامنے غصہ کر کے اسے مزید خوف زده نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اس لیئے بغیر کچھ بولے کمرے سے باہر کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ اس سے پہلے وہ باہر نکلتا آئلہ جلدی سے کہتی اسکے پاس آئی۔

دماغ کو سکون بخش نے۔۔۔ رائد سپاٹ انداز میں کہتا ابھی قدم اٹھانے ہی لگا تھا کہ آئلہ نے جلدی سے اسکا بازو تھام لیا۔

آ۔۔۔۔ آپ مجھے ایسے اکیلے۔۔۔ چھوڑ۔۔۔ کے کیوں جا رہے۔۔۔ہیں۔۔۔ آئلہ کو لگا وہ کل کی طرح پھر شراب نا پی کے آئے اس لیئے اسے پہلے ہی روک دیا۔۔۔ جب کے اپنے بازو پہ اسکا لمس محسوس کرتے رائد کے جذبات منہ اٹھانے لگے تھے۔

کیا چاہتی ہو تم نہیں جاؤں۔۔۔ وہ اسکی جانب گھمتا اسے کمر سے تھام کے اپنے قرب کرگیا تو آئمہ کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں۔

وہ بےقابو ہوتے دل کے ساتھ نفی میں سر ہلاتی اسکی انگلیوں میں دبی سگریٹ نرمی سے لیتی زمین پہ پھینگ کے اپنی سینڈیلز سے مسل گئی تو رائد کے لبوں پہ ایک دلفریب مسکراہٹ آگئی۔

ٹھیک ہے نہیں جاتا۔۔۔خمار آلود لہجے میں کہتا اسکے سر پہ باندھا اسکارف کھولنے لگا جو پیچ کلر کا اسکے سوٹ کی میچنگ کا تھا خوبصورت سا اسکارف تھا۔۔ لمحہ بھر میں کھل گیا۔۔۔

ہ۔۔۔ہم چینج۔۔ ک۔۔۔کر لیں۔۔۔ رائد کی سانسوں کی تپش اپنے ماتھے پہ محسوس کرتے اسکی زبان سے لفظ اٹک اٹک کے ادا ہوئے۔

میں ہوں نا اس کام کے لیئے۔۔۔ نرمی سے کندھے پہ سکا بھالی ڈوپٹہ اور اسکارف اترا کے صوفے کی جانب اچکالتے اسے ایک جھٹکے میں اپنی باہوں میں بھر گیا۔۔۔ جس پہ آئلہ بغیر کوئی مزاحمت کیئے بازوں اسکی گردن میں ڈالے آنکھیں بند کرتی اسکے کندھے سے سر ٹکا گئی۔

رائد نے بہت ہی نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹایا تھا جیسے وہ کوئی شیشے کی گڑیا ہو جسے زور سے رکھنے سے وہ ٹوٹ جائے گی۔

وہ۔۔۔ آپ نے۔۔۔ہمیں منہ۔۔۔ دیکھائی نہیں دی۔۔۔ رائد کا ہاتھ بالوں میں بندھے جوڑے سے الجھتے محسوس کر اسنے لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ کچھ وقت کی رہائے کے لیئے بہانا کیا مگر وہ جانتی تھی آج رہائی نا ممکن ہے۔۔۔

پہلے اچھے سے منہ کو دیکھنے تو دو۔۔۔ وہ معنی خیزی سے کہتا اسکی شہ رگ پہ اپنے سلگتے لگ رکھتا آئلہ کو کانپنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔ اسنے فورن ہی اسکی قربت سے گھبرا کے اسکے مضبوط کندھوں پہ ہاتھ جمائے۔

آئلہ رائد خان۔۔۔ یاد رکھنا جاگیردار رائد خان تم سے بہت محبت کرتا ہے۔۔۔اس دنیا میں سب سے زیادہ آگر اسے کوئی عزیز ہے تو وہ تم ہو۔۔۔ میں ساری زندگی تم سے وفا نبھانے کا وعدہ کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں تم بھی میرے ساتھ وفا نبھاؤں گی۔۔۔ وہ بھاری لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کرتا آئلہ کا دل بڑی طرح دھڑکا گیا۔

میں نے آج سے پہلے کسی کو اپنے حواسوں پہ سوار ہونے کی اجازت نہیں دی مگر تم پہلی لڑکی ہو جو بری طرح میرے حواسوں پہ سوار ہوگئی ہو۔۔۔

اور میں چاہتا ہوں تم زندگی بھر ایسے ہی مجھ پہ سوار رہوں۔۔۔ مجھے ہر چیز کا ہوش بھلا کے خود میں گم کرلو۔۔۔ وہ لودیتی نظروں سے اسکی سرمئی مسکراتی آنکھوں میں دیکھا مدہوشی سے کہتا اسکی گردن پہ جھک گیا۔

گردن پہ اسکا پرحدت بھرا لمس محسوس کرتی اسکی دھڑکنوں میں انتشار برپا ہوا۔

را۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ اسکے لبوں پہ جھکتے اسکی بولتی بند کرگیا۔۔۔ جس پہ وہ بھی سکون سے آنکھیں موندتی اسکی گردن میں باہیں ڈال گئی۔

وہ اسے اتنے پیار اور نرمی سے چھو رہا تھا کہ آئلہ کو اپنا آپ قیمتی سا لگنے لگا تھا۔۔۔ وہ اسے اپنی محبت کی بارش میں بھیگوتا ہر چیز سے بےگانہ کرتا بہت دور لے گیا۔۔۔۔ اس کے وجود میں گم ہوتے جیسے وہ برسوں بعد سکون محسوس کر رہا تھا۔

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی آئلہ کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔ دور کہیں کسی مسجد سے اذانوں کی آواز آرہی تھی۔

اسنے گردن جھکا کے دیکھا تو رائد کسی معصوم سے بچے کی طرح اسکی گردن میں چہرہ چھپائے اسے اپنے باہوں کے حصار میں مضبوطی سے قید کیئے سکون سے سو رہا تھا۔۔

اسکے چہرہ پہ سکون ہی سکون تھا۔۔۔ آئلہ دھیرے سے مسکراتی آہستہ سے اسکے ہاتھ اپنے پیٹ سے ہٹانے لگی تو وہ برا سا منہ بناتے اسے مزید خوف میں بھیج گیا۔

سنیں۔۔۔ آئلہ نے دھیرے سے اسکا بازو ہلایا مگر رائد تو جیسے مدہوش ہو کے سو رہا تھا۔۔۔ اس کے جسم میں کوئی بھی حرکت محسوس نا کرتے اسنے تھوڑا زور سے ہلایا۔

سنیں۔۔۔۔ اب کی بار آواز تھوڑی اونچی تھی۔

ہمممم۔۔۔ نیند میں ہنکارہ بھرا جب کے حصار ویسے کا ویسا ہی قائم تھا۔

ہمیں نماز پڑھنی ہیں پلیز ہمیں چھوڑ دیں۔۔۔۔ نرمی سے کہتی اسکے بکھرے بال ماتھے سے ہٹانے لگی۔

ہممم۔۔۔ وہ نیندوں میں کہتا مزید چہرہ اسکی گردن میں چھپا گیا

اسکی گرم سانسوں کی تپش آئلہ کی دھڑکنیں بڑھا رہی تھیں۔۔۔ اسے ایک دم رات کا منظر یاد آگیا۔۔۔ جس سے اسکے کال اناری ہوگئے۔۔۔ رائد کی شدتیں اسکی محبت کا اندازہ تو آئلہ رات کو ہی لگا چکی تھی وہ خود کو ایک دم سے ہی خوش قسمت مجھے لگی تھی۔

سنیں۔۔۔ ہمیں نماز پڑھنی ہے چھوڑیں ہمیں۔۔۔ بلکے آپ بھی اٹھیں اور نماز پڑھیں۔۔۔اس بات آئلہ زرا ضرور سے کہتی ساتھ اپنی پوری جان لگا کے جھنجھوڑ گئی تو رائد نے ایک دم سر اٹھا کے نیند سے بھرپور نگاہوں سے اسے گھورا

نماز قضا ہو جائے گی ہمیں چھوڑ دیں اور آپ بھی آٹھ جائیں۔۔۔ اسے گھورتے دیکھ وہ منمنائی

اسکی منمناہٹ سنتے رائد اسے چھوڑتا کروٹ بدل کے واپس آنکھیں بند کرگیا

آپ نماز نہیں پڑھیں گے۔۔۔ آئلہ اسے پھر سے سوتے دیکھ دھیمی آواز میں اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھنے لگی۔

تمہیں چھوڑ دیا ہے نا تم پڑھو۔۔۔ قضا ہو رہی ہے تمہاری نماز۔۔۔ رائد بغیر آنکھیں کھولے ویسے ہی لیٹے لیٹے سپاٹ لہجے میں بولا تو وہ تاسف سے اسے دیکھتی واشروم کی جانب بڑھ گئی۔

رائد بچہ نہیں تھا جو وہ اسے زور زبردستی کر کے نماز پڑھواتی۔۔۔ آگر وہ اسے زبردستی اٹھا بھی دیتی تو وہ بےدلی سے نماز پڑھتا جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھی۔۔۔ آگر وہ پڑھ بھی لیتا تو وہ اسکے کہنے پہ پڑھتا نا کے اللہ کے لیئے پڑھتا۔۔۔ اس لیئے آئلہ نے زیادہ ضروری نہیں دیا۔۔۔۔ مگر وہ اللہ سے دعا ضرور مانگنے والی تھی کہ اللہ رائد کو ہدایت دے اسے ان حرام چیزوں سے نکال کے نیک راستے پہ چلا۔۔۔ اسے اپنا عبارت گزار بنا دے۔

فریش ہوکے وضو کر کے آئی تو اسنے پورے کمرے میں جائے نماز ڈھونڈی مگر وہاں ہوتی تو اسے ملتی نا۔

پورا کمرا اچھے سے دیکھنے کے بعد الماری سے ایک بڑی سی چادر نکالتی اس پہ نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی۔

بہت ہی سکون سے نماز پڑھنے کے بعد چادر اٹھاتی واپس اسکی جگہ پہ رکھتی اپنی جگہ پہ آکے لیٹ گئی۔

رائد اسکی جانب پشت کیئے بےخبر سورہا تھا۔۔۔ آئمہ بغیر پلکھے جھپکائے اسے دیکھ گئی۔۔۔ کیا تھا وہ بندہ ۔۔۔ ایک پل میں اتنا نرم اور دوسرے ہی پل میں انتہا کا سخت۔۔۔ جو اسکے نقاب کو اہمیت دیتا تھا ۔۔۔ اسکے پردہ کا خاص خیال رکھتا تھا مگر خود اللہ سے دور تھا۔۔۔ نا جانے وہ بچپن سے ہی ایسا تھا یا اس کے پیچھے بھی کوئی وجہ تھی بس یہی آئلہ کو جاننا تھا۔

کب اسے دیکھتے دیکھتے اسکی آنکھیں لگ گئی اسے پتہ ہی نا چلا۔

فجر پڑھ کے وہ ایسی سوئی کے پھر اسکی آنکھ ساڑھے دس بجے کھولی وہ بھی کھٹر پٹر کی آواز سے۔

ہلکے سے انگڑائی لے کے اسنے اپنے برابر میں دیکھا تو وہاں جگہ خالی تھی۔۔۔ اسنے جلدی سے نظریں کمرے میں ڈوڑائیں تو رائد شرٹ لیس گرے پینٹ پہنے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بالوں کو سیٹ کر رہا تھا۔

وہ اٹھ کے بیٹھتی اپنے گھلے بالوں کو سمیت کے ایک ڈھیلے سے جوڑے میں قید کرنے لگی تو رائد نے مسکرا کے اسے دیکھا۔

چلو جلدی سے فریش ہو جاؤ ناشتہ آتا ہی ہوگا ۔۔۔ پھر ساتھ ناشتہ کریں گے۔۔۔۔ وہ باڈی اسپرے خود پہ کرتا گردن موڑ کے اسے دیکھتے بولا تو آئلہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔ 

کمرے میں ناشتہ کیوں کریں گے نیچے سب کے ساتھ کریں گے نا۔۔۔ وہ الجھن سے بولی اسے سمجھ نہیں آیا آخر وہ کیوں کمرے میں ناشتہ کرنا چاہتا تھا۔

گیارہ بجنے والے ہیں اور اس وقت کوئی ناشتہ نہیں کرتا ۔۔۔ اور ویسے بھی تمہیں کسی کے ساتھ ناشتہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے سوائے میرے۔۔۔ وہ گردن موڑے ابھی تک بیڈ پہ بیٹھی آئلہ کو دیکھتے سنجیدگی سے بولا

جب کے آئلہ کو اسکی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ وہ بس خاموشی سے اٹھی اور واشروم میں گھس گئی۔

جب تک وہ آئی تھی تب  تک رائد سفید شرٹ پہن چکا تھا۔۔۔ ناشتہ بھی آگیا تھا ۔۔۔ یقیناً اسنے کافی پہلے سے ہی ناشتے کا بول دیا تھا۔۔۔۔

آجاؤ۔۔۔ رائد اپنی گھڑی پہنتے صوفے پہ بیٹھتے بولا تو آئلہ بیڈ پہ رکھا اپنا دوپٹہ اٹھانے بڑھ گئی۔

رہنے دو اسے یہاں میرے علاوہ کون سا کوئی اور ہے۔۔۔ اسکی نظریں بیڈ پہ رکھے ڈوپٹے پہ دیکھتے وہ نرمی سے بولا تو جھجھکتی ہوئی اسکے ساتھ آبیٹھی

تم گھر میں بور ہو جاؤ گی چاہو تو میرے ساتھ آفس چل سکتی ہو۔۔۔ پراٹھے کے ساتھ انڈا لیتے رائد نے نوالہ بنا کے اسکے منہ کی جانب کیا۔

ہم خود کھا لویں گے۔۔۔آئلہ نے اسکے ہاتھ سے نوالہ لینے کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا مگر وہ ہاتھ پیچھے کر گہا۔

پہلا نوالہ ہمیشہ تم میرے ہاتھ سے کھاؤ گی۔۔۔ وہ محبت سے ہلکی سی مسکان کے ساتھ کہتا نوالہ اسکے منہ کے پاس لے کے گیا تو وہ بغیر کچھ کہے منہ کھول گئی۔

تو بتاؤ کیا سوچا تم نے چلو گی میرے ساتھ آفس۔۔۔ رائد نے جوس گلاس میں ڈالتے اسکے سامنے رکھا۔۔۔ اور پھر اپنے ناشتے کی جانب متوجہ ہوا

نہیں ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے نوالے کھاتی بولی تو رائد نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

ناشتہ ختم کر کے آئلہ برتن ٹرے میں رکھنے لگی تو رائد اٹھ کے الماری کے پاس چلا گیا۔

سلائڈنگ ڈور کھولتے اسنے پہلی درواز کھولی جس میں ایک مخملی لمبا سا باکس رکھا تھا۔

باکس نکلاتے وہ آئلہ کی جانب آیا جو اسکی طرف پشت کیئے بیڈ پہ رکھا اپنا دوپٹہ اٹھا رہی تھی۔۔۔۔ پشت پہ بکھرے ریشمی بال بہت ہی بھلے لگ رہی تھے

آئلہ۔۔۔ اسکی گھمبیر آواز پہ آئلہ ڈوپٹہ اٹھاتی اسکی جانب مڑی

تم رات کو بول رہیں تھی نا کہ میں نے تمہیں منہ دیکھائی نہیں دی ۔۔۔ تو یہ لو آج دے رہا ہوں۔۔۔ رائد نے وہ باکس اسکی جانب بڑھایا تو وہ جلدی سے تھامتے اشتیاق سے کھولنے لگی

آ۔۔۔۔۔۔ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔۔۔ باکس کے اندر خوبصورت سا دل کے شیپ کا لاکٹ موجود تھا جس پہ خوبصورتی سے باریک سا آئلہ رائد لکھا تھا۔۔۔ جیسے دیکھتے اسکے چہرے پہ خوشی دوڑ گئی۔

ادھر آؤ۔۔۔ رائد نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے شیشے کے سامنے لے جا کے کھڑا کیا

پشت سے اسکے بال ہٹاکے اسکے کندھے پہ ڈالے اور آئلہ کے ہاتھ سے لاکٹ لیتے اسکی سراحی دار گردن کی زینت بنایا۔۔۔ جب کے آئلہ اپنے پیچھے کھڑے رائد کو مسکراتی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

اب دیکھو تمہارے گلے میں آنے کے بعد اسکی زینت اور بڑھ گئی۔۔۔ یہ اور انمول ہوگیا ہے۔۔۔ رائد اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیتا اسکے کندھے پہ لب رکھتے تھوڑی ٹکا گیا تو آئلہ نے مسکراتے ہوئے حیا سے نظریں جھکالیں۔۔۔ اور یہاں رائد کا دل اسکی نظریں جھکانے سے بےچین ہوگیا۔

رائد نے بےخودی میں اپنے لب اسکی گردن پہ رکھے تو آئلہ کے جسم میں ایک دم کپکپی طاری ہوئی۔۔۔ بےاختیار اپنے پیٹ پہ بندھے رائد کے ہاتھوں پہ اسنے ہاتھ رکھے۔

گردن سے کان کا صرف اسنے بڑی فرصت سے طے کیا تھا۔۔۔ 

زہ تا سرہ مینه لرم جانان (آئی لو یو جان)۔۔۔۔ کان کے پاس دھیمے سے پشتوں میں کہتا کان کی لو کو چوم گیا تو وہ سرشار سی مسکرادی۔

اسے پشتو آتی نہیں تھی مگر یہ واحد لفظ تھا جس کا مطلب اسے پتہ تھا۔

رائد نے دھیرے سے اسے اپنی طرف گھمایا۔

اسکا چہرہ ایک دم سرخ اناری ہو رہا تھا۔۔۔ شرم و حیا کے باعث نظریں اٹھنے سے انکاری تھیں۔

رائد نے اسکے کانپتے ہونٹوں کو فوکس کرتے اسکا چہرہ ایک ہاتھ سے تھماتے زرا اوپر کیا اور اسکے چہرے پہ جھکنے لگا۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرتا ٹیبل پہ رکھا اسکا فون بج اٹھا جس پہ رائد نے بدمزہ ہوتے منہ بنا کے آئلہ کو دیکھا تو آئلہ لب دبائے اپنی ہنسی روک گئی۔

وہ اسے چھوڑتا ٹیبل کے پاس آیا فون اٹھا کے دیکھا تو اسکے سیکٹری کا فون آرہا تھا اسنے فون کاٹتے ئی میل چیک کی اور ایک ہاتھ سے آئلہ کو اپنا ہینگ کیا ہوا کوٹ لانے کا کہا جو سامنے دیوار پہ اسٹینڈ میں لٹکا ہوا تھا

اسکا اشارہ سمجھتے وہ فورن کوٹ لے کے اسکے پاس آئی تو رائد نے اپنا ہاتھ سیدھا کیا جس کا مطلب تھا وہ اسے کوٹ پہنائے۔

آئلہ نے بڑی خوشی سے اسے کوٹ پہنایا اور پھر آگے آکے اسے اچھے سے ٹھیک کیا۔

میں ابھی آفس جا رہا ہوں ایک دو ضروری کام ہیں شام تک واپس آجاؤں گا جب تک تم اپنی پیکنگ مکمل کر لینا ہماری رات کو اسلام آباد کی فلائٹ ہے وہاں مجھے تھوڑا کام ہے پھر اسکے بعد پھر ہم اپنے ہنی مون کے لیئے چلیں گے ترکی۔۔۔ رائد اسکے دونوں ہاتھ تھامے باری باری ان پہ لب رکھتے تفصیل سے اپنے پلین سے آگاہ کرنے لگا۔

مگر اتنی جلدی۔۔۔ آئلہ حیران تھی کہ ابھی کل ہی تو انکا ولیمہ ہوا تھا اور آج رائد جانے کی بات کر رہا تھا جب کے وہ حویلی میں رہ کے اپنی ساس اور نند کے ساتھ ٹائم اسپنڈ کرنا چاہتی تھی۔

جانان ہنی مون پہ جلدی ہی جایا جاتا ہے نا کے دو بچے ہونے کے بعد۔۔۔ رائد نے گویا اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔

نہیں ہمارا مطلب ہے ابھی تو شادی ہوئی ہے تو تھوڑے وقت بعد چلے جائیں گے۔۔۔ ویسے بھی ابھی تو ہمارا ویزہ بھی نہیں لگا ہوا۔۔۔ اسنے اپنی بات کی تصحیح کی۔

اس سب کی تم فکر نہیں کرو میں نے وہ سارے انتظام کروا لیئے ہیں بس تم شام تک ساری تیاری مکمل رکھنا اوکے۔۔۔ کورنر کی دراز سے کچھ فائلز نکلاتے سکون سے کہا۔

جی۔۔۔ آئلہ بس اتنا ہی کہہ سکی جانتی تھی بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔

چلو اب اچھی بیویوں کی طرح مجھے باہر تک سی اوف کرو۔۔۔ رائد نرمی سے اسکی پیشانی چومتا ہلکے سے مسکرا کے بولا تو وہ بھی مسکرادی۔۔۔ وہ شخص اسکی سمجھ سے باہر تھا بلکل۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ابھی تمہارے بھائی کی شادی ہوئی ہے اور اب تمہیں اپنی شادی کا بھوت چڑھ گیا ہے۔۔۔ 

دونوں باپ بیٹھا کب سے ہال میں بیٹھے بحث کر رہے تھے۔۔۔ پچھلے پندرہ منٹ سے جزلان انکا دماغ کھا رہا تھا کہ اسے اب شادی کرنی ہے۔۔۔ تراب خان اسے سمجھا سمجھا کے ٹھک گئے تھے کے کچھ وقت صبر کر لے ابھی رائد کا کل ہی تو ولیمہ ہوا ہے مگر اسنے ایک ہی ضد باندھ لی تھی کہ اسے ایک ہفتے کے اندر اندر ایمل سے شادی کرنے ہے۔

شادی کا بھوت نہیں ہے بابا مجھے بس جلد از جلد اپنی کامیابی دیکھنی ہے۔۔۔

آپ نے دیکھا نہیں جب سے میڈیا میں میری شادی کی بات آئی ہے تک سے ہی لوگ مجھے پسند کر رہے ہیں کے میں ایک چھوٹی سی مڈل کلاس فیملی میں شادی کررہا ہوں۔۔۔ میرے اندر کوئی لالچ نہیں ہے۔۔۔ بلکے میں ایک چھوٹے سے گھرانے کی لڑکی سے محبت کر کے اس سے شادی کرنے لگا ہوں۔۔۔ نا کے کسی رئیس امیر زادی سے۔۔

اور آپ تو یہ بات جانتے ہی ہیں کے لوگ کو پتہ ہیں کے امیر لوگ ہمیشہ امیر سے ہی شادی کرتے ہیں جس سے انہیں فائدہ بھی ہوتا ہے مگر میں ایک مڈل کلاس لڑکی سے محبت کی شادی کر رہا ہوں جیسے لوگ کافی پسند کر رہے ہیں۔۔۔ جب کے لوگوں کو یہ لگ رہا ہے کہ ہاں میں واقع اس سے محبت کرتا ہوں اور اس لیئے اس سے شادی کر رہا ہوں نا کے اپنے ذاتی مفاد کے لیئے۔۔۔

تو زرا سوچیں بابا آگر میری شادی ایمل سے ہو جائے گی پھر تو مجھے جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔ جزلان بہت ہی تحمل سے انہیں سمجھا رہا تھا۔

تراب صاحب کو بھی اس کی باتیں ٹھیک ہی لگ رہیں تھی ۔۔۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کے وہ جزلان کی بات سے قائل ہو گئے ہیں۔

تم کہہ تو ٹھیک رہے ہو مگر اتنی جلدی شادی کرنے کے لیئے کیا لڑکی کے گھر والے مانیں گے۔۔۔ تراب خان کچھ سوچ کے بولے۔

امیر اور ہنڈسم بندہ دیکھ کے کوئی منا ہی نہیں کرے گا۔۔۔ جزلان کے انداز میں صاف مغروریت جھلک رہی تھی۔

ہممم وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے لگتا ہے ہمیں ایک ماہ تک انت۔۔۔۔

بابا میں نے اتنی لمبی چوڑی تقریر اس لیئے نہیں کی تھی کہ آپ ایک ہی بات پہ ٹکے رہیں۔۔۔ جزلان نے بیچ سے انکی بات کاٹتے خاصا جھنجھلا کے کہا تو تراب خان گہری سانس بھر کے رہ گئے۔۔۔ وہ جانتے تھے جزلان نے جو فیصلہ کر لیا ہے اب وہ بدلے کا نہیں ۔۔۔ اس لیئے اسکی بات ماننے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نا تھا۔

اسلام و علیکم۔۔۔اس سے پہلے تراب خان کچھ کہتے آئلہ نے وہاں آتے انہیں سلام کیا جب کے وہاں جزلان کو بیٹھے دیکھ وہ پہلے ہی نقاب کر گئی تھی۔

وعلیکم اسلام۔۔۔ تراب خان نے سرسری سا جواب دیا۔

ارے بھابھی جی آپ نے مجھ سے کیوں نقاب کیا ہے۔۔۔ جزلان نے ایک ایبرو اچکائے سوال کیا جس پہ آئلہ کے آگے کھڑے رائد کے چہرہ پہ ناگواریت واضح ہوئی۔

آگر آئلہ انہیں سلام کرنے نا رکتی تو رائد کبھی ان کے پاس نا رکتا۔۔۔

آئلہ ہو گیا سلام اب چلیں۔۔۔ اس سے پہلے آئلہ جزلان کو اسکی بات کا جواب دیتی رائد بول پڑا

کہاں جا رہے ہو تم لوگ۔۔۔ تراب خان نے حیرت سے پوچھا۔

آپ کو اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔ رائد سرد لہجے میں کہتا آگے کی جانب قدم بڑھا گیا تو آئلہ اسکے انداز پہ حیران ہوتی اسکے پیچھے ہی قدم بڑھانے لگی۔

اسکا انداز تراب خان کو تو بلکل پسند نہیں آیا تھا اور یہی حال جزلان کا بھی تھا ۔۔۔ مگر وہ دونوں ہی کچھ نا بولے تھے۔

رکو رائد۔۔۔ اس سے پہلے وہ ہال کا داخلی دروازہ عبور کرتا تراب خان نے کھڑے ہوتے اسے پکارہ مگر رائد ان کی بات ان سنی کرتے آگے بڑھنے لگا جب ہی آئلہ نے اسکا بازو تھامتے روکا۔

اپنے بازو پہ اسکی گرفت محسوس کرتے رائد کے قدم رکے اسنے ایک نظریں آئلہ کی التجائیہ نگاہوں پہ ڈالی اور پھر تراب خان کی جانب گھوم گیا

کہیں۔۔۔۔ وہ بہت روکھے لہجے میں مخاطب ہوا۔

میں اسہی ہفتے جزلان کہ شادی کرنے کا سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔

تو کریں کس نے روکا ہے۔۔۔ وہ انکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میچ میں بول پڑا۔۔۔ وہ ہرگز یہاں نہیں رکتا آگر آئلہ اسکا بازو پکڑ کے نا روکتی تو۔۔۔ وہ بس آئلہ کی آنکھوں میں التجاہ دیکھ کے رہ گیا تھا۔

ہاں بیٹا مگر لڑکی والوں کے یہاں جانا ہے تو تم گھر کے بڑے بیٹے ہو تمہیں ساتھ چلنا ہے ہمارے۔۔۔ تراب خان بہت ہی ٹھہر ٹھہر کے پیار سے بولے تھے۔۔

آپ کا بیٹا ہے ۔۔۔ لڑکی دیکھنے جائیں یا شادی کریں مجھے اس سے فرق نہیں پڑھتا اس لیئے مجھے کسی چیز میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ رائد سرد مہری سے کہتا بغیر کسی کی کچھ بھی سنے باہر نکل گیا۔۔۔ اسکے پیچھے ہی پریشانی سے آئلہ بھی باہر نکلی۔۔۔۔ 

اپنے بابا سے بات کرتے ہوئے اسے رائد کا رویہ بہت بڑا لگا تھا اسے ایسے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی مگر وہ جانتی تھی ابھی یہ سہی وقت نہیں ہے اس سے بات کرنے کا جب وہ اچھے موڈ میں ہوگا وہ تب اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

بابا کیا ضرورت تھی آپ کو اس سے میری شادی کی بات کرنے کی۔۔۔ آپ کافی ہیں میرا رشتہ لے کے جانے کے لیئے کیا ضرورت تھی اسے کہنے کی ۔۔۔ دیکھا آپ نے کیسے ایٹیٹیوڈ دیکھا کے گیا ہے ہمیں۔۔۔جزلان اٹھ کے افسردہ کھڑے تراب خان کے پاس آتے ایان غصے ضبط کرتے دانت پیس کے بولا۔۔

جزلان اسنے ہم سب سے قطع تعلق کر لیا ہے ۔۔۔ وہ بہت دکھی سے تھکے تھکے انداز میں کہتے سر پکڑے صوفے پہ بیٹھ گئے۔

تبھی کہتا ہوں بابا آپ اسے مخاطب نا کیا کریں۔۔۔ وہ آپ سے بدتمیزی کرتا ہے پھر آپ اداس ہو جاتے ہیں۔۔۔ جزلان نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے کہا تو وہ گہری سانس بھر کے اٹھ گئے۔

میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اٹھ کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تو جزلان نے بھی انہیں نہیں روکا ۔۔۔ 

وہ آج ہی ایمل کے گھر جانا چاہتا تھا مگر رائد کی وجہ سے تراب خان کو اداس دیکھ کے وہ چپ کرگیا ۔

رائد کے آفس جانے کے بعد آئلہ سیدھے کمرے میں آگئی تھی۔۔۔

رائد کا رویہ۔۔۔ اسکا لہجہ۔۔۔ اسکی باتیں ۔۔۔ یہ سب اسکے ذہن میں چل رہا تھا۔۔۔ جس طرح رائد نے اپنے بابا سے بات کی آئلہ کو اسکا انداز بہت برا لگا تھا ۔۔۔ 

ایک ہفتے بعد جزلان کی شادی تھی اور رائد آج ہی ہنی مون کے لیئے جانا چاہتا تھا۔۔. آئلہ بھی رائد کے ساتھ اکیلے میں وقت گزارنا چاہتی تھی مگر گھر میں شادی ہوگی سو کام ہوں گے اور رائد تو گھر کا بڑا بیٹا ہے ایسے میں وہ یہاں نہیں ہوگا تو سب کو کتنا برا لگے گا۔۔۔ وہ یہ بات رائد کو کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نا پائی۔

آخر اپنے سوالوں سے تنگ آکے وہ نور کی تلاش میں نکل گئی۔۔۔ ایک وہی تھیں جو اسے رائد کے برے رویے کی وجہ بتا سکتی تھیں۔

وہ انہیں ڈھونڈتے ہوئے کچن میں آئی تو اسے ملازمہ نے بتایا کہ وہ لان میں ہیں۔۔۔۔جس کے بعد وہ سیدھی لان میں ہی چلی آئی تھی۔

بڑا سا لان چاروں طرف ہری گھاس،،،، الگ الگ طرح کے پھول جن سے آتی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو تازگی بخش رہی تھی۔

نور بیگم چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے کسی سوچ میں گم بیٹھیں تھی ۔۔۔ جب وہ انکے سامنے والی کرسی پہ آبیٹھی۔

ماما۔۔۔ انہیں گہری سوچ میں ڈوبے دیکھ اسنے دھیرے سے پکارہ تو وہ چونک کے اسکی جانب متوجہ ہوئیں۔

تم کب آئیں۔۔۔۔ وہ چائے کا آدھا بھرا کپ ٹیبل پہ رکھتی نرمی سے پوچھنے لگیں۔

جب آپ کسی دور خیالوں میں نکلی ہوئیں تھی ۔۔۔ آئلہ نے شرارت سے کہا تو وہ مسکرادیں۔۔

ارے نہیں بس کل جزلان کا رشتہ لے کے جانا ہے تو اسہی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔ انہیں نے نرمی سے بتایا۔

کیا مطلب ابھی رشتہ نہیں ہوا۔۔۔ وہ زرا حیران ہوئی۔۔۔ مطلب ابھی رشتہ ہوا بھی نہیں تھا اور شادی کی تاریخ خود ہی پہلے سے طے بھی کر لی تھی یہ بات آئلہ کے سمجھ سے باہر تھی۔

نہیں کل جائیں گے ۔۔۔۔ انہوں نے سکون سے بتایا 

بابا تو کہہ رہے تھے کے ایک ہفتے بعد شادی ہے ۔۔۔ اور آپ کہہ رہیں ہیں کہ رشتہ لے کے جائیں گے۔۔۔ جب ابھی رشتہ ہوا ہی نہیں ہے تو پھر ہم خود ہی شادی کی تاریخ کیسے رکھ سکتے ہیں۔۔۔ ہمارا مطلب کیا پتہ لڑکی والوں کو اتنی جلدی شادی پہ کوئی اعتراض ہو۔۔۔ اسنے اپنی حیرت کو سوال کے روپ میں انکے سامنے رکھا 

بیٹا یہ جاگیردار لوگ نا کو ہاں میں با آسانی بدلوا سکتے ہیں۔۔۔ وہ افسردہ لہجے میں بولیں جو آئلہ نے بھی محسوس کیا۔

جیسے اب تم میری ہی مثال لے لو۔۔۔ میری بڑی خواہش تھی کہ دھوم دھام سے میری شادی ہو مگر نوال کے بابا نے دو دن میں شادی کرلی۔۔۔ جس دن رشتہ لائے اس سے اگلے دن نکاح کر کے رخصت کروا کے لے گئے ۔۔۔ اور میری خواہش خواہش ہی رہ گئی۔۔۔ استہزاء مسکراہٹ سجائے دھیرے سے بتانے لگیں۔

تو کیا بابا نے آپ سے پسند کی شادی کی ہے ؟؟؟۔۔۔ اسنے پھر سوال کیا۔۔۔ تو وہ بغیر کچھ کہے بس اثبات میں سر ہلا گئیں۔۔۔ وہ زیادہ کچھ کہنا ہی نہیں چاہتی تھی اس بارے میں۔

ہمیں آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔۔۔ اسنے اپنی بات کا آغاز کرنے سے پہلے اجازت مانگی۔

ہممم بولا۔۔۔ وہ اسکے چہرے پہ الجن دیکھتی نرمی سے بولیں 

ماما ر۔۔۔۔رائد ایسے کیوں ہیں۔۔۔ وہ آپ سے اپنے بہن بھائی سے بابا سے ٹھیک سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔۔وہ رائد کا نام لینے میں تھوڑا سا ہچکچائی تھی۔۔۔ مگر جلد ہی اپنی بات انکے سامنے پیش کردی تھی۔

انکی خاموشی نوٹ کرتے اسنے پھر کہنا شروع کیا 

ہمیں یہاں آئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں مگر ہم نے پھر بھی نوٹ کیا ہے کہ انکا رویہ آپ لوگوں کے ساتھ لیا دیا سا ہے۔۔۔ بہت روکھا سرد سا رویہ ہے ۔۔۔ ہمیں اس کے پیچھے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ مگر آپ تو ماں ہیں آپ تو جانتی ہوں گی نا کہ وہ ایسے کیوں ہیں۔۔۔ اسنے بہت ہی بےچینی سے پوچھا تو وہ دھیرے سے مسکرادیں۔

بیٹا کسی کے بھی برے رویے کے پیچھے کی وجہ یا تو بدگمانی ہوتی ہے یا ماضی کی تلخ یادیں۔۔۔ رائد کے ساتھ بھی بہت سی تلخ یادیں جڑی ہیں۔۔۔ مگر یہ بہتر ہے کے  تم اس سے پوچھو اور وہ خود تمہیں اپنے ماضی کے بارے میں بتائے۔۔۔ ٹیبل پہ رکھا چائے کا کپ ٹھنڈا ہو چکا تھا مگر نور بیگم شاید بتاتے بتاتے خود ہی ماضی میں چلی گئیں تھیں۔

ہم ان سے کیسے پوچھیں۔۔۔۔ انہیں کب کس بات پہ غصہ آجائے پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔ وہ معصومیت سے تھوڑی تلے دونوں باتوں کی مٹھیاں بنائے اس پہ چہرہ رکھ گئی۔

فکر نہیں کرو بیٹا آہستہ آہستہ تم اسے سمجھ جاؤ گی ۔۔۔۔ وہ پیار سے مسکرا کے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں تو وہ انکی بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی۔

چائے کا کپ وہیں رکھا رہ گیا اور وہ اپنے اندر بہت سے درد دباتی وہاں سے چلی گئیں ۔

۔🌺 🌺 🌺

سورج اپنی پوری شان سے سر پہ تھا۔۔۔دوپہر کا وقت ہونے کی وجہ سے گرمی تیز ہو رہی تھی مگر پنچائت میں بیٹھے لوگوں کو گرمی کی پرواہ نا تھی۔۔۔ وہ تو بس ایک معصوم سی جان کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں مصروف تھے۔

ایک طرف جاگردار تراب خان اپنے بیٹے جزلان خان کے ساتھ ہوتے وقار سے بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے ان کے آدمی کھڑے تھے جب کے سامنے برابر گاؤں کے حریف حیدر شاہ اپنے بیٹے احمد شاہ اور پوتے حسام شاہ کے ساتھ موجود تھے۔

حسام کو ان گاؤں ک پنچائتی فیصلوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ جو وہاں فیصلے ہوتے تھے وہ سراسر غلط تھے جس وجہ سے اسے وہاں جانا پسند نا تھا مگر آج اسکی چھوٹی تھی اور اسے حویلی میں دیکھ کے اسکے دادا یہاں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔

حسام اپنے ماں باپ کا ایک اکلوتا بیٹا اور اپنے دادا کا لاڈلا پوتا تھا۔۔ وہ انکی حویلی کا پہلا چشم و چراغ تھا جس سے حیدر شاہ بہت محبت کرتے تھے ۔۔۔ وہ اپنے باقی ہوتا پوتیوں سے بھی محبت کرتے تھے مگر حسام کا مقام سب میں اونچا تھا۔

حیدر خان اور تراب خان کے بیچ میں دشمی بہت پرانی تھی جیسے ہر کوئی جانتا تھا ۔۔۔ دونوں گاؤں سے کوئی بھی آدمی یہاں سے وہاں نہیں جاسکتا تھا مگر آج کچھ ایسا ہوا تھا کہ یہ پنچائت بٹھانے کی نوبت آگئی تھی۔

حیدر شاہ تم اور تمہارا گاؤں بہت اچھی طرح جانتے ہو ہمارے بنائے گئے اصولوں کو۔۔۔ مگر تمہارے گاؤں کے لڑکے نے ہمارے گاؤں کی لڑکی سے شادی کر کے ہمارے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے جس کی سزا بھی تمہیں اچھے سے پتہ ہے ۔۔۔ اس لیئے بغیر ہمارا ٹائم ضائع کیئے بغیر اس لڑکے کی بہن کی شادی اس کے سالے سے ابھی ہوگی۔۔۔ تراب خان رعب سے بولے تو وہ سترہ سال کی معصوم لڑکی جس کی زندگی کا فیصلہ وہ لوگ کرنے جا رہے تھے وہ سہم کے رہ گئی۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ایک سترہ اٹھارہ سال کی بچی کی شادی آپ پچپن سال کے آدمی سے کروانا چاہتے ہیں۔۔۔ حسام اس لڑکی کو روتے دیکھ اپنے سامنے کھڑے سفید داڈھی والے آدمی کو دیکھتے غصے فورن کھڑا ہوا۔

جس کی بیوی مر چکی تھی۔۔۔ جو پہلے سے ہی دو بچوں کا باپ تھا۔۔۔اس کے ساتھ اسکی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو باندھنے جا رہے تھے۔

حسام بیٹھ جاؤ۔۔۔ حیدر شاہ نے اسے سختی سے بیٹھنے کے لیئے کہا تو وہ لب بھیج کے ضبط کرتے بیٹھ گیا۔

حسام شاہ اپنے شہری اصولوں کو چھوڑ کے یہاں کے اصول سیکھ لو کیونکہ یہ ہمارا گاؤں ہے اور یہاں اصول بھی ہمارے ہیں اور سزا بھی ہم ہی دیتے ہیں۔۔۔ جزلان خان مغرورانہ انداز میں گردن اکڑا کے بولا تو تراب خان کے چہرے پہ غرور بھری مسکراہٹ آگئی.  

رائد ہمیشہ سے ہی گاؤں کے معاملوں سے دور رہا تھا اس لیئے تراب خان نے جزلان کو اپنے ساتھ گاؤں کے ہر فیصلے میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔۔۔ وہ اپنے بعد ویسے تو رائد کو اس گاؤں کا سردار بنانا چاہتے تھے مگر رائد تو پھر رائد تھا وہ کہاں اپنے باپ کے کسی کام میں دلچسپی لیتا تھا اس وجہ سے اب وہ جزلان خان کو اپنے بعد اپنی کرسی دینا چاہتے تھے۔۔۔ جس پہ جزلان خان بھی بہت پرجوش تھا۔

ہمیں تم لوگوں کا فیصلہ منظور ہے۔۔۔ جزلان خان کے خاموش ہوتے ہی حیدر شاہ بولے تو وہاں موت کا سناٹا چھاگیا۔۔۔ ظا+لم، ظل+م کرچکا تھا۔۔۔ مظلوم رو ریا تھا باقی سب کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے یہاں تک کے اس معصوم لڑکی کے گھر والوں نے بھی اس کے حق میں آواز نہیں اٹھائی تھی.

دادا جان یہ غلط ہے ۔۔۔۔ آگر کوئی ایک دوسرے کو پسند کر کے شادی کرتا ہے تو اس میں برائی ہی کیا ہے ہم کیوں اپنی لڑائی کو پورے گاؤں کے بیچ میں لا رہے ہیں۔۔۔ اس میں ان لوگوں کا کیا قصور ہے اس لڑکی کا کیا قصور ہے.۔۔۔ اس لڑکی کو بے آواز آنسوں بہاتے دیکھ حسام سے رہا نا گیا تو بول پڑا۔

کیا تم نے وہ کہاوات نہیں سنی کہ گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پستے ہیں۔۔۔ تراب خان ہاتھ کے اشارہ سے مولوی کو آگے آنے کا کہتے مسکرا کے حسام سے بولے تو وہ انکی بات کا مطلب سمجھ کے ضبط سے اٹھ کے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

اس سے مزید اس سے آگے نہیں دیکھا جا سکتا تھا ۔۔۔۔ وہ نہیں دیکھ سکتا تھا اس معصوم لڑکی کے ساتھ ناانصافی ہوتے ہوئے۔۔۔ وہ اسکے لیئے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر اپنے باپ دادا کے سامنے وہ بےبس تھا۔

وہ جانتا تھا وہ جس گاؤں میں موجود تھا وہ جاگیردار کا ہے وہاں پہ صرف انکی حکومت چلتی ہے ۔۔۔ ان لوگوں کا پولیس والے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے اس لیئے وہ بےبس وہ کے وہاں سے چلا آیا تھا۔۔۔ پیچھے پنچائت میں کیا ہوا تھا وہ جانتا تھا مگر وہ اس بارے میں اب زیادہ سوچنا نہیں چاہتا تھا اس لیئے اپنی گاڑی لیتا سیدھے شہر کے لیئے نکل گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

شام کے چھ بج رہے تھے جب رائد حویلی میں داخل ہوا ۔۔۔ کوٹ کندھے پہ لٹکائے وہ فون میں مصروف انداز داخل ہوا تو اسے آئلہ کی باتوں کی آواز سنائی دی اسنے اسکی آواز سنتے سر اٹھا کے دیکھ تو وہ سامنے ہی نوال کے ساتھ باتیں کرتی نظر آگئی۔

تراب خان اور جزلان ڈیرے پہ تھے جس وجہ سے آئلہ اور نوال ہال میں بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔ ورنا اپنے باپ بھائی کے ہوتے ہوئے نوال زیادہ طر وقت اپنے کمرے میں ہی گزارتی تھی۔

نوال ان لوگوں کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ اس کو دیکھ کے اسکے باپ کے چہرہ پہ جو ناگواریت چھاتی تھی اس سے نوال کو تکلیف ہوتی تھی ۔۔۔ جس وجہ سے وہ انکی موجودگی میں خود کو کمرے تک ہی محدود رکھتی تھی 

آئلہ تم یہاں بیٹھی ہو ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔۔. میں بول کے بھی گیا تھا نا کہ ہمیں شام میں نکلنا ہے اور تم ایسے ہی بیٹھی ہو ابھی تک ۔۔۔ آدھے گھنٹے ہے بس ہمارے پاس۔۔۔ رائد نوال کو نظر انداز کرتے آئلہ کے سامنے رکتا آبرو سکیڑے استفسار کرنے لگا۔

ہم اب بھی جا رہے ہیں۔۔۔ وہ زرا حیران ہوئی۔

اب بھی سے کیا مطلب۔۔۔میں نے کہا تھا ہمہیں آج ہی جانا ہے ۔۔۔ وہ نارمل لہجے میں کندھے سے کوٹ اترتے اپنے ہاتھوں پہ ڈالتے بولا۔

جب کے نوال خاموشی سے دونوں کو سن رہی تھی۔۔۔ بیچے میں بولنے کی غلطی اسنے ہرگز نہیں کی تھی۔

مجھے لگا جزلان بھائی کی ایک ہفتے میں شادی ہے تو ہم بعد میں جائیں گے۔۔۔ وہ دھیرے سے بولی تو رائد کے ماتھے پہ بل پڑے۔

تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں تیاری مکمل کرنے کے لیئے۔۔۔ رائد سختی سے کہتا لمبے لمبے ڈھنگ بھرتا اوپر بڑھ گیا تو آئلہ نے بیچارگی سے نوال کو دیکھا۔

جائیں بھابھی اس سے پہلے بھائی اور غصہ ہوں۔۔۔۔ اسے منہ بنائے وہیں کھڑے دیکھ نوال نے کہا تو وہ سر جھٹکتی اوپر کی جانب بڑھ گئی۔

اسنے کمرے میں قدم رکھا تو رائد کہیں موجود نا تھا۔۔۔ اسے واشروم سے پانی کی آواز آئی تو وہ سمجھ گئی کے وہ نہا رہا ہے۔۔۔ مطلب اسے دس منٹ سے زیادہ کا وقت مل جائے گا پیکنگ کرنے کا۔

جلدی جلدی ہاتھ چلا کے اسنے الماری سے بیگ نکالتے رائد کے کپڑے پیک گئے مگر اس سے پہلے وہ اپنے کپڑے پیک کرتی واشروم کا دروازہ کھلا اور وائٹ شلوار قمیض پہنے​ عادتاً آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیئے رائد باہر نکلا 

اس غصیلے پٹھان کی گوری رنگت سفید سوٹ میں جچتی اسکی سحرانگیز پرسنیلٹی آئلہ کو اپنے قابو میں کر رہی تھی 

آگر مجھے نظر لگا دی ہو تو جلدی ہاتھ چلاؤں  تمہاری وجہ سے پہلے ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔۔۔ بغیر اسکی جانب دیکھے وہ طنزیہ بولا تو آئلہ ایک دم گڑبڑا کے جلدی جلدی اپنے کپڑے بیگ میں ڈالنے لگی۔

مجھے تم بہت فرمابردار بیوی لگیں تھیں مگر آج تم نے میری یہ غلط فہمی بھی دور کرتی۔۔۔ اسکا اشارہ صبح والی اپنی بات کی طرف تھا ۔۔۔ وہ اسے صبح پیکنگ کا کہہ کے بھی گیا تھا مگر اسنے اپنے پاس سے ہی مطلب اخذ کر کے جانے کی کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی۔

ہمیں لگا آپ اپنے بھائی کی شادی کی وجہ سے نہیں جائیں گے اس لیئے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی۔۔۔ خود کے نافرمان کہہ جانے پہ وہ فورن بولی۔

ایک بار ترکی تو چلو پھر اچھے سے تمہارے سارے لگا لگی نکالتا ہوں۔۔۔ وہ خود پہ پرفیوم چھڑکتے اسکے سامنے آکے رکا تو اسکے اسٹرانگ پرفیوم کی خوشبو اسے اپنے حواسوں پہ سوال ہوتی محسوس ہوئی۔

ہم۔۔۔ آ۔۔آپ سے بلکل نہیں ۔۔ڈ۔۔۔ڈرتے اس لیئے ہمیں ڈرانے۔۔۔کی کوشش نا کریں۔۔۔ وہ لڑکھڑاتی زبان میں کہتی فورن اس سے دو قدم دور ہوئی۔

آگر ڈرتی نہیں ہو تو پھر دور کیوں بھاگ رہی ہو۔۔۔ وہ اسکے پیچھے ہونے پہ اپنے اور اسکے بیچ کا فاصلہ ایک ہی قدم میں مٹھاتا اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنے ساتھ لگا گیا تو آئلہ سانس روک گئی۔

آ۔۔۔آپ۔۔۔

بولو میں سن رہا ہوں۔۔۔ اسکی آواز نا نکلتے دیکھ وہ مزے سے بولا۔۔۔ اسکے چہرے پہ شرموں حیا سے گلال بکھرے دیکھ وہ محظوظ ہوا تھا۔

ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔ اسکی قربت سے گھبرا کے آئلہ بامشکل اسکی جذبات سے بھری نظروں سے نظریں چراتی بول پائی۔

کوئی بات نہیں ہم آرام سے بھی جا سکتے ہیں ،،، میں دوسری فلائٹ بک کروا لوں گا۔۔۔ وہ زیر لب مسکراتا بامشکل خود کو سیریس رکھتے بولا تو آئلہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ معصوم شکل بنائے اسے دیکھا۔

وہ دونوں اتنے قریب تھے کے رائد کو اسکے دل کی دھڑکنیں باآسانی سنائی دے رہی تھی۔۔۔ اس کی سرمئی سحرزدہ آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے وہ اسکے لبوں پہ جھکتا اسکی سانسوں کو خود میں قید کر گیا۔۔۔ جس سے گھبرا کے ائلہ نے اپنے دونوں ہاتھ اسکے کندھے پہ جمائے۔

کافی دیر خود کو سیراب کرنے کے بعد جب اسے آئلہ کا وجود کانپتا ہوا محسوس ہوا تو وہ نرمی سے پیچھے ہوا۔۔۔

اس کے پیچھے ہوتے ہی آئلہ اسکے سینے پہ سر ٹکائے گہرے گہرے سانس لے نے لگی۔۔۔ جس پہ اسنے مسکراتے ہوئے دھیرے دھیرے اسکی پشت سہلانی شروع کی

لگتا ہے مجھے کل کی فلائٹ بک کروا لینی چاہیئے۔۔۔ رائد شوخی سے بولا تو اسکی بات کا مطلب سمجھتے اسکے سینے سے لگی آئلہ جلدی سے اس سے دور ہوئی۔

میں بس دو منٹ میں تیار ہو کے آئی۔۔۔ وہ ہڑبڑی میں کہتی بیگ میں پیک کرتے کپڑوں میں سے ایک سوٹ لیتی جلدی سے واشروم میں گھس گئی۔۔۔ تو رائد بھی سر جھٹکتے مسکراتے ہوئے بچی ہوئی پیکنگ کرنے لگا۔

ٹائم کم تھا اور جسم زیادہ اس لیئے وہ صرف مختصر مختصر چیریں رکھنے لگا ۔۔۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد کہاں جا رہے ہو۔۔۔ تراب خان ڈیرے سے واپس آئے تو رائد کو گاڑی میں بیگز رکھواتے دیکھ پوچھ بیٹھے۔۔

ہنی مون پہ۔۔۔ اسنے مصروف انداز میں یک لفظی جواب دیتے ہال کے داخلی دروازے کی جانب دیکھا۔

وہ آئلہ کا انتظام کر رہا تھا جو نوال اور نور بیگم سے ملنے رک گئی تھی۔۔۔ وہ اسے کبھی ان کے پاس رکنے نا دیتا مگر نا جانے اس کے دل میں کیا آئی جو اسنے کچھ نہیں کہا۔

کتنے دنوں کے لیئے۔۔۔ انہوں نے تذبذب سے پوچھا۔

پتہ نہیں۔۔۔ اسنے جان چھڑانے والے انداز میں کہا تو تراب خان اسے دیکھ کے رہ گئے۔

میں نے صبح تمہیں بتایا تھا نا کے جزلان کی شادی ہے اسہی ہفتے پھر بھی تم جا رہے ہو۔۔۔ تراب خان نے ضبط کرتے کہا۔۔۔ وہ جانتے تھے فائدہ کچھ نہیں ہے رائد کون سا انکی کوئی بات سنے گا مگر پھر بھی وہ کوشش ضرور کر رہے تھے 

آگر وہ چلا جاتا اور شادی میں شریک نا ہوتا تو میڈیا والے اس بات کو بہت اچھالتے کہ جزلان خان کے بھائی اور بھابھی اسکی شادی میں شریک نا تھے اور اوپر سے لوگوں کی باتیں الگ وہ کیا جواب دیتے لوگوں کو۔

شادی آپ کے بیٹے کی ہے جس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گاڑی کی ڈگی بند کرتے بولا

مت بھولو رائد وہ تمہارا بھائی بھی ہے ۔۔۔ تراب خان نے اسے یاد دلانا چاہتا جس پہ رائد استہزا ہنسا 

میں اس سے کوئی رشتہ ہی نہیں رکھنا چاہتا اور آپ اسے میرا بھائی بنا رہے ہیں ۔۔۔ ویسے رشتہ تو میں آپ سے بھی نہیں رکھنا چاہتا مگر بدقسمتی سے آپ میرے باپ ہیں۔۔۔ اور اس حقیقت کو میں بدل نہیں سکتا۔۔۔ وہ بہت ہی تلخ لہجے میں بولا تھا جس پہ تراب خان کچھ دیر کے لیئے شرمندہ ہو کے رہ گئے تھے۔

اتنی دیر لگادی تم نے ۔۔۔ خیر چلو بیٹھو دیر ہو رہی ہے۔۔۔ آئلہ کو وہاں آتے دیکھ وہ تراب خان کو اگنور کرتا گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کے بیٹھ گیا تو آئلہ بھی تراب خان کو اللہ حافظ کہتی رائد کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

چلو۔۔۔ رائد نے ڈرائیور سے کہا تو وہ جی صاحب کہتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔۔۔۔ تو تراب خان بھی اداسی سے گہری سانس بھرتے اندر کی جانب بڑھ گئے۔

مہوش۔۔۔ ایمل اپنی کلاس لے کے لائبریری جارہی تھی جب اسے مہوش سیڑھیوں پہ بیٹھی دیکھ گئی جیسے دیکھ کے وہ بھی اسکے ساتھ ہی آ بیٹھی۔

تمہیں آج یہاں دیکھ کے بہت اچھا لگا۔۔۔ وہ خاموش سر جھکائے بیٹھی مہوش کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتی مسکرا کے بولی تو اسنے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔

اسکی آنکھوں میں آنسو تھے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمایا دیکھائی​ دے رہے تھے۔

کیا ہوا مہوش۔۔۔ اس نے پریشانی سے پوچھا۔

ایمل مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے سب لوگ مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔ میرے کردار پہ انگلیاں اٹھا رہے ہیں مجھے ایک بد کردار لڑکی کہہ رہے ہیں۔۔۔ مہوش قدرے دھیمی نم آواز میں بولی۔

آگر ایمل اسکے بلکل ساتھ نا بیٹھی ہوتی تو یقیناً اسے مہوش کی آواز نا آتی۔

چلو میرے ساتھ۔۔۔ وہاں سے اسٹوڈنٹس کو گزرتے دیکھ ایمل نے اسکا ہاتھ پکڑتے اٹھایا اور اپنے ساتھ یونی کے گارڈن میں لے آئی۔

ایمل اسے رش سے الگ ایک کونے میں بنے درخت کے سائے تلے لے کے بیٹھی۔

ایمل میرے سے نہیں رہا جاتا ان لوگوں کے درمیاں مجھے ایسا لگ لگتا ہے جیسے سب مجھے ہی گھور رہے ہیں۔۔۔ وہ ایمل کی سامنے بیٹھی ہزیانی انداز میں اپنے بالوں کو مٹھیوں میں دبوچ گئی 

مہوش ریلیکس۔۔۔

لو پانی پیو۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھتے ایمل نے نرمی سے اسکے ہاتھ بالوں سے نکالتی اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکلتے اسکا ڈھکن کھول کے اسکے منہ سے لگا گی۔۔۔جس پہ مہوش نے نا چاہتے ہوئے بھی دو گھونٹ بھر لیئے۔

مہوش ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ یہاں سب نارمل ہے ۔۔۔۔ ایمل نے اسکا ہاتھ سہلاتے پرسکون کرنا چاہا مگر مہوش تو جیسے حواس باختہ بس نفی میں سر ہلائے جا رہی تھی۔

مہوش میری طرح دیکھو۔۔۔ ایمل نے نرمی سے کہا تو مہوش نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا۔

مہوش تم جتنا ڈرو گی نا تمہیں اتنا ہی یہ سب ڈراؤنا لگے گا۔۔۔ تمہیں اپنے آپ پہ قابو رکھنا ہوگا۔۔۔ خود کو سنبھالنا ہوگا ۔۔۔ جیسی پہلے تم تھیں ویسی ہی رہنا ہوگا۔۔۔لیکن آگر تم ایسے ہی لوگوں سے بھاگتی رہیں تو تم خود لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرو گی۔۔۔ انہیں سوال اٹھانے کا موقع دو گی ۔۔۔ سمجھیں​ میری بات کو۔۔۔ ایمل نے پیار سے سکون سے سمجھایا تو مہوش کے آنسوں میں اور روانی آگئی۔

مجھے اپنا آپ مجرم لگتا ہے۔۔۔ گھٹن ہوتی ہے مجھے خود سے۔۔۔ اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی ہے یار۔۔۔ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بےبسی سے رو دی۔۔۔

اسکی حالت دیکھتے ایمل کی آنکھوں میں بھی نمی چمکی۔

مہوش میں جانتی ہوں جو کچھ ہوا ہے اسے بھلایا نہیں جا سکتا مگر اس حالت میں بھی تو جیا نہیں جا سکتا نا۔۔۔

تم نے غلطی کی جس کی سزا تمہیں مل چکی ہے اب تمہارے لیئے یہی بہتر ہے کے تم اپنے تلخ ماضی کو پیچھے چھوڑ کے آگے بڑھو۔۔۔ جانتی ہوں آسان نہیں ہے مگر تمہارے لیئے اور تمہارے گھر والوں کے لیئے یہی بہتر ہے۔

مجھے پتہ ہے پہلے والی مہوش تو تم اب کبھی نہیں بن پاؤ گی مگر اس مہوش کو بھی مت کھونا جو تمہارے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہے۔۔۔ کیونکہ ماں باپ اپنی اولاد کو خوش دیکھ کے ہی جیتے ہیں ۔۔۔ تم ان کے لیئے ہی خوش رہنے کی کوشش کرو۔۔۔ ان پہ کبھی اپنی حالت عیاں نا ہونے دینا۔۔  سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔ اس سے اپنی طرف انہماک سے متوجہ پا کے ایمل نے سمجھایا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

چلو اب جاؤ تمہاری کلاس اسٹارٹ ہوگئی ہوگی ۔۔۔ ایمل نے گھڑی پہ ٹائم دیکھتے کہا۔

تھینک یو ایمل۔۔۔ تم بہت اچھی ہو۔۔۔ وہ اسکے گلے لگتی بھاری ہوتی آواز میں بولی تو ایمل مسکرادی۔

چل پگلی رولائے گی کیا۔۔۔ ایمل نے مسنوعی گھوری دیکھاتے کہا تو مہوش مسکراتی ہوئی اپنا بیگ لیئے اٹھ گئی

سچ میں ایمل میں تمہارا جتنا شکریہ کروں اتنا کم ہے۔۔۔۔ آگر تم نا ہوتیں تو شاید میں کب کا موت کو گلے لگا چکی ہوتی۔۔۔ وہ زخمی مسکان کے ساتھ کہتی اپنی کلاس کی جانب بڑھی گئی۔

ایمل بس اسے دور جاتے دیکھتی رہ گئی۔۔۔

مہوش کو اب بھی اپنی ایک غلطی پہ پچتاوہ تھا کہ جب اسنے جزلان کا اصلی چہرہ اسے دیکھانا چاہا تو اسنے اس پہ یقین نہیں کیا جس کا انجام وہ بھوگت چکی تھی۔

وہ جب جب اپنا حوصلہ ہارنے لگتی تھی ایمل تب تب اسے حوصلی دیتی تھی۔۔۔ وہ جزلان کے دھوکے کے بعد پوری طرح سے ٹوٹ گئی تھی جسے ایمل نے دوبارہ جوڑا تھا۔

ہر ٹوٹی ہوئی چیز پہلے کی طرح تو نہیں ہو سکتی تھی مگر ایمل کے سمجھانے اسکا ساتھ دینے پہ مہوش کو کافی سپوٹ ملی تھی۔۔۔ اور یہ ایمل کی بدولت ہی ہوا تھا جو وہ آج سب کا سامنا کر رہی تھی۔۔۔

۔🌺 🌺 🌺

ایمل رکشے سے اتر کے رکشے والے کو پیسے دیتی بیگ سے چابی نکال ہی رہی تھی جب تین چمچماتی بڑی بڑی گاڑیاں اسکے پیچھے آکے رکیں ۔۔۔ جس پہ وہ ایک دم ڈر گئی ۔

مگر جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہ گاڑیاں انکے گھر ہی آئی ہیں کیونکہ گاڑی میں بیٹھے شخص کو وہ اچھے سے پہچان گئی تھی۔

اسے خود کو تکتے دیکھ جزلان پراسرار مسکراہٹ سجائے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے بلیک پینٹ پہ کریمی شرٹ پہنے اپنی وجیہہ پرسنلٹی کے ساتھ باہر نکلا جسے دیکھتے ہی ایمل کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا ۔۔۔ اس کے پیچھے تراب خان اور نور بیگم بھی گاڑی سے اترے

کیسی ہو مس شیرنی۔۔۔ چہر پہ بڑی سی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ وہ خاصہ دوستانہ انداز میں پوچھنے لگا۔

کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔ وہ تراب خان اورر نور بیگم کو نظرانداز کیئے سرد و سپاٹ لہجے میں استفسار کرنے لگی۔

بیٹا ساری باتیں یہیں کھڑے ہو کے کر لو گی۔۔۔ اندر نہیں بلاؤ گی۔۔۔ تراب خان کو قدرت ناگوار گزرا تھا اسکا سوال جواب کرنا۔۔۔ مگر پھر بھی وہ بہت ضبط سے بولے تھے۔

نور بیگم اور تراب خان کو دیکھتے اور پھر ایک نظر گلی میں تماشہ دیکھتے لوگوں پہ ڈالتی جلدی سے بیگ سے چابی نکال کے دروازہ کھولنے لگی۔

آپ لوگ بزرگ ہیں اس لیئے آپ لوگ آسکتے ہیں باقی کسی بدکردار شخص کی میرے گھر میں جگہ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ جزلان کو دیکھتے چبھتے ہوئے لہجے میں بولی تو تراب خان کا دل کیا سامنے کھڑی لڑکی کو کھڑے کھڑے ہی شوٹ کردیں جب کے نور بیگم نے اسکی بات پہ کوئی تاثر نہیں دیا تھا وہ جانتی تھی اپنے بیٹے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ کیوں ایسا بول رہی ہے اس لیئے کچھ نہیں بولیں تھیں۔

سوچ سمجھ کے بولو ورنا آگے تمہارے لیئے ہی مصیبت ہوگی۔۔۔۔ جزلان اپنی بےعزتی پہ ایک ایک لفظ چپا کے ادا کرتا اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

کون ہے ایمل بیٹا۔۔۔ دیار صاحب جو آج اپنی طعبیت خرابی کی وجہ سے جلدی گھر آگئے تھے دروازے پہ ایمل کے ساتھ کسی اور کی آواز سن کے باہر آئے۔

دیار۔۔۔۔۔ دیار صاحب کو دیکھ کے تراب خان کے منہ سے سرگوشی نما انکا نام نکلا جب کے تراب خان کو دیکھ کے دیار صاحب کی حالت بھی ان سے غیر نا تھی۔

دیار تم یہاں اور یہ تمہاری بیٹی ہے۔ ۔۔ تراب خان اب بھی بےیقینی سے انہیں دیکھ رہے تھے جب کے باقی سب تو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ تراب خان کیسے دیار صاحب کو جانتے ہیں۔

اندر آئیں آپ لوگ۔۔۔ دیار صاحب ایمل کو خود کی طرف الجھ سے دیکھتے آہستہ سے بولے تو وہ لوگ اندر داخل ہوگئے۔

بیٹھیں۔۔۔ دیار صاحب نے سکون سے کہا 

بابا آپ جانتے ہیں ان لوگوں کو۔۔۔ بیٹھتے ہوئے جزلان نے تراب خان سے پوچھا۔۔۔. تو انہوں نے ایک نظر دیار صاحب کو دیکھا جو ایمل کو اپنے ساتھ لیئے بیٹھ رہے تھے 

دیار سب کو تم بتاؤں گے کہ تم میرے کیا لگتے ہو یا یہ کام بھی مجھے ہی کرنا ہوگا۔۔۔ تراب خان کے لہجے میں ناراضگی تھی جیسے دیار صاحب محسوس کر سکتے تھے۔

دیار صاحب نے ایک گہری سانس خارج کی۔۔۔ وہ جانتے تھے ایک نا ایک دن یہ حقیقت سامنے ضرور آئے گی ۔۔۔ مگر وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو رشتے وہ چھوڑ کے آگئے ہیں وہ رشتے واپس انکے سامنے آئیں یا انکی بیٹی کو پتہ چلیں اس لیئے وہ ایمل کو بھی اسکی خالہ کے پاس بھیجنا چاہتے تھے مگر ایمل کی ضد کی وجہ سے اسے نا بھیج سکے اور انکے یقین کے مطابق آج وہ دن آگیا تھا جب حقیقت سب کے سامنے آنی تھی۔ 

اس کی ضرورت نہیں پڑے گی بھائی میں سب کو خود ہی بتا دیتا ہوں ۔۔ میں دیار خان جاگیردار تراب خان کا چھوٹا بھائی ہوں۔۔۔ دیار صاحب سکون سے بولے تو سب نے حیرت سے انکی جانب دیکھا

ایمل تو شوکٹ ہی رہ گئی تھی اتنی بڑی حقیقت جانے کے بعد اور دوسری طرف نور بیگم اور جزلان خان کا بھی یہی حال تھا۔

مطلب اسکے ایک عدد چاچا بھی تھے اور انکی ایک بیٹی بھی مگر اسے آج تک یہ بات پتہ کیسے نہیں چلی اسے جیسے بہت افسوس ہوا تھا اپنے فاورفل ہونے پہ۔

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ وہ بےیقینی سے اپنے باپ کو دیکھ گئی۔

تمہاری ماں شہر میں میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر تمہارے دادا میری شادی اپنے کسی دوست کی بیٹی سے کروانا چاہتے تھے ۔۔۔ بس ایسی بات پہ ہماری بحث ہوگئی اور انہوں نے مجھے جائداد سے عاق کر کے حویلی سے نکلا دیا۔

تب میں شہر آیا پہلے جگہ جگہ نوکریاں کہیں جو سیونگز تھی اس سے چھوٹا سا گھر لیا اس کے بعد تمہاری ماں سے شادی کر کے میں ہمیشہ​ کے لیئے شہر کا ہو کے رہ گیا ۔۔۔ مگر میری شادی کے کچھ سالوں بعد گاؤں سے خبر آئی کے میرے بابا کا انتقال ہو گیا ہے ۔۔۔ میں آخری بار وہاں صرف انکی میت کو کندھا دینے گیا تھا جو مجھے بہت مشکل دے دینا نصیب ہوا تھا اور پھر اس کے بعد میں نے کبھی حویلی کا رخ نہیں کیا۔۔۔ دیار صاحب نے دکھ سے اپنی بیٹی کو سچائی بتائی جیسے وہ حیرت سے پوری آنکھیں کھولے سن رہی تھی۔

ایمل کو تو اندازہ بھی نہیں تھا ایسا کچھ بھی ہوا ہوگا اسکے بابا کی زندگی میں۔۔۔ اسنے تو جب بھی اپنے بابا سے اپنے خاندان والوں کا پوچھا تو انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کے ماں تو انکی انہیں پیدا کرتے ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں تھی اور جب ایمل چھوٹی تھی تب اسکے دادا کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔۔۔ باقی انہوں نے کبھی اپنے بھائی کا ذکر نہیں کیا تھا۔۔۔ مگر آج اچانک جاگیردار تراب خان کو اپنے تایا کے روپ میں دیکھ کے اسے جیسے صدمہ لگا تھا۔

بابا جان کے انتقال کے بعد ہم نے تمہیں ڈھونڈھنے کی بہت کوشش کی تھی مگر جب تم نا ملے تو ہم نے بھی ہار مان لی۔۔۔لیکن مجھے امید نہیں تھی کہ تم ایسے مجھے ملو گے ۔۔۔ تراب خان کے لہجے میں بھائی کے لیئے محبت ہی محبت تھی مگر دیار صاحب ایسے بیٹھے تھے جیسے انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑھتا۔

خیر آپ لوگ بتائیں یہاں کیسے آنا ہوا۔۔۔ دیار صاحب نے بات کا رخ بدلہ۔

دیار تم میرے بیٹے کو تو جانتے ہی ہو گے۔۔۔ سیاست کی دنیا کا چمکتا ہوا ستارہ۔۔۔ میری گدی کا جان نشین جزلان خان۔۔۔ میں اسکا رشتہ تمہاری بیٹی کے لیئے لایا ہوں۔۔۔ مجھے امید ہے تم اپنے بکھرے ہوئے رشتوں کو پھر سے مضبوطی سے جوڑو گے۔۔۔ تراب خان نے یقین بھرے انداز میں کہا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ انکا یہ یقین بہت جلد ٹوٹنے والا ہے 

بابا۔۔۔ ایمل نے پریشانی سے باپ کو پکارہ تو وہ اسے آنکھوں سے مطمئن ہونے کا اشارہ کرتے تراب خان کی جانب متوجہ ہوئے۔

انہوں نے ایک نظر سامنے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھے جزلان خان کو دیکھا اور پھر اپنی بات کا آغاز کیا۔

ماضی میں جو کچھ ہوا ہے بھائی میں اسے بھول چکا ہوں۔۔۔ اور رہی بات پھر سے رشتے مضبوط کرنے کی تو مجھے نہیں لگتا کہ اب پہلے جیسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اس لیئے آپ کے آوارہ بیٹے سے میں اپنی بیٹی کا رشتہ تو کبھی نہیں کروں گا۔۔۔۔ وہ سکون سے کہتے سامنے بیٹھے باپ بیٹے کو غصہ دلا گئے تھے۔۔۔ البتہ نور بیگم ساری گفتگو میں خاموش تھیں۔

دیار تم جانتے بھی ہو کہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہو۔۔۔ تراب خان دھاڑے مگر وہاں پروہ کسے تھی۔

ایمل چائے لے کے آؤ مہمانوں کے لیئے۔۔۔ ان کی بات کو اگنور کرتے دیار صاحب نے اطمینان سے ایمل سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے جی کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

ہم یہاں آپ کے گھر کی چائے پینے نہیں آئے تھے بلکے عزت سے رشتہ لے کے آئے تھے مگر آپ لوگوں کو تو شاید عزت راس ہی نہیں آتی۔۔۔ مگر آپ دونوں باپ بیٹی میری بات دھیان سے سن لیں ٹھیک ایک ہفتے کے اندر اندر آپ خود اپنی بیٹی سے میرا نکاح کروائیں گے۔۔۔ جزلان غصے سے انکے سامنے کھڑا ہوتے سر انگارہ ہوتی آنکھیں ایمل کی فاتحانہ مسکراہٹ پہ ڈالتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

اسکو ریجیک کیا گیا تھا جو جزلان خان کی انا پہ وار تھا۔۔۔جس کا بدلہ وہ کسی بھی حال میں ایمل سے شادی کر کے لینے والا تھا۔

پہلے تو وہ صرف اسکی کامیابی کی سیڑھی تھی مگر اب اسکی ضد بھی بن چکی تھی۔۔۔ اور جاگیردار اپنی ضد کے کتنے پکے ہوتے ہیں یہ تو ہر کوئی جانتا تھا۔

یہ تم نے اچھا نہیں کیا دیار۔۔۔ اپنے ٹوٹے رشتے بچانے کا ایک موقع تمہیں اور ملا تھا مگر تم نے وہ بھی گوا دیا۔۔۔ ہم عزت سے تمہاری بیٹی کو اپنے گھر کی بہو بنا کے لے کے جاتے مگر اب جو ہوگا اسکے ذمیدار صرف تم ہوگے ۔۔۔۔ 

چلو نور۔۔۔۔ غصے سے دیار صاحب کو انگلی دیکھا کے کہتے نور بیگم کو لیئے باہر نکل گئے

دیار صاحب نے اپنی بیٹی کو ان جیسے بےحس لوگوں سے بچانے کے لیئے انکار تو کر دیا تھا مگر ان کے دل میں ایک ڈر تھا کیونکہ وہ جاگیرداروں کو جانتے تھے۔۔۔ آخر تھا تو انکا ہی خاندان ۔۔ جاگیردار اپنی ضد اور انا میں کیا کچھ کر جاتے ہیں یہ وہ بہت اچھے سے جانتے تھے۔۔۔ اس لیئے اب انہیں جزلان اور تراب خان کی دھمکی پریشان کر رہی تھی۔

تھینک یو بابا آپ نے اپنے بکھرے رشتوں کی خاطر اپنی بیٹی کو قربان نہیں کیا۔۔۔ ایمل پیار سے اطمینان سے اسکے ساتھ بیٹھتی انکے کندھے پہ سر رکھ گئی۔

بیٹیاں قربانے کے لیئے ہوتی بھی نہیں ہیں۔۔۔ 

ایمل بیٹا تم میرا کل اثاثہ ہو۔۔۔ میں کبھی تمہارے لیئے غلط فیصلہ نہیں کروں گا اس بات کو یاد رکھنا۔۔۔ وہ اسکے سر پہ بوسہ دیتے شفقت سے بولے تو ایمل اندر تک سرشار ہوگئی تھی۔

مگر دیار صاحب کو اب پریشانی لاحق ہوگئی تھی وہ جلد سے جلد اب ایمل کی شادی کسے اچھے لڑکے سے کروانا چاہتے تھے جو انکی بیٹی کو خوش رکھ سکے

وہ لوگ ترکی ائرپورٹ سے باہر نکلے ہی تھے کے ایک آدمی نے رائد کو کچھ پیپرز اور چابی دی۔۔۔ آئلہ کو سمجھنے میں بلکل وقت نہیں لگا تھا کہ یہ چابی گاڑی کی ہے ۔۔۔

رائد نے ترکی گھومنے پھرنے نے کے لیئے یہاں پہلے سے ایک گاڑی بک کر والی تھی اور اب وہ لوگ جیسے ہی ائرپورٹ سے باہر نکلے تھے انکو چابی بھی مل گئی تھی۔

تم بیٹھو میں یہ بیگ رکھ دوں۔۔۔ اسے بیٹھنے کا کہتے وہ بیگ ڈگی میں رکھنے لگا۔

وہ بہت ہی خوبصورت سی دو سیٹر گاڑی تھی۔۔۔ جو کہ صرف ان دونوں کے لیئے تھی۔۔۔جس میں وہ لوگ ترکی کی سیر کرنے والے تھے

تھک گئی ہو۔۔۔ رائد ڈرائیونگ سیٹ پہ آکے بیٹھا تو آئلہ کو سیٹ کی پشت سے ٹھیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھے دیکھ پیار سے پوچھنے لگا۔۔۔ جس پہ وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلا گئی۔

وہ براؤن برقعے کے ساتھ ہم رنگ حجاب کیئے سکون سے بیٹھی تھی۔۔۔ 

اسلام آباد میں رات کو بس کچھ ہی گھنٹوں کا کام تھا جس کے بعد وہ لوگ فورن ترکی کے لیئے نکل گئے تھے۔۔۔ فلائٹ میں بیٹھنے کے بعد آئلہ بہت آکسائیٹڈ تھی ترکی دیکھنے کے لیئے۔۔۔ مگر یہاں آنے کے بعد جتنا گاڑی سے خوبصورت باہر کا منظر تھا اتنا ہی اسکے اعصاب تھکے ہوئے تھے۔

رات کی چاندی ہر سو پھیلی ہوئی تھی کھلی سڑک پہ چند ایک گاڑیاں رواں دواں تھی۔۔۔ اسٹریٹ لائٹس کی روشنی سڑک کو روشن کر رہی تھی ۔۔۔ 

وہ کھڑکی پہ ہاتھ رکھے اس پہ اپنی تھوڑی ٹکائے آگے کو ہو کے بیٹھی روڈ کے سائڈ میں لگے درختوں کو گزرتے دیکھ رہی تھی۔

آئلہ کی آنکھوں میں سکون دیکھتے رائد نے اسے بلکل تنگ نہیں کیا تھا ۔۔۔ وہ خاموشی سے بس اپنی ڈرائیونگ کر رہا تھا۔

ان راستوں سے ضرور جہاں سکندر بھی گزرا ہوگا۔۔۔ وہ ویسے ہی باہر دیکھتی بولی تو رائد نے چونک کے ایبرو سکیڑے اسکی جانب دیکھا۔۔۔ آخر کون تھا یہ جہاں سکندر جس کے بارے میں بات کرتے آئلہ کے لہجے میں پیار اتر آیا تھا۔

کون ہے یہ جہان سیکندر۔۔۔ رائد پوچھنے بغیر نا رہ سکا۔

حیا کا شوہر۔۔۔ وہ مسکراتی آواز میں بولی تو رائد نے غصے سے اسکی جانب دیکھا۔

آگر وہ حیا کا شوہر ہے تو تم کیوں اسکا ذکر اتنے پیار سے کر رہی ہو۔۔۔ کیا پتہ نہیں ہے کہ دوسروں کے شوہروں پہ نظر رکھنا کتنا بڑھا گناہ ہے۔۔۔ رائد سنجیدگی سے بولا تو آئلہ نے چہرہ موڑ کے اسکی جانب دیکھا جس کے چہرے پہ غصے کے آثار نمایا ہو رہے تھے۔

شراب پینا بھی گناہ بلکے حرام ہے۔۔۔ آئلہ نے سمجھانا چاہا۔۔

آئلہ بات کو نہیں بدلو۔۔۔ مجھے بتاؤ یہ جہان سکندر کون ہے۔۔۔ وہ قدرت غصے سے پوچھنے لگا

آپ جہان سیکندر سے جیلس ہو رہے ہیں۔۔۔  آئمہ نے گہری سانس بھرتے قدرے حیرت سے استفسار کیا۔

تو تم کیا چاہتی ہو کہ میری بیوی میرے

 سامنے ہی کسی اور کا ذکر کر کے خوش ہو اور میں جیلس بھی نا ہوں۔۔۔ رائد اسے گھور کے بولا تو آئلہ کی ایک دن ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔ وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہنسی جا رہی تھی۔

رائد نے اسے ایسے دیکھا جیسے ابھی اسنے کوئی لطیفہ سنایا ہو جس پہ آئلہ میڈم کی ہنسی ہی نہیں رک رہی ہے۔

وہ کبھی ناولز نہیں پڑھتی تھی مگر اسکی کچھ دوستوں نے چند ناولز کا اتنا ذکر کیا کے اسکے اندر بھی ایک اشتیاق پیدا کر دیا۔۔۔ جیسے ختم کرنے کے لیئے اس نے کچھ مشہور ناول پڑھے تھے۔۔۔اور ان ہی میں سے ایک جنت کے پتے تھا۔۔۔ جب سے ہی اسے ترکی آنے کا شوق پیدا ہوا تھا اور جب وہ ترکی آئی تھی تو ترکی سے اسے جہان یاد آگیا تھا جس کا اسنے بس ایسے ہی سرسری سا ذکر کردیا تھا ۔۔ مگر یہ وہ نہیں جانتی تھی کہ رائد تو جیلس ہی ہو جائے گا۔

میں نے کیا کوئی لطیفہ سنایا ہے جو تمہارے اتنے دانت نکل رہے ہیں۔۔۔ وہ چڑھتے ہوئے بولا تو آئلہ لب دبائے ہنسی روکتی نفی میں سر ہلا گئی۔

دیکھو جانان میں اتنی تنگ ذہنیت کا آدمی نہیں ہو مگر مجھے یہ بلکل پسند نہیں ہے کہ کسی اور کا ذکر کرتے وقت میری بیوی کے لہجے میں اتنی مٹھاس گھل جائے۔۔۔ وہ بلکل سنجیدہ تھا ایک دن سیریس مگر اسکی جیلسی پہ آئلہ کو ہنسی بہت آرہی تھی۔۔۔ وہ جیلس ہو بھی کس سے رہا تھا جو اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔

آپ جانتے بھی ہیں جہان سکندر کون ہے۔۔۔ 

کوئی بھی ہو مجھے فرق نہیں پڑھتا بس تم اسکا بار بار ذکر نا کرو۔ ورنا ایسا نا ہو کے یہ دن بیچارے کا آخری دن ہو اس دنیا میں۔۔۔ رائد کے لہجے میں غصے کی رمک محسوس کرتے آئلہ اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر گئی۔

جہان سکندر ایک کہانی کا کردار ہے جو اس حقیقی دنیا میں پایا ہی نہیں جاتا۔۔۔ اسنے سکون سے اسے دیکھتے بتایا تو رائد نے آنکھیں چھوٹی کیئے اسے گھورا۔

پہلے نہیں بتا سکتیں تھی یہ۔۔۔ 

آگر پہلے بتا دیتی تو ہمیں پتہ کیسے چلتا کہ ہمارے شوہر ہمارے لیئے اتنے پوزیسو ہے کے کسی اور کا ذکر بھی ہمارے منہ سے نہیں سن سکتے۔۔۔۔ جواب فورن دیا تھا۔

یہ تو ہے آئلہ میں​ تمہارے منہ سے کسی اور کا ذکر بھی برداشت نہیں کر سکتا چاہے وہ حقیقی کردار ہو یا افسانوی۔۔۔ مجھے تمہارے منہ سے سوائے اپنے اور کسی کا ذکر نہیں سنا۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتے لبوں سے لگا گیا تو وہ دھیرے سے مسکرادی۔

آئلہ تمہاری طعبیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کو تپتے ہوئے محسوس کرتے رائد نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں سرخی صاف واضح ہو رہی تھی۔

جی ہم ٹھیک ہیں بس شاید ہوا اور موسم بدلہ ہے نا اس لیئے تھوڑا بخار ہو گیا ہے۔۔۔ اسنے رائد کو مطمئن کرنا چاہا ۔

تھوڑا سا بخار ۔۔۔ تم تپ رہی ہو ۔۔۔۔ چلو سیٹ سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کرلو۔۔. جب پہنچ جائیں گے تو میں اٹھا دوں گا۔۔۔ رائد نے فکرمندی سے خود اسکا سر سیٹ کی پشت سے لگایا تو اسنے بھی بغیر کچھ کہتے خاموشی سے آنکھیں بند کرلیں۔

وہ کب نیند کی وادی میں اتری اسے پتہ ہی نا چکا۔۔۔ لیکن جب خود کو ہوا میں لٹکے محسوس کیا تو پٹ سے آنکھیں گھولیں۔

آپ یہ کیا کر رہے ہیں ہم خود چل کے چلے جائیں گے ۔۔۔ خود کو رائد کی گود میں دیکھتے وہ جلدی سے آس پاس دیکھ کے بولی مگر شکر تھا کہ وہاں سوائے سناٹے کے اور کچھ نہیں تھا۔۔۔

یہ لو چابی اور دروازہ کھولو۔۔۔ وہ اسکی بات جو نظرانداز​ کرتا اپنے ہاتھ میں پکڑی چابی کی جانب اشارہ کرتے بولا تو آئلہ جلدی سے اسکے ہاتھ سے چابی لیتی دروازہ کھلنے لگی۔

کیا ہم ہوٹل میں نہیں رکیں گے۔۔۔ اس چھوٹے سے خوبصورت سے گھر میں رائد کے قدم رکھتے ہی وہ ایک طائرانہ نظر پورے گھر پہ دوڑاتی پوچھنے لگی۔

باہر چھوٹا سا لان اور اندر دو کمرے،،، اوپن کچن جس کے سامنے درمیانہ سا لیونگ روم تھا۔۔۔ دو کمروں پہ مشتمل بنا یہ گھر بہت خوبصورت تھا۔

یہ میرے ایک دوست کا گھر ہے وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے کسی کام کے سلسلے میں اس لیئے ہم یہیں رکیں گے۔۔۔ وہ بائیں جانب کے کمرے کا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا۔۔۔ اور آہستہ سے آئلہ کو بیڈ پہ بیٹھایا۔۔۔

آئلہ ٹھیک سے بیٹھتی  نقاب ہٹانے لگی۔

تم یہیں بیٹھ کے آرام کرو جب تک میں سامان اندر رکھ کے کچھ کھانے کو منگواتا ہوں۔۔۔ اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے جیب سے فون نکلاتے باہر نکل گیا۔

رات کا ایک بج رہا تھا اور کھانے پینے کے سارے ریسٹورینٹ بند ہو چکے تھے مگر رائد نے پھر بھی کافی جدوجہد کرنے کے بعد ایک اچھی جگہ ڈھونڈ کے وہاں سے کچھ ہلکا ہلکا کھانے کے لیئے منگوا لیا تھا۔۔۔

کھانا آنے میں تھوڑا سا ٹائم لگنا تھا۔۔ اس لیئے اسنے اتنی دیر میں میڈیسن باکس ڈھونڈ لیا۔

اپنی مطلوبہ دوائی نکالتے ایک ٹرے میں پانی کا گلاس اور دوائی رکھتے لیونگ روم میں بیٹھا کھانا آنے کا انتظار کرنے لگا۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد دروازہ پہ بیل ہوئی تو وہ جلدی سے باہر گیا۔

ڈیلیوری بوئے سے شوپر لیتے اندر آکے ایک باؤل میں آئلہ کے لیئے سوپ نکالا اور ساتھ اپنے سینڈوچ رکھتے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

کمرے میں داخل ہوا تو آئلہ بیک گراؤنڈ سے ٹیک لگائے سو چکی تھی۔۔۔ رائد اسے اٹھانا تو نہیں چاہتا تھا مگر اسے کچھ کھلا کے دوائی دینا بھی ضروری تھا۔۔۔

اس لیئے سائڈ کورنر پہ ٹرے رکھتے اسکے پاس بیٹھا۔

آئلہ اٹھو کھانا کھاؤ پھر تمہیں میڈیسن دینی ہے۔۔۔۔ بہت پیار سے اسکے اسکارف کی پنز کھولتے کہا۔

میرا کچھ بھی کھانے کا دل نہیں ہے آپ بس مجھے دوائی دے دیں۔۔۔ وہ نکاہت بھرے لہجے میں کہتی اسکے کندھے سے سر ٹکا گئی۔

اچھا برقعہ تو اتارو۔۔۔ رائد نے اسکی برقعہ اتارنے میں مدد کی اور پھر اسکے بہت انکار کرنے کے باوجود اسے زبردستی آدھا سوپ کا باؤل پیلایا۔۔۔ 

پھر دوائی دیتے اچھے سے اسے لیٹا کے اس پہ کمبل ٹھیک سے ڈالتے اپنا سینڈوچ کھانے کے بعد خود بھی لائٹ بند کرتے اسکے ساتھ آکے لیٹ گیا۔

اسکے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے بخار کی شدت چیک کی تو ماتھا ابھی بھی تپ رہا تھا۔۔۔ وہ نرمی سے اسے اپنے سینے سے لگاتا آنکھیں موند گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

جب سے جزلان اپنے گھر والوں کے ساتھ ایمل کے گھر سے ہوکے گیا تھا وہ تب سے نوٹ کر رہی تھی کہ دیار صاحب کافی پریشان رہنے لگیں ہیں۔۔۔

اب بھی وہ ناشتے کے درمیان کسی سوچ میں ڈوبے بس بیٹھے ہوئے تھے جب کے ناشتہ انکے سامنے جوں کا توں رکھا تھا۔

بابا۔۔۔ جب اس سے مزید رہا نا گیا تو وہ انہیں پکار بیٹھی۔

ہمم بیٹا کیا ہوا بولو۔۔۔ وہ چونک کے اسکی جانب متوجہ ہوئے۔

میں دیکھ رہی ہوں آپ آج کل کافی پریشان رہنے لگے ہیں اور اس پریشانی کی وجہ میں اچھے سے جانتی بھی ہوں بابا۔۔۔

بیٹا میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ تراب بھائی کو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔ اپنی انا کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔ اور پھر جزلان کو تو تم جانتی ہی ہو۔۔۔ انہوں نے گہری سانس خارج کرتے بات ادھوری چھوڑی۔

بابا آپ

بیٹا میری ایک بات مانوں گی۔۔۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے دیار صاحب امید سے بولے۔

جی بابا آپ کی ہر بات میری سر آنکھوں پر۔۔۔ آپ بولیں بس۔۔۔ وہ آگے کو ہوتی پیار سے بولی۔

بیٹا میرے آفس کا ایک دوست ہے کچھ ٹائم پہلے اسنے اپنے بیٹے کے لیئے تمہارا رشتہ مانگا تھا میں نے جب تو اسے منا کردیا تھا مگر وہ پھر بھی باضد ہی تھا ۔۔۔ تو میں سوچ رہا ہوں ان کو ہاں کردوں اور اسہی جمعہ کو تمہارا نکاح بھی بھی کردو۔۔۔ وہ بہت پریشانی اور فکرمندی سے بول رہے تھے۔۔۔۔ جب کے انکی پریشانی کو سمجھتے آئلہ بھی سوچ میں پڑھ گئی تھی۔

صرف دو باپ بیٹا ہی ہیں ۔۔۔ لڑکے کی ماں کچھ سالوں پہلے ہی بیماری کے باعث انتقال کر گئی تھی۔۔۔ انہیں ایک نیک اور سلجھی ہوئی لڑکی چاہیئے اپنے گھر کے لیئے اور تو اور انہیں تمہارے پڑھنے یا جاب کرنے پہ بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ اسے خاموش دیکھتے دیار صاحب نے تفصیل سے بتایا۔

بابا میں آپ کی پریشانی سمجھ رہی ہوں ۔۔۔۔ میں بھی نہیں چاہتی کہ جزلان خان کچھ بھی الٹا سیدھا کرے جس سے میری اور آپ کی بدنامی ہو۔۔۔ اس لیئے مجھے آپ کا فیصلہ ٹھیک لگ رہا ہے ۔۔۔۔ آپ اپنے دوست اور انکے بیٹے سے بات کر لیں،،،مجھے نکاح کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر رخصتی میری پڑھائی کے بعد ہوگی۔۔۔ ایمل نے تحمل سے اپنے دل کی بات کہی تو دیار صاحب کے بےچین دل کو جیسے سکون سا مل گیا تھا۔

آپ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔ آپ نہیں جانتیں آپ نے میری کتنی بڑی پریشانی دور کردی ہے۔۔۔ میں پرسوں سے اس ہی وجہ سے پریشان تھا کہ نا جانے میری بیٹی کا کیا ہوگا۔۔۔ جزلان خان کی دھمکی مجھے سکون سے سونے نہیں دیتی تھی۔۔۔ مگر اب میں اور وقت ضائع نہیں کروں گا میں آج ہی اپنے دوست سے بات کرتا ہوں۔۔۔ دیار صاحب تھوڑے پرسکون ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے۔

کہاں جا رہے ہیں ناشتہ تو کرلیں۔۔۔ انہیں اپنا بیگ اٹھاتے دیکھ وہ تیزی سے بولی۔

بس بیٹا اب تو میں جلد سے جلد آفس پہنچنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم اپنا خیال رکھنا شام میں ملاقات ہوگی۔۔. وہ شفقت سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے باہر نکل گئے تو وہ بھی واپس بیٹھتی اپنا ناشتہ ختم کرنے لگی 

اسکی زندگی کس موڑ پہ چل رہی تھی اسے بلکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ آگے اسکی زندگی میں کیا ہونے والا تھا اسے کچھ اندازہ نہیں تھا ۔۔۔ اسکے نکاح کرنے کے بعد کیا سب ٹھیک  و ہو جائے گا اسے بلکل نہیں پتہ تھا۔۔۔مگر یہ تو طے تھا کہ وہ جزلان خان کو چھوڑے گی نہیں۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کا کھانا لگ چکا تھا سب ڈائنگ ٹیبل پہ موجود تھے۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی جب اس خاموشی کو جزلان نے توڑا۔

کیسے ہیں بابا۔۔۔ جزلان کافی خوشگوار موڈ میں اپنی کرسی کھسکا کے تراب خان کے برابر میں بیٹھا۔

کیا بات ہے برخودار آج کافی خوش لگ رہے ہو۔۔۔ تراب خان مسکراتے ہوئے بولے۔

بس بات ہی کچھ ایسی ہے۔۔۔ماما آپ بس اپنی بہو کو گھر لانے کی تیاری شروع کردیں۔۔۔ جزلان پہلے تراب خان سے کہتا بعد میں اتنی ہی خوشی سے نور بیگم سے مخاطب ہوا تو انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

مگر بیٹا انہوں نے تو رشتے سے انکار کر دیا ہے نا۔۔۔۔ نور بیگم نے اضطرابی کیفیت میں پوچھا۔

جزلان خان کسی کا انکار نہیں سنتا اور جو مجھے انکار کرنے کی جرت کرتا ہے وہ اپنے انجام کے ذمیدار خود ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ پلیٹ میں چاول ڈالتے جنونی انداز میں بولا تو بیک وقت نوال اور نور بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

وہ لوگ جزلان سے کسی بھی بری حرکت کی امید لگا سکتے تھے۔۔۔

کیا کرنے والے ہو تم۔۔۔۔ تراب خان نے دلچسپی سے پوچھا۔

بہت جلد پتہ چل جائے گا بابا۔۔۔ چہرہ پہ پراسرار مسکراہٹ سجائے چاولوں سے بھرا چمچمہ منہ میں ڈال گیا۔

جزلان تمہیں نہیں لگتا ہمیں کچھ وقت کے لیئے شادی کی بات کو بھول جانا چاہیئے۔۔۔ تراب خان اپنی پلیٹ پہ جھکے بوکے۔

کیوں بیٹے کی محبت پہ بھائی کی محبت غالب آرہی ہے۔۔۔۔ جزلان نے خفگی سے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ اسے دیکھ کے رہ گئے۔

ایسی بات نہیں ہے جزلان ۔۔۔ میں بس اس لیئے کہہ رہا تھا کہ رائد گیا ہوا ہے باہر وہ آجائے پھر دھوم دھام سے شادی کریں گے۔۔۔تراب جان جیسے رعب و دبدبے والا شخص صرف اپنے بیٹوں کو ہی وضاحت دیتے تھے۔

رائد رائد رائد۔۔۔۔ بابا وہ نا آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور نا ہی مجھے تو پھر ہم کیوں اسکی فکر کریں۔۔۔ کیوں میں اپنی خوشیوں کے لیئے اسکا انتظار کروں۔۔۔

خوشی نہیں ضد۔۔۔ انہوں نے اسکی بات کی تصحیح کی۔

جب ضد پوری ہوگی تو خوشی ہی ملے گی نا بابا۔۔۔ وہ سکون سے کہتا اپنی پلیٹ صاف کرتے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔

ٹھیک ہے جو مرضی آئے کرؤ۔۔۔ تراب خان لاپرواہی سے کندھے اچکا گئے۔

بیٹا میں تو کہتی ہوں اس بچی کا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔ جانے دو اسے ۔۔۔ اور بہت لڑکیاں ہیں جو تم سے شادی کرنا چاہتیں ہیں ۔۔۔ ہم ان میں سے کسی سے تمہاری شادی کروادیں گے۔۔۔ اسکے خطرناک ارادوں کا سوچتے نور بیگم نے اسے پیار سے سمجھاتے اسکے ارادوں سے باز رکھنا چاہا۔

فکر نہیں کریں دوسری شادی آپکی مرضی سے کرلوں گا۔۔۔ وہ آج واقع کافی خوشگوار موڈ میں تھا تبھی مسکرا مسکرا کے بات کر رہا تھا۔

نور بیگم میرے بیٹے کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں۔۔۔ آپ بس اپنی بیٹی پہ دھیان دیں جلد سے جلد کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈھیں اور رخصت کریں اسے۔۔۔ تا کے سر سے ایک بوجھ کم ہو۔۔۔۔تراب خان سخت لہجے میں کہتے ایک تیز نظر خاموشی سے اپنا کھانا کھاتی نوال کو دیکھ کے بولی جس کا انکی بات سنتے نوالہ حلق میں ہی اٹک گیا تھا۔

یہ آپ کیسی باتیں کر رہیں ہیں یہ ہماری بیٹی ہے کوئی بوجھ نہیں۔۔۔ نوال کی آنکھوں سے خاموش آنسوں گرتے دیکھ نور بیگم سے رہا نا گیا تو کہہ اٹھیں۔

مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔ میں نے جو کہہ دیا ہے بس اس پہ عمل کرو اور جزلان تم میرے ساتھ آؤ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے جزلان کو اپنے ساتھ لیئے وہاں سے آٹھ کے چلے گئے 

انکے جاتے ہی نوال بھی آنسوں پونچھتی تیزی سے اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔۔۔ 

اپنی بیٹی کو روتے ہوئے جاتے دیکھ نور بیگم افسردگی سے اسکی پشت دیکھتی رہ گئیں۔۔۔

یہی وجہ تھی کہ وہ اب زیادہ کچھ بولیں نہیں تھی ۔۔۔ آگر وہ کچھ بھی کہتیں تو گھوم پھر کے بات انکی بیٹی پہ آکے ختم ہوتی۔

انہیں ایمل بہت اچھی لگی تھی اور وہ نہیں. چاہتی تھی کہ انکا بیٹا اسکی زندگی برباد کرے بس اسہی لیئے اسے سمجھانے کی خاطر بول دیا تھا کہ شاید اسے انکی بات سمجھ آجائے مگر بھول گئیں تھی کہ ایک بار پھر انکے کچھ بولنے پہ آخر میں انکی بیٹی کو سںے کو ملے گا۔

وہ جتنا اپنے شوہر کی سوچ پہ افسوس کر رہیں تھی انکی آنکھیں بھی اتنی ہی بار بھیگتی جا رہیں تھیں انہیں اپنی بیٹی کا درد اپنے سینے میں اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ ہر پل اپنے اللہ سے صرف ایک ہی دعا کرتیں تھی کہ اللہ انکی بیٹی کو بہت پیار اور عزت کرنے والا شوہر دے۔

باپ کے گھر میں نا سہی مگر سسرال میں اپنے شوہر سے اسے پیار اور عزت تو ملے۔۔۔ جس کے لیئے وہ ہمیشہ ہی دعا گوہ رہتی تھیں۔

دو دن کے شدید بخار کے بعد آج آئلہ کی طعبیت کافی بہتر تھی۔۔۔ ورنا دو دن سے تو اسے اپنا بلکل ہوش نا تھا۔۔۔ رائد ہی اسکا سب کام کر رہا تھا۔۔۔ ہر وقت اسکے ساتھ رہتا تھا۔۔۔اسکی ہر چیز کا خیال رکھتا تھا۔۔۔ اسنے بہت اچھے سے آئلہ کی بیماری میں اسکی دیکھ بھال کی تھی۔

دوپہر کا ناجانے کون سا پہر تھا جب آئلہ کی آنکھ کھلی۔۔۔ اسنے سائڈ کورنر پہ رکھا اپنا فون اٹھا کے ٹائم دیکھا تو تین بج رہے تھے۔۔۔ وہ آہستہ سے اٹھ کے بیٹھی تو بخار کے باعث ہونے والی کمزوری کی وجہ سے جسم میں درد محسوس ہوا۔۔۔ مگر وہ ہمت کر کے اٹھتی سلکی ڈارک براؤن بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں قید کرتی دوپٹہ کندے پہ ڈالتے کمرے سے باہر نکلی۔

باہر آئی تو راشد کو کچن میں کھڑا دیکھ حیران ہوئے۔۔۔ وہ سیاہ ہاف بازوں والی ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ ہی ٹراؤزر پہلے اس پہ ایپرن باندھے بہت ہنڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔ ہاف آستینوں سے اسکے کثرتی بازو واضح ہوتے اسے اور وجیہہ بنا رہے تھے۔

اسنے ایک نظر کچن کی حالت پہ ڈالی جو پورا الٹا ہو رہا تھا۔۔۔ جگہ جگہ برتن تو کہیں مرچ مصالحے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔ کچن کے سینگ کے پاس چکن رکھی ہوئی تھی جب کے رائد کاؤنٹر پہ جھکے فون کی اسکرین کو کافی غور سے دیکھ رہا تھا جب کے اسکے آکے آدھی کٹی ہوئی پیاز رکھی تھی۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ رائد کیا کر رہا ہے اس لیئے دھیرے سے مسکراتی اسکے پاس آئی۔

کیا کر رہیں ہیں آپ۔۔۔ اسنے اسکے سامنے آتے پوچھا تو رائد نے گردن اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔ اسکی آنکھوں اور ناک لال ہو رہے تھے جب کہ آنکھوں سے آنسوں پہ آرہے تھے۔

پیاز کاٹنے کا کوئی دوسرا طریقہ دیکھ رہا تھا ایسے کاٹنے سے تو بہت مرچیں لگتیں ہیں۔۔۔ وہ بند ہوتی آنکھوں کو بامشکل کھولے بولا۔

آپ سے کس نے کہا تھا یہ سب کرنے کے لیئے۔۔۔ وہ آگے بڑھتی اپنے دوپٹے سے اسکی آنکھیں صاف کرنے لگی۔

تم نے ہی کل رات کو کہا تھا کہ تمہیں گھر کی بنی بریانی کھانے کا دل ہو رہا ہے۔۔۔ اس لیئے میں یوٹیوب سے سب سے اچھی بریانی کی ریسپی ڈھونڈتے وہیں بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ وہ فون رکھتے سینگ کے پاس جاکے آنکھوں میں پانی ڈالنے لگا۔

رائد خان بارعب پرسنیلٹی کا مالک۔۔۔۔ بزنس کی دنیا کا روشن ستارہ جس نے کبھی خود سے اٹھ کے پانی نہیں پیا تھا آج اپنی بیوی کے لیئے بریانی بنا رہا تھا۔

آگر آج تراب خان اسے کچن میں کھڑے کھانا بناتے دیکھ لیتے تو تقریباً صدمے سے دل تھام لیتے۔۔۔ کیونکہ آج تک جاگیرداروں میں سے کوئی بھی مرد کچن میں نہیں گیا تھا۔۔۔ مردوں کا کچن میں کام کرنا انکی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔۔۔ مگر رائد ان ساری دقیانوسی باتوں سے دور ہی رہتا تھا۔

وہ تو ہم نے ایسے ہی کہہ دیا تھا۔۔۔ آئلہ کچن سمیٹتی دھیرے سے بولی۔

تم جاؤ اندر جا کے آرام کرو میں بنا لوں گا۔۔۔ اسے پیاز کاٹنے کی تیاری کرتے دیکھ رائد ٹیشو سے آنکھیں صاف کرتے بولا۔

جی نہیں آپ جا کے بیٹھیں ہم بنا لیں گے۔۔ مسکراتے ہوئے پیاز کاٹنے لگی۔

ابھی تم تھوڑی بہتر ہوئی ہو۔۔۔ میں نہیں چاہتا تم پھر سے بیمار ہو،،، چھوڑ دو یہ ہم باہر سے کچھ کھانے کے لیئے منگوالیں گے۔۔۔ رائد اسکے ہاتھ سے پیاز اور چھر+ی لیتے بولا۔

ہم اب بلکل ٹھیک ہیں۔۔ آپ جائیں ہم بنا لیں گے بریانی۔۔۔ آئلہ نے اسکے ہاتھ سے چھر+ی لینی چاہی مگر وہ ہاتھ اونچا کر گیا۔

جاناں جاؤ جا کے تیار ہو جاؤ۔۔۔ ہم کہیں باہر چلتے ہیں۔۔۔ اچھا ہے تمہارا مائنڈ بھی فریش ہوجائے گا۔۔۔ اور پھر ہم جس کام کے لیئے یہاں آئے ہیں وہ بھی تو کرنا ہے نا۔۔۔ رائد مسکرا کے کہتا آخر میں معنی خیزی سے بولتے آئلہ کو سر جھکانے پہ مجبور کر گیا۔

ہم پانچ منٹ میں تیار ہو کے آتے ہیں ۔۔۔ وہ جلدی سے کہتی کمرے میں بھاگ گئی تو رائد بھی ایپرن کھولتے سامان کو واپس ان کی جگہ پہ رکھنے لگا۔

۔🌺 🌺 🌺

ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے آئلہ نے پوچھا۔

سیاہ برقعے کے ساتھ ہم رنگ اسکارف کے ساتھ نقاب کیئے ہوئے جس میں سے صرف اسکی آنکھیں دیکھ رہیں تھی۔۔۔ اسکی سرمئی آنکھوں ہلکی دھوپ میں چمک رہیں تھیں۔

ہم شوپنگ پہ جا رہے ہیں۔۔۔ رائد ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھتے بولا۔۔۔ اسنے اب باہر جانے کے لحاظ سے چوکلیٹی رنگ کی شلوار قمیض پہن لی تھی۔

مگر ہمیں شوپنگ پہ نہیں جانا۔۔۔ آئلہ کی بات سنتے رائد اسٹیرنگ چھوڑے اسکی جانب مڑا۔

پھر کہاں جانا ہے۔۔۔ اسنے پیار سے پوچھا۔

ہمیں یہاں کی بیلو موسق (نیلی مسجد) دیکھنے جانا ہے۔۔۔ وہ بچوں کی طرح اپنی خواہش کا اظہار کرنے لگی۔

جاناں مسجد بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے۔۔۔ وہ اسکی بات کو ہنسی میں لے گیا۔۔۔ جس پہ آئلہ کا خوشی سے چمکتا چہرہ مدھم پڑھا۔

مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے۔۔۔ اور اللہ کا گھر کون نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔ مسجدوں سے زیادہ خوبصورت چیز شاید استنبول میں کچھ نہیں ہے۔۔۔ وہ بہت ہی دھیمی آواز میں  شائستگی سے بولی تو رائد بغیر کچھ بولے اثبات میں سر ہلاتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

بیلو موسق استنبول کی مشہور و معروف مسجد۔۔۔ جتنی تصویروں میں خوبصورت تھی اس سے کئی زیادہ وہ حقیقت میں پیاری تھی۔

گاڑی پارک کر کے وہ لوگ مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ آئلہ کافی پرجوش تھی مسجد کو اندر سے دیکھنے کے لیئے۔۔۔ 

چلیں۔۔۔ اسنے رائد کو دیکھتے قدم آگے بڑھائے مگر اسے جلد ہی احساس ہوا کے وہ اکیلے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔۔۔ اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا تو رائد ابھی تک وہیں کھڑا گنبد کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

کیا ہوا آپ آ کیوں نہیں رہے۔۔۔ اسے ایک جگہ ہی کھڑے دیکھتے وہ پریشانی سے پوچھنے لگی 

تم ہو کے آجاؤ میں یہیں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں کہتے دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔

مگر کیوں۔۔۔ وہ فکرمندی سے اسکے پاس آئی۔

میں اس قابل نہیں ہوں کے اس پاک گھر میں  قدم رکھ سکوں۔۔۔ اسکے لہجے میں ایک شرمندگی تھی جو آئلہ اچھے سے سمجھ رہی تھی۔

آگر آپ قابل نا ہوتے تو یہاں تک بھی نہیں آپاتے۔۔۔ چلیں آجائیں اب۔۔۔ وہ پیار سے اسکا ہاتھ تھامے اندر قدم بڑھا گئی تو رائد بھی اسکے ساتھ ہی قدم اٹھانے لگا۔

مسجد کے احاطے میں گیٹ تھا اور اسکے باہر بینچ لگی ہوئیں تھیں۔۔۔ وہ رائد کا ہاتھ پکڑے اسکے ساتھ ایک بینچ پہ بیٹھی۔

سورج ڈھلنے لگا تھا جس کے باعث ہوائیں سرد ہو رہیں تھی۔۔۔ فضا میں اڑتے پرندے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔ وہاں کا ماحول اتنا پرسکون تھا کہ آئلہ کا دل چاہا وہ ہمیشہ کے لیئے یہیں بس جائے۔

جب کے دوسری طرف رائد کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔ اسے بےساختہ وہ وقت یاد آیا جب وہ چھوٹا تھا اور اپنی ماں کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔۔۔ گاؤں میں اپنے چاچا کے ساتھ مسجد جاتا تھا۔۔۔ اس وقت اسے اپنی ماں کی یاد شدت سے آئی تھی جس پہ اسکی آنکھیں نم ہوئیں جنہیں وہ بڑی مہارت سے چھپا گیا۔

آئلہ اسکے کندھے سے سر ٹکائے وہاں کی سکون بھری ہوا میں گہرے گہرے سانس لے رہی تھی جب رائد کا فون بجا۔۔۔

فون کی اسکرین پہ انکل کالنک لکھے دیکھ اسنے کال ریسیو کی 

ٹھیک ہے آپ مجھے نام پتہ بتا دیں میں معلوم کروا لوں گا۔۔۔ دوسری طرف سے کچھ بولا گیا تھا جس پہ رائد نے نرمی سے جواب دیا۔۔

اوکے۔۔۔ دوسری طرف سے پھر کچھ کہنے پہ وہ اوکے کہتا فون بند کر گیا۔

کس کا فون تھا۔۔۔ آئلہ نے ایسی سرسری سا پوچھا۔

بہت جلد بتاوں گا۔۔۔ رائد دو لفظی جواب دیتا فون اپنی قمیض کی جیب میں ڈال گیا۔۔۔ تو وہ کبھی کندھے اچکاگئی۔

چلیں کافی دیر ہوگئی ہے۔۔۔ کچھ وقت خاموشی کی نظریں ہوگئے جب اس خاموشی کو رائد نے توڑا۔

اسے یہاں بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا مگر اپنے دل کی بدلتی کیفیت سے پریشان ہوتے وہ جانے کے لیئے اٹھ گیا۔

ہممم۔۔۔۔ آئلہ بھی ایک آخری نظر چاروں طرف ڈالتی اسکے ساتھ ہی اٹھ کے باہر کی جانب نکل گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

مسجد سے ہونے کے بعد وہ لوگ لونگ ڈرائیو پہ نکل گئے تھے۔۔۔۔

راستے میں انہوں نے جوس اور سینڈوچ لے لیا تھا۔۔۔

کھلی سڑک پہ انکی گاڑی ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔ رائد ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرتا جب کے دوسرے ہاتھ سے آئلہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔

آسمان نے کالی چادر اوڑھ رکھی تھی جس پہ چمکتے ہوئے ستارے آسمان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔

ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔ سمندر کے کنارے گاڑی رکتے دیکھ آئلہ کھڑکی سے باہر کھڑی کافی ساری بوڈز اور شیپس دیکھتی الجھی۔۔

آج کی رات کو حسین بنانے۔۔۔ رائد اسکا ہاتھ چومتے مسکرا کے کہتا گاڑی سے اترا تو آئلہ بھی اسکے ساتھ ہی باہر نکلی۔

نیلا سمندر رات کی چاندی میں آسمان کا ہی حصہ لگ رہا تھا۔۔۔ 

آ جاؤ جاناں۔۔۔ رائد نے سمندر کو دیکھتی آئلہ کو پکارہ تو وہ مسکراتی ہوئے اسکے پاس آئی۔

ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ 

سرپرائز ہے۔۔۔ رائد محبت سے چور لہجے میں کہتا اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا۔

آؤ۔۔۔ رائد ایک بوڈ میں داخل ہوتے اسکا ہاتھ تھامے اسے چڑھنے میں مدد کرنے لگا۔

وہ وائٹ بہت ہی پیاری سی بوڈ تھی نا بہت بڑی تھی نا بہت ہی چھوٹی۔۔۔ نیچے کے کمرے میں ایک ٹیبل رکھی ہوئی تھی جس پہ شیشے کی دیوار سے کھانا رکھا صاف نظر آتا رہا تھا۔۔۔ اور اوپر بھی ایک کمرہ تھا جس کے آگے تھوڑی کھلی جگہ تھی۔

رائد نے خاص اپنے اور آئلہ کے بوڈ بک کی تھی جس پہ صرف وہ دونوں تھے۔

بوڈ پہ چڑھتے ہی بوڈ آہستہ آہستہ چلنے لگی تو آئلہ ڈرتے ہوئے ایک دم رائد کی قمیض تھام گئی۔۔

کیا ہم آج رات یہاں گزاریں گے۔۔۔ آئلہ پہلی بار بوڈ میں بیٹھی تھی اسے تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا مگر مزاہ بھی آرہا تھا۔

بلکل۔۔۔ رائد مسکرا کے کہتا اسکا نقاب ہٹانے لگا تو آئلہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔

یہاں صرف ایک بوڈ ڈرائیو ہے جس کا کام صبح تک بوڈ چلانا ہے جو صرف اپنے احاطے میں رہے گا۔۔۔ اس کے علاوہ یہاں میں اور تم ہیں اس لیئے تم نقاب ہٹا سکتی ہو۔۔۔ اور ویسے بھی ہم اب کنارے سے دور بھی آگئے ہیں۔۔۔ رائد رسان سے اسے کہنے لگا تو آئلہ نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا جس پہ رائد نے دھیرے سے اسکے نقاب سے پن نکالی۔

اسکے نورانی چہرے سے نقاب ہٹتے ہی رائد کے چہرے پہ دلکش مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔ اسکا دل اسے باہوں میں بھرنے کے لیئے بےچین ہونے لگا۔

بھوک لگی ہوگی تمہیں چلو کھانا کھاتے ہیں۔۔۔ اپنے منہ زور خذبات کو لگام ڈالتے اسکی بھوک کا خیال کرتے پیار سے کہتے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا۔

پہلے میں نماز پڑھ لو۔۔۔ عصر اور مغرب تو ویسے ہی قضا ہوگئی ہے اب میں عشاء قضا نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی تو رائد نے اثبات میں سر ہلادیا۔

آؤ تمہیں واشروم دیکھادوں۔۔۔ رائد اسے اپنے ساتھ لیئے آگے بڑھا۔۔۔ بوڈ کے پیچھے کی سائڈ پہ ایک چھوٹا سا واشروم بنا ہوا تھا۔

آئلہ نے حجاب کھولتے سکون سے وضو کیا اور   پھر واپس اسکارف چہرے کے گرد لپیٹتی باہر نکلی۔

یہاں تو جائے نماز یا چادر بھی نہیں ہوگی ۔۔۔ وہ پریشانی سے بولی۔

وہاں چادر موجود ہے۔۔۔ رائد ڈائنگ روم کی جانب اشارہ کر کے بولا تو وہ اطمینان سے وہاں چلی گئی۔

جب تک وہ واپس نا آئی تب تک رائد سگریٹ سلگانے میں مصروف ہوگیا۔۔۔ شام سے ہی اسکا دل عجیب ہو رہا تھا مگر وہ بار بار اپنے دل کی حالت کو جھٹکتا رہا تھا۔

ماضی کی تلخ یادیں بار بار ذہن میں آ رہیں تھی ۔۔۔ روتی ہوئی ماں کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔۔۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا ماضی سے نکلنے کی مگر اسکا ماضی اسکا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔

وہ گرل پہ ہاتھ رکھے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا۔۔۔۔ یہ اسکی تیسری سگریٹ تھی جب اسے پیچھے سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔۔۔ اسنے گردن موڑ کے دیکھا تو آئلہ اسکے پیچھے ہی کھڑی تھی۔

آگر سگریٹ سے پیٹ بھر گیا ہو تو کھانا کھا لیں ہمیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ وہ تھوڑا خفگی سے بولی تو رائد سگریٹ پیروں تلے روندھتا مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھامے اندر بڑھ گیا۔

ٹیبل پہ کئی طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے۔۔۔ جنہیں دیکھ کے آئلہ کی بھوک چمک اٹھی تھی۔

آئلہ کو کرسی پہ بیٹھا کے وہ خود اسکے برابر والی کرسی پہ بیٹھتا خود ہی اسکی پلیٹ میں پلاؤ نکالنے لگا۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی اسنے اپنی پیٹ میں کھانا نکالنے کے بعد سب سے پہلا نوالہ آئلہ کو کھلایا تھا۔

چھوٹی چھوٹی بالوں کے ساتھ دونوں نے کھانا ختم کیا تو رائد آئلہ کو اوپر کمرہ دیکھانے لے گیا۔

چھوٹے سے ٹیرس کے سامنے بنے کمرے کا جیسے ہی اسنے دروازہ کھولا آئلہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔ 

پورے کمرے کو سرخ غباروں سے سجایا گیا۔۔۔ فرش پہ چھت پہ ہر طرف غبارے ہی غبارے تھے۔۔۔ گول بیڈ کے بیچ میں گلاب کی پتیوں سے دل بنا ہوا تھا جس پہ بہت ہی خوبصورت سی ہیرے کی انگوٹھی رکھی ہوئی تھی جس کے برابر میں دل شیپ کا ریڈ ویلویٹ کیک بھی رکھا ہوا تھا۔

آئلہ کو تو یہ سب خواب جیسا لگ رہا تھا اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اس کے لیئے ایسا بھی کر سکتا ہے۔

یہ سب کتنا پیارا ہے۔۔۔ آئلہ مسمرائز ہوتی اس خوابدہ ماحول میں گھوتی کمرے کو گھوم گھوم کے دیکھنے لگی اسکے چہرے پہ خوشی تھی جسے دیکھتے رائد اندر تک سرشار ہوگیا تھا۔

ہمیں تو یقین نہیں آرہا کہ یہ سب کچھ ہمارے لیئے ہے ۔۔۔۔ وہ بےحد خوشی سے بولی تو رائد مسکرادیا۔

آئلہ بیڈ کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسے کورنر کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹیبل پہ وسکی کی بوتل دیکھائی تھی ۔۔۔ جسے دیکھتے ہی آئلہ کے آگے بڑھتے قدم رکھ گئے۔۔۔ چہرے کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔

مجھے پتہ تھا تمہیں یہ سب کچھ بہت پسند آئے گا۔۔۔یقین کرو تمہارے چہرہ پہ یہ خوشی دیکھ کے مجھے اتنا سکون ملا ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔۔۔ رائد اسے پیچھے سے باہوں میں بھرتے اسکے کندھے پہ لب رکھ گیا۔

آئلہ نے دھیرے سے اپنے پیٹ پہ بندھے اسکے ہاتھ کھولے اور اسکے حصار سے نکلتی بغیر اسکی جانب دیکھے کمرے سے نکل گئی۔

اسکے اچانک کمرے سے نکل جانے پہ رائد فکرمندی سے اسکے پیچھے باہر آیا تو وہ گرل پہ ہاتھ رکھے چہرہ جھوکائے کھڑی تھی۔

جاناں کیا ہوا تم ایسے باہر کیوں چلی آئیں۔۔۔ رائد نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا تو اسکی آنکھوں سے آنسوں نکلتے اسکے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔

کیا ہوا آئلہ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔ وہ ایک دم ہی پریشان ہو گیا۔۔۔ وہ تو ہمیشہ آئلہ کو ہنستے مسکراتے دیکھنا چاہتا تھا مگر نا جانے وہ کیوں رو رہی تھی رائد کے سمجھ سے باہر تھا۔

آپ شراب پینا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔۔ وہ آنسوں بہاتی بھاری آواز میں بولی تو رائد بات سمجھتے گہری سانس بھر گیا۔

جاناں میں نے تمہیں کہا تھا نا جو چیز مجھے پسند ہوتی ہے میں اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔۔۔ رائد اسے بہت نرمی سے کہہ رہا تھا جس پہ آئلہ نے اپنی نم سرمئی نظروں سے اسے خفگی سے دیکھا۔

اسکی پرکشش آنکھوں میں رائد کا دل پوری طرح سے ڈوب چکا تھا۔۔۔ اسنے بہت ہی پیار سے اسکی نم آنکھیں صاف کیں۔

کیا آپ میرے لیئے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔ آئلہ اسکا ہاتھ تھامے امید سے بولی تو زندگی میں پہلی بار رائد تذبذب کا شکار ہوا تھا۔

آئلہ میرے پاس غم بھلانے کا یہی تو ایک واحد ذریعہ ہے تم اسے بھی چھوڑنے کا بول رہی ہو۔۔۔ رائد سمندر میں اٹھتی ہلکی ہلکی لہروں کو دیکھنے بولا افسردگی سے بولا۔

ہم ہیں نا رائد ہم آپ کے ہر زخم پہ مرہم رکھیں گے۔۔۔ آپ کا غم بانٹیں گے۔۔۔ مگر پلیز ہمارے لیئے شراب چھوڑ دیں۔۔۔۔ وہ اسکے قریب آتی اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کے اپنی جانب موڑتی التجائیہ انداز میں بولی ۔

جاناں۔۔۔

آپ ہم سے سچی محبت نہیں کرتے نا؟؟؟۔۔۔ وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اداسی سے بولی تو رائد نے تڑپ کے اسے کمر سے تھامتے اپنے سینے سے لگایا۔

رائد خان خود سے زیادہ تمہیں چاہتا ہے۔۔۔ تمہارے بغیر میرا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔ میرے ماضی نے مجھے ایک پتھر دل انسان بنا دیا ہے آئلہ مگر میرا دل تمہارے معاملے میں بہت نرم ہے۔۔۔ 

مجھے لگتا تھا کہ میرے اندر سے سارے احساسات جذبات سب ختم ہوگئے ہیں۔۔۔ مگر تم نے میری زندگی میں آکے مجھے پھر سے زندگی جینا سکھایا ہے۔۔۔ مجھے بتایا ہے کہ میں بھی پیار کر سکتا ہوں۔۔۔ میرے احساسات اور جذبات ابھی بھی زندہ ہیں۔۔ 

آئلہ کبھی میری محبت پہ شک نہیں کرنا۔۔۔ چاہے تو میری جان لے لینا مگر کبھی یہ نہیں سوچنا کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔۔۔ رائد خان آخری سانس تک تم سے محبت کرے گا۔۔۔ رائد نے بہت ہی محبت سے جذب کے عالم میں اپنا دل کھول کے اسکے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔ جس پہ آئلہ نے مسکراتے ہوئے اپنا حصار اسکے گرد باندھ دیا۔

تو پھر شراب چھوڑ دیں۔۔۔ وہ حرام ہے۔۔۔ اسکی ایک بوندھ بھی اگر کپڑوں پہ گر جائے تو کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے اور آپ تو اسے اپنے اندر اتارتے ہیں۔۔۔ وہ بہت نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی۔

رائد ہم آپ کا ساتھ اس دنیا سے لے کر جنت تک چاہتے ہیں۔۔ ہم چاہتے ہیں ہم دونوں جنت تک کے ساتھی بنیں۔۔۔ اور یہ تبھی ہو گا جب آپ ان حرام چیزوں کو چھوڑ کے اللہ کا راستہ اپنائیں گے۔۔۔ 

تو بتائیں کیا آپ جنت تک ہمارا ساتھ چاہتے ہیں۔۔۔ وہ اسکے سینے سے لگی پیار سے استفسار کرنے لگی تو رائد نے اسے شدت سے خود میں بھیچا۔

رائد خان تم سے وعدہ کرتا ہے آج کے بعد کبھی بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔۔۔ وہ شدت سے کہتا اسکے سر پہ لب رکھ گیا تو آئلہ کا دل ایک دم ہی بلکل ہلکا پھلکا ہوگیا۔

اسے رائد کے کیئے ہوئے وعدے پہ یقین تھا ۔۔۔ وہ جانتی تھی دنیا اِدھر کی اُدھر ہو سکتی ہے مگر رائد خان آئلہ سے کیا گیا وعدہ نہیں توڑ سکتا۔۔۔۔ وہ اسکی محبت پہ پوری طرح سے ایمان لے آئی تھی۔

آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔ وہ سر اٹھائے تھوڑی اسکے سینے پہ رکھے معصومیت سے بولی۔۔۔ اسے یہ ایک دم سہی وقت لگا تھا اپنی بات پوچھنے کا۔۔۔ وہ بات جو کب سے اسکے دل میں چل رہی تھی آخر آج وہ پوچھنے ہی والی تھی

ہممم۔۔۔ رائد نے باری باری اسکی دونوں آنکھوں پہ لب رکھے۔

آپ کے ماضی میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے آپ کو اتنا سخت بنا دیا ہے۔۔۔ ایسا کیا ہوا ہے جو آپ اپنے گھر والوں سے ٹھیک سے بات نہیں کرتے ۔۔۔ انہیں پسند نہیں کرتے۔۔۔ انہیں پیار نہیں کرتے۔۔۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا جس نے آپ کو سارے رشتوں سے دور کردیا ہے۔۔۔ وہ بہت الجھن سے اسے دیکھ کے پوچھ رہی تھی۔۔۔ جس پہ رائد اسے چھوڑتے گرل پہ ہاتھ رکھے سیاہ آسمان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ 

سنا چاہتی ہو کہ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے میں اپنے گھر والوں سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔ وہ اسکی طرف چہرہ کیئے اذیت بھرے لہجے میں بولا تو آئلہ اثبات میں سر ہلاگئی۔

جس پہ رائد زخمی سا مسکراتے پھر سے آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔

ماضی!!!!!

بابا کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔۔ تراب خان کو باہر جاتے دیکھ سات سالہ رائد بھاگتے ہوئے انکے پاس آیا۔

پنچائت میں جا رہا ہوں تم چلو گے میرے ساتھ۔۔۔ انہوں نے پیار سے پوچھا تو رائد زور و شور سے اثبات میں سر ہلا گیا۔

ارے واہ۔۔۔ چلو پھر آجاؤ اچھا ہے تم ابھی سے میرے ساتھ جاؤ گے تو بڑے ہونے تک اچھے سے سب سمجھ لو گے۔۔۔ تراب خان اسکا گال تھپتھپاتے مسکرا کے بولی تو وہ خوش ہوگیا۔

میں ماما کو بات کے آتا ہوں۔۔۔ رائد جلدی سے کہتا اندر کی جانب بھاگا مگر خدیجہ بیگم کو باہر آتے دیکھا تو رک گیا 

ماما میں بابا کے ساتھ پنچائت میں جا رہا ہوں ۔۔۔ رائد نے خوشی سے انہیں اطلاع دی۔۔۔ وہ بہت ہی کم حویلی سے باہر جاتا تھا ۔۔۔ پڑھائی میں اتنا مصروف رہتا تھا کہ اسے کسی اور چیز کا ہوش نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ وہ بہت ذہین بچہ تھا ہر چیز جلد ہی کیچ کر لیتا تھا۔۔۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا جس وجہ سے وہ اتنی سی عمر میں ہی کتابوں میں مصروف رہتا تھا۔

نہیں رائد آپ نہیں جاؤ گے ۔۔۔ خدیجہ بیگم سنجیدگی سے بولیں تو رائد کے چہرے کی مسکراہٹ مدھم پڑھی۔

بڑی سی چادر اپنے گرد لپیٹے وہ اپنے بھرے بھرے وجود کو چھپائے سر پہ اچھے سے دوپٹہ اوپڑھے حویلی کے داخلی دروازے کے سامنے سنجیدہ کھڑی تھیں۔

رائد کے پیدا ہونے کے اتنے سالوں بعد اللہ انہیں دوبارہ ماں بنے کی خوشی دے رہا تھا۔۔۔ وہ خوش تھی مگر پریشان بھی تھیں۔

کیوں۔۔۔۔ اسنے اداسی سے پوچھا۔۔۔ اسکے چہرے کی اداسی دیکھتے تراب خان فورن بولے۔

میرا بیٹا ضرور جائے گا۔۔۔ 

 اتنے سے بچے کو آپ ابھی سے اپنے ساتھ پنچائت میں لے جا کے اسکے دماغ میں اپنے کیئے غلط فیصلے بیٹھانا چاہتے ہیں۔۔۔ خدیجہ بیگم سرد لہجے میں کہتی تراب خان کو غصی دلاگئیں۔

خدیجہ زبان سنبھال کے بات کرو۔۔۔ وہ غصے سے دھاڑے تو رائد سہم گیا۔

اونہہ خود تو لوگوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہی ہیں اب چاہتے ہیں میرا بیٹا بھی انکے جیسا بن جائے ۔۔ وہ سرجھٹکتی بڑبرائی۔

چلو رائد ۔۔۔ وہ خدیجہ بیگم کو گھورے رائد سے بولے ۔

وہ بابا مجھے ابھی یاد آیا میں نے اسکول کا کام نہیں کیا تھا۔۔۔ اس لیئے میں آپ کے ساتھ آج نہیں جا سکتا ۔۔۔ آج آپ چلے جائیں میں پھر کبھی چلا جاؤں گا ۔۔۔ رائد مسکراتے لہجے میں اپنے باپ کو اپنی بات کا یقین دلاتے اندر بھاگ گیا تو تراب خان  ایک شعلہ اگلتی نگاہ اندر جاتی اپنی بیوی پہ ڈالتے باہر نکل گئے۔

۔🌺 🌺 🌺

تراب خان کے جانے کے کچھ دیر بعد رائد دبے قدم ماں کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اسکی جانب پشت کیئے جائے نماز پے بیٹھی قرآن پڑھ رہیں تھیں۔

رائد۔۔۔ وہ بغیر آواز کیئے انکی جانب بڑھ رہا تھا مگر پھر بھی انہیں پتہ چل گیا تھا کہ رائد آیا ہے۔

ماما آپ کو کیسے پتہ چلا ہے میں آیا ہوں میں نے تو بلکل بھی آواز نہیں کی تھی۔۔۔۔ رائد انکے سامنے دو زانوں بیٹھتے حیرت سے پوچھنے لگا۔

میں ماں ہوں تمہاری۔۔۔۔ تمہاری خوشبو سے بھی تمہیں پہچان لیتی ہوں۔۔۔ وہ نرمی سے اسکے گال کھینچتی بولی تو وہ کھلکھلا اٹھا۔

اففف اچھا ہوا میں یہاں آگیا اور آپ کو دیکھ کے مجھے یاد آگیا کہ مجھے بھی نماز پڑھنی تھی۔۔۔ میں ابھی جلدی سے وضو کر کے آتا ہوں۔۔۔ رائد ماتھے پہ ہاتھ مار کے کہتا جلدی سے واشروم میں گھس گیا تو خدیجہ بیگم مسکرادیں

وضو کر کے آتے اسنے جلدی سے الماری سے دوسری جائے نماز نکالی۔۔۔ اسے اپنی ماں کے برابر میں بچھائے نماز بڑھنے لگا۔

اسنے پانچ سال کی عمر میں قرآن مکمل پڑھ لیا تھا۔۔۔ اور اس سے پہلے سے ہی خدیجہ بیگم اسے اپنے ساتھ نماز پڑھواتیں تھی۔۔۔ 

جب وہ اور چھوٹا تھا تب شوق شوق میں اپنے چاچا کے ساتھ مسجد جایا کرتا تھا مگر جب سے وہ گئے تھے رائد گھر میں ہی نماز پڑھتا تھا۔

خدیجہ بیگم کو یاد نا تھا کہ کبھی انہوں نے تراب خان کو نماز پڑھتے دیکھا ہو۔۔۔ وہ جب سے شادی ہو کے آئیں تھی شادو نادر ہی تراب خان مسجد جاتے تھے۔۔۔ یا یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صرف جمعہ جمعہ ہی مسجد جاتے تھے۔۔۔وہ بھی کب یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔ مگر خدیجہ بیگم اپنے بیٹے کی پرورش بہت اچھے سے کر رہیں تھیں۔۔۔ اسے ہر اچھی بری بات بتاتی تھیں۔۔۔ اپنے ساتھ نماز پڑھواتیں۔۔

اب بھی وہ خود سے ہی آگیا تھا نماز پڑھ نے ۔۔۔اور بہت سکون سے اپنی ماں کے پہلو میں بیٹھ کے نماز پڑھ رہا تھا۔

نماز سے فارغ ہوکے اسنے دعا مانگ کے دونوں ہاتھ چہرہ پر پھیرے اور پھر کچھ پڑھ کے اپنی ماں پہ پھونک ماری جس پہ خدیجہ بیگم مسکرادیں۔

ماما میں نے آپ پہ حفاظتی دعا پڑھ کے پھونک دی ہے اب آپ محفوظ رہیں گی۔۔۔ وہ معصومیت سے بولا تو خدیجہ بیگم کو اپنے بیٹے پہ ڈھیر سارا پیار آیا۔

رائد مجھ سے ایک وعدہ کرو گے۔۔۔ وہ اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلاتی پیار سے بولیں تو اسنے جلدی سے انکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

آپ میرے بہت سمجھدار بیٹے ہو رائد۔۔۔ آپ نے ماما کی ہمیشہ ہر بات مانی ہے۔۔۔ انہیں ہمیشہ خوش کیا ہے۔۔۔ اب بھی مجھ سے ایک وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہوگیا تو آپ اپنے آنے والے چھوٹے بھائی یا بہن سے بہت پیار کرو گے انہیں ایک اچھا انسان بناؤ گے۔۔۔

آگر آپکی بہن آئی تو آپ اسے ایک اچھے بڑے بھائی کا مان دو گے۔۔۔ همیشہ اسکی ڈھال بنو گے اسے پیار کرو گے ۔۔۔ رائد بیٹا میں جانتی ہوں آپ ان ساری باتوں کے لیئے ابھی بہت چھوٹے ہو پتہ نہیں آپ کو میری باتیں سمجھ میں بھی آئیں گی یا نہیں مگر ہمیشہ میری بات یاد رکھنا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔۔۔ جنہیں آپ سر سے اتار کے پھینگ دو بلکے بیٹیاں تو سر کا تاج ہوتی ہیں جنہیں سر پہ سجا کے ایک باپ ایک بھائی بادشاہ بنتا ہے اپنی بیٹی کا بادشاہ اپنی بہن کی ڈھال۔۔۔ جن کے سائے میں ایک بیٹی راج کرتی ہے۔۔۔ خوشی سے اپنی زندگی گزارتی ہے 

مجھ سے وعدہ کرو رائد کہ کبھی آپ اپنی بہن کو اکیلا نہیں چھوڑو گے اسے خوش رکھو گے۔۔۔ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرو گے۔۔۔ چاہے میں ہوں یا نا ہوں آپ اسکا خیال رکھو گے۔۔۔ مانوں گے آپ میری بات۔۔۔۔ وہ بہت نرمی سے اسے سمجھا رہیں تھی ۔۔۔ جسے رائد بہت غور سے سن رہا تھا۔

ماما میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اپنے بھائی یا بہن کا بہت خیال رکھوں گا۔۔۔ان سے بہت پیار کروں گا۔۔۔ انکے ساتھ کھیلوں گا بھی۔۔۔ میں ہمیشہ انکے ساتھ رہوں گا۔۔۔ وہ بہت سمجھداری سے بولا تو خدیجہ بیگم نے اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔

وہ بہت خوش تھیں کے انکا بیٹا بہت فرمانبردار ہے۔۔۔ وہ انکی بات مانتا ہے۔۔۔ وہ بلکل اپنے باپ پہ نہیں گیا ہے۔۔۔ انہیں بہت خوشی تھی اس بات کی۔

انکو اس بار بیٹی لگ رہی تھی مگر وہ پریشان بھی تھی ساتھ کہ آگر بیٹی ہوئی تو اسکے نصیب بھی کہیں اسکی ماں کی طرح نا ہو۔۔۔ وہ جانتی تھی آگر بیٹی ہوئی تو اسکا باپ بھی انکے باپ کی طرح بیٹی کو صرف بوجھ سمجھے گا۔۔۔ اسے سوائے برا کہنے کے اور کچھ نا کہے گا ۔۔۔ انکی بیٹی ہمیشہ باپ کے پیار کو ترستی رہے گی۔

مگر وہ خدا کا شکر ادا کرتیں تھی کے شوہر نا سہی مگر بیٹا تو پیار کرنے والا تھا۔۔۔ انہوں نے اس لیئے پہلے سے ہی رائد کو سمجھا دیا تھا کہ آگر کل کو انکے بیٹی ہوتی ہے تو رائد باپ کی طرح اسے بوجھ نا سمجھے بلکے اس سے پیار کرے۔۔۔ اسے بھائیوں والا مان سے جو انکے بھائیوں نے انہیں کبھی نہیں دیا تھا وہ کم سے کم انکی بیٹی کو تو ملے۔

ماما آپ رو رہیں ہیں۔۔۔ اپنی شرٹ پہ نمی محسوس کرتے رائد نے سر اٹھا کے ماں کو دیکھا جن کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔۔۔ مگر وہ کہہ کچھ نہیں رہیں تھی بس اسے خود سے لگائے روئے جا رہیں تھیں۔

ماما آپ روئیں نہیں میں ہوں نا۔۔۔ میں آپ کی ساری باتیں مانوں گا۔۔۔ میں نے وعدہ بھی تو کیا ہے نا آپ سے۔۔۔ آپ روئیں نہیں پلیز۔۔۔ وہ ان سے تھوڑا دور ہوتے انکے آنسوں پوچھنے لگا۔۔۔ تو وہ نم آنکھوں سے مسکراتیں اسکا ماتھا چوم کے اپنے ساتھ لگا گئیں۔

باپ نا سہی بیٹا تو احساس کرنے والا تھا۔۔۔ کبھی بھی انہیں شوہر کا پیار نا مل سکا تھا۔۔۔مگر وہ بیٹے کے معاملے میں خوش قسمت تھیں۔۔ 

خدیجہ بیگم کے باپ کے پاس کافی دولت تھی وہ ایک بہت بڑے زمیندار تھے۔۔۔ تراب کو اپنی فیکٹری کھڑی کرنے کے لیئے انکی ایک زمیں چاہیے تھے مگر خدیجہ بیگم کے بابا نے وہ زمین بیچنے سے صاف انکار کردیا تھا۔۔

ان دنوں وہ لوگ خدیجہ بیگم کے لیئے رشتہ بهی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ اور جب یہ بات تراب خان کو پتہ چلی تو انہوں نے ان کے سامنے اوپشن رکھ دیا کہ وہ خدیجہ بیگم سے شادی کریں گے مگر جہیز میں انہیں وہ زمین تراب خان کے نام کرنی ہوگی ۔۔۔۔

بس پھر کیا تھا خدیجہ بیگم کے بابا تو ویسے بھی انہیں جلد سے جلد رخصت کرنا چاہتے تھے جس وجہ سے انہوں نے نا آؤ دیکھا نا تاؤ پانچ دن کے اندر اندر انکی شادی ایک بےحس انسان سے کردی۔

وہ دن تھا اور آج کا دن خدیجہ بیگم صرف سال میں ایک بار اپنے میکے جاتیں تھی مگر جب انکی ماں کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے وہ بھی چھوڑ دیا۔۔۔ باپ بھائی کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا تو انہوں نے بھی جانا ہی چھوڑ دیا۔

تراب خان کے گھر میں انہیں سب کچھ ملاتا مگر شوہر کا پیار کبھی نا مل سکا۔۔۔ ان کے ہوتے ہوئے حویلی سے باہر رات گزارنا شراب پینا اور جب خدیجہ بیگم کچھ کہیں تو ان پہ ہاتھ بھی اٹھا نا تراب خان کی عادت بن گیا تھا۔

اس کے باوجود بھی انہوں نے صبر سے کام لیا۔۔۔ اور پھر جب انکے گھر رائد پیدا ہوا تو کچھ وقت کے لیئے تراب خان کا رویہ بدل گیا ۔۔ وہ ان سے پیار سے نا سہی مگر سختی سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔۔۔ کچھ عرصہ تک سب ٹھیک چلتا رہا مگر جیسے جیسے رائد بڑا ہوتا جا رہتا تھا تو تراب خان اسے اپنے ساتھ رکھنے لگے تھا۔

لیکن خدیجہ بیگم نہیں چاہتیں تھی کہ وہ اپنے باپ کی بڑی صحبت اپنائے ۔۔۔ اس لیئے انہوں نے اسکا دھیان اسکول اور مدرسے کی جانب لگا دیا ۔۔۔۔ وہ اسے گھر میں ہی اپنے ساتھ ساتھ رکھتی تھی باہر بہت کم جانے دیں تھی جس پہ تراب خان اور انکا بہت بار جھگڑا بھی ہوا تھا اور پھر واپس نوبت ہاتھ اٹھانے کی اجاتی۔۔۔

اور اب جب اتنے سالوں بعد وہ پھر سے ماں بنے جارہی تھی تو تراب خان کا رویہ پھر سے سرد ہوگیا تھا ۔۔۔ انہوں نے صاف صاف خدیجہ بیگم کو کہہ دیا تھا کہ انہیں اس بار بھی بیٹا ہی چاہئے​ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ یہ سارے معاملات تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔

خدیجہ بیگم کی طعبیت ان دنوں پریشانی کی وجہ سے کافی خراب رہتی تھی۔۔۔مگر وہ اپنا دھیان بھٹکانے کے لیئے رائد کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتیں تھی۔۔۔۔ اور رائد وہ تو تھا بھی بہت سمجھدار اپنی ماں کو پریشان دیکھتے فورن انکے ساتھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگ جاتا تھا کہ وہ اپنی پریشانی بھول جائے۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد اپنے کمرے میں بیٹا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا جب اسے اپنے ماں باپ کے کمرے سے چیخ چلانے کی آواز آئی۔

چونکہ دونوں کمرے برابر برابر ہی تھی اس لیئے آوازیں خاصی اونچیں آرہیں تھیں جس پہ وہ دوڑ کے انکے کمرے کی جانب بھاگا۔

مگر اندر اپنے ماں باپ کو لڑتے دیکھ وہ دروازے پہ ہی رک گیا۔

اسکی ماں نے کبھی اسکے باپ سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی مگر آج انکی آواز کافی اونچی تھی۔

آج گاؤن کی معمر زمانہ شناس دائی آئیں تھی۔۔۔ جنہوں نے انہیں دیکھتے ہی بتادیا تھا کہ انکے گھر اس بار بیٹی ہوگی۔۔۔ اور یہ بات کسی طرح تراب خان تک پہنچ گئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکالا تھا کہ وہ حویلی آتے ہی خدیجہ بیگم پہ برس پڑے تھے۔

خدیجہ بیگم نے انہیں نرمی سے بہت سمجھایا تھا کہ بیٹی بوجھ نہیں ہوتی بلکے رحمت ہوتی ہے مگر وہ تو بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ اسے ختم کر دو۔۔۔ لیکن اب ایسا ممکن نا تھا کیونکہ ساڑھے ساتھ ماہ ہوچکے تھے۔۔۔ 

مجھے کچھ نہیں پتہ مجھے بیٹا چاہیئے خدیجہ لڑکی نہیں۔۔۔ وہ بہت ہی غصے سے غرائے تو دروازے کے باہر کھڑا رائد سہم کے دروازے کی اوٹ سے چپ گیا۔

آپ کیوں میری بات نہیں سمجھ رہے ۔۔۔ اس میں میری کیا غلطی ہے یہ تو سب اللہ کے کام ہیں۔۔۔ اور بیٹی تو رحمت ہوتی ہے آپ کیوں اس ننی سی جان سے ابھی سے اتنی نفرت کرنے لگیں ہیں جو ابھی دنیا میں آئی ہی نہیں ہے۔۔۔ خدیجہ بیگم سر تھامتی دھاڑیں۔۔۔ تراب خان کی باتوں نے انکا بی پی ہائی کردیا تھا۔

ہماری آنے والی تین نسلوں میں سے آج تک کسی کے یہاں لڑکی نہیں ہوئی ہے اور تم لڑکی پیدا کر کے میرا سر جھکانا چاہتی ہو۔۔۔ وہ زمانہ جاہلیت کی باتیں کر رہے تھے جس سن کے خدیجہ بیگم کو شدید افسوس ہوا۔۔۔۔ انکی سوچ اتنی گری ہوئی تھی وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔

دروازے کے باہر کھڑے اس سات سالہ معصوم بچے کی آنکھوں میں بھی اپنے باپ کی باتیں سن کے نمی آگئی تھی۔

خدیجہ مجھے یہ لڑکی نہیں چاہیئے تم اسے خت۔۔۔۔۔

بسسس بہت ہوگیا تراب میں خاموشی سے اپکی باتیں سن رہی ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کے آپ بار بار میرے بچے کو مارنے کی بات کریں۔۔۔ آپ کو اس سے نفرت کرنی ہے تو کریں مگر اسکی جان لینے کی دوبارہ بات بھی نہیں کرے گا۔۔۔ خدیجہ بیگم غصے سے انکی بات کاٹتی چیخیں تو تراب کا غصہ سواہ نیزے پہ پہنچا۔۔۔۔ انہیں ہرگز یہ گوارہ نہیں تھا کہ ایک عورت ان سے اونچی آواز میں بات کرے

اس سے پہلے رائد اپنی روتی ہوئی ماں کے پاس جاتا ایک زور دار تھپڑ کے ساتھ خدیجہ بیگم پیٹ کے بل زمین پہ کریں جس سے کمرے کی فضا میں دل خراب چیخ بلند ہوئی۔

ماما۔۔۔۔ اپنی ماں کو تکلیف میں دیکھتے رائد بھال کے انکے پاس آیا۔۔۔ اسکی آواز سے تراب خان جیسے ہوش میں آئے ۔۔۔

خدیجہ بیگم کو زمین پہ پڑے تڑپتے دیکھ وہ جلدی سے رائد کو سائڈ کرتے انکا نیم بہوشی میں جاتا وجود باہوں میں بھرے باہر بھاگے۔۔۔انکے پیچھے رائد بھی لپ گا۔۔۔

اسپیڈ میں گاڑی چلاتے وہ اسپتال پہنچے۔۔

تراب خان کو دیکھتے ہی ڈاکٹر نے انکا آپریشن فورن شروع کردیا تھا۔۔۔۔

وہ بےچینی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے جب کے رائد وہیں بینچ پہ بیٹھا رو رہا تھا۔۔۔ اسکی ماں تکلیف میں تھی جس کا احساس رائد کو اپنے اندر ہو رہا تھا۔۔۔ پاس بیٹھی ملازمہ اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ اسکی سن ہی نہیں رہا تھا۔

آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھولتے ڈاکٹر باہر آئی تو اسکے ہاتھ میں سفید چادر میں لپٹی چھوٹی سی بچی تھی۔۔۔ جسے دیکھتے رائد جلدی سے انکے پاس آیا۔

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔ اسنے تراب خان کی جانب بچی کو بڑھایا مگر وہ ہاتھ کمر پہ باندھے لاتعلق سے کھڑے رہے۔۔۔ یہاں تک کے انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک نظر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔۔۔ بس گردن سے ملازمہ کو آنے کا اشارہ کیا جو انکا اشارہ سمجھتی فورن آگے آئی تھی۔

میری بہن کو مجھے دے دیں۔۔۔ رائد نے معصومیت سے ہاتھ آگے بڑھا۔

نہیں رائد۔۔۔۔ تم لو۔۔۔ رائد کو منا کرتے انہوں نے ملازمہ سے کہا تو وہ احتیاط سے بچی کو تھام گئی جب کے ڈاکٹر نے عجیب نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔ کیسا باپ تاج وہ جو اپنی بچی کو ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔جب کے رائد بیچارہ اس معصوم کو دیکھتا رہ گیا

ڈاکٹر میری بیوی کیسی ہے۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں پوچھنے لگے۔

ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔۔۔ انکی حالت کافی کرٹیکل ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا تو وہ محض سر ہلا کے رہ گئے۔

کچھ ہی وقت گزرا تھا جب ڈاکٹر پھر باہر آئی مگر اس بار اسکے چہرے پہ آفسردگی چھائی تھی۔

ڈاکٹر کو دیکھتے رائد جو ملازمہ کی گود میں سوئی ہوئی بچی کو دیکھ رہا تھا جلدی سے انکے پاس گیا۔

ائی ایم سوری۔۔۔ ہم نے انہیں بچانے کی بہت کوشش کی مگر جو اللہ کو منظور۔۔۔ ڈاکٹر رائد کے سر پہ ہاتھ پھرتی وہاں سے نکل گئیں۔

بابا کیا ہوا ماما کو۔۔۔ رائد نے اپنے باپ کا ہاتھ ہلایا جو شاید صدمے میں کھڑے تھے۔

تمہاری ماما اب کبھی واپس نہیں آئے گی وہ ہمیں چھوڑ کے ہمشیہ کے لیئے جا چکی ہیں۔۔۔ تراب خان اسے اپنے ساتھ لگائے دکھ سے بولے۔۔۔ تو رائد کی آنکھوں میں لبا لب پانی بھر گیا۔۔۔ وہ جتنا اپنی ماں سے محبت کرتا تھا اور کسی سے نہیں کرتا تھا مگر آج اسکی ماں اسے اکیلا چھوڑ کے چلی گئی تھی۔۔۔ کس کی وجہ سے۔۔۔ 

اچانک اسکے دل سے آواز آئی تمہارے باپ کی وجہ سے۔۔۔ مگر رائد اس وقت اتنے صدمے میں تھا کہ وہ کچھ سن ہی نہیں رہا تھا بس خاموشی سے آنسوں بہاتا رہا۔

لیکن جیسے ہی اس ننی سی جان نے رونا شروع کیا رائد خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے اسکی جانب بڑھا اور چٹاچٹ اس چھوٹی سی پری کو پیار کرنے لگا۔۔۔ آخر وہ اسکی بہن تھی اسکی ماں کی آخری نشانی۔۔۔ اور اسنے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی بہن کا بہت خیال رکھے گا۔

تدفین کل ظہر میں تھی تو تراب خان رائد کو اور بچی کو لیئے حویلی آگئے تھے۔۔۔ وہ بچی کو لانا تو نہیں چاہتے تھے مگر رائد کی وجہ سے لانا پڑا تھا۔۔۔ بچی بہت رو رہی تھی جسے ملازمہ سمبھال رہی تھی۔۔۔ ایک دو بار جب تراب خان حویلی میں نہیں تھے تب رائد نے بھی اسے سمبھالا تھا اسے گود میں لے کے خوب رویا تھا۔۔۔ اسے بہت پیار کیا تھا۔۔۔ مگر جب تراب خان حویلی میں ہوتے تھے تو وہ رائد کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے۔۔۔ اسے زیادہ بچی کے قریب نہیں جانے دیتے تھے۔

تراب خان نے رات میں بھی رائد کو اپنے ساتھ سلایا تھا اسکے بہت ضد کرنے کے باوجود بھی انہوں نے اسے بچی کے پاس نا جانے دیا تھا۔۔۔ مگر اگلی صبح جو ہوا وہ رائد کے لیئے کسی قیامت سے کم نا تھا۔

ڈاکٹر نے بچی کے لیئے جو دودھ لکھ کے دیا تھا ان پڑھ ملازمہ نے اسکی مقدار سے چار گنا زیادہ ڈال کے بچی کو پلادیا تھا۔۔۔ وہ بچی پہلے ہی بہت کمزور تھی اور ایسے میں ضرورت سے زیادہ فارمولا مِلک پلانا اس چھوٹی سی بچی کو نقصان دے گیا اور وہ ننی سی جان سوتی کی سوتی رہ گئی۔

یا شاید اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس ظا+لم دنیا میں اسکا خیال رکھنے کے لیئے کوئی موجود نہیں ہے جبھی وہ بھی چھپکے سے اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔

حویلی میں اس وقت سوگ کا سما تھا۔۔۔ ماں بیٹی کا جنازہ ایک ساتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔ جس کے پاس رائد کھڑا تھا۔۔۔ وہ ایک دم خاموش ہو گیا تھا بلکل خاموش ۔۔۔ بس اسکی آنکھوں میں نمی تھی مگر وہ رو نہیں رہا تھا۔۔۔ بس خاموشی سے کھڑا اپنی ماں اور بہن کو دیکھ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد ہی جنازہ اٹھانے کا ٹائم ہوگیا۔۔۔ جب تک ان دونوں کو من و مٹی تلے لٹانا دیا رائد ان کے ساتھ ہی رہا ۔۔۔ جیسے ہی انہیں دفن کر دیا رائد خاموشی سے قبرستان سے نکلتا گاڑی میں جاکے بیٹھ گا۔۔۔

اسکی ماں اور بہن جا چکیں تھی۔۔۔وہ اپنی ماں سے کیا گیا وعدہ نہیں نبھاپایا اپنی بہن کا خیال نہیں رکھ سکا۔۔۔اسکی حفاظت نہیں کر سکا تھا۔۔۔ وہ چھوٹا بچہ اندر سے پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا۔

خدیجہ بیگم کو گئے دو دن ہو چکے تھے۔۔۔ ان دو دنوں میں رائد ایک لفظ نہیں بولا تھا۔۔۔ تراب خان اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کرتے مگر وہ بلکل خاموش ہوگیا تھا بس سارا سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھا اپنی ماں کی تصویر کو دیکھتا رہتا۔۔۔ اس ننی سی جان کا سوچتا رہتا جس کی ایک بھی تصویر اسکے پاس نہیں تھی مگر ایک ہی دن میں اسکا چہرہ رائد کے دل میں بس گیا تھا۔

جب زیادہ دل بھر جاتا تو ماں کی تصویر کو سینے سے لگائے رو دیتا۔۔۔ مگر صرف اکیلے میں ۔۔۔ وہ کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں رویا تھا ۔۔۔ ماں کے جانے کے بعد جیسے رائد نے خود کو ایک خول میں بند کر لیا تھا۔

اسے اب بھی رہ رہ کے وہ آخری دن یاد آرہا تھا جب اسکے ماں باپ لڑ رہے تھے اسکے بابا نے اسکی ماں کو مارا تھا جس وجہ سے وہ گریں تھی اور پھر اس سے ہمیشہ کے لیئے دور ہوگئیں۔

اسکے دل میں اپنے باپ کے لیئے جو پیار تھا وہ تو اسہی دن ختم ہوگیا تھا جس دن اسکی ماں کا جنازہ اسکی انکھوں کے سامنے رکھا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی وہ ان سے نفرت نہیں کر پایا۔۔۔ اسکی ماں نے اسے کسی سے نفرت کرنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔ بس یہی وجہ تھی کہ وہ ان سے نفرت نہیں کر پارہا تھا ۔۔۔ اسے ان سے اب کوئی محبت نا تھی مگر نفرت بھی نہیں تھی اسکے دل سے جیسے انکے لیئے ہر جذبہ ختم ہوگیا تھا۔

بڑے خان آپ کو خان صاحب بلا رہے ہیں۔۔۔ وہ اب بھی اپنے کمرے میں بیٹھا خدیجہ بیگم کی تصویر دیکھ رہا تھا جب ملازمہ دروازہ بجا کے کمرے میں داخل ہوتی بولی تو وہ محض سر ہلا گیا۔

تصویر ایک جانب رکھتے وہ کمرے سے باہر نکلا تو ہال میں تراب خان بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ انکے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔۔

وہ خاموشی سے جا کے انکے سامنے کھڑا ہوگیا۔

رائد میری جان کیسے ہو بیٹا۔۔۔ تراب خان بہت ہی پیار سے اسکا ماتھا چوم کے بولے مگر وہ سپاٹ چہرہ لیئے کھڑا رہا۔۔۔۔ اسے خاموش دیکھتے تراب خان نے بات جاری رکھی۔

دیکھو بیٹا تمہاری ماں اب جا چکی ہے وہ اب واپس تو نہیں آئے گی۔۔۔ اور تم ابھی چھوٹے ہو تمہیں ایک ماں کی ضرورت ہے اس لیئے میں نے دوسری شادی کی ہے۔۔۔ یہ نور ہے اب سے یہی تمہاری ماں ہے۔۔۔ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھی نور بیگم کی جانب اشارہ کیا تو رائد نے بےیقینی سے پہلے اپنے باپ کو اور پھر نور بیگم کو دیکھا۔

اسے یقین نہیں آرہا تھا کے ابھی اسکی ماں کو گئے دن ہی کتنے ہوئے تھے جو اسکا باپ ایک دوسری عورت کو بیاہ کے لے آیا تھا۔

ماما کو گئے ابھی صرف دو دن ہوئے ہیں اور آپ ان کی جگہ کسی اور عورت کو لے آئے۔۔۔ رائد کا لہجہ دکھ سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ وہ سات سالہ لڑکا آج اپنی عمر سے بہت بڑھا ہوگیا تھا۔

یہ دوسری عورت نہیں ہے رائد میری بیوی ہے اور تمہاری ماں۔۔۔ تراب خان نرمی سے سمجھاتے اسکے گال پہ ہاتھ رکھنے لگے تو وہ ایک جھٹکے سے انکا ہاتھ دور کرتا دو قدم پیچھے ہوا

میری ماں کی جگہ کوئی دوسری عورت نہیں لے سکتی یہ صرف آپ کی بیوی ہیں انکا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔ وہ چیخ کے کہتا اپنے کمرے میں بھاگ گیا۔۔۔ تو تراب خان گہری سانس بھر کے رہ گئے۔

رائد اپنی ماں سے بہت پیار کرتا ہے نور۔۔۔ مگر اب تم نے اسکے دل سے اسکی ماں کا پیار نکال کے اپنی جگہ بنانی ہے سمجھیں۔۔۔ تراب خان اٹھتے ہوئے نور بیگم سے بولے جب کے وہ تو اتنے سے بچی کی اتنی بڑی بڑی باتیں سن کے پریشان ہوگئیں تھیں۔۔۔ انہیں اس بچے کا بچپن صاف چھنتا نظر آرہا تھا۔

تراب خان انہیں اپنے ساتھ آنے کا کہتے آگے بڑھ گئے تو وہ بھی اضطراب میں اٹھتی انکے پیچھے بڑھ گئیں۔

انکے دماغ میں تراب خان کی بات چل رہی تھی۔۔۔ وہ کیسے ایک اولاد کے دل سے اسکی ماں کا پیار نکال سکتیں ہیں۔۔۔ کسی کا پیار دل سے نکالا تو نہیں جاتا ہاں مگر اپنی جگہ ضرورت بنائی جاتی ہے جس کی وہ پوری کوشش کرنے والی تھیں۔

۔🌺 🌺 🌺

ٹھک ٹھک۔۔۔۔

 رائد بیٹا کیا میں اندر آجاؤ۔۔۔ دروازے پہ دستک دیتی وہ دہلیز پہ کھڑی بیڈ پہ اپنی کتابیں پھیلائے بیٹھے رائد سے پوچھنے لگیں۔

نہیں۔۔۔ اسنے بغیر کتابوں سے سر اٹھائے سپاٹ لہجے میں کہا تو نور بیگم مایوس ہوگئیں مگر  پھر خود ہی چہرے پہ بڑی سی مسکراہٹ سجائے اندر داخل ہوئی۔۔۔

انکے ہاتھ میں کھانے سے بھری ٹرے تھی جسے انہوں نے بیڈ پہ ہی رائد کے سامنے رکھی ۔

مجھے ملازمہ بتارہی تھی آپ نے صرف صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے اور آپ رات کو کھانے پہ بھی نہیں ائے۔۔۔ آپکے بابا آپ کو بلانے بھی آئے تھے مگر جب آپ سو رہے تھے ۔۔۔ لیکن اب میں نے آپ کے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی تو  سوچا آپ کے لیئے کھانا لے آؤ بھوک لگی ہوگی نا آپ کو۔۔۔ وہ بہت نرمی و پیار سے کہتی اس کے لیئے روٹی توڑنے لگیں چاول میں چمچہ لگانے لگیں۔۔۔ ایک پلیٹ میں کباب رکھتے اسکے آگے کرنے لگی مگر رائد نے ٹرے پیچھے دھکیل دی۔

مجھے کچھ نہیں کھانا آپ یہاں سے جا سکتی ہیں۔۔۔ رائد بےرخی سے بولا تو نور بیگم کے جگ سے پانی بھرتے ہاتھ تھمے۔

انہوں نے ایک نظر سنجیدہ بیٹھے رائد پہ ڈالی اور پھر اسکے برابر میں رکھا فوٹو فریم اٹھا لیا جس میں خدیجہ بیگم کی تصویر تھی۔

یہ آپ کی ماما ہیں نا۔۔۔۔

بہت پیاری ہیں۔۔۔ آپکی آنکھیں تو بلکل آپکی ماما کی طرح ہے ڈارک براؤن ۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے تصویر کو دیکھ کے بولی مگر اگلے ہی پل رائد نے انکے ہاتھ سے فریم چھین لیا

میں نے اپنی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت آپ کو بلکل نہیں دی ہے۔۔۔ اس لیئے آپ یہاں سے چلی جائیں۔۔۔ وہ تصویر اپنے سینے سے لگائے تمیز کے دائرے میں رہ کے بولا۔

اسکی ماں نے اسے بڑوں سے بدتمیزی کرنا نہیں سکھائی تھی مگر اسکا لہجہ خود با خود ہی تلخ ہو رہا تھا۔

رائد بیٹا میں یہاں آپکی ماما کی جگہ ہرگز لے نے نہیں آئی۔۔ انکی جو جگہ ہے وہی رہے گی۔۔۔ میں تو بس آپ کی ماما کی طرح آپ سے پیار کرنے آئی ہوں۔۔۔آپ کی ماں بن کے اپکا خیال رکھوں گی۔۔ وہ دھیرے سے کہتی اسکے سر پہ ہاتھ پھیرنے ہی لگیں تھی کہ رائد نے اپنا سر پیچھے کر لیا۔

میری ماما اس دنیا سے جا چکی ہیں اور ان کے بعد کوئی میری ماما نہیں بن سکتا ۔۔۔ آپ کا رشتہ صرف بابا سے ہے تو کوشش کرے گا کہ مجھ سے دور رہیں۔۔۔ میری ماما نے مجھے بڑوں کا ادب کرنا سکھایا ہے ۔۔۔ مگر مجھے ایسا الگ رہا ہے جیسے میں ادب کرنا بھول جاؤ گا اس لیئے آپ دور رہا کریں مجھ سے۔۔۔ وہ دھیرے مگر بےتاثر انداز میں کہتا فریم لیئے اٹھ کے بالکونی میں چلا گیا 

نور بیگم نے دکھ سے اسکی پشت کو دیکھا۔۔۔ انہیں اسکا لہجہ اسکا انداز کچھ برا نہیں لگا تھا۔۔۔ رائد کا ایسا ریئکٹ کرنا نارمل تھا ۔۔۔ کوئی بھی بچہ اتنی جلدی اپنی ماں کی جگہ کسی اور عورت کو نہیں دے سکتا۔۔۔ مگر وہ رائد کے دل میں جلد جگہ بنالیں گی یہ انہیں یقین تھا مگر انکا یہ یقین صرف یقین ہی رہ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

دن گزرتے گئے مگر رائد کا رویہ ٹھیک نا ہوا۔۔۔ تراب خان نور بیگم دونوں ہی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر وہ کسی سے باپ نہیں کرتا تھا۔

نور بیگم آگر اسے پیار سے کچھ کہتی بھی تھیں تو وہ انہیں اگنور کردیتا تھا۔۔۔۔

ماں کے بغیر اسے یہ حویلی اب کاٹنے کو دوڑتی تھی۔۔۔ جس وجہ سے اسنے تراب خان سے باہر جا کے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کا کہا تھا جس پہ تراب خان نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔۔۔ وہ تق چاہتے تھے کہ وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہو اور اپنی ماں کی یاد سے باہر نکلے۔۔۔ اس لیئے اسے یو کے بھیجنے کا انتظام کر دیا تھا۔

آج اسکی سالگرہ تھی اور کل اسے یو کے کے لیئے نکلنا تھا۔۔۔ ہر سال اسکی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔۔۔ آخر وہ تراب خان کا اکلوتا بیٹا تھا انکا وارث تھا جس کی سالگرہ میں وہ کوئی کمی نہیں چھوڑتے تھے۔

وہ اپنے کمرے سے نکلا تو تراب خان ملازموں کو کچھ سمجھتا رہے تھے جب کے آدھے ملازم حویلی کی سجاوٹ میں مصروف تھے۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہ ہال کے بیچ میں کھڑا ہوتا سنجیدگی سے استفسار کرنے لگا تو سب اسکی جانب متوجہ ہوئے 

کیا تم بھول گئے آج تمہاری سالگرہ ہے۔۔۔۔ اور ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم اپنے بیٹے کی سالگرہ بہت شاندار طریقے سے منائیں گے۔۔۔ تراب خان اسکو کندھے سے تھامے جوش سے بولے۔

ہر سال کی طرح اس سال میری ماں نہیں ہے۔۔۔تو سالگرہ منانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ رائد ہاتھ باندھے کھڑا آہستہ سے بولا۔

رائد مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔۔۔ مر گئی ہے تمہاری ماں ۔۔۔ چھوڑ دو اسکا پیچھا۔۔۔ یہاں تمہارا باپ جو زندہ ہے جو تمہاری خوشیاں دیکھنا چاہتا ہے تم کیوں اسے خوش نہیں رہنے دے رہے ہو۔۔۔ کیوں اسے اپنے رویہ سے تکلیف دے رہے ہو۔۔۔ تراب خان بےبسی اور غصے کے ملے جھلے انداز میں بولے تو رائد کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ اگئی۔

آپ کو اپنی تکلیف نظر آرہی ہے مگر میری ماں پہ ہاتھ اٹھا نے سے پہلے آپ بھول گئے تھے کہ انکی طعبیت خراب ہے۔۔۔ رائد طنزیہ بولا تو انہوں نے لب بھیچے۔۔۔ 

وہاں موجود سارے ملازم ایسے بن گئے تھے جیسے وہاں موجود ہی نا ہوں۔۔۔ ہوئی بھی انکی جانب نہیں دیکھ رہا تھا مگر سب کے کان وہیں لگے ہوئے تھے 

رائد وہ سب غصے میں ہوا تھا۔۔۔ 

اور کیا تم نے سنا نہیں تھا تمہاری ماں کیا کہہ رہی تھی۔۔۔ وہ مجھ سے اونچی آواز میں بات کر رہی تھی۔۔۔ وہ

وہ اپنی بیٹی کی جان کے لیئے آواز اونچی کر رہیں تھیں۔۔۔ وہ اسکو سمجھا ہی رہی تھی جب ہی رائد انکی بات کاٹتے بےحد سرد لہجے میں بولا۔

کچن سے آتی نور بیگم کے قدم رائد کی بات سنتے سست پڑے تھے۔۔۔ وہ آٹھ سال کا بچہ تو نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کوئی اٹھائیس سال کا جوان مرد ہو۔۔۔

رائد وہ لڑکی تھی جس کی وجہ سے تمہاری ماں میرے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ اس کے لیئے جو ابھی دنیا میں آئی ہی نہیں تھی تمہاری ماں اس کے لیئے مجھ سے بدتمیزی کر رہی تھی۔۔۔ اس منحو۔۔۔

بابا۔۔۔ میں اپنی بہن کے خلاف ایک لفظ نہیں سنوں گا۔۔۔۔ غصے سے چیختے رائد نے انکی بات کانٹی تو وہ سر جھٹک گئے۔

میں جانتا ہوں یہ سب تمہیں تمہاری ماں نے سکھایا ہے۔۔۔۔اور بھی ناجانے اس عورت نے تمہیں کیا سکھا رکھا ہے۔۔۔ اسنے میرے بیٹے کو میرے خلاف گیا ہے اسکے دماغ میں اس لڑکی کا نا جانے ایسا کون سا بھوت بھر دیا ہے جس وجہ سے تم اپنی بہن کی سائڈ لیتے مجھ سے یعنی اپنے باپ سے اونچی آواز میں بات کر رہے ہو۔۔۔۔ اچھا ہے وہ پہلے ہی اس دنیا سے چلی گئی ورنا میں خود اسکا گلا دباتا۔۔۔ تراب خان غصہ ضبط کرتے دانت پیس کے نخوت سے اس چھوٹی سی جان کا ذکر کر رہے تھے جس نے ٹھیک سے آنکھ بھی نہیں کھولی تھی اور وہ ہمیشہ کے لیئے سوگئی تھی۔

انکی باتیں سن کے رائد کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا جب کے نور بیگم تراب خان کے منہ سے اپنی ہی بیٹی کے لیئے ایسی باتیں سن کے ششدر رہ گ ہیں تھی۔

میری ماں اور بہن کی موت کے ذمیدار آپ ہیں۔۔۔ میں نے اتنے دنوں سے آپ سے نفرت کرنے کی بہت کوشش کی مگر میری ماں کی تربیت مجھے روکتی رہی مگر آج جو آپ نے میری ماں اور معصوم بہن کے بارے میں بولا ہے اس کے بعد مجھے آپ سے نفرت ہوگئی ہے شدید نفرت۔۔۔ رائد لال سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے بولا۔۔۔ اسکے لہجے میں کیا نا تھا دکھ افسوس غصہ غم جیسے وہاں موجود سب نے محسوس کیا تھا۔

رائد بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ اپنے جان سے عزیز بیٹے کے منہ سے خود کے لیئے نفرت کا اظہار سنتے تراب خان تڑپتے اسکی جانب بڑھے۔

آپ نے سنا نہیں نفرت کرنا ہوں میں آپ سے دور رہیں مجھ سے۔۔۔ رائد پوری قوت سے دھاڑتا اپنے کمرے میں بھاگ گیا ۔۔۔ پیچھے ہال میں ایک سناٹا چھا گیا موت کا سناٹا۔

ملازمین نور بیگم سب نے افسوس سے تراب خان کو دیکھا۔۔۔ وہ کیسے باپ تھے جو اتنے آرام سے اپنی بیٹی کے مرنے کی بات کر گئے تھے۔

مگر آج جو رائد نے کیا وہ نور بیگم کو بلکل ٹھیک لگا تھا وہ اسہی کے قابل تھے۔

نور بیگم سر تھامے صوفے پہ بیٹھے تراب خان کو دیکھتی واپس کچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔ انکے دل میں ایک ڈر بیٹھ گیا تھا کہ آگر انکو بھی بیٹی ہوئی تو تراب خان کیا اسکی بھی جان لے لیں گے۔۔۔ اور یہی پریشانی اب انہیں کھانے لگی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

صبح ہوئے ہنگامے کے بغیر حویلی بلکل خاموش تھی۔۔۔ تراب خان صبح کے نکلے ہوئے تھے مگر رات کے ایک بجے تک بھی حویلی نہیں لوٹے تھے۔۔۔ 

اگلے دن رائد کی صبح دس بجے کی فلائٹ تھی ۔۔۔ اور تراب خان دس بجے سے پہلے حویلی واپس آگئے تھے۔۔۔

رائد نے سارا سامنا رات میں ہی ملازمہ سے کہہ کر پیک کروا لیا تھا۔۔۔ مگر وہ کل سے ہی اپنے کمرے سے نہیں نکلا تھا۔

اور آج جاتے وقت اپنے باپ سے ملنا تو دور رائد نے ایک بار بھی انکی جانب نظر نہیں کی تھی۔۔۔ وہ اس سے بات کرتے اسکے قریب جا کے اسے گلے لگانے کی کوشش کرتے مگر اس سے پہلے ہی وہ گاڑی میں جا کے بیٹھ گیا۔

تراب خان اسے خود ائرپورٹ چھوڑنے گئے تھے۔۔۔ وہ اسے اپنے ایک دوست کے ساتھ بھیج رہے تھے جس کا سارا بزنس یو کے میں تھا۔۔۔ رائد وہاں جاکے ایک ہوسٹیل میں رہنے والا تھا ۔۔۔

ائرپورٹ پہ اترتے ہی تراب خان کے دوست انہیں مل گئے تھے۔۔۔ ان سے دعا سلام کے بعد انہوں نے رائد کا سامان انہیں دیا اور رائد سے ملنے اسکی جانب بڑھے۔۔۔ انہیں یقین تھا کہ ائرپورٹ میں سب کی موجودگی کے دوران رائد انہیں ملنے سے روکے گا نہیں مگر وہ غلط تھے۔

انکے اپنی جانب بڑھنے سے پہلے ہی رائد اندر کی جانب بڑھ گیا تو تراب خان دکھ سے اپنے بیٹے کو جاتا دیکھتے رہ گئے۔۔۔ نا جانے اب کب انہیں اسکی شکل دیکھنا نصیب ہوگی۔

۔🌺 🌺 🌺

حال!!!!!!

یو کے جانے کے بعد بھی میری ماں کی یادیں وہ آخری منظر جب میرے باپ نے میری ماں پہ ہاتھ اٹھایا تھا وہ میرے دماغ سے جا ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ میں بہت چڑچڑا ہوگیا تھا۔۔۔ جب میرے دوست مجھے ایک کلب لے کے گئے وہاں میں نے پہلی بار شراب پی تھی اور پھر جیسے اپنے ہوش کھوبیٹھا تھا۔۔۔ اسکے بعد میں پرانی یادوں کو مٹانے کے لیئے زور ہی شراب پینے لگا تھا۔۔۔ جس وجہ سے مجھے اسکی عادت لگ گئی۔۔۔۔ رائد گرل پہ ہاتھ ٹکائے آسمان کو دیکھتے بولا۔

آئلہ اسکا بازو پکڑے اسکے کندھے پہ سر رکھے اسے سن رہی تھی۔۔۔ اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ تراب خان کا اتنا بھیانک چہرہ بھی ہو سکتا ہے۔

میں وہاں سے کبھی واپس نہیں آنا چاہتا تھا مگر میری ماں کی یاد مجھے حویلی کی جانب کھینچتی تھی۔۔۔ حویلی کے ہر کونے سے مجھے آج تک اپنی ماں کی خوشبو آتی ہے ۔۔۔ بس اسہی خوشبو کے ہاتھوں مجبور ہوکے میں واپس آیا تھا۔۔۔۔ ورنا اس دن کے بعد سے مجھے اپنے باپ کی شکل دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا آنکھوں میں آئے آنسوں کو اندر اتارنے لگا۔

جاناں تمہیں پتہ ہے آگر ماما یہاں ہوتیں تو وہ تمہیں دیکھ کے کتنی خوش ہوتیں۔۔۔ انکی بہو بلکل انکے جیسی ہے ان کے بیٹے کو ہر سہی غلط بتاتی ہے یہ دیکھ کے انہیں کتنا اچھا لگتا۔

آگر آج وہ یہاں ہوتیں تو یقیناً ایک بہت اچھی ساس بنتیں۔۔۔ اور اپنی بہو کے بھی سارے ارمان پورے کرتیں جیسے کہ اپنے زیور دینا، گھر کی زمیداریاں۔۔ اپنے سارے کام اسکے کندھوں پہ ڈال کے خود ریٹائر ہوجاتا۔۔۔ تمہیں سمجھانا۔۔۔ وہ نم ہوتی آنکھوں سے کندھے پہ رکھے اسکے سر کو دیکھتے مسکراتے لہجے میں بولا۔

یقیناً​ وہ یہاں ہوتیں تو ہماری ان سے ل اچھی دوستی ہو جاتی مگر نور ماما بھی بہت اچھی ہیں۔۔۔ وہ بھی ہمیں سمجھاتی ہیں۔۔۔ جیسے ایک ساس اپنی بہو کو اپنے زیور دیتی ہے ویسے ہی انہوں نے بھی مجھے دیئے ہیں۔۔۔ آئلہ ویسے ہی اسکے کندھے پہ سر رکھے نرمی سے بولی تو رائد لب بھیج گیا مگر کہا کچھ نہیں۔

اس سب میں ماما کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔ وہ تو کچھ جانتی ہی نہیں تھی تب اس بارے میں اور نوال اور جزلان بھائی اس سب میں انکا بھی کوئی قصور نہیں ہے غلطی بابا نے کی ہے جس کی سزا آپ باقی تین لوگوں کو کیوں دے رہے ہیں۔۔۔ آئلہ اسکے کندھے سے سر اٹھاتی پیار سے کہنے لگی تو رائد نے خالی نظروں سے اسے دیکھا۔

آپ نے اپنی ماما سے وعدہ تھا نا کہ آپ اپنی بہن کا خیال رکھیں گے تو نوال بھی تو آپکی ہی بہن ہے نا سگی نا سہی لیکن ہے تو آپ لوگوں کا ہی خون۔۔۔ آپ اسکا خیال رکھ کے بھی تو اپنی ماما سے کیا گیا وعدہ پورا کر سکتے ہیں۔۔۔ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں ان لوگوں کی تو کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔ آپ پھر ان سے کیوں بےرخی برتے ہیں۔

ہم نے بہت بار نوال کے لہجے میں دکھ محسوس کیا ہے۔۔۔ وہ بھی چاہتی ہے کہ اسے بھی باپ بھائیوں کا پیار ملے ۔۔۔۔ مگر جیسے آپ نے بتایا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ نوال کو کبھی بابا نے پیار نہیں گیا وہ بیچاری ترستی ہے اپنوں کے پیار کے لیئے۔۔۔ 

رائد پلیز آپ نوال کو تو اسکا حق دے دیں ایک بھائی کا ماں دے دیں ہم نہیں جانتے کہ جزلان بھائی اس سے پیار کرتے ہیں یا نہیں،،، اسے وہ ماں دیتے ہیں یا نہیں مگر آپ اسکے ساتھ اتنی ناانصافی نا کریں ۔۔۔۔ آپ کی ماما بھی آپ کو دیکھتی ہوں گی تو انہیں بھی دکھ ہوتا ہوگا کہ وہ آپ کو کیا چھوڑ کے گئیں تھی اور آپ کیا بن گئے ہیں۔۔۔

ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپ بابا کو معاف کردیں آنکھوں نے جو کچھ کیا ہے بہت غلط کیا ہے مگر اس میں جزلان بھائی نوال اور ماما تو شامل نہیں تھیں نا وہ تو بےقصور ہیں پھر آپ کیوں اپنے لہجے سے انہیں دکھ پہنچا رہے ہیں۔۔۔

رائد ہم آپکی بیوی ہیں آپ کو اچھا برا سمجھانا ہمارا کام ہے ۔۔۔ باقی آپ کی مرضی ہے آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔ آپ بڑے ہیں ساری باتیں  رشتوں کی نزاکتیں اچھے سے سمجھتے ہیں۔۔۔  گرل پہ رکھے اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتی بولی تو رائد گہری سانس بھر کے اسکی جانب متوجہ ہوا۔

آئلہ کی باتیں سہں تھی مگر وہ فلحال کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔۔۔۔ ماضی سوچتے اسکی آنکھوں کے سامنے زمین پہ پڑی تڑپتی ہوئی ماں آجاتی۔۔۔ جس وجہ سے اسکا دماغ ابھی کچھ سوچنے سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں تھا۔

آئلہ مجھے اس وقت سکون چاہئے۔۔۔ ماضی کی اذیتوں نے مجھے تھکا دیا ہے ۔۔۔ میرے اعصاب بری طرح سے الجھ چکے ہیں اور انہیں صرف تم ہی ٹھیک کر سکتی ہو میری تھکن صرف تم ہی اتار سکتی ہو۔۔۔

میں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ کبھی شراب نہیں پیوں گا مگر مجھے اس وقت نشے کی سخت ضرورت ہے اور میری یہ ضرورت صرف تم ہی ختم کر سکتی ہو۔۔۔. رائد اسکو کمر سے تھامے اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائےتھکے ہارے انداز میں بولا تو آئلہ اسکی بات سمجھتی اپنا حصار اسکے گرد باندھتی اسکے سینے پہ سر ٹھکا گئی۔

چاند کی چاندنی ایک بار جیسے پھر کھل اٹھی تھی ستاروں کی روشنی جیسے تیز ہوگئی تھی آسماں جیسے مسکرا رہا تھا ان دونوں کو دیکھ کے۔

رات کے اٹھ بج رہے تھے ایمل کچن میں کھڑی روٹیاں بنا رہی تھی جب کے دیار صاحب لاؤنچ میں بیٹھے کچھ حصاب کتاب میں مصروف تھے ۔۔۔ جب دروازے کی گھنٹی بجی۔

دیار صاحب کام چھوڑ کے دروازے کھولنے گئے۔

ارے عمر تم آؤ نا۔۔۔ دیار صاحب نے اپنے دوست کے بیٹے کو دیکھتے خوش آمدید کہا۔

وہ کچھ دن پہلے ہی ایمل کا نکاح طے کر چکے تھے۔۔۔ اور ساتھ انہوں نے یہ بھی کہ دیا تھا کہ ایمل کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی وہ رخصتی کریں گے جس پہ انکے دوست کو کوئی اعتراض نا تھا۔

اسلام و علیکم انکل کیسے ہیں آپ۔۔۔ عمر شائستگی سے پوچھتا اندر آیا۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا آؤ ۔۔۔ دیار صاحب اسے لیئے اندر بڑھ گئے۔

تم بیٹھو میں زرا ایمل کو بتادوں کہ تم آئے ہو۔۔۔ دیار صاحب اسے بیٹھنے کا کہتے جاتے لگے جب اسنے روک لیا۔

انکل پہلے مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔۔۔  عمر قدرے ہچکچاتے ہوئے بولا۔

ہاں بول۔۔۔ وہ پوری توجہ سے اسکی جانب متوجہ ہوئے۔

انکل جمعے کو ہمارا نکاح ہے میں چاہتا ہوں کہ نکاح کا سوٹ میں خود ایمل کو اپنے ساتھ لے جا کے دلواؤں تو آگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں اسے لے جا سکتا ہوں۔۔۔ عمر نے ہاتھ باندھے انتہائی مؤدب انداز میں اجازت مانگی۔۔۔ تو وہ سوچ میں پڑھ گئے۔

دیکھو بیٹا تم اپنے ہو مگر پہلے میں ایمل سے پوچھوں گا آگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔ دیار صاحب اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے مسکراتے لہجے میں بولے تو وہ بھی مسکراتے ہوئے انکی بات سمجھتے ہاں میں سر ہلا گیا۔

اسے بیٹھنے کا کہتے دیار صاحب کچن کی جانب بڑھ گئے۔

ایمل۔۔۔۔۔۔ایمل روٹی بیلتی ساتھ میں توے پہ رکھی روٹی دیکھتی جا رہی تھی۔۔۔ جب اسے دیار صاحب نے پکاہ

جی بابا۔۔۔ وہ مصروف سے انداز میں روٹی سیکتی ایک نظر انہیں دیکھتی واپس نظریں روٹی کی جانب کر گئی۔

عمر آیا ہے وہ تمہیں اپنے ساتھ نکاح کا جوڑا دلانے لے کے جانا چاہتا ہے۔۔۔۔ دیار صاحب رسان سے بولے۔

پھر آپ نے کیا کہا۔۔۔ وہ روٹی سیک کے دوسری روٹی توے پہ ڈالنے لگی۔

میں نے سب کچھ آپ پہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔ آگر آپ جانا چاہتی ہو تو بتا دو ورنا میں منا کردوں گا۔۔۔۔ دیار صاحب نے فیصلہ اس پہ چھوڑ دیا۔

چن پل اپنے کام میں لگی سوچتی رہی ۔۔۔۔ اسکا دل تو نہیں تھا جانے کا مگر وہ بابا کے دوست کا بیٹا تھا آگر وہ ساتھ نا جاتی تو بابا کے دوست کیا سوچیں گے کہ ہمیں انکے بیٹے پہ بھروسہ ہی نہیں تھا تبھی میں اسکے ساتھ نہیں گئی ۔۔۔ اور یہی سوچتے اسنے جانے کی ہامی بھر لی۔

ٹھیک ہے بابا یہ روٹیاں بن گئیں ہیں بس دو بچی ہیں میں یہ بنا لوں پھر چلی جاتی ہوں۔۔۔ وہ بغیر انہیں دیکھے اپنے کام میں لگی رہی تو وہ بھی ٹھیک ہے کہتے باہر نکل گئے۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ اسنے جانے کے لیئے ہامی بھر کے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے۔۔۔ مگر اب کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

گاڑی میں اس وقت مکمل خاموشی تھی ۔۔۔ وہ عمر کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر اسکا دل کافی عجیب ہو رہا تھا۔۔۔ عمر ہر دو منٹ بعد اس سے کچھ نا کچھ بات کرتا جس کا وہ صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی باہر دیکھنے لگ جاتی۔

مال جانے والے راستے کی وجہ گاڑی کسی اور ہی روڑ پہ جاتے دیکھ ایمل ایک دم چونکی۔

یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔۔۔۔ وہ ڈرے بغیر ادھر ادھر دیکھی پوچھنے لگی جہاں اب جنگل شروع ہو رہا تھا۔

بہت جلد پتہ چل جائے گا ڈیئر۔۔۔ عمر سکون سے کہتا گاڑی کی اسپیڈ بڑھا کیا تو ایمل کو شدت سے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

عمر گاڑی روکو۔۔۔ وہ مضبوط لہجے میں سنجیدگی سے بولی۔

اب تو یہ گاڑی اپنی منزل پہ جا کے ہی رکے گئی۔۔۔ عمر کے چہرہ پہ پراسرار مسکراہٹ پھیلی جس سے پل بھر میں ایمل کو خطرے کا احساس ہو گیا۔

آگر تم نے گاڑی نہیں روکی تو میں چلتی گاڑی سے گود جاؤں گی۔۔۔۔ ایمل نے سختی سے وارن کیا مگر عمر بغیر اسکی بات کا کوئی اثر لیئے مسکراتے ہوئے ڈرائیو کرتا رہا۔

ایمل نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولنا چاہا مگر عمر اسے لوک کر چکا تھا۔۔۔۔

دروازے کو نا کھلتے دیکھ ایمل کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا مگر اسے اس وقت کمزور نہیں  پڑھنا تھا اسے اپنی حفاظت خود کرنی تھی۔

ایمل نے جلدی سے آگے بڑھ کے اسٹیرنگ کو گھمانا شروع کر دیا جس سے گاڑی ڈس بیلنس ہوئی۔

عمر نے فورن بریک ماری اور ایمل کو ایک جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا۔

کیوں اتنا پھڑپھڑا رہی ہو سکون سے بیٹھ نہیں سکتیں کیوں چاہتی ہو کے میں تمہارے ساتھ وہ سب ابھی کروں جو میں کچھ دیر بعد کرنے والا تھا۔۔۔ کمینگی سے کہی عمر کی بات سنتے ایمل کو آگ لگی۔۔۔ اسکا دل بڑی شدش سے کہا کہ سامنے بیٹھے شخص کا منہ نوچ لے۔۔۔ اور وہ ایسا کر بھی گزرتی آگر اسکے ہاتھ عمر کے ہاتھ میں قید نا ہوتے۔

ذلیل انسان۔۔۔ اسنے اپنا پورا زور لگا کے اسکے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھوں کو اسکے سینے پہ رکھتے پیچھے دھکا دیا جس سے وہ گاڑی کے دروازے کے ساتھ جا لگا۔

بہت ہمت ہے تم میں ابھی تمہاری ساری ہمت نکالتا ہوں۔۔۔۔ وہ غصے سے کہتا اسکا بازو سختی سے دبوچتے اپنے قریب کرنے لگا۔

ایمل ہاتھ پاؤں چلاتی اس سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی اور اس ہی کھیچا تانی میں ایمل کی ایک آستین بازو سے پھٹ گئی۔

عمر اسے خود میں بھیجنے کی کوشش کر رہا تھا جب ایمل نے ہوش سے کام لیتے اسکے پیچھے موجود بٹن دبا کے گاڑی انلوک کی۔

اسکے بازو پہ زور سے نوچتی ایک ہاتھ پڑی مشکل سے اسکے لگے پہ لے جا کے اسکے گلے پہ دباؤ ڈالنے لگی تو عمر نے اسکا وہ ہاتھ پکڑتے اسکی کمر سے لگا دیا جس سے ایک تیز درد کی لہر اسکے بدن میں اٹھی۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیسے یہاں سے نکلے مگر اسے کسی بھی طرح اپنی عزت بچانی تھی۔۔۔ یہاں سے نکلنا تھا اور اسکے کے لیئے اسے اپنا دماغ حاظر رکھنا تھا۔

عمر اسکے چہرے پہ جھکنے ہی لگا تھا جب اسنے پورا زور لگاتے اپنا سر عمر کی ناک میں مارا جس سے عمر تڑپ اٹھا۔

آہ۔۔۔ عمر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ گیاجہاں سے اب خو+ن نکل رہا تھا۔۔ اور اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ایمل تیزی سے گاڑی سے اتری اور اندھا دھند خالی سڑک پہ بھاگنے لگی۔۔۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ سہی بھی جا رہی ہے یا نہیں۔۔۔ اسے تو بس کسی بھی طرح اپنی عزت کی حفاظت کرنی تھی تبھی وہ پیچھے دیکھے بغیر بس بھاگی جا رہی تھی۔

بھاگتے بھاگتے وہ کافی دور نکل آئی تھی جب تھوڑا سانس لینے کے لیئے ہنپتی کانٹی روڑ پہ ہی بیٹھ گئی۔

اسے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب اسے پیچھے سے کوئی روشنی اپنی جانب آتی دیکھائی دی۔۔۔۔ اسنے جلدی سے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک گاڑی اسہی طرف آرہی تھی مگر وہ عمر کی گاڑی نہیں تھی ۔۔۔وہ جلدی سے کھڑی ہوئی کہ شاید اسے کوئی لفٹ مل جائے۔

اس سے پہلے وہ گاڑی کو ہاتھ دے کے روکتی گاڑی خود ہی بڑے آرام سے اسکے سامنے رکی۔

می۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بھی کہتی گاڑی کا شیشہ نیچے ہوتے ہی جو شخص اسے انداز بیٹھا دیکھا تھا جس پہ ایک نفرت کی تیز لہر اسکے وجود میں ڈور گئی۔

مس ایمل۔۔۔ مائے سوئٹ کزن تم یہاں سنسان سڑک پہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ تم جیسی اتنی سمجھدار لڑکی کو کیا یہ پتہ نہیں ہے کہ اتنی رات کو اس طرح ایک لڑکی کا خالی جگہ پہ کھڑا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اور میرے چاچا جان وہ کتنے غیر ذمیدار ہیں جو جوان جہان لڑکی کو یوں ویرانیوں میں اکیلا بھیج دیا۔۔۔ جزلان خان تمسخرانہ انداز میں کہتا ایمل کو آگ لگا گیا۔

وہ بغیر کچھ بھی بولے آگے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔ جس پہ جزلان گہرا مسکراتے اسکے پیچھے گاڑی چلانے لگا۔

گاڑی میں بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں۔۔۔ جزلان کافی دوستانہ انداز میں اسکے ساتھ ساتھ گاڑی چلاتے بولا تو ایمل نے اپنے قدموں میں تیزی بھر لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پھر سے بھاگنے لگی۔

ابھی وہ ایک درندے سے بچ کے بھاگ رہی تھی تو وہ کیسے دوسرے اسہی کے جیسے انسان کے ساتھ جاسکتی تھی۔

تمہارے بابا کو ہارٹ اٹیک آیا ہے وہ اسپتال میں ہیں۔۔۔ دور سے آتی جزلان کی بلند آواز پہ ایمل کے بھاکتے قدموں کو بریک لگی۔۔۔ اسنے بےیقینی سے پیچھے مڑ کے دیکھا تو دو منٹ سے بھی کم وقت میں گاڑی پھر سے اسکے برابر میں آ کھڑی ہوئی تھی۔

ت۔۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ ایمل کو شک ہوا کہ جیسے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ ابھی ایک گھنٹے پہلے تو وہ انہیں بلکل ٹھیک چھوڑ کے آئی تھی اور اب یہ جزلان کیا کہہ رہا تھا۔

فون کر کے پوچھ لو۔۔۔ وہ لاپرواہی سے کندھے اچکائے سامنے دیکھنے لگا۔

ایمل نے جلدی سے بیگ میں سے فون نکالنا کے لیئے سائڈ پہ ہاتھ مارا جہاں اسنے بیگ ٹانگ رکھا تھا مگر اسکے پاس تو بیگ ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ عمر کی گاڑی سے اتنی ہڑبڑی میں نکلی تھی کہ اپنا بیگ بھی لینا بھول گئی تھی۔

مجھے تمہارا فون چاہے بابا کو فون کرنا ہے۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولی مگر جزلان کی نظریں اپنے کندھے پہ جمی دیکھتے جلدی سے دوپٹہ کندھوں پے پھیلا گئی۔

تمہاری طرح شہر میں اور بھی بہت سے جانور کھلے پھر رہے ہیں یہ انہیں میں سے ایک کیا ہوا ہے۔۔۔۔ایمل اسکی معنی خیز نظریں خود پہ دیکھتی نخوت سے سرد لہجے میں بولی جب کے جزلان نے اسکی بات کا برا منائے بغیر فون اسے تھما دیا۔

ایمل نے تیزی سے اپنے بابا کو کال کی مگر انکا فون بند جا رہا تھا ۔۔۔ ایک بار دو بار تین بار مگر سب بار ہی فون بند جا رہا تھا۔۔۔ 

وہ جزلان سے کبھی ہیلپ نہیں لے سکتی تھی۔۔۔ اسے جزلان پہ بلکل بھروسہ نہیں تھا۔۔۔۔ نا ہی جزلان کی باتوں پہ یقین تھا 

لیکن آگر یہ سب سچ ہوا تو اور واقع اسکے بابا کو ہارٹ اٹیک آیا ہوگا تو۔۔۔۔ بس یہی سوچ اسے بےبس کر رہی تھی۔

اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھتے جزلان زیر لب مسکراتا اسکے ہاتھ سے فون لیتے کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

مجھے چاچو کی بیٹی مل چکی ہے۔۔۔بابا میں آپ ویڈیو کال کر رہا ہوں ۔۔۔۔ وہ کیا ہے نا کہ چاچو کی بیٹی کو میری بات پہ یقین نہیں آرہا تو آپ اسے خود دیکھا دیں چاچو کی حالت۔۔۔ جزلان آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لیئے کھڑی ایمل کو دیکھتے بولا تو دوسری طرف سے اوکے کہتے ویڈیو کال ملائی گئی۔

دیکھو۔۔۔ جزلان نے فون اسکے سامنے کیا تو وہاں اسکے بابا مشینوں میں جکڑے بےسدھ لیٹے ہوئے تھے۔۔۔۔ وہ کچھ ہی وقت میں کتنے بیمار لگنے لگے تھے۔۔۔ کمزور جسم آنکھوں کے نیچے حلقے ۔۔۔ ایمل کو انکی حالت دیکھ کے رونا تو بہت آرہا تھا مگر وہ ان لوگوں کے سامنے خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیئے اندر ہی اندر آنسوں اتارتی رہی۔

دیار کی حالت بہت خراب ہے ڈاکٹرز نے بھی ابھی ٹھیک سے کوئی جواب نہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔بےہوشی کی حالت میں بھی دیار صرف تمہیں یاد کر رہا ہے ۔۔۔۔ تم جتنی جلدی ہو سکے جزلان کے ساتھ یہاں آجاؤ۔۔۔ دوسری طرف سے تراب خان نے کہتے فون کاٹ دیا ۔

چلو بیٹھ جاؤ ہمیں نکلنا ہے جلدی۔۔۔جزلان گاڑی اسٹارٹ کرتے نارمل سے لہجے میں بولا تو ایمل تذبذب کا شکار ہوگئی۔

اسکا دل اس شخص کے ساتھ جانے کے لیئے بلکل تیار نا تھا جس سے وہ بےانتہا نفرت کرتی ہے مگر دوسری طرف اسکے بابا زندگی اور موت کے بیچ جھول رہے تھے ۔۔۔ اور اس سنسان راستے پہ کوئی گاڑی آ جا بھی نہیں رہی تھی کہ وہ دوسری گاڑی سے لفٹ لے لیتی 

مگر کیا بھروسہ کے دوسری گاڑی میں بھی لوگ ایسے ہی ہوں۔۔۔ 

بیٹھ بھی جاؤ اب۔۔۔ اس سے ہاتھ مسلتے دیکھ جزلان تھورا سخت لہجے میں بولا تو وہ سر جھٹکتی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔ اسے اس وقت صرف اپنے بابا کے پاس پہنچنا تھا کیسے بھی کر کے۔

۔🌺 🌺 🌺

اسپتال کے باہر گاڑی رکتے ہی ایمل تیزی سے گاڑی سے اترتی اندر بھاگی تھی۔

پیچھے جزلان اسکی پشت کو دیکھتے پراسرار سا مسکرایا تھا

ریسیپشن سے پتہ پوچھتی وہ آئی سی یو میں پہنچی تو اسکے باہر ہی بینچ پہ اسکے تایا تراب خان بیٹھے تھے۔

با۔۔۔با۔۔۔کیسے ہ ہیں۔۔۔ وہ بےچینی سے ان سے پوچھنے لگی۔

فلحال کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ اسکی حالت سمبھالنے کی بجائے بغڑتی جا رہی ہے ۔۔۔ وہ بےہوشی میں گئی بار تمہیں بلا چکا ہے ابھی ڈاکٹر اندر ہیں وہ باہر آتے ہیں تو پھر ان سے پوچھ کے تم اس سے مل لینا۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں بولے نا ہی انکے لہجے میں دکھ تھا نا افسوس نا ہی انہیں اسکے ساتھ کوئی ہمدردی ہو رہی تھی۔

انہیں اپنے بھائی کے لیئے تو دکھ تھا مگر اسکے لیئے نہیں کیونکہ وہ ایک لڑکی تھی۔۔۔ ایک بیٹی جس سے وہ نفرت کرتے تھے۔

یہ سب ہوا کیسے۔۔۔۔ وہ دل میں اٹھتے ہول کو دباتی بولی۔

پتہ نہیں ۔۔۔ ہم تو بس تمہارے گھر آئے تھے دیار کو منانے مگر کافی دیر بعد جب اسنے دروازہ نہیں کھولا تو ہم نے دروازے کے برابر کنواریوں سے اندر جھانکا تو دیار وہیں باہر ہی بےہوش بڑا تھا۔۔۔ 

بہت مشکلوں سے دروازہ توڑ کے ہم اندر داخل ہوئے اور دیار کو یہاں اسپتال لے آئے یہاں آکے پتہ چلا کے اسے ہارٹ اٹیک آیا ہے اور ڈاکٹر نے اسکے بچنے کے چانسز کم بتائے ہیں۔۔۔ تراب خان جیسے جیسے اسے بتاتے جا رہے تھے ایمل کو اپنا دماغ سن ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔

اس پوری دنیا میں آگر اسکا کوئی رشتہ تھا تو وہ صرف اسکے بابا تھے آگر انہیں بھی کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گی۔

جزلان بھی وہیں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا اسکے چہرہ کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں نکلنے کو بےتاب تھے مگر وہ خود کو مضبوط کیئے ایک بھی آنسوں نہیں بہا رہی تھی۔

ایمل کون ہیں۔۔۔ وہ صدمے میں کھڑی زمین کو گھور رہی تھی جب ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر آتے پوچھنے لگے۔

ج۔۔۔جی میں ہوں۔۔۔ ایمل فورن انکی جانب دھڑکتے دل سے لپکی۔

دیکھیں پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے اور وہ آپ کو بلا رہے ہیں مگر انکے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔ انکا بلڈ پریشر ہائی تھا اور انہوں نے بغیر چیک کیئے اسہی کی کولی خالی جس وجہ سے انکا بی پی کافی بڑھ گیا اور انکے دماغ کی رگ بھی پٹ چکی ہے۔۔۔ جس کے ساتھ انہیں ہارٹ اٹیک بھی آیا ہے۔۔۔ بہت کوشش کے بعد ہم انہیں ہوش میں لے تو آئے ہیں مگر انکے پاس وقت بہت ہی کم ہے کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر پرفیشنل انداز میں بتانے لگا جس پہ ایمل کے کب سے روکے آنسوں آخر کار بہہ ہی گئے۔۔۔ اسکے بابا کے پاس وقت کم ہے وہ اسے چھوڑ کے جانے والے ہیں مگر ایسا کیسے ہوا۔۔۔ وہ تو ٹھیک چھوڑ کے گئی تھی انہیں۔۔۔ اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

آجائیں آپ ان سے مل لیں۔۔۔ ڈاکٹر ایمل کو اپنے ساتھ اندر لے گئے جب کے جزلان اور تراب خان وہیں باہر بیٹھ کے انکا انتظار کرنے لگے۔

بابا۔۔۔ انکی حالت دیکھتے وہ تڑپ کے رہ گئی۔۔۔ مشینوں میں جکڑا وجود بلکل ساکت تھا۔

ایمل۔۔۔میرا۔۔۔بچہ۔۔۔ اسکی پکار پہ دیار صاحب نے بڑی مشکل سے انکھیں کھولیں۔

بابا آپ کو یہ کیا ہوگیا آپ تو ٹھیک تھے نا پھر آپ۔۔۔ یہ کیسے ہوا۔۔۔ ایمل کو سمجھ نا آیا کہ وہ کیا کہے اور کیا پوچھے۔

ت۔۔۔تم ٹھ۔۔۔یک تو۔۔۔ ہو۔۔۔نا وہ اٹک اٹک کے بامشکل بولے۔

جی بابا میں بلکل ٹھیک ہوں آپ میری فکر نا کریں۔۔۔ ڈرپ لگا انکا ہاتھ بہت ہی نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیتی نم لہجے میں بولے جب کے آنسوں میں اور روانی آگئی تھی۔

عم۔۔۔عمر نے۔۔۔ تم۔۔۔تمہارے ساتھ زب۔۔۔ وہ کہتے کہتے اذیت سے آنکھیں بند کر گئے جب کے انکی بات سنتے ایمل چونکی تھی ۔۔۔ آخر انہیں کیسے پتہ چلا کے عمر نے اسکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے۔

نہ نہیں بابا میں بلکل ٹھیک ہوں آپکی ایمل کی عزت بلکل ویسی ہی ہے جیسے گھر سے نکلنے سے پہلے تھی۔۔۔ اسنے انہیں مطمئن کرنا چاہا۔۔۔ مگر شاید اب دیر ہو چکی تھی۔

ای۔۔۔مل میر۔۔ی ایک بات ما۔۔نو گی۔۔۔ دیار صاحب نے ہلکا سا اسکے ہاتھ پہ دباؤ ڈالا۔

جی بابا آپ کہیں۔۔۔ وہ پوری طرح سے انکی جانب متوجہ ہوئی۔

ایمل۔۔۔ب بیٹا جز۔۔لان جیسا ۔۔ب بھی ہے۔۔۔ ت تم اس سے۔۔۔ شا۔۔۔شادی کر۔۔۔لو۔۔۔ انکی بات سنتے ایمل کو تو یقین ہی نہیں آیا ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے خود نے ہی اس رشتے سے انکار کیا تھا اور اب وہ خود اسے اس وحشی  بےحس انسان سے شادی کا کہہ رہے تھے ۔۔۔

بابا۔۔۔ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھنے لگیں۔

بی۔۔۔بیٹا وہ جیسا ب بھی۔۔۔ ہے۔۔۔ مگر ۔۔و وہ تمہارے۔۔۔ تایا ۔۔کا۔۔بیٹا ہے اور۔۔۔ ہمارے۔۔ خ خاندار ۔۔میں۔۔ط طلاق ۔۔۔نہیں دی۔۔ جا۔۔۔تی۔۔۔ میں جانتا ۔۔۔ ہوں۔۔م میرے پاس۔۔وو وقت کم ہے۔۔۔ اس لیئے۔۔۔ م میں اپنے ۔۔۔جیتے جی۔۔ ت تمہاری ش۔۔شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ بیٹا۔۔۔میں ج جانتا ہوں۔۔۔ تم ا اس سے نفرت ۔۔۔ کرتی ہو۔۔۔ مگر م میرے جانے۔۔۔ کے بعد۔۔۔ تمہاری م محفوظ پناہ ۔۔۔ گ گاہ وہ حویلی ۔۔۔ ہی ہے۔۔۔ جانے سے۔۔۔پ پہلے میں تمہیں۔۔۔ ا ایک محفوظ چ چھت دینا ۔۔۔چاہتا ہوں۔۔۔ ب بولو بیٹا ۔۔۔ مانوں گی نا ۔۔۔ میری بات۔۔۔بہت ہی مشکل سے تیز ہوتی سانسوں کے درمیان اٹک اٹک کے التجائیہ لہجے میں بولے تو ایمل کچھ کہہ ہی نا سکی بس خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔۔۔ اس وقت اپنے بابا کو انکار کرنا انہیں ایک اور دکھ دینے کے مترادف تھا۔

اسکے خاموش اقرار پہ دیار صاحب نے تراب خان کو اندر بلایا اور اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا۔۔۔

تراب خان تو چاہتے ہی یہی تھے اور اب انکی آخری خواہش کا احترام کرتے دس منٹ سے بھی کم وقت کے اندر اندر مولوی اور چند گواہ اسپتال کے آئی سی یو میں موجود تھے۔۔۔ 

آئی سی یو  میں کسی کو جانے کی اجازت تو نہیں ہوتی مگر تراب خان نے اچھے خاصے پیسے دے کے یہ اجازت بھی لے لی تھی۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایمل اس شخص کے نکاح میں آگئی جس کی وہ شکل دیکھے تک کی روادار نا تھی۔۔۔ اس شخص کے نکاح میں آگئی تھی جس سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتی تھی۔

جزلان۔۔۔ نکاح کے بعد مولوی صاحب کو باہر چھوڑ کے جزلان اندر آیا تو دیار صاحب نے نقاہت سے اسے پکارہ۔

جی۔۔۔ وہ  مسکرایا۔۔۔ نا جانے اسکے چہرے پہ مسکراہٹ کس وجہ سے تھی ایمل سے نکاح کر کے اسکا غرور توڑنے کی یا اپنے چاچا کی محبت میں تھی یہ تو صرف وہی جانتا تھا۔

بیٹا ۔۔۔ انہوں نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑے تو ایمل نے اذیت سے اپنے بابا کو دیکھا۔

میری بیٹی۔۔۔ کا خیال رکھنا۔۔۔ یہ ا ایک۔۔مرتے ہوئے۔۔۔ب باپ کی ال۔۔۔ التجاہ ہ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتے انکے ہاتھ ایک طرف کو گر گئے گردن ایک طرف ڈھلک گئی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں مگر انکے چہرہ پہ سکون تھا۔۔۔ جیسے وہ اسہی چیز کا انتظام کر رہے تھے کہ وہ اپنی بیٹی کو کسی مضبوط ہاتھوں میں سونپیں اور سکون سے مر سکیں۔۔۔ بغیر کسی فکر پریشانی کے۔۔ اور یہی ہوا تھا۔

بابا۔۔۔ ایمل نے بےچینی سے دیار صاحب کو پکارہ جب کے جزلان فورن باہر ڈاکٹر کو لینے بھاگا۔

بابا۔۔۔ ایمل انہیں ہلاتی چیخی جب کے تراب خان انکے دوسری جانب پریشان کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔

ڈاکٹر بھاگتے ہوئے اندر آیا۔۔۔ اسنے انکے ہاتھ کی نس چیک کی ناک کے نیچے ہاتھ رکھ کے چیک کیا باری باری انکی کھول کے آنکھوں میں ٹارچ ماری اور پھر دھیرے سے انکی آنکھوں پہ ہاتھ پھیرتے انہیں بند کردیں۔

ایمل نے ہراسانی نظروں سے ڈاکٹر اور پھر اپنے بابا کو دیکھا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر کیا بولے گا مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ بھی سن پاتی۔

سوری ہی از نو مور۔۔۔ ڈاکٹر دھیرے سے کہتا باہر نکل گیا جب کے پیچھے اب آئی سی یو میں ایمل کی سسکیاں گونج رہیں تھیں۔

تراب خان نے اپنی نم آنکھوں کے کنارے صاف کیئے جب کے جزلان سنجیدگی سے کھڑا تھا بےتاثر چہرہ لیئے۔

بابا آپ مجھے اس بےرحم دنیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ کے نہیں جا سکتے۔۔۔ وہ روتی سسکتی بار بار اپنے بابا کا ہاتھ تھامے اس پہ سر ٹکائے ہوئے انکا ہاتھ چوم رہی تھی۔۔۔ 

مگر کچھ دیر میں اسکے جسم میں حرکت ختم ہوگئی اسکے رونے سسکنے کی آواز بند ہوگئی۔

ایمل۔۔۔ اسکے خاموش ہونے پہ جزلان نے اسے پکارہ مگر وہ نا ہلی۔

جزلان ایمل کو حویلی لے جاؤ۔۔۔ میں میت کو سرد خانے میں رکھوا کے آتا ہوں اور سب کو اطلاع دے دو کہ کل ظہر میں میت اٹھے گی۔۔  تراب خان دکھ سے جزلان سے بولے۔

ایمل چلو حویلی۔۔۔ جزلان نے اسے دھیرے سے ہلایا مگر وہ پھر بھی نا اٹھی ۔۔۔

ایمل ۔۔۔۔ جزلان نے پریشانی سے اسے خود اٹھا کے سیدھا کہا مگر وہ ہوش میں ہوتی تو اسے کوئی اثر پڑھتا نا۔۔۔ وہ تو کب کی بےہوش ہوچکی تھی۔

بابا یہ بےہوش ہوگئی ہے۔۔۔ جزلان نے عام سے لہجے میں کہا۔

ہممممم۔۔۔ تم اسے گھر لے جاؤ میں باقی یہاں کے انتظام دیکھتا ہوں.۔۔۔ تراب خان کہتے باہر نکل گئے تو جزلان بھی بغیر کسی کی پرواہ کیئے اسے اپنی گود میں اٹھائے آئی سی یو سے نکل گیا۔

وہ لوگ جواہر مال آئے ہوئے تھے جو دنیا کا چھٹا بڑا مال تھا۔

رائد آئلہ کو وہاں سے بہت کچھ دلانا چاہتا تھا مگر وہ ہر چیز پہ انکار کر دیتی کہ اسکے پاس سب کچھ ہے اسے کچھ نہیں چاہیئے ۔۔۔

مگر رائد نے پھر بھی ضد کر کے اسے بہت کچھ دلا دیا تھا۔۔۔۔ اب بھی وہ اسے ایک جیولری شاپ میں لے کے داخل ہوا۔

تمہیں جو پسند آرہا ہے لے لو۔۔۔ رائد سکون سے کہتا اسکے ساتھ آگے بڑھنے لگا جب کے آئلہ بہت غور سے ایک ایک چیز دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

آخر کار اسکی نظر ایک بہت ہی نفیس سے برسلیٹ پہ پڑی جو پوری طرح سے ڈائمنڈز سے کور تھا اور اسکے بیچ میں تھوڑے برے ہارٹ شیپ کے ڈائمنڈز لگے ہوئے تھے۔

یہ کیسا ہے۔۔۔ اسنے شیشے کے پار لگا برسلیٹ رائد کو دیکھایا۔

بہت اچھا ہے۔۔۔ اور تمہارے ہاتھ پہ تو اور بھی اچھا لگے گا۔۔۔ رائد نے تعریف کی۔

یہ ہم اپنے لیئے نہیں لے رہے یہ ہم نے نوال کے لیئے پسند کیا ہے۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرا کے بولی تو ایک دم رائد کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتے سنجیدگی آگئی۔

کیا ہم لے لیں اسکے لیئے۔۔۔ اسکے چہرہ کے سپاٹ ثاترات دیکھتے آئلہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

ویسے تو لینے کی ضرورت نہیں ہے مگر پھر بھی اگر تم لینا چاہتی ہو تو میں تمہیں منا نہیں کروں گا۔۔۔ رائد نے انکار نہیں کیا تھا جس پہ وہ خوش ہوگئی تھی۔

اچھا سنیں آپ کی ماما کے لیئے بھی کچھ لے لوں۔۔۔ اسے کاؤنٹر کی طرف بل کے لیئے بڑھتے دیکھ وہ آپ پہ زور دیتی پھر سے پوچھنے لگی۔

مرضی ہے تمہاری۔۔۔ وہ بغیر کوئی ثاترات دیئے نارمل سے لہجے میں کہتا کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔ جس پہ آئلہ مسکراتی ہوئی نور بیگم کے لیئے بھی کچھ دیکھنے لگی۔

پہلے رائد اسے ان سے کوئی بھی بات چیت کرنے سے بھی سختی سے منا کردیتا تھا مگر اب انکے لیئے کچھ خریدنے پہ رائد نے کچھ نہیں کہا تھا سب کچھ بس اسکی مرضی پہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔ 

اور رائد کا یہ بدلہ بدلہ سا انداز اسے بہت اچھا لگا تھا۔۔۔ اسے امید تھی کہ جلد ہی رائد کا رویہ ماما نوال اور جزلان بھائی کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ مگر تراب خان وہ انکے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان کیا ہوا ہے ایمل کو۔۔۔ ایمل کو گود میں اٹھائے ہال میں داخل ہوتے دیکھ نور بیگم جو وہاں رات کے کھانے کے بعد نوال کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھی فورن پریشانی سے کھڑی ہوئیں۔۔۔انکے ساتھ نوال بھی فورن کھڑی ہوئی۔

چاچو کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔ اور یہ صدمہ ایمل برداشت نہیں کر سکی اور بےہوش ہوگئی۔۔۔ وہ سکون سے انہیں جواب دیتا ایمل کو اپنے کمرے کی جانب لے کے بڑھ گیا۔

اسے وہاں کہاں لے کے جا رہے ہو جزلان اسے میرے کمرے میں لٹا دو۔۔۔ جزلان کو اسے اپنے کمرے میں لے جاتے دیکھ وہ اضطراب سے بولیں۔

میری بیوی میرے کمرے میں ہی رہے گی نا۔۔۔۔ اب آپ کے کمرے میں تو رہنے سے رہی۔۔۔ جزلان بےزاریت سے جواب دیتا کمرے کا دروازہ کھولتے اندر گھس گیا پیچھے وہ دونوں ماں بیٹی شوکڈ رہ گئی۔

ماما کیا بھائی نے ایمل سے زبردستی شادی کی ہے۔۔۔ اور کیا اس ہی وجہ سے چاچو۔۔۔۔ نوال اپنے پاس سے اندازہ لگاتی کہتے کہتے رکھی۔

نہیں جہاں تک میں جزلان کو جانتی ہوں وہ کبھی بھی کسی بھی کام میں زبردستی نہیں کرتا۔۔۔ کچھ اور ہی وجہ ہوگی۔۔۔ نور بیگم پریشانی سے کہتی واپس بیٹھ گئیں تو نوال بھی کندھے اچکاتی انکے ساتھ ہی بیٹھی۔

کمرے میں لانے کے بعد جزلان نے بہت ہی دھیرے سے اسے بیڈ پہ لٹایا۔۔۔ پھر اتنی ہی نرمی سے اسکے گلے سے دوپٹہ نکالتے سائڈ پہ رکھا۔

اسکے چہرے پہ اب بھی آنسوں کے نشان واضح تھے۔۔۔ اسکے چہرے کو تکتے جزلان کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیر گئی۔۔۔۔ عجیب سی مسکراہٹ، فاتحانہ مسکراہٹ۔

ایمل بی بی تم نے مجھے ساری دنیا کے سامنے ذلیل کروانے کا پروگرام بنایا تھا مجھے بدکردار کہا تھا نا اب دیکھو تم خود اس بدکردار کی بیوی بن کے اسکے کمرے میں اسکے بستر پہ لیٹی ہو۔۔۔۔ 

دنیا کی آگر کسی چیز سے جزلان خان کو سکون ملا ہے تو وہ ایمل خان کا غرور توٹتے دیکھ کے ملا ہے۔۔۔۔ اسکے چہرہ پہ ایک مطمئن سی مسکراہٹ تھی۔۔۔ آخر ہوتی بھی کیوں نا وہ لڑکی جس نے اسے ٹھکرایا تھا آج کتنی بےبس ہوکے اسکے ہی نکاح میں تھی۔

جزلان کافی دیر تک اسکے چہرے کو تکتا رہا اور پھر اٹھ کے واشروم میں گھس گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

آج تو بہت ہی تھک گئے ہم۔۔۔۔ اتنا بڑا مال اور اوپر سے آپ نے بھی ہمیں پورا مال دیکھانے کی ٹھان لی تھی۔۔۔ وہ گھر آتے ہی بیگز صوفے پہ رکھتی اپنا حجاب کھول کے برقعہ اتارتی رائد سے بولی مگر اسے کوئی بھی جواب نا دیتے دیکھ اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا تو رائد دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے کھڑا فرصت سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا

کیا ہوا آپ ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ کیا کبھی حسین لڑکی نہیں دیکھی۔۔۔ آئلہ اسے محویت سے خود کو تکتے دیکھ شرارت سے بولی تو رائد گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسکی جانب قدم بڑھا گیا۔

حسین تو بہت دیکھیں ہیں مگر تم پہ دنیا کا سارا حسن آکے ختم ہوتا ہے۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے اسے ایک جھٹکے سے اپنے قریب کر گیا تو آئلہ ایک دم سٹپٹاتی۔

ہمیں نیند آرہی ہے ۔۔۔۔ اسکی انہوں میں خمار دیکھ وہ معصوم سی شکل بنائے منمنائی۔

جاناں میں تمہیں یہاں نیندیں پوری کرنے نہیں لایا تمہاری نیندیں اڑانے لایا ہوں۔۔۔ اسکے گال پہ شدت سے لب رکھے تو وہ آنکھیں میچتی اسکی قمیض کے کالر کو مٹھیوں میں جکڑ گئی۔

رائد نے پیچھے ہوتے اسکے سفید رنگ کو پل میں سرخی جھلکاتے دیکھا تھا۔۔۔ وہ آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ پیچھے صوفے پہ رکھے بیگز میں سے اپنا مطلوبہ بیگ تلاش کرنے لگا۔۔۔

کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ آئلہ نے دھیرے سے آنکھیں کھول کے اسکی جانب دیکھا مگر اسکی نظریں پیچھے صوفے پہ تھیں۔

وہ بلیک بیگ اٹھاؤ۔۔۔ رائد کو اپنا مطلوبہ بیگ ملتے ہی اسکی جانب اشارہ کرتے کہا ۔۔۔ مگر اسنے چھوڑا اب تک نہیں تھا آئلہ کو۔

آپ چھوڑیں گے تو اٹھائیں گے نا۔۔۔ وہ منہ بنا کے بولی۔

ایسے ہی ہاتھ بڑھا کے اٹھا لو کون سا دور رکھا ہے۔۔۔ رائد اپنا حصار تھوڑا کھلا کرتے بولا تو آئلہ نے پیچھے ہاتھ کرتے تھوڑا پیچھے کو ہوتے وہ بیگ اٹھایا۔

یہ ہم نے کب لیا۔۔۔ آئلہ بیگ میں موجود سرخ کپڑے کو دیکھتی استفسار کرنے لگی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے دماغ پہ زور ڈالتے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ یہ اسنے کب خریدا تھا

یہ تم نے نہیں میں نے لیا ہے۔۔۔ رائد محبت سے اسکو دیکھنے لگا۔

آپ نے مگر کس کے لیئے۔۔۔۔ آئلہ کے منہ سے بےساختہ نکلا لیکن پھر سمجھ آنے پہ کہ وہ کیا پوچھ گئی ہے لب دانتوں میں دبا گئی۔

جاناں تمہارے سوا میری زندگی میں کوئی دوسری ہے نہیں اور یہ میں پہن نہیں سکتا تو ظاہر ہے تمہارے لیئے ہی لیا ہوگا نا۔۔۔ ایک ہاتھ سے اسکے دانتوں سے لب آزاد کرواتے انہیں نرمی سے سہلانے لگا تو آئلہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پھیلی۔

نکال کے دیکھو کیا ہے یہ۔۔۔ رائد آنکھوں سے بیگ کی جانب اشارہ کرتے اپنا ہاتھ پیچھے کر گیا تو آئلہ نے جلدی سے بیگ کے اندر موجود وہ سرخ لباس نکالا۔۔۔ مگر جیسے ہی اسنے اسے ٹھیک سے کھولا تو وہ بہت ہی خوبصورت سلک کی ساڑھی تھی جس کے بلو پہ کڑھائی ہوئی وی تھی،،، اسنے بلاؤز نکالا جس کی آستینیں فل تھیں مگر پیچھے کا گلہ کافی گہرا تھا جس کے ساتھ ڈوریاں بھی بندھی ہوئیں تھیں۔

یہ تو بہت پیاری ہے ۔۔۔۔ ساڑھی دیکھتے آئلہ کی آنکھیں خوشی سے چمکیں۔

جاؤ پہن کے آؤ۔۔۔۔ مدہوش لہجے میں کہتا بڑی بےباکی سے اسکے لبوں کو چومتا پیچھے ہوا۔

اب۔۔۔ابھی۔۔۔ اسکی بولتی نظروں سے گھبراتی اسکی آواز​ حلق میں اٹھکی۔

میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا سکون سے کہتا صوفے پہ رکھے بیگز ایک طرف کرتے جگہ بنا کے بیٹھ گیا تو آئلہ ہچکچاتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

رائد صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے آنکھیں موند گیا۔۔۔ مگر اسکے چہرے پہ بہت ہی دلکش مسکراہٹ تھی ۔۔۔ خوشی سے بھرپور چمکتا ہوا چہرہ۔

وہ آنکھیں بند کیئے بیٹھا ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ایک پاؤں مسلسل ہلا رہا تھا جو اسکی بےچینی کا پتہ دے رہی تھی ۔۔۔ وہ جلدی سے آئلہ کو اس لال ساڑھی میں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ 

وہ اسکا انتظار ہی کر رہا تھا جب اسکا فون بجا۔۔۔ اسنے فون نکال کے دیکھا تو پاکستان سے اسکے سیکٹری کی کال آرہی تھی۔۔۔ اسنے فورن کال ریسیو کرتے فون کان سے لگایا۔

وہ کہہ کے آیا تھا کہ اسے بہت ضروری کام کے علاوہ فون نا کیا جائے۔۔۔ اور اب احمد کی کال آنا مطلب ضرورت کوئی اہم کام ہوگا۔

سر آپ کے چاچو کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتا فورن کال ریسیو ہوتے ہی اسکے سیکٹری نے اسے عطلاع دی۔

رائد جو آرام سے بیٹھا تھا اسکی بات سنتے ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا۔

کیا۔۔۔۔۔یہ کیسے اور کب ہوا۔۔۔ اسنے پریشانی سے ماتھا مسلہ ۔

دماغ کی رگ پھٹ گئی تھی اور ہارٹ اٹیک بھی ہوا تھا۔۔۔۔ انکی نمازِ جنازہ کل ظہر میں رکھی گئی ہے۔۔۔۔ سیکٹری نے اسے تفصیل سے آگاہ گیا۔

اسنے فورن اپنی کھڑی میں ٹائم دیکھا جو رات کے دس بجا رہی تھی آگر اسے ابھی پاکستان کے لیئے ٹیکٹس مل جاتے تو وہ یقیناً ظہر سے پہلے پاکستان پہنچ سکتا تھا۔

احمد ابھی اور اسہی وقت دو ٹیکٹس پاکستان کی کرواؤ فورن ۔۔۔۔ اسنے سختی سے حکم دیا۔۔۔۔ اسے بہت افسوس ہوا تھا سب کے اور سب سے زیادہ فکر تو اسے ایمل کی ہو رہی تھی اسکے چاچا کی اکلوتی بیٹی جس سے وہ آج تک ملا بھی نہیں تھا مگر اسنے ایمل کی تصویر دیکھ رکھی تھی اور اسکے بھی چاچو اکثر اسکا ذکر کیا کرتے تھے۔۔۔ 

اسکے چاچو اسکے لیئے بہت اہم تھے۔۔۔ بچپن میں بھی اسکی دیار صاحب سے بہت دوستی تھی مگر پھر وہ حویلی چھوڑ کے چلے گئے دادا نے انہیں نکال دیا اور پھر جب وہ ایک کامیاب بزنس مین بن کیا تو اسنے پھر سے انکی تلاش شروع کردی جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا مگر اب وہ اس دنیا میں نہیں تھے اور رائد انکی آخری رسومات خود ادا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اس لیئے وہ بےچین ہوگیا تھا جلدی پاکستان پہنچنے کے لیئے۔

اور ایمل وہ تو وہاں اکیلی تھی۔۔۔ اسکے چاچو نے بتایا تھا کہ تراب خان جزلان کا رشتہ ایمل کے لیئے لائے تھے۔۔۔ مگر انہوں نے انکار کردیا جس پہ رائد کو بھی بہت خوشی ہوئی تھی وہ جزلان کی حرکتوں سے اچھے سے واقف تھا اس لیئے وہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ جزلان کی شادی کبھی بھی ایمل جیسی اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی سے وہ۔۔۔ مگر اب تو اسکے پاس چاچو بھی نہیں تھے اور اسے یقین تھا کہ تراب خان اسے حویلی لے آئے ہوں گے جزلان کے کہنے پہ۔۔۔۔۔ بس اسے اسہی بات کی ٹینشن ہو رہی تھی کہ جزلان کہی اسکے ساتھ کچھ غلط نا کردے۔۔۔ اور اس ہی وجہ سے وہ جتنا جلدی ہو سکے واپس جانا چاہتا تھا۔

سر میں بک کروا چکا ہوں ۔۔۔ رات ساڑھے بارے  کی فلائٹ ہے آپ لوگوں کی۔۔۔ احمد نے جلدی سے بتایا۔

ہمم ٹھیک ہے اور ہاں احمد آگر مجھے پہنچنے میں دیر ہو بھی جائے تو جب تک میں نا آجاؤ جنازہ نہیں اٹھنے دینا سمجھ گئے۔۔۔

جی سر۔۔۔ اسنے ادب سے کہا تو رائد فون بند کرتا کمرے کی جانب بڑھ گیا تا کہ آئلہ کو بتا سکے کہ وہ واپس پاکستان جا رہے ہیں۔

آئلہ۔۔۔ وہ سیدھا دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوا تو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی آئلہ ساڑھی باندھنے کی کوشش کر رہی تھی اسے آتے دیکھ جلدی سے الٹی سیدھی ساڑھی اپنے گرد لفیٹ گئی۔

تم چینج کر کے پیکنگ کرلو ڈھائی گھنٹے بعد ہماری فلائٹ ہے ہم پاکستان واپس جا رہے ہیں۔۔۔ رائد اس سے کہتے الماری سے پاسپورٹ​نکالنے لگا۔

مگر اس طرح اچانک۔۔۔ آئلہ حیران ہوئی۔

ہاں میرے چاچو کا انتقال ہوگیا ہے اس لیئے ہمیں فورن واپس جانا ہے۔۔۔ رائد مصروف انداز میں بولا تو ایک بار پھر آئلہ چونکی۔

چاچو۔۔۔۔ اسکی الجھی ہوئی آواز آئی۔

جاناں جلدی سے تیاری کروں ۔۔۔ چاچو کے بارے میں میں تمہیں جہاز میں بتا دوں گا۔۔۔ رائد اسکو ایک نظر دیکھ کے بولا تو وہ جلدی سے اثبات میں سر ہلاتی واشروم میں گھس گئی۔۔۔۔ نا جانے اسکی فیملی میں کتنے راز تھے جو ختم ہی نہیں ہوکے دے رہے تھے۔

۔🌺 🌺 🌺

ناجانے رات کے کون سے پہر ایمل کو ہوش آیا۔۔۔ اسے شدید ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔۔کمرے میں چلتے ای سی کی ٹھنڈک سے کمرا اچھا خاصا ٹھنڈا ہو رہا تھا اور وہ بغیر کمبل کے تھی۔۔۔  اسنے مندی مندی آنکھیں کھول کے دیکھا ۔۔۔ مگر خود کو ایک انجان جگہ پہ پاکے وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔

اسنے نظریں گھما کے دیکھا تو ایک وجود شرٹ لیس اسکے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔۔۔

نائٹس بلب کی ہلکی نیلی روشنی میں اس شخص کا چہرہ صاف واضح نہیں ہو رہا تھا۔

ایمل نے تھوڑا اسکی جانب جھک کے غور سے اسکا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی اور جیسے ہی اس شخص کا چہرہ اسے ٹھیک سے نظر آیا وہ ایک جھٹکا کھا کے بیڈ سے اتری۔

وہ یہاں کیسے آئی یہ سمجھنے میں اسے زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔۔۔۔اعر پھر جیسے ہی اسے محسوس ہوا کہ اسکا دوپٹہ اسکے وجود پہ نہیں ہے اسنے فورن گھبرا کے جلدی سے بیڈ پہ ہی دوپٹہ تلاش کرنے کی کوشش کی جس میں اسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی کیونکہ اسکا دوپٹہ اسکے تکیہ کے برابر میں ہی رکھا تھا

ایک دم اسکا ذہن اپنے بابا کی طرف گیا جس سے دل میں ڈھیروں درد اٹھا۔

اسکے بابا اسے چھوڑ کے چلے گئے تھے۔۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ کل تک تو سب ٹھیک تھا وہ لوگ سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے اور آج اسکی زندگی میں اتنا بڑا طوفان آگیا تھا۔۔۔ اسکی زندگی بلکل بدل گئی تھی۔۔۔ اسکے بابا چلے گئے،،، اسکا نکاح ایک ایسے شخص سے ہوگیا جس کا نام سنا بھی اسے پسند نہیں تھا اور آج وہ اسہی شخص کے نام ہو چکی تھی۔

اسے اپنی قسمت پہ رونا آرہا تھا۔۔۔ اسکی قسمت نے ایسا پلٹا کھایا تھا جس کے بارے میں اسنے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

اسکی آنکھوں سے آنسوں بہتے نیچے زمین پہ گر رہے تھے ۔۔۔ اسے گھٹن ہو رہی تھی اس کمرے میں اس شخص کی موجودگی سے۔۔۔ وہ جلدی سے تکیے کے سائڈ پہ رکھا دوپٹہ اٹھاتی،،، چپل پہن کے بغیر آواز پیدا کیئے کمرے سے نکل گئی۔

حویلی میں چاروں طرف سناٹا تھا ۔۔۔۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔۔۔ کون کون رہتا ہے یہاں یا کون سا کس کا کمرا ہے۔۔۔ ایک انجان جگہ انجان لوگ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرف جائے ۔۔۔

وہ چھت پہ جانے کی غرض سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔ مگر اوپر بھی جیسے ایک بھول بھلیاں تھی اتنے راستے وہ جائے تو کہاں۔۔۔ 

مگر پھر اسکی نظر ایک بند دروازے کے نیچے سے آتی ہوئی لائٹ پہ گئی۔۔۔

نا جانے وہ کس کا کمرا تھا ۔۔۔ اسنے دھیرے سے ہنڈیل پہ ہاتھ رکھتے گھمایا مگر کمرا اندر سے لوک تھا۔۔۔

وہ شش و بنج میں مبتلا کھڑی سوچتی رہی کہ دروازہ بجائے یا نہیں مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے اسنے دروازے پہ دست دے ہی تھی۔

پانچ سیکنڈ میں ہی دروازہ کھول دیا گیا تھا۔

ارے بھابھی آپ اس وقت۔۔۔ دروازے پہ ایمل کو کھڑے دیکھ نوال نے حیرت سے پوچھا۔

تم کون ہو۔۔۔ ایمل نے آہستہ سے سوال کیا۔

میں نوال ہوں۔۔۔ آپ کے تایا کی بیٹی اور جزلان بھائی کی بہن۔۔۔ نوال نے مسکرا کے اپنا تعارف کروایا۔

کیا میں آج رات یہاں تمہارے کمرے میں رہ سکتی ہوں۔۔۔ ایمل نے عاجزی سے پوچھا۔

ہاں کیوں نہیں بھابھی آئیں نا اندر۔۔۔ نوال نے خوشی سے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔۔ نا اسنے کوئی سوال کیا اور نا ہی اتنی رات میں یہاں آنے کی وجہ پوچھی بس خوشی سے اسے اندر بلا لیا۔

ایمل کمرے میں داخل ہوئی تو نوال کا فون بج گیا۔۔۔ نوال جلدی سے دروازہ بند کرتی سائڈ کورنر سے فون اٹھاتی حسام کی آتی کال کاٹ گئی۔۔۔۔ وہ حسام سے ہی بات کر رہی تھی جب ایمل نے دروازہ بجایا تھا۔۔۔اور نوال نے اسے دو منٹ بعد فون کرنے کا کہتے کال کاٹ دی تھی۔۔۔اور جب دو منٹ سے زیادہ ٹائم ہو گیا تو اب وہ فون ملا رہا تھا۔

جلدی سے حسام کو میسج بھیجتی اسنے ایمل کی جانب دیکھا جو صوفے پہ اسکی جانب پشت کیئے سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔۔۔ شکر تھا وہ اسکی طرف متوجہ نہیں تھی اور نا ہی فون کال کے بارے کوئی سوال کیا تھا۔

بھابھی کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔حسام کو میسج بھیج کے فون رکھی نوال اسکے سامنے کھڑی ہوتی فکرمندی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ تو ایمل نے ویسے ہی سر ہاتھوں میں گرائے ہاں میں سر ہلادیا۔

مگر مجھے آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں۔۔۔ نوال نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو ایمل نے نم آنکھوں سے اپنے کندھے پہ رکھا اسکا ہاتھ دیکھا اور پھر اس کے چہرہ کو جہاں اسکے لیئے فکر واضح تھی۔

بھابھی میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ نوال اسکے ساتھ بیٹھتی دکھی لہجے میں بولی۔

تم نہیں سمجھ سکتیں نوال ۔۔۔ میرے بابا مجھے اس بےرحم دنیا میں تنہا چھوڑ کے چلے گئے ہیں۔۔۔ میں اکیلی ہو گئی ہوں نوال ۔۔۔ بلکل اکیلی۔۔۔ایمل کی آنکھ سے آنسوں لڑیوں میں مانند تیزی سے سے پھسل رہے تھے۔

نوال نے اسے اپنے گلے لگایا تو کافی وقت بعد وہ اسکے گلے لگتے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔۔ اسکا رونا نوال کو تکلیف دے رہا تھا۔۔۔ نوال کو اسکی تکلیف اپنی تکلیف لگ رہی تھی۔۔۔ نوال نے اسے خود سے لگائے رونے دیا اور ساتھ اسکے خود بھی بےآواز روتی رہی۔

بھابھی آپ کے بابا تو آپ کو ابھی چھوڑ کے گئے ہیں اور میرے بابا میرے سامنے ہونے کے باوجود بھی میرے ساتھ نہیں تھے انہوں نے تو مجھے بچپن میں ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔ باپ کے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ نوال آفسردگی سے دھیرے سے بولی مگر ایمل ہوش میں ہوتی تو اسکی سنتی نا۔۔۔۔ اتنے وقت بعد کسی کا کندھا ملتے ہی وہ تو بس روئے جا رہی تھی۔

بس روئیں نہیں اب،،، ورنا آپ کی طعبیت پھر سے خراب ہو جائے گی۔۔۔ چلیں آئیں بیڈ پہ چلیں۔۔۔نوال پیچھے ہوتی اپنے اور اسکے آنسوں صاف کرتی اسے اپنے ساتھ لیئے بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔

آپ بیٹھیں میں آپ کے لیئے کھانا لاتی ہوں۔۔۔ نوال اسے ٹھیک سے بیک گراؤنڈ سے ٹھیک لگا کے بیٹھاتی بولی۔

نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔ ایمل آنکھیں موند گئی۔

مگر بھابھی آپ نے رات کا کھانا تو کھایا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ میں لے آتی ہوں تھوڑا سا کھا لے گا۔۔۔ نوال نے پیار سے کہا مگر ایمل نفی میں سر ہلاگئی۔

پلیز ضد نہیں کرو ۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔ وہ بھیگی آواز میں بولی تو نوال نے بھی زیادہ فورس نہیں کیا۔

اچھا پانی پی لیں۔۔۔ اور اب اسکا منا نہیں کرے گا۔۔۔ نوال نے جگ سے پانی گلاس میں بھرتے اسکے لبوں سے لگایا تو وہ گلاس تھامتی دو گھونٹ بھر کے واپس گلاس اسکی جانب بڑھا گئی۔

آپ آرام سے سو جائیں اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دے گا۔۔۔ نوال اسکے لیٹنے پہ اسکے اوپر چادر ڈالتی اپنی جگہ پہ آکے لیٹ گئی۔

بیڈ کی دوسری جانب لیٹ کے نوال اسکی پشت کو دیکھتی اسکا درد اپنے اندر محسوس کر رہی تھی جس سے اسکی آنکھیں بار بار بھیگے جا رہیں تھی جب کے دوسری طرف انکھیں بند کیئے ایمل مسلسل اپنے آنسوں سے تکیہ بھیگو رہی تھی۔۔۔ آخر اسکا غم بھی تو اتنا بڑا تھا جس پہ صبر آنے میں بھی وقت لگنا تھا۔

صبح چھ بجے کے قریب جزلان کی آنکھ کھلی تو اسکے برابر والی جگہ خالی تھی۔۔

 اسنے گردن موڑ کے واشروم کی طرف دیکھا مگر واشروم کی لائٹ باہر سے بند تھی مطلب وہ واشروم میں نہیں تھی تو پھر کہاں گئی تھی وہ۔۔۔

ماتھے پہ بل لیئے اٹھتے صوفے پہ رکھی ٹی شرٹ پہنتے کمرے سے باہر نکالتا حویلی کے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

کیا کوئی یہاں سے باہر گیا ہے۔۔۔ داخلی دروازے پہ کھڑے گارڈز سے سخت لہجے میں پوچھا۔

نہیں سر کوئی نہیں گیا۔۔۔ گارڈ نے مؤدب انداز میں کہا تو وہ واپس اندر بڑھ گیا۔

حویلی کے چارو طرف گارڈز کھڑے ہوتے تھے ان کی موجودگی میں ایمل حویلی سے باہر تو نہیں جا سکتی تھی اور حویلی کے اندر کے راستے اسے پتہ نہیں تھے تو یقیناً وہ کسی اور کمرے میں ہوگی مگر کس کے۔

وہ بغیر سوچے سمجھے تراب خان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔ اور بغیر وقت کی پرواہ کیئے بغیر یہ سوچے کے وہ لوگ سو رہے ہوں کے بس دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔

اسنے زور زور سے دروازہ بجایا تو اندر سے نور بیگم نکل کے آئیں

کیا ہوا جزلان سب خیریت اس وقت تم یہاں۔۔۔ دروازے کھولتے سامنے جزلان کو کھڑے دیکھ وہ فکرمند ہوئیں۔

ایمل کہاں ہے۔۔۔ انکے سوال کو نظرانداز کیئے چھوٹتے ہے استفسار کیا۔

تمہارے کمرے میں ہی ہوگی۔۔۔ انہوں نے ناسمجھی سی جواب دیا۔

کیا ہوا جزلان اتنی صبح یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔ جزلان کی آواز سن کے تراب خان بھی دروازے پہ آگئے تھے۔

ایمل کمرے میں نہیں ہے اور نا ہی وہ حویلی سے باہر گئی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا آگر وہ باہر نہیں گئی تو پھر گئی کہاں ہے۔۔۔ جزلان خافی جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔

نور تم اندر جاؤ ۔۔۔ نور بیگم کو اندر جانے کا کہا تو وہ ایک نظر دونوں باپ بیٹے کو دیکھتی اندر چلی گئیں۔

جزلان یہ تو طے ہے کہ وہ حویلی سے باہر نہیں جا سکتی ۔۔۔ وہ حویلی میں ہی ہے تو تمہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ تراب خان نے اسے نرمی سے سمجھایا ۔

میں پریشان نہیں ہو رہا بابا۔۔۔ مجھے تو بس وہ لڑکی ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے چاہیئے تا کہ مجھے اپنے شوہر کے روپ میں دیکھ کے اسکے چہرہ پہ جو بےبسی کے مارے غصہ اور تکلیف آتی ہے وہ میں دیکھ کے سکون لے سکوں۔۔۔۔ مجھے مزاح دیتی ہے اسکے چہرے پہ پھیلی افسردگی۔۔۔ 

میں اسے ہر پل اپنے سامنے رکھ کے یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اب سے میری ملکیت ہے۔۔۔ میری قید میں ہے میرے بغیر وہ اب کچھ نہیں ہے۔۔۔ جس طرح اسنے مجھے پوری دنیا کے سامنے بدنام کرنا چاہا تھا نا میں اسکا بدلہ اس سے سود سمیت لینا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ جبڑے بھیجے جنونی انداز میں بولا تو تراب خان نفی میں سر ہلا گئے۔

جزلان آج اسکے باپ کا جنازہ ہے ۔۔۔ آج کوئی ایسی حرکت مت کرنا جس سے وہ لڑکی آنے والے مہمانوں کے سامنے کوئی تماشہ لگا دے۔۔۔ جو بھی کرنا ہے بعد میں کرنا ابھی وہ جہاں ہے اسے وہیں رہنے دو۔۔۔ کچھ دن گزر جائیں تو پھر لیتے رہنا اپنے سارے بدلے۔۔۔ تراب خان نے اسے ٹھنڈا کرتے نرمی سے کہا تو وہ انکی بات سمجھتا سر ہلا گیا۔

چلو اب جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو پھر ویسے بھی کچھ دیر بعد تک مہمان بھی آنے شروع ہو جائیں گے۔۔۔ تراب خان اسے کہتے واپس اپنے کمرے میں چلے گئے تو وہ بھی سر جھٹکتا واپس اپنے کمرے میں گھس گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد اور آئلہ حویلی میں داخل ہوئے تو ہرطرح سوگ کا سما تھا۔۔۔ لان میں سارے آدمی موجود تھے ۔۔۔ 

رائد آئلہ کو لیئے اندر بڑھا تو ہال میں خواتین بیٹھی سپارے پڑھ رہیں تھیں ۔۔۔ ہال کے صوفے ہاٹا کے وہاں دریاں بچھائی گئیں تھی۔۔۔ جس سے بیٹھے کی جگہ کافی زیادہ ہوگئی تھی۔

رائد۔۔۔۔ تراب خان وہیں ایک کونے میں کھڑے نا جانے کس سے باتیں کر رہے تھے جب رائد کو اندر آتے دیکھ اسکی جانب بڑھے۔

رائد میں نے تمہیں کتنی بار فون کیا مگر تم نے میری ایک بھی کال ریسیو نہیں کی۔۔۔ جانتے ہو یہاں کیا ہوا ہے۔۔۔ 

ہاں جانتا ہوں چاچو کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ انکی بات کاٹتے رائد سرد لہجے میں بولا جب کے اسکے ساتھ کھڑی آئلہ نور بیگم کی جانب بڑھ گئی جو وہیں ہال میں بیٹھی سپارہ پڑھ رہیں تھیں۔

تمہیں کیسے پتہ چلا۔۔۔۔ انہیں نے ائبرو اچکائے سوال کیا۔

یہ آپ کے لیئے جاننا ضروری نہیں ہے۔۔۔۔ بس مجھے یہ بتائیں ایمل کہاں ہے۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تو وہ اسے افسوس سے دیکھ کے رہ گئے۔

ایمل۔۔۔۔۔ ان کو خاموش دیکھتے رائد نے بلند آواز میں ایمل کو پکارہ تو سپارہ پڑھتی خواتین اسکی جانب متوجہ ہوئی جب کے ایک کونے میں گٹھری بنی بیٹھی ایمل نے اپنے نام کی پکار پہ سر اٹھایا۔

یہ آواز تو بلکل اسکے بابا جیسی تھی۔۔۔ تو کیا اسکے بابا واپس آگئے تھے۔۔۔۔ اسکے دماغ نے کہا۔

ایمل۔۔۔۔ دوبارہ اپنے نام کی پکار پہ وہ جلدی سے اٹھتی اس سمت بڑھی جہاں سے آواز آرہی تھی ۔

بابا۔۔۔ وہ اپنے بابا کو پکارتی وہاں آئی مگر وہاں تو اسکے بابا تھے ہی نہیں بلکے کوئی انجان شکل تھی۔

میں ہوں ایمل ۔۔۔ رائد تمہارا کزن۔۔۔ تمہارا بھائی۔۔۔ چاچو نے تمہیں میرے بارے میں بتایا تو ہوگا ؟؟؟۔۔۔ اس لڑکی کو بکھری حالت میں اپنے سامنے کھڑے دیکھ رائد نے پیار سے پوچھا۔

رائد۔۔۔ ایمل نے زیر لب نام دھرایا اور پھر جیسے اسے یاد آگیا کہ رائد کون ہے۔۔۔ ہاں اسکے بابا رائد کا اکثر اچھے لفظوں میں ذکر کیا کرتے تھے رائد کا ذکر کرتے ہوئے انکے لہجے میں محبت ہوتی تھی مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ انکا بھتیجا ہے۔۔۔ مگر اسکا دماغ اس وقت زیادہ کچھ سوچنے کے قابل نہیں تھا۔

با۔۔۔با چلے گئے  مجھے چھوڑ کے۔۔۔ وہ کھوئے کھوئے انداز میں اسے دیکھ کے کہتی زمین پہ بیٹھتی چلی گئی۔۔۔ 

رات بھی نا جانے وہ کب روتے روتے سوگئی تھی اور اب جب سے اٹھی تھی ایک ہی بات کہتے جا رہی تھی کہ بابا چلے گئے ہیں۔۔۔ 

رائد کو بہت دکھ ہوا اسے دیکھ کے۔۔۔ اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔۔۔ بال بکھرے ہوئے ۔۔۔ اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ بہت بیمار ہوں۔

ایمل زمین کو گھورے جا رہی تھی سب آئلہ آٹھ کے اسکے پاس آتی اسے کندھوں سے تھام کے کھڑا کرنے لگی۔

ایمل نے خالی نظروں سے اس نقاب میں لپٹے چہرے کو دیکھا اور اسکے ساتھ کھڑی ہوئی۔۔۔ اتنی میں باہر سے ایمبولینس کی آواز آئی تو تراب خان اور رائد دونوں فورن باہر کی جانب بڑھ گئے۔

آئمہ اور نوال ایمل کو ایک طرف لیئے کھڑی تھیں جب جنازے کو ہال میں لایا گیا۔۔۔ جیسے ہی ایمل کی نظر اپنے بابا پہ پڑھی وہ تیزی سے انکی جانب لپکی مگر انکے پاس پہنچنے تک اسکے قدم سست پڑھ گئے تھے۔

بابا۔۔۔ اسنے بہت ہی محبت سے پکارہ جیسے وہ اسکی پکار سن کے ابھی اٹھ جائیں گے ۔۔۔

اسکی حالت دیکھتے وہاں ہر آنکھ اشک بار تھی۔

رائد جنازے کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی جزلان اور تراب خان کھڑے تھے۔۔۔ رائد کی سرخ ہوتی نم آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ خود پہ بہت مشکل سے ضبط کیئے کھڑا ہے۔۔۔ آگر اسنے اپنی ماں کے بعد کسی کو اپنا مانا تھا تو وہ اسکے چاچو ہی تھے جو اس سے بہت پیار کرتے تھے۔

جب کے تراب خان کے چہرے پہ بھی دکھ صاف واضح تھا مگر جزلان جیسا پتھر دل انسان بس ہاتھ باندھے کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکا چہرہ بےتاثر تھا۔۔۔۔ ڈھونڈھنے سے بھی اسکے چہرے پہ نا ہی کوئی دکھ دکھائی دیتا تھا اور نا ہی افسوس۔

جب میں نے ہوش سنبھالا اور ماما کا پوچھا تو آپ نے کہا میں ہوں نا تمہارے ساتھ تم بس خوش رہو میں ہمیشہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہوں گا۔۔۔ مگر آج آپ بھی مجھے تنہا چھوڑ کے چلے گئے۔۔۔۔ بھیگی بھاری ہوتی آواز کے ساتھ چہرہ بھی آنسوں سے تر ہو چلا تھا۔

میرا یہاں اب بچا ہی کون ہے بابا۔۔۔ آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔۔۔ وہ جنازے کے ساتھ زمین پہ بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی ۔۔۔۔ اسے دیکھ کے سب کو ہی بہت افسوس ہوا تھا۔

بہت وقت وہ ویسے ہی بیٹھی روتی رہی کسی نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا نا ہی اسے وہاں سے اٹھایا۔۔۔ مگر اب جنازے کو لے جانے کا وقت ہو رہا تھا رائد نے آئلہ کو اشارہ کرتے ایمل کو اٹھانے کا کہا تو آئمہ فورن آگے بڑھتی روتی ہوئی ایمل کو اپنے ساتھ لگا گئی۔

میرے بابا۔۔۔ ایمل روتے ہوئے آئلہ سے بولی تو آنکھوں میں آنسوں لیئے آئلہ کردن ہلاتی آہستہ سے اسے جنازے سے دور کرنے لگی۔

اور پھر جیسے ہی جنازہ اٹھایا گیا پوری حویلی میں ایمل کی چیخ و پکار گونج گئی۔

نہیں  پلیز۔۔۔ نہیں لے کے جاؤ میرے بابا کو۔۔۔ روتے ہوئے انکے پیچھے بھاگنے کی کوشش کرتی ایمل کو نوال اور آئلہ نے مل کے قابو کیا۔

بابا ۔۔۔ پلیز مت جائیں۔۔۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔۔۔ بابااااااا۔۔۔ وہ روتی چیختی بےقابو ہو رہی تھی۔

آئلہ اور نوال نے بہت مشکل سے اسے پکڑ کے بیٹھایا۔۔۔ نور بیگم نوال آئلہ سب لوگ ہی اسکی حالت پہ افسردہ تھے۔۔۔ وہ بچی جس نے بچپن میں ہی اپنی ماں کو کھو دیا اور جب سے ہوش سمبھالا تھا اپنے باپ کو دیکھا تھا جس نے اسے ماں باپ دونوں بن کے پالا تھا جس نے اسے ہر دھوپ میں سایہ دیا تھا آج وہ سایہ بھی اسکے سر سے اٹھ چکا تھا۔۔۔ سایہ دینے والا خود زیر زمین جا سویا تھا۔

ایمل۔۔۔ اسکا جسم ڈھیلا پڑھتے دیکھ آئلہ نے اسکا گال تھپتھپایا مگر وہ ہوش و ہواس کھو چکی تھی۔

اسے کمرے میں لے جاؤ۔۔۔ اسے بےہوش دیکھ نور بیگم آنکھیں صاف کرتی بولیں تو مشکل سے نوال اور آئمہ اسے سمبھالتی روم میں لے گئیں۔

نوال نور بیگم کو بتا چکی تھی کہ ایمل رات ہی اسکے پاس آگئی تھی۔۔۔ وہ جزلان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھی مگر اس وقت حویلی مہمانوں سے بھری ہوئی تھی اور اب تک تو گاؤں کے ہر گھر میں یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ جزلان کا نکاح اسکے چاچا کی بیٹی سے ہو چکا ہے۔۔۔ اس لیئے وہ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دینا چاہتیں تھی اس لیئے اسے جزلان کے کمرے میں ہی بھیج دیا تھا۔

نوالا اور آئلہ نے اسے بیڈ پہ ٹھیک سے لٹاتے چادر اڑہائی۔۔۔ مگر جیسے ہی نقاب ہلاتے ہوئے آئلہ کی نظر بیڈ کے سامنے دیوار پہ لگی بڑی سی جزلان کی تصویر پہ گئی وہ ٹھٹھک کے رکی۔

نوال یہ تو جزلان بھائی کا کمرا ہے ۔۔۔ تم کوئی دوسرا روم سیٹ کروا دو ہم ایمل کو وہاں لے جاتے ہیں۔۔۔ ایسے جزلان بھائی کے کمرے میں ایمل کا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آئلہ نے پریشانی سے کہا تو نوال نے گہری سانس بھرتے اسکے چہرے کے الجھے الجھے تاثرات کو دیکھا۔

بھابھی جزلان بھائی کا کل ہی چاچو کی آخری خواہش پہ ایمل بھابھی سے نکاح ہوا ہے۔۔۔ نوال کے بتانے پہ پہلے تو آئلہ حیران ہوئی مگر پھر سمجھتے ہوئے سر ہلاگئی۔

اچھا تم یہیں اس کے پاس بیٹھو میں باہر مہمانوں کو دیکھ لو ماما اکیلی ہیں وہاں۔۔۔ اور یہ برقعہ بھی زرا اترا دوں کب سے پہنا ہوا ہے۔۔۔ آئمہ کہتی باہر نکل گئی تو نوال وہیں بیڈ کی دوسری جانب ایمل کے ساتھ بیک گراؤنڈ سے ٹیک لگائے نیم دراز ہوگئی۔

۔🌺 🌺 🌺

تدفین کے بعد سب واپس آگئے تھے سوائے جزلان کے وہ اپنے کسی سیاسی کام سے شہر چلا گیا تھا۔۔۔ اور اب جب رات کے گیارہ بج رہے تھے تب حویلی میں تشریف لایا تھا۔

آج وہ بہت تھک گیا تھا۔۔۔ کتنی میٹنگز کی تھیں کتنے لوگوں سے ملا تھا۔۔۔ اور پھر اسکے نکاح کی خبریں جیسے پھیلیں تھی اس پہ میڈیا والوں کے سوالوں کے جواب دیتا بھی کسی عذاب سے کم نا تھا۔۔۔ میڈیا والے تو ہر بات کی کھال تک جاتے تھے جو جزلان کافی اچھے سے سنبھال لیتا تھا۔

وہ اپنے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کمرے میں داخل ہوا تو کمرا ایک دم خالی تھا۔۔۔ 

اسکے ماتھے پہ فورن بل پڑے اور وہ ایک بار پھر سے تراب خان کے دروازے پہ جا پہنچا۔

کیا ہوا۔۔۔ اسنے دروازہ بجایا تو تراب خان باہر آئے۔

ایمل کہاں ہے۔۔۔ اسنے کل والا سوال دھرایا۔۔۔۔ جیسے ایمل کو انہوں نے ہی چھپایا ہوا ہو۔

تراب خان نے اسکے چہرے کے سنجیدہ تاثرات کو دیکھا ۔۔۔ اسکے چہرے سے کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اب وہ انکی کوئی بات سنے گا۔۔۔ وہ جانتے تھے خالی کمرہ دیکھتے وہ ایک بار پھر ضرور آئے گا۔

نوال کے کمرے میں۔۔۔۔ نور بیگم انہیں بتا چکیں تھیں کہ ہوش میں آنے کے بعد ایمل جزلان کے کمرے میں نہیں رکنا چاہتی تھی اور اسکی طعبیت بھی ٹھیک نہیں تھی اسے تیز بخار تھا اس وجہ سے انہوں نے اسے نوال کے کمرے میں بھیج دیا تھا اس لیئے تراب خان نے بھی اسے سچ ہی بتایا تھا۔۔۔۔ کیونکہ جزلان اب کسی کی سنے والا نہیں تھا۔

تراب خان کے بتانے پہ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا دو دو سیڑھیاں پھلانگ کے بعد اوپر پہنچا اور زور سے نوال کے کمرے کا دروازہ بجایا۔

اسکے دروازہ بجانے کی آواز اتنی تیز تھی کہ دو کمرے چھوڑ کے رائد کے کمرے میں آرام سے آواز گئی تھی۔

رائد آئلہ کو سینے سے لگائے سکون سے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا جب اتنی زور زور سے دروازہ بجنے کی آواز پہ وہ دونوں ہی چونکتے جلدی سے کمرے سے باہر نکلے۔

بھائی آپ۔۔۔ نوال نے دروازہ کھولا تو جزلان بغیر کچھ کہتے بیڈ کی جانب بڑھ گیا جہاں ایمل سو رہی تھی۔

آئلہ جلدی سے نقاب کرتی دروازے پہ کھڑے ہی انہیں دیکھتی رہی جب کے رائد دو قدم آگے بڑھ گیا تھا۔

بھائی، بھابھی​ کو ابھی دروائی دے کے سلایا ہے۔۔۔ وہ بہت پکی نیند میں ہیں۔۔۔ اسے ایمل کی جانب بڑھتے دیکھ نوال نے اسے روکنا چاہا مگر جزلان بغیر کچھ بولے سنے ایمل کا بازو تھامتے اسے اپنے سامنے کھڑا کر چکا تھا۔

ایمل جو گہری نیند میں تھی اس اچانک حملے پہ گڑبڑا گئی ۔۔۔ دل ایک دم زور سے دھڑکا تھا۔۔۔ ہاتھ پاؤں جیسے سن ہونے لگے تھے۔

جزلان نے نا آؤ دیکھا نا تاؤ بس اسے بازو سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے نکلا جب کے بخار میں تپتی ایمل اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی گئی۔

بخار اتنا شدید تھا کہ اس میں خود کو چھڑوانے کی بھی ہمت نہیں تھی نا جانے کیسے وہ بہت ہی مشکل سے درد بھرے قدم اٹھا رہی تھی۔۔۔ اسکا فورا جسم بخار کی وجہ سے ٹوٹ رہا تھا۔۔۔ مگر جزلان کو اس پہ رحم نا آیا۔

یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اسکا ہاتھ۔۔۔۔ ایمل کو زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے جاتے دیکھ رائد غصے سے فورن اسکی پاس آتے دھاڑا۔

جاگیردار رائد خان خبردار جو تم ہم میاں بیوی کے بیچ میں آئے ۔۔۔ میں اپنے اور ایمل کے بیچ میں بولنے کا حق کسی کو نہیں دوں گا۔۔۔ جزلان اسے انگلی دیکھاتے تیخے لہجے میں بولا تو راشد نے مٹھیاں بھیجیں۔

میں تمہیں اس سے زبردستی نہیں لے جانے دوں گا۔۔۔ رائد ایمل کی نڈھال ہوتی حالت دیکھتے سختی سے بولا۔

یہ میری بیوی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے میری بیوی کو اپنے کمرے میں لے جانے سے نہیں روک سکتی۔۔۔ جزلان اسے باور کرواتا ایک جھٹکے سے ایمل کو اپنے قریب کرتے اسکے بازو پہ گرفت اور مضبوط کرتے نیچے اتر گیا جب کے رائد اوپر غصے ضبط کرتے رہ گیا۔

ان دونوں کا چاچو کی آخری خواہش پہ نکاح ہو گیا تھا جس کا اسے شام کو ہی پتہ چلا تھا ۔۔۔ اور اب جب کے وہ جزلان کے نکاح میں تھی رائد اب کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

جزلان اسے کمرے میں لے جاتے ٹھا کی آواز کے ساتھ دروازہ بند کر گیا تو اپنے کمرے کے دروازے پہ کھڑے تراب خان سکون سے اندر بڑھ گئے جب کے انکے پیچھے کھڑی نور بیگم نے تاسف سے سر ہلایا تھا۔

جزلان نے اسے ایک جھٹکے سے بیڈ پہ پٹخا تو درد کے مارے وہ کراہ اٹھی۔

ایک بات میری کان کھول کے سن لو۔۔۔ بیوی وہ تم میری نکاح ہوا ہے ہمارا ۔۔۔ اور ایک بیوی اپنے شوہر کے کمرے میں رہتی ہے ۔۔۔ اس لیئے آگر آج کے بعد میں نے تمہیں کسی اور کے کمرے میں دیکھ لیا تو اچھا نہیں ہوگا سمجھیں۔۔۔۔ جزلان غصے سے غرایا 

جب کے ایمل ہمت کرتے کھڑی ہوتی اسکے سامنے آئی۔۔۔

تم کچھ بھی کہہ لو میں تمہارے ساتھ ایک پل اس کمرے میں نہیں رہوں گی۔۔۔ ایمل بھاری ہوتے سر سے نقاہت بھرے لہجے میں بند ہوتی آنکھوں کے درمیان کہتی جزلان کو مسکرانے پہ مجبور کر گئی۔

ایمل جزلان خان۔۔۔ اب آپ کو ایک پل کیا بلکہ اپنی زندگی کے ہر پل یہیں اسہی کمرے میں گزارنے ہیں اور ہاں ابھی تم دکھی ہو اور بیمار بھی اس لیئے میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا مگر ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس خود کو اچھے سے سمجھا کو ۔۔۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد میں تم سے اپنے سارے حق وصول کرنے والا ہوں۔۔۔ سمجھیں۔۔۔ جزلان استہزاء مسکراہٹ کے ساتھ کہتا اپنی قمیض اتار کے بیڈ پہ پھینکتا واشروم کی جانب بڑھ نے لگا مگر پھر پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایمل پھر سے باہر جانے کی کوشش کر رہی تھی۔

آہن باہر جانے کے بارے میں سوچنا بھی مت ورنا ایسا نا ہو کہ جس کے کمرے میں تم تھی تمہارا غصہ میں اس پہ اتار دوں۔۔۔ اور تمہارے دکھ اور بیماری کی پرواہ کیئے بغیر ہی اپنے حق وصول کرلوں۔۔۔ وہ وارن کرتے لہجے میں کہتا واشروم میں گھس گیا پیچھے ایمل اپنی بےبسی پہ آنسوں بہاتی صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے زمین پہ بیٹھ گئی۔

جو وہ کہہ کے گیا تھا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ وہ کر گزرتا اور اب تو اسکے پاس کوئی اور ٹھکانا بھی نہیں تھا وہ جاتی تو کہا جاتی ۔۔۔ اپنی قسمت پہ روتی وہ مضبوط لڑکی آج خود کو بہت بےبس اور کمزور محسوس کر رہی تھی۔

۔🌺 🌺 

اسکے بابا کو گئے آج تین دن ہوگئے تھے۔۔۔ اور اب ایمل کی طعبیت کافی ٹھیک تھی ورنا کچھ دنوں سے اسے اپنا ہوش ہی نہیں تھی۔۔۔ رائد نے ڈاکٹر کو حویلی میں ہی بلوا کے اسکا چیک اپ کروا دیا تھا ۔۔۔ جس کے نتیجے میں وہ اب ٹھیک تھی۔۔۔ اور آج اپنے گھر یعنی شہر جانے والی تھی۔

صبح کے بارہ بج رہے تھے۔۔۔وہ ایک سادہ سے کریمی رنگ کی شلوار قمیض پہلے شیشے کے سامنے کھڑی بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی۔

ایمل رائد کے چاچا کی بیٹی تھی۔۔۔ اسکے چاچو اس سے بہت پیار کرتے تھے اور اب انکے جانے کے بعد اسکا فرض بنتا تھا کہ وہ انکی بیٹی کا خیال رکھے۔۔۔ جس وجہ سے رائد اور آئلہ جا کے ایمل کے لیئے کچھ شوپنگ کر آئے تھے۔

رات سے جزلان حویلی نہیں آیا تھا۔۔۔ وہ کہاں ہوگا یہ ایمل اچھے سے جانتی تھی مگر اسے اس بات سے فرق نہیں پڑھتا تھا۔۔۔ جب وہ اسے اپنا کچھ مانتی ہی نہیں تھی تو وہ کیوں اسکی حرکتوں پہ اپنا خو+ن جلاتی۔

جلدی جلدی بالوں کو چوٹی میں گوندھتے دوپٹہ کندھوں پہ ڈالتی اپنا کچھ ضروری سامان اٹھائے باہر نکلی۔۔۔

ایمل کہا جا رہی ہو۔۔۔ آئلہ جو ہال میں بیٹھی ابھی فون پہ اپنی ماما سے بات کر کے فارغ ہوئی تھی ایمل کو باہر نکلتے دیکھ پوچھنے لگی۔

اپنے گھر جا رہی ہوں۔۔۔ وہ رک کے ایک نظر اسے دیکھتی نرمی سے جواب دیتی واپس قدم آگے بڑھا گئی۔

مگر اب یہ تمہارا گھر ہے۔۔۔ آئلہ نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا تو ایمل قدم روکتی اسکی جانب پلٹی۔

نہیں بھابھی یہ گھر میرا نہیں ہے۔۔۔ نا ہی مجھے اس گھر میں رہنا ہے۔۔۔ آپ سب بہت اچھے ہیں مگر وہ جس سے میری شادی ہوئی ہے میں اس سے نفرت کرتی ہوں۔۔۔ اور میں کسی ایسے شخص کے ساتھ ہرگز اپنی پوری زندگی نہیں گزار سکتی جس سے مجھے شدید نفرت ہو۔۔۔ جو میرے قابل ہی نا ہو۔

جو لوگوں کو بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت ہی نا دیتا ہو۔۔۔۔جو لڑکیوں کے ساتھ کھیل کے انہیں کسی بےجان کھلونے کی طرح پھیک دیتا ہو۔۔۔ جس کے نذدیک عورت ذات کوئی معنی ہی نہیں رکھتی میں ایک ایسے شخص کے ساتھ تو اپنی زندگی نہیں گزار سکی۔

ہاں یہ نکاح میرے بابا کی خواہش پہ ہوا تھا مگر اب ۔۔۔ اب بابا بھی جا چکے ہیں اور مجھے یقین ہے اپنی بیٹی کو ناخوش دیکھ کے وہ بھی خوش نہیں ہوں گے۔۔۔ اس لیئے میں جلد ہی یہ رشتہ بھی ختم کردوں گی۔۔۔ وہ اٹل مضبوط لہجے میں بولی تو آگے سے آئلہ کچھ کہہ ہی نا سکی۔۔۔ 

رائد اس سے محبت کرتا تھا اور اسکی محبت کی خاطر اسنے شراب چھوڑ دی تھی مگر جزلان اور ایمل کے بیج میں محبت تو دور دونوں کے دل میں ذرہ برابر بھی ایک دوسرے کی عزت نہیں تھی اور پھر جب سے وہ یہاں آئی تھی اسے جزلان کے بارے میں بھی سب پتہ چل گیا تھا۔

جزلان کی ساری سرگرمیاں رائد اسے بتا چکا تھا جس پہ اسے بہت افسوس ہوا تھا۔۔۔ اور اب ایمل جو کرنے کا کہہ رہی تھی وہ کہیں نا کہیں سہی ہی تھا۔

پہلے میں بیمار تھی بھابھی تو کمزور پڑھ گئی تھی۔۔ اوپر سے بابا کے جانے کا دکھ لگ تھا مگر اب میں خود کو سمبھال چکی ہوں۔۔۔ میں کمزور ہرگز نہیں ہوں بھابھی۔۔۔ میں جزلان خان جیسے بندے سے لڑھ سکتی ہوں۔۔۔ پہلے بابا تھے جس وجہ سے میرے اندر ایک ڈر تھا کہ وہ میرے بابا کو کوئی نقصان نا پہنچا دے مگر اب تو وہ بھی نہیں رہے مجھے اب کوئی ڈر نہیں ہے۔۔۔ ایمل پھیکی سی مسکان کے ساتھ کہتی آئلہ کے سامنے آئی۔

آپ نوال نور آنٹی اور رائد بھائی آپ لوگ بہت اچھے ہیں میرے مشکل وقت میں آپ لوگوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میں آپ لوگوں کو کبھی نہیں بھولوں گی آپ لوگوں سے ملتی رہوں گی مگر میں اس ان چاہے رشتے کو کبھی نہیں نبھاؤں گی۔۔۔ایمل دھیرے سے کہتی آئلہ کے گلے لگی۔

آئلہ نے بھی اس بہادر لڑکی کو خوش دلی سے گلے لگایا۔

تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔ اس سے دور ہوتے آئلہ بولی۔

میں اکیلی جا سکتی ہوں بھابھی آپ فکر نہیں کریں۔۔۔ ایمل پیار سے کہتی دوپٹہ ٹھیک کرتی باہر نکل گئی ۔۔۔ پیچھے آئلہ اسے دیکھ کہ رہ گئی۔۔۔ کتنی باہمت لڑکی تھی جو تنہا دنیا سے لڑنا جانتی تھی۔۔۔ کاش وہ بھی اسکی طرح اتنی ہی بہادر ہوتی ۔۔۔ وہ بہادر تو تھی مگر اتنی نہیں کہ ایسے کسی کے سامنے ڈھٹ کے کھڑی ہو سکتی۔۔۔ مگر ایمل میں ہمت ہے اور اللہ اسے ایسے ہی باہمت رکھے ۔۔۔ وہ اسکے لیئے دعاگو تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان دوپہر کو حویلی آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ مگر ایک بار پھر خالی کمرہ منہ چڑا رہا تھا۔

وہ جس طرح کمرے میں آیا تھا ویسے ہی واپس باہر نکل گیا۔

شاہدہ۔۔۔۔ کمرے سے باہر نکلتے جزلان نے بلند آواز میں ملازمہ کو پکارہ۔۔۔۔ تو شاہدہ فورن سے بوتل کے جن کی طرح اسکے سامنے حاضر ہوئی۔

جی چھوٹے خان۔۔۔ وہ ادب سے اسکے سامنے سر جھکائے کھڑی ہوئی۔

ایمل کہا ہے۔۔۔ اسنے سرد لہجے میں استفسار کیا۔

پتہ نہیں۔۔۔ میں نے تو انہیں صبح ناشتے کے بعد سے حویلی میں دیکھا ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ مؤدب انداز میں بولی تو جزلان نے اسے جانے کا کہہ دیا۔

آگر وہ حویلی میں نہیں تھی تو پھر وہ کہاں جا سکتی تھی۔۔۔ کیا وہ شہر چلی گئی تھی ۔۔۔۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔۔ وہ اسے ایسے یہاں سے کبھی نہیں جانے دے سکتا تھا۔۔۔ ابھی تو اسکا بدلہ شروع ہوا تھا وہ کیسے اسے جانے دے سکتا تھا۔۔۔ وہ فورن ہی قمیض کی جیب سے فون نکالتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

ریش ڈرائیو کرتے وہ دیار صاحب کے گھر پہنچا تھا ۔۔۔ ایمل کا اور کوئی ٹھکانا تو تھا نہیں اسے پورا یقین تھا کہ وہ یہیں آئی ہوگی اور ہوا بھی ایسا ہی تھا۔۔۔

اسنے زور زور سے دروازہ پیٹھا تو کچھ ہی منٹ میں ایمل نے دروازہ کھول دیا۔

مگر اسکے چہرہ پہ جزلان کو یہاں دیکھ کے کوئی بھی تاثر نہیں آیا ۔۔۔ اسے پتہ تھا وہ اسکے پیچھے ضرور آئے گا اور وہ آیا بھی تھا وہ بھی بہت غصے میں۔۔۔

اسکے لال سرخ ہوتی آنکھیں اور ماتھے کی تنی رگیں اس بات کی گواہ تھیں کے وہ کتنے غصے میں ہے۔۔۔ مگر ایمل کو ایک پل کے لیئے بھی اس سے ڈر نہیں لگا تھا ۔۔۔ آخر اب ڈر لگتا بھی کیوں اسکے پاس اب ڈرنے کے لیئے کوئی وجہ نہیں تھی۔۔۔ نا ہی اب اسکی کوئی کمزوری تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ ڈرتی۔

کس کی اجازت سے تم یہاں آئی ہو۔۔۔ وہ پورا دروازہ ایک ہاتھ سے پڑے دھکیلتا اندر داخل ہوتے سخت لہجے میں غرایا۔

مجھے میرے ہی گھر آنے کے لیئے کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ سکون سے ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی۔

شادی ہو چکی ہے اب تمہاری اور اب سے تمہاری اصل جگہ تمہارے شوہر کا گھر ہے۔۔۔ سمجھیں اب چلو میرے ساتھ۔۔۔ جزلان جبڑے بھیجے اسکی کلائی تھامے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔

میں کہیں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ اور نا ہی میرا تم سے کوئی رشتہ ہے۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑواتی دو قدم پیچھے ہٹتی چیخی۔

جزلان نے ایک نظر دروازے سے باہر دیکھا تو بہت سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ پایا۔۔۔ مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔

چونکہ وہ دونوں دروازے پہ کھڑے ہی زور زور سے لڑ رہے تھے اس لیئے آہستہ آہستہ پورا محلہ ہی باہر آگیا تھا۔

تم چاہتی ہو میں تمہیں عمل کر کے بتاؤں کے ہم دونوں کے بیچ کیا رشتہ ہے۔۔۔ وہ بےباک مسکراہٹ سجائے کہتا آئلہ کو آگ لگا گیا۔

یہ جو ہمارے بیچ ایک ان چاہا کاغذی رشتہ ہے نا بہت جلد میں اسے ختم کردوں گی۔۔۔ تم جیسے گھٹیا، دھوکہ باز ،خود غرض اور وحشی شخص کے ساتھ میں کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی بہت جلد تمہیں خلع کا نوٹیس مل جائے گا ۔۔۔ اب تم آرام سے جا سکتے ہو یہاں سے ورنا دوسری صورت میں مجھے میڈیا کو یہاں بلانا پڑے گا۔۔۔ ایمل نے تیکھے لہجے میں دھمکی تھی تو جزلان کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

ایمل کو پتہ تھا میڈیا جزلان کا کچھ بگاڑ تو سکتا نہیں ہے مگر ایک نیوز اسکا بہت کچھ بگاڑ سکتی ہے۔۔۔ اسنے جو لوگوں کے بیچ اپنا ایک اچھا امیج بنایا ہوا ہے ایک نیوز اس امیج کو خراب کر سکتی ہے۔۔۔ اور جزلان ایسا کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اسکا امیج خراب ہو۔

شاید تم پچھلی بار کی بات بھول چکی ہو۔۔۔ خیر تمہیں جسے بلانا ہے بلا لو میں یہاں کھڑا ہوں۔۔۔ جزلان سینے پہ ہاتھ باندھے تمسخرانہ انداز میں بولا 

وہ بلکل کھلے دروازے کے سامنے کھڑا تھا وہ بلکل ہلکے پھلکے انداز میں ایک دم ریلکس ہوکے کھڑا تھا جب ایمل نے زور سے اسے پیچھے دھکا دیا ۔

اس حملے کے لیئے وہ بلکل بھی تیار نا تھا جس وجہ سے سیدھے دروازے سے باہر جا گرا۔

اس کے گرتے ہی ایمل تیزی سے دروازہ بند کرتہ اچھے سے کنڈی لگا گئی۔

یہ سب اتنی اچانک ہوا کے جزلان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ اسکے ساتھ ہوا کیا ہے ۔۔۔ 

اسے گرتے دیکھ اسکے گارڈز نے فورن آگے بڑھتے اسے اٹھایا۔

جزلان نے نظر اردگرد دوڑائیں تو لوگوں کے چہروں پہ دبی دبی مسکراہٹ حیرت تمسخر اڑاتی نظریں خود پہ دیکھتے جزلان کا پارا ہائی ہوا۔

اسے پتہ تھا ایمل بہت ہمت والی ہے مگر اتنی ہمت والی ہوگی کہ جزلان خان کو ہی دھاکہ دے دے گی یہ اسنے نہیں سوچا تھا۔

اپنی بےعزتی پہ جزلان کی آنکھوں میں خو+ن اترا۔۔۔ اسکا پارہ اہانت اور بےعزتی کے مارے ہائی ہوا۔

توڑ دو دروازہ۔۔۔ وہ غصے سے اپنے گارڈز کو دیکھ کے دھاڑا تو محلے والے اسکی دھاڑ سنتے ڈر کے جلدی سے اپنے اپنے دروازوں کے پیچھے چھپ گئے۔

گارڈز فورن اسکے حکم کی پیروی کرتے اس لوہے کے دروازے کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے 

ایمل جو سکون سے دروازہ بند کر کے ابھی لاؤنچ میں پہنچی ہی تھی کہ دھا دھا کی تیز آواز پہ ایک دم دل تھام گئی۔

اسنے فورن الٹے قدموں باہر کی جانب دوڑ لگائی مگر باہر سے کسی کو دروازہ توڑتے دیکھ ڈر کے مارے اسکے قدم ساکت ہوگئے ۔۔۔ مگر وہ جانتی تھی اسے ڈرنا نہیں ہے ۔۔۔ اس لیئے بہت ہی ہمت اور عقل سے کام لیتی جلدی سے اندر کی جانب بھاگی۔

اپنے کمرے میں داخل ہوتے اسنے جلدی سے اپنا پرانا فون تلاش کیا جو  اسکی اسٹیڈی ٹیبل کی دراز میں رکھا ہوا تھا۔

جو فون وہ استعمال کرتی تھی وہ تو عمر کی گاڑی میں ہی رہ گیا تھا اب اسکا وہ فون کہاں ہوگا نا وہ جانتی تھی اور نا ہی جاننا چاہتی تھی۔

جلدی سے فون اٹھا کے اسنے میڈیا اور پولیس کو فون ملانا چاہا مگر فون تو بند پڑا ہوا تھا۔

اسنے بار بار فون کھولنے کی کوشش کی مگر شاید اسکی چارجنگ ختم ہوگئی تھی۔

باہر سے ابھی بھی دھا دھا کی آوازیں آرہی تھی وہ جلدی سے چارجر سوئچ میں لگاتی فون چارج کرنے لگی مگر اتنی ہی دیر میں ایک زور دار آواز آئی۔۔ اور پھر کسی کے بھاری قدموں کی چھاپ سنائی دی 

وہ سمجھ گئی تھی کہ دروازہ ٹوٹ چکا ہے۔۔ مگر اتنی جلدی کیسے۔۔۔ ہاں اسے یاد آیا دروازہ تو پہلے سے ہی خراب تھا اسنے خود ہی بہت مشکل سے اسے کیسے نا کیسے کر کے ٹھیک کیا تھا ۔۔۔ اس لیئے وہ جلدی اور آسانی سے ٹوٹ گیا تھا 

چارجنگ پہ لگے لگے ہی اسنے فون دوبارہ اون کیا۔۔۔ اور اس بار اسکا فون اون ہوا ہی تھا کہ کسی نے اسکے ہاتھ سے فون لیتے فون کو زور سے دیوار میں دے مارا۔

غصے سے سرخ آنکھیں لیئے اپنے پیچھے کھڑے جزلان کو گردن موڑ کے دیکھتے ایک پل کے لیئے ایمل کی ریڈھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی مگر یہ تو طے تھا کہ وہ اس سے ڈرنے والی نہیں تھی۔

اسکے بازو سے تھامے جزلان نے اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اس سے پہلے وہ ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرہ پہ مارتا ایمل نے بہت ہی مضبوط سے بیچ میں ہی اسکا ہاتھ روک لیا۔

خبر دار جو مجھ پہ ہاتھ اٹھانے کی غلطی بھی کی تو ۔۔ میں ڈرپوک یا کمزور لڑکی ہرگز نہیں ہوں جو تم جیسے مردوں کی مار پیٹ برداشت کرلوں گی۔۔۔ وہ نفرت سے پھنکارتی جزلان کا ہاتھ جھٹک گئی۔

تمہاری اتنی ہمت چلو تمہیں تو میں آج بتاتا ہوں کے میں کیسا مرد ہوں۔۔۔ شدید غصے سے اسکا بازو سختی سے دبوچتے اسے لیئے باہر نکلنے لگا۔

چھوڑو مجھے کہیں نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ چھوڑو۔۔۔۔ ایمل اپنی پوری جان لگا کے اپنا بازو اس سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر جزلان تو زخمی شیر بنا اپنے پنجے میں اسے دبوچے زبردستی گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ باہر لے جا رہا تھا۔

وہ جتنی اس سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اتنی ہی وہ اپنی گرفت سخت کر رہا تھا۔۔۔ ایمل کو لگ رہا تھا آگر اب اسنے اسکا بازو نا چھوڑا تو اسکی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔

مگر جزلان بغیر کسی چیز کی پرواہ کیئے باہر لاتے اسے گاڑی میں پٹھختے خود بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھا۔

پورا محلہ حیرت سے منہ پہ ہاتھ رکھے تماشہ دیکھ رہا تھا مگر کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کے اسے چھڑوا سکتے۔

جزلان لایا تو گاڑی خود ہی چلا کے تھا مگر اب اسکے پیچھے بیٹھنے پہ ایک گارڈ جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال گیا۔

حویلی چلو۔۔جزلان اسے حکم دیتا سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی سرخ آنکھیں ایمل پہ گاڑ گیا۔

راستے میں بغیر کچھ بولے بس ایمل بار بار دروازہ کھولنے کی کوشش کرتی آئی تھی مگر گاڑی لاک تھی اس لیئے اسکی ساری کوشش بےکار تھی۔۔

پورچ میں گاڑی رکھتے ہی جزلان ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتا واپس ایمل کا بازو پکڑے پھر سے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔

جنگلی انسان چھوڑو مجھے۔۔۔ اسکے ہاتھ پہ اپنے ناخن گاڑے مگر جزلان پہ کوئی اثر نا ہوا۔

بہت دے دی تمہیں چھوٹ ایک ہفتے کا وقت دیا تھا جو آج ہی ختم ہوا۔۔۔ اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ اصل وحشت ہوتی کہا ہے۔۔۔ وہ ایک دم قدم روکتے اسکو اپنی جانب کھینچتا اسکے منہ پہ غراتا پھر سے اندر کی جانب لیئے بڑھ گیا۔

ایمل مسلسل خود کو اسکی گرفت سے آواز کروانی کی کوشش کر رہی تھی اور اسی شور شرابے کو سن کے آئلہ جو نیچے آرہی تھی جزلان کو جارہانہ انداز میں ایمل کا بازو پکڑے اسے اندر لاتے دیکھ آئلہ فورن دوپٹہ سے چہرہ ڈھانپتی وہیں سیڑھوں پہ ہی رکھ گئی۔

چیخ و پکار سن کے نوال بھی اوپر گرل پہ آتی نیچھے چانگ کے افسوس سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ نور بیگم بھی فورن اپنے سے نکلیں۔

جزلان یہ تم کیا کر رہے ہو چھوڑو اسکا ہاتھ۔۔۔ نور بیگم نے آگے بڑھ کے سختی سے کہا ۔ ۔ مگر جزلان کے بگڑے تیور دیکھ کے کہیں سے بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ انکی بات ماننے والا ہے اور ویسے بھی کون سا وہ انکی باتیں سنتا تھا جو اب سنتا۔

کوئی بیچ میں نہیں آئے گا ہمارے ورنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ جزلان انگلی دیکھا کے کہتا سیدھے سیدھے چلتا اپنے کمرے میں گھس گیا۔

اسکے ٹھا کر کے دروازہ بند کرنے پہ وہ تینوں اپنا دل تھام گئیں۔۔۔ آئلہ نے نور بیگم کی طرف دیکھا جو پریشانی اور بےبسی سے واپس اپنے کمرے میں جا رہیں تھی۔۔۔ 

آئلہ ایمل کے لیئے کچھ کرنا چاہتی تھی جزلان کو روکنا چاہتی تھی مگر جب اسنے اپنی ماں کی نہیں سنی تو وہ اسکی کیا سنتا ۔۔۔ تراب خان حویلی میں تھے نہیں اور رائد وہ بھی لاہور گیا ہوا تھا ورنا وہ اسے بلا لیتی۔۔۔ وہ بھی فکر و پریشان سے واپس اوپر کی جانب بھی گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان نے سیدھے لا کے اسے بیڈ پہ پٹخا اور اسکے اوپر جھکتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسکے کندھے پہ ڈلا دوپٹہ اتارتے پیچھے اچالتا اسکی گردن پہ جھک گیا۔

وہ اپنی پوری جان لگاتی اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکا جار+ہانہ لمس اپنی گردن پہ محسوس کرتے اسکی آنکھوں میں آنسوں بھر گئے۔۔۔۔ مگر وہ بولی کچھ نہیں وہ اس شخص کی منتیں ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اس شخص کے سامنے التجاہ کر کے وہ اور اسکی انا کو تسکین نہیں پہچانا چاہتی تھی۔

وہ جانتی تھی جزلان چاہتا ہی یہی ہے کہ وہ اسکے سامنے جھک جائے۔۔۔ اس کی منت کرے اسکے آگے گڑگڑائے مگر ایمل ایسا کبھی نہیں کرنے والی تھی۔۔۔ اس لیئے خاموشی سے بغیر کچھ کہئے بس مزاحمت کرتی اسکو اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔

جزلان نے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے انہیں سر کے اوپر مضبوط سے بیڈ کے ساتھ پن کیا اور اپنی تمام تر وحش+توں سمیت اپنا جلتا لمس جابجا اسکی گردن پہ چھوڑنے لگا۔

بےبسی کے مارے ایمل کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے۔۔۔ وہ چاہے کتنی بھی مضبوط تھی مگر آج یہاں پہنچ کے وہ بےبس اور کمزور ہوگئی تھی۔۔۔ وہ نازک سی پتلی ڈھبلی سی لڑکی اس مضبوط اور چوڑے قد قامت والے مرد سے خود کو چھڑوا نہیں سکتی تھی۔

جزلان نے اسکی گردن سے منہ اٹھا کے اسکے چہرے کی جانب دیکھا جہاں بےبسی صاف واضح تھی ۔۔۔ اسے تڑپتے دیکھ جزلان کے اندر ایک سکون کی لہر ڈور گئی۔۔۔ اسکی آنکھوں سے نکلتے آنسوں اسکے دل کو جیسے ٹھنڈا کر رہتے تھے۔۔۔ وہ ظا+لم اور بےحس شخص اس کو تکلیف پہنچا کے سکون محسوس کر رہا تھا۔

اسے تمسخر اڑاتی نظروں سے خود کی جانب دیکھتے ۔۔۔ دیکھ ایمل سختی سے آنکھیں میچتی چہرہ دائیں جانب موڈ گئی۔

اسکے چہرہ پھیرنے پہ جزلان نے دوسرے ہاتھ سے سختی سے اسکا جبڑا پکڑتے اسکا منہ اپنی طرف دیکھا اور اپنا چہرہ بلکل اسکے کان کے قریب لے جاتے پھنکارا۔

اپنے دشمن کو اپنی پناہوں میں تڑپتے دیکھ جاگیردار جزلان خان اتنا اچھا محسوس کر رہا ہے کہ میں بتا ہی نہیں سکتا۔۔۔ 

تمہیں اس طرح بےبس دیکھتے میرے دل کو جو راحت ملی ہے اس کے بارے میں تو پوچھو ہی نہیں۔۔ اسکے استہزا لہجے پہ ایمل کی آنکھ سے آنسوں نکلا جو اسکی کنپٹی سے ہوتے ہوئے بالوں میں جذب ہو گیا

تمہاری زندگی جہنم سے بھی بدتر نا بنادی تو میرا نام جزلان خان نہیں۔۔۔ وہ نفرت سے مسکراتے لہجے میں کہتا اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دبا گیا تو ایمل کے منہ سے سسکی نکلی۔

جزلان مسکراتے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھتا شدت سے اسکے ہونٹوں پہ جھکتا اس کی سانس خود میں قید کر گیا۔

ایمل اپنا منہ ادھر ادھر کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکی پکڑ مضبوط تھی جس وجہ سے وہ ہل بھی نہیں پارہی تھی۔

نفرت اور غصہ اسکے لبوں پہ اتارتے جزلان جیسے بھول گیا کہ وہ بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔۔۔ جیسے سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ لیکن وہ تو بس جنونی انداز میں اسکی سانسیں خود میں قید کرتا جا رہا تھا۔

ایمل کو اب سانس لینے میں مسئلہ ہو رہا تھا۔۔۔ اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا مگر جزلان تھا کہ وہ پیچھے ہی نہیں ہو رہا تھا اور اوپر سے اسکے دونوں ہاتھ بھی جزلان کے ہاتھ میں قید تھے جس وجہ سے وہ کوئی مزاحمت بھی نہیں کر پارہی تھی۔

کافی دیر بعد اپنا غصہ اسکے لبوں پہ اتارتے اسکی سانسیں بلکل نا چلنے کے برابر محسوس کرتے جزلان پیچھے ہوا تو ایک دم ایمل نے گہرا سانس بھرا اور پھر بار بار گہری سانس بھرتی اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی۔

جزلان اسکے ہاتھوں کو آواز کرتا اسکے بالوں میں الجھانے لگا۔۔۔ اپنے ہاتھ آواز ہوتے دیکھ ایمل نے پھر سے اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی تو جزلان ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتے اس کے اوپر سے اٹھ کھڑا ہوا۔

میرا اصول ہے کہ میں کبھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا اس لیئے تمہیں چھوڑ رہا ہوں مگر میری ایک بات اچھے سے ذہن نشین کرلو صرف ایک دن ہے تمہارے پاس خود کو تیار کرلو ورنا ایسا نا ہو مجھے اپنے اصول توڑنے پڑیں۔۔۔ ایمل کو بیک گراؤنڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھتے دیکھ وہ سنجیدگی سے کہتا جیب سے فون نکالتے اپنے خاص آدمی کو ملانے لگا۔

جی سر۔۔۔ ایک بیل پہ ہی فون اٹھا لیا گیا تھا۔

جواد میں فارم ہاؤس آرہا ہوں شراب اور شباب دونوں کا انتظام کرو۔۔۔ وہ جان بوجھ کے ایمل کے سامنے بولا تھا۔۔۔ مگر ایمل کو کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا۔

دوسری طرف سے اس آدمی نے اوکے کہتے فون رکھ دیا۔

آج میرا موڈ تو تمہارے ساتھ رات رنگین کرنے کا تھا مگر تمہیں تو میری کوئی بھی بات سمجھ ہی نہیں آتی اس لیئے تھوڑا سا ٹیلر دیکھایا ہے ابھی۔۔۔ اب یہ تمہارے اوپر ہے جتنا جلدی ہو سکے اپنی موضی سے میرے پاس آجاؤ ورنا دوسرا طریقہ تو میں تمہیں بتاہی چکا ہوں۔۔۔ چہرہ جھکائے خاموش بیٹھی ایمل کو دیکھتے مزے سے کہتا باہر کی جانب قدم بڑھا گیا۔

تمہیں جو کرنا ہے کرلو مگر میں کبھی تمہارے سامنے ہار نہیں مانوں گی۔۔۔ وہ اسکی جانب دیکھتی سرد مہری سے بولی تو جزلان کے باہر جاتے قدم رکے۔۔۔ لبوں پہ مسکراہٹ چھاگئئ۔

میں نے تمہیں سمجھا دیا ہے اور وقت بھی دے دیا ہے لیکن آگر اسکے بعد بھی تم ایسے ہی ڈھیٹ بنی رہیں تو پھر جو تمہارے ساتھ ہوگا اسکی ذمیدار تم خود ہو گی۔۔۔۔ گردن موڑ کے اسے دیکھتا سکون سے کندھے اچکا کے کہتے باہر نکل گیا پیچھے ایمل تیزی سے بیڈ سے اٹھتی واشروم میں بھاگی۔۔

ہاتھ منہ گردن اچھے سے دھوتی جیسے وہ اسکا لمس مٹانا چاہتے تھی مگر ایسا ممکن نہیں تھا اب۔۔۔

آئلہ بہت ہی بےچینی سے کمرے میں بیٹھی رائد کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسکی رائد سے بات ہوئی تھی وہ تھوڑی دیر میں حویلی پہنچنے والا تھا اور آئلہ اسکی بےصبری سے منتظر تھی۔

جزلان چلا گیا تھا اس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی وہ ایمل کے کمرے کی طرف گئی تھی مگر کمرہ کا دروازہ بند دیکھتی واپس لوٹ آئی تھی ۔۔۔ اسے ایمل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔۔۔ اس خاندان کے مردوں کے بارے میں تو وہ سن چکی تھی ۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں جزلان نے ایمل پہ ہاتھ نا اٹھایا ہو۔۔۔ 

وہ اس بارے میں رائد کو بتانا چاہتی ھی مگر وہ کام سے باہر تھا اس لیئے اسے ڈسٹرب نہیں کیا۔۔۔ اور اب جب وہ حویلی آرہا تھا تو آئلہ اسے جزلان کے رویہ کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔

اسنے گھڑی میں ٹائم دیکھتے رائد کو فون ملایا جو دوسری بیل پہ ہی اٹھا لیا گیا تھا۔۔۔

کتنی دیر کردی کہاں ہیں آپ۔۔۔ کال ریسیو ہوتے ہی سوال کیا۔

لو تم نے یاد کیا اور میں آگیا۔۔۔ دروازہ کھولتے فون کان سے لگائے رائد کمرے میں داخل ہوا تو وہ جلدی سے فون بندھ کرتی کھڑی ہوتی اسکے پاس آئی۔۔۔۔ 

رائد دروازہ بند کرتا ہاتھ میں پکڑا کوٹ صوفے کی پشت پہ پھینکتا ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کرتے اپنی طرف آتی ائلہ کو کمر سے پکڑتے اپنے ساتھ لگا گیا۔

ہمیں چھوڑیں ۔۔۔۔ ہمیں آپ کو ایک بات بتانی ہے۔۔۔۔ اسکے کمر پہ بندھے ہاتھ کھولنے کی کوشش کرتی پریشانی سے بولی۔

میں سن رہا ہوں۔۔۔ رائد اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتا اسے مزید اپنے قریب کر گیا۔

ایسے نہیں بیٹھ کے سنیں۔۔۔ وہ جھنجھلا کے بولی تو رائد اسکے چہرہ پہ الجھن دیکھتے فورن سیریس ہوا۔

اچھا اب بولو کیا بات ہے۔۔۔ اسے چھوڑتے بیڈ پہ بیٹھتے اپنے جوتے اتارنے لگا ۔۔۔ تو آئلہ نے بغیر دیر کیئے اسے آج ہوئی ساری بات بتا دی جسے سنتے رائد کے ماتھے پہ بل پڑے۔

کیا اسکی اتنی ہمت۔۔۔ آج میں جزلان کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔ اسنے ایمل کو بلکل ہی لاوارث سمجھ لیا ہے جو دل چاہتا ہے اسکے ساتھ ویسا سلوک کرتا ہے۔۔۔ آج میں دو ٹوک بات کر کے رہوں گا۔۔۔ رائد غصے سے بھرا کمرے سے باہر نکلا تو آئلہ بھی چہرہ ڈھانپتی اسکے پیچھے بھاگی

ایسے ہمارا انکے کمرے میں جانا ٹھیک نہیں رہے گا ہم بعد میں بات کرلیں گے۔۔۔ آئلہ نے اسے روکنا چاہا مگر رائد اب کہاں رکنے والوں میں سے تھا۔۔۔ وہ تو تن فن کرتا سیدھا جزلان کے کمرے کے باہر پہنچا تھا

جزلان۔۔۔ رائد نے ایک بار دروازہ بجاتے جزلان کو پکارہ

ہم چلتے ہیں نا اس طرح۔۔۔ ابھی آئلہ کہہ ہی رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ کھل گیا۔

ایمل تم ٹھیک ہونا اور یہ جزلان کہاں ہے۔۔۔ اپنے سامنے ایمل کو کھڑے دیکھ رائد نے غصہ ضبط کرتے استفسار کیا۔

مجھے یہاں لانے کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ چلا گیا تھا عیاشی کرنے۔۔۔۔ وہ سپاٹ انداز میں کہتی ان دونوں کو اندر آنے کا راستہ دینے لگی۔

رائد کمرے میں داخل ہوا اور اسکے پیچھے ہی چہرے سے دوپٹہ ہٹاتی آئلہ اندر آئی۔

ایمل یہاں بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ رائد صوفے پہ بیٹھتا اپنے سامنے رکھے صوفے کی جانب اشارہ کرتے بولا تو ایمل وہاں آکے بیٹھ گئی۔

ایمل کے بےتاثر چہرے پہ نظریں جمائے آئلہ رائد کے ساتھ ہی صوفے پہ بیٹھی۔

ایمل میں جانتا ہوں تم باہمت لڑکی ہو مگر پھر بھی کہہ رہا ہوں تم خود کو کبھی اکیلی نہیں سمجھنا تمہارا بھائی ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑا ہے۔۔۔ کوئی بھی مسئلہ یا پریشان ہو فورن مجھے بتانا ہے۔۔۔ اور آگر تم جزلان سے الگ ہونا چاہتی ہو تو بھی مجھے بتادو میں جلد ہی اسکا بھی کوئی حل نکال لوں گا۔۔۔ رائد بہت ہی پیار سے بڑے بھائیوں کی طرح سمجھا رہا تھا۔۔۔۔ اسکی اپنائیت پہ ایمل دھیرے سے مسکرائی۔

آپ کا بہت بہت شکریہ رائد بھائی مجھے مان دینے کے لیئے۔۔۔۔ سچ کہوں تو بابا کے جانے کے بعد میں خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے جیسے میرے بابا میرے ساتھ ہی ہوں۔۔۔ آپ بلکل میرے بابا کی طرح باتیں کرتے ہیں۔۔۔ بلکل انکی طرح ہیں آپ۔۔۔ وہ آہستہ سے خوشدلی سے بولی تو وہ مسکرادیا۔

اور رہی بات الگ ہونے کی میں جانتی ہوں جزلان اتنی آسانی سے مجھے نہیں چھوڑے گا اور آگر چھوڑ بھی دیا تو پھر بھی میرا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔ اس لیئے اب میں اس سے اسکی طرح ہی نپٹوں گی۔۔

اسے مزاح آتا ہے مجھے تکلیف پہنچا کے مجھے بےبس دیکھ کے اسے سکون ملتا ہے۔۔۔۔۔ میں سمجھ گئی ہوں وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اس لیئے کیوں کے وہ مجھے پسند نہیں ہے مگر اب سے میں ہر وہ کام کروں گی جو اسے پسند ہے۔۔۔ بغیر اپنے منہ سے اف تک نکالے میں اس شخص کی ہر بات مسکرا کے مانوں گی پھر دیکھے گا آپ وہ کیسے تلملاتا ہے۔۔۔ ایمل کے چہرے پہ ایک الگ ہی مسکراہٹ تھی جیسے اسنے اپنے اندر بہت کچھ سوچ رکھا ہو کے اب اسے آگے کیا کرنا ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے ایمل مگر مجھے لگتا ہے تمہیں کچھ وقت کے لیئے اپنی خالہ کے پاس چلے جانا چاہیئے۔۔۔ وہ خودہی تمہیں ڈھونڈھتا پھرے گا۔۔۔ رائد نے مشورہ دیا

میں میدان چھوڑ کے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔ آگر میں چلی گئی تو اسکا مطلب تو یہی ہوگا نا کہ میں جزلان خان سے ڈر گئی ۔۔۔ اس سے بچنے کے لیئے میں چھپ گئی مگر میں ایسی بلکل نہیں ہوں جزلان کو کس طرح زیر کرنا ہے اب میں اچھے سے جان گئی ہوں۔۔۔

رائد بھائی شاید آپ کو میری باتیں بری لگیں۔۔ کیونکہ وہ آپکا بھائی ہے مگر میں ہمت اور صبر سے کام لوں گی اور یہیں رہ کے اسکی بربادی دیکھوں گی۔۔۔ مجھے یقین ہے بہت قریب آچکی ہے اسکی بربادی بس میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے یہ دن جلدہی دیکھائے۔

جو شخص زمینی خدا بنا بیٹھا ہے نا ۔۔۔ اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھاتا میں دیکھانا چاہتی ہوں جب اسے خدا کی لاٹھی پڑے گی تب وہ کیا کرتا ہے۔۔۔ وہ کتنا بےبس ہوتا ہے یہ میں دیکھانا چاہتی ہوں۔۔۔ ایمل بےلچک انداز میں کہتی گہرا سانس بھر گئی۔

ٹھیک ہے جیسا تمہیں ٹھیک لگے لیکن آگر کبھی میری ضرورت پڑے تو بغیر ہچکچائے میرے بات چلی آنا تمہارا بھائی ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوگا۔۔۔ رائد کھڑے ہوتے ایمل کے سر پہ ہاتھ رکھتے بولا تو آئلہ بھی اسکے ساتھ ہی کھڑی ہوئی۔

ایمل مسکرا کے دونوں کو دیکھتی ہاں میں سر ہلا گئی تو وہ دونوں جانے کے لیئے مڑے۔۔ جب ایمل نے رائد کو پکارہ۔

رائد بھائی۔۔۔۔ اسکے پکارنے پہ رائد اسکی جانب واپس مڑتا سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

جب جزلان مجھے یہاں لایا تھا تو اسنے میرے گھر کا دروازہ توڑ دیا تھا ۔۔۔۔ اب تو رات ہو گئی ہے نا جانے میرے گھر کی کیا حالت ہوگی کہیں کچھ چوری نہیں ہو گیا ہو آپ پلیز جا کے گھر کو اچھے سے لاک کروادیں۔۔۔ وہ التجائیہ لہجے میں فکر سے بولی۔

فکر نہیں کرو میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔ رائد اسے مطمئن کرتے باہر نکل گیا جب ہے آئلہ وہیں رک گئی۔

کیا تم واقعی ٹھیک ہو۔۔۔ آئلہ ایمل کے ساتھ صوفے پہ بیٹھتی غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی جیسے جاننا چاہتی ہو کے اسکے اندر کیا چل رہا ہے۔

جی بھابھی میں ٹھیک سے بھی زیادہ ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی تو آئلہ ہممم کر کے رہ گئی۔

ویسے بھابھی۔۔۔ رائد بھائی اور جزلان میں کتنا فرق ہے نا۔۔۔ حلانکہ دونوں بھائی ہیں مگر دونوں بھائی ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہیں ۔۔۔ ایک آسماں ہے تو دوسرا زمین۔۔۔۔

رائد بھائی اتنے اچھے ہیں۔۔۔ آپ کا سب کا کتنا خیال کرتے ہیں۔۔۔ آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں اور دوسری طرف جزلان جسے محبت اور عزت جیسے لفظ کے بارے میں پتہ تک نہیں ہے۔۔۔ وہ خوشی سے کہتی آخر میں افسوس سے سر جھٹک گئی۔۔۔ تو اسکی بات پہ ائلہ دھیرے سے مسکرادی۔

تم نے سہی کہا رائد میں اور جزلان بھائی میں بہت فرق ہے۔۔۔۔ ہیں تو دونوں بھائی ایک ہی باپ کی اولاد مگر دونوں کی مائیں الگ الگ ہیں۔۔۔ ہیں تو دونوں ایک ہی خون مگر فرق صرف اتنا ہے ایک نے اپنے باپ کی طرح ہر بری عادت اپنائی ہے اور ایک اپنے ہی ماضی کی وجہ سے تھوڑا تلخ ہوگیا ہے۔۔۔ مگر اب وہ تلخی میں جیسے ختم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آئلہ دھیرے سے بولی تو ایمل اسکی بات سنتے چونکی۔

کیا مطلب بھابھی،،، مائیں الگ الگ ہیں۔۔۔ ایمل نے الجھن سے استفسار کیا تو آئلہ نے اسے رائد کے ماضی سے لے کر اب تک کی ساری بات بتا دی۔۔۔ جسے سنتے ایمل کو تو شوکڈ ہی لگا تھا مطلب اتنا سب کچھ ہوا تھا یہاں پہ۔

مطلب تایا ابو بھی۔۔۔ کوئی اتنا بےحس کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ تایا ابو کے دل میں بیٹوں کے لیئے اتنی نفرت۔۔۔ اب مجھے پتہ چلا کے نوال کی آنکھوں میں جو درد ہے جو ویرانی ہے وہ کس وجہ سے ہے۔۔۔ مجھے دکھ اور افسوس دونوں ہورہا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔۔۔ ایمل تاسف سے نفی میں سر ہلاگئی۔

ہمیں بھی ایسے ہی افسوس ہوا تھا جب ہمیں جزلان بھائی اور بابا کی اصلیت پتہ چلی تھی۔۔۔ مگر ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ ہم تو صرف ان لوگوں کے لیئے حدایت کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔۔۔ 

ہممم ابھی تو اللہ نے انکی رسی ڈھیلی چھوڑی ہوئی ہے مگر جس دن اللہ نے انکی رسی کھینچی اس دن یہ لوگ کتنی بڑی طرح منہ کے بل زمین پہ کریں گے یہ انہیں ابھی اندازہ بھی نہیں ہے۔۔۔ اسنے کھڑی ہوتی آئلہ کو دیکھتے کہا۔

ہممم خیر میں اب چلتی ہوں ۔۔۔ آئلہ نرمی سے کہتی کمرے سے نکل گئی۔

پیچھے ایمل جیسے سوچ میں پڑھ گئی ۔۔۔ اسنے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسکے تایا بھی ایسے ہی ہوں گے۔۔۔ ظاہر ہے بیٹا بھی تو باپ کے ہی نقشے قدم پہ چلتا ہے مگر وہ اب پرسکون تھی ۔۔۔ اسے اب سمجھ آگیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔ اسکے پاس کوئی طاقت نہیں تھی مگر اسے اپنے دماغ کی طاقت استعمال کر کے جزلان کی انا کو توڑنا ہے۔۔۔ اسے یقین تھا وہ یہ کر لے گی باقی اللہ تھا اسکے تھا ۔۔۔

۔🌺 🌺 🌺

کمرے میں سگریٹوں​ گا دھوا پھیلا ہوا تھا ۔۔۔ مدھم سی پیلی روشنی میں دو وجود ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔ جب کے سامنے کانچ کی ٹیبل پہ شراب کی بوتلیں اور گلاس رکھے ہوئے تھے۔

لال شورٹ اسکٹ اور وائٹ شورٹ ٹوپ پہنے جس میں سے اسکی آدھی ٹانگیں اور پیٹ صاف واضح تھا۔۔۔ لیئر کٹ بالوں کو آگے کیئے وہ بلکل جزلان کے ساتھ لگی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں شراب کا گلاس پکڑے وہ ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد جزلان کے لبوں سے لگا رہی تھی۔۔۔

جزلان ایک ہاتھ اسکی کمرے میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں سگریٹ پکڑے نا جانے کس سوچ میں غرق تھا۔۔۔ 

اسے اپنی طرف توجہ نا دینے پہ لڑکی نے بڑی بےباکی سے اسکا گال چومتے اسکی توجہ اپنی طرف دلوائی۔

کیا ہوا ہے ڈارلنگ تم کچھ کھوئے کھوئے سے لگ رہے ہو۔۔۔ وہ لڑکی ایک بازو اسکی گردن کے گرد ہائل کرگئی۔

کچھ نہیں بس اپنی بیوی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔ اسنے ایک گہرا کش لگایا۔

کیا تمہاری بیوی اتنی خوبصورت ہے جو میرے باہوں میں ہونے کے باوجود بھی تم اسکے بارے میں سوچ رہے ہو۔۔۔ وہ لڑکی نروٹھے پن سے کہتی منہ بناگئی تو وہ دلکشی سے مسکرایا۔

یہ تو سچ ہے کہ وہ بہت خوبصورت ہے ۔۔۔ مگر مجھے اسکی خوبصورت سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف میری دشمن ہے۔۔۔۔ جزلان اس لڑکی کو مزید اپنے قریب کرتا سرگوشی میں بولا تو اس لڑکی کے چہرہ پہ پراسرار مسکراہٹ چھاگئی جیسے جزلان نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے محسوس نا کر سکا۔

مجھے بھی اس حسین دشمن کو دیکھنا ہے کیا تم اسے مجھ سے ملوانے نہیں لاؤ گے۔۔۔ وہ لڑکی معصومیت سے گلاس ٹیبل پہ رکھتی دوسرا بازو بھی اسکی گردن میں ہائل کر گئی۔

ضرور کیوں نہیں ۔۔۔ جزلان شدت سے اسکے گال پہ لب رکھتے بولا تو وہ لڑکی سرشار ہوگئی۔

ٹھیک ہے پھر تم اسے کلب لے آنا۔۔۔ 

نہیں ہمارے گھر کی خواتین کلب نہیں جاتیں۔۔۔اور اس کو تو ویسے بھی سارا میڈیا جانتا ہے آگر کسی نے میری بیوی کو وہاں میرے ساتھ جاتے دیکھ لیا تو سوچو میری کتنی بدنامی ہوگی۔۔۔ وہ سمجھاتے ہوئے کہتا اسکے بالوں میں چہرہ چھپا گیا۔

واہ بدنام زمانہ شخص کو بدنامی کا ڈر ۔۔۔

ویسے جزلان خان کب سے ڈرنے لگ گیا۔۔۔ اس لڑکی نے اسے اکسانا چاہا۔

میں کسی سے ڈرتا نہیں ہوں بس مجھے اپنی کرسی جانے کی ٹینشن ہے۔۔۔ تم نہیں جانتی اس کرسی کو حاصل کرنے کے لیئے میں کتنے پاپڑ بیل رہا ہوں۔۔۔ الیکشن بھی قریب آتے جا رہے ہیں لوگ بھی میرے حق میں ہیں۔۔۔ میں ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے سب گواہنا نہیں چاہتا۔۔۔ وہ اس لڑکی کے خفا خفا چہرے کو دیکھتا جیسے وضاحت دے رہا تھا۔ 

اس لڑکی نے ناجانے جزلان خان پہ کیا جادو کردیا تھا کہ وہ آج کل اس پہ اپنا وقت اور پیسہ دونوں لٹا رہا تھا۔۔۔ 

وہ اتنا بےوقوف تو تھا نہیں کہ کسی بھی لڑکی کے چکر میں پڑھ جائے ۔۔۔ وہ بس انہی چیزوں اور لوگوں کو اپنے نزدیک رکھتا تھا جو اسے فائدہ پہنچائیں ضرور اس لڑکی سے بھی اسے کوئی فائدہ ہی ملنے والا ہوگا تبھی وہ اسکی ہر بات مان رہا تھا۔

او کم اون جزلان خان تم جانتے ہو کیسے کسی کی بھی نظروں میں آئے بغیر تمہیں اسے وہاں لانا ہے پلیز کیا تم۔۔میری خاطر اتنا نہیں کر سکتے۔۔۔ اور ویسے بھی تمہاری بیوی کو ایسی جگہیں پسند نہیں ہوگی اچھا ہے نا تم اسے وہاں لاؤ گے اور ایک بار پھر تکلیف ہوگی۔۔۔تمہیں کسی اور کی باہوں میں دیکھ کے۔۔۔ وہ لڑکی بہت ہی لاڈ سے بولی تو نشے کی وجہ سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتے وہ مسکرادیا۔

وہ سہی کہہ رہی تھی ایمل کو ایسی جگہیں نہیں پسند۔۔۔ اسے تو نفرت ہے ایسی چیزوں سے۔۔۔ اور جب وہ اسے وہاں لائے گا تو اسے واقع تکلیف ہوگی اور جس چیز سے ایمل کو تکلیف ہو وہ جزلان نا کرے ایسا ہوئی نہیں سکتا۔

ٹھیک ہے میں لے آؤ گا اب باتیں بند کرو اور جس کام کے لیئے میں یہاں آیا ہوں وہ مجھے کرنے دو۔۔۔ وہ اس پہ جھکتا چلا گیا تو وہ لڑکی بھی مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرگئی۔

۔🌺 🌺 🌺

وہ کمرے میں آئی تو رائد کمرے میں کہیں بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ بالکونی کا کھلا دروازہ دیکھتی وہ وہیں آگئی تھی۔۔۔

کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔ اسے گرل کے پاس کھڑے دیکھ پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیتی اسکی پشت پہ سر ٹکا گئی۔

کچھ نہیں بس یوں ہی ایمل کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔ رائد اسکے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھے آسمان پہ چمکتے ستاروں کو دیکھتے بولا۔

یہ اس کی قسمت تھی اور بھلا قسمت کے آگے کس کی چلتی ہے ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں کے اب جلدی ہی سب ٹھیک ہوجائے۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی تو وہ محض سر ہلا کے رہ گیا۔

آپ ایمل کے گھر نہیں گئے۔۔۔ وہ اسکے برابر میں آکے کھڑی ہوئی اسکے کندھے پہ سر ٹکا گئی۔

میں نے اپنے آدمیوں سے بول دیا ہے وہ سب دیکھ لیں گے ۔۔۔ فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اسنے سکون سے جواب دیا

ارے میں بھول ہی گئی۔۔۔ ہم نے ماما اور نوال کے لیئے گفٹس لیئے تھے وہ بھی تو انہیں دینا ہے نا چلیں آجائیں ہم انہیں گفٹس دے کے آتے ہیں۔۔۔ آئلہ کو یاد آنے پہ وہ فورن اسے اپنے ساتھ آنے کا کہتی اندر کمرے کی جانب بڑھنے لگی مگر رائد اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔

تم دے آؤ۔۔۔۔ وہ عام سے لہجے میں بولا تو آئلہ اسکی پشت کو دیکھ گئی۔

رائد آپ آگر انہیں خود گفٹس دیں گے تو انہیں زیادہ اچھا لگے گا۔۔۔ اسنے سمجھاتے ہوئے کہا ۔

جاناں پلیز۔۔۔ تمہیں دینے ہے تو دے آؤ مجھے ساتھ مت گھسیٹو۔۔۔۔ وہ جھنجھلا کے کہتا اسکے برابر سے نکل کے کمرے میں چلا گیا تو آئلہ گہری سانس بھرتی اسکے پیچھے گئی۔

وہ کمرے میں آئی تو رائد کو الماری کھولے کھڑا پایا۔۔۔ وہ فورن اسکے پیچھے آکے کھڑی ہوئی۔

آگر آپ پہل نہیں کریں گے تو یہ دوریاں کیسے مٹیں گی۔۔۔ وہ پیار سے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی بولی

جاناں مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں پہل کیسے کروں۔۔۔ میں جانتا ہوں جو کچھ ہوا اس میں ان دونوں کا کوئی قصور نہیں ہے مگر سب کچھ نارمل کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔۔۔رائد اسکی جانب گھومتے اضطرابی کیفیت میں بولا۔

ہم نے ماما کی آنکھوں میں آپ کے لیئے تڑپتی مامتا دیکھی ہے۔۔۔ جزلان بھائی ان کے بیٹے ہیں مگر کبھی بھی انہوں نے اپنی ماں کو اہمیت نہیں دی وہ انکے لیئے بھی تڑپتی ہیں اور آپ تو انکی طرف دیکھتے بھی نہیں ہے کوئی ماں کیسے برداشت کر سکتی ہے اپنے بیٹوں کے ایسے رویے۔۔۔

 اور نوال وہ بیچاری تو باپ بھائی کے پیار کو ترستی ہے۔۔۔ آپ نے اپنی ماما سے وعدہ کیا تھا نا کہ آپ اپنی بہن کا خیال رکھیں گے تو نوال بھی تو آپ کی ہی بہن ہے نا۔۔۔ کیا آپ اسکا خیال رکھ کے اسے بھائیوں والا مان دے کے اپنی ماما سے کیا ہوا وعدہ نہیں سنبھالیں گے۔۔۔ آئلہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو رائد نے بےچینی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔ وہ جائے اور نا جائے کے بیٹھ میں پھس گیا تھا

اسے تذبذب کا شکار دیکھ آئلہ نے ہی اسکی یہ مشکل بھی حل کی۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ چھوڑتی الماری میں رکھے ان کے گفٹس نکالنے لگی۔۔۔

چلیں۔۔۔ اسنے گفٹس آگے کرتے مسکرا کے پوچھا تو وہ گہری سانس بھرتے اثبات میں سر ہلا گیا تو آئلہ جلدی سے باہر کی جانب بڑھ گئی اسکے ساتھ رائد بھی باہر نکلا۔

آخر پہل تو اسہی نے کرنی تھی۔۔۔ وہیں تو تھا جس نے انہیں خود سے دور کیا تھا اب پہل کر کے وہ واپس ان رشتوں کو ایک کرنے جا رہا تھا۔

نوال کے کمرے کے دروازہ پہ پہنچ کے آئلہ نے دھیرے سے دروازہ نجاتے ہاتھ میں پکڑے دو بیگز میں سے ایک رائد کے ہاتھ میں تھماگئی جس پہ رائد نے اسے گھور کے دیکھا جس کا اثر لیئے بغیر وہ مسکراتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔

بھابھی آ۔۔۔پ۔۔۔ نوار نے دروازہ کھولا تو آئلہ کو دیکھتی خوشی سے کہتی کہتی اسکے ساتھ کھڑے رائد کو دیکھتی اسکی آواز جیسے کھو سی گئی۔

زندگی میں پہلی بار رائد کو ایسے اپنے دروازہ پہ کھڑا دیکھ نوال الجھ گئی تھی۔۔۔ رائد تو کبھی غلطی سے بھی ادھر نہیں آتا تھا مگر آج یہاں کیسے۔

ہمیں اندر نہیں بلاؤ گی۔۔۔ اسے سکتے کی حالت میں کھڑے دیکھ آئلہ نے منہ بنائے پوچھا تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔

آئیں نا۔۔۔ اسنے جلدی سے سائڈ میں ہوتے انہیں اندر آنے کی جگہ دی۔

کوئی کام تھا آپ لوگوں کو مجھ سے۔۔۔ نوال انکے سامنے کھڑی ہوتی انگلیاں مڑوڑنے لگی 

اسکے پوچھنے پہ آئلہ نے رائد کو دیکھتے گفٹ دینے کا اشارہ کیا جس پہ رائد گہری سانس بھرتا خود کو کمپوز کرنے لگا۔

یہ لو۔۔۔۔ رائد نے اسکی جانب بیگ بڑھایا جیسے اس نے ناسمجھی سے تھام لیا۔

تمہارے لیئے ہماری طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے۔۔۔۔ اور یہاں رائد کے منہ سے ہماری سن کے نوال کو حیرت کا جھٹکا لگا۔

کیا اسنے ٹھیک سنا تھا۔۔۔ رائد جو اسکی طرف دیکھتا تک نہیں تھا اج اسے خود گفت دے رہا تھا ۔۔۔یہ ایک جھٹکے سے کم نہیں تھا۔

کیا یہ واقعی آپ نے میرے لیئے لیا ہے۔۔۔ اسنے بےیقینی سے تصدیق چاہی۔۔۔ اسے یاد تھا کیسے پہلے ہی دن رائد نے انکے ساتھ آئلہ کو بیٹھ کے کھانا بھی کھانے نہیں دیا تھا اور آج اسکے ساتھ مل کے اسکے لیئے گفٹ لایا تھا۔

ہاں۔۔۔ رائد دھیرے سے مسکرایا تو پہلی بار اسے مسکراتے دیکھ نوال کی آنکھیں پھٹیں۔

اسے منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے دیکھ رائد اور آئلہ نے مسکرا کے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر رائد نے آگے بڑھتے دھیرے سے اسکے سر پہ ہاتھ لگا۔

اپنے بھائی کو معاف کر دینا گڑیا۔۔۔۔ اتنے سالوں سے میں نے تمہارے ساتھ ناانصافی کی۔۔۔ تمہارا حق مارا ۔۔۔ تمہیں کبھی ایک بھائی کا پیار ہی نہیں دیا۔۔۔ مگر اب مجھے احساس ہوگیا ہے کے میں کتنا غلط تھا دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ماما اور تمہیں سزا دیتا رہا۔۔۔ تم لوگوں کے ساتھ اپنا رویہ بہت ہی بڑا رکھا۔۔۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔ رائد نے بہت ہی محبت سے اس سے معذرت کی تو خوشی سے نوال کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے۔۔

بےساختہ اسنے دل میں اپنے رب کا شکرادا کیا کہ اسکے ایک بھائی کو تو اسکا خیال آیا۔۔۔ اسکے ایک بھائی کو تو یاد آیا کہ اسکی کوئی غلطی نہیں تھی وہ بلاوجہ اسے پیس رہا تھا۔۔۔ لیکن اب اسکے لیئے یہی کافی تھا کہ اسکا بھائی خود اس سے معافی مانگنے آیا تھا۔

نوال تمہاری خاموشی سے میں کیا سمجھوں کہ تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔ رائد اسے سرجھکائے روتے دیکھ تھوڑا سا جھک کے اسکے چہرہ کو دیکھتے بولا تو وہ بھیگا چہرہ اٹھاتی منہ بسورے نفی میں سر ہلاگئی۔

چلیں جی نوال نے نا میں سر ہلا کے کہہ دیا کہ اسنے آپکو معاف نہیں کیا۔۔۔ آئلہ اپنی مسکراہٹ دباتی سنجیدگی سے بولی تو نوال فورن بول اٹھی۔

نہیں ایسی بات نہیں ہے بھائی کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ میں بس ان سے تھوڑی سی ناراض تھی اداس تھی مگر اب انہوں نے خود سے آکے پہل کر کے مجھے منا لیا ہے تو  اب میں بہت خوش ہوں۔۔۔ وہ جلدی سے آنسوں صاف کرتی مسکرا کے بولی تو آگے بڑھتے آئلہ نے اسے کس کے گلے لگایا۔

ہممم اب بھائی کے آگے ہمیں نہیں بھولنا۔۔۔ آئلہ نے اسے آنکھیں چھوٹی کیئے گھور کے باور کروایا تو کمرہ ان دونوں بھائی بہن کی ہنسی سے گونج اٹھا۔

اچھا اب ہم چلتے ہیں ابھی ہمیں ماما کو بھی گفٹ دینے جانا ہے۔۔۔ آئلہ نے اجازت چاہی۔

میں وہاں نہیں جانا چاہتا اس کمرے میں وہ شخص موجود ہیں جن کی میں شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔ اس لیئے ہم ماما کو یہیں بلا لیتے ہیں۔۔۔ رائد ہاتھ کمر پہ باندھے کھڑا سنجیدگی سے بولتا تو آئلہ نے سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا

میں ابھی بلا کے لاتی ہوں۔۔۔ نوال جلدی سے کہتی خوشی سے چہکتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔

چند ہی منٹ بعد نوال نور بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔

آپ نے مجھے بلایا تھا بیٹا۔۔۔ نور بیگم خوش گوار حیرت سے بولیں تو رائد انکا ہاتھ پکڑتے انہیں بیڈ پہ بیٹھاتا خود انکے قدموں میں بیٹھا۔۔۔ تو نور بیگم چونکیں جب کے نوال اور آئلہ ایک طرف کھڑی نم مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھ رہیں تھیں۔

ارے آپ نیچے کیوں بیٹھ رہے ہو بیٹا۔۔۔ کھڑے ہو وہاں سے۔۔۔ نور بیگم نے اسے کندھوں سے تھام کے اپنے قدموں سے اٹھانا چاہا ۔۔۔ انہیں بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ انکے قدموں میں بیٹھے۔۔۔۔ مگر رائد نا اٹھا۔۔۔ بلکے انکا کندھے پہ دھرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا اس پہ سر ٹکائے رو دیا۔۔۔ تو نور بیگم ایک دم پریشان ہوگئیں۔

نور بیگم کے ساتھ بیٹھتے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی ماں اسکے پاس ہے۔۔۔ انکے ہاتھوں کا لمس اسے بلکل اپنی ماں جیسا لگا تھا۔۔۔ ان کا بیٹا پکارنا بلکل ایسے الگ رہا تھا جیسے اسکی ماں پکارہ رہی ہے۔۔۔ برسوں جس ماں کو یاد کرتے وہ روتا تھا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی ماں اسکے پاس واپس آگئی ہو۔۔۔

ایک سکون سا رائد کے اندر اترا تھا۔۔۔

رائد کیوں رو رہے ہو۔۔۔ وہ اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتی پیار سے پوچھنے لگی تو وہ سر اٹھائے اپنی آنکهیں صاف کر گیا۔

ماما،،،،مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کس طرح آپ سے معافی مانگوں۔۔۔ میں نے ہمیشہ آپ کا دل دکھایا ہے۔۔۔ میں ہمشیہ سمجھتا تھا کہ آپ میری ماما کی جگہ لینے آئی ہیں مگر میں غلط تھا۔۔۔ کوئی کبھی کسی کی جگہ لے ہی نہیں سکتا۔۔۔ لیکن میں جیسے بےحس ہو گیا تھا۔۔۔ بلکل بےمروت۔۔۔ آپ سے کتنی بار بدتمیزی بھی کی۔۔۔ مگر آپ نے کبھی بھی مجھے کچھ نہیں کہا۔۔۔بلکا الٹا ہمیشہ مجھ سے پیار ہی کیا ۔۔۔ بس میں ہی پاگل تھا جو اپنے باپ کا غصہ آپ لوگوں پہ اتارتا رہا۔۔۔ وہ بھاری آواز میں سر جھکائے شرمندہ لہجے میں معافی مانگ رہا تھا۔

نور بیگم تو پہلی بار اسکے منہ سے ماما سن کے ہی جیسے جی اٹھی تھیں۔۔۔ انہیں بہت خوشی تھی کہ رائد نے انہیں اپنا لیا ہے۔۔۔ انکی مامتا جو اپنے بیٹوں کو گلے سے لگانے کے لیئے تڑپتی تھی اسے رائد نے سکون بخش دیا تھا۔

نہیں بیٹا اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔ آپ اس وقت چھوٹے تھے اور کوئی بھی چھوٹا بچہ اپنی ماں کی جگہ کبھی کسی اور کو برداشت نہیں کرتا ۔۔۔ اور پھر بچپن سے ہی اسکے دل میں ایک الگ جگہ ایک نفرت سی بیٹھ جاتی ہے۔۔۔ آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا مگر آپ کو اب احساس ہوگیا ہے میرے لیئے یہی بہت ہے۔۔۔ مجھے میرا بیٹا مل گیا مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔۔ نور بیگم نم آنکھوں سے اسے دیکھتی شفقت سے اسکے سر پہ ہاتھ پھرنے لگیں۔

شاید مجھے یہ احساس کبھی نا ہوتا آگر آپ کی بہو میرے کان کھینچ کے مجھے احساس نا دلاتی کے میں اتنے سالوں سے کسی بےگناہ کو بلاوجہ سزا دے رہا ہوں۔۔۔ آگر یہ نا ہوتی تو مجھے کبھی احساس نا ہوتا کہ میں کسی معصوم کا دل دکھا رہا ہوں۔۔۔ رائد محبت سے آئلہ کو دیکھتے بولا تو اسکی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

تھینک یو بیٹا میرے کھوئے ہوئے بیٹے کو ڈھونڈھ کے کان کھینچ کے میرے پاس لانے کے لیئے۔۔۔ نور بیگم شرارت سے رائد کے کندھے پہ ہلکی سی چپت لگاتی آئلہ کو دیکھتی بولیں تو وہ ہنس دی۔

رائد نے بھی مسکراتے ہوئے باری باری انکے جھریوں والے ہاتھوں کو عقیدہ سے چوما۔

ماما میں بھی ہوں۔۔۔ اپنی ماں کو پیار سے ممتا بھرے انداز میں رائد کے ماتھے پہ بوسہ دیتے دیکھ نوال منہ بنائے بولی۔

تم کون ہو بھئی۔۔۔ نور بیگم کے کہنے سے پہلے رائد نے مسنوعی حیرت سے پوچھا تو نوال کا منہ کھلا۔

بھائی آپ کو میری طرف ہونا چاہیئے تھا۔۔۔ نوال نے بچوں کی طرح منہ بنایا تو رائد ہنس دیا

ہاہاہا میری گڑیا میں ہمشیہ تمہاری طرف ہی رہوں گا۔۔۔ رائد نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو اپنی جانب بلایا تو وہ بھاگتی ہوئی آکے اپنی ماں کے ساتھ بیٹھتی انکے کندھے پہ سر رکھ گئی۔

ان تینوں کے چہروں پہ برسوں بعد اتنی خوشی دیکھ رہی تھی۔۔۔ تینوں کے چہرے جیسے کھلے ہوئے تھے۔۔۔ 

آئلہ بیٹا آپ وہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ ہمارے پاس۔۔۔ نور بیگم نے اسے کھڑا دیکھتے بولا یا تو وہ انکے دوسری جانب آکے بیٹھ گئی۔

یہ آپ کے لیئے۔۔۔ آئلہ نے اسکی جانب بیگ بڑھایا تو وہ اسکے ہاتھ سے تھمتا اپنی ماں کو دینے لگا۔

بیٹا اسکی کیا ضرورت تھی۔۔۔ آج تم نے مجھے جو تحفہ دیا ہے میرے لیئے وہیں بہت تھا۔۔۔ وہ بیگ لیتی آسودہ مسکراہٹ سجائے بولیں تو ایک بار پھر وہ انکے ہاتھ چوم گیا۔

رائد نے تشکر سے آئلہ کی جانب دیکھا جس پہ آئلہ مسکراتے ہوئے ہلکے سے سر کو خم دے گئی۔

رشتے اتنے خوبصورت ہوتے ہیں یہ رائد کو اب پتہ چل رہا تھا۔۔۔ایک عمر تو اسنے اکیلے گزاری تھی مگر اب وہ پہلے اللہ کا شکر گزار تھا کے اسنے آئلہ جیسی نیگ سلجھی ہوئی اور سمجھدار ہمسفر  دی اور پھر آئلہ کا جس نے اسے سہی غلط میں فرق کرنا سیکھایا۔۔۔ جس نے اسے اسکے وہ رشتے دیئے جن کے لیئے وہ ایک عرصہ رویا تھا۔۔۔ مگر اب جیسے سب کچھ ٹھیک ہوتا جا رہا تھا مگر اس ٹھیک میں بھی ابھی کچھ رشتے بچے تھے جن کا ٹھیک ہونا باقی تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

کمرے میں داخل ہوتے ہی رائد آئلہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے اسے بیڈ پہ بیٹھاتے خود اسکی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا۔

تھینک یو سو مچ جاناں تمہاری وجہ سے مجھے میرے بکھرے ہوئے رشتے مل گئے۔۔۔ تمہاری وجہ سے آج مجھے میری ماں اور بہن واپس مل گئیں۔۔۔ یہ صرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔ آگر تم مجھے لوگوں کی اہمیت اور احساس نا دلادیں،،،، سہی غلط نا بتاتیں تو میں شاید ہمیشہ ان لوگوں کا دل ہی دکھاتا رہتا۔۔۔ 

تم میری زندگی میں آئیں ۔۔۔۔ مجھے سدھارا میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔۔۔ رائد اسکے ہاتھوں کو چومتے اسکے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ گیا۔

آئلہ مسکراتے ہوئے اسے سن رہی تھی۔۔۔ اسکے چہرے کی مسکراہٹ ایک پل کے لیئے بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ رائد کو خوش اور مطمئن دیکھ آئلہ اندر تک سرشار ہوئی تھی۔

اسکے ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹا کے رائد نے اسکی جانب دیکھا جو اسے ہی مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

اسکی گود سے سر ہلاتے اسے اپنے ساتھ لیٹاتے خود اسکے اوپر آیا۔

آج میرا عشق آخری حد تک پہنچ چکا ہے ۔۔۔ کوئی میرے لیئے اتنا ضروری ہوگا یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ اسکے ماتھے پہ لب رکھتا گھمبیرتا سے گویا ہوا۔۔۔ تو شرم و حیا سے اپنی سرمئی سحر انگیز آنکھوں کے آگے پلکھوں کا پردہ گرا گئی جسے دیکھتے رائد بےخود ہونے لگا۔

تم میری سانسیں بن چکی ہو جاناں۔۔۔ تمہارے بغیر رائد خان مرجائے گا۔۔۔ مجھے کبھی چھوڑ کے نہیں جانا۔۔۔ نا جانے وہ کس جذب کے تحت یہ بات کر رہا تھا۔

آئلہ نے پلکھیں اٹھا کے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسے کھونے کا ڈر تھا۔۔۔۔ شاید ہر محبوب کو ہوتا ہے اپنے پیار کو کھونے کا ڈر۔۔۔ اور یہی ڈر رائد کو بھی تھا۔

ہم آپ کو چھوڑ کے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس طرح ہم آپکی سانسیں ہیں ویسے ہی آپ ہماری زندگی ہیں اور ہمیں ہماری زندگی خود سے زیادہ عزیز ہیں۔۔۔ وہ اسکے وجیہہ چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھامے اسکے ماتھے پہ اپنے کانپتے لب رکھ گئی تو رائد کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

میری زندگی میں آ کے مجھے میری خوشیاں واپس لوٹانے کا بےحد شکریہ۔۔۔ اپنے تشنہ لب باری باری اسکی آنکھوں پہ رکھتا اسکا چہرہ اناری کر گیا۔

مجھے دوبارہ زندگی جینا سیکھانے کے لیئے بہت شکریہ۔۔۔ جذب کے عالم میں سرگوشی کرتا سرخ نرم روئی جیسے گالوں پہ لب رکھتے شدت سے وہاں اپنا لمس چھوڑا۔۔ جس پہ آئلہ شرم سے سمٹتی اسکے سینے میں اپنا آپ چھپانے لگی۔

میری بےرونق زندگی کو رنگوں سے بھرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ مدہوش لہجے میں کہتا اسکے ہونٹوں پہ جھکتے نرمی سے انہیں قید کر گیا جس پہ آئلہ آنکھیں بند کرتی سکون سے خود کو اسکے حوالے کر گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

نور بیگم نوال کے پاس سے ابھی اٹھ کے گئیں تھیں۔۔۔ وہ دونوں کافی دیر تک بیٹھی باتیں کرتیں رہیں تھیں ایک دوسرے کے گفٹس دیکھتی خوشی سے جھوم اٹھیں تھی۔

رائد کی اس خوشگوار تبدیلی نے جیسے انہیں ترو تازہ کر دیا تھا۔۔۔ ایک طرف بیٹے کا پیار تو دوسری طرف بھائی سے ملی عزت محبت  پہ بیٹی کی چمکتی آنکھیں دیکھ کے جیسے انکی آدھی ٹینشن دور ہوگئی تھی۔

اب انہیں نوال کی طرف سے بھی بےفکری ہو گئی تھی کیونکہ اب کوئی تھا جو انکی ڈھال بنتا۔۔۔ ورنا تراب خان تو نوال کو کسی کے بھی ساتھ بیاہ دیتے لیکن اب رائد انکے ساتھ تھا اور انہیں یقین تھا کہ رائد ضرور ایمل کے لیئے ایسا لڑکا ڈھونڈے کا جو اسے پیار دے اسکی عزت کرے۔۔۔

انہیں یقین تھا وہ کبھی بھی اپنے باپ کی طرف بس سر سے بوجھ اتارنے کا کام نہیں کرے گا۔

نور بیگم کے جانے کے بعد نوال اچھے سے کمرہ لاک کرتی رائد کا دیا برسلیٹ پہن کے اسکی تصویریں لے کے حسام کو بھیج چکی تھی۔۔

ابھی تصویریں بھیجے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ حسام کی کال آگئی ۔۔۔ اسنے جلدی سے کال ریسیو کی۔

برسلیٹ کیسا تھا۔۔۔ اسنے کار ریسیور کرتے ہی جوش سے پوچھا۔

تم نے برسلیٹ بھی پہنا ہوا تھا میں نے تو دیکھا ہی نہیں میں تو بس تمہارا ہاتھ دکھ رہا تھا۔۔۔ حسام شوخی سے بولا تو نوال نے اپنا ماتھا پیٹا۔

افففف حسام کبھی اپنی یہ رومانی باتیں چھوڑ کے سیدھی طرح بھی جواب دے دیا کریں۔۔۔ اسکی خفگی بھری آواز پہ حسام بامشکل اپنا قہقہہ روک پایا۔

اچھا سوری۔۔۔۔ بہت اچھا تھا۔۔۔ کس نے دیا ہے۔۔۔ یقیناً آنٹی نے ہی دیا ہوگا۔۔۔ حسام نے سوری کہتے ساتھ خود ہی سوال پوچھتے خود ہی جواب بھی دے دیا۔

نہیں رائد بھائی نے دیا ہے۔۔۔ نوال برسلیٹ کو چومتی خوشی سے بولی تو دوسری طرف موجود حسام کو جھٹکا لگا۔

ہیںںںںں  یہ کیا بول رہی ہو۔۔۔ رائد کیسے دے سکتا ہے۔۔۔ اسکی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔۔۔ رائد اکڑو شخص اور گفٹ وہ بھی نوال کو یہ ماننا اس کے لیئے بہت مشکل تھا۔

وہ کیوں نہیں دے سکتے ماشاءاللہ سے میرے بھائی بزنس ٹائیکون ہیں۔۔۔ نوال نے فخر سے گردن اکڑا کے کہا۔

ارے بھائی کی بہن میرا مطلب ہے وہ تو تم لوگوں سے بات ہی نہیں کرتا تھا پھر تمہیں یہ کیسے دیا۔۔۔ حسام نے تحمل سے پوچھا تو وہ جیسے اسکا مطلب سمجھتی سر ایسے ہلا گئی جیسے وہ اسکے سامنے بیٹھا دیکھا رہا ہے۔

آج بھائی ہم سے سوری کرنے آئے تھے۔۔۔بھائی کو لگا کے وہ ہمارے ساتھ غلط کر رہے ہیں۔۔۔انہیں احساس​ ہو گیا کہ وہ بابا کی غلطی کی سزا کسی بےگناہ کو دے رہے ہیں ۔۔۔ اس لیئے وہ میرے اور مما کے لیئے نا صرف گفٹس لائے ہیں بلکے اپنے پچھلے وریہ کی وجہ سے ہمیں سوری بھی بولا ہے۔۔۔ اسکی پرمسرت آواز سنتے حسام مسکرا دیا۔۔۔ اسکی آواز سے ہی اسکی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔۔۔

حسام آج میری آدھی دعائیں پوری ہوگئی ہیں ۔۔۔ میں بہت خوش ہوں مگر۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکی۔

مگر۔۔۔ حسام نے نرمی سے دوہرایا۔۔۔ تو اسنے ایک گہرا سانس بھرا۔

میری دعا ہے کہ جس طرح اللہ نے رائد بھائی کا دل ہماری طرف پھیر دیا ہے۔۔۔ ویسے ہی وہ بابا اور جزلان بھائی کا دل بھی ہماری طرف کر دے۔۔۔ وہ بھی مجھے اور ماما کے ساتھ پیار اور عزت سے پیش آئیں۔۔۔ 

بابا میرے لاڈ اٹھائیں۔۔۔ جزلان بھائی مجھے تنگ کریں۔۔۔ اور ہم تینوں بہن بھائی مل کے خوب مستی کریں۔۔۔ نا جانے یہ دن کب آئے گا جب بابا اور جزلان بھائی کو بھی اپنی غلطیوں کا احساس ہوگا۔۔۔اور ہم سب اکھٹے ہوں گے۔۔۔۔ دھیمے لہجے میں حسرت سے بولی۔

وہ اب بھی خوش تھی بہت خوش۔۔۔ اور ہوتی بھی کیوں نا جس پیار کے لیئے وہ اتنے سال تڑپی تھی آخر وہ اسے نصیب ہو ہی گیا تھا مگر پھر بھی ایک خلیج باقی تھی دل میں۔۔۔ ایک اور بھائی اور باپ۔۔۔ خاص کر باپ کے رویہ سے اولاد کا دل بہت دکھتا ہے اور وہ تو پھر نوال کو کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچتے ہی نہیں تھی۔۔۔ وہ ایسے ایسے تیز چلاتے تھے کہ نوال کا دل بہت بری طرح زخمی ہوجاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے بابا سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے امید تھی کہ ایک دن اسے بھی باپ کا پیار نصیب ہوگا۔

پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ آج رائد کو احساس ہوا ہے کل کو جزلان اور انکل کو بھی ہو جائے گا مگر اس میں وقت لگے گا اور تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔۔۔ حسام نے اسے تسلی دی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو سدھرتے ہیں اور ان لوگوں میں اسکے باپ اور بھائی کا شمار نہیں ہوتا ۔۔۔ اب وہ لوگ سدھریں گے یا نہیں یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا۔

ہممممم۔۔۔ نوال نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔

ویسے اب تو ہمارے ملنے کا راستہ آسان ہوگیا۔۔۔ رائد تمہاری طرف ہے تم اس سے کہو گی تو وہ اپنی بہن کی محبت ضرور اسے دلائے گا۔۔۔ حسام نے شوخی سے بات بدلی

حسام آپ بھول رہے ہیں ہمارے خاندان کے بیچ میں دشمنی ہے اور یہ خاندان رائد بھائی کا بھی ہے۔۔۔۔ نوال نے جیسے اسے یاد دلانا چاہا جس پہ حسام برا سا منہ بنا گیا۔

یار تم کیوں مجھے بار بار اس دشمنی کا یاد دلا دیتی ہو ۔۔۔ وہ سالوں پہلے ہمارے بڑوں کے بیچ میں تھی۔۔۔ ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔۔۔ وہ چڑ کے بولا تو نوال ہنس دی۔

جناب ہمارے بڑے ابھی موجود ہیں اتنی آسانی سے نا ہی یہ دشمنی بھلائی جائے گی اور نا ہی اتنی آسانی سے ہمیں کوئی ملنے دے گا۔۔۔ وہ اسکے علم میں اضافہ کرتی تکیہ پہ کہنی ٹکائے الٹی لیٹی۔

پھر بھی تم رائد سے بات ضرور کرنا۔۔۔ حسام نے زور دیا۔

نہیں میں ماما سے بات کروں گی وہ بھائی سے بات کرلیں گی۔۔۔ مگر ابھی نہیں کچھ دن بعد۔۔۔ نوال کے کہنے پہ وہ اوکے کہہ گیا۔

ان کے بیچ میں ایسے ہی چھوٹی موٹی باتیں ہنسی مزاق جلتی رہی۔۔۔ دونوں ہی اپنی شادی کی پلینگ میں مصروف تھے مگر وہ لوگ جتنا اس سے آسان طرح سے پلین کر رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ اتنا ہی مشکل یہ سب ہونے والا ہے۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کے چار بج رہے تھے جب وہ  فارم ہاؤس سے واپس آیا تھا۔۔۔ چال میں اب بھی تھوڑی لڑکھڑاہٹ تھی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں ۔۔۔

وہ سیدھے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔دھاڑ سے دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوا تو توقع کے برعکس ایمل آج بیڈ پہ سو رہی تھی جسے دیکھتے جزلان کو ایک جھٹکا لگا۔

وہ تو ہمشیہ صوفے پہ سوتی تھی اور جزلان روز اس سے لڑ جھگڑ کے اسے بےبس کرتے بیڈ پہ سلاتا تھا مگر آج تو وہ پہلے سے ہی بیڈ پہ سو رہی تھی یہ بات اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔

اپنی قمیض اتار کے صوفے پہ پھیکتے جان بوجھ کے بیڈ پہ دھپ کر کے لیٹا تا کہ ایمل کی نیند خراب ہو جائے مگر ایمل میں تو اتنی سی بھی حرکت نہیں ہوئی تھی جس پہ جزلان خاصہ حیران تھا۔

اس نے پھر اسے تنگ کرنے کی خاطر اسے کمرے سے تھام کے اپنے قریب کیا مگر جب بھی ایمل کی نیند میں کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔

کہیں مر ور تو نہیں گئی۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے اسکی ناک کے نیچے ہاتھ رکھا مگر اسکی سانسیں تو نارمل چل رہیں تھی مگر پھر وہ کوئی رسپونس کی نہیں دے رہی تھی شاید گہری نیند میں تھی۔

کچھ دیر اسکی پشت کو گھورتے رہنے کے بعد سر جھٹکتے کروٹ بدل گیا۔۔۔ دن بھر عیاشی کر کے وہ بہت تھک گیا تھا ۔۔۔ نیند سے آنکھیں بھاری ہو رہیں تھیں جس وجہ سے وہ جلد ہی سو گیا۔

کمرے کی خاموش فضا میں جزلان کی تیز سانسوں کی آواز محسوس کرتے ایمل نگ تھوڑی سی آنکھیں کھول کے ہلکی سی گردن گھما کے اسے دیکھا جو اسکی جانب پشت کیئے سو رہا تھا اور پھر واپس نا محسوس انداز میں گردن ٹھیک کرتی گہری مسکراہٹ لیئے آنکھیں موند گئی۔

ایمل کبھی بھی گہری نیند میں نہیں سوئی تھی اسکی نیند اتنی کچی تھی کہ وہ آہٹ پہ بھی اٹھ جایا کرتی تھی وہ اب بھی کافی دیر سے اٹھی ہوئی تھی مگر جزلان کے سامنے سوتی بنی رہی۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے صرف اسے تنگ کرنے کے لیئے کر رہا ہے اسے تکلیف پہچانا چاہتا ہے مگر اسنے آج اسے کوئی موقع ہی نہیں دیا تھا جس کا نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔اب اسے یہی کرنا تھا ۔۔۔ ہر وہ کام کرنا تھا جو جزلان چاہتا تھا۔۔۔ 

دوپہر کے ساڑھے تین بج رہے تھے جب جزلان کی آنکھ کھلی ۔۔۔ اسنے ایک بھرپور انگڑائی کے بعد نظریں کمرے میں دوڑائی تو ایک دم حیران ہوتے اٹھ بیٹھا ۔

اسکے کپڑے استری ہوئے طریقے سے سامنے الماری کے ہینڈل پہ ہنگ ہوئے وے تھے۔۔۔ اس کے بلکل آگے ہی اسکی پشاوری چپل صاف ہوئی رکھی تھی۔۔۔ ڈریسنگ ٹیبل پہ اسکی گھڑی فون گاڑی کی چابیاں اور والیٹ رکھا ہوا تھا۔۔۔ 

اسکے کمرے یا اسکی چیزوں میں ملازموں کو گھسنے کی اجازت نا تھی نا ہی نور بیگم اسکی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی تھی ۔۔۔ 

جزلان کو سب ہی جانتے تھے کہ اگر اسکی رکھی چیز اِدھر کی ہلکی سی بھی اُدھر ہو جائے تو وہ پوری حویلی سر پہ اٹھا لیتا تھا اس لیئے کوئی بھی اسکی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔۔۔ 

مگر آج زندگی میں پہلی بار اسکے نا صرف کپڑے بلکے ہر چیز پہلے سے ریڈی رکھی تھی ورنا تو وہ جب اٹھاتا تھا تب خود اپنے ہاتھ سے نکلا کے ملازم کو چیزیں دیتا تھا لیکن آج یہ سب کس نے کیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔

وہ ابھی اسہی شوکڈ میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلنے پہ دروازے کی جانب متوجہ ہوا جہاں سے ایمل دوپٹہ سے ہاتھ صاف کرتی اندر آرہی تھی۔

اٹھ گئے تم ۔۔۔ ناشتہ کرو گے یا کھانا کھاؤ گے۔۔۔ ایمل اسے دیکھے بغیر سیدھی الماری کی جانب بڑھتی وہاں رکھے اپنے کپڑے بےمقصد اِدھر سے اُدھر کرنے لگی۔۔۔۔ وہ صرف جزلان کو یہ دیکھانا چاہتی تھی کہ وہ مصروف ہے۔

الماری میں اپنے کمروں کے ساتھ اسکے کپڑے دیکھتے جزلان ایک جھٹکے سے خود پہ سے کمفٹر ہٹاتا لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس تک پہنچا 

یہ تمہارے کپڑے میری الماری میں کہاں سے آئے۔۔۔ جزلان کو اچھے سے یاد تھا کہ جب کل وہ اسے یہاں لایا تھا تو وہ خالی ہاتھ آئی تھی اور اس سے پہلے بھی بس اسکے دو سوٹ ہی یہاں تھے مگر اب تو اچھے خاصے کپڑے موجود تھے الماری میں۔

میں یہاں رہوں گی تو مجھے کپڑوں کی تو ضرور ہوگی نا اب تمہارے کپڑے تو پہننے سے رہی اس لیئے ڈرائیور کے ساتھ جاکے صبح ہی اپنے سارے کپڑے لے آئی تھی۔۔۔ وہ سکون سے کہتی پھر سے پکڑوں کی جانب متوجہ ہوگئی ۔۔۔ جب کے جزلان تو اسکے بدلتے لہجے پہ ششدر رہ گیا۔۔۔ اسے ہو کیا گیا تھا اچانک سے اتنی میٹھی کیسے ہو گئے تھی۔

ہٹاؤ انہیں یہاں سے۔۔۔ وہ سختی بولا تو ایمل نے اچھنبے سے اچھے دیکھا۔

کیوں بھئی۔۔۔ میں تمہاری بیوی ہوں اور تم نے ہی تو کہا تھا میری اصل جگہ میرے شوہر کا کمرا ہے ۔۔۔تو ظاہر ہے اس کمرے میں موجود ہر چیز پر میرا بھی برابر کا حق ہے ۔۔۔ بہت ہی سمجھداری سے سکون اطمینان کے ساتھ جواب دیا تھا۔۔۔ جب کے جزلان اپنا غصہ ضبط کرتے رہ گیا۔

اور یہ۔۔۔۔ کس سے پوچھ کے تم نے میری چیزیں نکالی ہیں۔۔۔ مجھے بلکل نہیں پسند کے کوئی میری چیزوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔ ہینگ ہوئے سوٹ کو گڑی مڑی کرتے اسکی استری خراب کر کے صوفے پہ پھینکا۔۔۔ وہ کسی بھی طرح اس سے لڑنا چاہتا تھا اسے روتا دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ اس لیئے جب ایک جگہ سے بات نا بنی تو اسنے دوسری طرف بات شروع کی۔

میں تمہاری بیوی ہوں کسی نہیں تو مجھے اجازت ہے تمہاری چیزوں کو چھونے کی۔۔۔۔ ایمل بہت ہی اطمینان سے کہتی جزلان کو آگ لگا گئی۔

ابھی اور اسہی وقت میرا دوسرا سوٹ استری کرو۔۔۔ اسکے بازو کو سختی سے اپنی گرفت میں لیتے لفظ چبا چبا کے حکم دیا۔۔۔ جزلان جانتا تھا وہ کبھی بھی آرڈرز کو نہیں مانتی اور وہ اب بھی اسکے منہ پہ انکار کر دے گی جس کے بعد اسے ایک موقع مل جائے گا مگر یہاں تو سب اسکے امیدوں کے برعکس ہو رہا تھا۔ 

جو بھی پہنا ہے تم نکال دو میں کر دیتی ہوں۔۔۔ اسکی سخت پکڑ میں ایمل اپنے بازو میں اٹھتا درد برداشت کرتی نرمی سے بولی وہ اسکے سامنے بلکل بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اسکے اس عمل سے اسے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔ ورنا اسکا حکم دیتا لہجہ ایمل کو زہر لگ رہا تھا۔

اتنی آسانی سے مان جانے پہ جزلان کو ایک بار پھر جھٹکا لگا اور ساتھ بےانتہا غصہ بھی ایا۔

تم یہ سب جان بوجھ کے کر رہی ہو نا۔۔۔ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب لاتے غرایا۔

کیا۔۔۔ ایمل جان کے بھی انجان بنی۔

تم جان بوجھ کے میری ساری باتیں مان رہی ہو تاکے مجھے تمہیں باتیں سنانے کا تمہیں تکلیف دینے کا کوئی موقع ہی نا ملے۔۔۔ وہ غصے سے بولا تو ایمل دھیرے سے مسکرائی

ڈیئر ہسبینڈ ۔۔۔ میں جانتی ہوں میری قسمت تمہارے ساتھ پھوٹ چکی ہے۔۔ اب مجھے ساری زندگی تمہارے ساتھ ہی گزارنی ہے اس لیئے میں بس سمجھوتا کر کے ایک پرسکون زندگی گزارنا چاہتی ہوں بغیر لڑائی جھگڑے کے۔۔۔ آرام سے کہتی جزلان کو جبڑے بھیجنے پہ مجبور کر گئی۔۔۔

اسکا بازو جھٹکتے کھلی الماری سے پینٹ اور ٹی شرٹ نکالتے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔ مگر جاتے جاتے رکا اور پیچھے مڑ کے اسکی جانب دیکھا جو ابھی تک اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

بیوی ہونا تم میری ۔۔ تو آج رات تیار رہنا مجھے میرے حقوق دینے کے لیئے۔۔۔۔۔ شوخ سی مسکراہٹ کے ساتھ اسکا پھیکا پڑھتا چہرہ دیکھتے ایک آنکھ ونگ کرتے واشروم میں گھس گیا۔۔

ایمل نے واشروم کے بند دروازے کو دیکھا۔۔۔ بس یہی ایک وجہ تھی جہاں وہ آکے بےبس ہو جاتی تھی ۔۔۔ وہ اس شخص کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ اب بھی جو کچھ کر رہی تھی صرف اس لیئے ہی کر رہی تھی کہ جزلان کو کوئی اور موقع نا ملے اس کے ہاتھ اسکی کوئی کمزوری نا لگے۔۔۔ مگر وہ بھول گئی تھی کہ ایک موقع ہمیشہ اسکے پاس ہے ۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔۔۔ کیسے اس مصیبت سے نکلے ۔۔۔۔ مگر یہ تو طے تھا کہ وہ اب اسکے سامنے بےبس بلکل نہیں ہوگی۔

۔🌺 🌺 🌺

وہ جیسے ہی ہال میں آیا ڈائنگ روم میں ٹیبل پہ سب بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب کے ایمل صرف بیٹھی ہوئی تھی کچھ کھا نہیں رہی تھی ۔۔۔ لیکن جیسے ہی نظر جزلان پہ پڑی فورن کھڑی ہوتی اسے پکارنے لگی۔

کھانا کھا لو آکے۔۔۔ اسکی پکار پہ جزلان سپاٹ چہرہ لیئے ٹیبل پہ آتے کرسی گھسکا کے بیٹھ گیا۔

جزلان کے آتے ہی آئلہ ایک طرف سے دوپٹہ آگے کر گئی جس سے اب اسکا چہرہ جزلان سے چھپ گیا تھا۔

جب کے نوال اور نور بیگم خاموشی سے اپنے کھانے میں مصروف تھیں۔

مجھے یہ نہیں کھانا میرے لیئے پراٹھے​ اور چائے بنا کے لاؤ۔۔۔ ایمل اپنی کرسی پہ بیٹھی اسکے آگے پلیٹ رکھتی اس میں سالن نکالنے ہی لگی تھی جب وہ بول اٹھا۔

شاہدہ ۔۔۔۔۔ ایمل نے ہاتھ واپس کھینچتے شاہدرہ کو پکارہ۔

مجھے تمہارے ہاتھ کے بنے کھانے ہیں۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تو ایمل لب بھیجے اسے دیکھ کے رہ گئی ۔۔۔ جب کے اسکی بات سنتے ایک منٹ کے لیئے ٹیبل پہ موجود باقی افراد کے ہاتھ رکے تھے۔

کیا ہوا بنا نہیں سکتیں بیوی ہو تم میری اپنے شوہر کی اتنی سی بات نہیں مانوں گی۔۔۔ خود کی جانب دیکھتے دیکھ وہ اسے زچ کرتے بولا تو ایمل خود پہ ضبط کرتے اٹھ گئی ورنا اسکا دل تو کر رہا تھا ٹیبل پہ رکھا پانی سے بھرا کانچ کا جگ اسکے سر پہ دے مارے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔۔ وہ اسکے سامنے بلکل ظاہر نہیں کر سکتی تھی کہ وہ زچ ہو رہی تھی۔۔۔ اسے غصہ آرہا ہے۔۔۔ اسے ایک دم نارمل رہنا تھا اسکے سامنے۔

لاتی ہوں۔۔۔ عام سے لہجے میں کہتے اٹھ کے کچن کی جانب بڑھ گئی۔

چھوٹی بیگم آپ یہاں بیٹھ جائیں میں بنا دیتی ہوں۔۔۔ شاہدہ اسے کچن میں رکھی کرسی کی جانب اشارہ کرتی بولی۔

شاہدہ ہمشیہ سے کھانا تم ہی بناتی ہو وہ تمہارے ہاتھ کا ذائقہ جانتا ہوگا۔۔۔ پروین تم جلدی سے چائے اور پراٹھے بنا دو کیونکہ تمہاری ہاتھ کا ذائقہ تو کسی کو نہیں پتہ اس لیئے اسے یہی لگے گا کہ یہ میں نے بنایا ہے۔۔۔ ایمل نے دماغ سے کام لیتے کہا تو اسکے کہے کے مطابق ملازمہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی پراٹھے بنانے لگی۔۔۔

 جب کے ایمل وہی رکھی کرسی پہ بیٹھ گئی یہ تو طے تھا کہ وہ کبھی اس شخص کے لیئے اتنی محنت نہیں کرتے گی۔۔۔ جب وہ اس سے نفرت کرتی ہے تو کیوں وہ خود کو اس کے کام کر کے تھکائے۔۔۔ وہ وہیں بیٹھی چولہے میں جلدی آگ کو دیکھتی آگے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

ابھی تو ایک دن بھی پورا نہیں ہوا تھا اور اتنے سے ہی وقت میں اسے جزلان کی حرکتیں برداشت سے باہر لگ رہیں تھی ۔۔۔بہت بار تو اسکا دل کیا کہ سیدھے کورٹ ہی پہنچ جائے اور اس مصیبت سے جان چڑوالے مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا جینا تو جزلان بے تب بھی اسکا حرام کرنا ہی تھا۔

مگر اب جو اسنے خود سے عزم کیا تھا وہ اسے پورا کرنا ہی تھا۔۔۔ اسے صبر سے کام لیتے جزلان کے بےبس ہونے کا انتظار کرنا تھا۔۔۔ اب وہ کیسے ہوگا یہ وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے یقین تھا آگر آج وقت جزلان کے ساتھ ہے تو کل اسکے ساتھ بھی ہوگا۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ ملازمہ نے اسے بتایا کہ پراٹھے بن چکے ہیں۔۔۔ جس پہ ہو ہاں میں سر ہلاتی پراٹھے اٹھائے باہر آئی۔

جزلان کے سامنے پراٹھے رکھنے کے بعد واپس اندر گئی پہلے ایک گھونٹ چائے کا الگ سے خود چیک کیا کہ چائے ٹھیک بنی ہے یا نہیں اور جب اسے یقین ہوگا کہ چائے اچھی بنی ہے تو چائے لیئے باہر آئے۔

ایمل کو اتنی فرمابرداری سے اپنی باتیں مانتا دیکھ جزلان سے برداست نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔ وہ تو اسے اتنا تنگ کرنا چاہتا تھا،،، اتنا ستانا چاہتا تھا کہ وہ اس سے پریشان ہوکے اسے پھر سے چھوڑنے کی بات کرے اور پھر سے وہ اسے اپنے ساتھ رہنے پہ مجبور کرے۔۔۔ وہ اسکے سامنے روئے، تڑپے تو اسے مزاح آتا نا مگر یہاں تو سب الٹا ہو رہا تھا۔

چائے۔۔۔۔ اسکے آگے چائے رکھتے ایمل اپنی کرسی کھسکا کے بیٹھی تو جزلان نے سر جھٹکتے چائے کا کپ لبوں سے لگایا مگر اگلے ہی پل کھڑے ہوتے پوری قوت سے کپ زمین پہ دے مارا تو جب چونک کے پریشانی سے منہ پہ ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگے۔

یہ چائے بنائی ہے تم نے۔۔۔ دو کوڑی کی بھی چائے نہیں تھی یہ۔۔۔ اتنی کڑوی۔۔۔ وہ غصے سے ڈھاڑا۔۔۔۔ 

جب کے ایمل خاموش کھڑی رہی جانتی تھی چائے تو ٹھیک بنی ہے وہ تو بس اپنے اندر کا غصہ نکال رہا تھا۔

میں دوسری بنا کے لا دیتی ہوں۔۔۔ ایمل معصومیت سے بولی تو اسنے گھور کے اسے دیکھا۔

اسکی آنکھوں میں ناکامی کا غصہ دیکھتے ایمل کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھرنے کو بےچین تھی مگر وہ اسکے سامنے ابھی مسکرا نہیں سکتی تھی اس لیئے لب دبا گئی۔

اپنی طرح بد ذائقہ چائے بنا کے خود ہی پی لینا۔۔۔ وہ پاؤں سے کرسی کو دھکا دیتا تن فن کرتا باہر کی نکل گیا۔

اسکے جاتے ہی ایمل کھل کے مسکرا دی۔۔۔ اسے مسکراتا دیکھ سب اسکی جانب متوجہ ہوئے۔

ایمل یہ۔۔۔ آئلہ نے حیرت سے کچھ کہنا چاہا۔

آپ فکر نہیں کریں بھابھی ۔۔۔ جب انسان کو کسی کو اذیت پہنچانے کا موقع نہیں ملتا تو وہ ایسے ہی بلاوجہ غصہ کرنے لگتا ہے۔۔۔ وہ سکون سے بیٹھتی اپنی پلیٹ میں سالن ڈالنے لگی۔

بیٹا تم کیوں یہ سب برداشت کر رہی ہو۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے تمہارے پاس تم کوئی بھی فیصلہ آسانی سے لے سکتی ہو۔۔۔ نود بیگم کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا جس طرح جزلان اس بچی سے بات کر رہا تھا۔

بڑی ماما جب کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پھر پیچھے ہٹنا بزدلی کہلاتا ہے۔۔۔

میں جانتی ہوں وہ آپکا بیٹا ہے اور کسی ماں کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی کہ کوئی شخص انکے بیٹے کی بربادی کا منتظر ہو مگر بڑی ماما جتنے لوگوں کے ساتھ اسنے ناانصافی کی ہے۔۔۔ جتنی لڑکیوں کے ساتھ اسنے بدسلوکی کی ہے ۔۔۔ کتنوں کو اس نے دھوکا دیا ہے۔۔۔ تو سوچیں کتنے لوگوں نے اسے بددعا دی ہوگی۔۔۔ اور کتنوں نے تو صبر کر کے اپنا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا ہوگا ۔۔۔ 

بڑی ماما بددعا لگے یا نا لگے مگر انسان کا صبر  ضرور لگتا ہے۔۔۔ جب انسان اپنا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیتا ہے تو پھر وہ تو ہے ہی انصاف کرنے والا وہ کیسے اپنے بندے کا صبر رائگا جانے دے سکتا ہے۔۔۔ 

اس نے مجھے بھی بہت اذیت پہنچائی ہے۔۔۔۔ مگر اب میں اسے خود کو تکلیف پہچانے کا اور کوئی موقع نہیں دینا چاہوں گی۔۔۔ آگر آپ کو میری باتیں بری لگیں ہوں تو میں آپ سے معذرت کرتی ہوں ۔۔۔۔ مگر جو سچ ہے،، وه سچ ہے۔۔۔۔ وہ دھیمے سمجھاتے لہجے میں بولی تو نور بیگم آفسردگی سے مسکرادیں۔

مجھے کسی بات کا برا نہیں لگا بیٹا۔۔۔ تم بلکل ٹھیک ہو۔۔۔مجھے تو خود ڈر لگتا ہے کہ نا جانے کب کیا ہوجائے ۔۔۔ پتہ نہیں کتنے معصوموں کی ہائے ہے انکے ساتھ۔۔۔ میں تو خود بس اللہ سے دن رات دعا کرتی ہوں کے میرے بیٹے اور شوہر کو سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق دے۔۔۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں بولی تو ایمل محض سر ہلا کے رہ گئی۔۔۔ اس کے پاس کہنے کو تھا ہی کیا۔۔۔۔جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا بھی ہے وہ جانتی تھی یہ۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے جب جزلان حویلی آتے سیدھے اپنے کمرے میں آیا تھا۔

ایمل ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنے گھنگرالے بالوں میں کنگھا کرنے میں مصروف تھی جب جزلان کو کمرے میں آتے اور دروازہ لاک کرتے دیکھ ایک پل کے لیئے تو اسکا سانس حلق میں اٹھکا مگر اس سے پہلے جزلان اسکے چہرہ کا اڑا رنگ دیکھتا ایمل جلدی سے خود کو نارمل کرتی ایسی بن گئی جیسے اسے پتہ ہی نہیں چلا کے جزلان کمرے میں آچکا ہے ۔

وہ سمجھی تھی کہ آج بھی جزلان حویلی واپس نہیں آئے گا اس لیئے اتنے سکون سے بیٹھی بال سنوار رہی تھی آگر اسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ اتنی جلدی آجائے گا تو وہ کل کی طرح ہی فورن سوتی بن جاتی۔۔۔۔ مگر اب تو وہ آ گیا تھا۔۔۔ اب آگے کیا ہوگا ۔۔۔ یہ سوچتے اسکا دل زور سے دھڑکنے لگا تھا۔

ہمممم۔۔۔۔ اسکے پیچھے کھڑے ہوتے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیتا جزلان بری طرح اسے نروس کر رہا تھا۔۔۔ 

ایمل بہت ہی مشکل سے اپنے تاثرات پہ قابو پائے سپاٹ چہرہ لیئے بیٹھی اپنے کام میں لگی رہی۔

بال کافی خوبصورت ہیں۔۔۔ اسکے سیاہ بالوں کو ہاتھ سے چھوتے مسکراتے ہوئے بولا تو ایمل کا دل بیٹھنے لگا۔۔

جزلان نے دھیرے سے اسکا بازو پکڑ کے کھڑا کرتے اپنے سامنے کیا اور ایک جھٹکے سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے ساتھ لگا گیا۔۔

اتنی بےساختہ حرکت پہ ایمل جلدی سے اسکے  سینے پہ ہاتھ رکھتی بیچ میں تھوڑا سا فاصلہ بنا گئی۔

تیار ہو مجھے اپنی روح میں سمانے کے لیئے۔۔۔ دو انگلیوں سے اسکے بالوں کو کان کے پیچھے ارستے چہرہ اسکے کان کے پاس لائے سرگوشی کی تو ایمل کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ ڈر کے مارے حلق خشک ہونے لگا۔۔۔ اسکی اتنی نزدیکی پہ ایمل کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا مگر اسنے کوئی ردعمل​ نہیں دیا۔

میں ہر چیز کے لیئے تیار ہوں،،، جب سمجھوتا کر ہی لیا ہے تو پھر پیچھے کیوں ہٹنا۔۔۔باظاہر مضبوط لہجے مگر اندر سے دل کانپ رہا تھا۔

اووو ایسا ہے کیا۔۔۔ تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔ جزلان جیسے اسکی ہمت کو آخری حد تک آزمانا چاہتا تھا۔

ایک جھٹکے سے اسے گود میں اٹھاتے بیڈ کی جانب قدم بڑھا گیا۔۔۔ ایمل ایک دم بوکھلائے مگر جلد ہی خود کو سمبھال گئی۔

کیا وہ سچ میں ان دونوں کے رشتے کو آگے بڑھانے جا رہا تھا۔۔۔ کیا اسے روک دینا چاہیئے لیکن آگر اسنے اسے روکنے کی کوشش کی تو وہ زبردستی​ بھی تو کر سکتا ہے ۔۔۔ مگر وہ ایسا نہیں ہونے دے سکتی تھی۔۔۔ لیکن اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بہت تیزی سے چل رہا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے یہاں سے نکلے کیسے جزلان کو روکے۔

آہستہ سے اسے بیڈ پہ لیٹاتے جزلان اپنی شرٹ اتارتے دور پھینک گیا تو خوف سے ایمل نے آنکھیں بند کرلیں جس پہ جزلان کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی

ہلکی سی اسکے کندھے سے شرٹ کھسکاتے وہاں اپنے کب رکھے تو ایمل ضبط سے بیڈ شیڈ مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔۔ ورنا دل تو کر رہا تھا ابھی اسے دور دھکا دے دے۔

کندھے سے سفر کرتے جزلان کے دھکتے لب اسکی گردن سے ہوتے ہوئے لبوں تک آئے۔۔۔ 

جزلان نے بہت غور سے اسکے چہرہ کے تاثرات جانچنے چاہے مگر اسکا چہرہ ایک دم نارمل تھا۔

وہ تو سمجھ رہا تھا کہ وہ اسکے قریب آتے ہی اسے پیچھے کر دے گی مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔

نا ہی اسنے کوئی مزاحمت کی تھی اور نا ہی اسکے چہرے پہ کسی طرح کی کوئی بےبسی تھی۔۔۔ بلکے وہ تو سکون سے آنکھیں بند کیئے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ شاید اسنے واقع سمجھوتا کر لیا تھا۔

مگر اسے اتنے سکون سے دیکھ کے جزلان کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ اس لیئے وہ اسکے اوپر سے ہٹتا سائڈ پہ لیٹ گیا۔

اپنے اوپر سے بوجھ ہٹتا محسوس کر کے ایمل نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو جزلان اسکے برابر میں لیٹا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

کیا ہوا۔۔۔ اندر سے خوش ہوتے ایمل حیرانگی سے پوچھنے لگی۔

نیند آرہی ہے مجھے ۔۔۔۔ جزلان سرد لہجے میں کہتا کروٹ بدل گیا تو ایمل کے چہرہ پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔ آخر کار وہ اس میں بھی کامیاب ہو ہی گئی تھی۔

مگر ابھی تو تم نے کہا تھا کہ تم میری روح۔۔۔۔۔

سونے دو مجھے۔۔۔ اسکی بات بیچ میں ہی کاٹتے دھاڑا تو ایمل لب دبائے اپنے ابلتے قہقہے کو روک گئی۔

اتنی خوشی شاید اسے پورے دن میں نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہو رہی تھی۔۔۔ اب وہ سکون سے سو سکتی تھی اور اسنے کیا بھی یہی تھا سکون سے کمفٹر خود پہ درست کرتی مسکراتے ہوئے آنکھیں موند گئی۔۔۔ آج تو اسے نیند کافی اچھی آنے والی تھی۔

ماما۔۔۔۔ نور بیگم کے کمرے کے دروازے پہ کھڑے ہوتے نوال نے انگلیاں مڑوڑتے انہیں پکارہ۔۔۔ جو ایک الماری کھولے اس میں سے زیور نکال رہیں تھیں

اچھا ہوا تم آگئیں ۔۔۔ دیکھو میں نے یہ کنگن نکالے ہیں تم بتاؤں ان میں سے کون سے والے ایمل کو دوں۔۔۔ نور بیگم ایک نظر اسے دیکھتی دو ڈبے اٹھائے بیڈ پہ آکے بیٹھیں تو نوال بھی خاموشی سے انکے سامنے آکے بیٹھ گئی۔

بتاؤ ان میں سے کون سے زیادہ اچھے ہیں پھر میں وہی ایمل کو دوں گی ۔۔۔ وہ دونوں ڈبے اسکے سامنے کھول کے رکھتی بولیں مگر نوال تو شاید کسی اور ہی سوچ میں گم تھی۔

نوال بیٹا میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔۔ انگلیاں مڑوڑتے ڈبوں کو گھوتی نوال کو پکارہ تو وہ ایک دم چونک گئی۔

ج۔۔۔جی کیا۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ اسنے سنا ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔

پریشان لگ رہی ہو کیا بات ہے۔۔۔۔ باغور اسکے چہرے کو دیکھا۔۔۔ جو کافی مضطرب لگ رہا تھا

ماما مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ بہت ہی دھیرے سے بولی آگر نور بیگم اسکی جانب متوجہ نا ہوتیں تو شاید سن ہی نا ہوتیں۔

ہاں بولو۔۔۔ وہ کنگن سائڈ میں رکھتی پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ ہوئیں۔

وہ ما۔۔ما میں۔۔۔۔

نوال بیٹا ڈر کیوں رہی ہو ۔۔۔ آرام سے بتاؤ جو بھی بات ہے۔۔۔میں تمہاری ماں ہوں اور ماں تو بیٹی کی دوست ہوتی ہے نا ۔۔۔ چلو شاباش بےجھجھک ہو کے جو بھی بات ہے بتادو۔۔۔ نور بیگم نے اسے حوصلہ دیا جس پہ نوال کچھ ریلیکس ہوئی۔

وہ ماما میں کسی کو پسند کرتی ہوں۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اسنے نظریں جھکا لیں تھی جب کے نور بیگم مارے حیرت کے اپنی بیٹی کو دیکھ گئیں۔۔۔ اور پھر جلدی سے اٹھیں دروازے کو اچھے سے بند کیا پھر واپس اسکے سامنے آکے بیٹھیں

یہ تم کیا کہہ رہی ہو نوال۔۔۔ کون ہے وہ لڑکا۔۔۔ نور بیگم کو لگا انہوں نے کچھ غلط سن لیا ہے۔۔۔ ان کی بیٹی کسی لڑکے کو پسند کرتی ہے انہیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔ لیکن آگر یہ بات اسکے باپ بھائی نے سن لی تو یقین یہ انکی غیرت اور عزت پہ دھبا ہوگا۔

حیدر شاہ کا پوتا حسام شاہ۔۔۔ آهسته سے کہتی گویا اپنی ماں کے سر پہ پہاڑ گرا گئی۔

نوال تم جانتی بھی ہو کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔ کس کا نام لیا ہے ابھی تم نے۔۔۔ نور بیگم حیرت سے گویا ہوئیں تو وہ دھیرے سے سر ہلاگئی۔

ماما ہم دنوں ایک دوسرے سے بہت مح۔۔۔محبت کرتے ہیں۔۔۔ لفظ محبت پہ وہ اٹکی تھی ۔۔۔ اپنی ماں کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرنا اسے عجیب لگ رہا تھا مگر کہیں نا کہیں تو یہ اظہار کرنا ہی تھا۔۔۔ ورنا بات کیسے آگے بڑھتی۔

نوال ساری دنیا میں ایک وہی لڑکا ملا تھا محبت کرنے کے لیئے۔۔۔ اور ضرورت ہی کیا تھی محبت کرنے کی کیا تم اپنے باپ بھائی کو نہیں جانتیں ۔۔. آگر انہیں یہ بات پتہ چلی تو وہ تمہاری جان لینے سے بھی پیچھے نہیں رہیں گے بیٹا۔۔۔ نور بیگم تفکر سے بولیں تو آگے بڑھ کے نوال نے فورن انکے ہاتھ تھامے۔

ماما اس لیئے تو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔۔۔ آپ رائد بھائی سے بات کریں اس بارے میں۔۔۔ وہ ضرور کچھ نا کچھ ہمارے لیئے کریں گے۔۔۔ نوال انکا ہاتھ تھامے امید سے بولی۔

نوال وہ ہمارے دشمن ہیں ۔۔۔ انہوں نے تمہارے دادا جی کی جان لی تھی۔۔۔ تم کیسے یہ بات بھول سکتی ہو کے وہ رائد کے بھی دادا تھے وہ کیسے اپنے ہی دادا کے قا+تلوں کے گھر اپنی بہن کو بیاہے گا۔۔۔۔ نور بیگم نے سمجھایا مگر نوال نے فورن نفی میں سر ہلا دیا۔

ماما یہ کہیں ثابت نہیں ہوا تھا کہ انہی لوگوں نے دادا جی کی جان لی تھی۔۔۔ ہاں بھلے وہ آخری رات حیدر شاہ کے ساتھ تھے مگر کہیں سے بھی یہ ثابت تو نہیں ہوتا نا کہ وہی تھے جنہوں نے دادا جی کو مارا ہے۔

حیدر شاہ اور دادا جی میں تو دوستی تھی ایک دوست بھلا اپنے ہی دوست کی جان کیوں لے گا اور وہ لوگ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں۔۔۔ اتنے سال ہوگئے ہیں اس بات کو وہ لوگ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔اور آگر اتنے سالوں بعد بھی وہ لوگ اس بات پہ قائم ہیں تو ضرور اس بات میں سچائی ہوگی نا۔۔۔

باقی سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔ مگر اتنے سال گزر گئے ہیں ہمیں اب اس دشمنی کو چھوڑ دینا چاہیئے۔

ماما حسام بہت اچھا ہے۔۔۔۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔۔۔ اور اب تک جتنے بھی رشتے میرے لیئے آئے تھے نا کسی کے بھی علم میں آئے بغیر اسنے ہی انہیں بھگایا ہے۔۔۔ پلیز ماما آپ ایک بار بھائی سے بات تو کریں ۔۔۔ نور بیگم خاموش پریشان بیٹھی اسے سن رہیں تھی ۔۔۔ نوال ٹھیک کہہ رہی تھی مگر مسئلہ تو سارا وہی تھا نا کہ انکی کوئی سنے گا نہیں۔

نوال اگر میں رائد سے بات کر بھی لوں تو وہ کیا کرے گا ،،، ہوگا تو وہیں نا جو تمہارے بابا چاہتے ہیں۔۔۔ اور جب انہیں یہ بات پتہ چلے گی کہ تم حیدر شاہ کے پوتے سے محبت کرتی ہو تو تم جانتی ہو کے وہ کیا کریں گے۔۔۔۔ ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں کیسے نوال کو سمجھائیں جو اپنی ہی جان کی دشمن بنی بیٹھی تھی۔

رائد بھائی آگر بابا سے بات کریں گے تو مجھے یقین ہے بابا کچھ نہیں کہہ پائیں گے۔۔۔ ایک رائد بھائی ہی ہیں جن کے آگے بابا بےبس ہو جاتے ہیں۔۔۔ ماما پلیز آپ آج ہی رائد بھائی سے بات کرے گا۔۔۔پلیز۔۔۔۔ نوال انکا ہاتھ تھامتی التجائیہ لہجے میں بولی تو نور بیگم نے گہرا سانس بھرا۔۔ اور پھر اثبات میں سر ہلادیا۔

نوال میں رائد سے بات کرلوں گی لیکن آگر اسنے یہ بات تمہارے بابا سے نہیں کی یا اسنے بھی منا کردیا تو پھر تم اس بات کو وہیں ختم کردو گی اور بھوک جاؤ گی حسام کو۔۔۔ نور بیگم نے تنبیہہ کیا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

وہ جانتی تھی رائد ضرور تراب خان سے بات کر لے گا اسے پورا یقین تھا اس پہ۔۔۔ اب پتہ نہیں اسکا یہ یقین قائم بھی رہنے والا تھا یا نہیں۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد جب آفس سے حویلی آیا تو کچھ دیر بعد ہی نور بیگم اس سے بات کرنے کے ارادے سے اسکے کمرے میں آگئیں۔۔۔ وہ تراب خان کو بہت بار نوال کے لیئے کسی نئے رشتے کا ذکر کرتے سن چلیں تھی اس لیئے وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ جلد سے جلد نوال کے شادی وہاں وہ جائے جہاں وہ چاہتی ہے۔

رائد بیٹا مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے رائد کو کھڑے دیکھ گویا ہوئیں 

جی جی۔۔۔۔ اندر آئیں۔۔۔ رائد نے سائڈ ہوتے انہیں اندر آنے کی جگہ دی۔

انہیں اندر آتے دیکھ آئلہ رائد کا سامان اسکی جگہ پہ رکھتی انکے ساتھ صوفے پہ بیٹھی۔

جی ماما کہیں کیا بات ہے۔۔۔ رائد نور بیگم کے برابر والے صوفے پہ بیٹھتے احترام سے پوچھنے لگا۔

بیٹا سمجھ میں نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں۔۔۔۔ وہ تذبذب کا شکار ہوئیں۔

ماما آپ کو تمہید باندھے کی ضرورت نہیں ہے جو بھی بات ہے آپ کھل کے کہہ سکتی ہیں۔۔۔۔ رائد تھوڑا آگے کو ہوکے بیٹھا۔

نوال ایک لڑکے کو پسند کرتی ہے۔۔۔ نور بیگم نے ہمت کرتے کہہ ہی دیا۔

ہممم میں سمجھ گیا ۔۔۔۔ آپ لوگ بابا کی وجہ سے پریشان ہیں نا ۔۔۔ آپ نوال سے بولیں اسکا نمبر پتہ مجھے دے دے اور اس سے بولے کے وہ رشتہ بھیجے باقی میں سمبھال لوں گا۔۔۔ رائد نے انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے انہیں تسلی دی تو وہ ہلکے سے نفی میں سر ہلاگئیں۔

بیٹا وہ لڑکا حیدر شاہ کا پوتا ہے۔۔۔ نور بیگم نے پریشانی سے اصل مسئلہ پیش کیا۔

کہیں آپ حسام کی بات تو نہیں کر رہی۔۔۔ رائد نے سنجیدگی سے تصدیق چاہی جس پہ نور بیگم نے اثبات میں سر ہلادیا۔

میں جانتا ہوں اسے بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔ رائد نے ہلکے سے مسکرا کے کہا تو نور بیگم نے تفکر سے اسے دیکھا۔۔۔ جب کے ساری گفتگو میں آئلہ خاموش بیٹھی تھی۔

رائد لڑکا اچھا ہے یا برا اس سے ابھی کوئی فرق نہیں پڑھتا اصل مسئلہ تو اس بات کا ہے کہ وہ حیدر شاہ کا پوتا ہے۔۔۔ اُس انسان کا جس سے تمہارے بابا نفرت کرتے ہیں وہ انکے حریف کا پوتا ہے ۔۔۔ اور آگر انہیں یہ بات پتہ چلی تو نا جانے وہ نوال اور میرا کیا حال کریں گے۔۔۔ تم تو اچھے سے جانتے ہو نا اپنے بابا کو۔۔۔ نور بیگم اضطراب سے بولیں تو رائد سوچ میں پڑھ گیا۔

ہممم ۔۔۔ آپ لوگ فکر نا کریں میں دیکھتا ہوں۔۔۔ شاید اب وقت آگیا ہے اس نام نہاد دشمنی کو ختم کرنے کا۔۔۔۔ رائد کچھ سوچ کے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔

مگر بیٹا تمہارے بابا۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکیں۔

ماما ان لوگوں نے بھی بہت بار کہا ہے کہ ان لوگوں نے کوئی جرم نہیں کیا دادا جی کا قا+تل ان لوگوں نے نہیں کیا۔۔۔ اور میں بھی جانتا ہوں کے وہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔ خیر میں دیکھتا ہو اس معاملے کو اور نوال سے کہے گا اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسکا بھائی اسکے ساتھ ہے ۔۔۔ اسے اسکا پیار ضرور ملے گا۔۔۔ رائد نے انکا ہاتھ تھپتھپاتے انہیں اپنے ساتھ کا احساس دلایا تو وہ آسودگی سے مسکرا دیں۔

آئلہ کے چہرے پہ بھی بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ تھی اسے اچھی لگی تھی رائد کی بات۔۔۔ اسے اچھا لگا تھا کہ رائد کی سوچ اپنے گھر کے مردوں کی طرح نہیں ہے۔۔۔۔ ان مردوں کی طرح تو بلکل نہیں ہے جو لڑکی کے پیار کرنے کو جرم سے کم نہیں سمجھتے۔۔۔ اسے اچھا لگا تھا رائد کا انداز۔

خوش رہوں بیٹا۔۔۔ نور بیگم پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔ اور آئلہ کے بھی سر پہ ہاتھ پھیرتی باہر نکل گئیں۔۔۔ انکے جاتے ہی آئلہ رائد کی جانب متوجہ ہوئی۔

آپ کے دادا جی کا انتقال کیسے ہوا تھا۔۔۔ مطلب انکا قا+تل کیسے ہوا ۔۔۔ وہ الجھن اور تجسس سے بولی تو رائد اسکے ساتھ صوفے پہ آکے بیٹھا۔

پتہ نہیں ڈاکٹرز کا کہنا ہے انکی موت جسم میں زہر پھیلنے کی وجہ سے ہوئی ہے جب کے زیر دیا کیسے گیا ہے یہ آج تک کوئی نہیں جان پایا۔۔۔ رائد نے زرا سے کندھے اچکائے۔

تو پھر حیدر شاہ والوں سے ہماری دشمنی کیوں ہے۔۔۔ وہ ابھی بھی سمجھی نہیں تھی۔

حیدر شاہ اور دادا جی بہت پکے دوست تھے۔۔۔ ایک رات حیدر شاہ نے دادا جی کو اپنے ڈیرے پہ بلایا تھا وہاں کیا ہوا کیا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا مگر دوسرے گاؤں سے خبر آئی کے دادا جی کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ کیونکہ دادا جی اور حیدر شاہ دونوں ہی ڈیرے پہ اکیلے تھے اس لیئے سب کا شک سیدھے حیدر شاہ پہ گیا تھا۔۔۔ جب کے انہوں نے بہت بار منا بھی کیا ہے اور اب تک وہ یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے دادا جی کی جان نہیں لی مگر بابا وہ یہ بات سمجھتے ہی نہیں ہے۔۔۔ 

انہوں نے ہی بلاوجہ کی دشمنی پالی ہوئی ہے۔۔۔ جب کے یہ کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوا کہ حیدر شاہ نے ہی دادا جی کی جان لی ہے پھر بھی بابا نے ان سے دشمنی کی ہوئی ہے۔۔۔ اور جب سے اب تک نا ہی حیدر شاہ کے گاؤں سے کسی کو یہاں آنے کی اجازت ہے اور نا ہی یہاں سے وہاں ۔۔۔ یہ سرحد بھی بابا نے ہی بنائی ہے جب کے انہوں نے تو کئی بار اس نام نہاد دشمنی کو ختم کرنے میں پہل کی تھی مگر بابا کی اکڑ ہی ختم نہیں ہو رہی۔۔۔ رائد نے افسوس سے سر جھکا تو آئلہ محض سر ہلا گئی۔

اب آپ کیسے نوال اور حسام بھائی کی شادی کروائیں گے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آئلہ اسکے کندھے پہ سر رکھتی دھیرے سے بولی تو رائد اسکے گرد حصار بناتا اسے اپنے سینے سے لگا گیا۔

یہ تو شاید میں خود بھی نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کے نوال کو اسکا حق دلوا کے رہوں گا۔۔۔ رائد ایک عزم سے کہتا اسکے بالوں پہ بوسہ دیتا آنکھیں موند گیا تو آئلہ بھی مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

کمرے کی کھڑکی کے آگے ٹو سیٹر صوفے پہ چہرہ گھٹنوں پہ رکھے سیاہ آسمان پہ چمکتے چاند کو فرست سے دیکھ رہی تھی۔

اسکے اندر عجیب سی اداسی پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ کبھی کبھی اپنی گرزی زندگی گا سوچتی۔۔۔ اپنی پڑھائی کا سوچتی جو شاید اب وہ کبھی مکمل نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اسکا جرنلسٹ بنے کا خواب اب صرف خواب ہی رہ گیا تھا۔۔۔ وہ جزلان سے کوئی خواہش نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ اس سے کرتی بھی کیوں جب وہ اسے کچھ سمجھتی ہی نہیں تھی۔۔۔ یہ تو طے تھا کہ وہ اس سے کچھ نہیں کہنے والی تھی مگر اسے اپنی پرانی زندگی بہت یاد آتی تھی۔۔۔ اسے مہوش یاد آتی تھی ۔۔ نا جانے وہ کیسی تھی کہاں تھی،،، اب پڑھ بھی رہی تھی یا نہیں وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔۔۔

اسکے پاس فون نہیں تھا جس سے وہ مہوش سے بات کر پاتی نا ہی اسے اب فون کی ضرورت تھی۔۔۔ اسکی زندگی میں شاید اب کوئی ایسا نہیں تھا جسے فون کرنے کی ضرورت پڑھتی ۔۔۔ پہلے اسکے بابا تھے مگر اب تو وہ بھی نہیں رہے تھے۔

وہ نم آنکھوں سے مسکراتی اپنی بیتی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جب جزلان کی آواز پہ اپنی سوچوں سے باہر نکلتے اسکی جانب متوجہ ہوئی۔ 

تیار ہو جاؤ ہمیں جانا ہے۔۔۔۔ جزلان کمرے میں داخل ہوتا کلائی پہ بندھی کھڑی اتارتے ایک نظر ایمل کو دیکھ کے بولا تو وہ سیدھی ہوکے بیٹھی۔

اس وقت کہاں جانا ہے۔۔۔ اسنے کھڑی پہ ٹائم دیکھا جو رات کے دس بجا رہی تھی۔

تمہارے پاس صرف بیس منٹ ہیں جلدی کرو۔۔۔ بغیر اسے دیکھے الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔

مگر ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔۔ وہ فورن کھڑی ہوتی اسکے پاس آئی ورنا اس وقت جانے کی بات پہ تو اسکا دل کر رہا تھا صاف صاف انکار کر دے مگر وہ ایسا کر نہیں سکتی تھی۔

میری ایک دوست تم سے ملنا چاہتی ہے تو ہم اس سے ہی ملنے جا رہے ہیں۔۔۔ جزلان نے میری پہ زور دیتے اسکے چہرہ کے ثاترات دیکھنے چاہے مگر اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔

اوکے۔۔۔۔ ایمل کا دل تو کیا کے کہہ دے کہ دوست تمہاری ہے تو تم ہی ملو مگر بات تو ساری یہی تھی کہ آگر وہ کہہ بھی دیتی تو کون سا وہ اسکی بات مانتا یا سن لیتا بلکے الٹا زبردستی کرتا جو ایمل نہیں چاہتی تھی۔ اس لیئے دل پہ پتھر رکھ کے چلنے کے لیئے تیار ہونے لگی۔

جزلان کے الیکشن سر پہ تھے جس وجہ سے وہ آج کل حویلی میں کم ہی ہوتا تھا۔۔۔ ایمل کے آنے کے بعد تو جیسے جادو ہی ہوگیا تھا اسکے سپوٹرز کی تعداد میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا ۔۔۔ جس وجہ سے آج کل اسے وقت نہیں مل رہا تھا۔۔۔ کبھی کہیں جلسا تو کبھی کہیں۔۔۔ مگر اب اسے وقت ملا تو آج کل بنی اپنی نیو محبوبہ یا یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اپنے نئے کھلونے سے اسے ملوانے لے کے جا رہا تھا۔

ٹھیک آدھا گھنٹے بعد وہ لوگ بغیر کیسی کو بتائے حویلی سے نکل چکے تھے۔۔۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ لوگ اپنی منزل پہ پہنچے۔

یہ کون سی جگہ ہے جزلان۔۔۔۔ ایک سنسان سڑک پہ ایک گھر کے سامنے گاڑی رکتے ہی ایمل کے دل نے اسپیڈ پکڑی۔

آجاؤ۔۔۔ اسکی بات نظر انداز کرتے جزلان گاڑی سے باہر نکلا تو بادل ناخواستہ​ ایمل کو بھی باہر نکلنا پڑا۔

گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں ایک دم خاموشی کا راج تھا۔۔۔ خوبصورت گھر اوپر سے خاموشی ایمل کو تو خطرے کی علامت لگ رہا تھا۔

جزلان اسکے آگے آگے چلتا اسے سیرھیوں کی جانب لے آیا جو نیچے کی طرف جا رہیں تھیں۔۔۔ 

ایمل دھڑکتے دل کے ساتھ اسکے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اترنے لگی تو دائیں جانب جا کے سامنے ہی ایک کمرا موجود تھا۔۔۔

جزلان نے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر سے پورا کمرہ روشنی میں نہایا ہوا تھا ۔۔۔۔ ساتھ میوزک چل رہا تھا۔۔۔ کمرہ ساؤنڈ فروف تھا اس لیئے اس آوازیں باہر نہیں جا رہیں تھی 

انڈر گراؤنڈ بنے اس خوبصورت بڑے سے کمرے کو دیکھتے ایمل کی آنکھیں حیرت سے کھولیں مگر جلد ہی اندر موجود تھرکتی لڑکیاں اور انکے ساتھ موجود لڑکوں کو دیکھتے اسکی انکھوں میں آگ چمکنے لگی۔

یہ تم مجھے کہاں لائے ہو۔۔۔ جزلان کو اندر بڑھتے دیکھ وہ دروازے پہ ہی رکتی سرد لہجے میں بولی تو چہرے پہ دلکش مسکراہٹ سجائے جزلان اسکی جانب پلٹا۔

کیا ہوا تمہیں یہ جگہ اچھی نہیں لگی۔۔۔ وہ معصوم بنتے مصنوعی حیرت سے بولا تو ایمل نے لب بھیجے۔

اندر آجاؤ یار کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ اسکے چہرہ کی رنگت سرخ پڑھتے دیکھ جزلان مزے سے بولا تو ایمل غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرتی مٹھیاں بھیج گئی۔

میں نہیں آؤ گی۔۔۔۔ چبا چبا کے لفظ ادا کرتی جزلان کے دل کو سکون پہنچا گئی۔۔۔ وہ چاہتا ہی یہی تھا کہ وہ اسے انکار کرے اور پھر وہ اسے بےبس کر کے مزاح لے۔

آنا تو تمہیں پڑے گا پیار سے نا سہی زبردستی ہی سہی۔۔۔ جزلان اسکا ہاتھ تھامتے اسے اندر گھسیٹتے دروازہ بند کر گیا لیکن ایمل نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنے کی بلکل کوشش نہیں کی تھی۔

بےبی اتنی دیر لگا دی آنے میں۔۔۔ نا جانے کہاں سے ایک لڑکی سیاہ شورٹ بےہودہ لباس پہنے نازل ہوتی بےباکی سے جزلان کے گلے لگی ۔

بدلے میں جزلان ایمل کا ہاتھ چھوڑتے گرم جوشی سے اسکے گلے لگا اور اس بےہودگی پہ ایمل چہرہ پھیر گئی۔

جزلان کا اس لڑکی کے گلے لگانا اسے برا بلکل نہیں لگا تھا بلکے اسے نفرت ہوئی تھی اس جگہ سے اس لڑکی سے اور جزلان سے۔

یہ بہن جی کون ہے۔۔۔ ایمل کو جامنی قمیض شلوار پہنے دوپٹہ اچھے سے کندھوں کے گرد پھیلائے دیکھ وہ لڑکی تمسخرانہ​ انداز میں بولی۔

یہ میری بیوی ہے ایمل جزلان خان۔۔۔ جزلان اس لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ایسے تعارف کروا رہا تھا جیسے وہ لڑکی اسکی بیوی ہو۔

اور ایمل یہ ہے نتاشہ میرا سکون۔۔۔ جزلان گھمبیر لہجے میں ایک انگلی سے نتاشہ کو دیکھتے اسکے گال کو چھوتے بولا تو وہ مسکرادی جب کے اس بار ایمل کے لبوں پہ بھی مسکراہٹ آگئی تھی۔

بہت خوشی ہوئی مجھے تم سے مل کے۔۔۔ ایمل کے کہنے پہ جزلان اور نتاشہ دونوں نے ائبرو اچکائے اس کی جانب داد دیتی نظروں سے دیکھا جو اپنے شوہر کی باہوں میں کسی اور لڑکی کو دیکھنے کے بعد بھی یہ کہہ رہی تھی۔

کیا تمہیں برا نہیں لگ رہا کہ تمہارا شوہر تمہارے ہی سامنے کسی اور کی باہوں میں ہے۔۔۔ نتاشہ نے طنزیہ استفسار کیا تو ایمل نے مسکرا کے سر جھٹکا۔

ڈارلنگ یہ مسکرا کے اپنا درد چھپا رہی ہے۔۔۔ جزلان نے ایمل کو اپنے تیئے آگ لگانے کی کوشش کی۔

مسٹر جزلان خان میں آپ کے ساتھ سمجھوتے کی زندگی گزار رہی ہوں نا کے پیار کی تو مجھے ردی برابر بھی فرق نہیں پڑھتا کہ آپ اس لڑکی کے ساتھ ہوں یا کسی اور کے ساتھ۔۔۔ آپ کی زندگی ہے انجانے کریں ایسی لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔ وہ استہزا نظریں دونوں پہ ڈالتی ایک طرف رکھے سنگل صوفے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

ایسی لڑکی سے کیا مراد ہے اسکی۔۔۔ میں چھوڑوں گی نہیں اسے۔۔۔ نتاشہ غصے سے اسکی جانب بڑھنے لگی جب جزلان نے اسکی کلائی پکڑتے روکا۔

چھوڑو تم اسے میں بعد میںاس سے نیپٹ لوں گا ابھی تم انجوائے کرو اور اسے خوب جلاؤ۔۔۔ جزلان اسکے گال پہ لب رکھتا ایمل کو دیکھ کے بولا جو انکی جانب ہی دیکھ رہی تھی جس پہ نتاشہ بھی مسکراتے ہوئے اسکی گردن میں بازو ہائل کر گئی۔

ایمل نے آنکھیں گھماتے ان دونوں کی جانب سے نظریں پھیر لیں۔۔۔ اسے ان ساری چیزوں سے نفرت تھی۔۔۔یہاں موجود لوگ ۔۔۔ بند کمرہ ۔۔۔ ایک جانب شراب کی بوتلوں سے سجایا کاؤنٹر جہاں بہت سے لوگ کھڑے شراب پی رہے تھے۔

اسے گھٹن ہونے لگی تھی اس ماحول سے مگر وہ مجبور تھی یہاں سے اکیلی جا بھی نہیں سکتی تھی ورنا جزلان اسکی کمزوری سمجھتے اس پہ ایسے ہی وار کرتا رہے گا اس لیئے وہ ایک کونے میں سر جھکائے آنکھوں میں ناگواری لئے بیٹھی اس تماشے کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی

کافی دیر سے ایک جگہ سر جھکائے بیٹھی اب وہ تھک گئی تھی پیاس بھی شدت کی لگ رہی تھی مگر وہ یہاں سے پانی تک بھی پینا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ گھر جانا چاہتی تھی مگر جزلان کو کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ اسکی سنتا ہی نہیں۔۔۔

اسنے نظریں اٹھا کے سامنے نظر آتے منظر کو دیکھا جہاں کاؤنٹر کے پاس رکھی کرسیوں پہ نتاشہ اور جزلان بیٹھے شراب پینے میں مصروف تھے۔۔۔ 

ایمل جانتی تھی کہ وہ شراب پیتا ہے لیکن اپنے سامنے اسکو شراب پیتے دیکھ ایمل کا دل کر رہا تھا ابھی اٹھ کے جائے اور ایک زور دار تھپڑ رسید کرے۔۔۔ مگر اس خواہش کو وہ اندر ہی دبا گئی۔۔

کچھ دیر انہیں ایسے ہی دیکھتی رہی جب جزلان کے فون پہ کسی کا فون آیا تو وہ لوگوں سے الگ ایک کونے میں فون سنے چلا گیا۔۔۔ اسنے نظریں پھر سے نتاشہ کی جانب کیں جو اب ہاتھ میں دو گلاس پکڑے اسہی طرف آرہی تھی

کب سے ایک ہی جگہ بیٹھی ہو تھک گئیں ہوں گی تھوڑا اٹھو چلو پھرو لوگوں سے ملو اچھا لگے گا تمہیں۔۔۔ نتاشہ اسکے سامنے ٹیبل پہ ایک گلاس رکھتی دوسرا اپنے ہاتھ میں لیئے ہی کھڑی رہی۔

ایمل نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ایک نظر ٹیبل پہ رکھے گلاس کو جو دیکھنے میں پانی لگ رہا تھا۔

تم شراب تو نہیں پیتی ہونگی اس لیئے پانی لائی ہوں۔۔۔ اسکی نظریں گلاس کی جانب دیکھتے نتاشہ نے دوستانہ انداز میں کہا۔

شکریہ تمہارا مگر مجھے نہیں چاہیئے۔۔۔ ایمل مسکراتے ہوئے بولی تو نتاشہ کندھے اچکاتی واپس مڑگئی۔

 پانی کو سامنے رکھے دیکھ اسکا حلق اور خوشک ہو رہا تھا پانی کی کافی طلب ہو رہی تھی مگر نتاشہ کا لایا ہوا پانی وہ پینے کا رسک بلکل نہیں لے سکتی تھی۔۔۔ کیا پتہ اسنے اس میں کچھ ملا ہی نا دیا ہو۔

پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ یہاں تک کے ایک گھنٹہ ہو گیا مگر جزلان تھا کے چلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا جب کے اب ایمل سے اپنی پیاس کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔ اس لیئے وہ اپنی جگہ سے اٹھتی ڈانس فلور پہ نتاشہ کی باہوں میں باہیں ڈالے جزلان کی جانب بڑھ گئی۔

جزلان۔۔۔ اسنے پکارہ تو جزلان نے چونک کے اسکی جانب گردن موڑی۔

ہمممم۔۔۔ اپنے پیچھے ایمل کو کھڑے دیکھ وہ ہلکے سے مسکرایا لیکن نتاشہ کو اب تک نہیں چھوڑا تھا

چلیں واپس بہت دیر ہوگئی ہے اب تو۔۔۔ آخر تھکن اور پیاس سے بےحال ہوتے بول ہی دیا۔

بیگم صاحبہ ابھی وقت ہی کرنا ہوا ہے ابھی تو رات شروع ہوئی ہے تم بھی انجوائے کرو۔۔۔ جزلان مزے سے کہتا واپس نتاشہ کی جانب متوجہ ہوگیا جو آنکھوں میں خمار لیئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

مجھے پیاس لگی ہے تم کہیں سے پانی لادو۔۔۔ سوکھے گلے کے ہاتھوں مجبور ہو کے اس سے پانی کا کہہ ہی دیا۔۔۔ بھروسہ تو اسے جزلان پہ بھی نہیں تھا مگر وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ جاگیردار لوگ خود تو عیاشی کر سکتے ہیں۔۔۔ خود تو شراب پی سکتے ہیں مگر انہیں عورت پاک چاہیئے ہوتی تھی۔۔۔ 

اسے اتنا تو یقین تھا کہ آگر وہ اسے پانی لا کے دے گا تو وہ پانی ہی ہوگا اس میں کچھ ملا ہوا نہیں ہوگا۔

ٹھیک ہے تم وہاں جا کے بیٹھو میں لاتا ہوں۔۔۔ پتہ نہیں کیا سوچ کے کہتا اسے واپس صوفے کی جانب اشارہ کرتے خود پانی لے نے چلا گیا تو نتاشہ بھی فورن جزلان کے پیچھے گئی۔

پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے جب وہ پانی کا گلاس لیئے اسکے سامنے حاضر تھا۔۔۔ 

لو اور اب مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا۔۔۔ گلاس ایمل کو تھماتے نتاشہ کی جانب مڑھ گیا جو سامنے ہی کھڑی اسکا انتظام کر رہی تھی۔

پانی پیئے ابھی اسے صرف کچھ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اسکا سر بھاری ہونا شروع ہوگیا۔۔۔ اسنے جلدی سے ایک ہاتھ سے سر کو تھاما تو زور کا چکر آیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ تھوڑی نارمل ہوئی مگر اب اسکے چہرے پہ ایک عجیب مسکراہٹ تھی ۔۔۔ انکھوں میں ایک الگ ہی نشہ۔۔۔ جیسے وہ اپنا ہوش کھو بیٹھی تھی اب۔

سب ڈانس کر رہے ہیں اور م۔۔۔۔مجھے کسی نے بلایا ہی نہیں۔۔۔ سامنے ناچتے لوگوں کو دیکھ خفگی سے ہم کلام ہوئی۔

یہ جزلان کا بچہ بھی ناچ رہا ہے ۔۔۔ می۔۔۔میں بھی ناچوں گی ۔۔۔ا۔۔۔اس سے کم تھوڑی ہوں میں۔۔۔ کھڑی ہوئی تو ایک دم قدم ڈگ مگائے تو جلدی سے صوفے کا سہارا لیا۔

آہستہ سے کھڑی ہوتی نشے سے بند ہوتی آنکھوں سے مسکراتی ہوئی ڈانس فلور کی جانب بڑھی اور اِدھر سے اُدھر جھومنے لگی۔۔۔ آنکھیں بند کیئے جھومتے ہوئے اچانک ایک لڑکے سے ٹکرائی جس نے فورن ہی اسے کمر سے تھام لیا تو اسنے بھی گرنے سے بچنے کی خاطر اس لڑکے کے بازو پکڑ لیئے۔۔۔ آگر وہ ہوش میں ہوتی تو مرتے دم تک کسی غیر محرم کو اپنے قریب نا آنے دیتی مگر اسے تو اپنا ہوش ہی نہیں تھا۔

بیوٹیفل۔۔۔۔ اسکے چمکتے چہرہ کو دیکھتے لڑکے کے لبوں پہ ایک کمینگی سی مسکراہٹ ابھری تو وہ اسے رش سے الگ لے جانے لگا جب لوگوں کے بیچ سے نکلتے ہوئے ایمل کا کندھا جزلان سے ٹکرا گیا۔

سو۔۔۔ری۔۔۔۔ ایمل نے اس لڑکے کا بازو تھامے جھولتے ہوئے ہاتھ اٹھا کے کہا جب کے وہ لڑکا بغیر رکے اسے آگے لیئے بڑہ گیا۔ 

ایمل کی آواز پہ جزلان نے فورن اس لڑکی کی جانب دیکھا جو اب لڑکے کے ساتھ اسہی کمرے سے منسلک بنے ایک کمرے کی طرف جا رہی تھی۔

یہ ایمل کی آواز تھی نا۔۔۔ اسنے الجھ کے نتاشہ سے پوچھا جو اسکی گردن میں چہرہ چھپائے کھڑی تھی۔۔۔۔ وہ نشے میں تھا مگر پھر بھی اسے اتنا ہوش تھا کہ وہ آوازیں پہچان سکے۔

نہیں۔۔۔ اسنے جانتے بوجھتے بھی انکار کیا جب جزلان نے ایک نظر اس صوفے کی جانب دیکھا جہاں ایمل بیٹھی تھی مگر اب تو وہ جگہ خالی تھی۔۔۔ ایک دم سے اسکے دماغ میں دھماکہ ہوا۔۔۔ایک جھٹکے سے اسکا سارا نشہ اڑن چھو ہوا۔۔۔ وہ فورن نتاشہ کو خود سے پرے دھکیلتے اس کمرے کی جانب بھاگا جہاں وہ لڑکا بلکل ابھی ابھی ایمل کو لے کے گیا تھا۔۔۔۔ نتاشہ بھی فورن اسکے پیچھے بڑھی۔

ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتے جزلان اندر داخل ہوا تو ایمل کو بیڈ پہ لے جاتے لڑکے نے قدم روک کے پیچھے مڑ کے اسے دیکھا۔

کون ہو بھائی کیوں پریشان کر رہے ہو باہر جاؤ۔۔۔ وہ لڑکا ناگواری سے بولا جب کے جزلان ایمل کی کمر پہ رکھا اسکا ہاتھ دیکھتے تیزی سے آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے ایمل کو اس سے الگ کرتے دوسرے ہاتھ سے اتنی زور سے اس لڑکے کا ہاتھ گھمایا کہ چڑ کی آواز کے ساتھ اسکے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔ جس پہ وہ لڑکا درد سے چیختے زمین پہ بیٹھتا چلا گیا۔

ایمل کو بیڈ پہ بیٹھاتے جزلان اس لڑکے کی جانب بڑھا اور پے در پے اسکے منہ پہ مکوں کی برسات کردی۔۔۔ جیسے دیکھتے نتاشہ فورن آگے بڑھی۔

چھوڑو اسے جزلان۔۔۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔۔ نتاشہ نے فورن آگے بڑھ کے جزلان کو اس لڑکے سے الگ کرنا چاہا جو اسکی جان لینے کے در پہ تھا۔

اسنے میری بیوی کو چھوا ہے میں اس کی جان لے لوں گا۔۔۔ اسکو لہو+لہاں کرنے کے بعد بھی جزلان کو سکون نہیں مل رہا تھا جب کے بیڈ پہ بیٹھی ایمل تالیاں بجاتی اور مارو ، واو، مزا آرہا ہے ،،، کہتی خوب خوش ہو رہی تھی۔

جزلان چھوڑو اسے ۔۔۔ ہو سکتا ہے تمہاری بیوی نے خود ہی اس لڑکے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہو۔۔۔ کیا پتہ اسنے خود اسے اپنے پاس بلایا ہو۔۔۔ نتاشہ اسکا بازو پکڑتی اسے ایمل کے خلاف بھڑکانے لگی جب ہی جزلان نے اس لڑکے کو چھوڑتے کھڑے ہوتے ایک زور دار تھپڑ نتاشہ کو رسید کیا۔

بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔ میری بیوی ایسی نہیں ہے۔۔۔ میں جانتا ہوں یہ ضرور تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔۔۔ جزلان پوری قوت سے دھاڑا ایمل ڈر کے فورن بیڈ پہ پیچھے کی جانب ہوئی جب کے نتاشہ اپنی اہانت پہ گال پہ ہاتھ رکھے کھڑی غصے سے جزلان اور اس کے پیچھے بیڈ پہ بیٹھی ایمل کو گھور رہی تھی۔

جزلان خان تمہیں اس تھپڑ کا احساب دینا پڑے گا۔۔۔ وہ درشتی سے کہتی کمرے سے نکل گئی تو جزلان زمین پہ پڑے اس اد مرے لڑکے کو ایک اور ٹھوکر مارتا ایمل کی جانب متوجہ ہوا جو اسکے دھاڑنے پہ بیک گراؤنڈ سے چپکی بیٹھی تھی۔

چلو ایمل۔۔۔ جزلان غصے کو ضبط کرتے نرمی سے بولا ۔۔۔وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے ورنا بھپری شیرنی کی جگہ یوں بھیگی بلی بنی نا بیٹھی ہوتی تبھی اسنے کافی نرمی سے کام لیا

نہیں میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی تم چیختے ہو۔۔۔ وہ معصومیت سے بولی تو جزلان نے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے خود کو ریلیکس کیا۔

نہیں چیخوں گا چلو آؤ اب۔۔۔ جزلان اسکے آگے ہتھیلی پھیلائے بولا تو ایمل نے ڈرتے ڈرتے اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

پکاہ نہیں چیخو گے نا۔۔۔ اسنے پھر سے کنفورم کرنا چاہا مگر اتنے میں جزلان نے جھنکھلاتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں بھرا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔

واہ میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں۔۔۔ جزلان کی گود میں آتے وہ ہاتھ پھیلائے خوشی سے چہکی تو بےساختہ جزلان کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔

فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے اسے اندر بیٹھایا اور خود جلدی سے آگے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالتا گاڑی آگے بھگا لے گیا۔

ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ خالی سڑک پہ ہاتھ باہر نکالے ایمل نے جوش سے پوچھا۔

حویلی جا رہے ہیں تم سو جاؤ۔۔۔ دو انگلیوں سے ماتھا مسلتے خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کی۔۔۔ اور پھر جتنی ہو سکے اتنی اسپیڈ میں گاڑی چلاتے حویلی پہنچا۔

رات کے تین بج رہے تھے جب جزلان ایمل کو اٹھائے حویلی میں داخل ہوا ۔۔۔ حویلی میں گہری خاموشی تھی جس میں ایمل مسلسل کچھ نا کچھ بڑبڑا رہی تھی جس سے تھوڑی آواز پیدا ہوئی ۔۔۔ جزلان جان گیا تھا کہ ایمل کی یہ حالت کیسے ہوئی ہے۔۔۔ جب وہ پانی لینے گیا تھا تب نتاشہ تیزی سے اسکی طرف آتی ٹکرائی تھی جس کو پکڑنے کے لیئے ایک منٹ کے لیئے جزلان کا دھیان بھٹکا تھا اور اسہی بیچ اسنے شاید پانی میں کچھ ملادیا تھا جس کا نتیجہ اسکے سامنے تھا۔

دھیرے سے ایمل کو بیڈ پہ لیٹایا مگر اس سے پہلے وہ اٹھتا ایمل نے دونوں بازو اسکے گلے میں ہائل کر لیئے۔۔۔ جس پہ جزلان کا دل ایک دم سے دھڑکا۔

تم بہ۔۔بہت اچھے ہو خزلان ۔۔۔ بلکل بھی بےحس نہیں ہو۔۔۔ تم جزلان خان سے اچھے ہو۔۔۔۔ مجھے وہ بلکل پسند نہیں ہے۔۔۔ بہت برا لگتا ہے وہ مجھے۔۔۔ مگر یہ والا جزلان مجھے بہت اچھا لگا ہے ۔۔۔ وہ مندی مندی آنکھیں سے اسے دیکھتی اسہی کی برائی اسہی سے کر رہی تھی جس پہ وہ کھل کے مسکرایا۔

اسنے دھیرے سے اسکے بازو اپنی گردن سے نکالنے چاہے جب ایمل اسے خود کے اور قریب کر گئی۔

مجھے چھوڑ کے مت جاؤ ورنہ وہ پھر سے آجائے گا۔۔۔ اسنے بند ہوتی آنکھوں​ سے سرگوشی کی۔

اسکی قربت میں جزلان مدہوش ہونے لگا تھا۔۔ جو نشہ اسکا اڑن چھو ہوگیا تھا وہ پھر سے عود آیا تھا۔۔۔ وہ پہلے بھی ایمل کے قریب آیا تھا مگر صرف اسے ڈرانے کی حد تک مگر آج جیسے وہ اپنے ہوش کھونے لگا تھا۔

بہت مشکل سے خود کو ایک بار پھر اسکے نازک وجود سے دور کرنے کی کوشش کی مگر ایمل جیسے اسے چھوڑنے کے لیئے تیار ہی نہیں تھی۔

پلیز نہیں جاؤ یہیں میرے پاس رہو۔۔۔ ان دونوں کے چہرے اتنے قریب تھے کے بولتے ہوئے ایمل کے لب جزلان کے گالوں کو چھو رہے تھے جس سے اسکے دل میں ایک الگ ہی احساس جاگ رہا تھا۔۔۔ ایک ایسا احساس جو اتنی لڑکیوں کے پاس جانے پہ کبھی نہیں جاگا اسکا دل ایک الگ ہی خمار سے بھرنے لگا تھا۔

وہ کبھی بھی بہکا نہیں تھا مگر آج وہ خود کو بہکنے سے روک نا سکا۔۔۔آخر کب تک خود پہ بندھ باندھتا۔۔۔ ایمل کے وجود سے اٹھتی خوشبو اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔۔۔ 

وہ سب کچھ بھولتے مدہوش ہوتے اسکے لبوں پہ جھک گیا تو ایمل نے بند آنکھوں سے اسکی قمیض کے کالر کو مٹھیوں میں دبوچ لیا۔

کافی دیر خود کو سکون سے سیراب کرتے اپنے سلگتے لبوں کا لفظ اسکے ایک ایک دلکش نقوش پہ چھوڑنے لگا۔۔۔ اسکے چھونے میں ایک عجیب ہی نرمی تھی ایک پیار بھرا انداز جس پہ ایمل سکون سے اسکے باہوں میں پڑی تھی۔

چہرے سے گردن کا سفر اسنے بہت ہی فرست سے طے کیا تھا۔۔۔ اسکی شہہ رک پہ اپنا گرم لمس چھوڑتے گھنے بادل کی طرح اس پہ سایہ کرتا اسے بھیگوتا چلا گیا۔۔۔۔ 

۔🌺 🌺 🌺

رائد کو آج جلدی آفس جانا تھا جس وجہ سے وہ آج جلدی اٹھ گیا تھا۔۔۔ وہ نیچے آیا تو نوال ہال میں بیٹھی گود میں رکھی چاول کی تھالی میں ہاتھ مار رہی تھی۔

کیا ہو رہا ہے۔۔۔ رائد خوشگواری لہجے میں استفسار کرتا اسکی جانب آیا۔۔۔ اسکے پیچھے آتی آئلہ مسکرائی

کچھ نہیں بھائی بس جب تک ناشتہ بن رہا ہے تب تک سوچا چاول بین کے ٹائم پاس کرلوں۔۔۔ اسنے زرا سے کندھے اچکاتے جواب دیا تو رائد اسکے ساتھ آ بیٹھا۔

اچھا مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔

جی پوچھیں۔۔۔

حسام کے بارے میں تم نے خود مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ اسکے سوال پہ نوال گردن جھکا گئی۔

وہ مجھے شرم آرہی تھی۔۔۔ وہ سر جھکائے منمنائی تو رائد مسکرادیا جب ہی تراب خان اپنے کمرے سے نکلتے ہال میں آنے لگے تو نوال انہیں دیکھتی فورن اٹھ کے جانے لگی مگر اس سے پہلے وہ اٹھتی رائد نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے اسے روکا تو وہ گھبرا کے اپنے بھائی کو دیکھ گئی۔

رائد اور نوال کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ تراب خان چونکے تھے مگر پھر دھیرے سے مسکراتے وہیں بیٹھ گئے۔

آپ نے نوال کی شادی کا کیا سوچا ہے۔۔۔ انکے بیٹھنے پہ رائد نے بغیر بابا پکارے انہیں مخاطب کیا تو وہ ایک ناگوار نظر نوال پہ ڈالتے رائد کی جانب متوجہ ہوئے۔

اپنے باپ کی نظروں میں خود کے لیئے ناپسندیدگی دیکھ نوال کی آنکھیں لبا لب پانی سے بھریں جب کے اپنے باپ کی نظروں کو اچھے سے سمجھتے رائد نے ضبط سے لب بھیجے۔

دو تین رشتے آئے ہیں میں ان میں سے ایک پہ غور کر رہا ہوں کچھ دنوں تک وہ لوگ آجائیں گے ۔۔۔۔ اور پھر جتنی جلدی ہو سکے گا میں اسکی شادی کردوں گا۔۔۔ تراب خان کو رائد کا نوالل کے بارے میں دلچسپی لینا حیران تو کر رہا تھا مگر اس وقت وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے۔

آپ کو ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں​ ہے۔۔۔ میں نے اپنی بہن کے لیئے اچھا رشتہ ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔ 

اسکی بات سنتے جہاں تراب خان میری بہن کہنے پہ شوکڈ ہوئے تھے وہیں نوال نے اپنے بھائی کو دیکھتے ہلکے سے نفی میں سر ہلاتے اسے کچھ بھی بتانے سے منا کیا جب کے ہال میں داخل ہوتی نور بیگم کے قدم رائد کی بات سنتے رکھے تھے۔۔

کون ہیں لوگ۔۔۔ تراب خان اپنی حیرت پہ قابو پاتے سنجیدگی سے بولے۔

شاہ خاندان۔۔۔ میں نے اپنی بہن کے لیئے حیدر شاہ کا پوتا حسام شاہ کو پسند کیا ہے۔۔۔ امید ہے آپ کو کئی مسئلے ہوں گی اس سے۔۔۔ رائد سکون سے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھے بولا تو نوال نے زور سے آنکهیں میچھیں۔

پاگل ہو گئے ہو تم جاگیردار رائد خان۔۔۔۔ تراب خان بلند آواز میں دھاڑے۔

انکی آواز اتنی بلند تھی کے جزلان اور ایمل جو اپنے کمرے میں سورہے تھے انکی آواز پہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھے۔

بابا چیخ کیوں رہے ہیں۔۔۔ جلدی میری قمیض دو۔۔۔۔ جزلان ہڑبڑا کے کھڑا ہوتا ایمل سے بولا تو اسنے ناسمجھی سے جزلان کو دیکھا۔

جہاں اتاری ہوگی وہیں رکھی ہوگی نا مجھے کیا پتہ کہاں ہے۔۔۔ ایمل بغیر خود پہ غور کیئے بولی تو جزلان کے لبوں پہ معنی خیز مسکراہٹ آگئی اتنے میں ایک بار پھر باہر سے تراب خان کے دھاڑنے کی آواز پہ وہ جلدی سے الماری کی جانب بڑھا اور وہاں سے اپنی شرٹ نکالتے پہنتے جلدی سے باہر نکلنے لگا مگر جاتے جاتے کہنا نہیں بولا تھا۔

میرے کپڑوں میں تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔  شوخی سے کہتا دروازہ بند کر کے کے باہر نکل گیا تو ایمل نے ناسمجھ سے دروازے کو دیکھا۔

کیا صبح صبح یہ پاگل ہوگیا ہے اسکے کپڑے۔۔۔ میں نے تو اپنے۔۔۔ اور جیسے ہی اسنے کپڑوں کی جانب دیکھا زبان بیچ میں ہی رک گئی۔

یہ کیا ۔۔۔ یہ کب ہوا۔۔۔ کیسے ہوا۔۔۔ بہت سے سوال اسکے دماغ میں چلنا شروع ہوگئے ۔۔۔ 

میں تو یہاں نہیں تھی پھر میں یہاں کیسے اور کب آئی۔۔۔ کیا رات ہمارے بیچ۔۔۔۔ اسنے بہت سوچنے کی کوشش کی مگر کچھ یاد نہیں آرہا تھا ٹینشن پریشانی سے سر گھوم رہا تھا۔

نہیں کل رات کچھ نہیں ہوا۔۔۔ وہ خود کو ناکام سی تسلی دیتی سر ہاتھوں میں گرا گئی۔

تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔تم ان لوگوں سے رشتے داری جوڑنے کی بات کر رہے ہو جہوں نے تمہارے دادا جی کی جان لی ہے۔۔۔ وہ درشتی سے بولے جب کے رائد سکون سے بیٹھا ہوا تھا۔

اور آپ بھی جانتے ہیں کے دادا جی کی موت میں انکا کوئی ہاتھ نہیں ہے بس اپنی انا میں آکے یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔۔۔ اسکا اطمینان اب بھی برقرار تھا۔

رائد خان جیسا تم چاہ رہے ہو ویسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔وہ غصے سے دھاڑے جب ہی کمرے سے جزلان نکل کے آیا۔۔۔۔ جیسے دیکھتے آئلہ نے فورن ڈوپٹے سے چہرہ ڈھانپا۔

کیا ہوا بابا۔۔۔ اسنے فکرمندی سے پوچھا جس پہ انہوں نے سر جھٹکا۔

یہ تمہارے بڑے بھائی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ نوال کا رشتہ شاہ خاندان میں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ تراب خان نے غصہ ضبط کرتے جزلان کو بتایا جس سے اسکے ماتھے پہ بل پڑے۔

کیا تم بھول گئے ہو وہ ہمارے دشمن ہیں ۔۔۔ دشمنوں کے یہاں میری بہن کو بیاہو گے۔۔۔ جزلان سرد لہجے میں بولا تو رائد کے لبوں پہ استہزا مسکراہٹ آگئی۔

باقی سب تو خاموشی سے کھڑے انکی گفتگو سن رہے تھے۔

میری بہن واہ۔۔۔ کس حق سے تم اسے اپنی بہن کہہ رہے ہو۔۔۔ رائد طنزیہ لہجے میں کہتا کھڑا ہوا تو نوال بھی اسکے ساتھ ہی گھبرا کے کھڑی ہوئی ۔

نور بیگم بھی وہیں آتی آئلہ کے برابر میں کھڑی ہوگئیں۔

تو تمہارا اسکے ساتھ کون سا رشتے ہے جو تم اسکا رشتہ پکاہ کر رہے ہو۔۔۔ جزلان بھی اسہی کہ لہجے میں بولا۔

وہیں رشتہ ہے جو تمہارے ساتھ ہے مگر تمہیں ابھی تک وہ رشتہ یاد نہیں آیا نا اسکا احساس ہوا مگر مجھے اب رشتوں کا احساس ہوگیا ہے ۔۔۔ یہ میری بہن ہے میں جہاں چاہوں اسکی شادی کرسکتا ہوں۔۔۔ رائد سکون سے کہتا سامنے کھڑے باپ بیٹے کو مٹھیاں بھیجے پہ مجبور کر گیا۔

رائد تمہیں ان سب چیزوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے میں دیکھ رہا ہوں سب۔۔ میں دیکھ لوں گا کہاں اور کس سے شادی کرنی ہے اس لڑکی کی۔۔۔ تراب خان نے اسے سمجھانا چاہا جس پہ رائد مسکرادیا۔

نا میں نے آپ سے پوچھا ہے اور نا ہی میں نے آپ سے نوال کی شادی کی پرمیشن مانگی ہے۔۔۔ میں نے بس آپ کو بتایا ہے کہ میں نوال کے لیئے رشتہ دیکھ چکا ہوں لڑکا اور اسکا خاندان مجھے پسند ہے میں وہیں نوال کی شادی کروں گا۔۔۔ رائد اطمینان سے ہاتھ کمر پہ باندھے انکے سامنے کھڑا ہوا۔

رائد خان تم پہلے بھی اس سے لاتعلق تھے بہتر ہے اب بھی رہو۔۔۔ اسکا باپ میں ہوں میں خود دیکھ لوں گا کس سے مجھے اسکی شادی کرنی ہے۔۔۔ تراب خان رعب سے بولے تو رائد نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا جب کے نوال تو کانپتے دل کے ساتھ رائد سے ایک قدم پیچھے کھڑی تھی۔

وہ جانتی تھی آج جو اسکے ساتھ اسکے باپ بھائی رشتہ بتا رہے تھے یہ صرف اس لیئے تھا کہ وہ لوگ اپنے دشمنوں کے گھر اسکی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ورنا نوال کون ہے کہاں ہے اسکی ذات سے تو کسی کو فرق ہی نہیں پڑھتا تھا۔

کیا آپ جانتے بھی ہیں باپ کا کیا فرض ہوتا ہے جو آپ خود کو نوال کا باپ کہہ رہے ہیں۔۔۔ چلیں ایک بھی بات بتادیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کے آپ نے باپ ہونے کا فرض نبھایا ہے۔۔۔ کوئی ایک ایسی چیز ہی بتادیں جو آپ نے اپنی بیٹی کے لیئے کی ہو۔۔۔ زیادہ نہیں بس ایک۔۔۔  نوال کے ذکر پہ انکے چہرے پہ آتی ناگواریت رائد سے چھپی نارہی۔

رائد تم اس لڑکی کے لیئے اپنے باپ سے سوال جواب کر رہے ہو۔۔۔ اسکے لیئے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ہو۔۔۔ تراب خان برہمی سے بولے تو بےساختہ نوال نے ڈر کے رائد کا بازو پکڑہ۔

رائد نے ایک نظر بےآواز آنسوں بہاتی نوال کو دیکھا اور پھر افسوس سے اپنے باپ کو۔

یہ صرف لڑکی نہیں ہے، میری بہن ہے۔۔۔ اور ایک بھائی ہونے کے ناطے میرا فرض ہے اپنی بہن کی حفاظت کرنا اسکا اچھا برا سوچنا۔۔۔ اور جہاں تک بات ہے آپکے سامنے آ کے کھڑے ہونے کی تو شاید آپ بھول گئے ہیں آپ کے سامنے تو میں اس وقت سے کھڑا ہوں جب سے آپ نے میری ماں اور بہن کو مارا تھا۔۔۔ رائد سردمہری سے کہتے تراب خان کو لب بھیجے پہ مجبور کر گیا۔

زبان سمبھال کے بات کرو بابا سے۔۔۔ جزلان غصے سے چیخا جب تراب خان نے ہاتھ اٹھا کے اسے روکا۔

تم مجھ سے بےوجہ بدظن ہو رائد۔۔۔ میں نے حالانکہ کچھ نہیں کیا۔۔۔ تراب خان کے لہجے میں دکھ بھر آیا تھا۔۔۔ اپنے جان سے پیارے بیٹے کے منہ سے ایسی باتیں سن کے انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی جو انہیں اپنے دل میں محسوس ہو رہی تھی مگر وہ تکلیف انہیں کبھی محسوس نہیں ہوتی تھی جو وہ دوسروں کو پہچانتے تھے۔

میں کیسے مان لوں۔۔۔ میرے ماں آخری بار آپکے ساتھ ہی تھی نا اور میری بہن چھوٹی تھی جیسے آپ نے ملازموں کے رحم وکرم پہ مرنے چھوڑ دیا تھا اور وہ بیچاری واقعی مرگئی۔۔۔ رائد کرب سے کہتا نور بیگم اور آئلہ کی آنکھیں نم کر گیا۔

بیٹا تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے۔۔۔ وہ بےبسی سے بولے تو رائد تلخی سے مسکرایا۔

آپ کرتے ہیں کسی اور کا یقین جو آپ کا کوئی کرے گا۔۔۔ خیر میں یہ ساری باتیں نہیں کرنا چاہتا میں بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کے بہت جلد میں نوال کا رشتہ طے کررہا ہوں اور جلد ہی شادی بھی کردوں گا آگر آپ لوگوں کو آنا ہو تو آجائے گا۔۔۔ ورنا آپ کے بغیر بھی شادی ہو جائے گی۔۔۔۔ رائد دو ٹوک لہجے میں کہتا نوال کی جانب مڑا۔

تم کیوں رو رہی ہو۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔ سنجیدگی سے نوال سے بولا تو وہ دھیرے سے ہاں میں سر ہلاتی جانے کے لیئے مڑی مگر اس سے پہلے وہ ایک بھی قدم بڑھاتی اسکے باپ کے لفظوں نے ایک بار پھر اسکی ذات کو چھلنی کیا۔

رائد تم اس منحوس کے لیئے اپنے دادا جی کے قا+تلوں کے سامنے جھک جاؤ گے۔۔۔ برسوں پہلے تمہاری ماں بھی ایسے ہی اپنی بیٹی کے لیئے میرے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی اور اب تم بھی اسہی کی طرح اس منحوس لڑکی کے لیئے اپنے باپ سے بدتمیزی کر رہے ہو۔۔۔ تراب خان کے یہ لفظ جہاں نوال کے دل کو چیر گئے تھے وہیں رائد کے ماتھے کی رگئیں غصے سے پھولیں تھیں ۔۔۔ 

آئلہ تو ششدر رہ گئی تھی انکے الفاظ سن کے کوئی باپ کیسے اپنی بیٹی کو منحوس کہ سکتا تھا ۔۔۔ وہ یہ کیسے اتنی آسانی سے اتنی بڑی بات کہہ گئے تھے۔۔۔ جتنی حیرانی ، دکھ ، رنج ہوتا اتنا کم تھا ۔۔۔ جب اسے انکی بات اتنی بڑی لگی تھی تو پھر نوال کو کتنی بڑی لگی ہوگی اس بات کا اندازہ ہو لگا سکتی تھی۔

بس بہت ہوگیا ۔۔۔ آپ کے جو دل میں آرہا ہے آپ نوال کو بولے جا رہے ہیں۔۔۔ آخر اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں آپ عورت ذات سے جب کے آگر عورت نا ہوتی تو آپ آج یہاں کھڑے نا ہوتے مت بھولیں آپ کو بھی پیدا کرنے والی ایک عورت ہی تھی، بچپن میں جب جب آپ رات میں اٹھے اپنی نیند خراب کر کے آپ کو سمبھالنے والی بھی ایک عورت ہی تھی، آپکی نسلوں کو آگے بڑھانے والی بھی ایک عورت ہی ہے۔۔۔ رائد غصےسے بولتا چلا گیا جب کے وہ سر جھٹکتے اسے سنتے رہے۔

رائد کی باتیں سن کے جو جزلان چوڑا ہوئے اپنے باپ کے ساتھ غصے سے بھرا کھڑا تھا ایک پل کے لیئے اسے شرمندگی نے آ گھیرا۔۔۔ 

ایک مرد اور عورت سے مل کے ہی یہ معاشرہ بنتا ہے مگر نہیں آپ تو ایک عورت کو خاص کر بیٹی کو کم طر سمجھتے ہیں۔۔۔ انہیں منحوس سمجھتے ہیں جب کے یہی بیٹیاں ہوتیں ہیں جہیں اپنے باپ کا سب سے زیادہ خیال ہوتا ہے۔۔۔ جب باپ گھر واپس نہیں لوٹتا اسکی راہ دیکھتی ہیں۔۔۔ جب باپ رات دیر سے کام سے واپس تھکا ہارا لوٹتا ہے تو یہی ہوتی ہیں جو انہیں کھانا گرم کر کے دیتی ہیں۔۔۔ اور کبھی گھر میں کوئی بیمار ہوجائے تو ایک بیٹے سے بڑھ کے خیال رکھتی ہیں اور آپ انہیں منحوس کہتے ہے نہیں اللہ نے رحمت بنا کے بھیجا ہے آپ ان کے لیئے اس جسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ افسوس ہے مجھے آپ پہ۔۔۔ رائد دکھ سے کہتا روتی ہوئی نوال کے سر پہ ہاتھ رکھ گیا۔۔

نور بیگم کی نم آنکھوں میں ایک دم خوشی ابھری ۔۔۔ چلو کوئی تو تھا انکے اور انکی بیٹی کے ساتھ جو لوگوں کے سامنے انکا مقام بےدھڑک واضح کر رہا تھا۔

آئلہ کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔۔۔ وہ دل میں خوش تھی کہ رائد نے ایک اچھے بھائی اور بیٹا ہونے کا فرض بنایا ہے۔

رائد تم۔۔۔ تراب خان پھر کچھ کہنے لگے تھے جب رائد نے ہاتھ اٹھا کے آگے کہنے سے روکا۔۔۔ انکے چہرے سے کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ رائد کی باتوں نے ان پہ کوئی اثر کیا ہے۔۔۔ ہوتے ہیں کچھ لوگ جن پہ کسی بھی بات کا اثر نہیں ہوتا جن کی فطرت میں ہی بےحسی ہوتی ہے تراب خان بھی ان ہی میں سے تھے۔

آپ کچھ مت بولیں کیونکہ جب جب آپ بولتے ہیں سامنے والے کا دل اپنی باتوں سے چیر دیتے ہیں۔۔۔ 

چلو نوال۔۔۔ تراب خان سے کہتا رائد نوال کو اپنے ساتھ آنے کا کہتا آگے بڑھ گیا تو وہ بھی مرے مرے قدموں سے اسکے پیچھے بڑی جب رائد کے رکنے پہ اسکے قدم بھی رکے

اور ہاں تم۔۔۔ آگر تم میں زرا بھی غیرت باقی ہوگی تو ضرور تمہیں میری باتیں سمجھ آئیں گی۔۔ اور آگر اب بھی ایک بھی بات سمجھ نا آئے تو سمجھ جانا تمہارے سینے میں بھی اپنے باپ کی طرح دل نہیں ہے۔۔۔ سنجیدگی سے کہتا ایک آخری نظر جزلان پہ ڈالتے اوپر بڑھ گیا تو نوال بھی اسکے پیچھے ہی بڑھ گئیں۔

جزلان کو شروع سے تراب خان نے اپنے ساتھ رکھا تھا جس وجہ سے وہ بھی باپ کی طرح ہوگیا تھا ۔۔۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اسکی باتیں جزلان پہ اثر کریں گی یا وہ بھی تراب خان کی طرح بےحس ہی بنا رہے گا مگر سمجھانا اسکا فرض تھا جو اسنے پورا کر دیا تھا۔

انکے جاتے ہی نور بیگم بھی نم آنکھیں صاف کرتیں واپس کچن میں چلی گئیں۔۔

صبح کا وقت تھا اور کسی نے بھی ناشتہ نہیں کیا تھا اور جو کچھ اب ہوا تھا اسکے بعد ناشتہ شاید ہی کوئی کرتا اس لیئے رائد اور نوال کا ناشتہ لینے آئلہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

جب کے جزلان لمبے لمبے قدم اٹھایا حویلی سے ہی نکل گیا تھا۔۔۔ رائد کی باتوں کے بعد اسکے دل میں ایک عجیب سی بےچینی پیدا ہوگئی تھی ۔۔۔ اپنے اندر کی گھٹن سے گھبراتا وہ کہیں دور جانا چاہتا تھا۔

پہچھے ہال میں سر تراب خان ، انکی انا اور بےحسی باقی تھی جس پہ وہ سر جھٹکتے مردانہ خانے کی طرف بڑھ گئے۔

۔🌺 🌺 🌺

بھائی میں آپ کا شکریہ ادا کیسے کروں ۔۔۔ آج جس طرح سے آپ نے میرے لیئے آواز اٹھائی مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ میرے پاس لفظ نہیں ہیں کہنے کے لیئے۔۔۔ رائد کے سامنے صوفے پہ بیٹھی نوال بھاری آواز میں بولی ۔۔۔ آنسوں لڑکیوں کی مانند بہتے اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے۔

گڑیا بھائیوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا ۔۔۔ بہنیں تو بھائیوں کی جان ہوتیں ہیں۔۔۔ اور بھائیوں کا فرض ہوتا ہے انکے لیئے لڑنا۔۔۔میں نے بھی بس وہی کیا ہے۔۔۔اتنے کم وقت میں تم مجھے بہت عزیز جو ہوگئی ہو۔۔۔ رائد نے دھیرے سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔ تو آنسوں کا گولہ اسکے حلق میں پھنسا۔۔۔ ایک طرف رائد تھا جو سوتیلا بھائی ہوکے بھی سگوں سے بڑھ کے چاہ رہا تھا اور دوسری طرف اسکا اپنا بھائی تھا جو باپ کے ساتھ مل کے ہمیشہ اسے تکلیف دیتا تھا۔

ایک آپ ہیں بھائی جو مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں اور دوسری طرف بابا جنہوں نے مجھے آج تک آنکھ بھر کے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ اذیت بھرے لہجے میں بولی تو رائد لب بھیچ کے رہ گیا ۔۔ کیا کہتا وہ کیا بولتا ۔۔۔ وہ کوئی چھوٹی بچی تو نہیں تھی جو اسے کسی طرح بہلا لیتا۔۔۔  باپ کا رویہ اسکے آنکھوں کے سامنے تھا وہ سب سمجھتی تھی۔۔۔ 

گڑیا آپ نے کسی کی بھی کسی بات پہ دھیان نہیں دینا اور نا ہی اپنی شادی کی فکر کرنی ہے۔۔۔ میں ہوں میں سب دیکھ لوں گا۔۔۔ہمممم۔۔۔ رائد نے اسے تسلی دی جس پہ وہ آنسوں صاف کرتی سر ہلا گئی۔

کیا باتیں ہو رہی ہیں بھائی بہن کے بیچ۔۔۔ ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے لیئے آئلہ کمرے میں داخل ہوئی۔

تمہاری برائی کر رہے تھے۔۔۔ رائد نے نوال کا موڈ بدلنے کے لیئے شرارت سے کہا۔۔۔ تو ٹیبل پہ ناشتے کی ٹرے رکھتے آئلہ نے رائد کو گھورا۔

ہمیں یقین ہے نوال ہماری برائی کر ہی نہیں سکتی ضرور آپ ہی کر رہے ہوں گے  ۔۔۔۔۔ وہ منہ بناتی نوال کے ساتھ ہی صوفے پہ بیٹھی تو وہ دھیرے سے مسکراتی جب کے رائد نے برا سا منہ بنائے اسے دیکھا۔

چلو نوال بتاؤ ہم کتنی اچھی بھابھی ہیں۔۔ جلدی جلدی ہماری اچھائیاں اپنے بھائی کو گنواؤ۔۔۔ آئلہ اسے دوسری باتوں میں لگاتی اسکا کندھ تھپتھپاتا کے بولی

کوئی اچھائی ہوگی تبھی تو نوال بتائے گی نا۔۔۔ رائد نے مزے سے کہا تو آئلہ کا منہ کھلا

نوال ہم اچھی بھابھی نہیں ہیں۔۔۔ آئلہ نوال کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتی مصنوعی اداسی سے بولی تو نوال فورن بول اٹھی۔

نہیں بھابھی ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ آپ بہت اچھی ہیں بھائی تو بس مزاق کر رہے تھے۔۔۔ نوال کے مسکرا کے کہنے پہ وہ بھی دھیرے سے مسکرادی۔

اچھا اب ناشتہ کرلیں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ رائد نے انکی توجہ ناشتہ کی جانب دلائی تو ایک دم نوال کا دل پھر سے بجھ گیا۔

آپ لوگ کریں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔ نوال دھیرے سے مسکرا کے کہتی اٹھنے لگی جب آئلہ نے اسکے ہاتھ پہ دباؤ ڈلاتے اسے روکا۔

نوال ہمارے ساتھ ناشتہ نہیں کرو گی۔۔۔ آئلہ نے بہت ہی پیار سے پوچھا۔

کیوں نہیں کرے گی آج ہماری بہن ہمارے ساتھ ہی ناشتہ کرے گی۔۔۔ چلو جلدی سے شروع کرو ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔۔۔ رائد محبت سے کہتا خود ہی نوال کے آگے پلیٹ رکھتے اس میں انڈا دلانے لگا تو وہ ان دونوں کے اتنے پیار پہ دوبارہ انکار نا کر سکی۔

۔🌺 🌺 🌺

بارہ بجے کے قریب جزلان کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ شلوار کے اوپر وائٹ ٹی شرٹ پہنے وہ بہت الجھا الجھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اسے کمرے میں داخل ہوتے بس ایک سرسری سی نظر دیکھتے ایمل نے نظریں پھیر لیں۔

جزلان کمرے میں داخل ہوا تو سب سے پہلی نظر ایمل پہ پڑی جو پستئی فراک میں بالوں کو پونی میں قید کیئے سنجیدگی سے بیڈ پہ بیٹھی ٹی وی میں چلتی نیوز دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ گہری سانس بھرتے اندر داخل ہوتا دروازہ بند کرگیا۔

اسکی نظر ٹیبل پہ گئی جہاں ناشتے کے برتن رکھے ہوئے تھے مطلب وہ اب تک باہر نہیں گئی تھا ۔۔۔ ناشتہ بھی اسنے کمرے میں ہی منگوا لیا تھا۔۔۔ لیکن کیا آج کسی نے ایک ساتھ ناشتہ کیا تھا نہیں سب نے ہی اپنے اپنے کمروں میں کیا تھا ۔۔۔ 

ناشتے کہ برتن دیکھتا وہ الماری کی جانب بڑھا۔۔۔ 

اسے آج ایک جگہ پہ جلسے میں جانا تھا۔۔۔ جس حصاب سے اسنے الماری میں ہینگ ہوئی آسمانی رنگ کی قمیض شلوار نکال لی اور بغیر کچھ کہے واشروم میں گھس گیا۔

جیسے ہی واشروم کا دروازہ بند ہوا ایمل جو سنجیدگی سے بیٹھی تھی ایک بار پھر سر تھام گئی۔

جزلان کا سامنا کرنا ایمل کو آج ایک مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔۔۔

وہ صبح سے ہی کمرے میں تھی بس ناشتے کہ لیئے باہر گئی تھی مگر حویلی میں خاموشی تھی نور بیگم ہمیشہ کی طرح کچن میں تھیں جنہوں​ نے اسے ناشتہ دے دیا تھا اور ساتھ آج جو بھی ہوا وہ ساری بات بھی بتا دی تھی۔۔۔ ساری باتیں سنے کے بعد ایمل شوگڈ تھی ۔۔۔ اسے سب سے زیادہ حیرت تراب خان کے رویہ کے بارے میں سن کے ہو رہی تھی مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لیئے اپنا ناشتہ لے کے واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی۔

صبح جزلان کے جانے کے بعد سے ہی وہ مسلسل گزشتہ رات کیا ہوا تھا یہی سوچ رہی تھی۔۔۔ اپنی حالت دیکھتے اسے پتہ چل کیا تھا کہ رات کیا ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی کہ اسے نشہ دیا کس نے تھا کیونکہ وہاں تو اسنے سوائے پانی کے اور کچھ نہیں پیا تھا۔۔۔ اور پانی بھی اسے جزلان نے لاکے دیا تھا تو کیا یہ سب جزلان نے جان بوجھ کے کیا تھا یا کوئی اور بات تھی۔

اسے جزلان پہ اتنا تو یقین تھا کہ اسنے یہ سب نہیں کیا مگر یہ سب ہوا کب کیسے یہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔ 

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم سر تھامے بیٹھی ہوئی تھی جب جزلان واشروم سے فریش سا گیلے بالوں میں تولیہ رگڑتا باہر نکلا تو وہ ایک بار پھر چہرے پہ سپاٹ تاثرات سجائے بیٹھ گئی۔

کیا بات ہے اتنی خاموش خاموش کیوں بیٹھی ہو۔۔۔ تولیہ صوفے پہ پھینکتا شیشے کے سامنے کھڑے ہوتے قمیض کے کالر کو ٹھیک کرنے لگا۔

پہلے کون سا بولتی تھی جو تمہیں اب خاموش لگ رہی ہوں۔۔۔ فضول میں چینل آگے پیچھے کرتے اسکرین پہ نظریں جمائے بولی۔

ویسے میرے رنگ میں رنگنے کے بعد اور خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔ جزلان اب کافی ریلیکس ہوگیا تھا اس لیئے اب مزے سے اسے چھیڑ رہا تھا۔

میں جانتی ہوں تم نے جان بوجھ کے میرے پانی میں کچھ ملا کے مجھے پلایا ہے تاکہ میری بدحواسی کا فائدہ اٹھا سکو۔۔۔۔ ایمل تیخے لہجے میں اسے دیکھے بغیر بولی تو جزلان کا بالوں میں کنگھا کرتا ہاتھ تھما۔

نا ہی میں نے کچھ ملایا تھا اور نا ہی مجھے ایسی حرکت کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ تم میری بیوی ہو، تمہارے قریب آنے کے لیئے، تمہیں چھونے کے لیئے مجھے کسی ایسی حرکت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں جب چاہے تمہارے پاس آ سکتا ہوں تمہیں چھو سکتا ہوں ۔۔۔ پورا حق حاصل ہے مجھے۔۔۔ البتہ تمہاری بدحواسی کا فائدہ کوئی اور اٹھا رہا تھا جس سے میں نے تمہیں بجایا تھا۔۔۔ ڈریسنگ پہ کنگھا پٹختے غصے سے کف کے بٹن بند کرنے لگا ۔۔۔ 

ایمل کا شک کرنا پتہ نہیں کیوں مگر اسے بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔۔

تو اٹھانے دیتے نا۔۔۔ ایمل نے زرا سی نظریں اسکی جانب کرتے استہزائ کہا تو جزلان کے ماتھے پہ بل پڑے۔

دماغ ٹھکانے پہ ہے یا نہیں۔۔۔ تم بیوی ہوں میری۔۔۔عزت ہو میری۔۔۔ میں کیسے اپنی عزت پہ انچ آنے دیتا۔۔۔ سختی سے دانت پیس کے کہتا ایمل کے سامنے کھڑا ہوا تو ایمل نے مسکرا کے اسے دیکھا جس کی سرخ ہوتی آنکھیں اسکے غصہ کا پتہ دے رہیں تھیں۔

کیوں تمہیں کیوں برا لگ رہا ہے۔۔۔ کرنے دیتے جو بھی وہ کر رہا تھا ۔۔۔ آخر وہ بھی تو وہیں کرنے جا رہا تھا نا جو تم دوسری لڑکیوں کے ساتھ کرتے آئے ہو۔۔۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ میری بدحواسی کا فائدہ اٹھا رہا تھا اور تم معصوم لڑکیوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کے ان سے میٹھی باتیں کر کے انہیں اپنے خواب دیکھا کے اپنے جال میں پھنسا کے استعمال کرتے ہو بس یہی تو فرق تھا۔۔۔

تو تمہیں تو برا لگنا ہے نہیں چاہئیے آخر انسان جو کرتا ہے وہ کبھی نا کبھی کسی نا کسی طرح اسکے سامنے تو آتا ہی ہے نا۔۔۔ جیسے تم دوسری لڑکیوں کو استعمال کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی کسی کی عزت ہیں ویسے ہی تمہارے ساتھ بھی یہی ہونے جا رہا تھا مگر نا جانے میری کون سی نیکی کام آگئی جس وجہ سے اللہ نے مجھے تمہارے گناہوں کی سزا بھگتنے سے بچا لیا۔۔۔ ایمل اسکے سامنے حقیقت کا آئینہ لیئے کھڑی اس میں اسکی مکروہ شکل دیکھا رہی تھی ۔۔۔ جب سے جزلان نظریں چرا گیا۔

اچانک جزلان کے دل کو کچھ ہوا ایک تو پہلے ہی صبح سے رائد کی باتیں دماغ میں گھوم رہیں تھیں اور اب ایمل  کی تلخ باتیں جزلان کو ایک پل کے لیئے شرمندہ کرگئیں تھیں۔

آگر میں ان سے دو چار باتیں کر لیتا ہوں کچھ قیمتی تحائف دے دیتا ہوں تو لڑکیاں لالچ میں خود چل کے میرے پاس آتی ہیں۔۔۔میں نے آج تک کبھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کی ہے۔۔۔ جزلان نے اپنی طرف سے بڑا ہی مضبوط جواب دیا تھا مگر ایمل نے مسکرا کے سر جھٹکا۔

میں یہ نہیں کہتی کہ ہر لڑکی اچھی ہوتی ہے نا یہ کہہ رہی ہوں کہ ہر مرد برا ہوتا ہے۔۔۔ اچھا برا بنا تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے آگر تم ایک اچھے مرد ہوتے تو اپنے پاس بھٹکنے والی ایک بھی لڑکی کو آنکھ اٹھا کے نا دیکھتے مگر تم اچھی طرح جانتے ہو کب کیسے کس چیر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔۔۔ ایمل گود میں رکھا ریموٹ بیڈ پہ رکھتی اٹھ کے واشروم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔ جب کے جزلان وہیں سن کھڑا رہ گیا۔

کیا وہ سچ کہہ کے گئی تھی ہاں سچ ہی تو تھا لیکن آج تک اسے ان ساری باتوں کا برا نہیں لگا تھا وہ تو بہت ہی مزے سے ان ساری باتوں کو ہوا میں اٹھا دیتا تھا مگر آج اسے برا لگ رہا تھا۔۔۔ اندر جیسے ایک شرمندگی پیدا ہو رہیں تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

نوال کیسی ہو۔۔۔ اسنے جیسے ہی کال ریسیو کرتے فون کان سے لگایا حسام کی بےچین آواز اسکی سمات سے ٹکرائی۔

ٹھیک ہوں ۔۔۔ وہ بےدلی سے مسکرائی۔

مجھے ٹھیک لگ نہیں رہیں ۔۔۔ حسام کے کہنے پہ نوال کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹ کے گال پہ پھسلا۔۔۔ وہ اس سے دور ہوکے بھی اسکے دل کا حال جان لیتا تھا اور ایک اسکے اپنے تھے جو خود ہی تکلیف دے کے انجان تھے۔

ایسی بات نہیں ہے میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بہت مشکل سے خود کو نارمل رکھتے بولی جب کے فون کی دوسری طرف موجود حسام کو ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔

میں جانتا ہوں تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔۔ حویلی میں ضرور کچھ نا کچھ ہوا ہے۔۔۔ میرے پاس ابھی رائد کا فون آیا تھا اسنے کہا ہے کہ وہ دو گھنٹے بعد ہماری حویلی پہنچے گا تو میں بھی جب تک حویلی پہنچ جاؤ۔۔۔اب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ وہاں کیوں آرہا ہے تم جانتی ہو کیا۔۔۔ حسام نے تفصیل بتاتے سوال کیا تو نوال نے گہرا سانس بھرا۔

جی ۔۔۔بھائی نے آپ کا نمبر مجھ سے ہی لیا ہے مگر مجھے یہ نہیں پتہ کہ وہ آپ کی حویلی کیوں آرہے ہیں۔۔۔ نوال دھیمی آواز میں بولی۔

کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں۔۔۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد جب نوال کچھ نا بولی تو حسام نے پوچھ ہی لیا

بھائی نے آج بابا سے ہمارے رشتے کی بات کی تھی اور بابا نے۔۔۔۔ پھر جیسے جیسے نوال اسے پوری بات بتاتی گئی وہ تراب خان کے رویہ پہ تاسف سے سر ہلاتا رہا۔

سچ بولوں تو رائد پہلے مجھے بھی اچھا نہیں لگتا تھا مگر جس طرح سے اسنے تمہارا ساتھ دیا ہے وہ واقعی قابلِ تعریف شخص ہے۔۔۔حسام کو دلی خوشی ہوئی تھی رائد کے بارے میں سن کے ۔

آپ نے ٹھیک کہا وہ واقعی ایک بہت اچھے بھائی ہیں۔۔۔ رائد کا ذکر کرتے ہوئے نوال کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ آگئی۔

تم پریشان نہیں ہونا سب ٹھیک ہوگا اور انکل کی باتوں کو بلکل بھی دل پہ لگانے کی ضرورت نہیں ہیں سمجھیں۔۔۔ حسام نے تھوڑا سختی سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے ایسے ہاں میں سر ہلا گئی جیسے وہ اسکے سامنے بیٹھا دیکھ رہا ہے۔

چلو مجھے تھوڑا کام ہے پھر حویلی کے لیئے نکلنا بھی ہے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔ آخری کلمات کہتے اسنے فون رکھ دیا۔

نوال فون سائڈ پہ رکھتی خود بھی لیٹ گئی۔۔۔اسکی آنکھوں میں اب تک نمی تھی ۔۔۔ خوشی سے ،حسرت سے، دکھ سے۔۔۔ 

وہ خوش تھی اسکا بھائی اسکے ساتھ ہے مگر دل میں ایک حسرت بھی تھی کہ اسکا دوسرا بھائی اور باپ بھی اسکے ساتھ ہوتے اسکی خوشی میں خوش کرتے ۔۔۔ اس سے پیار کرتے تو اور کرنا اچھا ہوتا مگر دکھ تو اسے اپنے باپ کے لہجے پہ تھا کتنی حقارت تھی انکے لہجے میں۔۔۔ نوال کے ذکر پہ جس طرح انکے چہرے پہ ناگواریت چھاتی تھی وہ اس معصوم کا دل بری طرح سے زخمی کردیں تھی۔

نا جانے وہ کب ٹھیک ہوں کے۔۔۔ یا پتہ نہیں وہ ٹھیک ہوں گے بھی یا نہیں بس یہی سوچتے بار بار اسکی آنکھیں بھیگ رہیں تھیں۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کے آٹھ بج رہے تھے جب رائد کی گاڑی شاہ حویلی کے باہر رکی۔

گاڑی سے نکلتے اسنے اپنا کوٹ ٹھیک کیا اور دروازے کی جانب قدم بڑھا گیا۔

حیدر شاہ سے کہو جاگیردار رائد خان ان سے ملنے آیا ہے۔۔۔ دروازے پہ کھڑے گارڈ سے بولا تو وہ دوڑ کے اندر گیا اور چند ہی منٹ بعد گارڈ کے ساتھ اسے حسام آتا نظر آیا۔

اسلام و علیکم کیسے ہو۔۔۔ حسام نے خود دلی سے ہاتھ آگے کیا تو رائد نے بھی مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔

وعلیکم اسلام میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ اصل میں مجھے تمہارے گھر والوں سے کچھ ضروری بات کرنی ہے مگر اس سے پہلے میں تم سے بھی کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔ رائد مسکرا کے کہتے آخر میں سنجیدہ ہوا۔

ہاں کیوں نہیں۔۔۔ مگر پہلے اندر تو آؤ۔۔۔ حسام نے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا تو وہ اسکے ساتھ ہی آگے قدم بڑھا گیا۔

کیا تم واقعی میری بہن سے محبت کرتے ہو۔۔۔ حسام کے ساتھ چلتے رائد نے سنجیدگی سے استفسار کیا تو حسام مسکرایا۔

نہیں میں اس سے اتنے سالوں سے چل رہی ہماری خاندان دشمنی کا بدلہ لینے کے لیئے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ حسام نے بھی سیریس انداز میں جواب دیا تو رائد کے قدم بےیقینی سے رکے۔

ارے بھائی مزاق کر رہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ میں واقع اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔ رائد کے چہرے پہ غصے کے آثار نمایا ہوتے دیکھ حسام نے فورن کان پکڑے۔

اور میں کیسے مان لوں کے تم اب بھی سچ بول رہے ہو۔۔۔ رائد دونوں بازو سینے پہ باندھے اسکے سامنے کھڑا مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگا جس پہ حسام نے اپنا ماتھا پیٹا۔

یار میں کیوں جھوٹ بولوں گا ہم لوگ چار پانچ سال سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا۔۔۔ حسام نے اسے اپنی بات کا یقین دلانا چاہا۔۔۔ جس میں شاید وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا۔

ہممممم، کب ملے تھے پہلی بار نوال سے۔۔۔ وہ ویسے ہی کھڑا پھر سے سوال کرنے لگا۔

نوال جہاں کالج جاتی تھی وہاں کچھ عرصہ میں بھی پڑھانے آتا تھا بس وہیں ملاقات ہوئی تھی اور وہ مجھے پسند آگئی تھی۔۔۔ حسام نے مسکرا کے اپنی پہلی ملاقات یاد کرتے بتایا تو رائد نے سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلادیا۔

اچھا ٹھیک ہے مگر میری ایک بات یاد رکھنا میری بہن کو کبھی کوئی دکھ نا دینا اسے ہمیشہ خوش رکھنا پہلے ہی وہ بیچاری بہت دکھ دیکھ چکی ہے میں نہیں چاہتا وہ مزید آگے بھی کوئی تکلیف برداشت کرے۔۔۔ حسام کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے رائد نے سمجھایا۔

تم فکر نہیں کرو میں نوال کو ہر خوشی دوں گا۔۔۔ حسام نے جوش سے کہا تو وہ آگے بڑھ گیا۔۔۔ 

رائد نے ایک دن میں ہی حسام کی فوری انفورمیشن نکلوارہی تھی اسے کہیں سے بھی کسی بھی طرح کی حسام میں کوئی برائی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ وہ واقعی ایک بہت اچھا آدمی تھا اور اب اس سے ملنے کے بعد رائد مطمئن ہوگیا تھا۔

حسام رائد کو لیئے ڈرائنگ روم میں آیا جہاں حیدر شاہ اور انکے بیٹے پہلے سے ہی موجود تھے۔

اسلام علیکم ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے رائد نے بلند آواز میں سلام کیا جس کا جواب وہاں موجود لوگوں نے محض سر ہلا کے دیا۔

بیٹھو رائد خان۔۔۔۔ اسے کھڑے دیکھ احمد شاہ(حسام کے بابا) نے صوفے کی جانب اشارہ کرتے کہا تو ہو حیدر شاہ کے سامنے صوفے پہ جا بیٹھا۔

کیسے ہیں آپ۔۔۔ حیدر شاہ کو دیکھتے رائد نے احترام سے پوچھا

ہم ٹھیک ہیں تم بتاؤ یہاں کیسے آنا ہوا۔۔۔ رعب دار آواز میں استفسار کیا۔

میں یہاں امن کے لیئے آیا ہوں۔۔۔ یہ جو ہم لوگوں کے بیچ نام نہاد دشمنی ہے اسے ختم کرنے۔۔۔ رائد سکون سے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بولا تو حیدر شاہ کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔

بچے یہ دشمنی تو تمہارے باپ نے قائم کی تھی تو وہ خود کیوں نہیں آیا ۔۔۔۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولے تو رائد مسکرادیا۔

انکل بابا کبھی نہیں آئیں گے ۔۔۔ وہ اپنی انا اور شان کے آگے کبھی کسی کے آگے نہیں جھکیں گے کبھی سہی غلط نہیں سمجھیں گے مگر میں انکے جیسا نہیں ہوں۔۔۔ میں یہ بات اچھے سے جانتا ہوں کے دادا جی کا قا+تل آپ نے نہیں کیا۔۔۔مجھے اس بات پہ پورا یقین ہے۔

جب دادا جی کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹا تھا مگر مجھے کچھ کچھ باتیں آج بھی یاد ہیں جب وہ مجھے آپ دونوں کی دوستی کی بہت ساری باتیں بتایا کرتے تھے جب بھی وہ آپ کا ذکر کرتے تھے بہت خوشی اور اپنائیت سے کرتے تھے۔۔۔ تو میں یہ کیسے سوچ سکتا ہوں کے ایک دوست اپنے جگری دوست کا قا+تل ہو سکتا ہے۔۔۔ رائد نے بہت ہی تحمل سے اپنی بات کہتی جس سے حیدر شاہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔

تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ تمہارے دادا کے ساتھ ایک عمر گزاری ہے اور یقین مانوں جس رات مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ اسکا انتقال ہوگیا ہے وہ رات میرے لیئے بہت مشکل تھی کیونکہ انتقال سے تھوڑی دیر پہلے وہ میرے ساتھ ہی تھا۔۔۔ ہم دونوں بیٹھ کے آگے کا سوچ رہے تھے۔۔۔آپس میں اپنے ہوتا پوتیوں کی شادی کا سوچ رہے تھے مگر وہ اپنے پوتا پوتی کی شادی دیکھے بغیر ہی چلا گیا۔۔۔ حید رشاہ دکھ سے آنکھ میں آئی نمی صاف کرتے بولا تو رائد کے دل میں ایک امید بندھی۔۔۔ اسے اب اپنی منزل اور بھی آسان دیکھ رہی تھی۔

آپ چاہیں تو آپ دونوں کی یہ خواہش اب بھی پوری ہو سکتی ہے۔۔۔ رائد ساتھ بیٹھے حسام کی جانب دیکھ کے بولا تو حیدر شاہ اور انکے بیٹھے چونکے۔

کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ احمد شاہ نے الجھ کے پوچھا۔۔۔ اتنے میں ملازم لوازمات سے بھری ٹرے لے آیا

انکل میں یہاں ایک اور مقصد سے بھی آیا ہوں۔۔۔ رائد نے انکے الجھن زرہ چہرہ دیکھتے اطمینان سے کہا اور ساتھ ملازم کا بڑھایا ہوا چائے کا کپ تھام لیا۔

جو بھی کہنا چاہتے ہو صاف صاف کہوں۔۔۔  حماد شاہ (حسام کے چچا) کے پوچھنے پہ رائد نے باہر جاتے ملازم کو دیکھا اور پھر واپس ان لوگوں کی جانب متوجہ ہوا۔

انکل میں یہاں اپنی بہن کا رشتہ لے کہ آیا ہوں حسام کے لیئے۔۔۔ جتنے سکون سے رائد نے بتایا تھا اتنی ہی زور کا جھٹکا سامنے بیٹھے لوگوں کو لگا تھا۔

تمہیں پتہ بھی ہے تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ دشمنوں کے بیٹے سے اپنی بہن کی شادی کرواؤ گے۔۔۔ ماتھے پہ بل ڈالے احمد شاہ تھوڑے غصے سے بولے۔

بابا، دادا جان میں نوال سے محبت کرتا ہوں۔۔۔میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان لوگوں کے چہرہ پہ غصے کے آثار دیکھ حسام نے مضبوط لہجے میں کہتا ایک بار پھر ان لوگوں کو حیران کر گیا۔

حسام تم۔۔۔.

 انکل ایک منٹ پلیز۔۔۔ حسام کے بابا غصے سے اس سے کچھ کہنے لگے تھے جب رائد نے انکی بات کاٹی۔

دیکھیں میں یہاں مزید کوئی لڑائی جھگڑا بڑھانے نہیں آیا ۔۔۔ میں یہاں دشمنی ختم کرنے آیا ہوں دوستی کا ہاتھ ملانے آیا ہوں اور آگر ان دونوں کی شادی سے جب دو فیملیز ایک ہو سکتی ہیں تو ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔۔۔ آگر آپ لوگ چاہتے ہیں کے میں اپنے بابا کی طرف سے لگائے گئے جھوٹے الزام کی معافی مانگوں تو میں وہ بھی مانگنے کے لیئے تیار ہوں۔۔۔ چاہے تو میں سب کے سامنے بھی مانگ لوں گا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ آپ لوگ غلط نہیں تھے غلط ہمیشہ ہماری طرف سے ہوا ہے اس لیئے میں معافی مانگنے کے لیئے بھی تیار ہوں۔

مگر آپ لوگوں سے ایک الجتاء کروں گا کہ اس بےمطلب کی دشمنی کے بیچے دو لوگوں کی زندگیاں نہیں برباد کرے گا۔۔۔ رائد نے التجائیہ لہجے میں نرمی سے کہا تو وہ لوگ تھوڑے ٹھنڈے ہوئے۔

کیا تم واقعی ہم لوگوں میں اپنی بہن کی شادی کرنا چاہتے ہو۔۔۔ کیا تمہیں ہم پہ اتنا یقین ہے کہ تم اپنی بہن کو ہمارے گھر کی بہو بنانے کی بات کر رہے ہو۔۔۔ حیدر شاہ نے ایبرو اچکائے سوال کیا۔

جی مجھے آپ لوگوں پہ پورا یقین ہے ۔۔۔ آپ لوگوں کے اچھے ہونے کا ثبوت پورا گاؤں دیتا ہے۔۔۔ جب آپ اور لوگوں کے ساتھ اچھے ہیں انصاف پسند ہیں تو پھر اپنوں کے ساتھ کیسے ہوں گے اس بات کا اندازہ میں لگا سکتا ہوں۔۔۔ رائد نے رسان سے انکی بات کا جواب دی جس پہ انکے چہرے پہ ایک محظوظ مسکراہٹ آگئی جیسے وہ اس سے متاثر ہوئے تھے۔

تمہارے باپ نے ہمیں اپنے گاؤں آنے سے منا کیا ہے تو ہم بارات کیسے لائیں گے۔۔۔ حیدر شاہ کے کہنے پہ حسام اور رائد نے خوشگوار حیرت کے ساتھ انہیں دیکھا۔

انکل کس نے کہا میں اپنی بہن کو حویلی سے رخصت کروں گا۔۔۔ الحمدللہ شہر میں میرا بنگلہ موجود ہے میں اپنی بہن کو وہیں سے رخصت کروں گا۔۔۔ رائد نے سکون سے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھا جس سے اسنے ایک گھونٹ بھی نہیں بھرا تھا۔

دیکھو بیٹا ہم نے پہلے بھی یہ دشمنی ختم کرنے کے لیئے تمہارے باپ کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا مگر اس نے ہمیں دھتکار دیا تھا تو کیا وہ اب اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے ہونے دے گا۔۔۔ احمد شاہ نے ائبرو اچائے سوال کیا۔

جس بیٹی سے انہیں کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے تو وہ کیوں کچھ بولیں گے ۔۔۔ اور ویسے بھی میں اپنی بہن کی شادی خود کر رہا ہوں ان سے پوچھ کے نہیں۔۔۔ اور آگر اس شادی کے بعد وہ اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بچپن سے لے کے اب تک وہ اپنی بیٹی سے نفرت کرتے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے وہ آگے بھی کبھی نہیں بدلیں گے۔۔۔۔ اس لیئے ہمیں انکی کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔۔ 

میری بہن نے بہت دکھ سہے ہیں جو اسے اسکے باپ کی طرف سے ملے ہیں مگر اب میں چاہتا ہوں کے اسکی اچھی جگہ شادی ہو جائے جہاں اسے پیار ملے سب کا اپنے شوہر گا ۔۔۔ جہاں وہ خوش رہے ہمیشہ۔۔. اور مجھے آپ لوگوں سے بہتر اور کوئی گھر اسکے لیئے اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔ رائد نے شائستگی سے کہا کہا تو حیدر شاہ نے باری باری اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھا اور کھڑے ہو گئے۔

جاگیردار رائد خان گلے نہیں ملو گے ہم سے۔۔۔ حیدر شاہ نے سنجیدگی سے کہا تو رائد خوشی سے کھڑا ہوتا انکے گلے لگا۔

تم بلکل اپنے دادا کی طرح ہو امن پسند۔۔۔ خود سے الگ کرتے دھیرے سے مسکراتے اسکا کندھا تھپتھپایا۔

تھینکیو سو مچ دادا جان حسام بھی خوشی سے جھومتا انکے گلے لگا۔۔۔۔ یہ احساس ہی الگ تھا کہ سب مان گئے ہیں اسکی اور نوال کی شادی کے لیئے۔

انکل۔۔۔۔ 

اونہوں ۔۔۔ دادا جان کہو تم بھی۔۔۔ رائد کے انکل کہنے پہ حیدر شاہ نے ٹوکا

جی دادا جان۔۔۔میں آپ لوگوں سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگتا ہوں اپنے بابا کے کیئے کی اور التجاہ کرتا ہوں کے کبھی بابا کے کیئے کی سزا میری بہن کو نہیں دیجیئے گا۔۔۔ رعب دار رائد خان آج اپنی بہن کے لیئے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔

ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ایک کے کیئے کی سزا دوسرے کو دیتے ہیں۔۔۔ ہم بڑے دل والے لوگ ہیں تم فکر نہیں کرو ہم تمہاری بہن کو بہت خوش رکھیں گے۔۔۔ احمد شاہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے تسلی دی تو اسنے تشکر سے انہیں دیکھا۔

یہ لوگ کتنے اچھے تھے ۔۔۔ کتنی آسانی سے انہیں معاف کر دیا تھا اور ایک اسکا باپ تھا جو نا جانے کیا سوچ کے بیٹھا تھا۔

بیٹھو بیٹا میں دوسری چائے منگواتا ہوں یہ ٹھنڈی ہوگئی ہو گی۔۔۔ بلکے تم کھانا کھا کے جانا ۔۔۔ حیدر شاہ نے اسے بیٹھنے کا کہتے احسان کو کھانا لگانے کا اشارہ کیا۔

حسام ان کا اشارہ سمجھ باہر جانے ہی لگا تھا جب رائد بول اٹھا۔

نہیں دادا جان میں کھانا نہیں کھاؤ گا دو چار باتیں اور کرنی ہے پھر میں چلوں گا۔۔۔ رائد نے رسان سے انکار کیا۔

ارے بیٹا ایسے کیسے ہم تمہیں کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دیں گے۔۔۔ حسام کے چچا نے اپنایت سے کہا ۔

اصل میں میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہو گی کھانے پہ اس لیئے کہہ رہا ہوں لیکن آپ لوگ فکر نا کریں میں اگلی بار ضرور کھانا کھا کے جاؤ گا۔۔۔ رائد نے مسکرا کے کہا تو ان لوگوں نے مسکراتے ہوئے سمجھ کے سر ہلا دیا۔

اچھا بیٹھو چائے تو پی کے جانا میں دوسری منگوا رہا ہوں جب تک جو شادی کی اور باتیں کرنی ہے وہ بھی کر لیتے ہیں۔۔۔ حیدر شاہ کے کہنے پہ وہ واپس بیٹھ کیا۔

یہ سب اتنی آسانی سے ہو جائے گا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔۔۔ رائد کو تو لگا تھا اسے بہت محنت کرنی پڑے گی ان لوگوں کو منانے میں مگر یہ سب اتنے اچھے تھے کہ سب ہی اتنی جلدیان گئے تھے۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد کو واپس آتے آتے دس بج گئے تھے اور عموماً حویلی میں رات کا کھانا آٹھ بجے تک کھایا جاتا تھا۔۔۔ اس وقت حویلی میں ایک دم خاموشی تھی۔۔۔ صبح ہونے والے ہنگامے کے بعد آج پورے دن ہی حویلی میں خاموشی رہی تھی کوئی بھی اپنے کمروں سے نہیں نکلا تھا۔

رائد یہ خوشی کی خبر سب سے پہلے نور بیگم کو سنانا چاہتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا نوال کی طرف سے وہ بہت فکرمند رہتی ہیں مگر وقت کا خیال کرتے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔ 

اسنے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا مگر یہ کیا کمرہ تو اندر سے لاک تھا۔۔۔ لیکن اسکے پاس ہمیشہ اپنے کمرے کی دوسری چابی موجود ہوتی تھی۔۔۔ جلدی سے پینٹ کی جیب سے چابی نکالتے لاک کھولتے دروازہ کھولا مگر کمرے میں ایک دم گھپ اندھیرا تھا۔۔۔ کمرے میں قدم رکھا تو اسکے نتھنوں سے بہت ہی لذیذ خوشبو ٹکرائی۔۔۔ 

دروازہ بند کرتے اسکے سائڈ پہ لگے بوڈ پہ ہاتھ مارتے تین چار بٹن ایک ساتھ اون کیئے تو کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔۔۔ کمرے کو دیکھتے ایک پل کے لیئے تو اسے لگا جیسے وہ کسی غلط کمرے میں آگیا ۔۔۔

کمرے میں جگہ جگہ کینڈلز لگی ہوئی تھیں بیڈ پہ، بیڈ سے نیچے ہر جگہ گلاب کی پتیاں سجی ہوئیں تھی میز پہ مزے دار سا کھانا کھا ہوا تھا جس کی خوشبو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ 

اسنے کمرے میں چاروں طرف نظریں گھمائیں مگر وہی موجود نا تھی جس نے یہ سب کیا تھا۔۔۔ 

آئلہ۔۔۔ ہاتھ میں پکڑا کوٹ بیڈ پہ پھینکتے آئلہ کو پکارہ جب ایک کلک کے ساتھ آئلہ اسٹیڈی روم کا دروازہ کھولتی باہر نکلی 

آئلہ پہ نظر پڑھتے ہی رائد کی سانسیں جیسے تھم سی گئیں۔۔۔ سرخ ساڑھی میں سلکی بالوں کو پشت پہ کھلا چھوڑے ہلکے میک اپ پہ سرخ لب اسٹک سجائے،،، ساتھ لائٹ سی جیولری میں وہ آج پوری طرح رائد پہ بجلیاں کرا رہی تھی۔

وہ مبہوت سا منہ کھولتے اسے تکتا جا رہا تھا جس سے آئلہ نروس ہوتی سرخ لب اسٹک سے سجے لب دانتوں تلے کچلنے لگی۔

حور۔۔۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے رائد آئلہ کی جانب قدم بڑھا کیا تو وہ دو قدم پیچھے ہوتی دیوار سے جا لگی 

نہیں جاناں اس پہ میرا حق ہے ۔۔ اسکے پاس پہنچتے ایک ہاتھ دیوار پہ ٹکائے دوسرے ہاتھ سے نرمی سے دانتوں سے اسکے لب آواز کرواتا نرمی سے انہیں چھو کے بالوں میں چہرہ چھپائے گہرا سانس بھرتے انکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا

کھانا کھالیں ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔۔ اسکو مدہوش ہوتے دیکھ آئلہ نے اسکی توجہ کھانے کی جانب دلوائی۔

اب بھوک کسے لگے گی جاناں۔۔۔ لبوں سے اسکی گردن کو چھوتے مخمور لہجے میں سرگوشی کی تو اسکے لمس پہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ آئلہ نے اسکے کندھوں پہ ہاتھ جمائے۔

ہم نے بہت محنت سے آپکے لیئے کھانا بنایا ہے۔۔۔ کیا آپ ہماری محنت ایسے ہی ضائع ہو جانے دیں گے ۔۔۔ وہ منہ بنائے معصومیت سے بولی تو رائد نے اسکی گردن سے چہرہ اٹھا کے اسکے سرخ چہرے کو دیکھا۔

ویسے آج یہ عنایت کس لیئے۔۔۔ اسکے حسین مدہوش کن سراپے پہ نظریں جمائے شوخی سے پوچھا تو اسکی نظروں سے گھبراتی آئلہ سرمئی آنکھوں پہ پلکھوں کی جھالر گراتی رائد کا دل مزید بےقابو کر گئی۔

آپ اتنے دنوں سے پریشان تھے تو سوچا تھوڑا ریلکس ہو جائیں گے۔۔۔ وہ دھیرے سے منمنائی 

اگر تم ایسے مجھے ریلیکس کرو گی تو اس کے لیئے تو میں روز پریشان ہونے کو پیار ہوں۔۔۔ رائد مسکراتے ہوئے اسکے ہونٹوں پہ نظریں جمائے ان پہ جھکنے لگا جب ہی پھرتی سے آئلہ نے اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھتے روکا۔

پہلے کھانا۔۔۔ اسنے ٹیبل پہ رکھے کھانے کی جانب اشارہ کیا تو رائد گہرا سانس لیتے پیچھے ہوتا اسے اپنے ساتھ لیئے صوفے کی جانب بڑھ گیا۔

اتنی دور کیوں بیٹھ رہی ہو قریب آؤ۔۔۔ خود سے دور اسے دوسرے صوفے پہ بیٹھتے دیکھ رائد نے ائبرو سکیڑیں۔

اگر ہم آپ کے پاس آجائیں گے تو آپ کھانا کم کھائیں گے اور رومینس زیادہ کریں گے اس لیئے پہلے سکون سے کھانا کھالیں ہم کون سا کہیں بھاگے جا رہے ہیں۔۔۔ آئلہ نے مسکرا کے کہا تو رائد نے اسے گھورتے ہوئے کھانا شروع کیا۔۔۔۔جس پہ آئلہ زیر لب مسکراتی خود بھی کھانے لگی۔

رائد نے اپنا کھانا دس منٹ میں ختم کیا اور اب بےچینی سے بیٹھا آئلہ کا کھانا ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا جو جان بوجھ کے بہت ہی آہستہ آہستہ کھا رہی تھی۔۔۔ مگر کب تک کھاتی مزید پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اسکی پلیٹ میں آخری نوالہ دیکھتے رائد اپنی ٹائی اتارتا شرٹ کے اوپری دو تین بٹن کھولتے کھڑا ہوا۔۔۔ کن اکھیوں سے اسے دیکھتی اسکی بےقراری و بےصبری پہ تیزی سے دھڑکتے دل کو سمبھالنے لگی۔

جیسے ہی آئلہ نے آخری نوالہ کھا نے کے بعد پانی کا آخری گھونٹ بھرا ویسے ہی رائد نے جھک کے اسے اپنی گود میں اٹھایا 

کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ ہمیں ٹھیک سے کھانے تو دیں۔۔۔ آئلہ نے گھبراتے ہوئے خفگی سے کہا جب کے رائد بغیر اسکی کوئی بات سنے اسے بیڈ پہ لیٹا چکا تھا۔

جتنا تم نے کھانا تھا کھا لیا اب مجھے میٹھا کھانا ہے ۔۔۔ رائد بےخود ہوتا بغیر اسے کچھ کہنے کا موقع دیئے اسکے لبوں پہ جھک گیا۔

نرمی و پیار  سے اسکے لبوں کی نرماہٹ کو محسوس کرتے ایک ہاتھ اسکی کمر پہ لے جاتے ڈوریوں میں الجھایا۔

کمر پہ اسکی انگلیوں کا لمس محسوس کرتی آئلہ شدت سے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی۔

کندھے سے ساڑھی کا پلو سرکاتے وہاں اپنے شدت بھرا لمس چھوڑا تو آئلہ شرم سے خود میں سمٹی۔

تعریف کے لیئے لفظ نہیں ہیں۔۔۔ کان کی لو کو چومتے سرگوشی کی تو آئلہ گلنار ہوتی اسکے چوڑے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔۔۔جس سے سرشاری ہوتے رائد اسے خود میں بھیجتا اپنی بےقراریاں لٹاتا اسے کسی اور ہی دنیا میں لے گیا ۔

کل کی نسبت آج سب لوگ ہی ڈائنگ ٹیبل پہ موجود تھے۔۔۔ جب رائد اور آئلہ نوال کو اپنے ساتھ لیئے ڈائنگ ٹیبل پہ آتے کرسیاں کھسکا کے اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھے۔۔۔

نوال تراب خان کے سامنے جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر رائد اسے زبردستی لے آیا تھا۔۔۔ وہ سب کو ایک ساتھ خوش خبری سنانا چاہتا تھا۔۔۔ جس وجہ سے نوال کو آنا پڑا۔

ابھی ان لوگوں نے ناشتہ شروع ہی کیا تھا کہ رائد نے اپنی بات کا آغاز کیا۔

ایک خوش خبری سنانی ہے آپ لوگوں کو۔۔۔ رائد نوالہ منہ میں رکھتے مسکراتے لہجے میں بولا تو سب اسکی جانب متوجہ ہوئے۔

کیسی خوشخبری۔۔۔ نور بیگم نے تجسس سے پوچھا۔

ماما آپ شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔۔۔ میں نے نوال کی شادی طے کردی ہے ۔۔۔ ٹھیک دس دن بعد نوال کی بارات ہے۔۔۔ رائد نے خوشی سے بتاتے تراب خان کے سر پہ دھماکہ کیا۔

جب کے باقی سب تو حیران تھے کہ اتنی جلدی ۔۔۔ اتنی آسانی سے سب طے بھی ہو گیا۔

کس کی اجازت سے تم نے یہ قدم اٹھایا ہے۔۔۔ تراب خان اپنا ناشتہ چھوڑ غصے سے دھاڑے۔

مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔ رائد سکون سے بولا تو تراب خان کو تیش چڑھا جب کے جزلان خاموشی سے اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔

میں اپنے دروازے پہ کبھی اپنے دشمنوں کو نہیں آنے دوں گا۔۔۔ تراب خان کانچ کے گلاس پہ ہاتھ مارتے اسے نیچے پھینکتے کھڑے ہوئے تو ٹیبل پہ موجود خواتین گھبرا گئیں۔

آپ کا دروازہ آپ کو مبارک۔۔۔ میں اپنی بہن کی شادی میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتا اس لیئے میں اسے رخصت یہاں سے کبھی نہیں کروں گا۔۔۔ رائد کا اطمینان اب بھی برقرار تھا جب کے نوال نے الجھ کے اسے دیکھا۔

آگر تم نے نوال کی شادی وہاں کی تو یاد رکھنا میں تم سے اور اس سے قطع تعلق کرلوں گا۔۔۔ اور اپنی جائیداد سے بھی بےدخل کردوں گا۔۔۔ تراب خان نے دوسرا ہربا ازمایا مگر اب بھی رائد کے سکون میں کوئی فرق نہیں پڑھا۔

پہلی بات کون سا آپ پہلے ہم سے کوئی تعلق رکھتے تھے جو آپ کے قطع تعلق کرنے سے ہمیں فرق پڑے گا۔۔۔ اور رہی جائیداد کی بات تو اس سے بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔۔۔ الحمدللہ میرے پاس اپنا سب کچھ ہے۔۔۔ مجھے آپ کے پیسوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔۔۔ تراب خان کا ناشتہ حرام کر کے رائد خود سکون سے بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔

آگر آپ کہتے ہیں تو ہم ابھی یہ حویلی چھوڑنے کو بھی تیار ہیں۔۔۔ آنکھوں میں شولے لیئے کھڑے تراب خان کو دیکھتے رائد نے ایک آخری وار کیا وہ جانتا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے تراب خان کبھی اسے حویلی سے جانے نہیں دیں گے اور اسکے اندازے کے مطابق اب بھی تراب خان کچھ بھی بولے بغیر ڈائنگ روم سے نکل گئے تھے۔

رائد آگر انہوں نے سچ میں تم لوگوں سے تعلق ختم کر کیا تو۔۔۔ نور بیگم نے پریشانی سے استفسار کیا۔

آپ فکر مت کریں ماما وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔ اب بس مطمئن ہوکے شادی کی تیاریاں شروع کریں۔۔۔ رائد نے انہیں تسلی دی تو انہوں نے ایک گہرا سانس بھرا۔

بھائی یہ سب اتنی آسانی سے کیسے ۔۔۔ نوال نے بےیقینی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑی۔

گڑیا کچھ چیزوں کو پیار سے نرمی سے ہنڈل کرنا چاہیئے۔۔۔ ہر جگہ اپنا رعب جمانے سے چیزیں بگڑ جاتی ہیں لیکن آگر آپ چند بول پیار کے کہیں گے تو بگڑی ہوئی چیزیں بھی سنور جاتی ہیں۔۔۔ آپ کا اچھا اخلاق ہی لوگوں کے دل میں جگہ بناتا ہے۔۔۔ رائد نے رسان سے سمجھایا تو سب مسکرادیئے البتہ جزلان ابھی بھی ناشتہ کرتا ساتھ فون میں ایسے مصروف ہوگیا تھا جیسے اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑھتا ہوں کے وہاں کیا ہو رہا ہے۔

گڑیا حسام بہت اچھا ہے اور اسکے گھر والے وہ بھی بہت اچھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔۔۔ بہت اپنائیت ہے ان میں۔۔۔ میرے رشتے کی بات کرنے پہ بھی انہوں نے پرانی باتوں کو زیادہ نہیں کریدہ۔۔۔ نا ہی طنز کے تیر چلائے۔۔۔ بلکے دل بڑا کرتے نا صرف ہمیں معاف کیا بلکے گلے سے بھی گایا۔۔۔۔

مجھے یقین ہے گڑیا وہ گھر تمہارے لیئے بہترین ہوگا اور حسام ایک اچھا اور مخلص ہمسفر۔۔۔ اپنے سامنے بیٹھی نوال کا خوشی سے چمکتا چہرہ دیکھتے رائد مسکرایا تو وہ کھل اٹھی۔

تھینکیو سو مچ بھائی۔۔۔ نوال چہک کے بولے تو جزلان کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔ وہ اپنا ناشتہ چھوڑتا فون کان سے لگائے سیدھے باہر نکل گیا۔۔۔ 

اچانک اسکا جانا سب نے نوٹ کیا تھا مگر زیادہ کسی نے دھیان نہیں دیا۔

چھوٹی چھوٹی باتوں کے بیچ ہنسی مذاق کرتے شوپنگ کی پلینگ کرتے ڈائنگ ٹیبل پہ جیسے رونق سی لگ گئی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

حویلی سے نکلنے کے بعد جزلان سیدھے نتاشہ کے ٹھکانے پہ آیا تھا۔۔۔۔ جو ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔

فلیٹ پہ پہنچ کے اسنے دروازہ بجایا ۔۔۔ تو اگلے دو منٹ میں ہی دروازہ کھل گیا تھا۔

مجھے پتہ تھا تم ضرور آؤ گے۔۔۔ نتاشہ نے دل جلی مسکراہٹ سجائے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

گارڈز کو باہر رہنے کا اشارہ کرتے جزلان نے اندر قدم رکھا۔۔۔ 

کس سے پوچھ کے تم نے میرے بارے میں میڈیا کے سامنے بکواس کی ہے۔۔۔ براؤن شلوار قمیض پہ بالوں کو پیچھے کی جانب سیٹ کیئے چہرے پہ خطرناک تاثرات سجائے ضبط کرتے کمر پہ ہاتھ باندھے اسکے سامنے کھڑا ہوا۔

کچھ وقت میں الیکشن ہونے والے تھے الیکشن کی تاریخ بھی آچکی تھی اور ایسے میں نتاشہ کا میڈیا کے سامنے بیان اسے کسی بڑی مصیبت میں ڈال سکتا تھا۔

میں نے تو صرف سچ کہا ہے۔۔۔ کیا تم لڑکیوں کو استعمال نہیں کرتے کیا تم نے مجھے نہیں کیا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ ریلیشن شپ میں نہیں تھے۔۔۔ نتاشہ اسکے سامنے کھڑی استہزا مسکراہٹ کے ساتھ بولی تو جزلان نے جھبڑے بھیجے۔

تم جانتی نہیں ہو کے میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ جزلان کے چہرے پہ پراسرار مسکراہٹ ابھری۔۔۔ جس کا اثر لیئے بغیر نتاشہ اپنے فون میں کچھ کرنے لگی۔

زیادہ سے زیادہ کیا کرو گے۔۔۔ مجھے بلیک میل کرو گے یا میری تصویریں سوشل میڈیا پہ چھوڑ دو گے۔۔. تمہیں جو کرنا ہے کر لو کیونکہ میں تو ہوں ہی بدنامِ زمانہ لڑکی مگر تم تو دنیا کی نظر میں شریف زادے ہونا۔۔۔

اس لیئے کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بار اس ویڈیوں کو ضرور دیکھ لینا جو میں نے ابھی تمہارے فون پہ بھیجی ہے۔۔۔ مطمئن سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس کے ساتھ جزلان کے فون پہ میسج ٹون بجی۔۔۔ اسنے جلدی سے فون نکال کے واٹس ایپ پہ آئی ویڈیو کو اوپن کیا مگر جیسے جیسے وہ ویڈیو چلتی جا رہی تھی ویسے ویسے جزلان کا غصہ سواہ نیزے پہ پہنچ رہا تھا۔

اچھے سے دیکھ لو اس میں تم ہی ہو۔۔۔ اور آگر لڑکی کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو تو وہ لڑکی میں ہوں مگر یہ ویڈیو اس طرح سے بنی ہوئی ہے کے اس میں ایسا لگ رہا ہے جیسے تم کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی کر رہے ہو۔۔۔ 

اور زرا سوچو آگر یہ ویڈیو میں نے سوشل میڈیا پہ نشر کردی تو۔۔۔ سیاست میں تمہارا سفر ایک دن میں ختم ہو جائے گا۔۔۔۔ اسکا  چہرے غصے سے سرخ ہوتے دیکھ نتاشہ سکون سے صوفے پہ جا بیٹھی۔

جزلان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ نتاشہ اتنی تیز نکلے گی۔۔۔۔ اس نے کیسے اور کب یہ ویڈیو بنائی اسے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ویڈیو میں لڑکی کا چہرہ بلر کر دیا گیا تھا جس سے نتاشہ کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ جب کے جزلان کا چہرہ صاف واضح تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زبردستی کر رہا ہے۔۔۔ 

جزلان کا تو خو+ن کھول اٹھا تھا یہ ویڈیو دیکھ کے۔۔۔ آج تک تو وہ دوسروں کو بلیک میل کرتا آیا تھا اور آج اسے کوئی کر رہا تھا۔

جزلان چاہتا تو ابھی کھڑے کھڑے ہی نتاشہ کو غائب کروا سکتا تھا لیکن آگر وہ ایسا کرتا تو میڈیا جو اس لڑکی کے بیان کے بعد بار بار اور کسی نئی خبر جانے کے لیئے اس سے رابطہ کر رہی تھی پھر تو اس کے اچانک غائب ہو جانے پہ سیدھا شک اس پہ ہی جاتا جس سے اسکی ریپوٹیشن اور خراب ہوجاتی۔

 میری ایک بات کان کھول کے سن لو۔۔۔ آگر تم نے یہ ویڈیو کسی کو بھی دیکھائی تو میں تمہاری جان لینے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔۔ شہادت کی انگلی دیکھاتے  غصہ ضبط کرتے وارن کیا تو آگے سے نتاشہ ہنس دی۔

ہاہاہاہا اب پتہ چلے گا تمہیں نتاشہ کو تھپڑ مارنے کی کیا سزا ہوتی ہے۔۔۔تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو جزلان خان۔۔۔ اسکے تمسخرانہ لہجے پہ جزلان سر جھٹکتے فلیٹ سے باہر نکل گیا۔

جتنی جلدی ہو سکے اسے اب پریس کانفرنس بلانی تھی۔۔۔ تا کے نتاشہ کے دیئے گئے بیان کو جھوٹا ثابت کر سکے ۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اب اسکی الٹی گنتی شروع ہوگئی تھی۔۔۔ اب چاہے وہ کچھ بھی کر لے اسکی رسی کھینچی جا چکی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

تم لوگوں کی جب شوپنگ ہو جائے تو مجھے بتا دینا میں لینے آجاؤں گا۔۔۔ مال کے باہر گاڑی روکتے رائد نے برابر میں بیٹھی آئلہ اور پیچھے بیٹھی نوال اور ایمل کو دیکھ کے کہا تو وہ دونوں ہاں میں سر ہلاتی گاڑی سے اتر گئیں۔۔۔

لیکن اس سے پہلے آئلہ گاڑی سے نکلتی رائد نے اسکا ہاتھ تھامے اسے روکا۔

رائد کا کہنا تھا شادی میں دن کم ہیں اس لیئے وہ آج سے ہی شوپنگ شروع کر دیں ۔۔۔ تبھی رائد خود سب کو مال چھوڑنے آیا تھا۔

ریڈ سوٹ لینا اپنے لیئے ۔۔۔ وہ رنگ تم پہ بہت جچتا ہے۔۔۔ رائد نے گھمبیر لہجے میں کہا تو نقاب میں چھپے آئلہ کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔

ہم دلہن نہیں ہیں۔۔۔ آئلہ نے یاد دلانا چاہا۔

تم میری دلہن ہو ۔۔۔ اس لیئے لال رنگ ہی لینا۔۔۔ رائد باضد تھا جس پہ آئلہ نفی میں سر ہال کے رہ گئی۔

اب ہمیں جانے دیں نوال اور ایمل باہر نکل گئی ہیں۔۔۔ کیا سوچیں گی کے پتہ نہیں ہم ابھی تک باہر کیوں نہیں نکلے۔۔۔ آئلہ نے اس سے اپنی کلائی چھڑواتی چاہی جو اب تک رائد کے ہاتھ میں قید تھی۔

یہی سوچیں گی کہ ان کے بھائی بھابھی رومینس کر رہے ہوں گے۔۔۔ رائد شوخی سے اسے چھیڑنے کی خاطر بولا تو آئلہ نے خفگی سے اسے دیکھا۔

پلیز جانے دیں ہمیں ۔۔۔ اسنے پھر سے کلائی چھڑوانی چاہی۔

چھوڑنے کا دل تو نہیں چاہ رہا مگر چھوڑنا پڑے گا۔۔۔ اسکے ہاتھ کی پشت پہ لب رکھے تو آئلہ نے سٹپٹا کے ادھر ادھر دیکھا کے کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا مگر شکر تھا کہ ان کی طرف کوئی متوجوہ نا تھا۔

کچھ خیال کریں ہم گاڑی میں ہیں۔۔۔ اسکے ہاتھ چھوڑنے پہ آئلہ ہلکے سے اسے ڈانٹتی جلدی سے گاڑی سے نکلی تو وہ مسکرادیا۔

جب فری ہو جاؤ تو فون کر دینا میں لینے آجاؤں گا۔۔۔ اسکے دروازہ بند کرنے پہ مسکرا کے کہتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔۔ تو آئلہ مال کے دروازے پہ کھڑی نوال اور ایمل کی جانب بڑھ گئی۔

کیا بات ہے بھابھی بڑی دیر لگادی۔۔۔ ان کے پاس آتے ہی نوال نے معنی خیزی سے کہا تو آئلہ گھبرا گئی۔

ہاں وہ ہمارا فون سیٹ کے نیچے گر گیا تھا بس اسے ہی ڈھونڈنے میں تھوڑی دیر ہوگئی۔۔۔ آئلہ نے جلدی سے بہانا بیایا۔

او اچھااااااا۔۔۔۔۔ ایمل نے نوال کو دیکھتے اچھا کو لمبا کھینچا۔

اففف ہو تم دونوں بھی نا چلو اندر۔۔۔ ان دونوں کی معنی خیز نظروں سے جھنجھلاتی ائلہ آگے بڑھ گئی تو وہ بھی ہنستی ہوئی اسکے پیچھے بڑھیں۔

وہ لوگ کافی دکانیں کھوم چکیں تھی مگر لیئے انہوں نے صرف چند سوٹ ہی تھے۔۔ انہیں کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔ اس لیئے وہ تھرڈ فلور پہ آگئیں تھیں۔۔۔ جہاں مال کی سب سے بڑھی کپڑوں کی دکان موجود تھی۔

بھابھی یہ کیسا ہے۔۔۔ نوال نے ایمل کو اورنج رنگ کی فراک دیکھائی۔

ہممم اچھا ہے۔۔۔ ایمل نے اسے ہاتھ میں لیتے آگے پیچھے سے دیکھا جب ایک دم اسکی نظر دکان سے باہر گئی جہاں سے اسے مہوش گزرتی نظر آرہی تھی۔

نوال میں ایک منت میں آئی۔۔۔ جلدی سے نوال کو سوٹ واپس تھما کے وہ باہر کی جانب بڑھی جس پے پہلے تو نوال اسکی جلد بازی پہ حیران ہوئی پھر کندھے اچکاتی آئلہ کی جانب بڑھ گئی جو اس سے تھوڑے فاصلے پہ کھڑی کپڑے دیکھ رہی تھی۔

مہوش۔۔۔۔ ایمل نے پیچھے سے مہوش کو پکارہ جس پہ وہ چونک کے پلٹی۔

ایمل تم۔۔۔ ایمل کو اپنی طرف آتے دیکھ وہ حیرت سے اسکے گلے لگی۔

کیسی ہو تم۔۔۔ ایمل بھی خوش دلی سے اسکے گلے لگتی پوچھنے لگی۔

میں ٹھیک ہوں تم سناؤ تم کیسی ہو۔۔۔ میں نے تمہیں اتنے فون کیئے مگر تمہارا فون بند جا رہا تھا۔۔۔ مجھے پتہ چلا تھا تمہاری شادی جزلان سے ہوگئی ہے۔۔۔سچ پوچھو تو میں اتنی شوکڈ ہوئی تھی یہ سن کے۔۔۔ یہ سب ہوا کیسے یار۔۔۔ مہوش نے سوالوں کی برسات کردی۔

اکیلی آئی ہو۔۔۔ ایمل نے اسکے ارابر برابر دیکھتے پوچھا۔۔۔

نہیں مما کے ساتھ آئی ہوں وہ آگے شوپ میں ہیں مجھے یہاں سے اپنی گھڑی اٹھانی تھی تو میں وہ لینے آگئی تھی۔۔۔ مہوش نے نوال کے دائیں جانب موجود گھڑیوں کی دکان کی طرف اشارہ کیا تو اسنے سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا۔

یار میں نے اتنے سارے سوال پوچھے ہیں تم نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔۔۔ اسنے خفگی سے کہا۔۔۔ تو ایمل مسکرادی۔

کیا جواب دوں مہوش تمہیں۔۔۔ تم نہیں جانتی میرے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔۔۔ ایمل نے سرد سانس بھری۔

کیا ہوا ایمل سب ٹھیک ہے نا۔۔۔ مہوش نے فکرمندی سے پوچھا تو ایمل نے اسے پوری بات بتائی۔۔۔ جسے مہوش آنکھیں پھاڑے سن رہی تھی

کیا۔۔۔ جزلان تمہارا کزن۔۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہے۔۔۔ مہوش اب بھی حیران تھی۔

مجھے بھی یقین نہیں آتا تھا مگر وقت یقین دلا ہی دیتا ہے۔۔۔ ایمل آفسردگی سے مسکرائی۔

انکل کا سن کے بہت افسوس ہوا۔۔۔ ویسے انہیں ہاٹ اٹیک ہوا کیوں تھا۔۔۔ مہوش نے افسوس سے پوچھا۔

پتہ نہیں میں تو۔۔۔ ایمل کہتے کہتے رکی اسکے دماغ میں ایک دم کلک ہوا۔۔۔ اسے یاد آیا جب عمر نے اسکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی تب اس جگہ تو کوئی موجود نہیں تھا تو اسکے بابا کو کیسے پتہ چلا۔۔۔

کیا ہوا ایمل۔۔۔ اسے سوچ میں گم دیکھ مہوش نے پکارہ تو جیسے وہ ہہوش میں آئی۔

ہمم کچھ نہیں ۔۔۔ تم سناؤ تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔۔۔ اب تو پیپرز بھی ہوگئے ہوں گے نا۔۔۔ ایمل نے موضوع بدلا۔

میرے پیپرز بہت اچھے ہوئے ہیں اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ آگر تم مجھے حوصلہ نا دیتیں تو میں نے تو جینے کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔۔۔ مگر صرف تمہاری وجہ سے میں پھر سے زندگی کی طرف لوٹی ہوں۔۔

اور اب ہم لوگ پنڈی شفٹ ہو رہے ہیں وہاں بابا نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اس لیئے۔۔۔ ویسے تم کس کے ساتھ آئی ہو یہاں۔۔۔ اپنا بتاتے بتاتے مہوش کو ایک دم یاد آیا تو پوچھ بیٹھی۔

اپنی نند اور جیٹھانی کے ساتھ۔۔۔ سب لوگ بہت اچھے ہیں حویلی میں سوائے جزلان اور تایا ابو کے۔۔۔ ایمل نے مسکرا کے بتایا۔

تھوڑی دیر ایسے ہی باتیں کرنے کے بعد مہوش اپنے راستے ہولی جب کے الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ ایمل واپس اسہی دکان میں آگئی جہاں نوال اور آئلہ موجود تھیں۔

آگے اسنے ساری شوپنگ غائب دماغی سے کی تھی۔۔۔ اسکا دماغ ایک ہی بات میں اٹکا ہوا تھا کہ آخر اسکے بابا کو کس نے بتایا ۔۔۔

شوپنگ کر لی یہاں تک کہ وہ لوگ گھر آگئے۔۔۔ صبح سے رات ہوگئی مگر ایمل کا دماغ ابھی تک وہیں اٹکا ہوا تھا​۔

اپنے کمرے میں صوفے پہ بیٹھی اردگرد سے بےخبر بےچینی سے ایک ہی بات کو سوچتی ٹیبل پہ رکھے گملے کو گھور رہی تھی۔۔۔ جب جزلان تھکا ہارا کمرے میں داخل ہوا۔

یار ایک گلاس پانی پلادو۔۔۔ جیب سے فون نکالتے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھتے بولا مگر ایمل وہاں موجود ہوتی تو سنتی نا۔

ایمل۔۔۔۔ اسے سوچ میں ڈوبے دیکھ جزلان نے زور سے پکارہ تو وہ ایک دم چونکی۔

ہمممم۔۔۔ اسنے جزلان کو دیکھا جو گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ 

کہاں گم تھیں۔۔۔ اسنے باغور اسکے چہرے کا جائزہ لیا جو الجھا الجھا لگ رہا تھا۔

کہیں نہیں۔۔ تم کب۔۔۔ ایمل کے الفاظ بیچ میں ہی رہ گئے جب اسے ایک دم یاد آیا کہ جس دن وہ حادثہ پیش آیا تھا اس دن جزلان اسے ملاتا۔۔۔

اسنے کہا تھا وہ اسے ہی لینے آیا ہے مگر اسے کیسے پتہ چلا کہ وہ اس راستے پہ ہے۔۔۔ ایمل کے دماغ میں ایک دم لال بتی جلی۔

تو کیا اسنے ہی عمر کو وہ سب کرنے کا کہا تھا۔۔۔ کیا یہ سب ایک پلین کے تحت تھا۔۔۔ ہاں ضرور اسہی نے کہا ہوگا ورنا ایسے کیسے اسے پتہ چل گیا کہ اتنے بڑے شہر میں ایمل اسے اسہی سنسان راستے پہ ملے گی۔

اتنی ساری پریشانیوں میں وہ یہ بات بلکل ہی بھول گئی تھی۔۔۔ وہ کیسے اتنی بڑی بات کو بھوک سکتی تھی۔۔۔ اسکے دماغ میں پہلے یہ بات کیوں نہیں آئی۔۔۔ ایمل کو افسوس ہوا تھا۔

کہاں کھو گئیں۔۔۔ اسے خود کو تکتے دیکھ جزلان نے اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی تو جیسے ہو ہوش میں لوٹی۔۔

میری ایک بات کا سچ سچ جواب دینا۔۔۔ ایمل نے سنجیدگی سے کہا۔

پوچھو۔۔۔ جزلان گھڑی اتار کے ڈریسنگ پہ رکھتا آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرنے لگا۔

تم نے ہی عمر کو کہا تھا نا مجھے ہراس کرنے کو اور پھر تم نے ہی یہ بات میرے بابا کو بتائی تھی۔۔۔ وہ سرد لہجے میں استفسار کیا تو آستین فولڈ کرتے جزلان کے ہاتھ تھمے۔

اسنے ایمل کے چہرے کو دیکھا جہاں بلا کی سنجیدگی تھی۔۔۔ جزلان کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔۔۔ وہ جزلان جو کبھی کسی کو جواب دینے سے پہلے سوچتا نہیں تھا آج اسکے پاس لفظ نہیں تھے کچھ کہنے کو۔

میں تمہیں سمجھا سکتا۔۔۔۔

ہاں یا نا۔۔۔ اسکی بات بیچ میں کاٹتی ایمل چیخی تو ایک گہری سانس بھرتے جزلان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

ہاں۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاں کے ساتھ کمرے میں تھپڑ کی آواز گونجی۔

جزلان نے بےیقینی سے اپنے گال پہ ہاتھ رکھا۔۔۔ اسے یہ امید تو ہرگز نہیں تھی ایمل سے۔

میں کیسے۔۔۔۔ کیسے بھول گئی کے تم ایک گھٹیا شخص ہو۔۔۔ ایک گرے ہوئے انسان جو اپنا بدلہ پورا کرنے کے لیئے کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔۔ ایمل نم آنکھوں سے غرائی تو جزلان نے آگے بڑھتے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا

ایمل میری بات سنوں۔۔۔ جزلان نے اسکا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر ایمل اسے دھکا دیتی دو قدم پیچھے ہوئی۔

دور رہو مجھ سے جزلان خان۔۔۔ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔ تمہارے وجود سے۔۔۔میں سمجھوتہ کر کے تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کے لیئے تیار تھی مگر اب نہیں۔۔۔ مجھے ابھی اور اسہی وقت طلاق چاہیئے۔۔۔ ایمل ہزیانی ہوتی چلائی۔۔۔ تو جزلان ایک دم دھاڑا۔

ایمل!!!! خبر دار جو تم نے طلاق کا لفظ بھی اپنے منہ سے نکالا تو۔۔۔ جزلان نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اسے دیکھا تو اسنے سر جھٹکا۔

میں تم جیسے خود غرض ،بےحس، گھٹیا، اور اپنے بابا کے قا+قل کے ساتھ تو ہرگز نہیں رہوں گی۔۔۔ وہ بھی دوبدو بولی۔

میں نے کسی کو قا+تل نہیں کیا۔۔۔ جزلان نے مٹھیاں بھیجیں۔

تم ہو میرے بابا کے قا+تل تمہاری وجہ سے ہی میرے بابا مجھے چھوڑ کے گئے ہیں۔۔۔ صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ اور میں ایسے شخص کے ساتھ ہر گزر نہیں رہ سکتی جیسے دوسروں کی پرواہ ہی نا ہو۔۔۔ جو انسان کو انسان نا سمجھتا ہو۔۔۔تمہیں مجھے طلاق دینی ہی ہوگی۔۔۔ ایمل ضدی انداز میں بولی تو اسکی ایک ہی رٹ سن کے جزلان کا پارہ ہائی ہوا۔۔۔ وہ دو قدم کا فاصلہ ایک قدم میں طے کرتا اسکے سامنے کھڑے ہوتے اسکا بازو دباچ گیا۔

جاگیردار جزلان خان مر تو سکتا ہے مگر اپنی جاگیر کو چھوڑ نہیں سکتا۔۔۔۔

تم اس جاگیردار کی جان بنتی جارہی ہو۔۔ تمہیں مجھ سے رہائی اب صرف میری موت کے بعد ہی مل سکتی ہے۔۔۔ اسکے چہرے کے بلکل نزدیک چہرہ کیئے جنونی انداز میں بولا۔

تو پھر میں دعا کروں گی کہ مجھے تم سے رہائی جلد ہی ملے۔۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں اپنی نم آنکھیں گاڑے دانت پیس کے بولی تو جزلان ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا ڈریسنگ پہ رکھا اپنا سامان اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔

اسکے جاتے ہی ایمل کسی بےجان موجود کی طرح نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔ گھٹنوں میں سر دیئے زاروں قطار روتی اپنے بابا کو یاد کرنے لگی۔۔۔ اپنی بےبسی پہ دل درد سے پھٹنے لگا تھا۔۔۔ مگر وہ سوچ چکی تھی کہ آگر جزلان نے اسے نا چھوڑا تو وہ کورٹ جائے گی۔۔۔ مگر اب وہ اس شخص کے ساتھ ہرگز نہیں رہے گی۔

رات کے دو بج رہے تھے اور نوال اپنے کمرے میں موجود آج کی شوپنگ دیکھ رہی تھی۔

ہر ایک سوٹ کو ٹرائے کر کے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس وقت بھی وہ شیشے کے سامنے لائٹ سے کام کی جامنی فراک پہنے کھڑی تھی۔

یہ کلر زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ گھوم کے آگے پیچھے سے دیکھتی ہم کلام ہوئی جب ایک دم سے ہلکے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی جس پہ وہ بری طرح چونکی۔

یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔۔۔ ڈر کے مارے ایک جگہ ساکت کھڑی ادھر ادھر نظریں گھما کے دیکھ رہی تھی مگر اسے سمجھ نا آیا کے آواز کہاں سے آرہی ہے۔

ک۔۔۔کون ہے۔۔۔ ادھر ادھر دیکھتی کانپتی آواز میں پوچھا مگر کوئی جواب نہیں آیا بس مسلسل ٹھک ٹھک کی آواز آرہی تھی۔

ڈر کے مارے جلدی سے بیڈ پہ جا کے بیٹھی ۔۔۔ جب اچانک ہی وہ آواز آنا بند ہوگئی۔۔۔ مگر اگلے ہی پل فون کی آواز پہ وہ بری طرح اچھلی۔

آگے ہاتھ کرتے بیڈ پہ پڑا فون اٹھایا تو حسام کی کال آتے دیکھ فورن کال ریسیو کی۔

ہیلو حسام م۔۔۔۔میرے کمرے میں کوئی آگیا ہے ٹھک ٹھک کی آواز آرہی ہے۔۔۔ کال ریسیو کر کے فون کال پہ لگاتی تیزی سے بولی۔

کوئی نہیں آیا ۔۔۔ میں آیا ہوں۔۔۔کب سے بالکونی کا دروازہ بجا رہا ہوں مگر مجال ہے جو تم کھول دو۔۔۔ دوسری جانب سے حسام آہستہ آواز میں بولا تو نوال نے فورن بالکونی کے دروازے کی طرف جاتے گلاس ڈور کے آگے سے پردے ہٹائے تو سامنے ہی فون کال سے لگائی حسام کھڑا تھا۔

نوال کو دیکھتے فون بند کرتے حسام نے دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا جس پہ نوال نے فورن دروازہ کھول دیا۔

اتنی آہستہ آہستہ دروازہ بجانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ ڈرا ہی دیا مجھے۔۔۔ حسام کے کمرے میں داخل ہوتے ہی شروع ہوگئی۔

جی میڈم صاحبہ سہی کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ زور زور سے بجانا چاہیئے تھا تا کہ پوری حویلی جما ہوتی ۔۔۔ اچھا تھا پھر ان لوگوں سے بھی مل لیتا۔۔۔ حسام نے اسکی بات پہ چڑتے ہوئے کہا تو نوال خفت سے سر جھکا گئی۔

کیا ہوا اب کچھ نہیں کہو گی۔۔۔ تھوڑا سا جھکتے حسام نے نوال کے جھکے چہرے کو دیکھا جس پہ وہ منہ بنا گئی۔

اچھا بس ۔۔۔ یہ بتائیں اتنی رات کو یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔ نوال نے جلدی سے بات بدلی۔

تمہیں مبارکباد دینے آیا ہوں اپنی شادی کی ۔۔۔ حسام سکون سے بیڈ پہ آکے لیٹا۔

ارے ہاں مجھے بھی تو دینی تھی اپنی شادی کی مبارکباد۔۔۔ نوال بیڈ کے کونے پہ ٹکی۔

کس سے ہو رہی ہے تمہاری شادی۔۔۔ حسام کہنی کے بل لیٹتے شریر لہجے میں بولا۔

ہے ایک شہزادوں جیسی شان بان رکھنے والا مینڈک۔۔۔ نوال آنکھیں گھماتی شرارت سے بولی تو حسام ایک دم سیدھے ہوکے بیٹھا۔

کیا تم نے مجھے مینڈک کہا۔۔۔۔ اسنے صدمے آنکھیں پھاڑے پوچھا۔

ارے میں نے آپ کو کب کہا ۔۔۔ میں نے تو اپنے ہونے والے شوہر کو کہا ہے۔۔۔ نوال مسکراہٹ روکتی مصنوعی حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

تو تمہارا ہونے والا شوہر میں ہی ہوں۔۔۔ حسام نے گھورا جس پہ نوال زیر لب مسکرائی

ارے پھر تو میں نے غلط بتا دیا آپ کو۔۔۔ آپ کے اندر تو شہزادوں جیسی کوئی شان بان ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ دکھ سے دائیں بائیں سر ہلا کے بولی تو حسام کا منہ کھلا۔

نوال۔۔۔ اسنے صدمے سے اسے دیکھا تو نوال کی ہنسی چھوٹ گئی۔

ہاہاہاہاہاہا مزاق کر ہی ہوں میں۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ اسے ہنستے ہوئے دیکھ حسام کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی کتنے وقت بعد حسام نے نوال کو یوں ہنستے دیکھا تھا۔۔۔ اسکے چہرے پہ جو خوشی اسے دیکھ رہی تھی وہ حسام کو سکون بخش رہی تھی۔

کیا ہوا۔۔۔ ہنسی روکتے خود کو مسکرا کے تکتے دیکھ حسام سے پوچھا تو وہ دھیرے سے نفی میں سر ہلا گیا۔

میری دعا ہے اللہ تمہاری ہنسی ہمیشہ قائم رکھے۔۔۔ اور میں بھی اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا تمہیں خوش رکھنے کی۔۔۔ تمہاری ہنسی کو برقرار رکھنے کی حسام نے مسکرا کے کہا تو نوال کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

نوال میں سمجھتا تھا یہ سب بہت مشکل ہوگا مگر جتنی آسانی اور جلدی یہ سب ہوا ہے مجھے تو اب تک یقین نہیں آرہا۔۔۔ حسام  خوشی سے بولا۔

صبح جب بھائی نے بتایا تو یقین تو مجھے بھی نہیں آیا تھا ۔۔۔ مجھے تو لگا تھا آپ کے گھر والے اتنی آسانی سے نہیں مانے گے۔۔۔ نوال پوری طرح اسکی جانب گھوم کے بیٹھی۔

ہممم مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا مگر جب دادا جان نے اٹھ کے رائد کو گلے لگایا تو میری حیرت کی انتہا نہیں تھی۔۔۔ اور رائد!!!! رائد کو تو میں مغرور سمجھتا تھا مگر اسنے مجھے غلط ثابت کرہی دیا۔۔۔

اپنی بہن کی خوشیوں کے لیے نا صرف اسنے معافی مانگی بلکے ہاتھ بھی جوڑے۔۔۔ حسام کے انکشاف پہ نوال کی پوری آنکھیں کھلیں۔

کیا واقعی بھائی نے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔ نوال کے بےیقینی سے پوچھنے پہ حسام نے ہاں میں سر ہلایا تو نوال کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔

بھائی نے میری وجہ سے۔۔۔ پوری بات ہونے سے پہلے ہی وہ رودی جس پہ حسام نے مسکرا کے گہری سانس بھری

اسنے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک اچھا بھائی ہے۔۔۔ اسنے جھک کے نا صرف دشمنی ختم کی ہے بلکے ہمیں بھی ملایا ہے ۔۔۔ اور رائد کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں چکا سکتا۔۔۔ وہ دھیما سا مسکرایا۔

اچھا یار اب تم رو نہیں میں تمہیں یہاں رولانے نہیں آیا تھا۔۔۔ بےآواز آنسوں بہاتی نوال کو دیکھتے بےچارگی سے بولا تو نوال نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔

ہممم اب ٹھیک ہے۔۔۔ ویسے اتنی رات میں نیا سوٹ پہن کے کہاں جا رہیں تھیں۔۔۔ حسام نے ایک نظر اسکے سوٹ پہ ڈالی۔

آپ کو کیسے پتہ کہ یہ نیا ہے۔۔۔ نوال اپنا رونا بھولتی آنکھیں چھوٹی کیئے اسے گھورنے لگی۔

اس پہ پرائز ٹیگ جو لگا وہاں ہے۔۔۔ حسام اسکے گلے کی جانب اشارہ کر کے بولا تو وہ

گلے کے ساتھ لگے پرائز ٹیگ دیکھتی سر ہلا گئی۔

ٹائم دیکھا ہے۔۔۔ نوال کی نظر کھڑی پہ گئی تو اسنے سنجیدگی سے پوچھا

ہاں۔۔۔ ڈھائی بج رہا ہے۔۔۔ حسام کے سکون سے جواب دینے پہ نوال نے اسے گھورا۔

ڈھائی نہیں بج رہا۔۔۔۔ رات کا ڈھائی بج رہا ہے ۔۔۔ اس لیئے اب آپ کو جانا چاہیئے۔۔۔ نوال نے رسان سے سمجھایا 

تو کیا ہوا کون سا زیادہ ٹائم ہوا ہے چلا جاؤں گا آرام سے۔۔۔ حسام نے لاپروائی سے کندھے اچکائے تو نوال نے اپنا ماتھا پیٹا۔

اففف ہو حسام بہت رات ہو چکی ہے اور اس وقت آپ کا کہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آگر کوئی آ گیا تو۔۔ نوال کو ایک دم پریشانی لاحق ہوئی

سب اپنے اپنے کمروں میں سکون سے سو رہے ہیں۔۔۔ اس لیئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اطمینان سے کہتے حسام بیڈ پہ ٹھیک سے لیٹا تو نوال فورن کھڑی ہوئی۔

چلیں بہت ہو گیا اب جائیں یہاں سے ۔۔۔۔سنجیدگی سے انگلی دیکھ کے بولی ۔

کیا تم مجھے اپنے کمرے سے بھاگا رہی ہو۔۔۔ حسام تھوڑا سا اٹھتے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے استفسار کرنے لگا۔

ہاں۔۔۔ نوال نے ایک لفظی جواب دیا تو حسام گہری سانس بھرتے کھڑا ہوگیا۔

بس یہی دن دیکھنا باقی رہ گیا تھا کہ میری ہونے والی بیوی، میری محبت مجھے اپنے کمرے سے بھگا رہی ہے۔۔۔ حسام نے مصنوعی دکھ چہرے پہ سجائے ڈرامائی انداز میں کہا۔

جی میں آپ کو بھگا رہی ہوں اور خبر دار جو اب آپ دوبارہ یہاں آئے تو۔۔۔ شادی میں کچھ ہی دن ہیں پھر تو ویسے بھی میں ہمیشہ کے لیئے آپ کے پاس آجاؤں گی ۔۔ اس لیئے اب یوں چوری چھپے حویلی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ سمجھ گئے۔۔۔ نوال نے ڈانٹا جسے حسام نے معصوم بچے کی طرح سر جھکائے سنا۔

لیکن اتنے دنوں تک تمہیں دیکھے بغیر کیسے رہوں گا۔۔۔ حسام نے فکرمندی سے کہا۔

میں تصویر بھیج دوں گی مگر اب یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے اوکے۔۔۔ اسنے تائد چاہی جس پہ نا چاہتے ہوئے بھی حسام نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

گڈ اب جائیں اللہ حافظ۔۔۔ نوال نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا کے کہا ۔

اللہ حافظ۔۔۔۔ خیال رکھنا اپنا۔۔۔ مسکرا کے کہتے حسام جس راستے سے آیا تھا اس راستے سے ہی واپس چلا گیا ۔

نوال اچھے سے بالکونی کا دروازہ بند کرتی سوٹ چینج کرنے واشروم میں گھس گئی۔

۔🌺 🌺 🌺

روز کی طرح آج بھی آئلہ کی آنکھ فخر کے وقت کھل گئی تھی۔۔۔ 

وہ رائد کی باہوں میں پوری طرح قید تھی ۔۔۔اسنے مسکرا کے گردن اٹھا کے رائد کو دیکھا اور پھر دھیرے سے اپنی کمرے کے گرد لپٹا اسکا ہاتھ ہٹانے لگی ۔۔۔ رائد جاگے نا اس لیئے وہ بہت احتیاط سے ہاتھ ہٹا رہی تھی لیکن پھر بھی رائد کی آنکھ کھل چکی تھی۔۔

کیا ہوا جاناں تم ٹھیک ہو ۔۔۔ رائد نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا۔

جی ہم ٹھیک ہیں نماز کا وقت ہوگیا ہے نماز پڑھنے جانا ہے۔۔۔ آئلہ نے ماتھے پہ بکھرے اسکے بالوں کو پیچھے کیا۔

ہمممم۔۔۔ رائد نے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا تو وہ اٹھتی بیڈ سے اتری۔

آپ بھی نماز پڑھ لیں۔۔۔ اسکو فون چیک کرتے دیکھ آئلہ نے پیار سے کہا جس پہ رائد ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھتا واپس نظریں فون کی جانب کر گیا۔

رائد آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے جب کے اپنے ہمیں بتایا تھا کہ بچپن میں آپ اپنی مما کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔۔۔ تو اب کیا ہوا۔۔۔ آئلہ نے الجھ کے سوال کیا جس پہ رائد اسے دیکھتا تھوڑا سا اٹھ کے نیم دراز ہوا۔

کل کے معصوم اور آج کے گناہ گار میں بہت فرق ہے جاناں۔۔۔ آج کا گناہ گار کس منہ سے رب کے سامنے جائے۔۔۔ کس منہ سے توبہ کرے۔۔۔ رائد تھکے ہوئے لہجے میں کہتا آنکھیں بند کرگیا۔

رب یہ نہیں دیکھتا کہ کون کتنا گناہ گار ہے ۔۔۔ بلکے رب تو اپنے بندے کی توبہ کا انتظام کرتا ہے اور جب کوئی بندہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو رب تعالٰی اسکی توبہ قبول بھی کرتا ہے۔۔۔ سجدے کرنے کی توفیق بھی دیتا ہے۔۔۔ 

مگر اس کے لیئے بھی تو انسان کو پہل کرنی ہوتی ہے۔۔۔گناہوں سے کنارہ کر کے اسکی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔۔۔ بس ایک بار سچے دل سے معافی مانگیں اور وہ آپ کو تھام لیتا ہے۔۔۔ آئلہ نے مسکراتے لہجے میں نرمی سے سمجھایا تو رائد نے آنکھیں کھول کے اسے دیکھا جو اسکے سامنے ہی کھڑی تھی۔

وقت نکل رہا ہے تم نماز پڑھ لو۔۔۔ رائد سپاٹ انداز میں کہتا واپس انہیں موند گیا تو وہ گہری سانس بھرتی واشروم کی جانب بڑی گئی۔

وہ وضو کر کے آئی جب بھی رائد ویسے ہی بیڈ پہ نیم دراز آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔۔۔ آئلہ بغیر اس سے کچھ کہے بائیں جانب دیوار کے ساتھ بنی کیبنٹ پہ رکھی دو جائے نماز میں سے ایک نکالتی وہیں کیبنٹ کے آگے بچھاتی نماز شروع کرگئی۔

وہ پوری طرح اپنی نماز میں مشغول تھی۔۔۔ ادرگرد کا ہوش بھلائے پوری توجہ کے ساتھ نماز ادا کر رہی تھی۔۔۔ آخری رکعت پڑھ کے جیسے ہی اسنے سلام پھرا اسکی نظر سیدھے اپنے برابر میں نماز پڑھتے رائد پہ گئی۔

اسے ایک دم خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔ سر پہ رومال باندھے وہ نماز پڑھتے ہوئے بہت پرکشش لگ رہا تھا۔۔۔ وہ مبہوت سے اسے تک رہی تھی جب رائد نے سلام پھیرتے اسکی جانب مسکرا کے دیکھا۔

میں تمہیں بتا نہیں سکتا نماز پڑھ کے مجھے کتنا سکون ملا ہے۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے میری ساری تھکن اتر گئی ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے میں اتنے سالوں سے اس سکون سے محروم رہا۔۔۔

میں ایسے ہی ماما کے ساتھ انکے برابر بیٹھ کے نماز پڑھا کرتا تھا اور آج تمہارے ساتھ نماز پڑھ کے مجھے ایسا لگا رہا ہے جیسے میری ماما واپس آگئی ہوں۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ بہت خوش ہیں مجھ سے۔۔۔ رائد نے جذب کے عالم میں اوپر کی جانب دیکھ کے کہا۔

واقعی وہ آپ سے بہت خوش ہوں گی۔۔۔ آئلہ نے آسودگی سے کہا تو رائد نے گہرا سانس بھرتے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔۔۔ اور پھر دونوں نے دعا مانگی۔

ایک نے جہاں دھیر سارا شکرادا کیا وہیں دوسرے نے اپنے گناہوں کی معافی کے ساتھ شکر بھی ادا کیا۔۔۔۔ 

دعا مانگ کے دونوں چہرے پہ ہاتھ پھیرتے اٹھ گئے۔

بہت بہت شکریہ مجھے راہے راست پہ لانے کا۔۔۔ مجھے گناہوں کے دلدل سے نکالنے کا۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔ رائد نے آگے بڑھ کے آئلہ کے ماتھے پہ محبت کی مہر مثبت کی جس پہ وہ مسکرادی۔

اچھا میرے کچھ کپڑے پیک کردو مجھے ایک میٹنگ کے لیئے آؤٹ اوف کنٹری جانا ہے۔۔جائے نماز فولڈ کرتی آئلہ سے بولا تو آئلہ حیرت سے اسکی جانب پلٹی۔

اس طرح اچانک ۔۔۔ اسنے کچھ پریشانی سے پوچھا۔

اچانک نہیں مجھے آج ہی جانا تھا۔۔۔ میں بس بتانا بھول گیا تھا۔۔۔ رائد نے وضاحت دی جس کو سمجھتے ہوئے آئلہ ہاں میں سر ہلاتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔

کتنے سوٹ پیک کرنے ہیں۔۔ الماری کھولے دو تین سوٹ باہر نکلاتی پوچھنے لگی۔

کر دو تین چار۔۔۔ رائد اپنے فون میں کچھ میلز چیک کرتے بولا۔۔۔ تو آئلہ ناسمجھی سے اسکی جانب پلٹی۔

تین چار۔۔۔ کتنے دنوں کے لیئے جا رہے ہیں آپ۔۔۔ 

کچھ کہہ نہیں سکتے تین دن بھی لگ سکتے ہیں اور چار دن بھی۔۔۔ رائد مصروف انداز میں بولا۔

ویسے کب جانا ہے۔۔۔ اسے بیڈ کے آگے کھڑے فون میں مصروف دیکھ آئلہ نے پھر سوال کیا

ابھی ایک گھنٹے بعد میری فلائٹ ہے۔۔۔ رائد نے فون سے نظریں اٹھا کے آئلہ کی جانب دیکھا جس کے چہرے پہ اسکی بات سنے کے بعد اداسی چھا گئی تھی۔

اچھا۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں کہتی بےدلی سے واپس الماری کی طرف گھمتی اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔۔ 

اسکا بجھا چہرہ دیکھتے رائد اسکی جانب بڑھا۔

جاناں میرا بھی بلکل دل نہیں ہے تمہیں چھوڑ کے جانے کا۔۔۔ مگر نوال کی شادی ہونے والی ہے سو کام ہوں گے۔۔۔ شادی کی شوپنگ ہے اس لیے تمہیں ساتھ نہیں لے کے جارہا ورنا تم جانتی ہوں اب تمہارے بغیر میرا ایک پل بھی گزارا نہیں ہوتا۔۔۔ رائد اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں بھرتے محبت سے بولا

کوئی بات نہیں چار دن کی تو بات ہے بس۔۔۔ آپ آرام سے جائیں۔۔۔الماری سے بیگ نکالتی آئلہ نے نرمی سے کہا۔

تمہارے لیئے چار دن ہیں مگر مجھ سے پوچھو مجھے ابھی سے یہ چار دن چار صدیوں جیسے لگ رہے ہیں۔۔۔ کیسے رہوں گا میں تمہارے بغیر۔۔۔رائد اسکا رخ اپنی جانب کرتے منہ بنائے بولا تو آئلہ نے مسکرا کے ایک ہاتھ سے اسکا چہرہ چھوا۔

میں آپ سے دور تھوڑی ہوں گی میں تو  آپ کے دل میں ہوں سو جہاں جہاں آپ جائیں گے میں بھی اپ کے ساتھ ہی رہوں گی ۔۔۔ آئلہ نے اسے تسلی دی جس پہ رائد نے اپنے لب نرمی سے اسکے گال پہ رکھے۔

بہت مس کروں گا تمہیں۔۔۔ نرمی سے دونوں گالوں کو چھوتے اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکا گیا۔

میں بھی۔۔۔ آئلہ نے سرگوشی کی جس پہ رائد اسے اپنے سینے میں بیچ گیا۔

اگر نوال کی شادی نا ہوتی تو وہ آئلہ کو کبھی نا چھوڑ کے جاتا ۔۔۔ نوال کی شادی میں دن کم تھے اور نور بیگم کی آج کل طعبیت کچھ ٹھیک نہیں تھی جس وجہ سے وہ نوال کے ساتھ شوپنگ پہ جا نہیں سکتیں تھیں اور ایمل وہ تو کھوئی کھوئی رہنے لگی تھی اس لیئے رائد آئلہ کو نوال کی ہیلپ کے لیئے چھوڑ کے جا رہا تھا ورنا چار دن آئلہ سے دور رہنا اسے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

صبح کے دس بج رہے تھے اور کچھ ہی دیر بعد سب ناشتے کے لیئے جما ہونے والے تھے ۔۔۔ اس سے پہلے ایمل رائد سے بات کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہیں تھا جو اسکی مدد کر سکتا تھا جزلان سے اسکی جان چھڑانے میں۔

ایمل دوپٹہ درست کرتی ایک نظر بیڈ پہ سوئے جزلان پہ ڈالتی باہر نکل گئی۔

رات جزلان کس وقت آیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ وہ روتے روتے ایسی سوئی کے اسکی آنکھ پھر صبح ہی کھلی ۔۔۔ مگر جب اسکی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پہ تھی ۔۔۔ اسے یہ سمجھنے میں زرا بھی وقت نہیں لگا تھا کہ وہ یہاں کیسے آئی ہے۔۔۔مگر اسے شدید غصہ آرہا تھا جزلان پہ۔۔۔ اسکا رات کا غصہ اپنی تک ٹھنڈا نہیں ہوا۔

اپنے کمرے سے نکل کے وہ سیدھے آئلہ کے کمرے کی جانب آئی تھی۔

کمرے کے باہر پہنچ کے جیسے ہی اسنے دروازہ بجانے کے لیئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا ویسے ہی دروازہ کھل گیا۔

ارے ایمل تم یہاں ۔۔۔ دروازہ کھولتے سامنے کھڑی ایمل کو دیکھ آئلہ نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔

جی وہ مجھے رائد بھائی سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔ ایمل نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔

رائد تو نہیں ہیں۔۔۔ 

کیا بھائی آج جلدی آفس چلے گئے۔۔۔ ایمل نے بےچینی سے پوچھا۔

وہ آفس نہیں گئے بلکے کسی میٹنگ کے لیئے آؤٹ اوف کنٹری گئے ہیں۔۔۔ آئلہ کے بتانے پہ ایمل نے گہرا سانس بھرا۔

او۔۔۔ اچھا۔۔۔ کب تک واپس آئیں گے۔۔۔ ایمل نے پریشانی سے پوچھا۔

تین چار دن بعد۔۔۔ آئلہ کے بتانے پہ ایمل کو فکر نے آ گھیرا۔

رائد تین چار دن کے لیئے باہر چلا گیا تھا اور وہ ایک دن بھی اور جزلان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔۔۔ آگر وہ خود سے کچھ کرتی تو ممکن تھا جزلان پھر سے بیچ میں آجاتا اس لیئے اسے اب رائد کا ہی انتظار کرنا تھا۔

کیا ہوا ایمل کوئی پریشانی ہے کیا ۔۔۔۔ اسکا پریشان چہرہ دیکھتے آئلہ نے فکرمندی سے پوچھا۔

نہیں بھابھی۔۔۔ ایمل نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس سے مسکرایا بھی نہیں جا رہا تھا۔

ایمل آگر کوئی بات ہے تو تم چاہو تو مجھے بتا سکتی ہو۔۔۔ آئلہ نے اپنائیت سے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے کہا جس پہ وہ پھیکا سا مسکرائی۔

بھائی آجائیں پھر ساتھ ہی بتاؤں گی۔۔۔ ایمل نے نرمی سے کہتے جیسے بات ہی ختم کی۔

ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔۔۔ چلو ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔ مزید بات کو کُریدنے کی بجائے آئلہ مسکرا کے کہتی اس کو ساتھ لیئے نیچھے کی جانب بڑھ گئی۔

سب ٹیبل پہ ناشتے کے لیئے موجود تھے سوائے جزلان کے جو اب تک سو رہا تھا۔۔۔

چاروں خواتین ہلکی پھلکی ہنسی مزاق کے ساتھ ناشتہ کر رہیں تھیں جب تراب خان ٹیبل پہ آئے۔

رائد کہاں ہے۔۔۔ تراب خان ایک نظر ٹیبل پہ گھماتے ہوئے آئلہ سے مخاطب ہوئے۔۔۔ 

وہ جانتے تھے رائد جا چکا ہے انہیں اپنے پرانے وفادار ملازم جو زیادہ طر انکے ساتھ ہی رہتا تھا وہ بتا چکا تھا لیکن پھر بھی وہ ایک بار آئلہ سے کنفورم کرنا چاہتے تھے۔

جی وہ صبح ہی چلے گئے تھے۔۔۔۔ آئلہ ایک نظر انہیں دیکھ کے بولی۔

کب تک واپس آئے گا۔۔۔ تراب خان نے پھر سے عام سے انداز میں پوچھا۔

تین چار دن بعد۔۔۔ ایک بار پھر نرمی سے جواب دیتی آئلہ اپنے ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی۔

ہممم۔۔۔ تم لوگوں کے موبائل کہاں ہیں۔۔۔ تراب خان گلاس سے جوس کا ایک گھونٹ پھرتے بولے تو سب نے چونک کے انکی جانب دیکھا۔

کمروں میں ہوں گے۔۔۔ مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔ نور بیگم نے ناسمجھی سے جواب دیتے ساتھ سوال بھی کیا۔

ابھی لے کے آؤ۔۔۔ تراب خان کے حکمیہ لہجے پہ وہ لوگ ایک دوسرے کو ناسمجھی سے دیکھتی اٹھ کے اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئیں جب کے ایمل وہیں بیٹھی تھی۔

تم فون لے نے نہیں جاؤ گی۔۔۔ تراب خان نے ترچھی نظروں سے ناشتے کی پلیٹ پہ جھکی ایمل کو دیکھا۔

میرے پاس فون نہیں ہے۔۔۔ ایمل نے سپاٹ انادز میں بغیر سر اٹھائے جواب دیا۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس فون ہی نا ہو۔۔۔ تراب خان نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جس پہ ایمل نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا۔

آپ کے بیٹے کی ہی کرم نوازی ہے۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کے کہتی واپس ناشتے کی جانب متوجہ ہوئی۔

کیا مطلب۔۔۔ آنہوں نے ناسمجھی سے پوچھا۔

اونہہ!!! اب آپ کو کیا بتاؤ آپ تو خود اپنے بیٹے کی طرح ہیں بلکے نہیں آپ کا بیٹا خود آپ کی طرح ہے۔۔۔ وہ اس وقت کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھی اس لیئے انکی بات نظر انداز کرتی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔

اتنی دیر میں نوال آئلہ اور نور بیگم تینوں فون ہاتھ میں پکڑے وہاں آئیں۔۔۔ جنہیں دیکھتے تراب خان نے اپنے خاص وفادار آدمی کو آواز لگائی۔

واصف۔۔۔۔ انکی ایک آواز پہ ہی واصف انکے سامنے حاضر ہوا جس کے آتے ہی آئلہ نے چہرے کے آگے دوپٹہ کر لیا۔

واصف سارے ملازموں کو یہاں جمع کرو فورن ۔۔۔ ایک بھی ملازم رہنا نہیں چاہیئے۔۔۔ تراب خان کے حکم پہ وہ جی کہتا جلدی سے سارے ملازموں کو بلانے چلا گیا۔

تراب خان کی یہ کاروائی سب ہی حیرت اور ناسمجھی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کرنے کیا والے ہیں۔۔۔ اندر سے سب کے دل ڈر رہے تھے۔

پانچ منٹ کے اندر اندر سارے ملازم ڈائنگ روم میں موجود ادب سے سر جھکائے کھڑے تھے۔

واصف سب کے فون لے لو۔۔۔ تراب خان کے اگلے حکم پہ سب کو جھٹکا لگا۔۔۔ جب کے واصف آگے بڑھتے سب کے فون لینے لگا۔

مگر کیوں۔۔۔ نور بیگم نے حیرت سے استفسار کیا۔

پہلے فون دو پھر بتاتا ہوں۔۔۔ تراب خان کے سکون سے کہنے پہ نور بیگم خاموش ہوگئیں۔

اگر کسی کے پاس دو فون ہیں تو ابھی باہر نکال دے۔۔۔۔ تراب خان نے کرخت لہجے میں کہا۔۔۔جس پہ جن ملازموں کے پاس بھی دو فون تھے انہوں نے خاموشی سے دوسرا فون نکالتے واصف کو دے دیا۔

واصف اب جب تک میں نہیں کہتا یہ سارے فون تم اپنے پاس ہی رکھنا۔۔۔جب تک میں نہیں کہتا کسی کو بھی فون ایک منٹ کے لیئے بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ گئے۔۔۔ تراب خان نے سختی سے سمجھایا جس پہ وہ جی صاحب کہہ گیا۔

اب تم سب جا سکتے ہو۔۔۔ تراب خان سب ملازموں کو وہاں سے بھیجتے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

آپ یہ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔ نور بیگم نے گھبراتے دل سے پوچھا۔

کل نوال کا نکاح ہے میرے دوست کے بیٹے کے ساتھ ۔۔۔ تیاری کر لینا ظہر کے بعد ہے نکاح ۔۔۔ تراب خان سب کے سروں پہ بم پھوڑتے جوس کا گلاس ختم کرتے ڈائنگ روم سے نکل گئے۔۔۔ 

انکے باہر نکلتے ہی نور بیگم سکتے سے باہر آتی ان کے پیچھے بھاگئیں جب کے نوال تو وہیں ڈھ سی گئی تھی جسے آئلہ اور ایمل نے سہارا دیا۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ رائد نے نوال کی شادی طے کر دی ہے۔۔۔ آپ کیسے اسکا نکاح کسی اور سے کروا سکتے ہیں ۔۔۔ نور بیگم پریشانی سے انکے پیچھے آتی بولیں۔

حیدر شاہ کے یہاں اپنی لڑکی دے کے میں کبھی اسکے سامنے نہیں جھکنے والا۔۔۔ تراب خان رکتے ایک تیز نظر ان پہ ڈال کے بولے۔

آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں یہ رشتہ رائد نے کیا ہے۔۔۔ جب اسے پتہ چلے گا کہ آپ نے نوال کا زبردستی کہیں اور نکاح کروا دیا ہے تو وہ گھر چھوڑ کے چلا جائے گا۔۔۔ نور بیگم نے انہیں سمجھانا چاہا 

رائد یہاں نہیں ہے اور اس کے آنے سے پہلے پہلے نوال کا نکاح ہو بھی جائے گا باقی بعد میں میں اسے خود دیکھ لوں گا۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گا۔۔۔ تراب خان سکون سے کہتے بغیر انکی اور سنے باہر کی جانب قدم بڑھا گئے۔

وہ آج ہی جا کے اپنے دوست سے نکاح کی بات کرنے والے تھے۔۔۔ انکے دوست نے کچھ دن پہلے ہی نوال کا رشتہ مانگا تھا جس پہ وہ سوچ بھی رہے تھے مگر رائد بیچ میں آگیا تھا جس وجہ سے انہیں خاموش ہونا پڑا تھا ۔۔۔ وہ رائد کے آگے بلکل بےبس ہو جاتے تھے۔۔۔

بیٹھوں میں انکی جانب بستی تھی اور رائد تو ساری زندگی ان سے خفا ہی رہا تھا۔۔۔ اس لیئے وہ اسکے آگے کچھ نہیں کہتے تھے۔۔۔ تاکہ وہ ان کو واپس اپنا لے۔۔۔ لیکن اپنے دشمن کے یہاں اپنی لڑکی کی شادی کرنا یہ انہیں ہرگز گوارہ نہیں تھا لیکن رائد کی وجہ سے وہ زیادہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔۔۔ مگر اب وہ نہیں تھا تو یہی موقع تھا نوال کی کہیں اور شادی کروانے کا اس لیئے انہوں نے سب کے فون بھی پہلے سے ہی لے لیئے تھے کے کوئی رائد کو نا بتا سکے ۔

ورنا آگر یہ بات رائد کو پتہ چلتی تو وہ پھر سے نوال کے لیئے کھڑا ہوجاتا اور تراب خان کو ایک بار پھر خاموش ہونا پڑھتا مگر اب کسی کے بھی پاس فون موجود نہیں تھا تو رائد کو پتہ چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ باقی جب وہ آئے گا اور اسے یہ بات پتہ چلے گی وہ تب کی تب ہی دیکھنے والے تھے۔۔۔ ابھی تو وہ اپنے فیصلے سے مطمئن ہوتے حویلی سے نکل گئے تھے۔

انکے باہر نکلتے ہی نور بیگم ڈائنگ روم کی جانب بھاگئیں۔۔۔ جہاں روتی ہوئی نوال کے گرد آئلہ اور ایمل کھڑی اسے تسلی دے رہی تھیں۔

ماما یہ بابا کیا کہہ کے گئے ہیں ۔۔۔ میں کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی۔۔۔ ماں کو دیکھتے نوال فورن اٹھ کے انکے گلے لگی۔

نور بیگم نے روتی ہوئی نوال کو کس کے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ انہیں اسکا درد اپنے دل میں اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔

تم پریشان نا ہو میرا بچہ۔۔ اللہ سب ٹھیک کرے گا۔۔۔ نور بیگم نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی۔

ماما ہم لوگ کیا کریں گے۔۔۔۔ ہمارے پاس تو فون بھی نہیں ہیں ۔۔۔ جو ہم رائد کو بتا سکیں انہیں واپس بلا سکیں۔۔۔ آئلہ نے پریشانی سے کہا۔۔۔ مگر وہ کچھ نا بولیں۔۔۔

وہ جانتی تھیں اب اگر کوئی معجزہ ہو جائے تو ہی کچھ ہو سکتا ہے ورنا جس طرح سے پوری تیاری سے تراب خان نے نوال کا نکاح کرنے کا پلین کیا تھا۔۔۔ اس سے انہیں صاف پتہ چل رہا تھا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

۔🌺 🌺 🌺

حویلی کا ماحول ایک دم ہی افسردہ ہوگیا تھا کل جہاں پہ سب خوشی سے شوپنگ کر رہے تھے ہنستے مسکراتے پھر رہے تھے آج وہاں اداسی چھا گئی تھی۔

نوال کو اسکے کمرے میں چھوڑنے کے بعد ایمل اپنے کمرے کی جانب آئی تو جزلان پہلے سے ہی دروازے پہ کھڑا تھا۔۔۔

وہ جزلان کو نظر انداز کرتی سائڈ سے ہوکے کمرے میں جانے لگی جب جزلان نے اسے مخاطب کیا۔

سنو یہ نوال کیوں رو رہی تھی۔۔۔ جزلان نے اسکی پشت کو دیکھتے پوچھا۔۔۔ تو ایمل طنزیہ مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اسکی جانب پلٹی

کمال ہے تم جیسے بےحس اور خود غرض انسان کو بھی کسی کے آنسوں دیکھتے ہیں ۔۔۔ حیرت ہے مجھے۔۔۔ وہ حیرت زده منہ بنائے بولی ۔

ایمل میں اب جب خود کو بدلنے کی کوشش کر رہا تو تم کیوں ایسی جلی کٹی باتیں کر رہی ہو۔۔۔ وہ افسوس سے بولا تو ایمل دھیرے سے ہنس دی۔

سیریسلی جزلان تم اور بدل سکتے ہو ۔۔۔ یہ ناممکن سی بات ہے۔۔۔ اس لیئے پاگل اسے بنانا جو تمہیں جانتا نا ہو۔۔ میں تمہیں اچھے سے جانتی ہوں تمہارے یہ جو دو چہرے ہیں نا بہت اچھا سے پہچانتی ہوں انہیں۔۔۔ اس لیئے پلیز میرے سامنے یہ اچھا بنے کا ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ایمل ناگواری سے کہتی واپس کمرے کی جانب پلٹی جب جزلان نے پھر پکارہ

میں جانتا ہوں میں نے اتنا سب کچھ کیا ہے جس کے بعد تمہیں اتنی جلدی میری بات پہ یقین نہیں آئے گا۔۔۔۔خیر مجھے یہ بتاؤ نوال کو کیا ہوا ہے۔۔۔ رائد گہری سانس پھر کے کہتا ایک بار پھر نوال کا پوچھنے لگا۔

اسنے جب نوال کو روتے دیکھا تھا جب سے ہی اسکا دل کچھ بےچین سا ہو گیا تھا۔

تم بھی تو اپنے بابا کے جیسے ہو ۔۔۔ جان کے بھی کیا کروں گے اور ذگر پھر بھی جانے کی خواہش ہے تو اپنے بابا سے پوچھ لو جاکے کیونکہ ایک وہی وہیں جن کی وجہ سے نوال کی آنکھوں میں بار بار آنسوں آتے ہیں۔۔۔ 

ایک طرف اسکا باپ ہے جو بار بار اسکی تکلیف کی وجہ بنتے ہیں اور دوسری طرف اسکا سگاہ بھائی جسے اپنی بہن سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔۔۔ اسکی بہن کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے اسے کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔۔۔ ایمل اسے تلخ باتیں سناتی سر جھٹک کے کمرے میں گھس گئی۔

پیچھے جزلان اسکی باتوں پہ ایک بار پھر شرمندہ ہو کے باہر کی جانب قدم بڑھا گیا۔

ایمل کمرے میں آئی تو اسے ایک دم خیال آیا کہ وہ جزلان سے بھی تو فون لے سکتی تھی۔۔۔ یقیناً تراب خان نے اسکا فون نہیں لیا ہوگا۔۔۔ مگر وہ بھی تو اپنے بابا کے ساتھ تھا وہ کیسے پھر اسکو رائد سے بات کرنے دے دیتا۔۔۔ مگر وہ اسے یہ بتائے بغیر بھی تو فون لے سکتی تھی۔۔۔ اور اسہی سوچ کے ساتھ ہی وہ فورن باہر کی جانب بھاگی مگر جب تک جزلان جا چکا تھا۔۔۔

وہ کہاں گیا تھا ۔۔۔ کب واپس آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ ایمل حویلی کے میں گیٹ تک دیکھ کے آئی تھی مگر جزلان نہیں تھا جس پہ وہ اداس ہوتی واپس اندر آگئی۔

۔🌺 🌺 🌺

نئے دن کا نیا سورج ہمیشہ کی طرح اپنی پوری شان کے ساتھ طلوع ہوا تھا مگر خان حویلی پہ افسردگی چائی ہوئی تھی۔۔۔۔ جب حویلی کی بیٹی اداس تھی تو پوری حویلی ہی اداس ہوگئی تھی۔

تراب خان کو چھوڑ کے رات کوئی بھی سکون سے نہیں سویا تھا۔۔۔ نور بیگم نے بہت بار تراب خان کو سمجھانے کی کوشش کی کے وہ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے اس طرح انکا بیٹا ان سے اور دور چلا جائے گا مگر وہ تو جیسے اپنی بات پہ باضد تھے۔۔ کچھ سنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

تراب خان اپنے جس دوست کے بیٹے سے نوال کا نکاح کروا رہے تھے اس کے بارے میں نور بیگم اچھے سے جانتی تھیں۔۔۔ وہ لوگ بہت بڑے زمیندار تھے۔۔۔ انکے گھر کا بھی یہی حساب تھا جو تراب خان نے اپنے گھر کا کیا ہوا تھا۔۔۔ وہ لوگ بھی عورت ذات کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔۔۔

اور لڑکا تو ہر بڑے کام میں ملوث تھا ۔۔۔ جس کا انہیں غم زیادہ تھا وہ اپنی بیٹی کی قسمت اپنی جیسی بلکل نہیں چاہتی تھی مگر اسکا باپ تو ہمیشہ کی طرح بےحس بنا ہوا تھا۔۔۔ جسے نا اپنی بیٹی کی خوشی کی کبھی پرواہ تھی نا اسکے آنسوں نظر آتے تھے  

ایمل نے بھی پوری رات جزلان کا انتظار کیا ۔۔۔ وہ اس سے فون لے کے رائد کو ملانا چاہتی تھی مگر رات سے صبح ہو گئی اور صبح سے اب دوپہر ہونے والی تھی مگر جزلان کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔

رات سے آئلہ ہر وقت نوال کے ساتھ ہی رہی تھی۔۔۔۔ پوری رات روتی ہوئی نوال کو چپ کرواتی رہیں مگر نوال کے آنسوں تھم نے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔ اسے ایک پل بھی چین نہیں مل رہا تھا ۔۔ یہ سوچ کے ہی اسکی جان نکلی جا رہی تھی کہ اسکا نکاح کسی اور کے ساتھ ہے ۔۔۔ اور ایک بار آگر اسکا نکاح ہو گیا تو وہ پھر ہمیشہ کے لیئے حسام کو کھو دے گی۔۔۔  

اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اسنے کیوں حسام کو یہاں آنے سے منا کیا اگر وہ اسے منا نا کرتی تو وہ ضرور دوبارہ اس سے ملنے آتا جس سے انکی مدد ہو جاتی۔۔۔ حسام کسی نا کسی طرح اس نکاح کو روک دیتا مگر اب تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

آج اسکا نکاح تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اسنے اس ملازم کا بھی پتہ کیا جسے حسام نے یہاں بھیجا تھا مگر وہ بھی کل ہی اپنے گاؤں گیا تھا۔۔۔

ایسا لگتا تھا جیسے سارے دروازے ایک ساتھ ہی بند ہو گئے ہیں مگر آئلہ اسے بار بار امید دلا رہی تھی کہ چاہے سارے دروازے ہی کیوں نا بند ہو جائے مگر اللہ ایک دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے جو بظاہر انسان کو نظر نہیں آتا ۔۔۔ اس لیئے اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

اب بھی سب ہی اسکے کمرے میں موجود تھے ۔۔۔ نور بیگم تو اپنی بیٹی کی حالت دیکھی کٹ سی گئیں تھیں ۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ بہت ضبط سے کام لیتی اسے سمبھال رہیں تھیں۔۔۔

ماما مجھے نہیں کرنا یہ نکاح ۔۔۔ پلیز آپ کچھ کریں۔۔۔ آنسوں سے تر پژمردہ چرہ اٹھاتی منت بھرے انداز میں بولی تو نور بیگم کی آنکھ سے آنسوں بہہ نکلے۔۔۔ ایک دن میں ہی انکی بیٹی کی حالت کیا سے کیا ہوگئی تھی۔

نوال میری بچی صبر کرنے کے علاؤہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ صبر سے کام لو ۔۔۔۔ نور بیگم اسکے پاس آتی نرمی سے اسکا چہرہ صاف کرتی اپنے ساتھ لگائیں ۔

جب دروازے پہ ہلکی سی دستک دیتے تراب خان اندر آئے۔

آدھا گھنٹے میں لڑکے والے اور نکاح خواہ آنے والے ہیں ۔۔۔ اسے یہ جوڑا اور زیور پہنا کے تیار کردو۔۔۔ دو بیگ صوفے پہ رکھتے سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھتے واپسی کے لیئے مڑے جب نوال تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتی انکے کمرے سے نکلنے سے پہلے انکا ہاتھ تھام گئی

بابا پلیز میرا نکاح وہاں نا کریں ۔۔۔ آپ جو بولیں گے میں وہ کروں گی مگر میرا نکاح کسی اور سے نا کروائیں ۔۔۔ 

اگر آپ کہیں گے تو حسام سے شادی کے بعد میں کبھی آپ کو اپنی شکل نہیں دیکھاوں گی مگر اتنا بڑا ظل+م نا کریں مجھ پہ۔۔۔۔ زار و قطار روتی انکا ہاتھ پکڑے نوال زمین پہ انکے پیروں کے پاس بیٹھی۔

اسکی حالت دیکھتے وہاں موجود سب کے ہی دل پھٹ رہے تھے لیکن اگر کسی کو فرق نہیں پڑھتا تھا تو وہ تھے تراب خان۔

نکواس بند کرو اپنی ۔۔۔ اور چپ چاپ تیار ہو جاؤ۔۔۔ اور ہاں اگر تم نے لڑکے والوں کے سامنے یا مولوی صاحب کے سامنے کچھ بھی الٹا سیدھا بولنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا سزا تمہاری ماں کو بھوگتنی پڑے گی۔۔۔ وہ درشتگی سے اسکی دکھتی رگ دباتے بولے تو نوال کا دل بند ہوا۔

وہ جانتے تھے نوال اپنی ماں سے کتنا پیار کرتی ہے اور آج انہوں نے اسہی چیز کا فائدہ اٹھا یا تھا۔۔۔

بابا پلیز۔۔۔ میں نے آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگا نا آگے کبھی مانگوں گی۔۔۔ چاہے آج آپ میری جان لے لیں مگر ایسا نا کریں ۔۔۔ وہ رو رہی تھی التجاہ کر رہی تھی مگر وہ کہاں کچھ سن رہے تھے۔

تم اس دنیا میں آتی ہی نہیں وہیں اچھا تھا۔۔۔اس دنیا میں آکے تو تم نے میری خاندان میں ناک کٹوا ہی دی ہے لیکن آج آگر تم نے مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندہ کیا تو میں وہ کروں گا جو تم یاد رکھو گی۔۔۔اسکے کان میں پھگلا ہوا سیسہ انڈیلتے وہ سفاکیت کی انتہا کرتے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے چھڑاتے کمرے سے نکل گئے۔۔

جب کے نوال کا وجود ایک دم ساکت ہو گیا تھا۔۔۔وہ کیا کہہ کے گئے تھے کہ وہ دنیا میں آتی ہی نہیں۔۔۔ اسکے دنیا میں آنے سے اسکے باپ کی ناک کٹ گئی تھی ۔۔۔ کیا اسکا وجود اتنا برا تھا۔۔۔ کیا اسکا وجود اتنا حقیر تھا کے اسکے باپ کو خاندان میں شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔۔۔

اسکا پہلے سے ٹوٹا ہوا دل اور بری طرح کرچی کرچی ہوگیا تھا۔۔۔ اسکا وجود ایک دم منجمد ہو گیا تھا ۔۔۔ اسکے حواس ساتھ دینا چھوڑ چکے تھے۔

تراب خان کے لفظوں نے سب کا ہی دل چیر کے رکھ دیا تھا۔۔۔ روتی ہوئی آئلہ منہ پہ ہاتھ رکھی اپنی سسکاریاں روک نور بیگم کو اپنے ساتھ لگائے ہوئے تھی ۔۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک باپ اپنی بیٹی کے لیئے اتنے سخت الفاظ استعمال کر سکتا ہے۔۔۔ اسے بہت افسوس ہو رہا تھا تراب خان پہ۔۔۔ جو اپنے گھر کی رحمت کو زحمت سمجھتے تھے۔

نوال ۔۔۔۔ ایمل نے آگے بڑھ کے بھیگی آواز میں اسے پکارتے سہا دے کے اٹھایا جس پہ وہ ہوش میں آتی ایک نظر اپنی ماں کو دیکھتی ایمل کے گلے لگے بری طرح رو دی۔

اسکے رونے پہ وہاں موجود ہر روتی ہوئی آنکھ اور تیزی سے برسنے لگی۔۔۔ ہر کوئی دل سے دعا کر رہا تھا کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور یہ نکاح رک جائے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

مہمان آچکے تھے ۔۔۔ جنہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا گیا تھا۔۔۔ 

تراب خان مہمانوں کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے جب انہوں نے ملازمہ کو بھیجا کہ وہ نور بیگم سے بولیں کے مہمان آچکے ہیں نوال کو لے کے آجائیں۔۔۔

انکے کہے کے مطابق ملازمہ نور بیگم کو بول آئی تھی اور اب پانچ منٹ بعد ہی نور بیگم آئلہ اور ایمل نوال کو لیئے نیچے آگئیں تھیں۔۔

اسنے نا زیور پہنا تھا نا ہی تراب خان کے دیئے ہوئے کپڑے بس اسنے اس سوٹ کا لال دوپٹہ اوپر لیا تھا جو اسے کفن کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔

جس سرخ جوڑے کو پہننے کے لیئے وہ بےچین تھی آج اسہی سرخ ڈوپٹے میں چہرہ چھپائے اسے اپنی قبر لگ رہی تھی۔۔۔ 

سب لوگ اپنی اپنی جگہ بےبس تھے ۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ سوائے آنسوں بہانے کے مگر نوال کی آنکهیں تو جیسے خوشک ہوگئیں تھی۔۔۔ چہرہ بےتاثر۔۔۔ وہ بلکل ایسے ہوگئی تھی جیسے کوئی زندہ لاش ہو۔۔۔ 

کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ اسے کہاں جانا ہے اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔ وہ تو بس اپنی ماں اور بھابھیوں کے ساتھ بےجان قدموں سے گھسیٹتی جا رہی تھی۔

وہ لوگ ڈرائنگ روم میں ابھی داخل ہی ہوئے تھے جب پیچھے سے جزلان کی آواز آئی جس پہ وہ سب ایک ساتھ پلٹے۔

کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔ وہ بہت ہی سخت لہجے میں پوچھا رہا تھا۔۔ ماتھے پہ بےتہاشہ بل ڈالے سامنے بیٹھے شخص کو گھورنے لگا۔۔۔ دیکھنے میں وہ کوئی بدماش لگتا تھا جو یقیناً دلہا تھا۔

ارے آؤ جزلان تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔ کتنے فون کیئے تمہیں مگر تم نے ایک کال بھی ریسیو نہیں کی ۔۔۔ خیر چھوڑو اور یہاں آکے ان سے ملو۔۔

یہ ہیں میرے دوست وقاص اور یہ انکا اکلوتا بیٹا عادل ۔۔۔۔ اور یہ عادل کی ماں ہیں۔۔۔ تراب خان نے جزلان کو دیکھتے سکون سے ان لوگوں کا تعارف کروایا۔

وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ لوگ ایسے یہاں کیوں آئے ہیں اور مولوی صاحب۔۔۔ اور یہ نوال کیوں اس طرح سے گھونگھٹ۔۔۔۔ اسے سمجھ نا آیا کہ وہ کیا پوچھے اس لیئے بات ادھوری ہی چھوڑی۔۔

نوال کا نکاح ہے آج عادل سے۔۔۔ اور تم لوگ وہاں کیوں کھڑے ہو اندر لاؤں نوال کو۔۔۔ جزلان کو بتاتے ڈرائنگ روم کی دھلیز پہ ان لوگوں کو کھڑے دیکھ بولے تو سب ایک بار امید سے جزلان کی جانب دیکھتے اندر قدم بڑھا گئے۔

نکاح کا سن کے جزلان چونک گیا تھا۔۔۔ اسنے بے ساختہ اپنی بہن کی جانب دیکھا جس کا گھنونگھٹ کے پیچھے مرجھایا ہوا چہرہ سوجھی آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ یہ نکاح زبردستی ہو رہا ہے۔۔۔

اسنے کسی کی بھی طرف نہیں دیکھا وہ بس نوال کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اسے امید بھری نظروں سے دیکھے۔۔۔ جیسے وہ رائد سے بات کرتی تھی۔۔۔ اسے اپنی ہر پریشانی بتاتی تھی اسکا دل بھی یہی چاہنے لگا تھا کہ وہ اسے بھی اپنی پریشانی بتائے مگر نوال تو بغیر اسکی جانب دیکھے آگے بڑھ گئی تھی۔

جزلان کے دل میں ایک دم درد اٹھا۔۔۔مطلب اسکی بہن کو اس پہ اتنا بھی یقین نہیں تھا کہ وہ اس سے مدد ہی مانگ لیتی اسے ایک بار  کہہ ہی دیتی کہ وہ یہ نکاح نہیں کرنا چاتی تو جزلان یہ نکاح کبھی نہیں ہونے دیا۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔ اسنے کچھ کہنا تو دور ایک نظر جزلان کو دیکھا بھی نہیں۔

اور وہ اپنی جگہ ٹھیک تھی جزلان نے کب اسکا ساتھ دیا تھا ۔۔۔ کب اس سے پیار سے بات ہی تھا۔۔۔ کب اپنے بھائی ہونے کا احساس دلایا تھا جو وہ اس سے کوئی امید لگاتی ۔

مگر جزلان تو بھائی تھا۔۔۔ اور نا جانے کیوں اسے اپنی بہن کا درد محسوس بھی ہو رہا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا صرف رائد ہی اسکا نکاح حسام سے کروانا نہیں چاہتا بلکے نوال خود بھی حسام سے نکاح کرنا چاہتی ہے وہ اس سے محبت کرتی ہے۔۔۔ وہ سن چکا تھا نور بیگم اور نوال کی باتیں ۔۔۔ اسے جب بھی دکھ ہوا تھا کہ وہ جزلان سے بات کرنے کی بجائے رائد سے بات کرنے کا کہہ رہی تھی لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی یاد تھا کہ اسنے تو کبھی بھائیوں جیسا کوئی پیار نوال کو دیکھایا ہی نہیں تھا تو پھر کیوں وہ اس سے بات کرنے کا کہتی۔۔۔

مگر اب تو وقت تھا نا کہ وہ اسکا بھائی بن کے اسکے لیئے کھڑا ہوتا۔۔۔ اسے اسکی محبت دلانے کے لیئے آواز اٹھاتا۔۔۔ اسکا یہ زبردستی کا نکاح روکتا۔۔۔ جب نا سہی مگر اب تو وہ اسکے لیئے کچھ کر سکتا تھا۔

رکو نوال۔۔۔ اس سے پہلے نوال کو وہ لوگ صوفے پہ بیٹھاتے جزلان لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس تک آیا۔

بابا نوال کی شادی طے ہو چکی ہے اور آپ اسکا نکاح کسی اور سے کرنے جا رہے ہیں۔۔۔ جزلان کے کہے گئے الفاظ پہ جہاں آئلہ ایمل نوار بیگم اور نوال کو یقین نہیں آیا تھا وہیں تراب خان بری طرح حیران ہوتے سیدھے ہوئے تھے۔

تراب یہ کیا کہہ رہا ہے تمہارا بیٹا۔۔۔ انکے دوست نے ناسمجھی سے تراب صاحب سے پوچھا۔۔۔ جب کے ان چار خواتین کو ایک امید کی کرن دیکھی تھی۔

جزلان تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ نوال کی شادی جہاں طے کی ہے وہ ہمارے دشمن۔۔۔ اس سے پہلے وہ آگے کچھ کہتے جزلان نے انکی بات کاٹی۔

نہیں بابا کوئی دشمن نہیں ہیں وہ۔۔۔ بس آپ نے ہی انہیں دشمن مانا ہوا ہے ورنا وہ لوگ بہت اچھے ہیں۔۔۔ جزلان کو حیدر شاہ کے حق میں بولتے دیکھ تراب خان کا پارہ ہائی ہوتا جا رہا تھا۔

آپ لوگ نوال کو لے کے کمرے میں جائیں۔۔۔ جزلان ایک نظر بےیقینی سے خود کو دیکھتی نوال کو دیکھ کے بولا۔۔۔ تو آئلہ جلدی سے نوال کو بازو سے تھامے باہر لے جانے لگی مگر اس سے پہلے ہی تراب خان کی گرج دار آواز آئی۔

کہیں نہیں جائے گی نوال۔۔۔ آج اسکا نکاح ہے اور یہ نکاح ہو کے رہے گا۔۔۔۔ تراب خان بےحد سختی سے بولے کو ایک پل کو نوال کانپ گئی۔

کوئی نکاح نہیں ہوگا یہاں پہ ۔۔۔ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔جزلان تراب خان کو دیکھتے لڑکے والوں سے بولا تو وہ لوگ غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

تراب تمہارے بیٹے نے تو ہماری دوستی کی بھی لاج نہیں رکھی۔۔۔ انکے دوست غصے سے بولے

انکل آگر آپ کی بیٹی کی شادی پہلے ہی طے ہوچکی تھی تو کیا ضرورت تھی ہمیں یو بلا کے بےعزت کرنے کی۔۔۔ ہم کوئی گرے پڑے لوگ نہیں ہیں جو آپ لوگوں نے یوں گھر بلا کے ہماری بےعزتی کی۔۔۔ اسکا حساب میں لے کے رہوں گا۔۔۔ چلیں ڈیڈ۔۔۔ وہ لڑکا درشتگی سے دھمکی دیتا گلے میں پہنا پھولوں کا ہار توڑتے ڈرائنگ روم سے نکل گیا ۔۔۔ اسکے پیچھے اسکے ماں باپ اور مولودی صاحب بھی باہر نکلے تو نوال کو جیسے سکون کا سانس آیا۔

یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ اسنے اپنی منحوسیت کا جادو تم پہ بھی چلا دیا۔۔۔ تمہیں بھی اپنی طرف کر لیا۔۔۔ 

پہلے ایک بیٹے کو تو میرے سامنے کھڑا کیا تھا مگر آج میرے دوسرے بیٹے کو بھی میرے سامنے کھڑا کر دیا۔۔۔ میرے خلاف کردیا۔۔۔ میں چھوڑوں گا نہیں اسے جان کے لوں گا میں اسکی۔۔۔ تراب خان ہوش کھوتے نوال پہ ہاتھ اٹھانے ہی والے تھے جب انکا اٹھتا ہوا ہاتھ جزلان نے روکا۔

بس بابا۔۔۔۔ اسنے کسی کو آپ سے دور نہیں کیا۔۔۔ بلکے ساری زندگی ہم نے اسے خود سے دور رکھا تھا۔۔ مگر کبھی اسنے کوئی شکایت نہیں کی۔۔۔ اور آج آگر زرا سا میں اسکے لیئے کھڑا ہوگیا تو آب اپنا آپا ہی کھو بیٹھے ہیں۔۔۔ انکا ہاتھ نیچے کرتے جزلان دانت جمائے سرد لہجے میں بولا جس پہ تراب خان نے سر جھٹکا۔

جزلان کی باتوں پہ جہاں نوال کی آنکھوں میں خوشی تیری تھی وہیں نور بیگم نم آنکھوں سے مسکرا دی تھیں ۔۔۔ کافی دیر سے ہی سہی مگر انکے بیٹے کو اپنی بہن کا خیال آہی گیا تھا یہی انکے لیئے کافی تھا

رائد کی طرح میرے سامنے یہ بیان چھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں جزلان خان۔۔۔

اور تم جتنی جلدی ہو سکے اسے چلتا کرو یہاں سے۔۔۔ کیونکہ میں اس منحوس کو اور اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ ایک بار پھر اپنے لفظوں کے نشتر چلاتے نور بیگم کو دو ٹوک لہجے میں کہتے ایک تیز نظر نوال پہ ڈال کے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔

آپ لوگ نوال کو کمرے میں لے جائیں۔۔۔ میں انہیں دیکھتا ہوں۔۔۔ جزلان سر جھکائے آنسوں بہاتی نوال کو ایک نظریں دیکھتا ان سب پہ نظریں دوڑاتا تراب خان کے پیچھے باہر نکلا

میری بچی رو کیوں رہی ہو۔۔۔ اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے نا۔۔۔ نور بیگم نے آگے بڑھ کے اسکا گھونکھٹ اٹھاتے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھاما۔

ماما بابا مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔۔۔ میں اس دنیا میں آئی اس میں میری کیا غلطی ہے ۔۔۔ بھیگی آنکھوں سے بھاری ہوتی آواز کے ساتھ معصوم سا سوال پوچھا تو نور بیگم ضبط کرتی ڈھیروں آنسوں اپنے اندر اتار گئیں۔

اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے نوال۔۔۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں بیٹیوں کی قدر نہیں ہے ۔۔۔ جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے نوازہ ہوتا ہے مگر وہ اسکی رحمت کی ناشکری کرتے ہیں۔۔۔ اور یقین مانوں ایسے لوگ بہت بدقسمت ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیوں کا دل دکھاتے ہیں۔۔۔جب کے بیٹی تو گھر کی رونق ہوتی ہے۔۔۔ آئلہ نے پیار سے کہا تو وہ گہری سانس بھر کے نم آنکھوں سے اسے دیکھ گئی۔

نوال تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے کے تمہیں تمہارا دوسرا بھائی بھی مل گیا ہے۔۔۔ اور رہے تایا ابو تو آگر اللہ نے چاہا تو وہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔ ایمل نے مسکراتے ہوئے سمجھایا جس پہ وہ پھیکا سا مسکرادی۔

کسی کو بھی ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ جزلان اپنی بہن کے لیئے کھڑا ہوا تھا۔۔۔ ایمل کو تو اس پہ شک ہو رہا تھا کہ ضرور اسنے اپنے مطلب کے لیئے ہی یہ سب کیا ہوگا ورنا وہ اتنا اچھا نہیں تھا کہ بہن کی محبت ایک دم سے اسکے دل میں جاگ جاتی۔۔

مگر ابھی وہ یہ ساری باتیں نہیں سوچنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ خوش تھی کہ بھلے جیسے بھی سہی لیکن نوال کا نکاح تو رک گیا تھا۔۔۔ اب سب پرسکون ہوگئے تھے۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کے دس بج رہے تھے اور ایمل ابھی نوال کے کمرے سے اسکے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اب اپنے کمرے میں آئی تھی۔

کمرے میں داخل ہوئی تو اسکی نظر ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے بیڈ پہ بیٹھے جزلان پہ گئی۔

دروازہ بند کرتی وہ سیدھی اسکی جانب آئی اور دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اسکے سامنے کھڑی ہوتی جانچتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

جزلان جو لیپ ٹاپ گود میں رکھے اس میں کچھ دینے میں مصروف تھا ایمل کی موجودگی محسوس کرتے اسنے نظریں اٹھا کے دیکھا تو ایمل کو خود کی طرف ہی تکتے پایا۔

اسنے ایک ائبرو اچکائی (جیسے پوچھ رہا ہو کیا ہوا)

آج جو تم نے نوال کے لیئے کیا ۔۔ اس کے پیچھے کیا مقصد تھا تمہارا۔۔۔ ایمل نے آنکھیں چھوٹی کیئے چبھتے ہوئے لہجے میں استفسار کیا

مجھے پتہ ہے اس طرح سے اچانک میرا نوال کی طرف داری کرنا اسکے لیئے بابا سے لڑنا تمہیں شک میں مبتلا کر رہا ہے۔۔۔ لیکن میرا یقین کرو میں نے یہ سب اپنے کسی مقصد کے لیئے نہیں کیا۔۔۔ 

جیسے اب تک رائد نوال کی ڈھال بنتا رہا تھا جس طرح نوال رائد کے قریب ہورہی تھی مجھے برا لگ رہا تھا وہ میری بہن ہے۔۔۔۔مگر مجھ سے کچھ نہیں کہتی تھی اور وہ کہتی بھی کیسے میں نے کون سا کبھی اسے اہمیت دی تھی جو وہ کچھ کہتی۔

مگر مجھے اچھا نہیں لگتا تھا نوال کا یوں رائد کو اہمیت دینا ۔۔۔ اور آج جب رائد نہیں تھا تو نوال کتنی اکیلی ہو گئی تھی ۔۔۔ مگر صرف رائد ہی تو اسکا بھائی نہیں ہے میں بھی ہوں مجھے بھی اپنا فرض نبھانا چاہیئے بس میں نے وہی فرض نبھایا ہے۔۔۔۔ جزلان نے زرا سے کندھے اچکا کے اسے تفصیل سے آگاہ کیا جس پہ ایمل نے داد دیتی نظروں سے اسے دیکھا۔

تمہاری اسپیچ اچھی تھی مگر میں پھر بھی متاثر نہیں ہوئی۔۔۔ ایمل نے مزاق اڑاتے لہجے میں کہا جس پہ جزلان لیپ ٹاپ سائڈ پہ رکھتا اسکے سامنے کھڑا ہوا۔

تم میری بات کا یقین نہیں کرو گی مگر یہ سچ ہے ۔۔۔ سب نے ملکے مجھے جو حقیقت کا آئینہ دیکھایا ہے نا ۔۔۔ اس میں مجھے اپنا وجود بہت کندا دکھا ہے جسے میں صاف کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔ جزلان دھیمے لہجے میں بولا تو ایمل کے لبوں پہ استہزا مسکراہٹ آگئی۔

کوئی آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگلتا جزلان خان۔۔۔ تم نے اتنا سب کچھ کیا ہے کہ اب تمہاری بات پہ یقین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی مجھے یقین کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کون سا میں ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنے والی ہوں ۔۔۔ چند دن کی بات ہے پھر مجھے تم سے خلع لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔۔۔ خود تم بھی نہیں۔۔۔ ایمل مسکراتے لہجے میں کہتی پھر سے خلع کی بات کر کے جزلان کو غصہ دلا گئی تھی۔

ایمل میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہ رہا ہوں دوبارہ میرے سامنے خلع کی بات مت کرنا ورنا میری برداشت جواب دے جائے گی۔۔. جزلان انگلی اٹھاتا سختی سے وارن کر رہا تھا جس پہ ایمل نے سر جھٹکا۔

برداشت تو اب میری جواب دے گئی ہے۔۔۔ مجھ سے پوچھو کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے بابا کے قا+تل کے ساتھ رہنا۔۔۔ ایمل اسکی غصے سے سرخ آنکھوں میں اپنی سیاہ سرد انہیں گاڑے ایک ایک لفظ چبا کے بولی تو جزلان اسے کمر سے تھام کے اپنے ساتھ لگا گیا۔

چھوڑو مجھے۔۔۔ اسکے ساتھ لگانے پہ وہ کمر سے اسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتی غرائی۔

ایمل پلیز میری بات سن لو ایک بار۔۔۔ جزلان نے بےچارگی سے کہا مگر ایمل کچھ بھی سنے کے موڈ میں نہیں تھی۔

جزلان مجھے چھوڑو ورنا اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے ایمل دھمکی آمیز لہجے میں بولی تو وہ ایک دم اسکے چہرے پہ جھکتا اسکے لبوں کو اپنی دسترس میں لے چکا تھا۔۔۔ اسکے انداز میں بلا کی شدت تھی۔

ایمل اسکی باہوں میں پڑپڑاتی اپنا پورا زور لگاتے خود سے دور کرنا چاہتا مگر جزلان اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا انہیں کمر کے پیچھے باندھ چکا تھا جس سے ایمل پوری طرح اسکی باہوں میں بےبس ہوچکی تھی۔

کافی دیر بعد جب وہ پیچھے نا ہوا تو ایمل کو لگا آگر اسنے اب اسے نا چھوڑا تو اسکا سانس بند جائے گا ۔۔۔

اسکی مدہم سانسوں کو محسوس کرتے جزلان نرمی سے پیچھے ہوا جس پہ ایمل لمبے لمبے سانس لیتی بےاختیار اسکے سینے پہ سر ٹکا گئی۔۔۔ جس پہ جزلان نے مسکراتے ہوئے اسکے کمر پہ بندھے ہاتھ چھوڑتے دھیرے دھیرے اسکا سر سہلانا شروع کیا۔

تھوڑی دیر بعد جب ایمل کی سانسیں نارمل ہوئی تو وہ اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر ایک جھٹکے سے اسکو دھکا دے گئی ۔

اس حملے کی توقع جزلان کو بلکل نہیں تھی تبھی وہ پیچھے بیڈ پہ گرا تھا۔

جزلان خان میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو تمہاری تھوڑی سی قربت سے بہک جاتی ہیں ۔۔۔ جو تمہارا خوبرو چہرہ دیکھتی اس پہ فدا ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ میں ان میں سے بلکل نہیں ہوں ۔۔۔ میں نے تمہارے اس خوبرو چہرے کے پیچھے چھپا مکروہ چہرہ دیکھا ہے اس لیئے میرے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے سے پہلے سو بار سوچنا۔۔۔ ایمل آنکھوں میں شعلے لیئے چیخ کے کہتی واشروم میں بند ہوگئی۔

پیچھے جزلان اسکے سخت لفظوں پہ بےبسی سے سر تھام گیا۔۔۔ 

وہ اسکی نظروں میں اتنا گر چکا تھا کہ اب شاید ہی کبھی اٹھ پاتا۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ایمل کے دل میں جگہ بنانے کی ۔۔۔ لیکن یہ تو اب وقت نے بتانا تھا کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔

 🌺 🌺 🌺۔

(کچھ دن بعد)

چار دن بعد رائد واپس حویلی لوٹا تو حویلی میں ایک دم خاموشی تھی۔۔۔ ملازم خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔۔۔ باقی گھر کا کوئی بھی فرد وہاں موجود نا تھا۔

جس دن وہ حادثہ ہوا تھا اس دن کے بعد سے ہی حویلی میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔۔۔ اگلے دن ہی جزلان نے واصف سے کہہ کے ان سب کے فون واپس دلوا دیئے تھے جس پہ بھی تراب خان نے اچھا خاصا​ غصہ کیا تھا لیکن رائد نے انکی باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔۔۔مگر اب تراب خان صبح جلدی چلے جاتے تو دیر رات تک واپس لوٹتے ۔۔۔ جزلان بھی آج کل گھر میں کم ہی موجود رہتا تھا۔۔۔ اور گھر کی عورتیں کبھی شوپنگ پہ چلی جاتیں تو کبھی اپنے اپنے کمروں میں رہتیں تھیں۔

ہاتھ میں بیگ پکڑے رائد سیدھا اپنے کمرے میں آیا ۔۔۔ اسنے دروازہ کھولا تو کمرہ خالی تھا۔۔۔ مگر واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔

بیگ صوفے پہ رکھتے خود بھی صوفے پہ بیٹھتا جوتے اتارنے لگا۔۔۔۔ جوتے اتار کے وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گیا۔

وہ ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا جب تقریباً دس منٹ بعد آئلہ گیلے بالوں میں تولیہ لپیٹتی باہر آئی۔

ارے آپ آگئے۔۔۔ صوفے پہ آنکھیں بند کیئے بیٹھے رائد کو دیکھتی خوشی سے بولی تو اسکی آواز پہ رائد نے آنکھیں کھولیں۔

کیسی ہو۔۔۔ رائد صوفے سے اٹھتا نظریں اسکے دوپٹے سے بےنیاز سراپہ پہ جمائے اسکے پاس آتے اسکے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھو گیا۔

ہم ٹھیک ہیں مگر آپ ہمیں کافی تھکے تھکے لگ رہے ہیں۔۔۔ آئلہ اسکی ہلکی ڈارھی میں انگلیاں چلاتی مسکرا کے پوچھنے لگی۔

تھکنا تو تھا ہی نا ۔۔۔ اتنے دن تم جو ساتھ نہیں تھیں تھکن اتارنے کے لیئے۔۔۔ رائد اسکے گرد حصار بناتا اسکے گال پہ اپنے لب رکھ گیا۔

آپ آتے ہی شروع ہوگئے۔۔۔ گال سے سرکتے اسکے لب گردن تک آرہے تھے جب آئلہ اپنا چہرہ تھوڑا پیچھے کرتی اسے دیکھ کے بولی۔

یار تمہیں میں تھکا ہوا لگ رہا تھا نا اب اپنی تھکن اتار رہا ہوں تو بھی تمہیں مسئلہ ہو رہا ہے۔۔. رائد زرا خفگی سے بولا تو آئلہ کھلکھلا اٹھی

جاگیردار رائد خان پہلے فریش ہوجائے پھر آرام سے اپنی تھکن اتارتے رہے گا۔۔۔ آئلہ دونوں ہاتھ اسکے چہرے پہ رکھتی بولی تو وہ اسکا وہی ہاتھ پکڑتے لبوں سے لگا گیا۔

میں ایک دم فریش ہوں۔۔۔ رائد جلدی سے کہتا اسکے لبوں پہ جھکنے لگا جب آئلہ پھرتی سے اسکے لبوں پہ ہاتھ رکھ گئی۔

آگر آپ فریش ہیں تو پھر تھکے ہوئے کیسے ہوئے۔۔۔ آئلہ سوچنے والے انداز میں بولی۔۔۔ تو رائد نے اسے گھورا۔

جاناں وقت ضائع نا کرو میرا۔۔۔ رائد دھیرے سے اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹاتا اسکے لبوں پہ جھک گیا۔۔۔ جس پہ آئلہ بھی سکون سے آنکھیں بند کرتی اسکی گردن میں بائیں ڈال گئی۔

ایک ہاتھ اسکی گردن سے لے جاکے رائد نے اسکے بالوں میں لپٹی تولیہ کو کھولا جس سے  اسکے سلکی بال کسی آبشار کی طرح اسکی پشت پہ بہہ گئے جس میں رائد اپنا ہاتھ الجھا گیا۔

اتنے دنوں کی بےصبری بےقراری اسکے لبوں پہ اتارتے رائد بلکل مدہوش ہو چکا تھا جب ایک دم دروازہ بجا جس سے وہ دونوں ہی ہوش میں آئے۔

چھوڑوں گا نہیں یہ جو بھی اتنے غلط وقت پہ آیا ہے۔۔۔ رائد غصے سے جبڑے بھیجے دروازہ کے جانب بڑھا۔۔ اتنے میں آئلہ بیڈ پہ رکھا اپنا دوپٹہ اٹھاتی خود پہ پھیلا گئی۔

رائد نے دروازہ کھولا تو سامنے ملازمہ کھڑی تھی۔۔۔ جس پہ وہ سختی سے پوچھنے لگا۔

کیا کام ہے۔۔۔

وہ بڑے خان بڑی بی بی کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہی ہیں نوال بی بی پھر سے کھانا نہیں کھا رہیں ۔۔۔ ملازمہ اسکے غصے کو دیکھتی ڈر کے جلدی جلدی بولی تو رائد اچھا کہتا دروازہ بند کر گیا۔

کون تھا۔۔۔ آئلہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بالوں میں کنگھا کرتے ہوئے شیشے سے رائد کو دیکھ کے پوچھنے لگی۔

ماما تمہیں بلا رہی ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہی ہیں نوال کھانا نہیں کھا رہی۔۔۔ کچھ ہوا ہے کیا حویلی میں۔۔۔ رائد اسکے پیچھے کھڑے ہوتا الجھ کے پوچھنے لگا۔

ن نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔ آئلہ نے مسکراتے ہوئے انکار کیا۔۔۔ وہ رائد کو بتا کے دوبارہ حویلی میں کوئی ہنگامہ نہیں چاہتی تھی۔

جاناں باتیں چھپا رہی ہو مجھ سے۔۔۔ رائد ہاتھ بندھے اسکے پیچھے کھڑا سنجیدگی سے بولا تو آئلہ کنگھا ڈریسنگ پہ رکھتی اسکی جانب پلٹی

وہ آپ جب چلے گئے تھے تو اس دن۔۔۔۔ آئلہ اسے ساری بات بتاتی چلی گئی۔۔۔ دو دن میں جو کچھ ہوا وہ سب اسنے رائد کو بتا دیا۔۔۔ جسے سن کے رائد کا چہرہ غصے سے سرخ پڑا ماتھے کی رگیں پھولیں۔۔۔ جبڑے بھیجے لمبے لمبے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔

رائد رکیں کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ جلدی سے دوپٹہ سر پہ ڈالتی آئلہ کھلے بالوں سمیت اسکے پیچھے کمرے سے نکلی۔۔۔ اتنے میں رائد نوال کے کمرے میں پہنچ چکا تھا۔

بابا کہاں ہیں۔۔۔ دروازہ کھول کے سیدھے نوال کے کمرے میں داخل ہوتے نور بیگم کو دیکھتے ضبط سے پوچھنے لگا جس پہ وہ گھبرا کے اسکی جانب متوجہ ہوئیں.۔۔ رائد کے سرخ چہرے سے اسکے غصے کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کتنے غصے میں ہے۔

بھائی آپ کب آئے۔۔۔ نوال اسے دیکھتی فورن آنکھوں کی نمی صاف کرتی کھڑی ہوئی۔

وہ نارمل تو ہوگئی تھی مگر تراب خان کی باتیں اب تک اسکے دماغ میں گردش کر رہیں تھیں جس وجہ سے وہ کبھی کبھی بہت بری طرح سے دکھی ہو جاتی تھی۔

ماما،،، بابا کہاں ہیں۔۔۔ نوال کی بات کو نظر انداز کرتے رائد نے مٹھیاں بھیجے اپنا سوال دھرا گیا۔

پتہ نہیں بیٹا۔۔۔ انکے آنے جانے کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔ نور بیگم اسکے غصے کو دیکھتی ایک نظر دروازے میں پریشان کھڑی آئلہ کو دیکھتی پریشانی سے بولیں۔

آپ لوگ اپنا ضروری سامنے پیک کرلیں ۔۔۔ ہم ابھی شہر جا رہے ہیں۔۔۔ جب تک نوال کی شادی نہیں جو جاتی ہم شہر میں میرے گھر پہ ہی رہیں گے۔۔۔ رائد دو ٹوک انداز میں کہتا واپسی کے لیئے مڑا۔۔۔۔ اسنے چند ہی منٹوں میں یہ فیصلہ کر کے سب کو پریشان کر دیا تھا۔

اس طرح جلد بازی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔ آئلہ نے سمجھانا چاہا۔

میں کہہ چکا ہوں اور اب اپنی بات کو دوبارہ نہیں دھراؤں گا پندرہ منٹ میں ضروری سامان پیک کرلیں۔۔۔ رائد اپنی بات پہ زور دیتا کمرے سے نکلا جب آئلہ بھی اسکے پیچھے ہی کمرے سے باہر نکلی

اور ہاں ایمل سے بھی پوچھ لو آگر وہ ہمارے ساتھ چل رہی ہے تو اسے بھی کہوں سامان پیک کر لے۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے رائد اپنے پیچھے آتی آئلہ سے بولا ۔

وہ سب جا رہے تھے تو وہ ایمل کو کیسے یہاں اکیلے چھوڑ سکتا تھا۔۔۔ 

مگر اس طرح سے حویلی چھوڑ کے جانے کی کیا ضرورت ہے ہم۔۔۔

جاناں سنائی نہیں دیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے کیا کہا ہے۔۔۔ رائد بےحد سختی سے بولا تو وہ اسکے غصے کو دیکھتی جی کہتی ایمل کو بتانے چلی گئی۔

آئلہ نے آ کے رائد کے فیصلے کے بارے میں ایمل کو بتایا تو ایمل خوش ہوگئی کہ اسے اب جلد ہی جزلان سے چھٹکارا مل جائے گا وہ اس سے جلد ہی بات کر لے گی مگر یہ سہی وقت نہیں تھا وہ پہلے ہی نوال کی وجہ سے پریشان تھا اور وہ اپنی وجہ سے اسے اور پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیئے اسنے نوال کی شادی کے بعد ہی رائد سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔ جب کے وہاں ابھی انل لگوںو کے ساتھ جارہی تھی۔

ٹھیک آدھا گھنٹے بعد رائد ان چاروں کو لیئے شہر کی جانب روانہ ہوگیا تھا۔۔۔ اس بیچ رائد سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔ کیونکہ اس وقت وہ جتنے غصے میں تھا اس میں کسی کی بھی نہیں سن رہا تھا بلکے الٹا سب پہ غصہ ہی کر رہا تھا۔۔۔ تبھی کسی نے اسے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔

شاہدہ۔۔۔۔ تراب خان حویلی آئے تو حویلی کو خالی دیکھتے ملازمہ کو پکارہ۔

جی خان صاحب۔۔۔ ملازمہ ادب سے ہاتھ باندھے اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔

نور کہاں ہے۔۔۔ سنجیدگی سے استفسار کیا۔

جی وہ تو بڑے خان کے ساتھ چلی گئی ہیں۔۔۔ صرف وہی نہیں سب ہی لوگ گئے ہیں۔۔۔۔ ملازمہ سر جھکائے بتانے لگی۔

ہممم تو رائد واپس آگیا اور یقیناً​ اسے سب پتہ بھی چل گیا ہوگا۔۔۔۔ تراب خان نے خود کلامی کی۔

کہاں گئے ہیں۔۔۔ کچھ بنا کے نہیں گئے۔۔۔ تراب خان نے پھر سے پوچھا۔

نہیں جی وہ لوگ بتا کے نہیں گئے۔۔۔ بس یہ کہہ کے گئے ہیں کے نوال بی بی کی شادی کے بعد واپس آئیں گے۔۔۔ ملازمہ نے اپنی جان کاری کے لحاظ سے آگاہ کیا۔

اچھا ہی ہے اس مصیبت کو لے کے چلے گئے۔۔۔ ورنا میری آنکھوں کے سامنے رہتی تو میرا خو+ن جلتا رہتا۔۔۔ وہ سر جھٹکتے بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی تراب خان کو اپنے کمرے میں گئے ہوئے جب رائد حویلی میں داخل ہوا۔۔۔

آج کا پورا دن ہی وہ باہر میٹنگ اور جلسوں میں گزار کے آیا تھا۔۔۔ اب تھکا ہارا کمرے میں داخل ہوا تو خالی کمرہ منہ چڑا رہا تھا۔

وہ جب بھی کمرے میں آتا تھا ایمل کمرے میں موجود نہیں ہوتی تھی ۔۔۔ زیادہ طر وہ نوال کے کمرے میں اسکے ساتھ ہوتی تھی اب بھی وہ یہی سمجھا کہ ایمل نوال کے کمرے میں ہوگی اس لیئے کمرے میں آتے جوتوں سمیت ہی آڑھا ترچھا بیڈ پہ لیٹ کے ایمل کا انتظام کرنے لگا۔۔۔

دس منٹ بیس منٹ یہاں تک کے آدھا گھنٹہ گزر گیا مگر ایمل کمرے میں نا آئی نا ہی باہر سے کسی طرح کی کوئی آواز آرہی تھی۔۔۔ 

اسنے سوچا جب تک ایمل نہیں آتی تب تک فریش ہی ہوجائے ۔۔۔اس لیئے وہ بیڈ سے اٹھتا اپنے کپڑے نکالنے کے لیئے الماری کی جانب بڑھا۔۔۔ ابھی اسنے الماری کھولی ہی تھی کہ اسے الماری کے اندر کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔

مگر سمجھ آنے پہ وہ ایک دم چونک اٹھا۔۔۔ وہاں ایمل کے صرف کچھ ہی کپڑے رکھے تھے باقی کپڑے موجود نہیں تھے نا ہی وہاں بڑا بیگ موجود تھا۔

اسے لگا ایمل اسے چھوڑ کے چلی گئی ہے۔۔۔ بغیر بتائے اس سے دور کہیں جا کے چھپ گئی ہے۔۔۔ وہ بغیر سوچے سمجھے الماری کھلی ہی چھوڑے باہر کی جانب بھاگا۔

وہ اپنے دل کو ایک تسلی دیتا کہ ہو کہیں نہیں گئی ہوگی نوال کے کمرے میں ہی ہوگی اس لیئے سب سے پہلے اوپر نوال کے کمرے میں آیا تھا ۔۔۔ مگر کمرا تو نوال کا بھی خالی تھا۔

ایک بار پھر سن دماغ کے ساتھ وہ آئلہ کے کمرے کی جانب بڑھا مگر انکا کمرا لاک تھا۔۔۔۔ جس پہ اسنے زور زور سے دستک دی مگر کوئی ہوتا تو دروازہ کھلتا نا۔

ماما کہاں ہیں آپ۔۔۔ وہ نور بیگم کو آوازیں دیتا تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا جب کچن سے ملازمہ نکل کے آئی

چھوٹے خان حویلی میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔اسے  نیچے آتے دیکھ ملازمہ نے ادب سے بتایا۔

کیوں کہاں گئے ہیں سب۔۔۔ جزلان نے بےچینی سے تفتیش کی۔

وہ بڑے خان آئے تھے اور سب کو اپنے ساتھ لے گئے۔۔۔ اور کہہ کے گئے تھے کہ اب وہ لوگ نوال بی بی کی شادی کے بعد ہی واپس حویلی آئیں گے۔۔۔ ملازمہ کے بتانے پہ اسنے سکون کا سانس بھرا کے شکر ہے جیسا وہ سوچ رہا تھا ویسا کچھ نہیں ہے۔ 

اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے تھوڑی دیر وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اس شاندار سے سفید محل کے سامنے موجود تھا۔۔۔۔بےحد خوبصورت وہ بنگلہ سارے بنگلوں میں سب سے نمایا تھا۔

گیٹ پہ دو گارڈز کھڑے تھے جو جزلان کو جانتے تھے اس لیئے اسے دیکھتے ہی انہوں نے دروازہ کھول دیا تھا۔

جزلان گاڑی پورچ میں کھڑی کرتا اندر داخل ہوا۔۔۔ وہ پہلی بار یہاں آیا تھا ۔۔۔ اور اس بنگلے کی خوبصورتی دیکھتے یہاں کی ہر ایک قیمتی چیز دیکھتے وہ رائد کی پسند سے متاثر ہوا تھا۔

ایمل۔۔۔۔ لاؤنچ میں کھڑے ہوتے وہ چاروں اطراف نظریں گھماتا ایمل کو پکار رہا تھا جب بائیں جانب بنے کمرے سے ایمل نکل کے آئی۔

یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔ جزلان کو دیکھتے وہ بلکل بھی حیران نہیں ہوئی تھی کیونکہ اسے پہلے ہی پورا یقین تھا کہ وہ یہاں ضرور آئے گا۔

کس سے پوچھ کے یہاں آئی ہو۔۔۔ اسکی بات اگنور کرتے جزلان نے سخت لہجے میں استفسار کیا۔

میں تمہاری کوئی ملازم نہیں ہوں جو تم سے پوچھ کے آؤ گی جاؤ گی۔۔۔ ایمل بےزاریت سے بولی۔

سہی کہا ملازم نہیں بیوی ہو اور بیوی کو شوہر کی اجازت لینی چاہیے۔۔۔ کیا تم نے میری اجازت لی تھی یہاں آنے سے پہلے۔۔۔ وہ رعب دار آواز میں تھوڑا اونچا بولا کے اسکی آواز سنتے سب لوگ جو اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے باہر آگئے۔

میرے گھر میں کھڑے ہو کے اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت میرے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے جزلان خان۔۔۔ سیڑھیاں اترتے رائد اسے گھور کے بولا جس پہ جزلان طنزیہ مسکرایا۔

آئلہ ڈوپٹے سے نقاب کیئے ایمل کے ساتھ آکے کھڑی ہوئی۔۔۔ جب کے انکی آوازیں سن کے نور بیگم اور نوال بھی اپنے کمرے سے نکل آئیں تھیں۔

آؤ آؤ تمہاری ہی کمی تھی۔۔۔ کس کی اجازت سے تم میری بیوی کو یہاں لائے ہو۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے سنجیدگی سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔

یہ صرف تمہاری بیوی نہیں ہے یہ میری بھی کچھ لگتی ہے۔۔۔ رائد اسکے سامنے کھڑا ہوتا اسہی کے انداز میں بولا۔

ہاں بھئی تمہیں تو آج کل ویسے ہی کافی شوق چڑھا ہوا ہے بھائی گری دیکھانے کا ۔۔۔۔ وہ آنکھیں گھما کے بولا تو رائد ہلکا سا مسکرایا۔

تمہیں بھی تو چڑا تھا اچانک سے یہ شوق بھول گئے کیا۔۔۔ رائد نے بغیر نام لیئے اس دن کا حوالہ دیا جب اسنے نوال کا نکاح رکوایا تھا

ہاں تو تم کیوں جل رہے ہو۔۔۔ جزلان نے بھویں سکیڑیں کہا۔

اففف ہو جزلان خان اتنی خوش فہمی کے میں  سے جلوں گا۔۔۔ رائد اسے چڑاتے ہوئے بولا جس پہ جزلان نے لب بھیجے۔

دیکھو۔۔۔۔۔

تم دیکھو۔۔۔یہ میری بہن ہے اور میری بہن یہاں سے کہیں نہیں جائے گی آگر تمہیں یہاں رہنا ہے تو رہ سکتے ہو۔۔۔ اور آگر نہیں رہنا تو دروازہ کھلا ہے صرف تم جا سکتے ہو مگر ایمل یہاں سے کہیں نہیں جائے گی سمجھے۔۔۔ رائد دوٹوک لہجے میں بولا جس پہ جزلان نے ہلکے سے کندھے اچکائے۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے اپنی بہن سے کہو میرے لیئے کھانا لگائے۔۔۔ اور میں اپنے کپڑے لے کے نہیں آیا اس لیئے مجھے کچھ کمفرٹیبل سا دو جسے پہن کے میں سکون سے سو سکوں۔۔۔ وہ حکم صادر کرتا لاؤنچ میں رکھے صوفے پہ سکون سے دونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھ گیا۔

جزلان کے اتنے پرسکون رویہ پہ سب کے چہرے پہ حیرت ابھری ۔۔۔ وہ لوگ تو سمجھ رہے تھے کہ جزلان آئے گا اور زبردستی ایمل کو اپنے ساتھ لے کے جانے کی ضد کرے گا لیکن خود کبھی یہاں نہیں رکے گا مگر وہ تو ایک بار میں ہی مان گیا تھا۔۔۔ 

اور جزلان کا یہ روپ سب کے لیئے نئا اور خوشگوار تھا سوائے ایمل کے جسے جزلان کا یہاں رکنا بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ چلو کچھ دن جزلان سے دور سکون سے رہے گی مگر وہ تو یہاں بھی آگیا تھا۔

ایمل کھانا لگواؤ جزلان کے لیئے۔۔۔ رائد ایمل سے کہتا آئلہ کو آنے کا اشارہ کرتا واپس اوپر بڑھ گیا۔۔۔ جس پہ ایمل کو نا چاہتے ہوئے بھی کچن کی جانب جانا پڑھا۔

جزلان سے بات کر کے رائد کو کافی اچھا لگا تھا۔۔۔ اتنے سالوں بعد وہ اس سے بات کر رہا تھا ۔۔۔ اسے خوشی ہوئی تھی کہ جزلان اب سدھرتا جارہا ہے۔۔۔ اپنوں کے لیئے آگے بڑھ کے بول رہا تھا۔۔۔ ان کے ساتھ اب مل جھل کے رہ رہا ہے۔۔۔ یہ بہت اچھا احساس تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

بالکونی میں گرل پہ ہاتھ رکھے رائد آسمان کو تک رہا تھا جب آئلہ اسکے ساتھ آکے کھڑی ہوئی۔

کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔ اسکے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ دیکھتی دھیرے سے بولی۔

جزلان کتنا بدل گیا ہے۔۔. پہلے وہ بلکل اپنے بابا کی طرح ہوتا تھا مگر آج جس طرح سے اسنے مجھ سے بات کی۔۔۔ جس طرح سے وہ اس دن نوال کے لیئے کھڑا ہوا ۔۔۔جس طرح وہ ایمل کو امپورٹنس دینے لگا ہے ۔۔۔۔۔

مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ وہیں جزلان ہے جسے کسی سے کوئی سر و کار نہیں ہوتا تھا۔۔۔ جسے ہر جگہ صرف اپنا مطلب دیکھتا تھا اور اب وہ خود کے علاوہ بھی کسی اور کا سوچ رہا ہے۔۔۔ یہ واقعہ بہت خوشی کی بات ہے۔۔۔ رائد مسرور بھرے لہجے میں کہتا گہرا مسکرایا۔

ہمم جس طرح اللہ نے مجھے آپکی زندگی میں آپکو سیدھا راستہ دیکھانے بھیجا ہے ویسے ہی شاید ایمل بھی جزلان بھائی کی زندگی میں سدھار لانے آئی ہے۔۔۔ آئلہ نے اسکے کندھے پہ سر رکھا جس پہ وہ اسکے گرد اپنا حصار بنا گیا۔

ماما اور نور  ماما بھی تو اچھی تھی پھر پتہ نہیں کیوں وہ لوگ بابا کو نہیں بدل پائیں۔۔۔ رائد گہری سانس بھر کے بولا۔

گناہوں سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور جب دل پورا سیاہ ہوجائے تو پھر ضمیر بھی گہری نیند سو جاتا ہے جسے پھر کتنا بھی جھنجھوڑ لو اسے پھر اٹھایا نہیں جا سکتا۔۔۔ 

بابا کا ضمیر پوری طرح سو چکا ہے اور اب شاید ضمیر کے جاگنے کا وقت بھی نکل چکا ہے ۔۔۔ آئلہ نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولی ۔

آج آگر میری ماما اور بہن ہوتیں تو انکے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہوتا جو ماما اور نوال کے ساتھ وہ رہا ہے۔۔۔

مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب میں نوال کی آنکھوں میں آنسوں دیکھتا ہوں۔۔۔ اسکے چہرے کی اداسی مجھے بےچین کر دیتی ہے ایسا لگتا ہے میں اپنی ماما سے کیا وعدہ نبھا نہیں پا رہا۔۔۔ اسے خوشی نہیں دے پا رہا۔۔۔ 

وہ جب جب خوش ہوتی ہے وہ شخص کچھ نا کچھ ایسا کر دیتے ہیں کہ وہ پھر سے مرجھا جاتی ہے۔۔۔ وہ غم زده ہوتا آئلہ کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہا تھا جسے آئلہ بہت ہی توجہ اور خاموشی سے سن رہی تھی۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتا یار کوئی کیسے اپنی ہی اولاد سے اتنی نفرت کر سکتا ہے۔۔۔ اولاد بھی وہ جو بیٹی ہے،،، جو رحمت ہے،،، جو پیدا ہی محبت کے لیئے ہوئی ہے۔۔۔ اس سے اتنی نفرت کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔ کیسے اسے اتنا برا بھلا کہہ کے سکون سے سو سکتے ہیں۔۔۔ رائد کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔۔ اسکو نوال کا دکھ اپنے اندر محسوس ہو رہا تھا۔

ہم صرف نوال کے اچھے نصیب کی دعا ہی کر سکتے ہیں ۔۔۔ باقی اللہ ہے وہ سب ٹھیک کرے گا۔۔۔ آئلہ تھوڑا سا سر اٹھائے اسے دیکھ کے بولی تو وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلا گیا۔

اسے کم سے کم اتنا تو اطمینان تھا کہ کچھ دنوں میں وہ اپنے گھر کی ہو جائے گی تو پھر اسے تراب خان کی باتیں سنے کو نہیں ملیں گی۔۔۔ اسکو دیکھ کے انکے چہرے پہ جو ناگورای اتی ہے اسے دیکھ کے تو اسکا دل نہیں ٹوٹے گا۔۔۔ 

وہ جہاں جائے گی وہاں کے لوگ اس سے پیار تو کریں گے۔۔۔۔ اسے خود رکھیں گے۔۔۔ بس اس وجہ سے وہ تھوڑا پرسکون ہو گیا تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

رات کا ایک بج رہا تھا جب جزلان گھر میں داخل ہوا۔۔۔

وہ سکون سے ایمل کو چھیڑتے کھانا کھا رہا تھا لیکن اسے کھانا کھانے کے درمیان جواد کا فون آیا تھا جو اسے کسی ضروری کام کے بارے میں بتا رہا تھا جس کے لیئے وہ آدھا کھانا چھوڑ کے چلا گیا تھا اور اب رات گئے واپس لوٹا تھا۔

اسے ایمل کا کمرہ تو نہیں پتہ تھا مگر دائیں جانب بنے جس کمرے سے ایمل نکل کے آئی تھی وہ اسہی کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

اسنے دھیرے سے دروازہ کھولا تو ایمل بیڈ پہ ہی سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی ہوئی تھی۔

تم سوئی نہیں۔۔۔ جزلان اسے دیکھتے دروازہ بند کرتے اندر آیا۔

بڑی جلدی آگئے۔۔۔ میں تو سمجھی تھی آج بھی کسی محبوبہ کی باہوں میں رات گزار کے آؤ گے۔۔۔ اسکی بات پہ شرٹ کے بٹن کھلتے جزلان کے ہاتھ تھمے۔۔۔ اسنے ایمل کی جانب دیکھا تو وہ ایک بےتاثر نظر اس پہ ڈالتی سامنے دیکھنے لگی۔

ایمل میں نے یہ سب چھوڑ دیا ہے اب۔۔۔ جزلان نے نرمی سے کہا جس پہ ایمل سر جھٹکتی اٹھی لیکن ابھی وہ ایک دم ہی اٹھا پائیں تھی  کہ اسکا سر بری طرح گھوم گیا جس پہ وہ جلدی سے واپس سائڈ کورنر کا سہارا لیتی بیڈ پہ بیٹھی۔

جزلان جو اسکی جانب ہی متوجہ تھا اسکے ایک دم سر تھام کے بیٹھنے پہ جلدی سے اسکے پاس آیا۔

تم ٹھیک ہو۔۔۔۔ پنجوں کے بل زمین پہ اسکے سامنے بیٹھتے اسکے ہاتھ تھامتے بےچینی سے پوچھنے لگا۔

ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔ وہ اسکے سوال کو نظر انداز کرتی جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال گئی۔

کچھ دنوں سے وہ اپنی طعبیت کافی ڈل ڈل محسوس کر رہی تھی۔۔۔ مگر اسنے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا ۔۔۔ اسے لگا موسم چینج ہو رہا ہے اس وجہ سے ایسا ہو رہا ہوگا مگر آج صبح سے ہی اسکو کافی چکر آرہے تھے دل متلا رہا تھا مگر اسنے کسی کو بتایا نہیں۔۔ وہ بغیر کسی کو پریشان کیئے خود ہی کل ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچ رہی تھی۔

اب بھی جب جزلان آیا اس سے تھوڑی دیر پہلے اسکی طعبیت کافی خراب ہو رہی تھی جس وجہ سے وہ سر تھامے بیٹھی تھی۔۔۔ جزلان کو پتہ نا چلے اس لیئے اسکے آتے ہی واشروم میں جا رہی تھی لیکن ایک بار پھر اسے چکر اگیا۔

مجھے تمہاری طعبیت ٹھیک نہیں لگ رہی چلو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔۔ جزلان نے پھر سے اسکا ہاتھ پکڑا مگر ایمل اپنا ہاتھ چھڑواتی تیزی سے اٹھی۔۔۔ مگر اٹھتے ساتھ ہی اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔

اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی جزلان نے فورن اسے تھاما۔

ایمل۔۔۔پریشانی سے اسکے بےجان ہوتے وجود کو ہلکے سے ہلایا مگر وہ ہوش و حواس سے بےگانی ہو چکی تھی۔

جزلان جلدی سے اسے گود میں اٹھاتا تیز تیز قدموں سے باہر کی جانب بڑھا۔

وہ بغیر کسی کو بتائے سیدھے ایمل کو گاڑی کے پاس لایا۔

دروازہ کھولو گاڑی کا۔۔۔ مین گیٹ کے پاس بیٹھے گارڈ سے بولا تو اسنے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔ جزلان ایمل کو دھیان سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھاتے جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال چکا تھا۔۔۔

گارڈ نے فورن بڑا دروازہ کھولا اور اگلے چند منٹوں میں ہی اسکی گاڑی ہواؤں سے باتیں کرنے لگیں تھیں۔

ریش ڈرائیو کرتے وہ اسے سب سے نزدیک اسپتال لایا تھا۔۔۔

جزلان خان کو کون نہیں جانتا تھا اس لیئے اسے دیکھتے ہی ڈاکٹر فورن ایمل کو اندر لے گئیں تھیں۔

وہ بڑی ہی بےچینی سے ڈاکٹر کے کمرے کے باہر ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔ بار بار نظریں دروازے کی جانب اٹھ رہیں تھیں۔۔۔ 

پہلے ہی وہ اپنے مسئلوں کی وجہ سے پریشان تھا اور اب اچانک سے ایمل کی طعبیت کا خراب ہوجانا اسے مزید پریشان کر رہا تھا۔

بیس پچیس منٹ بعد ڈاکٹر باہر آئیں اور اسے اندر بلا کے لے گئیں۔

وہ اندر کیبن میں داخل ہوا تو ایمل وہاں رکھے بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ اسے ہوش آگیا تھا۔۔۔ وہ بےثاتر نگاہوں سے جزلان کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

اسکا چہرہ ایک دم سپاٹ تھا جس سے جزلان اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔

ڈاکٹر صاحبہ کیا ہوا ہے میری وائف کو۔۔۔ یہ بےہوش کیوں ہوگئی تھی۔۔۔ جزلان پریشانی سے ڈاکٹر کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھا

اسکے چہرے پہ چھائی پریشانی دیکھتے ڈاکٹر دھیرے سے مسکرائی۔

مبارک ہو آپ کو۔۔۔ آپ باپ بنے والے ہیں آپکی وائف ایکسپیکٹ کر رہی ہیں۔۔۔ ڈاکٹر نے مسکرا کے یہ خوشی کی خبر جزلان کو سنائی جو بےیقینی سے کبھی ڈاکٹر تو کبھی ایمل کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ اب تک سپاٹ ہی تھا۔

مسٹر جزلان یہ بہت ویک ہیں۔۔۔ آپ کو انکی ڈائٹ کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔۔۔ باقی میں کچھ ٹیسٹ لکھ کے دے رہی ہوں اسہی ہفتے میں انہیں بھی کروا لے گا۔۔۔ ڈاکٹر اس سے کہہ رہی تھی مگر وہ تو جیسے وہاں موجود ہی نہیں تھا۔

ایک نئے احساس میں ایسا بندھ گیا تھا کہ اسے کوئی ہوش ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ خوشی و مسرت سے اٹھتا ایمل کی جانب آیا اور بغیر ڈاکٹر کی موجودگی کا احساس کیئے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھ گیا۔

جزلان کی اتنی بےساختہ حرکت پہ ایمل سٹپٹا کہ رہے گئی ۔۔۔ جس پہ ڈاکٹر نیچے منہ کیئے زیر لب مسکرا دی۔

ڈاکٹر کیا میں ایمل کو گھر لے جا سکتا ہوں۔۔۔ محبت بھری نظریں ایمل کے سرخ پڑھتے چہرے پہ سمجھائے بولا۔

اسے نہیں پتہ تھا کہ اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا ہے یا غصے سے مگر اسے یہ ضروری پتہ تھا کہ وہ آج بہت خوش ہے۔۔۔

جی بلکل آپ انہیں لے جا سکتے ہیں۔۔۔ مگر آپ کو انکا بہت خیال رکھنا ہوگا۔۔۔ ڈاکٹر نے نرمی سے کہا۔

آپ فکر نہیں کریں میں اپنی جان سے بڑھ کے خیال رکھوں گا۔۔۔ ایمل کو ہاتھ تھام کے اٹھاتے وہ مسکراتے ہوئے بولا

ڈاکٹر کی موجودگی میں ایمل نے کچھ نہیں کہا نا ہی اس سے اپنا ہاتھ چڑوایا۔۔۔ بس خاموشی سے اسکے ساتھ گاڑی میں آکے بیٹھ گئی۔

وہ بہت خوش تھا اور اسے ایمل کا اتنا خیال تھا کہ وہ جتنی تیز ڈرائیو کر کے یہاں آیا تھا اس سے آدھی سے بھی کم اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔ بہت ہی احتیاط سے آہستہ آہستہ ادھر ادھر دیکھ بھال کے گاڑی چلا رہا تھا۔

شکریہ ایمل مجھے یہ خوشی دینے کے لیئے۔۔۔ جزلان  مسرورانہ لہجے میں بولا۔۔۔ مگر ایمل نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا وہ بس خاموشی سے باہر دیکھتی رہی۔

کیا تم خوش نہیں ہو۔۔۔۔ جزلان اسکے سنجیدہ چہرے پہ نظریں دوڑاتا بولا۔

اس میں ناخوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔ ایمل ویسے ہی باہر دیکھتی عام سے لہجے میں بولی۔

پر تمہارے چہرے پہ خوشی نظر تو نہیں آرہی۔۔۔ جزلان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔

میں اپنی خوشی تمہیں دکھانا ہی نہیں چاہتی۔۔۔ وہ ایک نظر اسے دیکھتی کندھے اچکاتے واپس باہر دیکھنے لگی تو جزلان نے بھی مزید کوئی سوال کرنے کی بجائے جیب سے فون نکالتے تراب خان کو فون ملایا۔۔۔ 

وہ اپنے بابا سے بہت پیار کرتے تھا اور اتنی بڑی خوشی وہ سب سے پہلے اپنے بابا کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا۔

چار بیل جانے کے بعد فون اٹھا لیا گیا تھا

ہیلو۔۔۔۔ دوسری جانب سے انکی نیند سے بھری آواز سنائی دی۔

بابا میرے پاس آپ کے لیئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔۔ جزلان جوش سے بولا ۔

کیسی خبر۔۔۔ انہوں نےتجسس سے پوچھا

آپ کا بیٹا باپ بنے والا ہے۔۔۔ اسنے سکون بھرے لہجے میں بتایا۔۔۔ جیسے یہ بات کہتے ہوئے بھی اسے اندرونی سکون ملا تھا۔

کیا واقعی۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو میرا بیٹا ۔۔۔ دیکھنا تمہارے یہاں ضرور بیٹا ہی ہوگا ۔۔۔ اففف میری تو دلی خواہش پوری ہوگئی۔۔۔ تراب خان کی نیند جیسے بھنگ سے اڑی تھی اتنی بڑی خبر سن کے۔ 

بابا بیٹا ہو یا بیٹی میرے لیئے دونوں ہی برابر ہوں گے۔۔۔ جزلان نے دھیرے سے مسکرا کے کہا جس پہ ایمل نے تھوڑی سی نظریں ترجھی کیئے اسے دیکھا۔

یہ بات کہتے وقت اسکے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اب یہ مسکراہٹ سچی تھی یا جھوٹی یہ ایمل نہیں جانتی تھی۔

خبردار جزلان جو بیٹی کا نام بھی لیا تو۔۔۔ تم بھی اپنی بہن کی طرح گھر میں منحوسیت پالنا چاہتے ہو۔۔۔ اچھا اچھا سوچو دیکھنا میرا پوتا ہی آئے گا۔۔۔ بس تمہیں ایمل کا خیال رکھنا ہے۔۔۔ میں صبح ہوتے ہی پورے گاؤں میں میٹھائی بٹواؤں گا۔۔۔ تراب خان اپنی طرف سے اسے سمجھتے خوشی سے بولی جس پہ جزلان نے محض جی کہنے پہ اکتفا کیا۔

وہ اس وقت ان سے کوئی بحت نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ کچھ سنے گے نہیں نا ہی اسکی بات کو سمجھیں گے اس لیئے اس نے اس بارے میں کچھ کہا ہی نہیں تھا۔

تراب خان سے بات کرتے اسنے فون بند کیا کے اتنے میں گھر بھی آگیا۔

گارڈ نے اسکی گاڑی دیکھتے ہی دروازہ کھول دیا تھا۔۔ جزلان نے دھیرے سے گاڑی اندر لاتے روکی۔

میں دعا کروں گی جزلان کے مجھے بیٹی نا ہو ورنا کہیں ایسا آنا ہو اسے اپنے باپ کے گناہوں کی سزا بھگتنی بڑے۔۔۔ ایمل تلخی سے کہتی جزلان کو شرمندہ چھوڑ گاڑی سے اترتی اندر بڑی گئی۔

کتنی ہی دیر جزلان وہیں بیٹھے اپنی گزری ہوئی زندگی کو سوچتا رہا ۔۔۔ اسنے کتنا کچھ برا کیا تھا اپنی زندگی میں۔۔۔ کتنے لوگوں کے ساتھ برا کیا تھا۔۔۔ مگر افسوس کے وہ اب کچھ بھی بدل نہیں سکتا تھا۔

اس افسوس اور شرمندگی کے ساتھ وہ گاڑی سے اترتا اندر بڑھا بڑھ گیا۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو ایمل بیڈ پہ لیٹی اچھے سے کمفٹر خود پے پھلائے آنکھیں موندے لیٹی تھی ۔۔

جزلان جانتا تھا وہ سوئی تو بلکل نہیں ہوگی مگر وہ اس سے ابھی کوئی بھی بات کر کے اسے غصہ نہیں دلانا چاہتا تھا اس لیئے خاموشی سے گہرا سانس بھرتے واشروم میں گھس گیا۔

واشروم کا دروازہ کھلتے اور بند ہونے کی آواز پہ ایمل نے دھیرے سے انہیں کھولیں۔۔۔

اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔ وہ بہت خوش تھی اس خبر پہ مگر وہ تھوڑی اداس بھی تھی کہ اب وہ جزلان سے خلع نہیں لے ہائے گی۔۔۔

وہ اس شخص سے جتنا دور جانے کی کوشش کر رہی تھی قدرت اتنا ہی ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتی جا رہی تھی۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے نوال کا مایوں کا دن بھی آگیا۔۔۔ گھر میں ہر طرح خوشی کا سماں بنا ہوا تھا اور اس خوشی کے سماں کو دوبالا ایمل کے یہاں آنے والی خوشی نے کیا تھا۔۔۔

جہاں سب نوال کو اسپیشل فیل کروا رہے تھے وہیں ایمل کا بھی خوب دھیان رکھا جا رہا تھا۔۔

آج نوال کو مایوں بیٹھایا جا رہا تھا۔۔۔ گھر کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔ ہر کام رائد اور جزلان خود اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے۔۔۔

مایوں میں زیادہ تو نہیں مگر کچھ رشتے دار اور رائد نے کچھ اپنے جاننے والے نامور بزنس مین کو مدعو کیا تھا۔

کل حسام کے یہاں مایوں کا فنگشن تھا اور آج نوال کو مایوں بیٹھایا جا رہا تھا ۔۔۔ سب لوگ تیار تھے مہمان بھی آنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔ جب رائد عجلت میں اپنے کمرے میں داخل ہوا مگر ایک دم ٹھٹک کے رکا۔۔۔

زرد اور سفید گیر دار فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ۔۔۔  گلے میں ڈالا ہم رنگ دوپٹہ ۔۔۔۔ ہاتھوں میں موتیے کے گجرے۔۔۔ اور ساتھ سر پہ باندھا سفید اسکارف جس سے نقاب کیا ہوا تھا۔۔۔ جن میں سے صرف اسکی سرمے سے سجی سرمئی سحر انگیز آنکھوں دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔اور رائد کے مدہوش ہونے کے لیئے صرف وہ آنکھیں ہی کافی تھیں۔۔۔

زرد کرتے میں سفید گیردار شلوار پہنے پاؤں میں پیشاوری چپل پہنے وہ مضبوط قدم اٹھاتا بےخود ہوتا اسکی جانب قدم بڑھا گیا۔

کیسے لگ رہے ہیں ہم۔۔۔ شیشے سے اسکا عکس دیکھتی اسکی جانب پلٹتی معصوم سے پوچھنے لگی۔

وہ اپنی تعریف کی منتظر تھی مگر رائد تو جیسے کہیں کھو سا گیا تھا۔۔۔ بغیر کوئی جواب دیئے دھیرے سے اسکو کمر سے تھامتے اپنے ساتھ لگائے اسکے ماتھے پہ لب رکھ گیا۔۔۔ جس پہ آئلہ نے مسکراتے ہوئے سکون سے آنکھیں بند کر کے گھولیں۔

جاناں تمہاری ان سرمئی آنکھوں کو دیکھ کے ہی میں اپنا ہوش کھونے لگتا ہوں اور تم نے انہی قا+تل آنکھوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔۔۔ رائد خمار بھرے لہجے میں بولا تو آئلہ شرما کے پلکھیں جھکا گئی۔

تمہاری آنکھوں پہ آکے میری دنیا ختم ہو جاتی ہے اور جب تم شرما کے ان پہ پلکھوں کا سایہ کرتی ہو تو مجھے ان میں پوری طرح قید کر لیتی ہو۔۔۔ نقاب سے جھکتی اسکی آنکھوں پہ باری باری لب رکھتا محبت سے چور لہجے میں بولا تو نقاب کے پیچھے چھپا آئلہ کا چہرہ پل میں سرخ پڑا۔

اتنی خوبصورت کیسے ہیں تمہاری آنکهیں۔۔۔ اسکو مزید اپنے قریب کرتے وہ دل فریب انداز میں بولا تو اسنے پلکھوں کی جھالر اٹھائی

کیونکہ اس میں آپ کا عکس بستا ہے۔۔۔ میٹھی نرم آواز میں محبت سے کہتی رائد کو سرشار کر گئی۔

زر تا سرہ مینه لرم جانان۔۔۔ نرمی سے اسے اپنے سینے سے لگاتا سکون سے آنکهیں موند گیا۔۔۔ وہ کمرے میں کسی کام سے آیا تھا یہ تو وہ بلکل ہی بھول گیا تھا۔۔۔ بس یاد تھا تو آئلہ اور اسکی حسین آنکھیں۔

۔🌺 🌺 🌺

ایمل تمہیں یہ لہنگا نہیں پہنا چاہیئے اگر خدا نا خواستہ پاؤں میں آگیا اور تم گر گئیں تو۔۔۔ اپنی حالت کا خیال کرو یار۔۔۔رائد کی طرح زرد کُرتے کے ساتھ سفید گیردار شلوار پہنے شیشے کے سامنے کھڑا بالوں کو سیٹ کرتے ایمل کو دیکھ کے بولا۔۔۔ جو بیڈ پہ بیٹھی چوڑیاں پہن رہی تھی۔

کائی رنگ کا لہنگا۔۔۔ ہم رنگ چولی کے ساتھ اسہی رنگ کا دوپٹہ کندھے پہ ڈالے وہ جزلان کی موجودگی سے لاتعلق بنی اپنے کام میں مصروف تھی۔

اتنے دنوں سے یہی ہوتا آرہا تھا۔۔۔ جزلان اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا جس کے جواب میں یا تو وہ چپ رہتی یا پھر کوئی جلی کٹی سنا دیتی ۔۔۔ آگر وہ زیادہ بولتا تو وہ فوراً غصہ کرنے لگتی تھی جو اسکے لیئے اس وقت  ٹھیک نہیں تھا اس لیئے اب جزلان اس سے زیادہ بحث کرتا ہی نہیں تھا۔

ایمل میں کچھ کہہ رہا ہوں۔۔۔اس پہ اپنی بات کا اثر نا ہوتے دیکھ وہ ہاتھ روکے ایک نظر اسے دیکھ کے بولا۔

مجھے اپنے بچے کی تم سے زیادہ فکر ہے اسے لیئے تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ بغیر اسے دیکھے دوسرے ہاتھ میں بھی سنہری چوڑیاں پہنے لگے۔

کیسے نا کرو فکر ۔۔۔ وہ میرا بھی بچہ ہے اور تم بھی میری بیوی ہو ۔۔۔ اور تم دونوں کی مجھے سب سے زیادہ فکر ہے۔۔۔ جزلان سنجیدگی سے بولا اسے ایمل کی بات ہرگز پسند نہیں آئی تھی۔

پلیز جزلان خان میں بہت ہی بری طرح سے پک چکی ہوں تمہارا یہ اچھے بنے کا ڈرامہ دیکھتے دیکھتے۔۔۔

اس لیئے میری تم سے گزارش ہے اپنا یہ ڈرامہ بند کرو اور اپنی اصلیت پہ آجاؤ۔۔۔ چلو سب کے سامنے نا سہی مگر کمرے میں تو تم اپنی اصلیت دیکھا ہی سکتے ہو نا یہاں کون سا کوئی دیکھ رہا ہے جس سے تمہیں کوئی فائدہ حاصل ہوگا۔۔۔ آخری چوڑی ہاتھ میں ڈالتے وہ بےزاریت سے کہتی لہنگا سمبھال کے کھڑی ہوئی۔

جزلان کو اسکی باتیں اب غصہ دلانے لگیں تھیں۔۔۔ وہ بار بار ایک ہی بات کر رہی تھی۔۔۔ وہ شرمندہ تھا مگر ایمل جو اس طرح بار بار اسے ذلیل کر رہی تھی یی اسکی انا کو ٹھیس پہنچا رہا تھا۔

شٹ اپ ایمل۔۔۔۔ میں کچھ کہہ نہیں رہا ۔۔۔ چپ چاپ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کچھ بھی کہتی چلی جاؤ گی۔۔۔

میں مانتا ہوں مجھے سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں مگر میں اپنی ان غلطیوں کا ازالہ بھی تو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں نا ۔۔۔۔ وہ غصے اور بےبسی سے دبا دبا چلایا۔۔۔ جس پہ ایمل زرا سی گردن موڑ کے مسکرائی

ازالہ۔۔۔ اتنا آسان ہے ازالہ کرنا۔۔۔ آگر ہے تو کیا تم مجھے میرے بابا واپس لے کے دے سکتے ہو۔۔۔کیا تم ان لڑکیوں کو واپس لا سکتے ہو جنہوں نے تمہاری وجہ سے خودکشیاں کی ہیں۔۔۔

آگر تم انہیں واپس لا سکتے ہو تو میں تمہاری ساری زیادتیاں،،، ساری اذیتیں،،،، تمہارے دیئے سارے زخم ۔۔۔ سب کچھ بھول بھال کے تمہارے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لیئے تیار ہوں۔۔۔ وہ بہت ہی تلخ لہجے میں بولی جس پہ جزلان آگے سے کچھ کہہ ہی نا سکا۔

کیا ہوا کچھ کہتے کیوں نہیں ہو۔۔۔ بتاؤ کر سکتے ہو ایسا۔۔۔ غصے سے مٹھیاں بھیجے تھوڑی اونچی آواز میں بولی۔

ایمل چاچو کی موت میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔۔۔ میں مانتا ہوں میں نے ہی عمر کو تمہارے ساتھ صرف چھیڑ چھاڑ کرنے کا کہا تھا اور میں یہ بھی مانتا ہوں کے میں نے ہی چاچو کو فون کر کے بتایا تھا کہ عمر تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔ وہ روانی میں کہتے کہتے رکا۔

مگر ایمل میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ چاچو کو کچھ ہو ۔۔۔۔ مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس بات کا اتنا صدمہ لے لیں گے کہ وہ۔۔۔

بس جزلان بسسسس۔۔۔ وہ ایک دم سر تھامے چیخی تو جزلان کی زبان تھم گئی۔۔۔۔ چہرے پہ ایک دم پریشانی امڑ آئی۔

میں سب جانتی ہوں۔۔۔میں نے یہ نہیں پوچھا۔۔۔۔ میں نے صرف اتنا پوچھا ہے کہ کیا تم میرے بابا اور ان لڑکیوں کو واپس لا سکتے ہو۔۔۔ مجھے بس اسکا جواب چاہیئے۔۔۔ باقی مجھے تمہاری کوئی وضاحت نہیں چاہیئے۔۔۔ وہ ہزیانی ہوئی ۔۔۔۔ اسکا چہرہ انتہا کا سرخ پڑھ گیا تھا گردن کی رگیں واضح ہو رہی تھی ۔

بولو۔۔۔خاموش کیوں ہو۔۔۔۔ اسکی خاموشی پہ اسے اور تیش چڑھا ۔۔۔ 

وہ دو قدم پیچھے ہوئی لیکن ایک دم لڑکھڑا گئی۔۔۔

ایمل۔۔۔ اس سے پہلے جزلان اسے پکڑتا اسنے ہاتھ اٹھا کر اسے آگے بڑھنے سے روگا۔

تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ہے میرے سوالوں کا۔۔۔ اس لیئے بہتر ہے آج کے بعد مجھ سے بات نا کرو کیونکہ جب جب تم مجھ سے بات کرتے ہو میرے سارے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں۔۔۔ میرا دماغ گھومنے لگاتا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تمہاری وجہ سے میرے بچے کو کوئی نقصان پہنچے۔۔۔ وہ سختی سے باور کرواتی غصہ ضبط کرتے ایک ہاتھوں سے لہنگا اٹھائے تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی تب تک جزلان دروازہ کی جانب دیکھتا رہا۔۔۔

جزلان کو اپنے کیئے پہ پچھتاوا تھا۔۔۔ مگر ایمل اسکی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔ اور شاید وہ اپنی جگہ بلکل ٹھیک تھی۔۔۔ کیونکہ جزلان کی غلطیاں اتنی چھوٹی نہیں تھی جس کو وہ اتنی آسانی سے بھول جاتی۔

ان غلطیوں کو بھولنے میں ایک عرصہ لگنا تھا ۔۔۔ پھر شاید سب کچھ ٹھیک هوجاتا۔۔۔ مگر یہ سب کچھ اس "شاید" پہ آکے جیسے ختم سا ہو گیا تھا۔۔۔ کیونکہ یہ شاید ہی تھا جس سے جزلان کو ایک امید ملی ہوئی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

پاؤں کو چھوتی مہندی رنگ کی لائٹ سے کام کی میکسی زیب تن کیئے۔۔۔ پاؤں میں گولڈن کھوسے پہلے۔۔۔۔ بالوں کی چوٹی کندھے سے آگے لٹکائے۔۔۔ پھولوں کے زیورات سے آراستہ۔۔۔۔ وہ شہزادی دو شہزادوں کی ہمراہی میں اسٹیج تک آرہی تھی۔۔۔ 

سب مہمانوں کی نظریں انہیں کی جانب تھیں۔۔۔ وہ تینوں بھائی بہن اتنے جاذب لگ رہے تھے کے مہانوں کی نظروں میں ستائش نظر آرہی تھی۔ 

وہ بہت خوش تھی جس کا پتہ اسکا چمکتا ہوا چہرہ دے رہا تھا۔۔۔ اپنے بھائیوں کے درمیان چلتے اسے ایک تحفظ کا احساس ہو رہا تھا۔

اسٹیج پہ کھڑی آئلہ نے اسکو ہاتھ پکڑ کے اوپر چڑھنے میں مدد کی۔۔۔ 

پھولوں سے سجے جھولے پہ بیٹھی وہ پھولوں کا ہی حصہ لگ رہی تھی۔۔۔ 

نور بیگم تو اپنی بیٹی کو اتنا خوش دیکھ کے بار بار اسکی نظر اتار رہیں تھیں۔۔۔ اپنے تینوں بچوں کو ایک ساتھ خوش دیکھ کے انکی انہیں بار بار نم ہو رہیں تھیں۔۔۔ لیکن دل میں ایک کسک تھی کہ کاش تراب خان کو بھی اپنے بچوں کی خوشی کا احساس ہوتا۔۔۔ اپنی بیٹی سے پیار ہوتا اور وہ آج ان لوگوں کے ساتھ موجود ہوتے۔

ماما آئیں نا رسم شروع کرنی ہے۔۔۔ انہیں اسٹیج سے تھوڑا دور کھڑے دیکھ رائد انکے پاس آتے بولا تو وہ جلدی سے نم آنکهیں ساتھ کرتی مسکراتے ہوئے اسکے ساتھ چل دیں

رائد انکی آنکھوں کی نمی دیکھ چکا تھا مگر اسنے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔۔۔ یہ نمی انکی آنکھوں میں کیوں تھی وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا۔

رسم کا آغاز نور بیگم نے کیا تھا جس کے بعد رائد اور آئلہ نے آکے رسم ادا کی۔۔۔اور پھر اسکے بعد جزلان اور ایمل نے۔۔۔۔ جس کے بعد باری باری مہمان آتے رسم ادا کرتے دلہن کو خوش رہنے کی دعائیں دے رہے تھے۔

خوب دعائیں سمیٹتے ہنسی مزاق کے ساتھ رسم کا اختیار ہوتا۔۔۔ جس کے بعد کھانا شروع ہو گیا۔۔۔ 

سب باہر کھانے میں مصروف تھے لیکن ایک جگہ سیدھے بیٹھے بیٹھے نوال کافی تھک گئی تھی جس وجہ سے اسے اندر کمرے میں بھیج دیا تھا۔

نوال ابھی پاؤں سے کھوسے اتار کے بیڈ پہ پیر پھیلائے بیٹھی تھی جب اسکے کمرے کا دروازہ بجا۔

آجائیں۔۔۔انگلیوں سے انگوٹھا اتارتے دروازہ بجانے والے کو اندر آنے کی اجازت تھی۔

آہستہ سے دروازہ کھلا اور بند ہوا مگر کوئی کچھ بولا نہیں۔۔۔ اسنے نظریں اٹھا کے دروازے کی جانب دیکھا تو ایک دم چونک کے بیڈ سے اتری

حسام آپ یہاں۔۔۔ دروازے کے آگے سینے پہ بازو باندھے حسام کو کھڑے دیکھ وہ جلدی سے اسکے سامنے آئی۔۔۔۔ مگر حسام بغیر اسکی بات کا کوئی جواب دیئے اسکے گول گول گھومتا اسے نیچے سے لے کر اوپر تک دیکھنے لگا۔

کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ بلکے آپ یہاں کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔ بلکے آپ آئے ہی کیوں ہیں یہاں۔۔۔ آپ کو آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔۔۔ نوال نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔

اففف بہت سوال کرتی ہوں یار تم ۔۔۔ حسام اسے گھور کے بولا تو نولا جلدی سے دروازے کی جانب گئی اور دروازہ کھل کے باہر جھانکا۔

باہر کوئی نہیں تھا سب ہی لان میں موجودہ تھے۔۔۔ پھر بھی اسنے اچھے سے ادھر ادھر دیکھ کے تسلی کی اور جلدی سے دروازہ بند کرتے لاک لگایا۔

کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی۔۔۔ کیا آپ کو پتہ نہیں ہے کہ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے آگر کوئی دیکھ لیتا تو۔۔۔نوال نے بھوئیں سکیڑے ڈانٹا تو وہ آگے سے مسکرادیا۔

مجھ سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ دل بار بار تمہیں دیکھنے کی ضد کر رہا تھا اس لیئے میں چلا آیا۔۔۔ مسکراتی محبت بھری نظریں اسکے معصوم حسین چہرے پہ جمائے بولا تو نوال نے گہرا سانس بھرا۔

حسام ایک دن کی تو بات تھی کل تو ویسے بھی میں ہمیشہ کے لیئے آپ کے پاس آجاتی نا ۔۔۔ ایک دن صبر نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ 

صبر بہت مشکل ہوتا ہے نوال۔۔۔۔ اب مجھ سے ایک پل بھی صبر نہیں ہوتا۔۔۔ میرا دل کر رہا ہے میں کل کی جگہ آج ہی تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں۔۔۔ کیونکہ اب میں تمہارے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتا۔۔۔ حسام خذب کے عالم میں کہتا نوال کو خود پہ رشک کرنے پہ مجبور کرگیا۔

نوال تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تمہارے بابا تمہارا نکاح کسی اور سے کروانے جا رہے تھے۔۔۔ حسام ایک دم سنجیدہ ہوا تو نوال کے چہرے کی مسکراہٹ بھی غائب ہوئی۔

وہ حسام کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی نا ہی اسے غصہ دلانا چاہتی تھی۔۔۔ اس لیئے وہ یہ بات اس سے چھپا گئی تھی لیکن اب اسے کیسے پتہ چلی۔

آپ کو کس نے بتایا۔۔۔ وہ ہلکی آواز میں بولی۔

شاید تم بھول رہی ہو وہاں پہ میرا ایک آدمی بھی کام کرتا ہے۔۔۔ جزلان اسہی انداز میں بولا۔

مگر وہ تو گاؤں گیا ہوا تھا نا پھر اسے کیسے پتہ چلا۔۔۔ نوال نے ناسمجھی سے پوچھا۔

بی بی وہ گاؤں گیا تھا فوت نہیں ہوا تھا جو واپس ہی نہیں آتا اور اسے کچھ پتا ہی نا چلتا۔۔۔ حسام تھوڑے غصے سے بولا۔۔۔ تو نوال گردن جھکا گئی۔

اسے جس وقت اسکے آدمی نے یہ بات بتائی تھی جسے جب سے ہی تراب خان کے ساتھ  نوال پہ بھی غصہ تھا جس نے اسے یہ بات نہیں بتائی تھی۔

اب بتاؤں گی کے مجھے یہ بات کس خوشی میں بتانا پسند نہیں کی تھی۔۔۔ اسنے سخت لہجے میں استفسار کیا۔

میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اسکے غصہ ہونے پہ وہ رونے والی شکل بنائے  دھیرے سے منمنائی تو حسام نے گہرا سانس بھرا۔

اچھا اب رونا شروع مت کر دینا میں یہاں تمہیں رولانے نہیں آیا۔۔۔ وہ اسکے منہ بنانے پہ بولا تو وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ اسے خفگی سے خود کو گھوتے دیکھ حسام آئبرو اچکائے پوچھنے لگا۔

کچھ نہیں ۔۔۔۔ اس سے پہلے کوئی آجائے آپ جائیں یہاں سے۔۔۔ نوال نے ایک نظر دروازے کی جانب دیکھتے کہا تو حسام مزے سے کندھے اچکاتا بیڈ پہ بیٹھ گیا۔

یار ابھی تو آیا ہوں تھوڑی دیر بیٹھنے تو دو۔۔۔  وہ مزے سے کہتا بیک گراؤنڈ سے ٹیک لگا گیا۔۔۔ جس پہ نوال کی آنکهیں پھیلیں۔

حسام پاگل ہو گئے ہیں۔۔۔ اتنے مہمان ہیں گھر پہ کبھی بھی کوئی بھی مجھ سے ملنے آسکتا ہے۔۔۔ اور آپ کہہ رہے ہیں تھوڑی دیر بیٹھنے دو۔۔۔ وہ فکرمندی سے بولی تو حسام اسکے پریشان چہرے کو دیکھتے اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے اٹھ کھڑا ہوا۔

اچھا با با میں جا رہا ہوں تمہیں پریشان ہوکے اپنے چہرے کا گلو کم کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے کل بھی ایسی ہی ہنستی مسکراتے چمکتی ہوئی نوال چاہیئے سمجھیں۔۔۔ اسکے چہرے پہ آئی لٹ کو ہلکے سے کھینچتے ہوئے شوخی سے بولا

سمجھ گئی اب جائیں۔۔۔ وہ سمجھتے ہو زور و شور سے اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔.  تو وہ دروازے کی جانب بڑھ گیا مگر جاتے جاتے ایک دم رک کے اسکے جانب پلٹا۔

ایک بات بتاؤں یہ تم نے مہندی کیوں نہیں لگوائی۔۔۔۔ حسام کو اچانک اسکے خالی ہاتھ یاد آئے۔

کل لگواوں گی۔۔۔ اسنے فورن جواب دیا۔۔۔ وہ کسی کے بھی آنے سے پہلے بس جلدی سے اسے یہاں سے بھیجنا چاہتی تھی۔

کل تو بارات ہے۔۔۔ حسام نے سوچتے ہوئے کہا

بارات رات میں ہے اور مہندی میں صبح لگواؤ گی۔۔۔ اب آگر آپ کے سوال جواب ختم ہوگئے ہو تو آپ یہاں سے تشریف لے جا سکتے ہیں۔۔۔ نوال نے چڑتے ہوئے کہا تو وہ لب دبائے اپنی مسکراہٹ روکے سر ہلا گیا۔

حسام نے دروازہ کھول کے تھوڑی سی گردن باہر نکالے چاروں جانب نظریں دوڑائیں۔۔۔ سارا راستہ کلیئر تھا اب وہ آرام سے یہاں سے نکل سکتا تھا۔۔۔ باہر دیکھتے وہ ایک بار پھر نوال کی جانب متوجہ ہوا۔

بڑی جلدی ہے تمہیں مجھے بھیجنے کی لیکن بس آج کا دن اور ہے اسکے بعد تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے۔۔۔ اور ایک بار تم میری دسترس میں آجاؤ پھر نا میں تمہیں کہیں جانے دوں گا اور نا خود تم سے دور جاؤں گا۔۔۔ نوال کو دیکھتے حسام دلکشی سے کہتا باہر نکل گیا۔۔۔ 

نوال نے مسکراتے ہوئے دروازہ بند کیا اور دروازے کے ساتھ اپنی پشت لگاتے دل پہ ہاتھ رکھے آنکھیں بند کر گئی۔

اسکا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔اور ہر دھڑکن حسام کا نام لے رہی تھی جو اسے اپنے کانوں تک سنائی دے رہی تھی۔

لال جوڑے میں پوری طرح حسام کے نام کا ہار سنگھار کیئے وہ اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے بیٹھی اپنے آنسوں چھپا رہی تھی۔

تھوڑی دیر پہلے ہی بیوٹیشل اسے مہارت سے تیار کر کے گئی تھی جو اسکے حسن میں چار چاند لگا رہے تھے۔۔۔ مگر اسکی آنکھیں اسکا دل بار بار اپنے بابا کو یاد کر کے بھر رہا تھا۔

آج وہ کسی اور کی ہونے جا رہی تھی۔۔۔ همیشہ کے لیئے دوسرے گھر جارہی تھی۔۔۔ دلہن کے سرخ جوڑے میں سجی سنوری وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ سب اسکی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے مگر جس کی تعریف وہ سنا چاہتی تھی وہ تو اس سے بلکل غافل تھے۔۔۔

آج اسکے لیئے اتنا اہم دن تھا اور ہر لڑکی کی طرح اسکی بھی خواہش تھی کے وہ اپنے ماں باپ کی دعائیں لے کے رخصت ہو ۔۔۔ باپ اپنا شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پہ پھیر کے دعاؤں کے سائے میں رخصت کرے۔۔۔ مگر اسکے باپ نے سر پہ ہاتھ پھیرنا تو دور کبھی اسے پیار سے دیکھا ہی نہیں ہے تو وہ کس امید پہ آس لگائے بیٹھی تھی۔

چلو نوال ہال کے لیئے نکلنا ہے۔۔۔ سفید اور سرخ کنٹراز کا قمیض شلوار پہنے چہرے کے گرد اسکارف سے نقاب کیئے آئلہ کمرے میں داخل ہوئی تو نوال جلدی سے انگلی کے پوروں سے آنکھ کا کونا صاف کر گی۔

جی بھابھی میں تیار ہوں چلیں۔۔۔ بھاری لہنگا سمبھالتی بہت سمبھل کے بولی مگر اسکے لہجے کا بھاری پر صاف اسکے رونے کی چغلی کر رہا تھا۔

تم رو رہیں تھیں۔۔۔ آئلہ اس کے سامنے آتی دو انگلیاں تھوڑی تلے لگاے اسکا چہرہ اوپر کرتے نرمی سے پوچھنے لگی جس پہ نوال کی آنکهیں جھلملا گئیں۔۔

وہ زبردستی واپس منہ نیچے کیئے آنسوں چھپاتی نفی میں سر ہلا گئی جس پہ آئلہ دھیرے سے مسکراتی۔

یہ وقت ہے ہی ایسا کے رونا تو آتا ہی ہے۔۔۔۔

ایک لڑکی کے لیئے اپنا گھر اور اپنے گھروالوں کو چھوڑ کے دوسرے گھر جانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔۔۔ جس آنگن میں پورا بچپن گزارا ہوتا ہے تین لفظوں سے وہ آنگن پرایا ہو جاتا ہے۔۔۔ 

لیکن جہاں یہ احساس تھورا اداس کرتا ہے وہیں یہ احساس بھی بہت خوبصورت ہوتا ہے کے آپ کے چاہنے والوں میں ایک اور چاہنے والے کا اضافہ ہوگیا ہے۔۔۔ جو آپکے والدین کے بعد سب سے زیادہ آپ سے پیار کرے گا۔۔۔ آپ کو اہمیت دے گا۔۔۔ دنیا جہاں کی خوشی دے گا۔۔۔ اور نکاح کے تین بول سے یہ احساس ہر احساس پہ حاوی آجاتا ہے۔۔۔ آئلہ نے پیار سے مسکراتے نم آنکھوں سے سمجھایا جس پہ وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلاگئی۔

کیا ہوا بھئی چلنا نہیں ہے کیا سب انتظار کر رہے ہیں باہر۔۔۔ کٹھنوں تک آتی گولڈن اور جامنی رنگ کی شوٹ فراک کے ساتھ چوڑیدار پانامہ پہنے بالوں کا جوڑا بنائے ایمل کمرے میں داخل ہوئی۔

بس ہم آہی رہے تھے ۔۔۔ نم آنکھ کا کونا صاف کرتی آئلہ اسے دیکھ کے بولی۔

رو رہی تھیں نا دونوں۔۔۔ایمل آنکھیں چھوٹی کیئے دونوں کو دیکھنے لگی تو وہ مسکراتے ہوئے ایک ساتھ اثبات میں سر ہلاگئیں۔

ہائےےےے۔۔۔۔ نوال ہم لوگ تمہیں بہت مس کریں گے۔۔۔ ایمل آگے بڑھتے اسکے گلے لگی ۔

میں بھی آپ سب کو بہت مس کروں گی ۔۔۔ نوال دھیرے سے کہتی ایمل سے الگ ہوئی

بس نوال رہنے دو۔۔۔ مجھے پتہ ہے تم کوئی ہمیں مس وس نہیں کرو گی۔۔۔ حسام بھائی کے پاس جاتے ہی ہمیں بھول جاؤ گی۔۔۔ ایمل منہ بنائے ڈرائی انداز میں بولی

ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔ میں آپ لوگوں کو کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔۔۔ آپ لوگ میری فیملی ہیں اور فیملی میں ایک فرد کے اضافہ ہونے سے باقی لوگوں کو تو بھولا نہیں جاتا نا۔۔۔ نوال جذب کے عالم میں بولی دونوں مسکرائیں۔

ویسے ماننا پڑے گا حسام بھائی ہیں بہت اچھے اور کل تو وہ اور بھی اچھے لگ رہے تھے کیوں نوال۔۔۔ایمل شرارت سے نوال کو دیکھ کے بولی تو نوال کی آنکهیں پھٹی کی پٹھی رہ گئیں۔۔۔

اسے سمجھ نہیں آیا کہ ایمل نے کل حسام کو کب کہاں اور کیسے دیکھا ہے۔

کیا مطلب کل۔۔۔ تم نے کل کہاں دیکھ لیا حسام بھائی کو۔۔۔ آئلہ نے ناسمجھی سے پوچھا تو ایمل نے ایک شریر نگاہ نوال پہ ڈالی جس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا

ارے وہ کل حسام بھائی کی کچھ کزنز آئی ہوئی تھی نا تو بس انہوں نے ہی تصویر دیکھائی تھی اسی کی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔ ایمل مسکراہٹ روکے آئلہ کو کہتی آخر میں نوال کی جانب دیکھ کے بولی تو نوال فورن چہرہ جھکائے دانتوں تلے لب دبا گئی۔

اچھا چلو باہر چلیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ آئلہ نوال کو اٹھاتے ہوئے بولی۔

ہاں بھابھی آپ چلیں میں نوال کو لے کے آتی ہوں۔۔۔ ایمل کے کہنے پہ آئلہ اوکے کہتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ تو ایمل پوری طرح نوال کی جانب متوجہ ہوئی۔

ہاں تو نوال میڈم کب سے یہ چھپن چھپائی چل رہی تھی۔۔۔ آئلہ کے کمرے سے نکلتے ہی ایمل نے باظاہر کافی سنجیدگی سے استفسار کیا مگر نوال کی رونی صورت دیکھتے اسکا دل قہقہہ لگانے کا چاہ رہا تھا۔

 ایمل نے کچن سے نکلتے ہوئے حسام کو نوال کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا تھا۔۔۔ اور آج اسے موقع مل گیا تھا نوال کو چھیڑنے کا۔

وہ بھا۔۔۔بھی چ.۔۔۔چار سال۔۔۔ نوال کی آواز جیسے حلق میں اٹھ گئی تھی۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی ایمل سب جان چکی ہے اس لیئے کچھ بھی چھپائے بغیر ڈرتے ڈرتے کھڑے ہوتے بتا دیا۔

ارے واہ تم تو بڑی چھپی رستم نکلی ہو یار ۔۔۔۔اکیلے اکیلے ملاقاتیں بھی ہورہیں تھیں کیا بات ہے بھئی واہ۔۔۔۔ ایمل ہلکے سے اسکے کندھے پہ کندھا مارتی شوخی سے بولی تو وہ شرما کے سر جھکا گئی۔

بھابھی آپ کسی کو باتیں گی تو نہیں نا۔۔۔ اسنے پریشانی سے سر اٹھائے پوچھنا۔

ارے پاگل ہو گئی ہو میں کیوں باتوں گی بھلا۔۔۔تم تو میری بہن ہو اور میری بہن کا راز مطلب میرا راز۔۔۔ ایمل پرخلوص لہجے میں مسکرا کے اسے مطمئن کرگئی

تھینک یو بھابھی۔۔۔۔ آپ اور آئلہ بھابھی ولڈ کی بیسٹ بھابھی ہیں۔۔۔ نوال پرسکون ہوتی چہک کے بولی۔

تھینک یو۔۔۔ اب چلو سب باہر انتظار کر رہے ہو گے۔۔۔ ایمل بیڈ پہ رکھی اسکی چارد اٹھا کے لاتی اسکو اوڑاتی اپنے ہمراہ لیئے باہر بڑھ گئی

۔🌺 🌺 🌺

بارات کے آنے سے پہلے فیملی فوٹوز بن رہیں تھیں جس میں رائد جزلان آئلہ ایمل نوال اور نور بیگم شامل تھیں۔۔۔ اور اس وقت نوال کو تراب خان کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی جس وجہ سے اسکی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے۔

بیٹا بےقدرے لوگوں کے لیئے اپنے قیمتی موتی ضائع نہیں کیا کرتے۔۔۔ نور بیگم نے نرمی سے اسکے گال پہ پھسلا موتی صاف کیا۔۔۔ تو سب انکی جانب متوجہ ہوئے

گڑیا ہم سب ہیں نا تمہارے ساتھ ۔۔۔ کیا ہم سب کا پیار کم پڑھ رہا ہے تمہارے لیئے جو تم ان جیسے بےحس باپ کو یاد کر کے رو رہی ہو۔۔۔ رائد اسکے چہرے کو دیکھتے سنجیدگی سے بولا تو وہ دھیرے سے نفی میں سر ہلاگئی۔

آپ سب لوگ میرے ساتھ ہیں مجھے سے پیار کرتے ہیں اسہی بات کی خوشی ہے بھائی۔۔۔۔ مگر باپ تو باپ ہوتا ہے نا۔۔۔ کوئی چاہ کر کے بھی انکی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔ وہ افسردگی سے مسکرائی

اسکی بات پہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کے رہ گئے۔۔۔ کسی کے پاس کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو کیونکہ وہ سہی کہہ رہی تھی۔۔۔ باپ کی جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔ آگر باپ دنیا سے چلا جائے تو بندے کو ایک بار صبر آہی جاتا ہے مگر سلامت باپ کا روکھا رویہ،،، اسکی لاتعلقی،،، اسکا زہر اگلتا لہجہ ،،، اولاد خاص کر بیٹی کے لیئے نفرت کے تیز چلانا۔۔۔ ایک معصوم پیار کی مورت کیسے برداشت کر سکتی تھی۔

نوال آج تمہارا خاص دن ہے اس دن رو کے یا ان کو یاد کر کے تم اپنا موڈ بلکل خراب نہیں کرو گی۔۔۔ چلو اچھے سے مسکرا کے تصویریں بنوا میں انہیں بڑی کروا کے ہال میں لگواؤں گا۔۔۔ جزلان اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے فوٹو گرافر کو تصویر لینے کا اشارہ کر چکا تھا۔

میرے بغیر فیملی فوٹو تو مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔اس سے پہلے فوٹو گرافر تصویر لیتا پیچھے سے تراب خان کی آواز آئی۔۔۔ تو سب انکی جانب پلتے۔

سیاہ قمیض شلوار پہ سفید چادر کندھے پہ ڈالے اپنی علاقائی پگڑی سر پہ سجائے شہان چال چلتے انہی کی طرف آرہے تھے۔

سب کی آنکهیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھی۔۔۔ نوال تو خوشی اور بےیقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

ہممم چلو اب لو تصویر۔۔۔ وہ جزلان کو سائڈ کرتے اسکی جگہ آکے کھڑے ہوئے تو نوال نے بےیقینی سے بائیں جانب کھڑی اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔

برابر میں کھڑے اپنے باپ کو دیکھ کے اسکا دل کررہا تھا ابھی انکے سینے سے لگ جائے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی تراب خان اور اسکے نیچے جو دیوار کھڑی تھی وہ ایسے کیسے اسے توڑ سکتی تھی۔

وہاں موجود کسی بھی شخص کو یقین نہیں آرہا تھا کہ تراب خان یہاں آئے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوکے تصویر بھی کھچوا رہے ہیں۔۔۔ اور سب سے نا قابلِ یقین بات تو یہ تھی کہ انکے چہرے پہ مسکراہٹ بھی تھی۔

اب کیا سب مجھے ہی دیکھتے رہو کے سامنے بھی دیکھو۔۔۔ سب کو اپنی طرف متوجہ پاکہ انہوں نے سامنے کی جانب اشارہ کرتے کہا تو سب سیدھے ہوتے کیمرے میں دیکھنے لگے۔

ایک کلک کے ساتھ کیمرا مین نے یہ یاد گار منظر کیمرے کی آنکھیں میں قید کر لیا۔

اب تم جاؤ اور ہاں صرف یہ تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل کر دینا۔۔۔ تراب خان دو قدم آگے آتے کیمرا مین سے بولے تو وہ جی کہتا وہاں سے چلا گیا۔

آپ اپنی بیٹی کی شادی میں آئے مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔۔ آپ کو پتہ ہے نوال صبح سے آپ کو بہت یاد کر رہی تھی۔۔۔ آپ کو یاد کر کے بار بار رو بھی رہی تھی۔۔۔ نور بیگم چمکتی آنکھوں سے خوشی سے مسکرا کے بولی تو تراب خان سر جھٹکتے مسکرائے

تمہیں کیا لگتا ہے میں اس کے لیئے یہاں آیا ہوں۔۔۔۔ چچچچ افسوس تم غلط ہو ۔۔۔ تراب خان تمسخرانہ لہجے میں بولے تو سب نے حیرت سے انکے بدلتے لب و لہجے کو محسوس کیا۔

میں یہاں اپنے بیٹے جزلان کے کیئے آیا ہوں۔۔۔ تراب خان جزلان کو دیکھتے مسکرا کے بولے۔

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ جزلان نے نامسجھی سے انہیں دیکھا۔

میں ٹھیک کہہ رہا ہوں بیٹا ۔۔۔۔ میں یہاں تمہارے لیئے آیا ہوں۔۔۔ چار دن بعد الیکشن ہونے والے ہیں اور زرا سوچو آگر میں یہاں نہیں آتا تو نیوز والے اسے بریکنگ نیوز بنا دیتے کی مشہور و معروف سیاستدان جاگیردار جزلان خان کے والد جاگیردار تراب خان اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی میں نہیں آئے۔۔۔

اور یہ نیوز لوگوں کے ذہن میں ایک سوالیہ نشان لا سکتی تھی۔۔۔ جو تمہارے لیئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی۔۔۔ تو میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے کی کامیابی میں کوئی بھی روکاوٹ آئے اس لیئے میں یہاں چلا آیا صرف ایک تصویر کھچوانے۔۔۔ وہ مزے سے مسکراتے ہوئے بغیر کسی کے دل کا حال جانے کہتے جا رہے تھے۔

آپ صرف اس لیئے یہاں آئے تھے۔۔۔ رائد نے ضبط سے پوچھا۔

جو آنکھ تھوڑی دیر پہلے باپ کے آنے سے خوشی سے چمک اٹھتی تھی وہاں یک بار بھر ویران ہوگئی۔

ہاں اور مجھے پتہ ہے جزلان بھی صرف اسہی لیئے یہاں آیا ہے تاکہ لوگوں کو باتیں بنانے کا کوئی موقع نا ملے۔۔۔ تراب خان کے سکون سے کہنے پہ سب کی نظریں جزلان کی جانب گئیں۔

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ میں اس لیئے یہاں ہرگز نہیں آیا۔۔۔سب کی نظریں خود پہ دیکھتے جزلان جلدی سے بولا۔

بیٹا تم ایسے تو نہیں تھے جو بات ہوتی تھی تم ڈنکے کی چوٹ پہ کہتے تھے پھر اب کیا ہوگیا۔۔۔ تراب خان نے اسے گھورا باقی سب تو جیسے مایوس ہو گئے تھے۔

نوال چلو۔۔۔ رائد نوال کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں دیکھتے اس کو لیئے تراب خان اور جزلان پہ ایک غصے سے بھری نظر ڈالتے وہاں سے نکل گیا۔۔۔ اسکے پیچھے نور بیگم اور آئلہ بھی بڑھ گئی۔

انسان چاہے کتنا بھی بدل جائے مگر اسکی فطرت کبھی نہیں بدلتی یہ بات آج تم نے ثابت کردی۔۔ ایمل ایک نفرت بھری نگاہ جزلان کے وجود پہ ڈالتی لمبے لمبے قدم اٹھاتے آگے بڑهاتے گئی۔

ایمل میری بات سنو۔۔۔ 

بابا یہ آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔ بےبسی سے ایمل کو پکارتے وہ غصے سے تراب خان سے بولا

میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ یہ جو تم کر رہے ہو یہ چھوڑو۔۔۔ بیوی گھر بہن ماں یہ سب چھوڑ کے الیکشن پہ دھیان دو۔۔۔ جتنا زیادہ ہو سکے عوام کی سپوٹ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ تراب خان نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے سمجھایا۔

بابا آپ کو یہ سب نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔ جزلان دکھ سے بولا تو تراب خان نے سر جھٹکا۔

میں حویلی جا رہا ہوں تم بھی سیدھے وہیں آنا۔۔۔ تراب خان اسکی بات نظر انداز کرتے باہر کی جانب بڑھ گئے پیچھے وہ بےبسی اور غصے سے لب بھیچ کے رہ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

کچھ دیر بعد ہی بارات آچکی تھی۔۔۔۔ حیدر شاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ دھوم دھام سے بارات لائے تھے۔۔۔

گولڈن شیروانی پہ مہرون کلہ پہنے وجیہہ چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ سجائے حسام  اپنے دادا اور باپ کے ساتھ اسٹیج پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ 

مولوی صاحب کو جزلان اور رائد برائڈل روم لے گئے تھے نوال کے پاس۔

تراب خان کے جانے کے بعد نوال جیسے خاموش ہوگئی تھی ۔۔۔ چہرے کی مسکراہٹ کہیں کھوسی گئی تھی۔۔۔ دل بار بار بھر رہا تھا مگر خود پہ ضبط کرتی بہت مشکل سے اپنے آنسوں روکے بیٹھی تھی۔

نکاح کے لیئے مولوی صاحب آرہے ہیں۔۔۔ رائد سب سے پہلے اندر داخل ہوتا بولا اسکے پیچھے ہی جزلان مولوی صاحب کو لیئے اندر داخل ہوا۔۔۔ تو آئلہ نے جلدی سے دوسرے دوپٹے سے نوال کے چہرے پہ گھونگھٹ کردیا۔ 

نوال تراب ولد تراب خان آپکا نکاح حسام شاہ ولد احمد شاہ سے باعوض حق مہر ایک کڑوڑ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔ 

مولوی صاحب کی آواز پہ نوال کے کب سے ضبط کیئے ہوئے آنسوں جھلک گئے۔۔۔ اسکے کانوں میں تراب خان کی کہیں باتیں گونجنے لگیں جب اسے اپنے سر پہ ایک مہربان شفقت بھرا ہاتھ محسوس ہوا۔

اسنے گھونگھٹ سے ہی نظریں اٹھا کے دیکھا تو رائد اسکے سر پہ ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

قبول ہے۔۔۔۔ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہلکے سے اپنی رضامندی دے دی۔

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔اسنے نظریں برابر میں کھڑی ماں کی جانب کی جن کی آنکهیں پہنے سے بھیگی ہوئی تھیں۔

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔ 

قبول ہے۔۔۔ جزلان کے مسکراتے چہرے کی جانب الجھن سے دیکھتی اپنی زندگی کی ڈور حسام کے ہاتھ میں تھماگئی۔

مبارک ہو۔۔۔ رائد دھیرے سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتا آنکھوں کا بھیگا کونا صاف کرتا مولوی صاحب کو لیئے باہر نکل گیا۔

مبارک ہو نوال۔۔۔ جزلان دھیرے سے اسکی جانب جھکتے بولا تو اسنے الجھ کے اسکی طرف دیکھا۔۔۔ کیا وہ واقعی بدل گیا تھا یا جو ابھی تراب خان کہہ کے گئے تھے وہ سچ تھا۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔

نوال کی آنکھوں​ میں الجھ اور بےیقینی دیکھتے جزلان اداسی سے بارہ نکل گیا۔

باہر آتے مولوی صاحب نے حسام کی رضا مندی چاہی جس پہ وہ خوشی خوشی تین بار قبول ہے کہتا نوال کو اپنے نکاح میں لے چکا تھا۔

چاروں طرف مبارک بادی کا شور اٹھا تھا۔۔۔ ہر کوئی آ کے حسام سے گلے ملتے اسے مبارکبادی پیش کر رہا تھا۔

اتنے میں ایمل اور آئلہ نوال کو لیئے باہر آئیں تو آگے بڑھ کے رائد نے نوال کے سامنے ہاتھ پھیلایا جس پہ وہ مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ رکھ گئی۔

دوسری جانب سے جزلان نے ہاتھ پھیلایا مگر نوال نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ نا رکھا ۔۔ اسنے بس پریشانی سے رائد کی جانب دیکھا اور رائد نے ایک تیز نظر جزلان کو۔

یار بابا جو کہہ کے گئے ہیں وہ سچ نہیں ہے۔۔۔ میرا ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جیسا وہ بتا کے گئے ہیں۔۔۔ جزلان بےچینی سے انہیں اپنی بات کا یقین دلا رہا تھا جس پہ نوال کے پیچھے کھری ایمل کو تو بلکل یقین نہیں تھا۔

رائد نے ایک نظر جزلان کو دیکھتے نوال کو اشارہ کیا جو اسکا اشارہ سمجھتی جزلان کے بڑھائے گئے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ گئی۔

دونوں بھائیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے وہ کسی شہزادی کی طرح اپنے شہزادے کی جانب بڑھ رہی تھی۔

حسام کی نظر جیسے ہی رائد اور جزلان کے ساتھ آتی نوال پہ پڑی اسکی جیسے سانس تھم گئی۔

سرخ دلہن کے جوڑے میں پور پور حسام کے لیئے سجی اسکی پری جیسے جیسے قدم آگئے اٹھا رہی تھی حسام کو وہ سیدھے اپنے دل میں اترتے محسوس ہو رہے تھے۔

وہ مبہوت ہوتے صوفے سے اٹھتا نوال کی جانب بڑھتا۔۔۔ اسٹیچ کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی حسام اسکے سامنے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلا گیا۔

نوال نے مسکرا کے اجازت طلب نظروں سے مڑ کے اپنے بھائیوں کو دیکھا۔۔۔ جس پہ وہ دونوں ہی مسکرا کے اثبات میں سر ہلا گئے۔

نوال نے دھیرے سے اپنا ہاتھ جزلان کے ہاتھ پہ رکھا جو اسنے مضبوطی سے تھام لیا۔

اسٹیج پہ آتے نوال حسام کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی ۔۔۔ دونوں کو ہی اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ دونوں اب سے ایک ہوگئے ہیں۔۔۔ دونوں کو ہی یہ ایک حسین خواب لگ رہا تھا جس سے دونوں ہی جاگنا نہیں چاہتے تھے۔

دونوں ساتھ بیٹھے اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ حسام کی والدہ اور نور بیگم بار بار اپنے بچوں کی نظر اتار رہیں تھیں۔۔۔ رائد نے ان دونوں پہ سے خود پیسے وارے تھے۔

خوب شور شرابا ہنسی مزاق اور چھوٹی چھوٹی رسموں کے بعد کھانا کھایا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت آگیا جہاں مضبوط سے مضبوط لڑکی بھی رو دیتی ہے۔

حیدر شاہ نے رخصتی کی اجازت چاہی تو جزلان نے فورن نوال کے سر پہ قرآن کا سایہ کیا۔

ہر آنکھیں نم تھی۔۔۔ ہر ایک کے دم سے انکے خوش رہنے کی دعا نکل رہی تھی۔۔۔ 

دادا جان میں آپ کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ آپ نے کوئی بھی غلط فیصلہ کرنے کے بجائے ہمارے بچوں کی خوشیوں کو ترجیح​ دی۔۔۔

میں آپ سے بس ایک ہی گزارش کروں گا کہ میری بہن کو کبھی کوئی دکھ نہیں دیجیئے گا۔۔۔ آگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو بھلے اپنا سمجھ کے ڈانٹ دیجئے گا مگر کبھی سخت الفاظ استعمال نہیں کرے گا۔۔۔ رائد بہت ہی عاجزی سے حیدر شاہ کے سامنے کھڑے ہوتے بولا تو وہ دھیرے سے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ گئے 

بیٹا ہم یہاں سے بیٹی لے جا رہے ہیں بہو نہیں اور بیٹیوں کو ہمارے خاندان میں شہزادی سمجھا جاتا ہے اور شہزادیوں کو ڈانٹا نہیں جاتا بلکے پیار سے سمجھایا جاتا ہے۔۔۔ حیدر شاہ نے مسکرا کے تسلی دی جس پہ رائد مطمئن ہوتے حسام کے گلے لگا۔

تم جانتے ہو حسام اسنے بہت دکھ دیکھے ہیں۔۔۔ مگر میں نے تمہارا انتخاب اس لیئے ہی کیا ہے کہ مجھے یقین ہے تم اسے خوش رکھو گے۔۔۔. رائد نوال کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے اپنے ساتھ لگائے بولا تو نوال  بےآواز آنسوں بہاتی سر جھکا گئی ۔

تم فکر نہیں کرو ۔۔۔ اب سے نوال کو خوش رکھنے کی ذمیدار میری۔۔۔ حسام نے سر کو زرا سا خم دیتے کہا تو سب مسکرا دیئے۔

وہ لوگ گاڑی کی جانب بڑھتے اس سے پہلے ہی جلدی سے جزلان آگے آگیا۔

نوال ہو سکے تو اپنے بھائی کو معاف کر دیا۔۔۔ وہ اسکے کان میں سرگوشی نما کہتا اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے پیچھے ہوا تو نم آنکھوں سے نوال اسے دیکھ کے رہ گئی۔

نوال جزلان کی آواز میں شرمندگی صاف محسوس کرسکتی تھی مگر تراب خان کی باتیں کہ اسنے یہ صرف لوگ باتیں نا بائیں اس لیئے کیا ہے یہ سوچتے ہوئے وہ کنفیوز ہو رہی تھی۔

ماں اور بھابھیوں سے ملنے کے بعد وہ حسام کے ساتھ نئے سفر پہ روانہ ہوگئی جہاں خوشیاں اسکی منتظر تھیں۔

نوال کو رخصت کرنے کے بعد وہ لوگ بھی واپس گھر جانے کے لیئے گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے ۔

رائد کے ساتھ آئلہ اور نور بیگم بیٹھ گئی جب کے ایمل پیچھے کھڑی جزلان کی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔

سنو تم رائد کے ساتھ گھر چلی جاؤ مجھے ایک ضروری کام ہے مجھے ابھی کہیں اور جانا ہے۔۔۔ گھر آتے ہوئے بھی دیر ہو جائے گی۔۔۔ اسکو گاڑی میں بیٹھتے دیکھ جزلان فون بند کرتے کچھ عجلت اور بےچینی میں بولا تو ایمل ایک نظر اسے دیکھتی بغیر کچھ کہے رائد کی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔

رائد کی گاڑی گھر کے لیئے جب کے جزلان کی گاڑی فل اسپیڈ میں دوسرے راستے کی جانب روانہ ہوگئی۔۔۔

ریش ڈرائیو کر کے وہ نتاشہ کے پلیٹ پہ پہنچا مگر دروازے پہ تالا لگا ہوا تھا۔۔۔ مطلب وہ اسکے آنے سے پہلے ہی کہیں غائب ہوگئی تھی۔

دروازے پہ ایک زور دار ٹھوکر مارتے وہ جلدی سے واپس نیچے کی جانب بڑھا ۔۔۔

نیچے پارکنگ میں آکے گاڑی میں بیٹھتا تیزی سے گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔

کچھ دیر پہلے اسکے پاس ایک ویڈیو لیک ہونے کی نوٹیفیکیشن آئی تھی جس کو کھولنے پہ پتہ چلا کے یہ اسکی ہی ویڈیو تھی جو نتاشہ نے بنائی تھی۔۔

وہ غصے سے بھرا نتاشہ کے گھر آیا تھا مگر وہ گھر پہ تھی ہی نہیں اور اب وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ اپنے فارم ہاؤس جارہا تھا۔

غصے اور گھبراہٹ کے عالم میں اسنے جیب سے فون نکلاتے جواد کو فون ملانا چاہا۔۔۔ اسکا سارا دھیان فون کی جانب تھا جس وجہ سے وہ سامنے سے آتا ٹرالر نہیں دیکھ سکا اور ایک زور دار ٹکر کے ساتھ اسکی گاڑی ہوا میں اچلتی کچھ فاصلے پہ بل کھاتی الٹی گری۔

چند منٹوں کا خیال تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شاندار گاڑی بی طرح سے ٹوٹ گئی اور اسکے اندر بیٹھا شخص دنیا جہاں سے بیگانہ ہوگیا۔

۔🌺 🌺 🌺

چند ایک رسموں کے بعد نوال کو حسام کے کمرے میں بھیج دیا گیا۔۔۔

بڑا سا خوبصورت کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا۔۔۔ اور اس خوبصورت کمرے میں بیڈ پہ لہنگا پھیلائے سر جھکائے بیٹھی معصوم سی لڑکی کا دل آنے والے وقت کا سوچتے تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

نوال اپنی بےقابو ہوتی دھڑکنوں کو سمبھالنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز پہ اسکے دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہوئیں۔

حسام دھیرے سے دروازہ بند کرتے چہرے پہ دلفریب مسکراہٹ سجائے سر سے کلہ اتار کے صوفے پہ رکھتا اسکی جانب بڑھا ۔

نظریں اسکے جھکے چہرے پہ جمائے وہ اسکے قریب بلکل اسکے سامنے بیٹھا تو نوال بےساختہ تھوڑا پیچھے کو کھسکی۔

ارے اب کیوں دور بھاگ رہی ہو اب تو نکاح ہوچکا ہے نا۔۔۔ اور میں نے کہا تھا نا کہ ایک بار تم میری دسترس میں آجاؤ پھر نا میں تمہیں خود سے دور جانے دوں گا اور نا خود تم سے دور جاؤں گا۔۔۔ وہ اسکے تھوڑا اور قریب کھسکتے گھمبیر لہجے میں کہتا نوال کے دل کی دھڑکنوں میں اشتعال برپا کر گیا۔

میری طرف دیکھو۔۔۔حسام نے دھیرے سے کہا تو نوال بغیر کچھ کہے نفی میں سر ہلاگئی۔

حسام نے دو انگلیاں تھوڑی تلے رکھتے اسکا جھکا چہرہ اوپر اٹھایا اور بہت ہی نرمی سے اسکے چہرے پہ جھکتے اسکے ماتھے پہ محبت کی پہلی مہر مثبت کرتے کچھ دیر لب ویسے ہی اسکی پیشانی پہ رکھے سکون سے آنکھیں موند گیا۔

کچھ دیر بعد پیچھے ہوا تو نوال فورن اسکے سینے سے جا لگی۔

حسام کو نوال سے یہ توقع تو نہیں تھی اس لیئے پہلے تھوڑا حیران ہوا پھر دھیرے سے مسکراتے ہوئے اسکے گرد حصار بنا گیا۔۔۔ مگر کچھ ہی دیر بعد اسے نوال کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی جس پہ وہ پریشان ہو اٹھا۔

کیا ہوا نوال۔۔۔ وہ دھیرے سے اسے خود سے دور کرنے لگا مگر نوال نے اسکی شیروانی کس  کے اپنی مٹھیوں میں جکڑ لی۔

نوال کچھ بولو گی یار۔۔۔ تمہاری سسکیاں مجھے پریشان کر رہی ہیں۔۔۔ حسام فکرمندی سے بولا 

میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں حسام۔۔۔ پلیز مجھے کبھی ہرٹ مت کیجئے گا۔۔۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تو حسام نے گہرا سانس بھرا۔

تمہیں لگتا ہے میں تمہیں کبھی ہرٹ کر سکتا ہوں۔۔۔ سکون سے اسکو اپنے ساتھ لگائے پیار سے پوچھا جس پہ نوال اسکے سینے سے لگے لگے ہی دھیرے سے نفی میں سر ہلاگئی۔

تو پھر تم نے یہ بات کیسے کہی ۔۔۔ حسام نے زرا خفگی سے کہا

سوری۔۔۔ وہ شرمندہ لہجے میں بولی۔

میں جانتا ہوں نوال تم نے یہ بات کیوں کہی ہے۔۔۔

دیکھو نوال میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کے میری بیوی ،،، میری محبت کی آنکھ میں کبھی آنسوں نا آئے اور اس انسان کی وجہ سے تو بلکہ نہیں آئیں جو اسکی قدر ہی نہیں کرتا۔۔۔ حسام اسکے رونے کی وجہ سمجھتے دھیرے سے بولا۔

مگر وہ میرے با۔۔۔ نوال کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی حسام نے اسکی بات کاٹی۔

نوال میں انکا ذکر بھی تمہارے منہ سے نہیں سنا چاہتا۔۔۔ میں تمہیں ہر اس بری یاد سے ،،، ہر اس برے لہجے سے دور لے جانا چاہتا ہوں جس سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے۔۔

میں تمہارے ہر دکھ درد کو دور کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ تمہیں ان تلخ یادوں سے نکال کے تمہارے ساتھ حسین یادیں بنانا چاہتا ہوں۔۔۔

مگر میں یہ اکیلے نہیں کر سکتا ۔۔۔ اس میں مجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے ۔۔۔ کیا تم میرا ساتھ دوگی۔۔۔ حسام اسے بازو سے تھامے نرمی سے اپنے سامنے کرتے محبت سے چور لہجے میں استفسار کرنے لگا جس پہ نوال نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلاگئی۔

تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں تمہیں اپنے ساتھ ایک نئی دنیا میں لے جاؤ۔۔۔ اسکے دوپٹے کا پلو تھامتے اجازت طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھا تو نوال ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ واپس اسکے سینے سے لگ گئی جس پہ حسام دلکشی سے مسکراتا اسکے دوپٹے سے پنز نکالنے لگا۔

بھاری دوپٹے کے بوجھ سے نوال کو آواز کرتا دھیرے سے جوڑے میں قید اسکے بال گھولے۔۔۔

بالوں میں انگلیاں پھنساتے انہیں ہلکے سے ہلایا تو سیاہ ریشمی بال کمر پہ بکھر گئے جنہیں ہاتھ میں لیتے چہرے کے پاس کیئے اسنے ایک گہرا سانس بھرتے انکی خوشبو کو اپنے اندر اتارا۔۔۔ جس پہ نوال کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔

آئی لو یو۔۔۔ بھاری جھمکا اتارتے اسکے کان میں خماد آلود لہجے میں سرگوشی کرتے زرا سا جھک کے اسکے کان پہ لب رکھے تو اسکے جان لیوا لمس پہ نوال کی سانسیں تھمیں۔

مجھے یقین نہیں آرہا کے تم میری باہوں میں ہو۔۔۔ مجھے یہ سب ایک حسین خواب جیسا لگ رہا ہے۔۔۔جزبات سے چور لہجے میں کہتا اسکے سارے بال پشت سے ہٹا کے بائیں کندھے پہ ڈالتے ہار کی ڈوری میں انگلیاں پھنسائی جس پہ اسکی انگلیاں نوال کی گردن سے مس ہوئیں۔

اسکی انگلیوں کا گرم لمس اپنی گردن پہ محسوس کرتے نوال کے اندر ایک دم سنسناہٹ ہوئی۔

دھیرے سے ہار اتراتے اسے بیڈ پہ لیٹاتے خمار آلود نظریں حیا سے سرخ پڑتے نوال کے چہرے پہ ٹھکائے اپنی شیروانی اتارتی جس پہ نوال اپنا اناری چہرہ دائیں جانب موڑتی شرم سے آنکهیں میچ گئی۔

اسکے چہرے پہ آئے رنگوں سے محظوظ ہوتے حسام نے جھکتے ہوئے بہت ہی نرمی سے اپنے سلگتے لبوں سے اسکی سفاف گردن کو چھوا جس پہ نوال کانپتی اسکے کندھوں پہ مضبوطی سے ہاتھ جمائے آنکھیں موندے پوری طرح اپنا آپ اسکے حوالے کرگئی۔

ہر گزرتے وقت کے ساتھ حسام نوال کو اپنے ساتھ ایک نئی دنیا میں لے کے جارہا تھا جہاں نوال کو سوائے حسام اور اپنے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔۔

۔⁦🌺 🌺 🌺 

آئلہ واشروم سے چینج کر کے باہر نکلی تو رائد بیڈ پہ نیم دراز آنکھیں موندے ہوئے تھا۔

آئلہ سمجھی وہ سو گیا ہے جبھی کوئی بھی آواز کیئے بغیر خود بھی سونے کے لیئے دھیرے سے اپنی جگہ پہ آئی مگر اس سے پہلے وہ لیٹتی پیچھے سے رائد نے اسکا ہاتھ پکڑتے اپنی جانب کھینچا جس سے وہ سیدھی رائد کے سینے سے جا لگی۔

ی۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ چھوڑیں ہمیں سونا ہے۔۔۔ اسکی آنکھوں میں جزبات کا ٹھاٹے مارتا سمندر دیکھ آئلہ سرمئی آنکھوں پہ پلکھیں گرائے بولی۔

اور اسکی یہ حرکت رائد کو اور بےخود کر گئئ۔۔۔ وہ مدہوش ہوتے فورن اسکے لبوں کو اپنی دسترس میں لیتا اسکو آنکهیں میچنے پہ مجبور کرگیا۔

اپنی تشنگی مٹاتے پیچھے ہوا تو آئلہ کا چہرہ اناری ہوگیا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ وہ گہرے گہرے سانس لیتہ اسے گھورنے لگی۔

ہمیں سونا ہے۔۔۔ ہم تھک چکے ہیں۔۔۔ وہ منہ بنائے خفگی سے اسے دیکھ کے بولی تو رائد مسکراتے ہوئے اسکے گال پہ ہاتھ رکھتے انگوٹھے سے گال سہلانے لگا۔

یار تم روز ہی سوتی ہو۔۔۔ آج زرا جاگ لو میرے لیئے۔۔۔ رائد نے جیسے شکوہ کرتے چھیڑا تو آئلہ کا منہ کھلا۔

ہاااااا ہم کہاں سوتے ہیں روز ۔۔۔ آپ ہمیں سونے ہی کب دیتے ہیں زور۔۔۔۔اپنے اوپر لگے جھوٹے الزام پہ وہ گھور کے بولی تو رائد نے بڑی مشکل سے اپنا قہقہہ ضبط کیا۔

جی نہیں تم سوجاتی ہو تبھی آج میں پیچھے رہ گیا ہوں۔۔۔ وہ بھی اسہی کی طرح مسنوعی گھوری دیکھاتے بولا تو آئلہ نے آنکهیں چوٹی کیں۔

کیا مطلب۔۔۔ اسنے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔اسے واقع رائد کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا۔

مطلب یہ کے میں بڑا ہوں اور میری شادی بھی جزلان سے پہلے ہوئی ہے مگر پھر بھی وہ باپ کے عہدے پہ فائز ہونے جا رہا ہے جب کے سب سے پہلے یہ عہدہ مجھے ملنا چاہیئے تھا۔۔۔ وہ کہتے ہوئے آئلہ کو کچھ خفا خفا سا لگا مگر رائد کے اندر کا حال کون جانے جو اسے تنگ کر کے اندر سے مسکرا رہا تھا۔

یہ تو اللہ کی مرضی ہے نا اس میں ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ نرمی سے اسکے گال پہ ساتھ رکھتی مسکرا کے بولی۔

ہم محنت کر سکتے ہیں۔۔۔ اس لیئے اب میں تمہاری آواز نا سنوں۔۔۔ رائد تھوڑا سختی سے کہتا اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش اپنے لبوں سے چھونے لگا جس پہ وہ بغیر کچھ بولے بس خاموشی سے اسکا لمس اپنے چہرے پہ جا بجا محسوس کرتی مسکراتے ہوئے اسکی گردن میں باہیں ڈال گئی۔

رائد بلکل مدہوش ہوتے آس پاس کا ہوش بھلائے آئلہ میں کھوتا جا رہا تھا جب فون کی بیل پہ ایک دم ہوش میں آیا۔

اتنی رات کو کس کا فون آگیا۔۔۔ وہ کچھ بدمزہ ہوتے پیچھے ہوا۔۔۔ ہاتھ بڑھا کے سائد کارنر سے فون اٹھایا۔۔۔ جس پہ آئلہ مسکراہٹ روکتی نظریں جھکائے اسکی شرٹ پہ انگلی پھیلنے لگی۔

ہیلو۔۔۔ انون نمبر سے کال آتے دیکھ اسنے فورن کال ریسیو کی تھی۔

رائد خان بات کر رہے ہیں جزلان خان کے بھائی۔۔۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔

جی کر رہا ہوں۔۔۔مگر آپ کون۔۔۔ وہ ایک نظر اپنے ساتھ لگی آئلہ پہ ڈالتے تفتیش سے پوچھنے لگا۔

میں ڈاکٹر عثمان بات کر رہا ہوں ۔۔۔ جزلان صاحب کا ایک+سیڈینٹ ہوا ہے اور وہ انتہائی تفتیش ناک حالت میں اس وقت ہمارے اوسپیٹل میں موجود ہیں۔۔۔ آپ جتنا جلدی ہو سکے یہاں آجائیں۔۔۔ دوسری طرف سے عطلاح دی گئی جس پہ رائد ایک دم سیدھا ہوا۔۔۔ تو آئلہ بھی پریشانی سے سیدھی ہوکے بیٹھی۔

کس اسپتال میں ہے وہ۔۔۔ رائد نے بےچینی سے پوچھا تو اسپتال سنتے آئلہ کی پریشانی مزید بڑھی۔

ٹھیک ہے ہم آتے ہیں۔۔۔۔ دوسری طرف سے اسپتال کا نام سنتے رائد کال کاٹتے عجلت میں کھڑا ہوا۔

کیا ہوا سب خیریت ہے نا۔۔۔ اسکے چہرے کی پریشانی دیکھ آئلہ کا دل بری طرح گھبرایا۔

کچھ خیریت نہیں ہے۔۔۔ جزلان کا ایک+سیڈینٹ ہوا ہے وہ اس وقت اسپتال میں ہے ۔۔۔ مجھے ابھی جانا ہوگا۔۔۔ رائد جلدی سے والیٹ فون اور گاڑی کی چابی اٹھاتے چپل پہننے لگا۔

یااللہ خیر۔۔۔ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔۔۔ آئلہ جلدی سے کھڑی ہوئی۔

نہیں تم گھر پہ ہی رہو۔۔۔ اس وقت سب سو رہے ہیں۔۔۔ تو میں کسی کو بتا کے نہیں جا رہا ۔۔۔ صبح جب سب اٹھیں تو تم بتا دینا اور جب ہی ایمل اور ماما کو لے کے اسپتال آجانا باقی وہاں کی خبر میں تمہیں دیتا رہوں گا۔۔۔ رائد چپل پہن کے اسکی جانب آیا۔

دعا کرنا میرے بھائی کے لیئے۔۔۔ وہ نرمی سے کہتا اسکا ماتھا چومتے کمرے سے نکل گیا۔۔۔ اسکے جانے کے بعد آئلہ فورن واشروم کی جانب بڑھ گئی وضو بنانے کے لیئے۔

🌺 🌺 🌺۔

سورج نکل چکا تھا۔۔۔ اسکی ابھی کچھ دیر پہلے ہی رائد سے بات ہوئی تھی جس کے بعد وہ جزلان کی سیریس کنڈیشن کا سن کے اور پریشان ہوگئی تھی۔۔۔اب آئلہ سے اور کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ وہ کمرے سے نور بیگم اور ایمل کو بتانے کی غرض سے باہر نکلتی سیدھے نیچے آئی۔۔۔ تو اسے ڈائنگ روم سے آوازیں آرہیں تھیں وہ سیدھے وہیں آگئی۔

نور بیگم کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت تھی اس لیئے وہ آٹھ بجے ہی اٹھ چکی تھیں۔۔۔ اور اب ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے کیئے ناشتے کے برتن اٹھا رہی تھیں۔

وہ ڈائنگ روم میں داخل ہوئی تھی کے اسکے پیچھے ہی ایمل سر پکڑے اندر داخل ہوئی۔

بڑی ماما سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔اور بھوک بھی لگی ہے پلیز کچھ کھانے کو بنوادیں۔۔۔ ایمل نڈھال سی کرسی پہ بیٹھی۔

تمہاری طعبیت ٹھیک نہیں لگ رہی بیٹا ۔۔۔ جزلان کو اٹھاؤ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔ نور بیگم فکرمندی سے بولیں۔

نہیں بڑی ماما اتنی بھی طعبیت خراب نہیں ہے بس بھوک لگ رہی ہے اس لیئے ایسی حالت ہو رہی ہے ابھی کچھ کھالوں گی تو دیکھئے گا ایک دم ٹھیک ہوجاؤ گی۔۔۔ ایمل مسکرا کے بولی جب کے آئلہ وہیں پریشان کھڑی سوچ رہی تھی کہ سب کو جزلان کا بتادے یا نہیں۔۔۔

مگر بتانا تو تھا ہے ۔۔۔ صبح ہوگئی تھی اور جزلان رات سے اسپتال میں تھا ۔۔۔ اور اب تو رائد نے بھی کہ دیا تھا کہ ایمل اور ماما کو لے کے اسپتال آجاؤ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

آئلہ بیٹا ایسے کیوں کھڑی ہو بیٹھ جاؤ میں تمہارے لیئے بھی ناشتہ بنواتی ہوں۔۔۔

اور ہاں دونوں اپنے شوہروں کو اٹھا دو اور کہو بہن کے گھر ناشتہ لے کے جانا ہے۔۔۔ نور بیگم مسکرا کے بولیں تو آئلہ نے لب دبائے انہیں دیکھا جب کے ایمل نے حقارت سے سر جھٹکا۔

ماما جزلان گھر پہ نہیں ہے۔۔۔۔ ایمل نے بےزاریت سے کہا تو نور بیگم چونکیں۔

کیا مطلب وہ رات سے گھر نہیں آیا۔۔۔ نور بیگم کو جیسے افسوس ہوا تھا۔۔۔ وہ تو سوچ رہیں تھی کہ جزلان شاید بدل گیا ہے لیکن شاید وہ غلط تھیں۔

یہ کون سا پہلی بار ہوا ہے۔۔۔  اب بھی گزاری ہوگی کسی محبوبہ کی باہوں میں رات۔۔۔۔ پہلی بات زور سے کہتے وہ آخر میں دھیرے سے  بڑبڑائی مگر اسکی بڑبڑاہٹ آئلہ نے سن لی اور اب ہو اور وقت زیادہ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔

وہ لوگ جزلان کو غلط سمجھ رہے تھے ۔۔۔ ایمل سمجھ رہی تھی کہ وہ رات بھر سے کسی لڑکی کے ساتھ ہے مگر حقیقت تو یہ تھی کہ وہ اسپتال کے بستر پہ پڑا زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا تھا۔۔۔ اسکے اگلے پل کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا سے کیا ہوجائے۔۔۔مگر ایمل یہاں بیٹھ کے کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔۔۔ 

یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کے وہ اپنے پاس سے باتیں اخذ کر لیتا ہے۔۔۔ لیکن اصل مسئلہ کیا ہے اصل پریشانی کیا ہے یہ تو وہی جانتا ہے نا جس پہ گزر رہی ہوتی ہے۔۔۔ 

لوگوں کا کام بولنا ہوتا ہے اور وہ بولتے رہتے ہیں۔۔۔ بغیر کسی دوسرے کی تکلیف جانے باتیں بنانا بہت آسان ہوتا ہے جیسے ابھی ایمل کر رہی تھی۔۔۔ بغیر جزلان کی حالت کے بارے میں جانے اسے اس وقت بھی غلط سمجھ رہی تھی جب اسے ہمدردی اور دعا کے ساتھ اپنوں کی ضرورت تھی۔

ایمل کی بڑبڑاہٹ سن کے آئلہ سے اور رہا نا گیا تو بول اٹھی

ایمل رات سے جزلان بھائی کسی لڑکی کے ساتھ نہیں بلکے اسپتال میں ہیں۔۔۔ آئلہ سنجیدگی سے بولی تو ایک پل کے لیئے وہ حیران ہوئی۔

کیا مطلب بیٹا ۔۔۔۔ نور بیگم کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔ انکے چہرے پہ پریشانی صاف واضح ہورہی تھی۔

جزلان بھائی کا ایک+سیڈینٹ ہوگیا ہے۔۔ وہ اس وقت بہت کرٹیکل حالت میں ہیں۔۔۔ رائد اسپتال میں ہی ہیں اور ہمیں بھی وہاں بلایا ہے۔۔۔ آئلہ دکھ سے بولی تو ایمل ایک دم ساکت رہ گئی جب کے نور بیگم سر تھامتی لڑکھڑا گئیں۔

ماما سمبھالیں خود کو۔۔۔ آئلہ نے فورن انہیں سہارا دیتے کرسی پہ بیٹھایا۔

میرا بچہ رات سے تکلیف میں اسپتال میں ہے اور مجھے خبر ہی نہیں ہوئی کیسی ماں ہوں میں۔۔۔ وہ روتے ہوئے سر تھام گئیں۔۔

ماما حوصلہ کریں اور اللہ سے دعا کریں انشاءاللہ آگر اللہ نے چاہا تو جزلان بھائی بلکل ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔ آئلہ نے نرمی سے نم آنکھوں سے سمجھایا ۔

مجھے ابھی اسپتال جانا ہے ۔۔۔ نور بیگم فورن کھڑی ہوئی تو آئلہ نے انکا ہاتھ تھاما۔۔۔ جب کے ایمل اب بےتاثر نگاہوں سے نور بیگم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

جی ہم چلتے ہیں مگر۔۔۔

نہیں بیٹا اب کچھ نہیں کہو بس مجھے جزلان کے پاس لے چلو۔۔۔ اسکی بات کاٹتے انہوں نے ضدی انداز میں کہا تو آئلہ کو انکی بات ماننی پڑی۔

جی چلتے ہیں۔۔۔ ایمل تم ماما کو اندر لے کے جاؤ اور چلنے کی تیاری کرو ہم جب تک کچھ کھانے کو بنواتے ہیں۔۔۔ تم نے بھی کچھ نہیں کھایا اور اس حالت میں تمہارا بھوکا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ جاؤ ماما کو لے جاؤ۔۔۔ آئلہ نے دھیرے سے کہا تو ایمل سپاٹ انداز میں سر ہلاتی نور بیگم کو لیئے ڈائنگ روم سے نکل گئی جب کے آئلہ جلدی سے کچن کی جانب بڑی۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد اور تراب خان آئی سی یو کے باہر لگی بینچ پہ بیٹھے تھے جب رائد کی نظر آئلہ نور بیگم اور ایمل پہ پڑی تو وہ کھڑا ہو گیا۔

رائد میرا بچہ کیسا ہے۔۔۔ نور بیگم سیدھے رائد کے پاس آئیں۔

اندر ہے ۔۔۔ رائد سے کچھ کہا ہی نہیں گیا۔۔

وہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔ نور بیگم نے فکرمندی سے پوچھا۔

دعا کریں ماما۔۔۔ وہ بس اتنا کہتا آنسوں بہاتی اپنی ماں کو اپنے ساتھ لگا گیا۔

جزلان بھائی کی طعبیت کیسی ہے۔۔۔۔ آئلہ نے آگے بڑھتے پوچھا جب کے ایمل وہیں رکھی بینچ پہ سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھ گئی۔

رائد نے دھیرے سے نور بیگم کو تراب خان کے ساتھ بیٹھایا جن کی حالت بھی نور بیگم سے کم نا تھی۔۔۔ 

رائد نے صبح ہوتے ہی تراب خان کے خاص آدمی کو فون کر کے جزلان کی حالت کی عطلاح دے دی تھی ۔۔۔ جس کے بعد ٹھیک ایک گھنٹے بعد تراب خان بےچینی سے اسپتال آگئے تھے اور اب مسلسل جزلان کے لیئے دعا کر رہے تھے۔

انہیں اپنا بیٹا بہت عزیز تھا وہ اپنے بیٹے کو یوں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ابھی جو بات انہیں پتہ چلے گی وہ انہیں مزید دکھی کر دے گی۔

نور بیگم کو بیٹھانے کے بعد رائد آئلہ کو لیئے ایک طرف آیا۔

اسکی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔ بہت خطرناک ایک+سیڈینٹ ہوا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نے ابھی زیادہ کچھ تفصیل سے نہیں بتایا مگر انکا کہنا ہے اب کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے ورنا اسکے بچنے کے چانسز بہت ہی کم ہیں۔۔۔ رائد دکھ سے نم لہجے میں بولا تو آئلہ کی آنکهیں جھلک اٹھیں۔

مزید ایک گھنٹہ گزرا تھا جب دو ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر آئے۔۔۔ تو سب سے پہلے تراب خان انکی جانب لپکے۔

میرا بیٹا ٹھیک ہے نا۔۔۔ انہیں نے بےچین سے استفسار کیا تو ڈاکٹر نے دکھ سے انہیں دیکھا۔

دیکھیں تراب صاحب ہم آپ کو جھوٹی تسلی بلکل نہیں دیں گے۔۔۔ کیونکہ جس طرح انکا ایک+سیڈینٹ ہوا ہے اس میں بچنے کے چانسسز بہت کم ہوتے ہیں۔۔۔ اور یہی حالت مسٹر جزلان کی بھی ہے۔۔۔ ڈاکٹر کی بات سنتے سب کے دل بند ہونے کو آئے مگر ایمل کا چہرہ ابھی بھی بےثاتر تھا جیسے اسے یہ سن کے کوئی دکھ ہی نہیں ہوا ہے۔۔۔۔ کوئی فرق ہی نہیں پڑا ہو۔

انکے جسم میں کئی جگہ کانچ بھی گھا تھا۔۔۔ اور بائیاں پاؤں تھوڑا سا فریکچر ہوا ہے۔۔۔ 

انکی گاڑی بل کھاتے ہوئے الٹی گری تھی اور تقریباً گاڑی کا دائیاں آدھا حصہ دب گیا تھا جس کے نیچے مسٹر جزلان بھی بری طرح دب چکے تھے۔۔۔ جس وجہ سے ان کا آدھا حصہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے جس کے نتیجے میں انکا آدھا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔۔۔ دائیاں ہاتھ یا پاؤں انکا اب کام کرنے سے قاصر ہے۔۔۔ ڈاکٹر پرفیشنلی انداز میں بولے مگر وہاں کھڑے لوگ زلزلے کی زد میں آچکے تھے۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر۔۔۔ تراب خان بےیقینی سے بولا۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ انکا بیٹا ایک ہاتھ اور پاؤں سے معذور ہو گیا تھا۔

کو۔۔۔ کوئی علاج تو ہوگا نا اسکا۔۔۔ میں اپنے بھائی کو باہر لے جاؤں گا وہاں تو علاوہ ہوگا نا ۔۔۔ رائد سن ہوتے دماغ سے بولا۔۔۔ سب کی حالت ہی غیر ہوگئی تھی لیکن ایک ایمل ہی تھی جو ویسی کی ویسی ہی تھی۔

آپ چاہے انہیں باہر لے کے جائیں یا کسی بھی دوسرے ڈاکٹر سے علاج کروائیں مگر سب لوگ یہی کہیں گے۔۔۔۔ ڈاکٹر نے سمجھایا۔

تو پھر اب۔۔۔ تراب خان نے تڑپ کے پوچھا۔

دیکھیں ابھی تو وہ ہوش میں بھی نہیں آئے ہیں سب سے پہلے تو آپ انکے ہوش میں آنے کی دعا کریں آگر وہ ہوش میں آگئے تو باقی چیزوں کا علاج بھی ہو جائے گا۔۔۔

انکا آدھا جسم مفلوج ہو گیا ہے مگر اسکا بھی علاج موجود ہے لیکن ان کو فائدہ ہونے میں کتنے ٹائم لگے گا یہ ہم نہیں بتا سکتے۔

وہ کبھی بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔۔ایک ماہ، دو ماہ، ایک سال ،دس سال یا پھر زندگی بھر ایسے ہی رہیں یہ کچھ کہا نہیں جاسکتا مگر ابھی ضروری ہے انکی جان کا بچنا جس کو بچانے کی ہم پوری کوشش کر رہے ہیں باقی آپ لوگ دعا کریں۔۔۔ ڈاکٹر تراب خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے آگے بڑھ گئے۔۔

میرے بچہ۔۔۔ نور بیگم دکھ سے رودیں جنہیں آئلہ نے سمبھالا۔۔۔ تراب خان تو ڈھ سے گئے تھے اپنے جوان بیٹے کے دکھ پہ۔۔۔ اور رائد!!!! اسے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔۔۔ ان سب میں ایمل تھی جس نے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا تھا

ایمل نے آگے بڑھتے دروازے میں لگے شیشے میں سے اندر جھانکا جہاں مشینوں اور پٹیوں میں جکڑا جزلان کا وجود بہت ہی بیمار اور کمزور لگ رہا تھا۔۔۔ اسے ایک پل کے لیئے دکھ ہوا ۔۔۔ ترس آیا مگر اگلے ہی پل اسکی آنکھوں کے سامنے مہوش کا بےجان مرجھایا ہوا چہرہ لہرا گیا۔۔۔ 

اسکی آنکھوں کے سامنے وہ منظر لہرا گیا جب اسکے بابا بھی ایسے ہی اسپتال کے بستر پہ پڑے اسکی آنکھوں کے سامنے صرف جزلان خان کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔۔۔ اور یہ منظر آتے ہی ساری ہمدردی سارا ترس بھاپ کی طرح اڑ گیا۔

اسے نور بیگم اور باقی سب کی حالت دیکھ کے دکھ ہو رہا تھا مگر اسے جزلان کے وجود سے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا۔

ماما۔۔۔۔ نوال ماں کو پکارتی تیزی سے انکی جانب آتی انکے گلے لگی۔

آج نوال کا ولیمہ تھا اس لیئے تھوڑی دیر پہلے ہی رائد نے انہیں جزلان کی حالت کی عطلاح دے دی تھی تاکہ وہ ولیمہ کینسل کردیں۔

نوال کو جیسے ہی جزلان کی حالت کا پتہ چلا تھا وہ فورن ہی حسام کے ساتھ اسپتال آگئی تھی مگر اسے وہاں دیکھ کے تراب خان کا دماغ گھوم گیا

یہ یہاں کیوں آگئی ہے۔۔۔ اس کی منحوسیت کی وجہ سے آج میرا بیٹا اس حالت میں ہے۔۔۔ جو بھی اس سے قریب ہوتا ہے اسے سوائے تکلیف کے اور کچھ نہیں ملتا۔۔۔ تراب خان آپے سے باہر ہوتے دھاڑے تو رائد اور حسام کے ماتھے پہ بل پڑے۔

میں نے جزلان کو کہا بھی تھا اس منحوس سے دور رہے مگر نہیں زیادہ ہی بہن کی محبت کا بھوت سوار ہوگیا تھا اس پہ اب دیکھو بھوگت رہا ہے۔۔۔۔ تراب خان نخوت سے بولے تو نوال چہرہ جھکائے آنسوں روکنے کی کوشش کرنے لگی

بس انکل۔۔۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا میری بیوی کے بارے میں ایسی باتیں کرنے کا۔۔۔ حسام فورن انکے سامنے آتا ادب کے دائرے میں مگر سخت لہجے میں بولا۔

نوال کے لیئے حسام کا آواز اٹھانا اسکی ڈھال بنا وہاں سب کو اچھا لگا تھا

میں دشمنوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتا۔۔۔ تراب خان ایک ایک لفظ پہ زور دیتے جبڑے بھیج گئے۔

میں آپ کا دشمن ہوں تو یہ میری بیوی ہے یعنی آپ کے دشمن کی بیوی تو بہتر ہے آگے سے اسے بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ورنا میں ہر لحاظ بھول جاؤں گا۔۔۔ حسام نے سنجیدگی سے وارن کیا جس پہ وہ سر جھٹک کے رہ گئے۔

حسام ایک نظر آنسوں بہاتی نوال کو دیکھتے لب بھیج کے رائد کے پاس آتے جزلان کی کنڈیشن کا پوچھنے لگا۔

صبح سے دوپہر ، دوپہر سے شام اور اب شام سے رات ہونے کو آئی تھی مگر جزلان کے ہوش میں آنے کی کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔ ڈاکٹر کہہ چکے تھے کے آگر وہ ہوش میں آجاتا ہے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن آگر اسے ہوش نا آیا تو وہ قومہ میں بھی جا سکتا ہے۔

اور یہ ساری خبریں بریکنگ نیوز کی طرح چاروں اور پھیل گئی تھی کہ جاگیردار جزلان خان کا ایک+سیڈینٹ ہوگیا ہے۔

بہت سے لوگ یہ خبر سن کے افسوس کا اظہار بھی کر رہے تھے جب کے مخالف پارٹی اس کو جزلان کی پلینگ بتا رہی تھی کہ اسنے خود لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیئے اپنا ایک+سیڈنٹ کروایا ہے۔۔۔ 

صبح سے ہی سب لوگ اسپتال میں موجود تھے۔۔۔ نوال اور حسام صبح ہی دو گھنٹے وہاں بیٹھے کے چلے گئے تھے۔۔۔ رائد کب سے ان تینوں سے بھی گھر جانے کا کہہ رہا تھا مگر کوئی بھی جانے کو تیار نا تھا۔۔۔ جب کے ایمل تو صبح سے ہی خاموش بیٹھی تھی۔

آئلہ صبح جو اپنے ساتھ ناشتہ لائی تھی وہ تھوڑا ہی کھایا گیا تھا جب کے کسی نے بھی دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔۔۔ مگر آئلہ اور رائد نے مل کے نور بیگم اور ایمل کو رات کا کھانا کھلا دیا تھا ۔۔۔ باقی بچے تھے تراب خان تو انہیں نور بیگم نے کھلایا تھا کیونکہ وہ جب سے آئے تھے رائد تو ان سے کوئی بات ہی نہیں کر رہا تھا۔

شام میں جزلان کو دیکھنے حیدر شاہ آنے والے تھے مگر تراب خان کی وجہ سے کوئی بدمزگی نا ہو اس لیئے رائد نے انہیں منا کردیا تھا۔۔۔ 

وہ خود بھی کل رات سے وہاں تھا بہت تھک گیا تھا مگر وہ جزلان کو چھوڑ کے جانے کے لیئے تیار نا تھا۔۔۔جب کے وہ اب کسی بھی طرح خواتین کو گھر بھیجنے والا تھا۔

ماما آب صبح سے یہاں بیٹھی ہیں تھک گئی ہوں گی پلیز گھر چلی جائیں تھورا آرام کر لے گا۔۔۔ سر دیوار سے لگائے بیٹھی نور بیگم کے پاس بیٹھتے رائد دھیرے سے بولا۔

نہیں بیٹا میرا گھر جانے کا بلکل دل نہیں ہے۔۔۔  انکی آواز سے انکی تھکاوٹ کا پتہ چل رہا تھا مگر وہ پھر بھی انکار کر رہیں تھیں۔۔۔

کب تک یہاں بیٹھیں گی۔۔اس طرح بیٹھے بیٹھے تو آپ بیمار ہوجائیں گئی۔۔۔ رائد نے پیار سے سمجھانا چاہا جس پہ وہ نفی میں سر ہلا گئیں۔

میں گھر جا کے آرام کیسے کر سکتی ہوں جب یہاں میرا بیٹا یہاں موت کے منہ میں بڑا ہوا ہے۔۔۔ نم لہجے میں بولی تو رائد نے ایک گہرا سانس بھرا۔

ماما ایمل اور آئلہ کو دیکھیں وہ بھی آپ کی وجہ سے ہی گھر نہیں جا رہیں۔۔۔ اور ایمل اس حالت میں اتنی دیر تک اسکا بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ پہلے ہی وہ صبح سے یہاں بیٹھی ہوئی ہے کتنی تھک گئی ہوگی۔۔۔ اس لیئے کہہ رہا ہوں آپ بھی گھر جائیں اور ان لوگوں کو بھی لے جائیں باقی جزلان کے پاس میں ہوں نا جیسے ہی جب بھی وہ ہوش میں آئے گا میں آپ کو واپس بلا لوں گا۔۔۔ اسنے بچوں کی طرح نرمی اور پیار سے سمجھایا۔

انہوں نے گردن موڑ کے ساتھ والی بینچ پہ بیٹھی ایمل اور آئلہ کو دیکھا۔۔۔ دونوں کے چہرے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ بہت تھک چکی ہیں ۔۔۔ آئلہ تو صبح سے برقعے​ میں نقاب لگائے ہوئے تھے اور ایمل وہ واقعی بہت بےارام سی بیٹھی ہوئی تھی جس پہ انہیں نا چاہتے ہوئے بھی رائد کی بات ماننی پڑی۔

ٹھیک ہے بیٹا میں دونوں بچیوں کو لے کے گھر چلی جاتی ہوں مگر جیسے ہی جزلان کو ہوش آئے سب سے پہلے تمہیں مجھے عطلاح دینی ہے۔۔۔ نور بیگم نے باور کروایا جس پہ رائد مسکراتے ہوئے سر ہلاگیا۔

 نور بیگم ایمل اور آئلہ کو لیئے گھر جا رہیں تھی جب تراب خان نے رائد کو مخاطب کیا۔

رائد تم بھی تو کل رات سے یہاں پہ ہو۔۔۔ تم بھی تھک گئے ہوں گے گھر چلے جاؤ میں ہوں یہاں جزلان کے ساتھ۔۔۔ تراب خان نے فکرمندی سے کہا۔

آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ روکھے انداز میں بولا تو وہ چپ ہوگئے۔

رائد تمہارے بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔۔۔ تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔ ابھی ہمارے ساتھ چلو پھر کل صبح واپس آجانا ۔۔۔ نور بیگم کو  تراب خان کی بات ٹھیک لگی ۔۔۔ وہ بھی تو کل رات سے یہاں تھا ان سے زیادہ تو وہ تھک گیا ہوگا۔

آپ فکر مت کریں ماما میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ آپ لوگ گھر جائیں اور ریسٹ کریں۔۔۔ انکیں مطمئن کرنے کے لیئے رائد ہلکے سے مسکرا۔

بیٹا میں ماں ہوں اور ایک ماں اپنی اولاد کا چہرہ پڑھ سکتی ہے اور اس وقت تمہارے چہرے پہ سخت تھکن کے آثار ہیں۔۔۔ اس لیئے تم بھی ہمارے ساتھ گھر چلو گے۔۔۔ نور بیگم نے حکمیہ انداز میں کیا تو رائد انہیں منا نہیں کر سکا۔۔

اچھا ٹھیک ہے آپ لوگ باہر چلیں میں دو منٹ میں ڈاکٹر سے مل کے آتا ہوں۔۔۔ ان لوگوں کو بار جانے کا کہتے وہ ڈاکٹر کے روم کی جانب بڑھ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

ہم دو منٹ میں آئے۔۔۔ گھر آکے فریش ہونے کے بعد بیڈ پہ آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹے ائلہ رائد کو دیکھ کے بولی تو رائد نے بازو ہٹاتے آنکھیں کھول کے اسے دیکھا جو اب دوپٹہ سر پہ لیتی باہر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔

کہاں جا رہی ہو۔۔۔ 

ایمل کے پاس جا رہے ہیں۔۔۔ وہ اکیلی ہے نا تو ہم نے سوچا اس سے پوچھ لیتے ہیں کے اسے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔۔۔ آئلہ دھیرے سے بولی تو رائد سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتا واپس آنکھیں بند کرتا بازو آنکھوں پہ رکھ گیا تو آئلہ کمرے سے نکل گئی۔

وہ کچن سے دودھ کا گلاس بھرتی ایمل کے کمرے کے دروازے پہ ہلکے سے دستک دیتی اندر آئی۔

بھابھی آپ اس وقت۔۔۔ ایمل جو بیک گراؤنڈ سے ٹیک لگائے پاؤں سیدھے کیئے کسی سوچ میں گم تھی آئلہ کو دیکھ کے سیدھے ہو کے بیٹھی

تمہارے لیئے دودھ لائے ہیں اور یہ بھی پوچھنے آئے ہیں کہ تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے نا۔۔۔ آئلہ سائڈ کورنر پہ دودھ کا گلاس رکھتی اسکے سامنے ہی بیڈ پہ بیٹھی 

بھابھی آپ کو آرام کرنا چاہیئے تھا آپ تھک گئی ہوں گی۔۔۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ میں خود لے لوں گی۔۔۔ ایمل ہلکے سے مسکرا کے بولی تو آئلہ بغیر اسکی بات کا جواب دیئے بس خاموشی  سے غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔

کیا دیکھ رہی ہیں۔۔۔ اسنے ناسمجھی سے مسکرا کے پوچھا۔

سچ بتانا ایمل کیا تمہیں جزلان بھائی کی حالت پہ زرا سا بھی دکھ نہیں ہوا۔۔۔ آئلہ نے بغیر گھومائے پھرا سیدھا سوال کیا۔۔۔ جس پہ  ایمل کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی۔

پتہ نہیں۔۔۔ وہ ایک گہرا سانس بھر کے زرا سے کندھے اچکا کے بولی۔

ایمل تم انکی بیوی ہو۔۔۔ اور جب شوہر تکلیف میں ہو تو سب سے زیادہ دکھ بیوی کو ہوتا ہے۔۔۔ مگر آج انکے بارے میں سن کے تمہاری آنکھ سے ایک آنسوں نکلنا تو دور ہلکی سی نمی بھی نہیں آئی تھی۔۔۔۔ آئلہ تذبدب سے بولی جب کے ایمل خاموش رہی ۔

ایمل کو خاموش دیکھ کچھ دیر بعد آئلہ پھر سے بولی۔

جب ہم نے صبح تمہیں ان کے ایک+سیڈینٹ کا بتایا تھا تب بھی تمہارے چہرے پہ کوئی دکھ تکلیف یا پریشانی کے آثار نہیں تھے۔۔۔ اور باقی پورے دن میں بھی ہم نے تمہارا چہرہ بےثاتر ہی دیکھا ہے۔۔۔

اور تم نے اسپتال میں جزلان بھائی کے پاس رکھنے کی بھی ضد نہیں کی ورنا کوئی بھی بیوی اپنے شوہر کو چھوڑ کے اتنی آسانی سے واپس گھر نہیں آتی مگر تم نے رکنا تو دور ایک بار بھی انکی خیریت کا نہیں پوچھا۔۔۔ ایسا کیوں ایمل۔۔۔ اسنے اضطرابی کیفیت میں پوچھا جس پہ ایمل نے سر اٹھائے خالی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔۔ 

مجھے خود بھی نہیں پتہ بھابھی کے میں کب ایک بےحس اور پتھر دل شخص کے ساتھ رہتے رہتے خود بھی اسکے جیسی ہوگئی۔۔۔

ورنا میں تو ایسی تھی کہ غیروں کی تکلیف بھی مجھے درد دیتی تھی۔۔۔ آگر دوسروں پہ کوئی پریشانی آئے تو وہ مجھے اپنی پریشانی لگتی تھی۔۔۔ دوسروں کے لیئے میں ہمیشہ آگے آگے رہتی تھی مگر جزلان کے ایک+سیڈینٹ کا سن کے بھی مجھے افسوس نہیں ہوا۔۔۔میں کب اتنی بےحس بن گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا بھابھی۔۔۔ وہ عام سے لہجے میں زرا حیرت سے بولی ۔

اسے اپنے آپ پہ حیرانگی تھی کہ وہ کب اتنی بدلی کے اسے خود بھی احساس نا ہوا۔۔

ہم جانتے ہیں ایمل کے جزلان بھائی پہلے ایک بڑے انسان تھے ۔۔۔ انہوں نے تمہارے ساتھ، دوسروں کے ساتھ بہت برا گیا ہے۔۔۔۔ انکا لہجہ انکا انداز سامنے والے کو بہت تکلیف دیتا تھا مگر انہیں اس بات کی بلکل فکر نہیں ہوتی تھی۔۔۔ اور یہ چیز ہمیں بھی بلکل اچھی نہیں  لگتی تھی۔۔۔

لیکن کچھ عرصے سے وہ خود کو بدل رہے ہیں۔۔۔ انکا انداز، انکا لہجہ بدل رہا ہے۔۔۔وہ سب سے پیار سے پیش آتے ہیں۔۔۔ تمہاری کتنی فکر کرتے ہیں۔۔۔ ہر برے کام کو تقریباً چھوڑ چکے ہیں ۔۔ اپنے کیئے پہ شرمندہ بھی ہیں اور جب کوئی شرمندہ ہوکے آپ سے معافی مانگ رہا ہے ۔۔۔ اپنی غلطیاں تسلیم کر رہا ہے تو سامنے والے کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بار بار اس شخص کا ماضی دھراتا رہے۔۔۔

بلکے اسے اپنا دل بڑا کر کے اللہ کی رضا کے لیئے معاف کردینا چاہیئے۔۔۔ سب کچھ بھول جانا بہت مشکل ہوتا ہے مگر ایک شخص کو اسکے شرمندہ ہونے پہ بھی بار بار اسکی غلطیاں یاد کروانا گناہ ہوتا ہے۔۔۔ آئلہ نے بہت ہی نرمی سے تفصیل سے سمجھایا تھا۔

بھابھی معاف کرنے کے لیئے انسان کا معافی مانگنا بھی ضروری ہوتا ہے۔۔۔ جو آج تک جزلان خان نے اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہوکے ایک بار بھی نہیں مانگی۔

 وہ کہتا ہے کہ وہ شرمندہ ہے۔۔۔ وہ خود کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔مگر میں نے اسکے اتنے روپ دیکھ لیئے ہیں کے اب مجھے اسکی بات پہ یقین ہی نہیں آتا۔۔۔ وہ تلخی سے زرا سا سر جھٹک کے مسکرائی۔

ایمل تم اپنی جگہ ٹھیک ہو۔۔۔ لیکن کس کے دل میں کیا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے۔۔۔ کس کی کیسی نیت ہے یہ اللہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔۔ اور ہم بس ایک بات جانتے ہیں کے معافی مانگنے سے تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے تو پھر ہم انسان کیا چیز ہیں جو اتنی اکڑ لیئے بیٹھے ہیں۔۔۔ معاف کردینا چاہیئے آگے بڑھ جانا چاہیئے۔۔۔ آئلہ نے سکون سے مسکراتے ہوئے سمجھایا۔

معاف کردینا اتنا آسان نہیں ہوتا بھابھی اور نا ہی ہر گناہ کی معافی ہوتی ہے۔۔۔ ایمل دھیرے سے ساری پرانی باتیں یاد کرتے بولی تو آئلہ مسکرادی۔

معاف کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا جتنا ہم انسانوں نے بنا دیا ہے۔۔۔۔ وہ مسکرا کے بولی تو ایمل اسکا چہرہ دیکھ کے رہ گئی۔

ایمل ہر گناہ کی معافی ہوتی ہے بشرط یہ کے توبہ سچی اور پکی ہو۔۔۔ تو ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے ۔۔۔

ہم تمہیں یہ نہیں کہیں گے کے تم جزلان بھائی کو ہمارے کہنے سے معاف کردو۔۔۔ بس اتنا کہیں گے کہ تم ہماری باتوں پہ غور ضرور کرنا ۔۔۔ باقی تم خود کافی سمجھدار ہو۔۔۔ آئلہ مسکراتے ہوئے ہلکے سے اسکا ہاتھ تھپتھپاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

دودھ پی لینا۔۔۔ آئلہ شائستگی سے کہتی کمرے سے نکل گئی

پیچھے ایمل واپس بیگ گراؤنڈ سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں کھو گئی تھی۔

۔🌺 🌺 🌺

صبح ہوتے ہی جہاں ایک خوشخبری انکی منتظر تھی وہیں اس خوشخبری کے پیچھے دو بری خبریں بھی آرہی تھیں۔

صبح ہی تراب خان نے گھر پہ فون کر کے عطلاح دے دی تھی کہ جزلان کو ہوش آگیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے وہ خطرے سے باہر ہے۔۔۔

یہ خبر سن کے سب نے ہی سکون کا سانس بھرا۔۔۔ اور جلدی سے ناشتہ کرتے تراب خان کے لیئے ناشتہ لیتے اسپتال کے لیئے نکل گئے تھے۔

وہ لوگ اسپتال کے بڑے سے کمرے میں داخل ہوئے تو جزلان سامنے ہی بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔۔۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی غنودگی سے باہر آیا تھا۔۔۔ اور وہ جب سے اب تک لیٹا ہوا ہی تھا۔

میرا بچہ۔۔۔۔ جزلان کے کمرے میں داخل ہوتے نور بیگم فورن اسکی جانب بڑھتی نرمی سے اسکا ہاتھ تھامتی لبوں سے لگا گئی جس پہ وہ دھیرے سے مسکرادیا۔

اسکی ماں کتنا پیار کرتی تھی اس سے اور وہ ہمیشہ انکا دل دکھاتا تھا۔ 

نقاہت زده چہرہ ۔۔۔ پیلا رنگ۔۔۔ آنکھوں کے نیچے ہلکے ۔۔۔ سر پہ بندھی پٹی۔۔۔ وہ کافی بیمار لگ رہا تھا 

اپنے لیئے سب کے چہروں پہ فکر۔۔۔ ہوش میں آنے پہ سب کے چہروں پہ خوشی دیکھتے اسے بہت اچھا لگا تھا مگر ایمل،،، اسکا چہرہ بلکل بےثاتر تھا جس سے جزلان کو تکلیف ہوگئی تھی۔

کیسے ہو۔۔۔ رائد آگے بڑھتے اسکی خیریت پوچھنے لگا۔

میں ٹھیک ہوں۔۔۔ بہت آہستگی سے جواب دیتے واپس نظریں ایمل پہ مرکوز کر گیا جو خاموشی سے اب اسکے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ گئی تھی۔

کہیں درد تو نہیں ہو رہا نا۔۔۔ کیا ضرورت تھی اتنی تیز گاڑی چلانے کی ۔۔۔ دیکھا نا کیا ہوگیا۔۔۔ نور بیگم نے فکرمندی سے پوچھتے آخر میں ڈانٹا تو وہ انکی ڈانٹ سنتا مسکرادیا۔

وہ لوگ جزلان کے ساتھ ہی بیٹھے تھوڑی تھوڑی باتیں کر رہے تھے جب ایک دم تراب خان کے ہاتھ سے فون چھوٹتے زمین پہ گرا جس پہ سب انکی طرف متوجہ ہوئے۔

کیا ہوا بابا آپ ٹھیک ہیں۔۔۔ انکے چہرہ کا اڑا رنگ دیکھتے جزلان نے فکرمندی سے پوچھا جس پہ انہوں نے متعجب نظروں سے انکی جانب دیکھا۔

انکے چہرے پہ چھائی پریشانی دیکھ رائد نے آگے بڑھ کے زمین پہ پڑا فون اٹھایا تو اس میں ایک ویڈیو چل رہی تھی۔۔۔ جیسے جیسے رائد وہ ویڈیو دیکھتا جارہا تھا ویسے ویسے اسکی رگیں واضح ہونے لگی تھیں۔

کیا ہوا ۔۔۔۔ آئلہ نے آگے بڑھتے رائد کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھا تو وہ خو+ن جھلکاتی نظرووں سے ایک نظر آئلہ کو دیکھتا جزلان کی جانب بڑھا اور اسکے آگے فون کردیا۔

جزلان نے فون کی اسکرین پہ چلتی ویڈیو دیکھی تو جیسے سانس لینا بھول گیا۔۔۔۔ 

یہ وہی ویڈیو تھی جو نتاشہ نے بلائی تھی۔۔۔ تو کیا اسنے صرف تراب خان کو بھیجی تھی یا وائرل۔۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔ آگر تو یہ ویڈیو وائرل ہوگئی تو یہ اسکے حق میں بہت نقصان دہ ثابت ہونے والا تھا۔

یہ ۔۔۔ یہ کس نے بھیجی ہے ۔۔۔ یہ جھوٹ ہے۔۔۔ وہ ایک دم اٹھ کے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگر ناہی اسکا سیدھا ہاتھ ہلا اور نا ہی پاؤں۔

اتنے وقت سے تو غنودگی میں اسے سہی سے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا مگر اب جب وہ ٹھیک سے ہوش میں آکے اٹھ کے بیٹھنے لگا تھا تو اس سے اٹھا ہی نہیں گیا۔

یہ میرا دائیاں ہاتھ پاؤں ہل کیوں نہیں رہا۔۔۔ وہ الجھ کے رائد کی جانب دیکھ کے استفسار کرنے لگا۔

تمہارا آدھا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔۔۔ سرخ آنکھوں سے گھوتے تھوڑا سختی سے جواب دیا جسے سن کے جزلان کے پیروں تلے زمین گھسک گئی

اسکے ساتھ یہ کیا ہوگیا تھا۔۔۔ وہ مفلوج ہوگیا تھا کیا ساری زندگی کے لیئے۔۔۔ کیا ساری زندگی اب وہ ایسے ہی رہنے والا تھا۔۔۔ کتنا تکلیف دہ لمحہ تھا یہ۔

جزلان میں تمہیں منا کرتا تھا کہ جب تک الیکشن نہیں ہوجاتے کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت مت کرو اب دیکھو الیکشن میں دو دن بچے ہیں اور یہ ویڈیو پورے ملک میں تیزی سے وائرل ہوگئی ہے۔۔۔ تراب خان جیسے ہوش میں آتے تیزی سے دھاڑے جس پہ جزلان نے انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھا۔

بابا یہ سچ نہیں ہے۔۔۔ جیسا اس ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے ویسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔ جزلان نے صفائی پیش کرنی چاہی جب آگے بڑھتے بیڈ پہ رکھا فون اٹھاتے ایمل نے وہ ویڈیو پلے کر کے دیکھی۔۔۔۔ اسے تجسس ہو رہا تھا کہ آخر اس ویڈیو میں ایسا ہے کیا۔

ویڈیو دیکھتے اسکے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک سنجیدہ ہوئے۔۔۔اسنے زرا سی گردن گھما کے اپنے پیچھے کھڑی آئلہ کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہنا چاہتی ہو( دیکھا وہ نہیں بدل سکتا) اور اسکی نظروں کا مفہوم سمجھے ائلہ پریشانی اور بےیقینی سے نظریں پھیر گئی۔

جھوٹ ہو یا سچ ۔۔۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا نا۔۔۔ تراب خان پریشانی سے ماتھا مسلتے بولے۔

بابا مجھے ابھی گھر جانا ہے۔۔۔ جزلان نے بےچینی سے کہا۔۔جب کے باقی سب تو اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے تھے۔

نہیں بیٹا ابھی تم گھر نہیں جا سکتے ۔۔۔ ابھی تم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔۔۔۔ تراب خان نے سمجھانا چاہا۔

بابا مجھے گھر جانا ہے۔۔۔ تو مطلب جانا ہے۔۔ اسنے بائیں ہاتھ سے سائڈ میز پہ رکھا کانچ کا گلاس اٹھاتے پوری قوت سے زمین پہ پھینکتے چلایا تو سب پریشان ہو گئے۔

میں کرتا ہوں بات ڈاکٹر سے۔۔۔ رائد سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔

اسے جزلان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ اسے ایک ساتھ دو دو بڑے جھٹکے لگے تھے۔۔۔ اسکا ایسا رویہ نارمل تھا۔

اور رائد جانتا تھا کہ انہیں یہاں سے جلد نکل جانا ہی چاہیئے ورنا کچھ دیر بعد رپوٹر یہاں پوچھ گچھ کے لیئے پہنچ سکتے تھے۔

رائد کے کمرے سے نکلنے کے بعد جزلان نے نظریں ایمل کی جانب کی۔۔۔ جو اسے ہی نفرت سے گھور رہی تھی ۔۔۔ جزلان کے دیکھنے پہ وہ حقارت سے اسکے وجود پہ ایک نظر ڈالتی کمرے سے نکل گئی پیچھے جزلان بےبسی سے سر تکیے پہ رکھ گیا۔۔۔ وہ اس سے بہت بری طرح بدظن ہوگئی تھی۔۔۔۔ پہلے ہی کیا وہ اس سے کم نفرت کرتی تھی جو ایک موقع اور مل گیا تھا

🌺 🌺 🌺۔

حسام۔۔۔۔ فون کی اسکرین پہ نظریں جمائے بےیقینی سے نوال نے بیڈ پہ لیپ ٹاپ گود میں رکھے بیٹھے حسام کو پکارہ۔۔۔

کچھ دیر پہلے ہی اسے پتہ چلا تھا کہ جزلان ہوش میں آگیا ہےاور وہ کب سے اس سے ملنے جانے کی ضد کر رہی تھی مگر حسام صاف منا کرچکا تھا کہ جب تک وہاں تراب خان موجود رہیں گے وہ اسے وہاں لے کے نہیں جائے گا۔

کیا ہوا۔۔۔ حسام نے نظریں اٹھا کے اسکی جانب دیکھا تو اسکے چہرے پہ پریشانی واضح تھی۔

یہ دیکھیں۔۔۔ نوال نے فون اسکے آگے کیا تو حسام نے بےیقینی سے اسکرین پہ چلتی ویڈیو کو دیکھا۔

یہ ضرور جھوٹی ہوگی بھائی ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔ نوال نے فورن جزلان کی سائڈ لی ۔

نوال تمہیں میری بات بری لگے گی مگر مجھے یہ ویڈیو بلکل جھوٹی نہیں لگتی۔۔۔ سب ہی جانتے ہیں تمہارے بھائی کی بری سرگرمیوں کو۔۔۔ حسام نے سنجیدگی سے کہا تو نوال نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔

بھائی نے سارے برے کام چھوڑ دیئے تھے۔۔۔ یہ ضرور کسی کی سازش ہے۔۔۔۔ نوال نے پھر سے اپنے بھائی کا دفاع کیا جس پہ حسام گہری سانس بھرتے واپس لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگیا۔

حسام ہمیں چلنا چاہیئے بھائی کے پاس۔۔۔ نوال بےچینی سے اسکا بازو تھامی بولی۔

نوال میں منا کرچکا ہوں کے تمہارے بابا کے وہاں ہونے تک میں تمہیں وہاں لے کے نہیں جاؤں گا۔۔۔ حسام نے اسے دیکھتے نرمی سے ایک بار پھر سمجھایا۔

پلیز لے چالیں نا۔۔۔ مجھے بھائی کو دیکھنا ہے،،، ان سے ملنا ہے۔۔۔ نوال نے ایک بار پھر منانے کی کوشش کی۔

نوال میں منا کر چکا ہوں نا تو بس بات ختم ۔۔۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی کے میں تمہاری آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔

یاد نہیں ہے کہ کل کس طرح انہوں نے بغیر جگہ کا خیال کیئے تمہیں کتنا ہرٹ کیا تھا۔۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا کہ ایسا دوبارہ ہو اور میں ہر لحاظ بھول جاؤں ۔۔۔ حسام سخت لہجے میں بولا تو نوال کی آنکھوں میں آنسوں اترے۔۔۔ جسے دیکھتے حسام نے سر میں ہاتھ پھیرتے غصہ ٹھنڈا کیا۔

اسنے ہاتھ بڑھا کے نوال کو اپنے سینے سے لگایا اور دھیرے دھیرے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔

نوال میری جان ۔۔۔ تم بلکل پریشان نہیں ہو میں تمہیں جزلان سے ملوانے لے جاؤں گا مگر آج نہیں۔۔۔ ہمم۔۔ سمجھو میری بات کو۔۔۔ وہ اسکے سر پہ لب رکھتے نرم لہجے میں بولا تو نوال بغیر کچھ بولے بس ہلکے سے اثبات میں سر ہلاگئی۔

چلو کوئی اچھی سی رومینٹک سی مووی دیکھتے ہیں۔۔۔ حسام اسکی کمر پہ انگلی سے ایک سیدھی لکیر کھینچتا بات بدلنے کے ساتھ لہجہ بھی بدلہ تو نوال دھیرے سے مسکراتی اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔۔ جس پہ حسام اسکا دھیان دوسری جانب کرنے کے لیئے مووی لگا چکا تھا جس کے ساتھ وہ خود بھی اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہوگیا۔۔۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔

کچھ ہی دیر میں وہ لوگ جزلان کو رائد کے گھر لے آئے تھے۔۔۔ چونکہ وہ ابھی بلکل ٹھیک نہیں ہوا تھا اس وجہ سے اسے حویلی نہیں لے کے گئے تھے بلکے رائد کے گھر پہ ہی لے آئے تھے جہاں اسپتال جیسی ہر سہولت کا رائد نے انتظام کروا دیا تھا۔

آئلہ اور نور بیگم کچن میں تھیں ۔۔۔ تراب خان کسی ضروری کام سے گاؤں چلے گئے تھے اس لیئے ابھی جزلان کے کمرے میں ایمل اور رائد موجود تھے

کچھ پتہ چلا کہ میرا ایک+سیڈینٹ کس نے کروایا ہے۔۔۔۔ ہلکے سے نیم دراز ہوئے جزلان نے بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھے رائد سے پوچھا جو فون میں کچھ دیکھنے میں مصروف تھا۔

میں پتہ لگوا چکا ہوں۔۔۔ یہ ایک+سیڈینٹ صرف حادثہ تھا ۔۔۔ جس ٹرالے سے تمہارا تصادم ہوا تھا اسکا ڈرائیور بھی شدید زخمی ہوا تھا۔۔۔

میں نے اسکی بھی ساری انفارمیشن نکلوا لی ہے۔۔۔ یہ صرف حادثہ تھا اور رہی ویڈیو کی بات تو میں پتہ لگوا رہا ہوں کے یہ کس کا کام ہے۔۔۔ اور اس ویڈیو کو ہٹوانے کی بھی کوشش کر رہا ہوں مگر یہ اتنی زیادہ پھیل چکی ہے کہ اب اسے ہٹوانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔۔۔ رائد نے سنجیدگی سے پوری صورتحال سے آگاہ کیا۔

کیا تمہیں بھی میں غلط لگتا ہوں۔۔۔ جزلان نے رائد کے چہرے پہ نظریں جمائے پوچھا تو رائد نے اسکی جانب دیکھا۔

جزلان ہمارے خاندان میں باہر راتیں گزارنا عام سی بات ہے۔۔۔ اور تم بھی اس عام سی بات کا حصہ رہے ہو مگر جہاں تک میں تمہیں جانتا ہوں تم کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتے ۔۔۔ اس لیئے مجھے اس ویڈیو پہ یقین نہیں ہے۔۔۔  لیکن خیر میں پتہ لگوا رہاں ہوں کے یہ کس کا کام ہے امید ہے جلد پتہ چل جائے گا۔۔۔ رائد نے تفصیل سے سکون سے جواب دیا۔

میں جانتا ہوں یہ کس کا کام ہے تم بس مجھے فون دے دو باقی میں خود دیکھ لوں گا۔۔۔ جزلان نتاشہ کا سوچتے دانت پیس کے بولا 

تمہاری حالت ایسی نہیں ہے کے تم کسی کو دیکھ سکو۔۔۔ تم مجھے بتاؤ کون ہے میں دیکھتا ہوں۔۔۔ رائد نے بھویں سکیڑے کہا۔

میں نے کہہ دیا نا میں دیکھ لوں گا یہ معاملہ۔۔۔ بس مجھے میرا فون لادو۔۔۔ جزلان نے اپنی بات پہ زور دیا تو رائد اسکا چہرہ دیکھ کے رہ گیا۔

وہ جانتا تھا جزلان نے جو کہہ دیا اسکے بعد وہ اپنا فیصلہ کبھی نہیں بدلے گا اس لیئے وہ آگے سے کوئی بحث کرنے کی بجائے اٹھ کے کمرے سے نکل گیا ۔

رائد کے کمرے سے جانے کے بعد جزلان کی نظر ایمل پہ گئی جو الماری کھولے کھڑی نا جانے اس میں سے کیا نکال رہی تھی۔

سپاٹ چہرہ۔۔۔ ہر چیز سے بےپرواہ ۔۔۔ وہ اپنے ہی کام میں لگی ہوئی تھی۔

جزلان نے اس سے کوئی بات کرنے کی کوشش ہی نہیں تھی وہ جانتا تھا کہ وہ اسکی کسی بات پہ یقین نہیں کرے گی ۔۔۔ اور وہ اسے غصہ دلا کے اسکی طعبیت خراب نہیں کروانا چاہتا تھا اس لیئے فلحال وہ خاموش ہی رہا۔

کچھ ہی دیر بعد رائد واپس کمرے میں داخل ہوا تو اسکے ہاتھ میں دو فون تھے ایک ڈبا پیک تھا تو دوسرا کھلا ہوا۔

تمہارا فون ایک+سیڈینٹ میں ٹوٹ گیا تھا اس لیئے یہ نیا فون ہے مگر اس میں سم پرانی ہی ہے۔۔۔ رائد نے کھلا ہوا فون جزلان کی جانب بڑھایا جسے وہ الٹے ہاتھ سے تھام گیا۔

ایمل۔۔۔ رائد نے الماری میں سر دیئے کھڑی ایمل کو پکارہ جس پہ وہ سر تھوڑا سا پیچھے کیئے اسے دیکھنے لگی

میں نے جزلان کے لیئے فون منگوایا تو مجھے یاد آیا کے تمہارے پاس بھی فون نہیں ہے اور تمہیں اس کی ضرورت ہوگئی اس لیئے یہ تمہارا فون ۔۔۔ اس میں سم بھی موجود ہے۔۔۔ رائد اسکے سامنے آتا فون کا باکس اسکے آگے کرتے مسکرا کے بولا ۔

رائد بھائی مجھے اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں نے کون سا کسی کو فون کرنا ہوتا ہے۔۔۔ جس کو فون کرنا ہوتا تھا وہ تو چلے گئے ہیں ۔۔۔ اب کس سے رابطہ رکھنا۔۔۔ وہ کچھ آفسردگی سے بولی 

جزلان جو اسے ہی دیکھ  رہا تھا اسکے لہجے پہ اسکی بات پہ اسے دکھ ہوا۔

ایمل یہ کیا بات ہوئی کیا ہم لوگ تمہارے نہیں ہیں ۔۔۔کبھی تم باہر ہو تو کیا کبھی تمہیں ہم سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑھ سکتی۔۔۔ ایمل مجھے تم سے اس بات کی امید نہیں تھی۔۔۔ تم نے تو ایک پل میں ہی ہمیں بیگانہ کردیا۔۔۔ رائد افسوس بھرے لہجے میں بولا تو ایمل کو احساس ہوا کے وہ سہی شخص سے غلط بات بول گئی ہے۔

نہیں بھائی میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ بابا کے جانے کے بعد آپ لوگ ہی تو ہیں جو میرے اپنے ہیں۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرا کے اسے اپنی بات کا یقین دلانے لگی تو جزلان اور رائد دونوں کے چہروں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔

تو پھر لو۔۔۔ اسنے باکس کی جانب اشارہ کرتے کہا تو ایمل نے تھام لیا۔

شکریہ۔۔۔ دھیرے سے مسکرائی ۔

همیشہ خوش رہو۔۔۔ رائد بڑے بھائی کی طرح اسکے سر پہ ہاتھ رکھتا کمرے سے نکل گیا

ایمل نے فون کا باکس ٹیبل پہ رکھا اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔

جزلان ایک نظر ایمل کو دیکھتے فون پہ جواد کا نمبر ملانے لگا جو تیسری بیل پہ اٹھا لیا گیا تھا۔

سر آپ کیسے ہیں۔۔۔۔ دوسری جانب سے جواد کی فکرمندی آواز ائی۔

میں ٹھیک ہوں جواد کیا تم نے وہ ویڈیو دیکھی۔۔۔ اپنی خیریت بتاتے اسنے سوال کیا۔۔۔ جس پہ جواد نے جی کہا۔

یہ حرکت نتاشہ کی ہے جواد۔۔۔۔ اسنے مجھ سے تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیئے یہ سب کیا ہے۔۔۔

جواد تمہارے پاس دو دن کا وقت ہے کچھ بھی کر کے کیسے بھی کر کے مجھے نتاشہ چاہیئے ہر حال میں۔۔۔ جزلان غصے سے بولا تو اسکی بات پہ ایمل نے ایک نظر اسے دیکھا۔

ہر جگہ اپنے آدمیوں کو پھیلا دو۔۔۔ اور خاص کر ایئرپورٹ پہ۔۔۔ وہ ضرور ملک سے باہر جائے گی۔۔۔ جزلان نے غصے سے جھنجھلاتے ہوئے حکم دیا۔۔۔ وہ کسی بھی طرح نتاشہ کو پکڑنا چاہتا تھا۔

لیکن سر اگر وہ پہلے ہی ملک سے باہر چلی گئی ہو تو۔۔۔ جواد نے خدشہ ظاہر کیا۔

ہممم پھر تم سب سے پہلے اسکے خاص دوست ڈینیل کو پکڑو۔۔۔ کیونکہ وہی ایک بندہ ہے جیسے نتاشہ کے ہر پل کی خبر ہوتی ہے۔۔۔ اس سے ہمیں ضرور نتاشہ کا پتہ آسانی سے چل جائے گا۔۔۔ جزلان تھوڑی دیر بعد سوچ کے بولا جس پہ دوسری جانب سے جواد نے اوکے کہتے فون بند کردیا۔

فون بند ہونے کے بعد جزلان نے سامنے نظریں کی تو ایمل اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

جب اپنے پہ پڑھتی ہے تو انسان کیسے بلبلا اٹھتا ہے یہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔۔۔اسکے دیکھنے پہ ایمل مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتی طنزیہ لہجے میں کہتی اپنے کپڑے لیئے واشروم میں گھس گئی۔

پیچھے ایک بار پھر جزلان شرمندہ ہوکے رہ گیا۔۔۔ 

واقعی جب اس پہ آئی ہے تو اسے پتہ چلا ہے کے صرف ایک ویڈیو کی وجہ سے اسکی کتنی بدنامی ہو رہی ہے۔۔۔ اس پہ بڑی ہے تو اب اسے پتہ چل رہا ہے کے جن لڑکیوں کو وہ انکی ویڈیوز سے ڈراتا تھا تو ان پہ کیا گزرتی ہو گی اور آج وہ خود ایک ویڈیو کی وجہ سے شکست کے دروازے پہ آکھڑا ہوا ہے۔

اب اسے ان لڑکیوں کی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔ اب اسے اپنے کیئے پہ پچھتاوا ہو رہا تھا۔۔۔ مگر اب پچھتانے کا کیا فائدہ جن کی زندگیاں اس کی وجہ سے برباد ہوئی ہیں اب انکی زندگیاں واپس پہلے جیسے تو نہیں ہو سکتی تھی نا۔۔۔ جن لڑکیوں نے بدنامی کے ڈر سے خود+کشی کی ہے وہ تو واپس نہیں آسکتی تھیں۔۔۔ مگر انکی آئیں شاید جزلان کو لگ چکی تھیں۔

۔🌺 🌺 🌺

(کچھ دن بعد)

کچھ دن پہلے ہی تراب خان کی غیر موجودگی میں نوال حسام اور اسکے گھر والے جزلان سے مل کے جا چکے تھے۔۔۔

جزلان اب کافی بہتر ہو گیا تھا۔۔۔ الٹے پاؤں کا فریکچر ٹھیک ہو گیا تھا۔۔۔ چوٹیں بھی بھرنے لگیں تھی مگر سارا مسئلہ اسکے آدھے مفلوج جسم کا تھا۔۔۔ جس وجہ سے سب ہی پریشان تھا۔۔۔ اسکی دوائیں چل رہیں تھیں ڈاکٹر نے امید دلائی تھی کہ وہ ٹھیک ہو سکتا ہے مگر دوسروں کے رحموں کرم پہ آکے اب جزلان جیسے دلبرداشتہ ہورہا تھا۔

جب دوسروں کی محتاجی ہوتی ہے تو کتنا دکھ ہوتا ہے یہ اب جزلان کو پتہ چل رہا تھا جو اب خود سے اٹھ کے پانی بھی نہیں پی سکتا تھا۔

کچھ وقت پہلے ہی سب لوگ اسے حویلی لے آئے تھے۔۔۔ ایمل اور جزلان کے بیچ ابھی تک خاموشی قائم تھی۔۔۔ جسے جزلان نے توڑنے کی ایک دو بار کوشش کی تھی مگر ایمل ہمیشہ کی طرح غصہ ہونے لگتی تھی جس سے اسکی طعبیت خراب ہونا شروع ہوجاتی تھی اور جزلان اسکی اور اپنے بچے کی صحت پہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔۔ اس لیئے اب وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔

ایمل جزلان کا ایک آت جھوٹا موٹا کم کردیتی تھی ورنا باقی سارے جزلان کے کاموں کے لیئے ملازم رکھے گئے تھے۔۔۔

الیکشن ہو چکے تھے۔۔۔۔ اور آج الیکشن کا نتیجہ آنے والا تھا۔۔۔ اتنے دنوں سے جزلان اور تراب خان دونوں ہی اپنی اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی بھی طرح وہ جیت جائے۔۔۔جزلان کی جگہ ہر میٹنگ ہر جلسے میں تراب خان جا رہے تھے۔۔۔ 

آج جزلان کافی بےچین بےچین تھا۔۔۔ اسے عجیب گھبراہٹ سی وہ رہی تھی۔۔۔ آج پتہ چلنا تھا کہ وہ جیتا ہے یا ہارا ہے۔۔۔ جس کامیابی کے لیئے اسنے اتنے پاپڑ بیلے تھے اسکا وہ مقصد پورا ہوا ہے یا نہیں۔

وہ ٹی وی پہ نظریں جمائے۔۔۔ نتیجے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ اسکا انتظار زیادہ لمبا نا ہو سکا جب نیوز اینکر نے علان کیا کے اسکی مخالف پارٹی جیت چکی ہے۔۔۔ کل تک جو گیم پوری طرح اسکے ہاتھ میں تھا صرف ایک ویڈیو کی وجہ سے اسکے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔

اسے بہت بڑا دھچکا لگا تھا۔۔۔ کل تک آدھی سے زیادہ عوام اسکے ساتھ تھی اور آج وہ بہت بری طرح سے ہارا تھا۔۔۔ یہ ہار اسکے لیئے باعثِ​ شرم تھی۔

وہ صدمے میں بلکل ساکت ٹی وی پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔۔۔ بےبسی اسکے چہرے سے صاف پتہ لگ رہی تھی جب ایمل ہاتھ میں میٹھائی کی پلیٹ لیئے کمرے میں داخل ہوئی۔

مبارک ہو جاگیردار جزلان خان جس الیکشن کو جیتنے کے لیئے آپ نے میرے اپنے مجھ سے چھینے،،، ایک گھٹیا چال چل کے مجھے سے نکاح کیا،،،میرے خواب توڑے،،، مجھے اذیت دی،،، اس الیکشن میں آپ کو بہت ہی شرمناک شکست​ ہوئی ہے۔۔۔ ایمل کی آواز پہ اسنے سامنے نظریں کی تو وہ ہاتھ میں میٹھائی کی پلیٹ لیئے اطمینان سی کھڑی تھی۔

چہرے پہ بلا کا سکون تھا۔۔۔ ہونٹوں پہ بہت ہی خوبصورت دل جلا دینے والی مسکراہٹ۔۔۔ اور میٹھے لہجے میں کیا طنز جزلان کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر گیا۔

کیا ہوا اب نظریں کیوں جھکالیں۔۔ اب کچھ نہیں بولو گے۔۔۔ چلو بولنا بلانا چھوڑو میٹھائی  کھاؤ۔۔۔ایمل نے پلیٹ اسکے سامنے کی تو جزلان نے بےبسی سے نظریں پھیر لیں۔

اچھا چلو مت کھاؤ۔۔۔ لیکن اگر تمہیں کچھ کہنا ہے مجھ سے تو کہہ سکتے ہو۔۔۔ ایمل پلیٹ ٹیبل پہ رکھتی بلکل اسکے سامنے سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی زرا سے کندھے اچکا کے بولی تو خفت سے جزلان نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا۔

میں کیا کہہ سکتا ہوں سوائے معافی مانگنے کے۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کردو۔۔۔ جزلان دھیرے سے شکست خوار لہجے میں شرمدگی سے بولا تو ایمل کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

واہ مجھے یقین نہیں آرہا جاگیردار جزلان خان جیسا مغرور اور انا پرست انسان مجھ جیسی عام سی لڑکی سے معافی مانگ رہا ہے۔۔۔ حیرت ہے بھئی۔۔۔ ایمل نے میٹھا سا طنز کیا

ایمل میں سچ میں شرمندہ ہوں اپنے کیئے پہ۔۔۔ جزلان نے بےبسی سے اسے اپنی بات کا یقین دلانا چاہا۔

دیکھو نا وقت نے کیسا پلٹا کھایا ہے ۔۔۔ ایک وقت تھا جب مجھے بےبس کر کے تمہیں سکون ملتا تھا۔۔۔اور آج تمہیں یوں بےبس دیکھ کے مجھے سکون مل رہا ہے۔۔۔ ایمل چھبتے ہوئے لہجے میں کہتی جزلان کو ایک بار پھر نظریں جھکانے پہ مجبور کر گئی۔

تم ہر ایک شخص کو اپنے آگے بےبس کر کے خوش ہوتے تھے نا جزلان خان اور اب دیکھو اللہ کی لاٹھی کس طرح تمہیں پڑی ہے کہ تم پوری طرح بےبس ہو کے رہ گئے ہو۔۔۔ نا صرف اپنی بدنامی کو روکنے میں ناکامیاب ہوئے ہو بلکے تم تو اپنی صحت بھی کھو چکے ہو ۔۔۔ دوسروں کے محتاج ہو کے رہ گئے ہو۔۔۔ ایمل نے تلخی سے کہا تو جزلان کا سر جھک گیا۔

وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔ وہ دوسروں کو تکلیف دے کے ہمیشہ خوش ہوتا تھا اور آج وہ خود جیسے سب کچھ ہار چکا تھا۔

تم نے جو اتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کی میں یہ نہیں کہوں گی کہ وہ دودھ کی دھلی تھیں مگر انہیں اپنے کیئے کی سزا تمہاری شکل میں سزا مل چکی ہے۔۔۔ مگر جن لڑکیوں نے تمہاری وجہ سے اپنی جان لی شاید انکے ماں باپ کی بددعا لگی ہے تمہیں ۔۔۔ انکی آہیں لگیں ہیں تمیں۔۔۔

اور رہی بات میری تو میں تو تم سے پہلے بھی صرف نفرت کرتی تھی اور پھر جو تم نے میرے اور میرے بابا کے ساتھ کیا اسکے بعد سے تو اس نفرت میں اور بھی شدت آگئی۔۔۔ مگر میں نے کوئی بددعا نہیں دی تھی۔۔۔ میں نے بس صبر کیا اور شاید یہ میرا صبر ہے۔۔۔ ایمل نے تحمل سے کہتے اسکی جانب اشارہ کیا جو جزلان اچھے سے سمجھ سکتا تھا۔

جزلان کو خاموش دیکھ اسنے پھر کہنا شروع کیا۔

چلو ہم تو غیر تھے مگر تم نے جو اپنے باپ کے نقشے قدم پہ چلتے اپنی ماں اور بہن کا دل دکھایا ہے شاید یہ اسکی بھی سزا ہے۔

میں جانتی ہوں وہ لوگ تمہارا کبھی برا نہیں سوچیں گی مگر دل تو دکھا ہوگا نا۔۔۔ اور ماں کا دل دکھانا کتنا بڑا گناہ ہے یہ شاید تم جانتے ہو۔۔۔ ایمل نے اسے احساس دلانا چاہا جس کا جزلان کو کافی پہلے ہی احساس ہو گیا تھا۔

جانتا ہوں میں نے ان دونوں کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی بہت دل دکھایا ہے ۔۔۔ میں ان دونوں سے بھی معافی مانگ لوں گا اور میں تم سے بھی معافی مانگتا ہوں اپنے کیئے گی۔۔۔ جزلان ندامت بھرے لہجے میں اسے دیکھ کے بولا تو ایمل نے سر جھٹکا۔

تمہیں معاف کرنا میرے لیئے بلکل آسان نہیں ہے۔۔۔ میں نے بہت بار تمہیں معاف کرنے کے بارے میں سوچا مگر میرا دل مانتا ہی نہیں ہے۔۔ وہ ہلکے سے مسکرا کے بولی تو جزلان تڑپ کے رہ گیا۔

ایمل میں جانتا ہوں میں نے بہت سو کے ساتھ بہت کچھ غلط کیا ہے۔۔۔ تمہارے ساتھ بھی بہت برا رویہ رکھا ہے مگر میرا یقین کرو میں بہت شرمندہ ہو اپنے کیئے پہ ۔۔۔ پچھتا رہا ہوں۔۔۔

تمہیں میری وجہ سے بہت دکھ پہنچایا ہے مگر میں تمہارے ہر دکھ کا مداوا کروں گا ۔۔۔ میرا یقین کرنے کی کوشش کرو جو کچھ چاچو کے ساتھ ہوا میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔ ایک بوجھ ہے میرے دل پہ جو بڑھتا جارہا ہے پلیز مجھے معاف کر کے اس بوجھ کو ختم کردو۔۔۔ جزلان نے جیسے منت کی تھی جس پہ ایمل نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔

کیا تم اپنی سب سے بڑی مجرم کو معاف کر سکتے ہو جس کی وجہ سے تم اپنا خواب ہارے ہو۔۔۔ ایمل نے نام لیئے بغیر نتاشہ کا ذکر کیا اور یہاں جزلان خاموش ہو گیا۔۔۔ جس پہ ایمل نفی میں سر ہلاتی گہرا سانس بھر کے بولی۔

دعا کرو جزلان خان کے کبھی نا کبھی میرے دل میں تمہارے لیئے رحم آجائے اور میں تمہیں معاف کرسکوں۔۔۔ ایمل نم آنکھیں صاف کرتی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

اسکے جانے کے بعد کافی دیر تک جزلان بےبسی اور دکھ سے کمرے کی دہلیز کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ ابھی گئی تھی۔

وہ اذیت سے سر بیک گراؤنڈ سے ٹکاتا آنکھیں موند کیا۔

اسے پتہ تھا کہ اسکی غلطیاں بہت بڑی ہیں۔۔۔ اسنے بہت سے گناہ کیئے ہیں ۔۔۔ بہت سے لوگوں کی آئیں لی ہیں۔۔۔ اسے تو شاید اب یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے کن کن لوگوں کے ساتھ کیا کیا،،، کیا ہے۔۔۔ نا ہی ان سب سے معافی مانگنا ممکن تھا مگر جن سے وہ معافی مانگ سکتا تھا ان سے وہ معافی ضرور مانگنے والا تھا۔

ابھی اسے آنکھیں بند کیئے دو منٹ ہی ہوئے تھے جب اسکا فون بجا۔

اسنے بغیر آنکھیں کھولے تکیے پہ برابر رکھا فون اٹھاتے ۔۔۔ یس کر کے کان سے لگایا۔

سر نتاشہ مل گئی ہے اور وہ اس وقت ہمارے قبضے میں ہے۔۔۔ دوسری جانب سے جواد کی پرجوش آواز آئی۔

جس کو وہ اتنے دنوں سے ڈھونڈ رہے تھے آخر کار وہ انکے قبضے میں تھی اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی تھی۔۔۔ مگر جواد کی بات سنتے جزلان کے دماغ میں ایمل کی ساری باتیں گونج گئیں۔

(کیا تم اپنی سب سے بڑی مجرم کو معاف کر سکتے ہو جس کی وجہ سے تم اپنا خواب ہارے ہو)۔۔۔ اور اسے صرف کچھ منت لگے سے فیصلہ کرنے میں۔

چھوڑ دو اسے۔۔۔ اسنے بہت ہی سنجیدگی سے کہا تو دوسری طرف جواد کو جھٹکا لگا۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر۔۔۔ یہ تو دوسرے ملک جا رہی تھی اتنی مشکل سے اسے پکڑا ہے۔۔۔ اور اب آپ کہہ رہے ہیں چھوڑ دو۔۔۔ کیا آپ بھول گئے کے اسنے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔ جواد حیرت نے استفسار کیا۔۔۔

 اسے جزلان کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جو پہلے اتنے دنوں سے اسکا دماغ کھا رہا تھا کہ اسے کسی بھی طرح ہر حال میں نتاشہ چاہیئے اور اب جب اسنے نتاشہ کو پکڑ لیا تھا تو وہ سے چھوڑنے کا کہہ رہا تھا۔۔۔ اس وقت جواد کو جزلان کی دماغی حالت پہ شک ہو رہا تھا۔

جواد میں جانتا ہوں میں کیا کہہ رہا ہوں چھوڑ دو اسے جانے دو وہ جہاں جا رہی ہے۔۔۔ جزلان اپنی بات مکمل کرتے اسکا اوکے سنے بغیر ہی فون بند کر چکا تھا۔

یہ فیصلہ اسکے لیئے مشکل تھا مگر اسنے اپنے گناہوں کی سزا سمجھتے اسے قبول کرتے نتاشہ کو معاف کردیا تھا۔۔۔ کہ شاید اسکے معاف کرنے سے اللہ بھی اسے معاف کردے اور اسکی پریشانیاں آسان کردے۔۔۔ اسکا دل جو اتنا بھاری ہو رہا تھا جیسے ایک دل ہلکا ہونے لگا تھا۔۔۔ وہ ایک گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

رائد آج آفس سے کافی لیٹ حویلی آیا تھا۔۔۔ اتنے دنوں سے وہ سہی طرح سے کام کی جانب توجہ نہیں دے پا رہا تھا اس لیئے اب زیادہ سے زیادہ کام نمٹا کے رات بارہ بجے حویلی لوٹا تھا۔

اسنے کمرے میں قدم رکھا تو بیڈ پہ نیم دراز ہوئی آئلہ اسے دیکھ کے اٹھ گئی۔

بڑی دیر لگادی آج آنے میں۔۔۔ آئلہ اسکے پاس آتی اسکا کوٹ اتارنے لگی۔

ہاں یار بس اتنے دنوں کا جو کام رہتا تھا وہ مکمل کرتے کرتے دیر ہوگئی۔۔۔ کوٹ اتارتے وہ گرنے کے انداز میں صوفے پہ بیٹھا۔

کھانا کھایا آپ نے۔۔۔ آئلہ پیچھے سے اسکی گردن سے ہاتھ آگے لاتی اسکے سر پہ ہلکے سے تھوڑی ٹکائے پوچھنے لگی۔

میں تمہارے بغیر کھا سکتا ہو؟؟۔۔۔ اپنے سینے پہ رکھے اسکے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھتے محبت سے سوال کیا تو آئلہ مسکرادی۔

جانتے تھے ہم کے آپ نے ہمارے بغیر کھانا نہیں کھایا ہوگا۔۔۔ اس لیئے آپ کے انتظار میں ہم نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا۔۔۔ آئلہ دھیرے سے بولی تو رائد نے اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا۔

سوری میری وجہ سے تمہیں اتنی دیر بھوکا رہنا پڑا۔۔۔۔ تم کھانا لے کے آؤ جب تک میں زرا فریش ہو جاتا ہوں۔۔۔ رائد اٹھتے ہوئے بولا تو وہ مسکراتے ہوئے ڈوپٹہ سہی کرتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ تو وہ بھی اپنے کپڑے لیتا واشروم میں گھس گیا۔

پندرہ منٹ بعد وہ دونوں ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔ جب کھانے کے درمیان آئلہ نے کہا۔

ہمیں لگتا ہے ایمل اور جزلان بھائی کے بیچ ابھی تک سب ٹھیک نہیں ہوا ہے۔۔۔۔

ہممم جانتا ہوں مگر وہ دونوں میاں بیوی ہیں ہم انکے معاملے میں کیسے بول سکتے ہیں۔۔۔ ہاں آگر ایمل یا جزلان اس بارے میں کوئی بات کریں تو ہی ہم کچھ کہہ سکتے ہیں۔۔۔ رائد اپنی پلیٹ صاف کرتے بولا۔

ہاں ہمیں یاد آیا!!! جب آپ میٹنگ کے لیئے باہر گئے ہوئے تھے جب ایمل صبح ہی صبح آپ سے کچھ بات کرنے تو آئی تھی۔۔۔ مگر گھر میں اتنا سب کچھ چل رہا تھا ایک کے بعد ایک پریشانی پھر نوال کی شادی اور پھر جزلان بھائی کی ٹینشن میں ہمیں آپ کو بتانا یاد ہی نہیں تھا۔۔۔ آئلہ نے اس دن کی بات اب یاد آنے پہ بتائی۔

اچھا۔۔۔ شاید کوئی ضروری بات نا ہو تبھی اسنے دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔۔۔ رائد نے آخری نوالہ منہ میں رکھا۔

ہممم ۔۔۔ویسے آج تو جزلان بھائی کا برا دن تھا۔۔۔ رائد کو آخری نوالہ کھاتے دیکھ آئلہ نے پانی کا گلاس اسکے سامنے کرتے دوسری بات شروع کی۔

الیکشن جیتنا اسکا خواب تھا سیاست ہمیشہ اسکے پہلے نمبر پہ رہی ہے ۔۔۔ اور آج وہ بری طرح ہار گیا مجھے دکھ ہے مگر کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔ وہ بالوں میں ہاتھ پھیلتے اٹھ کے بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔

ہممم۔۔۔۔ آئلہ سارے کھانے کے برتن سمیٹتی بیڈ پہ رائد کے ساتھ آکے بیک گراؤنڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تو رائد تھوڑا آگے ہوتا اسکی گود میں سر رکھتے لیٹ گیا۔۔۔

بہت تھک گیا ہوں جاناں۔۔۔ رائد اسکے چہرے کو دیکھتے دھیرے سے بولا تو آئلہ نے جھک کے اسکے ماتھے پہ لب رکھے جس پہ رائد نے سکون سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔۔

آپ سوجائیں۔۔۔ آئلہ اسکے سر میں انگلیاں چلاتی نرمی سے بولی تو رائد کو بےحد سکون ملا۔۔۔

میرے بالوں میں چلتی تمہاری انگلیاں ۔۔۔ تمہاری گود میں رکھا میرا سر مجھے کسی بھی آرام دہ بستر کے جیسا لگ رہا ہے۔۔۔ رائد محبت سے چور لہجے میں بولا تو آئلہ کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

اتنے دنوں کی جو بےسکون تھی وہ دور ہوگئی تھء۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا نیند سے بوجھل لہجے میں کہتا اسکا سر پکڑے اپنے چہرے پہ جھکا گیا۔۔۔ جس پہ آئلہ کے ہاتھ کی حرکت تھم گئی

نرمی سے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفٹ میں لیتے وہ سکون کی انتہاؤں کو پہنچ رہا تھا۔۔۔۔ اسکی ساری نیند ساری تھکن جیسے غائب ہوتی جا رہی تھی۔

تھوڑی دیر خود کو سیراب کرنے کے بعد اسکا سر چھوڑا تو آئلہ سرخ چہرہ لیئے پیچھے ہوئی۔

تمہاری چہرہ پہ حیا کے رنگ بہار میں کھلے پھولوں کے رنگ سے زیادہ خوبصورت ہیں۔۔۔ اسکے اناری چہرہ کو دیکھتے وہ ایک جھٹکے سے اٹھتا اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر بیڈ پہ لیٹاتے خود اسکے اوپر آیا۔

آپ تھکے ہوئے ہیں سو جائیں۔۔۔ آئلہ اس حملے پہ گھبراتی فورن بولی۔

جاناں تھکن ہی اتار رہا ہوں۔۔۔ خمار آلود لہجے میں کہتا اسکی گردن پہ جھکتے وہاں اپنا لمس چھوڑنے لگا تو آئلہ اسکے کندھوں پہ ہاتھ جما گئی۔

وہ رکنے والا تھا نہیں اور آئلہ اسکی قربت کو اسکی شدتوں کو روکنا نہیں چاہتی تھی اس لیئے سکون سے آنکھیں موندے اسکی محبت کی بارش میں بھیگتی چلی گئی۔

(چار ماہ بعد)

جنوری کی یخ بستہ رات میں آسمان نے کالی چادر اوڑھ رکھی تھی۔۔۔ سرد ہوائیں اِدھر سے اُدھر جھومتی درختوں کے پتوں کو بھی اپنے ساتھ رقص کروا رہی تھیں۔

ہر ایک اپنے گھروں میں بستروں میں دبکے چین کی نیند سو رہا تھا۔۔۔مگر ایسے میں خان حویلی کے ایک کمرے میں بیڈ پہ لیٹا شخص بےچینی سے کروٹ بدل رہا تھا۔

کمرے کی خاموش فضا میں ہلکی ہلکی سانسوں کی آواز کونج رہی تھی۔۔۔ جو اسکی بیوی کی تھیں۔

ایمل مکمل طور پہ گہری نیند میں تھی جب کے اسکے ساتھ لیٹا جزلان پیاس کی وجہ سے بےچین ہو رہا تھا۔

اسنے ایک دو بار پیاس کو نظرانداز​ کر کے سونا چاہا مگر شدت بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ وہ ایمل کو اٹھانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ آج کل وہ کافی بےچین سوتی تھی لیکن آج وہ بہت سکون سے سو رہی تھی اور جزلان اسکی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

پچھلے چار ماہ میں ایمل کے رویے میں تھوڑی نرمی آئی تھی مگر وہ زیادہ اس سے کبھی بات نہیں کرتی تھی۔۔۔ جزلان اگر اس سے کچھ بات کرتا تو وہ بس ہوں ہاں میں جواب دیتی کمرے سے ہی نکل جاتی تھی۔

وہ اب پہلے کی طرح بار بار جزلان کو اسکا ماضی یاد دلا کے شرمندہ نہیں کرتی تھی۔۔۔ اسکا تلخ لہجہ جیسے کہیں گم ہوگیا تھا۔۔۔وہ پیار سے نا سہی مگر وہ اب عام سے انداز میں بات کرتی تھی۔۔۔

اسکے اندر یہ تبدیلی کہا سے آئی ۔۔۔ کیسے آئی ،،،کیوں آئی وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ مگر اسے اچھا لگتا تھا۔۔۔ اسے لگتا تھا کہ ایمل نے اب شاید اسکا ساتھ قبول کر لیا ہے۔۔۔ اور وہ اب اور مزید اسکا دل جیتنے کی پوری کوشش کررہا تھا۔

وہ اپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پہ زرا سا زور دیتا الٹا ہاتھ بیڈ پہ جماتے تھوڑا نیم دراز ہوا۔

اسکا سیدھا ہاتھ اور پاؤں اب ہلکا ہلکا موو کرنے لگا تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر کی توقع کے مطابق وہ بہت جلد ٹھیک ہو سکتا تھا اور وہ ہو بھی رہا تھا۔۔

اسنے پانی کا گلاس اٹھانے کے لیئے ہلکے سے کروٹ لیتے الٹا ہاتھ آگے بڑھاتے سائڈ کورنر سے پانی کا بھرا ہوا گلاس اٹھایا ۔۔۔

اسنے تھوڑا سیدھے ہوکے بیٹھنے کی کوشش کی جب ہی اسکا ہاتھ ٹیڑا ہوا اور گلاس سے پانی اسکی شرٹ پہ گر گیا۔۔

اتنی ٹھنڈ میں پانی گرنا اسے ایک پل کے لیئے کپکپانے پہ مجبور کر گیا۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے پانی گر چکا تھا ۔۔۔ شرٹ گیلی ہوگئی تھی اور گیلی شرٹ کے ساتھ وہ سو بھی نہیں سکتا تھا اس لیئے مجبور ہوتے اسنے ایمل کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

ایمل۔۔۔۔ اسنے دھیرے سے پکارہ مگر آج شاید ایمل کافی گہری نیند میں تھی اس لیئے نہیں اٹھی۔

ایمل۔۔۔۔۔ اسنے اب کی بار تھوڑی تیز آواز میں اسکا بازو ہلاتے پکارہ تو ایمل کی ایک دم آنکھ کھلی

کیا ہوا۔۔۔ وہ گردن ذرا سی اٹھائے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں پوچھنے لگی۔

یار وہ مجھے پیاس لگی تھی تو پانی کا گلاس اٹھایا تھا کہ سارا پانی شرٹ پہ گر گیا۔۔۔ اور اتنی سردی میں میں گیلی شرٹ پہن کے نہیں سو سکتا اس لیئے پلیز میری شرٹ چینج کروادو۔۔۔ اسنے وضاحت دیتے بےچارگی سے کہا تو ایمل ایک نظر اسکے ہاتھ میں موجود خالی گلاس دیکھتی اٹھ گئی۔

بیڈ سے اٹھتے پیروں میں چپل ارستی دوپٹہ ٹھیک سے اپنے گرد لپیٹتی وہ دروازے کی جانب بڑھنے لگی جب جزلان نے ناسمجھی سے پکارہ۔

کہاں جا رہی ہو۔۔۔

تمہیں شرٹ چینج کرنی ہے تو کسی ملازم کو تو بلانا پڑے گا نا۔۔۔ وہ عام سے انداز میں بولی

ٹائم دیکھو رات کے تین بج رہے ہیں ۔۔۔ اس وقت سب سو رہے ہوں گے ۔۔۔ تم انہیں تنگ کرو گی اس وقت اچھا تھوڑی لگے گا۔۔۔ جزلان نے نرمی سے کہا تو تھوڑی دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد ایمل الماری کی جانب بڑھ گئی

اسے اسکی بات ٹھیک ہی لگی تھی۔۔۔ اتنی رات کو کسی کو اٹھانا اچھا تو نہیں تھا۔۔۔ وہ خود بھی اتنا سا کام کر سکتی تھی۔

الماری سے ایک سادہ سی ٹی شرٹ نکالتی وہ واپس جزلان کی طرف آئی۔

آگر پانی پینا ہی تھا تو مجھے اٹھا دیتے خود سے لینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ اسکے ہاتھ سے گلاس لیتے سائڈ پہ رکھا۔

تم بہت گہری نیند میں سو رہیں تھی ۔۔۔ میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ جزلان ہلکے سے مسکرا کے بولا۔

تو اب بھی تو ڈسٹرب کردیا ہے نا ۔۔۔ اس سے اچھا تھا پہلے ہی کر دیتے جب اتنا زیادہ ڈسٹرب تو نہیں ہونا پڑھتا۔۔۔ سنجیدگی سے کہتی آگے بڑھتے ایک ہاتھ سے اسکا بازو تھامتے دوسرے سے کمر کو سہارا دیتے اسے سیدھا کرتے بیک گراؤنڈ کے ساتھ ٹیک لگوایا۔

سوری۔۔۔ جزلان کے کہنے پہ وہ بغیر اسکی بات کا جواب دیئے اسکی شرٹ اتارنے لگی۔

جزلان نے شرٹ اتارنے میں اسکی مدد کی مگر اسکے ہاتھوں کی لرزش اسے صاف محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ جس پہ وہ زیر لب مسکرادیا۔

شرٹ اتارنے کے بعد ایمل نے بغیر اسکی جانب دیکھتے شرٹ ایک طرف رکھتے دوسری اٹھائی ۔۔۔وہ اسکے کسرتی جسم کی جانب دیکھنے سے اجتناب کر رہی تھی۔۔۔ اسکا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔ چہرے خود با خود اپنا رنگ بدل رہا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنے اندر کی گھبراہٹ جزلان بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیئے بہت مشکل سے چہرے کے تاثرات نارمل رکھتے اسے دوسری شرٹ پہنانے لگی۔

جزلان کی نظریں اسکے چہرے پہ ہی ٹکی ہوئی تھیں ۔۔۔ اسکے کپکپاتے لب جھکی نظریں اور چہرہ پہ پھیلی سرخی جزلان کے لبوں پہ محظوظ مسکراہٹ لے آئی

پانی بھی پلادو۔۔۔۔ شرٹ پہنا کے اسے جاتے دیکھ جزلان نے کہا تو وہ ایک نظر اسے گھورتی سائد کورنر پہ رکھے جگ سے پانی گلاس میں ڈالنے لگی ۔

گلاس میں پانی ڈالتے اسکے آگے بڑھایا تو جزلان نے تھوڑا سا منہ آگے کردیا جس کا مطلب تھا خود اپنے ہاتھوں سے پلاؤ۔

اسکی اس حرکت پہ ایمل بغیر کچھ کہے دانت پیس کے پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگا گئی ۔۔۔ وہ جتنی جلدی اسکی مسکراتی نظروں سے دور جانا چاہتی تھی یہ شخص اتنا ہی اسے اپنے سامنے رکھ رہا تھا۔

پانی پلانے کے بعد وہ گلاس واپس اسکی جگہ پہ رکھتی پھر سے جانے لگی جب جزلان نے پھر سے پکارہ۔

یار لیٹا تو دو میں خود کیسے لیٹوں گا۔۔۔ وہ معصومیت سے بولا تو ایمل جاتے جاتے ایک بار پھر پلٹی اور ایک غصیل نظر اس پہ ڈالتے اسے ٹھیک سے لٹاتی اس بار بغیر کچھ کہے سنے جلدی سے اپنی جگہ پہ آتی اسکی جانب پشت کر کے لیٹ گئی۔

اسکی جلد بازی پہ جزلان دل کھول کے مسکرایا۔

اسکا سرخ ہوتا چہرہ یاد آتے جزلان نے اسکی پشت کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے ہی آنکھیں بند کر گیا۔

آج اسے بہت اچھا لگا تھا ایمل کو تنگ کر کے۔۔۔ ایمل کا گھبرانا،،، شرمانا،،، غصہ کرنا اسے اچھا لگا تھا۔۔۔ اور اسے امید تھی کہ ایک نا ایک دن وہ ایمل کے دل میں بھی جگہ بنا لے گا۔

۔🌺 🌺 🌺

ناشتے کے بعد آئلہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیئے شیشے کے سامنے کھڑی اسکارف باندھ رہی تھی۔۔۔ 

ایک ماہ پہلے ہی اللہ نے اسے ماں بنے کی خوشخبری سنائی تھی۔۔۔ جس پہ رائد تو خوشی سے پاگل ہی ہو اٹھاتا۔۔۔ پورے آفس میں پورے گاؤں میں میٹھائی بٹواتا۔۔۔ بار بار آئلہ اور اپنے آنے والے بچے کا صدقہ اتار رہا تھا۔۔۔

آج وہ رائد کے ساتھ روٹین چیک اپ کے لیئے جارہی تھی۔۔۔  سیاہ برقعے کے اوپر سیاہ ہی اسکارف باندھ رہی تھی جب نظریں کمرے میں داخل ہوتے رائد پہ پڑی۔

سرمئی قمیض شلوار پہ آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیئے، کندھوں کے گرد سیاہ شال اوڑھے وجیہہ چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ سجائے آئلہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔

بےساختہ اسکے دل نے سرگوشی کی کہ بلاشبہ اسکا شوہر قمیض شلوار میں دنیا کا سب سے حسین آدمی لگتا ہے۔

ہوگئیں تیار۔۔۔ رائد پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیتے مسکرا کے بولا جب کے آئلہ اب تک اسکے سحر میں جکڑی ہوئی تھی۔

بہت پیارے لگ رہے ہیں آپ۔۔۔ اتنے پیارے کے ہمیں ایک بار پھر آپ سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔ وہ مبہوت سی بولی تو اتنے پیارے اظہارے محبت پہ رائد جی جان سے مسکرایا۔

پیارا تو لگنا ہی تھا۔۔۔ آج آپکی آنکھوں کا رنگ جو زیب تن کیا ہے۔۔۔ رائد اسکا رخ اپنی جانب موڑتے اسکی سرمئی آنکھوں میں دیکھتے محبت سے چور لہجے میں کہتا اسکے ماتھے پہ لب رکھ گیا جس پہ وہ ایک دم ہوش میں آئی۔

آپ کو ہماری آنکھیں بہت پسند ہیں؟۔۔۔ اسنے معصومیت سے سوال کیا۔

مجھے تمہاری آنکھیں پسند نہیں بلکے ان سے بےپناہ محبت ہے ۔۔۔ اور نقاب میں لپٹی آنکھوں سے تو عشق ہے ۔۔۔۔ رائد محبت سے اسکی آنکھوں کو چومتے اسکے چہرے پہ خود ہی نقاب لگانے لگا تو آئلہ نے ڈریسنگ سے پن اٹھا کے اسکی جانب بڑھادیں۔

آپ کو ہمارا نقاب کرنا اچھا لگتا ہے؟۔۔۔ وہ اسکا جواب جانتی تھی پھر بھی اسکے منہ سے سنے کے لیئے پوچھ رہی تھی۔

اسکے سوال پہ رائد نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے پن کہتے نقاب پن اپ کیا۔

نقاب کر کے جب تم میرا ہاتھ تھام کے میرے ساتھ چلتی ہو تو مجھے اپنا آپ قیمتی لگتا ہے۔۔۔ تمہارے ساتھ چلتے ہوئے فخر ہوتا ہے مجھے۔۔۔ اور میں اسی طرح تمہارا ہاتھ تھامے جنت میں جانا چاہا ہوں۔۔۔ اب تم خود اندازہ لگا سکتی ہو کے مجھے تمہارا نقاب کرنا کتنا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔ رائد گھمبیر لہجے میں نرمی سے بولا تو نقاب کے پیچھے چھپے آئلہ کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔

اسے سامنے کھڑے شخص پہ بےحد پیار آیا تھا جو اس سے اور اسکے نقاب سے اتنی محبت کرتا تھا۔۔۔ وہ نم آنکھوں سمیت اسکے سینے سے جا لگی جس پہ رائد نے بھی محبت سے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

نقاب تمہاری خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے جاناں۔۔۔ وہ دھیرے سے سرگوشی نما بولا۔

آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔ وہ بھیگی آواز میں بولی تو رائد آسودگی سے مسکراہٹ دیا۔

شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا کہ آپ بہت برے ہیں۔۔۔ رائد شریر لہجے میں بولا۔

ہم ایسا کیوں کہیں گے بھلا ۔۔۔ آپ اچھے ہیں تو ہم آپ کو اچھا ہی کہیں گے نا۔۔۔ وہ اسکے سینے پہ سر رکھے ناسمجھی سے بولی۔

نہیں مجھے لگا ہر ناول کی ہیروئن کی طرح تم یہی کہوں گی کہ آپ بہت برے ہیں۔۔۔ رائد نے مسکرا کے شرارتی لہجے میں کہا تو آئلہ نے سر اٹھا کے حیرت سے اسے دیکھا۔

آپ ناول بھی پڑھتے ہیں۔۔۔ اسنے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو رائد ایک بارپھر اسکا ماتھا چوم گیا۔

نہیں جاناں۔۔۔ بس کچھ memes پڑھی تھیں۔۔۔ ورنا میں بلکل اتنا فارغ بندہ نہیں ہوں کے ناولز پڑھوں۔۔۔ رائد نے زرا سے کندھے اچکا کے کہا تو آئلہ نے آنکھیں پھیلائے اسے گھورا۔

ناول تو ہم بھی کبھی کبھی پڑھتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کو فارغ لگتے ہیں۔۔۔ وہ خفگی سے اسے دیکھ کے منہ بنائے بولی۔

جب تم مجھ سے دور ہوتی ہو مجھے چھوڑ کے کوئی بھی دوسرا کام کرتی ہو تو مجھے فارغ ہی لگی ہو۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں پہ آتا اسکارف تھوڑا پیچھے کرتے بولا۔

مطلب۔۔۔ آئلہ اب بھی نہیں سمجھی تھی۔

میرے پاس رہو۔۔۔ مجھے کس کرو۔۔۔ رومینس کرو ۔۔۔ میرے ساتھ ٹائم گزارو تو مجھے لگے گا کہ تم بہت بزی انسان ہو۔۔۔ رائد اسے مزید خود کے قریب کرتے مسکرا کے بولا تو اسکی بات پہ آئلہ شرماتی سحر زرا آنکھوں پہ پلکھیں گراتی رائد کے جذبات بری طرح سے بھڑکا گئی۔

رائد نے بےخود ہوتے ہاتھ آگے بڑھاتے اسکا نقاب ہٹانا چاہا مگر آئلہ بیچ میں ہی اسکا ہاتھ تھام گئی۔

کیا کر رہے ہیں۔۔۔ اسنے بھاؤیں سکیڑ پوچھا۔

یہ جو سرمئی نین کٹوروں پہ پھلگیں گرائی ہیں نا یہ میرے جذبات بھڑکا گئی ہیں اب جذبات میں بھڑکتی آگ کو مٹانا تو پڑے گا نا۔۔۔ رائد خمار زده لہجے میں بولا تو آئلہ نے اپنا ماتھا پیٹا

اففف۔۔۔ اپنا یہ رومینس بعد کے لیئے رکیں ابھی چلیں ہمیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ وہ اسے ٹائم کا احساس کرواتے بولی تو رائد کو چارو ناچار ماننا ہی پڑا۔

وہ آئلہ اور اپنے ہونے والے بچے کی صحت پہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا اس لیئے اپنے جذباتوں کو فلحال لگام ڈالتے اس سے دور ہوا۔

ڈاکٹر کے پاس جانا زیادہ ضروری ہے اس لیئے ابھی تم بچ گئیں لیکن یاد رکھنا وہاں سے آنے کے بعد تم سارا وقت میرے ساتھ گزارو گی۔۔۔ رائد انگلی اٹھ کے وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

آئلہ اسکی بات سمجھتی دھیرے سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی۔

جیسا آپ کہیں۔۔۔ اب چلیں۔۔۔ وہ اسکے پاس آتی بولی تو رائد سر ہلاتا سکا ہاتھ تھامے کمرے سے نکل گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

جزلان اپنے کمرے میں بیٹھا کھانے کا انتظار کررہا تھا جب کچھ ہی دیر بعد نور بیگم ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیئے کمرے میں داخل ہوئیں۔

ارے ماما آپ کیوں لے آئیں کسی ملازم کو لے کے بھیج دیتیں۔۔۔ جزلان انہیں اپنی طرف آتے دیکھ مسکرا کے بولا۔

کیوں میں اپنے بچے کے لیئے کھانا نہیں لاسکتی۔۔. نور بیگم اسکے برابر میں ٹرے رکھتی خود بھی اسکے ساتھ بیٹھیں۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا ماما۔۔۔ جزلان نے معذرت خواہ لہجے میں کہا تو نور بیگم مسکراتے ہوئے اسکے لیئے نوالہ بنانے لگیں۔

آپ کھلائیں گی۔۔۔ نوالہ اپنی جانب بڑھتے دیکھ وہ خوشگوار حیرت سے بولا۔۔۔ اتنے ماہ تک اسے ملازم ہی کھلا رہے تھے یا پھر وہ اپنے ٹھیک والے ہاتھ سے ہی تھوڑا بہت کھا رہا تھا مگر آج نور بیگم کا کھلانا اسے بہت اچھا لگا تھا۔

ہاں وہ قاسم (جزلان کا ملازم جو اسکے سارے کام کرتا تھا) باہر گیا ہوا ہے تو سوچا میں ہی اپنے بیٹے کو کھلا دو۔۔۔ انہیں لگا جیسے جزلان کو اچھا نہیں لگا انکا یوں کھلانا اس لیئے انہوں نے وضاحت دی۔

آج تو میرے لیئے بہت ہی اچھا دن ہے کے میں اپنی ماں کے ہاتھوں سے کھاؤ گا۔۔۔ جزلان خوشی سے بھر پور لہجے میں کہتا منہ کھول گیا تو نور بیگم نے مسکراتے ہوئے اسکے منہ میں نوالہ رکھا۔

جزلان کے چہرے پہ خوشی اور چمک دیکھتے نور بیگم کی غلطی فہمی دور ہوگئی تھی۔

بچپن کے بعد آج آپ کے ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہوں ۔۔۔ سچ کہوں تو یہ لمحہ میرے لیئے بہت انمول ہے۔۔۔ انکے اتنے پیار سے کھلانے پہ جزلان کی آنکهیں بھیگیں ۔۔۔

اسنے تو ہمیشہ انکا دل دکھایا تھا۔۔۔ انہیں نظر انداز کیا تھا۔۔۔ کبھی اتنی اہمیت نہیں دی تھی مگر وہ کتنی خوشدلی سے اسکا خیال رکھ رہیں تھیں۔۔۔ اسکی فکر کر رہیں تھیں۔۔۔ اسے خود کھلا رہی تھیں۔۔۔ جزلان کو بےانتہا دکھ ہوا اپنے پھچلے رویہ پہ۔۔

میں ہمیشہ آپ کو ایسے ہی کھلا سکتی تھی آگر آپ کے بابا مجھے آپ سے دور نا کرتے تو۔۔۔ وہ نوالہ اسکے منہ کی جانب کرتی دھیرے سے مسکرائیں ۔۔۔۔ انکی مسکراہٹ میں جیسے جزلان کو دکھ کے رمق دیکھی۔

ماما آگر میرے بس میں ہوتا تو میں ماضی میں جاکے سب کچھ ٹھیک کر دیتا ۔۔۔ کبھی آپ سے دور نہیں جاتا۔۔۔ اپنے رویہ اپنوں کے ساتھ۔۔۔ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ہمیشہ اچھے رکھتا مگر میں احمق اپنے اتنے پیار کرنے والے دو رشتوں کے دل توڑتا رہا۔۔۔ ماما میں شرمندہ ہو اپنے کیئے پہ۔۔۔ وہ نوالہ منہ میں ڈالتے بولا

میں جانتا ہوں بہت دیر میں عقل آئیں ہے مجھے مگر کہتے ہیں نا جب تک ٹھوکر نہیں لگتی انسان سدھرتا نہیں ہیں۔۔۔ دیکھیں آپ کے بیٹے کو کتنی بری طرح سے ٹھوکر لگی ہے۔۔۔ جزلان اپنے اوپر ایک نظر ڈالتا غمگین لہجے میں افسردگی سے بولا تو نور بیگم تڑپ اٹھیں۔

نہیں بیٹا ایسا نہیں بولتے ۔۔۔ اللہ کے ہر کام میں کوئی نا کوئی مسلحت ہوتی ہے بس ہمیں اسے سمجھنے میں دیر لگتی ہے۔۔۔ نور بیگم اسکا اداس چہرہ دیکھ کے پیار سے سمجھانے لگیں جس پہ جزلان نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا

میں جب بھی ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔ مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔۔۔ میں اتنے وقت سے آپ سے معافی مانگنا چاہتا تھا مگر میری ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ 

میں جانتا ہوں آپ میرے معافی مانگنے پہ مجھے معاف کردیں گی مگر میں کس منہ سے آپ سے معافی مانگوں مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔ جزلان نے تھکے ہوئے انداز میں کہا تو نور بیگم دھیرے سے مسکرائیں۔

جزلان ماضی میں آپ کا جو بھی رویہ رہا وہ آپ کی غلط تربیت کا نتیجہ تھا مگر اب حال میں آپ کو اپنی غلطیوں کا ۔۔۔ سہی غلط کا احساس ہو گیا ہے میرے لیئے یہی کافی ہے۔۔۔ مجھے میرا بیٹا واپس مل گیا ہے میرے لیئے یہی بہت ہے۔۔۔ نور بیگم محبت سے ایک اور نوالہ اسکے منہ کی جانب کرتی بولیں تو جزلان نے نوالہ منہ میں لیا۔

میں پھر بھی آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔۔۔ جزلان نے پشیمانی سے سر جھکائے کہا۔

کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔اس سے پہلے نور بیگم کچھ کہتیں کمرے میں نوال کی آواز گونجی جس پہ دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے نوال اندر آرہی تھی۔۔۔۔ نوال کے پیچھے حسام اور ہاتھ میں میٹھائی کا باکس پکڑے ایمل بھی کمرے میں داخل ہوئے۔

ارے واہ ماما اپنے ہاتھوں سے بھائی کو کھانا کھلایا جا رہا ہے۔۔۔ وہ بیڈ کے دوسری جانب بیٹھی بولی ۔۔۔ اسکے ساتھ ہی حسام بھی بیڈ پہ بیٹھا جب کے ایمل نور بیگم کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔

اچھا ہوا نوال تم بھی آگئیں۔۔۔ مجھے تم سے بھی کچھ کہنا تھا۔۔۔ اصل میں ایک چیز مانگنی تھی۔۔۔ جزلان نے اسے دیکھتے نرمی سے کہا۔

سالے صاحب آپ کے پاس اتنا رپیہ پیسہ ہے خود ہی لے ہیں بیچارے غریب بہن کے شوہر کو کیوں لوٹ رہے ہیں۔۔۔ اسکی جیب سے کون سا کچھ جائے گا ۔۔۔ آپ کو کچھ دینے کے لیئے میری ہی جیب خالی کروائی گی یہ۔۔۔ حسام شرارت سے بولا تو نوال نے اسے گھورا۔

دیکھ رہی ہیں ساسو ماں آپ کی بیٹی کیسے آپ کے ہی سامنے آپ کے معصوم سے داماد کو گھور رہے ہے۔۔۔ حسام نے معصوم بنتے نوال کی شکایت نور بیگم سے لگائی تو ان سب کے چہرے پہ دبی دبی ہنسی آگئی۔

نوال بیٹا ایسا نہیں کرتے۔۔۔ نور بیگم نے مسنوعی غصے سے ڈانٹتے داماد کا مان رکھا۔

ماما آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے انکی سائڈ لینے کی۔۔۔خیر ان کو چھوڑیں یہ تو فالتو بولتے رہتے ہیں ۔۔۔ بھائی آپ کہیں آپ کو کیا چاہیئے۔۔۔ نوال حسام کو اگنور کرتی جزلان سے بولی تو حسام منہ بنا کے رہ گیا۔

معافی۔۔۔ جزلان نے اک لفظی کہا تو نوال نے حیرت سے اسے دیکھا۔

میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔ اسنے ناسجھی سے پوچھا۔

ایمل کی نظریں جزلان کے چہرے پہ ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ اداسی، ندامت افسردگی ،صاف واضح تھی ۔۔۔ پہلی بار جزلان کو یوں دیکھ کے ایمل کے دل کو کچھ ہوا۔

نوال میں جانتا ہوں میری وجہ سے تمہارا بہت دل دکھا ہے۔۔۔ میں نے ہمیشہ بابا کی طرح تمہیں بہت برا بھلا کہا ہے۔۔۔ ڈانٹا ہے پھٹکارا ہے۔۔۔ کبھی تمہیں بڑا بھائی ہونے کا احساس تک نہیں دلایا۔۔۔ ہمیشہ تمہارے ہرمعاملے میں لاتعلق رہا ہوں۔۔

مگر کچھ وقت پہلے رائد نے مجھے میرا فرض یاد دلایا تھا۔۔۔ اور پھر تمہاری بھابھی وہ بھی مجھے وقفے وقفے سے میری غلطیاں یاد دلاتی رہی تھی۔۔۔ اور آج میں انہی غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں۔۔۔ جزلان نے نم آنکھوں سے نوال کو دیکھتے کہا تو نوال فورن آگے آتی اسکی آنکھیں صاف کر گئی۔

آپ بھٹک گئے تھے۔۔۔  غلط راستے پہ چل نکلے تھے مگر اب آپ دیر سے ہی سہی مگر سہی راستے پہ آگئے ہیں ۔۔یہی بہت ہے۔۔۔آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ نوال بہت ہی پیار سے بولی تو جزلان نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے ماں کو دیکھا۔

ماما آپ مجھے۔۔۔۔جزلان کہنے لگا تھا۔۔۔ جب نور بیگم نے جزلان کی بات کاٹتے ٹوکا۔

جزلان بس بیٹا جو ہوگیا اسے بھول جاؤ۔۔۔ اور ہم سب کے ساتھ مل کے اچھی یادیں بناؤ ہمممم ۔۔۔ نور بیگم شفقت سے مسکرا کے بولی تو جزلان کے دل کو بےحد سکون ملا ایسا لگا جیسے دل پہ رکھا بھاری پتھر ہٹ گیا ہوا۔۔۔۔ ایک سکون بھرا سانس خارج کرتے جزلان نے امید اور منت بھری نظروں سے ایمل کو دیکھا جیسے (کہ رہا ہو اب تو معاف کردو بس ایک تمہی بچی ہو معاف کرنے کے لیے)

اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے ایمل جلدی سے بات بدل گئی۔

چلیں بھئی اب سب میٹھائی بھی کھالیں۔۔۔ ایمل نے نور بیگم کے سامنے میٹھائی کا دبا کرتے کہا تو نور بیگم نے ناسمجھی سے دیکھا۔

یہ میٹھائی کس لیئے۔۔۔انہوں نے پوچھا۔

بڑی ماما یہ تو آپ اپنے بیٹی داماد سے پوچھیں۔۔۔ ایمل نے ڈبا انکی گود میں رکھتے شرارت سے نوال کو دیکھ کے کہا تو وہ شرم سے سر جھکا گئی۔

بتاؤ بیٹا کیا بات ہے یہ میٹھائی کس لیئے ہے۔۔۔ سب کی نظریں نوال پہ تھیں جو نور بیگم کے سوال پہ مدد طلب نظروں سے حسام کو دیکھ رہی تھی جو محبت پاش نظریں اسکے چہرے پہ جمائے مسکرا رہا تھا۔

ارے بھئی کوئی بتائے گا بھی۔۔۔ حسام اور نوال کو ایک دوسرے کو تکتے دیکھ جزلان نے بےچینی سے کہا۔

حسام بتائیں گے۔۔۔ نوال دھیمی آواز میں کہتی سر جھکا گئی تو سب کی نظریں حسام کی جانب ہوگئیں۔

ویسے تو ہم سب کو ایک ساتھ بتانا چاہتے تھے مگر آئلہ بھابھی اور رائد تو گئے ہوئے ہیں اس لیئے آپ لوگوں کو ہی بتا دیتے ہیں۔۔۔ حسام نے بات کو طویل کیا۔

اب بتا بھی دو۔۔۔۔ جزلان نے جھنجھلا کے کہا

تو بات یہ ہے کےےےےے۔۔۔۔ حسام نے تجسس پھیلایا۔

حسام بھائی بتا بھی دیں یا میں بتا دوں سب کو۔۔۔ آ تے کے ساتھ ہی نوال ایمل کو خوشخبری سنا چکی تھی اور اب ایمل سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ وہ یہ خوشی کی خبر جلدی سے سب کو سنانا چاہتی تھی مگر حسام تھا کہ بتا کے ہی نہیں دے رہا تھا۔

ہاں ایمل تم بتا دو یہ تو ایسے ہی کرتا رہے گا۔۔۔ جزلان نے ایمل سے کہا تو حسام فورن سیدھا ہوا 

اچھا اچھا بتا رہا ہوں۔۔ تو بات یہ ہے کہ آپ نانی اور تم ماموں بنے والے ہو۔۔۔ حسام نے جوش سے خوشی کی خبر سنائی تو نور بیگم نے پہلے بےیقینی سے نوال کو دیکھا جس پہ وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلاگئی۔

بہت بہت مبارک ہو میری بچی۔۔۔ نور بیگم نے اٹھتے ساتھ ہی اسکا ماتھا چوما۔

یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔۔۔ مبارک ہو تم دونوں کو۔۔۔ جزلان نے بھی خوشدلی سے مبارکبادی دی۔

چلیں بڑی ماما منہ میٹھا کریں۔۔۔ ایمل نے بیڈ سے باکس اٹھاتے باکس سے میٹھائی نکالتے نور بیگم کے منہ میں ڈالی۔

اسنے باری باری سب کا منہ میٹھا کروایا اور سب سے آخر میں جزلان کی جانب آئی۔۔۔ 

اسنے میٹھائی جزلان کے منہ کے قریب کی جس پہ اسنے جلدی سے منہ کھول دیا۔۔

تھوڑی سی مٹھائی کھانے کے بعد اسنے ایمل کے ہاتھ میں بچی ہوئی میٹھائی اسکے منہ کی جانب کی تو وہ سب کی موجودگی میں بغیر کچھ کہے میٹھائی منہ میں رکھ گئی۔

سبھی وہیں بیٹھے کافی دیر باتیں کرتے رہے۔۔۔ جزلان کے کمرے میں ایک الگ ہی رونق لگی ہوئی تھی۔۔۔ اور اس رونق کے لگنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تراب خان حویلی میں نہیں تھے ورنا نوال بھی یہاں نا آتی۔

مگر آج اسکے آنے سے جیسے حویلی میں بہار آگئی تھی۔۔۔ نوال اور جزلان ایک ٹیم بنا کے خوب حسام کو تنگ کر رہے تھے جس پہ وہ منہ بناتے چھوٹے بچے کی طرح بار بار نور بیگم شکایت کر رہا تھا جس وہ وہ بس مسکرائے جا رہیں تھیں۔

پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ حویلی میں قہقہے گونج رہے تھے ۔۔۔ کوئی بھی دکھی نہیں تھا سب کے چہروں پہ خوشی تھی۔۔۔ رونق تھی جس کے قائم رہنے کی دعا نور بیگم کے دل سے نکلی تھی۔

(پانچ ماہ بعد)

وقت بہت ہی تیزی سے گزرا تھا ۔۔۔۔ اور آج وہ وقت آن پہنچا تھا جب جزلان آپریشن تھیٹر کے باہر بےچینی سے ٹہل رہا تھا۔۔۔۔ اندر اسکی متاع جاں اپنی جان پہ کھیل کے اسے باپ بنانے والی تھی۔۔۔۔ دنیا کا سب سے انمول تحفہ دینے والی تھی۔

دو ماہ پہلے ہی جزلان مکمل طور پہ ٹھیک ہو گیا تھا۔۔۔ اب وہ ہر کام پہلے کی طرح کر رہا تھا۔۔۔

ان دو ماہ میں اسنے ایمل کا بہت اچھے سے خیال رکھا تھا۔۔۔ کبھی کبھی تو ایمل اسکی اتنی کیئر سے چڑ جاتی تھی مگر اب وہ پہلے کی طرح اسے باتیں نہیں سناتی تھی ۔

اسنے ٹھیک ہونے کے بعد سب سے پہلا کام سیاست چھوڑنے کا کیا تھا۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ سیاست بہت ہی گندہ کھیل ہے۔۔۔ اچھے انسان کو بھی کبھی نا کبھی برا بنے پہ مجبور کر ہی دیتی ہے۔۔۔ اس لیئے اسنے سیاست چھوڑتے اپنی خاندانی دستار سر پہ سجاتے گاؤں کی زمیداری اٹھا لی تھی۔

وہ مسلسل اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا جب کچھ دیر بعد ڈاکٹر ہاتھ میں سفید کمبل میں لپٹے ایک ننے سے وجود کو تھامے باہر آئی۔۔ جیسے دیکھتے ہی جزلان فورن اسکی جانب لپکا۔۔۔۔ تو بیچ پہ بیٹھی نور بیگم بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے اس ننھی سی جان کو جزلان کی طرف بڑھایا۔

جزلان اسکا معصوم سرخ و سفید چہرہ دیکھتے بہت ہی احتیاط سے ڈرتے ڈرتے اسے اپنی باہوں میں تھام گیا۔۔۔

اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں میں دیکھتے وہ اپنے جذبات پہ قابو نا رکھ سکا۔۔۔ نم آنکھوں سے اسے دیکھتا محبت سے اسکا ماتھا چوم گیا۔

ڈاکٹر میری بیوی کیسی ہے۔۔۔ اسنے بےچینی سے ایمل کا پوچھا۔

وہ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔ ہم کچھ دیر بعد انہیں روم میں شفٹ کردیں گے پھر آپ ان سے مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر پرفیشنل انداز میں کہتی آگے بڑھ گئی۔

ماما میری بیٹی۔۔۔ جزلان خوشی سے نور بیگم کی جانب مڑتے بولا تو نور بیگم نے جلدی سے اپنے پرس سے چند نوٹ نکالتے بچی کا صدقہ اتارہ۔

لاؤ اب میری پوتی کو مجھے دو۔۔۔ انہوں نے نرمی سے جزلان کی گود سے بچی لی۔

اور یہ باہر کسی ضرورت مند کو دے دینا۔۔۔ نور بیگم نے پیسے اسکی جانب بڑھائے جیسے وہ تھامتے اپنی قمیض کی جیب میں ڈال گیا۔

ماما آپ یہیں رہے گا میں آتا ہوں کچھ دیر تک۔۔۔ جزلان جھک کے اپنی بیٹی کے پھولے پھولے سرخ گالوں پہ بوسہ دیتا آگے بڑھ گیا۔

اچھا سنو جزلان حویلی فون کر کے بھی عطلاح دے دینا۔۔۔ نور بیگم نے پیچھے سے آواز لگائی تو جزلان نے مڑ کے انہیں دیکھا۔

آپ فکر مت کریں ماما،،، میں صرف حویلی نہیں بلکے پورے گاؤں کو عطلاح دے دوں گا۔۔۔ وہ مسرور لہجے میں کہتا مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

بھابھی آپ اسکا نام کیا رکھیں گی۔۔۔ نوال ننی سی نازک گڑیا کو اپنی گود میں رکھے اسکا ہاتھ چوم کے بولی۔۔۔ 

نوال اور حسام کو آئے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا اور وہ اس آدھے گھنٹے میں بار بار اسکا ننا سا ہاتھ چومے جا رہی تھی۔

ابھی میں نے کچھ سوچا نہیں ہے۔۔۔ ایمل نے دھیرے سے جواب دیا۔

ہیںںں تم نے نام ہی نہیں سوچے رائد اور ہم نے تو پہلے سے سوچ رکھا ہے کہ آگر لڑ۔۔۔۔ایمل کو سوپ پلاتی آئلہ روانی میں کہتے کہتے ایک دم دانتوں تلے زبان دبا گئی۔۔۔ تو سب کے چہروں پہ دبی دبی ہنسی آگئی۔

بات مکمل کرو۔۔۔۔ رائد جو پیچھے صوفے پہ ہی حسام کے ساتھ بیٹھا تھا مزے سے بولا۔

کچھ نہیں۔۔۔ مارے شرم کے اسکی آواز نکل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔ سب کی موجودگی میں ایسی بات کرنا اسے شرم سے سرخ کر گیا تھا۔

ویسے کیا نام سوچا ہے آپ نے۔۔۔ ایمل نے دھیمے لہجے میں رازداری سے پوچھا تو آئلہ نے اسے آنکھیں دیکھائیں۔

نوال ادھر آؤ۔۔۔ آئلہ نے سوپ کا پیالہ سائڈ پہ رکھتے نوال کو اپنے پاس آنے کا کہا۔

جی بھابھی۔۔۔ نوال فورن اسکے پاس آئی

اسے ہمیں دو اور یہاں بیٹھ کے ایمل کو یہ پورا سوپ ختم کرواؤ۔۔۔ آئلہ نوال کے ہاتھ سے بچی لیتی بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی چھوڑ کے کھڑی ہوئی تو نوال اسکی بات پہ عمل کرتے فورن کرسی پہ بیٹھی ایمل کو سوپ پلانے لگی۔

ویسے یہ گڑیا کے بابا کہیں دیکھائی نہیں دے رہے۔۔۔۔ جزلان کافی دیر سے غائب تھا۔۔۔ جب سے ایمل کو روم میں شفٹ کیا تھا وہ ایک بار بھی نظر نہیں آیا تھا۔۔۔ اسکی غیر موجودگی محسوس کرتے حسام نے یہ دوسری بار پوچھا تھا۔

میں نے فون کیا تھا مگر اسکا فون بند جا رہا تھا۔۔۔کسی کام میں پھس گیا ہوگا آجائے گا تھوڑی دیر تک۔۔۔ رائد نے کندھے اچکا کے بتایا۔

کافی دیر تک وہ لوگ وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے جب کچھ ہی دیر بعد جزلان ہاتھ میں بڑا سا سرخ پھولوں کا گلدستہ لیئے کمرے میں داخل ہوا۔

لو آگئے ابا جی۔۔۔ حسام نے اسے دیکھتے شرارت سے کہا جس پہ وہ مسکراتے ہوئے سیدھے ایمل کی جانب آیا تھا جو بیڈ پہ ہلکے سے نیم دراز ہوئی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

جزلان کو ایمل کی جانب بڑھتے دیکھ نوال جو کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی فورن جزلان کے لیئے کرسی خالی کرگئی۔

تھینک یو زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے کے لیئے۔۔۔ وہ اسکے برابر میں پھول رکھتے آسودگی سے مسکرا کے بولا تو ایمل بس اسکا چہرہ دیکھ کے رہ گئی۔

ایمل کو اسکے چہرے پہ بےحد سکون اور خوشی چمکتی صاف نظر آرہی تھی۔۔۔ جزلان کے چہرے کی یہ چمک اور خوشی ایمل کو اندر تک پرسکون کرگئیں تھیں۔۔۔ مگر اسنے اپنے چہرے پہ ایک بھی تاثر نہیں آنے دیا جس سے یہ پتہ لگے کہ وہ جزلان سے خوش ہے یا نہیں۔

چلو بھئی کرایہ پورا ہوگیا ادھر دو میری بیٹی کو۔۔۔ جزلان رائد کے ہاتھ سے بچی لینے کے لیئے آگے بڑھا۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی رائد نے ایلی سے بچی لی تھی۔

ایسے کیسے دے دو۔۔۔ ابھی تو میں نے لی ہے ورنا اس سے پہلے تو اسکی تائی اما،،، پھوپھو اور پھوپھو کے شوہر ہی لیئے ہوئے تھے۔۔۔ میری تو ابھی باری آئی ہے میں نہیں دے رہا۔۔۔ رائد بچی کو تھوڑا سا اور اپنے نزدیک کرتے کسی ضدی بچے کی طرح بولا۔

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مجھے میری بیٹی دو۔۔۔ جزلان بھی ضدی اندا میں بولا ۔۔۔

نہیں دے رہا۔۔۔ رائد دوبدو بولا۔

وہ دونوں اس وقت بلکل بچے لگ رہے تھے جو اپنی کسی فیوریٹ چیز پہ لڑ رہے تھے ۔۔۔ سب انکی نوک جھوک سے کافی لطف انداز ہو رہے تھے۔۔۔ نور بیگم حویلی میں تھیں ورنا آگر وہ یہاں ہوتیں تو دونوں بھائیوں کو اس طرح نوک جھوک کرتے دیکھ خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔۔۔ آخر سالوں بعد جا کے تو وہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے بات کرنے لگے تھے۔۔۔ مستی مزاق لڑائی جھگڑا کرنے لگے تھے۔

رائد تم دے رہے ہو یا نہیں۔۔۔ جزلان نے آئبرو اچکائے سوال کیا۔

نہیں۔۔۔ اٹل جواب ملا۔

بھابھی دیکھ رہیں ہیں آپ اپنے شوہر کو۔۔۔ میری بیٹی پہ قبضہ جما کے بیٹھ گیا ہے۔۔۔ بولیں آپ اسے مجھے دے میری بیٹی کو، میں نے کب سے اسے گود میں نہیں لیا۔۔۔ جزلان نے آخری حربہ استعمال کرتے آئلہ سے اسکی شکایت لگائی۔۔۔ وہ جانتا تھا رائد آئلہ کی کسی بات سے انکار نہیں کرتا۔۔۔ اس لیئے اسنے اب کے سیدھے آئلہ کو ہی کہا تھا۔

تم تو اس سے ایسے شکایت لگا رہے ہو جیسے میں اس سے ڈرتا ہوں۔۔۔ رائد نے طنزیہ کہا تو آئمہ اسے گھوتی ہوئی آگے بڑھی۔

آئی لو یو۔۔۔ ہلکے سے اس کی طرف جھکتے وہ نقاب میں چھپی سرمئی آنکھوں پہ پلکھیں گراتی رائد کو ساکت کر گئی۔۔۔ 

آئلہ نے پہلی بار اسے آئی لو یو کہا تھا۔۔۔۔وہ منہ کھولے اسکے لفظوں پہ غور کر رہا تھا ۔۔۔ جب موقع سے فائدہ اٹھاتے آئلہ نے دھیرے سے اسکی گود سے بچی لیتے جزلان کی گود میں دی۔۔۔

بھابھی ایسا کیا کہہ دیا آپ نے ہمارے سالے صاحب سے جو یہ ابھی تک سکتے میں ہیں۔۔۔ حسام نے رائد کے کندھے پہ ہاتھ مارتے کہا تو رائد ہوش میں آتا بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرا دیا۔

ہماری دہ+شت کے بس چند لفظ ہی کافی ہیں۔۔۔ آئلہ ایک ادا سے کہتی رائد پہ نظریں جمائے نوال کے ساتھ جا کے بیٹھ گئی۔۔۔ تو سب کے ہلکے سے قہقہے گھونج گئے۔

وہ لوگ باتوں میں مصروف ہی تھے جب زور سے پورا دروازہ ایک جھٹکے سے کھولتے تراب خان کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ انکے پیچھے ہی گھبرائی ہوئی سی نور بیگم بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔ تو سب لوگ انکی جانب متوجہ ہوئے۔

تراب خان کچھ کام سے لاہور گئے ہوئے تھے اور آج جب وہ گاؤں پہنچے تھے تو انہیں سب سے پہلے یہی خبر ملی تھی کہ وہ دادا بن گئے ہیں مگر پوتے کے نہیں پوتی کے اور جب سے انہیں یہ خبر ملی تھی وہ تو جیسے غصے سے پاگل ہی ہو اٹھے تھے مگر انکا میٹر سب سے زیادہ تب گھوما جب انہیں یہ پتہ چلا کے جزلان نے بچی کی پیدائش پہ پورے گاؤں میں میٹھایوں کے ساتھ ساتھ ایک ایک چاندی کا سکہ بھی بٹوایا ہے۔۔۔ 

اور یہی بات انہیں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی کہ انکا بیٹا ایک لڑکی ذات کی پیدائش پہ اتنی خوشیاں منا رہا ہے ۔۔۔ جب کے  لڑکی کو تو انکے خاندان میں منحوس ہی کہا گیا ہے شروع سے اور انہیں نے جزلان کو بھی ہمیشہ سے یہی سکھایا تھا مگر پھر اب اسے کیا ہو گیا تھا جو وہ اتنا خوش ہو رہا تھا بیٹی کی پیدائش پہ۔

بابا​ میں آپ کو کال کرنے ہی والا تھا۔۔۔ دیکھیں آج کتنا خوشی کا دن ہے۔۔۔ آپ کا بیٹا باپ بن گیا ہے۔۔۔ میرے گھر اللہ کی رحمت آئی ہے۔۔۔ دیکھیں۔۔۔ جزلان اپنی خوشی میں انکا غصے میں بھبھوکا چہرہ ہی نہیں دیکھ پایا اور بچی انکے سامنے کرتا دیکھانے لگا۔

بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔ تراب خان غصے سے دھاڑے تو انکی تیز آواز پہ بچی چونک کے رونا شروع ہوگئی جسے جزلان نے فورن اپنے ساتھ لگایا

انکے انداز پہ سب اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ سب کو ہی تراب خان سے یہی توقع تھی۔۔۔۔سب جانتے تھے کہ بچی کا سنے کے بعد تراب خان کا ایسا ہی ردعمل ہوگا مگر جزلان اپنی خوشی میں تراب خان کے اس ردعمل کو بھول گیا تھا اور اب بےیقینی سے آنکهیں پھاڑے انہیں دیکھ رہا تھا۔

جزلان تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو۔۔۔ یہ سکھایا تھا میں نے تمہیں۔۔۔ لڑکی کے پیدا ہونے پہ گاؤں بھر میں میٹھائیاں بانٹ کے تم ہمارے خاندان کی ناک کٹوانا چکے ہو۔۔۔ وہ مٹھیاں بھیجے بلند آواز میں بولے تو جزلان کی گود میں موجود بچی کے رونے میں شدت آئی۔

اسنے فورن سے پہلے بچی کو ایمل کو دیا اور پھر واپس انکے سامنے آیا۔

آپ اپنی یہ دقیانوس سوچ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔۔ بیٹا ہو یا بیٹی کیا فرق پڑھتا ہے ۔۔۔ ہوتے تو دونوں ہی اپنے ماں باپ کے کیئے اہم ہیں نا۔۔۔ دونوں ہی اپنا خون ہوتے ہیں پھر ہم کیسے اپنے ہی خون میں فرق کر سکتے ہیں۔۔۔ تراب خان کے برعکس جزلان نے بہت ہی دھیرے سے سمجھایا تھا۔

سب ہی لوگ اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے تراب خان کی سوچ پہ افسوس کر رہے تھے۔۔۔

تمہیں یاد نہیں جب تمہاری بہن پیدا ہوئی تھی تب خاندان والوں نے مجھے کتنی باتیں سنائیں تھیں۔۔۔ اور تم۔۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ کہتے جب بیچ میں ہی جزلان نے انکی بات کاٹی۔

یہ خاندان والے اور انکی باتیں ہی تو ہیں جن کے نقشے قدم پہ چل کے آپ ان معصوموں سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔۔۔ اور آپ چاہتے ہیں کے میں بھی آپ کے جیسا بن جاؤ۔۔۔ آپ کی طرح ساری زندگی کے لیئے اپنی بیٹی کو خود سے دور کردوں۔۔۔ اسے ہمیشہ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھوں ۔۔۔۔

تو معاف کیجئے کا مگر اب میں اتنا احمق نہیں رہا کہ اللہ کی دی ہوئی رحمت سے منہ موڑ کے اسے ناراض کردوں۔۔۔ وہ میری بیٹی ہے جس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی مجھے اس سے بےحد محبت ہوگئی تھی۔۔۔ اور اب جب وہ میری گود میں آگئی ہے تو میری محبت کی کوئی حد نہیں رہی۔۔۔ جزلان نے جتنا ہوسکے اتنا اپنے لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کی تھی ورنا تراب خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اسکا دماغ گھمانے میں۔

ایک بیٹا تو تھا ہی ایسا اور اب دوسرا بھی۔۔۔ جزلان میں نے تمہیں یہ تو نہیں سکھایا تھا۔۔۔ تراب خان اسے دکھ اور غصلے سے دیکھ کے بولے۔

جو آپ نے سکھایا تھا اس پہ عمل کر کے کر تو رہا تھا اپنا نقصان۔۔۔ مگر شکر ہے وقت رہتے عقل آگئی ۔۔۔ اور میں پوری طرح آپ کے جیسا بنے سے بچ گیا۔۔۔ جزلان کے لہجے میں ہلکی سی تلخی محسوس کرتے تراب خان نے غصے سے جبڑے بھیجے۔

انکو سمجھانے کی ایک اور کوشش کرنے کے لیئے جزلان نے ایمل کی گود سے سوتی ہوئی بچی کو اٹھایا اور واپس تراب خان کے پاس آیا۔

بابا ایک بار دیکھیں تو اسے ۔۔۔ دیکھیں یہ کتنی معصوم ہے۔۔۔ کتنی پیاری ہے۔۔۔ یہ آپ کے بیٹے کی جان ہے۔۔۔ ایک بار دیکھیں اسے کیا آپ کو اس ننی سی جان کو دیکھ کے بھی اس پہ پیار نہیں آرہا۔۔۔ جزلان بہت ہی امید سے انکے سامنے بچی کو کرتے بولا تو تراب خان نے منہ ہی پھیر کیا۔

اس منحوس کو مجھ سے دور۔۔۔

بابا۔۔۔۔ انکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی جزلان صدمے اور غصے سے دھاڑا تو ایک بار پھر اسکی گود میں موجود بچی اونچی آواز سے سہمتی رونے لگی تو آگے بڑھ کے نور بیگم نے جلدی سے بچی کو جزلان کی گود سے لیا۔

سب ہی فکر مند تھے سب کو ہی تراب خان کی سوچ پہ افسوس تھا مگر بولا کوئی کچھ نہیں تھا کیونکہ آج انکے لیئے جزلان ہی کافی تھا۔

تم اس کے لیئے میرے سامنے آواز اونچی کر رہے ہو۔۔۔ تراب خان غصے سے پاگل ہونے کو تھے۔

بابا آئندہ میری بیٹی کا ذکر کرتے وقت لفظوں کا چناؤ ٹھیک کرے گا ورنا میں بھول جاؤں گا کہ آپ سے میرا کیا رشتہ ہے۔۔۔ جزلان سرد لہجے میں سختی سے بولا۔

پہلے ایک بیٹا اس لڑکی کے لیئے کھڑا ہوگیا اور اب تم بھی ایک لڑکی کے لیئے ہی اپنے باپ کے سامنے کھڑے ہو رہے ہو۔۔۔ وہ ایک ناگوار نظر نوال پہ ڈالتے بولے تو حسام اور رائد غصہ ضبط کرتے رہ گئے۔

بابا وہ آپ تھے جو آج تک اپنی بیٹی کے لیئے کبھی کھڑے نہیں ہوئے اسے پیار نہیں دیا مگر میں آپ کے جیسا اب بلکل نہیں رہا۔۔۔ دنیا میں آگر میں سب سے زیادہ کسی کو پیار کرتا ہوں تو وہ میری بیٹی ہے۔۔۔ اور میں ہمیشہ ایک اچھے باپ کی طرح اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔۔۔

اور آگر آپ کو میری بیٹی کے وجود سے اتنی ہی نفرت ہے تو میں اپنی بیوی اور بچی کو لے کے همیشہ کے لیئے آپ کی حویلی سے چلا جاؤں گا۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو کبھی ایسے گھر میں نہیں رکھوں گا جہاں ایک وجود اس سے سخت نفرت کرتا ہو۔۔۔ جزلان نے بہت ہی ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا۔

جزلان کو بیٹی کے حق میں بولتے دیکھ ایمل کی آنکھیں نم ہوگئیں تھی۔۔۔ اس وقت اسے سب کچھ بھول گیا تھا کہ جزلان پہلے کیسا تھا اسنے کیا کیا ، کیا تھا۔۔۔ بس اسے یاد تھا تو یہ کے جو شخص سامنے کھڑا اسکی بیٹی کے لیئے اپنے باپ سے لڑ رہا ہے ۔۔۔ وہ یقیناً ایک بہت اچھا باپ ثابت ہونے والا ہے۔

جزلان یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا۔۔۔ تم جانتے نہیں ہو کیا کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔۔ اپنے بیٹوں کو میں کیسے خود سے دور کر سکتا ہوں۔۔۔ تراب خان اسکے حویلی چھوڑنے کی بات پہ تڑپ کے بولے۔

جیسے آپ اپنے بیٹوں سے پیار کرتے ہیں نا ویسے ہی میں بھی اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔ اسنے ایک بار پھر سمجھانے والے لہجے میں کہا کے شاید اب اسکے باپ کو بات سمجھ آجائے۔

مگر بیٹا وہ لڑکی۔۔۔۔وہ پھر سے کچھ کہنے لگے تھے جب جزلان نے انکی پھر بات کاٹی

بابا پلیز۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کے میں حویلی چھوڑ کے نا جاؤں تو آپ کو میری بیٹی کو خوشدلی سے قبول کرنا ہوگا آگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو میں بھی حویلی نہیں آؤ گا۔۔۔ جزلان نے دوٹوک لہجے میں رسان سے کہا تو تراب خان بغیر کوئی جواب دیئے ایک خو+ن چھلکاتی نظر سب پہ ڈالتے کمرے سے نکل گئے۔

مجھے بہت اچھا لگا کے تم نے اپنی بیٹی کا ساتھ دیا۔۔۔ نور بیگم آگے بڑھتی اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی بولیں تو جزلان نے نم آنکھوں. سے انہیں دیکھا۔

میں نے آج بابا سے بہت ہی روڈ لہجے میں بات کی۔۔۔ مگر ماما میں کیا کرتا انہیں سہی غلط بتانا میرا فرض تھا۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ نوال کی طرح کوئی اور لڑکی بھی اس فضول سی سوچ کے زیراثر ہو۔۔۔ نم آنکھیں صاف کرتے نور بیگم کی گود سے اس ننی سی جان کو لیتے اپنے سینے سے لگا گیا۔

جزلان کے سہی فیصلہ پہ وہاں موجود ہر شخص خوش تھا۔۔۔ سب کے چہرے پہ سکون بھری مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

۔🌺 🌺 🌺

تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد سب لوگ گھر کے لیئے نکل گئے ۔۔۔ اب اسپتال میں ایمل کے پاس صرف جزلان تھا۔

سب کو باہر تک چھوڑنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو اسکی دونوں جانیں مزے سے سو رہیں تھیں۔۔۔ وہ بغیر آواز پیدا کیئے آہستہ سے ایمل کے پیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھتے سہولت سے مسکراتی نظروں سے کبھی ایمل کو دیکھتا تو کبھی اپنی ننی پری کو۔۔۔

ایمل جو آنکھیں بند کیئے لیٹی تھی اسے بہت ہی اچھے سے خود پہ جزلان کی نظروں کی تپش محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔ جس پہ اسنے دھیرے سے آنکھیں کھول کے اسے دیکھا

تم جاگ کیوں گئیں سو جاؤ میں بیٹھا ہوں یہیں۔۔۔ اس سے آنکھیں کھولتے دیکھ وہ دھیرے سے بولا۔

تم جانتے ہو جزلان مجھے تم سے بہت نفرت تھی مگر ۔۔۔ ایمل نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے اسکے چہرے کے بےچین تاثرات دیکھتے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔

مگر کیا۔۔۔ وہ صبری سے بولا۔

تم سے شادی سے پہلے مجھے تم سے بہت نفرت تھی اور جب شادی ہوئی تو سوچا سمجھوتے کی زندگی گزار لوں گی مگر جب تمہاری اصلیت پوری طرح سے میرے سامنے آئی تو میری آنکھوں کے سامنے میرے بابا کا کفن میں لپٹا چہرا گھوم گیا۔۔۔ اسکے چہرے پہ ہی نظریں جمائے وہ تھوڑی دیر کے لیئے رکی۔

ایمل کہ بات سنتے جزلان کو ایک بار پھر شرمندگی نے آ گھیرا۔

میں نے سوچا میں تمہیں چھوڑ دوں گی۔۔۔ تم سے ہمیشہ کے لیئے دور چلی جاؤں گی۔۔۔ ایمل دھیرے سے بولی جب کے اسکی بات سنتے جزلان تڑپ اٹھا۔

مگر میری قسمت دیکھو۔۔۔ میں جب بھی تم سے دور جانے کا سوچتی ہوں قدرت تمہیں میرے اور قریب کردیتی ہے۔۔۔ وہ ہلکے سے ہنسی تو اسکی بات پہ جزلان الجھا۔

میں تمہیں چھوڑ کے جانا چاہتی تھی اور پھر دیکھو اللہ نے مجھے ماں بنے کی خوشخبری سنا دی۔۔۔ اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنا باپ کھودے۔

باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ یتیموں کی طرح رہے۔۔۔۔ ایمل نے ایک پل کے لیئے بھی جزلان کے بےچین چہرے سے نظر نہیں ہٹائییں۔

جزلان بغیر کچھ کہے خاموشی سے اسکی بات سن رہا تھا۔۔۔ وہ آج بیچ میں بول کے ایمل کو چپ نہیں کروانا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ چاہتا تھا جو بھی ایمل کے دل میں ہے وہ سارا کا سارا نکال دے ۔۔

جزلان آج میں نے اپنی بیٹی کی خاطر تمہیں معاف کیا۔۔۔ آخر ایمل نے وہ الفاظ کہہ ہی دیئے تھے جسے جزلان کب سے سنے کے لیئے ترس رہا تھا۔

کیا واقعی۔۔۔۔ وہ حیرت اور بےیقینی سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس پہ ایمل نے دھیرے سے سر ہلادیا۔

ہاں میں نے تمہیں معاف کیا۔۔۔میں نے ایک برے شخص سے نفرت کی تھی مگر آج جو میرے سامنے بیٹھا ہے۔۔. وہ ایک اچھا بیٹا،، اچھا بھائی،،، اچھا شوہر اور ایک اچھا باپ ہے۔۔۔ تو اب تم ہی بتاؤں اتنے اچھے شخص سے میں نفرت کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔ جب تم ہمارے لیئے خود کو بدل سکتے ہو تو کیا میں تمہیں معاف نہیں کر سکتی۔۔۔ ایمل دھیرے سے مسکرا کے بولی تو جزلان کو گویا اپنی سماعت پہ یقین ہی نہیں آیا۔۔۔وہ بےیقینی سے اٹھتے ایمل کے ماتھے پہ لب رکھ گیا۔

ایمل تم نہیں جانتی تم نے میرے دل کا کتنا بڑا بوجھ ہلکا کردیا ہے۔۔۔ سچ آج میں بہت ہلکا فیل کر رہا ہوں۔۔۔ شکریہ مجھے معاف کرنے کے لیئے۔۔۔ مجھ سے نفرت نا کرنے کے لیئے۔۔۔ جزلان اسکے گال پہ ہاتھ رکھے جذب کے عالم میں بولا

جزلان میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔۔۔ اپنے دل سے تمہارے لیئے نفرت بھی ختم کردی ہے مگر میں تم سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ بس تم مجھے تھوڑے سے اچھے لگنے لگے ہو۔۔۔ ایمل دھیرے سے مسکرا کے بولی تو وہ بھی دلکشی سے مسکرادیا۔

فکر مت کرو بہت جلد میں تمہارے دل میں اپنی محبت بھردوں گا۔۔۔ لیکن ابھی تو میرے لیئے یہی بہت ہے کے تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔۔۔ وہ ایک بار پھر اسکے ماتھے پہ لب رکھتے بولا تو ایمل نے سکون سے مسکراتے ہوئے آنکهیں بند کرلیں۔

ابھی ایمل نے آنکھیں بند کی ہی تھیں کے انکے چھوٹے پیکٹ نے رونا شروع کر دیا۔۔۔ جس پہ جزلان ایمل سے دور ہوتے ننی پری کے ماتھے کو چومتے گود میں اٹھا گیا۔

وہ لوگ مکمل ہوگئے تھے ۔۔۔ زندگی میں سکون لوٹ آیا تھا  مگر یہ سکون زیادہ دیر نہیں رہا جب جزلان کا فون بجا۔

وہ بچی کو ایمل کو تھماتے جیب سے فون نکالتا رائد کی کال آتے دیکھ جلدی سے ریسیو کرتے کال سے لگا گیا۔

ہاں رائد بولو۔۔۔

جزلان بابا کو فالج کا اٹیک ہوا ہے۔۔۔ ہم انہیں اسپتال ہی لے کے آرہے ہیں تم وہیں رہنا۔۔۔ رائد نے عجلت میں بتایا۔

کیا مگر کیسے ہوا یہ۔۔۔ جزلان نے پریشانی سے ماتھا مسلتے پوچھنا تو اسکے پریشان چہرے کو دیکھتے ایمل کو بھی فکرمندی لاحق ہوئی۔

پتہ نہیں۔۔۔ وہ گاؤں ہی جا رہے تھے کے راستے میں طعبیت خراب ہوگئی۔۔۔ ڈرائیور انہیں قریب اسپتال لے گیا تھا جہاں سے پتہ چلا ہے کہ انکیں فالج اٹیک ہوا ہے۔۔۔ خیر تم پریشان نہیں ہو ہم پہنچ رہے ہیں بس اسپتال۔۔۔ رائد نے جلدی سے کہتے فون کاٹ دیا۔

کیا ہوا جزلان سب ٹھیک ہے۔۔۔ ایمل نے فکرمندی سے پوچھا۔

بابا کو فالج کا اٹیک ہوا ہے یار۔۔۔ رائد انہیں اسپتال لا رہا ہے۔۔۔ میں زرا باہر جا رہا ہوں تم پریشان نہیں ہونا میں تمہارے پاس نرس کو بھیج دیتا ہوں۔۔۔ جزلان کے کہنے پہ ایمل نے دھیرے سے ہاں میں سر ہلایا تو وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

۔🌺 🌺 🌺

وہ بلکل ٹھیک تھے انہیں کچھ بھی نہیں ہوا تھا پھر اچانک یوں اٹیک کا ہونا ڈاکٹر کے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔

مگر ڈاکٹر کہہ چکے تھے کے انہیں بہت برا اٹیک ہوا ہے ۔۔۔ اور وہ اب سے پوری طرح بستر سے لگ چکے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہونگے یا نہیں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔

نور بیگم تو یہ سنتے روئے جا رہیں تھیں۔۔۔ سب لوگ ہی پریشان تھے۔۔۔ 

سب کو یہی لگتا تھا کہ یہ تراب خان کے عمال کا نتیجہ ہے۔۔۔ انہیں نے جتنا سب کا دل دکھایا تھا اللہ نے انہیں دنیا میں ہی اسکی سزا دے دی تھی۔۔۔

(ساڑھے چار سال بعد)

وقت نا کبھی رکا ہے اور نا کبھی کسی کے لیئے رکتا ہے۔۔۔وہ سب گزرتا جاتا ہے اور اپنے ساتھ دکھ سکھ لاتا رہتا ہے۔۔۔

آج سے تین سال قبل سخت علالت کے باعث تراب خان انتقال کر گئے تھے۔۔۔

وہ اپنے آخر کے وقتوں میں بھی نہیں بدلے تھے۔۔۔ ناہی انہوں نے کوئی نصیحت حاصل کی تھی۔۔۔ وہ ہر ایک کے محتاج ہو گئے تھے مگر پھر بھی انکی اکڑ نہیں گئی تھی۔۔۔ 

انکی بیماری کی وجہ سے جزلان اپنی ساری ناراضگی بھلائے حویلی آگیا تھا جس پہ وہ بہت خوش تھے مگر وہ نوال سے ویسے ہی نفرت کرتے تھے ،،، جزلان کی بیٹی کی طرف کبھی نظر اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے تھے۔

مگر رائد کے یہاں بیٹا پیدا ہونے پہ وہ بہت خوش ہوئے تھے۔۔۔۔ لیکن رائد اپنے بیٹے کو انکے پاس زیادہ لے کے ہی نہیں جاتا تھا۔۔۔ وہ خود بھی بہت کم انکے پاس جاتا تھا۔۔۔ تراب خان اسکی صورت دیکھنے کے لیئے تڑپتے رہتے مگر انہیں بیمار دیکھ کے بھی جیسے رائد کے دل میں کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اپنے آخری وقت میں انہوں نے صرف رائد سے معافی مانگنی چاہی تھی مگر زندگی نے انہیں اتنی بھی مہلت نا دی۔۔۔ 

غرور، تکبر، انا، سب کچھ ایک لمحے میں ختم ہوگیا۔۔۔ 

آنکھیں بند ہوئیں اور انسان ابدی نیند سوگیا۔۔۔😓

(ازقلم۔۔خود)

رائد نے انکی میت کو کندھا دیا اور جب انکی میت کو قبر میں اتارا گیا اس وقت ہی اسنے انہیں معاف کردیا۔

باپ چاہے جتنا ہی بڑا کیوں نا ہو مگر ہوتا تو باپ ہی ہے۔۔۔ اولاد کو باپ سے پیار تو ہوتا ہے۔۔۔جس طرح رائد نے تراب خان کی ساری غلطیوں کو معاف کر دیا تھا ویسے ہی نوال نے بھی اپنے دل دکھنے کا کفارہ بھی معاف کردیا تھا۔۔۔ انہیں نے نوال کا بہت دل دکھایا تھا۔۔۔ ہر طرح سے اسے ذہنی اذیت پہنچائی تھی مگر نوال نے ہمیشہ دل بڑا کر کے انہیں معاف کر دیا تھا

کہتے ہیں جانے والے کی برائی نہیں کرنی چاہیئے بلکے اسے اچھے لفظوں میں یاد کرنا چاہیئے۔۔۔ مگر ان لوگوں کے پاس تراب خان کو یاد کرنے کے لیئے کوئی اچھی یاد ہی نہیں تھی۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی جب بھی انکا ذکر ہوتا تھا کبھی بھی کوئی اسکے پچھلے عمال کا ذکر نہیں کرتا تھا۔۔۔ بلکے سب انکے لیئے دعا ہی کرتے تھے کہ اللہ انکی بخشش فرمائے۔

۔🌺 🌺 🌺

آج آئلہ اور رائد کے چار سالہ بیٹے برحان کی سالگرہ تھی۔۔۔۔ جس پہ حویلی میں ایک بہت بڑی دعوت رکھی گئی تھی۔۔۔۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اسکی برتھڈے بہت دھوم دھام سے منائی جا رہی تھی۔

جب برحان پیدا ہوا تھا جب بھی اسکا حویلی میں استقبال رائد نے بڑے دھوم دھام سے کیا۔۔۔ برحان کے آنے سے انکی زندگی میں خوشیوں کے انگنت رنگ آگئے تھے۔۔۔ زندگی پہلے سے زیادہ حسین ہوگئی تھی۔

وہ بلکل شکل و صورت میں رائد کے جیسا تھا۔۔ ایک پرسنٹ بھی آئلہ پہ نہیں گیا تھا۔۔۔ مگر اسکی سب سے زیادہ اپنی ماں سے بنتی تھی ۔۔۔ وہ اسکے ساتھ مل کے رائد کو خوب تنگ کرتا تھا۔

یار آئلہ یہ کف کے بٹن تو بندھ کر دو۔۔۔ رائد جان بوجھ کے بٹن بندھ کرانے آئلہ کے پاس آیا جو بیڈ پہ بیٹھی برحان کو کپڑے پہنا رہی تھی۔

آپ دیکھ رہے ہیں ہم برحان کو تیار کر رہی ہیں پھر بھی آپ ہم سے کہہ رہے ہیں۔۔۔ آپ اپنا اتنا سا کام خود نہیں کر سکتے۔۔۔ آئلہ برحان کو قمیض پہناتے ہوئے بولی۔

یار مجھ سے نہیں ہورہا نا۔۔۔ اسکے برابر میں کھڑے ہوتے رائد معصومیت سے بولا۔

بابا آپ اتنے بڑے ہوگئے ہیں ۔۔۔۔ آپ کو اپنا کام خود کرنا چاہیئے۔۔۔ برحان نے بڑی ہی سمجھداری سے باپ کو سمجھایا۔۔۔ تو گریبان کے بٹن بند کرتے ہوئے آئلہ نے مسکرا کے اپنے بیٹے کو دیکھا۔

شروع سے ہی برحان ایک بہت ہوشیار بچہ رہا تھا۔۔۔ وہ چیزوں کو ، باتوں کو بہت جلد سمجھ لیتا تھا۔۔۔ چار سال کی عمر میں بھی وہ ایک سمجھدار انسان کی طرح مشورہ دینا جانتا تھا۔۔۔ سب سے پیار بہت اور عزت سے پیش آتا تھا ۔۔۔ وہ جتنا سمجھدار تھا اتنا ہی شرارتی بھی تھا۔۔۔ اسکے سب سے پسندیدہ کاموں میں اول نمبر پہ اپنے باپ کو تنگ کرنا آتا تھا۔۔۔ جو وہ بہت اچھے سے کرتا تھا۔

بیٹا جی تو آپ بھی بڑے ہیں ۔۔۔ آپ بھی خود تیار ہو سکتے ہیں۔۔۔ رائد نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ جلدی سے ماں کے سامنے سے اٹھتا بیڈ سے اترتے رائد کے برابر میں کھڑا ہوا۔

دیکھیں بابا میں آپ سے کتنا چھوٹا ہوں۔۔۔ میں اپنے کام خود کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔ اسکے معصومیت بھرے انداز پہ جہاں آئلہ ہلکے سے ہنس دی وہیں رائد نے بھی بڑی مشکل سے لب دبائے مسکراہٹ کو روکا۔

آپ صرف دیکھنے میں ہی چھوٹے ہو ورنا آپ کی باتیں تو بڑوں والی ہی ہوتی ہیں۔۔ رائد نے اسے مسنوعی گھوری دیکھاتے کہا ۔

بابا چھوٹا چھوٹا ہوتا ہے دیکھنے ویکنے میں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ کیوں ماما میں چھوٹا ہوں نا۔۔۔ باپ سے کہتے اسنے ماں کی بھی تائید چاہی۔

بلکل ہمارا بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے۔۔۔ آئلہ نے تھوڑا آگے بڑھتے برحان کا گال چوما۔۔۔ تو برحان نے بھی چٹاچٹ اپنی ماں کے گال چوم ڈالے 

تم تو ہمیشہ اسکی ہی زائد لینا۔۔۔ رائد نے برا سا منہ بنایا۔

کیونکہ میں ماما کا فیوریٹ ہوں۔۔۔ برحان جلدی سے ماں کی گود میں بیٹھتا رائد کو چڑانے کے لیئے آئلہ کی گردن میں بازو حائل کر گیا۔

جی نہیں یہ آپ کی ماما سے پہلے میری بیوی ہے اور میں ہی اپنی بیوی کا فیوریٹ ہوں۔۔۔ رائد آئلہ کی دوسری سائڈ بیٹھتے برحان کی طرح ہی اسکی گردن میں بازو حائل کر گیا۔

ماما آپ ہی بتایں آپ کا کون فیوریٹ ہے۔۔۔ برحان نے فیصلہ آئلہ پہ چھوڑا۔۔۔

آئلہ نے ایک نظر برحان کو دیکھا جو معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتا اسکے جواب کا منتظر تھا۔۔۔ پھر ایک نظر گردن ہلکہ سی موڑ کے رائد کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے برحان کی طرح ہی اسکے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔

ہمارا فیوریٹ ہے برحان خان۔۔۔ آئلہ پیار سے مسکرا کے اسے دیکھ کے بولی تو برحان یےےے کرتا اسکے گلے لگ گیا۔۔۔ جس پہ وہ دونوں مسکرادئے۔

دیکھا بابا میں ماما کا فیوریٹ ہوں۔۔۔ وہ اسے جتانے والے انداز میں دیکھتے ایک ادا سے بولا تو رائد مسنوعی دکھ بھری سانس بھرتے کھڑا ہوگیا۔۔۔

مجھے تو یہاں کوئی پیار ہی نہیں کرتا۔۔۔ جلدی سے میری پرنسز آجائے پھر دیکھنا میں تم دونوں ماں بیٹے کو کیسے اپنی پرنسز کے ساتھ مل کے مزہ چکاؤں گا۔۔۔ رائد برحان کے بال سیٹ کرتی آئلہ کو دیکھ کے بولا تو آئلہ نے اسے ایک گھوریوں سے نوازہ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی رائد جب جب ایسی باتیں کرتا ہے برحان اسکا سر کھانے بیٹھ جاتا ہے کہ اسکی بہن کب آئے گی۔

کچھ ماہ پہلے آئلہ کو دوبارہ ماں بنے کی خوشخبری ملی تھی اور اب جب سے ہی رائد نے پرنسز پرنسز کی رٹ لگائی ہوئی تھی جسکی دیکھا دیکھ برحان بھی بار بار اپنی بہن کا پوچھتا تھا۔۔۔ اور اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

ماما میری بہن کب آئے گی۔۔۔ بالوں میں گنگا کرواتے برحان نے ایکسائٹڈ ہوتے پوچھا۔

بیٹا جب آنا ہوگا وہ آجائے گی۔۔۔ ابھی آپ باہر  جاؤ اور کھیلو۔۔۔ آئلہ نے اسنےبباک سیٹ کرتے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

میں تو تمہاری ماں کو کہہ رہا تھا تھوڑا جلدی تمہاری بہن کو لے آتے ہیں تا کہ وہ تمہاری برتھڈے کا گفٹ ہو جاتی مگر یہ سنتی ہی کب ہے میری۔۔۔ رائد شیشے کے سامنے کھڑا خود پہ پرفیوم چھڑکتے مزے سے بولا تو آئلہ اسے دیکھتی دانت پیچ کے رہ گئی۔

تو بابا کیا ہوا آپ لوگ ابھی مجھے میری بہن لا کے دے دیں ۔۔۔ برحان نے جوش میں آتے کہا تو آئلہ نے اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔ 

جب سے برحان ہوا تھا رائد بھی اسکے ساتھ بچہ بن گیا تھا جس سے آئلہ کبھی کبھی بہت تنگ آجاتی تھی۔

بیٹا ایسے ہی نہیں آجاتی بہن۔۔۔ ڈاؤنلوڈ ہونے میں وقت لگتا ہے۔۔۔ رائد مسکراہٹ دبائے آئلہ کے سرخ پڑھتے چہرے کو دیکھ کے مزے سے بولا۔

ڈاؤنلوڈ وہ کیسے۔۔۔۔۔ برحان نے ناسمجھی سے تھوڑی پہ انگلی رکھتے پوچھا اور یہی آئلہ کی بس ہوگئی۔

برحان جائیں آپ دادی کو جاکے دیکھیں وہ تیار ہوئی یا نہیں۔۔۔ آئلہ نے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا ورنا آگر وہ وہیں رہتا تو سوال پہ سوال کرتا رہتا۔

مگر ماما پہلے یہ تو پتہ چلے کے ڈاؤ۔۔۔۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی آئلہ نے تھوڑی سختی سے اسکی بات کاٹی۔

برحان میں نے کیا کہا آپ نے وہ سنا نہیں جائیں باہر اور یہ بات کسی سے نہیں کرنی ہے اوکے۔۔۔آئلہ سنجیدگی سے بولی تو اسکے چہرے پہ سنجیدہ ثاترات دیکھتے وہ شرافت سے اوکے کہتا کمرے سے باہر بھاگ گیا۔

اسکے باہر جاتے ہی آئلہ غصے سے اٹھتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے کلائی پہ کھڑی باندھتے رائد کی جانب بڑھی۔

آپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ ہی بےشرم نہیں ہوتے جا رہے۔۔۔ آئلہ کمر پہ ہاتھ ٹکائے اسے گھول کے بولی۔

بےشرم تو ہونا پڑے گا نا ، اب دیکھ لو جاناں شرم شرم کے چکر میں میری بیٹی لیٹ ہوگئی نا۔۔۔ وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے ساتھ لگاتا اب بھی اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا

چھوڑیں ہمیں تیار ہونا ہے۔۔۔ آپ کو تو کوئی کام ہے نہیں سوائے ہمیں تنگ کرنے کے۔۔۔ وہ خفگی سے کہتی اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی مگر رائد کی گرفت سے نکلنا اتنا آسان نا تھا یہ بات وہ اچھے سے جانتی تھی۔

ایسے کیسے ابھی تو ہاتھ آئی ہو۔۔۔ ورنا ہر وقت تو تم سے وہ تمہارا بوڈی گارڈ چپکا رہتا ہے۔۔۔ رائد دلکشی سے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے پہ جھکتا اسکے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کرگیا۔

اسکی سخت پکڑ پہ آئلہ دونوں ہاتھ اسکے کندھے پہ جما گئی۔۔۔ 

وہ مدہوش ہوتا اسکے ہونٹوں کو آواز کرتے ابھی اپنے لب اسکی گردن پہ رکھنے ہی لگا تھا جب ماما کی پکار لگاتا برحان دھاڑ سے دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوا تو وہ دونوں بجلی کی تیزی سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔

کیا ہوا ۔۔۔۔ ان دونوں کی گھبرائی ہوئی شکل دیکھتے برحان نے فکرمندی سے پوچھا۔

اصل میں میری بیٹی شرم کی وجہ سے نہیں بلکے اس کی وجہ سے لیٹ ہوئی ہے ۔۔۔ جب بھی تمہارے قریب آؤ بیچ میں یہ ٹپک پڑھتا ہے۔۔۔ رائد بڑبڑایا تو اسکی بڑبڑاہٹ سنتے آئلہ نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی۔

کیا ہوا ہے ماما بابا آپ دونوں ایسے کیوں کھڑے ہو۔۔۔ ان دونوں کو خاموش کھڑے دیکھ برحان نے پھر پوچھا۔

کچھ نہیں بیٹا آپ بتاؤ کیا بات ہے ۔۔۔ آئلہ نے اسکی جانب بڑھتے پیار سے پوچھا۔

می  دادی کو دیکھا رہا تھا کہ میں بٹن خود بند کر سکتا ہوں کہ اتنے میں یہ بٹن ٹوٹ گیا ۔۔۔ اسنے معصومیت سے گریبان کا بٹن اسکے سامنے کرتے کہا ۔

آئلہ میں نیچے جا رہاں ہوں تم دونوں بھی جلدی سے آجاؤں۔۔۔ رائد جانتا تھا اب ان دونوں ماں بیٹے کو ٹائم لگے گا اس لیئے برا سا منہ بناتے کمرے سے نکل گیا تو آئلہ مسکراتے ہوئے برحان کو صوفے پہ بیٹھنے کا کہتی سوئیں دھاگا لینے چلی گئ۔

۔🌺 🌺 🌺

آج تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ جزلان نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑی چوڑیاں پہنتی ایمل کو اپنے حصار میں لیا۔

ایمل بلیک سلگ کی لائٹ سے کام کی ساڑی زیب تن کیے ہوئے تھے۔۔۔ہلکا میک اپ، کمر پہ بکھرے بال وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ جب کے جزلان وائٹ قمیض شلوار پہنے اپنی تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائے کھڑا تھا۔

جزلان پیچے ہٹو۔۔۔۔ دروازہ کھلا ہوا ہے عشال کبھی بھی آ سکتی ہے۔۔۔ ایمل نے تھوڑا کسمساتے ہوئے اسے احساس دلانا چاہا کہ اب یہ کمرہ صرف ان دونوں کا نہیں ہے بلکے انکی ایک بچی بھی ہے جو کبھی بھی آسکتی ہے مگر وہ جزلان ہی کیا جو فورن ہی کسی کی بات مان جائے۔

آنے دو اچھا ہے وہ بھی دیکھ لے گئی کہ ماما بابا ایک دوسرے سے کتنا پیار کرتے ہیں۔۔۔جزکان اسکے کندھے پہ لب رکھتے دلکشی سے بولا تو شیشے میں سے اسے دیکھتے ایمل نے آنکھیں چھوٹی کیں۔

مجھے تو کوئی تم سے پیار نہیں ہے۔۔۔ وہ اترا کے کہتی ڈریسنگ سے سیاہ دو چوڑیاں اور اٹھاتی پہنے لگی۔

مجھے امید ہے میرے مرنے سے پہلے تمہیں مجھ سے پیار ہو ہی جائے گا۔۔۔ جزلان نے اسے چھیڑنے کی خاطر کہا مگر ایمل کا دل تڑپ اٹھا لیکن اسنے بغیر ظاہر کیئے بس اسے گھورنے لگی۔

اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ایمل نے ابھی تک جزلان سے اظہارے محبت نہیں کیا تھا۔۔۔ اسے محبت تھی یا نہیں یہ تو اسکا دل بھی نہیں جانتا تھا مگر وہ اتنے سالوں میں اتنا ضرور سمجھ گئی تھی کہ اب جزلان کے بغیر اسکا گزارا ناممکن ہے۔

ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔۔ زیادہ پیارا لگ رہا ہوں کیا آج۔۔۔ جزلان شوخی سے بولا تو ایمل نے آنکھیں گھمائیں۔

ہاں اتنے پیارے لگ رہے ہو کہ میرا دل کر رہا ہے تمہارا منہ نوچ لوں۔۔۔ وہ دانت پیس کے بولی ۔۔۔ اسکے مرنے والی بات پہ ابھی تک ایمل کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔

نہیں نہیں جان تمہیں ضرورت نہیں ہے میں خود ہی تمہارا منہ چوم لوں گا۔۔۔ جزلان مزے سے اسکی بات کا مطلب اپنے پاس سے نکالتا اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر اسکا رخ اپنی جانب کرتے اسکے لب اسٹک سے سجے ہونٹوں پہ جھک گیا۔۔

ایمل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے دور کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔۔۔

جزلان سکون سے اپنا کام کرکے پیچھے ہوتا مسکراتے ہوئے اسکے ہونٹوں کے نیچے پھیلی لب اسٹک کو انگوٹھے سے ساتھ کرنے لگا تو ایمل گہرے گہرے سانس لیتی اسکے لمس پہ ایک دم کانپ گئی۔

دوبارہ چوموں۔۔۔ وہ بےباکی سے بولا تو ایمل نے اسے گھورتے ہوئے پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔۔۔ تو وہ بےساختہ دو قدم پیچھے ہوا۔

جاؤ باہر مہمان آنا شروع ہوگئے ہوں گے۔۔۔ وہ اسے انگلی سے باہر جانے کا اشارہ کرتی واپس شیشے کی جانب مڑتی اپنی لب اسٹک سہی کرنے لگی

جزلان ابھی کچھ کہتا کے اس سے پہلے ہی اسکی بیٹی کمرے میں داخل ہوئی۔

پاپا۔۔۔ عشال نے کمرے میں داخل ہوتے جزلان کو پکارہ تو وہ جلدی سے آگے بڑھتے پنجے کے بل زمین پہ اسکے سامنے بیٹھا۔

کیا ہوا پاپا کی جان۔۔۔ اسکے پھولے پھولے گالوں پہ بوسہ دیتے شفقت سے پوچھنے لگا۔

پاپا کیا میرے لیئے بھی کفٹس آئیں گے۔۔۔ عشال نے سنجیدگی سے پوچھا۔

آپ کے لیئے کیوں آئیں گے۔۔۔ آپ کی برتھڈے ہے کیا۔۔۔ اسکی بات پہ پھیلی ہوئی لب اسٹک صاف کرتی ایمل ہاتھ روک کے اسکی جانب گھوم کے بولی۔

آپ پاپا ہو۔۔۔ عشال نے اسے گھورتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا جس پہ ایمل اسے منہ کھولے دیکھ گئی جب کے جزلان نے اپنی ہنسی چھپانے کی بلکل کوشش نہیں کی تھی۔

وہ ساڑھے چار سال کی بچی غصے میں بلکل ایمل پہ گئی تھی جب کے شکل و صورت میں وہ اپنی پھوپھو میں ملتی تھی۔۔۔۔ عشال بلا کی ضدی بچی تھی جسے جب ضد چڑھتی تھی تو وہ کسی کی نہیں سنتی تھی لیکن ایک جزلان ہی تھا جو اسے قابو کر سکتا تھا اور وہ اسکی بات مانتی بھی تھی۔

بولیں آپ پاپا ہیں۔۔۔ ایمل کے جواب نا دینے پہ اسنے اپنا سوال اسہی سنجیدگی سے دھرایا۔

نہیں بیٹا میں تو ماما ہوں نا۔۔۔ ایمل نے مسکرا کے جواب دیا

مگر میں نے تو پاپا سے پوچھا تھا نا پھر آپ نے کیوں جواب دیا۔۔۔ وہ بڑوں کی طرح کمر پہ ہاتھ ٹکائے آنکھیں چھوٹی کیئے اسے گھور کے بولی۔

سوری بیٹا مجھ سے غلطی ہوگئی جو آپ دونوں باپ بیٹی کی بات میں مداخلت کر بیٹھی۔۔۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔ جزلان کی تپادینے والی مسکراہٹ دیکھتے ایمل زبردستی مسکراتے خفگی سے کہتی واپس اپنے کام میں لگ گئی۔

ماما کو ناراض کردیا نا۔۔۔ ایمل کے ماتھے پہ بے شمار شکنے دیکھ وہ آہستہ سے عشال سے بولا۔

میں بعد میں منالوں گی۔۔۔ ابھی آپ پہلے میرے سوال کا جواب دیں۔۔۔ کیا میرے لیئے بھی گفٹس آئیں گے۔۔۔ وہ بھی اسکی کے انداز میں آہستہ آواز میں کہتی بہت ہی لاڈ سے اسکی گردن میں بازو ڈال گئی۔

جب آپ کی سالگرہ ہوئی تھی جب برحان کے لیئے گفٹس آئے تھے۔۔۔ جزلان نے نرمی سے پوچھا تو وہ دھیرے سے نفی میں سر ہلاگئی۔

نہیں آئے تھے نا تو اب برحان کی سالگرہ ہے تو آپ کے لیئے کیوں آئیں گے۔۔۔ جزلان نے پیار سے سمجھایا۔

مگر مجھے بھی ٹوئز چائیں۔۔۔ عشال نے رونی صورت بنائے اپنے باپ کو دیکھا اور بس ایک یہی چیز تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو روتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ان دونوں کو آپس میں ہی لگے دیکھ ایمل دروازے کی جانب بڑھ گئی۔

میں جا رہی ہوں جب آپ دونوں کے مذاکرات ختم ہو جائیں تو آجائے گا۔۔۔ایمل خفا خفا انداز میں کہتی کمرے سے نکل گئی تو جزلان پھر سے عشال کی جانب متوجہ ہوگیا۔

میری جان آپ فکر مت کرو آپ کو جتنے بھی ٹوئز لینے ہیں میں دلاؤ گا اوکے مگر آپ نے رونا نہیں ہے کبھی۔۔۔ وہ پیار سے اسکے گال پہ بوسہ دیتے بولا تو وہ چہکتی ہوئی اسکے گلے گئی جس پہ جزلان اسے گود میں اٹھا گیا۔

آپ بہت اچھے ہیں بابا۔۔۔ وہ اسکے گال چوم کے خوشی سے بولی۔

اور بھی آپ بہت اچھی بیٹی ہیں۔۔۔ جزلان بھی اسہی کے انداز میں کہتا قدم باہر کی جانب بڑھا گیا تو وہ کھلکلا اٹھی۔

جہاں عشال کی کھلکھلاہٹ نے جزلان اور ایمل کی زندگی میں امن سکون اور خوشیاں بھری تھیں۔۔۔ وہیں عشال کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے اتنا قریب آگئے تھے کہ اب ایک دوسرے کے بغیر زندگی جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

۔🌺 🌺 🌺

یار نوال جلدی کروں اور اسے سمبھالو چپ ہی نہیں ہو رہا ہے یہ۔۔۔ حسام کب سے ایک سال کے نوفل کو گود میں لیئے ادھر سے ادھر ٹہلتے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا جو ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد رونا اسٹاٹ کر دیتا تھا۔۔۔ مگر نوال میڈم اور اسکے ساتھ کھڑی اسکی صاحبزادی دونوں تیار ہونے میں مصروف تھیں۔

کیا ہوگیا ۔۔۔۔ آپ کی بھی اولاد ہے سمبھال لیں گے تھوڑی دیر تو کچھ جائے گا نہیں​۔۔۔ نوال اپنی چار سالہ بیٹی حرا کے گھنگرالے بالوں میں کنگھا کرتے بولی۔

خدا کا خوف کرو نوال پچھلے دو گھنٹے سے تم تیار ہو رہی ہو اور جب سے ہی اس سے میں سمبھال رہاں ہوں۔۔۔ اور تم کہتی ہو تھوڑی دیر۔۔۔ واہ بھئی واہ۔۔۔ حسام نے داد دینے والے انداز میں کہا تو نوال ایک نظر اسے دیکھتی حرا کی پونی بنانے لگی۔

دو منٹ میں حرا کی پونی بنانے کے بعد اسنے جھک کے حرا کے کام میں کچھ کہنے کے بعد  حسام کی گود سے نوفل کو لیا۔

جائیں اب جا کے جلدی سے تیار ہو جائیں۔۔۔ نوال نوفل کے کپڑے ٹھیک کرتی مصروف انداز میں بولی تو حسام نے حیرت سے منہ کھولے اوپر سے لے کے نیچے تک خود کو دیکھا۔

نوال بیگم کیا آپ کی آنکهیں خراب ہوگئیں ہیں۔۔۔ میں پچھلے دو گھنٹے سے تیار ہوں۔۔۔ حسام نے حیرت سے پوچھا تو اسکی حیران پریشان شکل دیکھتے نوال نے اپنی ہنسی بڑی مشکل سے روکی۔

بابا جانی شوز پہنادیں۔۔۔ حرا اپنی  پرپل فراک سنبھالتی اپنے چھوٹے چھوٹے شوز لیئے حسام کے سامنے آئی تو وہ اسے اٹھا کے بیڈ پہ بیٹھاتا خود ایک گھٹنہ فولڈ کرتے اسکے سامنے بیٹھا۔

بابا جانی حرا کیسی لگ رہی ہے۔۔۔ حرا نے معصوم سے پوچھا۔۔۔ وہ واقعی بہت معصوم تھی بلکل نوال کی کوپی ۔۔۔ جب کے نوفل ایک دم حسام کے جیسا تھا۔

بہت پیاری بابا جانی کی چھوٹی سی گڑیا۔۔۔ وہ اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے محبت سے بولا۔

بابا جانی آپ کیوں اتنے گندے لگ رہے ہیں۔۔۔ نوال نے تھوڑی دیر پہلے جو اسکے کان میں جملہ کہا تھا وہ حرا نے سیم ٹو سیم دھرادیا۔۔۔۔ جس پہ حسام کا ، پورا کا پورا منہ کھلا۔

کیا واقعی میں تیار ہوا وا نہیں لگ رہا۔۔۔ حسام نے کچھ الجھ کے پوچھا۔۔۔ اسے زرا سا بھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ یہ دونوں ماں بیٹی مل کے اسے پاگل بنا رہیں ہیں۔

نہیں۔۔۔ حرا نے جیسے افسوس سے سر ہلایا تو حسام نے نوال کی جانب دیکھا جو اسکے دیکھنے پہ ایسی بن گئی جیسے وہ نوفل کو دیکھ رہی ہے انکی جانب تو متوجہ ہے ہی نہیں۔۔

نوال کیا واقعی میں گندہ لگ رہا ہوں۔۔۔حرا کو شوز پہناتے حسام نے صدمے سے چور لہجے میں پوچھا تو نوال معصومیت سے اثبات میں سر ہلا گئی۔

ایسا کیسے وہ سکتا ہے ۔۔۔ میں تو تیار ہوکے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ پریشانی سے شیشے کے سامنے جاتے اپنا آپ اس میں دیکھتے بلند آواز میں بڑبڑایا تو نوال کی ایک دم ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔ 

نوال کو ہنستے دیکھ حرا بھی ماں کے ساتھ ہنسنے لگی جس پہ حسام کو سمجھ آیا کہ وہ دونوں اسکے ساتھ مزاق کررہی ہیں۔

تم لوگوں نے میرے ساتھ مزاق کیا۔۔۔ حسام نے سختی سے تھوڑی بلند آواز میں کہا تو دونوں کے قہقہے ایک دم تھمے۔

کیا ہوگیا ہے حسام ہم نے تو بس مزاق کیا تھا آپ اس طرح ہائپر کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔ حرا کو سہمتے دیکھ نوال نے اسے گھور کے کہا۔

ایسا مزاق کوئی کرتا ہے۔۔۔ مزاق ایسے کرتے ہیں جیسے میں کر رہا ہوں۔۔۔ سختی سے کہتے کہتے حرا کی خوف زده شکل دیکھتے اسنے اپنا مزاق کرنے کا ارادہ ترک کرتے آگے بڑھتے۔مسکراتے ہوئے حرا کو گود میں اٹھایا۔۔

ایسا کوئی کرتا ہے کیا ۔۔۔ بچی کو بھی خوف زده کر دیا۔۔۔ نوال نے گھورتے ہوئے کہا تو حسام نے جلدی سے حرا کے گال چومیں۔۔

سوری بیٹا بابا جانی نے آپ کو ڈرا دیا۔۔۔ اسنے ایک ہاتھ سے کال پکڑتے معذرت کی۔

کوئی بات نہیں۔۔۔ حرا اسکا کان پکڑا ہاتھ نیچے کرتی مسکرا کے بولی تو وہ بھی مسکرا دیا۔

چلو نوال یہاں آجاؤ ہم فوری فیملی مل کے سیلفی لیتے ہیں۔۔۔ حسام نے جیب سے فون نکالتے کہا تو نوال جلدی سے اسکے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔

حسام نے الگ الگ زاویوں سے کئی تصویریں لیں۔۔۔ کبھی سب کی ساتھ ، کبھی دونوں بچوں اور نوال کی کبھی صرف حرا اور اپنی۔۔۔ اسنے کئی الگ الگ تصویریں بنائیں۔

چلو نوال دیر ہو رہی ہے۔۔۔حرا دادا دادی کو خدا حافظ کر کے آؤ۔۔۔ حسام فون جیب میں ڈالتے ایک نظر گھڑی کو دیکھتے بولا تو حرا فورن باہر بھاگ گئی۔

حرا کے باہر جاتے ہی نوال بھی صوفے پہ رکھا اپنا بیگ اٹھانے کے لیئے آگے بڑھ ہی رہی تھی کے حسام نے اسکا بازو تھامتے روکا۔۔۔ اور پوری شدت سے اسکے گال پہ بوسہ دیا۔

اس اچانک حملے پہ نوال آنکھیں پھاڑے رہ گئی اور وہ مزے سے اسکے دونوں گال چومتے اس کی گود سے نوفل کو لیتا کمرے سے نکل گیا۔

حسام کی اتنی بےساختہ حرکت پہ نوال چہرے پہ ایک شرمگین مسکراہٹ سجائے صوفے سے بیگ اٹھاتی کمرے سے نکل گئی۔

دن با دن حسام کے پیار میں شدت آتی جا رہی تھی۔۔ اسںے جیسا سسرال اور ہم سفر چاہا تھا اسے ویسا ہی ملا تھا ۔۔۔ وہ جتنا محبتوں کے لیئے ترسی ہوئی تھی یہاں اسے وہ ساری محبتیں مل گئیں تھیں ۔۔۔ وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا۔

۔🌺 🌺 🌺

برتھڈے پارٹی لان میں رکھی گئی تھی۔۔۔

لان کو رنگ برنگی رائٹس اور غباروں سے سجایا گیا تھا۔۔ ایک طرف اسٹیج بنا ہوا تھا جس کے بیچ میں گول دائرے کی صورت میں نیلے اور سفید غباروں لگے ہوئے تھے جب کے غباروں سے بنے دائرے کے بیچ میں برحان خان چمک رہا تھا۔

سب لوگ تیار تھے مہمان آچکے تھے۔۔۔ بس کیک کا انتظار تھا جو ملازم لینے گیا ہوا تھا۔

ایک ٹیبل پہ ایمل نور بیگم اور نوال بیٹھی ہوئیں باتیں کر رہیں تھی جب عشال ایمل کے پاس آتی، ٹیبل پہ چڑھ کے اسکے سامنے بیٹھی۔۔۔ تو سب نے اسے مسکرا کے دیکھا جب کے ایمل نے ایک خفگی بھری نظر اس پہ ڈالتے نظریں پھیر لیں۔۔۔

وہ جانتی تھی وہ ایسے اسکے سامنے کیوں آ کے بیٹھی ہے۔۔۔ تبھی اسے نخرے دیکھا رہی تھی۔

ماما فیس آگے لائیں۔۔۔ عشال نے معصومیت سے کہا تو ایمل بغیر کچھ بولے چہرہ اسکے قریب کر گئی ۔۔ جس پہ عشال نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے اسکے گال پہ کس کیا۔

سوری ماما۔۔۔ اسکے گال پہ کس کرتے وہ اتنے پیارے انداز میں بولی کہ سب کو اس پہ بےحد پیار آیا۔۔۔ ایمل کا دل کیا ابھی سارے نخرے چھوڑ کے اسے اپنے گلے لگا لے مگر پھر اسنے یہ ارادہ ترک کرتے اسے تھوڑا اور تنگ کرنے کے بارے میں سوچتے ناراضگی جاری رکھی۔

ارے بھئی ہماری گڑیا نے ایسا کیا کر دیا جو اسے سوری کہنا پڑھ رہا ہے۔۔۔ نور بیگم نے پوچھا۔۔. تو اس نے شروع سے لے کر آخر تک ساری بات بتادی جس پہ ایمل ناراض ہوئی تھی۔

سوری۔۔۔نور بیگم کو بتانے کے بعد ایمل کو ویسے ہی اپنی طرح خفگی سے دیکھتے دیکھ وہ دونوں کال پکڑ کے بولی تو ایمل اور خود پہ کنٹرول نہیں کر پائی اور جلدی اسے اپنے ساتھ لگا گئی۔

آپ اب مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا ماما۔۔۔ عشال نے سر اٹھائے پوچھا۔

نہیں ماما کی جان ۔۔۔ ماما آپ سے بلکل ناراض نہیں ہیں۔۔۔ وہ پیار سے اسکا ماتھا چومتی بولی تو نور بیگم اور نوال مسکرادیں۔

ماما نانی ممانی چلیں کیک کٹ ہونے والا ہے۔۔۔ حرا نے انکے پاس آتے عطلاح دی تو سب اسٹیج کی جانب بڑھ گئے۔

ٹو ٹیئر کے خوبصورت سے کیک کے ساتھ برحان اور رائد ایک جیسی سیم ڈریسنگ گئے خاکی شروار قمیض پہلے کھڑے تھے اور انکے ساتھ ہی چوکلیٹی پاؤں کو چھوتی فراک پہ ہم رنگ کا نقاب کیئے آئلہ کھڑی تصویریں کھچوارہی تھی۔۔ وہ تینوں ایک فریم میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔

بابا کیک بہت پیارا ہے آپ میری برتھڈے پہ میرے لیئے بھی ایسا ہی کیک لائے گا۔۔۔سب ہی اسٹیج پہ انکے اردگرد آ کے کھڑے تھے جب حرا نے حسام کا ہاتھ پکڑتے کہا۔

تمہیں یہ کیک پسند ہے تو میں بابا سے کہہ کے تمہاری برتھڈے پہ ایسا ہی کیک لے آؤ گا۔۔۔ وہ کیک میری طرف سے تمہارے لیئے گفٹ ہوگا۔۔۔ برحان نے فورن کیا تو اسکی بات سنتے سب مسکرا دیئے حرا کے چہرے پہ تو باقائدہ چمک آگئی تھی جب کے عشال نے ائبرو سکیڑئیں۔

بچپن سے ہی برحان اور حرا کی کافی بنتی آئی تھی جب کے عشال کے غصہ کی وجہ سے برحان اس سے بہت چڑتا تھا ۔۔۔ دونوں کی روز ہی کسی نا کسی بات پہ لڑائی ہوتی رہتی تھی۔۔۔ اس لیئے دونوں ہی ایک دوسرے سے لڑنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے۔

تم نے میری برتھڈے پہ تو مجھے کچھ نہیں دیا تھا۔۔۔ عشال نے تھوڑے غصے سے برحان سے سوال کیا۔

تم میرے لیئے کچھ لائی ہو جو میں تمہیں کچھ دوں۔۔۔ برحان دوبدو بولا۔

میرے پاپا ماما لائے ہیں نا۔۔۔ عشال نے گھورتے ہوئے بتایا۔

ہاں تو میرے ماما بابا بھی لائے تھے تمہاری برتھڈے پہ گفٹ۔۔۔ برحان منہ چڑھا کے بولا جب کے سب انکی نوک جھوک سے لطف اندوز ہو رہے تھے مگر عشال اسکی باتوں سے چڑتے ہوئے واپس جانے لگی 

ارے ارے کہاں جا رہی ہو۔۔۔ اسکے ساتھ کھڑے جزلان نے فورن اسے بازوں سے تھامتے روکا۔

پاپا مجھے نہیں اٹینڈ کرنی اسکی برتھڈے۔۔۔ عشال غصے سے کہتی جزلان سے بازو چھڑوانے لگی۔

ہاں تو جاؤ۔۔۔ برحان مزید اسے زچ کرتے مسکرا کے بولا تو عشال کا چھوٹا سا سفید چہرہ سرخ پڑا۔

برحان بری بات بیٹا ایسے نہیں کہتے ۔۔۔ چلو سوری بولو جلدی سے۔۔۔ رائد نے اسے سمجھایا۔

نہیں میں نہیں بول رہا۔۔۔ برحان نے فورن سینے پہ ہاتھ باندھتے منہ پھیرا۔

برحان ۔۔۔ آئلہ نے خفگی سے اسکا نام پکارہ تو اسے ماننا پڑھا۔۔۔ وہ اپنی ماں کی کوئی بات نہیں ڈال سکتا تھا اس لیئے اب بھی مان گیا۔

سوری۔۔۔ وہ منہ بنائے بولا تو عشال کو اسکے منہ سے سوری سنتے ٹھنڈک پڑھ گئی۔

اٹس اوکے۔۔۔ عشال نے اتراتے ہوئے کہا تو سب ہنس دیئے۔

چلو اب کیک کاٹو دیر ہو رہی ہے۔۔ نوال نے سب کی توجہ کیک کی جانب دلوائی تو رائد نے برحان کے ہاتھ میں کیک نائف پکڑواتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھا تو دوسری طرف سے آئلہ نے بھی انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔

ہیپی برتھڈے ٹو یو برحام۔۔۔۔ تالیوں کی گونج میں برحان نے اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کے کیک کاٹا اور اس ہی کے ساتھ کیمرا مین نے ان سب کے خوشی سے مسکراتے چہرے ایک کلک کے ساتھ اپنے کیمرے میں سیو کر لیئے۔

ختم شد⁦

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Jaan E Jageer Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Jaan E Jageer written by Angel Urooj . Jaan E Jageer by Angel Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages