Ik Paigham E Mohabbat By Mirha Khan New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 11 August 2024

Ik Paigham E Mohabbat By Mirha Khan New Complete Romantic Novel

Ik Paigham E Mohabbat By Mirha Khan New  Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ik Paigham E Mohabbat By Mirha Khan Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ik Paigham E Mohabbat

Writer Name: Mirha Khan

Category: Complete Novel

 
















"آئیے آئیے جی جی "آپ"\_ ہم آپ ہی سے مخاطب ہیں۔ ارے ادھر کدھر دیکھ رہے ہیں۔ حیران مت ہوں،،، سیدھے چلیے۔ آئیے ملواتے ہیں آپکو "شاہ ہاؤس" کے مكینوں سے۔

اس خوبصورت سے گھر کے دالان میں کرسی پر اخبار کا مطالعہ کرتے جو صاحب براجمان ہیں وہ اس گھر کے سربراه "عدیل شاہ" ہیں۔

ان کے عقب میں جھانکئے تو گھاس پر لیٹا آنکھوں کو چھوٹا کیے آسمان کو تکتا انکا چھوٹا لاڈلا سپوت ہے جو عمر میں پندرہ سال کا ہونے کے باوجود اپنے بابا کا چھوٹو شا بےبی ہے۔


اب تھوڑا دائیں طرف جانے والے راستے پر مُڑیں۔ جی "آپ" ہی سے مخاطب ہیں ہم۔۔۔


اجی آگے بڑھ کر سامنے والے کمروں میں جھانکئے لیکن یہ کیا کمرے تو خالی ہیں تو باقی مكین کہاں گئے؟

ٹھہریے،،، زیادہ سوچئے مت۔۔ اپنے بائیں طرف باورچی خانے میں جھانکئے۔۔ یہ پانی کی بوتل پٹخ کر منہ میں کچھ بڑبڑانے والے صاحب، عدیل شاہ کے بڑے سپوت "شاہ ویر" صاحب ہیں جنکا غصہ اکثر انکی ناک پر سوار رہ کر بیچاری ناک کو هلكان کرتا ہے۔

بدمزاج بھی انتہا کے ہیں۔ انکے ایسا ہونے کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ صبر رکھیے،، بتائیں گے،، سب بتائیں گے۔

یہ دو بیٹے ہی "عدیل شاہ" کی کل کائنات ہیں۔ زوجہ محترمہ اس "دیارِ فانی" سے کوچ کر چکی ہیں۔

اب اسی خاموشی سے باہر چلیے کیوں کہ یہاں اب جنگِ عظیم کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ ہمیں گیا وقت سمجھ کر بھولیے گا مت۔ پھر ملیں گے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بابااااااااااا !! شاہ میر کے چیخنے پر عدیل شاہ نے رخ موڑ کر گھاس پر لیٹے اپنے لاڈلے سپوت کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔ جسکے چہرے پر گندی شرٹ اڑتی ہوئی آ کر گری اسکے معصوم چہرے کو بوسہ دے رہی تھی۔

اخبار میز پر رکھتے انہوں نے تنبیہی نظروں سے لان کے دہانے کھڑے شاہ ویر کو دیکھا۔ جو چہرے پر بیزاری کے تاثرات سجاۓ کھڑا تھا۔

ویر ۔۔۔؟ انہوں نے مزید گھوری سے نوازا تو ویر نے غصے سے شاہ میر کو دیکھا جو گھاس پر منہ پھلاۓ بیٹھا تھا۔۔

بابا۔۔۔؟ میر نے ناراض نظروں سے اپنے وجیهہ بھائی کو دیکھا جو بیزار نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

میرو ،، کب سے تمہیں بلا رہا ہوں۔ کان بند ہیں کیا تمھارے؟؟

کیا بھائی ،، اتوار کے دن بھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا اب انسان،،، عجیب مصیبت ہے۔۔

زیادہ بک بک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب پتہ ہے سب کام خود ہی کرنے ہیں تو زیادہ منہ بنانے کی ضرورت کیا ہے۔۔

عدیل شاہ نے گہری سانس لے کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا۔ جو بنیان ٹراؤزر میں ملبوس ہاتھ میں گیلے کپڑے اٹھاۓ ہوئے تھا جو غالبًا ابھی دھو کے آیا تھا۔

اسکا كسرتی جسم اسکے دراز قد پر بہت بھلا لگتا تھا۔ ویر نے بےدیهانی میں صابن لگے ہاتھ سے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹے۔۔۔


صابن کی جھاگ نے اسکے بالوں کو عجیب مضحکہ خیز بنا دیا۔ احساس ہونے پر اسنے جهنجهلا کر اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔

عدیل شاہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔ میرو کو منہ چڑاتا دیکھ کر وہ پاؤں پٹختا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی طرف چلا گیا۔


چلو میرو بیٹے ہم بھی کچھ خدمات انجام دیں۔ عدیل شاہ نے پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر موڑتے ہوئے کہا۔

میرو بھی منہ بناتا انکے پیچھے چل دیا۔


میر تم دُھلے کپڑوں کو ڈرائیر میں ڈال کر سکھاتے جاؤ۔۔ ویر نے مڑ کر عدیل شاہ کو دیکھا جو میر کو ہدایت دیتے دُھلے کپڑے تار پر ڈالنے لگے تھے۔


ہلکی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے وہ دوبارہ مشین سے کپڑے نکال کر دھونے لگا۔

ویر کی مسکراہٹ دیکھ کر میر کو شرارت سوجھی۔ بابا۔۔۔ ویسے ۔۔۔

ویر نے آنکھیں سكیڑ کر اسے دیکھا جو پٹاخے پھوڑنے سے باز نہ آتا تھا۔

بابا سنیں تو،،،

ہاں بولو۔۔ انہوں نے مصروف سے انداز میں کہا۔

بابا، ویر بھائی شادی کے بعد بھی ایسے ہی کپڑے دھویا کریں گے ؟ بھابھی کہیں گی سنیے جی ذرا یہ بچوں کے "کچھے" تو دھو دیں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا ،،،، وہ دوہرا ہو کر ہنسنے لگا۔


اسے جیسے یہ سوچ کر ہی مزہ آیا تھا۔ عدیل شاہ نے ہاتھ میں پکڑا تولیہ اس کے منہ پر دے مارا۔ تهپ کی آواز کے ساتھ تولیہ اسکے منہ پر لگا۔


وہ جو دوہرا ہو کر ہنس رہا تھا توازن بگڑنے پر دھڑام سے نیچے گرا۔

اب کہ ویر کا قہقہہ گونجا تھا۔ عدیل شاہ نے شرارت سے ویر کو دیکھا جسکا چہرہ ہںسنے سے سرخ پر چکا تھا۔ سیاہ داڑھی سے ظاہر ہوتا ننھا سا ڈمپل اپنی ذرا سی جهلک دکھا کر شرماتے ہوۓ چھپ گیا۔


میر سے اپنی بے عزتی برداشت نہ ہوئی۔ اسنے ڈرائیر سے پینٹ کھینچ کر نکالی اور ویر کی طرف پھینکی جو اسکے منہ پر جا کر لگی۔


اب کہ عدیل شاہ کے منہ سے ہنسی کا فوارا ابلا۔ ویر نے کھڑے ہوتے صابن سے لتھڑے کپڑے میر کو کھینچ مارے۔


غلطی سے عدیل صاحب بیچ میں آ گئے اور یہ گئے سارے کپڑے انکے منہ پر۔۔۔۔ میر کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔ اب کہ عدیل شاہ بھی میدان میں اتر آئے۔


ویر نے اپنا بچاؤ کرتے بھاگنا چاہا لیکن میر نے اسے پاؤں سے پکڑ لیا جس سے ویر اسکے اوپر دھڑام سے گرا۔


میر اسے پیچھے ہٹاتا کھسکنے لگا لیکن عدیل صاحب نے صابن کی جھاگ دنوں کے منہ پر مل دی۔

اب ہوا "باقاعدہ جنگ" کا آغاز۔۔ یہ تو ہر "اتوار کی صبح" کا منظر تھا۔۔ بات بات پر نوک جھونک کرتے زندگی کو اپنے انداز سے جیتے اس گھر کے مكین ایک دوسرے کو کافی تھے۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


نانوووو۔۔۔ خوشی سے چہکتا وہ گھر کا بیرونی دروازہ کھولے آندھی طوفان کی طرح اندر داخل ہوا۔۔

آئمہ بیگم نے دہل کر جہان کو دیکھا جسکا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ تمیز نام کی کوئی چیز ہے تم میں ہان ۔ ایسے گھر میں داخل ہ۔۔۔۔۔۔


انکا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ جہان نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگا لیا۔ نانو مجھے جاب مل گئی۔۔

یہ سن کر آئمہ بیگم بہت خوش ہوئیں۔ اللّه کا شکر ہے۔ انہوں نے اسکا ماتھا چوما۔ اللّه پاک تمھیں کامیاب کریں۔


جہان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔( کیا تم نے بہار میں کھلتے پھولوں کو دیکھا ہے ) نظر لگ جانے کے خوف سے آئمہ نے اسکے چہرے سے فوراً نظریں ہٹائیں۔


ایسی دلکش مسکراہٹ بھی کسی کی ہو سکتی ہے۔۔؟ ان کے دل نے بےاختیار نفی کی۔

میرا پیارا بیٹا،،، چلو شاباش نہا لو ،،، میں اپنے بیٹے کے لئے تب تک کھانا لگاتی ہوں۔ جہان فرمانبرداری سے سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔


شاور لینے کے بعد وہ بغیر شرٹ کے باتھ روم سے باہر نکلا۔۔ آئینے کے سامنے آتے وہ نرمی سے اپنے سیاہ گھنے بالوں کو تولیے سے سکھانے لگا۔۔


اسکی سوچوں کا محور وہی تھی جو بہت چپکے سے اسکے دل میں آ سمائی تھی۔

میرے بارے میں جان کر اسکا ردعمل کیا ہوگا۔۔؟؟ یہ سوچ آتے ہی مسکراہٹ اسکے عنابی لبوں پر آنے کے لئے بیتاب ہوئی جسے اسنے ہونٹوں کے کنارے دبا لیا۔


وہ جب مسکراتا تھا تو اسکی آنکھیں بھی مسکراتی تھیں جو اسکے چہرے پر ایسی چمک پیدا کرتی تھیں کہ دیکھنے والا مسحور ہوجاتا تھا ۔۔


شرٹ پہن کر بکھرے بال سنوارتے اسنے باورچی خانے کا رخ کیا جہاں رکھی چھوٹی میز پر آئمہ گرم کھانا رکھ رہی تھیں۔۔


مسکراتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھا اور چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا کھانا کھانے لگا۔ آئمہ اسکے سامنے بیٹھیں اسکے چہرے کو دیکھنے لگیں۔ کتنی معصومیت تھی اسکے چہرے پر۔۔ نظروں میں بےاختیار اس کی نظر اتاری۔


کیا ہوا نانو؟؟ آج آپکو زیادہ پیار نہیں آرہا مجھ پر ؟ شریر مسکان کے ساتھ اسنے پوچھا تو آئمہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔


وہ اپنی عمر سے بہت کم دکھائی دیتی تھیں اور عمر کے اس حصّے میں بھی خوبصورت تھیں۔ ہاں تو تمھیں مسئلہ کوئی ؟؟ جہان نے نفی میں سر ہلایا۔۔


انا کو بتایا تم نے جاب کا ؟؟ انا کے نام پر اسکی آنکھوں کی چمک بڑھی جسے آئمہ خوب سمجھتی تھیں۔۔

تھوڑی دیر تک وہیں جاؤں گا۔۔

تایا سے بھی مل لینا،، گلہ کر رہے تھے کہ پچھلی دفعہ بغیر ملے ہی چلے گئے تھے۔۔

جی مل لوں گا۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اک خواب نے آنکھیں کھولی ہیں^°•

•°کیا موڑ آیا ہے کہانی میں°•

وہ بھیگ رہی تھی بارش میں°•

\~اور آگ لگی ہے پانی میں\~


ہم پھر سے حاضر ہیں۔۔ کہیں آپ ہمیں بھول تو نہیں گئے؟؟ چلیں آپکو لے کر چلتے ہیں ایک نئے کردار کی طرف۔۔


گھر کے دروازے کو کیا ہونقوں کی طرح تک رہے ہیں،، اجی اندر چلئے،، بارش میں ساکت بیٹھی یہ دوشیزہ کون ہیں؟؟ انکا جائزہ لیجیئے،، ہم ابھی آتے ہیں۔


ایسی طوفانی بارش میں ایسی گہری خاموشی کے ساتھ وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ گہرے بھورے کمر تک آتے سلكی بال بارش کے پانی سے گیلے ہونے کی وجہ سے لٹوں کی صورت چہرے کے اطراف میں چپکے تھے۔


پانی کی ایک بوند اسکے ماتھے سے ہوتے اسکی تیکھی ناک میں پہنی نوز پن پر ٹھہری اور نیچے گر گئی۔


اسکے بھورے گلابی ہونٹ معصوم سی مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اسکی بھوری آنکھوں میں ایک خاص تاثر تھا جو کبھی سرد ہوجاتا اور کبھی آنکھوں کو خوبصورتی بخشتا۔ اکثر ان آنکھوں میں کوئی تاثر ہی نہ ہوتا۔


وہ بہت خوبصورت نہیں تھی لیکن اسکی شخصیت میں عجیب جازبيت تھی جو مخالف صنف کو اپنی اوڑھ کھینچتی تھی۔


اہم اہمم ،، ہم پھر سے حاضر ھیں۔۔ انکو جانئے،، یہ "اَنا وقار" ہیں۔ جنکو اپنی 'انا' اور 'وقار' بہت ہی عزیز ہے۔ لیکن اس وقت یہ اتنی گم صم کیوں ہیں ؟؟ دور خلاؤں میں گھورتی انکی آنکھوں میں تو جهانكیے۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


یہ ایک "نویں جماعت" کے کمرے کا منظر تھا۔ اپنی جماعت کی دو قابل ترین لڑکیاں کرسی پر براجمان اپنی استانی کے سامنے روزمره کا سبق سنانے کی غرض سے کھڑی تھیں کہ يكلخت ان میں سے ایک کی ہنسی چھوٹی۔۔

میڈم کو دیکھ کر اس نے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔


اسکے ساتھ کھڑی عائزہ بھی اب کی بار ہنسنے لگی۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ دونوں پیٹ پکڑے ہنستی جارہی تھیں۔


میڈم نے پہلے کڑی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر وہ خود بھی مسکرانے لگیں۔

چلو دفع ہوجاؤ اپنی جگہ پر بدتمیزو۔۔

اگر انکی جگہ کوئی اور ہوتا تو يقینًا ڈانٹ کا شکار ہوتا لیکن وہ تو اپنی میڈم کی لاڈلی تھیں۔ اپنے ڈیسک تک واپس آنے تک وہ ہنستی رہی تھیں۔ اور باقی طالبعلم انہیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿

منظر ہوا میں تحلیل ہوا۔ انا نے آہستگی سے آنکھیں جهپكی۔۔ وہ دن زندگی کے بہترین دن تھے۔ عائزہ اور ابیحہ کی سنگت میں گزرے سکول کے دن اسے بہت یاد آتے تھے۔۔

عائزہ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا جب کہ وہ ابیحہ کے ساتھ کالج سے بی اے کررہی تھی۔ ابیحہ اسکے ساتھ ہی ہوتی تھی لیکن عائزہ کو وہ اکثر بہت یاد کرتی تھی۔۔

ان تینوں کی دوستی بہت پرانی تھی۔ ایسے پیارے دوست بھی کسی کے ہوا کرتے ہیں؟؟ اس معاملے میں بلاشبہ وہ بہت خوش قسمت تھی۔۔

بارش اب رک چکی تھی۔۔ وہ اندر جانے کی نیت سے کھڑی ہوئی،، اسکے کپڑے اسکے وجود سے چپکے ہوئے تھے،، اسنے ہاتھ کی مدد سے قمیض کو کمر سے الگ کیا جو اسکی کمر سے چپکی اسکی نہایت پتلی کمر کو اور بھی واضح کررہی تھی۔۔

اپنی قمیض سیدھی کرتی وہ جیسے ہی پلٹی تو اسکی نگاہ جہان پر پڑی جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

انا نے فورًا دوپٹہ پھیلا کر اپنے آپکو ڈھانپا۔

ہان بھائی آپ۔۔؟

وعلیکم السلام۔۔ جہان نے سنجیدگی سے کہا تو انا کے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ ابھری۔

میں تمھیں کچھ بتانے آیا تھا۔ انا جو اسکی نظروں سے پزل ہورہی تھی سواليہ نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگی۔۔

مجھے جاب مل گئی ہے۔۔

سچ ہان بھائی،،، انا نے چہک کر کہا۔۔

ہمم بالکل سچ ۔۔

ہان بھائی میں بہت خوش ہوں۔ اللّه تعالٰی کا بہت بہت شکر ہے۔

اسکے "بھائی بھائی" کی تكرار پر اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔ انا تم مجھے بھائی نہ کہا کرو ۔۔ اسنے سنجیدگی سے کہا تو انا نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔

ہان بھائی آپ میرے بھائی ہیں تو بھائی ہی کہوں گی نہ،،، عجیب باتیں کرتے ہیں آپ بھی۔ اسکا موڈ سخت آف ہو چکا تھا۔

وہ اسکی طرف دیکھے بغیر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ جہان گہری سانس لیتے تیز قدموں سے بیرونی دروازہ عبور کر گیا۔

شاہ ہاؤس میں عجیب تناؤ کی كیفیت تھی۔۔ شاہ میر سہمی نظروں سے ویر اور عدیل شاہ کے درمیان ہونے والی بحث سن رہا تھا۔۔


بابا آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ میری زندگی ہے،، میرے اپنے فیصلے ہیں۔ آپ کس طرح مجھ پر اس آوارہ لڑکی سے شادی کرنے کا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔۔


باااااسس۔۔ عدیل شاہ کی گرجتی آواز پر ویر نے ہونٹ بھینچے۔ تمھیں اندازہ بھی ہے تم نے اس نیک بچی کے بارے میں کتنا گھٹیا لفظ بولا ہے۔ عدیل شاہ کی آواز بلند ہونے لگی۔۔۔


تو اس نیک بچی کو کسی اور کے پلے باندھیں،، میرے گلے کا ہار کیوں بنا رہے ہیں۔ جوابًا ویر نے انتہائی بدتمیزی سے کہا۔


عدیل شاہ کی آنکھوں میں تكلیف ابھری۔ ان کے تاثرات دیکھ کر میر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جسے اس نے آنکھیں جهپك کر اندر دھکیلا۔


تمہارا باپ ہوں میں،،، حق رکھتا ہوں تمہاری زندگی کے فیصلے کرنے کا۔۔ اس معصوم کے مرحوم والدین کو زبان دی تھی میں نے،،، تمہاری شادی تو وہیں ہوگی۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتے تم یہ شادی۔۔۔


ویر نے غصے سے کھڑے ہوتے میز کو ٹھوکر ماری اور انتہائی غصے کی حالت میں گھر سے باہر نکل گیا،، یہ دیکھے بغیر کہ میز کی نوک عدیل شاہ کے گھٹنے کو زخمی کر گئی تھی۔۔۔


میر تڑپ کر ان کے پاس گیا۔ بابا آئی ایم سوری،، بھائی کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔ آپ ایسے ہرٹ نہ ہوں،، میر بھاگ کر فرسٹ ایڈ باكس لایا اور آئنٹمنٹ انکے گھٹنے پر لگانے لگا۔۔


عدیل شاہ نے جھک کر اسکا سر چوما۔ بیٹا میں ٹھیک ہوں۔ تم پریشان نہ ہو۔ میر نے محض سر ہلایا۔ لیکن دل میں ویر سے بےحد ناراض ہوا۔۔


عدیل شاہ کو کمرے میں چھوڑ کر وہ اداس سا لان کی طرف بڑھ گیا۔ کالے سیاہ بادل آسمان پر چھائے پھر سے برسنے کو بیتاب تھے۔۔

ماما ،، اداس آنکھوں سے آسمان کو دیکھتے اسنے سرگوشی میں پکارا۔۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے لڑھکا جسے اس نے بے دردی سے صاف کیا۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا، ابیحہ کے ہمراہ کلاس روم میں داخل ہوئی۔ وہ کوایجوکیشن میں پڑھتی تھی۔ آج وہ معمول سے تھوڑا لیٹ آئی تھی۔ ابیحہ کے برابر کرسی پر بیٹھتی وہ کلاس کے لڑکوں کی نظروں سے پزل ہوئی تھی۔۔۔


وہ اپنے یونیفارم کے دوپٹے کا ایک خاص انداز سے حجاب لے کر نقاب کرتی تھی۔ جو اس پر بہت جچتا تھا ۔ شاید اسی وجہ لوگ میری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ شکل تو میری اتنی پیاری نہیں۔ وہ یہی سوچا کرتی۔۔۔


اسنے "Functional English " کی بک کھول کر مطلوبہ صفحہ نکالا اور سبق کو جلدی سے revise کرنے لگی۔ پروفیسر کسی اور سے سنتے یا نہ اس سے لازمی سنتے تھے ۔ اسلئے وہ اپنا سبق بہت اچھی طرح یاد کرتی تھی۔


جیسے تیسے یہ لیکچر گزرا۔ اگلا لیکچر فری تھا۔ انا میں ابھی آئی،، پرنسپل سے کالج ایونٹ کی بات کرنی تھی۔۔۔ ابیحہ کے کہنے پر اس نے محض سر ہلایا اور نقاب سے جهانكتی آنکھوں سے کلاس کا جائزہ لیا۔


ایک طرف لڑکیاں جب کہ دوسری طرف لڑکے بیٹھتے تھے۔۔۔ لڑکیاں دنیا بھر کی داستانیں ایک دوسرے کو سنانے میں مصروف تھیں جب کہ لڑکوں نے کلاس میں طوفانِ بدتمیزی مچا رکھا تھا۔


اچانک اسکی نظر اپنے کلاس فیلو پر پڑی جو دهڑام سے کرسی سے نیچے گرا تھا اور اس کے اوپر اسکا دوست بیٹھا اسے اٹھنے نہیں دے رہا تھا۔


جیسے تیسے کر کے وہ کھڑا ہوا اور اپنے یونیفارم کی سفید شرٹ کو جھاڑا اور ایک سٹائل سے بال ٹھیک کئے۔۔۔


انا کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ اس نے جلدی سے نظروں کا زاویہ بدلہ۔ "heighted boys" (لمبے قد کے لڑکے) اسکی کمزوری تھے اور بلاشبہ اسکا وہ کلاس فیلو چھ فٹ سے نکلتے قد کا مالک تھا۔۔


انا نے اپنے آپ کو ڈپٹا،،، اَسْتَغْفِرُاللّٰه ۔۔ یہ کیا ہورہا مجھے،، کتاب ہاتھ میں پکڑے وہ کلاس سے باہر نکل گئی لیکن اسکی نظریں احمر کے دوست محسوس کر چکے تھے تبھی اب اسے انا کے نام سے چھیڑ رہے تھے۔


اگلے دن انا وقت سے پہلے ہی کالج پہنچ گئی۔ وہ عمومًا جلد ہی آتی اور کالج کے گارڈن میں بیٹھ کر سبق دوہراتی۔


کلاس میں داخل ہوتے وقت اسکی نظر فرنٹ رو میں بیٹھے احمر پر پڑی تو اسکے دل کی دھڑکن بہت تیز ہوگئی۔ یہ اتنی جلدی کالج میں کیا کررہا ہے؟ اسنے ابیحہ کے قریب جھکتے سرگوشی کی۔


مجھے کیا پتہ،، کہو تو پوچھ لوں ؟ ابیحہ کے شرارت سے کہنے پر انا نے ایک اسکی کمر میں دھموکا جڑا جسے احمر نے دیکھ لیا۔ انا خفت کے مارے سرخ پر گئی۔۔


انا دیکھو وہ یہاں ہی دیکھ رہا ہے۔۔ ابیحہ کے کہنے پر اسکے دل کی دھڑکن انتہائی تیز ہوگئی۔ اسنے ابیحہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بیہ میرا دل گھبرا رہا ہے ۔۔ چلو ہم باہر چلتے ہیں۔۔


گھر آ کر انا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ جلدی سے کمرے میں آگئی ۔ حنا اسے بلاتی ہی رہ گئیں لیکن وہ یہ کہہ کر آگئی کہ "ماما میرے سر میں درد ہے ، پلیز کوئی ابھی میرے کمرے میں نہ آئے"


اسنے بیگ بیڈ پر پھینکا۔ یونیفارم بدل کر وضو کیا اور نماز میں رونے لگی۔۔ اللّه تعالٰی یہ کیا ہورہا ہے مجھے،، یہ غلط ہے،، میں کیوں اسے سوچنے لگی ہوں ،، مجھے پتہ ہے یہ راستہ ذلت کے سوا کچھ نہیں،، مجھے تکلیف ہی ملے گی۔ میں آپکو ناراض بھی نہی کرنا چاہتی۔۔


۔ پلیز میرے دل سے یہ خیالات نکال دیں۔۔ جب وہ خوب رو چکی تو آہستہ سے جاءِنماز تہہ کر کے رکھی اور صوفے پر نیم دراز ہو گئی۔


ہر انسان اپنے حصّے کی تکلیفیں کاٹتا ہے لیکن اس نے کم عمری میں ہی بہت کچھ برداشت کرلیا تھا ۔۔۔ غم انسان کو اللّه کے قریب کر دیتے ہیں۔ اسکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔ بچپن میں بابا سے بہت پیار ملا لیکن کاروباری پریشانیوں میں وہ اسے بلکل فراموش کر بیٹھے۔۔ ماما سے تو خیر اسے پیار پانے کی امید ہی نہیں تھی۔ انہوں نے تب اسکا ہاتھ جھٹکا تھا جب اسے ان کی بہت ضرورت تھی۔۔


اسکا دامن محبت سے خالی تھا کہ اللّه کی محبّت نے اسے سمیٹ لیا۔ کوئی اتنا پیار کسی سے کیسے کر سکتا ہے ؟؟ لیکن وہ تو اللّه پاک ہیں نہ ،، پیارے اللّه تعالیٰ ۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


سارا دن آوارہ گردی کرنے کے بعد شاہ ویر رات کو گھر واپس آیا اور خاموشی سے لاؤنج سے گزرنے لگا کہ صوفے پر نیم دراز عدیل شاہ نے اسے پکارا۔۔


میر نے اسکے ہاتھ پر بندهی پٹی کو خاموشی سے دیکھا اور نظروں کا زاويہ بدل لیا۔۔

ویر کھانا کھا لو ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔


مجھے بھوک نہیں ہے،، اسنے سرد لہجے میں کہا تو عدیل شاہ نے میر کو دیکھا۔۔ اسنے کندھے اچکائے جیسے کہہ رہا ہو آپکو ہی شوق تھا انہیں منہ لگانے کا۔۔۔


ویر لاؤنج سے جانے لگا۔ ٹھہرو ویر بات کرنی ہے تم سے،، ویر نے لب بھینچے۔۔ مجھے آپ سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی بابا۔۔۔


عدیل شاہ کو پھر سے غصہ آنے لگا۔ کیوں نہیں کرنی تم نے اس بارے میں بات،،، اب تو ضرور بات ہوگی اور اسی بارے میں ہو گی،،، انہوں نے بلند آواز سے کہا تو ویر کا سویا غصہ پھر جاگنے لگا۔۔۔


آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے،، سنا آپ نے،،

بھائییی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے بابا سے اس طرح بات نہ کریں،، میر نے انگلی اٹھا کر درشتگی سے کہا۔ ٹھاہ۔۔۔۔۔!!! زناٹے دار تهپڑ کی آواز گونجی،،، میر کا چہرہ سپاٹ ہوگیا۔۔۔


کیا کہا تم نے؟ پھر کہو۔۔ اب تم مجھ سے ایسے بات کرو گے؟؟ ویر سرد تاثرات لئے اس سے پوچھ رہا تھا جس نے کبھی اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔۔


میں ۔ نے ۔ کہا ۔ میرے ۔ بابا ۔ سے ۔ اس ۔ طرح ۔ بات ۔ نہ کریں،، میر نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔۔۔ آپ غصے میں میز کو ٹھوکر مار کر چلے گئے یہ دیکھے بغیر کہ اس نے بابا کو زخمی کر دیا،، آپ ہمیشہ یہی تو کرتے ہیں۔۔۔


میر چپ کرو تم،، عدیل شاہ نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ غم و غصے سے بولتا جا رہا تھا۔ آپ ہمیشہ غصہ کرتے ہیں اور یہی کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو پروا نہیں ہوتی کہ آپ کے رویے کسی کو کتنی تکلیف پہنچاتے ہیں۔ بابا نے ہمارے لئے کتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں،، ہمیں اس مقام تک لائے،، اس لئے کہ ہم ان کے آگے کھڑے ہوجائیں،، ان سے بد تمیزی سے بات کریں،، شرم آنی چاہیے آپکو،،، غصے سے بولتے وہ هانپنے لگا تھا۔۔۔


عدیل شاہ لڑکھڑاتے ہوئے اس کے پاس آئے اور اسے بازو سے تھام کر اپنے کمرے میں لے گئے۔ ویر نے بہت خاموشی سے انہیں لڑکھڑا کر جاتے دیکھا۔ اس کے اندر سناٹے اترنے لگے۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا ان دنوں عجیب سی کیفیات کا شکار تھی۔ دل کو ہزار بار سمجھایا لیکن وہ تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔۔۔ اب پسندیدگی دونوں طرف سے تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ پسندیدگی بہت جلد محبّت میں بدلنے والی تھی،، اور محبت تو "کرب" کا دوسرا نام ہے نہ۔۔


پڑھائی میں وہ اب بھی پہلے کی طرح سنجیدہ تھی لیکن اب اسکا بہت وقت اللّه کے ذکر ازکار کی بجائے اسکے ایک ادنیٰ بندے کی یاد میں گزرنے لگا۔۔۔


موبائل پر انسٹاگرام پر اپنی آئی ڈی لوگ ان کرتے اسکی نظر احمر نامی فرینڈ ریکویسٹ پر گئی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے ریکویسٹ قبول کر لی۔۔


ضمیر یاد دلا رہا تھا کہ یہ غلط ہے لیکن اس نے اس آواز کو خاموش کرا دیا ۔۔ دور بیٹھا شیطان اپنی کامیابی پر مسکرایا تھا۔۔ کچھ ہی دیر میں موبائل کی سکرین پر احمر کا مسیج جگمگانے لگا۔۔


اس نے مسکراتے ہوئے اسے رپلائے کیا۔ اس طرح دونوں میں بات چیت کا آغاز ہوا۔۔ اگلے چند دن کالج میں وہ اسکا سامنا کرنے سے جھجھکتی رہی،، لیکن آہستہ آہستہ یہ جھجھک بھی ختم ہو گئی۔۔۔


عائزہ نے اسے بہت دفعہ سمجھایا لیکن وہ کہتے ہیں نہ محبّت "اندھی" ہوتی ہے،، جب یہ نظر آتی ہے تو کچھ نظر نہی آتا۔۔


كالج سے آ کر اس نے موبائل پکڑا اور جلدی سے اسکے میسج چیک کرنے لگی۔۔ وہ کالج نہی آیا تھا جسکی وجہ سے وہ سارا دن بےچین رہی تھی۔۔


احمر آپ آج کالج کیوں نہیں آئے؟؟ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟؟

احمر : نہیں یار ، بخار ہے۔۔

اسکی تکلیف پر انا تڑپ اٹھی ۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کے پاس پہنچ جاتی۔۔

انا : آپ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے۔۔؟ پلیز میرے لئے اپنا خیال رکھا کریں۔

احمر : اوکے جان اور کوئی حکم؟

انا بےاختیار مسکرائی۔۔


احمر : آپ اتنا پیار کیوں کرتی ہو مجھ سے ؟؟

انا : مجھے خود نہیں پتہ،، میرا بس دل کرتا ہے کہ آپکو بہت سارا پیار کروں آپکا خیال رکھوں۔۔

احمر : اور اگر میں جھوٹا نکلا۔۔؟

انا : ایسا ممکن ہی نہیں ،، میرا دل نہیں مانتا۔۔۔کوئی آپ سے اتنا پیار کرے اور آپ اسے دھوکا دیں۔۔۔ ایسا کیسے کر سکتا کوئی،، مجھے یقین نہی آتا۔۔

دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔

انا : کیا ہوا ؟؟

احمر : کچھ نہیں۔۔ آپ سے ایک بات پوچھوں ؟؟

انا : جی ضرور ۔۔

احمر : آپکی ویسٹ کتنی ہے؟؟

اسکا میسج پڑھتے انا کی ہتھیلی بھیگ گئی۔ ایسی گفتگو تو اس نے کسی سے نہیں کی تھی۔ اور اتنی سنجیدہ بات کے درمیان اسکا یہ پوچھنا انا کو بہت عجیب لگا۔۔

جھجھکتے ہوئے اسنے میسج ٹائپ کیا ۔۔

انا : 23 ہے ۔۔

احمر : اتنی پتلی کمر۔۔۔ میں آپکی بھیجی تصویر میں آپکی کمر کو ہی دیکھ رہا ہوں۔۔ دل کر رہا ہے بار بار دیکھوں ۔۔


انا کو ایک عجیب سا احساس ہوا ۔۔ گھٹن بڑھنے لگی تو اس نے موبائل سوئچ آف کر دیا۔۔

جب انسان اللّه تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو بےسکونی تو ہوگی نا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


آج وہ پکا عہد کر کے آئی تھی کہ احمر کی طرف دیکھے گی بھی نہیں،، یہ سب غلط تھا ۔۔ آج وہ احمر سے صاف بات کرے گی۔۔ ہاں اس کے پاس صحیح راستہ تھا،، وہ اسے کیوں نہ اختیار کرے۔۔


ابیحہ کچھ دن سے اسکا بجھا رویہ نوٹ کر رہی تھی۔۔ انا سب ٹھیک ہو جائے گا،، وہ تم سے پیار کرتا ہے،، مان جائے گا ،، اور تم نے کوئی غلط حرکت بھی تو نہی کی۔۔ اپنی نازک جان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔۔


انا نے پیار سے اسے گلے لگا لیا۔۔ تم بہت اہم ہو میرے لئے بیہ۔۔

جانو آپ بھی نہ،، ابیحہ کے کہنے پر اسے بےاختیار ہسی آئی۔۔ پروفیسر کی گھوری پر وہ فوراً سیدھی ہو گئی۔۔


بیہ یار ویسے یہ سر بہت ٹھرکی ہیں۔ عجیب گندی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔۔

چھوڑ یار یہ گند تو ہر جگہ ہی ہے۔۔ برائی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔۔ انسان تو وہ ہے جو اپنا اندر صاف رکھے ۔۔ جو اپنے آپ سے نہیں لڑ سکتا اس سے بڑا بزدل کوئی نہی۔


ابیحہ نے اسے سمجهاتے ہوئے کہا۔ انا کے اندر گہری خاموشی چھا گئی۔۔ میں ایسی تو نہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں تکلیف ابھری جو سرخ لكیر کی صورت میں اسکی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


احمر میں نے آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔

انا نے رات کو سب کے سو جانے کی تسلی کر کے احمر کو کال ملائی۔ اسکے کال اٹھاتے ہی انا نے کہا۔۔


جی جان آپ حکم کریں،، اسکے پیار سے کہنے پر انا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ یہ سب بلکل بھی آسان نہیں تھا۔۔ یہ درد تو بس محبّت کرنے والے جانتے ہیں۔۔


احمر مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگتا۔۔ مطلب اس طرح چھپ کر بات کرنا،، میں چاہتی ہوں آپ اپنے گھر بات کریں۔


انا مجھ سے بڑے بہن بھائی ہیں ابھی،، ابھی کوئی میری بات نہیں سنے گا ۔۔

احمر آپ بات تو کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ابھی شادی کر لیں۔ میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ ہماری بات فکس ہو جائے ۔۔


انا تم سمجھ کیوں نہیں رہی۔ ابھی یہ ممکن نہیں ۔۔ پانچ چھ سال انتظار کرلو۔ اسنے لاپرواهی سے کہا۔۔


انا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ۔۔ بھلا بیٹیوں کے باپ بھی اتنا انتظار کرتے ہیں اور بھی مڈل کلاس فمیلیز کے۔ اس نے بے دردی سے آنسو صاف کیے۔۔


کیا وہ اسکے لئے کوئی راستہ نہیں نکال سکتا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ اسکے بابا کبھی بھی اتنا انتظار نہیں کریں گے۔۔ شاید اسکی کوئی مجبوری ہو ۔۔۔ دل اسکے حق میں دلیل دینے کے لئے بیتاب ہوا۔ لیکن دماغ نے اسے خاموش کروا دیا۔۔


یہ دل ہی انسان کو اکثر کمزور فیصلوں پر مجبور کرتا ہے ۔ کبھی کبھی دماغ کی بھی مان لینی چاہیے۔۔ اسنے دماغ میں جمع تفریق کی۔۔


وہ اکثر شادی کے نام پر بیزاری ظاہر کرتا تھا۔ لیکن وہ اپنے دل کو جھوٹی تسلیاں دیتی رہی۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا کبھی نہ کبھی۔۔ جو محبت کرتے ہیں وہ نکاح کرتے ہیں نہ کے سارا دن چیٹ پر محبّت کے دعوے کرتے ہیں۔۔


فون کال کب کی بند ہو چکی تھی۔ اس نے دل میں ایک عزم کیا۔۔

گہری سانس لے کر کانپتے ہاتھوں سے ٹائپ کرنا شروع کیا۔۔


احمر ہم آج کے بعد کبھی بات نہیں کریں گے۔ ہمارے پاس صحیح راستہ ہے۔ ۔ آپ ایسا نہیں چاھتے تو ٹھیک ہے ۔۔ اب میں آپ سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی۔۔ سینڈ کر کے وہ اسکے جواب کا بےصبری سے انتظار کرنے لگی۔۔


انا تم اب مجھ سے الگ ہونا چاہتی ہو اسلئے ایسا کر رہی ہو۔ میں نے سچی محبّت کی تھی۔ میں کیسے رہوں گا تمهارے بغیر،، تمہاری عادت ہوگئی ہے مجھے،۔ پلیز مت جاؤ۔۔


اسکا میسج پڑھ کر انا ہچکیوں سے رونے لگی۔۔ اللّه تعالیٰ میری مدد کریں۔۔ ایسی تکلیف تو کبھی محسوس نہی کی میں نے۔۔ جسکو اتنا پیار کیا ۔۔وہ کہہ رہا میرا دل بھر گیا اس سے ۔۔ جس کے لئے میں نے آپ کو ناراض کیا وہ مجھے یہ کہہ رہا ہے۔۔


تکلیف تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اسکا سانس بند ہونے لگا۔۔ چکراتے ہوئے وه زمین پر گر گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد حواس بحال ہوئے تو وہ كانپتی ٹانگوں سے دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی۔


تھوڑی دیر بعد وه باتھ روم میں واش بیسن پر جھکی وضو کر رہی تھی۔۔ ساتھ ساتھ روتی جارہی تھی۔۔ بلکتے ہوئے اس نے جائےنماز بچھائی اور سجدے میں گر کر تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔۔


اللّه،،، اللّه ،، وہ بار بار پکارتی جاتی۔ اللّه میں نے سب چھوڑا ۔۔ سب چھوڑ دیا میں نے آپ کے لئے۔۔ مجھے سیدھے راستے پر چلائیں۔ اپنے راستے پر اللّه تعالیٰ۔

مجھے شیطان کے گندے راستے پر نہیں چلنا ۔۔ اللّه پاک میں نے آپ کو کتنا ناراض کر دیا۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔ مجھے معاف کردیں ۔۔ وہ بلک بلک کر فریاد کررہی تھی۔۔

تم نے کبھی ایک ماں کو دیکھا ہے جو بچے کو بلكتا دیکھ کر اسے اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے ۔۔ وہ تو پھر رب ہے۔۔ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا۔۔ جب وہ تهامتا ہے تو انسان کبھی نہیں گرتا۔۔ کبھی تم نے سوچا ہے کہ اللّه تم سے کتنا پیار کرتا ہے۔۔ اتنا کہ جب تم ہر گناہ کر کے بھی اسکی طرف لوٹو گے تو وہ تمھیں برا نہیں کہے گا ۔۔ دنیا کی طرح رسوا نہیں کرے گا بلکہ تم پر مہربان ہوگا۔ تمھیں سمیٹ لے گا۔۔ تمھارے دل کو ایسا سکون دیگا جو تم نے کبھی محسوس نہیں کیا ہوگا۔ کیا تم نے اللّه کے لئے اپنی سب سے پیاری چیز قربان کی ہے ؟؟

کہیں عشق سجدے میں گر گیا۔۔!!

کہیں عشق سجدے سے پھر گیا۔۔!!

کہیں عشق درسِ وفا بنا ۔۔!!

کہیں عشق حسنِ ادا بنا ۔۔!!

کہیں عشق نے سانپ سے ڈسوا دیا ۔۔!!

کہیں عشق نے نماز کو قضا کیا ۔۔!!

کہیں عشق سیفِ خدا بنا ۔۔!!

کہیں عشق شیرِ خدا بنا ۔۔!!

کہیں عشق طُور پر دیدار ہے۔۔!!

کہیں عشق ذبح کو تیار ہے۔۔!!

کہیں عشق نے بہکا دیا۔۔!!

کہیں عشق نے شاہِ مصر بنا دیا۔۔!!

کہیں عشق آنکھوں کا نور ہے۔۔!!

کہیں عشق کوہِ طُور ہے۔۔!!

کہیں عشق تُو ہی تُو ہے۔۔!!

کہیں عشق اللّه ھُو ہے۔۔!!

سنسان سڑک پر وہ بےتہاشہ بھاگتی جا رہی تھی۔ اندھادھند بھاگنے سے وہ کئی دفعہ گری تھی جس سے اس کی جینز جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔


آنکھوں میں بےانتہا خوف لئے اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ آدمی مسلسل اسکا تعاقب کر رہے تھے۔


ہاتھ میں پکڑے بیگ کو اسنے لڑکھڑاتے ہوئے کندھے پر ڈالا اور اپنی رفتار تیز کرتی سامنے نظر آتی ایک گلی میں داخل ہو گئی۔


تعاقب کار اسکا پیچھا کرتے گلی میں داخل ہوئے لیکن سنسان گلی نے ان کا استقبال کیا۔ کسی زی روح کو نہ پاتے وہ بھاگتے ہوئے گلی کا دہانہ عبور کر گئے۔


ان کے جانے کا اطمینان کرتے وہ گہرا سانس لے کر سنسان پڑی عمارت سے باہر نکل آئی۔ اسکے گھٹنے سے خون رسنے لگا تھا۔۔ ہاتھوں پاؤں پر جا بجا خراشوں کے نشان تھے۔


روتے ہوئے اس نے سوجھے چہرے پر ہاتھ رکھا۔ ہونٹ کے کنارے سے بہتے خون کو صاف کرتے اس نے زمین پر رکھا چھوٹا سا بیگ پکڑا اور لڑکھڑاتے ہوئے ایک طرف چلنے لگی۔۔۔


اسکا کرتہ جگہ جگہ سے اس طرح پھٹا ہوا تھا جیسے اسے کھردری زمین پر گهسیٹا گیا ہو۔۔ بالاخر وہ ایک آباد علاقے میں داخل ہوگئی۔۔ اب اسکی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔۔۔


آگے بڑھ کر اسنے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھو کھولو دروازہ کھولو۔۔ میری مدد کرو،،، اللّه کے واسطے دروازہ کھولو،،


رات کی خاموشی میں اسکی سسکیاں گونجنے لگیں۔ اسے ایک زوردار چکر آیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دروازے کے ہینڈل کو پکڑنا چاہا لیکن اسکی بصارت دھندلا گئی اور وہ توازن کھو کر گرتی چلی گئی۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


آج کا دن بے حد تھکا دینے والا تھا۔ آفس کے کام نے اسے بے حد تھکا دیا تھا۔ تھکا ہارا وہ گھر میں داخل ہوا۔ آج آئمہ اسکے استقبال کے لئے موجود نہیں تھیں۔


اپنا آفس بیگ کمرے میں رکھ کر اس نے ان کے کمرے کا رخ کیا۔ نانو ۔۔۔۔؟ اس نے دهیرے سے پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ ان کے سونے کے خیال سے وہ دبے قدموں باہر نکل گیا۔


اپنے کمرے میں آ کر اس نے کپڑے بدلے۔ ڈھیلی سی بغیر بازو کے شرٹ اور ٹراؤزر زیب تن کی اور کمرے کی واحد کھڑکی کھول کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔


موسم بےحد خوشگوار تھا۔ بادلوں کے ٹکڑوں نے آسمان کو ڈهانپ رکھا تھا،، ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا۔ جہان نے مسرور ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔۔


اس کے گھنے کالے بال ماتھے پر بکھر گئے۔ اسکا کسرتی جسم ہلکی سی سفید شرٹ میں بہت نمایاں ہورہا تھا۔ اس نے سینے پر بازو باندھے اور آنکھیں موند لیں۔۔


بارش میں بھیگا دلکش سراپا چھم سے اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ پتہ نہیں کب اور کیسے وہ اسے اتنی اچھی لگنے لگی تھی کہ دل کو بےاختیار اس سے محبّت ہو گئی تھی۔۔


شاید تب جب وہ شرارتی آنکھوں سے ہونٹ کا کونہ دانتوں میں دبا کر مسکراہٹ روکتی تھی۔ یا تب جب وہ اپنی نازک سی پتلی کمر پر ہاتھ رکھ کر تیوری چڑھائے غصے سے بول رہی ہوتی تھی۔۔۔


کسی کی سسکیوں کی آواز پر اسکی سوچوں کا ارتكاز ٹوٹا،،اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا۔ کمرے کی بتی بھجا کر وہ بیڈ پر دراز ہوگیا۔


دونوں بازو سر کے نیچے رکھے جس سے اسکے مسلز اور بھی نمایاں ہونے لگے۔ اچانک عجیب سی آواز ابھری۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔


اس دفعہ یہ وہم ہر گز نہیں تھا۔ دبے قدموں سے باورچی خانے میں جا کر اسنے چاقو پکڑا اور آہستہ سے جا کر بیرونی دروازہ کھولا۔


اندھیرے میں اس نے غور سے دیکھا تو دروازہ کے عین سامنے ایک لڑکی گری ہوئی تھی۔ جس کے ساتھ اسکا بیگ الٹا گرا اپنی بےقدری پر رو رہا تھا۔


جہان نے نیچے جھک کر اسے سیدھا کیا۔ اٹھو ،، کون ہو تم؟؟ اس کے ہلانے پر بھی اس وجود میں جب جنبش نہ ہوئی تو اسے تشویش نے آ گھیرا۔۔


اس نے احتیاط سے اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر لاؤنج میں رکھے صوفے پر لٹایا۔ آئمہ کے کمرے میں جا کر انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔۔


وہ پریشانی سے باہر آئیں اور اسے اٹھانے کے جتن کرنے لگیں جو شکل سے چودہ پندرہ سال کی لگتی تھی۔۔


ہان،، فرسٹ ایڈ باكس لاؤ جلدی،، بچی بہت زخمی ہے۔۔ وہ جلدی سے باكس لایا اور آئمہ کے ساتھ اسکے ہاتھ پاؤں کے زخموں کو صاف کرنے لگا۔۔


پاؤں کا ناخن بہت بری طرح ٹوٹا ہوا تھا۔ ہان نے ضبط سے اسے دیکھا جسکا چہرہ بھی زخمی تھا۔۔


آئمہ کی نظر اسکے گھٹنے سے پھٹی جینز پر پڑا۔ جہاں سے خون رس رس کر جم چکا تھا۔ اب انہوں نے اسکے پورے جسم کا جائزہ لیا۔ اسکی شرٹ بھی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی جس سے اسکا زخمی جسم واضح ہورہا تھا۔۔


جہان نے ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو فوراً نظریں جھکا لیں۔

ہان،، اسے میرے کمرے میں لے جاؤ۔

اس نے آہستہ سے اس نازک سی جان کو انکے بستر پر لٹا دیا۔۔ نانو میں اسکا بیگ چیک کرتا ہوں شاید اس کے کپڑے ہوں بیگ میں۔۔

آئمہ اسکا گریز سمجھتیں آہستہ سے سر ہلا گئیں۔ جب وہ باہر نکلا تو انہوں نے اس کے جسم کو کپڑوں سے آزاد کیا اور اسکے زخموں پر مرہم لگانے لگیں۔


جہان نے دروازہ ناک کیا تو آئمہ نے ذرا سا دروازہ کھول کر اسکے ہاتھ سے کپڑے پکڑے اور دروازہ بند کر دیا۔ اسکے کپڑے بدلنے کے بعد انہوں نے جہان سے ڈاکٹر بلانے کو کہا۔


تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر اس بچی کا چیک اپ کررہا تھا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ نقاہت اور خوف کی وجہ سے یہ بےہوش ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس نے کافی دیر سے کچھ نہی کھایا۔ کچھ دیر تک ہوش آ جائے گا۔ ان کے کھانے کا خیال رکھیں اور کھانے کے بعد یہ دوائیاں دیں ۔ ڈاکٹر نے ایک کاغذ سنجیده کھڑے جہان کی طرف بڑھایا جسے تھام کر وہ ان کے ساتھ ہی باہر نکل گیا۔


آئمہ نے انکے جانے کے بعد اس پر كمبل ٹھیک کیا اور خود بھی لیٹ گئیں۔ فجر کا وقت ہونے والا تھا۔ اب وہ نماز پڑھ کر ہی سونے کا ارادہ رکھتی تھیں۔


جہان دوائیاں ان کو دے کر سونے کے لئے جا چکا تھا۔ اس سب میں وہ بےحد تھک چکا تھا۔ آئمہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئیں تو اسے ہلکا سا كسمساتے ہوئے دیکھا۔۔


وہ اسکے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ اسنے آہستہ سے آنکھیں کھولی۔ اسکی نیلی گہری آنکھیں دو اجنبی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ خوف سے وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔


کیا وہ لوگ اسے پھر سے قید کر چکے تھے۔۔

چھ۔چھوڑ دو مجھے ،، پلیز مجھے جانے دو۔۔

آئمہ اسکی بات سن کر حیران رہ گئیں۔ انہوں نے نرمی سے ہاتھ اسکی طرف بڑھاۓ۔ اس نے ڈر کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لئے۔ لیکن چند لمحوں بعد ہی اسے اپنے گرد بے حد نرم گرفت محسوس ہوئی۔


آئمہ نے بہت پیار سے اسے گلے لگایا۔ سب ٹھیک ہے۔ تم محفوظ ہو،، کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

اسکا خوف زائل ہوا تو وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ آئمہ نرمی سے اسکی کمر سہلانے لگیں۔


رونے کی آواز سن کر جہان آنکھیں ملتا ہوا انکے کمرے میں داخل ہوا۔ جہان کو دیکھ کر وہ آئمہ کے پیچھے چھپ گئی۔ یہ یہ ۔۔؟ اس نے سرگوشی کی۔


ڈرو نہیں یہ میرا نواسا ہے۔ یہی تمھیں گھر میں لے کر آیا تھا۔۔

جہان نے دوستانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا جو اب پہلے سے قدرے بہتر لگ رہی تھی۔ اس نے آئمہ کو آنکھ سے اشارہ کیا اور باہر نکل گیا۔


اسکا اشارہ سمجھ کر وہ اسے ساتھ لئے کچن میں آگئیں،، وہ ڈرتے ڈرتے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔


تم ادھر بیٹھو میں تم دونوں کے لئے ناشتہ بنا لوں۔ انہوں نے کچن کی کھڑکی جو باہر لان میں کھلتی تھی، کھول دی۔ سنہری صبح طلوع ہو چکی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں خراماں خراماں کچن میں داخل ہونے لگیں،،


اس نے نظریں اٹھائی تو جہان پرسوچ نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے دیکھنے پر دهیمی مسکان چہرے پر سجاتے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جسے اس نے جھجھکتے ہوئے تھام لیا۔۔


کیا نام ہے تمہارا۔۔؟ اس نے نرمی سے پوچھا۔

اعینہ (aina)۔۔ جوڑے سے نکلتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اسنے کہا۔

پریٹی نیم لٹل گرل۔ اسکا مطلب کیا ہے؟؟


"خوبصورت آنکھوں والی" اسکے جواب پر جہان نے اسکی نیلی آنکھوں کو دیکھا۔ حزن لئے اداس نیلی آنکھیں۔ اسے یہ نیلی آنکھوں والی گڑیا بہت اچھی لگی۔


میرا نام جہان ہے۔ تم مجھے بھائی بلا سکتی ہو۔ اسکی بات پر اعینہ نے آنکھیں زور سے جهپك کر امڈ آنے والی نمی کو اندر دهكیلا ۔


ناشتہ کرنے کے بعد آئمہ اسے لئے لاؤنج میں آ گئیں جہاں ہان بیٹھا انہی کا انتظار کر رہا تھا۔ دکھتے جسم کو سنبھالتے وہ آہستہ سے آئمہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔

کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ۔۔؟

جہان کی بات پر وہ خوفزدہ ہو کر رونے لگی۔ آئمہ نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ دیکھو اعینہ اگر تم ہمیں کچھ بتاؤ گی نہیں تو ہم تمہاری مدد کیسے کریں گے؟


انہوں نے ہمدردی سے اسے دیکھا۔ اس چھوٹی لڑکی پر انہیں بہت ترس آیا۔ اعینہ نے اٹکتے ہوئے بتانا شروع کیا۔


میرے سوتیلے ابو میری امی کو بہت مارتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ۔۔ تکلیف سے لفظ ادا کرتے اسے دقت ہونے لگی ۔۔ ان انہوں نے امی کو اتنا مارا کہ وہ مر گئیں۔ وہ تكلیف سے سسکنے لگی۔۔


اسکی آنکھوں میں کرب دیکھ کر جہان ساکت رہ گیا۔ ابب ابو نے ۔۔ مجھے بھی بہت مارا۔ میں گھر سے بھاگ گئی کیوں کہ وہاں گندے انکل آتے تھے جو مجھے جج جان بوجھ کے ٹچ کرتے تھے۔


آئمہ نے بازو اس کے گرد پھیلا لیا۔ جہان نے غصے سے جبڑے بھنچے۔

ابو نے ایک دن مجھے زبردستی انکے ساتھ بھیج دیا۔ وہاں بہت سارے انکل تھے جو مجھے دیکھ کر گندی باتیں کر رہے تھے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


آئمہ کی آنکھوں میں نمی ابھری۔ میں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بہت مارا اور گھ گھسیٹ کر واپس لائے۔ آئمہ اور جہان نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

پھر رات کو ایک آنٹی میرے پاس آئی ۔ انہوں نے مجھے وہاں سے بهگا دیا۔ انکل کو پتہ چل گیا ہوگا اس لئے میرے پیچھے کچھ آدمی لگ گئے۔

پھر پتہ نہیں کیسے میں ان سے بچ گئی۔ اور بھاگتے ہوئے یہاں آ گئی۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔

جہان آئمہ کی آنکھوں میں تحریر صاف پڑھ سکتا تھا۔ بہت نرم دل خاتون تھیں وہ۔ نانو جیسا آپ کو ٹھیک لگے ویسا کریں۔ جہان نے نرمی سے کہا تو آئمہ کو اس لمحے اس پر فخر محسوس ہوا۔

ے اس نے سر جھکا لیا۔۔

دیٹس لائق مائی گرل۔۔۔ جہان نے بشاشت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ آج آفس کے لئے تو لیٹ ہو ہی چکا تھا۔ جانے کا ارادہ کینسل کرتے آج کا دن گھر میں ھی گزارنے کا ارادہ کیا۔۔

دن یوں ہی گزرتے رہے۔ اعینہ کے زخم مندمل ہو چکے تھے۔ وہ آئمہ کے کمرے میں ہی رہتی تھی۔

شاور لے کر وہ باتھروم سے باہر نکلی اور تولیے سے اپنے بالوں کو اچھی طرح خشک کرنے لگی۔ بال خشک کر کے اس نے انہیں اچھی طرح سنوارا۔

کالے گھٹنوں تک آتے گھنگھریالے بال لہرا کر اسکی کمر سے نیچے گرے۔ اس نے اگلے آدھے بال اونچی پونی میں باندھے اور گلاسز اٹھا کر آنکھوں پر ٹکاۓ جو جہان نے اس کے سر درد کی شکایت پر اسکے چیک اپ کے بعد بنوا کر دیے تھے۔

بیزوی فریم لیس گلاسز اسکے چہرے پر بہت جچے تھے اور بقول جہان وہ پہلے سے زیادہ کیوٹ لگتی تھی۔ اس نے بلیو جینز کے ساتھ گھٹنوں تک آتی ریڈ فراک پہن رکھی تھی۔

چھوٹے سے سٹالر کو گلے میں رول کر کے ڈال رکھا تھا۔

جہان کے آفس سے آنے کا ٹائم تھا۔ آئمہ طبیعت خرابی کی وجہ سے آرام کر رہی تھیں۔

لاؤنج میں جا کر وہ اپنی پسندیدہ جگہ بیٹھ گئی جہاں سے ہوا براہِ راست اسکے جسم کو چھوتی اسے سکون بخشتی تھی۔ ہاتھ میں ناول پکڑے وہ اسے پڑھنے میں منہمک ہو گئی۔ شروع میں وہ بہت سنجیدہ رہتی تھی۔ لیکن جہان کی لاکھ کوششوں اور آئمہ کے پیار سے وہ پگھلنے لگی۔

جہان تھکا ہوا داخل ہوا اور گرنے کے انداز میں صوفے پر براجمان ہو گیا۔ اعینہ کچن میں جا کر پانی لے آئی۔

ہان بھائی ۔۔۔۔ اسنے آنکھیں موندے جہان کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ جہان نے سیدھا ہو کر مسکراتے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا۔۔

ہاں بھئی میری گڑیا نے آج کیا کیا۔ اعینہ نے منہ بنایا۔ جہان نے مسکراہٹ دباتے اس کے کیوٹ تاثرات دیکھے۔

ہان بھائی میں بہت بور ہوتی ہوں گھر میں۔

چھلو بھئی اس کا بھی کچھ انتظام کرتے ہیں۔ مزید پڑھنا چاہو گی ؟؟

ضرور۔۔ اعینہ نے چمتی آنکھوں سے کہا اور موسم کا لطف لینے لان کی طرف بھاگ گئی۔ جہان نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا اور آرام کی غرض سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔

دلہن کے خوبصورت جوڑے میں بیٹھی شاہ ویر کے انتظار میں وہ تھکنے لگی تھی۔۔ کمر سیدھی کرنے کی غرض سے وہ بیڈ پر نیم دراز ہوئی ہی تھی کہ شاہ ویر دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔


اسکا سرد انداز دیکھ کر عائشہ سہم گئی۔

ویر نے اسکی طرف دیکھے بغیر کوٹ اتار کر صوفے پر پٹخا۔


عدیل شاہ کی خوشی کی خاطر وہ ان کی پسند کی لڑکی سے شادی کر چکا تھا۔ ان کے لئے وہ اس رشتے کو آگے بڑھانے کے لئے بھی تیار تھا لیکن اسکا دل بلکل خالی تھا۔ اس کے لئے یہ شادی محض ایک سمجھوتہ تھی۔۔


گہری سانس لے کر وہ کھڑا ہوا اور کپڑے بدلنے کی غرض سے چینجنگ روم میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آیا اور عائشہ کے سامنے بیٹھ کر اسکا گھونگٹ اٹھا دیا،،


دل میں کوئی جذبہ نہ ابھرا۔ یہ اپ کی منہ دکھائی،،، ایک نفیس سا لاكٹ خوبصورت پیکنگ میں اس کی طرف بڑھایا جسے اس نے مہندی لگے کانپتے ہاتھوں سے تھام لیا۔۔


دل اپنے محرم سے اپنے لئے محبت بھرے کلمات سننے کو بیتاب ہوا مگر اس نے کہا تو فقط اتنا کہ " آپ چینج کر لیں۔ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں"۔


دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اٹھی لیکن ایک خیال آنے پر رک گئی،، وہ میرا سامان۔۔۔؟؟ اس نے جھجھکتے ہوۓ پوچھا۔۔

وہ تو نیچے پڑا ہے۔ ایسا کریں میری كبرڈ کھول کر کچھ پہن لیں۔


وہ ہونق بنی اس کی طرف دیکھنے لگی تو ویر نے اٹھ کر اپنی قدرے چھوٹی بلیک شرٹ اور بلیک ہی ٹراؤزر اسے تھما دیا۔


اس کے جانے کے بعد ویر نے اپنی شرٹ اتاری اور بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا۔ عائشہ باتھروم کی لائٹ آف کرتی باہر نکلی تو شاہ ویر کو بغیر شرٹ کے دیکھ کر اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی،، اس نے جلدی سے نظریں جھکائی۔


اسے ایک ہی جگہ پر جما دیکھ کر شاہ ویر نے اسکی طرف چہرہ موڑا۔ گھٹنوں کو چھوتی شرٹ کے بازو فولڈ کیے گئے تھے۔ ٹراؤزر کے پائنچے فولڈ کرنے کے باوجود پاؤں میں آ رہے تھے۔


ادھر آئیں،، شاہ ویر کو وہ بہت ڈری ہوئی لگی۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اسکے پاس گئی۔ ویر نے کمرے کی بتی بند کر دی۔۔


اگلی صبح جب وہ بیدار ہوئی تو شاہ ویر کو بے حد قریب سوتے ہوئے پایا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے نرمی سے اسکی داڑھی پر ہاتھ رکھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتی وہ شاور لینے چلی گئی۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بھاؤ ۔۔۔ ایڑھیاں اونچی کر کے دبے قدموں کچن میں جاتی اعینہ نے دہل کر پیچھے دیکھا۔ اسے ڈرتا دیکھ کر جہان بہت محظوظ ہوا،، عین نے اسکے بازو پر دھموکا جڑا،، بھائی آپ نے میری جان ہی نکال دی تھی،، حد ہے۔۔

کیا ہورہا تھا۔۔؟ یہ چوروں کی طرح کچن میں کیوں گھسا جارہا ہے۔۔

شش آہستہ بھائی،، عین نے سر پیٹنے والے انداز میں کہا۔ نانو نے کچن میں میری چاکلیٹس چھپا دی ہیں،، وہی ڈھونڈنے جارہی ہوں۔

اوہ تو یہ بات ہے۔۔۔

ہاں نہ۔۔ عین نے نیلی آنکھوں کو گھماتے ہوئے کہا۔

یہ بعد میں ڈھونڈتی رہنا،،چلو شاپنگ کرنے چلتے ہیں۔

شاپنگ کا سن کر وہ بہت ایکسائٹڈ ہوئی۔ اوکے،، آپ رکیں میں ایک منٹ میں آئی۔۔


وہ شاپنگ مال میں کب سے سر کھپا رہے تھے۔ جو چیز جہان کو پسند آتی وہ عین کو پسند نہ آتی اور جو عین کو پسند آتی جہان اس پر ناک بھوں چڑھانے لگتا۔


نہیں بھائی باربی جیسے ڈریس چاہیے مجھے۔ اور منی کوٹس وغیرہ۔ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں اب۔


دکاندار نے ان کی مشکل آسان کرتے ایسے بےشمار ڈریسز ان کے سامنے پھیلا دیے ۔ جہان کی آنکھوں میں ستائش ابھری۔ اس نے بلیو جینز کی جیکٹ کے ساتھ میرون فلور لینتھ فراک سائیڈ پر رکھی۔ سفید، کالی، سرمئی رنگوں کے منی کوٹس، شرٹس اور جینز کے ساتھ پیک کرواۓ۔۔


اسکی نظر ایک بہت خوبصورت ہلکے گلابی رنگ کی باربی فراک پر پڑی جس کے نیٹ کے بازو پھولے ہوئے تھے جو کلائیوں سے تنگ ہو جاتے تھے۔ گھٹنوں تک آتی نیٹ کی پھولی فراک،، پرفیکٹ۔۔


جہان کے ریماركس پر عین نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اسکی نیلی خوبصورت آنکھیں چمک اٹھی۔۔


ایکسکیوز می،، یہ بھی پیک کر دیں۔ ساری پےمنٹ کرنے کے بعد واپسی پر آئسکریم پیک کروائی اور هنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔


لاؤنج میں آئمہ کے ساتھ بیٹھی انا کو دیکھ کر جہان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ عین جلدی سے یہ سارے بیگز رکھ کر آؤ۔۔


السلام علیکم! بھاری آواز میں سلام کرتا وہ انا کے سامنے بیٹھ گیا۔

وعلیکم السلام ہان بھائی۔۔ کیسے ہیں آپ؟

جہان کا منہ تک کڑوا ہو گیا۔ آئمہ نے مسکراہٹ دبائی۔


ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟؟ نرم نگاہوں سے اسے دیکھتے دريافت کیا۔۔

انا کے حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹکا۔ بعض سوال اتنے مشکل کیوں ہوتے ہیں اور ان کا جواب اس سے بھی مشکل؟؟

میں بھی ٹهیك ہوں،، بدوقت مسکراتے ہوئے اس نے جواب دیا۔


آؤ عین رک کیوں گئی ہو۔۔؟ آئمہ نے پیار سے اسے بلایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ انا نے دلچسپی سے نیلی آنکھوں والی خوبصورت گڑیا کو دیکھا جو گلابی نازک ہونٹوں پر شرمیلی مسکان سجاۓ ہوئے تھی۔


یہ اعینہ ہے، میری پیاری بیٹی۔

آئمہ نے پیار سے اسکے پونی میں مقید لمبے گھنگھریالے بالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔ انا کو وہ سب کچھ بتا چکی تھیں۔

انا نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔۔


عین،، میں اب سے تمہاری بڑی بہن ہوں۔ ٹھیک ہے کوئی بھی بات ہو مجھے بتانا اور مجھ سے ملنے آتی رہنا۔ اب تو میں بھی اکثر تم سے ملنے آتی رہونگی۔۔


آخر آنا تو تمھیں یہاں ہی ہے،، جہان کے بے دیهانی میں کہنے پر انا نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا۔

ہان کا مطلب ہے کہ عین اتنی پیاری ہے کہ جو بھی مل لے وہ بار بار ملنا چاہے گا۔ آئمہ نے بات سنبهالتے ہوئے کہا۔۔


ہاں یاد آیا جس کام کے لئے میں آئی تھی وہ تو بھول ہی گئی۔ انور چچا کے بڑے بیٹے کی شادی ہے۔ یہ کارڈ انہوں نے آپ کے لئے دیا تھا۔


انویٹیشن کارڈ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔۔ عین کو بھی ضرور لائیے گا ساتھ۔ میں چلتی ہوں۔ کافی وقت ہوگیا ہے۔ بابا ناراض ہوں گے۔


وقار کو بھی ناراض ہونے کے علاوہ آتا کیا ہے۔۔ اپنی ماں کو سلام دینا میرا۔۔ آئمہ نے کہا تو وہ جانے کے لئے کھڑی ہو گئی۔


چلیں آپ کو گھر ڈراپ کر دوں۔ نہیں اٹس اوکے میں چلی جاؤں گی۔۔

میں بھی ڈراپ ہی کروں گا۔ کھا نہی جاؤں گا آپ کو۔

انا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اور آئمہ اور عین سے مل کر باہر نکل گئی۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


میر دروازہ کھٹکھٹا کر ویر کے کمرے میں داخل ہوا،، وہ عائشہ کو دیکھ کر مسکرایا۔ جواباً وہ بھی مسکرائی۔


ویر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں برش کر رہا تھا۔ بھائی بابا آپ دونوں کا ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں۔۔


ہم تھوڑی دیر تک آتے ہیں۔ عائشہ نے نرمی سے کہا۔ میر کے جانے کے بعد وہ آہستہ سے ویر کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔۔


میں کر لیتا ہوں،، ویر کے سنجیدگی سے کہنے پر وہ نرمی سے اسے دیکھ کر مسکرائی۔

وہ پہلے دن سے ہی اس کا کھچا سا رویہ محسوس کررہی تھی۔ ہاں ایک بات پر وہ مطمئن تھی کہ وہ اس کے سارے حقوق پورے کر رہا تھا۔۔


ویر نے اسے دیکھا جو سرخ شلوار قمیض میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔ کھلے بالوں کو دوپٹے سے ڈھانپتے وہ ویر کی ہمراہی میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی۔


السلام علیکم بابا،، سربراہی کرسی پر بیٹھے عدیل شاہ کو سلام کر کے وہ ویر کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔


چلو کھانا شروع کرو۔ عائشہ بیٹے آپ نے اب اپنا خاص دیهان رکھنا ہے اور زیادہ کام نہیں کرنا۔ اس حالت میں زیادہ سے زیادہ آرام ہی بہتر ہے۔ اور ویر تم بھی میری بیٹی کا خیال رکھا کرو۔


ویر نے سر جھکا کر مسکراتی اپنی بیوی کو دیکھا۔ جی بابا آپ پریشان نہ ہوں۔

میر گھر میں نئے آنے والے مہمان سے ملنے کے لئے بیتاب تھا۔۔


کھانا کھا کر وہ میر کے ساتھ مل کر ناشتے کے برتن سمیٹنے لگی۔ ان کی شادی کو دو ماہ ہو چکے تھے۔ شادی کے دو ہفتوں بعد ہی اسکی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ ویر فوراً اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جہاں ڈاکٹر نے انہیں خوشخبری سنائی۔ جو ویر کے لئے تو خوشخبری بلکل نہیں تھی۔


وہ چاہ کر بھی اس سے محبت نہ کر سکا۔۔ زبردستی رشتے جوڑنے سے دل نہیں جڑا کرتے۔ اس کے رویے میں اتنی تبدیلی ضرور آئی تھی کہ وہ اسکا تھوڑا بہت خیال رکھنے لگا تھا اور عائشہ کے لئے یہی کافی تھا۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ہان بھائی جلدی کریں انا آپی کی كالز آ رہی ہیں۔ دیر ہو رہی ہے۔۔ اعینہ لاؤنج میں کھڑی جہان کو کب سے آوازیں دے رہی تھی جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔


آج جہان کے چچا زاد بھائی کی مہندی تھی۔ مہندی کا انتظام ان کی حویلی میں کیا گیا تھا۔ انا پہلے ہی حنا اور وقار کے ساتھ حویلی جا چکی تھی۔ عین اور جہان نے مہندی سے کچھ وقت پہلے حویلی پہنچنا تھا۔


ہان بھائی ۔۔۔۔؟؟

آگیا آگیا تم نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا ہے بندری۔۔

وائٹ پینٹ شرٹ اور جوگرز میں ملبوس ہاتھ میں کپڑوں سے بھرا بیگ پکڑے وہ عجلت میں کمرے سے نکلا۔۔ نانو سے مل لیا۔۔؟


جی ان کو بتا آئی ہوں میں،، مل بھی لیا ہے۔ اپنی گھٹنوں تک آتی وائٹ فراک کو سیدھا کرتے اس نے جہان کا ہاتھ تھاما اور اس کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر حویلی کے لئے روانہ ہو گئی۔


آئمہ نے جہان کے اصرار پر بھی جانے سے معذرت کرلی تھی۔ ان کی طبیعت کچھ ناساز تھی ۔۔ جہان نے بھی جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا لیکن آئمہ نے کہا کہ اب اتنی بھی خراب نہیں۔ اور کسی کو تو جانا ہے نہ ۔۔ چار و ناچار وہ جانے کے لئے مان گیا۔ انا نے عین کو ساتھ لانے کی خاص تاكید کی تھی لہٰذا وہ بھی اس کے ساتھ جا رہی تھی۔


تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں حویلی پہنچے۔ شاندار حویلی اپنی پوری آب و تاب سے سجی، روشنیوں میں نہائی آنے والوں کو خوشآمدید کہہ رہی تھی۔۔


جہان مہمانوں سے بھری حویلی میں بمشکل جگہ بناتا عین کا ہاتھ پکڑے چچا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔


رخسانہ چچی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ملازم کی ہمراہی میں دوسری منزل پر موجود قدرے پرسکون کمرے میں بھیج دیا۔۔


ایک قطار میں بنے کمرے بلکل ایک جیسے لگتے تھے۔ ملازم کونے والے کمرے میں سامان رکھ کر چلا گیا۔


بھائی آئی ایم سو اکسائیٹڈ ۔۔ کتنا مزہ آۓ گا،، ارے انا آپی سے تو ملے ہی نہیں۔۔

اتنے میں انا انہیں ڈھونڈتی ہوئی یہیں آ گئی۔ السلام علیکم ! آخر کار آپ ہی گئے۔ اور جہان کا وعلیکم السلام سنے بغیر ہی عین کا ہاتھ پکڑتی جلدی میں کمرے سے باہر نکل گئی۔۔


اسکو جہان سے ایک کمرہ چھوڑ کر اگلا کمرہ ملا تھا۔۔ درمیان والا کمرہ ڈریسنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔۔


عین چلو جلدی سے کپڑے بدلو۔ مہمان آ بھی گئے ہیں اور ہم ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ اس نے سوچا پہلے اسے تیار کر لے پھر آرام سے خود تیار ہو جائے گی۔۔


عین بلیک لہنگے کو بمشکل سنبهالتی باتھروم کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ آپی یہ دیکھیں پاؤں میں آرہا ہے۔ میں تو گر جاؤں گی اس میں۔


ادھر آؤ میں ٹھیک کرتی ہوں۔ انا نے اسکا لہنگا اونچا کر کے پنز لگا دیں اور اسکی گولڈن کرتی کی ہک بند کی۔۔


پھر جلدی ہاتھ چلاتے اسے لائٹ سا میکپ کیا۔ کاجل کی باریک لكیر سے عین کی نیلی آنکھیں اور بھی خوبصورت لگنے لگیں۔ اسکے کالے لمبے بالوں کو سٹائلش سے جوڑے میں باندھ کر پھولوں سے بنی نازک بالیاں اس کے کان میں ڈال دیں۔


انا نے پیچھے ہٹ کر ایک بھرپور نظر سے اسکا سر تا پیر جائزہ لیا تو اسے عین پر بے انتہا پیار آیا۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔


انا نے آگے بڑھ کر اسکے گالوں کو چوم لیا۔ یار کتنی پیاری لگ رہی ہو تم۔ میں لڑکا ہوتی تو ضرور تم پر دل ہار جاتی۔ عین بلش کرنے لگی۔


چلو اب تم نیچے جاؤ۔ میں تھوڑی دیر میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ انا نے اس کا دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے کہا۔


عین کے جانے کے بعد انا نے اپنا میرون رنگ کا نیٹ کا لہنگا کرتی پکڑی اور ساتھ والے کمرے میں جو ڈریسنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔

لائٹ بند کر کے اس نے میرون پاؤں کو چھوتا لہنگا زیب تن کیا۔ چھوٹی سی بمشکل کمر تک آتی بند کُرتی پہن کر اس نے کمر پر موجود زپ بند کرنی چاہی لیکن زپ بند ہونے کا نام ھی نہیں لے رہی تھی۔

غصے میں اس نے زور سے زپ کھنچی جو ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ بلکل اسی وقت جہان ڈریسنگ روم سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے سے باہر نکلا۔ کمرے میں اندھیرا دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا۔

اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر کے انا اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔ جہان اپنی ہینگ کی ہوئی قمیض پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو کسی نرم وجود سے ٹکرایا۔

توازن کھو کر وہ انا سمیت زمین پر جا گرا۔ جلدی سے اٹھ کر اس نے لائٹ جلائی۔ جہان کو اپنے سامنے بغیر شرٹ کے دیکھ کر انا کا شرم سے برا حال ہوگیا۔۔

وہ برا پھنسی تھی۔۔ ٹوٹی زپ کے ساتھ وہ کمرے سے باہر بھی نہیں جا سکتی تھی۔ جہان نے فوراً قمیض پہنی اور دوپٹے سے بےنیاز زمین پر گری انا کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس نے خود پر کس طرح ضبط کیا تھا یہ بس وہی جانتا تھا۔

انا نے اس کا ہاتھ دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔ وہاٹ ہیپنڈ ؟؟ تم ٹھیک ہو ؟؟ انا نے بےبسی سے اسے دیکھا۔

میری شرٹ کی زپ ٹوٹ گئی ہے۔ آنکھوں میں آنسو لئے اس نے ہلكی سی آواز میں کہا۔ جہان نے مسکراہٹ دبائی۔

اب کیا ؟ کوئی دوسرا ڈریس لا دوں؟ انا نے نفی میں سر ہلایا۔

اگر آپ کسی کو بلا دیں تو وہ میری ہیلپ کر دے۔

انا سب اپنی تیاری میں مصروف ہیں۔ اچھا اٹھو تو صحیح۔۔ تمہارے پاس کوئی پن ہے؟؟

جی وہاں اس باكس میں ہیں۔ آپ کیا کرنے لگے ہیں؟؟

جہان نے دو سیفٹی پنز پکڑیں اور انا کے بلکل سامنے کھڑا ہو گیا۔ انا کو اس سے بے انتہا شرم محسوس ہوئی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ یہاں سے غائب هو جاتی۔

جہان نے انا کو کمر سے پکڑ کر پاس کیا اور بیک گلے کو پنز لگا کر بند کر دیا۔ دونوں کے دل بے تہاشہ دھڑک رہے تھے۔

جہان کے پیچھے ہٹتے ہی انا بھاگتی ہوئی ڈریسنگ روم سے باہر نکل گئی۔ جہان نے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور گہرے سانس لینے لگا۔ یہ لڑکی تو ابھی سے اسکا نشہ بنتی جارہی تھی۔

اپنے کمرے میں آ کر انا نے جلدی سے دروازہ بند کیا۔۔ اف ڈوب مرو انا تم۔ کیا ضرورت تھی وہاں بت بن کر کھڑے ہونے کی اور جہان بھائی کی نظریں اف،، کس طرح دیکھ رہے تھے وہ۔

جھرجھری لے کر وه جلدی سے تیار ہونے لگی۔ براۓ نام میک اپ کر کے اس نے اپنے بھورے بال سٹریٹ کر کے کمر پر ڈالے اور میرون نیٹ کا دوپٹہ گلے میں ڈال لیا۔۔

کانوں میں ایئررنگز ڈال کر وہ اپنے کمرے کا دروازہ لاک کر کے ہال کی طرف بڑھ گئی جہاں فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا۔

مہندی کا فنکشن رات دیر تک چلتا رہا۔ ڈانس گانے شور ہلا گُلا غرض ہر وہ چیز جو ایسے فنکشنز کا خاصہ ہوتی ہے سرانجام ہو چکی تھی۔ بے حیائی اپنے عروج پر تھی۔ شیطان کو ایسی محافل میں "مہمانِ خصوصی" کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔


دو بجے کے قریب سب تھک ہار کر سونے چلے گئے۔ انا بھی اپنا لہنگا سنبھالے عین کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔


اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود اسکی کزنز اسے ڈانس کے لئے اپنے ساتھ گھسیٹ چکی تھیں لہٰذا اب اسکا انگ انگ درد کر رہا تھا۔


کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اسے نماز کا خیال آیا۔ بھئی شادی بياه ایک طرف،، نماز بھی تو ادا کرنی ہوتی ہے نہ،، شاید اس طرح ہم اپنے ضمیر کو مطمئن کرتے ہیں۔


وہ اتنا تھک چکی تھی کہ نماز پڑھے بغیر ہی سو گئی۔ ابھی اسے سوۓ ہوئے گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اس کے چہرے پر بے چینی کے تاثرات نمودار ہوئے۔ لمحے میں وه پسینے میں نہا گئی۔۔۔


اس رات انا نے ایک خواب دیکھا جو اسے ساری زندگی کے لئے بدل کر رکھ دینے والا تھا،،،

خواب کچھ یوں تھا:

وہ ایک نہ معلوم سنسان سی جگہ پر چلتی جا رہی تھی۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ اس سنسان جگہ پر اکیلی نہیں تھی۔ اسکے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ ابھر رہی تھی۔۔۔


چلتے چلتے اس نے گردن موڑی،،! کسی کو موجود نہ پا کر اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ کوئی نہ نظر آنے کے باوجود وہاں موجود تھا۔۔۔


اس نے انا کو آہستہ سے آگے کی طرف دھکیلا،،، بلاارادہ اس کے قدم ایک سمت کی جانب بڑھنے لگے۔ آگے جا کر ایک بہت گہری کھائی نے اس کا استقبال کیا۔۔۔۔


تب پہلی دفعہ اسے محسوس ہوا کہ وہ بہت اونچائی پر کھڑی تھی۔ اس مقام سے ایسی ویرانی ٹپک رہی تھی کہ اسے بےاختیار خوف محسوس ہوا۔۔۔


اسکا میرون لہنگا ہوا سے اڑنے لگا،،، تب اس نے اپنے کپڑوں پر غور کیا،،، اسکا پیٹ برهنہ تھا۔ چھوٹی سی کُرتی نے مشکل سے اسکے جسم کو ڈهانپ رکھا تھا۔۔۔


اچانک کسی غیبی طاقت نے اسے دهکہ دیا۔ ایک دل دہلا دینے والی چیخ کے ساتھ وہ کھائی میں گرتی چلی گئی۔ جیسے ہی وہ زمین پر گری اسکا سر پھٹ گیا اور کچھ ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ خون فوارے کی صورت اس کے سر سے نکلنے لگا لیکن اس سب کے باوجود اسکے حواس قائم تھے۔۔۔


اچانک اس کے سامنے کالے چغے میں دو انتہائی خوفناک مرد نمودار ہوئے۔ انکے چہرے سے وحشت ٹپک رہی تھی۔۔۔


ایک مرد نے گرم سلاخ اٹھائی اور اسے انا کی برہنہ کمر پر داغ دیا عین اسی مقام جہاں، جہان نے چھوا تھا،،، وه ایک کے بعد ایک سلاخ سے اسکی کمر کو داغنے لگے،،، انا کی دلخراش چیخیں اس ویرانے میں گونجنے لگیں۔


اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ پسینے میں نہائی وہ خوف سے لرزتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ اسکا دل بےتہاشہ دھڑک رہا تھا۔


ابھی وہ اس سے سنبهلی نہ تھی کہ رات کے سناٹے میں عجیب سی آواز گونجی۔ انا نے خوف سے کمرے کا چاروں طرف سے جائزہ لیا۔۔۔


ہلکی روشنی میں اسے عجیب سے ہیولے دکھائی دینے لگے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے پاؤں کی جانب سے چادر اٹھائی اور سر تک اوڑھ کر چت لیٹ گئی۔۔۔


آہستہ آہستہ وہ آوازیں بڑھتی گئیں۔ اچانک ایسی آواز ابھری جیسے کوئی پانی میں گرا ہو۔۔۔ انا خوف سے رونے لگی۔۔ مم مجھے معاف کر دیں اللّه تعالیٰ،، مم میں آئندہ کسی نامحرم کے پاس نہیں جاؤں گی،، میری مدد کریں،، وہ گرگرانے لگی۔۔۔


💕جو لوٹ آئیں تو کچھ کہنا نہیں

بس دیکھنا انہیں غور سے 💕

💕جنہیں راستوں میں خبر ہوئی

کہ یہ راستہ کوئی اور تھا 💕


تھوڑی دیر بعد آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ اس کا خوف زائل ہوگیا اور وہ ڈرتی ڈرتی نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔

اور اللّه پاک فرماتے ہیں:


وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ

(AND HE IS WITH YOU WHERE EVER YOU ARE \~ QURAN 57:4)


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ڈلیوری کے دن قریب تھے۔ عدیل شاہ اور میر نے عائشہ کو ہاتھ کا چھالا بنا رکھا تھا۔۔ اسے کسی کام کو ہاتھ لگانے نہ دیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خود کر لیتے۔ وہ جیسے اپنی پرانی روٹین میں واپس لوٹ گئے تھے۔


رات کا وقت تھا۔ تکلیف کے احساس سے عائشہ کی آنکھ کھلی۔۔

شاہ ویر ۔۔۔۔؟؟ اٹھیں شاہ ویر ۔۔ عائشہ انتہائی تکلیف کی حالت میں شاہ ویر کا بازو ہلانے لگی۔


شاہ ویر نے بمشکل درد کرتی آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر اسے دیکھا جو بہت تکلیف میں لگ رہی تھی۔ شاہ ویر بہت درد ہورہا ہے۔۔۔ پیٹ پر ہاتھ رکھے وہ سسکنے لگی۔۔۔


شاہ ویر نے لمحے کی دیر کئے بغیر اسے سہارا دے کر اٹھایا اور گاڑی میں بٹھا کر قریبی ہسپتال میں لے گیا جہاں ڈاکٹر نے اسے بیٹا پیدا ہونے کی مبارکباد دی۔۔۔


شاہ ویر عجیب سی کیفیت میں گھیر گیا۔ عدیل شاہ کو فون پر مطلع کر کے وہ اپنے بیٹے کو دیکھے بغیر ہی ہسپتال سے باہر نکل گیا۔ اس وقت وہ ساری دنیا سے خفا لگتا تھا۔۔


عدیل شاہ، شاہ میر کے ہمراہ ہسپتال میں داخل ہوئے۔ نرس سے پوچھ کر وہ مطلوبہ وارڈ میں گئے جہاں ننھے سا مہمان دنیا جہاں سے بےخبر میٹھی نیند سو رہا تھا۔۔


فرطِ مسرت سے انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پہلے انہوں نے عائشہ کے سر پر پیار دیا اور بیٹے کی مبارکباد دی جسے اس نے ہلکا سا مسکراتے قبول کیا۔۔۔


پھر انہوں نے اپنے ننھے سے پوتے کا منہ چوما۔ میر نے بھی اس کے دونوں گال چومے،، میر کی یہ حرکت لاڈ صاحب کو پسند نہیں آئی،، نتیجتًا وہ گلا پھاڑ کر رونے لگا۔۔۔


عدیل شاہ نے جلدی سے اسے گود میں بھر لیا۔ روتا بچہ اچانک خاموش ھوگیا اور ٹکر ٹکر انہیں دیکھنے لگا۔ اسکی سنہری کانچ جیسی آنکھیں تھیں۔ تیکھے نقوش اور اجلی رنگت شاہ ویر پر گئی تھی،، عائشہ سے اس نے بس آنکھوں کا رنگ چُرایا تھا۔


بابا یہ کیا بات ہوئی مجھے دیکھ کر یہ رونے لگ گیا۔ میر نے منہ بناتے شکوہ کیا۔۔

تم ہو ہی اتنے خوفناک کہ بیچارہ ڈر گیا۔۔۔! عدیل شاہ نے شرارت سے کہا تو بچہ ذرا سا مسکرایا۔۔۔


دیکھا بابا یہ کیسے مسکرا رہا ہے میری انسلٹ پر۔ اس نے تو ابھی سے مجھ سے مقابلے کرنے شروع کر دیے۔ اب میرا کیا ہوگا کالیا۔۔۔؟


عدیل شاہ نے اس کے سر پر چپت لگائی۔۔

ویر کہاں ہے ۔۔؟ یاد آنے پر انہوں نے عائشہ سے پوچھا جسنے لاعلمی سے انہیں دیکھا۔ مجھے جب سے ہوش آیا ہے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ یہ سن کر عدیل شاہ کو تشویش نے آ گھیرا۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بارات کی صبح انا جلد ہی بیدار ہو گئی۔ وہ رات کو آنے والے خواب اور واقعے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔


گم صم سی وہ اپنے آج کے لیے ہینگ کئے کپڑوں کو دیکھنے لگی۔ بلیک خوبصورت ریشمی

ساڑهی جو اس نے بہت شوق سے بنوائی تھی۔


بہتی آنکھوں کے ساتھ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ اس نے ساتھ لائے کپڑوں میں سے سمپل سی بلیک کپری شرٹ نکالی اور پریس کروانے کے لئے ملازمہ کو دے دیا۔


بی بی جی کل تُسی بہُت وَديا ڈانس کیتا سی۔ انا گم صم سی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ بغیر کوئی جواب دئے وہ خوش گپیوں میں مصروف مہمانوں کی طرف بڑھ گئی۔


رخسانہ چچی نے اسے دیکھا تو آواز دی۔۔ انا ٹھیک سے سو گئی تم ؟؟ انا کو کیا کچھ نہیں یاد آیا تھا۔

جی چچی ۔۔ مختصر سا جواب دے کر وہ قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔

چلو اچھی بات ہے۔ تم یہی بیٹھو، تھوڑی دیر تک ناشتہ آ جائے گا۔ اعینہ اور جہان نہیں اٹھے ابھی۔۔۔؟؟

عین تو ابھی میرے والے کمرے میں سو رہی ہے۔ ہان بھائی کا نہیں پتہ۔

چلو میں دیکھتی ہوں۔ عجلت میں کہہ کر وہ باقی مہمانوں کو دیکھنے لگیں۔


بارات دوپہر کی تھی لہٰذا ناشتے کے بعد سب تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔عین کو تیار کرنے کے بعد انا خود بھی جلدی تیار ہو گئی۔


آج وہ کل کی نسبت بہت سادہ لگ رہی تھی۔ اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ بلیک سمپل لیکن خوبصورت کپری اور پورے بازوؤں کی شرٹ پر لائٹ براؤن سا میک اپ کیا گیا تھا۔


آئینے میں دیکھتے اس نے اپنے بالوں کا جوڑا بنایا اور سوٹ کے بلیک دوپٹے کا حجاب کرنے لگی۔


انا آپی آپ حجاب کیوں کرنے لگی ہیں۔۔؟ اتنی پیاری تو لگ رہی ہیں۔ پہلے آپ نے ساڑهی پہننے سے منع کیا اور اب یہ۔۔


بےبی پنک نیٹ کے پھولے شارٹ فراک میں لائٹ پنک میک اپ کئے اور کالے لمبے گھنگھریالے بالوں کو ماتھے سے ہلکا سا موڑ کر کمر پر کھلا چھوڑے وہ تیز تیز بولتی انا سے استفسار کرنے لگی۔


انا کے حلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا۔ اتنا آسان ہوتا ہے کیا اپنے آپ کو بدلنا۔ اور پھر لوگ بغیر سوچے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ سامنے والے کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔۔


عین میں نے حجاب شروع کردیا ہے۔۔ نو مور کویسچنز۔۔ ساتھ ہی اسے مزید بولنے سے منع کر دیا۔


اوکے میں ہان بھائی کو دیکھتی ہوں وہ تیار ہوئے یا نہیں۔ نیلی آنکھوں سے اسے دیکھتی سنجیدگی سے اسے کہہ کر اس نے جہان کے کمرے کا رخ کیا۔۔


ٹھک ٹھک۔۔۔ ہان بھائی میں آ جاؤں۔۔۔؟ دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹا کر اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔۔

آ جاؤ عین،،

اس نے اندر آ کر جہان کو دیکھا جو میرون چیک پنٹ کوٹ میں تیار بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔


گھنے بالوں کو سنوار کر اس نے عین کو دیکھا جو اسکی لائی فراک میں بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔ پیاری لگ رہی ہو۔ جہان سے اسکا گال کھینچا تو عین نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


جہان نے دلچسپی سے اس کے تاثرات دیکھے اور محظوظ ہو کر ہنس پڑا۔۔ انا تیار ہو گئی ۔۔۔؟؟ جی بھائی اور آپ کو پتہ انہوں نے آج بلکل سمپل ڈریس پہنا ہے اور حجاب بھی کیا ہے۔


جہان کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ کل انا کو سب کی نظروں کا مرکز بنا دیکھ کر اسکا دل چاہا تھا کہ اسے کہیں چھپا دے۔


جلدی کا شور مچاتے سب میرج ہال کی طرف روانہ ہو گئے۔ انا سارے فنکشن میں بہت بھجی بھجی سی رہی۔ ہر کوئی بہت حیرت سے اس کے پاس آتا اور حجاب کے بارے میں دريافت کرتا۔


انا کو بہت حیرت ہو رہی تھی۔ جب وہ بہت تیار ہو کر نامحرموں کے سامنے جاتی تھی تب کسی نے کچھ نہ کہا اور اب اس کے حجاب پر بولنے آ رہے تھے۔


انا شادی پر بھی حجاب۔۔؟ شادی پر حجاب کون لیتا۔۔۔؟ اور ایسے بہت سارے سوال۔۔ بد دل ہو کر وہ ہال کے قدرے تنہا کونے میں آ گئی۔


تھوڑی دیر بعد اسے جہان اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ انا کو مزید کوفت ہوئی۔

جہان اس کے سامنے یوں کھڑا ہوگیا کہ وہ اس کے چوڑے وجود کے آگے چھپ سی گئی۔ اس نے نرم نگاہوں سے انا کو دیکھا جو سادگی میں اس کے دل کو اور زیادہ بھا رہی تھی۔


انا ۔۔۔۔؟

جی ہان بھائی کوئی کام تھا آپ کو ؟؟ اس سے فاصلے پر ہوتے اسنے نظر جھکا کر جواب دیا۔


مجھ سے شادی کرو گی۔۔؟؟

انا نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔ آپ آپکو شرم نہیں آتی اس طرح کی بات کرتے۔۔؟ میں آپ کو بھائی کہتی رہی اور آپ ایسی سوچ رکھتے ہیں میرے بارے میں۔ آئندہ اپنی شکل بھی نہ دکھائیے گا مجھے۔ غصے سے کانپتے اس نے کہا اور جہان کی ایک طرف سے گزر کر جانے لگی۔

پیار کرتا ہوں میں تم سے ڈیم اٹ۔۔ کوئی گناہ تو نہیں کیا جو تم ایسے بی ہیو کر رہی ہو۔۔؟ انا کو بازو سے پکڑ کر دیوار سے لگاتے اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ آخر یہ لڑکی اس کے جذبات کیوں نہیں سمجھ رہی تھی۔

پیچھے ہٹیں۔۔۔ میں نے کہا پیچھے ہٹیں۔۔ اسکے بازو کو جھٹکتی وہ چلائی۔۔ شور ہونے کی وجہ سے کوئی بھی انکی آواز نہ سن سکا۔

جہان کی گرفت جیسے ہی ڈھیلی پڑی انا نے پیچھے ہٹتے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔۔

آئندہ میرے قریب آنے کی ہمت بھی مت کریے گا۔ بہتی آنکھوں سے وه اس کے منہ پر غرائی اور اپنے آنسو پونچھتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

جہان منہ پر ہاتھ رکھے ساکت کھڑا رہ گیا۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا اور داڑھی میں جذب ہوگیا۔۔

میری آنکھوں میں اک چبھن سی ہے۔۔۔

ہاں کسی خواب کا تنکا ہوگا۔۔۔۔۔!

انا میری بات سنو۔۔۔ اپنے درد کو نظرانداز کرتے وہ اس کے پیچھے لپكا۔ محبّت سب سے پہلے عزتِ نفس ختم کرتی ہے۔

لیڈیز واشروم میں داخل ہوتی انا اس کی آواز پر رک گئی۔۔ اس کے دل میں درد اٹھا۔۔ وہ سب جانتی تھی کہ جہان اسے پسند کرتا ہے۔ لیکن وہ کیا کرتی جو خود کسی اور کی محبّت میں مبتلا پل پل مر رہی تھی وہ کسی اور کو کیا دے سکتی تھی۔۔

انا تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔۔ میری محبّت بہت پاک ہے۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔ پلیز مجھے غلط مت سمجھو۔

انا کو سینے میں شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ ہاں وہ مجھ سے نکاح ہی تو نہیں کرنا چاہتا تھا اور میرے سامنے کھڑا یہ مرد جو مجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہے میں اسے کچھ نہی دے سکتی افسوس۔۔

ہان بھائی۔۔ میں ۔ کسی ۔ اور ۔ سے ۔ محبّت ۔ کرتی ۔ ہوں۔ میں ۔ آپ ۔ کو ۔ کچھ ۔ نہیں ۔ دے ۔سکتی۔ میرے ۔ جیسی ۔ محبت ۔ میں۔ ٹھکرائی ۔ لڑکی ۔ کسی ۔کو کچھ ۔ نہیں ۔ دے سکتی۔

اس نے بلکتے ہوئے کہا تو جہان ساکت رہ گیا۔ اس کے دل کی دھڑکن سست ہو گئی۔ دو آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے۔ آخری نظر اپنی ناکام محبّت پر ڈالتے وہ تیز قدموں سے ہال سے نکل گیا۔

آئی ایم سوری ہان بھائی میں آپ کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ لیکن میں کیا کروں ۔ آپ مجھ جیسی لڑکی ڈیزرو نہیں کرتے۔ بلکتی بلکتی وہ واشروم میں داخل ہوئی۔

وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکی نے اسکی حالت دیکھی تو پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔۔ کیا آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟ انا نے اثبات میں سر ہلایا اور واش بیسن پر جھکی پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔

جہان آفس کے کام کا بہانہ کر کے عین کو لے کر واپسی کے لیے روانہ ہوگیا۔۔ انا کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے حنا اسے ساتھ لیے حویلی چلی گئیں۔

میر کو عائشہ کے پاس چھوڑ کے عدیل شاہ گھر آ گئے۔ کیوں کہ گھر میں اور کوئی عورت نہیں تھی اسلئے عدیل شاہ جلد از جلد آیا کا بندوبست کرنا چاہتے تھے۔۔


انہیں ویر پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا۔ کتنا غیرذمہ دار تھا وہ۔ ویر انہیں گھر کے لاؤنج میں ہی ٹہلتا ہوا مل گیا۔ ویر یہ کیا حرکت ہے؟؟ تمھیں اس وقت اپنی بیوی اور بیٹے کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ اپنی اس حرکت سے تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمھیں ان کی کوئی پرواہ نہیں۔


ویر جو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا عدیل شاہ کے لفظوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ جو اتنے دن سے اندر ہی اندر جل رہا تھا آخر کار اس کا ضبط جواب دے گیا۔۔


آخر آپ چاھتے کیا ہیں مجھ سے اب اور کیا چاھتے ہیں،، آپ کی بات مان کر کرلی میں نے شادی،، اب کیا اس کے پیر دھو کے پیوں۔ تنگ آ گیا ہوں میں یہ ڈرامہ کرتے کرتے۔۔ مجھے تو آپ نے انسان سمجھا ہی نہیں۔ خیر مجھے تو آپ نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔ ویر غصہ کرتا رہتا ہے،، ویر بدتمیز ہے،، ویر یہ ہے ویر وہ ہے،، یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ویر ایسا کیوں ہے۔ بس آپ کی بیوی نہیں مری تھی،، میری ماں تھی وہ۔ ان کے بعد کس طرح فراموش کر دیا آپ نے مجھے۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے کس قدر اکیلا ہو گیا تھا میں۔ تنگ آگیا ہوں میں سب کی باتیں سن سن کے۔ معاف کر دیں مجھے آپ سب لوگ۔۔ انکے سامنے ہاتھ جوڑ کے وہ غصے سے واک آؤٹ کر گیا۔۔۔


پیچھے عدیل شاہ کے چہرے پر افسوس ابھرا۔ کیا وہ اس کے ساتھ اتنی زیادتی کر بیٹھے تھے۔۔۔؟


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اگلے دن عائشہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ عدیل شاہ نے ڈرائیور کو میر اور عائشہ کو لانے کے لئے روانہ کر دیا۔۔


آیا کا بندوبست ہو چکا تھا۔ مسلسل سر درد سے تنگ آ کر انہوں نے چولہے پر چائے کا پانی چڑھا دیا۔ کچن سے باہر آ کر انہوں نے افسوس سے ویر کے کمرے کے دروازے کو دیکھا جو کل رات سے بند تھا۔۔۔


ویر بغیر کسی سے بات کئے اپنے آپکو کمرے میں بند کر چکا تھا۔ عدیل شاہ کے لاکھ بلانے پر بھی باہر نہ نکلا۔


چند سیكنڈ ہی گزرے تھے کہ ڈرائیور ہانپتا ہوا انہیں اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ کیا ہوا خان تم اتنا گھبراۓ ہوئے کیوں ہو؟ تمھیں تو بی بی کو لینے بھیجا تھا۔ سب خیریت تو ہے۔۔؟


صاحب وہ۔۔ وہ چھوٹے صاحب اور بی بی جی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ شاہ میر صاحب چھوٹے صاحب کو پکڑے بی بی جی کے ساتھ سڑک پار کر کے گاڑی تک آ رہے تھے کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں ٹکر مار دی۔۔


عدیل شاہ کے دل کو دھکا لگا۔۔ انہیں جیسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ ویر کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس نے طیش کے عالم میں ڈرائیور کا گریبان پکڑ لیا۔۔


کیا بکواس کر رہے ہو۔۔ کہاں ہیں وہ تینوں؟؟ ڈرائیور گھگھیا گیا۔۔ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر میں انہیں اسی ہسپتال پہنچا دیا۔۔


جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ کر وہ عدیل شاہ کو ساتھ لیے ہسپتال کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک تیز کر لی۔


ضبط سے اسکا چہرہ سرخ پر چکا تھا۔ عدیل شاہ انکی سلامتی کی دعا کرنے لگے۔۔ ہسپتال پہنچ کر ویر آندھی کی طرح اندر داخل ہوا،، راستے میں وہ کئی لوگوں سے ٹکرایا،، عدیل شاہ ان سے معذرت کرتے تیزی سے اس کے پیچھے ہو لیے۔


ایکسکیوز می یہاں شاہ میر اور عائشہ نامی پیشنٹ کو لایا گیا ہے۔ وہ کس روم میں ہیں۔۔؟؟ کاؤنٹر پر پہنچ کر اس نے عجلت میں دريافت کیا۔۔


وہ مطلوبہ کمرے کے باہر پہنچے تو ڈاکٹر باہر نکلتا دکھائی دیا۔ آپ شاہ میر نامی پیشنٹ کے ساتھ ہیں۔۔؟


جی ان کی کنڈیشن کیسی ہے اب؟ عدیل شاہ نے بے چینی سے پوچھا تو ڈاکٹر نے ترحم بھری نگاہ سے انہیں دیکھا۔


شاہ میر کافی زخمی ہوا ہے۔ اسکی ٹانگ سے بہت خون بہ چکا تھا لیکن اب اسکی حالت قدرے بہتر ہے،، خطرے والی کوئی بات نہیں۔۔


ڈاکٹر میرے بیٹے کے ساتھ میری بہو اور پوتا بھی تھا۔۔۔وہ کیسے ہیں۔۔۔؟

بےبی بلکل ٹھیک ہے،، محض چند ہلکی سی خراشیں آئی ہیں۔۔

اور میری بہو۔۔۔؟ ڈاکٹر نے ایک سیكنڈ کے لیے انہیں دیکھا۔۔ آئی ایم سوری،، شی از نو مور۔۔۔۔


شاہ ویر ساکت کھڑا رہ گیا۔۔ زندگی نے اس کے چہرے پر بھرپور تمانچہ مارا تھا۔۔ عدیل شاہ کے آنسو روانی سے بہنے لگے۔۔ وہ جلدی سے کمرے میں داخل ہوئے جہاں میر پٹیوں میں جکڑا پڑا تھا۔۔


اپنے جان سے پیارے معصوم بیٹے کی حالت پر ان کا دل تڑپ گیا۔۔ ایكا ایكی انکی نگاہ راحم پر پڑی۔۔۔ کتنی خوشی سے انہوں نے اپنے پوتے کا نام تفویض کیا تھا۔۔


اسکی محرومی پر انکا دل بھر آیا۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے تھام کر سینے سے لگا لیا۔۔۔ ویر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا۔۔ عدیل شاہ نے فوراً اسکی طرف دیکھا۔۔ اس کی آنکھوں میں ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔۔۔


آگے بڑھ کر انہوں نے راحم کو ویر *کے حوالے کر* دیا۔۔۔ یہ تمہارا بیٹا ہے ویر،،، آج اسکی ماں بھی چلی گئی جیسے تمہاری ماں چلی گئی تھی،، تم اس کے ساتھ وہ سب نہ کرنا جو انجانے میں مجھ سے سرزد ہوگیا۔۔۔


ویر کی آنکھوں سے دو آنسو راحم کے چہرے پر گرے۔۔ راحم معصومیت سے اسے دیکھنے لگا،،، ویر نے جھک کر اسکا ماتھا چوم لیا۔۔۔


جونہی عدیل شاہ کے رشتے داروں تک یہ خبر پہنچی وہ ان کے گھر جمع ہونا شروع ہو گئے،، عدیل شاہ کی تو جیسے کمر ٹوٹ گئی تھی۔۔۔


شاہ ویر راحم کو آیا کے حوالے کرتے خاموشی سے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ میر بھی بستر پر پڑا تھا۔۔ انہیں عائشہ کے چلے جانے کا بہت غم تھا۔ ان کے کچھ عزیزوں نے ہی کفن دفن کا انتظام کیا۔۔۔


آخرکار وہ وقت بھی آ گیا جب ميت کو دفن کیا جانا تھا۔۔ میر کو جونہی ہوش آیا تو اس نے عدیل شاہ کو پکارا۔۔۔ لیکن کسی کو ہوش ہوتا تو جواب آتا۔۔۔


وہ ابھی چلنے کے قابل نہیں تھا۔۔ اسکے بار بار پکارنے پر کسی نے اندر جھانکا۔۔۔

باہر سے آوازیں کیوں آرہی ہیں اتنی۔۔ ؟؟میرے بابا کہاں ہیں ؟؟


بیٹا عدیل صاحب کی بہو کا انتقال ہو گیا ہے،،، میت کو دفنانے جا رہے ہیں۔۔۔ یہ سن کر میر اونچی آواز میں رونے لگا،، مجھے باہر لے چلو پلیز۔۔۔ بلکتے ہوئے اس نے کہا تو وہ شخص اسے سہارا دے کر میت کے پاس لے گیا۔۔۔


بابا۔۔۔؟؟ میر نے روتے ہوئے پکارا تو عدیل شاہ نے اٹھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔۔ بس بیٹا ایسے نہیں روتے،،، میت کو تکلیف ہوگی۔۔۔ اسے چپ کروا کر انہوں نے کسی کو ویر کو بلانے بھیجا۔۔۔


سرخ انگارا آنکھوں اور ملگجے سے حلیے میں ویر آیا تو میت کو کاندھا دے کر اسکی منزل تک پہنچا دیا گیا۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ہان بھائی ۔۔۔۔؟ عین نے اندھیرے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے جہان کو پکارا مگر جواب ندارد۔۔۔


اندازے سے اس نے کمرے کی لائٹ جلائی تو جہان ایک کونے میں زمین پر گھٹنوں میں سر دیا بیٹھا نظر آیا۔۔۔


عین اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔ ہان بھائی آپ ایسے کیوں بیٹھے ہیں۔۔۔؟ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟


عین جاؤ یہاں سے۔۔۔ جہان نے سر اٹھائے بغیر بھاری آواز میں کہا۔۔ اسکی بھاری آواز اس کے رونے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔


ہان بھائی کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔۔ پلیز مجھے بتائیں۔۔۔ مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ ۔عین نے روہانسی ہو کر جہان کے بازو پر ہاتھ رکھا۔۔


جاؤ یہاں سے تمھیں سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔؟؟ وہ سر اٹھاۓ داڑھا تو عین ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔۔ اسکی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہو رہی تھیں۔۔


جا کیوں نہی رہی نکلو میرے کمرے سے اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش بھی مت کرنا،، گیٹ آؤٹ۔۔۔


عین روتی ہوئی کمرے سے نکلی اور آئمہ سے ٹکرا گئی جو جہان کی آواز سن کر آئی تھیں۔۔

وہ جب سے شادی سے واپس آیا تھا تب سے انہیں وہ عجیب لگا تھا۔۔۔ ان کے پوچھنے پر اس نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا دیا لیکن آئمہ کی تسلی نہیں ہوئی۔۔۔ وہ جانتی تھیں ضرور کچھ ہوا ہے۔۔۔


صبح سے وہ کمرے سے نہیں نکلا تھا۔۔ نانو میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے،، پلیز کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔۔ آئمہ اسے ناشتے کا پوچھنے گئیں تو جہان نے سنجیدگی سے کہا۔۔


اسکا موڈ دیکھ کر انہوں نے عین کو بھی اسے تنگ کرنے سے منع کردیا مبادا وہ اسے جھاڑ ہی نہ پلا دے اور یہی ہوا تھا۔۔۔


کیا ہوا عین۔۔؟ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟

عین پرشکوہ نظروں سے انہیں دیکھتی بھاگتی ہوئی آئمہ اور اپنے مشترکہ کمرے میں چلی گئی۔۔۔


آئمہ پریشانی سے جہان کے کمرے میں داخل ہوئیں جہاں وہ زمین پر اکڑوں بیٹھا آنکھوں میں آنسو لیے ان کا دل چیر گیا۔۔


ہان میرے بچے یہ کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے۔۔۔؟ تڑپ کر وہ اسکے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئیں اور اسے سینے سے لگا لیا۔۔۔


ہان میری جان کچھ بتاؤ تو کیا ہوا ہے،، مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔ اپنے لاڈلے بیٹے جیسے نواسے کی ایسی حالت پر انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔


جہان ان کی گود میں سر رکھ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔۔ آئمہ اسکے گرد ہاتھ پھیلاۓ خود بھی رونے لگیں،، ہان میرا بچہ چپ کر جاؤ۔۔ مجھے بتاؤ کیوں رو رہے ہو۔۔۔


لوکی رو رو پُچھن حال میرا۔۔۔۔!

میں کھڑکھڑ ہساں کی دساں۔۔؟


روتے ہوئے اس نے انا سے ہونے والی گفتگو انہیں بتا دی۔۔ کیوں نانو۔۔۔؟ کیوں، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا،،، وہ۔۔ وہ کسی اور سے محبّت کرتی ہے،، نانو مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔ بہت تکلیف ہورہی ہے ادھر،، سر اٹھا کر اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔


چھ فٹ سے نکلتا وہ مرد بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا،،، آئمہ اس کے چہرے کو جا بجا چومنے لگیں۔۔ بس میرا بچہ میں بات کروں گی انا سے۔۔۔ وقار سے بات کروں گی میں۔۔تم اتنی تکلیف نہ دو خود کو۔۔


جہان نے نفی میں سر ہلایا۔۔ آئمہ اسے بیڈ تک لائیں۔۔ جہان انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔ وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں اور جھک کر اسکا سر چوما۔۔۔ جہان نے آنکھیں بند كرلیں۔۔ آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا وہ انکی گود میں سر رکھے ہی سو گیا۔۔۔


صورتحال یہ کہ زندگی سے بیزار ہوں۔۔!

مسئلہ یہ کہ دن بھی جوانی کے ہیں۔۔۔!


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا تین دن سے بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔ حنا زندگی میں پہلی دفعہ اس کے لیے پریشان ہوئی تھیں۔۔ وہ بہت کم بیمار ہوتی تھی لیکن ایسا بیمار کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔


وہ سوپ لے کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں۔۔ اب ٹھیک ہو تم۔۔۔؟؟ زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔۔ حنا کے استفسار پر اس نے نفی میں سے ہلایا اور اور تکیے سے ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ سوپ پینے لگی۔۔۔ حنا مطمئن ہو کر چلی گئیں ۔۔


!!۔۔۔ہونے چاہیے کچھ ایسے

لوگ بھی زندگی میں۔۔۔!!

جب ان سے کہا جائے کہ

میں ٹھیک ہوں تو۔۔!

آگے سے جواب آئے کہ

اداکاری بعد میں کرنا پہلے مسئلہ بتاؤ،،۔۔!!

"جب ان سے کہا جائے کہ۔۔!

مجھے فرق نہیں پڑتا

میں بہادر ہوں تو

جواب آئے کہ مجھے پتہ ہے تمہاری بہادری کا

لیکن میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا"

کوئی ہونا چاہیے ۔۔!!

جسکو آنکھوں کو پڑھنا آتا ہو۔!!

کوئی تو ہونا چاہیے جس پر یقین ہو کہ

لڑکھڑانے پر تھام لے گا۔۔!!

"کوئی روح کا ساتھی ہونا چاہیے"

"کوئی تو ایسا ہونا چاہیے"۔۔۔!!


کمرے میں بیٹھی وہ بیزار ہونے لگی تو موبائل پکڑ کر برآمدے کی سیڑھوں میں بیٹھ گئی،، ٹھنڈی ہوا سے اسکے پورے بدن میں کپكپاہٹ دور گئی۔۔


ہوا سے اُڑتے بالوں کو چہرے سے ہٹاتے اس نے *Whatsapp* کھولا اور میسجز چیک کرنے لگی۔۔ عائزہ کا میسج پڑھ کر وہ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔۔ وہ اسے سب کچھ بھول کر موو آن کرنے کا مشورہ دے رہی تھی۔۔


"جسٹ بی سٹرونگ اینڈ موو آن" یہ اس نے بہت سے لوگوں کے منہ سے سنا تھا موو آن انا موو آن،، کم آن ۔۔۔ کتنا آسان ہے کہنا،، ارے ایک بار اس سے تو پوچھیں جو کر رہا ہے "دل سے دماغ تک کا سفر "دل کہتا ہے اتنا کیا ،، دماغ کہتا ہے ارے چھوڑ۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے آنسوؤں کو چھپانا۔۔ یہ جو گلا بھرا باہر آنے کو بیتاب رہتا ہے لیکن کتنی آسانی سے ہم سہہ جاتے ہیں۔۔ یہ دن رات شام گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ یہ جو موو آن ہے،، ہوتا نہیں ہے،، کروانا پڑتا ہے اپنے آپ سے۔۔۔۔


تلخی سے مسکرا کر اس نے سر جھٹکا۔۔ وہ تو پہلے جیسا ہی ہوگا۔۔ زندگی سے بھرپور، میری زندگی اجاڑ کر ایسا مطمئن۔۔ پتہ نہیں کون کہتا ہے کہ محبّت ایک خوشنما احساس ہے یہ تو محض کرب کا دوسرا نام ہے۔۔


محبّت صرف ان کے لیے ایک خوبصورت احساس ہے جن کو یہ مل جاتی ہے۔۔۔ اور ویسے بھی نامحرم سے محبّت ہمیشہ تکلیف دیتی ہے۔ اپنی ہی نظروں میں رسوا کر دیتی ہے۔۔ اسی لیے اللّه تعالیٰ نے اپنے نفسوں اور نظروں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔۔۔ وہ اپنے آپ سے مخاطب ارد گرد سے بےخبر ہو گئی۔۔


اور انا تمیں پتہ ہے کہ۔۔۔۔۔

اللّه جانتا ہے کہ وہ شخص میرے حق میں ٹھیک نہیں تھا لیکن تمھیں اس سے اتنا لگاؤ تھا کہ تم اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں کر پا رہی تھی تو اللّه نے اس کے ذریعے تمھیں تکلیف پہنچائی تا کہ تم خود ہی اس سے دور ہو جاؤ۔۔ اللّه تمھیں سزا نہیں دے رہا بلکہ بچا رہا ہے،، اس نے تم پر احسان کیا ہے اور اب تمھیں بہترین کے لیے تیار کر رہا ہے ۔۔


"اور يقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے سے بہتر ہے"

\[And The Hereafter Is Better For You than The First (life)\~• QURAN 93:4 ]


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ویر خاموش سا اپنے کمرے میں لیٹا تھا۔۔ عدیل شاہ راحم کو اٹھاۓ اس کے کمرے میں آۓ۔۔ ویر؟؟ اس کے بیڈ کے کنارے بیٹھ کر انہوں نے پکارا تو ویر نے خالی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر دیوار کو تکنے لگا۔۔


عدیل شاہ نے ویر کے بال سنوارے اور جھک کر اسکا ماتھا چوما۔۔ ویر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔یہی اللّه کی مرضی تھی۔۔


مجھے عائشہ سے محبت نہیں ہوئی،، میں نے بہت کوشش کی تھی۔۔

ویر نے آہستہ سے کہا تو عدیل شاہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگے۔۔

لیکن مجھے اسکی عادت ہو گئی ہے،، اب میں اسکے بغیر کیسے رہوں گا۔۔؟


اسکی اداس نظریں اب تک دیوار پر مركوز تھیں۔۔

عدیل شاہ نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ جانے والے چلے جاتے ہیں ویر۔۔ روکنے سے بھی نہیں رکتے۔۔ انسان کو جانے والوں کے پیچھے ان لوگوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو انکی زندگی میں موجود ہیں۔۔ ان کا اشارہ راحم کی طرف تھا۔۔

ہر زخم اپنے وقت پر بھر جاتا ہے۔۔ تم سب میں اٹھو بیٹھو۔۔ راحم کا خیال رکھو۔۔ اس طرح درد ختم نہیں ہوتا لیکن توجہ ضرور بٹ جاتی ہے۔۔

یہ لو اب اپنے بیٹے کو خود سنبهالو ۔۔ آیا کو میں نے فارغ کر دیا ہے۔۔ بہت دن کمرے میں رہ لیا۔۔ میر کو بھی دیکھنے نہیں آئے تم۔۔ اس کا کیا قصور اس سب میں۔۔۔ چلو شاباش فریش ہو کے آجاؤ نیچے۔۔ راحم کو وہیں لِٹا کر وہ چلے گئے۔۔

ویر نے ایک نظر اپنے گول مٹول بیٹے پر ڈالی۔۔ جھک کر اسکے دونوں گال چومے تو وہ کھلکھلا دیا۔۔ اتنے دنوں میں پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔احتیاط سے اسے بیڈ کے درمیان میں لِٹا کر اس کے گرد تکیے رکھ دیے اور خود شاور لینے چلا گیا۔۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿

عین اداس سی لان میں بیٹھی تھی۔۔ وہ لوگوں سے بہت توقعات نہیں رکھتی تھی۔۔ وہ لوگوں سے فاصلے پر رہنے والی سنجیده سی لڑکی تھی جس نے کم عمری میں ہی بہت کچھ سہہ لیا تھا۔۔

کل جہان نے جس طرح اسے ڈانٹا تھا اس کا دل بہت دکھا تھا۔۔ مجھے ان سے اتنی توقعات ہی نہیں رکھنی چاہیے تھیں۔ گال پر پهسلتے آنسو کو صاف کرتے اس نے اداسی سے سوچا۔۔

آہٹ محسوس کر کے اس نے جھکا سر اٹھایا تو جہان کان پکڑے اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا تھا۔۔ سوری،،، چاکلیٹ اسکی طرف بڑھاتے اس نے معصومیت سے کہا۔۔۔

عین کی آنکھوں میں پھر سے آنسو جمع ہوگئے۔۔ سوری عین! اب کی بار اس نے ایک ٹیڈی بیئر اس کی طرف بڑھایا۔۔ عین نے صرف ایک نظر دیکھا اور نظروں کا زاويہ بدل لیا۔۔

سوری یار مجھے پتہ ہے کہ بہت برا ہوں میں لیکن اتنا بھی برا نہیں کہ تم مجھ سے بات ہی نہ کرو۔۔ جہان نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو عین اس سے مزید ناراض نہ رہ سکی۔۔

آپ نے مجھ پر شاؤٹ کیا،،، ادھر سے شکوہ آیا۔۔

آئی ایم سوری،،، کان پکڑتے جواب آیا۔۔

میں اتنا ہرٹ ہوئی،،، پھر شکوہ ہوا۔۔۔

سوری بھائی کی جان آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔

پکا ؟؟ سوال ہوا۔۔

پکا ۔۔۔۔۔ جہان کی یقین دہانی پر وہ مسکرا دی۔۔

تولیے سے بال پونچھ کر اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر بکھری چیزیں سمیٹیں۔۔ شرٹ پہنی اور آہستہ آہستہ بٹن بند کرنے لگا۔۔


کسی کی بہت شدت سے یاد آئی تھی۔ اداس مسکراہٹ لبوں پر سجا کر اس نے عدیل شاہ کے کمرے کا رخ کیا جہاں میر آج کل رہ رہا تھا۔۔


اس کی تکلیف کے خیال سے عدیل شاہ نے اسے اپنے کمرے میں ہی شفٹ کر لیا تھا،، کھلے دروازے سے وہ اندر داخل ہوا تو میر نے اسے دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔۔


اب ان آنکھوں میں ناراضگی نھیں تھی بلکہ اداسی نے ڈیرے جماۓ ہوئے تھے،، ویر ایک گھٹنا موڑ کر میر کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔


کیسی طبیعت ہے اب۔۔؟ ہممم،،، ویر نے نرمی سے پوچھا۔۔

آئی ایم سوری بھائی،، میں نے آپ سے بہت بدتمیزی کی تھی۔۔ میر نے اس کے سینے سے لگتے ہوئے کہا تو ویر نے اسے اپنے مظبوط حصار میں لے لیا۔۔


اٹس اوکے۔۔ میں ناراض نہیں ہوں۔۔ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے کب تک زخم ٹھیک ہوں گے۔۔ اسے اپنے آپ سے الگ کرتے پوچھا۔۔


زخم کافی حد تک ٹھیک ہو چکے ہیں۔۔ ٹانگ میں درد ہے۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے تین چار دن تک چلنے کے قابل ہو جاؤں گا۔۔


آئی سی۔۔ اتنے میں عدیل شاہ کمرے میں داخل ہوئے،، ویر کو پہلے سے بہتر دیکھ کر انہیں دلی سکون پہنچا۔۔


پھر اچانک انہیں لاڈ صاحب کا خیال آیا۔۔ ویر راحم کہاں ہے۔۔؟ ویر کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔ اپنے "ایک فُٹ پِیس" کو تو وہ کمرے میں ہی بھول گیا تھا۔۔


بغیر کوئی جواب دیے وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑا۔۔ تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتے اسے زبردست ٹھوکر لگی،، بمشکل گرنے سے سنبهلتے وہ جلدی سے کمرے میں پہنچا۔۔


اور ادھر لاڈ صاحب بیڈ پر الٹے لیٹے کھلکھلا رہے تھے۔۔ ویر ہونق بنا اسے دیکھنے لگا جس میں کسی ہنںستے جن کی روح آ گئی تھی۔


"ایک فٹ" میں کوئی چیز ویز تو نہیں آ گئی۔۔؟ اس نے بےاختیار سوچا پھر اپنی سوچ پھر لعنت بھیجتے اس نے آرام سے اسے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔۔


راحم نے کھلکھلا کر اس کی گردن میں منہ چھپا لیا۔۔ ویر اسے دیوانہ وار چومنے لگا،، میرا ایک فٹ،، میرا چیمپ۔۔۔ ویر نے پیار سے اسے پکارا تو راحم نے رونے کے لیے مُنّے سے ہونٹ پھیلا لیے۔۔


نہیں نہیں،، ہش ہش! سوری یار میں نے تو ایسے ہی بول دیا،، لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔۔

لاڈ صاحب نے وہ رونا شروع کیا کہ ویر گڑبڑا گیا۔۔


وہ اس کو ہاتھ میں لیے پورے کمرے میں چکر لگانے لگا۔۔ کبھی یہاں سے وہاں اور کبھی وہاں سے یہاں۔۔ ابھے یار بس کردے میرے باپ،، ویر نے روہانسا ہو کر کہا لیکن وہ تو جیسے شرط لگا کر رویا تھا۔۔


لاڈ صاحب کے سریلے راگوں کی تاب نہ لاتے ہوئے عدیل شاہ فوراً کمرے میں داخل ہوئے لیکن ویر کی حالت دیکھ کر ان کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔


کیا ہوا ہے۔۔؟؟ اتنا کیوں رو رہا ہے ہمارا شیر۔۔۔۔ یہ تو آپ اپنے شیر سے خود ہی پوچھ لیں،، ویر نے عاجز آ کر کہا۔۔۔


تم نے اسکا ڈائیپر چیک کیا۔۔؟ جواباً ویر نے صدمے سے انہیں دیکھا۔۔ میں۔ ۔؟؟ میں ۔۔؟ میں اب یہ کام کروں گا۔۔۔ ؟؟


تو کیا ساتھ والی پڑوسن آ کر کرے گی۔۔۔؟ انہوں نے خاص طور پر اس پڑوسن کا حوالہ دیا جس سے ویر بہت چڑتا تھا۔۔


لاحول ولا قوت،،، ویر کا چہرہ ایسا ہوگیا جیسے کسی نے کڑوا بادام اس کے منہ میں ڈال دیا ہو۔۔ نہیں کہتے ہو تو بلا لیتا ہوں۔۔ عدیل شاہ نے شرارت سے کہا۔۔


ضرورت نہیں میں خود ہی کچھ کر لوں گا۔۔ سمجھنے والے انداز میں سر ہلا کر عدیل شاہ یہ جا وہ جا۔۔


راحم کی مسلسل ریں ریں سے تنگ آ کر ویر نے غصے سے اسے گھورا تو وہ اور زیادہ رونے لگا۔۔ ویر نے میسنی سی شکل بنائی۔۔


سوری سوری میرا بے بی۔۔ ہش، بس چپ چپ ۔۔۔ویر نے اسے بیڈ پر لٹا کر اسکا ڈائپر اتارا تو یہ دیکھ کر اسے تسلی ہوئی کہ لاڈ صاحب نے کوئی "کسب" نہیں کیا تھا۔۔


ڈائپر اترنے کی دیر تھی کہ راحم خاموش ہو گیا اور ٹکر ٹکر ویر کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔ ویر نے بھی اطمینان کا سانس لیا کہ چلو چپ تو ہوا لیکن نہ جی لاڈ صاحب سے کہاں اس کا اطمینان دیکھا گیا اور بھرپور انگرائی لے کر انہوں نے "کام" کر دکھایا۔۔۔


جی جی وہی کام جو انہیں ڈائپر میں کرنا چاہیے تھا وہ قدرے جھکے شاہ ویر کے منہ پر دھار کی صورت انجام پا گیا۔۔


اپنے کار نامے سے راحم بہت خوش ہو کر قلقاریاں مارنے لگا۔۔ ویر نے صدمے سے اپنے آپ کو دیکھا۔۔ اس کا دل کیا ایک چماٹ اس " ایک فٹ" کو لگاۓ لیکن پھر اسے کھلکھلاتے دیکھ کر وہ خود بھی ہنس دیا۔۔


واش روم جا کر اپنا حلیہ ٹھیک کیا اور راحم کو نیا ڈائپر باندھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ اللّه یہ خواتین اتنا مشکل کام کیسے کرتی ہیں،، تھک ہار کر اس نے نیٹ سے ڈائپر پہنانے کا طریقہ دیکھا اور کافی کوششوں کے بعد آخر وہ کامیاب ہو ہی گیا۔۔


گہرا سانس خارج کر کے وہ سیدھا ہونے ہی لگا تھا کہ راحم کی ننھی سی ٹانگ اس کی آنکھ میں جا لگی۔۔ اپنی ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے اس نے " ایک فُٹ " کو گھورا۔۔


پھر اسکی آنکھیں شرارت سے چمكیں۔۔ اس نے راحم کا ننھا سا پاؤں پکڑ لیا اور انگلی کی پور سے اسکے پاؤں کے تلے کو گدگدانے لگا۔۔


اب لاڈ صاحب آۓ تھے قابو میں۔۔ ویر نے اسکا پاؤں چوما اور اسے اچھی طرح سے کور کر کے لان میں لے گیا جہاں عدیل شاہ اور شاہ میر پہلے سے بیٹھے تھے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے۔۔!!

اک روز تمھیں مانگ کر دیکھیں گے خدا سے۔۔!!

جب کچھ نہ ملا ہاتھ دعاؤں کو اٹھا کر۔۔!!

پھر ہاتھ اٹھانے ہی پڑے ہم کو دعا سے۔۔!!

دنیا بھی ملی ہے،،،غمِ دنیا بھی ملا ہے۔۔!!

وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خدا سے۔۔!!

اے دل تو انہیں دیکھ کر کچھ ایسے تڑپنا۔۔!!

آجائے ہنسی ان کو جو بیٹھے ہیں خفا سے۔۔!!


۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰


وہ کھلی کھڑکی کے سامنے کھڑا خالی نظروں سے گھنے درختوں کو دیکھ رہا تھا جن کے پتے ہوا کے زور سے ہل رہے تھے۔۔


ایک پتہ ٹوٹ کر نیچے گرا۔۔ جہان کی نظروں نے اسکے ساتھ زمین تک سفر کیا۔۔ کسی راہگزر نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور اپنے دیہان میں گزر گیا۔۔


جہان کو اپنا آپ بلکل اس پتے جیسا لگا۔۔ جو پہلے ٹوٹا اور پھر کچل دیا گیا۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی۔۔


اگر آپکا محبوب آپ کو رد کر دے تو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی یہ جان کر ہوتی ہے کہ وہ کسی اور سے محبّت کرتا ہے۔۔ اسکا دل اپنی بےبسی پر خون کے آنسو رونے لگا۔۔


گیلی سانس اندر کھینچتے اس نے اپنی معمول سے بڑھی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کھڑکی کے پاس رکھے صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔۔


تھوڑی دیر پہلے آئمہ اسے انا کے آنے کی اطلاع دے کر گئی تھیں جو جہان سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی۔۔ تو آخر اتنے دنوں بعد اس دشمنِ جاں کو میرا خیال آ ہی گیا۔۔


وہ ان کے بلانے پر بھی باہر نہیں گیا تھا۔۔ بہت مشکل سے خود پر ضبط کر رکھا تھا اگر اس کے سامنے جاتا تو شاید ضبط کھو دیتا،، وہ مزید اپنی محبت کی توہین نہیں چاہتا تھا۔۔


آئمہ نے انا کو بےچارگی سے دیکھا۔۔ انا انہیں سب کچھ بتا چکی تھی۔۔ آئمہ سمجھتی تھیں۔۔ ایسی باتوں پر انسان کا کہاں اختیار ہوا کرتا ہے۔۔وہ ہمیشہ کی طرح بہت محبت سے اس سے ملی تھیں۔۔۔


اب جب کہ وہ اتنی دیر سے لاؤنج میں بیٹھی جہان کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ تھا کہ آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔


آئمہ سے اجازت لے کر اس نے جہان کے کمرے کی طرف قدم بڑھاۓ۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے دروازہ دھکیلا۔۔


جہان نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں وہ سیاہ عباۓ اور حجاب میں جھجھکی ہوئی کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔


وہ آہستہ سے اٹھ بیٹھا۔۔ انا جھجھکتی ہوئی اس کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئی اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگی جو سر جھکاۓ بیٹھا تھا۔۔


اس نے رف سی ٹی شرٹ ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔۔ بکھرے بالوں میں اسے وہ بہت ٹوٹا ہوا لگا۔۔ اتنا پیارا شخص یہ سب تو ڈیزرو نہیں کرتا اس نے اداسی سے سوچا۔۔


میں آپ سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔۔ اٹک اٹک کر اس نے کہنا شروع کیا۔۔ مجھے آپ سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔ میں نے آپ کو تھپڑ مار دیا،، مجھے ۔۔مجھے بہت برا لگتا ہے ابھی تک،، میں۔۔ میں آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی لیکن میں کیا کروں۔۔۔؟ ایسا ۔۔۔ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔۔۔ لیکن ہم دوست بھی تو تھے۔۔ کیا اب۔۔اب۔۔ ہم۔۔ دوست۔۔ نہیں۔۔ ہیں۔۔؟؟ اس نے جھجھکتے ہوئے نظر جھکا کر کہا۔۔


جہان نے نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔۔ انا نے خاموشی محسوس کر کے جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ جہان نے اسکی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑتے بھاری آواز میں کہا


یونہی اک تہمت ہے دشمنوں سے ملتے ہیں۔۔۔۔!!!

دل کو زخم زیادہ تر دوستوں سے ملتے ہیں۔۔۔!!!


انا کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہنے لگے۔۔ اپنی وجہ سے کسی کو اذیت میں دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔


آپ ۔۔مجھے۔۔ بہت۔۔ برا ۔۔سمجھ۔۔ رہے ہوں گے۔۔ لیکن آپ۔ مجھے۔ نہیں سمجھ ۔ سکتے۔ آپ کی اذیت اب شروع ہوئی ہے لیکن میں تو یہ اذیت کب سے سہہ رہی ہوں۔۔ اس نے بلکتے ہوئے کہا۔۔


میں آپ کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی لیکن میں کیا کروں۔۔ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔ آپ کے لیے میں نہیں ہوں۔۔ مجھ سے بہت بہتر آپ کو مل جائے گی۔۔


بہتر چاہیے کسے ہے۔۔؟ جہان نے اسے ٹوک کر کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔

ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں۔۔ میں چاہتی تھی ہم پہلے کی طرح دوست بن جائیں لیکن اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔۔ اپنے آنسو پونچھ کر وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔


جہان نے اسے روتے دیکھ کر زور سے دیوار پر مکا مارا۔۔ میں اسے کیسے رلا سکتا ہوں۔۔ اپنی محبّت کے ساتھ کوئی ایسا کرتا ہے۔۔۔ سر ہاتھوں میں تھامے اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا نے اچھی طرح اپنے آنسو صاف کئے اور خود کو نارمل ظاہر کرتی لاؤنج میں بیٹھی عین کے پاس بیٹھ گئی جو ابھی ابھی کالج سے آئی تھی۔ جہان نے کالج میں ایف ایس سی میں اسکا ایڈمیشن کروا دیا تھا۔۔ وہ ابھی ایف ایس سی کے پہلے سال میں تھی۔


سفید یونیفارم میں بالوں کی اونچی پونی کیے وہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی،، السلام علیکم انا آپی۔۔ عین خوشی سے اس سے ملی۔۔


جواباً انا نے بھی گرم جوشی سے جواب دیا۔۔آئمہ نے پانی کا گلاس عین کو پکڑاتے انا کی سوجھی آنکھوں کو بغور دیکھا تو انا نظریں چرا گئی۔۔


ہو گئی بات۔۔؟ انہوں نے استفسار کیا تو انا نے جھوٹی مسکان چہرے پر سجاتے سر اثبات میں ہلایا۔۔


اتنے میں جہان کمرے سے نکلا اور عین کے برابر بیٹھ گیا۔۔ انا کو نظرانداز کر کے اس نے عین کو مخاطب کیا۔۔ کیسا رہا آج کا دن۔۔؟ کوئی پروبلم تو نہیں ہوئی۔۔؟


جواباً وہ اسے آج کی روداد سنانے لگی۔۔ انا نے اداس مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔۔ شاید وہ یہی سب ڈیزرو کرتی تھی۔۔


اچھا نانو اب میں چلتی ہوں۔۔

ارے اتنی جلدی کیا ہے میں کھانا بنا رہی ہوں کھا کر جانا،، آئمہ نے کچن سے جھانک کر خفگی سے کہا۔۔


نہیں پھر کبھی صحیح،، نرمی سے معذرت کرتی وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

اچھا اگلی دفعہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔۔ ان سے مل کر وہ جانے لگی تو آئمہ نے کہا رکو ہان تمھیں چھوڑ آتا ہے۔۔


نہیں نانو وہ خود چلی جائے گی۔۔اسے میری ضرورت نہیں۔۔ جہان نے تلخی سے کہا تو انا آنکھیں جھپک کر آنسو روکتی تیزی سے نکل گئی۔۔


ہان یہ کیا تھا۔۔؟

کیا؟ میں نے کیا کیا۔۔؟؟ جہان نے بیگانگی سے کہا اور اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔ عین نے سوالیہ نظروں سے آئمہ کو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ انہیں کیا ہوا۔۔ آئمہ نے بیچارگی سے کندھے اچکاۓ۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


رات کا وقت تھا۔۔ حنا اور وقار سونے جا چکے تھے۔۔ انا پانی کا جگ لینے کچن میں آئی تو ٹھا کی زوردار آواز گونجی۔۔


ایک پل کے لیے تو جیسے اس کی جان ہی نکل گئی۔۔ اس نے لائٹ آف کی اور جلدی سے اپنے کمرے میں آ کر دروازہ بند کر دیا۔۔


باہر طوفانی بارش ہو رہی تھی۔۔ وقفے وقفے سے بادل خوفناک آواز سے گرجتے۔۔ انا نے زور سے بجتی کھڑکی کو جلدی سے بند کیا۔۔


بارش کی کچھ بوندیں اس کے چہرے پر گریں۔۔ اسے بارش بہت زیادہ پسند تھی لیکن رات کے اس پہر اتنی تیز بارش نے اسے خوفزدہ کر دیا۔۔


جلدی سے کمرے کا چھوٹا بلب جلا کر اس نے لائٹ بند کی اور چادر تان کر لیٹ گئی۔۔ آیات کا ورد کر کے اپنے اوپر پھونک ماری۔۔ جب سے وہ ڈرنے لگی تھی اس نے معمول بنا لیا تھا۔ وہ روز سونے سے پہلے کچھ قرآنی صورتیں اور آیات پڑھتی۔۔


وہ گہری نیند میں سو رہی تھی کہ اچانک اسکی آنکھ کھل گئی۔۔ اس نے وقت دیکھا تو گھڑی رات کے 2:00 بجا رہی تھی۔۔


آج پھر پورے دو بجے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔ ایسا پچھلے کئی دنوں سے ہورہا تھا۔۔ نیند اس کی آنکھوں سے ایسے اڑ گئی جیسے دوبارہ کبھی آئے گی ہی نہیں۔۔


اب وہ پہلے کی طرح اتنا ڈرتی نہیں تھی۔۔ وہ ان عجیب آوازوں کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔۔ کبھی ایسی آواز ابھرتی جیسے کوئی سیڑھیاں چڑھ رہا ہو ۔۔ کبھی زور سے کچھ بجانے کی آواز آتی۔۔


ایسا تب ہوتا جب وہ جاگنے کے بعد دوبارہ سونے کی کوشش کرتی تو وہ آواز اسے پھر جگا دیتی۔۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی چاہتا تھا کہ وہ رات کے اس پہر جاگتی رہے۔۔


اس سب میں وہ اندر سے عجیب بےحس ہو گئی تھی۔۔ درد، تکلیف، خوف، بےرخی، دھوکہ سب،، کیا کچھ نہیں تھا جو وہ سہہ چکی تھی۔۔


اتنا سہنے کے بعد انسان اندر سے مضبوط اور بےحس ہوجاتا ہے اور وہ اکثر اپنے آپ سے کہتی کہ وہ "ڈِھیٹ" ہو گئی ہے۔۔


رات کے اس پہر جب سب نیند کی وادیوں میں گم ہوتے تھے۔۔۔ کون تھا اس کے ساتھ۔۔؟ کوئی بھی تو نہیں۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا اس کے پاس جب وہ خوف سے راتوں کو روتی تھی۔۔


بس ایک اللّه تھا جو ہر پل اس کے ساتھ تھا۔۔ خوف میں اسے حوصلہ دیتا۔۔ اس کے دل کو سکون دیتا۔۔ اب وہ بس اللّه پر یقین کرنے لگی تھی پہلے سے کہیں زیادہ۔۔

راتوں کو اپنے آپ کو کھوجتی رہتی اور اللّه سے باتیں کرتی۔۔ وہ اکثر سوچتی کہ ایک ہی وقت پر کیوں اسکی آنکھ کھلتی ہے۔۔ کچھ بھی تو بلاوجہ نہیں ہوتا۔۔

سوچوں میں گھری وہ میکانکی انداز میں اٹھی اور کمرے سے ملحقہ غسل خانے میں بیسن پر جھکی وضو کرنے لگی۔۔

"اللّهھم فاطر السمٰوٰت والعرض"

\[Oh Allah, Creator of the Heaven and Earth]

اس نے بازو کہنیوں تک گیلے کیے ۔۔۔

"عالم الغیب والشہادت"

\[Knower of the Unseen and Seen]

اب وہ جھکی اپنے پیروں پر پانی ڈال رہی تھی۔۔

"اشھد ان لا الہ الا اللہ"

\[I bear Witness that none is Worthy of Worship Except You]

اب وہ گیلے چہرے کو خشک کر ری تھی۔۔

"وحدہ لا شریک له"

\[HE has no Partner]

اب وہ تہہ کیا جاۓ نماز کھول کر بچھا رہی تھی۔۔

"وَ انّ محمٌدﷺ عبدہ وَ رسول"

\[And the Muhammad (S.A.W) is your Man and Messenger]

تہجد کی نیت کر کے اس نے ہاتھ سینے پر باندھے۔۔

"اعوذبک من شر نفسه و من شرالشیطان"

\[I seek refuge in You from the Evil of my Soul and from the Evil from his Helpers]

اب وہ سجدہ کر رہی تھی۔۔۔

اور بےشک اللّه جسے چاہتا ہے توفیق دیتا ہے۔

اتوار کا دن تھا۔ عین کسلمندی سے آنکھیں ملتی جمائی روک کر آئمہ اور اپنے مشترکہ کمرے سے نمو دار ہوئی اور بےدیہانی میں جاگنگ سے واپس آتے جہان سے ٹکرا گئی۔۔


جہان نے اسے سیدھا کھڑا کیا۔۔ نیند میں تو نہیں چل رہی تم۔۔؟ عین نے بغیر جواب دیے برا سا منہ بنایا۔۔


صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔۔ آئمہ کچن میں ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔ عین کو کچن میں دیکھ کر مسکرائیں۔


یہ صبح صبح تمہارے منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔۔؟

نانو ساری رات صحیح نیند نہیں آئی۔۔ جسم سارا اکڑ گیا ہے۔۔ سر بھی درد ہورہا ہے۔۔

چلو منہ ہاتھ دھو لو،، ناشتے کے بعد اچھی سی چائے پیتے ہیں،، سر درد بھاگ جائے گا۔


وہ سستی سے کچن شلف سے اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی۔۔ جب وہ واپس آئی تو آئمہ ناشتہ ٹیبل پر لگا رہی تھیں۔۔ جہان پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔۔


عین نے اس کے ساتھ جگہ سنبهالی۔ جہان نے اسکی ناک دو انگلیوں میں دبا دی۔ تنگ آ کر عین نے اس کے ہاتھ پر تھپڑ مارا۔

نانوووو بھائی تنگ کر رہے ہیں۔۔۔


جہان! نہ چھیڑو اسے۔۔۔ آئمہ نے گھوری ڈالی تو وہ مسکرا کر سر جھٹک گیا۔۔ اب آپ اس بندری کی کچھ زیادہ سائیڈ نہیں لیتیں۔۔؟


ہاں تو ۔۔۔ آپ جل رہے ہیں کیا۔۔؟ عین نے شرارتی مسکراہٹ سے کہا تو جہان نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔۔ خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا۔۔


عین نے برتن اٹھا کر سنک میں رکھے۔ دوپٹہ گلے سے نکال کر سائیڈ پر رکھا اور برتن دھونے میں مصروف ہو گئی۔۔


ہان بھائی اب آپ نے تنگ کیا تو میں آپ کے اوپر پانی پھینک دوں گی،، کچن میں آہٹ محسوس کر کے اس نے بغیر دیکھے کہا۔۔


اجی ہم دل و جان سے پٹنے کو بھی تیار ہیں۔۔ شرط یہ ہے کے مارنے والے آپ کے نازک ہاتھ ہوں۔۔ توصیف اسکو گہری نگاہ سے دیکھتا کہہ رہا تھا جو اس وقت وائٹ ہاف سلیوز شرٹ اور وائٹ ہی منی سکرٹ ٹائٹس میں ملبوس بالوں کو رف جوڑے میں باندھے ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔


نانووووو ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی گھر میں گھس گیا ہے جلدی آئیں۔۔۔ اسے ناگواری سے دیکھ کر کندھے پر دوپٹہ ڈال کر اس نے چلا کر کہا تو آئمہ فوراً دوڑی چلی آئیں۔۔۔


کچن کے دروازے پر توصیف کو دیکھ کر انہوں نے بمشکل ناگواری چھپائی۔۔۔ خیر تھی اتنی صبح صبح آ گئے۔۔ اسے لیے وہ لاؤنج تک آئیں اور سنجیدگی سے پوچھا تو وہ كمینگی سے ہنسا۔۔


ارے آپ تو بھول ہی گئیں۔۔ پھر سے دوہرا دیتے ہیں۔۔ اس نازک بلبل پر میرا دل آ گیا ہے۔۔ اب آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ اسے میرے حوالے کر دیں۔۔ بھئی کبھی تو بياہنہ ہے نہ۔۔


تم اپنی بکواس بند رکھو میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تم جیسے انسان سے میں اپنی بیٹی کا رشتہ ہرگز نہیں کروں گی۔۔ اور ابھی وہ بہت چھوٹی ہے۔۔ جہان کو ابھی اس بات کا نہیں پتہ۔ ورنہ تمہارا وہ حشر کرے گا کہ۔۔۔


اتنے میں جہان ہاتھ میں کچھ پلاسٹک بیگز پکڑے گھر میں داخل ہوا۔۔ حیرت سے اپنے چچا زاد کو دیکھا اور بیگز کچن میں رکھتے اس سے مصافحہ کیا۔۔


لیجیے بھائی صاحب بھی آ گئے۔۔ اب ان کے سامنے ہی بات ہو جائے تو اچھا ہے۔۔ بات کرتے اس کی نظریں کچن کی طرف تھی۔ جہان نے کچھ نہ سمجھتے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو غصے سے مٹھی بھینچ لی۔۔


کچن میں عین نیچے جھکی فرش سے کچھ اٹھا رہی تھی جس سے اسکی ٹی شرٹ کمر سے تھوڑا سا کھسک کر اسکی کمر کا کچھ حصہ دکھا رہی تھی۔۔


عین ۔۔۔۔؟ جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔ جہان غصے سے دهاڑا تو توصیف ہڑبڑا گیا۔۔۔

عین جلدی سے کچن سے نکلتی کمرے میں گھس گئی۔۔


ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم۔۔؟ جہان نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

جہان یہ عین کا رشتہ مانگنے آیا ہے۔۔ ایک دفعہ پہلے بھی آیا تھا۔۔ میں نے منع بھی کیا لیکن یہ پھر آ گیا۔۔


جہان ضبط کھو کر اٹھا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھینچا۔۔ بے غیرت انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر آنے کی۔۔ تم جیسے نشئی کے ساتھ میں اپنی بہن کا رشتہ کروں۔۔؟ جہان اس کے منہ پر دهاڑا تو توصیف نے بہت مشکل سے اپنا آپ اس سے چھڑایا۔۔


جہان مارپیٹ مسئلے کا حل نہیں ہے۔۔ آئمہ نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔۔۔ نانو آپ بیچ میں مت بولیں۔۔


جہان نے اسے دروازے کی طرف دھکا دیا اور کہا " آئندہ اپنی شکل بھی نہ دکھانا ورنہ بھول جاؤں گا کہ تم میرے کچھ لگتے ہو۔۔"


سالے صاحب ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی وہ آپ کی بہن کیسے ہوگئی۔۔؟ منہ سے کہہ دینے سے کوئی بہن تو نہیں بن جاتی نہ۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا دل اس پر آگیا ہے اس لیے آپ میری بات پر اس طرح بھڑک رہے ہیں۔۔ توصیف نے كمینگی سے مسکراتے ہوئے کہا تو جہان نے ایک زوردار گھونسا اس کے جبڑے پر دے مارا۔۔


نکلو یہاں سے۔۔۔ جہان نے دھاڑتے ہوئے کہا اور اسے دروازے کی طرف دھکا دیا۔۔

یاد رکھوں گا میں یہ سب اور اگلی دفعہ اپنے ماں باپ کے ساتھ آؤں گا۔۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں اسے میرے حوالے کرتے تم لوگ۔۔ بکتے ہوئے وہ نو دو گیارہ ہوگیا۔۔۔


واپس لاؤنج میں آ کر اس نے ناراضگی سے آئمہ کو دیکھا۔۔ آپ مجھے بتا نہیں سکتی تھیں جب وہ پہلی دفعہ آیا تھا۔۔ میں تب ہی اس کا منہ توڑ دیتا۔۔


ہان کیا فائدہ تمھیں بتانے کا۔۔؟ مارپیٹ سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے۔۔وہ عین کو خدانخواستہ کچھ کر ڈالے تو پھر۔۔؟ بیٹیوں کی عزت پر ایک بار حرف آ جائے تو ساری زندگی کے لیے اس کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھتے۔۔


کم آن نانو کس دور میں رہ رہی ہیں آپ ۔۔؟ اچھا اب زیادہ پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہوگا۔۔


کیوں کچھ نہیں ہوگا۔۔؟ کل کلاں کو وہ دو چار آدمیوں کو ساتھ لے آیا تو کیا عزت رہ جائے گئی ہماری اور عین۔۔؟ اسکے بارے میں سوچا وہ کس قدر متاثر ہوگی اس سب سے۔۔


مجھے اب اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔۔ ماشاءالله جوان ہوگئی ہے۔۔ اور بات چاہے جتنی بھی کڑوی ہو حقیقت تو یہی ہے کہ وہ تمہاری سگی بہن نہیں ہے۔۔ کل کلاں کو کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو۔۔۔


جہان نے بےيقینی سے انہیں دیکھا۔۔ نانو آپ مجھ پر شک کر رہی ہیں۔۔؟؟

نہیں میری جان میں تم پر شک نہیں کر رہی۔۔ لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ایسی باتوں پر لوگ جینا حرام کر دیتے ہیں۔۔ خیر میں کچھ سوچتی ہوں اس بارے میں کیا کرنا چاہئے۔۔


کمرے کے دروازے سے لگی کھڑی عین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ وہ بہت ڈر گئی تھی۔۔ کیا نانو مجھے یہاں سے کہیں اور بھیج دیں گی۔۔


جہان نے پرسوچ نظروں سے دروازے کی سمت دیکھا جہاں سے اس کا دوپٹہ نظر آرہا تھا۔۔

عین باہر آؤ۔۔ جہان کے بلانے پر وہ آنکھیں صاف کرتی آہستہ قدم اٹھاتی اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔


اس نے تمھیں کچھ کہا تو نہیں۔۔؟ عین نے نفی میں سر ہلایا اور پلکیں جھپک کر آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ جہان نے اسے دیکھ کر لب بھینچ لیے۔۔


پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ،، آئمہ نے اسے ساتھ لگایا تو وہ ان کے گرد بازو حمائل کرتی رو پڑی۔۔ نانو میں نے کہیں نہیں جانا آپ کو چھوڑ کر۔۔ پلیز مجھے کہیں مت بھیجیے گا۔۔


بس بس کس نے کہا ایسا۔۔ میں اپنی عین کو اپنے سے دور کیوں کروں گی۔۔ انہوں نے اسکا سر تهپکتے ہوئے کہا۔۔


چلو بس،، رونا دھونا ختم کرو۔۔۔ ایک بہت اچھی فنی مووی ریلیز ہوئی ہے۔۔ چلو دیکھتے ہیں۔۔ وہ عین کا بازو پکڑ کر اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔۔


زمین پر بِچھے قالین پر انہوں نے دو تکیے دیوار کے ساتھ لگائے۔ جہان فریج سے کولڈ ڈرنک لے آیا۔ عین نے پلاسٹک بیگ سے کچھ سنیکس نکالے اور جلدی سے اپنی جگہ کشن رکھ کر بیٹھ گئی۔۔


جہان نے لیپ ٹاپ پر مووی پلے کی اور لائٹ آف کر کے اس کے برابر کشن پر بیٹھ گیا۔۔ کولڈ ڈرنک ہاتھ میں پکڑ کر وہ گھونٹ گھونٹ پینے لگے۔۔


عین نے لیپ ٹاپ کی سكرین کو دیکھتے جہان کے ہاتھ میں موجود چیٹوز کے پیکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو جہان نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔۔


عین نے بغیر اس کی طرف دیکھے ہاتھ کا مکا بنا کر اسے مارا جو اسکے منہ کی طرف جاتے ہاتھ پر لگا جس سے اس کے ہاتھ میں پکڑے چیٹوز منہ میں جانے کی بجاۓ ناک پر جا لگے۔۔


ہاہاہاہاہاہا،،، عین کی ہنسی چھوٹی۔۔ اب مزہ آیا ہنہ۔۔ اس نے پیکٹ جہان سے کھینچا اور مزے سے کھانے لگی۔۔


جہان منہ جھاڑ کر مووی کی طرف متوجہ ہوا۔۔ ہاہاہا،، یہ تو تم لگ رہی ہو۔۔ جہان نے چلتے منظر میں اڑے بالوں والی لڑکی کو دیکھ کر کہا۔۔ بجاۓ غصہ کرنے کے عین کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔۔


بہت مشکل سے اس نے حلق میں پھنسی ڈرنک کو حلق سے نیچے اتارا۔۔ اب منظر کچھ یوں تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو مذاق کا نشانہ بناتے "چپیریں" مارتے پاگلوں کی طرح ہنستے جا رہے تھے۔۔


وہاں سے گزرتی آئمہ دونوں کو پاگلوں کی طرح ہنستا اور جھگڑتا دیکھ کر خود بھی ہنس دیں۔۔۔ لیکن پھر ان کے ماتھے پر گہری سوچ کی لكیریں چھا گئیں۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اب وہ اکثر كالج سے جلدی نکل جاتی تھی۔۔ پیپر سر پر تھے اس لیے کلاسز نہیں ہو رہی تھی۔۔ طالب علموں کی مرضی تھی کہ وہ کالج آئیں یا نہ۔۔


وہ پیپرز کی تیاری کے لیے تھوڑی دیر کے لیے چلی جاتی تھی۔۔ اور واپسی پر کالج کے قریب واقع پارک میں چلی جاتی۔۔ موسم خوشگوار ہوتا تھا۔۔ وہاں وہ ایک تنہا گوشے میں بیٹھ کر اسلامی بیان سنا کرتی تھی۔۔


اس کے دماغ کی بہت سی گرہیں کھلنے لگی تھیں۔۔ افسوس انا تم نے زندگی کے اتنے سال گمراہی میں گزار دیے۔۔


اس نے اپنے نقاب کو انگلی کی مدد سے درست کیا اور موبائل نکال کر یوٹیوب پر "youth club" سرچ کرنے لگی۔۔ یہ پانچ چھ افراد پر مشتمل ایک گروپ تھا جو لوگوں کو خصوصاً نوجوان نسل "youth" کو راہِ راست پر لانے کے لیے کوشاں تھے۔۔


وہ اسلامی حقائق اتنی خوبصورتی سے بیان کرتے کہ بات سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔۔ اور ان کی کوششوں سے بالاخر بہت سے نوجوان بدلنے لگے تھے۔۔


حقیقتاً اللّه پاک لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں لیکن اسکا وسیلا بھی اس کے تخلیق کیے بندے ہی بنتے ہیں۔۔


ایک دن "ٹک ٹاک" جیسے پلیٹ فارم پر سكرول کرتے اس کے سامنے "طٰہ ابن جلیل" کی ایک ویڈیو آئی جو "یوتھ کلب" ہی کے ایک ركن ہیں۔۔


وہ بہت انہماک سے ان کو سننے لگی۔۔ ان کا اندازِ بیاں اسے اس قدر بھایا کہ وہ باقاعدگی سے انہیں سننے لگی۔۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور وہ باقیوں کو بھی سننے لگی۔۔


خصوصاً محمد علی کی باتیں بہت موٹیویشنل ہوتیں۔۔ وہ بہت دھیمے انداز میں اپنا مدعا دوسروں تک پہنچا دیتے۔۔


اب بھی وہ اسی گروپ کے ایک ممبر کی ویڈیو کھولے ارد گرد سے بےخبر بیٹھی تھی۔۔ ویڈیو چلنے لگی تھی۔۔

قيامت کے دن ایک مسلمان کو لایا جائے گا ،، اس کے ننانوے صحیفے ہوں گے۔۔ جو گناہوں سے بھرے ہوں گے۔۔ حدیث میں ہے کہ" جب ان صحیفوں کو کھولا جائے گا تو جہاں تک بندے کی نگاہ جائے گی وہاں تک وہ صحیفے پہنچے ہوئے ہوں گے۔۔" اس کے اتنے گناہ ہوں گے۔۔ پھر اللّه تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے میرے بندے کیا تو انکار کرتا ہے کہ یہ گناہ تو نے نہیں کئے۔۔ کیا تجھے کوئی شک ہے۔۔؟ پھر بندہ کیا کرے گا۔۔ پھر اللّه پاک مزید فرمائیں گے کہ کیا میرے "لکھنے والوں" نے کوئی غلطی تو نہیں کر دی لکھنے میں۔۔؟ بندہ کہے گا آج میں گیا۔۔۔ وہ کہے گا کہ یہ سب میری ہی کرتوت ہے،، میں نے ہی کیا ہے۔۔ پھر اس سے کہا جائے گا کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے جو گناہ تو نے کیے یا تو نے کوئی ایک نیکی کی ہے۔۔؟ اس وقت بندہ اتنا پریشان ہوگا کہ اسے یاد نہیں آئے گا کہ اس نے کوی نیکی کی بھی ہے یا نہیں۔۔ اللّه اس کو یاد کروائیں گے کہ کیوں نہیں،، تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے جو تو نے دنیا میں کی تھی اور پھر اسے کہا جائے گا کہ دیکھ میرے بندے تجھ پر آج ظلم نہیں کیا جائے گا اور پھر کیا ہوگا،، ایک کارڈ نکالا جائے گا جس پر لکھا ہوگا "لا الہ الا اللّٰہ" پھر اللّه پاک فرمائیں گے میزان لگاؤ۔۔ آج وزن کیا جائے گا۔۔ ایک پلڑے میں اسکے ننانوے صحف رکھو اور دوسرے میں یہ کارڈ رکھو۔۔ بندہ پریشان ہوگا اور کہے گا اے میرے رب جہاں ننانوے گناہ سے بھرے صحیفے ہیں وہاں ایک کارڈ کیا کرے گا۔۔ اللّه فرمائیں گے کہ میزان سیٹ کرو۔۔ حدیث شریف میں ہے کہ نہ صرف کارڈ کا پلڑا بھاری ہوگا بلکہ وہ صحیفوں کو اڑا پهینکے گا۔ "سبحان اللّه" پھر اسے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ اور ایسا صرف تب ہوگا جب بندے نے دنیا میں "لا الہ الا اللّه" کو توبہ کے ساتھ جوڑا ہو گا۔۔ تو میرے بہن بھائیوں لا الا الا اللّه کو ہلکا مت لیں۔۔ توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔۔اللّه آپ کا منتظر ہے۔۔ اللّه کی طرف لوٹ جائیں اس سے پہلے کہ موت آپ کو آ دبوچے۔۔


انا سسکیوں سے رونے لگی۔۔ کتنا مہربان ہے رب۔۔ اللّه انسان سی کتنی محبّت کرتا ہے۔۔ اور ہم کیا کرتے ہیں۔۔؟ اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔۔


کیا انسان کو اس دن سے خوف نہیں آتا کہ جب وہ سوئے گا اور جاگنے پر اپنے آپ کو مرا ہوا پائے گا۔۔ کیا قبر میں وہ کہہ سکے گا کہ میں نے فلاں حکم کو نہیں ماننا۔۔


تب بندہ گڑگڑاۓ گا فریاد کرے گا اے اللّه مجھے دنیا میں واپس بھیج دے بس کچھ وقت کے لیے۔۔ میں کبھی تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ میں اپنی زندگی سجدے میں پڑے گزار دوں گا لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔۔


لوگ کہتے ہیں کہ دیکھا جائے گا۔۔ جب قیامت کا وقت ہوگا تو دیکھا جائے گا۔۔؟ جب ہتھوڑے پڑیں گے تو دیکھا جائے گا۔۔؟ جب جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا تو دیکھا جائے گا۔۔؟

افسوس ہے ایسے لوگوں پر جنہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور پتہ ہے دنیا کیسے دھوکے میں ڈالتی ہے۔۔؟ جب انسان اللّه کو بھول کر دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت میں کھو جاتا ہے۔۔

کبھی سوچو تو صحیح کہ کیا تمہارے پاس ایسے عمال ہیں جو روزِ قیامت تمھیں اللّه کے غضب سے بچا سکیں۔۔ ابھی بھی وقت ہے لوٹ جاؤ۔۔ اللّه کو تمہاری واپسی کا انتظار ہے۔۔ وہ تمہارے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے گا جیسے تم نے کبھی کیے ہی نہیں۔۔

وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

"میں تمہارے اندر ہوں تم کیوں نہیں دیکھتے"

\[And In Yourself, Then Why You Not See]

اپنے بہتے آنسوؤں کو پونچھ کر اس نے تشکر سے آسمان کی جانب دیکھا۔۔ اسکے دل کے گرد جمی گرد ہٹنے لگی تھی۔ اسکے دل کا مرض بھی ختم ہونے لگا تھا۔ بالاخر سب ٹھیک ہونے لگا تھا۔۔

بیشک اللّه تو نے ہی مجھے ہدایت دی۔ میں تو کسی قابل نہیں تھی۔ مجھے ہدایت پر قائم رکھنا۔۔

موبائل کو پرس میں ڈال کر وہ اٹھی اور نظریں جھکاۓ پارک کے گیٹ سے نکلتی چلی گئی۔۔

اور بیشک اللّه جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔۔

میری رات دن میں چھپی چھپی۔۔!!

میرا دن چھپا کسی رات میں۔۔!!

میری زندگی اک راز ہے۔۔!!

کوئی راز ہے میری بات میں۔۔!!

میں جہاں کہیں بھی الجھ گئی۔۔!!

وہیں گرتے گرتے سنبهل گئی۔۔!!

مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا۔۔!!

میرا ہاتھ ہے کسی کے ہاتھ میں۔۔!!

جہاں زاد !

اب نہ آنا۔۔

کوئی دوست داری کرنے !

میرا حالِ درد سننے۔۔

میری غم گساری کرنے !

کہ جو ذات پہ گراں تھا۔۔

وہ سمے گزر گیا ہے !

وہ جو دريائے فغاں تھا۔۔

تہہ جاں اتر گیا ہے !

تیری غفلتوں کے پیچھے۔۔

میرے دن بدل گئے ہیں !

سو یہ دوست داری کرنے۔۔

میری دل آزاری کرنے ۔۔

جہاں زاد !

اب نہ آنا ۔۔۔


"""""""""""""""


وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر جاتا ہے۔۔ کسی کی یادوں کے مینار کو پیچھے چھوڑے،، کسی کی گھٹی سسکیوں کو اپنے اندر قید کر کے،، کسی کو نئے جہان سے متعارف کر کے اور کسی کی کھلکھلاہٹوں کی بلائیں لیتے یہ گزرا وقت آنے والے خوشگوار دنوں کی نوید سنا رہا تھا۔۔


"شاہ ہاؤس" میں جھانکو تو وہاں ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا تھا۔۔ لاؤڈ سپیكر پر کوئی فاسٹ بیٹ سونگ لگا کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔۔


لاؤنج کی سیٹنگ تبدیل ہو چکی تھی۔۔ فرش پر قالین بچھا کر اس کے چاروں طرف نئے طرز کے صوفے رکھ دیے گئے تھے۔۔


جن کے درمیان کھڑا راحم پیمپر پہنے گانے کی دھن پر نچلے دھڑ کو دائیں بائیں ہلا رہا تھا۔۔


اس کے سامنے کھڑا لمبے سے قد کا لڑکا اس کے سامنے جھکا تالیاں پیٹتا اسے ناچنے پر اکسا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ ہوٹنگ کرتا جاتا جس سے راحم اس کے بال پکڑ کر کھلکھلانے لگتا۔۔


اس نوجوان نے اپنے گردن تک آتے سٹائلش بالوں کو ہاتھ کی مدد سے سیٹ کیا اور خود بھی بھنگڑے ڈالنے لگا۔۔


او میلا حم حم ،، او میلا حم حم ۔۔۔


راحم کا نام بگاڑ کر اسے بڑا مزہ آتا تھا کیوں کہ وہ اس نام سے چڑتا تھا۔۔


مِیلو کِیلو۔۔۔۔ راحم اسکا نام بگاڑنے کے ساتھ اس کے چہرے پر ننھے ہاتھوں سے تھپڑ مارتا جا رہا تھا۔۔


بھائیییی۔۔۔ اپنی بلا کو سنبھالیں،، کسی دن میں نے اسے کوڑے میں پھینک دینا ہے۔۔۔ شاہ میر نے چلاتے ہوئے شاہ ویر سے کہا جو اوپن کچن میں ایپرن باندهے کھانا بنا رہا تھا۔۔


تم پر ہی گیا ہے،، بھگتو اب۔۔


میر نے صدمے سے کانوں کو ہاتھ لگائے،، اس بلا کا کوئی مقابلہ ہے۔۔؟ ابھی تو ڈیڑھ فٹ بھی نہیں ہے،، جب اگ لے گا تو پتہ نہیں کیا کرے گا۔۔


ویر نے مسکراہٹ دبا کر اپنے لاڈلے کو دیکھا جو ایک سال کا ہونے والا تھا۔۔ جب سے اس نے چلنا شروع کیا تھا سب کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔۔


عدیل شاہ اسے پکڑنے کے لیے جاتے تو وہ "نیواں نیواں" ہو کر بھاگ لیتا جسے بهاگنا تو بلکل نہیں کہتے۔۔ ہاہاہاہا۔۔


ننھی سی ٹانگوں سے وہ سہارا لے کر سارے گھر میں منڈلاتا رہتا۔۔ میر اور راحم کی بلکل نہیں لگتی تھی۔۔ دونوں ایک دوسرے کو تنگ کرنے سے بعض نہ آتے تھے۔۔


راحم نے سب سے پہلی اپنی توتلی زبان سے میر کا نام بگاڑ کر "مِیلُو" بولا تھا۔۔ میر تو اندر تک جل گیا تھا۔۔ پھر اس نے بابا کہنا سیکھا۔۔۔


اب بھی وہ توتلی زبان سے بابا کا ورد کرتا ہاتھ پاؤں گندے کر کے ویر کی ٹانگ سے لپٹا کھڑا تھا۔۔ با۔۔با ،، با۔۔با،، با با با با با ۔۔۔۔۔


جی بابا کی جان میرا چیمپ! ویر نے ایک ہاتھ سے اسے اٹھا لیا اور اس کے دونوں پھولے گلابی گالوں پر زور سے بوسہ دیا۔۔


راحم اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔ ویر نے اسکے دونوں ہاتھ چوم لیے۔۔ اسے راحم کے ہاتھ بہت پسند تھے۔۔ ننھے سے گلابی نرم و ملائم ہاتھ۔۔


چولہا بند کر کے اس نے راحم کو سینے سے لگایا اور ٹیپ کھول کر ہاتھ دھونے لگا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


راحم کو نہلا کر ویر نے اسے کپڑے پہناۓ۔۔ بلیک شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں ننھا راحم نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔۔


ویر نے اس کے بال سیٹ کیے اور اسے لاؤنج میں تیار بیٹھے عدیل شاہ اور میر کے پاس چھوڑ کر خود چینج کرنے چلا گیا۔۔


آج موسم بے حد خوشگوار تھا۔۔ تیز ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اس لیے انہوں نے آؤٹنگ کا پلین بنایا۔۔


آ جا میرا شیر اپنے دادُو کے پاس۔۔ عدیل شاہ نے اسے اچک کر گود میں بٹھا لیا۔۔


دااااا۔۔۔دوووو ۔۔۔ داا دا۔۔ راحم کی توتلی زبان میں گردان شروع ہو چکی تھی۔۔


بابا ۔۔۔! ہفتے کو کالج میں "کلچر فیسٹیول" ہے۔۔ آپ چلیں گے۔۔؟ اس سال آؤٹ سائیڈرز کو بھی آنے کی اجازت ہے۔۔


میر نے سٹائلش نیلی جینز کو ٹخنوں سے فولڈ کیا اور فلور لنتھ مرر میں اپنا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے عدیل شاہ سے استفسار کیا۔۔


دیکھیں گے موڈ بنا تو چلیں گے۔۔۔


بابا آ جائیے گا نا۔۔ میں نے بھی پرفارم کرنا ہے۔۔


اچھا چلو چلے جائیں گے۔ ہم بھی دیکھیں اپنے سپوت کے کارنامے۔۔۔


ارے ہمارے کارنامے تو ایک دنیا دیکھتی ہے۔۔ میر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک ادا سے کہا تو عدیل شاہ کا ہاتھ اپنے جوتے کم چپل کی طرف گیا۔۔


ارے بابا آپ کب اپنا یہ " لائٹ ویٹ چِھتّر" بدلیں گے۔۔ ویسے وجہ کیا ہے جو آپ ہر دفعہ ایسی ہی چپل پہن کر کہیں بھی چل پڑتے ہیں۔۔ ؟


بیٹا میں نے یہ "لائٹ ویٹ چھتر" اس لیے رکھا ہوا ہے کبھی میرا کسی ایسے شخص سے سامنا ہو جائے جسے چھتر مارنے کا میرا دل کرے تو میں اسے یہ اڑا کر دے ماروں۔۔


لائٹ ویٹ کا یہ فائدہ ہے کہ سامنے والے کو چوٹ بھی نہیں پہنچے گی اور میری خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔۔


تو آپ کو کوئی ایسا ملا۔۔؟؟ میر نے ٹیڑھی نظروں سے انکی چپل کو دیکھتے ہوئے کہا اور آہستہ سے کھسکنے لگا۔۔


ہاں،،، میرے سامنے کھڑا ہے،، رکو ذرا انکا ہاتھ چپل تک گیا ہی تھا کے میر وہاں سے اڑنچھو ہو گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


دوپہر کا وقت تھا۔۔ آئمہ اپنے بستر پر لیٹیں آرام کر رہی تھیں جب کہ عین کمرے کے کونے میں رکھے اسٹڈی ٹیبل پر اپنی کتابیں پھیلاۓ بیٹھی تھی۔۔


ایف ایس سی کے پہلے سال میں اسکی سیكنڈ پوزیشن آئی تھی۔۔ اب دوسرے سال کا آغاز تھا۔۔


بے انتہا اسائنمنٹس، ٹیسٹ، اسٹڈی کمپیٹیشنز۔۔۔ اس سب میں اسے اپنی ہوش تک نہیں تھی۔۔ وہ دن رات پڑھتی رہتی تا کہ اس دفعہ پہلی پوزیشن پر آ سکے۔۔


ابھی بھی وہ گرے كیپری شرٹ میں ملبوس فزکس کی اسائنمنٹ بنانے میں بری طرح غرق تھی کہ دروازہ زور سے پیٹا جانے لگا۔۔


عین نے ڈر کر آئمہ کو دیکھا جو خود بھی دروازہ پیٹنے کی آواز سن کر اٹھ گئی تھیں۔۔


ایسا لگتا تھا کہ جو کوئی بھی تھا وہ دروازہ توڑ کر ہی دم لے گا۔۔


عین کو ریلیکس ہونے کا کہہ کر انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ بیرونی دروازہ کھولا۔۔


سلام خالہ جی۔۔ ہمیں خوش آمدید تو کہیے،، توصیف اپنے ماں باپ کے ساتھ نازل ہو چکا تھا۔۔


آئمہ کا دل بےاختیار گھبرانے لگا۔۔ چند مہینے سکون رہا تو انہیں لگا کہ اس نے اپنی ضد چھوڑ دی ہوگی۔۔ لیکن اب پھر وہ نازل ہوگیا تھا اور اس دفعہ اپنے ماں باپ کو بھی ساتھ لے آیا تھا۔۔


کیوں ہمیں دیکھ کر سانپ سونگھ گیا کیا۔۔؟ ارے اندر تو آنے دو۔۔۔ ہاتھ سے انکو ایک طرف ہٹا کر وہ اپنے ماں باپ سمیت اندر داخل ہوگیا۔۔


یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔؟ جب تمہیں ایک دفعہ کہہ دیا تو کیوں بار بار منہ اٹھا کر چلے آتے ہو۔۔ اور انور تم تو سمجھدار ہو اس کی فضول ضد میں اس کا ساتھ دے رہے ہو۔۔؟


دیکھیں ہمارے بیٹے کی یہ خواہش ہے اور اس میں کوئی برائی بھی تو نہیں۔۔

ہم عزت سے رشتہ مانگنے آئے ہیں۔۔ اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں۔۔ اور آپ کو کیا چاہیے۔۔؟


رخسانہ خاموش بیٹھیں انکا منہ تک رہی تھیں۔۔ اگر ان کی مرضی چلتی تو وہ اس وقت یہاں موجود نہ ہوتیں۔۔

شوہر اور بیٹے کے مجبور کرنے پر وہ یہاں آئی تھیں۔۔ بھلا وہ جانتی نہیں تھیں کہ ان کے نشہ کرنے والے بیکار بیٹے کو کون لڑکی دے گا۔۔


دیکھو انور میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی۔۔ تم ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلے جاؤ۔۔ میں اعینہ کا رشتہ کہیں اور طے کر چکی ہوں۔۔


دروازہ کے پیچھے سے جهانكتی عین نے جلدی سے جہان کا نمبر ملایا جو اس وقت آفس میں تھا۔۔


ہیلو ہان بھائی۔۔۔ نہیں خیریت نہیں ہے۔۔ وہ پھر آ گیا ہے۔۔ وہ توصیف،، اپنی ماما بابا کے ساتھ۔۔


نہیں نانو نے نہیں آنے دیا وہ زبردستی گھس گئے۔۔ اب باہر وہ بحث کر رہے ہیں نانو سے۔۔


مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ جلدی آ جائیں۔۔ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جسے سننے کے بعد اس نے کال بند کر دی۔۔


جہان تشویش سے اٹھا اور ایمرجنسی لیو لے کر جلدی سے گھر کے لیے روانہ ہوا۔۔


میرے پہنچنے تک بس کچھ نہ ہو۔۔ دل میں دعا کرتے اس نے بائیک گھر کے سامنے کھڑی کی اور تیزی سے ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔


جہان کو دیکھ کر پریشانی سے کچھ کہتیں آئمہ کے چہرے پر اطمینان چھا گیا۔۔


جب کہ توصیف کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہ تھا البتہ انور صاحب تھوڑا گھبرا گئے تھے،،


کیوں کہ ان کے سامنے ہی ایک دفعہ جہان نے پانچ لڑکوں کو بری طرح پیٹا تھا جو لڑکیوں پر فقرے کس رہے تھے۔


وہ جانتے تھے کہ جہان غصے کا بہت تیز تھا خاص کر ایسے معملوں میں۔۔


توصیف اس بات سے ناواقف تھا۔۔ وه کچھ اس لیے بھی پرسکون تھا کہ اس کی جیكٹ کی جیب میں ریوالور پڑی تھی۔۔ جسکا علم اس کے ماں باپ کو بھی نہیں تھا۔۔


جہان اس کے قریب پہنچا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھینچا۔۔

لگتا ہے پچھلی دفعہ کی مار تم بھولے نہیں۔۔


جہان چھوڑو اسے،، ہٹو پیچھے۔۔

انور صاحب، توصیف کو چھڑانے کے لیے بڑھے تو جہان نے غصے میں انہیں پیچھے کی طرف دھکا دیا جس سے وہ لڑکھڑا گئے۔۔


تیری اتنی ہمت میرے باپ کو دھکا دیتا ہے سالا**** ابھی تیری ہیروپنتی نکالتا ہوں سالا حرا*** توصیف نے پوری قوت سے جہان کو دھکا دیا جس سے وہ اپنی جگہ سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا۔۔


جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر اس نے ریوالور نکالا اور جہان پر تان لیا۔۔


نانو اندر جائیں اور دروازہ بند کر لیں۔۔ جہان چیخا تو آئمہ روتی ہوئیں نفی میں سر ہلانے لگیں۔۔


تمھیں چھوڑ کر کیسے جاؤں۔۔۔


انور كمینگی سے مسکرا کر پیچھے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔۔ انہوں نے توصیف کو روکنے کے لیے جاتی رخسانہ کو بازو سے پکڑ کر روک دیا۔۔


نانو آئی سیڈ گو۔۔ وہ دوبارہ چیخا تو آئمہ نہ چاہتے ہوئے بھی کمرے کی طرف بڑھیں جہاں عین آنکھیں میچے ڈری سہمی کھڑی تھی۔۔


وہ ابھی دروازے کے قریب پہنچی ہی تھیں کہ

توصیف نے انکا بازو پکڑ لیا۔۔


ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔ اس نے ریوالور ان پر تان لیا تا کہ جہان کو خوفزدہ کر سکے۔۔


اسکا دیہان ذرا سا ہٹا کہ جہان بجلی کی سی تیزی سے اس کے ریوالور تانے ہاتھ پر جھپٹا۔۔


توصیف نے ریوالور پر گرفت مضبوط کرلی۔۔ دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔۔ اسی کھینچا تانی میں ریوالور چل گیا۔۔


لاؤنج میں نصب ایل سی ڈی کی سکرین چھناکے سے ٹوٹ گئی،، جہان نے اسکے پیٹ میں گھٹنا مارا جس سے وہ دوہرا ہو گیا۔۔


اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر اس نے ریوالور جھپٹا اور اس کے منہ پر پے در پے گھونسے مارنے لگا،، مارتے مارتے اس کے ہاتھ کی جلد پھٹ گئی تھی اور خون نكلنے لگا تھا۔۔


سیدھا ہو کر اس نے ڈری ہوئی کھڑی آئمہ کو کمرے میں بھیج کر ریوالور اندر پھینکا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔۔


واپس مڑتے اس نے ماتھے سے بکھرے بال ہٹاۓ اور نیچے گرے توصیف کو ٹھوکریں مارنے لگا۔۔


کہا تھا نہ کہ دوبارہ اپنی شکل بھی نہ دکھانا۔۔ اب کی بار تم اچھی طرح میری بات سمجھ جاؤ گے۔۔


جہان نے اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور دور دبکے کھڑے انور اور رخسانہ کی طرف دھکا دیا۔۔


آؤٹ ،، انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کرتے اس نے درشتگی سے کہا۔۔


اسکے تنے ہوئے جبڑے اور لہو رنگ آنکھوں کو دیکھ کر انور خوفزدہ ہو گئے۔۔


توصیف کا بازو تھام کر وہ کھسکنے لگے کہ توصیف نے انکا ہاتھ جھٹک دیا۔۔


اے ایس پی مختیار کو تو جانتے ہو گے۔۔ اپنی پہچان کے بندے ہیں۔۔

چند گھنٹے،، صرف چند گھنٹے بعد میں دوبارہ آؤں گا۔۔


مجھے یہ ثابت کرتے کوئی مشکل نہیں ہوگی کہ میری ہونے والی بیوی کو تم لوگوں نے قید کر رکھا ہے۔۔


اور افسوس تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ وہ تمہاری بہن ہے۔۔ کیسے ثابت کرو گے۔۔؟


استہزا سے اسے دیکھ کر وہ لڑکھڑاتے قدموں سے دروازہ عبور کر گیا۔۔ انور اور رخسانہ بھی جلدی سے اس کے پیچھے ہو لیے۔۔


پہلی بار جہان کے چہرے پر تفکرات کے سائے منڈلانے لگے۔۔ اس اے ایس پی کی شہرت وہ بہت بار سن چکا تھا۔۔ اور یہ شہرت اچھے کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔۔


قدم واپس موڑتے اس نے آئمہ کے کمرے کا دروازہ کھولا جو جانے کب سے دروازہ بجا رہی تھیں۔۔


اندر کمرے میں دونوں کی گفتگو کی آواز باآسانی پہنچ گئی تھی۔ عین کب سے روۓ جا رہی تھی۔۔


آئمہ نے تفكر سے جہان کو دیکھا۔۔ ہان وہ تھوڑی دیر تک پھر آ جائے گا۔۔ دیکھو ،، میری بات غور سے سنو۔۔


میں جو بھی کہنے جا رہی ہوں اس وقت وہی بہتر ہے،، میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔


تم تم۔۔۔ جلدی سے مولوی کو بلا کر لاؤ۔۔ جاؤ جلدی۔۔۔

لیکن کیوں نانو۔۔ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔

میں کہہ رہی ہوں مولوی کو بلا کر لاؤ ابھی۔۔ابھی اور اسی وقت عین کا نکاح ہوگا۔۔


جہان نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔ کس کے ساتھ۔۔؟


"تمہارے ساتھ"۔۔۔۔ آئمہ نے زور دیتے ہوئے کہا۔۔


جہان کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔ کئی لمحے وہ بےيقینی سے انہیں دیکھتا رہا۔۔


اس کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔۔ عین بھی روتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔


کیا کہا آپ نے؟؟ آپ ہوش میں تو ہیں۔۔؟

جہان نے آواز کو اونچا ہونے سے روکا۔۔

جہان میں نے کہا کہ ابھی اور اسی وقت تمہارا اور عین کا نکاح ہوگا۔۔

نانو آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔۔؟ آپ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔۔؟ جہان کی آواز غم و غصے سے پھٹنے لگی۔۔ ابھی تو پچھلے زخم نہیں بھرے تھے۔۔

اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔۔

انکے کاندھے کے گرد دھرا اس کا ہاتھ بےجان ہو کر گر پڑا،، اس کی آنکھ سے ایک آنسو بےمول ہو کر گال پر پهسلتا چلا گیا۔۔

اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ نانو اس کے ساتھ ایسا کریں گی۔۔

گھٹی گھٹی سسکیاں لیتی عین پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈال کر وہ غصے سے باہر نکل گیا۔۔

نانو آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔۔ آپ بہت ظلم کر رہی ہیں ۔۔۔

چپ کرو تم،، یہی تم دونوں کے لیے بہتر ہے۔۔ آج کے بچے بڑوں کو بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔۔ میں نے یونہی نہیں لے لیا یہ فیصلہ۔۔ بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے۔۔

اگر میری ذرا سی بھی پرواہ ہے تو خاموشی سے نکاح نامے پر دستخط کر دینا۔۔

عین نے بےبسی سے انہیں دیکھا اور ہتھیار ڈال دیے۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

شیخوپورہ،، مقام "ہرن مینار"۔۔۔۔۔

پانی کے بیچ و بیچ پوری شان سے بنی "بارہ دری" کے سامنے کئی فٹ لمبی چوڑی سیڑھیوں پر وہ دونوں ہاتھ سفید پینٹ کی جیب میں ڈالے آنکھیں موندے ہوئے کھڑا تھا۔۔

اسکی سفید ہلکی شرٹ ہوا کے زور سے پھرپھرا رہی تھی۔۔ اوپر کے کھلے دو بٹن اس کے کسرتی سینے کو واضح کر رہے تھ۔۔

ہوا کا ایک شریر جھونکا آیا اور اس کے بالوں سے اٹھکیلیاں کرتا گزر گیا۔۔

دھیمی مسکان چہرے پر سجا کر اس نے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹے۔۔

اسکے گال میں ہلکے سے ابھرتے ڈمپل پر وہاں موجود کئی لڑکیاں دل ہار گئیں۔۔

وہ ایسا ہی کچھ دلکش لگ رہا تھا۔۔ سب کی نظروں کو محسوس کرنے کے باوجود وہ لا تعلق کھڑا تھا۔۔

بھائی سنبهالیں اسے،، ناک میں دم کر دیا ہے اس چھوٹے پیکٹ نے۔۔ میر جھنجھلاتا ہوا نمودار ہوا اور راحم کو اسے تھما کر نو دو گیارہ ہو گیا۔۔

ابھے یار یہ تو شادی شدہ پلس ایک بچے کا باپ ہے،، اپنے پیچھے کسی لڑکی کی سرگوشی سن کر ویر نے امڈ آنے والی مسکراہٹ کو لب کے کنارے دبايا۔۔۔


اس نے راحم کو اچھی طرح ساتھ لپٹا کر واپس گراؤنڈ کی طرف قدم بڑھاۓ جہاں میر اور عدیل شاہ گھاس پر پکنک میٹ بچھاۓ اس پر کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لائے بیگ سے نکال کر رکھ رہے تھے۔۔


فروٹس،، آئسکریم، چیزی پاستا، بریانی اور ایسی کئی چیزیں دیکھ کر پاس لیٹے میر کے منہ میں پانی آ گیا۔۔


اس نے جلدی سے پاستا کی طرف ہاتھ بڑھایا تو عدیل شاہ نے اس کے ہاتھ پر تهپڑ مارا۔۔


صبر نہیں ہے،، ویر کو تو آنے دو،، ندیدے کہیں کے۔۔ میر نے منہ بنا کر ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی حسین متوجہ تو نہیں،،


سب کو اپنے آپ میں مگن پا کر اس نے سکون کا سانس لیا نہیں تو اسکی ساری پرسنالٹی کا بیڑا غرق ہوجانا تھا ان حسیناؤں کے سامنے۔۔


پتہ نہیں تم کس پر چلے گئے ہو ،، نہ میں ایسا نہ تمہاری ماں ایسی تھی اور نہ ہی ویر ایسا۔۔


وہ تو اتنا سوبر ہے، تم پتہ نہی کس پر چلے گئے،، انہوں نے مزید گوہر افشانی کی تو میر بھی جواباً بول اٹھا۔۔


وہ جو سامنے سے ایک آنٹی آرہی ہیں ان پر تو نہیں چلا گیا ۔۔؟


میر نے سنجیدگی سے دريافت کیا تو عدیل شاہ نے فوراً اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔


بالوں کی دو پونیاں کیے ایک قدرے فربہہ خاتون اپنے ساتھ ایک نوجوان کو پکڑے کم گھسیٹتے آرہی تھی۔۔


میر اور عدیل شاہ میں نظروں کا تبادلا ہوا۔۔


میر نے ہاتھ کی انگلیوں پر ایک ، دو ، تین گنا اور پھر دونوں کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔۔۔


اُپس چھت تو تھی ہی نہیں۔۔۔۔ لوگوں کے کان پھاڑ قہقہہ گونجا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا نے ابیحہ کا بازو پکڑ کے کھینچتے اسے درخت کے نیچے بیٹھی عائزہ کے پاس پٹخا۔۔


شرمندگی سے اس کا برا حال تھا۔۔ تم پاگل ہو؟؟ کیا ضرورت تھی اس کے بارے میں کچھ کہنے کی۔۔


وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو تم نے ضرور ان صاحب کی ذات پر تبصرے کرنے تھے۔۔۔؟ انا نے غصے سے کہا۔۔


اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابیحہ کا گلا دبا دیتی۔۔ اس نے انکی باتیں سن لی تھیں تبھی تو مسکراہٹ دبا رہا تھا۔۔


تمہیں فرق ہی نہیں پر رہا ڈیٹھھ عورت اس نے سن لیا تھا۔۔


ہیں سچی ۔۔۔۔؟ ابیحہ خوشی سے چیخی تو انا اسے مارنے کے لیے بڑھی لیکن عائزہ درمیان میں آ گئی۔۔


ہوا کیا ہے۔۔؟ کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔۔ بس جنگلیوں کی طرح لڑ رہی ہو۔۔۔


یار اس پاگل نے۔۔۔۔

رکو میں بتاتی ہوں،، تم نے تو رنگین کہانی کا ستیاناس کر کے رکھ دینا ہے۔۔


انا نے بتانا شروع کیا ہی تھا کہ ابیحہ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔۔ انا نے ایک مکا اس کی کمر میں جڑ دیا۔۔۔


انا رکو تو صحیح،، ہاں اب بتاؤ مجھے تم،،

یار بس کیا بتاؤں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بھٹکا ہوا شہزادہ راستہ بھول کر زمین پر آگیا ہے۔۔


ایسے حسین تو کسی اور سیارے پر پائے جاتے ہوں گے۔۔۔ میں اس میں کھوئی ہوئی تھی اور وہ مجھ میں۔۔۔۔


میرا مطلب ہے خود میں کھویا ہوا تھا۔۔۔ عائزہ کے اپنی کمر پر دھموكا جڑنے پر اس نے اپنے الفاظ میں ذرا سی تبدیلی کی۔۔


ہوا سے اس کے بال۔۔۔۔۔۔

عائزہ اسے چپ کروا لو ورنہ آج میں نے اس کا منہ توڑ دینا ہے۔۔۔


انا کا غصہ دیکھ کر اس نے مسکراہٹ دباتے جلدی سے ساری روداد سنا دی۔۔


عائزہ نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے اسے ڈپٹا تو ابیحہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔


مزید چوں چراں کیے بغیر تینوں کھانے میں مگن ہو گئیں کیوں کہ بھوک سے پیٹ میں چوہوں نے دھرنا دے دیا تھا۔۔


عائزہ اور ابیحہ عباۓ اور حجاب میں درخت کے ساتھ بیٹھی تھیں جب کہ انا رخ موڑ کر ان کی طرف منہ کیے بیٹھی تھی۔۔۔اس نے نقاب ہلکا سا سركا لیا تھا۔۔


یار وہ دیکھو وہی ہے۔۔جس کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔ ابیحہ نے پاس سے گزرتے شاہ ویر کی طرف اشارہ کر کے عائزہ کو ٹہوکا دیا۔۔


ہاں ہے تو پیارا۔۔ یار اس کا بےبی کتنا پیارا ہے۔۔۔ اس نے ستائش سے کہا تو انا نے نظر کی نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر نظروں کا زاويہ بدل لیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ویر اتنی دیر کر دی آنے میں ،، کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔۔


سوری بابا۔۔۔ راحم کو اپنے برابر بٹھا کر اس نے معذرت کی۔۔


چپس کا ٹکڑا منہ میں ركهتے میر نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔


ویر نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔ میر تم نے اگر کوئی فضول بات کی تو ارد گرد کا لحاظ کیے بغیر تمہاری عقل ٹھکانے لگا دوں گا۔۔


اوکے اوکے میں کب کچھ کہہ رہا ہوں۔۔ میر نے دونوں ہاتھ کھڑے کر کے کہا ۔۔۔


راحم بہت بوریت محسوس کر رہا تھا،، ان کو آپس میں الجھے پا کر وہ وہاں سے کھسک گیا۔۔


سب سے پہلے میر کی نظر اس پر پڑی۔۔ بھائی وہ دیکھیں آپ کا "چھوٹا ڈون" حسینوں کے چنگل میں پهنسا ہوا ہے۔۔۔


ویر نے اپنے آپ کوش کوستے فوراً اس طرف دیکھا جہاں میر دیکھ رہا تھا۔۔ وہ جلدی سے اپنے "ڈیڑھ فٹ " کو پکڑنے کے لئے گیا۔۔۔


کسی نے انا کا دوپٹہ کھینچا۔۔ انا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو راحم شرما کر پیچھے ہٹ گیا۔۔


انا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔ اس نے اسے گود میں بٹھا لیا اور نقاب کے اوپر سے ہی اس کے گول مٹول گالوں کو چومنے لگی۔۔


ابیحہ اورعائزہ نے بھی اسے پیار کیا۔۔ ابیحہ نے اسے پکڑنا چاہا لیکن وہ انا کی گود سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔


اس نے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد پھیلا لیے اور انا کے سینے پر سر رکھ دیا۔۔


انا نے نرمی سے اسکا سر چوم کر اس کے گرد بازو پھیلا لیے۔۔ یار کتنا پیارا بےبی ہے یہ،، لیکن یہ یہاں کر کیا رہا ہے اور اسکے پیرنٹس کتنے غیر ذمہدار ہیں۔۔۔


او تیری۔۔۔۔۔ انا اس پیارے بےبی کے ابا صاحب تیوری چڑھاۓ ہماری طرف ہی آرہے ہیں۔۔


انا نے فوراً مڑ کر دیکھا۔۔ ویر ان کے سر پر پہنچ چکا تھا۔۔ اکسکیوزمی ہی از مائی چائلڈ۔۔ پلیز لیو ہِم۔۔


انا نے اسے اپنے آپ سے الگ کرنا چاہا لیکن وہ پھر سے اس کے ساتھ چمٹ گیا۔۔


راحم یہاں آؤ۔۔۔ بابا کے پاس۔۔۔ ویر نے راحم کے سامنے ہاتھ پھیلاۓ لیکن وہ کسی اور ہی موڈ میں تھا۔۔


راحم جاؤ بابا پاس۔۔۔ انا نے زبردستی اسے اپنے آپ سے الگ کیا ۔۔۔ ویر کے پکڑتے ہی اس نے رونا شروع کر دیا۔۔


بس بس ہم میلو کے پاس جا رہے ہیں۔۔ وہ دیکھو میلو بلا رہا آپ کو لیکن وہ مسلسل روتا جارہا تھا۔۔


بابا بابا۔۔۔ دو ۔۔۔ وہ انگلی انا کی طرف کیے روتے ہوئے بولتا جا رہا تھا۔۔


انا نے اداسی سے اسے روتے ہوئے دیکھا۔۔ اس کا بلکل دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اسے اپنے سے دور جانے دے،،، ایک عجیب سے احساس نے اسے گھیر لیا۔۔۔


تھوڑی دیر گزری تھی کہ ویر عدیل شاہ کے ہمراہ انہیں اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔۔


وہ بس واپسی کے لیے اٹھی ہی تھیں کہ عدیل شاہ نے انہیں پکارا۔۔

السلام علیکم بیٹا ۔۔۔ آپ سے ایک درخواست کرنی تھی،،، انہوں نے انا کی طرف دیکھ کر کہا تو انا گڑبڑا گئی ۔۔


ابیحہ اور عائزہ نے صورتحال کا جائزہ لے کر مسکراہٹ دبائی۔۔۔

وعلیکم السلام جی کہیے۔۔


راحم پھر سے انا کی طرف ہمکنے لگا۔۔ انا نے ویر کے سنجیدہ اور مغرور چہرے کو دیکھا۔۔ ہنہ کتنی اکڑ ہے اس میں۔۔ اٹھتیتوڈ ایسے دکھا رہا ہے جیسے ہم اس کے پیچھے آئے ہیں۔۔ دل میں تلملاتے ہوئے اس نے راحم کو پکڑ لیا۔۔


اس کے پاس آتے ہی راحم نے اسکی گردن میں منہ چھپا لیا۔۔ انا نے اس کے گرد بازو حمائل کر دیے۔۔


بیٹا راحم کو اچانک پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔۔ وہ بار بار آپ کے پاس آنے کی ضد کر رہا ہے۔۔ اصل میں اسکی ماں نہیں ہے۔۔۔ اسکے پیدا ہونے کے اگلے دن ہی دنیا سے چلی گئی تھی۔۔


انا کی آنکھوں میں اداسی اتر گئی۔۔ یہ بھی میری طرح اکیلا ہے۔۔۔ اس نے افسردگی سے سوچا۔۔


ماں کا پیار کیا ہوتا ہے اسے نہیں پتہ۔۔ آپ سے شاید اسے انسیت ہو گئی ہے۔۔ یہ کب سے روۓ جا رہا ہے۔۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنا موبائل نمبر دے دیں۔۔۔ تا کہ آئندہ آپ سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر لیں۔۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو۔۔


انا کا دل راحم کے لیے نرم پر چکا تھا۔۔ اس نے صورتحال کو سمجھتے اپنا موبائل نمبر انہیں نوٹ کروا دیا۔۔


راحم کو بمشکل بہلا پھسلا کر ان کے حوالے کر کے وہ معذرت کرتیں نکل گئیں کیوں کہ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


آئمہ کے کمرے میں اس وقت گہری خاموشی تھی۔۔ اتنی خاموشی کہ سوئی گرنے سے بھی آواز پیدا ہوتی۔۔


کئی دفعہ زندگی میں ایسا مقام بھی آتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جانے کو جی کرتا ہے۔۔ کمرے میں موجود چاروں گواہوں میں نظروں کا تبادلا ہوا۔۔


کیا آپ کو اعینہ ولد عبدالرحمان سے نکاح قبول ہے۔۔؟ مولوی نے دوبارہ دوہرایا تو جہان نے آنکھوں کی نمی چھپاتے اثبات میں سر ہلایا۔۔


دونوں کے اقرار اور نکاح ناموں پر دستخط کے بعد انہیں مبارک دی گئی۔۔ جہان کے دوست جو ایمرجنسی نکاح میں بطور گواہ کے پیش ہوئے تھے اٹھ کر اسے گلے لگا رہے تھے۔۔


آئمہ نے عین اور جہان دونوں کو پیار دیا اور زندگی بھر کے ساتھ کی دعا دی۔۔


جونہی سب وہاں سے نکلے جہان بھی ایک نفرت بھری نگاہ عین پر ڈال کر ان کو باہر تک چھوڑنے گیا۔۔۔


وه لوگ ابھی نکلے ہی تھے کہ پولیس کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔۔ جہان نے اندر جا کر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر دھرا نکاح نامہ اٹھایا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے باہر نکل گیا۔۔


آئمہ پریشانی سے آیت كریمہ کا ورد کرنے لگیں۔۔ اللّه خیر کرے۔۔


توصیف نے دروازے کی بیل بجانے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ جہان نے دروازہ کھول دیا۔۔


پیچھے ہٹو گھر کی تلاشی لینی ہے۔۔ پولیس انسپکٹر نے انتہائی بدتمیزی سے کہا تو جہان نے غصے سے مٹھی بھینچی۔۔


کیوں لینی ہے گھر کی تلاشی۔۔ کچھ پتہ بھی تو چلے،، کسی بھی راہ چلتے کتے کو ساتھ لیے آپ ایسے کیسے شریفوں کے گھر گھس سکتے ہیں۔۔


اپنی بےعزتی پر توصیف تلملا گیا۔۔ او لونڈے سیدھی بات کرتا ہوں،، اسکی ہونے والی بیوی کو تم لوگوں نے قید کر رکھا ہے۔۔ شرافت سے کہے دیتا ہوں،، اسے ہمارے حوالے کر دو۔۔


آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے،، یہاں میرے علاوہ صرف میری نانو اور میری بیوی ہے۔۔


بکواس کر رہا ہے یہ۔۔ اعینہ اندر ہی ہے۔۔۔ آپ اندر چل کر دیکھیں۔۔

توصیف نے انسپکٹر کو دیکھ کر کہا تو جہان نے غصے سے ایک گھونسا اس کے منہ پر جڑ دیا۔۔


آئندہ اپنی گندی زبان سے میری بیوی کا نام بھی مت لینا۔۔ انسپکٹر نے جہان کا ہاتھ جھٹکا۔۔


توصیف نے جو صورتحال انہیں بتائی ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ضرور کوئی گڑبڑ تھی۔۔


کک کیا مطلب تمہاری بیوی کیسے وہ تو تمہاری بہن تھی۔،، جبڑے میں اٹھتی تکلیف کو نظرانداز کیے وہ حیرت سے پوچھنے لگا۔۔


انسپکٹر نے کھا جانے والی نظروں سے توصیف کو دیکھا۔۔ مطلب وہ اسے الو بنا گیا تھا۔۔


انسپکٹر میں مزید کوئی تماشا نہیں چاہتا۔۔ لوگ جمع ہونے لگے ہیں۔۔ یہ ہمارا نکاح نامہ ہے۔۔ اعینہ کے ساتھ میرا نکاح ہو چکا ہے۔۔


اس نے نکاح نامہ ان کی طرف بڑھایا تو انسپکٹر غور سے دیکھنے لگا۔۔۔


لونڈا ٹھیک کہوے ہے۔۔ یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔


انسپکٹر نے توصیف کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ تو نے مجھے الو بنایا اب دیکھ میں تجھے کیسے لَلُّو بناتا ہوں۔۔


توصیف تھوک نگل کر اس کے پیچھے چل دیا۔


جہان نے غصے سے دروازہ بند کیا اور آئمہ کے کمرے میں جا کر نکاح نامہ ٹیبل پر پٹخ دیا۔۔


ہان میری بات سنو۔۔۔ آئمہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا تو اس نے اپنا بازو چھڑا لیا۔۔


نانو اب کیا رہ گیا کہنے سننے کو۔۔ سردمہری سے کہہ کر وہ بغیر ان کی طرف دیکھے اپنے کمرے میں چلا گیا اور زوردار آواز سے دروازه بند کیا۔۔


عین افسردہ کھڑی آئمہ کے پاس آئی۔۔ نانو وہ ٹھیک ہو جائیں گے آپ پریشان نہ ہوں۔۔


عین نے اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے کہا نہیں تو جس طرح جہان نے نفرت بھری نگاہ سے اسے دیکھا تھا اس معصوم کا تو دل ہی چھلنی ہو گیا تھا۔ بھلا اس سب میں میرا کیا قصور۔۔۔؟


مجھے پتہ ہے تم دونوں مجھ سے بہت ناراض ہو لیکن ایک وقت آئے گا جب تم لوگ سمجھ سکو گے کہ میرا یہ فیصلہ صحیح تھا،، آئمہ نے اس کے گال پر ٹھہرے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔


نانو میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔۔ میری سگی ماں نے مجھے اتنا پیار نہیں دیا جتنا آپ نے دیا،،


مجھے ہان بھائی کے رویے سے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔ میرا کیا قصور اس سب میں۔۔؟ عین پھپھک پھپھک کر رو دی۔۔


ہش پگلی اب وہ تمہارا شوہر ہے ۔۔ کچھ خیال کرو تم اب بھی اسے بھائی کہہ رہی ہو،،،


آئمہ نے اسے ڈپٹ کر کہا تو پہلی دفعہ اسے ان دونوں کے مابین رشتے کا احساس ہوا۔۔


وہ غلطی سے ۔۔۔۔۔ عین نے آنسو صاف کرتے ہوئے معصومیت سے کہا تو آئمہ نے اسکا سر چوم لیا۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


رات کی تاریکی ہر سو چھا چکی تھی۔۔ عین نے الماری سے آرام دہ کالی سادہ شلوار قمیض نكالی اور شاور لینے چلی گئی۔۔


غسل خانے سے باہر آ کر اس نے گیلا چہرہ تولیے سے پونچھا اورچہرے کے گرد دوپٹے کو اچھی طرح لپیٹ کر نماز ادا کرنے کے لیے کھڑی ہوگئی۔۔


نماز کی ادائیگی کے بعد اس نے اپنے الجھے بالوں کو سلجها کر ڈھیلے سے جوڑے میں باندھ لیا اور لائٹ بند کر کے بستر پر لیٹیں آئمہ کے برابر لیٹنے لگی تھی کہ آئمہ نے بازو چہرے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔۔


عین اب تم ہان کے کمرے میں سویا کرو ۔۔۔ چلو شاباش جاؤ۔۔ اب وہی تمہارا کمرہ ہے۔۔


نانو نہیں پلیز،، میں کیسے وہاں،، میں نہیں ادھر،، نہیں جانا،، عین نے بے ربط لہجے میں کہا۔۔


وہ جہان سے بے حد خوفزدہ ہو چکی تھی۔۔

عین کچھ نہیں کہے گا وہ۔۔ میرا نام لے لینا۔۔ آج نہیں تو کل تمھیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہے۔۔۔چلو شاباش میرا پیارا بیٹا۔۔۔ آئمہ دور کا سوچ رہی تھیں،، اگر دونوں ایسے ہی الگ رہے تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔۔ جہان کو وہ جانتی تھیں ،، انا کے بعد وہ کسی سے بھی شادی پر آمادہ نہ ہوتا۔۔ عین کا جو مسئلہ سامنے آیا تھا اس سے انہیں یہی بہتر لگا کہ ان دونوں کا نکاح کر دیں۔۔۔کسی کے نہ ملنے سے زندگی تو نہیں رک جاتی۔۔ عین کو بھی کبھی نہ کبھی تو بیاہنہ تھا نہ۔۔ وہ انہیں اتنی پیاری ہو چکی تھی کہ وہ اسے کسی باہر والے کو سونپنے سے ڈرتی تھیں۔۔ اس لیے انہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا تھا۔۔


عین آنکھیں جهپک کر آنسو اندر دھکیلتی کھڑی ہو گئی۔۔ سرہانے سے دوپٹہ اٹھا کر اس نے گلے میں ڈالا اور دھڑکتے دل سے باہر نکل کر کمرے کا دروازہ آہستگی سے بند کر دیا۔۔۔


لاؤنج میں آ کر وہ انگلیاں چٹخانے لگی۔۔ وہ جہان کے کمرے میں جانے کی بجاۓ پانی پینے کچن میں آگئی۔۔


اندر قدم رکھتے ہی اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔


سامنے جہان سلیو لیس شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس سلیب پر رکھے گلاس میں بوتل سے پانی انڈیل رہا تھا۔۔


اس کے بکھرے بال اور سرخ آنکھوں کو دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گئی۔۔ وہ تیزی سے واپسی کے لیے موڑی لیکن تب تک جہان اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔


بجلی کی سی تیزی سے وہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔۔ اس نے عین کے بازو میں بےدردی سے اپنے مظبوط ہاتھوں کی انگلیاں گاڑ کر جھٹکے سے اپنی طرف موڑا۔۔


سی،، عین کے منہ سے تکلیف کی وجہ سے سسکی نکلی۔۔۔


سکون مل گیا تمہیں ہاں۔۔؟ اب خوش ہو تم۔۔۔ تم سے نکاح تو کر لیا ہے میں نے لیکن یہ مت سمجھنا کہ تمھیں اپنی بیوی بھی تسلیم کر لوں گا۔۔ اس کو اپنی طرف کھینچ کر وہ اس کے منہ ور غرایا۔۔


عین تکلیف اور خوف سے آنکھیں میچے رونے لگی۔۔

ہہہ ہاا۔نن بھائی مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔ عین کے رونے اور ابھی بھی بھائی کہنے پر اسے مزید تپ چڑھی۔۔


وہ اس رشتے کو تسلیم کرنے پر تیار بھی نہیں تھا اور اس کے بھائی کہنے پر غصہ بھی ہو رہا تھا آخر وہ چاہتا کیا تھا۔۔

دماغ خراب ہے تمہارا ؟ کیا بکواس کی ہے تم نے۔۔؟ میں بھائی ہوں تمہارا۔۔۔؟

اس کی گرفت میں ہراساں عین نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا۔۔

بھبھ بھا۔ئی نہیں۔۔۔ شش۔ شو۔ہر ہیں آ۔ آپ۔۔۔

جہان نے جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیلا تو وہ گرتے گرتے بچی۔۔ اس کا جوڑا کھل گیا اور کالے گھٹنوں تک آتے گھنے بال لہرا کر اسکی کمر کو ڈهانپ گئے۔۔

جہان تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔ عین بھی جلدی سے اس کے پیچھے گئی مبادا وہ دروازہ ہی نہ بند کر دے۔۔

جہان نے چلتے چلتے قدم روکے اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ اس کے پیچھے تیزی سے آتی عین کے پاؤں کو بھی بریک لگے۔۔

جہان سر جھٹک کر کمرے میں داخل ہو گیا اور دروازہ بند کرنے کے لئے ہاتھ اٹھاۓ تو عین نے فوراً آگے بڑھ کر دروازے کے درمیان ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔۔۔

وہ نانو کہہ رہی ہیں کہ میں اب سے آپ کے کمرے میں رہوں گی،، كانپتی ٹانگوں سے اس نے آہستگی سے کہا تو جہان کا دماغ گھوم گیا۔۔۔

اتنا سب ہونے کے بعد بس یہی کسر رہ گئی تھی۔۔ ابھی کے ابھی یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔ تمھیں اپنے کمرے میں برداشت نہیں کر سکتا میں۔۔

لیکن میں کہاں۔۔۔۔ عین کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ جہان نے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا۔۔

آہ۔۔۔ ! عین کے حلق سے چیخ نکل گئی۔۔۔

اسکا ہاتھ دروازے میں آ کر بری طرح کچلا گیا تھا۔۔ خون کے قطرے فرش پر گرنے لگے۔۔

وہ بلک بلک کر روتی وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔

جہان کمرے میں بےچینی سے یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔۔۔اس نے ایک سگرٹ سلگايا اور منہ میں دبا کر گہری سانس کھینچی،،، لیکن کسی صورت سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔

رات کا ایک بج چکا تھا۔۔ عین دروازے کے سامنے زمین پر سکڑی بیٹھی سسک سسک کر بالاخر سو گئی تھی۔۔ ہاتھ سے بہتا خون جم چکا تھا۔۔

تنگ آ کر جہان نے دروازہ کھولا تو پہلی نظر عین پر پڑی۔۔۔

اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ یہ ابھی تک یہاں کیا کر رہی ہے؟ انگلی سے آنکھوں کو مسل کر اس نے جھک کر عین کو ہلایا۔۔۔

عین ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔۔ جہان نے اسکی نیلی سوجھی آنکھوں سے نظریں چرائیں۔۔ اسکے چہرے پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے۔۔

اٹھو یہاں سے،، گئی کیوں نہیں ابھی تک۔۔

عین اپنے زخمی ہاتھ کو کمر کے پیچھے چھپا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور خاموشی سے سر جھکاۓ اپنے پاؤں کو تکنے لگی۔۔

ہم اسی آس پہ بگڑے ہیں کئی برسوں سے۔۔۔۔!!

تیرے ہاتھ لگیں گے تو سدهر جائیں گے۔۔۔۔!!


ایک تھکا دینے والے دن کے بعد رات کو وہ تھکا تھکا سا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔ آفس میں کام بہت بہت بڑھ گیا تھا۔۔


عدیل شاہ نے اب تمام زمہ داری شاہ ویر کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔۔ وہ سویرے ہی راحم کو عدیل شاہ کے حوالے کر کے شاہ میر کو كالج ڈراپ کرتے ہوئے آفس چلا جاتا تھا۔۔


گردن کو دائیں بائیں حرکت دے کر اس نے کوٹ اتارا اور بلیک ڈریس شرٹ کے اوپرے تین بٹن کھول دیے۔۔ نائٹ ڈریس نکال کر وہ شاور لینے کی غرض سے باتھ روم میں چلا گیا۔۔


شاور لے کر وہ ٹراؤزر میں ملبوس تولیے سے سر پونچھتا باہر نکلا ۔۔


ایک ہاتھ سے موبائل پکڑتے اس نے میر کو راحم کو لانے کا میسج کیا۔۔


تھوڑی دیر بعد ہی میر راحم کو چھیڑتا نمودار ہو گیا۔۔


شاہ ویر کو شرٹ لیس دیکھ کر اس نے ہونٹ او شیپ میں گھماۓ۔۔۔


واہ کیا ڈولے شولے ہیں،، کیا باڈی ہے تبھی تو آپ کے پیچھے حسینوں کی لائن لگی رہتی ہے۔۔ کوئی نہی ہمارا بھی وقت آئے گا کیوں حم حم۔۔۔؟


راحم نے اسکے گال پر "چنڈ" کی صورت جواب دیا جیسے کہہ رہا ہو ہونہہ منہ دھو رکھو تمہارا وقت کبھی نہی آئے گا۔۔


میر نے فوراً اسے پٹخنے والے انداز میں زمین پر کھڑا کیا۔۔ بھائی یہ بچہ بلکل نہی ہے،، میں بتا رہا ہوں بڑی کوئی پہنچی ہوئی چیز ہے یہ۔۔۔


شاہ ویر نے ہنستے ہوئے راحم کو دیکھا جو دونوں ہاتھوں میں سلیپر پکڑے اس کے پاس آرہا تھا۔۔


بابا جے دُوت مِیلو ماؤں آں۔۔۔؟ ( بابا یہ جوتا میرو کو ماروں )


نہ میرا چیمپ چاچو ہے،، بری بات۔۔ شاہ ویر نے اس کے گال کو چومتے ہوئے کہا۔۔


میر "چھوٹے ڈون" سے عزت افضائی ہونے کے بعد پیر پٹخ کر چلا گیا۔۔


راحم کو ہلکا سا نائٹ ڈریس پہنا کر اس نے بیڈ پر بٹھایا اور خود موبائل پر آئی نوٹیفکیشن چیک کرنے لگا۔۔


اسے موبائل میں مصروف پا کر راحم بیڈ پر الٹا لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ كهسک کر نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگا۔۔


اہ ہا ۔۔۔ جو،، بش ۔۔۔ اس مشقت میں اسے سانس چڑھ گیا۔۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ اسکا اوپرا آدھا دھڑ بیڈ پر تھا اور مُنّی سی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھیں۔۔ بیچارہ تو پهنس گیا تھا۔۔


بڑی تگ و دو کے بعد وہ بیڈ شیٹ سمیت نیچے لڑھک گیا۔۔ زمین پر قدم لگتے ہی اس نے خوشی سے پوری بتیسی نکالی اور کمرے میں ادھر ادھر دورتا چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔۔


شاہ ویر نے گہری سانس کھینچتے اپنی "چلتی پھرتی بلا" کو دیکھا۔۔ بیڈ پر نیم دراز ہو کر اس نے راحم کو بلایا۔۔


راحم ادھر آؤ بابا پاس۔۔۔ لیکن وہ سنی ان سنی کر کے اپنے آپ میں گم رہا۔ ویر نے آنکھوں پر بازو رکھ کر آنکھیں موند لیں۔۔


خاموشی محسوس کر کے راحم اس کے پاس پہنچ کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔


بابا ،،، بش ،، اُپل ،، تھاؤ۔۔۔ ویر نے آنکھوں سے بازو ہٹایا تو اسے معصومیت سے اپنے آپ کو تکتا پایا۔۔


اس نے راحم کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر اپنے برہنہ سینے پر لٹا لیا۔۔ راحم از آ گڈ بوائے،، ویر نے اس کے گال کو زور سے سے چوما تو اس نے کھلکھلاتے ہوئے ویر کے سینے پر زور سے دانت گاڑ دیے۔۔


ویر نے فوراً اسے خود سے دور کیا۔۔۔چیمپ تمھارے ارادے تو واقعی خطرناک ہیں۔۔ کسی نے دیکھ لیا تو وہ کچھ اور ہی سمجھ لے گا۔۔


بڑبڑا کر وہ کروٹ کے بل لیٹا اور راحم کو لٹا کر اسکا سر اپنے پھولے مضبوط بازو پر رکھ دیا۔۔وہ اس کو تھپک کر سلانے کو کوشش کرنے لگا۔۔


بابا ۔۔۔ بابا تھو نا (بابا اٹھو نا ) ،، اس نے ویر کی داڑھی پر ہاتھ رکھا تو ویر نے اسکا ہاتھ چوم لیا۔۔ جی بابا کی جان ۔۔۔!


بابا دو ،، بابا ۔۔۔ وہ ضد کرنے لگا۔۔


بیٹا صبح جائیں گے،، سو جاؤ شاباش۔۔۔ وہ اسے تهپکنے لگا تو راحم ضد میں آ کر رونے لگا۔۔ ویر نے آنکھیں مسل کر بے چارگی سے اسے دیکھا۔۔


اب اس وقت وہ کیسے اس انجان لڑکی کو ڈسٹرب کرتا۔۔؟


راحم جب کسی صورت بھی چپ نہ ہوا تو اس نے سٹرینجر کے نام سے سیو کیا نمبر نکالا اور ٹائپنگ کرنے لگا۔


Hi ! I'm Rahim's Father...

Reply: Hi it's Ana here..

Ana ...?

Reply: Ana , Anabia is my full name..

Okay... Rahim wants to see you... I'm really very sorry for disturbing you..

Reply: no its fine... I'll be at call after 5 minutes..

Thank You

Reply: You are Welcome..


ویر نے بیڈ کے وسط میں دو تکیے رکھ دیے اور راحم کو ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔۔ موبائل پر انا کی ویڈیو کال جگمگانے لگی۔۔


ویر نے ایک پل کو سوچتے سکرین ریكارڈر آن کر دیا تا کہ آئندہ تنگ کرنے پر وہ راحم کو یہی ویڈیو کال دکھا دے۔۔


کال کو یس کر کے اس نے موبائل راحم کو پکڑا دیا اور انا کے پردے کے خیال سے خود قدرے فاصلے پر لیٹ گیا تا کہ وہ ریلیکس ہو کر بات کر لے۔۔


راحم ٹکر ٹکر موبائل کی سکرین کو دیکھنے لگا جس پر انا کا چہرہ نمودار ہوا تھا۔۔


انا نے سرخ دوپٹہ دو انگلیوں سے نقاب کی صورت پکڑا ہوا تھا جس سے بس اس کی بھوری اداس آنکھیں جھانک رہی تھیں۔۔


راحم انا کو دیکھ کر بےطرح خوش ہوا۔۔ جسکا اظہار اس نے کھلکھلا کر کیا۔۔ آ جو، آ جو اِدَل ،، وہ ہاتھ کی انگلیوں کو اپنی طرف موڑ کر اسے اشارے سے بلانے لگا۔۔


انا کے چہرے پر مسراہٹ ابھری۔۔ راحم بابا کہاں ہیں۔۔۔؟؟ انا کی آواز ویر تک باخوبی پہنچ گئی۔۔ اس نے اوندھے لیٹے پٹ سے آنکھیں بند کر لیں۔۔


بابا شو ۔۔۔ (بابا سو گئے) ،، راحم نے سکرین کو ہونٹوں سے قریب کر کے چوم لیا۔۔ اس والہانہ پیار پر انا قربان ہو گئی۔۔


اس نے دوپٹہ چہرے سے ہٹا لیا۔۔ اب اس کا چہرہ قدرے واضح ہوا۔۔ سرخ دوپٹے سے بھوری سنہری لٹیں پهسل کر اس کے رخسار کو بوسہ دیتیں جنہیں وہ بار بار کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔۔ اسکے شفاف چہرے پر ایک خاص چمک تھی جس کا بھید ہر کوئی نہیں جان سکتا۔۔ اس نے گھنی پلكیں اٹھا کر راحم کو دیکھا اور دلکشی سے مسکرائی۔۔ اس کے گال پر ہلکا سا ڈمپل ابھر کر معدوم ہو گیا۔۔


کیشا ہے میلا پالا شا بےبی ۔۔۔؟؟ اس کے مخاطب کرنے پر راحم نے شرما کر ایک ہاتھ اپنی ایک آنکھ پر رکھ لیا جبکہ دوسری آنکھ سے وہ شرارت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسکی معصوم سی ادا پر انا ہنسنے لگی۔۔


اس کی کھلکھلاہٹ ویر نے بغور سنی جو خود بھی راحم کی حرکتیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔


آ میلے بےبی کو شما آ رئی ہے،، انا نے محظوظ ہو کر اسے دیکھا۔۔


آ دو پاش میلے ،، مِٹھَو دُو دا اِدَل ،، ( آ جاؤ میرے پاس ،، پاری دوں گا ادھر) راحم نے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔


میں آؤں گی آپ سے ملنے۔۔ راحم پارا بے بی ہے نہ ،، میری بات مانتا ہے نہ۔۔۔۔؟ انا کے استفسار پر راحم نے فوراً سر ہلایا۔۔


چلو شاباش لیٹ جاؤ اور شو جاؤ۔۔۔ راحم نے ضرورت سے زیادہ ہی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے موبائل کی سکرین ویر کی طرف کر دی،، بابا جے لو ،، اور خود فوراً لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔۔


سکرین پر ویر کو شرٹ لیس دیکھ کر انا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔ دونوں کی نظریں ملی ہی تھیں کہ انا نے فوراً کال بند کر دی۔۔۔


ویر نے سٹپٹا کر شیطان کے "خالو" کو دیکھا جو مزے سے آنکھیں بند کیے سونے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔۔


پھر اس نے موبائل پر چلتے سکرین ریکارڈر کو بند کر دیا اور بلا ارادہ گیلری کھول کر اس نے انا کی ویڈیو نکالی۔۔


چند لمحے وہ سکرین کو گھورتا رہا پھر اس نے آواز بند کر کے ویڈیو پلے کر دی۔۔


نیم وا آنکھوں سے اسنے انا کی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔ آنکھوں سے ہوتی اس کی نظر اس کے گال میں پڑتے ڈمپل سے اسکے ہونٹوں پر گئیں۔۔۔


وہ کسی بات پر کھلکھلائی تھی۔۔ ہمم كیوٹ ہے،، اس نے دل میں تبصرہ کیا۔۔


اور معصوم بھی اور اداس بھی لگتی ہے۔۔ عجیب بھی ہے جیسے اپنے اندر گہرے راز چُھپاۓ ہوئے ہے۔۔۔


دل میں چلتے تبصروں کو بریک لگا کر اس نے ویڈیو بند کی اور موبائل سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔۔۔


چھن سے شرمندگی سے سرخ پڑتا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تو اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔ مسکراہٹ دبا کر اس نے اپنے آپ کو ڈپٹا اور نیند سے بوجھل آنکھیں بند كرلیں۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


عین ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔۔ جہان نے اسکی نیلی سوجھی آنکھوں سے نظریں چرائیں۔۔ اسکے چہرے پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے۔۔


اٹھو یہاں سے،، گئی کیوں نہیں ابھی تک۔۔ عین اپنے زخمی ہاتھ کو کمر کے پیچھے چھپا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور خاموشی سے سر جھکاۓ اپنے پاؤں کو تکنے لگی۔۔


کیا چھپا رہی ہو ۔۔؟ اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا تو عین نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا تو جہان نے نظریں چرائیں۔۔۔


دکھاؤ مجھے ،، اس نے عین کا ہاتھ پکڑ کر سامنے کیا جو بری طرح کچلا گیا تھا۔۔


ہونٹ بھینچ کر اس نے ہاتھ کا جائزہ لیا،، چلو اندر۔۔۔


عین نے اسکی طرف دیکھا،، اب برداشت کر لیں گے آپ۔۔؟


جہان نے غصے سے اسے دیکھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں رکھے صوفے پر پٹخنے کے انداز میں بٹھایا۔۔


عین کی آنکھوں میں نمی تیر گئی،،، وہ آنکھیں جهپک جھپک کر آنسو روکنے لگی۔۔


جہان فرسٹ ایڈ باكس لے کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ پر جما خون صاف کرنے لگا۔۔ عین بے دیہانی میں اسے دیکھے گئی۔۔


اجلی پیشانی پر بکھرے کالے بال ،، آنکھوں پر جھکی گھنی پلكیں،، مغرور ناک اور بھنچے ہوئے ہونٹ۔۔۔ داڑھی بڑھنے سے وہ پہلے سے بھی زیادہ وجیہہ اور مغرور لگنے لگا تھا۔۔


اسے مسلسل اپنے آپ کو تکتے پا کر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو عین نے نظریں جھکا لیں۔۔


کیا ہوا۔۔؟ کیا اب تمہارے دل میں میرے لیے فیلنگز آنے لگی ہیں۔۔؟ اسکے کاٹدار لہجے پر عین ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے رونے لگی۔۔


رو رو کر اس کی آنکھیں جلنے لگی تھیں۔۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا تو جہان نے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور اس کے ہاتھ پر پٹی باندھنے لگا۔۔


اچانک عین کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی جو پٹی میں جکڑا ہوا تھا۔۔ توصیف کو مارنے سے اسکے ہاتھ کی جلد پھٹ گئی تھی۔۔


یہ کیا ہوا آپکو ۔۔۔؟ عین نے فکرمندی سے پوچھا


تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔؟


میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کیونکہ۔۔۔!


کیونکہ۔۔۔؟ جہان نے اٹھتے ہوئے سوالیہ نظروں سے پوچھا تو وہ بھی کھڑی ہو گئی۔۔


کیونکہ مجھے آپ کی فکر ہے،، عین نے سادگی سے کہا تو جہان کو پھر غصہ آنے لگا۔۔


تمھیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ اور یہ ڈرامے کسی اور کے سامنے کرنا جا کر ،، جہان سنگدلی سے کہہ کر مڑا ہی تھا کہ عین نے اسکا بازو پکڑ لیا۔۔


ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ،، مجھے۔ تکلیف۔ ہو رہی ۔ ہے ۔۔۔


جہان اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔۔


اس نے آہستہ سے اپنے بازو سے اسکا ہاتھ ہٹایا اور خاموشی سے اسے بلکتے دیکھنے لگا۔۔


آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔۔!


پہلے حالات بھی ایسے نہیں تھے۔۔ اور اب ،، جہان نے اس پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔۔


کیوں اب کیا ہے ۔۔؟ عین نے ضدی لہجے میں کہا تو جہان نے اسے کاندھے سے پکڑ کر قریب کیا ،،


اب میں تمہارا شوہر ہوں ۔۔ اس کی نیلی آنکھوں میں اپنی کالی آنکھیں گاڑ کر اس نے چبا کر کہا۔۔


عین فوراً جھجھک کر دور ہوئی۔۔


اب خود بھی سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو سکون برباد کر دیا ہے میرا۔۔۔ غصے سے بڑبڑا کر وہ بیڈ پر پھیل کر لیٹ گیا۔۔


میں کہاں سوؤں گی؟؟ عین نے جھجھک کر پوچھا۔۔


کیا اب تمہیں اپنے ساتھ سلاؤں میں۔۔۔؟ کمرے میں بہت جگہ ہے جہاں مرضی سو جاؤ اور اب تمہاری آواز نہ نکلے۔۔


چار و ناچار وہ ٹو سٹر صوفے پر سکڑ کر لیٹ گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اگلی صبح جب جہان کی آنکھ کھلی تو وہ کمر پکڑے رونی صورت بنائے بیٹھی تھی،، اس کا دوپٹہ صوفے سے نیچے لٹک رہا تھا۔۔


دوپٹے کی ہوش بھلاۓ وہ کمر کو دبا رہی تھی جو ساری رات ایک کروٹ لیٹنے سے اکڑ گئی تھی۔۔


جہان نیند کا خمار آنکھوں میں لیے اسے دیکھے گیا۔۔ خوبصورت لمبے بال ڈھیلے جوڑے کی صورت پشت پر گرے ہوئے تھے۔۔


ہوش کی دنیا میں واپس آتے اس نے عین کے کمسن حسن سے نگاہ ہٹائی اور ایک بھرپور انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔۔


عین نے فوراً دوپٹہ کاندھے پر ڈال کر پھیلایا اور بغیر اسے دیکھے باہر نکل گئی۔۔


جہان بیزاری سے بستر سے نیچے اترا اور شاور لینے چلا گیا۔۔ شاور لے کر وہ جلدی جلدی آفس کے لیے تیار ہوا اور بغیر ناشتہ کیے روانہ ہو گیا۔۔


آئمہ اسے آوازیں ہی دیتی رہ گئیں لیکن مجال ہے کہ اس نے مڑ کر بھی دیکھا ہو۔۔


وہ افسردہ سی عین کے ساتھ ناشتہ کرنے لگیں۔۔ عین نے ان کی خوشی کی خاطر چند لقمے لیے اور پھر معذرت کرتی كالج کے لیے تیار ہونے چلی گئی۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

ہاں نعیم میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔۔ سب کچھ تمهارے سامنے ہی ہے۔۔ میں نے ان دونوں کا بھلا ہی چاہا ہے۔۔

ابھی ہان بہت ناراض ہے مجھ سے۔۔ بات بھی نہیں کر رہا۔۔

ہاں ارم کی شادی کے لیے آؤں گی تو پندرہ بیس دن رہوں گی۔۔

مجھے بھی ملے کافی وقت ہو گیا ہے بس جہان کی وجہ سے نکلا نہیں جاتا تھا۔ اب اسکی بیوی ہے سنبهالے خود۔۔

ایسے دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔۔

اندر داخل ہوتی عین دروازے پر ہی رک گئی۔۔ آئمہ جو فون کال پر اپنے بڑے بیٹے سے بات کر رہی تھیں عین کو دیکھ کر اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔

ہاں ٹھیک ہے بس تم عباس کو بھیج دو میں اس کے ساتھ آ جاؤں گی۔۔ انہوں نے نعیم صاحب کے بڑے بیٹے کا نام لے کر کہا اور خدا حافظ کہہ کر کال بند کردی۔۔

نانو آپ کہاں جا رہی ہیں۔۔؟؟ مجھے پتہ ہے آپ ہان بھا۔۔۔ میرا مطلب ہے ان کی وجہ سے جا رہی ہیں۔۔؟

نہیں پگلی،، نعیم کی بیٹی کی شادی ہے ،، جانا ضروری ہے۔۔ اور میں کون سا ہمیشہ کے لیے جا رہی ہوں۔۔ آ جاؤں گی۔۔ آئمہ نے اسے پیار سے کہا تو وہ روہانسی ہو گئی۔۔

میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔۔ اس نے انکی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔۔

بس چند دن کی بات ہے اور ہان بھی تو ہے نہ ۔۔۔

ان کی تو بات ہی نہ کریں آپ کھڑوس کہیں کے،، ویسے سب پوچھیں گے نہیں کہ وہ کیوں نہیں آئے۔۔؟ عین کے منہ بنا کے کہنے پر آئمہ ہنس دیں۔۔

ہش پگلی ایسے نہیں کہتے شوہر کو۔۔ اور کام کا بہانہ کر دوں گی میں،، مجھے پتہ ہے وہ نہیں جائے گا ،، بہت ضدی ہے۔۔

نانو وہ شوہر کم ڈریکولا زیادہ لگتے ہیں،، مجھے تو ڈر لگتا ہے اب ان سے۔۔

چل پگلی ،، ٹھیک ہو جائے گا وہ،، بہت پیارا ہے میرا ہان ۔۔ بات کرتے کرتے ان کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی ۔۔

یہ کیا ہوا ہے ۔۔؟ انہوں نے پریشانی سے پوچھا تو عین بوکھلا گئی ۔۔

وہ ۔۔وہ غلطی سے دروازے میں آگیا تھا۔۔

کتنی لاپرواہ ہو تم خیال رکھا کرو اپنا اور اب اپنے بننے سنورنے پر توجہ دیا کرو۔۔ عورت کو گھر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔۔ تم ابھی چھوٹی ہو اس لیے یہ باتیں سمجھا رہی ہوں۔۔ ٹھیک ہے ۔۔؟؟

انہوں نے پیار سے اسکے گال پر ہاتھ رکھا تو اس نے محض سر ہلا دیا۔۔

میرے ساتھ رہنے کا،،

وعدہ تھوڑی کیا تھا۔۔۔!!

اور مجھ سے نکاح کا ،،

ارادہ تھوڑی کیا تھا۔۔!!

خدا تیرے چہرے پر یہ مسکراہٹ،،

ہمیشہ سلامت رکھے۔۔!!

غم میرے حصے کا تھا،،

کوئی آدھا تھوڑی کیا تھا۔۔۔!!


"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""

اسکی آنکھوں سے آنسو مسلسل بےمول ہو کر گرتے گود میں دھری ہتھیلی کو بھگو رہے تھے۔۔


وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل میں احمر کی تصویر کو دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگی۔۔


اس نے خالی ہاتھ کو مٹھی کی صورت بند کر لیا جو اب کانپنے لگا تھا۔۔


سب کو لگتا تھا کہ وہ بلکل ٹھیک ہے لیکن وہ تو پل پل مر رہی تھی۔۔ یہ مرضِ محبت بڑھتا ہی جاتا ہے۔۔ اس پر صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ:


صبر بڑا دشوار طلب ،، چاہ بڑی کافر پسند ۔۔!!

یہ آتے آتے آتا ہے ،، یہ ہوتے ہوتے ہوتی ہے ۔۔!!


یا اللّه میں راضی اس درد پر۔۔ تو جس حال میں بھی رکھے میں راضی۔۔ نہیں چاہیے مجھے دنیا۔۔ تو مجھے ہدایت پر قائم رکھ۔۔ بیشک لوگ گمراہ ہیں۔۔ یہی لوگ خسارے میں ہیں۔۔ میں بھی تو انہیں گمراہوں میں سے تھی۔۔ تو نے مجھے نکال لیا اس تاریکی سے۔۔ اللّه لوگ کیوں نہیں سمجھتے ۔۔ سب ختم ہو جائے گا،، لوگ اتنے متكبر ہیں کیا کبھی مریں گے نہیں۔۔؟ دھوکہ دیتے ہیں کیا کبھی پوچھے نہیں جائیں گے۔۔؟ اللّه تعالیٰ میرا دل نہیں لگتا اس دنیا میں۔۔ لوگ بہت جھوٹے ہیں۔۔ مجھے اپنے پاس بلا لیں۔۔ میں نے آپ کے پاس آنا ہے۔۔ وہ ہچکیوں سے روتی اپنے رب کو پکار رہی تھی۔۔


☀Million of souls are in darkness

But you are on "HIDAYAAH"☀


"اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے"


\[Had We willed, We could have easily imposed Hidayat on every soul]


"لیکن میری طرف سے یہ بات قرار پا چکی ہے"


\[But My Word will come to pass]


"کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا"


\[That I will surely fill up Hell with jins and humans all together]


"سو اب آگ کے مزے چکھو اس لیے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا"


\[So taste " punishment of neglecting the meeting of this day of yours"]


"آج ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا ہے"


\[We "too" certainly will neglect you]


"اور جو کام تم کرتے تھے ان کی سزا میں ہمیشہ کے عذاب کے مزے چکھو"


\[And taste the torment of eternity for what you used to do!]


\~ Quran | Surah As Sajda (13-14)

"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""

اس نے خود پر ترس کھا کر خود ہی،، خود کو تهپک کر اپنے آنسو پونچھے۔۔


اسکا دل بہت ہلکا ہو گیا تھا۔۔ دوسروں کے سامنے رونے سے دل کا بوجھ بڑھ جاتا ہے لیکن اللّه کے سامنے رونے سے دل کسی پھول کی پتی کی طرح ہلکا اور نرم ہوجاتا ہے۔۔


گہری سانس کھینچ کر وہ زمین سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بیڈ کے ایک طرف رکھے میز پر رکھے پانی کے گلاس کو پکڑ کرگھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔۔


بسم اللّه سے شروع کر کے الحمدللّه پر ختم کرنا اس کی زندگی میں شامل ہو چکا تھا۔۔


پانی پی کر اس نے موبائل تھاما اور کال لوگ کھولا۔ سب سے اوپر شاہ ویر کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔

اس نے کال کا ارادہ ترک کر کے اس کے نمبر پر میسج بھیج دیا۔۔


السلام علیکم ! میں انا ہوں،، کیا میں راحم سے ملنے آ سکتی ہوں۔۔؟ میسج بھیجنے کے بعد اس نے موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور برآمدے میں چلی آئی جہاں ابھی ایک اڑتی چڑیا آ کر بیٹھی تھی۔۔


انا نے نرم نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔ اسے یہ معصوم پرندے بہت پسند تھے۔۔ اس نے برتن میں پانی بھرا اور آہستہ سے چڑیا کے پاس رکھ دیا۔۔۔


پرندوں کو دانہ پانی وہ صبح ہی ڈال دیتی تھی لیکن آج پانی رکھنا یاد نہ رہا تھا۔۔ اپنے قریب کسی کو پا کر چڑیا ڈر کر اڑ گئی۔۔


انا کے پیچھے ہٹتے ہی وہ دوبارہ آ گئی اور چونچ سے پانی پینے لگی۔۔ کتنی پیاری لگتی ہیں یہ چڑیاں،، ایک دوسرے سے باتیں کرتیں ادھر ادھر ٹہلتیں۔۔


آسودگی سے مسکرا کر وہ واپس پلٹ گئی۔۔ اب دنیا خوبصورت نظر آنے لگی تھی۔۔ جب دل کا موسم اچھا ہو جائے تو ہر چیز خوبصورت لگنے لگتی ہے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ہیلو سر پلیز کم،، سیکرٹری شائستگی سے کہہ کر اسے لیے مین آفس کی طرف بڑھی جہاں میٹنگ ارینج کی گئی تھی۔۔


سب لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔ بلیک تھری پیس میں ملبوس مغرور تاثرات چہرے پر سجائے وہ بےنیازی سے چل پڑا۔۔


سیکرٹری ہڑبڑا کر اس کے پیچھے دوڑی۔۔ سر اس طرف،، اس کے ٹوکنے پر شاہ ویر نے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔


Did I asked you to guide me??


اس کے کھردرے لہجے پر سیکرٹری کا حلق خشک ہوگیا۔۔


سس سوری سر۔۔ ویر اچٹتی نظر اس پر ڈال کر میٹنگ روم میں داخل ہوگیا۔۔ کمرے میں موجود کئی كمپنیوں کے اونرز اپنی سیكرٹریز سمیت موجود تھے۔ صرف وہ تھا جو اکیلا آیا تھا۔۔


اس کے داخل ہوتے ہی سب اپنی جگہ سے کھڑے ہو گۓ۔۔ کچھ ایسا ہی روب تھا اس کی شخصیت میں۔۔ اس نے سر کو خم دیا اور اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہو گیا۔۔ میٹنگ کا آغاز ہوگیا۔۔


تقریباً ایک گھنٹہ میٹنگ چلتی رہی۔۔ وہ A & Co. کے ساتھ میٹنگ کا لیے یہاں آیا تھا۔۔ کچھ ہی وقت میں اسکی بھرپور محنت اور مہارت کی وجہ سے اس کا بزنس کی دنیا میں ایک نام بن چکا تھا۔۔


اس نے کھڑے ہو کر اپنے کوٹ کو سیدھا کیا جسکا مطلب تھا کہ میٹنگ برخاست ہو گئی ہے۔۔


مغرور چال چلتے وہ روم سے باہر نکلا تو اس کے پیچھے آتی سٹائلش سی لڑکی جو کسی کمپنی کی اونر تھی جان بوجھ کر اس سے ٹکرا گئی۔۔


اوہ آئی ایم ریلی ویری سوری ڈیئر ۔۔۔ اس نے ویر کے بازو کو تھام کر سہارا لیا اور ایک ادا سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔


ویر نے نفرت سے اسے دیکھ کر بازو جھٹکا۔۔


آئی لائک اِٹ۔۔۔ اس کے ناز سے کہنے پر ویر نے اسے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا۔۔


بٹ آئی رئیلی ڈونٹ لائک یوو۔۔ اس نے یو پر زور دے کر کہا اور بازو سے نادیدہ گرد جھاڑ کر بغیر اسے دیکھے تیز قدم اٹھاتا وہاں سے نكلتا چلا گیا۔۔


ہم۔۔۔۔۔ اپنے آپ میں ایک "محفل "ہیں۔۔۔۔!!

جب چاہا سجا لی،، جب چاہا " تخلیہ "۔۔۔!!


کب تک بچو گے مجھ سے۔۔ میرال رانا ہوں،، آسان کام اور آسان لوگ مجھے پسند نہیں۔۔


ایک ادا سے گردن کو جھٹک کر اس نے کندھوں سے نیچے گرتے سلكی بالوں پر ہاتھ پھیرا اور مغرور چال چلتی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی زن سے بهگا کر لے گئی۔ پیچھے اسکا ڈرائیور ہکا بكا اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


موبائل نے نیا پیغام آنے پر مطلع کیا تو ڈرائیو کرتے ہوئے ویر نے نوٹیفکیشن کو ٹچ کیا۔۔


انا کا پیغام کھل گیا جس میں وہ راحم سے ملنے کی خواہش ظاہر کر رہی تھی۔۔


شاہ ویر نے مسکراتی نظروں سے میسج پڑھا اور "شیور" ٹائپ کر کے سینڈ کر دیا۔۔


فوراً انا کا میسج چمکا جس میں وہ اسکا شکریہ ادا کر رہی تھی۔۔


اس کی ضرورت نہیں ،، بلکہ آپ جب بھی آنا چاہیں راحم سے ملنے آ سکتی ہیں۔ وائس نوٹ سینڈ کر کے اس نے موبائل،، فرنٹ سیٹ پر رکھ دیا اور گاڑی کی رفتار تیز کردی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


آئمہ کے جانے کے بعد عین کسلمندی سے اٹھی۔۔ اس نے اب تک یونیفارم تبدیل نہیں کیا تھا۔۔ اس نے دیوار میں نصب الماری سے ہلکی سبز گھیردار شلوار قمیض نكالی جس کی قمیض گھٹنوں سے اوپر تک آتی تھی۔۔


کپڑے استری کر کے وہ شاور لینے جانے لگی کہ اس نے سر پر ہاتھ مارا۔۔ ارے کھانا بنانا تو بھول ہی گئی میں ۔۔ اگر وہ جلدی آ گئے تو خوامخواہ ڈانٹنے کا بہانہ مل جائے گا۔۔


اس نے سوچا کہ کھانا بنا کر ایک ہی دفعہ فریش ہو لے گی۔۔ دوپٹہ کمرے میں پھینک کر اس نے کچن کا رخ کیا۔۔


فریج سے سبزیاں نکال کر اس نے سلیب پر رکھیں۔۔ اور چاولوں کو صاف کرنے کے بعد بھگو کر کر رکھ دیا۔۔ احتیاط سے سبزیاں اور دیگر ضروری چیزیں کاٹنے کے بعد وہ جلدی ہاتھ چلاتی کھانا تیار کرنے لگی۔۔


چاولوں کو دم دے کر کچن سے باہر چلی آئی۔۔ اسکا ارادہ ویج پلاؤ بنانے کا تھا۔۔ اب بس ان کو پسند آ جائے۔۔ پانچ منٹ بعد کھانا تیار کر کے وہ شاور لینے چلی گئی۔۔


شاور لینے کے بعد وہ آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔ ہلکا سبز رنگ اس پر بہت کھلا تھا ۔۔ اس طرز کا سوٹ اس نے پہلی بار زیب تن کیا تھا۔۔


گھٹنوں سے اوپر آتی تنگ قمیض میں اسکی نازک کمر نمایاں ہو رہی تھی۔۔ اس نے گھٹنوں تک آتے کالے سیاہ گھنگھریالے بالوں کو سلجها کر کمر پر کھلا چھوڑ دیا۔۔


ہاتھوں پاؤں پر لوشن لگا کر اس نے گلاسز آنکھوں پر ٹکاۓ اور کتاب لے کر لاؤنج میں بیٹھ گئی۔۔ وہ سبق یاد کرنے میں بری طرح غرق تھی کہ ڈَور بیل بجی۔۔


دوپٹے کو سینے پر پھیلا کر وہ اٹھی اور پوچھ کر دروازه کھول دیا۔۔ جہان تھکا سا اندر داخل ہوا اور بغیر اسے دیکھے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔


اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔ عین نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔۔


پہلے کتنا خوش رہتے تھے ہان بھا ۔۔۔۔۔ اللّه میری زبان کٹ کیوں نہیں جاتی یہ بولتے،،، اب میرا بھی کونسا اتنا قصور ہے مجھ معصوم کو کیا پتہ تھا کہ "بھیّا" میرے "سئّیاں جی" بن جائیں گے۔۔


بغیر ان دونوں کے مابین رشتے کی نزاکت کو سمجھے وہ اول جلول سوچتی جا رہی تھی۔۔


گز بھر کے ریشمی دوپٹے کو بمشکل سنبهال کر وہ ناک کر کے جہان کے کمرے میں داخل ہوئی جہاں وہ شاور لے کر نکلا تولیہ سے منہ پونچھ رہا تھا۔۔


وہ۔۔ کھانا کب کھائیں گے آپ۔۔؟ اس نے جلدی سے پوچھا مبادا وہ اسے نظروں سے ہی نہ چبا جائے۔۔


نانو کہاں ہیں۔۔؟ جہان نے گہری نظر سے اسے دیکھ کر پوچھا جسکا دوپٹہ كندھے سے نیچے گرا اس کے نشیب و فراز کو نمایاں کر رہا تھا۔۔


نانو چلی گئیں ہیں۔۔ عین کے لاپرواہی سے جواب دینے پر جہان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔ کہاں چلی گئی ہیں۔۔؟


آپ نے نانو کو ہرٹ کیا ہے اس لیے وہ آپ کے ماموں کے گھر چلی گئی ہیں۔۔


جہان نے پیشانی مسلی۔۔


اب کیا فائدہ افسوس کا،، جب وہ آپ کو بار بار بلا رہی تھیں تب تو آپ نے جواب نہیں دیا ۔۔۔


اسکی گھوری پر عین کی ٹر ٹر کرتی زبان کو بریک لگا۔۔

چند سیكنڈ چپ رہنے کے بعد اسکی زبان میں پھر کھجلی ہوئی۔۔ اتنے دیر سے گھور رہے ہیں مجھے کیا بہت پیاری لگ رہی ہوں۔۔۔؟

عین نے آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے کہا تو جہان کا ضبط جواب دے گیا۔۔

ادھر آؤ تمہیں بتاؤں کیسی لگ رہی ہو اس وقت۔۔۔ وہ اس کی طرف بڑھا تو عین چھپاک سے باہر بھاگ گئی۔۔

پانچ منٹ بعد اس نے کھانا لگا دیا اور جہان کو آواز دی۔۔ وہ نقاہت سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔۔

عین حیران ہو رہی تھی کہ ابھی تک "کڑوے کریلے" نے کچھ کہا کیوں نہیں۔۔

تھوڑا سا کھانا کھانے کے بعد ہی اسکا دل خراب ہونے لگا تو وہ کرسی کھسکا کر کھڑا ہو گیا اور خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔

عین نے جلدی سے برتن سمیٹ کر دھوئے اور کھلے بالوں کو بل دے کر جوڑے میں باندھتی وه اس کے کمرے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔

ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اندر جائے یا نہ کہ جہان کے کراہنے کی آواز آئی۔۔

وہ جلدی سے اندر گئی تو دیکھا کہ جہان بیڈ پر اوندها لیٹا كراه رہا تھا۔۔

وہ اس کے سر پر پہنچ گئی،، اسنے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ سیدھا ہو گیا۔۔

کیا ہوا ہے ہان۔۔؟ عین کے فکرمندی سے پوچھنے پر جہان نے سرخ درد کرتی آنکھوں سے اسے دیکھا،، جاؤ یہاں سے۔۔

میں نہیں جا رہی۔۔ اس نے جھک کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو بخار سے تپ رہا تھا،، آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔۔۔ ركیں میں میڈیسن دیکھتی ہوں۔۔

وہ فکرمندی سے کہتی مڑی ہی تھی کہ جہان نے زور سے اس کا بازو پکڑا جس سے اس کا توازن بگڑا اور وہ جہان کے اوپر آ گری۔۔

شرم سے اسکا چہرہ گلنار ہو گیا۔۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو جہان نے اس کی کوشش ناکام کردی۔۔

میں نے کہا نا جاؤ یہاں سے مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔۔۔ اس کی گرم سانسیں عین کے منہ پر پڑیں تو وہ ناک پھلا کر چلائی۔۔۔

جہان نے اس کی فضول بات پر ضبط سے اس کی طرف دیکھا مطلب کچھ بھی۔۔۔

تم سے میں نے کہا نہ جاؤ ۔۔

میں کیوں جاؤں اور زیادہ غصہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے اچھا اب آپ بیمار ہیں اور میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اس لیے میں جو مرضی کروں۔۔۔

جہان نے حیرت سے اس کی فراٹے بھرتی زبان کو دیکھا۔۔ میں اس حالت میں بھی تمهارے ساتھ بہت کچھ کر سکتا ہوں۔۔ آئی سمجھ۔۔؟

اسکے مطلب کو سمجھ کر عین سرخ کانوں کے ساتھ بجلی کی سپیڈ سے کمرے سے نکل گئی۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ ایک باؤل میں كپڑا بگھو کر نمودار ہوئی۔۔ باؤل اور پین کلرز اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھیں اور بیڈ پر دراز جہان کے پاس بیٹھ گئی جو نیم غنودگی کی حالت میں تھا۔۔

انا نے وائس نوٹ پلے کیا تو ویر کی بھاری آواز پر اس کا دل اچانک دھڑک اٹھا۔۔ اس نے پریشان ہو کر اپنے آپ کو ڈپٹا۔۔


مجھے مردوں کی بھاری آواز پسند ہے بس اس لیے ایسا ہوا اور تو کوئی بات نہیں۔۔اپنے آپ کو تسلی دے کر اس نے عبایا پہنا اور کمر پر لٹکتی بیلٹ کو ڈھیلا کر کے باندھ دیا۔۔


سیاہ حجاب کو اوڑھ کر اس نے چہرے کو نقاب سے ڈھکا۔۔ سیاہ نقاب میں اس کی بھوری گہری آنکھیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔۔


پاؤں میں سیاہ ہی جوگرز پہن کر اس نے پرس کاندھے پر ڈالا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔


ماما میں اپنی دوست کے گھر جا رہی ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر تک آ جاؤں گی۔۔


اچھا جلدی آ جانا اور دیہان سے جانا۔۔


حنا کی تاکید پر وہ سر ہلا کر گھر کی دہلیز عبور کر گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


السلام علیکم !! آواز پر انا نے مڑ کر دیکھا تو ویر کو اپنے پیچھے دیکھ کر گڑبڑا گئی۔۔


وعلیکم السلام ! اس نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے جواب دیا تو ویر نے پزل ہوئی انا کو دیکھا۔۔


آپ اندر نہیں گئیں۔۔۔؟ میں نے بابا کو انفارم کر دیا تھا۔۔


نہیں وہ بس میں جا ہی رہی تھی۔۔


آئیں ،،، ویر کی ہمراہی میں وہ اندر داخل ہوئی تو اسکی آنکھوں میں ستائش ابھری۔۔ گھر کو بہت قرینے سے ترتیب دیا گیا تھا۔۔


اچانک اسکی نظر میر پر پڑی جو راحم کو گدگدانے میں مصروف تھا۔۔ تُشِی کِنّے شونے او ،، میر نے اس کے گال کو زور سے چوم کر کہا تو راحم نے اس کے چہرے پر ننھے ہاتھوں سے تھپڑ مارا۔۔۔


یار اتنے چھوٹے سے ہاتھوں میں اتنی پاور کیسے لاتے ہو ۔۔؟


راحم نے اس کی طرف دیکھ کر منہ بنایا اور اسکی گود سے اتر کر بھاگا۔۔


فرش پر ایک جگہ ذرا سا پانی گرا تھا جو میر صاف کرنا بھول چکا تھا۔۔۔


او تیری رک جا میرے باپ۔۔۔


راحم کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے پانی میں گرا۔۔

ویر فوراً بڑھا اور راحم کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔


اسے کہتے ہیں "گئی بهینس واٹر میں " میر کے تبصرے پر انا کی ہنسی گونجی۔۔۔


تب میر کو اسکی موجودگی کا احساس ہوا۔۔ وہ جهینپ گیا۔۔


السلام علیکم ! انا نے عدیل شاہ کو دیکھ کر سلام کیا۔۔


وعلیکم السلام آؤ بیٹا بیٹھو۔۔ بہت اچھا لگا تمھیں یہاں دیکھ کر۔۔


انا سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔


یہ میرا بیٹا ہے ،، شاہ میر۔۔


ویر نے شاہ میر کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی جو انا کے سامنے زمانے بھر کا معصوم بنا بیٹھا تھا۔۔۔


بابا میں آتا ہوں۔۔۔ راحم کی طرف اشارہ کر کے وہ اوپر کی طرف جاتی سیڑھوں میں غائب ہوگیا۔۔


انا نے عدیل شاہ کو دیکھا جو اسکی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔ یا اللّه خیر ہو یہ اتنا مسکرا کیوں رہے ہیں مجھے دیکھ کر۔۔۔


اس نے گلا کھنکارا۔۔ آپ اکیلے رہتے ہیں یہاں،، آئی مِین کوئی لیڈی نہیں ہیں یھاں۔۔؟


نہیں بیٹا ہم باپ بیٹے ہی رہتے ہیں بس۔۔ عائشہ کی ڈیتھ کے بعد سے ایسا ہی ہے۔


عائشہ ۔۔۔؟ انا نے استفسار کیا۔۔


شاہ ویر کی بیوی۔۔ عدیل شاہ نے اداسی سے کہا۔۔


اوہ!! انا نے ترحم سے انہیں دیکھا۔۔۔


اتنے میں شاہ ویر راحم کے ساتھ سیڑھیاں اترتا نظر آیا۔۔ دونوں بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے۔۔ انا کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا کہ کون زیادہ پیارا لگ رہا ہے۔۔


ویر نے راحم کو انا کے پاس زمین پر کھڑا کیا اور خود اس کے بلکل سامنے براجمان ہوگیا۔۔


راحم فوراً خوش ہوتا انا سے لپٹ گیا۔۔ انا نے اسے پکڑ کر گود میں بٹھایا اور نقاب کے اوپر سے ہی اس کے نرم گالوں کو چوم لیا۔۔


کیشا ہے میلا بے بی۔۔؟ انا نے اپنی طرف سے آہستہ آواز میں کہا لیکن خاموشی کی وجہ سے وہ سب کو سنائی دی۔۔


عدیل شاہ اور ویر میں نظروں کا تبادلہ ہوا۔۔ میر بغور ان دونوں کو دیکھ کر شرارت سے مسکرایا۔۔


میں تھیت اُوں ،، اِدل آؤ ۔۔۔ راحم نے انا کی گردن کے گرد دونوں بازو رکھے اور انا کے ڈھکے چہرے کو چوم لیا۔۔


ہممم مٹھی اے نہ ۔۔۔؟


انا نے جهینپ کر ویر کو دیکھا جس نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے منہ پر مٹھی کی صورت ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔


میر،، آپی کو کمرے میں لے جاؤ ۔۔۔ انہیں خیال تھا کہ ان کے سامنے وہ کچھ بھی کھا پی نہیں سکے گی اور ایسے ہی وہ اسے جانے دینے والے نہیں تھے۔۔ اس لئے انہوں نے اسے ڈرائنگ روم میں لے جانے کا کہا۔۔


نہیں انکل میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔ انا نے سمجھ کر شائستگی سے انکار کیا۔۔


ایسے کیسے بیٹا۔۔۔کیا ہم اتنے ارضاں ہیں کہ آپ ہمیں خدمت کا موقع بھی نہیں دیں گی۔۔


ان کی بات پر انا شرمندہ ہو گئی۔۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے واقعی۔۔۔۔۔


بیٹے ضد نہیں کرتے۔۔ انکے پیار سے کہنے پر وہ میر کے ساتھ چلی گئی۔۔


آ جائیں۔۔۔ میر نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔۔


میر کے جانے کے بعد وہ بد دلی سے بیٹھی اور بغیر کسی دوسری چیز کو ہاتھ لگائے کولڈ ڈرنک کا گلاس پکڑ لیا۔۔


نقاب اتار کر وہ آہستہ آہستہ مشروب حلق سے نیچے انڈیلنے لگی۔۔


اچانک راحم زور زور سے رونے لگا ۔۔۔انا نے دہل کر دروازے کو دیکھا۔ اس نے اٹھ کر دروازے

سے باہر جھانکا تو ویر پریشانی سے راحم کو چپ کروا رہا تھا جو صوفے سے گر کر بری طرح رو رہا تھا۔۔


بس میرا بیٹا کچھ بھی نہیں ہوا،، راحم تو بہت بریو ہے۔۔۔


انا سے مزید برداشت نہ ہوا۔۔ لائیں مجھے دیں،، اسکی آواز پر ویر نے ایک لمحے کے لئے اسے دیکھا اور پھر راحم کو لئے روم میں آیا۔۔


انا نے فوراً راحم کو پکڑ لیا اور اسے چپ کروانے لگی۔۔ بس میرا بچہ ،، میری جان ،، اس نے راحم کو چوم کر سینے سے لگا لیا۔۔


اس کے سینے سے لگتے ہی وہ چپ ہوگیا۔۔ راحم کو پکڑے وہ صوفے پر بیٹھ گئی اور اسے گلاس میں سے پانی پلانے لگی۔۔


کا ہوا میری چھوٹی شی جان کو۔۔۔ کش نے مالا۔۔۔؟


جواباً راحم نے اس کے سینے میں پھر سے سر چھپا لیا۔۔ انا نے نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔۔


اپنے چہرے پر کسی کی نظریں محسوس کر کے اس نے سر اٹھایا تو ویر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔


انا کو تب پہلی بار احساس ہوا کہ وہ بغیر نقاب کے ہے۔۔ اس نے فوراً چہرہ ڈھکا تو ویر کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔۔


لائیں مجھے پکڑا دیں ،، بہت معذرت کہ آپ کو تکلیف اٹھانی پڑی۔۔


نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔

انا نے نظریں جھکا کر کہا اور راحم کو اس کے حوالے کیا۔۔


وہ کمرے سے نکلنے ہی لگی تھی کہ راحم نے اسکا دوپٹہ پکڑ لیا۔۔


ماما ۔۔۔۔؟


اسکی پکار پر انا اور ویر اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔۔


نہیں یہ سب نہیں ہونا چاہیے ۔۔ یہ۔۔ یہ غلط ہے۔۔ بغیر مڑ کر دیکھتے وہ تیزی سے دروازہ عبور کر گئی۔۔ راحم مسلسل اسے پکار رہا تھا۔۔ اس کی آنکھ کے گوشے بهیگ گئے۔۔


اچھا انکل میں چلتی ہوں۔۔ کافی وقت ہو گیا ہے۔۔ عدیل شاہ نے اسے سر پر پیار دیا تو وہ خدا حافظ کہہ کر تیزی سے نکل گئی۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


میں اس حالت میں بھی تمهارے ساتھ بہت کچھ کر سکتا ہوں۔۔ آئی سمجھ۔۔؟ اسکے مطلب کو سمجھ کر عین سرخ کانوں کے ساتھ بجلی کی سپیڈ سے کمرے سے نکل گئی۔


تھوڑی دیر بعد وہ ایک باؤل میں كپڑا بگھو کر نمودار ہوئی۔۔ باؤل اور پین کلرز اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھیں اور بیڈ پر دراز جہان کے پاس بیٹھ گئی جو نیم غنودگی کی حالت میں تھا۔۔


اس نے جھک کر اسکے چہرے سے بازو ہٹایا جو بخار کی حدّت سے دہک رہا تھا۔۔


اس کے بال لہرا کر جہان کے کاندھے پر گرے۔۔


جہان نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا جو اس پر جھکی فکرمندی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔


عین نے اپنا ٹھنڈا ہاتھ اسکی پیشانی پر رکھا تو اس نے سکون محسوس کرتے آنکھیں موند لیں۔۔


اس نے پٹی پانی میں بھگو کر جہان کے ماتھے پر رکھی اور پھر یہی عمل دوہرانے لگی۔۔


باہر رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔۔ چاند پراسرار سا مسکرا کر بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا۔۔


عین نے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔۔


مسلسل ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے سے جہان کا بخار اب قدرے کم ہوگیا تھا۔۔


اس نے اسکے بکھرے بال سنوارے تو جہان نیند میں کسمسایا۔۔


عین پیچھے ہونے لگی کہ جہان نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے جھٹکے سے اپنے اوپر گرایا اور اپنے مضبوط بازوؤں میں قید کر کے کروٹ کے بل لیٹ گیا۔۔


عین کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا،،، شرم و حیا سے اسکا چہرہ کان کی لو تک سرخ پڑ گیا۔۔


میں نے کہا تھا نہ جاؤ یہاں سے ،،، لیکن تم نہیں گئی۔۔؟ اس نے بوجھل آواز میں اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تو عین نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔۔


جہان نے اسکے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھا،،، آنکھوں میں خمار لیے وہ اس پر جھکا۔۔


اس کے ہونٹ عین کے ہونٹوں سے ہلکے سے مس ہوئے ہی تھے کہ عین نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔


یہ ۔۔ یہ ۔۔کیا ۔۔کر ۔۔رہے ۔۔ہیں ۔۔آپ ۔۔ اس نے اسے پیچھے ہٹایا اور دھڑکتے دل سے بمشکل کپكپاتی واز میں کہا۔۔


جہان کے حواس آہستہ آہستہ بحال ہوئے تو اسے اپنی حرکت کا ادراک ہوا۔۔


اس نے سختی سے ہونٹ بھینچے اور غصے سے عین کو دیکھا۔۔


عین نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ یہ آپ مجھے کیوں اب گھور رہے ہیں ،، یہ تو وہی بات ہوئی کہ "ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری"۔۔ آپ خود وہ ۔۔۔۔


کیا میں وہ ۔۔۔؟ ہاں ۔۔؟ جہان نے غصے سے اسے بازو سے گهسیٹ کر اپنے سامنے کیا۔۔


آپ ایسا کریں میرا بازو توڑ کر نہ اپنے پاس رکھ لیں۔۔ یہ لیں رکھ لیں ،، ویسے بھی جتنی دفعہ آپ مجھے ایسے کھینچ چکے ہیں اگلی دفعہ بازو آپ کے ہاتھ میں ہی آ جانا ہے۔۔ عین نے غصے سے نتھنے پھلا کر کہا تو جہان کا غصہ کہیں غائب ہوگیا۔۔


اس نے اسکے خوبصورت نقوش سے نظریں چرائیں اور بغیر کچھ کہے اس کی طرف سے رخ پھیر کر لیٹ گیا۔۔


ہنہ ۔۔۔ عین نے ہنکارا بھرا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ لیٹ گئی۔۔


اس نے دوپٹہ گلے سے نکال کر تکیے کے ساتھ رکھا اور بلینکٹ کھینچ کر اپنے اوپر لے لیا۔۔


جہان نے فوراً گردن موڑ کر اسے دیکھا جو مزے سے اسکے بستر پر اسکا بلینکٹ کھینچ کر سونے کی تیاری کر رہی تھی۔۔


تم ۔۔ اٹھو یہاں سے ،،، چلو اترو۔۔۔


لیکن عین ڈھیٹ بنی لیٹی رہی۔۔


تمہیں سنائی نہیں دے رہا ۔۔ جہان نے دانت پیس کر اسے دیکھا اور بلینکٹ اس کے اوپر سے کھینچ لیا۔۔


عین غصے اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات سے اپنی قمیض ٹھیک کر کے اٹھی۔۔


آپ کو شرم نہیں آتی ایک معصوم نوجوان حسین لڑکی پر سے ایسے بلینکٹ کھینچتے،،، اس نے دانت کچکچا کر کہا۔۔ بس اسے کچا چبانے کی کسر باقی رہ گئی تھی۔۔


تو تم سے کس نے کہا کہ یہاں سو ۔۔ چلو اترو یہاں سے،، جہان کی تیوری چڑھی۔۔


کیوں جاؤں میں،، ایک تو اتنی دیر تک آپ کے لیے جاگتی رہی میں اور ویسے بھی اس کمرے پر آپ کا جتنا حق ہے اتنا ہی میرا بھی ہے کیوں کہ بیوی ہوں میں آپ کی،، آئی سمجھ۔۔۔؟


وہ اسکے بلکل سامنے ایک ہاتھ کمر پر ٹکا کر اور دوسرا ہاتھ نچا نچا کر بولتی ہوئی اسے حقیقی معنوں میں اپنی بیوی ہی لگی۔۔۔


اچھا تو سو پھر یہاں ہی تم ،،، جہان نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور تکیہ دبوچ کر صوفے کی طرف بڑھا۔۔


کھی کھ کھی۔۔۔ عین نے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔۔


مجھ سے تو سویا نہیں گیا صوفے پر تو یہ اتنا بڑا جن کہاں سے پورا آۓ گا۔۔


اپنی زبان کے جوہر دکھا کر وہ كمبل میں دبک گئی۔۔ اس نے بتیسی نکال کر ہاتھ کی انگلیاں سامنے کیں،، ایک ، دو ، تین اور یہ بیڈ پر تکیہ پٹخنے کی آواز آئی۔۔


جہان بیڈ پر پھیل کر لیٹ گیا اور كمبل کھینچ کر اپنی طرف کیا۔۔


عین نے زور سے كمبل پکڑ لیا اور اپنے نیچے کر لیا۔۔ جہان کا ضبط اب کی بار جواب دے گیا۔۔


اس نے عین کو اپنی طرف کھینچا جس سے وہ كمبل سمیت اس کے سینے سے آ لگی۔۔


اس نے اسکی ٹانگوں پر اپنی ٹانگیں رکھ لیں اور اسے اپنے حصار میں لے کر آنکھیں موند گیا۔۔


عین بے حد کسمسائی لیکن جب آزاد ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آئی تو اس کے کندھے پر زور سے دانت گاڑے اور پٹ سے آنکھیں بند کر گئی۔۔


سس ،، جہان نے خونخوار نظروں سے اس جنگلی بلی کو دیکھا اور بدلے کے طور پر اپنا حصار اس کے گرد تنگ کردیا۔۔


اسی طرح نوک جھونک میں جانے کب دونوں نیند کی وادیوں میں اتر گئے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اپنے بے حال ہوتے دل کو سنبهالتی وہ سڑک پر آئی اور ہاتھ دکھا کر رکشہ روکا۔۔


کہاں جانا ہے بی بی ۔۔؟


انا جواب دیے بغیر رکشے میں بیٹھ گئی۔۔


بھائی چلو میں بتا دوں گی کہاں اتارنا ہے۔۔


رکشے والے نے اسکی بھرائی آواز سن کر سامنے نصب شیشے سے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنے کاندھے پر کپڑا رکھ کر رکشہ چلا دیا۔۔


انا گود میں سر رکھ کر پھپھک پھپھک کر رو دی۔۔ پتہ نہیں کون کون سے غم یاد آنے لگے تھے۔۔


وہ مجھے ماما کیسے کہہ سکتا ہے۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا لیکن اللّه تعالیٰ میرا دل کیوں اس کی طرف ہمکتا ہے۔۔ کیوں مجھے راحم سے محبت ہو گئی ہے۔۔ کیوں مجھے وہ اپنا لگتا ہے۔۔ اللّه یہ مجھے کیا ہورہا ہے۔۔


گود سے سر اٹھا کر اس نے آنسو پونچھ کر باہر دیکھا۔۔ بھائی بس یہیں روک دیں۔۔


رکشے والے کو پیسے پکڑا کر وہ نیچے اتری اور بغیر ارد گرد کا ہوش کیے سیدھ میں چلنے لگی۔۔


ذہن کے پردے پر یادوں کے عکس منڈلا رہے تھے۔۔ وہ اس سے اظہارِ محبّت کررہا تھا۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو شفاف موتیوں کی مانند گرے اور سیاہ نقاب میں جذب ہو گئے۔۔


"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""

سب کے ہوتے ہوئے ایک روز وہ تنہا ہوگا۔۔۔!!!

پھر وہ ڈھونڈے گا ہمیں اور نہیں پائے گا وہ۔۔!!!


"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""

مقام : داتا دربار ۔۔ لاہور !


وہ سسکتی ہوئی چلتی جا رہی تھی ۔۔ پھر داتا سرکار کے دربار کے باہر وہ رک گئی۔۔


چند قدم بڑھا کر وہ رک گئی۔۔ اس نے اپنے پاؤں جوتوں سے آزاد کر دیے۔۔


ننگے پاؤں وہ چوکھٹ پھلانگ گئی۔۔


اس نے مزار پر فاتح پڑھی اور وہاں سے پیچھے صحن کی طرف چلی گئی جہاں قوال بیٹھے طبلے کی تھاپ پر قوالی بول رہے تھے۔۔


عجب سماں بندها تھا۔۔ پیر دھرنے کی جگہ نہ تھی۔۔ جونهی طبلے پر زور کی تھاپ پڑی لوگوں اونچی آوازوں میں قوالی کے بول بولتے انکا ساتھ دینے لگے۔۔


لجپال ،، لجپال ،، لجپال ،، لجپال


لجپال نبیﷺ میرے ،، لجپال نبیﷺ میرے


انا وہیں ایک کونے میں گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گئی۔۔ اسکی سسکیاں لوگوں کے شور میں دب سی گئیں۔۔


"لجپال نبیﷺ میرے ،،

درداں دی دوا دینااااا

جدو وقت نزع آئے اے ،،

جدو وقت نزع آئے اے

دامن دی ہوا دینا آ آ آ آ "


وہ بلک بلک کر رونے لگی۔۔ وہ آج اتنا چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی کہ اس کے اندر پلتے غم اور تکلیفیں ان آنسوؤں میں بہہ جائیں۔۔

ادھر دنیا ہے اور دنیا کے دھندے

اِدھر میرا خدا ہے اور میں ہوں۔۔!!

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو عین کو اپنے حصار میں پایا۔۔ اس نے جھٹکے سے اسے اپنے آپ سے دور کیا۔۔

گزری رات کے تمام مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے ۔۔

جھٹکنے سے عین کی آنکھ کھل گئی ۔۔ وہ کسلمندی سے اٹھ بیٹھی اور ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی جو سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔۔

کک کیا ہوا۔۔؟

یہ تو تم مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا ہے،، کیا کر رہی ہو تم میرے اتنے قریب۔۔؟ وہ اس کے منہ پر داڑھا۔۔

عین نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔

آ آ پ ۔نے۔ خو۔ خود ۔ مجھے ۔ یہاں سل ۔ سلايا تھا ۔۔ میں ۔ تو دور ۔ ہی لیٹی ۔ تھی۔۔۔ .

بکواس بند کرو اپنی ۔۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے ۔۔ جب سے میری زندگی میں آئی ہو میرا سکون برباد کر دیا ہے،،، کاش اس رات میں نے تم پر ترس نہ کھایا ہوتا۔۔

عین کا دل کرچی کرچی ہوگیا،، اس نے آنسو سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔

ات اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں مجھ سے۔۔۔؟ اگر آپ چاہیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے ۔۔ میں اتنی بری تو نہیں ہوں،،، وہ سسکنے لگی۔۔

سوچنا بھی مت ایسا،، میں تم سے کوئی تعلق نہیں قائم کروں گا کیوں کہ میں کسی اور سے محبّت کرتا ہوں۔۔ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لو تم۔۔ زندگی عذاب بنا دی ہے ،، چلی کیوں نہیں جاتی میری زندگی سے تم ۔۔۔

اس کے دهواں دهواں چہرے پر نظر ڈال کر وہ غصے سے باہر نکل گیا۔۔

عین کا اٹھا ہاتھ نیچے گر گیا،، اس کی آنکھوں سے آنسو قطرہ قطرہ بہنے لگے۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے وا کیے لب بند کر لیے۔۔

اس نے سر کو نفی میں ہلایا۔۔ اسکے دماغ میں جہان کا کہا جملہ بار بار گونج رہا تھا۔۔ تم چلی کیوں نہیں جاتی،، تم چلی کیوں ۔۔۔۔۔۔

دوپٹہ گلے میں ڈال کر اس نے جوتا پہنا اور بغیر کچھ سوچے گھر کی دہلیز عبور کر گئی۔۔

اب نہیں ،، نہیں اب آپ کی تکلیف کی وجہ نہیں بنوں گی۔۔ اللّه کرے مر جاؤں میں۔۔ کیوں زندہ ہوں اللّه میں۔۔ بلک بلک کر روتی وہ بغیر سمت کا تعین کیے چلتی جا رہی تھی۔۔

راہ چلتے لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے لیکن وہ سب س بے نیاز چلتی جا رہی تھی۔۔

وہ ارد گرد سے بے خبر گھٹنوں پر سر ٹکائے بیٹھی تھی کہ اچانک عجیب سا شور اٹھا اور پھر لوگوں میں بھگدر مچ گئی۔۔


جس کو جہاں جگہ ملی وہ بھاگنے لگا۔۔ دھکم پیل دیکھ کر وہ گھبرا کر اٹھ گئی۔۔


کیا ہوا ،، اتنی افراتفری کیوں مچ گئی ہے یہاں ؟؟اس نے ایک بچے کو روک کر پوچھا جو گھبرایا ہوا تھا۔۔


باجی کچھ لوگوں نے دربار پر حملہ کر دیا ہے،، اپنی جان پیاری ہے تو بھاگ جاؤ یہاں سے ۔۔ یہ کہہ کر وہ ایک طرف کو بھاگ گیا۔۔


انا پریشان ہو گئی۔۔ اس نے چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ اسے کسی عورت کی كراه سنائی دی۔۔ اس نے نظرانداز کر کے جانا چاہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکی۔۔


اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو ایک بوڑھی عورت زمین پر گری ہوئی تھی جو اٹھنے کی کوشش میں ہلکان نظر آ رہی تھی۔۔ اس کے چہرے پر موت کا خوف تھا۔۔


انا کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے۔۔ اس نے جلدی سے انہیں سہارا دے کر اٹھایا اور رش میں جگہ بناتی تیزی سے قدم اٹھانے لگی۔۔


اچانک فائرنگ کی آوازیں بلند ہوئیں اور لوگوں میں چیخ و پکار مچ گئی۔۔ یا اللّه اپنے حفظ و امان میں رکھ ،، وہ دل میں اللّه سے دعا کرتی دربار کی دہلیز عبور کرنے ہی لگی تھی کہ اپنی کمر پر بندوق کی ٹھنڈی نال نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ویر نے ماتھے کو دو انگلیوں سے سہلایا۔۔

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں،، میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا۔۔


بیٹا بہت آسان اور سادہ لفظوں میں کہہ رہا ہوں کہ شادی کر لو۔۔ راحم کو ماں کی ضرورت ہے،، جس طرح وہ اس کی طرف ہمکتا ہے اور وہ بھی تو کس قدر محبّت سے پیش آتی ہے۔۔ وہی راحم کو سنبهال سکتی ہے۔۔


لیکن بابا وہ بہت چھوٹی ہے مجھ سے ۔۔ اور وہ کیوں ایک شادی شدہ مرد سے شادی پر رضامند ہوگی۔۔ پڑھی لکھی ہے ،، با شعور ہے ۔۔ مجھے نہیں لگتا وہ مانے گی ۔۔


بیٹا تم اس کی فکر نہ کرو۔۔ بس تم مان جاؤ باقی میرا کام ہے ۔۔ عدیل شاہ اسے نیم رضامند دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہوتے ہوئے بولے۔۔


ابھی پوری زندگی پڑی تھی اور وہ اپنے خوب رو بیٹے کو تنہا زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتے تھے اسی لئے انہوں نے شاہ ویر سے انا کی بابت مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔۔


بابا میں سوچ کر بتاؤں گا۔۔۔

ویر نے پرسوچ نظروں سے راحم کو دیکھ کر کہا جو اس سے اکھڑا اور ناراض تھا۔۔


راحم ،، میرا چیمپ ادھر آؤ بابا کے پاس۔۔۔ راحم بابا کے ساتھ آئس کریم کھانے جائے گا نہ۔۔ بابا ٹوائز بھی لے کر دیں گے اور کینڈیز بھی۔۔


آخر کب تک ناراض رہتا،، تھا تو وہ ایک بچہ ہی ،، وہ بھاگتا ہوا ویر کے پاس آیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔۔


بابا چیجو بھی اول يم يم بھی ،، اس کے بولنے پر ویر نے اسے اٹھا کر زور سے اسکے گال چومے اور کھڑا ہوگیا۔۔


بابا میں کچھ دیر تک آتا ہوں۔۔ میر کہاں ہے اسے بھی ساتھ لے جاتا ہوں ۔۔۔؟ یاد آنے پر اس نے دريافت کیا۔۔


وہ کمبائن اسٹڈی کے لئے دوست کے گھر گیا ہے ۔۔ ان کے جواب پر وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔۔


گاڑی میں بیٹھ کر اسنے اپنی اور راحم کی سیٹ بیلٹ باندھی اور نارمل سپیڈ سے ڈرائیو کرنے لگا۔۔


آئس کریم پارلر کے باہر پہنچ کر اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کر دی اور راحم کو پکڑے اندر چلا گیا۔۔


اس نے چار آئس كریمز پیک کروائیں،، اسکا ارادہ گھر جا کر مل کر آئس کریم کھانے کا تھا۔۔ پے منٹ کرنے کے لئے اس نے راحم کو نیچے اتارا۔۔


یہیں کھڑے رہو اوکے ۔۔ سیدھا ہو کر اس نے والٹ سے پیسے نکالے اور پے کر کے جیسے ہی پلٹا تو راحم غائب تھا۔۔ اس کا سانس اٹک گیا۔۔


اس نے ارد گرد موجود لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا۔۔ ایکسکیوز می یہاں میرا بیٹا تھا ایک سال کا کیا آپ نے دیکھا ہے اسے۔۔؟ ایک ایک منٹ میں اس کی پکچر دکھاتا ہوں۔۔ اس نے موبائل آن کیا جس کے وال پیپر پر راحم کی تصویر لگی تھی۔۔


نہیں ! ہم نے نہیں دیکھا۔۔

اس کی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے آ گئے۔۔ وہ دیوانہ وار اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے لگا۔۔


وہ بے حد تیز دھڑکتے دل کے ساتھ آئس کریم پارلر سے باہر نکلا اور پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈنے لگا۔۔


راحم کہاں ہو تم۔۔؟ بیٹا بابا بلا رہے ہیں کہاں ہو تم۔ ۔۔؟؟ سڑک کے بیچوں بیچ وہ اسے آوازیں دیتا کوئی دیوانہ لگا۔۔


صاحب۔۔۔؟ آواز پر اس نے اپنے دائیں طرف دیکھا جہاں ایک میلا کچیلا بچہ کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ آپ کسی بچے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ ؟


ہاں میرا بیٹا کھو گیا ہے،، کیا تم نے اسے دیکھا ہے۔۔؟ یہ اسکی تصویر ہے ۔۔ ویر نے بے صبری سے اس سے پوچھا تو وہ ذرا سا چونکا۔۔


یہ وہی بچہ ہے صاحب یہ وہی ہے۔۔ تھوڑی دیر پہلے دو آدمی اسے اٹھائے یہاں سے گزرے تھے۔۔ وہ کسی دربار میں جانے کی بات کر رہے تھے۔۔ صاحب وہاں خطرہ ہے۔۔ سننے میں آیا ہے کہ وہاں حملہ ہوا ہے ۔۔ کئی لوگ مار ۔۔۔۔۔


شاہ ویر اسکی پوری بات سنے بغیر ہی پوری رفتار سے ایک طرف کو بھاگنے لگا۔۔ اس کے ذہن سے یہ بات بھی نکل گئی تھی کہ وہ گاڑی ساتھ لایا تھا۔۔


اسکا رخ داتا دربار کی جانب تھا کیوں کہ اس جگہ واحد یہی دربار تھا جہاں وہ راحم کو لے جا سکتے تھے۔۔


اچانک ایک تیز رفتار موٹر بائیک سامنے سے آئی اور اس سے ٹکرا گئی۔۔۔ وہ اچھل کر دور جا گرا۔۔ بائیک پر سوار شخص گھبرا گیا اور جلدی سے بائیک اڑا لے گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ عین کے ساتھ اپنے رویے پر پشیمان ہوا۔۔ وہ ضرورت سے زیادہ ہی غصہ کر بیٹھا تھا۔۔


اپنی کنپٹی کو دباتے وہ گھر میں داخل ہوا۔۔ دروازه کھلا دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا۔۔ اس نے دروازه بند کیا اور اندر آ کر اپنے کمرے میں جھانکا۔۔


اسے وہاں نہ پا کر اس نے باقی کمرے بھی چیک کیے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی۔۔ اسے تشویش نے آ گھیرا۔۔


عین کہاں ہو تم ۔۔؟ باہر آؤ۔۔؟

وہ اسے آوازیں دینے لگا۔۔


عین تمہیں سنائی نہیں دے رہا باہر آؤ کہاں چھپی ہوئی ہو ۔۔؟


آئی ایم سوری ! مجھے تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی پلیز باہر آؤ کہاں ہو تم ۔۔۔


اس کی آواز پورے گھر میں گونج کر دم توڑ گئی۔۔

خالی گھر اس کا منہ چرا رہا تھا۔۔


کسی انہونی کے خوف سے اسکا دل تیز دھڑکنے لگا۔۔

کیا وہ چلی گئی ہے۔۔۔؟ اس سوچ نے اس کے اندر سناٹے بھر دیے۔۔

نہیں میں ڈھونڈ لوں گا تمہیں۔۔ کہاں جاؤ گی تم ۔۔

وہ تیزی سے گھر سے باہر نکلا اور دروازے کو مقفل کر کے جاننے والوں سے اس کے بارے میں دريافت کرنے لگا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


پیدل چلتے چلتے وہ بہت دور نکل آئی تھی۔۔ اسے خبر نہیں تھی کہ یہ کونسی جگہ تھی۔۔ بس وہ اپنے آپ سے خفا سب سے دور چلی جانا چاہتی تھی۔۔


بیٹا میری مدد کرو ،، میری بیوی ادھر زخمی پڑی ہے اسے یہاں لانے میں میری مدد کرو ۔۔۔ ایک بوڑھا شخص اس کے سامنے گڑگڑا کر مدد کی بھیک مانگ رہا تھا۔۔ وہ غائب دماغی سے اسے دیکھے گئی۔۔


بیٹا اللّه کے واسطے میری مدد کرو ،، بوڑھے نے اسے جھنجھوڑا تو وہ ہوش میں آئی۔۔


ہاں کیا ہوا۔۔؟


بیٹا میری بیوی وہاں زخمی حالت میں پڑی ہے۔۔ کوئی بھی میری مدد نہیں کررہا ۔۔


کہاں۔۔؟ کہاں ہے وہ۔۔؟


میرے ساتھ آؤ،، اپنے آنسو پونچھ کر وہ اسے ساتھ لئے تیز تیز چلنے لگا۔۔ عین اس کی عمر اور اس کے مقابلے میں اتنی تیز رفتار پر غور نہ کر سکی۔۔


وہ اسے لئے قدرے سنسان جگہ لے آیا۔۔ کہاں ہیں وہ۔۔؟ عین نے پیچھے دیکھا ہی تھا کہ اس کے سر پر کوئی زوردار چیز لگی۔۔


اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا جو خون سے سرخ ہونے لگا تھا۔۔ تکلیف برداشت نہ کرتے وہ وہیں لڑھک گئی۔۔


اس شخص نے نوچ کر اپنی نقلی داڑهی اور سفید بال اتارے اور اپنی کامیابی پر مسکرا دیا۔۔


کب سے وہ اس کا تعاقب کر رہا تھا۔۔ ایسا مال روز روز تو ہاتھ نہیں لگتا يقیناً باس بہت خوش ہوگا۔۔


مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر وہ اسے کاندھے پر ڈال کر روانہ ہوگیا۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


آہ ! کندھے میں اٹھتے شدید درد کو برداشت کرتے وہ ہاتھ زمین پر رکھ کر اٹھا ۔۔ اس نے کنپٹی سے بہتی خون کی لكیر کو ہاتھ کی پشت سے پونچھا اور اور تیز قدم اٹھاتا بائیں طرف جاتی سڑک پر مڑ گیا۔۔


اسے اس وقت صرف راحم کی پرواہ تھی۔۔ وہ اپنے آپ سے مکمل بے نیاز ہوگیا۔۔ چلتے ہوئے وہ ذرا سا لڑکھڑایا اور سامنے تیزی سے آتے لڑکے سے ٹکرا گیا۔۔


جہان نے اسے فوراً کاندھوں سے پکڑ کر سہارا دیا۔۔ آر یو فائن۔۔؟ اس نے انسانیت کے ناطے پوچھا تو ویر نے محض سر ہلایا۔۔


کیا آپ نے اسے یہاں آس پاس دیکھا ہے۔۔؟

کسی راہگیر کو دیکھ کر دونوں نے بیک وقت اس کو موبائل میں تصویر دکھاتے پوچھا جو عجلت میں لگتا تھا۔۔


ویر اور ہان نے ایک دوسرے کو چونک کر دیکھا ۔۔


نہیں بھائی میں نے نہیں دیکھا۔۔۔ اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا اور بغیر ان کی طرف دیکھے یہ جا وہ جا۔۔


تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو۔۔۔؟ ویر نے استفسار کیا۔۔


میری بیوی ۔۔ وہ پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے ۔۔!اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔۔

اور تم ۔۔؟ جہان نے پریشانی سے کہہ کر پوچھا۔۔


میرا بیٹا میرے ساتھ تھا پھر اچانک پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔۔۔ بہت چھوٹا ہے وہ ۔۔ پتہ نہیں کس حال میں ہوگا۔۔ ویر نے کرب زدہ لہجے میں کہا۔۔


مجھے کسی نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ اس کو آس پاس کسی دربار میں لے گئے ہیں ۔۔۔ میں بس وہیں ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔۔ ویر نے پیشانی مسل کر کہا تو جہان چونکا۔۔


وہاں تو کوئی حملہ ہوا ہے ۔۔۔دهشت گردوں نے قبضہ کر لیا ہے۔۔ کئی لوگ مارے گئے ہیں۔۔۔وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں۔۔ جہان کے فکرمندی سے کہنے پر ویر نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔


تو کیا کروں ؟؟ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاؤں۔۔؟ اسے مرنے کے لئے چھوڑ دوں۔۔؟

مجھے تو یہی لگ رہا ہے کہ تمہاری بیوی بھی انہی کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔۔


بکواس بند کرو اپنی ۔۔ جہان غصے سے داڑھا۔۔


اپنی حد میں رہو تم ،، میں جا رہا ہوں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے تم مرو یہیں۔۔۔ ویر نے اکڑ کر کہا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔۔


رکو ۔۔۔!! جہان کی پکار پر وہ اپنی جگہ رک گیا لیکن مڑا نہیں۔۔ جہان نے سلگ کر اسے دیکھا۔۔ اتنی بھی کیا اکڑ۔۔


ضبط سے وہ اس کے قریب پہنچا ۔۔

میں بھی چلتا ہوں ساتھ لیکن ہم ایسے ہی وہاں

نہیں جا سکتے۔۔ ایسے تو ہم بھی انکے شکنجے میں آ جائیں گے۔۔ ہمیں پوری تیاری کے ساتھ جانا چاہیے۔۔


جہان کی بات ویر کے دل کو لگی ۔۔


ہممم بات تو تمهاری ٹھیک ہے۔۔ چلو میرے ساتھ میں ایک انسان کو جانتا ہوں جو ہمیں اسلحہ فراہم کر سکتا ہے۔۔


ویر اسے ساتھ لئے ٹیکسی میں بیٹھا۔۔ تقریباً پانچ منٹ میں وہ مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔۔ چھوٹا سا ایک کمرے کا مکان جو بہت بوسیدہ ہو چکا تھا۔۔ دیواروں سے سیمنٹ جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھی۔۔ اس نے بند دروازه زور سے کھٹکھٹایا۔۔


چند سیكنڈ بعد دروازه کھل گیا۔۔ سیاہی مائل رنگ کا حامل قدرے پستہ قد کا لڑکا نمودار ہوا ۔۔اس نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔۔


ویلکم باس!! سب تیار ہے۔۔ ویر اور جہان فوراً اندر داخل ہوئے۔۔ دونوں نے اپنے كسرتی جسم کو قمیض کی قید سے آزاد کیا۔۔


ان کے ورزشی جسم کو دیکھ کر لڑکے کی آنکھوں میں ستائش ابھری۔۔


انہوں نے اپنی کمر کے گرد ایک بیلٹ باندھا۔۔ جہان نے سامنے میز پر دھڑا ریوالور اٹھا کر بیلٹ میں اڑسا۔۔ ویر نے پنڈلی کے ساتھ چاقو بندھا ۔۔


جدید اسلحہ سے پوری طرح لیس ہو کر دونوں اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔ ویر نے دو ٹائم بم جہان کی طرف بڑھاۓ جسے اس نے قمیض کے اندر چھپا دیا۔۔


اپنی کالی پینٹ کو پنڈلی سے نیچے کر کے ویر اس حبس زدہ مکان سے باہر نکل آیا۔۔ جہان نے جلدی سے اپنی قمیض کے بٹن بند کیے جس سے اس کا كسرتی سینہ چھپ گیا۔۔ پھر دونوں اپنی منزل کی طرف گامزن ہو گئے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


وہ دل میں اللّه سے دعا کرتی دربار کی دہلیز عبور کرنے ہی لگی تھی کہ اپنی کمر پر بندوق کی ٹھنڈی نال نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔۔


اے زیادہ شانی نہ بن ،، چل ادھر ۔۔ بندوق بردار نے اسے بندوق سے پیچھے دھکیلا اور اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کر دیا۔۔

انا نے ان کا چہرہ دیکھنا چاہا تو ایک ساتھی نے اس کے منہ پر پوری قوت سے چمانٹا دے مارا۔۔


نظریں نیچے ۔۔! وہ داڑھا تو انا سر تا پیر کانپ گئی۔۔ تھپڑ اتنا زوردار تھا کہ اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔


وہ شخص اسے گهسیٹ کر ایک کمرے میں لے گیا اور جھٹکے سے اسے زمین پر پھینکا جہاں اور بھی لوگوں کو قید کیا گیا تھا۔۔


سس ۔۔۔ سر زمین سے ٹکرانے پر اس کے منہ سے سسکاری نکلی ۔۔ لیکن وہ خود پر ضبط کر کے اٹھ بیٹھی۔۔


نہیں وہ ان لوگوں سے نہیں ڈرے گی ۔۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے۔۔ اس نے دل ہی دل میں اللّه کو پکارنا شروع کر دیا۔۔ اسے پورا یقین تھا کہ اللّه ضرور اس کی مدد کرے گا۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کھ کوئی بندہ اتنی شدت سے اپنے رب کو پکارے اور وہ اسکی پکار نہ سنے۔۔


اس نے دیوار سے ٹیک لگا کر اطراف کا جائزہ لیا۔۔ بندوقوں سے مسلح چار نقاب پوش انکی نگرانی پر معمور تھے۔۔


کمرے میں موت کا سا سناٹا تھا۔۔ اچانک اس سناٹے میں ارتعاش پیدا ہوا۔۔ کسی کے بھاری قدموں کی آواز سنائی دی جو لمحہ با لمحہ قریب ہوتی جا رہی تھی۔۔


چرچراہٹ کی آواز سے دروازه کھلا اور اور ایک بھاری قد و قامت کا شخص نمو دار ہوا۔۔ اس نے ایک کمسن وجود کو زمین پر خوف سے کانپتے لوگوں کی طرف دھکیلا اور آنکھ سے اپنے ماتحتوں کو اشارہ کر کے اسی خاموشی سے واپس چلا گیا۔۔


اچانک اس وجود کے رونے کی آواز ابھری ۔۔

اے چپ ،، منہ بند ورنہ گولیوں سے بھون دوں گا۔۔ بندوق بردار کی دھاڑ پر اس نے اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر سسکیوں کا گلا گھونٹا۔۔


انا چونک کر سیدھی ہوئی۔۔۔ کمرے میں نیم اندھیرے کی وجہ سے وہ اس وجود کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پائی تھی۔۔۔

اس نے غور سے دیکھا تو اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔ نہیں اللّه تعالیٰ پلیز یہ میری آنکھ کا دھوکا ہو۔۔ اس نے آنکھیں جهپک جهپک کر دیکھا ۔۔ وہ عین ہی تھی ۔۔ ہاتھوں کی کپكپاہٹ پر قابو پاتی وہ تھوڑا سا كهسک کر آگے ہوئی اور عین کو اپنی طرف کھینچا۔۔


اے دور ہٹ ،، زاده شانی بنتی اے۔۔ ایک نقاب پوش نے اسے بالوں سے پکڑ کر پیچھے پھینکا۔۔ اسکا نقاب اتر گیا جسے اس نے فوراً درست کیا۔۔


اس نے بے خوفی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور عین کو اپنے قریب کر کے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔۔


آپی ! عین اس کے سینے سے لگی بلکنے لگی۔۔ شش چپ ۔۔ رو نہیں ورنہ یہ گھٹیا لوگ تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔۔


اے آنکھ دکھاتی ہے میرا میٹر گھوما نہ تو تجھے ابھی گولیوں سے بھون دوں گا سالی** ۔۔


تو بھون دے نہ ڈرتی نہیں ہوں میں تجھ جیسے کتوں سے۔۔ وہ پوری قوت سے چلائی تو وہ ضبط کھوتا اس کی طرف بڑھا۔۔


اس نے ہاتھ آگے کیا ہی تھا کہ اس کے ساتھی نے روک دیا۔۔ باس کا آرڈر ہے سب مال صحیح سلامت ہونا چاہیے۔۔


وہ خود پر ضبط کرتا اپنی جگہ جا کر کھڑا ہو گیا۔۔ سب لوگ گردنیں موڑ کر انا کو دیکھنے لگے۔۔ شاید اتنا بہادر ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


وقت سست روی سے گزر رہا تھا۔۔ سب لب سئے ان کے رحم و کرم پر پڑے تھے۔۔ فون کی گھنٹی بجی تو اسی نقاب پوش نے جو ان کا سربراه لگتا تھا فون کان سے لگایا۔


یس سر ۔۔ آل رائٹ ۔ یس ایوری تھنگ از فائن۔۔ اوکے اوکے۔۔ اس نے فون کان سے ہٹایا۔۔


ان سب کو باہر لے آؤ۔۔۔ اس کے حکم پر لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔۔ نجانے وہ لوگ اب ان کے ساتھ کیا کرنے والے تھے۔۔

چلو سب ایک ایک کر کے باہر نکلو۔۔ جلدی چلو ۔۔ ان میں سے ایک نقاب پوش کی کرخت آواز گونجی۔۔

باہر مزار کے صحن میں انہیں بیٹھا دیا گیا۔۔ تقریباً وہ دس نوجوان تھے جو کالے کپڑے سے اپنے چہروں کو ڈھکے ان پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔۔

باس یہ کسی ** کا بچہ ناک میں دم کئے ہوئے ہے۔۔ کہو تو سالے کو اڑا دوں۔۔؟ ان کے ایک ساتھی نے ایک چھوٹے سے بچے کو زمین پر پٹختے ہوئے کہا۔۔ جو تکلیف سے رونے لگا تھا۔

بابا بابا ۔۔۔ دو با با ۔۔۔ وہ معصوم اپنی زبان میں ان ظالموں سے فریاد کر رہا تھا جن کے دل پتھر کے تھے۔۔

انا نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا۔۔ اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی ۔۔ اللّه کیوں میرے ساتھ کیوں ایسا ۔۔؟؟ وہ جو کب سے خود کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی لمحے میں کمزور ہو گئی۔۔

چھچھ چھوڑ دو اسے ،، پلیز ۔۔۔

وہ ایک دم کھڑی ہو کر بولی تو ان کے سربراه نے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔

پہلا ساتھی جو بچے کو لے کر آیا تھا اس نے اس ننھی سی جان کو پیر سے ٹھوکر ماری۔۔ انا گرتی پڑتی اس تک پہنچی اور راحم کو پکڑ کر اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔

اللّه کا قہر نازل ہو تم سب پر ۔۔ حیوان ہو تم لوگ۔۔ تمھیں اس معصوم پر ترس نہیں آتا۔۔ وہ بلکتی ہوئی انہیں بد دعا دے رہی تھی۔۔

سیف ۔۔۔؟ ان کے سربراه نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا۔۔ وہ آگے بڑھا اور انا کو پیٹنے لگا۔۔

تیرے کو زادہ ہمدردی ہورہی ہے ری حرام*** بہت بول لیا تو نے۔۔ وہ کمر کے بل جھکی راحم کو اپنی آغوش میں چھپاۓ پٹتی رہی۔۔

ماما ۔۔۔؟ راحم بھی رونے لگا۔۔

بس میرا بچہ کچھ نہیں ہوا۔۔ میری موت اللّه کے ہاتھ میں ہے ان جاہلوں کے نہیں۔۔ اس نے نفرت سے انہیں دیکھ کر کہا۔۔

وہ اسے مزید مارنے کے لئے آگے بڑھا تو انکے سربراه نے گردن پر ہاتھ پھیرتے اسے منع کر دیا ۔۔ ٹیڑھی کھیر ہے باؤ ،، سمجھ رہے ہو نہ۔۔

ان کی بکواس پر دیہان دیے بغیر وہ راحم کو تھامے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی۔۔

عین جو اس کی حالت دیکھ کر بلک رہی تھی وہ اس سے لپٹ گئی۔۔ انا آپی کتنا مارا انہوں نے آپ کو ۔۔ اللّه غارت کرے انہیں۔۔۔ میں آپ کی طرح بہادر نہیں ہوں۔۔۔آئی ایم سوری۔۔ روتے روتے اسکی ہچکی بندہ گئی۔۔

انا نے بغیر کچھ کہے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔۔ وہ ان دونوں کو اپنے آپ میں یوں چھپاۓ بیٹھی تھی کہ کوئی اب ان کو ہاتھ لگا کر تو دکھاۓ۔۔ اس کی یہ بے خوفی اللّه کی ذات پر پختہ یقین کی وجہ سے تھی۔۔

کُل دس لوگ ہیں ۔۔ ہر ایک کے پاس بندوق ہے۔۔

جہان نے دور بین کی مدد سے دربار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔۔


وہ دونوں اس وقت دربار کے آس پاس قدرے اونچے مقام پر موجود تھے۔۔ یہاں ہونے کا مقصد اندر کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔۔


ویر نے اس سے دوربین لے کر آنکھوں سے لگائی۔۔

ہممم ۔۔ انکا ساتھی ایک کمرے کے باہر کھڑا پہرہ دے رہا ہے۔۔ ضرور وہاں کچھ ہے۔۔


جہان نے آنکھیں سکیڑیں۔۔


ہمیں دیوار پهلانگ کر اندر جانا ہوگا۔۔ پچھلی طرف سے ۔۔۔ باقی ہر طرف پہرا ہے۔۔


لیکن ایسے تو ہم نظروں میں بھی آ سکتے ہیں۔۔ ویر نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔۔

ہم میں سے کسی ایک کو انکی نظروں میں آنا ہوگا۔۔ ایسے ان کا دیهان بٹے گا۔۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر دوسرا پوری ہوشیاری سے اندر محفوظ جگہ چھپ جائے گا ایسی جگہ جہاں سے دونوں ایک دوسرے سے اشارتاً بات کر سکیں۔۔


ہمم امپریسو مجھے تو لگ رہا ہے کہ تمہارا تعلق بھی کسی گینگ سے ہے۔۔ جہان نے تیکھی مسکراہٹ سے کہا۔۔


ویر کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ اس نے اسکی بات کا جواب دینا ہی ضروری نہ سمجھا۔۔


جہان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔ ہاں اب کلیجے میں کچھ ٹھنڈ پڑ گئی تھی۔۔


ہوا کا زور تیز ہوا تو ویر نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔۔ سیاہ بادلوں نے آسمان کو پوری طرح ڈھک دیا تھا۔۔ ہلکے اندھیرے نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔


بادل زوردار آواز سے گرجے اور بارش کی ایک بوند جہان کے ماتھے پر گری۔۔


آر یو ریڈی۔۔۔؟ ویر نے جہان کے آگے اپنا ہاتھ کیا۔۔


یس آئی ایم۔۔۔۔ اس نے ویر کے ہاتھ پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا۔۔ دونوں نے عزم سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور ڈھلان سے نیچے اترنے لگے۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


دور خلاؤں میں گھورتی انا یک دم چونکی۔۔ اس نے ویر کو دیوار پھلانگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔


فرطِ جذبات سے اس نے اپنے کانپتے ہونٹ بهینچے۔۔ بہت مشکل سے اس نے چہرے پر ابھرنے والے تاثر کو نارمل کیا۔۔


ویر نے زمین پر قدم رکھتے ہی اپنی قمیض میں موجود ہتھیاروں کو اندازے سے چیک کیا۔۔۔


جہان دیوار سے ذرا سا جھانک رہا تھا۔۔ اس نے ویر کو انگوٹھا دکھایا ۔۔۔


ویر نے سر کو خم دیا اور جان بوجھ کر کھمبے سے ٹکرا گیا۔۔ خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوا تو نقاب پوش فوراً الرٹ ہوگئے۔۔۔


رابرٹ ۔۔۔! رائٹ ناؤ۔۔۔


یس سر۔۔۔۔!!

باس کے حکم پر ایک نقاب پوش جسکا نام رابرٹ تھا بندوق کی نال سیدھی کیے پچھلی جانب چلا گیا جہاں سے آواز ابھری تھی۔۔


ویر کو دیکھ کر اس نے بندوق اس پر تان لی۔۔

ویر نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے فوراً ہاتھ فضا میں بلند کر دیے۔۔


جہان نے اس کی ایکٹنگ کو سراہتے ابرو اٹھایا۔۔


رابرٹ احتیاط سے آگے بڑھا اور ویر کو کندهے سے پکڑ کر آگے دھکیلا۔۔ ایسے سلوک پر ویر نے دانت پیسے۔۔


سر دِس مین واز فاؤنڈ دیئر۔۔ (سر وہاں یہ شخص تھا )


رابرٹ نے اسے زمین پر دھکیل کر کہا۔۔


ویر نے زمین پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنے آپ کو زخمی ہونے سے بچایا۔۔

تم کون ہو بتاؤ ۔۔؟ ایجنسی کے آدمی ہو نا۔۔؟


مائیک نامی انکا سربراه ویر کی طرف جھکا اس سے استفسار کرنے لگا۔۔


نہیں میں ایجنسی کا آدمی نہیں ہوں۔۔

ویر نے پرسکون لہجے میں کہا۔۔


ایک زوردار گھونسا اس کے منہ پر لگا۔۔

گھونسا اتنا زوردار تھا کہ تکلیف سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔۔


لوگوں کے خوف و ہراس میں اضافہ ہوگیا۔۔ انا نے راحم کا چہرہ اپنی طرف موڑ لیا تا کہ وہ ویر کو دیکھ نہ سکے۔۔ اس کا دل زور و شور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ نجانے اب کیا ہونے والا تھا۔۔


ان سب کا دیہان بٹا دیکھ کر جہان دیوار سے اندر کود گیا اور وہاں نصب کھمبوں کی اوٹ میں ہو کر دبے قدموں آگے بڑھنے لگا۔۔ اس کا ہاتھ بیلٹ میں اڑسی ہوئی پسٹل پر تھا۔۔


بکواس کرتا ہے سالا ۔۔۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری خبر گیری کے لیے اپنا بندہ بھیجیں گے اور ہم سمجھ نہیں پائیں گے۔۔ الو نظر آتے ہیں کیا ہم تم کو ۔۔؟ مائیک نے اس کے منہ پر بوٹ کی زوردار ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔۔


ویر کمر کے بل جھک گیا۔۔ اس کے منہ سے خون بہنے لگا تھا۔۔


جھکے جھکے اس کی نظر سیاہ جوتوں پر پڑی۔۔ اس کا دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔۔ مطلب وہ صحیح سلامت پہنچ چکا تھا۔۔


اس نے زمین پر دھری انگلیوں کی وکٹری بنائی۔۔ جہان نے اس کا اشارہ سمجھ کر کھمبے کی اوٹ میں ہو کر یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔۔


ہال میں ہڑبونگ مچ گئی۔۔ لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔۔ ویر نے پھرتی سے گن نكالی اور مائیک کے منہ پر زوردار لات مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔


نقاب پوشوں نے جواباً حملہ کر دیا۔۔ دربار گولیوں کی آواز سے گونجنے لگا۔۔


جہان نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے مائیک کی گردن میں بازو کا شکنجہ تنگ کیا اور پسٹل اس کے سر پر تان کر داڑھا۔۔


خبر دار اگر کسی نے ہم پر گولی چلائی تو میں اسکا بھیجا اڑا دوں گا۔۔


مائیک کے پسینے چھوٹ گئے۔۔ اس نے فوراً اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔۔ پهینک دو سب بندوقیں نیچے پھینک دو۔۔


اسکے آدمیوں نے حکم کی تكمیل کرتے ہتھیار ڈال دیے۔۔


ویر فوراً مجمع کی طرف بڑھا ۔۔ اٹھو نکلو یہاں سے سب۔۔ بھاگو ۔۔!! جلدی کرو ۔۔ وہ نظریں تیزی سے دوڑاتے راحم کو ڈھونڈنے لگا۔۔


لوگ گرتے پڑتے باہر کی طرف جانے والے راستے کو دوڑنے لگے۔


انا عین کا ہاتھ تھامے تیزی سے ویر کی طرف بڑھی۔۔ راحم کو صحیح سلامت دیکھ کر ویر نے شکر کا سانس لیا۔


جہان جو مستعد سا مائیک پر گن تانے کھڑا تھا اچانک لڑکھڑا گیا۔۔ وہ ابھی سنبهل بھی نہ پایا تھا کہ اس کے سر پر بھرپور ضرب پڑی جس سے وہ حواس کھوتا زمین بوس ہوگیا۔۔


چند سیکنڈ میں صورتحال کا پانسا پلٹ گیا۔۔۔ صرف ذرا سی غلطی ان پر بھاری پڑی۔۔ ان کے مطابق وہ دس لوگ تھے لیکن اصل میں وہ گیارہ تھے۔۔


باہر صورتحال کو بگڑتا دیکھ کر وہ شخص اندر کہیں چھپ گیا تھا۔۔۔ اچانک اس نے تاک کر وار کیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔


نقاب پوشوں میں حرکت ہوئی اور انہوں نے تیزی سے بندوقیں تھام کر باہر نکلتے لوگوں پر فائر کر دیے۔۔


چند لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ گئے جب کہ ان میں سے کچھ لوگ لقمہِ اجل بن گئے۔


ربرٹ نے ویر کو گردن سے پکڑ کر جھٹکا اور اسے پے در پے گھونسے مارنے لگا۔۔ اچانک پڑنے والی افتاد پر ویر بوکھلا گیا۔


رابڑٹ نے اسکے بازو کو موڑا اور صحن کے پچھلے جانب بنے تہہ خانے میں لے جانے لگا۔۔ ایک ساتھی نے بے ہوش ہوئے جہان کو کاندھے پر لاد کر اسکی تقلید کی۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


دوسرے دہشتگردوں نے باقی مانده لوگوں پر قابو پا لیا۔۔ انا کا دل دھاڑیں مار کر رونے کو چاہا۔۔ اس نے عین کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔۔


اللّه اب کیا ہوگا ۔۔؟ کیا کروں میں ؟ یہ سب کیا ہوگیا ۔۔ پلیز ہم سب کی حفاظت کریں۔۔


پریشانی سے سوچتے ہوئے سرعت سے ایک خیال اس کے ذہن کی سلیٹ پر نقش ہوا۔


عین اس کا دیہان رکھنا ۔۔۔ میں ابھی آئی۔۔ راحم کو اس کے حوالے کر کے وہ کھڑی ہو گئی۔۔۔


مجھے واشروم جانا ہے۔۔۔ اس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔


رابرٹ نے مائیک کی طرف دیکھا۔۔۔


چلو ۔۔۔۔ کوئی ہوشیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس کے کرخت لہجے پر انا نے سوکھا حلق تر کیا۔


اس کی تقلید میں وہ قدرے کونے میں بنے باتھ روم تک آئی۔۔


کتنی دیر لگے گی ۔۔۔؟


بس پانچ منٹ۔۔۔ انا نے جلدی سے جواب دیا۔


اوکے ۔۔۔ اس کو جواب دے کر وہ قدرے دور جا کر کھڑا ہوگیا۔۔ اس کے خیال میں ایک بالشت بھر چھوکری کیا کر سکتی تھی۔


انا نے اسے مڑتے دیکھ کر تیزی سے رخ بدلا۔

وہ نظر بچاتی تیزی سے تہہ خانے کی سیڑھیاں اترنے لگی۔


"ایک منٹ۔۔۔۔"

وہ ابھی آدھی سیڑھیاں ہی اتر سکی تھی کہ اس کی نظر ایک کمرے پر پڑی جسکے کھلے دروازے سے اسلحہ نظر آرہا تھا۔۔ اس نے چند سیكنڈ کی دیر کیے بغیر جو ہاتھ میں آیا اٹھا لیا اور تیزی سے تہہ خانے کی سیڑھیاں اتر گئی


"دو منٹ ۔۔۔۔۔"

نیچے آ کر اس نے واحد کمرے میں جھانکا جہاں ویر اور جہان ادھ موۓ پڑے تھے۔۔۔ ان کے جسم شرٹ کی قید سے آزاد تھے۔۔ جس پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے۔۔ انہیں بری طرح پیٹا گیا تھا۔۔


وہ آنسو روکتی جلدی سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔ ان کے پاس زمین پر بیٹھ کر وہ انہیں پکارنے لگی۔۔۔

ہان۔۔۔؟ شاہ ویر۔۔۔؟ اٹھیں ۔۔۔۔!


"اڑھائی منٹ۔۔۔۔"

جلدی کریں میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔ دونوں کے وجود میں جنبش ہوئی۔۔ آنکھیں کھولتے وہ بےیقینی کی کیفیت میں اسے دیکھے گئے۔۔


یقیناً قدرت انکا ساتھ دے رہی تھی ورنہ اب انہیں اپنے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔


انا نے ساتھ لائے اسلحہ میں سے چاقو پکڑا اور تیزی سے ان کے ہاتھ پر بندھی رسی کاٹی۔۔


"تین منٹ ۔۔۔۔"

میں اتنا ہی کر سکتی تھی۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔ اللّه آپ کی مدد کرے۔۔۔


وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگی اور تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

چار منٹ ۔۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


رابرٹ نے وقت دیکھا ۔۔ پانچ منٹ ہونے والے تھے۔۔ اس نے اپنا رخ باتھ روم کی طرف کیا۔۔ اس نے احتیاتاً دائیں بائیں جھانکا ۔۔


وہ دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا کہ باتھ روم کا دروازه کھلا اور انا باہر نکلی۔۔


اسکا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔۔۔اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ وہاں سے صحیح سلامت واپس آ گئی تھی۔۔


آپی آپ کہاں گئی تھیں۔۔؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ ہان کو لے گئے وہ لوگ ۔۔ سب میری وجہ سے ہوا ہے ،، نہ میں آتی اور نہ وہ ۔۔۔


شش ۔۔۔! ٹھیک ہیں وہ ،، میں ابھی ان کو دیکھ کر آئی ہوں ۔۔۔ انا نے سرگوشی میں کہا۔


عین کی آنکھوں کی بجھی جوت پھر سے جلنے لگی۔۔ سچ کہہ رہی ہیں آپ ؟ آپ ان تک پہنچیں کیسے ۔۔؟ اس نے بھی سرگوشی میں پوچھا۔۔


بعد میں بتاؤں گی۔۔ انا نے کہتے ہوئے راحم کو تھام لیا جو روتے روتے سو چکا تھا۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


رابرٹ ۔۔۔؟ مائیک نے خاموش بیٹھے رابرٹ کو پکارا جو عجیب سے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔۔ اس کے جواب نہ دینے پر اس نے اسکا شانہ تهپتهپایا تو وہ ایک طرف کو لڑھک گیا۔۔ مائیک چونک گیا۔۔


اس نے باقی ساتھیوں پر نظریں دوڑائیں تو وہ سب بھی كهمبوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔۔ ان کی آنکھوں کی پتلياں ایک ہی نکتے پر جمی ہوئی تھیں۔۔


اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر انہیں ہلایا تو سب ایک طرف کو لڑھکتے گئے۔۔


کسی انہونی کا احساس ہوتے اس نے بیلٹ پر بندوق نکالنے کے لیے ہاتھ رکھا ہی تھا کہ ایک گولی اسکی دائیں کنپٹی کو چھوتی بائیں سے نکل گئی۔۔ خون فوارے کی صورت اس کے سر سے نکلا اور وہ کٹی ڈال کی مانند زمین بوس ہوگیا۔۔


اف اف تف ہے ہم پر ۔۔ باس بھی ٹپک گیا ۔۔ اپن لوگ نکلتے ہیں نہیں تو یہ سالے کل کے لونڈے اپن کی بھی اوپر کی فلائٹ کروا دیں گے۔۔


وہ اول جلول حلیے میں باہر سے جھانکتے ہوئے اپنے ساتھی سے بولا۔۔۔ وہ "اوپر" سے ایک اہم پیغام لے کر آیا تھا لیکن یہاں تو کایا ہی پلٹ گئی تھی۔۔ رک تو ادھر ان سالوں کو ایسے ہی تو نہیں چھوڑیں گے۔۔ میں ابھی آیا۔۔


ویر اور جہان جلدی سے ان کے پاس پہنچے۔۔ تم ٹھیک ہو عین۔۔؟ عین کی آنکھیں چھلکنے کو بیتاب ہوئیں۔۔


ساتھ ہی اس کی نظر انا پر پڑی۔۔ انا کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔۔


جہان تم نکلو جلدی یہاں سے ۔۔ ابھی بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔ ویر نے راحم کو تھام کر کہا۔۔


جہان نے سر ہلا کر انا کی طرف دیکھا۔۔ تم ۔۔؟


ہاں میں جانتا ہوں ان کو ۔۔ میں ڈراپ کر دوں گا ۔۔

ویر کے کہنے پر جہان نے خاموشی سے انا کی اوڑھ دیکھا جو نظریں چرا گئی۔۔


چلو ۔۔۔! عین کا بازو تھام کر وہ جلدی سے باہر نکلا۔۔


چلیں آپ بھی ۔۔۔ جلدی کریں ۔۔

ویر تفكر سے انا کو دیکھ کر بولا ۔۔


اچانک بیپ بیپ کی آواز پر وہ چونکے۔۔

ایک خیال سرعت سے دونوں کے ذہن میں ابھرا۔۔


اوہ نو۔۔۔ جلدی کریں ۔۔ وہ راحم کو لئے باہر لپکا۔۔


انا کہاں ہے ۔۔؟

جہان کے پوچھنے پر اس نے سرعت سے پیچھے دیکھا ۔۔۔ اسکا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔


اسے پکڑو ۔۔۔ راحم کو عین کے حوالے کر کے وہ اندھا دھند دوڑ کر اندر گیا ۔۔


انا کہاں ہو تم ۔۔؟

وہ پوری قوت سے داڑھا۔۔


"مم مم ۔۔۔" ایک کمرے سے آواز ابھر کر معدوم ہو گئی۔۔


وہ دیوانہ وار دوڑ کر کمرے کے باہر پہنچا جسکا دروازه بند تھا۔۔ وہ اپنے پیر سے دروازے پر ٹھوکریں مارنے لگا۔۔


انا نے اپنے اوپر جھکے شخص کو پیچھے دهکا دیا۔۔۔

شاہ ویر ۔۔۔۔؟ وہ پوری قوت سے چیخی۔۔


اس شخص نے انا کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھا اور اسکا عبایا اس کے بدن سے جدا کر دیا۔۔ وہ تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔۔


ویر نے ایک بھرپور ٹھوکر دروازے پر ماری جس سے دروازه ٹوٹ گیا۔۔


وہ اندر آیا اور اس شخص کو انا کے اوپر سے ہٹا کر پیٹنے لگا۔۔۔ اسے ایک کونے میں دھکا دے کر وہ انا کی طرف مڑا۔۔


کم آن،،، سٹینڈ اپ ۔۔ اس نے اپنا ہاتھ انا کی طرف بڑھایا۔۔


انا نے آنسو بھری آنکھوں سے نفی میں سر ہلایا۔۔ اس میں اٹھ کر چلنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔


جائیں ۔۔۔ جائیں یہاں سے ۔۔ وہ چیخی۔۔


ویر نے ایک سیکنڈ کی دیر کیے بغیر اسے بازوؤں میں اٹھایا اور پوری رفتار سے اسے تھامے باہر کی اوڑھ بھاگا۔۔


اس کا قدم چوکھٹ سے باہر پڑا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجی۔۔ ویر انا سمیت کئی فٹ دور جا گرا۔۔


عین اور جہان دوڑ کر ان کی طرف آئے۔۔ انا تکلیف ضبط کرتی زمین پر سیدھی لیٹ گئی۔۔


جہان نے ویر کو سہارا دے کر بٹھایا جسکا جسم بے حد زخمی ہو چکا تھا۔۔ زخمی وہ خود بھی تھا۔۔ شرٹ کی قید سے آزاد دونوں کے جسموں پر تشدد کے نشان تھے۔۔


آپی اٹھیں ۔۔۔۔ ایسے کیوں لیٹی ہیں۔۔۔

عین اسے دیکھ کر رونے لگی۔۔۔


ماما ۔۔۔۔؟؟ راحم کی معصوم پکار پر وہ ڈھیروں آنسو ضبط کرتی اٹھ بیٹھی۔۔


سس ۔۔ درد کی لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔۔


انا نے راحم کو تھام کر سینے میں بھینچ لیا۔۔ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتی۔۔؟ وہ ارد گرد سے بے نیاز سسکنے لگی۔۔


جہان ایک گہری نظر ویر پر ڈال کر عین کی طرف پلٹا۔۔ تم ٹھیک ہو ۔۔۔؟


اور یہیں اسکا ضبط جواب دے گیا۔۔ وہ جہان کے برہنہ سینے سے لگی بلکنے لگی۔۔


مجھے مارا انہوں نے۔۔ سس سر پر بھی چچ چوٹ لگی ہے۔۔ وہ وہ بہت برے تھے۔۔ انہوں نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ۔۔۔وہ وہ ۔۔


وہ اس کے گرد بازو حائل کیے چہرہ اونچا کر کے اسے دیکھتی کرب سے بتانے لگی۔۔


جہان نے اس کے سوجھے گال کو ضبط سے دیکھا۔۔ ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر اس نے نیچے جھک کر عین کے گال کو چوم لیا۔۔


عین جھجھک کر دور ہوئی۔۔


انا نے اچنبھے سے ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔

دل میں سر اٹھاتے سوالوں کو نظر انداز کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔ اس نے ویر کو دیکھ کر کہنا چاہا لیکن اسے شرٹ لیس دیکھ کر نظریں جھکا گئی۔۔


ہمم اوکے ۔۔ تھینکس تمہاری مدد کے لیے۔۔ ویر نے جہان سے مصافحہ کیا ۔۔


تھینکس ٹو یو ٹو ۔۔۔ ہلکی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر وه عین کو لئے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔


انا راحم کو سینے سے لگائے کھڑی تھی۔۔ لائیں مجھے پکڑا دیں میں جانتا ہوں آپ بھی زخمی ہیں۔۔


انا نے نظریں جھکاتے نفی میں سر ہلایا۔۔ وہ بغیر عباۓ اور نقاب کے اس کے سامنے بے حد شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔۔


مم میرا عبایا ۔۔۔۔

اس کے کہنے پر ویر بات سمجھ گیا۔۔


چلیں آگے جا کر شاید بندوبست ہو جائے۔۔


انا آہستہ آہستہ چلنے لگی۔۔ ویر اس کے پیچھے اس کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر اپنے قدم رکھنے لگا۔۔


تھوڑی دور جا کر انہوں نے ایک مکان کا دروازه بجايا۔۔


ایک بوڑھی عورت نے دروازه کھولا۔۔ کون ۔۔؟


کیا آپ ہماری تھوڑی مدد کر سکتی ہیں ۔۔؟ ویر نے شائستگی سے کہا ۔۔


بوڑھی عورت نے دونوں کو سر تا پیر گھورا۔۔ یہ کون ہے ساتھ ۔۔۔؟ انہوں نے انا کی طرف اشارہ کیا۔۔


یہ بیوی ہے میری۔۔ اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا ۔۔ انا نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔ پھر شرم سے سر جھکا لیا۔۔


آؤ اندر ۔۔۔ انہیں راستہ دے کر وہ ایک طرف کھڑی ہو گئیں ۔۔


ایک کمرے میں انہیں بٹھا کر انہوں نے مدد کے بارے میں پوچھا۔۔


ہم ایک حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔۔ ہمیں آپ سے بس اتنی مدد چاہیے کہ آپ انہیں اوڑھنے کے لئے کوئی چادر دے دیں۔۔ ویر نے اسے ایک نظر دیکھ کر کہا۔۔


بوڑھی عورت جا کر چادر لے آئی۔۔ اور ایک شرٹ ویر کی طرف بڑھائی جو قدرے پرانی لگتی تھی۔۔


لو یہ تم بھی پہن لو ۔۔ میرے مرحوم خاوند کی ہے۔۔

ویر نے شکریہ ادا کر کے شرٹ پہن لی۔۔ تب تک انا بھی چادر اوڑھ چکی تھی۔۔

بہت شکریہ آپ کا ۔۔!! اب ہم چلتے ہیں۔۔

ویر کی تقلید میں انا بھی راحم کو تھامے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

ہاں خیر سے جاؤ اور اپنی بیوی کا خیال نہیں رکھتے تم ۔۔؟ کیسے سوکھی سڑی سی ہے۔۔ میاں کچھ خیال کرو ۔۔

جی ۔۔ ویر نے سر جھکا کر لبوں پر امڈ آنے والی مسكان کو چھپایا۔۔

انا اپنی عزت افزائی پر باہر نکل گئی۔۔

شاہ ویر نے ایک رکشہ روکا اور تینوں اس میں سوار ہو گئے۔۔

کیا ضرورت تھی ان سے جھوٹ بولنے کی ۔۔؟ انا نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا ۔۔

ہمم تیکھی بھی ہے ۔۔۔ ویر نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔ کونسا جھوٹ ۔۔؟

انا کا پارا چڑھا۔۔ بیوی والا جھوٹ ۔۔۔ وہ سلگ کر بولی ۔۔

ایسا بھی کیا غلط ہے اگر ایسا ہو جائے ۔۔۔ ویر نے گھمبیر آواز میں کہا تو انا سرخ پڑ گئی۔۔

اس نے تیزی سے نظروں کا زاویہ موڑا۔۔ ویر نے محظوظ ہو کر اسے دیکھا ۔۔

بابا بابا ۔۔۔۔ ؟ راحم نے ویر کے گال پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔

جی بابا کی جان ۔۔

بابا ،، انکل مالا ۔۔ ماما تو ۔۔۔ جول شے ۔۔۔ ( بابا انکل نے ماما کو مارا زور سے )۔۔۔

انا نے کرب سے آنکھیں بھینچیں۔۔

ویر نے دکھ سے اسے دیکھا ۔۔ آئی ایم سوری میں جلدی نہیں پہنچ سکا۔۔ میری وجہ سے۔ ۔۔

"نہیں آپ کا کیا قصور۔۔" انا نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔

آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے راحم کی حفاظت کی ۔۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔۔ میں ۔۔۔

اس کی ضرورت نہیں وہ مجھے بھی بہت پیارا ہے ۔۔ اسے جواب دے کر اس نے رکشہ روکنے کا کہا ۔۔

بس یہیں اتار دیں۔۔ انگلی سے نقاب درست کر کے وہ رکشہ سے اتر کر ایک تنگ گلی میں غائب ہو گئی۔۔

چلو ۔۔۔ گہری سانس لے کر ویر نے رکشے والے کو چلنے کا کہا۔۔

جونہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے عین کو جہان کی کہی باتیں یاد آنے لگیں۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔


نہایت آہستگی سے اس نے جہان کے ہاتھ میں قید اپنا ہاتھ نکال لیا۔۔۔

جہان نے خاموشی سے اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا۔۔

ذرا آگے جا کر وہ لڑکھڑائی تو جہان نے اسے تھام لیا۔۔


دور رہیں مجھ سے ۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر گویا ہوئی۔۔


تم روک سکتی ہو مجھے اپنے نزدیک آنے سے۔۔۔؟


اس کے دلکشی سے کہنے پر وہ سرخ پڑ گئی۔۔۔ اس نے چند سیکنڈ جہان کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر اس کے سینے پر نرم ہاتھوں کے مکے برساتی زار و قطار رونے لگی۔۔


بہت برے ہیں آپ بہت برے ۔۔۔۔ وہ روتی ہوئی کہتی جا رہی تھی۔۔

جہان نے گہری سانس کھینچ کر اسکی کلائیاں پکڑیں۔۔


"جھوٹ بولا تھا میں نے ۔۔۔۔"


اس کے کہنے پر عین کی بھیگی نیلی آنکھوں میں حیرانگی ابھری۔۔


"کونسا جھوٹ۔۔۔؟" عین نے سپاٹ آواز میں کہا۔۔


یہی کہ میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔

جہان کے کہنے پر اسے اپنے رگ و جاں میں سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا۔۔ لیکن بظاہر اس کا چہرہ سپاٹ رہا ۔۔۔


اس نے جہان کے ہاتھ سے اپنی کلائیاں چھڑائیں اور بغیر اس کی طرف دیکھے اپنے اور جہان کے مشترکہ کمرے میں چلی گئی ۔۔


میرے کپڑے تو نانو کے کمرے میں ہیں۔۔۔ یاد آنے پر وہ دوبارہ باہر آئی تو جہان اپنے زخموں کا جائزہ لے رہا تھا۔۔ عین کی آنکھوں میں نرم تاثر ابھرا۔۔


اس نے سوچا جلدی سے کپڑے بدل لے پھر اس کے زخموں کی مرہم پٹی کر دے گی۔۔ اس نے کمرے میں جا کر دروازه بند کر دیا۔۔


گہری نیلی ڈھیلی سی شرٹ اور ٹراؤزر لے کر وہ باتھ روم میں گھس گئی۔۔ جلدی سے شاور لیکر کپڑے بدلتے وہ باہر نکلی۔۔ زخموں پر پانی پڑنے سے ان میں سے ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔۔


اس نے سر کی پچھلی جانب ہاتھ رکھا۔۔ سس تکلیف سے اس کے منہ سے سسكاری نکلی۔۔ اس نے آہستہ سے بال کھول کر انہیں سنوارا اور ڈھیلے جوڑے میں قید کر لیا۔۔


اب وہ پہلے سے قدرے بہتر لگ رہی تھی۔۔ جب وہ باہر آئی تو جہان کمرے میں جا چکا تھا ۔۔ اس نے جھجھک کر اندر قدم رکھا تو وہ بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔۔


عین نے فرسٹ ایڈ باكس سے آئنٹمنٹ نكالی۔۔ وہ ذرا سا جھکی اور روئی کی مدد سے اس کے زخموں کو صاف کرنے لگی۔۔


زخم صاف کر کے اس نے مرہم لگائی اور جہاں ضرورت پڑی بینڈیج کردی۔۔ اس دوران جہان خاموشی سے لیٹا رہا۔۔ اسے اسکا فکر کرنا اچھا لگ رہا تھا۔۔


"سیدھے ہوں" ۔۔۔ اس نے نظر جھکا کر کہا تو جہان بغیر چوں چرا کیے سیدھا لیٹ گیا۔۔


اسکا برہنہ سینہ دیکھ کر وہ نظریں جھکا گئی۔۔ اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ دوبارہ نظریں اٹھاتی۔۔۔


کیا ہوا شرم آرہی ہے ۔۔۔؟؟ جہان نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔۔


نن نہیں تو مجھے کیوں آئے گی شرم ۔۔۔ عین نے دل کرا کر کے جواب دیا اور کانپتے ہاتھوں سے اسے کے سینے سے پر لگی خراشوں کو روئی کی مدد سے صاف کیا جن سے خون رس رس کر جم چکا تھا۔۔۔


جہان نے بلا ارادہ اسے کمر سے تھام کر جھکایا تو عین کے منہ سے سسكاری نکلی۔۔


کیا ہوا ۔۔۔؟ جہان فوراً اٹھ بیٹھا۔۔


کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔؟ چوٹ لگی ہے آپ کو ۔۔ لیٹ جائیں ۔۔ میں کر رہی ہوں نہ ۔۔۔۔

اس نے جہان کو ٹالنا چاہا۔۔


مس اعینہ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔ اس کے سختی سے پوچھنے پر وہ نظر جھکا گئی۔۔مارا تھا انہوں نے،، بتایا تو تھا۔۔۔


جہان نے غصے سے مٹھی بھینچی۔۔ کاش وہ اس کے سامنے ہوتے تو وہ مار مار کر انکا بھر کس نکال دیتا۔۔


دکھاؤ مجھے۔۔! اس نے اسکی قمیض ہٹا کر دیکھنا چاہا تو عین نے اس کا ہاتھ روک دیا ۔۔


عین مجھے سختی پر مجبور نہ کرو ۔۔۔


میں نہیں دکھانا آپ کو ۔۔۔ وہ ضدی لہجے میں بولی۔


تم ۔۔۔ پاگل ہو ۔۔۔ میں بس زخم دیکھوں گا ۔۔۔ اور کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔

اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔


آپ کا کیا پتہ ۔۔۔

عین نے زبان کے جوہر دکھائے جو اس کے دل پر ٹھا کر کے لگے،،، اس نے اپنی "پِدّی" بیوی کو دیکھ کر دانت پیسے۔۔


"تمہیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آئے گی۔۔"


یہ ابھی پیار کی زبان تھی ۔۔؟ عین نے صدمے سے اسے دیکھا۔۔


جہان نے اسکی اوور ایکٹنگ کو نظرانداز کر کے اسے گهسیٹ کر بیڈ پر لٹایا اور کمر سے قمیض کھسکا دی ۔۔


عین نے شرم سے منہ پر ہاتھ رکھ لئے۔۔


جہان نے اسے ایک نظر دیکھ کر کمر کا جائزہ لیا جہاں نیل پڑے ہوئے تھے۔۔ اس نے ایلو ویرا جیل پکڑی اور نرمی سے نشانوں پر لگانے لگا۔۔


ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔! نہ کریں ۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔

عین بے ساختہ ہنسنے لگی۔۔


کیوں کیا ہوا ۔۔؟ جہان نے اسے حیرانی سے دیکھا،، لگتا ہے اسکا دماغ كهسک گیا ہے۔۔


گدگدی ہو رہی ہے ۔۔ نہ کریں ۔۔۔ عین نے آنکھوں سے نکلتے پانی کو ہاتھوں کی مدد سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔


اس کے بچوں کی طرح ہنسنے پر جہان بھی مسکرا دیا۔۔ اس نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور اسے مسکراتی نظروں سے دیکھ کر چینج کرنے کی غرض سے باتھروم چلا گیا۔۔


عین سنبھل کر قدرے ایک طرف ہو کر لیٹ گئی۔۔ کمبل چہرے تک اوڑھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔۔ آج کے دن کے بارے میں سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ویر کہاں تھے تم۔۔۔؟ میں کب سے فون کررہا ہوں ۔۔۔

عدیل شاہ جو لاؤنج میں پریشانی سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ویر کو دیکھ کر اس کی طرف لپکے۔۔ ان کے ذہن میں عجیب وسوسے آرہے تھے ۔۔ویر کو دیکھ کر انہوں نے شکر کا سانس لیا۔۔


ہاں وہ میرا فون کھو گیا ہے ۔۔۔ اس نے پینٹ کی جیب کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔۔


یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ۔۔۔ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ گے بھی ۔۔۔؟ ان کے پریشانی سے استفسار کرنے پر ویر نے سخت درد کرتے سر کو انگلی سے مسلا۔۔


بابا میں ابھی صرف آرام کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ ویر نے اکتاہٹ سے کہا ۔۔۔


اوکے بعد میں بات کرتے ہیں ۔۔ وہ اسکا شانہ تهپتهپا کر چلے گئے۔۔


ویر نے راحم کا ہاتھ منہ دھلا کر اسکے کپڑے بدلے اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔۔ راحم اب اچھے بچوں کی طرح سوئے گا ۔۔ اوکے،، بابا ابھی آتے ہیں۔۔ اس کے دونوں گالوں کو باری باری چوم کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اگلی صبح وہ دیر سے بیدار ہوا۔۔ عدیل شاہ نے بھی شاہ میر کو اس کے آرام کے خیال سے اسے جگانے سے منع کر دیا تھا۔۔


کروٹ بدل کر اس نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھولیں۔۔ راحم بستر پر موجود نہیں تھا۔۔ باہر سے اسکی کھلکھلاہٹوں کی آوازیں آرہی تھیں۔۔


رات جیسے تیسے بینڈیج کر کے اس نے پین کلرز لے لیں تھیں۔۔ اب درد قدرے کم ہوگیا تھا۔۔


وہ کسلمندی سے اٹھ بیٹھا۔۔ اس نے زوردار انگڑائی لی جس سے اسکا کسرتی سینا اور نمایاں ہوگیا۔۔


ٹراؤزر میں ملبوس وہ آئینے کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔۔ اسے اپنے کاندھوں پر انا کا لمس ابھی بھی محسوس ہورہا تھا۔۔


کل کتنی قریب تھی وہ اس کے۔۔ اس کے جاذب نظر نقوش کو اس نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔۔ اب بات صرف راحم کی نہیں تھی۔۔ اسکا اپنا دل بھی بےایمان ہونے لگا تھا۔۔


اس کے تیکھے مغرور نقوش میں دلکش مسکراہٹ نے رنگ پھیلاۓ۔۔۔


ٹھک ٹھک ۔۔۔۔ میں اندر آ گیا ہوں ۔۔۔ کوئی مسئلہ؟ ۔۔ میر بتیسی کی نمائش کرتے نمودار ہوا۔۔


ذرا پاس آؤ تو بتاؤں گا مسئلہ ہے یا نہیں۔۔۔ ویر نے مصنوعی غصے سے کہا۔۔


اوکے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ میر نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔۔


بابا نے بھیجا ہے کہ دیکھ آؤں آپ اٹھے یا نہیں ۔۔۔ لیکن یہاں تو آپ کسی حسینہ کی زلفوں کے خیالوں میں کھوۓ مسکرا رہے ہیں ۔۔۔ میر کے شرارت سے کہنے پر ویر نے دانت پیس کر اسے دیکھا ۔۔۔


ہاہاہا چوری پکڑی گئی ۔۔۔ یا ہو ۔۔۔۔ میر نے ایک پیر دروازے سے اندر اور ایک پیر باہر رکھتے ہوئے گردن تک آتے سٹائلش بالوں کو جھٹک کر کہا۔۔


ویر اس کو پکڑنے کے لئے بھاگا تو وہ چھپاک سے وہاں سے غائب ہوگیا۔۔

سر جھٹک کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


کیسی لگ رہی ہے ۔۔؟ میر نے اپنے گردن تک آتے بالوں کو پونی میں باندھ کر داد لینے والے انداز میں عدیل شاہ کو دیکھا جو راحم کو آئس کریم کھلا رہے تھے۔۔


بلکل منحوس لگ رہے ہو ۔۔۔! انہوں نے منہ کے زاویے بگاڑ کر کہا۔۔ انکی بات پر راحم کھلکھلا دیا۔۔


دیکھا دیکھا کیسے کھی کھی کر رہا ہے یہ ۔۔۔ ٹڈا کہیں کا ۔۔۔ جل ککڑا۔۔


راحم سے اپنی بےعزتی برداشت نہ ہوئی۔۔


میرو آنٹی ۔۔۔۔ تالياں مار کر اچھلتا وہ اس انداز میں ہنسا کہ عدیل شاہ کے ساتھ ویر کا بھی قہقہہ گونجا جو ابھی فریش ہو کر آیا تھا۔۔


تو ہوگا آنٹی ۔۔۔ میر تو اسکے دیے خطاب پر جل بھن گیا۔۔ اس چھوٹے پیس نے تو میری جینڈر ہی بدل دی۔۔


اچانک وہ چالاکی سے مسکرایا ۔۔وہ راحم کے عین سامنے صوفے پر پھیل کر بیٹھ گیا۔۔ اس کو نظرانداز کر کے اس نے پاکٹ سے چاکلیٹ نكالی اور آرام سے اسکا ریپر اتارنے لگا۔۔ اس وقت وہ دنیا کا مصروف ترین انسان لگ رہا تھا۔۔


راحم نے اپنے مُنّے سے ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔ ہمم یمی ۔۔۔۔ وہ عدیل شاہ کی گود سے اترا اور دوڑ کر میر کی ٹانگ سے لپٹ گیا۔۔


چاچو ۔۔۔؟ اس نے بڑی بڑی آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے کہا ۔۔ میر کو اپنی سماعت پر شبہ ہوا۔۔ اتنی عزت اسے ہضم نہ ہوئی۔۔


کیا کہا تم نے چھوٹے پیکٹ ۔۔۔؟ اس نے آنکھیں سكیڑ کر پوچھا۔۔


چاچو دی (جی) ۔۔۔۔۔ !!

اس کی ناٹنکی دیکھ کر اسے سب سمجھ آ گیا۔چاچو یہ دو پھِل میں مِٹھو دوں دا۔۔۔ اس نے معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔


میر نے اسے گود میں بٹھایا ۔۔ اچھا ایک شرط پر دوں گا یہ چاکلیٹ ۔۔۔ دادا کی پارٹی چھوڑ کر چاچو کی گینگ میں آ جاؤ ۔۔ مزے کریں گے۔۔


عدیل شاہ نے میر کی بات پر ناک سے مكهی اڑانے والے انداز میں اسے دیکھا،، جیسے کہہ رہے ہوں منہ دھو رکھو ایسا نہیں ہونے والا۔۔


تھیت اے،، دو ۔۔!!

راحم کے بولنے پر میر نے فاتحانہ نظروں سے انہیں دیکھا۔۔


یہ لو ۔۔۔ اس نے آدھی چاکلیٹ اسکی طرف بڑھائی تو راحم نے جهپٹ کر پوری چاکلیٹ پکڑ لی اور عدیل شاہ کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔


ہاہاہا میرا ببر شیر ۔۔ بہت اچھا کیا ۔۔۔ انہوں نے راحم کو دوبارہ گود میں بٹھا لیا ۔۔۔وہ مزے سے ٹانگیں ہلاتا چاکلیٹ کھانے لگا۔۔ ویر انکی شرارتوں پر خاموشی سے مسکرا رہا تھا۔۔


تم نے چیٹنگ کی ہے میرے ساتھ ۔۔؟ میر نے مصنوعی غصے سے کہا ۔۔


ہاں ۔۔۔!!

راحم نے سر زور سے ہلا کر ٹکا سا جواب دیا۔۔


تمہیں تو میں ۔۔۔۔ وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا اور اسے اٹھا کر گدگدانے لگا۔۔


راحم ہنسی سے دوہرا ہوگیا۔۔

میر نے اسے سر سے اوپر اٹھا کر کاندھوں پر بٹھایا اور لان کی طرف دوڑ گیا۔۔


عدیل شاہ انکی کھلکھلاہٹوں پر آسودگی سے مسکرا دیے۔۔ پھر انہوں نے اپنا رخ ویر کی طرف موڑا۔۔


اب بتا بھی چکو۔۔۔ ان کے استفسار پر ویر انہیں کل کے واقعے کے بارے میں بتانے لگا۔۔ خود کے زخمی ہونے کی بات وہ گول کر گیا۔۔


عدیل شاہ نے فکر مندی سے اسے دیکھا۔۔ اللّه کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے تم سب کو اپنی امان میں رکھا ۔۔ مجھے اس بھلے آدمی سے ملوانا کبھی جس کی مدد سے تم کامیاب ہوئے۔۔


میں اسے جانتا تو نہیں ہوں ۔۔ نہ ہی موبائل نمبر لینا یاد رہا ۔۔ کبھی ملا تو ضرور ملواؤں گا۔۔ اس نے فرمانبرداری سے کہا۔۔


انا ٹھیک ہے ۔۔۔؟

انا کے نام پر اس نے اک خوبصورت احساس سے خود کو مہکتا محسوس کیا۔۔


وہ انجرڈ تھی بابا ۔۔۔ اس نے راحم کے لئے بہت تکلیف سہی ہے ۔۔ انفیکٹ اس کی مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔۔۔ اس نے مجھے اپنا مقروض کر لیا ہے ۔۔۔ آپ نے صحیح کہا تھا کہ اس سے زیادہ راحم کو کوئی پیار نہیں کر سکتا۔۔ بابا عجیب لڑکی ہے وہ جو خود کی پروا نہیں کرتی اور دوسروں کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیتی ہے۔۔

وہ دھیمے لہجے میں کہتا گیا۔۔


عدیل شاہ اسے دیکھ کر مسکرا دیے۔۔

برخوردار تم پر بھی جادو چل گیا نہ اس کا۔۔!مجھے خوشی ہے کہ تم نے صحیح فیصلہ کیا۔۔


ویر گڑبڑا گیا۔۔۔نہیں تو ۔۔!! "میں نے کب ایسا کہا" ۔۔


باپ ہوں تمہارا ۔۔ گدھا نہ سمجھو مجھے ۔۔۔یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہو گئے۔۔ ایک دنیا دیکھی ہے۔۔ ان کے ڈپٹنے پر ویر سر جھکاۓ کان كهجانے لگا۔۔


چند دن صبر کرلو ۔۔۔ پھر جاؤں گا میں ان کے گھر ۔۔۔۔ انشااللہ سب خیر خیریت سے ہو جائے گا۔۔ میرے بیٹے کو کسی چیز کی کمی تھوڑی ہے۔۔۔ اس کی کمر تهپتهپا کر وہ آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔


ویر نے نیم دراز ہوتے آنکھیں موند لیں۔۔ بند آنکھوں کے آگے ایک دلکش سراپا جگمگانے لگا تھا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


سفید کوڑے کاغذ پر سیاہی کے دو قطرے گرے۔۔ قلم نے ان قطروں کو خوبصورت شکل میں ڈھال دیا ایسے کہ وہ خوش نما پھول نظر آنے لگے۔۔ خوبصورت تراشیدہ ہاتھوں نے قلم کو پھر سے تھاما۔۔ سفید کاغذ پر ابھرتے سیاہی مائل الفاظ موتیوں کی طرح دمکنے لگے۔۔


میرے پیارے اللّه !!


دل کرتا ہے ایک خط میں تیرے نام لکھوں۔۔!!

"اس میں خود کو مٹی یا پھر گمنام لکھوں"۔۔۔

تجھ کو بتاؤں اپنی تکلیف۔۔۔رنج و غم ۔۔۔!!

کچھ پسِ پرده لکھوں۔۔۔۔ کچھ سرِ عام لکھوں ۔۔!!

کبھی تجھ سے روٹھوں تو کبھی مناؤں تجھ کو ۔۔۔

کبھی خود کو کامیاب اور کبھی ناکام لکھوں۔۔!!

تجھ سے کہوں میرے رب !! "لوگ تکلیف دیتے ہیں"

تو کبھی لفظوں پہ یقین کرنے کا انجام لکھوں۔۔۔!!

کبھی خاموشی لکھوں،،، تو کبھی چیخ کر سناؤں تجھ کو!!

فقط لكهتی رہوں ،،، اور "صبح شام" لکھوں۔۔۔!!


(منقول)


°•°•°•°•°•°°•°°•°•°•°•°•°•°•°


ہوا کے دوش پر اڑتی ایک آوارہ لٹ کو اس نے شہادت کی انگلی کی نوک سے کان کے پیچھے اڑسا۔۔


وہ قلم بند کرتی زمین سے باقی کاغذات اٹھانے کے لئے جھکی تو تیکھی ناک میں پہنی نوز پن پوری آب و تاب سے چمکی۔۔


اس کے چہرے کا سکون دیدنی تھا۔۔ سیڑھیوں سے اپنا سامان سمیٹ کر اس نے اندر جانے کے لئے قدم بڑھائے۔۔


مهندی لگے خوبصورت پیروں سے خراماں خراماں چلتی اپنے کمرے میں آئی اور ہاتھ میں پکڑے سامان کو الماری کے قدرے اونچے خانے میں رکھ دیا۔۔

سامان رکھ کر اس نے کمرے کی حالت کو درست کیا اور زمین پر بچھے قالین پر دیوار سے کمر ٹکا کر بیٹھتی گزرے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔

اس واقعے کو تین ہفتے گزر چکے تھے۔۔ بغیر کچھ چھپاۓ وہ حنا کو سب کچھ بتا چکی تھی۔۔۔ حنا کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر کسی کو اس واقعے کی خبر ہوگئی تو لوگ ان کا جینا حرام کر دیں گے۔۔

لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔۔ جانے کیسے یہ خبر باہر نکل گئی اور محلے والے چسکے لینے کے لیے ان کے گھر آ کر پوچھ گچھ کرنے لگے۔۔

انہوں نے کسی نہ کسی طرح بات گول مول کر کے انہیں بهگا تو دیا لیکن ان کی کہی ایک بات حنا کے ذہن میں اٹک گئی کہ "لڑکی کی عزت سفید چادر کی طرح ہوتی ہے جس پر لگا سیاہ داغ تو لوگوں کو نظر آ جاتا ہے لیکن پوری سفید چادر انہیں نظر نہیں آتی۔۔" بات گہری تھی اور کھری بھی ۔۔

انہیں انا کی شادی کی فکر ہونے لگی تھی۔۔ بھلا وہ لاکھ درست صحیح لیکن جس گھر کی بیٹی کے بارے میں کہانیاں مشہور ہونے لگیں وہاں بھلا کون رشتہ لے کر آتا ہے۔۔

خود کی ذات میں بھلا جتنی بھی خامیاں ہوں ،، کسی کی خامی سننے پر لوگ فوراً فرشتے بن کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔۔

انہوں نے وقار سے کچھ نہ چھپایا تھا۔۔ انا نے بلا جھجھک سب کچھ اپنے بابا کے سامنے دہرا دیا تھا۔۔ جب وہ غلط نہیں ہے تو جھوٹ کیوں بولے۔۔

جو لوگ اللّه کی ذات پر یقین کر کے سچ بولتے ہین تو چاہے وقتی طور پر انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے لیکن حقیقتاً وہ سرخرو ہو جاتے ہیں۔۔ اور جو لوگ جھوٹ بولتے جاتے ہیں وہ اپنے ہی گڑے جھوٹوں کے جال میں پھنستے جاتے ہیں ۔۔

وقار کو انا پر پورا یقین تھا۔۔ اس لئے انہوں نے اسے اسکی بہادری پر سراہا جس پر حنا نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ بیٹیوں کو اتنی بہادری مہنگی پڑ جاتی ہے۔۔ بات آئی گئی ہو گئی ۔۔

آج اتنے دن بعد اسے سب کچھ پھر یاد آرہا تھا۔۔ راحم کی اس سے انسیت اور ویر کے زو معانی الفاظ۔۔

انا ۔۔۔۔؟ حنا کی آواز پر اس نے تمام سوچوں کو جھٹک کر دروازے کی اوڑھ دیکھا جہاں وہ سوچتی نظروں سے اسے دیکھتی کھڑی ہوئی تھیں۔۔

جی !! کیا ہوا ماما ۔۔۔۔؟ اس نے سادگی سے پوچھا۔۔

کوئی عدیل صاحب آئے ہیں۔۔۔ انہوں نے آنکھیں سكیڑ کر کہا۔۔

ان کے نام پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔۔

کیوں ۔۔؟ وہ کیوں آئے ہیں ۔۔؟؟ اس نے الجھن زدہ لہجے میں پوچھا۔۔

تمہارے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئے ہیں ۔۔۔

ان کے جواب پر وہ بجلی کی تیزی سے کھڑی ہوئی۔۔

انا ۔۔۔۔؟ حنا کی آواز پر اس نے تمام سوچوں کو جھٹک کر دروازے کی اوڑھ دیکھا جہاں وہ سوچتی نظروں سے اسے دیکھتی کھڑی ہوئی تھیں۔۔


جی !! کیا ہوا ماما ۔۔۔۔؟ اس نے سادگی سے پوچھا۔۔


کوئی عدیل صاحب آئے ہیں۔۔۔ انہوں نے آنکھیں سكیڑ کر کہا۔۔


ان کے نام پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔۔

کیوں ۔۔؟ وہ کیوں آئے ہیں ۔۔؟؟ اس نے الجھن زدہ لہجے میں پوچھا۔۔


تمہارے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئے ہیں،،، ان کے جواب پر وہ بجلی کی تیزی سے کھڑی ہوئی۔۔

اس خبر پر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔۔


اسے لگا تھا کہ ویر نے محض مذاق میں وہ بات کہی تھی لیکن یہ تو ۔۔۔؟؟


تمہیں کچھ علم تھا کہ ایسا ہوگا ۔۔؟ حنا کے استفسار پر اس نے خاموش نظروں سے انہیں دیکھا،،، ماما اس سب میں میرا کوئی ہاتھ نہیں نہ ہی میں انہیں ٹھیک طرح جانتی ہوں۔۔ اگر آپ کو نہیں یقین کرنا تو میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔


اس کا چہرہ سپاٹ ہوگیا۔۔۔ ایک وہ دور تھا جب وہ سب کو اپنی ذات کی صفائیاں دیتی رہتی تھی لیکن اب وہ اتنی مظبوط ہو چکی تھی کہ اسے فرق نہیں پڑتا تھا کسی بھی بات سے،، جس کو جو سوچنا ہے سوچتا رہے۔۔


میں تم پر شک تھوڑی کر رہی ہوں پاگل لڑکی ۔۔۔میں تو بس پوچھ رہی ہوں،، اچھا میں ان کو دیکھتی ہوں تمهارے بابا بھی آ گئے ہیں۔۔


ان کے جانے کے بعد اس نے تیزی سے موبائل پکڑا اور شاہ ویر کو کال ملائی۔۔۔ کڑے تیوروں سے وہ اسکے کال اٹھانے کا انتظار کرنے لگی۔۔


شاہ ویر جو میٹنگ میں مصروف تھا مسلسل فون کی روشن ہوتی سكرین کو دیکھ کر ایکسکیوزمی کہہ کر کال اٹینڈ کر گیا۔۔


دوسری طرف سے آتی تیز آواز پر اس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر مسکراہٹ چھپائی۔۔ فون کان سے لگائے ہوئے اس نے اپنے خاص آدمی کو اشارہ کیا۔۔ دو منٹ میں آفس خالی ہوگیا۔۔


جی اب بولئے ،، میں سن رہا ہوں،، اس نے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔


آپ انتہائی بد تمیز انسان ہیں۔۔ میں صرف راحم کی وجہ سے آئی تھی آپ کے گھر۔۔ آپ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے،، آپ۔۔۔آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے گھر رشتہ بھیجنے کی۔۔؟ ہاں۔۔؟

وہ غصے سے ناک بھوں چڑھا کر بولی۔۔


اتنی عزت پر ویر نے گہری سانس لے کر ایک ہاتھ سے اپنا کندھا تهپتهپایا۔۔


ہمت تو بہت ہے مجھ میں۔۔۔ یہ آپ شادی کے بعد دیکھ ہی لیں گی،، اس نے کہہ کر نچلا لب دانتوں میں دبايا۔۔


اسکا مطلب سمجھ کر چند سیکنڈ کے لیے انا کی بولتی بند ہو گئی۔۔ اس نے فون کان سے ہٹا کر آگ اگلتا چہرہ تهپتهپایا۔۔


آپ کو شرم نہیں آتی مجھ سے ایسی بات کرتے،، میں۔۔۔۔


ویر نے اسکی بات کاٹ دی۔۔

نہیں اپنی فیوچر وائف سے کیسی شرم۔۔ اسے تپانے میں اسے بہت لطف آ رہا تھا۔۔ بائی دا وے مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ اتنی تیکھی بھی ہیں۔۔ ویسے تیکھا ذائقہ پسند ہے مجھے۔۔


انتہائی بے شرم ہیں آپ ۔۔۔۔

یہ کہہ کر انا نے کھٹاک سے کال کاٹ دی۔۔


اسکا چہرہ لال ٹماٹرکی طرح ہورہا تھا۔۔ بدتمیز انسان!!

ہونے والے شوہر کو ایسے نہیں کہتے،، اندر سے آواز ابھری۔۔


چپ اے۔۔!! جهنجهلا کر بے دیهانی میں آگے بڑھتی وہ دیوار سے ٹکرا گئی۔۔ اف اللّه !!


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بہن اس تكلف کی کیا ضرورت تھی۔۔۔

حنا کو لوازمات کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے دیکھ کر عدیل شاہ بے ساختہ بول اٹھے۔۔


سر پر دوپٹہ اوڑھے یہ وضح دار خاتون انہیں بہت بهلی لگیں۔۔


ارے تكلف کی کیا بات ہے،، لیجئے نہ!! وقار بے تکلفی سے ان سے مخاطب ہوئے۔۔


حنا دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیں،، بڑی دوستی ہو گئی ہے آپ دونوں میں ۔۔۔


ان کی بات پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔


بیگم یہ ہمارے دوست ہی ہیں۔۔ پچھلے سال جب ہمارا بزنس ڈوب رہا تھا تو انہی صاحب نے ہماری بہت مدد کی تھی ۔۔


اچھا اچھا ۔۔۔!! وقار کے بتانے پر حنا فوراً سنبهل کر بیٹھ گئیں۔۔


کیا پرانی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو۔۔ چھوڑو انہیں،، آج میں یہاں کسی اور مقصد سے حاضر ہوا ہوں۔۔ بہن سے مختصر بات ہوئی تھی،، ویسے ایک بات ہے کہ مجھے علم نہیں تھا یہاں میں تم سے ملوں گا۔۔


انکی بات پر وقار نے سوالیہ نظروں سے حنا کو دیکھا۔۔


وقار ہماری ہر بات تمہارے سامنے ہے۔۔۔ میں نے اپنے بیٹوں کی پرورش پر بہت محنت کی ہے۔۔ آج کے لڑکوں جیسی کوئی برائی ان میں نہیں پائی جاتی۔۔ سمجھ رہے ہو نہ ۔۔۔


ہاں ہاں !! بہت شریف بچے ہیں۔۔ انہوں نے سر ہلا کر تائید کی۔۔


آج میں یہاں اپنے بڑے بیٹے شاہ ویر کے لیے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا ہوں۔۔ عدیل شاہ نے انکے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔۔


ہمم ہمم! شاہ ویر جو آجکل تمہارا بزنس سنبهال رہا ہے نہ۔۔۔؟


ہاں وہی۔۔۔ میں ایک بات پہلے ہی واضح کر دوں کہ شاہ ویر کی شادی ہو چکی ہے۔۔ پہلی بیوی ایک سال بعد ہی حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔۔ بیٹا ہے شاہ ویر کا ایک سال کا۔۔ میں کوئی بات تم سے چھپانا نہیں چاہتا۔۔ دیکھو یار مجھے علم ہے شادی شدہ مرد کو اپنی بیٹی دینا بہت مشکل امر ہے۔۔ لیکن میرا بیٹا بھی لاکھوں میں ایک ہے۔۔ آج بھی اس کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک رشتے ہیں لیکن میرے بیٹے کو تمهاری بیٹی کی "حیا" بھا گئی ہے۔۔ نہ یہ نہ سوچنا کہ انا کا اس سب میں کوئی ہاتھ ہے۔۔ وہ بہت معصوم اور پیاری لڑکی ہے۔۔


اس ساری بات میں پہلی دفعہ وقار ہلکا سا مسکراۓ۔۔ انہیں فخر تھا اپنی بیٹی پر۔۔


میں بہت امید سے یہاں آیا ہوں۔۔ میرے بیٹے نے پہلی بار مجھ سے کچھ مانگا ہے۔۔۔ تم پر کوئی دباؤ نہیں ہے ۔۔ اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔۔


وقار نے انکے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ میں سوچ کر بتاؤں گا۔۔۔ زندگی تو بچوں نے ہی بسر کرنی ہے۔۔


ان کے رسان سے کہنے پر عدیل شاہ کو ایک گونہ اطمینان ہوا۔۔


حنا پر سوچ نظروں سے وقار کو کھوجتی رہیں۔۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد عدیل شاہ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ اب ہمیں اجازت دیں۔۔ کافی وقت ہو گیا ہے۔۔ ان کو خدا حافظ کہہ کر وہ گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔۔


ان کے جانے کے بعد حنا وقار کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔ کیا سوچ رہے ہیں آپ۔۔؟


ہمم میں سوچ رہا ہوں رشتہ برا نہیں ہے۔۔ اچھے لوگ ہیں۔۔ لڑکا بھی دیکھا بھالا ہے۔۔۔بس اسکے شادی شدہ ہونے والی بات کچھ اچھی نہی لگی مجھے۔۔ اور ایک بیٹا بھی ہے اس کا۔۔ انہوں نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔۔


ایک دفعہ انا سے بھی پوچھ لیں۔۔ انہوں نے جھجھک کر کہا۔۔ دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑی انا نے تھوک نگلا۔۔ ان کے کھڑے ہوتے ہی وہ وہاں سے كهسک گئی۔۔


ہاں پوچھیں گے اپنی بیٹی سے بھی ہم۔۔ ہم زبردستی تھوڑی کریں گے۔۔ انکی بات پر حنا نے اطمینان کا سانس لیا۔۔


حنا جونہی انا کے کمرے کے سامنے گزرنے لگیں انا نے انہیں آواز دے کر روک لیا۔۔ ماما کیا کہہ رہے تھے پاپا۔۔؟ اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔۔


ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی۔۔ وہ سوچ کر ہی بتائیں گے۔۔


اچھا ۔۔۔ ماما آج میں عین سے ملنے چلی جاؤں۔۔؟ کافی دن ہو گئے ملاقات نہیں ہوئی۔۔ اس نے لجاجت سے کہا تو حنا کو مانتے ہی بنی۔۔


اچھا چلی جاؤ لیکن جلدی آ جانا۔۔


جی ماما ۔۔۔!! اجازت ملنے پر وہ خوش ہوتی فریش ہونے چلی گئی۔۔ چاکلیٹ براؤن چیک کیپری شرٹ میں ملبوس اس نے بال سنوارے اور عباۓ سے اپنا جسم ڈھک کر نقاب کرنے لگی ۔۔۔ ہینڈ بیگ پکڑ کر وہ موبائل اس میں ڈالتی خدا حافظ کہہ کر گھر کی دہلیز عبور کر گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بابا کیا کہا انہوں نے ۔۔۔؟ عدیل شاہ کے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی میر ان سے چمٹ گیا۔۔


پرے ہٹو نالائق کہیں کے تم تو ایسے بے صبرے ہو رہے ہو جیسے تمہارے رشتے کی بات کرنے گایا تھا میں۔۔

انہوں نے شاہ ویر کا بڑھایا پانی کا گلاس تھامتے ہوئے کہا۔۔


شاہ میر شرما گیا۔۔ کیا بابا ابھی میری اتنی عمر تھوڑی ہے۔۔ میں تو ابھی چھوٹا سا بچہ ہوں۔۔


ہک ہا! تم جیسے بانس جیسے بچے ہونے لگے تو اس دنیا کا اللّه ہی مالک ہے۔۔


انکی بات پر میر کو پتنگے لگ گئے۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا تو ویر نے گھوری سے اسے خاموش کروا دیا۔۔


وہ جو وقار صاحب ہیں نہ اپنے جاننے والے۔۔؟ انہوں نے ویر کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔


جی جی جانتا ہوں میں انہیں۔۔


ان کی بیٹی ہے انا۔۔۔ انہوں نے اپنے تئیں دهماكا کیا۔۔


ویر نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔


عدیل شاہ اسکی حیرت سے محظوظ ہوئے۔۔


اچھا پھر ۔۔؟ جلدی بتائیں نا۔۔۔ میر نے بےصبری سے کہا۔۔


عدیل شاہ نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا۔۔ سوچ کر بتائیں گے وہ۔ انا سے بھی پوچھیں گے۔۔ امید تو اچھی ہے۔۔ انہوں نے ویر کا شانہ تھپتهپا کر کہا۔۔ ویر سر ہلا کر اپنے کمرے میں آگیا ۔۔


موبائل تھام کر اس نے انا کو کال ملائی۔۔۔ دل شرارت پر آماده ہوا۔۔ دوسری طرف سے موبائل بند ہونے کی اطلاع پر اس کے ارادوں پر پانی پھر گیا۔۔ بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹ کر وہ سوئے ہوئے راحم کے گرد حصار قائم کر گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اس نے ذرا سا اونچا ہو کر بیل بجائی۔۔ غالباً لائٹ گئی ہوئی تھی۔۔ پیچھے ہٹ کر اس نے ایک پل کو سوچا اور پھر پرس سے ڈپلیکیٹ چابی نکال کر دروازه کھول دیا۔۔ یہ چابی اسے جہان نے بنوا کر دی تھی تا کہ اسے کوئی پریشانی نہ ہو۔۔


اندر داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں عین کی چیخ و پکار پڑی۔۔ وہ سٹول پر کھڑی چلا رہی تھی۔۔۔ جہان زمین پر اس کے سامنے کھڑا سخت عاجز دکھائی دے رہا تھا۔۔


نیچے اترو عین! کھا نہیں جائے گا وہ تمہیں۔۔ جہان کے بولنے پر اس نے فوراً کافی بڑے سائز کے چوہے کو دیکھا جو ان سے قدرے فاصلے پر بڑے اطمینان سے بیٹھا لائیو شو دیکھ رہا تھا۔۔


کھا جائے گا وہ مجھے ،، مجھے پتہ ہے۔۔ اس نے تھوک نگل کر کہا۔۔


اسکی بات پر جہان کا دل سر پیٹنے کو چاہا۔۔ عین گر جاؤ گی نیچے ات۔۔۔۔ اس کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ عین کا پاؤں مڑا اور وہ توازن کھوتی نیچے گری۔۔


جہان نے فوراً اسے تھام لیا۔۔ چوہے صاحب دھڑام کی آواز سے بالاخر اٹھے اور داخلی دروازے کی طرف دوڑ لئے۔۔


اب کہ انا کی چیخیں بلند ہوئیں۔۔ عین بھی خوفزدہ ہوتی بغیر سوچے چیخنے لگی۔۔ اس نے جہاں کی گردن کے گرد پکڑ مضبوط کرلی جس سے اس کے ناخن اسکی گردن پر بری طرح چبھے۔۔


چپ!!! وہ داڑھا تو دونوں کی زبانوں کو بریک لگا۔۔ اللّه کہاں پھنس گیا میں دو عورتوں میں۔۔۔ اس نے عین کو پٹخنے والے انداز میں نیچے اتارا اور گردن گھما کر دروازے کی اوڑھ دیکھا جہاں انا شوز ریک پر ایک پیر رکھے کھڑی ہوئی تھی۔۔


سوری!! وہ فوراً نیچے پیر رکھ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔۔۔

جہان نے اپنی اپنی جگہ شرمندہ کھڑی انا اور عین کو دیکھ کر اپنی گردن پر ہاتھ رکھا جہاں جلن ہونے لگی تھی۔۔۔


وہ نیل کٹر لے آیا اور عین کا ہاتھ کھینچ کر سامنے کیا۔۔


نہیں میں نہیں ۔۔۔۔ عین منمنائی تو جہان نے بری طرح اسے ڈپٹ دیا۔۔ چپ آواز نہ نکلے تمہاری۔۔


ایک ایک کر کے اس نے عین کے سارے ناخن کاٹ دیے۔۔ تب تک انا ان کے قریب آ گئی۔۔


السلام علیکم ! اس کے سلام پر جہان نے سر ہلایا۔۔۔ وعلیکم السلام ! جب کہ عین آگے بڑھ کر اس سے گلے ملی۔۔


کیسی ہیں آپ ؟؟ میں نے بہت مس کیا آپ کو۔۔اس نے اپنے "گنجے ہاتھوں" کو دیکھ کر شوں شوں کرتے ہوئے کہا۔۔


آپ آجائیں اندر ۔۔ جہان کے طرز تخاطب پر انا کی آنکھوں میں دکھ ابھرا۔۔ اتنا تكلف ۔۔۔؟ اس نے سوالیہ نظروں سے جہان کو دیکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔۔


آؤ ۔۔!! وہ تینوں لاؤنج میں آ گئے۔۔۔ جہان ریفریشمنٹ کا سامان لانے چلا گیا۔۔ اس کے جاتے ہی انا کڑے تیوروں سے عین کی طرف مڑی۔۔ یہ کیا چل رہا ہے تم دونوں کے بیچ۔۔؟


اس کی بات پر عین کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔ کیا انکو سب پتہ چل گیا۔۔؟


انا نے اس کے چہرے کی سرخی کو بغور دیکھا۔۔ کیا چھپا رہی ہو تم مجھ سے ۔۔؟ مجھ سے بھی باتیں چھپاؤ گی اب۔۔ ؟


نہیں آپی ایسی بات نہیں بس وہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا۔۔۔ مم میرا نکاح ہوگیا ہے ہان کے ساتھ۔۔


سچ ۔۔۔؟؟ اس کے بتانے پر وہ اتنی زور سے چیخی کہ عین دہل گئی۔۔


جج جی سچ کہہ رہی ہوں ۔۔ عین اس کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر بوکھلا گئی۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا انا اتنا خوش کیوں ہو رہی ہے۔۔


یاااااررر آئی ایم سو سو ہیپی ۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا تمہارا اور ہان کا نکاح ہو گیا۔۔ وہ مان گئے ؟؟ میرا مطلب مشکل تو ہوئی ہوگی۔۔ وہ سب کچھ جاننے کے لیے بیتاب ہوئی۔۔


عین نے الف تا یے سب کچھ اسے بتا دیا۔۔


ہمم اچھا اچھا تبھی اس دن تم ان سے ۔۔۔۔۔ اہاں اب سمجھ آ رہا ہے سب ۔۔ اہم اہم ۔۔۔


آپی تنگ نہ کریں نہ ،، عین نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔


آلے آلے میلے بےبی کو شما آ رہی ہے۔۔؟ اس نے شرارت سے کہہ کر عین کو گلے لگا لیا۔۔ اللّه کرے تم دونوں بہت بہت خوش رہو ۔۔


اتنے میں جہان آ گیا۔۔ عین اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔۔ بیٹھ جائیں میں کاٹوں گی نہیں سچی! جہان وہاں سے جانے لگا تو انا بول اٹھی۔۔


گہرا سانس بھر کے وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔ انا اٹھ کر اس کے پاس گئی اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔


سوری!! اس نے ایک کارڈ اپنے چہرے کے آگے کیا جس پر بڑا سا سوری لکھا ہوا تھا۔۔


جہان نے بغیر کچھ کہے کارڈ تھام لیا۔۔


اس کے بعد انا نے ایک چاکلیٹ اس کی طرف بڑھائی جس پر "سوری انگری برڈ" لکھا ہوا تھا۔۔ ایک ہاتھ سے چاکلیٹ اس کی طرف بڑھاتے دوسرے ہاتھ سے اس نے کان پکڑ لیا۔۔


کچھ دیر سنجیدگی سے اسے دیکھنے کے بعد اس کے دیے خطاب پر وہ ہنس پڑا۔۔ اوکے !!

اس نے تمام باتیں بھلانے کا فیصلہ کر لیا۔۔


فرینڈز ۔۔؟؟ انا نے جوش سے ہاتھ اس کے آگے کیا۔۔


ہممم !! جہان اس کے بڑھے ہاتھ کو تھام کر دلکشی سے مسکرا دیا۔۔


انا فوراً سے اس کے برابر بیٹھ گئی اور چاکلیٹ واپس لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ جہان نے فوراً ہاتھ پیچھے کیا۔۔


او ہیلو !! یہ تو میری ہے نہ ۔۔


نہیں میری ہے یہ وہ تو بس منانے کے لئے دی تھی ۔۔ اس نے اچک کر چاکلیٹ پکڑنی چاہی۔۔


جہان نے ہاتھ مزید اوپر کر لیا۔۔

اب یہ میری ہوئی ،، عین دبے قدموں جہان کے پیچھے آ کھڑی ہوئی اور آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر چاکلیٹ چھین لی۔۔


ٹن ٹنا!! وہ کولڈ ڈرنک اور سنیکس میز پر رکھتی مزے سے چاکلیٹ کھول کر کھانے لگی۔۔۔


انا اور جہان نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مسکرا پڑے۔۔

سو فائنلی آپ کی پھر فرینڈشپ ہو گئی۔۔ عین کے خوشی سے کہنے پر انا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔


ویسے ہان بھائی تنگ تو نہیں کرتی یہ آپ کو ۔۔؟ انا کے پوچھنے پر جہان نے عین کو گہری نظر سے دیکھا۔۔ بےبی پنک كیپری شرٹ میں ملبوس وہ جہان کی نظروں سے اپنے آپ میں سمٹ گئی۔۔ گزری رات کے مناظر یاد آتے اس کے گال دہک گئے۔۔


بہت تنگ کرتی ہے ۔۔۔ لیکن میرے پاس بہت طریقے ہیں اسے سیٹ کرنے کے۔۔ اس کے بےباکی سے کہنے پر عین مزید سرخ ہوتی وہاں سے بھاگ گئی۔۔


کچھ بےشرم نہیں ہو گئے آپ ۔۔۔؟ اس کے شرارت سے کہنے پر ہان نے مسكراہٹ دبا کر گردن پر ہاتھ پھیرا۔۔

بے شرم کہتے ہوئے اسے "اپنا بے شرم بندہ" یاد آ گیا۔۔

ہاں یاد آیا وہ کون تھا ۔۔؟ انا اس کا اشارہ سمجھ گئ

ہان بھائی وہ اصل میں ایک دن پارک میں۔۔۔۔۔۔ اس نے مختصراً اسے ساری بات بتا دی۔۔۔ آپ جیسا سمجھ رہے تھے ویسا کچھ نہیں ہے ۔۔ میں صرف راحم کے لئے گئی تھی۔۔۔ بہت پیارا بچہ ہے وہ۔۔

ہمم اوکے تم ایسا کچھ نہیں سوچتی لیکن وہ بندہ تمہیں پسند کرتا ہے میں شیور ہوں۔۔ اس کے اندازے پر انا گڑبڑا گئی۔۔۔

جج جی پتہ نہیں۔۔

انا مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔۔ جہان کے نرمی سے پوچھنے پر انا کی آنکھوں میں الجھن ابھری ۔۔

اس نے انگلیاں چٹخا کر اسے دیکھا۔۔ وہ۔۔ شاہ ویر نے رشتہ بھیجا ہے۔۔!!

اوکے شاہ ویر نام ہے اس لڑکے کا۔۔؟

جی!!

تو تم کیا چاہتی ہو ؟؟

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔۔ میں راحم کے ساتھ رہنا بھی چاہتی ہوں اور یہ سب مجھے عجیب بھی لگ رہا ہے۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نہ!!

میرے لئے بہت مشکل ہے یہ۔۔ اس نے نم آنکھوں کو جهپکتے ہوئے کہا ۔۔۔

جہان نے نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔ دیکھو انا زندگی میں سب کچھ ویسا تو نہیں ہوتا جیسا ہم چاھتے ہیں۔۔ لیکن ٹرسٹ می جو ہوتا ہے وہ ہماری کی گئی خواہش سے بہت بہتر ہوتا ہے۔۔ ہمیں لگتا ہے کہ مشکل ہوگی لیکن ایک دفعہ قدم بڑھانے پر سب کچھ ٹھیک ہونے لگتا ہے۔۔ ماضی کو بھول جاؤ۔۔ اپنی طرف بڑھے مخلص ہاتھوں کو تھام لینا چاہئے۔۔ تم جو بھی فیصلہ کرو میں تمهارے ساتھ ہوں۔۔ ٹھیک ہے۔۔

وہ اسے بچے کی طرح ٹریٹ کرتے ہوئے سمجھا رہا تھا۔۔ انا نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔

تھینک یو!!

اپنے پاس رکھو ۔۔ جہان نے آنکھیں چھوٹی کر کے کہا۔۔

انا ہنس پڑی۔۔ اچھا میں عین کو دیکھتی ہوں۔۔ پتہ نہیں کیا بنے گا اس لڑکی کا ۔۔۔

لڑکی او لڑکی!! وہ اسے آوازیں دیتی لاؤنج سے چلی گئی۔۔ جہان نے آسودہ سانس بھری۔۔ بالاخر دل پر دھڑا بوجھ ہٹ گیا تھا۔۔۔

کتابوں کا ڈھیر اٹھائے وہ احتیاط سے چلتی اپنے اور جہان کے مشترکہ کمرے میں آئی۔۔ بیڈ پر نیم دراز جہان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر موبائل پر مصروف ہوگیا۔۔


اپنا نظرانداز کیا جانا عین کو تپا گیا۔۔ اس نے سلگ کر اسے دیکھا اور بیڈ پر قدرے زوردار آواز سے کتابیں پھینکیں ۔۔۔


جہان نے اسے دیکھ کر بھنویں اچکائیں۔۔ سرخ رنگ کی پرینٹڈ گھٹنوں سے اوپر تک آتی چنٹ فراق جس پر دیدہ زیب گلاب کے پھول بنے ہوئے تھے کے ساتھ جدید طرذ کی كیپری زیب تن کیے وہ ناک بھوں چڑھا کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔


ہونہہ !! اس کے دیکھنے پر وہ ایک ادا سے مڑ گئی۔۔ گھٹنوں تک آتے کالے گھنگھریالے گیلے بالوں کو اس نے جھٹک کر کمر پر ڈالا تو پانی کی ننھی بوندیں جہان کے منہ پر گریں۔۔


جہان نے دانت پیس کر منہ پر ہاتھ پھیرا۔۔ وہ کمال بے نیازی سے کھڑکی کے قریب آئی اور ذرا فاصلے پر رکھی رائٹنگ ٹیبل کو کھینچ کر دیوار سے لگایا۔۔


اس کے سامنے اس نے اپنی پسندیدہ صوفہ نما کرسی کو ٹکا دیا ۔۔ ایسے کہ یہاں بیٹھنے سے کھڑکی سے باہر کا منظر باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔۔


جہان ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے کروٹ کے بل لیٹا اسکی کاروائی فرصت سے ملاحظہ کررہا تھا۔۔


عین اسے نظر انداز کیے بیڈ تک آئی اور کتابیں اٹھا کر ترتیب کے ساتھ میز کے ایک کونے پر رکھ دیں۔۔ ان کے ساتھ اس نے ناولز کا ڈیڑھ لگا دیا۔۔


سب ترتیب دینے کے بعد اس نے سٹیشنری باكس دوسرے کونے پر رکھ دیا۔۔۔ اپنی کاروائی سے مطمئن ہو کر اس نے کالج بیگ سے اسئنمنٹ پیپر نکال کر باہر رکھے۔۔


بیگ میں اسکا ہاتھ ایک چیز پر پڑا۔۔ اس نے باہر نکالی تو وہ ایک بہت خوبصورت قلم تھا جس پر بہت خوبصورت ڈیزائن نقش ہوا تھا۔۔۔


اس نے مسکرا کر احتیاط سے اسے تھاما اور ہلکا سا چوم کر میز پر رکھا۔۔ جہان ذرا سا چونکا۔۔


یہ کس نے دیا ہے ؟ لگتا ہے بہت اسپیشل ہے۔۔ جہان کے پوچھنے پر عین مسکرائی،، اب آیا نہ مزہ۔۔


"جی بہت اسپیشل ہے یہ" میرے پروفیسر نے دیا ہے،، جہان کے ماتھے پر لكیر ابھری۔۔


اور آپ کو پتہ ہے وہ بہت بہت پیارے ہیں ۔۔۔ پورے کالج کی لڑکیوں کا کرش ہے ان پر ۔۔ انہوں نے سب کو چھوڑ کر مجھے یہ گفٹ دیا کیوں کہ میں ان کے بقول سب سے زیادہ بریلیئنٹ سٹوڈنٹ ہوں،،، وہ نان اسٹاپ بولتی جا رہی تھی۔۔


کون سے پروفیسر ہیں کوئی تصویر ہے تمهارے پاس؟ وہ اٹھ کر اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔۔


عین نے جلدی سے موبائل آن کیا اور گیلری کھول کر اسے ایک گروپ فوٹو دکھائی۔۔


ہمم بس ٹھیک ہے مجھے تو کچھ خاص نہیں لگا بندر کہیں کا۔۔۔ جہان کے جیلس ہونے پر عین نے بہت مشکل سے قہقہہ روکا۔۔


ایویں بندر!! اچھے خاصے ہینڈسم بندے کو آپ نے بندر بنا دیا ہے۔۔ اس کے خفگی سے کہنے پر جہان کو پتنگے لگ گئے۔۔


آئندہ تم "اس" سے کوئی گفٹ نہیں لو گی آئی سمجھ ؟


کیوں نہ لوں ویسے آپ کو کیوں فرق پڑ رہا ہے۔۔


چند سیکنڈ لگے تھے جہان کو اسکے سامنے نارمل ظاہر ہونے میں۔۔

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ کندھے اچکا کر اس نے دیوار میں نصب الماری سے ٹراؤزر کھینچ کر نکالا اور باتھ روم میں گھس گیا۔۔


اندر جا کر اس نے گہرا سانس لیا۔۔ اور پھر دیوار پر زور سے مکا مارا۔۔ شاور کھول کر وہ اس کے نیچے کھڑا ہوگیا۔۔ اس کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا۔۔


کافی دیر بعد جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ خالی ٹراؤزر زیب تن کیے باہر نکلا۔۔ اس کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک کر اسکے کسرتی سینے کو بھگو رہی تھیں۔۔


ادھر ادھر ٹہل کر سبق یاد کرتی عین نے اسے شرٹ لیس دیکھا تو فوراً آنکھوں کے آگے کتاب کرلی ۔۔ انتہائی بد تمیز ہیں آپ! وہ بند آنکھوں سے چلائی ۔۔


ابھی تو کوئی بدتمیزی کی ہی نہیں میں نے،، اس کے بلکل قریب سے آواز ابھری تو وہ بے ساختہ کتاب چہرے کے آگے سے ہٹا گئی۔۔


اسے اپنے اوپر جھکا دیکھ کر وہ چند قدم پیچھے ہٹی۔۔ اس سے پہلے کہ اسکا سر پیچھے موجود کھڑکی سے لگتا جہان نے اس کے سر کے پیچھے اپنا مضبوط ہاتھ رکھ لیا۔۔


عین نے نیلی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور گھبرا کر اس کے حصار سے نکلتی کرسی پر بیٹھ کر کتاب میز پر رکھتی اسائنمنٹ بنانے لگی۔۔


جہان کتنے لمحے یونہی کھڑا رہا ۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ "نیلی آنکھوں والی بلی" اسے یوں گھائل کرے گی۔۔


او ویکھ دا اے بُھل جاندا اے۔۔۔!!

اگلا بندہ ۔۔۔۔ رُل جاندا اے۔۔۔!!


سر جھٹک کر اس نے میز پر قدرے جھکی عین کو دیکھا۔۔ عین سے ہوتی اس کی نظر میز کے کونے میں رکھے ناولز پر پڑی۔۔


وہ ناولز کے ٹائٹلز پڑھنے لگا۔۔ تقریباً سب ہی رومینٹک تھے۔۔ تمہیں رومینٹک ناولز پسند ہیں۔۔ ؟


جی!! اس نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔۔


جہان نے گہری نظر اس پر ڈالی۔۔ رومینٹک ناولز پڑھنا زیادہ انٹرسٹنگ ہے یا رومینس کرنا؟ اس نے مسکراہٹ دبا کر استفسار کیا۔۔


مجھے کیا پتہ میں نے کونسا رومینس۔۔۔۔۔۔ اس کی ٹر ٹر کرتی زبان کو اچانک بریک لگا۔۔ اسکا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔


کمرے کی فضا میں جہان کا جاندار قہقہہ گونجا۔۔


اتنی دیر بعد اسے یوں ہںستے دیکھ کر عین بے خود سی اسے دیکھے گئی۔۔ کتنا وجیہہ لگتا تھا وہ ہنستے ہوئے۔۔


بڑھی سیاہ داڑھی میں چھپی جان لیوا مسکان، گہری دل میں اترتی دلکش آنکھیں، مغرور نقوش کا مالک وہ شاندار شخص اس کا تھا۔۔ ایک انوکھے احساس نے اس کے اندر بسیرا کر لیا۔۔ ایسا خوش نما احساس تو اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔۔


انت الحُبّ...!!

(تم محبت ہو..!! )

زیرا خندہ ات عشق است... !!

(کیونکہ تمہارا ہنسنا محبت ہے..!! )


بے ساختگی میں وہ کہہ گئی۔۔ احساس ہونے پر وہ فوراً نظریں جھکا گئی۔۔


جہان نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔ کیا کہا ہے تم نے ؟


کک کچھ نہیں ! کچھ بھی تو نہیں ۔۔ اب سر اٹھانے کی غلطی اس نے نہ کی۔۔


نہ بتاؤ میں خود ڈھونڈ لوں گا اس کا مطلب۔۔ اس نے عین کے جھکے سر کو دیکھ کر کہا۔۔


"تم میری طرف دیکھ کر بات کیوں نہیں کر رہی؟"


آخر آپ کیا سننا چاہتے ہیں میرے منہ سے۔۔؟ پہلے شرٹ پہن کر آئیں آپ پھر بات کریں۔۔ اللّه اللّه کیسے میرے سامنے کھڑے ہیں۔۔ موٹے کہیں کے۔۔!


اسکی بڑبڑاہٹ جہان کے دل میں ٹھا کر کے لگی۔۔


کہاں سے موٹا لگتا ہوں میں تمہیں؟ اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کسرتی جسم کا جائزہ لیا۔۔ سکس پیکس ، بازو کے پھولے ہوئے مسلز۔۔ دراز قد کا مالک وہ ایک انتہائی پرکشش مرد تھا۔۔


ہنہ ۔۔! عین نے عینک نیچے کھسکا کر اسے سر تا پیر دیکھا ۔۔۔ شروع سے آخر تک موٹے ہی ہیں آپ ۔۔۔


عین کی بات پر جہان کو اپنے کان سے دھواں نكلتا محسوس ہوا۔۔ اسے اندازه نہیں ہوا کہ وہ لا پرواہی سے کتنی بڑی بات کہہ گئی تھی۔۔


اچھا اگر موٹا ہوں نہ تو پھر بھی تمہی نے برداشت کرنا ہے۔۔ اب کہ عین کے پسینے چھوٹے۔۔


اعوذ بالله پڑھ کر وہ کتابیں اٹھاتی نو دو گیارہ ہو گئی۔۔ اس کے اعوذ باللہ پڑھنے پر جہان کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بیٹا بات سنو ،، انا کچن کے کام سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں جا ہی رہی تھی کہ وقار نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔۔


انا دھڑکتے دل کے ساتھ ان کے پیچھے چل دی۔۔ آؤ بیٹا بیٹھو،، تم سے کچھ بات کرنی تھی۔۔


جی بابا! انا نے کپكپاتے ہاتھوں کو گود میں رکھ لیا۔۔ اسکی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔


بیٹا تمہیں علم تو ہو ہی گیا ہوگا تمہارے لیے رشتہ آیا ہے۔۔ اچھے لوگ ہیں۔۔۔ جان پہچان کے ہیں۔ میں نے بہت سوچا ہے اس بارے میں لیکن میرے لئے تمہاری مرضی بھی اہم ہے۔۔


اتنی محبت پر انا کی آنکھوں میں آنسو چمکے،،، اسے لگا اسے اسکے پرانے بابا واپس مل گئے ہیں۔۔


ارے ارے یہ کیا ادھر آؤ رو کیوں رہا ہے ہمارا بیٹا، انہوں نے انا کو اپنے حصار میں لے لیا،، انا نے ان کے گرد بازو حمائل کر لئے۔۔


بابا جیسا آپ چاہیں میں آپ سے بہتر تو نہیں سوچ سکتی اپنے بارے میں،، اس نے فیصلہ قسمت کے حوالے کر دیا۔۔ اب جو ہو سو ہو۔۔۔


شاباش میرا بیٹا مجھے فخر ہے تم پر،، انہوں نے اس کا سر چوما تو وہ آسودگی سے مسکرا دی۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


نیم اندھیرے کمرے میں اس کے ہونٹوں پر مدھم مسکراہٹ تھی ایسی دل موہ لینے والی مسکراہٹ، جو کسی بہت اہم راز کو خود میں قید کیے ہوئے ہو۔۔


اس کا اللّه کی ذات پر "یقین کا سفر" کب شروع ہوا تھا۔۔؟ بند آنکھوں کے پردوں پر ایک منظر لہرایا۔


ایک چھوٹے سے کمرے میں کھڑکی سے دن کی روشنی اندر آتی اندر بیٹھے چار نفوس کو واضح کررہی تھی۔ وہ آٹھ سال کی چار بچیاں تھیں جو دنیا کی رونقوں سے پرے اپنی مختصر سی محفل سجائے ہوئے تھیں۔


ان کے ہاتھ میں ایک ایک تسبیح تھی جس پر وہ اللّه کا کلام پڑھ رہی تھیں۔۔ تسبیح مکمل ہوئی تو اب سوال اٹھا کہ "دعا" کون مانگے گا۔


انا تم مانگ لو، ایک بچی گویا ہوئی۔۔ انا ذہن میں تشویش زدہ ہوئی۔ شام پڑ گئی تھی اور ابھی سکول کا کام بھی کرنا تھا۔ عام طور پر وہ اس وقت تک اپنا سکول کا سارا کام کر چکی ہوتی تھی۔۔


اس نے دل ہی دل میں پریشان ہوتے جیسے تیسے ٹوٹی پھوٹی دعا مانگی ویسی ہی دعا جیسی اس عمر میں عموماً بچے مانگا کرتے ہیں۔۔


گھر آتے تھوڑا وقت اور گزر گیا۔۔ اس نے جلدی سے بستہ پکڑا اور آسمان تلے بچھی چار پائی پر بیٹھ گئی۔۔


اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سارے دن میں مکمل ہونے والا کام ایک گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔۔ اس نے دوبارہ سبق دوہرایا جو اس کو پہلے کی نسبت زیادہ اچھی طرح ذہن نشین ہوگیا تھا۔ ہوم ورک کو دوبارہ چیک کر کے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔۔


اللّه تعالیٰ آپ نے کیا ہے نہ یہ۔۔ میں بہت خوش ہوں۔۔ خوشی سے اسکا چہرہ دممک رہا تھا۔۔ یہ خوشی اس بات کی تھی کہ اس نے اللّه تعالیٰ کی ذات کو پہلی بار اس انداز میں جانا تھا۔۔


اس سے پہلے وہ بس یہ سنتی اور پڑھتی آئی تھی کہ ہمارا رب "اللّه تعالیٰ" ہے اور اسکی عبادت فرض ہے۔۔ مگر یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اللّه بغیر کہے سن لیتا ہے، پریشانی دور کر دیتا ہے، جب وہ بغیر کہے سنتا اور مدد کرتا ہے تو کیا پکارنے پر خالی ہاتھ لوٹاۓ گا؟؟


اس نے نم آنکھیں آہستہ سے وا کیں۔۔ اللّه جی ہمیں یہ کیوں بتایا جاتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے پر اللّه سزا دے گا۔ یہ کام کرو گے تو اللّه گناہ دے گا۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اللّه تم سے بہت محبّت کرتا ہے۔ ایسی محبّت جو کوئی کسی سے نہیں کر سکتا۔ ہمیں آپ سے محبت کرنا کیوں نہیں سکھایا جاتا۔ ایسی محبت جو ہمیں ہر گناہ سے دور کر دے۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آپ نے مجھے خود سے قریب کر لیا۔ اتنی محبّت کرتے ہیں آپ مجھ سے اور میں اب بھی نہ جانے کتنی دفعہ آپ کی نافرمانی کر جاتی ہوں۔۔ پھر بھی اتنی محبت کیوں کرتے ہیں آپ مجھ سے؟ سب مجھے چھوڑ دیتے ہیں بس آپ ہر پل میرے ساتھ رہتے ہیں۔۔


ایسی مہربان محبّت پر وہ بلکنے لگی۔۔ ضروری نہیں آنسو صرف تکلیف کے ہوں۔۔ کچھ آنسو تشکر کے بھی ہوا کرتے ہیں۔۔ اور جو آنسو اللّه کے لئے بہیں وہ "نایاب موتی" ہیں۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


بیپ بیپ !! بیپ بیپ !!

جائے نماز تہہ کر کے رکھتے اس نے موبائل پکڑا جس پر شاہ ویر کا پیغام جگمگا رہا تھا۔۔ چہرے کو حجاب کی گرفت سے آزاد کر کے وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔


اس نے میسج کھولا۔ کیا میں آپ کو کال کر سکتا ہوں۔۔؟؟

انا نے انگلی دانت میں دباتے سكرین کو دیکھا۔۔


جی نہیں ! ٹائپ کر کے اس نے سینڈ کا آپشن دبا دیا۔۔


اوکے! اسکا مطلب ہے کر سکتا ہوں۔۔ ساتھ ہی اس نے پوری بتیسی کی نمائش کرتی ایموجی سینڈ کردی۔۔


انا کو ہنسی بھی آ رہی تھی اور حیرت بھی ہو رہی تھی کہ اتنا سنجیده نظر آنے والا بندہ ایسی حرکتیں بھی کر سکتا ہے۔۔ آخر کیا چیز ہے یہ۔۔؟ وہ محض سوچ سکی۔۔


چیز نہیں ہوں میں ایک جیتا جاگتا معصوم سا بندہ ہوں۔۔ اس کے میسج پر انا بھونچکا رہ گئی۔۔ آپ کو کیسے پتہ میں نے ایسا سوچا؟


میسج فوراً سین ہوا۔۔

ہک ہا! در فٹے منہ انا!! اس نے تكا لگایا ہوگا تم نے كنفرم کر دیا۔۔


مجھے پتہ چل جاتا ہے آپ میرے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔۔ ایسے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ میرے لئے آسانی ہے لیکن آپ کے لیے مشکل ہو سکتی ہے شادی کے بعد۔۔


اسکا میسج پڑھتے اسے ایسا لگا جیسے وہ اس کی بات سے محظوظ ہوا ہو۔۔


ہائے اگر یہ واقعی میری سوچ پڑھ سکتا ہے تو میرا کیا ہوگیا۔۔ میں تو ایسا ویسا کچھ سوچ بھی نہیں سکتی۔۔


ان فضول سوچوں پر لعنت بھیج کر اس نے "کرارا" سا میسج لکھا جو یقیناً تیکھا پسند کرنے والے کو بہت تیکھا لگے گا۔۔


ہنہ!! اپنے کارنامے سے مطمئن ہو کر وہ بستر پر دراز ہو گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اہم اہم سر فرہاد کیندے ۔۔۔۔!!

اپنا نام سن کے ماڈرن سے سر فرہاد الرٹ ہو گئے۔۔


کی کیندے۔۔۔؟

حاضرین میں سے نوجوان لڑکوں کا بھرپور شور اٹھا۔۔


سر فرہاد کیندے میں ایڈا سوہنا کیوں آں ۔۔؟


آئے ہائے ہائے !!


لوکی ویکھ کے دُور و ای جاندے نس اے۔۔۔!

اے چنگی چس اے۔۔!!


میر کے ایک انداز سے بولنے پر حاضرین میں زبردست قہقہہ پڑا۔۔


شوخے ہوتے سر فرہاد شرمنده سے ہو گئے۔۔


اگلا شعر۔۔۔!! عرض کرتا ہوں ۔۔


ارشاد ارشاد ۔۔۔! شور بلند ہوا۔۔


سر افنان کیندے میرے وال نئی بن دے۔۔!! کنگھی پھیر پھیر جاندی گھس اے !!

اے چنگی چس اے۔۔!!

گراؤنڈ میں موجود تمام طالب علم ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے۔۔

گنجے سر افنان نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور ارد گرد دیکھتے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ سجا لی۔۔

آج میر ان سب پروفیسر سے گن گن کر بدلے لے رہا تھا جنہیں اس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔۔

عدیل شاہ کی گود میں کھڑا راحم میر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اچھلنے لگا۔۔

بلیک پینٹ شرٹ میں شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے کلائی میں سمارٹ واچ پہنے وہ صنفِ مخالف کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔۔

برخوردار دل کے پھپھولے تو پھوڑ آئے وہاں اب آئندہ کے لیے اپنی خیر مناؤ ۔۔ عدیل شاہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔

ان کو تو اس سے بھی زیادہ ۔۔۔

اوں ہوں ! استاد ہیں۔۔ ایسے نہیں کہتے۔۔ اسکی بات کاٹ کر انہوں نے سرزنش کی۔۔

سوری ! منہ بنا کر اس نے راحم کو تھاما۔۔

فنکشن ختم ہوگیا تھا۔۔ سب اپنے گھروں کو لوٹنے لگے تھے۔۔ ہاں چیمپ مزا آیا ۔۔؟

وہ عدیل شاہ کے ہمراہ کالج کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اس سے استفسار کرنے لگا۔۔

ہمم ہمم مجا آیا، چیجو کھائی۔۔

راہ چلتی ایک ٹیچر نے راحم کا گال کھینچا تو وہ بات کرتا ہوا رک گیا اور شرما کر میر کی گردن میں منہ چھپا گیا۔۔

اس ٹیچر کا مدھم قہقہہ گونجا۔۔

"ہی از سو کیوٹ۔۔"

مس آپ کے سامنے ہی شرما رہا ہے ورنہ بہت بڑی چیز۔۔۔ آہ !!

راحم نے اس کی گردن پر دانت گاڑ دیے۔۔

کیا ہوا ؟ ان کے حیرت سے پوچھنے پر عدیل شاہ نے گہرا سانس بھرا۔۔

"وہی جو ہونا تھا"۔۔!

عین میرے کپڑے دو۔۔۔ عین میرا جوتا نہیں مل رہا۔۔ یار میری واچ کہاں گئی۔۔؟ کمرے سے مسلسل جہان کی پکار پر تنگ آ کر اس نے برتن ٹھا کی آواز سے سنک میں رکھے اور کڑے تیوروں سے وہ اندر گئی۔۔


فنکشن میں وقت ہی کتنا رہ گیا تھا اور ابھی تک وہ برتن دھو رہی تھی۔۔اسے رونا آنے لگا۔۔


غصے سے اس نے الماری میں ہینگ کیا سیاہ کرتا پاجامہ نکالا،، نچلے خانے سے سیاہ پشاوری جوتا نکالا اور پٹخنے کے انداز میں صوفے پر رکھے۔۔


تیکھی نظروں سے اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی واچ کو ایک نظر دیکھا اور ایک نظر جہان کو۔۔


اس کے تیور دیکھ کر جہان چپ چاپ کپڑے پکڑ کر واش روم کی طرف کھسک گیا۔۔


اس نے کچن میں جا کر جلدی جلدی برتن دھوئے۔۔ شاور وہ پہلے ہی لے چکی تھی۔۔ آئمہ کے کمرے میں جا کر اس نے سیاہ پاؤں کو چھوتا انتہائی خوبصورت فراق زیب تن کیا جس کی باڈی پر خوبصورت سکے لٹک رہے تھے۔۔


اس نے جلدی سے چُوڑی دار بازوؤں کو ٹھیک کیا اور بال کھول کر ڈرائیر کی مدد سے خشک کرنے لگی۔۔ کرلی بالوں کو اس نے سٹریٹ کر لیا جس سے بال گھٹنوں سے بھی نیچے تک آنے لگے۔۔ برابر کٹے ہوئے سیاہ خوبصورت بال ناگن کی بل کھاتی کمر سے سیاہ چمکدار آبشار میں بدل گئے۔۔


اس نے آئینے میں دیکھ کر آنکھوں میں كاجل لگایا جس سے اسکی نیلی آنکھیں اور بھی نماياں ہو گئیں۔۔ ہلکے گلابی گالوں کو اس نے بلش آن کی مدد سے مزید سرخ کر دیا۔۔ ہونٹوں کو سرخ لپسٹک سے ہلکا سا رنگتے اس نے ہونٹ ہلکے سے مس کیے۔۔ مطمئن ہو کر وہ سیدھی ہوئی۔۔


عین جلدی کرو نہیں تو تمہیں یہیں چھوڑ جاؤں گا میں۔۔ جہان کی جھنجهلائی ہوئی آواز پر عین کو پتنگے لگ گئے۔۔


پاؤں میں بلیک نازک سی ہیل پہن کر وہ دوپٹہ کاندھے پر ڈالے کچھ سخت کہنے کے لئے وہ کمرے سے باہر نکلی تھی کہ جہان کو دیکھ کر سارے الفاظ منہ میں رہ گئے۔۔


کسرتی جسم پر زیب تن سیاہ کرتے پاجامے کے ساتھ کاندھوں پر بل دے کر ڈالی سکن مردانہ شال۔۔ اس نے گھنے بالوں کو جیل کی مدد سے پیچھے کی طرف سیٹ کر رکھا تھا۔۔ بڑھی ہوئی داڑھی پہلے کی نسبت تراشیدہ نظر آرہی تھی۔۔ تیکھے مغرور نقوش سے اسے دیکھتا وہ اس کا دل دھڑکا گیا۔۔


کچھ یہی حال جہان کا ہوا۔۔ ہمیشہ سادہ رہنے والی سنگھار کیے اس کے سامنے آئی تو اس کے دل کی دنیا تہہ و بالا کر گئی۔۔ موقع کی نزاقت کو دیکھ کر اس نے دل کو ڈپٹ دیا۔۔


ہو گئی تیار۔۔؟ اس کی بھاری آواز پر عین چونکی۔۔


جی ہو گئی ہوں۔۔ اس نے بلا اراده کان پر ہاتھ رکھا،، ارے جھمکے تو میں نے پہنے ہی نہیں۔۔


ایک منٹ۔۔!! جہان کہہ کر چند قدم آگے بڑھا اور ہتھیلی اس کے سامنے کی جس میں سلور خوبصورت جھمکے دھرے ہوئے تھے۔۔


میرے لیے لائے ہیں آپ۔۔؟ اس کے بے تکے سوال پر جہان نے سلگ کر اسے دیکھا۔۔ نہیں ساتھ والی پڑوسن کے لئے۔۔


لا کر تو دکھائیں میرے علاوہ کسی اور کے لئے،، آپ سمیت دونوں کو کِک مار کر میں نے "مریخ" پر پہنچا دینا ہے ۔۔۔


اول فول بول کر اس نے جھمکے پہنے اور جہان کو دیکھے بغیر دوپٹہ سر پر ڈالے باہر نکل گئی۔۔


آؤچ!! دروازے کے قریب اسکا پیر مڑا تو وہ لڑکھڑائی۔۔۔ جہان نے مسکراہٹ دبائی۔۔


ہونہہ!! ہنکارا بھر کر وہ دہلیز عبور کر گئی۔۔


یا اللّه کیا پیس مجھے دان کیا ہے آپ نے۔۔ آسمان کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں بولتا اس کے پیچھے چل دیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


انا کیا کر رہی ہو پیچھے کرو ہاتھ۔۔! ابیحہ نے اس کے ہاتھ پر تھپڑ مارا تو اس نے رونی صورت بنا کر عائزہ کو دیکھا۔۔


یار نہ کرو آج اس کا اسپیشل ڈے ہے اور تم اسے مار رہی ہو۔۔ عائزہ نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔۔


تو اسکی حرکتیں بھی تو دیکھو۔ اتنی محنت سے بیوٹیشن نے تیار کیا ہے اور یہ میک اپ کا بیڑا غرق کر رہی ہے۔۔


اتنی الجھن ہو رہی ہے مجھے،، کبھی اتنا میک اپ نہیں کیا اور اس پاگل بیوٹیشن نے میرے منہ پر پینٹ کر دیا ہے۔۔ اللّه اتنے ہیوی ڈریس میں، میں سٹیج پر کیسے بیٹھوں گی اتنی دیر۔۔۔ اس نے دہائی دیتے ہوئے کہا۔۔


کہو تو تمہاری جگہ میں بیٹھ جاؤں؟ ابیحہ کی گوہر افشانی پر دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔


دیکھو کیسی بے شرم دولہن ہے اپنے بياه پر کھی کھی کر رہی ہے ارے ہم تو اپنے زمانے میں اتنے شرمیلے ہوتے تھے کہ ایسے موقع پر کمبل میں چھپ کر بیٹھ جاتے تھے۔۔


ابیحہ نے بوڑھی بیبیوں کے انداز میں کہا تو انا اور عائزہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے لگیں۔۔


کیا ہورہا ہے لڑکیوں؟ ماشاءالله کسی کی نظر نہ لگے ۔۔ جهلملاتے سوٹ میں حنا ہال کے برائیڈل روم میں داخل ہوئیں تو انا کو دیکھ کر بے ساختہ ماشاءالله کہتیں اسکا سر چوم گئیں۔۔


آف وائٹ گھٹنوں سے اوپر آتی شرٹ جس پر لائٹ گولڈن کام ہوا تھا کے ساتھ آف وائٹ ہی پھولا ہوا شرارا پہنے بالوں کا درمیان کی مانگ نکال کر جوڑا کیے جس سے ایک لٹ نکال کر دائیں گال پر چھوڑ دی گئی تھی۔۔ گہری میرون لپسٹک سے سجے تراشیدہ ہونٹوں سے ناک میں پہنی نتھ مس ہو رہی تھی۔


مہندی لگے خوبصورت ہاتھوں سے اس نے دوپٹہ ٹھیک کیا تو اس کے ہاتھ میں پہنے سرخ گلابوں کے گجرے نماياں ہوئے۔۔۔ ان کی خوشبو اسے مسحور کر رہی تھی۔۔


ماشاءالله،، ماشاءالله!!

عین جہان کے ساتھ نمو دار ہوئی اور انا سے لپٹ گئی۔۔ اللّه، کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ۔۔


اس کے تبصرے پر انا مسکرا دی۔۔

السلام علیکم ! جہان کے سلام کرنے پر سب نے اسے دیکھا۔۔۔


وعلیکم ! یہ کون ہیں؟ ابیحہ کے پوچھنے پر عائزہ نے اسے چٹکی کاٹی۔۔


میرے ہزبینڈ ہیں۔۔!! عین کے مسکرا کر کہنے پر ابیحہ کا صدمے سے منہ کھل گیا۔۔ بس میں ہی کسی کو نظر نہیں آتی۔۔ یہ ٹڈی سی لڑکیوں کو بھی کیا حسین بندے مل جاتے ہیں۔۔ میری باری کب آئے گی۔۔؟ اسے حقیقتاً صدمہ پہنچا تھا۔۔


ارے اداس کیوں ہو رہی ہیں اللّه کرے اگلا نمبر آپ کا ہو۔۔ عین نے شرارت سے کہا۔۔


ماں صدقے !! ابیحہ خوشی سے اٹھی اور عین کا ماتھا چوم کر بیبیوں کے انداز میں بولی۔۔۔ جہان سمیت سب کا قہقہہ گونجا۔۔


ہان بھائی اندر آ جائیں۔۔ انا کے بلانے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔ آپ لوگ بیٹھیں میں باہر ہوں۔۔ عین کو دیکھ کر کہتا وہ پلٹ گیا۔۔


اس کی نظر سب نے محسوس کی۔۔

اوہ ہو ۔۔۔!! ملی جلی آوازیں ابھری تو عین نے شرم سے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔۔


انا بے حد نروس ہو رہی تھی۔۔۔یہ سب اتنا آناً فاناً ہوا تھا کہ اسے کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔


تھوڑی دیر بعد اسے سٹیج کی طرف لے جایا گیا۔۔ وہ گھونگھٹ نکالے نہایت آہستگی سے چل رہی تھی۔۔جب وہ سٹیج کے قریب پہنچی تو کیمرہ مین حرکت میں آ گئے۔۔


آف وائٹ کرتے پاجامے میں پیروں میں کھسہ پہنے شاہ ویر انا کی اوڑھ بڑھا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اس وقت وہ دونوں سب کی نگاہوں کا مرکز تھے۔۔ وقار اور عدیل شاہ ایک ساتھ کھڑے دونوں کی دائمی خوشیوں کے لئے دعا گو ہوئے۔۔


انا نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے سامنے پھیلی مضبوط چوڑی ہتھیلی کو دیکھا۔۔ نوجوانوں کی ہوٹنگ پر ویر کے مغرور چہرے پر مسکراہٹ نے چھب دکھائی۔۔


بے حد نروس ہوتے اس نے اپنا کانپتا ٹھنڈا ہاتھ شاہ ویر کے ہاتھ میں رکھ دیا۔۔ اس نے انا کو سہارا دے کر سٹیج پر اپنے مقابل کھڑا کیا۔۔ البتہ ہاتھ اس نے ابھی تک نہ چھوڑا۔۔


کھچا کھچ کی کئی آوازیں ابھریں اور ان یادگار لمحات کو اپنے اندر محفوظ کرتی گئیں۔۔


آپ اتنی ٹھنڈی کیوں ہو رہی ہیں۔۔؟؟ اس کے قریب براجمان ہو کر اس نے سرگوشی کی تو انا کے دل کی دھڑکن یکلخت تیز ہو گئی۔۔۔


پتہ نہیں !! اس نے دهیمی آواز میں کہا۔۔۔


میں بتاؤں کیوں ہو رہی ہیں۔۔؟؟ شاہ ویر مسکرا کر بولا تو انا کا دل رونے کو چاہا۔۔


سٹیج پر راحم کا فوٹو شوٹ کرتا میر کھنکارا۔۔ اہم اہم اتنی بھی کیا جلدی برو، حوصلہ ، صبر، تحمل۔۔


ویر نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو "وہاٹ ایور"۔۔


کیوں تنگ کر رہے ہیں آپ مجھے۔۔؟؟

اسے رونے کے لیے تیار دیکھ کر شاہ ویر نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا مبادا وہ آنکھوں کے سمندر کو یہیں بہا دے۔۔


نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا۔۔ انا کی فرمائش پر محض نکاح کا فنکشن رکھا گیا تھا۔ بقول اس کے باقی سب فضولیات ہیں۔۔


سٹیج سے نیچے اترتی عین کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑے جہان پر پڑی جو اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔


عین نے گھبرا کر نظروں کا رخ بدل لیا۔۔ آج اسے اپنی خیر نہیں لگ رہی تھی۔۔ جہان کی نظریں اسے جو پیغام دے رہی تھیں وہ اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔۔


اسے وارن کرتی نظروں سے دیکھ کر وہ سٹیج کی طرف بڑھا تو عین وہاں سے کھسک گئی۔۔


جہان آگے بڑھ کر ویر سے ملا۔۔ ویر کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری۔۔ تم وہی ہو نہ ۔۔؟


اس نے حیران مسکراہٹ سے اسے دیکھا تو جہان دھیما سا مسکرا دیا۔۔


ہاں وہی ہوں،، جہان !! انا کا کزن ہوں۔۔ ویر مزید حیران ہوتا اس سے گرم جوشی سے بغل گیر ہوا۔۔ اس نے عدیل شاہ کو بھی جہان سے ملوایا۔۔ وہ بہت خوش ہوئے۔۔


کھانے کے بعد رخصتی کا شور اٹھا تو گھبراہٹ کے مارے انا کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔۔ شاہ ویر کی ہمراہی میں وہ گاڑی تک آئی۔۔ شاہ ویر نے چادر میں ڈھکی اپنی ملکیت کو پورے استحقاق سے دیکھا۔۔


گاڑی کے قریب کھڑی حنا آگے بڑھ کر اس سے ملیں تو اس کے ضبط کا بندهن ٹوٹ گیا۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ باری باری سب سے ملتے وہ آخر میں ابیحہ سے ملی۔۔


بس کر دے یار اتنا رو گی تو تمہارا پھیلا ہوا میک اپ دیکھ کر بھائی کی چیخیں نکل جانی ہیں۔۔


انا نے روتے روتے اس کی کمر میں دھموکا جڑا۔۔


آؤچ جنگلی عورت!!

پھر وہ شاہ ویر کی طرف مڑی۔۔ بھائی اپنا خیال رکھئے گا۔۔ سنجیدگی سے کہہ کر وہ سائیڈ پر کھڑی ہو گئی۔۔۔


ویر نے مسکراہٹ دبا کر انا کو دیکھا اور گاڑی کا دروازه کھول دیا۔۔ دونوں گاڑی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے گاڑی چلا دی۔۔ ان کے جانے کے بعد باقی سب بھی اپنی منزل کی جانب گامزن ہو گئے۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


گھر پہنچ کر عین جلدی سے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔ اسکا اراده جلدی سے کپڑے بدل کر

سونے کا تھا۔۔


اس نے دوپٹہ بیڈ پر پھینک کر پیروں کو جوتوں کی قید سے آزاد کیا۔۔ اس نے باتھ روم کے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ جہان نے اسے اپنی طرف کھینچا۔۔


ڈریسنگ ٹیبل کے آگے آ کر اس نے عین کو اپنے سامنے کھڑا کیا ایسے کہ دونوں کا رخ آئینے کی طرف تھا۔۔


اس نے کرتے کے اوپرے دو بٹن کھول کر کلائی سے گھڑی اتاری اور قدرے جھک کر ڈریسنگ پر رکھی۔۔ اسکے جھکنے سے نظریں جھکا کر کھڑی عین پر دباؤ پڑا۔۔ اسکا دل حلق میں آ گیا۔۔


کیا کہا تھا میں نے ہمم ۔۔؟ اس کے بالوں کو ایک کاندھے پر ڈال کر اس نے اس کی کمر کو بازو کے حلقے میں لیا۔۔


عین کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا کہ جہان کو بھی اس کی آواز سنائی دی۔۔


کک کچھ بھی نہی ۔۔۔ کہا تھا ۔۔

تھوک نگل کر وہ گویا ہوئی۔۔


میرے بلانے پر آئی کیوں نہیں۔۔؟

وہ بوجھل آواز میں استفسار کرنے لگا۔۔


وہ وہ آنٹی ، ہاں آنٹی بلا رہی تھیں۔۔


جہان دوسرا ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھ کر اس کی گردن پر جھکا اور ہلکا سا کاٹ گیا۔۔


سس۔۔ اس کے لمس پر بے حال ہوتی عین نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔۔


سس سوری۔۔ آ آئندہ۔۔ نہیں ۔۔ کروں گی۔۔ جہان نے اس پر ترس کھاتے اسے اپنی گرفت سے آزاد کر دیا۔۔


عین چھپاک سے وہاں سے بھاگی اور باتھروم میں گھس کر دروازه بند کر لیا۔۔ اس نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا جو تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔ گزرے لمحات یاد کرتے اس کے چہرے پر شرمیلی مسكان بکھر گئی۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ویر کے آنے تک وہ بیڈ پر سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔ سائیڈ ٹیبل پر کھانا رکھا تھا جسے شدید بھوک کے باوجود اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔۔ اس کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔۔


کھڑاک کی آواز پر وہ مزید خود میں سمٹ گئی۔۔ ویر خوشبو میں نہایا ہوا اندر داخل ہوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر گیا۔۔ پاؤں کو کھسے سے آزاد کر کے وہ انا کے سامنے براجمان ہو گیا۔۔


چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا اور پھر اس نے انا کا گھونگھٹ الٹ دیا۔۔ کئی لمحے وہ بے حس بیٹھا اسے دیکھے گیا۔۔


کوئی بیک وقت اتنا حسین اور معصوم کیسے ہو سکتا ہے۔۔


اس کے لبوں سے ادا ہوئے الفاظ پر انا کی دھڑکنوں نے "دل کے دربار" میں رقص شروع کر دیا۔ اس نے کپكپاتے لبوں کو بھینچ لیا۔۔


شاہ ویر نے اسکے حنائی ہاتھ کو تھاما اور ڈائمنڈ کا بریسلیٹ اس کی کلائی میں ڈال دیا۔۔ انا نے ہاتھ کو ذرا سا اونچا کیا تو بریسلیٹ کے ساتھ لٹکتے موتی اور ستارے چمکنے لگے۔۔


بہت خوبصورت ہے۔۔ ہلکے سے لب وا کرتے اس نے اسکی پسند کو سراہا۔۔


آپ سے زیادہ نہیں!! ویر کی بوجھل آواز پر انا کو وقت کی نزاکت کا احساس ہوا۔۔ جانے کیا ہوا کہ اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔

ارے یہ کیا۔۔؟ کیا ہوا ؟ کیوں رو رہی ہیں آپ۔۔؟ شاہ ویر بوکھلا گیا۔۔

مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ اس نے شوں شوں کرتے ہوئے کہا۔۔

آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں۔۔؟ شاہ ویر نے پوچھا تو انا نفی میں سر ہلا گئی۔۔

اٹس اوکے! کوئی بات نہیں۔۔ میں ایسا مرد نہیں ہوں جو زبردستی اپنے حقوق وصول کرے۔۔ جب آپ چاہیں گی ہم اپنے رشتے کو آگے بڑھا لیں گے۔۔

انا نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ہلنے سے انکار کر دیا۔۔

چینج کر لیں ۔۔ نرمی سے کہہ کر وہ ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔

انا کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔۔ کیا اس نے ویر کے ساتھ غلط کیا تھا ۔۔؟؟ شرارے کو مشکل سے سمیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کونے میں رکھے بیگ سے اپنے لئے آرام ده كپڑے نکال کر وہ باتھ روم میں گھس گئی۔۔

چہرہ صاف کر کے جب وہ باہر نکلی تو شاہ ویر بغیر شرٹ کے بیڈ کے بیچوں بیچ لیٹا ہوا تھا۔۔ اس وقت انا کو اس سے بے حد حیا محسوس ہوئی۔۔

بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کر کے اس نے ڈهیلی چوٹی میں مقید کر لیا۔۔ اب وہ بیڈ کی اوڑھ دیکھ کر انگلیاں چٹخانے لگی۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر وہ بیڈ کے قریب آ کر رک گئی۔۔

آ جائیں جھجھک کیوں رہی ہیں۔۔؟؟ شاہ ویر نے سیدھے ہو کر کہا تو انا کا چہرہ شرم سے سرخ پڑ گیا۔۔

ویر نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگ کو دلچسپی سے دیکھا۔۔ اسے اپنی جگہ جما دیکھ کر شاہ ویر نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔ وہ کٹی ڈال کی مانند ویر کے سینے پر آ گری۔۔

ویر نے کروٹ بدلی اور اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتا اس کی گردن میں گہرا سانس بھر گیا۔۔

انا نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔

شرمیلی بھی ہیں آپ۔۔ اور کیا کیا ہیں آپ ؟ ہر بار نیا روپ دیکھنے کو ملتا ہے۔۔ اسکی بھاری آواز پر انا گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔

آ ۔آ ۔پ ۔۔نے ۔کہا تھا ۔کہ ابھی ۔ نہیں۔۔۔ انا نے اٹک کر کہا۔۔

مسز اب اتنا بھی اچھا نہیں ہوں میں۔۔ تھوڑی بہت گستاخی تو کر ہی سکتا ہوں۔۔ اس نے زور سے انا کا گال چوما تو وہ اس سے شرما کر اسی کی گردن میں منہ چھپا گئی۔۔

ویر کا قہقہہ گونجا۔۔ اسے مزید بھینچ کر اس نے سونے کے لئے آنکھیں موند لیں لیکن اب نیند بھی کس کافر کو آنے والی تھی۔۔

اذان کی پہلی آواز پر وہ بیدار ہو گئی۔۔ رات دیر سے سونے کی وجہ سے سر بھاری ہو رہا تھا۔۔ اسنے بہت مشکل سے درد کرتی آنکھوں کو ذرا کا ذرا کھولا۔۔ دل میں دوبارہ سونے کا خیال ابھرا۔۔


"الصلوٰۃ خیر من النوم"

(نماز نیند سے بہتر ہے۔۔!!)


اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔ ذہن بیدار ہوتے ہی اس نے آس پاس دیکھا۔۔ اپنا بازو آہستہ سے شاہ ویر کے نیچے سے نکال کر وہ اٹھ بیٹھی۔۔


دوپٹہ سر پر ڈال کر وہ وضو کے لئے غسل خانے چلی گئی۔۔ الحمدللّٰه! اسکا دل شکرگزار ہوا کہ اللّه نے اسے اپنے سامنے حاضر ہونے کی توفیق دی۔۔


چادر سے سر اور بازوؤں کو ہاتھوں تک ڈهانپ کر وہ اللّه کے حضور نماز کی ادائیگی میں مشغول ہو گئی۔۔


شاہ ویر کی آنکھ مسلسل آتی دهیمی سی آواز پر کھلی۔۔۔عجب سوز تھا اس آواز میں۔۔ اس نے دائیں اوڑھ دیکھا تو اسے نماز ادا کرتے ہوئے پایا۔۔ اب اسے سمجھ آئی کہ وہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔۔


اس نے دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن وہ سو نہ پایا۔۔ لیٹے لیٹے وہ اسے نماز ادا کرتے دیکھنے لگا۔۔


انا نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔۔ اسکے آپس میں پیوست ہونٹوں پر دهیمی ملكوتی مسکراہٹ تھی جبکہ آنکھوں سے آنسو شفاف موتیوں کی مانند گر رہے تھے۔۔


وه ٹرانس کی سی کیفیت میں اٹھا اور انا کے پاس جائے نماز کے قریب بیٹھ گیا۔۔ اسکی سرخ آنکھیں انا کے ہاتھ میں گرتے آنسوؤں سے الجھ گئیں۔۔


انا نے دعا مکمل کرتے چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرے۔۔ آنکھیں کھولتے ہی اسکی نگاہ شاہ ویر پر پڑی۔۔


آپ نماز نہیں پڑھیں گے۔۔؟


وہ بغیر کچھ بولے اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔ میں نے کب کی۔۔ پڑھنی چھوڑ ۔۔دی ہے۔۔ اب میں نہیں پڑھ سکتا۔۔ مجھے ۔۔مجھے ۔۔بہت ۔۔عجیب لگتا ہے۔۔ اتنی۔۔ دیر اللّه ۔۔سے دور ۔۔۔ رہا ہوں۔۔ اب ۔۔ کیسے ۔۔ سامنے ۔۔ جاؤں۔۔ اس نے انا کی گود میں سر چھپاتے اٹک اٹک کر کہا۔۔


انا نے نرمی سے اس کے بالوں کو سہلایا۔ شاہ ویر اللّه تعالیٰ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔ اس کے دھیمے لہجے میں کہے الفاظ پر شاہ ویر نے سر اٹھا کر بے يقینی سے اسے دیکھا۔۔


میرا ؟۔۔ میرا انتظار کر رہے ہیں۔۔؟


ہممم اللّه کو آپ کی واپسی کا انتظار ہے۔۔ اللّه تعالیٰ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔


مجھ سے محبت کرتے ہیں ؟

لہجے میں بے يقینی تھی۔۔


ہاں اللّه آپ سے اتنی محبّت کرتے ہیں کہ آپ بائی چانس مسلمان پیدا نہیں ہوئے بلکہ اللّه نے آپ کو چوز کیا۔ وہ آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ روز آپ کو پانچ بار اپنی طرف بلاتے ہیں۔۔ اللّه پاک ہر رات پہلے آسمان پر آ کر ہمارا انتظار کرتے ہیں کہ کب ہم اٹھیں۔ وہ ہماری نیند میں بھی ہمارے منتظر ہیں۔ پھر ہم کیوں نہیں جاتے۔۔؟؟


نرمی سے ادا ہوئے گہرے لفظ شاہ ویر کے دل و دماغ میں نقش ہو گئے۔۔


اٹھیں نماز ادا کریں۔۔ اس نے جھک کر اسکا ماتھا چوما تو وہ اٹھ بیٹھا۔۔


چند منٹوں کے بعد وہ مسجد جا چکا تھا۔۔


وہ پرسکون سی تسبیح کے دانوں پر اللّه کی حمد بیاں کرتی کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ ارد گرد کا جائزہ لیتی وہ لان میں نکل آئی جہاں عدیل شاہ پہلے سے موجود تھے۔۔


السلام علیکم بابا !! صبح بخیر۔۔!! وہ ان کے سامنے جا کر گویا ہوئی۔۔

وعلیکم السلام ! صبح بخیر میرا بیٹا۔۔ انہوں نے دوپٹے کے ہالے میں اسکا شفاف چہرہ دیکھ کر کہا۔۔


آئیں واک کرتے ہیں۔۔ ماشاءالله کتنی خوبصورت صبح ہے۔۔ اور لان میں تو یہ سب اور بھی اچھا لگ رہا ہے۔۔ وہ بچوں کی طرح خوش ہو کر انہیں بتانے لگی۔۔


عدیل شاہ دهیمی مسکان چہرے پر سجائے اسکے ساتھ قدم بڑھانے لگے۔۔ پتہ ہے مجھے بہت شوق تھا کہ ہمارے گھر میں بھی لان ہو،، پھولوں کی خوشبو اور ۔۔۔۔ خراماں خراماں چلتے وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے گرد و پیش سے بیگانہ ہو گئے۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اہم! بڑی دوستی ہو گئی ہے سسر بہو میں۔۔ جانے کب ویر ان کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔۔


سسر نا کہو میاں بیٹی کہو۔۔ عدیل شاہ پلٹ کر بولے تو وہ مسکرا دی۔۔


ویر نرم نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ برخوردار تمہاری ہی ہے ذرا حوصلہ رکھو۔۔ انکے طنز پر ویر کا دلکش قہقہہ گونجا۔۔


انا نے وہاں سے جانے میں ہی عافيت سمجھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسکے کانوں میں راحم کی ریں ریں کی آواز پڑی۔۔


ایک کمرے سے میر راحم کو اٹھائے نیند میں جھولتا برآمد ہوا اور سامنے سے آتی انا کو تهما کر چہرے کے زاویے بگاڑتا واپس ہو لیا۔۔


ارے میرا بیٹا کیوں رو رہا ہے؟ مما پاس ہے نا۔۔ اس نے اب پورے حق سے اسے سینے میں بهینچ لیا۔۔ بش بش چپ میرا بیٹا۔۔ وہ چکر لگاتی راحم کو تهپکنے لگی۔۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ خاموش ہوگیا۔۔


انا نے اسکا چہرہ سامنے کیا۔ معصوم چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے۔۔ وہ بے ساختہ جھکی اور اسکے گالوں اور ماتھے کو نرمی سے چوم گئی ۔۔


اب میں آ گئی ہوں نا اب میں اپنے بیٹے کو رونے نہیں دوں گی۔۔


کوئی بیٹے کے باپ کو بھی پوچھ لے۔۔

ویر سر گوشی کرتا اسکے پاس سے گزر گیا۔


اس کی بات پر انا جھینپ گئی۔۔


بیٹا بھابھی اور وقار آنا چاہ رہے تھے ناشتہ لے کر لیکن میں نے انہیں منع کر دیا کہ اس تكلف کی ضرورت نہیں۔۔ ٹھیک کیا نا۔۔؟

انہوں نے اخبار تہہ کر کے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔۔


جی بابا آپ جیسا مناسب سمجھیں۔۔ اس نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔۔


بابا ناشتے میں کیا بناؤں سب کے لئے۔۔؟؟ راحم کو کاندھے سے لگاتے اس نے کچن کی جانب دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔۔


ارے ارے کوئی ضرورت نہیں تمہیں یہ کھانا وانا بنانے کی۔۔ ہم کیا ایک دن کی بياہی دلہن کو باورچی خانے میں گھسا دیں گے۔۔ہرگز نہیں! انہوں نے قطعی انداز میں کہا تو انا نے بے چارگی سے شاہ ویر کی جانب دیکھا جو کندھے اچکا گیا۔۔


ویر ناشتہ لے آیا ۔۔ میر کو اٹھانے کے بعد انا کچن سے برتن لے آئی البتہ برتن ڈھونڈنے میں اسے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ اس دوران راحم اس سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہوا۔۔ میر کے آنے پر وہ راحم کو گود میں لے کر بیٹھ گئی۔۔


راحم بات بات پر کھلکھلا رہا تھا ۔۔ میرو جے میری ماما ہیں،، اب مجھے تنگ کیا تو تم کو جے ماریں گی، ہائے!!


بری بات بیٹا ،، چاچو ہیں۔۔ انا کے پیار سے سرزنش کرنے پر میر مسکرا دیا۔۔

چلو کوئی بندہ تو میری سائیڈ ہوا۔۔


ناشتے سے فارغ ہو کر وہ چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف ہو گئی۔۔ اس نے سوچا چند دن بعد گھر کی سیٹنگ بھی تبدیل کرے گی۔۔اب یہ اسکا گھر تھا تو یہ کام اسے ہی کرنے تھے۔۔


آج اس نے عدیل شاہ کے نہ نہ کرنے کے باوجود گھر کی تینوں الماریاں سیٹ کردی تھیں۔۔ شاہ ویر کی الماری سیٹ کرتے اسے کافی وقت لگ گیا۔۔


اس نے جگہ بنا کر اپنے کپڑے بھی الماری میں رکھ دیے۔۔ راحم کی چیزوں کو ترتیب دیتے شام ہو گئی۔۔


راحم آج الگ ہی موڈ میں تھا اس لئے سوائے انا کے سب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔


شاہ ویر انتظار ہی کرتا رہا کہ کب اس کے ساتھ تنہا وقت گزار نے کو ملے لیکن وہ مصروف رہی۔۔ رات کو وہ تھکی ہاری کمرے میں آئی تو ویر آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔


اسکے کمرے میں داخل ہونے پر اسنے ہاتھ ہٹا کر دیکھا اور پھر سے ہاتھ رکھ گیا۔۔ انا نے راحم کو سلا کر بیڈ پر لٹا دیا۔ ایک شرمنده نظر ویر پر ڈال کر وہ آرام دہ لباس بدلنے چلی گئی۔


بھورے سلكی بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھ کر وہ بیڈ پر اس کے قریب جھجھک کر بیٹھ گئی۔۔


ویر ۔۔؟؟ اس نے پكارا لیکن جواب ندارد۔۔


مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہے ہیں۔۔ اس نے جھجھک کر اس کے بازو پر ہاتھ رکھا اور اسکے چہرے سے ہٹا دیا۔۔


اس کو چھونے پر اسکا دل تیز دھڑکنے لگا تھا۔۔ مضبوط مردانہ ہاتھ جن کی نسیں ابھری ہوتی ہیں اسے بہت پسند تھے۔۔ شاہ ویر کے مضبوط بازوؤں کو دیکھ کر اسے عجیب سے تحفظ کا احساس ہوا۔۔


شاہ ویر نے اسے ایک نظر دیکھ کر نظروں کا زاویہ بدل لیا۔۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اسکی ناراضگی پر اسکا کیا رد عمل ہوتا ہے۔۔


انا کو آنکھوں میں آنسو جهلملانے لگے۔۔ آئی ایم سوری ویر! اس نے ویر کی داڑھی پر ہاتھ رکھ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔ مجھے نہیں پتہ آپ کیوں مجھ سے ناراض ہیں لیکن پھر بھی سوری! وہ بھرائی آواز میں بولی تو ویر زیادہ دیر اس سے ناراض نہ رہ سکا۔۔


اس نے اسے اپنی طرف جھکایا تو انا نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیے۔۔ اسکی کمر میں بازو حائل کرتا وہ اسے شرمانے پر مجبور کر گیا۔۔


جب کوئی اس طرح منائے گا تو کون کافر ناراض رہ سکتا ہے۔۔ اسکے جوڑے کو کھول کر وہ بھاری آواز میں بولا۔۔


لیکن آپ ناراض کیوں تھے۔۔ وہ جاننے کے لئے بضد ہوئی۔۔


میں آپ کی اگنورنس برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔مجھے آپ کی پوری توجہ چاہیے۔۔ میں آپ کو ہر لمحہ اپنے قریب محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔ ویر کے پرشدت لہجے پر انا کپكپا گئی۔۔


کک کیوں۔۔؟؟ اس کے کپكپاتے ہونٹ ویر کی توجہ اپنی جانب مبزول کر گئے۔۔ اس نے دونوں کے مابین فاصلے کو ذرا سا سمیٹا۔۔ اتنا کہ دونوں کی سانسیں آپس میں الجھنے لگیں۔۔


"کیوں کہ محبّت ہو گئی ہے آپ سے۔۔"

بوجھل لہجے میں کہہ کر وہ اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔۔


اسکے پہلے پرشدت لمس پر انا کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئیں۔۔ اس نے ویر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا لیکن وہ اس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھتا ہونٹوں پر گرفت مزید سخت کر گیا۔۔


وہ اس کی پیٹھ پر ناخن مارنے لگی تو وہ ذرا سا پیچھے ہٹا۔۔


مم ۔۔ میں ۔۔۔مر۔ ۔ ہا ۔۔ جاؤں ۔۔ گی۔۔

اس نے گہرے سانس لیتے ہوئے کہا۔۔


اوں ہوں میں مرنے تھوڑی دوں گا آپ کو۔۔ اس کی ٹھوڑی کو چوم کر وہ اسے اپنے آپ میں بهینچ گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿


وہ اداس سی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔۔ سامنے کتاب پڑی تھی لیکن اسکا ذرا دل نہیں چاہ رہا تھا پڑھنے کو۔۔


ہا! اتنے دن ہو گئے ہیں نانو کو گئے ہوئے۔۔ لگتا ہے انہیں میری ذرا یاد نہیں آ رہی۔۔ اس نے خفگی سے سوچا۔۔


جہان آج آفس سے لیٹ ہو گیا تھا۔۔ وہ اکیلی ادھر ادھر پھرتی رہی۔۔۔ تھک کر اس نے تند نظروں سے فون کی طرف دیکھا اور جهپٹنے والے انداز میں پکڑتے جہان کا نمبر ملایا۔۔


ہیلو!! دوسری طرف سے خاصے شور میں اس کی آواز ابھری۔۔


آج آپ کو گھر آنے کی بلکل ضرورت نہیں ہے آپ باہر ہی رات گزارنا۔۔ اچھا !! وه غصے سے نتھنے پھلا کر بولی۔۔


لگتا ہے بیوی کا فون ہے۔۔ پیچھے سے کسی کی آواز ابھری اور ساتھ ہی قہقہہ گونجا۔۔

جہان نے خفت سے لاؤڈ سپیکر آف کیا اور قدرے دور ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔۔


ہاں کیا کہہ رہی تھی تم ۔؟؟ گھر نا آؤں آج ؟ مطلب تم مجھے خوشی سے کسی اور کے ساتھ رہنے کی اجازت دے رہی ہو۔۔ اس نے تپانے والے انداز میں کہا تو دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔۔


یہاں غصے سے عین کا برا حال تھا۔۔ اس نے غصے سے دیوار پر لات ماری۔۔ آؤچ !! اس نے رونی صورت بنا کر اپنا پیر پکڑ لیا۔۔


منہ بنا کر وہ سیدھی ہوئی اور تن فن کرتی اپنے کمرے میں جا کر ادھر ادھر چکر لگانے لگی۔۔


جہان آہستہ سے چابی کی مدد سے دروازه کھول کر اندر داخل ہوا اور ادھر ادھر دیکھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔


ایک منٹ ! میں پہلے چینج کر لوں۔۔

عین خونخوار تاثرات سے اسکی طرف بڑھی تو جہان نے اسے روک دیا۔۔


آفس بیگ سائیڈ پر رکھتا وہ شوز اتار کر سلیپر پہنتا باتھ روم میں گھس گیا۔۔ نیلی جینز اور سفید ٹی شرٹ میں وہ باتھ روم سے نمو دار ہوا۔۔


اب کیوں آئے ہیں گھر۔۔ جائیں کسی۔۔ کسی ۔۔ "حسینہ" کے پاس ۔۔ اس نے حسینہ پر زور دے کر دانت کچکچا کر کہا۔۔


ہوا کیا ہے ۔۔؟؟ کچھ بتاؤ بھی۔۔ جہان نے اس کے خونخوار تاثرات دیکھ کر دریافت کیا۔۔


میں اتنا اکیلا محسوس کر رہی تھی خود کو۔۔ نانو بھی نہیں ہیں اور آپ ۔۔۔ آپ کی تو بات ہی نہیں کرنی میں نے ۔۔۔

آخر میں وہ پھر ناک بھوں چڑھا کر بولی۔۔


تو کیا تم مس کر رہی تھی مجھے ، ہممم ۔۔؟ اس نے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا۔۔ ماتھے پر بکھرے بال اسکی وجاہت میں اضافہ کر رہے تھے۔۔


ہا ! توبہ،، خوش فہمی ہے آپ کی۔۔ کیوں مس کروں گی میں آپ کو۔۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ اپنے پروفیسر کو کال کر لوں۔۔ اس نے تپانے والے انداز میں کہا تو جہان کا حلق تک کڑوا هو گیا۔۔


اس نے غصے سے اسکے تیز حرکت کرتے ہونٹوں کو دیکھا ۔۔ اسکی کہی بات نے اسکے دل میں آگ ہی لگا دی تھی۔۔


چپ بلکل چپ۔۔ خبردار اب ایک لفظ بھی بولی۔۔ لیکن وہ عین ہی کیا جو آسانی سے ہان کی بات مان لے۔۔


کیوں میں کیوں چپ رہوں ۔۔ میں تو ۔۔۔۔۔


یہی، یہی ،، اسی بات پر غصہ آتا ہے مجھے! اسکی بے تکی بات پر عین نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔


کس بات پر ۔۔؟


تمهارے تیز تیز بولنے پر ۔۔۔

جہان نے اسکی طرف قدرے جھک کر کہا۔۔


کیوں۔۔؟ عین نے سر اٹھا کر اپنے چھوٹے گلابی ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے کہا تو اس پر جھکے جہان کی آنکھوں میں خمار اترا۔۔


کیوں کہ جب تمھارے ہونٹ تیز تیز حرکت کرتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے انکو اپنے ہونٹوں میں قید کر کے ساکن کر دوں۔۔

اسکے بوجھل لہجے پر عین کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا۔۔


اس نے پیچھے قدم لے کر بھاگنا چاہا تو ہان نے تیزی سے اسکا بازو پکڑ لیا۔۔


چھوڑیں میرا ہاتھ ورنہ نانو کو بتاؤں گی۔۔ اسنے وارن کرنے والی نظروں سے کہا۔۔


مثلاً کیا بتاؤ گی ۔۔؟ وہ اس کی بات سے محظوظ ہوا۔۔


یہی ۔۔یہی کہ آپ مجھے تنگ کرتے ہیں۔۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا۔۔


جہان نے گرفت مظبوط کرلی۔۔ وہ کہیں گی روز ایسا تنگ کیا کرو تا کہ چنوں منوں اس دنیا میں آئیں۔۔


اس کے بے باک لہجے پر وہ رو دینے کو ہوئی ۔۔


بہت ہی مطلب بہت ہی زیاده "۔۔۔۔۔" ہیں آپ۔۔!! اس نے ہونٹ پھیلا کر کہا۔۔


وہ کیا ۔۔؟ وہ مزید شرارت پر آماده ہوا۔۔


"خالی جگہ خود پر کریں۔۔!!" اس نے شوں شوں کرتے ہوئے کہا تو جہان کا زبردست قہقہہ گونجا۔۔

مطلب "بہت رومینٹک" ہوں ۔۔

ہاااااان۔۔۔!!

اوکے اوکے !! اسکے چلانے پر وہ پیچھے ہٹ گیا۔۔

کھانا ملے گا آج کہ نہیں ۔۔؟؟

اس کے معصومیت سے کہنے پر عین نظریں گھماتی باہر نکل گئی۔۔

۔!! ہنہ!

اسکی بڑبڑاہٹ پر جہان مسکراہٹ دباتا اسکے پیچھے چل دیا۔۔ بیٹا اب چھیڑا ہے تو بھگتو بھی۔۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

نانووووو !! جہان کے ہمراہ آئمہ کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر کچن سے نکلتی عین خوشی سے چیختی ان سے لپٹ گئی۔۔ جانے پھر کیا ہوا وہ رونے لگی۔۔

ارے ارے کیا ہوا میری جان کو۔۔؟؟ اس کے گرد حصار باندھ کر وہ پیار بھرے لہجے میں پوچھنے لگیں۔۔

ان کے تھکے ہونے کا احساس کرتے وہ پیچھے ہٹی اور ایک پرشکوہ نگاہ جہان پر ڈال کر آئمہ کو لیے ان کے کمرے میں چلی گئی۔۔

نانو میں نے بہت مس کیا آپ کو ۔۔ ان کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر وہ انکے کاندھے پر سر ٹکا گئی۔۔

آئمہ تو نہال ہو گئیں۔۔ میں نے بھی بہت مس کیا تمہیں۔ وہ اسکا سر چوم کر گویا ہوئیں۔۔

نانو ہان نے مجھے ڈانٹا بہت بہت زیادہ ۔۔ اور ۔۔۔۔ وہ بغیر سوچے سمجھے انہیں ہر بات بتا گئی کہ کیسے وہ گھر سے گئی اور پھر جو جو ہوا۔۔ انا کی بابت بھی بتا دیا۔

آئمہ حیران پریشان سی اسے دیکھنے لگیں۔۔ اتنا سب کچھ ہو گیا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو۔

غضب خدا کا اس نے غصے میں کچھ کہہ دیا تو تم منہ اٹھا کر چل دی۔۔ خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو۔۔؟ ان کا غصہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔

انا کی کلاس تو میں کل لوں گی۔۔ میں تو جیسے مریخ پر چلئ گئی تھی جو مجھے کچھ بتانا ضروری نہ سمجھا۔۔

ہان ۔۔؟ ہان ۔۔؟ اندر آؤ ۔۔ اسکے اندر آنے پر انہوں نے خفگی سے اسے دیکھا۔۔

کیا ہوا ۔۔؟ اسے گڑبڑ کا اساس ہوا۔۔

عین آئمہ کے پیچھے چھپ گئی۔۔

یہ کیا سن رہی ہوں میں۔۔؟ انہوں نے جہان کی کلاس لینی شروع کردی۔۔ عین کی بے وقوفی پر اس نے غصے سے اسے دیکھا۔۔۔ آئمہ کے قریب بیٹھ کر وہ انہیں وضاحت دینے لگا۔۔

اہم، اہم!!

آنکھوں پر لگے بیزوی گلاسز کو ناک پر صحیح طرح ٹکاتے وہ کھنکاری۔۔


جہان جو کھڑکی کے قریب دھرے صوفے پر نیم دراز ہلکی مسكان سجائے موبائل پر ٹائپنگ کر رہا تھا نے ذرا کی نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو لمبے بالوں کی چوٹی آگے کی طرف ڈالے کالی شلوار قمیض میں ہاتھوں میں ایک بک ،نوٹ بک اور پین پکڑے کھڑی تھی۔۔


اس نے ابرو اچکا کر پوچھا کہ کیا کام ہے۔۔؟


عین نے ہونٹ ایک طرف سے دانت میں دبا کر اسے دیکھا۔۔ یہ اتنا مسکرا کر کس سے بات کر رہے ہیں۔۔؟

اسنے معصومیت سے سوال کیا۔۔


دوست ہے ایک۔۔ کیوں؟

کہتے ہوئے اسنے موبائل اپنی طرف موڑ لیا۔۔


"آ کچھ نہیں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔۔"


جہان نے اس کے خالص بیویوں کے سے شکی انداز کو دیکھا۔۔ وہ دن بدن اس کی ذات میں دلچسپی لینے لگی تھی لیکن خود ہی اس بات سے بے خبر تھی۔


یہ کچھ کویسچنز مجھے سمجھ نہیں آ رہے آپ سمجھا دیں گے۔۔؟؟ آتے تو ہیں نا کہیں جعلی ڈگری تو نہیں لی آپ نے ۔۔؟؟


میسنی شکل بنا کر اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھول دی جس سے آتی خوشگوار ہوا نے اسکے چہرے پر لٹوں کو بكهیر دیا۔۔


جہان کی نظریں اس کی چٹیا سے الجھ گئیں جو اس کی بل کھاتی نازک کمر کو چومتی نیچے گر رہی تھی۔۔


یہ لیں سمجھا دیں اب جلدی سے کل ٹیسٹ ہے میرا اور مجھے یہ چیپٹر بلکل نہیں آتا۔۔ اس کے بے چارگی سے کہنے پر وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔


" یہ دیکھو بہت ایزی ہے یہ۔۔ سب پر ایک ہی فارمولا اپلائے ہوگا۔۔" وہ اسے سمجھانے لگا۔۔


ہوا سے کتاب کا کاغذ پلٹا تو وہ زرا قریب ہوتی جھکی کاغذ کے کونے پر اپنی انگلی رکھ گئی۔۔ اس سب میں وہ جہان کے بہت قریب آ گئی تھی۔۔


اس نے جہان کے جھکے سر کو دیکھا۔۔ بلا ارادہ وہ اسکے نقوش آنکھوں کے راستے حفظ کرنے لگی۔۔ دل کی خواہش پر اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی داڑھی کو انگلیوں سے چھوا۔۔


اپنے دیہان میں سمجھاتے جہان نے چونک کر اسے دیکھا تو اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔۔ نظریں جھکا کر وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔۔


جہان نے پین بند کر کے سائیڈ پر رکھا اور اس کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔۔ چند لمحے اسکی جھکی لامبی پلکوں کو دیکھنے کے بعد اس نے عین کا وہی ہاتھ تھاما اور اپنی داڑھی پر رکھ دیا۔۔ عین کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر گئے۔۔


ڈو یو اِن لَو وِد می۔۔؟ جہان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کے اطراف میں بکھری لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا۔۔


"آئی ڈونٹ نو!" عین نے سر جھکائے سرگوشی کی۔۔


جہان نے نرمی سے اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔۔ وه چند سیکنڈ بعد اسکے گرد نازک حصار باندھتی اس کی گردن میں منہ چھپا گئی۔۔ دونوں کے دل بے ہنگم دھڑکتے ان کی محبت کا اعلان کر رہے تھے لیکن ابھی اس محبت کا اقرار باقی تھا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


راحم نائیاں نائیاں کرے گا۔۔ اچھا پارا بچہ بنے گا نہ؟

باتھ روم کا دروازه آدھا کھولے وہ بکھرے بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارتے راحم کو باتھ ٹب میں بھرے نیم گرم پانی میں بٹھاتے ہوئے بولی۔۔


"نو!!" راحم نے چھوٹے سے ہونٹ باہر نکالتے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔۔ کیوں۔۔۔؟؟


جو اچھے بچے بنتے ہیں نہ ان کو اتنی زیادہ "چیجی" ملتی ہے۔۔۔ ہائے راحم کو تو نہی ملنی پھر۔۔ اور ٹوائز بھی۔۔ ہمم کارٹونز بھی دیکھنے کو ملتے لیکن راحم نے تو نہیں نہانہ پھر ہم یہ سب کسی اور کو دے دیں گے۔۔ ٹھیک ہے ؟؟


میں شاف (صاف) پارا شا بچہ ہوں نا۔۔ میں اچھا ہوں،، پارا شا کُووٹ (کیوٹ) بے بی۔۔


اس کی باتیں سن کر انا نے بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ روکی۔۔


آدھ کھلے دروازے سے جھانکتا ویر اپنی"چلتی پھرتی بلا" کی چالاکی پر سر ہلا کر واپس ہو لیا۔۔ وہ آفس کا کام کرتے کرتے ان کی گفتگو سن کر یہاں آیا تھا۔۔


آوو راحم کتنا اچھا ہے۔۔ ساتھ ہی انا نے شیمپو اسکے بالوں پر مل دیا۔۔ راحم ڈر کر آنکھیں بند کر گیا۔۔ ہینڈ شاور کی مدد سے اس نے راحم کے سر پر پانی ڈالا تو وہ اس سے لپٹ گیا۔۔


یہ بس بس ہو گیا۔۔ ارے راحم نے تو نہا بھی لیا۔۔ گڈ بوائے! اس نے زور سے اسکے گیلے ملائم سے گال چومے۔۔


چونکہ آج پہلی بار بغیر "ریں ریں" کے نہا کر اس نے بڑا "كارنامہ" کیا تھا اس لئے وہ اپنا یہ كارنامہ ابا حضور کو سنانے کے لئے اسی حالت میں باتھ روم سے باہر نکل گیا۔۔


ارے ! راحم واپس آؤ۔۔ انا نے خفت سے اسے دیکھ کر کہا۔۔ لیکن اس نے شاہ ویر کے پاس پہنچ کر ہی دم لیا۔۔۔ اس کی اتنی جرات پر شاہ ویر بھی شرمنده ہو گیا۔۔


بابا میں ۔۔۔۔

"راحم میں نے کیا کہا ہے واپس آؤ۔۔"


وہ جو جوش و خروش سے کچھ کہنے لگا تھا انا کی غصیلی آواز پر "انسان کا پتر" بنتا چپ چاپ واپس ہو لیا۔۔


انا نے اسے پکڑ کر اندر کھنچا اور دروازه بند کر دیا۔۔ راحم کتنی بری بات ہے ایسے باہر نہیں جاتے ۔۔ وہ اسکو نرمی سے سمجھاتی تولیے سے اسکے بال خشک کرنے لگی۔۔ راحم اسکی ہر بات کو غور سے سنتا تھا۔ اب بھی وہ خاموش سا اس کو سن رہا تھا۔۔


انا کو اس پر بے انتہا پیار آیا۔۔ اس کو تولیے میں لپیٹ کر اس نے بیڈ پر لا کر بٹھا دیا۔۔ تولیے میں لپٹا ننھا سا راحم اس وقت بہت ہی کیوٹ لگ رہا تھا۔۔


شاہ ویر آپ بھی شاور لے لیں پھر ایک گھنٹے تک نكلنا بھی ہے۔۔ اس نے وقت دیکھتے ہوئے کہا۔۔ آج ان کی آئمہ کے ہاں دعوت تھی اور انا جانتی تھی آج اسکی اچھی درگت بننے والی تھی۔۔


ویر لیپ ٹاپ کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اکٹھے شاور نہ لے لیں کیا خیال ہے۔۔؟ اس کے قریب رکتا وہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو انا نے خفت سے اسے دیکھا۔۔


بابا!! نو ! "بری بات۔۔۔۔"

راحم کے بولنے پر انا نے تنبیہی نظروں سے ویر کو دیکھا۔۔ اس کے سامنے ایسی باتیں نہ کیا کریں۔۔ وہ سمجھنے لگا ہے باتوں کو۔۔


مطلب اکیلے میں کر لیا کروں ایسی باتیں۔۔؟ خیر اکیلے میں پھر خالی باتیں تو نہیں ہوں گی۔۔ اس کے بےباقی سے کہنے پر انا کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔۔


اس نے ویر کو باتھروم کی طرف دھکیلا اور واپس مڑتی راحم کو کپڑے پہنانے لگی۔۔ کالی کاٹن کی شلوار قمیض پہنا کر اس نے راحم کے چھوٹے سے پاؤں میں براؤن سینڈل پہنائی۔۔ اس نے برش سے اسکے بالوں کو اس طرح سنوارا کہ وہ ماتھے پر سیدھے گرتے تھے۔۔


دوپٹہ اوڑھتی وہ بیڈ پر بیٹھے رہنے کی تلقین کرتی میر کو دیکھنے کے لئے گئی کہ وہ تیار ہوا ہے یا نہیں۔۔ عدیل شاہ معصروفيت کے سبب جانے سے معذرت کر چکے تھے۔۔


دروازه دھکیل کر وہ اندر داخل ہوئی تو وہ بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔۔ میر طبیعت ٹھیک ہی تمہاری ۔۔؟


جی آپی ۔۔!!

وه سیدھا ہوتا اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔


انا نے اسکے ستے ہوئے چہرے کو تشویش سے دیکھا۔۔ بیٹا کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ ۔۔ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر وہ گویا ہوئی تو میر اسکی گود میں سر رکھ گیا۔۔ اسکے نین کٹورے آنسو بہانے لگے۔۔


ارے ارے یہ ہمارا میر تو نہیں ہے ۔۔ وہ تو دوسروں کو رلانا جانتا ہے۔۔ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ اسے بہلانے لگی۔۔


میرا بیٹا مجھے بھی نہیں بتائے گا کہ کیا ہوا ہے ۔۔؟ اسکے پیار بھرے لہجے پر میر کو مزید رونا آیا۔۔


ماما کی یاد آ رہی ہے۔۔ گیلی سانس کھینچ کر وہ سیدھا ہو کر اپنے ہاتھوں کو تکنے لگا۔۔


ماما واپس تو نہیں آ سکتیں ۔۔ ایسے دکھی ہو گے تو انکو بھی تکلیف ہو گی ۔۔ میں تو ہوں نہ تمهارے پاس ۔۔۔ تم نے کوئی بھی بات کرنی ہو بلا جھجھک مجھ سے کرنا۔۔ کوئی کام ہو تو سب سے پہلے مجھے بتانا۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ ؟ میرے بیٹے کو اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔آج سے ہم ایک پارٹی ہیں،، اوکے!!! شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال بكهیرے۔۔


ڈن !! وه بھی ہلکا سا ہنس دیا۔۔


چلو شاباش اٹھو فریش ہو کے ریڈی ہو جاؤ۔۔ اور تمہارے بال کتنے روکھے ہو رہے ہیں۔۔ واپس آ کر ہیئر آئل لگاتی ہوں میں ۔۔ ایسے لگ رہا ہے گھونسلہ بنا ہوا ہے۔۔ تنقیدی نظروں سے اسے دیکھتی وہ شروع ہو گئی تھی۔۔


اسے بلانے کے لئے آتا ویر ان دونوں کو باتوں میں مصروف پا کر آسودگی سے مسکرا دیا۔۔ دن بدن وہ اسے مزید اپنا دیوانہ کرتی جا رہی تھی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ٹی پنک ٹشو کے شارٹ فراق كیپری میں ملبوس پیروں میں پنک ہی کھسہ پہنے وہ جلدی ہاتھ چلاتی گالوں پر گلال بکھیر رہی تھی۔۔ نیوڈ پنک لپ سٹک لبوں پر لگائے گلابی گالوں پر سایہ فگن گهنی پلکوں کو اٹھاتی وہ آنکھوں میں كاجل کی بریک لكیر لگاتی بھوری آنکھوں کو دو آتشہ کر گئی۔۔


شرٹ کا ٹوٹا بٹن ہاتھ میں تھامے وہ عجلت میں کمرے میں داخل ہوا لیکن اسے مصروف پا کر وہ واپس جانے ہی لگا تھا کہ انا نے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا۔۔


آپ مجھے کہے بغیر کیوں جا رہے تھے۔۔؟ اس نے خفگی سے کہا اور اسے لئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ گئی۔۔ الماری کھولتے اس نے ایک باكس سے سوئی دھاگا نکالا اور دیہان سے سوئی میں دهاگا ڈال کر اس کی طرف بڑھی۔۔


بار بار چہرے پر آتے سٹریٹ بھورے بالوں کو اس نے کوفت سے پیچھے ہٹایا۔۔ ویر کو ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے اس نے بٹن ہاتھ میں تھاما۔۔


اس کے قریب ہوتی وہ مصروف سے انداز میں بٹن ٹانکنے لگی۔۔ ویر اسکے عارضوں پر سایہ فگن پلکوں کو دیوانگی سے تکنے لگا۔۔ پلکوں سے ہوتی اسکی نگاہ ہونٹوں کو حفظ کرتی اسکی پتلی گردن پر ابھری بیوٹی بون پر ٹک گئی۔۔


کب اس بندے پر ترس کھانے کا ارادہ ہے۔۔۔؟ وہ مسكین سی شکل بنا کر بولا تو انا کو ہنسی آ گئی۔۔


"بہت جلد" ایک ادا سے کہہ کر پیچھے ہٹتی وہ اسکا دل گھائل کر گئی۔۔


"اف !!!" اس نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تو انا نے بھنویں اچکائیں ۔۔


آپ کی یہی ادائیں بندہ نا چیز کو گھائل کرتی ہیں۔۔ اس کی طرف جھک کر وہ شرارت سے گویا ہوا۔۔


" ہٹیں بھی!!" دیر ہو رہی ہے۔۔


اچھا ،، تھینک یو!!


"یور ویلکم ہزبینڈ ڈیئریسٹ!!"

وہ مسکرائی تو اس کے گال میں ہلکا سا ڈمپل نمایاں ہوا۔۔


یو آر سو کیوٹ یار! دل کرتا ہے تمہیں کھا جاؤں۔۔ اس نے انا کے گال کھینچے۔۔


"چھی! گندے ایسی باتیں نہیں کرتے ۔۔"

اس نے شرارت بھری انکھوں سے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔


اہاں! میں کھا سکتا ہوں آپ کو ،، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اینڈ آئی ایم شیور کہ آپ بہت ٹیسٹی ہیں۔۔

اس نے ایک گہری نگاہ انا پر ڈالی۔۔


اس نے گڑبڑا کر ہینڈ بیگ پکڑا اور " چلیں بھی اب " کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ہاۓ!!

مردانہ آواز پر عین نے ذرا سا دروازه کھول کر اسے سر تا پیر دیکھا۔۔ دیکھو انکل آج کوئی سالن نہیں ہے ہمارے پاس،، کل آنا شاباش!! کہہ کر اس نے ٹھا کی آواز سے دروازه بند کر دیا۔۔


میر اپنی بے عزتی پر تلملا گیا۔۔ میں سالن مانگنے والا لگتا ہوں۔۔ لائک سیریئسلی؟؟


پیچھے ہٹو تم!! ویر نے ہنسی چھپا کر اسے پیچھے ہٹاتے دروازه دوبارہ ناک کیا۔۔


نہیں ہنس لیں آپ،، خیر ہے!! میر خفگی سے گویا ہوا۔۔


میں نے کہا نا ۔۔۔۔۔ عین دوبارہ دروازہ کھولے غصے سے کہتے کہتے رکی۔۔۔ شاہ ویر بھائی آپ ۔۔؟؟ آئیں نا اندر۔۔


خوش اخلاقی سے مسکرا کر اس نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔۔


ویر مسکرا کر سر کو خم دیتا اندر چلا گیا۔۔ اسکے پیچھے داخل ہوتے میر کو اس نے آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھا۔۔


ہنہ !! اس کی طرف دیکھ کر نظریں گھماتا وہ ویر کے پیچھے چلا گیا۔۔


السلام علیکم ! "آپی کیسی ہیں آپ" ماشاءالله یہ گولو مولو شا بے بی کتنا کیوٹ ہے۔۔

اس کا حال پوچھتے ہوئے ساتھ ہی وہ راحم کا گال چوم گئی۔۔


وعلیکم السلام ! میں بلکل ٹھیک۔ تم ٹھیک ہو نہ؟ حال احوال پوچھتی وہ دونوں اندر گیسٹ روم کی جانب بڑھ گئیں۔۔


آئمہ نے خفگی سے انا کو دیکھا۔۔ یہ لڑکی کچھ دیکھی دیکھی لگ رہی ہے۔۔


انا نے ویر کے پہلو میں براجمان جہان کی طرف بے چارگی سے دیکھا۔۔ نانووو!! ان کے قریب بیٹھتی وہ ان کا ہاتھ تھام گئی۔۔ کافی دیر گلے شکوے چلتے رہے۔۔


راحم انا کی گود سے اتر کر روم میں ادھر ادھر چکر لگانے لگا۔۔


"او ٹڈے!!!"


میر نے راحم کا بازو پکڑ کر اسے خیالی جہاز اڑانے سے روکا تو لوازمات سرو کر کے واپس جاتی عین نے سب سے نظر بچا کر میر کے ہاتھ پر تھپڑ مارا۔۔


تمہیں کیا تکلیف ہے اس سے "کدو"۔۔ پھرنے دو اسے۔۔


تم چپ کرو "چھپکلی" تم سے میں نے بات نہیں کی۔۔۔


عین کو تو پتنگے لگ گئے۔۔ تم کیا ہو بندر، الو، کریلے کے گندے چھلکے!! بولتے بولتے وہ ہانپ گئی۔۔


تم تم ۔۔!! میر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔


"عین بیٹھ جاؤ" جہان نے اسے تنبیہی نظروں سے دیکھ کر کہا تو وہ هنكارا بھرتی راحم کو میر کی گرفت سے کھینچتے الگ تھلگ رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔


میں سمجھ سکتا ہوں!! ویر نے شرارت سے جہان کا کاندھا تھپتھپایا۔۔ جہان نے معصومیت سے اسے دیکھا۔۔ تم کیسے ہو؟؟


"الحمدللہ! شادی شدہ ہوں"


دونوں کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔۔ خوشگوار گفتگو کے بعد کھانے کا دور چلا۔۔ رات دیر تک خوب محفل جمی رہی۔۔ جب وہ واپسی کے لئے کھڑے ہوئے تو عین راحم کو لئے انا کے پاس آئی جو اس سے کافی مانوس ہوگیا تھا۔۔


آپی میں اسے آج اپنے پاس رکھ لوں ۔۔؟ اس نے امید سے پوچھا۔۔


نہیں یار بہت تنگ کرے گا۔۔ اور اس کے بابا بھی اجازت نہیں دیں گے۔۔


عین نے مایوسی سے اسے دیکھا تو انا نے اسے ساتھ لگا کر تهپتهپایا۔۔ کوئی بات نہیں عین! میں پھر بھیج دوں گی راحم کو یہاں۔۔ اور تم بھی آتی رہنا ہان بھائی کے ساتھ۔۔


جی!!

اس سے مل کر وہ الگ کھڑی ہو گئی۔۔


ان سب کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آئی اور ادھر ادھر چکر لگانے لگی۔۔


کال پر مصروف ہان نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کے اس کی طرف دیکھا۔۔


وہ اپنے آپ سے الجھتی پنک نائٹ ڈریس نکال کر باتھ روم میں چلی گئی۔۔


جہان نے وقت دیکھا تو بارہ بج رہے تھے۔۔ شاور وہ پہلے ہی لے چکا تھا۔۔ اپنے تن سے شرٹ جدا کر کے اس نے بغیر دیکھے صوفے کی اوڑھ پھینکی جو بیڈ کی طرف بڑھتی عین کے منہ پر جا لگی۔۔


کیا بد تمیزی ہے یہ۔۔؟؟ وہ جنگلی بلیوں کی طرح اس سے لڑنے پر آماده ہوئی۔۔


گرے ٹراؤزر میں ملبوس ہان نے شولہ جوالا بنی اپنی بیوی کو دیکھا۔۔ آ۔۔ تم راستے میں نہ آتی،، میں نے تو وہاں پھینکی تھی۔۔ اس نے آنکھ سے اشارہ کیا۔۔


اچھ۔۔۔۔۔۔ وہ لڑنے کا ارادہ ترک کرتی بیڈ کے ایک طرف ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔۔ پنک نائٹ سوٹ میں کالے گھنگھریالے بالوں کو اونچے جوڑے میں باندھے وہ ناخن چباتے ہوئے سوچوں میں گم تھی۔۔


اس کے سامنے سے گزر کر سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس پکڑتے جہان نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اسے دیکھا۔۔


کوئی پرابلم ہے؟ پانی پی کر گلاس سائیڈ میں رکھتے وہ اس کے سامنے کھڑا استفسار کرنے لگا۔۔


عین نے خفگی سے اسے دیکھا۔۔ آپ جان بوجھ کر ایسے میرے سامنے آتے ہیں نہ تا کہ میں فلمی ہیروئن کی طرح شرما کر "دوپٹہ دانتوں میں دبا کم دانتوں سے کُتر" ہی جاؤں۔۔ لیکن میں نہ "مرحا" کے ناول کی ہیروئن ہوں۔۔ مجھے ہلکے میں نہیں لینا۔۔ اس نے دیدے نچا کر کہا۔۔


اسکی بے تکی بات پر جہان نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔ اچھا بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔؟؟ پریشان ہو؟


نہیں پریشان تو نہیں ہوں۔۔ میں بس ایک بات سوچ رہی تھی۔۔ آپ کو پتہ میں نے آپی سے راحم کو ادھر چھوڑ کر جانے کو کہا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتی تھیں نا۔۔ میرا بہت دل کررہا تھا اس کے ساتھ کھیلنے کو۔۔اتنااااا زیادہ کیوٹ ہے وہ!!


تصور میں وہ ہونٹوں کو گول کر کے راحم کے گال پکڑتی حقیقتاً جہان کے گال کھینچ گئی۔۔


جہان نے اس کے چھوٹے گلابی ہونٹوں کو دیکھا اور پھر۔۔۔۔۔ وہ اس کو اپنے سینے سے لگاتے ایک ہاتھ اسکے سر کے نیچے رکھتے جب کہ دوسرے ہاتھ سے اسکی کمر کو پکڑتے وہ پوری شدت سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا اسکی جان ہلکان کر گیا۔۔


عین کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔۔ وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے دور ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ جہان اسے گرفت میں لئے بیڈ پر گر گیا۔۔ اپنے اوپر اس کا بوجھ برداشت نہ کرتے عین کا سانس بند ہونے لگا۔۔ وہ اس کی پیٹھ پر مکے مارنے لگی۔۔ بالاخر اپنے جذبات پر لگام ڈالتے وہ اس کے اوپر سے اٹھا۔۔ عین نے اپنے بے انتہا سرخ ہوئے ہونٹوں کو کھول کر گہرے سانس لینے لگی۔۔

سانس درست ہونے پر وہ اٹھ بیٹھی اور جہان کے برہنہ سینے پر مکے مارنے لگی۔۔بہت بہت۔ ۔۔۔ وہ ہیں آپ۔۔

جہان نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔۔ عین خاموشی سے اسکے سینے سے لگی بیٹھی رہی۔۔ آخر اس کی تان پھر وہیں پر ٹوٹی۔۔

ہان؟؟ سر اونچا کیے وه اسے پکار گئی۔۔

"جی جانِ ہان!!"

اس کے طرزِ تخاطب پر وہ اسے دیکھتی مسکرا دی۔۔۔

مجھے بےبی چاہیے۔۔ اس نے نیا شوشہ چھوڑدیا ۔۔

ابھی نہیں!! پہلے تمہاری پڑھائی مکمل ہو جائے۔۔ جہان نے اس کا گال چوم کر کہا۔۔

نہیں نا،، مجھے چاہیے اپنا بے بی۔۔۔ وہ بضد ہوئی۔۔

ابھی بہت چھوٹی ہو تم!! وہ اسکی گردن میں گہرا سانس بھر کر گویا ہوا۔۔

عین کسمسا کر اس کے حصار سے نکلی۔۔ کہاں سے چھوٹی ہوں میں؟؟ اسکے چہرے پر خفگی ہی خفگی تھی۔۔

جہان نے دوپٹے سے بےنیاز اس کے پر شباب وجود کو دیکھا جہاں چڑھتی جوانی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔۔ اس نے بہت مشکل سے اپنے آپ کو بہکنے سے روکا۔۔

سوچ لو میری قربت برداشت کر لو گی۔۔؟ ابھی ذرا سا چھونے سے تمہاری کیا حالت ہو گئی تھی۔۔۔اس نے کچھ دیر پہلے اسکے اکھڑتے سانس کی طرف اشارہ کیا۔۔

اسکے بے باک لہجے پر عین خود میں سمٹ گئی لیکن وہ اس کی آنکھوں میں ثبت تحریر پڑھ چکا تھا۔۔

بس کچھ دن!! پھر ہم اپنے رشتے کو آگے بڑھائیں گے۔۔ دلکشی سے کہتے وہ لائٹ بند کرتا اسکے برابر لیٹتا اسے تکنے لگا۔۔

اا۔۔ اے۔۔ ایسے ۔۔کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟

تمہیں نہیں پتا میں ایسے کیوں دیکھ رہا ہوں۔۔؟؟ جواباً وہ سوال کر گیا۔۔

نہیں !!

وہ سرے سے انکاری ہوئی۔۔

اب تم اتنی بھی بچی نہیں ہو،، یہ آج تمہیں قریب سے محسوس کرنے پر اندازه ہوا ہے۔۔

اسکی بےباکی پر وہ سمٹ کر رخ دوسری جانب موڑ گئی۔۔ جہان نے اس کے گرد بازو حائل کرتے آنکھیں موند لیں۔۔

ٹک ٹک ٹک ٹک!!

ویرانے میں ہیل کی ٹک ٹک کی آواز نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔۔ پنڈلی تک آتے سیاہ ڈھیلے کرتے کے ساتھ سیاہ جینز اور سرخ پینسل ہیل میں وہ تیز قدم اٹھاتی ایک سنسان عمارت میں داخل ہو گئی۔۔


آنکھوں پر گلاسز ٹکاتے اس نے ہاتھ سے چہرے پر موجود نقاب کو مزید درست کیا۔۔ اس کے مطلوبہ جگہ پہنچتے ہی اندر موجود وجود میں حرکت ہوئی۔۔


"کل تک کام ہو جانا چاہئے۔۔ اور یاد رہے کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ اسے اتنا ذلیل کرنا کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نا رہے۔۔"

تنفر بھری نسوانی آواز ابھری۔۔


یہ لو! اس نے پھولا ہوا لفافہ بڑھایا تو پہلے سے موجود وجود نے لفافہ پکڑ لیا۔۔


"ہو جائے گا کام۔۔!!"


اسکی یقین دہانی پر نسوانی وجود ہیل سے ٹک ٹک کی آواز پیدا کرتا واپسی کے راستے چلا گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


تیل کی بوتل پکڑے وہ لاؤنج میں آئی اور دهپ سے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔ چلو بھئی آجاؤ میر!! اس نے لان کی طرف جاتے میر کو بلایا جو اسکے ہاتھ میں تیل کی بوتل دیکھتا منہ بنا گیا۔۔۔


چلو شاباش آؤ۔۔ بال بہت روکھے ہو گئے ہیں سب کے۔۔ اس نے "سب کے" پر زور دیتے ترچھی نظروں سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف عدیل شاہ اور ویر کو دیکھ کر کہا۔۔


میر اسکے سامنے نیچے قالین پر بیٹھ گیا۔۔ انا نے ہاتھ میں تھوڑا سا تیل ڈالا ہی تھا کہ اسکے بالوں کی مانگ نکالتے اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔


میر تمہارے سر میں جوئیں ہیں؟؟

اسکی حیرت بھری آواز پر وہ شرمندگی سے سر جھکا گیا۔۔


کتنے لاپرواہ ہو تم ۔۔۔ اور یہ اتنے لمبے بال کس خوشی میں رکھے ہیں۔۔۔ غضب خدا کا!! اتنے لمبے بالوں کی آسانی سے چوٹی بن جائے گی۔۔ پتہ نہیں کیا اول جلول فیشن کرتے رهتے ہو۔۔ چلو اٹھو بال کٹوا کر آؤ۔۔


"اٹھو سنائی نہیں دے رہا تمہیں!!"

اسکی غصیلی آواز پر وہ چار و نا چار اٹھ کھڑا ہوا۔۔


اسکی اچھی خاصی طبیعت ستھری ہونے پر ویر اور عدیل شاہ نے ہنسی دبائی۔۔


آپ دونوں کیا دانت نکال رہے ہیں۔۔ چلیں آئیں آپ بھی۔۔

وہ مصنوعی گھوری ڈال کر بولی۔۔


آ۔۔ مجھے تو کام ہے کچھ میں بعد میں لگوا لوں گا،، بابا آپ لگوا لیں ابھی۔۔ عدیل شاہ کو پهسا کر وہ نکل گیا۔۔


وہ کیا کرتے، چپ چاپ انا کی طرف دیکھنے لگے۔۔


انکی معصومیت پر انا کو ہنسی آئی۔۔ وہ انکے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور انکے بالوں میں تیل لگانے لگی۔۔ جب تک وہ سر میں مالش کر کے فارغ ہوئی عدیل شاہ غنودگی میں جا چکے تھے۔۔


اتنی دیر میں میر بھی آ چکا تھا۔۔ چھوٹے کٹے بالوں میں اب وہ قدرے بہتر لگ رہا تھا۔۔ انا نے اسے بٹھا کر پہلے اسکا سر دیکھنا شروع کیا۔۔


میر نے سر کھجایا تو اس نے میر کے ہاتھ پر تھپڑ مارا۔۔

"دیکھ رہی ہوں نہ میں،، اب تمہارا ہاتھ بالوں تک نا آئے۔۔"


میر نے رونی صورت بنا کر خود کو اسکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔ تقریباً دو گھنٹوں میں وہ اسکا سر صاف کر چکی تھی۔۔ اسکے بعد اس نے میر کے بالوں میں تیل لگا کر خوب مالش کی۔۔


"آپ بہت اچھی مالش کرتی ہیں ماما کی طرح" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ مسکرا کر گویا ہوا۔۔


تم بھی بیٹے ہی ہو میرے!! اسکا ماتھا چوم کر وه اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


تھینک یو!! ہماری زندگی میں آنے کے لئے۔۔

وہ اس سے لپٹ گیا۔۔


انا نے مسکرا کر اسکی پیٹھ سہلائی۔۔ پلکوں کی جھری سے یہ منظر دیکھتے عدیل شاہ کے رگ و جاں میں سکون سرائیت کر گیا۔۔


بالاخر اب ان کا مکان "گھر" لگنے لگا تھا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


جی آنٹی کیسی ہیں آپ ؟؟ جی ہم سب ٹھیک ہیں۔۔ اللّه کا شکر ہے۔۔ خیریت تھی آپ نے آج اتنے دن بعد فون کیا۔۔ اچھا اچھا انا سے ملنے آنا چاہ رہی ہیں۔۔


اپنے نام پر کمرے کی چیزیں سمیٹتی انا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو نظروں میں اشارہ کرتا فون پر بات کرنے لگا۔۔


ٹھیک ہے ضرور آئیں آپکا اپنا گھر ہے۔ جی جی بابا کو انفارم کر دوں گا میں۔۔ اوکے سب کو سلام دیجیے گا۔۔ اللّه حافظ!!!


کال بند کر کے وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے بیڈ کے کنارے ٹک گیا۔۔


"وہ آنٹی یاسمین تھیں،، بابا کی منہ بولی بہن ہیں۔۔ پہلے ہمارے گھر کے آس پاس ہی رہتے تھے تو وہ اکثر آ کر گھر کے کام کر جاتی تھیں۔۔ بہت نائس ہیں۔۔ وہ آنا چاہ رہی ہیں تم سے ملنے۔۔"

وہ دھیمے لہجے میں انکی آمد کا مقصد بتانے لگا۔۔


اچھا صحیح!! تو کل کے لئے کیا بندوبست کروں پھر۔۔؟؟ وہ سوالیہ ہوئی۔


" آپ کو جو بہتر لگے۔۔"


وہ گویا ہوا تو انا کی نگاہ سائیڈ ٹیبل پر دھرے تیل پر گئی جو وہ رکھ کر بھول چکی تھی۔۔


اہاں!! یہ تو میں بھول ہی گئی۔۔ اب تو آپ بلکل فری ہیں۔۔


اسکی نگاہوں نے تعاقب میں دیکھتے ویر نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔ "ہم تو آپ کے رحم و کرم پر ہیں،، جو چاہیں کیجیے۔۔"


اس کے خالص عاشقانہ انداز پر وه مسکائی۔۔


وه تیل تھامے اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی جو بیڈ پر بیٹھا سر اونچا کیے اسے تکنے میں مصروف تھا۔۔


انا نے اس کے سر پر تیل لگاتے ہوئے شرارت سے اسکی داڑھی پر بھی مل دیا۔۔


وہ اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرتا اسکے پیٹ کے ساتھ سر ٹکا گیا۔۔ اسکے اس انداز پر انا کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔۔


وہ اسکی کمر تھامے قمیض کے اوپر ہی اپنے لب رکھ گیا۔۔ وه بے اختیار اسے تھامتی گہرے سانس لینے لگی۔۔


و۔۔ ویر ۔۔۔!!

آنکھیں بند کیے گہرے سانس لیتی ہلکی آواز میں وہ اسے پکار گئی۔۔


"جی ویر کی جان ، ویر کے دل کی دھڑکن!!" وہ اسے کمر سے تھامے ہی اپنی اوڑھ کھینچ کر بیٹھے بیٹھے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ اس کے پیر زمین کو چھو رہے تھے۔۔


آ۔۔ کیا کر رہے ہیں یہ،، آئل لگا ہے میرے ہاتھ پر۔۔ وہ جھنجهلائی۔۔


وہ اسے بیڈ پر لٹا کر خود اس پر سایہ فگن ہو گیا۔۔ انا نے تیزی سے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے کجا کہ وہ بیڈ کی چادر کو خراب کر دیتے۔۔


ہاتھ سر سے اوپر اٹھانے سے اسکے جسم کے نشیب و فراز اور بھی نماياں ہو گئے۔۔ اس کو گہری نظروں سے دیکھتے ویر کی آنکھوں میں سرخ لكیر ابھری۔۔


آپ کی کمر کا سائز کیا ہے۔۔؟؟


وہ اس پر مزید جھکتے بھاری آواز میں گویا ہوا۔۔


"ت۔۔ تئیس!!" اپنے چہرے پر پڑتی اسکی گرم سانسوں سے ہلکان وہ حلق تر کرتے ہوئے بولی۔۔


اتنی پتلی کمر!! "واللہ آپ کی یہ پتلی کمر مجھے پاگل کرتی ہے۔۔"


وہ آنچ دیتے لہجے میں بولتے اسکی کمر پر ہاتھ پھیر گیا۔۔


و ویر ۔۔۔!! اسکی بے باک حرکتوں پر وہ رو دینے کو ہوئی۔۔


اپنے بے لگام ہوئے جذبات کو لگام ڈالتے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے اوپر سے ہٹ گیا۔۔


وه سرخ چہرہ لیے آہستہ سے اٹھتی ہاتھ دھونے چلی گئی۔۔


"آخر کب تک؟؟ آخر کب تک آپ مجھ سے بھاگیں گی۔۔ آنا تو آپ کو میری طرف ہی ہے"۔۔


دلکشی سے مسکراتے وه بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔۔ اسکی داڑھی میں نماياں ہوتا ڈمپل ذرا کی ذرا جهلک دکھلاتا شرما کر چھپ گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


اس نے ایک دفعہ پھر سے پڑھنے کی کوشش کی لیکن بے کار!!! وه کب سے پڑھنے کی کوشش کررہی تھی لیکن سب کچھ سر کے اوپر سے گزر رہا تھا۔۔


کل اسکا انگلش کا پیپر تھا۔۔ سب کچھ یاد کرنے کے باوجود اب ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کبھی پڑھا ہی نہیں۔۔ ٹینشن سے وہ رو دینے کو ہوئی۔۔


وه سویرے سویرے ہی پیپر کی تیاری کے لیے جاگ گئی تھی۔۔ کتاب میز پر پٹخ کر اس نے باورچی خانے کا رخ کیا۔۔


گلاس میں پانی انڈیل کر وه کھڑے کھڑے ہی پینے لگی۔۔ جہان جوگنگ سے واپس آیا تو کچن میں اسے کھڑا دیکھ کر یہیں آ گیا۔۔


واہ آج تو لوگ صبح صبح ہی جاگ گئے ہیں۔۔ اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑتا وہ اسکا جوٹھا پانی پینے لگا۔۔


مجھے تنگ نہ کریں آپ میں پہلے ہی پریشان ہوں۔۔ اسکی آنکھوں کے گوشے بهیگ گئے۔۔


ارے۔۔ کیا ہوا ہے؟؟ وه سنجیدہ ہوگیا۔۔


کل پیپر ہے میرا اور مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہو رہا،، ایسے لگ رہا ہے سب کچھ بھول گیا ہے۔۔ اس نے شوں شوں کرتے ہوئے کہا۔۔


اس میں رونے والی کیا بات ہے۔۔ آآ ایسا کرتے ہیں میں تمہیں پریپریشن کروا دیتا ہوں۔۔ آج ویسے بھی فری ہوں میں ۔۔ کیا خیال ہے۔۔؟؟


اس نے عین کے الجھے بال سنوارتے ہوئے کہا تو وہ امید سے اسے دیکھنے لگی۔۔ ٹھیک ہے۔۔!! میں ناشتہ بنا لوں پھر شروع کرتے ہیں۔۔


ایک گھنٹے بعد وہ اس کے سامنے کتاب رکھے بیٹھی تھی۔۔ اس نے الجھے بالوں کو ایک بار پھر سے گول مول کرتے جوڑے میں قید کر لیا۔۔


چلو ایسا کرو یہ "پندره مضمون" ہیں یہ یاد کرو پہلے،، تمہارے پاس آدھا گھنٹا ہے۔۔ اسے حکم دیتے وہ سکون سے پیچھے رکھے تکیے سے کمر ٹکا گیا۔۔


اسکی بات پر عین کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔ آدھے گھنٹے میں پندرہ مضمون؟؟


ہاں بلکل!! تم انہیں رٹے نہ لگاؤ بلکے انکے ٹاپک کو دیکھ کر ڈیٹیل ایک نظر دیکھ لو۔۔ کرنی تو سیلف رائٹنگ ہی ہے۔۔ اس نے ٹِپ دی۔۔


اوکے!! سر ہلا کر وه صوفے پر بیٹھ گئی اور وقت کو مد نظر رکھتی تمام مضامین کو ایک ایک نظر دیکھنے لگی۔۔


وقت مکمل ہوتے ہی ہان نے اس سے دو تین ٹاپک لکھوائے جو اس نے بلکل صحیح لکھے۔۔


ویری گڈ!! اب یہ سب چیپٹرز کے صرف آنسر کویسچنز یاد کرو۔۔۔ ایک گھنٹہ کافی ہے۔۔ چلو!!


اسی طرح وہ سارا دن اسکے بتائے طریقے کے مطابق پیپر کی تیاری کرتی رہی۔۔ رات کو وہ جلدی سو گئی تا کہ صبح جلدی اٹھ کر سب کچھ دوبارہ ایک نظر دیکھ لے۔۔


جہان سب کاموں سے فارغ ہوتا فریش ہو کر آیا اور نیند میں ڈوبی ہوئی عین کے برابر لیٹ کر اپنا رخ اسکی طرف کر گیا۔۔


اسکے معصوم نقوش کو نظروں سے حفظ کرتے اسکی نگاہ ہونٹ پر ٹکی بالوں کی ایک لٹ پر ٹھہر گئی۔۔ اسے ناجانے کیوں جیلسی محسوس ہوئی۔۔


انگلی کی پور سے اس نے نہایت آہستگی سے لٹ کو ہونٹ کے اوپر سے ہٹا دیا۔۔ وارفتگی سے اسکے لبوں کو تکتے وه جھکتا اپنے لبوں سے ہلکا سا چوم گیا۔۔ باری باری وہ اسکے باقی نقوش کو چومنے لگا۔۔


وہ نیند میں کسمساتی اس کے سینے میں سر چھپا گئی۔۔ اسکی نیند خراب ہونے کے خیال سے وہ اپنے آپ کو مزید گستاخیاں کرنے سے بعض رکھ گیا۔۔ اس کے بازو کو پکڑ کر اپنے گرد حائل کرتے وہ اسے مکمل اپنے حصار میں لیتے آنکھیں موند گیا۔۔


🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿


ہان پیچھے ہٹیں!! اللّه اتنا وقت ہو گیا۔۔ دیر سے آنکھ کھلنے پر وہ رو دینے کو ہوئی۔۔


جہان نے كسمسا کر آنکھیں ہلکی سی وا کیں۔ اس کو اپنے حصار سے آزاد کرتا وہ سیدھا لیٹ گیا۔۔


وہ جلدی سے واش روم میں گھس گئی۔۔ لائٹ شیڈ كیپری شرٹ زیب تن کیے وہ عجلت میں باہر نکلی اور کتاب پکڑتی جلدی جلدی چکر لگاتی پڑھنے لگی۔۔


دو گھنٹوں بعد اسے کمرہ امتحان میں پہنچنا تھا۔۔


ہان اٹھ کر فریش ہوتا کچن میں چلا گیا۔۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے میں انڈا اور بریڈ کے دو سلائس تھے۔۔


وہ بیڈ پر اس کے مقابل بیٹھ گیا۔۔ بریڈ کا ٹکڑا توڑ کر اس نے اعین کے سامنے کیا جو کتاب میں بری طرح غرق اسکی موجودگی سے بھی لا علم تھی۔۔

عین یہ کھا لو یار اتنی ٹینشن نہ لو بہت اچھا ہو گا پیپر۔۔ وه فکر مندی سے اسکی طرف دیکھ کر بولا۔۔

وه اسکا بڑھایا ہوا نوالہ منہ میں ڈالتی ساتھ ساتھ پڑھنے لگی۔۔

خالی برتن سائیڈ پر رکھتے وه ڈریسنگ سے برش اٹھا لایا اور اسکے جوڑے کو کھول دیا۔۔

عین نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اوں ہوں!! رہنے دیں۔۔ وہ عجلت میں بولی۔۔

میں کر رہا ہوں نہ!! کھڑے ہوئے ذرا سا جھکتے وہ اسکے گال پر بوسہ دے گیا۔۔

عین کے ماتھے کی شکنیں ختم ہو گئیں۔۔ گہرا سانس لے کر اس نے کتاب سائیڈ پر رکھ دی۔۔ اب میں اسکو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گی،، اف شدید سر درد ہورہا ہے۔۔ وہ نان سٹاپ بولنے لگی۔۔

ہلو نہیں سیدھی بیٹھو!! عین کے بار بار ہلنے سے بال اسکے ہاتھوں سے پهسل جاتے جس پر وہ جھنجهلا گیا۔۔

لمبے الجھے بالوں کو اچھی طرح سلجھا کر اس نے جیسے تیسے کر کے ڈھیلی پونی میں باندھ دیا۔۔ جو اسکی ساری کمر کو ڈهانپ گئی۔۔

ہان!! وہ کھڑی ہوتی اس کے گرد بازو حائل کرتی سینے پر سر ٹکا گئی۔۔

جی جان!! اس کے لاڈ سے بولنے پر وہ جی جان سے قربان ہوا۔۔

مجھے تھوڑا سا ڈر لگ رہا ہے۔۔ پیپر اچھا ہو گا نہ؟؟ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔

ہمم بہت اچھا ہوگا۔۔ وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا اس کا سر چوم گیا۔۔

وہ سادگی سے مسکرا دی۔۔ چلیں میں شوز پہن لوں تب تک آپ بائیک سٹارٹ کریں۔۔ اس نے گلے میں سٹالرڈال کر کہا۔۔

تم ایسے جاؤ گی ؟؟

کیوں کیا ہوا؟ وہ اپنی طرف دیکھ کر گویا ہوئی۔۔

"نہیں مجھے کوئی مسلہ نہیں لیکن اگر کسی نے تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں اسے جان سے مار دوں گا۔۔"

اس کے پر شدت لہجے پر اسکے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔۔ اس نے الماری سے شال نکالی اور اچھی طرح اوڑھتی اسکے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔

نانو دعا کیجیے گا میرے لیے۔۔۔ وہ آئمہ سے ملتی عجلت میں باہر نکل گئی۔۔ آئمہ ارے ارے ہی کرتی رہ گئیں۔۔

وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے ان دونوں کے بارے میں سوچنے لگیں۔۔ ماشاءالله ایسا لگتا ہے ان دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔۔ اللّه میرے بچوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔ وہ آسودگی سے مسکرا دیں۔۔

اے مایوس روح۔۔۔۔۔!!مہربانی کر کے مسکرائیں


(Oh sad soul..!! Please smile)


مسكرائیں۔۔۔!! کیوں کہ اللّه آپ کو دیکھ رہا ہے


(Smile..! Because Allah is watching you)


مسکرائیں۔۔!! کیوں کہ اللّه آپ کے ساتھ ہے


(Smile..!! Because Allah is with you)


مسکرائیں۔۔!!کیوں کہ اللّه ہمیشہ آپ کی حفاظت کرنے والا ہے


(Smile..!! Because Allah is always protecting you)


مسکرائیں۔۔!! کیوں کہ اللّه ہمیشہ آپ کو سنتا ہے


(Smile..!! because Allah is always listening to you)


مسکرائیں۔۔!! کیوں کہ اللّه آپ سے محبّت کرتا ہے


(Smile..!! Because Allah loves you)


مسکرائیں۔۔!! کیوں کہ یہ نیک اعمال میں شمار ہوتا ہے


(Smile..!! Because it is among good deeds)


مسکرائیں۔۔!! کیوں کہ یہ (مسكرانا) سنت ہے


(Smile..!! Because its Sunnah)

........................................................................♥️


دھیمی دل کو چھوتی آواز کے جادو نے ہر شخص کو اپنے طلسم میں جکڑ رکھا تھا۔۔ سکرین کے اس پار موجود لوگ اس کے خاموش ہونے پر بے چین ہوئے۔۔ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ یہ دھیمی پرسکون آواز میٹھے الفاظ کی حلاوت سے ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتی رہے۔۔


لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی وہ سكرین کے اس پار موجود سینکڑوں لوگوں کی نگاہوں کا مرکز تھی۔۔ اس نے نقاب درست کرتے ہوئے ہونٹوں کو جنبش دی۔۔


"السلام علیکم !!"


سلام کے جواب میں کئی لوگوں کی ملی جلی آوازیں ابھریں۔۔


"نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ" یہ کیسے فروغ پاتے ہیں۔۔؟


اس کی دهیمی آواز گونجی۔۔ سب دم سادھے اسے سننے لگے۔۔


یہ تو ہم سب کو پتہ ہے کہ عقل اور انسانی ضمیر جسمانی خواہشات کے تابع ہوتا ہے۔۔ ایسے مرحلے میں "نفسِ اماره" گناہ کی طرف مائل کرتے ہوئے ہر عقلی اور اخلاقی حد کو پهلانگ جاتا ہے۔۔


انسان سوچتا ہے کہ یہ میرا نفس ہے جو مجھے برائی پر اکساتا ہے۔۔ یہاں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ "نفسِ اماره" ہے جو انسان کو ہر ناجائز خواہش کی تكمیل پر اکساتا ہے۔۔


اب "نفسِ مطمئنہ" اسکے برعکس ہے،،، وہ چند سیکنڈ کے لئے رکی۔۔


ہم دونوں کی مثال ایسے لے سکتے ہیں جیسے ایک پنجرے میں "سیاہ کتا" جب کہ دوسرے پنجرے میں "سفید کتا" ہے۔۔


اگر آپ سیاہ کتے کو روز غذا دیں،، وہ جو بھی طلب کرے اسے اسکی خواہش سے بھی پہلے عطا کر دیں جب کہ سفید کتے کو آپ مہینوں کے لئے بھوکا رکھیں تو کون پھلے پھولے گا؟؟ کون زیادہ طاقتور ہوگا؟؟


صحیح،، سیاہ کتا!!

اور یہ "سیاہ کتا" ،، "نفسِ اماره" ہے۔۔


اس کتے کی غذا کیا ہے۔۔؟؟

وہ سامعین سے دريافت کرنے لگی۔۔


جواباً گہری خاموشی چھا گئی۔۔ وہاں ہر کوئی اپنے ضمیر کی عدالت میں شرمنده بیٹھا تھا۔۔


اسکی غذا ہے "گانے" ،،"جھوٹ" ،، "حرام کاری" ،، "والدین کی عزت میں کمی کرنا" ،، "دھوکہ دینا" ،، "اساتذہ کی عزت نہ کرنا" ،، "پورن کی لت لگنا" ڈرگز،، گانے کی محافل جو آج اگر ہماری تقریبات پر نہ سجائی جائیں تو ہمیں "پینڈو" اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے۔۔ خصوصاً "پورن گرافی" نے نوجوان نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔۔


اب ۔۔۔ اگر ہم اس "سیاہ کتے" یعنی "نفسِ اماره" کو بھوکا رکھیں اور "سفید کتے" کو کھانا دیں تو وہ طاقتور ہوگا،، مضبوط ہوگا۔۔


اور اس سفید کتے کی غذا کیا ہے۔۔؟؟ "نفسِ مطمئنہ" کی غذا کیا ہے؟؟


نماز ، قرآن، تہجد، خیرات، صدقات، اللّه کا ذکر، اللّه کی بات ماننا۔۔ اگر آپ اسے مضبوط نہیں کریں گے تو وہ سیاہ کتا نشونما پاتا آپ کو اپنا غلام بنا لے گا۔۔ وہ جو چاہے گا آپ کرتے چلے جائیں گے۔۔ اسلئے "نفسِ مطمئنہ" کو اسکی غذا فراہم کریں۔۔


اب کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ برائی میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ گناہوں میں لتھرے ہوئے ہیں۔ اب ان کے لئے واپسی کی کوئی راہ نہیں۔ وہ اللّه سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ استغفار!!!


یہ مایوسی شیطان آپ کے دل میں ڈالتا ہے۔۔ آپ اللّه کی طرف ایک قدم بڑھا کر تو دیکھیں،، وہ آپ کو تھام لے گا ۔۔ آپ کے تمام گناہوں کے باوجود آپکو دھتکار نہیں ملے گی۔۔ بے شک اللّه آپ سے بہت محبت کرتا ہے۔۔


سننے والی ہر آنکھ اشک بار تھی،،، لوگوں کی دبی دبی سسكياں خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں۔۔


اب ایک اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں۔۔ "پورن گرافی!!" خصوصاً "نوجوان نسل" اس بری عادت میں مبتلا ہے۔۔ جو کوئی بھی اس میں مبتلا ہوتا ہے وہ پھر اس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔۔


استغفار!! اس کے آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی اتنے نقصان ہیں کہ اگر آپ سنجیدگی سے غور کریں تو آپ اس عادت سے چھٹکارا پانے کی کم از کم کوشش ضرور کریں۔۔


اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہو پاتے۔۔ ان کو چاہیے کے اللّه سے ہدایت طلب کریں۔۔ بے شک ہدایت اسکو ہی ملتی ہے جسکا دل بدل جائے۔۔ اللّه اسے نہیں بدلا کرتا۔۔


آپ نماز کو باقاعدگی سے پڑھیں اور تنہا لمحات گزارنے سے گریز کریں۔ اسکے علاوہ آپ کثرت سے اللّه کا ذکر کریں۔۔ یقین کریں وہ آپ کو اس سب سے نکال دے گا۔۔


یہاں آج کا لیکچر ختم ہوتا ہے۔۔ اللّه مجھے اور آپ سب کو ہدایت دے اور اس ہدایت پر قائم رکھے۔۔ اگلے لیکچر میں حاضر ہوں گے۔۔ خدا حافظ!!


باریک نرم آواز میں وہ انہیں خدا حافظ کہتی لیپ ٹاپ کی سكرین نیچے کر گئی۔۔


زمین پر بچھے قالین پر بیٹھی دو گھنٹے تک لیکچر دینے کے بعد اس کی کمر اکڑ گئی تھی۔۔


اس نے آہستہ سے نقاب اتار کر دوپٹہ ڈھیلا کر کے لے لیا۔۔


سیدھی ہوتی اسکی نظر قدرے کونے میں زمین پر دو زانو بیٹھے شاہ ویر اور راحم پر گئی جو ناجانے کب سے وہاں بیٹھے تھے۔۔ اسے خوشگوار حیرت نے آن گھیرا۔۔


کیسے کر لیتی ہیں آپ یہ سب۔۔؟؟ ویر کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی۔۔


انا نے نرمی سے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔


"اپنے ہر انداز سے آپ سامنے والے کو اپنا گرویده بنا لیتی ہیں۔۔"


راحم جو تب سے خاموش بیٹھا تھا،، نا سمجھی سے انہیں دیکھتا انا کی طرف بڑھا۔۔ سفید کاٹن کی شلوار قمیض میں سر پر سفید ہی ٹوپی ڈالے وہ لپک کر اسکی گود میں بیٹھ گیا۔۔


وہ بے اختیار ہوتی اسکا سر چوم گئی۔۔ "میرا بچہ!!"


ماما ۔۔؟؟ اللّه جی ہم سے پار کرتے ہیں نہ۔۔؟؟


اسے پورے لیکچر میں بس یہی بات سمجھ میں آئی۔۔


"ہاں بہت بہت بہت زیادہ۔۔" وہ نرمی سے اس کے ماتھے پر بکھرے بال سنوار کر گویا ہوئی۔۔


کتنا زیادہ۔۔۔؟؟ اتنا ۔۔؟ وہ اپنے ہاتھوں کو پورا کھولتا معصومیت سے پوچھنے لگا۔۔


اس سے بھی زیادہ میری جان!! وہ اسکا گال زور سے چومتی اسے اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔۔


اسکی دیکھا دیکھی ویر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔ وہ اس کے پاس گئی اور راحم کو اسکے حوالے کرتی نظر بچا کر اس کے گال پر بوسہ دے گئی۔۔


"کسی کو بہت شکایت تھی مجھ سے کہ میں بہت ظلم کرتی ہوں اس پہ۔۔"


اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ کہتی کمرے سے جا چکی تھی۔۔


ویر اپنے گال پر ہاتھ رکھے ساکن کھڑا تھا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا اس پر جو ابھی سر زد ہوا تھا۔۔


اچانک اس کے ہونٹ مسكراہٹ میں ڈھلے۔۔ اسکا مطلب وہ۔۔۔۔؟؟


سرشاری سے سوچتا وہ راحم کو لئے اس کے پیچھے کمرے سے نکل گیا۔۔


"""♥"""️♥"""️♥️"""


السلام علیکم ! وہ مسکرا کر سلام کرتی ان کے سامنے سر جھکا گئی۔۔


وعلیکم السلام !! یاسمین اسے ٹٹولتی نظروں سے دیکھ کر سامنے بیٹھے عدیل شاہ سے مخاطب ہوئیں۔۔


"ماشاءالله سے اب گھر سنبهالنے والی عورت بھی آ گئی ہے" پانی تو نہیں پوچھو گے۔۔؟؟


انا کا دل شرمندگی سے ڈوب مرنے کو چاہا۔ وہ تیزی سے کچن میں چلی گئی۔۔۔


عدیل شاہ نے الجھن سے ان کی طرف دیکھا۔۔ ان کا یہ انداز بلکل نیا تھا۔۔


یاسمین نے بغیر ظاہر کیے موبائل کا کیمرہ کھولا اور اس طرح اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا کہ سامنے کا سارا منظر صاف نظر آنے لگا۔۔


عدیل برا نہ ماننا لیکن تمہیں یہی لڑکی ملی تھی اپنی بہو بنانے کے لئے،، وہ حقارت بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔۔


جوس اور دیگر لوازمات ان کے سامنے رکھتی انا کے ہاتھ کانپ گیے۔ توہین سے اسکا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔


انکی آواز سن کر ویر بھی لاؤنج میں آ گیا۔۔ اس کے ماتھے پر پڑے بل اسکے غصے میں ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔۔


کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟؟ آپ پہلی بار اس سے مل رہی ہیں پھر کیسے ایسا کہہ سکتی ہیں؟


وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولے۔۔


دیکھو عدیل میں تمہارا بھلا ہی سوچ رہی ہوں۔۔ تم اس سے رشتہ طے کرنے سے پہلے ایک دفعہ مجھے تو بتا دیتے۔۔ ایسی چالو لڑکی ہے یہ تمہارے بیٹے کو بھی پھانس لیا جیسے اس سے پہلے جانے کتنوں کو۔۔۔۔۔۔


"بسس !! ایک لفظ اور نہیں،، میں برداشت نہیں کروں گا۔۔" ویر درشتگی سے انگلی اٹھا کر بولا۔۔


اپنی کردار کشی پر وہ منہ پر ہاتھ رکھتی رونے لگی۔۔


ارے تم کیا مجھے چپ کرواؤ گے سچ سنا نہیں جا رہا تم سے۔۔ خوب جانتی ہوں میں ایسی لڑکیوں کو۔۔ ایسی بے غیرت اور بے حیا لڑکی ہے یہ میں تمھیں ثبوت بھی دکھا سکتی۔۔۔۔۔


"بسس !! چپ،، ورنہ میں آپ کے بڑے ہونے کا لحاظ بھی بھول جاؤں گا۔۔" وہ انکی طرف بڑھتا داڑھا۔۔


عدیل شاہ نے فوراً لپک کر اسے پیچھے ہٹایا۔۔


"میری بیوی کے بارے میں بکواس کررہی ہیں آپ،، جو نامحرموں سے پردہ کرتی ہے جو راہ چلتے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی میری باحیا بیوی کو بے حیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔"


وہ انکے منہ پر داڑھا۔۔ طیش سے اس اسکی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچے وہ غضبناک نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔


یاسمین اپنی اتنی توہین اور ویر کے تیور دیکھ کر اندر ہی اندر ڈر گئیں۔۔


"نکل جائیں یہاں سے اس سے پہلے کہ میں کچھ کر ڈالوں۔۔"


اس کے وارننگ دینے والے انداز پر وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کا کیمرہ بند کرتیں پرس ہاتھ میں پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئیں،،، انہوں نے یہاں سے جانے میں ہی عافيت سمجھی۔۔


"ستیاناس ہو منحوس ماری کا!! نا ہی کام ہوا اور رہی سہی عزت بھی گئی۔۔" انہوں نے كلس کر سوچا۔۔


"ایک منٹ!!"


وہ وہاں سے نکلنے ہی لگیں تھی کہ شاہ ویر کی آواز پر ٹھہر گئیں۔۔


وہ انہیں کیمرہ بند کرتے دیکھ چکا تھا۔۔ عجلت میں سر زد ہوئی غلطی انکے سر پڑ چکی تھی۔۔


یہ کیوں آن کیا تھا؟ ریکارڈ کررہی تھیں آپ سب۔۔؟؟


اس نے انکی طرف بڑھتے ان کے ہاتھ سے موبائل جهپٹنے کے انداز میں پکڑا۔۔ وہ ہکا بکا اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتی رہ گئیں۔۔


ویر نے گیلری کھولی تو سامنے ہی وہ ویڈیو آ گئی۔۔


ہک ہا!! بھلا پاسورڈ ہی لگا دیتی موئے موبائل کو،،، وہ اپنے آپ کو کوسنے لگیں۔۔


بتائیں کس کے کہنے پر آپ نے یہ سب کیا ہے۔۔؟؟ جواب دیں!! وہ اپنے اشتعال پر قابو پاتے ہوئے بولا۔۔


کک کیا کہہ رہے ہو؟؟ اس کے پوچھنے پر انکا حلق سوکھ گیا۔۔


آپ کو ایسے میری بات سمجھ نہیں آئے گی۔۔ میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں۔۔


اسکی دھمکی پر انہوں نے عدیل شاہ کی طرف دیکھا۔۔ عدیل منع کرو اسے،، مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔۔ لیکن وہ منہ پھیر گئے۔۔


"رک۔۔ رکو ۔۔ میں بتاتی ہوں۔۔"


ویر جبڑے بھینچے انکی طرف متوجہ ہوا۔۔ کس کے کہنے پر کیا ہے۔۔؟؟


"میر۔۔میرال کے کہنے پر"


وه اپنی جان بچانے کو اسکا نام زبان پر لے آئیں۔۔


میرال رانا۔۔؟؟ ویر کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔ اسے اندازه نہیں تھا کہ وہ اتنی گری ہوئی حرکت کرے گی۔۔


اسکو تو میں نہیں چھوڑوں گا۔۔ وہ آندھی طوفان بنا سرخ آنکھوں سے موبائل کان سے لگاتا باہر نکل گیا۔۔ میری میٹنگ ارینج کرو میرال رانا کے ساتھ۔۔ کوئیک!!


اس کے جاتے ہی عدیل شاہ انا کے پاس آ کھڑے ہوئے۔۔ بس میرا بیٹا ہمیں تم پر پورا یقین ہے۔ دل چھوٹا نہ کرو ۔۔


اور آپا!! وہ انکی طرف مڑے۔۔ آپ سے مجھے ایسی گری ہوئی حرکت کی امید نہیں تھی۔۔


وہ اپنی بے عزتی پر تلملاتی ہوئیں بڑبڑا کر گھر کی دہلیز عبور کر گئیں۔۔


بابا ویر ۔۔؟؟ انا اس کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوئی۔۔ بہت غصے میں گئے ہیں۔۔


کچھ نہیں ہوتا وہ سمجھدار ہے۔۔ تم پریشان نہ ہو۔۔ دیکھو راحم جاگ نہ گیا ہو۔۔ خوامخواہ اتنا تماشا کر کے چلی گئیں۔۔ وہ بڑبڑا کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔


انا نے کنپٹی مسلتے اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔


"""♥️"""♥"""️♥️"""


"سر میم بزی ہیں ابھی تھوڑی دیر ویٹ۔۔۔۔"


اسکی زبردست گھوری پر سیکرٹری گھگھیا گیا۔۔


اپنا منہ بند کرو اور دوسری طرف کا راستہ ناپو!! درشتگی سے اسے کہتا وہ بغیر ناک کیے اس کے پرسنل آفس میں داخل ہوا۔۔


سامنے کا منظر اسے اس عورت سے مزید متنفر کر گیا۔۔


وہ کھڑی ہوئی ٹیبل پر جھک کر کچھ لکھ رہی تھی۔۔ اسکا گہرا گلا اسکی زینت کو چھپانے کے لیے ناكافی تھا۔۔


سلیولیس بلیک گلیٹری شرٹ اور ٹائٹ بلیک جینز پہنے وہ اسکی سمت دیکھتی ایک ادا سے مسکرا کر سیدھی ہوئی۔۔


جونہی وہ سیدھی کھڑی ہوئی اس کی عریاں کمر نماياں ہوئی۔۔ سرخ لپ سٹک سے رنگے ہونٹوں پر سیٹی کی دھن بجاتی وہ ایک ادا سے چلتی اس تک آئی ۔۔


اس کے تیکھے نقوش کو پیاسی نظروں سے دیکھتی وہ اس کے قریب ہوتی اسکے اوپر سے ہاتھ گزار کر دروازه لاک کر گئی۔۔


ویر نے اسے خود سے دور دھکیلا۔۔


"ارے ڈارلنگ اتنے غصے میں کیوں۔۔۔۔۔" اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔۔


وہ خطرناک تیوروں سے اسکی گردن کو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں لیتا دیوار سے لگا گیا۔۔


مجھ سے ۔۔۔ میری بیوی سے ۔۔ دور ۔۔رہو ۔۔ اس نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔۔


وہ اپنی گردن پر موجود اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرتی مسکرا دی۔۔ "مار دو نا مجھے!! ان مضبوط بانہوں کے حصار میں مرنا بھی قبول ہے میرال کو۔۔"


اٹک اٹک کر بولتی وہ اسکا دماغ گھما گئی۔۔ اس نے پوری قوت سے اسے زمین پر جھٹکا۔۔


وه توازن کھوتی زمین پر گری۔۔ آہ!! یو سٹوپڈ مین!! بٹ اٹس اوکے!! وہ ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔


"آئی لو یور اٹھتیٹود مائی اینگری مین" وہ اسکےبے حد قریب ہوتی اسکی گردن پر اپنے تشنہ ہونٹ رکھ گئی۔۔


چٹاخ!!!


شاہ ویر نے اسے پیچھے دھکیلتے زوردار تمانچہ اس کے منہ پر دے مارا۔۔


وہ منہ پر ہاتھ رکھے ساکت کھڑی رہ گئی۔۔رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔۔ آسمان کو دھندلی روشنی بخشتا چاند موسم کے تیور دیکھتا بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔۔


زوردار بجلی چمکی اور ساتھ ہی طوفانی بارش برسنے لگی۔۔ اچانک سب گھروں میں تاریكی چھا گئی۔۔ ایسے موقع پر بجلی ہمیشہ کی طرح دغا دے گئی تھی۔۔


اسکی آنکھ بارش کی تیز آواز سے کھلی۔۔ بارش کے قطرے کھڑکی سے ٹکراتے ایک خوشگوار آواز پیدا کر رہے تھے۔۔


آنکھ کھلنے پر بھی اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا رہا تو وہ آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ملتی اٹھ بیٹھی۔۔


اندھیرے میں اسے عجیب خوف محسوس ہوا۔۔


ہان۔۔۔؟؟

اسے پکاڑتی وہ رو دینے کے قریب تھی۔۔


اسکی آواز پر فوراً فلیش لائٹ آن ہوئی۔۔


"میں یہی ہوں ادھر کھڑکی کے پاس۔۔"

آواز کے تعاقب میں اس نے دیکھا تو وہ صوفے پر نیم دراز لیپ ٹاپ گود میں رکھے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔


وہ اپنے نائٹ سوٹ کو ٹھیک کرتی جلدی سے بیڈ سے نیچے اتری اور دوڑ کر اسکی گود سے لیپ ٹاپ اٹھاتی پورے حق سے بیٹھتی اسکے سینے پر سر رکھتی آنکھیں موند گئی۔۔۔


اسکا رخ جہان کی جانب تھا اطراف سے دونوں پاؤں نیچے زمین کو چھو رہے تھے ۔۔


وہ اس کے بازو پکڑ کر اپنی گردن کے گرد رکھتا اسکے گرد اپنے بازوؤں کا مضبوط حصار باندھتا اسے خود میں بھینچ گیا۔۔


وہ مندی آنکھوں سے اسے دیکھتی کسمسا کر سیدھی ہو بیٹھی۔۔


ہان۔۔؟؟ اسکے گال پر ہاتھ رکھتی وہ اسے پکار گئی۔۔


ہممم ۔۔؟؟ وہ پوری توجہ سے اسے دیکھنے لگا۔۔


"یہ کھڑکی کھول دیں۔۔" اسکی فرمائش پر جی حضوری کرتا وہ اسے تھامے ہی ذرا کا ذرا اٹھتا ایک ہاتھ سے کھڑکی کھول گیا۔۔


ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے اندر داخل ہوتے دونوں کو ایک خوش نما احساس میں مبتلا کر گئے۔۔


برستی بارش کی چند بوندیں دونوں کے چہرے پر پڑیں۔۔ نرم گرم چہرے پر بارش کی ٹھنڈی بوندیں پڑنے پر وہ آنکھیں بند کر گئی۔۔


وه اسکے قریب ہوتا اسکے چہرے پر چمکتے موتیوں کو لبوں سے چننے لگا۔۔


اسے موڈ میں آتے دیکھ کر وہ پٹ سے آنکھیں کھولتی اسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ گئی۔۔


جہان نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے اپنے لبوں پر رکھے اسکے ہاتھ کو چوم لیا۔۔


آپ کو پتہ ہے میں بہت ڈر گئی تھی اندھیرے میں،، وہ اسکا دیهان بھٹکانے کو بولی۔۔


تمہیں جب بھی کبھی ڈر لگے تم اسی طرح میری گود میں آ جایا کرنا۔۔ وہ خمار بھرے لہجے میں بولتا اسکے گالوں پر گلال بکھیر گیا۔۔


وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی پھر نظر جھکا گئی۔۔ وہ اسکی نیلی گہری آنکھوں میں خود کو ڈوبتا محسوس کرنے لگا۔۔


تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے


وہ اسکے کان کی لو کو چوم کر سرگوشی کرتا اسکی جان ہلکان کر گیا۔۔


جانے کتنی دیر وہ اسکے حصار میں پڑی اسکی دھڑکنیں شمار کرتی رہی۔۔ اچانک اس کے دل میں بارش میں بھیگنے کا شوق پیدا ہوا۔۔


ہان بارش میں چلیں۔۔؟؟ وہ ایکسائٹڈ ہو کر بولی۔۔


بلکل نہیں بیمار ہو جاؤ گی۔۔ وہ فوراً انکار کر گیا۔۔


وه ناراض نظروں سے اسے دیکھتی اسکی گود سے اتر گئی۔۔ "آپ بلکل پیار نہیں کرتے مجھ سے۔۔" وہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھتی شکوہ کر گئی۔۔


یہ اچھی بلیک میلنگ ہے!!

بڑبڑا کر وہ اسکی طرف بڑھا۔۔


اچھا چلو لیکن بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔ وہ خوشی سے اٹھتی اس سے لپٹ گئی۔۔


"جلدی چلیں ہلکی ہوجائے گی بارش" اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی وہ تیزی سے چھت کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔


وہ اسکے بچکانہ انداز پر مسکرا کر نفی میں سر ہلا گیا۔۔


اللّه کتنی تیز بارش ہے!! وہ خوشی سے جھومنے لگی۔۔ چند سیکنڈ میں ہی وه بارش میں پوری طرح بھیگ چکے تھے۔۔


طوفانی بارش میں ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے دونوں کے وجود سے ٹکراتے سنسنی خیز لہر دوڑا گئے۔۔


تیز ہوا کا جھونکا آیا تو وہ کانپتی ہوئی جہان سے لپٹ گئی۔۔ وه اسکی کمر پر ہاتھ رکھتا اسے جھٹکے سے اوپر اٹھا گیا۔۔


کیا کہہ رہی تھی تم! میں پیار نہیں کرتا تم سے ہممم؟؟


اپنے لبوں کو اسکے گال سے مس کرتا وه دلکشی سے استفسار کرنے لگا۔۔


آ۔۔ آپ کے یہ انداز کسی دن مار ڈالیں۔۔۔۔۔۔۔ عین کے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے۔۔


وہ پوری شدت سے اسکے بھیگے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے گیا۔۔ سانس اکھڑتا محسوس کر کے وه اسکے سینے پر ہاتھ مارنے لگی۔۔ لیکن آج اسکا اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہی تھا۔۔


وہ اسے اپنے بازوؤں میں بھرتا زمین پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتا اسکے لبوں کا جام پیتے مدہوش ہونے لگا۔۔


اسکا وجود ڈھیلا پڑتا محسوس کر کے وہ پیچھے ہٹتا اسکے چہرے پر بکھرے حیا کے رنگ دیکھنے لگا۔۔


"آئی ہیٹ یو!!" بکھری سانسوں کے درمیان بولتی وہ اس کے سینے پر مکے برسانے لگی۔۔


وہ خاموشی سے اسے تکتا یکدم اسے سائیڈ پر کرتے اٹھا اور نیچے جانے کے ارادے سے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔


وہ بوکھلا کر اس کے پیچھے بھاگتی اس کا ہاتھ تھام گئی۔۔


"کیا ہوا ہان۔۔؟؟"

اسکا رخ اپنی جانب موڑتی وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔ اسکا جوڑا کھل کر اس کی کمر پر گرتا جہان کی توجہ کا مرکز بنا۔۔


گیلے بالوں کی لٹوں کو ہاتھ سے چھوتے وہ خاموشی سے اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔


یو ہیٹ میں۔۔؟؟


اسکے سنجیدگی سے پوچھنے پر وہ بے اختیار اسکے قریب ہوتی اسکے گال پر ہاتھ رکھتی گویا ہوئی۔۔


"نو!! آئی ڈونٹ ہیٹ یو۔۔ آئی لو یو سو مچ !!"


وہ اپنے پیر اسکے پیروں پر رکھ کر ایڑھیاں اوپر اٹھاتی اسکے چہرے کو جابجا چومنے لگی۔۔


محبّت ہو گئی ہے آپ سے ،، آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی میرے لیے محال ہے۔۔ اسکے کان میں سرگوشی کرتی وہ اس کی گردن میں منہ چھپا گئی ۔۔


عین کے اقرار محبت پر وہ سرشاری سے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر نیچے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔


🌹🌹🌹🌹🌹


مما کیا ہوا ہے آپ کو۔۔؟؟


راحم اسے اداس دیکھ کر خود بھی اداس سا اسکے مقابل بیٹھ گیا۔۔


کچھ نہیں ہوا میری جان،، مما بلکل ٹھیک ہیں۔۔ وہ نا محسوس انداز میں آنکھ کے کونے پر ٹھہرا آنسو انگلی کی نوک سے صاف کرتی مسکرا کر گویا ہوئی۔۔


"نو!! آپ جھوٹ بول رہی ہیں آپ سیڈ ہیں،، مجھے پتہ ہے،، میں کوئی چھوٹا بے بی تھوڑی ہوں" وہ بے اختیار خفا ہوا۔۔


ارے میری جان آپ ابھی بھی چھوٹو شا بے بی ہو،، وه اس کی بات سے محظوظ ہوئی۔۔


راحم نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے بال ٹھیک کیے۔۔ نو مما میں اب بڑا ہو گیا ہوں،، وہ سنجیدگی سے بولا۔۔


اسکی باتوں پر انا کو ہنسی آئی۔۔ چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتے وہ اسے دیکھنے لگی جو اڑھائی سال کا ہو چکا تھا۔۔ وہ اپنی عمر کے بچوں سے زیادہ سمجهدار تھا اور ہر چیز پر بہت غور کرتا تھا۔۔


ہمم راحم تو اب بڑا ہوگیا ہے۔۔ اب سکول بھی جایا کرے گا۔۔ ہیں نا۔۔؟؟ وہ مسکراہٹ دبا کر گویا ہوئی۔۔


اسکے چہرے کی سنجیدگی پل میں اڑن چھو ہوئی۔۔


"آ۔۔ نہیں مما میں بہت اچھا بچا ہوں نہ اور اچھے بچے سکول نہیں جاتے۔۔"


وہ تفكر سے کہتے نفی میں سر ہلا گیا۔۔


وہ اسکی عجیب منطق پر حیران ہوئی۔۔ اچھاااا!! ایسی بات ہے تمہارے یہ خیالات تمہارے بابا کو بتاتی ہوں۔۔


وہ اسے شرارت سے مسکراتے دیکھ کر آنکھیں سكیڑ گئی۔۔


بھئی کون سے خیالات ہیں ہمارے شیر کے جو ہمیں نہیں پتہ۔۔؟؟ وہ اسکی بات اچکتا کمرے میں داخل ہوا۔۔


بابا کچھ بھی نہیں۔۔ منہ پر دونوں ہاتھ رکھتا وہ دوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔


اسکے جاتے ہی وه ایک بار پھر سنجیدہ ہو گئی۔۔ سوچ سوچ کر اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔ آخر کون تھی وہ اور کیا چاہتی تھی۔۔؟؟


دوپہر کا منظر آنکھوں کے سامنے آتے اسکی آنکھیں پھر سے گیلی ہو گئیں۔۔ وہ پلکیں جهپک کر آنکھوں کی نمی چھپاتی خوامخواہ دراز میں رکھی چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔۔


کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ آپ اپنے آنسو مجھ سے چھپا سکتی ہیں۔۔ اس کے قریب رکتے وه اسکا رخ اپنی جانب موڑ گیا۔۔


وہ آہستہ سے پیچھے ہٹتی بیڈ کے کنارے ٹک گئی۔۔ وہ اسکے سامنے پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا۔۔


"مجھے آپ پر پورا یقین ہے آپ خود کو تکلیف نہ دیں۔۔" اسکے ہاتھ تھامنے پر وہ بھیگی پلکیں اٹھاتی اسے دیکھنے لگی۔۔


وہ کون ہے۔۔؟؟ ایسا کیوں کیا اس نے؟؟ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔


"ماضی میں ہماری کمپنی نے انکی کمپنی کے ساتھ کچھ ڈیلنگز کی تھیں۔۔ کمپنی کے اونر کی صحت کچھ خراب رہنے لگی تو انہوں نے اپنی بیٹی کو اپنی جگہ میٹنگز کے لیے بھیجنا شروع کر دیا تھا۔۔ اس طرح اس سے کبھی کبھی سامنا ہو جاتا تھا۔۔ اچانک اس۔۔۔"


اس نے اپنے آپ کو کوئی سخت لفظ کہنے سے روکا۔۔


"وہ مجھے حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے اس نے یہ سب کروایا تا کہ مجھے آپ سے بدظن کر سکے لیکن وه مجھے جانتی نہیں تھی۔۔ ویر ایک بار جس کو دل میں جگہ دے دے اسکے علاوہ کسی کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔۔ آج اس کو اچھی طرح اس کی اوقات بتا آیا ہوں۔۔ دوبارہ کبھی میرے راستے میں آنے کی جرات نہیں کرے گی۔۔"


آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے پہلے ہی آپ کی نازک سی جان ہے۔۔ آخر میں وہ شرارت سے بولتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔


انا جھینپ گئی۔۔


ویر نے چینج کرنے کی غرض سے شرٹ اتاری اور الماری سے ڈهیلی شرٹ ٹراؤزر نکال کر مڑا تو انا چونک کر سیدھی ہوئی۔۔


یہ کیا ہے۔۔؟؟ اس کے قریب ٹھہرتی وہ اسکی گردن کو چھو کر بولی جہاں سرخ لپسٹک کا نشان چمک رہا تھا۔۔


"یہ کسی حسینہ کے نازک ہونٹوں کا لمس ہے!!" اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرتے وہ شرارت سے لب دبا گیا۔۔


انا کی تیوری چڑھی۔۔ کس نے کِس (kiss) کیا ہے آپ کو۔۔؟؟ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس چڑیل کا سر پھاڑ دیتی۔۔


بہت خوبصورت تھی وہ اور اس کے ہونٹ۔۔۔۔۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ گئی۔۔


ویر نے دلچسپی سے اسکے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا۔۔


آپ جیلس ہو رہی ہیں۔۔؟؟ محظوظ ہو کر کہتے وہ لب کا کونا دانتوں میں دبا گیا۔۔۔


ہاں ہو رہی ہوں جیلس،، میرے علاوہ کوئی بھی آپ کو کِس نہیں کر سکتا۔۔ آپ کے قریب آنے کا آپ کو چھونے کا حق صرف مجھے ہے۔۔ آئی سمجھ ۔۔؟؟ غصے سے نتھنے پھلا کر وہ اسے پیچھے دھکیل کر خفگی سے رخ بدل گئی۔۔


اسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ویر نے کسی لڑکی کو اپنے اتنے قریب آنے دیا۔۔


ارے سنو نا میری تیکھی مرچی!! وه اسکو جھٹکے سے اپنے سینے سے لگاتا اسکی گردن میں گہرے سانس لینے لگا۔۔


انا آنکھیں بند کرتی اسکے برہنہ سینے پر دونوں ہاتھ رکھ گئی۔۔


"میرال نے کیا تھا میری اجازت کے بغیر،، آپ کے علاوہ یہ حق میں نے کسی کو نہیں دیا۔۔ میں سر تا پا آپ کا ہوں۔۔ میری قربت کی حقدار صرف آپ ہیں۔۔"


بولتے ہوئے اسکے ہونٹ اس کی گردن کو چھو رہے تھے۔۔


ذرا سا پیچھے ہٹ کر وہ اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو فرصت سے دیکھنے لگا۔۔


اپنے چہرے کو مسلسل اسکی نظروں کے حصار میں پا کر وہ کانپتی پلکوں کو اوپر اٹھاتی اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ گئی۔۔


"ایسے نا دیکھیں مجھے ،، مجھے شرم آتی ہے۔۔" شرمیلی مسكان چہرے پر سجاتی وہ اسکے سینے میں منہ چھپانے لگی۔۔


آپ کو نہیں تو کسی اور کو دیکھ لوں ایسے۔۔؟؟ اس کی بات پر وہ خفگی سے سیدھی ہوئی۔۔


مجھے دیکھیں ایسے خبردار جو کسی اور کو ایسی نظروں سے دیکھا۔۔ منہ پھلا کر وہ اسکے بازو پر مکا مار گئی۔۔


"آہ!! یہاں لگا ہے سیدھا دل پر" وہ اسکی طرف جھکتے شرارت سے گویا ہوا۔۔


ہٹیں بھی!! اپنی مسکراہٹ چھپاتی وہ اپنے اور اسکے درمیان فاصلہ قائم کر گئی۔۔


ہا!! تم کب سے یہاں کھڑے ہو۔۔؟؟ اپنے پیچھے راحم کو کھڑے پا کر وہ خفت سے گویا ہوئی۔۔


میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا سچی!! راحم نے فوراً آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔ ویر ڈھٹائی سے مسکرا دیا۔۔


دونوں باپ بیٹا ہی ایک جیسے ہیں،، بڑبڑاتی ہوئی وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔۔


🌹🌹🌹🌹🌹


نیم اندھیرے میں وہ زمین پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔ کمرے کا زیرو واڈ کا بلب تاریکی کا سینہ چیرنے کے لئے ناکافی تھا۔۔


ملگجے لباس میں وہ ساکت بیٹھی ارد گرد سے بےنیاز تھی۔۔ جانے کتنے دنوں سے بالوں کو سلجھانے کا تكلف نہیں کیا گیا تھا۔۔


اچانک اس وجود میں ذرا سی جنبش ہوئی۔۔ اس کے دھیرے سے سر اٹھانے پر گال پر ٹھہرے آنسو اندھیرے میں موتیوں کی مانند چمکے۔۔


اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھا کر گال سے نیچے لڑھکتے آنسو پونچھے۔۔ ہاتھ اوپر اٹھانے سے کلائی میں بندھی سفید پٹی نمایاں ہوئی۔۔


ایسا لگتا تھا وه وجود کسی حادثے کی زد میں آیا تھا۔۔ اس حادثے کے گہرے اثرات اسکی ذات کو مسخ کر چکے تھے۔۔


چند دن پہلے:


جب چند منٹ تک انتظار کرنے کے بعد بھی اسکے آفس کا دروازه نہ کھلا تو سیکرٹری ڈرتا ڈرتا ڈور ناک کرتا اندر داخل ہوا۔۔ میرال کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی اسکے آفس میں قدم دھرنے کی اجازت نہ تھی اس لئے سیکرٹری کا ڈر تو بجا تھا۔۔


جونہی وہ اندر گیا سامنے کا منظر اسکے اوسان خطا کر گیا۔ وہ زمین پر ایک طرف کو لڑھکی ہوئی تھی۔۔ کلائی سے خون قطرہ قطرہ نیچے گر رہا تھا۔۔ کمرے میں اسکے فون کی بیل کی آواز تواتر سے آ رہی تھی۔۔


اس نے گھبراہٹ پر قابو پا کر ہوش سے کام لیتے پہلے ایمبولنس کو کال کر کے بلایا اور پھر اپنے باس افتخار علی کو فون پر اسکی خودکشی کی کوشش کی اطلاع دی۔۔


آفس میں قہرام مچ گئی۔۔ لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔۔ ہر کوئی اسکی خودکشی کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔ اسکے زندہ رہنے یا نہ رہنے سے کسی کو کوئی سروکار نہ تھا۔۔


یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔۔ ہر نیوز چینل پر اسکی خودکشی کی کوشش کی خبر آ چکی تھی۔۔ میڈیا کے ہجوم میں بمشکل جگہ بناتے وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہسپتال کی عمارت میں داخل ہوئے۔۔


ڈاکٹرز کے مطابق بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اسکا بچنا بہت مشکل تھا۔۔ پورا دن وہ جیسے سولی پر لٹکے رہے اور بالاخر اگلے دن ڈاکٹرز نے انہیں اسکی زندگی کی نوید سنائی۔۔


وه اس سے ملنے کے لئے گئے تو وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی۔۔ اسکے چہرے کی ویرانی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا۔۔


ایسی تو نہیں تھی میرال۔۔ سوکھے ہونٹوں پر جمی پپریاں، زرد رنگت پر آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے۔۔ وہ دو دنوں میں ہی صدیوں کی بیمار لگنے لگی۔۔


چند دن بعد اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا اور تب سے وہ خاموش تھی۔۔ اسکی خاموشی تب ٹوٹی تھی جب اسکے دوست ہمدردی کی آڑ میں اسکے جذبات کا مذاق اڑانے چلے آئے تھے۔۔


"دفع ہو جاؤ سب،، میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہے چلے جاؤ سب" وہ چیختی چیختی ہانپنے لگی تھی۔۔


افتخار علی اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر گھٹ رہے تھے۔۔ انہوں نے سب سے معذرت کر کے وہاں سے جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔۔ تب سے اس نے اپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیا تھا۔۔


حال:


چرر کی ہلکی سی آواز سے دروازہ کھلا اور افتخار علی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئے۔۔


میرال بیٹا کب تک یوں اندھیرے میں بیٹھی رہو گی۔۔ میری جان اپنا نہیں تو اپنے بوڑھے باپ کا ہی کچھ خیال کرلو۔۔


جواباً وہ خاموشی سے زمین کو تکنے لگی۔۔


اچھا چلو کھانا کھاؤ میں اپنی بیٹی کو خود کھانا کھلاؤں گا۔۔ انہوں نے نوالا اسکے سامنے کیا۔۔


مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ اسکی کمزور سی آواز ابھری۔۔


بیٹا میرا کیا قصور ہے اس سب میں۔۔ نہ تم ٹھیک سے کھانا کھاتی ہو نہ مجھ سے بات کرتی ہو۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔


میرال بے چارگی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔ اس نے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے نوالہ پکڑا اور دھیمے دهیمے کھانے لگی۔۔


"آئی ایم سوری ڈیڈ" بہت تنگ کرتی ہوں نہ آپ کو۔۔؟؟ وہ آنکھیں جهپکتی ان سے پوچھنے لگی۔۔


نہیں میرا بچا تم میری بہت اچھی بیٹی ہو۔۔ انہوں نے اسکا سر چوم کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹


ٹن ٹنا!! میر ٹائلوں والے فرش پر پاؤں گهسیٹ کر ایک سٹائل سے کچن میں داخل ہوا لیکن ذرا آگے فرش پر گرے پانی سے اسکا پاؤں پهسلا اور یہ گئی اس کی ساری ہیروپنتی " واٹر " میں۔۔


ہا!! راحم منہ پر ہاتھ رکھے ہنسنے لگا۔۔ "چاچو کم لگی ہے نہ۔۔؟؟ ایک دفعہ پھر گرو زور سے۔۔"


کھی کھی کھکھ۔۔۔۔ انا کی گھوری پر اسکی کھی کھی کو بریک لگا۔۔


بری بات جاؤ ادھر جا کر بیٹھو کپڑے خراب نا کر لینا۔۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے ماتھے پر آتے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔۔


"میر اٹھو جلدی اور راحم کو لے کر باہر جاؤ۔۔ مجھے سخت غصہ آ رہا ہے تم دونوں پر یہ نہ ہو کہ کھانے کی جگہ تم دونوں کو ہی بھون دوں۔۔"


اسکی غصیلی آواز پر وہ دونوں "بندے کے پتر" بنتے شرافت سے کچن کے کونے میں پڑی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔۔ فلحال ان کا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔


انا کے برابر کھڑے سلاد کاٹتے ویر نے ہاتھ روک کر چور نظروں سے دونوں بلاؤں کو دیکھا۔ انہیں آپس میں مصروف پا کر وہ دائیں طرف جھکتا انا کے گال پر بوسہ دے گیا۔۔


اللّه اللّه!! وہ خفت سے اسے دیکھنے لگی۔۔ شکر تھا کہ ان دونوں نے نہیں دیکھا تھا۔۔


شرم کر لیں کچھ کہیں بھی شروع ہو جاتے ہیں۔۔ اس نے دانت کچکچا کر ہلکی آواز میں اسے گھرکا۔۔


ہائے! یہ بندہ کیا کرے آپ کے معاملے میں، میں بہت بے شرم ثابت ہوا ہوں۔۔ وہ آنکھ دبا کر شرارت سے گویا ہوا۔۔


آپ نا بس کیا کہوں میں اب ۔۔۔ آہ !! بے دیهانی میں پیاز کاٹتے چھری سے اس کی انگلی کٹ گئی۔۔


حد ہوتی ہے لا پرواہی کی،، وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسکی انگلی پر اپنے ہونٹ رکھ گیا۔۔


چھی،، کیا کر رہے ہیں چھوڑیں۔۔ خون لگ گیا ہے آپ کے منہ پر۔۔ وہ ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔۔


یہ ذرا سا خون کیا ہے میں آپ کو پورا کا پورا پی سکتا ہوں۔۔


اہم اہم !! میر کو مصنوعی کھانسی کا دوڑا پرا۔۔ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اس نے انہیں دیکھا تو ویر کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔۔


انا کا شرم کے مارے برا حال ہو گیا۔۔ نکلو دونوں باہر ابھی تک گئے نہیں تم دونوں۔۔ وہ خفت چھپاتی غصے سے گویا ہوئی۔۔۔


جا رہے ہیں جا رہے ہیں۔۔ آؤ چیمپ ہم باہر چلتے ہیں،، وہ راحم کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا۔۔

"آپ لوگ کنٹینیو کریں۔۔"


ویر نے ہاتھ میں پکڑا کھیرا پوری قوت سے میر کی کمر کم کمرے پر دے مارا۔۔


"آہ! ظالم لوگ پہلے ملک بدر کیا اب پتھر برسا رہے ہیں ہم معصوموں پر۔۔"


وہ دہائی دیتا ہوا جلدی سے باہر چلا گیا مبادا اگلی دفعہ چپل ہی نہ آ جائے۔۔

عدیل شاہ کی دیکھا دیکھی ویر نے بھی "لائٹ ویٹ چپل" لے لی تھی۔۔ اس کے خیال میں یہ آئیڈیا برا نہیں تھا۔۔

چلیں آپ بھی باہر کچن کا ستیاناس کر دیا ہے آئندہ میں کسی کو اندر نہیں آنے د۔۔۔۔۔

ویر نے غصے سے بڑبڑاتی انا کو کاندھے سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا اور اسکے ہونٹوں کو پوری شدت سے اپنے ہونٹوں میں دبا گیا۔۔

انا نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے سلیب پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔۔

اتنا غصہ نہ کیا کریں ،، آپ کے غصے پر مجھے بہت پیار آتا ہے۔۔ اس کی تیکھی ناک کو ہاتھ سے ہلکا سا دباتا وہ اس کی نوز پن پر اپنے لب رکھ گیا۔۔

بہت بہت وہ ہیں آپ۔۔۔ وہ حیا آمیز سرخ چہرے سے اسے پیچھے دھکیل کر بولی۔۔

ویر کی نظریں اسکے سرخ کانپتے ہونٹوں پر ٹھہر گئیں۔۔

ہرگز نہیں چلیں باہر!! اس کی نظروں کا ارتكاز محسوس کر کے وہ اسے چمچہ دکھا کر بولی۔۔

ویر ہنستا ہوا اس کی طرف جھکا۔۔ کب تک بھاگیں گی آپ مجھ سے۔۔ اب آپ کی خیر نہیں ہے تیار كرلیں خود کو۔۔۔ مسکاتی نظروں سے اسے دیکھتے وہ کچن سے باہر چلا گیا۔۔

اس کے جاتے ہی اس نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا جو اسکی قربت کے خیال سے ہی تیز تیز دھڑکنے لگا تھا۔۔ اپنے آگ اگلتے چہرے کو تھپتهپاتے ہوئے وه کھانے پر اپنی توجہ مركوز کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔

"تم جیسی لڑکیوں پر میں تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔ ایسی ہزار لڑکیاں راستوں میں گری پڑی مل جاتی ہیں۔۔ تمہیں کیا لگا تھا کہ میرے سامنے میری بیوی کی کردار کشی کروا کر تم مجھے اس سے متنفر کر دو گی۔۔ بہت بڑی بھول تھی تمہاری میرال رانا"

وہ تیکھی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔

پوری دنیا بھی اکٹھی ہو کر اسکے خلاف بولے تب بھی میں اپنی بیوی پر بھروسہ کروں گا،،، اتنی شدت سے محبت کرتا ہوں میں اس سے۔۔

میرال کا دل کرچی کرچی ہوا۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے ٹپکتا ہوا ٹھوڑی پر ٹھہرا اور پھر نیچے گر گیا۔۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ اسکا بڑھایا ہوا ہاتھ کوئی اس طرح جھٹک دے۔ آج اسکا غرور چھن سے ٹوٹا تھا۔۔

"آئندہ اپنا گندہ وجود مجھ سے دور رکھنا۔۔ تم جیسی لڑکی کو میں اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہوں۔۔"

اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے نفرت میں ڈوبی آواز میں کہتا وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔۔

اسکا سکتہ تب ٹوٹا جب وہ زوردار آواز سے دروازه بند کرتا جا چکا تھا۔۔

نہیں !! وہ پوری قوت سے چیختی میز پر رکھے کاغذات اور دیگر چیزوں کو ہاتھ مار کر نیچے گراتی جنونی کیفیت میں مبتلا ہو گئی۔۔

چھناکے کی آواز سے ڈیکوریشن پیس زمین بوس ہو گئے۔۔

نہیں ایس۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ وہ زمین پر بیٹھتی گھٹنوں میں سر دیتی زار و قطار رونے لگی۔۔

ایک خیال آنے پر اس نے تیزی سے سر اٹھایا۔ موبائل پکڑ کر ایک نمبر پر کال ملاتی وہ فون کان سے لگا گئی۔۔

دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئی۔۔

بابا۔۔۔!! وہ بلکنے لگی۔۔ میرال ہار گئی آج،، بابا ہار گئی میرال۔۔ میں میں آپ سے سوری۔۔۔ آئی ایم سوری بابا۔۔ میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں۔۔

رک رک کر بولتی وہ دوسری جانب موجود شخص کے وجود میں خوف کی سرد لہر دوڑا گئی۔۔

سپیكر سے مسلسل آواز ابھر رہی تھی لیکن وہ کال کاٹ گئی۔۔

اس نے دھندلی آنکھوں سے زمین پر چکنا چور ہوئے ڈیکوریشن پیس کو دیکھا۔۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے شیشے کے ایک ٹکڑے کو پکڑ لیا۔۔

کافی دیر تک وہ اسے ہاتھ میں تھامے بیٹھی رہی۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ اس نے وہ ٹکڑا اپنی كلائی پر زور سے پھیر دیا۔۔

گاڑھا سرخ ماده کلائی سے نکل کر زمین پر گرنے لگا۔۔ وہ نیم وا آنکھوں سے زمین پر اکٹھے ہوتے سرخ خون کو دیکھنے لگی۔۔

نقاہت بڑھتی گئی اور بالاخر وہ ایک طرف کو لڑھک گئی۔۔

کبھی اس طرح میرے ہمسفر..

سبھی چاہتیں میرے نام کر..!!

اگر ہو سکے تو کبھی کہیں..

میرے نام بھی کوئی شام کر!!

میرے دل کے سائے میں آ ذرا..

میری دھڑکنوں میں قیام کر..!!

یہ جو میرے لفظوں کے پُھول ہیں..

تیرے راستے کی یہ دُھول ہیں..!!

کبھی ان سے سن میری داستاں..

کبھی ان کے ساتھ کلام کر..!!


"""""""""♥️


آج کا دن اس کے لئے بہت عجیب رہا تھا۔۔ بی ایس سی کی كلاسز کا آغاز ہو چکا تھا۔۔ پورے کالج میں ٹاپ پوزیشن پر رہنے کی وجہ سے اسے تمام اساتذہ کی طرف سے خاص توجہ دی جا رہی تھی۔۔ لیکن اس کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔۔


عجیب بے زاری سی بےزاری تھی۔۔ آج ہان اسے کالج سے پک کرنے بھی نہیں آیا تھا جس پر وه اس سے خفا تھی۔۔ رکشے میں کلاس کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ وہ گھر آ گئی تھی۔۔


رکشے سے اترتے وقت سورج کی تیز کرنیں اس پر پڑتیں اسے شدید کوفت میں مبتلا کر گئیں۔۔


آج موسم کے تیور بھی اس کے مزاج کی طرح عجب انداز لئے ہوئے تھے۔۔ سورج کبھی کسی "بدتمیز عاشق" کی طرح پوری آب و تاب سے چمکتا اپنے پیار کی آگ اگلتی کرنیں نچھاور کرنے لگتا اور کبھی کسی ناول کی نئی نویلی ہیروئن کی طرح شرما کر غائب ہو جاتا۔۔


اس نے دروازه بجانے کے لئے ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔ اسے گھر کے مكینوں کی لاپرواہی پر نئے سرے سے غصہ آیا۔۔


دروازه زور سے بند کرتی وه بیگ کو زمین پر گھسیٹتی ہوئی اندر گئی۔۔ مکمل خاموشی نے اسکا استقبال کیا۔۔ وہ بغیر ادھر ادھر دیهان دیے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ بیگ کو بیڈ پر ڈالتی وہ دهپ سے بیڈ پر گر گئی۔۔


لیٹے لیٹے اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس کے شیشے پر کاغذ کی ایک چٹ لگی ہوئی تھی۔ وه نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ بیٹھی۔


چٹ کو ہاتھ میں تھام کر اس نے دیکھا تو وہ ایک نوٹ تھا۔ وه غور سے پڑھنے لگی۔ "تمہاری الماری میں آف وہائٹ سوٹ رکھا ہے۔۔ شام کو پہن کر تیار ہو جانا۔ میرے جاننے والوں کے ہاں آج تم دونوں کی دعوت ہے۔۔"( آئمہ)


نوٹ پڑھ کر وہ واپس جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔۔ لیٹے لیٹے اسکی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔۔ منظر دھندلا ہوا اور وہ گہری نیند کی وادیوں میں سفر کرتی حقیقی دنیا سے بے خبر ہو گئی۔۔


🌹🌹🌹🌹


جانے کتنے بجے تک وہ سوتی رہی۔۔ اس کی آنکھ کسی کے مسلسل ہلانے پر کھلی۔۔ مندی آنکھیں کھولتی اسکی آنکھوں کے سامنے آئمہ کا سراپا ظاہر ہوا۔۔


اٹھ جاؤ عین دن ڈھل گیا ہے اور اب تک تم سو رہی ہو۔ اٹھو شاباش!!


وه کسلمندی سے اٹھ بیٹھی۔۔


فریش ہو کر تیار ہو جاؤ دعوت پر جانا ہے نوٹ پڑھ لیا تھا نہ ۔۔؟؟ وه اس کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔


جی پڑھ لیا تھا۔۔ وه اٹھتی ہوئی بولی۔۔


چلو ٹھیک ہے۔۔ وہ مسکرا کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔۔


ان کے جانے کے بعد وہ الماری کھول کر اس کے سامنے کھڑی آف وہائٹ سوٹ تلاش کرنے لگی۔۔ اچانک اس کی نگاہ ایک انتہائی دیده زیب سوٹ پر ٹھہر گئی۔۔ اسکے ابرو ستائش میں اٹھے۔۔


سوٹ نکال کر اس نے باتھ روم کا رخ کیا۔۔ تازہ دم ہو کر وہ آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔ آف وہائٹ شفون کی پھولی ہوئی گھٹنوں تک آتی فراک کے ساتھ آف وہائٹ کیپری اس پر بہت جچی تھی۔۔


اس نے فراک پر بنے گلابی دیدہ زیب پھول کے ہم رنگ مصنوعی گلابی پھولوں کا نیکلیس ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھا کر پہنا جو آئمہ جاتے ہوئے رکھ گئی تھیں۔۔ نیكلیس کے سے چھوٹے ٹاپس کانوں میں پہن کر وه ذرا پیچھے ہٹتی آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگی ۔۔


ہمم نائس!! اپنے آپ کو سراہ کر اس نے بے بی پنک لپ گلوز اٹھا کر ہونٹوں پر لگایا۔۔ گلابی گالوں کو بلش آن سے مزید گلابی کرتی وه گھنگھریالے بالوں کو سنوار کر کمر پر ڈالتی کمرے سے باہر نکل آئی۔۔


اندھیرے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی وه شدید حیرت سے دو چار ہوئی۔۔ ابھی وہ کچھ سمجھ نہ پائی تھی کہ لائٹ اچانک آن ہو گئی۔۔


ہیپی برتھ ڈے ٹو یو !! ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!! ہیپی برتھڈے ڈیئر اعینہ،، ہیپی برتھ ڈے ٹو یو!!


لاؤنج کی سیٹنگ ہی بدلی جا چکی تھی۔۔ فرش پر جا بجا رنگ برنگے غبارے بکھرے ہوئے تھے۔۔ دیواروں کو گلابی اور سفید غباروں اور دیدہ زیب پھولوں سے سجایا گیا تھا جس کے بیچوں بیچ وہ سب کھڑے اسے اس کی سالگرہ پر مبارک باد دے رہے تھے۔۔


اس نے ایک نظر سب پر دوڑائی۔۔ آئمہ، جہان، انا، شاہ ویر ، شاہ میر، راحم، حنا، وقار، عدیل شاہ۔۔ سب وہاں موجود تھے۔۔


سرپرائز!! انا کی چہکتی آواز پر وه ہنس دی۔۔


آگے بڑھ کر وہ ایک ایک کر کے سب سے ملی۔۔ الے راحم تو پہلے سے بھی پارا شا ہو گیا ہے۔۔ وہ اس کی نرم پھولے سے گال کھینچ کر گویا ہوئی۔۔


ویر نے جہان کی طرف ہلکا سا جھکتے سرگوشی کی۔ "کیوں ترسا رہے ہو بے چاری کو،، ایک آدھ بے بی دے دو اس کو"


اس کے بے باکی سے کہنے پر جہان نے سلگ کر اسے دیکھا۔۔ ہاں بچے تو جیسے گوگل سے ڈاؤنلوڈ ہوتے ہیں نا۔۔ اور ایسی بچی کے ہوتے اور بچے سنبهال ہی نہ لوں۔۔


وہ عین کے نظرانداز کیے جانے پر تپا ہوا تھا جو سب سے مسکرا مسکرا کر ملتی اسے سرے سے نظرانداز کر گئی تھی۔۔


اس کے جلے کٹے انداز پر ویر نے بہت مشکل سے اپنا قہقہہ روکا۔۔


کنکھیوں سے ہان کو کڑھتا دیکھ کر وہ انا کے برابر کھڑے عدیل شاہ کے سامنے جھک کر پیار لے رہی تھی۔۔


سب سے ملنے کے بعد وه ٹیبل پر رکھے کیک کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔ اس کی آنکھوں میں ستائش ابھری۔ ریڈ ویلوٹ کیک پر ایک لڑکا لڑکی کی تصویر نقش کی گئی تھی جس میں لڑکا گھٹنے کے بل بیٹھا لڑکی کے سامنے گلاب کا پھول بڑھا رہا تھا۔۔


اچھا ہے نہ۔۔؟؟ ہان نے آرڈر کیا تھا۔۔ انا نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔


عین کے تیور پل میں بدلے۔۔ ہمم اچھا ہے۔۔

بظاہر مسکرا کر اس نے دانت پر دانت جما کر ہان کی طرف دیکھا۔۔


کیک کاٹتے وقت اس نے چھری سے لڑکے کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو کاٹ دیا۔۔


او ہو ہو! لگتا ہے آج صاحب بہادر کی خیر نہیں۔۔ ویر مصنوعی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔۔


"لگ تو مجھے بھی ایسا رہا ہے۔۔"جہان نے ٹھوڑی کھجا کر کہا تو دونوں کا قہقہہ گونجا۔۔


بڑے مزے آ رہے ہیں نا کمرے میں چلیں پھر بتاتی ہوں۔۔ عین نے سلگ کر ان دونوں کو دیکھا جن کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے پانی آ گیا تھا۔۔


لگتا ہے بہت دوستی ہو گئی ہے دونوں میں۔۔ اس کے ہاتھ سے کیک کا ٹکڑا کھانے کے بعد انا نے رائے دی۔۔


آ ہاں! اچھی بات ہے پکی دوستی کر لیں۔۔ اب تو اکثر ان کو گھر بدر ہونے کے بعد اپنے دوست کے ہاں رہنا پڑے گا۔۔


عین کی جلی کٹی آواز پر انا نے مسکراہٹ دبائی۔ پاگل ایسے نہیں کہتے۔۔۔


جب سب کیک کھا چکے تو باری باری عین کو تحائف پیش کرنے لگے۔۔ آخر میں میر،، راحم کا ہاتھ تھامے اس کے سامنے آیا۔۔


باقی سب باتوں میں مشغول تھے اس لئے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔


ہنہ!! دونوں ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھیں گھما گئے۔۔ آرام سے ذرا تمہارا ڈیلا ہی نہ باہر آ جائے جس حساب سے گھما رہے ہو۔۔ عین نے اس پر طنز کیا۔۔


تم میری فکر نہ کرو چھپکلی کہیں کی۔۔ ویسے میں نے پہلا سوچا کہ چھپکلی کے لئے بہترین تحفہ چھپکلی ہی ہے لیکن پھر خیال آیا کہ چھپکلی دیکھ کر اپنے جنم دن پر کہیں تم اوپر کی ٹکٹ نا کروا لو۔۔۔ اس نے اسے تپانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔


تمہیں تو میں ۔۔۔۔ اس نے سب سے نظر بچا کر اس کے سر کے آگے کے کچھ بالوں کو دو انگلیوں میں پکڑ کر زور سے کھینچا اور فوراً انجان بنتی نیچے پنجوں کے بل بیٹھ کر راحم کا بڑھایا ہوا کیوٹ سا گفٹ لینے لگی۔۔ آآو تھینک یو سو مچ شونے!! وہ اسکا گال چوم کر بولی تو راحم شرما گیا۔۔۔


تم بدتمیز میرے بالوں کا بیڑا غرق کر دیا۔ اٹھو میرا گفٹ واپس دو چلو! تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ میں تمہیں گفٹ دوں۔۔ وه دانت پیس کر گویا ہوا۔۔


"ہمت ہے تو لے کر دکھاؤ چلغوزے" اسے نئے لقب سے نوازتی وہ اس کے بلکل سائیڈ سے گزر گئی لیکن جاتے جاتے اس کی کمر پر دھموکا جڑنا نہ بھولی۔


🌹🌹🌹🌹


کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وه راحم کو تھپک کر سلا رہی تھی کہ عدیل شاہ کی غصیلی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی۔۔


اللّه خیر کرے!! اس نے جلدی سے پیروں میں چپل اڑسی اور دوپٹہ سر پر ڈال کر باہر آئی جہاں عدیل شاہ غصے میں بھرے بیٹھے ویر کو سخت سست سنا رہے تھے۔۔


پاس کھڑا میر تفكر سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔ انا کے آنے پر وہ نا محسوس انداز میں کھسک کر اس کے قریب کھڑا ہو گیا۔


کیا ہوا ہے۔۔؟ وه آہستہ آواز میں بولی۔۔


آپی بات کوئی خاص نہیں ہے ۔۔ بابا کی طبیعت ذرا خراب ہے۔ اس لئے چڑچڑے ہو رہے ہیں۔۔


حد ہے میر! ان کی طبیعت خراب ہے اور تم اب مجھے بتا رہے ہو۔۔ وه میر کو خفگی سے دیکھ کر بولی۔۔


وہ بابا نے منع کیا تھا کہ آپ جانے سے منع کر دیتیں اور خود بھی نہ جاتیں۔۔ وہ اس چھپکلی کا برتھڈے سیلیبریشن خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔


انا افسوس سے اسے دیکھتی ان دونوں کے قریب کھڑی ہو گئی۔۔


حد ہے اتنے احمق ہو تم۔۔ وہ فائلز ان تک آج ہی پہنچانی تھیں لیکن تمہیں کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔۔


بابا کل بھجوا دوں گا کوئی اِشُو نہیں ہے ۔۔ ویر نے ان کی بات کاٹ کر انہیں ٹھنڈہ کرنا چاہا۔۔


نہیں ضرورت ہی کیا ہے۔۔ میں جو ہوں ان سیاپوں کے لئے۔۔ ایسی نكمی اولاد دے دی ہے اللّه نے مجھے۔۔ بولتے بولتے وه هانپنے لگے تھے۔۔ ان کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کو اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے۔۔


ویر کی آنکھوں میں دکھ ابھرا۔۔


بابا آئیں میرے ساتھ سب کو چھوڑیں میں تو آپ کی اچھی بیٹی ہوں نہ۔۔ آئیں شاباش! وہ انہیں چھوٹے بچے کی طرح بہلا کر بولی۔۔


اسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں نرم تاثر ابھرا۔ وه ان کو کمرے میں چھوڑنے گئی۔۔ ان کو میڈیسن دے کر اس نے ان پر چادر اچھے سے ڈالی اور لائٹ بند کرتی دبے قدموں باہر نکل آئی۔۔


لاؤنج سے گزر کر وہ میر کے کمرے میں ایک نظر ڈالتی اپنے کمرے میں آئی۔۔ جہاں ویر سنجیده تاثرات لئے صوفے پر نیم دراز تھا۔۔ انا اس کی سمت بڑھنے ہی لگی تھی کہ راحم نیند میں رونے لگا۔۔ وه جلدی سے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اسے ہلکا ہلکا تهپکنے لگی۔


ویر! بابا کی طبیعت نہیں ٹھیک اس لئے وه غصہ کر گئے ہیں آپ دل پر نہ لیں نہ،، وہ آہستہ آواز میں بولی۔


ویر کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔ وه پھیکی مسكان چہرے پر سجا گیا۔"صحیح تو کہتے ہیں وه"


انا تو اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر تڑپ ہی گئی۔ ادھر آئیں ویر۔۔ آئیں نہ ۔۔! وه راحم کو تھپکتے ہوئے بے چارگی سے اسے دیکھ کر بولی۔۔


میری بات بھی نہیں مانیں گے آپ۔؟ اس کے پر شکوہ لہجے پر وہ اٹھ کر اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔


وه اسے ذرا سا اپنی طرف کھینچتی ایک ہاتھ اسکی گردن کے گرد حائل کرتی اسے اپنے ساتھ لگا گئی۔


میرا بچہ !! اس کا سر چوم کر وہ لاڈ سے بولی تو ویر اسکے گرد بازو حائل کرتا حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔۔


میں بچہ ہوں آپ کا ۔۔؟؟


"ہممم میرا چھوٹو شا پارا شا بچہ" وه اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔ آجائیں میری گود میں نینی کرواؤں آپ کو۔۔ وه شرارت سے بولی۔


میں چھوٹا ہوں۔؟ یہ چھ فٹ کا مرد چھوٹا لگتا ہے آپ کو۔۔؟


ہاں نہ بس میرا بچہ ہو آپ چھوٹا سا۔ مجھے نا بہت پیار آ رہا آپ پر۔۔ وہ اس کے دونوں گال کھینچ کر بولتی اسے آج حیرت کے جھٹکے دیے جا رہی تھی۔


وه اسے دیکھتا نفی میں سر ہلا گیا۔۔ اگر میں آپ کی گود میں بیٹھا نا تو آپ کی گود ٹوٹ جانی ہے۔ اسکی کم عقلی پر افسوس کرتا وه اسکے سینے پر سر رکھتا سکون سے آنکھیں موند گیا۔


وه اسکے گرد دونوں بازو حائل کرتی مسکرا دی۔۔ بالاخر وه اسکا موڈ بدلنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کا دل کچھ کھانے کو مچلنے لگا۔۔


سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں تركیب آئی۔۔ ویر ۔۔؟ سو گئے ہیں۔۔؟


نہیں جان آپ کی اتنی قربت پر میں کیسے سو سکتا ہوں۔۔ اسکے سینے میں منہ چھپا کر بولتا وه اسکے دل کی دھڑکن تیز کر گیا۔۔


اچھا اٹھیں نا مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔ وه اسے پیچھے ہٹا کر بولی تو وه اٹھ بیٹھا۔۔


بھوک تو مجھے بھی بہت لگ رہی ہے کیوں نا ایک دوسرے کو ۔۔۔۔۔ انا نے اس کی بات کاٹ دی۔۔


میں کچن میں جا رہی ہوں یمی چیزی پازتا بنانے۔۔ اللّه سوچ کر ہی منہ میں پانی آ رہا ہے۔۔


ركیں میں بھی آتا ہوں۔۔ وه بھی اس کے ساتھ کچن میں آ گیا۔۔


وه مسکرا کر مطلوبہ سامان سلیب پر رکھنے لگی۔۔


کیا بات ہے کوئی بہت خوش ہے آج۔۔ وه اس کے سامنے سلیب پر بیٹھتے ہوئے بولا۔


ہاں نہ ایک بہت خاص وجہ ہے۔۔ وه چمک کر بولی۔۔


ایک دوسرے کو چھیڑتے ہوئے دونوں مل کر پاستا بنانے لگے۔۔ جب پاستا تیار ہوگیا تو کچن میں اشتہا انگیز خوشبو پھیل گئی۔۔


وہ ایک پلیٹ اور ایک چمچ پکڑ کر اس کے برابر سلیب پر بیٹھ گئی۔۔ پاستا پلیٹ میں ڈال کر دونوں کے درمیان رکھتی وه چمچ بھر کر اس کے منہ میں ڈال گئی۔۔


کیسا بنا ہے ۔۔؟ وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔


بہت سوفٹ اور یمی بلکل آپ کی طرح۔۔ اس کی طرف جھکتے وه شرارت سے گویا ہوا۔۔


اللّه اللّه میں کیا ۔۔۔۔۔ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وه اسکے منہ میں وہی چمچ بھر کر ڈال گیا۔۔


اسی طرح انا ایک چمچ خود کھاتی اور دوسرا ویر کو کھلاتی۔۔ پاستا ختم ہونے پر دونوں کو پانی کی طلب ہوئی۔۔


اچانک انا کے ذہن میں کولڈ ڈرنک کا خیال آیا جو اس نے چھپا کر فریج میں رکھی تھی۔۔۔ عین اسی وقت ویر کے دماغ میں بھی یہی خیال آیا۔۔


دونوں بیک وقت فریج کی طرف دوڑے۔۔ انا فریج کے آگے دونوں بازو پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔۔ ہر گز نہیں۔ پہلے مجھے خیال آیا تو وه میری ہے۔۔


بلکل غلط! پہلے مجھے خیال آیا۔۔ وه اسے ہٹانے کے لئے آگے بڑھا تو انا نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھا۔۔


اگر آپ نے مجھے ہٹایا نہ تو میں ۔۔۔۔۔


تو کیا ۔۔۔؟؟ وہ اسک بے حد قریب کھڑے ہو کر اس کے پھیلے ہوئے دونوں بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھتا فریج سے لگا گیا۔۔


اچھا اس بات کو چھوڑیں یہ بتائیں آپ کے خوش ہونے کی وه خاص وجہ کیا ہے۔۔؟ وہ جاننے کے لئے بےتاب ہوتا اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔


ایسے ہی بتا دوں کیا پہلے پیچھے ہٹیں۔۔


وه ذرا سا ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔۔


دراصل بات یہ ہے۔۔ کہ۔۔ مجھے ۔۔۔

وه ایک پل کو رکی۔۔


"مجھے ۔۔ محبّت ۔۔۔ ہو گئی ہے۔۔۔" اس کے کان میں سرگوشی کرتی وه ننگے پیر کچن سے باہر بھاگ گئی۔۔۔


ویر بھی تیزی سے اسکے پیچھے بھاگا۔۔ اس نے انا کا دوپٹہ پکڑ کر اسے روکنا چاہا تو وہ اپنا دوپٹہ اسکی طرف اچھال کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔


رکیں،، ایسے تو نہیں جانے دوں گا آپ کو۔۔ دروازے کے قریب اسے بازو سے پکڑ کر وه دیوار سے لگا گیا۔۔


ایک بار پھر سے کہیں،، وه اسکی طرف جھکتا اسکا اقرار سننے کے لئے بےتاب ہوا۔۔


"مجھے۔۔ شاہ ویر ۔۔ آپ سے محبت ہو گئی ہے۔۔" وه تیز دھڑکتے دل سے اسے اپنی محبت کا اقرار سونپتی اسکے پیروں پر پیر رکھتی اسکی گردن کے گرد بازو حائل کر گئی۔۔


آج آپ نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔۔ میں آپ کو اپنی محبت کی بارش میں اس قدر بھگو دوں گا کہ آپ کو ہر سمت صرف میری محبت ہی نظر آئے گی۔۔۔


اسکے کان میں سرگوشی کرتا وه اسے بانہوں میں اٹھا کر کمرے کی سمت بڑھا۔۔ بالاخر محبت کا ایک باب مکمل ہوا۔۔


ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنور لوں!!


میرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینے میں اتار لوں!!


اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذنِ قیام ہو!!


تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالياں ترے ہار لوں!!


میں تمام دن کا تھکا ہوا تُو تمام شب کا جگا ہوا!!


ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر ترے ساتھ شام گزار لوں!


(منقول)


🌹🌹🌹🌹


عین اب دیکھ بھی چکو سست لڑکی، مجھے بھی کب سے اپنے ساتھ گھسیٹ رہی ہو۔۔ آئمہ اسے ڈپٹ کر بولیں جو کب سے لاؤنج کی صفائی میں جتی ہوئی تھی۔۔


اس نے سب تحائف زمین پر بچھے قالین پر رکھے اور خود ٹانگوں کی گرہ لگا کر دهپ سے نیچے بیٹھ گئی۔۔ دوپٹہ ایک طرف ڈال کر وہ آئمہ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔


کیا یار نانو اب میں اکیلے تھوڑی دیکھوں گی سارے گفٹس۔۔ آئیں نا۔۔ پیکنگ کھولیں میرے ساتھ۔۔


پیکنگ کھولنے کے بعد وه ایکسائٹڈ سی سب کے دیے گفٹس دیکھنے لگی۔۔


واؤ! آئی جسٹ لو دس واچ،، تھینک یو!! آئمہ کی طرف سے دی سمارٹ واچ اسے بے حد پسند آئی۔۔


باری باری وه سب تحائف دیکھنے لگی ۔۔ آخر میں اس کی نگاہ قدرے ایک طرف پڑے مستطیل ڈبے پر پڑی جس کی پیکنگ سب سے منفرد تھی۔۔


یہ کس نے دیا ہے ۔۔؟ اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن کسی کا نام لکھا نظر نہیں آیا۔ آئمہ نے مسكان چھپائی۔۔ وه جانتی تھیں یہ تحفہ کس نے دیا ہے۔۔۔


پیکنگ کھول کر اس نے ڈبے کی ہک کو کھولا۔۔ اندر موجود نیکلیس کو دیکھ کر اس کی نیلی آنکھیں پھیل گئیں۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا۔۔


موتیوں کی باریک لڑی میں جڑے ننھے ہیروں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی زنجیروں کے ساتھ نیچے لٹکتے سنہری چاند اور تارے۔۔ ایسا منفرد نیکلیس اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔ ہیروں کی جگمگاہٹ آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔۔


"اوہ مائی گاڈ نانو ! اٹس ڈائمنڈ نیکلیس" اتنا ایکسپنسو گفٹ کس نے دیا ہے۔۔


مجھے کیا پتہ ہو۔۔ آئمہ لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بولیں۔۔ اچھا چلو اب تم جاؤ کافی وقت ہو گیا ہے سو جاؤ۔۔ وه جمائی روکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں تو وه بھی باقی تحائف احتیاط سے میز پر رکھ کر نیکلیس ہاتھ میں تھامے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔۔


اسکا اراده اسے پہن کر دیکھنے کا تھا۔۔ نائٹ سوٹ میں ملبوس اس نے اپنے کمرے کا دروازه آہستہ سے کھولا۔۔


پہلا قدم اندر رکھتے ہی اس کو اپنے پیروں کے نیچے نرمی کا احساس ہوا۔۔ نتھنوں سے ٹکراتی گلاب کے پھولوں کی مسحور کن خوشبو نے اسے سامنے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔۔


اس کی نگاہ نیم اندھیرے میں ٹمٹماتی موم بتیوں پر پڑی۔۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر وه پلٹی تو جہان دروازے کی چٹخنی چڑھا کر اس کی طرف پلٹتا سینے پر بازو باندھ کر فرصت سے اس کے تاثرات دیکھنے لگا۔۔


عین کو اس سب پر خواب کا گماں ہوا۔۔ وه تو سمجھی تھی کہ وه اسکی طرف سے لا پرواہ ہوا تھا۔۔ پل میں سارے گلے شکوے کمرے کی مہکتی فضا میں غائب ہو گئے ۔۔


کیسا لگا گفٹ۔۔؟ خاموشی کے در پر اپنی صدا بلند کرتا وه مبہم مسکراہٹ چہرے پر سجا کر گویا ہوا۔


عین کو اسکی آنکھوں کی جگمگاہٹ، ہیروں کو مات دیتی ہوئی معلوم ہوئی۔۔


اسکی نظریں نیکلیس پر مركوز پا کر اسے ایک پل لگا سمجھنے میں۔ تھ تھینک یو سو مچ بہت پریٹی گفٹ ہے۔۔ وه اس کے قریب رکتی اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔


کیا میں۔۔۔؟؟ وہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا تو وه اسکا مطلب سمجھتی نیکلیس اسے تهما گئی۔۔


وه اسے لئے آئینے کے سامنے آیا تو اس نے آہستہ سے اپنی کمر پر بکھرے بالوں کو ہاتھ کی مدد سے دائیں کندھے پر ڈال دیا۔۔


اس کے وجود کی خوشبو میں گہرا سانس بھرتا وه نیکلیس کی ہک بند کر کے آئینے میں دیکھنے لگا۔


آئینے میں دیکھتے دونوں کی نظروں کا ٹکراؤ ہوا۔۔ یہ نیکلیس بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوگا۔۔ اس کے کان میں سرگوشی کرتا وه نرمی سے اسکی گردن چوم گیا۔۔


عین خود میں سمٹ گئی۔۔ پیچھے ہٹ کر وه الماری کی طرف گیا اور ایک خوبصورت پیکٹ اسکی طرف بڑھایا۔۔


یہ پہن کر آؤ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔


وه بغیر کوئی سوال کیے پیكٹ تھام کر باتھروم چلی گئی۔۔ آج دل بس اسکی ماننا چاہتا تھا ۔۔


اندر جا کر اس نے دروازہ بند کر کے پیكٹ کھولا تو اس میں میرون رنگ کی ریشمی ساڑھی تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں ستائش ابھری۔۔


ساڑهی کا بلاؤز دیکھ کر اسکا چہرہ حیا سے سرخ پڑ گیا۔۔ دھڑک دھڑک کر پاگل کرتے دل کو اس نے ڈپٹ کر ساڑھی باندھی۔۔ بلاؤز اسکی کمر کو ڈھانپنے میں ناکافی ثابت ہو رہا تھا۔۔


اس نے ساڑھی کا پلو اٹھا کر بائیں کندھے پر اکٹھا کر کے ٹکا دیا۔۔ ریشمی ساڑهی کو بمشکل سنبهال کر اس نے اپنے گھٹنوں تک آتے کالے بال کھول دیے جو اسکی پوری کمر کو ڈھانپ گئے۔۔


آہستہ سے دروازه کھول کر وه باہر نکلی۔۔ جہان شرٹ کی قید سے آزاد بیڈ پر اوندها لیٹا تھا۔۔ وه جلدی سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی۔۔ اس نے میرون لپسٹک اٹھائی اور لبوں پر سجا کر پلٹی۔۔


جہان آہٹ محسوس کر کے اٹھ بیٹھا۔۔ بیٹھتے ہی اس کی نظر ساڑهی سے جھانکتی اسکی بل کھاتی کمر پر پڑی۔ موم بتیوں کی روشنی میں اسکی دودھیا کمر دیکھ کر اسکی آنکھوں میں خمار اترا۔۔


وه چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس تک آئی۔ نظریں جھکا کر کھڑی اپنی ملكيت کو وه پورے حق سے دیکھنے لگا۔۔ عین کو اس کی نظریں اپنے وجود کے آر پار ہوتی محسوس ہوئیں۔۔


جہان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا تو وه پوری کی پوری اس پر آ گری۔۔ وه فوراً کروٹ بدل کر اس پر سایہ فگن ہو گیا۔۔


اس سب میں عین کی ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا تھا۔۔ اس کی اتنی قربت اور اس قدر رومانوی ماحول پر وه گہرے سانس لینے لگی۔۔


ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ابھی سے تمہارا سانس پھولنے لگا ہے۔۔ وه اسکے سینے کے زیرو و بم کو دیکھتا آنچ دیتے لهجے میں بول کر اسکی جان ہلکان کر گیا۔۔


اس کی لو دیتی نظروں کی تاب نہ لا کر وه اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ گئی۔۔


اوں ہوں آج نہیں، آج میں تمہارے انگ انگ کو نظروں سے اس طرح چوموں گا کہ تم پھر خود سے بھی شرماتی پھرو گی۔۔ وه انگلی کی پور سے اسکا گال سہلا کر بولا۔۔


کچھ لفظ مجھے گر مل جائیں۔۔!

میں ان میں تجھے تحریر کروں!

اپنی ذات کے رنگ تجھ میں بھر کر!

تجھے پھر سے میں تعمیر کروں!

آنکھ میں تیرا عکس رکھ کے!

تجھے ہر لمس میں زنجیر کروں!

تو پلکوں پہ جو خواب بنے!

میں ان سب کی تعبیر کروں!

تیرے دل میں اپنی دھڑکن رکھ کے!

تری روح کو اپنی جاگیر کروں!

(منقول)

اس کے کان میں سرگوشی کرتا وه اس پر اپنے لفظوں کا جادو چلانے لگا۔۔ اس کی قربت اور لفظوں کی حدت پر ہلکان وہ رخ پلٹ گئی۔۔

اس کے رخ موڑنے پر وه دھیما سا ہنستا اس کے بال ایک طرف ڈال گیا۔ وه جھکا اور اسکی کمر کو چوم کر اسے سمٹنے پر مجبور کر گیا۔۔ ایک دوسرے کی قربت میں مدہوش وه دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئے۔۔

🌹🌹🌹🌹

لا لا لا لا لا !!

سواگت ہے آپ کا "محبستان" میں۔۔ آہا! کیا خوب کہا ہم نے ۔۔ ہمیں جانتے تو ہیں نہ آپ ۔۔ اجی ہم پہلے بھی آپ سے مل چکے ہیں۔۔ کسی در کے باہر ، کسی کھوئی ہوئی یاد کے پس منظر میں۔۔ آئیے آپ بھی "محبستان" کی خوشنما وادیوں میں اتریں جہاں "اہلِ محبتاں" اپنی محبّت کے مینار تعمیر کیے محبوب کی زلفوں کے اسیر پڑے وادیِ محبتاں میں سکونت پزیر آپ کو "ایک پیغامِ محبت" دے رہے ہیں۔۔ کیا آپ وه پیغام جان پائے ہیں۔۔؟؟

یہ محبت کا ایک پیغام ہے

سمجھ سکو تو یہ گل و گلستاں ہے

چاہتوں کو تھامنے کا اک پيام ہے

ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہیں

ہاں جی آپ ہی کے نام ہے!!

(مرحا خان)

ختم شدختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ik Paigham E Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ik Paigham E Mohabbat written by Mirha Khan. Ik Paigham E Mohabbat by Mirha Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages