An Kahi Mohabbat By Pakeeza Maaz New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 9 August 2024

An Kahi Mohabbat By Pakeeza Maaz New Complete Romantic Novel

An Kahi Mohabbat By Pakeeza Maaz New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

An Kahi Mohabbat By Pakeeza Maaz Complete Romantic Novel


Novel Name: An Kahi Mohabbat

Writer Name: Pakeeza Maaz

Category: Complete Novel

سوزین میری جان اُٹھو ناشتہ تیار ہے سکول کے لیے دیر ہو رہی ہے ماما بس دو منٹ سوزین نے مندی آنکھوں سے جواب دیا ۔ دو منٹ دو منٹ کرتے آپ نے بیس منٹ کر دیے سوزین مروہ نے لہجے میں تھوڑی سختی سمو کر کہا  اوکے ماما سوزین بند آنکھوں سے اُٹھ کر بیٹھ گئی جلدی سے فریش ہو کر کچن میں آؤ میں آپکا لنچ باکس ریڈی کرتی ہوں مروہ بولتی ہوئی روم سے نکل گئی ۔کچھ ہی دیر میں سوزین یونیفارم پہنے فریش فریش سی کچن میں رکھے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔ ماما آج میں عائزہ کے لیے بھی نگٹس لے کے جاؤں گی سوزین نے دودھ کا چھوٹا سا گھونٹ بھرتے مروہ کو اپنی رات والی بات ایک بار پھر سے یاد دلائی اوکے گڑیا مروہ نے لنچ باکس بند کرتے ہوئے کہا ابھی وہ مروہ کو کچھ اور کہتی کہ بیل کی آواز نے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا دیکھا آپ نے انکل آپکو لینے آگئے جلدی چلیں مروہ بیگ اٹھاتی سوزین کا ماتھا چوم کر باہر کی طرف آئی اسے وین میں بیٹا کر واپس اندر آئی تھی اور سعدیہ بیگم کا ناشتہ بنا کر ٹرے میں رکھتی ان کے کمرے کی جانب بڑھی تھی امی ناشتہ کر لیں اس نے تسبیحِ پڑھتی سعدیہ بیگم کو دیکھ کر کہا چلی گئی سوزین سکول انھوں نے ٹری ٹیبل پر رکھتی مروہ کو دیکھ کر پوچھا ۔ جی چلی گئی ٹرے میں سے اپنا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے مروہ نے جواب دیا سعدیہ بیگم نے  ناشتہ کرتے سر ہلا دیا مروہ بھی اب ٹی وی پر لگی تلاوت سننے میں مصروف ہو چکی تھی

___________________________________

بیٹا آپ نے گلدانوں میں تازہ پھول لگا دیے ہیں صدف بیگم نے کپڑے استری کرتی ملازمہ سے پوچھا جی میں نے سارے گھر کے گلدانوں میں تازہ پھول لگا دیے ہیں ۔وہ سر کو خبنش دیتیں باہر نکلی تھیں ۔ سجاد ۔۔ سجاد وہ باہر آتی ہوئی ملازم کو آوازیں دے رہی تھیں۔ جی بی بی جی سجاد ان کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا ۔ آپ اینٹرس کو اچھی طرح سے ڈیکوریٹ کر دیں یہاں پھول لگائیں وہ سجاد کو بتاتی ہوئی اندرکی طرف بڑھی تھیں۔ آج تو رابعہ بیگم کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ارے بیگم آپ  اتنی پریشان نہ ہوں راحیل صاحب سامنے سے آتے انکو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہ رہے تھے ۔ آپ جانتے تو ہیں پورے آٹھ سال بعد وہ اس گھر میں واپس آرہا ہے اور مودی بھی تو بہت ہے آپکا بیٹا نا جانے کب کونسی بات بری لگ جائے ۔ راحیل صاحب نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور ان کو لے کر کمرے کی طرف بڑھے سب ٹھیک ہوگا آپ بلاوجہ پریشان مت ہوں وہ ان کو سمجھاتے ہوئے ان کے ساتھ چل دیے۔ وہ روم میں بیٹھی تھی کہ زوہا ان کے کمرے میں آئی کیسی لگ رہی ہوں وہ اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھی رابعہ بیگم سے پوچھ رہی تھی۔  ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ بیٹا انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ائیرپورٹ کے لیے کب نکلنا ہے زوہا نی آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ حاشم نے کسی کو بھی ائیرپورٹ آنے سے منع کیا ہے انکا کہنا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ آجائیں گے۔ اور ڈرائیور انکو لینے کے لیے نکل چکا ہے اب تک تو آنے والے ہونگے وہ لوگ آپ ایک بار انکا روم چیک کر لیں بیٹا کسی چیز کی کمی نہ رہ گئی ہو ویسے تو سلمہ نے سب دیکھ لیا ہے لیکن آپ جانتی ہیں نہ کہ اگر کوئی کمی رہ گئی تو وہ ملازمین کی شامت بلا لیں گے رابعہ بیگم نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔ آپ آرام کریں میں دیکھ لیتی ہوں کہتی ہوئی وہ روم سے باہر نکلی تھی۔  میں تو ملازمہ ہوں نہ اس گھر کی کبھی یہ کر دو کبھی وہ کر دو وہ باہر کھڑی تیوری چڑھائے خود سے بول رہی تھی

___________________________________

اسلام وعلیکم وہ لان سے اینٹرس کی طرف آتے ہوئے بول رہا تھا وعلیکم السلام کیسا ہے میرا شہزادہ رابعہ بیگم اس کا ماتھا چومتی سر میں ہاتھ پھیر رہی تھی میں بالکل ٹھیک ہو ماما اب وہ راحیل صاحب سے بگھل گیر ہوتا ان کا حال احوال پوچھ رہا تھا ۔ ہائے حاشر زوہا نے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ہیلو  کیسی ہو وہ اس کے بڑھے ہاتھ کو اگنور کرتا پوچھ رہا تھا اب کیا مجھے یہی سے واپس بھیج دیں گے ابھی کوئی اسکی اس حرکت پر غور کرتا کہ وہ شوخے سے کہتا رابعہ بیگم کو اپنے ساتھ لگائے اندر کی طرف بڑھا ۔ راحیل صاحب بھی مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے چلے گئے۔ اکڑو روڈ کہیں کا اتنے سال باہر گزارنے کے بعد بھی بالکل نہیں بدلا وہی پرانی سوچ وہ باہر کھڑی منہ بناتی پاؤں پٹختی اندر کی جانب بڑھی تھی۔  لاؤنچ میں وہ سب بیٹھے باتوں میں مصروف تھے ۔ اب میں آپکو کہیں جانے نہیں دونگی رابعہ بیگم نے حاشم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا کیا آپکا ایک بار بھی دل نہیں چاہا اپنی ماما سے ملنے کا وہ نم آنکھوں سے پوچھ رہی تھیں ماما آپ جانتی تو ہیں پہلے سٹڈی اور پھر جاب کتنا بھی ہو گیا تھا میں لیکن اس سب کے باوجود میں آپکو کتنا مس کرتا تھا آپکو آئیڈیا نہیں ہے آپکی ہیلتھ کی وجہ سے میں آپکو وہاں اپنے پاس بلا بھی نہیں سکا تھا لیکن اب آپ فکر نہیں کریں میں آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤگا وہ لاڈ سے کہتا رابعہ بیگم کے ہاتھ چوم رہا تھا۔ اوریہ ہاشم بھائی کا تو یہاں آنے کا پروگرام تھا وہ آئے کیو نہیں ابھی تک وہ کہتا ہوا اب راحیل صاحب سے محاطب تھا ہاں آنا تو تھا لیکن کوئی ایمرجنسی کام آگیا اس لیے نہیں آسکا وہ سوچتے ہوئے بتارہے تھے۔ ہاشم اور راحیل صاحب کئی بار حاشر کو لندن مل کر آچکے تھے۔ اس لیے ہاشم کی غیر موجودگی کا کسی نے برا نہیں منایا تھا ۔ ٹھیک ہے میں کچھ دیر ریسٹ کر لوں پھر ملتا ہوں آپ سے وہ اٹھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ ہاں بیٹا آپ جاؤ ریسٹ کرو پھر ہم ڈنر ایک ساتھ کریں گے۔ اوکے ماما وہ کہتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھا تھا میں چھوڑ کر آتی ہوں زوہا کہتے ہوئے اس کے پیچھے چلی گئی ۔ کیسا لگا ابھی وہ کمرے میں داخل ہوا تھا کہ زوہا اس کے پیچھے آتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔ اچھا ہے اس نے ادھر ادھر نگاہیں دہراتے کہا میں نے خاص آپکے لیے دن رات لگا کر اس کو سیٹ کیا ہے وہ صفائی سے جھوٹ بولتے کہہ رہی تھی ۔ آپکو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی کوئی بھی کر دیتا گھر میں اتنے ملازم ہیں۔ اس نے اکتا کر کہا اب آپ ایسے تو نہیں کہیں میں نے بہت محنت سے اس روم کو سیٹ کیا ہے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی بول رہی تھی ۔ جی ۔۔ حاشر نے حیرت سے کہا ۔ کیسی لگ رہی ہوں اسکی بات پر وہ گھبرا کر بات بدل گئی ۔ ٹھیک لگ رہی ہیں وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولا تھا بس ٹھیک زوہا نے آنکھیں کھول کر اسکو دیکھا وہ جو صبح سے اس کے لیے تیار ہو رہی تھی اس کےبس  ٹھیک کہنے پر جل بھن کر رہ گئی۔ مجھے کچھ دیر ریسٹ کرنی ہے اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے مسلتا ہوا وہ بولا تھا ۔ اوکے  اکھڑے لہجے میں کہتی وہ باہر نکلی تھی ۔ اس کے نکلتے ہی وہ زور سے دروازہ بند کرتا لمبی  سانس خارج کرتا بیڈ پر دراز ہوا تھا ۔

___________________________________

اسکی آنکھ دروازے پر ہوتی دستک سے  کھلی تو اندازہ ہوا کہ وہ سو چکا تھا جبکہ ارادہ صرف آرام کرنے کا تھا۔  اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو وہ ایک بار پھر سامنے کھڑی اس کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی ۔ کھانا لگ چکا ہے آپ کافی دیر سے سو رہے ہیں ممانی آپکو ڈائٹنگ ٹیبل پر بلا رہی ہیں ۔ تم چلو میں آرہا ہوں حاشر بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولتا دروازہ ایک بار پھر بند کر چکا تھا ۔ بد تمیز باہر کھڑی وہ دروازہ اپنے منہ پر بند ہوتا دیکھ بولی تھی۔اور اپنی کمرے میں بڑھی تھی۔وہ ایک بار پھر اپنا ڈریس چینج کرچکی تھی حاشر شادی تو میں تم سے ہی کروں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے میرا یہاں آنے کا یہی تو ایک مقصد تھا ورنہ میرا دماغ خراب نہیں تھا کہ میں تمہارے اکیلے ماں باپ کی خدمتیں کرتی خود کو آئینے میں دیکھ کر بول رہی تھی ۔ ڈوپٹے کو سیٹ کرتی وہ باہر نکلی تھی اور سیڑھیاں اترتی نیچے ڈائینگ ہال میں آچکی تھی۔  کچھ ہی دیر میں وہ فریش فریش سا ہال میں موجود تھا ماما کہاں ہیں وہ اس کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا میں بلا کر لاتی ہوں۔تم نے تو کہا تھا کہ ماما میرا ویٹ کر رہی ہیں ابھی وہ جانے کے لیے مڑتی کر وہ ایک بار پھر بولا ۔ میں نے سوچا میں سب کو سرپرائز دونگی آپکو کیسا لگا وہ ٹیبل پر رکھے مختلف کھانوں کی طرف اشارہ کرتی بولی تھی۔ وہ غصے سو وہاں سے باہر نکلا تھا کچھ ہی دیر میں رابعہ بیگم کا ہاتھ تھام کر واپس آیا راحیل صاحب بھی ان کے پیچھے ہی تھے۔ ارے زوہا بیٹا آپ نے اکیلے یہ سب کیوں کیا مجھے بلا لیا ہوتا ۔ رابعہ بیگم نے ڈائنگ ٹیبل دیکھتے ہوئے کہا اکیلے کہاں کیا ملازمہ نے کیا ہے سب وہ آہستہ آواز میں بولا تھا اس کی بات بمشکل رابعہ بیگم نے سنی تھی وہ ایک شکایتی نظر پر بیٹے پر ڈالتی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ کوئی بات نہیں ممانی جان میں نے سوچا آپ آرام کر لیں وہ ان کی بات کا جواب دیتی ٹیبل پر بریانی کی ٹرے رکھتی بولی تھی۔ ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان ان لوگوں نے اپنا ڈنر کیا ملازمہ برتن اٹھا ہی رہی تھی کہ زوہا کچن سے ایک باؤل تھامے باہر آئی سرپرائز ایک انداز سے باؤل کو ٹیبل پر رکھتی بولی تھی کھیر ۔۔ رابعہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ جی ممانی جان یہ کھیر میں نے بنائی ہے خاص طور پر حاشر کے لیے بہت محنت سے بنائی ہے ۔ اس کے جھوٹ پر ملازمہ حیرت سے منہ کھولے زوہا کو دیکھنے لگی جو ہر کام کا کریڈٹ خود لے جاتی تھی۔ میرے لیے کیوں بنائی وہ بھی خاص طور پر وہ خاص طور پر زور دیتا پوچھ رہا تھا۔ کیونکہ آپکو تو بچپن سے کھیر پسند ہے اور آج آپکا اس گھر میں اتنے لمبے عرصے کے بعد ڈنر تھا تو کچھ میٹھا تو بنتا ہے نہ اس کی بات پر رابعہ بیگم اور راحیل صاحب مسکرائے تھے۔ لیکن اب مجھے کھیر بالکل بھی پسند نہیں بچپن ختم پسند ختم وہ کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ماما مجھے کچھ کام ہے میں اپنے روم میں ہوں تو پلیز مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے وہ زوہا کی طرف دیکھتا بول رہا تھا ۔ اوکے بیٹا وہ اس کے شانے پر ہاتھ پھیرتی بولی تھیں۔

آج سوزین کے کہنے پر وہ  کچن میں کھڑی پاستا بنا رہی تھی ۔ پاستا حاشر کا فیورٹ تھا سوچتے ہوئے وہ نا جانے کیوں مسکرائی تھی ۔ اسی خیال سے وہ اپنی سوچوں میں کہیں بہت دور نکل گئی تھی۔ سردیوں کی ایک صبح سکول میں برانچ ٹائم میں وہ دونوں گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔ حاشر آج میں کچھ لے کر آئی ہوں تمھارے لیے وہ مسکراتی ہوئی حاشر کو دیکھتی بتانے لگی ۔

میرے لیے ؟حاشر اپنی طرف انگلی سے اشارہ کرتا پوچھنے لگا ۔ یس تمھارے لیے وہ لنچ بوکس اس کے سامنےکرتی بول رہی تھی ۔ حاشر اپنا لنچ باکس سائیڈ پر رکھتا کنفیوز سا اس کا لنچ باکس کھولنے لگا۔ 

پاستا وہ بے انتہا خوش ہوتے ہوئے جوش سے بولا تھا۔

یہ تو میں ہی کھاؤں گا وہ مروہ کو دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔نہیں ہم دونوں کھائیں گے نہ وہ التجا کرتی ہوئی بولی جیسے جانتی ہو کہ وہ اسے بالکل بھی نہیں دے گا ۔

نہیں میں نے کیا نہ کہ صرف میں کھاؤگا حاشر کھانا سٹارٹ کرتے ہوئے بولا تھا۔

 دیکھو حاشر مجھے بھوک لگی ہے وہ ڈرامہ کرتی رونی صورت بنا کر بولی تھی۔ ہاں تو تم یہ سینڈوچ کھاؤ نہ وہ اپنا لنچ باکس اس کو تھما کر بولا تھا ۔ مروہ جانتی تھی کہ وہ نہیں مانے گا ۔ اسی لیے خاموشی سے اسکا لنچ باکس کھول کر منہ بسورتی سینڈوچ کھانے لگی۔ ابھی وہ اپنے پاستا باکس پر جھکا پاستے کے ساتھ انصاف کر رہا تھا کہ آہ !! کی آواز پر سر اُٹھا کر اس نے مروہ کو دیکھا جو اپنا سر مسل رہی تھی اور فٹ بال اس کو گود میں گری تھی۔ وہ فٹ بال اُٹھائے اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

 سوری ایک لڑکا پاس آتا اس سے بولا تھا اور فٹ بال اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کرنے لگا جب کہ کچھ فاصلے پر کھڑے لڑکے اپنا سر مسلتی مروہ کو دیکھ کر اونچی آواز میں ہنس رہے تھے ۔ حاشر نے فٹ بال پوری قوت کے ساتھ ان لڑکوں میں سے ایک کہ سر پر مارا تھا جو بے تحاشا ہنس رہا تھا ۔ اور پاس کھڑے لڑکے کو دیکھ کر سوری بولتا مروہ کو اُٹھنے کا بول چکا تھا ۔ اس کی اس حرکت پر سب  لڑکوں کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ 

ماما پاستا بن گیا سوزین کی آواز پر وہ اپنے خیالات سے نکلی تھی ۔ بس بیٹا بن گیا ہے آپ باہر ویٹ کرو یہاں بہت گرمی ہے وہ پیار سے سوزین کو باہر بھیج چکی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اس کو گھر آئے آج دوسرا دن تھا اور اس وقت وہ کمرے میں کھڑا دیوار پر لگے اس فریم کو مسکرا کر دیکھتا پرانی یادوں میں کھویا تھا اس فریم میں لگے سفید پیپر پر تین ہاتھوں کے مختلف رنگوں میں پرنٹس تھے۔ ان کے نیچے ان تینوں کے نام لکھے تھے۔ مائدہ حاشر مروہ وہ زیرِ لب ان ناموں کو دہراتے مسکرایا تھا۔  مروہ کے نام پر اس کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ تبھی وہ آئینے میں دیکھتا اپنے بالوں کو سیٹ کرتا کار کیز اٹھا کر باہر نکلا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں اس کی گاڑی ایک گیٹ کے سامنے رُکی تھی گاڑی سے اُتر کر اس نے ابھی بیل دینی چاہی تھی کہ دروازے پر لگے تالے پر اسکی نظر پڑی ۔  یہ کہاں گئے ہیں کب تک آ جائیں گے پاس  سے گزرتے لڑکے کو روک کر حاشر  دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔ یہ تو تین سال سے یہاں سے جا چکے ہیں لڑکے نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بتایا ۔کہاں اور کیوں گئے اس نے ایک ہی سانس میں حیرت سے پوچھا ۔ کہاں کا تو نہیں پتا لیکن جب سے ان کے بیٹے اور بہو کی ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوئی اس کے بعد سے یہ لوگ جا چکے ہیں اس لڑکے نے جاتے ہوئے رک کر بتایا ۔ وہ وہیں کھڑا بے دھیانی میں اس لڑکے کو جاتا دیکھ کر اپنی سوچوں میں الجھا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چلتا گاڑی تک آیا تھا اس کے دل نے شدت سے مروہ کے مل جانے کی دعا کی تھی ابھی وہ گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرتا کہ اس کے موبائل پر رنگ ہوئی۔  یاد آگئی بھائی کی سلام دعا کہ باد وہ ذرا شوخ لہجے میں بولا مجھے تو پھر آگئی اتنی بزی روٹین میں بھی تمھیں تو ابھی بھی نہیں آئی تھی وہ بھی اسکا بھائی تھا کیسے خاموش رہتا میں نے لینڈ لائن ہے کال کی تھی جناب پرسنل نمبر تو آپکا بند تھا بھابھی سے بات ہوئی اور عائزہ سے بھی انھوں نے بتایا آپ بزی ہیں وہ ڈیٹیلز بتاتا ہوا بولا تھا ۔ اچھا نہ چھوڑو ان باتوں کو ہاشم نے ہار مانتے ہوئے کہا وہ جانتا تھا کہ اس کا بھائی اب ہار تو ماننے سے رہا ۔ جی جی حکم کریں  حاشم نے بے حد ادب سے ہنستے ہوئے کہا ۔ کاش تم اتنی ہی فرما برداری سے میری بات مان بھی لو دوسری طرف سے  وہ مایوسی سے بولا تھا ۔ اوکے اور کوئی حکم حاشر  فوراً حامی بھرتے ہوئے کہتا ہاشم کو حیران کر گیا تھا ۔ واقعی تم آرہے ہو اسلام آباد ہاشم ابھی بھی حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔ اگر آپ کہتے ہیں تو نہیں آتا ہاشم نے شرارت سے کیا ۔ ارے نہیں نہیں کب تک آؤ گے اس سے پہلے کہ وہ انکار کرتا ہاشم جلدی سے بولا اس کے انداز پر حاشر کا کہکہا گاڑی میں گھونجا تھا کچھ دیر پہلے والی افسردگی کہیں بھی نہیں تھی ۔ اوکے اللہ خافظ سی یو سون کہتے ہوئے ہاشم نے فون رکھا تھا اور اپنا فون ڈیش بورڈ پر ڈالتے حاشر نے گاڑی چلا دی تھی۔

__________________________________

یہ دیکھیں یہ والی ڈول بابا میرے لیے لائے تھے وہ پورے روم میں کھلونے بکھیرے ایک ایک کر کے حاشر کو دیکھا رہی تھی جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے اسلام آباد پہنچا تھا ہاشم سے ابھی تک اسکی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن سیرت بھابھی اسکو بتا چکی تھیں کہ وہ لنچ پر گھر آئیں گے حاشر بتائے بغیر سرپرائز دینے کے لیے یہاں پہنچا تھا ۔ ابھی وہ عائزہ کے ساتھ اس کے کھیلونوں کے درمیان الجھا بیٹھا تھا جو اس سے کبھی اپنی ڈولز کے ہیرسٹائلز بنواتی تو کبھی چھوٹے چھوٹے برتنوں میں چائے کہ نام پر اس کو پانی پلاتی۔ چاچو کیسی بنی ہے چائے عائزہ ڈول اپنے ہاتھوں میں لیے حاشر سے پوچھ رہی تھی۔ بہت اچھی وہ پانی کا گھونٹ بھرتے بولا تھا ۔ وو خوشی سے ابھی اپنی ڈولز کے ڈریسز اپنے چاچو کو دیکھاتی کے ہاشم کے سلام کی آواز پر باہر کی طرف بھاگی بابا وہ کہتی اس سے لپٹی تھی آپکو پتا ہے چاچو آئے ہیں وہ جوش اور خوشی سے ابھی بول ہی رہی تھی۔وعلیکم السلام کمرے سے آتا حاشر بھی  سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے بھائی کے گلے لگا تھا۔ ایک دوسرے کو گلے لگائے وہ کچھ دیر یوں ہی خاموشی سے کھڑے رہے ماما بابا کیسے ہیں الگ ہوتے ہوئے ہاشم نے پوچھا الحمدللہ ٹھیک ہیں آجائیں کھانا لگ چکا ہے ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ سیرت نے وہاں آتے ہوئے دونوں کو کھانے کے کیے بلایا۔چلو حاشر اسکا ہاتھ تھام کر آگے بڑھا عائزہ ب ان آگے اندر کی طرف بھاگی تھی ۔ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے وہ سب ہی کھانا کھاتے باتوں میں مصروف تھے۔  ان لوگوں نے بہت خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا تھا۔ وہ اب مروہ کے معاملے میں اپنے بھائی سے بات کرنا چاہتا تھا ۔ اس کی کوشش کے باوجود وہ اسے کہیں نہیں ملی تھی ملتی بھی کیسے وہ لوگ تو شاید اپنا شہر تک بدل چکے تھے ۔

وہ مال میں شاپنگ کر کے بس واپس جانے والی تھی کہ چلتے چلتے  سوزین کہ بلانے پر اسکی طرف متوجہ ہوئی ابھی وہ سوزین کی بات سنتی کہ سامنے سے آتے چٹانی وجود سے بڑی طرح ٹکرائی تھی اور ہاتھوں میں موجود سارے شاپنگ بیگ زمین بوس ہوئے تھے ۔ چکرا کر سر پر ہاتھ رکھتے اس نے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا ابھی وہ غصے میں کچھ بولتی کے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔ ایم سو سوری اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھتا بولا تھا اور جھک کر شاپنگ بیگ اٹھانے تھا ۔ مروہ بھی زمین پر بیٹھی تھی اور اپنے کانپتے ہاتھوں سے شاپنگ بیگ اٹھانے لگی اس کے ہاتھوں کی لرزش حاشر سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔ اگین ایم سوری شاپنگ بیگ مروہ کو تھماتا وہ ایک بار شرمندہ لہجے میں بولا ۔ سوزین کا ہاتھ تھامے وہ تیزی سے وہاں سے نکلی تھی ۔ وہ کندھے اُچکاتا دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتا مڑ کر اس لڑکی کو جاتا حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ تھینکس ہی کہ دیتی وہ سر جھٹک کر خود سے کہتا آگے بڑھا تھا ۔

اسلام علیکم مروہ نے گھر میں داخل ہوتے سلام کیا تھا وعلیکم السلام۔۔ دادوووں۔۔ سعدیہ بیگم کے جواب دیتے ہی  سوزین بھاگ کر اپنی دادو کے گلے لگی تھی۔ آگئی میری گڑیا سعدیہ بیگم نے پیار سے سوزین کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جی دادو لیکن میں ماما کہ ساتھ شاپنگ میں جا کر بہت بور ہوئی مروہ شاپنگ بیگ رکھتی سوزین کو دیکھ کر سر دائیں بائیں ہلاتی باہر نکل گئی تھی ۔ دادو پارک چلیں سوزین نے لاڈ سے سعدیہ بیگم سے کہا اوکے چلو ۔۔ سوزین کے اس پیارے انداز پر وہ مسکراتے ہوئے اس کے دونوں گال باری باری چوم کر بولی تھیں۔  میں ماماکو بتا کر آئی وہ اندر کی طرف بھاگی تھی ۔اور کچھ ہی دیر میں وہ دونوں پارک کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ مروہ اسوقت بیڈ پر لیٹیچھت کودیکھتی اپنی سوچوں میں گم تھی۔ حاشر کیا تم واقعی مجھے بھول چکے ہو محبت نہ صحیح مگر بچپن کی دوست تو تھی میں تمہاری کیا میں اتنا بھی حق نہیں رکھتی تھی کہ تم مجھے یاد رکھتے وہ روتے ہوئے خود سے بولی تھی ۔ تم کیا یاد رکھتے مجھے تم تو مجھے اپنے سامنے دیکھ کر پہچان بھی نہ سکے اتنا کھوئے ہو اپنی زندگی میں وہ سسکیاں لیتی اپنے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی خود کلامی میں مصروف تھی۔ تم یہ مت سمجھنا کبھی بھی کہ مجھے تم سے گلہ ہے نہیں حاشر مجھے تم سے نہ کوئی گلا ہے اور نا شکوہ وہ خیالوں میں اس سے ایسے محاطب تھی جیسے وہ شخص اس کے روبرو موجود ہو۔ لیکن جو بھی ہو ایسے کیسے تم اپنی بچپن کی دوست کو بھول گئے کیا تمہیں میں کبھی بھی یاد نہیں آتی وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی تھی ۔  تم جہاں بھی ہو ہمیشہ خوش رہو  کچھ لمحے یوں ہی سسکنے کے بعد وہ نم لہجے میں بولی تھی ۔

--------------------------

آج طیبہ اس کے گھر آئی تو وہ  اداس سی بیڈ پر نیم دراز تھی ۔ کیا ہوا تم تو آج شاپنگ پر گئی تھی کچھ پسند نہیں آیا کیا جو اتنی اداس ہوں اس کی باتیں سن کر بھی مروہ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ناراض ہو ؟ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھ رہی تھی نہیں مروہ ایک لفظ جواب دے کر پھر اپنے خیالوں میں کھوئی تھی مروہ تم جانتی تو ہو کہ مجھے بہت ضروری کام سے جانا تھا ورنہ میں تمھارے ساتھ شاپنگ پر ضرور جاتی وہ ایک بار پھر اسکی ناراضگی دور کرتے بولی تھی ۔ طیبہ ان کے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی اور جب سے وہ لوگ اسلام آباد شیفٹ ہوئے تھے مروہ سے اسکی بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی ۔ میں ناراض نہیں ہوں تم سے وہ کہتی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔تو پھر کیا ہوا وہ اس کا چہرہ دیکھتی ایک بار پھر پوچھنے لگی تھی ۔ آج میں نے اس کو دیکھا وہ کھوئے سے انداز میں بولی تھی ۔ کس کو دیکھا ؟ اوووو  اچھا حاشر کو دیکھا وہ خود ہی سوال کرتی خود ہی جواب دے رہی تھی ۔ اس کے شوخے انداز پر مروہ اس کے چہرے پر نظر ڈال کر ہٹا گئی تھی ۔ اچھا نہ بتاؤ کیسے ہیں جیجو وہ پھر شوخ ہوئی تو مروہ نے ہاتھ کا مکا بنا کر اس کے کندھے پر مارا تھا ۔ آآآہ طیبہ ناٹک کرتی بلکنے لگی تھی ۔ اچھا سوری بتاؤ کیا ہوا وہ اب سیریس انداز میں مروہ سے پوچھ رہی تھی مروہ نے اس کو مال میں ہونے والے سارے سین کے بارے میں بتایا ۔ واٹ یو مین کے وہ تمھیں پہچانا نہیں اور اگر وہ نہیں پہچانا تو تم نے بھی اس کو نہیں بتایا طیبہ کا منہ حیرت سے اس کی بات سن کر کھلا تھا۔ مجھے کیوں پہچانے گا اب وہ اور میں اس کو کیوں بتاتی وہ تو اب مائدہ کے ساتھ خوش ہے تو میں کیوں ان لوگوں کے درمیان آؤ۔ وہ افسردگی سے کہتی بیڈ شیٹ پر بنے ڈیزائن پر انگلی پھیر کر بولی تھی ۔ کون مائدہ؟ اور کیا وہ شادی کر چکا ہے ؟ اور وہ مال میں اس لڑکی کے ساتھ آیا تھا ؟ طیبہ نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے چھوڑو نہ آؤ تمھیں اپنی شاپنگ دیکھاتی ہوں وہ بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی تو طیبہ اس کو ہاتھ تھام کر واپس بیڈ پر بیٹھا چکی تھی ۔ بتاؤ اب وہ ایک بار پھر سے مروہ سے پوچھ رہی تھی ۔ نہیں مال میں تو وہ اکیلا آیا تھا اور ہاں ظاہر سی بات ہے شادی کر چکا ہوگا اور مائدہ کون ہے یہ لمبی بات ہے وہ کہہ کر خاموش ہوئی تھی میرے پاس پورا ٹائم ہے تم مجھے بتاؤ کہ یہ مائدہ کون ہے اور یہ کیسے اور کب آئی تم لوگوں کے درمیان جب کہ تم نے بتایا تھا کہ تمھاری اور حاشر کی دوستی کو پورا سکول جانتا تھا ۔ طیبہ آنکھوں میں بے شمار سوالات لیے مروہ کو دیکھنے لگی ۔مائدہ ہماری کلاس میں آنے والی ایک نیو ایڈمیشن لڑکی تھی وہ بہت خوبصورت بھی تھی لیکن اس کا کوئی دوست نہیں تھا وہ ہر وقت کتابوں میں کھوئی رہتی تھی ایک دن سکول سے چھٹی کے بعد میں گھر جا چکی تھی لیکن حاشر کی وین اسے لینے ابھی تک نہیں آئی تھی ۔وہ مین گیٹ کے پاس  گرمی میں انتظار کرتا تھک چکا تھا جب اسے پیاس کا انتظار ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ اپنی واٹر باٹل تو شاید کلاس میں بھول آیا ہے وہ اپنی باٹل لینے کے لیے جیسے ہی کلاس کی طرف بڑھا تو اسے ایک بند کلاس کے اندر سے پلیز ہیلپ می اور اوپن دا ڈور کی آوازیں آنے لگیں آواز کسی لڑکی کی تھی حاشر نے آگے بھر کر دروازہ کھولا تو مائدہ سامنے کھڑی رو رہی تھی حاشر بھی اسے یوں بند دیکھ کر حیران ہوا تھا حاشر کے دروازہ کھولتے ہی وہ باہر کی جانب بھاگی تھی اور سٹاف روم میں داخل ہوگئ اس نے سٹاف روم میں جا کر مس اسماء کو ساری بات بتائی کہ کس طرح وہ اپنی بہن کو نہ پا کر اس کی کلاس میں گئی اور دو سینئیر لڑکے بھی اس کے پیچھے کلاس میں داخل ہوئے تھے اور اسے فرینڈ شپ کرنے کا کہنے لگے مائدہ کو ان لڑکوں سے اچھی وائبز نہیں آ رہی تھیں اس لیے وہ یہ کہتے ہوئے کہ وہ لڑکوں سے دوستی نہیں کر تی باہر کی طرف بڑھنے لگی ان میں سے ایک لڑکے نے آگے  بڑھ کر مائدہ کو بازو سے پکڑا تھا اور وہ لوگ زبردستی اس کو دوستی کے لیے منانے لگے کلاس خالی ہونے کی وجہ سے مروہ نے ڈر کر چینخنا شروع کیا اور اس لڑکے سے اپنا بازو چھڑوانے کے لیے اسے تھپڑ مار دیا اس کے چینخنے چلانے سے لڑکے بھی ڈر چکے تھے ۔ تمھیں تو میں بعد میں دیکھوں گا جس لڑکے کے منہ پر مروہ نے تھپڑ مارا تھا وہ مروہ کو دھکا دیتا زمین پر گرا کر بولا اور باہر نکلتا دروازہ باہر سے بند کر چکا تھا اس واقعے کے بعد مروہ تین دن تک سکول نہیں آئی تھی اور حاشر اگلے ہی دن ساری بات مروہ کو بتا چکا تھا ۔ جب مائدہ تین دن کے بعد سکول واپس آئی تو مروہ اور حاشر نے اس سے حال پوچھنا چاہا تو مائدہ روتے ہوئے حاشر کا بے حد شکریہ ادا کرنے لگی ۔ اس کے بعد سے ہم تینوں ہی ایک گروپ میں رہنے لگے ۔ حاشر جو ہر وقت اپنی اسئنمنٹ نہ بننے پر میرے پاس آتا تھا اب اسائنمنٹ نہ بننے پر مائدہ ہر بار حاشر کی اسائنمٹ بنانے لگی اور حاشر کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہتا تھا ۔ وہ  آخری بات پر چہرے پہ پھیکی مسکراہٹ طاری کر کے بولی تھی ۔ 

تمھیں پتہ ہے حاشر کو پاستا اتنا پسند تھا میں جب بھی کبھی لنچ باکس میں اپنے لیے پاستا لے کر جاتی تو وہ ہمیشہ میرا پاستا ہضم کر جاتا وہ پاستا ہمیشہ سے ماما ہی بناتی تھی ۔ ایک دن میں نے سوچا کہ مجھے پاستا بنانا چاہیے میں نے زندگی میں پہلی بار کوکنگ کی تھی اور کک کیا بھی تو کیا پاستا وہ ہنس کر اسے بتاتی اپنی آنکھوں کے بھیگے کنارے بھی صاف کر رہی تھی ۔ اور جب میں وہ پاستا صرف حاشر کے لیے لے کر گئی اور اسے بتاتا تو اس نے یہ کہہ کر میرا پاستا کھانے سے انکار کر دیا کہ وہ ہمیشہ میرا پاستا کھا جاتا ہے آج وہ اپنا پاستا کھا لے کیونکہ آج مائدہ اس کے کیے پاستا بنوا کر لائی ہے بتاتے ہوئے ایک آنسو مروہ کی آنکھ سے بہہ کر اس کی گود میں گرا تھا اور تمھیں پتہ ہے حاشر اور مائدہ نے ایگزیمز کے بعد ایک ساتھ لندن میں جا کر اپنی سٹڈیز کانٹینیو کرنے کا پلین بھی بنا لیا آہستہ آہستہ حاشر کی دوستی مجھ سے زیادہ مائدہ سے ہونے لگی اور مجھ سے میرا اکلوتا دوست اور میری محبت چھن گئی وہ کہہ کر خاموش ہو گئی تھی ۔

____________________________________

اس کو اسلام آباد آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا ۔ اس نے مروہ کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے بھائی کی بھی مدد لی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اس وقت وہ بیڈ پر لیٹا انھی سوچوں میں گم تھا کہ موبائل پر رنگنگ سٹارٹ ہوئی ۔ اسلام علیکم بھائی ۔  مجھے تمھاری فیور چاہیے تھی سلام کا جواب دیتا ہاشم  بولا تھا جی بھائی بتائیں نہ حاشر فون کان کو لگائے بول رہا تھا ۔ مجھے بہت ضروری کام آگیا ہے تو آج پلیز آف ٹائم میں تم عائزہ کو سکول سے پیک کرلوگے ۔ وہ حاشر سے پوچھ رہا تھا۔ ارے بھائی اس میں فیور کی کیا بات ہے آپ پریشان نہ ہوں میں کر لوں گا ۔ حاشر بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا تھا۔ تھینکس بڈی ہاشم نے عاجزانہ لہجے میں کہا۔ نو نیڈ برو اللہ خافظ وہ کہتے ہوئے فون رکھ چکا تھا۔ کپڑے لیتا وہ فریش ہونے واش روم میں گھسا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں وہ فریش سا باہر نکلا اور آئینے کے سامنے  کھڑا اپنے بال سنوارتا خود پر پرفیوم چھڑک دیا تھا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے وہ کہیں کھویا تھا وہ خوبصورت آنکھیں اٹھتی جھکتی پلکیں اس کو کسی اور کی یاد دلا گئی تھیں وہ لرزتے ہاتھ نا جانے وہ لڑکی اس کو دیکھ کر اس طرح سے کیوں ریکٹ کر رہی تھی وہ ہوش کی دنیا میں آتا سوچ رہا تھا۔  پھر اپنے خیالات کو جھٹک کر کار کیز اٹھاتا باہر نکلا تھا۔

--------------------------

چاچو  وہ جوش سے چلائی تھی وہ دیکھو سوزین میرے چاچو مجھے لینے آئے ہیں ۔ چلو میں تمھیں ان سے ملاتی ہوں ۔ وہ دونوں چلتی حاشر کے پاس آئی تھیں ۔ چاچو وہ کہتی اس کے پاس آئی تھی وہ اس کا بیگ اس کے کندھے سے اتار کر پکڑ چکا تھا ۔ چاچو یہ میری بیسٹ گرینڈ ہے سوزین اور سوزین یہ میرے  حاشر چاچو ہیں ۔ ہائے سوزین ہاؤ آر یو وہ پیار سے کہتا سوزین کے گالوں کو ٹچ کرتا پوچھ رہا تھا ۔ سوزین ۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتی کہ اپنے نام کی پکار سن کر اس نے گردن موڑ کر دیکھا مروہ اس کو دیکھتی اسی کی طرف آرہی تھی ۔ ماما یہ میری فرینڈ ہے عائزہ اور یہ عائزہ کے حاشر چاچو ہیں ۔عائزہ اینڈ چاچو یہ میری ماما ہیں سوزین  مروہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتی بولی تھی ۔ حاشر کا نام سن کر مروہ کا دل ایک دم تیزی سے دھڑکا تھا ۔ وہ ایک نظر اسکو دیکھ کر آنکھیں جھکا گئی تھی ۔ حاشر اس کو پہچان  چکا تھا یہ یقیناَ وہی لڑکی تھی جو مال میں اس سے ٹکرائی تھی۔اس کی جھجک وہ محسوس کر چکا تھا لیکن وہ وجہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں اس سے کترا رہی ہے ۔ویسے آپکو میرا چاچو بولنا برا تو نہیں لگا ۔ابھی مروہ کچھ بولتی کہ سوزین حاشر کو دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔ اس کی بات پر حاشر کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آئی تھی ۔ جو مروہ کا دل ایک بار پھر سے دھڑکا گئی تھی ۔ نہیں پرنسز مجھے بہت اچھا لگے گا اتنی پیاری سی گڑیا کا چاچو بن کر وہ اس کو دیکھتا مسکراتے ہوئے بول رہا تھا جب کے اس کی نظریں مروہ کی طرف تھیں جو نا جانے کیوں اسکی طرف دیکھنے سے اجتناب کر رہی تھی ۔ آپکو پتا ہے چاچو ماما بھی مجھے پیار سے گڑیا بولتی ہیں ۔ چلیں سوزین ابھی حاشر سوزین کی باتوں کا جواب دیتا کہ مروہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی ۔ جی ماما وہ افسردگی سے بولی تھی ۔  ہاتھ کے اشارے سے ان لوگوں کو بائے بائے کرتی وہ اپنی ماما کا ہاتھ تھامے ان کے پیچھے چلی تھی۔ حاشر اور عائزہ بھی اس کو بائے بولتے گاڑی کی طرف بڑھے تھے۔

--------------------------

ماما آج میں اتنی خوش ہوں نہ کے آپ مجھے لینے آئی سکول سے گھر میں داخل ہوتے ہوئے سوزین مروہ کو دیکھتی ہوئی بتا رہی تھی ۔ آپ ڈیلی مجھ کہتی تھی کہ میری کسی فرینڈ کو اس کے بابا لینے آتے ہیں کسی کو ماما لینے آتی ہیں لیکن مجھے صرف ڈرائیور انکل لینے آتے ہیں تو میں نو سوچا کہ آج میں اپنی گڑیا کو سرپرائز دیتی ہوں ۔ تھنک یو ماما آئے ایم ویری ہیپی۔۔۔ سوزین بولتی ہوئی اس کے گلے لگی تھی  آپ فریش ہو جاؤ میں آپکے لیے لنچ لگاتی ہوں وہ سوزین کو کپڑے پکڑاتی بولی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں وہ کھانا ٹیبل پر لگا چکی تھی ۔ سعدیہ بیگم بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں کھانا کھانے کے دوران سوزین اپنے نئےحاشر چاچو اور عائزہ کی ساری سٹوری اپنی دادی کو سنا چکی تھی۔ ماما مجھے سونا ہے سوزین کھانا کھا چکی تو اب اس پر نیند کا غلبہ طاری ہو رہا تھا۔وہ اپنی آنکھیں دونوں ہاتھوں سے مسلتی بولی تھی ۔ چلو ۔۔ مروہ اسے لیے روم کی طرف مڑی تھی۔ جب تک مروہ سوزین کے پاس نا لیٹتی کیا مجال تھی کہ سوزین کو نیند آ جاتی۔ ابھی ان کو بیڈ پر لیٹے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ سوزین نیند کی وادیوں میں کھو گئی اور مروہ ماضی کی یادوں میں کھو گئی ۔ 

ما ضی 

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے ڈئیر حاشر اس نے جیسے ہی جماعت میں قدم رکھا ساری کلاس ایک آواز میں بولی تھی ۔ کچھ بچے ہاتھوں میں کارڈز لیے اور کچھ چاکلیٹ لیے کھڑے تھے سب سے پہلے مروہ آگے بڑھی تھی ہیپی برتھ ڈے ڈئیر بیسٹ فرینڈ وہ چاکلیٹ اور ایک بہت خوبصورت کارڈ جو مروہ نے خود بنایا تھا اس کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تھی ۔ تھینکس وہ مسکراتے ہوئے بولا اسی طرح چند اور بچے آگے بڑھے تھے اور اپنے ہاتھوں میں تھامے کارڈز اور چاکلیٹس حاشر کی طرف بڑھاتے اسے ویش کر رہے تھے۔ ویسے آپ سب کو کس نے بتایا کہ آج میری برتھ ڈے ہے وہ سب کو تھینکس کرنے بعد پوچھ رہا تھا ۔ سب نے پاس کھڑی مروہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا ۔ مروہ  فخریہ انداز میں شوخی سے دونوں ہاتھ کندھوں تک فضا میں بلند کرتی کندھے اُچکا گئی تھی ۔ بالکل پاگل ہو تم وہ اپنا سر دائیں بائیں ہلاکر بولا تھا ٹھیک اسی وقت مس نائلہ کلاس میں اینٹر ہوئی تھیں اور سب بچے بھاگ کر اپنی اپنی چیئرز پر بیٹھے تھے ۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سوزین کو پڑھا کر فری ہوئی تھی ۔ اور اب آئینے کے سامنے کھڑی ڈرائیر کی مدد سے اپنے  گیلے بال خشک کر رہی تھی۔ جب سوزین دوڑتی ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی ماما دادو نے کیا ہے کہ آج آپ مجھے پارک کے جائیں گی ابھی مروہ اس کے ساتھ جانے سے منع کرتی کہ سعدیہ بیگم کی آواز پر وہ روم سے باہر نکلی تھی ۔ سوزین بھی بھاگنے والے انداز میں اس کے پیچھے باہر نکلی تھی ۔مروہ میرے گھٹنے میں بہت درد ہے آج تم سوزین کو پارک لے جاؤ ضد کر رہی ہے ۔ چلیں نہ ماما سوزین ضدی لہجے میں مروہ کا ہاتھ پکڑ کے بولیتھی ۔مروہ دلی طور پر جانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی لیکن امی کی درخواست اور سوزین کی ضد پر مان گئی تھی۔ وہ خود پر ایک بڑی چادر ڈالے چہرے کو ماسک سے ڈھانپتی سوزین کو کیے باہر نکلی تھی ۔ باہر نکتے سوزین اپنی سائیکل پر بیٹھ چکی تھی ۔ سوزین تم سائیکل تو گھر میں بھی چلا سکتی ہو میری جان مروہ عاجزی سے بولی تھی ۔ پلیز نہ ماما مروہ اس کی بات مانتے ہوئے خاموشی سے آگے بڑھی تھی۔

___________________________________

وہ دونوں گھر کے قریب ٹاؤن میں بنے پارک میں اینٹر ہوئیں تو سامنے ہی عائزہ سائیکل پر بیٹھی ہاتھ ہلاتی سوزین کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی ۔ وہ اسکو آواز دیتی سائیکل چلا کر اب ان لوگوں کی طرف ہی آرہی تھی ۔  اور اس کے پیچھے آہستہ قدموں سے چلتا حاشر بھی اسی طرف آتا دیکھائی دے رہا تھا۔ آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ آپکی دوست بھی آرہی ہے مروہ نے گردن موڑ کر سوزین کو پوچھا ۔ماما میں نے دادو کو بتایا تھا ۔ سوزین بولتی ہوئی اپنی طرف آتی عائزہ کی طرف بڑھی تھی۔ وہ چاروں ہی اب بچوں کے لیے بنے پلے گراونڈ میں آچکے تھے ۔ مروہ گراؤنڈ میں بنے سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ چکی تھی ۔ حاشر ان دونوں کی ریس لگوا رہا تھا۔ عائزہ کا گھر بھی پارک کے قریب تھا۔ وہ دونوں پہلے بھی اکثر پارک آیا کرتیں تھیں اور آج وہ شاید وہ دونوں سکول میں ریس لگانے کی پلینگ کر کے آئیں تھیں۔ ان کو سائیکل چلاتے دیکھ وہ ماضی کی کسی یاد میں کھوئی تھی۔

ہائے !وہ پیچھے سے بھاگ کر آتا کاریڈور میں چلتی مروہ کے پاس رک کر بولا تھا۔ ہیلو! مروہ نے کہا۔ مجھے ایک فیور چاہیے تھی تم سے مروہ وہ تذبذب سے بولا تھا کیا فیور چاہیے مروہ نے چہرہ حاشر کی طرف موڑ کر پوچھا۔ تم جانتی ہو نہ کل میں بہت بزی تھا تو میں اپنی انگلش کی اسئنمنٹ نہیں بنا سکا پلیز تم میری اسئنمنٹ بنا دو گی ۔ وہ منت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ اوکے سوچوں کی وہ اپنے چہرے پر آئے بالوں کو انگلی پر گھماتے ہوئے احسان کرنے والے انداز میں بولی تھی ۔ سوچنے کا وقت نہیں ہے نہ مروہ اور اونچی آواز لیکن التجائیہ لہجے میں بول رہا تھا ۔ اوکے لیکن ایک شرط پر وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی۔ ڈن وہ اس کی شرط سنے بغیر بولا تھا ارے پہلے سن تو لو نہیں مجھے منظور ہے حاشر کو اس وقت صرف اپنی اسائنمنٹ کی فکر تھی۔ چلتے چلتے وہ لوگ اب کلاس روم میں آچکے تھے۔ یہ لو تمھاری اسئنمنٹ وہ اپنے بیگ سے اسائنمنٹ نکال کر اسکو تھماتی ہوئی بولی تھی وہ سوالیہ نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ میں جانتی تھی کہ تمہیں اسئنمنٹ بنانے کا ٹائم نہیں ملے گا اسی لیے میں نے تمھاری اسائنمنٹ بھی بنا لی تھی۔ لیکن اب اپنی شرط سے پیچھے نہ ہٹنا۔ وہ اس کو اپنی شرط یاد کرواتی ہوئی بولی تھی ۔ ویسے بائے دا وے تمھاری شرط کیا تھی اسائنمنٹ کی ٹنشن ختم ہوئی تو اسکا دھیان شرط کی طرف بھی گیا جس کو پورا کرنے کا وہ وعدہ کر چکا تھا۔ ہممم تو شرت یہ ہے کہ تم مجھے سائیکل چلانا سیکھاؤ گے وہ ہاتھوں کو نچا کر بولی تھی ۔ واٹ حاشر کا تو حیرت سے منہ ہی کھل گیا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ جتنا بھی اسکو سیکھانے کی کوشش کر لے وہ بس ایک منٹ میں ہی سائیکل کے ساتھ ساتھ خود کو بھی گرا لے گی کیونکہ ایسا کئی بار ہو چکا تھا۔  یس!! وہ گردن اکڑا کر بولی تھی۔  نووو پلیز وہ چہرے پر افسردگی طاری کیے بولا تھا۔ یس یس یس وہ اس کو گھورتی بولی تھی ۔ آخر وہ اس کی بات مان گیا تھا کیونکہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔

ایکسکیوز می! اپنے پاس سے آتی آواز پر اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ اس کے پاس کھڑا اسی سے مخاطب تھا۔ اتنے عرصے بعد اُس کا خود کو مخاطب کیے جانے پر مروہ کا دل دھڑکا تھا۔  سس۔سوری وہ اپنی سوچوں میں اسکی بات سن ہی نہ پائی تھی اس لیے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔  آپ کچھ لیں گی وہ پارک میں لگے سٹالز کی طرف اشارہ کرتا اس سے پوچھ رہا تھا ۔ نو تھینکس! وہ مسکرا کر کہتی نظریں پھیر گئی تھی ۔وہ خود بھی کہا اس لڑکی سے سامنا کرنا چاہتا تھا جس کی آنکھیں ہمیشہ اسے بے چین کر دیتی تھیں ۔ اور آج تو مروہ نے اپنے چہرے کو ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا جسکی وجہ سے اسکی آنکھیں حاشر کو مزید بے چینی میں مبتلا کر رہی تھیں ۔ مروہ کے انکار پر وہ سر کو ہلکی سی خبنش دیتا سٹالز کی طرف بڑھا تھا۔ مروہ کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا کیا وہ واقعی اپنی بچپن کی دوست کو پہچان نہ سکا تھا ۔ کیا وہ اپنی زندگی میں مائدہ کے ساتھ اتنا خوش اور مطمئن تھا کہ اسکو کوئی اور یاد ہی نہیں تھا ۔ وہ اپنی سوچوں میں گم اسی کو دیکھ رہی تھی جو آئس کریم لیے سوزین اور عائزہ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ ان لوگوں کی طرف بڑھی تھی چلو سوزین بیٹا گھر چلیں شام ہونے والی ہے دادو ہمارا ویٹ کر رہی ہونگی۔ اوکے ماما سوزین اپنی سائیکل اٹھاتی حاشر اور عائزہ کو بائے کرتی  مروہ کے ساتھ باہر بڑھی تھی ۔

--------------------------

رابع بیگم ان سب کو بتائے بغیر آج اسلام آباد آئی تھیں ۔ اس وقت وہ سب لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے وہ سب ہی بہت خوش تھے بہت لمبے عرصے بعد وہ سب لوگ اکھٹے ہوئے تھے وہ سب لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے میں مصروف تھے ۔ ماما اب ہمیں حاشر کی شادی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے  سیرت بھابھی ایک نظر  حا شر کو دیکھ کر شرارت سے کہتی ہوئی چائے کا کپ لبوں سے لگا گئی تھی۔ ارے سیرت تم نے تو میرے منہ کی بات کہ دی میں بھی تمنسے یہی کہنے والی تھی کہ اپنے اس دیور سے پوچھو کہ اتنے سال لندن میں رہ کر کوئی لڑکی پسند کی یہ نہیں وہ اپنی بہو سے کہتیں پاس بیٹھے حاشر کو دیکھتی بول رہی تھیں۔ ہاں بھئی بتاؤ حاشر کوئی لڑکی پسند ہے تو اپنی بھابی کو بتاؤ میں تمھاری شادی اسی سے کرواؤں گی وہ جوش سے کہتی کپ ٹیبل پر رکھتی بولی تھیں ۔  مجھے کوئی بھی پسند نہیں ہے ۔ ارے یار ہم لوگوں کو تو تم سے بہت اُمیدیں تھیں کہ تم کوئی لڑکی ڈھونڈ چکے ہوگے۔اب ہاشم نے بھی ان لوگوں کی بات میں حصہ لیتے حاشر کی ٹانگ کھینچی تھی۔ وہ ان سب کی باتیں سنتا مسکرا رہا تھا ۔ تو پھر کوئی ایسی لڑکی تو  ضرور ہوگی جو میرے بیٹے کو پسند کرتی ہو گی رابعہ بیگم نے پوچھا ان سب کی باتوں پر اس کے خیال کے پردے میں اپنے بچپن کی وہ شرارتی سی دوست کا مصوم سا چہرہ لہرایا تھا جو بے غرض اسکی کتنی پرواہ کرتی تھی ۔  نہ جانے وہ کہا چلی گئی تھی۔وہ بھی گئی اب تو کہتے ہوئے رابعہ بیگم کی بات کا جواب دے کر ہاشم نے قہقہ لگایا تھا اور شرارت سے اپنے سامنے بیٹھے حاشر  کو دیکھا تھا  حاشر جانتا تھا اس کا اشارہ مائدہ کی طرف ہے سیرت اور رابعہ بیگم نے نا سمجھی سے ان لوگوں کی طرف دیکھا تھا۔ آر یو شیور حاشر بھائی آپکو کوئی بھی لڑکی پسند نہیں سیرت نے  جیسےایک اور چانس دیا ہو ۔یس شیور ! کہتے ہوئے حاشم نے اپنی طرف سے بات ختم کی تھی۔ تو پھر ہم کوئی لڑکی ڈھونڈ لیتے ہیں آپکے لیے کیوں ماما سیرت نے کہتے ہوئے رابعہ بیگم کی طرف دیکھا۔ ویسے ایک لڑکی تو ہے میری نظر میں رابعہ بیگم نے کہتے ہوئے سب کو دیکھا کون ماما سیرت نے ایکسائٹمنٹ سے پوچھا تھا ۔ زوہا کہتے ہوئے انھوں نے حاشر کی طرف دیکھا ابھی وہ کچھ بولتی کہ حاشر کرنٹ کھا کر اپنی چیئر سے اُٹھا تھا۔ نو ماما پلیز وہ کہتے ہوئے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا ۔ سیرت بھابھی اور رابعہ بیگم حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھیں ۔ کیوں بیٹا کیا مسئلہ ہے زوہا میں وہ حاشر کو دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھیں ۔ مسئلہ وہ خود ہے ماما میں زوہا کے لیے تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا۔ وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا ۔ نہ کوئی لڑکی پسند ہے اور نہ زوہا سے شادی کرنا چاہتا ہے آخر چاہتا کیا ہے یہ لڑکا رابعہ بیگم ہاشم کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔ آپ پریشان نہ ہوں ماما میں بات کروں گا ۔ وہ رابعہ بیگم سے کہ رہا تھا ۔

گڑیا آپکی دوست بہت کیوٹ ہے ویسے حاشر کو وہ چھوٹی سی بچی بہت اچھی لگی تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ ہر جگہ اپنی ماما کے ساتھ ہی کیوں جاتی ہے حاشر عائزہ سے پوچھ رہا تھا ۔ کیونکہ سوزین کے بابا اللہ تعالی کے پاس ہیں نہ اس لیے وہ سمجھ داری سے حاشر کو بتا رہی تھی ۔ اور اسی لیے کبھی کبھی سوزین بہت سی ہو جاتی ہے لیکن اسکی ماما تو ہمیشہ ہی سید رہتی ہیں ۔ عائزہ اور بھی بہت کچھ بول رہی تھی لیکن وہ اپنی سوچوں میں کہیں کھو سا گیا تھا اسی لیے ہمیشہ اس لڑکی کی آنکھیں اسے  کے دل میں بے چینی پیدا کر دیتی تھیں ۔ اس لڑکی کی عمر کوئی زیادہ تو نہیں تھی اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا روگ وہ سوچتے ہوئے عجیب کیفیت کا شکار ہو گیا تھا ۔

--------------------------

وہ  ٹی وی لاؤنچ میں صوفے پر نیم دراز اداسی سے کارٹون دیکھ رہی تھی رابعہ بیگم اس کی اداسی محسوس کرتیں اس کے پاس آ بیٹھی تھیں کیاہوا ہے میری عائزہ کو آج کل اداس اداس کیوں ہے وہ ان کی بات پر سیدھی ہو کر بیٹھی تھی دادو میری کوئی بہنا بھی نہیں ہے میری ایک ہی بیسٹ فرینڈ ہے اور آپکو پتہ ہے وہ بھی تھری ڈیز سے سکول نہیں آئی وہ اداسی سے کہتی ان کے ساتھ لپٹ کے بولی ۔ کیوں نہیں آئی آپکی فرینڈ وہ اسکا دھیان بھٹکاتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔ پتہ نہیں لیکن میم نے بتایا تھا کہ اسکی طبیعت خراب ہے۔ حاشر بھی وہاں آچکا تھا ۔ یہ ہماری گڑیا اتنی اداس کیوں ہے وہ ایک نظر عائزہ کو دیکھتا رابعہ بیگم کی طرف دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔ رابعہ بیگم عائزہ کو ساتھ لگائے ساری بات حاشر کو بتانے لگی تھیں۔ اووو تو یہ بات ہے  تو آپ اپنی فرینڈ کے گھر جا کر اس کو مل لو حاشر کی بات سن کر وہ خوشی سے کھل گئی تھی ۔ رابعہ بیگم نے اس کے خوش ہوتے چہرے کو دیکھ کر چوما تھا جو ابھی کچھ دیر پہلے اداسی سے مرجھایا ہوا تھا ۔ لیکن دادو اور چاچو آپ بھی میرے ساتھ جائیں گے وہ ان دونوں کو کہتی ہوئی بولی تھی ۔  ٹھیک ہے پھر ایسا کرتے ہیں میں آپکو اور دادو کو وہاں چھوڑ کر آ جاؤگا ۔  میں اپنی ڈول لو بھی لے کر جاؤں گی کہتے ہوئے عائزہ خوشی سے اندر کر طرف بھاگی تھی ۔اس کو خوش دیکھ کر حاشر اور رابعہ بیگم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے تھے۔ اسلام علیکم رابعہ بیگم کو دیکھ کر وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔ وعلیکم السلام کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ بولی تھی ۔ آئیں اندر ان لوگوں کو وہ  ڈرائینگ روم میں لے کر آئی تھی آنٹی سوزین کہا ہے عائزہ اسکو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔ آپ لوگ بیٹھیں میں بلا کر لاتی ہوں ۔  سعدیہ بیگم اور سوزین کو بتاتی وہ ڈرائیونگ روم میں بھیج چکی تھی۔  جیسے ہی سعدیہ بیگم ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اور ان کی حیرت اور خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اور یہی حال رابعہ بیگم کا تھا وہ بھی صوفے سے اٹھتیں سعدیہ بیگم کے گلے لگی تھیں۔ پاس ہی ان لوگوں سے انجان سوزین اور عائزہ ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں مصروف اپنی ہی دنیا میں مگن تھیں۔ ڈرائینگ روم سے باہر کھڑی مروہ اپنے لب دانتوں میں دبائے اندر سے آنے والی آوازوں کو سن رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان جائیں گی کیونکہ مروہ اور حاشر کی وجہ سے وہ دونوں کئی بار سکول پی ٹی ایم میں مل چکی تھیں۔ مروہ کیسی ہے رابعہ بیگم بیٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔ بالکل ٹھیک ہے ابھی یہی کھڑی تھی۔ مروہ انھوں نے آواز دی تھی۔ انکی آواز سن کر وہ اندر آئی تھی اور رابعہ بیگم کے پاس بیٹھی تھی رابعہ بیگم نے پیار سے اسے بیٹھے بیٹھے ہی گلے لگایا تھا ۔  مجھے تو لگا تھا کہ سوزین کی ماما ہیں یہ میں  نےتو پہچانا ہی نہیں تھا اتنی چھوٹی تھی جب دیکھا تھا ۔سوزین اور عائزہ ڈرائیونگ روم سے جا چکی تھیں یقیناً عائزہ اسکو اپنے کھلونے دیکھانے کے لیے کے گئی تھی ۔ اور آپ بتائیں حاشر بیٹا کیسا ہے شادی کر دی سعدیہ بیگم نے رابعہ بیگم سے پوچھا تھا نہیں ابھی نہیں بس اب بہت جلد کر دوں گی۔ ان کی بات سن کر جہاں مروہ بے حد حیرت کا شکار ہوئی تھی وہیں اسکا دل بے حد تیزی سے دھڑکنے لگا تھا ۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر چائے کا ٹیبل سیٹ کرتی ملازمہ کا ساتھ دیا تھا اور روم سے نکل گئی تھی ۔ آپکی بہو اور محراب کہیں نظر نہیں آ رہا رابعہ بیگم کے پوچھنے پر سعدیہ بیگم کا چہرہ بے انتہا آنسوؤں سے تر ہوا تھا ۔

ان دونوں کی تو کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو چکی اسی لیے تو سوزین مروہ کو ماما کہتی ہے ۔ ان کی باتیں سن کر رابعہ بیگم کی آنکھیں بھی نم ہوئیں تھیں ۔ اسی وقت وہ دونوں چہکتی ہوئیں ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تھیں۔ دادو آپکی بھی فرینڈشپ ہوگئی سوزین کی دادو سے عائزہ  رابعہ بیگم سے لپٹتی ہوئی بولی تھی ۔ آپکو پتہ ہے میں اور سوزین کی دادو تو بہت پہلے سے دوست تھیں اور آپکے چاچو حاشر اور مروہ آنٹی بھی بچپن کے دوست ہیں ۔ وہ بھی آپکے اور عائزہ کی طرح کلاس فیلوز تھے ۔ ریلی ان کی بات سن کر سوزین اور عائزہ بے تحاشا خوش ہوتیں آنکھیں پوری طرح سے کھولے ایک دوسرے کو دیکھتی گلے لگا رہی تھیں ۔ ان کی خوشی پر رابعہ اور سعدیہ بیگم دونوں ہی مسکراتی ان لوگوں کو دیکھ رہی تھیں ۔ اندر داخل ہوتی مروہ بھی رابعہ بیگم کی باتیں سن چکی تھی سوزین اور عائزہ کی خوشی بھی اس سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔ 

___________________________________

اسلام علیکم رابعہ بیگم کو دیکھ کر وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔ وعلیکم السلام کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ بولی تھی ۔ آئیں اندر ان لوگوں کو وہ  ڈرائینگ روم میں لے کر آئی تھی آنٹی سوزین کہا ہے عائزہ اسکو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔ آپ لوگ بیٹھیں میں بلا کر لاتی ہوں ۔  سعدیہ بیگم اور سوزین کو بتاتی وہ ڈرائیونگ روم میں بھیج چکی تھی۔  جیسے ہی سعدیہ بیگم ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اور ان کی حیرت اور خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اور یہی حال رابعہ بیگم کا تھا وہ بھی صوفے سے اٹھتیں سعدیہ بیگم کے گلے لگی تھیں۔ پاس ہی ان لوگوں سے انجان سوزین اور عائزہ ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں مصروف اپنی ہی دنیا میں مگن تھیں۔ ڈرائینگ روم سے باہر کھڑی مروہ اپنے لب دانتوں میں دبائے اندر سے آنے والی آوازوں کو سن رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان جائیں گی کیونکہ مروہ اور حاشر کی وجہ سے وہ دونوں کئی بار سکول پی ٹی ایم میں مل چکی تھیں۔ مروہ کیسی ہے رابعہ بیگم بیٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔ بالکل ٹھیک ہے ابھی یہی کھڑی تھی۔ مروہ انھوں نے آواز دی تھی۔ انکی آواز سن کر وہ اندر آئی تھی اور رابعہ بیگم کے پاس بیٹھی تھی رابعہ بیگم نے پیار سے اسے بیٹھے بیٹھے ہی گلے لگایا تھا ۔  مجھے تو لگا تھا کہ سوزین کی ماما ہیں یہ میں  نےتو پہچانا ہی نہیں تھا اتنی چھوٹی تھی جب دیکھا تھا ۔سوزین اور عائزہ ڈرائیونگ روم سے جا چکی تھیں یقیناً عائزہ اسکو اپنے کھلونے دیکھانے کے لیے کے گئی تھی ۔ اور آپ بتائیں حاشر بیٹا کیسا ہے شادی کر دی سعدیہ بیگم نے رابعہ بیگم سے پوچھا تھا نہیں ابھی نہیں بس اب بہت جلد کر دوں گی۔ ان کی بات سن کر جہاں مروہ بے حد حیرت کا شکار ہوئی تھی وہیں اسکا دل بے حد تیزی سے دھڑکنے لگا تھا ۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر چائے کا ٹیبل سیٹ کرتی ملازمہ کا ساتھ دیا تھا اور روم سے نکل گئی تھی ۔ آپکی بہو اور محراب کہیں نظر نہیں آ رہا رابعہ بیگم کے پوچھنے پر سعدیہ بیگم کا چہرہ بے انتہا آنسوؤں سے تر ہوا تھا ۔

ان دونوں کی تو کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو چکی اسی لیے تو سوزین مروہ کو ماما کہتی ہے ۔ ان کی باتیں سن کر رابعہ بیگم کی آنکھیں بھی نم ہوئیں تھیں ۔ اسی وقت وہ دونوں چہکتی ہوئیں ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تھیں۔ دادو آپکی بھی فرینڈشپ ہوگئی سوزین کی دادو سے عائزہ  رابعہ بیگم سے لپٹتی ہوئی بولی تھی ۔ آپکو پتہ ہے میں اور سوزین کی دادو تو بہت پہلے سے دوست تھیں اور آپکے چاچو حاشر اور مروہ آنٹی بھی بچپن کے دوست ہیں ۔ وہ بھی آپکے اور عائزہ کی طرح کلاس فیلوز تھے ۔ ریلی ان کی بات سن کر سوزین اور عائزہ بے تحاشا خوش ہوتیں آنکھیں پوری طرح سے کھولے ایک دوسرے کو دیکھتی گلے لگا رہی تھیں ۔ ان کی خوشی پر رابعہ اور سعدیہ بیگم دونوں ہی مسکراتی ان لوگوں کو دیکھ رہی تھیں ۔ اندر داخل ہوتی مروہ بھی رابعہ بیگم کی باتیں سن چکی تھی سوزین اور عائزہ کی خوشی بھی اس سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔ 

____________________

حاشر ان لوگوں کو چھوڑ کر جا چکا تھا لیکن ان لوگوں کو لینے ڈرائیور آیا تھا ۔ عائزہ اپنی دوست سے مل کر بہت خوش تھی اور اسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی جہاں دونوں کی دادو بھی فرینڈز تھیں اور آنٹی اور چاچو بھی فرینڈز تھے ۔ ؤاؤ گڑیا تو بہت خوش ہے اپنی فرینڈ سے مل کر وہ ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی کہ لاؤنچ میں بیٹھا حاشر عائزہ کو دیکھ کر بولا تھا ۔ چاچو آج تو میں آپکی اور دادو کی دوست سے بھی ملی ہوں ۔ میری دوست وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔ جی دادو نے بتایا کہ مروہ آنٹی جو سوزین کی ماما ہیں وہ آپکی بچپن کی دوست ہیں اور آپ دونوں کلاس فیلوز تھے ۔ میں ٹھیک کہ رہی ہوں نہ دادو لاؤنچ میں اینٹر ہوتی رابعہ بیگم کو بھی اپنی بات میں شامل کر تے بولی تھی جنہوں نے ان کی پوری بات تو نہیں سنی تھی لیکن وہ جانتی تھیں کہ وہ حاشر کو یقیناً سعدیہ اور مروہ کے متعلق بتا رہی ہے ۔ ہاں میری بیٹی ٹھیک کہہ رہی ہے رابعہ بیگم نے جواب دیا ۔ کیا واقعی میں امی آپ مروہ سے ملی ہیں وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ہاں بیٹا وہ تو بالکل بدل چکی ہے میں نے تو اسکو پہچانا ہی نہیں کہ یہ مروہ ہے وہ تو سعدیہ نے بتایا تو میں حیران ہوئی کہ یہ  وہی مروہ ہے۔ ان لوگوں کی باتیں سن کر حاشر کو یقین نہیں آیا تھا ۔ رابعہ بیگم اس کو محراب اور اس کی بیوی کے بارے میں بھی بتا رہی تھیں لیکن ان کے بارے میں وہ تب ہی جان گیا تھا جب وہ ان کے گھر مروہ کو ڈھونڈتا ہو گیا تھا۔ لیکن اس کا دھیان ان کی باتوں کی بجائے اب اپنی سوچوں پر تھا۔وہ حیرت اور پریشانی میں وہاں سے اٹھ کر جا چکا تھا ۔

___________________________________

وہ اس وقت ٹیرس پر کھڑا بے حد پریشان تھا وہ اس کی بچپن کی دوست تھی ہمیشہ ہنستی کھیلتی شرارتیں کرتی اور اب کیا سے کیا ہو گئی تھی اس کی زندگی اسی لیے ہمیشہ اس کی آنکھیں اس سے شکوہ کرتی محسوس ہوتی تھیں وہ کتنا بیوقوف تھا کہ اپنے بچپن کی دوست کو پہچان نہ سکا۔کتنا برا لگا ہوگا اسکو میرا اس کو نہ پہچاننا۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ مسلسل اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کتنی تکلیف ہو رہی تھی اس وقت اسے  یہ جان کر کے سوزین کی ماما ہی اس کی وہ بچپن کی دوست ہے جسے وہ ڈھونڈ رہا ہے  اتنا اپنی دوست کی شادی اس کو ڈسٹرب نہیں کر رہی تھی جتنا اس کو یہ بات ڈسٹرب کر رہی تھی کہ سوزین کے پاپا کی ڈیتھ ہو چکی یعنی اتنی چھوٹی سی عمر میں اس کی دوست سے اسکا شوہر چھن چکا تھا اور وہ اکیلی اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی تھی۔ یہ سوچیں  اسے بہت پریشان کر رہی تھیں۔ پہلے بھائی بھابھی کا غم اور پھر  شوہر کی جدائی کتنا کچھ جھیل رہی تھی کچھ سوچتے ہوئے وہ ایک فیصلہ کرتا روم میں آیا تھا ۔

-----------------------

اتوار کی صبح آٹھ بجے ہی اٹھ چکا تھا وہ رات کو ہی عائزہ کو بتا چکا تھا کہ صبح وہ اس کو ناشتہ باہر کروائے گا ۔ عائزہ کو سکول جانے کی عادت تھی اسی لیے وہ بھی جلدی اٹھ چکی تھی۔ وہ شاور لے کر باہر نکلا تھا اس نے اس وقت سفید شرٹ سکائے بیلو پینٹ کے ساتھ پہنی تھی اور ساتھ وائٹ شوز پہنے آئینے کے سامنے کھڑا ایک ہاتھ میں ڈرائیر اور دوسرے میں برش لیے وہ اپنے بالوں کو مہارت سے سیٹ کر رہا تھا بالوں کو سیٹ کر کے اس نے خود پر پرفیوم کا چھڑکاؤ کیا تھا آج وہ ضرورت سے زیادہ تیاری کر رہا تھا اور وجہ وہ بھی نہیں جانتا تھا اس کا دل بھلے ہی اپنی دوست کے لیے اداس تھا لیکن اس سے  اتنے عرصے بعد ملنے کی خوشی ہر غم پر بھاری ہو رہی تھی ۔چاچو ہم کب جائیں گے وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے پیچھے مڑنے ہی والا تھا کہ اپنے پیچھے اسے عائزہ کی آواز آئی تھی ۔ جو ییلو کلر کے فراک میں بال کھولے ہیئر بینڈ لگائے بالکل گڑیا ہی لگ رہی تھی ۔ چلو گڑیا آئے ایم ریڈی میری گڑیا تو بہت پیاری لگ رہی ہے لیکن چاچو کیسے لگ رہے ہیں وہ اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتا عائزہ سے پوچھ رہا تھا ۔ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں چاچو آپ بھی اس کی بات پر حاشر کا قہقہہ لگا تھا ۔ اور وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ لیے روم سے باہر نکلا تھا ۔ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر فرنٹ سیٹ پر عائزہ کو بیٹھاتا گاڑی گیراج سے نکال چکا تھا ۔ عائزہ آپ اپنی فرینڈ کے بغیر ہی ناشتہ کرنے جاؤ گی ۔ اپنی دوست کو بھی لے کر جانا چاہیے تھا آپکو وہ عائزہ کو سمجھا تے ہوئے بولا تھا ۔ چاچو لیکن اس کی ماما تو اسکو کبھی بھی سکول ٹریپ میں بھی نہیں بھیجتی تو وہ ہمارے ساتھ کیسے جا سکتی ہے عائزہ نے افسردگی سے بتایا تھا۔  ہمممم ویسے میرے پاس ایک پلان ہے جس پر عمل کر کے ہم سوزین کو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتا بولا تھا ۔ ریلی چاچو کیا پلین ہے وہ مکمل طور پر اس کی طرف مرتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔ پلین یہ ہے کہ ہم سوزین کی ماما کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں وہ چٹکی بجا کر بولا تھا۔واؤ!! پھر کتنا مزہ آئے گا نہ چاچو اور سوزین کی ماما تو آپکی بھی دوست ہیں وہ مان بھی جائیں گی۔ اس کی بات سن کر عائزہ اپنی جگہ سے خوشی سے اُچھلتی ہوئی بولی تھی۔  اوکے ڈن وہ  اپنے ہاتھ کا مکا بناتا اس کے سامنے کرتا بولا تھا ۔ ڈن!بدلے میں عائزہ بھی ہاتھ کا چھوٹا سا مکا بناتی اس کے مکے کے ساتھ ٹچ کرتی ایکسائٹمنٹ سے بولی تھی۔  ویسے چاچو ہم دادو کو بھی لے آتے وہ سوزین کی دادو کو بھی منا لیتی ہمارے ساتھ جانے کے لیے وہ سمجھ داری سے بولتی حاشر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ نیکسٹ ٹائم گڑیا! اس کی بات سن کر وہ اپنا ہاتھ ماتھے پر مارتے بولا تھا ۔ پھر تو اور بھی مزہ آئی گا وہ بولتی ہوئی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی ۔ باتوں ہی باتوں میں وہ گاڑی مروہ کے گھر کی طرف موڑ چکا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی ان کے گھر کی سامنے رکی تھی۔ وہ دونوں گاڑی سے اترے تھے۔ بیل دینے پر بھاگتی ہوئی سوزین نے آ کر دروازہ کھولا تھا اس کے پیچھے مروہ بھی چلتی ہوئی آ رہی تھی ۔ کیسی ہے گڑیا  کی طبیعت اب وہ سوزین سے اس کی طبیعت کا پوچھتے ہوئے اس کے گورے گالوں پر پیار کرتا پوچھ رہا تھا ۔ ٹھیک ہوں چاچو اندر آجائیں نہ وہ کہتی ہوئی اب عائزہ کی طرف بڑھی تھی۔ جب کے وہ اندر داخل ہوتا مروہ کی طرف بڑھا تھا اسلام علیکم آنٹی کہاں ہیں میں ان سے ملنے آیا تھا ۔ اس کی بات جہاں مروہ کے دھڑکتے دل کو اداس کر گئی تھی وہیں اس کا یہ کہنے پر کہ وہ آنٹی سے ملنے آیا ہے مروہ کو پتنگے لڑ گئے تھے۔ اس کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جان چکا ہے کہ مروہ اس کی بچپن کی دوست ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس سے مخاطب نہیں ہوا تھا ۔وعلیکم اسلام  اندر ہیں امی وہ چبا کر  کہتی ہوئی غصے سے پیر پٹکثی اندر بڑھی تھی اس کا غصہ حاشر سے چھپا نہیں رہ سکا تھا ۔ اتنے دن تک وہ اس کو پہچان کر اگنور کر رہی تھی لیکن آج جب وہ اسے اگنور کر گیا تھا تو وہ برا مان گئی تھی اپنے لبوں پر آتی مسکراہٹ کو روکتا وہ اس کے پیچھے اندر کی جانب بڑھا تھا ۔ اسلام علیکم! لاؤن۔ میں سامنے ہی صوفے پر بیٹھی سعدیہ بیگم کو دیکھ کر بولا تھا اس کے پیچھے آتی عائزہ کو دیکھ کر وہ پہچان گئیں تھیں کہ وہ حاشر ہے وعلیکم السلام! اپنے قریب آتے حاشر کو دیکھ کر انھوں نے محبت سے کہا تھا۔  کیسی ہیں آپ وہ ان کے سامنے سر جھکاتے پوچھ رہا تھا بالکل ٹھیک ہوں تم بیٹھو نہ بیٹا وہ اس کے شانے پر ہاتھ پھیرتیں ماتھا چوم کر بولی تھیں۔ اور آپ بتاؤ بیٹا کیسے ہو وہ اس کو اپنے پاس صوفے پر بیٹھا دیکھ کر پوچھ رہی تھیں ۔ اس کو دیکھتے  اپنے بیٹے کی یاد میں ان کی آنکھوں نم ہوئیں تھیں ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی آپ رونے کیوں لگی ۔ وہ ایک دم گھبرا کر پوچھ رہا تھا ۔ کچھ نہیں بیٹا بس آپکو دیکھ کر مجھے اپنے محراب کی یاد آگئی۔ جی آنٹی مجھے بہت افسوس ہوا جب پتہ چلا لیکن میں بھی تو آپکا بیٹا ہی ہوں وہ کہتا ان کا ہاتھ تھام کر عقیدہ سے چومتا بولا تھا اسی وقت چائے لیے مروہ لاؤنچ میں داخل ہوئی تھی ۔ سعدیہ بیگم نے ایک بار پھر محبت سے حاشر کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا ۔ چائے پیو بیٹا وہ کہتی ہوئی مروہ کی طرف اشارہ کرتی بولی تھیں جو چائے کا ٹرے لیے اس کے پاس کھڑی تھی ۔ چائے کا کپ اُٹھاتے ان دونوں کی نظریں ٹکرائی تھیں ان لوگوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ وہ لوگ بچپن کے دوست تھے ان لوگوں میں وقت کی وجہ سے اتنی جھجک اتنا فاصلہ آچکا تھا ۔ہم باہر ناشتے پر جا رہے تھے اور عائزہ نے ضد کی کہ وہ سوزین کو بھی لے کر جائے گی اور رات کو جب سے آپکی اور امی کی ملاقات کا پتہ چلا تھا تو میں بھی آپ سے ملنا چاہتا تھا ۔ وہ چائے کا گھونٹ بھرتے اپنے آنے کی وجہ بتارہا تھا۔ ہاں تو بیٹا آپ اب آگئے ہو تو ناشتہ ہمارے ساتھ کر کے جانا وہ اس کو  مسکراتے  ہوئے کہہ رہی تھیں ۔ آنٹی انشااللہ پھر کبھی میں نے عائزہ سے وعدہ کیا تھا کہ آج اس کو باہر ناشتہ کرواؤں گا ۔

جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو ضد کرنے لگی کہ میں اپنی دوست کو بھی ساتھ لے کر جاؤ گی آنٹی اگر آپکی اجازت ہو تو ہم سوزین کو اپنے ساتھ لے جائیں پلیز وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھتا بولا تھا ۔ میں ماما کو بھی ساتھ لے کر جاؤ گی اپنا نام سن کر باتوں میں مصروف سوزین بولی تھی ۔ آنٹی آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں نہ حاشر سعدیہ بیگم سے کہنے لگا۔ نہیں بیٹا میں نے ابھی ناشتہ کیا ہے آپ لوگ جائیں سعدیہ بیگم نے شفقت سے کہا تھا۔ ہاں مروہ بیٹا تم بھی ان کے ساتھ چلی جاؤ سعدیہ بیگم نے سوزین کی بات پر گھور کرتے ہوئے کہا ۔ امی میرا موڈ نہیں ہے اور میں کیا کروں گی ان کے ساتھ جا کر مروہ نے بیزاری سے کہا تھا ۔ ماما پلیز چلیں نہ بہت مزہ آئے گا سوزین اس کے پاس آتی اس کا ہاتھ تھام کر بولی تھی ۔ جی آنٹی چلیں نہ عائزہ اس کے پاس آتی بول رہی تھی وہ ان لوگوں کو دیکھتی سوچ رہی تھی کہ ان کو کیسے منع کرے تب ہی ایک بار پھر سعدیہ بیگم کے اسرار پر وہ ہاں میں سر ہلا گئی تھی اس کے ہاں کرنے پر سوزین اور عائزہ نے خوشی سے جمپ کیا تھا جب کہ حاشر کے دل میں لڈو پھوٹ چکے تھے۔ ماما مجھے بھی  تیار کر دیں سوزین مروہ کا ہاتھ تھام کر ہلاتی ہوئی بولی تھی۔ مروہ سر ہلا کر روم کی طرف بڑھی تھی سوزین بھی بھاگ کر ایکسائٹمنٹ میں مروہ کے پیچھے چلی گئی کچھ ہی دیر میں وہ دونوں روم سے باہر آئی تو سوزین پرپل فراک اور مروہ وائٹ فراک پہنے ہوئے تھی وہ دونوں ہی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ایک نظر مروہ پر ڈالتا وہ باہر کی طرف بڑھا تھا اس کے گاڑی تک پہنچنے سے پہلے ہی سوزین اور عائزہ بھاگ کر گاڑی کی بیک سیٹس سنبھال چکی تھیں حاشر بھی آ کر کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا جب کہ مروہ ابھی سوزین کے ساتھ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ حاشر نے پیچھے گردن موڑ لی۔ دیس از ناٹ فیئر گڑیا دوست کے آتے ہی آپ چاچو کو بھول کر پیچھے بیٹھ گئی اب چاچو بور ہو جائیں گے وہ ایک نظر مروہ کو دیکھ کر بولا آنٹی آپ چاچو کے ساتھ بیٹھ جائیں نہ عائزہ نے سمجھ داری سے مسئلہ حل کیا تھا ہاں ماما آپ بھی اپنے دوست کے ساتھ بیٹھ جائیں ان دونوں کی باتیں سن کر مروہ حیرت سے کبھی ان کو اور کبھی حاشر کو دیکھتی پھر نہ چاہتے وہ حاشر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی اس کے بیٹھتے ہی حاشر گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا جب کہ سوزین اور عائزہ اپنی باتوں میں اتنی مصروف تھیں کہ انھیں کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں تھا ۔ گاڑی اب ٹاؤن سے نکل کر خالی خالی سڑک پر دوڑ رہی تھی صبح کا وقت اور اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے زیادہ گاڑیاں سڑکوں پر موجود نہیں تھیں۔ کیسی ہو گاڑی سے باہر دیکھتی مروہ سے حاشر نے پوچھا تھا۔ ٹھیک وہ اس کی طرف دیکھتی

ایک لفظی جواب دے کر پھر سے گاڑی کے باہر دوڑتے منظر دیکھنے لگی تھی ۔ مجھ سے نہیں پوچھو گی کہ میں کیسا ہوں وہ مروہ کی طرف ایک نظر دیکھ کر بولا تھا ۔ کیسے ہیں مروہ نے مروت میں پوچھا ۔ بہت حسین وہ شوخی سے جواب دیتا گاڑی کی سپیڈ تیز کر چکا تھا۔بالکل نہیں بدلا تھا وہ دل میں سوچتی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ناراض ہو وہ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر بولی تھی ۔ نہیں میں آپ سے بھلہ کیوں ناراض ہونے لگی وہ کہتی ایک بار پھر باہر تیزی سے گزرتے منظر دیکھنے لگی۔ لیکن میں ناراض ہوں وہ کہہ کر خاموش ہوا تو مروہ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ پوچھو گی نہیں کیوں وہ ایک بار پھر اسے محاطب کرنے لگا تو مروہ نے احسان کرنے والے انداز میں وجہ پوچھی۔تم مجھے پہچان گئی تھی تو بتایا کیوں نہیں وہ شکوہ کرتے اس سے کہہ رہا تھا ۔جب آپ خود ہی پہچان نہیں سکے تو میں نے بتانا ضروری نہیں سمجھا وہ اپنے لہجے کا شکوہ چھپا کر بولی تھی ۔ مروہ میں جانتا ہوں تھیں میرا نہ پہچاننا بہت برا لگا لیکن تم بہت بدل چکی ہو سکول لائف میں تمھارا وہ لاپرواہ سا لڑکوں والا حلیہ تھا جسے اب تم ایک خوبصورت مشرقی لڑکی کے حلیے میں ڈھال چکی ہو اور ویسے بھی میں نے سوچا تھا کہ جب بھی کبھی تم مجھے ملو گی بالکل پہلے کی طرح ملو گی مجھ سے ہزاروں باتیں کرو گی لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تمھیں کبھی ایسے دیکھوں گا اب تم ہی مجھے بتاؤ کے میں کیسے تمھیں پہچانتا وہ وضاحت دے کر بولا تو اس کی باتوں پر وہ تلخی سے مسکرانے لگی۔ مروہ تم ہر لحاظ سے بدل چکی ہو نہ تمھاری وہ پہلے سی باتیں ہیں نہ شرارتیں تمھیں یوں خاموشی کا لبادہ اوڑھے دیکھ کر مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے وہ اس کو افسردہ لہجے میں بتا رہا تھا جب کہ سوزین اور عائزہ اب بھی اپنی نہ ختم ہونے والی کہانیوں میں مصروف تھیں ۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ ریسٹورنٹ میں پہنچ چکے تھے اس وقت وہ ناشتے کا آرڈر دیے ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ ناشتے کا انتظار بھی کر رہے تھے ۔ حاشر کوئی بات مروہ سے کرتا تو وہ اس کی بات کا جواب دے کر خاموش ہو جاتی جبکہ اب وہ سوزین اور عائزہ کے ساتھ باتوں میں مشغول تھا جب ویٹر ناشتہ ان کی ٹیبل پر لگانے لگا۔ وہ سب ناشتہ لگنے کے بعد ناشتے میں مصروف تھے جب حاشر کا دھیان کب سے چائے کے کپ میں چمچ چلاتی مروہ پر گیا تھا تم ناشتہ کیوں نہیں کر رہی وہ مروہ کے سامنے رکھی خالی پلیٹ کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔ مجھے بھوک نہیں ہے وہ کہتی سر جھکا گئی اگر تم نے مجھے معاف کر دیا ہے اور تم مجھ سے ناراض بھی نہیں ہو تو پلیز کچھ تھوڑا سا کھا لو وہ اس سے ریکوئسٹ کرتے ہوئے بولا تھا۔ جب کہ اس کی باتوں کو سن کر مروہ نہ چاہتے ہوئے بھی کہ لبوں سے لگا گئی تھی ۔ بچوں پارک چلنا ہے حاشر سوزین اور عائزہ کو دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔ یسس اُن دونوں نے جوش سے گردن اوپر نیچے ہلاتے کہا تھا ۔ لیکن جیسے ہی ان کی نظر سامنے بیٹھی مروہ پر گئی تو ان کی خوشی مانند پڑ گئی تھی وہ انگلی اور ہاتھ کے اشارے سے سوزین کو منع کر رہی تھی ۔ پلیز ماما مان جائیں نہ سوزین نر روہانسی لہجے میں کہا تھا آنٹی مان جائیں نہ عائزہ نے بھی چہرے پر اداسی طاری کرتے ہوئے کہا تھا۔ ہاں مروہ بچوں کی خوشی کے لیے مان جاؤ حاشر نے بھی سفارش کی تو وہ ہممم کہ کر ان تینوں کو دیکھتی سر ہلانے لگی تھی وہ جانتی تھی کہ سوزین کو حاشر کے ساتھ باہر جانا باتیں کرنا خوش کر دیتا ہے اس کی خوشی کہ لیے وہ مان چکی تھی ورنہ اس شخص کے ساتھ وہ ہرگز وقت گزارنا نہیں چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ وقت گزارے اور وہ اس کے جذبات اور احساسات کو جان جائے۔ دس منٹ کی ڈرائیو پر وہ لوگ پارک میں پہنچ چکے تھے اس وقت وہ پارک میں سیمنٹ سے بنے ایک بنچ پر بیٹھی ان تینوں کو فٹبال کھیلتے دیکھ رہی تھی پارک میں زیادہ رش نہیں تھا بہت کم لوگ اس وقت پارک میں موجود تھے کچھ ہی دیر میں حاشر اس کو اپنی طرف آتا دیکھائی دیا وہ اس کے پاس آ کر اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھ چکا تھا ۔ میں جب پاکستان آیا تو تم لوگوں کے گھر گیا تھا وہاں سے مجھے پتہ چلا تم لوگ وہاں سے شفٹ کر چکے ہو وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بول رہا تھا ۔ ہاں محراب بھائی کی ڈیتھ کے بعد ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا وہ گردن موڑ کر کہہ رہی تھی ۔ بہت افسوس ہوا مجھے محراب بھائی کی ڈیتھ کاسن کر وہ اب بھی اس کا چہرہ دیکھتے بولا تھا ۔ ہاں ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں اچانک اتنی جلدی محراب بھائی ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں گے وہ افسردگی سے کہتی دور کچھ ہی فاصلے پر کھیلتی سوزین کو دیکھ رہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے تم صبر کرو وہ اسے تسلی دیتا بول رہا تھا ۔ویسے تمھارے ہسبینڈ کو کیا ہوا تھا ؟ آئے مین عائزہ نے بتایا تھا کہ سوزین کے بابا کی ڈیتھ ہو چکی وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتا پوچھ رہا تھا وہ حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی یعنی وہ سوزین کو سچ میں اس کی بیٹی سمجھ رہا تھا وہ اس کا چہرہ دیکھتی پوچھ رہی تھی ۔ چھوڑو یہ باتیں مائدہ کیسی ہے وہ بامشکل چہرے پر خوشی سجائے پوچھ رہی تھی ۔ ٹھیک ہے آج کل اپنی شوہر کے ساتھ کینیڈا گئی ہوئی ہے اور تمھیں پتہ ہے اس کا ایک بیٹا بھی ہے اتنا کیوٹ ہے نہ وہ بھی بالکل سوزین کی طرح وہ محبت سے کہتا اسے بتا رہا تھا ۔ شوہر ؟ بیٹا؟ وہ ایک بار پھر حیرت سے اسے دیکھتی پوچھ رہی تھی ۔ ہاں شوہر اور بیٹا لیکن تم کیوں اتنی حیران ہو گئ وہ اسے یوں حیرت میں مبتلا دیکھ کر پوچھنے لگا ۔ مائدہ کی شادی تو تم سے نہیں ہونی تھی کنفیوز سی ہو کر حاشر سے پوچھنے لگی۔ واٹ میری اور مائدہ کی شادی تم سے کس نے کہا یہ وہ قہقہ لگاتا اسے دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔ جب تم لوگ لندن میں تھے اور میں نے تمھاری برتھ ڈے پر تمھارے نمبر پر تمہیں ویش کرنے کے لیے کال کی تھی تو مائدہ نے کال اٹینڈ کی اور مجھے بتایا کہ اس نے تمھارے لیے برتھڈے پارٹی ارینج کی ہے اور وہ تمھیں تمھاری پارٹی پر ویش بھی کرنے والی ہے وہ اس کو ڈیٹل بتا رہی تھی ۔ ہاں اس نے مجھے پرپوز کیا تھا لیکن میں نے اسے بتایا کہ ابھی میرا فوکس سٹڈیز پر ہے اور میرے دل میں اسے لے کر کوئی فیلنگز نہیں ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد اس نے مجھے اپنے کزن سے ملوایا اور ساتھ بتایا کہ بہت جلد وہ لوگ شادی کرنے والے ہیں اور پھر کچھ ہی ماہ میں ان دونوں کی شادی بھی ہو گئ وہ اسے ساری بات بتا کر اس کے ایکپریشنز دیکھنے لگا۔ ویسے میں اب سمجھا تم نے اسی لیے جیلس ہو کر مجھ بلاک کردیا اور اپنا نمبر  بھی چینج کر لیا تھا وہ شرارت سے کہتا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جی نہیں وہ منہ بسور کر گردن موڑ چکی تھی ۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے کا چہرہ اپنی طرف کر چکا تھا ۔ مروہ میں تمھیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے بول رہا تھا ۔ میں خوش ہوں وہ اس سے ہاتھ چھڑوا کر بولی تھی ۔ اچھا!! وہ دونوں بازو فولڈ کرتا اس سے پوچھ رہا تھا۔ جیییی وہ زور دے کر بولی تھی ۔ تب ہی حاشر بنچ سے اٹھتا اس کے پاس نیچے بیٹھ چکا تھا مروہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ویل یو پلیز میری می وہ ایک بار پھر مروہ کو حیرت میں ڈال چکا تھا دیکھو مروہ سوزین کو بھی ایک باپ کی ضرورت ہے اور تمھیں ایک شوہر کی جو تم سے محبت کرے تمھاری مشکلوں کو دور کرے یہ دنیا بہت ظالم ہے مروہ یہاں ایک اکیلی عورت کا زندگی گزارنا بہت مشکل ہے وہ ناجانے ابھی کیا کیا کہہ رہا تھا کہ مروہ آٹھ کھڑی ہوئی ۔ میرے خیال سے اب ہمیں گھر چلنا چاہیے بہت وقت ہو چکا ہے اور امی بھی ہمارا انتظار کر رہی ہونگی وہ کہتی گاڑی کی جانب بڑھی تھی حاشر بھی سوزین اور عائزہ کو لیے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔ واپسی میں سارے راستے ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔سوچ لو پھر میری بات کا جواب دینا میں تمھارے جواب کا انتظار کروں گا اس کے گھر کے آگے روکتا وہ اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر اس  میں اپنا نمبر سیو کرتا بولا تھا ۔ وہ خاموشی سے اتر کر موبائل اس کے ہاتھ سے لیتی سوزین کا ہاتھ تھام کر اندر بڑھی تھی.

 اس وقت وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے رات کو مروہ نے غم غصے اور اذیت کی کیفیت میں اس کو ملنے کے لیے میسج کیا تھا ۔اور اس وقت وہ مروہ کے سامنے بیٹھا تھا ۔ مجھے آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے وہ بے حد سنجیدگی سے کہہ رہی تھی ۔ ہاں کہو وہ اس کے سنجیدہ تاثرات دیکھتا بولا تھا ۔ سوزین میری بیٹی نہیں ہے وہ ایک سانس میں کہتی اس کے سر پر بم پھوڑ چکی تھی ۔ کیا کہہ رہی ہو وہ حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے پوچھ رہا تھا ۔ ہاں وہ محراب بھائی کی بیٹی ہے اس نے مجھے جب ماما کہنا شروع کیا تو ہم نے کبھی اسے منع نہیں کیا کیونکہ وہ اپنے باپ کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں اپنی ماں کو بھی کھو چکی تھی وہ خود پر ضبط کیے بول رہی تھی۔ تم نے یہ بات بتانے کے لیے اگر مجھے یہاں بلایا ہے تو میں تمھیں بتا دوں کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ مجھے پہلے اسکا تمھاری بیٹی ہونے سے فرق پڑا تھا اور نا اب تمھاری بھیجی ہونے سے وہ اس کا چہرہ دیکھتے کہہ رہا تھا اس کی بات پر وہ تلخی سے مسکرا کر سر جھٹک گئی ۔ اب کیا وجہ ہے مجھ سے شادی کرنے کی پہلے تو مجھ پر ترس کھا کر ہمدردی میں مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن اب کیا وجہ ہے وہ اس کا دل دکھاتی بول رہی تھی ۔ تم کیا لا وارث ہو بے سہارا ہو یا اپاہج ہو جو میں تم پر رحم کھاؤ گا یا تم سے ہمدردی کروں گا اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ سخت لہجے میں بولا تھا ۔ ہاں تو کیوں شادی کرنا چاہتے ہو مجھ سے وہ ذرا سا آگے کی طرف جھک کر دونوں ہاتھ ٹیبل پر ٹکا کر بولی تھی ۔ مروہ تم میری بچپن کی دوست ہو جب تمھیں ڈھونڈتا میں تمھارے گیا اور تم مجھے نہیں ملی تو میرا دل بجھ سا گیا جب مجھے پتہ چلا کہ سوزین کی ماما میری بچپن کی دوست ہے تب تک میں سمجھتا تھا کہ تمھارے شوہر کی ڈیتھ ہو چکی تب میرے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ کاش سوزین کی ماما میری بچپن کی دوست مروہ نہ ہو۔  تمھیں جب بھی اداس دیکھتا تو میرا دل تڑپ جاتا تھا ۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ تمھیں مل کر میں اتنے عرصے بعد دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں ۔ مروہ کیا اس سب کے بعد بھی مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیے وہ بے حد نرمی سے کہتا مروہ کا ہاتھ تھام گیا تھا ۔ مجھے گھر جانا ہے وہ اس سے ہاتھ چھڑا کر بولی تھی ۔ پھر میں ہاں سمجھو وہ شوخی سے کہتا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔ نہیں کھڑی ہوتی بولی تھی ۔ پلیز مروہ وہ التجائیہ لہجے میں بولا تھا ۔ آپ امی سے بات کر لیں وہ شرم سے چہرہ موڑ کر باہر کی جانب بڑھی تھی ۔ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے پیچھے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج رابعہ بیگم اپنی پوری فیملی کے ساتھ سعدیہ بیگم کے گھر آئی تھیں سوائے ہاشم کے سب ہی موجود تھے اسے کسی ضروری کام سے جانا تھا اس لیے وہ نہیں آسکا تھا اس وقت سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے وہ چائے  بناتی سب کو کپ تھما رہی تھی جب وہ ایک کپ ہاتھ میں لیے حاشر کی طرف کپ بڑھا رہی تھی تو وہ کپ کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ بھی شرارت سے پکڑ چکا تھا مروہ نے گھبرا کر چور نظروں سے سب کو دیکھا تو کوئی بھی ان کی جانب متوجہ نہیں تھا ۔ مروہ نے گھور کر اس سے ہاتھ چھڑوایا تھا۔  وہ ہاتھ چھڑوا کر رابعہ بیگم کے پاس جا بیٹھی تھی ۔ تب ہی رابعہ بیگم اس کا ہاتھ پکڑ چکی تھیں۔ سعدیہ آج ہم لوگ تم سے اپنی بیٹی مانگنے آئے ہیں تم مروہ کو میرے حاشر کی دلہن بنا دو رابعہ بیگم نے سعدیہ بیگم سے کہتے ہوئے پیار سے مروہ کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔ مروہ شرم سے دوہری ہوتی سر پوری طرح سے جھکا چکی تھی ۔ سعدیہ بھابھی ہم آپکی بیٹی کا پورا خیال رکھیں گے اس کو اپنی بیٹی اور اپنے گھر کی ملکہ بنا کر رکھیں گے جس طرح سیرت بیٹی ہمارے گھر میں خوش ہے بالکل ویسے ہی مروہ کو بھی خوش رکھنے کی پوری کوشش کریں گی ۔ جی آنٹی انکل بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں میں بہت خوش ہوں مجھے انکل آنٹی یہ گھر کے کسی فرد سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور مروہ بھی بہت خوش رہے گی آپ دیکھ لیجئے گا ویسے بھی حاشر مروہ سے بہت محبت کرتا ہے وہ کہتی ہوئی آخر میں حاشر کو دیکھنے لگی تھیں ان کی آخری بات سن کر مروہ کو اپنے گال دہکتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔ 

مجھے اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ آپ لوگ بہت اچھے اور خاندانی ہیں  اور حاشر تو بچپن سے ہی مجھے بہت پسند ہے اور اپنے حاشر کی طرح عزیز ہے مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے وہ کہتی اپنے ساتھ والے صوفے پر بیٹھے حاشر کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں ۔ تو ٹھیک ہے پھر مروہ آج سے میرے حاشر کی ہوئی رابعہ بیگم نے کہتے ہوئے بیگ سے ایک انگوٹھی نکال کر مروہ کے دائیں ہاتھ میں پہنا دی تھی مروہ کا دل۔اس وقت تیزی سے دھڑک رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے کہیں غائب ہو جائے حاشر کے سامنے بیٹھنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا ۔ تب ہی سعدیہ بیگم کے کہنے پر ملازمہ مٹھائی لے کر آئی تو رابعہ بیگم نے سب سے پہلے مٹھائی مروہ کے منہ میں ڈالی تھی جبکہ سیرت بھابھی نے اٹھ کر مٹھائی کا ایک بڑا سا ٹکرا حاشر کے منہ میں ڈال دیا تھا بہت مبارک ہو دیور جی وہ مسکرا کر کہتی اپنی شرارت سے سب کو ہنسا گئی تھیں جبکہ وہ اب مٹھائی کا ایک ٹکرا مروہ کے منہ میں بھی ڈال چکی تھیں۔ بھابھی ہم منگنی وغیرہ کی رسم نہیں کریں گے بلکہ ہم جلد سے جلد اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں راحیل صاحب کی بات پر مروہ نے نظریں اٹھا کر حاشر کو دیکھا جو اسی کو دیکھنے میں مصروف تھا مروہ کے اپنی طرف دیکھنے پر وہ آنکھ وینک کرتا مسکرا رہا تھا اس کی اس حرکت پر مروہ نے ایک بار پھر سر جھکا لیا اور دل میں اسے بے شرم کا القاب بھی دے چکی تھی۔ جی بھائی صاحب اب تو یہ آپ لوگوں کی امانت ہے میرے پاس جب چاہیں لے جائیں ۔ ہاں تو بس ٹھیک ہے آج سے دس دن بعد ہم بارات لے کر آئیں گے اور اپنے حاشر کی دلہن کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اب میں بالکل بھی دیر نہیں کرنا چاہتی اور شادی کی تیاریوں کی بالکل کوئی فکر نہیں کریں سب کچھ ہو جائے گا ہمیں بس ہماری بیٹی چاہیے رابعہ بیگم مروہ کو اپنے ساتھ لگا کر کہ رہی تھیں ان کی خوشی کا تو ٹھکانا ہی نہیں تھا کہ حاشر نہ صرف شادی کے لیے مانا ہے بلکہ وہ خود مروہ سے شادی کی خواہش ظاہر کر چکا ہے تو پھر وہ کیوں دیر کرتیں۔ سعدیہ بیگم ہنسے ہوئے سر ہلا گئی تھیں وہ بھی جلد سے جلد اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں اور حاشر ایک بہت اچھا لڑکا تھا ان کو وہ ہمیشہ سے ہی مروہ کے لیے پسند تھا تو پھر وہ کیوں سوچنے کے لیے وقت لے کر مزید لیٹ کرتیں ۔

آج مہندی اور نکاح کا فنکشن ایک ساتھ رکھا گیا تھا ۔ مروہ اورنج کلر کا بہت خوبصورت فراک پہنے بیٹھی تھی آج مروہ کا سارا زیور پھولوں سے بنا ہوا تھا۔لرزتے ہاتھوں میں وہ خوبصورت پھولوں سے بنے پچانگلے پہنے انھی اپنی کود میں رکھے بیٹھی تھی۔ نکاح کے لیے اسے سرخ نیٹ کے ڈوپٹے کو گھنگھٹ اُوڑھایا گیا تھا ۔ وہ برائیڈل روم میں جبکہ حاشر سٹیج ہو بیٹھا تھا سٹیج کو گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا حاشر سفید شلوار قمیض پہنے اورنج واسکٹ پہنے بیٹھا تھا ۔ نکاح کے بعد اس وقت سب دعا کے لیے ہاتھ اّٹھائے بیٹھے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں دعا کے بعد مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوا اور مبارک باد کے بعد اب سٹیج پر ایک خوبصورت سا پھولوں سے سجا جھولا لگا دیا گیا تھا ۔ اب حال میں ایک سائیڈ پر مروہ کو اس کی دوستیں اور کزنز تازہ پھولوں کی چادر کے نیچے لیے سٹیج کی طرف بڑھ رہی تھیں مروہ کی نظریں اس وقت مکمل جھکی ہوئی تھیں جبکہ ہال کی دوسری جانب حاشر کا بھائی دوست اور کزنز اسے دوسری پھولوں کی خوشبودار چادر کے نیچے لیے سٹیج کر طرف بڑھ رہے تھے۔ حاشر کے چہرے پر اس وقت جاندار مسکراہٹ تھی وہ دونوں ہی آہستہ سے چلتے سٹیج تک آئے تھے اور جھولے پر بیٹھ چکے تھے دونوں ہی بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ ان لوگوں کے سٹیج پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے فیملی اور پھر باقی لوگوں نے باری باری رسمیں کررہے تھے ۔ کچھ کزنز نے ڈانس اور کچھ نے سینگنگ سے فنکشن میں رونق کو بڑھا دیا تھا بہت سی رسمیں بھی ساتھ ساتھ ہو رہی تھیں۔ حاشر مروہ کے ساتھ بیٹھا اس سے کوئی نہ کوئی بات کر رہا تھا جس کا جواب یہ وہ سر ہلا کر دیتی یہ خاموشی رہتی لیکن آج حاشر اسے تنگ کرنے کا پورا ارادہ رکھتا تھا وہ اس کے کان کے قریب کوئی شوخ بات کرتا تو مروہ اپنا شرم سے سرخ ہوتا چہرہ جھکا دیتی نکاح کر بعد گھنگھٹ کا سرخ ڈوپٹہ اب ہٹایا جا چکا تھا ۔ سب سے نظر بچا کر حاشر کبھی اس کے پاؤں پر اپنے پاؤں سے چھیڑ خانی کرتا اور کبھی اس کے گھٹنے پر اپنا گھٹنہ مار کر مروہ کے چہرے پر پھیلنے والی سرخی دیکھتا ۔فنکشن پوری شان سے اپنے احتمام کو پہنچا تو مروہ ایک بار پھر فوٹو شوٹ کروانے کھڑی ہو گئی تھی ۔ جب کہ دونوں کا کچھ فوٹو شوٹ مہمانوں کے آنے سے پہلے بھی ہوچکا تھا ۔  اس وقت بھی گھر والوں کے علاوہ تقریباً تمام مہمان جا چکے تھے ۔ اب ہمیں بھی اجازت دیں رابعہ بیگم نے سعدیہ بیگم سے گلے ملتے ہوئے کہا دونوں کی فیملیز باتوں میں مصروف آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے باہر کی جانب بڑھ رہے تھے جب کہ حاشر اور مروہ بالکل آخر پر سب سے کچھ فاصلے پر پیچھے آرہے تھے ۔ جب ایک دم حاشر مروہ کا بازو کھینچ کر اسے ایک دیوار کے پیچھے کر چکا تھا جہاں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی ۔مروہ حاشر کی اس حرکت پر گھبرا گئی تھی ۔ اس کی گھبراہٹ سکون اور شرم میں تب بدلی جب حاشر نے اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھے تھے ۔ اپنی پیشانی پر حاشر کے لبوں کا لمس محسوس کر کے مروہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں موند لی تھی ۔ بہت پیاری لگ رہی ہوں آج اس نے کہتے ہوئے اپنی پاکٹ سے چند نوٹ نکال کر اس کی پیشانی سے لگا کر اس کے چہرے کے اردگرد گول گول گھمائے تھے سب نے نظر اتاری لیکن اب میں بھی اتار لوں کہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے وہ کہتا ہوا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا تب ہی حاشر کے پیچے سیرت بھابھی کو دیکھ کر مروہ کی سانس رکی تھی جو مروہ کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور حاشر کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے اسے چلنے کا بول رہی تھی ۔ حاشر ان کو دیکھ کر مسکرا دیا اور مروہ کا ہاتھ تھام کر سیرت بھابھی کے پیچھے ہو لیا.

❤️❤️❤️❤️❤️

برات آچکی تھی اور وہ برائیڈل روم میں  ہزاروں جذبات و احساسات میں گری بیٹھی تھی ۔ سرخ لہنگا پہنے وہ آسمان سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی نکاح کے بعد اسے حاشر کے لیے اپنے دل میں اور بھی محبت محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ اپنے خیالات میں کھوئی بیٹھی تھی کہ حاشر کیمرہ مین کے ساتھ برائیڈل روم میں داخل ہوا تھا ۔ حاشر کی نظر جیسے ہی مروہ پر گئی وہ ہر چیز کو بھول کر ٹرانس کی کیفیت میں مروہ کی طرف بڑھا تھا اور اسے شدت سے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا اس کی اس حرکت پر مروہ سٹپٹا گئی تھی حاشر کو ہوش تو تب آیا جب پاس کھڑی کزنز نے اووووو کا نعرہ لگایا۔ وہ نرمی سے مروہ کو چھوڑ کر پیچھے ہٹا تھا فوٹو گرافر اس وقت سب کو روم سے باہر بھیجتا فوٹو شوٹ کرنے لگا اس نے مصروف سے انداز میں مروہ سے کہا کہ وہ حاشر کے سینے پر ہاتھ رکھے تو اسے حاشر کا دل بے تحاشا دھڑکتا ہوا محسوس ہوا تھا یہی حال اس کے اپنے دل کا بھی تھا کچھ دیر بعد حاشر واپس سٹیج پر جا چکا تھا جبکہ مروہ کی اینٹری کے لیے سارے ہال کی لائٹس کو بند کیا جاچکا تھا ۔ وہ سپاٹ لائٹ میں اکیلی چلتی سٹیج تک آرہی تھی جبکہ بیک گراؤنڈ میں چلتا گانا تیرے حوالے سب کو ہوٹنگ کرنے اور ان دونوں کے دل کو دھڑکنے پر مجبور کر چکا تھا۔

نہ ہو کے بھی قریب تو ہمیشہ پاس تھا

کہ سو جنم بھی دیکھتی میں تیرا راستہ  یہ الفاظ صاف صاف مروہ کے دل کی عکاسی کر رہے تھے۔ 

وہ گانے کے خوبصورت بول کے ساتھ چلتی سٹیج تک آئی تھی ۔جب حاشر سٹیج کے دو سٹیپس اتر کر اپنا ہاتھ مروہ کے آگے بڑھا چکا تھا مروہ نے این نظر حاشر کو دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ حاشر کے پھیلی ہتھیلی پر رکھ دیا پورا ہال ینگسڑرز کی ہوٹنگ اور گانے کے بول پر گھونج اٹھا تھا۔ جسم کا ہر رؤوا تیرے حوالے کر دیا ۔

حاشر اب بھی مروہ کا ہاتھ تھامےاسی جگہ کھڑا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا پھر اپنا سر ہلکا سا جھکاتا مروہ کا ہاتھ اپنے لبوں تک لے جاکر اس کے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھنے لگا جب ہال ایک بر پھر ہوٹنگ کے شور سے گھونج اٹھا تھا پھر وہ مروہ کا لہنگا ہلکا سا اٹھاتا اس اپنے ساتھ لیے سٹیج تک آیا تھا ہر کوئی ان کو جوڑی کر سراہتے ہوئے دعا دے رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں رخصتی کا شور اٹھا تھا مروہ کو جاتا دیکھ کر سوزین ضد کرنے لگی کے وہ بھی ماما کے ساتھ جائے گی اس کے رونے پر سعدیہ بیگم اسے ان لوگوں کے ساتھ بھیج چکی تھیں۔ مروہ کو بے شمار دعاؤں میں حاشر کے ساتھ رخصت کیا جا چکا تھا.

وہ بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ اس نے زیادہ  انتظار نہیں کروایا تھا جلد ہی وہ روم میں آگیا تھا۔ اور اس وقت وہ گھنگھٹ نکالے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ حاشر کو اسے اس انداز میں بیٹھا دیکھ کر ہنسی آئی تھی کیونکہ سارے فنکشن میں اس نے  گھنگھٹ نہیں نکالا تھا اب کمرے میں خاص اس کے لیے وہ گھنگھٹ نکالے بیٹھی تھی ۔  اس کی شرارت میں وہ پرانی والی مروہ کی جھلک دیکھ کر وہ بے حد خوش تھا اور دروازہ بند کرتا اس تک آیا تھا ۔ اس کو کچھ کیے بغیر وہ وہ بیڈ پر اس کے پاس نیم دراز ہوتا گھنگھٹ اُٹھائے بغیر نیچے جھکا اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ ڈوپٹے کو چہرے پر مزید درست کرتی چہرہ چھپا گئی تھی اسکی چلاکی پر وہ بیڈ پر لیٹا ہنسنے لگا تھا ۔اس کی یہ حرکت مروہ کو تپا گئی تھی ۔ میرا سانس رک جائے گا اب اُٹھا بھی دیں اس گھنگھٹ کو کیا  ایسے ہی مار ڈالیں گے۔ وہ کوفت سے بولی تھی۔ اس کے انداز پر وہ سیریس ہوتا اُٹھ بیٹھا تھا۔  ہم لوگوں نے ابھی ایک دوسرے کے ساتھ جینا ہے مرنے کی باتیں مت کرو اور وہ بھی آج کی رات وہ اس کا گھنگھٹ اٹھا کر اس کا خوبصورت چہرہ دیکھتے بولا تھا ۔ اس کی نظروں کی تپش سے وہ کنفیوز ہوتی نظریں جھکا گئی تھی ۔ ڈونٹ ٹیل می کہ تم مجھ سے شرما رہی ہو شہادت کی انگلی اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھتا وہ اس کا جھکا چہرہ اٹھا کر بولا ۔ میں کیوں شرماؤں گی وہ بھی تم سے اس نے پل میں آپ سے تم کا سفر طے کیا تھا ۔ ہاں بیگم مجھ سے آپ شرما رہی ہیں وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا اس کو تنگ کر رہا تھا ۔وہ خفا نظروں سے اس کو دیکھ کر ایک بار پھر گھنگھٹ میں اپنا چہرہ چھپا چکی تھی ۔ اس کی مصعوم ناراضگی پر وہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔ اچھا نہ سوری وہ کہتا ایک بار پھر اسکا گھنگھٹ اُٹھا چکا تھا ۔ ایک بات پوچھوں؟ وہ سنجیدگی سے کہتا اس کا ہاتھ تھام کر بول رہا تھا ۔ ہاں پوچھیں ! وہ ایک بار پھر تم سے آپ پر آئی تھی ۔ سچ سچ بتاؤ گی وہ جیسے جانتا تھا کہ وہ جیسے ڈرتا تھا کہ وہ سچ چھپا نہ جائے۔ ج ۔جی وہ جیسے جان گئی تھی کہ وہ کیا پوچھنے والا ہے ۔ تمھیں نے کبھی اپنے دل میں میرے لیے کچھ محسوس کیا وہ اس کے دل کے مقام پر انگلی رکھتا کھوئے ہوئے انداز میں پوچھ رہا تھا ۔ اس کی بات اور حرکت دونوں پر اسکا دل بے تحاشا دھڑکا تھا کہ اسے اپنے دل کی دھڑکن کی آواز اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ۔ بتاؤ نہ وہ اسکا ہاتھ دباتے ہوئے بولا جو اب تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ گزرے سالوں کا سوچ کر اسکی آنکھیں نم ہوئیں تھیں وہ اپنی موجودہ حالت کو بھلائے ماضی میں کہیں کھو گئی تھی ۔ آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کبھی میرے دل میں آپ کے لیے کچھ تھا وہ اس کی بات دہراتی نم آنکھوں سے تلخی سے مسکرائی تھی ۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ سے آپکو اپنا آئیڈیل دیکھا بلکہ آئیڈیل تو بہت چھوٹا لفظ ہے میں نے جب بھی کبھی اپنے لائف پارٹنر کا سوچا تو آپکا خیال آیا میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کبھی ایک لمحہ بھی آپ کے بغیر گزاروں گی ۔ لیکن پھر وہ دن بھی میری زندگی میں آیا کہ آپکی دوستی مجھ سے زیادہ مائدہ سے ہونے لگی ۔پھر آپ مجھے چھوڑ کر اس کے ساتھ لندن چلے گئے کہتے ہوئے ایک آنسو اس کی گود میں رکھے ان دونوں کہ ہاتھ پر گرا تھا۔ میں نے اپنی محبت کو اپنے دل میں کہیں دبا دیا تھا ۔ لیکن میری ہر دعا میں آپکا نام تھا اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ اگر آپ میری تقدیر میں لکھے گئے ہیں تو ضرور واپس آئیں گے۔ کیا اس سے زیادہ بھی میرے دل میں کچھ ہونا چاہیے تھا آپ کے لیے وہ شکوہ کناں نظروں سے اس کو دیکھتی بولی تھی ۔ میری بیسٹ فرینڈ تو ہمیشہ سے تم تھی مائدہ کی طرف میرا جھکاؤ شاید  تم نے اس لیے زیادہ محسوس کیا کیونکہ میرے اور مائدہ کے سٹڈی انٹرسٹ سیم تھے اور بہت جلد ہم دونوں ہی اکٹھے سٹڈیز کے لیے لندن جانے والے تھے۔ اس کے ہاتھ پر بوسا دیتے وہ اس کے آنسو صاف کرتا بولا تھا ۔ یو آر مائے فرسٹ اینڈ لاسٹ بیسٹ فرینڈ وہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر بولا تھا ۔ تمھاری جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا مروہ نہ میرے دل میں نہ میری زندگی میں اور نہ ہی میرے گھر میں وہ کہہ کر اب اس کا ہاتھ چوریوں سے آزاد کررہا تھا ۔  تمھاری  منہ دکھائی وہ اس کا ہاتھ چوریوں سے آذاد کر چکا تو اس کے بازو پر ایک بریسلیٹ پہناتے ہوئے بولا تھا ۔ میں کبھی جان نہیں سکا تھا مروہ کہ میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں جب مجھے تمھارے بارے میں غلط فہمی ہوئی تو اس بات نے مجھے توڑ کر رکھ دیا مجھے لگا جیسے کسی نے مجھے جلتے انگاروں میں دھکیل دیا ہو ۔۔تمھارا ہر درد میں نے یہاں محسوس کیا تھا وہ اس کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے ہوئے بولا تھا ۔مجھے تب اپنی محبت کی لاعلمی پر حد غصہ آیا تھا ۔ کہتا ہوا وہ ایک بار پھر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا چکا تھا۔اس کے اظہارِ محبت پر وہ اندر تک سر شار ہوئی تھی ۔ کچھ لمحے یوں ہی خاموش بیٹھے گزر گئے تھے۔تم چینج کرلو تھک گئی ہوگی کہتے ہوئے اُٹھا تھا اور سرخ شارٹ شرٹ اور کھلا ٹراؤزر الماری میں سے نکال کر اس کی طرف بڑھا چکا تھا ۔ وہ چینج کر کے باہر آئی تو وہ بھی ٹراوزر شرٹ پہنے بیڈ پر بیٹھا اسی کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی بیڈ تک آنے کی بجائے صوفے پر بیٹھ چکی تھی ۔ حاشر چو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز سا کب سے اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے صوفے پر بیٹھنے سے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔ وہ اٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھا تھا وہ گود میں ہاتھ رکھے ان کو آپس میں مسلنے میں مصروف تھی  کھلے بال اس کے چہرے کو چھپا رہے تھے حاشر نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کیا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کے بائیں رخسار پر رکھ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا ۔وہ نظریں جھکائے اس کے سامنے شرمائی سی بیٹھی تھی میک اپ اب تک اس نے صاف نہیں کیا تھا ۔ وہ دوسرا ہاتھ اس کی کمر پر رکھتا ایک جھٹکے سے اس کو اپنی گود میں بیٹھا چکا تھا ۔ اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے شانوں پر جماتے وہ اس کی پیشانی کے ساتھ اپنی پیشانی ٹکاتے آنکھیں موند چکا تھا ۔ آئے لو یو نہایت آہستہ آواز میں کہتا وہ اس کے پہلے سے رکے سانس کو مزید روک گیا تھا ۔ کچھ لمحوں بعد وہ اس کے لبوں کو آزادی بخشتا آنکھیں کھول کو اس کے چہرے کو دیکھنے لگا اپنے چہرے پر اس کی نظروں کی تپش محسوس کر کے بند آنکھوں کے ساتھ ہی وہ اپنا چہرہ اس کی گردن اور شانے میں چھپا چکی تھی ۔ اس کی اس حرکت پر حاشر کے لب مسکرائے تھے ۔ وہ اسے یوں ہی گود میں لیے بیڈ پر لٹا چکا تھا اس نے اپنی آنکھیں ابھی بھی نہیں کھولی تھیں۔ وہ مڑ کر لائٹ بند کرتا بیڈ تک آیا تھا اور اس پر جھکتے ہوئے اس کی باہوں کا ہار اپنی گردن میں ڈال چکا تھا ۔

___________________________________

صبح اس کی آنکھ کھلی تو خود کو اس کے اتنے قریب محسوس کر کے اسے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی تھی بلا آخر وہ اپنی خاموش محبت کو  ہمیشہ کے لیے حاصل کر چکی تھی ۔ وہ سر اٹھاتی اپنے پاس گہری نیند میں سوئے حاشر کا چہرہ گور سے دیکھنے لگی بند آنکھوں پر اٹھی لمبی پلکیں جو اس کے آئی بروز کو چھونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مہارت سے تراشی اس کی بیرڈ اور آپس میں سختی سے بھینچے گئے اس کے لب اس کے چہرے کے نقوش میں کھوئی کھوئی وہ نہ جانے کب اس کے دائیں گال پر ہاتھ رکھتی بائیں گال پر اپنے لب نرمی سے رکھ چکی تھی۔ اس کے گام پر جھکنے کی وجہ سے مروہ کے کھلے بال حاشر کے چہرے پر بکھر گئے تھے ۔ جس کی وجہ سے حاشر کی آنکھ کھل چکی تھی اور وہ یوں مروہ کو اپنے چہرے پر جھکا دیکھ کر حیران ہوا تھا مروہ اس کی کھلی آنکھوں دیکھ کر سرخ ہوئی تھی اور جلدی سے چہرہ دوسری جانب موڑ کر بیڈ سے نیچے اترنے ہی لگی تھی کہ حاشر نے ایک جھٹکے سے اسے کمر سے تھام کر ایک بار پھر اپنے چہرے پر جھکایا تھا۔ تم کانٹینیو کرو لو میں سو رہا ہوں وہ کہتا آنکھیں موند گیا جب کے ہاتھ اب تک اس کی کمر کو تھامے ہوئے تھا۔تنگ مت کریں وہ روہانسی ہوتی ہوئی کہنے لگی تھی۔  واٹ ! میں تنگ کر رہا ہوں یہ تم نے مجھے تنگ کر کے نیند سے جگایا وہ آنکھوں کھولے اس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ چھوڑیں مجھے وہ کہتی ہوئی اپنی کمر اس کی گرفت سے آزاد کروانے لگی۔ نہیں چھوڑوں گا اب تو کبھی بھی وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر اسے جھٹکے سے خود پر گرا چکا تھا ۔ وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے نظریں جھکا چکی تھی۔ شرما رہی ہوں وہ شرارت سے کہتا اس کا چہرہ دیکھنے لگا جی نہیں وہ ساری شرم ایک طرف رکھتے ہوئے بولی تھی ابھی وہ اس سے لڑنے کی پوری تیاری کرتی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔  چاچو ماما اوپن دا ڈور وہ دونوں ہی دروازے کے باہر کھڑی دونوں ہاتھوں سے دروازہ بجا رہی تھیں ۔ لو آگئی صبح صبح موڈ خراب کرنے وہ کہتا کروٹ بدل چکا تھا اور وہ اٹھ کر دروازہ کھول چکی تھی ۔ ماما اتنی دیر بعد کیوں دروازہ کھولا سوزین پوچھتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی جبکہ مروہ کو دیکھ کر عائزہ اپنا منہ بسور چکی تھی ۔ چچی آپ نے لہنگا کیوں چینج کیا ابھی میں نے دلہن کو پھر سے دیکھنا تھا وہ افسردگی سے بولی تھی۔ چاچی آج پھر سے دلہن بنیں گی تب دیکھ لینا حاشر بولتا ہوا ان لوگوں کے پاس آیا ریلی وہ خوشی سے دونوں ہاتھوں کی تالی بجا کر بولی پھر تو آج رات کو ہم دلہن کے ساتھ سوئیں گے وہ سوزین کو دیکھتی ہوئی کھل کر بولی تھی جی نہیں اس کی بات سن کر اب حاشر اپنا منہ بسور چکا تھا ۔ جی چاچو ماما ہمارے ساتھ سوئے گی سوزین کہتے ہوئے مروہ کی گود میں بیٹھی تھی یس ! ابھی وہ کچھ بولتا کہ مروہ نے اس کو ایک نظر دیکھ کر کہا۔ فریش ہو کر آ جاؤ ناشتے کے لیے کمرے میں داخل ہوتی سیرت بھابھی نے کہا ان سب کو دیکھتا وہ الماری سے کپڑے لیتا واش روم میں گھسا تھا۔

ولیمے کی تقریب بہت شاندار طریقے سے انجام پائی تھی وہ بیلو پینٹ کوٹ میں ساری محفل کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہا تھا جب کہ وہ اس کے ساتھ گرے اور بیلو میکسی میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ وہ سب لوگ ہال سے واپس آ کر سونے کے لیے جا چکے تھے جبکہ وہ روم میں صوفے کی پشت سے  سر لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی ۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا دوبارہ سے لاک کر چکا تھا ۔ اس کی آمد پر بھی اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ وہ چلتا ہوا صوفے پر اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا ۔  تھک گئی ہو اس کے چہرے کو آنکھوں میں بسائے پوچھ رہا تھا ۔ وہ سر کو دائیں بائیں ہلاتی سیدھی ہو کر بیٹھی تھی اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔ تمھیں تو بخار ہے حاشر نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے کہا جی سر میں درد ہے وہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ماتھے سے ہٹا چکی تھی ۔ اس کا یوں ہاتھ ہٹانا وہ محسوس کر چکا تھا  وہ صوفے سے بامشکل اٹھتی کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھی تھی کہ لڑکھڑا کر زمین پر گرتی کے اس کے مضبوط بازو اسے تھام چکے تھے ۔ وہ  دھندلی آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی کہ سر پر ہاتھ رکھتی ہوش و خرد سے بیگانی ہو گئی تھی ۔ مروہ مروہ وہ اس کا گال تھپتھپاتے بول رہا تھا ۔ پھر اس کو باہوں میں اٹھائے بیڈ پر لٹاتا کپکپاتے ہاتھوں سے پاکٹ سے موبائل نکالتا ڈاکٹر کو کال کرنے لگا۔ اب وہ بیڈ پر بیٹھا اس کے پاؤں سینڈل سے آزاد کر رہا تھا پھر اس کو سیدھا کرتے بلینکٹ سے کور کر گیا تھا پانچ منٹ کے اندر ڈاکٹر وہاں موجود تھا۔ اس کو چیک کرنے ک بعد وہ پرچی حاشر کو تھما چکا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا ۔ انھوں نے کسی چیز کا بہت زیادہ سٹریس لیا ہے لیکن آپ پریشان مت ہوں شادی کی تھکاوٹ اور رخصتی کی وجہ سے اکثر لڑکیاں سٹریس لے لیتی ہیں میں نے ان کو انجیکشن دے دیا ہے صبح تک ٹھیک ہو جائیں گی ۔ وہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجاتا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا باہر نکلا تھا ۔جاؤ انھیں باہر چھوڑ کے آؤ وہ ڈاکٹر کی دی ہوئی پوچی بھی پاس کھڑی ملازمہ کے ہاتھ میں پکڑاتا بولا تھا ۔ اس کے نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کیا تھا اور صوفے سے وہ سوٹ اُٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھا تھا جس کو لیے وہ چینج کرنے جا رہی تھی ۔ اس کو بیڈ پر یوں بے سود پڑے دیکھ کر اس کا دل کٹ کے رہ گیا تھا ابھی کل وہ کتنی خوش اس سے باتیں کر رہی تھی اور آج خاموش اس بیڈ سے لگی تھی۔ بیڈ پر ایک جانب کپڑے رکھتا وہ احتیاط سے اس کے سر سے دوپٹہ آزاد کرتے ہوئے اب اس کے بال بے حد نرمی سے کھول رہا تھا وہ اس کو آرام دہ حالت میں لٹانا چاہتا تھا ۔ اب وہ اٹھ کر روم کی لائٹ آف کرتا اس تک بڑھا تھا اور اس پر سے بلینکٹ ہٹاتا اس کے کپڑے چینج کر رہا تھا ۔ یہ کام وہ لائٹ آن رکھ کر زیادہ آسانی سے کر سکتا تھا اور وہ اس کا محرم تھا ہر طرح کا حق رکھتا تھا اس پر لیکن وہ اس کی بیہوشی میں اس کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ کچھ پل میں وہ اپنا کام کر کے اٹھا اور لائٹ آن کرتا اس کی میکسی الماری میں ہینگ کرتا بیڈ تک آیا تھا۔ ٹھنڈا پانی اور پٹیاں میرے روم میں دے جاؤ وہ انٹر کام اٹھا کر بولا تھا ۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ بیڈ پر بیٹھا ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اس کی پٹیاں کر رہا تھا وہ اب تے پینٹ کوٹ پہنے ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلا کیے بیٹھا تھا لیکن کوٹ اُتار چکا تھا اس کی بیہوشی میں وہ خود کو مکمل فراموش کیے اس کے پاس بیٹھا مکمل توجہ اور محبت کے ساتھ اس کی پٹیاں کر رہا تھا ۔ کچھ ہی دنوں میں وہ لڑکی کتنی عزیز ہو گئی تھی اس کے کیے یا پھر ہمیشہ سے ہی عزیز تھی لیکن وہ سمجھ نہیں سکا تھا ۔

___________________________________

صبح اس کی آنکھ کھلی تو اسے آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا تھا کہ کیسے وہ بیہوش ہوئی اپنی بیہوشی کہ بعد اسے کچھ یاد نہیں تھا لیکن اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی ٹھنڈے پانی سے اس کی پٹیاں کر رہا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے پاس نیم دراز حاشر کو دیکھا وہ ابھی تک ولیمے والی شرٹ اور پینٹ میں موجود تھا ٹائی اور کوٹ اس کے پاؤں کے پاس بیڈ پر بے ترتیب رکھے ہوئے تھے ۔ حاشر کو دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔ زوہا کی باتیں اس کے ذہین میں گھومی تھیں۔ جب وہ ولیمے کے فنکشن سے واپس آ کر اس کو روم میں بٹھا کر کسی کام سے باہر نکلا تھا تو زوہا اس کے روم میں آئی تھی ۔ مروہ تم نے کیوں کیا ایسا میرے ساتھ تم بھی تو ایک لڑکی ہو اور لڑکی ہوتے ہوئے تم میرے دل کو روندھ گئی وہ صوفے پر اس کے پاس بیٹھتی چہرے پر جھوٹی افسردگی طاری کیے بول رہی تھی ۔ کیا مطلب میں سمجھی نہیں مروہ نے نا سمجھی سے زوہا کو پوچھا ۔ جب تک تم حاشر سے نہیں ملی تھی کتنا خوش تھے ہم لوگ کتنی کیئر کرتا تھا وہ میری وہ صرف مجھ سے محبت کرتا تھا اور پھر تم نے میری زندگی میں آ کر مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا  وہ مکاری سے کہتی اپنے جھوٹے آنسوں پونچھ رہی تھی ۔ 

محبت ! مروہ لفظ محبت کو دہرا کر اس کے روئے روئے چہرے کو دیکھتے بولی۔ ہاں محبت__ بہت محبت کرتا تھا حاشر مجھے سے لندن میں رہتے ہوئے بھی اس نے کبھی مجھے اگنور نہیں کیا تھا ہمیشہ مجھ سے رابطے میں رہتا اور کہتا تھا کہ وہ بہت جلد واپس آ کر مجھے اپنی دلہن بنا کر لے جائے گا کہتے ہوئے وہ اپنے نظر نہ آنے والے آنسو ایک بار پھر صاف کرنے لگی ۔ پھر وہ جب تم سے ملا تو مجھے جیسے بھول گیا ۔مروہ تم نے میری زندگی میں آ کر میری ساری خوشیاں چھین لیں وہ کہتی ہوئی بھاگنے والے انداز میں باہر کی جانب بڑھی تھی۔ اس کی باتیں سوچ کر اس کو اپنی آنکھیں نم ہوتی محسوس ہوئیں تھیں ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے آنسو صاف کرنے چاہے تو اپنا بازو دیکھ کر چونکی پھر خود پر سے بلینکٹ ہٹاتی آنکھیں حیرت سے کھولے اپنے چینج لباس کو دیکھ رہی تھی ۔پھر ایک دم تیزی سے اٹھ بیٹھی اس کی تیزی پر سویا ہوا حاشر بھی اٹھ بیٹھا تھا ۔ کیسی طبیعت ہے وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا ۔ میرے کپڑے کس نے چینج کیے وہ اس کی بات کو اگنور کرتا پوچھ رہا تھا ۔ باتوں سے تو ٹھیک لگ رہی ہو وہ بھی اس کی بات اگنور کرتا بولا تھا ۔ میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے اب وہ روہانسی ہو کر بولی تھی ۔ کس کی ہے اتنی جرات وہ اس کو بازو سے تھام کر اپنے قریب کرتا بولا تھا ۔ اپنے سر کو نہ میں دائیں بائیں ہلاتی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔  کس کی اجازت سے اب وہ غصے سے اسے پوچھ رہی تھی ۔ ایم سوری تمھارے آرام کے لیے مجھے یہ کرنا پڑا بٹ لائٹ آف تھی ڈونٹ وری اس کی بات سے وہ تھوڑی سکون میں آئی تھی ۔ آگے بڑھ کر اس کے ماتھے کو چھوتا وہ اس کے بال کان کے پیچھے کرنے لگا تھا ۔ہاتھ مت لگائیں مجھے پلیز وہ کہتی بری طرح سے اس کا ہاتھ جھٹک چکی تھی ۔ کیا ہوا ہے مروہ ؟اس کے بدلتے رویے کی وجہ نہ سمجھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔  میں اب سمجھی کہ کیوں آپ نے مائدہ سے شادی نہیں کی اور کیوں آپ  کبھی میری محبت کو نہیں سمجھ سکے ۔ وہ کہتی ہوئی رو رہی تھی ۔ کیا کہہ رہی ہو تم وہ حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا ۔بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں پہلے آپ نے مجھے اپنے پیار میں پاگل بنا کر چھوڑا پھر مائدہ کو اور اب زوہا کو وہ غصے اور افسوس سے کہہ رہی تھی ۔ جبکہ زوہا کا نام سن کر وہ ساری بات سہی معنوں میں سمجھ چکا تھا ۔ تم مجھے ایسا سمجھتی ہو وہ اذیت سے اس کو دیکھتے پوچھ رہا تھا ۔ سمجھی ہی تو اب ہوں میں آپکو میں کتنی بیوقوف تھی وہ کہتی چہرہ اپنے ہاتھوں میں دیے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ تم تو مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہو نہ پھر اتنی بے اعتباری کیوں وہ اس کا بازو تھام کر بولا تھا ۔ کتنا اذیت ناک تھا اس کو اپنے کردار کا ثبوت دینا لیکن وہ پھر بھی اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا ۔ جائیں آپ یہاں سے نفرت ہو رہی ہے مجھے خود سے اپنے اس دل سے اور اپنے وجود سے کتنی زیادتی کی میں نے خود سے اور میرے اس دل نے مجھ سے کہہ میں آپ کو چاہتی رہی اور آپ جیسے انسان کو خود کو چھونے کی اجازت دے دی میں اس سب کے لیے آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اس کی باتیں سن کر خود پر بے تحاشا ضبط کرتے اس کی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں۔ وہ بلینکٹ غصے سے ایک طرف پھینکتا سرخ آنکھیں لیے بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر نکلا تھا ۔اس کے باہر نکلتے وہ گرنے والے انداز میں بیڈ پر لیٹی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔

وہ سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے کہ حاشر زوہا کو گھسیٹنے والے انداز میں لاتے ہوئے ڈائینگ ٹیبل کے پاس کھڑا کر چکا تھا ۔ ہاں تو بتاؤ سب کو کہ اتنے سالوں سے میں نے تمھیں آسرے میں رکھا ہوا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا بتاؤ ان سب کو کہ میں ہمیشہ سے تم سے کانٹیکٹ میں رہا تھا ۔ اب بولتی کیوں نہیں وہ دھاڑنے والے انداز میں بولا تھا ۔ ڈائینگ ہال میں موجود سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ حاشر بیٹا خوشیوں والا گھر ہے کیسی باتیں کر رہے ہوں امی آپ نے تو اس کو چنا تھا میرے لیے وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بول رہا تھا ۔ وہ خاموش بیٹھی یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھی ۔ بیٹا ہوا کیا ہے رابعہ بیگم اپنی کرسی سے اُٹھتی ہوئیں پریشانی سے بولی تھیں۔ ماما اس نے میری بیوی سے کہا ہے کہ وہ ہم دونوں کے درمیان آگئی ورنہ میں یعنی حاشر اس سے اس زوہا سے بے انتہا محبت کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا وہ کہتے ہوئے اس بے وفا پر بھی ایک نظر ڈال گیا تھا ۔زوہا بیٹا آپ نے کیا واقعی ایسا کہا ہے رابعہ بیگم پوچھتی ہوئی اس کے قریب آئی تھیں ۔ ہاں کہا ہے میں نے اور سچ ہی تو کہا ہے تم نہ سہی لیکن میں تو تم سے بے انتہا محبت کرتی ہوں نہ حاشر اور اگر یہ تمھاری زندگی میں نہ آئی ہوتی تو ایک دن تمھیں بھی مجھ سے محبت ہو جاتی اور تم میرے ہوتے وہ بھی دھاڑتے ہوئے بے شرمی سے سب اُگل رہی تھی ۔ وہ تم سے کبھی بھی کسی بھی صورت شادی نہ کرتا زوہا ماما حاشر سے بہت پہلے ہی تمھارے متعلق پوچھ چکی تھیں اور وہ تم سے شادی کرنے سے انکار کر چکا تھا شاید وہ بہت پہلے ہی تمھاری اصلیت جانتا تھا  ۔۔۔سب کو اس کے انکشاف پر حیرت میں مبتلا دیکھ کر ہاشم بھائی بولے تھے۔  ان کی بات سن کر مروہ نے خود کو شرمندگی کے گھڑوں میں دھنستا محسوس کیا تھا۔ ان سب کی باتیں سنتا وہ ایک جتلاتی نظر مروہ پر ڈال کر باہر نکلا تھا ۔ حاشر ۔۔ خ

حاشر بیٹا رابعہ بیگم کی آوازوں پر بھی وہ رکا نہیں تھا بلکہ گھر سے باہر نکل گیا تھا ۔ ان سب باتوں کے بعد اس کو اپنا وہاں رکنا بہت مشکل لگا تھا وہ روم کی طرف گئی تھی اور دروازہ اندر سے لاک کرتی وہیں زمین کے ساتھ ڈھے سی گئی تھی ۔ کتنی بیوقوف تھی وہ اپنی محبت اپنے شوہر پر یقین نہ کر سکی تھی۔ اس کو اذیت میں مبتلا کر گئی تھی اس کو بار بار حاشر کی اس سے شکوہ کرتی  سرخ آنکھیں یاد آ رہی تھیں۔ اس کے اتنے غلط رویے کے باوجود بھی وہ گھر والوں کے سامنے خود کے لیے اس کی بات اعتباری چھپا گیا تھا۔ یہ سب باتیں اس کی اذیت کو اور بڑھا رہی تھیں اور وہ پھر سے سر گھٹنوں میں دیے شدت سے روئی تھی۔

___________________________________

گرین پیروں تک آتی فراک پہنے  بالوں کو کرل کیے لائٹ سا میک اپ کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑی تیسری بار اپنا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔ صبح سے دوپہر دوپہر سے شام اور شام سے رات ہوگئی تھی لیکن اس کا کچھ پتا نہیں تھا وہ اپنا فون آف کیے ناجانے کہا بیٹھا تھا۔وہ ابھی آئینے کے سامنے ہی کھڑی تھی جب وہ روم میں داخل ہوا تھا۔ آپ کہا گئے تھے میں کب سے آپکا انتظار کر رہی تھی اچھا چھوڑیں یہ بتائیں کیسی لگ رہی ہوں وہ گھوم کر اس کو پوچھ رہی تھی ۔ وہ خاموش اس اسے دیکھ رہا تھا جو ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اچھا نہ آئے ایم سوری وہ کہتی ہوئی اس کا ہاتھ تھام گئی تھی ۔ مجھ جیسے مرد کا ہاتھ تھام رہی ہو تم تمھیں اندازہ بھی ہے کہ یہ مرد تمھارے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہے وہ سخت لہجے میں کہتے ہوئے نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھ سے ہٹا چکا تھا ۔ آئندہ مجھ جیسے مرد کے قریب آنے کی کوشش مت کرنا وہ چبا چبا کر بولا تھا۔ کچھ بھی نہیں کریں گے آپ جانتی ہوں میں اور آؤں گی پاس کیا کر لیں جو کرنا ہے کر لیں آپ کو بٹ پلیز مجھے معاف کر دیں وہ التجائیہ انداز میں کہہ رہی تھی ۔ مجھے تمھاری معافی کی ضرورت نہیں ہے سمجھی تم وہ کہتا بیڈ سے پیلو اُٹھا کر صوفے کی طرف بڑھا تھا ۔ اور لائٹ آف کرتا وہاں لیٹ چکا تھا ۔وہ وہیں اندھیرے میں کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ڈریس چینج کرنے چلی گئی تھی۔

___________________________________

وہ تین دن سے اسکو منانے کی ہر ممکن کوشش کر چکی تھی لیکن وہ نہیں مانا تھا ۔ رابعہ بیگم اور راحیل صاحب واپس پنڈی ج چکے تھے اور زوہا کو وہ لوگ دوبئی اس کے والد کے پاس بھیج چکے تھے ۔ حاشر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنا بزنس جائن کر چکا تھا۔ اس وقت وہ  واش روم میں شاور لے رہا تھا جب ملازمہ ہاتھ میں شرٹ پکڑے روم میں داخل ہوئی یہ سر نے پریس کرنے کے لیے دی تھی وہ بتاتی ہوئی شرٹ مروہ کو پکڑا کر جا چکی تھی ۔ شرٹ کو دیکھتے مروہ کے دماغ میں ایک گھنٹی بجی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ آلریڈی لیٹ ہو چکا ہے۔ دیکھتی ہوں کیسے اب مجھ سے بات نہیں کرتے کہتے ہوئے وہ شرٹ کا ایک بٹن توڑ کر شرٹ بیڈ پر ڈال چکی تھی اور خود سوئی ڈھونڈتی اس میں دھاگہ ڈال رہی تھی۔ کہ وہ واش روم سے باہر نکل آیا شرٹ پہنتے آئینے کے سامنے آتے بٹنز بند کرنے لگا وہ دور کھڑی اس کی ساری حرکتیں دیکھ رہی تھی۔ شٹ کہتے ہوئے وہ الماری کے طرف بھڑنے ہی والا تھا کہ وہ پھرتی سے اس تک آئی کیا ہوا بٹن ٹوٹ گیا لائیں میں ٹانک دوں وہ اس کا چہرہ دیکھتی بول رہی تھی ۔ جب کہ وہ اس کو اگنور کرتا الماری کی طرف بڑھا تھا ۔ ارے ایک منٹ لگے گا لائیں نہ وہ ایک بار پھر اس تک پہنچتی اس کی شرٹ ایک ہاتھ سے پکڑ چکی تھی ۔ وہ اپنی شرٹ اس کے ہاتھ سے چھڑواتا الماری سے دوسری شرٹ نکال کر پہنتا ہلکے سے اپنے بال سیٹ کرتا بہت نکلا تھا وہ افسردگی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

___________________________________

وہ چاروں اس وقت لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔سیرت اور ہاشم نہیں جانتے تھے کہ اس دن کے بعد سے انکا رشتہ اتنا ڈسٹرب ہو چکا ہے ۔ سیرت اور مروہ اپنی باتوں میں مصروف تھیں کہ ہاشم کے موبائل پر رنگ ہوئی تھی وہ فون اٹھا کر بات کرنے کے بعد رکھ چکا تھا ۔ کیا ہوا حاشر چائے کا سیپ لیتے پوچھ رہا تھا ۔ احسن کو جس میٹنگ پر بھیجا تھا وہ اس سے مینج نہیں ہو رہی ہم میں سے کسی ایک کو وہاں آج ہی پہنچنا ہوگا وہ کچھ سوچتے ہوئے بتا رہا تھا۔ تو بھائی میں چلا جاتا ہوں آپکا یہاں ہونا ضروری ہے وہ چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا تھا۔  ہممم ٹھیک ہے تم پیکنگ کر لو تمھیں آج ہی لاہور کے کیے نکلنا ہوگا ان کی بات سن کر مروہ نے چونک کر حاشر کو دیکھا تھا لیکن وہ اس کو نہیں دیکھ رہا تھا ۔  جی بھائی وہ کہتا روم کی طرف گیا تھا ۔ ایکسکیوز می مروہ کپ ٹیبل پر رکھتی اس کے پیچھے گئی تھی۔ وہ روم میں آئی تو وہ بیگ صوفے پر رکھے الماری کھولے پیکنگ کر رہا تھا ۔ آپ کیوں جا رہے ہیں وہ اس کو پوچھ رہی تھی لیکن وہ اس کو  کوئی بھی جواب دیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہا اگر آپ کا جانا اتنا ہی ضروری ہے تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں پلیز وہ کہتی ہوئی اس کا بازو تھام کر اس کا رخ اپنی طرف کر چکی تھی ۔ وہ اس کے چہرے کو دیکھتا ایک بار پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا ۔ اچھا یہ تو بتا دیں کہ کب تک آئیں گے پتا نہیں وہ کہتا ڈریس چینج کرنے چلا گیا ۔ وہ واپس آیا تو وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی اسکو باہر آتا دیکھ کر اس کی طرف بڑھی تھی جلدی آ جائیں گے نہ وہ اس سے روندی ہوئی آواز میں پوچھ رہی تھی ۔ جب کہ وہ بغیر اس کی بات کا جواب دیے بیگ اُٹھا کر باہر نکل گیا تھا ۔ وہ وہیں بیڈ پر بیٹھی آنسو بہانے لگی تھی۔ اس نے کار پورچ تک پہنچ کر مڑ کے دیکھا تو  وہ اس کے پیچھے نہیں آئی تھی تکلیف سے لب کچلتا وہ باقی سب سے ملتا گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔ وہ خود ہی تو اس سے بے اعتنائی برت رہا تھا پھر اس کا نہ آنا اسے بڑا کیوں لگا تھا ۔ چاہتے ہوئے بھی اسکی باتیں وہ اب تک اپنے دل سے نہیں نکال پایا تھا۔ وہ اس کی بے اعتباری کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ چکا تھا خود کو جوڑنے کے لیے اِسے فالحال وقت چاہیے تھا ۔

وہ دو دن لاہور میں تھا اور اس کی غیر موجودگی میں وہ پورا دن گھر میں یہاں سے وہاں پھرتی اس کو دیکھنے کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ اس کو دیکھے بغیر رہنا اب اس کے کیے مشکل تھا دو دن سے اس نے سوزین کو اپنے پاس بلوا لیا تھا جب وہ سکول سے آ جاتی تو سوزین اور عائزہ کے ساتھ اس کا اچھا وقت گزر جاتا تھا لیکن اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا تھا ان دو دنوں میں اس نے حاشر کو بے تحاشا مس کیا تھا آج سیرت بھابھی سے اسے پتہ چلا تھا کہ وہ گیارہ بجے اسلام آباد پہنچ جائے گا ۔ وہ شام سے ہی اپنے روم کو ڈیکوریٹ کر رہی تھی تمام تر تیاریاں اس نے خود کیں تھیں ۔ روم میں اینٹر ہوتے ہی بالکل سامنے والی دیوار پر نظر جاتی تھی اس نے آئے لو یو لکھنے کے لیے اس دیوار کا انتخاب کیا تھا ۔ ریڈ لیٹرز بلونز کے ساتھ اس نے دیوار پر آئے لو یو لکھا تھا ۔ ڈور کے بالکل پاس زمین پر گلاب کی پتیوں سے سوری لکھا تھا اور پورے روم میں زمین پر تھوڑی تھوڑی فاصلے سے گلاب کی پتیوں سے چھوٹے چھوٹے دل بنائے تھے۔ اور سرخ و سفید ہرٹ شیپ بلونز کو زمین پر کہیں کہیں پھینکا گیا تھا اور کچھ ہارٹ شیپ بلونز کو سیلنگ کے ساتھ لگایا گیا تھا ۔ بیڈ پر سفید چادر ڈالے اس پر بھی خوبصورت سا دل بنایا گیا تھا ۔ روم میں موجود ڈریسنگ ٹیبل  صوفوں اور سائیڈ ٹیبل پر بھی پھولوں کی پتیاں بکھیری گئی تھیں ۔  پورے روم میں وہ روم سپرے کی مدد سے خوشبو بکھیرتی باہر نکلی تھی ۔ گھڑی پر نظر دہرائی تو ابھی نو بجے تھے وہ جلدی سے کچن کی طرف گئی اور حاشر کا فیورٹ پاستا بنایا ۔ پھر روم میں آ کر شاور لیتی عام دنوں سے زیادہ خود کو تیار کرنے لگی ۔ آج اس نے سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی تھی لمبے بالوں کو سٹریٹ کر کے کمر پر کھلا چھوڑا ہوا تھا ڈارک ریڈ کہ سٹک اور ہیوی میک اپ کے ساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود پر پرفیوم چھڑک رہی تھی تب ہی اسے باہر سے اس کی آواز آئی وہ ہاشم بھائی اور سیرت بھابھی سے مل رہا تھا ۔ اس کی نصیحت کے مطابق ملازمہ پاستا اس کے روم میں دینے آئی تو اس کو یوں تیار دیکھ کر ماشاءاللہ کہتی ٹرے تھمائے وہاں سے چلی گئی ۔ وہ کچھ دیر میں روم میں داخل ہوا تو ہر جگہ اندھیرا دیکھ کر اس کا دل بھج  سا گیا تھا وہ تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ کاش۔وہ اس کے انتظار میں بیٹھی ہو لیکن وہ تو شاید سو چکی تھی ابھی اس نے دو قدم آگے بڑھا کر روم لاک کیا تھا کے اس کو اپنے پاؤں کے نیچے کچھ محسوس ہوا اور تازہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو اس کے نتھوں سے ٹکرائی تھی ابھی وہ کچھ سمجھ پاتا کہ پورا روم روشنی سے نہا گیا روم کو اس طرح سے ڈیکوریٹ دیکھ کر وہ کبھی روم کو تو کبھی مروہ کو دیکھتا جو اس کے سامنے کھڑی اس کا سکون چین سب لوٹ رہی تھی کیسے ہیں آپ وہ اس کے آگے بڑھتی پوچھ رہی تھی وہ  سب اگنور کرتا اس کی بات کا جواب دیے بغیر چینجنگ روم کی طرف بڑھا تھا ۔ اس کے آنے تک وہ پاستا پلیٹ میں نکال کر بیڈ پر رکھی ٹرے میں رکھ چکی تھی وہ باہر آ کر بیڈ پر بیٹھا تھا ۔ آپ کے لیے بنایا ہی سپیشل وہ کہتی ٹرے اس کی جانب سرکارتی ہوئی بولی تھی ۔ بھوک نہیں ہے مجھے وہ کہتا بیڈ پر دراز ہوا تھا لیکن اس نی پوری احتیاط کی تھی کہ بیڈ پر بنا دل خراب نہ ہو۔ تھوڑا سا تو ٹیسٹ کر لیں سپیشل آپکے لیے بنایا ہے آپکا تو فیورٹ تھا وہ ٹوٹے دل لیکن مضبوط لہجے کے ساتھ بولی تھی ۔اب نہیں پسند وہ کہتا آنکھوں پر بازو رکھ چکا تھا ۔ میرا کیا قصور ہے حاشر بس یہی نہ کہ میں آپ سے بے انتہا محبت کرتی ہوں آپ کے ساتھ کسی اور کو تصور کرنا تو دور کسی کا نام بھی نہیں سن سکتی ۔ میں آپ سے بار بار اپنی بے اعتباری کی معافی مانگ چکی ہوں میں اپنے غلطی پر شرمندہ بھی ہوں لیکن آپ اتنے پتھر دل نکلیں گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ آنکھوں سے بازو ہٹائے اسے دیکھ رہا تھا اس کو مسلسل دیکھنا اس کے بس میں نہیں تھا وہ آج اس کو نظر بھر کر دیکھنے سے ڈر رہا تھا کہ کہیں اسے اپنے حاشر کی نظر نہ لگ جائے۔ بہت ظالم ہیں آپ حاشر وہ کہتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی آئے ئیٹ یو حاشر وہ ہچکیوں کے درمیان اس کو کہہ رہی تھی جب کہ اس کے رونے پر وہ اٹھ کر اس تک آیا تھا اور بغیر کچھ کہے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا ۔ آئے ایم سوری وہ کہتا اس کی پیشانی پر لب رکھ چکا تھا ۔ میں زیادہ اوور ریکٹ کر گیا تھا شاید میں تم سے یہ سب ایکسپیکٹ نہیں کرتا تھا مجھے لگتا تھا کہ تم نے مجھ سے محبت کا دعویٰ تو کر لیا لیکن اعتبار نہ کر سکی  مروہ میں تم سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتا ہوں اپنی محبت کے ہاتھوں خود پر لگنے والے الزامات سے میرا دل چھلنی ہو گیا تھا اتنے دن تک تم سے ناراض رہ کر میں نے تم سے زیادہ اذیت خود کو دی ہے وہ کہتے ہوئے مسلسل اس کی کمر سہلا رہا تھا جب کہ وہ اس کے سینے سے لگی اب بھی آنسو بہا رہی تھی ۔ بالکل چپ وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر اس کا چہرہ اوپر کرتا اس کے آنسو اپنے لبوں میں جذب کرنے لگا وہ عجیب سے خمار میں ڈوبا اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوم رہا تھا ۔ مروہ آنکھیں بند کیے اس کے محبت اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی ۔پاستا نہیں کھائیں گے وہ آنکھیں بند کیے اس کی گردن پر جھکا اس کو تڑپا رہا تھا کہ مروہ کی آواز پر چہرہ اس کی گردن سے نکال کر اس کا خوبصورت چہرہ دیکھنے لگا۔ لاؤ کہتے ہوئے وہ سیدھا ہو کر بیٹھ چکا تھا ۔ اب وہ پاستا کا ایک چمچ بھر کر اپنے منہ میں ڈالتا اور دوسرا چمچ بھر کر مروہ کے منہ میں ڈالتا وہ جلد از جلد پاستا ختم کرنا چاہتا تھا ۔  پاستا ختم کرتا وہ اب اس کی ساڑھی کا پلو ہٹا چکا تھا ۔ مروہ تڑپتی ہوئی اب اس کو خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ تمھارے ساری کوششیں بیکار ہیں میری جان وہ کہتا ہوا آگے بڑھ کر بیڈ کراؤن کے پیچھے لگے بٹن کو بند کر چکا تھا کمرہ ایک بار پھر اندھیرے میں ڈوب گیا تھا ۔

___________________________________

صبح اسکی آنکھ کھلی تو وہ روم میں کہیں مو جود نہیں تھا روم میں ہر جگہ اب بھی پھولوں کی پتیاں اور بلونز پھیلے ہوئے تھے ۔ وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی اس وقت وہ حاشر کی ٹی شرٹ میں موجود تھی۔ اتنے دنوں تک حاشر کی ناراضگی سے وہ مرجھا سی گئی تھی اور آج وہ بالکل کوئی کھلا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی ۔ وہ بیڈ پر بیٹھی رات کے منظر کو سوچ رہی تھی اور مسکراہٹ اس کے لبوں کو بار بار چھو رہی تھی ۔ وہ اپنے ہی خیالات میں گم تھی کہ حاشر ٹیرس سے روم میں داخل ہوا اس کو خود میں یوں مسکراتے  دیکھ کر وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا تھا اپنے بالوں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے وہ ہوش میں آئی تھی وہ اس کے بالوں جو اس کے چہرے اور کندھوں کو چھو رہے تھے ان کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر پیچھے کر رہا تھا ۔ آپ کہا تھے وہ اس کا ہاتھ تھام کر کہ رہی تھی۔ یہاں وہ اس کے دل کے مقام پر انگلی رکھ کر بولا تھا اس کی حرکت پر وہ گلنار ہوتی نظریں جھکا گئی تھی۔ وہ فرصت سے اس کے چہرے پر آتے جاتے ہر رنگ کو دیکھ رہا تھا۔ ویسے تمھیں اور کچھ نہیں آتا وہ اس سے کہہ رہا تھا۔ کیا مطلب؟ وہ منہ بسورتی پوچھ رہی تھی۔تم مجھے ہر جگہ کیوں یاد آتی ہو آفس میں میٹنگز میں اور جب سوتا ہوتا تو خوابوں میں آ کر تنگکرتی ہو وہ مسکرا کر اس کی باتیں سن رہی تھی۔ آپ نے مس کیا مجھے لاہور جانے کے بعد وہ اس کو دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔ مس تو بہت کیا میں جب وہاں گیا  تو جا کر  احساس ہوا کہ مجھ تمھیں بھی اپنے ساتھ لے آنا چاہیے تھا ۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے بتا رہا تھا ۔ہاں تو لے کر کیوں نہیں گئے وہ شکوہ کرتی اس کو اور بھی پیاری لگی تھی اب لے کر جاؤ گا نہ ہم لوگ سویزر لینڈ جا رہے ہیں وہ اس کو بتا رہا تھا ریلی کب؟ وہ ایکسائٹمنٹ سے پوچھ رہی تھی۔ پرسوں وہ اس کی تھوڑی کھینچتے ہوئے بتا رہا تھا ۔ اچھا میری شرٹ واپس کرو وہ اس کو کہتا نیکلائن سے شرٹ تھام چکا تھا وہ حیرت سے آنکھیں پوری کھولے اسی کو دیکھ رہی تھی ۔ نہیں دونگی کیا کر لیں گے وہ اس کا ہاتھ شرٹ سے چھڑوا کر بولی تھی۔ تو میں خود لے لوں گا وہ کہتا اس کی کمر سے شرٹ تھام چکا تھا ۔نہیں وہ کھلکھلا کر ہنستی اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اس کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ بھی ہنستا ہوا اس کو تنگ کر رہا تھا ۔ پورے روم میں ان دونوں کی ہنسی کی آوازیں گھونج رہی تھیں۔

___________________________________

وہ کھانا کھا کر روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر اپنا کچھ ضروری کام کر رہا تھا باہر بارش تیز سپیڈ سے ہو رہی تھی۔کافی دیر تک روم میں اس کی غیر موجودگی محسوس کر کے وہ لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر رکھتا اٹھ کھڑا ہوا تھا اس کو پورے گھر میں ڈھونڈتا آوازیں دے رہا تھا وہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی اچانک اس کی نظر سیڑھیوں سے نیچے آتی روشنی پر گئی تھی وہ بنا آواز کیے احتیاط سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا تھا سامنے وہ بال کھولے بارش سے بھیگی گول گول گھوم رہی تھی ۔وہ شیڈ کے نیچے ہاتھ بازوں سے باندھ کر کھڑا کچھ پل یوں ہی چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی مروہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلا رہی تھی ۔ حاشر ہاتھ بڑھا کر لائٹ بند کر چکا تھا اب چھت پر ہر طرف اندھیرا تھا کہیں دور سے آتی ہلکی روشنی میں وہ اس کو دیکھتا آہستہ قدموں سے اُس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ پاس آکر اس نے ایک جھٹکے سے مروہ کو کمر سے کھینچ کر خود سے لگایا تھا ۔ وہ جو خوشی سے بارش میں جھوم رہی تھی اس کی اچانک کی جانے والی حرکت پر اپنی ساری شوخی بھلائے اسے اپنے ساتھ بھیگتا دیکھ رہی تھی ۔ بارش اتنی تیز تھی کہ وہ بھی بارش میں پورا بھیگ چکا تھا ۔ مروہ اس کو پیچھے دھکیل کر بھاگنے کی تیاری کر رہی تھی کہ وہ ایک بار پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے خود سے لگا گیا تھا ۔ وہ شرم اور جھجک سے خود کو ڈوپٹے سے کور کرنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ بارش کی وجہ سے اس کے کپڑے بھیگ کر اس کے بدن کے ساتھ چپک چکے تھے اور اس کے بعد کی ساری خوبصورتی عیاں ہو رہی تھی ۔ حاشر کی شوخ نظریں خود پر محسوس کرتی وہ خود کو اس سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اس کی حرکت پر حاشر کے لبوں کو مسکراتے نے چھوا تھا ۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اس کی گردن اور چہرے سے چپکے گیلے بال الگ کر رہا تھا ۔ مجھے تو ان بالوں سے بھی جیلسی ہوتی ہے ہر وقت تمھارے گال اور گردن اور کندھوں کو چھوتے ہیں۔ تیز بارش میں اپنی رکتی سانسوں کو اس کی موجودگی میں بحال کرنا مشکل تھا اوپر سے اس کی باتیں اس کا اٹکتا سانس اس کے ہاتھوں کا لمس اور اب وہ اس کے لبوں پر جھک چکا تھا شاید وہ آج اس کی سانسیں روکنے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ اپنے کالر پر کھچاؤ محسوس کر کے وہ نا چاہتے ہوئے اسے نرمی سے آزادی بخش چکا تھا وہ گرنے کے انداز میں اپنا سر اس کے سینے سے ٹکائے تیزی سے اپنی اکھڑتی سانسیں بحال کر رہی تھی۔ حاشر ہنستے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھائے سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا وہ کچھ بولے بغیر اپنے بازو اس کی گردن میں حائل کر چکی تھی وہ بولتی بھی تو کیا اس میں کچھ بولنے کی سکت کہا رہی تھی۔ وہ اسے یوں ہی اُٹھائے روم میں داخل ہوا تھا اسے نیچے اتارتا خود الماری کی طرف بڑھا تھا۔ یہ لو چینج کرکے آؤ وہ اسے نائٹ ڈریس تھماتا بولا تھا  ۔ وہ چینج کر کے آئی تو تب تک وہ بھی گیلے کپڑے چینج کیے بیڈ پر لیٹ چکا تھا ۔اسے واش روم سے باہر نکلتے دیکھ کر حاشر نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا وہ سست قدموں سے چلتی بیڈ تک پہنچی تھی وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لٹا چکا تھا ۔مروہ جانتی تھی کہ اس نے آج خود اسے موقع دیا ہے اور وہ اب اس موقع کو ہرگز جانے نہیں دے گا۔ اس کو اپنے پاس لٹاتے اب وہ اس پر کمفرٹر ڈال چکا تھا اور ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کر رہا تھا مروہ آنکھیں زور سے بند کر چکی تھی ۔ سو جاؤ وہ اس کو اپنے مزید قریب کرتا اس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چوم کر بولا تھا ۔ مروہ نے اس کی بات سن کر جھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں ۔جی ؟ وہ حیرت سے بولی تھی ۔ آگر نہیں سونا تو بتا دو وہ بند آنکھوں سے بولا تھا ۔ ن ۔نہیں مجھے نیند آ رہی ہے بہت وہ کہتی اس کی کمر پر بازو حائل کیے سر اس کے سینے سے لگائی آنکھیں موند گئی تھی ۔

___________________________________

 اس وقت وہ دونوں مل کر پیکنگ کر رہے تھے شام پانچ بجے ان لوگوں کو اپنے ہنی مون ٹرپ کے لیے نکلنا تھا ۔ سعدیہ بیگم اور سوزین کو سعودیہ گئے تین دن ہو چکے تھے۔ سوزین کی ایگزیمز کے بعد وہ دونوں سعدیہ بیگم کے بھائی کے پاس کچھ عرصے کے لیے رہنے چلی گئیں تھیں۔ عائزہ اور سیرت بھابھی بھی کل اپنی امی کے گھر رہنے کے کیے جا رہی تھیں کیونکہ عائزہ کو سکول سے چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ وہ دونوں بھی آج شام سویزر لینڈ کے کیے نکل رہے تھے۔  اس وقت وہ دونوں ہی بیڈ پر ایک بیگ رکھے کھڑے تھے وہ صرف ایک ہفتے کے لیے جا رہے تھے اسی لیے ایک ہی بیگ میں تھوڑے سے کپڑے رکھ رہے تھے ۔ یہ شرٹ بھی رکھیں بہت اچھی لگتی ہے آپ پر وہ الماری میں سے ایک شرٹ نکالتی اس سے بول رہی تھی ۔ پیکنگ تقریباً مکمل ہو چکی تھی وہ بیڈ پر رکھے ایکسٹرا کپڑے اٹھا رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے ایک فراک لیتا وہ بیگ میں رکھ چکا تھا وہ اس حرکت پر  سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی میری فیورٹ فراک ہے یہ جب بھی تم پہنتی ہو بالکل کوئی شہزادی لگتی ہو اس کی باتیں سن کر مسکراتی وہ سر ہلا کو الماری کی طرف بڑھی تھی اور ہاتھ میں پکڑے ہینگرز الماری میں لٹکانے لگی تھی ۔

ایک گھنٹہ پہلے وہ لوگ سویزر لینڈ پہنچ چکے تھے وہ وہاں پہلے سے بک کروائے گئے ہوٹل میں گئے تھے ہوٹل کا روم بہت زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا چھوٹے لیکن ڈبل بیڈ پر سفید چادر بچھائی گئی تھی اور سفید ہی پیلو رکھے گئے تھے روم کے ساتھ ایک ٹیرس بھی تھا جو اس روم کی خوبصورتی کو اور زیادہ بڑھا رہا تھا ٹیرس پر کھڑے ہو کر دیکھنے سے سامنے ایک خوبصورت واٹر فال نظر آتا تھا اور تاحدِ نگاہ سبزہ اور پہاڑ بھی نظر آ رہے تھے اس وقت وہ دونوں روم میں بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کھانا کھانے کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ پارک میں جائیں گے اور رات کا کھانا باہر کھا کر آئیں گے آج ان کا پہلا دن تھا اور سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے انھوں نے بہت زیادہ کچھ پلین نہیں کیا تھا لیکن وہ وقت بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ ان پہاڑوں کو دیکھ کر دل کرتا ہے کی کاش میں ایک پرندہ ہوتی اور فضاؤں میں اڑتی وہ کھوئی اندا میں حاشر سے کہہ رہی تھی جبکہ وہ اس کی بات پر کچھ سوچتا مسکرایا تھا۔ 

___________________________________

آج ان کو یہاں آئے پانچ دن گزر چکے تھے اور ان لوگوں نے اس وقت کو بہت انجوائے کیا تھا ۔ کبھی وہ اس ملک کے سب سے اونچے پوائنٹ پر جاتے اور کبھی بادلوں کے درمیان سیڑھیاں چڑھتے اونچائی سے جا کر دینا کو دیکھتے۔ وہ اتنے دنوں میں یہاں موجود بہت سے ریسٹورنٹ کا  کھانا ٹرائے کر چکے تھے اس کے علاوہ وہ لوگ لینڈ سکیپ بھی انجوائے کر چکے تھے اور مروہ کی خواہش کو دیکھتے ہوئے وہ پیرا گلائڈنگ بھی کر چکے تھے ۔ آج اس کا ارادہ پھر سے کچھ ایڈوینچر کرنے کا تھا وہ مروہ کو لیے ایک پہاڑ کی جانب بڑھا تھا ۔ وہاں وہ آج اسے  لیے بادلوں کے پاس پہاڑوں کے درمیان اڑنا چاہتا تھا ۔ ایک بہت بڑا عقاب جس کے پر کھلے تھے جیسے وہ اڑنے کے لیے تیار تھا اس کے نیچے چار لوگوں کے لیٹنے کے لیے سٹینڈ بنانے گئے تھے جس میں ان دونوں کو بہت اچھی طرح سے سیٹ کرنے کے بعد  فضا میں اڑایا گیا تھا ان لوگوں کو عقاب کے نیچے فضا میں اڑنا خوف میں مبتلا کر دہا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ ایکسائٹنگ ایڈوینچر خوشی بھی دے رہا تھا ۔وہ تیزی ہوا کے جھونکوں میں پہاڑوں کے درمیان بادلوں کے قریب اس عقاب کے ساتھ اڑ رہے تھے۔ کچھ ہی پل میں وہ لوگ زمین پر واپس آئے تو وہ حا شر کے سینے سے لگی تھی اس کی ٹانگیں ہلکی ہلکی کانپ رہی تھیں ۔ مزہ آیا وہ اس کی کمر کو سہلا تے ہوئے پوجھ رہا تھا۔ بہت زیادہ اور آپ ساتھ تھے

آپ ساتھ تھے تو مجھے بالکل بھی ڈر نہیں لگا وہ اس کے سینے پر سر ٹکائے کھڑی اس کو بتا رہی تھی حاشر اس کو کمر سے تھام کر خود سے لگائے کھڑا تھا وہ اس لڑکی کی ہر خواہش پوری کر دینا چاہتا تھا جو اس سے بے انتہا  محبت کرتی تھی اس نے جھک کر اس کے لبوں کو ہلکا سا چھوا تھا ۔ اس کی حرکت پر وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کتنے بے شرم ہیں آپ کہیں بھی کچھ بھی کر دیتے وہ کہتی اس کے سینے پر مکا مار کر پیچھے ہٹی تھی۔یہاں کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا وہ مسکرا کر کیتا ایک بار پھر اسے خود سے لگا گیا تھا ۔

___________________________________

آج آئر لینڈ دیکھنے کے بعد ان لوگوں کو اسلام آباد واپس جانا تھا یہ دن ان لوگوں کے لیے یاد گار تھے مروہ نے یہ دن بہت انجوائے کیے تھے ۔ وہ اس کے سینے پر سر رکھے بیڈ پر لیٹی تھی حاشر کی چھیڑ خانی سے ایک گھنٹہ پہلے ہی وہ جاگ چکی تھی ۔ حاشر مجھے یہ سب کچھ بالکل چہرے ٹیل جیسا لگتا ہے دل چاہتا ہے ہم دونوں ہمیشہ کے لیے یہیں پر رہ جائیں اس کی بات سن کر وہ اپنے ہاتھ میں تھاما مروہ کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا گیا تھا ۔ میں بہت خوش ہوں کہ تمھیں یہ سب اچھا لگا وہ دوسر ے ہاتھ کی انگلیاں اس کے بالوں میں چلاتے ہوئے بولا تھا ۔ تھینک یو سو مچ حاشر کہ آپ میری زندگی میں آئے آپ نے میری محبت کو مکمل کر دیا وہ ٹھوڑی اس کے سینے سے ٹکائے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بول رہی تھی ۔ میری زندگی میں آ کر تم نے میری بے رنگ زندگی میں خوبصورت رنگ بھر دیے تمھارا میری زندگی میں آنا مجھے سمجھا گی کہ کیوں آج تک کوئی بھی لڑکی میرے دل کے قریب نہیں آ سکی کیونکہ تمھارا مجھے اللہ سے مانگنا قبول ہو چکا تھا تمھاری دعاؤں کا ہسار ہمیشہ سے میرے اردگرد موجود تھا۔ تمھاری شدت سے مانگی دعاؤں نے کبھی مجھے کسی اور کا ہونے نہیں دیا وہ کہتا اس کے ماتھے پہ لب رکھتا اسے خود میں شدت سے بھینچ گیا آئے لو یو میری جان اینڈ تھینکس میری زندگی میں آنے کا مجھے سے محبت کرنے کا وہ اسے خود سے لگائے بول رہا تھا ۔ آئے لو یو ٹو تھری فور آپکا شکریہ میری محبت کو قبول کر نے کا وہ شوخی سے کہتی سیدھی اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔اس کی بات سن کر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

___________________________________

 وہ لوگ کل  صبح ہی اسلام آباد پہنچ چکے تھے اور کل پورا دن انکا آرام کرتے گزرا تھا آج ڈنر کے بعد وہ بیڈ پر نیم دراز  کوئی مووی دیکھنے میں مصروف تھا۔ مروہ بھی اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے اس کے پاس بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔ وہ پوری توجہ سے مووی دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اس کی حرکت پر وہ اس کی جان متوجہ ہوا تھا۔ مجھے گول گپے کھانے ہیں وہ کہتی ہوئی ڈوپٹہ شانے پر ٹکاتی بیڈ سے اتر کر اس کی طرف آئی تھی ۔ اٹھیں مجھے گول گپے کھلانے لے کر جائیں وہ کہتی اس کا بازو تھام کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اس ٹائم وہ گھڑی دیکھتا حیرت سے پوچھ رہا تھا جہاں گھڑی گیارہ بجا رہی تھی۔ جی اس ٹائم اب اٹھیں نہ پلیز وہ کہتی اب ایل ای ڈی بند کرتی باہر نکلی تھی وہ بھی اس کے پیچھے باہر آیا تھا ۔ کچھ دیر وہ سڑکوں پر گاڑی دہراتا رہا پھر ایک جگہ اسے چھوٹا سا ٹھیلہ نظر آیا تھا اس وقت تو یہی ہے وہ کچھ فاصلے پر  گاڑی روکے مروہ کی طرف دیکھ کر بولا تھا کوئی بات نہیں نہ یہی سے کھلا دیں وہ ضدی لہجے میں بول رہی تھی ۔ حاشر نے  گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ کے اشارے سے اس چھوٹے بچے کو بلایا اور ایک پلیٹ گول گپے لانے کا کہا ۔ نہیں دو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی مجھے نہیں کھانا وہ اس کو بتا رہا تھا ۔ لیکن میں دو پلیٹیں کھاؤگی وہ ہاتھ کی دو انگلیاں کھول کر اس کے چہرے کے سامنے کرتی بولی مروہ کے اس انداز پر وہ بے ساختہ مسکرایا تھا۔ دو پلیٹیں وہ اس چھوٹے لڑکے کی طرف دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں وہ لڑکا ایک پلیٹ لا کر اس کو تھما چکا تھا اور وہ ایک کی بعد دوسرا گول گپا منہ میں ڈالتی بیت مزے کے ساتھ کھٹا پانی پی رہی تھی وہ اس کو دیکھتے مسکرا رہا تھا۔ ویسے تمھیں کب سے گول گپے پسند آنے لگے آئے مین کالج لائف میں توتم بالکل بھی نہیں کھاتی تھی وہ اس کی طرف دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ ہاں پسند تو نہیں تھے آج ناجانے کیوں اتنا دل چاہ رہا کھانے کا آپ بھی کھائیں نہ وہ کہتی اس کی طرف پلیٹ بڑھا گئی تھی۔ ویسے بہت جلدی خیال نہیں آگیا وہ اسے دوسری پلیٹ کے ساتھ انصاف کرتے دیکھ کر پوچھ رہا تھا جب مروہ نے ہاتھ بڑھا کر ایک گول گپا اس کے منہ میں ڈالا تھا۔  یہ تو بہت سپائسی ہے مروہ تم کیسے کھا رہی ہو وہ گول گپا کھا کر سی سی کرتا اس سے پوچھ رہا تھا۔ پتہ نہیں لیکن مزہ بہت آ رہا وہ مصروف انداز میں بولی تھی۔  ابھی وہ گول گپے کھانے کے بعد چھوٹے بچے کو پیسے پکڑا رہا تھا کہ ایک لڑکا ہاتھ میں گجروں سے بھری سٹک پکڑے ان کے پاس آیا تھا ۔ سر گجرے لے لیں میڈم کے کیے وہ کہتا اس کا جواب سنے بغیر دو گجرے سٹک سے اتار کر حاشر کی طرف بڑھا چکا تھا۔  حاشر نے وہ گجرے تھام کر گود میں رکھتے اس لڑکے کی طرف پیسے جائے پھر گاڑی کے شیشے بند کرتا مروہ کی طرف متوجہ ہوتے اس کا ہاتھ تھام کر گجرے پہنانے لگا پھر اس کے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اپنے چہرے تک لاتا پہلے ان پھولوں کی خوشبو سونگھتا اپنی سانسیں مہکا گیا تھا پھر اس کے دونوں ہاتھ پر باری باری شدت سے اپنے لب رکھ گیا تھا ۔ تھینکس وہ محبت سے اسکو دیکھتی بول رہی تھی ۔ ویلکم وہ کہتا سینے پر ہاتھ رکھتے سر کو ہلکا سا جھکا گیا تھا اس کے انداز پر مروہ کھلکھلا کر ہنسی تھی ایسا ہی تھا اس کا پیار وہ اپنے ہر انداز سے اس کو جتاتا تھا کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے لیکن اپنی زبان سے اظہارِ محبت کم ہی کیا کرتا تھا ۔

 آج وہ آفس تھوڑا لیٹ جانے کا ارادہ رکھتا تھا اس وقت دن کے بارہ بج رہے تھے اور وہ لوگ کچھ وقت پہلے ہی نیند سے جاگے تھے اور اس وقت ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ کہا جا رہی ہو وہ اس کو ناشتے کی ٹیبل سے اٹھتا دیکھ کر پوچھ رہا تھا ۔ اچار لینے وہ کہتی کرسی پرے دھکیل رہی تھی  اچار ناشتے میں وہ کنفیوز نظروں سے اسکو دیکھتا پوچھ رہا تھا تب ہی وہ چکرا کر زمین پر گرنے ہی والی تھی کہ وہ اسے کمر سے تھام گیا کیا ہوا ہے مروہ وہ اسے دوبارہ سے کرسی پر بیٹھاتا پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا شاید آج ناشتہ لیٹ کیا ہے اس لیے چکر آگئے آپ پریشان مت ہوں میں ٹھیک ہوں وہ اسے تسلی دینے والے انداز میں بولی تھی ۔ پریشان کیسے نہیں ہوں تم مجھے بتاؤ پہلے بھی کچھ ہوا تھا ایسا اور بالکل سچ بتانا وہ اسے وارن کرنے والے انداز میں بولا تھا وہ جانتا تھا اس کی عادت ہے صحت کے بارے میں لا پرواہی برتنا ۔جی کل بھی ایسے ہی چکر آیا تھا وہ اس سے نظریں چراتی بول رہی تھی مجھے لگا کہ تھکاوٹ کی وجہ سے وہ ڈرتی ہوئی بول رہی تھی ۔ اٹھو ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس جائیں گے وہ سختی سے کہتا اسے بھی شانوں سے تھام کر کھڑا کر چکا تھا ۔ مگر ۔۔ وہ ابھی کچھ کہتی کہ اس کے خود کو گھورے جا نے پر خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگی۔

__________________________________

اس وقت وہ دونوں ہی کچھ ضروری ٹیسٹ اور ڈاکٹر کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی رپورٹ دیکھ رہی تھی ۔وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ مبارک ہو آپکو یو آر گوئنگ ٹو بی پیرنٹ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے ان کو بتا رہی تھی جبکہ وہ دونوں حیرت اور خوشی کی عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ آپ کو ان کا بہت خیال رکھنا ہے ڈاکٹر حاشر کو کہتی ہوئی مروہ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ڈاکٹر ان لوگوں کو اور بھی ہدایات دے رہیں تھیں جن کو سن کر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ تھینک یو سو مچ ڈاکٹر حاشر ڈاکٹر کا بے حد مشکور ہوا تھا ڈاکٹر نے سر ہلا کر مسکرا کر دونوں کو دیکھا ۔وہاں سے وہ دونوں گاڑی تک آئے تھے تھینک یو سو مچ مروہ وہ کہتا اس کا ہاتھ تھام کر بولا تھا ۔اسے لیے وہ ایک ریسٹورنٹ میں گیا تھا وہاں اس نے مروہ سے ایک خوبصورت سا کیک کٹ کروایا تھا ۔ وہ دونوں ہی بے حد خوش تھے خوشی ان کی آنکھوں سے واضح ہو رہی تھی حاشر کی آنکھوں  ہلکی سی نم ہوئیں تھیں جب کہ خوشی اور شکر سے مروہ کی آنکھوں نے بھی آنسو بہا ڈالے تھے۔ کیک کا ٹکرا اٹھا کر وہ اس کے منہ میں ڈالتا اس کے آنسو پونچھ رہا تھا ۔مروہ نے بھی کیک کا پیس اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا تھا جسے کھانے کے بعد اب وہ مروہ کی فنگرز پر لگے کیک کو کھا رہا تھا اس کی اس حرکت پر مروہ کا چہرہ سرخ ہوا تھا ۔وہ اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹورنٹ سے باہر نکلتا ایک بیکری میں داخل ہوا تھا اور وہاں سے مٹھائی پیک کرواتے وہ لوگ گھر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

___________________________________

اس وقت کھانے کی ٹیبل پر سب لوگ ہی موجود تھے رابعہ بیگم اور راحیل صاحب بھی خوشی کی خیر سن کر ان کے پاس فوراً پہنچ چکے تھے سب مروہ کا خیال رکھ رہے تھے اور اسے ہدایات بھی کر رہے تھے ۔ وہ ان سب کی باتیں سنتی شرما بھی رہی تھی ۔ عائزہ آپکو بھائی چاہیے یہ پھر بہن سیرت مسکراتے ہوئے عائزہ سے پوچھ رہی تھی ۔ ماما میری پاس بہن تو ہے سوزین اب مجھے بھائی چاہیے وہ خوشی سے بتا رہی تھی ۔ ٹھیک ہے پھر آپ دعا کرو کہ اللہ تعالی آپکو ایک پیارا سا بھائی دے رابعہ بیگم عائزہ کے گال کو چھوتے ہوئے بولی تھی ۔ دادو بھائی کب آئے گا اس کے پوچھنے پر سب ہسنے لگے تھے ۔ لیکن عائزہ مجھے تو آپکے جیسی گڑیا چاہیے وہ کھانا کھاتے عائزہ کا چہرہ دیکھ کر بولا ۔ مروہ کو کیا پسند ہے سیرت بھابھی نے مروہ کا ہاتھ تھام کر پوچھا تو وہ شرما گئی سب اس کے جواب کے منتظر تھے ۔ مجھے ایک چھوٹا حاشر چاہیے وہ شرماتی ہوئی آہستہ آواز میں بولی تھی اس کی خواہش پر سب کے چہرے خوشی سے کھل گئے تھے جب کے حاشر ہاتھ بڑھا کر اس کی گود میں رکھا تھا تھام چکا تھا ۔ ارے بھائی بیٹا ہو یہ بیٹی اچھی صحت والے ہوں راحیل صاحب مسکرا کر بولے تھے۔ آمین سب کے لبوں سے ایک ساتھ نکلا تھا ۔

___________________________________

اس وقت وہ ہاسپیٹل کے بیڈ پر لیٹی بے حد پریشان تھی ۔ اس سارے عرصے میں سب نے اس کا بے حد خیال رکھا تھا رابعہ بیگم اور راحیل صاحب دونوں ہی اسلام آباد ان لوگوں کے پاس رہ رہے تھے اور پانچ ماہ پہلے ہی سعدیہ بیگم اور سوزین بھی پاکستان آچکی تھیں اس وقت ڈاکٹر سب کو روم سے باہر بھیج چکی تھیں لیکن وہ حاشر کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ چکی تھی ۔ وہ اس کو کسی صورت خود سے دور نہیں بھیجنا چاہتی تھی ۔ وہ مسلسل آنسو بہاتی حاشر کو دیکھ رہی تھی حاشر اسے تسلی دینے کی ہر ممک کوشش کر رہا تھا ۔ تم رو کیوں رہی ہو پریشان نہیں ہو کچھ بھی نہیں ہو گا ڈاکٹر مروہ کو محبت سے کہتی حاشر کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑوا چکی تھی وہ حاشر کو باہر بھیجتی اب بھی اس سے ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف کر چکی تھی ۔

کچھ گھنٹوں بعد۔ہاسپیٹل کے روم میں سب لوگ موجود تھے حاشر مروہ کے پاس بیڈ پر بیٹھا اسے سوپ پلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے لبوں پر لگا سوپ ٹشو کی مدد سے صاف کر رہا تھا۔ سعدیہ بیگم اس چھوٹے سے گل کو کمبل میں لپیٹ کر رابعہ بیگم کے پاس روم میں رکھے صوفے پر بیٹھی تھیں سب کے چہروں پر خوشیاں صاف ظاہر تھی۔ تھینک یو سو مچ میری زندگی کو ایک بار پھر سے حسین بنانے کے لیے وہ کہتا مروہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ جبکہ اسی پل راحیل صاحب سوزین اور عائزہ کو لے کر روم میں داخل ہوئے وہ دونوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں ۔ بےبی بے بی کہتیں بھاگ کر سعدیہ بیگم کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تھیں دادو میرا بھائی ہے نہ یہ عائزہ خوشی اور ایکسائٹمنٹ سے رابعہ بیگم سے پوچھ رہی تھیں جی گڑیا آپکا بھائی ہے جبکہ سوزین تو سعدیہ بیگم کی گود سے اپنے بھائی کو لینے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ مجھے  اس کو اٹھانا ہے سوزین ضدی لہجے میں بولی تھی ۔ مجھے بھی عائزہ نے بھی منہ بسور کر کہا تھا جبکہ وہ لوگ ہنستے ان لوگوں کو صوفے پر بیٹھا کر تھوڑی دیر کے لیے باری باری ان کابھائی ان کی گود میں پکڑا چکے تھے ۔ ان دونوں کی خوشی کا تو ٹھکانا ہی نہیں تھا ۔ رات کو آپ لوگوں میں سے پیشنٹ کے ساتھ صرف ایک فرد رُک سکتا ہے روم میں داخل ہوتی ہوئی نرس نے کہا تھا کیونکہ گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی ۔ بابا آپ سب کو اپنے ساتھ گھر لے جائیں مروہ کے ساتھ میں رک جاؤ گا حاشر کہتا ہوا بیڈ سے کھڑا ہوا تھا جبکہ وہ لوگ سر ہلاتے حاشر کو اسکا شہزادہ پکڑا کر باہر نکلے تھے حاشر نے جھک کر اس کو چوما تھا اس کو نام کیا رکھو گے وہ مروہ کی طرف آتا پوچھ رہا تھا ۔ روحیل وہ جھٹ سے بولی تھی جب کہ وہ مسکرا کر سر ہلا تا روحیل کو مروہ کی گود میں دے چکا تھا وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں دیکھ کر بے انتہا خوش ہوتی انھیں لبوں سے لگا رہا تھا ۔ یہ تمھارے لیے میری طرف سے ایک چھوٹا سا گفٹ وہ کہتا پاکٹ سے انگھوٹھی نکال کر اس کے بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں پہنا چکا تھا ۔ میری زندگی کو مکمل کرنے کا شکریہ وہ کہتا اس کے لبوں کو ہلکا سا چھوتا اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا کر بولا تھا ۔ مروہ اس کی محبت کے لیے دل ہی دل میں اللہ کی بہت شکر گزار تھی جس نے اس کی ان کہی محبت کو معجزانہ طریقے سے مکمل کیا تھا 

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


An Kahi Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel An Kahi Mohabbat written by Pakeeza Maaz.An Kahi Mohabbat by Pakeeza Maaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages