Baaghi By Dj New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 9 August 2024

Baaghi By Dj New Complete Romantic Novel

Baaghi By Dj New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Baaghi By Dj Complete Romantic Novel 


Novel Name: Baaghi 

Writer Name: Dj

Category: Complete Novel

شہر کراچی

کلفٹن کے پوش علاقے میں بنی  چوبیس منزلہ عمارت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی،، کسی کسی فلیٹ میں ہلکی روشنی مکینوں کا پتا دیتی تھی

اس عمارت کے ایک فلیٹ میں بیٹھا وہ  نہایت  خوبصورت کلین شیو جوان تھا

اس نے ریموٹ سے ٹی وی آن کیا

بریکنگ  نیوز  کا ساؤنڈ بجا  نیوز اینکرز چیخ رہا تھا

آپ کو بتاتے چلیں ٹارگٹ کلر  عرش ماچس کو آج ناکافی ثبوت کی وجہ سے باعزت بری کر دیا گیا ہے ،،،،، ،،،ٹی وی پر فوٹیج بھی چل رہی تھی لمبے بالوں اور داڑھی والا شخص پولیس افسران کے ساتھ کھڑا تھا،،،

اس نوجوان نے گردن کو جھٹکا دیا اور چینل بدل دیا 

اب وہ ہاتھ سے اپنے بالوں کو سیٹ کرتا کچن میں جارہا تھا تاکہ کچھ کھا سکے 

ایک نسوانی آواز ٹی وی پر گونجی ایک لمحے کے لئے اس کا وجود ساکت ہوگیا پھر وہ کچن میں آگیا

  آواز اب بھی آرہی تھی اس کا ہاتھ کانپا  تھا اور وہ تیزی سے لاونج میں آیا ،،،

مچھ جیل سے رہائی پانے والے  عرش ماچس  کی زندگی پر نظر ڈالیں تو  متعدد قتل ،راہ زنی ،ڈکیتی اور اغوا برائے تعاون کا انعام ہے معذرت الزام ہے ،اور

 اایسا پہلی بار ہوا تھا وہ  کوئی خبر پڑھتے ہوئے اٹکی ہو،،، وہ چار سال سے نیوز اینکرئنگ کر رہی  تھی،،اور اب تو پرائم ٹائم میں ایک کرنٹ افئیر کا پروگرام بھی کرتی تھی جو بہت مقبول ہورہا تھا

 ماچس  کا تعلق کراچی سے ہے ان پر انسداد دہشتگری ،،،، وہ  پھر رکی  تھی،،اس نے ہاتھ کے اشارے سے مزید خبر پڑھنے سے انکار کر دیا

 ساتھی اینکر کیو ملنے پر وہ  نیوز اسٹارٹ کر چکی تھی،،،،

نیوز اینکر ایشال آفندی اب پانی پی رہی تھی ہاتھوں کی لرزش کسی سے پوشیدہ نہیں تھی،،مگر سب جانتے تھے وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کی وجہ سے پریشان  ہے  جو کچھ دنوں کے لئے اپنے بابا کے پاس  گیا ہوا تھا،،،

وہ اب وہاں سے کھڑی ہو رہی تھی اس کا پروگرام ان ائیر آنے والا تھا ،، اسے کچھ تیاری کرنے سے پہلے خود کو فریش کرنا تھا

جو لگتا تھا آج وہ نہیں کر پائے گی 

پھر وہ میک اپ روم میں جانے لگی شاید یہ میک اپ اس کے چہرے کے تاثرات چھپا سکے

####

اس نوجوان نے اب انگلش  مووی چینل سیٹ کر لیا تھا بہت اداس چہرے پر  بھوری کانچ سی آنکھوں میں چمک  لئے وہ ایک بہت خوبصورت نوجوان تھا  اسکے سلکی بال  ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے، وہ اب سکون سے بیٹھے ہوئے پاستا کھا رہا تھا، جو کچھ دیر پہلے اس نے ہی بنایا تھا،،پھر وہ کچن میں گیا اور کچن اور برتن صاف کر کے رکھتے ہوئے اسے کچھ یاد آیا تھا اور اس کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ اگئی،،

 پھر وہ لنگڑا تا ہوا ایک تصویر کے پاس آکر رکا فریم میں ایک سنہری بالوں اور سنہری آنکھوں  والی خوبصورت لڑکی تھی،،جس کی مسکراہٹ بہت حسین تھی

٫کرو کج جبیں پہ سر کفن قاتلوں کو گماں نہ ہو 

غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا"

تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شعر پڑھا اچانک دروازے کا لاک کھلنے کی آواز آئی اس نوجوان نے اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس کیا,,,

####### 

ایک لڑکی  نے ڈور کا لاک کھولا اندھیرے میں ڈوبا فلیٹ آج کچھ زیادہ ہی اداس لگ رہا تھا،،،،خاموشی اس گھر میں اپنا بسیرا کر چکی ہے سونو ہوتا ہے تو کم از کم اس کی آواز سے زندگی کا احساس ہوتا ہے،،،

اس نے ساری لائٹس ایک ساتھ ہی ان کی اور خاموشی کو دور کرنے کے لئے ٹی وی فل والیم کر دیا،،،، پھر چونکی 

کیا وہ ٹی وی صبح کھلا چھوڑ گئی تھی ،،،

پر ٹی وی پر چلتے نغمے نے اس کو زیادہ دیر یہ سب سوچنے نہیں دیا

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہ چینل والے بھی پاکستانی بن جاتے ہیں ملی نغمے ہی آتے رہتے ہیں،،،،اس نے نخوت سے گردن کو جھٹکا دیا

اور آواز مدھم کی 

گانے کے بول اس کا موڈ خراب کر چکے تھے،،،

       "  میں تو دیکھوں گا تم بھی دیکھو گے 

            جب روٹی سستی ہوگی اور مہنگی ہوگی جان

         وہ دن بھی آئے گا جب ایسا ہوگا پاکستان"

ہنہہ یہ ملک کبھی نہیں بدل سکتا سارے ڈھکوسلے ہیں،،،

دن کے اجالے میں ٹی وی پر پاکستان کا دم بھرنے والی ایشال آفندی اس وقت بہت غصے سے چینل چینج کر رہی تھی پھر اس نے ترکی ڈرامہ  لگا لیا

ڈھیلے سے انداز میں وہ اٹھ کر کچن میں گئی،،،

ٹی وی کھلا ہونے پر وہ صرف چونکی تھی پھر یہ سمجھا تھا کہ وہ جلدی میں ٹی وی آف کرنا بھول گئی ہے لیکن کچن کی حالت نے اسے  حیرت سے فریز کر دیا

کچن بالکل صاف ستھرا تھا نفاست سے برتن دھو کر ریک میں رکھے تھے ،،وہ یہ سب کام رات گھر آ کر کرتی تھی صبح تو وہ جس بھاگ دوڑ میں گھر سے نکلتی تھی  کبھی کبھی تو ناشتے کے برتن لاونج میں ہی چھوڑ جاتی تھی

اس کو حیرت ہوئی کچن نا صرف صاف تھا بلکہ ایک طرف چولھے پر رکھی ہانڈی میں پاستا بنا ہوا تھا 

اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی  گھر میں کون ہوسکتا ہے گھر تو لاک تھا، چابی بھی اس کے پاس تھی،،،

سانس گلے میں اٹکا  جب اس کے پیچھے کوئی آہٹ ہوئی

کوئی بہت آہستہ قدموں سے چلتا بالکل اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا تھا

وہ اس کے اتنا قریب تھا کے وہ زرا سا ہلتی بھی تو اس وجود سے ٹکرا جاتی

کچھ لمحوں کے لئے دنیا تک گئی تھی صرف دو نفوس کی سانسیں تھیں جو زندگی کا پتا دے رہی تھیں

پھر اس کو بہت نرمی سے کسی نے پیچھے کندھوں سے تھاما اور   کان  میں سرگوشی کی

"کہا تھا نہ جب تک اپنے دشمنوں کو اپنے ہاتھ موت کے گھاٹ نہیں اتار دوں تمھارے سامنے نہیں آؤں گا ،،ہم ایک بار پھر ملیں گے،،،

وہ پوری روح سے کانپ گئی تھی

تو کیا آج فیصلے کا وقت آگیا تھا

####

کیوں کیا درباری تو نے میرے ساتھ یہ سب کچھ ،،،اس نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا

میں مم  نے  ہمشہ تیری مدد کی ہے عرش تجھے سمجھایا تھا  تیری غلطی سے تو گرفتار ہوا تھا،،ہنس کر کہا

گرفتاری تو میں نے خود دی تھی ،میں تو غداری کی بات کر رہا ہوں وہ کیوں کی میرے ساتھ،،،

میں نے ہمشہ تمھ تمھارا بھلا کیا ہے دیکھو آج بھی تمھارے آنے کی خوشی میں جشن کا پروگرام ہے رات یہاں آخر میرا یار آیا ہے  ،،،

کام کی بات کرو درباری تم سے یاری زمانہ ہوا چھوڑ چکا ہوں ہہاں یاریاں نہیں ہوتیں غرض ہوتی ہے بولو کیا غرض ہے تمھاری،،،وہ غرایا تھا

ہم تو یاروں کے یار ہیں تمھیں پہلے بھی اگاہ کیا تھا تم نے میری سنی نہیں اور پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تم نے اب بھی میری نہیں سننی پر میں نے تمھیں صرف آج پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے بلایا ہے مجھے تم سے اب کوئی غرض نہیں ہے،،،درباری کھسیانی ہنسی ہنسا

چلو یہ پیو آج تمھاری واپسی کا جشن منارہا ہوں ہر انتظام ہے آج یہاں اس نے آنکھ مار کر ذومعنی جملہ کہا

وہ دھیمے سے مسکرایا

ہاہ درباری تم اور تمھارے جشن ،،کھل کر بولو مجھے کرنا کیا ہے اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا جشن منانا بھی ہے یا نہیں ،،

سچ کہہ رہا کوئی کام،نہیں،بس تم یہاں سے جلے جاؤ میں نہیں چاہتا تم دوبارہ کسی مشکل میں گرفتار ہو  اب تم یہ سب نہیں کر سکتے تمھاری وہ ویلیو اب نہیں ہے ،،کروفر سے گردن اکڑا  کر کہا 

آج رات یہاں روکو صبح جس ملک کہو گےجانے کا انتظام کروا دوں گا چلو گلاس اٹھاؤ ،،وہ اب اس کے ساتھ بیٹھا شوق فرما رہا تھا

عرش کے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ تھی،،اب اس کی آنکھوں میں درد کے ساتھ نشے کا رنگ بھی واضح تھا ،،

تھوڑی دیر بعد اس نے اسٹریٹ  فائر کیا 

 درباری نے حیرت سے دیکھا اس  کے خیال میں وہ نشے میں مدہوش تھا اور کوئی اسلحہ  بھی اس کے پاس نہیں تھا تو یہ گن ،،،؟؟؟پھر یہ گن اور فائر،،،

درباری کا کرسی کے نیچے گن والا ہاتھ تھرا گیا ہاتھ سے گن گر گئی وہ اب زمیں پر گرا تھا گولی عرش کے پیر کو چھوتی گزری تھی

"تم لوگوں نے مجھے اس گیم سے نکال تھا  جس کا میں گیم چینجر تھا،،میں دوبارہ اس گیم میں صرف آیا نہیں ہوں میں اب بازی پلٹ دوں گا یہاں چال بھی اب میری ہوگی اور مہرے بھی "

تم  وہ سانپ ہو جو اپنی خصلت کبھی نہیں بدلتا میں آج یہاں پوری تیاری سے آیا تھا،، میری یہاں موجودگی سے تمھیں سمجھ نہیں آیا کہ میں اب وہ انسان نہیں رہا جو دوستی پر اعتبار کرتا تھا،،

وہ زمین پر تڑپتے انسان کو ایک لات مارتا ہوا گھر کے پچھلے راستے سے گیلری میں گیا اور وہاں سے کھلے پلاٹ میں کود گیا

#######

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اس کی بنیاد کلمے پر رکھی گئی ہے یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا ہے کہ یہاں ہم آزادی سے اپنی عبادات ، اپنے کاروبار اسلام کے بتائے طریقے سے گزار سکیں جہاں ہماری جان اور مال محفوظ ہو،،،

تقریر کرتے نوجوان کی پرجوش تقریر جاری تھی وہ  اینکر کے دئیے گئے ٹائم سے پہلے اپنے دلائل مکمل کرنا چاہتا تھا

کرسی پر بیٹھ کر وہ کمزور وجود  بہت محو ہو کر پروگرام دیکھ رہے تھے جب ایک نسوانی چیخ پر چونک کر حال میں واپس آئے

بند کریں یہ سب جھوٹے ہیں یہ سب بکواس کرتے ہیں پاکستان پاک نہیں ہے وہ اسلام کے نام پر نہیں حاصل ہوا وہاں کوئی پاک نہیں ہے ابا ،،،

میرا بچہ تم یہاں کیوں آئی ہو ،،جاو آرام کرو،

ان کا کمزور وجود کانپ رہا تھا وہ اس لڑکی کو سنبھال نہیں پارہے تھے 

جسے آج بہت دن بعد پھر  دورہ  پڑا تھا ہسٹریائی چیخیں تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھیں

وہ اب خود بھی رو رہے تھے،،،

#####

شیشے کے اس پار وہ مشینوں کے ذریعے مصنوعی سانس لیتی اس بے جان مورت کو دیکھ رہا تھا

جس کے بولنے سے مردوں میں جان آجاتی تھی آج وہ خود ایک زندہ لاش تھی صرف مشین کی اوپر نیچے ہوتی رہڈننگ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت تھی

وہ کافی دیر وہاں کھڑا اس کو دیکھتا رہا،، بہت آہستہ آواز میں اس سے کچھ کہہ رہا تھا جسے وہ سن ہی تو رہی ہے وہ تو اب چیخ و پکار بھی نہیں سن سکتی تو یہ سرگوشی کہاں اس تک پہنچی تھی،، پھر تھک کر سامنے چئیر پر بیٹھ گیا 

ہر روز کی طرح آج بھی اسے نا امید ہی لوٹنا تھا

کیونکہ اس لڑکی نے تو نہ بولنے کی قسم کھا لی تھی

میں نے کچھ نہیں کیا ہے پلیز مجھے بچا لیں ابا،،،،،میں یہاں نہیں  رہے سکتا ،،،،

 ایک  چوبیس سال کا لڑکا  انکا ہاتھ نہیں چھوڑ رہا تھا،،وہ کافی ڈرا ہوا تھا،،

پروفیسر عظمت علی نے بے بسی سے تھانے کے ایس ایچ او کو دیکھا،،،،پھر اپنے پوتے کے سوجھے ہوئے منہ کو مگر وہ کچھ بھی کہہ کر اس ظالم انسان کے غصے کو ہوا نہیں دے سکتے تھے،،،،

وہ نہیں پوچھ سکے کے کس قانون کے تحت اس  کا ریمانڈ لیا گیا ہے،،،

"او بزرگوں ہم نے کہا تو ہے آپ کاروائی مکمل کر دو بچہ لے جاؤ" ،،،،،،وہ خباثت سے ہنسا،،،،

بھائی لوگ بنا پھرتا ہے کالج میں پیپر آؤٹ کروا کر بلیک میں بیچ رہا تھا ،،، موبائل پر سولو کروا رہا تھا،،،، پروفیسر کا پوتا،،، لفظ چبا کر سامنے بیٹھے پروفیسر صاحب پر طنز کیا

"دنیا کے بچوں کی تربیت کرتے ہو جی  آپ استاد لوگ مگر چراغ تلے اندھیرا والا معاملہ ہے،،،،

پروفیسر عظمت کا سر جھکا ہوا تھا

وہ تو آپ جی ایس پی صاحب کے استاد ہو ورنہ آپ کا پوتا تو گیا تھا سالوں کے لئے ،،،تعلیم بھی ختم ، ہی سمجھو اس کی اب،،،،،سائبر کرائم کا کیس ہے،،،، وہ خباثت سے ہنس کر سامنے کھڑے لڑکے کو آگ لگا رہا تھا

"تو دیں آپ میرا کیس وہاں مجھے دو دن سے یہاں  رکھ کر تشدد کیوں کیا جارہا ہے،،کس قانون کے تحت،،،،،وہ نیچے نظر کیا لڑکا اب غرایا تھا،،،

"بس چپ ایک لفظ بھی اور کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ،،،پروفیسر صاحب  جلدی سے بولے ،،،،

پروفیسر صاحب ٹھنڈا کریں اسے بڑی گرمی ہے اور سمجھائیں آج کی جیت پر اکڑ نہیں دیکھائے ہم سے نہیں الجھے،،، یہ اگر کل ہی ہماری بات مان لیتا تو جی نوبت یہاں تک آتی ہی نہیں،،،،

لڑکے نے صرف گھور کر ایس ایچ او کو دیکھا تھا

مگر پروفیسر صاحب نے اس کا ہاتھ نرمی سے دبایا، اور آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا،،،

بس شاہ جی میں سمجھاؤں گا اسے آپ مجھے بتائیں کہاں سائن کرنے ہیں وہ جلدی سے بولے،،

بڑا اتھر گھوڑا ہے جی آپ کا پوتا،، ایسے جی دار لڑکے بڑے پسند آتے ہیں مجھے،،،،،قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،،،

لڑکے کا چہرہ ضبط سے سرخ ہوگیا تھا دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے  بند کئیں ،،،،،

پروفیسر صاحب جلدی جلدی سائن کرنے لگے وہ تیزی سے یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے،،،،،،

#####،###

"آپ کیوں لائے ہیں اسے سڑنے دیتے وہاں تھانے میں ،،ذلت کا نشان بن گیا ہے یہ لڑکا میرے لئے خاندان میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا،،،دو دن حوالات کی سیر کر کے آگئے ہیں پہلے ہی آوارہ گردی ،کا سرٹیفکیٹ حاصل تھا، شہر کے سارے غنڈے ان کے دوست ہیں اب تو تھانے میں دو راتیں بھی گزار آئے ہیں ،،،اگے کیا ارادے ہیں یہ بھی پوچھ لیں ،،،شجاعت احمد نے غصے سے کہا

"کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا سوچ رہا ہوں"،،،،وہ جو کافی دیر سے گردن جھکا کر شرافت کا مظاہرہ کر رہا تھا آہستہ آواز میں دادا سے کہا،،،،

دادا نے پہلے ہوتے کو گھورا پھر بیٹے سے بولے ،،،

،اچھا اب بس کرو میں نے اسے  بھی بہت ڈانٹا ہے اور دیکھو تو کیا حالت کی ہے ان لوگوں نے سارا چہرہ،،، پاؤں کتنے سوجھ گئے ہیں ،،،اس نے کچھ نہیں کیا ہے،جھوٹا کیس بنایا تھا ورنہ پیپر لیک اس نے تو نہیں کیا  تھا،،،

 اب اسے آرام کرنے دو،،،،،، وہ بیٹے کے سامنے پوتے کی حمایت کر رہے تھے

ابا آپ نہیں سمجھ رہے یہ حالت ہی اس کی مجھے پریشان کر رہی ہے یہ ان پولیس والوں کی نظروں میں آگیا ہے دوسری بار اسے لے کر گئے ہیں ،،،دو دن سے ہم پریشان تھے کہاں کہاں نہیں تلاش کیا تھا،،،،،شجاعت احمد نے جوان بیٹے کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا،،،،

اب ایسا کچھ نہیں ہوگا  میری ایس پی نظیر کرمانی  سے بات ہوئی ہے،،،،میں نے اس کے لئے کسی جاب کا بھی کہا ہے،،،عظمت صاحب نے کہا،،

ابا میں اسےملک سے باہر بھیجنا چاہ رہا ہوں،، میں نہیں کر سکتا یہ روز روز کے تھانے کچہریوں کے چکر ،اظہار سے بات کی ہے وہ اس کو آسٹریلیا بلا رہا ہے وہاں جاب کے ساتھ اپنی انجینرنگ بھی کمپلیٹ کر لے گا یہاں تو انجینیئر کے لئے جاب بھی نہیں ہیں،،، شجاعت صاحب نے کہا،،،

"میں یہ ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا ،،،،مجھے جو کرنا ہے یہاں ہی کرنا ہے،،"،وہ ایک دم بولا

ارمان تم چپ کرو میں بات کر رہا ہوں نہ اور شجاعت جب یہ نہیں جانا چاہتا تو کیوں زبردستی کر رہے ہو  شایان  پہلے ہی اپنی فیملی کے ساتھ ابو ظہبی  میں سیٹ  ہے  دوسرے کو بھی  ملک سے باہر بھیجنا چاہتے ہو،،،زچ ہو کر بیٹے کو دیکھا

تو دیکھ لیں کتنا خوش حال ہے شایان اور ابا میں چاہتا ہوں یہ یہاں سے چلا جائے اس کے بعد میں اور نیلوفر بھی شان کے پاس چلے جائیں گے ہم اب یہاں نہیں رہنا چاہتے،، بیٹے کی بات سن کرعظمت صاحب کے دل پر ہاتھ پڑا تھا 

اپنا ملک چھوڑ دو گے شجاعت علی،،،بہت دکھ سے کہا

"جی بالکل کیا دے رہا یہ ملک آپ کی وجہ سے پہلے ہی بہت بے وقوفی کر چکا ہوں ابا ورنہ آج اظہار کے ساتھ آسٹریلیا میں عیش کی زندگی گزار رہا ہوتا ،،اپ نے ہمشہ مجھے کمزور کیا ہے کبھی ملک سے باہر نہیں جانے دیا کبھی کوئی فیصلہ خود کے لئے نہیں کر سکا ہوں میں،،،اور اب میں اس کا مستقبل خراب نہیں ہونے دے سکتا یہ یہاں کچھ نہیں کر سکتا صرف آوارہ گردی،،،

،، اور بالکل فارغ تو نہیں بیٹھا کچھ نہ کچھ تو کر ہی رہا ہوں،،باور اچھی  جاب بھی ڈھونڈ رہا ہوں ،،، وہ تڑک کر بولا

"ملی جاب؟"

 تیسرے درجے کے شہری والا سلوک ہوتا ہے اور میں آپ دونوں کو صاف بتا رہا ہوں میں صرف اس کے  لاسٹ سمسٹر کا انتظار  کر رہا ہوں بس پھر اس کے پیپر بنوانے ہیں ،،، تم جانے کی تیاری رکھو پھر ہمشہ کے لئے خدا حافظ پاکستان،،،،،،شجاعت صاجب نے کہا

شجاعت  تم سنو تو،،،، عظمت صاحب نے بولنے کی کوشش کی

 ابا یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا ہے،،،پاکستان زندہ باد کے بجائے اب نعرہ لگنا چاہیے پاکستان سے زندہ بھاگ،،،،،خاص ہمارے شہر کے نوجوانوں کے لئے ،،،اور چلو اب گھر،،،

وہ جھٹکے سے کہتے ہوئے کھڑے ہوئے

یہ بھی نہیں دیکھا کہ  باپ اور بیٹے  کے چہرے پر کتنی اذیت آئی تھی اس جملے سے،،،،،،

"شجاعت ایک دو دن اسے یہاں رہنے دو میں سمجھاؤں گا تم پریشان نہیں ہو اور اب گھر جاؤ باقی گھر والے بھی پریشان ہورہے ہیں،،،، نرمی سے بیٹے سے کہا

"ابا اس کی ماں دو دن سے سوئی نہیں ہے اس کی حالت خراب ہے آپ سمجھائیں یہ میرے ساتھ گھر چلے،،،، پھر آپ جانتے ہو یہاں تابندہ اعتراض کرے گی وہ اسے ویسے ہی پسند نہیں کرتی ہے"،،،،،،شجاعت صاحب اپنے بیٹے کو اس کے دادا کے پاس چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے جانتے تھے یہاں رہا تو پھر ملک کی محبت جوش مارنے لگے گی،،،،

میں تابندہ کو سمجھا دوں گا وہ کچھ نہیں کہہ گی یہ میرا گھر ہے یہاں سے میں اپنے پوتے کو جانے کا نہیں کہہ سکتا اور تم جانتے ہو وہاں شایان اپنی بیوی کے ساتھ آیا ہوا ہے یہ اس  کی بیوی کی وجہ سے جانے سے منع کر رہا ہے وہ مذاق اڑاتی ہے اس کا،، پھر شایان کے طنز،،، ورنہ ماں سے تو آتے ہی بات کر لی ہے،،،،،،،انھوں نے شجاعت صاحب کے بڑے بیٹے اور بہو کا ذکر کیا

شجاعت صاحب بے بسی سے گھر جانے کے لئے کھڑے ہوگئے،،،،،

عظمت صاحب نے اپنے بیٹے اور پوتے کی طرف دیکھا

بیٹے کی باتیں آج دل دکھا گئیں تھیں،،

"بچے  جب جوان ہو جاتے  ہیں تو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں کسی کا بھی مشورہ لئے بغیر !

لیکن ہاں جب وہ ان فیصلوں میں خدا نخواستہ    

ناکام ہو جائیں تو مورد الزام والدین کو ہی ٹھراتے  ہیں"

آج وہ ان باپ بیٹے کے بیچ خود کو بے بس محسوس کرتے ہوئے سوچ رہے تھے

دونوں ہی اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے

########

وہ شاور لے کر  شیشے میں اپنا چہرہ دیکھ رہا تھا،،،غصے سے ماتھے کی رگیں پھول گئی  ،،،،اپنی ہی درد میں ڈوبی  چیخیں کانوں میں زہر گھول رہی تھیں

اس کے خوبصورت چہرے کے تاثرات اس وقت چٹانوں جیسے سخت تھے،،،،

برش زور سے ٹیبل پر پھینک کر بیڈ پر آکر چت لیٹ گیا سارا واقعہ کسی فلم کی طرح ذہن کے پردے پر نمودار ہوا ،،،

کیا قصور تھا میرا ،،،؟

ٹھیک کہتے ہیں بابا یہ ملک اب ہمارے لئے نہیں ہے میں اظہار انکل کے پاس چلا جاؤں گا کم از کم  باہر کی اسٹمپ کے بعد کوئی مجھے رجیکٹ نہیں کر سکے گا"

کوئی چپکے سے یاد آیا تھا ،پہلو میں ایک ٹیس اٹھی تھی ، ،پتا نہیں تکلیف جسم پر لگے زخموں کی تھی یا دل اور روح پر لگے زخموں کی اذیت  زیادہ تھی،،،مگر بہت  دیر وہ کچھ سوچ نہیں سکا،،،،

دو دن بعد سکون کا بستر اور گھر ملا تھا لمحہ نہیں لگا تھا نیند کو مہربان ہونے میں،،،،

########

اس کی آنکھ  اپنے چہرے پر کسی نرم لمس سے کھلی کمرے میں دبی دبی سرگوشیاں ہو رہی تھیں پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہاں ہے

پھر سامنے کے منظر نے اسے چونکنے پر مجبور کیا،،،

اسے ایسا لگا وہ پانچ چھ سال بعد سو کر اٹھا ہے 

اس کے بیڈ کے سرہانے ایک ڈھائی سالہ بچی کھڑی تھی شاید اس کے نرم چھوٹے ہاتھوں کی حرکت سے ہی آنکھ کھلی تھی ،،، اور دوسری طرف سامنے کھڑی محترمہ اسٹول پر چڑھی بک ریک سے کسی خزانے کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھی اور دو تین بچے ارد گرد کھڑے تھے اور ان محترمہ سے وہ خزانہ  لے کر کسی مقدس صحیفے کی طرح سنبھال کر رکھ رہے تھے ،،،،

گرین لانگ شرٹ اور چوڑی دار پاجامے میں وائٹ اور گرین ٹائی اینڈ ڈائی دوپٹہ ،لمبی سنہری زلفیں جو ڈھلی سی چٹیا میں قید تھیں کچھ آوارہ لٹیں اس قید سے آزادی پا کر چہرے پر آرہی تھیں جنہیں وہ کان کے پیچھے بھی کرتی جارہی تھی اور اس وجہ سے ہی ہاتھ میں پہنی چوڑیاں اور کانوں میں پہنی بالیاں ہلکا سا جلترنگ بکھیر رہی تھیں

وہ ہمشہ ایسی ہی نک سکے تیار رہتی تھی

ارمان کا موڈ خوشگوار ہو گیا وہ منظر کی دلکشی میں کھونے لگا تھا بچی کو بیڈ پر اٹھایا اور اسے  پیار  کرتے کرتے ہی چونک گیا ایک لمحہ لگا تھا ماحول کا فسوں  ٹوٹنے میں،، پھر چونک کر  سامنے دیکھا منظر وہی تھا حسینہ بھی وہی تھی اس لئے ہی  با آواز بلند توبہ استغفار پڑھی،،،

 سارے بچے  ڈر کر آواز کی طرف متوجہ ہوئے ،،،،،

"یہ تمھیں اپنے کون سے گناہ یاد آگئے جو با آواز توبہ کر رہے ہو،"،،،،لڑکی نے گھور کر دیکھا ،،،

"وہ گناہ جو میں نے کئے نہیں اور لگا کے سالوں پہلے  کر چکا ہوں،،،،" اے اللّہ مجھے معاف کر دیں پلیز جو میں نے ابھی سوچا اس پر، پلیز اللّٰہ بندہ بشر ہو غلط خیال  آہی جاتے ہیں،،،،،وہ پھر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا

لڑکی نے حیرت سے دیکھا،،،،،

" کیا سر پر بھی چوٹ لگی ہے"؟

حیرت  اور ہمدردی سے سوال کیا،،،،،

"بکواس کے موڈ میں نہیں ہوں میں"،،،،، ارمان نےچڑ کر کہا

"تو خاموش رہو کون کہہ رہا بکواس کرو،،"،ترنت جواب آیا،،

اور یہ زبان ہی تو پسند نہیں تھی ارمان کو دل چاہتا تھا کاش یہ لڑکی گونگی ہوتی تو کتنی خوبصورت لگتی"،،،

گھور کر کہا

تمھیں کسی نے یہ نہیں بتایا صبح صبح کسی جوان خوبصورت لڑکے کے کمرے میں اپنے آدھا درجن بچے لے کر نہیں اتے،،،،،بچی کو پیار کرتے ہو سامنے کھڑی محترمہ سے کہا،،،

خوبصورت بندے کے  کمرے میں،،،طنزیہ ہنسی

" تو میں تمھیں  بتا دوں کہ نہ تو یہاں کوئی خوبصورت بندہ ہے اور نہ اسکا کوئی کمرہ ہے ،،،یہ میرا گھر ہے اور یہ میرے  دادا کا کمرا ہے ،،،،،اور ارمان  تمھاری شکل کو اب کیا کہوں،،"،،وہ ہنسی تھی،،،،،، اپنی بات کا خود ہی مزا لیا تھا

آئے سلطنت پاکستان زبان سنبھال کر اور نکلو یہاں سے اپنے یہ سارے بچے لے کر،،،ازلی غصہ عود کر واپس آیا تھا،،،،اس لڑکی سے تو وہ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا  وہ تو بس ابھی جو خیال گزرا تھا تو اتنی بات بھی کر لی تھی،،،،

"اے ادھورے ارمان میں صبح صبح تمھارے منہ نہیں لگنا چاہ رہی  اس لئے خاموش ہوں ورنہ؟،،،،،انگلی اٹھا کر وارننگ دی

"ورنہ کیا کر لوگی بولو "،،وہ بچی کو گود سے اتار کر اس کے سامنے کھڑا ہوا

بچی کو یہ بے عزتی بالکل پسند نہیں آئی تھی رونا اسٹارٹ ہوا چاہتا تھا

گھور کر پہلے بچی کی طرف بڑھی،،،،،

"ارے میلا بچہ چپ میلا بےبی شونا ،،،گلے سے لگا کر پیار کیا باقی بچے بھی ارمان کو گھور رہے تھے،،،،،

تم سب چلو نکلو یہاں سے،،،فورا باقی بچوں کو دھمکی دی،،،،

بچوں نے باہر کو دوڑ لگائی ،،،،

وہ بھی حوریہ کو چپ کراتی ہوئی باہر نکل رہی تھی 

جب وہ پیچھے سے چیخا،،،،

"اے سلطنت پاکستان یہ اپنا کچرا بھی اٹھاؤ ورنہ تھوڑی دیر میں بہانے سے پھر میرے روم میں آؤ گی،،،،"

غصے سے کہا،،،،

وہ جو پاکستان کی جھنڈیوں کو  کچرا کہنے پر غصے  سے اسے دیکھ کر کچھ سنانا چاہتی تھی اگلے جملے نے گنگ کر دیا تھا حیرت سے سامنے کھڑے بندے کو دیکھا،،،،،

کتنی بڑی بات کر گیا تھا وہ ،،،،کیا سمجھتا ہے خود کو،،،،،دل میں کوئی کسک جاگی تھی پر جانتی تھی سامنے ایک بے درد شخص ہے جسے لفظوں سے زخمی کرنا ہی آتا ہے

خاموشی سے زمین پر بیٹھ کر وہ جھنڈیاں سمیٹنے لگی حوریہ کو  گود میں لئے وہ ایک ہاتھ سے سارا سامان سمیٹ رہی تھی ،

گرین کلر کے کرتے پر وائٹ دوپٹہ لپیٹے خود بھی ان جھنڈیوں جیسی ہی لگ رہی تھی

اب باقی بچے بھی اس کی مدد کے لئے اندر آگئے تھے

مگر ارمان کی نظر صرف سلطنت پر تھی جو حور کو گود میں لیے ایک ہاتھ سے اپنے بال چہرے سے ہٹاتی اب جلدی جلدی سارا سامان سمیٹ رہی تھی آنکھوں میں آنسو تھے،،،،،اور ایسا کرتے اس کی چوڑیاں دلفریب سا شور کر رہی تھیں

ارمان کو نا چاہتے ہوئے بھی یہ منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا،، وہ اس پر سے نظر ہٹانے کے لئے کمرے کی دوسری چیزوں کو دیکھ رہا تھا پر دل اج بغاوت پر اترا ہوا تھا

پھر وہ آگے بڑھا اور حوریہ کو اس کی گود سے زبردستی لے کر کاوچ پر بیٹھ گیا ،،،،

اب وہ حور سے بات کرنے میں مگن تھا

جنگلی  ظالم انسان،، اسے کبھی میرے دل کا خیال ہی نہیں آئے گا،،،دل میں مخاطب کیا

#######

جاگنگ ٹریک پر بھاگتے ہوئے اس کا فون بجا :,,,

مما کالنگ ،،دیکھ کر وہ ٹریک سے اترا،،،پارک کی بینچ پر بیٹھ گیا،،،،،

یس ماں،،،،اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو قابو میں کرتے ہوئے کہا،،،،

سنی کہاں ہو بیٹا آپ اتنی دیر ہوگئی میں پریشان ہوگئی ،،یہاں کے حالات اب ایسے نہیں ہیں بیٹا جلدی گھر ائیں،،،

ماں بس واپسی کے لئے گاڑی کی طرف ہی جارہا ہوں،،،،

انھوں نے جلدی سے بیٹے سے  خدا حافظ کہا جو ایک ہفتے پہلے ہی  پاکستان واپس آیا تھا

"وہ اپنی گاڑی تک ہی پہنچا تھا جب ایک بائیک اس کے برابر میں آکر رکی اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتا ایک شخص نے اس کی کمر پر گن رکھی اور موبائل مانگا،،،،

  ok ok don't shoot 

جلدی سے پاکٹ سے نکال کر موبائل دیا

پر وہ دونوں لڑکے سامنے اتنی تگڑی اسامی کو اتنے سستے میں چھوڑنے کو تیار نہیں تھے

جھٹکے سے سائیڈ پر کیا اور گاڑی کا گیٹ کھول کر گاڑی کی تلاشی لی والیٹ اور کچھ کیش گاڑی کی کمپارٹ سے لیا ہاتھ میں پہنی گھڑی اور گلے سے چین  اتاری 

پھر گاڑی  میں بیٹھ کر دروازہ لاک کیا 

وہ ایک دم چونکا

دیکھو گاڑی نہیں لے کر جاؤ یہ تم یہاں کسی کو بھی سیل نہیں کر پاؤ گئے اس میں اتنے سینسز،،،

باہر بائیک والے لڑکے نے اس کو ایک جھٹکا دیا اور پھر سفاکی سے بولا

بیٹا یہ کراچی ہے یہاں صرف یہ سڑک کراس کرنے کے بعد گاڑی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی تیرا باپ بھی ڈھونڈ نہیں پائے گا 

پر آج ہمارا موڈ اچھا ہے تیری گاڑی لے کر نہیں جارہے ہیں تھوڑی دور جا کر چھوڑ دیں گے لے جانا اپنی کار 

وہ کہہ کر بائیک کو کک لگاتے ہوئے کار میں بیٹھے لڑکے کو بھی اشارہ کیا اس نے بھی کار اسٹارٹ کی

کافی دور جا کر اس نے کار روکی اور بائیک کی طرف بڑھا سنی نے حیرت سے دونوں لڑکوں کو دیکھا 

کار سے اتر کر لڑکے نے پہلے سنی کو دیکھا پھر بائیک پر بیٹھتے ہی کار کی چابی جھاڑیوں میں اچھال دی اور بائیک پر رفو چکر ہوگئے

سنی کے منہ سے گالی نکلی ایک مکا اپنے ہی ہاتھ پر مار کر زمین پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا

 کوئی دل میں چیخا تھا 

ویلکم ٹو کراچی 

 ابا  میں کون ہوتا ہوں فیصلہ کرنے والا یہ تو آپ کے بیٹے کا حکم ہے،جس کی تعمیل مجھے کرنی، ہے،،،،وہ دکھ سے مسکرایا،،،،،

اور دو بار تھانے کی شکل دیکھ آیا ہوں ملزم تو بن گیا ہوں مجرم بننے سے پہلے یہ ملک چھوڑنا چاہتا ہوں ابا،،،،

"یہ تم کہہ رہے ہو ارمان  مجھے حیرت ہے" تم تو ان لوگوں کے خلاف تھے جو بہتر مستقبل کے لئے یہ ملک چھوڑ جاتے ہیں،،،،،عظمت علی نے افسوس سے کہا

مجھے بھی حیرت  ہے  پر میں اب پاکستان میں نہیں رہے سکتا ،،،،، اب بہت ہوگیا ابا

یہ ملک ان کو ہی مبارک ہو جن کا یہ ہے ہم کون ہے ابا  کوئی بھی نہیں،،، ہم آج بھی بھوکے ننگے  ہیں  ،،جس کا دل چاہتا وہ ہم کو جیسے چاہے اذیت دیتا یے،،،،پاکستان ایک ،،،،،،،

پاکستان پاکستان میرا پیغام پاکستان

خدا کی خاص رحمت ہے بزرگوں کی عنایت ہے

اثاثہ ہے جیالوں کا شہیدوں کی امانت ہے

باہر سے اچانک ہی نغمے کی آواز نے اسکا دماغ گھومایا تھا

"اے پاک سر زمین فیملی بند کرو اسے ہنہہ اگست کا مہینہ شروع نہیں ہوتا یہ پاکستانی جاگ جاتے ہیں،"،،ارمان نے گردن کو جھٹکا دیا

وہ اپنے چچا کی فیملی کو ان کے ناموں کی وجہ سے پاک سر زمین فیملی کہتا تھا 

کچھ عرصہ پہلے تک تم بھی ان ہی لوگوں میں  شامل تھے،،،،عظمت صاحب مسکرائے،،،

"ہاں بہت سال برباد کر چکا ہوں اس بے کار کی محبت میں اب نہیں"

"میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے"

نیا نغمہ پہلے سے بھی تیز آواز میں لگایا گیا تھا،،،،

"ترجمان عالی شان" اپنی اس" سلطنت پاکستان" سے کہو اگر میں باہر آیا  تو اس ڈیک کے ساتھ اس کو بھی اٹھا کر باہر پھینک دوں گا،،،،،وہ باہر سے عالی شان سے بولا

صرف سلطنت آپا نہیں ہیں سجل آپی بھی آئی ہوئی ہیں ،،عالی شان جلدی سے بولا

"عالی شان بولنے دو بچارے کو دل ٹوٹا ہے  اور موصوف رات ہی حوا اور لات دونوں کھا کر آئے ہیں حق بنتا ہے ان کا،،،چلو تم آجاؤ باہر ہم جھنڈیاں لگا رہے تھے تم کہاں آتنک وادی کی  دکھی پریم  کہانی سننے بیٹھ گئے،،،،،

آواز باہر برآمدے سے آئی تھی،،،،،ڈیک اب بند تھا پر اب بہت سارے بچوں کے ساتھ مل کر وہ نغمے گا رہی تھی،،،،،،

ارمان نے شکایتی نظر سے دادا کو دیکھا

اچھا چھوڑو بھئی جس کی جہاں مرضی جائے شاہان پہلے ہی باہر رہتا ہے تم آسٹریلیا چلے جاؤ گئے تو تمھارا باپ بھی شایان کے پاس چلا جائے گا عنایت علی اس دنیا ہی سے چلا گیا ہے

رہے گیا میں اکیلا  تو خود کو اور مرحوم بیٹے کے بچوں کو سنبھال لوں گا  بس کبھی قضا الٰہی آگئی تو چار کندھے ادھار مل ہی جائیں گے، اب میں تم باپ بیٹے کے بیچ نہیں اسکتا،، شکستہ لہجے میں کہہ کر اٹھنے لگے 

ابا آپ مجھے ایموشنل کر رہے ہیں it's not fair

میں آپ کی محبوبہ نہیں جسے آپ یہ طنز کے تیر سے گھائل کر رہے ہیں،،،

وہ زور  سے ہنس دئیے جب ان کی بڑی پوتی کمرے سے لاونج میں ائی

ارمان نے مسکرا کر کشور جہاں کی گود سے سوتی ہوئی  حوریہ کو لیا ،،،

،یہ دادی اماں صبح میری نیند خراب کر کے گئی تھی ادھر دو اس کو اب میں اس کی نیند خراب کرتا ہوں،،،،،

"یعنی تمھیں صبح سے پتا ہے میرے آنے کا اور تم اب کمرے سے نکل کر آرہے ہو شرم کرو مان۔  یہ ہے تمھاری دوستی میں تمھارا صرف سن کر بے قرار ہوگئی اور دو دن یہاں رکنے آگئی  اور تم،،، ،،،،کشور نے جذباتی ڈائیلاگ مارا جس کا سامنے بیٹھے بندے پر رتی برابر اثر نہیں ہوا،،،،،

 اوں ہوں  میرا نام بدنام کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم ہفتے کے پانچ دن یہاں ہی پائی جاتی ہو دو دن بھی اس لئے سسرال چلی جاتی ہو کہ کہیں پھپھو اپنے بیٹے کے کان بھر بھر کر تمھارا پتہ ہی  صاف نہیں  کر دیں،،،انھیں  تمھاری جیسی پھوڑ لڑکی بہو کے لئے کبھی نہیں پسند تھی،،،اگ لگانے والے انداز میں کہا

 کشور کا قہقہ بے ساختہ تھا،،،،

ہائے سچ  پھپھو تو اس وجہ سے مجھے کچن میں قدم نہیں رکھنے دیتیں ہیں کہ پھر گند کون سمیٹے گا،،،

"شرم کرو میری بیٹی کو میرے سامنے ہی کیسے بول رہے ہو ،،،،عظمت صاحب نے غصے سے گھورا اور اپنے کمرے میں چلے گئے،،،،

اب وہ دونوں اکیلے تھے پکی راز دار سہیلیوں کی طرح راز و نیاز کرنے کے لئے

وہ الو کہاں ہے آئے گا رات میں،،،،ارمان نے  کشور کے شوہر کا پوچھا 

دو سال بڑے ہیں تم سے عزت سے بات کرو،، جتایا گیا

ہنہہ تم سے ایک سال پڑا ہوں اس لئے تمھارے رشتے سے وہ مجھ سے چھوٹا ہوا،، اب بتاؤ آئیں گے آپ کے شوہر نامدار محترم عامر حیات

 یار وہ حیدرآباد گئے ہیں کمپنی کا کوئی کام ہے کل آئیں گے یا دیکھو رات میں آتے ہیں،،،،وہی تو پریشانی ہو رہی ہے مجھے بتا رہے تھے وہاں بھی بارشوں نے بہت برا حال کیا ہوا ہے ،،،،،،کشور نے بتایا،،

تم آسٹریلیا جارہے ہو ارمان ؟،،،پھر یاد آنے پر سوال بھی ساتھ ہی کر دیا

یہ خبر کیا اخبار میں آئی ہے ،،،،وہ ہنسا،،،

،

کیوں جارہے ہو؟سنجیدگی سے سوال کیا

میچ کھیلنے ،،،،مسخرے پن سے جواب دیا،،،

عیشا کی وجہ ،سے؟؟؟،،،،،ایک اور سوال

ارمان کے مسکراتے لب خاموش ہوئے حوریہ کو گود سے اتارا ،،،،،

بولو مان صرف ایک لڑکی کے لئے تم ہم سب کو چھوڑ کر جارہے ہو ،،،، دکھ سے چہتے کزن کو دیکھا جو بہترین دوست بھی تھا

ایسا کچھ نہیں ہے اور اب ایسا بھی جوگ نہیں لیا میں نے کہ ملک ہی چھوڑ دوں میں بس اب ان  ناانصافیوں سے تنگ  آگیا ہوں یار  ڈرتا ہوں کہیں ایسا کچھ نہیں کر بیٹھوں جس کی وجہ سے میرے خاندان پر کوئی آنچ آ جائے،،،،

جہاں تک بات ہے تمھاری دوست کی تو اور بھی غم ہیں محبت کے سوا پیاری کزن وہ کب تک انتظار کرتی خالی محبت سے پیٹ تھوڑی بھرتا ہے ،،،اس کے پاس اچھا آپشن آیا وہ سمجھدار تھی سہی وقت پر سہی فیصلہ کر لیا،،،، ہنس کر ماحول کے بوجھل پن کو ختم کیا

"اس کی شادی فکس ہو گئی ہے ،مجھے فون کیا تھا میں نے اتنی سنائی ہیں ،،،،کشور نے انکشاف کیا

ہاں مجھے پتا ہے ،،،اگلے مہینے ہے شادی ،،،اس کے بارات کے ڈریس  سے لے کر وہ ہنی مون پر کہاں  جارہی ہے یہ تک  مجھے پتا ہے ،،،،وہ تلخی سے ہنسا،،،،،

"تم اب بھی اس سے رابطے میں ہو اس نے اتنا برا کیا ہے تمھارے ساتھ"؟،،،،،عروج نے حیرت سے اپنے خوبصورت کزن کو دیکھا جس کا دل اس کی دوست نے ہی توڑا تھا،،،،

"میرے ساتھ اس نے نہیں میرے حالات نے برا کیا ہے اس کو حق تھا وہ اپنے لئے بہتر راستہ چن لیتی"،،،،گردن کو جھٹکا دیتے ہوئے کھڑا ہوا

دوسری بات کا بھی جواب دو تم اب بھی بات کرتے ہو اس سے؟؟؟؟جھوٹ نہیں بولنا،،،

نہیں کرتا ،،،مختصر جواب دیا

جھوٹ اپنا فون دیکھاؤ ،،، وثوق سے کہا

توبہ شکی عورت،،،اپنے میاں کو تو کھلا چھوڑا ہوا ہے مجھ سے اتنے سوال کبھی اس الو کا بھی موبائل چیک کر لے آخر کمپنی اتنا حیدرآباد کیوں بھیجتی ہے ،،،،بات ہوا میں اڑائی

بات نہیں بدلو ارمان ،،،میں تمھیں اتنا بے وقوف نہیں سمجھتی تھی کہ ایک لڑکی تمھارے ساتھ اتنا بڑا گیم کر دے اور تم پھر بھی اس سے رابطے میں رہو،،،،وہ روہانسی ہوئی،،،

پگلی بہنا میں رابطے میں نہیں قسم سے ،وہ تو اب آشیانہ آتی بھی ہے تو  یس ملتی ہے جیسے جانتی نہیں  پر اس کا ہونے والا ہزبینڈ  بھی آشیانہ کا ورکر ہے اور پھر یونی میں میرا سئنیر بھی رہے چکا  ہے اس سے ہی پتا چلتا رہتا ہے سب کچھ اکثر میرے برابر میں بیٹھ کر ہی وہ فون پر  بات کر رہا ہوتا ہے،، دیکھو کتنا بڑا جگرا ہے میرا  ،،،،ارمان نے قہقہ لگایا

شجاع تمھارا دوست ہے،، یعنی شجاع احمد وہ آشیانہ والا اوہ ارمان یہ لڑکی،،،،،کشور  نے حیرت سے سوال کیا،،،،

ہاں بہت اچھا "دوست " بلکہ اب تو دشمن جان بھی ہے،،،وہ کہتا ہوا وہاں سے جانے لگا 

پر دروازے میں کھڑی  سلطنت اور سجل نے راستہ روکا ہوا تھا وہ لمحے کے لئے ٹھٹکا 

پھر گردن کو جھٹکتا ہوا ان کے برابر سے نکلتا چلا گیا 

عروج نے حیرت سے پہلے منجمد ہوئی  سلطنت کو اور پھر ہلتے ہوئے پردے کو دیکھا جہاں سے ابھی ارمان علی گیا تھا

########

"ہاتھوں سے پہلے دماغوں کو مسلح کرنا ضروری ہے۔" 

"زندگی کوئی گھوڑا تو ہے نہیں کہ اسے چابک لگا کر چلایا جائے۔" 

میکسم گورکی کے ناول "ماں" سے  اقتباس

"یہاں شعور کی کمی ہے اس لئے جس کو حق نہیں ملتا وہ چھینے پر آجاتا ہے یہاں نیتوں کا فرق ہے تقسیم میں اعتدال  کی کمی ہے اس لئے یہ انتشار ہے،،،

ہر شخص اب اس لئے کرپٹ ہے کہ جب اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو کسی نے آواز کیوں نہیں اٹھائی،،،

تو میں بھی کیوں کسی کے لئے کچھ کروں بس میرا بھلا ہو باقی ملک جائے بھاڑ میں اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہے 

اور اس کے لئے ہم سب نے ہی مل کر ذہن سازی کرنی ہے

وہ بول رہا تھا اور بیس پچیس لڑکے اور لڑکیوں کا ایک گروپ اسے بہت غور سے سانس روکے سن رہا تھا

کچھ ایسا ہی سحر طاری ہوتا تھا جب حیدر علی بولتا تھا،،،

 ایڈوکیٹ حیدر علی  کراچی کا ایک نجی  سوشل ورک ادارہ بہت کامیابی سے چلا رہا تھا جس میں اس کے ساتھ بہت سے لوگوں کے علاؤہ ارمان علی اور سلطنت علی بھی پیش پیش تھے

حیدر بھائی سب سے زیادہ ناانصافی تو ہم کراچی والوں کے ساتھ ہی ہورہی ہے 

آپ دیکھو نہ ہم باہر کتنے غیر محفوظ ہیں کوئی بھی انسان ہمیں صرف ایک موبائل کے لئے گولی مار جاتا ہے یار اسے پتا ہے اس کو کوئی پکڑنے والا نہیں ایک بندہ مارے گا کچھ دن کے لئے اپنے علاقے میں واپس چلا جائے گا ،،،شافع نے افسوس سے گردن جھٹکی،،،

ہاں اور اگر ہم اسلحہ رکھیں تو دہشت گرد ہیں غدار ہیں،، میں تو کہتا ہوں جو ہمیں مارے پھر اس کو ہم بھی تو ماریں کب تک بزدل بنے ان کے ہاتھوں کو مضبوط کریں گے ،حامد خان نے نخوت سے کہا،،،

اور اس سے کیا ہوگا کیا کرائم ریٹ کم ہو جائے گا،، حیدر علی کہتے کہتے چپ ہوا تھا 

وجہ تھی وہ شہد رنگ زلفوں والی لڑکی جس کے آنے سے وہ سب کچھ بھول جاتا تھا دن رات کا فرق بھی،،،

لڑکی نے اپنی خوبصورت مدھر آواز میں سلامتی بھیجی پر  سنہری کانچ سی آنکھوں میں غصہ تھا کیونکہ ہال روم میں دبی دبی سرگوشیاں اور معنی خیز ہنسی کا تبادلہ ہو رہا تھا

حیدر علی نے کنفیوژ ہو کر سب کی طرف دیکھا اور پھر کہا 

کہاں تھے ہم،،،؟

حیدر بھائی ہم تو یہاں ہی تھے آپ کی خبر نہیں کہاں نکل گئے تھے،،،ارمان علی نے شرارت سے کہا

حیدر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کن انکھیوں سے اس حسینہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا جو سوجھ گیا تھا

اور ایک بار پھر وہ ماحول سے کٹ گیا تھا

غصے  سے ست رنگی چہرے نے پھر ماحول سے غافل کر دیا تھا

سنی  بیٹا آپ تابی کے گھر نہیں گئے وہ ناراض ہورہی ہیں،،،،فرخندہ بیگم نے کہا

ماما آپ مجھے کہیں جانے دے رہی ہیں میں تو پاکستان آ کر قید ہوگیا ہوں،،،،،،اس نے چہرے پر مظلومیت لاتے ہوئے شکایت کی،،،،

ارے میں نے کب تابی کے گھر جانے سے منع کیا ہے ،،،وہ حیران ہوئیں،،،،،

 منع نہیں کیا پر ہر جگہ ڈرائیور کے ساتھ جانے کا آرڈر جو دیا ہے،،،اس نے منہ بنایا

وہ اس لئے کہ تمھیں یہاں کے راستے اب ٹھیک سے یاد نہیں ہیں اور ،،،،،

ماما میں صرف پانچ سال کے لئے کینیڈا  گیا تھا اور اس میں بھی دو  دفعہ کراچی آپ لوگوں سے ملنے آیا ہوں ،،میرے لئے یہ راستے اجنبی نہیں ہیں ویسے بھی یہاں کچھ بھی تو نہیں بدلا کوئی نہیں کنسٹرکشن کوئی فلائی اوورز  بیرج  کچھ  بھی تو نہیں بنا  ان سالوں میں بلکہ جو بنا ہوا تھا وہ بھی اب تو کھنڈر بن گیا ہے،،،،،گردن کو افسوس سے ہلایا،،،،

جی بیٹا جی یہ ہی بات ان سالوں میں کراچی بالکل اجڑ گیا ہے سڑکوں کی حالت مذید خراب ہوچکی ہے اور اسٹریٹ کرائم   بہت زیادہ بڑھ گیا ہے پھر تمھارے ساتھ تو آتے ہی کتنا برا حادثہ ہوگیا ،،،، وہ پریشانی سے گویا ہوئیں

اوہ موم  وہ کراچی کا ویلکم اسٹائل ہے مجھے میرے سارے فرینڈ نے مبارک باد دی ہے کہ اب میں ٹھیک سے کراچی والا بنا ہوں جب تک یہاں موبائل اسنیچینگ نہیں ہو آپ اس شہر میں خود کو علاقہ غیر کا سمجھو،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا،،،

اچھا اچھا بس ،،،، شام میں ہم دونوں تابی کے گھر چلیں گے اوکے میں نے فون کر کے بتا دیا ہے،،،،انھوں نے ہنستے ہوئے کہا،

اوہ ماں انھیں بتا کیوں دیا اچانک چلتے سرپرائز رہتا،،،، ازمیر  حیات نے افسوس سے کہا

وہ ناراض ہوجاتی جانتے تو ہو سسرال میں رہتی ہے ان چیزوں کا بہت خیال رکھتی ہے،،شام میں جلدی آجانا ،،،،وہ کہتے ہوئے روم سے جانے لگیں

ماں  آپ آج ان سے سلطنت کے لئے کوئی بات نہیں کریں گی،،،وہ ایک دم ہی بولا

سنی تم تو پسند کرتے سلطنت کو وہاں سے فون پر تم نے ہمشہ مجھ سے یہ ہی کہا ہے پھر ہر کچھ ماہ بعد اس کی نئی پکس مانگنا اور آج یہ بات کیوں؟

وہ حیران ہوئیں

مام ایسا کچھ نہیں جو آپ سمجھ رہی ہیں بس میں چاہ رہا ابھی رشتے والی بات رہنے دیں وہ کمفرٹیبل رہے میرے ساتھ میں بس یہ چاہ رہا ہوں

پھر آپ ہی کہہ رہی تھی۔ وہ پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتی تو مجھے پہلے اس سے یہ سب باتیں کرنی ہیں،،،،وہ انھیں تسلی دیتے ہوئے خود کو بھی مطمئن کر رہا تھا

#######

سلطنت تم نے پھر یہ بھیڑ جمع کی ہوئی ہے اف کیا کروں میں اس لڑکی کا،،،،چلو بھاگو تم سارے اپنے اپنے گھر تابندہ بیگم غصے سے چلائیں

اچھا بچوں تم لوگ یہ پلانٹس  لے جاؤ اور اپنے گملوں میں لگانا کل میں سب سے پوچھوں گی ،،وہ اب مسکرا کر بچوں سے مخاطب تھی ،،،مما کی بات کا اثر بھی تو زائل کرنا تھا

"اس بار ہمارا عزم ہم کاغذ کی جھنڈیاں اور باجوں میں اپنے پیسے نہیں خرچ کریں گے پودے لگائیں گے،،،"بچوں کو باور کروایا،،،

سارے بچے خاموشی سے تھیلیوں میں لگے چھوٹے چھوٹے پلانٹ اٹھا کر باہر جانے لگے

پھر وہ ہاتھ جھاڑتی ہوئی مما کی طرف مڑی ،،

جی والدہ محترمہ اب فرمائیے بندی ہمہ تن گوش ہے،،،،

 سلطنت یہ سب کیا ہے ؟ آپا آرہی ہیں شام میں اور ان کے ساتھ  ازمیر بھی آرہا ہے  تم  حلیہ دیکھو اپنا اور  ثم نے یہ لان کا بھی کیا حال کیا ہوا ہے  پہلے ہی یہ گھر بالکل کھنڈر بن گیا ہے اور اس جگہ کو تو اب لان کہنا بھی شاید لان کی توہین ہوگی،،، وہ افسوس سے اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی نظروں میں آپا کا لش گرین لان اور خوبصورت بنگلہ آگیا تھا

سلطنت نے افسوس سے ماں کو دیکھا وہ ان کے اس کلاس کمپلیکس پر بہت تنگ تھی،،،،

آپ کو افسوس گھر پر ہے لان پر ہے یا مجھ پر زرا روشنی ڈال دیں ،،،،،

فلحال صرف تم پر کیونکہ باقی کچھ بھی میں بدل نہیں سکتی اور اب خاموشی سے جاؤ شاور لو اور انسانوں کی طرح اچھا سا تیار ہو جاؤ پارلر بھی نہیں گئی ہو تم کب سے کہہ رہی ہوں اسکن دیکھو کتنی رف ہورہی ہے،،، تم سجل کو بلالو اس کے ساتھ پارلر کا چکر لگا لو،،،،

مما انی پہلی بار ہمارے گھر نہیں آرہی ہیں ہزار بار آچکی ہیں اور رہا  ازمیر  تو وہ بھی اس گھر  میں اس لان میں ہمارے ساتھ ہی کھیل کر بڑا ہوا ہے اب اگر وہ انگلینڈ  کی اسٹیمپ اپنے اوپر لگوا کر آگیا ہے تو ہم سب اس کے لئے خود کو نہیں بدل سکتے،،،سلطنت نے  اپنے گرین کرتے کی نادیدہ سلوٹیں ہاتھ سے دور کرتے ہوئے کہا

تم تو جب بولنا فالتو ہی بولنا  فورا جاؤ کپڑے چینج کرو اور سنو آج کوئی نیا ڈریس پہننا ضروری نہیں ہے کہ اگست شروع ہوتے ہی تم یہ گرین رنگ میں رنگ جاؤ اپنا وہ ڈیزائنر سوٹ پہنو جو کشور نے گفٹ کیا ہے، سلطنت ،اسٹائل بھی کوئی چیز ہوتی ہے آج کل کے حساب سے فیشن کیا کرو،،،

 ایک تو پہلے ہی تمھارے دادا نے اس نکھٹو کو گھر پر روک لیا ہے آپا کے سامنے کتنی شرمندگی ہوتی ہے پھر وہ اپنی زبان بھی تو کنٹرول میں نہیں رکھتا اور میں سوچ رہی ہوں،،،،، تابندہ بیگم کو آج سب سے زیادہ غصہ ارمان کے گھر میں رکنے پر ہی آیا تھا،،،

"مما آپ کے یا میرے سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا اور پلیز آپ لوگوں کو ان کی کلاس اور لباس  سے عزت دینا چھوڑ دیں ،،،،،انسانوں میں تو یہ اے کلاس بی کلاس کیٹگری نہیں کیا کریں،،،وہ کہتی ہوئی اندر جا رہی تھی 

گھر کے انٹرنس پر ارمان کھڑا تھا وہ لمحے کے لئے ٹھٹکی،،،

،"،،تم کب بڑی ہوگی سلطنت پاکستان   آج کے دور میں انسان کی ویلیو زیرو ہے جب تک اس کی جیب خالی ہے،،،ارمان ہنس کر کہتے ہوئے  لان کی روش پر آیا 

تابندہ بیگم نے نخوت سے سر جھٹکا،،،

چچی جان آپ بالکل ٹیشن نہیں لیں میں ناراض ہو کر نہیں جارہا شام میں آپ کے مہمانوں کے آنے سے پہلے میں بھی گھر آجاؤں گا آخر آپ کے لندن پلٹ بھانجے کو کمپنی بھی تو دینی ہوگی،،، ہنس کر تابندہ کا دل جلایا

سلطنت کا قہقہ بھی بے اختیاری تھا وہ جلدی سے گھر کے اندر بھاگ گئی 

#######

تابندہ کی بڑی بہن فرخندہ   لودھی آج  ازمیر لودھی  کے ساتھ آرہی تھیں دونوں بہنوں کی خواہش تھی کہ ان کا یہ رشتہ اور مضبوط ہوجایے ،،،ازمیر  کو بھی کچھ خاص احتراز نہیں تھا اسے اپنی یہ مشرقی حسن سے مالا مال کزن اچھی لگتی تھی بس اس کی پاکستان سے محبت اور شادی کے بعد پاکستان نہ چھوڑنے کی ضد سے پریشان تھا،،،

اور اس لئے ہی ابھی مام کو رشتے کے لئے منع کیا تھا وہ پہلے سلطنت سے خود بات کرنا چاہتا تھا

#######

ماما دیکھیں وہ رات ڈرامے والی ہیروئن کا انٹرویو آیا ہے  میگزین میں ،،،سجل نے مما کو آواز دی 

میں جو بڑے آرام سے ناشتہ کر رہا تھا چونک گیا

اب میری ماں اور بہن اس حسین مورت کے قصیدے پڑھ رہی تھیں جس کی ایکٹنگ بھی کمال تھی،،،میں ناشتے کے ساتھ ایک نظر ان دونوں پر بھی ڈال رہا تھا جب میری بہن کی آواز نے میرے کان کھڑے کر دئیے

ماما کاش میں اس لڑکی کو اپنی بھابھی بنا سکتی؟ آہ یہ کتنی خوبصورت ہے،،،سجل میری طرح ہی حسن پرست تھی ،،میں با ظاہر ناشتے میں مگن تھا مگر مجھے ماما کے جواب کا بھی تجسّس تھا،،

  توبہ کرو لڑکی کیسی بدفعال منہ سے نکالی ہے ارے میرے بیٹے کے لئے یہ اداکارہ ہی رہے گئی ہے کیا ہٹو جن کے نہ گھر کا پتا نہ خاندان کا،،،

ماما میں تو مذاق کر رہی تھی اور یہ اتنی حسین لڑکی کونسا آپ کے بیٹے سے شادی کرے گی زرا دیکھیں تو کس خاندان سے ہیں مشہور ٹی وی  ایکٹریس کی بیٹی ہے اور خاندان بھی کتنا اسٹرونگ ہے سندھ کے فیوڈل سسٹم سے ہیں،،،اور ،،رات تو آپ کہہ رہی تھی کتنی معصوم سی لگتی ہے اس کی ماما بھی بڑی شریف اداکارہ ہے اور صبح  اپنا سیاسی بیان کہہ کر بات بدل دی ہے

"ہاں تو یہ لوگ بس ٹی وی پر ہی اچھے لگتے ہیں گھریلو لوگوں سے ان کا کیا واسطہ "،،،ماما کا لیکچر اب شروع ہوگیا تھا جس سے اب میرا بلڈ پریشر بڑھ رہا تھا جب ہی غصے سے سجل کو مخاطب کیا

"کیا آج یہ خاندان ہی  ڈسکس کرنا ہے جاؤ میرے لئے ایک کپ چائے لاؤ ،،،

سجل جلدی سے کچن میں بھاگی،،

ماما نے میرے چہرے کے تنے ہوئے تاثرات دیکھے

"بیٹا تم کیوں دل برا کرتے ہو وہ بچی ہے ایسے ہی کہہ دیا میں جانتی ہوں تمھیں اس طرح کی لڑکیاں کتنی نا پسند ہیں ،،میرے بیٹا ماشا اللّہ بہت حیا والا ہے،،،وہ تو ڈرامہ دیکھتا بھی نہیں نہ کہ ڈرامے کی ہیروئن سے استغفر اللّٰہ 

ماما کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں ،،،

میں کسی خواب سے جاگا تھا ماں کے الفاظ کسی چابک کی طرح لگے تھے

اور اگر ماما کو پتا چل جائے کہ رات میں نے بھی یہ ڈرامہ دیکھا تھا   اور اس لڑکی کے ساتھ اس کے ہی  گھر میں ،،اور یہ کہ وہ ان کی  بہت جلد ہونے والی بہو ہے کہ اب مجھے اس کے علاؤہ کچھ نظر ہی نہیں آتا 

،،کچھ آوازیں حیدر عباس کے کانوں میں گونجی،،،

""حیدر دیکھو مجھے تم دونوں کے ریلیشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے تم دونوں دوست ہو ساتھ پڑھے ہو پھر تمھاری انجیو بھی تم لوگ مل کر چلا رہے ہو  پر یہ رشتے کی  باتیں بڑے کریں تو ہی اچھا لگتا ہے تم اپنی مدد کر لے کر آؤ میں وعدہ کرتی ہوں  شبیر   کو میں منا لوں گی صرف اپنی بیٹی کی خوشی کے لئے، ورنہ تم جانتے ہو ہمارا تعلق جس سیاسی گھرانے سے ہے وہاں یہ ناممکن ہے،،،،،

شبیر قاضی سیاست میں بہت متحرک تھے ،،،سندھ کی سیاسی جماعت سے تعلق تھا

اور جب وہ رات واپس آرہا تو وہ حسین مورت  گیٹ تک اسے چھوڑنے آئی تھی

" میں نے تمھاری ضد مان لی تھی اب تم بھی میری خواہش کا احترام کرو گی  یہ تمھارا پہلا اور آخری پروجیکٹ ہے بس،اب تم شوبز چھوڑ دو گی"،،، حیدر نے نرمی سے کہا

حیدر تمھیں کیا مجھ پر بھروسہ نہیں ہے میں نے کہا ہے نہ تم میری سب سے بڑی خواہش ہو اور تمھارے آگے ہر چیز ثانوی ہے،، مجھے ویسے بھی شوبز میں نہیں آنا ہے وہ تو زمل آنٹی کا پروجیکٹ تھا وہ بہت انسسٹ کر رہی تھیں تو بس کر لیا انھیں اپنے ڈرامے کے لئے میرے جیسی حسین اور معصوم لڑکی چاہیے تھی ،،ایک ادا سے کھلکھلا کر کہا

وہ  دم بخود ہی تو رہے گیا تھا جھرنوں جیسی ہنسی کے سامنے،،، ،،،

بھائی چائے  حیدر بھائی،، بھائی،،سجل کی آواز دور سے آئی

ہمم ہاں کیا؟

چائے،،،وہ حیران ہوتے ہوئے بولی

"تم بہت خاموش نہیں ہوگئیں پہلے کے مقابلے میں"،،،ازمیر  لودھی کھانے کے بعد لان میں سلطنت کے ساتھ واک کر رہا تھا وہ کچھ بات کرنا چاہتا تھا پر سلطنت کی مسلسل خاموشی سے وہ اکتا گیا،،،

مما تو کہتی ہیں میں بہت بولتی ہوں ،،،وہ ازمیر کو دیکھ کر بولی

پر مجھے تو ایسا نہیں لگ رہا جب سے میں ہی بول رہا ہوں ،،،شکایت کی

اور میں آپ کو سن رہی ہوں ،،،ترنت جواب دیا

میں بھی تو سننا چاہتا ہوں،،،ازمیر نے اس کے خوبصورت سراپے  کو دیکھتے ہوئے کہا

کیا سناؤں کچھ خاص ہے ہی نہیں بس روٹین لائف،،کالج، اینجیو،  گھر ،یہ ہی زندگی ہے میری،،،سادگی سے بتایا

تم بہت بدل گئی ہو،،، بہت گہری نظروں سے دیکھا

اچھا کس  طرح مجھے تو لگتا ہے مجھ میں کوئی چینج نہیں آیا،، میں تو ویسی ہی ہوں جیسی پہلے تھی،،شکل مزاج سب حسین  ترین  ،،، وہ ہلکے سے ہنسی

نو ڈاوٹ تم پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگئی ہو،،،عادتیں بھی سیم ہیں کم از کم یہ چودہ اگست  سیلبریشن  والی  لیکن پھر بھی کچھ بدلا ہے یہاں،،،،بے ساختہ ہی ازمیر کے منہ سے نکلا اور ہاتھ سے دل کی طرف اشارہ کیا

سلطنت نے حیرت سے دیکھا اور نظریں چرائیں

ویسے  لان کی کافی خوبصورت سجاوٹ کی ہوئی ہے منی پاکستان لگ رہا ہے بچپن یاد دلا دیا تم نے،،،جب ہم بھی بڑے جوش میں یہ فلیگ ،لائٹس اور اس طرح کی ہی ڈیکوریشن کرتے تھے فورٹین اگست کے لئے،،

وہ ہنسا تھا 

اب نہیں کرتے آپ کوئی اہتمام؟ ،،، معصومیت سے سوال کیا

نہیں یار اب ٹائم ہی نہیں ہوتا پھر وہاں تو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ آج چودہ اگست ہے،،، کوئی چھٹی نہیں ہوتی ،،،لیکن یہاں پاکستان میں بھی جب میں تھا جب بھی بس بچپن میں ہی اس طرح منائی تھیں پر تم تو آج بھی بچی ہو ،،، ازمیر نے اپنی نظریں پھر اس کے چہرے پر جمائیں   لگا کوئی سحر ہے جو جکڑ رہا ہے اور وہ جو مام کو شادی کی بات ابھی نہیں کرنے کا کہہ رہا تھا اپنے ہی ارادے متزلزل ہوئے تھے

"تو آپ کو لگتا ہے یہ شوق بڑے ہو کر ختم ہوجاتا ہے"

تیکھے پن سے سوال کیا

نہیں پر اتنی فرصت نہیں ہوتی لیکن یہاں آکر سچ بہت خوشی ہورہی ہے بلکہ میں نے سوچا ہے 14 اگست کو میں صبح سے یہاں آجاؤں گا پھر تمھارے ساتھ سارے شہر کی خاک چھانتے ہوئے آزادی منائیں گے تم اس دن بھی یہ ہی ڈریس پہننا پھر مجھے پرچم ساتھ لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی

شرارت سے اس کی طرف دیکھا وہ اس وقت بھی گرین اور وائٹ شیفون کی لانگ اسٹریٹ شرٹ اور کیپری میں تھی،،،

آپ کو وہاں یہ سب یاد نہیں آتا  یہاں کی عیدیں ،رمضان ،چودہ اگست  یہاں کا سمندر ؟؟؟ سلطنت نے سوال کیا

سچ کہوں تو اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا وہاں کی زندگی بہت مصروف ہے پر جب پاکستان فون کرو اور پتا چلے کہ یہ فیسٹول چل رہا ہے یا یہ تہوار آنے والا تو ظاہر ہے دل اداس ہوتا ہے تنہائی کچھ زیادہ محسوس ہوتی ہے

میں بھی یہاں کی ہر چیز کو یاد کرتا ہوں عیدیں ،بازار کی رونقیں ،رمضان کا مزا  کزنز کی شادیاں جن کی مجھے صرف پکچرز ملتی ہیں  سب یاد اتا ہے،انسان ان چیزوں کو نہیں بھولتا جو اس کے دل سے جڑی ہوں

"میں تمھیں بھی بہت یاد کرتا ہوں وہاں سلطنت"،!،،،

کہتے کہتے وہ اس کے سامنے آکر رک گیا ایسے کہ اگر سلطنت اپنے قدم نہیں روکتی تو ٹکرانا یقینی تھا،،،

سلطنت نے حیرت سے سامنے کھڑے اپنے خوبرو کزن کو دیکھا،،،

"تم نے کبھی مجھے یاد کیا"؟گھمبیر لہجے نے سلطنت کو چونکایا

"میں نے آپ کے بارے میں کبھی ایس طرح نہیں سوچا ،،" ازمیر بھائی،،،وہ کہہ کر پاس سے نکل جانا چاہتی تھی

،

"اور میں نے تمھارے سوا کسی کو نہیں سوچا سلطنت دل ،،،،ہاتھ پکڑ کر روکا

 اور سوچنے میں کتنی  دیر لگتی ہے اجنبی  تو نہیں ہیں ہم تمھارے سامنے ہوں   بتاؤ  تمھیں کیسا  لگتا ہوں؟ آنکھوں میں ایک شوق آباد تھا

"آپ پہلے سے کہیں زیادہ بولڈ ہوگئے ہیں" ،،،  ناگواری سے کہتے ہوئے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی

"ایسی کیا بولڈنیس دیکھا دی میں نے تمھاری تعریف کی ہے یا اپنی فیلنگز بتائی ہیں  وہ بھی کافی تہذیب کے دائرے میں ،ازمیر کو ہنسی آئی تھی اس کے ناراض ہونے پر،،،

"یہ پاکستان ہے آپ کا لندن نہیں "،،غصے سے ستواں ناک کچھ اور اوپر ہوگئی تھی

"تم انجان تو نہیں ہوگی مما اور انی کی خواہش سے پھر  ،،"،،ازمیر نے بہت نرمی سے سوال کیا

وہ بس اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی 

ازمیر لودھی ایک کامیاب انسان بہترین پرسنلٹی ،،بھر پور وجہیہ مرد جس کیی انگلینڈ سے واپسی سارے خاندان اور سرکل میں ہلچل مچا گئی تھی اس کی شادی آج کل ہاٹ ٹاپک تھا 

 خاندان کی بہت سی لڑکیاں سر توڑ کوشش میں تھیں کہ ایک نظر فرخندہ لودھی  کی ان پر بھی پڑ جائے یا ازمیر انھیں کوئی لفٹ کرا دے اور وہ آج سلطنت کے سامنے سوالی بنا کھڑا تھا 

"میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی" ،،بہت مضبوط لہجے میں کہہ کر سامنے والے کی مضبوطی چیک کی

ازمیر کوئی جواب دیتا اس سے پہلے داخلہ دروازے سے ارمان علی اندر آیا 

ایک لمحے کے لئے چہرے پر حیرت آئی تھی پھر خود کو کمپوز کرتا ہوا سے جانے لگا

ارمان  سنو  رکو،،،، میں نے جو سامان منگایا تھا لائے تم؟  ،،،سلطنت نے زور سے آواز دے کر پوچھا

وہ رکا ایک دم ہی سلطنت پر غصہ آیا تھا نا چاہتے ہوئے بھی واپس دونوں تک آیا 

اور ازمیر کو سلام کرتے ہوئے مصافحہ کیا،،،

وعلیکم السلام کیسے ہو ارمان ،،، بہت محبت سے سوال کیا 

جی شکر الحمد للّٰہ ،،، مسکرا کر جواب دیا 

وہ جلد از جلد جانا چاہتا تھا۔ وہ دیر سے اس لئے ہی آیا تھا کے مہمانوں سے سامنا نہیں ہو پر لان میں ہی ٹاکرا ہوگیا تھا

میں نے کچھ پوچھا ہے ارمان،،، سلطنت نے بہت سنجیدگی سے سوال کیا

ہاں لے آیا ہوں  پیک کرنا باقی ہے آشیانہ میں ہی رکھنا تھا یہاں گھر تو نہیں لانا تھا ،،،ناگواری سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

 کشور کے ساتھ تابندہ،  اور فرخندہ باہر آئیں  دونوں بہنوں کا ہی ماتھا ارمان کو دیکھ کر ٹھنکا تھا

تابندہ نے اپنے تاثرات چھاپنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی

کشور کا سیل فون بجا وہ معذرت کرتی واپس اندر چلی گئی

ارمان  نے فرخندہ لودھی کو سلام کیا 

انھوں نے جواب دیتے ہوئے ازمیر اور سلطنت کی طرف قدم بڑھائے سلطنت کو پیار کیا 

اوکے مائی لو اب ہم جارہے ہیں لیکن نیکسٹ سنڈے آپ ضرور گھر آرہی ہو ایک گیٹ تو گیدر ہے ، ٹھیک ہے نہ تابی تم نے میری بیٹی کو ضرور لانا ہے

"ہاں اپیا ہم  سب انشاء اللہ آئیں گے،،تابندہ جلدی سے بولیں

وہ لوگ اب گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے  فرخندہ لودھی کو ازمیر کا موڈ کچھ آف لگا ،،،یہاں پوچھنا مناسب نہیں اس لئے تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئیں

سب کے جانے کے بعد تابندہ بیگم بھی وہاں سے جاتے ہوئے سلطنت کو اندر آنے کا کہنا نہیں بھولیں

ارمان علی  پر ایک نظر بھی ڈالنا ضروری نہیں سمجھا تھا جو خاموشی سے لان  کی طرف بڑھ گیا تھا

سلطنت گھر کی روش پر چلتے ہوئے لمحے کے لئے ٹھہری ایک بار ارمان کو دیکھا  چہرے پر خود بخود مسکراہٹ آگئی تھی

وہ پول سے بندھا جھنڈا دوبارہ مضبوطی  سے باندھ رہا تھا جو ہوا سے نیچے لٹک گیا تھا ہمشہ وہ ہی باندھتا تھا پر اس بار کسی بھی کام میں سلطنت کا ساتھ نہیں دیا تھا

ارمان علی  کے پیچھے آہٹ ہوئی پھر آواز ابھری

"تمھیں پتا ہے آج فری آنی یہاں کیوں آئیں تھیں ؟" 

"ان کی بہن کا گھر ہے وہ جب چاہیں ملنے آئیں مجھے  پتا کرنے کی کیا ضرورت" ؟؟؟ ہاتھ سے جھنڈے کی مضبوطی چیک کرتے ہوئے کہا

ازمیر نے مجھے پرپوز کیا ہے ,,, ایک اور معلومات پہنچائی

"اوہ واؤ یہ تو گڈ نیوز ہے پھر سلطنت پاکستان جلد ہی سلطنت انگلینڈ کی ملکہ بننے والی ہیں،،، ہنس کر پوچھا اس بار چہرے پر مسکراہٹ تھی،،

"تم سے کس نے کہا میں پاکستان سے چلی جاؤں گی  اگر لندن ہی یہاں آنے کو تیار ہوجایے تو،،، ایک ادا سے گردن کو جھٹکا،،

ارمان نے لمحے کے لئے چہرہ دیکھا اور پھر  نظریں  جھکا لیں

"اتنا بھروسہ ہے پر دیسیوں پر" ؟ مذاق اڑایا

نہیں خود پر یقین ہے،، وہ اس کا چہرہ دیکھ کر بولی جو اب نظر ملانے سے بھی گیا تھا،،،

پھر تو مبارک ہو تمھیں بہت خوش نصیب ہو،،، گھر کے اندر جاتے ہوئے کہا

خوش نصیب ہی تو نہیں ہوں ،،،پیچھے سے آواز زنجیر بنی

مطلب تم خوش نہیں ہو اس رشتے سے،،،؟ حیرت سے سوال کیا

کیا تم خوش ہو اس رشتے سے،،،؟ الٹا سوال کیا

"ہاں ظاہر ہے خوشی کی بات ہے،"،،،

تو پھر میں کیسے خوش ہو سکتی ہوں مان،،،،گلوگیر لہجے میں کہا

محبت کی نا قدری نہیں کرو سلطنت یہ پھر اپنی ناقدری کرنے والے انسان کو بہت خوار کرتی ہے بہت اذیت دیتی ہے،،، جو آپ کے پاس محبت کا سوالی بن کر آئے اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹانا چاہیے،،،وہ اب گھر سے باہر جانے والے راستے پر مڑتے ہوئے گویا ہوا

"کیا تم بھی اس لئے ہی اذیت میں ہو ارمان کہ تم نے بھی محبت کی قدر نہیں کی محبت سے دامن جھٹک لیا ، سوال نہیں وہ آئینہ تو جو سلطنت نے دیکھایا تھا

"میں نے محبت کو نہیں محبت نے مجھے اذیت دی ہے ،،،میں نے تو بھرم رکھا ہے"،، کہہ کر وہ جانے لگا،،،

"یعنی اب یہ بھرم مجھے بھی رکھنا پڑے گا ساری زندگی،،"، وہ سامنے آئی تھی،،،

"میں اپنے حصے کی محبت کر چکا ہوں"،،،،نظریں جھکی ہی تھیں پر جواب بہت دو ٹوک تھا

"میں بھی اپنے حصے کی محبت کر چکی ہوں" ،،،

پیچھے سے آواز دی پر وہ روکا نہیں،،،،

پر گھر کے باہر عامر حیات کی گاڑی کے ہارن نے قدم روکے،،،

چہرے کے تاثرات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی تھی  بہت محبت سے کار کی طرف بڑھا اور وہاں سے ہی گلا پھاڑ کر  کشور جہاں کو آواز دی

سلطنت نے بھی جلدی سے چہرے پر بکھرے آنسو صاف کئے اور سامنے کھڑے بے درد کو دیکھا جو عامر بھائی سے گلے مل رہا تھا قہقہے لگا رہا تھا 

کشور بھی وہاں آچکی تھی 

سلطنت خاموشی سے وہاں سے مڑ گئی وہ جانتی تھی جب یہ تینوں ملتے ہیں تو کسی چوتھے کی کوئی جگہ مشکل سے ہی بچتی ہے

آج پھر ساری رات ان کے قہقے گھر میں گونجنے تھے

######

 حیدر علی تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو ،،مجھے حیرت ہے میرا بیٹا اپنی زندگی کے لئے اتنا غلط فیصلہ کر سکتا ہے ،،، شمع بیگم نے حیرت اور دکھ سے بیٹے سے کہا

صرف اس لئے کہ وہ ایک ڈرامہ کر چکی ہے  ؟،،،ماں کو جواب دیا

یہ وجہ چھوٹی نہیں ہے حیدر علی ،لیکن صرف یہ ہی وجہ نہیں ہے تم اس کا بیک گراؤنڈ مجھ سے زیادہ جانتے ہو وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے گی ان کی اور ہماری کاسٹ ڈفرنس ، ،پھر سیاست سے تعلق ہے اس خاندان کا تم ،،،،وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں،،،

امی یہ ساری باتوں کے باوجود بھی وہ اور اس کی والدہ راضی ہیں اس رشتے،،،

اور اس کا باپ اور خاندان والے،،،بیٹے کی بات کاٹ کر بہت تیزی سے کہا،،،،

حیدر نے نظریں جھکائیں تھی 

وہ ایک دم مسکرائیں

وہ راضی نہیں ہوں گے حیدر علی  وہ تمھارے دشمن بن جائیں گے تم جانتے ہو ان فیوڈل ازم والوں کو،،،

آپ خواہ مخواہ ڈر رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ لوگ مجھے بھی جانتے ہیں میں کوئی اتنا بھی معمولی انسان نہیں ہوں پیشے سے وکیل ہوں اور ایک رفاہی ادارے کا اونر ہوں بہت سے لوگ مجھے جانتے ایک نام ہے میرا ،،،

اور امی آپ کو صرف ایک بار وہاں میرا رشتہ کے جانا ہے بس میں بتارہا ہوں وہاں سے انکار نہیں ہوگا

اور جہاں تک ڑالے کا ڈراموں میں کام کرنے والی بات ہے وہ منع کر چکی ہے وعدہ کیا ہے اس نے دوبارہ وہ ایکٹنگ نہیں کرے گی،،،،بہت لجابت سے میں کو کہا

ٹھیک ہے حیدر میں کیا کہہ سکتی ہوں ظاہر ہے  بیٹا جب ماں سے کچھ مانگے تو وہ انکار کہاں کر سکتی ہے ہر ایک بات میں تمھیں آج واضح کر دیتی ہوں یہ شوبز کی جو چمک ہوتی ہے نہ یہ ایک نشہ ہے جس کو یہ لگ جائے وہ پھر اس چکا چوند سے دامن نہیں بچا سکتا 

لیکن خیر تم نے اپنا اچھا برا سب سوچ ہی لیا ہوگا سمجھدار انسان ہو ، بتا دو ان لوگوں کو اس سنڈے ہم ان کے گھر آرہے ہیں ،،وہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئیں

اور حیدر علی نے اپنی خوشی میں نہ ماں کے قدموں کی شکست دیکھی اور نہ ہی ماں کے چہرے کی نامیدہ اور ڈر 

بس اسے اپنی محبت کے پانے کی خوشی تھی

ویسے ہی جس طرح ہر انسان اللّٰہ سے اپنی بربادی مانگتا ہے خیر کی طرح

وہ نہیں جانتا تھا اس کا یہ محبت بھرا گھرانہ بہت جلد تباہ و برباد ہونے والا ہے،،،،،

 ####

حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پورے ملک میں تباہی پھیلائی تھی کراچی ایسے وقت میں ہمشہ کی طرح اپنے ہم وطنوں کا غمگسار  بنا تھا پہلی آواز پر لبیک کہنے والے شہر کی خود حالت بہت مخدوش تھی ہر اس شہر کے لوگوں کے دل اور ظرف بہت وسیع ہیں 

بہت سی رفاحی تنظیمیں اپنا فرض نبھا رہی تھیں ان میں ہی حیدر علی کا ادارہ  بھی ان   سب میں پیش پیش تھا

سلطنت اور  ارمان بھی سب کچھ بھول کر  فنڈز اکھٹا کرنے اور امدادی باکس بنانے میں لگے ہوئے تھے 

سلطنت اور دوسری لڑکیاں اس  طرح کے  فرسٹ ایڈ باکس تیار کر رہی تھیں جو سیلاب متاثرین خواتین اور بچیوں کے لئے کچھ آسانیاں پیدا کر دیں ،،، 

کبھی کبھی ازمیر  حیات بھی ان کے ادارے میں آجاتا تھا

وہ بہت متاثر ہوا تھا حیدر علی کی ٹیم سے،،،،

اور وہ جو پہلے ہی سلطنت کے حسن کے آگے دل ہار بیٹھا تھا اب تو لگتا تھا سر پھری نہیں اٹھا سکتا ہے

وہ اب پلٹ نہیں سکتا تھا اس لئے ہی اس نے سلطنت ی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پاکستان شفٹ ہونے کا ارادہ کر لیا تھا اس کے ڈیڈ عمر حیات کافی ناراض ہوئے تھے اس احمقانہ فیصلے پر 

ازمیر نے ایک کوشش کے طور پر اپنی ہی برانچ میں  پاکستان ٹرانسفر کا  لیٹر دیا تھا اور سلطنت کو بھی اس بات پر راضی کر رہا تھا کہ وہ شادی ڈیلے نہیں کروائے وہ اب سلطنت کے بغیر نہیں رہے سکتا

######$$

دوسری طرف ارمان علی اپنے لاسٹ سمسٹر کی تیاری کے ساتھ ساتھ اب پاکستان چھوڑنے کی بھی تیاری میں تھا 

(عیش کی شادی ہوگئی تھی اور وہ اور شجاع احمد دبئی ہنی مون کے لئے گئی ہوئے تھے شجاع کے اسٹیٹس اور اسٹرائک سے  آگاہ تھا وہ دشمن جان  کتنی خوش ہے  شجاع کے ساتھ جس کا ایک پل ارمان کے بغیر گزارہ نہیں تھا وہ کتنے آرام سے ہر حد سے گزر گئی تھی،،،

ارمان سب کچھ بھولنا چاہتا تھا پر پہلی محبت کی ایک کسک تو شاید ہر غم سے بڑی ہوتی ہے جو اس کی مسکراہٹ تک چھین چکی تھی ،،،)

شہر کے حالات مزید خراب ہوتے جارہے تھے کل رات ہی وہ سارے دوست جب سنگت میں بیٹھے تھے اپنے دن بھر کی تھکن اتارنے اپنی مایوسی و ناکامی کی داستان سنانے کچھ غم غلط کرنے یاروں کے ساتھ تو وہاں بائیک پر صرف دو لڑکون نے گن پوائنٹ پر پورے دھابے کو لوٹ لیا تھا

وہ سب بہت خاموشی سے بنا کچھ کہہ اپنا موبائل اور وائلیٹ آنے والوں کو دے رہے تھے برداشت کی انتہا پر پہنچتے ہوئے سب کے سر جھکے تھے 

کہ وہ سر اٹھاتے تو باغی اور غدار تو ان کے خاندانوں کے ساتھ نام ویسے ہی جڑا ہوا تھا

وہ کرکے بڑی شان سے شہر کے وارثوں کو خالی کر کے  جارہے تھے کہ ایک نوجوان  کا ضبط  و برداشت جواب دے گئی شاید کیونکہ والٹ میں مہینے پھر کی جمع پونجی تھی جو اس نے کچھ وقت پہلے ہی نکلوائی تھی !!!

وہ تکرار کرنے کی غلطی کر بیٹھا پر ایک گولی نے اس کے سارے الفاظ سارے خواب ساری پریشانیاں سب ختم کر دی

وہ لوگ وہاں سے دندناتے ہوئے فرار ہوچکے تھے

باقی سارے لوگ زندہ لاش بنے اس چند لمحوں پہلے زندہ انسان کے وجود کو لے کر بھاگے تھے

ارمان ان لوگوں میں سب سے آگے تھا اس کی سفید شرٹ خون سے رنگین ہوچکی تھی

چینی کہاوت ہے

"اگر کسی کی مدد کرنا چاہتے  ہیں تو اسے مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سیکھائیں "

اور ہمارا  المیہ  یہ ہے کہ ہم نے جگہ جگہ  لنگر خانے کھول دئیے ہیں! میں یہ نہیں کہتا یہ غلط ہے یا یہ نہیں ہونا چاہیے پر کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ یہ پیسا ان ہی لوگوں  کو آسان روزگار یا  کوئی اسکیل  یا ،بنیادی تعلیم پر خرچ کیا جائے،،،

 عزت نفس مجروح کئے بغیر سستے راشن کے انتظام کئے جائیں،،،حیدر علی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے سب کی طرف نظر کی کچھ لوگوں کو اس کی بات  ناپسند  آئی تھی تو کچھ نے بھر پور تائید کی تھی،،،

"آپ چاہتے ہیں یہ جو غریب اور مزدور طبقہ ان دسترخوان پر بیٹھ کر سکون سے عزت کی روٹی کھا لیتا ہے اپنے کچھ پیسے بچاتا ہے وہ سہولت بھی ان سے چھین جائے؟"

حامد نے حیرت سے سوال کیا

میں نے یہ نہیں کہا بہت واضح الفاظ میں بتایا ہے میں ان باتوں کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو بہت اچھا عمل ہے پر میری بس یہ خواہش ہے کہ کچھ توجہ اس طرف بھی دی جائے جہاں سے انسان خود اس قابل ہو جائے کہ وہ کل کسی دوسرے کے بھی کام اسکے ،،،،حیدر نے اپنی بات پر زور دے کر کہا

حیدر بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں  اور اب تو جناب اکثر ایسا ہونے لگا ہے کہ ان دسترخوان پر اکثر وہ لوگ بھی بیٹھے نظر آتے ہیں جو رات کی تاریکی میں ان دسترخوان لگانے والوں کو ہی لوٹ کر گئے ہوتے ہیں وہ کھانا یہاں مفت میں کھاتے ہیں اور ہم سے ہی چھینا گیا پیسہ اپنے گھر بھیج دیتے ہیں

یعنی دونوں سورتوں میں ہی نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے ،،،ارسلان کی بات پر ایک قہقہ پڑا تھا،،،

چلیں یہ بحث لمبی ہوجایے گی اور مجھے آج کہیں جانا ہے اس لئے آپ لوگ اپنا کام کریں پھر کل ملتے ہیں ،،،حیدر علی کہتا ہوا کھڑا ہوا ژالے قاضی اس کا انتظار کر رہی تھی

جی جی بھائی آپ جائیں ہم جانتے آپ کو آج کہاں جانا بس اب تو ہمیں   ولیمے کی دعوت کا انتظار ہے ارمان علی   نے شرارت سے کہا

ہاں حیدر بھائی آپ شجاع بھائی  کی طرح نہیں کرنا جیسے اس نے جھوٹے منہ کسی کو شادی میں نہیں بلایا ،،،حامد نے ہنستے ہوئے بات مکمل  نظر ارمان کی طرف تھی جس کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی

ارے شجاع اور سونیا کو آنے تو دو ہنی مون سے ان دونوں سے تو پکی پکی ٹریٹ بنتی ہے ،کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی ایسے چھپے رستم نکلے دونوں،،،،شازمہ نے بھی ہنس کر لقمہ دیا

سلطنت نے کن انکھیوں سے ارمان کو دیکھا وہ نیچے نظر کئے  ماحول سے کٹ کر بیٹھا ہوا تھا

درد کی ایک لہر سلطنت کو خود کے اندر اٹھتی محسوس ہوئی تھی

#####$

وہ  کھڑکی سے باہر گرتی بارش  دیکھ دیکھ رہی تھی ہر چیز دھل کر جیسے نکھر گئی تھی لندن کی شامیں کی خوبصورت  شام نے بھی مزاج پر  کچھ خاص اثر نہیں ڈالا تھا

ایک حزن و ملال تھا  اس کے خوبصورت چہرے پر 

  کوئی آہستہ سے روم میں آیا ،،،کافی کے ساتھ اب ایک مردانہ  پرفیوم کی مسحور کن مہک روم میں چاروں طرف پھیل گئی تھی

محویت ٹوٹ گئی  پر وہ اور زیادہ باہر کے نظاروں میں گم ہونے کا تاثر دینے لگی ماتھے کے بلوں نے چہرے کو اور خوبصورت بنا دیا تھا

جب ہی آنے والے کے چہرے پر بھی ایک نرم سی مسکراہٹ آگئی وہ آگے بڑھا اور نرمی سے اسے کندھوں سے تھاما

I'm Sorry beautiful

تیکھے نقوش اور زیادہ تیکھے ہوئے ایک آنکھ ترچھی کرتے ہوئے اس وجہیہ مرد کو گھورا

وہ کان کھجاتا ہوا مسکرایا

کمزور دل ہوں جناب اتنے جان لیوا وار برادشت نہیں کر سکتا ان نگاہوں کے ستم سہنے کی تاب نہیں ہے مجھ میں،،،

لڑکی نے غصے کہ باوجود ایک دم منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روکنے کی کوشش کی ،، ,،، اتنی جلدی نہیں ماننا تھا،،،

آپ بینکر کیوں بنے آپ کو تو کوئی شاعر ہونا چاہیے تھا،،،

ہاہ جس کے ساتھ آپ جیسی غزل ہو وہ تو خود بخود دیوان کہہ دے کبھی میری نظروں سے خود کو دیکھو گی تو خود سے عشق ہوجایے گا 

ان ٹھیرے سمندر جیسی آنکھوں میں جو ایک بار ڈوب جائے وہ کہاں پھر کسی نظارے سے دل بہلا سکتا ہے،،،گھمبیر لہجے میں کہتے ہوئے  نرمی سے  وہ اس کے چہرے پر جھکا ،،،

اس لئے ہی چھوڑ کر جارہے ہیں ،،، ایک شکوہ لبوں سے آزاد ہوا 

یار من مجبوری ہے جاب ہے میری اور پھر ڈیڈ سے بھی ملنا ہے اس لئے ہی تو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں تمھیں،،،وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولا

میری بھی جاب ہے نہیں جاسکتی پھر جوزی کا اسکول،،،  وہ تیزی سے کہتی کافی کا کپ تھام کر دوبارہ گلاس ونڈو کے پاس آکر روکی

وائٹ ٹی شرٹ اور بلو جینز میں اس کا سراپا بہت دل کش لگ رہا تھا بالوں کو نیو کٹ اور ایش گرے ڈائی نے ایک لمحے کے لئے اپنی بات ہی بھلا دی

تم نے نیا کٹ اینڈ ڈائی کب لیا،،، وہ  اس کے لئیر کٹ  بالوں کو دیکھ کر چونکا تھا،،،

ہاں آپ کو فرصت کہاں ہے آپ تو جائیں اپنے کام کریں اپنی  ذمہ داریاں نبھائیں ،،،گردن کو جھٹکا دیا

لیکن دل میں سکون کا سانس لیا وہ اب کم از کم اسے ساتھ لے جانے والی بات تھوڑی دیر نہیں کرے  گا بلکہ وہ جانتی تھی اب کچھ وقت وہ کوئی بھی بات نہیں کرے گا وہ اب صرف اس کے حسن کو خراج دے گا ،،

ایک سل ہٹی  تھی اس کے سر سے ،وہ جب بھی پاکستان جانے کا زکر کرتا تھا  دونوں کے درمیان جھگڑا ہوتا تھا

وہ پاکستان نہیں جانا چاہتی تھی ہر بار کوئی نیا بہانا بناتے بناتے اب وہ تھک گئی تھی

اس نے خود میں گم اپنے شوہر کو دیکھا 

لفظ پاکستان ایک کسک کی طرح زبان پر آیا تھا پھر وہ تلخی سے مسکرا کر اپنے خوبصورت  شوہر کے ساتھ مصروف ہوگئی،،،

######

کسی کو سونپا گیا تُو بغیر محنت کے

مری کمائی کوئی چھین لے گیا مجھ سے 

اب اس عذاب میں اک خودکشی ہے حل میرا

یہ ایک حل بھی مگر دین لے گیا مجھ سے

وہ ایک بہت شاندار ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا ماحول کچھ عجیب سا ہی لگا تھا گن مینز سامنے ہی کھڑے تھے اور سامنے کرو فر سے بیٹھا "جلال اکبر شاہ ، " دوسرے صوفے پر بیٹھا ایک افیسر،، ، اور تابعداری سے سر جھکا کر کھڑا اس کا قریبی دوست 

پر وہ اس وقت سر جھکا کر بیٹھا صرف یہ سوچ رہا تھا اس کو یہاں کیوں لایا گیا ہے،،،،

ہاں بابا اب  کیسے ہو ؟ ؟؟سامنے بیٹھے شخص نے سوال کیا

اس نے آہستہ سے سر اُٹھایا

مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ سوال پر دوہرا سوال آیا تھا

جلال شاہ مسکرایا

بابا تھوڑی مہمان نوازی کرنی تھی،،،،اور تو کوئی مقصد نہیں ،،،

کیوں وہ ہی تو جاننا چاہتا ہوں وہ وقت جب میرے ساتھ میرے اپنے بھی نہیں اور جو ساتھ دے وہ بھی مشکل میں پھنس سکتا ہے اس وقت میں آپ کی یہ کرم نوازی ہضم نہیں ہو رہی ،،،،تلخی سے مسکرایا

وہ تو نا قدرے ہیں ہم جانتے تم جیسے ہیرے کی قدر بچے یہ ملک اور یہ سسٹم کبھی نہیں بدل سکتا یہاں آواز اٹھانے والا یا تو مار دیا جاتا ہے یا  ہماری طرح  غدار کہلایا جاتا ہے  ،، تم تو ہو بھی بے قصور ،، ہم نے دیکھا تھا تم نے  کیسے اس نوجوان کی مدد کی تھی

پر کیا ہوا تم پر ہی الزام لگ گیا اور اگر آواز اٹھائے کوئی تو وہ غدار ہے

ہاں ہیں بے  بابا ہم غدار ان ہم وطنوں کی طرح نہیں ہیں ہم جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہ

وہ لوگ جِنہوں نے سردی گرمی صِرف کِھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بُھوک صِرف کِتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے...

تو بابا انھیں کیا پتا ہم لوگ کیا جھیل رہے ہیں،،،

ہم نے دیکھی ہیں نا انصافیاں ہمارے حق کے نوالے کسی اور کہ پیٹوں میں جاتے دیکھے ہیں ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان سڑکوں پر اپنی ڈگریاں اس لئے ہی نظر آتش کرتا ہے کہ وہ نو ویکنسی کا بورڈ دیکھتے دیکھتے تھک جاتا ہے اور کوئی میٹرک پاس بندہ اس کی جگہ ا کر بیٹھ جاتا ہے میرٹ کا مذاق اڑاتے یہ لوگ اس سسٹم کے لئے گالی ہیں،،،،

 جب ایک ہاتھ میں پیسہ ہو ایک میں بندوق

تو جیسے چاہے مرے بھائی اس جہان پہ تھوک

یونہی غزال کی چیخوں سے لطف لیتے رہو

تمہیں سمجھ نہیں آئے گی کوئیلوں کی کوک

تمہی نے پھول کھلانے ہیں مسکرانا ہے 

تمہی نے کھولنے ہیں خاک سے اٹے صندوق

معید مرزا کا شعر پڑھتے ہوئے اس نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرایا

ایک ایگل  اس کے سامنے رکھی اور ایک بنڈل پانچ ہزار  کے نوٹوں  کا بھی آگے پھینکا 

پھر سامنے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا اور ٹیبل پر رکھے خاص مشروب کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا،،،

فلحال ساری سوچیں بھول جاؤ  کون ہوں میں کیا ہوں نہ میں تم سے پوچھوں نہ تم مجھ سے،،

اب  جا کر آرام کرو کل تک کا وقت ہے تمھارے پاس کوئی زور زبردستی نہیں ہے چاہو تو یہاں رہو چاہو تو کل جہاں جانا چاہو یہ لوگ تمھیں چھوڑ آئیں گے ظاہر ہے تم ابھی کراچی تو جا نہیں سکتے   تو یہاں سے جہاں جانا چاہو بتا دینا یہ سب تمھارے ساتھ جائے گا ورنہ میرے پاس   رہو بابا ہم بھی کافی مہمان نواز ہیں ،،،

وہ نوجوان چونکا،،،،

میں  کہاں ہوں اس وقت اس نے اب غور کیا تھا ان دو لوگوں کے علاؤہ سارے اس کے لئے نئے تھے 

وہ ایک دم ہی ڈرا تھا ،،،

میں کچھ دیر ریسٹ کرنا چاہتا ہوں ،،، اس نوجوان نے اپنے دوست کو دیکھتے ہوئے کہا 

ہاں ہاں بابا سجاول بچے کو کمرے میں لے کر جاؤ اور کوئی روٹی مانی دو ،،،

پاس گھڑے بندے کو حکم دیا،،،

اور آگے بڑھ کر خود مشروب کا گلاس آگے سرکایا

نوجوان نے ناپسندیدہ نظروں سے گلاس کو دیکھا اور گردن جھکا دی

جانتا ہوں تم نہیں پیتے بچے پر یہ آگے تمھارے بہت کام آنے والی ہے یہ دنیا بڑی کمینی چیز ہے یہ جو درد دیتی ہے اس کا علاج صرف اس میں ہی ہے ،،،،

وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا

سجاول کے پیچھے ہی وہ کمرے سے نکلا ،،،

جلال شاہ نے اب اس کے دوست کو بھی پیچھے جانے کا اشارہ کیا،،،

جاؤ اپنے دوست کا بھرپور خیال رکھو

اور تم  گل ناز کو فون کرو یہاں بلاؤ کہنا ضروری کام ہے فورا پہنچے،،،،

اس دوست کے پاؤں ٹھٹھک کر زمیں میں جم گئے 

صوفے پر بیٹھا دوسرا انسان  بھی چونکا 

کوئی پریشانی خان صاحب

جلال اکبر نے ہنس کر پوچھا،،،

شریف خاندان کا بچہ ہے شاہ صاحب ،،،وہ آہستہ آواز میں گویا ہوا

شریفوں سے ہی تو ڈر لگتا ہے خان صاحب کب ان کا ضمیر جاگ جائے،،، خیر آپ پریشان نہیں ہوں گل ناز صرف اس کا غم بانٹے گی اس وقت اس کو ضرورت  ہے کسی دوست  کسی غم گسار کی،،،

وہ کہہ کر مسکرائے،،،

######

حیدر علی اور ژالے قاضی  کی شادی فکس ہوگئی  ژالے کے والد شبیر قاضی کو یہ رشتہ زیادہ پسند نہیں آیا تھا پر وہ اپنے بیٹی اور بیوی سے مجبور ہوگئے ژالے کی ضد نے انھیں چپ کر دیا تھا،،

وہ اگلے کچھ ماہ میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے والے تھے اس لئے وہ اس وقت کوئی بھی ایسا ایشو نہیں چاہتے تھے جس سے ان کی ساخت کو کوئی نقصان پہنچے یا انھیں ایک مخصوص کاسٹ کے ووٹ بینک سے ہاتھ دھونا پڑے وہ حیدر علی کے زریعے ایک بڑا ووٹ بینک حاصل کر سکتے تھے لیکن اپنے  خاندان کا بھی ڈر تھا جو پہلے ہی ان کی بیوی اور اب بیٹی کے شوبز  میں کام 

سے ناراض رہتے تھے ثانیہ قاضی ان کی دوسری بیوی تھیں ،،ان کی خاندانی بیوی ان کے گاؤں میں ہی رہتی تھیں،،،

شادی کی تیاری دونوں طرف ہی اسٹارٹ ہوچکی تھیں

ژالے اور حیدر کو کسی بھی بات کی فکر نہیں تھی دونوں بس ایک دوسرے میں مگن  ساری دنیا بھلائے ہوئے تھے،،،

####

"دیکھا میری زبان سے نکلی بات کیسی سچ ہوئی ہے مما جان  دیکھ لیں وہ حسین سی لڑکی آب آپ  کی بہو  بن کر آرہی ہے میں نے تو اپنی ساری فرینڈز پر خوب رعب ڈالا ہے ،،،سجل کی خوشی کا کوئی عالم نہیں تو وہ انتہا حد تک حسن پرست تھی اور اپنی اکلوتی بھابھی کے لئے اس کی خواہش بس اتنی ہی تھی کہ بھابھی بہت خوبصورت ہو،،،

وہ بہت چہک رہی تھی

حیدر اس کی باتوں پر مسکرا رہا تھا پر  شمع بیگم بہت چپ تھیں،،،

حیدر بھائی کان کھول کر سن لیں مجھے گیٹ رکائی پر سونے کے کنگن چاہیے بس ورنہ کھڑے رہیے گا ساری رات باہر،،،،،، وہ اب حیدر کے گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ سے بولی 

"ہم  دونوں ہوٹل سے ہی آشیانہ چلے جائیں گے وہ ویسے بھی میرا اصل گھر ہے تم کھڑی رہنا ساری رات میں کمرے کے اگے،،، شرارت سے بہن کو چڑایا،،،،

مما جان دیکھ رہی ہیں اپنے لاڈلے سپوت کے تیور ابھی تو وہ حسینہ عالم ہماری بھابھی بن کر آئی نہیں اور آپ کا بیٹا بدل گیا ہے"،،،

"سجل کیا بچپنا ہے جاؤ روٹی پکاؤ ختم کرو یہ بحث ،،، شمع بیگم کے لہجے پر حیدر نے چونک کر ماں کو دیکھا،،،،،

سجل منہ بناتی کچن میں چلی گئی،،،،

"امی آپ نے ابھی تک اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کیا ہے آپ خوش نہیں ہیں؟ حیدر کے سوال پر انھوں نے افسوس سے بیٹے کو دیکھا

حیدر  تم خوش ہو یہ کافی ہے میری خوشی تمھاری خوشی سے وابستہ ہے مجھے اس لڑکی سے کوئی ذاتی پرخاش تو ہے نہیں بس یہ اندیشے ہیں جو مجھے تنگ کر رہے ہیں ،،،

امی اب کیا ڈر ہیں آپ کو وہ لوگ کتنی محبت سے ملے ہیں کتنی عزت دی ہے   شبیر قاضی نے،،، 

ہاں بس اللّٰہ میرے وہم کو غلط ثابت کر دے ،،، انھوں نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دعا دی

####

یہ کیا حشر کیا ہے کچن کا  لڑکی سسرال میں جا کر نام ڈبونا ہے، میاں دو جوتے لگائے گا،،،وہ شوخ سا لڑکا  خوبصورت سنہری دھوپ جیسی لڑکی کو چڑا رہا تھا،،،،

میں ایسے بندے سے شادی کروں گی جو میرے لئے سارے کام خود کرے گا ناصرف کھانا پکانے گا بلکہ برتن دھو کر کچن بھی صاف کرے گا،،،کیا زعم تھا،،،،

اور ایسا بے وقوف آپ کو کہاں ملے گا ؟,,,,

مسکرا کر سوال کیا

مجھے مل گیا ہے،،لڑکی نے گردن اکڑا کر سامنے بیٹھے خوبصورت نوجوان کو دیکھا،،،،

اوہ اور کہاں ہے وہ گدھا؟ بڑے اشتیاق سے سوال کیا گیا

میری نظروں کے بالکل سامنے،،، ایک ادا سے لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا،،،

اوہ یعنی وہ گدھا میں ہی ہوں جسے آپ نے مطلب کے وقت اپنا رائٹ مین بنانا ہے،،، وہ ہنسا تھا

جی بالکل اس لئے شرافت سے میری ہیلپ کرواؤ باہر سب کھانے کا انتظار کر رہے ہیں اس سے پہلے حیدر بھائی آجائیں ،،،، لڑکی نے آنکھیں دیکھائیں

ہنہہ سارے رومینٹک موڈ کا ستیاناس کر دیا حیدر بھائی کا نام لے کر،، وہ بے مزا ہوا

ہنسی کی گونج سے وہ  چونکا

جھرنوں سی ہنسی آج بھی ویسی ہی تھی پر یہ اب اس کے لئے نہیں آج اس کا رائٹ مین اس کے پہلو میں کھڑا اسے نثار ہوتی نظروں سے دیکھ رہا تھا

ارمان علی نے ایک حسرت سے سامنے کھڑی اس حسین مورت کو دیکھا جو واقعی پتھر کی تھی،،،،

شجاع احمد اور عیش اپنے ہنی مون سے واپس آگئے تھے اور آج وہ لوگ آشیانہ اپنے دوستوں سے ملنے آئے تھے،،،

وہ سارے یہاں ہنس بول رہے تھے ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے پر ارمان خود کو کمپوز نہیں کر پارہا تھا 

بہت مشکل تھا اسے کسی اور کہ ساتھ دیکھنا،،،

#######

"نوکری کرو پر عزت کے ساتھ آپ نوکر ہو پر آپ کی عزت نفس کسی کی غلامی میں نہیں ہے"،،، حیدر علی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا

غلام ہی تو بنا رہے ہیں حیدر بھائی ہمیں یہ لوگ ذہنی غلامی میں قید ہیں ، ہمارا معاشرہ جہاں صرف بھوک کی اہمیت بچی ہے اور وہ بھوک بھی عزت نفس کچل کر ہی مٹائی جاتی ہے ،،، ارمان علی نے دکھ سے کہا

یہ ہی تو میرا بھی رونا ہے ارمان اس لئے ہی تو کہتا ہوں کہ ہمیں شعور اجاگر کرنا ہے اپنے شہر کو اس وڈیرا شاہی سے نجات دلائی ہے یہ سیاسی و  لثانی فرق کو ختم کرنا ہے،،،،حیدر نے تائید کی

"حیدر کہیں تم سیاست میں آنے کا تو نہیں سوچ رہے ہو ،،شجاع احمد  نے سوال کیا

آثار تو کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں آخر سیاسی بیک گراونڈ والے خاندان  سے ناتہ جوڑ رہے ہیں ،،،حامد نے ہنس کر کہا

حیدر دھیرے سے مسکرایا،،،

پر حیدر بھائی جن لوگوں کے خلاف آپ کی یہ جنگ ہے آپ کے ہونے والے سسر اس ہی سسٹم کا حصہ ہیں،،، ایک اور طنز اب عیش کی طرف سے آیا تھا،،

دبی دبی ہنسی گونجی

کچھ عرصے بعد حیدر بھائی بھی اس کرپٹ سسٹم کا ہی حصہ ہوں گے کوئی وزیر کوئی مشیر تو بن ہی جانا ہے آخر اکلوتے داماد ہیں  قاضی شبیر کے،،،حامد نے ارمان کو آنکھ مارتے ہوئے طنز کیا 

ژالے قاضی نے پہلو بدلا تھا

وہ صرف حیدر کی وجہ سے اس آشیانہ میں آجاتی تھی پر یہ باتیں اسے ہرٹ کرتی تھیں ژالے کو حیدر کا یہ سوشل ورک بالکل پسند نہیں تھا اور نہ یہ آشیانہ پر وہ مجبور تھی کہ حیدر یہ سب چھوڑنے کے لئے  صاف انکار  کر چکا تھا،،،

میرا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے خاص اپنے سسر کی پارٹی سے تو بالکل بھی نہیں میرے گولز میرا میشن آج بھی میرے لئے سب سے اہم ہے

آج بھی میرے ملک کی محبت کے آگے باقی محبتیں ہچ ہیں،،

لیکن سیاست میں اگر ہم اور آپ  جیسے لوگ نہیں ائیں گے تو پھر یہ مورثی سیاست ہی ہم پر قابض رہے گی 

گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ملک پر تنقید کے بجائے اگر ہم لوگ عملی طور پر کچھ کرنے لگیں گے تو فائدہ بھی ہوگا ورنہ اس طرح ہی بلیم گیم کرتے رہیں گے،،حیدر نے دو ٹوک لہجے میں بات ختم کی،،،

ٹھیک کہہ رہے ہیں حیدر بھائی آخر کسی کو تو اس سسٹم کو بدلنے کی شروعات کرنی ہی ہے تو پھر وہ ہم کیوں نہیں ہو سکتے،،، ارمان نے عزم سے کہا

سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا

ہاں ٹھیک کہہ رہا ہوں جب ہم لوگ اپنے محدود ذرائع سے اس ملک کی مدد کرتے ہیں تو ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی میدان میں کیوں نہیں آ سکتے حیدر بھائی کم از کم  اپنے شہر کے لئے ہی ،،،

آخر ہمارے شہر کا بھی تو کوئی حق ہے  ہم کیوں اس کے لئے آواز نہیں اٹھاتے اگر ہم سب متحد ہو جائیں تو ہم پھر سے اس شہر کو اس کا جائز حق دلا سکتے ہیں،،،

یہ سارے سیاستدان  میرے شہر کے لئے منافق ہیں ان کے قول و فعل میں فرق ہے،،یہ ہمارے ملک کے لئے ناسور بن گئے ہیں ،کب تک ہم ان لوگوں کے ہاتھوں استحصال ہوتے رہیں اور کہیں گے او بھائی ہمیں ہمارے گھروں میں گھس کر مار جاؤ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، کب تک ہم سڑکوں پر دھکے کھاتے رہیں گے اور لوگ ہم سے ہمارا حق چھینتے رہیں گے،،،،ارمان نے سب کی طرف دیکھا،،، عیش سے نظریں ملی کچھ لمحوں کے لئے وہ اپنی راہ سے بھٹکا پھر نظر جھکا لی،،،

آپ بھی  تو ارمان صاحب ملک  چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں تو کیا یہ منافقت نہیں ہے آپ کو کوئی حق نہیں اس ملک کے سیاستدانوں پر بات کرنے کا،،،ژالے قاضی نے نخوت سے کہا

حیدر علی بہت گہری  نظروں سے ارمان کو دیکھ رہا تھا،،

 وہ اور بھی بہت سی نظروں  کی زد میں تھا اس وقت 

پر ہر نظر کا تاثر الگ تھا 

ژالے قاضی کی نظروں میں ناپسندیدگی تھی تو حامد کی نظروں میں حسد ،، عیش کی نظروں میں ڈر تھا تو سلطنت کی نظروں میں ملال

پر وہ سب نظروں سے بے پرواہ نیچے منہ کئے بیٹھا کجھ سوچ رہا تھا،،،

ژالے کیا حیدر عباس سیاست میں آنا چاہ رہا ہے،؟

ثانیہ قاضی نے سوال کیا 

نو مم ایسا کچھ نہیں ہے،،، ژالے نے ناگواری سے کہا 

 کل حیدر کا  انٹرویو دیکھا  اس کے آشیانہ ٹرسٹ سے لائیو آرہا تھا اس کی باتیں تو یہ ہی ظاہر کر رہی تھیں اگر اس کا ارادہ ہے تو کہو وہ شبیر کی پارٹی جوائن کر لے،،کیوں شیب ؟؟

شبیر قاضی بہت دن بعد اپنی فیملی کے ساتھ آج ناشتے کی ٹبیل پر اکھٹے بیٹھے ناشتہ کررہے تھے جب اپنی وائف ثانیہ قاضی کی بات پر چونک کر ژالے کو دیکھ

سئوو کیا واقعی ایسا ہے یہ تو بڑی اچھی خبر ہے ہمیں تو ضرورت بھی ہے کراچی سے کسی ایسے پرجوش نوجوان کی وہ ینگ جنریشن میں کافی مقبول ہے ،، اس سے کہو مجھ سے ملے میں شاہ صاحب سے اس کو ملواتا ہوں پھر تمھارے نکاح  پر ہم یہ اناؤنس کر دیں گے،،،،،،شبیر قاضی پر جوش ہوئے سارا پروگرام ترتیب دیا،،،

ڈیڈ ایسا کچھ نہیں ہے پلیز اور میں بالکل نہیں چاہتی حیدر پولیٹکس میں آئے اور میں بھی مم کی طرح  بس اپنے ہزبینڈ کو ٹی وی اور خبروں میں ہی دیکھوں،،، مجھے تو اس کا یہ سوشل ورک بھی کچھ خاص پسند نہیں دل چاہتا ہے یہ ادارہ ہی بند کروا دوں،،، ژالے نے گردن جھٹک کر کہا 

دونوں ماں باپ کے چہرے پر مسکراہٹ اگئی،،

سئوو  حیدر اگر سیاست میں آئے گا تو یہ سب سے زیادہ تمھارے لئے فائدے کی بات ہے اسے فورا الیکشن کے لئے ٹکٹ مل سکتا ہے اور ایک سیٹ کراچی سے پکی ہے پھر اس کا ووٹ بینک بڑا ہے اور تم سوچو فورا ہی جھنڈے والی گاڑی میں تم نے گردن اکڑا کر بیٹھنا ہے،،،

شبیر قاضی نے لالچ دلائی

آپ لوگ بس میری شادی آرام سے ہونے دیں میں حیدر کی عام سی گاڑی میں بھی گردن اکڑا کر ہی بیٹھنے والی ہوں اور ڈیڈ  یہ آپ کی بھول ہے کہ  وہ  اگر سیاست میں آیا بھی تو آپ کی پارٹی تو کبھی بھی جوائن نہیں کرے گا وہ تو سب سے بڑا مخالف ہے فیوڈل سسٹم کا ،،،

 یہ سارے خرافات اس کے ذہن میں وہ ارمان علی ڈال رہا ہے سخت زہر لگتا ہے مجھے یہ لڑکا شکر ہے وہ اب آسٹریلیا جا رہا ہے ورنہ شادی کے بعد ہمارے سب سے زیادہ  جھگڑے ارمان پر ہی ہونا تھے حیدر اس لڑکے کو بہت اہمیت دیتا ہے

ڑالے نے نخوت سے کہا

ارمان علی اوہ یس یس کل بھی یہ لڑکا کافی باتیں بنا رہا تھا انٹرویو میں ،،ثانیہ  قاضی نے کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھایا

کانوں میں ارمان کے جملے ایک بار پھر تازہ ہوئے

"بس ہم روز ان سمریوں کا سن کر افسوس کرتے ہیں  سوشل  ایپ پر  ایک دو پوسٹ ٹوئٹ  کے سوا کچھ نہیں،،،

کیونکہ جسے بھی پاور ملتی ہے وہ اپنے ہی ٹولوں کو نوازتا مراعات دیتا ہوا بیلم گیم کھیلتا چلا جاتا ہے

یہاں شکلیں بدلتی ہیں نظام نہیں 

کیونکہ یہاں منصف ہی محتصب ہیں،،

عوام کا کس نے کب سوچا ہے

ہم کراچی والے زندہ ہی ہیں ٹیکس اور ریونیو دینے کے لئے

ہم تو وہ قرض بھی اتار رہے ہیں جو واجب ہی نہیں تھے" 

کل دل سے ثانیہ قاضی نے اس لڑکے کی باتوں کی تائید کی تھی اور آج  زبان سے شوہر کے سامنے دوبارہ دہرائیں پر شبیر قاضی کے ماتھے کے بلوں نے انھیں چپ کر دیا

شبیر قاضی نے نخوت سے گردن کو جھٹکا دیا

"خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ثانی  آپ نے زعیم کے لئے روم سیٹ کروا دیا ہے وہ اب یہاں ہی رہے گا کچھ عرصے،،، شبیر قاضی نے ٹاپک چینج کیا وہ ایسے ہی تھے جس بات سے ان کا انترسٹ نہ ہو وہ بات بدل دیتے تھے ،،،

کل ہی کروا دیا جناب،،، ثانیہ قاضی مسکرائیں وہ اس عمر میں خوبصورتی میں  کمال تھیں

شبیر قاضی نے ان کے حسین چہرے کو مسکرا کر دیکھا، موڈ خوش گوار ہوا،،

ڈیڈ اب یہ زعیم شاہ کیوں آرہا ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے اس سے کہیں میری شادی کے بعد آئے پلیز،،، ژالے نے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے کہا

بری بات ژالے ایسا نہیں کہتے وہ یہاں میری الیکشن کمپین کے لئے آرہا ہے اور دوسری بات یہ زعیم ہی ہے جس کی وجہ سے بابا صاحب تمھاری شادی کے لئے راضی ہوگئے ہیں ورنہ جانتی ہیں آپ میں بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا بابا صاحب کے فیصلے کے بعد،،، انھوں نے تمھارا رشتہ زعیم سے فکس کیا تھا،،،، شبیر قاضی نے زعیم قاضی کی حمایت کی جو ان کا بھتیجا تھا اور ان کی الیکشن کمپین کے لئے کینیڈا سے کراچی آرہا تھا،،،

آپ کو تو زعیم کے آگے کچھ دیکھتا ہی نہیں ڈیڈ ،،،

ژالے نے منہ بنایا

ژالے بیٹا آپ اپنی شاپنگ تو کم از کم کمپلیٹ کر لو کتنے کم دن شادی میں رہے گئے ہیں اور حیدر سے بھی کہو وہ  نومی  سے مل لے وہ ڈئزائن کر رہا ہے حیدر کے سب فکشن کے ڈریسز،،،ثانیہ  بیگم نے ایک بار پھر ژالے کو تائید کی،،

مم میں already حیدر کو کہہ چکی ہوں پر موصوف کے پاس وقت کہاں ہے پر آج میں جاتی ہوں اس کو اغوا کر کے ساتھ ہی لانا میں نے ،،،ہنہ

ژالے کی بات پر وہ تینوں ہی ہنس گئے

########

ارمان پھر تم نے کر دیا ویزا اپلائی ،،،،، عظمت صاحب نے ارمان سے پوچھا

جی ابا  کر دیا  ہے،،ارمان نے سر صوفے کی پشت پر ٹیکا کر تھکن سے چور لہجے میں  کہا

یعنی اب  کچھ دن کے مہمان ہو ہمارے ملک میں،،

آہستہ سے کہہ کر چہرہ دیکھا جواب ندارد تھا

" حیدر کی شادی تک تو ہو نہ یہاں؟"،،، ,,,ایک اور سوال بہت شکستہ لہجے میں کیا 

ہممم ہاں شاید دیکھیں کب تک آتا ہے،، آنکھیں موندیں ہی جواب دیا

تھک گئے ہو ارمان علی،،،،پوتے کو دیکھا 

"ہاں ابا اب تھک گیا ہوں زندہ رہتے رہتے" ،،،پوزیشن بدلے بغیر جواب دیا 

"استغفر اللّٰہ بچے ایسے نہیں کہتے،،"،ہول کر پوتے کو دیکھا،،،

ابا چائے ،، سلطنت نے چائے کی ٹرے رکھتے ہوئے ارمان کیطرف دیکھا اور اشارے سے عظمت صاحب سے پوچھا

" اسے کیا ہوا ہے"؟

عظمت صاحب نے اشارے سے ہی لاعلمی کا اظہار کیا

سلطنت نے ارمان کی آنکھوں کے گوشے نم دیکھے،،

ارمان چائے پی لو بیٹا،،، اٹھو کیا سوگئے،،؟

جاگ رہا ہوں ابا ،،کہتے ہوئے سر اٹھایا نظر سامنے نک سکے سی تیار کھڑی سلطنت پر پڑی 

باٹم پنک کلر کے کرتے پاجامے میں ہم رنگ دوپٹہ شانوں پر پھیلا وہ اس گلابی شام کا ہی حصہ لگ رہی تھی 

پر ارمان علی کے لئے وہ شجر ممنوعہ تھی،،

دونوں کی نظریں پل بھر کو ملیں 

ارمان نے جھک کر کپ اٹھایا اور نظر اڑتی بھاپ پر رکھی جیسے اس سے خوبصورت تو کوئی منظر ہی نہیں،،،

خالی چائے کیوں پی رہے ہو یہ دیکھو سلطنت کباب بھی لائی ہے کھاؤ بڑے مزے کے بنائے ہیں میری پوتی نے،،،پلیٹ آگے سرکائی

آپ کھائیں ابا مجھے طعنے نہیں سنیں مفت کی روٹیوں اور  بے روزگاری کے،،ہنس کر گردن جھٹکی،،،

عظمت صاحب نے گھور کر دیکھا

پھر سلطنت سے مخاطب ہوئے،

پھر کل کیسا رہا تمھارا ٹرپ مزا آیا تمھارے گروپ  کو قائد اعظم کے مزار پر،عالی شان بتا رہا تھا ازمیر نے تو کافی انجوائے کیا وہ کافی سال بعد گیا تھا مزار قائد،،،

بہت زبردست رہا ابا اور بچوں نے تو بہت ہی مزے  کئے ،،،ابا آپ تو ایسے ہی ڈر رہے تھے اب اتنا بھی ماحول خراب نہیں ہوا ہے وہاں کا ،،،  ( کن انکھیوں سے ارمان کو دیکھتے ہوئے مزید گویا ہوئی  ( ارمان نے بہت سختی سے منع کیا تھا وہاں جانے کے لئے ،،) بہت انجوائے کیا ہم نے وہاں اور آپ کو پتا ہے ابا وہاں دو بزرگ گیٹ پر ہی چپل اتار کر مزار کے اندر داخل ہوئے جب ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے بابا کے مزار پر چپل پہن کر بے ادبی نہیں کر سکتے،،،

ارمان نے گردن  جھٹکی منہ میں کچھ بڑبڑایا 

"ابا مجھے ان انکل کو دیکھ کر صرف ایک بات سمجھ میں آئی لوگ چاہے کچھ بھی کہیں پر آپ کی محبت اور احترام کسی کی باتوں سے تو ختم نہیں ہوسکتا

اب اگر ہمارے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے تو کیا ہم اس کا بدلا قائد سے لیں گے اب بابا قوم کے مزار پر آج کل جو بھی ہوتا ہے کیا اس کی وجہ سے ہم بھی ان کے مزار کے تقدس کو پامال کر دیں یا صرف اس لئے نہ خود جائیں نہ  کسی اور کو جانے دیں کے وہاں کا اب ماحول خراب ہوگیا ہے

کیا بابائے قوم کے ساتھ یہ سلوک ٹھیک ہے،،،، گردن اکڑا کر بات کرتے ارمان کو بھی دیکھ رہی تھی

،پوتی کی بات ختم ہوئی عظمت صاحب نے شکر کا سانس لیا کہ ارمان نے کوئی جواب نہیں دیا ورنہ جیتنا وہ آج کل چڑچڑا ہو رہا تھا ابھی دونوں کی جنگ ہو جانی تھی

پھر جلدی سے بات بدلی

تم کب تک جاؤ گی بیٹا پھر رات ہوجایے گی،،،

ابا بس اب تھوڑی دیر میں جارہی ہوں سجل کا فون بھی آگیا ہے،،،

یہ اس وقت کہاں جانا ہے وہ بھی اکیلے،،،ارمان نے ناگواری سے پوچھا

سلطنت نے حیرت سے دیکھا

وہ اس رات کے بعد سے سلطنت سے بات کرنا چھوڑ چکا تھا،،،،جس رات سلطنت نے اپنی انا کو اس کے پیروں میں روندتے اقرار کیا تھا،،،

 کوئی بہت ضروری بات کہنا بھی ہوتی تو عالی شان سے یا ابا کے زریعے کہلواتا تھا

"وہ سجل بیٹا نے بلایا ہے ،ارمان تم تو حیدر سے ملنے جا رہے ہو اسے بھی چھوڑ دو بیٹا،،"،،عظمت صاحب نے کہا،،،

ابا اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ازمیر  آرہا ہے،، دراصل سلطنت کو کچھ شاپنگ کرنے بھی جانا ہے ،تو ازمیر لے جائے گا،،،تابندہ بیگم نے اچانک انٹری دی تھی

اور تم سلطنت تیار ہوجاو  آپا کہہ رہی ہیں ازمیر بس نکل رہا  ہے،،،،،

کہتے ہوئے  ارمان پر ایک جتاتی نظر ڈالتی وہاں سے چلی گئیں

ابا سجل اور میں حیدر بھائی کی مہندی میں ایک جیسا ڈریس پہنیں  گے تو ہم نے مال جانا ہے،، وہ ازمیر کے سامنے بات ہوئی تو انھوں نے کہا وہ لے جائیں گے اس لئے ،،، جلدی سے بتا کر وہاں سے جانے لگی،،،،ارمان کی آنکھوں کی حیرت کا سامنا نہیں کر سکتی تھی

یہ تو اچھی بات ہے بٹیا اس طرح تمھیں ٹیکسی رکشے کے دھکے بھی کھانا نہیں پڑیں گے،،،رسان سے پوتی کی جھجک دور کی،،،

ارمان نے اچھبنے سے دادا کو دیکھا وہ اتنے براڈ مائنڈ کب سے ہوگئے کے رات کے وقت پوری کو اس کے فیانسی کے ساتھ شاپنگ پر جانے کی با خوشی اجازت دے رہے تھے،،،وہ گردن جھٹک کر کھڑا ہوا،،

تم کہاں جارہے ارمان ،،، پوتے کو حیرت سے گھر کے بالائی زینے  کی طرف جاتے دیکھا

ابا چھت پر اسٹور میں میرا کچھ سامان رکھا ہے وہ لینے جارہا ہوں بے فکر رہیں جاتے ہوئے بیگ چیک کروا دوں گا ،، طنزیہ لہجے میں،کہہ کر تیزی سے اوپر چڑھ گیا

میرا یہ مطلب نہیں تھا مان،،، پر وہ رکے بغیر چلا گیا

سلطنت دکھ سے اس کی پیٹ دیکھتی رہے گئی،،،

####

وہ پوری الماری کا سامان باہر نکال چکا تھا  پر مطلوبہ سامان غائب تھا

وہ اب لکڑی کی  ٹوٹی ٹیبل کے نیچے رکھے سامان کی طرف جھکا تھا جب   گورے پیروں میں سلور نازک کولہا پوری چپل   پر نظر پڑی جھٹکے سے گردن اٹھائی،،،

کیا ڈھونڈ رہے ہو ؟،،،آنکھوں کو اس کے چہرے پر فوکس کر کے سوال کیا

کہا تھا جانے سے پہلے بیگ چیک کرا دوں گا کہ آپ لوگوں کا کوئی سامان لے کر نہیں جارہا ہوں پھر بھی یقین نہیں آیا تھا،،، غصے سے گھور کر کہا 

ہلکی سی  مدھر ہنسی نے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیا

جلترنگ سا  خاموشی میں بجا تھا

میں مدد کروں جو ڈھونڈ رہے ہو،،، بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا 

(ہنہ بہت دوستی ہے جیسے ہماری)

جاؤ سلطنت تمھارے منگیتر صاحب انے والے ہیں ،،نظریں جھکا کر ہی کہا

میں چلی گئی تو تمھیں وہ کیسے ملے گا جو تم ڈھونڈ رہے ہو ڈئیر کزن،،،، اس کے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوئی ہاتھ پشت پر بندھے تھے

لمبے دوپٹے کو سلیقے سے پھیلا کر اڑا ہوا تھا دونوں ہاتھ بھی دوپٹے کے اندر ہی تھے

نو تھیکس اور اگر تم ایک منٹ میں یہاں سے نہیں گئیں تو میں ،،، وہ بولتے بولتے چپ ہوا

تو تم شور کر کے سارا گھر اکھٹا کر لو گے ہیں نہ،،، انداز دل جلانے والا تھا

نہیں میں تمھیں یہاں  چھت سے نیچے پھینک دوں گا ،،،انگلی اٹھا کر وارننگ دی ،،،

اوہ واقعی تو میں تو یہاں ہی ہوں کرو ،،چڑایا،،،

ایک تو پتا نہیں کہاں چلی گئی وہ ،،، سلطنت پر دو حرف بھیج کر دوبارہ زمین پر ڈھیر کئے سامان کی طرف بڑھا 

کیا ڈھونڈ رہے ہو مجھے بتاؤ ہو سکتا ہے میں نے دیکھا ہو میں مدد کر سکوں ،،،،

تمھیں  اگر پتا چل گیا کہ میں کیا چیز ڈھونڈ رہا ہوں تو تم اب تک بے ہوش ہوچکی ہوتیں یا سارا گھر اکھٹا کر چکی ہوتیں،،،مذاق اڑایا

اچھا ایسا کیا ڈھونڈ رہے ہو ،،،حیرت سے پوچھا،،۔

ایگل ڈھونڈ رہا ہوں کبھی نام بھی سنا ہے ،،،تمسخر اڑاتے لہجے میں کہا

نہیں نام تو کبھی نہیں سنا پر دیکھی ضرور ہے شاید ایسی ہی ہوتی ہے نہ ارمان دوپٹے سے ہاتھ باہر آیا ،،،

یہ یہ تم مم دو ادھر بے وقوف ،،، وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا 

اس نے ہاتھ دوبارہ پیچھے کیا

ہر گز نہیں پہلے مجھے یہ بتاؤ یہ تمھارے پاس کیوں ہے تم کیا کرتے پھر رہے ہو آج کل مان،،، وہ آزردگی سے بولی

نن آف یور بزنس  شرافت سے یہ ادھر دو،،،وہ غرایا

 نہیں میں یہ اب ابا کو دوں گی وہ بڑا کہتے ہیں نہ ان کا مان کبھی ان کا مان نہیں توڑے گا کبھی کچھ غلط نہیں کرے گا بلاتی  ہوں انھیں ابھی،،،،، وہ کہہ کر باہر جانے لگی

جب ارمان نے اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا

"جان سے مار دوں گا اگر یہ بات کسی کے سامنے بھی کی تو سمجھی ،،،اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا کہیں وہ چیخ مار کر ابا  کو بلا ہی نہ لے،،،

پر سلطنت کی تو سانسیں بھی رک گئی تھیں گن ہاتھ سے گر گئی،،، وہ اس کے اتنا قریب کھڑا تھا ہمشہ جھکی رہنے والی نظریں آج اس کے چہرے پر جمی تھیں،،،

ارمان کو بھی یک دم ہی کچھ احساس ہوا تھا جھٹکے سے اس سے دور ہوا،،،

 جھک کر زمین سے گن اٹھائی 

پھر شرٹ کر اندر سے پینٹ میں اڑسی 

وہ اس وقت بلیک جینز بلیک ٹی شرٹ پر بلیک اینڈ وائٹ  چیک شرٹ پہنے ہوا تھا 

 آہستہ سے چلتا ہوا اس مومی مجسمے کے پاس ایا اور نرمی سے دو انگلیوں سے اس کا چہرہ  اوپر کیا

"آئیندہ میرے معملات سے دور رہنا سلطنت  پاکستان

میں اب وہ ارمان نہیں رہا ہوں جسے تم جانتی تھیں ،،،پھر 

نرمی سے اس کے گال کو اپنے ہاتھ سے چھوا ،،،

جاؤ تمھارا رائٹ مین آگیا ہے اور جانے سے پہلے اپنے حواس ضرور بحال کر لینا ،،،

کہتا ہوا اس کے برابر سے نکل گیا

وہ زمین پر گری  تھی  دل آج بھی اس کی جانب ہی کھنچتا تھا

کیا میں اندر آسکتا ہوں،، آئی ہوپ میں نے آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا ہوگا؟ ،،،

دروازہ ناک کر کے وہ مسکرا کر  اندر آیا ،،

"اوہ  آپ ہیں آئیں پلیز، ،، ڈسٹرب تو کر ہی چکے ہیں ،،"،،  ،،،

ژالے نے مسکرا کر زعیم قاضی کو دیکھا 

بلیک ٹو پیس ، ،بال اسپائس شیپ میں سیٹ پرفیوم سے مہکا شاید کہیں جارہا تھا،

کیا ہوا بھئی کیا میں مزید اسمارٹ  ہوکر آیا ہوں جو ژالے بی بی کی نظر بھی نہیں ہٹ رہی یے،،، مسکرا کر چھیڑا،،،

آہ اب ایسے بھی کوئی پرنس چارمنگ نہیں لگ رہے میں تو بس یہ دیکھ رہی تھی یہ چھوٹو کینڈا سے بڑا گھبرو جوان ہو کر آیا ہے میں تو وہ ہی رو ندو بچہ سمجھ رہی تھی جو بابا صاحب کے پیچھے چھپ کہ کہتا تھا مجھے  کینیڈا نہیں جانا ،،،،اپ کے پاس رہنا ہے،،،

ہنس کر چڑایا،،،، پر دل میں ماشا اللّہ کہا واقعی وہ بہت زیادہ خوبصورت اور اسمارٹ تھا اس پر اس کے یہ شاہانہ انداز ،،،

"اللّٰہ کا واسطہ یہ چھوٹو مجھے اب نہیں کہا کرو زرا شیشے میں میرے برابر میں کھڑی ہو کر دیکھو پتا چل جائے گا  کون بڑا لگتا ہے ،،، ہاتھ پکڑ کر شیشے میں دیکھایا

اوہوں شیشے میں دیکھنے سے حقیقت نہیں بدل جائے گی رہو گے تم مجھ سے دو سال چھوٹے ، میرے چھوٹو،،، ہنس کر اس کے بال بگاڑے اور بیڈ پر بیٹھ گئی،،،

جی اور یہ میری ہی کوششیں ہیں ورنہ تم سے  دو سال چھوٹا یہ  کزن تمھارا  مالک بنا دیا گیا ہوتا ،،،گردن جھٹک کر اپنا مہنگا ہئر اسٹائل دوبارہ سیٹ کیا

ژالے نے چونک کر اس کے چہرے کو کھوجنے کی کوشش کی 

پر وہاں صرف ہئیر اسٹائل خراب ہونے کی جھنجلاہٹ تھی

وہ مسکرائی

"اوہو تو احسان جتا رہے ہو ہممم ،،"

"جی نہیں میں نے تو خود کی جان چھڑائی ہے ورنہ تم جیسی ڈیکٹیٹر  کو حیدر علی جیسا بےوقوف ہی ساری زندگی برداشت کر سکتا ہے "،،،

کہتا ہوا صوفے پر بیٹھا ،،،

کیا کہا تم نے  بد تمیز حیدر کے لئے میں ایک لفظ نہیں سنوں گی ،،،،،غصے سے  کشن اس کی طرف اچھالا ،جو اس نے کیچ کر لیا

"یعنی سچ نہیں سنو گی"،،، مزید غصہ دلایا،،

'اس وقت یہاں آنے کی وجہ بتائیں گے اپ"،،، جل کر پوچھا

ایک ڈنر پر جا رہا تھا تو پتا چلا تم بھی ابھی ںاہر سے ائی ہو تو سوچا تم سے بھی مل لوں کیونکہ تم تو ابھی سے حیدر رباس کو ایسی پیاری ہوئی ہو کہ پورا دن نظر ہی نہیں آتی ہو،،، دو ہفتے ہوگئے مجھے آئے ہوئے اور ایک  دو بار  ہی ہماری ملاقات ہوئی ہے وہ بھی بریک فاسٹ ٹیبل پر،،، ہلکے سے شکوہ کیا

شادی کی شاپنگ چل رہی ہے کیا کروں بس پھر کچھ فرینڈز کو انوٹیشن دینے تھے  لیکن بس اب فری ہوں پر تم کہیں جارہے ہو ،،، شائستگی سے کہا

تو  چلو تم بھی میرے ساتھ یا میں  اپنا پلان کینسل کر دیتا ہوں اور ساتھ کہیں ڈنر کرتے ہیں،،،،مسکرا کر آفر دی

"اللّٰہ میرے کان یہ کیا سن رہے ہیں زعیم قاضی اپنا پلان میری وجہ سے کینسل کریں گے" یعنی اب ضرور یہ ملک بدلے گا،،،،،، حیرت سے ژالے نے کہا

ہاہ ژالے آپ کو کیا پتا ہم نے آپ کی وجہ سے کیا کیا نظام بدلے ہیں کہاں کہاں ہاتھ پیر جوڑے ہیں ،،،،ورنہ آپ جانتی ہیں ہمارے خاندان میں بے جوڑ شادیاں صرف لڑکیوں کے لئے ہی نقصان دہ ہوتی ہیں ہم مردوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا،ہمارے تو ہر ہال میں عیش ہی رہتے ہیں ،،،،

ہنہہ بھول ہے تمھاری اگر بابا صاحب اس قسم کا کوئی زبردستی فیصلہ مجھ پر تھوپتے تو میں نے پھر سکون سے کسی کو نہیں رہنے دینا تھا اور سب سے زیادہ نقصان تمھارا ہی ہونا تھا،،، دھمکی دی 

" سئو تمھاری صورت میں تو کسی طرح   بھی گھاٹے کا سودا بالکل بھی نہیں تھا  ،، اس لئے یہ  تمھاری بھول ہے اور آج تمھیں دیکھ کر لگ رہا نقصان تو میرا ہوا ہے  پر ہاہ اب کیا کرسکتے ہیں"،، ایک بھر پور نظر اس پر ڈالتے ہوئے کہا

ژالے اس کے انداز  ایک بار پھر چونکی  لیکن وہ ویسے ہی دوستانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہا تھا

ژالے نے نظریں جھکائیں لیکن اسے عجیب سی گھبراہٹ ہورہی تھی

جب زعیم کا فلک شگاف قہقہ گونجا

تو کیا خیال ہے میری دو سال بڑی کزن تم سے بڑا ہوگیا ہوں نہ میں ،،،اور اچھا ایکٹر بھی ،،،  دیکھو تو زرا میرے خسارے گننے والی کے چہرے کا رنگ کیسا اڑا ہے،،

زعیم کے بچے ،،وہ غصے سے اس کی طرف بڑھی،،

ہاہاہاہاہاہا  پہلے اپنے یہ خوفزدہ تاثرات چہرے سے ہٹاؤ ژالے پھر مجھ پر حملہ کر نا ،،

وہ ہنستے ہوئے دروازے تک گیا اور شینا کو آواز لگا کر کچھ لانے کے لئے کہتا دوبارہ روم میں ژالے کے سامنے آکر بیٹھا

ژالے اسے گھور رہی تھی

وہ اپنی شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس کو دیکھ رہا تھا،،،ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہو چکا تھا

پر سامنے بھی ڈھیٹ تھا ایسے ہی دل جلی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا رہا

ژالے کی ہنسی بے قابو ہوئی ،،، ایک ہاتھ اس کے کندھے پر مار کر قہقہ لگا کر ہنسی 

بہت بدتمیز ہو زعیم ،،،

شینا ناک کر کے روم میں آئی

اس کے ہاتھ سے بیگ لے کر زعیم نے اسے جانے کا کہا

یہ تمھارے لئے کچھ گفٹس لایا تھا پر تم بزی تھی اس لئے دے نہیں سکا یہ رکھو

"اوہ زعیم تھنکس "،،، وہ جلدی سے بیگ کی طرف جھپٹی تھی

بہت مہنگی ڈزائنرجیولری کولیکشن ،پرفیومز ،

چاکلیٹس اور کاسمیٹک تھا،،،،

واہ بھئی لڑکیوں کی شاپنگ کا تو بڑا تجربہ لگتا ہے کزن صاحب آپ کو،،، ہر چیز اپنی قیمتی ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی

تو پانچ سال کینیڈا میں اور کیا کیا ہے باپ دادا کا پیسہ لٹانے کے علاؤہ ،،، وہ بھی ہنسا تھا

ویسے اگر ابھی حیدر یہاں ہوتا تو کہتا ملک کا پیسہ اڑانے کے علاؤہ ،،،، ہنس کر اس کی تصحیح کی

واٹ ایور ملک بھی تو ہمارے ہی باپ دادا کا ہے تمھارے حیدر کی طرح کہیں اور سے منہ اٹھا کر نہیں آئے تھے ہم  ہمشہ سے  یہاں ہی رہتے تھے ،،، نخوت  سے کہتا وہ وڈیرہ ہی لگا تھا

اچھا پلیز حیدر کے سامنے اس طرح کی بات نہیں کرنا  وہ ہرٹ ہوگا  ،،،

التجا کی

تو یہ بات اپنے اس حیدر کو بھی سمجھانا وہ بھی زرا کم بولا کرے ہمارے خلاف آج کل بہت چہک رہا ہے تمھارا وڈ بی ہزبینڈ 

Would be husband

اور اس کا چیلا ارمان علی،،،خیر میں چلتا ہوں بہت دیر ہوگئی ہے،،،موڈ خراب ہوا تھا یا ژالے کو ہی لگا تھا 

تھنکس اگین فار گفٹس  زعیم

Don't be formal 

اور یہ تمھاری شادی کے گفٹس نہیں ہیں وہ سرپرائز ہے تمھیں شادی والے دن ہی دوں گا،،،کہتے ہوئے باہر نکل گیا

ژالے نے مسکرا کر گردن جھٹکی پھر وہ گفٹس کی طرف متوجہ ہوگئی ہر چیز ہی لاجواب تھی زعیم کی چوائس بہترین تھی ،،،

###

شاپنگ اور ڈنر کے بعد سجل کو اسکے گھر ڈراپ کیا،،

اب کہاں چلیں سلطنت دل،، ازمیر لودھی مسکرا کر سلطنت سے مخاطب ہوا،،

اب کہاں جانا ہے بس گھر چلیں ،،،سلطنت نے ازمیر کی مسکراتی نظروں سے آنکھیں چرا کر کہا

 تھوڑی دیر میں وہ چونکی اور حیرت سے ازمیر کو اور پھر باہر دیکھا وہ گاڑی مین روڈ پر لے آیا تھا جب کہ سجل کے گھر سے اس کا گھر Walk distance  پر تھا

"یہ ہم کہاں جارہے ہیں" ؟،،,، اچھبنے سے سوال کیا

آپ نے ہی کہا ہے اب صرف گھر چلیں،تو حکم کی تعمیل کر رہا ہوں،،، معصومیت سے کہا،،

میں نے اپنے گھر کہا تھا،،، یاد دلایا

"میں بھی اپنے ہی گھر لے جا رہا ہوں،،" ، جتایا،،،

ازمیر پلیز ٹائم زیادہ ہورہا ہے ابا انتظار کر رہے ہیں ،،،

کیا ہے یار تھوڑی دیر بعد چلتے ہیں اب اتنا بھی ٹائم نہیں ہوا ہر وقت تو تم کسی نہ کسی باڈی گارڈ کے ساتھ ملتی ہو ابھی ہی تو ایسا ہوا ہے کہ ہم دونوں  اکیلے ہیں اور میں یہ موقعہ ضائع نہیں کرنا چاہتا بس تھوڑی شارٹ ڈرائیو ،،، بہت حسرت سے کہا

سلطنت نے اس خوبرو انسان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جو کسی بھی لڑکی کی خواہش بن سکتا تھا 

پر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو کسی  دیوتا کے قدموں میں ہار چکی تھی 

ارمان علی اور ازمیر لودھی میں اگر مقابلہ کیا جاتا تو سارے پلس پوائنٹ ازمیر لودھی کے پاس تھے پھر ازمیر سلطنت کو جس طرح ٹریٹ کرتا تھا جیسے وہ کسی ریاست کی ملکہ ہو 

اور وہ تو   کسی در کی داسی بن کر رہنے والی کہاں کسی تاج کو پہنے پر راضی تھی

آنکھوں میں نمی بڑھ رہی تھی،،،

ارمان کا جارہانہ انداز ایک بار پھر یاد کر کے کانپ گئی تھی ،،

سلطنت ماں  نکاح کی ڈیٹ فکس کرنے آنا چاہتی ہیں پر میں نے سوچا پہلے تم سے بات کر لوں،،،ازمیر لودھی کی بات پر وہ حال میں واپس آئی

 آپ نے تو کہا تھا آپ کو  سب کچھ وائنڈیپ کرنے میں بھی کم از کم ایک ڈیڑھ سال لگ جائیں گے تو ابھی ڈیٹ  فکس،،،؟ازمیر آپ نے وعدہ کیا تھا ہم پاکستان میں رہیں گے ،،،

تو میں نے کب کہا میں وعدے سے مکر رہا ہوں کہا تو تھا کہ شادی آگے نہیں بڑھاؤ تم جو چاہو گی وہ ہی ہوگا

 سلطنت میں اب تمھیں اپنے نام سے جوڑنا چاہتا ہوں تاکہ تمھارے ساتھ کے لئے مجھے ان عارضی سہاروں ان بہانوں کی ضرورت نہیں رہے پھر ابھی صرف نکاح ہوگا رخصتی میرے واپس آنے کے بعد ہی ہوگی،،،

اب اتنا تو تم میرے لئے کر ہی سکتی ہو کیا اتنا بھی حق نہیں رکھتا میں یار من،،،وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اس کی طرف جھکا ،،

وہ کچھ کہتی اس سے پہلے گاڑی اس کے گیٹ کے آگے رک چکی تھی،،،

ازمیر سے ہوتی نظر کار سے  باہر ارمان پر گئی جو اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا،،

وہ گیٹ کھول کر باہر نکلنے والی تھی جب ازمیر نے کہا

پھر بھیج دوں نہ ماں کو،،،ایک التجا تھی

نظر پھر ارمان علی پر بھٹکی پر وہ اور اس کے دوست ہمشہ کی طرح نظریں جھکائے بیٹھے تھے

جیسا آپ مناسب سمجھیں ،، مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اپنے ہی دل کا خون کر ڈالا تھا،،،

اور اس کے جانے سے پہلے ہی گھر کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی ہاں ایک آخری شکایتی نظر سر جھکائے بیٹھے اس دیوتا پر ڈالنا نہیں بھولی تھی،،،

####

"زندگی میں بہت سی مشکلات آتی ہیں پر ان سے ہمت ہار کر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور نہ ہی مسکرانا چھوڑنا چاہیے اور "کبھی کسی کو یہ حق بھی نہیں دینا چاہیے کہ وہ تمھارے چہرے سے یہ حسین مسکراہٹ چھین لے"

 Never give up and don't lose your Smile 

پروفیسر عظمت علی صاحب نے اپنے پوتے پوتیوں ،اور نواسے نواسیوں سے کہا وہ سب آج وہاں جمع تھے آج سلطنت کے نکاح کی تاریخ رکھی گئی تھی،،

وہ سب کزن لاونج میں بیٹھے ہنسی مذاق میں مصروف تھے پر سلطنت سر درد کا کہتی جلد وہاں سے چلی گئی  اسے بخار بھی تیز ہورہا تھا 

شاید غم اس کی ہمت سے زیادہ تھا،،،،

ستارہ پھپھو ( کشور کی ساس ) اور نیلوفر بیگم ارمان کی مما بھی آج عظمت صاحب کے گھر ہی رک گئی تھیں 

اور دونوں کو ہی سلطنت کچھ اداس لگی تھی ہمشہ والی شگفتگی اس میں نہیں تھی،،

ستارہ پھپھو نے تو بھری محفل میں تابندہ بیگم سے پوچھ بھی لیا تھا 

"بھابھی بیگم مجھے تو لگتا ہے اپنی سلطنت اس رشتے سے خوش نہیں ہے آپ نے اس کی مرضی تو معلوم کی ہے،،

ان کی بات پر ہال میں ایک دم ہی خاموشی چھائی تھی 

ستارہ آپا مرضی کیوں نہیں ہوگی وہ تو بہت خوش ہے اس رشتے سے بس طبعیت کچھ خراب ہے ،،،تابندہ بیگم نے جلدی سے کہا،،،

تابندہ اور کشور اپنے طور پر سب کی تسلی کروا 

رہی تھیں 

ظاہر ہے ازمیر لودھی جیسے رشتے پر انکار کیسے کیا جاسکتا ہے اور یہ سلطنت کی خواہش ہی ہے جو ازمیر پاکستان شفٹ ہونے پر راضی ہوا ہے،،،

سب ہی دوبارہ اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے تھے 

لیکن ارمان پرسوچ نظروں سے سلطنت کے کمرے کو گھور رہا تھا

#######$

شجاع احمد کے بہت اصرار پر ارمان آج عیش اور شجاع کے گھر ڈنر پر آیا تھا،،،

عیش کو صرف اتنا پتہ تھا کہ شجاع کا کوئی دوست آج ڈنر پر آرہا ہے جس کے لئے وہ بہت پرجوش ہے پر وہ دوست ارمان ہوگا یہ اندازہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کے آنے سے پہلے ہی پروگرام کینسل  کردیتی ،،،لیکن اپنے ڈرائنگ روم میں  ارمان کو بیٹھے دیکھ کر اس کے حواس معطل ہورہے تھے ،،،ایک انجانا سا خوف اس کو گھیر رہا تھا

 شجاع اس سے بہت محبت کرتا تھا پر کچھ باتوں میں وہ بہت شدت پسند تھا وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی بیوی کا کوئی ماضی ایسا بھی ہے جس میں اس کا دوست بھی شامل رہا ہے،،،اس لئے ہی اس نے آشیانہ بھی جانا چھوڑ دیا تھا ،،

"ہاں اب بولو آخر تم ہم لوگوں کو کیوں Avoid کر رہے ہو؟ بہت دن سے شجاع احمد  ارمان کا رویہ محسوس کر رہا تھا

"شجاع بھائی آپ کا وہم ہے میں بس آج کل کچھ پریشان ہوں اس لئے ہی آپ سے مل نہیں پاتا ،،، ہنس کر وضاحت کی

"اتنی مصروفیت ہے کہ فون بھی نہیں اٹھاتے ہو بلکہ مس بیل دیکھ کر کال بیک کا بھی خیال نہیں آتا ہے واؤ ،، تم جانتے ہو میں نے اپنی شادی پر آشیانہ سے صرف تمھیں انوائٹ کیا اور تم ہی نہیں آئے ،،، ایک اور شکایت یاد آئی،،،

میرا لاسٹ سمسٹر چل رہا تھا شجاع  بھائی میں کوشش کے باوجود نہیں آسکا بلیو می ،، کہتے ہوئے ایک نظر بے اختیاری میں شجاع کے پہلو میں گئی 

کچھ لمحوں کے لئے وہ اپنی بات بھولا تھا

"دل بھی عجیب  ہے وہ خواہش کر بیٹھتا ہے جو نصیب میں نہیں لکھی ہوتی" ،،،

"ان دنوں مجھے اپنا ہی ہوش کہاں تھا "،، دل کے ساتھ اس بار زبان بھی بے اختیار ہوئی تھی،،،نظروں نے جھکنے سے انکار کر دیا تھا

وہ اتنے سنگھار کے ساتھ سامنے ہو اتنے قریب ہو تو ارمان کہاں تک خود پر بندھ باندھ سکتا تھا

عیش کے معاملے میں وہ خود کو  مکمل بے بس پاتا تھا ،،،،

"ہاں پتا چلا ہے یار مجھے اس لئے ہی تو آج تمھیں یہاں بلایا ہے تمھاری پریشانی کا کچھ حل ہے میرے پاس "،،،، شجاع کی بات پر دونوں ہی چونکے 

عیش کا سانس رکا تھا

تو ارمان کی گردن کی گلٹی ڈوب کر ابھری تھی

"میری پریشانی کا حل،"،؟ سوال مکمل نہیں کر سکا

ہاں مجھے پتا چلا  جاب ابھی تک نہیں ملی تمھیں پھر تمھیں دو رات پولیس کسٹڈی میں بھی رہنا پڑا اور ان ساری باتوں کی وجہ سے ہی تم آسٹریلیا جانا چاہ رہے ہو،،،تو یار تمھارے لئے بہترین پیکج کے ساتھ  ہمارے ادارے میں جاب ہے میں نے چینل کے CEO سے ڈائریکٹ تمھاری بات کی ہے وہ تمھارا اس دن آشیانہ سے انٹرویو دیکھا تھا ،،

شجاع کی بات پر ایک  زخمی مسکراہٹ ارمان کے لبوں کو چھو گئی 

"ہاہ وہ کہاں جان سکتا ہے اس کا سب سے بڑا درد" ،،،پاکستان چھوڑنے کی اصل وجہ،،،

ارمان یہ ملک نہیں چھوڑو یار میں جانتا ہوں تمھاری پاکستان سے محبت ،تم نہیں رہے سکتے اس شہر کے بغیر،، پھر آشیانہ کو بھی تمھاری ضرورت ہے حیدر بہت پریشان ہے جب سے اس نے تمھارے جانے کا سنا ہے ،،،شجاع نے بات مکمل کی ،،

عیش جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگی،،،

عیش کہاں جارہی ہو اس کو سمجھاؤ یار،،، شجاع نے اپنی بیوی کو روکا

"یہ ان کی اپنی زندگی ہے آپ یا میں انھیں مجبور نہیں کرسکتے اور پلیز آپ بھی یہ بے کار کی بحث چھوڑیں  میں شرافت کو کھانا لگانے کا کہہ رہی ہوں پلیز آپ لوگ آجائیں ،،، ناگواری سے کہا

 اداس مسکراہٹ ارمان کے ہونٹوں پر ائی،،

شجاع احمد ایک دم ہی شرمندہ ہوا

یار وہ دراصل آج کل اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے موڈ سونگز تو بس کبھی کبھی تھوڑا ریکٹ کر جاتی ہے تم محسوس نہیں کرنا،،، شجاع نے مسکرا کر وضاحت کرتے ہوئے عیش کے کندھے پر ہاتھ پھیلایا ،،

ارمان کا دل چاہ وہ یہاں سے بھاگ جائے ،،

پر اب اس کی اتنی ہمت بھی نہیں بچی تھی کہ وہ ایک نظر اٹھا کر بھی ان دونوں کو دیکھ لیتا

#####

حیدر عباس اور ژالے قاضی کی مہندی کی رسم  شبیر قاضی کے فارم ہاؤس پر منقید کی گئی تھی،،،

رنگ و بو کا ایک سیلاب تھا شوبز اور سیاسی حلقوں کے بہت سے لوگ مدعو تھے،،،

آج ہی دونوں کے نکاح کی رسم بھی ہونا قرار پائی تھی

ارمان علی لان میں بیٹھا ہوا تھا جب اس کے موبائل پر میسج کلک ہوا

Meet me pool area

نمبر دیکھ کر وہ کتنے ہی لمحے ساکت ہوگیا 

بس حیرت سے لکھا حکم دیکھ رہا تھا

پھر بے اختیار ہی اس کے قدم کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر پول سائڈ کی طرف بڑھ رہے تھے،،،

##

سجل کے ڈریس پر ویٹر سے کولڈ ڈرنک گر گئی وہ   سلطنت کے ساتھ تیزی سے فارم ہاؤس میں اندر کی طرف بنے رومز کی طرف بڑھی،،،

##

باہر اب میوزک کا بے ہنگم شور اور اس پر رقص کرتے ایکٹرز اور آشیانہ کے لڑکے لڑکیاں تھے جن میں اب حیدر اور ژالے بھی شامل تھے،،،

##

زعیم قاضی جو روم میں گلاس ونڈو میں کھڑا ڈرنک سے شغل فرما رہا تھا اس کی نظر بلیک ساڑھی میں ٹہلتی ایک حسینہ پر جم سی گئی تھیں جو شاید کسی کو میسج کر رہی تھی 

اس بات سے بے پرواہ کہ اس کا حسین سراپا کسی کی نظروں کے حصار میں ہے،،،،

لمبے سہنری بال ہوا سے بکھر رہے تھی جنہیں وہ نزاکت سے کانوں کے پیچھے کرتی کبھی اپنی ساڑھی کو سنبھالتی بہت بے چینی سے کسی کا انتظار کر رہی تھی

زعیم قاضی بے خود سا ہوا تھا،،

 اس سے پہلے کے زعیم وہاں جاتا ایک نوجوان اس طرف آیا 

بلیک شلوار سوٹ میں اس کا لمبا قد اب مکمل طور پر لڑکی کو چھپا چکا تھا

زعیم  قاضی بد مزا ہوا اور گلاس لبوں سے لگایا 

پر  اب ڈرنک میں مزا نہیں آرہا تھا 

گلاس ٹیبل پر رکھ کر اس نے تھوڑی سی  ونڈو سلائیڈ کی،،  لڑکی رو رہی تھی ہاتھ جوڑ کر لڑکے سے کچھ کہہ رہی تھی پھر اس نے اپنا سر لڑکے کے کندھے پر رکھا ،،،

زعیم کے موبائل نے حرکت کی ،،،لڑکی کا چہرہ فوکس کیا،،

##

ارمان علی کو لگا اس کی سانس تو کیا دنیا بھی رک گئی ہے عیش اس کے کندھے لگے رو رہی تھی ارمان  سے  چپ رہنے کا وعدہ ،، ہمشہ کے لئے دور جانے کا اقرار لے رہی تھی ،،

پر ارمان علی تو منجمد تھا وہ مومی مجسمہ اسے برف کر چکا تھا،،،

"میں نے تمھارے ساتھ بہت غلط کیا ہے مان تم تو بہت اچھے ہو مجھے ایک بار معاف کر دو پلیز

تم تو جارہے تھے نہ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہیں تم شجاع کی آفر  کے بعد رک تو نہیں جاؤ گے پاکستان چھوڑ دو ارمان میری زندگی سے دور چلے جاؤ ہماری فیملی بننے والی ہے  اور  ہر وقت کا یہ خوف کہ شجاع کو کچھ پتا نہیں چل جائے میرے بچے کے لئے بھی نقصان دہ ہے میری صحت کے لئے پلیز مان ایک آخری بات میری اور مان لو 

وہ  اس سے الگ ہوئی

  اور اس کے دنوں ہاتھ نرمی سے پکڑے،،

ارمان بس یک ٹک دیکھ رہا تھا 

پھر ارمان نے پہلے عیش کی گرفت سے اپنے ہاتھ چھڑائے اور بہت نرمی سے انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسوں صاف کئے

"میں جارہا ہوں عیش تمھیں کسی ٹینشن کی ضرورت نہیں ہے میں نے شجاع کی آفر پہلے ہی مسترد کر دی تھی میں تم دونوں کے بیچ آنا بھی نہیں چاہتا ہوں ،،ہمشہ خوش رہو،،،

وہ وہاں سے جانے لگی ،،،

٫٫٫

زعیم قاضی کو اب لڑکے کا چہرہ واضح ہوا تھا اور کچھ الفاظ بھی سمجھ آئے تھے

وہ ارمان علی کو پہچان گیا تھا

وہ تیزی سے باہر نکلا وہ اس لڑکی کو کچھ لمحوں کے لئے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا،، نشے کی اوور ڈوز کی وجہ سے اس کے پیروں میں لڑکھڑا ہٹ تھی

یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے روم میں آتی ان دو حسیناؤں سے ٹکرایا تھا

"اوہ سوری ،ہم شاید غلط روم میں آگئے ہیں"

وہ دونوں لڑکیاں جنہوں نے ایک جیسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا گھبرا کر باہر کو لپکیں

 آ آ اں ں  ں اں

You come right time at right place madame 

"اللّٰہ بھی جب دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے میں اس وقت ایک حسینہ چاہ رہا تھا اس نے دو بھیج دیں،،،"

خباثت سے کہتے ہوئے دروازے کا لاک لگایا،،،

فون پر کچھ ٹائپ کیا

"اے مسٹر دماغ خراب ہے کیا ہٹو سامنے سے ،،،

سجل  نے زور سے کہا 

ہٹتا ہوں سوئٹ ہارٹ پہلے تم دونوں کو کمپنی دینے کے لئے کچھ دوستوں کو تو بلا لوں،،،، میسج سینڈ کرتے ہوئے،،،،

وہ مکروہ ہنسی سے کہتا سجل کی طرف بڑھا 

"چھوڑو اسے ورنہ میں منہ توڑ دوں گی تمھارا ،"،سلطنت  دھمکی آمیز لہجے میں کہتی ہوئی گلاس ونڈو کی طرف بڑھی ،،

"تو ٹھیک ہے تمھیں  بھی پکڑ لیتا ہوں "

زعیم نے ایک ہاتھ سے سجل کو قابو کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سلطنت کو پکڑا اور باتھ روم کی طرف دھکیلتا ہوا لے جانے لگا نشے کی وجہ سے وہ دونوں لڑکیوں کو قابو نہیں کر پا رہا تھا

سجل نے ایک زور دار تھپڑ زعیم قاضی کے چہرے پر مارا اس کی گرفت ہلکی ہوئی سلطنت نے اسے دھکا دیا  وہ زمین پر گرا دونوں لڑکیوں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور گلاس وال سے باہر چھلانگ لگا دی ،،

ارمان جو شکستہ قدموں سے وہاں سے جارہا تھا 

دونوں کے دیکھ کر ایک دم ہی ہوش میں آیا تھا،،،

"تم یہاں کیا کر رہی تھیں"،،،

وہ سلطنت کو دیکھ کر دھاڑا  پھر سجل پر نظر  پڑی جو دوپٹے کے بغیر تھی،،، نظر ایک دم ہی جھکائی تھی

 سر سر وہ وہاں ایک آدمی تھا سر، وہ ہمیں ،،،سجل نے بولنے کی کوشش کی

 کچھ نہیں ارمان  چلو پلیز یہاں سے سجل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کے دوپٹے پر کولڈرنک کر گئی تھی وہ خراب ہوگیا ہے ہم نے دھویا ہے ،،، تم ہم لوگوں کو گھر چھوڑ دو پلیز اور حیدر بھائی کو بتا دو سجل کی طبیعت خراب ہورہی ہے،،،

سلطنت نے کہا،،

جھوٹ بول رہی ہو تم میں دیکھتا ہوں اندر کون ہے وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف بڑھا سلطنت نے ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش کی پر وہ ہاتھ جھٹک کر روم میں کود گیا

پر وہاں کوئی نہیں تھا کمرے کا ڈور کھلا تھا بیڈ پر پڑا سجل کا دوپٹہ اور کمرے میں رکھی بوتل اور گلاس یہاں کسی انسان  کی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے ارمان نے روم سے باہر بھی جھانکا مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا بس میوزک کا بے ہنگم شور ،،،

 اس وقت کچھ بھی کہنا ان دو لڑکیوں کا تماشہ بنانے کے مترادف تھا 

وہ دوپٹہ اٹھا کر تیزی سے باہر لپکا

تم دونوں بتاؤ گی کہ اندر کون تھا یا میں حیدر بھائی سے ساری بات کروں 

وہ دونوں کو دھمکی دیتا ہوا بولا نہیں دھڑا تھا

"ارمان تم یقین کرو ہم اسے نہیں جانتے اور دوسری بات اللّٰہ کا شکر ہے کچھ بھی نہیں ہوا ہے وہ بدتمیزی کر رہا تھا ہم باہر آگئے بس اب تم یہ بات وہاں جاکر کرو گے تو تماشہ تو ہمارا ہی بنے گا سب یہ ہی کہیں گے ہمیں روم میں جانے کی کیا ضرورت تھی،،

چلو سجل ہم اندر چلیں ،، سلطنت ارمان سے کہتی  سجل کا ہاتھ پکڑ کر جانے لگی

میں نہیں جاؤں گی وہاں سلطنت پلیز گھر چلو  میں مما کو فون پر سب بتا دوں گی ابھی کچھ بھی کسی سے کہا تو ،،نہیں  میں اپنے بھائی کی خوشیاں خراب نہیں کرنا چاہتی،، سر پلیز آپ ہمیں سلطنت کے گھر چھوڑ دیں،،،سجل نے التجاء کی

ارمان تو خود بھی اب دوبارہ اس محفل میں جانا نہیں چاہ رہا تھا وہ اب عیش کا سامنا نہیں کر سکتا تھا اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا 

خاموشی سے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے ،،

 حیدر  کی امی کو فون پر سجل کی طبیعت کا سلطنت نے بتا دیا  اور یہ بھی کہ وہ سجل کو اپنے گھر لے جا رہی ہے جب وہ لوگ واپس آئیں گے تو ارمان سجل کو گھر چھوڑ دے گا،،،

وہ تینوں اپنی اپنی سوچ کے دائرے میں چل رہے تھے پر نہیں جانتے تھے وہ زعیم قاضی  کی نظروں میں قید ہیں زعیم قاضی اور اس کے دو دوست  وہاں ہی کھڑے رہے جب تک وہ تینوں کار میں بیٹھ کر روانہ نہیں ہوگئے

،،، ارمان علی ان  کے منہ سے نوالہ چھین کر لے گیا تھا ،،، ارمان کی وجہ سے ہی وہ لوگ چھپ گئے تھے ورنہ ان دو لڑکیوں کو قابو کرنا کونسا مشکل تھا 

کچھ گھنٹوں  کے بعد ان کے گھروں پر چھوڑ دینا تھا عزت دار لوگوں نے خاموشی سے بیٹھ جانا تھا

پر  یہ ارمان علی انھیں مفت میں اپنا دشمن بنا گیا تھا

زعیم مڑتے ہوئے چونکا اسے درختوں کے پاس ایک لڑکا کھڑا نظر آیا تھا جو شاید  اپنے موبائل سے وڈیو بنا رہا تھا

زعیم قادری فارم ہاؤس کی چھت پر کھڑا تھا اس لئے وہ یہ سب با آسانی  دیکھ سکا تھا

وہ کالی ساڑھی والی حسینہ کے علاؤہ اب کچھ اور بھی توجہ کے طالب تھا پر سب سے پہلے اب سارا معاملہ سمجھنا تھا آخر یہ لڑکا کون تھا اس کا ان تینوں سے کیا تعلق تھا

سجل اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس نے حیدر کی بارات اور ولیمے کو ٹھیک سے انجوائے نہیں کیا وہ بس سلطنت کے ساتھ ہی ایک جگہ بیٹھی رہی

زعیم قاضی کی خود پر جمی نظریں اسے اندر ہی اندر سمٹنے پر مجبور کر رہی تھیں،، زعیم قاضی کو دیکھ کر ڈر تو سلطنت بھی گئی تھی  پر سجل جیسا حال نہیں تھا،،

دوسری طرف سجل کے ڈر نے زعیم کو نڈر کر دیا تھا

وہ  کسی نہ کسی  بہانے ان دونوں لڑکیوں کے قریب ہی رہنے کی کوشش کر رہا تھا اس خوفزدہ  لڑکی سے ایک عجیب سی تسکین مل رہی تھی،،

#######

ژالے قاضی اور حیدر عباس کو زعیم قاضی نے  پیرس کا ہنی مون ٹرپ گفٹ کیا تھا

ژالے بہت آکسائیڈ  تھی پر حیدر عباس نے سہولت سے زعیم قاضی کو وہ ٹکٹس واپس کر دئیے تھے،،،

ژالے اور حیدر کا شادی کے ایک ہفتے بعد  ہی اس بات پر  کافی جھگڑا ہوا  جو تین دن گزر  جانے کے بعد بھی جوں کا توں تھا

ژالے حیدر کے اتنے سخت مزاج سے پہلی بار برگشتہ ہوئی تھی ورنہ ہمشہ وہ حیدر کے اس رویے کے سامنے ہتھار ڈال کر اس کی بات  مان جاتی تھی،،،،

زعیم قاضی کے گفٹ ریجیکٹ کرنے کی وجہ اس کی سمجھ نہیں آئی تھی ،،،

آج دونوں کو شبیر قاضی نے اپنے گھر ڈنر پر بلایا تھا 

ژالے  تیار ہورہی تھی جب حیدر بھی چینج کر کے اس کے پیچھے ہی آکر کھڑا ہوگیا 

بال بنانے ہوئے ژالے پر بے اختیار ہی نظر گئی،،

ماتھے پر بل  ستواں ناک غصے سے پھولی ہوئی  

وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہوئی،،حیدر وہاں ہی جم کر کھڑا ہوگیا

کان میں جھمکا نہیں جارہا تھا  جسے وہ زبردستی کان میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی،،

حیدر کو ایک دم ہی ہنسی آئی ،،،

ژالے نے تیکھی نظروں سے دیکھا

بہت خوبصورت لگ رہی ہو   کان پر اتنا ظلم نہ بھی کرو تو تمھارے حسن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،،،، ،،،تعریف کی،،

مجھے پتا ہے ،،کہتے ہوئے جھمکا زور سے ٹیبل پر پھینکتے ہوئے وہاں سے جانے لگی،،

یعنی میرے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،،، سوال کرتے ہوئے ہاتھ سے  اس کے جانے کا راستہ روکا،،

ژالے نے گھور کر دیکھا

اف یہ قاتلانہ نظریں،،، حیدر نے ہاتھ سے چہرہ اوپر کیا

ژالے نے ہاتھ جھٹکا،،

 ژالے پلیز  اپنا موڈ ٹھیک کرو ہم ڈنر پر  جارہے ہیں وہاں آپ کی فیملی کے علاؤہ دوسرے بھی گیسٹ ہیں اور  اس موڈ کے ساتھ سوری میں وہاں خوش اخلاقی نہیں دیکھا سکتا،،، حیدر کا دو ٹوک انداز ژالے کو کچھ اور ہرٹ کر گیا تھا

"یعنی حیدر آپ میرا موڈ صرف اس لئے اچھا کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو ڈنر میں شرکت کرنی ہے اور آپ  وہاں ایک ہپی کپل  شو کرنا چاہتے ہیں،،، ژالے کہتے کہتے چپ ہوئی رونا ایک دم ہی آیا تھا

دو دن سے دونوں کی بات بند تھی اور آج اگر وہ بات کر بھی رہا تھا تو لوگوں کی وجہ سے،،،

"تمھارے لئے ہی کہہ رہا ہوں بات کو سمجھو تو آخر کیوں اتنی سی بات کو تم اتنا بڑا ایشو بنا چکی ہو ؟وہ زچ ہوا

"اس لئے کہ یہ میرے لئے اتنی سی بات نہیں ہے ، آپ نے،میرے کزن کی بے عزتی کی ہے ،،"،

میں نے کوئی بے عزتی نہیں کی ہے ،، سیدھی بات کی ہے بہت عزت سے ،،

ژالے میں اتنا مہنگا گفٹ کسی سے نہیں لے سکتا اور جہاں تک ہمارے ہنی مون کی بات ہے میں نیکسٹ منتھ پلان کر رہا ہوں ،،،حیدر نے ژالے کو کندھوں سے تھام کر کہا

"بات صرف ہنی مون کی نہیں ہے بات تمھاری زعیم کو ٹکٹس واپس کرنے کی ہے وہ ہرٹ ہوا ہے"،،،  اس دن سے  میرا فون نہیں اٹھا رہا ہے حیدر وہ سب کو اتنے ہی مہنگے گفٹ دیتا ہے،،یہ اس کے لئے اتنی بڑی بات نہیں ہے،،

ژالے نرمی سے گویا ہوئی 

یہ طے تھا وہ اس شخص سے ناراض نہیں رہے سکتی تھی،،

تو تم چاہتی ہو اس سے اتنا مہنگا گفٹ لے کر  اپنی ایگو ہرٹ کر لیتا ، میرے لئے سونا یہ بہت بڑی بات ہے،،،، نظریں ژالے کے خوبصورت چہرے پر فوکس کیں

کتنا مہنگا گفٹ حیدر ہم لوگ ایسے ہی گفٹ دیتے ہیں ایک دوسرے کو، اور جب اس کی شادی ہوگی ہم ریٹرن گفٹ دیں گے،،،، وہ شکستہ لہجے میں گویا  ہوئی 

نہیں ڑالے میں اتنے مہنگے گفٹس نہیں  دے سکتا اور اس لئے میں لوں گا بھی نہیں ،،   جانم آپ چاہتی ہو میں ساری زندگی اس شخص کے سامنے نظر جھکا کر رہوں  ،،،، نرمی سے اس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے جو بات کی ژالے نے شکایتی نظر سے اسے دیکھا

حیدر ایسا،، کچھ،،

شششش ،،،حیدر نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ کیا ،،،

بس ژالے ہمارے بیچ اب یہ ٹاپک ڈسکس نہیں ہوگا میں اپنی محنت کی کمائی سے جہاں تمھیں لے جا سکتا ہوں وہاں لے جاؤں گا جگہ میٹر نہیں کرتی جان ہمارا ساتھ ہونا میٹر کرتا ہے ایک دوسرے کی رسپکٹ ویلیو ایبیل ہونی چاہیے بس ،،،اور جہاں تک تعلق ہے تمھارے کزن کے لاکھوں روپے کے گفٹ کا تو میں وہ قبول کر کے لوگوں کو اپنے کردار پر باتیں بنانے کا موقعہ نہیں دے سکتا کہ ایک مڈل کلاس وکیل پیرس ہنی مون منانے کیسے چلا گیا،،، حیدر نے بات کرتے ہوئے ژالے کو خود سے قریب کیا

"لیکن میں پھر بھی تم سے سوری کر رہا ہوں اپنے ان الفاظ کے لئے ،،،میرے لئے سب سے اہم تم ہو تمھاری خوشی ہے" ،،، حیدر کے مسحورکن لہجے نے ژالے کے گلے ختم کئے،،،

ژالے اس کے کندھے پر سر رکھے مسکرائی تھی 

"میرے لئے بھی اس دنیا میں ہر رشتے سے اہم تم ہو حیدر تمھاری محبت ہے مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوا کرو میرا دم گھٹنے لگتا ہے"،،، وہ آنکھیں موندیں کہہ رہی تھی

"چلنا ہے یا آج کا ڈنر کینسل کر دیں؟" ،، حیدر کی بات پر وہ جھٹکے سے حیدر سے الگ ہوئی،،، 

حیدر عباس شرارت سے ہنستا ہوا اس کے پاس سے ہٹا،،

######

سر یہ آپ کے لئے،،، سجل نے ایک پیک گفٹ اس کے سامنے رکھا

وہ جو سجل کا اسائمنٹ چیک کر رہا تھا  حیرت سے پہلے گفٹ اور پھر سجل کو دیکھا،،،

کیا ہے یہ ،،،، خشک لہجے میں کئے گئے سوال نے سجل کا دم خشک کیا

وووہ ہ ہ سر یہ گفٹ ہے،،

وہ مجھے بھی دیکھ رہا  ہے  ، پر یہ،کس لئے ہے   نا میری برتھ ڈے ہے نا ٹیچر ڈے اور نا ہی اور کوئی خاص موقعہ،،، ارمان نے لہجے کو سخت بنایا،،،

سر یہ  وہ میں نے پلیز آپ رکھ لیں نہ،،،، التجا کی

"نہیں میں یہ نہیں لے سکتا تھینکس "،،،ہاتھ سے گفٹ دور کیا،،،

شمع بیگم ارمان کے لئے چائے لے کر آئیں ہنس کر سجل کی روتی شکل دیکھی ،،،پھر ارمان کو دیکھا جو مشکل سے ہنسی ضبط کیا ہوا تھا 

"میں نے حیدر بھائی کے لئے بھی سیم ایسی لی تھی تو آپ کے لیے بھی لے لی سر،،،

سر میرا دل ہی رکھ لیں" ،،، بس آنسو گرنے کے لئے بے تاب تھے،،،

نہیں رکھ سکتا رکھی چیزیں  سڑ جاتی ہیں  زنگ آلود  دل کا کیا کرنا ،،بے لچک لہجے میں کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا لیا

اور اب وہ شمع بیگم سے ان کی خیریت دریافت کر رہا تھا،،

سجل اپنی کتابیں سمیٹ رہی تھی،،، آنکھوں میں آنسو تھے

گفٹ ٹیبل پر ہی رکھا تھا 

ارمان رکھ لو بیٹا تم آسٹریلیا جا رہے ہو اس لئے یہ لائی تمھارے لئے میں نے پہلے ہی کہا تھا تم نہیں لو گے پر یہ لڑکی  سنتی ہی نہیں ہے،،،، شمع بیگم کو ہی بیچ میں آنا پڑا ،،

چلیں اب آپ کہتی ہیں تو لے لیتا ہوں ویسے میں نے صرف یہ پوچھا تھا یہ  ہے کیا؟

ارمان نے مسکرا کر سوال بدلا،،،اب اس کے ہاتھ میں وہ گفٹ کا چھوٹا سا کاغذ بیگ تھا،،

جو بھی ہے آپ گھر جا  کر دیکھئے گا یہ سرپرائز ہے،،، سجل بچوں جیسی خوشی سے بولی،،،

اوہ واؤ یعنی یہ ڈیزاینر بیگ کے اندر جو پیکٹ میں ایک ڈیزائنر واچ ہے وہ میرے لئے سرپرائز ہے ،،،ارمان نے مصنوعی حیرت سے کہا

ہاہ آپ کو کیسے پتا چلا اس گفٹ پیک میں گھڑی ہے ،مما آپ نے بتایا ؟؟ وہ حیران ہوئی تھی

شمع بیگم کی ہنسی بے ساختہ تھی ارمان بھی مسکرایا 

"اللّٰہ کیا کروں میں اس لڑکی کا اتنی بے وقوف ہے"،،،

سجل یہ بیگ پر لکھا ہوا ہے پھر اندر جو باکس ہے بھلے تم نے پیک کر لیا ہے پر ہے تو گھڑی یہ صاف نظر آرہا ہے" ،،شمع بیگم زچ  ہوئیں،،،

" اوہ اچھا اچھا سر پھر آپ یہ پہنیں گے نا ،،، سجل نے اب ارمان سے پوچھا،،،

ہاں ظاہر ہے یہ گھڑی مجھے یاد دلائے گی کہ میں نے تین سال ایک نکمی لڑکی کو پڑھایا ہے پر عقل نہیں دے سکا ،، ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا

سچل تو اس کے گفٹ لینے اور مسکرانے پر ایسے خوش ہوئی تھی جیسے ہفت اقلیم کی بادشاہی مل گئی ہو،،،شمع بیگم نے بہت غور سے پہلے بیٹی اور پھر ارمان کو دیکھا 

 ارمان کا چہرہ ویسے ہی سنجیدہ اور سپاٹ تھا

########

ژالے قاضی نے زعیم قاضی سے ایکسکیوز کر لی تھی جسے زعیم نے تھوڑا ایٹیٹوڈ دیکھاتے ہوئے ایکسپٹ بھی کر لی ،،

زعیم کو  ان دنوں سجل عباس کے علاؤہ کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا وہ اس گھر میں آنے کا راستہ نہیں بند کرنا چاہتا تھا،،،

"ژالے تمھاری یہ نند کس ٹائپ کی لڑکی ہے،،، زعیم ژالے کے بیڈ روم میں بیٹھا تھا سجل ابھی چائے اور کچھ ریفریشمنٹ کا سامان رکھ کر گئی تھی

جیسی بھی ہے کم از کم تمھارے ٹائپ کی تو بالکل بھی نہیں زعیم اس لئے کچھ الٹا نہیں سوچنا،،، 

ژالے نے انگلی اٹھا کر تنبہی کی،،،

 یہ ہی تو پوچھ رہا کیا ٹائپ ہے اس کا ،،ہنس کر کباب منہ میں ڈالا

وہ ایک بہت معصوم سی شریف سی لڑکی ہے زعیم  پلیز تم کیوں اس میں اتنا انٹرسٹ لے رہے ہو،،،

ژالے ایک دم ہی چڑی تھی وہ زعیم کا اپنے گھر آنا اور سجل کے بارے میں کریدنا سب سمجھ رہی تھی اور خوفزدہ بھی ہوئی تھی،،،

اوہ معصوم اور شریف مجنھو سٹھو ادی کیا تمھاری ڈکشنری میں ان لفظوں کے معنی بدل گئے ہیں،، زعیم نے حیرت سے کہا

کیا مطلب ہے زعیم؟؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو،؟

یہ ارمان علی کون ہے تمھاری انوسنٹ نند کا،جو ابھی تمھارے ہی ڈرائنگ روم میں تمھاری ہی اس شریف نند کے ساتھ بیٹھا تھا،،،میرے یہاں آنے پر تو تمھارے اس سو کولڈ ہزبینڈ کو بھی اعتراض ہوتا ہے،،، طنز کیا،،

"ارمان  اور حیدر کی فیملی کی شاید آپس میں کوئی دور کی رشتے داری ہے اور ارمان یہاں شروع سے آتا ہے آشیانہ ٹرسٹ کی وجہ سے بھی وہ حیدر کے بہت قریب ہے پھر ارمان سجل کو اس کی انٹری ٹیسٹ  کی تیاری کرا رہا ہے آج کل اور تمھارے آنے پر حیدر کو نہیں حیدر کی مدد کو اعتراض ہوتا ہے جس پر حیدر انھیں سمجھا چکا ہے"،،، 

ژالے نے تفصیل سے جواب دیا

تو تمھاری مدر ان لا کو ارمان کے گھر آنے پر اعتراض نہیں ہوتا وہ بیٹی کو فل تنہائی فراہم کرتی ہوئی خود کچن میں مصروف ہو جاتی ہیں،،، غصے سے گردن جھٹکی 

Mind your language 

زعیم ،،،ژالے ناراض ہوئی

ایک تو سجل بہت معصوم ہے دوسرے ارمان ایک نہایت شریف انسان ہے میرے ارمان سے ہزار اختلاف سہی پر اس کی شرافت کی میں قسم کھا سکتی ہوں وہ  کبھی کسی لڑکی کی طرف نظر بھی نہیں اٹھا کر دیکھتا 

اس کی نظروں میں عورت ذات کے لئے ہمشہ ایک احترام ہوتا ہے،،،

زعیم کے قہقے نے ژالے کو چپ ہونے پر مجبور کیا

ہاہ میری بھولی کزن سب سے معصوم اور شریف تو اس وقت مجھے تم لگ رہی ہو جو زمانے کی چالاکیوں کو نہیں سمجھتی

جانتی ہو تمھاری اس معصوم نند اور یہ شریف رشتے دار کے بیچ کچھ بہت بڑا گیم چل رہا ہے ،،،زعیم نے بلیم گیم شروع کیا 

کیونکہ آج وہ ارمان کو سجل کے ساتھ بیٹھے دکھ کر ٹھٹکا تھا 

 ارمان علی نے بہت ناگواری سے اس سے ہاتھ ملایا تھا

زعیم کو وہ رات یاد آگئی تھی

 اج سجل اسے دیکھ کر ڈری نہیں تھی اس کی بہادری کی وجہ شاید وہ ارمان  علی تھا،، 

 تو وہ کسی بھی وقت منہ کھول سکتی تھی،،،

کیا مطلب کیا ہے دونوں کے بیچ ،،،ژالے چونکی 

کچھ ایسا جو شریفوں میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا ،،،زعیم نے گول مول جواب دیا

تمھارا مطلب ہے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں؟،،،

ژالے نے سرسری انداز میں پوچھا

"پسند کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن بات تو کچھ بہت آگے کی ہے اور یہ لڑکا ارمان جس کی شرافت کی تم اتنی دعویدار بن رہی ہو تمھارے نکاح کی رات میں نے اسے دو لڑکیوں کے ساتھ انتہائی قابل اعتراض حالت میں دیکھا تھا

جن میں ایک تو تمھاری یہ نند تھی جو اس کے ساتھ فارم ہاؤس کے ایک روم میں کچھ وقت کے لئے آئی تھی ,,,'

زعیم قاضی کا دماغ بہت تیزی سے کہانی بن رہا تھا  زعیم وہ چال چلنے والا تھا جہاں سجل اور ارمان کے ساتھ وہ حیدر عباس کو بھی سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑتا،،

کیونکہ شبیر قاضی حیدر عباس  کو سیاست میں لانے پر بہت زور دے رہے تھے اور زعیم قاضی کو یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا

"دیکھو ژالے  میں ایک brought mind انسان ہوں مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا

اور  اس لئے ہی  میں   دونوں کو مصروف دیکھ کر وہاں سے خاموشی سے آگیا لیکن وہاں ڈور  پر چوکیداری کے لئے ایک لڑکی بھی کھڑی تھی جسے میں نے پوری شادی میں تمھاری نند کے ساتھ ہی دیکھا وہ شاید ارمان کی کوئی کزن ہے تو مجھے لگتا ہے یہ لوگ کچھ غلط نہ کر دیں

 مجھے تمھاری فکر ہے اس لئے کہہ رہا ہوں یہ ارمان اچھا لڑکا نہیں ہے" 

میں نے ارمان کو  تمھاری نند سے پہلے  ایک شادی شدہ لڑکی کو بلیک میل کرتے بھی دیکھا تھا وہ لڑکی رو کر اس کے ہاتھ جوڑ رہی تھی شاید وہ بھی تمھارے آشیانہ سے ہی یے،، بلیک ساڑھی میں بہت کم عمر خوبصورت سی لڑکی  ،،، زعیم نے اس حسین سراپے کو ذہن میں لاتے ہوئے کہا

پھر تمھاری یہ نند اور ارمان اور اس کی کزن   تینوں تمھاری تقریب ادھوری چھوڑ کر کہیں چلے گئے تھے،،، میرے پاس ان کی وڈیو پروو بھی ہے ،زعیم نے ساری بات واضح کرتے ہوئے اپنا سیل فون نکالا

ژالے پہلی بار چونکی تھی اس کی مہندی کی رات سجل ایک دم ہی غائب ہوگئی تھی اور حیدر کے پوچھنے پر اس کی ساس نے کہا تھا سجل کی طبیعت خراب ہوگئی ہے سلطنت اور ارمان اسے گھر لے گئے ہیں

پھر سجل بارات اور ولیمے میں بھی بہت چپ چپ تھی،، اور زعیم جس شادی شدہ لڑکی کا ذکر کر رہا تھا وہ اسے بھی جانتی تھی وہ عیش تھی جس کے لئے ژالے نے ارمان کی آنکھوں میں ہمشہ ایک خاص چمک دیکھی تھی ،،، ورنہ ارمان  آشیانہ کی باقی لڑکیوں سے بہت ریزو رہتا تھا،،،،

زعیم نے اسے کچھ فوٹو گراف اور ویڈیوز دیکھائیں

"یہ تمھارے پاس کہاں سے ائیں"؟

وہ ایک دم ہی گھبرائی ،،،

یہ تم چھوڑو یہ کہاں سے آئیں یہ سوچو اب تمھیں آگے کیا کرنا ہے حیدر عباس تک ارمان علی کے کارنامے کیسے پہنچانے ہیں،،،؟

زعیم قاضی نے ایک نئی سوچ دی

ژالے ان ساری باتوں سے ڈری ضرور تھی پر اس نے زعیم قاضی کو خاموش رہنے کا کہا وہ اس معاملے میں نہیں انولو ہونا چاہتی تھی،،،

#####

 ژالے اب بہت خاموشی سے سجل پر نظر رکھ رہی تھی اور یہ بات اس کے لئے حیران کن تھی کہ زعیم کو دیکھ کر سجل کے چہرے پر ایک خوف آجاتا تھا اور ژالے اس خوف کو پکڑے جانے کا خوف سمجھ رہی تھی،،،

####

ان ہی دنوں الیکشنز کے لئے سرگرمیاں تیز ہوگئیں  شبیر قاضی نے حیدر عباس کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ  کی آفر کی مگر اس نے ٹھکرا دی

جس پر شبیر قاضی نے اسے مخلصانہ مشورہ دیا کہ وہ آزادنہ امید وار کے طور پر بھی تو الیکشن لڑ سکتا ہے،، جو خدمت  وہ شہر کی  کر رہا ہے وہ حکومت میں آکر زیادہ بہتر طریقے سے کر پائے گا 

یہ بات کچھ اس طرح کی گئی کہ حیدر عباس نے آشیانہ میں اپنی ٹیم سے مشورہ کیا 

سب کی ہی رائے تھی حیدر کو الیکشن میں حصہ لینا چاہیے اور فیصلہ ہوگیا

حیدر نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے

حیدر عباس کی والدہ شمع بیگم اس بات پر بہت ناراض ہوئی تھیں

حیدر نے جس طرح شادی میں اپنی من مانی کی تھی شمع بیگم کے دل میں تو ابھی یہ غم بھی تازہ تھا 

حیدر ماں کو راضی کر رہا تھا 

وہ سمجھ گئیں تھیں حیدر  ان کی بات نہیں مانے گا 

انھیں حیدر سے بہت سے شکوے اکھٹے ہونے لگے تھے 

پر اب وہ بالکل چپ ہوگئیں ان کی ایک جوان بیٹی تھی جس کے لئے انھیں آج کل عجیب سے خوف ستانے لگے تھے 

زعیم قاضی کا ان کے گھر آنا انھیں بہت سے اندیشے گھیرنے لگے تھے

حیدر کی سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں ارمان بھی ان دنوں بھر پور اس کا ساتھ دے رہا تھا وہ لوگ جگہ جگہ جلسے کر رہے تھے،،،شہر کے کاموں میں بھی آشیانہ کے ممبرز بہت ایکٹیو ہوگئے تھے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو کھٹکا  ہوا تھا 

ان کی سیاست خطرے  میں تھی یہ جوان لڑکے لڑکیاں جو اپنی مدد آپ کے تحت شہر کا کام کر رہے تھے ان کی دکان بند کرا سکتی تھی

جس شہر کے کچرے پر بھی سیاست ہوتی تھی وہاں ہفتہ صفائی مہم نے ایک آگ لگا دی تھی 

لا اینڈ آرڈر کی حد بندی دیکھائی گئی تو کہیں مخصوص علاقوں کی صفائی کے نام پر لسانی فساد کی کوشش کی گئی،، آشیانہ کے بھی کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا،،،

حیدر عباس اور ژالے  قاضی ہر وقت  ساتھ ہی ہوتے تھے 

ژالے حیدر کے فیصلے سے خوش تو نہیں تھی مگر وہ خاموش تھی

اس کے لئے یہ کافی تھا حیدر عباس صرف اس کا ہے اس کے ہر وقت ساتھ یے،،، وہ بھی اس کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی 

####

ان ہی دنوں اچانک ہی آشیانہ کا میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا  کچھ میڈیا حلقوں میں   حیدر عباس پر بات ہونے لگی تھی

حیدر عباس ان دنوں بہت مصروف تھا وہ چاہتا تھا ارمان علی اپنا باہر جانے کا فیصلہ بدل لے وہ اسے اس بات پر راضی کرنے کی کوشش میں لگا تھا

جب ارمان کا ویزا آگیا ،،

شہر کے حالات ایک دم ہی خراب ہوئے تھے

نامعلوم افراد نے شہر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا جن کی اندھی گولیوں کی زد میں ہر سیاسی و سماجی افراد آرہے تھے

یہ محض خوف و ہراس پھیلانے کے لئے کیا جارہا تھا

#######

"تسی جارہے او تسی نا جاؤ نا،،،کشور نے بہت دلار سے ارمان سے کہا

آہ بیوی کبھی اتنے پیار سے مجھے تو نہیں روکا تم نے ،،،  عامر حیات  نے بڑی حسرت سے شکوہ کیا

ڈئیر ہزبینڈ آپ جاتے ہیں صرف ،لاہور ،اسلام آباد ،حیدر آباد اور وہ بھی ایک ہفتے کے لئے اور اس پر بھی ہماری روز ویڈیو کال پر بات ہوتی ہے، مان تو ملک سے باہر جارہا ہے پتا نہیں کب واپس آئے ،، اداسی سے کہا

"کشو تم تو ایسے بول  رہی ہو جیسے آسٹریلیا دنیا سے باہر ہے وہاں موبائل  پر رابطہ نہیں ہو سکتا اور میں ایک بار گیا تو دوبارہ واپس ہی نہیں آؤں گا،، مرنے نہیں جارہا ہوں پاگلے"،،،

ارمان نے ہنس کر کہا،،

اللّٰہ نہیں کرے  کتنا فضول بولتے ہو،، کشور نے ہول کر دل پر ہاتھ رکھا،،

عامر اور ارمان دونوں ہی مسکرائے ،،،

ارمان ان خاتون کو رہنے دو تم جاؤ مستقبل بناؤ یہاں کیا رکھا ہے یار

میں تو خود اس کوشش میں ہوں کہ ہماری کمپنی مجھے فیملی سمیت باہر سیٹل کر دے  اتنی مہنگائی ہے یار سارا دن کولہو کے بیل کی طرح  لگے رہو اور گھر آؤ تو نہ پانی ہے نہ بجلی اور اب تو گیس بھی نہیں دل چاہتا ہے کبھی کبھی تو جنگلوں میں نکل جائیں وہاں رہنے کی ہی تو پریکٹس کرا رہے ہیں ہمیں ،،کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں ،، پانی تک تو خرید کے پیتے ،نہ زندگی سیف ہے یہاں کب کوئی ایک گن دیکھا کر ساری جیب خالی کرا لیتا یے،،، عامر نے گردن کو جھٹکا دیتے ہوئے بات کی،،

"ارمان سلطنت بتا رہی تھی حیدر عباس بھی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ،،کشور نے حیرت سے سوال کیا

تمھیں اب پتا چلا ہے تم کیا خبریں نہیں دیکھ رہیں  ،،، کس طرح یہ پرانے پاپی حیدر بھائی کا  ناطقہ بند کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں،،،ارمان نے غصے سے کہا

ہاں وہ تو دیکھ رہی کتنا غصہ آیا تھا مجھے میں نے تو ٹی وی ہی بند کر دیا کتنے الزام لگ رہے آشیانہ ٹرسٹ پر ،،اچھا ہے تم تو اس سب سے دور جارہے ہو،،، کشور کہتے ہوئے یہ بھی بھول گئی کہ ابھی وہ اس کو روکنے کی ہی کوشش کر رہی تھی

وہ دونوں کشور کو دیکھ کر رہے گئے،،

ان عورتوں کی ایک زبان نہیں ہے بھائی ،،عامر نے ارمان نے کہا،،،

تم کشو نیوز اینکر بن جاؤ سچ تم بات گھومانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ،،ارمان نے کہا

ہاہ کیا یاد دلا دیا مان میں تو کب کا کر لیتی پر یہ شادی اور بچے پر میں بڑی ہو کر نیوز اینکر بنوں گی،میں نے تو بننا ہی نیوز اینکر تھا

قہقہ لگا کر وہ تینوں ہی اس بونگی پر ہنس گئے،،

مان تم سلطنت کے نکاح میں تو شامل نہیں ہو سکو گے  اس رات کی ہی فلائٹ ہے تمھاری ؟ کشور کو اہم بات یاد آئی جو وہ کرنے آئی تھی،،،

"ہاں تقریب میں شاید شامل نہیں ہوسکوں پر دن میں تو یہاں ہی ہوں گا,, ارمان نے سنجیدگی سے کہا

اس لئے ہی میں نے انی اور مما سے کہا ہے کہ ہم نکاح سے ایک رات پہلے فکشن کر لیتے ہیں لائک  رت جگا ٹائپ،،، کشور نے داد طلب نظروں سے دونوں کو دیکھا

سلطنت باہر جانے کے لئے لاونج  سے گزر رہی تھی تینوں کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر سلام کرتی تیزی سے گزرنا چاہتی تھی جب عامر  نے آواز دے کر روکا

"سلطنت صاحبہ کبھی ہم غریبوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں آپ تو جب سے  انگلینڈ والوں کو پیاری ہوئی ہیں ان کی جیسی ہی مغرور ہوگئیں ہیں،،،

"ایسی بات نہیں ہے عامر بھائی میں تو آپ لوگوں میں بیٹھتی ہی تھی پر آپ کے تکون میں کبھی میری جگہ بنی ہی نہیں ،، آزردگی سے کہتی جانے کے لئے مڑی

"سلطنت پاکستان روکو میں بھی جارہا ہوں میرے ساتھ چلو،"،،

وہ اسکے ہآتھ میں بینرز  اور کارڈ کا پلندہ دیکھ کر سمجھ گیا تھا وہ آشیانہ جا رہی ہے،،، سلطنت کچھ بھی بولے بغیر خاموشی سے رک گئی،،،

آرے تم کہاں چلے ہم تو کچن  میں جارہے تھے تم نے مجھے پاستا کھلانا تھا اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا،،،عامر نے یاد دلایا

وہ تم اج اپنی پھوہڑ بیوی سے بنوانا اور میرے لئے بھی رکھنا میں بس ایک گھنٹے میں آتا ،،، ارمان کہتا ہوا کھڑا ہوا

ہائے میں نہیں سچی میں نے آج کچن میں بالکل نہیں جانا ،،کشور کی جان جلی،،

پریشان نہیں ہو بیوی گھر کی طرح ویجیٹبل یہاں بھی میں ہی کاٹوں گا،،، عامر کی بات پر تینوں ہنسے کشور نے سب کو گھور کر دیکھا،،،

"سلطنت کچھ شرم کر لو بیس دن  رہے گئے تمھارے نکاح میں اور تم یہ حرکتیں کرتی پھر رہی ہو کہتی ہوں میں مما سے گھر بیٹھائیں  ،، کشور نے بڑے پن کا رعب دیکھاتے ہوئے دھمکی  دی،،

آپا میرا صرف نکاح ہے جس میں مجھے صرف سائن کرنے ہیں اور مما بھی کچھ نہیں کہیں گی مجھے ازمیر نے اجازت دے دی ہے ،،، سلطنت نے ہنس کر کہتے ہوئے بے اختیار ہی نظر ارمان کی طرف کی وہ سر جھکا کر باہر کی طرف جارہا تھا

اوکے باقی بحث رات کو آنے کے بعد ورنہ آپ کا یہ سڑو کزن مجھے چھوڑ جائے گا اور پھر مجھے پیدل جانا پڑے گا،،وہ کہتی ہوئی تیزی سے ارمان کے پیچھے نکلی،،،

سلطنت  بائیک کی طرف بڑھی 

جب ارمان نے اسے آواز دے کر روکا 

پیدل چلتے ہیں بائیک مسنگ کر رہی یے،،، ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہی بات نے سلطنت کو چونکنے پر مجبور کیا

سلطنت تو ساتھ چلنے کی  آفر پر ہی حیران ہوئی تھی کہاں اب واک کرتے ہوئے،،،

مگر وہ حیرت دیکھنے رکا نہیں تھا آگے بڑھ گیا وہی شاہانہ چل اٹھی ہوئی گردن جھکی ہوئی نظریں دونوں ہاتھ کمر پر باندھے ہوئے 

سلطنت تیز قدم اٹھا کر اس کے برابر میں آئی ترچھی نظر سے دیکھا،،،

آشیانہ ان کے گھر سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا

پر پیدل تو تھوڑا دور پڑتا تھا کیونکہ ان کے گھر اور آشیانہ کے بیچ ایک پلے گراونڈ تھا ،،،

وہ گراؤنڈ کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی  جب ایک بار پھر اسے رکنا پڑا 

اسوقت گراؤنڈ میں لڑکے کرکٹ کھیل رہے  ہیں تو کیا خیال ہے  تھوڑا لانگ وئے سے چلیں ،،، دوستانہ لہجے میں بہت خوبصورت  مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا،،

، سلطنت کے اوسان خطا ہوئے

اللّٰہ رحم  آج یہ سورج کس طرف سے نکلا تھا،، ارمان صاحب آج آپ کی یہ عنائیتں ہمیں مار ہی نہ ڈالیں،،، ،،وہ اس کی پیٹھ دیکھ رہی تھی

جو رائے لینے کے بعد جواب کے انتظار میں نہیں رکا تھا

بلکہ اب تک سارے فیصلے خود ہی کر رہا تھا،،وہ بھی اس کے قدموں کے پیچھے ہی چل پڑی،،،

کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے ارمان کو کہتے سنا،،،

"اب پوچھو سلطنت کیا بات پریشان کر رہی،،،،،

سلطنت نے چونک کر سر اٹھایا

وہ سر جھکائے ویسے ہی چل رہا تھا 

"بچپن سے ساتھ ہیں اتنا تو  تمھیں جانتا ہوں"،،،مسکراتے لہجے کی وضاحت نے سلطنت کا دل کھینچا تھا

"میں اج تمھارے سارے سوالوں کے جواب دینا چاہتا ہوں،،"،،

وہ گن،، سلطنت نے بولنے کی کوشش کی

ارمان مسکرایا جیسے یقین ہو وہ یہ ہی پوچھے گی

" وہ گن میں نے واپس کر دی ہے میں اس دن وہ واپس ہی کرنے جارہا تھا" کیونکہ مجھے یقین تھا آج نہیں تو کل تم اس کی کھوج لگا لو گی بچپن کی عادت تمھاری،،، گردن کو جھٹک کر کہا

وہ تمھارے پاس کہاں سے آئی تھی؟ ایک اور سوال ڈرتے ڈرتے کیا

وہ  کسی کا گفٹ تھی ،،میں منع نہیں کرسکا کیونکہ اس شخص نے اس وقت مجھ پر احسان کیا تھا جب میرا کوئی اپنا میرے پاس نہیں تھا جب بابا نے میری کسی قسم کی مدد کے لئے انکار کر دیا تھا تب صرف وہ تھے جنہوں نے میرا ساتھ دیا میرا خیال رکھا،،، میرے اوپر لگے الزامات سے مجھے سیف کیا،،،

پر میں وہ تحفہ قبول نہیں کرسکتا تھا جذباتی لمحے کی گرفت میں میں نے بس وہ لے لیا تھا 

لیکن میں ،،،وہ رکا

میرے لئے آج بھی یہ ملک سب سے پہلے ہے سلطنت ،،،  میں اس ملک سے جارہا ہوں لیکن یہ ملک میرے دل سے نہیں،،،

وہ مسکرائی ایسا لگا کوئی بھاری سل سینے سے ہٹی ہو،،،

کچھ اور پوچھنا ہے ،،،شاہانہ انداز میں کہا،،،

"ہاں بہت کچھ پر تمھارے پاس جواب نہیں ہوگا،،،

سلطنت  کے دل نے کہا پر سر نفی میں ہلا کر  جھکا لیا،،،

"تم بہت اچھی ہو سلطنت "،،ارمان نے نرمی سے کہا

"پر میں تمھیں اچھی نہیں لگتی"،، سلطنت کے دل نے جواب دیا لب اب بھی خاموش تھے

"میری کسی بات سے اگر تم ہرٹ ہوئی ہو تو پلیز مجھے معاف کر دینا،"،، ارمان نرمی سے گویا ہوا

تمھاری کوئی خطا تھی ہی کب یہ تو  میرے دل  کی خطا تھی جس کی سزا مجھے بھگتنی پڑی ہے،،،

تم حقیقت میں سلطنت ہو جو کسی بادشاہ کا ہی نصیب ہو سکتی ہے،، ،، ایک ایسی شھزادی جو شھزادہ ڈیزرو کرتی ہے مجھ جیسا گدا نہیں،،

جھکے سر سے ایک اور اقرار ہوا

"پر مجھے بادشاہت جاہیے ہی کب تھی مجھے تو کسی کی داسی بننا تھا"

وہ دکھ سے مسکرائی،،

"تم ان چند لوگوں میں ہو جو مجھے بہت عزیز ہیں جن سے میں محبت کرتا ہوں "،،،

سلطنت کے قدم زمین میں جکڑے ،،،،

ارمان نے رک کر پیچھے دیکھا وہ یک ٹک دیکھ رہی تھی

وہ اس کے برابر میں آکر رکا

"پر یہ بہت خاص محبت ہے سلطنت پتا نہیں کیوں  ہم نے محبت کو صرف ایک ہی معانی پہنا دیے ہیں 

محبت میں بہت وسعت ہے اس کے بہت سے رنگ ہیں ،،

 لڑکے اور لڑکی کی محبت کا صرف ہی ایک ہی رشتہ نہیں ہوتا ،،،

سلطنت ہاں تم مجھے پسند ہو کسی بھی لڑکی سے زیادہ ,,تمھاری بہت عزت کرتا ہوں ،،

 ہمشہ  میں بہت محتاط رہا ہوں پر پتا نہیں کہاں چوک ہوگئی جو تم نے میرے بارے میں اس طرح سوچ لیا ،،،،،

 تم ایک بہت بہادر لڑکی ہو  جو مردوں کے قدم سے قدم ملا کر کام کرتی ہے پر اس نے اپنا ایک مقام بنایا ہے کوئی بھی انسان اس سے بات کرنے سے پہلے سوچتا ہے ہر نظر میں ایک احترام ہوتا ہے

مجھے فخر ہوتا ہے یہ باہمت لڑکی میری کزن ہے میری بچپن کی دوست ہے ،، تم ہمشہ ایسی ہی رہنا اور  بھول جانا اس رات تم نے مجھ سے کچھ کہا تھا  ،،،،  تم کچھ دن بعد اپنی اس بے وقوفی پر ہنسو گی،،،

ہم  سب ٹین ایج میں ایسی فیلنگ سے گزرتے ہیں اور اٹریکشن  کو محبت سمجھ بیٹھتے ہیں،،پھر جب مچیورٹی میں داخل ہوتے تو یہ قصے ہمیں ہماری بے وقوفی لگتے ہیں

وہ جون  صاحب کہتے،،،

کتنا رویا تھا میں تیرے خاطر

اب جو سوچوں تو ہنسی آتی ہے

تو  کچھ دن بعد ایسا ہی ہونا ہے تو پھر ابھی سے کیوں نہیں تم ہنسا کرو کہ تم ہنستی اچھی لگتی ہو،،،

وہ بہت خوبصورت لہجے میں کہتے اس کے سر پر ہاتھ رکھ گیا تھا،،،

پتہ نہیں سلطنت کی ناکام محبت  کا غم کر رہا تھا یا خود کو دلاسہ دے رہا تھا

بائیس  دن ہیں میرے جانے میں اور اتنے ہی دن تمھارے بھی کسی کے نام ہو جانے  میں ہیں

تو یہ دن ہم ایسے گزاریں گے سلطنت جیسے بچپن میں ساتھ رہتے تھے ہنستے تھے کھیلتے تھے

تمھاری یہ اداسی یہ خاموشی لوگوں کو سوال کرنے کا موقع دے رہی ہے،،، کیوں خود پر انگلی اٹھانے کا موقع دے رہی ہو،،،

میں تمھارا کزن بھی تو ہوں ایک وہ ہی رشتہ تو نہیں تھا سلطنت جس کی   وجہ سے تم نے ہر رشتہ بھلا دیا ہے،،،

"میرے لئے وہ رشتہ سب سے اہم تھا،"، دل کرلایا تھا

نرمی سے سمجھاتا وہ اسے وہی بچپن والا ارمان لگا تھا ،،

وہ ہلکے سے مسکرا کر اس  دیوتا کے پیچھے چل دی جس کی آج بھی نظریں جھکی تھیں اور سر بلند تھا

######

وہ سارے آشیانہ میں بیٹھے میڈیا پر ہونے ٹرائل کا زکر کر رہے تھے جب اندر مینجمنٹ آفس سے حیدر عباس وہاں آیا ،،اس کے پیچھے ہی ژالے قاضی اور زعیم قاضی بھی تھے،،،

"ارمان علی تم نے اوورسیز فنڈز میں کیا گیمنگ کی ہے ،،،"؟ارمان کے ساتھ باقی سارے بھی چونک کر حیدر عباس  کو دیکھنے لگے،،

تم تھے وہ آستین کے سانپ اور میں ادھر ادھر اپنے ان دیکھے دشمن کو ڈھونڈنا رہا،،،نفرت سے ایک فائل ارمان  علی کے منہ پر پھینکی 

سارے ہی ایک دم اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے،،،،

، 

پر ارمان تو حیدر عباس کے انداز پر فریز ہوا تھا

"حیدر بھائی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے  ارمان ایسا  نہیں کرسکتا،"،، ارسلان سعید نے  ارمان کا دفاع کرنے کی کوشش کی ،،سب نے تائید میں گردن ہلائی

"میں بھی یہ ہی سمجھتا رہا تھا چھوٹے بھائی جیسا مان دیا تھا اسے پر اس نے میری ہی پیٹ پر چھرا گھونپ دیا یے،،،وہ نفرت سے گردن جھٹک کر بولا،،

ژالے نے حیدر کو چپ کرانے کی کوشش کی

"حیدر ہم گھر جا کر بات کرتے ہیں پلیز کول ڈاؤن ،"،،

ژالے حیدر کے اس ریکشن سے ہی ڈر رہی تھی اس لئے ہی وہ چاہتی تھی زعیم قاضی  حیدر کو کچھ نہیں بتائے ابھی تو زعیم نے صرف کچھ بات ہی ڈسکس کی تھی سجل کے نام پر حیدر آپے سے باہر ہوگیا تھا ،،،

وہ تو ارمان علی کے خلاف آشیانہ  کے کچھ لوگوں کی بھی کمپلین تھیں جو اس وقت  حیدر کا دھیان اس طرف کر چکی تھیں

،

 سب  لوگ ارمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہے  مگر ارمان علی  بت بنا کھڑا حیدر کو دیکھ رہا تھا،،،

"اچھا تو زرا پوچھو اس سے یہ لاسٹ منتھ ایک ہفتے کے لئے کہاں تھا یہ کن لوگوں کے ساتھ مل کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے،"،، ارمان کو لگا کوئی بلاسٹ اس کے کان کے پاس ہوا ہے،،،

"بولو ارمان تم کہاں تھے ؟،،،

اور جاوید ہاشمی کی فیملی کو جو دولاکھ روپے تم نے دئیے وہ تمھارے پاس کہاں سے آئے تھے ،،،، 

  تمھیں لگا تم سے یہ سوال ہوگا تو تم نے اور سیز فنڈز میں وہ پیسے نکال کر ریکارڈ میں لکھ دییے،،، دو لاکھ کے بیس لاکھ کر دئیے ارمان علی اور باقی کے اٹھارہ لاکھ تمھاری جیب میں گئیے،،

بولو ارمان کوئی جواب ہے ان باتوں کا کون تھے وہ لوگ جو تمھیں تھانے سے چھڑا کر لے گئے تھے جن کی میزبانی میں تم ایک ہفتہ ایک لڑکی کے ساتھ عیاشی کرکے آئے ہو،،،

حیدر عباس دھاڑا تھا

ژالے قاضی نے ایک دم حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی 

وہ غصے سے کانپ رہا تھا دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بھینچے اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ارمان کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دے،،،

سلطنت حیرت سے بت بنے ارمان کو دیکھ رہی تھی،،

ابھی تھوڑی دیر پہلے ارمان نے کچھ اس قسم کی ہی باتیں بتائی تھیں  پر لڑکی اور پیسوں کے غبن پر وہ یقین نہیں کر سکتی تھی،،

وہ یہاں اپنی صفائی کیوں نہیں دے رہا  اس کی خاموشی یہاں موجود ہر شخص کو کھٹک رہی تھی

سلطنت نے سب کے چہروں کی طرف دیکھا ہر چہرے پر سوال تھا شک تھا،،،

کیا سچ ہے ارمان تم بولتے کیوں نہیں،، ہوسکتا ہے حیدر تمھیں کسی نے کوئی غلط انفارمیشن  دی ہو ،، ارمان ایسا نہیں کر سکتا ،،شجاع احمد کی آواز نے پتھر کے بت میں جان ڈالی تھی،،

اس نے یال پر نظر ڈالی ارمان کے علاؤہ دو لوگ یہاں ایسے تھے جنہیں اصل حقیقت پتا تھی پر انھوں نے چہرے جھکا لئے تھے

ارمان  علی کو لگا وہ اپنا مقدمہ ہار گیا ہے وہ کچھ بھی کہہ لے اس کی بات آج معتبر نہیں سمجھی جائے گی پھر بھی ایک کوشش تو اسی کرنی چاہیے

"میں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے بھائی لیکن"،،،وہ بولنے لگا جب حیدر نے چیخ کر کہا

بکواس بند کرو اپنی اور صرف یہ بتاؤ تم لاسٹ منتھ کہاں تھے،،،

"بھائی میں ان لوگوں کو نہیں جانتا میرا کوئی تعلق نہیں ان سے،،  ہاں میں ایک ہفتہ ان کے ساتھ رہا ہوں پر میں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے ،،وہ پیسے بھی جاوید بھائی کی فیملی کو صرف اس لئے دئیے تھے کہ انھیں اپنی بیٹی کے آپریشن کے لئے ارجنٹ چاہیے  تھے ،، اور آپ ملک سے باہر تھے،، لیکن میں نے بعد میں فنڈز سے پیسے صرف اس لئے نکالے کہ میں ان لوگوں کے وہ پیسے رکھ نہیں سکتا تھا،،پر یقین کریں صرف دو لاکھ لئے تھے اور وہ بھی میں نے ان لوگوں کو واپس کر دئیے تھے

میرا خدا گواہ ہے میں نے ایک روپیہ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا ہے،،ارمان کے اعتراف نے بہت سے لوگوں کو شاک میں ڈال دیا تھا 

یہ اقرار حیدر کے الزام سے بھی بڑا تھا،،

"ایک منٹ میں ارمان علی یہاں سے نکل جاؤ دوبارہ آشیانہ میں قدم بھی رکھا تو میں بھول جاؤں گا کہ تم سے میری کوئی وابستگی بھی تھی

تمھیں پولیس کے حوالے صرف  پروفیسر عظمت صاحب اور شجاعت انکل کی وجہ سے نہیں کرہا ہوں 

اس لئے آشیانہ اور میرے گھر کی طرف اگر دوبارہ نظر بھی آئے  یا میری بہن کا نام بھی تمھاری زبان پر آیا تو آسٹریلیا میں نہیں یہاں کسی جیل میں سڑ رہے ہوگے ،،، 

اور تم سب نے بھی سن لیا نہ آج ابھی فیصلہ کرو اگر کوئی ارمان علی سے تعلق رکھنے گا تو وہ بھی آشیانہ سے جا سکتا یے،،،

حیدر عباس کہہ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی روم میں واپس چلا گیا

بہن کا نام ،، سجل کا یہاں کیا زکر وہ حیرت سے حیدر عباس کی پیٹ دیکھ کر سوچ رہا تھا

پھر وہ کسی طرف بھی نظر اٹھائے بغیر باہر کی جانب بڑھا،،

سلطنت نے ارمان کی طرف دیکھا 

جس کا سر آج جھکا ہوا تھا،، وہ باہر کی طرف جارہا تھا

مسند پر بیٹھے حاکموں سے ڈرتا ہوں

 پستی میں کھڑے  بلند میناروں سے ڈرتا ہوں

وہ جن کے ترکش میں صرف تیر ہوں باقی

ایسے سپہ سالاروں سے ڈرتا ہوں

گناہ گاروں سے نہیں

 نیک کاروں سے ڈرتا ہوں

وہ جو  جنت دوزخ   پھرتے ہیں بانٹتے

ایسے مذہب کے ٹھیکیداروں سے ڈرتا ہوں

 وہ جو لوگوں کی مجبوریاں خریدیں

ایسے خریداروں سے ڈرتا ہوں

ہوں  انسان  خطا کار سا

میں نیکی کے پیروکاروں سے ڈرتا ہوں

اس واقعے  کے کچھ دن  بعد  ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں شبیر قاضی کے برابر میں بیٹھا  حیدر عباس   اپنی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے شبیر قاضی کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہا تھا وہ آزادنہ الیکشن جیت گیا تھا ظاہر ہے وہ اکیلا اس شہر کے لئے کیا کر سکتا تھا اس لئے اس نے شہر کے وسیع تر مفاد کے لئے یہ قدم اٹھایا تھا

ایک زخمی مسکراہٹ گھر پر نیوز سنتے ارمان کے چہرے پر آئی 

دکھ تو عظمت صاحب کو بھی ہوا تھا حیدر سے اس بیوقوفانہ فیصلے کی امید نہیں تھی

آشیانہ کے بھی بہت سے لوگوں کے لئے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں تھا

ایک ایسی پارٹی میں شمولیت  جس نے ہمشہ شہر کے ساتھ ناانصافی کی تھی کبھی ایوانوں  میں اس شہر کے حقوق کے لئے  آواز نہیں اٹھائی  تھی پر ابھی خاموشی  مجبوری تھی شبیر قاضی کی مضبوط پوزیشن ہی اس وقت حیدر عباس اور آشیانہ کی ساخت کو بچا سکتی تھی

 شہر کے بگڑتے حالات ، آشیانہ کا میڈیا ٹرائل اور حیدر کی سیاسی پارٹی میں شمولیت  شجاعت علی صاحب کے  غصے کو بھڑکا چکی تھی

وہ ایک بار پھر ارمان علی کو باتیں سنانے آئے تھے

 پر ارمان کے کنڈیشن نے انھیں پریشان کر دیا،،،

وہ کافی دیر اس کے پاس بیٹھے اسے اس کی غلطیاں بتاتے رہے اور اس بات پر زور دیتے رہے وہ اب کسی سیاسی سرگرمی کسی جلسے میں شریک نہیں ہوگا ،،

اس کا کوئی تعلق نہیں آشیانہ یا حیدر عباس سے بس یہ کچھ  دن جو اس کے جانے میں  رہے گئیے ہیں وہ گھر پر آرام سے گزارے   

#######

##

زعیم قاضی کے لئے شبیر قاضی اور حیدر عباس کی بڑھتی نزدیکیاں برداشت سے باہر تھیں 

اسے اپنی پارٹی کی فتح  بھی خوش نہیں کر سکی تھی حیدر عباس کی پریس کانفرنس نے اس کی جیت کا مزا کرکرا کر دیا

وہ دو دن سے فارم ہاؤس پر نشے میں دھت دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑا تھا

کمرے میں سگریٹ کے ٹوٹے ،بوتل ، اور ٹیبل پر رکھا وہ سفید زہر یہ ظاہر کر رہا تھا  وہ بہت کچھ اپنے اندر اتار چکا ہے

پہلے ژالے کی صورت میں لاکھوں روپے کی جائیداد اور زمین ہاتھ سے گئی تھی اور اب حیدر کی پارٹی میں شمولیت سے اسے اپنی سیٹ کی بھی فکر تھی

####

حیدر تم نے ارمان کو آشیانہ سے نکال دیا ہے،،، شمع بیگم نے حیرت سے بیٹے سے سوال کیا،،

جی اور یہ اب آپ کی زمہ داری ہے کہ وہ میرے گھر کی دہلیز پر بھی قدم نہیں رکھے گا،،، دو ٹوک انداز میں مخاطب ہوا

سجل کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے لرزی تھی،،،اس نے ٹرے جلدی سے ٹیبل پر رکھی

حیدر نے گہری گھورتی نظر سجل پر ڈالی اور پھر ماں کو کہا 

مجھے اس بات پر کوئی بحث نہیں چاہیے ارمان سے ہمارا اب کوئی تعلق نہیں یے،،، 

"برسوں کے تعلق لمحوں  میں نہیں ٹوٹتے حیدر،،

اور ارمان تو ویسے بھی کچھ دن بعد یہاں سے جا رہا ہے تو کیا ضرورت ہے اس سارے تماشے کی 

کوئی بھی الزام اس پر ثابت تو نہیں ہوا تھا جو تم نے سب کے سامنے اس کی اتنی بے عزتی کی ہے تم اکیلے میں بلا کر بھی اس سے باز پرس کرسکتے تھے،،

"اوہ بڑی جلدی آپ تک ساری خبریں پہنچ گئی ہیں ماما تو بتانے والے نے یہ نہیں بتایا اس نے کیا کیا ہے،، طنزیہ نظر سے بہن اور ماں کو دیکھا

سجل تو سر بھی نہیں اٹھا سکی،

"ہم تک خبریں پہچانے والے بہت سے زرائع ہیں اس لئے ہم دونوں طرف کا موقف سن اور سمجھ سکتے ہیں پر جن لوگوں کو صرف ایک طرف سے ہی خبر ملے اور وہ بنا تحقیق کے اس پر یقین بھی کر لیں اصل میں سب سے زیادہ وہ لوگ ہی نقصان میں رہتے ہیں،،،"

شمع بیگم نے بھی دوبدو جواب دیا

"مجھے تصدیق یا تردید کی ضرورت بھی نہیں ہے مجھے پرواہ نہیں وہ کیا کرتا پھر رہا ہے  مجھے اگر فکر ہے تو اپنے گھر کی جو گند وہ میرے گھر میں بکھیر کر گیا ہے جو اعتبار اس نے میرا توڑا ہے اس کے لئے اگر میں چپ ہوں تو اسے میری بزدلی نہیں سمجھیں۔ اپنی بچی کچی عزت بچانے کے لئے خاموش ہوں لیکن یاد رکھیں اس گھر سے ارمان کا اب کوئی تعلق ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے،،،،

"ہوش میں ہو حیدر جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو،،، ایسا کیا دیکھ لیا ہے تم نے،،؟، شمع بیگم زور سے چیخیں

"مجھے اس ٹاپک پر مزید  نا کچھ  کہنا ہے  اور نا سننا ہے،،،

 چائے کا کپ ٹیبل پر زور سے پٹخ کر وہاں سے جانے لگا

پر ایک گھوری بہن پر  ڈالنا نہیں بھولا تھا

سجل اندر تک  کانپ  گئی تھی حیدر کی نظروں میں اس کے لئے نفرت تھی

آخر ایسا کیا ہوا تھا جو وہ سجل کو اتنی حقارت سے دیکھتا ہوا گیا تھا،،،

سجل ٹیبل پر سر رکھ کر رونے لگی تھی

بیگم شمع نے دکھ سے پہلے بیٹی اور پھر حیدر کے بند بیڈ روم کو دیکھا

ان کا بیٹا ان سے چھین رہا تھا دور ہورہا تھا،،،

ایک ٹھنڈی سانس بھر کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں 

وہ بیٹی کو چپ کروا کر کوئی آس نہیں دلا سکتی تھیں،،،

وہ ماں تھیں جانتی تھی ان کی بیٹی کا دکھ سے گزر رہی ہے،،،

######

حیدر عباس کی مصروفیات میں بہت اضافہ ہوگیا تھا ،، وہ ان دنوں آشیانہ بھی کم آتا تھا ،،شجاع احمد اور عیش بھی اب آشیانہ نہیں آتے تھے عیش کو اب بھی ارمان علی سے کچھ خوف تھا وہ بہت زیادہ ڈیپریشن میں جارہی تھی

 شجاع اس کے ان موڈ سونگز سے اب پریشان ہوگیا تھا

 اس نے اپنے چینل کے تھرو دبئی جانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں ،، 

آشیانہ کا زیادہ تر انتظام اب حامد خان سنبھال رہا تھا،،،

ارمان علی کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں نے آشیانہ چھوڑ دیا تھا وجہ حیدر عباس کی شبیر قاضی کی پارٹی میں شمولیت تھی،،

سلطنت پر تابندہ بیگم کی  پابندی تھی وہ اب اسے آشیانہ نہیں جانے دے رہی تھیں اور اس بار  عظمت صاحب بھی ان کے ساتھ تھے،،،،

سجل کو حیدر نے سلطنت کی مایوں اور نکاح میں شرکت کی اجازت دے دی تھی ،، کیونکہ عظمت صاحب خود کارڈ لے کر آئے تھے،،

ارمان اپنے جانے کی تیاریاں کر رہا تھا اس کے ساتھ ہی وہ  اپنے سارے کزنز کے ساتھ ہلے گلے میں بھی شامل رہتا جو روز رات سلطنت کی ڈھولکی میں آتے تھے،،،

اکثر ازمیر لودھی بھی آجاتا تھا یہ کہتے ہوئے کے اس کی خالہ کی بیٹی کی ڈھولکی ہے،،،

کوئی نہیں جانتا تھا یہ آخر پندرہ دن تھے اس خاندان کی خوشیوں کے

ایک طوفان اپنے ساتھ ان کا سب کچھ بہا کر لے جانے والا ہے

 پروفیسر عظمت علی صاحب کی عزت بھی،،،

 ژالے اور حیدر عباس  شبیر قاضی اور ثانیہ قاضی کے گھر ڈنر پر مدعو تھے یہ خالص فیملی ڈنر تھا،،،،

 " اب  آپ دونوں کے کیا پلانز ہیں اس ویک اینڈ ؟ ثانیہ قاضی نے خوشگوار لہجے میں بیٹی اور داماد سے پوچھا

اس سے پہلے حیدر کچھ کہتا ژالے نے غصے سے ناک سکوڑ کر گردن کو جھٹکتے ہوئے کہا

"ہنہہ کیا پروگرام ہونے مسٹر بزی مین کے کوئی پارٹی میٹنگ ، کوئی اہم کیس کی ہیرنگ ، اور یہ کچھ بھی نہیں ہوا تو دکھی انسانیت کی خدمت کیونکہ سارے جہان کے دکھ ان موصوف کے دل میں ہے سوائے  بیوی کے وہ تو دردسر ہے،،،"

اس معصوم سے شکوے پر وہ تینوں ہی ہنس گئے 

جس پر ژالے کو  مزید غصہ آیا ،،،

 مم ،ڈیڈ ،،! 

سوری میرا بچہ اتنا معصوم لگ رہا ہے کہ میں اپنی ہنسی نہیں روک پایا،،، شبیر قاضی نے ہنستے ہوئے کہا

"بھئی حیدر اب آپ الیکشن سے فری ہوگئے ہیں  تو آپ لوگوں کو تھوڑا ٹائم ساتھ میں Spend کرنا چاہیے

ژالے بھی کافی دنوں سے کہیں نہیں گئی کیوں نہ آپ یورپ کا ایک ٹرپ کرلو "،،،،ثانیہ قاضی کی بات پر حیدر عباس نے بہت حیرت سے ان کا چہرہ دیکھا لگا شاید وہ مذاق کر رہی ہیں پر وہ سنجیدگی سے جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھیں

"آنٹی آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے یورپ  پاس میں ہی ہے اور میں ژالے کا ہاتھ پکڑوں اور لے جاؤں گا،، مسکرا کر کہتے ہوئے ژالے کو دیکھا  جہاں منہ ویسے ہی پھولا ہوا تھا،،،

"سئوو بیٹا ابھی کچھ دن آپ کو اور انتظار کرنا ہوگا  حیدر ابھی کہیں نہیں جاسکتے ابھی تقریب حلف برداری ہے پھر حیدر کو اپنے گوٹ بھی لے جانا ہے وہاں جشن ہے ہماری جیت کا ان سب سے فراغت پاتے ہی آپ لوگ یورپ کا چکر لگا لینا ناٹ آ بگ ڈیل،،،کیوں حیدر؟،،"، ژالے سے بات کرتے ہوئے شبیر قاضی نے حیدر سے   بھی سوال کر لیا،،

"سوری سر ابھی یا بعد میں بھی میں ژالے کو یورپ ٹور پر نہیں لے جا سکتا ہم کچھ دنوں پہلے ہی دبئی گئے تھے میں فری ہو کر ژالے کو یہاں کہیں ہی لے جا سکتا ہوں بس ،"،،حیدر نے قطعیت سے کہا

"حیدر اب آپ کو فنانشل ایشو تو نہیں ہونا چاہیے شیب کوشش کر رہے ہیں آپ کو کوئی ایسی ہی وزارت ملے جس سے آپ" ،،،ثانیہ کی بات بیچ میں ہی رہے گئی

"سوری آنٹی میں حکومت کا حصہ اس لئے نہیں بنا ہوں کہ میں اپنی بیوی کو غیر ملکی دورے کروایا کروں،،" مجھ پر بہت سے لوگوں نے اعتماد کیا ہے ان  سے کئے وعدے پورے کرنے کے لئے میں نے بہت سے کڑوے گھونٹ پئے ہیں میں ان کی امیدیں پہلے ہی مقام پر نہیں توڑ سکتا،،، حیدر کے جملے نے ژالے کو بھی سنمبھالنے  کا موقع دیا اس کو حیدر کا موڈ بہت خراب لگا تھا

جلدی سے بات ختم کرنے کے لیے کہا

"مم مجھے صرف حیدر کا ٹائم چاہیے وہ مجھے گھر پر بھی دے دے کافی ہے اور میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی تاکہ یہ بزی انسان کم از کم اس ویک اینڈ کو پہلے سے کچھ پلان نہ کر لے اور ہم پہلے کی طرح ساتھ کراچی کی کا خاک چھانیں،، ہنس کر مم  کو کہتے حیدر کو بھی دیکھا جس کے چہرے پر اب مسکراہٹ تھی

ژالے نے  دل میں شکر ادا کیا

حیدر کے اصول اور سیلف ریسپکٹ ژالے کو عزیز تھے،،،،

تو اس کے لئے بھی میرے پاس ایک پلان ہے حیدر آپ فرائی ڈے کو سئوو کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے جائیں،،شپیر قاضی نے مشورہ دیا،،،

ہاں یہ ہوسکتا ہے ڈن ژالے آپ تیاری کرلیں ہم فرائی ڈے اسلام آباد چل رہے ہیں بلکہ ایک دن مری میں بھی گزاریں گے،،، حیدر عباس نے فراخدلی سے کہا 

"ڈیڈ  آپ کی آفر پر اتنی جلدی حیدر کا مان جانا مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے سچ سچ بتائیں وہاں آپ بھی جارہے ہیں اور وہاں آپ لوگوں کی کوئی میٹنگ ہوگی یا آپ نےحیدر سے کسی کو ملوانا ہوگا،،،شکی لہجے میں کہتے ان سب کے چہرے دیکھے جہاں دبی دبی ہنسی تھی

"ہاہاہاہاہاہا میرے ساتھ رہے کر ژالے تم کافی اسمارٹ ہوگئی ہو،،حیدر نے ہنس کر کہا

ڈیڈ آپ مجھے چیٹ کر رہے,,, ژالے نے غصے سے شبیر قاضی کو دیکھا

"صرف فرائیڈے کو ہے میٹنگ وہ بھی کچھ گھنٹے ژالے" ،، شبیر قاضی نے ہنس کر کہا

"آئی پرامس اس کے بعد سنڈے تک میں کوئی کام نہیں کروں گا،،"، حیدر نے ہاتھ اٹھا کر وعدہ کیا،،،

اور مجھے وقت دو گے؟شکی لہجے میں سوال کیا

"جی بالکل"،،،جواب دیا 

 ہم مری بھی گھومنے جائیں گے ؟

"وہ بھی پورا دن،،"

اور  وہاں شاپنگ بھی کرواؤ گے ؟

"جو حکم،،،"

کوئی فون کال بھی اٹینڈ نہیں کرو گے؟

"میں اپنا موبائل آپ کے پاس رکھوا دوں گا میم"،،،

سر جھکا کر کہا

شبیر قاضی اور ثانیہ قاضی حیدر کی تابعداری پر زور سے ہنسے،،

'میم کیا میں اب ہاتھ نیچے کر سکتا ہوں باقی کی کلاس آپ گھر جا کر لیں گی تو مناسب ہوگا یہاں لوگ کسی ٹیلی سوپ کو انجوائے کررہے ہیں،،حیدر کے شرارتی انداز میں ایک قہقہ پڑا تھا جس میں ژالے کی شرمیلی   ہنسی بھی شامل تھی،،،

###

سلطنت کی مایوں اور رت جگا

ارمان کے آسٹریلیا جانے سے ایک دن پہلے،،،

کیا ہے بھئی میں نہیں مان رہا کوئی رولز آج میں نے بھی آنا ہے پلیز سلطنت،،، ازمیر فون پر  التجا کرتے ہوئے بولا

"ابھی کل تو آپ آئے تھے اور کل نکاح ہے ضروری ہے  کیا آج آپ کا آنا ازمیر لوگ عجیب باتیں کرتے ہیں پلیز سمجھنے کی کوشش کریں،،،سلطنت زچ ہوئی

میں ان چار لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا جن کا کام ہی باتیں کرنا میں نے  بس تمھیں دیکھنا ہے تم آج پیلے کپڑوں کیسی لگ رہی ہو، سرسوں کا پھول یا سنہری دھوپ،،، اشتیاق سے گویا ہوا

آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے میں نے آج کے لئے یلو ڈریس نہیں بنایا،، 

 میں گرین اور رسٹ کلر پہن رہی ہوں ،،،ہنس کر معلومات فراہم کی

"اوہ واؤ گرین مائی فیورٹ اس کلر میں تو میں نے تمھیں کبھی دیکھا ہی نہیں تو مجھے آج ہی دیکھنا ہے ،،، کیا شوق تھا،،،

ارمان کہہ رہا تھا میں پاکستان کا جھنڈا لگ رہی جسے زنگ لگ گیا ہے،، اس کلر میں،،، بے ساختہ کہا

استغفر اللّٰہ ارمان تو بد ذوق ہے

ہاہ مجھے اپنے  پاکستانی جھنڈے سے بہت محبت ہے اور آج تو اس کے ساتھ رسٹ کلر ہے یعنی محبت کا گیور رنگ،، جیسے دور شفق شام کی دلہن کو مہندی لگا دے ،،ازمیر کی بات نے پل بھر ساکت کیا

ازمیر مجھے شک ہے آپ اتنے سال  لندن میں نہیں رہے  ہیں اتنی خالص اردو اور یہ شاعرانہ انداز،،،

"آپ کی اس حسین صورت کو دیکھ کر تو پتھروں میں جان آجائے سلطنت دل ،اپ تو،،،،

بس بس اس سے زیادہ کی اجازت نہیں اوکے اور اللّہ حافظ ،جلدی سے جان چھڑائی

"نہیں پلیز رکو سنو تو،، اچھا آئے مغرور شھزادی کیا آپ اپنی پکس بھیج سکتی ہیں ،،،؟اور مہندی لگ جائے تو اپنے ان حسین ہاتھ پیروں کی بھی اور،،،،،

اوکے بس بھیج دوں گی جلدی سے بات کاٹ کر کہا

ہاہ ظالم اچھا رات کو وڈیو کال تو کر سکتا ہوں میرے سلطنت دل کی ملکہ ،،، ہنس کر فرمائشی پروگرام چلایا،،،

بالکل بھی نہیں بس اب کل ملاقات ہوگی،،، سمجھے،، مصنوعی غصے سے ڈرایا

زیادہ آکڑ دیکھائی نا تو کل نکاح کے ساتھ ہی رخصت کروا لینا ہے پھر تمھارے ابا بھی کچھ نہیں کہہ سکیں گے،،، چیلنج کیا۔

ازمیر صاحب ابھی سوچ لیں ورنہ کل میں نے اگر سائن کرنے سے انکار کر دیا تو  پھر منتیں نہیں کرنا؟ بغیر ڈرے گردن اکڑا کر کہا

"کاش تمھیں بھی محبت کا روگ لگ جائے ظالم حسینہ تو پتہ چلے  محبت میں لوگ کیسے تڑپتے ہیں ،،شرافت سے سائن کر دینا نہیں کروا رہا رخصتی، اور نہیں کرنا وڈیو کال ،فون کٹ کیا

پر دوسری طرف  وہ ہل بھی نہیں سکی تھی

"ہاں مجھے کیا پتا محبت کا روگ کیا ہوتا ہے یہ کیسے اندر ہی اندر آپ کو چاٹ جاتا ہے،"

مجھے کیا پتا 

"محبت میں برباد کو بہار بھی سر سبز نہیں کرتی ہے"دیوار گیر آئینے میں اپنا سر سبز سراپا دیکھا اور

،، ایک نظر باہر عالی شان کے ساتھ آتے ارمان پر ڈالی 

جو مسکرا کر اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا آنکھوں میں ستائش تھی،،

"اس نے جب نظر بھر کے دیکھا 

جب کوئی طلب نظر  ہی باقی نہیں  تھی،،،،

##،

######

السلام علیکم سر!

سجل کے سلام پر ارمان نے حیرت سے دیکھا اسے امید نہیں تھی حیدر عباس سجل کو ان کے گھر بھیج دے گا،،، ( وہ تو ارمان کے منہ سے سجل کا نام سننے پر ہی بھڑک گیا تھا صاف کہا تھا میری بہن کا نام بھی زبان پر مت لانا،، جب کہ اس نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ وہ سجل کو اس بات میں کیوں بیچ میں لایا ہے)

وعلیکم السلام کیسی ہیں آپ ،،، سنجیدگی سے جواب دیا

جی الحمد للّٰہ تھیک ،،اپ کیسے ہیں،،، ؟

"ٹھیک ہوں سلطنت  اور باقی سب  لان میں ہیں آپ اندر چلی جاؤ " ،،، وہ  عالی شان کے ساتھ آئی تھی اور اب گیٹ کے باہر کھڑی اس سے بات کر رہی تھی

ارمان کو  نامناسب لگا اگر کوئی دیکھ لیتا ،،

'کل آپ جارہے ہیں سر،،ارمان کی بات ان سنی کرتے ہوئے ایک اور سوال کیا

 ارمان نے صرف گردن کو ہلا کر جواب دیا

پر دوسری طرف فرق نہیں پڑا

"ملے بغیر ہی جارہے ہیں؟

ارمان نے سنجیدہ نظروں  سے دیکھا،،

وہ مما کہہ رہی تھیں آپ ان سے بھی ملنے نہیں آئے ،،ڈر کر سوال بدلا

ہاں کچھ مصروف ہوں میں آنٹی سے فون پر بات کر لوں گا ،،،کہہ کر اس کی طرف نظر اٹھائی

وہ آج بھی سلطنت کے جیسے ہی کپڑے زیب تن کئے ہوئی تھی اور اتنی ہی حسین لگ رہی تھی ارمان نے نظریں جھکائیں،،،

آپ مجھے یاد کریں گے سر؟ سوال سے زیادہ انداز نے ارمان کو چونکا تھا ،،،

پر اس بار نظر اٹھانے کی غلطی نہیں کی،،،

"اندر جائیں سجل یہاں اس طرح آپ کو کسی نے میرے ساتھ کھڑا دیکھ لیا تو ایک اور الزام میں اپنے سر نہیں لے سکتا آپ کی بے وقوفیاں کم میرے لئے مشکلات نہیں بڑھا چکی ہیں،"،،،

میں نے کیا کیا ہے سر،،؟

اور اس سوال کا جواب تو دونوں کے پاس ہی نہیں تھا،،،(پتہ نہیں حیدر بھائی سے کس نے کیا کہا تھا)

"آپ ہمشہ مجھے یاد رہیں گی،زندگی میں اتنی نکمی اسٹوڈینٹ کبھی نہیں ملی تھی مجھے"،،،

سر جھٹک کر کہتے ہوئے اس بار گھر کا داخلی گیٹ خود کھول کر سائیڈ پر ہوگیا،،،

######

سلطنت کے موبائل پر بار بار ازمیر کے میسج آرہے تھے

سب کزنز گانے گانے اور شور شرابے میں لگے تھے

سجل نے بھی مہندی لگوائی تھی

وہ سلطنت سے گھر جانے کا کہہ رہی تھی

یار آج رک جاؤ پلیز،،،

سچ میرا بہت دل چاہ رہا ہے پر مما نے آج کے لئے ہی اجازت دی ہے،،پھر حیدر بھائی بھابھی بھی اسلام آباد گئے ہوئے ہیں میں کل آؤں گی مما کے ساتھ،،سجل نے کہا

تو جب حیدر بھائی نہیں ہیں تو آنٹی کیوں نہیں آئیں ،،بس میں انھیں فون کرتی ہوں تم کہیں نہیں جارہی ہو بلکہ میں انھیں بھی بلالیتی ہوں،،،سلطنت نے کہا

ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز  جانے دو میں کل جلدی آجاؤں گی ،، سجل اداسی سے گویا ہوئی

"اچھا پر ابھی نہیں جاؤ مہندی گیلی ہے سوکھ جانے دو میں کشو آپا سے کہتی ہوں وہ یا عالی شان چھوڑ دیں گے ،،،،سلطنت نے کہا،،،

عامر حیات گانا گا رہا تھا سب بہت شوق سے سن رہے تھے 

جب سجل کے موبائل پر میسج بیپ ہوئی 

نمبر نیا تھا پر میسج جانا پہچانا تھا

مسکرا کر سامنے دیکھا اس کے ہاتھ میں بھی موبائل تھا 

پھر نظر اچانک ہی اٹھائی  پھر جھکا لی،،،

سجل نے دوبارہ میسج دیکھا 

پیغام پر حیرت ہوئی تھی مگر تعمیل تو کرنی تھی ،،

نظر دوبارہ اٹھائی 

جگہ خالی تھی ،،وہ جا چکا تھا،،،

جلدی سے موبائل پکڑ کر باہر لپکی  یہ خیال بھی نہیں رہا مہندی ابھی گیلی ہے،،،

#####

عالی شان یہ ارمان کہاں گیا ہے ،،عامر حیات گانے سے فارغ ہوتے ہی ارمان کا پوچھا 

اب اس کی باری تھی

ان کو کسی کا میسج آیا تھا کہہ کر گئے ہیں دو گھنٹے میں آرہے ہیں،، عالی شان نے جلدی سے بتایا

######

شمع بیگم کو سلطنت نے فون کر کے کہا 

"آنٹی سجل آج گھر نہیں آئے گی اوکے اللّٰہ حافظ"

اور ان کی ہیلو ہیلو سنے بغیر فون رکھ دیا

####

سجل گھر کی سائیڈ والی گلی میں آکر چاروں طرف دیکھ رہی تھی کوئی نہیں تھا وہاں وہ واپس مڑنے لگی

جب اس کے منہ پر ایک رومال رکھا گیا،،،

پھر ایک گاڑی   کی بیک سیٹ پر اسے ڈالا گیا

سجل نے غنودگی میں جانے سے پہلے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی کوئی منہ پر کپڑا لپٹے تھا

فون پر اس نے کہا تھا

شکریہ کزن یہ احسان رہے گا ،،

پھر سجل کے بازو میں کوئی سوئی چبھی تھی

مکمل ہوش کھونے سے پہلے اس لگا یہ آواز اس کی جانی پہچانی ہے ،،،،

گاڑی تیزی سے اسٹارٹ ہوگئی

ژالے اور حیدر تھوڑی دیر پہلے ہی اسلام آباد سے مری پہنچے تھے،،،

حیدر نے وعدے کے مطابق اپنا سیل فون بند کر دیا تھا وہ خود بھی یہ دو دن  بغیر کسی ٹینشن کے  ژالے کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ہر فکر سے آزاد ، خوش وخرم،،،

شمع بیگم کو  وہ خیریت کے لئے فون کر ہی چکا تھا اس لئے اب وہ پر سکون تھا

"جی ژالے حیدر حکم کیجے  بندہ آج سے دو دن کے لئے صرف آپ کا غلام ہے "،،،

ژالے کے برابر میں بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا.

"ہممم تو پھر ہم آج سارا دن مری میں گھومیں گے شاپنگ کریں گے کھانا بھی باہر ہی کھائیں گے کسی دھابے پر،،، سارا پروگرام دیا

حیدر نے منہ بنایا  

"واؤ کتنا زبردست پروگرام سیٹ کیا ہے ہاؤ رومینٹک ہنہہ،"

میم یہ کراچی نہیں  مری ہے دو گھنٹے میں ہم پورا مری دیکھ لیں گے،،  پھر باہر سارا دن کیا کرنا ہے،، کہتے ہوئے کافی کا کپ اٹھایا،،،

سر آپ چلیں تو سہی  میں نے  آج  آپ کو ہوٹل کا راستہ بھلا دینا ہے  ،،،،اور،،

میں تو دنیا بھولنے کے موڈ میں ہوں،،، حیدر نے ژالے کی بات کاٹ کر شرارت سے کہا،،

آج صرف میرا حکم چلے گا اوکے اور 

 آپ سے کس نے کہا ہے کہ ہم گاڑی میں مری گھومنے والے،،

وہ کہتی ہوئی وہاں سے اٹھی ،،،

 ہیں تو ،، سنو  کیا مطلب ؟ حیدر نے چونک کر اس سر پھری لڑکی کو دیکھا ،،،جو ایک بار کچھ  ٹھان لے پھر کہاں  کسی کی سنتی ہے ،،،،

وہ بس باتھ روم کے بند دروازے کو اب گھور رہا تھا،،،

#######

پروفیسر عظمت صاحب کے گھر بھی صبح ہو چکی تھی 

آج سلطنت کا نکاح

اور ارمان علی نے  رخصت ہونا تھا ( آج رات اس کی آسٹریلیا کی فلائٹ تھی)

گھر میں ملی جلی کیفیت  تھی 

 ارمان کی امی نیلو فر  اور کشور ارمان کو دیکھ دیکھ کر رو رہی تھیں،،،،

ارمان دونوں کو  چپ کرواتے اب جھنجلا گیا تھا

"یار آپ دونوں خواتین ایسے رو رہی ہو جیسے میری شکل دوبارہ آپ لوگوں کو دیکھنا نصیب نہیں ہوگی،،،"

"اللّٰہ نہیں کرے لڑکے کیا اول فول بک رہے ہو ،،  بھابھی اور کشور چپ کرو آپ دونوں بس پردیس جانے والوں کو ہنس کر وداع کرتے ہیں تاکہ وہ ہنستی یادیں لے کر جائیں،،

پھپھو نے سب کو ڈانٹ کر چپ کرایا

######

آخر ارمان کے ساتھ پارلر جانے میں تمھیں کیا مسئلہ ہے ،،، کشور نے غصے سے آواز دبا کر سلطنت کو ڈانٹا

٫"میں نے یہ کب کہا مجھے مسئلہ ہے میں صرف اتنا کہہ رہی ہوں جب آپ جاؤ گی جب ہی مجھے بھی لے جانا میں دوپہر سے وہاں جاکر کیا کروں گی،"،،

سلطنت نے بہانہ بنایا

"سلطنت  بیٹا کیا ہوگیا ہے  آپ کی اپائنٹمنٹ جلدی کی ہے پھر ابھی عامر باہر  ہیں وہ کشور کو بھی چھوڑنے جائیں گے پھر اسے  رات میں تم دونوں کو لینے بھی آنا ہے  تو اگر اس وقت ارمان کے ساتھ چلی جاؤ گی تو سہولت رہے گی پھر آج کوئی پہلی بار تو ارمان کے ساتھ  نہیں جارہی ہو ہر جگہ وہ ہی تم بہنوں کو کے کر گیا ہے ،،،،تابندہ کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ سلطنت کے لبوں کو چھو گئی

چلیں والدہ ماجدہ  کم از کم آپ کو یہ بات تو یاد ہے کہ وہ بہت چھوٹی عمر سے ہم بہنوں کا ڈرائیور بنا ہوا ہے ،،،،

سلطنت میں آج تم سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتی،،،تابندہ بیگم نے جلدی سے کہا،،

 اس سے بھی  پوچھ لیں اسے تو کہیں نہیں جانا کیونکہ پھر شام میں تو اس کی فلائٹ ہے،،

سلطنت نے کشور سے کہا 

وہ سلطنت کا پارلر لے جانے کا بیگ پیک کر رہی تھی،،

"اس سے پوچھ کر ہی پروگرام بنایا ہے اور پہلے کبھی انکار کیا ہے جو آج کرے گا "،،،کہہ رہا تھا تمھیں چھوڑتا ہوا جائے گا اسے   کسی دوست سے ملنا ہے،،،،

آجاؤ باہر جلدی وہ انتظار کر رہا ہے،،،،کشور کہتی ہوئی بیگ لے کر باہر نکل گئی،،،

سلطنت لیکن دوبارہ بیڈ پر ٹک گئی ،،،،

اسے رات دوبارہ یہاں آنا تھا  آج صرف نکاح تھا  پر دل عجیب طرح سے کھینچ رہا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے آج اس میں ارمان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اسے پتا تھا بس  یہ کچھ گھنٹے ہیں اس کے بعد وہ یہ چہرہ نہیں دیکھ سکے گی،،،،

گھر آئے گی سب کچھ ویسے ہی ہوگا پر وہ نہیں ہوگا،،،،

 وہ کشور کی طرح اس کے جانے پر رو نہیں سکتی تھی ،، ارمان کشور کی طرح  اسے کندھے سے لگا کر  دلاسہ نہیں دے سکتا تھا نہ اسے یہ یقین دلائے گا کہ روز فون کروں گا ،،

سلطنت  تو اس سے  یہ بھی نہیں کہہ سکتی تھی وہ اس کو کتنا مس کرے گی،، ایک جھجک دونوں کے درمیان آگئی تھی،،،

وہ شکستہ قدموں سے باہر آئی ارمان  ہمشہ کی طرح کھڑا تھا

جھکی نظروں کے ساتھ سر اٹھائے،،،

سلطنت سب کزنز ،پھپھو ،تائی سے گلے مل کر ابا کے پاس آئی اچانک ہی آنسوؤں بے اختیار ہوئے تھے باپ تو بہت چھوٹی عمر میں ہی اللّٰہ کو پیارے ہوگئے تھے دادا ہی تھے جن کے مہربان وجود میں اس نے اپنا ہر رشتہ پایا تھا،،،

وہ ان کے گلے لگے بس روئے جارہی تھی ،،، 

عظمت صاحب اسے چپ کراتے ہوئے  اب خود بھی رونے لگے تھے،،،

#####

###

زعیم قاضی آج بہت دن بعد گوٹ اپنے بابا صاحب سے ملنے آیا تھا ،،

اس وقت وہ اوطاق میں بیٹھا ہاری اور کسانوں کے مسئلے سن رہا تھا،،،

 مہنگی  برانڈڈ  کا سفید کاٹن کے شلوار سوٹ پر گلے میں اجرک ، پیروں میں سفید پشاوری سینڈلز،،وہ اسٹائل آئی کون تھا

  بڑی شان سے اپنی رعایا کے درمیان نخوت سے سر اٹھا کر بیٹھا تھا 

 وہ رعایا جن کا کام صرف سر جھکا کر رکھنا تھا

سوال کرنا یا احتراز اٹھانا ان کو سیکھایا ہی نہیں گیا تھا

ان کے لئے کافی تھا کہ ان کا سائیں آج ان کے درمیان بیٹھا ہے

وہ اس کے ہاتھ چوم رہے تھے گھٹنوں کو ہاتھ لگا رہے تھے

علاقے کا وڈیرا بھی برابر میں بیٹھا تھا جس نے  تین  گاؤں کے  ووٹوں  کا سودا کیا تھا،،،

یہاں رعایا کو یہ  اجازت  نہیں تھی کہ اپنی من مرضی سے کسی دوسرے کو ووٹ دے دیں ،،،،،

یہاں شعور  کوڑیوں کے بھاؤ بکتا تھا

###

"کتنی بڑی ڈرامہ کوئین ہوتی ہو تم لڑکیاں  شادی کا شوق بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے بچپن سے بس ایک یہ ہی خواب  دیکھتی ہو کے کوئی پرنس چارمنگ  تم کو بیاہنے  آجائے،،پھر شادی کے لئے بڑھ چڑھ کر شاپنگ کرتی ہو، اس ایکٹریس جیسا میک اپ۔ ،فلاں جیسی جیولری ،اس ڈزائنر کا برائیڈل ڈریس،، اور جب سب مرضی کا ہوجائے تو 

یاد آتا ہے آہوو ہم نے تو آج رخصت ہونا  پھر یہ بھاں بھاں کر کے رونے ڈالتی ہو،،،ہنہہ،،

حالانکہ جس سے تمھاری شادی ہورہی ہے اصل رونا تو اس بچارے کے نصیب میں لکھا ہے،،،

سلطنت جب گاڑی میں آکر بیٹھی تو ارمان نے اس کے رونی صورت دیکھ کر ہنس کر کہا

مطلب چڑانا تھا 

پر دوسری طرف خاموشی تھی

حیرت سے نظر ترچھی کر کے دیکھا ،وہ اپنے مہندی لگے  ہاتھ دیکھ رہی تھی،،،،

"کوئی تک بھی ہے رات اٹھ بجے تقریب ہے اور پارلر والی نے تمھیں تین بجے بلالیا ہے آخر کتنا دھوکا دیتے ہو تم لوگ ہم  بچارے معصوم مردوں کو اب رات کو تم آؤ گی تو پہچانی بھی نہیں جارہی ہوگی ،، آہ بچارہ ازمیر،،،،گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے مزید چڑایا،،،،

جواب اب بھی ندارد تھا

ارمان نے حیرت سے دیکھا یہ لڑکی اور اتنی دیر چپ رہے لے،،

"اے سلطنت پاکستان کیا ہوا ہے کچھ تو بولو "،،،

وہ گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی

ارمان نے گردن ہلا کر خاموشی سے نظر سامنے کر لی 

"ارمان گاڑی رکو" ،،،وہ بہت زور سے چیخی تھی

ارمان کی اسٹیرنگ پر گرفت ڈھیلی ہوئی 

وہ غصے سے اس کی طرف مڑا

پاگل ہو ابھی گاڑی ٹکرا جاتی ہوش میں ہو،،

 سلطنت کچھ سن نہیں رہی تھی

ارمان گاڑی پیچھے لو وہاں آشیانہ ،،وہ آشیانہ پر،،،!!!

"دماغ خراب ہے تمھارا تمھیں اس وقت آشیانہ جانا ہے اور سنڈے ہے آج بند ہے آشیانہ"  ،،،،وہ غصے سے چیخا،،

"پلیز ارمان گاڑی روکو وہاں آشیانہ وہاں گیٹ پر کوئی ہے،،، اللّٰہ وہ،"،،سلطنت کے بے ربط الفاظ سے اب ارمان چونکا تھا

گاڑی کو ٹرن دیا،،،

دوپہر کا وقت تھا یہ سروس روڈ سنسان ہی ہوتا تھا پھر آج سنڈے کی وجہ سے بھی یہاں کوئی نہیں تھا

ارمان نے جھٹکے سے

گاڑی آشیانہ کے گیٹ پر روکی،،،اس کا پاؤں ایک دم ہی بریک پر گیا تھا

اس نے حیرت سے سلطنت کو دیکھا 

جو تیزی سے باہر لپکی تھی

آشیانہ کے گیٹ پر ایک کھلے منہ کی بوری گری ہوئی تھی اور ایک کتا اس بوری کے پاس کھڑا بھونک رہا تھا

جس کے اندر سے ایک مہندی لگا ہاتھ باہر نکل رہا  تھا ،،،

ارمان تیزی سے گاڑی سے نکلا وہ سلطنت سے بھی پہلے بوری تک پہنچ گیا تھا

"یا اللّٰہ نہیں میرے مالک،، اے خدا ،،، ارمان نے بوری  سے جھانکتے نیم برہنہ وجود کو خود میں چھپایا تھا

ارمان کی چیخ نے سلطنت کو فریز کیا وہ وہاں ہی گھٹنوں کے بل  گری تھی،،،،اس میں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی

ارمان اور سلطنت سجل کو ایک  پرائیویٹ کلینک لے ائے جو ایک چھوٹا سا ہاسپٹل  تھا آشیانہ ٹرسٹ نے یہاں بہت سی جدید آلات لگوانے  میں ڈاکٹر راحیل چوہان کی بہت مدد کی تھی،،

 کسی بڑے ہاسپٹل  وہ سجل کو نہیں لے جا سکتے تھے کیونکہ بڑے ہاسپٹل کا مطلب تو یہاں مریض کی جان سے پہلے انکوائری پھر ہاسپٹل کے ایڈوانس ڈیوز  اور یہ یہ پولیس کیس تھا،،،

(اور ارمان تو ایک دفعہ ایسے ہی فائرنگ کے کیس میں صرف زخمی کو ہاسپٹل لے جانے پر ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تھا کیونکہ وہ زخمی ایمرجنسی  میں ڈاکٹر کے انتظار میں ہی مر چکا تھا،،پر ڈاکٹرز نے ٹریٹمنٹ  نہیں شروع کی تھی کہ پہلے پولیس آ جائے ،، اور اس وجہ سے ہی ارمان کی وہاں ایک ڈاکٹر ڈاکٹر سے ہاتھا پائی ہوئی اور پولیس نے ارمان کو اریسٹ کر لیا،،

اور پھر جن لوگوں کی مدد سے وہ باہر نکلا تھا وہ ہی باتیں حیدر کو پتا چلی تھیں اور آشیانہ سے نکلا گیا تھا)

یہاں کی لیڈی ڈاکٹر شہلا چوہان کو سلطنت بھی اچھی طرح جانتی تھی،،، وہ راحیل چوہان کی وائف تھیں،،،

سجل کا ٹریٹمنٹ شروع ہوگیا،،

سلطنت بہت رو رہی تھی ارمان کی تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ سلطنت کا سامنا بھی کر سکے سجل کی حالت کسی درندے کی درندگی کا ثبوت تھی جس نے ارمان کو بحیثیت مرد سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا،،،،

میں عامر کو فون کرتا ہوں وہ تمھیں پارلر چھوڑ دے گا ،،،

ارمان نے بغیر نام لیے مخاطب کیا نظر آپریشن تھیٹر کے دروازے پر تھی،،،

ہر گز نہیں میں جب تک یہاں سے نہیں جاؤں گی جب تک سجل ہوش میں نہیں آتی ،، اور،،،

"بچوں جیسی بات نہیں کرو سلطنت کبھی عقل سے بھی کام لیا کرو یہ پولیس کیس ہے تم یہاں سے جاؤ میں نے حیدر بھائی کو بھی فون کیا ہے ان کا موبائل بند آرہا رابطہ نہیں ہورہا ،،"

میں تھوڑی دیر سے چلی جاؤں گی مان پلیز ،،،پارلر والی نے جلدی بلایا تھا ورنہ ابھی بہت وقت ہے،،

وہ بس اسے دیکھ کر رہے گیا،،،

"شہلا بھابھی کہہ رہی ہیں  اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ بہت زخمی ہے اس کے باڈی پر کٹ لگے ہیں اس کی زندگی کا بھی کوئی،،، سلطنت روتے ہوئے شاید خود سے بات کر رہی تھی

کون اتنا ظالم ہو سکتا ہے کیسے اس طرح میرے خدا وہ تو اتنی ڈر پوک  ہے   زرا سی تکلیف پر روتی ہے  کتنی اذیت دی ہے اس  درندے  نے ، وہ کون ہوگا ؟،،

سلطنت کی خود کلامی ارمان کے لئے برداشت سے باہر تھی اس کے پیر کانپ رہے تھے،،،وہ سہارے سے ایک اسٹول پر بیٹھا،،،،،

سجل کا زخمی وجود آنکھوں میں گھوم رہا تھا،،،

سر دل ہی رکھ لیں,,,

آنسوں بھری آنکھیں اس کی طرف اٹھی ہوئی تھیں،،،

آہ ،،

ایک کراہ نکلی تھی

٫٫٫٫،،

"کیا تم کسی کو پسند کرتی ہو ،، کون ہے جلدی بتاؤ ،،،، سلطنت غصے سے اس کی طرف بڑھی

"یہ تو میں نے ابھی اسے بھی نہیں بتایا تو تمھیں   کیسے بتا دوں یہ تو ایک راز ہے جو میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ میں جانتی ہوں وہ میرے لئے نہیں،،،، سجل نے افسردگی سے کہا

کیا مطلب کون ہے وہ ،؟ سلطنت نے حیرت سے پوچھا

 ہے ایک دیوتا، جسے صرف کسی اونچی مسند پر بیٹھایا جا سکتا ہے،،،،،کھوئے لہجے میں کہا

اور تم  اس دیوتا کی دیوی ،،سلطنت نے منہ بنایا

نہیں میں داسی،،،،کھلکھلا کی ہنسی تھی

سلطنت نے ایک ہوک بھری  نظریں بند دروازے پر جمی تھیں

ارمان کو دیکھا جو سر جھکا کر بیٹھا تھا 

انھیں یہاں آئے دو گھنٹے ہوگئے تھے

ڈاکٹر شہلا اور ڈاکٹر راحیل باہر ائے،،،

وہ دونوں تیزی سے ان کی طرف  بڑھے،،،

"حیدر  عباس سے رابطہ ہوا ،،، ڈاکٹر راحیل چوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

نہیں ،، ان کا فون نو رسپانس دے رہا ہے ژالے بھابھی کا بھی بند ہے اور آنٹی سے میں نے خود بات نہیں کی  ان سے کیا کہوں گا،، ارمان نے بتایا

ہممم ارمان سجل کی حالت بہت کرٹیکل ہے کچھ بھی کہنا مشکل ہے ،،بیس سے پچیس  اسٹیچیز ہیں ، بازو اور پاؤں کی ہڈی فیکچر ہے اور پھر یہ بے ہوشی  بہت اسٹرونگ  ڈوز دی گئی ہے ،،، راحیل چوہان خاموش ہوئے 

سلطنت آج تو تمھارا نکاح تھا،،، ڈاکٹر شہلا راحیل  کو اچانک یاد آیا وہ بھی انوائیٹڈ تھیں

"جی میں اس سے یہ ہی کہہ رہا ہوں یہ اب پارلر جائے میں اس کو پارلر ہی چھوڑنے جارہا تھا جب سجل ہمیں ملی،، میں بلاتا ہوں کسی کو ابھی ،،ارمان نے جلدی سے کہا

"میں جب تک نہیں جاؤں گی جب تک سجل ہوش میں نہیں آتی میں اس کو یہاں اکیلے چھوڑ کر نہیں جاسکتی  مجھے اس انسان کا نام جاننا ہے،، سلطنت نے تیزی سے کہا

"سلطنت آپ کا یہاں رکنا مناسب نہیں ہے یہ کیس بہت خطرناک  ہے ،، پولیس کو بھی انفارم کرنا پڑے گا،،،

اور ضروری نہیں کہ سجل کو  یاد ہو کہ اس کے ساتھ یہ سب کس نے کیا ہے،،،ڈاکٹر راحیل کی بات پر وہ دونوں چونکے

یس راحیل ٹھیک کہہ رہے ہیں سجل کو اتنی ہیوی پاور ڈوز انجیکٹ کی گئی ہے جس سے اس کی باڈی میں زہر پھیل گیا ہے ،،، اس کا دماغ بھی متاثر ہوا ہے کچھ ٹیسٹ کئے ہیں دیکھیں کیا رزلٹ آتا ہے پر سب سے پہلے اب حیدر کا یہاں ہونا ضروری ہے،، سلطنت آپ جاؤ ،،، ڈاکٹر شہلا نے کہا

ارمان کی بھی تو شام کی آسٹریلیا کی فلائٹ ہے ،،سلطنت نے ارمان کی طرف دیکھ کر کہا

ڈاکٹر راحیل اور شہلا راحیل ایک دم چونکے 

"اوہ پھر،،،،؟؟؟ڈاکٹر راحیل نے کہا

 ڈاکٹر راحیل آپ پریشان نہیں ہوں میں ہوں یہاں  میں کوشش کرتا ہوں حیدر بھائی سے رابطے کی اور اپنے کزن کو بھی یہاں بلا رہا  ہوں

#####

"عالی شان بیٹا ارمان  سلطنت کو چھوڑ کر ابھی آیا نہیں "،،،نیلو فر بیگم نے پوچھا،،،

تائی امی مان بھائی کو کسی دوست سے بھی ملنے جانا تھا وہ شاید  وہاں چلے گئے ہیں" ،،،،،علی شان نے بتایا ،،

دیکھو اس لڑکے کی لاپروائی رات اس کی فلائٹ ہے اور یہ ابھی بھی دوستوں سے ملنے گیا ہوا ہے جب میں نے اس سے کہہ دیا تھا یہ اب کسی سے بھی نہیں ملے گا ،،،شجاعت صاحب غصے سے بیوی سے بولے،،،

آجائے گا آپ پریشان نہیں ہوں اس کی پیکنگ تو کمپلیٹ ہے ،،، نیلو فر بیگم تسلی دیتی ہوئی بولیں ،،،

#######

"دیکھو سلطنت تم بہت بہادر ہو ہمت سے کام لو ازمیر کو فون کرو اسے یہاں بلاؤ اور پارلر جاؤ کشور وہاں آنے والی ہوگی

  اور سنو تم یہ کہو گی کہ ہماری گاڑی خراب ہوگئی تھی اس لئے تم  ازمیر کے ساتھ آئی ہو ٹھیک ہے  اور یہ آنسو صاف کرو رونا بالکل نہیں "

تم سمجھ رہی ہو نہ میں کیا کہہ رہا ہوں

 " تمھیں نہیں پتا میں کہاں گیا ہوں،"

"، سجل کے ساتھ کیا ہوا ہے،،"ٹھیک ہے!

سمجھ گئیں! دیکھو  یہ کیس بہت پیچیدہ ہوگیا ہے میں نہیں چاہتا تم اس سب میں انولو ہو،،،ٹھیک ہے   وعدہ کرو،، بولو  ،،، ارمان نے روتی ہوئی سلطنت کے دونوں ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا

"تو تم بھی وعدہ کرو تم آج ہی آسٹریلیا چلے جاؤ گئے یہاں نہیں روکو گے ، تم پاکستان آج کی تاریخ میں ہی چھوڑ دو گے بولو، کہو مانوں گے میری بات؟؟؟، وہ سراپا  سوال بنی کھڑی تھی

ارمان نے نرمی سے اس کا سر اپنے کندھے سے لگایا 

"میں اج ہی جارہا ہوں سلطنت تمھارے پاکستان کو چھوڑ کر" !

" میں اب کسی مشکل میں نہیں پھنسنا چاہتا مجھے پتا ہے ہم کمزور لوگ ہیں ہم ان سب کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے ہی چاہتا ہوں اپنی فیملی کو سیو کر جاؤں ،، چلو شاباش ازمیر کو فون کرو ،،،

میں بھی عامر کو فون کرتا ہوں،، پیار سے اس کا گال تھپتھپایا،،،

#####

ازمیر لودھی موبائل پر سلطنت  کی  پکس دیکھ رہا تھا جو سلطنت  نے رات بہت منتوں کے بعد  بھیجیں تھیں ،، 

ظالم شہزادی! 

مسکراتے ہوئے وہ اس کی مہندی کو زوم کر کے دیکھ رہا تھا جب اچانک بیل ہوئی

  سلطنت دل  ،،پر ہونٹوں پر مسکراہٹ اگئی،،

او ہو شہزادی صاحبہ خود  کال کر رہی ہیں آج خیر ہے !!! ہنس کر کہا

پر دوسری طرف کی آواز پر ایک دم ہی الرٹ ہوا

"سلطنت کیا ہوا ہے،،؟

ہیلو سلطنت تم رو رہی ہو!!

پلیز یار من بتاؤ تو کیا ہوا ہے،،، 

اچھا  اچھا میں بس دس منٹ میں آرہا ہوں تم ایڈریس سینڈ کرو،،

"کچھ نہیں ہوتا یار من  پریشان نہیں ہو میں بس آتا ہوں،،،"

تیزی سے بال ٹھیک کئے پھر  گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا وہ روم سے باہر نکلا،،،

ازمیر کار کا دروازہ کھول رہا تھا جب فرخندہ لودھی بھی پارلر جانے کے لئے باہر آئی تھیں

سنی آپ اس وقت کہاں جارہے ہو،،،حیرت سے گویا ہوئیں

مم میں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں ایک دوست سے ملنا ہے،،، وہ جلدی سے کار میں بیٹھنے لگا

تو ہمارے ساتھ چلو ڈرائیور مجھے چھوڑتا ہوا تمھیں بھی لے جائے گا جہاں جانا ہے آج اکیلے نہیں جاؤ ،،، انھوں نے ریکوسٹ کی

وہ شہر کے حالات سے بہت ڈری رہتی تھیں ،،

مم میں بس یہاں فیز ٹو تک جارہا ہوں آپ سے آکر بات کرتا ہوں پلیز

وہ جلدی جلدی کہتا کار میں بیٹھا اور تیزی سے کار باہر نکالی،،، ٹائر چرچرائے ،،

مسز فرخندہ لودھی نے ہول کر دل پر ہاتھ رکھا دل میں کچھ آیات پڑھ کر اس پر غائبانہ دم کیا 

جو تیزی سے وہاں سے جا چکا تھا

بس دھول تھی پیچھے!!!

شمع بیگم  پریشانی سے بار بار سجل کا نمبر ملا رہی تھیں جو مسلسل بند آرہا تھا،،، انھیں عجیب سی گھبراہٹ تھی

حیدر سے بھی صبح کے بعد بات نہیں ہوئی تھی انھیں مناسب نہیں لگا اسے دوبارہ ڈسٹرب کریں،،

سجل نے بھی کل سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا،،،

"عجیب بے وقوف لڑکی ہے ایک تو بغیر اجازت لئے  وہاں رک گئی ہے پھر فون بھی بند ہے اور ابھی تک آئی بھی نہیں  رات نکاح میں پہنے والا سوٹ بھی  یہاں ہی رکھا ہے "،،،

اگر آنا نہیں ہے تو کسی کو بھیج کر کپڑے تو منگوا لیتی،،،،

"میں ہی فون کرتی ہوں،،،

شمع بیگم نے عظمت صاحب کے گھر کا نمبر ملایا،،،،

######

ازمیر لودھی سلطنت کو لینے آیا 

 ساری بات سن کر وہ بہت پریشان ہوا تھا،،

اسے ارمان کا فیصلہ بالکل ٹھیک لگا وہ سلطنت کو  تیزی سے لے  کر نکلا ،،،،

####

ارمان تھوڑی دیر تک خاموش بیٹھا بند دروازے کو دیکھ رہا تھا

"سر دل ہی رکھ لیں"

"آپ مجھے یاد کریں گے سر،،!

وہ اس آواز سے پیچھا نہیں چھڑاپا رہا تھا

تھک کر اس نے اپنا سیل فون نکالا اس کے بابا کی مس کالز تھیں ،،،  

پھر اس نے فون پر کچھ نمبر پریس کئے ،،،

چہرے کے تاثرات بہت پتھریلے تھے،،، 

اسے کچھ لوگوں سے فوری رابطے کرنے تھے،،،

########

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی بس بے آواز سلطنت کے آنسو  تھے ،،،

ازمیر نے سلطنت کو چپ کرانے کی کوشش نہیں کی ،،

سلطنت نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا

وہ کبھی اتنا سنجیدہ نہیں رہتا تھا

مضبوط ہاتھ اسٹرنگ پر سختی سے جمے ہوئے تھے ہاتھوں کی رگیں ابھری ہوئی تھیں ، چہرے کے اعضاء کھینچے ہوئے تھے ،،، وہ بہت تیز ڈرائیو کر رہا تھا 

پھر گاڑی ایک سائیڈ پر روک کر وہ تیزی سے باہر نکلا،،،

سلطنت نے ڈر کر اس کی طرف دیکھا وہ اتر کر کہیں جارہا تھا،،،،

یہ اس وقت کہاں گیا ہے ؟ کیا میں نے اسے بلا کر ٹھیک کیا ہے؟ یہ کچھ بولتا کیوں نہیں کیا اسے سجل کے لئے زرا سا بھی افسوس نہیں ہوا ؟؟؟

سوچ کا سلسلہ ازمیر لودھی کے بیٹھنے سے رکا

وہ ایک شاپر اس کی طرف بڑھا رہا تھا 

جس میں جوس ، پانی کی بوتل ،چپس، چاکلیٹ  اور بسکٹ کے  پیکٹ  تھے ،،،

پانی دیکھ کر اس کی پیاس جاگ گئی اس نے کئی گھنٹوں سے پانی نہیں پیا تھا،،،

ازمیر دوبارہ  خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا،،،،

ایک ہاتھ سے پانی کی بوتل کھول کر سلطنت کے آگے کی،،،

سلطنت نے کانپتے ہاتھوں سے بوتل پکڑی،،، پانی پی کر وہ خاموشی سے باہر دیکھنے لگی جب ازمیر نے نرمی سے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر پھیلایا

یہ سب میں تمھارے لئے لایا ہوں  کچھ کھا لو  پھر پتا نہیں کتنا ٹائم لگے گا بھوک لگی ہوگی،،شاباش 

پارلر آنے والا ہے ،، ریلیکس کرو،، سب ٹھیک ہوجائے گا،،

گڈ گرل ،،،

ہاتھ ہٹا کر دوبارہ ڈرائیونگ پر متوجہ ہوگیا،،،

######

بیوٹیشن اب سلطنت سے بہت عاجز آگئی تھی 

کیونکہ  سلطنت کے آنسوں سے بیس خراب ہورہا تھا،،،

وہ اب کشور سے شکایت کرتے ہوئے بولی

حیرت ہے اتنا کون روتا ہے  نکاح ہی ہورہا ہے ؟

 یہ پورے  گھر کی لاڈلی ہے تو بس اس لئے تھوڑا زیادہ حساس ہے،، کشور نے جلدی سے کہا 

پھر سلطنت کی طرف متوجہ ہوئی 

"سلطنت کیا مسئلہ ہے کیوں روئے جارہی ہو دیکھو میک اپ  نہیں ہو پا رہا ہے تمھارا،،پہلے ہی تم اتنی دیر سے آئی ہو!!

######

ہیلو ! کون بول رہا ہے،،، شمع بیگم نے فون اٹھا کر بے تابی سے  پوچھا

میں دل شان بات کر رہا ہو آپ  آنٹی کیسی ہیں ،،، دل شان نے نمبر دیکھ کر کہا

دل شان بیٹا سجل کو بلانا ،،، شمع بیگم نے کہا

آنٹی سجل آپی تو آج آئی ہی نہیں سلطنت آپا بھی ان کا انتظار کرتے ہوئے ہی پارلر چلی گئیں،،،دل شان نے تفصیل سے جواب دیا

پھر سجل کہاں ہے،،، وہ حیرت سے گویا ہوئیں،،،

"ہو سکتا ہے سلطنت آپا پارلر جاتے ہوئے  آپ کے گھر سے انھیں ساتھ لے گئی ہوں"،،،

کیا مطلب بیٹا وہ تو رات سے آپ کے گھر آئی ہوئی ہے،،،

وہ تیزی سے بولیں،،

جی رات یہاں ہی تھیں پھر   چلی بھی  گئی تھیں کسی کو بتایا بھی نہیں! ،،، دل شان کی بات پر شمع بیگم کا سانس رکا ،،،،

فون ان کے ہاتھ سے گرا ،،،،

سلطنت نے تو خود ان کو فون کیا تھا 

یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ،،،

وہ اب دوبارہ فون کی طرف متوجہ ہوئیں

######

ایجاب وقبول کی رسم بہت سادگی سے ادا کی گئی سلطنت کے رونے کو تو سب فطری عمل  سمجھ رہے تھے 

پر ازمیر  لودھی کی سنجیدگی بہت سے لوگوں کو ٹھٹھکا گئی تھی ،،،

وہ بہت خاموش تھا،،،

#####

حیدر عباس اور ژالے ہوٹل واپس آئے 

دونوں تھکن سے بے حال تھے،،،،

حیدر فریش ہو کر آیا 

 ژالے کو دیکھ کر مسکراہٹ چہرے کو چھو گئی،،

وہ کمفرٹ اوڑھے  سونے کی تیاری کر رہی تھی

ژالے چینج تو کر لو  ،،،ٹاول سے اپنے بال رگڑتے ہوئے کہا،،،

حیدر میں بہت تھک گئی ہوں چینج نہیں کرنا  ! مجھے صبح تک کوئی ڈسٹرب نہیں کرے اور پلیز تم بھی اب ریسٹ کرو،،  لائٹس آف کر دو،،کہتے ہی خود کمفرٹ میں گم ہوگئی،،،

"کیا مطلب ہے اس سارے حکم نامے کا،،" ٹاول اس کے اوپر پھینکا پر وہ منہ تک کمبل اوڑھے ہوئے تھی

حیدر نے گھور کر دیکھا 

پر بے سود

منہ میں کچھ بڑبڑاتا وہ 

الیکٹرک کیٹل پر چائے بنانے لگا ،،،

یہ اچھی دادا گیری ہے ،،،

چائے پیتے ہوئے اس نے اپنا موبائل آن کیا،،،،

بہت سے پیغامات ، مس کالز ،،اسے کوفت ہوئی 

تھکن اتنی تھی کہ وہ ابھی سب کو رپلائی نہیں کر سکتا تھا

اس لئے ہی موبائل دوبارہ آف کر کے سونے کا سوچا،،،

لیکن لینڈ لائن نمبر اور مما کے موبائل کی اتنی کالز دیکھ کر وہ چونکا

تیزی سے نمبر ملایا،،،،

#####

قائد اعظم انٹرنشنل ائر پورٹ پر بین الاقوامی پسنجر لاونج  میں اب  ویٹنگ سلائیڈ میں آسٹریلیا کی فلائٹ  شو ہورہی تھی پسنجرز   الرٹ ہوگئے 

اپنے پیاروں کے گلے لگ رہے تھے تو کوئی بورڈنگ کارڈ لئے آگے بڑھ رہا تھا

وہاں ہی ایک سیٹ پر آسٹریلیا جانے والا ایک مسافر سر جھکائے بیٹھا تھا 

"تم میری زندگی سے چلے جاؤ ارمان ،مجھے ہر پل ڈر رہتا ہے  "، وعدہ کرو تم پاکستان سے چلے جاؤ گے،، عیش اس کے کندھے پر سر رکھے کہہ رہی تھی،،،

"تم آج ہی آسٹریلیا چلے جاؤ گے وعدہ کرو،،،، سلطنت کا وعدہ یاد آیا ٫٫٫٫

"پاکستان زندہ باد کے بجائے اب نعرہ لگنا چاہیے 

پاکستان سے زندہ بھاگ،،"،،!!

بابا کے جملے کانوں میں گونجے،،، وہ کھڑا ہوا،،، پیروں میں لرزش تھی،،،

"دل ہی رکھ لیں سر؛"

آپ جب بھی یہ گھڑی دیکھیں گے آپ کو میں یاد آؤں گی،،، !

 گھڑی  کے بکس میں رکھی چٹ یاد آئی

نظر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر گئی ،،،، بے اختیار ہی گھڑی کے ڈائل کو چھوا

"آپ مجھے یاد کریں گے سر!"؛؛

فلائٹ کی اناونسمنت ہورہی تھی

اس نے بھی اپنا بیگ گھسیٹا،،،،

####

 دوسری طرف مری ہوٹل کے روم میں

بھونچال اگیا تھا

حیدر کی چلانے سے ژالے ڈر کر اٹھی 

چائے کا کپ ڈریسنگ کے شیشے پر گر کر ٹوٹ گیا تھا اور بھی کافی سامان ٹوٹا ہوا پڑا تھا

حیدر کسی سے فون پر کہہ رہا تھا

"میں کچھ نہیں جانتا آپ نے اسے آسٹریلیا نہیں جانے دینا کسی طرح بھی روکیں اور  اس کے گھر پر رہٹ کروایں  جو بھی میری بہن کی گمشدگی میں انولو ہیں سب کو اریسٹ کروایں اور میرے فورا کراچی آنے کا انتظام کریں"

میں اس خاندان کو چھوڑوں گا نہیں ،،،

حیدر نے فون بند کیا

وہ اب با آواز بلند ارمان کا گالیاں دے رہا تھا

ڈاکٹر راحیل چوہان کا میسج کلک ہوا،!

#####

آسٹریلیا کا جہاز پرواز بھر چکا تھا

شجاعت علی نے سکون کا سانس لیا ،،،،

نیلو فر نے شکوہ کناں آنکھوں سے شوہر کو دیکھا،،،

"

میرے بیٹے کو اتنی دور بھیج کر اب آپ کو سکون ہے،،،"

اس کی بھلائی کے لئے ہی یہ قدم اٹھایا ہے  یہاں اس کا کوئی مستقبل نہیں تھا,,'شجاعت صاحب نے نرمی سے بیوی کو سمجھایا،،،

وہ دونوں سلطنت کے نکاح کی تقریب میں شریک تھے

ارمان کو گھر سے ہی خدا حافظ کر دیا تھا،،،

مہمان رخصت ہورہے تھے جب پولیس اہلکار  ہال میں داخل ہوئے،،،

عظمت صاحب اور شجاعت علی آفیسر کی طرف بڑھے

مسمات سلطنت بی بی کے  خلاف ورانٹ ہے 

حیدر عباس کی بہن کے اغوا میں ملزم ارمان علی کا ساتھ دینے کے جرم میں انھیں گرفتار کیا جاتا ہے

ازمیر تیزی سے ان لوگوں تک آیا ،،،،

انسپکٹر صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے سجل تو میری بیٹی کی بہت اچھی دوست ہے،،، عظمت صاحب جلدی سے بولے

"جی اور اس اچھی دوست نے ہی کل رات انھیں ملزم ارمان علی کے ساتھ مل کر اغوا  کروایا ہے،،،

حیدر عباس کی والدہ کے بیان کے مطابق رات سلطنت بی بی نے انھیں فون کیا اور سجل بی بی   کو اپنے گھر رکنے کا بتایا،،

باقی سب نے حیرت سے سلطنت کی طرف دیکھا،،

سلطنت تو اس انکشاف پر بس حیرت سے گنگ تھی اس نے کوئی فون نہیں کیا تھا

دوپہر سے پے در پے ہوتے واقعات نے اس کے دماغ کو شل کر دیا تھا 

وہ ایک دم ہی زمین پر گری تھی

###

حیدر عباس کے پاس راحیل چوہان کے ہاسپٹل سے حامد کا فون آیا 

حامد نے بتایا کہ اس کو ارمان علی نے ہاسپٹل بلایا تھا کیونکہ اس کی فلائٹ لیٹ ہورہی تھی،،،

ڈاکٹر راحیل چوہان نے بھی  سجل کے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کے ارمان اور سلطنت ہی سجل کو  یہاں  وقت لائے تھے ورنہ شاید سجل اس وقت زندہ بھی نہیں ہوتی،،،

لیکن حیدر کو یہ سب ارمان کی کور اسٹوری لگ رہی تھی 

وہ اس وقت سننے اور سمجھنے کی طاقت کھو چکا تھا،،

####

کراچی پہنچتے ہی اس خبر ملی آسٹریلیا کا جہاز فلائی کر چکا ہے 

لیکن پولیس نے سلطنت علی  ،عامر حیات  اور گھر کے دوسرے مرد افراد کو گرفتار کر لیا ہے جن میں  پروفیسر عظمت علی صاحب بھی شامل ہیں،،،

حیدر عباس اب حکومتی بندہ تھا اس کے پاس شبیر قاضی کی سپورٹ تھی ،،،

حیدر عباس  نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کیس کی نوعیت بدل دی  وہ اپنی بہن کا نام زبان زد عام نہیں کر سکتا تھا،، اس لئے ارمان علی کے خلاف اغوا یا ریپ کے کیس کے بجائے

اب  انسداد دہشتگری  ایکٹ 1997 کے تحت اسلحہ اسمگلنگ دہشت گردوں کا سہولت کار  اور غیر ملکی ایجنٹ کا الزام تھا،،،، حیدر عباس نے وہ  کاغذی ثبوت فراہم کئے تھے جس کی وجہ سے ارمان کو آشیانہ سے نکالا  گیا تھا

 عظمت علی صاحب جنہوں نے چودہ  سال کی عمر میں اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا تھا اس جدوجہد میں ان کے باپ دادا شامل رہے تھے

اس پروفیسر عظمت پر ایک ملک دشمن پوتے کو فرار کرانے کا الزام تھا

###

##

کوئی تعلقات کوئی سورس اس وقت پروفیسر عظمت صاحب کے کام نہیں آرہی تھی ازمیر لودھی ہر طرف کوشش کر رہا تھا پر سامنے شبیر قاضی کا داماد تھا،،،

عظمت صاحب  جیسے شریف کے گھرانے میں کہاں طاقت تھی ان لوگوں کا مقابلہ کرتے ،،

یہ ملک جہاں کچھ نہ کرنے والا زیادہ بری طرح قانون کے شکنجے میں آتا ہے،،،

ازمیر کوشش کر رہا تھا کہ  کم از کم سلطنت کو ضمانت پر رہا کرایا جا سکے،،، وہ رات سلطنت کو تھانے میں نہیں چھوڑ سکتا تھا

لیکن سلطنت  پر بھی ملک دشمنی میں ارمان کا ساتھ دینے کا الزام تھا،،،یہ کیس  مملکت  پاکستان سے غداری کا تھا ،

"سلطنت علی ایک غدار وطن تھی"

###

حیدر عباس کو صرف ارمان علی مطلوب تھا  وہ جانتا تھا ارمان اتنی آسانی سے ان کے ہاتھ نہیں آئے گا اس لئے ہی وہ یہ سب ہونے دے رہا تھا،،،

شبیر قاضی کی پوری سپورٹ اسے حاصل تھی،

####

شمع بیگم اپنی بیٹی کی درگور حالت دیکھ کر اپنے ہوش  کھو بیٹھیں تھیں  انھیں نہیں پتا تھا حیدر کیا کرتا پھر رہا ہے

وہ بس اپنی بیٹی کو پٹیوں میں جکڑا مشینوں کے زریعے سانس لیتا دیکھتی اس کی سلامتی کی دعا کر رہی تھیں،،

انھیں نہیں پتا تھا ایک اور معصوم لڑکی ایسے ہی درندوں کی ہوس بھری نگاہوں کی زد میں کال کوٹھری میں بند ہے،،،

جس کے لئے ہر راستہ ان کا بیٹا بند کر چکا ہے،،،

####

شبیر قاضی اور حیدر عباس ڈرائنگ روم میں بیٹھے آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہے تھے

ژالے قاضی بھی ساتھ ہی بیٹھی تھی وہ بہت ڈری ہوئی تھی 

حیدر عباس کا یہ روپ اس کے لئے نیا تھا،،،،وہ ارمان علی  سے بدلا لینے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا تھا،،

"کیا ہم سڈنی پولیس سے مذاکرات کرتے ہوئے ارمان کو حکومت  پاکستان  کے حوالے کرنے کا نہیں کہہ سکتے،،"،حیدر نے شبیر قاضی سے کہا

"ہاں کہہ سکتے ہیں  لیکن میں اس کو وہاں ہی کسی کیس میں اریسٹ کروانے کا سوچ رہا ہوں،،"

،اور وہ کونسا اصل میں دہشت گرد ہے جو کوئی اسے بچا لے گا یا اوپر سے کوئی پریشر آجائے گا"

پھر ہم بعد میں یہاں بلا لیں گے،،"

شبیر قاضی نے گردن جھٹک کر کہا،،،

"باہر کا قانون ہمارے ملک جیسا نہیں ہے وہاں وہ کچھ دن میں ہی چھوٹ جائے گا اسے یہاں بلانا ہے، اور اگر اس نے وہاں سیاسی پناہ لے لی پھر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے،،؟؟،،"

"حیدر ابھی یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ یہ سب ارمان نے کیا ہے ڈاکٹر راحیل اور ڈاکٹر شہلا کے بیان اور سجل کی رپورٹس بھی ارمان  کو بے قصور،،"،، اور سلطنت !!

تم چپ ایک لفظ اور منہ سے نہیں نکالنا ،،،حیدر عباس نے گھور کر تنبہی کی

شبیر قاضی نے ناگواری سے حیدر کو دیکھا،،، وہ ان کی بیٹی پر ان کے سامنے چلایا تھا،،

پر وہ مشکل سے ضبط کر گئے،، جب زعیم کی آواز پر چونکے

حیدر عباس صاحب ژالے پر چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا آپ کو میں نے اور آپ کے ہی ادارے کے کچھ لوگوں نے ارمان  علی اور آپ کی بہن کے کرتوت بتائے تھے اس وقت آپ نے میرا گریبان پکڑ لیا تھا ،،،

مجھے گالی دی ،

آج آپ ژالے پر چیخ رہے ہیں ،،، اور اصل مجرم آج بھی دندناتا پھر رہا ہے،،

اسے اگر اس دن آشیانہ سے نکالنے کے بجائے پولیس کے حوالے کر دیتے  تو یہ سب نہیں ہوتا،، ملک دشمن کو تم نے آزاد چھوڑا تھا،،

زعیم قاضی نے ڈرائنگ روم میں آتے ہوئے کہا،،،

میں تمھارے منہ لگنا نہیں چاہتا،اس لیے بہتر ہے تم خاموش رہو،،،!!

حیدر نے نخوت سے  کہنے کی کوشش کی 

جب شبیر قاضی ایک دم بیچ میں بولے 

"اس وقت ایک دوسرے کو اس کی غلطی بتانے سے بہت بہتر ہے فوکس ارمان کی واپسی پر کیا جائے"،،،،

"کہاں سے واپس وہ انسان   ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا ہے وہ آسٹریلیا گیا ہی نہیں،،،"

زعیم قاضی نے ائرپورٹ  پسنجر لسٹ حیدر کی طرف اچھالی،،،

واٹ یہ سچ ہے زعیم،،، شبیر صاحب نے چونک کر کہا

ثبوت سامنے ہے،،، زعیم نے تنفر سے کہا،،

پھر وہ کہاں ہے؟؟؟؟

حیدر نے خود کلامی کی،،

"ان ہی عورتوں کے پلو میں چھپ کے بیٹھا ہوگا جنھیں تم لوگوں نے گھروں میں چھوڑ دیا ہے

میں تو کہتا ہوں پوری فورس کے ساتھ چھاپہ مارا جائے،،،

تم ابھی نئے نئے وزارت سنبھال رہے رہو تمھاری ذمہ داریاں زیادہ ہیں اگر تم چاہو تو یہ کیس میرے ہنڈ اوور کر دو میں اچھی طرح جانتا  ہوں پولس سے کیسے کام لینا ہے،،، زعیم قاضی نے مشورہ دیا

شبیر قاضی نے حیدر عباس کا چہرہ دیکھا وہ کسی گہری سوچ میں تھا،،،،

کیا سوچ رہے ہو حیدر، زعیم کی آفر بہتر ہے اس کی سندھ پولیس میں کافی اپروج ہے یہ ارمان کو پاتال سے بھی نکال لائے گا ،،شبیر قاضی نے حیدر عباس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا،،،

"ہاں میں یہ کر سکتا ہوں پر مجھے حیدر کی پوری اجازت چاہیے ہوگی پھر میں اپنی طرح سے یہ کیس ہنڈل کروں گا اور ڈونٹ وری حیدر عباس کی بہن کا نام بھی اس کیس میں نہیں آئے گا،،،

زعیم قاضی نے حیدر کو دیکھتے ہوئے کہا

ژالے نے خوفزدہ نظروں سے حیدر عباس کو دیکھا وہ اسے منع کرنا چاہتی تھی 

مجھے صرف میری بہن کا مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چاہیے

اور  پھر میری پوری کوشش ہوگی کہ اس کا کیس کسی عدالت میں بھی سماعت کے لئے نہیں لایا جا سکے،،،

حیدر  عباس نے شبیر قاضی اور زعیم قاضی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

اس کی میں تمھیں گارنٹی دیتا ہوں،،، زعیم نے حیدر عباس کی طرف ہاتھ  بڑھاتے ہوئے کہا

حیدر عباس نے زعیم قاضی کا دوستی  کے لئے بڑا ہاتھ تھام ل،،،

ژالے نے درد سے آنکھیں بند کیں 

آنسو بے اختیار ہونے سے پہلے وہ کمرے سے باہر چلی گئی

#####

حکومت کی تبدیلی کے بعد پولیس فورس میں من پسند آفسروں کے تبادلے ہوچکے تھے ،،

کیس زعیم قاضی ان ہی آفیسرز کے سپرد کر چکا تھا،،،

رات گئے ارمان کے خاندان والوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے 

ایک ایک گھر میں پچاس ساٹھ افراد کی نفری داخل ہوتی گھر کا سارا سامان تلپٹ کر دیا جاتا

خواتین سے بد سلوکی اور بد کلامی گھر کے مردوں کو روز تھانے لے جانا ، پندرہ سال کے عالی شان کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا،،،،،

گھروں میں اب صرف عورتیں اور بچے تھے جنھیں تلاشی کے نام پر روز ہراساں کیا جاتا

کشور جہاں  اور ازمیر سب طرف بھاگتے پھر رہے تھے،، مگر کہیں کوئی سنوائی نہیں تھی،،،

###

"بس جتنا تماشہ ہمارا بننا تھا بن گیا فرخندہ آپ کی اور ازمیر کی خواہش پر میں نے یہ رشتہ کیا تھا ورنہ میری بالکل بھی مرضی نہیں تھی لیکن اب  آپ دونوں سن لیں ہمارا اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آپ ازمیر کے ساتھ لندن جارہی ہیں ،،کلیر،،!

 عرفان لودھی نے بہت واضح الفاظ میں کہا،،

فرخندہ  تو خود بہت پریشان تھی اپنے سرکل میں وہ آج کل بہت انسلٹ فیل کرتی تھیں جب لوگ ہمدردی کی آڑ میں تمسخر اڑاتے ہوئے سلطنت کے بارے میں پوچھتے تھے جو ابھی بھی پولیس کسٹڈی میں تھی،،،

'ٹھیک ہے آپ لوگ جانا چاہتے ہیں جائیں پر میں اپنی بیوی کو اس مشکل میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا،،"، ازمیر نے دو ٹوک انداز میں کہا وہ لوگ اس وقت ڈائینگ روم میں ناشتہ کر رہے تھے،،

"کون سی بیوی ایک دن پہلے تمھارا صرف نکاح ہوا تھا اور  اب تم اسے طلاق دو گے،،  مائنڈ اٹ ! عرفان صاحب غصے سے چیخے

' ڈیڈ وہ اگر کوئی عام سی لڑکی بھی ہوتی اور میری اس سے کوئی  دلی وابستگی بھی نہیں ہوتی میں تب بھی اپنی بیوی کو اس طرح نہیں چھوڑتا یہ تو پھر سلطنت ہے ڈیڈ جس کے لئے میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں پر اسے نہیں،،، بہت جما کر ایک ایک لفظ ادا کیا

"میں اپنی آخری کوشش تک ہمت نہیں ہار سکتا

میں لندن اس کے بغیر نہیں جاؤں گا"!

"آپ صرف اس کی ضمانت کی بات کریں وہ اب یہاں نہیں رہے گی،،،"ماں کو دیکھتے ہوئے اپنی بات پوری کی ،،اس کو فرخندہ کی خاموشی نے بہت ہرٹ کیا تھا،،،

"ضمانت "! تم بے وقوفی کہ باتیں کر رہے ہو اس لڑکی پر دہشت گرد کے سہولت کار کا کیس بنا ہے جانتے ہو اس ملک میں سب سے زیادہ نفرت دو لوگوں سے کی جاتی ہے ایک ملک کا غدار اور دوسرا توہین مذہب  یہ کیس جس پر آجائیں وہاں  پھر کسی ہمدردی کی گنجائش نہیں وہ لڑکی آب باہر نہیں آسکتی  بھول جاؤ ،،، تم اگر پولیس کے ہتھے نہیں چڑے ہو تو وجہ میں ہوں ورنہ تمھیں بھی یہ لوگ اندر کرواچکے ہوتے،،،"

"  یہ  جو میڈیا ٹرائل چل رہا ہے نا سارے ہی محب وطن جاگ گئے ہیں،، تم نے آشیانہ کے لوگوں کے بیان سنیں ہیں جو روز خبروں کی زینت بن رہے ہیں!

 دیکھ لینا  یہ لوگ کچھ دن بعد غیر ملکی ایجنٹ بھی بنا دیں گے "،،،

عرفان لودھی نے اسپون پلیٹ میں پھینک کر غصے سے کہا ،،،

"یہ آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان میں لیگل کام کرنا جتنا ناممکن ہے وہاں illegal   کام اتنا ہی آسان ہے،،،

میں صرف اس کوشش میں ہوں کہ سلطنت کی ضمانت منظور ہوجایے اسے باہر کس طرح لے جانا ہے یہ میرا ہیڈک ہے،،"،

ازمیر پلیٹ کھسکاتا ہوا کھڑا ہوا

 تو اب تم غیر قانونی راستہ اختیار کرو گے یعنی تم ہماری بات نہیں سنو گے؟،،،عرفان لودھی نے  آواز دے کر روکا

سوری ڈیڈ اس معاملے میں میں اپنے دل کے علاؤہ کسی کی نہیں سنوں گا،،

آشیانہ کے کچھ لوگوں کے بیان نے تحلکہ مچا دیا تھا 

ریکارڈ میڈیا بیان ہر نیوز چینل پر نشر کیا جا رہا تھا

جس کے مطابق ارمان علی کا تعلق ایک ایسی جماعت سے تھا جو ملک دشمن تھی ،، 

عیشا رحیم  نے ارمان کے کردار کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اس کے مطابق وہ آشیانہ کی بہت سی لڑکیوں کو ہراس کر چکا ہے ،،اس ہی وجہ سے عیش کا اس سے آشیانہ میں ایک دو بار جھگڑا بھی ہوچکا تھا اور وہ اس  سے اب دور رہتی تھی کیونکہ ارمان نے اس کو بھی  دھمکیاں دی تھیں،،،

 حامد کے مطابق وہ کچھ عرصہ علاقہ غیر میں باقاعدہ اسلحہ چلانے کی ٹرننگ لے کر کے آیا تھا،،،

کیس کسی بھی تھانے یہ عدالت میں شروع ہونے سے پہلے میڈیا ٹرائل اس خاندان کو  غدار ثابت کر چکا تھا

کچھ شر پسندوں نے رات کے اندھیرے میں پروفیسر عظمت علی کے گھر کو آگ لگانے کی بھی کوشش کی تھی،،،

جسے بروقت محلے کے لوگوں نے بجھا دیا تھا

اور گھر کی خواتین  کو حیدر عباس کی ماں نے پناہ دی ،،، کیونکہ اور کوئی گھر اس وقت صوبائی وزیر حیدر عباس سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا،،،

####

شمع بیگم اور حیدر عباس کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہوچکی تھی دونوں ہی سجل کی حالت  کا ایک دوسرے کو الزام دیتے تھے،،،

شمع بیگم کو  اب لگتا تھا یہ ساری ایک سازش ہے اور سلطنت کی آواز میں فون بھی  کوئی اور کر سکتا ہے

وہ حیران تھیں ان کا بیٹا اس طرف کیوں نہیں سوچ رہا یے،،،

####

####

کشور جہاں جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی 

سب ہی اس کی طرف بڑھے

کیاہوا ؟ ملاقات ہوئی تمھاری جج سے

کیا کہتے ہیں مل جائے گی عامر اور باقی لوگوں کو ضمانت ،،  ابا نے جن صاحب کا کہا تھا تم ملی ان سے  ؟پھپھو نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی،،،

تابندہ بیگم بھی تیزی سے اس کے پاس آئیں 

کشو کیا کہتے ہیں سلطنت اور عالی شان باہر آجائیں گے نا میرے معصوم بچوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا،،، تابندہ رو رہی تھیں

رو تو نیلو فر بھی رہی تھیں پر زبان پر کوئی سوال نہیں تھا  گھر والوں کے تیروں کے نشتر نے انھیں لہو لہان کر دیا تھا

یہ سب ان کے بیٹے کی ہی وجہ سے تو ہو رہا تھا جس کی کوئی خبر ہی نہیں تھی جانے کہاں  چھپ کر بیٹھ گیا ہے،،،

کشور نے سب کی طرف  دیکھا 

"ملاقات نہیں ہو سکی "،،، جھکی نظروں سے کہتی وہ تیزی سے اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر  پروفیسر عظمت کے کمرے کی طرف بڑھی،،

یہ کمرہ ہمشہ ان بہن بھائی  کی جائے پناہ تھا

 کمرے اندر آتے  ہی اس نے دروازہ لاک کر لیا

باہر ان خواتین کی آواز اب بھی آرہی تھی

وہ اب اپنے بے اختیار آنسوں کو آزاد کر چکی تھی

باہر سب سے کہہ کر آئی تھی کسی سے ملاقات  نہیں ہوئی

اور اب وہ ملاقات یاد کر رہی تھی

"سر میں پروفیسر  عظمت علی کی پوتی ہوں پلیز آپ ہماری مدد کریں آپ ضمانت کے پیپرز پر سائن کر دیں تو !!! سر آپ پیسوں کی فکر نہیں کریں،،

وہ رکی تھی،،،"

"دیکھیں آپ جانتی ہیں یہ کیس دشمنی کی بنیاد پر ہے آپ کا دشمن بہت اسٹرونگ پوزیشن میں ہے  

شبیر قاضی حکومت کا بندہ ہے کوئی بھی اس وقت آپ کی مدد نہیں کر سکتا،،،" وہ کرسی پر جھولتے ہوئے گویا ہوئے،،

"سر اگر آپ چاہیں تو آپ کا ادارہ تو حکومت کے بھی اوپر ہے،،"، ،، وہ اب ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی

ایک مسکراہٹ سامنے بیٹھے جج کے ہونٹوں پر آئی

"کر سکتے ہیں پر سوال تو یہ ہی ہے  کہ ہم دشمنی کیوں لیں وہ بھی غدار وطن کی رہائی پر ہمیں بھی تو  آگے جواب دینا پڑتا یے ،،،

"سر وہ سب لوگ بے قصور ہیں" شکستہ لہجے میں کہا،،

ہاں جانتا ہوں پر اس واقعے کا اصل مجرم مفرور ہے

لیکن میں نے آج آپ کو کسی خاص بات کے لئے بلایا ہے اور یہ بات ہماری اور آپ کے درمیان ہی رہے گی،،،  مسکرا کر کہا،،،

  شاید مسکرانا اس کی عادت تھی 

کشور جہاں نے سر اونچا کیا،،،

روئی آنکھیں اب جج پر جمی تھیں،،،

ایک لڑکا ہے ان لوگوں میں  پندرہ سال کا،وہ کون ہے آپ کا؟ کرسی سے تھوڑا آگے ہوتے ہوئے سوال کیا

"سر وہ عالی شان میرا بھائی ہے سر وہ بہت معصوم ہے اس نے،،، کشور کی بات کاٹ کر وہ بولے

ہاں معصوم بھی اور آپ کی ہی طرح بہت خوبصورت بھی!! ہنس کر کہا،،،

جی سر؟ نا سمجھی سے سامنے دیکھا

آپ کا نمبر تو ہے یعقوب کے پاس  ،،،ایسا کریں  آپ اب گھر جائیں ہم  آرام سے بات  کریں گے آپ کا بھائی  اور آپ،،،:::''

کشور کو لگا ٹرین اس پر سے گزر گئی ہے،،،،

اب سامنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معزز ادارے کا ایک  اعلیٰ عہدے دار نہیں ایک گدھ بیٹھا تھا جو مردار کے انتظار میں تھا،،،

کشور نے  پرس سے اپنا سیل فون نکالا،،

"ابا آپ نے تو کہا تھا عنایت علی چلا گیا تو کیا ہوا آپ ہمارے باپ ہیں آپ عنایت کے بچوں پر کسی کی میلی نظر بھی پڑنے نہیں دیں گے ابا دیکھیں کیا ہورہا ہے'''

 ہمارے گھر کے اوپر گدھ منڈلا رہے ہیں جو کسی وقت بھی ہم پر حملہ کر دینگے ابا آجائیں  پلیز ہمیں دوبارہ یتیم نہیں کریں،،

وہ زور زور سے رو رہی تھی

اپنے موبائل کی سم نکال کر اس نے توڑ دی تھی 

اس کے رونے سے اب اس کے بچے ڈر کر رو رہے تھے

تین سالہ حوریہ اس سے کہہ رہی تھی

"ماما  بھائی لویا اے"( ماما بھائی رو رہا ہے)

" بھائی ہاں بھائی میرا بھائی میرا عالی شان وہ بھی تو رو رہا ہے ایک شیطان اس پر نظر گاڑ کر بیٹھا ہے"

کشور چونکی 

اپنے چھ مہینے کے بیٹے کو سینے میں بیھنچا اور  حوریہ کو بھی گلے لگایا

"نہیں میں ہوں نہ میں بچاؤں گی تم سب کو  ہم یہاں سے چلے جائیں گے "

حوریہ اور ابراھیم کی شکل میں عالی شان اور سلطنت نظر آرہے تھے

وہ تیز تیز رو رہی تھی پروفیسر عظمت صاحب کو آوازیں دے رہی تھی،،،عامر حیات کو مدد کے لئے بلا رہی تھی

ارمان علی  کو آواز لگا رہی تھی 

باہر سے اب دروازہ بجایا جا رہا تھا

#######

لیڈی پولیس اہلکار سلطنت کو ایک کمرے میں چھوڑ گئی تھی

کرسی پر بیٹھا زعیم قاضی سلطنت کے حواس معطل کر گیا 

وہ تیزی سے باہر دروازے کی طرف بھاگی جو باہر سے بند تھا،،،

کوئی بھی کوشش بے کار ہے جان من ، اور میں اتنا بے وقوف نہیں جو یہاں تمھارے حسن کو خراج دوں گا

یہاں تو میں تمھاری جرات کو سلام پیش کرنے آیا ہوں،،،

سنا ہے تم نے مجھ پر الزام لگایا ہے،،!! اور وہ فارم ہاؤس والا قصہ بھی قلم بند کرایا ہے اور ایک خط تم حیدر عباس تک بھیجنا چاہتی تھیں،،،

زعیم قاضی کے ہاتھ میں سلطنت کے ہاتھ کا لکھا پرچہ تھا

سلطنت کا دل ڈوبا

کتنی جتن کرکے اس نے یہ کاغذ حاصل کیا تھا اور پھر یہ خط حیدر تک پہنچانے کے لئے اپنی سونے کی انگوٹھی لیڈی کانسٹیبل کو دی تھی،،،

زعیم مکروہ ہنسی ہنستا ہوا اس تک بڑھ رہا تھا

وہ دیوار سے لگ گئی تھی،،،

دیکھو ڈئیر میرا تم سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے ،، میرا دشمن حیدر عباس ہے تو جو اس کا دوست وہ میرا دشمن ،،

تم تو بس یوں ہی رگڑے میں آگئی ہو پر مجھے تمھارے اس خوبصورت سراپے پر ترس آگیا ہے اس لئے اگر تم چاہو تو میں کل صبح ہی تمھیں چھوڑ سکتا ہوں ،، بس تمھیں میری مرضی کا بیان دینا ہوگا

جس میں تم اور تمھارا کزن ہیرو اور حیدر عباس ولن،،، زعیم قاضی نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ سلطنت کے چہرے پر پھیرا ،،

سلطنت نے نخوت سے چہرہ دوسری طرف کیا،،وہ بے آواز رو رہی تھی

 اس کا چہرا زعیم کی سخت گرفت میں تھا

" مجھے عورت کی آکڑ پسند نہیں ہے اگر میری بات مانوں گی تو جو چاہو گی کروں گا ورنہ "،،،کہتے ہوئے اس کے وجود سے لپٹا دوپٹہ اتار کر پھینکا ،،،

سلطنت کی روتے ہوئے ہچکی بندھی ،،،

کہاں ہے  تیرا وہ یار جسے تو نے بھگایا ہے کہاں ہے وہ،،،،،،بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے خود سے قریب کیا

"وہ اگر آگیا تو تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا یاد رکھنا،"،، سلطنت نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی

زعیم  قاضی نے ہنسا،،

"وہ گیدڑ کا بچہ سامنے تو آئے تیرے سامنے ہی تڑپا تڑپا کر ماروں گا"

"وہ تجھے تڑپنے کا موقع بھی نہیں دے گا زعیم قاضی ،،"وہ غرائی تھی

، سجل کے ساتھ جو کچھ تو کر چکا ہے،،،

سلطنت اتنا سا بولنے پر ہانپ گئی،،، زعیم قاضی کی گرفت سخت تھی،،

"سجل کے ساتھ میں نے کچھ نہیں کیا یہ تو اس کا ہی  پرانا  آشنا تھا مجھے تو بس مفت کی عیاشی کے لئے دعوت دی گئی تھی ایک خوبصورت  بے ہوش وجود نے میرے ہی ہوش اڑا دئیے تھے ،،، زعیم قاضی کی نظروں کے ساتھ اب ہاتھ بھی حرکت کر رہے تھے

سلطنت کو لگا اس کے جسم پر بچھو رینگ رہے ہیں،،

"جانتی ہے  وہ دوسرا انسان کون تھا جو اس سارے پلان  کا ماسٹر مائنڈ ہے جس سے حیدر عباس تک بے خبر ہے ،،،،زعیم قاضی نے سلطنت کے پاس سے ہٹتے ہوئے کہا

وہ ارمان علی کا دشمن ہے ،، زعیم ،کہتے ہوئے اس سے الگ ہوا،،

خیر دل تو نہیں چاہ رہا تم سے دور جانے کا  پر مجبوری  ہے  رات وہیں فارم ہاؤس پر ملتے ہیں جہاں ہماری ملاقات ادھوری رہے گئی تھی،،،

تم بھی خود کو تیار کر لو میں بھی کچھ قانونی تقاضے پورے کر لوں تاکہ رات ہماری ملاقات میں کوئی رخنہ نا ڈالے

زعیم قاضی اس کا گال سہلاتا ہوا کمرے سے باہر نکلا،،

پھر ایک لیڈی کانسٹیبل روم میں آئی 

پتھر ہوئی سلطنت کو دھکا دیتے ہوئے چلنے کا کہا ،،،

سلطنت نے زمین پر گرا دوپٹہ اٹھا کر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹا،،

لیڈی پروین طنزیہ ہنسی

سلطنت نے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا

شرم آتی ہے تمھیں عورت کہتے ہوئے

مسلمان اور پاکستانی تو بہت دور کی بات ہے،،،،

چل نی آئی وڈی توں استانی  تو نے اپنی دوست کی عزت اپنے یار کو پیش کرتے ہوئے سوچا تھا

آئی بڑی مجھے سمجھانے والی

دھکا دے کر لے جاتے ہوئے کہا

#####

سلطنت کے کانوں میں اب بھی زعیم قاضی کے لفظوں کی بازگشت تھی

جانتی ہے سجل کو ہوش بھی آگیا  تو وہ کس کا نام لے گی

"ارمان علی  کا،"،،

کیونکہ اسے باہر ارمان کے میسج نے بلایا تھا،،، 

ارمان کے علاؤہ اس کے ساتھ کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں ہے "

 سجل کی رپورٹس کے مطابق وہ انسان ارمان نہیں تھا پر  میں نے حیدر عباس سے کہا یہ ڈاکٹر ارمان سے ملا ہوا ہے اس لئے ہم نے سجل کو دوسرے ہاسپٹل شفٹ کر دیا ہے اب میری ہدایت پر بنائی گئی دوسری رپورٹ کے مطابق وہ ارمان ہے،،،"سجل کا پیارا سر٫"

سب کچھ پلان تھا تم دو بے وقوف سمجھ ہی نہیں سکے 

ہم تو سجل سے جان چھڑا ہی چکے تھے یہ مصیبت تو تم  نے خود اپنے سر لی ہے اسے اتنی ہیوی ڈوز دی گئی تھی کہ وہ کچھ گھنٹوں میں ہی ختم ہو جاتی اور یہ راز راز ہی رہتا پر تم اسے ہاسپٹل لے گئیں یہ ہے تمھاری سب سے بڑی غلطی،،،،جس کا خمیازہ تمھارا خاندان بھر رہا ہے،،،

تم ہو وہ  پہلی اور آخری گواہ جو یہ جانتی ہے کہ یہ سب میں نے کیا ہے،،، وہ بے خوف اعتراف کر رہا تھا

اور وہ دوسرا انسان کون ہے؟  ،،،سلطنت نے پوچھا 

کیونکہ ڈاکٹر شہلا کے مطابق وہ دو لوگ تھے جنہوں نے سجل کو درندگی کا نشانہ بنایا تھا،،

"رات کو ملیں گے تو سب سے پہلے اس کا ہی نام بتاؤں کا سوئٹ ہارٹ ،"،، اور اگر رات اکڑ دیکھائی تو یاد رکھ کتوں کے آگے ڈلوا دوں گا بہت لوگ بیٹھے ہیں تیرے انتظار میں،،،

سلطنت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی،، اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ اپنا جسم صاف کر رہی تھی 

جس پر زعیم قاضی کا لمس اب بھی محسوس ہو رہا تھا،،،

وہ چیخ کر اللّٰہ کو مدد کے لئے پکار رہی تھی

####

میں ارمان علی ولد شجاعت علی خود کو قانون کے حوالے کرتا ہوں اور گزارش  کرتا ہوں کے میرے گھر والوں کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے انھیں چھوڑ دیا جائے،،،، اور مجھے حیدر عباس سے ملنا ہے ؛؛ میری ملاقات کروائی جائے،،،"

تھانے میں ایک دم ہی ہلچل مچی تھی ،،،

SHO حمید اللّٰہ

نے سب کو ہائی الرٹ کرتے ہوئے ارمان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی تھی،،،

تھوڑی ہی دیر میں حیدر عباس کے ساتھ زعیم قاضی بھی تھانے میں موجود تھا

حیدر عباس نفرت  سے ارمان علی کو گھور رہا تھا

"بولو بابا کیا کہنا چاہتے ہو اتنا ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس،،، "حیدر سے پہلے زعیم قاضی نے کہا 

اور شاہ جی آپ کو اس مجرم کا بیان قلمبند کرنا تھا آپ اس کی آخر خواہش پوری کر رہے پو،،،

سر جھٹک کر  حمید اللّٰہ شاہ کو جھڑکا،،،

"مجھے حیدر بھائی سے اکیلے میں بات کرنی ہے،،،

 ارمان علی کے ادھورے جملے پر حیدر عباس غرایا 

"مجھے تمھاری کوئی بکواس نہیں سننی ،،،"

"حیدر بھائی میں ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار ہوں پر  یقین کریں میں نے سجل کے ساتھ ،،،!!!

"میری بہن کا نام بھی تیری زبان پر آیا تو زبان کھینچ لوں گا ،"،، 

حیدر نے ارمان کو گردن سے دبوچا ،،،

اہلکار نے حیدر کو قابو کیا،،

"حیدر یہ ہمارا کام نہیں ہے چلو یہاں سے اور شاہ صاحب آپ اس کو زرا ڈرائنگ روم کی سیر کرائیں"

زعیم قاضی حیدر عباس کو وہاں سے لے جانے لگا،

"بھائی آپ غلطی کر رہے ہو بہت بڑی سازش کا شکار بن رہے ہو میں نے کچھ نہیں کیا ہے ایک بار میری بات سن لو ،،،،!!!! خدا کے واسطے اتنا ظلم نہیں کرو میرے خاندان پر!!!!!!

###

کچھ گھنٹوں  بعد  میڈیا پر بریکینگ  نیوز کچھ اس طرح تھی

"مفرور دہشت گرد ارمان علی گرفتار  !"

دہشت گرد ارمان کو  کابل بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے،، ملزم کی فائرنگ سے دو اہلکار شدید زخمی،، مفرور دہشت گرد کے پاس سے رائفلز ،دستی بم اور متعدد غیر ملکی سمز ملی ہیں، ساتھ فوٹیج 

میں سارا مسروقہ سامان دیکھایا جا رہا تھا،،،

٫:٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫

جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں

جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں

جس دیس میں حاکم ظالم ہوں

سسکی نہ سنیں مظلوموں کی

جس دیس میں عادل بہرے ہوں

آہیں نہ سنیں معصوموں کی 

اس دیس کے ہر ایک حاکم سے اس دیس کے ہر ایک لیڈر سے سوال تو واجب ہے

"چل بی بی تیری ضمانت ہوگئی ہے"،،،لیڈی کانسٹیبل  پروین نے کہا،،،

"نہیں مجھے کہیں نہیں جانا تمھارے ساتھ،، اللّٰہ کے واسطے رحم کرو ٫٫تم ایک عورت ہو مجھے اس بھیڑیئے کے آگے مت ڈالو""

،،،سلطنت ہذیانی انداز میں چیخی ،،

"او پاگلے یہاں رہی تو کسی اور بھڑئیے کے ہتھے چڑھ جائے گی شکر منا تیری ضمانت منظور ہوگی ہے"

ایس آئی  زبیدہ خانم اس کے کان کے پاس آکر بولی،،

،

"بکواس کرتی ہو مکر کر رہی ہو ساری جاؤ میں کہہ رہی ہوں مجھے کہیں نہیں جانا،،،"

وہ کسی کی سننے کو تیار نہیں تھی

جمیلہ  نے افسوس سے ایس آئی زبیدہ کو دیکھا ،،

دیکھو بی بی تمھارا وکیل اور شوہر باہر تمھارا انتظار کر رہا ہے ،

پر سلطنت اس کے بات پوری ہونے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی،،،

#####

حیدر عباس آج پھر یہاں آگیا تھا ،،

وہ شیشے کے اس پار دنیا سے غافل اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا

"سجل ایک بار آنکھیں کھول دو گڑیا مجھے معاف کر دو میں تمھاری حفاظت نہیں کر سکا ،،

میں جو کتنی عورتوں کو چادر دیتا ہوں شیلٹر دیتا ہوں میں اپنی بہن کے لئے کچھ نہیں کر سکا 

میرا آشیانہ بھی اس کو نہیں بچا سکا "

وہ آہستہ سرگوشی میں بول رہا تھا

پھر تھک کر واپس اسٹول پر بیٹھ گیا ،،،

ارمان علی گرفتار ہوگیا تھا  پر حیدر عباس کے دل کو قرار اب بھی نہیں آیا تھا 

ناجانے کہاں چوک ہوئی تھی ،،،

ماں اس سے ناراض تھی ٫٫

بیوی اس سے خائف رہنے لگی تھی 

بہن نے تو نہ بولنے کی قسم کھا لی تھی،،

لوگوں میں الگ اس کا امیج مسخ ہوا تھا

وہ ایک بھی وعدہ پورا نہیں کر پایا تھا

شبیر قاضی سے بھی اس کے اختلافات بڑھ رہے تھے،،

########

سلطنت کی آنکھ کھلی وہ نرم آرام دہ بستر میں تھی ،،،،

ماحول اجنبی تھا اس نے نظر چاروں طرف گھما کر دیکھا،،،

شاید وہ کسی ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں تھی ،،

"تو کیا وہ بچ گئی ہے اس کو  وہ عورتیں نظر آئیں جو اسے کھینچ رہی تھیں

پھر زعیم قاضی جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا

سلطنت چیخ مار کر اٹھی،،،

وہ جو ساری رات اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا تیزی سے اٹھ کر آیا ،،،

سلطنت نے اپنے اوپر جھکے انسان پر حملہ کیا 

وہ اب بہت زور زور سے چیخ رہی تھی کسی کو مدد کے لئے بلا رہی تھی،،،

ازمیر نے اسے نرمی سے تھاما 

سلطنت میں ہوں  یار  من٫ آنکھیں تو کھولو،٫

پر سلطنت نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا 

وہ اپنے ہاتھ اپنے چہرے کو بار بار جھٹک رہی تھی 

"آپ جائیں یہاں سے میرے کپڑے گندے ہیں میرے ہاتھ میرا چہرہ سب گندہ ہوگیا ہے!

وہ لوگ کہتے میں پاکستان کی غدار ہوں!

"چھوڑیں مجھے یہاں سے چلے جائیں مجھے چھوڑ کر میں وہ سلطنت نہیں ہوں " میں پاک نہیں ہوں،،،

وہ شیطان مجھے اپنی گندی نظر سے میلا کر چکا ہے وہ لے جائے گا مجھے آپ جائیں،،، ازمیر کو اپنے پاس سے ہٹاتی ہوئی وہ چیخ رہی تھی

ازمیر نے آہستگی سے اسے گلے لگایا وہ اسے چپ کراتے ہوئے بے بسی کی انتہا پر تھا،،اس کی کنپٹی میں خون جوش مار رہا تھا،،،

سلطنت اس کے سینے سے لگی  دھاڑے مار کر رو رہی تھی،،،

ازمیر کے بس میں ہوتا تو وہ ان سب کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیتا جنہوں نے اس لڑکی کو اس طرح ٹارچر کیا تھا کہ وہ اپنی سد بدھ کھو بیٹھی تھی،،،

تھوڑی ہی دیر میں وہ دوبارہ ہوش سے بیگانہ تھی،،،

ڈاکٹر نے اسے سکون کا انجیکشن دیا،،،

ڈاکٹر صاحب یہ نارمل کب تک ہوجایے گی،،،

تابندہ بیگم نے پوچھا،،

انھیں شاک لگا ہے may be ان کی یہ کنڈیشن عارضی ہو اور کچھ دن میں یہ نارمل ہو جائیں یا کچھ وقت لگے ،،ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ان کے کچھ ٹیسٹ کئے ہیں دیکھیں پھر ہی کچھ حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے،،

ڈاکٹر اظہر سلیمان نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ،،،

ازمیر نے تابندہ بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دی،،،

وہ اس کے گلے لگ کر رونے لگی،،

"ازمیر میری بیٹی کو بچا لو "،،،،

####

"ابا میں غدار ہوں آپ دوبارہ یہاں مجھ سے ملنے نہیں آنا ،،"، سامنے کھڑا لڑکا ان کا پوتا نہیں تھا 

کیوں کیا  ارمان ایسا،؟،،انھوں نے شکوہ کیا،،،

"کیونکہ میں دہشت گرد ہوں،،،یہ ملک میرا نہیں ہے،،،ایک اور الزام اپنے سر لیا،،

"چپ اب ایک لفظ اور نہیں کہو گے تم  بس خاموش !

میں تمھارے لیے وکیل کر رہا ہوں" ،،، 

"ابا میں ایک ایجنٹ ہوں آپ میرے لئے کچھ نہیں کریں گے سمجھیں شجاعت علی کا ایک ہی بیٹا ہے شایان علی ،،

میں غدار ہوں ،،، اور جو میرے ساتھ ہے وہ بھی ملک دشمن ہے اس لئے آپ کا اور آپ کے خاندان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے،،، وہ نظریں جھکا کر بولا

"تم واپس کیوں آئے  جب چلے گئے تھے تو کیا ضرورت تھی پولیس کے ہاتھ آنے کی،،"، انھوں نے روتے ہوئے کہا،،

ارمان نے درد سے آنکھیں بند کی ،،،

"ابا میں نے آپ سے کہا تھا یہ ملک ہمارا نہیں ہے ہم غدار ہی رہیں گے ہماری حب الوطنی ہمشہ مشکوک رہے گی" ،،ان کے کمزور ہاتھوں پر نرمی سے گرفت کی،،

"ایک بات مانے گے ابا ایک آخری بات اپنے مان کی،،،انھوں نے اس معصوم چہرے کی طرف دیکھا

"کیا یہ کسی دہشت گرد کا چہرہ ہوسکتا تھا",,,

ابا آپ یہ ملک چھوڑ دیں آپ یہاں سے سب کو لے جائیں، ازمیر  آپ لوگوں  کے باہر جانے کا انتظام کر رہا ہے

وہ سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا

" دیکھیں ابا آپ ازمیر سے  قانونی اور غیر قانونی طریقے پر سوال نہیں کریں گے،، بس رات کے اندھیرے میں سب کے ساتھ  یہاں سے نکلنا ہے،،،

آپ بھول جائیں گے کہ پاکستان میں  ملک دشمن ارمان علی  سے آپ کا تعلق تھا،،

میں یہاں سکون سے رہوں گا کہ اب کوئی ڈر خوف نہیں بچا ابا اب تو کسی الزام کا  ڈر نہیں رہا مجھے،،،

ہوسکتا ہے کسی دن آپ کو پتا چلے کسی پولیس مقابلے  میں یا کسی بم بلاسٹ میں ارمان علی مارا گیا 

مجھے اب چار کندھے یا کفن بھی ملے ضروری نہیں ہے آپ صرف یہ دعا کرنا میں اس رب العزت کی بارگاہ میں سر اٹھا کر آپ سے ملوں ،، ہم اب وہاں ملیں گے ابا،،، وہ ان کے چہرے کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ( اب کہاں دوبارہ دیکھ سکے گا یہ چہرہ)

"یہ مت کہہ یار مجھے تکلیف ہورہی ہے"،،،وہ بوڑھا وجود اب آنسوں سے رو رہا تھا،،،

"مجھے اب تکلیف بھی نہیں ہوتی ابا ،،،یہ جسم اب عادی ہوگیا ہے،،، عزت ذلت درد کچھ محسوس نہیں ہوتا ،،،

آپ جاؤ ابا کوئی وکیل نہیں کرنا ہماری بساط نہیں ان لوگوں سے مقابلے کی،،،ان لوگوں کو بچائیں جو باہر ہیں سلطنت ،کشور کا سوچیں ابا ان کی عزت میری جان سے زیادہ قیمتی ہے، اگر ایک میری قربانی سے سارا خاندان بچ سکتا ہے تو یہ بڑی ڈیل نہیں ہے ابا،،

اور ہاں بس جانے سے پہلے ایک اشتہار دے جائیں ارمان علی کا عاق نامہ تیار کروا دیں ،،،

"پروفیسر عظمت علی کا غدار وطن ارمان علی سے کوئی تعلق نہیں ہے،،،" وہ نم آنکھوں سے ہنسا ،، ان کے ہاتھ چومے،،،

،،،،،،،،

"میں اپنے پوتے سے آج ہر تعلق ختم کرتا ہوں 

پاکستان میرا ملک ہے میں چاہتا ہوں مجھے اور میرے خاندان کے باقی افراد کو اب سکون سے رہنے دیا جائے  میری پوتیاں میری عزت ہیں انھیں اب پریشان نہیں کیا جائے ہم یہاں ہی ہیں میں اس ملک کی مٹی میں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں" میرے پورے خاندان کو اب مزید کوئی اذیت نہیں دی جائے،،

نیوز چینل پروفیسر عظمت علی کی کانفرنس  بار بار دیکھا رہے تھے

اور رات کی تاریکی میں یہ پورا گھرانہ بہت خاموشی سے لانچ میں بیٹھ کر اب پاکستان کی سرحد سے باہر تھا،،،

یہ لٹا پٹا قافلہ بھی ایسا ہی تھا جیسے  1947 میں عظمت علی کے باپ اور دادا اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کی عزت کو ہندو بلوائیوں سے بچاتے ہوئے بے سروسامان پاکستان میں داخل ہوئے تھے،،

آج  بھی وہ اپنا گھر بار ایسے ہی چھوڑ جارہے تھے  

عظمت علی نے اپنے سینے سے لگائی وہ پوٹلی اپنی آنکھوں سے لگائی تھی

وہ جانتے تھے دوبارہ وہ اس سر زمین پر نہیں  آسکیں گے اس لئے یہاں کی مٹی لے جارہے تھے،،،،،

ان کے نام اور شناخت بھی بدل دی گئی تھی

#####

چھ مہینے بعد!

تم کہیں جارہے ہو حیدر،،، 

حیدر عباس بلیک کھدر کے  شلوار سوٹ میں ملبوس اب خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا جب ژالے نے حیرت سے  پوچھا

وہ شلوار قمیص بہت کم پہنتا تھا ،،، اور آج بہت دیر کی سلیکشن کے بعد یہ ڈریس نکالا تھا،،،

 کافی دیر سے اس کی تیاری بہت جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی،،،

"ہاں وہ ایک ڈنر ہے تم ایسا کرو یا تو اپنی مم کی طرف چلی جاؤ یا گھر پر ہی ہو تو  کسی فرینڈ سے گپ شپ کر لو یا کوئی مووی دیکھ کر کھانا کھا کر سو جانا مجھے دیر ہو جائے گی، میرا انتظار نہیں کرنا،،،،، شیشے میں سے ہی ژالے کو مخاطب کیا،،،

"اس سے بہتر یہ ہے میں تمھارے ساتھ چلوں"،،، 

حیدر کے برابر میں آکر کھڑی ہوئی،،،

تم نے وہاں کیا کرنا ہے ،،؟ 

حیرت سے سوال کیا

"کیوں میں کیا پہلی بار جاؤں گی تمھارے ساتھ جو مجھے نہیں پتا کہ اس طرح کے ڈنر میں مجھے کیا کرنا ہوگا ،،"،

چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا

"یہ زعیم قاضی کی طرف سے ڈنر ہے اس کے دوست اور پارٹی ورکر ہیں صرف اس لئے کہا ہے ،،، گردن جھٹک کر جواب دیا

وہ اب اپنی کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا

"اوہ زعیم کی طرف سے تو وہاں کیا صرف میلز ہی جاسکتے ہیں کوئی فیمیل نہیں ہوگی؟،، ایک اور طنز کیا

حیدر نے دونوں بازو ژالے کے کندھوں پر رکھے پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

"عورتیں تو ہوں گی وہاں پر وہ عورتیں جن کے سامنے ہم اپنے گھر کی عورتوں کو نہیں لا سکتے اور یہ دعوت مجھے تمھارے ڈیڈ  اور تایا کی طرف سے بھیجی گئی ہے

اب میں کفران نعمت تو نہیں کر سکتا،، ہنس کر طنز کیا 

"ہوگئی تسلی  یا کچھ اور تفصیل  بھی دوں میں ایسا  کرتا ہوں تمھیں وہاں سے لائیو ویڈیو کال کر کے  تمھارے خاندان کے مردوں کے کرتوت دیکھا دوں گا،،،،،

طنزیہ مسکراہٹ سے کہتے ژالے کو ایک ہاتھ سے دور ہٹایا

جیسے وہ راستے کا کوئی پتھر ہے،،،

مت جاؤ حیدر تم تو ایسے نہیں تھے،،،

ژالے روہانسو ہوئی،،،

مجبوری ہے آخر کامیاب سیاست دان بننا ہے تمھارے باپ جیسا اور وہ ہی مجھے سیاست کے روموز سیکھا رہے ہیں،، ان کے خیال میں مجھ میں بڑی کمی ہے ایک اچھا سیاست دان بننے کی،، تو 

اب یہ تو انھیں سوچنا چاہیے  کہ وہ یہ کیا کر رہے ہیں ،،فون کی بیل ہوئی

 مسکراہٹ کے ساتھ فون ژالے کے سامنے کیا

شبیر قاضی کالنگ لکھا دیکھ کر ژالے کی نگاہیں جھکی تھیں

"جی سر بس میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں،،،حیدر نے ایک ہاتھ سے موبائل پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے ژالے کو کندھے سے لگاتے ہوئے نرمی سے اس کے  ماتھے کو اپنے ہونٹوں سے چھوا 

اور باہر نکل گیا

 ژالے وہاں ہی بے دم ہو کر زمین پر بیٹھی تھی

وہ جانتی تھی اس قسم کی محفلیں جو اس کے باپ کے فارم ہاؤس پر لگتی تھیں،،

جو ڈیڈ اپنے دوستوں اور سیاسی ساتھیوں کو خوش کرنے کے لئے لگاتے تھے 

اور جس کے بعد اس کے ماں باپ کی لڑائی وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر سنا کرتی تھی،،

اور آج اس کا شوہر بھی ایسی ہی ایک محفل میں گیا تھا اسے اچھی طرح پتا تھا حیدر آج رات گھر نہیں آئے گا،،،

#### 

 شبیر قاضی کے فارم ہاؤس  پر رنگ و بو کا سیلاب تھا شہر کی اشرافیہ  یہاں موجود تھی

حیدر عباس ایک کونے میں الگ تھلگ بیٹھا  تھا لیکن

بہت دیر وہ اس محفل سے کٹ کر نہیں رہے سکا پھر جس ذہنی پرگنداگی کا وہ ان دنوں شکار تھا اسے سکون کی تلاش تھی جو اسے اپنے سسر کے فارم ہاؤس پر مل گیا تھا جہاں شراب و شباب دونوں ہی کا انتظام تھا

وہیں جیل کے ٹارچر سیل میں  ایک ٹانگ سے الٹا لٹکا بے ہوش  قیدی ہوا میں معلق پینڈولم کی طرح آگے پیچھے  جھول رہا تھا

شاید درد  برداشت کرنے کی ہمت جواب دے گئی تھی

بس ایک سسکی اس کے لب سے آزاد ہوئی تھی

 پانی  آہ

لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلے گا

فرعونی سلطنت کا بس ایک کردار بدلے گا

جس قوم کو خود پر ہو جبر سہنے کی عادت

وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا

ایک صبح شمع بیگم خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ گئیں،،،،،،

 حیدر عباس کو یہ خبر جب ملی وہ غیر ملکی دورے پر تھا ،،،

ماں کی آخری رسومات بھی بہت مشینی انداز میں ادا  کی تھیں ،،

ژالے کو اس پر کسی ربوٹ کا گمان ہوتا تھا

جس کے پاس کوئی احساس نہیں بچا تھا،،،

اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ "ژالے قاضی " نام کی کسی لڑکی کا کبھی وہ عاشق ہوا کرتا تھا وہ لڑکی جو اسے رات دن کا فرق بھلا دیتی تھی ،،،

حیدر عباس کا اپنی ہی پارٹی کے اراکین سے جھگڑا ہوگیا ،، وجہ بلدیاتی انتخابات تھے اس نے کسی سرگرمی میں حصہ لینے  سے انکار کر دیا  کیونکہ 

 شہر کی  غلط مردم شُماری پر  اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی ،حلقہ بندیوں پر بھی بحث ہوئی    مگر  نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پتے ،،، 

شبیر قاضی پھر یہ ہی چاہ رہے تھے کہ حیدر  اپنے سپوٹرز کو  پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر روشن مستقبل کی امید دلا دے،،، آخر اس کے پاس لفظوں کا خزانہ تھا لوگ اس کی بات سنتے تھے

اور اس وقت میں حیدر عباس  کی ناراضگی  پارٹی کے لئے نقصان دہ تھی،،،

آشیانہ بھی اب بہت سی غیر قانونی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا،،،

پر حیدر عباس کے سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے ابھی کوئی کاروائی نہیں شروع کی جا سکی تھی

لیکن بہت اندر کی خبر تھی کہ حیدر عباس کے خلاف نیب سرگرم ہے،،

####

سچل کو ہوش آگیا !!

پر ایک ایسا ہوش جس سے بے ہوشی بہتر تھی

ہر سوال کے جواب میں اس کے پاس صرف ایک چپ تھی،،

اسے سب کچھ بہت دھندلا دھندلا یاد تھا ،،کوئی بھی منظر واضح نہیں تھا  اور وہ خود بھی اذیت کی وہ رات یاد نہیں کرنا چاہتی تھی جس کی صبح نہیں ہوئی تھی،،،

ہاں وہ ایک میسج اس کو آج بھی حرف با حرف یاد تھا ،لیکن اس نام پر سجل کے لبوں پر ایک گہری چپ تھی،،

بالکل  ایسی ہی چپ جو جیل میں بیٹھے انسداد دہشتگری کے قیدی کے پاس تھی ،،،

ہر الزام پر وہ بھی چپ تھا

سوال کرنے والے تھک جاتے وہ نہیں بولتا تھا

جسمانی ریمانڈ بھی اس کی چپ نہیں توڑ سکے تھے،،،

####

تین سال ہوگئے تھے اس دہشت گردی کے قیدی کو جس کی کسی نے دوبارہ پلٹ کر خبر بھی نہیں لی تھی،،،،

اب تو کسی کو اس کا نام بھی یاد نہیں تھا 

اور جیل میں اس کی ایک الگ شناخت بن گئی تھی لوگ اسے عرش کے نام سے جانتے تھے یہ نام جیل کے ایک ساتھی نے دیا تھا،جس کا جیل آنا جانا لگا رہتا تھا ،،جس کے ساتھ وقت گزارتے ارمان علی سے عرش ماچس بنتے ہوئے ملزم سے مجرم کا سفر طے ہورہا تھا

پر بس ایک مجرمانہ خاموشی ارباب اختیار کے پاس تھی،،،

####

سلطنت کو ہسٹریا کے دورے پڑتے تھے وہ پاکستان کے نام سے بھی کانپ جاتی تھی بہت عرصے اس کا علاج ہوا

مگر آج بھی اچانک اس کی ہدیانی چیخیں عظمت صاحب کے کمزور وجود کو رونے پر مجبور کر دیتی تھیں،،،

کچھ عرصے تک سلطنت کے نام کے ساتھ بھی مفرور ملزمہ غدار وطن جیسے القابات لگے میڈیا پر اس کے باہر جانے پر سوالات اٹھائے گئے 

لیکن اچانک ہی یہ سب بند کر دیا گیا

یہ بات کچھ لوگ ہی جانتے تھے کہ ایسا حیدر عباس نے کیا ہے اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے کیس بند کروا دیا تھا،،،،،

جس پر زعیم قاضی سے اس کا بہت زبردست جھگڑا ہوا تھا،،،

زعیم قاضی سے  حیدر عباس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے 

زعیم قاضی  ژالے سے ملنے بھی حیدر کے گھر نہیں  آسکتا تھا

حیدر عباس نے ژالے قاضی کو بہت سختی سے وارن کیا تھا 

حیدر عباس اب کوئی عام شخص نہیں تھا جسے زعیم دبا لیتا،،

وہ اب ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا،،،

#####

پروفیسر عظمت  بہت بیمار رہنے لگے تھے انھیں 

 اب ہر وقت  پاکستان کا وہ  قیدی یاد آتا تھا،اور ان کے سجدے طویل اور خاموشی گہری ہوجاتی،،،

٫٫٫٫٫٫٫٫٫"٫٫٫

کشور جہاں اور عامر حیات دبئی میں جاب کرتے تھے  دونوں کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا یہ لوگ کبھی زندگی سے بھرپور زندہ دل میاں بیوی  تھے جن کی ہنسی سے گھر گونجتا تھا،،،

عالی شان کو اظہار حسن کے پاس آسٹریلیا بھیج دیا گیا تھا

شجاعت علی اور نیلوفر اپنے بڑے بیٹے شاہان علی کے پاس آگئے تھے

ارمان سے اب انھیں کوئی شکوہ بچا ہی نہیں تھا،،

،

تابندہ بیگم ، سلطنت  اور عظمت صاحب ازمیر لودھی کے ساتھ رہتے تھے

ازمیر نے کچھ مہینوں پہلے ہی سلطنت کو رخصت کروالیا تھا،،،، وہ  سلطنت کی وجہ سے عظمت صاحب کو کہیں نہیں جانے دیتا تھا

کیونکہ جب سلطنت کو دورہ پڑتا تھا تو وہ صرف عظمت صاحب سے ہی سنبھلتی تھی

پھر اس کی چیخیں در و دیوار ہلا دیتی تھیں،،

وقت کا کام گزرنا ہوتا ہے زندگی کسی کے بغیر کہاں رکتی ہے

تو یہ خاندان بھی بس اب زندگی جینے کے بجائے زندگی گزار رہا تھا

جینا مشکل ضرور تھا پر ناممکن نہیں!!

#####

شجاع احمد اور عیش کی روز روز کی لڑائیوں کے بعد علیحدگی ہوگئی

 وجہ تھا زعیم قاضی جس کے ساتھ عیش کی بڑھتی نزدیکیاں شجاع کو عیش سے برگشتہ کر رہی تھیں اور پھر ایک دن   شجاع نے عیش کو طلاق دے دی 

شجاع اپنے بیٹے کو لے کر خاموشی سے اس کی زندگی سے چلا گیا

عیش نے اپنے بیٹے کے لئے شجاع احمد پر کیس کر دیا تھا

اسے ہر حال میں اپنا بیٹا واپس چاہیے تھا،،

#######

حیدر عباس اپنے شہر کے لئے کوئی خاطر خواہ کام  نہیں کر سکا تھا بلکہ وہ ایک ایسی دلدل میں پھنستا جارہا تھا جہاں سے وہ چاہ کر بھی نکل نہیں سکتا تھا،، اس پر کرپشن کے چارچز لگ رہے تھے 

آشیانہ میں اوور سیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے فنڈز میں بہت سی خرد برد کی گئی تھی،،،

شبیر قاضی سے اس کے اختلافات بڑھ رہے 

ان لوگوں کے لئے حیدر نے بہت سے غلط کام بھی کئے تھے پھر بھی وہ اس شہر کے لئے اپنے جائز مطالبات نہیں منوا سکا  یہاں تک کہ وہ ان لوگوں سے اپنا آشیانہ بھی نہیں بچا پایا تھا،،

ایسے ہی ایک جھگڑے میں شبیر قاضی  نے صاف کہہ دیا تھا وہ اس شہر کے لئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے اور حیدر عباس کو بھی ان معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے،،

حیدر عباس نے اپنی وزارت سے استعفی دینے کا اعلان کر دیا تھا،،

شبیر قاضی کے پارٹی الیکشن ہونے والے تھے شبیر قاضی چاہتے تھے کہ پارٹی چیرمین اب حیدر عباس کو بنا دیا جائے،، ( وہ حیدر کی ناراضگی دور کرنا چاہتے تھے کیونکہ حیدر کی وجہ سے ژالے ان سے ناراض تھی)،، لیکن اس فیصلے پر شبیر قاضی کا اپنے بڑے بھائی نصیر قاضی اور زعیم قاضی سے جھگڑا ہوگیا ،،،، کافی دیر ان سب کی بحث ہوئی اور پھر اچانک ہی سب کچھ معمول پر اگیا شاید کوئی بڑی ڈیل ہوگئی تھی،،،

حیدر عباس کو لگتا تھا اس کے خلاف ایک جال بنا جارہا ہے،،

#######

  الیکشن سے پہلے ہی حیدر عباس کی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہوا  گاڑی کے بریک فیل تھے حیدر عباس بری طرح زخمی ہوا تھا ،،،وہ  آفس سے گھر جارہا تھا،،،

سب جانتے تھے یہ حادثہ نہیں ہے پر کوئی بھی آواز اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ،،،،

ژالے قاضی نے اپنے ماں باپ سے ملنا کم کر دیا تھا

اس کے لئے آج بھی سب سے زیادہ اہم حیدر عباس  تھا

ژالے اپنے ماں باپ سے ناراض تھی اور ان کے گھر جانا چھوڑ چکی تھی

شبیر قاضی ژالے  پر حیدر عباس سے علیحدگی کے لئے دباؤ  ڈال رہے تھے،،حیدر عباس اب ان کے کام کا نہیں رہا تھا،،

نصیر قاضی نے زعیم قاضی کا رشتہ ژالے سے کرنے کی امید دلا دی تھی

 ثانیہ قاضی بھی چاہتی تھیں ژالے  اب حیدر عباس سے علیحدگی اختیار کر لے کیونکہ ایکسڈنٹ نے حیدر عباس کی ٹانگوں کو بری طرح متاثر کیا تھا ،،  وہ اب چل نہیں سکتا تھا،،،

ان دنوں حیدر عباس  گوشہ نشین ہوگیا تھا،،

بالکل جیل کے اس قیدی کی طرح جس کی آج بھی کوئی خبر گیری کرنے نہیں آتا تھا

کہ وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا!!!،

سوائے اس کے جیل کے اس ساتھی کے علاؤہ جو ہر کچھ ماہ بعد کسی جرم میں اندر ہوتا تھا

یا شاید اندر بلایا جاتا تھا؟؟؟؟!!!

#####

چار سال بعد

حیدر بھائی آپ جانتے میرا کوئی بڑا تو ہے نہیں جو میرے رشتے کی بات کرے میں آپ سے کچھ گزارش کرنے آیا ہوں،،،،

حامد خان حیدر عباس کے ساتھ آشیانہ میں بیٹھا تھا حیدر عباس بہت دن بعد آج ژالے کے ساتھ آشیانہ آیا تھا،،،،

"حامد تم میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہو  تم نے اس وقت میرا ساتھ دیا ہے جب میں ہر رشتے سے دھوکا کھا کر  برباد ہوا تم کہو کہاں جانا ہے  میں اور ژالے تمھارا رشتہ لے کر جائیں گے،،" حیدر عباس نے مسکرا کر کہا،،،

"حیدر بھائی وہ میں ،، میرا مطلب ہے میں آپ کے خاندان سے تعلق جوڑنا چاہتا ہوں،،،" حامد نے سر جھکا کر جو اعتراف کیا 

حیدر عباس کے ساتھ ژالے قاضی بھی شاک رہے گئی تھی،،،

تم جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو حامد ،، سجل کے ساتھ جو کچھ ہوا،،،حیدر عباس کی بات بیچ میں رہے گئی،،

"سب جانتا ہوں حیدر بھائی میں اپنی خوشی سے یہ رشتہ کرنا چاہتا ہوں،،، حامد کی بات پر حیدر کی آنکھوں میں آنسو آگئے 

وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کس زبان سے حامد کا شکریہ ادا کرے،،،

"یہ بہت مشکل فیصلہ ہے حامد ایک بار پھر سوچ لو ابھی تم ہمدردی میں جو قدم اٹھا رہے ہو کہیں بعد میں کوئی پچھتاوا ہو  میں سجل کو اب مزید کسی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا"،،،،حیدر عباس کی بات پر حامد نے جلدی سے کہا

"بھائی یہ فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے یہ ہمدردی نہیں ہے،،،"

حیدر عباس کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ژالے قاضی نے کہا

"ٹھیک ہے حامد صاحب ہمیں یہ رشتہ منظور ہے ،،،!

"شکریہ بھابھی آپ نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے بس تو اب آپ میری طرف سے حیدر بھائی کو راضی کریں اور میں یہ شادی بھی جلدی کرنا چاہتا ہوں،،،

حامد نے ہنستے ہوئے کہا

ایک بوجھ سر سے ہٹا تھا

حیدر عباس اب بھی خاموش تھا

 پر ژالے نے فیصلہ کر لیا تھا وہ حیدر کے ساتھ امریکہ جانا چاہتی تھی وہاں اس کا علاج کروانا تھا کچھ ڈاکٹرز سے حیدر عباس کی رپور ٹ ڈسکس کی تھیں جنہوں نے حیدر عباس کے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی امید دلائی تھی،،،،

اس لئے وہ اب سجل کی جلد از جلد شادی کرنا چاہتی تھی،،،

#####

مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے پلیز آپ اس رشتے سے انکار کر دیں،،،، سجل نے حامد سے کہا

وہ آج حیدر عباس کے گھر دعوت پر مدعو تھا،،،

حامد پل بھر کے لئے ٹھٹکا ،،،

کیوں،،!

 یک لفظی سوال کیا نظریں اس معصوم چہرے پر ہی جمی تھیں ،،، 

"یہ بتانا ضروری نہیں ہے،،"، سجل نے نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا،،،

"پر مجھے تو حیدر بھائی کو بتانا پڑے گا اس لئے انکار کی وجہ بتائیں بلکہ آپ حیدر بھائی کو ہی انکار کر دیں،"،، دھیمے لہجے میں کہا،،،

میں انھیں انکار کر چکی ہوں پر وہ میری بات نہیں سن رہے ہیں ،،، پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں ،میری زندگی پہلے ہی بہت مشکل ہے اسے مزید مشکل نہیں بنائیں،،،سجل روہانسی بولی،،

میں آپ کی زندگی کی مشکلات ہی ختم کرنا چاہتا ہوں سجل ایک بار مجھ پر اعتبار کر کے دیکھیں،،

ہر شخص  ارمان جیسا نہیں ہوتا،،، نرم لہجہ ایک دم ہی آگ برساتا ہوا تھا

سجل نے چونک کر سر اٹھایا،،،

پر حامد کے چہرے پر نرمی تھی وہ سجل کو ہی دیکھ رہا تھا سجل نے نظریں جھکائیں،،،

"میرے ساتھ سر نے کچھ نہیں کیا ہے،،،" سجل کی بات پر حامد چونکا،،،

"کیا مطلب پھر کون ہے وہ"،،،حامد نے جلدی سے کہا

بس یہ ہی جواب تو سجل کے پاس بھی نہیں تھا کیونکہ اسے کچھ یاد نہیں تھا

" پر وہ آخری میسج تو یاد تھا جو ارمان کا ہی تھا،،

"خیر وہ جو کوئی بھی تھا آپ اس بات کو جانے دیں اور سب کچھ بھول جائیں سجل آپ شادی کے لئے ہاں کر دیں  میں آپ کے لئے کوئی مشکالات نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ رشتہ میری دلی خواہش ہے پھر آپ دیکھیں آپ کی ذمہ داری کی وجہ سے حیدر بھائی اپنا علاج کروانے نہیں جا سکتے ان کے لئے ہی ہاں کر دیں ،،یقین جانیں یہ آپ کا احسان رہے گا مجھ پر،،، حامد کہہ کر وہاں سے چلا گیا

پر سجل تو پتھر ہوگئی تھی وہ بس ہلتے پردے کو دیکھ رہی تھی جہاں سے ابھی حامد گیا تھا

#######

شبیر قاضی کے فارم ہاؤس پر آج زعیم قاضی کے ساتھ عیش بھی موجود تھی،،،، 

زعیم  قاضی نے عیش سے شادی نہیں کی تھی 

پر وہ دونوں اکثر ساتھ ہی ہوتے تھے،،،

 شروع میں عیش نے زعیم پر نکاح کے لئے کافی زور ڈالا پر زعیم قاضی عیش کی ہر بات پر نثار بس یہ بات ہی ٹال جاتا تھا،،،

عیش کو اب فرق بھی نہیں پڑتا تھا وہ زعیم  سے اتنا کچھ اپنے نام کروا چکی تھی کہ وہ اب ساری زندگی عیش سے رہنے والی تھی،،،

نکاح نہ بھی کرے تو کیا فرق پڑتا ہے،،،

زعیم ڈرنک میں مصروف تھا جب عیش نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا،،

"زعیم  میں اب   بہت تنگ آگئی ہوں اس کی بلیک میلنگ بڑھتی جارہی ہے،،،عیش نے ایک ادا سے زعیم سے کہا،،

میں نے اس وقت تمھارے اس لوزر  کی شکایت سننے کے لئے نہیں بلایا ہے،عیش میرا موڈ نہیں خراب کرو،،،،زعیم نے ناگواری سے کہا،،،

"اور ایک بات کان کھول کے سن لو اب میں تمھیں ایک روپیہ اس حرام خور کے لئے نہیں دینے والا،،

سگریٹ کا دھواں ہوا کے سپرد کرتے ہوئے نخوت سے کہا،،،

"کیا بات ہے موڈ کیوں خراب ہے "،،، عیش فورا سنبھلی،،،

میرے اپنے بڑے مسئلے ہیں تمھیں یہاں اس لئے نہیں بلاتا ہوں کہ تم اپنے دکھڑے رونے بیٹھ جاؤ ریلکس ہونے کے لئے بلاتا ہوں اور تم،،،"

"او ہو بابا میں تو بس اسے ہی ذکر کر رہی تھی ورنہ میں تو خود تم سے ملنے کے لئے بے چین تھی اس بار تو بڑے دن بعد ہماری یاد آئی ،،! عیش نے زعیم کے بالوں میں ہاتھ پھیرا

ہاں کچھ مصروف تھا ملک کی صورت حال تیزی  سے خرابی کی طرف جارہی ہے پارٹی کا امیج  بہت  ڈیمج ہوا ہے،، یہ شعور کی آگہی کے راگ مشکل کر رہے ہیں،،اس پر حیدر عباس کا ایکسڈنٹ ،،میڈیا اس بات کو کافی ہائی لائٹ کر رہا ہے،،،

اوہ ہاں سنا ہے تمھاری پارٹی نیب کی ہٹ لسٹ پر ہے،، عیش نے تشویش سے پوچھا 

سب ڈرامے ہیں یہ کیس بند کروانا اتنا مشکل نہیں ہے 

میرا مسئلہ  پارٹی چیرمین شپ ہے مجھے اب پارٹی کا  چیرمین بننا ہے 

 اور اس لئے  میں اب ژالے سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن  یہ حیدر عباس یہ بہت سخت جان ہے سالا،،زعیم نے گالی دی،،

عیش نے حیرت سے چونک کر دیکھا بالوں میں سر ستاتی انگلیوں کی حرکت بھی رک گئی تھی،،

کتنی آسانی سے وہ اس کے پہلو میں بیٹھ کر شادی کی بات کر رہا تھا 

پر وہ اس وقت کچھ بھی کہہ کر اس ظالم انسان کی اذیتوں کو نہیں سہہ سکتی تھی،،،

 اس لئے سر سری لہجے میں کہا

کیا ژالے راضی ہوجائے گی،،؟اور حیدر عباس کے ساتھ تم اب کچھ اور کرنے کا سوچ رہے ہو کیا؟؟؟

ہمممم نہیں خیر چھوڑو یہ بات ،،!!

آج نہیں تو کل یہ پارٹی اور ژالے دونوں میرے ہی حصے میں آنی ہیں ،،،

 تم اس لوزر سے کہو مجھ سے ملے،،،، زعیم نے اچانک ہی بات بدلی

کیوں؟ عیش نے حیرت سے کہا

مجھے آج کل کچھ کالز آرہی ہیں کوئی مجھے کہتا ہے میرا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا ہے،،،زعیم نے گلاس خالی کر تے ہوئے کہا،،

عیش چونکی،،،

 کالز زعیم مجھے بھی آرہی ہیں آج کل مجھے لگا یہ حامد کر رہا ہے ،،،، ؟

عیش ڈری،،،

تمھارے اس کزن میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ مجھے دھمکی دے سکے یہ کوئی اور ہے،،  حامد صرف تمھیں تنگ کر سکتا ہے

 وہ جانتا ہے اس نے اگر میرے ساتھ کچھ بھی کیا تو میں اس کا راز کھول دوں گا 

 حیدر عباس کا سب سے خاص آدمی جس سے وہ اپنی بہن کی شادی کرنے والا ہے وہ ہی اس کی بہن کا مجرم ہے اور وہ ہی ہے جس نے ارمان کو ان  سارے کیسز  میں پھنسایا تھا تاکہ وہ آشیانہ پر قبضہ کر سکے ،اور اپنے غیر قانونی لین دین آشیانہ کے اکاؤنٹس کے زریعے کر سکے،،، 

ارمان علی اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا،،،

،،، ،،وہ اب نشے میں مدہوش ہو رہا تھا،،،

خدا کے لئے زعیم یہ بات دوبارہ منہ سے نہیں نکالنا ، تم حامد کو جانتے ہو اس کے لنکس کہاں تک ہیں،،،،،عیش نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا

"اوہ مائی لو تم میرے ہوتے ہوئے ڈرتی ہو پانچ  سال ہوگئے ہیں کیا کسی کو کچھ بھی پتا چلا ہے،"،،

زعیم نے اسے خود سے قریب کیا،،

وہ اب مکمل مدہوش تھا

جب عیش کی سرگوشی سے تھوڑی بلند آواز پر آنکھیں کھولنے کی کوشش کی

ہاں  پانچ سال ہوگئے ہیں مجھے تمہارے دونوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ،،تم نے اور حامد نے مجھے پانچ سال سے اپنے اشاروں پر نچایا ہوا ہے،،،

 ہمم ہم نہیں ہوتے تو کوئی  اور گلی کا آوارہ کتا ہوتا تمھاری جیسی عورت کے کرتوت اسے ناچنے پر مجبور کرتے ہیں،،، زعیم قاضی نے مذاق اڑایا

"کتے خاندانی ہوں یا گلی کے ان کی اوقات ایک جیسی ہی ہوتی ہے زعیم قاضی !!

 اور سنو !

عیش نے مٹھی سے اس کے بال جکڑ کر جھٹکا دیا

" میں آج  اس قید سے آزاد ہونا چاہتی ہوں "0،،،،،

######

دوسرے دن  صبح کی بریکنگ نیوز کچھ یوں تھی،،،

"زعیم قاضی   فارم ہاؤس پر مردہ حالت میں پائے گئے

ان کے ساتھ وہاں عیشا رحیم بھی تھیں 

عیشا رحیم نے ہی پولیس کو اطلاع دی

عیشا رحیم کے بیان کے  مطابق وہ سو رہی تھیں جب فائر کی آواز آئی وہ  وہاں زعیم کے روم میں گئیں تو وہ کرسی پر  مردہ حالت میں پائے گئے اور ان کے ہاتھ میں گن تھی 

 زعیم قاضی نے خود اپنی جان لی ہے،،،

یا یہ قتل ہے؟؟

تحقیقات کے لئے 

پولیس نے عیشا رحیم کو حراست میں لے لیا ہے،،،

####

ایک کہرام  حویلی میں مچا تھا "جوان موت "،،

نصیر قاضی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ان کا بیٹا خودکشی کر سکتا ہے ،،،

شبیر قاضی کی حالت بھی غیر تھی

ژالے قاضی افسوس کرنے آئی تھی پر حیدر کے ساتھ ہوئے حادثے اور  عیش کے زعیم قاضی کے ساتھ  تعلقات نے ژالے کو بہت سے معاملات چوکنا  کر دیا تھا ،وہ اب کسی پر بھروسہ نہیں کرتی تھی،، وہ بس ایک رسم ادا کرنے آئی تھی،،،

######

 حیدر عباس نے سجل کا رشتہ حامد خان سے  فکس کر  دیا تھا،،، ژالے چاہتی تھی جلد سے جلد سجل کی شادی ہوجایے تو وہ حیدر کو باہر لے جائے تاکہ اس کا علاج ہوسکے اور اس لئے حامد کو  اب آشیانہ کے ساتھ ساتھ گھر کے معمولات  میں بھی اہمیت دی جارہی تھی،،،!!

دہشت گردی کا قیدی آج بھی اپنے انصاف کا منتظر تھا،،،

کیا تم بھی مجھے اپنا مجرم سمجھتی ہو،،،، ایک شکستہ لہجہ سجل کی سماعت میں محفوظ تھا

پر وہ خاموش تھی،،،

"میں ہر جرم کا اعتراف کر سکتا ہوں جو میں نے نہیں کئے ہیں پر یہ الزام  بہت سخت ہے،،

 پلیز ایک بار بتادو وہ کون تھا میں یہ الزام خود پر لے کر جی نہیں پا رہا ،،،،

 وعدہ ہے تم سے میں تمھارے مجرم کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا،،،میں اب کسی کو نہیں چھوڑوں گا،،،

وہ جھکے سر سے واپس مڑ رہا تھا

سجل اسے رکنا چاہتی تھی پر وہ آواز تو کیا آنکھ کھول کر اس دیوتا کو دیکھ بھی نہیں سکی تھی،،،

 اس واقعے کو بھی پانچ سال ہونے والے تھے،،،

 اس کی زندگی کی ڈور کسی اور انسان کو سونپی جارہی تھی

وہ وعدہ کرنے والا تو آج بھی اپنے ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہا تھا

اسے کہاں یاد ہوگا ایک لڑکی اس کی راہ دیکھتی ہے،!!!!

######

###

"حیدر بھائی آپ نے ہمارے ووٹ کا سودا کیا ہے ،"

،

"اپنا ضمیر بیچا ہے!"

"کوئی ایک وعدہ بھی پورا کیا"

پانی کا مسئلہ ، سیوریج ایشو ، کوٹا سسٹم کا خاتمہ کیا ہوا حیدر عباس بڑے وعدے کئے تھے بہت آس دلائی تھی،،،

آپ کے حکومت میں ہوتے ہوئے  ایک نیا ظلم کراچی پر کیا گیا ہے پہلے جو کام مجرمانہ خاموشی سے کیا جاتا ہے اب کھل کہ ہورہا ہے کراچی کا ڈومیسائل اب کراچی میں ہی  نہیں اہمیت رکھتا 

گورنمنٹ جابز پر لکھا ہوتا ہے کراچی والے کوشش نہیں کریں

کہیں جابز نہیں کوئی سی ایس ایس کے لئے کراچی کی سیٹ  نہیں ،،

پورے ملک سے مہنگی بجلی !!

تم بھی اور سیاست دانوں کی طرح اپنی ہی جیبیں بھرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کر رہے ہو،،

اس کا ثبوت ارمان علی ہے جسے تمھارے دور حکومت میں سیاسی دشمنی کا نشانہ بنایا گیا،،،

حیدر حیدر ,, ژالے کی آواز پر وہ چونکا 

ہاں کیا ہوا،،؟

کیا سو چ رہے تھے حیدر،،،ژالے نے نرمی سے کندھے پر ہاتھ رکھا

خود کو احتساب کی عدالت میں پیش کیا تھا ، خود پر فرد جرم عائد کر دی ہے ،،میں حیدر عباس ایک لوزر ہوں،،  ایک مفاد پرست انسان،،،

ایک ضمیر فروش  جس کی ماں اس سے ناراض چلی گئی جس کی بہن کے مجرم آج بھی زندہ ہیں،، اور جس کی محبت آج بھی حسرت سے بس اسے دیکھتی ہی رہتی ہے

کیا دیا میں نے تمھیں ژالے یہ معذور انسان کیا دے سکتا ہے تمھیں ،، چلی جاؤ ژالے تمھارے ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں میرے ساتھ اپنی زندگی برباد نہیں کرو ،،،!

حیدر عباس بس کرو اتنے ظالم نہیں بنو ،، کیا یہ سب میرے ساتھ ہوتا تو تم مجھے بھی چھوڑ دیتے ،،،؟

مجھے صرف میرا وہ حیدر واپس کر دو میں اس کی محبت میں ساری زندگی ایک لفظ شکایت کا کہے بغیر  سکون سے  اس کے ساتھ گزار سکتی ہوں

مجھے یہ ٹوٹا ہوا حیدر تکلیف دیتا ہے ہم یہاں سے باہر چلے جاتے ہیں حیدر یہاں لوگوں کے سوال ان کے الزام ہماری زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں ،، پلیز ،،،

وہ اس کے کندھے پر سر رکھے رو رہی تھی

حیدر عباس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ  اس کو چپ کرا سکتا امید کا کوئی جگنو اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتا،،،

ڈاکٹر چوہان کے میسج نے اس کو خود سے بھی نظر ملانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا

ڈاکٹر راحیل چوہان اچانک ہی اپنی فیملی کے ساتھ غائب ہوگئے تھے 

اور آج سالوں بعد ان کا میسج آیا تھا 

جس میں انھوں نے رپورٹ کے زبر دستی تبدیل کروائے جانے اور انھیں ملک سے بھاگ جانے  کی دھمکیوں کا زکر کیا تھا

ان کی رپورٹس کے مطابق وہ شخص ارمان علی نہیں تھا

ارمان اور سلطنت کی وجہ سے تو اس کی بہن کو دوسری زندگی ملی تھی

حیدر عباس کا دل چاہ رہا تھا وہ خود کو ختم کر لے پر ژالے اور سجل اس کے پیروں کی زنجیر تھیں

###

انشال آفندی ایک مشہور نیوز چینل کے دبئی اسٹوڈیو سے تین سال سے پروگرام کر رہی تھی پھر اس کا ٹرانسفر پاکستان ہوگیا  ،،، 

وہ آج کل" خبر کے پیچھے کا سچ" نام سے ایک پرائم ٹائم شو کرتی تھی 

وہ ایک  آؤٹ اسپوکن  اینکر تھی اس کی پہنچ بہت دور تک تھی یا ادارے کے سر براہ سے اس کا ڈائیریکٹ تعلق تھا 

وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تھی،،

اس کی فیملی دبئی میں سٹل تھی،،،

زعیم قاضی کی خودکشی اور عیشا رحیم سے اس کے تعلقات پر بہت سے پروگرام کئے 

اسے دھمکیوں کی فون کالز آئیں لیکن اس کے چینل نے اس کو سپورٹ کیا 

ویسے بھی حکومت اپنے  بد ترین پانچ سال پورے کر چکی تھی عوام میں بہت غم اور غصہ تھا ،،

اور اس بار تو لگتا تھا الیکشن بھی نہیں ہو سکیں گے،،،

###

عیشا رحیم نے بیان میں زعیم قاضی کو دماغی مریض بتایا تھا اس کے مطابق زعیم قاضی دو بار پہلے بھی خودکشی کی کوشش کر چکا تھا

ساتھ ہی زعیم کے ڈاکٹرز کا تصدیق بیان اور رپورٹس،،،،

پھر عیشا رحیم نے بتایا کہ کس طرح زعیم قاضی انھیں بلیک میل کرتا رہا ہے زعیم نے عیشا کی کچھ جعلی ویڈیوز اس کے سابق شوہر کو دیکھائیں تھیں جس کی وجہ سے اس کا ہنستا بستا گھر برباد ہوگیا تھا،،،اور پھر ان سے  نکاح بالجبر کر لیا،، 

زعیم قاضی نے عیشا رحیم کے ساتھ بہت ظلم و ذیادتیاں کی ہیں ،، وہ شراب  نشے میں عیشا پر تشدد کرتے تھے،،

حیدر عباس کی گاڑی کے بریک بھی زعیم قاضی کی ہدایت پر ہی فیل کئے گئے وہ حیدر عباس کو راستے سے ہٹا کر  پارٹی چیرمین بننا چاہتے تھے

یہ سارے اقرار زعیم نے خود کئے تھے اور اس کے بعد عیشا اپنے روم میں سونے چلی گئیں تھیں 

عیشا کو نہیں پتا زعیم قاضی نے خود کشی کیوں کی 

ہاں وہ اس رات بہت زیادہ پریشان تھے،،

انھیں کچھ غیر ملکی ایجنسیاں بھی آج کل پریشان کر رہی تھیں جو کراچی میں قتل و غارت میں ان کے ساتھ ملوث تھیں

 عیشا رحیم کے بیان نے میڈیا پر سنسنی پھیلا دی تھی

 نصیر قاضی  اور شبیر قاضی ہر طرح سے میڈیا پر دباؤ ڈال رہے تھے یہ کوریج بند کی جائے

لیکن اچانک ہی شبیر قاضی اور دوسرے پارٹی ورکرز اور وزیروں کے گھروں میں رات گئے نیب کی چھاپے  پڑنے لگے 

ایک ایک وزیر کے گھر لاکھوں ڈالرز کے کارٹنز ، گولڈ غیر ملکی شراب اور بہت سے نوادرات ملے ،، ،ان حکمرانوں کا کچھا چٹھا کھول دیا تھا

 سندھ میں اپوزیشن بہت تیزی سے متحرک ہوئی تھی ،،،،

عیشا رحیم کے وکیل نے عیشا کی ضمانت کی درخواست دی تھی کیونکہ ان کی کلائنٹ کو شبیر قاضی سے جان کا خطرہ تھا

########

شہر کے حالات ایک بار پھر بہت زیادہ خراب ہوگئے تھے،،،

نیوز چینلز کی دوکان خوب چمک گئی تھی روز رات 8 سے 12 ٹی وی پر چار کھڑکیاں کھول کر تجزیہ نگار بیٹھے شبیر قاضی کی خاندانی سیاست اور  زعیم قاضی کے کردار کی دھجیاں بکھیرتے ،،،

حامد خان بہت خاموشی سے ان سب واقعات کا تجزیہ کر رہا تھا 

بساط الٹی تھی یا الٹ دی گئی تھی،،، کون تھا وہ ماسٹر مائنڈ جو بنا میدان میں کودے شہہ مات دے گیا تھا

کچھ اچانک ہی ذہن میں کلک ہوا ،

اسے ایک ملاقات کرنی تھی ،،

وہ کسی سے بڑے سال بعد ملنا چاہ رہا تھا ،،

اس نے ایک نمبر پر کال کی

حامد  خان کو کسی سے ملنا تھا؟؟؟؟

######

اور پھر !!!!

حامد خان  کو کسی نے بے دردی سے قتل کرکے آشیانہ کے گیٹ پر بوری میں بند کر کے ڈال دیا تھا

نامعلوم افراد کے خلاف  ایف آئی آر درج کر دی گئی،،

########

حامد خان کا قتل  ایک معمہ ہے ،، قاتل نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا،،،،!!!!

ساری رات آشیانہ کے گیٹ پر حامد کی تشدد زدہ  لاش پڑی رہی جس پر کتوں نے حملہ کر دیا،،،، صبح چوکیدار نے علاقے کی پولیس کو اطلاع دی

انشال آفندی کا آج کا موضوع حامد خان عرف درباری  کا ماضی تھا!!

حیدر عباس کے لئے حامد کا قتل ایک شاک تھا ،،،پہلے زعیم قاضی اور پھر حامد خان کا پر اسرار قتل حیدر کے کو خوف زدہ کر رہے تھے

######$

انشال آفندی گرنے والی تھی 

کسی نے بہت نرمی سے کندھوں سے تھاما تھا

پھر دھیمی آواز میں سرگوشی کی

کہا تھا نہ مرنے سے پہلے ایک بار تم سے ملنے ضرور آؤں گا دیکھ لو آگیا ہوں،،،

بہت آہستگی سے اس نوجوان نے انشال کا رخ اپنی طرف موڑا ٫٫٫

آنسوؤں سے لبریز چہرہ اونچا کیا اور سخت لہجے میں سوال کیا؟؟

 تم کیوں واپس آئی  ؟؟؟

 آنسو بھری آنکھوں سے نظریں چرائیں 

"مان کے لئے،، مجھے یقین تھا تم واپس آؤ گے ، اس چہرے پر سے نظر ہٹائے بغیر کہا 

جیسے ڈر ہو دوبارہ یہ چہرہ نظر سے اوجھل ہو جائے گا ،،

"مان گیا تھا پر واپس عرش آیا ہے "

،،،تم نے ہی تو یہ نیوز بریک کی ہے 

"

ملک دشمن عرش ماچس ناکافی ثبوتوں کے باعث باعزت بری،،،،،وہ ہنسا تھا،،

پر سامنے کھڑی خوبصورت لڑکی کے رونے میں تیزی آئی تھی،،،

ایسا نہیں کہو مجھے تکلیف ہوتی ہے،،،وہ اس نوجوان کے چہرے پر اب ہاتھ پھیر رہی تھی،،، کبھی کندھے پر ہاتھ رکھتی،،،یقین ہی نہیں آرہا تھا وہ اتنے قریب کھڑا ہے،،،

یہ دیکھو،،!!!

، اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا،،،

یہ بلیٹ  (گولی) ہے یہ میری وہ ان دیکھی موت ہے جو کہیں سے بھی آکر میرے گلے مل سکتی ہے،،

 یہ ہر وقت میرے ساتھ ہے،،، موت کی ردا کھنچی ہے میرے سر پر،،،!

کیونکہ میں اپنے سارے انتقام پورے کر چکا ہوں اور اب مجھے ایسی ہی کوئی آندھی گولی ہمشہ کے لئے میٹھی نیند سلانے آسکتی ہے،،

 کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ میرا جنازہ قبر میں اتار سکو انشال آفندی ،،،اس کی چہرے کو اونچا کرتے ہوئے سفاکی سے گویا ہوا

کل صبح تم یہاں سے واپس جارہی ہو بس بات ختم،،،وہ مضبوط لہجے میں گویا ہوا،،

تم نے جو کہا ہم سب نے وہ مانا تھا مان اب تم بس میری ایک بات مان لو پلیز،،، بہت آزردگی سے کہا،،

میری واپسی کی بات نہیں کرنا اب بہت دیر ہوچکی ہے یہ معاشرہ اب مجھے قبول نہیں کرے گا،،،،، میں اب واقعی دہشت گرد ہوں،،،

"یہ معاشرہ گونگا بہرہ ہے  یہاں لوگ بہت جلدی سب کچھ بھول جاتے ہیں،،

میرے پاس میڈیا کی طاقت ہے جو کسی ہیرو کو ہمشہ کے لئے زیرو اور زیرو کو ہیرو بنا سکتا ہے،،،"

مجھے تمھارے اوپر ایک پروگرام کرنا ہے ،،دیکھو تم نے جیل میں مجھ سے وعدہ کیا تھا

پوری تیاری ہے بس اب" خبر کے پیچھے چھپے سچ" کا وہ پروگرام لائیو آئے گا جس کی وجہ سے اس پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی،،،وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی

وہ دونوں اب کچن کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھے تھے،،،

یعنی تم مجھے دنیا کے سامنے ایک بے گناہ انسان کی طرح پیش کرنا چاہتی ہو،،،وہ استہزاء ہنسا

تم بے گناہ ہو،،،وہ اپنی بات پر زور دے کر بولی

میں بے گناہ تھا جب جیل گیا تھا،،،پر اب میں بہت سے جرم کر چکا ہوں جن میں ایک ایس ایچ او کے علاؤہ دو اور  مرڈر بھی شامل ہے،،، وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا

اور بھی پتا نہیں کون کون سے گناہ اور جرم کر چکا ہوں،، مجھے میرے حال پر جھوڑ دو،،،

پھر وہ لنگڑا تا ہوا کچن سے باہر نکلا،،،،

ایک ہچکی  نے کچھ پل کے لئے ساکت کیا

پیچھے مڑ کر دیکھا

وہ اب گھٹنوں پر سر رکھے رو رہی تھی اس کا وجود ہچکیوں کی وجہ سے لرز رہا تھا

وہ لاونج میں واپس آکر ایک  تصویر کے پاس دوبآرہ کھڑا ہوگیا

وہ سنہری دھوپ جیسی زندہ دل لڑکی  جب ہنستی تھی تو اس کی آنکھیں بھی مسکراتی تھی،،، اس فریم میں بھی گرین لباس میں ہی تھی

درد کی ایک لہر اندر اٹھی،،،

وہ  اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہا تھا،،،

جب انشال آفندی کی آواز سے تھم گیا

کچھ لوگوں کی زندگی سے ہر رنگ چھین گیا ہے ان کا مان ٹوٹ گیا ہے!!

کچھ لوگ اب بھی منتظر ہیں عرش کے چہرے میں نظر آتے ارمان علی کے،،

پروفیسر عظمت علی کی قبر منتظر ہے کوئی ہو جو ان کی قبر پر دیا جلا  کر کہہ ابا آپ کا پاکستان اب آپ کے خاندان کو غدار وطن نہیں کہتا اس پر لگے ہر الزام کو اب ان ہی لوگوں کے خون سے دھو دیا ہے جنہوں نے ہمیں خون کے آنسو دلایا تھا،،،

وہ بولتے ہوئے اس کے سامنے آئی تھی،،،

اور وہ فولادی چٹان جس کا ہر احساس ہی مر گیا تھا جو پولیس کے ٹارچر سیل سے بھی نکل کر ایک حروف شکایت نہیں کرتا تھا

اب انشال آفندی کے گلے لگے بچوں کی طرح رو رہا تھا،،،

اپنے اوپر کئے گئے مظالم بتا رہا تھا ،اپنے دادا کی میت کے بین ڈال رہا تھا

جن کو آخر وقت کندھا بھی نہیں دے سکا تھا

،،وہ بتا رہا تھا اسے اپنی ماں جیل میں کتنا یاد آتی تھی وہ  اندھیرے سے ڈرتا تھا وہ کوٹھری جہاں دن کے وقت بھی ایسا اندھیرا ہوتا تھا کہ اپنے اوپر سے گزرنے والے حشرات الارض کو بھی وہ صرف محسوس کر سکتا تھا 

کبھی پیشی کے لئے عدالت جانے کے لئے باہر نکالا جاتا تو کتنے ہی پل اس کی آنکھیں دیکھنے سے قاصر رہتی تھیں،،،

اس کی ٹانگ ایسے ہی تشدد کے بعد ناکارہ بنا دی گئی تھی،،،،،

وہ دونوں اب تو رہے تھے

ہان ارمان علی ناکافی ثبوت کی بنا جیل سے واپس آگیا تھا

پر اب وہ بے گناہ نہیں تھا

ہیں  دِگر گُوں ، اس قدر حالات ، پیارے ،شہر میں

‏ہم  نکلتے ہی نہیں اب ،غم کے  مارے ، شہر میں

تتلیوں سے کھیلنے کے دن ہیں جن پھولوں کے وہ

‏بیچتے   ہیں  ٹافیاں ، گیندیں  ، غبارے  ، شہر  میں

اب   کوئی  دِکھتا  نہیں  ،  کاسوں  میں  سِکّے   ڈالتا 

‏بس  بھکاری  ہی نظر آتے  ہیں  سارے شہر میں

چوک  چورَاہَوں  پہ  ہے  اب اجنبیت کا  سَماں

غیر  ہیں  اب موسم  و منظر  ، ہمارے  شہر میں

اب  دِیا   تک  بھی نہیں روشن فصیل  ِ شہر   پر

جِھلمِلاتے  تھے کبھی   ہر  سُو  ستارے  شہر  میں

نفرتوں کے   چھَپ رہے  ہیں کیوں ضمیمے  جا بجا 

‏ہَونگے شائع ، کب محبت کے شُمارے شہر میں ؟

٫٫٫٫٫٫

 چائے پیتے اہلکاروں کو اس نے حیرت سے دیکھا 

آخر کیا وجہ ہے یہاں گاڑی روکنے اور پھر چائے پینے کی ،،

ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا جب ایس،ایچ، او  بدر الدین کی بات پر کان کھڑے ہوئے،،

"جا بھاگ جا تجھے آزاد کرتا ہوں،،،  ایس ایچ او بدر الدین نے تمسخرانہ انداز میں کہا

وہ پیشی سے واپس آرہے تھے جب گاڑی ایک دھابے پر رکی   تھی،،،،

"کیوں سرکار کیا میری موت کے وارنٹ نکل گئے ہیں،،، اور ایک نقلی پولیس مقابلے کے بعد اپنے کندھے پر ایک اور پھول کا اصافہ کرنا ہے،،،ارمان نے گردن جھٹک کر کہا

وہ شیطانی ہنسی سے گویا ہوا

تجھے مارنا اتنا مشکل نہیں ہے جیل میں بھی مار سکتا ہوں یہ تو تیری جوانی پر ترس آگیا ہے اس لئے کہا،،،" 

"جانتا ہوں دروغہ صاحب مجھے مارنا اتنا آسان ہوتا تو تیرا وہ مالک کب کا مجھے ختم کر چکا ہوتا 

میں تو اس کے لئے وہ ہڈی بن گیا ہوں جو وہ نا نگل سکتا ہے نا  اگل ، اور اس لئے ہی اب تجھے مہرہ بنایا ہے تاکہ مجھ سے جان چھڑائی جا سکے،،،،نفرت سے سامنے کھڑے افسر کو دیکھا،،،

آرام نال لڑکے اتنا نہ آکڑ کے بعد میں پچھتانا پڑے

جانتا نہیں ہے مجھے بڑے جعلی پولیس مقابلے  کئے ہیں میں نے وہ بھی کامیاب،،، ایک گولی یہاں ماروں گا اور کہانی ختم،،،"

پستول کا رخ اس کے سر کی طرف کرتے ہوئے 

"یہ ہی تو کہہ رہا ہوں ! مار دے مجھے کیونکہ میں بچ گیا تو تجھے مار دوں گا،،"، ارمان نے گھور کر کہا

"اچھا پہلے جیل سے باہر تو آجا "،،، ہنس کر مذاق اڑایا

"جس دن میں باہر آگیا تو زمین کے اندر ہوگا یاد رکھ ،،،انگلی اٹھا کر وارن  کیا تھا،،،

بدر الدین نے جناتی قہقہہ لگایا

#####

ٹھیک ایک مہینے بعد چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن نے ارمان علی کے کیس ختم کرنے  کا فیصلہ کیا ،،،

اس کیس کی فائل  بند کر دی گئی،،، 

اور اس کیس کے بند ہونے سے بھی پہلے ایس، ایچ، او بدر الدین کو نا معلوم افراد نے ان کے گھر سے نکلتے ہوئے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا،،،!!! 

اس واقعے کی ایف، آئی ،آر  نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لی گئی تھی 

نامعلوم افراد کی تلاش جاری تھی 

پر مجرم تا حال لاپتہ تھے

بالکل ایسے ہی جس طرح حامد درباری کا  تشدد کے بعد قتل  کیس بھی نامعلوم افراد کے خلاف ہی درج کیا گیا تھا 

تحقیقات جارہی تھی

، زعیم قاضی کی خودکشی یا قتل ایک معمہ ،،، 

عیشا رحیم سے تفتیش جاری تھی عیشا کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کو  اجازت مل گئی تھی،،،

 تین الگ  الگ تھانوں میں ایف آئی آر  درج تھیں

تینوں میں  ،الگ طریقہ کار الگ اسلحہ  استعمال کیا گیا تھا

وجوہات بھی نامعلوم تھیں ،،،،

#####

عیشا رحیم آج جیل میں بیٹھی سارے واقعات سوچ رہی تھی،،

اس کو حیدر عباس کے نکاح کی رات آج بھی یاد تھی جب زعیم قاضی اور حامد خان  کی نظروں میں وہ اچانک ہی آگئی تھی اور دونوں نے ہی اس کی ارمان کے ساتھ تصویر  اور ویڈیو بنائی تھی،،،

حامد اس کا کزن جس سے اس کی بہت دوستی تھی یا دوستی سے بھی کچھ زیادہ،، پر اچانک ہی عیش کو حامد کا دوست ارمان اچھا لگنے لگا اور حامد کو یہ برداشت نہیں ہوا،،،،  عیشا حامد کے غلط کاموں میں ہمشہ اس کے ساتھ تھی اس لئے ہی حامد کے ہاتھوں میں عیش کی ڈوریاں تھیں وہ جہاں چاہتا اس کو قابو کر لیتا،،،

زعیم  قاضی اور حامد دونوں نے اسے بلیک میل  کیا تھا اور وہ شجاع  احمد سے اپنی شادی بچانے کے لئے ہر حد سے گزر گئی تھی،،،

پر نا شادی بچی تھی نا عزت دونوں کے ہی ہاتھوں وہ کھلونا بنی تھی،،،،

واحد وہ تھی جو جانتی تھی زعیم قاضی اور حامد خان کا قاتل کون ہے،، 

######

زعیم قاضی کے قتل کی رات!!!

اس رات فارم ہاؤس پر عیش کی آنکھ کھلی  تو گن اس کے سر پر لگی تھی 

اور وہ سامنے کھڑا تھا,, عیشا نے اسے بہت سال بعد دیکھا تھا پھر اس کا حلیہ بھی کافی چینج تھا پر پھر بھی عیش لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے پہچان گئی تھی

اس سے پہلے وہ چیختی ایک ہاتھ سے اس کا منہ بند کیا اور پھر  اسے کھڑا کرتے ہوئے اس کے منہ میں ٹیشو ٹھونسے  اور ایک پٹی  باندھی تاکہ وہ چیخ نا سکے  اور پھر دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ کر بیڈ پر بیٹھا دیا وہ بلیک نائٹی پہنے ہوئے تھی ایک چادر اس کے اوپر پھینک کر وہ اب زعیم قاضی کی طرف بڑھا تھا

زعیم کو کرسی پر بیٹھایا ،،، پھر اس کا گال تھپتھپایا ،،وہ شراب کے نشے میں دھت تھا،،

مشکل سے آنکھیں کھولیں پر سامنے کھڑے شخص  نے اس کا سارا نشہ اتار دیا

زعیم  نے دوبارہ اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی 

جو اب اس کی  طرف انجیکشن  لے کر جھکا تھا

زعیم نے اٹھنے کی کوشش کی 

پر وہ  زعیم کو قابو کر چکا تھا

اب وہ دور کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ،،

زعیم نے کمرے میں چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی بیڈ پر عیشا رحیم اسے نظر ائی،

زعیم کا جسم بھاری ہورہا تھا وہ خود کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا

 پھر  اس نے ارمان علی کو کہتے سنا

"کوشش بے کار ہے زعیم قاضی  تمھارا جسم حرکت کے قابل نہیں ہے صرف تمھارا دماغ اور یہ آنکھیں کام کر رہی ہیں

اس لئے مجھے غور سے دیکھ لو 

تم نے سجل کے دماغ کو مفلوج کیا تھا تاکہ اسے کچھ یاد نہیں رہے پر میں چاہتا ہوں تمھیں میں تمھاری آخری سانس تک یاد رہوں،،،

زعیم نے دیکھا وہ اس کی ہی گن اب اس پر تان رہا تھا,, زعیم قاضی نے آنکھیں بند کیں،،

زعیم کے کانوں میں اپنے ہی الفاظ گونجے  جو اس نے سلطنت سے کہے تھے

"تیرے سامنے ہی تڑپا تڑپا کے ماروں گا"

اور سلطنت نے کہا تھا

وہ تجھے تڑپنے کا موقعہ بھی نہیں دے گا"

پھر فائر ہوا تھا،،،،

عیش کا دل  خوف سے بند ہوا

زعیم قاضی کی کنپٹی پر  زعیم کا ہی سائلینسر  لگا پسٹل   چلانے کے بعد ارمان علی اب  عیشا  کے پاس آکر بیٹھا تھا،،،

 آہستہ سے اس کے منہ پر لگی پٹی کھنچی تھی،،،

پھر اس کے ہاتھ کھولتے ہوئے بولا

"وہ  عربی کہاوت کیا تھی!

" یاد کرنے کی کوشش کی "ہاں !

میرے بعد کسی عام انسان سے محبت نہیں کرنا

کم از کم مجھے مجھ سے اچھے سے ہرا دو تاکہ میں دوبارہ نہ مروں،،!

کیوں کیا یہ سب عیش،!؟؟؟

"مم مجھے مجھے معاف کر دو پلیز مان ،،،مجھے مت مارو ،،،وہ سسکی تھی ڈر کے مارے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی،،

"تم تو جان تھیں میری تمھاری جان کیسے لے سکتا ہوں آج بھی ان ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں ہے عیش !!!

تمھیں تو زندہ رہنا ہے،، اس کال کوٹھری میں جس میں تمھاری گواہی کے بعد سلطنت رہی پورے ایک ہفتے ،،،اور اس اذیت کو محسوس کرنا ہے جسے سجل نے کیا اور ہر دن کر رہی ہے ،،،، 

وہ جھوٹی گواہی تھی دو لڑکیوں پر بہتان  لگایا تھا

اب تم پھر ایک جھوٹی گواہی دو گی  جو میری لکھی ہوئی ہے ،،،

اور جو تم نے ابھی دیکھا ہے وہ تم اس  منہ سے  نہیں کہو گی ورنہ تمھارا بیٹا تمھارے کردار کے اشتھار دیکھے گا،،، وہ بھی سارے خاندان کے ساتھ،،،

نفرت سے اس کے چہرے کو دیکھنے ہوئے اپنا جملہ مکمل کیا،،،

"تم بہت بدل گئے ہو ارمان،"،، سرگوشی کے انداز میں کہا

ہاں اور اب اس بدلے ہوئے ارمان کا بدلا تم جب تک زندہ ہو دیکھو گی ،،

اور ہاں شجاع اور تمھارا بیٹا مجھ سے رابطے میں ہیں یہ بات ہمشہ یاد رکھنا،، اور کوئی بھی ہوشیاری تمھیں مزید مشکل میں ڈال سکتی ہے مجھے یہاں دیکھ کر یہ تو سمجھ ہی گئی ہوگی کہ میں اب کیا ہوں ,, بازی پلٹ گئی عیش اب وقت میرا ہے؛

وہ اب کمرے میں کچھ اور کام کر رہا تھا وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی،،!!!

وہ صبح تک عیش کے ساتھ اس روم میں ہی رہا تھا،،،

شوق کا بار اتار آیا ہوں

آج میں اّس کو ہار آیا ہوں

اّف! مرا آج میکدے آنا

یوں تو میں کتنی بار آیا ہوں

#######

حیدر بھائی میں آج بھی آپ سے مقابلہ نہیں کروں گا میرے دل میں آپ کی عزت یے، بس چاہتا ہوں آپ یہ ملک ہمشہ کے لئے چھوڑ دیں اور جانے سے پہلے آشیانہ کی لیگل اونر شپ مجھے سونپ  دیں ،،،

اب اپ کراچی کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے،،،،میں اپنے اس جرم کی سزا کاٹ آیا ہوں جو میں نے کیا ہی نہیں تھا،،، ارمان علی نے حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہت مضبوط لہجے میں کہا

آپ پر کرپشن کے اتنے چارجز ہیں کہ اگلے پانچ سال آپ میری طرح ہی جیل میں قید رہے سکتے ہیں اور آپ کی فیملی کی عورتیں بھی اس ہی اذیت سے گزریں گی جس سے میرے خاندان کی گزری لیکن میں ایسا نہیں چاہتا اس لئے آپ کے لئے آسان راستہ دے رہا ہوں آپ جانے کی تیاری کریں ،،،

میں آپ کی بہن اور آشیانہ دونوں کو سنبھال لوں گا،،،،

حیدر عباس کی آنکھوں میں آنسو تھے سر جھکا ہوا تھا

ارمان  سر اونچا کئے اب روم سے باہر جا رہا تھا 

عین ممکن ہے تنفس کی سہولت نا رہے

کس کو راس آئی ہے مرضی سے گرفتاری بھی

جنگ کا فیصلہ عجلت میں نہیں کرنا تھا

تو قبیلہ بھی گنوا  بیٹھا ہے سرداری بھی

السلام علیکم میں انشال آفندی حاضر  ہوں  آپ سب کے لئے  ایک اور خبر کے پیچھے چھپی سچائی کے ساتھ  جس نے ایک نوجوان کی زندگی کے قیمتی پانچ سال ظلم کے اندھیرے میں گم کر دئیے 

ایک پرجوش نوجوان جس کے اکیڈمک ریکارڈ ،  جس کے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں نے بہت لوگوں  حیران کیا تھا  انھوں نے اپنے ہی جیسے نوجوانوں کے لئے آواز اٹھائی ،،

ان کے  کے چبھتے ہوئے سوالوں  نے بہت سے لوگوں کے چہروں سے نقاب الٹے تھے اور شاید یہ باتیں ہی وجہ بنی تھی اس نوجوان سے سیاسی انتقام کی

ارمان علی آشیانہ ٹرسٹ کے سب سے زیادہ متحرک ورکر تھے انھیں حیدر عباس کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا پھر کچھ عرصہ سیاست سے بھی منسلک رہے اور  اچانک ہی ایک الزام نے اس نوجوان کی زندگی تاریک  کر دی ،،، جی ہاں 

"خبر کے پیچھے کا سچ " میں آج ہمارے مہمان  ہیں  ارمان علی جو  پانچ سال کی سزا کاٹ کر آئے ہیں،،

ارمان علی  انسداد دہشتگری ایکٹ 1997 کے دفع 7 کے علاؤہ ایف آئی آر  تعزیرات پاکستان  دفعات107    

440 ،B120  

 کے مقدمات بھی درج تھے

حال ہی میں  انھیں سو موٹو ایکشن کے تحت نا کافی ثبوت کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا،،

سوال یہ ہے کہ اگر  ان پر لگائے چارجز ٹھیک تھے تو ایک ایسے ملک دشمن مجرم ( زبان لڑکھڑائی)  کو چھوڑنا ٹھیک ہے ؟

اور اگر یہ صرف سیاسی انتقام  کے کیسز تھے تو اس نوجوان کے وہ پانچ سال کون واپس کرے گا وہ بدنامی جو ان کے خاندان نے جھیلی،،،جن تکالیف سے یہ انسان گزرا کون ہے ذمہ دار وہ قانون جس کے تحت ارمان علی سے عرش  ماچس بنادیا گیا تھا ،یا آج کا قانون جس کے فیصلے سے یہ نوجوان آج آزاد ہے پر کیا یہ معاشرہ اسے قبول کر سکے گا

، تو چلیں آج اس خبر کے پیچھے چھپے سچ کو ہم آج ارمان علی سے ہی جانتے ہیں،،

السلام علیکم کیسا محسوس کر رہے ہیں ارمان علی صاحب پانچ سال بعد دوبارہ آزاد زندگی گزارتے ہوئے

وعلیکم السلام ،،،کیسا محسوس کر رہا ہوں شاید کچھ بھی نہیں مجھے لگتا ہے میرے محسوسات اب مر گئے ہیں، مجھے کوئی خوشی کسی آزادی کا  احساس نہیں محسوس ہورہا،،ایسا لگتا ہے ابھی یہاں کوئی  آئے گا  اور مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا جائے  گا اور میں آج بھی کچھ نہیں کر سکوں گا،،

میں پانچ سال اس جرم کی سزا کاٹ کر آیا ہوں جو میں نے کئے ہی نہیں تھے،،، جھکی  نظروں  کے جواب  نے اینکر کے بھی دل پر اثر چھوڑا تھا،،،

تو آپ کس کو اس سب کا اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں،،؟ انشال آفندی نے سوال کیا ،،

اس سسٹم کو یہاں کے قانون کو جس پر بات بھی کریں تو توہین عدالت لگ جاتی ہے میں ثبوت ہوں اس قانون کے اندھے پن کا،، میں نے پانچ  سال بے گناہ جیل کاٹی یہاں قاتل آزاد گھومتے ہیں 

یہاں بد قسمتی سے سارے ادارے ہی کرپٹ ہیں ،،

(زعیم قاضی کی کنپٹی پر رکھ کر گن چلائی تھی عیش رحیم کے سامنے ،،، اور وہ عینی شاہد ہونے کے باوجود خاموش تھی وہ کیا کہتی قاتل تو جیل میں دہشت گردی کی سزا کاٹ رہا تھا،،، عیشا  آج خود زعیم قاضی کے قتل کے الزام میں جیل میں تھی) 

 تلخی سے گردن جھٹک کر اگلے سوال کی طرف متوجہ ہوا،،

میڈیا ٹرائل نے میرے کیس کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی مجھے ملک دشمن بنا دیا تھا میری ذات پر اتنا بڑا کوئسچن مارک لگا دیا گیا ،،

یہاں کسی بھی عدالتی فیصلے سے پہلے میڈیا کی عدالت ہی ہماری عزتوں کے جنازے نکال دیتی ہے ،،،

میڈیا تو خبر کے ہر پہلو کا تجزیہ کرتا ہے سر ،،  فیصلہ تو عوام دیتی ہے؟؟؟ انشال نے مسکرا کر کہا

عوام کے سامنے جس طرح آپ لوگ اور الجھا کر پیش کرتے ہیں جو اشتعال آپ کے سوالوں کے بعد عوام میں آتا ہے یہ سب بھی کسی بھی انسان کو اچانک آسمان سے زمین پر پٹخ دیتا ہے،،، دو ٹوک انداز میں کہا

کیا آپ حیدر عباس اور زعیم قاضی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رہے ہیں؟؟

نہیں میں جیل ، کورٹ کچہری سے بہت تھک گیا ہوں میں اب سکون سے اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں ،،

زعیم قاضی کو اللّٰہ ان کے کئے کی سزا دے چکا ہے اور حیدر بھائی میرے بڑے بھائی ہیں میں انھیں اپنے ساتھ کی گئی ہر ذیادتی کے لئے معاف کرتا ہوں اور دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوں ویسے بھی وہ جس کرب سے گزرے مجھے ان کے دکھ کا اندازہ ہے، ہاں ایک شکایت ضرور ہے ان سے کاش وہ ایک بار میری بات بھی سن لیتے کوئی اور مجھے نہیں جانتا تھا پر وہ تو مجھے بہت اچھے سے جانتے تھے  وہ ،میرے آئیڈیل تھے میں نے بہت کچھ ان سے  بہت کچھ  سیکھا  تھا،،،، لوگ مجھے ان کی پرچھائی کہتے تھے ،کیا ان کا عکس اتنا دھندلا ہوسکتا تھا،،، ارمان علی  دکھ سے مسکرا کر گویا ہوا

(گھر پر ٹی وی کے سامنے بیٹھے حیدر عباس کی آنکھوں میں آنسو تھے کانوں میں ارمان کی آواز گونجی !

میں آپ کے باہر جانے کے انتظامات کروا رہا ہوں،، امید کرتا ہوں آپ سجل سے میری شادی میں خوش اسلوبی سے شرکت کریں گے ،،میں آپ کو یہاں سے بغیر کسی انویسٹیگیشن کے آرام سے نکلوا سکتا ہوں ورنہ جو کچھ آپ کی پارٹی کر چکی ہے آپ لوگوں کو کم از کم اگلے پانچ سال کیسیز کا ہی سامنا کرنا پڑے گا،،،" بس اب آپ کا آشیانہ اور سجل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ،،

سرد لہجے میں  کہتے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا،،)

انشال کے اگلے سوال نے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا

"حامد درباری آپ کے جگری دوست تھے جنہوں نے آپ کو اس سارے میس میں پھنسایا تھا کیا آپ ان کے لئے کچھ کہنا چاہیں گے انھوں نے ایسا کیوں کیا،،،؟ کیا اس کی وجہ عیشا رحیم تھیں؟

"حامد  میرا سب سے اچھا دوست تھا ہمارا  بچپن سے ساتھ تھا ،، مجھے کبھی پتہ ہی نہیں چل سکا کہ حامد مجھ سے حسد کی آگ میں اتنا اندھا ہوگیا ہے اسے آشیانہ چاہیے تھا اس کی غیر قانونی فنڈنگ  کے لئے  وہ اپنے جرائم کو آشیانہ کی آغوش میں  رہ کر کرنا چاہتا تھا

  میں اسے کافی بار وارن کر چکا تھا  اس کی کزن اس کے ہر کام میں مددگار رہی ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ زعیم قاضی اور حامد کے بیچ وجہ تنازع بھی عیشا رحیم بنی،،کیونکہ دونوں کا ہی قتل بہت پر اسرار انداز سے ہوا ہے اور  زعیم قاضی کے فارم ہاؤس پر عیشا رحیم کی موجودگی  بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے،،

(سجل کے ساتھ جو کچھ تو نے کیا ہے درباری  اس کی سزا تو دنیا میں ہی بھگتے گا میں تجھے اتنی ہی اذیت دوں گا" 

مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو ازلہ بھی تو کر رہا ہوں  سجل سے نکاح کر رہا ہوں ،، حامد نے احسان جتاتے لہجے میں کہا تھا

یہ کافی ہے ایک لڑکی کی پوری زندگی برباد  کر دو اسے عزت سے جینے کے قابل نہیں چھوڑو اور پھر اس پر احسان کرتے ہوئے نکاح کر لو  پھر تو یہ ہر شخص کر لے کسی کے ساتھ بھی زبردستی کرو اور بعد میں نکاح کر لو  حامد،، تم نے مجھ سے بدلے کے لئے مجھے آشیانہ سے  نکالنے کے لئے یہ سب کچھ کیا،، آرام نے کڑوا سیال اپنے اندر اتار کر گلاس ٹیبل پر رکھا

اس کی آنکھوں میں اب نشے کے ساتھ درد بھی واضح تھا

مجھے یہ نہیں پتا تھا تم  واپس آجاو گے اگر تو آسٹریلیا چلا جاتا تو آشیانہ اور سجل دونوں آسانی سے میرے حصے میں آجاتے تیری فیملی کو بھی میں سیو کر دیتا پر تو نے گرفتاری دے کر سارا گیم بگاڑ دیا تھا، ،، تجھے پہلے بھی سمجھایا تھا  پر تو نہیں سمجھا ،، اب بھی کہہ رہا ہوں چھوڑ دے آشیانہ ،،حامد نے نخوت سے کہا

( تم لوگوں نے مجھے اس گیم سے نکالا میں جس کا گیم چینجر تھا میں اس گیم میں صرف واپس نہیں آیا ہوں اب جیتوں گا بھی یہاں مہرے بھی میرے ہوں گے اور چال بھی،، حامد درباری کی لاش کو لات مارتے ہوئے کہا تھا)

(آشیانہ کے گیٹ پر بے کفن حامد درباری کی لاش نے لوگوں کو لرزا دیا تھا اس کے جسم پر زخموں کی گنتی محال تھی ) 

ارمان لمحے کے لئے خاموش ہوا پھر گلا کھنکھار کر دوبارہ گویا ہوا

،حامد درباری  عیشا رحیم اور زعیم قاضی کو بلیک میل کر رہا تھا،، وہ اس ساری گیم کا ماسٹر مائنڈ تھا مجھے راستے سے ہٹانے کے بعد وہ اب ان دونوں کو بھی ختم کرنا چاہتا تھا تاکہ اس کے خلاف کوئی بھی گواہ نہیں رہے،،،اس کی نظر آشیانہ اور حیدر عباس کے گھر پر تھی ،،،

بہت بے تاثر لہجے میں ارمان علی کوئی کہانی سنا رہا تھا،،،،

"آپ کی گرفتاری کے جب ورانٹ نکلے آپ اس وقت آسٹریلیا جانے والے تھے اگر آپ فلائٹ پر سوار ہوجاتے تو اس سارے میس میں پھنستے ہی نہیں؟ ایک اور اہم سوال انشال نے کیا

"میں بے گناہ تھا کیوں بھاگتا،،

"میری فلائٹ  تھی لیکن  کچھ واقعات نے سوچنے پر مجبور کر دیا  مجھے لگا یہ کوئی سازش ہورہی ہے  جس کے تانے بانے کافی پہلے سے بنے جارہے ہیں 

ڈاکٹر راحیل چوہان کی بات نے مجھ پر سارے راز منکشف کر دئیے اور میں نے سوچا کہ اگر میں چلا گیا تو یہ آخری موقعہ  بھی ضائع کر دوں گا   اس مجرم کو بے نقاب کرنے کا مجھے خود کو  اور اپنی کزن کو بے گناہ ثابت کرتے ہوئے ایک اور مظلوم لڑکی کو بھی  انصاف دلانا تھا ،،،

تو میں صرف خود سے وابسطہ ان  لڑکیوں کے لئے ہی واپس آیا تھا،،،اپنے گھر والوں کے لئے آیا تھا،،،

"پھر آپ فورا واپس کیوں نہیں آئے آپ کو پولیس نے کابل بارڈر سے گرفتار کیا ؟،،، ایک تیر کی طرح تیز  سوال  اٹھایا تھا،،،

میں اس بارے میں اب کیا کہوں سوائے اتنی سی بات کہ اگر یہ سب سچ مان بھی لیا جائے تو پہلا سوال میں کابل بارڈر پہنچا کیسے جب کے میرے وارنٹ نکل چکے تھے ہر چیک پوسٹ پر ناکہ بندی  تھی ،، ،  یہ آپ بھی جانتی ہیں یہاں گرفتاریاں کس طرح ہوتی ہیں کس طرح لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر تیار کرکے میڈیا کے سامنے بیٹھایا جاتا ہے،،،

،، ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی کے لئے ضروری ہے ادارے   سیاست سے لاتعلق ہوں ،پولیس  اس ہی شہر سے ہو ،، پر اس بات پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی سیاسی انتقام کے لئے سیاسی تبادلے کیے جاتے ہیں،،

ہنس کر ماحول کے بوجھل پن کو ختم کیا 

یہاں ہر ادارہ کرپٹ ہے ،، یہاں جائز کام کے لئے بھی لوگوں کو رشوت کھلانی پڑتی ہے،،،

( ائیر پورٹ سے ارمان علی سیدھا ان ہی بدنام زمانہ لوگوں کے در پر گیا تھا جنہیں لوگ دہشت گرد کہتے  ہیں وہ  ایک بار ان کی آفر ٹھکرا کر آیا تھا،،،

پر اس بار اسے مدد چاہیے تھی اپنے خاندان کو باہر نکالنے کے لئے اور  اصل مجرموں کو کفر کردار تک پہنچانے کے لئے،،، وہ اس جماعت کے لوگوں سے مدد مانگ رہا تھا جن سے تعلق کا جھوٹا الزام لگا تھا)

ارمان علی نے اپنے ساتھ ہوتی ناانصافیوں کے بعد کراچی میں عزت سے رہنے کے لئے چار قسم کے  لوگوں سے بہت اچھے اور قریبی تعلقات بنائے تھے ،پولیس ، ججز، سیاسی جماعتوں  کے کارکن، اور غنڈے ( بھائی لوگ) اور وہ اس پورا ہفتہ ان لوگوں سے ہی خفیہ ملاقاتیں کرتا رہا تھا اور جب اسے یقین ہوگیا یہ سارے اس کے ساتھ ہیں اس نے ازمیر لودھی سے ملاقات کی کو اپنے خاندان کی ذمہ داری اسے سونپ کر خود پولیس کو گرفتاری دے دی،، کیونکہ وہ کچھ وقت سکون سے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے حکومت کی مدت پوری ہونے کا انتظار کرنا چاہتا تھا،،،،،)

کیا ارمان علی ایک بار پھر سیاست میں آنے والا ہے،،،؟

"ہر گز نہیں  جب تک صرف چہرے بدلیں گے اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا یہاں نظام بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ مجرم اور ملزم کا فرق مٹ جائے گا "

(اور ارمان علی کو یہ سب کہتے  اپنے جرم یاد آئے جو اس نے جیل کی چار دیواری میں قید رہتے ہوئے کئے ایک درد کی لہر اٹھی تھی

وہ جب جیل گیا تھا تو بے گناہ تھا اور جب باعزت بری ہوا تھا تو تین  قتل کئے تھے اور ناجانے اور کتنے جرم کرتے ہوئے آج سر اٹھا کر بیٹھا تھا)

"حکمرانوں سے زیادہ یہاں عوام کی تربیت کی ضرورت ہے میرے ملک میں ایمان دار ہونا مشکل نہیں ہے اس ایمان داری پر قائم رہنا مشکل ہے 

یہاں وہ لوگ زیادہ ہیں جو آپ کو ایک بار  غلط کام کرتے ہوئے نہیں روکیں گے پر ہاں اس ایک  اچھے کام کو روکنے  کے لئے وہ آپ کے سامنے ڈٹ جائیں گے جس سے ان کا نقصان ہو رہا ہو

یہاں سب کو بہت جلدی سب کچھ چاہیے تو انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ ایمانداری کی ڈیمانڈ کریں ہم سب بلیم گیم کھلتے ہیں

تو پھر اب آپ نے کیا کرنا ہے ؟؟؟ انشال نے سوال کیا

میں اب ایسا کام کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی اور ارمان علی سے عرش ماچس نہیں بنے 

مجھے اپنے جیسے ہی نوجوانوں کے ساتھ مل کر نئی نسل  کی  ذہن سازی کرنی ہے مجھے ان بڑی مچھلیوں اور مگرمچھوں  سے مقابلہ نہیں کرنا خود کی اصلاح کرنی ہے ، لوگوں کو سمجھانا ہے کہ سب سے پہلے ان کی عزت ہے،، اور کسی چیز کی نہیں

آن ائیر کا کیو ملتے ہی  سوالات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا!

Well come back 

 آپ پر کچھ دوسرے قسم کے الزام بھی لگے تھے 

 جیسے عیشا رحیم نے آپ پر  ہراس منٹ کا الزام لگایا تھا ؟ اور  ایک دو لڑکیوں کا بھی ذکر کیا اور ان کے بیان کے مطابق آپ کے حیدر عباس کی بہن کے ساتھ،،،؟ سوال پورا ہونے سے پہلے ہی وہ سرد آواز میں بولا 

میں عیشا رحیم کو  زیادہ نہیں جانتا بس ان سے   حامد کی کزن اور آشیانہ کی ایک ورکر کی حیثیت   تھوڑی  سی واقفیت تھی مجھے ان کا  بیان  سن کر حیرت ہوئی تھی  

عیشا رحیم  کی شادی ہمارے ایک کولیگ سے ہوئی اس سے زیادہ میرا ان  سے کوئی تعلق نہیں تھا  ہماری تو بات بھی بہت کام ہوتی تھی،، انھوں نے یہ الزام شاہد حامد کے مجبور کرنے پر لگائے ہوں  وہ دونوں کرائم پارٹنر  تھے  حامد اور ان کے درمیان بہت سے سیکرٹ تھے  جو وہ چاہتی تھیں ان کے سابق شوہر کو پتہ نہیں چلیں اور اس لئے ہی وہ حامد کے ہاتھوں کھلونا بن گئیں،،،

( ارمان پلیز مجھے معاف کر دو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی تم جو بیان دینے کے لئے کہو گے میں  دوں گی پلیز ایک بار مجھے معاف کر دو،،، عیش اس کے کندھے سے لگی رو رہی تھی،،،)

  ،ارمان سے شجاع ، شجاع سے حامد ، حامد سے  زعیم   اور زعیم  سے پھر ارمان ہاہ

عیش تم  تو بازار میں بیٹھی اس عورت سے بھی بدتر نکلی جو مجبوری میں اپنا سودا کرتی ہے ،، جھٹکے سے خود سے الگ کیا،،،

تم نے ہمشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دوسرے کو چھوڑا اور اس سے بہتر کی جانب بڑھیں مگر جاتے ہوئے ہمشہ اس انسان کو مٹی کر گئیں ،،،

میرے ساتھ جو کیا اس کے لیے معاف کر بھی دوں تو سجل کی بربادی پر تمھیں کبھی معاف نہیں کرسکتا

وہ تم ہی تھیں جس نے شمع آنٹی کو سلطنت بن کر فون کیا تم سجل کے میرے گھر سے اغوا میں شامل رہیں تم نے سجل کو میسج کیا  اور وہاں سے باہر بلایا کیوں کہ تمھیں ہی پتا تھا میں سجل کو کیا کہہ کر بلاتا ہوں،،،  تمھیں ہی حامد نے فون کر کے مشن کی کامیابی پر شکریہ کہا، کوئی عورت اتنی سخت دل کیسے ہو سکتی ہے کہ  خود کو بچانے کے لئے ایک اور  عورت کی عزت کا سودا کر دے،،

اب آپ کے کیا ارادے ہیں؟

انشال آفندی کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی  وہ چونکا ،،چہرے پر کرب تھا،،،

"ہم اس چودہ اگست آشیانہ میں میگا ایونٹ کر رہے ہیں اور اس دن ہی حیدر بھائی مجھے آشیانہ کی لیگل اتھارٹی دے رہے ہیں دراصل حیدر بھائی کی صحت اب انھیں اجازت نہیں دیتی کے وہ آشیانہ سنبھال سکیں اس لئے انھوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپ دی ہے،،

 تو میری ان سارے آشیانہ ممبرز سے گزارش ہو گی کہ وہ لوگ جو  آشیانہ چھوڑ گئے ہیں  دوبارہ آشیانہ  واپس آجائیں

کم از کم چودہ اگست سیلبریشن  کے لئے  ہم آزادی کا یہ دن پہلے کی طرح منانا چاہتے ہیں ،،

 یہ گھر آج بھی ان کا منتظر ہے ہم مل کر آشیانہ کو اس ہی مقام پر لائیں گے، اس چودہ اگست ہم عزم کریں گے کہ ہم اپنے گھر پر دوبارہ کسی کی میلی آنکھ نہیں اٹھنے دیں گے،،،

ہم ہی سے اس ملک کی قسمت بدلنی ہے

ہم ہی اس ملک کی نئی تاریخ لکھیں گے

""""""""""

لندن میں بیٹھی سلطنت نے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں صاف کئے پھر برابر میں بیٹھے اپنے خوبصورت شوہر کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا

"پھر "سلطنت پاکستان"  اجازت ہے میں جاسکتا ہوں نا پاکستان  اب تو آپ  کوئی لڑائی نہیں کریں گی ،بلکہ آپ بھی ساتھ چلو میں سنی کو دیکھانا چاہتا ہوں اس کی ماما کس طرح یہ دن مناتی تھیں،،

پلیز یارمن مجھے میری سلطنت واپس دے دو، دیکھو کہ وطن ہمیں  بلا رہا ہے،،،،،، کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے خود سے قریب کیا

سلطنت نے سر ازمیر لودھی کے کندھے پر رکھتے ہوئے مسکرا کر آنکھیں موند لیں،،،

نظروں میں بہت سے خوبصورت یادگار لمحے گھوم گئے تھے،،،)

 آخر میں ارمان علی نوجوان نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے،،،انشال آفندی نے مسکرا کر کہا

صرف اتنا ہی کہ خود پر یقین کریں ،،اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے کسی کا انتظار نہیں کریں

ہمیں مشکلات سے صرف ایک انسان نکال سکتا ہے اور وہ انسان ہم خود ہوتے ہیں،، سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے  اب وہ  خاموشی سے انشال آفندی کا خوشی سے چمکتا چہرہ دیکھ رہا تھا

 جس کے کہنے پر وہ آج یہاں بیٹھا تھا وہ لڑکی  جو اس کو بہت عزیز تھی ،،،

بہت شکریہ ارمان صاحب آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا اور اپنے بارے میں بہت کچھ ہم سے شئیر کیا جو لوگ نہیں جانتے تھے

اب یہ فیصلہ لوگوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ عرش ماچس کے چہرے میں چھپے اس  ارمان علی کو پہچان سکے ہیں وہ ارمان جو سراپا محبت ہے،،،

انٹرویو ختم ہوچکا تھا

پیک اپ کے بعد انشال آفندی روم سے باہر جارہی تھی جب ارمان  علی کی آواز پر رکی

"کشو ایک کپ چائے اور مل سکتی ہے گھر پر تمھارے ہاتھ کی بدمزہ چائے سے بہتر ہے یہاں سے ہی  چائے پی کر جاؤں ،،، نظریں جھکائے سرگوشی سے تھوڑی بلند آواز میں کہے جملے نے انشال آفندی ( کشور جہاں) کو گھورنے پر مجبور کر دیا

وہ نیچے نظریں کئے مسکرا رہا تھا،،،

چائے کا آرڈر دے کر وہ  وہاں سے چلی گئی

 اسے  جلدی تھی  کیونکہ  اسے ائیر پورٹ جانا تھا  اپنے شوہر عامر حیات اور اپنے بچوں   کو لینے،،،

وہ آج پاکستان آرہے تھے،اور پھر انھیں حیدر عباس کے گھر ارمان علی کی شادی کی تاریخ لینے   جانا تھا

جو پہلے سے طے تھی

14 اگست

#####

ارمان  نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے  ساتھ ہی گانا بھی پلے کیا

اب گاڑی میں شھزاد رائے کا گانا "نازک موڑ  "چل رہا تھا 

بچپن سے یہ ملک نازک موڑ سے ہی تو گزر رہا ہے پتہ نہیں کب یہ موڑ ختم ہوگا،،،

ارمان نے گردن کو جھٹکا دیتے گانے کے بول ساتھ گنگنانے شروع کئے،،

بزرگوں  نے  مجھ سے پوچھا ملک کیسے یہ چلے گا

بزرگوں سے میں یہ بولا 

مجھے فکر یہ نہیں یہ ملک کیسے چلے گا

مجھے فکر یہ ہے کہ یہ ایسے ہی نہیں چلتا رہے،،،

لگا رہے لگارہے تو لگارہے 

کھڑا رہے کھڑا رہے تو کھڑا رے

ایک تلخ مسکراہٹ ارمان علی کے ہونٹوں کو چھو کر معدوم ہوئی،،،

"حیدر بھائی میں نے آپ  کی فلائٹ بک ہوگئی ہے

اس مہینے کی 28 تاریخ  صبح پانچ بجے،،، میں چاہتا ہوں چودہ اگست کو آپ سجل سے میرے نکاح کے بعد   یہاں سے چلے جائیں

یہ آشیانہ اب میں سنبھال لوں گا جسے آپ نے برباد کر دیا ہے،،، ژالے قاضی کو  ٹکٹس دیتے ہوئے بات  مکمل کی،،،

لگا رہے تو لگارے لگارے 

کھڑا رہے کھڑا رہے تو کھڑا رہے،،،

آے بھائی 

تو بھی نازک موڑ بن گیا ہے 

ٹس سے مس نہیں ہوتا،،،،

،،،،

آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں مجھ سے شادی،،، صرف آشیانہ کے لئے؟

سجل نے سامنے آکر بنا ڈرے سوال کیا تھا، 

ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹھکا تھا 

"مجھے آشیانہ ویسے بھی مل جائے گا  آپ سے نکاح کی وجہ آشیانہ نہیں ہے،"،،

نظر جھکا کر کہا

"یہ ہی تو پوچھ  رہی ہوں آپ کیوں  کرنا چاہتے ہیں جب کہ بھائی نے آپ کے ساتھ اتنا برا کیا ہے،،، وہ سراپا سوال بنی کھڑی تھی

"آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میرے گھر ہوا میری وجہ سے ہوا بلواسطہ یا بلا واسطہ میں شامل رہا سب میں،، وہ میسج  جس نے بھی کرتے ہوئے آپ کو بلایا  پر وہ انداز میرا تھا آپ اس میسج پر باہر آئی تھیں ،،، جھکی نظروں سے ایک اور اعتراف کیا

 اس میسج کے بارے میں  آپ جانتے  ہیں  کس نے کیا تھا وہ میسج  یہ بات  تو کوئی نہیں جانتا تھا آپ مجھے  کیا کہتے ہیں اور میں  وہ نام پڑھ کر  ہی باہر آئی تھی ،،(نالائق ،)،؟

وہ چونکی  کیونکہ یہ بات تو اس نے کسی کو بتائی ہی نہیں تھی،،

سیم اس وقت ہی مجھے بھی کسی کا میسج آیا تھا تاکہ میں وہاں سے چلا جاؤں  تو اس سے ہی مجھے لگا ورنہ آپ باہر کیوں آتیں

،،ہلکے سے گردن جھٹکی،،

"پر آپ وہ نہیں تھے ،یہ میں جانتی ہوں میں اپنے مجرموں کو بھی جانتی ہوں،،،، سجل نے نم آواز میں کہا

"میں نہیں جانتا اور نہ ہی جاننا چاہتا  ہوں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا کون ہیں  آپ کے مجرم ،میں آگے بڑھ گیا ہوں سکون سے اپنی نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں بہت تھک گیا ہوں

  آپ  بھی ساری باتیں چھوڑیں   شادی کی تیاریاں کریں صرف کچھ دن رہے گئے ہیں ہماری شادی میں ،،،

وہ جانے کے لئے مڑا،،، 

میں آپ کے قابل نہیں ہوں" سر"

لفظ"  سر " پیروں کی زنجیر بنا تھا،،  

اس معاشرے میں میری کوئی عزت نہیں ہے    میں کبھی سر اٹھا کر آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی ،،، آپ کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتی

آپ نے شاید مجھے چلتے ہوئے نہیں دیکھا ،ابھی یہاں سے جاؤں تو دیکھئے گا میں تو اپنے قدموں پر کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ایک ٹانگ سے معذور ہوں، میری چال سے آپ چال ملا لیں گی،،،

 اور جہاں تک عزت کی بات ہے وہ تو میرے پاس بھی نہیں ہے پانچ سال کی جیل کاٹ کر آیا ہوں ،، ماتھے پر بہت بڑا کوئسچن مارک بنا ہے

   حقیقت  میں تو میں آپ کے قابل نہیں ہوں ،،،وہ بہت آزردگی سے بولا

،،،لیکن آپ سے شادی  حیدر عباس  سے میرا  بدلا بھی ہوسکتا ہے؟ ،،،

سجل نے چونک کر سر اٹھایا

وہ اس کو ہی دیکھ رہا تھا ہمشہ جھکی رہنے والی نظریں آج اس کے چہرے پر جمی تھیں  پر ان آنکھوں میں بہت خوبصورت تاثر تھا،،،سجل نے آنکھیں جھپکائیں،،،

 حیدر عباس کو  آشیانہ سے  بے دخل کرتے ہوئے اس کی اس بہن سے شادی کر رہا ہوں جس کا نام لینے کا حق بھی چھین لیا تھا گھر اور آشیانہ  آنے  پر بھی پابندی لگا دی تھی

پر قسمت کی ستم ظریف دیکھو ان پانچ سالوں میں کوئی وقت ایسا نہیں تھا جب مجھے سجل عباس یاد نہیں آئی ہو ،،

کہتے ہوئے اپنی آستین فولڈ کی 

کلائی پر مضبوطی سے بندھی گھڑی نے سجل کو برف کا مجسمہ بنا دیا

 سجل عباس میری قید تنہائی کی ساتھی رہی ہے  ہر پل مجھے  میری بے نالائق  اسٹوڈینٹ یاد آتی تھی  اس قفس میں ایک روزن  تھا اس کا احساس ،،

ہر رات سونے سے پہلے اس کا خیال میرے ساتھ ہوتا تھا  اور وہ لڑکی مجھے میٹھی نیند سلا دیتی تھی،،،

تو اتنا شریف تو میں بھی نہیں ہوا ،،،ہنس کر اس کے گال کو نرمی سے چھوا 

برف کا مجسمہ موم کی طرح پگھلا

 وہ  دیوتا روم سے باہر جارہا تھا اس لڑکی کو معتبر کرکے،،،

،،،،،

"بزرگوں نے مجھ سے پوچھا

نیک کون ہے یہ تو بتا

بزرگوں سے میں یہ بولا

نیک ؛؛؛؛؛ ک ککک

نیک وہ ہے جسے موقعہ نہیں ملا،،،،،

ایک  خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اب ارمان علی  آشیانہ کے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا،،

" نہیں  میں اس ملک پر حکمرانی نہیں کرنا چاہتا جہاں عوام بھی کرپٹ ہے  یہاں سب کی اپنی ترجیحات ہیں یہاں صرف اپنے لیڈر کی محبت ہے ملک جائے بھاڑ میں  بس ان کے لیڈر کو کچھ نہیں کہو اس لئے ہی ہر لیڈر بے دھڑک ہو کر ملک کو لوٹ رہا ہے اسے پتا ہے اس کے بے وقوف فولوورز اس کے جرم کی اس سے پہلے صفائی دیتے ہوئے مرنے مارنے پر تل جاییں گے

گالی کی سیاست یہاں عام ہو چکی ہے

مجھے اپنی ماں بہن کو گالی نہیں نکلوانی

یہاں لوگوں کی سوچ کا یہ عالم ہے کہ

کوئی کہتا ہے کیا ہوا ہمارا لیڈر کرپٹ ہے " کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے"

تو کوئی کہتا ہے" اگر ہمارے لیڈر نے کرپشن کی ہے تو کیا پہلے والوں نے نہیں کی تھی"

اور بعض جگہ تو بس کسی سوچ کسی شعور  کے بجائے بس نسل در نسل ایک ہی جماعت کو لانا ہے کہ یہاں عوام بس مردہ ہے پر لیڈر زندہ ہے،،،

یہاں جس کو جتنا موقع ملتا ہے وہ اتنی کرپشن کرتا ہے ،،، حکمران سے لے کر عوام تک ہم سب ایک کرپٹ قوم بن چکے ہیں مفاد پرست،،

"اس قوم  کے حاکم خود اس کی سزا ہی

گاڑی اب گیٹ کے اندر داخل ہو رہی تھی

گانا اب ختم ہو نے والا تھا

"لگا رہے لگارہے تو لگارہے 

سر  میرا خیال ہے قوم کو جگانے کا وقت آگیا ہے

انھیں مت  جگانا !!!!  یہ ضروری کام سے ،،،سو رہے ہیں!!!!

وہ گاڑی سے اتر رہا تھا جب گانے کے بول نے رکنے پر مجبور کیا

ایک قہقہ ارمان علی کے لبوں سے آزاد ہوا

اب وہ آشیانہ میں موجود اپنے دوستوں سے گلے مل رہا تھا آنکھوں میں آنسو تھے پر چہرے پر ہنسی تھی،،،

آشیانہ میں جشن آزادی کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں،بہر طرف جھنڈیاں اور پرچموں کی بہار تھی

آشیانہ کے صحن میں کچھ لڑکے اور  لڑکیاں بڑا پرچم  لگا رہے تھے جو ہوا سے ادھر ادھر گر رہا تھا 

ارمان ان لوگوں کی طرف بڑھا

اب ارمان علی مضبوطی سے وہ سبز ہلالی  پرچم باندھ رہا تھا

٫٫٫٫٫٫

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Baaghi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Baaghi written by Dj. Baaghi by Dj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages