Yaaram By Sumera Ahmad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 31 July 2024

Yaaram By Sumera Ahmad New Complete Romantic Novel

Yaaram By Sumera Ahmad New Complete Romantic  Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading..

Yaaram By Sumera Ahmad Complete Romantic Novel 


Novel Name: Yaaram

Writer Name Sumera Ahmad

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

عشق ایک داستاں ہے۔۔۔۔

محبت کے اسرار کی۔۔۔۔

انوار کے قیام کی۔۔۔۔ 

امرحہ اور عالیان کی۔۔۔

**^**

امرحہ پریم کا اگر کوئی لاڈ کا نام ہوتا تو وہ ' سرما کی دھوپ'ہوتا

پر سرخاب پر اڑ کر آتی، راج ہنسوں سنگ جھومتی،سنہری ذروں سے مرتسم سرما کی دھوپ اس کے سیاہ بالوں سے شناسائی بر تتی لاڈ کرنے لگی۔

ماحم(مہربانیاں) دھرتی پر قیام کیلیے اس سے اپنی ابتداء پر مسرور ہوئیں۔۔

سبزے کی وسعت پر فدا ہوتی اس نازنین کو اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور اس مسکراہٹ سے مسکرا دی جو اس کے اختیار میں تو رہا کرتی تھی لیکن استعمال مہں نہیں۔۔۔۔۔

نئے وقتوں کی آمد نے اس کی سماعتوں کے سپرد وہ سرگوشیاں کیں جو وہ وقت کی گزرگاہوں سے احتراما چرا لائیں تھیں۔۔۔

اس کی۔۔۔وہ جو امرحہ ہے۔۔

لان کے کونے میں میں وہ ایسے بیٹھی ہے جیسے زندگی کی بساط پر وہ ایسا بے نام مہرا ہو جس سے مات دی جائے نہ چال چلی جائے۔۔ جو کونوں میں ہی بیٹھتی ہے۔۔کیونکہ اسے منظر عام پر آنے سے ڈر لگتا ہے۔۔

کیوں ڈر لگتا ہے؟

کیونکہ اسے ڈرایا جاتا رہا ہے اور پھر اس کی حیثیت اپنے ہی گھر میں کچھ ایسی سی ہے جیسے جھاڑو کی ہوتی ہے۔۔ضروری بھی اور ۔۔چھی۔۔۔گندی بھی۔۔

ایک طرف بیٹھی دادی زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اپنے بالوں کا خود ہی مساج کر رہی ہیں۔انہوں نے دانیہ سے کہا تھا لیکن اس نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے تو کچھ سنا ہی نہیں۔۔۔دادی نے کہا ہی نہیں۔۔۔اور وہ کامل توجہ سے رسالہ پڑھتی رہی ساتھ مالٹے کی پھانکیں بھی منہ میں ڈالتی رہی اور یہ سب کرتے وہ کچھ ایسی نظر آ رہی تھی کہ جیسے بے چاری لڑکی دانیہ کل ہی تو اپنے ایم فل سے فارغ ہوئئ ہے اور آج کچھ ذرا سی دنیا دار سی نظر آرہی ہے۔

اماں فون پر بات کر رہی ہیں اوع حماد کانوں میں ایرفون لگائے نیا نیا ریپ میوزک سے متعارف ہو رہا ہے۔۔۔۔کیونکہ اسے چلنے میں خاصی دشواری ہو رہی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ ہوا میں میں ایسے مڑ مڑ کر لہرا رہے ہیں کہ خدانخاستہ اسےٹہلتے ٹہلتے مرگی کا دورہ پڑ رہا ہو۔۔ اور وہ کونوں میں خود کو چھپانے والی موبائل انٹرنیٹ پر مصروف ہے۔۔۔ نہیں نہیں، وہ کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر نہیں ہے۔۔وہ کسی سے چیٹ بھی نہیں کر رہی۔۔۔ارے نہیں وہ گوگل امیجز پر ڈیزائنرز کے کپڑوں کے ڈیزائن بھی نہیں نوٹ کر رہی۔۔۔وہ تو۔۔۔وہ تو مانچسٹر یونیورسٹی کے پاکستان اسٹوڈنٹ سوسائٹی کے گروپ لیڈر کی ای میل پڑھ رہی ہے اور اس کے ہاتھ پیر ایسے کانپ رہے ہیں جیسے ابھی ابھی اسے فریزر سے نکال کر دھوپ میں رکھا گیا ہو۔۔۔یا جیسے اس کے کان میں کہا گیا ہو کہ جہاں تم بیٹھی ہو ٹھیک وہیں خزانہ دفن ہت۔۔چپکے سے نکال لو اور اب وہ یہ خزانہ چپکے سے نکال ہی لے گی۔۔۔ اس سے اپنی چیخ دبائے نہیں دب رہی۔۔۔اور یہ اس نے ہلکی سی چیخ مار ہی دی۔۔۔

سب سے پہلے تو دادی نے ہی اپنا ہاتھ روک کر اسے ناگواری سے دیکھا پھر سوائے دادا کے سب نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنے انہماک کو قائم رہنے دیا۔

دادا جو توبتہ النصوح پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کے پاس آئے۔

'' امرحہ۔۔۔کیا ہوا؟''

پیارے دادا، صرف وہی پوچھتے تھے وہ دادا کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد دادا توبتہ النصوح سینے سے لگا کر کھڑے ہوئے اور سب کو سنانے جیسے انداز میں کہنے لگے۔۔۔

''آملے لینے ہیں منڈی سے۔۔ مجھ سے کہاں اٹھائے جائیں گیں اتنے۔۔امرحہ!تم آ جاو ساتھ''

''اسے لیے جا رہے ہیں۔۔۔مل گئے پھر۔۔۔منڈی بند ہو جائے گی یا پھر آگ لگی ہوگی منڈی میں'' دادی نے اس کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں دیر نہیں کی۔

''ہم دوسرے شہر کی منڈی میں چلے جائیں گیں۔۔اگر وہاں بھی آگ لگی ہوئی تو ہمارا انتظار نہ کرنا۔ہم شہر شہر،منڈی منڈی آگ لگا کر آئیں گے''

شہر شہر کیوں۔۔۔ملکوں ملک کیوں نہیں۔۔۔؟

ہاں بھئ اب تیار رہنا سب۔۔دنیا میں آگ بھڑکنے والی ہے۔

اب کی۔۔۔ کب کی بھڑک چکی۔ دادی نے ایسے کہا جیسے ایسا عظیم سچ نہ بولا تو ان پر کفر کا فتوی لگا دیا جائے گا۔

بی بی امرحہ نے ذرا گھور کر دادی کو دیکھا اور دادی نے اپنا رخ بدل لیا۔

تو کیا اب مجھے بھی بھسم کرے گی

انہوں نے خود پر آیات مبارکہ پڑھ کر پھونکیں۔بہت خوفزدہ رہتی تھیں اس کی نظروں سے دادی۔۔ سب ہی رہتے تھے-تباہی اور بربادی تھی نا وہ۔۔نیک شگونی کی دشمن، بد شگونی کی دوست کیونکہ عین اس کی پیدائش کے دن بڑے تایا چل بسے تھے۔۔پھوپھی پھوپھا کا کارایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔چھوٹی پھپھو کے گھر شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی اور سارے سازو سامان کو نگل گئی۔۔چچا کی بیٹی کی منگنی اس دن ہونا تھی تایا کی وفات سے ملتوی ہوگئی۔۔بعد ازاں رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔اور ماموں کے الیکٹرونکس کے اسٹور میں پورے چار لاکھ کی چوری ہو گئی۔ماموں صدمے سے 4 دن ہسپتال رہے۔امرحہ سے بڑے علی کی چھت سے گر کر بائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔جس کی وجہ سے پورے 2 سال لنگڑا کر چلتا رہا۔۔ساتھ کے گھر کی ملائیکہ آپا بیوہ ہو گئیں۔ان کے شوہر کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔۔۔ سامنے کے گھروالوں کی بہو کے مردہ بچے کی پیدائش ہوئی۔اور۔۔۔۔اور بھی بہت کچھ۔۔۔۔فہرست کافی لمبی تھی اور دن بدن لمبی ہوتی جا رہی تھی۔مثلا اگر کوئی کہتا۔

بس اماں جی۔اپنے دھیان میں تھی پتا نہیں چلا کب حاشر اپنا ہاتھ جلا بیٹھا

دادی پوچھتیں کیا دن تھا۔

منگل کا دن تھا۔۔آج ہی کے دن۔۔۔بلک بلک کر رویا میرا بیٹا۔۔۔میں بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔'

'اچھا منگل۔۔۔اور تاریخ کیا بنی' تاریخ یہی دو۔'

'اچھا ۔۔۔دو اور اوپر سے منگل۔۔مدیحہ بیٹا! منگل کی دو کو ہمیں یہ وبال نصیب ہوا تھا۔۔اس دنیا پر امرحہ عذاب بن کر آئی تھی۔۔۔ہمارے خاندان میں تو ہر تاریخ دو اور ہر دن منگل۔۔کیا کریں گناہوں کے عذاب بھی تو بھگتنے ہی پڑتے ہیں نا'

اگلی بار جناب حاشر کے ہاتھ جلنے کا قصہ بھی اس 'نجس جنم پتری' میں شامل کر دیا جاتا۔

اماں بھی ذرا خائف سی رہتیں اس سے۔۔۔اتفاق سے ہر سال لگ بھگ اسی دن ماموں کے اسٹور پر تین بار چوری ہو چکی تھی۔تنگ آ کر ماموں نے اسٹور ہی بیچ دیا اور دوسرا کاروبار کرنے لگے۔اماں کو بھولتا ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے بھائی کا چمکدار دمکتا شاندار سٹور بک گیا اور بھئئ صاحب کنگلے ہو گئے۔

ایک دادا تھے جو پانچ وقت نماز پڑھتے تھے اور صرف اللہ سے ڈرتے۔۔احادیث پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے۔۔جاہلانہ باتوں اور خیالات سے دور ہی رہتے۔۔۔ورنہ جمعرات کے جمعرات انکے گھر چراغ جلتے۔۔تین یا پانچ۔۔بس تاق۔۔جفت نہیں۔۔۔دادی مرنے والوں کے نام مخصوص جگہ چراغ روشن کرواتیں۔

'لامذہب ہو سب کے سب۔۔کیا کبھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چراغ جلتے دیکھے ہیں۔۔ کیوں جلاف مذہب ایسے کام کرتے ہو؟'

دادی ہاتھ سے اشارہ کرتیں کہ جائیں اپنا کام کریں۔۔

بابا نے اعظم مارکیٹ میں قالین اسٹور کی نئے سرے سے آرائش کروائی تو افتتاح کے وقت ناریل پھوڑا۔۔۔اعظم مارکیٹ کے دوسرے مالکان محظوظ ہوتے رہے اور بابا صرف اتنا ہی کہتے رہے کہ وہ فلموں میں دیکھتے تھے تو انہیں بڑا اچھا لگتا تھا۔۔۔

'کیا ہوا جو کر لیا تو۔۔ تم سب تو کسی لو خوش بھی نہیں دیکھ سکتے'۔۔ بابا نے ایسے کہا جیسے انکی دیرینہ خواب تکمیل کا مزاق اڑایا جانا انہیں پسند نہ آیا ہو۔۔ 

جمعرات کے جمعرات بریانی کی دیگیں تقسیم کرنے کی روایت بھی بابا کو بڑی عزیز تھی۔

دادا نے اک با کہا۔۔۔۔

گھر کےکاموں میں مدد کیلیے جو آپا آتی ہیں ان کی بچی کے کان کا آپریشن ہونا ہے۔بچی بہت تکلیف میں ہے زیادہ نہیں تو دو تین جمعراتوں کی بریانی کی دیگوں کے پیسے دے دو۔۔۔ کچھ کا انتظام میں کر دوں گا۔ایسے اس کا آپریشن ہو جائے گا'

بہت بحث ہوئئ۔۔بابا نے دادا کو لادین قرار دے دیا اور دادا نے بابا کو بے حس۔۔۔ خیر دیگیں تو پکتی رہیں آپا کی بیٹی کا کیسے بھی کر کے دادا نے آپریشن کروا دیا۔۔

تو بس یہ ماحول تھا گھر کا اور یہ حال تھا گھر والوں کا۔۔ غلط باتوں کو پکر کر بیٹھے رہتے۔۔دادا تو بہت بےزار اکتائے اکتائے رہتے لیکن کسی پر بس ہی نہیں چلتا تھا۔۔ زیادہ تر کتابیں پڑھتے رہتے یا دادا پوتی دونوں لاہور کی سڑکوں کو شرف چہل قدمی بخشتے رہتے۔۔

''نہیں ملے نا آملے'' ۔ جب دونوں خالی ہاتھ واپس آئے تو دادی نے طنزا نہیں کہا بس وہ طنزا ہو گیادادا اور امرحہ دونوں زیر لب ہنس دیئے۔جس کام سے وہ گئے تھے وہ ہو گیا تھا۔

'ہمیں تو کہہ کر گئے تھے دنیا میں آگ بھڑکا کر ہی واپس پلٹیں گے، اب ایسے کیسے واپس آگئے۔۔۔ یا آگ لگی ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہی۔۔'

دادا پوتی دونوں خاموشی سے منظر سے غائب ہو گئے۔۔

ایسا نہیں تھا کہ ایک دادی ہی اسے منحوس مانتی تھیں۔دادی اور اماں کی دیکھا دیکھی علی، حماد اور دانیہ بھی دادی کے کہے پر یقین کرنے لگے تھے۔۔۔کچھ اس لیے بھی کہ ان کی امرحہ سے بنی ہی نہیں تھی اور اس لیے بھیکہ امرحہ نے ان سے بنا کر رکھی ہی نہیں تھی ۔

علی کی ہیوی بائیک کے ساتھ کچھ ہو جاتا تو اس پو غصہ نکال لیتا۔ وہ بھی علی کو دو سنا کر چھپ کر رونے لگتی اور خود کو کوستی جاتی۔"میں منحوس ماری ۔۔ میں منحوس ماری"

دانیہ اماں کو چپکے سے کہتی 

"میرے کپڑے لایا کریں تو امرحہ کو مت دیکھایا کریں پہننے سے پہلے جب اس کی نظر پڑ جاتی ہےتو مجھے زہر لگنے لگتے ہیں"

کسی تازہ ہوئی اپنی اور امرحہ کی لڑای پر وہ ایسے ہی غصہ نکالتی تھی 

امرحہ غصے میں کپڑوں پر چکناہٹ کے سیاہی کے دھبےلگا دیتی اور وہاں لگاتی جہاں سے صاف ہو کر بھی صاف نہ ہوتا اور پھر رات بھر کو کہیں بیٹھ کے روتی رہتی

"میں منحوس ماری۔۔۔میں منحوس ماری"

اس منحوس ماری کو بس دادا نے زرا سنبھالا انہی کے کمرے میں ایک طرف اسکا بیڈ رکھا تھا وہ ہی اس کےاماں ابا بہن بھای بن گے تھے۔اس کی باتیں سنتے اس سے باتیں کرتے وہ رات رات بھر بیٹھ کراس کے فضول اور بے سروپا سے

شکوے سنتے اور سارا دن کس کس نے دل دکھایا اس بات پر مل کے آ نسو بہاتے رہتے وہ انہی کے ساتھ رہتی انہی سے پیسے لیتی انہی کے ساتھ سہیلی کے گھرجاتی وہ امرحہ کے ساتھ اسی سب میں مصروف رہتے ,,,,,,

ایک رات اس نے بابا کو اماں سے کہتے سن لیا 

"سٹور پر چار لاکھ کا لکڑی کا کام کروانےجا رہا ہوں کسی کو بتانہ مت ;;;

خاص امرحہ کو"

وہ رات بھر روتی رہی ہچکیاں لیتی رہی اور بددوعا دیتی رہی کہ وہ مر جاے یا سازو سامان کو آگ لگ جاے

پر نا وہ مری نہ اگ لگی بلکہ بابا کے پیسوں میں سے ڈیڈھ لاکھ روپے کم ہو گے چھوٹی پھپھو آئیں اور کسی ضرورت کا کہ کر پیسے لے گیں

بابا اماں سے چیڑ گے

" کہا بہی تھا کسی کو مت بتانالو اب ہو گیا کام" سارا عزاب امرحہ پر نا آجاے اس لیے دادا نے دوست سے پیسے لے کر دیے تب کہیں جا کر سٹور کے اگے ناریل پھوٹا۔۔

تو یہ حثیت ہے ہماری امرحہ کی پیدا ہونے سےلے کر بڑا ہو نے تک ایسے ہزاروں بار ہوا ہے۔۔۔ وہ بول لیتی۔۔۔۔ بہن بھایوں سے لڑ بھی لیتی اور پھر ساری ساری رات بیٹھ کے روتی رہتی

اس کا دل چاہتا کہیں بھاگ جائے چھپ جائے کسی کو یاد نا رہے کے اس کی پیدائش کے دن دادی کے پاوں کی موچ نکلی تھی بعد ازان ان کو کمر درد بہی لاہک ہو گیا تھا

دانیۂ حماد علی کبھی جل کر کبھی مزاق مین کبھی اس کو روتا دیکھنے کے لیے اس کی نحوست کے قصے سناتے رہتے کہ وہ بھول نہ جائے کہ وہ کون ہے۔اسکول میں ایک بار ٹیچر کی کرسی کا پایہ جو عرصے سے ٹوٹ جانے کے قریب تھا،ٹوٹ گیا اور ٹیچر جی دھڑام سے نیچے آ گریں تو وہ فورا کھڑے ہو کر رونے لگی اور اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔

'ٹیچر۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔یہ کرسی خودبخود ٹوٹی ہے۔۔۔میں سچ بول رہی ہوں'

ٹیچر کبھی سر پہ ہاتھ رکھ کر کہتی کہ سر میں درد ہر تو وہ سہم جا تی ''میں نے آپ کے سر کو نہیں دیکھا۔۔۔سچ بلکل نہیں دیکھا"

خاندان کی تقریبات میں وہ انہی کارناموں کی وجہ سے جاتی نہیں تھی جو سارے خاندان میں ایسے مشہور تھے جیسے شالوں میں کشمیری شال اور میووں میں چلغوزہ۔

ایک بار وہ گئی تو بارات جسے دن دو بجے دوسرے شہر سے آنا تھا، آئئ ہی نہیں۔۔۔شام سے رات ہو گئی۔۔ان کی گاڑیاں موٹروے پر خراب کھڑی تھیں۔۔دولہا باراتیوں کے بغیر آنے کیلیے تیار نہیں تھا۔۔۔جب تک لاہور سے نئی کاریں بھیجی گئی اور وہ سب اس میں بیٹھ کر آئے۔رات کت بارہ بج چکے تھے۔۔۔سب مہمان جا چکے تھے اور صرف قریبی عزیز ہی موجود تھے۔۔وہ بھی دادا کے ساتھ چپکے سے گھر وپس آ گئی اور اپنے نئے ڈیزائنر ڈریس کر آگ لگا دی۔۔۔اس کے سب کزنز اس کے گرد گھیرا بنائے اس کا مزاق اڑانے میں مصروف تھے۔

" نانا! ذرا پوچھئے کھانا جل گیا یا بچ گیا۔۔۔ امرحہ آئی ہیں نا آج۔۔۔بجلی کے کنکشن بھی چیک کروا لیجیئے گا۔۔۔شارٹ سرکٹ سے آگ نہ بھڑک اٹھے" کسی ایک نے کہا۔

" میں تو دعا کرتی ہوں کہ دولہابھائی خیریت سے آ جائیں" ۔ خوبصورت نظر آنے کی کوشش کرتی خالہ زاد بولی۔

"مجھے تو دلہن کی فکر ہے۔۔۔۔افواہ اڑی تھی کہ دو لاکھ کا لہنگا جلتے جلتے بچا ہے" ادائے نازنین اپناتے دوسری خالہ زاد نے بھی بولنے میں دیر نہیں کی۔

لہنگا تو بچ گیا لیکن دلہن کے بال جل گئے۔۔ویسے آئرن مشین بال جلاتی تو نہیں۔۔۔لیکن آہ۔۔۔۔کچھ بھی ہو سکتا ہے آج تو۔۔۔۔" کوئئ تیسرا بولا۔

" ہم سب تو مزاق کر رہے تھے امرحہ تو سنجیدہ ہو گئی" وہ رونے جیسی ہو جاتی تو کوئی کہہ دیتا۔

تین گھنٹے بعد اس کا خالہ زاد تنے ہوئے اعصاب کے ساتھ ایسے آیا جیسے کسی کر پھانسی گھاٹ لے جانے آیا ہو۔

"چار پانچ گھنٹے سے پہلے بارات نہیں آئے گی۔۔۔سب امرحہ سے معزرت کرو۔۔۔اس نے ہماری معزرت قبول کر لی تو شائد بارات جلدی آ جائے"

"بکواس بند کرو سب اپنی" وہ اتنی زور سے چلائی کہ ان دس بارہ کا گروپسن سا ہو گیا۔

" میں تمہارا منہ توڑ دوں گی حسان" اس نے بمشکل خور کو رونے سے روک کر چلا کر کہا۔

" منہ تو تمہارا توڑنا چاہیئے جو اپنی ساری نحوست لے کر میری بہن کی شادی خراب کرنے آگئیں"

امرحہ کا جئ چاہا، وہ سارے پنڈال کو آگ لگا بھڑکا دے۔۔۔کاش واقعی شاڑٹ سرکٹ ہو جائے اور سارے روشن قمقمے بجھ جائیں۔۔۔ تاکہ اس کے دھاڑیں مار مار کر روتے تاریک چہرے اور کپکپاتے وجود کو کوئی نہ دیکھ سکے۔۔وہ کب سے سب کے مزاق میں چھپے طنزوں کو جھیل رہی تھی۔۔۔

"وضو کرنے کے بعد مسجد میں جانے سے پہلےخود کو آئینے کے سامنے کھڑا کر کے ضرور دیکھنا۔۔۔شاید دوبارہ کبھی مجھے یہ سب کہتے تمہاری زبان لڑکھڑا جائے۔۔۔۔ اور تمہیں یہ بات سمجھ آ جائے کہ کچھ بھی برباد اور آباد کرنے کئ طاقت انسان کے ہاتھ میں ہے نہ اختیار میں۔۔۔۔۔" حکم کن اور عمل فیکون" رب کی خوبی ہے اس کے بندوں کی نہیں"

بمشکل خود کو رونے سے بچاتے اس نے پانچ وقت کے نمازی حسان سے کہا اور باقی سب کی طرف افسوس سے دیکھا۔

دادا کو لیکر وہ چپکے سے گھر آ گئی ۔۔ اسکی سگی خالہ ذاد کی شادی تھی اسکے دل میں بھی ارمان تھے شادی کو لیکر ۔۔۔اس نے خاص اس شادی کے لیے بہت تیاریاں کی تھیں ۔۔۔لیکن سب نہ صرف بیکار گیا بلکہ اسے دکھ دیکر گیا ۔۔ اس نے ایک سفید کاغذ پر "میں کسی تقریب میں نہی جاوْ نگی ۔۔۔ کبھی بھی نہی۔۔۔ وعدہ " لکھ کر اپنی الماری کی اندرونی دیوار پر چپکا دیا ۔ جب کبھی اسکا کہیں جانے دل چاہتا وہ الماری کھول کر اپنے وعدے کو یاد کر لیتی ۔۔۔ یہ سب وہ کرتی تو گئی لیکن بہت اکیلی ہوتی گئی ۔۔۔۔

وہ آسانی سے رو پڑتی ۔۔۔اسے آسانی سے رلایا جا سکتا ۔

جیسے کے کوئٹہ والے ماموں سال میں بھی اک بار آجاتے تو میں دبک کر کافی کا بڑا مگ پیتے ہوئے کہتے ۔ 

"بلاوْ ذرا امرحہ کو ۔۔۔اسے رلائیں ۔۔"

وہ نہ جاتی تو ماموں کھینچ کر لے جاتے۔۔ ہنس ہنس کر سب لوٹ پوٹ ہوتے ۔۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی اور ماموں اسکی نحوست کا اک قصہ حوالہ جات کے ساتھ سنائے جاتے ۔۔۔۔ اماں اسے ڈانٹتی ۔ 

"مذاق کر رہے ہیں ماموں ۔۔ امرحہ ۔۔ کیوں ایسے دھاڑیں مار مار رو رہی ہو " 

دادا آتے سب کو ڈانٹ کر اسے لے جاتے ۔۔

"جاہل لوگ ہیں امرحہ ، ان پر توجہ نہ دیا کرو ۔ "

وہ کونسی عالم تھی جو خود کو اچھی طرح سمجھا لیتی ۔۔۔۔ نو عمر۔۔۔ دکھی ۔۔۔۔ اور خود کو خود ہی منحوس سمجھنے والی ۔۔۔ بس رو دہنے والی لڑکی ہی تو تھی اور پھر ہر بار خود کو فلسفوں سےمطمئن تو نہی کیا جا سکتا تھا ۔

"سب جاہل ہیں ۔ پرسکون ہو جاوْ " 

"سب پاگل ہیں " ہاں ہہ ٹھیک ھے ۔

ایسا سوچا جا سکتا ھے ۔۔ ایسا کہا جاسکتا ھے ۔۔۔ لکین ایسا ٹھیک نہک ہو پاتا ۔۔۔رزلٹ اگر سو فیصد ہوتا بھی تو اگلی بار " صفر " ضرور جاتا ھے ۔ وہ جتنا خود کو " یہ سب جاہل ہیں " کہہ کر بہلاتی ، اتنا ہی اگلی بار ان سب جاہلوں کی باتوں پر ہچکیوں سے روتی ۔ دادا کی باتیں اسے تھپک تھپک کر سلاتی تھیں تو اسی نیند میں وہ ان سب کی باتوں پر کراہتی تھی ۔

امرحہ ۔۔۔ دکھیوں میں سب سے دکھی ۔۔

امرحہ ۔۔ تنہاہوں میں سب سے تنہا ۔۔۔

دادا گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری میں لائبریرین تھے ۔۔اسکول کی چھٹیوں میں وہ سارا دن پنجاب لائبریری میں گھومتی رہتی تھی ۔ویسے بھی دادا اسے گھر میں کم سے کم رہنے دیتے تھے ۔ وہ اسکول سے پیدل چل کر لائبریری آجاتی دونوں دوپہر کا کھانا وہی کھاتے ، اسی ملازمت کے دوران دادا نے کتابیں پڑھی تھیں اور اسی لیےوہ جمعرات کو مرنے والوں کے نام کے دئیے نہی جلاتے تھے ۔ شام کو دونوں چہل قدمی کرتے ۔لاہور مال روڈ کی لمبی سڑکوں سے ہوتے سردی گرمی بھنے چنےاور راکھ پکی چھلی کھاتے رات گئے گھر آتے ۔ امرحہ کا دل چاہتا کہ رات کو بھی گھر نہ جائے اور بھلے سے مال روڈ کے فٹ پاتھ پر سو جائے ۔ 

گھر پر نظر پڑتے ہی دادا آہ صورت کہتے ۔ 

" لو آگئی جیل " 

" پاگل ہو گئے ہو تم کتابیں پڑھ پڑھ کر ۔۔ ڈھنگ کی نوکری مل جاتی تو عقل تو نہ جاتی " دادی سن لیتیں تو کہتیں ۔ 

دادا کو ڈھنگ کی نوکری نہ ملی لیکن ڈھنگ سے عقل ضرور مل گئی ۔ بابا نے اپنے وقت کی دس کو بھی جیسے 

اپنے اسٹور پر رکھ ۔۔۔کربیچ دیا قالینوں کے ساتھ .....پتاہی نہیں چلتا تھا کے دس جماعتیں پڑھے ہے کے دس تک گنتی...علی بڑا تھا اور کمال کا بڑا تھا۔ہر جماعت میں سینئر ہی رہتا دو سال ضرور ہی لگاتا...پھر حماد تھا....اسے دنیا بھر کے گانے والوں ناچنے والوں اور انہیں نچانے والو کے نام گھر قومیت مذہب شادی بچوں افیئرز کے بارے میں تو معلوم تھا لیکن یہ نہیں کے FA کے بعد کی ڈگری کو کیا کہتے ہے اور اسے پاس کیسے کرتے ہے..کتناچاہا دادا نے کے ایک انجنیر بن جاۓ یا پھر کالج میں لیکچرار... ورنہ اک ہسپتال میں ڈاکٹر اور ایک پاک آرمی میں کپتان ......لیکن دادا کے سوچنے سے تو کچھ نہیں ہوتا نا....ویسے ان کے کہنے سے بھی کچھ نہیں ہوا...

پھر امرحہ کا نمبر تھا کم وہ بھی نہیں تھی .پر کیؤنکہ بیچاری سی تھی اس لئے ہر وقت روتی رہتی تھی ...بڑی مشکل سے دادا نے اسے آٹھ جماعتیں پاس کروائی..تازہ تازہ ہوھے کسی واقعے پر روتے ہوے اس نے پڑھائی چھوڑ نے کا فیصلہ کر لیا اور عمل بھی.سارا سارا دن دادا کے ساتھ لیبریری رہتی..

دادا نے منت کی.'امرحہ میٹرک کر لو' 

اس سے کیا ھو گا؟ 

تعلیم سے کیا نہیں هو سکتا ''

سب مجھے پسند کرنے لگے گے کیا؟ استزاهیہ انداز 

"تمھے یہ فکر کیوں ہے کے سب تمھے پسند کرنے لگے تعلیم تم نے اپنے لیے حاصل کرنی ہے.اپنی زندگی کو تعمیر کرنے کے لئے"

میری زندگی میری نحوست نے تعمیر کر دی ہے.اب طنز یہ انداز

تمھے اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کے تم آیسے ہتھیار پھینک دو.معاشرہ،ماحول یا لوگ کیسے بھی ھو ہمے اپنے راستے بنانے نہیں چھوڑنے چائیے.اور ان راستوں پر روشنی کے انتظامات میں لگے رہنا چائیے"

ایسی باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہے دادا،،

کتابیں نازاں ہے ایسی باتوں کی ملکییت پر ہمے بھی ان پر عمل کر کے نازاں ہونا چائیے ، امرحہ

میں جو کہتی ہوں وہ آپ سمجھتے نہیں کتنی بار کہا ہے کے بھاگ چلتے ہے کہی دور...بوہت دور.وہ ہر بات کو اسی ایک بات پر ختم کرتی..اسے بس کسی ترھا اپنے ماحول سے دور جانا تھا .جہاں رونا بھی پڑے تو اس کی تمہید کچھ اور ہو .جہاں اداسی آیا ہی کرے تو اپنے ساتھ مسرت کو چھپا لایا کرے.جہاں دن ہو شام ہو رات ہو پر آہ نہ ہو..

دادا جان کے پاس جو تھورے پیسے تھے اس سے وہ اسے بھگا لے گے اپنے اک دوست کے گھر بلوچستان.دس دن وہاں گزار کر آے.

خاندان میں تو وہ کہی جاتی نہیں تھی..وہاں بوہت خوش رھی.پھر دادا سے کھنے لگی.

دادا آپ دبئی چلے جاؤ ..پھر مجھے بھی وہاں بلا لینا..دونوں بوہت خوش رهے گے.

وہ اس عمر میں دبئی کیا جاتے ہاں پھر بھی وعدہ کر لیا..

"میٹرک کر لو پھر چلا جاؤ گا دبئی"

اور اس نے دبئی جانے کے لیے میٹرک کر لیا ...خوب جی جان لگا کے..پر اتنی جی جان لگا کے بھی کچھ زیادہ بڑا دہماکا نہ کر سکی وہ ہی عام عام ھوئی سیکنڈ division..جو ہر کس و ناکس کے حصہ میں آ جاتی ہے..

انہی دنوں نیا نیا واقعیا ہوا تھا کے بابا کا ہاتھ جل گیا...دادی اپنی فطرت سے مجبور اس پر طنز کرنے لگی وہ آگے سے جواب دینے لگی.تو بابا نے غصے سے جلا ہوا ہاتھ اس کے منہ پے تھپڑ بنا کے مار دیا..اور مزید غصے سے اس نے اپنا سر دیوار میں زور سے دے مارا۔۔۔۔ سر سے خون نکلا۔۔۔سر میں بہت درد ہوا اور خون کو بھلا کر وہ بابا کے تھپڑ کر روتی رہی۔

رات کے پہلے پہر سے آخری پہر تک۔۔۔۔پھر اپنے اسکول بیگ میں اپنے چند کپڑے رکھ کر گھر سے نکل گئی۔۔۔۔چلتی گئی چلتی گئی۔۔۔ حد تو یہ کہ پہلی بار سڑک پر یہاں وہاں پھرتے آوارہ گندے کتوں سے بلکل نہیں ڈری۔۔۔۔آنکھوں میں اشک لیے۔۔۔کندھے پر اسکول بیگ لٹکائے ایسے چلتی جا رہی تھی جیسے خدانخواستہ دنیا میں اکیلی ہو۔

کچھ دور آگے جا کر سمجھ میں نہ آیا کہ اب کہا جائے۔۔۔۔تو سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر رونے لگی۔

" تھکا ڈالا تم نے مجھے امرحہ" دادا اسی فٹ پاتھ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ پہلے خود پیا پھر اسے پلایا۔

" میں نے گھر چھوڑ دیا ہے" پانی پی کر وہ چلائی

"ایک دن تو تمہیں وہ گھر چھوڑنا ہی ہے ۔۔۔وہ تمہارا گھر ہے بھی نہیں بچے"

"جاتے کیوں نہیں ہیں آپ دبئی۔۔۔۔کر لیا ہے نا میں میٹرک"

دادا گڑ بڑا گئے۔ " میں بوڑھا،کمزور،بیمار شیمار رہنے والا بندہ اب کہں جاوں گا ملک سے باہی وہ بھی کام کرنے۔۔۔۔۔ خود سوچ بچے۔۔۔کتنا بوڑھا ہو گیا ہوں میں۔۔۔۔بہرا بھی تو ہو رہا ہوں"

" تو وعدہ کیوں کیا تھا؟" بابا کے مارے تھپڑ کو بھول کر وہ اس بات پر ہچکیوں سے رونے لگی کہ دادا نے وعدہ پورا نہیں کیا۔

دادا بہت دیر چپ ہی رہے۔۔نو عمری پھر امرحہ جیسا دکھی دل۔۔۔اب کوئی جھوٹی تسلی اسے نہیں دی جا سکتی تھی۔ "تم کیوں نہیں چلی جاتی امرحہ؟"

" کہاں؟" ایک بڑی ہچکی لی کر اس نے کندھے سے اسکول بیگ اتارا۔

"دبئی، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس"

"میں امریکا، فرانس"۔ وہ اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ دادا کو کیسے کیسے لطیفے یاد آ رہی ہیں۔ اسکا مزاق اڑا رہے ہیں۔ یہ کوئی وقت ہے مزاق کرنے کا کرنے کا وہ بھی ایسا بھیانک۔۔۔۔

"ہاں نا۔۔۔ مرزا کمال کی نواسی نے ایف ایس سی میں ٹاپ کیا ہے اس سال۔۔۔اسے اسکالرشپ ملا ہے۔دو دن ہوئے وہ کینیڈا چلی بھی گئی ۔۔۔۔ امرحہ! تم ایس سی میں ٹاپ کر لو۔"

"میں۔۔۔۔؟" پھر وہی بھیانک مزاق کا انداز۔۔ اف یہ دادا۔۔۔

" ہاں امرحہ بچے۔۔۔ ٹاپ کرو اور چلی جاو۔۔۔مرزا کمال کی نواسی سات سال بعد آئے گی واپس بلکہ سمجھو آئے گی ہی نہیں۔۔۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسے کینیڈا میں ہی 3 سال سروس کرنی ہوگی۔۔۔ ہوں ہو گئے دس سال۔۔۔ دس سال وہ بھی کینیڈا میں۔۔۔وہاں بیس پچیس لاکھ لگا کر جایا جاتا ہے، وہ مفت میں چلی گئی ہے۔ دیکھ لو؟ امرحہ! تعلیم کے کتنے فائدے ہیں۔آپ خود کو منوا لو تو دنیا آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے"

رات کے آخری پہر سڑک کے کنارے بیٹھے دادا اسے اول ارسطو سے کم نہیں لگ رہے تھے جو سکندر اعظم کو تاریخی فاتحوں کی فتوحات بڑے سلیقے سے سمجھا رہا تھا۔

اور پھر سکندر اعظم بھی تو فاتح رہا تھا۔

اور یوں اس نے بہت دل سے دادا کے ساتھ جا کر کالج میں داخلہ لیا۔۔۔ رات دن پڑھائی۔۔۔بس پڑھائی۔۔۔ٹاپ کرنا اس نے خود پر لازم کر لیا بلکہ فرض اول ما لیا۔۔اسے اتنا یقین تھا خود پر کہ وہ خود ہی سب دوستوں اور ہم جماعتوں کوبتانے لگی۔۔۔

"مجھے تو کینیڈا جانا ہے پورے دس سال رہوں گی وہاں"

أس کا انداز ایسا ہوتا جیسے کسی اور دنیا کا باشندہ ہو اور کہے رہا ہو کے "مجھے اپنی دنیا میں جانا ہے یہاں حادثاتی طور پر آگیا ہوں

ہاں بس کبھی کبھی قسمت ایسے ہی خراب ہو جاتی ہے"

"ﮈاکٹر بن جاؤں گی۔۔۔ مزے سے زندگی گزاروں گی"

یہ کہتے وہ ایسی شہزادی بن جاتی جو بوڑھی ملکہ کے مرتے ہی خود ملک بن جاتی ہواور اب بس اس نے بوڑھی ملکہ کے دن بھی گننا شروع کر دیے ہوں

"ہاں ہاں میرے فیوچر پلانز میں شروع سے یہی شامل تھا مجھے یورپیین ممالک میں ہی زندگی گزارنی تھی یورپ کو وہ صرف کینیڈا تک ہی جانتی تھی اور مانتی تھی اور کہے ایسے رہی تھی جیسے سات براعظم کو گھوم کر ایک یورپ کا انتخاب کیا ہو...

" بس یہ دو سال ہیں جلدی سے امتحان ہوں اور میں جلدی سے جاوں"

سورج کو اتنی جلدی دھوپ لانے کی اور چاند ستاروں کو روشنی لانے کی اتنی نہیں جلدی ہوگی جیتنی اس کو یہاں سے بھاگنے کی۔۔۔

ان دو سالوں میں وہ بہت خوش رہی اس نے کینیڈا کی اتنی معلومات اکٹھی کر لی تھی کے خود کنیڈین بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گےدادا نے اس کو وہ ساری کتابیں لادیں جس میں کنیڈا لفظ کہیں نہ کہیں آتا تھا اور پہر رزلٹ آگیا ٹاپ بھی ہو گیا پر افسوس کسی اور کا۔۔۔وہ اےپلس بہی نا لےسکی۔۔۔رو رو کر اس نے اپنا حشر برا کر لیا دادا چھپے چھپے نظریں چراے پھرتے تھے جیسے پیپر انہوں نے دے تھے اور صیح سے محنت نہیں کی تھی۔۔

چند جگہوں پر سکالشپ کے لیےاپلاۓ کیا مگر جہاں ﮈبل پلس والوں کی بھرمار ہو وہاں اے گریڈز کو کون پوچھتا ہے دادا کو ان دنوں معلوم ہوا ملک میں کتنی تعداد لائق طلباء کی ہے۔جہاں جہاں وہ اسکا فارم جمع کروانے گئے تھے وہاں موجود جم غفیر دیکھ کر انہیں خوشی تو ہوتی ساتھ ہی امرحہ کا سوچ کر افسوس بھی ہوا انہیں اندازہ ہو گیا کے سکالر شپ ملنا مشکل ہے ۔۔اور وہی ہوا جیس کا ﮈر تھا

اس کو سکالر شپ کے ایڑمیشن فارم کی بجاے معزرت کے تین لیٹر آے,, 

گھر ولوں کو کوئ خبر نہیں تھی کے ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے

امرحہ کا بخار اتر کیوں نھیں رہا دادا اور امرحہ کی بول چال کیوں بند ہے۔۔۔ادھر اس کی دوستوں کے فون آنے شروع ہو گۓ۔۔ کہ کب جا رہی ہو کینیڈا

"سنو ہم سے مل کر جانا ہمت ہے جو تم اتنی دور اکیلی پڑھنے جا رہی ہو میں تو سوچ کے ہی مر جاؤں "اس نے پچھلے دو سالوں میں سب کو اتنا یقین دلا رکھا تھا کے جیسے اب تو یہ پکا گئ کینیڈا۔۔۔ وہ یہ سب طنز نہیں کر رہی تھیں پر امرحہ کو طنز ہی لگ رہے تھے نا۔۔۔بابا نے اسکی منگنی کر دی۔۔۔ اس نے بھی کروالی کہ کینیڈا تو گئے نہیں دوسرے گھر ہی چلو۔۔۔لیکن دوسرے گھر بھی نہ جا سکی۔۔۔چھ مہ بعد ہی منگنی ٹوٹ گئی۔ظاہر ہے انہیں بھی خبر ہو گئی کہ اس لڑکی کی پیدائش اور بعد از پیدائش سے کیسے کیسے واقعات جڑے ہیں۔۔۔بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کر سکتے تھے۔۔۔اماں اور دادی پر ناراض ہوئے کی کیوں ایسی ایسی باتیں کر کے امرحہ کو اتنا مشہور کر دہا ہے کہ اسکا رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔ اماں اور دادی بھی پچھتائیں پر اب دیر پو چکی تھی نا۔۔۔...!

******

پھر دوسرا رشتہ ہوا.بابا نے فورا شادی کی تاریح دے دی لڑکے والو کو.نہ منگنی نہ نکاح فورا شادی اور شادی سے 15 دن پھلے جب وہ اپنا سرخ شرارہ پہن کے دیکھ رہی تھی اسے دولہے کی جوان بہن کے بیوہ ہونے کی خبر ملی.

قصہ ہی ختم.

اور اس بار اسے خاندان سے وہ کچھ سننے کو ملا کے اس نے دادی کی نیند کی گولیاں کھا لی.

ہفتے بعد جب وہ ٹھیک ہو کر گھر آئ تو اس کا جی چاہا کے پھر سے نیند کی گولیاں کھالے اور مر جاۓ..اماں بابا کونو کھدروں میں چھپ کر روتے ہو..دادی "ہاۓ میری جوان بچی ہمے چھوڑ کر چلی گئی" کہہ کر ہچکیاں لیتی ہو.دادا ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلے جاۓ اور بابا دادی دیوانوں کی ترھا دادا کو ڈھونڈتنے ہو اور دادا رات کو چھپ کر اس کی قبر پر آ کر روۓ.

اسے اپنی موت کے تصور سے ایسی راحت ملی کے سب روتے رہے گے جنہوں نے اسے رلایا ہے پر وہ یہ سب تصور ہی کر سکی دوبارہ موت کو گلے نہ لگا سکی.

دادا اس سے بات کرنے کی اسے منانے کی کوشش کرتے رهتے پر وہ دادا سے بات ہی نہ کرتی جیسے اس کے ساتھ ہوے ہر برے حادثے کے زمادار وہ ہے.

جواں لڑکی نے خود کو ختم کرنے کی کوشش کی اور یہ سب ان جاہلانہ باتوں کی وجہ سے ہوا جو وہ بچپن سے اپنے لیے سنتی آ رہی تھی.اگر وہ نیند کی گولیوں سے نہ مرتی تو ذہنی دباؤ سے مر جاتی.

میرے پاس اتنے پیسے نہیں امرحہ کے تمھے پڑھنے کے لئے باہر بیجھ سکوں نہ ہی تمہاری شادی ہو رہی ہے.میں نے تمہارے بابا سے بات کی ہے وہ الٹا مجھ پے ہںسننے لگا کے تم پر اتنے لاکھوں روپے لگا کر تمھے پرھننے کے لئے بیجنے سے اچھا ہے تمھارے لئے زیورات بنا کے رکھ لے یا تمہارے نام کے پیسے بینک میں جمع کرا دیں تا کے تمہاری شادی میں کام آۓ.دیکھوں اب تو یہ سوچ ہے ہم سب کی کے تعلیم پے پیسا لگانا بربادی سمجتے ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے لاکھوں کا جھیز بنا دیتے ہے.

امرحه میں بیزار ہو ایسے لوگوں سے جو مقدس راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے ہے اور سارا سال گناہ کی مختلف حالتوں میں مبتلا رهتے ہے.جہالت جھوٹ حسد بے ایمانی سے خود کو بچانے کی رائی برابر بھی کوشش نہیں کرتے اور وضو کر کے نماز کے لئے کھڑے ھو جاتے ہے.تمہاری سابقہ ساس جنہوں نے رشتہ ختم کیا وہ مذھبی اجلاس میں احادیث کا حوالہ دے کر تقاریر کرتی تھی...میں اس لئے بوہت مطمن تھا که تمہاری شادی وہاں ہو جاۓ..پر وہ بھی وہی خوش رنگ پھل نکلی جو اندر سے گلہ سڑا ہوتا ہے..ہماری یہ منافقت معاشرے کے سکون کو دیمک کی ترھا چاٹ رہی ہے..ہم جو خود کو سیدھی راہ پر سمجتے ہے ہم الٹی طرف جا رہے ہے..الٹے پیروں جا رہے ہے.

امرحه میرے دل کے ٹکڑے اب دوبارہ مرنے کی کوشش نہ کرنا میں کیسے اس دکھ کو جھیلوں گا.دیکھوں کوئی نا کوئی راستہ نکل اے گا.

دادا نے اسے بلوچستان کا 15 روز کا ایک اور دورہ کروا دیا اور جیسے تیسے منا کر کالج میں داخلہ کروا دیا پر اب اس کی زندگی تھوڑی تلح ہو چکی تھی اس کی 2 منگنیاں ٹوٹ چکی تھی..ماموں نے اپنے بڑے بیٹے کے لئے دانیہ کا ہاتھ مانگ لیا.

اماں اور دادی نے خود امرحہ کے لئے کھا لیکن ماموں دانیہ کے لئے اصرار کرتے رہے.

اتنے ڈر پوک ہے سب کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں.وہ تلحی سے دادا سے کہتی.

" جو خدا سے دور ہوتے ہے ایسے ہی خوفزدہ ہوتے ہنے ".

میں تو خدا سے دور نہیں پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں؟

کبھی قدرت بے خبر سونے والوں کے سر پر کنکر ماتی ہے تاکہ وہ بیدار ہو جائیں اور اپنے مقصد حیات کی طرف لپکیں....

"میرا کوئی مقصد نہیں بس خوش رہنا چاہتی ہوں "

"ہو سکتا ھے کوئی تمہارا مقصد بن جائےاور تم ایسے خوش رہو کہ تم اپنے ماضی کے دکھوں پر ہنسو ۔ ہو سکتا ھے خدا نے تمہارے لیے کچھ اور سوچا ہو ، جو اچھا نہ ہو بلکہ شاندار ہو ۔"

مجھے اس پر شک ہے۔۔۔۔ میرے لیے بھی کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہی۔۔۔۔ ہاں بس کچھ بھی نہیں ۔" 

اسی دوران ایسا ہوا کہ جس سے اسکی منگنی ٹوٹی تھی اسکی شادی اسکی خالہ ذاد مائرہ سے ہو گئی ۔۔۔ مزید یہ کہ اسکی جلد پروموشن ہو گئی اور کمپنی کی طرف سے اک بہترین گھر مل گیا ۔ شادی کا تحفہ یورپ کا اک ماہ کا ٹور ۔۔مائرہ نے ایک دن اسے فون کیا ۔۔

"میں نے تو افرا سیاب سے کہاکہ مجھ سے شادی کر کے بچ گئے آپ ورنہ اگر امرحہ ۔۔۔۔۔hmmm......چھوڑو­ ۔۔۔ ویسے اچھے خاصے کنگلے ہو جاتے اور پتہ نہی کیا کیا ہو جاتا ان کے ساتھ ۔" 

وہ خاموشی سے مائرہ اور افرا سیاب نامہ سنتی رہی ۔۔۔ عاجز آکر مائرہ نے پوچھا ۔

"کچھ تم بھی بولو ۔ کچھ کہو ۔"

اس نے فون بند کر دیا بس اتنا ہی جواب کافی تھا ۔ 

کالج وہ جارہی تھی ۔۔۔۔ دادا سے کم بات کرتی ۔ ان سے ناراض تھی ۔ دادی اور اماں اب اسے گھر میں کچھ نہی کہتے تھے ۔ گھر میں آگ بڑھکتی دادی کے پیر میں موچ آجاتی ۔حماد کا موٹر سائیکل حادثہ ہوتا یابابا کو اسٹور پر کوئی نیا نقصان اٹھانا پڑتا ۔۔ کوئی کچھ نہ کہتا کیونکہ یہ ٹھیکہ زور و شور سے اب دوسروں نے لے لیا تھا ۔۔امرحہ کو ایسا لگتا تھا کہ تاریکی کا گہرا جنگل ھے جس میں وہ بھٹکتی پھر رہی ھے اور روشنی کی کرن ھے کہ آکر نہی دے رہی ۔۔ اسے لگتا ھے کہ دنیا سب کچھ بھول جائے گی مگراسکے متعلق کچھ نہی بھولے گی ۔۔۔وہ دعا کرتی تھی کہ کاش کوئی ہوا چلے اور سبکے ذہنوں سے اسکا نام مٹا ڈالے ۔۔۔ نہ کسی کو اسکا نام یاد رہے اور نہ اس نام سے جڑے شخصیت سے جڑے واقعات ۔۔۔ گھر میں مہمان آتے تو وہ لائبریری چلی جاتی ۔ وہاں بھی شام تک ہی رہ سکتی تھی ۔۔۔پھر دادا اسے لئے لئے گھومتے پھرتےوہ ا سے بات نہ کرتی مگر انکے ساتھ گھومتی رہتی ۔ ۔ دادا جانتے تھے کہ وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے خوفزدہ رہتی ھے خاص کر رشتے داروں اور جاننے والوں سے ۔۔۔ اور یہ خوف انھی لوگوں نے اس کے اندر پیدا کیا تھا ۔

وہ خاندان کی تقریبات اور گھر میں کسی کو دکھائی نہ دیتی تھی پھر بھی وہ ان سب میں بے حد مقبول تھی ۔۔ وہ ڈسکس کیے جانے کے لیے قہقہے لگانے کے لیےاک بہترہن موضوع تھی ۔ سانپ سیڑھی کا وہ کھلاڑی ھے جسے سانپ بار بار سانپ کھا لیتا ھے اسکی دم سے لٹکتا وہ سب سے نچلے درجوں میں آجاتا ھے ۔۔۔ بار بار ۔

امرحہ جیسی خوبصورت لڑکی کو نچلے درجوں میں دیکھنا خاندان کی حاسد لڑکیوں کا پسندیدہ مشورہ بھی تھا اور وہ حاسد لڑکیاں ہی کیا ۔۔۔کون ھے جو اپنے لیے پہلا نمبر اور دوسروں کے لیے آخری نمبر پسند نہی کرتا ۔۔

لیکن انسان تو وہی ھے نہ جو اپنی خود نمائی بیشک کرتا پھرے لیکن دوسرے کی خاموشی کی پردہ پوشی ہر حال میں کرے ۔۔اور ایسے انسان اب انسانوں کے ہجوم میں کہاں ملتے ۔۔۔

اپنے آپ سے تلخ ،اپنے ماحول سے غمگین امرحہ مایوس اور بے زار سی رہنے لگی ۔ نہ معلوم یہ قدرت کا طریقہ کار تھا یا قدرت کی ترغیب کہ اس بدتر ہوتے ماحول سے نکلنے کیلئے اس نے کوشش تیز تو کر دی۔ڈیڑھ سال کے دوران اس نے مختلف بیرونی کالج و یونیورسٹیوں کے ہزاروں آن لائن اسکالر شپ فارم بھرے۔۔۔ ففٹی پرسنٹ،سکسٹی پرسنٹ،سیونٹی پرسنٹ اس نے کسی یونیورسٹی کے کسی بھی طرح کی اسکالر شب کو جانے نا دیا۔۔دادا نے اس دوران بابا کو منانے کی بہت کوشش کی کہ چند لاکھ کی بات ہت بیٹئ پر لگا دیں۔پڑھ لکھ کر لوٹا دے گی لیکن بابا کو یہ مشورہ ہی سراسر ایک مزاق لگا

"بھلا پڑھنے لکھنے پر کوئی لاکھوں لگاتا ہے؟"

دادا کو خاموشی اختیار کرنا پڑھی، بحث فائدہ دیتی ہے نہ دلائل۔۔۔

مانچسٹر یونیورسٹی کے طلباء کی سوسائٹی اپنے ذاتی فنڈ سے پانچ اسکالرشپ دے رہی تھی۔ اسے وہاں سے بھی انکار ہو گیا۔۔دو سالوں میں اس نے دو سو بار " سوری یو آر اے گڈ سٹوڈنٹ، بٹ وی کانٹ ہیلپ۔۔۔بیسٹ آف لک" جیسی میلز پڑھی تھیں پھر اس نے گنتی چھوڑ دی تھی۔۔لیکن ظاہر ہے انکار، ناکامی کی کوئی حد بلاشبہ نہیں ہوگی لیکن انکار سننے اور نا کامی سہنے والوں کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔

مانچسٹر یونیورسٹی کے اس انکار نے اسے ایک بار پھر گھٹنوں میں سر دے کر رلایا۔۔۔ اور اس نے بہت خفا ہو کر بہت جل کر ایک اخفی میل انہیں ضرور کی۔

"میں ہوں ہی منحوس ماری۔۔۔میں جل کر مر جاوں تو ہی اچھا ہے۔۔۔بھاڑ میں جاو تم سب اور تمہاری اسکالرشپ آفر۔۔۔"

اگلے ہی دن اسے ایک لمبی میل موصول ہوئی جس میں انتھک کوشش کرنے اور کبھی ہار نہ ماننے پر بڑا سا لیکچر تھا۔ ساتھ ہی دنیا بھر کے ان کامیاب انسانوں کی مثالیں تھیں، جنہوں نے بد ترین حالات میں بھی شاندار کامیابیوں کی بنیاد رکھی تھی۔ ان میں سر فہرست نام محمد علی اور چارلی چپلن کا تھا۔۔۔ساتھ ہی اسے بہت نرم انداز سے بتایا گیا تھا کہ میٹرک میں اسکابی گریڈ ہے،ایف ایس سی میں صرف اے اور گریجویشن بھی بہت مشکل ہے کہ وہ اے پلس کے ساتھ کر سکے۔۔۔

ایسی صورت میں جبکہ اسکے پاس شاندار اکیڈیمک رزلٹ نہیں وہ کیسے اسے دوسرے شاندار تعلیمی قابلیت رکھنے والوں کے مقابلے میں اسکالرشپ دے دیں۔۔یہ تو سراسر نا انصافی ہو گی۔

"نا انصافی ہونہہ۔۔آئے بڑے انصاف کے علمبردار۔۔۔"

آخر میں ایک چھوٹی سی سطر لکھی تھی۔جو کچھ ایسے تھی۔

"پھر بھی ہم سوچ رہے شاید آپ کیلئے کچھ کر سکیں۔۔۔ پلیز جل کر مت مریئے گا، ہمیں وقت دیں"

اس نے وقت دے دیا اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس دوران اس کا بی اے کا رزلٹ آ گیا۔ اے پلس تو جیسے بورڈ والوں نے اس پر حرام ہی کر دیا تھا کہ جتنی محنت کر لے امرحہ واجد کو اے پکس نہیں دینا۔۔وہ بہت خفا خفا سی رہی اپنے رزلٹ سے لیکن کیا کر سکتی تھی صرف اتنا کہ " اے پر۔۔۔ پلس کا سائن صفائی سے لگا کر اپنی ڈگری مانچسٹر میل کر دی۔۔۔ اور اس کی ذرا سی چالاکی کام کر گئی۔ پورا ایک مہینہ سوچنے کے بعد انہوں نے اسے کہا۔

"ہم آپکو سیونٹی پرسنٹ اسکالرشپ آفر کر رہے ہیں۔۔وہ بھی تیس پرسنٹ ہر حال میں آپکو دو سالہ ڈگری کے دوران واپس کرنا ہوگا۔۔۔باقی کو پچاس فیصد ائندہ آنے والے پانچ سالوں میں۔۔ اپنی رہائش اور کھانا پینا آپکو خود دیکھنا ہوگا۔ ہم صرف عارضی طور پر یہ سب مہیا کریں گے"

تو منحوس ماری اور جل مروں گی کے الفاظ کام کر گئے۔ انگریز نما پاکستانی لرز اٹھے اور اسے سکالرشپ آفر کر دیا

دادا کے ساتھ جا کر چپکے سے اسنے اپنا پاسپورٹ بنوالیا۔۔۔کچھ دادا نے اپنے اور کچھ دادا نے دوستوں سے

قرض لیا اور باقی کا تیس فیصد جمع کر کے اس کے ہاتھ میں دیا.

اب وہ دادا سے خوب چہک چہک کے باتیں کرتی..برسوں کی کٹی اب ختم ہوئی تھی..دادا پوتی میں اب پھر سے خوب بننے لگی.اس کے انداز تو کچھ آیسے تھے جیسے ہمیشہ کے لئے جا رہی ہو.اور داد کے ایسے جیسے وہ ڈگری لے کر آئے گی تو رونا دھونا مرنا مارنا بھول جائے گی.

وہ دادا کے ساتھ چھوٹے بڑ ے ہوٹل میں کھانا کھاتی اور آس پاس ہر چیز کو ایسے دیکھتی جیسے سب کو الوداع کہھ رہی ہو.دادا کچھ بھانپ گۓ.

امرحه پڑھنے کے لئے بیج رہا ہو...یاد رکھنا صرف پڑھنا وہاں پے....باقی تمھارے تمام فیصلوں کا اختیار آج بھی میرے اور تمہارے بابا کے پاس ہے.

جی ٹھیک ہے...اس نے سر ہلا دیا....اس نے تو سوچا تھا کے وہاں پرھے گی جاب کرے گی اور وہی رہے گی دادا پتا نہیں کیا کیا سوچ رہے تھے...اسے لڑکوں میں کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور وہ لکھ کے دینے کو تیار تھی کے کبھی ہو گی بھی نہیں.

دونو مال پے چلنے والی سفید بھگی میں بیٹھے تھے جس کے آگے گھوڑ ے جتے تھے جن کے ٹاپ وہ موسیقی پیدا کر رہے تھے جو مال روڈ پے چلتے گھوڑ ے ہی پیدا کر سکتے ہے کے جیسے کلام مغلیاں سے دربار شاہی میں اپنی شان پر اتراتے ہو.

اس نے آج غور کیا کے یہ سب کتنا اچھا ہے دادا کے ساتھ بیٹھنا اور جگ مگ روشنی کے شہر سے گزرنا...جیسے رانجھے کی بانسری پر سر دھننا اور رات ہی رات قیام میں پوری زندگی گزار دینے کی خواہش کرنا..کھوۓ والی قلفی کھانا اور ہاتھ قلفی کے نیچے رکھنا..کھوۓ والی قلفی جب گرتی ہے تو پگہل کر کنارے سے پوری کی پوری گرتی ہے اور یہ صدمہ ایسا ہوتا ہے کے کسی تسلی سے زائل نہی ہوتا.مزید پانچ دس قلفی کھا کر بھی وہ ہی ایک گر جانے والی قلفی کا خیال آتا ہے...........

وہ ہںستنے مسکراتے ان 2 بچو کی ترھا گھر اے جو عید کے تین دن عید جمع کرنے میں گزار دیتے ہے.اور صرف اس لئے گھر سے بھر نہیں نکلتے مبادا ان کے پیچھے کوئی مہمان آ جاۓ اور ان کی عید ماری جاۓ.تین دن عید جمع کرنے والے یہ دو بچے چوتھے دن گھر سے نکلتے ہے اور کیا خوب نکلتے ہے......****

امرحه دو دن بعد جا رہی ہے...دادا نے اعلان کیا..

کہا؟ دادی نے پوچھا...وہ سمجھی اکثر بلوچستان جاتی رہتی ہے ہو سکتا ہے اس بار پشاور کو نکل جاۓ اپنے دادا کے ساتھ..

"مانچسٹر"

وہ کیا ہے؟ دادی کو کوئی دلچسپی نہیں تھی دادا پوتی میں بس ایسے ھی کھانا کھاتے ہوے پوچھ لیا.

دونوں نے اپنی طرف سے میزائل داغا تھا جو پھلجڑی بھی نہ بن سکا.نظر اتار نی چائیے تھی ان سب کی جغرافیائی معلومات کی.ان کو یہ تک نہیں تھا پتا که مانچسٹر شہر کا نام ہے اور یہ برطانیہ میں ہے..

کوئی رشتہ آیا ہے امرحه کا وہاں سے؟ دادی نے یہ سوال بھی ایسے ہی پوچھ لیا..

اس اگلے سوال پر دادا خاموش ہی ہو گے.

"امرحه اتنی قابل ہے که مانچسٹر کے مئیر نی خود خط لکھ کر بلایا ہے که ہماری یونیورسٹی میں آ کر پڑھو..دادا نے طنز کیا....

۔۔

بھلے سے وائٹ ہاؤس سے خط آتا کہ اوباما کی اسسٹنٹ بنو آکر یا انہیں امورِ حکومت میں مشورے دو. کوئی فرق کب پڑنے والا تھا… سب آرام سے کھانا کھاتے رہے.

امرحہ نے دادا کو اشارہ کیا کہ ٹھیک سے متوجہ کریں نا سب کو. اس اعلان پر ایسا ردِعمل تو سراسر مانچسٹر کی بےعزتی ہوگا.

"امرحہ باہر جا رہی ہے پڑھنے…دو دن بعد فلائٹ ہے اسکی" دادا نے ذرا تیز آواز سے کہا-

اب فرق پڑا - امّاں بابا دادی نے حیرت سے دادا کو دیکھا…

"پیسے کہاں سے آئے آپکے پاس......" بابا نے سارے سوال چھوڑ کر یہ سوال کرنا مناسب سمجھا.

"مفت جا رہی ہے.....یونیورسٹی نے اسکالرشپ دیا ہے".

بابا! کیوں مجھے پاگل بنا رہے ہیں....آپ نے اپنا پلاٹ تو نہیں بیچ دیا....وہ میں نے امرحہ اور دانیہ کی شادی کے لئے رکھا تھا" بابا نے کھانا کھانا ہی چھوڑ دیا.

پلاٹ کو بیچنے کی کوشش تو دادا نے بہت کی تھی پر وہ ایسی اجاڑ جگہ پر واقع تھا کہ بک ہی نہیں رہا تھا.

"پلاٹ جہاں تھا اب بھی وہیں ہے....جا کر دیکھ آنا"

"کہیں نہیں آنا جانا....رشتہ دیکھا ہے اسکا ایک بس شادی ہوگی اسکی". دادی نے اب دلچسپی لی.

"رشتہ......."امرحہ نے دادی کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کمرے میں آ گئی اور جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگی....ساتھ ساتھ وہ خود کو تھپکی دے کر کہنے لگی.....

"مجھے کوئی نہیں روک سکے گا....میں چلی جاؤں گی....پریشان نہ ہونا امرحہ تم چلی جاؤ گی...."

دادی امّاں بابا میں باہر تکرار ہونے لگی جو آہستہ آہستہ بڑھنے لگی…

یہ کونسا رشتہ تھا جو اس برے وقت میں اس کیلئے آ گیا تھا....اب اسکا جی چاہا بلکہ اس نے دعا کی کہ جو جو کچھ اس کے بارے میں مشہور ہے وہ سب ان رشتے والوں تک پہنچ جائے...اس کے خاندان والے انہیں فون کر کر کے بتائیں کہ لڑکی کیسی جنم جلی ہے….منحوس ہے.....کالی نظر....کالی زبان والی ہے....اور نہیں تو کوئی دادی کی زبانی تیار کردہ اسکا پیدائشی خلاصہ ان تک پہنچا دے کہ منگل کی دو کو کیا کیا ہوا تھا فقط ایک اس کی آمد سے. اور کیا کیا مزید ہو سکتا ہے اگر اس سے دور نہ رہا گیا تو.

یہ کوئی موقع تھا رشتے کا....اس کی انگلیاں گھس گئی تھیں میلز لکھ لکھ کر.آنلائن اسکالرشپ فارمز بھر بھر کر اور دادی اور امّاں اسکی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے-

وہ خود کو تھپکتی رہی اور کہتی رہی "تم چلی جاؤ گی....پرسوں تم جا رہی ہو...کچھ نہیں ہوگا....دادا سب ٹھیک کر لیں گے." کہتے ہوئے وہ جلدی جلدی سامان بھی پیک کرتی رہی..پاسپورٹ کو حفاظت سے چھپا دیا کہ بابا غصے میں آکر اسکا پاسپورٹ ہی نہ جلا دیں.

رات گزرتی رہی باہر سے ہنوز چاروں کی تیز آوازیں آتی رہیں اور پاسپورٹ کو چھپانے کے بعد وہ کمرے کے دروازے کے ساتھ لگی زمین پر بیٹھ کر اُونگھنے لگی لیکن ساتھ ساتھ بڑبڑاتی رہی.

"میں چلی جاؤں گی....میں تو جا رہی ہوں..کون روکے گا مجھے....دادا ہیں نا وہ سب ٹھیک کر لیں گے"

دادا نے دروازہ کھولا تو اسے دروازے کے قریب ہی اُنگھتے پایا اور اسکی بڑبڑاہٹ کو کم زیادہ ہوتے سنا.

تکیہ لا کر انہوں نے اس کے سرہانے کے نیچے رکھا…زندگی میں وہ پہلی رات تھی جب وہ اتنا خوش تھی اور اس خوشی کی اس کو اتنی فکر تھی کہ وہ بنا بستر کہ فرش پر سو گئی تھی....انہیں دکھ ہوا. اس ماحول نے اسے اتنے دکھ نہ دئیے ہوتے. اس گھر میں اسکی ایسی حیثیت نہ ہوتی تو وہ ہر رات ایسے ہی سوتی. رو رو کر آنکھیں سرخ کرتے نہیں بلکہ آنکھیں موند کر.

پریوں کا انتظار کرتے دنگوں سے منور ہوتی نیند۔۔۔۔ دادا اس کے پاس ہی بیٹھ گئے اور اسے دیکھنے لگے۔۔۔۔اولاد نامی جس طوطے میں میں والدین کی جان ہوتی ہے وہ طوطا امرحہ تھی انکیلیے۔ انہیں اتنا پیار امرحہ کے والد سے بھی نہیں تھا۔ باقی کی اولادوں سے بھی نہیں تھا۔۔وہ اس کیلیے ہر جنگ لڑنےکیلیے تیار رہتے تھے اور ایک جنگ وہ اس حق میں جیت آئے تھے۔۔۔۔اسکے مانچسٹر جانے کی۔۔۔۔

ایک دن امرحہ ان سے خفا ہو کر کہنے لگی۔

"آپ بھی دوسروں کی طرح ہو جائیں نا۔۔۔ کیوں کرتے ہیں مجھ سے پیار"

وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے بس سوچتے ہی رہے کہ شاید قدرت ہمیشہ انسان پر اتنی مہربان ضرور رہتی ہے کہ اگر ساری دنیا اس انسان سے نفرت کرنے لگتی ہے تو کوئی ایک ضرور اس پر جان چھڑکتا ہے۔وہ انسان کوئی بھی ہو سکتا ہے کوئی چرند پرند یا دوسری مخلوق۔۔۔بلاوجہ کی نفرت ضرور ایک بلاوجہ کی محبت کو ساتھ باندھ لاتی ہے۔۔۔

"جیسے جیسے دوسروں کیلیے تم نا پسندیدہ ہوتی گئی میرے لیے پسندیدہ ترین ہوتی گئی" انہوں نے کہا خدا بھی بھلا کبھی یہ بھولا ہے کہ اس کے بندے کے آس پاس بہت کانٹے اگ آئے ہیں اور اب اسے ایک مہکتے ہوئے ہمیشہ تروتازہ رہنے والے پھول کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ اس پھول کو پا کر وہ کانٹوں کی دی اذیت کو فراموش کر دے۔۔۔

بابا نے اسے دس ہزار روپے دیئے کہ وہ ضروری خریداری کر لے۔۔۔ اماں اور دادی کا مزاج البتہ بہت برہم تھا۔۔۔دادا کے ساتھ جا کر ہی اس نے ضروری خریداری کی۔۔۔دانیہ نے اسکا سامان پیک کروایا۔۔۔حماد اور علی دل مسوس کر اسے دیکھتے رہے۔۔۔آخر وہ اتنی دور جا رہی تھی۔

دادا مسلسل دو دن سے اپنی آنکھوں کی جھڑی چھپا رہے تھے۔۔۔

"یہ پڑھنے جا رہی ہے بھاگ نہیں رہی۔۔۔ماں باپ تو خوش ہوتے ہیں۔تم دونوں اسے کر دو خوشی سے۔یہ نہ ہو کہ جہاز کریش ہو جائے یا یہ لا پتہ ہو جائے"

دادا نے یہ چھوٹا سا لیکچر دادی اور اماں کو دیا تھا۔۔۔ اس کا جہاز کریش نہ ہو جائے یا وہ لا پتہ نہ ہو جائے۔۔دونوں نے اپنی برہمی کو ایک طرف رکھا اور اسے دعاوں میں الوداع کہا۔۔ اور وہ مانچسٹر کیلیے روانہ ہو گئی۔

شہر اسباق کیلیے۔۔

شہر آزاد کیلیے۔۔

وہ برطانیہ کے تیسرے مصروف ترین ائیرپورٹ کی اونچی چھت تلے ایڑھی کے بل گھوم گھوم گئی ۔

"مانچسٹر میں آگئی ہوں آگ لگانے "

اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چلا کر کہا ۔۔۔ چند لوگوں نے اسے حیرت سے دیکھا ۔۔ بھلے سے دیکھیں اسے پرواہ نہی تھی ۔ ۔ وہ گھیر دار سفید شلوار اورگول دامن قمیض میں ملبوس تھی ۔ اس کا سفید لمبا دوپٹہ مانچسٹر ائر پورٹ کی صفائی کر رہا تھا اور خاص کر ہر آنے جانے والے لے سامان کے ساتھ الجھ رہا تھا ۔۔۔

اس نے پھر سے دونوں بازو پھلا کر ایڑھی کے بل گھوم کر کہا ۔

میں آگئی ہوں مانچسٹر ۔۔۔۔۔میں اب کبھی نہی رووْ ں کی اور تم مجھے کبھی نہ رلانا ۔۔"

خوش بختی کا اگر کوئی نقارہ تھا تو وہ اس وقت امرحہ کا یہی نعرہ تھا ۔ مسرت وشادمانی کا اگر کوئی اشارہ تھا تو وہ یہی ۔۔

ایڑھی کے بل گھوم جانا تھا ۔

سکون و راحت کے دریا کااگر کوئی کنارہ نہ تھا تو وہ بس ۔۔۔ وہ امرحہ کا وجود سارا تھا ۔

وہ اک دم سے آزادی کے شدید احساس میں گھر گئی تھی ۔ یہ احساس بہت خوش آئین تھا کہ وہ ہر دکھ سے دور ہو گئی ھے اور یہاں اسے سب امرحہ کی حیثیت سے جانیں گے اور بس ۔۔۔۔ جہاں صبح ہو گی ۔۔۔ شام اور رات لیکن کوئی آہ نہی ۔۔۔دکھوں کے استعارے چھپ گئے اور خوشیوں کی علامتیں جابجا نظر آنے لگیں ۔

برصغیر کے حاکم اے وقت کی سرزمین پر لہراتا اسکا سفید دوپٹہ جہاز کا بادبان بنا اسکی کشتی کو کھلے نیلے پانیوں میں رواں کرنے لگا ۔

ایک امریکی ٹین ایجر اپنے چھوٹے سے الیکٹرک گٹار پر یوٹو میوزک بینڈ کا گانا "آرڈنری لو " بجا رہا تھا ۔

بنگال کے سحر کو اپنی آنکھوں میں سموئے اور اپنی شرمیلی مسکراہٹ سے اسے پھونکتے بنگالی نو بیاہتا دلہن اپنےمحبوب شوہر کے کان میں سرگوشی کر رہی تھی ۔ 

بنگال کی شرماہٹ اور آرڈنری لو کی دھن نے اسے نئی دنیا میں آمد پر خوش آمدید کہا ۔ وہ فدا سی ہو گئی اور امریکی ٹین ایجر کے پاس کھڑی ہو کر مسکرا مسکرا کر اسے داد دینے لگی ۔

اسے کوئی لینے نہی آیا تھا وہ تین گھنٹے سے انتظار کر رہی تھی لیکن اسے انتظار سے کوئی مسلہ نہی تھا وہ اگلے تین گھنٹے اور انتظار کر سکتی تھی ۔۔ اب اسے کوئی مسلہ نہی تھا بھئی ۔۔۔

اسے اپنے نام کا بورڈ دور سے نظر آیا ۔۔لانگ کراس بیگ لٹکائے اک چائنیز مکس کورین لڑکی بھاگتی ہوئی آرہی تھی ۔۔

"میں ہو امرحہ " وہ لپک کر اس کورین لڑکی کی طرف لپکی ورنہ جس تیزی سے وہ بھاگ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا اسے ۔۔

لینے نہیں بائے بائے کہنے آئی ہے_

"اوہ سلام..... سوری مجھے دیر ہوگئی۔۔"

" کوئی بات نہیں، چلیں.....؟" امرحہ نے سلام کا جواب دیا کہ اسے اچھا لگا اس نے ہیلو کے بجائے سلام کہا۔۔

"دراصل جسے تمہیں لینے آنا تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا آتے ہوئے...... پھر مجھے آنا پڑا....... زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا_" وہ شرمندہ ہو رہی تھی کہ کوئی اسے وقت پر لینے نہیں آسکا۔۔

امرحہ کی شکل بنی پھر اس کی ہنسی نکل گئی۔۔ ہانا آگے آگے چلنے لگی وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ امرحہ کے لیئے اس کا ساتھ دینا مشکل ہو رہا تھا..... دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گئیں...... بلڈنگ تک آئیں۔۔ سامان اُوپر لائیں اور فلیٹ کے اندر آگئیں۔۔

فلیٹ خالی تھا...... دو کمرے سامنے...... چھوٹا سا لاوُنج اور لاوُنج کے سامنے ہlی اوپن کچن....... امرحہ کی آنکھیں اعزازیہ کھل گئیں..... ایسا صاف ستھرا فلیٹ میرے لیے...... واو۔۔

ہانا اسے ایک کمرے میں لے آئی، جہاں دو سنگل بیڈ رکھے تھے اور نہ جانے کیسے جگہ نکال کر فرش پر ایک فولڈنگ میٹریس بچھایا گیا تھا....... جہاں میٹریس بچھا تھا یقیناً وہ ان کے چلنے پھرنے کی چند قدمی جگہ تھی......

" یہ آپ کا بستر ہے...." اس نے فرشی بستر کی طرف اشارہ کیا..... اور امرحہ کا منہ بن گیا۔۔ وہ کیوں سوئے نیچے۔۔

" برائے مہربانی، اس کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا۔۔" یہ فقرہ اس نے جبراً مسکرا کر لیکن درخواست انداز میں کہا اور کیونکہ ہاف چائنیز تھی تو ذرا جھک کر کہا۔۔

جب تک وہ تازہ دم ہوئی ہانا نے اسے کافی اور سینڈوچز بنا دئیے۔۔

" یہ میری طرف سے۔۔" چھوٹی سی ٹرے کو آگے کرتے ہوئے اس نے ایسی خوشی سے کہا جیسے اپنے قیمتی خزانے میں سے اسے کچھ عنایت کر رہی ہو...... امرحہ دیکھ کر رہ گئی..... اتنی لمبی فلائٹ کے بعد اسے یہ چھوٹا سا خوان پیش کیا جا رہا تھا.....

" شاید یہ ابتدائیہ ہو اور اصلی سوپر(کھانا) رات مے ہو۔۔"امرحہ سوچنے لگی اور ساتھ اس نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی غیر ملکی ان کے گھر آیا ہوتا تو پھر بڑی میز کے ساتھ ایک اور میز لگائی جاتی لوازمات کو رکھنے کے لیے اور یہ ابتدائیہ ہوتا، تفصیلی کھانے کی تو بات ہی تفصیلی ہوتی.....

" مجھے دیر ہو رہی ہے...... مجھے جانا ہے۔۔" اور جاتے جاتے بھی وہ پھر کہہ گئی۔۔" برائے مہربانی، کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا۔۔"

لیکن وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ لگاتی رہی....... اسٹڈی ٹیبل پر رکھے نئی نئی اشکال کے پرفیومز کو اسپرے کرنے سے اس نے ابتداء کی..... دراصل وہ صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ وہ کس قدر اصلی ہیں...... یعنی کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کتنا بھی مہنگا اور ہائی برانڈ کا پرفیوم لے لیا جائے وہ اصل کی کاپی ہی ہوتا ہے اصل نہیں تو یہ کتنا سچ ہے..... سب کے پرفیومز بے دریغ اسپرے کرتے اسے کچھ کچھ حقیقی سچ کا اندازہ ہو رہا تھا کہ پاکستان میں وہ اصل کی کاپی ہی خریدتی رہی ہے...... پورا فلیٹ معطر ہو گیا اور وہ تھک گئی تو اس نے پرفیومز کی جان چھوڑی اور پھر وہیں قریب ہی کچھ میک اپ کا سامان رکھا تھا وہ اسے دیکھنے لگی..... البتہ کتابوں پر اس نے صرف ایک نظر ڈالی کیونکہ ان کے ٹائٹل ہی ایسے ایسے تھے جیسے ساری مصری تاریخ ہی وہاں نت نئے رنگوں سے سجا کر رکھ دی گئی ہو، اور عہد فرعون سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی......

پھر وہ واش روم گئی...... ایک ایک آئٹم کو چیک کیا، فیس واش، باڈی واش، لوشنز کو دیکھا...... حتٰی کے باتھ ٹب کے کنارے رکھی چھوٹی چھوٹی بتخوں کو بھی..... پھر وہ کچن میں آئی..... ایک ایک کیبنٹ کو کھول کر دیکھا..... فوڈ آئٹمز کو سونگھا بھی..... دوسرا کمرہ لاک تھا..... لاونج میں رکھا ٹی وی اس نے آن کیا اور پہلے چینل چیک کرتی رہی پھر ایک میوزک چینل لگا کر کچن میں آکر نوڈلز بنانے لگی..... دو عدد نوڈلز کے پیکٹ بنائے..... بڑے پیالے نما باول میں ڈالے..... اور ایڈورڈ مایا کو سنتے سنتے کھا گئی باول کو میز پر ہی رہنت دیا اور ٹی وی بند کر کے سنگل بیڈ پر آ کر سو گئی۔

"تیس فیصد ادا کیا تھا انہیں۔۔۔لوئی مزاق تھا"

رات کو بارہ کے بعد کا وقت ہو گا جب اسے اٹھایا جا رہا تھا۔

"مس پاکستان۔۔۔پلیز اٹھیں" ایک انجانی آواز سے اسکی سماعتیں روشناس ہوئیں، پہلے تو وہ سمجھی کہ خواب ہے سو وہ بدستور سوئی رہی، جب دوبارہ مس پاکستان۔۔۔ مس پاکستان کی آواز آئی تو اسے حیرت ہوئی کہ دادا لڑکی کی آواز میں کیوں بول رہے ہیں اور سیدھے سیدھے امرحہ کیوں نہیں کہہ رہے۔

"لیڈی امرحہ۔۔۔پلیز۔۔۔ورنہ میں آپکی ناک پاس یہ سپرے کر دوں گی۔۔۔اینڈ ٹرسٹ می۔۔ اس کی بو دنیا کی گندی ترین بو ہے۔۔۔کئی ہفتوں تک ناک میں گسی رہتی ہے۔ اور کئی ہفتوں تک کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا"

امرحہ تو خواب میں دادا کے پاس بیٹھی نہاری کھا رہی تھی۔

اسپرے کا ڈھکن کھلا اور دنیا کی گندی ترین بد بو اسکی ناک کے قریب آئی۔۔۔وہ صحیح کہہ رہی تھی وہ کئی ہفتوں خانے والی نہیں تھی۔

"دادا" وہ چلا کر اٹھ بیٹھی۔

***********

باول کو میز پر ہی رہنت دیا اور

ٹی وی بند کر کے سنگل بیڈ پر آ کر سو گئی۔

"تیس فیصد ادا کیا تھا انہیں۔۔۔لوئی مزاق تھا"

رات کو بارہ کے بعد کا وقت ہو گا جب اسے اٹھایا جا رہا تھا۔

"مس پاکستان۔۔۔پلیز اٹھیں" ایک انجانی آواز سے اسکی سماعتیں روشناس ہوئیں، پہلے تو وہ سمجھی کہ خواب ہے سو وہ بدستور سوئی رہی، جب دوبارہ مس پاکستان۔۔۔ مس پاکستان کی آواز آئی تو اسے حیرت ہوئی کہ دادا لڑکی کی آواز میں کیوں بول رہے ہیں اور سیدھے سیدھے امرحہ کیوں نہیں کہہ رہے۔

"لیڈی امرحہ۔۔۔پلیز۔۔۔ورنہ میں آپکی ناک پاس یہ سپرے کر دوں گی۔۔۔اینڈ ٹرسٹ می۔۔ اس کی بو دنیا کی گندی ترین بو ہے۔۔۔کئی ہفتوں تک ناک میں گسی رہتی ہے۔ اور کئی ہفتوں تک کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا"

امرحہ تو خواب میں دادا کے پاس بیٹھی نہاری کھا رہی تھی۔

اسپرے کا ڈھکن کھلا اور دنیا کی گندی ترین بد بو اسکی ناک کے قریب آئی۔۔۔وہ صحیح کہہ رہی تھی وہ کئی ہفتوں خانے والی نہیں تھی۔

"دادا" وہ چلا کر اٹھ بیٹھی۔

"ابھی میں نے اسپرے نہیں کیا" اس نے کندھے اچکا کر اسپرے کی بوتل پر ڈھکن رکھا۔

وہ اپنی سرخ بوجھل آنکھوں سے گہری سبز آنکھوں والی کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ اس کی نظر دھندلا رہی تھی۔۔۔اور اسکی آنکھیں نیند کے بوجھ سے بند ہو رہی تھیں اور اسے گہرا سبز رنگ ہر طرف تیرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔ اپنے ہاتھ بھی سبز سبز دکھ رہے تھے

اسپرے کی بوتل کا ڈھکن پھر سے کھلا اور اسکی ناک کے قریب آیا۔۔اسنے خفا سا ہو کر ہاتھ سے پرے کیا۔۔اس با اسکی آنکھیں پوری کھل گئی، اف کیا بلا تھی یہ سپرے، کیا ضرورت تھی اسے ایجاد کرنے کی، کیا اسکے بناء ترقی نہ ہو سکتی مہذب دنیا میں۔۔۔

"کتنا غیر مہذب انداز ہے

امرحہ کی آواز انتہاء کی غیر دوستانہ ہو گئی۔ گہری سبز آنکھیں پھیل گئیں۔ "غیر مہذب" شاید اسنے ہنسنا چاہا لیکن پھر ارادہ ملتوی کر دیا۔

"تم لوگ کتنی بھی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھ لو بنیادی اخلاقی اصول کبھی نہیں سیکھو گے" امرحہ نے اپنی پہلی تقریر کا آغاز مانچسٹر میں آمد کے چوبیس کھنٹے کے اندر اندر کر دیا تھا۔۔۔ دیر قطعا نہیں کی۔۔۔ کیوں کرتی دیر۔۔۔۔اس بار سبز آنکھیں طنز سے اسے دیکھنے لگیں۔ " باہر آ جائیے مس امرحہ" کہہ کر وہ خود باہر چلی گئی۔ امرحی کر لیڈی امرحہ نام اچھا لگا لیکن نا جانے کیوں اسے لگا اسے طنزا لیڈی کہا گیا ہے۔۔ زیادہ سوچنے کی مانچسٹر میں ضرورت نہیں تھی۔۔وہ منہ دھو کہ باہر آ گئی۔۔ اسنے جا بوجھ کے دیر لگائی کہ کرتی رہیں کھانے پہ اسکا انتظار۔۔۔

لیکن باہر لاونج میں کھانے کی مئز سجی تھی نا ہی کھانوں کی اشتہاانگیز خوشبوئیں آ رہی تھیں البتہ ایک نہ دو پورے پانچ کا مجمع باہر بیٹھا تھا اور میز پر باول رکھا تھا جس میں کچھ نوڈلز بچے تھے یہ اتفاق تھا یا انکا اندازتھا وہ مجمع اسے گھور رہا تھا

"بیٹھ جائیے" ایک لڑکی نے کہا جس کی ایشیائی طرز کی بالوں کی گوندھی چوٹی دائیں بائیں ایسے لٹک رہی تھی جیسے کنڈلی مارے بھورا سانپ کھڑکی سے باہر جھول رہا ہو۔۔ امرحہ بیٹھ گئی۔۔شاید کھانے سے پہلے 

متعارف ہونا ہوگا..

یہ مس پاکستان ہے..امرحه..ہانا نے کہا.

ہانا کا دوستانه جوش کہاں گیا..امرحه نے ایسے ہی سوچا..

ہیی..میں للی ہو اسکاٹ لینڈ سی..

میں شرلی مآرگوٹ..بھورے بالوں والی نے کہا پر وہ مسکرا نہ سکی...

ام بیٹی لوو میں جرمنی سے ہو..بوہت لمبی اور بوہت پتلی بیٹی لوو نے بے ترھا مسکرا کر کہا..امرحھ دیکھ رہی تھی کے اس کی ہنسی اس کی آمد سے ھی قابو سے بہر ہے

میں عذرا ہو شکاگو سے..لڑکھڑاتی اردو میں آواز ائی.مردانہ ہیئر سٹائل لئے ہوے جس کو وہ صوفیہ کریسٹنا ٹائپ سمجھ رہی تھی وہ عذرا نکلی..یعنی اگر شر لی کی لمبی چوٹی عذرا کے لگا دی جاے تب کہی جا کے وہ تھوڑی سی عذرا عذرا ٹائپ لگے.پر خیر وہ جان جائے گی کے اب جو یہاں ہو گا وہ کم ہو گا اور جو نہیں ہو گا وہ حیران کن ہو گا.

میں نے اپ سے کہا تھا نا کے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا..ہانانے بولنا شروع کیا.

میں صرف واش روم گئی تھی..وہ صاف مکر گئی..

ہانا کا منھ کھل گیا..یہ جھوٹ بول رہی ہے شرلی..

شرلی نے آنکھ سے اشارہ کیا ہانا کو...اور ہانا خاموش ہو گئی..

یہ...شرلی نے میز پے رکھے باول کی طرف اشارہ کیا...

مجھے کیا معلوم اس کے بارے میں...یہ تو پھلے سے ھی یہاں رکھا تھا..شرلی کے صرف یہ ہی کہنے پے وہ ڈر سی گئی..اور اسے افسوس ہوا کے سارے نوڈلز کھا کر باول دھو کے کیوں نهی رکھا..

ابھی عمرحه کو نہیں معلوم تھا کے وہ باول دھو کے رکھ بھی دیتی تو بھی انھیں پتا چل جاتا کے ہانا کے نوڈلز کس نے کھاۓ..

ٹھیک ہے امرحه آپ جا کر سو جاۓ..سوری آپ کو ڈسٹرب کیا..شرلی نے کہا..

اور کھانا..وہ کھڑی ہو کر پوچھنے لگی...

وہ پانچوں پھلے اسے اور پھر آپس میں ایک دسرے کو دیکھنے لگی..بٹی لّو نے گو کے اپنے منہ پے ہاتھ رکھ لیا تھا پر امرحه دیکھ رہی تھی کے وہ اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے...

ابهی آپ کو اور بھوک لگی ہے..عذرا نے پوچھا.

نہیں بھوک تو نہی لگی مگر پھر بھی کھانا تو کھاتے ہے نا..اس سے یہی بات بن سکی..لیکں سچ میں اسے بھوک لگی تھی اور بھوک سیے ذیادہ اس بات کا انتظار تھا کے اس کے لئے کھانے میں کیا بنا ہے..کیا سب انگلش کھانے ہے کے کچھ دیسی بھی..

ہم بنا بھوک کے کہانا نہیں کھاتے لیڈی..شرلی نے کسی قدر متانت سے کہا..

کھلاتے بھی نهی..اس نے اردو میں کہا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا بس عذرا نے اسے گھور کر دیکھا..وہ کمرے میں ائی اور فرشی بستر پر سو گئی..باہر بھنبناہٹ ہوتی رھی..ہوتی رہے تیس فیصد ادا کیا ہے..وہ اطمینان سیے سو گئی..

اگلے دن وہ سو کر اٹھی تو روم کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ کے اس کی چیخ نکل گئی..اتنی صفائی ...اتنی خوبصورتی..

بلڈنگ کے جس راستے وہ اس فلیٹ میں ائی تھی یہ اس کے پیچھے کا منظر تھا..جہاں سر سبز گھاس کا کھلا قطه تھا اور کیاریوں میں جگہ جگہ پھول لگے تھے..قطعے کے پار سڑک تھی جس پر دور دور تک

گرد کے نشان نہ تھا، اور ایسا لگتا تھا دھول مٹی اڑ کر اس خطے تک کبھی آئی ہی نہیں اور اتنی خاموشی جیسے کوئی بنی نوع انسان زمین پر اترا ہی نہیں اور اگر اترا بھی ہے تو وہ خاموشی کو خراج تحسین پیش کرنے میں مشغول ہے۔۔ کمرہ خالی تھا..... سارا فلیٹ ہی خالی تھا..... بیڈ کورز بے شکن تھے، اسٹڈی ٹیبل پر ایک بھی پرفیوم موجود نہیں تھا...... واش روم میں کل رات تک نظر آنے والے سب ہی شیمپوز، فیس واش غائب تھے۔۔ وہ کچن مہیں آئی تو کاونٹر پر ایک چٹ رکھی تھی۔۔

" تمہارا ناشتہ۔۔"

انڈا، جام، چار ڈبل روٹی کے پیس، دودھ اور شوگر ایک پلیٹ میں، کافی کے مگ میں ایک مگ جتنی کافی اور سائیڈ پر رکھا ایک عدد ٹی بیگ.....

باقی چاروں کیبنٹ کو ایک زنجیر سے پرو کر درمیان میں ایک چھوٹا سا تالا لگا دیا تھا..... امرحہ کو ایک معمولی سا جھٹکا لگا یہ سب دیکھ کر..... بس ہہی معمولی سا...... اس کے پاس فون تو تھا لیکن ابھی اس فون سے بات نہیں ہو سکتی تھی رات ہانا نے اس کی بات پاکستان کروا دی تھی...... اب ظاہر ہے، اسے خود ہی فون کرنا ہوگا اگر وہ اس معمولی سے جھٹکے کے بارے میں دادا سے لمبی بات کرنا چاہ ہی رہی تھی تو...... لمبی بات پر لمبا بل بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔۔

دوسری چٹ فریج پر لگی تھی۔۔"نو بجے آکر ڈربی تمہیں لے جائے گی یونیورسٹی تیار رہنا۔

ناشتا کر کے وہ تیار ہو گئی۔۔ٹھیک نو بجے ڈربی نامی چھوٹی سی لڑکی کہ گڑیا کہ لڑکی ہی آئی۔

"میں ڈربی ہوں۔ مجھے شرلی نے کہا ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ یونیورسٹی لے جاوں"

"میں امرحہ ہوں۔۔۔میں آج پہلی بار یونیورسٹی جا رہی ہوں"

"یہ تمہیں دیکھ کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے"

وہ مسکرائی اور امرحہ کو اسکی مسکراہٹ بہت اچھی لگی، انفیکٹ امرحہ کو اسکی گھسی ہوئی جینز اور گھسے ہوئے شوز بھی نہت اچھے لگے۔ اور اسکے برسیز والے دانت بھی کیونکہ وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں قدم رکھنے جا رہی تھی۔۔۔ اسے ہر چیز اچھی لگنی تھی نا۔

"آجاو جلدی سے پھر" ڈربی تیزی سے باہر نکلی۔فلیٹ کو لاک کر کے وہ اسکے پیچھے آئی۔ ڈربی ایک منی سی سائیکل کو لئے تیار کھڑی تھی۔

"آ جاو بیٹھ جاو" اسنے منی سی سائیکل کی پچھلی نشست کی طرف اشارہ کیا۔

تو اس پر ڈراپ کرنا تھا اسے۔۔۔اس لئے خاص ڈربی کو بھیجا گیا تھا۔

"کیا ہوا امرحہ۔۔۔۔ آ جاو نا۔۔۔ میں تمہیں گراوں گی نہیں"

"لیکن شاید میں تمہیں گرا دوں" امرحہ اردو میں بڑبڑا کر رہ گئی اور اس منی سی لڑکی کی منی سی سائیکل پر بیٹھ گئی۔ پہلے اپنی شرمندگی چھپاتی رہی،پھر اپنی ہنسی دباتی رہی۔۔۔ سڑکوں پر سے گزرتے اس نے کسی طرف بھی نا دیکھا اور ڈربی کے پیچھے منہ چھپائے وہ اپنی ہنسی کے فواروں کو برسنے سے روکتی رہی اور سفید بادبان کو دریا مانچسٹر پر ہوا کے سنگ کرتی رہی۔۔۔

"دادا۔۔۔۔" اسنے خیالوں میں دادا کو مخاطب کیا " مجھے اتنی ہنسی آ رہی ہے کہ میرا جی چاہتا ہے اس سڑک پر کود جاوں اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اتنی زور زور سے ہنسوں کہ سارا مانچسٹر اکٹھا ہو جائے۔ دادا! زندگی کیسے ہمیں چھوٹے معمولی بے کر قسم کے بہانوں پر ہنساتی ہے۔۔۔۔دادا مجھے وقت کے یہ بہانے اچھے لگے جو اس نے میری زندگی میں پرو دیئے"

اس دوران بار بار اسکی نظر ڈربی کے ان چند بالوں کی طرف اٹھ جاتی تھی۔جنہیں ڈربی نے سر سے بہت اوپر اٹھا کر چنی منی سی پونی میں باندھ رکھا تھا۔اور خدا معاف کرے پونی ٹیل کے نام پر خاصہ گہرا کلنک کا ٹیکہ تھا۔ہوا میں لہراتے وہ کسی چھوٹی چڑیا کی دم جیسے لگ رہے تھے۔ جو اک ہی جگہ پر پھدکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی

ڈربی سنجیدگی ومتانت سےایسےسائیکل چلارہی تھی، جیسےشاہ اردن کی سونےکی بگھی دوڑارہی ہو، ساراراستہ وہ امرحہ کی ہنسی کے آبشاروں کی بوچھاڑسہتی رہی تھی، اسے اتار نے کے بعد وہ بولی بھی توصرف اتنا، کتنی موٹی ہوتم! جاگنگ کیاکرو، ڈربی کیسےاسےاپنی سائیکل پر گھسیٹ کروہاں تک لائ تھی، اسکی پیشانی کاپسینہ بتاسکتاتھا، cognition, sapientia, humanitasاب وہ آکسفورڈروڈپربرطانوی طرزتعمیرکی تاریخ سازعمارت کےعین سامنےکھڑی ہے، یونیورسٹی میں کیمپس کی آرک کے نیچے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کےاوپربڑےسنہرےحروف میں یونیورسٹی آف مانچسٹرجڑاتھاجس کی بنیاد1824میں رکھی گئ تھی، علم حکمت، انسانیت، جس درسگاہ کاماٹوہے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوقریباً چالیس ہزار کے قریب اسٹوڈنٹس کوفیضیاب کررہی ہے، دنیاکی دس بہترین درسگاہوں میں سےایک "دی یونیورسٹی آف مانچسٹر". وہ مین کیمپس کواورآرک کومگن انداز میں دیکھنےلگی، اس طرزتعمیرکی عمارتیں اس نےلاہورمیں بھی دیکھی تھیں اسےکچھ کچھ لاہورعجائب گھرجیسی بھی لگی، اسےیہ نہیں معلوم تھاکہ اندرکیساجہان آبادہے، دنیاکےکیسےلائق فائق قابل اساتذہ یہاں اکٹھےکئےگئےہیں -وہ کیسےکیسےشاگردوں کےاستادبنادیےگئےہیں،­ ہاں ابھی فی الحال وہ کچھ نہیں جانتی تھی اوروہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ بہت جلدبہت کچھ جان جائےگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سٹوڈنٹس کاجم غفیرایسےاندرجارہاتھا­جیسےاندرکوئ چیزمفت تقسیم کی جارہی ہو، جیسےکہ "بریانی"،"اٹلی کاوہ مشہورپیزا، جواٹلی میں بھی نہیں ملتا". آجاؤامرحہ! "ڈربی کافی آگےجاچکی تھی امرحہ اس کے ساتھ چلنےلگی، "اس نےسائیکل کواسٹینڈپرکھڑاکیا، اسکی آنکھیں تیزی سےاطراف کاجائزہ لے رہی تھیں اوراسکی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کس طرف دیکھےاورکس طرف کوچھوڑدے، دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ سب ایک ہی بارجلدی سےدیکھ لے، ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سب کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سٹوڈنٹس کی آمدورفت میں تیزی بھی تھی اورپھرتی بھی اوروہ ایسےتھی جیسےکہ پھرتی اورتیزی سےہم کبھی ملےنہیں اورسست روی سےہماری بہت دوستی چل رہی ہے، امرحہ! تیزچلونا، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،ڈربی نےبیس قدم آگےجاکرگردن موڑکرآوازدی ۔ ۔ ۔ ۔ ،اس آواز پراس نے ذراسی تیزی دکھائ، اوراس سےپندرہ قدم قریب ہوگئ ڈربی سرسبزگراؤنڈ میں ایک گروپ کےپاس جاکرکھڑی ہوگئ اور اس کی طرف اشارہ کیا. ۔ ۔۔ ۔ امرحہ کااتنی دورسےہی ذرادم سانکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،وہ دس بارہ لڑکے لڑکیوں کا گروپ تھااور ان میں شرلی کواس نےفوراً پہچان لیاتھا، باقی عذرا، کوپہچاننے میں اسے تھوڑاوقت لگا، کیونکہ اس نے سرپرسیاہ نیٹ باندھ رکھی تھی السلام علیکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اس نےانکےقریب جاکرذراگھبرائ آواز میں کہا، اگرڈربی کےساتھ اسکی سائیکل پربیٹھےوہ ہنسنےسےذراجلدی فارغ ہوجاتی تواس سےکچھ معلومات ہی لےلیتی، ان سب کےبارےمیں، خاص کردائم کےبارےمیں جواس سےرابطےمیں رہاتھا، اورجس کی مددسےوہ یہاں آئ تھی سب نےاپنااپنانام لےکرتعارف کروایا، اس دوران وہ جس خلوص سےمسکراتےرہےامرحہ ہلکی پھلکی ہوتی گئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بلاوجہ ہے انکےدباؤمیں آگئ تھی یہ سب توبہت اچھےہیں دائم اوردولڑکیاں اسےساتھلےکریونیورسٹی­ کینٹین میں آگئ اوراسےکافی پلائ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ کافی کی آخری چسکی لےچکی اورگروپ کےلیڈردائم اورگروپ کی لڑکیوں، نوال اوربریرہ کی خوبصورتی کودل ہی دل میں داد دے چکی تو دائم نے کچھ یوں بات شروع کی۔

مس امرحہ! کیا آپ مجھے کیلئے نہیں کہیں گی۔

"میں وعدہ کرتی ہوں"-اس نے ٹھیک اسی انداز میں کہی،جس میں بچےایک ھاتنب میں چاکلیٹ تھام کر دوسرا ہاتھ آھے کر کے بولتے ہیں،" پکا عچدہ میں رات کو چاکلیٹ نہیں کھاؤں گا۔۔۔"

غڈ۔۔۔۔۔۔کیانکہ مجھے شک ہے،اس لئیے پھر کہہ رہا ہوں کہ درمیاں میں مت بولئیے گا۔۔۔امرحہ کو اسکی بات میں شک کچھ بری لگی،لیکن اس نے نظر انداز کر دیا وہ اور کر بھی کیاسکتی تھی"

آپ مانچسٹر آ چکی ہیں؟

مجھے نظر آ رہا ہے۔۔۔امرحہ کو دائم کی بے وقوفی پر ھنسی آئی۔

دائم نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ، دیکھا میں جانتا تھا تم ضرور درمیان میں بولو گی۔

امرحہ نے اسکے تاثرات جان لئیے۔۔۔اوہ مجھ بے چاری پر رحم کرو(میں تو بس بھول گئی تھی کا سا تاثر دے دیا اسکی طرف دیکھتے ہوئے)

"ھم تین لوگ جو آپکے سامنے بیٹھے ہیں،ھم نے اور کچھ ان دوستوں نے جنہوں نے تعلیم مکمل کر لی ہےایک منصوبہ بنایا ہے کہ،ھم اپنی ذاتی کوششوں سے پاکساتن کے لائق فایق سٹوڈنٹس کو جمع کرکے یہاں اپنے فنڈز کے ذریعے بلوائیں،جو غربت کی وجہ سے آگے پڑھ نہیں سکتے اور آگے بڑھنے کا اور غیر ملکی سطح پر خعد کو منوانے کا موقع نہیں مل رہا واآ کے خود کو ثابت کریں۔ ھم تیس لوگوں نے ملکر مختلف طریقوں سے فنڈ اکھٹے کئے،ایونٹس کئے،اس ٹالز لگائے،کچھ میوزک و تھیٹر کیا۔۔۔۔کچھ تھوڑی بہت ہماری اپنی سیونگز تھیں۔۔۔ھم نے مطلوبہ ھدف نبٹ لیا۔

ھم صرف پانچ سٹوڈنٹس ہی افورڈ کت سکتے تھے،وہ بھی اس صورت میں کہ آتے ساتھ جتنا جلد ہو سکتا وہ اپنی رہائش کا بندوبست کر لیں،بصورت دیگر صرف تین لوگوںکو بلوایا جا سکتا تھا۔

ہمیں ایک ہزار سے ذیادہ درخواتیں موصول ہوئی۔۔۔ہم نے ان میں سے پانچ کا انتخاب کیا،وہ گاؤں اور چھوٹے قبصوں سے تھے اور مانچسٹر آنا انکے لئیے ایک خواب ہی تھا –وہ سب ایک ہفتہ پہلے ہی آ گئے تھاے اور آتے ساتھ ہی ان سبھی نے اپنے لئیے رہائش کا انتظام کر لیا، کیونکہ وہ علم کے ساتھ ساتھ ہنر کے بھی عالم تھے۔اس لئیے ان سبھی کو آتے ساتھ ہی جاب مل گئی-

ان میں ایک کو گاڑئیوں کے لاک ٹھیک کرنا آتا ہے،مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ھم یہاں ایسے طالب علم لانے میں کامیاب ہوئے جو اپنی پائیویٹ تعلیمی قابلیت ساتھ پنجاب بورڈ ٹاپ کیا ۔۔۔۔بلکہساتھ ساتھ گاڑئیوں کے لاک بھی تھیک کرتا رہا اور ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کیا اپنے کا م و تعیمی سرگرمی سے –

ہمیں جتنی بھی درخواستیں موصول ہوئی تھیں،وہ سب کم و بیش ایسی ہی تھیں۔۔۔۔آپ کی تعلیمی اسناد میں کچھ قابلِ ذکر نہیں تھا۔۔۔۔۔۔آپ ان ہزار میں سے صفر تھیں۔آپ لاہور میں رہتی تھیں۔۔۔جہاں اچھے تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے۔۔۔۔۔آپ پڑھنے کیلئیے اچھے سے اچھے کالج جاتیں،آپکے والد کا پاکستان میں ایک نام ہے،انکا اپنا ذاتی قالینوں کا سٹور ہے پاکستان میں۔آپ کا تو اپنا ذاتی مکان بھی ہے۔۔۔آپ تو کوئی کام بھی نہیں کرتی تھیں پھر بھی آپ کی تعلیمی قابلئیت میں کچھ قابلِ ذکر نہیں۔۔۔۔آپ کسی بھی ظرح اس اسکالرشپ کی مستحق نہیں 

تھیں۔۔۔آپکی درخواست پر جواب بھی نہیں دیا جانا چاہیئے تھا۔۔۔لیکن ہم نے جواب دیا۔۔۔آپ کی تعلیمی قابلیت دیکھ کر نہیں آپکی ذہنی حالت دیکھ کر ۔۔۔اپنی آخری میل میں آپ نے لکھا تھا میں ہوں ہی منحوس ماری میں جل کر مر جاوں تو ہی اچھا ہے۔اس سطر پر ہم نے ذرا توجہ دی۔۔۔۔ 

ہماری ایک گروپ ممبر نے جو نفسیات کی طالبہ تھی آپکی بھیجی گئی دوسری میلز بھی پڑھیں اور اس نے اپنی رائیں دی کہ آپکی ذہنیحالت بہت تباہ کن ہے کسی بھی طرح کی ناکامی اٹھانے کے بعد مذید ناکامی آپکو بالکل توڑ دے گی اور مایوس ہوکر آپ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔اس لئے ہم نے ایک مہینے کا وقت لیا آپ سے۔۔۔۔ہم اس صورت حال پر کافی پریشان تھے ہم اپنے اسکالرشپ دے چکے تھے۔۔۔۔

آپ کو کیا دیتے۔۔۔۔لیکن آپکو اس کیفیت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے۔اس لئے اس بار ہم نے اپنی پاکٹ منی نکالی۔۔۔کچھ دوسرے اسٹوڈنٹ سے رابطے کئے اور پھر سے چالیس اسٹوڈنٹس نے آپ کے لیے فنڈز اکٹھے کیے۔۔۔اور بہت مشکل سے۔۔۔اتنی مشکل سے کہ آپ سوچ بھی نہی سکتیں ہم نے مطلوبہ ہدف پورا کرنے کی کوشش کی۔۔۔ان چالیس اسٹوڈنٹس میں عیسائی،مسلم،انڈین،جا­پانی،بنگالی،امریکن،ف­رنچ سب شامل ہیں۔اس لیے خاس طور میں آپکو یہ ذہن نشین کروادوں کہ ان افراد کا اور انکی قوم کا احترام آپ پر لاذم ہے۔۔ 

ہم نے آپ سے پوچھا کیا آپ پچاس فیصد افورڈ کر سکتی ہے؟آپ نے کہا نہیں۔۔۔مجھے یقین ہے اس پچاس فیصد کے لیے آپ نے اتنی کوشش نہیں کی ہوگی جتنی ہم آپ کے لیے کر رہے تھے لیکن آپ تیس فیصد ادائیگی پر مان گئیں۔۔۔اگر آپ تیس فیصد پر بھی نہ مانتیں تو آپ کیلئے مجھے وہ کار بیچنی پڑتی جو میں نے اپنے کالج کے ذمانے میں اپنی پارٹ ٹائم جاب کی سیونگ سے خریدی تھی۔۔یہ بات یاد رکھنے لائق ہے کہ جن چالیس اسٹوڈنٹس نے آپ کیلئے فنڈز دئیے ہے وہ بہت امیر کہیں نہی ہیں۔۔سب پڑھنے کیساتھ جاب کرتے ہیں۔۔اور ایک ایک پینی بچاتے ہیں۔۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ ہوا میں اڑ کر یا جادو کے ذور سے یہاں نہیں آگئیں۔۔۔ہر روز ہم نے آپ کیلئے میٹنگ کی ہے۔۔صورت حال پر غور کیا ہے۔۔۔کوئی ایک بھی ہاں کرکے پیچھے نہیں ہوا۔۔۔کمائے گئے اور بچائے گئے ایک ایک پونڈ کو انہوں نے آپ پر انویسٹ کیا۔۔۔انویسٹمنٹ کرنا سمجھتی ہے آپ۔۔۔؟انویسٹمنٹ اس لئے کی جاتی ہے کہ پیسے لگانے والے کو نفع ہو اور یہ فائدہ وہ اس طرح سے لے رہے ہیں کہ تیسری دنیا کا تیسری دنیا کا ایک باشندہ تعلیم یافتہ ہو جائے،وہ اپنے ملک وقوم کا سہارا بنے۔۔انیہں آپ ان کے دئیے گئے پورے پورے پیسے واپس کرے گی۔۔ایک پونڈ کم نہ ایک پونڈ ذیادہ۔۔۔اور سارا منافع آپ لے جائیں گی۔۔اس سارا منافع یا فائدہ کیلئے انہوں نے انوسٹمنٹ کی ہے۔۔میری بات کو برائے مہربانی سمجھیں اور یاد تو ضرور رکھیں۔۔ 

جنہوں نے فنڈذ دئیے ہے وہ آپکوں نہیں جانتے کوئی ایک بھی آپ کو نہیں جانتا۔۔شکل سے تو کوئی بھی نہیں تاکہ آپ کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔۔ہم تین ک سوا کوئی نہیں جانتا ک وہ فنڈز آپ کیلئے اکٹھے کئے گئے ہیں۔۔ہم نے آپکی عزت نفس کا پورا خیال رکھا ہے۔۔ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ کوئی آپ کے پاس آکر آپ کو کچھ بھی جتائے۔۔۔اب میں دوسری طرف آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ سے کہا گیا اپنی رہائش اور کھانے کا زمہ آپ کو لینا ہوگا۔۔آپ نے کہاں آپ یہاں آکر دیکھ لیں گی۔۔۔۔

بہت اچھا۔۔۔صرف یہی ایک اچھی اور مثبت بات تھی جو آپ نے کی تھی۔۔۔جن پانچ لڑکیوں کے ساتھ آپ رہیں ان سے ہم نے خاص درخواست کی تھی کہ آپ کو عارضی طور پر چند دن اپنے پاس رکھ لے لیں۔۔آپ کو ائرپورٹ ریسیو کرنے کیلئے جانے والے جس شخص کا ایکسیڈنٹ ہوا وہ ہمارے لئے رضاکار بنا تھا جو آپ کو ائرپورٹ سے لے کر گئی وہ اپنے اس دوست کیلئے آپ کی مدد کر رہی تھی جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔جس بستر پر آپ کل سوئیں وہ میٹرس ان دونوں نے۔،،

اس نے نوال اور بریرہ کی طرف اشارہ کیا۔" اپنی باقی ماندہ بچی ہوئی سیونگ سے خرید کر وہاں رکھا۔۔

اس نے نوال اور بریرہ کی طرف اشارہ کیا۔۔اپ ی باقی بچی ہوئی ماندہ سیونگ سے خرید کر وہاں رکھا۔۔آپ کو ہانا نے منع کیا تھا کہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا لیکن آپ نے لگایا پرفیومز کو اور ایسی ہی دوسری چیزوں کو بلکہ مجھے کہنا چاہئیے کتابوں کے سوا ہر چیز کو۔۔۔۔آپ نے دو نوڈلز کے پیکٹ نکال کر کھائے۔۔مس امرحہ وہ سب بہت اچھی میزبان ہیں۔۔ان فیکٹ ہم سب جانتے ہے میزبانی کسے کہتے ہے۔۔لیکن ہم سب اور وہ سب اپنے گھروں میں نہیں ہیں۔ہم اپنے گھروں،ملکوں،شہروں سے دور اکیلے یہاں رہ رہے ہیں۔اپنی مدد آپ کے تحت۔۔کاش رات ہی ہانا تھوڑا بہت آپ کو اپنے بارے میں بتا دیتی۔وہ صرف دو وقت کھاتی ہے۔صبح وہ نوڈلز کا پیکٹ کھاتی ہے اور رات کو جہاں وہ جاب کرتی ہے وہاں اسے ایک برگر ملتا ہے۔۔۔ اور ایک کپ کافی۔۔وہ ایک ایک پونڈ بچاتی ہے کیونکہ اپنے تعلیمی اخراجات وہ خود ہی اٹھا رہی ہے۔کوریا میں رہنے والے اس کے گھر والے اخراجات کے نام پر اسے پاکستانی ایک روپیا بھی نہیں بھیج سکتے۔اس نے تن تنہا مانچسٹر میں اپنے پڑھنے کا خواب پورا کیا ہے۔شاید یہ باتیں آپکو معمولی لگیں۔آپ جو لاہور کے تعلیمی اداروں میں پڑھتی ہیں اور جن کی فیس والدین ادا کرتے ہیں آپ جنہوں نے کبھی جاب نہیں کی۔۔۔نہ آپ کو جاب کی ضرورت پیش آئی۔۔آپ کو یہ سب معمولی لگے گا کیونکہ آپ نے کبھی زندگی میں سخت جدوجہد نہیں کی،وہ بھی مسکرا کر حوصلے سے۔۔۔یہاں بہت سے ایسے اسٹوڈنٹس ہے جو زیادہ کھانا نہیں کھاتے کیونکہ انہیں زیادہ کتابیں خریدنی ہوتی ہے۔۔وہ ایک جینز دو ٹی شرٹس میں یہاں سے اپنی ڈگری لے جاتے ہیں۔اور مسکراتے ہوئے آتے ہیں مسکراتے ہوئے ہی جاتے ہیں۔شرلی جن کے فلیٹ میں آپ رہ رہی ہیں،ان کے پاس رہنے کیلئے آپ کے پاس زیادہ سے ذیادہ آج کی رات ہے۔۔فائنل ڈیڈلائن ٹھیک ایک مہینے کی ہے۔۔آپ کے ایک مہینے کا کھانے کا سامان وہاں موجود ہے۔۔۔آپ آج ہی اپنی رہائش اور جاب کا انتظام کرلیں۔۔وہ رکا۔۔

ویلکم ٹو مانچسٹر مس امرحہ۔۔۔۔۔اس نے سانس بھی نہ لیا اور پھر سے شروع ہوگیا۔۔یہ تو ہوگئیں آپ کے یہاں رہنے کے بارے میں کچھ تفصیلات۔۔اب آپ کو میں کچھ تجاویز دیتا ہوں۔۔یعنی اچھی باتیں۔۔۔وہ مسکرایا۔۔۔۔۔

برا نا مانئیے گا لیکن یہاں یہ کہاں جاتا ہے۔۔کہ پاکستان،انڈیا،سری لنکا،اور ایسے ہی دوسرے ترقی پزیر ممالک سے آنے والے بہت شکایتی ہوتے ہیں۔۔۔سست کاہل۔۔۔۔بہانے باز۔۔۔انہیں لگتا ہے۔۔۔بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ سب مشکلیں،تکلیفیں،دکھ ان ہی کو مل گئے ہیں۔رونے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔آپ کی شکل بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔۔بلکہ اس وقت لگ بھی رہی ہے۔۔۔روئے لیکن دکھ پر،تکلیف پر،لیکن مشکلات پر نہیں۔یہاں آپکو کوئی چپ نہیں کروائے گا اس لئے نہیں کہ یہاں سب خودغرض ہیں جیسا کہ یہاں کے لوگوں کے بارے میں سوچا اور کہا جاتا ہے۔بلکہ وہ سمجھتے ہے کہ رونا بےوقوفی ہے۔میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔نوال اور بریرہ بھی یہی سمجھتی ہیں۔اگر چھوٹی بڑی مشکلات پر رونے والے کو بار بار چپ کروایا جائے گا وہ بزدل بن جائے گا بہادر نہیں۔۔

مس امرحہ! اپنی سستی کاہلی،اور بہانا بازی کو یہاں وہاں کوئی کوڑا دان دیکھ کر اس میں ڈال دیں۔یا آگ لگا دیں۔۔اصل جل مرنا تو انہیں چاہئیے۔آپ لڑکی ہے کمزور نہیں ہے۔ہمارے مذہب نے کہاں لڑکی کو کمزور کہاں ہے؟قرآن پاک میں جتنی بار مرد کا ذکر آیا ہے اتنی بار عورت کا بھی ذکر آیا ہے۔۔یعنی آپ مرد کے برابر ہیں۔لیکن برابر ہونے اور برابر کا ثابت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔لیکن میں یہ صرف اس لئیے کہ رہا ہوں۔کہ خود کو کمزور مت سمجھئیے اپنی طاقت کو پہچانئیے مس امرحہ!آپ مانچسٹر یونیورسٹی آچکی ہیں۔آپ دوڑ میں شامل ہوچکی ہیں۔۔۔۔یا گولڈ میڈل لیں۔۔۔یا دوڑ سے الگ ہو جائیں اور جاکر تماشائیوں میں بیٹھ جائیں اور یاد رکھیں تماشائیوں کی بھیڑ میں آپ کو فوراً جگہ مل جائیں

گی۔۔۔لیکن دوڑ میں اگر آپ صرف انجوئیمنٹ کے لئے آئی ہیں تو آخری نمبروں پر آنے سے بہتر ہے کہ آپ دوڑ سے نکل کر کسی اور کو آگے آنے دیں۔۔۔میرا یقین کریں،دنیا میں جوہریوں کی کمی تو یقیناً ہوگی لیکن ہیروں کی بہرحال نہیں۔۔۔۔،،، 

اس بار رکا اور کافی دیر رکا ہی رہا۔ 

یونیورسٹی میں ویلکم ویک چل رہا ہے۔۔۔پھر آپ کی کلاسز شروع ہو جائیگی۔۔۔اس ایک ہفتے کے درمیان آپ زمین کھو دے یا گول گول گھومیں آپ کی رہائش کا بندوبست ہو جانا چاہئے۔۔۔آپ کی جاب کا۔۔۔آپ کے فوڈ کا۔۔۔۔اگر آپ بھوکی نہی رہ سکتیں تو۔۔۔یہ سب آپ کے مسئلے ہیں۔۔۔اور یہ سب آپ حل بھی کر سکتی ہیں۔ ۔کیا نہیں کر سکتیں۔؟ 

اس کی گردن فوراً نفی میں پھر ہاں میں ہلی۔ 

آپ سب سمجھ گئیں نا؟ 

جی اس نے اوپر سے سر ہلایا اندر سے آنسوں کا ریلا دبایا۔ 

گڈ۔۔۔۔اب آپ جائیں اور ذمین کھودیں۔۔اوہ میرا مطلب جاب ڈھونڈیں۔۔۔اپنی ڈگری کے دوران آپ کو ہر صورت تھرٹی پرسنٹ واپس کرنا ہوگا۔۔۔اپنے اخراجات کو آپ کو ایسے سنبھالنا ہوگا کہ آپ یہ تھرٹی پرسنٹ جلد سے جلد واپس کر سکیں۔۔۔سمجھ گئیں آپ۔،، 

جی اس نے سر ہلا کر بمشکل کہا۔۔ 

نوال اور بریرا اردو سمجھ لیتی ہیں تھوڑی بہت لیکن بول نہیں سکتیں۔۔۔آپ کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھ میں آجائے اس لئے میں نے آپ سے خطاب کیا۔۔آپ کو برا نہیں لگنا چاہئے۔۔۔،،،، 

مجھے برا نہیں لگا۔۔۔۔ 

ویل۔۔۔۔آپکی شکل تو کچھ اور ہی کہ رہی ہے۔۔۔۔ 

میری شکل ایسی ہی ہے۔۔۔۔ 

ایسی کیسی۔۔۔۔؟ 

جھوٹ بولنے والی۔۔۔ 

اچھا۔۔۔اب آپ کیا کرے گی۔،، 

مجھے جاب ڈونڈھنی ہے جلد سے جلد اسکی آواز رندھ گئی۔۔ 

بالکل ٹھیک کہاں۔۔۔ویسےآپ کی شکل بہت تیزی سے اور بہت سخت قسم کا جھوٹ بول رہی ہے

مس امرحہ۔۔۔اگر آپ کو رونا آئے تو کسی ایسی جگہ چلے جائیے گا جہاں آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔۔۔ ٹھیک ہے؟ 

جی ٹھیک ہے۔۔۔ 

پہلے جا کر اپنا اسٹوڈنٹ کارڈ بنوائیں۔۔۔اپنی کلاسز کا معلوم کریں 

وہ سہم سی گئی کہ ابھی یہ سب بھی کرنا ہے،،،کارڈ۔۔۔۔یہ کہا سے بنے گا۔؟ 

آپ یونیورسٹی میں کھڑی ہے۔۔۔۔اور سب کچھ یہی ہوتا ہے یہ جو آپ اتنے سارے اسٹوڈنٹس دیکھ رہی ہیں یہ بنا ڈرے اپنے سب ہی کام کر رہے ہیں۔۔۔آپ بھی یونیورسٹی میں گھومیں پھریں کہ آپ کے کام کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔یا آپ کو کیسے کرنے ہیں۔۔۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ 

پلیز دل ہی دل میں مجھے برا بھلا مت کہیئے۔۔ 

امرحہ کا رنگ فق ہوگیا وہ یہی کہ رہی تھی،

لیکن اسے کیسے پتا چلا۔۔۔

"اور پلیز،جب آپکی جاب کا انتظام ہو جائے تو ہانا کے نوڈلرز واپس کر دیجئے گا"

"کر دوں گی"

"اور۔۔۔ ایک اور بات۔۔۔۔ دوبارہ اپنی ڈگری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ مت کیجیئے گا۔۔۔ خاص کر پلس ایڈ کرنے کی غلطی۔۔۔"

یہ آخری لیکن سب سے خطرناک بم تھا جو کینٹین کے شور و غل میں بہت اہتمام سے پھٹا ۔۔ وہ انکی طرف ایسے دیکھنے لگی، جیسے ابھی ابھی افریقہ کے کسی قدیم قبیلے سے یہی لوگ اٹھا کر لائے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ دیکھو ڈرو نہیں وہ کوئی جنگلی درندہ نہیں، پیٹرول سے چلنے والی بڑی بس ہے جس پر سفر کیا جاتا ہے اور جسے ایک ڈرائیور چلاتا ہے۔۔ وہ قطعا کوئی درندہ یا بلا نہیں۔۔۔

ان تینوں کی شکلیں۔۔۔ جیسے قہقوں کی پھلجڑیوں کو اندر ہی اندر بجھا رہے ہوں۔۔۔ ہاں وہ تینوں اس آخری بات پر ہنسی کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے اور کامیاب بھی تھے اور وہ دھاڑیں مار کر نہ رونے کی کوشش کر رہی تھی اور نا کام ہو رہی تھی۔۔ اسکی شکل سب بتا رہی تھی۔۔۔ اسے خیال آیا کہ اس نحوست کو لے کر اس پر جو حملے کئے گئے تھے وہ کتنے معمولی تھے ان جملوں کے مقابلے میں جو مونچسٹر میں مانچسٹڑ والوں نے کئے تھے۔۔

وہ تو ننھی سی چھوٹی سی بچی تھی۔۔۔ اسے خوش بھی نہ ہونے دیا گیا اور رلا دیا ۔۔۔رلا دیا۔

آنسووں کا سمندر اسکی آنکھوں میں تیرتا نظر آنے لگا۔

ان تینوں نے اسکی شکل کی طرف دیکھا اور بلکل خاموش ہو گئے پھر بائے کہہ کہ اٹھ گئے۔۔ اگر وہ اسکے اولین استاد تھے تو کمال کے تھے۔۔انہوں نے اسے سمندر میں دھکا دے دیا تھا یا ڈوب کر مر جاو یا تیر کر ابھر آو۔۔۔یا ڈر کر دبک جاو یا کود کر اڑ جاو۔۔۔

مانچسٹر میں ملنے والا پہلا سبق۔۔۔ مانچسٹر میں سنا جانے والا پہلا لیکچر اور مانچسٹر میں گرائے جانے والے اولین آنسو۔۔۔

"مانچسٹر میں خوشآمدید"

*۔۔@۔۔*

وہ کینٹین سے نکلی اور ایک ایسا گوشہ ڈھونڈھنے لگی جہاں کوئی نہ ہو لیکن ویکم ویک چل رہا تھا۔ یونیورسٹی میں ایسا رش تھا جیسے 14 اگست کو لاہور مال پر ہوتا ہے۔۔۔ خاص کر چمن اور ریگل چوک کے پاس۔۔۔ خیر وہ سبزے پر بیٹھ گئی۔۔۔اور منہ نیچے کر کے رونے لگی۔۔۔آج اسکا پہلا دن تھا تو وہ بہت اہتمام سے تیار ہو کر آئی تھی۔۔۔ اسنے مسکارا بھی لگایا تھا اور آئی لائنر بھی۔۔ میک اپ کے نام پر وہ یہ دو چیزیں ہی استعمال کرتی تھی۔۔کافی دیر تک وہ سوں سوں کرتی رہی۔۔اسکا مسکارا پھیل گیا اور آنکھیں رگڑنے سے آس پاس اوپر نیچے سیاہی پھیل گئی تھی۔۔اسکے پاس ٹشو نہیں تھا۔۔اپنے سفید دوپٹے سے وہ صاف نہیں کرنا چاہتی تھی۔انگلیوں سے جتنی آنکھیں صاف کر سکتی تھی اسنے کر لیں لیکن چہرے پر کافی سیاہی پھیل چکی تھی اور وہ عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھی پر اب اسے پروا بھی نہیں تھی کہ وہ اچھی لگ بھی رہی ہے یا نہیں۔۔ جی بھر کر رونے کے بعد وہ اٹھی ۔ایک سٹوڈنٹ اسکے پاس سے گزر رہا تھا جسے اسنے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ "مجھے جاب چاہیئے"۔ آنکھوں خو رگڑتے اسنے کہا۔

"جاب۔۔۔؟ میرے پاس جاب نہیں ہے"

"پاگل! مجھے جاب چاہئے۔کیسے ملے گی۔۔۔"؟ اسنے اپنا غصہ اس پر اتارنا چاہا۔۔۔

"اوہ۔۔ مجھے تو ابھی خود ڈھوڈنی ہے" کہہ کر وہ چلا گیا۔ تین چار ایسے ہی نمونوں سے ملتی وہ ایک جگہ جا کر کھڑی ہوگئی اور آس پاس موجود دوسرے اسٹوڈنٹس کو دیکھنے لگی۔۔ وہ بہت تیزی سے آرہے تھے۔ جا رہے تھے۔۔ ہنس رہےتھے۔باتیں کر رہے تھے قہقہے لگا رہے تھے۔وہ سب بہت خوش اور پر جوش تھے۔۔ان سب کے چہرے دمک رہے تھے۔ وہ چالیس ہزار اسٹوڈنٹس میں بلکہ یونیورسٹی میں پہلی لڑکی ہو گی جو ایک طرف کھڑی مزید رونے کی تیاری کر رہی تھے۔۔۔ وہ اپنے سنہری وقت کو برباد کر رہی تھی۔۔وہ چپ کھڑی سب کو دیکھتی رہی۔۔پھر اسے خیال آیا کہ اسے بھی چلنا چاہیئے۔۔اور ایک دم اسے یاد آیا کہ اسے اپنا اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانا ہے۔۔ہو سکتا ہے صرف آج کے دن ہی بنے اور آج ہی نہ بنوانے پر اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔

وہ پرجوش اسٹوڈنٹس کے ریلے میں شامل ہو گئی اور اونگوں بونگوں کی طرح منہ اٹھا کر چلتی رہی۔۔۔۔ گھومتی رہی۔۔۔ ایک سے دوسرے کیمپس جیسے تاریخی عمارت کا جائزہ لینے آئی ہو۔۔پڑھنے نہیں۔۔۔

"آپ کچھ ڈھونڈ رہی ہیں یقینا" گہری جامنی رنگ کی شرٹ پہنے اور ask me (مجھ سے پوچھیں) کا بورڈ ہاتھ میں لیئے وہ خود ہی اسکے قریب آیا تھا۔۔۔ وہ دو تین بار اسکے پاس سے گزری تھی بلکہ وہ کئی اور ask me کے پاس سے گزری تھی۔

"مجھ سے پوچھئے میں آپکی مدد کروں گا" اوہ اچھا۔۔۔ask me کا بورڈ وہ اس لئے کئے گھوم رہا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ وہ کسی ویب سائٹ کی پروموشن کر رہا ہے۔

"مجھے اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانا ہے" یہ کہتے وہ اسکی بے جا لمبی ناک کو دیکھنے لگی۔

"ویل یہ تو بہت آسان ہے" اسنے ہاتھوں کے اشاروں اور زبان کے کلام سے بتایا کہ کہاں جانا ہے۔

"مجھے سمجھ نہیں آئی"۔ امرحہ نے کندھے اچکا کر کر ایسے کہا جیسے اسکی کارکردگی کو انتہائی فضول کا خطاب بس دینے ہی والی ہو۔ اور سمجھ اسے اس لئے نہیں آئی تھی کیونکہ وہ اسکی لمبی ناک کی بناوٹ کو سمجھنے میں مصروف تھی۔

"یہاں چلی جائیں" اب اس نے اسکے ہاتھ ایک نقشہ دیا، اس پر ایک جگہ سرخ دائرہ لگایا۔

"آپکا دن اچھا رہے" وہ مسکرانے لگا اوع ایسا کرتے اسکی ناک پھیل سی گئی اور وہ پھر سے اسکی ناک کو گھورنے لگی۔

"کچھ اور پوچھنا ہے" وہ جزبز ہوا۔وہ یقینا جان چکا تھا کہ وہ اسکی ناک کو گھور رہی ہے۔

اب وہ ہاتھ میں پکڑے نقشے کو دیکھنے لگی اسکول کے نصاب کی کتاب کے نقشے کے علاوہ یہ اس کے ہاتھ میں آنے والا پہلا نقشہتھا جو کسی عمارت کا تھا۔ اور وہ دعوے سے کہہ سکتی تھی۔ وہ اس نقشے کو استعمال کر کے بھٹک تو کئی بار سکتی ہت لیکن اصل مقام پر پچاسویں کوشش پر بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔۔۔ 

مزید کسی سے کوئی لیکچر نہ سننا پڑے وہ آرام سے نقشہ لے کر بھٹکتی رہی۔۔۔ بھٹکتی رہی۔۔۔ اسے ایک ڈر اور بھی تھا کہ کہیں دائم، نوال وغیرہ اسکے پیچھے نہ ہوں کہ دیکھیں یہ اپنے کام کر بھی پاتی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔

ادھر ادھر گھومتے تین چار بار لمبی ناک والے نے اسے نوٹ کیا۔

"آپ جا کیوں نہیں رہیں؟۔۔ نقشہ دینے والا اسکے پیچھے آیا۔

"مجھے راستہ ہی نہیں مل رہا"

میں نے نشان لگایا تو ہے۔۔۔ بورڈ پڑھتی جائیں اور چلتی جائیں"

"آپ مجھے چھوڑ آئیں"

" ہائیں۔۔۔" اسکی دونوں کچھ زیادہ پھیل گئیں۔ امرحہ کا انداز ہی ایسا تھا کہ بھائی

زرا مجھے میری دوست کے گھر تک تو چھوڑ آو۔

ایک بار پھر اسنے ہاتھ سے اشارے کر کے سمجھایا۔۔یہاں سے دائیں پھر سیدھا۔۔ پھر تھوڑا سا بائیں اس طرف۔

"مجھے نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔ آپ مجھے چھوڑ آئیں مجھے ڈر لگ رہا ہے"

"ڈر۔۔۔!" اس بار وہ بے چارہ ایسے حیران ہوا جیسے اسکا کوئی مردہ رشتہ دار اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ہو۔

"کیسا ڈر؟" آج ہالوین نہیں ہے"

مجھے ان سب سے ڈر لگ رہا ہے" اس نے آس پاس چلتے پھرتے ہر قوم و نسل کے لڑکا لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

امرحہ کی طرف اچنبھے سے دیکھتے رہنے کے بعد اسنے ایک قہقہہ لگانا ضروری سمجھا، پھر واکی ٹاکی نکال کر بالنے لگا

"جارج۔۔۔ سنو ایک ہندوستانی لڑکی"

"پاکستانی" اسکی بھنویں تن گئیں۔

"جارج ایک پاکستانی۔۔ بلیو اینڈ وائٹ"

"ڈارک بلیو شرٹ اینڈ وائٹ دوپٹہ"

"ڈارک بلیو شرٹ اینڈ وائٹ دو پاٹا"

"دو پٹہ"

"دو پا ٹا۔۔۔ میں آئے گی اسے پلیز آگے سے اگے ریفر کررے جانا اور اسے اسٹوڈنٹ کارڈ کاونٹر تک پہنچا دینا"

"ریفر کیوں کرنا ہے۔۔۔ اتنا وقت کس کے پاس ہے" جارج کی آواز اس نے بھی سنی

"اسے ڈر لگ رہا ہے" لمبی ناک والے نے سنجیدگی سے کہا۔

"ڈر ۔۔۔ کیا مزاق ہے یہ"

"وہ سنجیدہ ہے۔۔۔ مکمل سنجیدہ۔۔۔ یا یونیورسٹی میں اعلان کروا دو کہ سب تھوڑی دیر کیلئے یونیورسٹی خالی کر دیں۔۔تاکہ وہ اپنا اسٹوڈنٹ کارڈ بنوا سکے۔۔۔۔ تم سن رہے ہو جارج۔۔"

جارج یقینا سن رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اسکا بلند بانگ قہقہہ امرحہ نے بھی سنا تھا۔۔۔ حد ہے کوئی مجھے سمجھتا کیوں نہیں ہے اخر۔۔۔

"اس طرف چلی جائیں۔۔۔ اگلے اسک می کو اپروچ کریں"

اسنے دائیں طرف اشارہ کیا۔۔۔ وہ دائیں طرف چلی گئی اور ایک اور آسک می کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اس کی طرف دیکھنے لگا کہ جو پوچھنا ہے پوچھو۔۔۔

"میں اپکی کیا مدد کر سکتا ہوں"

یعنی یہ وہ جارج نہیں تھا جسے اسنے اپروچ کرنا تھا۔

"مجھے اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانا ہے" ٹھیک ہے۔۔۔ یہ لیں یہاں چلی جائیں"۔ اسنے بھی سرخ دائرہ لگا کر اسے دیا۔

"مجھےنقشہ نہیں چاہیئے"

"تو۔۔۔ انتظامیہ نے ابھی تک ایئر بس کا انتظام نہیں کیا یہاں" وہ طنزا ہنس بھی نہ سکا۔

اف کتنی تیز زبانیں تھیں ان سب کی۔۔۔

مجھے وہاں تک چھوڑ آئیں۔۔،،،

چھوڑ آوں۔۔۔میں۔۔۔کیوں ؟آپ کو آسانی سے راستہ مل جائے گا۔۔۔ویسے میں آپ کو بتا دوں۔۔میں آسک می ہوں۔۔ڈراپ یو نہیں۔۔کیا اس خوبصورت انسان کو کسی نے بتایا نہیں تھا کہ ایسے طنز باتیں کرتے وہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔۔۔

نہیں مل رہا نا راستہ--اس نے اس آسک می کو دادا ہی سمجھ لیا تھا اس کے لاڈاٹھاتے نہیں تھکتے تھے۔سب اپنے اپنے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔آپکو بھی مل جائیگا۔سب تیز ہیں۔۔چلاک ہیں۔۔مکار ہیں۔۔میں نہیں ہوں۔۔میں ڈرپوک ہوں۔۔اس نے روانی سے اردو میں کہا اور خاموش ہوگئی اور صرف کندھے اچکائے کہ نہیں مل رہا۔۔سب ذہین ہیں۔۔۔ذمہ دار ہیں۔۔پڑھے لکھے ہیں اور خاص طور پر اپنی مدد کے آپ قائل ہے۔۔جواب اردو میں آیا۔۔اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس انگریز کو دیکھا جس کی آنکھیں گہری بھوری تھیں۔اور سفید سرخی مائل رنگت تھی۔اور بڑے بڑے کان تھے۔کچھ زیادہ ہی بڑے کان تھے۔

اس کا وا کی ٹاکی بولا۔

بلیو شرٹ وائٹ دوپاٹا۔۔۔پاکستانی۔۔۔­۔نظر آئے تو پلیز آگے ریفر کریں۔۔

میں تھک گئی ہوں چلتے چلتے اور بھوک بھی لگی ہے۔مجھے کتنا اور آگے ریفر کریں گے۔

یہ آپ کا پہلا دن ہے،،،

،،،،جی۔۔۔۔

آپ پہلے ہی دن تھک چکی ہیں۔

آسک می کا بورڈ پکڑے یہاں کھڑے یہ میرا تیسرا دن ہے۔میں ابھی تک نہیں تھکا۔

آپ لڑکے ہے۔۔۔

آپ جیسی لڑکیاں بھی نہیں تھکتیں۔۔۔اس نے دور کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو بورڈ لئیے کھڑی تھی اور پھرتی سے اسٹوڈنٹس کی رہنمائی کر رہی تھی آپ ہم سے پوچھ کر ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہی بلکہ ہم کر رہے ہیں۔آپ نہیں ہم تھکے ہیں۔ہمیں اس کام کے پیسے نہیں ملیں گے۔۔ہم یہ بورڈ لے کر رضاکارانہ خدمات پیش کر رہے ہیں۔آپ ایک باس کی طرح ہم پر حکم نہیں چلا سکتی۔۔تھک گئی ہیں تو سینما جاکر بیٹھ کر ٹام اینڈ جیری دیکھیں۔۔آپکی تھکن دور ہو جائے گی۔۔اگر یہ لیکچر تھا تو اسے کسی ایسے پروفیسر کا ناک توڑ دینا چاہئیے۔۔امرحہ نے اپنے ہاتھ کا گھونسہ بنایا۔۔

آپکو بات کرنے کی تمیز سیکھنی چاہئیے۔۔امرحہ چلا پڑنا چاہتی تھی بس۔۔اور ہاتھ سے بنے گھونسے کا استعمال بھی کرنا چاہتی تھی۔آپکو تھکن اتارنے کی مشق کرنی چاہئیے۔۔وہ آوازوانداذ سے ہی ناک توڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔

میں بہت باہمت ہوں اس نے جتا کر کہاں۔

بیسٹ آف لک۔۔۔اس نے کہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ اب جاو۔۔۔

وہ دوسری طرف جا کر ایک لڑکی سے پوچھنے لگی اور پوچھتے پاچھتے آخر کار اسٹوڈنٹس کاونٹر پر پہنچ گئی۔اور اپنے کاغذات دینے کے بعد تصویر کیلئے ڈیجیٹل کیمرے کے سامنے آکربیٹھ گئی۔

تمھارا کچھ گم ہو گیا ہے؟کاونٹر نے کاونٹر سے اپنا ادھا گنجاسر آگے کر کے مسکرا کے اس سے پوچھا۔

یہ وہی ask me کا بورڈ پکڑے لمبی ناک والا تھا۔اس سے پہلے امرحہ کچھ بولتی...اس نے اپنی ناک کو ایک ہاتھ سے چھپا لیا۔امرحہ کا دل چاہاکہ واقع اس کی ناک پر اپنےہاتھ میں پکڑی موٹی فائل دے مارے....یہ انسان یقیناً اس کو کوئی مشہور زمانہ مذاق بنا دے گا جو ساری یونیورسٹی میں مشہور ہو جائے گا....

”فرمائیے...میں آپ کو کیسے ڈرا سکتا.....ائی ایم سوری آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔“ناک بدستور اس نے بائیں ہاتھ سے چھپا رکھی تھی۔امرحہ نے کاغذ اس کی طرف بڑھایا جس پر اس کے مضمون لکھے تھے اور اس نے پڑھ کر دوسرےکاغذ پر کم سے کم پندرہ منٹ لگا کر اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ سب کچھ لکھ دیا...کلاس کے اوقات کار....ٹیچرز کے نام....مزید مدد کے لئے اسی کے جماعت کےدو تین ہم جماعتوں کے نام....ان کے رہائش کے پتے۔پھر اس نے نقشہ نکالا اور اس پر سرخ دائرہ لگایا۔یہ آپکا ڈیپارٹمنٹ ہے۔”اسے اس کا ڈیپارٹمنٹ دکھا لاؤ۔“اس نے فرنچ لڑکی سےکہا۔لڑکی نے اچنبھے سے اسے پھر ڈیرک کو دیکھااور امرحہ کےکچھ کہنے سے پہلے ہی پوچھ لیا۔

”کیوں یہ خود چلی جائے گی نا....“

”نہیں یہ خود نہیں جاتی......اسے ڈر لگتا ہے.....“

امرحہ نے ڈیرک کے ہاتھ سے کاغذجھپٹ لیا...ڈیرک کے قہقہے نےدور تک اس کا پیچھا کیا....وہ دعا کر رہی تھی کہ پہلے دن جو جو لوگ سے ملے ہیں٬ان سے دوبارہ اس کی ملاقات....ایک لڑکی اس کے پاس سے گزری اور ایک دم رک گئی۔

”کوئی مدد چاہیے؟“ساتھ ہی اس نے امرحہ کے ہاتھ میں پکڑا کاغذ لے لیا۔یہاں جانا ہے نہ....میں ابھی یہیں سے آ رہی ہوں بلکہ پھر سے وہیں جا رہی ہوں....آ جاؤ میرے ساتھ۔“وہ خواری سے بچ گئی اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔وہ اسے ڈیپاٹمنٹ تک چھوڑ کت گئی.....اس نے اپنی کلاسسز دیکھ لیں اور اوقات کار بھی.... اپنی کلاسسز دیکھ کر اسے کافی خوشی ہوئی۔وہ اس کی سوچ سے زیادہ خوبصورت تھیں۔یونیورسٹی سے نکل کروہ پیدل ہی پھر سے نوکری کی تلاش میں لگ گئی....لیکن یہ کام تو مشکل ہی بنتا جا رہا تھا۔یونیورسٹی سے بہت زیادہ دور وہ نوکری کر نہیں سکتی تھی۔ اس طرح اس کا بس کا کرایہ لگتا اور اس کی بچت مشکل سے ہی ہو پاتی۔اس کی کلاسسز شروع ہو گیئں لیکن کام نہیں ملا اسے پرشانی یہ تھی کہ اگروہ کام نہ ڈھونڈ سکی تو پھر سے دائم کا لیکچر سننا پڑے گا گو کہ وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا لیکن اپنی جگہ غلط وہ بھی نہیں تھی۔وہ انتھک کوشش کر رہی تھی۔

*......*.......*

ایک دن یونیورسٹی سے پندرا منٹ کی واک پر واقع کیفے کے سامنے سے اس کا گزر ہوا۔وہ یہاں پہلے بھی آ چکی تھی لیکن اسے جواب دیا گیاتھا کہ انہیں ضروت نہیں ہے۔اب ضروت ہے کا بورڈ کیفے کے سامنے رکھا تھا۔اس نے پہلے کیفے میں بیٹھ کر کافی پھر کاونٹر تک آئی.....اسے یہاں کام تو فوراً ہی مل سکتا تھا لیکن صرف ایک مسئلہ تھااور کافی بڑا مسئلہ تھا جو ویٹریس اسے نظر آ رہی تھیں انہوں نے گھٹنوں تک اسکرٹ پہن رکھا تھا جو ایک مشہور کافی کے لیبل جیسا تھا ،یعنی کمپنی کا چلتا پھرتا اشتہار تھیں اسے اشتہار سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ یہ اسکرٹ تو نہیں پہن سکتی تھی اور جوحالات جا رہے تھے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اس واحد نظرمیں آنے والے ”ضروت ہے “کے موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہیں دے سکتی تھی۔اس نے کاؤنٹرکے پیچھے بیٹھے دراز قد فربہی مائل گورے چٹے انگریز سے بات کی....اس نے امرحہ سے چند سولات پوچھے

اور اسےہاں کہہ دیا.....وہ خوش ہونےکےبجائے دکھ سے اسے دیکھنے لگی یعنی نوکری ملی بھی تو کون سی جس پر شاید ابھی انکارہو جائے جب وہ اس کیاگلی بات سنے گا۔”مجھے اس کام کی بہت زیادہ ضرورت ہے.....اگر مجھے یہ نوکری نہ ملی تو میرا مستقبل بہت بری طرح سے تاریک

ہو جائے گا۔“اس نے اپنی طرف انگریز کو جذباتی کرنے کی کوشش کی تھی۔”میں نےتمہیں کام پررکھ لیاہے۔“

”میں یہ ڈریس نہیں پہن سکتی...میں جینز پر یہ شرٹ

پہن لوں گی بس۔“اس نے ویٹرس کی شرٹ کی طرف اشارہ کیا۔”تمہیں اتنا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں....تم جاسکتی ہو۔“”اس دنیا کےروشن مستقبل کے لئے کیا آپ صرف

اس نامکمل ڈریس کو نظر انداز کر کےتعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتی اسلڑکی پر ایک احسان نہیں کر سکتے۔ دنیاکاہرانسانعلم حاص کرنےوالے کی عزت کرتا ہے۔“

”مجھےصرف اپنے روشن مستقبل کی فکر ہے۔ ”

”آپکس مذہب کے ماننے والے ہیں؟“اس نے اسے

گھورا....یورپ میں کبھی بھی کسی سے بھی

اتنی جلدی اس کے مذہب کے بارے میں نہیں

پوچھ سکتے وہ برا مان جاتے ہیں۔”میں

یہودی ہوں۔“امرحہ کی سٹی گم ہو گئی۔وہ

یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔

”مجھے گھورنا

بند کرو اور جاؤیہاں سے “

” دیکھئے جانب اگر آپ مجھے کام دیں گے تو سب آپ کی

تعریف کریں گے ایک یہودی نے ایک مسلم کا احترام کیا...اس کی اخلاقیات کا خیال رکھا...یو نو وغیرہ وغیرہ۔“

”یہ وغیرہ

وغیرہ کیا ہے؟“

”مزید تعریف....اور تعریف سب آپ کو اپنے سر آنکھوں پے بٹھائیںگے۔“

لیکن مجھے اپنی کرسی پر بیٹھناہیاچھا لگتا ہے۔

”پھر بھی ذرا سوچئے....یہیونیورسٹی ایریا ہے....اسٹوڈنٹس آپ کیکس قدر عزت کرے گے۔ہو سکتا ہے بلکہ مجھےتو یقین ہے کہ سالانہ کانووکیشن ڈےپرآپ کو خاص مدعو کیاجائے گااور آپ تقریر بھی کرے گے...ایسا دن آپ کی زندگی میں

دوبارہ کبھی نہیں آسکتا...“

”مجھے کانوکیشن میں جانے سے کوئی دلچسپی نہیں...“

”جبآپ جائے گے تب آپ کو یہ بہت دلچسپ لگے

گا۔“وہ کاونٹر پر بائیں ہاتھ کی چاروں

انگلیوں سے بجانے لگا اور اسے مزید دلچسپی

سے دیکھتا رہا...اس کی نیلی آنکھیں مزید

نیلی ہو گئیں۔

”میں نے سنا تھا انگریز بہت رحم دل ہوتے ہیں“

”میں پولش ہوں“

”مجھےاندازہ تھا لیکن پولش تو دنیابھر میں انسان دوست مشہور ہیں...اخلاقیات کی پاس داری کرنے والے...انسانی خدمت میں سب سے پہلے آنے والے...اور مدد کے لئے کبھی نہ پیچھے ہٹنے والے ..“

”تمہاریزبان ہمیشہ ایسے ہی چلتی ہے۔“

”نہیں لیکن جو کافی میں نے ابھی آپ کے یہاں سے پی ہے٬اس کے بعد سے کافی زیادہ...آپ مجھے ایک ہفتے کے ٹرائل پرراکھ سکتے ہیں“

”اس سے کیا ہو گا؟“

میں شرط لگا سکتی ہوں،جب لوگ مجھے ایک مسلم لیڈی کو فل ڈریس میں دیکھیں گے تو وہ اس طرف کھنچے چلے آئیں گے کہ یہ ایک انسان دوست کا کیفے ہے....یہاں کےمالک نے انسانیت کےلئے نام نہاد اصولوں کو توڑدیا۔“

”کیا واقعی؟“وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کاونٹر بجانےلگا۔

”بلکل....آزما کر دیکھ لیں...“یہ کہتے امرحہ کی نظر اتاری جانی چاہئے تھی۔

”ٹھیک ہےکل سے آجانا تمہیں اصل کا ففٹی پرسنٹ ملے گا۔“

”مجھے منظور ہے.....ویسے آپ کو یہ اندازہ ہوگا ہی کہ روزانہ اس کیفے میں کتنے لوگ آتے ہیں...؟“امرحہ کی ذہانت بڑھتی جا رہی تھی۔

”میں دس سال سے کیفے چلا رہا ہوں،سال میں ایک صرف ایک بار آنے والوں کو پہچان لیتا ہوں“

”میرا مطلب کل اگر زیادہ لوگ آئے تو ...“

”تو مجھے معلوم ہو جائے گا۔“وہ آنکھوں کو اندر کی طرف لے جا کر مسکرایا.....اور یہ مسکراہٹ اس پہ جم کررہ گئی۔

***********

۔وہ گھر گئی تو اس نےشرلی عذرہ وغیرہ سب سے کہے دیا کہ کل ہر صورت وہ خود اور اپنے دوستوں کو لے کر اس کے کیفے آجائیں....چاروں نے آنےکا وعدہ کر لیا سوائے ہانا کے.....اور انہوں نےاسے یقین دلایا کہ وہ کوشش کر کے اپنے ایک یادو دوستوں کو بھی ساتھ لے آئیں گی....صبح وہ دائم اور نوال بھی گئی انہیں سب سچ بتا دیا۔دائم کتنی ہی دیر بے یقینی سے اس کی شکل دیکھتارہا۔

”تم نے کس قدر چالاکی سے یہ سب کیا ہے....ہے نا“

”کرنا پڑا“ اس نے کندھے اچکائے۔

”میں اپنے ہم جماعتوں کو اور دوستوں کو بھی کہے دیتا ہوں....کتنے دن کا ٹرائل ہے؟“

”ایک ہفتے کا....اگر روز آٹھ دس لوگ آئیں تو....“

”آٹھ دس تو کم ہے آخری روز تک میں تمہیں چالیس کر دوں گا۔“

یہ ٹھیک ہے“ اور پھر یوں پہلے دن دس...دوسرے دن پندرہ...پھر اٹھارہ،بیس....پچیس اور آخری دن تین کم پچاس اسٹوڈنٹس وہاں کافی پینے گئے اور مزے کی بات یہ کہ انہوں نےاپنی پرفارمنس کی حد ہی کر دی...وہ کافی پینے جاتے،کاؤنٹر تک آتے جاتے۔

”کتنے نوبل انسان ہیں آپ۔“مسکرا کر کہا جاتا۔

”آپ نے ایک مسلم خاتون کو بغیر کسی امتیاز کے نوکری دی۔“

”آپ جیسے انسان دوست لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں۔“

”ہم سب ضرور اپنے پروفیسر سے آپ کی تعریف کریں گے،آپ کو ہمارے کانووکیشن ڈے پر ضرور آنا چاہئے۔“

”بہت فرشتہ صفت ہیں آپ...ایسی صفات آج کل نا پید ہیں۔“

اب ہم ہر روزصرف یہاں ہی آیا کریں گے کافی پینے“

”چھ دن ہر پرفارمنس کے ساتھ ساتھ وہ مسکراتا رہا، مسکراتا رہا....”میں نے اپنے زندگی میں بہت ڈرمے دیکھے لیکن ان چھ دنوں میں جو یونیورسٹی والوں نے میرے کیفے ڈرامہ سیشن کیا،وہ سب سے شاندار رہا۔“

وہ دنگ کھڑی کاؤنٹر پہ ہاتھ رکھے اسے ہنستے ہوئے دیکھتی رہی، اس کا تو خیال تھا اس کا پلان کامیاب رہا لیکن یہ کیا.....تم ایک کاروباری انسان کو اُلو نہیں بنا سکتیں..رائٹ“؎

”رائٹ“اس نے کمزور سا رائٹ کہا۔

”پر تم ایک کاروباری انسان کو متاثر ضرور کر سکتی ہو....رائٹ..“

”رائٹ“وہ مسکرانے لگی۔

دیکھو مس اخروٹ.....!میں تمہیں یہاں ایسے نہیں رکھ سکتا۔“وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور امرحہ بھی....اس کی خوشی اڑن چھو ہو گئی۔

”کافی کمپنی اس ڈریس کے لئے مجھے پے کرتی ہے اور اس کیفے کے پچاس فیصد مالکانہ حقوق کمپنی کے پاس ہی ہے لیکن کیونکہ میری دلچسپی بڑھ گئی ہے کہ میں یونیوورسٹی کے کانووکیشن میں بلایا جاؤں تو میں تمہیں عارضی طور پر یہاں رکھ سکتا ہوں....جب تک تمہیں کہیں اور نوکری نہیں مل جاتی،تم یہاں کام کرسکتی ہو لیکن اگرکمپنی نے اعتراض کیا تو مجھے تمہیں فوراً نکالنا ہو گا“

کمپنی اعتراض نہیں کرے گی۔“وہ خوشی سے نہال ہو کر بولی۔

”کیوں؟تمہیں کسے پتا“

”میں دعا کروں گی ،کمپنی اعتراض نہ کرے“

”تم یہ دعا کیوں نہیں کرتیں کہ تمہیں کہیں اچھا سا کام مل جائے“

”وہ بھی کر رہی ہوں ساتھ ساتھ لیکن فی الحال مجھ پہ یہی دعا واجب ہے....کہ کمپنی اعتراض نہ کرے“وہ اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے مسکرا رہا تھا۔

”اور مجھے اخروٹ مت کہئے آپ مجھے چلغوزہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ چلغوزہ مجھےبہت پسند ہے۔“وہ خوشی سے بولتی ہی چلی جا رہی تھی کیفے سےباہر مانچسڑ کی سڑکوں پر اُڑنے والی رات اس رات بہت روشن تھی جب سیاہی سفید ہو جائے راتیں روشن ہو جائے تو زندگی کی شاخوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔خوشبو دیتی ہوئی۔پھولوں اورپھلوں سے لدی ہوئی۔

وہ کام سے بھی لگ گئی اور کلاسسز میں بھی مصروف ہو گئی۔ساتھ ہی اس نے بھی نوڈلز کھانےشروع کر دیے۔اپنی پہلی تنخواہ سے اس نے سب سے پہلے ہانا کی پسند کے نوڈلز کا بڑا پیکٹ لیا جو وہ دو ہفتے تک کھا سکتی تھی۔ساتھ ہی انڈے،دودھکے ڈبے،جام، ڈبل روٹی لےکر اسے نے فریج بھرا تاکہ وہ سب بھی استعمال کریں....اب اسے رہائش کی تلاش تھی....ساتھ ساتھ وہ اپنا رہائش کا مسئلہ بھی حل کر رہی تھی ۔گو شرلی نےاس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اتنی پرشان نہ ہو رہائش کے لیے لیکن وہ پریشان تھی اگر اسے انہوں نے خندہ پیشانی سے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ڈھیٹ بن کر مستقل ہی وہاں جم جاتی اور بہانے بناتی کہ اسے رہائش نہیں مل رہی ۔چونکہ اسے شروع سے بہت زیادہ کھانے کی عادات تھی تو ابھی وہ مکمل طور پر اپنی بھوک پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔چنے منے سے ناشتے سے تو اس کا کچھ بنتا ہی نہیں تھا اس سے زیادہ تو وہ شام کی چائے میں اُڑا جایا کرتی تھی۔دوپہر کے کھانے کے وقت یونیورسٹی میں اسےکسی نہ کسی ٹوئیٹ مل جاتی۔ٹوئیٹ...(Twit) تو ٹوئیٹ کا قصہ کچھ یوں تھاکہ کسی بھی فرینڈیاہائے ہیلوفرینڈیا کلاس فیلو کے پاس جایا جاتااور اس سے کہا جاتا ۔”ٹوئیٹ می پلیز“(مجھے ٹوئیٹ کرو)اگر وہ چاہتا یا افورڈ کر سکتا تو اسے ٹوئیٹ کر دیتا یعنی ایک کپ چائے ،کافی یا کوئی بھی کولڈرنک پلا دی جاتی۔دائم گروپ نے اسے اپنی ساری ٹوئیٹس دے دی تھیں۔ٹوئیٹ مانگنے والے کو وہ ٹوئیٹ واپس بھی کرنی ہوتی تھیں۔اب منظرکچھ یوں ہوتا کہ دائم یا نوال اس سے کہتے کہ جو سامنے حماد بیٹھا ہے اس کے پاس میری چھ ٹوئیٹس ہیں۔اس کے پاس جاؤ اور کہو ”ٹوئیٹ می بیک پلیز“وہ جاتی اور کہہ دیتی۔اسی طرح شرلی ،عذرہ اور ایسےہی دوسرے ہائے ہیلو دوست اپنی ٹوئیٹس دے دیتے۔اکثر جن کی تین یا چار ٹوئیٹس اکھٹی ہو چکی ہوتیں ان کا وہ برگر کھا لیتی لیکن برگر،سینڈوچ یا پیزا کھائے جانے پر ایک ایکسٹرا ٹوئیٹ منفی ہوجاتی یعنی اگر چار ٹوئیٹس ہے تو تین کا برگر اور ایک منفی یعنی باقی زیرو....اور اگر تین ہی تھیں تو ایک جمع ہو جاتی یعنی برگر کھانے والےکھاتے میں ایک ٹوئیٹ آجاتی۔پہلی بار تو امرحہ کو کافی سے زیادہ شرم آئی بھر اس نے محسوس کیا کہ امیر کبیر اسٹوڈنٹس بھی ایسا کر لیتے ہیں تو وہ بھی کرنے لگی....وہ دائم نوال شرلی کے پاس جاتی ریفری"آٹوئیٹ پلیز "کہتی وه سوچتے.ادھر ادھر دیکھتے. 

وه سامنے....ہاں وہاں گراؤنڈ میں...وه جس نے سفید شرٹ پہنی ہے. ہاں وہی اس کے پاس جاؤ."

کاغذ پہ لکھ دیا جاتا" ٹوئیٹ ہر بیک "(اسے ٹوئیٹ واپس کر دو)اسی کاغذ پر ٹوئیٹ دینے والا لکھ دیتا" بقایا دو" باقی کی دو بھی وہ ہڑپ کر جاتی.اسےبڑا مزہ آ رہا تھا. اسے ٹوئیٹ پہ ٹو ئیٹ مل رہی تھیں.....اس نے دادا کو سب بتایا.

"مانگنے کے نت نئے انداز" وہ ہنسنے لگے.

"دینے کے نت نئے انداز دادا."

"کیا کمال کا جواب دیا ہے تم نے" وہ بہت خوش ہوئے.اس دن وہ دائم گروپ کی ایک لڑکی اقصیٰ کےپاس گئی اورٹوئیٹ ریفرکرنے کے لئےکہا. 

یہ تمہیں لائبریری میں ملے گا ورنہ کہیں نہیں ملے گا اس وقت ....بڑے بڑے کان ہیں اس کے...لائبریری میں کسی سے بھی پوچھ لینا.تمھیں اس کا بتا دیا جائے گا."پوری بیس ٹو ئیٹس ہیں میری اس کے پاس".

"بیس..!"،امرحہ کے منہ میں پانی بھر آیا.آرام سے چار پانچ برگرکھائےجاسکتےہیں'کافی بھی.....آرام سے دوہفتےنکل جائیں گے.

یعنی اگلےدوہفتوں کےلیے بالکل خوار نہیں ہوناپڑےگا....وہ لائبریری میں آگئی اور سرگوشی کے انداز میں اسکاپوچھا.

"میں سمجھ نہیں پائی....کونسی کتاب چاہئے؟؟"

"اف..کتاب نہیں چاہئے...عالیان کا پوچھ رہی ہوں.جس کی بڑے بڑے کان ہیں."

ایک ہلکی سی مسکراہٹ لائبریرین کے چہرے پر نمودارہوکرمعدوم ہو گئی اوراس نےہاتھ سے اشارہ کرکے بتایاکہ وہ کہاں بیٹھا ہے.وہ اسکےپاس آئی اور کاغذ جس پراقصیٰ کی لکھائی میں ٹوئیٹ کالکھاتھااسکےاگےکیا.

اس نے اپنی موٹی سی کتاب سے نظر اٹھاکراس چٹ کوپڑھاپھرجس ہاتھ نےچٹ تھام رکھی تھی'اس خفگی سے گھورا...اس کی پیشانی پر پتلی سی لکیربن کرغائب ہو گئی.

"سوری اس وقت نہیں"اس نے آ ہستگی سے کہا.

"پھرکس وقت؟؟"

"بس آج نہیں....ان فیکٹ اگلے ہفتے تک نہیں...برائےمہربانی اس سےپہلےمجھےتنگ نہ کیا جائے."

پر مجھے توابھی اسی وقت بھوک لگی ہے."اسکی تیز آواز پر وہ بھوری آنکھوں والا حیران رہ گیا.پیشانی پرخفگی سے دو لکیریں بن کر ابھریں اوروہیں براجمان رہیں.

"ٹوئیٹ می بیک." امرحہ نےدونوں ہاتھ سینے پر باندھ کرتھوڑی اوراونچی آوازمیں کہا.یہ وہی تھاناجواس دن ویلکم ویک میں اس پرچلا رہاتھا.اب وہ اس پر چلا سکتی تھی.

"میں نہیں کر رہا." اس نےذرا سختی سے کہا.

"میں کیا کروں....مجھے تو بھوک لگی ہے." اس نے اس طرف آتےہوئےایک اورکام کیاتھا.اس نےکاغذپرخودہی سینڈوچ لکھ دیاتھا.

اسکی تیزبھوری آنکھیں ایک لحظےکےلیےسیاہی مائل سی ہوئیں.پیشانی پر شکنوں کاجال سا بچھ گیا.90ءکے ہیروز کی طرح اس نے گردن کو ہلکا سا جھٹکا دے کر اس کو گھورااورپھروہ ٹوئنٹی ز کے ہیروکی ترطرح مکمل نظرانداز کرکےاٹھ کھڑاہوا.

"میں نے کہانا'اگلےہفتےسےپہلےمیرےپاس نہ آنا." وہ لائبریری بلڈنگ سے باہر نکلا.

"میں کچھ نہیں جانتی."وہ بھی اسکے ساتھ نکلی.اس نے اس کے ہاتھ سے کاغذ کھینچااورتیزی سے آگےآگےچلنےلگا.

وہ اسکے پیچھے پیچھے لپکی کہ وہ کینیٹن جارہاہے.لیکن.....وہ تو.....وہ تو

"یہ کیا ہے اقصیٰ؟؟" اس نےدوانگلیوں میں اٹکایا کاغذ اقصیٰ کےآگےکیا.

"کس بھوکی کومیرےپیچھےلگادیاہے؟؟"

*********

"یہ کیا ہے؟" امرحہ نے اس امریکی نقوش کے حامل فرنچ غصے کو سہم کر دیکھا یہ اس نے کیا کہہ دیا اتنے دھڑلے سے امرحہ نے آس پاس دیکھا اف یونیورسٹی کے سارے اسٹوڈنٹ انگوٹھا ہلا ہلا کے شرم کرو شرم کرو کہہ رہے تھے پہلے تو امرحہ نے آنکھیں میچ لیں پھر اس نے غصے سے بھڑک کر اسے دیکھا اقصی نے پڑھا کاغذ پہ سینڈوچ لکھا تھا.ٹوئیٹ می بیک پلیز اقصی نے اس کی عزت رکھ لی اگلے ہفتے تک اس نے شان سے کندھے چکائے جیسے بڑا نقصان کرنے کے بعد اطالوی چکاتے ہیں بےنیازی سے بھی اور خونخواری سے بھی.تم دونوں ہینڈل کر لو پلیز اقصی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک بھوکے اور دوسرے کنگلے کو کیسے ہینڈل کرے اور وہ یہ کہہ کر گراؤنڈ سے اٹھ کر چلی گئی.”اگلے ہفتے سے ایک بھی دن پہلے میرے پاس نہ آنا۔“لمبے کانوں والے نے ناک پھلا کے کہا اور پھر سے لائبریری کی طرف جانے لگا۔”اگلے ہفتے تک میں بھوکی مر جاؤں گی“ وہ پھر سے اس کے ساتھ چلنے لگی

”ایک میری ہی ٹوئیٹ پہ زندہ ہو کیا؟“ وہ پھر سے ایک فرنچ بن گیا جو غصے کو دبانے کے لیے لفظ چباتے ہیں تو آنکھیں سرد مہری سے اندر کر لیتے ہیں اختلاف اپنی جگہ لیکن وہ اس کے اسی طرح خم دے کے طنز جھاڑنے پر اسے دیکھتی رہ گئی۔غصہ کر بھی رہا تھا اور نہیں بھی کیسی بات تھی۔

”آج تو اسی ٹوئیٹ پہ رہنا ہے سارے پیسے ختم ہو گئے اور نوڈلز بھی صبح جلدی کی وجہ سے چائے بھی نہیں پی“ اس بات پر وہ ذرا رکا اپنے کراس بیگ کو اپنی گردن سے نکال کر کھنگالنے لگا تھوڑا وقت لگا لیکن وہ مطلوبہ چیز نکال چکا تھا اس نے ایک چاکلیٹ نکالی جو آدھی کھائی ہوئی تھی یہ لو آدھی کھائی چاکلیٹ اس کی طرف پڑھائی اس سے کیا ہو گا چاکلیٹ دیکھ کر امرحہ کو خوشی تو ضرور ہوئی لیکن فی لحال اسے سینڈوچ ہی کھانا تھا ۔”کافی کیلوریز ہیں اس میں“ بھوری آنکھوں والے نے بیگ کو واپس گلے میں ڈالا ایک ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالا اور ایسے کھڑا ہو گیا جیسے اس کا فوٹو سیشن ہو رہا ہو۔”لارڈ میئر جوانی کے دنوں میں یونیورسٹی میں چیریٹی کرتے ہوئے۔“ فوٹو کا کیپشن اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتا۔”مجھے کیلوریز نہیں چاہئیں... کھانا چاہیے۔“

”تو یہ کیا بھوسا ہے؟“ لارڈ میئر نے بہنوئیں اچکائے اور کچھ ایسے اچکائے کہ پیشانی پر گرے بھورے بالوں سے جا ملیں۔

”اور یہ چھوٹی بھی ہے چھوٹی اور آدھی کھائی ہوئی اور پھر میں کیوں کسی کی چیز کھاؤں۔“

”بھنویں... اس بار سوالیہ اچکیں... یعنی اتنی ایگو ہے تم میں ...اچھا.. سچ میں..“ 

”دوسری طرف سے کھا لو آخری کنارہ پھینک دینا۔“ وہ منہ بنائے کھڑی رہی.... اس نے پھر سے بیگ کھنگالا اور ایک پیکٹ نکالا..... جس میں ریپر کو ایک کامن پن سے بند کیا گیا تھا۔ تا کہ اندر کوئی موجود میوہ جات بیگ میں بکھر نہ جائیں۔ پیکٹ بسکٹ کا لگتا تھا۔

” یہ لو اور یہ بھی لو“ چاکلیٹ اور بسکٹ دونوں اس کے آگے کیے۔ اس نے دونوں پیکٹ پکڑ لیے... ایک میں موجود چاکلیٹ اس نے دیکھ لی تھی دوسری کی پن نکالی تو وہ بسکٹ کا چورا تھا۔

”مجھے کیا سمجھ رکھا ہے چیریٹی کر رہے ہو“ امرحہ بری طرح سے برا مان گئی۔ لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں اور وہ تیزی سے لائبریری کی طرف جانے لگا۔

جو دونوں پیکٹ ہاتھ میں لیے کھڑی ہے۔اس تو آپ جانتے ہی ہیں۔ لیکن جو جا چکا ہے کیا اسے جانتے ہیں؟ عالیان مارگریٹ.... وہ اپنی ماں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

*......*......*

رہائش کا مسئلہ تھوڑا سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا۔جو رہائش مل رہی تھی، وہ مہنگی تھی، جو سستی تھیں یا وہ بہت دور تھیں یا لڑکوں کے ساتھ تھیں۔یعنی لڑکے لڑکیاں ایک ہی فلیٹ میں....سب اس کے لیے اپنی اپنی جگہ پر کوشش کر رہے تھے۔وہ ایک ،دو برطانوی، پاکستانی،ہندوستانی گھرانوں میں بھی گئی، لیکن وہ رہائش بھی اس کی گنجائش سے بہت زیادہ تھی۔ وہ بہت نارمل سی ایک رہائش افورڈ کر سکتی تھی۔یعنی بے حد سستی سی۔ جتنی زیادہ سستی ہو سکے اتنی سستی اور یونیورسٹی کے پاس بھی.....

”ایک لینڈ لیڈی ہیں تو، لیکن ایک مسئلہ ہے کہ وہاں کم ہی لوگ رہنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ ان کو سمجھنا بہت مشکل ہے وہاں جا کر دیکھ لو شاید تم ان کو سمجھ سکو۔“

”ٹھیک ہے وہاں بھی جا کر دیکھ لیتی ہوں۔“ اس کا منہ لٹک گیا۔

ہاں... ایسے ہی منہ لٹکا لینا... اور وہ اپنا مشہور زمانہ آزمودہ فقرہ ضرور کہنا،منحوس ماری... مجھے تو مر جانا چاہیے۔اس بات پہ وہ نوال سے زیادہ ہنسی۔ایک، دو، لڑکیاں ہیں جو وہاں گئی تھیں۔ ایک چند دن بعد ہی واپس آ گئی اور ایک نے چند ہفتے بعد وہ گھر چھوڑ دیا۔وہ اسے شٹل کاک کہ رہی تھی۔

”نام اچھا ہے شٹل کاک۔“

ٓکہانی آتی ہے تمہیں“

”ہاں ایک ،دو، آتی ہیں

”گڈ...سنا ہے وہ ہر رات کہانی ضرور سنتی ہیں۔

اچھا... صرف کہانی... مطلب کرایہ نہیں لیں گی؟

ہاہاہا کرایہ تو ضرور لے گی ساتھ میں کہانی بھی،

ٹھیک ہے، میں دو چار کہانیاں یاد کر کے جاتی ہوں۔

‏......

شٹل کاک کا پتا لے کر وہ چھٹی والے دن شام کو آ گئی۔یہ ایک دو منزلہ برطانوی طرز تعمیر کا کافی بڑا گھر تھا۔گھر کے آگے سبزے کا بڑا قطعہ تھا۔جس میں مختلف اقسام کے پودے اور پھول لگے تھے۔ساری عمارت سفید رنگی تھی اور وائٹ ہاؤس کا چھوٹا سا منا سا نمونہ لگ رہی تھی۔امرحہ کو شٹل کاک کا بیرونی نظارہ بہت پسند آیا۔بلکہ بہت ہی زیادہ پسند آیا۔

اگر اسے یہاں رکھ لیا جائے تو وہ کافی شاندار قسم کی رہائش گاہ ثابت ہو والی تھی۔

.‎بیل دی اور کافی دیر تک دیتی رہی کھڑکیوں سے بھی جھانکتی رہی

دروازہ بھی بجایا۔لیکن کوئی بات نہیں بنی۔ وہ دروازے کے پاس سیڑھی پر بیٹھ گئی کہ شاید مالکن بازار گئی ہوں۔کوئی بیس منٹ بعد دروازہ کھلا... وہ جلدی سے اٹھ کے دروازے تک آئی ۔”مجھے کہانی آتی ہے۔“ جھٹ سے کہا۔

سامنے والی کی ہنسی کافوارہ نکلا۔وہ ہلکے گلابی رنگ کی ساڑھی میں تھی۔ لمبی پتلی سانولی سی ... کالے سیاہ بالوں کی چوٹی بنائے ہوئے اور انہیں کندھے پر گرائے ہوئے۔

"مجھے کمرہ چاہیے‎‏".

”اندر آ جاؤ“ وہ ہنستی ہوئی اندر کی طرف بڑھی۔امرحہ بھی اس کے پیچھے چلنے لگی۔

بعد ازاں امرحہ کو معلوم ہوا کہ وہ لینڈ لیڈی کو شام کی چائے پلا رہی تھی۔پھر ان کا منہ دھلایا کپڑے تبدیل کروائے۔

بیل دینے والا دروازہ پیٹنے والا جائے بھاڑ میں ہم کیا کریں۔ لینڈ لیڈی کی نشست گاہ میں ٹھنڈےآتش دان کے پاس بیٹھی باب جیبریل کا انگلش ترجمہ پڑھ رہی تھیں۔اس کی سانس اٹکنے لگی....یعنی شاعری بھی سنانی پڑے گی وہ بھی ایسی اعلا پائے کی ...یعنی یہاں بھی اس کا کام بننے والا نہیں تھا ۔بہت دیر اس کا انٹریو ہوتا رہا۔وہ بہت صبر سے اور اپنی طرف سے چالاکی سے سارے سوالات کے جوابات دیتی رہی۔”کھانا پکا لیتی ہو؟کیا کیا پکا لیتی ہو؟“

”چاول ،روٹی اور تنور ہو تو نان بھی لگا لیتی ہوں۔“اس نے اس چیز کا نام لیا جو برطانیہ میں میسر ہو ہی نہیں سکتی تھی۔”تنور“

”بیسن کی روٹی...آلو.... گوبھی.....قیمے کے پراٹھے...مولی کے بھی....نان پہ بیسن لگا کر اسےتل بھی لیتی ہوں۔بہت مزے کا بنتا ہے۔آلو کے پکوڑے...بینگن،پالک،چکن کے،مچھلی کے بھی بنا لیتی ہوں۔“ لینڈ لیڈی اپنے بچوں کے سے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ٹھوڑی تلے رکھےاسے دیکھتی رہیں۔”ہو چکا تمہارا؟اب بتاؤکھانا پکا لیتی ہو؟“اس کا منہ لٹک گیا۔اس کی چالاکی کسی کام نہ آئی۔دادی ٹھیک کہاکرتی تھیں کہ انسان کو زندگی میں سب کام آنے چاہئیں۔نا معلوم زندگی کہاں لے جائے اور کون سا سیکھا کام...کام آجائے۔”گوشت کا سالن اور چاول بس ...روٹی بھی“

”سادھنا!یہ پرٹھوں کی اتنی ورئٹی کام کی ہیے؟“

”جی ہفتے میں دو بار یہ ہو جائے گا۔باقی گوشت کا سالن اور چاول۔“میڈم سادھنا اسی کے ساتھ صوفے پر ذرا کنارے پر بیٹھی تھیں سویٹر بن رہی تھیں۔”سودا سلف بھی لانا ہوگا“

”جی میں لے آؤگی،سنڈے کے سنڈے۔“

”سنڈے ونڈے ہم نہیں جانتے۔جب جب سادھنا کہے گی لانا ہو گا،تازہ سبزی آتی ہے روز....حلال گوشت آتا ہے...بولو ہاں یا نا؟“

”ہاں جی ہاں.....“

”گڈ...اچھا اب بولو کہانی آتی ہے کوئی؟“

”جی آتی ہے دو“

”گڈکون کون سی ؟سناؤ ذرا۔“

”ایک کوا تھا ،بہت پیاسا تھا...ادھر اڑا اُدھر اڑا....“

دوسری؟

”دوسری خرگوش اور کچھوے والی۔“سادھنا تیزی سے سلائیاں چلانے لگی،تاکہ اس کی ہنسی کم سے کم اس کے منہ سے نکلے....لینڈ لیڈی البتہ ہونٹ بھینچے بیٹھی رہیں۔

”بی بی! یہاں رہنا ہے یا نہیں؟“

”رہنا ہے۔“

تو کہانیاں بدلو۔

میں اچھی اچھی کتابیں لے لوں گی...آپ کو پڑھ کر سناؤں گی۔

گڈ

کرایہ پہلے بتا دیں پلیز

”پہلے شرائط سن لو....تم سے پہلے تین لڑکیاں جا چکی ہیں۔تم چوتھی آئی ہو سادھنا یہاں دو سالوں سے رہ رہی ہے۔“ اس نے سہم کر سادھنا نامی ”لڑکی“ کو دیکھا ۔ہائے میری عمر بھی اتنی لگتی ہے کیا؟

”سادھنا سے پہلے یہاں چھ لڑکے رہ کر گئے ہیں۔اچھے لڑکے تھے ،سارا کام کر دیتے تھے۔میں تو اب بھی لڑکوں کی حق میں ہی تھی ۔پر اب سادھنا کی وجہ سے لڑکیاں ہی رکھتی ہوں۔سارے گھر کی صفائی کرنی ہو گی اور صبح ہی کر کے جانی ہو گی۔باقی کےکمرے بند ہیں اور جتنا بھی گھر استعمال ہو رہا ہے۔وہ تمہیں صا ف کرنا ہو گا۔کھانا بنانا ہو گا۔ہفتے میں دو دن پودوں کی کانٹ چھانٹ اور کھڑکیوں کی صفائی....ایک ہفتہ تم میرے کپڑے لانڈری کرو گی اور استری بھی ایک ہفتہ سادھنا کرے گی۔جتنی زیادہ لڑکیاں یہاں رہنے کے لئے آجائیں گی اتنا ہی کام کم ہو جائے گا۔میرے کمرے کا جو سینٹرل کارپٹ ہے،اسے دھوپ کے دنوں میں تمہیں دھوپ لگوانی ہو گی۔پاکستان میں اپنے گھر کا نمبر تمہیں مجھے دینا ہو گا۔کیونکہ اگر میں نے تمہیں ٹریک سے اترتے ہوئے دیکھا یعنی اگر تم میں کوئی غلط ہرکت دیکھی تو فوراً میں تمہارے گھر والوں کو بتاؤں گی،تم ایک مسلمان لڑکی ہو ،اس لئے میں تمہارے پاس کو ئی ایسی ویسی چیز نہ دیکھوں،ورنہ میں تمہیں فوراً یہاں سے نکال دوں گی اسی وقت چاہے باہر برف باری ہو رہی ہو اور تم نمونیہ کا شکار ہو ۔تمہارے ہر طرح کے دوست یہاں آسکتے ہیں،لیکن اگرمیں نے ان دوستوں میں خرابی دیکھی تو بھی تمہیں یہ جگہ چھوڑنی ہو گی۔ بے شک تمہیں پورے انگلینڈ میں کہی جگہ نہ ملے۔اگر میں سوتی ہوں تو چٹکی کی آواز سے بھی اٹھ جاتی ہوں۔اس لئے جب میں سوؤں تو تم ایسی ہو جانا جیسے گونگی ہو۔“لینڈ لیڈی بولتی رہیں بولتی رہیں۔وہ جس صوفے پہ بیٹھی تھی اسی پر اونگھنے لگی۔کوئی تین گھنٹے بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ اسی صوفے پہ آڑی ترچھی پڑی سو رہی تھی۔اس کی نظر چھت پہ لگ بڑے سے فانوس پہ گئی جو روشن تھا۔ لیکن اس کی نیند اے بھری آنکھیں اس فا نوس میں سے مختلف رنگ نکلتے دیکھ رہی تھیں۔وہ رنگ اڑ رہے تھے ۔

”کیا مجھے کسی ڈان نے اغوا کر لیا ہے ۔“چھت اور قدآدم کھڑکی کی قد آدم پردوں کو گھورتے اس نے سوچا۔

”میں یہاں ہوں.... کہاں ہوں.... میں؟“ وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھی ،سادھنا ،لینڈ لیڈی کی راکنگ چیئر کے پاس صوفے پر بیٹھی کہانی سنا رہی تھی۔اسے لگا وہ صرف پانچ منٹ ہی سوئی ہے۔”اور کیا ،کیا کہہ رہی تھیں آپ؟“ وہ آنکھیں ملنے لگی۔” تم ایسے ہی ہر جگہ لم لیٹ ہو جاتی ہو لڑکی؟“ لینڈ لیڈی ہنس کر بولیں۔ امرحہ لفظ لم لیٹ پر حیران ہوئی۔خالص دیسی لفظ تھا۔یقینا کوئی پاکستانی سکھا کر گیا تھاانہیں۔

” نہیں... جی... بس آج تھکی ہوئی تھی تو “

”جاؤ کھانا کھا لو کچن میں رکھا ہے“

” کھانا؟“ جیسے صدیوں بعد یہ لفظ سنا تھا. وہ جلدی سے کچن میں گئی اور سارے ویجی ٹیبل رائس اور چکن سوپ ہڑپ کر گئی. کافی بنائی اور مگ لے کر آ گئی لینڈ لیڈی اسے دیکھتی ہی رہ گئیں۔”کافی کس سے پوچھ کر بنائی تم نے ؟“ اوہ ! پھر غلطی کر دی اس نے“ وہ خاموش کھڑی دونوں خواتین کو دیکھتی رہی اور منہ لٹکا لیا۔شکل پر بیچارگی لے آئی۔”بیٹھ کر پی لو“ لینڈ لیڈی کے اعصاب کچھ ڈھیلے ہوئے۔ وہ بیٹھ کر پینے لگی برا نہ ماننا پر تم ایشیا والے بہت تنگ کرتے ہو ایک لمبا وقت تمہیں بنیادی اخلاقیات سکھانے میں لگ جاتا ہے اور تم لوگ کھاتے بھی بہت ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں پر تھوڑا اپنی عادات پر قابو پاؤ انہیں درست کرو. امرحہ خاموشی سے کافی پیتی رہی. تم جا کر سو جاؤ سادھنا اور تم امرحہ مجھے میرے کمرے میں لے چلو. وہ انہیں کمرے تک لے آئی. وہ ایک ٹانگ سے معذور تھیں. دائیں ٹانگ فالج زدہ تھی. دایاں ہاتھ بھی مشکل سے حرکت کرتا تھا. لیکن ٹانگ کی طرح مفلوج نہیں تھا. انہیں ان کے بیڈ پر لٹایا۔میرے بال بھی اتار دو. ”بال امرحہ کو لگا ان کے دماغ کے ساتھ بھی کچھ مسئلہ ہے“

” ہاں بھئی !آؤتو“ تو وہ قریب ہوئی اور بالوں پر ہاتھ رکھ کر کھینچا اور وگ اس کے ہاتھ میں آ گئی اور اندر سے بمشکل آدھ انچ لمبے بال نکلے۔

پھر وہ سوئچ بورڈ کی طرف آئی اگر اس نے ٹھیک سے گنے تو وہاں کم سے کم پچیس سے زیادہ بٹن تھے۔نائٹ بلب کا شیڈ پسند کرنے میں انھوں نے کافی زیادہ وقت لیا۔پھر ہلکے سرمئی کو انھوں نے اتوار کی رات کے لیے پسند کیا اور اسے جانے کے لیے کہا۔

” تم ساتھ والے کمرے میں سو جاؤ صبح اپنا سامان لے آنا۔“خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی۔ کیونکہ تین وقت کے کھانے کے ساتھ یہ جگہ اسے بہت ہی سستی پڑ رہی تھی۔”اور ہاں دوبارہ کچن میں نہ جانا۔“ لیکن وہ پہلے کچن میں گئی ایک کپ اور کافی بنائی اور اور ایک کپ کافی کی قیمت کچن کاؤنٹر پر رکھ دی اور کمرے میں آ کر سو گئی۔ درمیان میں اس کی آنکھ کھلی تو اسے اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ اس نے فورا شرلی کو فون کیا۔ میں پولیس کو کال کرنے ہی جا رہی تھی، تم نے ہمیں پریشان کر دیا۔وہ ابھی اتنی ذمےدار نہیں ہوئی تھی۔

*.......*........*

اگلے دن سامان لا کر اسے کمرے میں سیٹ کیا.پھر اس دن سنی ڈے تھا تو کارپٹ کو اٹھا کر دھوپ میں ڈالا.... کپڑے دھوئے، استری کئے، پھر انہیں لیڈی مہر کے وارڈروب میں لٹکایا۔سادھنا کے ساتھ مل کر کھانا بنایا اور پھر کیفے آ گئی۔ واپسی پر بک سٹور ہوتی گئی۔لیکن وہاں اردو کی کتابیں بہت کم تھیں جو تھیں وہ بہت ادبی تھیں زیادہ تر شاعری کی تھیں۔آگ کا دریا،خدا کی بستی‎،‎اداس نسلیں‎،‎من چلے کا سودا وغیرہ وغیرہ ایک تو وہ فی الحال اس طرح کی مہنگی کتابیں خرید نہیں سکتی تھی۔دوسرے اس عمر میں اپنے سر کے بال جھڑوانا نہیں چاہتی تھی۔وہ یہ سب کتابیں پڑھ چکی تھی لیکن پڑھ کر سنا نہیں سکتی تھی۔یہ ایک صبر آزما کام تھا اور اتنا زیادہ صبر اتنی سی عمر میں نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے ایک سادہ سی سستی سی کتاب چاہیے تھی۔ اس نے اپنی پاکستانی ہم جماعت سے بات کی تو اس نے اسے اپنی خالہ کی ایک کتاب لا دی "کھیل تماشا"اشفاق احمد کی ایک تو مفت میں کتاب مل گئی تھی دوسرا زیادہ موٹی نہیں تھی۔اپنی باری پر اس نے لیڈی مہر کو کھیل تماشا سنانا شروع کی وہ تو مزے سے سنتی رہی لیکن امرحہ کے دماغ کے کہیں اوپر سے الفاظ گزر گزر کر جاتے رہے وہ بلاشبہ اپنی طرز کی شاہکار کتاب تھی.لیکن امرحہ جیسے کندذہن اسے بیکار بنا رہے تھے لیڈی مہر اسے بار بار پیچھے لے جاتیں کئی کئی سطروں کو بار بار پڑھواتیں اتفاق سے اس نے ایک بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔کھیل تماشا کے سننے والے اور سنانے والے دونوں کا دل موہ لیا تھا۔تحت پور کے ماسٹرہالی اور ان پر مر مٹنے والی رجنی نے نشست گاہ میں جادو سا جگا دیا جیسے ایسے لگتا ہے جیسے ماسٹرہالی اپنی کلا رنٹ پہ آساکی وار ان کے سامنے بیٹھے ہی بجا رہے ہوں.اور رجنی عین ان کے سامنے داسی بنی بیٹھی ہو۔لیڈی مہر نہال ہو گئی بہت کمال کی شاندار سادھنا قدیم بنگالی اور بھوج پوری لوک کہانیاں سناتی تھی جو اس نے اپنے بنگالی باپ بھوج پوری ماں سے سنی تھیں.اور حیرت انگیز طور پر وہ کہانیاں اتنی تھیں کہ امرحہ کو لگتا سادھنا نے اپنی زندگی کے اتنے سال صرف کہانی سنتے ہی گزارے ہیں۔جب وہ رات کو کہانی شروع کرتی تو اس کی آواز میں سارے بنگال کا سحر سمٹ آتا۔ وہ کنگا جمنا کی طرح رواں دواں ہو جاتی ہلکورے کھاتی شفاف ہو ہو جاتی اکثر اس کی کہانیاں پرسوز ہوتیں لیکن وہ انہیں اتنی نرمی اور چاہت سے سناتی کہ لگتا ہی نا کہ ان کہانیوں میں سوز ہے۔ سادھنا بمشکل بتیس سال کی تھی اور اس کے آٹھ سالہ بیٹے کو ہڈیوں کا کینسر تھا۔سادھنا کی کہانی محبت سے شروع ہو کر امرجیت پر ختم ہوتی۔وہ پرسوز کہانی سناتے ہوئے بلکل آبدیدہ نہیں ہوتی بلکہ ایسے لگتا کہ اس کا آٹھ سالہ بیٹا اس کے سامنے کھڑا ہے اور اسے کہہ رہا ہے.جو دکھ پر روتا ہے وہ تو پھر انسان ہوا لیکن جو کم بختی پر روتا ہے وہ بھی کوئی انسان ہوتا ہے؟وہ بھی کوئی انسان بھلا

تو سادھنا کیونکر روتی،جب اس کا بیٹا ہی جواں حوصلہ ہے....ساری تکلیف سہ کر بھی اسے فون کرتاہے اور کہتا ہے۔میں جب تک زندہ رہوں گا....کبھی رو کر نہیں سوؤں گا....کبھی رو کر آنکھ نہیں کھولوں گا...ڈکٹروں کے سارے آوزار اور ان کی دوائیں.... اور میرے جسم کی ساری تکلیف بھی مل کرمجھے ہرا نہیں سکے گی۔میں نہیں روؤں گا ماں کبھی نہیں۔

تو ایسے بچےکی ماں کیسے روتی....وہ بات بات پر مسکراتی...ہنستی...اس کہ کہانیاں کیوں نہ ”امر جیت“ ہوتیں....اسکی آواز میں ایسا سحر کیوں نہ آتا جو تھپک تھپک کر سلا دیتا ہے۔دل پہ کیسا ہی بوجھ کیوں نہ ہو....اس کی کہانی کی پرستان لے ہی جاتی ہے۔سادھنا کی کہانی سنتے سنتے وہ نشست گاہ میں ہی سو جاتی جیسے کوئی وہ لوری سناتا ہو جو جنگ سے لوٹ آنے والا اپنے بچوں کو اور جنگ جیت جانے والااپنے کنبے کو سناتاہے وہی جواں مردی کے قصے اور شہیدوں کے لہو رنگ فسانے۔

اس دوران ایک چھوٹا سا واقع ہوا جو کافی بڑی صورت اختیار کر گیا۔اسےاور اس کےچند کلاس فیلو کو یونیورسٹی کے ایک دوسرے گروپ نے اپروچ کیا....وہ مانچسٹر میں اپنی نئی کلاسسز کے شروع ہونے کے سلسلے میں ایک پارٹی کا اہتمام کر رہے تھے۔....اور پارٹی کے انتظامات کے لیے انہوں نے یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کو ہی موقع دیاتھا۔تاکہ وہ چند گھنٹوں میں کچھ زیادہ پونڈ کما سکیں...اس کے کلاس فیلوز نے ہاں کہا تھا...اس نے بھی کہہ دیا...انہیں پارٹی کے سارے انتظامات دیکھنے تھے....ڈیکوریشن سے لے کرسرونگ تک....پارٹی ان میں سےکسی ایک سٹوڈنٹ کے گھر کے لان میں تھی اور جہاں یہ گھر تھا وہاں باقی گھرکافی دور دور تے

تھے۔جن کے آگے سڑکیں کھلی اور کشادہ تھیں۔ سرشام ہی ان سب نے پارٹی کے لیے ابتدائی سیٹنگ مکمل کر لی....باقی ان کا کام میزوں پر کھانے کی اشیا رکھنا تھا جو ذرا ہٹ کر الگ سے لگی تھیں۔انہیں ہر فرد کو الگ الگ نہیں پیش کرنا تھا۔

”تم شکل سے بہت زیادہ پاکستانی لگتی ہو“ایرک اور اس کے دوسرے دوست اسے تشویش سے ایسے دیکھنے لگے کہ اسے تشویش ہونے لگی۔وہ سب پارٹی کے انتظامات دیکھنے آئے تھے۔”میں ہوں بھی پاکستانی۔“وہ برا مان گئی”نہیں ہمارامطلب....وہ سب ذرا ڈرتے ہیں....ذرا سے کچھ زیادہ ہی ڈرتے ہیں۔“

”ڈرتے ہیں ....کون...؟“

”آج کی پارٹی میں آنے والے زیادہ تر اسٹوڈنٹس....“وہ کافی زیادہ گول مول سی باتیں کر رہا تھا۔”انہیں پاکستان فوبیا ہے کیا؟“

”نہیں....شاید ہاں....یہ اخبارات....ٹی وی...میڈیا دماغ خراب کر دیتے ہیں...جو کچھ اخبارات میں کہا جاتا ہے اس پر یقین کرلیتے ہیں....اور تم ہو بھی مسلم....پلیز ایسے برا نہ مانو....دھماکوں سے بہت ڈر لگتا ہے انہیں۔“

”دھماکوںسے ڈر لگتا ہے..میں مسلم ہوں...آخر کیا مطلب ان سب باتوں کا..مجھے بھی دھماکوں سے ڈر لگتا ہے ....لیکن میں نے تو تمہیں نہیں بتا رہی۔“وہ ایک نہ سمجھ سکی۔”دیکھا تم برا مان گئیں....تم غلط سمجھ رہی ہو...یہاں کون سا دھماکا ہونے جا رہا ہے...مطلب کچھ ہو گا ہی نہیں تو ڈرنا کیسا؟“

”کچھ ہونے کا خطرہ ہے یہاں...کوئی بلاسٹ؟تم مجھے ڈرا رہے ہو؟“

”میں تمہیں صرف بتارہا ہوں...ان میں سے زیادہ تر کے انکل اور فادرز پولیس میں ہیں....بس ایسے ہی بتا رہا ہوں....ایسے پریشان نہ ہو۔“

"امرحہ کا سر چکر انے لگا۔کیا کہ رہے ہو....کیاسمجھانا چاہ رہے ہو مجھے؟؟"

"ایسے ہی تم سے باتیں شیئر کر رہے ہیں"

ایسے باتیں شیئر کرتے ہیں.....تم سب مجھے شک سے گھور رہے ہو....تمہیں لگتا ہے میں یہاں دھماکا کروں گی...میں...کیا مذاق ہے یہ؟؟"

ایسی تو کوئی بات ہم نے نہیں کی...تم کیا سے کیا سوچ رہی ہو؟؟؟ 

ہاں سیدھے سیدھے یہ بات نہیں کی'پرجوکی' ہیں ان کا مطلب خوف ناک ہے."

"ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں'تمہارا تو ابھی سے رنگ اڑ، گیا ہے"

"ابھی سے مطلب...." اسکا رنگ واقعی اڑ' اڑ گیا تھا.

وہ گڑبڑا گئے تھے..."مطلب ہم تو صرف باتیں کر رہے ہیں ."

ایسی خطر ناک باتیں ہی کرتے ہو تم سب؟مجھے تمہاری باتیں پسند نہیں آ ئیں."

وہ اپنے کم میں لگ گئی اور اندر ہی اندر سہم بھی گئی..یعنی اگر ذرا سی بھی کوئی گڑ بڑ ہو گئی تو یہ لوگ صاف صاف اس پر الزام لگا دیں گے..پولیس اور پھر.....

لان میں ایک طرف اونچائی پر ڈی-جے کا انتظام کیا گیا تھاجیسے کلب میں ہوتا ہے...اندھیراگہراہوا تو ٹوئسٹ لائٹس نے اور twist بڑھا دیا...انہوں نے ڈی-جے ساؤنڈ چیک کیا جو خطر ناک حد تک تیز تھا.نیلی'پیلی'ہری'لال ٹوئسٹ لائٹس حرکت کرنے لگیں.سب آنے لگے....انہوں نے میزوں پر پہلے سے ہی سوفٹ ڈرنکس رکھ دیں تھیں۔دوگھنٹےبعد انہیں کھانے کی چیزیں رکھنی تھیں۔

ایک گھنٹہ گزر گیا...دوسرا بھی گزر گیا....ان سب نے مل کر میزوں پر کھانے کی اشیا رکھ دیں..ڈی-جے نسبتاہلکی آواز میں میوزک کے ساتھ تجربات رہا ...جو امرحہ کو کافی پسند آئے...وہ گلاسوں کی ٹرے رکھنےجا رہی تھی کہ ایرک نے اسے آواز دی....وہ اس کے قریب جا ہی رہی تھی کہ ایک زوردار دہشت ناک دھماکہ ہوا۔اتنا زور دارکہ کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہو گئے... امرحہ بری طرح لڑھک کر گری... اسی دھماکے کے ساتھ شیشے ٹوٹنے کی آوازیں اور کچھ انسانی چیخوں کی آوازیں بھی آئیں۔ پورے ایک منٹ تک سناٹا رہا۔ امرحہ زندگی میں کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی جتنی اس دھماکے سے ہو گئی تھی۔وہ بمشکل اٹھی اور اس پاس نظر دوڑانے لگی کی کوشش....دوسرے لوگ بھی کچھ اٹھ چکے تھے کچھ اٹھ رہے تھے۔یہ ایک خوف ناک منظر تھا اس لیے نہیں کہ وہاں دھماکہ ہوا تھا۔بلکہ اس لیے کہ سب اسے گھور رہے تھے۔ اس نے جینز پر لمبی قمیص پہن رکھی تھی اور ایرک نے ہی کہا تھا کہ سر ڈھانپ کے کام کرنا ہے تو اس نے اسکارف کو سر پر اچھی طرح سے اوڑھ لیا تھا۔ امرحہ کو پہلے یہ صرف اپنا وہم لگا کہ سب ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے ہیں پھر اس نے ذرا گردن گھمائی تو وہم لگنے والا خیال سو فیصدخوف میں بدل گیا وہ سب اپنی اپنی جگہ پر جمے اسے ہی دیکھ رہے تھے.... گھور رہے تھے۔ان میں سے ایک نے کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ انگلی اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا یو یو ڈڈدز (تم نے کیا ہے یہ ) اتنی سی بات سے کسی نے اس کے سر پر دوسرا دھماکہ کیا لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کے ذہن میں نائن الیون٬لندن ٹربن دھماکے٬اخبارات٬ ٹی وی چینلز کی سب خبریں...ڈاکومنٹرز....گڈمڈ ہو کر چکرانے لگیں....دہشت گرد...یوڈٹ دز..دہشت گرد....یو.....یو....اس کا سر چکرانے لگا.....دہشت اس کے چہرے پر نظر آنے لگی۔”میں....مجھے نہیں معلوم....“وہ اٹک اٹک کر ہونٹ ہلانے لگی۔آواز اس کے ہونٹوں سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ ساری زندگی بول ہی نہیں سکے گی اور ٹھیک اسی دوران ایک اور دھماکہ ہوا.... ویسا ہی زوردار... ان سب نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں.....وہاں موجود ساری چیزیں گریں..... شیشے کے چھوٹے ٹکڑوں کی ایک بھوچھاڑ آندھی کی طرح آئی۔ پیچھے کھڑے بہت سے لڑکے لڑکیاں گر گئے اور کراہنے لگے۔ اس طرف کافی اندھیرا تھا.... لیکن ان کی چیخیں اور کراہیں سنی جا سکتی تھیں۔اس بار امرحہ گری نہیں کھڑی رہی اور کافی دہشت ناک انداز لیے کھڑی رہی..... ایک دم سے فضا میں پولیس سائرن اور فائربریگیڈ سائرن کی آوازیں گونجیں۔ پیچھے کہیں سے زوردار آگ کے بھڑک اٹھنے کی آواز یں بھی آرہی تھیں۔ اس نے ایک بم اپنے ساتھ بھی باندھ رکھا ہے. کسی نے چلا کر اس کی طرف انگلی اٹھا کر کہا. سب سہم کر دور دور ہونے لگے. اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ...یہ سب ایسے ہی ہو رہا ہے جیسے اسے نظر آ رہا ہے۔ پولیس سائرن کی آواز قریب آتی جارہی تھی۔ اس کی نخوست کہ مانچسٹر میں ایک سٹوڈنٹ پارٹی میں دھماکے ہو گئے... اور اس جگہ امرحہ موجود تھی..... کھڑے کھڑے اس نے کل کے اخبارات میں اپنی تصویر دیکھ لی ... ٹی وی رلورٹنگ کا اندازہ لگا لیا... عدالت میں خود پر کیس چلتا دیکھ لیا....اس کے حق میں چند ہزار مسلم ریلی نکال رہے ہیں۔ پھر اور عدالت اپنا فیصلہ سنا رہی ہے اس کے گھر والے اسے لعنت ملامت کر رہے ہیں.... اور وہ معصوم ہوتے ہوئے بھی اسے یورپین میڈیا دہشت گرد ثابت کر رہا ہے۔ اس کی پڑھائی کا کیا ہو گا۔ اس کا کیا ہو گا۔وہ تو مر جائے گی اور ٹھیک اسی دوران ایک اور دھماکہ ہوا اور وہ حلق کے بل چلانے لگی... پاگلوں کی طرح.... 

”میں نے کچھ نہیں کیا...کچھ نہیں کیا۔“ایک سیکنڈ میں وہ یہ بات بیس بارکہہ گئی٬ساتھ چلاتی رہی... چار پانچ سو سٹوڈنٹ کا گروپ ادھر ادھر اسے دیکھتا رہا۔” سن رہے ہو تم میں نے کچھ نہیں کیا ۔“وہ پوری قوت سے چلائی.... ساری ہمت جمع کر کے... پورا زور لگا کر... وہ ویسے ہی کھڑے رہے جیسے کوئی سٹیج شو کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں۔ تم تمہارا میڈیا تمہارے ٹی وی چینلز اخبارات جھوٹ بولتے ہیں. پاگل ہو تم سب ،پاگل بناتے ہو دنیا ....کو ہم دہشت گرد ہیں یا تم.... ہم نہیں تم ہو... تم نے دنیا میں فرسٹریشن کو بڑھایا ہے... تم ہو خرابی کی جڑ... اتنی بیوقوف نہیں ہوں میں کہ تم مجھ پر الزام لگا کر مجھے اندر کروا دو.... میں تم سب کو مار ڈالوں گی۔ دہشت گرد نہیں ہوں میں.... نہیں ہوں“ پھر ایک دم سبزے پر بیٹھ کر وہ اونچی اونچی آواز میں رونے لگی. اور اونچی اور اونچی پولیس اور فائربریگیڈ سائرن بند ہو گئے۔ پارٹی میں صرف اس کے رونے کی آواز آ رہی تھی. وہ سب جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے رگئے۔ اب وہ ایسے کھڑے تھے جیسے ہارر مووی دیکھ رہے تھے۔ یہ سب تمہارے ساتھ پریکٹیکل جوک( عملی مذاق) کر رہے تھے۔ آواز کچھ جانی پہچانی تھی اس نے جھٹکے سے گردن اٹھا کر آواز کی سمت دیکھا. اس سے ذرا سا دور اندھیرے میں ایک کرسی پر عالیان بیٹھا کاک ٹیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا. اس نے یہ بات اتنے سکون سے کی جیسے وہ خاموشی سے بیٹھا اوپرا دیکھتا رہاہو۔

پریکٹیکل جوک وہ کئی لحظے سناٹے ...میں ہی رہی پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس حد تک کوئی عملی مذاق بھی کیا جا سکتا ہے۔

تیسرے دھماکے کے بعد انہوں نے تمہیں خود ہے بتا دینا تھ۔ا یہ سینئرز ہیں اور جونیئرز کے....

” شٹ اپ..“ اس نے دھاڑ کر انگلی اٹھا کر عالیان سے کہا۔ پھر وہی انگلی لہرا کر اس نے وہی شٹ اپ پوری قوت سے چلا کر ان سب سے کہا۔. تم لوگ ....انگریز... گورے ....دنیا پر حکمرانی کرنے والے....جو جی میں آئے کرنے والے..... ہمیں غلام سمجھ رکھا ہے۔ جب جی میں آیا مزاق بنا لیا ہمارا۔جب جی میں آیا غلام بنا لیا۔کیا سمجھ رکھا ہے ہمیں۔پہلے ہمارے ملک میں آئے۔ہم پر راج کیا۔ہماری تزلیل کرتے رہے اور اب ہمیں دہشت گرد بنا رہے ہو۔ ہم سے حسد کرتے ہو کہ ہم زندگی میں آگے نہ نکل جائیں۔تم سب سے آگے نہ نکل جائیں"گالی اور گنتی کیلیے ہر انسان اپنی مادری زبان استعمال کرتا ہے کی مصداق وہ روانی سے چیخ چلا کر اردو میں ان پر برس رہی تھی۔عالیان ساتھ ساتھ انگریزی میں ترجمہ کرتا جا رہا تھا۔

"تم انگریز۔۔گورے۔۔ہمارے ملک میں آئے۔ ہم نے تمہاری میزبانی کی۔تمہیں بادشاہ بنایا۔جاتے ہوئے تمہیں کوہ نور تحفے میں دیا" عالیان اپنی مرضی کا ترجمہ کر رہا تھا۔ اسے اور بھڑکا رہا تھا۔ امرحہ کے پاس عالیان سے نپٹنے کا وقت نہیں تھا۔

"تم لوگ خود کو سمجھتے کیا ہو؟ کیا سمجھتے تم خود کو ہاں؟ بہت بڑی توپ قوم ہو تم؟ نیک۔شریف۔پڑھے لکھے۔ اور ہم جاہل۔۔۔گنوار۔۔۔دہشت گرد۔۔ مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔ تم اور تمہاری گندی سیاست نے مل کر اسے دہشت گرد بنا دیا ہے۔۔ ایک نومولود بچہ بھی دہشتگرد ہے۔اگر وہ مسلمان ہے تو؟"

امرحہ کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔اسکے اس جلال کے عالم میں کسی میں بھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ بول سکے۔ یا اسکے قریب آسکے۔ عالیان خاموش ہو گیا۔اسنے کوئی ترجمہ نہ کیا۔

"ٹرانسلیشن پلیز" کسی کونے سے آواز آئی۔

"جوک کرنے کیلیے تمہیں یہی جوک ملا؟ خود تم نے گوانتاموبے میں کیا کیا؟ "

"وہ امریکی تھے" عالیان بولا

"وہ ظالم تھے۔ ظالم کسی قوم سے نہیں ہوتا۔۔ اور یہ سب بھی ظالم ہیں" اسنے ہاتھ لہرا کر کہا

آنسوؤں کا دریا اسکی آنکھوں میں بہنے لگا۔

"ٹرانسلیشن پلیز" آواز پھر آئی۔ امرحہ نے ایک قہر آلود نظر سب پر ڈالی اور اس بار انگلش میں بولی۔

"اس مذاق سے اگر میرا ہارٹ فیل ہو جاتا۔۔ اگر میں مر جاتی۔۔۔ اتنا گھٹیا مزاق۔۔ تم لوگ اتنے ظالم ہو کہ مزاق بھی اتنا ظالمانہ سوچا۔ تف ہے تم پر۔۔ کتنے چھوٹے ہو تم سب۔۔ اتنی بڑی یونیورسٹی میں پڑھتے اور یہ سب سیکھتے ہو۔۔گندے ہو تم ۔۔۔ جاہل۔۔تم نے میری بے عزتی کی ہے۔ مر جاؤ سب کے سب تم۔ اتنے پونڈز تم نے دھماکوں پر لگا دیے اگر وہی پونڈز تم۔۔۔"

"کوئی پونڈ نہیں لگا۔۔۔ وہ تو ایسے ہوئےہیں" ڈی جے بٹن دبایا اور ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ یعنی وہ ساؤنڈ چھوڑ رہا تھا۔ اللہ انہیں نظرِبد سے بچائے کس قدر ٹیلنٹڈ تھے۔

"وہ سب جو شیشے کی کرچیاں اڑ کر آئی تھیں۔۔ وہ ہارڈ کرسٹل شیٹ کی تھیں" امرحہ نے شدید غصے میں اپنے قریب ہی گرا ہوا ایک گلاس اٹھا کر اوپر ڈی جے کی طرف اچھالا۔

"انگلیاں ٹوٹ جائیں تمہاری۔بہرے ہو جاؤ تم"

"ریلیکس۔۔۔۔ کافی ہوگیا۔۔چلو اب بس کرو" عالیان نے نرمی سے کہا۔۔اسے اور غصہ آیا۔۔

"بکواس بند رکھو اپنی" اسکی آواز ڈی جے کے کیے دھماکےسے زیادہ دھماکاانگیز تھی اس بار۔

اس نے ایک بار پھر سب پر نگاہ ڈالی۔۔ بے عزتی کے احساس سے اسکا سارا وجود جھلسنے لگا۔اور جیسا کی یہاں آنے سے پہلے وہ دھاڑیں مار مار کر روتی رہی تھی۔۔تو سب ہی دھاڑیں اسکے اندر پھر سے جاگ اٹھیں۔وہ گھاس پر بیٹھ کر گھٹنوں میں منہ چھپا کر ان سب دھاڑوں کو آواز لگا کر رونے لگی۔۔ سب نے دور سے ہی اس کے اردگرد گھیرا بنا لیا۔۔کسی میں اب اتنی جرأت نہیں تھی کہ شیرنی بنی امرحہ کے پاس آئے اور اسے چپ کروائے۔ عملی مزاق تھا اور کچھ زیادہ ہی عملی ہو گیا تھا۔

***********

اب وہ رو رہی تھی اور وہ سب شرمندہ شرمندہ اسے سن رہے تھے۔ عالیان اٹھا اور چل کر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا

"مزاق کچھ زیادہ ہی ہو گیا نا_ ان کی غلطی ہے۔ انہیں معاف کر دو" وہ بدستور ہچکیاں لیتی رہی 

"پلیز... انہیں معاف کر دو ...پلیز..."

اس نے سالوں تڑپ تڑپ کر، چھپ چھپ کر روتی رہی آنکھوں کو اٹھا کر عالیان کو دیکھا۔ عالیان وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں دو آنکھوں میں اتنی تڑپ، تکلیف،دکھ اور غصہ سمٹا ہوا نہیں دیکھا تھا-اس نے سیاہ مشرقی آنکھیں دیکھی تھی۔ ان مشرقی آنکھوں میں طیش و شکوے کے ایسے بادل نہیں دیکھے تھے۔ وہ اسے شکایت سے دیکھ رہی تھی کہ اردو بولنے والا نام سے مسلمان لگنے والا وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھا

عالیان چپ کا چپ ہی رہ گیا۔ اس کی بھوری آنکھوں نے اس دے بھرپور شکایت کی۔ اسے انہیں ان دو سیاہ آنکھوں کے اتنا قریب نہیں لے جانا چاہئیے تھا۔ اب اگر وہ ایسا کر چکا تھا تو اس کا انجام اسے ہی بھگتنا تھا۔۔۔۔ اکیلے۔۔

عشق مجازی کا اگر کوئی لاڈ کا نام ہوتا تو ہو محبوب کی آنکھ کا طیش ہوتا اور اگر روتی ہوئی اندھیری آنکھوں کا کوئی لاڈ کا نام ہوتا تو وہ امرحہ ہوتا۔

عالیان کو یہ یاد کرنے میں دقت ہوئی کہ وہ کہاں بیٹھا ہے۔اس سے بھی زیادہ دشواری اسے اپنی آنکھوں کو آنسوءں کےپانیوں میں غرق ان آنکھوں سے ہٹانے میں ہو ئی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھرا ہوا اور دو قدم پیچھے کو چلا اور پھر سے بھاگ پڑنے جیسے انداز میں اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ماسٹر بالی کلارنٹ پر بسنت رنگ بجا رہے تھے۔

اگلے دن وہ سب باری باری گھر آتے رہے اور دروازے کے پاس پھول رکھتے گئے۔ رات اس نے ان کا سوری قبول نہیں کیا تھا۔۔

ڈر کے مارے وہ اندر نہیں آ رہے تھے۔وہ کھڑکی میں بیٹھی سب کا تماشہ دیکھتی رہی۔سب سے بڑا گلدستہ ایرک کی طرف سے تھا،یہ وہی تھا جس نے امرحہ کا انتخاب کیا تھا۔اس ڈرامے کیلیے۔ پھر اسے ایک لمبا چاڑٹ ملا جس پر ان سب کے دستخط تھے اور چارٹ پر ایک طرف روتا ہوا موٹے موٹے آنسو والا سوری لکھا تھا۔چارٹ کے ساتھ ہی وہ ویڈیو بھی بھیجی گئی تھی جو کل رات بنائی گئی تھی۔اسنے وہ ویڈیو دیکھی اور اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔واقعی۔۔۔وہ ایک مکمل عملی مزاق تھا۔ان سب کے تاثرات کمال کے تھےاسنے وہ ویڈیو لیڈی مہر اوع سادھنا کو بھی دکھائی۔۔وہ لوٹ پوٹ ہوتی ہوئی باربار ویڈیو چلا کر دیکھتی رہیں۔

بعد میں اسے معلوم ہوا کہ کام کرنے کیلیے جتنے بھی لوگوں کا گروپ وہاں موجود تھا۔ان سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ کچھ کیا جانا تھا۔ وہاں موجود سب ہی اسٹوڈنٹس مانچسٹر یونیورسٹی میں پچھلے چار سال سے پڑھ رہے تھے اور یہ ایک روایت ہی تھی کہ وہ ہر سال کچھ نہ کچھ کرتے لیکن امرحہ کے ساتھ مزاق کچھ زیادہ ہی سیریس ہو گیا۔۔

----

اس واقعے سے اتنا ہوا کہ وہ یونیورسٹی میں کافی مقبول ہو گئی۔اسکے کافی سے زیادہ سٹوڈنٹس دوست بن گئے تھے۔جو اسے دیکھ لیتا رک کر اسکا حال احوال ضرور پوچھتا۔۔۔اسے کافی۔۔لنچ کیلیے بلاتے۔۔کوئی نہ کوئی اسکی مدد کیلیے تیار رہت۔۔ جو اسٹوڈنٹس مانچسٹر کے ہی رہنے والے تھے وہ اسے اپنے گھر شام کی چائے یا ویک انڈ پر ڈنر پر مدعو کرتے ۔۔اسکے رونے دھونے کا ان سب فنکاروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ اسے ننھی منی بچی کی طرح ٹریٹ کرتے کہ بےبی چاکلیٹ کھا لو۔۔۔آئسکریم کھالو۔۔۔اچھا یہ لو باربی۔۔چلو دو لے لو۔۔۔بس رونا نہیں۔۔

ایک وسیع حلقہ اسے جاننے لگا تھا۔وہ جس سے چاہتی پڑھنے میں مدد لے لیتی۔۔ اسی دوران شٹل کاک میں ایک روسی ویرا اور ایک جاپانی این اون (en eun)آ گئی جاپانی تو بہت خاموش طبع تھی. سال میں ایک بار بولنے والوں جیسی تھی. اس نے لیڈی مہر کو کہانی سنانی پر لیڈی مہر نے اسے خود ہی روک دیا کہ وہ بس چپ چاپ گھر میں رہتی رہے. البتہ ویرا نے اپنے شیر سوچی میں ہونے والی بائیسویں سرمائی اولیکس کی وہ وہ کہانیاں سنائی کہ خود امرحہ کا جی چاہا کہ کاش وہ کوئی ایتھلیٹ ہوتی. کاش فارغ اوقات میں ویرا مانچسٹر کی سڑکوں پر دیتی. اس کا قد چھ فٹ دو انچ تھا. بال کمر سے بہت نیچے تک لمبے تھے یا سکائکلینگ کرتی یا سیکٹنگ جب وہ یہ دونوں کرتی تو لگتا کہ کوئی پری بنا پروں کے سڑک پر نیچی پرواز پر اڑ رہی ہے. اس کے بال جو اونچی پونی کی صورت میں بندھے لہراتے اڑتے. ایک بار ویرا نے اسے اسلیٹگ شوز پہنا دیے اور امرحہ منہ کے بل سڑک پر گری ناک کی ہڈی اتنی بچ گئی کہ سرجری کی ضروت نہ رہی باقی ساری کسر پوری ہو گئی امرحہ کا بس کا کرایہ بھی بجا وہ ویرا کے ساتھ ہی اس کی سائیکل پر بیٹھ کر یونیورسٹی چلی جاتی. لیکن ویرا کے ساتھ سائیکل پر بیٹھنا بھی اتنا مشکل تھا جتنا رولر کوسٹر پر بیٹھنا دل گردے کا کام تھا.کرایہ بچانے کے لیے وہ اپنے دل گردے روز مظبوط کرتی وہ سائیکل پر ہزار ہزار کرتب دکھاتی ہوئی جاتی ویرا کچھ اخبارات کے لیے کالم لکھتی تھی. اس لیے اسے نوکری کرنے کی ضرورت نہیں تھی. اس نے شٹل کاک ہاؤس میں چھوٹے موٹے مرمت کے کام آسانی سے کر دیے. جس کی لیڈی مہر نے اجرت بھی دی. اس کا سر نہ میں ہلاتے امرحہ نے کم ہی دیکھا تھا. اسے جیسے سب ہی کام کرنے آتے تھے. ڈیرک کی مدد سے اسے جوتوں کے ایک اسٹور میں کام مل گیا اس کا کام بل بنانا تھا بس کافی آرام دہ کام تھا اور اس کی ہفتہ وار تنخواہ بھی اچھی تھی. ہفتے میں ایک بار وہ کیفے ضرور جاتی اور اپنے سابقہ باس سے کافی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کر کے آتی. اب تو دادی اور اماں بھی اس سے بات کرتے آبدیدہ ہو جاتیں تھیں. اسے حیرت ہوئی اس نے پہلی بار دادی کو اپنے آنسو صاف کرتے دیکھا. حماد اور علی اسے کافی تمیز سے مخاطب کرتے.دانیہ اسے خاندان میں ہونے والی تقریبات کی ویڈیوز بھیجتی رہتی تھی اسے تو کوئی دلچسپی نہیں تھی. البتہ سادھنا،لیڈی مہر،ویرا کافی شوق سے ان ویڈیوز کو دیکھتی تھیں.

ویسے تو موسم ابرآلود رہتا ہی تھا اور ہلکی پھلکی بارش ہو جاتی تھی لیکن اس دن ہلکی لیکن مسلسل بارش ہو رہی تھی. ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی. ویرا کو کسی اخبار کے دفتر جانا تھا.اس لیے وہ اکیلی ہی آکسفورڈ سڑک پر واک کرتی سست روی سے چلتی رہی. اسے قطعا جانے کی جلدی نہیں تھی. وہ موسم سے لطف اندوز ہو رہی تھی. گیلی گیلی عمارتیں نم نم منظر اسے اچھا لگ رہا تھا بھلے وہاں کے مقابل اس موسم سے عاجز آ چکے ہوں پر غیر ملکی خاص کر گرم ملکوں کے باشندوں کی جان تھی اس موسم میں اس نے گہرے گلابی رنگ کے ویرا کے اسٹول کو گردن میں دو بل دے رکھے تھے. انہیں کھول کر اس نے سر پر اوڑھ لیا. پھر اس نے واپس گردن میں بل ہی دے دیے. بارش کی ہلکی پھوار سر پر پڑتی اچھی لگ رہی تھی. ایک دم سے پیچھے سے ایک نیلی چھتری جس پر گل لالہ کے پھول بکھرے تھے. اس کے سر کے اوپر تن گئی. اس نے سر اٹھا کر دیکھا پھر چھتری پکڑے ہاتھ کو وہاں عالیان کھڑا تھا.‏‎تمہیں اپنی ٹوئیٹ نہیں چاہیے؟ آج میں تمہیں برگر تو۷ کھلا سکتا ہوں اور کافی بھی. اتنی پرانی بات اب نہیں چاہیے. کیوں اب کیوں نہیں چاہیے؟ چھتدی بدستور وہ اس کے اوپر رکھے ہوا تھا. خود وہ بھیگ رہا تھا. تم سے نہیں چاہیے تم بہت بدتمیز ہو

میں نے تم سے کیا بدتمیزی کی؟‎ ‎

”کب نہیں کی....ویسے تم مجھ سے اتنی نرمی سے کیوں بات کر رہے ہو؟“

مجھے خود نہیں پتا چل رہا....میرا دماغ کھسکتا ہی جا رہا ہے“

”علاج کےلیے پیسے نہیں ہے تمہارے پاس؟ ایسا کرو،علاج کی بھی ٹوئیٹ لے لو“

”علاج تو میں کروا لوں....لیکن اس بیماری کا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے“

”ایک یونیورسٹی سٹو ڈنٹ کے ساتھ تم ایسی اونگی بونگی باتیں کیسے کرسکتےہو؟“

”اور یہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس بھی تو سب اونگا بونگا کرتی ہے“

”سب کیا؟“

”سب مطلب سب....“وہ ہلکے سے مسکرایا اور یہ کرتے وہ ایسالگا کہ امرحہ نے سوچا۔

”کیااس نے خدا سےالگ سے اپائمنٹنٹ لی تھی۔“

امرحہ نے ایک چاکلیٹ نکل کر اسے دی ”کھاؤ،تمہاری کیلوریز تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔“

”تمہیں ڈرپ کردوں۔“وہ چاکلیٹ لے کر کھانےلگا۔

”تمہارے پاس گاڑی ہے؟“

”نہ...سائیکل....؟

”میں ویرا کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں بیٹھتی۔“

”میں گراؤں گا نہیں۔“

”پرمیں تمہیں ضرور گرا دوں گی....بھاگ جاؤ، میرا سر نہ کھاؤ۔“

یہ کیا طریقہ ہے بات کرنےکا ۔“

”خاص تمہارے لیے ۔“

”میرے لیے کچھ خاص....واؤ....ٹھیک ہے...تم نے سینما دیکھے ہے ہیں یہاں کے؟“اس کے بھورے سر پر بارش کے قطرے لکن میٹی کھیل رہے تھے۔

“ ہاں ! ویرا کے ساتھ گئی تھی۔“

”اس نے یقیناً تمہیں ہنگر گیمز دکھائی ہو گی۔اس کا ماننا ہے کہ وہ جینیفر سے مشابہہ ہے۔“

”لیکن وہ جینیفر سے زیادہ خوبصورت ہے۔“

”میں تمہاری کلاس فیلو جینیفر کی بات نہیں کر رہا۔ویسے میں تمہیں ایک اچھی انڈین مووی دیکھا دکھا سکتا ہوں۔“

”میں انڈین موویز نہیں دیکھتی۔“

”پاکستانی؟“

”وہ تین،چار ہی ہیں میں پاکستان سے دیکھ کر آئی ہوں۔“

”بنگالی؟“

”مجھے بنگالی نہیں آتی۔“

”ایرانی....افغانی،تاجکستانی،ترکمانی،عراقی،مصری اور ہاں اینی میٹڈ۔کیا تم نے کبھی سینما میں Animated فلم دیکھی ہے؟“

”نہیں“

”کیا تم نے Ratatouille دیکھی ہے؟دیکھو اگر تم نے اتنی عظیم فلم نہیں دیکھی تو میں تمہیں پہلےاس کہانی سنا سکتا ہوں۔دیکھنا خو تمہارا دل چاہے گا کہ تم یہ فلم دیکھو...یہ ایک قابل ذکر چوہے اور اس کے محسن کی کہانی ہے۔چوہا جس کے ہاتھ میں کمال کا ذئقہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے شیف سے زیادہ اچھا اور لذیذ کھانا بنا سکتا ہے۔ایسا کھانا جس کی کھانے والے کو نظیر نہیں ملتی اور ایسی ترکیب اور سلیقے سے ....“

”چوہا شیف ہوتا ہے ؟مطلب جو کھانا بناتا ہے؟“

”ہاں....تم غلط سمجھ رہی ہو....وہ کھانابنانے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہے....اس کے ہاتھ صاف ہوتے ہیں....بلکل تمہاری طرح....“

”چوہا اور کھانا....آخ...خ...خ“امرحہ نے سر کو زور زور سے جھٹکا۔”آخ..خ..خ..چوہا...اور میرے ہاتھوں جیسے صاف ہاتھ...“عالیان نے چھاتے کو بند کیا۔اس کا ہاتھ تھک چکا تھااور چلتے چلتے وہ رک گیا اور اسے بھی روک لیا،اب بارش کے قطرے دونوں کے بالوں میں لک چھپ جارہے تھے

”پھر کرنا۔“

”کیا....؟“

”یہ جو ابھی کیا تھا۔“

”کیا کیا تھا؟“

”وہی جو چوہے کے نام پر کیا تھا۔“

”آخ....خ“امرحہ کو پھر سے چوہے کا خیال آگیا۔

”ایک بار پھر کرنا...یہی...یہی...پلیز۔“

”تم پاگل ہو،کیا کہہ رہے ہو۔“

”جب تم یہ آخ کرتی ہو تو تمہاری بھنویں اور آنکھیں بچکانہ سا رقص کرتی ہیں...اور تمہاری ناک...یہ دائیں بائیں لہرا کر اکساتی ہے کہ اسے پکڑ کر اس پر چٹکی بھری جائے۔“

”تم میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔“امرحہ کو لگا،وہ اس کی ناک کی چٹکی بھر لے گا۔

”اچھا تمہارا وقت بھی اب قیمتی ہو گیا؟اچھا چلو پھر فلم کے لیے پکا؟“

”اگر ویرا جانے کے لیے تیار ہو گئی؟“

”ویرا؟“

”ہاں دادا نے کہا ہے،ہر جگہ اسے ساتھ لے کر جاؤں۔“

”دادا جی کو یہاں ساتھ لے آتیں وہ پھر بھی اچھا تھا۔“

”تم میرے دادا کامذاق اُڑا رہے ہو؟“

”چلو ویرا کوبھی لے آنا۔“

-

اور وہ ویرا کو بھی لے گئی۔ویرا توجاتے ہی سو گئی....کیونکہ اسے خالص ایکشن فلمیں پسندتھیں جن میں ہر دو منٹ بعد ایک بم بلاسٹ ہو اور کم سے کم دوآدمی مر جائیں.....اور ہیرو بس بڑی بڑی عمارتیں پھلانگتا رہے....اور کسی زمین پہ کھڑا ہو بھی جائیں تو چار اطراف فائر کھول دے۔جب چوہے نے پہلی بار کھانا پکانا شروع کیاتو اس نےمنہ ہی منہ میں کتنی ہی بار ...آخ..خ....کیا ۔پھر آہستہ آہستہ وہ دلچسپی سے فلم دیکھنے لگی...اور فلم کے اختتام پر اس نے تالیاں بجائیں۔اس نے اس قسم کی فلم پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ہیرہ،ہیروئن کے لمبے جھمیلوں سے ہٹ کر....ایسی شان دار فلم....کمال ہو گیا۔جب وہ ویرا کی سائیکل پر بیٹھ رہی تھی گھر جانے کے لیے تو عالیان نے بہت آہستگی سے اس سے فر مائش کی۔”ایک بار کہہ دو...آخ...خ.. “وہ قہقہہ لگا کر ویرا کو مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ گئی۔وہ وہیں کھڑا اسے جاتےہوئے دیکھتا رہا۔کچھ لوگوں کاآنا جتنی خوشی دیتا ہےان لوگوں کا جانا اتنی ہی تکلیف دیتا ہے۔ وہ اس وقت ننھی منی سی اسی تکلیف سے گزر رہا تھا۔وہ عالیان مارگریٹ جو جب سیٹی بجاتا...دونوں ٹانگوں کو ہوا میں اچھال کر ان کی تالی بجاتا جاتا ہے تو کم سے کم پچاس لوگ اسے مڑ کردیکھنا ضرور پسند کرتے ہیں۔اگر وہ غصے سے بھی کسی کو دیکھتا ہے تو بھی اس پر پیار ہی آتا ہے۔

---

لیڈی مہر شادی کی دس تک بےاولاد رہیں...پھر جب دونوں نے بچہ گود لینے کا سوچا توان کے شوہر احمد حسین کا کار کے حادثے میں انتقال ہو گیا۔احمدحسین دل کےسرجن ڈاکٹر تھے۔وہ ایک کامیاب تھے اور ایسے کامیاب نرم خو انسان کے چلے جانے کے بعد ان کی بیوی اتنی کامیاب سےزندگی نہ گزار سکیں۔پہلے فالج سے ان کا آدھا حصہ مفلوج ہوا۔وہ دو سال پرائیویٹ ہسپتال میں رہیں....میکے کے نام پر ان کے خاندان صرف ایک باپ تھے جو ان کی دو سالہ بیماری کے دوران چل بسے....احمد حسین کے تین بھائی تھے۔لیکن وہ اس صورت مہر سے ملنا چاہتے تھے اگر وہ احمد حسین کی جائیداد ان کے نام کر دیتیں....ایک گھر اور میڈیسن کمپنی کےشئیرز....مہر بچہ گود لینا چاہتی تھیں۔اب وہ بھی نہیں لے سکتی تھیں۔ان کی حالت ہی ایسی نہیں تھی۔وہ اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتی تھیں بچے کو کیسے...اور اس میں انہیں کوئی بھی ادارہ بچہ نہ دیتا۔تو انہوں نے بچوں کو ان اداروں میں رکھ کر ہی پالنا شروع کر دیا۔ایک ادارہ تھا” اُور کڈز“(ہمارے بچے) جو بچہ پالنے کے خواہش مند افراد کو ایک بچے سے ملا دیتے اور پھر اس کے اخراجات کے پیسے لیتے رہتے اور اسے اپنے پاس رکھ کر ہی اس کی تعلیم و تربیت کرتے....مہر نے یہاں ایک نہیں پورے دس بچوں کو لے کر پالا....وہ کمپنی سے ملنے والے منافع سے اپنے اخراجات کے لیے نکال کر باقی سب ادارے کو دے دیتیں۔بچے مہینے میں ایک بار ان سے آکر مل جاتے۔ ایک پورادن ان کے پاس گزار کر جاتے۔مہر کو ماما کہتے....

یہ مختلف قوم و نسل سے تعلق رکھنے والے بچےتھے اور سب مہرکو پیارے تھے کرسمس نیا سال وہ مہر کے ساتھ گزارتے۔ان میں سے ایک مسلمان تھا وہ اپنی عید مہرکے گھر آ کر کرتا۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے وہ مہر کے پاس رات بھی رکھنے لگے وہ سب نہ صرف اپنے کام خود کرتے بلکہ مہر کے بھی کہی کام کر دیتے۔مہر مہینے کے اس ایک دن اور رات کا انتظار کرتی جب وہ سب اس کے پاس ہوتے یہی بچے بالغ ہوتے ہی اپنے پیروں پہ کھڑے ہوتے مختلف ،شہروں ،ملکوں اور یونیورسٹیوں کی طرف بڑھتے گئے۔کچھ شادی کر چکے تھےکچھ نوکری کرتھے کچھ ابھی بھی پڑھ رہے تھے۔یہ سب دینا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی حالت میں ہوتے مہر کو فون کرنا نہیں بھولتے تھے۔لیڈی مہر ہمہ وقت ان کے فون سنتیں یا انہیں سالگرہ کے تحائف بھیج رہی ہوتیں....ان کی طرف سے بھیجے جانے والے فون میسجز یا کارڈز پڑھتی رہتیں۔مہینے دو مہینے میں کوئی نہ کوئی ان سے ملنے آیا بھی ہوتا جس کی آمد پہ وہ ایسے خوش ہوتی جیسے پاکستانی مائیں اپنے بیٹوں کو سہرا باندھے دیکھ کر ہوتی ہیں۔گاہے بگاہے یہ سب شٹل کاک آتے رہتے تھے۔اسی لیے یہاں چار،پانچ سے زیادہ لوگوں کو پے انگ گیسٹ نہیں رکھا جاتا تھا۔ایک،دو دن رہ کر چلے جاتے۔کوئی ڈاکٹر تھا ،کوئی انجینئر،کوئی اپنا بزنس کر رہا تھا۔کوئی نرس تھی تو کوئی اسٹوڈنٹ،لیکن یہاں آتے ہی وہ سب لیڈی مہر کے بچے بن جاتےتھے ۔ان کےسارےکام خود کرنا پسند کرتے،انہیں کھانا کھلاتے ،منہ دھلواتے،ہفتہ وار چیک اپ کےلیے لےکر جاتے،انہیں مختلف پارکو میں لیے گومتے رہتے اور راتطکو انہیں کہانی سناتے ،لیڈی مہر ان کے لیے مقدس ہستی جیسی تھیں۔ان ہی میں ایک مورگن کیمبرج سے ایم فل کر رہی تھی۔وہ اپنے فرینڈ جوش کو برد کھودے کے لیے شٹل کاک لائی کہ اگر ماما ہاں کہتی ہے تو وہ بھی جوش کو ہاں کہہ دے۔۔”یہ گنجا کبوتر تمہیں واقع پسند ہے...مورگن؟“

”اچھا انسان ہے ماما“مورگن مسکرائی

”کیا سوویت یونین کے برفیلے پہاڑوں مٰیں کام کرتا رہاہے۔بہت ہی برفیلا ساہے“

”اگلے سال جوش کی پی ایچ ڈی کمپلیٹ ہو جا ئے گی۔“

***

”مورگن ! کسی ہیرو شیروکو پسند کرتی سنا ہے کیمبرج میں بہت سے فلم سٹار پڑھنے آتے ہے۔میرا تو خواب ہی رہا کہ میرے کسی بچے کی کسی فلم سٹار سے شادی ہو ۔“

”تو میں جوش کو انکار کر دوں ما ما ؟“

”تمہارے انکار سے تو یہ مر مرا جائے گا“انہوں نے بےچارے سے نظر آتے جوش کو دیکھا جو ٹی وی پہ ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہاتھا،سادھنا اور امرحہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی کہ وہ بے چارہ بار بار پہلو بدل رہا تھا۔دراصل دونوں جان بوجھ کر اسے حواس باختہ کر رہی تھیں۔کر رہی تھی. ایویں خوامخواہ کا مشرقی شغل. تھوڑا ڈر تو ہے. مورگن نے ماما کی تائید کی. ٹھیک ہے ہاں کہہ دو پھر اسے. کب کرو گی شادی؟ میں چاہتی ہوں تم بہار کی دلہن بنو.لیکن کرسمس کی چھٹیوں کے علاوہ تم کہاں فارغ ہو گی شادی کے لیے.نہیں آپ کہہ رہی ہیں تو بہار میں ہی کرو گی.نہیں کرسمس ٹھیک ہے ہم کرسٹینا کو بہار کی دلہن بنا دیں گے.آج کل میں یہیں وہ آنے ہی والی ہے ایسے ہی نمونے کو لے کر.امرحہ اور سادھنا نے بلند بانگ قہقہے چھوڑے نمونے کے نام پر. لیڈی مہر نے جوش کو رسٹ واچ دی تو بے چارہ نم نم سا ہو گیا.لیڈی مہر نے مورگن پر ایک خائف سی نظر ڈالی.پھر سوچ لو مورگن مجھے تو لگتا ہے ایک دو بار رونے سے ہی پگھل کر ختم ہو جائے گا.اس بار وہ دونوں اتنا ہنسیں کہ نشست گاہ سے باہر جانا پڑا. جس دن سادھنا کو معلوم ہوا کہ اس کے اکلوتے بیٹے کو ایسی خطرناک بیماری ہو گئی ہے تو دونوں میاں بیوی کئی دن اور راتوں تک روتے رہے. اس کا شوہر ایک کمپنی میں چند ہزار پر ملازم تھا. وہ اتنی بڑی بیماری کا علاج کیسے کروا سکتے تھے.حیدرآباد میں ایک چھوٹا سا گھر ان کا اپنا تھا. لیکن اسے بیچ کر بھی ان کے بیٹےکا علاج نہیں ہو سکتا تھا.کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ گھر کو بیچ کر سادھنا کا شوہر یورپ کی طرف نکل جائے اور وہاں کام کرے انہوں نے گھر بیچ دیا لیکن اس کے شوہر کو ویزا نہ ملا. ویزا ایجنٹ نے ہی بتایا تھا کہ آدمی کی نسبت عورت کو ویزا ملنے کے چانسز زیادہ ہیں تو سادھنا نے ویزا کے لیے اپلائی کیا اور اسے ویزا مل گیا. وہ یہاں ایشیائی گھرانوں میں کام کرتی تھی. پاکستانی،ہندوستانی،سعودی، گھرانوں میں جا کر وہ گھریلو کام کرتی گھریلو کام کے لیے ہر گھر ہفتے میں دو دن اسے بلاتا اور فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے ملتے.

**

 لیڈی مہر کے گھر وہ پہلے کرائے دار تھی.پھر لیڈی مہر نے اس کے حوالے سارا گھر کردیا.وہ لیڈی مہر کو بھی دیکھتی اور گھر کو بھی. دو سالوں میں اس نے کافی کمایا تھا.سنگاپور کے ہسپتال میں آریان کے دو آپریشن ہو چکے تھے.ایک آخری آپریشن ہونا تھا. پھر تین ماہ تک میڈیکل چیک اپ ڈاکٹر پرامید تھے.آریان کے صحت یابی کے لیے اور ڈاکٹر سے زیادہ سادھنا خود تھی.جن گھرانوں میں وہ جاتی تھی وہ سب آریان کے علاج کے لیے الگ پیسے دیتے تھے.لیڈی مہر بھی آپریشن کے لیے ایک بڑی رقم دیتی تھیں.آپ بہت بہادر ہیں.امرحہ کو ساری کہانی معلوم ہوئی اس کی آنکھیں نم ہو گئی. ہاں میں میں بہت بہادر ہوں.اسی لیے اللہ نے میرا انتخاب کیا کہ میں اس مشکل کو آسان کردو. مجھے اپنے منتخب کیے جانے پر خوشی ہے.آپ کا بیٹا بہت بڑا انسان بنے گا.میں اسے بڑا ڑاکٹر بناؤں گی اور اچھا ہی ہوا کہ وہ اس تکلیف سے گزر رہا ہے.اس سے اسے یاد رہے گا کہ تکلیف سے گزرنے والوں کی اس نے کیسے مدد کرنی ہے اور ان سے غفلت نہیں برتنی. قدرت کے ہر اقدام میں ایک گہرا راز ہوتا ہے.میں کچھ سمجھ رہی ہوں اس راز کو کچھ سمجھ جاؤں گی.اگلا آپریشن کب ہے آریان کا؟ چھ ماہ بعد اس سے زیادہ وقت میں بھی ہو سکتا ہے.سادھنا نے اطمینان سے کہا. امرحہ بہت متاثر تھی سادھنا سے. جب وہ پاکستان میں تھی تو خود کو دنیا کی دکھی اور مظلوم ترین لڑکی سمجھتی تھی.وہ رات کو پائن ایپل کی پلیٹ بھر کر کھاتی جاتی اور روتی جاتی. اسے لگتا دنیا میں اس سے زیادہ مشکل اور مصیبت میں کوئی نہیں ہے. اس سے زیادہ گھٹن میں کوئی نہیں رہ رہا۔سب سے زیادہ تکلیفیں اسے ہی ملی ہیں۔مل رہی ہیں۔اگر انسان دنیا میں چل پھر کر دیکھے تو اسے خبر ہو کہ جس دکھ پر وہ ایسے واویلامچاتا ہیں، دہائی دیتا ہیں،وہ تو کوئی دکھ ہی نہیں ۔لوگ تو کیڑے پڑے زخموں کے ساتھ بھی گنگناتے ہیں....مسکراتے ہے اور اصل میں وہی انسان بھی ہیں جو سر کو آسمان کی طرف شکوے کے لیے نہیں شکر کے لیے اٹھاتے ہیں۔

***

ایک گاہک شو اسٹور میں پچھلے ایک گھنٹے سے گھوم پھر رہاتھا۔لیکن کوئی جوتا اسے پسند نہیں آ رہا تھا۔ہر بار وہ کاؤنٹر کا چکر لگا کر ذرا آگے نکل جاتا اور پھر سے گھوم کر کاؤنٹر تک آ جاتا۔امرحہ گو بہت مصروف تھی۔لیکن اسے دیکھ بھی رہی تھی۔

”میں تمہیں یہ بتا دوں کہ یہاں سٹور میں جوتوں کی ٹوئیٹ نہیں ملتی۔“امرحہ اس کے پاس آئی

”اچھا ...تم نے انہیں سکھایانہیں ٹوئیٹ لینا اور دینا۔“

”تمہیں کیا چاہیے....تمہیں کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا؟“

”جو جوتا اچھا ہے وہ مہنگا ہے،جو مہنگا نہیں وہ اچھا نہیں ۔“

”مجھے نہیں لگتا کہ تم یہاں کسی خریداری کے موڈ میں آئے ہو۔“

”ہاں کچھ کچھ ایسا ہی ہیں“

”اچھا دیکھو ہمارے اسٹور میں کچھ نقص والے جوتے رکھے ہیں اگر ہم ورکر چاہیں تو انہیں لے سکتے ہیں میں ان سے بات کر لیتی ہوں تم میرے ساتھ آکر اچھے والے لیکن سستے جوتے لے سکتے ہو “

”کتنی اچھی ہو تم....لیکن آج نہیں ...شاید کل...“

”پھر تم آج کیا کرنے آئے تھے یہاں۔“

”آج پتہ نہیں میں کل پتہ کر کے بتاؤ گا۔“

گھڑی کودیکھتا وہ چلا گیا جیسے مقصد پورہ ہو گیا ہو 

شیشے کے اس پار امرحہ نے اسے جاتے دیکھاوہ ”ہاؤ ڈیپ ان لو“کی دھن سیٹی پر بجا رہا تھا اور ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی راک سٹار اپنا کامیاب شو کرکے لوٹ رہا ہو کل وہ پھر آگیا لیکن جوتے لے کر پھر بھی نہیں گیا...جب وہ اسے لے کر اسٹور روم میں لے گئی اور اس نے اس کا وہاں کافی وقت لیا تو عین وقت پہ اسے یاد آیا کہ اس کے پاس تواچھی حالت میں دوتین جوڑے جوتوں کے پڑے ہے پھر وہ نئے کیوں لے 

”پھر تم یہاں کیوں آئے ہو وہ زچ ہو گئی۔”پتا نہیں بس کبھی کبھی میری یاداشت کام نہیں کرتی ایسی ہی چلی جاتی ہے ۔جب یاداشت گئی میں آگیا اب واپس آئی ہے تو مجھے جانا ہو گا “

”پاکستان میں ہم تم جیسے لوگوں کو باؤلا کہتے ہے۔“

”باول....آ.....؟

”ہاں باول....آ چلو جاؤ اب ....کتنا وقت ضائع کیا میرا۔“

جاتے جاتء وہ پھر رک سا گیا ۔میرا خیال ہے اگر میں ایک جوڑا لے ہی لو تو قومی اسمبلی میں یقینا اسے زیر بحث نہیں لایا جائے گا وہ پھر سے جوتے پہن پہن کر دیکھتا رہا ۔

ویسے مجھے یہ خیال بھی آ رہا ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ کو اتنا شاہ خرچ نہیں ہونا چاہیے....او ہاں مجھے یاد آیا...میں نے سناہے ایشیا میں لوگوں کے پاس اتنے کپڑے اور جوتے ہوتے ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے اور جوتے دنیا بھر کے انسانوں میں تقسیم کرنے لگے تو ہر ایک کو دو،دوجوتے اور کپڑے مل جائیں ...کیاتمہارے پاس بھی اتنے ہی ہے 

وہ گڑ بڑاگئی“پتا نہیں 

یعنی اتنے ہی ہے ہر وقت تم لوگ کپڑوں اور جوتوں کے بارے میں ہی سوچتے رہتےہو اور پھر اصل باتوں پر سوچنے کے لیے دماغ میں اور جگہ ہی نہیں رہتی۔

”میرے دماغ میں بھی اور جگہ نہیں رہی،تمہاری اوٹ پٹانگ باتیں سن سن کر...“کندھے اچکا کر وہ چلا گیا...باہر بارش ہورہی تھی اور سڑک کوپار کرتے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے کم سے کم پانچ بار مڑ کرشیشے کے اس پار کاؤنٹر پر سر جھکائے کمپیوٹر میں بلز کی انٹری کرتے امرحہ کودیکھا ۔اس بار اس نے سیٹی کی دھن بدل ڈالی۔وہ ایک مشرقی دھن بجا رہا تھا ۔

*********

ڈیرک آرٹ کا اسٹوڈنٹ تھا اور اس نےایک مقامی چینل کے لیے ایک ڈاکومنٹری بنائی اورڈبنگ کے لیے امرحہ کو بلایا۔امرحہ جانتی تھی ،وہ اب تک شرمندہ ہے۔اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کی مدد کرتا ہے...دو منٹ کی ڈبنگ کے اسے اچھے خاصے پیسے مل گئے تھے اور کافی سے زیادہ معلومات بھی صرف ایک کیمرے کے ساتھ ڈیرک نے وہ ڈاکومنڑی بنا لی تھی اور اچھے خاصے پیسے بنالیے تھے۔ڈیرک نے اسے اپنی پہلی سے بنائی گئ دوسری ڈاکومنٹریزبھی دکھائیں۔ اسے وہ سب اچھی لگیں ،حاص کر ڈیرک کی کوشش اچھی لگی۔ چند دن سوچنے کے بعد اس نےڈیرک سےمشورہ کیا۔وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں ایڈمیشن سے متعلق ایک تفصیلی ڈاکومنڑی بنوانا چاہتی تھی۔تاکہ پاکستانی اسٹوڈنٹس کو اچھی طرح سے اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ڈیرک نے اسے بتایا کہ ڈاکومنڑی کے لیے بھی اسکرپٹ لکھا جاتا ہے۔پہلے وہ اسکرپٹ لکھے ۔اس نے اپنے لکھے اسکرپٹ اسے دے دیے۔تاکہ وہ ان سے سیکھ لے۔انہیں کئی دن پڑھنے کے بعد اس نے پانچ منٹ کا اسکرپٹ لکھ لیا۔ڈیرک نے کچھ بنیادی تبدیلیاں کیں اور انہوں نے ایڈمیشن سے متعلق ایک جامع ویڈیو بنا لی....ڈیرک نے اس کی انگلش میں ڈبنگ کی اور امرحہ نے اردو میں.....ویڈیو اس نے پاکستان کے چند ٹی وی چینلز کو بھیج دی اور جواب کا انتظار کرنے لگی ۔تھوڑا وقت لگا اور جواب آگیا۔وہ ویڈیو خریدنے کے لیے تیار تھے۔ پر وہ بہت کم پیسے دے رہے تھے۔اس نے سوچاکہ اسے کم پیسوں پر ہی دے دینی چاہی،لیکن ڈیرک نے روک دیا۔”کبھی فیصلوں میں اتنی جلدی نہیں کرتے ۔جلد بازی ایک بڑے نقصان کا باعث بے شک نہ بنے۔لیکن بڑے فائدے سے ضرور محروم کر دیتی ہے۔میری پہلی ڈاکومنڑی ایک سال میرے پاس پڑی رہی تھی ۔کوئی خریدنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ٹرائل کے لیے میں نے پھر اسے ایک جرنلسٹ کو دے دیا۔اس نے اپنے بلاگ پر پوسٹ کر دی۔بس پھر مت پوچھو...جن چینلز نے انکار کیا تھا وہ اس کے رائٹس لینے کے لیے تڑپنے لگے ،یہاں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک جنہیں اچھی چیز چاہئے....دوسرے جنہیں اچھی بکنے والی چیز چاہئے،جو انہیں فائدہ دے.....تمہیں ایک انکار ہوا ہے۔تم دوسرے کے پاس جاؤ“ڈیرک نے ہی اس کے ساتھ مل کر تھوڑی بہت ریسرچ کی اور اب کی بار انہوں نے ان پاکستانی کمپنیز کو ویڈیو بھیجی جو اسٹوڈنٹ ویزا کا کام کرتے تھے۔انہیں ایک دوسرے درجے کی ویزا کمپنی نے ہاں کہہ دی اور نسبتاً اچھی رقم آفر کی۔امرحہ نے ہاں کہہ دی....یہ ہاں اچھی رہی ...کیونکہ اسی کمپنی نے چند اور ایک ،ایک ..دو،دو منٹ کی ویڈیوز کے لیے امرحہ سے بات کی۔انہیں مانچسٹر یونیورسٹی کے چند دوسرے ڈپارٹمنٹس کی تفصیلات چاہیے تھیں۔جووہ اپنے اسٹوڈنٹس کو دیکھا سکتے۔امرحہ اور ڈیرک نے وہ بھی بنا کر بھیج دیں۔امرحہ کو اچھا خاصہ فائدہ ہواتھا۔اسے یقین تھا کہ اگر یہی رفتار رہی تو وہ بہت جلد اپنا تھرٹی پرسنٹ کا قرض دائم کے ہاتھ میں تھما دے گی۔

اس کی کفایت کا گراف اونچا ہوتا جارہا تھا اور فضول خرچی کا نا ہونے کے برابر....سردیاں آچکی تھیں،تو اس نے اپنےلیے صرف گرم کوٹ لیےتھے۔جو وہ پاکستان سے لائی تھی۔وہ یہاں بے کار تھے۔یہاں کی سردی اس کی سوچ سے بڑ کر تھی۔رات گئے ایک دن دادا جی کا فون آیا۔اسے وہ کافی پریشان لگے ۔”پریشان نہ ہوتا امرحہ....دھیان سے سنو تمہارے باباہسپتال میں.....میں....پوری اعظم مارکیٹ میں آگ لگی تھی....بس واجد خود کو سنبھال نہ سکا“

”کیاہوا دادا؟“وہ چلا اٹھی۔

”وہ ٹھیک ہے....سینے میں درد ہوا تھا اس کے“

”میری بات کروائیں۔“

”ابھی وہ ہوش میں نہیٍں ہے تم دعا کرو....“

وہ کمرے سے نکل کر باہر کا دروازہ کھول کر آسمان تلے آگئی...اس کا دم گھٹنے لگا۔ایسے جیسے دنیا کی ہر چیز اسے دباؤ سے مار ڈالے گی۔سادھنا اس کے پیچھے آئی۔”پاکستان میں سب ٹھیک ہے امرحہ....؟“

”میرے بابا ہسپتال میں ہیں....“اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔”وہ ٹھیک ہو جائے گے۔“وہ منہ اٹھا کر سادھنا کو دیکھنے لگی۔”تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو....دو دن پہلے تم مجھے کہہ رہی تھیں تم شیر جوان ہو۔“”میرے اندر گھبراہٹ بڑھ رہی ہے۔میرا دل پھٹا جا رہا ہے۔“

”یہ گھبراہٹ نہیں مایوسی ہے....جب انسان مایوس ہوتا ہے اس کے اندر ایسے ہی ابال اٹھتے ہیں۔اسے بے چین کر دیتے ہیں....یہ مایوسی ہی ہے...ورنہ تم ایسے نکل کر باہر کو نہ بھاگتیں....اپنی عبادات کرتیں...پہلا کام رونےکا نہ کرتیں، دعا کا کرتیں۔خود کو سنبھالو....اپنے گھر والوں کا حال احوال لو.....“وہ سادھنا کی طرف دنگ سے دیکھتی رہ گئی اور اندر کی طرف لپکی...فون کیا اور دادی،اماں سب کو جی جان لگا کرتسلی دی۔”گھبرائیں نہیں وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔“اس کا اندز مضبوط تھا۔”اگر انہیں کچھ ہو گیا تو...؟“اماں روتی جاتی تھیں۔

میرے پاس آپ کے مایوسیوں کے جوابات نہیں ہیں۔“دادا اس کی مختلف ڈاکٹرز سے بات کرواتے رہے۔ٹھیک تین گھنٹے بعد انہیں ہوش آگیا اوردو دن بعد وہ گھر چلے گئے۔دوکان میں موجود بیس پچیس لاکھ کے قالین جل کر راکھ ہو چکے تھے۔ بابا کے سینے میں تکلیف کیوں نہ ہواُٹھتی۔کاروبار کے نام پہ وہ کنگال ہو چکے تھے۔پاکستان میں سب بے حد پریشان تھے کہ اب کیاہو گااور مانچسٹر میں وہ تن دہی سے ان معاملات کا حل نکالنے میں مصروف تھی۔لیکن ہلکان یا پریشان نہیں۔”واجد سود پہ قرضہ لے رہا ہے۔“دادا نے فون پہ بتایا۔”سود پر؟“اسےدھچکا لگا۔”ہاں...میری کوئی بات نہیں سن رہا۔بنا سود کےقرض کہی پہ مل نہیں رہا۔“

”سود حرم ہے دادا۔“اسے دکھ ہوا جان کر۔

”یاد ہے مجھےاور واجد کو بھی یاد دلایا ہے۔کہتا ہے سود نہیں ہے بس وہ قرض پہ منافع لیں گے“دادا آبدیدہ ہو گئے۔یا وہ گھر بیچے گا یا قرض لے گا۔ورنہ دوکان کیسے چلائے گا”بابا سے کہیے گا قرض نہ لیں ،میں کچھ کرتی ہوں۔“

”تم کیا کروگی؟“دادا حیران ہوئے۔کیوں بہت کچھ کر سکتی ہوں میں....جہاں ایک مشکل آتی ہے وہاں دائیں بائیں سو حل آتے ہیں۔میں دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھتی ہوں،حل ضرور کہیں آس پاس ہی ہے۔“اس نے اب تک کی اپنی جمع کی گئی تنخواہ اور ڈاکومنٹریز سے ملنے والے پیسے بابا کےاکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دئے....وہ پاکستانی چندلاکھ تھے۔فی الحال اتنے بھی کافی تھے۔پھر کافی سوچ بچار کے بعد اس نےلیڈی مہر کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا۔انہوں نے خاموشی سے ایک چیک کاٹ دیا۔وہ حیران دیکھتی رہ گئی۔اس کا خیال تھا کہ لیڈی مہر اسے مشورہ دیں گی کہ ایسے کرلو ویسے کر لو لیکن انہوں نے مناسب کاایک چیک اسےلکھ دیا۔

”یہ قرض ہے۔“انہوں نے امرحہ کو یاد دلایا۔

”جی بلکل......“اس نے سر ہلایا۔

”تمہیں معلوم ہے امرحہ ! کہ میں تمہیں اور تم جیسی کہی لڑکیوں کو یہاں مفت بھی رکھ سکتی ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرتی....اگر ایسا کیا میں نے تو تمہیں بے کار اور ناکارہ بنا دوں گی....میرا ایک بیٹا اسی شہر میں رہتا ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں رہتا۔میں نے اسے کوشش اور مسلسل کوشش کرتے رہنا سکھایا ہے۔میرے اس آرام دہ گھر کے شاہانہ بستروں پہ اسے نیند نہیں آتی۔میں اپنے بچوں کو اس دنیا کے کامیاب ترین انسان بنے دیکھنا چاہتی ہوں اور ایسا انسان بننے کے لیے انہیں ایک شاہانہ نہیں محنت کی زندگی گزارنی پڑے گی۔انہیں زیرہ ہونا پڑے گا،تاکہ وہ زیرو کے آگے اعداد لکھ کر اپنے نمبر بڑھا سکیں۔میرے بابا ایک کسان تھے اسکاٹ لینڈ میں ان کا اپنا فارم ہاؤس تھا وہ کہا کرتے تھے ۔”محلوں میں زندگی گزارنے والے بد قسمت ترین لوگ ہیں،کیونکہ وہ ناکارہ ہیں۔“وہ انے مٹی سے اٹے ہاتھ اٹھا کر اعلان کرتے”خوش قسمت تو ہم ہیں....کیونکہ ہم کار آمد ہیں....زندگی ہم میں سانس لیتی ہیں....زندگی ہم میں دھڑکتی ہے۔“میں یہ رقم تمہیں ویسے بھی دے سکتی ہوں اللہ نے مجھے بہت دیا ہے...لیکن یہ قرض اس لیے ہے تاکہ اسے واپس کرنے کےلیے تم خود کو کار آمد بناؤ....ٹھیک ہے؟“

”جی ٹھیک ہے۔“اس نے چیک بھی بابا کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیا۔بابا کا فوراً فون آیا۔”امرحہ....اتنے پیسے....کہاں سے آئے اتنے پیسے؟“

”میں نے اپنی لینڈ لیڈی سے بنا سود کے ادھار لیے ہیں....اور کچھ میرے اپنے جمع کیے گئے ہے۔“

"تم نے کیسے جمع کیے؟" دادا کے سوا کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ وہاں جاب کرتی ہی.  ایک ' دو بار دادا نے بابا سے کہا کہ امرحہ کو پیسے بھیجنے چاہیں' تا کہ وہ اپنی چھوٹی بڑی ضروریات پوری کر سکے تو بابا نے چند ہزار پاکستانی دادا کے حوالے کیے کہ اس سے اس کے تین' چار ماہ آرام سے گزر جائیں گے۔ امرحہ نے وہ پیسے دادا کے پاس ہی رہنے دیے۔

"میں جاب کرتی ہوں بابا"

"جاب۔۔۔ تم کام کرتی ہو وہاں۔۔۔ تم نے تو کبھی پاکستان میں چھوٹی سی بھی جاب نہیں کی۔۔"

" نہیں کی۔ غلطی کی۔۔۔ اب کر رہی ہوں اور بہت خوش ہوں۔۔ بابا یہاں سب کرتے ہیں۔"

بابا آب دیدہ ہو گئے۔ زندگی میں پہلی بار اس کے لئے۔۔۔" امرحہ..تم کب اتنی سمجھدار ہو گئیں۔ علی اور حماد کو کھیلنے سے فرصت نہیں ہے اور تم نے مجھے وہاں سے لاکھوں بھیج دیے۔ میں نے تو تمہیں وہاں جانے کے لیے ایک روپیہ نہیں دیا تھا"۔

"علی اور حماد کو کھیلنے کودنے سے اس لیے فرصت نہیں بابا کہ آپ نے انہیں کھیل کود میں مصروف رکھا ہے۔ ان پر سختی کریں۔ اگر وہ پڑھنا نہیں چاہتے تو انہیں کوئی ہنر سکھائیں۔ ہم خود ہی تو اپنے بچوں کو ایسے آرام و آسائش کی زندگی دیتے ہیں۔ ہم خود ہی تو انہین ناکارہ بنا دیتے ہیں۔"

بابا خاموشی سے سنتے رہے۔" تمہارے دادا نے کہا تم وہاں بڑی کلاس میں پڑھ رہی ہو، مجھے یقین آ رہا ہے کہ واقعی تم بڑی کلاس میں پڑھ رہی ہو۔ مجھے بتاوّ مین اور کیا کیا کروں؟بابا کی یہ بات" مجھے بتاوّ مین اور کیا کیا کروں؟" نے اس کے دل کی دھڑکن تیز کر دی۔ خوشی سے اس کا برا حال ہو گیا۔

"بابا ۔ ۔ ۔ پہلے تو سب کو کفایت کی عادت ڈالیں۔ فضول خرچی ترک کر دیں۔ علی اور حماد سے کہا کریں کہ صبح جلدی اٹھیں۔ دانیہ سے کہیں کہ وہ ساتھ ساتھ جاب کرے۔ بابا اپنے ذہن پر کوئی دباوّ نہ رکھیں۔ جو نقصان ہو گیا ہمارا اسی میں فائدہ ہو گا۔ ایک چھوٹا نقصان ہمین بڑے نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بس یہی کافی ہے۔آپ بس محنت سے نئے سرے سے اپنا کام کریں اور میری خواہش ہے کہ آپ یتیم خانے کے بچوں کو بلوا کر انہیں دکان میں بٹھا کر کھانا کھلائیں" 

"میں خود جا کر انہیں لاوّں گا اور کھانا کھلاوّں گا—اور بتاوّ۔۔"

وہ آب دیدہ ہو گئ اور بابا سے کہہ نہ سکی کہ یہ والدین ہی ہوتے ہیں، جو اپنی اولاد کو وہ کل پرزے بناتے ہیں جو زندگی کی گاڑی میں شان سے فٹ ہو جاتے ہیں اور گاڑی چھکا چھک دوڑتی چلی جاتی ہے اور اگر والدین ان ہی پرزوں کو کند کر دیں تو زندگی کی گاڑی جام ہو کر بند ہو جاتی ہے اور بہر حال اس کا ذمہ پہلے سربراہ پر آتا ہے' کیونکہ نومولاد اپنے لیے کچھ نہین کر سکتا۔

"بس بابا—امنا خیال رکھیں اور کبھی دل چھوٹا مت کیجیے گا"

"میری دکان پھر سے چل نکلی تو میں تمہیں پیسے بھیجا کروں گا۔"

"اس کی ضرورت نہیں ہے بابا۔۔۔۔ میرے پاس میری ضرورت کے لیے کافی پیسے ہوتے ہیں۔"

"تم تھک جاتی ہوگی؟" 

"بالکل نہیں۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے سب کرنا۔"

**

کرسمس آنے میں ابھی وقت تھا۔ موسم اس کی سوچ سے زیادہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ ہر وقت مونگ پھلی کھاتی ہوئی پائی جاتی اور جس تعداد میں اس کی ہائے ہیلو بڑھ چکی تھی یونیورسٹی میں اسی حساب سے جتنی مونگ پھلی منہ میں جاتی تھی، اس سے کہیں زیادہ دوسروں کی ہاتھوں ہیں جاتی تھی۔ اب روز کی کلو دو کلو مونگ پھلی تو وہ نہیں لے سکتی تھی نا۔ اس لیے جہاں ذرا سا سناٹا سا دیکھتی، منہ میں ڈال لیتی۔ ایک دن ایسا کرتے اسے اپنے پیچھے عالیان کا قہقہہ سنائی دیا۔

"کتنی چالاک ہو تم' کیسے چھپ چھپ کر کھا رہی ہو۔"

"نہیں تو۔۔۔" وہ صاف مکر گئی۔

امرحہ انگلش لٹریچر کی سٹوڈنٹ تھی اور عالیان بزنس کا۔۔۔ اور امرحہ تو پھر اپنی عادت کے مطابق پوری یونیورسٹی کا ہفتے میں ایک چکر ضرور لگا لیتی۔ ورنہ حصوں میں تو ضرور ہی چکر کو مکمل کرلیتی۔ لیکن عالیان کم ہی کہیں چلتا پھرتا، کھڑا ٹہلتا نظر آتا۔ ہاں کبھی کبھی وہ ایسے ہو جاتا کہ ہر وقت ہر ایک کو نظر آتا اور کبھی ایسے کہ ہر کوئی اس کا پوچھ رہا ہوتا کہ وہ کہاں ہے۔

اب وہ پھر ایسے اچانک سے نمودار ہوا تو امرحہ کو اچھا لگا۔ اس نے جیب سے مونگ پھلی نکال کر اسے دی اور ساتھ ساتھ وہ اسے بتا رہی تھی کہ لاہور میں مونگ پھلے کیسے بکتی ہے۔ کیسے اسے گرم کیا جاتا ہے۔

کیسے ہیٹر کے پاس بیٹھ کر اسے اڑایا جاتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ بچپن میں وہ مونگ پھلی کے چھلکوں کے ڈھیر کو چپکے چپکے کھنگالا کرتی تھی کہ اس میں سے اسے کوئی مونگ پھلی مل ہی جائے۔عالیان دیر تک ہنستا رہا۔

"میں یقین کرتا ہوں۔۔ مجھے یقین ہے' تم نے یہی کیا ہو گا۔"

***

وہ ہنستا رہا۔ پھر اپنی انگلی کی پور سے اپنی آنکھ کی نمی صاف کی اور اپنے کراس بیگ میں اس سے مونگ پھلی بھروا کر اپنی کلاس لینے چلا گیا اور پھر وہ اسے ایک ایسے وقت نظر آیا کہ اس نی حیرت سے کتاب بند کر دی. رات بارہ بجے سے پہلے کا وقت تھا. وہ اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی  اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے ذرا دور گھر کے دوسرے کنارے کی طرف اسے وہ نظر آیا. پہلے اس نے سر کو اٹھا کر جیسے سارے گھر کا بھرپور جائزہ لیا . پھر وو ایک کھڑکی کی طرف بڑھا. امرحہ نے جھٹ اپنے کمرے کی بتی بھجا دی اور کھڑکی سے سر نکال کر اسی دیکھنے لگی. وہ اس کھڑکی سے اچھل اچھل کر اندر جھانک رہا تھا. پھر اس نے یہی کام دوسری کھڑکیوں کی ساتھ کیا. پھر وو کھڑکی کی چوکھٹ پر کھڑا ہو کر پائپ کا سہارا لے کر اوپر کی منزل کے ایک بیڈ روم میں جھانکنے لگا

امرحہ کا حیرت سے برا حال تھا. وہ اتنی مشاقی سے یہ سب کر رہا تھا جیسے سپائیڈر مین ہو اور ایک عرصے سے ایسے کرتب کر رہا ہو. پھر وو اس کھڑکی سے زمین پر کود آیا  اور ٹہلنے سا لگا. امرحہ نے سر کو ذرا پیچھے کر لیا.

اب وہ اسی کھڑکی کی پاس آ رہا تھا. امرحہ نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا. وہ اسی کی کھڑکی کے پیچھے کھڑا تھا. اب وہ کھڑکی بھی بند نہیں کر سکتی تھی. وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی. اس نے چند منٹ انتظار کیا اور کھڑکی سے پیچھے جھانکنے کے لیے آگے ہوئی  اور اس کی چیخ نکل گئی.  عالیان ایک دم سے اس کے سامنے آیا. وہ کھڑکی پر چڑھ چکا تھا.

"امرحہ...!" عالیان نے سرگوشی سی کی.....

"تم یہاں....!" امرحہ دو قدم پیچھے ہٹی.

"تم یہاں ...!" کھڑکی کی چوکھٹ پکڑے وہ گرنے کے قریب ہوا! پھر اس نے جلدی سے مضبوطی سے کھڑکی کو تھام لیا.

جنگل یا بیابانوں میں اندھیرے کے بستر پر مٹھی نیند سوۓ سب جگنو اس کی آنکھوں میں ایک ایک کر کے جاگنے لگے.

"یہ میرا کمرہ ہے."

"یہ میرا گھر ہے امرحہ!" مسکراہٹ دباتا وہ نیچے کو ہو گیا. کسی جلگلی لنگور کی طرح جسے وو اپنا گرو مانتا ہوگا.

امرحہ نے بے طرح حیران ہو کر جیسے جیسے خود کو ہوش میں لانا چاہا... اسی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ابھی ابھی جو اس نے دیکھا وو سچ تھا.حقیقت تھا خواب نہیں تھا. اسکا یونی فیلو ایسے اس کے کمرے کی کھڑکی میں آ کر اسے بتا گیا کہ یہ اس کا گھر ہے. اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر کھڑکی سے سر باہر نکالا. وہ ذرا دور دوسری کھڑکی کی طرف لپک رہا تھا اور بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا ... آخر وہ کر کیا رہا تھا. ایسے آدھی رات کے وقت اس کی رہائش گاہ کے گرد پاگلوں کی طرح کود پھاند رہا تھا. امرحہ نے سر کو ذرا اور آگے کر کے کہا.

"تم کیا کر رہے ہو!..جاؤ یہاں سے." 

**

اس کی آواز پر وہ روک کر اسے دیکھنے لگا. جیسے پریوں کے دیس کی کہانی سنتے بچے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ کیا کوئی پری ان کے سروں اوپر اڑاتی جادو کی چھڑی گھما رہی ہو.اگر نہیں تو کیوں نہیں اگر ہاں تو وہ نظر کیوں نہیں آتی.اچھانو.. وہ نظر آ گی.

وہ نیچے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا.. وہ کھڑکی سے سر نکلے اس پر خفا ہو رہی تھی.

"پاگل ہو کیا؟ آواز کو دھما رکھ کر ووہ چلائی.

"پاگل ہوں میں" ملین پاؤنڈ لو اسی ابرو کو اچکا کر مسکراہٹ دبا کر اس نے سر ہلایا.

"اچھا تو یہ تمہارا گھر ہے"؟اپنی دانست میں وہ اسے چڑا رہی تھی. "تو پھر سیدھے راستے سے اندر آ کر دکھاؤ."

"اچھا!"عالیان سینے پر ہاتھ باندھ لیے اور اس کے اگلے حکم کا انتظار کرنے لگا.

"کیا ڈراما ہے یہ؟" امرحہ پوری قوت سے چلائی.

اس نے جھرجھری لے کر ڈرنے کی اداکاری کی اور کان میں انگلی گھمانے لگا' پھر سر کو جھکا کر کان کو صاف کرنے کا عمل کیا. امرحہ کو کافی برا لگا. اس نے اپنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھا ایک اعداد موٹا میگزین اٹھا لیا اور اسی دے مارنے کے لیے بلند کیا عالیان کو برا لگا. وو سنجیدہ ہو کر اسے دیکھنے لگا.

"کیا ووہ کھڑکی میں کھڑی جولیٹ ہے اور کیا وہ نیچے کھڑا رومیو ہے؟" ستاروں بھری رات نے وقت کے کان میں سرگوشی کر کے پوچھا. وقت نے کندھے اچکاۓ اور مسکرا کر کہا" انتظار کرو."

*************

امرحہ میگزین اسے دے مارتی ' وہ تیزی سے گھر کی دوسری طرف چلا گیا.اس نے تقریباّ خود کو آدھا کھڑکی سے باہر نکال کر 

اسی ڈھونڈنا چاہا لکن وہ اسے نظر نہیں آیا.

کچھ ہی دیر میں اسے گھر کے اندر سے شور کی آوازیں آنے لگیں. رات کے وقت اسے یس طرح کی آوازوں کا آنا عجیب تھا، خاص کر لیڈی مہر کی آواز کا. وہ اپنے کمرے سے بھر ای تو سادھنا بھی اپنے کمرے سے نکل کر آ چکی تھی. "کیا ہو رہا ہے؟"

"دیدی کا بیٹا آیا ہے. انہیں سالگرہ وش کرنے"

"کب آیا..."

"ابھی... او اندر چلیں" سادھنا نے یس کا ہاتھ پکڑ لیا اور دونوں لیڈی مہر کے کمرے میں چلی گئیں.

اور لیڈی مہر کے بیڈ پر بیٹھا عالیآن انہیں منا سا بیک کیک کھلا رہا تھا. کمرے کی کھڑکی کھلی تھی.. دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے مصروف تھے جیسے دنیا میں اکیلے وہ  دو انسان ہی موجود ہوں.

امرحہ دیکھتی رہ گے.

"میرا بیٹا بھی تمہاری یونیورسٹی میں ہی پڑھتا ہے" لیڈی مہر نے اسے ایک بار بتایا تھا.

"یونیورسٹی کو فخر ہے اس پر اور مجھے اس پر. بزنس کے نئے رجحانات اور تاریکوں پر اس نے جو اسائنمنٹ لکھی تھی' اسی یونیورسٹی نے کتابچے کی صورت میں چھاپ کر لائبریری میں رکھا ہے."

سدھنا نے آگےبڑھ کر لیڈی مہر کو گلے لگایا اور سالگرہ وش کی. امرحہ بھی آگے بڑھی. عالیان نے جلدی سے کیک چھپا لیا.

"یہ بچا ہوا کیک میں ساتھ لے جاؤں؟"

"اتنے سے کیک میں بھی تمہاری جان ہے."

لیڈی مہر بہت خوش تھیں.

***************************

"نہیں.. کیک میں جان نہیں رہی اب. مما آپ کو معلوم ہے لوگ آپ کے گھر کو یونیورسٹی میں کیا کہتے ہیں؟

"کیا کہتے ہیں؟'

"شٹل کاک... کیسا معصوم انسان تھا نا' وہ کیسے سچ اگل رہا تھا.

"کون کہتا ہے میرے وائٹ ہاؤس کو شٹل کاک؟"

عالیان نہیں امرحہ کی طرف دیکھا.

"نہیں میں نہیں کہتی...یونیورسٹی میں پہلے سے ہے یہ شٹل کاک کے نام سے مشور تھا.. میں نہیں کہتی؟ امرحہ گھبرا گئی.. یہ ماں بیٹا دونوں کیسے بوکھلا دیتے تھے.

"عالیان! آج رات یہیں روک جاؤ..." وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لی کر بیٹھی تھیں. عالیان ہنسنے لگا.

"آپ مجھے رہنے کے لی کہ رہی ہیں؟"

"ٹھیک ہے جاؤ پھر"

وہ اپنا بیگ اٹھا کر کھڑکی کی طرف لپکا. امرحہ ہرات سے اسے دیکھنے لگی. "یہ کیا طریقہ ہے آنے اور جانے کا."

"آج میں دروازے کے راستے پر چلا جاتا ہوں."

عالیان لیڈی مہر سے مل کر کمرے سے بھر آ گیا.

"تمہارا کمرہ کس طرف ہے"

"کیوں؟"

"مجھے اس کی کھڑکی دیکھنی ہے"

"کیوں؟"

"اتنے کیوں؟ مجھے دیکھنا ہے کہ اوپر سے نیچے کھڑا میں کیسا لگ رہا تھا"

"جیسے سامنے سے کھڑے لگ رہے ہو"

"کیسا لگ رہا ہوں؟"

"اف! "امرحہ کو خاموش ہونا پڑا.

**************************

ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانک کر اس نے خود ہی اندازہ کر لیا کہ یہ اس کا کمرا ہے.

"تم لیڈی مہر کے بیٹے ہو؟"

"بالکل!" وہ کھڑکی میں سے سر باھر نکال کر اس طرف دیکھ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ خود کھڑا تھا.

"لیکن ان کا نام تو مارگریٹ نہیں ہے"

ایک دم سے عالیان کی مسکراہٹ غائب ہو گئی.  اس نے جلدی سے اپنی پشت سے بیگ اتارا اور جو چنا منا کیک بچ گیا تھا وہ نکال کر امرحہ کے آگے کیا.

"یہ میں نے بیک کیا ہے."

"تم کک ہو ؟"

 "اوکے! میں چلا. اس نے ایک دم ایسے ہاتھ چھوڑ دئیےجیسے دیھان نہ دینے پر گر گیا ہو. امرحہ چیچ دباتی کھڑکی کی طرف لپکی نیچے جھانکا پائپ سے جھولتا وو زمین پر چھلانگ لگا چکا تھا/.امرحہ نے سر کھڑکی سے بھر نکال لیا.

  "گڈ بائےکے لیے تھنکس.اب تم سو جاؤ".

وہ دونوں ہاتھوں کو منہ کے دائیں بائیں رکھ کر تھوڑا سا چلایا

 "گڈ بائے"کون کہ رہا تھا اسے.

امرحہ تو اس بندر کے تماشے دیکھ رہی تھی.غصے سے اس نے کھڑکی بند کرنی چاہے.

میں نہیں جانتا کہ میں وہاں سے یہاں کھڑا کیسا لگ رہا ہوں لکن یہاں سے تم کھڑکی سے جھانکتے ہوے ٹامس کے ہاتھ سے بنی    "گرل آیت ونڈو" جیسی  لگ رہی ہو. بس تم ذرا غصے میں ہو. ٹامس کی گرل تو مسکراتی ہے. بیگ کو سمبھلتا دونو ٹانگوں کی تالی بجاتا وہ چلا گیا. 

"بندر" اتنے پیارے سپائیڈر مین کو امرحہ بندر کہ کربڑبڑنے لگی. اس کا دیا کیک  وہ کچن میں رکھ آئ. اس کا کوئی موڈ نہیں تھارات کے اس وقت کیک کھانے کا لیکن عالیان کے اس طرح آنے کے بارے میں وہ  نہ چاھتے ہے بھی رات گے تک سوچتی رہی.

**************************

یہ اس کا گھر ہے.یعنی عالیان بھی لیڈی مہر کا وو بچہ ہے جسے انہوں نے پلا ہے. عالیان سے مل کر اسے کبھی یہ گمان نہیں ہوا کہ وھو بھی کیک ایسے ادارے میں رہا ہے جہاں بے سہارا اور ناجائز بچے پرورش پاتے ہیں. اس کے انداز و اطوار ایسے تھے کہ لگتا تھا کہ وہ کسی بارے خاندان کا چشم و  چراغ ہے.

امرحہ کو عجیب سا لگا کہ یہاں ہر دوسرا شخص ایسا ہی ہے بغیر خاندان کے پرورش پانے والا... ناجائز.

اس کا نام عالیان تھا اس کی ماں کا نام مارگریٹ تھا یہ سب کیا چکر تھا. شائد لیڈی مہر نے اس کا نام عالیان رکھا ہو. اسی اردو سکھائی ہو. ورنہ شائد وہ رچرڈ ، این یا ہرمن ہوتا. لیڈی مہر اپنے سب ہی بچوں سے بہت پیار کرتی تھی اور بچے ان سے. تو ایک بچا ان کے لیا اپنا نام تو بدل ہی سکتا ہے. ان کے باقی  بچے بھی تھوڑی بہت اردو بول ہی لیتے تھے. تو عالیان کسی کی ناجائز اولاد ہے؟ اسی والدین کے نام پر صرف ماں ہی ملی. اس لیے یس کا سر نام مارگریٹ ہے.

عالیان اس کا اچھا دوست بنتا جا رہا تھا. اس کے بارے میں ایک معلومات ہونے پر وہ اس کے لیےافسووسس محسوس کر رہی تھی.

صرف افسوس اور کچھ نہیں.

کھلی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی. امرحہ کو اس وائٹ ہاؤس میں رہنا بہت اچھا لگ رہا تھا. اس کا کمرا جو لیڈی مہر نے اسے دیا تھا کافی بڑا تھا. کھڑکیاں قد آدم تھیں اور کمرے کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ کھڑکی کے عین سامنے کی دیوار پر کسی نو آموز خطاط کے قلم سے سجی " کن فیکون" کی ہلکے رنگوں سے بنی پنٹنگ لگی تھی.

*************************

اس کی زندگی میں کی انوکھے واقعات ہو رہے تھے. اچھے تھے یا برے تھے لیکن اس کے لیے نئے تھے.وہ کھڑکی میں آ کر کھڑی ہو گئی اور غیر ارادی طور پر اس طرف دیکھنے  لگی جہاں عالیان کھڑا تھا. وہ بہت خوبصورت اور زندگی سے بھرپور تھا.... جس فرنچ انداز سے وہ خفا ہوتا تھاوہ اس کا ٹریڈ مارک تھا. فرانسیسیوں کو سیکھنا چہیے کہ خفا کیسے ہوا جاتا ہے.

لیکن امرحہ یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ وو کتنا خوبصورت اور زندگی سے بھرپور ہے یا یونیورسٹی اس کے لکھے کو کتابی شکل میں لاتی ہے. وہ تو اس کے ناجائز ہوانے کے بارے میں سوچ رہی ہے. کسے قدر کراہت سے.

***********************

اگلا سارا دن ڈور بیل بجتی رہی. لیڈی مہر کے ان بچوں کی طرف سےدنیا بھر سے تحائف آتے رہے.ان کا وقت فون کالز سنتے ہے گزرا. اور تو اور سب اپنے اپنے گھر ..اپنی اپنی جگہ کیک  رکھے بیٹھے تھے اور اسکائپ پر لائیو لیڈی مہر کو سامنے بٹھاۓ کیک کاٹ رہے تھے. ادھر لیڈی مہر کیک کاٹ رہیں تھیں... ہر ایک گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی آن لائن ہو جاتا.. کم سے کم دس کیک کٹے. امرحہ کے عیش تھے. کیک کھا کھا کر وہ تھک چکی تھی. تحائف کا اتنا ڈھیر لگ چکا تھا کہ اسے لیڈی مہر پر رشک آنے لگا تھا. کیسی اولاد ملی تھی انھیں.. جو ان کی نہیں تھی اور ان کی اپنی اولاد سے زیادہ ان کی اپنی تھی... جن میں قوم و نسل ، مذہب و روایت کا فرق تھا. فرق نہیں تھا تو ایک محبّت میں نہیں تھا لیڈی مہر نے انہیں محبّت دی تھی تو وو بھی کنجوس نہیں تھے.

رات تک جب آخری تحفہ بھی آ چکا تو ان سب نے آتش دن کے پاس بیٹھ کروو سب تحائف کھولے اتنے بیش قیمت تحائف تھےکو امرحہ کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گیں تھیں. لیڈی مہر ایک تحفے کو کھولتیں،اسے کتنی ہی دیرچھوتی رہتیں ہونٹوں سے لگتیں ور اپنی آنکھوں پر رکھ لیتیں. وو تحائف بلا شبہ بہت قیمتی تھے کیوں کہ انہیں محبت سے خریدا گیا تھا. بے اولاد ہو کر بھی ایک خاتون نے اولاد والوں سےزیادہ خوشی پائی. یہ سب اس لیے ممکن ہوا تھا کہ انہوں نے انسانیت کی معراج کو چھو لیا تھا. انہوں نے رنگ و نسل کو مٹا کر ان سب کو گلے سے لگایا تھا.  

وہ ایک ایک تو تحفے کو کھولتیں اور اسے بھیجنے والی کے بارے میں انہیں بتاتی جاتیں.

*********

"دیکھو ذرا مورگن کو.." اتنی مہنگی گھڑی مجھے بھیج دی. مجھے اس کی ضرورت ہے یا اسے.. اب میں کچھ کہوں گی تو ناراض ہو جاۓ گی. ہر سال مجھے پہلے سے مہنگا تحفہ دیتی ہے. پارٹ ٹائم جاب کرتی ہے... جب گھر آیا کرتی تھی تو میرے دائیں کان کے ساتھ اپنا بایاں کان جوڑ کر سویا کرتی تھی اور اگر سوتے میں اس کا سر کھسک جاتا یو اٹھ کر پھر سے میرے کان سے کان ملا کر سو جاتی تھی... جانے اسے کیا خبط تھا. کہتی تھی رات میں خوابوں میں جو کچھ بھی آپ سنتی ہیں..میں بھی وہ سننا چاہتی ہوں ... اور اگلے دن اٹھ کر مجھے بتایا کرتی تھی کہ رہے مجھے آنے والےسارے خواب اس نے بھی سنے ہیں..." ساتھ ساتھ لیڈی مہر اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتی رہیں.  

یہ باتیں سن کر جان کر امرحہ کو لگ رہا تھا اس نے ملک نہیں بدلا... دنیا ہی بدل لی ہے... کیا دنیا میں لیڈی مہر جیسے لوگ بھی ہیں.

"یہ ڈینس نے خود بنایا ہے ." انہوں نے لکڑی کے نفیس تختے کو ان سب کے سامنے کیا.. تختے پر ایک تصویر کھدی جس میں ایک عورت کرسی پر بیٹھی ہے اس کے سر پر فرشتوں کا ہالہ چمک رہا ہے اور دس بچے اس فرشتہ صفت خاتون کے سامنے بیٹھے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں.

*********

" یہ دیکھو کیا بنا ڈالا ڈینس نے مجھے.. آج کل جرمنی میں ہوتا ہے. اپنا بزنس کر رہا ہے اور ایک این جی او بھی چلا رہا ہے ... یہ بارہ سال کا تھا جب ایک رات میرے پاس رہا تھا تو رات کے کسی پہراپنے بستر سے نکل کر میرے بیڈ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا. نجانے کب تک کھڑا رہا. جب اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ یہ میرے پاس کھڑا مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے. کیا مجھ سے زیادہ کوئی عورت اس کرہ زمین پر ایسی خوش قسمت   ہو گی جسے اس کی اولاد راتوں کو ایسے اٹھ اٹھ کر محبت سے دیکھتی ہو."

**********

بوہت دائر تک لیڈی مہر سب کی باتیں کرتی رہیں. پھر امرحہ انہیں ان کے کمرے میں لی آئی. بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ایک چھوٹی سی تصویر فریم میں رکھی تھی' وہ پہلے وہاں موجود نہیں تھی. 

"یہ عالیان نے دی ہے.." لیڈی مہر تصویر کو ہاتھ میں لے کر اسے ہونٹوں سے لگانے لگیں.   تصویر ہاتھ سے بنائی گئی تھی جس میں عالیان نے اپنے تخیل کو دکھایا تھا کہ وہ لیڈی مہر کو نوجوان اور خوبصورت کیسے دیکھنا چاہتا ہے.

"بہت پیار کرتا ہے مجھ سے .." انہوں نے امرحہ کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا. انہوں نے اپنے سب بچوں کے بارے میں بتایا تھا. اب وہ اس کے بارے میں کیوں نہ بتاتیں.

"اٹھارہ سال کا ہونے کے بعد جب یہ ادارے سے نکلا تو میں اسے گھر لی آئی. یہ میرے دوسرے سب بچوں میں سب سے چھوٹا تھا اور بچپن میں بہت رویا کرتا تھا . جب یہ ایک دن اور ایک رات میرے پاس رہ کر جاتا تو مجھے بتایا جاتا کہ وہ  واپسی پر بہت ڈسٹرب ہو جاتا ہے' روتا ہے ' رات رات بھر سوتا نہیں کھانا نہیں کھاتا.. پھر میں جا کر اسے مل کر آتی لیکن اسے گھر نہ بلاتی   ... پھر یہ بڑا ہو گیا تو میں نے سوچا اب اسے اپنے پاس رکھوں گی.. وہ گھر آ گیا  اور بہت خوش تھا بلکہ خوشی سے روتا رہا. کئی کئی گھنٹے وو گھر کی دیواروں کو کمروں کو دیکھتا رہتا ' آتش دان کے قریب بیٹھا اونگھتا رہتا اور پھر رات  رات بھر ٹی وی پر ایکشن فلمیں دیکھتا رہتا... میں نے سوچا' نیا نیا گھر کا ماحول ملا ہے شائد اس لیے' لیکن کئی ہفتے گزرگئے اس کے معمولات میں تبدیلی نہ ہوئی دن بھر باہر کھیلتا.. رات کو فلم اور ویڈیو گیمز' میں نے انتظار کیا کہ شاید وہ خود کو بدل لے ...

***********

وہ بڑا ہو چکا تھا اب اسے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا. زندگی میں آگے بڑھنا چاہئیے تھا  لیکن وہ  مجھے مایوس کر رہا تھا. ایک دن جب شدید برف باری ہو رہی تھی' میں نے اس کے چند گرم کپڑے ایک بیگ میں رکھے اور اسے چند پاؤنڈز دے کر گھر کے دروزے کے باہر کیا اور اس سے کہا 

"انسان بن جاؤ تو آ جانا .. اپنے گھر کو میں تمہیں برباد کرنے نہیں دوں گی."

"پھر ! امرحہ کو بے تحاشا حیرت ہوئی. لیڈی مہر اتنی سختی سے کم لیتی رہی تھیں 

پورا ایک سال محھے اس کی کوئی خبر نہیں ملی، یہ تو میں جانتی تھی کہ وہ بہت ضدی ہے غصہ بھی بہت آتا ہے اسے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسے مجھ سے ناراض ہو جائے گا. مجھے دکھ ہوا کے شاید میں نے اس کے ساتھ زیادہ ہی سختی سے کام لیا لیکن میں کیا کرتی میرے گھر کا آرام و آسائش اسے برباد کر رہا تھا میں اپنے گھر کو آگ لگا سکتی تھی لیکن آلیاں کو ایسے ناکام ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی 

لیڈی مہر کے بیڈ کے قریب کاؤچ پر بیٹھے امرحہ تھوڑی دیر کو چپ سی ہو گئی... اس کے دونوں بھی لگاتار فیل ہوتے رہتے تھے اسکول اور کالج میں لیکن کبھی انہیں دانٹ کی علاوہ کچھ نہیں کہا گیا تھا بابا ان کا جیب خرچ بند کر دیتے تو اماں چپکے سے انہیں پیسے دیتی رہتیں.

ورنہ دادی. آئے دن وہ نئی سے نئی موٹر سائیکل بدلتے دن رات بائیک چلاتے اور رات گے گھر آتے. اور نہیں تو کمپیوٹر یا موبائل کے ساتھ مصروف رہتے اور اماں بابا کے سامنے یہ سب کرتے .. لیکن کبھی انہیں ٹھیک کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تھی. اور تو اور اگر وہ سو رہے ہوتے اور دادا انہیں اٹھانے کی کوشش کرتے کہ بہت سو لیے تو اماں اور دادی دادا سے لڑنے لگتیں کہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے انہیں..بچے ہیں.. سونے دیا جائے.

"یہ بچے ہیں .. دن کے دو بج رہے ہیں.. کام والوں نے اپنے دن کا آدھا رزق کما لیا ہے. اس عمر میں میں نے اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھا لی تھی." دادا کہتے.

"وہ وقت اور تھے" اماں برا مان جاتیں. 

"وہ اچھے وقت تھے . میرے ابا جی مجھے سو جوتے لگتے تھے اگر میری آنکھ اذان فجر کے بعد کھلتی تھی.

**********

مسجد کے امام صاحب نے بچوں کو جلدی اٹھانے کی عادت ڈالنے کے لیے اذان فجر کی ذمہ داری باری باری سب پر لگائی تھی.سمجھ دار لوگ تھے اس زمانے کے.حکماٹر سے تربیت کرتے تھے. میری اماں تندور پر روٹیاں لگاتی تو میرا باپ مجھے تندورپربیٹھا دیتا، کہتا تجھے بھی پتا چلنا چاہئیے کہ تیری ماں کیسے جھلس کر تیرے لیے روٹی پکا رہی ہے. میرے ابا جی کے نہانے کے بالٹیاں میری ماں مجھ سے بھرواتی، کہتی'تمہارے لیے محنت مشقت کر کے آتا ہے 

. اس کی دھول مٹی صاف کرنے کی مشقت تم کرو... اگر ہمارے ماں باپ ہمارے چاؤ چونچلے ہی کرتے رهتے تو وقت کی سختی نے ہمیں پیس کر رکھ دیا ہوتا اور ہم چلنے سے پہلے ہی گرنے جیسے ہو جاتے."

"بس بس ...." دادی کو ہمیشہ دادا کا لیکچر برا لگتا. 

دادا کے اس لیکچر کی سمجھ امرحہ کو اب آ رہی تھی.  " پھر کیا ہوا..."" امرحہ کو بہت دلچپسی ہو رہی تھی اس قصے میں .

"مجھے اتنا تو یقین تھا کہ وہ محفوظ ہو گا لیکن کبھی کبھی مجھے بہت ڈرلگتا. فون بجتا تو میرا دل سہم جاتا... میرے کان ڈور بیل کی آواز پر لگے رهتے لیکن پورا سال بیت گیا. اس کی کوئی خبر نہ ملی. ایک رات میں سو رہی تھی تو کسی نے میرا لحاف اٹھا کر بادام کے چھوٹے سے کیک پر ایک موم بتی جلا کر میرے آگے کیا.. وہ عالیان تھا. وہ کھڑکی کے راستے میرے کمرے میں مجھے سرپرائز دینے آیا تھا..."

"اور یہ روایت اب تک قائم ہے.."

"ہاں! لیڈی مہر مسکرانے لگیں. "لیکن اب کچھ ایسے کہ میں اپنا کمرہ بدل لیتی ہوں. وہ ایک ایک کھڑکی پھلانگتا جھانکتا آتا ہے. اس رات اس نے مانچسٹر یونیورسٹی کا سٹیڈنٹ کارڈ میرے آگے رکھا.

"میں انسان بن چکا ہوں" اس نے فخر سے مجھے بتایا. 

*********

"یونیورسٹی نے اسے اسکالر شپ دیا تھا" لیڈی مہر نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی.." اس نے مجھے مایوس نہیں کیا تھا. جب میں نے اپنے سب بچوں کو گود لیا تھا' اس وقت میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں بہتر انسان بناؤں گی. مجھے کوئی بھی راستہ اپنانا پڑے دریغ نہیں کروں گی. ایک عورت کی گود میں جب بچہ آتا ہے تو اس پر نبیوں اور ولیوں جتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے . ایک ایسا فرض جس میں غفلت کی گنجائش نہیں ہے. جب ایک انسان کو پرورش کے لیے ... تربیت کے لیے ایک دوسرا انسان دیا جاتا ہے تو جیسے کل انسانیت  کی لگامیں اس کے ہاتھ میں دے دی جاتیں ہیں کہ اسے ابلیس بنا دو کہ کل انسانیت کے لیے وبال جان بن جائے یہ وہ بندہ بشر جو اپنے آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں خیر کی روشنی بکھیرتا چلا جاۓ.. سارے انسان خیر ہوتے ہیں امرحہ...بس ان کی پرورش کے جو گہوارے ہوتے ہیں وہ انہیں کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں.یہ سب پھول ہوتے ہیں' بس ہم ہی انہیں توڑ کر مسل کر اپنی مرضی کے کیچڑ میں پھینک دیتے ہیں."

ویرا کو  ‏ Platt linE ‏ پر واقع گیلری آف کا سٹیوم جانا تھا.پہلے اس نے امرحہ کے لمبے بالوں کی لٹوں کو گول گول بل دے کر مخصوص روسی انداز میں گوندھا پھر اسے ساتھ چلنے کے لیے کہا. میں سائیکل پر نہیں جاؤں گی.کیوں ابھی بھی ڈرتی ہو سائیکل پر بیٹھنے سے.جیسے تم چلاتی ہو کوئی بھی ہمیشہ کے لیے ڈر سکتا ہے.یونیورسٹی تک ٹھیک ہے کہیں اور جانا ہے تو سب وے یا بس. ٹھیک ہے دونوں بس میں‏ platt line‏ آ گئیں موسم بدل تو ویرا لانگ شوز پہننے لگی تھی چست جینز جیسے جنگل میں شیر کے شکار کے لیے جارہی ہو.بالوں کے نت نئے اسٹائل بنائے ہوئے وہ اپنی آنکھوں کو ایسے چوکنا رکھ کر چلتی جیسے کسی خفیہ ایجنٹ کی ایجنسی ہو.امرحہ کو اس کے ساتھ چلتے ہوئے ایسا احساس ہوتا جیسے وہ اس کی باڈی گارڈ جیسے کوئی امرحہ کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہچانا سکتا.وہ دل ہی دل میں خواہش کرتی کہ کاش وہ بھی ویرا جیسی ہو جائے.اس نے ویرا سے پوچھا نہیں خود ہی سے سوچ کر کہ وہ خریداری کرنے جارہی ہے کپڑوں کی لیکن۔گیلری پہنچ کر اندازہ ہوا کہ شائد ویرا یہاں اپنے کسی آرٹیکل کے لیے مواد اکٹھا کرنے آئی ہے یا اپنے بلاگ کے لیے کچھ تصویریں لینے.جس باریک مبنی سے وہ ملبوسات کا جائزہ لے رہی تھی وہ عام انداز نہیں تھا.وہی ایجنٹ کا سا انداز. تمہارا یہاں چوری کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے نا؟ آواز کو آہستہ رکھ کر امرحہ نے پوچھا.تم میرے بارے میں ایسے بھی سوچ سکتی ہو؟ ایجنٹ نے اسے گھورا وہ تم اسی قسم کی فلمیں دیکھتی ہونا مطلب جو فلموں میں دیکھتی ہوں وہں سب کرنے بھی لگوں مجھے یقین دلاؤ پاکستان میں سب تمہارے جیسے نہیں ہیں! امرحہ نے منہ پھلا لیا اور ایسا انداز اپنا لیا کہ وہ اب ویرا سے کوئی بات نہیں کرے گی شام تک.

بلکہ رات تک....

********

"اپنا یہ منہ ایسے ہی پھلا تے رکھنا  لیکن کھولنا مت" میں یہاں مخصوص طرز کا ایک لباس ڈھونڈنے آئ ہوں' جب وہ مل جے گا تو باقی کی تفصیل بھی بتا دوں گی. تم چاہو تو الگ سے گیلری کو دیکھ سکتی ہو. فارغ ہو کر میں تمہیں ڈھونڈ لوں گی. ویرا چونتی کی رفتار سےایک ایک شو کیس کے آگے سےسرک رہی. وو دونو اس وقت اٹھارویں صدی کے سیکشن میں تھے. 

نہ صرف مانچسٹر بلکہ پورے برطانیہ میں "دی گیلری اف کسٹم ہاؤسز" اپنی انفرادیت میں یکساں حیثیت کی ملک گیلری ہے. گیلری بیس ہزار سے زائد آئٹمز رکھتی ہے. لیٹ 17 سے اب تک کے فیشن کے مردانہ زنانہ بچگانہ کپڑے جوتے زیورات اور ایسی دوسری چیزیں  بڑے پیمانے پر کاسٹنگ ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھے گے ہیں. یعنی یہ ہاؤس ایسی سب چیزوں کا جدید طرز سے سجا عجائب گھر ہے. ظاہر ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے  خاص طور پر سترہ،اٹھارہ اور انیسویں صدی  کے حصے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں. یقین نہیں اتا کہ کبھی یورپ میں بھی خواتین نے دستانے پہنے تھے. اسکارف کے استمال کو لباس کی طرح ضروری سمجھا جاتا تھا. ایسے گھیر دار لباس پہنے جاتے تھے کہ اصل جسامت کے بارے میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا. تو پھر ایسے پیارے ملبوسات سے انہوں نے کیونکر اپنی جان چھڑالی؟ ترک کیوں کر دئیے؟ 

**********

تغیروقت کی روح ہے. اور بلاشبہ آنے والا وقت گزر جانے والے وقت سے بہتر ہوتا ہے. . ہوتا رہے گا..ایسا ہی فرمایا گیا ہے. ان ملبوسات نے امرحہ ہو  مبہوت کر دیا. وو بیحد نفاست سے سلائی کیے گۓ تھے. انہیں پہننے سے زیادہ دیختے رہنے کو دل چاہتا . مومی پتلے جو انہیں پہنے کھڑے تھے. سانس لیتے لگتے اور دیکھنے والوں کو اپنے ساتھ وقت کے تغیر کے سفر پر جانے پر مجبور کر دیتے. امرحہ نے ان کے ساتھ وقت کا سفر کیا. جب وہ جی بھر کر گیلری دیکھ چکی تو ویرا کے پاس آئ. وہ ایک وکٹورین شو کیس کے سامنے کھڑی پنسل سے کاغذ پر سکیچ بنا رہی تھی.

"اب یہ کیا کر رہی ہو؟" 

"اپنے لیے ڈریس بنا رہی ہوں" اپنے کم میں مصروف وہ بولی.

وہ ایک وکٹورین فراک کا سکیچ بنا رہی تھی. جس کے بازو کہنی تک تھےاور اگی جالی لگی ہی تھی جو کلائی پر بٹرفلائی ساخت میں بند ہو جاتی تھی.فراک تین چار مختلف رنگ کے کپڑوں سے بنائی تھی لکن اس کا پرائم کلرہلکا نیلا تھا، اور جا بجا اس پر سفید جالی کے پرچے لہریے چھوڑے گے تھے. اس کا گھیرا اتنا تھا کہ امرحہ کے پانچ شلوار سوٹ بن سکتے تھے.

امرحہ نے ویرا کے پسند کی داد دی. بلا شبہ وہ ایک بے حد نفیس فراک تھی. اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اسے دیکھنے سے ہی ایک شان کا احساس ہوتا تھا. معتبری اور اعلی ذوق کا . وہ اپناکام مکمل کے چکی تو دونوں باہر آگۓ. امرحہ کے پاس مزید دو گھنٹے تھے پھر اسے اپنی جاب پر جانا تھا.

"کیسا ہے..؟"  ویرا نے سکیچ اس کے آگے کیا.

"زبردست.... پر اس کا کرو گی کیا؟"

"بہت ہی خاص دن پہنوں گی"

"اپنی شادی پر"

"اس سے بھی خاص دن"

"شادی سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے...." کانووکیشن پر؟"

********

"میرے نزدیک شادی سے بھی زیادہ ایک اور دن بہت زیادہ خاص ہوتا ہے کسی لڑکی کے لیے... جب اسے لگتا ہے کہ اسے دو زندگیوں کے ٹریکس کو ایک کر دینا چاہیے... جب وہ یہ فیصلہ کرتی ہے تو اسے اپنی زندگی میں کسی اور ایک ہی جیسے بیحد اہم اور اکلوتے انسان کو شامل کرنا ہے.

یعنی وہ وقت جب دو لوگ بالآخر یہ طے کر لیتے ہیں. کہ ان میں بادشاہ کون ہے.اور ملکہ کون"  آخری فقرہ ویرا نے نچلے لب کا کونہ دانتوں میں لے کر شرارت سے چھوڑتے ہوئے کہا 

:" جب کوئی تمھیں پرپوز کرے گا اس دن ؟"

ویرا دل کھول کر ہنسی . "یہاں میں نے تھوڑی سی تبدیلی کر دی ہے ... جس دن میں اسے پرپوز کرونگی اس دن..." جس دن تم مجھے اس میں " سکیچ کی طرف اشارہ کیا " دیکھو سمجھ لینا میں معرکہ سر کرای ہوں"

امرحہ کو اس کا اعتماد اچھا لگا.. وہ جانتی تھی اسے پرپوز نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ اہم کام وہ خود کرنا پسند کرے گی.. ایک فراک امرحہ کو بھی بہت پسند آی تھی وہ ہلکے گلابی رنگ کی تھی' جس پر ہلکے نیلے ' سرخ ' پیلے پروں والی تتلیتوں کو ایسے بنایا گیا تھا جیسے ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتی دوڑتی شرارتیں کرتی کھیل کود کی حد کرتی ہوں

امرحہ اس فراک کو اپنے سب سے خاص دن اپنی شادی کے دن زیب تن  کرنے کی خواھش کو اپنے اندر پیدا ہونے سے نہ روک سکی . یہ خواشیش اچانک اس کے اندر جاگی ورنہ اس نے کبھی اپنی شادی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا تھا اس نے تو کبھی اس شخص کے بارے میں نہیں سوچا تھا جسے کبھی تو اس کی زندگی میں آنا ہی تھا.

*******

اس کی منگنی ہوئی تو بھی اسے کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ  کون شخص ہے . اسے صرف اپنے گھر کے ماحول سے اپنے آس پاس کے ماحول سے نکلنے میں دلچسپی تھی حتیٰ کے اس کی شادی بھی طے ہو گی تھی  تب بھی اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کے وہ کون ہے کیسا ہے . 

اس نے کی بار اس کے بارے میں سوچا کہ ایک دادا کے علاوہ وہ کیوں باقی سب سے لاتعلق رہتی ہے. ان کے ساتھ تعلق کیوں نہیں بنا پاتی... اس کی دوستیں دور دور سے دوستیں ہی کیوں رہتیں ہیں وہ اس کے اور قریب کیوں نہیں جا پاتی؟

اس نے دادا کو یہ سب بتایا تو وہ خاموش سے ہو گۓ. اس وقت تو نہیں لیکن آنے والے دنوں میں دادا نے اسے بتایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہے کیوں کہ آج تک سب نے اسے تکلیف ہی دی ہے.اسے سب انسان ایک جیسے لگتے ہیں' صرف تکلیف دینے والے.اندر کے اس وہم اور خوف کی وجہ سے اسے کوئی اتنا اچھا لگتا ہی نہیں.کہ وہ اس کی ذات میں دلچسپی لے.

وہ اور ویرا platt fields پارک آ گے. سندوچز اور کوک ان کے ہاتھ میں تھی. چلتے چلتے ایک دم ویرا اچھلی اور ساتھ ہی روسی زبان میں گالی دی. پھر تیزی سے سپرمین کی طرح اڑ کر چھلانگ لگا کر اسکیٹنگ کرتے ہوۓ ایک ہپ ہوپ بواۓ کو گردن سے جا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پر لاتوں گھونسوں اور گالیوں کی بارش کر دی' پھر اس نے لڑکے کو کسی بلی کے بلونگڑے کی طرح اٹھایا اور جھیل  کے ٹھنڈے پانی میں اچھال دیا' شڑاپ کی آواز آئ اور کنارے پڑ کھڑی ویرا ویرا انگلی اس بلونگڑے کی طرف لہرا لہرا کر اسے مزید القابات سے نواز رہی تھی.

ویرا  کے گھسے اور انگلی لہرانے کی رفتار کو دیکھ کر امرحہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ رسی زبان میں اس وقت کیا نشر کیا جا رہا ہے. بلونگڑے نے پانی میں ڈبکی لگی اور تیزی سے ہاتھ پیر مارتا دوسرے کنارے سے نکل کر بھگ    گیا. 

"کیا کیا تھا اس پہاڑی بکرے نے؟" امرحہ کو اس کے بھاگنے کے انداز پر بہت ہنسی آئ.

*********

"میری کمر پر چٹکی بھر کر گیا تھا." "تم نے کیسے اس پر تشدد کیا. اسے ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا. کوئی مثلا ہو گیا تو.. وہ پولیس لے آیا تو..؟

"پولیس لے آے یا فوج میں تیار ہوں. ایک بار اسکول گراؤنڈ میں میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے ہراساں کیا تھا. میں دس سل کی تھی اس وقت. وہ ایک لوفر اور گندا لڑکا تھا اور اسکول کی ہر کمزور لڑکی اس سے ڈرتی تھی. اگلے دن خوف سے میں اسکول نہیں گئی.میرے پاپا کو میرے اسکول نہ جانے کی وجہ معلوم ہی تو انہوں نے مجھے گھر کے بھر پہاڑ کی طرح جمی برف میں گردن تک دبا دیا. میرے بدن پر ایکبھی گرم کپڑا نہیں تھا. میں چخننے اور چلانے لگی وہ خامشی سے میرے پاس بیٹھے رہے. جب میں بلکل مرنے کے قریب ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ برف کے اس ڈھیر میں دبے رہنا بہادری ہے یا اسکول سے چھٹی کر لینا . وہ بھی نام نہاد خوف اور بزدلی کی بنی پر ... وہ مجھ سے بار بار یہی ایک سوال پوچتھے رہے. میرے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے.اور میری جان نکلنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تو انہوں نے کہا اگر تم نے باقی ماندہ زندگی بھی ایسے بزدل بن کر گزارنی ہے تو خود کو اسی برف میں دفن رہنے دو.. مر جاؤ اسے ڈھیر میں.. بزدلوں کو مر ہی جانا چاہیے. 

امرحہ دنگ ویرا کی شکل دیکھ رہی تھی.

**************

**********جاری ہے**********یارم از: سمیرا حمید

قسط نمبر 20

****************

ویرا کو  ‏ Platt linE ‏ پر واقع گیلری آف کا سٹیوم جانا تھا.پہلے اس نے امرحہ کے لمبے بالوں کی لٹوں کو گول گول بل دے کر مخصوص روسی انداز میں گوندھا پھر اسے ساتھ چلنے کے لیے کہا. میں سائیکل پر نہیں جاؤں گی.کیوں ابھی بھی ڈرتی ہو سائیکل پر بیٹھنے سے.جیسے تم چلاتی ہو کوئی بھی ہمیشہ کے لیے ڈر سکتا ہے.یونیورسٹی تک ٹھیک ہے کہیں اور جانا ہے تو سب وے یا بس. ٹھیک ہے دونوں بس میں‏ platt line‏ آ گئیں موسم بدل تو ویرا لانگ شوز پہننے لگی تھی چست جینز جیسے جنگل میں شیر کے شکار کے لیے جارہی ہو.بالوں کے نت نئے اسٹائل بنائے ہوئے وہ اپنی آنکھوں کو ایسے چوکنا رکھ کر چلتی جیسے کسی خفیہ ایجنٹ کی ایجنسی ہو.امرحہ کو اس کے ساتھ چلتے ہوئے ایسا احساس ہوتا جیسے وہ اس کی باڈی گارڈ جیسے کوئی امرحہ کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہچانا سکتا.وہ دل ہی دل میں خواہش کرتی کہ کاش وہ بھی ویرا جیسی ہو جائے.اس نے ویرا سے پوچھا نہیں خود ہی سے سوچ کر کہ وہ خریداری کرنے جارہی ہے کپڑوں کی لیکن۔گیلری پہنچ کر اندازہ ہوا کہ شائد ویرا یہاں اپنے کسی آرٹیکل کے لیے مواد اکٹھا کرنے آئی ہے یا اپنے بلاگ کے لیے کچھ تصویریں لینے.جس باریک مبنی سے وہ ملبوسات کا جائزہ لے رہی تھی وہ عام انداز نہیں تھا.وہی ایجنٹ کا سا انداز. تمہارا یہاں چوری کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے نا؟ آواز کو آہستہ رکھ کر امرحہ نے پوچھا.تم میرے بارے میں ایسے بھی سوچ سکتی ہو؟ ایجنٹ نے اسے گھورا وہ تم اسی قسم کی فلمیں دیکھتی ہونا مطلب جو فلموں میں دیکھتی ہوں وہں سب کرنے بھی لگوں مجھے یقین دلاؤ پاکستان میں سب تمہارے جیسے نہیں ہیں! امرحہ نے منہ پھلا لیا اور ایسا انداز اپنا لیا کہ وہ اب ویرا سے کوئی بات نہیں کرے گی شام تک.

بلکہ رات تک....

********

"اپنا یہ منہ ایسے ہی پھلا تے رکھنا  لیکن کھولنا مت" میں یہاں مخصوص طرز کا ایک لباس ڈھونڈنے آئ ہوں' جب وہ مل جے گا تو باقی کی تفصیل بھی بتا دوں گی. تم چاہو تو الگ سے گیلری کو دیکھ سکتی ہو. فارغ ہو کر میں تمہیں ڈھونڈ لوں گی. ویرا چونتی کی رفتار سےایک ایک شو کیس کے آگے سےسرک رہی. وو دونو اس وقت اٹھارویں صدی کے سیکشن میں تھے. 

نہ صرف مانچسٹر بلکہ پورے برطانیہ میں "دی گیلری اف کسٹم ہاؤسز" اپنی انفرادیت میں یکساں حیثیت کی ملک گیلری ہے. گیلری بیس ہزار سے زائد آئٹمز رکھتی ہے. لیٹ 17 سے اب تک کے فیشن کے مردانہ زنانہ بچگانہ کپڑے جوتے زیورات اور ایسی دوسری چیزیں  بڑے پیمانے پر کاسٹنگ ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھے گے ہیں. یعنی یہ ہاؤس ایسی سب چیزوں کا جدید طرز سے سجا عجائب گھر ہے. ظاہر ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے  خاص طور پر سترہ،اٹھارہ اور انیسویں صدی  کے حصے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں. یقین نہیں اتا کہ کبھی یورپ میں بھی خواتین نے دستانے پہنے تھے. اسکارف کے استمال کو لباس کی طرح ضروری سمجھا جاتا تھا. ایسے گھیر دار لباس پہنے جاتے تھے کہ اصل جسامت کے بارے میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا. تو پھر ایسے پیارے ملبوسات سے انہوں نے کیونکر اپنی جان چھڑالی؟ ترک کیوں کر دئیے؟ 

**********

تغیروقت کی روح ہے. اور بلاشبہ آنے والا وقت گزر جانے والے وقت سے بہتر ہوتا ہے. . ہوتا رہے گا..ایسا ہی فرمایا گیا ہے. ان ملبوسات نے امرحہ ہو  مبہوت کر دیا. وو بیحد نفاست سے سلائی کیے گۓ تھے. انہیں پہننے سے زیادہ دیختے رہنے کو دل چاہتا . مومی پتلے جو انہیں پہنے کھڑے تھے. سانس لیتے لگتے اور دیکھنے والوں کو اپنے ساتھ وقت کے تغیر کے سفر پر جانے پر مجبور کر دیتے. امرحہ نے ان کے ساتھ وقت کا سفر کیا. جب وہ جی بھر کر گیلری دیکھ چکی تو ویرا کے پاس آئ. وہ ایک وکٹورین شو کیس کے سامنے کھڑی پنسل سے کاغذ پر سکیچ بنا رہی تھی.

"اب یہ کیا کر رہی ہو؟" 

"اپنے لیے ڈریس بنا رہی ہوں" اپنے کم میں مصروف وہ بولی.

وہ ایک وکٹورین فراک کا سکیچ بنا رہی تھی. جس کے بازو کہنی تک تھےاور اگی جالی لگی ہی تھی جو کلائی پر بٹرفلائی ساخت میں بند ہو جاتی تھی.فراک تین چار مختلف رنگ کے کپڑوں سے بنائی تھی لکن اس کا پرائم کلرہلکا نیلا تھا، اور جا بجا اس پر سفید جالی کے پرچے لہریے چھوڑے گے تھے. اس کا گھیرا اتنا تھا کہ امرحہ کے پانچ شلوار سوٹ بن سکتے تھے.

امرحہ نے ویرا کے پسند کی داد دی. بلا شبہ وہ ایک بے حد نفیس فراک تھی. اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اسے دیکھنے سے ہی ایک شان کا احساس ہوتا تھا. معتبری اور اعلی ذوق کا . وہ اپناکام مکمل کے چکی تو دونوں باہر آگۓ. امرحہ کے پاس مزید دو گھنٹے تھے پھر اسے اپنی جاب پر جانا تھا.

"کیسا ہے..؟"  ویرا نے سکیچ اس کے آگے کیا.

"زبردست.... پر اس کا کرو گی کیا؟"

"بہت ہی خاص دن پہنوں گی"

"اپنی شادی پر"

"اس سے بھی خاص دن"

"شادی سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے...." کانووکیشن پر؟"

********

"میرے نزدیک شادی سے بھی زیادہ ایک اور دن بہت زیادہ خاص ہوتا ہے کسی لڑکی کے لیے... جب اسے لگتا ہے کہ اسے دو زندگیوں کے ٹریکس کو ایک کر دینا چاہیے... جب وہ یہ فیصلہ کرتی ہے تو اسے اپنی زندگی میں کسی اور ایک ہی جیسے بیحد اہم اور اکلوتے انسان کو شامل کرنا ہے.

یعنی وہ وقت جب دو لوگ بالآخر یہ طے کر لیتے ہیں. کہ ان میں بادشاہ کون ہے.اور ملکہ کون"  آخری فقرہ ویرا نے نچلے لب کا کونہ دانتوں میں لے کر شرارت سے چھوڑتے ہوئے کہا 

:" جب کوئی تمھیں پرپوز کرے گا اس دن ؟"

ویرا دل کھول کر ہنسی . "یہاں میں نے تھوڑی سی تبدیلی کر دی ہے ... جس دن میں اسے پرپوز کرونگی اس دن..." جس دن تم مجھے اس میں " سکیچ کی طرف اشارہ کیا " دیکھو سمجھ لینا میں معرکہ سر کرای ہوں"

امرحہ کو اس کا اعتماد اچھا لگا.. وہ جانتی تھی اسے پرپوز نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ اہم کام وہ خود کرنا پسند کرے گی.. ایک فراک امرحہ کو بھی بہت پسند آی تھی وہ ہلکے گلابی رنگ کی تھی' جس پر ہلکے نیلے ' سرخ ' پیلے پروں والی تتلیتوں کو ایسے بنایا گیا تھا جیسے ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتی دوڑتی شرارتیں کرتی کھیل کود کی حد کرتی ہوں

امرحہ اس فراک کو اپنے سب سے خاص دن اپنی شادی کے دن زیب تن  کرنے کی خواھش کو اپنے اندر پیدا ہونے سے نہ روک سکی . یہ خواشیش اچانک اس کے اندر جاگی ورنہ اس نے کبھی اپنی شادی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا تھا اس نے تو کبھی اس شخص کے بارے میں نہیں سوچا تھا جسے کبھی تو اس کی زندگی میں آنا ہی تھا.

*******

اس کی منگنی ہوئی تو بھی اسے کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ  کون شخص ہے . اسے صرف اپنے گھر کے ماحول سے اپنے آس پاس کے ماحول سے نکلنے میں دلچسپی تھی حتیٰ کے اس کی شادی بھی طے ہو گی تھی  تب بھی اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کے وہ کون ہے کیسا ہے . 

اس نے کی بار اس کے بارے میں سوچا کہ ایک دادا کے علاوہ وہ کیوں باقی سب سے لاتعلق رہتی ہے. ان کے ساتھ تعلق کیوں نہیں بنا پاتی... اس کی دوستیں دور دور سے دوستیں ہی کیوں رہتیں ہیں وہ اس کے اور قریب کیوں نہیں جا پاتی؟

اس نے دادا کو یہ سب بتایا تو وہ خاموش سے ہو گۓ. اس وقت تو نہیں لیکن آنے والے دنوں میں دادا نے اسے بتایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہے کیوں کہ آج تک سب نے اسے تکلیف ہی دی ہے.اسے سب انسان ایک جیسے لگتے ہیں' صرف تکلیف دینے والے.اندر کے اس وہم اور خوف کی وجہ سے اسے کوئی اتنا اچھا لگتا ہی نہیں.کہ وہ اس کی ذات میں دلچسپی لے.

وہ اور ویرا platt fields پارک آ گے. سندوچز اور کوک ان کے ہاتھ میں تھی. چلتے چلتے ایک دم ویرا اچھلی اور ساتھ ہی روسی زبان میں گالی دی. پھر تیزی سے سپرمین کی طرح اڑ کر چھلانگ لگا کر اسکیٹنگ کرتے ہوۓ ایک ہپ ہوپ بواۓ کو گردن سے جا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پر لاتوں گھونسوں اور گالیوں کی بارش کر دی' پھر اس نے لڑکے کو کسی بلی کے بلونگڑے کی طرح اٹھایا اور جھیل  کے ٹھنڈے پانی میں اچھال دیا' شڑاپ کی آواز آئ اور کنارے پڑ کھڑی ویرا ویرا انگلی اس بلونگڑے کی طرف لہرا لہرا کر اسے مزید القابات سے نواز رہی تھی.

ویرا  کے گھسے اور انگلی لہرانے کی رفتار کو دیکھ کر امرحہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ رسی زبان میں اس وقت کیا نشر کیا جا رہا ہے. بلونگڑے نے پانی میں ڈبکی لگی اور تیزی سے ہاتھ پیر مارتا دوسرے کنارے سے نکل کر بھگ    گیا. 

"کیا کیا تھا اس پہاڑی بکرے نے؟" امرحہ کو اس کے بھاگنے کے انداز پر بہت ہنسی آئ.

*********

"میری کمر پر چٹکی بھر کر گیا تھا." "تم نے کیسے اس پر تشدد کیا. اسے ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا. کوئی مثلا ہو گیا تو.. وہ پولیس لے آیا تو..؟

"پولیس لے آے یا فوج میں تیار ہوں. ایک بار اسکول گراؤنڈ میں میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے ہراساں کیا تھا. میں دس سل کی تھی اس وقت. وہ ایک لوفر اور گندا لڑکا تھا اور اسکول کی ہر کمزور لڑکی اس سے ڈرتی تھی. اگلے دن خوف سے میں اسکول نہیں گئی.میرے پاپا کو میرے اسکول نہ جانے کی وجہ معلوم ہی تو انہوں نے مجھے گھر کے بھر پہاڑ کی طرح جمی برف میں گردن تک دبا دیا. میرے بدن پر ایکبھی گرم کپڑا نہیں تھا. میں چخننے اور چلانے لگی وہ خامشی سے میرے پاس بیٹھے رہے. جب میں بلکل مرنے کے قریب ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ برف کے اس ڈھیر میں دبے رہنا بہادری ہے یا اسکول سے چھٹی کر لینا . وہ بھی نام نہاد خوف اور بزدلی کی بنی پر ... وہ مجھ سے بار بار یہی ایک سوال پوچتھے رہے. میرے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے.اور میری جان نکلنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تو انہوں نے کہا اگر تم نے باقی ماندہ زندگی بھی ایسے بزدل بن کر گزارنی ہے تو خود کو اسی برف میں دفن رہنے دو.. مر جاؤ اسے ڈھیر میں.. بزدلوں کو مر ہی جانا چاہیے. 

امرحہ دنگ ویرا کی شکل دیکھ رہی تھی.

**************

تم اتنی سطحی ہو امرحہ یا تم ان لوگوں کی باتوں کا دھیان دیتی رہی ہو جو نفرت اور انتشار کے موجد ہیں جو ہمیشہ قدرت کے قوانین میں گھستے ہیں اور پورے دل سے ان قوانین میں ردوبدل میں کر دینا چاہتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو ایک پھول

بھی خود نہیں بنا سکتے لیکن اسی پھول کو ناپسندیدہ قابل نفرت ضرور بنا سکتے ہیں.علامت آخر کیا چیز ہوتی ہے؟یہ پھول ہے امرحہ؟صرف پھول اگر یہ اس سے زیادہ کچھ اور بھی ہے تو وہ یہ کہ یہ اپنے وجود میں کامل ہے.یہ خود کو خود ہی کامل کرتا

**************************

ہے.اس کا کھلتا ہوا رنگ دیکھو کتنا کامل ہے.یہ اپنے رنگ میں نہ کہیں کم نہ کہیں زیادہ.ایک جیسا اس کی پنکھڑیاں کتنی  نرم اور ملائم ہیں کتنی جادب نظر کوئی ملاوٹ نہیں ان میں دنیا کی بہترین فیکٹریوں میں بننے والا ریشم بھی اس جتنا ملائم نہیں ہو گا جتنا یہ زمین کے وجود سے نکلا ہوا ہے. دیکھو قدرت کی قابلیت داد دو قدرت کو تعریف کرو قدرت کی الٹا تم اسے ناپسندیدہ علامتیں دے رہی ہو.

تم نے اس کی خوبصورتی پر غور نہیں کیا اور اسے ناپسندیدہ جان لیا. سر اٹھا کر آسمان کو دیکھو اگر ساری دنیا اس آسمان کوکوئی فضول اور بکواس علامت قرار دے دے گی تو تم بھی اسے برا مان لو گی. وسیع مندر نیلی جھیلیں سبزو سفید پہاڑ کتنے کامل ہیں.اگر انہیں کوئی علامتیں دے دی گئی تو کیا نفرت کرنے لگو گی ان سے اپنی تخلیق میں یہ پھول کسی سے کم نہیں کائنات کی کسی بھی سے نہیں.اپنے مقام پر بادشاہ ہے.اس کے سر پر تاج ہے اس کی تخلیق کا کہ تمہاری تخلیق جیسی ہونی مقصود پائی تھی تم ویسے ہی ہو. یہ کسی بھی طرح ہیج نہیں اس میں کوئی کمی نہیں کمی ہیں تو ان دماغوں میں جن میں یہ فتور پیدا ہوتا ہے. کوئی پھول کوئی رنگ قدرت کی بنائی کوئی چیز قابل نفرت نہیں ہوتی.یہ خطبی لوگوں کی باتیں میں تم وہ سبق کیوں پڑھ رہی ہو جو دنیا کے مخبوط الحواس اس لوگوں نے غائب دماغ میں لکھا ہے.قدرت کے خلاف جاکر لکھا ہے.قدرت کو ناخوش کرنے کے لیے لکھا ہے.قدرت کو ہیچ کرنے کے لیے لکھا ہے. امرحہ حقیقتا چپ ہو چکی تھی.اس کی ساری زندگی پیلے پھول کو نفرت کی علامت سمجھتے گزر جاتی. 

***********************

اگر اسے یہ سب نہ بتایا جارہا ہوتا آخر اس نے آج تک یہ بات خود کیوں نہ سوچی.دماغ تو اس کے پاس بھی تھا نا. میرا ذاتی خیال ہے کہ پھولوں کے دو تاجروں نے کاروباری حسد کا نتیجہ ہے یہ سب.ایک تاجر کے پاس پیلے پھول ہوں گے اور وہ کاروبار میں ترقی کر رہا ہو گا.اس کے پیلے پھولوں کا باغ تیزی نے پھل پھول رہا ہو گا‎‏.دوسرے رنگ کے ہوں گے چلو سرخ لگا لو اب سرخ پھول کے مالک نے یہ سوچا ہو گا کہ پھول کو کسی ایسے جذبے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو راتوں رات اس کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا تو اپنے کاروباری حلیف کے پھول کو کسی ایسے جذبے کے منسلک کر دیا جائے کہ لوگ اسے لینا ہی پسند نہ کریں.پھر اس نے یہ کیا اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا.دیکھو تم نے کیسے میرے ہاتھ میں میرے پھول واپس کر دیے.یہ وہی پھول جو مجسم شاہکار ہیں. 

*************************

امرحہ نے اس کے ہاتھ سے پھول واپس لے لیے اور تیزی سے بس کی طرف بھاگی جس میں بیٹھ کر اسے جانا تھا.عالیان اس سے چند قدم دور تھا.یہ بات تمہیں کس نے بتائی عالیان؟ بس کی کھڑکی سے سر نکال کر اس نے پھولوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا. سمیرا نے.عالیان نے تیز آواز میں کہا بس دور چلی گئی تھی لیکن وہ وہیں کھڑا بس کی گزرگاہ کو دیکھتا رہا.رات کے ڈنر کا اہتمام ٹھیک ٹھاک تھا.دادا آن لائن دیکھ کر اس نے سادھنا کا بنایا کیک کاٹ لیا تھا.لیڈی مہر نے اسے یونیورسٹی کی تصویر والا کراس بیگ دیا تھا.سادھنا نے باریک سی پازیپ اور این اون نے ہاتھ کی بنی ایک چھوٹی سی گڑیا جو اس کی ماں نے اس کے بیگ میں ایک درجن سے زیادہ رکھ دی تھیں کہ یونیورسٹی میں اسے جو اچھا لگے انہیں دیتی جائے.ایک اس نے لیڈی مہر کو دی. امرحہ نے اس گڑیا کو یونیورسٹی بیگ کے اوپری سطح پر لگا لیا.سب کو معلوم ہوتا چاہیے تا کہ این اون اسے پسند کرتی ہے.اس نے اپنے گھر میں کبھی سالگرہ نہیں کی تھی کیونکہ اسے اپنے دنیا میں آنے کی کوئی خوشی نہیں تھی بلکہ اسے یہ سوچ کر ہی کوفت ہوتی تھی کہ وہ آج کے دن پیدا ہوئی تھی.

************************

 ایک ایسی تاریخ جسے دادی سال میں کتنی بار دہراتی تھی کہ اس دن یہ یہ ہوا. اس نے سادھنا کو ایک بار ایسے ہی یہ سب بتایا تو وہ حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی.لیکن تم تو مسلمان ہو امرحہ اور مسلمانوں میں تو یہ سب باتیں نہیں ہوتی. امرحہ اسے کیا بتاتی کہ اب مسلمانوں میں کیا کیا ہونے لگا ہے.ہمارے محلے میں ایک مسلمان خاندان آباد تھا.مجید بھائی تھے.اسکول میں پڑھاتے تھے اور اپنا ٹیوشن سینٹر چلاتے تھے ان کی نئی نئی شادی ہوئی تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا پھر اسی مہینے ان کی ٹیوشن سینٹر میں آگ لگ گئی.اور پھر چند ہی دنوں بعد ان کے مکان کی چھت گر گئی. سب نے کہا بہو سبز قدم ہے لیکن ان کی ماتا اور وہ آگے سے ہنستے رہتے کہتے جو ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے.

************************

 دو تین سال برابر ان کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا رہا لیکن انہوں نے کبھی ایک بار بھی لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے کہ یہ سب ان کی شادی کے بعد ان کی بیوی کے قدموں سے ہوا ہے وہ سب سے یہی کہتے کہ ہمارے مذہب ہمیں ایسا کہنے اور سوچنے سے منع کیا ہے. سادھنا آتش دان کے قریب بیٹھی آریان کے موزے بن رہی تھی اور بہت مدلل انداز سے اسے سب بتا رہی تھی. اس کے پاس سادھنا کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ وہ مسلمان وہ ہے اور مسلمان ایسا ہیں سوچتے اس کا جواب اس کی دادی اس کی ماں اور خاندان کے باقی لوگوں کے پاس تھا. وہی بتا سکتے تھے کہ قرآن پاک میں تو ایسا کچھ نہیں لکھا پھر وہ کہاں سے سیکھ سیکھ کر یہ سب کہتے اور کرتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ان کے کہے ایک ایک لفظ کا حساب کتاب ہو گا.جو کیا ہو گا اس کے بارے میں پوچھا جائے گا.وہ کون سا جواب کھڑ کر دیں گے یہی کہ وہ کم عقل اور انجان تھے اور ان کے جواب کو درست مانا جائے گا کیونکہ جو کلام پاک پڑھتا ہے وہ نہ کم عقل ہوتا ہے نہ ہی انجان رہتا ہے.اگر وہ ٹھیک ٹھیک پڑھتا ہے تو ......

**************************

”کیا مسئلہ ہے آپ کا؟“ نفسیاتی ڈاکٹر

” میں فریشر فلو کا شکار ہوں۔“نیا اسٹوڈنٹ۔

اوہ..... لیکن اس کا کوئی علاج نہیں..... پرسکون رہیں.... وقت اس فلو کو نارمل کر دے گا۔وہ کم و پیش سب نئے آنے والوں میں سے اس کے تاثرات زائل ہو چکے تھے.ویلکم ویک کے بعد گاہے بگائے یہ سب اصطلاع اپنے سینیرز اور پروفیسرز سے سننے کو ملی کبھی طنزا اور زیادہ پر مذاقا۔ یونیورسٹی میں نئے آنے والے اسٹوڈنٹس کو مانچسٹر یونی اور شہر کا جو بخار چڑھتا ہے اسے فریشر فلو کہا جاتا ہے۔اس فلو کے حامل فریشرز بہت زیادہ بولتے ہے ۔ایک دم سے سب جان لینا چاہتے ہیں. رات رات بھر جاگتے ہیں.بہت کھاتے ہیں.بلاوجہ ہی یونی اور شہر میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں.مانچسٹر نائٹ لائف سے ایسے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسے پڑھنے نہیں سیاحت کرنے گھر سے نکلے ہیں. شروع شروع میں جب وہ مانچسٹر یونی کا ایک چکر لگایا کرتی اور بلاوجہ ہی مختلف ڈپاٹمنٹس میں گھومتی پھرتی تو دائم وغیرہ کا گروپ اسے بہت سنجیدگی سے کہا کرتا۔

" تھوڑا وقت لگے گا لیکن تم ٹھیک ہو جاؤں گی۔ یونی بھاگی نہیں جا رہی. دو سال میں تمہارے پاس آرام سے ایک ایک پروفیسر' سٹوڈنٹ' ڈیپارٹمنٹ' گردن' لائبریری'میوزیم گھوم پھر کر دیکھ لینا. اپنے اس فلو کو تھوڑا کم کرنے کی کوشش کرو".

اتنی سنجیدگی سے کی گئی نصیحت کے باوجود ہفتے میں دو بار تو ضرور ہی یونی میوزیم جاتی. فارغ وقت ملتا تو وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس اور باغ دیکھتی رہتی. لیکن اب چونکہ اس فلو کے اثرات زائل ہو چکے تھے اب تو اپنے ڈیپارٹمنٹ تک ہی چلیجاتی تھی تو بڑی بات لگتی تھی.

************************

جب جب اسے اسائنمنٹ ملت' اس کی جن پر بن جاتی. اسے لگتا اس سے اسائنمنٹ نہیں ہو گی اور اسے یونی سے نکال دیا جاۓ گا' فلحال ابھی تک نکالا تو نہیں گیا تھا لکن وی اس نکا لنے کے بارے امن سوچتی ضرور رہتی تھی. ایسے وقت میں پڑھائی ایک ازدھا بن جاتی جو ہڑپ ککر جانے کے لیے تیار نظر آتی.

پہلا سمسٹر اپنے اختتام کے قریب  تھا، ہر ایک کے ہاتھ میں کتاب اور ونیلا کوک نظر اتی. لائبریری کی طرف آمدورفت ایسے تھی ' جیسے وہاں بننے بنائے اسائنمنٹ  مل رہے ہیں. ایک دوسرے کی شکل دیختے ہی پہلا سوال کیا جاتا.

"اسائنمنٹ مکمل ہو گئی؟"

زیادہ لڑکے نہ میں سر ہلاتے نظر آتے.

دوسرا سوال"کتنے فیصد ہو گئی؟" 

امرحہ کی کل ملا کر چھ اسائنمنٹس تھیں. چار پر وہ کم مکمل کر چکی تھی  پانچویں پر کم مکمل ہونےمیں نہیں آ رہا تھا. جو جون ملٹن کی لوسٹ پراڈیز کے کردار' مائیکل' رافیل اور شیطان کے تجزیے پر مشتمل تھا. جون ملتان کے کرداروں کو پڑھ لینا کسی معرکے سے   کم نہیں تھا  . کہاں ان کے تجربے لکھنا..جسے اچھی طرح اس EPIC POEM کی ہی سمجھ نہیں ای تھی' وہ اچھی طرح اس پر کام کیسیکر سکتی تھی. یعنی اچھی تارہا کم کرنے کے لیے اسے معمول سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت تھی.

اسائنمنٹ مکمل کرنے اور جمع کروانے کے اس دورانیے میں یونی کے ہر اسٹوڈنٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا کہ اس بیچارے کا کچھ کھو گیا ہے اور وہ پوری جان لگا کر اسے تلاش کر رہا ہے یا ایک وزنی پتھر اں کے سروں پر لٹک رہا ہے کسی بھی وقت گر سکتا ہے. ان دنوں اگر کوئی فضول گپیں ہانکتا کہیں نظر آجاتا تو اس پر جی بھر کر رشک اتا، کیونکہ وہ قابل' لائق فائق اسٹوڈنٹ اپنی اسائنمنٹ مکمل کر چکا ہوتا . اسے دیکھ کر یہ عہد کیا جاتا کہ اگلے سیمسٹر تک ہم خود کو بھی اتنے لائق فائق بنا لیں گے کہ دوسرے ہمیں دیکھ کر رشک کیا کریں گے. اور یہ عہد پھر اگلے سیمسٹر بھی کیے جاتے.

امرحہ کو ہر حال میں اپنی کارکردگی بہتر کرنی تھی' اسے انگلش لٹریچر اور لسانیت میں امسٹرس کرنا مشکل لگ رہا تھا بلکہ بہت مشکل' لیکن وہ اپنے باقی کلاس فیلوز کو دیکھتی تو سوچتی کہ یہ بھی تو تن دہی یہ پڑھ رہے ہیں نا.. تو اسے بھی پڑھنا تھا. کیسے بھی کر کے پچھتر فیصد تو اسے ہر حال میں پہلے سیمسٹر میں لینے ہی تھے. یونی میں اس کی پہلی کلاس تھی سر رابرٹ نے کلاس میں آکر اپنا تعارف کروایا اور ان کے سامنے ہاتھ سے بننے کارڈ رکھ دئیے.

***************

کارڈ پرپل رنگ کے تھے جس پر پیلے رنگ سے UOM' فرسٹ سیمسٹر' فرسٹ ڈے' فرسٹ کلاس لکھا تھا اور کونے میں سر رابرٹ کے دستخط تھے.

"اس پر آپ سب اپنا نام' اپنا تعارف لکھیں اور یہ بھی لکھیں کہ آپ سو فیصد میں سے کتنے فیصد کو چیلنج کرتے ہیں. اسی چلنج پر اپنا موٹوبھی لکھیں اور کارڈ مجھے واپس کر دیں."

سب نے کارڈز لکھے اور پھر بری بری سر رابرٹ نے کارڈ پڑھنے شروع کیے.. جس کا کارڈ پڑھتے' وہ کھڑا ہو جاتا اور ہاتھ ہلا کر سب کوہائے کہتا.

"یہ عربی کس نے لکھی ہے؟" 

امرحہ نے گردن گھما کر ایک نظر کلاس پر ڈالی. وہاں اسے تو کوئی اسٹوڈنٹ عرب سے نظر نہیں آرہا تھا. وہ کھڑی ہو گئی.

"یہ اردو ہو گی سر!" امرحہ نے کارڈ کی طرف اشارہ کیا. سر رابرٹ نے کارڈ کا رخ اس کی طرف کیا کہ وہ پہچان لے. "جی یہ میرا ہی کارڈ ہے."

"لیکن مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی." سر رابرٹ نے مسکرا کر نرمی سے کہا.

"آپ ہی نے تو کہا ہے سر! یہ ہمارا پہلا تعارف ہے اور میری مادری زبان میرا پہلا تعارف ہے"اردو" مجھے اردو کا استعمال ہی کرنا چاہئیے تھا نا سر...؟

سر رابرٹ متاثر نظر انے لگے.

"یہ کارڈ یہاں آ کر پڑھ کر سنا دیں.میں معذرت چاہتا ہوں میں فرنچ اور اٹالین جانتا ہوں. اردو نہیں."

وہ سر رابرٹ سے تھوڑا فاصلہ رکھ کر کھڑی ہو گئی. وہ اپنے قومی لباس شلوار قمیض میں ملبوس تھی.

دو اور پاکستانی لڑکیوں کے کارڈز سر رابرٹ پڑھ چکے تھے اور انہوں نے انگلش میں ہی کارڈ لکھے تھے.  دادا نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ اپنی نئیکلاس میں وہ اپن تعارف پہلے اردو میں کرواۓ گی پھر ترجمہ کر کے انہیں انگلش میں اپنے کوی کا مطلب بتاۓ گی. دادا نے اسےبار بار یہی کھا تھا کہ زندگی میں سب کرنا... لیکن اپنی زبان کو دوسرے نمبر پر لانے کی گستاخی نہ کرنا.

وہ کارڈ پڑھنے لگی.

"میں امرحہ ہوں. میرا ملک پاکستان ہے' جس کے تاریخی شہر لاہور کی میں رہائشی ہوں' مجھے مانچسٹر یونی کے کی پاکستان اسٹوڈنٹ سوسائٹی نے اسکالرشپ دے کر یہاں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا ہے. مانچسٹر یونی میری پہلی غیر ملکی درسگاہ ہے میں نے یہاں آ کر پڑھنے کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا. میری پہلی کلاس ویلکم ویک تھی جہاں مجھے یہ سکھایا گیا کہ مجھے اپنے کام خود کرنے ہیں.." پڑھ کر وہ مسکرانے لگی.

"ویل! آپ نے خود کو کتنے فیصد کا چیلنج دیا ہے؟"

"سیونٹیفائیو کا سر..."

جتنے بھی کارڈز میں نے اب تک پڑھے ہیں.انہوں نے خود کو سو فیصد کا دیا ہے' آپ نے خود کو سیونٹی فائیو کا کیوں دیا ہے؟"

"یہ سب بہت ذہین ہوں گے.. مجھے ذہین ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا." اس نے بری معصومیت سے کہا اور ساری کلاس دل کھول کر اس کی معصومیت پر ہنسی.

"آپ ذہین ہونے میں وقت کیوں لے رہی ہیں؟"

سر رابرٹ نے اپنی ہنسی کو چھپاتے اس سے پوچھا.

"میری بیوقوفی جانے میں وقت لے رہی ہے سر!"

اس بار کلاس کے قہقہے فلک شگاف تھے.

" مجھے لگتا ہے آپ مجھے بہت تنگ کرنے والی ہیں. مجھے ہر سیکشن میں ہی کوئی نا کوئی  ایسا ضرور ملتا ہے."

"کیسا سر؟"

"جس کی بیوقوفی جانے میں وقت لیتی ہے."

ہنسی کے فواروں کا ایک اور بم پھوٹا.. وہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی.

"آپ نے اپنا موٹو نہیں بتایا؟"

وہ اپنی سیٹ پر کھڑی ہو گئی. اس کا عتماد بڑھتا ہی جا رہا تھا" پاکستان کے بنی کہتے ہیں کام..کام...کام..میرا بھی یہی موٹو ہے سر." نظر نا لگے کیا انداز تھا امرحہ کا.

"آپ کسی اور کا موٹو اپنا رہی ہیں.آپ کو اپنی سوچ کو اجاگر کرنا چاہئیے  یہی آپ کو یہاں سکھایا جائے گا."

***************

"سر! میں نے خود سے زیادہ عقل مند شخص کا موٹو اپن لیا ہے. اس پر عمل کر کے میں وہ سب سیکھ جاؤں گی جو مجھے یہاں سکھایا جائے گا."

"آپ کا پہلا تعارف مجھے اچھا لگا امرحہ.."

سر رابرٹ کیس جملے کو سن کر اسے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی بڑی مہم سر کر لی ہو. ٹھیک ہے اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی.وہ اپنی سوچ کو قابو میںکر سکتی تھی. سر رابرٹ نے اس کی تعریف کی. اسے بہت اچھا لگا کہ اسے سراہا گیا. ٹوکا نہیں گیا. اگر وو کبھی روانی میں اردو بول جاتی تو سر روبیت بہت معذرت خوانہ عرض کرتے.

"امرحہ! کیا آپ اپنی بتا کو انگلش میں دوہرا دیں گی؟"

امرحہ سر رابرٹ کی اسی خوبی کی بہت قدر کرتی تھی کہ اگر وہ اپنی زبان کی عزت کرتے ہیں تو اس کی زبان کی بھی کرتے ہیں. دنیا میں وہ قومیں بے مثال ترقی کرتی حاصل کرتی ہیں جو اپنی قومی زبان کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتیں' پھر وہ عرش ہو یا فرش ہر جگہ ان کے نام کے جھنڈے گڑے ہوتے ہیں.

************

سر رابرٹ نے وہ سب کارڈز سنبھال کر اپنے پاس محفوظ کر لیے تھے. ان کا کہنا تھا کہ وو اپنے ہر نئےاسٹوڈنٹ کو ایسے کارڈ کی شکل میں اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتے ہیں اور جب وو بوڑھے ہو کر رٹائرڈ ہو جائیں گے تو وہ ان کارڈ کو نکال کر اپنے ہر اسٹوڈنٹ کو یاد کیا کریں گے.

اتنی سی بات سن کر امرحہ کی آنکھیں نم سی ہو گیئں. اس نے بیٹھے بیٹھے سر رابرٹ کو جو کے بمشکل پینتالیس سال کے لگتے تھے' بوڑھا ہوتے اور یونی سے ریٹریڈ ہوتے دیکھ لیا اور اپنی ڈگری کو ہاتھ میں لیے خود کو یونی سے   رخصت ہوتے بھی...

"اف... کتنے جذباتی لوگ ہیں نا ہم... ہاں لیکن کچھ بھی ہے بہت اچھے لوگ ہیں ہم.. سرد اور ٹھوس نہیں ہیں' نرم اور پرجوش ہیں."

پہلی کلاس کے پہلے وعدے کو امرحہ کو ہر صورت پورا کرنا تھا وہ خود کو پچھترفیصد کا چیلنج دی چکی تھی' اسے ہر حال میں اس چیلنج میں کامیاب ہونا تھا. پڑھائی اور پھر جاب.. اسے لگتا تھا وہ ایک ربورٹ بن چکی ہے. ہر وقت اس کے دماغ میں مارکو اور جانسن گھومتے رہتے.

**********

کتابوں کے بڑے بڑے پیراگراف اس کے خوابوں میں آتے اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی لپ ٹاپ پر اپنی اسائنمنٹ چیک کرتی. کیا اس نے خواب میں اے پیراگراف کو اسائنمنٹ میں شامل کیا ہے.اگر کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے نا..اگر نہیں کیا تو کیا کرے کیانہ.

وہ اپنے بیڈ پر کام کرتے کرتے سو جاتی. آنکھ کھلتی تو کچن میں جا کر کافی بناتی تا کہ نیند نہ آے اور پھر سے آ کر کام کرنے لگتی.

جس رات اس نے سارا کام بمشکل  مکمل کیا اس سے اگلا دن اسائنمنٹ جمع کرونے کا آخری دن تھا. ویرا اپنی اسائنمنٹ پہلے ہی جمع کروا چکی تھی. اس لیے آج پڑی سو رہی تھی. اسے دائر سے یونی جانا تھا. نیند سے بوجھل اپنی اکنکھوں کو مسلتے وہ بس سے یونی کے لی نکلی. بس میں بیٹھی اونگھنے لگی اور ایک اسٹاپ آگے چلی گے.

وہاں اتر کر پیچھے بھاگتے ہوے یونی چلی آیی. بھاگتے ہوے یونی پر کی اور فائل جمع کرونے کے لیے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھی. ہر ایک کو جلدی تھی کہ اس کی اسائنمنٹ جمع ہو جاۓ. ایک دم سے وہ جہاں کی تہاں رہ گی. اس کی فائل کہاں تھی جو وہ گھر سے لے کر نکلی تھی. وو اتنی افرا تفری میں تھی کہ اس نے اپنے بال بھی ٹھیک سے برش نہیں کیے تھے لکن اسے یاد تھا کہ وہ موٹی فائل کو گھر سے لے کر نکلی تھی. 

**********

پوری یونی اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی. وہ کی راتوں سے سوئی نہیں. آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے بن چکے تھے سر امن ہلکا ہلکا درد رہنے لگا تھا. اور اکنہوں کی پتلیاں کیک ایک چیز کو ذرا سی دیر دیکھتے رہنے کے بعد تھکنے لگتیں تھیں. اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا. وہ جہاں کھڑی تھی وہاں سے اس نے دور  دور تک نظریں  دوڑائیں. فائل کہیں بھی نہیں تھی آنکھوں کو مسلتے سر کو تھامتے وہ ایک جگہ بیٹھ گی اور سوچنے لگی فائل کے ساتھ کیا ہوا. وہ کہاں گئی. سادھنا کو فون کیا. اس نے اس کا کمرہ پورا گھر دیکھ لیا لیکن فائل نہیں ملی . حتی کہ وو گھر سے بس اسٹاپ کے راستے تک بھی دیکھ آئ.

ٹپ ٹیپ آنسواس کی آنکھوں سے گرنے لگے. اسے لگنے لگا کہ اس کی تعلیم پراس کی اپنی نحوست کا سایہ پر ہے. وو بیٹھے بیٹھے دقیانوسی سے ہو گیی. آنکھوں کے آگے اس نے ہاتھ رکھ لیا کہ کوئی اسے دیکھ نہ سکاے. بہت دنوں بعد اس کا دھاڑیں مارنے کو جی چاہ رہا تھا. اگر وہ جاب نہ کر رہی ہوتی تو اب تک اسائنمنٹ مکمل کر کے دی چکی ہوتی . . . زندگی اتنی مشکل ہو چکی تھی کہ اسے ٹھیک سے کھانا خانے کا بھی وقت نہی ملتا تھا.اسے ایسی زندگی کی ہدایت نہیں تھی.

اس لیے بھی وہ توازن نہیں رکھ پا رہی تھی. دوسرے اس میں ایک بری عادت تھی کہ وہ کم کو اگلے دن پر ٹالتی رہتی تھی. وہ اسائنمنٹ پر چند گھنٹے کم کرتی اور یہ سوچ کر کہ ڈیڈ لائن کے ختم ہونے میں ابھی دن ہیں اگلے دن پر کم چھوڑ دیتی. یہ کرتے کرتے وہ ڈیڈ لائن کے آخری گھنٹوں تک آ گئی.

وہ اپنی سستی کو لے کر رونے لگی کہ وہ بھی باقی سب کی طرح دن رات ایک کر کے کسی بھی طرح کم سے کم دو دن پہلے اپنی اسائمنٹ جمع کروا دیتی تو افراتفری میں یہ سب نہ ہوتا۔اٹھ کر اس نے اس راستے کو بھی دیکھ لیا تھا جس پر سے چل کر وہ آئی تھی۔اپنے آنسوؤں کو صاف کر کے وہ عالیان کے اپارٹمنٹ گئی۔”کیا ہوا امرحہ؟“ اس کی شکل دیکھتے ہی وہ حیران ہو گیا۔”میری اسائنمنٹ نہیں مل رہی ،شاید بس میں بھول آئی ہوں۔“

”تم روتی رہی ہو؟“اس کے پھر سے آنسو نکل آئے۔م”یں فیل ہو جاؤں گی نا..... میں فیل ہونا نہیں چاہتی عالیان۔“وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔”کس نے کہا تم فیل ہو جاؤ گی؟“وہ آنسوؤں کے ریلے کو اپنی آنکھوں کے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرنے لگی ۔وہ اسے کیا بتاتی کہ یونیورسٹی کے پہلے دن ویلکم ویک پر دائم نے اس کو کیسے الفاظ میں ویلکم کیا تھا۔دائم کا لیکچر سن کر اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مثالی کامیابی حاصل کرے گی لیکن وہ کیا کر رہی تھی اس نے مثالی محنت نہیں کی تھی۔اس نے کاہلی کا مظاہرہ کیا تھا۔اسے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا۔اس کی بری عادتیں اب تک اس کے ساتھ تھیں۔”تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے روتی کیوں ہو؟“

”یہ چھوٹی بات ہے؟“اس نے روتی ہوئی گلابی آنکھوں کو رگڑا۔”یونیورسٹی میں کہیں بھول گئی ہواپنی فائل؟“اس نے نفی میں سر ہلایا اس کی آواز رندھ رہی تھی اس لیے وہ کم سے کم بولنا چاہتی تھی۔عالیان اسے ڈپارٹمنٹ سے باہر لے آیا اور سبزے پر لے کر بیٹھ گیا۔تمہاری فائل مل جائے گی امرحہ!پر مجھے تمہارے رونے پر دکھ ہو رہا ہے تم کتنی کم ہمت ہو؟ہاں میں بہت کم ہمت ہوں۔میرے تم لوگوں جیسے مظبوط اعصاب نہیں ہیں۔اور تمہیں فخر بھی ہے کہ تم ایسی ہو.میں یونیورسٹی آفس جارہا ہوں تم یہیں بیٹھو اگر کسی اسٹوڈنٹ کو وہ فائل ملی ہو گی تو اس نے آفس میں جمع کروا دی ہو گی.کوئی اسٹوڈنٹ میرے ساتھ ایسی نیکی کیوں کرے گا بھلا؟ کیونکہ وہ فائل اس کے کسی کام کی نہیں ہو گی اور اس کی تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہو گی۔کہہ کر عالیان چلا گیا۔اسے یقین تھا کہ فائل بس میں رہ گئی ہے اور بھلا ٹرانسپورٹ میں رہ جانے والی چیزیں بھی کبھی کسی کو ملی ہیں۔اس نے دھواں دھار آواز کیے بغیر دل لگا کر رونا شروع کر دیا۔عالیان واپس آچکا تھا اور اس کے سر پر کھڑا خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا.

”میں ٹرانسپورٹ آفس جارہا ہوں ..... مجھے یقین ہے وہاں سے ضرور تمہاری فائل مل جائے گی۔“

امرحہ نے عالیان کو ایسے دیکھا جیسے کہ رہی ہو پاگل ہونا تم.....

”اگر تم بس میں ہی بھولی ہو ضرور مل جائے گی۔ میرا یقین کرو۔“

”وہ کیوں میری فائل سنبھال کر رکھیں گے؟“

”یہ یونیورسٹی بس ہے امرحہ!اور یہ شہر مانچسٹر جیسی یونیورسٹی رکھتا ہےاکثر اسٹوڈنٹس تمہاری طرح اپنی بہت سی چیزیں سب ویز، ٹرام اور بسوں میں بھول جاتے ہیں۔کیفے رسٹورنٹ اور سنیما میں بھی۔ان کی چیزیں ان تک پہنچ جاتی ہیں اکثر ......“

”میں نہیں مانتی کہ ایسا ہوتا ہو گا۔“

ہاں ! ایسا تب نہیں ہوتا جب ہم ان چیزوں کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرتے...... گم ہو جانے والی چیزیں ہمیشہ گم ہی رہتی ہیں ، جب تک انہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جائے....برا مت ماننا ‏‎ ‎یہ تمہارا کنٹری نہیں نے جہاں تم کچھ بس میں بھول جاؤ تو وہ تمہیں واپس نہ ملے....“

”تمہیں اتنے تنفر سے میرے ملک کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔“امرحہ نے فائل کے گم ہونے کا غصہ اس پر اتارا۔

” میں سے تنفر سے ذکر نہیں کیا میں حقیقت بتا رہا ہوں۔“

” مجھے نہیں جاننی کوئی حقیقت؟“

”جو لوگ تلخ حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کرتے انہیں بدلنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔“

ٹھیک ہے ساری اہلیت تم لوگوں کے پاس ہی ہے۔ہم سب ناکارہ ہی ہیں .....رہنے دو ہمیں ناکارہ ہی۔“

”میں نے ایسی بات نہیں کی کہ تم ایسے ناراض ہو“

” تم ایسی باتیں بھی نہیں نہیں کر رہے کہ میں خوش ہوں۔“وہ اٹھ کر چلی گئی۔وہ دائم کے پاس جارہی تھی۔ ”میں آدھے گھنٹے میں آتا ہوں امرحہ!“عالیان نے پیچھے سے آواز دی۔وہ دائم کے پاس آئی اس نے اسے ٹرانسپورٹ آفس جانے کے لیے کہا۔ظاہر ہے دائم تو جانے سے رہا ۔اسے ہی جانا تھا۔اس میں تو اتنی ہمت نہیں تھی کہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے چلی جاتی..

”اگر ٹرانسپورٹ آفس سے بھی نہ ملی؟“وہ اس خیال کو سوچ سوچ کر دہل رہی تھی لیکن اپنی جگہ سے ہل نہیں رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ مین گیٹ سے بس اسٹاپ کی طرف جارہی تھی تو اسے عالیان کی آواز سنائی دی۔وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔وہ تیزی سے سائیکل چلاتا اس کے پاس آرہا تھا۔بری طرح سے ہانپ رہا تھا۔یہ لو مل گئی۔اس نے فائل اس کے آگے کی۔فائل کو ہاتھ میں لے کر بھی امرحہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔کہاں سے ملی؟ ٹرانسپورٹ کے آفس سے اگلی بار فائل پر اپنا نام فون نمبر اور ایڈرس ضرور لکھنا۔اگر تم نے پہلے سے لکھا ہوتا تو تمہیں اب تک یہ مل گئی ہوتی۔تیز سائیکل چلانے کی وجہ سے اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔امرحہ اسے دیکھنے لگی۔دائم کی طرح اس نے اس اسے نہیں کہا تھا کہ وہ جائے اور اپنا کام خود کر لے۔ وہ گیا اور اس نے اس کا کام کر دیا۔اس کا شکریہ ادا کر کے وہ فائل جمع کروانے چلی گئی۔اس نے محسوس کیا کہ اس کا انداز ٹھیک نہیں تھا عالیان سے بات کرنے کا۔ جب ہم ہارے ہوئے دکھی یا مایوس ہوتے ہیں تو ہم اتنے بدمزاج کیوں ہو جاتے ہیں.......ہمارا سارا اخلاق کہاں رخصت ہو جاتا ہے.......ہم اتنے روتے ہیں تو ہم باقی سب ہنستے ہووؤں کو رلانا کیوں چاہتے ہیں۔اسائیمنٹس جمع کروانے کے بعد امرحہ عالیان کو ڈھونڈتی رہی لیکن ہے اسے نہیں ملا۔وہ جا چکا تھا۔اس کا کام ہو گیا تو اسے اپنے رویے پر افسوس ہوا۔اس کی فائل نہ ملتی تو وہ ایسے ہی بداخلاقی لا مظاہرہ کرتی رہتی؟”یہ کمزور اعصاب کے مالک ہونے کی نشانی ہے .....اور بلاشبہ یہ کوئی اچھی نشانی نہیں ہے۔“

”عالیان سے ملاقات ہوتی ہے تمہاری؟“لیڈی مہر پوچھ رہی تھیں۔ہے سب آتش دان کو پاس بیٹھے تھے۔ویرا اسے اپنے ساتھ دی پرنٹ ورک لے کر جارہی تھی۔وہ تیار بیٹھی تھی۔ویرا تو تیار ہورہی تھی 

”جی ہوتی ہے“

”دوست ہے تمہارا..... سب سے اچھا دوست ہے نا..... میرا بیٹا بہت اچھا دوست بنتا ہے۔“

”نا....نہیں“

” وہ تو یہ کہہ رہا تھا تم اس کی دوست ہو سب سے اچھی دوست۔“

امرحہ سوچنے لگی کیا وہ اس کا سب سے اچھا دوست ہے۔”تمہارے پاپا کیسے ہیں ان کی شاپ سیٹ ہوگئی؟“ ”جی.... وہ جلدی آپ کا قرض واپس......

”بدھو ہو... قرض کی بات کون کر رہا ہے.... تمہیں لگتا ہے میں نے اس لیے تمہارے پاپا کا تم سے پوچھا ہے.....مجھے لگتا ہے مجھے خاموش ہوجانا چاہیے۔“ا مرحہ شرمندہ سی ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔چینل تبدیل کر کے انہوں نے چارلی چیلن کی مووی لگا لی اور اسے دیکھنے لگیں جیسے اسکول سے چھٹی نہ کروائے جانے پر بچے خفا ہو کر والدین کو دیکھتے ہیں۔

”اگر آپ ایسے ہی خفا رہیں تو میں ویرا کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔“

انہوں نے پھولے منہ سے اسے ناراضی سے دیکھا۔”کبھی کبھی تم حد سے زیادہ بے وقوفی کر جاتی ہو۔“

”میں حد سے زیادہ بے وقوف ہوں۔“

”یہ کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔“ ماں اور بیٹا دونوں ایک ہی بات کرتے تھے۔

”جانتی ہوں۔“

”میں آگئی ۔“ویرا نے نشست گاہ میں آکر چلا کر کہا۔دراصل خود کو دکھا کر کہا ۔اس نے ہلکے گلابی رنگ کی فراک پہنی تھی۔اپنے لمبے بالوں کو ٹیل کی صورت باندھا تھا۔ہلکا میک اپ کیا گیا تھا اور خود کو اور پیارا بنا لیا تھا۔

”اسے کسی کلب نہ لے جانا۔“لیڈی مہر نے تاکید کی۔ ”معلوم ہے مجھے ویسے بھی یہ کلب میٹریل نہیں ہے۔“

”وہ تو تم بھی نہیں ہو۔“

”سب ہی جاتے ہیں ایک یہ امرحہ ہی نہیں جاتی ہے۔ویرا کسی قدر چڑ گئی تھی۔

”جائے گی بھی نہیں اس کے باپ دادا کی روایات نہیں ہیں یہ.....“

”تو برائی کیا ہے اس میں....؟“مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ویرا تم جاؤ فلم دیکھو اور گھر واپس آؤ۔اب ویرا کا یہ پہلے سے ارادہ تھا یا وہ شرارت کررہی تھی۔وہ اسے کلب لے آئی.اس نے سٹی سینٹر میں واقع دی پرنٹ ورک کو کئی بار باہر سے دیکھا تھا لیکن کبھی اندر نہیں گئی تھی. یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک تھی.یہاں مختلف کیفے بار کلب رسٹورنٹ جم اور اپنی طرز میں یکتا ایک سنیما موجود تھا ویرا اسی سنیما میں اسے فلم دکھانے لا رہی تھی.دی پرنٹ ورک ایک چھوٹا سا ڈیجیٹل شہر لگتا رنگا رنگ چہل پہل اور مختلف ملکوں کے افراد کی بھیڑ سے سجا سنورا۔”ہم سے ہے زمانہ“ کا نعرہ لگاتا ہوا

اندر جاتے تو لگتا لے باہر کوئی اور دنیا ہے ہی نہیں باہر آتے تو لگتا دنیا تو ساری اندر تھی. پہلے ویرا اسے لے کر گھومتی رہی.یہ جو دو گورے سامنے کھڑے ہیں انہیں دیکھ کر بتاؤ یہ کس قومیت کے ہیں.ویرا نے دو گورے چٹے لڑکوں کی طرف اشارہ کر کے اس سے پوچھا یونی میں بھی اکثر پوچھتی رہتی تھی.دونوں انگریز ہیں اس بار اسے یقین تھا اس کا جواب ٹھیک ہو گا.ویرا نے قہقہ لگایا دونوں انگریز کیسے ہوئے؟کیونکہ دونوں گورے ہیں اور وہ ایک اور درجہ ڈھونڈ رہی تھی کہ ویرا کا ایک اور بلند بانگ قہقہ جگمگ کرتی گزرگاہ کی شان بنا.ایک امریکی ہے اور دوسرا آئرش تم پھر سے غلط ہو.تمہیں کیسے پتا؟پتا چل جاتا ہے تمہیں اتنا تو معلوم ہے نا آئرش کسے کہتے ہیں؟امرحہ نے ہاں میں سر ہلایا جبکہ وہ نہیں جانتی تھی وہ اسے کیا بتاتی کہ اس یہاں سب گورے رنگ والوں کو انگریز ہی جانا اور کہا جاتا ہے.اب بھلے سے وہ کینیڈا کا ہو یا فرانس کا.مانچسٹر میں وہ رہ کر اسے اندازہ تو ہو چکا تھا کہ وہاں قومیت کا حوصلہ دے کر کافی بات کی جاتی ہے.بلکہ بات ہی قومیت سے شروع کی جاتی ہے.فلاں امریکی کا کافی کیفے فلاں عربی کا لل شاپ فلاں جرمن سر کا لیکچر اسے کوفت ہوتی تھی جب اس شخص کا نام بعد میں لیا جاتا اور قومیت پہلے.ویرا اپنے کلاس فیلوز کا ذکر کرتی تو ان کی قومیت سے شروع کرتی اور جب اسے ویرا کو کوئی بات بتانی ہوتی تو وہ کہتی فلاں جس کے بال لمبے ہیں پتلا سا لمبا سا جس کی گہری سبز آنکھیں ہیں مشکل سا نام ہے تمہارے ہی ڈپارٹمنٹ کا ہے بالوں کی پونی بناتا ہے. تو ساری معلومات ویرا اس کی ایک اچھی استاد تھی اور وہ خود بھی ویرا سے متاثر سی رہتی تھی

.چلتے چلتے ویرا ایک کیفے کے سامنے رکھے ایک بڑے سے کارٹون کے پاس کھڑی ہو گئی.جو زبان باہر نکال کر آنے جانے والوں کو چڑا رہا تھا.اس جن جیسی ہی ویرا تھی زبان نکال کر اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی. کلک می امرحہ.(میری تصویر بناؤ).امرحہ بے طرح ہنستے اس کی تصویریں بنا دیں.ویرا نے ٹھیک ویسے ہی امرحہ کو کھڑے ہونے کے لیے کہا. امرحہ نے خود کو بچانا چاہا لیکن اس نے اس جن کے ساتھ کھڑا کر دیا تو زبان باہر نکالنے کو کہا.وہاں انہیں یہ سب کرتے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا.لیکن امرحہ کو لگتا تھا.سب اسے ہی دیکھ رہے ہیں.سب اپنے آپ میں مگن تھے دیکھنے کا رواج وہاں نہیں تھا.زیادہ سے زیادہ ایک سرسری نظر ڈال لیتے.اس جن کے پاس کھڑے ہو کر ویرا نے دو انگلیوں کو زبان کے نیچے دے کر سیٹی بجائی سر سے اوپر ہاتھ لے جاکر تالی بجائی اور بائیں ہاتھ کو ہونٹوں کے کنارے رکھ کر او...و...و...و کی بن مانس جیسی آواز بڑے شوق اور خالص جنگلی انداز سے نکالی.یہ کیا کر رہی ہو؟یہ پرنٹ ورک میں آنے کا اعلان ہے.میں یہاں ایسے ہی انٹری دیتی ہوں.وہ ایسے انٹری دے سکتی تھی وہ ویرا تھی نا. تم جنگلی ہو؟کبھی کسی روسی کو جنگلی نہ کہنا ہم بوند بوند زندگی سے جمے زندہ دلی کے کرسٹل ہیں. زندگی کا سورج ہم میں سے ہو کر رنگوں کو چمک دیتا ہے.

 ہم موت سی برف میں دفن سرسبزچرگاہوں کے قہقہے لگاتے ہیں.یہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں.ہم جنگلی کیسے ہو گئے.ہم بوند بوند پانی سے جمے زندہ دلی کے کرسٹل ہیں امرحہ نے زیر لب اس قوت بخش جملے کو دہرایا اور کھل کر مسکرانے لگی.ویرا کی باتیں ایسی ہی ہوتی تھی۔ان میں سے احساس کمتری جھلکتی تھی نہ ہی مایوسی وہ کچھ اس انداز سے چلتی پھرتی مسکراتی اور باتیں کرتی جیسے دنیا اس کے استقبال کے لیے تیار کھڑی ہے اور اگر یہ دنیا اسے خوش آمدید کہنے پر آمادہ نہیں ہے تو وہ بہرحال اس کی پرواہ کرنے والی نہیں ہے.کیونکہ وہ اپنی الگ دنیا تخلیق کرنے کا کارصف جانتی تھی.پرنٹ ورک کا ایک راؤنڈ لینے کے بعد اسے ہارٹ راک کیفے لے آئی. جس کی بیرونی دیوار کے باہر ایک بڑا سا گٹار لٹکا سرخ و سفید روشنیوں سے جگمگا رہا تھا.یہ کیفے ہے؟ویرا گڑبڑا گئی.ہاں کیفے بھی ہے اندر اور بھی بہت کچھ ہے تم پہلے کبھی ہارٹ راک نہیں گئی.میں اس کا نام پہلی بار سن رہی ہوں.تمہارے ملک میں نہیں ہے یہ.یہ کیا ہر ملک میں ہے.دنیا کا کون سا بدنصیب ہو گا جو ہارٹ راک سے محروم ہو گا.ہے کیا اس میں؟اندر آجاؤ.ویرا اسے اپنے ساتھ لے گئی.دیواروں پر جابجا گٹار لٹک رہے تھے. کچھ پرانے فیشن کے کلو بوائے بیسٹ بھی دیواروں آویزاں تھے.کیفے کی سجاوٹ دیکھنے کے لائق تھی.اندر جاتے ہی اسے کئی جانے پہچانے یونیورسٹی کے چہرے نظر آئے.پھر اسے اپنی یونی کے اسٹوڈنٹس کا ہجوم نظر آیا.ان سارے کیفیز اور بارز میں اسٹوڈنٹس کی رعایتی قیمت پر ڈرنکس اور کھانے ملتے تھے.ویرا اسے بارز سٹینڈ کے پاس بیٹھا کر ضروری کام کا کہہ کر چلی گئی.جاتے جاتے وہ اس کے لیے ایک سوفٹ ڈرنک کا آڈر دے گئی تھی.

 بار سٹینڈ اسے ڈرنک دی اور کاک ٹیل بنانے لگا.اس کے دونوں بازوؤں پرکہہنیوں سے اوپر تک ٹیٹو کھدے تھے.دائیں بازو پر بھی جھاڑیوں میں سے ایک خونخوار بھیڑیا دانت نکو سے آنکھ جھکائے شکار پر جست لگانے کی تیاری کر رہا تھا اور بائیں بازو پر وہی بھیڑیا اپنے شکار کی گردن دبوچے غرا رہا تھا.اس کا شکار ایک انسانی کھوپڑی تھا.امرحہ نے کراہیت سے اپنی نظریں پھیر لیں.کاک ٹیل بناتے اس نے ترچھی نظروں سے امرحہ کو دیکھا اور زیرلب ہنسنے لگا.تمہیں یہ پسند آیا؟ اس نے بھیڑیے کی طرف اشارہ کیا.امرحہ نے منہ بنایا بلکل نہیں زہر لگ رہے ہیں. اتنی صاف گوئی کی شائد اسے توقع نہیں تھی.اس نے خود کو کام میں مصروف کرنا چاہا اور زیرلب بڑبڑانے لگا. ٹھیک دس منٹ بعد ڈی جے نے فل والیم میں ڈسک پلے کیا پہلے صرف ہلکا ہلکا میوزک بج رہا تھا.باہر شام گہری ہو رہی تھی.ہارٹ راک کے کونے کھدروں میں ہاؤ واؤ کرتا 

ہجوم ڈی جے کے آگے جمع ہونے لگا.ڈسکو لائٹ تیزی سے حرکت کرنے لگیں امرحہ گھبرا گئی.اس نے اس پاس دیکھا وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اصل میں یہ کون سی جگہ ہے.وہ سیڑھیاں اتر کر دو تین راہداریاں پار کر کے یہاں تک آئی تھی.وہ جلدی سے اٹھی اور اپنی دانست میں راہداریاں پار کر کے سیڑھیاں اتر کر بار سے باہر آگئی.لیکن وہ دراصل ہارٹ راک کے ہی ایک دوسرے حصے کے میں آ نکلی تھی. جہاں جوا کھیلا جا رہا تھا اور جہاں جوئے کی بڑی بڑی مشینیں رکھی تھی.اور وہ حواس باختہ سی ہو گئی.دادا کو اگر یہ سب معلوم ہو جائے تو اسے لینے خود مانچسٹر آجائیں.وہ واپس اس جگہ آئی جہاں ویرا اسے چھوڑ کر گئی تھی.لیکن ویرا ابھی تک نہیں آئی تھی.

”میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں۔“بار ٹینڈر نے بہت شرافت سے مسکرا کر امرحہ سے پوچھا۔

”مجھے باہر جانا ہے.... کس طرف سے جانا ہے؟“

” فرنٹ ڈور تو بند ہو چکا ہے تمہیں بیک ڈور سے جانا ہوگا۔“

” بیک ڈور کہاں ہے“اسے کیا معلوم تھا کہ ان ہارٹ راک میں کیا اصول و ضوابط تھے آنے جانے کے اور کہاں ان کے بیک ڈورذ تھے۔ہاتھوں کو تیزی سے نچا کر اس نے اسے بتایا کہ پچھلا دروازہ کس طرف ہے‏۔امرحہ کو ان بھیڑیے کھدے ہاتھوں کی حرکات کی قطعا سمجھ نہیں آئی۔ڈی جے ساؤنڈ بدل چکا تھا۔اس نے جانوروں کے چنگھاڑنے کی آوازوں کو ماڈرن ہیپ ہاپ میوزک کے ساتھ مکس کر کے فل والیم کر دیا تھا۔امرحہ کے رنگ تیزی سے بدلنے لگے۔تیزی سے کاک ٹیل بناتے ‏WE LOVE TO SCANEکی شرٹ پہنے اس نے امرحہ کی طرف دیکھا

”آؤ میرے ساتھ ۔“اس نے خود سے ہی کہا۔امرحہ تو اسے پہلی نظر سے ہی ناپسند کر چکی تھی لیکن اس کے جانے سے خود کو روک نہ سکی۔ڈی جے کامیابی سے وہ میوزک بجا رہا تھا جو سب کو جانوروں کی چنگھاڑنے پر مجبور کر رہا تھا۔وہ آگے چلنے لگا وہ اس کے ساتھ تھوڑا فاصلہ رکھ کر پیچھے چلنے لگی۔تین چار راہداریاں چل کر وہ تین بار سیڑھیاں اتر کر اس نے ایک دروازہ کھول کر کہا۔

”یہ ہے بیک ڈور تم یہاں سے جا سکتی ہو۔“

”شکریہ...“ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور دروازے کے پار ہوگئی۔

لیکن یہ تو....... وہ تو باہر کا راستہ ہی نہیں تھا۔فوری شاک کے زیر اثر آنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا کم روشنی والا کمرہ ہے۔جو مختلف چیزوں سے اٹا پڑا تھا۔اس کے پیروں کے پاس بہت سی خالی بوتلیں پڑی تھیں۔اور وہاں دو قدم کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی جگہ نہیں تھی بدبو کے بھبھکے تھے جو دم گھوٹ رہے تھے۔دروازہ دھڑ سے بند ہوا۔پھر فوری لاک ہوا اور چلا کر اس نے جو اسے باہر کا راستہ دکھانے لایا تھا کہا

”اب یہاں کئی بھیڑیے آئیں گے تمہاری گردن دبوچنے۔“

دور اوپر ڈی جے نے انسانی خود ساختہ چیخوں کے ساتھ ایک دوسرے میوزک کو مکس کر کے چلایا۔فل والیم سے_ہارٹ راک کیفے کا کلب بار اپنے عروج پر آگیا۔ امرحہ کی چیخ اس عروج میں دب گئی۔اگر کوئی اس وقت اس کی شکل دیکھ لیتا تو جان جاتا کہ موت سے بھی زیادہ دہشت ناک اگر کوئی چیز تھی تو اس وقت اس کی شکل پر چھائے خوف کے علاوہ کوئی اور نہیں تھی۔ اندھیرے کا ریلا اس کی آنکھوں میں گھستا چلا گیا۔اسے نظر آیا بند ہو گیا۔تیز سیٹی کی آواز اس کے دونوں کانوں سے سر کے اندر گھس کر درد ناک آوازیں گونجنے لگی۔وہ جہاں کی تہاں رہ گئی۔جس کھوپڑی کو بار ٹینڈر کے بازو پر بنے بھیڑیے نے منہ میں دبوچ رکھا تھا وہ وہی کھوپڑی بن گئی۔شکار کی گئی۔شکار ہو گئی۔اس نے سر کو جھٹکا دیا۔اسے کچھ نظر کیوں نہیں آرہا تھا۔ اس نے مسلسل دو تین جھٹکے دیے۔اسے دھندلا دھندلا نظر آنے لگا۔سر کو جھٹکے دینے سے اس کے سر میں ٹیس سی اٹھی اور وہ دیوار کا سہارا لے کر بیٹھنے پر لڑکھڑاتی ہوئی بوتلوں کے ڈھیر پر بیٹھ گئی۔ٹھنڈ میں بھی وہ پسینے سے بھیگ چکی تھی۔

*

اتنی سی دیر میں ہی۔اس کا ہاتھ کراس بیگ پر لگا۔اس کا بیگ اس کے ساتھ تھا۔اس کے پاس فون تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے فون نکالا وہ ویرا کو فون کرنے لگی۔بیل جا رہی تھی بیل جاتی رہی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا اس نے میسج لکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی انگلیوں کی کپکپاہٹ نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔وہ سادھنا کو فون نہیں کرنا چاہتی تھی_پولیس کو تو ہرگز نہیں۔ اس علاوہ اس کے پاس صرف چند اور دوسرے لوگوں کے نمبرز تھے۔وہ اپنی فون بک چیک کرنے لگی اور عالیان پر آکر رک گئی۔وہ ایک کلب کے کسی تہہ خانے میں بند کر دی گئی تھی اور خوف سے کانپ رہی تھی۔فون کال کے بٹن کو پش کرنے کے لیے اس نے اپنے جسم کی تھرتھراہٹ کو قابو کیا ہیلو عالیان میں امرحہ مجھے کسی نے یہاں بند کر دیا ہے۔ اپنے رونے پر قابو پاتے اس نے بہت دیر لگا کر جملہ مکمل کیا۔ٹھیک ہے تم ابھی وہیں رہو بےبی کونے میں خالی بوتلوں کے کریٹس کے پیچھے وڈکا رکھی ہے تم اسے لے سکتی ہو۔پولیس کو فون کرنے کی حماقت ہرگز نہ کرنا ورنہ تمہاری ڈیڈ باڈی بھی ان کے پاس آئے گی۔امرحہ کے ہاتھ سے فون گر گیا اور اس کی بیٹری نکل کر دور جا گری۔عالیان کے فون پر باریک اعصاب نچو رو دینے کا خوف کی رہنے اس کے وجود کا احاطہ کہ اس کے پاس ایک ہی حل تھا کہ وہ پولیس کو فون کرے عالیان ویرا اور وہ لڑکا کون تھے اس سوال کے بارے میں سوچتے ہی اس کی جان پیروں کی انگلیوں میں آنے لگتی تھی۔ویرا اسے بہانے سے یہاں لائی تھی پر کیوں اسے ایسے بند کرنے کے لیے۔وہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتے تھے اور عالیان یہ سب کیا تھا۔کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے بیٹری کو فون میں ڈالا اور کون ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئی۔اگر پولیس آئے گی اس کلب میں سے اسے برآمد کرے گی تو یہ خبر اخبارت تک بھی جائے گی یونیورسٹی کے ایک ایک اسٹوڈنٹ کو معلوم ہو جائے گا۔وہ تماشہ بن جائے گی

*

۔فون کو ہاتھ میں پکڑ کر گھٹنوں کو جوڑ کر وہ رونے لگی۔مانچسٹر میں پہلی بار پوری شدت سے روتی رہی روتی رہی۔اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پولیس کو فون کرے اور بعد کا سوچ کر وہ رو رہی تھی۔ایسے پردیس میں کسی کلب میں بند کئے جانے پر اپنی کم عقلی پر اتنی خود پر پردیس میں پڑنے والی اب تک باہر سے اندر آنے کے راستے ہی ٹھیک سے یاد نہیں کر سکی گھر سے باہر نکلنے کے لیے دو جوتے ہی نہیں ضرورت ہوتے جو پہن کر باہر چلا جاتا ہے۔وہ ہوش و مندی بھی ضروری ہوتی ہے جو گرنے نہ دے۔چوٹ تو ہرگز نہ لگنے دے۔ اس اسٹور میں پھیلی بدبو اسے پاگل کئے دے رہی تھی۔ ڈی جے کے میوزک پلے کرنے پر وہ اتنا گھبرا گئی تھی۔ اس نے اس گھبراہٹ پر قابو کیوں نہ پایا۔ایسا بھی ہوتا ہے کیا کہ پردیس میں تعلیم کی غرض سے آباد لڑکی ایسے گھبرائی اور بوکھلائی پھرے۔اے خدا میری مدد کر کسی کو بھیج دے میرے لیے۔ وہ دعا کر رہی تھی ساتھ ساتھ ویرا کو فون کر رہی تھی۔کہ ایک دم سے دروازہ کھلا اور سامنے خدا کی بھیجی مدد کھڑی تھی۔ عالیان۔امرحہ اس نے ابھی یہ کہا ہی تھا وہ دھکا مار کر اسے پیچھے ہٹاتی تیزی سے بھاگ کر اوپر آئی۔کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے مسکراتے اس منخوس انسان کو اس نے تیزی سے جاتے ہوئے دیکھا۔وہ لوگوں کے ساتھ ٹکراتی ٹکراتی گرتی پڑتی ہارٹ راک سے باہر نکلی

”امرحہ بات سنو۔“عالیان تیزی سے اس کےپیچھے بھاگتا ہوا آرہا تھا۔اسے آوازیں دے رہا تھا ۔لیکن وہ رکی نہیں،کیوں رکتی۔

***

”کہاں جا رہی ہو ؟میری بات سنو“

اس نے ایک دم لپک کر اس کا بازو تھام لیا۔امرحہ پر جیسے کسی نے جلتا ہوا تیل انڈیل دیا۔اس نے اپنے بازو کو ایک جھٹکے سے اس سے چھڑوا کر اس کے منہ پر ایک تھپڑ دے مارا۔دی پرنٹ ورک کی مصروف ترین راہ گزار پر کھڑے ہو کر ،کم سے کم پچاس یونیورسٹی اسٹوڈنٹ کو گواہ بنا کر تم تینو ں نے مل کر مجھ سے جو گھٹیا مذاق کیا ہے یہ اس لیے،اس نے تھپڑ کی طرف اشارہ کیا اور اسے گھورتی ھوئی تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔سڑک پر آکر اپنے لیے ٹیکسی دیکھنے لگی ۔غصے سے اسکا خون کھول رہا تھا ۔دکھ سے اسکی آنکھیں دھواں دھواں ہو رہی تھیں ۔ویرا عالیان کی کلاس فیلو تھی ،تیسرا بھی انکا کوئی کلاس فیلو ہوگا ۔اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ سب کیوں کیا گیا تھا ؟اسے یہ معلوم تھا کہ اسکے ساتھ یہ سب کر دیا گیا تھا ۔بس۔ اسنے ٹیکسی روکی اور اس میں بیٹھنے ہی لگی تھی کہ عالیان نے اپنے پیر کو ٹیک،کے دروازے میں پھنسایا ۔"میری بات سن کر جاؤامرحہ۔" اس نے تحمل سے کہا ۔اسکا چہرہ سرخ ھورھا تھا۔امرحہ نے منہ پھیر لیا اور سختی سے اسکا پیر پرے کر کے دروازے کو بند کر دیا اور ڈرائیور کو چلنے کے لیے کہا؟۔ وہ گھر پہنچی تو عالیان پہلے سے ہی دروازے پر موجود تھا ۔"میری بات سن لو امرحہ ۔شور مت کرنا ۔ماما سن لیں گی تو انہیں دکھ ھوگا ۔"

"ہاں دکھائی ھوگا انہیں کہ انکے بیٹے نے کیا شاندار حرکت کی ہے ۔""انہیں دکھ ھوگا کہ تم۔نے مجھے تھپڑ مارا ساری دنیا بھی گواہ بن کر آجائے گی تو وہ پھر بھی نہیں مانیں گی کہ میں نے کچھ برا کیا ہے ۔" "اچھا دھول۔جھونک رہے ہو ۔پھر انکی آنکھوں میں ۔"اسے پرے دھکیلتی وہ۔اندر جانے لگی ۔وہ۔ان میں سے کسی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ "انسان زندگی میں اس وقت زیادہ تکلیف آٹھاتا ھے جب وہ حقیقت جانے بغیر خود کو اندھا کر لیتاہے ۔اور اپنے اس اندھے پن کا علاج نہیں کروانا چاہتا ۔"عالیان اپنے مضبوط چوڑے جثے سے اسکا راستہ روکے کھڑا تھا ۔اسکا انداز ایسا تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے تک ایسے کھڑا رہ۔سکتا ہے ۔"کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے اب"وہ چلائی ۔"وہ کارل تھا تمھیں کیسے بتاؤں وہ میرا دوست بھی ہے اور دشمن بھی۔وہ جانتا ہے تم۔میری۔دوست بھی ھو۔اسٹوڈنٹ پارٹی میں وہ بھی تھا ۔مجھے نہیں معلوم کہ اس نے تمہیں بند کیوں کیا۔وہ کچن میں میرے پاس آیا اور مجھ سے فون مانگا۔دو منٹ بعد اس نے مجھے بتایا کہ اس نے تمھیں سٹور میں لاک کیا ہے ۔اس سے تفصیل جانے بغیر میں جلدی سے تمھارے پاس آیا ۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ تم جلدی پریشان ہو جاتی ھو۔اس سب میں میرا کیا قصور ھے۔امرحہ۔؟" امرحہ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔"تم لوگ کس قدر ظالم ھو۔کس طرح کی شرارتیں کرتے ھو۔کیسے لمحوں میں مزاق بنا کر رکھ دیتے ھو۔جان نکال دیتے ھؤ۔یہ سب ایسے کرتے ذرا نہیں جھجکتے۔

***

"میں ظالم نہیں ہو ں امرحہ۔تم مجھے ایک اور تھپڑ مار سکتی ھو۔لیکن تم ایسے روؤ نہیں ۔میں کارل سے نپٹ لوں گا ۔" امرحہ نے بیگ سے چابی نکال کر دروازہ کھولا ۔اور ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں صاف کرتی اندر چلی گئی ۔عالیان باہر ہی کھڑا رہ گیا ۔جب ٹھیک دو گھنٹے بعد جب امرحہ کے کمرے کی بتی گل۔ھو ئی تو وہ چلا گیا ۔وہ کارل کے پاس جا رہا تھا اسے ایک اور گھونسا مارنے ۔

ہارٹ راک کیفے فلور کے ڈانسنگ فلور پر جب میوزک عروج پر تھا اور سب ڈانس کرتے کرتے پاگل ہو رہے تھے ۔اس وقت جا کر اس نے کارل نامی لڑکے کو گھونسا مارا تھا۔وہ لڑکھڑا کر گرا اور ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ھوا۔"اس نے میرے ڈیڈیز کو برا کہا تھا۔"کارل نے اپنے ٹیٹو کی طرف اشارہ کیا ۔ "اس س دور رہنا کارل۔"عالیان کی آنکھیں اور سرخ ھو گئیں ۔”تمہاری گرل فرینڈ ہے وہ ۔“وہ مسکرا رہا تھا۔

”میں سب یہیں ختم کرتا ہوں ....بس بہت ہوا۔“

”کیا ختم کرتے ہو ؟“

”جو کچھ بھی اتنے سالوں سے ہمارے درمیان چلتا آرہا ہے۔ہمیں یہ بچکانہ کھیل اب بند کر دینا چاہیے۔“

”ایک دم سے تمہارا موڈ کیسے بدل گیا ....؟اس لڑکی کے لیے۔“

***

”وہ میری دوست ہے۔“

”دوستیں تو تمہاری اور بھی بہت ہیں۔یہ کون سی دوست ہے،جس کے لیے تم نے مجھے گھونسا مارا ہے۔“

”وہ مشرق سے آئی ہے۔اسے ہمارے ہاں کے ماحول کی عادات نہیں ہے.....وہ ڈر جاتی ہے۔“

”اوہ واؤ.....اسٹوڈنٹ پارٹی میں اسے ڈرتے میں نے بھی دیکھا تھا۔کمال کا ڈرتی ہے وہ ۔بہت مزہ آتا ہے اسے ڈرانے میں....جب میں دوازہ بند کر رہا تھا تو اس کی شکل دیکھنے لائق تھی۔ویسے تم کب سے مشرق کو سمجھنے لگے ہو۔“ اسے وہی چھوڑ کر عالیان واپس کچن میں گیا ۔وہ کچن کا ہیڈ تھا۔امرحہ کےپیچھے گھر تک جاتے ہوئے اس نے مینجر کو فون کر کے بتا دیا تھا وہ ایک ضروری کام سے جا رہا ہے ایک،دو گھنٹے میں واپس آجائے گا۔کارل بھی ایسی سینٹر میں تھا ۔جس میں عالیان نے پرورش پائی تھی۔وہ اچھے دوست بھی تھے اور اچھے دوشمن بھی ۔ابتدا کارل نے کی تھی۔اس نے سینٹر میں موجود ایک دوسرے لڑکےکے ہاتھ پاؤں باند ھ ویے تھے اور منہ پر کپڑا لپیٹ دیا تھا لڑکا بے ہوش ہو گیا تھا۔جب اس سلسلے میں تفتیش کی گئی تو کارل نے مصومیت سے ہاتھ عالیان کی طرف اٹھا کر کہا۔”اس نے میں نے خود اسے یہ کرتے دیکھا تھا۔“عالیان اس کا منہ دیکھتا رہ گیا اور سزا کے طور پر اسے پورا ایک مہینہ ایک وقت کا کھانا ملتا رہا۔پھرعالیان نے کارل کے زمہ جو لانڈری ہوا کرتی تھی۔اس میں کافی کاگاڑھا محلول ،سیاہی،ببل گم چبا کر ڈال دی۔مشین سے نکلنے کے بعد کپڑے ناقابل استعمال کی عملی شکل اختیار کر چکے تھے۔اسے مزید کچھ بھی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔سب جانتے تھے کارل ہر وقت ببل کھایا کرتا ہے۔ عالیان نے یہ بدلہ ٹھیک آٹھ ماہ بعد لیا تھا۔وہ کارل کے پاس جسے پورا ایک ہفتہ بنا بستر کے زمین پر سونے کی سزا ملی تھی گیا اور اسے کہا ”حساب برابرہوگیا نا کارل..“

کارل نے پوری بتیسی نکال کر دیکھائی۔

بلکل

***

”اور یہ حساب برابر ہو گیا نہ “وہ ہر چھ ،سات مہینے بعد ایک دوسرے کو کہتے ...ایک دوسرے کی تاک میں رہتے۔اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی یہ سلسلہ ٹوٹ ٹوٹ کر چلتا رہا۔عالیان نے اس کا بریک اپ کروایا تھا ایش سے ۔ایش سے مختلف ملاقاتوں کے دوران وہ اسے بتاتا رہتا کہ کارل کبھی کبھی اتنا جنونی ہو جاتا ہے کہ اپنے کپڑے تک پھاڑ لیتا ہے۔صابن کھانےلگتا ہے۔شیمپو پینے لگتا ہے۔اپنے سارے جوتے بیڈ پر بچھا لیتا ہے اور ان پر سوتا ہے اور تو اور پھندا ڈال کر کم سے کم پانچ منٹ تک لٹکا رہتا ہے،کہتا ہے موت کا مزہ لےرہا ہوں ۔ایش کی شکل دیکھنے لائق ہوتی۔وہ جانتی تھی عالیان اور کارل ایک جگہ رہے ہیں،تو اب عالیان سے بہتر کارل کواور کون جان سکتا ہے بھلا ....وہ کیسا جنونی ہے یہ عالیان سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔دونوں میں بریک اپ ہو گیا۔

”وہ مجھے واقع اچھی لگتی تھی۔“کارل نے اس کے روم میں آکر صرف اتنا کہا۔وہ خوفناک حد تک سنجیدہ تھا۔

”تمہیں سارہ بھی اچھی لگتی تھی۔“عالیان نے کندھے اچکائے۔”ویسے کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایش کے پاس جاؤں اور اس سے یہ کہوں کہ جو کچھ میں نے کہا وہ سب جھوٹ تھا۔“

”ایک اچھا کھلاڑی کبھی ایسی فاش غلطی نہیں کرے گا۔وہ کبھی منت اور درخواست نہیں کرے گا۔وہ صرف توجہ سے اپنا کھیل کھیلے گا۔“”اگر تم میری پروجیکٹ فائل مجھے واپس کردو تو میں ایش کے پاس جاسکتا ہوں۔“

”میں نے کہا نا ایک اچھا کھلاڑی کبھی منت نہیں کرتا۔“

وہ کمرے کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔دو ہفتے پہلے وہ اسکی ایک اہم فائل لے اڑا تھا جو اس نےکہی مہینوںکی انتھک محنت کے بعد تیارکی تھی۔بزنس مشاورت کو لےکر یہ ایک چھوٹی سی کتاب تھی۔جس کےلیے اس نے پبلشر سے بات بھی بات کر لی تھی۔یہ کام اس نے بہت چھپا کر کیا تھا۔لیکن کارل اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔اس نے پہلے کمرے سے اسکی فائل غائب کی۔پھر لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ توڑ کر کمپیوٹر کو کرپٹ کیا اور اس میں وائرس چھوڑ دیاکہ لیپ ٹاپ ٹھیک ہونے کے بعد بھی اس کی مردہ فائلوں کو ری کور نہ یا جاسکے۔ایک بڑا کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے عالیان نے اس کی کافی منت کی کہ وہ اسے اس کی فائل دے دے۔لیکن اس نے نہیں دی ۔بدلے میں اسے ایش کو بھڑکانا پڑا۔وہ جانتا تھا ،کارل ایش کو بہت پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ فیوچر پلاننگ کررہا ہے۔اس نے ایش کے دماغ اسےلے کر کافی کچھ ڈال دیا تھا۔اس سے بھی بڑھ کر اس نے یہ کیاکہ اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر ایش کو دینا شروع کر دیا۔ایک جنونی کے مقابلے میں اسے عالیان جیسا لائق فائق لڑکا زیادہ اچھا لگا ۔ایک ہی ہفتے میں دس،پندرہ بار لڑ کر دونوں الگ ہو گئے اور ظاہر ہے کارل جانتا تھا یہ سب کیوں ہوا کس نے کیا ۔کارل کمرے سے چلا گیا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد واپس آیا اور کہا ۔

****

“ذرا اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھو۔“عالیان نے اس کی ہاتھ کے اشارے کی سمت دیکھا۔Withworth پارک (اسٹوڈنٹ کی رہائش گاہ) کے گراؤنڈ میں کوئی چیز جل رہی تھی۔آگ کے شعلہ اُٹھ رہے تھے اس میں سے۔وہ عالیان کی مستقبل قریب میں آنے والی کتاب تھی ،جو اب آگ کے حوالے تھی ۔عالیان نے لب سختی سے بھینچ لیے۔

”پہلے میں اس مسودے کو اپنے نام سے چھپوانے کا سوچ رہا تھا۔لیکن ابھی کھڑے کھڑے میں نے اپنا اردہ بدل دیا۔چند ہزار پونڈز کا نقصان کچھ زیادہ تو نہیں ۔“کارل کہہ کر چلا گیا۔کارل ہمیشہ اسے بڑی چوٹ دے کر جاتا تھا۔اس کا بڑا نقصان کرتاتھا۔دونوں ضدی تھے دونوں ہی باز نہیں آرہے تھے۔لیکن اب عالیان سب ختم کر آیا تھا ۔وہ اپنے منہ سے کہہ آیاتھا کہ اسے اب یہ کھیل اور نہیں کھیلنا ۔ماضی میں یہ سب کرتے اس نےکبھی آگے کےبارے میں نہیں سوچا تھا۔کارل کا بریک اپ کرواتے بھی نہیں ۔لیکن اب وہ خوف زدہ ہو گیا تھا ۔کیسے لمحوں میں اس نے امرحہ کو لاک کر دیا تھا۔وہ اسے کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔لیکن کیا معلوم کسی چھوٹے نقصان ،کسی معمولی شرارت میں ہی بڑا نقصان چھپا ہو ۔کارل چھپ کر وار کیا کرتا تھا۔بظاہر ایسے ظاہر کرتا تھا جیسے سب ٹھیک ہے اور وہ پچھلی چوٹ بھول چکا ہے۔لیکن پھر نئی چوٹ دے کر وہ ایسےمسکراتا جیسےکہہ رہا ہو ۔

”زندگی کا اصل مزہ اسی کھیل میں ہے.....اور جس چیز میں مزہ ہو .....اسے چھوڑنےکو کس کا دل چاہتا ہے۔

*****

صبح ویرا نے اس کے کمرےمیں آتے ہی اس کا لحاف کھینچ کر اتارا وہ چونک کر رہ گئی۔

”تم رات بھر روتی رہی ہو ۔“

”تمہیں اس سےکیا ؟“اس نے پھر سے نم آنکھیں رگڑیں۔

”رونا تمہیں ہر مسئلے کا حل لگتا ہے۔“ویرا غصے سے بولی۔

”میں نے تمہیں صرف مذاق کیا تھا اور تمہیں ہارٹ راک کے اس حصے میں لے جاکر بٹھا دیا تھا۔ورنہ میرااردہ صرف تمہیں ہارٹ راک کو اندارسے دیکھانےکا تھا۔میں صرف تھوڑی سی دیر کے لیے وہاں سے غائب ہوئی تھی۔وہاں بہت سے ہمارے یونیورسٹی فیلوز تھے۔ایسےکوئی گھبرانے بات تونہیں تھی ۔میں واپس آئی تو تم وہاں نہیں تھیں۔”میں تمہیں فون کر رہی تھی“۔

”معلوم ہے مجھے ۔میں ہنس رہی تھی کہ تم اتنی جلدی گھبرا گئی ہو کہ “....”میں گھبرا نہیں گئی تھی۔میں بے حد خوف زدہ ہو چکی تھی۔کیونکہ میں کیفے کے اسٹور میں بند تھی۔“

”کیا کہا تم نے،“ویرا کو لگا وہ مذاق کر رہی ہے۔۔”میں کہیں نیچے کیفے کے اسٹور میں بند تھی اس بار ٹینڈر نے مجھے لاک کیا تھا۔“

”کارل نے؟“ویرا بری طرح چونکی۔اوہ....تم نے اسے کچھ کہا تھا کیا؟وہ ایسے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔“

”تم جانتی ہو اسے؟“امرحہ ویرا سے زیادہ چونکی۔

”یونی میں کافی جانا جاتا ہے اسے....اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔میں نے تمہارے ساتھ مذاق کیا ،اس کے لیے معذرات چاہتی ہوں ،لیکن امرحہ ! تم وہاں دس منٹ بھی بیٹھی کیوں نہیں رہ سکیں۔تم اتنی حواس باختہ کیوں ہو جاتی ہو ،

کیو نکہ میں تم سب جیسی نڈر نہیں ہوں“رندھے گلے کے ساتھ وہ چلائی۔

”تو ہو جاؤ....ہم جیسی ہو جاؤ....تم اتنی بڑی ہو چکی ہو تو اب بڑی بن کیوں نہیں جاتیں۔تمہیں کیسے اسٹور میں لاک کر دیا گیا؟“

”اتنا تی میوزک تھا اور وہ سب لوگ.....اگر کوئی مجھے وہاں دیکھ لیتا،کارل نے مجھے دھوکے سے اسٹور میں بند کر دیا ۔“

”تیز میوزک نے تمہارے کانوں کے پردے ہلا ڈالے ہوں گے،تمہاری عقل کے نہیں ...تم تحمل کا مظاہرہ بھی کر سکتی تھیں۔

ویرا ٹھیک کہہ رہی تھی۔وہ تحمل کا مظاہرہ بھی کر سکتی تھی۔

”میں نے عالیان کو تھپڑ مارا۔“اصل بات تو اب اس نے اب کی تھی ۔ویرا نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا جو بیڈ پر لحاف کے ڈھیر میں دبی بیٹھی تھی۔

****

”عالیان کہا سے آگیا یہاں؟“

میں نے اسے فون کیا مدد کے لیے اور فون کارل نے اُٹھا لیا۔میں سمجھی دونوں نے مل کر میرے ساتھ یہ کیا ہے۔“

”کتنی زہین ہو تم امرحہ ....پہلے تم اتنی حواس باختہ ہو گئیں کہ سٹور میں لاک ہو گئیں،پھر ایک دم سے تمہارا ذہین اتنا کام کرنے لگا کہ تم نے ساری کہانی سمجھ لی کہ کس نے کیا کیا ،کیا ہے۔بےوقوف کی عقل ہمیشہ نقصان کے بعد حرکت میں آتی ہے....ہر بار..... اب تم عالیان سے سوری کر لینا....مجھے تو آج شاپنگ کے لیے جانا ہے،پھر مجھے اپنے ٹور کے لیے کچھ تیاریاں کرنی ہے۔کہوں تو تمہیں یونی چھوڑ دوں؟“

”میں بس سے چلی جاؤں گی۔“اس نے اپنے نم گال صاف کیے۔

ہمت کر کے وہ اُٹھی۔تیار ہوئی۔روئی روئی آنکھوں کے گرد ہلکے میک اپ کی تہ جمائی اور یونی آگئی۔ابھی بھی وہ یہ سوچ کر دہل سی جاتی تھی کہ اگر اسے اسٹور میں لاک کیا جانا صرف ایک مذاق یا صرف اسے تنگ کیا جانا نہ ہوتا تو؟ یہ اتفاق تھا یا وہ شخص اس کی پیچھے تھا ۔یونی میں داخل ہوتی ہی اس نے کارل کو اپنے داتھ چلتےہوئے پایا۔”گڈ مارننگ جنگل کوئین !“امرحہ نے اسے مکمل نظر انداز کیا اور بزنس سکول کی طرف چلنے لگی ۔

مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں زیادہ دیر تک اسٹور میں نہیں رکھ سکا ۔مجھے ڈر تھا تم پولیس کو فون کر دو گی۔“

امرحہ کو افسوس ہوا اسے کر لینا چاہیے تھا۔

”ویسے تم کر بھی لیتیں تو تم کبھی یہ ثابت نہیں کر سکتی تھیں کہ میں تمہیں وہاں تک لے کر گیا تھا،بلکہ الٹا میں تم پر یہ الزام ثابت کر سکتا تھا کہ تم چوری کی غرض سے وہاں گئیں اور وہ لاک ہو گئیں۔“ایک دم ....کہیں سے نکل کر عالیان نے اسے اپروچ کیا ۔کارل مسکراتا ہوا کھسک گیا۔ ”کارل کیا کہہ رہاتھا تم سے؟“

”میں نے سننا مناسب نہیں سمجھا۔“

”وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا،بےفکر رہو....وہ تھوڑا شرارتی ہے۔یونی کا کوئی اسٹوڈنٹ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا کہ اسے یونی سے نکالا دیاجائے۔اس کا مسئلہ مجھ سے تھا ۔تم سے نہیں...“

”مجھے اس کے بارے میں بات نہیں کرنی۔میں نے آج تک کبھی کسی کو ایسے ہٹ نہیں کیا۔“ہمت کر کے جلدی سے کہہ دیا۔

”مطلب وہ خوش نصیب صرف میں ہی ہوں۔“

”میں تم سے شرمندہ ہوں۔“

عالیان نے اس کے سرخی مائل آنکھوں کی طرف دیکھا ۔وہ جب جب ان آنکھوں کی طرف دیکھتا تھا۔اسے لگتا تھا جیسے بس ابھی ان میں سےآنسوؤں کا دریا نکلے گا اور سب بھیگ بھیگ جائے گا۔

”تم شر مندہ نظر تو نہیں آرہیں؟“

”کیسے نظر آیا جاتا ہے شرمندہ ؟“یعنی معافی بھی وہ مانگنے آئی تھی اور غصہ بھی وہی کر رہی تھی۔

”ویل ایسے تو نہیں جیسے تم ہو۔“

ٹھیک ہے،میں جا رہی ہوں۔وہ معافی مانگنے آئی تھی تو بدلے میں یہ سننے آئی تھی کہ ”کوئی بات نہیں،غلط فہمی ہو جاتی ہے،غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ....لیکن وہ تو...“

تم اتنی جلدی جلدی ناراض کیوں ہوتی ہو ؟“

وہ خاموش رہی

”اچھا ٹہرو...ادھر مجھے دیکھو، تمہیں سوری کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔“وہ اسے دیکھنے لگی۔اس نے آنکھیں بند کر لیں،منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ پھر آنکھیں کھولیں،پین پر پھونک ماری اور پین کو جادو کی چھڑی کی طرح گول گول گھمادیا ۔

”یہ کیا ہے ؟“

”جادو...اب پھر سے اب پہلے جیسا ہو گیا ہے۔میں نے وقت پر اپنا جادو چلا دیا ہے۔اس نے کل کی رات کو ہماری زندگی میں سے نکال دیا ہے۔اب سب ٹھیک ہے،سب ٹھیک ہی رہے گا۔“ امرحہ کو ہنسی آگئی۔تم سب اتنے عجیب و غریب کیوں ہو؟“

”اور تم اتنی سمجھدار کیوں ہو ؟“اس نے ہاتھ میں پکڑے جادو کے پین کو اپنی ناک پر رکھتے ہوئے پوچھا۔”ہم سب بادام کھاتے ہے نا۔ہم سب اسمجھدار ،عقل مند،سمجھ والے انسان ہیں۔“کیا اتراہٹ تھی امرحہ کی۔

”ہم سب بلی اور چوہے کھاتے ہیں،اس لیے اتنے عجیب و غریب ہیں۔“

”بلی...چوہے...آخ...“امرحہ جھٹ بھول گئی۔عالیان نے خواہیش کی کاش کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا پین واقع جادو کا ہوتا ،وہ اس لمحے ”آخ“کو یہی روک لیتا۔امرحہ کو فریز کر دیتا۔پھر اس کے ناک کو پکڑ کر دائیں بائیں کرتا۔کاش یہ جادو اسے آسکتا۔”پھر سے کرنا“

”کیا“

”وہی جو بلی چوہے کے نام پہ کیا تھا۔“

”اووف...تم سب پاگل ہو۔“کہتے امرحہ جانے لگی۔

”تم نے کبھی کسی کو چیلنج کیا ہے ؟“ وہ بھاگ کر اس کے پیچھےآیا۔

”نہیں۔“ وہ رک گئی۔

میں تمہیں کروں؟“وہ گفتگو کو لمبا کر رہا تھا یا وقت کو 

امرحہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا”کیا چاہتےہو ؟“

“do or die”

”اب یہ کون سا نیا پاگل پن ہے۔“

”ہم سب دوست کرتےہے سارا مانچسٹر کرتا ہے۔“

”سب کریک ہو کیا؟“

”کریک؟ویسے تم چاہو تو میں تمہیں کوئی آسان سا ٹاسک دے سکتا ہوں...سوئمنگ،رننگ،سائیکلنگ کچھ بھی اور شطرنج بھی۔“امرحہ خاموشی اسکی طرف دیکھتی رہی۔”ویسے تم ہمیشہ ایسی باتیں کرتے ہو؟“

”اچھی ہے نہ میری باتیں...ویسے تم ڈر رہی ہو؟ ہے نا“

”تم بےوقوف ہو۔“امرحہ استہزائیہ ہنسی۔

”تم خوف زادہ ہو“وہ بھی استہزائیہ ہی ہنسا۔

”پہلے اپنا علاج کرواؤ۔“

”ڈر کا کوئی علاج نہیں۔“

”میں اوٹ پٹانگ حرکتیں نہیں کرتی۔“

”ایسے لوگ خوف کوکہی نام دے دیتے ہیں۔“

”تم بہت زیادہ سنکی ہو۔“وہ چلنے لگی ،مطلب جاؤ۔

”وہ دوسروں کو الزام دیتے ہیں؟“وہ اس کے ساتھ چلنے لگا ،مطلب نہیں۔

”اوہ خدایا !تم لوگ ....تمہاری تیز مرچ جیسی زبان...“

”انہیں جلدی غصہ آجاتا ہے۔“

”خدا کے لیے بس کرو۔“

”وہ واسطے دینے پر آجاتے ہیں۔“

”کیا چیلنج ہے تمہارا؟“

”پکا ؟“

”وہ جلدی پھیل جاتے ہیں۔“

امرحہ کا قہقہہ بلند بانگ تھا۔

”عالیان کا جادو کا پین آخر کام کیوں نہیں کرتا۔“

”یہ سوئمنگ،سائیکلنگ،وغیرہ مجھے نہیں آ تی،تم کچھ اورکہو“

”یعنی آسان سا؟“اب وہ اسے چڑا رہا تھا۔

”جو مجھے آتا ہو اور میں کر سکوں۔“

”یہاں قریب ہی Dog Bowl ہے ۔“

”مجھے نہیں کرنا کچھ ڈوگز وغیرہ کےساتھ۔“

”وہاں ڈوگز نہیں ہے،ایک گیند ہے،بوتل ہے،تمہیں گیند سے بوتلوں کو گرانا ہو گا...تم تین بار پریکٹس کر سکتی ہو،ویسے میں نے لائف میں اتنا آسان چیلنج کسی کو نہیں دیا۔تم مشرق سے ہو تو ۔“

امرحہ سوچنے لگی۔”ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔مشرق والے سب کر سکتے ہیں۔“

*****

”روسی ٹائیگر کو ساتھ لاؤ گی۔“

بلکل ضرور“

ٹہرو ذرا.....پہلےیہ بتاؤ وہ کن دنوں میں بیمار ہوتی ہے۔سیزن کیا ہے اس کے لاچار ہونے کے؟“

”وہ ہمیشہ چاک و چوبند رہتی ہے۔“

”اسے ضروری کام کب کب ہوتے ہیں۔“

”میرے لیے وہ ہمیشہ فارغ رہتی ہے۔“

”تم دونوں میں کیٹ فائٹ کب کب ہوتی ہے۔“

”ہم میں بہت اچھی ذہنی آہنگی ہے۔وہ ایک اچھی لڑکی ہے۔“

”وہ کب تک بری بن جائے گی۔“

”اوففف....“

”اچھا ....اچھا....آجانا دونوں۔“

لیکن ویرا اس کے ساتھ نہیں آسکی۔اسے نیوز پیپر کے آفس جانا تھا۔لیکن اس نے امرحہ کو بڑی دیر لگا کر یہ سمجھا دیا تھا کہ گیند کو کس طرح سے ہاتھ میں پکڑنا ہے اور کیسے تکنیک سے پھنکنا ہے۔

Dog Bowl 

میں یونیورسٹی اسٹوڈنٹ کا کافی رش تھا۔امرحہ نے اپنی پریکٹس شروع کی۔اس نے کبھی یہ کھیل نہیں کھیلا تھا۔گیند اسے ضرورت سے زیادہ وزنی لگی۔ویرا ٹھیک کہتی ہے۔ایک انسان میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ ایک عام وزن کے انسان کو اُٹھا کر پھینک سکے اور اس سے گیند نہیں اُٹھائی جا رہی تھی،پاکستان میں انہیں ایک صوفہ یا ایسی ہی کوئی عام سی چیز ادھر سے اُدھر کرنی پڑجاتی تو دو،سے تین لوگ مل کر یہ سب کرتےاور پھر ایسے ہاپننے لگتےجیسے کسی ہاتھی کو گھسٹتے رہے ہوں۔

پہلی کوشش میں اسکی گیند ایک بھی بوتل نہیں گرا سکی اور بوتلوں سے دور لین کے درمیان میں ہی کنارے پر جا کر رک گئی۔دوسری کوشش میں اس نےکامیابی سے دو بوتلیں گرا لیں اور تیسری میں پھر سے ایک بھی نہیں۔یہ تمہاری آخری کوشش ہے۔“عالیان نے ہنسی کو چھپا کر کہا۔امرحہ نے اس کی ہنسی دیکھ لی تھی اور وہ چڑ گئی۔اس بار اس نے گیند کو ایسے پکڑا جیسے میدان جنگ میں سپہ سالار بازی مات یا ہاتھ کے تحت تلوار کو بلند کرتا ہے اور پوری قوت سے وار کرتا ہے۔امرحہ نے مکمل توجہ سے اپنی پوری قوت سے گیند کو پھینکا۔

*****

اور پھر وہ ایسے چلائی کہ آس پاس موجود بہت سارے لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے۔بھلے سے دیکھتے رہیں،وہ چلاتی رہی۔ساری بوتلیں چت ہو چکی تھی۔مشرقی لڑکی امرحہ جیت چکی تھی۔

”تم نے تو کہا تھا تم نے یہ کھیل پہلے کبھی نہیں کھیلا ؟“

”بے شک یہ پہلی بار ہے۔“

”تم نے کسی پروفیشنل کی طرح گیند پھینکی...پہلے تم مجھے دیکھنا کے لیے گیند کو ایویں لڑکھڑاتی رہی ہو نا۔“

”قسمت ساتھ ہو تو کوئی بازی مات نہیں ہوتی۔“

اس نے ایسے کہا جیسے فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی جیت لی ہو ۔

”تم جھوٹ بول رہی ہو ۔“بھوری آنکھوں کی بھنویں تن گئیں۔

”پھر سب جھوٹ لگنے لگتا ہے”کالی آنکھیں جگمگ کرنے لگیں۔

”تو ایک بار پھر کرو۔“

”پھر ہارنے والے بہانے بناتے ہیں۔“

”تم نے ضرور چیٹنگ کی ہے۔“

”پھر وہ فاؤل فاؤل چلاتے ہیں۔“

”تم“

”میں“

”تم“

”میں ونر ہوں...مجھے جیت جانے والا کہا جاتا ہے۔“

”تم نے میرا نقصان کر دیا۔مجھے یقین تھا تم ہار جاؤ گی،پھر میں تمہیں سزا دیتا۔“کتنا رحم دہ انسان تھا ۔وہ اسے سزا دینے کے چکر میں تھا۔

”کیسی سزا؟“

”میں تمہیں باتیں سناتا “

”باتیں....یہ کیسی سزا ہے ؟“

”یہ سزا سننے والے کے لیے ہوتی ہے بولنے والے کےلیے نہیں۔تمہیں سب سننا پڑھتا ہے۔وہ رومن اکھاڑے کے قصے ہوتے یا اسکول کے دنوں کے سزائیں....ونڈو شاپنگ کی فضول تفصیلات ہوتیں یا سپ ویز میں ملنے والے سیپوں کی عجیب و غریب حرکتیں....بولنے والے کا جب تک جی چاہے گا وہ بولے گا...سار دن ...ساری رات...اگلا دن....اگلی رات....سننے والے کو سننا ہو گا ....بولنے والے پہ کم ہی قسمت مہربان ہوتی ہے تاکہ اسے ایسا سننے والا کوئی ملے ؟“”اتنی دیر تک بولنے رہنے والا پاگل ہی ہوگا۔“

”مجھے ہونا تھا نا پاگل۔“اس شاید واقع میں بڑا نقصان ہو چکا تھا۔”اس سب کو چھوڑو....یعنی اب مجھے تمہیں چیلنج دینا ہے۔کوئی سزا... ہے نا۔“

”ہاں ایسا کرو مجھے کہہ دو میں ابھی یہاں گھٹنوں کی بل جھک جاؤں“

”اتنی معمولی سزا میں کیوں کہوں یہ تم سے....؟“

”یہ معمولی نہیں ہے.....ہر گز نہیں.....ایسے نہ کہو...“وہ اس قیمتی پتھر کی طرح کرُلایا جس کی جوہری نے بہت کم قیمت لگا دی ہو۔امرحہ گہری سوچ میں چل

”تم ایک ہفتے تک اپنی کلاسز اٹینڈ نہیں کرو گے۔“

”تم چاہتی ہو میں آج رات ہی خود کشی کر لوں....؟“

”تو تم مرنا چاہتے ہو....؟“

”میں مر جاؤ گا اپنی کلاسز نہیں چھوڑوں گا....کچھ اور کہو۔“ وہ دونوں Dog Bowl سے باہر آچکے تھے اور سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔

****

”تم سمسٹر ایگزامز نہیں دو گے؟“

”یعنی تم ہر صورت یہی چاہتی ہو کہ میں خود کشی کر لوں۔“

”میں نے تمہارا چیلنج پورا کیا ۔تمہیں بھی کرنا چاہیے۔“

”کہا تو ہے کر لوں گا خودکشی....اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا...؟“دونوں مین روڈ پر آچکے تھے اور سڑک کنارے چل رہے تھے۔سڑک پہ کافی رش تھا۔زیادہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کا ہی ہجوم تھا

”اچھا کچھ اور کہو“

امرحہ نے سڑک کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑے تھے،اس سے چند قدم آگے زیبراکراسنگ تھی جو کافی طویل تھی۔وہ دونوں بھی اشارہ بند ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

”تمہیں بہت شوق ہے نہ بندر کی طرح چھلانگیں لگانے کا....تو تمہیں اس کراسنگ کو ہاتھوں کے بل قلابازیاں لگا کر کراس کرنا ہے۔“

”پہلی فرصت میں اپنےدماغ کا علاج کراؤ امرحہ....“کہہ کون رہا تھا جس کا اپنا علاج ہونے والا تھا۔

”اب تم ڈر کر پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو ،پاکستان میں میری ایک دوست نے بھی ایک بار ایسا ہی کیاتھا۔میں نے دو س ایک گول گپے کھائے اور میں جیت گئی۔بدلے میں میں نےاسے بس اتنا کہا کہ اسے صرف پانچ منٹ تک اپنے ڈیڈ کی کار چلانی ہے۔“

”اس میں کیا مشکل تھا....یہ تو بہت آسان ہے....تم نے اسے آسان ٹاسک دیا۔“

”وہ کار چلانا نہیں جانتی تھی ۔“

”آں...واؤ کس ماڈل کی کار تھی؟“

”یہ تم لڑکے کار کے نام پر ماڈل پوچھنے کیوں بیٹھ جاتے ہو....وہ ایک کار تھی ...بس....ایک.....کار...“

”یہ تم لڑکیاں گاڑیوں کےماڈلز پہ دھیان کیوں نہیں دیتیں....اینی وے پھر...؟“

”وہ صرف چارمنٹ کار چلا سکی....اگلے چار مہینے کار ورکشاپ میں رہی اور اس پر پورے پچاس ہزار لگے....اور...بس “

”بس....؟“عالیان نے ایسے پوچھاجیسے کہہ رہاہو اتنے سب پر بھی ایسے بس کہہ رہی ہو۔

”ہاں....اور...اور...میرا داخلہ ان کے گھر بند...بس“

”تمہارا داخلہ بند ۔“اس نے گردن کو ہلکا سا خم دے کرہنسی کو ہونٹوں کےپیچھے روک کر پوچھا۔اگر اسے بےتحاشا ہنسی آرہی تھی،تو اسے کھل کر ہنس لینا چاہیے تھا اپنی ہنسی کو قابو میں رکھنے میں،اس نے امرحہ سے اپنا رخ پھیر لیا اب وہ اس کوشش میں تھا کہ وہ اتنی بری طرح سے نہ ہنسے کہ امرحہ برا مان جائے۔لیکن ساری کوشش بےکار گئی۔اس نے سر اٹھایامانچسٹر کے کھلے آسمان کو دیکھا جس کے پیچھے وہ دونوں کھڑے تھے اور خود کو بے قابو ہوجانے دیا۔

*****

وہ ایک خو بصورت انسان تھا،ہنستے ہوئے اچھا لگتا تھا جیسے سب لگا کرتے ہیں...لیکن ایسے بے قابو ہو کر ہنستے وہ ایک نارمل انسان نہیں لگ رہا تھا....امرحہ نے ہاتھ باندھ لیے اور اسے گھورنے لگی۔امرحہ نے ہاتھ باندھ لئے اور اسے گھورنے لگی۔لیکن کرس ہیز ورتھ کی سی آنکھیں رکھنے والا ابھی یۂ نہں دیکھ رہا تھا کہ کالی پتلیوں والی دو آنکھیں اسے خفا ہو کر گھور رہی ہیں۔ وہی آنکھیں جنہیں قریب سے دیکھتے ہوئے وہ بہت دور چلا گیا تھا۔ وہ صرف عالیان نہیں رہا تھا۔

ہنستے ہنستے وہ چند قدم آگے چلا جاتا اور کبھی چند قدم پیچھے۔اپنی آنکھوں کو صاف کرتا اور امرحہ سے کہتا۔

"اور بس۔۔۔ تمہارا دخلہ بند"

اس نے ایسا دو تین بار کیا۔ امرحہ شرمندہ سی ہو کر آس پاس دیکھنے لگی۔اس می اتنی کوئی ہنسنے کی بات نہیں تھی۔ اس کے کھلے بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اس نے غصے سے بالوں کی لٹوں کو پیشانی سے پیچھے کیا اور طیش سے بالوں میں ہاتھ چلانے لگی.وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی اسے لگا کے وہ اس کی بےعزتی کر رہا ہے کیسے پاگلوں کی طرح ہنس رہا ہے ہر وقت رونے کو تیار رہنے والی امرحہ نے ایک بار پھر رونے کی تیاری کر لی.

کچھ ہی دیر میں بمشکل عالیان خود پر قابو پا سکا تو اس نے امرحہ کے غصے, رونے پر آمادہ شکل پر غور کیا اور اسی وقت امرحہ اسے سے آگے آگے چلانے لگی۔

*****

"امرحہ۔۔۔۔۔ " عالیان اس کے پیچھے لپکا لیکن وہ تو جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی۔ تیز تیز چلاتی جا رہی تھی۔ اور وہ سمجھ گیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔

"امرحہ۔۔۔" ادھر مجھے دیکھو میں تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں۔"

امرحہ کو اپنے پیچھے تیز چلانے کی آواز آئی اس نے روک کر ذرا سا پلٹ کر دیکھا۔ اشارہ بند ہو چکا تھا۔ ٹریفک رک چکی تھی۔ سڑک کو پار کرنے والے سڑک پار کر رہے تھے اور ان میں بزنس اسکول کا اسٹوڈنٹ عالیان مارگریٹ سڑک کو ہاتھوں پر ٹکانے کی تیاری کر رہا تھا۔ امرحہ کو لگا کہ وہ مذاق کر رہا ہے اور وہ کبھی بھی قلا بازی نہیں کھاے گا۔ کیونکہ اس نے مذاق میں کہا تھا۔۔۔اصل میں وہ اسے تیز مرچ مصالحے سے پکے ہوئے قورمے کی چند پلٹیں کھلانا چاہتی تھی۔ اور وہ جانتی تھی کہ وہ ایک پلٹ سے زیادہ کھا ہی نہیں سکے گا ۔۔۔ اسے اپنی زوبان کٹوانی پڑ جائے گی۔۔ لیکن وہ تو قلا بازی لگا رہا تھا۔۔اسے ایسا کرتے ہوئے سڑک پر سے گزرتے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے بھی دیکھا۔۔۔ وہ اتنے حیران نہیں تھے۔۔ کیوں کہ اتنی بڑی یونیورسٹی ایسے الٹے پلٹے اسٹوڈنٹس سے بھری پڑی تھی۔۔

پھول جو دل کی زمین سے پھوٹتا ہے۔۔۔

محبت کے ساےمیں دوام پاتا ہے۔۔

انسان دو حالتوں میں اپنی جون بدل دیتا ہے۔۔

ایک کتب کی حالت میں ۔۔۔دوسری محبت کی حالت میں۔۔۔

****

اور سڑک کے پار کھڑا عالیان کتب کی حالت میں تو بالکل بھی نہیں تھا۔۔اس کی جون بدل چکی تھی ۔۔اور یہ کام سڑک کے اس پار مشرق سے آئی ہوئی دنیا کو حیرت سے دیکھتی ہوئی لڑکی نے کیا تھا۔۔مانچسٹر کے کھلے آسمان تلے۔۔ دونوں اس اور اس پار کھڑے تھے۔۔ فاصلہ تھا۔۔ ۔کم تھا۔۔ زیادہ بھی ہو سکتا تھا۔۔

"Keep calm and love fridays" 

( پر سکون رہے اور جمعوں سے محبت کریں) اور یورپین جمعوں سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ کیفیز، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، کافی شاپس اور بہت سی دوسری جگہوں کے نام او مائی گاڈ ایٹس فرائیڈے، وئ لو فرائیڈیز، ۔۔ یا ڈائی فار فرائیڈے،جیسے رکھتے۔۔ اور مائی اونلی لواز فرائیڈے جیسے بھی۔۔۔

تو اومائی گاڈ ناؤ آل ڈیز آرفرائیڈیز( او میرے خدایا اب سب دن جمعہ کے دن ہیں) کا موسم شروع تھا۔ وہ موسم کا سارا سال انتظار کیا جاتا ہے۔ وہ موسم جسے مسکراہٹوں کا، اطمینان کا، خوشیوں کا اور محبتوں کا موسم

کہا جاتا ہے تحائف کا_سیاحت کا_اور گھنٹیوں کا بھی_

دنیا بھر کے رنگ برنگے پرندوں سے آباد مانچسٹر خالی ہونے لگا_بارہ دسمبر سے تیرہ جنوری تک کے لیے یونی بند تھی وتھ ورک پارک(اسٹوڈنٹ کی رہائش گاہ)OUKہاوساور آس پاس کی دوسری اسٹوڈنٹس کی رہائش گاہیں خالی ہونے لگیں اور برطانیہ کےSterotype موسم نے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کر دیئے

دوسرے شہروں سے آئے اسٹوڈنٹس اپنے گھروں کو چلے گئے_دوسرے ملکوں سے آئے کچھ مانچسٹر میں جاب کی وجہ سے رہ گئے،کچھ اپنے دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں کو چلے گئے اور کچھ دوسرے ملکوں کی سیاحت کی تیاری کرنے لگے_پکاولی سٹریٹ سے یونیوڑسٹی کیمپس آنے والی مفت بس سروس مانند پڑنے لگی _امرحہ نے آکسفورڈ روڈ کو سنسان ہوتے دیکھا جہاں ہر صبح اسٹوڈنٹس کا ہجوم تیزی سے حرکت کرتا نظر آیا کرتا تھا_امرحہ ایک دم سے سب کو مس کرنے لگی جنہیں وہ جانتی تھی_اور جنہیں قطعا نہیں جانتی تھی_سب کو اتنے ہزاروں اسٹوڈنٹس کے جم غفیر کو_اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ اس ماحول سے اتنی وابستہ ہو چکی ہے کہ اس ماحول کے بدل جانے سے ایسے اداس ہو جائے گی__ آکسفورڈ روڈ کو ایسے خالی خالی دیکھ کراسے ہول پڑتے__وہ اتنی جزباتی ہے__اسے اب معلوم ہو رہا تھا__یونی بند ہوتے ہی اسٹوڈنٹس بازاروں کی طرف بھاگے__ڈھیروں ڈھیر خریداری کرتے__

اسکے اسٹوڑ میں سپر سیل کی تیاری تقریبا مکمل ہو چکی تھی__

****

اب ایک پورا مہینہ وہ دن رات کام کر سکتی تھی ان کی فی گھنٹہ اجرت بھی برھا دی گئی تھی__وہ اتنے دنوں میں زیادہ سے زیادہ دنوں کے لیئے کافی زیادہ پونڈکما سکتے تھے اور امرحہ یہ پونڈذ کمانا چاہتی تھی__شرلی ڈائم وغیرہ کا گروپ یورپ کی سیاحت کے لیئے جا رہا تھا__اور عالیان بھی__اسے حیرت تھی کہ وہ دوسرے ملکوں میں اتنی آسانی سے کھومنے پھرنے کے لیئے کیسے جا سکتے ہیں،پاکستان میں تو لوگ ایسے دوسرے شہروں میں نہیں جاتے __دائم نے اسے بھی چلنے کو کہا تھا،لیکن اس نے انکار کر دیا تھا__اسے ایک ایک پونڈ جمع کرنا تھا__

تم غلط سمجھ رہی ہو اتنے پیسے نہیں لگتے جتنے تم سمجھ رہی ہو__ہم ٹرین یا بس سے جائیں گے،ہم نے خاص ڈسکاونٹ پاس لیئے ہیں،جن سے ہمارے بہت کم پیسے خرچ ہو گے__ہم کسی لگژی ہوٹل میں نہیں رہیں گئے بلکہ سللز میں رہیں گے یا بہت کم قیمت والے ہوٹلز میں_شرلی نے اسے منانا چاہا__

"میں پھر بھی نہیں جا سکتی،مجھے ایک ایک پونڈ بچانا ہے"__

"ٹھیک ہے _تمہارا مقصد بھی معقول ہے"__

"ہم پہلے سوئیدمین جائیں گئے پھر فرانس__کہا کوئی ایسے جوتے ہیں جو پیروں کو اتنا آرام دیں کہ لگے ہی نہ کہ نا کہ ہم انہیں پہن کر آٹھ دس میل چلتے رہیں گے"__

جانے سے پہلے رات کو عالیان اس کے اسٹور آیا__

"میں بل بناتی ہوں جوتے نہیں__" "جوتوں کی دکان میں کام تو کرتی ہوں نا__"

" میں سیلز مین نہیں ہوں__تم سیلز مین کے پاس جاوں__" "مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم نے صبح سے اب تک کم از کم سے دس کپ کڑوی کافی کے پیے ہیں__زیادہ بھی ہو سکتے ہیں__" "کافی کڑوی ہی ہوتی ہے__"کلوئزر پر رکھے کمپیوٹر کے ساتھ وہ ایسے مصروف تھی اور ایسے ظائر کر رہی تھی جیسے اتنے بڑے اسٹور کا کام اکیلی ہی کرتی ہے__ "کافی اس وقت کڑوی ہوتی،جب وہ زبان کو بھی کڑوا کر دے__"

*****

"شاید تم سیاحت کر کے واپس آو تو ایسی کم عقلی کی باتیں کرنا چھوڑو سنا ہے دوسری سر زمینوں کا پانی پینے سے اور فضا میں سانس لینے سے بہت سی دماغی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں__"لگتا ہے تم پر کام کا بوجھ بہت ھے امرحہ۔اسنے لہجے کو افسردہ بنایا ۔"میں مضبوط اعصاب کی مالک ھوں۔"امرحہ نے لہجے کو مضبوط بنایا ۔"لیکن تمھاری شکل تؤ کچھ اور کہہ رہی ھے ۔اگر تم کہوتو میں سویڈن چلا جاتا ہوں فرانس نہیں ۔بلکہ اگر تم کہو تو میں جاتا ہی نہیں ۔میرا خیال ھے میرے جانے سے پہلے ہی تم مجھے بہت مس کرنے لگی ہو ۔""مجھے یہ دیکھنے کآ انتظار رھے گا کہ سویڈن اور فرانس کی ھواؤں نے تم۔پر سے پاگل پن کے اثرات کم۔کیے یا بڑھا دے۔" "تمہیں میرا انتظار نہیں رہے گا ۔" اس نے چندد قدم آگے بڑھ کر جوتوں کے ریک کی طرف دیکھتے ہوئے لاپرواہ ظاہر کرتے ھوئے پوچھا ۔امرحہ خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی ۔ "لو میں جا رہا ھوں"۔اس نے کہا لیکن وہ جانے کے لیے اپنی جگہ سے ہلا نہیں ۔"ملر"اسنے ایک سیلزمین کو متوجہ کیا ۔ "انہیں ایسے جوتے چاہئیں جنھيں پہن کر یہ اڑ سکیں پلیز انکی مدد کریں ۔"عالیان نے چونک کر امرحہ کی طرف دیکھا وہ شرارت سے مسکرا رہی تھی ۔"یہ جوتوں کی دکان ھے بیک۔ٹو می فیوچر فلم کا سیٹ نہیں ۔یہاں کچھ اڑنے اڑانے والا نہیں ملتا۔"ملر پر کام کا کافی بوجھ لگتا تھا 

*****

۔تمھارے اس سیلزمین نے بھی کڑوی کافی پی لی ہے اور دس کپ سے زیادہ پی ھے ۔"منہ بسورتا عالیان چل گیا ۔ پانچ منٹ بعد سے پھر وہ اسکے پاس تھا۔"میں نے کچھ پیسے جمع کیے ہیں ۔تم مجھ سے ادھار لے سکتی ھو ۔واپسی کی کوئی جلدی نہیں ہے ۔جب تمہاری شادی ہوگی تو ہم حساب ٹھیک کر لیں گے ۔" امرحہ نے سر پر ایسے ہاتھ رکھ لیے جیسے کہہ رہی ھو خدا کے لیے جاؤ میرا مغز نا کھاؤ۔ویرا،این اون۔اور ایسے دوسرے لوگ کتنے ملک گھوم پھر چکے تھے ۔یہ لوگ سارا سال کام کرتے اور ان۔دنوں میں سیاحت کے لیے نکل۔کھڑےاس ہنے وتبھی ے ۔کام کر کے پیسے اکٹھے کے تھی لیکن یہ پیسے اس نے وائم کو واپس کرنے کے لیے جمع کیے تھے۔اگر بابا کی دکان میں آگ نہ لگتے اور اس نے پیسے دادا کو نا دے دیئے ھوتے تو وہ۔بھی ویرا کے ساتھ نکل چکی۔ھوتی۔ اسکی آنکھیں نم تھیں اس لئے کیونکہ شاید اسے زندگی چندمواقع دے دے گی دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لیے لیکن اسے وہ شاید یہ سب دوست نع دے سکے گی۔خیر دل کو مضبوط کر کے وہ۔اووور ٹائم کرتی رہی اور ہفتے میں ایک با یونیورسٹی تک پیدل چلتی ضرور جاتی۔خوش آئند بات یہ تھی کہ تیرہ جنوری سے سب پہلے جیسا ھونے والا تھا۔یونی کھلتے ہی ایگزامز شروع تھےاس لئے سب نیو ائیر کے بعد آنا شروع ہو جائیں گے ۔یونیورسٹی کے ہزاروں سٹوڈنٹس کو کبھی یہ خبر نہیں ہو سکتی تھی کہ لاہور کی رہنے والی۔دادا کی گود میں گھنٹوں سر رکھ کر رونے والی ان سب کو کتنا یاد کر رہی ہے__وہ یونیورسٹی پر گرنے والی برف کو گھورتیہے اور مسکرانے کی سعی کرتی ہے__وہ اولڈ کیمپس کی یونیورسٹی آرک کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور آتی جاتی ٹریفک کو دیکھتی ہے__اس کے منہ سے بھاپ نکلتی ہے اور آنکھیں گیلی گیلی سی ہو جاتی ہے__اور دادا کو مانچسٹر میں پھیلی برف دکھاتی ہے__مسکرانے کی کوشش کرتی ہے__ان سے باتوں میں دل بھلاتی ہے__

"تم چلی جاتی میری بچی__جتنے پیسے تمہارے پاس تھے__ پیسے تو آ جائیں گے وقت نہیں آئے گا"

"میں اگلے سال تک چلی جاو گی__اگلے سال تک تو میں یہں ہوں نا__اس نے دادا سے کہا اور خود کو بھی تسلی دی__"

"زندگی نے جتنے جھولے اپنی بانہوں میں تھام رکھے ہیں وہ سب وقت کے اشارے سے چلتے ہیں__ان کے جھولے کے لیئے وقت کے اشارے کا انتظار کرنا ہی پڑتا ہے__

*****

اور كہا جاتا ہے کہ

کہ کیا پیاری چیز ہےکرسمس کینڈل

نہیں کرتی شوروغوغا.. لیکن نرمی سے خود کو نچھاور کرتی ہے

بے غرضی سے __یہ ختم ہوتی چلی جاتی ہے

اود یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ جب کرسمس آتا ہے تو گھر کی یاد بھی تو ستاتی ہے حتی کہ آپ گھر میں ہی ہوتے ہیں__" سارا مانچسٹر__اور سارا برطانیہ__ اور سارے کا سارا یورپ کرسمس فلو کا شکار ہو چکا تھا کوئی چھینکتا ہوا نظر نہیں آتا تھا لیکن مسکراتا ہوا ضرور نظر آتا تھا__ سٹی سینٹر کرسمس مارکیٹ میں اونچے ستون پر بہت بڑے سے سانتاکلاز کو بٹھا دیا گیا تھا جو ملین پاؤنڈز مسکراہٹ سب پر نچھاور کرتا تھا__ کرسمس کے بڑے میلوں میں شمار ہونے والا میلہ دو سو سے زائد اسٹالز کے ساتھ اسٹال سٹی سینٹر میں سج چکا تھا

جہاں راتیں جگمگ کرتی تھیں اور دن قلقاریاں بھرتے تھے۔جہاں رکھی سیل کی چیزیں گدگدی کرتی تھیں کہ آخر مجھے اٹھا کر اپنے نرم گرم گھروں میں نہیں لے کر جاتے....زیادہ مہنگی تو نہیں ہیں ہم. ....

کام کی زیادتی نے اسے تھکا ڈالا تھا ۔بل بناتے بناتے اس کی انگلیاں ٹوٹنے جیسی ہو جاتی تھیں۔برگر کو کافی کے ساتھ بمشکل اندار کرتی تھی۔گھر جا کر چند گھنٹے سوتی اور پھر سے کام پر آجاتی ۔دادا سے بات ناممکن ہو گئی تھی۔

”کتنی کمزور ہو گئی ہو تم؟“دادا سے کافی دنوں بعد بات ہوئی تو اداس ہو گئے۔

”ٹھہرو تمہارے باپ کو دکھاتا ہوں تمہاری یہ حالت....بتاؤ اسے تم روز کتنے گھنٹے کام کرتی ہو....جتنے پیسے تم وہاں اتنی محنت سے کر کے کما رہی ہو اس سے زیادہ پیسے یہ لوگ اپنی فضول خرچیوں میں اڑا دیتے ہے ۔دو کام والیاں آتی ہیں گھر،تمہاری ماں سے کہا ایک خو فارغ کرو پیسے بچاؤ لیکن نہیں سنا۔ایک گھر کے کام ہی کتنے ہوتے ہیں امرحہ.....جہاں تم رہتی ہو وہاں بھی تو لوگ کام والیوں کے بغیر رہتے ہی ہیں اور دیکھو کتبے کامیاب ترقی یافتہ ہیں.....ہم سے تو بحیثیت قوم آگے ہی ہیں۔“

وہ خاموشی سے دادا کو سنتی رہی کیا کہتی.......

اگلے دن بابا کا فون آگیا”چھوڑ دو جاب....میں جیسے تیسے کر کے تمہیں پیسے بھیج دوں گا۔اب حالت پہلے سے بہتر ہیں۔“

”نہیں بابا مجھے عادت نہیں ہےاس لیےتھک جاتی ہوں،جب عادت ہو جائی گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

*****

”تمہیں کوئی خاندان نہیں پالنا کہ تم ایک ایک روپے کےلیےایسے پرشان ہو ۔“

”مجھے خود کو پالنا ہے بابا....مجھے خود کو مضبوط کرنا ہے...میں اب تک مضبوط نہیں ہو سکی تو اس میں 

میرا قصور ہے،آپ کا ہے..ہمارے نظام کا ہے.....آپ پریشان نہ ہوں....میرے جیسی بہت سی لڑکیاں مجھ سے زیادہ سخت کام کر رہی ہیں۔میری تو جاب ہی بہت آسان ہیں....آپ حما،علی اور ونیہ کی طرف توجہ دیں۔میرا دل چاہتا ہے دوسروں کی طرح وہ بھی زندگی میں آگے بڑھیں...محنت کریں اور کامیاب ہوں۔“پاپا نے اس کے اکاؤنٹ میں تھوڑے پیسے ٹرانسفر کروادیے جنہیں اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا،زندگی میں ملنے والے اسی آرام و آسائش نے اسے ایسا بنا دیا تھا ۔ریڈی میڈ کھانا کھانےکو ملتا رہے تو خود کھانا پکانےکی زحمت کوئی بھی نہیں کرتا۔ایک بار وہ ڈیرک کے ساتھDramson گئی تھی ان دونوں کی بنائی ڈکومنٹری کو لے کر ان کی ایک نمائندے سے ملاقات طے تھی۔ملاقات کے بعد جب نمائندہ چلا گیا اور بل آیا تو ڈیرک نے ویٹر سے کہا کہ وہ اس بل کو آفس میں بھجوادے....بل کے نیچے ڈیرک نے سائن کر دیے تھے۔”کس کے آفس؟“

****

ڈیرک ہنسنے لگا۔”میرے پاپا کے آفس“

”بل اتنی دور ان کے آفس جائے گا...تھوڑے سے پیسے ہیں میں پے کر دیتی ہوں ۔“

”میرے پاپا کا آفس یہیں اسی رسٹورنٹ میں ہے وہ Dramson کے تیسرے حصے دار ہیں۔“

”تمہارے پاپا یہاں کے تیسرے حصے دار ہے تو وہ ویٹر تمہیں بل کیوں دیتا ہے؟“

”ان فیکٹ مجھے سختی سے منع کیا گیا ہے کہ میں یہاں نہ آیا کروں.....میں یہاں تب آتاہوں جب خالی جیب ہو چکا ہوتا ہوں۔کبھی کبھار زیادہ نہیں بل پر سائن کر دیتا ہوں اور جب میرے پاس پیسے ہوتے ہیں میں یہاں آکر پے کر جاتا ہوں ۔اتنی سی رعایت مجھے مل جاتی ہے۔“

تم کہہ رہےہو یہ تمہارے پاپا کا ریسٹورنٹ ہے پھر بھی تمہارے ساتھ یہ سب؟“

”میرے فادر امریکہ سے یہاں کام کے لیے آئے تھے۔دس سال تک انہوں نے گاڑیوں کی ایک فیکٹری میں مشینوں کی صفائی کا کام کیا ہے ان کے جسم سے مستقل کیمیکل کی بو آنے لگی تھی ان کا کہنا ہے ان دس سالوں میں انہوں نے اپنے سگریٹ پینے کی خواہش کو دبائے رکھا اور ایک سگریٹ کی ڈبیہ جب انہیں تحفے میں ملی تو انہوں نے اسے جلا دیا کہ اگر انہوں نے وہ پی لی تو دا سالوں میں کمائے گئے سارے پونڈز دھوئیں کے نظر ہو جائیں گے۔جس کے فادر کا ایسا ماضی رہا ہو اس کے بیٹے پر یہ سوٹ نہیں کرتا کہ وہ مانچسٹر جیسی بڑی یونی میں پڑھے بھی اور باپ کی کمائی پر ایسے عیش بھی کرے،اسکول کی چھٹیوں میں ،میں نے اسی رسٹورنٹ میں کام کیا ہے ایک بار میں نے غصے میں اسٹاف کے ایک ورکر کو دھکا دے دیا تھا ۔مجھے اسی وقت جاب سے نکال دیا گیا تھا اب میں ڈاکومٹریز بنا کر اپنا خرچا نکلتا ہوں۔“

”آخر والدین اپنی اولاد کے لیے ہی کماتےہیں۔“

****

”ہاں تو میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں ،بس بہت کھا لی ان کی،اگر سارے والدین صرف اولاد کا ہی سوچتے رہیں گے تو انسانیت کا کون سوچے گا۔“

”انسانیت کا ؟“ایک ہزار ایک اور سوال امرحہ کے ذہین میں اس بات کو سن کر بننےلگے تھے۔

”ہاں...اگر دو لوگ ساری زندگی کما کما کر صرف اپنی اولاد کا ہی سوچتے رہیں گے تو کل انسانیت کے بارے میں کون سوچے گا....ہمیں اپنی زندگی کے دائرے اتنے محدود نہیں کرنے چاہیئں کہ ہماری ساری زندگی کا حاصل صرف چند افردکو ہی فائدہ دے....“

امرحہ ڈیرک کے اس جواب کو اچھی طرح سمجھ چکی تھی اسی لیے اگلا سوال نہیں کر سکی۔وہ لاجواب ہو چکی تھی۔کرسمس سے ایک دن پہلے وہ سادھنا کے ساتھ کرسمس مارکیٹ آئی اور دونوں نے لیڈی مہر کی بتائی ڈھیروں ڈھیر خریداری کی انہوں نے اپنے سب بچوں کے لیے تحائف منگوائے تھےنئے سال کے پہلے ہفتے میں مورگن کی شادی بھی تھی کچھ اس سلسلے کی خریداری بھی کی۔۔سادھنا کو گھر چھوڑ کر وہ اپنی یونی آگئی اور آ کر اولڈ کیمپس کے آرک کے نیچے کھڑی ہو گئی۔موسم کے تیور صبح سے ہی بدلے رہے تھے تیز ہوا چل رہی تھی اور بی بی سی نیوز نے برف باری کی خبر دی تھی وہ محراب کی دیوار کے ساتھ ٹک کر کھڑی دھندلے آسمان کو دیکھ رہی تھی دھند بڑھتی ہی جا رہی تھی اور کچھ دور آگے کی چیزیں چیزیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔اسےیہ سب اچھا لگ رہا تھا اسے برف باری کا انتظارتھا اس کے پاس ایک گھنٹہ تھا پھر اسے واپس اپنی جاب پہ جانا تھا وہ اپنی یونی کے آگے برف باری کو ہوتے دیکھنا چاہتی تھی ہوا اورتیز ہو گئی دھند اور بڑھنے لگی روئی کےگالے ماں کی پیار کی طرح نرمی سے زمین پر برسنے لگی۔ہوا اور تیز ہو گئی امرحہ نے اپنے سرخ داستانوں والے ہاتھوں کو پھیلا لیا....برف باری بلاشبہ وہ منظر ہے جو پہلی بار دیکھنے والوں کو مستانہ سا کر دیتا ہے،سفید پھول برف بنے امرحہ سے شرارتیں کرنے لگے،دونوں میں دوستی ہو رہی تھی ،دور دھند میں اس نےدیکھا کوئی آرہا ہے وہ عالیان تھا قریب آیا پھردور ہوتا چلا گیا ۔وہ عالیان نہیں تھا۔برفیلے ریشوں کو سمیٹتے اپنے سرخ دستانوں پر اتارتے وہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی ۔”اسے عالیان آتا اور جاتا کیوں نظر آیا تھا؟“

***

گرم کوٹ کے اندار اس کے وجود نےسہم کر جھر جھری لی۔دھند کو چیرتا پھر کوئی آ رہا تھا،اکسفورڈ روڈ کو بھاگ کر پار کرتا ہوا ،یونی کی طرف بڑھتا ہوا ،امرحہ محراب کی دیوار کے ساتھ سمٹ سی گئی برف باری میں تیزی سی آگئی تھی۔اس کے سرخ داستانے نم ہو رہےتھے برف کی پھوار کو دیکھتے اس کی آنکھیں نہیں تھک رہی تھیں اور یہ کون اس کی طرف آرہا تھااس کے ہاتھ میں نیلے پیلے سفید پھول تھے۔پھول بہت زیادہ تھے ان پر برف گر کر جم رہی تھی۔وہ باربار انہیں جھاڑ رہاتھا ۔اس نے گردن کو خم دے کر امرحہ کو دیکھا اور ابرو اچکا کر مسکرایا ۔تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اس شبیہ کو اڑ کر لے گیا ۔امرحہ نے سہم کر آس پاس دیکھا ،ٹریفک نہ ہونے کی برابر تھی،اکا دکا لوگ بیٹھے بس اور امر حہ نے وہا ں سے تیز تیز پیدل چلنا شروع کر دیا۔ اس کا دل خوف سے سہم رہا تھا ۔وہ اور تیز چلنے لگی اور پھر بھاگنے لگی۔اکسفورڈ روڈ پر یونی کو اپنے پیچھے چھوڑتے.....خوف اس کے وجود میں سرایت کر رہا تھا۔عالیان اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر جگہ تھا۔وہ سامنے سے اس کی طرف آ رہا تھا ۔وہ پیچھے سےاسے پکار رہا تھا۔یہ سب کیا تھا یہ سب ٹھیک نہیں تھا۔اسے اپنے تعاقب میں عالیان نہیں چاہیے تھا۔برف پر بھاگتے بھاگتے وہ پھسل کر گرگئی۔یہ عالیان کون تھا جس نے اسے گرا دیا تھا۔ٹھنڈی ناک سے درد کی لہر پھوٹی۔اٹھ کر اس نے کپڑے جھاڑے۔گردن سے لپٹے مفلر کو کھول کر اس نے اچھی طرح جھاڑا اور گردن کے گرد لپیٹ دیا۔برف اس کے وجود میں اترتی اسے ٹھنڈ ا کر رہی تھی۔اور اسے تکلیف ہو رہی تھی۔سفیدے کے ماحول میں سرمئی کوٹ اور سرخ مفلر میں وہ خزاں میں کھلی اس کلی کی مانند تھی جو بے وقت کھلنے پر آبدیدہ ہو جاتی ہے۔یونی کو اپنے پیچھے چھوڑتے وہ آہستہ آہستہ چلتی جا رہی تھی۔روئی کے گالے ابھی بھی گر رہے تھے۔اس کے کھلے بالوں میں اٹک رہے تھے ۔وہ برف باری دیکھنے آئی تھی لیکن اس نے یہ کیسی برف باری دیکھی تھی۔جس نے اس کے اندر کے بہاروں کو ختم کر ڈالا تھا۔سارا سبزا سفیدے میں بدلتا جا رہا تھا۔

**

”اور خزاں کتنی بھی خوبصورت کیوں نہ ہو ،وہ بہار کو نگل لے تو موت ہوتی ہے۔“

اور مشرقی لڑکیوں کے لیے یہ موت جلد نازل ہوتی ہے۔وہ برف سے اٹی زمین پر چل رہی تھی لیکن ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ وہ زمین میں دھنس رہی ہے۔

دل احساسات کا اکھاڑا ہے اور دماغ اس اکھاڑے کا شیر......یہ شیر ڈھارتا ہے تو دل جل کر....بجھ کر....ٹھنڈا ہو کر بیٹھ جاتا ہے......مشرق کے اکھاڑوں میں یہ شیر نگر نگر پایا جاتا ہے......

مشرقی سنیاسی بھی ہے اور سامری بھی.......

مشرق میں پربت بھی ہے اور پاتال بھی.......

سنگ پارس بھی....سنگ راہ بھی.....

جوت بھی....جھوک دیپ بھی......

یہاں جوگ بھی اورجوگن بھی....

ایسی زرخیز دھرتی کے باسیوں پر موت کیوں نازل نہ ہوا کرے

*..........*.........*

کہا جاتا ہےکہ شادی ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جس کی ادائی کے دوران آپ فرشتوں سے ”ابدی محبت“کی دعاؤں کے تحائف وصول پاتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ شادی خوش نصیب لوگ کرتے ہیں۔کچھ یہ بھی کہ کائنات میں حقیقی خوشی کا لمحہ دو دلوں کے مقدس ملن کا لمحہ ہوتا ہے۔اور جائز ہونے کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اجازت نامے کا بلند رتبہ ہے ....بلند...بہت بلند۔

اور پاک کتابیں ،حکایتیں بتاتی ہیں کہ کائنات کی،اشرف المخلوق کی اولین شادی عرش خدا پر انجام پائی اور بعد از ہونے والی ہر شادی عرش خدا پر انجام پائی شادی کا ہی رتبہ پاتی ہے۔

نکاح....سب سے پاک اور پسندیدہ روایت.....

نکاح.....دو دلوں کی فضیلت......

اور دستانیں یہ بھی کہتی ہیں کہ تبت کے برفیلے پہاڑوں میں روپوش ایک مشک بار پری،اپنی بہترین پوشاک میں طویل مسافت طے کرتی اس مشک مشک بندھن میں بندھنےوالوں پر مشک بید(بید کے خوشبودار پھول ) برسا کر جاتی ہے۔جاتے جاتے وہ تحفے کے طور پر دلہا دلہن کی مسکراہٹیں اپنی مٹھی میں قید کر کے لے جاتی ہے۔اور شادی عہد قدیم کا وہ عہد نامہ بھی ہے جس کا ورد ”عہد جدید“ میں بھی عزت و احترام اور محبت سے کیا جاتا ہے۔مورگن کرسمس کی رات کو آچکی تھی ۔ماما مہر نے اس کی شادی کےلیے ٹھیک ٹھاک تیاریاں کی تھیں۔کیمبرج میں مورگن نے شادی کے بعد رہنے کے لیے جوش کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا گھر لیا تھا۔جس کی سجاوٹ کے لیے ماما مہر نے پیسے مورگن اور جوش کو دیے،جو دونوں نے مشکل سے قبول کیے۔

***

مورگن نے شادی کے لباس ،زیورات،شادی کے دن اور آفٹر پارٹی کے سب انتظامات ماما مہر کے پسند سے کیے تھے۔حتی کہ شادی کی انگوٹھی بھی ماما مہر کی پسند کی لی تھی۔ماما مہر کے سامنے ان کی ”میں “ختم ہو جاتی تھی اور ماما مہر بھی ان کی آنکھوں میں پڑھ لیتی تھیں کہ ان کے بچے کیا چاہتے ہیں،یہ ماں اور اولاد کا وہ رشتہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی تھی۔اپنی شادی کی تیاری سے زیادہ مورگن کو ماما مہر کے کام کرنے میں دلچسپی تھی۔پارلر جانے سے زیادہ اسے یہ فکر تھی کہ ماما جومیڈیکل چیک اپ کے لیے جانا ہے۔جوش فون کرتا رہتا تھا اور وہ اسے چند سیکنڈ بات کرکے ڈانٹ دیا کرتی تھی۔

”مجھے ڈسٹرب نہ کرو ماما کے ساتھ بات کر رہی ہوں ۔“کیمبرج کی ہزاروں داستانیں وہ ماما کو سنایا کرتی اور دونوں کی قہقوں سے شٹل کاک کونجا کرتا۔موررگن نے سادھنا اور امرحہ کو Mates Brides (شہ بالیاں)بننے کے لیے کہا ۔امرحہ جس نے پاکستان میں اپنی نحوست کی دستانوں کی وجہ سے شادیوں شرکت نہیں کی تھی۔وہ مورگن کی شادی کے لیے اتنی پرجوش تھی جیسے اس کی اپنی شادی ہو۔لیڈی مہر نے شہ بالیوں کے لیے سنہری رنگ کو پسند کیا تھا۔سادھنا کی سنہری ساڑھی بنوادی گئی تھی۔شارلٹ اور مورگن کی چند سہلیاں جن کی آمد متوقع تھی اور امرحہ کے لیے انگریزی طرز کی ٹخنوں تک لمبی فراکیں۔فراک کا اوپری حصہ قدرے چست تھا جو نیچے آتے آتے لہریں بناتے گھیر دار ہوتا چلا جاتا تھا........ذرا سی حرکت سے ان لہروں میں تلاطم پیدا ہو جاتا جو بہت بھلا لگتا ۔سنہرے موتیوں سے فراک کی پشت کو سجایا گیا تھا اور لہروں میں ٹانکا گیا تھا کہ جنبش پر وہ لہروں کے ساتھ جھلمل کرتے گپ چھپ ہونے لگتے تھے۔امرحہ کے لیےدوپٹے کی جگہ سنہری اسکارف نما کپڑا تھا جسے کندھوں کے پیچھے سے لا کر بائیں شانے پر آگے لہریں دے کر سنہری بروچ لگا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔یہ کا فراک کی ڈیزائینر نےکیا تھا اور کیا کمال کیا تھا کہ امرحہ دوپٹے کے اس انداز پر حیران رہ گئی۔دوپٹے کی کمی بھی پوری ہو گئی اور فیشن بھی ہو گیا ۔فراک بلاشبہ بہت مہنگی تھی اور امرحہ سے ایک پونڈ بھی نہیں لیا گیا تھا۔لیڈی مہر کی لاڈلی بیٹی کی شادی تھی۔باقی جن بچوں نے شادیاں کی تھیں انہوں نے رجسٹر میرج کی تھیں۔یہ پہلی شادی تھی جو لیڈی مہر کے خواہش پر اتنے اہتمام سے ہو رہی تھی اگر مورگن کے بس میں ہوتا تو شاید وہ ایک پونڈ بھی اپنی شادی پر خرچ نہ کرتی ۔جب شادی کے ہال میں دلہن کے کمرے میں ماما مہر نے مورگن کو دلہن بنے دیکھا تو وہ بے اختیار رونے لگیں۔وہ مورگن کا ہاتھ اپنےہاتھ میں لیے بیٹھی رہیں....اسے دعائیں دیتی رہیں۔اس کی نظر اتارتی رہیں۔اور مورگن اپنی گھیردار سفید پوشاک کو کارپٹ پر پھیلائے ماما مہر کے قدموں میں بیٹھی ان کے آنسو اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹشو سے صاف کرتی رہی .....اس سے زیادہ مقدس منظر اور کون سا ہو سکتا تھا بھلا....؟

**

گلابی پھولوں کا دستہ پکڑے کونے میں کھڑی امرحہ اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔اسے یقین تھا کہ اپنی آئندہ زندگی میں وہ اس خاتون مہر سے زیاد عظیم ہستی نہیں مل سکتی،نہ ہی وہ خود ان جیسی عظیم ہو سکتی ہے۔ جس نے ہر قوم و نسل کے بچوں سے والہانہ پیار کیا ....انہیں پالا.....انہیں اپنا بنایا....انہیں یقین دلایا وہ ان کی نہ ہو کر بھی ان ہی کی ہیں.....وہ ان کی حقیقی ماں بے شک نہیں ہیں،لیکن حقیقی ماں سے کسی صورت کم بھی نہیں ہیں۔

یہ سب کرتے خاتون مہر نے بلاشبہ دو رتبےپائے ہیں....ایک عظیم ماں ہونے کے اور ایک عظیم انسان ہونےکے ....انہوں نے ان سب کے لیے خوشیوں کے سمان اکھٹے کیے...کامیابی کے بھی....ان کے لیے محبت کو کبھی تفریق نہیں کیا...وہ انہیں جمع کر کر کےدیتی رہیں....انہیں ضرب ہو ہو کر ملتی رہی۔

کائنات میں یہ خصوصیت صرف محبت ہی اپنے نام رکھتی ہے۔یہ دینے سے اور زیادہ ملتی ہے...یہ پلٹ کر واپس ضرور آتی ہے....خسارے میں رہ کر بھی فائدے میں رہتی ہیں۔ محبت جب خلوص دل سے انسانیت کے نام پر کی جائے تو وہ آپ کو عظیم بنا ڈالتی ہے ۔

عظمت کی بلندیوں تک لے جانے کا وصف محبت کے علاوہ کسی اور جذبے میں نہیں

***

اس لمحے میں امرحہ نے یہ سوچا تھا ، کچھ لوگ ہمارے اپنے نہ ہوکر بھی ہمیں کتنی خوشی دے دیتے ہیں ۔۔اور کچھ جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں، وہ کیسے ہمیں آٹھ آٹھ آنسو رلاتے ہیں ۔ وہ دادی اور اماں کے بارے میں سوچ رہی تھی ' اپنے خاندان والوں کے بارے میں ' جنہیں اس وقت راحت ملا کرتی تھی ، جب وہ کرب میں ہوا کرتی تھی ۔ اس کی شکل دیکھتے ہی انہیں یاد آجایا کرتا تھا کہ اسے کیسے کیسے تکلیف دی جاسکتی ہے ۔

شہہ بالیاں تین تین کی قطار میں دلہن مورگن کے پیچھے دائیں بائیں اپنے اپنے گلدستے پکڑے کھڑی تھیں ۔۔ وہ ہال کے قد آدم دروازے کے پاس آکر کھڑی ہوچکی تھیں ۔ دلہن گھبرارہی تھی اور وہ بار بار اپنی سانسیں درست کررہی تھی ۔

ہال میں سب اس کی آمد کے منتظر تھے۔ دلہن کا ہی انتظار کیا جارہا تھا ۔ برطانوی معاشرے میں جہاں ایک منٹ ادھر سے ادھر نہیں ہونے دیا جاتا ، صرف ایک دلہن کو دس منٹ تاخیر کی اجازت ہے ۔ لیکن انگریزی خون کی حامل دلہنیں دس منٹ کی تاخیر بھی گناہ سمجھتی ہے ۔۔ برطانوی شہزادی 'لیڈی ڈیانا 'کی بہو کیٹ مڈلٹن ڈجر آف کیمبرج نے ایک سیکنڈ کی تاخیر بھی نہیں کی تھی ۔۔ پاکستانی دلہنیں اور باراتی سن لیں ایک سیکنڈ کی تاخیر بھی نہیں ۔۔

اور وقت کی پابندی وہی قومیں کرتی ہیں جنہیں وقت پر منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے ۔۔ جو وقت کو ہندوستان کے کوہ نور سے زیادہ قیمتی سمجھتی ہیں۔۔ وہ نہیں جن کی کوئی منزل ہوتی ہے نا مقصد ۔۔وقت آئے یا جائے انکی بلا سے ۔۔ اور وہ کیا جانے وقت کس کوہ نور کا نام ہے ۔

*

اور یہ خوش قسمتی بھی صرف عورت کہ نصیب میں لکھی گئی ہے کہ دلہن بنے اسے کسی شہزادی اور ملکہ سے کم نہیں سمجھا جاتا ۔

عورتوں کو اپنی کم مائیگی کہ رونے رونا چھوڑ دینے چاہئے ۔۔ وہ ماں بنتی ہیں تو سب رشتوں سے ایک اونچے مقام پہ کھڑی تصور کرلی جاتی ہیں ۔ ایک کم عقل بھی سمجھ جاتا ہے کہ'عورت ماں بن جائے تو پھر کوئی اسکی برابری نہیں کر سکتا۔۔

بلند و بالا چھت اور قد آدم پھولوں سے سجی کھڑکیوں سے گھرے قدیم برطانوی طرز تعمیر کے چرچ نما ہال کے سرخ قالین پہ سفید رنگ کی سنڈریلا فراکیں پہنے اور سر پہ گلابی ربن باندھے دو انگریز بچیاں اپنی پھولوں کی ٹوکریوں میں سے پھولوں کی پتیاں نکال نکال کر دلہن مورگن کے آگے چلتے ہوئے پھینک رہی تھی ۔

دلہن نے ہال کے کھلے پھاٹک سے اندر قدم رکھا ۔سب کی گردنیں پیچھے اسکی طرف مڑیں ۔ٹھیک اسی وقت ہال کے اندر پادری سے ذرا ہٹ کر بیٹھے سولہ رکنی وائلن گروپ نے اپنے ساز سنبھالے اور نرمی سے انہیں چھیڑا ۔ وہ اس دھن کو بجانےکی تیاری کرنے لگے جو فرشتوں کی دعاوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکے ۔

ٹھیک اسی وقت' عین اسی وقت کوئی تیزی سے بھاگتے ہوئے کالے سوٹ پر ہلکے نیلے رنگ کی ٹائی باندھتے دلہن کے پیچھے تین ادھر ادھر قطار کی صورت چلنے کی تیاری کرتی شہہ بالیوں کے پیچھے آیا ۔ امرحہ دائیں طرف شارلٹ کے پیچھے آخر میں تھی ۔۔

سنہرے پانیوں سے نکلی ۔ایک امرحہ ۔۔

عربی شہزادے کے گھوڑے سے اترا ۔ ایک عالیان ۔

وائلن کے دھیمے سر اسی وقت دلہا دلہن سے سجے ہال میں بکھرے۔

عالیان کی آمد کی ایسی خوشی ۔۔

***

کیا انٹری تھی عالیان کی ۔۔وہ سر سنگیت ساتھ لایا تھا ۔۔

آہٹ پر امرحہ نے گردن موڑ کر دیکھا ۔ وہ جلدی جلدی اپنی ٹائی کو باندھنے کی کوشش کررہا تھا ' شایداس نے زندگی میں پہلی بار سوٹ اور ٹائی پہنی تھی ۔

ٹائی کو وہ ایسے باندھ رہا تھا جیسے گلے میں پھندے کو فٹ کررہا ہو ۔۔

اسے تو ایک ہفتے بعد آنا تھا ' ایک ہفتہ پہلے کیسے آگیا تھا ۔۔امرحہ کے پیچھے چلتے وہ اپنی ٹائی کے ساتھ مصروف تھا ۔ شاید اسے بھی خود کو ہر صورت دلہا کی طرح خوبصورت دکھانا تھا ۔۔اس کے بال سلیقے سے جمے تھے ۔۔

"کہا جاتا ہے کہ شادی کے دن کوئی مرد اور کوئی عورت دلہا دلہن سے زیادہ خوبصورت نہیں لگ سکتے ۔اور یہ میرا کہنا ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی دلہا دلہن سے زیادہ خوبصورت لگنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے معاملےمیں شدید گڑبڑ ہوتی ہے ۔اس کی شادی نہیں بھی ہوتی اور وہ اپنی شادی جیسا خوش ہوتا ہے ۔

ہنسنے کی بات نہیں بھی ہوتی تو ہنس رہا ہوتا ہے . شدید گڑبڑ کا معاملہ ہوتا ہے بلاشبہ" مجھے بتایا جائے کہ دلہن کون ہے؟ کیا صرف سفید لباس والی ؟

امرحہ کے عین پیچھے چلتے موتیوں سے گندھے بالوں سے ذرا پیچھے ذرا قریب ہوکر سرگوشی میں پوچھا ۔امرحہ نے اسکی بات پہ توجہ نہ دی۔ وہ سفید پھولوں سے سجے ہال کو دیکھ رہی تھی اور بے حد اونچی چھت سے جھولتے کئی میٹر چوڑے اور لمبے فانوس جس کی روشنی نے سارے ہال کو بقمہ نور بنا ڈالا تھا ۔وائلن تھے ۔نغمے تھے ۔۔ عالیان اور امرحہ تھے اور اس تقریب کو کیا چاہئے تھا ؟؟

لیڈی مہر کے سن بچے اپنے اپنے بچوں 'بیویوں اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ موجود تھے ۔ باقی جوش کے گھروالے اور دوست تھے ۔کافی زیادہ لوگ تھے 'سب دو اطراف نشستوں پہ براجمان تھے ۔

امرحہ کے پیچھے سے گھوم کر ماما مہر کے ہاتھ چوم کر عالیان جلدی سے جاکر دلہا کے پاس کھڑا ہوگیا ۔ اس نے جوش سے ہاتھ ملایا ۔ اپنا تعارف کروایا اور جوش کے شہہ بالے کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا ۔۔

دلہن پادری اور دلہا کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی سب کھڑے ہوگئے ۔۔ تعظیم میں پھر شادی کی رسم شروع ہوگئ ۔۔

اجازت نامہ دیا جانے لگا ۔

**

اجازت نامہ دہرایا جانے لگا۔ 

شہہ بالیاں دلہن سے پیچھے ہٹ کر قطار میں کھڑی ہوگئیں ۔ وہ سب دلہا اور دلہن کو دیکھ رہی تھی ۔امرحہ واجد آج بہت خوش تھی ۔یہ پہلی تقریب تھی جس میں وہ روئے بنا شریک تھی ۔ڈرے بنا ۔اسے کونے میں جھینپ کے بیٹھنے کی جلدی تھی نہ ضرورت ۔اس کے لئے وقت بدل چکا تھا ۔۔ وہ پھولوں کو تھامے ' گردن اٹھائے 'مسکراہٹ سجائے خوبصورت لگ سکتی تھی ۔خوش ہوسکتی تھی ۔وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔خوش تو وہ بلاشبہ بہت تھی ۔۔

مشک بار پری آچکی تھی اور مشک بید برسارہی تھی ۔ شاید وہ تھوڑی سی اور مہربان ہوگئ ہو اور اس نے دلہن کی طرح خوبصورت لگنے والی امرحہ پر بھی کچھ مشک بید پر برسائے ہوں ۔۔

اگر اس نے یہ کام نہیں کیا تھا تو یہ کام عالیان کر رہا تھا ۔۔اس کی بھوری آنکھیں سنہری ہوتی جارہی تھی ۔ امرحہ اس سے ذرا فاصلے پر فاصلے پہ کھڑی تھی ۔۔ امرحہ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ دلہا کے پیچھے کہیں کھڑا ہے ۔ نہ ہی اس نے معلوم کرنا چاہا اور عالیان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی ہال میں موجود ہے ۔

********

دلہا، دلہن ۔۔۔ اچھا ۔۔اور دوسرے لوگ ۔۔کیا واقعی یہ ہال میں موجود ہیں ۔۔ ایسا ہوگا ۔۔ میرا نہیں خیال ۔۔۔

قدیم اور پر شکوہ چرچ نما کئی سو گلدستوں سے سجے وسیع ہال کے جگمگ کرتے فانوس کے عین نیچے بچھے سرخ قالین پر کھڑا گرانٹ پرنیاں کے سر کی طرف جھک رہا تھا ۔۔ اس بار وہ " Gloxinia" کو اس کے نفاست سے گندھے سنہری موتی جڑے بالوں میں لگا رہا تھا پھر اس نے پرنیاں کے ہاتھوں کو تھام لیا اور دلہن کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا ۔۔ تم میرے لئے ہمیشہ اس پہلے دن کی دلہن کی طرح خوبصورت اور خاص ہوگی ۔۔

اس بار تمہیں اس عہد نامے کو سب کے سامنے دہرانا ہوگا " پرنیاں نے ادا سے سے کہا ۔۔

میں عالیان کے ساتھ اس عہد نامے کو دہرانے کے لئے تیار ہوں ۔"

"میں امرحہ کی طرح انتظار کرنے کے لئے تیار ہوں " پرنیاں نے بالوں میں لگے "Gloxinia " کو محبت سے چھو کر کہا ۔۔ساتھ ہی وہ مسکرائی ۔وہ مسکرا سکتی تھی ۔۔اس کے ہاتھ گرانٹ نے تھام رکھے تھے ۔

عالیان مسکرایا ۔۔وہ مسکراسکتا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں نے سنہرے رنگ کو تھام رکھا تھا ۔گلابی پھولوں کے گلدستے میں مسکراہٹ ان کی تھی ۔۔

جھلمل کرتی موتی جڑی لہروں میں میں اس کا دل لک چھپ ،گپ چھپ ہورہا تھا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے بھاگ کر جائے اور وائلن کو اپنی ٹھوڑی تلے لے کر دھنا دھن کر ڈالے یا۔۔ چھت کے ساتھ جھولتے فانوس کے ساتھ جھول جائے اور اعلان کرتا پھرے ۔۔ یا کئی پھولوں کے گلدستوں کو اپنی بانہوں میں بھر کر سنہری پوشاک کے قدموں تلے ڈھیر کردے ۔۔

اور یہ بھی کم تھا ۔یہ سب بھی کم تھا ۔۔

سب کم ہی ہوتا ہے ۔۔سب کم ہی لگتا ہے ۔۔

محبت اس عروج کا جذبہ ہے کہ سب ادائیگیاں تولہ ماشہ ہی لگتی ہیں ۔۔

****

یونیورسٹی پھر سے آباد ہوچکی تھی ۔۔ سترہ جنوری سے امتحانات شروع تھے ۔ سب دن رات پڑھنے میں مصروف ہوچکے تھے ۔۔اس کے سب دوست اس کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آئے تھے ۔۔ وہ خوش تھی کہ سب نے اسے یاد رکھا تھا لیکن وہ کسی کو بھی یہ نا بتا سکی کہ اس نے سب کو کتنا یاد کیا تھا ۔۔ ان کے جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوا تھا ۔

"میں واپس آچکا ہوں "

"مجھے نظر آرہا ہے ۔" مورگن کی شادی کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی ۔

تو چلیے پھر "۔ ؟ وہ سوئیڈن کا پانی پی کر پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوکر آیا تھا ۔

" کہاں "۔ ؟ 

" ہوم کمنگ ڈرنک کے لئے "۔ ( گھر واپسی کی دعوت کے لئے ) 

جو جاچکے تھے انہوں نے جو مانچسٹر میں رہ چکے تھے ان سے ہوم کمنگ ڈرنک پی تھی ۔

کھانے پینے کا اچھا انداز تھا ۔

"میں ایسی ڈرنک کو نہیں جاتی "۔ وہ صاف مکر گئی جبکہ وہ ویرا این اون کو پلا چکی تھی ۔

" نہیں جاتی تو میں بتا دیتا ہوں ' ٹونی ولسن کہتا ہے

"This is Manchester we do 

things different here "

*****

(یہ مانچسٹر ہے ہے ' ہمیں انفرادیت کا خبط ہے )

تو جب ہم گھر واپس آتے ہیں تو اسے بھی مختلف انداز سے ٹریٹ کرتے ہیں ۔ تم مانچسٹر میں ہو ،تمہیں یہ کرنا پڑے گا ۔

صرف دو پونڈ کی کاک ٹیل ۔۔اور بس "۔ وہ جان چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔

وہ اسے دو پونڈ کی کاک ٹیل کے لئے قریبی کیفے لے آئی جہاں اور بھی بہت سے اسٹوڈنٹس دو پونڈ کی کاک ٹیل پی رہے تھے ۔۔

" نئے سال کے لئے کیا کیا عہد و پیمان کئے ہیں تم نے "؟ ۔

" سستی نا کرنا اور وقت پر نوٹس بنانا ۔۔ دوسرے سیمسٹر میں %80 رزلٹ لانا "۔ عزم سے کہ کر وہ مسکرانے لگی ۔۔

وہ ہنسنے لگا لیکن امرحہ نے کوئی لطیفہ نہیں سنایا تھا ۔۔

" اب تم ہنسےکیوں ۔۔۔؟؟ "

"کیونکہ تحقیق کہتی ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ سال کے پہلے ہی ہفتے خود سے کئے عہد کو بھلادیتے ہیں اور باقی کے چالیس فیصد سے زیادہ افراد یہ کام چھ ماہ کے اندر کر گزرتے ہیں "۔

"میں ان ساٹھفیصد میں سے ہوں نہ ہی چالیس فیصد ۔۔۔ میں سے ۔۔" اس نے عزم سے کہا ۔

" مجھے فخر ہے تم پر ۔" اس نے اسے چڑایا۔۔ دو پونڈ کی ڈرنک وہ آہستہ آہستہ پی رہا تھا کہ وہ ختم نہ ہو جائے ۔۔”تم دیکھ لینا،میں شاندار کامیابی حاصل کروں گی۔“

”میں ضرور دیکھنا چاہوں گا....“سویڈن کا پانی اسے بری طرح راس آیا تھا۔

”تم مجھے چیلنج دے رہے ہو ۔“

”میں تمہیں چیلنج دے رہا ہوں....“ٹیبل پر مکا مار کر اس نے کہا۔

”اگر میں جیت گئی....؟“امرحہ نے انگلی اُٹھا کر کہا۔

”مشکل ہے ۔“

”اگر میں جیت گئی بولو.....پھر“

”ناممکن ہے “دو شانے نہ میں ہلائے

”امرحہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔”پاکستان میں ایسے موقعوں پر کہا جاتا تھا تمہارے منہ میں خاک..“وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔

”تو جو تم کہو گی، میں وہ کروں گا....وہ گلے میں پھندا ڈال کر چھت سے لٹک جانا ہی کیوں نہ ہو ۔“اوہ اتنا نالائق سمجھتا تھا وہ امرحہ کو.....

”ٹھیک ہے پھر ڈیڑھ سال بعد ملتے ہیں....اسی میز پر،تیار رہنا پھندا ڈالنے کے لیے۔“

”مطلب تم ڈیڑھ سال تک مجھ سےملو گی نہیں.....میں چیلنج واپس لیتا ہوں “

اف !مطلب اس معاملے کو ہم ڈیڑھ سال بعد دیکھیں گے.....؟

”ٹھیک ہے۔“وہ مسکرانے لگا ۔چڑانے والی مسکراہٹ۔

*****

یہ انگریز خود کو سمجھتے کیا ہیں.....سمجھتے ہیں،سب یہی کر سکتے ہیں ۔ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے ....سب کرسکتے ہیں ہم ....خیر امرحہ دیکھ لے گی اس انگریز کو اب....امتحانات میں ایک ہفتہ تھا اور سب جنوری کے پہلے ہفتے ہی واپس آچکے تھے اور جنوری کی برف باری میں ایران کا محسن رسولی اور مصر کا موسٰی فٹ بال کھیلنا چاہتے تھے۔امتحان تو پھر آجائیں گے بلکہ سال میں دو بار....لیکن اسی غضب کی سو سالہ ریکارڈ توڑتی برف باری شاید پھر نہ آئے۔ایرانی اور مصری یقیناً سوتے میں بھی خود کو فٹ بال کھیلتے پاتے ہوں گے اور اپنی زندگی کے خاص دن ”شادی “پر بھی فٹ بال کھیلنے کے بلاوے کو رد نہیں کر سکتے ہوں گے۔محسن رسولی نے دو ٹیمیں جمع کر لی تھیں،میچ کے لیے برف سے اٹے گراؤنڈ میں رات کو میچ تھا.....برف کا ڈھیراور اس پر فٹ بال میچ ...واہ.....

”تم بھی میرے ساتھ کھیلو گی؟“ویرا نے کہا۔

امرحہ ہنستے ہنستے بے حال ہو گئی ۔

”کیا مصیبت آگئی ہے تمہاری جان پر؟“ویرا نے گھونسا مارااس کی کمر پر۔

”میں نے کبھی موبائل پر فٹ بال گیم نہیں کھیلی۔تم مجھے برف پر خونخوار کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنےکے لیےکہہ رہی ہو ...یعنی میری موت برف پر واقع ہونی ہے۔“

”کون سا کھیل کھیلتی ہو تم؟“ ویرا ایک اور گھونسا مارنے کے لیےتیار ہوئی

”لڈو دادا کے ساتھ ....ہاہاہا،کبھی کبھی کرکٹ ،وہ بھی اگرکوئی بچہ گیند کروائے آہستہ سے تو میں بلا چلا لیتی ہوں....ٹینس بال سے ہارڈ بال سے بالکل نہیں“

”تو تم لڑکیاں فارغ وقت میں کیا کرتی ہوپاکستان میں ،سائیکل تم نہیں چلاتیں،دوڑ لگانے کے لیے تمہیں کہا تو تم نے انکار کر دیا تھا......کوئی گیم بھی نہیں آتی تمہیں ....کھانےکے علاوہ کچھ کرنا آتا ہے؟“

***

”ہاں نا....چغلیاں کرنا اور بات بات پر لڑنا۔“امرحہ نے اردو میں کہا اور ہنسنے لگی۔

تو امتحان چھ دن بعد شروع تھے اور وہ میچ کھیلنے کی تیاری کر رہے تھے۔لڑکیوں میں ایک ویرا تھی اور ایک لاء ڈیپارٹمنٹ کی وکٹوریہ....وکٹوریہ کارل کی ٹیم میں تھی اور ویرا محسن رسولی کی ٹیم میں ....جس طرح کی بمبار کھلاڑی ویرا تھی، اسے دونوں ٹیمیں شامل کرنے کے لیے تیار تھیں،لیکن ویرا نے چلا کی کی اس نے محس رسولی کی ٹیم میں شمولیت کی....محسن رسولی اپنی یونیورسٹی میں فٹ بال کے لیے ہی تو مشہور تھا۔اس کے امکانات روشن تھے جیتنے کے....اور وہی ہوا ،محسن رسولی کی ٹیم جیت گئی...... دو تین سے .....سو دو سو کے قریب اسٹوڈنٹ آئے تھے میچ دیکھنے ،دستانے پہنے،مفلر لپیٹے،کافی پیتے،منہ سے بھاپ اُڑاتے.....ہر گول پر گرونڈ کو سر پر اُٹھا لینے والے ......امرحہ کو بھی پڑھنا تھا لیکن وہ ویرا کے لیے آگئی تھی۔ اور اچھا ہی کیا آگئی ورنہ برف کے ڈھیر پر فٹ بال کے ساتھ بمباری کرتی ویرا کو کیسے دیکھتی۔امرحہ کا حلق بیٹھ گیا تھا چلا چلا کر....اس نے کس قدر حسرت سے ویرا کو دیکھا ،وہ برف کے ڈھیر پر فٹ بال کے ساتھ ایسے بھاگ رہی تھی جیسے لاؤنج میں کارپٹ پر بھاگ رہی ہو ....اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھےکہ وہ برف میں خود کو دفن کر لے گی لیکن ہار گی نہیں....کارل نے پہلا گول کیا تھا اور ویرا نے اسے ایسے دیکھا تھا جیسے اس کی گردن دبوچ لے گی....اور اس نے گردن دبوچ لی تھی،اس نے یکے بعد دیگرے دو گول کیے تھے....مخالف ٹیم کی کمر تھوڑ ڈالی تھی....وہ پریشر میں آئے اور بمشکل مزید ایک گول کر کے ہار گئے۔

”ویرا....ویرا“ اسٹوڈنٹ نے گرونڈ سر پر اُٹھا لیا ۔ویرا ڈیوڈ بیکھم کی بے نیازی اور میسی کی چھپی رستمی لیے اسٹوڈنٹس کو دیکھا ،ہاتھ ہلایا...اور اپنی دائیں آنکھ کے کنارے کو رگڑ کر کارل کو دیکھ کر آنکھ ماری....کارل کو تو آگ ہی لگ گئی ....اس کی شکل دیکھنے لائق تھی...ٹیم غصے میں آکر بھڑک چکی تھی اور ویرا شاید یہی چاہتی تھی ۔وہ بھڑک بھڑک کر برف پر گرتے جاتے تھے۔محسن رسولی کی ٹیم فٹ بال لیے اُڑی جاتی....ویرا برف کی پیدوار تھی اسے برف پر ہرانا مشکل تھا....یہ اس کی بے عزتی ہوتی....اور اس نے روس کی برف کی عزت رکھ لی ....اور وہ لوگ میچ جیت گئے۔

***

امرحہ کو بڑی خوشی ہوئی ،ویرا کے جیتنے کی نہیں، کارل کے ہارنے کی....وہ سب لوگ گرونڈ کے گرد گھیرا بنائے کھڑے دونوں ٹیموں کے میچ دیکھ رہے تھے۔میچ ختم ہوا سب کو پھر سے پڑھائی یاد آگئی اور سب جلدی جلدی کھسکنے لگے ۔اب امرحہ نیٹ کے پاس کھڑی منہ کھولے ہنس رہی تھی ۔اس کا جی چاہ رہا تھا ویرا کو کاندھوں پہ اُٹھا لے....ورنہ کارل کو ہی اُٹھا کر پھینک دے....اور نہیں تو برف پر پیٹ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہوتے ہنسے....کچھ میچ اس نے دادا کو بھی دیکھایا تھا اور وہ بھی ویرا ویرا چلا کر لاہور میں بیٹھے ویرا کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔

”تمہیں بڑی ہنسی آ رہی ہے۔“وہ دونوں ہاتھ سینے پہ باندھ کر اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔،کافی سنجیدہ لگ رہاتھا۔جیسے ہار کے بعد لوگ لگا کرتے ہیں۔

”ہاں آ رہی ہے....“امرحہ نے ایک اور قہقہہ لگایا ....برا کیا

آنکھوں کو چندھیا کر کارل نے اسے تاڑا....جیسے کہا”اچھا تم....تم ٹھیک ہے پھر۔“

وہ چند قدم آگے چلا ،اس کے ہاتھ میں فٹ بال تھا اور پھر وہ ایک دم سےپلٹا ۔امرحہ ویرا کی طرف جانے ہی لگی تھی۔اس کا دھیان کارل کی طرف نہیں تھا،کارل نے پلٹ کر پوری قوت سے اس کے سر پر فٹ بال کی کک لگائی....ارحہ توازن قائم نہ رکھ سکی اور گر گئی....جیسے ہی وہ گری ،کارل نے تیزی سے اس کے سر پر جمی سرخ اونی ٹوپی کو کھینچ کر اسکی ناک تک گھسیٹ دیا....جی ناک تک.....

”یہ کیا بدتمیزی ہے؟“امرحہ چلائی....یہ بھی برا کیا امرحہ نے ۔کارل نے مٹھی بھر برف اس کے چلاتے منہ میں ٹھونس دی ۔امرحہ نے ہاتھ سے برف منہ سے نکالی۔کارل نے تیزی سے اپنے گلے میں سے اونی مفلر کو نکال کر اس کی گرہ بنا کر اس کے دونوں ہاتھوں میں ڈالی اور گرہ کس دی....وہ جو اُٹھنے کی کوشش کر رہی تھی اور لڑھک گئی۔

***

یہ کیا ؟ٹوپی ناک تک .......برف منہ میں......ہاتھ بندھے ہوئے.....چچ چچ ۔اب کارل نے کسی مشین کی طرح اس پر برف اچھالنی شروع کر دی....امرحہ بمشکل برف منہ سے اگل سکی۔اس کے دانت ٹھنڈ سے ٹوٹ جانے کے قریب تھے اور کارل منحوس اسے برف کے ڈھیر میں دفن کر رہا تھا....وہ کھلے عام منہ کھول کر ہنس رہی تھی__اب ظاہر ہے ہارے ہوئے لوگوں کو ایسی ہنسی بری بھی لگ سکتی ہے__

"ویرا!"امرحہ بمشکل چلائی__ویرا زرا دور محسن رسولی کے ساتھ میچ کی صورت حال پر غور کر رہی تھی،امرحہ کی طرف اسکی پشت تھی__کارل کسی کر ین کی طرح اس پر برف اچھالتا ہی جا رہا تھا اور اس نے امرحہ کو برف کے ڈھیر میں دفنا رہا__دیکھتے ہی دیکھتے امرحہ برف میں__یہ دن بھی دیکھنا تھا امرحہ نے__

"ویرا!"اسکی آنکھوں پر ٹوپی تھی__اسے نظر ہی نہیں آرہا تھا کہ ویرا کہاں ہے__برف کا ایخ ڈھیر اسکے منہ پر آ کر گرا کہ لو اور چلاؤ__کاش دادی کا کہا سچ ہوتا،وہ واقعی منحوس ہوتی اود کارل کے ہاتھ ٹوٹ جاتے اس کے ساتھ یہ سب کرتے__

"کارل!"ویرا کی دھاڑ سنائی دی__اس نے بڑھ کر امرحہ کے سر پر سے ٹوپی اٹھائی اور امرحہ نے دیکھا کہ ویرا نے ایک بے حد ناکام کوشش کی اپنی ہنسی کے فوارے کو روکنے کی__

وہ گردن تک برف میں دھنس چکی تھی،ناک سرخ ہو چکی تھی__ہونٹ نیلے اور غصے سے وہ نیلی،پیلی،لال سب ہو رہی تھی__

جیسے ہی ویرا نے ٹوپی اٹھائی__کارل اور ویرا دونوں کے منہ سے ہنسی کے فوارے نکلے__

"دادا! آپ ٹھیک کہتے ہیں،مجھے امرحہ نہیں ویرا ہونا چاہیے تھا-" امرحہ نے دل میں سوچا جب ویرا اسے برف سے نکال کر کھڑا کر چکی تو کارل نے امرحہ کی طرف اشارہ کیا__ "میچ ہو جائے__تم اور میں-"کیا باے کی تھی کارل نے__وہ بھی امرحہ سے__

"اسے فٹبال نہیں آتا__مجھ سے بات کرو-" "تم پرے رہو__Ginger Baal_____مجھے اسThe Lost Duckسے بات کرنے دو"

"The Lost Duck"وہ چپ کارل کی شکل دیکھنے لگی غصے میں اتنا لال پیلا ہونے کے باوجود وہ اسکے خلاف کچھ نہ کر سکی__چچ چچ__افسوس__

"بیس پچیس فٹ کے فاصلے سے ہم ایک دوسرے کے سر پر فٹبال کی کک لگائیں گے__وقت دس منٹ بولو پلوٹو سر پر لگا بال ایک گول ہو گا-"

"پلوٹو__ایک اور نام__"پلوٹو خاموش کھڑا اندازہ لگا رہا تھا کہ کیا وہ یہ کر سکتی ہے،نہیں وہ یہ بھی نہیں کر سکتی تھی__اندازہ لگایا جا چکا تھا__

"نہیں-" امرحہ نے انکار کر کے جان چھرائی__

"فاصلہ دس منٹ__"وہ آج ہر صورت اس کے سر پر کک لگانا چاہتا تھا__

"نہیں-" امرحہ نے ایسے کہا جیسے شاہ ایران اسے اپنا تحت پیش کرتے ہوں کہ آج سے آپ اسے سنمبھالیں تو وہ کہتی ہو"نہیں بھئی__بس نہیں کہہ دیا نا__بس نہیں__"

" نہیں__"کارل نے واضح دانت پر دانت جمائے اور غصے کو چھپا کر اس کی طرف دیکھا کہ وہ یہ بھی نہیں کر سکتی جو پانچ سال کے بچے بھی کر کے جیت سکتے ہیں__کارل کو بس موقع چاہیے تھا اس کا سر پھوڑنے کا اسے برف کی مار مارنے کا__

****

"چلو دس قدم__ہارنے والے کو برف میں گردن تک صبح تک دھنسے رہنا ہو گا__Ginger Ballنے امرحہ کو آنکھ ماری کہ کھیل لو__پر پاگل تھی کیا وہ ابھی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کی حیثیت نہیں ہوئی تھی اس کی__ " امرحہ کے لیئے میں کھیلتی ہوں__" ویرا نے ہاتھ اٹھایا__

"تمہارے لیئے کھیل بدل جائے گا__بیس فٹ کا فاصلہ رکھ کر ہوئے ہاتھ سے ہمیں سر پر بال مارنی ہو گی__وقت دس منٹ__"

"ٹھیک ہے!"شاہ ایران کا تحت ویرا نے قبول کیا__اسٹاپ واچ امرحہ کو دے کر ان کا کھیل شروع ہو گیا-

بیس فٹ کا فاصلہ رکھ کر فٹبال کو درمیان میں رکھ دیا گیا ۔ فٹبال پر پہلے کارل جھپٹا 'ویرا بھاگی لیکن کارل نے پھرتی سے اس کے سر پہ بال دے ماری ۔۔بال ویرا کے ہاتھ آگئی ۔۔اس نے کارل کا نشانہ لیا لیکن کارل جل دے گیا ۔۔ بال کارل کے ہاتھ آگئی 'ویرا کو بال کواپنے سر پر لگنے سے بچانا بھی تھا اور بال کو اپنے قابو میں بھی کرنا تھا ۔برف پر پھسلتے 'گرتے ' بال پر جھپٹتے مقابلہ نویں منٹ میں پانچ چار تھا ۔۔۔ کارل پانچ ۔ویرا چار ۔دسویں منٹ میں کارل نے ویرا کے سر پر ایک اور گول کردیا ۔۔ ویرا بری طرح سے برف پہ گری ۔۔۔

"آخری منٹ !" امرحہ چلائی ۔وہ بھاگنے کی تیاری کر رہی تھی ۔آخری منٹ میں ویرا زیادہ سے زیادہ ایک ہی گول کرسکتی تھی نا۔۔گراؤنڈ میں چند ایک اسٹوڈنٹس ہی موجود تھے جو ویرا اور کارل کی مستیاں دیکھ رہے تھے۔ان کا خیال تھا وہ مزاق میں کوئی کھیل کھیل رہے ہیں ۔۔

"آخری پندرہ سیکنڈز "۔۔ امرحہ پھر ذور سے چلائی ' وہ بھاگتے بھاگت ویرا کے قریب جاچکی تھی ۔کارل ان سے دور تھا ۔ بال ویرا 

کے ہاتھ میں تھی ۔ اس نے کارل کے سر پہ دے ماری ۔لیکن کارل پھر بچ گیا ۔۔ اور وہ بال پر جھپٹا ۔۔ وہ پھرتی سے جھک کر بال اٹھا ہی رہا تھا کہ ویرا پھولے ہوئے سانس کے ساتھ چلائی ۔

"بھاگ امرحہ "کہتے وہ خود بھی برفانی چیتے کی طرح گیٹ کی طرف بھاگی ۔۔ امرحہ بھاگنے کی تیاری تو کر ہی رہی تھی پر ویرا کے کہتے ہی اس کے ہاتھ پیر پھول گئے ۔۔۔

*******

"بھاگ ۔امرحہ " ویرا پھر چلائی ۔۔کارل ان کے پیچھے جنگلی تیندوے کی طرح کہنا ۔

امرحہ نے اپنی لاہور میں کھائی خوراکیں زندہ کی اور پورا زور لگا کر بھاگی ۔۔ ویرا نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی رفتار کے ساتھ بگھانے لگی ۔

لیکن کہاں ویرا کہاں امرحہ ۔۔ امرحہ برفانی چیتا تھوڑی تھی ۔

جتنی مرضی صحت بخش غذائیں کھائی ہوں ۔ان کا استعمال تو کبھی نہیں کیا گیا تھا نا ۔۔ بھاگی تو کبھی نہیں تھی ۔۔۔ضرورت ہی نہیں پڑی تھی ۔۔۔ایسے برف ملی تھی نہ کارل نامی بلا ۔۔ جو ان کے پیچھے بھاگ رہی۔۔

ویرا کے ساتھ بھاگتے امرحہ منہ کے بل گرتے گرتے کئی بار بچی ۔۔امرحہ گرجاتی ۔۔کارل موت اسے پیچھے سے آلیتی تو بہت ہی برا ہوتا ۔۔۔ کارل کہیں پیچھے برف پر پھسل کر گرگیا تھا ورنہ وہ ان سے دس قدم پیچھے نہ ہوتا ۔۔ویرا اپنی سائیکل پہ جھپٹی اور اسے چلایا ۔۔امرحہ چلتی سائیکل پہ بیٹھی ۔۔ویرا نے ہی اسے چلتی سائیکل پہ بیٹھنا سکھایا تھا ۔ اس کا ماننا تھا ۔۔ ایمرجنسی میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کام آتی ہیں ۔۔

ایمرجنسی "کارل " میں یہ بات کافی کام آرہی تھی ۔

ویرا نے اپنی رولر کوسٹر کو دنیا کی تیزترین جاپانی ٹرین بنا ڈالا جو چلتی ہے تو لگتا ہے اڑ رہی ہے ۔۔رولر کوسٹر بھی اڑ رہی تھی ۔۔ 

"ویرا " کارل کی آواز ان کے پیچھے آئی ۔ پھولے سانس کے ساتھ وہ چلایا۔۔

"کون ویرا ؟" ویرا چلائی اور یہ جا وہ جا ۔

جب وہ کارل کی پہنچ سے دور ہوگئی تو رولر کوسٹر کی رفتار آہستہ کی گئی ۔۔ ہنس ہنس کے ان کا برا حال تھا ۔ 

برف سے ڈھکے چھپے مانچسٹر میں ان کی ہنسی کہ قمقمے جل بجھ رہے تھے ۔ امرحہ شاید ہی اپنی زندگی میں کبھی اتنا ہنسی ہوگی ۔ اس کا پیٹ پھٹنے کے قریب تھا ۔

"تم ہار کیسے گئیں "؟ امرحہ نے اس کی کمر میں چٹکی بھری ۔ یعنی میرے لئے کھیلتے ہی ہار گئی یو ۔" Ball Ginger"

*****

کبھی انسان ہار بھی تو جاتا ہے نا۔ ویسے اگر میں جیت جاتی تو کارل نے بھاگ جانا تھا ۔۔ ہم اس جن کو برف میں دھنساسکتے تھے بھلا؟ ۔۔۔۔

”میری دادی کا ماننا ہےمیں منحوس ہوں......میری وجہ سے سارے کام خراب ہو جاتے ہیں......آگ لگ جاتی ہے...تباہی،بربادی ،ایسا سب ہو جاتا ہے۔“

”اچھا تم تو بڑے کام کی ہو پھر.....تم وائٹ ہاؤس کے سامنےایک گھر کیوں نہیں لے لیتیں....روس کے تھوڑے حساب کتاب باقی ہیں امریکہ کہ ساتھ....تم وہ حساب کتاب کیوں برابر نہیں کروا دیتیں ہمارے.....؟اگر تم واقع ویسی ہو تو سچ تم ہمارے بہت کام کی ہو .....ہمارا حساب چکا چکو تو روس آنا....گارڈ آف آنر دیا جائے گا تمہیں.....“

”گارڈ آف آنر !“امرحہ ہنستے ہنستے بے حال ہو گئی۔اسکی نحوست کو گارڈ آف آنر....کمال ہو گیا۔

”یہ میری زندگی کا بہترین وقت ہے ویرا....تم ہو، میں ہوں،برف ہے،مانچسٹر ہے، اورتمہاری سائیکل ہے.....میرے لیے اتنے خزانے تھے زندگی کے پاس “

”سب سے بڑا خزانہ کارل....ہاہاہاہا“ہنستے ہنستے ویرا سائیکل گرابیٹھی دونوں سٹر ک پر گرگئیں.....انہیں ہلکی سی چوٹ بھی آئی،لیکن اس چوٹ کی پروا کسےتھی،دونوںتو سٹرک پہ گری سائیکل کےپاس ہنسنے میں مصروف تھیں۔

”اس کا نام لیتے ہی ہم گر گئے اف،اصل میں منحوس تو کارل ہے“

امرحہ کوبڑی خوشی ہوئی کارل کو منحوس ثابت کر کے۔اس نے جیسےاپنے منحوس ہونے کا بدلہ کارل سےلے لیا اور ساری روشن خیالی کے باوجود وہ دادی کی طرح پورا زورلگا کر کارل کو ”منحوس “ثابت کرنے کے لیے تیار تھی۔بلکہ اس کام کےلیے پارٹ ٹائم کرنے کے لیے بھی تیار تھی......ساری یونیورسٹی جب امرحہ کے خاندان کی طرح جب اسے منحوس منحوس کہا کرے گی تو امرحہ کے اندار ٹھنڈک ہی ٹھنڈک پھیل جائی گی....آہ......کاش یہ دن دیکھنا امرحہ کے نصیب میں ہو.....کاش یہ دن جلد ہی آجائے....بلکہ آنے والا ہو۔

”کارل دی منحوس مارا۔

میں ہڑبڑا کر اُٹھا۔آج تو میرا پہلا پیپر ہے....گھڑی اور کھڑکی دونوں کی طرف دیکھا اوہ گوش شام کے پانچ بج گئے....خدایا....میرا تو پہلا پیپر تھا....میں تو رات بھر پڑھتا رہا تھا....پھر کیا ہوا......پھر کیا ہوا آخر....یعنی میرا پیپر گیا....یعنی اب یونیورسٹی کا ڈین بھی مجھے فیل ہونے سے نہیں بچا سکے گا۔میں اتنا وقت سوتا کیسے رہ گیا؟کیا میں ساری رات پارٹی کرتا رہا۔سارا دن سوتا رہا....نہیں میں تو علی کامنز میں تھا....نہیں،شاید میں تو لائبریری میں تھا....اوہ گوش میں کہا تھا......آخر کوئی مجھے بتائے گا میں کہا تھا۔میں نچلے فلور واقع شاہ ویز کے کمرے کی طرف بھاگا۔اس کا دروازہ دھڑ دھڑایا۔

”شاہ ویز ! میں کل رات کہا تھا بڈی جلدی بتا....؟

اوف شاویز بھی سو رہا تھا.....میری طرح اس کا بھی امتحان گیا...وہ بھی فیل....

”مجھے کیا پتا،تم کل رات کہا تھے....سونے دو مجھے۔“شاویز اندار سے ہی چلایا۔

”تمہارا بھی پیپر گیا یا دے کر آئے ہو ؟“میں اس کے کمرے کےبند داروزے کے پار چلایا۔

”پیپر....وہ تو صبح ہے.....اب دفعان ہو جاؤ۔“

”صبح تو گزار گئی اب تو شام کے پانچ بج رہے ہیں۔“

”تم ٹھنڈے پانی میں ڈبکیاں کیوں نہیں لگاتے،صبح کے پانچ بجے ہیں،شام کے نہیں۔“

”او اچھا.....سچ میں......آہ گوش میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔

یہ کیرل تھا،ایگزامز کے بے جا دباؤ کا شکاربےچارہ اسٹوڈنٹ.....یعنی مانچسٹر یونی میں اس دیو کا نزول ہو چکا تھا جسے ”ایگزامز “کے نام سے یاد کیا جانا بھی پسند نہیں کیا جاتا....تو ایگزامز کی دنوں کی ایک کیرل ہی ایسی کاپی نہیں ہےاور بھی مختلف کاپیاں ہے۔

”میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے؟“اپنےفیشن اور ملبوسات کے لیے مشہور لنڈا۔

”تم چار پانچ مہینے پہلے لائبریری آئی ہو گی۔“

”ہاں آئی تو تھی....ایک میگزین چاہیے تھا....پر آپ کو کیسے معلوم ہوا؟“

”سارا سمسٹر چھوڑ کر صرف امتحانات کے دنوں میں لائبریری آنے والے مجھ سے یہی کہتے ہے ”آپ کو کہیں دیکھا ہے۔“دوسرے سمسٹر کے امتحانات میں آکر بھی تم یہی کہو گی....میں تھک جاتا ہوں ،بار بار اس سوال کا جواب دے کر،اس لیے ابھی سے بتا رہا ہوں،میں لائبریرین ہوں اور لائبریری میں دیکھا اور پایا جاتا ہوں۔“

آنکھ،کان،زبان،دماغ،خاص کر بالوں میں سے طوطے کیسے اڑتے ہیں کبھی دیکھا ہے۔

”نہیں....مانچسٹر یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ سے امتحانات کے دنوں میں ملیں......

”آئی لو یونی میوزیم....“ایما....عام دن....

”میوزیم....یونی میں میوزیم ہے؟“ایما.....امتحانات کےدن.....

”اوہ.....شیکسپئرکو کیا ضرورت تھی اتنا کچھ لکھنے کی.....ایک آدھ کافی نہیں تھا۔“جوناتھن %40 بمشکل لینے والوں میں سے.....

”کون شیکسپئر؟“ ڈینئل مانچسٹر کے ہر کلب اور بار کے بارے میں جاننے والو اور %40 کے خواب دیکھنے والوں میں سے....

میرے چچا.....“جوناتھن غصے میں۔

تمہارے چچا ڈرامے لکھتے ہیں.....؟کس تھیٹر میں لگتے ہے ان کے ڈرامے.....دو ٹکٹیں مل جائیں گی؟“

ایک اور.....

تم ڈبہ کیوں کھا رہے ہو؟اوک ہاؤس میٹ

”میں تو پزا کھا رہا ہوں۔“بے حد لائق فائق ،لمبا پتلا سا اسٹوڈنٹ کرس......

”تم پزا ڈبے سمت کیوں کھا رہے ہو؟“

نہیں میں تو صرف پیزا کھا رہا ہوں...یہ دیکھو..اوہ..میری پلیٹ میں یہ ڈبہ کہاں سے آگیا...

گول گول چشمہ ملفوف آنکھیں باہر کو...

تمہارے منہ میں بھی کچھ ڈبہ کا حصہ ہے...

اور خدا کے لیۓ کرس اس کھڑکی کو بند کر لوگ ہاؤس کے وہ واحد اسٹوڈنٹ ہوگے جو اتنی ٹھنڈ میں کھڑکی کھول کر پڑھ رہاہے...

کھڑکی...اوہ...تو یہ کھڑکی ہے... میں بھی سوچ رہا تھا میرے سارے کپڑے کہاں گۓ... اور میرے جوتے بھی.. 

لائیبریری کی طرف جاتے ہوۓ...

ہاۓ جینا کیسی ہو...

مائیکل کیمسٹری اسٹوڈنٹ.. "میں ماریہ ہوں...بائیو اسٹوڈنٹ"...

جینا ماریہ نا...ہار نہ مانتے ہوۓ. سر کھجاتے ہوۓ...

ماریہ ایڈم!! دونوں ہونٹوں کو بگاڑتے ہوۓ..ہاں ہاں وہی کو مک لارین 1.13 بیش قیمت کار میں آتی ہے...

میری تیسری نسل میں سےشاید کوئی مک لارین خرید کر اسے ہاتھ لگا سکے... 

میں ایسی جرأت فی الحال نہیں کر سکی...میری حیثیت فری بس سے آنے والی ہے...اور تم؟؟؟

میں سر کھجاتے ہوۓ ...

ہاں تم ...مطلب... میں کہاں جارہا ہوں...

میں پڑھنے لائبریری جا رہا ہوں سارہ...

ماریہ... مطلب تم کون ہو... کیا نام ہے تمھارا...

سر کھجانے کی باری اب ماریہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے...

میں اچھا باۓ... میں لیٹ ہورہا ہوں سوزین... چلا جاتا ہے...

میں کون ہوں.. کیا نام ہے میرا...

جاتے ہوۓ...

تمہیں تو لائبریری جانا تھا نا ماریہ پیچھے سے...

چلاتی ہے__

"تم یونیوسٹی سے باہر کی سمت جا رہے ہو__"

"تو تعلیمی دور میں کم سے کم دس بار ہم یہ ضرور سوچتے پائے جاتے ہیں کہ امتحانات میں فیل ہونا اتنا آسان اور پاس ہونا اتنا مشکل کیوں ہے؟اسی فیصد پرچے اسی ایک لیکچر "باب"سوال پر کیوں مشتمل ہوتے ہیں__؟"

"فیل ہونے کی بڑی وجہ کیا ہے؟"

"میرا خیال ہے یہ امتحانات ہیں__آپ کا کیا خیال ہے؟"

"Night Before enams is like a

Night Before Christmas, You Can't

Sleep and yet hope for a miracle"

اسٹوڈنٹس اپنے تعلیمی دور میں معجزات پر بہت یقین رکھتے ہیں اور ان کے رونما ہونے کی دعائیں بھی کرتے ہیں__دوسرا اور تیسرا باب پرھنے کے بعد وہ یہ دعا کرتے سو جاتے ہیں کہ چوتھے،پانچویں اور چھٹے باب میں سے کوئی سوال نہ آئے اور سارا پرچہ دوسرے اور تیسرے ابواب پر مبنی ہو__چلو فرض کیا اگر چھٹے باب میں سے کچھ آ ہی گیا تو اسی فیصد دوسرے اور تیسرے ابواب سے جو آئے گا،وہ پاس کروا دے گا__چلو پچاس فیصد ہی سہی'اچھا چلو تیس ہی سہی__بس بہت ہے معجزائی دعائیں__معجزائی توقعات__

امتحانات کے دوران سب سے زیادہ اسٹوڈنٹس خوش فہم ہوتے ہیں__امتحانات کے بعد سب سے زیادہ دنیا بھر میں دعائیں اسٹوڈنٹس کرتے ہیں__

امتحانات کے دوران سب سے زیادہ اسٹوڈنٹس خوش فہم ہوتے ہیں__امتحانات کے بعد سب سے زیادہ دنیا بھر میں دعائیں اسٹوڈنٹس کرتے ہیں__

سب سے زیادہ خون امتحان نامی بلا چوستی ہےاور کودتی پھاندتی حقیقی موت رزلٹ کے دن سب سے ذیادہ دکھائی دیتی ہے__

جی ہاں__سچ ہے یہ__

امتحان گاہ کے آخری پانچ منٹ میں ہر اسٹوڈنٹ مافوق الفطرت طاقت کا مالک بن جاتا ہے__وہ ساری کتاب لکھ ڈالنا چاہتا ہے__لیکن وقت ہی نہیں ہوتا__....اور ایک بڑی دردناک حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ یاد بھی آخری منٹوں میں آتا ہے امتحانات ایک لمبی.....آہ......

”میں نے سارا سمسٹر ٹھیک سے کیوں نہ پڑھا؟“

ایک سوال،ایک محاسبہ اور پچھتاوا جو امتحانات ختم ہوتے ہی اپنی موت آپ مر جاتا ہے......ویسے اسے مر ہی جانا چاہئے ہمیشہ کے لیے...ایویں ذہین میں کلبلا کر احساسِ زیاں جاگتا ہے۔

”مجھے تھوڑی سی دیر کے لیے سو جانا چاہیے.....میں پچھلے پچیس،تیس منٹ سے پڑھ رہا ہوں.....آخر نیند پر میرا بھی حق ہے۔“ایک خواہش جس پر فوری عمل کیا جاتا ہے۔تو سب اسٹوڈنٹس اس سوال کا جواب جاننے سے قاصر ہیں کہ امتحانات میں اتنی نیند کہاں سے آجاتی ہے....بھوک اتنی کیوں لگنی لگتی ہے....ٹی وی،یوٹیوب،فیس بک،ٹیوٹر پہلے سے دلچسپ کیوں لگنے لگتے ہیں۔کتابوں کی پہچان مشکل کیوں ہو جاتی ہے۔ویسے امتحانات سے پہلےپوسٹ ایگزامز پارٹز پلان کر لی گئی تھیں۔جیسے کرسمس آنے سے پہلے کرسمس کے بعد دی اورلی جانی والی پارٹیز پلان کی گئی تھیں۔کون کون آیا گا،پارٹی کہاں ہو گی،کیا کیا ہنگامہ برپا کرنا ہو گا....امتحانات ختم ہونے کی خوشی میں نہیں بلکہ امتحانات سے جان چھوٹ جانےکی خوشی میں .......

ویسے امتحانات سے پہلےپوسٹ ایگزامز

پارٹز پلان کر لی گئی تھیں۔جیسے کرسمس

آنے سے پہلے کرسمس کے بعد دی اورلی جانی

والی پارٹیز پلان کی گئی تھیں۔کون کون

آیا گا،پارٹی کہاں ہو گی،کیا کیا ہنگامہ

برپا کرنا ہو گا....امتحانات ختم ہونے

کی خوشی میں نہیں بلکہ امتحانات سے جان

چھوٹ جانےکی خوشی میں .......

آس پاس کے سب بارز،کلبس،رسٹورنٹس اس انتظار میں تھےکہ جلدی سے امتحانات شروع ہو کر ختم ہوں اور اسٹوڈنٹس بے چارے کچھ پارٹی شارٹی،کچھ مزے شزے کریں.....بے چارےاسٹوڈنٹس......

تو اس یونیورسٹی میں کچھ اس قدرپڑھنے والے اسٹوڈنٹس بھی تھے.....

”یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے۔شاید تم میں سے جم؟“ناک سکڑتی جولی۔

”ہاں شاید.....کئی دنوں سے میں ٹھیک سے منہ نہیں دھو سکا....کپڑے بھی.....دانت برش کرنے کا تو بلکل وقت نہیں ملا .....ایگزامز ہیں نا؟“۔پیلے دانت نکال کر مسکرا کر کہا جانے والا تاریخی جملہ.....جی ہاں تاریخی ہی.....

تمہاری شکل ماشل سے ملتی جلتی ہے۔“

”میں مارشل ہی ہوں.....پڑھ پڑھ کر ایسا ہو گیا ہوں۔“

”اوہ Shurrup ( شٹ اپ کی جدید شکل)اس حالت میں گھر نہ چلے جانا....اپنی ڈی این اے رپورٹ بھی دیکھائی تو بھی گھر والے گھر میں گھسنے نہیں دیں گے۔“

”آخر تم تیز تیز کیوں نہیں چلتے....؟ہم یونیورسٹی سے لیٹ ہو رہے ہیں۔“

”مجھ پر بہت بوجھ ہے گراہم ! “

”پر تمہارے ہاتھ تو خالی ہے؟“

”میرے سرپر.....“

”تم نے تو آج ٹوپی بھی نہیں پہنی....“

”میرے ذہین پر یار....!پڑھائی کا بہت بوجھ ہے.....میں نےکچھ غیر ضروری کتابیں بھی پڑھ ڈالیں۔“

”تمہیں یاد ہے نا تمہیں %100 میں سے مارکس لینے ہے %1000 میں سے نہیں.....“

”ہاں پھر بھی....پھر بھی میں نے سوچا شاید.....شاید۔“

یہ صرف کچھ جھلکیاں ہیں امتحانات کے دنوں کی.....اور ظاہر ہے اسٹوڈنٹس دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو.....کم وبیش ایک سی حالت سے گزارتا ہے....ایک جیسے احساسات کا مالک ہوتا ہے کیونکہ وہ بے چارہ اسٹوڈنٹ ہوتا ہے نا......بے چارہ ۔

یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کی ایک خاص تعداد Modafinil اسٹڈی ڈوذ بھی لیتی ہے جیسے کھا کر اسٹوڈنٹس کے بقول وہ بنا تھکے اور بنا سوئے کئی گھنٹے آرام سے پڑھ سکتے ہیں....بہت سے اسٹوڈنٹس وٹامن ،ٹونگ بھی لیتے ہیں....دیواروں پر نوٹس چپکاتے ہیں پڑھنے سے متعلق اکثر۔اسٹوڈنٹس کے کمرے کی دیواریں ان نوٹس سے بھری ہوتی ہیں پھر کہیں جا کر %40 مارکس آتے ہیں۔Unicorn ہر اسٹوڈنٹ کے ٹیبل پر رکھا نظر آنے لگتا ہے ۔ایگزامز سے متعلق اقوال دیواروں چپکا دیے جاتے ہیں آئینے میں اپنی ہی شکل دیکھ کر ڈرا جاتا ہے...اور رات کو چنی منی سی نیند میں بھی کتابیں آکر ڈراتی ہیں۔تو وہ وقت آچکا تھا جو نیندیں تو بلاشبہ بھگائے گا ہی،ساتھ دادی،نانی،پھوپھیاں بھی یاد کروا کر جائے گا یہ وہی دن ہوتے ہیں نا جب لگنے لگتا ہےکہ ایگزامز سیزن کبھی زندگی سے جائے گا بھی.....رات کو اپنی مرضی سے سونے والی ،صبح آرام سے اُٹھنے والی.....گپیں ہانکنے والی ادھر اُدھر گھوم پھرکر مستیاں کرنی والی۔آکسفورڈ روڈ اور اس سے منسلک دوسری سڑکوں پر چہل قدمی کرنی والی.....اوف کبھی اتنے فارغ رہے ہے ہم.....پرنٹ ورک میں بڑی بڑی میزوں پر اسنوکر کھیلنے والے،اوک ہاؤس کے گراؤنڈ میں آگ جلا کر اس کے گرد بیٹھے رہنے والے...اتنے فارغ....کیا یہ سب ہوتا رہا ہے....سچ؟

پروفیسر اسٹوڈنٹ کو دیکھ کر زیر لب مسکرا دیتے جیسے کہتے ہوں،اب چڑھے گا اصل فلو....لائبریری اسٹاف جن بھوت بن جائے کہ اصل امتحان تواسٹوڈنٹ ان کا لینے والے تھے....جو نہیں بھی ہو گا وہ بھی مانگا جائے گا....

لائبریری اور لرننگ کامز (پڑھنے کی جگہ) رات دن کھلے تھے اور کچھ ایسا سماں پیدا کر رہے تھے جیسے وہاں عام انسان نہ ہو ،کسی سیارے سے اتری مشینی مخلوق ہو جونہ کھاتی ہے،نہ سوتی ہے،بس پڑھتی ہی رہتی ہے، اگر ساری مانچسٹر یونی کو د لہن مان لیا جائے تو .....

“commanrs alan gilbert tearning”

المعروف علی لرننگ کامنز اس دلہن کےماتھے کا جھومر قرار پائے....چار اطراف شیشے سے سجی شیشے سے بنی اور بلڈنگ کے اندار بیٹھے آپ باہر کی دنیا سے لا تعلق نہیں رہتے۔کسی ارب پتی کی ذاتی گھر کی طرح بے حد نفیس اور صاف ستھرا...فائیو سٹار ہوٹل کی طرح چمکتی دمکتی ،گھر کےماحول سے کہی بڑھ کر آرام دہ اور پرسکون....نرم گرم علی کامنر۔“اسٹوڈنٹس اپنی مرضی سے اپنی تعلیم کے مطابق کامن روم کا انتخاب کر سکتے تھے۔ہال میں بھی پڑھا جا سکتا ہے جہاں کئی دوسرے اسٹوڈنٹس پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔گروپ میں بھی الگ سے گروپ رومز میں بھی.....دو دو چار چار کے گروپ میں بھی....یہاں ہر طرح کی سہولت موجود ہے،چارچنگ،ایل سی ڈی،کمپیوٹر،انٹرنیٹ،وائٹ بورڈ وغیرہ وغیرہ۔

پورے لرننگ کامن کی ڈیزائننگ اور سجاوٹ ایسی ہے کہ گمان ہوتا ہے پڑھنے نہیں آئے ۔تفریح کے لیے کسی ہوٹل میں آئے ہیں۔ساتھ ہی کیفے ہے.....اسٹوڈنٹس لرننگ کامز میں آجائے تو انہیں کسی دوسری ضرورت کے لیے باہر جانا نہیں پڑتا،وہاں سب کچھ مہیا کر دیا گیا ہے۔

”تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے؟“عالیان ہاتھ میں دو عدد کافی مگ لیے اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔وہ ااوپن ہال میں اکیلی بیٹھی پڑھ رہی تھی۔اسے ضرورت پڑتی تھی تو اپنی کسی کلاس فیلو سے مدد لینے چلی جاتی تھی۔

”تم بزنس کے اسٹوڈنٹس اور میں انگلش لٹریچر کی....تم میری مدد کیسے کر سکتےہو ۔“جی ایگزامز کے دنوں میں اسٹوڈنٹس چڑچڑے بھی ہو جاتے ہیں۔

”جانتا ہوں.....لیکن تمہارے سبجیکٹ میں ایک اسکول کا بچہ بھی تمہاری مدد کر سکتاہے۔“عالیان جیسے اسٹوڈنٹس کا مزاج البتہ عروج پر ہوتا ہے۔

”تووہ بچے اسکول کیوں جا رہے ہیں۔ یہاں آکر ماسٹرز کیوں نہیں کر لیتے؟“

عالیان نے قہقہے کو بلند ہونے روکا.....کیا جواب دیا تھا امرحہ نے.....

“ؔ”ان سب باتوں سے تمہارا مطلب کیا ہے؟“ امرحہ نے ہونٹ سکیڑے ۔

”سیدھا اور صاف مطلب ہے،یہ بہت آسان سبجیکٹ ہے۔“

”تم میرا مذاق اُڑا رہے ہو.....؟“مزاج بگڑنےلگا تھا امرحہ کو نیند کی ضرورت تھی۔

”تمہیں بتا رہا ہوں....“عالیان بھرپور نیند لےکرآیا تھا،جم کر بیٹھ گیا۔

”تم طنز کر رہے ہو....“

”حقیقت کو تمہاری زبان میں طنز کہا جاتا ہے؟“اس نے زرا آگے ہو کر اس کے سامنے رکھی کتاب کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا تو امرحہ نے فوراً کتاب کو جھپٹ لیا ۔

”اوف....اتنی بدتمیزی۔“اس نے ایسے طنز کیا جیسے اس نے برا مان لیا ہےپھر بھی مزید پھیل کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

”کافی پی لو ۔ٹھنڈی ہو جائے گی۔“ہنسی دبانے کے لیے اس نے ہونٹ کا کونا دانتوں میں لیا ۔

”کس نے کہا تھا،میرے لیے کافی لانے کو؟“اسٹوڈنٹس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ٹویٹ لینے والی یہ کہہ رہی رہی تھی....ٹھیک ہےآخر کار ہر انسان بدل ہی جاتا ہے۔امرحہ کو یہ بات بری لگی تھی کہ اس نے اس کے مضمون کو لے کر ایسا کہا ۔دنیا میں ہر انسان نیوٹن،اسٹیفن یا عبدالسلام نہیں بن سکتا،ذہانت کا معیار مشکل مضمون پڑھنا ہی نہیں....اگر ہر لڑکی مادام کیوری جیسی نہیں بنتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کند ذہین ہے.....یا صفر ہے....

وہ لاء پڑھ کر مارگریٹ تھیچر،آئرن لیڈی بن سکتی ہے.....ایم اے اردو کر کے بانو قدسیہ بن سکتی ہیں۔معمولی سمجھے جانے والے مضامین کو پڑھ کر بھی وہ کیا نہیں کر سکتی۔

”مجھے الہام ہوا تھا۔“وہ اس کے دبے دبے غصیلے انداز پر زیر لب مسکرا ہی دیا ۔باہر برف باری شروع ہو چکی تھی۔دونوں قد آدم شیشے کے کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے۔

”برف باری ہو رہی ہے امرحہ ! دیکھو۔“اس کا مقصد صرف اس کا غصہ کم کرنا تھا۔لیکن اگلی بات کر کے اس نے غلطی کی۔”تم تو شاید پہلی بار دیکھ رہی ہو گی؟اس نے کھڑکی سے باہر آسمان سے اترتے روئی کے گالوں سے برف کے گولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

امرحہ کا غصہ ایک دم بڑھ گیا”کیوں میں کیوں پہلی بار دیکھ رہی ہوں گی؟“

”ہمارے پاکستان میں سب ہے.....سب۔“اس نے ایسے شانے لہرائے جیسے کہتی ہو یو انگریز....او shutup ۔

”برف باری بھی؟“وہ ٹھوڑی کھجانے لگا پھر اس نےہاتھ ٹھوڑی تلے ہی ٹکا لیا۔کرسمس نائٹ پرلارڈ میئر اپنی پسندیدہ فلم دیکھتے ہوئے،اپنے قہقہے کا گلا دباتے ہوئے۔

”یونیورسٹی کی یاداشتیں ڈاٹ کام.....“

ہاں بلکل۔“شانے پھر اچکائے۔

سندری امرحہ مزے سے سچ کا گلا دباتے ہوئے،لارڈ مئیر کو کم عقل سمجھتے ہوئے دیسی انداز میں لمبی لمبی چھوڑتے ہوئے ایک جھوٹ سو کہانیاں ڈاٹ کام۔

”لاہور میں برف باری ہوتی ہے امرحہ.....اچھا....کب کب ؟“

”جب جب یہاں ہوتی ہے۔“امرحہ کے انداز کی نظر اتاری جانی چاہیے تھی۔

”اچھا.... اور کیا کیا ہوتا ہے لاہور میں.....؟“

لارڈ مئیر نے ریموٹ پھینک دیا ہے،انہیں صرف یہی فلم دیکھنی ہے۔

”سب....سب...جو یہاں بھی نہیں ہے سب ہے وہاں....جی ہاں....پھول،پودے،اسکول،کالج یونیورسٹیاں،عجائب گھر ،بڑے بڑے بازار ،شاپنگ سنٹر ،ہوٹلز،سپر جنرل سٹورز،ٹرین،موٹر وے،بڑی بڑی سڑکیں،سب ہے ہمارے پاس .....تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ہمیں...؟“

وہ اتنی دلچسپی اور محویت سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے چھوٹے بڑے ٹام اینڈ جیری دیکھتے ہیں....اس کے مدلل انداز۔

”تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ہمیں؟“انداز کچھ ایسا تھا جیسے عدالت میں جج کا ہوتا ہے۔

”بتاؤ جوزف تم نے قتل کیوں کیا.....کیوں کیا....جواب دو....ٹھہرو.....سزا کے لیے تیار ہو جاؤ......الیکٹرک چیر تمہارا مقدر ہے....ہاں تمہارا مقدر۔“

”لاہور میں سب کچھ نہیں ہے امرحہ !سب کچھ تو مانچسٹر میں ہے۔“مسکراہٹوں میں سب سے پیاری مسکراہٹ سجا کر عالیان نے کہا۔

”ہاں تم تو یہی کہو گے۔“سندری امرحہ نے بروں میں سے بری طرح منہ بنا کر کہا۔

”میں....ہاں میں ہی تو یہ کہو گا.....لاہور خالی ہو چکا ہے.....اس کے پاس سب نہیں ہے....تم تو یہاں بیٹھی ہو ....اس کے پاس سب کیسے ہو سکتا ہے....اس کا سب تو مانچسٹر آچکا ہے۔“

کھڑکی کے باہر گرتے برف کے گالوں نے اتنی پیاری بات پر تالیاں بجائیں....وہ سفید سے نیلے پیلے ہرے ہو گئے....اور امرحہ خاموش ہو گئی اور کتاب پڑھنے کی کوشش کرنی لگی۔

”ویسے یہ دیکھو۔“اس نے اپنا موبائیل امرحہ کے آگے کیا جہاں لاہور کے موسم کی آٹھ سالہ تاریخ موجود تھی۔

”لاہور میں برف باری نہیں ہوتی۔“کہہ کر اس نے بلند قہقہہ لگایا۔اس بار اس نے آواز دھیمی رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ادھر اُدھر بیٹھے اسٹوڈنٹس نے اس کی طرف دیکھا کہ اتنے دباؤ میں بھی کون ایسے دل اے ہنس رہا ہے عالیان....اور کون.....

”ہوتی ہے۔“وہ اپنی بات پہ قائم رہی۔

”سندری امرحہ....چچ چچ....لاہور کی پتنگیں اور گپوں کی نہ ختم ہونے والی ڈوریں.....لاہور کی تاریخ اور رنگیلے لوگوں سے اکتساب۔

عالیان نے کس قدر حیرت سے اسے دیکھا۔

اور یہ سب،اس نے موبائل پر نظر انے والے کالم کی طرف اشارہ کیا جو لاہور کے موسم کے بارے میں تھا۔

”یہ غلط ہے...کسی جھوٹے انسان نے لکھا ہے“اس بار امرحہ نے شانے اورگردن ایک ساتھ اچکائے اور اتنے یقین اور سنجیدگی سے کہا کہ عالیان کا جی چاہا کہے دےکہ ہاں ساری دنیا جھوٹی ہےغلط ہے۔صرف تم سچی ہو....مجھے صرف تمہاری بات پر یقین ہے۔لیڈی مہر کی طرح ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر وہ اپنی مزید مسکراہٹ دبائے اسے دیکھتا رہا ۔دونوں کے درمیان کچھ دیر خاموشی رہی۔سندری امرحہ ایسے ہی جھوٹ بولتی جائیں اور لارڈ مئیر ایسے ہی سنتے جائیں.....وہاں کچھ ایسا ماحول تھا....علی ونگ کے اوپن ہال میں....کھڑکی کے پاس.....

”اگر میں لاہور جا کر رہوں اور برف باری نہ ہو تو تم مجھے کہوں گی کہ اس سال ہی نہیں ہوئی۔اگر میں اگلے سال تک کےلیے رک جاؤ تو تم کہو گی کہ موسم میں خطرناک حد تک تبدیلی آچکی ہے.....اور اگر میں آس پاس کے لوگوں سے تصدیق کے لیے پوچھنا شروع کر دوں تو تم کہو گی کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ تمہاری بےعزتی کروانا چاہتےہیں۔“اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے اپنی ہنسی کو اندر ہی روک کر وی بمشکل اتنا ہی کہہ پایا۔

”تو تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہوکہ سب کچھ تمہارے پاس ہی ہے؟“

وہ ہنسا ”تم دو شہروں کے سرسری جائزے میں بھی حاسد ہو امرحہ .....میں نے یہ کب کہا ہمارے پاس سب کچھ ہے.....میں نے صرف اتنا کہا کہ کیا تم پہلی بار برف باری دیکھ رہی ہو .....بس تم برا مان گئیں۔“

”میں بہت بار دیکھ چکی ہوں.....بس...“امرحہ باز آنے والی نہیں تھی۔

”ٹھیک ہے پر کہاں....؟“

”فلموں میں....ٹی وی پر.....میگزینز میں۔“اس رونی سے کہا۔

عالیان نے سر کو اُٹھایا۔علی لرننگ کی چھت کو دیکھا اور اتنی زور سے قہقہہ لگایا کہ ہال میں موجود ذرا زیادہ فاصلے پر موجود اسٹوڈنٹس بھی سر اُٹھا کر اسے دیکھنے لگے اور قریب کے نشستوں پر ذرا دیر کو اُنگھنے والے اسٹوڈنٹس ڈر کر ،جھرجھری بھر کر چونک کر آس پاس دیکھنے لگے۔

”عالیان !“ڈر کر اٹھ جانےوالی میگن نے اسے گھورا۔

عالیان نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا...امرحہ خاموشی سے کتاب پڑھنے لگی کہ وہ چلا جائے لیکن اپنی ہنسی قابو کرنے کے بعد وہ اس کی ایک کتاب لے کر بیٹھ گیااور اسے سرسری دیکھنے لگا.....وہ کتاب کا ایک صفحہ الٹتا اور اسے دیکھتا....پھر اسے دیکھتا اور جلدی سے صفحہ الٹ دیتا۔وہ غیر ارادی پر اس کے مزاج کو بگاڑ چکا تھا.....

”تمہاری آنکھیں.....“

”میری آنکھیں کیا ....؟“امرحہ کو یقین تھا اب وہ اس کی آنکھوں کو نشانہ بنائے گا”کالی....گہری۔“

”مجھے بھوری آنکھیں پسند نہیں۔“اس نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔”میں نے تم سے اپنی آنکھوں کے بارے میں تو نہیں پوچھا۔“

”تم میری آنکھوں کو برا کہتے میں نے پہلے ہی کہہ دیا۔“کیا حکمت عملی اپنائی تھی امرحہ نے....واہ...

”میں نے تمہیں برا کب کہا ؟“

”کہہ سکتے تھے.....امکانات تھے...“کافی ذہین تھی امرحہ ویسے....بادام کھاتی رہی تھی نا.....

”جب کہا ہی نہیں تو.....؟“

”کہہ دیتے تو....؟“

”میں تو بس اتنا کہنے لگا تھا کہ تمہاری آنکھیں بہت گہری ہیں۔جب تمہیں پہلی بار روتے ہوئے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ بہت آنسو بہا چکی ہیں،بہت روتی رہی ہیں۔“

نوٹس لکھتے لکھتے امرحہ کے ہاتھ رک گئے ۔وہ ٹھیک کہا رہا تھا۔اسے اس سے خوف محسوس ہوا ۔وہ اس کے بارے میں اور کس کس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا چکا تھا....؟اس کی نحوست کا بھی....کیا اس کا بھی کہ لاہور میں وہ کس قدر غیر اہم رہی ہے....گھر کا خاندان کا حصہ ہو کر بھی حصہ نہیں سمجھی گئی۔اس پر کیسے کیسے طنز کیے جاتے رہےہیں۔اس کا کیسے کیسے مزاق اُڑایا جاتا رہا ہے۔وہ امرحہ جو رات کے اس وقت بارہ بجے کے قریب مکمل اعتماد سے علی رنگ کامن میں بیٹھی پڑھ رہی ہے،دادا کے کمرے میں خوف سے چھپ جایا کرتی تھی کہ گھر میں آنے والے مہمان اسے دیکھ نہ لیں.....اگر وہ کسی تقریب میں چلی ہی جاتی تو کوئی ایسی جگہ تلاش کرتی جہاں کوئی اسے دیکھ نہ سکے ۔وہ اپنے ہم عمروں کو باتیں کرتے ،قہقہے لگاتے،اچھل کود کرتے دیکھتی لیکن اپنی جگہ سے نہ ہلتی...ان کے پاس جانے کی ہمت نہ کر پاتی....

”کیوں روتی رہی ہو تم؟“

”میں کبھی نہیں روئی۔“کس قدر خوفناک سوال پوچھ لیا تھا عالیان نے....وہ اس سوال کا جواب کبھی نہیں دے گی۔

”یہ جھوٹ ہے۔“اس نے سنجیدگی سے کہا۔

”میں کبھی نہیں روئی....کہا نا۔“

”جو کبھی نہیں روتا،وہ انسان نہیں ہوتا....تم انسان نہیں ہو کیا ؟“

”ہاں !رویا ہوں ،بہت رویا ہوں ۔“خاموشی کے بوجھل وقفے کے بعد وہ بولا ۔اس کی آواز اداس ہو گئی۔وہ پہلی بار اتنا اداس نظر آیا 

”کیوں“ امرحہ کو اپنی غلطی کا فوری احساس ہوا ۔خاموشی سے وہ جیسے سر جھکا کر بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا تھا۔

”دیکھا برا لگا ناں...اپنے رونے کی وجہ کوئی بتانا پسند نہیں کرتا....“

”میں چھ سال کا تھا جب رات بھر اپنے ہاتھ کو اپنی ماما کے ہاتھ میں دیے ان کے سرہانے بیٹھا رہا تھا.....صبح ان کا ہاتھ سرد ہو چکا تھا اور سخت بھی ....اور جب لوگوں نے میرے ہاتھ کو ان کے ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کی تب میں رونے لگا ....اور بعد میں بھی اس منظر کو یاد کر کے روتا رہا ....یہ میرے اب تک کے رونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔“

امرحہ کو اپنے روئیے پر شرمندگی ہوئی۔”آئی ایم سوری۔“

وہ اُٹھا اور چلا گیا....اس کی چل بتا رہی تھی کہ وہ خود کو کس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کررہا ہے......امرحہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔اس کا اپنے بارے میں اندازہ بلکل ٹھیک تھا۔وہ کافی خودغرض ہوتی جا رہی تھی۔غالباً ٹھیک کہہ گیا تھاکہ جو روتا نہیں وہ تو انسان ہی نہیں ہے....اور سب انسان روتے ہیں.....کبھی نہ کبھی .....کسی نہ کسی وجہ کو لے کر .....

لیڈی مہر اپنے بچوں کے بارے میں صرف اس محبت کا ذکر کرتی تھیں جو ان سب کے درمیان تھی۔وہ کبھی یہ نہیں بتاتی تھیں کہ کون، کیا ،کیوں اور کیسے ہے.....وہ اس کڈز سینٹر تک کیسے پہنچا....اس کا ماضی کیا ہے....وہ کہاکرتیں”ان کے بچوں کا ماضی کتنا ہی بھیانک رہا ہو ،ان کا حال پُر عزم ہےاور مستقبل شاندار۔وہ ان کے بچے تھے اوروہ ان کی تکلیفوں کو ان کے سواکسی اور کے ساتھ زیر بحث نہیں لائی تھیں.....کبھی مورگن،شارلٹ،ڈینس یا کوئی اور ان کے پاس پریشان صورت لیے آتا تو گھنٹوں کمرا بند کیے اپنے اس بچے یا بچی کو لیے جانے کون کون سی باتیں کرتی رہتیں۔امرحہ سمجھ سکتی تھی کہ آپ کتنے بھی مضبوط اور بہادر بننے کی کوشش کریں،ماضی سامنے آکر تھوڑی دیر کےلیےہی سہی پر دیوانہ سا ضرور کر دیتا ہے....آپ اپنے حواس کھونے لگتے ہیں....عالیان کے بارے میں اگر امرحہ نے کچھ جاننا چاہا تو انہوں نے صرف اتنا کہا ۔

”وہ میرا بہت بہادر بیٹا ہے اور اپنی ماں مارگریٹ سے مثالی محبت کرتا ہے۔“

بس اس سے آگے انہوں نے کچھ نہیں کہا۔وہ ایک سمجھ دار خاتون تھیں۔انہیں معلوم تھا کس کے بارے میں کتنی بات کرنی ہے اور اپنے بچوں کے لیےتو وہ بہت ہی سمجھ دارتھیں۔

امرحہ اپنےرونے کو لے کر بیٹھی تھی اور سمجھتی تھی اس سے زیادہ دکھ کسی کو ملے ہی نہیں۔اس سے زیادہ زیاتی زندگی نے کسی کے ساتھ کی ہی نہیں ....قدرت نے سب غم کےپہاڑ اسی پہ توڑ ڈالے ہیں....کسی خوشی کا حقدار اسے ٹھہرایا ہی نہیں گیا....ایک امرحہ ہی کیا ...ہم سب یہی سوچتے اور اسی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔ انسان نے سب سے زیادہ علم جو خودکو سکھایا ہے ،وہ ناشکری اور شکواہ سرائی ہی تو ہے.

سرسبز مانچسٹر یونی برف سے اٹ چکی تھی۔ہر طرف برف پڑتی نظر آتی تھی،پہلی بار برف کےایسے ڈھیروں کو دیکھنے والوں کا جی چاہتا تھاکہ وہ ان ڈھیروں پر پھسلیں،ان کے گولے بنا بنا کر ایک دوسرے کو ماریں....اور بہت سے اسٹوڈنٹس ٹائم نکال کر ایسا کر بھی لیتے تھے۔مانچسٹر پر سفید پری کا راج تھا اور گرم خطوں والے اس سفید پری پر فدا ہوئے جا رہے تھے جبکہ ٹھنڈے خطوں کے باشندے ایسے موسم سے بہت چڑتے ہیں۔وہ بہار کے دلدادہ ہوتے ہیں،انہیں منہ سے بھاپ نکالتے اس موسم سے کوئی خاص لگاؤ نہیں۔اتنے ڈھیر سارے گرم کپڑے پہننے سے انہیں کوفت ہوتی ہے....پاکستانیوں کی تو خیر جان ہوتی ہے سردیوں میں.....اور وہ سردیوں کے مختصر دورانیہ کو ایسے مناتے ہے جیسے مغربی کرسمس کی چھٹیوں کو.....دستانے ،ٹوپی چڑھائے،کانوں کے گرد مفلر لپیٹے ،گرم کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ دیے ....سرخ ناک لیے....دھند کو اپنے اندر اتارتے  دھند کو چیرتے چلتے امرحہ یونیورسٹی میں آتے ہی مبہوت سی ہو جاتی......دھند یونیورسٹی کی عمارتوں سے ہوتی زمین پر اتر رہی ہوتی....وہ تھوڑی دیر کو کھڑی کی کھڑی رہ جاتی۔

”کیا یہ کسی خواب کا منظر ہے....یا خواب ہی ہے؟“

اسٹوڈنٹس تیزی سےآجارہےہوتے.....نیلے،پیلے،سرمئی،کالے،سفید کوٹوں والے،ٹوپیوں والے،منہ سے بھاپ نکالتے....ہاتھوں کو رگڑتے یا جیبوں میں دیے کتنے پیارے منظر تھے....ٹھنڈ تھی....برف تھی....دھند تھی....اور آزادی تھی.....دوست تھے ....ہلا گلا تھا.....اور کوئی دکھ نہ تھا۔

دو دن بعد امرحہ تھوڑا سا وقت نکال سکی عالیان کے پاس جانے کے لیے،علی رنگ کامن کے گروپ اسٹڈی روم کے شیشے کے دروازے کے پار وہ اسے نظر آگیا۔کم سے کم گیارہ اور اسٹوڈنٹ اور بیٹھے تھے اور وہ وائیٹ بورڈ کے پاس کھڑا لیکچر سا دے رہا تھا۔پین سے وہ کوئی سوال حل کر رہا تھا۔امرحہ نے اس کے لیے کافی لی تھی،اب اتنے اسٹوڈنٹس میں وہ ایک مگ تو نہیں دے سکتی تھی،اس لیے پلٹ آئی۔وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی جب عالیان تقریباً اس کے پیچھے بھاگتا ہوا آیا....

”یہ میرے لیے لائی ہو۔“اس نے مگ پکڑ کر گھونٹ بھرا۔

”ہاں ! “وہ مگ ہاتھ میں لے چکا تھا ۔کافی پی رہا تھا۔اور پوچھ رہاتھا  امرحہ نے اسے داد دی۔

”مفت !“وہ سیڑھیاں اترنے لگا اس کے ہال کی طرف بڑھنے لگا۔

”ظاہر ہے مفت....یہ ٹویٹ نہیں ہے....“

”اوہ شکر کہ یہ ٹویٹ نہیں ہے....ویسے ہی میرے سر پر دس، بارہ ٹوٹیس ہیں....چار تو کارل کی ہیں....اور وہ میری جان کو آیا ہوا ہے۔“

”تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں آئی ہوں؟“

”دو دن سے انتظار کر رہا تھا تمہارا۔“چلتے چلتے اس نے گردن موڑ کر کہا۔

”پر میں نے کب کہا تھا ۔میں آؤں گی؟“

”آنا چاہیے تھا.....“

”تم کہا جا رہے ہو ؟“ امرحہ کو نیچے جانا تھا ،اسے تو نہیں نا.....

”میں تمہارے ساتھ....“

”میرے ساتھ کیوں آرہے ہو ....تم پڑھو بلکہ شاید تم کو ئی لیکچر دے رہے تھے۔“

”میں بریک لینے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا۔“

”میں تو صرف معذرت کرنے آئی تھی تم سے ۔“

دونوں سکینڈ فلور پر آ کر رک چکے تھے۔

”ٹھیک ہے کرو۔“امرحہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔

”کرو بھئی....میں سن رہا ہوں ۔“کافی کی چسکی لے کر اس نے کہا۔

”معذرت کرنے آئی تھی....جب یہ کہہ دیا مطلب معذرت کر لی.....اور کیا۔“

”آں....اچھا....اب آگے....“

”آگے کیا ؟“امرحہ کو پھر سے غصہ آنے لگا۔

”تم اتنے پیارے  سرد مانچسٹر میں رہ کر اتنی جلدی گرم کیوں ہو جاتی ہو ؟“عالیان مسکرایا یعنی امرحہ سے ناراض ہونا وہ جانتا ہی نہیں تھا۔اس کے غصے کو وہ پھول کی پتی کی مانند چھو کر اُڑا دیتا تھا۔

”اچھا چلو،ایگزمز کے بعد ملتے ہیں......مشکل ہے لیکن میں کر لوں گا.....ورنہ میرا تعلیمی ریکارڈ خراب ہو جائے گا.....“

”مجھے تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں....“

”مجھے خود بھی میری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں.....اچھا تم جاؤ...“

”کیسے انسان ہو تم،کسے جانے کے لیے کہہ رہے ہو۔“کارل کی آواز ان کے قریب،لیکن پیچھے سے آئی اور اس نے بڑھ کر عالیان کی گردن دبوچ لی۔

امرحہ تو فوراً وہاں سے غائب ہو گئی وہ امتحانات کے دنوں میں اس سے کوئی لڑائی مول لینا نہیں چاہتی تھی....لیکن اگلی رات کو وہ خود امرحہ کے پاس آیا.....کچھ فاصلے پر لیزا پڑھتے پڑھتے لڑھک کر سو چکی تھی اور صوفے اور کارپٹ کے درمیان جھولتی کافی مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔پہلے تو اسے دیکھ دیکھ کر امرحہ اپنی ہنسی روکتی رہی پھر اس کے پاس آئی اسے دھکیل کر کارپٹ پر کیا تاکہ وہ ٹھیک سے کارپٹ پر ہی سو جائے....سامنے اس کا لیپ ٹاپ کھلا رکھا تھا۔اکثر ایسی چیزیں غائب کرنے کے واقعات ہو جاتے تھے....امرحہ نے اس کی چیزیں سمیٹیں اور بیگ کو اس کے سرکے پیچھے رکھا....ابھی لپ ٹاپ پر اس نے ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کی تصویر کھینچی گئی ہے....اس نے گردن موڑی تو کارل کھڑا تھا۔

”امرحہ The lost duck  علی لرننگ کامن میں سوئے ہوئے اسٹوڈنٹس کی چیزیں چراتے ہوئے ....اپنی نوعیت کا چالیسواں واقعہ....“فون ہاتھ میں لیے وہ مسکرا رہا تھا۔”یہ گرما گرم خبر کچھ ہی دیر میں  The tab manchester  (اسٹوڈنٹس ویب سائیٹ) میں آجائے گی۔“امرحہ کا جی چاہا کہ لیزا کی ٹھنڈی ہو چکی کافی اس پر انڈیل دے ،پر وہ باز رہی....وہ اپنی آنکھوں کی چنگاریاں دبائے اسے گھور رہی تھی اور کارل کو یہ نظر آرہا تھا کہ اسے گھورا جا رہا ہے.....وہ ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے سو دو سو پاپا رازی اس کی تصویریں کھینچ رہے ہوں......

”تمہیں غصہ آرہا ہے؟.....ہاں تمہیں تو غصہ آرہا ہے۔“وہ مسکرایا.....

”میں عالیان سے کہتی ہوں۔“امرحہ کو آگ ہی لگ گئی۔وہ ہنسا”عالیان میرا باپ نہیں ہے،ویسے ہوتا تو بھی کچھ نہ کر سکتا تھا۔“وہ ٹھیک کہے رہا تھایہ دھمکی چلنے والی نہیں تھی کہ میں تمہاری اماں سے تمہارے ابا سے تمہاری شکایت کر دوں گی یا ذرا رکو میں ابھی اپنے بھائی کو لےکر آئی،وہ تمہاری عقل ٹھکانے لگا دے گا۔

”کچھ ہی دیر میں تم پوری یونی میں مشہور ہو جاؤ گی،پھرہر کوئی تم سے اپنے چوری شدہ چیزوں کا مطالبہ کرے گا.....وہ بھی جن کی کبھی ایک پین بھی چوری نہیں ہوئی ہو گی.....تم سوچ سکتی ہو،میرا کیا مطلب ہے۔“اوف وہ پھر مسکرایا..... گندا بچہ۔

امرحہ کارل کو وہی چھوڑکر ویرا کےپاس آئی ۔وہ اپنی کلاس فیلو کے ساتھ گروپ اسٹڈی کر رہی تھی۔ویرا کو ساری بات بتائی.....ویرا ہنسنے لگی۔

”تم فکر نہ کرو۔وہ تمہیں ڈرا رہاہے....ویسے میں The tab  کے ایڈیٹر کو جانتی ہوں....بات کر لیتی ہوں اس سے تم فکر نہ کرو۔“

”یاد سے کرلینا ورنہ کل تک میں چور مشہور ہو چکی ہوں گی۔“

”ویرا نے قہقہہ لگایا”ویسے ایسا کر کے دیکھتے ہیں....تمہیں معلوم ہو گا چور کیسا محسوس کرتے ہیں۔“

”مجھے ایسے احساسات معلوم نہیں کرنے،یعنی حد ہے....ایک چور کے احساسات ہی رہ گئے ہے معلوم کرنے کےلیے۔“ویرا ہنسی سےلوٹ پوٹ ہونے لگی”ایسی باتیں کرتی تم بڑی پیاری لگتی ہو۔اگر اگلے جنم نام کی کوئی چیز ہوتی تو مجھے امرحہ بننا تھا۔ینگ لیڈی آف پاکستان۔“

”اور مجھے ویرا....خونخوار لیڈی آف رشیا(روس)“

ویرا نے وہاں کھڑے کھڑے ایڈیٹر سے بات کی،کچھ دیر بعد ویرا نے ایک ایم ایم ایس جو ایڈیٹر نے اسے بھیجا تھا۔امرحہ کو دیکھایا....وہ امرحہ کی تصویر تھی۔

”جادو سے ہپناٹائز کر کے اسٹوڈنٹس کی چیزیں چھپادینے والی فریشر امرحہ (The lost duck) اپنی نوعیت کا چالیسواں واقعہ،یونیورسٹی انتظامیہ سے تحقیقات کی گزارش کی جاتی ہے۔“

”وہ تمہیں چور نہیں جادوگر ثابت کر رہا ہے....تم دیکھتیں،کل تک تمہارے پاس اسٹوڈنٹس کی لائن لگ جاتی ہپناٹائیزم کے لیے....“ہنستے ہنستے ویرا بے حال ہو گئی....امرحہ بھی ہنسنے لگی۔یہاں بڑی مانگ ہے ہپناٹائیزم کی.....تم تو مزے سے ہزاروں پونڈز کما لیتیں...آج کل تو پروفیسرز کو ہپناٹائز  کرنے کے لیے کہا جاتا....ہاہاہا....منہ مانگ پونڈز ملتے تمہیں امتحانات کے دنوں میں۔“

لیکن یقیناً کارل کو اپنی تیاری سے زیادہ امرحہ کی فکر تھی کہ وہ بےچاری یہ نہ سوچتی ہو کہ کوئی اسے تنگ نہیں کر رہا ۔آخر اس کے ساتھ یہ غیروں والا سلوک کیوں؟تو وہ اس کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک کرنے اگلی رات علی لرننگ میں موجود تھا....علی لرننگ میں پڑھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہےکہ جو پورا سمسٹر آپ کو نظر نہیں آتے وہ نظر آتے آتے آپ کے دوست بن جاتے ہیں۔پورا مہینہ علی لرننگ میں کامن میں ”ہاؤس فل شو“ہوتے...جوراتوں کو اپنے بستروں پر سوتے ہیں وہ یہاں اونگتے اور پرھتے  پائے جا سکتے ہیں....رات رات بھر ان کی شکلیں دیکھنےکو مل جاتی ہیں۔علی کامن ،لائبریری،کیفے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے....تو کارل اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا.....امرحہ نے اس کے اٹھنے کا انتظار کیا اور مکمل توجہ سے پڑھنے کی کوشش کی،لیکن بےکار....کبھی نوٹس اس کے ہاتھ سے گر جاتے کبھی پین اور پھر لیپ ٹاپ بھی گر گیا.....

اف اب وہ اتنا سامان سمیٹ کر دوسری جگہ جائے....اب تو فلور پر ہی بیٹھنا پڑے گاکیونکہ سب جگہیں پر تھیں...اور اسے یقین تھا،وہ جہاں بھی جائے گی،کارل اس کے سامنے آکر ایسے ہی بیٹھ جائے گا....کارل خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے اورجو چل رہاہے وہ ایسا کچھ اچھا ہرگز نہیں ہے....کارل کے دماغ میں ایک ایسی بیٹری فیکس تھی جو کبھی ڈاؤن نہیں ہوتی تھی۔سب امتحانات کے مارےہوئے تھے اور وہ الٹی سیدھی حرکتوں میں غلطاں تھا....پھربھی وہ ہر سال اسکالر شپ  لے لیتا تھا...اگروہ ایسی حرکتیں نہ کرے  اور صرف پڑھے تو یقیناً وہ  یونی کا ڈین  بن جائے۔ساری کتابیں،نوٹس ،کاغذ،لیپ ٹاپ ،پین وغیرہ کو اپنی بانہوں میں عارضی طور پر سمیٹ کر وہ بمشکل اُٹھی اور نئی جگہ تلاش کرنے لگی۔

وہ چند قدم ہی چلی ہو گی کہ اس کے ہاتھ پر بجلی گری...جی بجلی....آسمانی نہیں ....زمینی....کارل نے اپنےہاتھ میں پکڑےپین کو اس کے ہاتھ پر لگایا تھاایک دم پیچھے سے آکر....اوراسکےہاتھوں میں پکڑی سب چیزیں زمین بوس ہو چکی تھیں...لیپ ٹاپ بھی” ٹھاہ “کر کے گرا تھا۔ اب اللہ ہی جانتا تھا کہ وہ چلے گا یا سستے دموں بکے گا بھی نہیں...

”کیا بدتمیزی ہے یہ۔“امرحہ چلائی۔

”کیا ہو ؟“ اف کارل کی معصومیت....

”تم نے کیا لگایا ہے میرے ہاتھ پر ؟“

”میرے ہاتھ تو خالی ہیں....صرف ایک پین ہے میرے ہاتھ میں....میں پڑھ پڑھ کر تھک چکا تھا، سوچا تم سے باتیں شاتیں کر لو....“

”اس پین میں کچھ تھا....ضرور کچھ تھا ۔“امرحہ قسم کھا سکتی تھی اس میں کرنٹ تھا۔

”تمہیں میرے اس پین پر شک ہے ؟“اس نے پین لہرایا۔دیکھو یہ صرف ایک پین ہے....اس سے لکھا جاتا ہے...لکھنا سمجھتی ہو نا....ایسے....ایسے لکھتے ہیں۔“

امرحہ نیچے بیٹھ کر پنی چیزیں سمیٹنے لگی وہ بھی نیچے بیٹھ کر اس کی چیزیں سمیٹنے لگااور ایک بار پھر امرحہ کے ہاتھ پر کرنٹ کا جھٹکا لگا....امرحہ نے چیخ مار دی ،کارل نے دونوں ہاتھ اُٹھا لیے ...”ٹھیک ہے ٹھیک ہے ....نہیں کرتا تمہاری مدد میں....تم تو جنگلیوں کی طرح چلا رہی ہو ....میں یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کرتا ہوں آخری وہ یونیورسٹی میں خلائی مخلوق کو داخلے کیوں دیتے ہیں....یہ تو اچھی بات نہیں ہے نا....اس طرح تو تم لوگ ہمیں پاگل کر دو گے،آخر ہم کیوں پاگل ہو تمہارے لیے۔“امرحہ نے لیپ ٹاپ اُٹھا لیا...”اگر تم یہاں سے نہیں گئے تو میں تمہارا سر پھوڑ دوں گی۔“

”اس طرح تمہارا لیپ ٹپ بھی ٹوٹ جائے گا ....جہاں تک میرا خیال ہے ابھی تک میرے سر سے زیادہ ،تمہیں لیپ ٹاپ عزیز ہو گا۔“

”تم اس کی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے ؟“عالیان نے آکر ایک زور دار گھونسا اس کی کمر میں جڑا ...اور اس کےہاتھ سے پین جھپٹ لیا....کارل نے ایک قہقہہ لگایا ”میں تو یہاں سے گزار رہا تھا امرحہ نے ہی مجھے  روکا  کہ آؤ باتیں کرتے ہیں۔باتیں شاتیں....“عالیان نے امرحہ کی سب چیزیں سمیٹیں اور اس کے ہاتھ میں کارل کا پین دیا۔

”اس پین کا استعمال میں تمہیں سیکھا دوں گا ۔اگلی بار جب یہ تمہارےپاس آئے تو اسی پین سے اسے کرنٹ دینا۔“امرحہ نے تبرک کی طرح پین قبول کیا ....اور اپنی کلاس فیلو کی ٹیبل پر چلی گئی ۔کارل کا قہقہہ اسے کےپیچھے گونجتا رہا ۔کارل انسانی حلیے میں ایک غیر انسانی مخلوق ....بلاشبہ...

پین میں ایک ہیوی بیٹری فکس تھی،جو پین کے کیپ کو بائیں طرف حرکت دینے پر کام کرتی اور پین کے نیب سے ہلکا سا کرنٹ نکلتا....جو معمول کے اوقات میں کافی زور دار لگتا....عام استعمال میں وہ پین عام لکھنے والا پین تھا....صرف اس کا مالک ہی اس کا استعمال جانتا تھا....اور اس کا مالک کارل تھا....یہ پین کبھی کارل کا ٹریڈ مارک تھا....اب تو کارل کے لیے پرانا ہو چکا تھا۔لیکن امرحہ کے لیے بہرحال نیا ہی تھا....امرحہ کے لیے ہی اس نے نکالا تھا۔وہ اس پین کا استعمال ،یونی میں،اسٹوڈنٹس سےبھرے کوریڈورز،لان ،کلاسسز،گراؤنڈ،لائبریری،سب ویز،بس،ہوٹل،بارز،کلب،کیفے،ہر جگہ کیا کرتا،خریداری کے دوران بھی،سٹر ک پر چلتے رش والی جگہ پر بھی...کہی بار کلاس میں پروفیسرز کو بھی یہ جھٹکے دیے تھے...جس دن اس کا یہ موڈہوتا وہ پہلی رو میں بیٹھ جاتا اور بلا وجہ لیکچر کے دوران یہ ظاہر کرتا کہ اسے فلاں فلاں پوائیٹ سمجھ میں نہیں آرہے ....پروفیسر چلتے اس کے قریب آجاتے....کارل دونوں ہاتھوں کو کھڑا ہو کر ایسے لہراتا جیسے اسے بات کرنے کے دوران ہاتھ چلانے کی عادات ہے ....بہت سے لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے...خیر ہاتھ چلاتے چلاتے پین پروفیسر کے ٹھوڑی،گردن،کان کی لو اور کبھی ناک سے ٹکرا جاتا ۔ایسا ہو ہی جاتا ہے اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں....خیر...تو اور بے چارے پروفیسر....بھری کلاس میں چلا اُٹھتے ....ڈر کر حواس باختہ سے ہو جاتے ایک دم سے اچھل پڑتے...بے چارے پروفیسر صاحب....ایسے موقعوں پر کلاس کے لیے اپنے قہقہوں کا گلا دبانا مشکل ہو جاتا....عالیان کہیں قریب ہی ہوتا تو  اس کی کمر پر چٹکی بھرتا.....

”کسی کی جان جائے گی تیرے اس چھوٹے موٹے کرنٹ کے گولے سے۔“

”گئی تو نہیں نا...ویسے بھی سائنس کہتی ہے کہ ایک عام انسان کے جسم میں اچھے خاصےوولٹیج کے کرنٹ کو سہنے کی طاقت ہوتی ہے ....“

”سائنس کہتی ہے یا کارل کہتا ہے ؟“

کارل کسی سائنس سے کم ہے کیا ...؟“آنکھ مار کر

تو یہ ہے کارل ....انسانی حلیے میں غیر انسانی مخلوق....

کارل کسی سائنس سے کم ہے کیا؟؟؟ آنکھ مار کر ۔۔۔ توبہ ہے کارل۔۔۔۔ انسانی حلیے میں غیر انسانی مخلوق ہے۔۔۔ویلکم ویک پر اسنے فریشر کا کافی بھرتہ بنایا۔۔۔وہ تو سارا سال ویلکم ویک کا انتظار کرتا تھا فریشر میں تو اسکی جان ہوا کرتی تھی وہ اپنے سارے پرانے ہتھیار نکال لیا کرتا تھا۔۔اکثر سینئرز فریشر کو گائیڈ کرتے ہوئے کاغذ پر یہ بھی لکھ دیتے "اور کارل سے بچ کر" 

Have a safe welcome week...

کارل ویلکم ویک کے 5 دن نت نئے انداز اپناتا تاکہ پہلے دن ملنے والے اسے دوسرے دن پہچان نہ سکیں۔۔

دوسرے دن ملنے والے اسکے ہاتھوں تیسرے دن بھی الو بن سکیں۔۔ وہ داڑھی اور بال بڑھا لیتا دوسرے دن کٹوا لیتا تیسرے دن ہرے رنگ کی وگ؛چوتھے دن گنجا ساتھ کان ناک ٹھوڑی اور بھنوؤں میں بالیاں۔۔۔ پانچویں دن لمبے بال۔۔۔کارل Ask Me

جس نے اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانے جانا ہے اسے وہ بڑے آرام سے یونی سے باہر کسی بھی دوسری عمارت میں بھیج دیتا۔۔۔ کچھ کو اسنے باتھ روم بند کر دیا جی اسکے پاس اوزار تھے۔۔۔

اور ایسے کام وہ بہت احتیاط سے کرتا۔۔اسے بھی یونی میں رہنا تھا۔۔۔

چند لڑکیوں کو اسنے لیب میں بند کر دیا تھا۔۔۔ امرحہ کی قسمت اچھی تھی کہ ویلکم ویک پر اسکا ٹکراؤ کارل سے نہیں ہوا تھا۔۔ورنہ تو اسکی  سائنس لیب میں ہی موت واقع ہوجاتی۔۔۔

 اور فریشر ویک پر ایک فریشر مردہ نکلتی۔۔۔ اور مانچسٹر میں اپنی آمد کے چوتھے دن؛ تابوت میں بند ہعکر پاکستان واپس جاتی۔۔اور دادا یہ نہ معلوم کرسکتے کہ پاکستان میں تو سب اس بےچاری بچی کے پیچھے پڑے رہتے تھے' مانچسٹر میں کون سکے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔ہر فریشر رو رو کر سکائیپ پر ہری وگ' گنجے سر' لمبے بالوں والے Ask me کا قصہ سنا رہا ہوتا۔۔۔

فریشر کے آتے ہی یونی میں کارل۔۔۔ کارل ہورہی ہوتی۔۔۔ اسٹوڈنٹ یونین کے صدر اور باقی لوگ اسے سنجیدگی سے محتاط رہنے کے لئے  تو وہ بڑی معصومیت سے کہتا۔۔۔ پتا نہیں آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔کیا میں نے کسی کی جان لے لی ہے۔۔۔ یا میں کلر ہوں۔۔۔ یعنی وہ جان لے گا تو ہی کوئی چھوٹا موٹا جرم مانا جائے گا۔

••••••••••••••••••••••

 چینی کہتے ہیں۔۔۔ اگر میں ایک سر سبز شاخ سے اپنے دل کو سجاؤں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک خوش گلو پرندہ اس پر آکر نہ بیٹھے۔

محبت_کرنے_سے_پہلے_احترام_کرنا_سیکھیں۔۔۔ اور یہ بھی کہ ایک بوڑھے کا عشق میں مبتلا ہو جانا خزاں میں پھول کھلنے کے مترادف ہے۔۔۔اور خزاں میں محبت کا پھول ہی کھلنے کی جرات کرتا ہے۔۔۔ چینی اپنے سال کے آغاز سے پہلے پورے جوش و خروش سے اپنے گھروں کو صاف کرکے سجاتے ہیں۔۔ نئے کپڑے خاص طور پہ سرخ لباس بنواتے ہیں۔۔سرخ کاغذوں اور سرخ پارچہ جات پر لکھی روایتی نظموں سے گھر کے دروازوں'دیواروں اور ایسی ہی دوسری جگہوں کو سجاتے ہیں۔۔۔ نئے سال کا آغاز ہورہا ہے۔۔۔ پرانا وقت بیت چکا ہے۔۔۔

پرانے وقت کو الوداع کہا جائے گا۔۔۔ نئے وقت کے لئے جشن تیار ہے بڑے بوڑھے بچوں کو سرخ لفافوں میں ملفوف #لکی_منی ( خوش قسمتی کے سکے) دیتے ہیں۔۔۔ چینی روایات کہتی ہیں کہ سرخ رنگ آگ کی علامت ہے ' جو انکے سیانوں کے بقول بد قسمتی  اور بدی کو دور کرتی ہے۔۔۔قدیم وقتوں میں لمبے بانسوں کو جلانا جاتا تھا تاکہ بدی اور بلائیں آگ کو دیکھ کر بھاگ جائیں' شر لو آگ سے دفعان کیا جاتا تھا۔۔۔ پہلے چاند کی پندرہ کو سرخ چینی ساختہ لالٹینوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔۔۔عبادت گاہوں کو سجایا جاتا ہے اور ہاتھوں میں لے کر شام کو چاند کی روشنی میں پریڈ مارچ کیا جاتا ہے چینی سال۔۔ بہار کا آغاز۔۔۔ دعاؤں کے ساتھ۔۔۔ خوشیوں کو لیے۔۔۔ بدی کو دور کرتے۔۔۔روایات کو زندہ رکھتے۔۔۔ سرخ سرخ۔۔۔ روشن روشن۔۔۔ منظم اور پر جوش۔۔۔ سال کے آغاز پر اپنی میزوں کو Dumpling (روایتی چینی کھانا) سے سجاتے ہوئے۔۔۔ دعائیں دیتے ہوئے۔۔۔چاولوں کے جاروں کو بھرتے ہوئے کہ نئے سال پر چینی چاول کے جار کا خالی رہ جانا بد قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں۔۔۔ مانچسٹر میں اس سال کی ڈریگن پریڈ( نئے سال کی پریڈ) کے لئیے تیاریاں عروج پر تھیں۔۔۔ پریڈ اکتیس دسمبر۔۔۔ جنوری نئے سال کے پہلے دن تھی۔۔۔۔

۔۔۔ پریڈ اکتیس دسمبر۔۔۔ جنوری نئے سال کے پہلے دن تھی۔۔۔۔

یہ سال گھوڑے کا سال تھا پچھلا سال سانپ کا سال تھا.. امرحہ کی چینی کلاس فیلو جی سن نے سب کلاس فیلوز کو رجسٹریشن کروانے کے لیۓ کہا تھا...وہ امرحہ کے پاس بھی آئی تھی... میں تو جانتی بھی نہیں کہ یہ سن کیا ہوتا ہے میرے لیۓ  تو کھڑے ہو کر دیکھ لینا ہی بہت بڑی دریافت ہوگی کہاں اس میں شرکت کرنا...

پریڈ میں جاؤ گی تو سب جان جاؤگی ...

تمہیں زندگی میں کھڑے ہوکر پریڈ دیکھنے کے تو کئی مواقع مل جائیں گے شرکت کرنے کے نہیں.. اس سال تو نوے ہزار سے زیادہ لوگ شرکت کریں گے...وہ ہنسنے لگی !! نہیں میں نے یہ سب کبھی نہیں کیا.. جو کیا نہیں وہ کروگی بھی نہیں... چینی پاکستانی کو ناں نہیں کہتے ایک پاکستانی ,چینی کو ناں کیسے کہہ سکتا ہے...غیر چینی لوگ پریڈ میں شرکت کرتے ہیں تو ہمیں اچھا لگتا ہے...ہمیں یقین ہوتا ہے کہ نئے سال کا آغاز ہم  نے سب کی اقوام کی دعاؤں اور محبت سے کیا ہے...ہم دونوں تو ایشیائی خطے کے دو اہم دوست بھی ہیں اور ہمساۓ بھی قطار میں تین غیر ملکی کھڑے ہوں تو ہم پہلے پاکستانی کے آگے bow کرنے کو ترجیح دیتے ہیں... 

مجھے ہنسی آۓ گی ... امرحہ کو ابھی بھی تامل تھا... تو ہنستی رہنا بلکہ چھلانگیں لگانا ...کوئی فرق نہیں پڑے گا... روتے بسورتے لوگوں کا وہاں کیا کام... ویسے تم کس جانور کا لباس پہننا پسند کروگی... میں انتظام کر دونگی   ... چاہو تو کوئی ماسک نہ پہننا... تم ڈریگن کا بانس بھی پکڑ سکتی ہو لیکن اسکے لیۓ تمہیں مسلسل حرکت میں رہنا پڑے گا ... تم تھک جاؤگی.. میں روایتی چینی لباس کمونو پہنوں گی اور میرے ہاتھ میں بڑا سا چینی پنکھا ہوگا  میرا میک اپ بہت گہرا ہوگا... چاہو تو تم میرے ساتھ یہ بن سکتی ہو...یا تم ( دو بڑی گول دھاتی پلیٹوں پر مشتمل ساز دونوں پلیٹوں کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے ) بجا سکتی ہو.. یا ڈرم.. لیکن تمہیں ڈرم بجانے کی پریکٹس نہیں ہوگی... نہیں میں کمونو نہیں پہن سکتی ... گہرا میک اپ تو ہر گز نہیں ... اگر تم شرما رہی ہو تو تم ڈریگن لا لباس پہن لو.. اسے پہن کر قطعا یہ معلوم نہیں ہوگا کہ تم کون ہو لڑکی یا لڑکا... تمہاری. مخصوص مشرقی جھجک بھی قائم رہے گی...بھلے سے ماسک کے اندر شرماتی , گھبراتی رہنا... ہنسی ... قہقہے لگاتی رہنا.. امرحہ دل کھول کر ہنسی..ٹھیک ہے... میں ڈریگن بن جاتی ہوں... میں وعدہ کرتی ہوں یہ تمہاری زندگی کا یادگار لمحہ ہوگا... تم پر قسمت مہربان ہوگی.. امرحہ اور زیادہ مسکرانے لگی... قسمت کی مہربانی کا انتظار رہے گا... نۓ چینی سال کی رات سب مل کر چائنہ ٹاؤن گۓ__, چائنہ ٹاؤن کی حدود کے آغاز پر سرخ , پیلے,سبز رنگوں سے مزین چینی طرز کا بڑا پھاٹک تھا, جنکے دونوں اطراف جانوروں کے بڑے بڑے مجسمے رکھ دیۓ گۓ تھے__,سب سے بڑا مجسمہ گھوڑے کا تھا,ایک بہت بڑے ڈریگن کو بانسوں کی مدد سے اونچائی پر ٹانگ دیا گیا تھا_,اور بھی کئ طرح کی سجاوٹ تھی...جابجا چینی روایتی چیزوں کے اسٹالز لگے تھے__, مانچسٹر کے درختوں کی شاخیں تو پہلے ہی سرخ گول چینی ساختہ لالٹینوں سے سجا دی گئ تھیں__ 

این,ویرا اور وہ مزے سے مفت چینی کھانے کھاتے رہے__ تمام اسٹالز پر کھانے بہت کم قیمت پر دستیاب تھےیا مفت تقسیم کیے جارہے تھے___ امرحہ ایک چینی تحفہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئ تھی___ ایک عدد چینی شادی شدہ جوڑا اپنی شادی کی سلور جوبلی پر تحائف تقسیم کر رہاتھا اور مانچسٹر یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کا وہاں اتنا رش تھا کہ لگتا تھا سب اسٹوڈنٹس آئندہ زندگی صرف اس ایک تحفے پر گزارنے والے ہیں... یہی انکا کل خزانہ ہے...اور اس اثاثہ کو آج کسی بھی صورت حاصل نہ کرسکنے پر وہ دنیا کے بد نصیب ترین انسان قرار پانے والے ہیں...

تحفہ میں ایک عدد سرخ روایتی پارچہ تھا جس پر چینی زبان میں دعائیہ نظم لکھی تھی... اور ایک گلے میں پہننے کیلۓ چینی طرز کی مالا تھی اور دو سرخ ربن تھے... امرحہ کو. دو عدد سرخ ربنوں کی سمجھ نہیں آئی... جب ان میاں بیوی کے اسٹال پہ رش کم ہوگیا اور انکے سب تحائف تقسیم ہوگۓ تو امرحہ انسے پوچھنے لگی...ایک تمہارے لیۓ اور ایک تمہارے شوہر کے لیۓ... جب مجھے انہوں نے .... چینی خاتون نے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کیا ...پرپوز کیا تو یہ اتنے غریب تھے کہ انکے پاس کوئی انگوٹھی نہیں تھی تو انہوں نے ایک اسکول کی بچی کے بالوں مین سے ربن کھول کر میری انگلی میں باندھ دیا کہ مجھے کوئی انگوٹھی والا نہ لے اڑے___ دونوں میاں بیوی قہقہ لگا کر ہنسنے لگے- امرحہ دیکھ سکتی تھی دونوں نے کس محبت سے اپنی زندگی گزاری ہوگی...سرخ ربن امرحہ کی آنکھوں میں بس گۓ..آنکھوں کے پاس لاکر وہ انھیں دیکھنے لگی...اسے ایک دم سے ڈر لگنے لگا کہ یہ ربن کہیں کھو نہ جائیں.. اسنے انھیں اپنے کراس بیگ کی محفظ جیب میں رکھا...پھر ہاتھ کو کراس بیگ کی جیب پر مضبوطی سے جما لیا اسے لگا سارے چوروں کی نظر اسکے ان دو عدد ربن پر ہی آگئ ہے.. 

سرخ نظمیہ بارچہ ویرا نے اپنے بال کھول کر سر پر باندھ لیا... اور مالا این اون نے پہن لی...امرحہ نے یہ چیزیں سے دی تھیں____ لاؤ وہ ربن بھی میری کلائی پر باندھ دو...ایک تم باندھ لو... امرحہ نے ویرا کو نہیں بتایا تھا کہ اسکے ساتھ کیا کہانی منسلک ہے امرحہ کی جیسے جان ہی نکل گئ...

"وہ میں #پاکستان لیکر جانا چاہتی ہوں"

"ربن" ویرا حیران ہوئی__

امرحہ نے سر ہلایا__

میں پہن کر تمہیں واپس کر دونگی_اس پر جو ستارے لگے ہیں مجھے وہ اچھے لگے ہیں.. 

میں نے ابھی ربن نہیں باندھا... میں انھیں  ان چھوا رکھنا چاہتی ہوں... امرحہ نے ہمت کر کے کہہ دیا__,

بعض معاملات میں تم بہت عجیب ہو امرحہ___ مجھے لگتا ہے میں پوری کی پوری ہی عجیب ہوں...

ہوں۔" امرحہ کو اپنے عجیب ہونے پر اس رات کوئی شرمندگی نہیں ہوئی اور وہ ربن کے معاملے میں اس قدر عجیب ہونے پر خود کو جانچ بھی نہ سکی۔۔۔وہ خود کو بھی نہ بتا سکی کہ سرخ فیتے یکدم اسکے لئے اتنے اہم کیوں ہوگئے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے ہم خود سے بھی چھپا کر بہت کچھ کرتے ہیں۔۔۔ خود کو پاگل بناتے ہیں۔۔۔ اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب مستقبل قریب میں آپ بہت رونے والے ہوتے ہیں۔۔۔ تب جب آپکو خبر ہو جاتی ہے کہ آپ نے خود سے کیا چھپا کر کیاکیا۔۔۔انسان اپنی طرف سے بڑی ترکیبں بناتا ہے نا۔۔۔

پھر ایک دن سب ترکیبیں اسے ڈس لیتی ہیں۔۔۔وہ صرف ایک ہی سوال کرتی ہیں " ہمیں کیا سمجھ کر اندھیرے میں رکھا۔۔۔

وہ تینوں ہاتھوں میں ہاتھ دیےچائنا ٹاؤن میں سجے میلے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔۔۔سرخ لالٹینوں کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں بنوا رہی تھیں۔۔۔ سجاوٹ قابلِ دید تھی۔۔۔ مسکراہٹیں اس سے زیادہ قابلِ دید تھیں۔۔۔

اسٹوڈنٹس کا ہجوم اس سے بڑھ کر۔۔۔

"محبت رتن دیپ سے سجی رتھ ہے جس کا سوار ابدیت کی طرف اڑان بھرتا ہے۔۔۔

محبت امرت دھارا۔۔۔

سے لبالب بھرا "جامِ محبوب" ہے جو کبھی پیندے سے نہیں لگتا۔۔۔۔" 

سب سے زیادہ کتابیں محبت کی لکھی گئی ہیں۔۔۔

سب سے زیادہ گیت محبت کے گائے گئے ہیں۔۔۔

محبت وہ کمال ہے جو عرش کو فرش کرتا ہے اور فرش کو عرش تک لے جاتا ہے۔۔۔اور زمین پر دو ہی چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے جان دی جا سکتی ہے۔۔۔۔

محبت اور پھر محبت۔۔۔

محبت ابنِ عربی کا نظریہ اہلیت ہے جو نادیدہ کو دیدہ بنا سکتی ہے۔۔۔

ایسا اسمِ اعظم جو مجازی کو حقیقی کرتا ہے۔۔۔ حقیقی کو عشق۔۔۔ عشق۔۔۔عشق۔۔۔ بلاشبہ وہ خطِ حق جو خود پر منکری حرام رکھتا ہے۔

قالین ہاف کے فن کا وہ عروج جس کے ریشے ریشے میں عقیدت سر بسجود ہوتی ہے؛ سر بسجود ہی رہتی ہے۔۔۔ یہی شرطِ وفا ہے۔۔۔

قلندر کا مادیت سے خالی تن۔۔۔ اور عشق حقیقی سے سجا من۔۔۔ "محبت" محرابی پیشانیوں کے محرابی نور سی۔۔۔ توبہ کے آخری مندرجات۔۔۔ قبولیت کے اولین درجات سی۔۔۔ عرشِ معلٰی ہلا ڈالنے والی محترم ہستی "ماں کی دعا سی"۔۔۔ بنجر بنجر دھرتی پر پہلی کونپل سی۔۔۔ اور محبت خدا کے رحم سی۔۔۔ اور رحمت سی۔۔۔

رات بھر چینی دعائیں مانگتے رہے ہونگے۔۔۔

کھانے کی میزوں کے گرد خاندان اکٹھا کیے۔۔۔ہاتھ جوڑے۔۔۔ خدا کو یاد کرتے۔۔۔صحت و تندرستی کی دعائیں کرتے۔۔۔ محبت و مدح سرائی کرتے۔۔۔ چینی بھر مسکراتے رہے ہونگے۔۔۔ اگلی رات جشن ہو تو پچھلی رات نیند نہیں آیا کرتی۔۔۔ وہ بھی نہیں سو پائے ہونگے۔۔۔

مانچسٹر شہر کی اگلے دن بڑی تقریبات میں شمار ہونے والی ڈریگن پریڈ کا آغاز البرٹ اسکوائر سے شام 4 بجے ہوچکا تھا۔۔ پریڈ کا آغاز بڑے بڑے چینی روایتی سرخ اور پیلے ڈرموں اور Percussions  دو گول بڑی دھاتی پلیٹس کو پر زور انداز سے بچا کر اور بلند آواز سے نعرہ بہار کو خوش آمدید۔۔۔ خوش بختی کے لئیے تیار ہیں ہم۔۔ سے کیا گیا۔

پریڈ کے آگے درمیان اور آخر میں ڈرموں اور Percussions کو مسلسل بجایا جارہا تھا اور جنکی آوازیں بلاشبہ سریلا سماع باندھ رہی تھیں۔۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے سب جلوس کی صورت نئی زندگی کے سفر پر رواں دواں ہوں۔

پریڈ میں شامل ہزاروں لوگوں نے ہزاروں طرح کے سوانگ رچا رکھے تھے۔ پریڈ میں آگے کئی سو میٹر لمبے موٹے ،ڈریگن کو بانسوں پر اُٹھا کر گھمایا،نچایا اور اچھالا جا رہا تھا۔ڈریگن اتنا بڑا تھا کہ اسے کم سے کم ڈیڑھ سو افراد نے اپنے قد سے اونچا کر کے اُٹھا رکھا تھا۔وہ سب مسلسل اسے قدرتی حرکت میں رکھے ہوئے تھے۔یوں گمان ہوتا تھا اصلی ڈریگن ان کے سروں پر اُڑ رہا ہے۔ڈریگن کے پیچھے اور درمیان میں کئی سو چینی بچوں کا گروپ تھا جو گردن میں ڈرم لٹکائے انہیں ردھم سے بجاتے آہستہ روی سے چل رہے تھے۔بچوں کے لباس سفید تھے جن پر انہوں نے سرخ رومالوں کو گردن میں ترچھا کر کے باندھ رکھا تھا۔تقریباً انہی بچوں کی تعداد جتنا ایک اور گروپ ان لڑکیوں کا تھا جو چینی روایتی  لباس کمونو پہنے ہوئے تھیں اور ہاتھ میں بہت بڑے سائز کے چینی رویتی پنکھے پکڑ رکھے تھے۔ان لڑکیوں کا میک اپ بہت گہرا تھا۔آنکھیں قدرتی آنکھوں سے بہت بڑی بنائی گئی تھیں۔یہ سب یک زبان  دھیمی آواز میں چینی روایتی گانا گا رہی تھیں،ساتھ ہی روایتی رقص پیش کر رہی تھیں۔ایک گروپ سرخ لباس میں چینی مارشل آرٹ کی عکاسی کر رہا تھا۔بہت  سوں کے ہاتھوں میں چینی ساختہ بڑی بڑی پتنگیں تھیں،جو مختلف جانوروں کی اشکال پر مبنی تھیں اور جنہیں فضا میں چھوڑا  گیا تھا اور ان کی ڈوروں کو اپنی کلائیوں میں باندھ رکھا تھا۔بہت سے لوگ الگ الگ گیٹ اپ میں  بھی تھے،وہ چین کے تاریخ سے منسلک  مختلف شخصیات کا سوانگ رچائے ہوئے تھے۔ان کے میک اپ اور لباس کمال کے تھے۔دو دو کے جوڑے بنے بہت سے  کوئی ایک بڑا جانور بنے ہوئے تھے۔یعنی ایک ہی لباس میں ایک سر تھا اور دوسرا دھڑ....اور یہ دو لوگ ڈریگن یا چیتا بنے مسلسل بھاگتے،گھومتے اور ناچنے میں مصروف تھے۔ہزاروں افراد کی ڈریگن پریڈ میں ہزاروں سوانگ تھے۔کوئی خرگوش بنا اچھل رہا تھا،کوئی گھوڑا بنا دوڑ رہا تھا،کوئی بندر کے لباس میں تماشے دکھا رہا تھا اور کوئی چیتا بنا ڈرا رہا ہے۔سب سوانگ چینی روایات ،تاریخ ان کی معاشرت کے عکاس تھے۔مشرق میں اُگا چین مغرب میں چل پھر دوڑ رہا تھا،حقیقی قوموں کی یہی نشانی ہے ،وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں اسی درخت کی شاخیں ،تنے اور پتے لگتے ہیں جس درخت کی جڑ ان کی دھرتی میں اُگی ہوتی ہے۔ چند ایک ایسے گروپس تھے جنہوں نے سرخ  لباس پہنے تھے اور ہاتھوں میں بڑی بڑی دھاتی  پلیٹیں پکڑ رکھی تھیں اور وہ  انہیں  بجاتے چلے آرہے تھے۔پریڈ میں بڑے بڑے جانوروں کے مجسمے تھےجنہیں بانہوں کے ذریعے اٹھایا گیاتھا۔یہ سال گھوڑے کا سال تھا ،اس لیے گھوڑے کے مجسمے زیادہ تھے۔ایک بڑا اور اونچا گھوڑا پریڈ کے آگے اور پیچھے چل رہا تھا۔غرض ہر طرف سوانگ تھے....رنگ تھے....لوگ تھے....چین تھا....تاریخ تھی....بہار تھی...نیا سال تھا۔سرخ اور پیلا رنگ چھایا ہوا تھا۔ڈرموں کی تھاپ کمال کی تھی۔

سارا مانچسٹر امڈ آیا تھا پریڈ دیکھنے کےلیے ....آس پاس کے شہروں سے بھی لوگ خاص پریڈ دیکھنے کےلیے آئے تھے۔سڑک کے دونوں اطراف کھڑے افراد کا شوق دیدنی تھا۔وہ مانچسٹر کی تاریخ میں ہونے والی  شاندار پریڈوں  میں سے ایک کو دیکھ رہے تھے۔امرحہ ڈریگن کے لباس میں تھی ویرا اور  این اون بھی ساتھ تھیں۔ان سب نے ڈریگن کا سوانگ رچایا تھا اور وہ گھوڑوں،مرغوں،خرگوشوں،سانپوں،بندروں اور باقی جانوروں کے ساتھ چل رہی تھیں۔

جب امرحہ ڈریگن بنی تو ہنستے ہنستے دہری ہو گئی اور اس نے پریڈ کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا .....پھر اس نے محسوس کیا کہ جی سن ٹھیک کہہ رہی تھی وہ اپنے بڑے اور چوڑے ڈریگن ماسک کے اندر جتنا جی چاہے ہنس سکتی ہے....شرما سکتی ہے ...جھینپ سکتی ہے ....وہ سرتاپاڈریگن کےموٹے لباس میں تھی....باہر سب کو ایک ڈریگن نظر آتا تھا امرحہ نہیں.....

جیسا کہ اسنے ویرا کو دیکھس تو اسکو بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ وہ ویرا ہے۔۔۔ یقیناً اسکے ڈریگن کو دیکھ کر بھی نہیں بوجھا جاسکتا تھا کہ اسکے اندر امرحہ ہے۔

سڑکوں سے سست روی سے گزرتے چائنا ٹاؤن کیطرف جاتے مختلف جگہوں پر ان پر رنگ برنگی جھنڈیاں بر سائی گئیں، انہیں فضا میں وقفے وقفے سے چھوڑا جارہا تھا اور فضا کئی میٹر بلندی ایسے رنگ برنگی ہوجاتی جیسے تتلیوں کے قافلے ان پر ٹوٹ پڑے ہوں۔۔۔ اور انہیں ا س سے سلام دعا لینے کی جلدی ہو۔

امرحہ نے اب کھل کر مسکرانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ڈریگن بنی ہاتھ ہلاہلا کر بچوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔۔۔اسے مزا آرہا تھا۔۔۔اسے سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ جہاں جہاں ان پر رنگ برنگی جھنڈیاں برسائی گئی تھیں،وہاں امرحہ کو لگا تھا یہ سب اسکے لئیے کیا جارہا ہے۔۔۔ اس سارے جشن کا اہتمام صرف اسی کے لئیے کیا گیا ہے۔

لاہور میں چھپ چھپ کر رونے والی امرحہ، ایک منحوس مان لیے گیے انسان کے لئیے۔۔۔

امرحہ افسوس کر رہی تھی کہ وہ کیوں روتی رہی تھی۔۔۔ زندگی میں آپ نئے لوگوں، نئی خوشیوں، نئے جشنوں سے روشناس ہوتے ہیں تو ماضی کے دکھ بے معنی اور چھوٹے لگتے ہیں۔۔۔ اپنی بے وقوفی پر متم کرنے کو جی چاہتا ہےکہ کیا نادانی کرتے رہے ہیں۔۔۔

زندگی کی دھارا میں دکھ اور سکھ دونوں بہتے ہیں۔۔۔ دکھ بہنے دیا جائے اور سکھ پی لیا جائے۔۔۔

اور نیا ماحول آپکو نیا اسباق ضرور پڑھاتا پے۔۔۔ کچھ اچھے، کچھ برے۔۔۔ کچھ آپکی مرضی سے۔۔۔کچھ زبردستی۔۔۔ اسباق سے گھبرانا نہیں چاہئیے، یہ کتنے بھی تلخ ہوں حکیم لقمان کی حکمت لئیے ہوتے ہیں۔۔۔بلا معاوضہ حکمت دے کر جاتے ہیں۔۔۔

تو اب رنگ تھے۔۔۔ جشن تھا۔۔۔ اور قہقہے تھے۔

موسم نم نم تھا۔۔۔جنوری کا آخری دن تھا اور چینیوں کے لئیے سال کا پہلا دن۔۔۔اس بات کی علامت کہ جہاں کچھ ختم ہو رہا ہوتا ہے ٹھیک وہئیں سے کچھ اور شروع ہورہا ہوتا ہے۔۔۔

نظام قدرت اس جنم مرگ۔۔۔مرگ جنم کا نام ہے۔

سال جا رہا ہے۔۔۔ ارے نہیں سال تو آرہا ہے۔

شام گہری ہوچکی تھی۔۔۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے سے چل رہے تھے لیکن تھکن نے آج ان سے دوستی کر لی تھی، وہ پھولوں سے لدی دور سے ہی ہاتھ ہلا رہی تھی۔ وہ چائنہ ٹاؤن کے قریب پہنچ رہے تھے۔۔۔ دور سے پریڈ کے استقبال کے لئیے بجائے جانے والے ڈرموں اور دوسرے سازوں کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔

"امرحہ" ڈرموں کی پر زور تھاپ اور دھاتی پلیٹوں کی گونج میں یہ نام اسکے قریب میٹھے سر سنگیت لئیے گونجا۔ 

اسکے قریب ہی ایک اور ڈریگن کھڑا تھا۔۔۔

وہ قد میں اس سے اونچا تھا۔۔۔ ڈریگن نے ماسک اتارا۔۔۔ اور وہ مسکرا دیا۔۔۔ وہ عالیان تھا۔۔۔ وہ اسکے پاس کھڑا تھا۔۔۔ اسکے جو۔۔۔

ایک لڑکی ہے امرحہ۔۔۔

شہرِ روشن۔۔۔

شہرِ قلم کار۔۔۔

شہرِ بے مثال لاہور سے۔۔۔

امرحہ نے اسے دیکھا۔۔۔ اسے جو۔۔۔

ایک لڑکا ہے عالیان۔۔۔

شہرِ افکار۔۔۔

شہرِ لازوال مانچسٹر سے۔۔۔

نئے سال کے پہلے دن۔۔۔

بہار کے پہلے دن۔۔۔ شہرِ بے مثال۔۔۔ شہرِ لازوال کے باسی ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔

اور ایک محبت ہے۔۔۔

جہاں بے مثال__

جہان لازوال__

جہان جادواں__ جادواں__ جادواں سے__

امرحہ کو بلکل معلوم نہیں تھا کہ وہ بھی اس پریڈ میں شامل ہیں__اتنے ہزاروں لوگوں میں وہ چاہتی بھی تو معلوم نہیں کر سکتی تھی__اسے صرف اپنے کلاس فیلوز کا ہی معلوم تھا__عالیان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے وہ آخری وقت میں کسی طرح سے ڈریگن لباس حاصل کرنے مہں کامیاب ہوا تھا اور افراتفری میں پریڈ میں شامل ہوا اور اسے تلاش کرتا رہا ہے__

"داد دو مجھے__میں نے تمہیں اتنے سارے جانوروں اور ماسکوں میں سے پہچان لیا__"

"داد دیتی ہوں تمہیں__"اتنے سارے ہزاروں لوگوں میں سے جو اپنی شکل اور وضع قطع چپھائے ہوئے تھے کسی ایک کو ڈھونڈ نکالنا قابل داد تھا__دو ڈھائی سو کے قریب تو صرف امرحہ جیسے ڈریگن ہی تھے__

"کتنی زبردست پریڈ ہے نا یہ امرحہ__"وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا__ڈریگن کا سر اتار کر اس نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا تا کہ اسکی آواز آسانی سے سنی جا سکے__امرحہ کو وہ معمول سے زیادہ خوش لگا__

"امرحہ مجھے ایسے جشن،ایسے تہوار،جب سب خوش ہوں،گا رہے ہو،مسکرا رہے ہوں،بہت اچھے لگتے ہیں__" اس نے سڑک کے کنارے کھڑے پریڈ کو دلچسپی،شوق،جوش وخوشی سے دیکھتے ایک چھوٹے سے بچے کے گال پر نرمی سے چٹکی بھرتے ہوئے کہا__ پھر اس نے اسی بچے کے ساتھ کھڑے دوسرے بچے کے بالوں میں بہت محبت اور لگاوٹ سے ہاتھ پھیرا__ اس کے انداز بتا رہے تھے کہ وہ غیر معمولی پرجوش اور خوش ہے__

"تمہیں بھی پسند ہے یہ سب؟"اس نے اس کے سر کے پاس سر جھکا کر کہا__

"ہاں مسکراہٹیں کسے اچھی نہیں لگتیں؟"امرحہ کو چلا کر بتانا پڑا__عالیان نے کان کو اسکے ماسک کے قریب جھکا دیا__اس نے ایسا خوشی سے کیا__

امرحہ شہرزاد بنی اسے ہزاروں راتوں پر محیط الف-لیلی سناتی تو شاید وہ خوشی سے سر کو ایسے ہی جھکائے رکھتا__سر نہ اٹھاتا__

"ہاں!لیکن کبھی کبھی تو ان سب کے ساتھ بھی مسکراہٹیں اچھی نہیں لگتیں--"اس نے آس پاس کے سارے ماحول کی طرف اشارہ کر کے کہا__

"یہ تو کچھ ہو جانے سے سب اچھا اچھا لگتا ہے__"

ایک بچہ جو اپنے باپ کے کندھوں پر سوار تھا اور تالیاں بجا رہا تھا کہ اس نے گال پر نرمی سے چٹکی بھر کر کہا__بچہ کلکھلا اٹھا اور اپنے باپ کے بالوں کو شرارت سے مٹھیوں میں جکڑ لیا__

امرحہ نے ماسک اتار دیا__اس سے ٹھیک سے عالیان کی آواز نہیں سنی جا رہی تھی__

"کیا ہونے سے اچھا لگتا ہے؟"امرحہ اس کی بات تھیک سے سن نہیں سکی تھی__ہجوم کے شور کی وجہ سے اسے چلا کر پوچھنا پڑا__

عالیان نے ذرا رک کر اس کی طرف دیکھا__رک گیا__روک دیا گیا__شاید وہ فیصلہ کر رہا تھا__

"محبت کے ہو جانے سے__"اس نے بلاوجہ ہی چلا کر کہا جبکہ امرحہ اپنا ماسک اتار چکی تھی چلانے کی ضرورت نہیں تھی__ یقینا وہ ڈریگن پریڈ میں شامل ایک ایک انسان کو بھی سنانا چاہ رہا تھا__ سڑک کے اطراف میں کھڑے 'مردوں'عورتوں'بڑے بوڑھوں اور بچوں کو بھی__سارے مانچسٹر کو__ساری دنیا کو اس کے ہونٹوں سے نکلے الفاظ کی گونج یقینا چائنا ٹاون کی محراب کے پاس تیس چالیس بڑے بڑے ڈرموں کو اپنے ساتھ رکھے سرخ لباسوں میں پیلی پٹیاں سر پر باندھے چینیوں تک بھی گئی ہو گی__

انہوں نے لفظ "محبت" کی گونج کو پا کر__اسے اپنے اندر اتار کر بھرپور جوش سے__عقیدت و احترام سے__دونوں ہاتھوں میں پکڑی ڈرم اسٹکس کو سر سے اوپر اٹھا کر سرخ ڈرموں کی پیلی زمین پر دے مارا__

محبت کے ساز کی پہلی گونج گونجی__

مشرق نے مغرب میں آکر میلہ سجا دیا۔

استقبال کا آغاز ہوا....خوش آمدید....بہار کو گلے لگانے کے لیے ہم بےتاب ہیں۔بہار کی آمد آمد ہے....خزاں کو رخصت ہو جانا چاہیے۔

آؤ لفظ محبت سے ابتدا کریں....آؤ اس کی انتہا کریں....رجوم (شہاب ثاقب)کا ایک طویل قافلہ رقص  کناں  گہری ہو چکی شام میں رک ابر (ابر کی سیاہ دھاری)سے ہوتا ہوا عالیان اور امرحہ  کے سامنے سے گزرا.....وہ اباک (مبہوت) ابابیل تھی وہ جہاں کی تہاں  کھڑی تھی۔

”میرا دل چاہتا میری شادی ایسی ہی ہو ۔“اس کی بھوری آنکھوں میں کئی خوش کن چمک دار رنگوں کی دھاریاں تلاطم مچانے لگیں۔

”جانوروں کی طرح....؟“امرحہ نے دوبارہ غلطی نہیں کی عالیان کی طرف دیکھنے کی

”نہیں...؟“وہ ہنسا۔

”ایسے پریڈ کی صورت ....اتنے ہی لوگوں اور سازوں کے ساتھ۔“

وہ برطانیہ کا شہری تھا نہ....تو یہ خواہش کیوں نہ رکھتا کہ اس کی شادی بھی شاہی شادی جیسی ہو....پریڈ کی صورت بارات جائے ....بگھی میں بٹھائے اور اپنی دلہن کو واپس لائے.....اور آس پاس کھڑا ہجوم ان پر مسکراہٹوں اور دعاؤں اور کے ساتھ پھولوں کی بارش کر دے۔وہ اور اس کی دلہن ہاتھ ہلا ہلا کر سب کی مسکراہٹوں کا جواب دیتے ہوں۔دنیا بھر میں شاہی خاندان کی شادیاں دیکھنےوالے زندگی میں کم سے کم ایک بار یہ خواب ضرور دیکھتے ہیں کہ ان کی شادی بھی پرنس چارلس،پرنس ولیم کی طرح ہو....وہ تو پھر برطانیہ کا شہری تھا۔اس نے یہ خواب کم سے کم سو بار تو ضرور دیکھا ہو گا۔

”اچھاخواب....دیکھ لینا چاہیے....“

”اگلے سال چینی نئے سال پر تم اپنی یہ حسرت پوری کر لینا۔“

امرحہ نے اسے اچھا مشورہ دیا تھا......ہاں یہ اچھا مشورہ ہی تھا بے شک.....رجوم کا ایک اور قافلہ اس بار صرف عالیان کی آنکھوں کے آگے سے گزرا اور اس بار وہ ان بھوری آنکھوں میں ہی ٹھہر گیا.....وہ ایک لحظے کے لیے سوچ کا شکار ہوئیں پھر انہوں نے جھٹ قافلہ رجوم کی باگیں اپنے ہاتھوں میں تھام لیں۔

فیصلہ ہو چکا تھا۔

وہ امرحہ کو ساری روشنیاں اپنے اندار سموئے دیکھ رہا تھا۔ایران میں زریور کا کنارا ہے۔

ایک خسرو کمالی ہے....ایک اس کا رباب ہے۔

اور اس کےہونٹوں پر امیر خسرو کی رباعی کی صورت ہے.....

از آمدنت اگر خبر می دانستم

(اگر تیرے آنے کی خبر مجھے ملے)

پیش قدمت کوچہ راگل می کنتم

(میں تیرے قدموں سے پہلے گلی میں پھول بچھاؤں)

گل می کشم گل گلاب می کنتم

(پھول بچھاؤں،گلاب کے پھول بچھاؤں)

خاک قدمت پدی دم وار دانستم

(تیرے قدموں کی خاک پر اپنا آپ وار دوں)

یارم.....یارم.....یارم

(میرے دوست.، میرے یار.... میرے محبوب)

جھیل کی لہریں رقص کرنے لگی ہیں،وہ خسروں کمالی اور اس کے رباب پر فدا ہیں،وہ اس کے ہونٹوں سے نکلتے گیت پر نثار ہو ہو جاتی ہیں....پرندے خسرو کمالی کے سر پر گول گول گومتے جاتے ہیں....وہ اس گیت پر قربان ہو ہو جاتے ہیں۔خسرو کمالی پیشانی پر گلابی رومال باندھےاس کنارے کی طرف دیکھتا جاتا ہے جہاں سے زہرہ آفندی کو آنا ہے۔

وہ آئی گی،ضرور آئی گی،اس کا رباب دعا گو ہے،

اس کا گیت سربسجود ہے

پیمانہ بدہ....پیمانہ بدہ

(جام دے....جام دے)

پیمانہ بدہ کہ خمارا ستم

(ایسا جام دے کہ مجھے خمار آجائے)

من عاشق چشم مست یارا ستم

(میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)

بدہ...بدہ

(دے...دے)

بدہ....بدہ

(دے....دے)

وقت نے اپنے لبوں پرپریت بھری مسکراہٹ سجائی....

رقص کناں لہروں نے خسرو کمالی کے سروں کو چوما۔

ہوا نے رک جانا ضروری جانا....خسروں کمالی کے لیے...اس کی زہرہ آفندی کےلیے۔

گل می کشم گل گلاب می کشم

یارم....یارم

پر والوں نےکوک دی۔

زریور جھیل نے پانی کی بوندوں کو تاروں کی مانند جگمگا لیا.....

رباب نے مناجات میں سوزدور پیدا کیا۔اور خسروں کمالی نے آواز کو نرمی  سے بلند ...بلند سے اور بلند کیا۔

”یارم ....یارم...یارم“ صدائیں ملک تک جا پہ پہنچیں زہرہ آفندی کا دیا  گلابی رومال جھوم جھوم لہرایا۔

”ٹھیک ہے مجھے منظور ہے....ہم اگلے سال اسی دن شادی کر لیں گے۔“ہاتھ میں پکڑا ڈریگن ماسک امرحہ کے ہاتھ سے پھسل کر گر گیا،جسے اُٹھانے کے لیے وہ قطعاً نہیں جھکی....اسے اُٹھانے کےلیے وہ پہلے سے ہی جھک چکا تھا۔

”ہم......“رنگ ریز نے سارے رنگ اس پر اچھال دیے،خاص کر پیلا لیکن پھر بھی وہ بے رنگ کھڑی رہی ....وہ سفید دھرتی نہیں تھی جسے من پسند رنگوں سے رنگ دیا جاتا ۔

”اس نے کہا ہم .....“کشمیر کی کلی افق نے دھاتی پلیٹیں بجاتے ہوئے فرزام کے قریب ہو کر سرگوشی کی۔

”ہاں میں نے سنا ......اس نے کہا ہم۔“فرزام نے ڈرم بجاتے ہوئے کہا۔

”اور وہ اس کے آگے ماسک اُٹھانے  کے بہانے جھک بھی گیا۔“افق شرارت سے مسکرائی۔

رنگ برنگی جھنڈیوں کی بوچھاڑ فضا میں چھوڑی گئی۔

خوش آمدیدی کا شور بلند ہوا۔

دھاتی پلیٹس ایک ساتھ کہی سو ہاتھوں میں گونجیں۔

ڈرموں پر سازندوں نے گول گول گھوم کر انت مچا دی۔چینی رقصاؤں نے سرخ لباسوں میں خود کو فضا میں اچھالا اور چینی رقص کی ابتدا کی۔

اس نے کہا ”ہم “لو اب تو ابتدا ہو گئی۔

ہجوم نے پرجوش نعرے لگائے...بہار کے آمد کے جشن کو انہوں نے یادگار بنا دیا تھا....فضا مشکبار ہو چکی تھی،تبت سے مشکبار پری یہاں آچکی تھی.....فرزام اور افق کے بلاوے پر....امرحہ اور عالیان کے لیے....اس کے پیروں میں گرے ماسک کو اٹھا کر وہ اسے واپس دے رہا تھا....پریڈ آگے جا رہی تھی....وہ دونوں ایک ہی جگہ کھڑے تھے۔

”تم نے سنا امرحہ !میں نے کیا کہا؟“اتنی پیاری بات پر اس کے لیے ایک مسکراہٹ تو بنتی تھی....وہ مسکراہٹ اسے نہیں دی گئی تھی.....

”مجھ سے شادی کرو گی امرحہ.....؟لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا ...میں تو تم سے ہی شادی کروں گا ....تم سوچنے کے لیے وقت لے سکتی ہو لیکن اس سے بھی فرق نہیں پڑے گا....میں سارا مانچسٹر اکھٹا کر ڈالوں گا۔اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر جب تم سارے مانچسٹر کو کھڑا دیکھو گی تو تمہیں ”ہاں “کا بورڈ اٹھا کر سب کو دکھانا ہی پڑے گا....؟وہ اپنی رو میں بول رہا تھا...وہ عالیان تھا”ہاں “کے بل بورڈ پر اس کا حق تھاکیونکہ وہ سارے مانچسٹر کو اکٹھا کر لانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

”میں....میری منگنی ہو چکی ہے...پاکستان میں میری واپسی کا انتظار کیا جا رہا ہے....میری شادی ہونی۔“اٹک اٹک کر وہ اتنا ہی کہہ سکی،رجوم کی سب قافلوں نے اپنی باگیں عالیان کے ہاتھوں سے چھڑ والیں۔

”خسروں کمالی کے رباب کی تان ٹوٹی....اس کی مناجات سہم گئیں۔“

”رتن دیپ سے سجی رتھ اڑان بھرتی منہ کے بل پاتال کی طرف لپکی....“

قالین باف کے حقیقی پارچہ میں آگ بھڑکی....“سڑک کے کنارے پریڈ دیکھتی خاتون کے گود کے بچے نے چلا کر رونا شروع کر دیا ۔چینیوں کا ماننا ہے کہ سال کے پہلے دن بچوں کا رونا نجس ہوتا ہے۔چینی عورت سہم سی گئی اور اس نے شدومد سے بچے کو چھپ کروانا شروع کر دیا ....لیکن بچہ اور....اور رونے لگا....وہ روتا ہی جا رہا تھا...یہ کیا ....یہ کیسے ....ابھی تو قلقاریاں مار رہا تھا ....اس نے تالی بھی بجائی ہوگی۔بھانت بھانت کے جانوروں کو دیکھ کر وہ کیسے محفوظ ہوا ہو گا ....چینی رقصاؤں کی طرح وہ بھی ناچنا چاہتا ہو گا....اس نےاپنی ماں سےڈرم بجانے کی فرمائش بھی کی ہو گی۔

پھر....یہ سب کرکے بھی....اب وہ رونے لگا...وہ کیوں رونےلگا؟

اور ایک گیت تھا....

خسرو کمالی کا....

عالیان مارگریٹ کا....

لفظ لفظ ترانہ....لفظ لفظ مرثیہ.....

اور ایک ساز رباب تھا...

زریو جھیل کنارے بجتا ہوا....

ڈریگن پریڈ میں گونجتا ہوا....

پھر جھیل کے پیندے میں گونگا پڑا ہوا....

”امرحہ !“بھوری آنکھیں سیاہ پڑھنے لگیں۔اس نے امرحہ کو ایسے دیکھا جیسے وہ اسے کوئی دھوکہ دے رہی ہو اور وہ جانچ رہا ہو کہ اسے دھوکا کیوں دیا جا رہا ہے..

”تم...یہ سب کیا ؟“اسے سمجھ نہیں آئی کہ سوال کو کن  الفاظ سے ترتیب دے کر من پسند جواب پا سکے۔بھلا ایسا بھی ہوتا ہے کبھی ؟

”ہمارےہاں ایسا ہی ہوتا ہے ۔میں بہت خوش ہوں ...تم نے ایسے سوچ بھی کیسے لیا...ہم تو دوست ہیں نا....لیکن پلیز تم دوبارہ  ایسا کچھ نہ کہنا۔“جلدی سے کہہ کر اس نے ماسک پہن لیا اور پریڈ کے ساتھ آگے بڑھنےلگی....اور پھر ساری پریڈ آگے بڑھنے لگی....ساری دنیا....ساری کائنات ....صرف ایک وجود کھڑا تھا...ساکت تھا...پتھر کا ہو چکا تھا...

وہ عالیان مارگریٹ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

جو سارے مانچسٹر کو اکھٹا کر کے اس کی کھڑکی تک لے جانے والے تھا وہ سارے مانچسٹر میں اب خود کوڈھونڈ  ڈھونڈ اکھٹا کرتا پھرے گا۔

چینی ماں روتے بچے کو چپ کروانے میں ناکام ہو چکی تھی....اس کی شکل گہرے سایوں کی زد میں تھی....وہ اپنے عقیدوں پر پختہ یقین رکھنے والی لگتی تھی....اور اسی لیے پریڈ میں اس کی ساری دلچسپی ختم ہو چکی تھی اور وہ زیر لب دعائیں کر رہی تھی کہ نئے سال میں نحوست اور بلائیں اس سے دور رہیں.....لیکن بچہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا۔

پریڈ چائنا  ٹاؤن کی محراب کے اندار داخل ہو رہی تھی۔

ڈرموں کی تھاپ اب کان کے پردے پھاڑ رہی تھی۔

تھی__

عالیان کا دم گھٹ رہا تھا پھر بھی اس نے ڈریگن ماسک پہن لیا__

اور پہلے آہستہ روی سے پھر تیزی سے پریڈ کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگا،عجیب انسان تھا وہ دو قدم پر محراب تھی اور وہ وہاں تک نہ جا سکا،اور الٹی طرف بھاگنے لگا اس کا ڈریگن ماسک بہت بد ہیبت لگنے لگا تھا،اس بد ہیبت کو دیکھ کر ڈر قطعا نہیں لگ رہا تھا__بس دل مٹھی میں آیا لگتا تھا__

امرحہ چینی ساختہ محراب کے پار ہو گئی اور پھر اس نے ہمت کر کے گردن موڑ کر دیکھا__کوئی بہت بے دردی سے پریڈ کو چیرتا بھاگ رہا تھا،جیسے اس کے آس پاس آگ بھڑکتی ہو__نہیں جیسے اس کے اندر آگ لگی__

اس ڈریگن نے خود کو پریڈ سے الگ کیا__اور لوگوں کے ہجوم میں خود کو گم کرتے__اپنے ماسک کے اندر ہی خود کو بلک بلک کر رونے دیا__

امرحہ نے خود کو لوگوں کی بھیڑ میں گم کر دیا__وہ ابھی ماسک اتارنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی__

وہ لوگ خود کو بھیڑ میں گم کرنے کی کوشش کرتے رہے__بھیڑ سے نکلنے کی بھی__الگ ہو جانے کی بھی اور مل جانے کی بھی__ایک وقت میں اتنی خواہشیں__

مانچسٹر کی کشادہ سڑکوں پر پھیلی__ہزاروں لوگوں سے اٹی ڈریگن پریڈ ماتمی جلوس کی صورت اختیار کر گئی__

کیونکہ،کیونکہ ایک ماں کی گود میں بچہ حلق پھاڑ کر رو رہا تھا اور ماں کی ساری کوشش اسے چپ کروانے میں ناکام ہو چکی تھی__نئے سال کے آمد اس کے لیئے نیک شگون نہیں لائی تھی__کیا اب سارا سال اسے رونا پڑے گا__؟

خیر اور بھلائی اس سے دور رہے گی__بلائیں اور شر اس پر حملہ آور ہو گے__کیا خوش قسمتی پر اس کا کوئی حق نہ ہو گا__

اور کیا__اور کیا__اس کا دل خون کے انسو روئے گا__

خسرو کمالی نے رباب کو زریور میں پھینکا__اس نے دیکھ لیا تھا کہ اس کی طرف زہرہ تقندی کی جگہ ایک شیر کھڑا تھا__

وہ جانتا تھا اس شیر کا نظر آنا نحس ہے__نحس ہے__

چینی پریڈ کے اس اور اس کنارے بھی ایک شیر اپنا منہ صاف کر رہا تھا__کیونکہ وہ شکار کر چکا تھا__

وہ مشرقی اکھاڑوں کا نگر نگر پایا جانے والا شیر ہے__

بانو قدسیہ کہتی ہیں"محبت مرگ سے پہلے جنم کا نام ہے__"

اور مجھے ایسا لگتا ہے "محبت جنم سے پہلے مرگ کا بھی نام ہے__"

یہ پہلے آپ کو مار ڈالتی ہے پھر جی میں آئے تو جنم دے دیتی ہے__ یہ پہلے انگارہ بنتی ہے__جی میں آئے تو__تو گلزار__

یہ "م" کا پرچار کرتی ماہی__ماہی__محبت__ہے

یہ "م" سے بھینٹ لیتی__محبت__مرگ__مرگ__ہے

یہ محال__

یہ محرق(جلا دینے والی)__

اور یہ محشر ہے__

محبت "م" سے__یہ امر سے پہلے "مرن" ہے__

محبت معلوق(قیر کی گئی)

محبت مضطر__

اور یہ محبت مشرک بھی ہے__

وہ پاکستان ہی رہ چکی ہوتی اور اس پر ایسا برا وقت نہ آیا ہوتا__کاش پاکستان میں سب اس کے لیئے ٹھیک ہوتا__اسے اپنے ماحول سے نکل بھاگنے کی تمنا نہ ہوتی،

__اسے یہاں آنے کی چاہ نہ ہوتی__وہ شخض جو اس کے آگے پیچھے،دائیں بائیں،اندر باہر ہر طرف تھا__جو ہر طرف سے اسے اپنی طرف نظر آتا تھا__وہ شخض اسے ساری زندگی نہ ملا ہوتا__

لیکن وقت کی کمان میں اس کی اپنی مرضی کے تیر ہوتے ہیں اور وہ انہیں اپنی مرضی سے تاک کر چھوڑتا ہے__وہ ایک آنکھ میچے__سانس کم لیئے__نشانہ باندھے بیٹھتا ہے__اپنے من پسند وقت__یہ چھوڑا__اور شکار چت__

اب اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ خاموش رہے اور سب سے دور بھی__تعلیم مکمل کرے__اور گھر جائے__اور یہی سب ہونا تھا__اداسی اور خاموشی کو لیئے چند دن گزر گئے__

اور بقول بانو قدسیہ "مسکراہت سمیت وہ غائب ہونے کا فن جانتا تھا__"

عالیان فن کار اسے ان چند دنوں میں کہیں نظر نہ آیا تھا__اس نے اسے ڈھونڈنا نہیں چاہا تھا__پھر بھی__وہ غائب ہونے کا فن سیکھ چکا تھا__

"تم بہت اداس رہتی ہو؟"ویرا پوچھ رہی تھی وہ سونے کی تیاری کرنے ہی والی تھی بس__وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی__سونے کے لیئے اٹھ ہی نہیں رہی تھی__

"نہیں!میں ٹھیک ہوں__"

"میں نے کب کہا تم ٹھیک نہیں ہو__پریڈ میں، عالیان آیا تھا تمہارے پاس__شائد اس نے کچھ کہا تھا تم سے__"ویرا اس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی__

"کیا کہے گا وہ؟"امرحہ نے کتاب جو سامنے رکھی تھی اور پچھلے کئی گھنٹے سے رکھی تھی کو پڑھنے کی کوشش کی__

"کچھ بھی کہہ سکتا ہے وہ بہت خوش لگ رہا تھا__بعد میں،میں نے اسے بہت اداس ہو کر جاتے دیکھا__"

ویرا واقعی موساد کی خفیہ ایجنٹ تھی اتنے رش میں بھی اس نے یہ سب نوٹ کر لیا__

امرحہ ویرا کو دیکھنے لگی__

"تم خاموش کیوں ہو امرحہ__؟"

"اس نے کہا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے__"

اور__اور تم نے کیا کہا؟"ویرا مسکرائی__

 میں نے؟"سوال تھا یا اقرار__

"ہاں ظاہر ہے تم نے__یہ تو خوشی کی بات ہے مجھے لگا،وہ تمہارا اچھا دوست بننا چاہتا ہے لیکن اسے کچھ اور ہی بننا تھا نا__"مسکراہت گہری ہو گئی__

"میری منگنی پاکستان میں ہو چکی ہے__میرے جاتے ہی میری شادی ہو جائے گی__"

"تمہاری منگنی__تمہاری منگنی ہو چکی ہے"

"نہیں__"امرحہ نے اداسی سے کہا__

"تو تم نے جھوٹ بولا عالیان سے__تم نے ایسا کیوں کیا امرحہ؟"

"جو مجھے مناسب لگا میں نے کہہ دیا__بس__

"بس؟"ویرا حیرت سے اسے دیکھنے لگی__

"تم عالیان کے لیئے ایسے بات کر رہی تھی__؟"

"کیسے بات کر رہی ہوں؟"

"اپنا انداز دیکھو امرحہ__اتنی بڑی یونیورسٹی میں وہ تمہارے پاس آتا ہے باتیں کرنے کے لیئے__عالیان__اپنا انداز دیکھو__جانتی ہو کون ہے عالیان__

پروفیسرز کے بعد یونی کی آنکھ کا تارا ہے__جس طرح صبح وہ یونیورسٹی کیمپس کے پاس کھڑا ہو کر تمہارا انتظار کرتا ہے کبھی دیکھا ہے__؟"

"میں نے اسے کبھی نہیں کہا انتظار کرنے کے لیئے__

"ایک صبح،صبح ہائے کہنے کے لیئے وہ ہم سے دس پندرہ منٹ پہلے وہاں کھڑا ہوتا ہے__"

"میں اسے ایسا کرنے کے لیئے نہیں کہتی__"

"تم کم عقل ہو__"

"میں کم عقل ہوں__"

"تم نہ سمجھ ہو بہت__"

"میں ہوں نہ سمجھ بہت__"

"شت اپ__تم نے اپنی منگنی کا جھوٹ کیوں بولا؛

"میری مرضی__"

ویرا نے ٹھوڑی دیر اس کی طرف دیکھا__"ایک شخص تمہیں پرپوز کر رہا ہے امرحہ اور تم نے مناسب الفظ میں اسے ٹال دیا__"ویرا طنزیہ ہنسی__

امرحہ کے جیسے کسی نے گال پر ٹھپڑ دے مارا__

"تم صاف انکار کر دیتیں اسے __ایسے بہانے سے اس کی انسلٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی__"اس روسی ویرا کو سمجھانا بہت مشکل تھا__

"بہت عجیب ہو تم__بہت زیادہ__اتنے ذہین انسان کو کیسے تم نے جھوٹ بول کر انکار کر دیا__"

ویرا تو عالیان کی ذہانت کی فین تھی__

ویرا نے ایک بار اور تالی بجائی__

"ینگ لیڈی آف پاکستان__دی گڑیٹ لیڈی__ہونہہ__"

امرحہ کا منہ سرخ ہو گیا وہ رو دینے کو ہو گئی__

"کیسے نہ کرتی میں انکار__پتا نہیں کون ہے وہ__عیسائی،مسلمان،یا یہودی__مارگریٹ اس کی ماں کا نام ہے تو باپ کا کیا ہو گا__آئزک__داؤد__کیا ہوگا__" 

امرحہ تیز آواز میں چلا اٹھی اسے ویرا کے انداز سے تکلیف پہنچی تھی__

ویرا خاموش ہو کر اسے دیکھتی رہی__

"اتنی معمولی سی وجہ کے لیئے؟"

معمولی وجہ نہیں ہے یہ ویرا__نہیں ہے یہ سب معمولی__اس کے باپ کا،خاندان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے__وہ کون ہے__وہ خود بھی نہیں جانتا ہو گا__"

"کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے؟"ویرا کی آواز تیز ہو گئی__

"یورپ کے آزاد معاشرے کی دین__غیر مزہبی__غیر اخلاقی پیداوار__معمولی باتیں نہیں ہیں یہ سب__میرے خاندان کے لیئے طمانچے جیسی باتیں ہوں گی یہ سب__"

"طمانچہ!"ویرا استہزائیہ ہنسی"خاندان واؤ تم تو سیدھے عالیان کی بے عزتی کر رہی ہو__"

"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے تم مزاق اڑا رہی ہو__"امرحہ نے بے بسی سے ویرا کو دیکھا__

"تمہارے وہاں محبت حساب کتاب لگا کر کی جاتی ہے امرحہ؟"ویرا بے حد سنجیدہ ہو چکی تھی__

امرحہ خاموش رہی،وہ اتنی ذہین کبھی نہیں رہی تھی کہ مڈلل انداز سے اس سوال کا مقدمہ لڑ کر جیت سکتی__

"کیسے تم نے اس کے خاندان،اس کے مزہبی،غیر مزہبی ہونے کا حساب کتاب لگایا اور اسے انکار کر دیا وہ بھی جھوٹ بول کر__بہت ذہین ہو تم__اپنے حاصل جمع کا فائدہ دیکھا__تم نے دیکھا کہ تم اس کے ساتھ نقصان میں رہ رہی ہو تو تم نے جھٹ جھوٹ بول دیا__اور ایسے جھوٹ بولا کہ وہ تمہارا دوست تو رہے  لیکن کچھ اور نہ بنے__ایک بار تم نے مجھے کہا تھا کہ میں انسان کم مشین زیادہ لگتی ہوں،آج میں تمہیں کہتی ہوں تم انسان کم کیلکولیٹر زیادہ ہو__اس کی ذہانت،اس کی قابلیت گئی بھاڑ میں__ وہ کتنا اچھا انسان ہے یہ سب بھی__بس اس کا باپ ہونا چاہیے__ اس کا خاندان،یورپ میں یہی سب ہے __تو سب کیا ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں__تمہارا مذہب ایسے لوگوں سے نفرت سکھاتا ہے__تم بہت مذہب مذہب کی باتیں کرتی ہو نا__ تمہیں چھوٹے کپڑے پہننا پسند نہیں__تمہیں چھوٹا ظرف رکھنا،چھوٹا دل رکھنا پسند ہے__ایسے جھوٹ بولنا__بے عزتی کرنا__؟"امرحہ خاموش ویرا کو دیکھ رہی تھی__خاموش__

"مان لیا کہ وہ تمہارا ہم مذہب ہے__پھر__"

"وہ__مسلمان ہی ہے__"امرحہ کی کمزور آواز نکلی__

"گڈ__پھر مسئلہ کیا ہے__؟"امرحہ پھر سے خاموش ہو گئی__

"اور__اچھا وہ اکیلا ہے__اس کے باپ کا پتا نہیں'وہ ناجائز ہو سکتا ہے اس لیئے__اور__واؤ__اس کے ناجائز ہونے سے مسئلہ ہے۔ اگر وہ ناجائز نہ ہواامرحہ۔۔۔تو۔۔۔؟؟؟

تو بھی نہیں۔۔۔نہیں،وہ مجھے پسند نہیں۔۔۔میں نے انکار کردیا۔"

امرحہ کو یہ جواب سب سے زیادہ مناسب لگا۔

شاید تم اسے پسند کرنے لگو۔۔۔؟؟؟

میں اسے پسند نہیں کرسکتی۔۔۔ وہ میرا اچھا دوست ہے۔ جیسے تم ہو۔

شاید تم اسے پسند کرنے لگو۔ ویرا سنجیدگی اور سختی سے اپنی بات دوہرا رہی تھی۔یا شاید تم اسے پسند بھی کرتی ہو، لیکن اپنے خاندان کے لیے۔۔۔ اپنے معاشرے، اپنی روایات کے لیے۔۔۔

میں اسے کیوں پسند کرونگی۔۔۔ کیوں کروں گی۔۔۔ کون سی خوبی ہے اس میں۔ اگروہ قابل ہے تو یونی میں ہزاروں اور بھی ہیں۔۔۔ مجھے اسے ہاں کہنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ تم مجھے مطمئن کرو امرحہ۔۔۔ مجھے اس سبکی سمجھ نہیں آرہی، ویرا جم کر کھڑی ہو گئی۔ شاید تمہارا خیال ہے کہ اگر وہ مسلمان ہے بھی تو تم جتنا اچھا انسان نہیں ہے۔۔ وہ تمہاری طرح عبادت نہیں کرتا ہوگا۔۔۔تمہاری طرح حلال فوڈ کا استعمال نہیں کرتا ہوگا۔۔۔ اسے بنیادی مذہبی تعلیمات کے بارے میں نہیں معلوم ہوگا۔ اور اگر وہ تمہارے خاندان کے پاس جاتا ہی ہے تمہارا ہاتھ مانگنے تو اسے ان سب باتوں کی وجہ سے رد کیا جا سکتا ہے۔۔۔ ہے نا امرحہ۔۔۔؟؟

امرحہ خاموش رہی۔۔۔

جواب دو امرحہ۔۔۔

ہاں! امرحہ چلا اٹھی۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ اتنا آسان نہیں ہے یہ سب۔۔ بہت مشکل ہے یہ سب۔۔۔تم لوگ یورپ میں رہنے والوں کے بارے میں یہی سب سوچتے ہو میں جانتی ہوں۔۔۔ تمہیں لگتا ہے اقتدار صرف تمہارے مشرقی ملکوں میں ہی ہیں۔۔۔

روایات اور مذہب کی پاسداری بھی۔۔ ویرا اب باقاعدہ اسے ذلیل کر رہی تھی۔اور کیا سچ نہیں ہے یہ۔۔۔کیا نام ہے عالیان کے فادر کا۔۔۔ اسکا سر نیم مارگریٹ کیوں ہے۔۔۔؟؟؟

تم اس سے پوچھ لو۔۔۔

میں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔۔اور تم جاؤ۔۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم عالیان کی اتنی بڑی حمایتی ہو۔۔۔ امرحہ بھڑک اٹھی۔

اگر تم غور کرو تو میں تم دونوں کی حمایت کر رہی ہوں۔۔ لیکن تم لوگ بہت نا سمجھ ہوتے ہو۔۔۔

ہم کون؟ امرحہ کی تیوری چڑھ گئی۔

تمہارے ملک پر طنز نہیں کر رہی امرحہ۔۔۔

تم لوگ یعنی تم جیسے کم عقل لوگ،سطحی لوگ۔۔۔ روایات، معاشرے کے علمبردار۔۔۔

بس بہت ہو گئی اب جاؤ۔۔۔ میں نے جو کرنا تھا کر لیا۔

ویرا اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔ اور چلی گئی۔۔۔

کھڑکی میں کھڑی وہ اندھیری رات کے گہرے اندھیروں کو دیکھتی رہی، ویرا سے اس نے جان چھڑا لی تھی اب خود سے کیسے چھڑائے گی۔دنیا بھر سے چھپ کربیٹھا جا سکتا ہے۔۔۔ایک اپنے آپ سے چھپ کر رہنے کی جگہ نہیں ملتی۔۔۔ دنیا بھر سے کیا کچھ نہیں کہہ دیا جاتا، ایک اپنے آپ سے کہنے کے لئیے ہی کوئی لفظ نہیں ملتا۔۔۔

ہفتے کی رات ہے۔۔۔

اور یہ ہارٹ راک کیفے کا ڈانس فلور ہے۔ ڈی جے اپنے میوزک کے ساتھ تجربات کر ے سے پہلے ایک خاص ڈسک کو پلے کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ ڈسک اسے بار ٹینڈر کارل نے دی ہے۔ کیفے میں یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کی بھرمار ہے۔۔۔ خاص کر بزنس اسکول کے اسٹوڈنٹس کی۔۔ڈانس فلور پر ڈانس شروع ہوا ہی جاتا ہی۔ کارل کاک ٹیل بنا رہا

عالیان ابھی ابھی اس کے سامنے رکھی اونچی کرسی پر نیم دلی سے آ کر بیٹھا ہے__اسے کارل نے کچن سے بلایا ہے ڈی جے نے ڈسک پلے کر دی ہے__

"ﺗمہاﺭﯼ منگنی ﮨﻭ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ؟"

"نہیں__"

"ﺗﻢ نے جھﻭﭦ ﺑﻮﻻ عالیان سے__؟"

"ﺟﻮ مجھے ﻣﻨﺎﺳﺐ لگامیں نے ﮐﮩﮧ ﺩیا__کیسے نہ انکار کرتی،پتا نہیں کون ہے__وہ،مارگریٹ اس کی ماں کا نام ہے تو باپ کا کیا ہو گا__آئزک__داؤد__"

"اتنی معمولی سی وجہ کے لیئے__؟"

"معمولی وجہ نہیں ہے یہ__میں اسے پسند نہیں کرتی__کون سی خوبی ہے__اس میں__مجھے اسے ہاں کہنے کے لیئے مجبور نہیں کیا جا سکتا__"

"شاید تمہارا خیال ہے کے وہ مسلمان ہے بھی تو تم جتنا اچھا مسلمان نہیں ہے_"

"ہاں!تم ٹھیک کہہ رہی ہو__کیا نام ہے عالیان کے فادر کا__اس کا سر نیم مارگریٹ کیوں ہے__؟

"وہ ناجائز__ہو سکتا ہے اس لیئے بھی؟"

"ہاں!ہاں__"

تمہاری طرح،حلال فوڈ کا استعمال نہیں کرتا ہو گا اس لیئے بھی__؟"

"ہاں!__"

وہاں موجود ایک ایک اسٹوڈنٹ عالیان مارگریٹ کی طرف گردن موڑے دیکھ رہا تھا__کارل نے ایک آنکھ دبائی اور منہ بنا کر بھڑئیے کی آواز نکالی،لیکن عالیان نہ وہاں موجود یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کو دیکھ رہا تھا نہ ہی کارل کو__

وہ اپنے جوتوں کی نوک کو گھور رہا تھا،__اسے آج معلوم ہوا تھا__ایک دم سے کیسے کرسی پر بیٹھے بیٹھے آپ جوتے کی نوک تلے آ جاتے ہیں__

اس کے منہ پر کبھی کسی نے تھپڑ نہیں مارا تھا اس کے سرخ ہوتے منہ پر آج ٹھپروں کی بوچھاڑ کر دی گئی تھی__

کاک ٹیل بناتے کارل کے ہاتھ رک گئے__عالیان کا ردعمل اس کی توقع کے برخلاف تھا__اس نے اٹھ کر اسے گھونسا نہیں مارا تھا__وہ مسلسل اپنے جوتون کی نوک کو دیکھ رہا تھا__

اس کھیل کے وہ پکے دشمن تھے__ویسے وہ دوست تھے؟

"عالیان__!"کارل نے اسے آواز دی__

عالیان نے جوتے کی نوک سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا__

"شکریہ کارل__میں تمہارا یہ احسان تا عمر نہیں بھولوں گا_"وہ اٹھا اور قدم گھسیٹنے لگا__

"وہ ناجائز ہو سکتا ہے اس لیئے بھی__"

"ہاں!"

"نہیں،وہ مجھے نہیں پسند__ کیا نام ہے عالیان کے فادر کا__"

اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیئے__لیکن پھر بھی وہ بہرا نہیں ہوا__محبت کی زبان اسی وقت تو بولتی ہے،جب اس کے گونگا ہو جانے کی دعا کی جاتی ہے__اور محبت کے کان اسی وقت تو سنتے لگتے ہیں جب ان کے بہرے ہو جانے کی دعا کی جاتی ہے__

اور یہ محرق ہے__محبت__

کیا نام ہے عالیان کے فادر کا__؟کیا نام ہے__فادر__ اس کا سر نیم مارگریٹ کیوں ہے؟فادر__فادر__

تحستيں لالہ صبح بہارم،پیاپے سوزم ازداغے کہ وارم

(میں صبح بہار کا پہلا لالے کا پھول ہوں جو عشق کے داغ سے مسلسل تڑپ رہا ہوں)

محبت جگا جوت ہے جسے مٹھی میں کر کے آنکھوں کے سامنے رکھ لینا آسان نہیں__آنکھیں نہیں چندھیاتیں قسمت چندھیا جاتی ہے__وہ اتنی جلدی کیاں مہربان ہوتی ہے__

انسان سب سے زیادہ خواب محبت کے دیکھتا ہے__

انسان پر سب سے زیادہ خواب محبت کے بھاری پڑتے ہیں__

انسان کسی بھی مزاج یا نسل سے تعلق رکھتا ہو،محبت کی اتنی سمجھ بوجھ ضرور رکھتا ہے کہ دعا کے لیئے باقائدہ ہاتھ اٹھائے نہ اٹھائے اندر ہی اندر اتنی آرزو ضرور کرتا ہے کہ کائنات میں چھپا کر رکھی ساری محبت اس کی جھولی میں ڈال دی جائے__کہے نہ کہے پر اتنا ضرور سوچتا ہے کہ محبت کو وہ کچھ بھی کر کے چرا ہی لائے__

ساری محبت چرا لینے کا خواب عالیان مارگریٹ نے بھی دیکھا تھا_اور یہ خواب اس پر بہت بھاری گزرا تھا__کیونکہ محبت وہ شجر ممنوع بھی تو ہے جو جھولی پھیلوا کر مست مست ناچ نچواتی ہے اور پھر بھی دہن کھول کر درشہوار کے درشن نہیں کرواتی__

جھولی پھیلائے رقص یار کے رقاص اپنے پیر جلا بییٹھتے ہیں تب بھی نہیں__بس نہیں__

وہ اپنا تن من بھسم بھی کر ڈالتے ہیں تب بھی__"نہیں__"وہ خود کو گھسیٹ رہا ہے__جس برف نے مانچسٹر کو اپنی ہتھیلیوں میں لے رکھا تھا وہ اسے گرتا دیکھنا نہیں چاہتی تھی__لیکن اسے دیکھنا تھا کہ چلتے چلتے کیسے گرا سا جاتا ہے__

برف میں ایک قلندری خاصیت بہت کمال کی ہے__یہ گرتی تو شور نہیں مچاتی__گر کر پگھل کر ختم ہو جاتی ہے تو بھی واویلا نہیں کرتی__برف اپنے سینے پر پڑتے گر گر جاتے ہے اس کے قدموں میں یہ خاصیت منتقل کر دینا چاہتی تھی__

مانچسٹر کی اتنے سالوں دیکھی بھالی سردی میں اب عالیان کا دم گھٹ رہا تھا__اس کی ناک بے حد سرخ ہو چکی تھی__اور آنکھیں بھی سردی سے نہیں صدمے سے__اس کی بھوری بچوں سی چمک لیئے آنکھیں بھر آئی تھی__انسان تھا نا__روحتوں بننا تھا__

محبت کا سنہرا خواب جو دیکھ لیا تھا__خواب کے ٹوٹ جانے پر ٹوٹنا تو بنتا تھا__آسمان کے سارے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر مانچسٹر کی شاہراہوں پر بکھر رہے تھے__کائناتی محبت پر__کائنات کا ٹوٹ پھوٹ جانا تو بنتا ہے__

سڑک پر چلتے وہ ایک بند گلی کے کنارے رک گیا__جس کے اندر ایک بڑا کوڑا دان رکھا تھا__وہ اندھیرے  میں کوڑے دان کے پیچھے جا کر دیوار سے ٹک کر کھڑا ہو گیا__اسے اپنی پہلی محبت یاد آ رہی تھی__

"مارگریٹ جوزف__اس کی ماں جو اس کی بھوری آنکھوں کو اپنی نیلی آنکھوں سے گھنٹوں دیکھا کرتی تھی__اور جیسے خاموشی کی زبان سے کہتی جاتی"مجھے کیا معلوم تھا یہ آنکھیں مجھے ایسے لے ڈوبیں گی__لیکن میں خوش ہوں کہ یہ مجھے لے ڈوبیں__میں شکر گزار ہوں کہ مجھے یہ آنکھیں عطا کی گئیں__میں ان میں اپنی مورت دیکھ سکتی ہوں__میں کیسے شکر گزار نہ ہوں__

اس کی آنکھیں اس کے لبنانی باپ جیسی تھیں__وہ مارگریٹ کے مردہ ہوتے وجود میں جان ڈال دینے والی آنکھیں تھیں__وہ انہیں گھنٹوں کیوں نہ دیکھا کرتی__

"وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک کمرے کے نسبتا گندے سے فلیٹ میں رہتا تھا__،جس کے ایک کونے میں کچن تھا اور دوسرے کونے میں واش روم__بیڈ کمرے کے دروازے کے عین سامنے تھا__ایک کھڑکی تھی جس کے آگے ایک کرسی دھری رہتی تھی__اس کرسی پر کھڑے ہو کر عالیان کھڑکی سے سر ٹکا کر اپنی ماں کی راہ دیکھا کرتا تھا__مارگریٹ کے انتظار میں اس نے اپنی آنکھوں کو بہت تھکایا تھا__

کمرے میں کچن اور واش روم کی بو ہمہ وقت رچی رہتی تھی لیکن یہ فلیٹ اس وقت میک اٹھتا جب مارگریٹ آ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتی__مارگریٹ جو ایک ہسپتال میں صفائی پر مامور تھی اس کے جسم سے کئی طرح کے کیمیکل کی بو آتی__مگر یہ بو عالیان کے لیئے دنیا کی بہترین خوشبوؤں سے بڑھ کر تھی__

مارگریٹ جوزف مسکرانے کی کوشش کیا کرتی تھی لیکن وہ ایک بری اداکارہ تھی__اس نے زندگی کو زندہ دلی،ہمت،جوان مردی سے گزارنے کے کچھ اقوال رٹ رکھے تھے__وہ انہیں ہر روز دہراتی اور مسکرانے کی بھدی اداکاری کرتی اپنے کام پر چلی جاتی__مسکرا کر گھر کا دروازہ بند کرتی__کھولتی__روز کی اداکاری__

زندگی اقوال پر کامیاب ضرور کی جا سکتی ہے خوش طالع

نہیں۔۔۔

ایسی زندگی کو سیاہی سے تو بچایا جا سکتا ہے لیکن ست رنگی نہیں رنگا جاسکتا۔ یہ دھنک جلی تو ہو سکتی ہے دھنک ڈھلی نہیں۔۔۔یہ اس زمزے کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو دل کے کانوں کے پردے پھاڑے ڈالتی ہے۔

ایسی زندگی۔۔۔ زندگی تو نہیں ہوتی۔۔۔ کیونکہ وجود میں دھرا لوتھڑا چت ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ لوتھڑا جو دل ہے۔۔۔اور جس دھوکے باز بزدل کا کوئی علاج نہیں۔۔۔یہ غداری کرتا ہے۔۔۔اور اس غداری پر اسے موت کی سزا ملتی ہے۔۔تو مارگریٹ اقوال پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتی رہی اور لحاف میں منہ دے کر روتی رہی۔۔۔ اس نے زندگی کی ایک فاش غلطی کر ڈالی تھی۔اس نے ایک مسلمان سے۔محبت کرلی تھی۔ایک ایسا ل لبنانی مسلمان جو وہاں کام کے لیے آیا تھا۔پونڈذ کے لیے۔۔۔محبت کے لئیے نہیں۔۔۔وہ اس روایت کا پاسدار تھا کہ سفر کے دوران گاڑی کے نئے اور انوکھے اسٹیشنوں پر رک جانے کو دل پر نہیں لینا چاہیے۔۔۔ سفر میں اسٹیشن تو آتے، ہی رہتے ہیں۔۔۔تو کیا سفر کو روک ہی دیا جائے۔۔۔ 

وہ سمجھدار تھا۔ اس نے سفر کو نہیں روکا۔

ایک انسان کے لئے زندگی تباہ کر لینا کہاں کی روایت ہے۔۔۔اگر ہے بھی تو ہم نہیں مانتے ان روایت کو۔۔۔سب قصے کہانیاں ہیں،۔۔

اسکی چھ سالہ زندگی اپنی ماں کی دبی دبی سسکیاں سنتے گزری۔۔۔وہ سمجھتی تھی وہ سو رہا ہے۔۔۔پر ایسی آہوں کے سائے تلے سو جانا گناہ کے مترادف ہوتا۔۔۔وہ دن بھر کام کام کرتی۔۔۔ رات بھر روتی۔۔ ایسی حالت میں وہ زیادہ دیر تک زندہ کیسے رہتی۔۔  کیونکر زندہ رہتی۔۔ایسے انسان کو تو جلد مر جانا چاہیے۔۔۔ جس کا لوتھڑا دل خون بنانے کے بجائے خون اگلنے لگے، ایسے لوتھڑے کے مالک کو جلد ہی مر جانا چاہیے۔۔ جس پہلی تکلیف دہ یاد کو عالیان مارگریٹ کو اپنے دماغ میں زندہ رکھتا تھا۔ وہ کچھ یوں تھی کہ کمرے کی واحد کھڑکی کے آگے رکھی کرسی پر کھڑا وہ نیچے جھانک کر اپنی ماں کو تلاش رہا تھا۔ مارگریٹ تھکی تھکی اس سڑک پر چلتی اسے نظر آ گئی۔۔۔وہ اندر آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔پھر اسکے پاس آئی اور اپنی اداکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور خود وہ کرسی کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ تم بہادر ہو نا۔۔۔؟؟ مارگریٹ نے ایک اچھی مسکراہٹ سجا کر پوچھا۔جب عالیان تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے کئی سالوں تک خود کو ہڑبڑا کر اٹھتے اور کہتے سنا۔ 

نہیں! میں بہادر نہیں ہوں۔۔۔

دو تنہا لوگ جب ایک دوسرے سے یہ پوچھنے کی جرات کرتے ہیں تو حقیقتاً وہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ۔۔۔ اب تیار ہوجاؤ۔۔۔ تم بہادر ہو یا نہیں۔۔۔ تمہیں بہادری دکھانی پڑے گی۔۔۔ تلخ حقیقتیں، تمہاری رسیلی زندگی میں گھلنے کے لیئے تیار ہیں۔۔۔ کیا تم بھی تیار ہو۔۔۔؟؟ 

اپنی بھوری آنکھوں سے وہ مارگریٹ کو دیکھنے لگا۔

ہاں کی ناناں۔

ماما پاپا کے پاس جا رہی ہیں۔۔۔

مارگریٹ نے اس کے گال پر پیار کیا اور کھڑکی میں جاکر کھڑی ہو گئی۔۔۔ دیکھا۔۔  وہ ایک بری اداکارہ تھی۔زیادہ دیر تک مسکرا نہ سکی۔۔۔ پھر بہت دیر کے بعد وہ وہاں سے ہٹی اور ایک چھوٹے سے بیگ میں اس کے کپڑے رکھنے لگی۔ ایک دوسرے سفری بیگ میں اس نے اپنی ایک جینز اور دو شرٹس رکھیں۔ دونوں بیگ اٹھا کر اور اسکا ہاتھ تھام وہ اسے اپنی دوست کے پاس لے آئی اور اسکے گال چوم کر چلی گئی۔ مارگریٹ چلی گئی__اور کتنے ہی صدیوں بعد وآپس آئی__اتنی صدیوں بعد کہ عالیان نے جان لیا کہ اس کی ماں سوتے،جاگتے،کام کرتے،خاموش بیٹھے،سسکتی کیوں رہتی تھی اور مسکرانے میں وہ اتنی بری اداکارہ کیوں تھی اور یہ بھی کہ اس کی نظریں کن ویرانوں میں بھٹکا کرتی تھی اور اس کے وجود سے آہیں کیسے اور کیونکر نکلا کرتی تھیں__جب وہ آئی تو وہ سوسن آنٹی کے گھر کے پچھوارے میں ایک طرف بیٹھا کھیلتے بچوں کو دیکھ رہا تھا__ان بچوں نے کئی بار اسے کھلانے کی کوشش کی تھی__لیکن وہ اپنی ماں پر ہی گیا تھا__وہ ایک برا کھلاڑی تھا__وہ کھیل کو کھیل نہیں سکتا تھا__بیٹھے بیٹھے جیسے اسے خبر سی ہو گئی کہ اس کی ماں کہیں اس کے قریب ہے__وہ گھر کے اندر آیا__دور سے ہی اس نے مارگریٹ جوزف کی ہچکیوں کو سن لیا__وہ ساری اداکاری کو بالائے تاق رکھ کر رو رہی تھی__

"ہاں!وہ مجھے نظر آ گیا تھا__وہ مجھے مل گیا تھا__تین ہفتے میں اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتی رہی__اس کے دوست نے کہا تھا__مجھے چند ماں بھی رکنا پڑے تو میں وہیں رکوں__وہ وہیں ملے گا__اور وہ مل گیا__اور اس نے__اس نے جیسے مجھے دیکھ کر بھی نہیں دیکھا__ وہ قیمتی کپڑے پہنے سڑک پر چل رہا تھا،مجھے آن دیکھا کر کے وہ تیزی سے وہاں سے غائب ہو گیا__میں اس کے پیچھے بھاگی__لیکن اتنی جلدی نجانے وہ کہاں گم ہوگیا تھا__ سڑک پر ادھر ادھر بھاگتے میں چلا رہی تھی__ار سوسن!پھر بھاگتے بھاگتے میں خود کو گرا لیا__کہ شاید کسی کونے میں خود کو چھپا کر مجھے دیکھتے وہ مجھ پر ترس کھا کر ہی جائے__میں گری ہی رہی اور روتی ہی رہی لیکن وہ نہیں آیا__نہیں آیا وہ__اگلے دن وہ میرے ہوٹل آیا__ دیکھو کتنا آسان تھا،اس کے لیئے مجھے ڈنمارک میں ڈھونڈ لینا__اور میں اتنے سالوں میں اسے دنیا بھر میں نہ ڈھونڈ سکی__میں بہت ناکارہ، بہت بیکار ہوں نا سوسن!جانتی ہو میرے دو گھنٹے رونے کے بعد اور یہ بتانے کے بعد کہ پچھلے چار سالوں میں میں نے کیسے کیسے اس سے رابطہ کرنے کی کوشس کی__کس کس شخص کے پاس اس کا پوچھنے کے لیئے گئ__خدا کے آگے کیسے کیسے گڑگڑاتی اور اسے یاد کر کے کیسے کیسے توتی رہی اس نے کیا کیا__اس نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور کہا__

"یہ تمہاری طلاق کے کاغذ ہیں__میں نے اپنے مذہبی اسکالر سے اس کئ تصدیق کروالی ہے__تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہو گی،لیکن مجھے ہے__تم دستخط کرو__"پھر اس نے ایک لفافہ میرے آگے کیا اور کہا__

"یہ لو پیسے اور واپس جاؤ__میں تمیاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا لعنتی،کافر عورت !"سے بے طرح کے یاد کرنے پر وہ مجھے طلاق دے رہا تھا__

اس کے لیئے خدا کے آگے کیسے کیسے گڑگڑائی__یہ سن کر وہ مجھے لعنتی کہہ رہا تھا__اس نے کہا کہ اس پر آللہ کا غصب نازل ہوا تھا__جو اس نے ایک کافر عورت سے شادی کر لی__وہ ایک تعلق لعنت تھا__میں__سوسن اس نے کہا میں ایک لعنت ہوں__میں__اللہ نے مجھے بھی بنایا ہے اور اسے بھی بنایا ہے__کیا اللہ ناانصاف ہے کہ ایک کو اس جیسا انسان بناتا ہے اور ایک کو مجھ جیسا__اس نے کہا میں ایک کافر عورت ہوں__وہ کافر کسے کہتا تھا__خدا کو ناماننے والے کو__خدا کو چھوڑ دینے والے کو__اور ایک انسان کو چھوڑ دینے والے کو__ایک انسان کو ناماننے والے کو کیا کہتا ہے وہ__میں نے اس سے پوچھا__ اس نے مجھے گالیاں دیں__میرے مرے ہوئے والدین پر الزام لگایا__کہ مین حرام کی پیداوار ہوں__میں سراپا حرام ہوں__میری رگوں میں ناجائز اور گندا خون ہے__میں اور میرے آباؤ اجداد شراب پیتے رہے ہیں اور میرے والدین کو شادی کی کیا ضرورت رہی ہو گی__ میں ایک گندے غلیظ مغربی معاشرے کی پیداوار،کتنے کتنے گل کھلا چکی ہوں گی،وہ گالیاں دیتا رہا اور مجھے بتاتا رہا کہ میں کیا کیا ہوں__وہ مجھے جتا رہا تھا کہ مجھے چھوڑ آنے کی اصل وجوہات کیا تھیں،وہ میرا 

کافرہونا تھا....غیرمذہب ہوناتھا....پھراس نےمیرے خدا کو گالیاں دینی شروع کر دیں....وہ مجھے بتانے لگا کہ دراصل کس کا مذہب سچا ہے...خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کہ میں ڈنمارک کے حکومت کو اپنےاور اس کے تعلق کو لے کر درمیان نہ لاؤں یا برطانیہ کو،وہ مجھ پر ثابت کرنے لگا کہ اپنی بات میں وہ کس قدر سچا ہے....وہ ایک سچے مذہب کو ماننے والا ہے....میں نے اس سےکہا کہ اگر اس کا مذہب اتنا ہی سچا ہے ،اچھا ہے  تو اس کی وہ کس تعلیم کے تحت میرے ساتھ برا کر رہا ہے سو سن مذہب کس کا سچا ہے اسکے لیے تو آپ کو خود کو سچا ہونا پڑتا ہے نا....پہلے تو خود کو مکمل کرنا پڑھتا ہے .....ورنہ مذہب....کون سا مذہب ہے جو یہ سب کرنے کی تعلیم دیتا تھا جو وہ میرے ساتھ کر رہا رتھا۔“سوسن کے ہاتھ پکڑ کر اس سے سوال کرنے لگی۔

”اس نے کہا وہ بھٹک گیا تھا....وہ میرے جال میں آگیا تھا.....میں نے اپنی خوبصورتی کا استعمال کیا.....بھٹک تو میں گئی تھی۔پھنس تو میں گئی تھی اس کی محبت کے جال میں .....میں کتنی خوبصورت ہوں۔اس کا احساس تو اس نے مجھے دلایا تھا....وہ تو کہا کرتا تھا اللہ اپنے شاہکاروں میں مجھے بھی شمار کرتا ہوگا....اور وہ کہا کرتا تھا اللہ کی مہربانی اس نے زمین والوں کے نصیب میں اس شاہکار کی رونمائی کی.....مجھے شاہکار تو اس نے بنایا تھا....پر اس نے مجھے لعنت کیوں بنا ڈالا....سوسن !میں زندہ  رہنا  نہیں چاہتی....کوئی لعنت کے طوق کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ اسے پہلے ”شاہکار “کے رتبے پر فائز کر دیا گیا ہو.....

میرا تو سب چلا گیا نا....اس کا کیا گیا....وہ تو قیمتی لباس میں پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت میرے سامنے کھڑا تھا.....جھکی ہوئی تو میں تھی اس کے آگے....گڑگڑا تو میں رہی تھی....بھلا بتاؤ سوسن ! جو نفع میں رہتے ہے وہ میری طرح گڑگڑاتے ہیں....ایسے خوار ہوتے ہیں....خسارے میں کون رہا سوسن....وہ میرے ہاتھ پیر کاٹ ڈالتا....اس نے میرا دل میری روح کاٹ ڈالی....وہ اتنا ظالم ہو گا کاش ! مجھے معلوم ہوتا.

اس نے میرا دل میری روح کاٹ ڈالی ---- وہ اتنا ظالم ہوگا کاش مجھے معلوم ہوتا----میں اس سے ایسی محبت کرنے لگوں گی کا ش مجھے معلوم ہوتا....

اور کاش کے وہ کھویا ہی رہتا--- میں ساری عمر اسےڈھونڈتی رہتی--- میری آنکھیں اس کے انتظار میں کر مردہ ہو جا تیں لیکن ایسے ذلیل نہ ہوتیں۔۔۔

اس کی زبان سے نکلا زہر میرے کان میں نہ ٹپکا ہوتا 

سو سن میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ ہاتھ کی پشت کو ہونٹوں سے لگانے والا جب ان ہی ہونٹوں سے تھوکتا ہے تو کرب کا کیسا لاوا وجود میں پھیلتا ہے میں تمہیں، کیسے بتاؤں کہ کس دلدل میں دھنسی ہوئی ہوں"

مارگریٹ نے اپنے وجود کو اپنے ہاتھوں میں لپیٹنا چاہا ،وہ ایسے تڑپ رہی تھی جیسے اس پر بوند بوند تیزاب ٹپکایا جا رہا ہو" اس کے پاس نکل بھاگنے کا کوئی راستہ نہ ہو_____

دیوار کی اوٹ میں کھڑے اس بچے نے اس تیزاب کی بو کو اپنے ناک میں گھستے محسوس کیا۔۔۔ "میں اس بھری دنیا میں جا کر کسے بتاؤں کہ اس نے مارگریٹ نامی  شاہکار کی پردہ کشائی کیسے کی----کاش !میں اسے کبھی نہ ڈھونڈتی ---میں نے اَسے ڈھونڈ نکالنے کا گناہ کیوں کیا----میں نے گناہ ہی کیا --اگر اسے یہ سب کہنا تھا تو وہ برطانیہ میں ہی کہہ جاتا ....وہ کاغذ جو وہ اپنے آشکار سے تصدیق کروالایا تھا مجھے یہیں دے کر چلا جاتا لیکن اس کو مجھے خوار کرنا تھا ......اسے میں پہلے لعنت کیوں نہ لگی.....اسے مجھ جیسی کافر عورت کے سر پر منڈلانا خدائی قہر پہلے دکھائی کیوں نہ دیا۔۔۔ ملک بدلتے ہی اسے اتنی عقل آ گئ۔۔۔ ایک امیر بیوہ کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اسے میری اوقات یاد آ گئ

مجھے سب کہا کرتے تھے کہ یہ عربی دس شادیاں کر لیں تو کسی ایک کی طرف بھی نہیں دیکھتے، پر میں نے کسی کا اعتبار نہیں کیا میں نے اس کا اعتبار کیا جس نے مجھے دھتکاردیا۔۔۔ اس نے تو مجھے پاؤنڈز کے لیے، گرین کارڈ کے لئے بھی شادی نہیں کی تھی اس نے مجھے زندہ درگور کرنے کے لئے سب کیا تھا ....برطانیہ میں شادی کرنے والا ڈنمارک میں مجھے طلاق دے رہا تھا۔۔۔  مجھے میری، میرے والدین کی، میرے مذہب کی غلاظت کے بارے میں بتا رہا تھا۔۔۔اس نے ایک بار بھی میری آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو نہ دیکھا۔۔۔ اسے یہ پرواہ بھی نہ تھی کہ میں اس کے قدموں میں گر گر جاتی ھوں۔۔۔ میں کیسے اس کے بغیر کرب میں مبتلا رہی۔۔۔جان کر بھی اس نے ہمدردی سے بھی میری طرف نہ دیکھا میں نے اسے اس کے بیٹے کے بارے بتایا تو اس نے اس بات کو ......اس بات کو ایسے سنا سوسن!

جیسے میں اسے...اسے اپنے کسی بواے فرینڈ کے بچے کے بارے میں بتا رہی ہوں۔۔۔ اپنے بیٹے کے بارے میں سن کر اس کی آنکھوں سے ایسی نفرت ٹپکنے لگی جیسے گناہ آلود ہاتھوں سے اس کے پاکیزہ وجود کو آلودہ کر دیا ہو۔۔۔

میرا بیٹا گناہ تھا اس کے لیے سوسن!

میرا بیٹا گناہ تھا اس کے لئے سو سن!صرف میں ہی نہیں "....

وہ ایک طلاق کا دکھ لے کر  نہیں  پلٹی تھی .اسے اس طلاق کے ساتھ کئ اور تازیانے مارے گے تھے ۔۔۔ اسے غلاظت کا ڈھیر ثابت کر کے ،اسی ڈھیر میں دفن کر کے بھیجا گیا تھا۔ اس سے منسلک ہر چیز پر "تھو" کیا گیا تھا محبت کا زمین بھوس ہوا۔۔۔ تپسیا تمام ہوئی۔۔۔۔ محبت کی پھٹکار زدہ کنیا کماری عین جوبن کرلائی اور محبت کے شراب کی مستحق پائی

وہ خاموشی سے اپنی ماں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ مارگریٹ نے آنسو پونچھ لیے۔۔۔ کتنی بدصورت ھو گئی تھی وہ اتنے سے دنوں میں۔۔۔۔ اس کے کپڑے گندے اور بدبو دار تھے۔۔۔اس کے وجود سے ایسی بساند اٹھتی تھی جیسے کچا گوشت دھیمی آنچ پر جل رہا ہو ۔۔۔ مارگریٹ کے پیٹ کے ساتھ لگے اس کا دم گھٹنے لگا۔۔۔

امرجل کی دھارا زہر آب تھی۔۔۔

زہرزہاب (ہمہ وقت جاری رہنے والا زہریلا چشمہ)نے اپنا دہن اس کے وجود میں کھول دیا تھا ____

اس میں سے بساند کیوں نہ آتی۔۔۔

اور پھر اس دن کے بعد سے اس اسے کہنا چھوڑدیا تھا۔۔

کرسمس کی ان چھٹیوں میں ہم ہلز جائیں گے۔

سچ....؟

ہاں،بس تمہارے پاپا آجائیں. "

"وہ کب آئیں گے."

شاید ابھی ۔۔۔۔آج رات۔۔۔ورنہ کل صبح۔۔۔ میں نے انہیں خط لکھے ھیں فون بھی کیے ھیں."

"وہ گندے ھیں.۔۔۔وہ نہیں آتے ۔۔۔۔"

وہ اچھے ھیں ۔۔۔ وہ آ جائیں گے."

وہ اتنا اچھا تھا کہ ایک بار بھی نہیں آیا تھا۔ اس نے اپنی اولاد کو بھی دیکھنے کی چاہ نہ کی۔ 

اس کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس کے بیٹے کی آنکھیں اس جیسی ہیں۔

کچھ کچھ اس جیسے نقوش۔۔۔گھنی بھنویں،گھنی پلکیں۔۔۔سفید رنگت میں مبہم گندمی رنگت کی جھلک۔۔۔

مغرب میں عرب گھلتا ہوا ۔۔۔

مغرب سے مغرب نکلتا ہوا۔۔۔

اور وہ ایسا تھا ۔۔۔۔ جس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کے باپ نے خود کو دنیا میں چھپا لیا تھا۔

اور مارگریٹ آخر تک یہ جان نہ سکی کہ جو گم ہوجاتے ھیں ،ڈھونڈا انہیں جاتا ھے.....جو خود کو چھپا لیں....انہیں ڈھونڈ نکالنا تذلیل ہے....تذلیل....بلکہ گناہ عظیم ...ایسے گناھوں سے خود کو بچانا چاہیے. 

تو ایسے چھپ چکے مرد کی واپسی کی قصے، کہانیاں اب بس ہوئی تھیں ...دروازے پر ٹکی نگاہیں گناہ نا تمام ہوئیں. ...

اب وہ مارگریٹ نامی عورت صبح اٹھتی اپنی آنکھوں کی سرخی کو میک اپ کی تہ میں چھپاتی ۔۔۔پھر بھی بد ہئیت ہی لگتی۔۔وہ گھونٹ کافی ہچکیوں کی مانند حلق سے اتھارتی.۔۔۔جلتے کچے گوشت کی بو کی تہوں میں مدفون اداکارانہ مسکراہٹ کو نکالتی اور اسے اسکول کے لیے  تیار کر کے اس کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پر ایسے چلتی جیسے اپنا ہی تابوت اٹھاۓ اپنی قبر کی طرف جا رہی ہو۔۔۔

اپنی ماں کے زیر سایہ وہ بھی ایسے ہی چلا کرتا جیسے اپنی ہی قبر میں کی قبر کشائی کے لیے جا رہا ہو۔۔۔ خود کو تابوت میں لٹانے۔۔۔ خاموشی سے ۔۔۔ طے شدگی سے۔۔ وہ انسان اپنے ہی پیروں پر چل کر اپنی اپنی قبر کی طرف کیسے جایا کرتے ہیں۔

مارگریٹ اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر جانا جا سکتا تھا۔

پھر اسے اسکول سے گھر لاتی اسے ایک سینڈوچ بنا کر دیتی ،گھر کو لاک کر کے جاتی اور رات کو آتی۔۔۔ 

اس وقت تک وہ کھڑکی میں کھڑا انتظار کرتا رہتا۔۔۔

سینڈوچ ویسے کا ویسا ہی رکھا ہوتا۔۔۔

کھانا بھوک لگنے پر کھایا جاتا ہے اور اس کی بھوک مارگریٹ کو دیکھتے ہی مر جاتی وہ دعا کرنا نہیں جانتا تھا اس لیے سوچا کرتا کہ کاش اس کی ماں سے ایسی گندی بدبو نہ آیا کرے ___

کاش۔۔۔۔!!!

وہ اس بو سے چھٹکارا پالے۔۔۔کیسے بھی کر کے۔۔۔

اس کے باپ کی واپسی کے قصے جو وہ اس سنایا کرتی تھی،اب تمام ہوئے لیکن پرانی تصویروں کو دیکھنا اس نے بند نہیں کیا تھا۔

وہ ایک تصویر کو جس میں وہ جھیل کے پانی میں پیر ڈبوئے بیٹھا تھا اور گردن موڑے مسکرا رہا تھا اور جگمگ کرتی آنکھوں کو لیے عرب کا شہزادہ لگ رہا تھا اس کے چہرے کے ساتھ لگا کر دیکھا کرتی اور دیر تک دیکھا کرتی۔

ہاں،تم میرے جیسے ہو."وہ خوش ہو تی اور گہرے سایوں میں گھر جاتی وہ کس کس بات پر خوش ہو سکتی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے وہ یہی سب کر کے کہا کرتی۔

"دیکھو تو ۔۔۔

تم تو بلکل اپنے پاپا جیسے ہو۔"پھر وہ اپنی نم آنکھیں صاف کر لیتی۔                         "تمہارے پاپا تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے ،تم ان جیسے ہو،میں خوش ہوں اس پر۔"           "ہاں ،تم میرے جیسے ہو۔" کا عمل وہ ہر رات کیا کرتی جیسے اسے ہر دن یہ ڈر ہو کہ کہیں وہ اس تصویر جیسا تو نہیں ہو رہا۔۔۔ اس شخص جیسا ہی۔۔۔

اسے اپنی زندگی کا آخری مرد اپنی زندگی کے پہلے مرد جیسا نہیں چاہیے تھا اب۔۔۔

"تم مجھے چھوڑ تو نہیں جاو گے نا۔"

وہ اس سے پوچھتی نہیں تھی بس بڑبڑاتی تھی۔ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ چھوڑ جانا کسے کہتے ہیں.............          جن دنوں اس کی طبیعت ذیادہ خراب رہنے لگی تھی ان دنوں رات رات بھر بڑبڑاتی رہتی،اس کی بڑبڑاہٹ عجیب ہوتی جیسے ہچکیاں لیتی ہو ....مدفن ہچکیاں...یا خود کو ایسی عدالت میں کھڑا کیے ہوے ہو جہاں ملزم بھی وہی ہو اور مجرم بھی،جرم بھی اس کا ہو اور سزا بھی اسے ہی سنائی جانے والی ہو ......       "اگر میرے بس میں ہو تو میں تمہاری دائیں آنکھ کی کمان کے کنارے پر بنے اس تل کو اپنی مٹھی میں لے لوں.....اور اسے کہیں چھپا دوں.....ہاں چلو اپنے دل میں.....تاکہ جب تم ہنسو تو کوئی اور اس تل کے رقص پر فدا نہ ہو پاے ....میں کسی اور کو تم پر فدا ہوتے کیسے دیکھ سکتی ہوں....میں مر جاؤں گی ولید.""کل میں فرش صاف کرتے پھسل گئ۔۔۔۔ میری ناک سے خون بہنے لگا۔۔۔ میں رونے لگی،تم ہوتے تو اپنی آستین سے میرا خون صاف کرتے اور مجھے بانہوں میں بھر کر کہتے"مارگریٹ ڈی سپروومن۔۔۔ سپروومن بھی دوستی ہے کبھی ۔۔۔ اور تمہاری نیلی آنکھوں میں ایک ہی چیز بجلی نہیں لگتی "آنسو"تم وہ کام کیوں کرتی ہو مارگریٹ جو مجھے اچھے نہیں لگتےتم "آہ"کیوں کرتی ہر ۔۔ اگر تمہیں کسی وجہ سے رونا ہوا کرے تو تم خود کو کہیں چھپا لیا کرو ....پھر اپنی روتی صورت کو میک اپ سے چمکا لیا کرو۔۔۔ مجھے معلوم نہیں ہونا چاہئیے کہ تم روتی رہی ہو."

"میں روتی رہی ہوں." مارگریٹ صبح تک یہی فقرہ بڑبڑاتی رہتی۔۔۔ اس نے تھوک کر چاٹ دی گئ محبت کی پوشاک میں خود سے پیوندکاری کر لی تھی۔۔ وہ ایک ایسی جذامی بڑھیا بن گئ جس کے زخم ہی اس کی دوا تھے۔۔۔ اسے کسی ولید کے پاس جانے کی حاجت نہ تھی۔۔۔ 

کوئی ایسی محبت کو طوق ذدہ ،زنجیرپا کرے جو گدج بنی بوٹی بوٹی ناچتی ہے..... ایسے مردان خور کو کوئ رحم والا مردار کرے...کوئ رحم کرے.......

جب جب وہ بڑبڑانے لگتی اور اس کے کانوں میں مزید سکت نہ رہتی سننے کی ،وہ اپنے کانپتے ہاتھ سے ہو لے سے مارگریٹ کے جسم کو چھوتا اور وہ جھرجھری لے کر بڑبڑانا بند کردیتی۔۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے وجود میں سمیٹ لیتی۔۔۔ نہیں اپنے بیٹے کو نہیں۔۔۔ عرب کے غم ہو چکے شہزادے کو ۔۔۔ جس محبت کو مار کر بھی نہیں وہ مار پا رہی تھی۔۔۔اور جو خود کو زندگی کے کنارے پر گھسیٹ لائی تھی اور موت کی طرف کسی شکوے کے بغیر ہاتھ بڑھا رہی تھی۔۔۔

اور کیوں کہتا ہے کہ موت سپاہ شب خون ہے ....موت نے قطعاً مارگریٹ کر زندگی پر شب خون مارنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔یہ کام تو خود مارگریٹ کر رہی تھی وہ خود سے شتا بانتھی کر چکی تھی۔۔۔  ذرا سی تپش ملتے ہی وہ جل کر بھرم کیسے نہ ہو جاتی.۔۔ ایسی حالت میں اس کون بچا سکتا تھا...کوئی معجزہ ہی .....اور وہ کوئی نبی یا پیغمبر تو نہ تھی وہ تو صنم گزیدہ تھی اور معجزے ایسے لوگوں پر اتنے مہربان نہیں ہوتے۔ 

ایک رات وہ بڑبڑاتے ہی مر گئ۔ جس رات اس نے اپنی زندگی کے آخری مرد کا ہاتھ مضبوطی سے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا ۔ وہ اس کے ہاتھ کو بار بار اپنے ہونٹوں،اپنے گالوں، اپنی آنکھوں سے لگاتی.

اس کی زندگی کے اس آخری مرد کی آنکھوں سے آنسو ماتمی جلوس کی طرح آہ و بکا کرتے رواں تھے۔ انسان بڑا حساس واقع ہوا ہے۔ موت کی آہٹ پر اس کر کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔ نو  مہینے زندگی نمو پاتی ہے تو ایسا واویلا مچاتی آتی ہے.. موت تو سالوں ..... سالوں اور سالوں سے ہی نمو پاتی ہے،اپنی آمد پر اہتمام کا واویلا نہیں مچاتی ہو گی۔۔۔وہ رو رہا تھا۔۔۔ واویلے پہ اسکے کان کھڑے ہوگئے تھے۔

اپنی طرف سے مار گریٹ اپنے ماں باپ،اپنے گھر، اپنے بچپنے،اپنے سکول کی باتیں کر رہی تھی۔ اسے سنا رہی تھی لیکن دراصل وہ اسے ہر دوسری بات کے بعد اس پہلے شخص کے قصے سنانے لگ جاتی تھی جو اسکی پائنتی موجود نہ تھا سرہانے۔۔۔ جو اسکے آخری وقت میں آنے والا تھا نہ ہی جنازے میں۔۔۔ مارگریٹ کو کوئی خواہش نہ تھی اس شخص کو خدا کے حضور موردِالزام ٹھہرانے کی۔۔۔ وہ وہاں بھی یہی کرنے والی تھی۔۔۔ وہ اللہ سے اسے مانگنے والی تھی۔۔۔

وہ رحمدل خاتون تھی،وہ جو اسکے لیے اللہ سے رحم مانگنے والی تھی۔

قہوہ پینے کے بعد وہ ہمیشہ کپ کو اوندھا کردیا کرتا تھا۔۔۔یہ اسکی عادت تھی۔۔۔مجھے اسکی یہ عادت بہت پسند تھی ۔۔۔

ہاں واقعی مارگریٹ کو اسکی یہ عادت پسند تھی۔

اسکی کافی کا مگ خالی ہوتے ہی اوندھا ہوجاتا۔ بڑے ہوتے ہوئے اس نے کئی اوندھے کپ پاؤں کی ٹھوکر سے توڑ ڈالے۔ اوندھے کپ دیکھ کر وہ پاگل سا ہوجاتا۔ اسکا بس نہ چلتا کیسے وہ اس دنیا کو اس بھٹی میں جلا ڈالے ، جو اسکی ماں کے اندر بھڑکتی رہی تھی۔

"تمہاری آنکھ کی کمان کے کنارے بھی تل ہو۔ تمہارے دنیا میں آتے ہی میں نے سب سے پہلے اس تل کو ڈھونڈا۔۔۔۔ میں نے نو مہینے اس ایک تل کے لیے دعائیں کی تھیں۔ اور آخری بات جو کرکے وہ خاموش ہو گئ،وہ بس اتنی سی تھی۔

بس اب تم میرے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے لگا لو۔

اس نے اس ہاتھ کو ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔اور لگائے رکھا۔ لیکن وہ اسکا بیٹا تھا، اسکا محبوب نہیں۔

صرف چھبیس سال کی جوان بوڑھی ہوچکی۔ نیلی آنکھوں اور کبھی کی گلابی رنگت والی مارگریٹ کو اس نے تابوت میں آنکھیں موندے سوتے دیکھا۔۔۔ اور تابوت کے کنارے وہ دیوانوں کی طرح رویا۔۔۔

 عالیان مارگریٹ۔۔۔ اس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے کس سے سب سے زیادہ نفرت کرنی ہے۔۔۔اپنے باپ سے۔۔

آنٹی سوسن نے اسے اوور کڈز سنیٹر میں داخل کروادیا تھا، جو ایک پرائیوٹ ادارہ تھا اور بے سہارا بچوں کی دیکھ بھال میں ایوارڈ یافتہ تھا۔ کچھ عرصے بعد اسے بتایا گیا کہ ایک خاتون نے اسے گود لے لیا ہے اور وہ ان کے گھر ان سے ملنے جا سکتا ہے۔ اسے ایک رات اس خاتون کے گھر چھوڑ دیا گیا۔

••••••••••••••••••••••••••••••••••••

وہ خاتون ماما مہر تھیں۔ انھوں نے اسے دیکھتے ہی اسکی دونوں ہتھیلیوں کو ہونٹوں سے لگالیا اور  

اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔_____

مارگریٹ انہوں نے ہولے سے سرگوشی کی۔

وہ انکی گود میں رات بھر بیٹھا رہا اور وہیں سوگیا۔۔۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔

وہ اب تک کی زندگی میں دوسری محبت کر رہا تھا۔۔۔ اور پھر سے ایک عورت سے۔۔۔ ایک سے پیدائشی ہوئی تھی۔۔۔ دوسری سے معجزاتی۔۔۔ کسی سے آسمانی صحیفے کیطرح جس کے اترتے ہی بس آنکھوں سے لگا لیا جاتا تھا۔ سینے میں اتار جاتا ہے۔۔۔ مقدس محبت۔۔۔ جسکی پرستش کرنے پر دل مائل رہتا ہے۔ ماما مہر سے جدائی اسے شاق گزرتی۔۔۔ وہ انکے ساتھ رہنا چاہتا تھا اور انکے لیے رویا کرتا تھا۔۔۔ وہ ایک نئی عورت سے مل رہا تھا جس کی آنکھیں گہرے پانیوں میں ڈوبی نہیں رہتی تھیں۔۔۔ جن میں آس تھی نہ انتظار۔۔۔ اور یہ خاتون بڑبڑایا بھی نہیں کرتی تھیں۔۔۔ رویا کرتی تھیں نہ ہی اسکی ٹھوڑی کو اٹھا کر اسکی آنکھوں کو گھنٹوں تکا کرتی تھیں۔۔۔ اور انکے سینے سے لگے اسے انسانی گوشت کے جلنے کی بو بھی نہیں آیا کرتی تھی۔۔۔ کیسی خاتون تھیں وہ، وہ بالکل مارگریٹ جیسی نہیں تھیں۔۔۔ جس رات وہ ان کے سینے سے لگ کر سوتا، ساری رات جاگ کر انتظار کرتا کہ وہ کوئی سسکی بھریں گی۔۔۔ کسی کو پکاریں گی۔۔۔ لیکن ایسا کبھی نہ ہوتا۔۔۔

ہاں وہ بہت محبت سے اپنے شوہر۔۔۔ اپنے والدین کا ذکر کیا کرتیں۔۔۔ یا اسے کہانیاں سنایا کرتیں جن میں پریاں ہوتیں۔۔۔ انکے کھیل تماشے، شرارتیں ہوتیں۔۔۔ لیکن کوئی اختتام نہ ہوتا۔۔۔ نہ دکھ نہ آہ۔۔۔ نہ رونا، نہ رُلانا۔۔۔

وہ قصہ گو نہیں تھیں۔۔۔ کیونکہ وہ "محبت گو" تھیں۔ 

وہ کہانی نہ بُن سکتیں کیونکہ وہ انسان "بننے" میں مصروف رہتیں۔

وہ کیمیا گر تھیں۔۔۔ انہیں تو تانبے کو سونا بنانا تھا۔۔۔ "سونا۔۔۔"

وہ اس سے کہانی سننے کی فرمائش ن

کرتیں۔۔۔بہت دیر بعد وہ کہانی کی پہلی اور آخری سطر بیان کر پاتا۔۔۔

"ایک۔۔ ایک پری تھی۔۔۔"

پھر وہ خاموش ہوجاتا۔۔۔ دونوں خاموش ہوجاتے۔۔۔ کہانی کئی سالوں تک ایسے ہی اختتام پذیر ہوتی رہی۔۔۔ ماما مہر نے ہمت نہیں ہاری۔۔ انہیں معلوم تھا۔۔۔ انہیں انتظار تھا۔۔۔ کہانی آگے ضرور بڑھے گی۔۔۔ اور وہ محبت ہی کیا جو اختتام پر صابر ہوجائے۔۔۔کہانی ایک دن آگے بڑھ گئی۔۔۔ کئی سال لگے لیکن ایساہوگیا۔

ایک پری تھی۔۔ وہ جنگل میں پھول لینے نکلی اور دو دوموں والے ایک بندر کو دیکھ کر ڈرگئی اور جلدی سے ایک درخت کے پیچھے چھپ گئی۔۔ درخت نے اس سے کہا وہ پانی میں چھلانگ لگا دے۔۔۔ورنہ بندر اس کے سارے بال کھا جائے گا۔۔۔  بندر اسکے بال نہ کھا جائے، اس ڈر سے اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔۔۔ لیکن یہ کیا ماما۔۔۔ مچھلیوں۔ے اسکے سنہری بال کھا لئے۔۔۔ وہ باہر نکلی تو۔۔۔ سب درخت۔۔۔سارے پھول۔۔۔سارے بندر۔۔۔ سارے ہی بندر۔۔۔ ہاہاہا کرنے لگے۔۔۔ ایسے منہ کھول کر ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہاہی کرتے رہے۔۔۔"

ماما مہر کی طرح کہانی کہیں سے بھی شروع ہو، اسے ہاہاہا پر ہی ختم ہونا چاہیے ہر صورت۔۔۔ بیٹے عالیان نے یہ گر آخر کار سیکھ ہی لیا تھا۔۔۔ اس رات ماں بیٹا نشست گاہ میں دیر تک لوٹ پوٹ لوتے رہے۔۔۔ تو عالیان میں زندگی آخر کار نمو پانے لگی تھی۔۔۔اور یہ محبت کا ہی کمال ہے۔۔۔ وہ مرد ے کو زندہ کر ڈالتی ہے۔۔۔ زوال کو کمال۔۔ کمال کو باکمال۔۔۔

ماما مہر میں اس کی جان آچکی تھی اور اسکے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ان سے دور، ان کے بغیر رہنا۔۔۔ان ہی دنوں اس نے جانا کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں تکلیف ضرور ہوتی ہے۔۔۔ جو ہمیں چاہئے ہوتا ہے، وہی ہم سے دور ضرور ہوتا ہے۔۔۔ #جسے_مٹھی_میں_کر_لینے_کو_دل_چاہے_اسکے_لئے _دل_مٹھی_میں_ضرور_آجاتا_ہے۔۔۔

••••••••••••

پندرہ سال کا ہو جانے کے بعد اسے وہ چیزیں دی گئیں جو اس کی ماں کی تھیں۔۔۔ جسے آنٹی سوسن نے سینٹر کے حوالے کیا تھا۔۔۔ اس نے وہ تصویر جسے وہ اس کے گال کے ساتھ لگا کر گھنٹوں دیکھا کرتی تھیں'سب سے پہلے پھاڑکر پھینک دی۔۔۔۔وہ خط جو غلط پتوں کی وجہ سے واپس آ چکے تھے 'انہیں بھی پھاڑ ڈالتا' اگر وہ مارگریٹ کے ہاتھوں نہ لکھے گے ہوتے۔۔۔ کچھ وہ خطوط بھی تھے' جو مارگریٹ کی موت کے بعد واپس آئے تھے'یعنی اپنی موت سے پہلے بھی وہ اسے خط لکھتی رہی تھی۔۔۔ اس نے کبھی ان خطوط کو پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ سوائے ایک بار کے۔

"آج سے چار سال پہلے جب تم اپنے گھر والوں سے ملنے کا کہہ کر مانچسٹر سے جا رہے تھے تو مجھے لگتا تھا میں تمہیں مانچسٹر میں آخری بار دیکھ رہی ہوں۔۔۔ یہ ایسا وہم ھے کہ کچن میں کام کرتے میں اپنا ہاتھ جلا بیٹھی۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس میں تمہاری دی رنگ بھول بیٹھی۔۔۔ اس رنگ کو ڈاکٹر کے کوڑا دان میں بہت مشکل سے تلاش کر پائی۔۔۔ کوڑےدان میں اگلے دن اس رنگ کے ملنے نے مجھے پاگل سا کر دیا تھا۔۔۔"

وہ فون کبھی نہ آیا۔۔۔خط واپس آتے رہے۔۔۔ جس کی آنکھ کی کمان کے کنارے تل تھا' اسے ڈھونڈنے مارگریٹ گاہے بگاہے نکلتی رہی یہاں تک کہ زندگی کی آخری سانس لینے لیگی۔۔۔ اور موت نے اسے اپنی سانسیں عطا کر دیں' اپنے سارے وہموں کے ساتھ وہ پوشیدہ ہو گئ۔۔۔ 

وہ اس شخص کا جائز بیٹا تھا یا نا جائز. اسے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔اسکول میں اس کے نام کے آگے ولیدالبشر لگتا تھا جو بڑا ہونے پر اس نے بدل لیا۔۔۔ وہ ولیدالبشر کو نہیں جانتا تھا۔۔۔ اگر دنیا میں کوئی ولیدالبشر تھا تو وہ اس کا باپ نہیں تھا۔۔۔  ایک بھیڑیا تھا جس نے اس کی ماں کو چیڑ پھاڑ ڈالا اور اسے لعنت قرار دیا۔۔۔ اس عورت کو اس نے لعنت قرار دیا 'جس نے اس کے بعد دوستی کے نام پر بھی کسی مرد سے بات نہ کی۔۔۔۔ اگر وہ ایک لعنت ہی ہوتی تو پھول دار کپڑے پہنے' 'خود کو سجائے بنائے اب تک زندہ ہوتی۔۔۔ وہ ان تک بڑی شان سے زندہ ہوتی۔۔۔ اس کے خلاف اس کے منہ سے نکلنے والے خون کے چھینٹوں سے سرخ نہ ہوۓ ہوتے۔۔۔ اس کی راتیں سسک کر نہ گزرتیں۔۔۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے اقوال یاد نہ کرنے پڑتے ۔۔۔ اور ہر روز اسے خود کو بہادر بنا کر زندگی کے سامنے نہ کھڑا کرنا پڑتا ۔۔۔

وہ اسے لمبے لمبے خط نہ لکھتی۔۔۔۔ پاگل ہوئی اسے ڈھونڈتی نہ پھرتی۔۔۔ 

بے وفا اور لعنتی عورتیں اتنے و بال پالتی ہیں بھلا۔۔۔ اور کیا ایسی عورتیں اتنی جلدی مر جاتی ہیں۔۔۔اور کیا اتنی آسانی سے وہ موت کو جوش آمدید کہتی ہیں۔ 

ولیدالبشر کا "خیال آتے ہی وہ اپنے دل ودماغ کو خاموش کروا دیتا۔۔۔ شروع شروع میں مشکل تھا۔۔ لیکن اس نے کر لیا۔۔۔ مانا مہر ٹھیک کہتی تھی اسے و بال پلانے کی ضروت نہیں تھی۔۔۔اسکی زندگی میں مارگریٹ اور مہر موجود تھیں۔۔۔ اور اسے ان ہی کے سہارے زندگی مکمل کرنی تھی۔

وہ خاسر وقت تھا۔ برفیلی ٹھنڈ میں مانچسٹر کی ایک بند گلی کے کنارے وہ خود کو دنیا سے چھپا کر کھڑا تھا۔                   "مارگریٹ اس کی ماں کا نام ہوگا تو باپ کا کیا ہو گا۔۔۔۔ معمولی وجہ نہیں ہے یہ۔۔۔ نہیں ہے معمولی۔۔۔ اس کے باپ کا'خاندان کا کوئی اتاپتا نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ کون ہے وہ خود بھی نہیں جانتا ہو گا۔۔۔۔ یورپ کے آزاد معاشرے کی دین۔۔۔۔ غیر مذہبی۔۔۔ غیر اخلاقی اقدام کی پروان۔۔۔ میرے خاندان کے لیے طمانچے جیسے باتیں ہوگی یہ سب۔۔۔"

عالیان نے جھرجھری لی۔۔۔ اسے بہت ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔۔جس دیوار کے سہارے وہ کھڑا تھا وہ گیلی تھی اور اس میں سے بو آتی تھی۔۔۔ نہیں وہ غلط تھا۔۔۔ وہ بو تو اسکے اندر سے آرہی تھی۔۔۔انسانی گوشت کے جلنے کی۔۔۔

ہاں! اب اسے ٹھیک ٹھیک معلوم ہو گیا تھا کہ اس کی نیی دھنسی ہوئی آنکھوں والی ماں نے کیا محسوس کیا تھا۔ جب اس شخص نے جس سے وہ دیوانوں کی طرح محبت کرتی تھی اسے لعنت قرار دیا تھا۔۔۔"

اچھا تو کیا اس کا سانس بھی ایسے حلق میں اٹکا ہوگا کہ سینے پہ ہتھوڑے مارنے کو جی چاہتا ہوگا۔۔۔؟؟؟

زمین دھسان (دلدل) ہے۔۔۔

آکاش اندھیار کا سیواک ہے۔۔۔

دھڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔  لاکھوں، کروڑوں تاریکی،غبار سے اٹے پٹ وا ہوئے۔۔۔

زندگی اندھیار کی چاکر ہوئی۔

اور لو روشنیاں گل ہوئیں۔۔۔ اب بس گل ہوئیں۔۔ اس شخص کے دلکو تسلی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ اس نے مارگریٹ کے بیٹے سے بدلہ لیا تھا۔۔۔ اسے بھی چیر پھاڑ ڈالا تھا۔۔۔ اسی کی ذات کو لے کر اس پر سوال اٹھے تھے۔۔۔ اس شخص کی شناخت سے اسکی شناخت ہوئی تھی۔۔۔ جس شخص کے نام اپنے نام کے ساتھ لگانے پر اسے تسلیم کیا جائے گا۔۔ اگر ایسا ہی تھا تو اسے دکھ نہیں چاہئے۔ تھا۔۔۔ اسے کوئی پہچان۔۔۔ کوئی محبت نہیں چاہئے۔۔۔ اسے اب امرحہ واجد نہیں چاہئیے۔ اسکی ماں پر غیر اخلاقی اقدام کی انگلی اٹھانے والی۔۔۔ 

امرحہ واجد۔۔۔

درد کی لہر اسکے اندر اٹھی تھی۔۔۔ آخر اس نے اس لڑکی کو کیوں پسند کیا۔

اسکی بدقسمتی اسے اسٹوڈنٹ پارٹی میں لے گئی۔۔۔ اسکا کوئی ادارہ نہیں تھا۔۔۔ اس فضول سے مذاق میں شریک کرنے کا جو فریشرز کے ساتھ کیے جاتے تھے۔ خاص کر امرحہ کے ساتھ کیے جانے والے مذاق میں تو اسے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ جب جب وہ لڑکی اسے ملی تھی، اسکا مزاج ہی بگاڑا تھا اسنے۔۔۔

وہ ایک طرف اندھیرے میں کاک ٹیل لیے بیٹھ گیا اور سارا تماشا دیکھنے لگا۔۔۔ اور جب ول رو رو کر اردو میں چلانے لگی تو اسے برا لگا۔۔۔۔ اور جب گھٹنوں میں سر دے کر باقاعدہ رونے لگی تو۔۔۔تو۔

مارگریٹ کچن میں اسکے لیے کچھ پکانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور کھڑکی سے اندر۔۔۔ کچن کی طرف سے آتی آوازیں سن رہا تھا۔۔۔ جب ان آوازوں کو سنتے سنتے وہ خود رونے جیسا ہوگیا تو کچن کی طرف آیا۔۔۔

ماما! اسنے روتی ہوئی مارگریٹ کو بلانے کی جرات کی۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ چھری پھینک کر اسکی طرف پلٹی۔۔۔ اسکی انگلی سے خون نکل رہا تھا۔

میرا ہاتھ کٹ گیا ہے۔۔۔ مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔

اگر وہ براڈوے میں کام کرتی تو سارے براڈوے کو لے ڈوبی۔۔۔

اتنے سے بچے کو الو بنانے میں وہ ناکام تھی، انگلی کاٹ کر رونے کی وجہ بتا رہی تھی۔

اسنے انگلی سے خون بہنے دیا۔۔۔ اور روتی رہی۔۔۔ مجھے بہت درد ہورہاہے۔۔۔ بہت درد۔۔۔ اور وہ خاموش کھڑا رہا۔۔۔انگلی کو نہیں ان آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جن سے خون ابل رہا تھا اور وہ خون فرش پر نہیں، اسکے دل پر گر رہا تھا۔۔۔

امرحہ واجد سسک رہی تھی۔ اور جب اسنے سیاہ مشرقی آنکھوں میں جھانکا تو اسے معلوم ہوا کہ مارگریٹ کی طرح لحاف میں منہ دے کر وہ بھی بہت روتی رہی ہیں،۔۔۔ان پر بھی کرب کے بہت سے پہاڑ ٹوٹے ہیں۔۔ وہ ان آنکھوں میں جکڑا گیا۔۔۔

مارگریٹ کو پھر سے کسی نے رولادیا۔۔۔

اب وہ یہ نہیں ہونے دےگا۔۔۔ وہ رات اس نے جاگ کر گزاری۔۔۔ مشرقی افق پر دو نین دھرے تھے وہ ان میں ڈوب ڈوب جاتا۔۔۔

بھاری آنکھوں میں جو دیپ بجھے پڑے تھے'وہ جل اٹھنے تھے۔۔۔ 

وہ تان سین کی شاگرد رہی ہوگی۔۔۔ اس نے اسکے اندز چراغاں کر دیا تھا۔۔۔ 

وہ حیات کا دہانہ  تھی۔۔۔ وہ اسے زندہ کر رہی تھی۔۔۔ وہ مشرقی ساحرہ تھی۔۔۔ بس میں کر لینا وہ سیکھ چکی تھی.

اور وہ بنفشین تھی'وہ اس کے زخم مندمل کرنے آئی تھی۔۔۔۔ اسے لڑکیوں میں اتنی دلچسپی تھی جس سے کارل کو چڑ ہوسکے'وہ کارل کی ہر گرل فرینڈ لے اڑتا۔ کارل کے ساتھ یہ سب چلتا رہتا تھا۔ پھر اس نے ایک ایسی لڑکی میں دلچسپی کیوں لی'جس نے اتنی حقارت سے وہی الفاظ اسکے منہ پر دے مارے تھے جو کبھی ڈنمارک میں اسکی ماں کے منہ پر مارے گے تھے.وہ خود اپنے باپ کے لیے بھی اتنا ہی حقیر تھا۔۔۔ جتنا اب امرحہ واجد کے لیے۔۔۔ 

اس نے استہزائیہ ہنس کر سوچا۔۔ "ایک ہی نسل کے دو انسانوں کا ایک سا نصیب۔۔۔ دونوں کو محبت ہوئی۔۔۔ دونوں کو بدلے میں دھتکار ملی۔۔۔ دونوں کو لعنت قرار دے دیا گیا."

دو انسانوں کے نصیب میں اتنی مماثلت۔۔۔ وہ واقعی بہت بدنصیب تھا۔ اس کا ٹوٹ کر رونا بنتا تھا۔

امرحہ واجد کو اسکی ماں سے ذیادہ اس کے باپ کی فکر تھی'جس کی غلیظ تصویر کو اس نے پھاڑکر پھینک دیا تھا۔۔۔ وہ انگلی اٹھا رہی تھی کہ وہ کون تھا۔۔۔ وہ عالیان مارگریٹ تھا۔۔۔ اور اسے کیا ہونا چاہئیے تھا۔۔۔ اگر عالیان نام اسے اس کی ماں نے نہ دیا ہوتا تو وہ یہ بھی بدل لیتا۔ 

اسٹوڈنٹ پارٹی کے بعد اس نے خود کو اسے دیکھتے پایا۔۔۔ وہ اس کے اپارٹمنٹ تک جاتا۔۔۔ وہ اپنے لمبے دوپٹے کو سنبھالتی یونیورسٹی کے درودیوار کو ایسے دیکھتی جیسے کسی نئے جہاں میں آچکی ہو۔۔۔ وہ اپنے آپ میں مسکراتی رہتی۔۔۔ خاص کر تب جب اس کے قریب سے کوئی عجیب و غریب لباس یا ہیئر اسٹائل والا اسٹوڈنٹ گزرتا۔۔۔ اسٹوڈنٹ پارٹی کے بعد اس نے دیکھا کہ ہنسی کو دباۓ 'زبردستی کا منہ پھلاے وہ اس کی معذرت سن رہی ہے۔۔ جیسے ان کو اس نے "سو" کر دینا تھا لیکن یہ اس کی انسان دوستی کی مثال ہے کہ وہ ایسا نہیں کر رہی' ڈیرک جیسے ہاتھ باندھے سزا کے انتظار میں کھڑا تھااور وہ اعصاب تانے کسی خونخوار بادشاہ کی اکلوتی بیٹی بین ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو۔ 

"بس۔۔۔ اب تمہیں بھوکے شیروں کے آگے ضرور ڈالا جاے گا۔۔۔"

وہ اکثر آکسفورڈ روڈ پر اس کے پیچھے جاتا۔۔۔ اسکا دوپٹہ اس کے لیے ایک مسئلہ تھا۔  اسے اتنے بڑے بڑے دوپٹے لینے کا شوق بھی تھا اور سنبھالنا بھی نہیں آتا تھا۔۔۔ شاید وہ سارے مانچسٹر کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ صرف وہ اکیلی ہے"مشرق کی پہچان"جی ہاں ۔۔۔ وہ اکیلی۔۔۔

ایک دن جب وہ آکسفورڈ روڈ پر اس کے پیچھے پیچھے آیا تو اسکا دوپٹہ اسکے پیچھے والے کے پاؤں میں الجھ گیا۔ پیچھے والا معذرت کر کے آگے بڑھ گیا۔۔۔ اور وہ دوپٹے  کے کنارے اور اس کنارے کو پیر تلے دبانے والے کو گھورتی رہی۔۔۔ کچھ دور جا کر اتفاقاً وہ بےچارہ الجھ کر گر گیا۔۔۔ اور وہ جو پیچھے کھڑی اسے گھور رہی تھی'منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔ "اب آیا مزا۔ اگلی بار دھیان سے چلنا۔ 

یو ایڈیٹ۔۔۔"

اور اسی دوپٹے کو لے کر اگلا منظر کچھ یوں تھا کہ ایک ہندوستانی لڑکے نے زمیں بوس ہوتے اسکے دوپٹے کو پیچھے سے اٹھا کر اسے دیا اور ساتھ کوئی استہزائیہ یا طنزیہ جملہ کہا اور ہنسنے لگا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے اس کی ہنسی تھم گئ۔۔۔ امرحہ واجد ہاتھ لہرا لہرا کر اسے کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔

"ہندوستان'پاکستان کی تاریخی ناچاقی کا ایک چھوٹا سا منظر۔۔۔"

بات شاہد دوپٹے سے ہوتی "اسلام اور دہلی تک جا پہنچی تھی

اور اسے اگلا منظر کچھ ایسے تھا کہ یونی کے باغ میں لگے ایک-----پودے کے ساتھ اسکا دوپٹا اٹک گیا اور وہ ذرا آگے چلی گئ'دوپٹے کے کھنچاؤ سے اسے پیچھے پلٹنا پڑا اور ایسا کرتے وہ اپنے پیچھے آنے والی لڑکی ےسےٹکرا گئ---- ٹکر سے اس بیچاری کی عینک گرتے ہی ٹوٹ گئ جو اسنے کچھ دیر کے لیے سر پر ٹکائی ہو گی - ظاہر ہے وہ بیچاری صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئ ' اگر امرحہ واجد ہوتی تو دھاڑیں مار مار کر روتی------ اسٹوڈنٹس کی خآلی جیبوں پر ایسے نقصانات کسی ہاءڑوجن بم کی طرح پھٹتے ہیں اور وہ تو پھر اسکے نظر کا چشما  تھا کتابوں سے ذیادہ اہم و ضروری------ عالیان کو اسے بات کرنے  سے زیادہ اسکے پیچھے پیچھے رہنا دلچسپ اور حیرت انگیز لگتا تھا- ایک دن اسے اسکی کلاس فیلو نے اسے پروفیسر ڈرل کے آفس بھیج دیا۔۔۔ پروفیسر ڈرل what ہی ایسے پوچھا کرتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کیا۔۔۔ یعنی کیا--ہاں کیا۔۔۔ اب بولتے نہیں ہو۔۔۔ کیا۔۔۔پروفیسر ڈرل صرف کیا کو کیا کو سن کر سامنے والا جتنے بھی ضروری کام سے آیا ہوتا'یہی سوچتا کہ"آخر کیا ضرورت تھی اتنے معمولی سے کام کے لیےپروفیسر کو تنگ کرنے کی۔ وہ دونوں ہاتھوں کو میز پر رکھتے اور مریخ تک جانے کی سنجیدگی لیے ایسے دیکھتے جیسے کہتے ہوں۔۔۔  تمہاری یہ جراُت تم یہاں تک آئے لاؤ دکھاؤ'کیا مسلہ ہے۔۔۔ آئے ہیں بڑےپڑھنے----- نیوٹن بننے--- باتوں سے فرصت نہیں  اور آجاتے ہیں--'" اور وہ پھر اس پیش ہونے والے نیوٹن سے وہ وہ سوال کرتے کہ اس  بیچاے'بیچاری کو رھندے گلے  کے ساتھ معزرت کے ساتھ اٹھنا پڑتا- ""نالائق"" اپنی پشت پر سرگوشی بھی سننا پڑتی-رھندے گلے کے ساتھ اور نالائق کا لقب لے کر جب وہ پروفیسر ڈرل کے آفس سے باہر آئی تو اسے بھیجنے والے اس کے کلاس فیلوز کوریڈور میں ہی لوٹ پوٹ ہونے لگے----انہنوں نے نجانے کون کون سے جھوٹ سچ گھڑ کر اسے بھیجا ہو گا اور یہ بات اسے آفس سے باہر آنے پر معلوم ہو گئ تھی----وہ خاموش کھڑی انکے قہقہے سنتی رہی---پھر خود بھی ہنسنے لگی- اس بار اسنے ہاتھ میں پکری فائل انہیں دے مارنے کی غلطی نہیں کی تھی-وہ مانسچٹر کے رنگ میں رنگ رہی تھی----پہلے کی نسبت وہ خوش نظر آرہی تھی-عالیان کو لگنے لگا تھا کہ وہ کسی ونڈر لینڈ میں آگیا ہو۔۔۔ یعنی صرف ایک لڑکی کے آجانے سے سارا مانسچٹر ونڈر لینڈ میں بدل چکا تھا--وہ اب تک اپنی ماں کو یاد کر کے سوتا رہا تھا اور کئ کروٹیں بدلنے کے بعد اسے نیند آتی تھی---اب وہ اسے سوچتا--- مسکراتا----اور سو بھی جاتا--- اور کبھی کھبی سوتے سے اٹھ کر لحاف کو جھٹک کر اٹھ کر بیٹھ جاتا--- اور قہقہے لگاتا---- اچھا تو وہ یہی پری تھی---- جس کی کہانی کہیں سے بھی شروع ہو اختتام ہاہاہاہا پر ہی ہوتا ہے-وہ آپ نے فلم  دیکھی ہے---وہی چوہے والی----؟

ناں کونسی----؟

جس میں چوہا کھانا پکاتا ہے""اچھا سوسویٹ--- وقت ملتے ہی ضرور دیکھوں گی-"ہاں وہ کتنا کیوٹ لگتا ہے ناں وہ کھانا پکاتے---لو اٹ

Rotatouileفیلوز سے پوچھنے لگا۔ 

what

 کیا---- یعنی کہ کیا------ ہیں---- کیا؟ اب ایسے  کوئی بھی اسکی طرح آخ نہ کرتا----ناک نہ چڑھاتا----ہاں ٹھیک تھا---ٹھیک تھا کہ وہ مشرق سے آیا بھید تھا-جسے وہ کھول رہا تھا۔۔۔ انکا ایک انگریز دوست کسی انوکھی بات پر اکثر سر ہلا کر بوڑھے جرنیلوں کی طرح تاسف سے کہا کرتا۔۔۔

"تم نے مشرقی گھاٹ کا پانی پی لیا ہے۔ تمہاری سمجھ اب سمکھ سے بالاتر ہو گئ ہے۔۔۔" 

امرحہ سے ملنے کے بعد اب اسے لاہور جانا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا سب وہاں اس جیسے ہیں۔۔۔ کیا سب لڑکیاں ایسے ہی دوپٹوں میں الجھتی ہیں۔۔۔ بری بات پر باک چڑھا کر "آخ" کرتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنکھیں نم کر لیتی ہیں۔۔۔

جب وہ فارغ ہوتا وہ لاہور نامہ پڑھتا رہتا۔ یعنی اپنے فارغ اوقات کار میں وہ لاہور میں رہتا۔۔۔ وہ اتنا لاہور میں رہنے لگا کہ صبح آنکھ کھلتے ہی اسے خود کو یاد کروانا پڑتا کہ وہ 

St... Anselm Hall

میں ہے کینٹ یا مال میں نہیں۔۔۔وہ روز پاکستانی اخبار بھی ضرور پڑھتا کہ لاہور میں کیا کیا ہورہا ہے،۔۔۔ لاہور میں کچھ بدل تو نہیں گیا۔۔۔ اس نے لوڈشیڈنگ کے بارے میں اتنا پڑھا کہ اس نے امرحہ سے پوچھ ہی لیا۔۔۔

"کیا واقعی پاکستان بجلی کو لیکر اتنے بڑے کرائسسز سے گزر رہا ہے۔۔۔۔"

"اسکا رنگ فق سا ہوگیا۔۔۔" نہیں۔۔۔ پر تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔؟؟؟ 

نہیں۔۔۔! 😳 وہ اسکے نہیں پر دنگ تھا۔ ہر روز وہ بجلی کو لیکر خبریں پڑھتا تھا۔۔۔

"ایسے ہی۔۔۔ وہ میرا ہاسٹل فیلو بتاریا تھا۔۔" اس نے بہانا بنایا۔

کیا بتا رہا تھا۔۔۔ کیا کوئی پاکستانی ہے یا ہندوستانی۔۔۔" 

اس نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔

عالیان کے لیئے یہ حیران کن منظر تھا۔۔۔یہی کہ وہاں بجلی کا مسئلہ۔۔۔"

وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے بجلی کا۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔ جیسے یہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔ کیوں ہوگا وہاں کوئی مسئلہ۔۔۔؟؟؟" اسے یقیناً اس ہوسٹل فیلو پر غصہ آ رہا تھا۔ عالیان دنگ اسکی شکل دیکھ رہا تھا۔ اپنے ملک کی عزت کو لیکر وہ اتنی حساس تھی کہ ایک غیر ملکی کے سامنے کسی بھی اندرونی مسئلے کو لیکر بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی' یعنی یہ انکے گھر کا معاملہ تھاَ' غیر ملکی دور رہے اس سے۔۔۔"

میں نے خبریں سنی ہیں بی بی سی پر۔۔۔احتجاج دیکھے ہیں۔۔۔

کبھی کبھار بجلی کا چھوٹا مسئلہ ہوجاتا ہے تو بس تھوڑے سے لوگ احتجاج کرلیتے ہیں۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔ امرحہ ایک باکمال پاکستانی تھی، سات سالوں کی خون کے آنسو رلانےوالی لوڈ شیڈنگ کو وہ چھوٹا بڑا کبھی کبھار کا مسئلہ کہہ رہی تھی۔۔۔

کبھی کبھار کے مسئلہ پر لوگ ایسے احتجاج کرتے ہیں۔۔۔ انہوں نے حکومتی افس کو آگ لگا دی تھی۔۔۔

تم نے کوئی غلط خبر دیکھ لی ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ آگ کیوں لگائے گا بھلا کوئی۔۔۔ بہت پیارا ملک ہے ہمارا۔۔۔ ہمیں وہاں کوئی مسئلہ،کوئی مشکل نہیں ہے۔۔۔ ہاں یقیناً بہت پیارا ملک ہوگا۔۔۔ جس ملک کی رہنے والی اسکی کسی خامی کو زیربحث نہیں لارہی، جسکے خلاف وہ ایک بات۔نہیں سننا چاہتی،وہ ملک کتنا پیارا ہوگا۔۔۔ وہ امرحہ سے زیادہ پیارا ہوگا نا۔۔۔

عالیان کو اسکی یہ حساسیت اتنی اچھی لگی کہ اس نے پاکستان کو لے کر وہ خبریں ہی پڑھنی بند کردیں جن میں کسی مسئلے کی نشاندہی ہوتی۔۔۔ لاہور میں سب ٹھیک ہے۔۔۔ جیسے مانچسٹر میں سب ٹھیک ہے۔

تو امرحہ کا لاہور اسکا ہوگیا تھا۔۔۔ جیسے عالیان کا مانچسٹر امرحہ کا ہوچکا تھا۔ ایسے ہی فاصلے کم ہو جاتے ہیں۔۔۔

محبت ہی میں ہم اپنی ساری قیمتی چیزیں ہتھیلی پر رکھ کر پیش کر دیتے ہیں کہ لو یہ آج سے تمہاری ہوئیں۔

کارل سے امرحہ کو چھپائے رکھنا کسی مہم کو سر کرنے کے برابر تھا۔ بظاہر کارل ایسے ظاہر کیا کرتا جیسے وہ بالکل انجان ہے اور اسکے پاس تو اتنا وقت ہے ہی نہیں کہ عالیان کی نگرانی میں ضائع کرتا پھرے۔۔۔ لیکن حقیقت میں وہ ان لوگوں میں سے تھا جو چوبیس گھنٹے کو چوبیس دن بنا لیتے ہیں۔۔۔

ایک رات جب دونوں سڑک پر شرط لگا کر دوڑ رہے تھے اور کارل جیت چکا تھا تو اس نے پھولے سانس کے ساتھ کہا .

"تم آج کل مسلسل مجھ سے ہار رہے ہو."

"ایک دوڑمیں ہرا کر تم مجھے لوگر نہیں کہہ سکتے."

وہ ہنسا"ایک دوڑ میں....کم آن عالیان. ..اس ہفتے میں یہ تیسری بار ہے."

"میری صحت کچھ خراب ہو گئ ہے...میں فٹ نہیں ہوں."

وہ اور ہنسا"تم ہار رہے ہو....مطلب تم کہیں اور جیت رہے ہو...مجھ سے ہار کو تم اہمیت نہیں دیتے...میرے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے..میں نے تم سے کہا کہ مارٹن کو اسٹور روم میں لاک کرنا ہے تو تم نے کہا کہ وہ بےچارہ ڈر جائے گا.. اس سے پہلے تو تمہیں کبھی کسی کے ڈرنے کی پروا نہیں ہوئی تھی.

"اگر وہ انتظامیہ سے ہماری شکایت کر دیتا.....؟"

کارل منہ کھولے اسے دیکھتا رہا."اس سے پہلے ہم ڈیوڈ کے ساتھ یہ کر چکے ہیں اور اسے تو ہم نے کوڑےدان میں کیا تھا ....اور بےچارہ بے ہوش ہو گیا تھا ...تم اب بدل رہے ہو. ..میں تمہیں اکیلا بدلنے نہیں دوں گا."گھو نسا دکھا کر کہا.

"میں اب بڑا ہو رہا ہوں."

"نہیں ...بڑے ہونے کی نشانیاں نہیں ہیں یہ.....مجھے تشویش ہے....بلکہ خوف ہے کہ میں اپنا بہترین دشمن کھو دوں گا.یونو!ستر کارل کہتے ہیں کہ دوست ہو نہ ہو دشمن ضرور ہو اور تم جانتے ہو 'پوری یونیورسٹی میں میری ٹکر ک صرف تم ہو."کارل نے انگلی اٹھا کر کہا

"تم انتظار کر لو فریشرز میں بہت سے بھینسے تمہاری ٹکر کے آ چکے ہوں گے...جتنی چاہے ٹکڑیوں انہیں مار لینا ......"

"میرا خیال ہے وہ بل آ چکا ہے."سر کارل نے پر سوچ سر ہلایا.

عالیان زیرلب ہنسا...."امرحہ....بل....ہاہاہاہا..."

امرحہ کے نام پر ہی وہ ایسے مسکرا دیاکرتاتھا...وہ اس کے ساتھ پر کیسے کیسے نہیں مسکرایا کرے گا... .ہر بار ایک نئ مسکراہٹ. ..اک نئ ادا.. 

پرانی امرحہ کی جگہ ایک نئ امرحہ ....نئ امرحہ کی جگہ پھر سے پرانی امرحہ....

••••••••••••••••••••

رات کے آخری پہر وہ اپنے کمرے میں آیا.کمرے میں کارل موجود تھا'اسے کمرے میں آنے کے لیے .کسی کے بھی کمرے میں جانے کے لیے چابی کی ضرورت نہیں پڑا کرتی تھی.جس حساب سے وہ جاسوسی 'ایکشن فلمیں دیکھتا اور ناول پڑھتا تھا 'اب تک جیمز بانڈ نہیں بن سکا تو یہ اس کی کسر نفیس تھی.

"میرے کمرے سے جاو کارل!"اس نے اپنا بورچا کوٹ اتار کر پھینکا.

"تم کہاں تھے؟"

"تم اپنے کمرے میں جاو....."

"تمہیں کیا ہوا ہے؟"

"تمہارا شکریہ میں ادا کر چکا ہوں ....اب تم جاو"

"شکریہ....یہ لفظ پہلے کب ہم دونوں نے استعمال کیا ہے'ذرا بتاؤ...وہ لڑکی تمہیں پسند نہیں کرتی...بات ختم."

"ہاں بات ختم....ان جاو"

"نہیں. ..تم ٹھیک سے بات ختم کرو."کارل نے اس کی شرٹس گریبان پکڑ لیا.

"میں بات ختم کر چکا ہوں کارل......تم سے بھی اور اس سے بھی."اس نے اپنا گریبان آذاد کروایا.

"اس سے کرنا بنتا ہے ... اس نے تمہاری بےعزتی کی ...لیکن تم؟"

"میں سب ختم کر رہا ہوں."وہ چلایا

"کتنی لڑکیوں کے ساتھ تم نے میرے بریک اپ کروائے. ..میں نے کبھی ایسے ری ایکٹ نہیں کیا....چند ایک کے ساتھ میں سنجیدہ تھا ....تم بہت برے

کھلاڑی بنتے جا رہے ہو."

"ہاں بہت برا کھلاڑی ہوں....بدترین انسان ہوں میں...."سنے کارل کو ہلکا سا دھکا دے کر خود سے دور کیا."تم جاو اب..."

"تم یہ سب نہیں کر سکتے....ایسے خود کو نہیں بدل سکتے.."کارل چلایا."ہم دونوں نے بہت وقت ساتھ  گزارا ہے ....میرا حق ہے تم پر."

عالیان نے اپنے منہ کو اس سے چھپانے کی کوشش کی.

"جاو کارل.....خدا کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دو..."

کئ لحظے اسے دیکھتا رہا پھر چلا گیا •••••••••••••••••

عالیان St-Anselm Hallکے کمرے کی کھڑکی سے برف پر گرتے اندھیرے کو دیکھنے لگا.

ایک گھر جو اسے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا.....ایک گھر ....ایک خاندان....کارل اور وہ چپکے چپکے اس کے خواب دیکھتے رہے تھے.ایک دوسرے کو وہ یہی جتاتے کہ انہیں بزنس ٹائیکون بننا ہے...اور ایک دوسرے سے چھپا کر ہوم ڈیکور کے رسالے دیکھتے رہتے....کارل جو اتنی لڑکیاں بدل چکا تھا 'صرف اس لیے کہ وہ جان چکا تھا کہ وہ گھر نہیں بنا سکتیں اور جب ان لڑکیوں سے اس کا چھٹکارہ حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا تو جیسے وہ خود عالیان کو دعوت دیتا کہ خدا کے لیے میرا بریک اپ کرا دو.

ایک گھر ....ایک خاندان...مل کر ایک ہو جانا....اس کی اہمیت وہی سمجھ سکتا ہے جو ان سے محروم رہا ہو'عالیان نے تو پھر بھی چند سال اپنی ماں کے ساتھ  گزارے تھے'کارل نے تو ہوش ہی کڈز سینٹر میں سنبھالا تھا.اسکے والدین ترین کے حادثے میں مر چکے تھے.سوتیلے نانا اور نانی نے اسے اس کڈز سینٹر کے حوالے کیاتھا.

ایک بار اس نے امرحہ سے پوچھا تھا.

"تمہارے وہاں گھر کیسے بنتے ہیں."

"مطلب تعمیرات"

"نہیں...مطلب کے کیا خواہش رکھی جاتی ہے کہ گھر کو لے کر کہ وہ کیسا ہو؟"

"اچھا یہ.. اگر کوئی الہ دین کا چراغ پوچھ رہا ہے کہ گھر کیسا ہو تو سعودی طلال کے محل جیسا یا پام سٹی میں میڈونا کے گھر جیسا...."

وہ ہنسا.."الہ دین نہیں ایک عام انسان پوچھ رہا ہے ....مجھ جیسا عام..."

"اچھا!"اسکا منہ لٹک گیا.الہ دین کا خواب چکنا چور ہو گیا.اب اسے شہزادے طلال جیسا محل کون بنا کر دے گا ....عالیان زیرلب ہنسا.

"اگر میں بزنس ٹائیکون بن گیا تو اسے ایک محل بنا دوں گا ...اور میں نے اپنے پیشے کا کرنا کیا ہے لیکن اگر میں اس کے لیے الہ دین نا بن سکا تو.......؟

"ایک بڑا سا باغ جس میں کئ سو پھول کھلے ہوں.... اس باغ میں گھر کی بڑی بڑی کھڑکیاں کھلتی ہوں....پیچھے بھی کئ سو پھولوں والا ایک باغ ہو ایک چھوٹی سی آبشار کے ساتھ اور اس میں بڑی بڑی کھڑکیاں کھلتی ہوں گھر کی...یہ ماسٹر بیڈروم ہو اور لائبریری. ..گھر کی چھت بہت اونچی ہونی چاھیے....یعنی اتنی کہ چھ فٹ لمبا فانوس لگا ہو تو سر اٹھا کر دیکھنے پر وہ دور ......بہت دور لگے."

"یہ ایک عام آدمی کا گھر ہی ہے نا امرحہ!"اسے ٹو کنا پڑا

وہ رک کر سوچنے لگی اور خاموش ہو گئ...یعنی خفا ہو گئ...مطلب ایک سیدھا سا جواب اس سے حاصل کرنا مشکل تھا.کہیں وہ اتنی ذہین تھی کہ فورا جواب گھڑ لیتی تھی.

"نہیں کوئ ایشو نہیں ہے گیس کا....کس نے کہا .

موبائل چھین لیے جاتے ہیں جھوٹ....یہ مغربی اخبارات نا.... یہاں تو تم لوگ انگلی اٹھاتے ڈرتے ہو نا کہ پولیس کو نہ بلوا لے.ہم لوگ وہاں سیدھا سیدھا تھپڑ مار دیتے ہیں ...تھپڑ اور کوئی پولیس نہیں آتی."

اور کچھ معاملات میں وہ ایسی تھی جیسے اونگے بونگے  لوگ ہوا کرتے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر بونگے ہیں اور ہاں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ انکا یہ بونگا پن کسی کو بہت اچھا لگتا ہے اتنا کہ اپنے چھ، سات ہوسٹل میٹس کے ساتھ گپیں ہانکتے، سڑک پر چہل قدمی کرتے۔۔۔ اپنے بیڈ کی چادروں کو یانانی طرز پر جسم پر باندھے ایک کندھا عریاں رکھے۔۔۔ یونانی ہی تیز میوزک پر کوریڈور میں ٹھمکے لگاتے اور اپنے دیگر بندر لنگور کے کرتب کرتے کوئی اسے ہی سوچتے، اسی کے لیے زیرلب ہنستا ہے۔۔۔

عالیان۔۔۔ ہاں عالیان۔۔۔ کہاں گیا وہ بیچارہ۔۔۔ ساتھ کے کمروں میں جب کوئی پاجامہ پارٹی، Do or die یا اسٹوڈنٹس کا opera چل رہا ہوتا۔۔۔ 

کارل اسے گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کرتا۔۔۔

  تم میاؤں میاؤں بلی بنتے جارہے ہو۔۔۔ چلو شیر بنو اور ذرا دھاڑ کر دکھاؤ۔۔۔ وہی فارغ اوقات میں کی جانے والی انکی کبھی ایکشن، کبھی مسٹری، کبھی ہارر اور کبھی مزاحیہ موویز جیسی حرکتیں اور شرارتیں، لیکن اب اس سب میں اسکا خاص دل نہیں لگتا تھا۔۔۔ وہ کر تو لیتا تھا لیکن بس خود کو پرانا والا عالیان ثابت کرنے کے لیے۔۔۔ اسے ڈر لگتا تھا کہ کوئی اسکے دل کا بھید نہ پا جائے۔۔۔

بھید جو بھوری آنکھوں نے کالی آنکھوں سے کشید کیا تھا۔۔۔

بھید جو محبت میں ملفوف دل پر کھلتا ہے۔۔۔ صرف محبت میں ملفوف دل پر۔۔۔

اسے یہ چونکا دینے والی لڑکی اتنی لگی کہ اسکی کوئی بات اسے بری نہیں لگتی۔ اسکی کسی بات پر اسے غصہ نہیں آتا تھا۔۔۔ اسکی کسی بات پر وہ بھڑکتا نہیں تھا۔۔۔ وہ اسکے لئے وہ پری تھی جو دو دموں والے بندر سے خوفزدہ ہوجاتی ہے۔۔۔ سارا مانچسٹر ہی اس کے لیے دو دموں والا بندر تھا۔۔ وہ حیران ہو ہوکر ڈر ڈر جاتی۔۔۔ اسکا خیال تھا دنیا میں سب سے اہم محبت ہوتی ہے۔۔۔ امرحہ نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اور کیا کیا کچھ اہم ہوتا ہے۔۔۔

عالیان کھڑکی میں کھڑا تھا اور آج پہلی بار امرحہ کے بارے میں سوچتے ل

وہ زیرلب مسکرا نہیں رہا تھا۔۔۔اسے رات گزرنے کا غم نہیں تھا۔۔۔ کہ اگر رات گزر گئی تو وہ کس وقت امرحہ کو سوچے گا۔۔۔

باہر فروری برف کی صورت برس رہا تھا۔۔۔۔

فروری جسے جدید دنیا نے سرخ۔۔۔ سرخ۔۔۔سرخ رنگ ڈالا ہے  یہ فروری آج اس سرخ۔۔۔ پر سفیدے کی صورت گرے اسکا گلا دبا رہا تھا۔

•••••••••••••••••••••• پیر کو یونیورسٹی آئی تو جو پہلا شخص اسکے پاس آیا، وہ کارل تھا۔۔ چمڑے کی جیکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے، بنا ٹوپی اور مفلر کے وہ بہت غصے سے اسے گھور رہا تھا۔

تم یونیورسٹی سے خود جاؤگی یا میں تمہیں نکلواؤں۔۔۔؟؟؟

یہ بات کہتے ہوئے وہ انتہا کا سنجیدہ تھا۔ وہ جواب دیے بغیر آگے بڑھی ہی تھی کہ اسکے کراس بیگ کے اسٹریپ میں اسنے پین کو اڑس کر اسے بری طرح پیچھے کھینچا۔

کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔۔؟؟؟

وہ ابھی بھی خاموشی سے اسے گھور رہا تھا۔

میں تمہاری شکایت کردونگی۔۔۔ دودن میں یونیورسٹی سے باہر ہونگے۔۔۔

تمہیں دو سیکنڈ بھی نہیں لگیں گے دنیا سے باہر ہونے میں۔۔۔ اگر عالیان واپس نہ آیا تو۔۔۔

امرحہ نے چونک کر کارل کو غور سے دیکھا۔ کیا مطلب۔۔؟؟؟

میں نے کہا اگر عالیان واپس نہ آیا تو۔۔۔ سختی سے اسے دھمکا رہا تھا۔

عالیان کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟

تم بتاؤ عالیان کہاں ہے۔۔۔؟؟ الٹا اس نے پوچھا، اس انداز میں پوچھا کہ امرحہ ڈر گئی۔

تم خود کو سمجھتی کیا ہو۔۔۔ عالیان کے مقابلے میں تم ہو کیا۔۔۔تم جیسی لڑکی جوایک ڈگری لینا پہاڑ سر کرنے کے برابر سمجھتی ہے، وہ آخر خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔۔ کس دنیا سے آئی ہو تم، جانتی ہو نا۔۔۔ یا میں تمہیں یاد دلاؤں کہ تمہاری حقیقت کیا ہے۔۔۔

تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔۔۔؟ امرحہ بری طرح سے ڈر گئی۔

کہتا نہیں بتانا۔۔۔ عالیان کا کوئی خاندان نہیں ہے، وہ ایک ناجائز بچہ ہے اور وہ تمہاری اچھا مسلمان نہیں ہے۔۔۔۔ ایک تم ہی ہو اچھی والی مسلم نن۔۔۔ اس کی ماں ایک بری عورت تھی اور باپ،۔۔۔ ہونہہ۔۔۔

امرحہ یکدم سانس لینا بھول گئی۔۔۔ یونیورسٹی کی محراب موم بتی کی لو کی طرح تھر تھرانے لگی۔۔۔

یہ سب تمہیں کس نے بتایا۔۔۔؟ امرحہ کی جان مٹھی میں آگئی۔

بتایا۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ میں نے خود سنا ہے۔۔۔ انفیکٹ آدھی یونیورسٹی نے سنا ہے۔  وہ سب جو تمہاری سوچ ہے۔۔۔ جو  حقیقت میں تم ہو۔۔۔ ویسے تم لوگ بہت پڑھے لکھے بنتے ہو 

۔۔ اور اندر سے وہی گھسی پٹی گھٹیا سوچ رکھتے ہو، جاہل لوگ۔۔۔ہونہہ۔۔۔

مجھے بتاؤ کارل تم کس سننے کی بات کر رہے ہو۔۔۔؟؟؟ تھرتھراتی محراب گرنے کو تھی۔ وہ گر جائے گی۔ نظر آرہا تھا۔۔۔وہ گر جائے گی۔

جو تم نے عالیان کے لیے ویرا سے کہا۔۔۔ وہ سب ریکارڈنگ ہے میرے پاس سنو گی۔۔۔

محراب دھڑم سے زمین بوس ہوئی۔۔۔ افسوس۔۔۔ اس محراب کے عین نیچے ہی امرحہ کھڑی تھی۔۔۔ امرحہ کو پر شور جھکڑ نے آلیا۔۔۔اسکی نظر دھندلا گئی۔۔۔ اسے کارل ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ اسے تو دنیا میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔بس اتنی سی دیر لگتی ہے اندھا ہونے میں۔۔۔اتنی سی دیر میں روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔

وہ سب کیا؟ وہ بمشکل پوچھ سکی۔

جو جو ویرا سے تم نے کہا تھا وی سب۔۔۔ امرحہ۔۔۔ دی مینڈکی۔۔۔ اب عالیان کو ڈھونڈ کر تم لاؤگی۔۔۔ورنہ اپنا سامان باندھ کر رکھنا،۔۔۔ٹرسٹ می ملکہ الزبتھ بھی تمہیں برطانیہ میں نہیں رکھ سکے گی۔۔۔

پین سے اسکے کراس بیگ کے اسٹریپ کو پوری شدت سے کھینچ کر چلا گیا۔۔۔ وہ اسے نہیں سن رہی تھی۔۔۔ وہ اسے کیسے سن سکتی تھی۔۔۔وہ تو۔۔۔

پھر سے ایک تیز سیٹی کی آواز۔۔۔ چھک چھک۔۔۔ جیسے زنگ آلود وزنی انجن کی ریل سزائے موت کے قیدی کا پیچھا کرتی اپنے اندر جلاد بٹھائے بھاگی چلی جاتی ہو۔۔۔ کتنی جلدی ہے، جلاد کو قیدی کا سر تن سے جدا کرنے کی۔۔۔وہ اس حالت میں آ گئی، جس میں کسی خونخوار درندے کے لیے لگائے گئے ہڈی توڑ لوہے کے وزنی شکنجے میں انسانی پیر آ جاتا ہے۔

اف۔۔۔ موت بھی اور تکلیف بھی۔۔۔آہ۔۔ وہ ایاک ابابیل تھی۔۔۔ اس پر "آہ" فرض نہ تھی، وہ بزنس اسکول کی طرف بھاگی۔۔۔عالیان کو ڈھونڈنا چاہا۔۔۔ وہ نہیں ملا۔۔۔ اسکے چند دوستوں سے پوچھا۔۔۔ انہیں معلوم نہیں تھا۔۔۔اسکا فون بند تھا۔

وہ تو کہا کرتا تھا، وہ خود کو مار ڈالے گا ، کلاس نہیں چھوڑے گا۔۔۔ مرجائے گا پر۔۔  تو کیا اس نے خود کو مار ڈالا تھا۔۔؟

تو کیا وہ مر چکا تھا۔۔۔ کیا واقعی۔۔۔ عالیان مارگریٹ مرچکا تھا۔۔  چند دن پہلے بچوں کےگالوں پر چٹکی بھر نے والا،۔۔۔ اس سے بھی پہلے اسکے لیے کراسنگ پر قلابازیاں لگانے والا۔۔۔اور۔۔۔ بھوری آنکھوں والا لارڈمئیر۔۔ مر چکا تھا۔۔  اتنی جلدی۔۔۔

لرزے کی ایک پردرد کیفیت امرحہ کے وجود میں جاگی اور اسے گرنے سے بچنے کے لیے قریبی دیوار کا سہارا لینا پڑا۔۔۔اسکے چار اطراف کی ہوا نے اپنا رخ اس سے پھیر لیا، اس خودغرضی پر اسکا دم گھٹنے لگا۔

کراس بیگ بہت وزنی ہوچکا تھا۔ اسکا وزن امرحہ سے اٹھایا نہیں جارہا تھا۔ وزنی تو اسکا اپنا وجود بھی ہو چکا تھا۔۔۔ امرحہ کے لیے اسے قائم رکھنا محال ہو رہا تھا کہ عزت بھی رہ جائے اور چوٹ بھی نہ لگے۔

اسے یاد ہی نہ رہا اسے اپنی کلاس لینی ہے۔۔۔

اگر کوئی اسے اس وقت پکارتا تو اسے یہ بھی یاد نہ آتا کہ امرحہ نامی لڑکی خود وہی ہے۔۔۔

ایسے چلتی جسے چلنا تو ہرگز نہیں کہتے، وہ باغ کے ایک کونے میں بیٹھ گئی، چپ۔۔۔ خانوش۔

دنیا میں اتنا سناٹا کیوں ہے۔۔۔؟؟؟

نہیں! یہ شور۔۔۔ اتنا شور۔۔۔ یہ کہاں سے پھوٹا پڑتا ہے۔۔۔؟ کان پھٹ رہے ہیں۔۔۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا۔۔۔کان بہرے ہو چکے ہیں۔ 

اب وہ گود میں ہاتھ رکھے بیٹھی ہے،جیسے دائرے کی صورت اسکے گرد الاؤ بھڑکانے کی تیاریاں کی جاتی ہوں اور وہ اس پر راضی ہو۔

ہونی ہوچکی ہے مطلب۔۔۔ اسکی سب تدبیریں حساب کتاب الٹا ہی ہوا۔۔۔ وہ نالائق کی نالائق ہی رہی۔

اسٹوڈنٹس آ جا رہے ہیں۔۔۔ برفیلی ہوا چل رہی ہے۔۔۔دھند ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ایسا کرتے بہت خوفناک لگ رہی ہے۔

آکسفرڈ روڈ ایسے رواں دواں ہے جیسے ابھی ابھی وہاں سے شور مچاتی چیختی چنگھاڑتی پرانے انجن کی ریل گاڑی قطعاً نہیں گزری۔۔۔

باغ ایک کونے وہ اکیلی بیٹھی ہے۔۔۔جیسے ساری دنیا تباہ ہو چکی ہے۔۔۔ اور اب وہ۔۔۔ اب وہ اکیلی رہ گئی ہے۔۔۔ بالکل اکیلی۔۔۔ جیسے باغ میں بچھی گھاس خزاں میں پیوست بہار سے دور اکیلی۔۔۔

سیاہ بلوری پیالے آنسوؤں سے بھر بھر گئے۔۔۔ گود میں ہاتھ رکھے وہ اتنی بڑی یونی میں۔۔۔ اتنی بڑی دنیا میں اکیلی ہوئی بیٹھی ہے۔۔۔ افسوس۔۔۔ برائے نام حصے میں آتے ہی سہی وہ عالیان کو کھو چکی ہے۔۔۔ اور محبت کا ایک ہی پنجرہ ہے "دنیا" اس کا ایک ہی قصور ہے۔۔ دنیادار ہونا اس پنجرے پر ایک ہی تالا لگتا ہے۔روایات کا۔۔۔ اس سوال کا، اُس سوال کا۔۔۔ اس خوف کا۔۔۔ اس انجام کا۔۔۔ یہ وہ۔۔۔ بس سب سوالیہ۔۔۔

 سر کشی کی اجازت نہیں۔۔۔ بغاوت کا حکم نہیں۔۔۔

اس پنجرے کی سلاخوں کی بنیادیں، خودغرض معاشرے کے کھوکھلے بھربھرے اصولوں سے ہری بھری دھرتی کے سینے سے پھوٹتی ہیں۔

اور اصول وضوابط کی فضا میں غرور و تکبر سے تن جاتی ہیں۔

یہ پنجرہ۔۔۔ اس پنجرے کا قیدی حساب کتاب کیوں نہ کرے۔۔۔ وہ سارے سوالوں کے جواب نکال لے گا تو ہی تالا کھولے گا نا۔۔۔

اور سب سوالوں کے جواب کون فاتح ہے جو نکال پاتا ہے۔۔۔ 

امرحہ اتنی عقلمند تھی کہ عالیان کو پہچان گئی تھی، اور اتنی ہی بے وقوف کہ اسے پا نہ سکی۔

اور ذرا بتائیے مشرق میں وہ قلم دوات کہاں ملتی ہے جو ایسی "محبت" کرنے کی تحریری اجازت دیتی ہے۔۔۔۔

ایسی محبت جس کی اہمیت مٹی کے کچے ٹوٹے ہوئے گھڑے سے بھی گئی گزری ہوتی ہے۔۔۔ وہ اٹھی اور گھر آ گئ۔۔۔

آپکی عالیان سے بات ہوئی؟ اس نے آتے ہی لیڈی مہر سے پوچھا۔۔۔

دو دن سے اس نے مجھے فون نہیں کیا۔۔۔ اس کا فون بند ہے۔۔۔

کل تم اس سے یونیورسٹی میں مل سکتی ہو۔۔۔پوچھنا اس کے موبائل کے ساتھ کیا ہوا ہے۔۔۔کل ضرور وقت نکال نر اس سے مل لینا۔۔۔

وہ زندگی کا سارا وقت نکال کر اس سے مل لیتی اگر اجازت دے دی جاتی۔۔۔ اس پر یہ اجازت جائز کردی جاتی۔۔۔وہ لیڈی مہر کو بتا نہ سکی کہ وہ یونیورسٹی نہیں آیا۔۔۔

اور یہ بھی کہ انکے فرمانبردار، لاڈلے بیٹے کے منہ پر اس نے تھپڑ دے مارے ہیں، اب دکھ اور شرمندگی کو لیے وہ خود کو چھپا رہا ہے۔۔۔خود کو گم کرکے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔۔۔

اگر اس نے کہیں جانا ہوتا ہے تو وہ کہاں جاتا ہے۔۔۔اس نے مجھے نوٹس دینے کےلیے کہا تھا اور اب۔۔۔ اس کا کچھ اتا پتا ہی نہیں۔۔۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنی آواز کو کس ردھم پر لے کر آئے کہ اسکی چوری نہ پکڑی جائے۔۔۔ آتشدان کے قریب آکر وہ سلاخ سے آگ کو بلا وجہ کریدنے لگی۔۔۔

جائے گا کہاں۔۔۔ وہ مجھے بتائے بغیر شہر نہیں چھوڑا کرتا۔۔۔

آگ کو کریدتے اس کے ہاتھ رک گئے، یعنیاس بار وہ یہ نافرمانی کر چکا ہے۔۔۔ وہ اپنی ماں کو بناء بتائے کہیں جا چکا ہے۔۔۔

تم یونیورسٹی سے کیوں آگئیں۔۔؟

بس ایسے ہی۔۔۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کلاسز لینے کا۔۔۔

اچھا تم نے ایک بار کہا تھا کہ تم مر جاؤگی مگر کلاسز نہیں چھوڑو گی۔۔۔ لیڈی مہر نے ہنس کر کہا۔

عالیان سے سیکھ کر اس نے یہ بات دو تین لوگوں سے کہی تھی۔۔۔

وہ گردن اکڑا کر یہ بتانا چاہتی تھی کہ اسکے لیے تعلیم کتنی ضروری ہے۔۔۔

اتنی زیادہ کہ صرف موت ہی درمیان میں حائل ہوکر روک سکتی ہے۔۔۔

تو کیا موت حائل ہوچکی تھی۔۔۔؟

ایسا ہی ہوا ہے یقیناً، پھر تو۔۔۔

جاب پر جانے سے پہلے تم Anselm ہال چلی جانا۔۔۔

میں چلی جاؤنگی۔۔۔ 

آپ پریشان نہ ہوں وہ ٹھیک ہوگا۔۔۔

وہ میرا بیٹا ہے، وہ اپنا خیال رکھنا جانتا ہے۔۔۔ اپنے لیے نہیں۔۔۔ میرے لیئے۔۔۔

امرحہ کو ایک دم سے احساس ہواکہ وہ کافی دیر سے آگ کے قریب کھڑی ہے۔۔ لیڈی مہر کی اس بات نے اسے چونکا دیا۔

 تھا۔۔۔ 

ہاں! وہ ٹھیک ہوگا۔۔۔

کسی کے لیئے نہیں لیڈی مہر کے لیئے۔۔۔

 "دیکھو'دھندنے آج مانچسٹر پر یلغار کی ھے " وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی مانچسٹر پر اترنے والی دھند پر نثار ہو رہی تھیں  امرحہ نے ان کی پشت سے ان کے چہرے پر چھائی معصومیت کو پچھتاوے کے احساس میں گھر کر دیکھا اس کا جی چاہاوہ ان کے قدموں میں اپنا سر رکھ دے اور عالیان سے پہلے ان سے معافی مانگ لے....انہیں بتاے کہ ان کا بیٹا نہ جانے کہاں چلا گیا ہے اور ایک صرف اسکی وجہ سے........

پہلی بار وہ عالیان کے ہال ST-Anselm آئی. پر وہ دن میں یونیورسٹی نہیں آیا تھا' وہ شام تک ہال کیسے آتا 'وہ اپنی جاب پر آگئی .کسٹمر صبر سے اس سے بل بند آتے رہے.اسکی دس انگلیاں جامد تھیں 'وہ حرکت سے انکاری تھیں.....ایک معمولی جوتے کا اس نے دس ہزار پونڈ کا بل بنا دیا.....

امرحہ.....!میں آ چکی ہوں."ویرا اس کے سر پرکھڑی تھی'پچھلے دس منٹ سے کھڑی تھی.

امرحہ اپنے کام میں مصروف رہی.اس نے مزید دس منٹ کھڑے رہنے کے بعد اسے مخاطب کیا .

"میں فارغ نہیں ہوں."

"ٹھیک ہے ....ایک گھنٹہ ہے تمہارا دورانیہ ختم ہونے میں.....میں کیفے میں....."

"میرے لیے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں.....تم جا سکتی ہو....."

"تمہیں ساتھ لے کر جاوں گی. "

"مجھے تمہارے ساتھ اب نہیں جانا....."

"یہ فیصلہ ہم بات کرنے کے بعد کریں گے..."

"فیصلہ ہو چکا ہے...."وہ ویرا کے کمرے کے ایک ایک چیز تہس نہس کر آئی تھی.ایک گھٹنے بعد وہ اسٹور سے نکلی تو ویرا جو اسٹور کے ایک طرف ٹہل رہی تھی.اس کے پیچھے لڑکی.

"تم اتنی تیزی سے کہاں جا رہی ہو... تمہیں معلوم بھی ہے کہ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں."

اس نے جیسے سنا ہی نہیں اور وہ اپنی بس میں بیٹھ گئی. ویرا اپنی سائیکل پر آتی رہی بس کے پیچھے پیچھے کہ کہیں وہ درمیان میں اتر کر کہیں اور نہ چلی جاے......اس نے آتے ہی اپنا کمرہ لاک کر لیا،ویرا نے لیڈی مہر کی پرواہ کیے بغیر اتنی زور زور سے دروازہ بجایا کہ اسے دروازہ کھولنا ہی پڑا .....وہ لیڈی مہر کو کس منہ سے اس سارے تماشے کی تفصیل بتاتی جو اس کے اور ویرا کے درمیان ہوتا......

"دو بالغ افراد'غصہ کرنے لڑنے سے پہلے آرام سے بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں."ویرا نے اپنے قد کی طرح لمبے ہاتھوں کو اسکے شانوں پر رکھ کر نرمی سے کہا.....

"بالغوں میں سے ایک بالغ کچھ بھی کر سکتا ہے....کچھ بھی ... خاص کر اگر وہ چھپا رستم بھی ہو تو.."شانوں پر سے اسکے ہاتھ جھٹک کر اسنے تیز آواز میں کہا.

ویرا کو اسکے انداز پر جھٹکا لگا اسکی گلابی رنگت پھیکی سی پڑگئی. اسکی آنکھوں سے گہرا ملال چھ لینے لگا.

"تم اتنی سی بات پر ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو؟"اسنے یہ کہتے محسوس کیا کہ زندگی میں پہلی بار اسکی آواز میں ارتعاش کا شکار ہوئی ہے.

"اتنی سی بات.......تم نے میری ساری باتیں ریکارڈ کر کے عالیان کو دے دیں."کس قدر شرمناک حرکت ہے ....جانتی ہو.....اسے کارل نے بھی سنا اور کچھ دوسرے اسٹوڈنٹس نے بھی......"

ویرا کی آنکھوں میں ملال کی جگہ خوف نے لے لی.کمانڈو کی طرح ساری دنیا کو اپنے پیچھے رکھنے والی نے کسی قدر سہم کر امرحہ کو دیکھا.....ایسا کرتے ویرا بلاشبہ بہت بد ہئیت لگی.

"عالیان کو نہیں ......کارل کو امرحہ......!"

امرحہ کو بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا"کیوں ......کیوں کیا ایسا ....کیا مصیبت آگئی تھی تم پر ویرا....؟"

"کارل نے مجھ سے کہا تھا....اس نے عالیان اور تمہیں پریڈ میں باتیں کرتے دیکھ لیا تھا ..... تھوڑا بہت سن بھی لیا تھا...اسنے مجھ سے درخواست کی کہ میں تم سے پوچھوں....وہ عالیان کا دوست ہے.....عالیان بہت اپ سیٹ تھا پریڈ کے بعد سے.....  کارل جاننا چاہتا تھا اسکی وجہ......"

"وہ عالیان کا دوست نہیں ہے...."امرحہ کس قدر سہم کر چلا اٹھی.

"وہ عالیان کا دوست ہے امرحہ.....صرف وہی ایک دوست ہے...."

"دوست ایسا کرتے ہیں جیسا اس نے کیا....جیسا تم نے کیا...."امرحہ کو یقین سا ہونے لگا کہ وہ اپنا چین و قرار تا عمر کے لیے کھو دے گی.....اور پھر کبھی نہیں پا سکے گی.

"امرحہ!اسنے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ ٹھیک ٹھیک سب سننا چاہتا ہے...جب میں تم سے بات کر رہی تھی تو وہ فون پر سن رہا تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ فون کال ریکارڈ کر لے گا..  اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ ہارٹ راک میں وہ ڈسک چلوادےگا......"

امرحہ نے ویرا کی شکل کو پہچاننے کی کوشش کی.....مکڑی کے جا لے سے بینائی نے پھر سے امرحہ کو اندھا کرنے کی کوششیں کی....پلکوں کی جنبش امرحہ پر گراں گزری....

ہارٹ راک...ڈسک پر.......؟"

امرحہ کی شکل کی طرف دیکھتے ویرا رو دینے کو ہو گئی وہ تو اتنی بہادر تھی 'پھر اب کیسے وہ رو دینے کو ہو گئی.

"ہاں!کارل نے وہاں ڈی جے سے چلوا دی...ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹس بھی تھے وہاں....اور عالیان بھی.....مجھے آج ہی یونیورسٹی سے معلوم ہوا ہے."

"اور عالیان............؟"امرحہ بڑبڑائے

اس کا خیال تھا کہ یہ سبST-Anselm ہال میں ہوا ہوگا 'پر وہ تماشا تو ہارٹ راک میں لگا تھا جہاں یونیورسٹی کا جم غفیر ہوتا تھا....تو اسکی زبان سے کی گئی ہتک سب نے سن لی.....جس کی وہ وہ عزت کرتی تھی اسکی سرعام بےعزتی کر دی......

"ویرا!تم نے کیا کیا ؟"اسکی آواز میں آنسو پھنسانے لگے

"کیا کیا تم نے.....تم مجھ سے کرید کریدکر وہ سوال پوچھتی رہیں....وہ سب....وہ سب...جو سچ بھی تھا.....اور جو جھوٹ بھی تھا .....تم مجھ سے کیوں وہ پوثھتی رہیں....تم... تم تو کہتی تھی کہ تم میرے ملک کے بارے میں مجھ سے ذیادہ جانتی ہو....وہاں کے میدان' پہاڑوں 'سمندروں'موسموں'تاریخ کے بارے میں ....اتنا کچھ جانتے تم بے وہاں کے لو گوں کے بارے میں کیوں نہ جانا....تم نے یہ جاننا کیوں ضروری نہ سمجھا کہ مشرقی لڑکیوں کا جھوٹ کیسا سچ ہوتا ہے......سچ کو کیسے خفیہ تابوتوں میں لپیٹ کر مدفن کیا جاتا ہے کہ کوئی انکی خوشبو نا پا لے.....ویرا تم تو کہتی تھی تم مجھے جانتی ہو ....اب تم مجھے کیوں نہ سمجھیں.....میں تو تمہاری دوست تھی....."

ویرا کو" دوست تھی" کے لفظ کی ادائیگی نے تکلیف دی.......

"تم میری دوست ہو امرحہ..!اسی لیے مجھے وہ سب برا لگا جو تم نے عالیان سے کہا اور اس کی لیے سوچا.... تم نے اسے انکار کیا....."

"انکار!"امرحہ کر پھر سے زیرآب دہرانا پڑا."تمہیں چند سال ہمارے معاشرے میں گزارنا ہوں گے ویرا....میرے خاندان میں میرے بابا 'اماں' ان سب کے ساتھ ....امرحہ کی جگہ آ کر.... کسی بھی مشرقی لڑکی کی جگہ آ کر... تم سمجھ جاو گی ....انکار کیوں ضروری ہو جاتا ہے."

"میں نہیں جانتی یہ سب..سب بے بنیاد باتیں ہیں......"

امرحہ ایسے استہزائیہ ہنسی کہ ویرا کو،سب جواب مل گئے جیسے۔۔وہ میرا دوست تھا ویرا۔۔۔ باتیں کرنے کے لیے ہمارے پاس ایک وقت تھا۔۔۔

وہ دوست بنانے کے لیئے جائز ہے۔۔۔ وہ لائف پارٹنر بنانے کے لیئے ناجائز کیوں ہے؟؟؟

میں نے اس کی بے عزتی کر دی۔۔۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔۔۔

تمہیں اسکی ناراضگی کی فکر کیوں ہے۔۔۔؟؟؟

وہ مجھے ناپسند کرے گا اب۔۔۔وہ مجھے منافق سمجھے گا۔

تم نے منافقت کی ہے۔۔۔

میں نے منافقت کی ہے۔۔؟؟

سرگوشی کی صورت اس نے خود سے سوال کیا۔۔۔ اور ملنے والے جواب نے اسے شرمندہ کردیا۔

وہ تمہارا دوست ہے تو ٹھیک ۔۔۔ کچھ اور بنے تو غلط۔۔۔ ایک ہی انسان کو اچھا اور برا بنا رہی ہو۔۔۔

منافقت نہیں ہے کیا یہ۔۔۔

وہ تمہیں برا سمجھے گا۔۔۔

تمہیں اس بات کا خوف ہے اور تم اسے برا سمجھتی رہیں۔۔۔

تم نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا ویرا۔۔۔!

تم نے خود اپنے ساتھ ٹھیک نہیں کیا امرحہ۔۔۔

اسی لیے کہتی ہوں عقل سے۔۔۔

عقل ہے میرے پاس۔۔۔۔ لیکن اس عقل سے پہلے خوف ہے۔۔۔ بڑا۔۔۔ ہیبت ناک، اژدھا جیسا۔۔۔

اس خوف کو دوبارہ۔۔۔ برف میں دھنسا دو اسے۔۔۔

امرحہ کو خاموش ہوجانا پڑا۔

اسے حد درجہ تکلیف پہنچی ہے تو وہ یوں گم ہوگیا ہے نا۔۔۔؟؟؟

اسکے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ جس وقت امرحہ سے وہ سب باتیں کررہی تھی، اس وقت اسے گمان بھی نہیں تھا کہ صورتحال  ایسی ہو جاے گی.... یہ ٹھیک تھا کہ وہ امرحہ کے انداز اور سوالات اور جوابات سے چڑتی چلی گئی اور اس پر سوالات کی بو چھاڑ کر دی اور اس دوران وہ یہ بھی بھول گئی کہ کارل یہ سب سن رہا ہے....  کارل نے اس سے کہا تھا کہ عالیان کے ساتھ کچھ تو ایسا ہوا ہے کہ وہ اس قدر اپ سیٹ ہے......اور یہ بات امرحہ سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ اب تو سب ہی جان گئے تھے کہ عالیان کیسے سائے کی طرح امرحہ کے پیچھے پیچھے رہا کرتا تھا.......

"عالیان ٹھیک ہوگا امرحہ. ...  وہ واپس آ جائے گا......وہ پڑھا لکھا ہے ایسی ویسی کوئی حرکت تو نہیں کر سکتا نا......."

امرحہ نے جیسے سنا ہی نہیں...وہ اپنے بستر میں گھس گئی اور خود کو لحاف میں دبا لیا......ویرا کمرے سے چلی گئی تو وہ لحاف سے نکلی....اب وہ جہاں بھی ہو گا. .......کتنا بھی ٹھیک ہو گا.......لیکن تکلیف سے انجان تو نہیں ہو گا وہ کتنا بھی بہادر ہو گا ایک بار تو ٹوٹا ہو گا.........اس نے محبت کی تھی .........اس نے اقرار کیا .....اور اسے دھتکار دیا گیا......

اس کا سارا علم بھی اسے یہ سمجھا دینے سے قاصر رہا ہو گا کہ اسکے ساتھ جو ہوا' اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا...... 

مزید دو دن گزر گئےعالیان یونیورسٹی نہیں آیا۔ وہ ہال بھی نہیں گیا ۔ کارل ایک بار پھر اسے سنجیدگی سے دھمکا گیا تھا.... ویرا نے وہ ریکارڈنگ لا دی تھی جو ہارٹ راک میں چلائی گئی تھی .... ساری رات امرحہ وہ اس ریکارڈنگ کو سنتی رہی تھی .... وہ عالیان کی جگہ خود کو کھڑا کر لیتی اور امرحہ کا ہتک آمیز تلخ انداز سنتی.....اور بے مول ہو جاتی......... 

عالیان کی جگہ.......عالیان کی جگہ وہ کبھی بھی نہیں آسکتی تھی.... اسکے لیے باغ سے پھول توڑ کر لاتا ہوا.... ہزاروں کے مجمع میں اسے پہچان کر اس کے پاس آنے والا.... صرف اسکے پاس.....بہانے بہانے سے اسکے ساتھ رہنے والا.....

"وہ تمہیں لائبریری میں ملے گا ورنہ کہیں نہیں..."

"اب یہ تمہیں امرحہ کے پاس ملے گا ورنہ کہیں اور ہرگز نہیں ."

اس کی آنکھوں کی پہیلی بوجھ لینے والا.....عالیان.....

اسکی پیدائش کے بعد سے اس سے سب دور دور رہنے والے تھے.دادا کے بعد ایک وہی تھا جو بھاگ بھاگ کر اسکے پاس آتا تھا.تھا کیا امرحہ میں کہ وہ اس کے لیے ایسا مقناطیس بن چکی تھی....وہ اس سے خفا نہیں ہوتا تھا ......وہ اس پر خفا نہیں ہوتا تھا...  وہ اسکی باتوں پر ایسے ہنستا تھا جیسے ہنسانا اسنے ابھی ابھی اسکی باتیں سن کر سیکھا ہے.....

اسکی اگلے دن بھی وہ یونیورسٹی نہیں آیا تھا....جاب پر جانے سے پہلے وہ ہارٹ راک کیفے آ گئی ... اسکے پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ وہ اندر اپنی ڈیوٹی پر ہے.

"میں اس سے ملنے چاہتی ہوں....میرا نام امرحہ ہے... آپ اس سے کہہ دیں."اسنے کاونٹر بوائے سے کہا

کاونٹر بوائے واپس آیا تو اسکا منہ دیکھنے لگا

"کیا وہ آ رہا ہے؟"امرحہ کو خود پوچھنا پڑا

"معلوم نہیں.... وہ تو خاموشی سے مجھے دیکھنے لگا کوئی جواب ہی نہیں دیا...."البانوی کاونٹر بوائے اپنے کام میں مصروف ہو گیا.

"میرا نام بتایا ..؟"امرحہ کو یقین تھا وہ ٹھیک تلفظ سے اسکے نام کی ادائیگی نہیں کر سکا ہو گا

البانوی کو جیسے بڑا لگا ."ظاہر ہے"

امرحہ نے گھٹن ذدہ سانس لیا.اسے اپنے دل کی کھال سکڑتی ہوی محسوس ہوئی.

"مطلب کہ وہ نہیں آ رہا "لیکن شاید آ جائے...."وہ ہارٹ راک سے باہر آ گئی... وہ اپنی جاب پر جائے یا نہ جائے شاید عالیان باہر آ جائے....ابھی بس کچھ ہی دیر میں......

وہ ہارٹ راک کے باہر کھڑی ہو گئی...اپنے وکٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے.....مفلر کے کونے سے آنکھوں کی نمی کو صاف کرتے ....بے بسی سے پرنٹ ورک کے میلے کو دیکھتے 'اور حیرت زدگی سے ہنستے مسکراتے چہروں کی مسکراہٹ پر دکھ کا اظہار کرتے اس نے خود کو پایا....کھڑے کھڑے اس پر کئی موسم آ کر گزر گئے.....

ایک گھنٹہ گزر گیا...

عالیان باہر نہیں آ رہا تھا ......یعنی وہ نہیں آنے والا تھا....اس نے اپنے اسٹور فون کیا کہ وہ نہیں آ سکتی جاب پر....وہ چھٹی نہیں کرتی تھی.ایسے پہلی بار فون کر کے اس نے کہا.

منیجر نے تشویش سے پوچھا"تم ٹھیک ہو....گرم خطے کے لوگوں کو ٹھنڈ کا بخار جلدی چڑھتا ہے."

اسکا منیجر ایک نیم مزاحیہ انسان تھا وہ کسی نا کسی طرح ہر بات میں مذاق کا پہلو ضرور نکال لیا کرتا تھا.

"نہیں بخار نہیں ہے.."اس نے بمشکل کہا.

"بخار نہیں ہے تو آ کیوں نہیں رہیں...کیا گھر کی یاد کا نزلہ ہوا ہے."

"وہ میرے درد ہے...."

"درد ہے .....سر میں؟"امرحہ کے انداز پر وہ سنجیدہ ہوا.

"ہاں .....نہیں....بس درد بہت ہے....."اسنے جھٹ فون بند کر دیا.

کراس بیگ کی اسٹریپ میں ہاتھ دیئے وہ ٹہلنے لگی'بہت سے  ہائے ہیلو دوستوں نے رک کر پوچھا کہ وہ وہاں ایسے کیوں کھڑی ہے....اندر کیوں نہیں آ رہی .... یا جا کیوں نہیں رہی.....

وہ شرمندہ ہو رہی تھی بہانے بناتے'بناتے'جھوٹ بولتے.....لیکن ظاہر ہے یہ شرمندگی 'اس شرمندگی کے آگے بہت معولی تھی جو اسی کیفے میں عالیان نے جھیلی ہو گی....پہلی بار تھپڑ اور دوسری بار تذلیل۔۔۔

اور پانچ گھنٹے بعد وہ باہر آیا....وہ  .....اگر عالیان مارگریٹ ہی تھا تو...امرحہ کو پہچاننے میں کچھ وقت لگا.....اسکی شبیہ وہی تھی......وہی ناک نقشہ 'وہی صورت.....پھر بھی وہ عالیان نہیں تھا .....    وہ شرط لگا لیتی اور جیت جاتی وہ عالیان ہو ہی نہیں سکتا تھا..........

اسکی آنکھوں میں سرے اندھیرے آں بسے تھے......وہ عالیان ہوتا تو ایسے اندھیروں کو اپنے اندر پڑاؤ کی اجازت دیتا؟نہیں کبھی نہیں....باہر نکلتے ہی اس کی نظر امرحہ پر پڑی'اور وہ پھر بھی نہیں رکا......دیکھا وہ عالیان نہیں تھا.....رات کے اس وقت....  ایسے امرحہ کو انتظار کی حالت میں کھڑا دیکھ کر بھی وہ نہیں رکا تھا....تو وہ عالیان کیسے ہو سکتا تھا.....؟

"عالیان!"اسے لپک کر اس تک جانا پڑا.

اس نے کرنے پر تامل کیا اور امرحہ کو ایسے دیکھا جیسے کہتا ہو.

"خاتون میں اچھے مزاج کا مالک انسان نہیں رہا....مجھ سے دور رہیں......مجھ سے دور رہا جائے............"

اسکے قریب جا کر امرحہ کو اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا... اسکے اعصاب ایسے تنے ہوئے اور ٹھنڈا کر دینے والے کیوں ہیں..... روشنی جو اسکے وجود سے آر پڑا ہوئی لگتی تھی وہ کہاں ہے........ . اسکے آس پاس اندھیرا کیوں ہے.....وہ تو عالیان سے بات کرنے آئی تھی..... وہاں کہیں عالیان تھا ہی نہیں تو اب وہ کس سے بات کرے..... اور..     اب وہ روشنیاں منعکس  کرتے عالیان کو کہاں ڈھونڈے.....

"تم کہا تھے؟"جس شدت سے وہ اس سے پوچھنا چاہیے تھی'اس شدت سے نہ پوچھ سکی'سوال اسنے پوچھا تھا جبکہ سوالیہ وہ اسے دیکھنے لگا تھا.

"میں بہت دیر سے یہاں کھڑی انتظار کر رہی ہوں."اسنے اس بات کو جان بوجھ کر اس انداز میں بتایا کہ ترس کھا کر پرانا عالیان واپس آ جائے.

"کس کا انتظار کر رہی تھیں؟"

سوال میں لپیٹ کر کیا جواب دیاتھا اسنے'وہ ابھی بھی لاجواب کردینے پر قدرت رکھتا تھا۔ امرحہ اس کی شکل دیکھتی نہ رہ جاتی تو کیا کرتی۔۔۔؟

ویرا اور کارل نے مل کر۔۔۔ عالیان۔۔۔ وہ سب۔۔۔ کارل نے اپنی مرضی سے ایڈیٹنگ کی۔۔۔

میں جانتا ہوں۔۔۔

تم پھر بھی مجھ سے ناراض ہو۔۔۔؟ وہ پھر سے یہ پوچھنے کی جراُت نہ کرسکی کہ تم کہاں چلے گئے تھے اور کیوں؟ 

نہیں۔۔۔ ناراض ہونے کےلیے وجہ کا ہونا ضروری ہے۔۔۔ تمہارے اور میرے درمیان اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا، امرحہ کے قرب سے دور ہوجانے کی آج اسے کتنی جلدی تھی۔

جو "ہم" کہہ چکا تھا، اب وہ تم اور میں کہہ رہا تھا،۔۔۔

عالیان! میری بات سنو ۔ وہ اسکے پیچھے لپکی۔۔۔

وہ سب ویسے نہیں تھا۔۔۔ وہ تو۔۔۔

کیا سب ویسے نہیں تھا۔۔ جو تم نے کہا وہ سب۔۔۔ کیا وہ سب تم نے نہیں کہا تھا؟

میں نے کہا تھا لیکن۔۔۔

تو تم کس بات کی وضاحت کے لیے اس وقت یہاں کھڑی میرا وقت برباد کررہی ہو۔۔۔؟؟ 

یکدم خون نے اپنی رفتار کو خطرناک حد تک بڑھا کر خود کو جامد کرلیا۔۔۔ امرحہ اسے اسی جامد حالت میں سن سی دیکھتی رہ گئی۔۔۔ اسکی قسمت خراب۔۔۔ بہت زیادہ خراب کہ وضاحت وہ اب بھی نہیں دے سکتی تھی۔۔۔ اتنی ذہین تھی ہی نہیں۔۔۔ اتنی بہادر تو کبھی بھی نہیں رہی تھی۔۔۔ اب وہ کسی بھی چال پر کوئی بھی پتا پھینکنے کی بازی مات ہی رہنے والی تھی۔۔۔

میری ماں ایک بری عورت تھی۔۔۔ ایک آزاد معاشرے کی دلدادہ۔۔۔ گناہ گار اخلاقی مذہبی  حدود کو پھلانگنے والی اور کیاکیا کہتے ہیں تمہارے مشرق میں ایسی عورت کو۔۔۔ جو تم بھول جانے کی وجہ سے کہہ نہ سکتی ہو۔۔ لو اب کہہ لو۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔۔  اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے اور مکمل فرصت اور کامل توجہ سے امرحہ کو دیکھنے لگا۔

ہارٹ راک کیفے کے آس پاس۔۔۔ اتنے بڑے دی پرنٹ ورک کی حدود کے اندر کھڑے امرحہ کو کوئی ایک پرنٹ ورک کی حدود کے اندر کھڑے امرحہ کو کوئی ایک بھی چیز ایسی نہ ملی، جس پر وہ اپنی نظریں ٹکاسکتی۔۔۔

میں جانتا تھا کہ میں کسی خاندان کا حصہ نہیں ہوں۔۔۔ میرا کوئی باپ نہیں ہے۔۔۔ لیکن اس حقیقت سے صحیح معنوں میں مجھے تم نے روشناس کروایا۔

وہ خاموش ہوا۔۔۔

امرحہ نے چاہا کہ وہ خاموش ہی رہے اگر وہ ایسے ہی بولتا رہا تو وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کیسے گزارے گی۔

مجھے اتنا خراب سمجھتی تھیں تم۔۔۔ مجھے ترس آتا ہے خود پر، جب جب میں یہ سوچتا ہوں کہ تم اتنی ناپسندیدگی اپنے اندر رکھ کر مارگریٹ جیسی عورت کے بیٹے سے ملتی رہیں۔ تم واقعی ایک انسان دوست لڑکی ہو۔۔۔ بہت رحمدل۔۔۔ جو کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے اس پر ظاہر نہیں کرتی۔۔۔ تم نے مجھ پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔ لیکن شکریہ کارل کا۔

جو تم نے سن لیا وہی سب نہیں ہے۔۔۔ عالیان کو دیکھے بغیر اپنے آنسو روک کر اس نے کہا۔

جتنا سن لیا ہے اس نے میرے لیے میرا سب ختم کردیا ہے۔ میں ایک ناجائز بچہ ہوں۔۔۔ ناجائز۔۔۔ میری ماں ایک بری عورت تھی جو تم کہہ چکیں وہ بھی اور جو تم نہیں کہہ سکیں وہ بھی میں سب سن چکا ہوں۔۔۔ سمجھ چکا ہوں۔۔۔میرا مذہب کیا ہے۔۔۔ میں عیسائی ہوں، یہودی یا کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں وضاحت دینا مناسب نہیں سمجھتا اور تمہیں تو بالکل بھی نہیں۔۔۔ عالیان! اس کے آنسو نکل ہی آئے اور آواز رندھ گئ۔۔۔ اور اسکی آواز نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔ عالیان کے آگے وہ کچھ بول ہی نہیں سکی اور اس نے جانے کے لیے قدم آگے بڑھا دیے۔۔۔

"تم مسلمان ہو"۔ امرحہ نے تیزی سے اسکے آگے آکر کہا۔

جب میرے باپ کا ہی نہیں پتا تو میرے مذہب کا کیسے پتا ہوگا۔۔۔ اور اگر میں مسلمان ہوں بھی تو تم جتنا اچھا مسلمان نہیں ہوں۔۔۔ میں نے بہت ایسی رپورٹیں اور فیچر پڑھے ہیں، جنکے مطابق کسی غیر مسلم کے اسلام کو اپنا لینے پر اسے مسلمان تو مان لیا جاتا ہے لیکن معاشرے میں اسے وہ درجہ نہیں دیا جاتا جو ایک پیدائشی مسلمان کو دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک عربی تاجر نے ایک نومسلم کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی اجازت تو دے دی لیکن، تاجر کے خاندان میں شادی کی خواہش کے اظہار پر اسے ملک بدر کروادیا۔۔۔ مجھے پوچھ لینے کی اجازت دو تم کہ تم سب لوگ جائز۔۔۔ اچھے شریف خاندان والے۔۔۔ نیک بیویوں والے۔۔۔ تم کتنے اچھے مسلمان ہو۔۔۔ تم حلال فوڈ کھاتے ہو۔۔۔ حرام سے پرہیز کرتے ہو۔۔ تم جنکے اسلامی نام ہوتے ہیں۔۔۔ دور دور تک جنکی نسلوں میں کسی مشرک کا خون شامل نہیں ہوتا۔۔۔ کتنے اچھے مسلمان ہوتے ہو۔۔۔؟؟؟ 

ہاتھ باندھے عالیان اسکے معاشرے پر طمانچے مار رہا تھا۔ وہی معاشرہ جہاں امرحہ کو منحوس ہونے کا لقب ملا۔ وہ اتنے اچھے مسلمان تھے کہ اسکی پیدائش کو لے کر توہمات کا شکار تھے۔ اور کوئی ایک دو نہیں۔۔۔ ہر ایک سے۔۔۔ جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا تھا۔ 

اسکے خلاف وہ سختی سے عمل پیرا تھے۔ اسکے ماموں جو کئی حج کر چکے تھے انہوں نے اسکی نحوست کی وجہ سے اپنے بیٹے کے لئیے اسکا رشتہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اسکی دادی جو تہجد گزار تھیں، اور فارغ وقت میں تسبیح پڑھا کرتی تھیں، وہ اسکی موجودگی میں کوئی خوشی کی بات نہ کیا کرتی تھیں کہ مبادا خوشی دکھ میں نہ بدل جائے۔

اسکے کئی خالہ زاد، ماموں زاد، خاندان کی تقریبات میں چھپ کر____ پیا اور پلایا کرتے تھے۔۔۔ 

امرحہ کے بھائی جنہوں نے رمضان کے علاوہ بھی نماز کی ادائیگی نہیں کی تھی۔ انہیں سنت اور فرائض کے بارے میں برائے نام معلومات تھیں۔۔۔ اور یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ اور دوسرے خطوں کے مسلمان لڑکے لڑکیاں جو آزادانہ کلبوں اور باروں میں جاتے، ناچتے، گاتے شراب نوشی کرتے۔

وہ خاندان کی حیثیت سے ایک فرد کی حیثیت سے کسے مثال بناکر پیش کرتی کہ دیکھو کتنے اچھے مسلمان ہیں۔۔۔ وہ قوم کے نام پر کس قوم کو اسکے آگے کرتی کہ دیکھو ہم کیسے کامل ہیں۔۔۔ ہمارے ظاہرو باطن میں تضاد نہیں ہے۔۔۔ یا چھوٹی موٹی برائیاں الگ، لیکن ہم کوئی بڑی برائی نہیں ہے۔۔۔ ایک جائز بچہ جو مسلمان خاندان میں پیدا ہوتا ہے وہ شراب پیے۔ حرام کھائے اور تمام مزہبی اصولوں کو توڑ ڈالے، پھر بھی وہ ایک "مسلمان" ہے کیونکہ ول تو ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوا ہے دوسرا وہ "پیدائشی" مسلمان ہے۔

میرے دادا ایک اچھے انسان ہیں۔۔۔ اچھے 

مسلمان۔ مثال بناکر پیش کرنے کے لیے اسکے پاس صرف ایک دادا ہی تو تھے۔

عالیان نے اسے ایسی نظر سے دیکھا کہ امرحہ جان پائی کہ بنا ایک لفظ کہے افسوس کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔ اس نے جانا اگر دادا اتنے ہی اچھے ہیں تو وہ کیوں ان جیسی اچھی نہیں ہے۔۔۔ عالیان نے اس ایل نظر میں اتنا کچھ کہہ دیا کہ امرحہ پر چپ کا گہرا تالا لگ گیا۔

مجھے تم پر یہ ثابت نہیں کرنا کہ میں کتنا اچھا انسان ہوں۔۔۔ برائے نام ہی سہی اپنا ماضی بھی مجھے تم پر نہیں کھولنا۔۔۔ کیونکہ اسکی ضرورت ہی نہیں رہی۔۔۔ کیوں نہیں رہی یہ تم بہتر جانتی ہو۔۔۔ اب تم ایل کام کرنا۔۔۔ جو مجھے بھی کرنا ہے یونی میں۔۔۔ مانچسٹر میں کوئی عالیان نہیں ہے۔۔۔ میں تمہیں نہیں جانتا۔۔۔ 

وہ ایسی باتیں کرنا بھی جانتا ہی تھا۔۔۔

جسکے لیے وہ "سب" تھی اب وہ اسکے لیے "کوئی امرحہ" نہیں ہونے کا اعلان کررہا تھا۔

تف ہے نا محبت پر جو اپنی پیشانی پریان کے پتے کا نصیب کند کروا لیتی ہے کھایا۔۔۔ چبایا۔۔ تھوک دیا۔ 

محبت شروع ہونے میں وقت لیتی ہے، ختم ہونے میں کیوں نہیں لیتی۔۔۔؟  یہ محبت ہوجانے کے بعد خود کو مہر بند کیوں نہیں کرلیتی۔۔۔ سختی سے کسی مضبوط تابوت میں۔۔۔ فرعونوں کے خفیہ معبدوں کی مانند۔۔۔ زمین کی تہوں میں جگہ بدلتے قارون کے خزانے کی طرح۔۔۔

یہ محبت اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں اتنے دشمن لیے کیوں چلتی ہے۔؟

یہ بجھ بجھ کیوں جاتی ہے۔۔۔ صرف روشن، روشن، روشن ہی کیوں نہیں رہتی۔۔۔

اس دیپ کی لو اوپر ہوائیں نحس جادوگرنیوں کی طرح کیوں منڈلاتی پھرتی ہیں۔۔۔اپنی راجدھانی میں یہ ایسے دشمنوں کو جگہ کیوں دیتی ہے۔۔۔؟ اگر ایسی ہی بات ہے پھر تو جیسے کوئی بات ہی نہیں۔۔۔

اگر یہی سب ہے تو بس پھر کچھ بھی تو نہیں ہے۔۔۔ 

ہاں کچھ بھی تو نہیں، عالیان جارہا ہے۔۔۔ اسکے آگے۔۔۔ اس سے دور۔۔۔ مگر وہ ایسے چل رہا ہے جیسے اپنے مرکز سے بچھڑ چکا ہو۔۔۔ اسکے وجود میں جڑ پکڑ چکے ارتعاش کو کم بینائی والے بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ 

چال کو مضبوط بنانے کے لیے اسے تردد کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔

گھوڑے کا شہہ سوار منہ کے بل زمین پر گرا ہے۔۔۔ اس کا وجود اس خاک سے اٹا پڑا ہے جسے سوار تا عمر اپنے وجود سے جھاڑ نہیں پاتا۔۔۔

#وہ_شدت_سے_مانگی_جانے_والی_دعا_کو_درمیان_میں_ہی_چھوڑ_دیے_جانے_کی_عملی_صورت_لگ_رہا_تھا۔۔۔😢 

اسکے وجود سے پھوٹتے سب ہی اشارے پاتال کی طرف بڑی وضاحت َے ایستادہ تھے۔

امرحہ وہیں کھڑی اسے  دیکھتی رہی۔۔۔ 

وہ چلا گیا تب بھی۔۔۔ جانا تو اسے بھی تھا بس وہ قوت جو چلنے، پھرنے، بولنے کے لیے ضروری ہوتی ہے وہ قوت وہ ساتھ لے گیا تھا۔۔۔

عالیان مارگریٹ۔۔۔ وہ کیسا انسان تھا۔۔۔ وہ اسکی جان نکال کر لے گیا تھا۔۔۔ کیا وہ ایسا ہی تھا۔۔۔ کتنا برا تھا وہ۔۔۔ بہت برا۔۔  اسے بس سے واپس گھر آنا تھا۔۔  لیکن وہ پیدل چلنے لگی۔۔  منہ سے بھاپ نکالتے۔۔۔ پیروں کو برف پر گھسیٹتے۔۔۔۔

اگر انکے درمیان یہ سب نہ ہوچکا ہوتا تو اس وقت اسکے ساتھ، اسکے پیچھے، اسکے پہلو میں عالیان چل رہا ہوتا۔۔۔ جو اسکے ساتھ رہنے کے لیئے فضول فضول بہانے گھڑ لیا کرتا تھا۔

امرحہ نے دونوں ہاتھ رگڑے کتنی ٹھنڈ تھی مانچسٹر میں۔۔۔ اف۔۔۔ اتنی ٹھنڈ۔۔۔ اتنی ٹھنڈ کہ وہ زندہ کو مردہ کر رہی تھی۔۔۔ ایسا غضب کا موسم۔۔۔ جو زندوں کو مردہ کردے۔۔۔ ایسے موسم سے خدا بچائے۔۔۔

ایسے موسم سے خدا کی پناہ۔۔۔

گھر آتے ہی اس نے ویرا کے کمرے کے دروازے کو دھکے سے کھولا۔ ویرا لیپ ٹاپ پہ بیٹھی کام کر رہی تھی۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک زناٹےدار تھپڑ اس کے گلابی گال پر دیا۔

تم نے میرے ساتھ بہت برا کیا۔۔۔ جو میں نہیں چاہتی تھی، وہی ہوا۔۔۔ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگ گیا ہے۔۔۔ وہ پوری شدت سے دھاڑی۔

گال پر ہاتھ رکھ کر ویرا اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھنے لگ گی۔

مجھے نہیں معلوم تھا امرحہ کہ یہ سب ایسے۔۔۔ اتنا پچیدہ ہو جائے گا۔ ویرا نے اسے شانوں سے تھام کر کرسی پر بیٹھانا چاہا لیکن وہ کارپٹ پر ڈھیر ہوتی چلی گئ۔

تم تو میری دوست تھیں۔۔۔ اب تم نے کسی کو بھی میرا دوست نہیں رہنے دیا۔

امرحہ۔۔۔ ویرا بری نہیں ہے۔ تم۔۔۔ ویرا اسکے قریب بیٹھ گئی۔۔۔

تم بری نہیں ہو۔ پر میرے ساتھ تو برا کردیا نا۔۔۔ کردیا نا برا۔۔۔ اب اچھا کون کرے گا۔۔۔

"وہ پھر سے تمہارا دوست بن جائے گا امرحہ!"

"دوست۔۔۔۔ اب میں مانچسٹر میں ہوں یا نہ ہوں'ہوں'اسے اس بات دے بھی فرق نہیں پڑے گا اور تم دوست ہونے کی بات کر رہی ہو۔۔ وہ میرا دوست بھی نہیں رہا ایسی باتیں سن کر کون کسی کو دوست رکھے گا۔"

"وہ غصے میں ہے امرحہ! غصے میں انسان بہت کچھ بول کہہ جاتا ہے۔"

"صرف غصہ نہیں تھا'کاش میرا ہی ہو۔ یہ صرف غصہ ہی ہو ۔۔۔"

"کیا تم اس سے محبت کرتی ہو؟" 

ویرا نے ہاتھ کی پشت سے اسکی آنکھیں صاف کیں۔

امرحہ ویرا کی شکل دیکھنے لگی ۔ اور خاموش رہی۔

"تم اس سے محبت نہیں کرتیں۔۔۔ نہیں کر سکتیں'تمہیں اسکی دوستی کی قدر تھی اور یقین جانو امرحہ! میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تم اس کے بارے میں ایسے سوچتی ہو گی۔ میری غلطی بالکل ہے۔ لیکن بے قصور تم بھی نہیں۔۔ "

امرحہ جانتی تھی کہ ویرا ٹھیک کہہ رہی ہے۔ 

"ابھی وہ ناراض ہے۔۔۔ زیادہ دیر تک تم سے ناراض نہیں رہ سکے گا۔ تم دونوں پھر سے دوست بن جاو گے'پھر سے۔۔۔"ویرا دھیمی آواز میں اسے سمجھا رہی تھی اور وہ ویرا کی باتیں ایسے سن رہی تھی۔ جیسے یہی آخری تریاق نچا ہو اسکے لیے۔ خوش فہمیاں اور تالیاں۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں آ گئی اور چپ چاپ بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی.رات کا دوسرا پہر بھی بیت گیا۔ وہ ویسے ہی گم صم بیٹھی رہی۔۔۔۔ اس میں حرکت کرنے کی جستجو نہ رہی تھی'زندگی اس میں صرف سانس کی صورت باقی تھی'ایک چہرہ اسکی آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا۔۔۔الفاظ اسکی ذہن میں پھرکی کی صورت چکرا رہے تھے۔

رات کا آخری پہر شروع تھا۔۔۔ وہ اٹھی اور الماری تک آئی۔۔۔ اس نے بہت اندر تقریبا چھپا کر رکھے ایک باکس کو نکالا۔۔۔ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اسکے وجود میں ارتعاش تھا اس نے باکس کو کھولا۔

اور رات کے آخری پہر کا قصہ ہے

چھپا ہوا۔۔۔ چھپایا ہوا۔۔۔ سرمہربند۔۔۔ اس پر بات ابھی ممکن نہیں۔

آخری پہر کی پہلی بات ابھی نہیں ۔

•••••••••••••••••••••••••••••••••

"اور خوش فہمی بڑے کام کی چیز ہے'یہ زندہ رہنے کے لیے کچھ اسباب بڑے اہتمام سے پیدا کر ہی دیتی ہے۔"ان خوش فہمیوں کو امرحہ نے گلے لگا لیا'مٹھی میں دبا لیا۔

دوسرا سمسٹر شروع تھا 'اور جیسا کہ یونیورسٹی میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے پہلے سال یا پہلے سمسٹر میں چالیس فیصد رزلٹ حاصل کر لیا تو حقیقتا آپ نے تیر مار لیا۔۔۔۔ اور امرحہ نے یہ تیر مار لیا تھا اس نے ساٹھ فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔

اور یونی میں مشہور ایک اور مقولے کے مطابق آپ کو پہلے سمسٹر میں یونی میں موجود سب اسٹوڈنٹس لائق فائق'ذہین فطین'آئن سٹائن'یونی پاسچر اسٹیفن ہاکنگ'رائٹ برادران یا الیگزنڈر گر اہم بل کے جان نشین یا لے پالک لگتے ہیں'جبکہ حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔گول فریم کی بڑی عینک لگائے اسٹیفن نظر  آنے والا اور مکمل توجہ سے لیکچر کے دوران گردن ہلانے والا اسٹوڈنٹ دراصل ایک درمیانے درجے کا اسٹوڈنٹ ہے'جس کی حقیقت رزلٹ کے بعد کھلتی ہے.

یہ مقولہ بھی ٹھیک تھا 'امرحہ کو اپنے علاوہ وہاں سب ذہین و فطین نظر آتے تھے.لیکن رزلٹ کے بعد اسکی غلط فہمی دور ہو گئی .وہ سب ذہین فطین اس سے تقریبا پیچھے ہی رہے تھے'یہ وہی لوگ تھے جنہیں فریشر فلو پوری آب و تاب سے چڑھا تھا.رات کو یہ خود سے "ایک گھنٹے"صرف ایک گھنٹے کا وعدہ کر کے نکلتے اور ساری رات گھوم پھر کر 'ناچ گا کر ڈگمگاتے ہوئے صبح کی کتنوں کے ساتھ واپس آتے۔۔۔ اسکالرشپ جیت کر مانچسٹر یونی پڑھنے آئی تھی.ایگزامز کے دنوں میں امرحہ نے ایک دوبار اسکے ساتھ بھی گروپ اسٹڈی میں شرکت کی تھی وہ انتہائی بے ضرر اور ہر وقت مدد کرنے کے لیے تیار رہنے والی لڑکی تھی۔ اپنی معصومیت میں وہ۔۔۔ عالمگیر حیثیت اختیار کرچکی تھی کہ ولیم جو موقع ملتے ہی بیگز میں سے چاکلیٹس، کوکیز نکال لیا کرتا۔۔۔ منجلا کے نام ہر قسم اٹھا کر خود پر کیے جانے والے شبے سے جان چھڑواتا۔۔۔ بعد ازاں وہ منجلا کو ٹویٹ دیتا ہوا نظر آتا ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ جھوٹی قسم کے ہرجانے کے طور پر۔۔۔ ضمیر کی آواز۔۔۔

امرحہ کی کارکردگی اچھے اسٹوڈنٹس کی طرح تسلی بخش رہی تھی اور ظاہر ہے وہ پروفیسر کی نظر میں آچکی تھی۔۔۔

سر رابرٹ نے یاد سے وہ کارڈز پڑھے جو  پہلی کلاس کے دن انہیں لکھ کر دیے گئے تھےاور جس میں اپنے موٹوکے نیچے انہوں نے خود کو سو فیصد کا چیلینج دیا تھا۔ سر رابرٹ نے جو طنز کیے وہ سننے سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے ہیگ کا کارڈ لہرایا۔۔

ہیگ ہو یونی میں ہر ایک کو کمپیوٹر گیمز کے چیلینج دیتے ہوئے ہایا جاتا تھا۔۔ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی گیم ہوگی جس میں اس نے رات دن لگا کر ریکارڈ نہیں بنایا ہوگا۔

تم ماسٹرز ان انگلش لٹریچر کیوں کر رہے ہو۔۔۔ تھری ڈی میں ہی کوئی ڈگری لے لو۔۔۔۔ بہت نام اور پیسہ کماتے ہیں تھری ڈی گیمز ڈیزائنر۔۔۔ اسکی شکل پہ بے چارگی چھا گئ۔

طنز نہ کرو اوامرا۔۔۔ مجھے تو خود نفرت ہے اس سب سے۔۔۔ لیکن کیا کروں یہ لت جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔۔۔ تمہارے پاس کوئی ترکیب ہے اس سے جان چھڑانےکی۔۔۔

امرحہ۔۔۔ امرحہ سمجھ میں آیا۔۔۔ تمہاری دیکھا دیکھی بہت سوں نے مجھے اوامرا کہنا شروع کر دیا ہے۔۔۔

تم اپنا لیپ ٹاپ توڑ ڈالو۔۔۔ امرحہ نے اوامرا کا غصہ نکالا۔۔۔ نہ رہے گا لیپ ٹاپ نہ کھیلو گے گیمز۔۔۔

کیا ہمیشہ ہی تمہارا دماغ ایسے شاندار انداز سے کام کرتا ہے۔۔۔ اوامرا؟

چلتا تو نہیں تھا لیکن تم سب کے درمیان  آکر چلنے لگا ہے۔ ہوہیگا۔۔۔

یہی ہوہیگا چھوٹی سی مانو بلی کی طرح آنکھیں جھپکتے اپنی چئیر پر خود کو کس طرح سے غائب کرنے کی کوشش میں تھا۔ اور ظاہر ہے وہ ناکام تھا۔

ہیگ۔۔۔ چیلنج سو فیصد۔۔۔ موٹو۔ ایسے پڑھنا ہے کہ حیران کردیناہے۔

ویل ہیگ آپ کامیاب رہے۔ ہم سبکو حیران کر دیا آپ نے۔۔۔ ہیگ کی حیران کن سو فیصدی کارکردگی پر پلیز ٹیبل بجائے جائیں۔

زور و شور سے ٹیبل وقفے وقفے سے بجتے رہے

جنکے رزلٹ اچھے رہے تھے ان کے کارڈز پر روشن ستارے بنا دیے گئے تھے۔

تمہیں عالیان پڑھاتا رہا ہے نا۔۔۔ شکل سے تو تم لوئر مڈل کلاس سے بھی نیچے کی مخلوق لگتی ہو۔۔۔ اردو میڈیم میں پڑھتی رہی ہو ایسا رزلٹ لینا تمہارے بس کی بات تو نہیں تھی پھر۔۔۔؟ شزاء نے اپنی ری بونڈ بھنووں کو کسی مستول کی طرح تان کر پوچھا۔

ٹھیک کہا میں اردو میڈیم میں ہی پڑھتی رہی ہوں، اچھا ہوتا تم بھی پڑھ لیتیں۔۔۔ تو تمہارا شمار بھی چالیس فیصد والوں میں نہ ہوتا اور تمہیں کس نے کہا کہ عالیان مجھے پڑھاتا رہا ہے۔۔۔؟؟؟

پتا نہیں پاکستانی اردو میڈیم میں پڑھنے کو گالی کیوں سمجھتے ہیں۔ انگریز تو انگریزی پڑھنے میں ہتک محسوس نہیں کرتے۔۔۔ بلکہ انگریزوں کو اس وقت شرم آیا کرتی تھی جب انھیں خود پر جبر کرکے لاطینی پڑھنی پڑتی تھی۔

دوسری اقوام اپنی مرضی سے ساری دنیا کی زبانیں سیکھ لیں جہاں کوئی زبان ان کی زبان کی جگہ۔ینے کی کوشش کرے وہیں وہ اپنی واضح نا پسندیدگی ثابت کرکے اپنی زبان کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوجائیں گے کہ دنیا کی کوئی زبان ان کی زبان سے اچھی ہے نا ہوگی۔

علی کامنز میں وہ گھنٹوں تمہارے پاس بیٹھا رہا کرتا تھا۔ ری بونڈ۔۔۔ بالوں کو شزا نے ہاتھ لگائے بغیر گردن کے جھٹکے سے شانوں سے پرءمے کیا۔

امرحہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ یعنی پاکستانی خواتین دنیا کے کسی بھی کونے میں رہیں۔ خصلت "عظیم" ٹوہ پر دل و جاں سے نثار رہتی ہیں۔۔۔ کسی تمغے کی طرح سجائے۔۔۔ فخر و غرور سے سرشار پھرتی ہیں۔

وہ بزنس کا اسٹوڈنٹ ہے میں انگلش لٹریچر کی۔۔۔

وہ اتنا لائق ہے کہ پروفیسر سے اچھا انگلش لٹریچر پڑھا سکتا ہے۔

وہ اتنا لائق ہے، آخر سب کو کیسے پتا تھا۔

امرحہ دنگ سی رہ گئی۔

تم اس سے ٹیوشن لیتی رہی ہو؟ امرحہ پوچھے بنا دمرہ نہ سکی۔

تم اسکی جان چھوڑتیں تو وہ کسی اور کو ٹیوشن دیتا نا۔۔۔

ہونٹوں کے کونوں کو استہزائیہ اچکا کر وہ کڑوی گولی کی طرح بد مزا سی دکھائی دینے لگی۔۔۔

امرحہ شزا کی شکل دیکھتی، رہ گئی۔

سر رابرٹ سے اچھا کوئی نہیں پڑھا سکتا میں نہیں مانتی، امرحہ کو یہی جواب سوجھا۔

نہ مانو، وہ یونی کا راجر فیڈر رہے۔ ساری ٹرافیاں اکٹھی کر لائے گا وہ۔۔۔ ویسے ت۔ آج کل اسکے ساتھ نظر نہیں آتیں۔۔۔ وہ بھی ڈیپارٹمنٹ نہیں آتا۔۔۔ شزا نے مکمل ایمانداری سے #ٹوہ کی ڈیوٹی سر انجام دی تھی اور وہ اس میں غفلت کا شکار قطعاً نہیں ہوئی تھی۔

امرحہ کوئی بھی جواب دیے بغیر چلی گئی۔

شزا اس کی کلاس فیلو تھی جو Gravity Falls کی Pacifica کے نام سے زیادہ جانی جاتی تھی، اسے عجیب وغریب ملبوسات پہننے پر لیڈی گاگا بھی کہا جاتا اور شوں شوں بھی یعنی جب وہ قریب سے گزرتی تو شرارتی اسٹوڈنٹس مکھی اڑانے کے انداز سے ہاتھ لہرا کر "شوں شوں" کردیتے۔

شزا پاکستان کے ایک بڑے وزیر کی بیٹی تھی۔ جنکے وزیراعظم بننے کے امکانات کافی روشن تھے۔وہ اسٹوڈنٹس اور پروفیسر سے ایسے مخاطب ہوتی  جیسے کرپشن کےپیسوں سے لیے اپنے محل نما گھر کے گھریلو ملازم سے مخاطب ہو۔جو لباس وہ پہن لیتی دوبارہ کوئی اسے اس لباس میں نہ دیکھ سکتا ۔اس کے جوتے  بیگز،قلم،نوٹ بکس، ملبوسات اور ایسی ہی  دوسری چیزیں اتنی مہنگی ہوتیں کہ انہیں دیکھ کر حقیقتاً اسٹوڈنٹس کو ہول اٹھتے کہ.....

”اف کیا اس نے انہیں خریدنے کی جرات کی ۔کیا واقع.... اس نےانہیں خرید لیا۔اور یہ کیایہ تو اس کے ہاتھ میں بھی ہیں۔“

”اسی لیے پاکستان میں غربت کا یہ عالم ہے۔سارے بجٹ سے تو  لیڈی گاگا کے کپڑے جوتے ہی آجاتے ہیں۔“

جرمن جوئیل نے بڑی جرات سے اس کےمنہ پہ کہہ دیا  تھا اور اس لیڈی گاگا نے پاک افواج کے ذخیرے میں موجود سارے بارود کو آنکھوں میں بھر کر اسے گھورا....اور بس.....ایسے ویسے منہ لگانا اس کے شان کے خلاف تھا۔ایک دن لیکچر کے دوران وہ اپنے آئی فون کے ساتھ مصروف تھی ۔اسے کہی بار اس حرکت پر سرزنش کی جا چکی تھی۔پر کیا کیا جا سکتا تھا وہ اتنا بارود اپنے ساتھ رکھتی تھی کہ کوئی کچھ کہہ بھی دیتا تو بھی فائدہ نہ ہوا کرتا ۔مزید اس نے یہ کیا کہ مزے سے پچھلی رو میں بیٹھے جوناتھن کی تصویر کلک کی۔نیند کی وجہ سے  جوناتھن کے لیے مشکل تر ہو رہا تھا سر کو ڈھلکنے سے روکنا اور آنکھیں پوری کھول کر متوجہ رہنا۔لیڈی گاگا نے باقاعدہ کرسی سے کھڑےہو کر پیچھے جوناتھن کی طرف رخ کر کے یہ حرکت کی۔

کلاس دنگ رہ گئی۔

”اگر  آپ کو لیکچر نہیں سننا تو آپ کلاس سے آوٹ ہو جائیں۔اور باہر نکل کرمانچسٹر کی تصویریں اتاریں۔“سر جین نے کسی قدر تحمل سے کہا۔

”سننا ہےاگر کسی کام کا ہوا تو.....“اس نے بے نیازی سے شانے اچکاکرکہا۔

سر جین کہی لحظے اس کی شکل دیکھتے رہے۔یہ بدتمیزی کی انتہا تھی بلاشبہ......

”آپ کے ملک میں نہیں لیکن یہاں گرومنگ کورسسز ہوتے ہیں۔کلاس کے اسٹوڈنٹس آپ کو فنڈز جمع کر دیں گے آپ گرمنگ کلاسس لیں.....جب بات کرنا سیکھ جائیں تو آجا ئیے گا ۔ہم آپ کو ڈگری دے دیں گے۔“

”تو آپ گرومنگ کلاسسز لے کر آئے ہیں ؟“

”اگر آپ کےساتھ میرے دو تین مزید مکالمے ہوئے تو یقیناً مجھے بھی لینی پڑیں گی۔“

امرحہ اتنی شرمندہ ہوئی کہ سارا وقت کلاس میں سر جھکا کر بیٹھی رہی بعد از وہ سر جین کے آفس گئی اور ان سے معذرت کی۔

”آپ کیوں معذرت کر رہی ہیں ؟“وہ مسکرانے لگے۔

”سر ! ہمارے ملک میں سب شزا جیسے نہیں ہیں۔ہمیں معلوم ہےکہ استاد کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔اگر پروفیسر میرے آگے چل رہے ہوں تو میں نے کبھی قدم بڑھا کر ان سے آگے نکل جانا نہیں چاہا۔میرے دادا کہتے ہیں تمہاری زندگی کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو جائے کبھی استاد سے آگے ہو کر نہ نکلو،استاد محترم کو کبھی پشت نہ دیکھاؤ۔یہ انتہا درجے کی بے ادبی ہے۔“

”میں جانتا ہوں۔“وہ مسکرائے۔

”میں ان خوش قسمت پروفیسرز میں سےہوں جنہیں ہر سیشن میں ایسے اسٹوڈنٹس  ضرور ملتے ہیں جن کےلیےہم ،ہمارا احترام فرض کی طرح ہوتے ہیں۔جھنگ پاکستان کا طالب علم دوسال پہلے میرا اسٹوڈنٹ تھا ،جہاں کہی مجھےدیکھ لیتا اپنی رفتار آہستہ کرلیتا ،وہ گناہ سمجھتا تھا میرے آگے چلنا ،میرے سرپر چھتری تان کر خود گیلا ہو جاتا تھا۔میری چھتری کو پکڑ کر مجھے کار تک چھوڑ کر آتا تھا،ایک بار ٹشو سے اس نے میرے گیلے جوتے صاف کیے اور یہ کام اس نے بغیر کسی شرم کے کئی سو اسٹوڈنٹس  کی موجودگی میں کیا۔اور مجھے یہ بتا لینے دو کہ وہ ٹشو وہ اپنے ساتھ پاکستان لے گیا۔

اور مجھے یہ بھی بتا لینے دو کہ وہ ٹشو وہ اپنے ساتھ پاکستان لے گیا۔

میں ایک استاد ہوں امرحہ، استاد میں تعصب نہیں ہوتا۔ تمہاری غلطی تمہاری ہوگی تمہاری قوم کی نہیں، ہم تعصب کو ختم کرنے والے ہیں، تعصب پھیلانے یا پالنے والے نہیں۔ میں۔انتا ہوں پاکستان میں کئی شزا ہونگی، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان طالب غفور جیسے لوگوں سے بھی بھرا پڑا ہوگا۔

امرحہ لاجواب ہو گئ۔

ایک بار شزا کے پاپا یونیورسٹی آئے وہ انہیں ایسے یونیورسٹی دکھاتی رہی جیسے کہتی ہو۔

اگلے چند سالوں میں یہ بھی ہماری ہوجائے گی۔۔۔۔ ہے نا پاپا؟

اور سویٹ پاپا کہتے ہوں۔

کوئی شک۔۔۔؟

تو یہ شوں شوں شزا بھی عالیان کے بارے میں خبریں رکھنے میں دلچسپی رکھتی تھی اور یقیناً اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش بھی کی ہوگی۔۔۔ لیکن وہ رسائی صرف امرحہ کی ہوسکی تھی۔

علی کامنز کے باغ میں بیٹھے وہ خود کو اداس ہونے سے روک رہی تھی۔ اس کا رزلٹ اچھا رہا تھا اور ظاہر ہے وہ خوش ہوکر بھی خوش نہیں تھی۔ ایگزامز کے دنوں میں عالیان نے اسے یونی کون (uni corn)دیا تھا۔ جسکی پیشانی کے سینگ پر سفید چٹ بھی تھی اور عالیان کی لکھائی میں۔

Keep calm and ride a unicorn into examz.

لکھا تھا۔ ایگزامز کے دنوں میں کم و بیش ہر اسٹوڈنٹ کے اسٹڈی ٹیبل پر یہ یونی کون نظر آتا ہے۔

کچھ سینیرز فریشرز کو دیتے ہیں۔۔۔ کچھ گھروں سے لے کر نکلتے ہیں۔۔۔ لیکن اس بے خبر امرحہ کو عالیان نے دے دیا تھا۔ ایگزامز کی تیاری کے دوران وہ تھک جاتی تو اس چٹ کو دیکھ لیتی اور جیسے اس میں ایک نامعلوم سی طاقت عود کر آجاتی اور وہ تن دہی سے پھر سے پڑھنے لگتی۔

اگر سب پہلے جیسا ہوتا تو عالیان شاید اس کے پاس آتا۔ نیلے پیلے سفید پھول لے کر اور کہتا۔

"اگلی بار اس سے بھی اچھے رزلٹ پر تمہیں اس سے بڑا پھولوں کا گملا ملے گا، تیسرے سمسٹر میں پھولوں کا گودام ملے گا۔ اور چوتھے فائنل میں۔۔۔" وہ شرارت سے مسکرا کر خاموش ہوجاتا۔

سارے مرجھائے پھولوں نے امرحہ کے گرد ڈھیر لگا لیا۔۔۔ 

وہ اٹھ کر لائبریری آگئی۔

"کیسی ہو مینڈکی؟"

کیسی ہو مینڈکی؟

وہ اپنی کتابیں ایشو کروا چکی تھی، اور یونیورسٹی کا منحوس ترین انسان کارل اپنی کتابیں ایشو کروا رہا تھا۔

چیونگم سے وہ ایسے پٹاخے پھوڑ رہا تھا اور اتنی تیزی سے جیسے اسے جلد از جلد اس چیونگم سے ننھا بم تیار کرنا ہو اور وہ بم اس کے منہ میں ہی تیار ہونا ہو۔۔۔ اور پھر اس نے وہ بم پر دے مارنا ہو۔

امرحہ سے بہترین کون مستحق ہوگا کارل کے بم کا۔۔۔

کچھ شزا کا غصہ۔۔۔ کچھ سے زیادہ اپنے اندر کا دکھ اور کچھ ہارٹ راک میں ڈسک کا چلایا جانا،اس نے ہاتھ میں پکڑی تین وزنی، موٹی کتابوں کا سیٹ اس کے سر پہ دے مارا۔

مجھ سے دور رہا کرو۔۔۔ مینڈک ہوگے تم، تمہارا خاندان اور آگے پیچھے کے سب فلاں فلاں اور فلانی، فلانیاں۔۔۔ تم سے آگے کا فقرہ اس نے اردو میں کہا اور آنکھوں میں آگ بھر کر اسے گھورنے لگی۔

کاؤنٹر پر کھڑے تین لائبریرین کے ہاتھ کام کرتے رک گئے۔ پچاس ساٹھ کے قریب ادھر ادھر کھڑے آتے جاتے اسٹوڈنٹس نے باقاعدہ رک کر اس منظر کو دیکھا۔ ذرا دور کھڑی منجلا کے ہاتھ سے کتابیں گر گئیں۔ بھلا منجلا کو کیا ضرورت پڑی تھی اپنے وزن سے زیادہ کتابیں اٹھانے کی۔

اور کارل۔۔؟؟

کارل کا چیونگم چباتا جبڑا رک گیا، بم اس کے جبڑے کے اندر ہی  پھٹا اور دھواں کانوں،آنکھوں، ناک سے نکلا، اس نے گردن کو زرا سا خم دیا اور آنکھوں کو ذرا سا پھیلا کر امرحہ کو دیکھا،اسے دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔یعنی تم۔ ۔۔۔۔۔۔۔تم مینڈکی۔۔۔۔۔۔دی لاسٹ ڈک۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری اتنی جراءت۔۔۔۔۔۔آہاں۔ ۔۔۔۔۔ہم۔ ۔۔۔۔۔۔۔اوہ۔ ۔۔۔۔۔۔آہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ناوب آئی سی۔

زیرِ لب مسکراتا دو انگلیاں اس کی طرف اٹھا کر اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر ایران کے لیے امریکی مارکہ watching you (واچنگ یو ) کی دھمکی ایران کو دیتے.........امرحہ کو دیتے لائبریری سے باہر نکل گیا_

لائبریری کا ماحول جو اس کے سر پر کتابیں پڑنے سے وہیں فریز ہو گیا تھا_پھر سے رواں دواں ہو گیا_وہ اپنی کتابیں سنبھالتی باہر نکلی اور یہ کیا¿کارل ایک دم کسی چھلاوے کی طرح اسکے سامنے آیا اور اس کے ہاتھ سے کتابیں چھین کے کے گیا دو سیکنڈ بھی کم ہوں گے اس نے اس سے بھی کم وقت لیا یہ کام کرنے میں,تالیاں کارل کے لیے اور امرحہ کے لیے ایک عدد ٹشو پیپر...........

لائبریری کی کتابیں لے گیا.........فریز سی حالت میں امرحہ خوف سے بڑبڑائی.........

اوہ.....امرحہ کا سر گھوم گیا یہ اس نے کیا کیا¿ اس نے کارل کے ساتھ پنجابی پنگا کیوں لیا.....اوہ'وہ لائبریری کی ملکیت کتابیں لے گیا تھا...وہ انہیں ضائع کر دے گا_اور اسے جرمانہ بھرنا پڑے گا_اتنا جرمانہ اس نے تو اتنی مہنگی اور تاریخی کتابیں نکلوایں تھی. اللہ امرحہ سے پوچھے اس نے اتنی فاش غلطی کیوں کی.......جب وہ کارل جیسا دماغ نہیں رکھتی تو کارل جیسا غصہ بھی نہیں رکھنا چاہیے تھا_وہ بزنس سکول کی طرف بھاگی کارل کو ڈھونڈنے پر اب تو جیمز بونڈ'انڈیا ناجونز'سی آئی اے کے آگے پیچھے کے سب رشتے دار بھی آ جاتےتو بھی کارل کو نا ڈھونڈا جا سکتا.وہ بزنس سکول کے کاریڈور میں کھڑی تھی اور بے بسی سے عالیان کے پاس جانے کا سوچ رہی تھی.لیکن آخری بار جو اسکی آنکھوں سے جھلکتی سرد مہری دیکھ لی تھی اسکی کپکپی ہی نا تھمی تھی_تو پھر سے کیسے اسکے پاس چلی جاتی اسے ویرا کے پاس جانا پڑا.....

تم اس سے کیوں الجھی؟

دماغ چل گیا تھا میرا.....

کچھ کر ہوں ......تم پر سکون رہو....ویرا کارل کو فون کرنے لگی.....

وہ کہہ ریا ہے تمہیں کل دے دے گا....آج ہی کیوں نہیں اس کی شکل پے ہوائیاں اڑنے لگی......

تم نے اس کے سر پر کتابیں دے ماریں ایک دن کی خواری تو وہ تمہیں دے گا نا.....ویرا نے  اسکو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے بات کو مزاح کا رنگ دیا..........اگر تم کہو توہال سے جا کے کا دوں اس کے روم سے_ویرا پچھلے واقعے سے اسقدر شرمندہ تھی کہ کوشش کرتی تھی اسکا خیال رکھ سکے. _

نہیں کل تک کا انتظار کر لیتی ہوں_

لیکن....لیکن یہ ایک دن کی خواری ہرگز نہیں تھی اسے ویرا سے کہہ دینا چاہیے تھا اس کے روم سے چھاپہ مار کے کتابیں ابھی لے آئے_لیکن اب دیر ہو چکی تھی اگلے دن کارل کتابیں لیے اسکے سامنے کھڑا تھا.یہ لو امریحہ دی مینڈکی...... میں تمہیں روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا.لیکن پہلے مجھے سوری بولو....کتابیں اس نے سینے کے ساتھ دونوں بازوں کی لپیٹ میں تھام رکھی تھی...حفاظت سے محبت سے

سوری....امریحہ کی مری مری آواز نکلی

جس وقت تم نے مجھے کتابیں ماری تھی کم سے کم دو سو لوگوں نے دیکھا تھا یعنی میرے پاس دو سو لوگ گواہ تھے...... چشم دید گواہ

تم سمجھ رہی ہو نا اس سے کیا کیا ہو سکتا تھا...تم یونیورسٹی سے بے دخل ہوتی پھر میں تم پر پورے دس لاکھ پاونڈ کا ہتک عزت اور قاتلانہ حملے کا ہرجانے کا دعوا کرتا۔لیکن ایک تو میں رحم دل بہت ہوں۔چھوٹا سا میاؤں میاؤں سا دل ہے میرا۔اور پھر تم سے پرانی دوستی بھی ہے۔اب تمہاری سوری کو کم سے کم چار سو لوگوں کو تو سننا چاہیے نا۔یہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔بلاشبہ میں انصاف پسندی سے کام لے رہا ہوں“دونوں انگلش ڈپارٹمنٹ کے باہر کھڑے تھے اور وہاں اور قریب و جوار میں اتنے اسٹوڈنٹس  تو تھے کہ کارل کی حسرت پوری ہو جاتی۔امرحہ نے پھر سے اس وقت کو کوسا،جس وقت اس نے دکھ اور غصے سے بھڑک کر کتابیں مارنے کی خوفناک غلطی کر ڈالی تھی۔

لب بھینچ کر اس نے آس پاس دیکھا اور قدرے بلند آواز میں کہا ”سوری“

کارل سینے سے کتابیں لگائے ذرا سا کمر اور سر کو خم دے کر کھڑا رہا،اس کی گہری نیلی آنکھوں میں قہقہوں کے جوار بھاٹا پھٹنے لگے۔بڑی ادا سے اس نے کسی ملکہ عالیہ کی طرح گردن گھما کر آس پاس دیکھا ،پھر ہونٹوں کو ارادتاً بگاڑ لیا،جیسے اس صورت حال نے اس کے قومی وقار اور باعزت شخصیت کو صدمہ پہنچایا ہو اور اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہو.....

”کوئی متوجہ ہی نہیں ہوا.....“بگڑے ہونٹوں کے ساتھ اس نے انگلی سے اشارہ کر کے امرحہ کو گردن گھما کر دیکھنے کا اشارہ کیا۔

امرحہ نے قطعاً گردن نہیں گھمائی....وہ تو یہ سوچ رہی تھی کہ آخر وہ ماسٹرز کرکے کیاکرے گی۔یعنی اگر وہ یونیورسٹی چھوڑ کر لاہور چلی جائے تو کیسا رہے گا۔اس کارل سے کہیں زیادہ رحم دل اسے منحوس کہنے والے تھے۔

”مجھے چلے جانا چاہیے ۔میں نے اپنا اردہ بدل دیا ہے۔میں پورے پندرہ لاکھ پاؤنڈ کا دعوا کروں گا۔“کارل جانے لگا۔

”سوری“امرحہ نے پوری شدت سے چلا کر کہا ۔ہرجانے کا دعوا  تووہ کیا کرتا اسےلائبریری کی کتابوں کی فکر تھی۔کافی سے زیادہ فرق پڑا اس بار....سب نے حیرت سے امرحہ کو دیکھا ۔ماحول ایک بار پھر فریز سا ہوگیا ۔گردنیں امرحہ کی طرف مڑ گئیں۔آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔کارل نے ادائے بےنیازی سے کہ وہ تو امرحہ کے کسی مسلےکو حل کرنے کےلیےاس کے پاس کھڑا ہے آنکھوں کی پتلیوں کو گول گول گھما کر ”فریز “ ہو چکے اس منظرکو دیکھا۔جیسے شانت سا ہوگیا ۔

”یہ کچھ بہتر رہاہے۔اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوئی کہ رونے کے علاوہ بھی تم بہت کچھ کر سکتی ہو۔یعنی کمال کر سکتی ہو۔یہ لو اپنی کتابیں....میں ہنٹ (hint)دیتا تو نہیں ہوں،لیکن تمہیں دے رہا ہوں۔پھر ملتے ہیں۔“

دو انگلیوں سے اچانک  وی کا اشارہ دیتا وہ عالیان کی طرح ہی ہوا میں اچھل کر پیروں کی تالی بجاتا غائب ہو گیا۔اور امرحہ کا جی چاہا کہ وہ واپس کتابیں اس کے سر پر دے مارے ۔

مارتی رہے مارتی رہے کہ آخر کار اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے ،ساری کتابیں تیز بلیڈ سے کاٹی ہوئی تھیں۔صفحات درمیاں سے دو حصوں میں کیے تھے وہ کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکتی تھی کہ یہ کارل نے کیا ہے ۔اسے اپنی محنت کی کمائی سے جمع کیے گئے پاؤنڈز میں  سےبھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

کارل زمین پر موجود سب سے  زیادہ منحوس انسان .....

دو دن وہ کھانا نہیں کھا سکی ،سو نہیں سکی،اس کی جی میں آیا کہ وہ کارل کو وہ ساری بدعائیں دے ڈالے ،جو پنجاب کی خواتین روایتی خاندانی لڑائیوں میں دیتی ہیں۔لیکن وہ اسے چند امرحہ ٹائپ بدعائیں ہی دے سکی۔جیسے کہ مانچسٹر میں جب بادل چھائیں تو آسمانی بجلی تم پر ٹوٹ پڑے اورایسے گرے کہ تمہیں سیاہ بھوت بنا دے۔تم زندہ رہو لیکن مردو کی طرح ،یونی کے سب اسٹوڈنٹس تمہیں دیکھتے ہی چیخیں مارنے لگیں۔دل برداشتہ ہو کر تم یونی ہی چھوڑ جاؤ اور یا یہ کہ  تم رات کو سو تو صبح اٹھو karal کارل "ڈی  ترنیا" کے لومڑ بن چکے ہو_

اس واقع کے بعد وہ زمین پر سب سے دکھی لوگوں میں سے ایک ہو گئی اسے پوری شدت سے یہ محسوس ہوتا تھا کے وو اکیلی ہو گئی ہے_عالیان اسے کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا ایک بار وہ اسے دکھائی دیا بھی تو اپنے آپ کو سیاہ ہڈ میں چھپائے۔ اگر میں کہیں گم ہو جاؤں تو تم مجھے کیسے ڈھونڈو گی؟ ایک بار وہ امریحہ سے پوچھنے لگا ؟ وہ کیا سوچتا رہتا ہے ؟  وہ گم ہونے جا رہا ہے اور اسے یہ  انتظام بھی رکھنا تھا کے اسے ڈھونڈ لیا جائے ۔

تمہارے ان لمبے کانوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سنجیدگی سے کہا لیکن ساتھ ساتھ سیاہ  پتلیاں بھی مٹکائیں۔ 

میری شناخت کے لیے یہ اتنا اہم کردار ادا کریں گے مجھے اندازہ نہیں تھا میں دعا کرتا ہوں یہ لمبے۔۔۔۔۔اور لمبے ہو جائیں

 تا کہ مجھے جلدی سے ڈھونڈ لیا جائے۔

اب تو وہ جلدی سے گم ہو گیا تھا امرحہ اسے بڑے اور لمبے کانوں سے پہچان کر ڈھونڈ نا نکالے اس لیے انہیں ہڈی میں چھپا کر رکھتا تھا کیا معمولی بات تھی لیکن کافی تکلیف دہ بات تھی۔ ۔۔۔

ہاٹ راک کے باہر آخری ملاقات کے بعد امریحہ نے اسے بہت دنوں بعد  آکسفورڈ روڈ پر تیزی سے سائیکل چلاتے دیکھا تھا امریحہ بس میں تھی کاش بس کی جگہ وہاں کوئی لاہوری رکشا ہوتا تو کہتی  وہ رکشے والے سے کہتی بھیا  ذرا اس سرمئی ہوڈی والے کا پیچھا کرنا  وہ دیکھنا چاہتی تھی کے آخر اب وہ کہاں اتنا مصروف رہتا ہے کے نظر ہی نہیں آتا اسی روڈ پر اس کے ساتھ چہل قدمی کرنے والا، اس روڈ سے اس سے دور بھاگ رہا تھا 

وہ چپکے سے بزنس اسکول کے کتنے ہی چکر لگا  لیتی وہ اسے نظر نہیں آتا تھا ۔وہ واقع میں زہین تھا چھپ جانا جانتا تھا امریحہ تو ناکارہ  تھی وہ اسے اتنی بڑی یونی میں ڈھونڈ نکالتا تھا اکثر وہ یونی میوزیم کے کسی کونے  میں چھپی کھڑی ہوتی اور وہ پیچھے جا کے کھڑا ہو جاتا جیسے چلتے چلتے اسے خواب آ جاتے ہوں کے امریحہ کہاں ہے اور اسے ٹھیک ٹھیک معلوم ہو کے امریحہ نامی جہاز مانسچڑ یونی کے آسمان پر کس طرف محو پرواز ہے  امریحہ کو یہ خواب نہیں آتے تھے کے وہ کہاں ہے؟  سارے خواب عالیاں کو ہی کیوں اے ؟ سارے الہام عالیان ہی کو کیوں ہووے؟ 

اس مغرب میں رہنے والے کو مشرقی آداب کس نے سیکھائے؟

ڈھونڈ نکالتا اور ظاہر بھی نا کرتا ان گروں کا بادشاہ وہ کب بنا ؟وہ دوبارہ عالیان سے بات کرنے کی ہمّت نہ کر پائی۔وہ iسے دیکھ لینا چاہتی تھی۔ ان کے درمیان  جو کچھ ہو چکا تھا اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگنے والا تھا اور مرہم بھی ۔۔۔۔

مرہم وقت کے تھال پر تھا اور وقت قسمت کی مٹھی میں ۔۔۔۔۔

امریحہ کے ہاتھ میں تو اب کچھ نا رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔ڈی بیگ بین  لندن ڈبل ڈیک بس اور لندن ٹیکسی برتانیہ کے لینڈ مارک مانے جاتے ہیں اور سائی کو مانسچٹر یونی کے سٹوڈنٹ کا لینڈ مارک جانا جاتا تھا بنا کسی شک و شعبہ کے say it all سب کہ دو یعنی سائی۔ ۔۔  ۔۔

پیلے رنگ کے بورڈ پے نارنجی روشنائی سے یہ الفاظ سائی کی لکھائی میں لکھے ہیں یونی میں شاید کوئی ایسا بد نصیب ہو گا جوبورڈ کے ملک کو نہ جانتا ہو 

سائی سیاہ فام نسلاْ امریکی لیکن برطانوی شہری ہے ۔اسکا اصل نام ایڈی ہے ہلکے گھنگھریالے بال،پتلا سا جس کی وجہ سے کچ زیادہ ہی  لمبا دیکھتا تھا آنکھیں گول گول اور نمایاں اور ان پر پتلے فریم کا نظر کا چشمہ......

اپنے بیگ کو دونوں کندھوں پر پھنسائے کمر پر پیچھے لٹکائے. ...وہ مانچسٹر یونی کا زمینی فرشتہ ہے.....یونی کا دادا'دادی'نانا'نانی جی'چچا'ماموں'خالہ'بھائی بہن اور دوست ....وہ سب تھا ....وہ سائی تھا.

"یونیورسٹی میں اسکے بیٹھنے کی ایک ہی مخصوص جگہ تھی.علی لرننگ کامن کے باغ کے درخت تلے'ویسے اسے کہیں بھی روک کر بٹھایا جا سکتا تھا 'وہ اعتراض نہیں کیا کرتا تھا.کیونکہ وہ تو فرشتہ تھا اس تک رسائی بہت آسان تھی.جب وہ  فارغ ہوتا درخت تلے آ کر بیٹھ جاتا اور بیگ میں سے بورڈ نکال کر رکھ لیتا.....مطلب....."

"میں فارغ ہوں .ہمہ تن گوش ہوں آو میں سب سنوں گا اور تم سب کہہ ڈالو. اپنے درد ....اپنی تکلیفیں. وہ سب فضول کی باتیں جو کوئی اور نہیں سنتا.تمہارے رونے کے قصے'تمہارے نہ ہنسنے کی وجوہات 'تمہاری خالی جیب کی بد قسمتیاں 'تمہاری کمرے سے کھانے کی اشیاء کا غائب ہو جانا' شیمپوز پرفیومز' اور ایسی ہی دوسری چیزوں کی گمشدگی کا 'آئے دن وقوع پذیر ہونا.اسائنمنٹس کا مکمل نہ ہو نا.پڑھائی ایک بوجھ لگنا' پرانی کتابوں کا نہ بکنا ' نئی کتابوں کے پیسوں کا بار اور کیفے میں اڑ جانا' لیکچر سے ذیادہ تمہارا دھیان  پارٹی میں لگے رہنا'گھر کی یاد سنانا.

مجھے کوئی اعتراض نہیں ....میں تو سب سننے کے لیے دل و جان سے تیار ہوں."ایڈی یعنی سائی یونی کا چار سالہ اسٹوڈنٹ ہے .اسکی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں گردش کرتی رہتی ہیں.

کچھ کہتے ہیں کہ جب وہ نیا نیا یونی آیا تھا تو کچھ معاملات کو لے کر بہت پریشان رہا کرتا تھا کہ فلاں فلاں درخت تلے بیٹھ کر رونے لگتا.اسنے ایک دو کے اسٹوڈنٹس کو اپنے بات سنانے کی کوشش کی 'لیکن کچھ کے پاس وقت نہیں تھا اور کچھ کا کہنا تھا کی وہ بےکار باتوں کو لے کر پریشان ہے.اب اگر کسی پروفیسر نے اسکی آگے کی رو میں بیٹھے لڑکے کو مسکرا کر دیکھ لیا'اور بعدازاں سائی کو ذرا ترچھی نگاہوں سے دیکھ لیا تو اس میں روبے کی کیا بات ہے.پروفیسر کو تو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آخر کر کیا رہے ہیں.اور اگر کاریڈور میں چلتے شرارتی لڑکیوں نے ایک دم سے اسکے سامنے آ کر دائرہ بنا کر چٹکیوں بھر کر اسکا چشمہ اتار کر بھاگ گئیں تو اسے تو انجوائے کرنا چاہیے کہ ایسی تتلیاں لڑکیاں صرف اسکے ساتھ شرارت کرتی ہیں.مزید یونی میں چلتے پھرتے کوئی اسے پین کی باریک نب چبھو دیتا ہے اور متواتر ایسا کر رہا ہے تو یہ کوئی خاص بات نہیں.وہ بھی ایک پین خرید لے باریک نب کا'بلکہ ہیں ہی کیوں ایک چھوٹا سا خنجر .....اوہو. ...ورنہ وہ اپنے پھل کاٹنے والی چھری ہی بیگ میں رکھ کر لے آئے..... اس میں کیا مسلہ تھا آخر...........

چھ مہینے بعد سائی نے محسوس کیا کہ بہت دی باتیں دوسروں کیلیے بہت معمولی اور غیر اہم ہوتی ہیں جبکہ وہی باتیں کسی ایک کیلیے بہت اہم اور غیر معمولی ہو جاتی ہیں .اسنے ایک بورڈ بنایا اور اس پر say it all لکھا اور اسے لے کر یونی میں گشت کرتا .جہاں کوئی اس سے اسکا مطلب پوچھتا تو وہ بتا دیتا.پہلے پہل اسکے بورڈ کی ضرورت کسی کو محسوس نہ ہوئی.بلکہ یہ ایک مضحکہ خیز خیال لگا

ظاہر ہے ہم اپنی باتیں اپنے دوستوں سے شئیر کرتے ہیں.....خوف سے کسی سے بھی نہیں کرتے.....ویسے دوستوں کے ساتھ شئیر کر دینے سے ہی وہ بی بی سی نیوز سروس کی طرح سارے میں نشر ہو جاتی ہیں تو ایک انجانے انسان کے ساتھ شئیر کرنے کا رسک کوئی کیونکر لے گا.بلکہ نتیجے کے طور پر انکا کیا حال ہو گا .نہ ختم ہونے والی لڑائیاں. .. اور تاریخی عظیم اسٹوڈنٹس اسکینڈلز کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ....یعنی انجام...  یہی سب نا؟ لیکن آہستہ آہستہ لڑکے لڑکیاں  اسکے پاس آنے لگے.خاص کر  .وہ جن کی نئی نئی کسی دوست سے لڑائی ہوئی ہوتی یا پروفیسر نے ڈبے ڈبے لفظوں میں کلاس میں انکی بے عزتی کردی ہوتی......کےصرف اسے  لطیفے سنانے کے لیے آتے.وہ لطیفے جو بعدازاں انہوں نے کلاس میں کریک کرنے ہوتے کہ کلاس ہنسنے لگی بھی یا نہیں.کچھ گروپ کی صورت میں آتے.

"سائی!دیکھو ہم میں سے کون سب سے ذیادہ کیوٹ لگتا ہے."

سائی انگلی اٹھاتا اور ایک ایک کی طرف اشارہ کر دیتا یعنی تم پانچوں کیوٹ ہو ذیادہ تر اسکے پاس لڑکیاں آتیں.

اب یہ سائی کا اصول تھا کہ برطانیہ امریکہ بلکہ پورے یورپ کی فوج بھی اسکے گرد گھیرے ڈال کر کھڑی ہو جاتی تو بھی وہ کسی کا بتایا ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالتا. اسے بم سے اڑا دو یا توپ سے'اگر کوئی اسے کچھ بتا گیا ہے دل کا حال سنا گیا ہے تو بس اب وہ سائی کے سینے میں دفن ہو چکا ہے 'سوئس بینکوں کے سب ہی پیسے نکال کر بھی اسکے آگے بینکوں کے سب ہی پیسے نکال کر بھی اسکے آگے ڈھیر کر دیے جائیں تو بھی اس کا منہ نہیں کھلے گا.

یونی کے بہت سارے اسٹوڈنٹس اسے رازوں کا ایٹم بم کہتے.ایک صرف اسکی زبان کھل جاتی تو وہ برباد ہو جاتے.

اب کوئی لائبریری کی کتابیں چرا بیٹھا ہے.جیسے لائبریری سے کسی نے کتابیں ایشو کروائیں اور باغ میں بیٹھے یا کینٹین میں کافی'چائے پیتے وہ ذرا سی دیر کو اپنی کتابوں سے غافل ہو گیا تو یہ کتاب چور بھائی صاحب یا بہن جی'اس غافل اسٹوڈنٹ کو سبق سیکھانے کیلیے فورا کتابیں لےکر  غائب 'اور اب اسکا  ضمیر اسے سونے نہیں دے رہا تو یا سے پولیس کے سائرن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں تو وہ سائی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے.

"میں نے کتابیں چرالیں. ....مجھے پیسوں کی ضرورت تھی سائی!پچھلے دو ہفتوں سے میں دی پرنٹ ورک نہیں گیا .....کوئی فلم نہیں دیکھی.کرسٹن کی پارٹی  میں وہی پرانی شرٹ پہن کر جاتا کیا.میں نی اس کیلئے گفٹ بھی نہیں لیا.گفٹ میں نے اسے دینا بھی نہیں تھا وہ کونسا دیتی ہے.گفٹ نہ دینا ہو 'پیسے تو چاھیے ہوتے ہیں نا سائی!جب میں امیر آدمی بن جاؤں گا تو پوری ایک لاکھ کتابیں لائبریری کو چندے میں دوں گا.چلو دو لاکھ.....میرا خیال ہے چار لاکھ ٹھیک ہیں.یونی کی لائبریری بھی تو اتنی بڑی ہے ."

اگلا آتا..."میں کل رات نشے میں تھا میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو گھونسا مارا'وہ بے چارا کوئی غریب افریقی تھا.وہ مجھے میرے کمرے کے بیڈ تک لٹا کر گیا اور دروازہ ٹھیک سے بند کر گیا.اسنے میری جیبوں بھی نہیں ٹٹولیں .میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں .وہ جلد ہی مجھے مل جائے گا .میں اس سے معاف کر دوں گا'نہیں...یعنی میں اس سے معافی مانگ لوں گا .مجھے کل رات نیند ہی نہیں آئی.دعا کرنا آج آ جائے.میں زمیں پر سو رہا ہوں.بیڈ پر افریقی ڈرائیور سوتا ہے.......ہاں آج کل اسکا بھوت ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا ہے....وہ مجھے کچھ کہتا نہیں ہے'پھر بھی مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے."

کوئی اور آتا...."لزا میری گرل فرینڈ ہے لیکن .....لیکن مجھے اب اسکی دوست دی وی آن اچھی لگنے لگی ہے.....میں کیا کروں سائی.......لزا اچھی ہے اور دی وی بھی اچھی ہے....میں بھی اچھا ہوں .ہم سب اچھے ہیں 'پھر میں کیا کروں سائی؟"

تو اب یہی سائی اگر لزا کو بتا دے کہ پیاری دوست اور ننھی بھولی بھالی لڑکی تمہارا بوائے فرینڈ جوناتھن 'تمہاری پیاری دوست دی وی کو بالیڈے ان میں دوبار ڈنر کیلیے لے جا چکا ہے.ہاں ہاں ان ہی پیسوں سے جو اسنے گلے کی سوزش کے علاج کا بہانہ کر کے تم سے لیے تھے.

تو لزا کو اتنی سی بات بتا دینے پر کیا چھوٹا سا کترینہ طوفان    لا ڈپارٹمنٹ کی دیواروں سے نا ٹکرایا...........

پھر سائی لائبریری اسٹاف کے پاس جاتا اور کہتا یورنیورسٹی کی کتابیں چرانے والوں میں سے ایک یہ رین بھی ہے۔ اسے پکڑو اسے جرمانہ کرو۔ بلکہ یونی سے ہی باہر کرو۔ اور یہ بریڈ ڈیننیل، یہ ہر رات نشے میں دھت ہوکر کسی نہ کسی کو مارتا ہے۔ ایک رات وہ دیوار پہ بنے کارٹون کو دیر تک مارتا رہا، اگع ریسٹورنٹ کی دیوار ٹوٹ جاتی تو ریسٹورنٹ یونی پر ہرجانے کا دعوا کر دیتی۔ پیسوں کے لیے نہیں شہرت کے لیے تو برائے مہربانی اس محمد علی کلے کو سنبھالیں۔

یعنی ایک ساتھی کی وجہ سے آدھی یونی جرمانہ بھرتی یا یونی خالی کرتی۔۔۔ لیکن وہ سائی تھا سنتا تھا بتاتا نہیں تھا۔۔۔ ہاں تو زیادہ تر اسکے پاس لڑکیاں آتیں۔۔۔ جو لڑکی سائی کے پاس بیٹھی نظر آجاتی۔۔۔ اسکے بوائے فرینڈ کو بہت تشویش ہوتی۔۔۔ یا اسکے دوستوں کو۔۔۔ اور وہ ساتھ ساتھ ٹشو سے آنکھیں بھی رگڑ رہی ہوتی۔۔۔ تو بس پھر خیر نہ ہوتی اور سائی بڑی شفقت سے اس ننھی منی چڑیا کے آنسو ٹشو سے صاف کر رہا ہوتا۔

سائی۔۔۔ میں نے اتنا مہنگا ڈریس لیا۔۔۔ دو گھنٹے لگا کر میک اپ کیا، تیار ہوئی، بالوں کو کلر بھی کیا۔۔۔ اور اس نے کہا۔۔۔ کاش تھوڑے سے ہی سہی پر تمہارے دانت صاف ہوتے جب تم چھوٹی تھیں تو تمہاری ماما تمہارے دانتوں پر لگتا کیڑا کیوں نہیں دیکھ سکیں۔۔۔

اتنی غافل ماما ہیں تمہاری۔۔۔ سائی اسے صرف میرے دانت نظر آرہے تھے۔۔۔۔ گلابی میک اپ سے سجی میری آنکھیں نہیں۔۔۔ اور میں تو ہنس بھی نہیں رہی تھی۔۔۔ بول بھی کم رہی تھی پھر بھی اس کی ماما میرے دانتوں کو ہی گھورتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ تمہیں دانتوں کا کینسر تو نہیں۔۔۔ بیٹھے بٹھائے انہوں نے میرے دانتوں کو کینسر کروا دیا۔۔۔ پھر اسکا بھائی آیا۔۔۔

جس کے آتے ہی گھر بدبو سے بھر گیا۔۔۔ وہ مجھے دیکھتا رہا اور جانتے ہو اس نے مجھے کیا کہا۔۔۔ میرا ایک دوست ہے ڈینٹسٹ۔۔۔ اس نے دانتوں کے پیچیدہ ترین کیس نپٹائے ہیں۔۔۔وہ تمہارے لیے بھی ضرور کچھ کر دے گا۔۔۔ اگرچہ میں اسے ناکام دیکھ رہا ہوں۔۔۔ پھر وہ منہ کھول کر ہنسنے لگا اور بدبو سے میرا دم گھٹنے لگا پہلے وہ اپنی بدبو کا علاج کیوں نہیں کروالیتا۔۔۔ سائی ایسی محبت کا کیا فائدہ، کہ آپ اس کے سامنے اس لیے کم بولیں کہ وہ پھر سے آپکے دانتوں کو لیکر بیٹھ جائے گا۔۔۔ وہ ہر ملاقات میں میرے دانتوں کا ذکر ضرور کرتا ہے۔۔۔ کیوں کرتا ہے وہ ایسا۔۔ میں اسے چھوڑ رہی ہوں سائی۔۔۔میں بہت روؤں گی۔۔۔پر یہ روز روز لے رونے سے اچھا ہے۔۔۔

سوں سوں کرنے۔۔۔ آنسو بہانے اور صاف کرنے کا وقفہ۔۔۔ جب میں کیمسٹری کا نوبل انعام لے رہی ہوگی تو اپنے بدبودار بھائی کے ساتھ بیٹھے مجھے ٹی وی پر براہ راست دیکھتے، اسے ضرور دکھ ہوگا۔۔۔ لیکن اس وقت کچھ نہیں ہوسکے گا، میری زندگی میں مارک زیک برگ آچکا ہوگا۔۔  اور میں اپنا انعام اسی کے نام نروں گی۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ میں یہی کرونگی۔۔۔

یونی میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا تھا سنا تھا 

میں جہاں وہ رہتا تھا اکثر رات گئے اسے اٹھایا جاتا اور کمرے میں کہیں رکھے Say it all بورڈ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اسکے پاس رکھا جاتا اور پھر اس پر اپنی فرسٹریشن نکالی جاتی وہ بیڈکراؤن سے ٹیک لگا کر یا زمین پر اسٹوڈنٹ کے ساتھ ہی بیٹھ جاتا اور رو رو کر ستایا جانے والا حال سنتا۔

مجھے گھر کانا ہے سائی۔۔۔ میری ماں کیا کھانے بناتی ہے۔۔۔ یہاں کے کھانوں میں بالکل مزہ نہیں ہے، میری تائی کے ہاتھوں میں تو بالکل ذائقہ نہیں ہے۔۔۔ ہفتے میں ایک بار ان کے گھر جاتا ہوں۔۔۔ سارے ہفتے کا بچا ہو کھانا مجھے کھلا دیتی ہیں۔۔۔ پاپا کہتے ہیں گجھے زہر ہی کیوں نہ کھلادے۔۔۔ ہفتہ اتوار تو انکے ہی گھر رہے گا۔۔۔ پاپاجی۔۔۔ نہیں مجھے صرف اپنی ماں کے پاس جانا ہے۔۔۔ 

جالندھر کے رہائشی پرتاپ سنگھ کو رونا بڑا اچھا آتا تھا بے چارہ سائی بھی رونے لگتا تھا۔ 

یونی میں سب اتنے اچھے اچھے کپڑے پہن کر آتے ہیں۔۔۔ ایک میں ہی کیوں غریب ہوں سائی۔۔۔۔۔۔ میرے پاس صرف ایک اچھی سی جینز ہی میں کب تک اسے ہی پہنوں.....میرا آئی فون پرانا ہو چکا ہے.....چھ مہینے سے میں نے وہی ہیر اسٹائل اپنا رکھا ہے کہ مجھے لگنے لگا ہےکہ میں سترھویں صدی کا کوئی جوکر ہوں جسے دیکھ کر بچے بھی نہیں ہنستے.....“آرٹ اسکول کا ٹونی.....

میں پاستا بنا کر رکھ گیا،آیا تو پلیٹ غائب۔کمرہ لاک تھا سائی.....میں قسم کھا سکتا ہوں کمرہ لاک تھا،یہ پانچویں بار ہوا ہے میرا پاستا غائب ہوا ہے....سنا ہے اوک ہاؤس میں جن ون کا سایہ ہے؟وہ پوجا بتا رہی تھی کمرے میں لڑکا ٹھنڈ سے مر گیا اور وہ بھوکا بھی تھا....سائی میں کیسے پتہ کروں وہ کس کمرے میں بھوک سے مرا.....یا ٹھنڈ سے....کیا میرے کمرے میں....کوئی مجھے کچھ بتاتا ہی نہیں ہے میں انتظامیہ کے پاس گیا تو اس نے بڑے ٹھنڈے لیکن جکے ہوئے انداز میں کہا وہ تو شاید ٹھنڈ اور بھوک سے نہ مرا ہو لیکن تم خوف سے یقیناً خوف سے مرنے والے ہو ۔چلو میں تمہارا کمرہ نمبر نوٹ کر لیتا ہوں......”وجے پنڈت کمرہ نمبر 302....Oak ہاؤس.....بےجا خوف اور خدشات کے باعث کمرے میں مردہ پایا گیا ....اس کی بھوت سے بچنے کے لیے اپنی زمہ داری پر کمرہ لیا جائے....سن 2014 شکریہ“

”میں نے اپنی وارڈروب دیکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے نئے جوتے جو ماما نے میری سالگرہ پر مجھے دیے تھے جنہیں میں نے ایک بار بھی استعمال نہیں کیا تھا ،وہ تو کوئی دس بار استعمال کر کے وہاں رکھ چکا ہے....اوہ سائی میں کس قدر لاپروا ہوں....میں نے روز اپنے جوتے کیوں چیک نہ کیے....میں کمرہ لاک کرنا کیسے بھول گیا آخر....لیکن سائی .....آخر کبھی ہم کمرہ لاک کرنا بھول ہی جاتے ہیں نا ....ہم سب ہی.....“

تومانچسٹر یونی میں جو دس بارہ لڑکے لڑکیوں کے گروپ کو دوست رکھتے تھے یا صرف ایک کو ،سائی کی ضرورت کبھی نہ کبھی سب کو پڑتی تھی ....ایک سننے والا کان سب کو چاہیے ہوتا ہے ....پروفیسر تک اس کے پاس پائے جاتے......

سائی سے بات کرنے کے چند طریقے تھے۔

”آپ صرف بولیں وہ صرف سنے .....“زیادہ تر یہی کرتے۔

”آپ بولیں ساتھ وہ بھی بولے....آپ کی اجازت ہو تو....؟“

”آپ بولیں ....پھر وہ سولات کرے.....آپ بول چکے ہو تو وہ آپ کو اچھی یا جیسی کیسی رائے دے....آپ کی اجازت ہو تو ....“

امرحہ سائی کے پاس دو چار بار آچکی تھی،ایک بار جب اسے جاب نہیں مل رہی تھی اور ایک بار جب عالیان نہیں مل رہا تھا....اب کارل والے واقعے کے بعد وہ پھر سے اس کے پاس رونے کے لیے آئی تھی لیکن ایک ہندوستانی لڑکا راما اس کے پاس بیٹھا تھا وہ جانے لگی تو راما نےاسے ہاتھ کے اشارے سے روک لیا۔وہ ہاتھوں کو گود میں رکھے سرجھکائے ایسے بیٹھا تھاجیسے مانچسٹر یونی میں اس کی مہندی کی رسم ادا کی جا رہی ہو....آپ ہنس سکتے ہے لیکن یہی سچ ہے.......

”وہ میری دوست ہے......بہت اچھی دوست......ہاں صرف دوست.....وہ مجھ سے ایک سال سینئر ہےیہ اس کا آخری سمسٹر ہے....پھر وہ چلی جائے گی....فرانس....اس نےکہا میں فرانس آسکتا ہوں اس سے ملنے.....ہاں میں چلا جاؤں گا اس سے ملنے.....ایک سال بعد جاؤں گا.....پھر شاید پانچ  چھ سالوں بعد جاؤں....پھر شاید آٹھ دس سالوں بعد....پھرمیں بوڑھا ہو جاؤں گا اور ظاہر ہے مر جاؤں گا....ظاہرہےہمیں مرنا بھی تو ہو گا نا....شاید وہ بھی کبھی آئے مجھ سے ملنے اترپردیش مجھ سے ملنے.....میں اسے اپنا گاؤں دیکھاؤں گا.....لیکن سائی ! یہ سب سوچتے میں رونے جیسا کیوں ہو جاتا ہوں.....اور سائی وہ ابھی گئی نہیں....اور میں ابھی سے اسے بری طرح یاد کرنے لگا ہوں....ابھی تو وہ میرے پاس ہی ہے ....اسے دیکھطکر مجھے رونا آتا ہے....یہ اس کا آخری سمسٹر ہے.....پھر میرا بھی آخری سمسٹر آجائے گا میں بھی چلا جاؤں گا ....مانچسٹر میں مل کر ....دنیا میں بکھر کر ہم کھو جائیں گے نا سائیں ......“

امرحہ گود میں ہاتھ رکھے آنکھوں کی نمی چھپانے کےلیے سر جھکائے بیٹھے اترپردیش کے راجا کو دیکھ رہی تھی۔کوئی اندھا بھی بتاسکتا تھا کہ اس لڑکی کے چلے جانے کے بعد وہ سیدھے سیدھے مر جائے گا ......

”اسے روک لو راما !“سائی کو مشورے کی اجازت دی گئی۔

”روک لینا اتنا آسان نہیں .....وہ فرنچ ہے.....خاندان کے نام پر اس کے پاس ایک ماں اورایک سوتیلی بہن ہے.....اس کی ماں پہلے ڈانسر رہ چکی ہے.....میرا خاندان.....میں.....میرا کلچر.....“

”کوئی ترکیب نکالو لیکن روک لو اسے.....وہ گئی تو تم بھی اپنی اصل حالت نہیں رہ پاؤگے.....تم مر جاؤ گے راما....اپنے زندہ رہنے کےلیے کچھ کرو.....“امرحہ یک ٹک راما کو دیکھ رہی تھی ،جس فرنچ لڑکی کی بات وہ کر رہا تھا ،کافی مہینوں سےگاہے بگاہے شلوار قمیض ،ساڑی،چولی میں ملبوس نظر آتی رہی تھی۔ماتھے پر چھوٹی سی بندیا بھی لگا لیتی....مے سے بالوں کو چھوٹی کی صورت گوندھ کر رکھنے کی کوشش کرتی۔جس قصے کوراما بیٹھا رو رہا ہے،ایسے ہزاروں قصے مانچسٹر یونی کی دھرتی سے شروع ہو کر ختم بھی ہو جاتے تھے۔اور  صرف خوش قسمت ہی ہوتے تھے جو آہیں اور یادیں نہیں ایک  دوسرے کا ساتھ لے کر نکلتے تھے۔مختلف ملکوں،سماجوں،روایتوں کے حامل اسٹوڈنٹس کا ایک جگہ اکھٹے ہوکر پڑھنا....دوست بننا.....محبت میں مبتلا ہو جانا....اور روایات کے نام پر الگ ہو جانا.....پھر بڑھاپے میں آہیں بھرنا.....یہ سب کڑوی سہی،پر حقیقت تھی۔راما کے بارے میں سوچتے اس نے اپنی نیند گوالی۔وہ اپنی بات بتائے بغیر پلٹ آئی تھی۔

                      *.......*........*

کتابوں والے واقعے کو بمشکل چند دن ہی گزارے تھے کہ صبح وہ یونیورسٹی آئی تھی اور اپنی کلاس کےلیے جا رہی تھی کہ اس کے پاس سے گزرتی ایک لڑکی نے اسے روک لیا۔

”ہے....تمہارا جوتا بہت خوبصورت ہے....کہاں سےطلیا ہے؟“

وہی عظیم عادت تعریف پر پھول جانا ....تو وہ بھی جھٹ  پھول سی گئی اور بھول ہی گئی۔

”اپنے اسٹور سے جہاں میں کام کرتی ہوں۔“

”بہت خوبصورت ہے...اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں پہن کر دیکھ لوں.....میں آؤں گی تمہارے سٹور اسے لینے....“

”ہاں ہاں کیوں نہیں...“اس نے جھٹ جوتا اتار کر اس کے آگے کیااور اس گلابی اسکرٹ اور گلابی گالوں والی لڑکی نے جوتے کو پہننے کے بجائے اسے جھٹ اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔

”ہے....(hey)“امرحہ حیرت زدہ اسے آوازیں ہی دیتی رہ گئی لیکن وہ رکی نہ پلٹی....لیکن رک رک کر چلتا کوئی اور اس کے پاس آرہا تھا.....

کون....بوجھیے کون.....؟“

کارل اور کون.....

اس کے ہاتھ میں اس کا گلابی باربی جوتا تھا۔

”یہ آج کے دن کے لیے میرے پاس رہے گا....تمہاری یاد دلائے گا۔“جوتا اس کے آگے لہرا کر وہ چلا گیا ،ہاں وہ ہنٹ دےکر تو گیا تھاکہ میں آؤں گا....بھلے سے وہ تفصیلات دے دیتا،ہونا یہی تھا....

”اف!“اس نے آس پاس دیکھا،بمشکل ایک جوتے سے چلتی بینچ پر بیٹھی۔شرمندگی سی شرمندگی تھی کوئی....یہ کارل اس کی جان کو آگیا تھا۔اب ایک جوتے کے ساتھ وہ نہ اندر جا سکتی تھی نہ باہر .....اس نے ویرا کو فون کیا ،لیکن اس کا فون بند تھاوہ کلاس میں جا چکی ہو گی....این اون کا بھی بند تھا،سردی کے دن تھے زمین پر پیر رکھنے کےلیے بھی جرات چاہیے تھی اور پھر یوں لنگڑا کر چلنا ۔ناچار وہ اٹھی دوسرا جوتا بھی اتارا اور صرف جرابوں کے ساتھ چلتی بس اسٹاف  تک آئی۔ ۔۔۔

اور کیا__

آئی۔ ۔۔۔

اور کیا__

جی کارل۔ ۔۔۔۔وہ اس کے پیچھے پیچھے اس کی تصویریں لے رہا تھا۔بس آ کر نہیں دے رہی تھی وہ اسٹاپ پر سرف جرابون کے ساتھ ننگے پاؤں کھڑی تھی......دوسرا جوتا ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے گھور کر کچھ دور موجود کارل کو دیکھا۔۔۔۔۔۔اس کے جی میں آئ ہاں بس اب ۔۔۔۔۔۔  اب اسے  قاتلہ بن جانا چاہیے ۔۔۔۔۔اگر اب نہیں بنے گی تو کب بنے گی ؟ کارل کا خون اس پر جائز تھا اسے ساری زندگی میں اتنی کوفت اور  شرمندگی نہیں ہوئی تھی جتنی یونی سے ایسے آتے اور پانچ منٹ بنا جوتوں کے اس طرح کھڑے ہو رہی تھی  تیزی سے اپنی کلاس کے لئے بھاگتے سٹوڈنٹ بھی گردنے موڑ کر اس کی طرف دیکھنا نہیں بھول رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

گھر ای جوتا تبدیل کیا 

تم اتنی جلدی کیوں آ گئی ؟ نشیست گاہ میں ٹی وی دیکھتے لیڈی مہر نے پوچھا 

میرا جوتا۔۔۔۔۔وہ غصے کی شدت سے اتنا ہی کہ پائی کیا 

کیا ہوا جوتے کو ؟؟ اوہ ٹوٹ گیا 

ایک منحوس ہ ہماری یونی میں وہ لے گیا 

وہ چیل کوا ہے کیا  ؟ وہ ہنسی 

نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ڈائین

ڈائین تو فی  میل نہیں ہوتی امریحہ؟

وہ میل ڈائین ہے۔۔۔۔۔وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کے یہی ہے وہ جو ااس کے اورعالیان کے درمیان ایسی دوری کا باعث بنا۔ ۔۔۔۔۔ یہ بات وہ اکثر خود کو تسلی دینے کے لئے سوچ لیا کرتی تھی ۔۔۔۔اپنے کے کا الزام ویرا اور کارل پر دال دیا کرتی تھی جب کے ویرا اور کارل سے زیادہ وہ خود ذمدار تھی 

  جب وہ یونی واپس آئ تو اس کی پہلی کلاس ہو چکی تھی 

باقی کلاسسیز  لے کر وہ جا رہی تھی وہ بندر کی طرح قلابازیاں لگاتا اس کے سامنے آیا 

یہ لو اپنا جوتا۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے جوتا آگے کیا۔۔۔۔۔جس کے گلابی چمڑے کو بلیڈ سے لمبی لمبی لکیریں دے کر کاٹ دیا گیا تھا اور اسکی جھالر سی بن گئی تھی۔اب اسی جوتے کو ریسرچ کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا تھا کہ اس کی ابتدائی شکل کیا رہی ہو گی لیکن پاؤں میں پہننے کے لیے ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ ممکن ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔

اچھا جوتا تھا لیکن قیمتی نہیں تھا تم مارکیٹ سے نیا لے  لینا 

 وہ تیزی سے اس کے آگے چلنے لگی ورنہ آج اسے قاتلہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا 

تم اب تک کہاں تھی امریحہ دی مینڈکی۔ ۔۔۔۔۔

ٹر ٹر ٹر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کب سے اس یونی میں ہوں 

تم تب سے یہاں کیوں نہیں آئ اب سوچتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کے کیسے بیکار اور فضول گئے یہ سب سال۔۔۔۔۔بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے لیکن اب تو تم یہاں ہو نا مجھے وقت کو جمع ضرب دینا آتا ہے اور دیکھو تمہاری جتنی بھی دوستیں اور بہنیں ہیں جیسا کے میں نے سنا ہے ایشیا می بںڑے بڑے خاندان ہوتے ہیں

یعنی تمہاری جو چھ' سات 'آٹھ' دس بہنیں ہیں ہاں جو بلکل تم جیسی ہیں انھیں بھی مانچسٹر بلا لو اسی یونی میں میں کچھ بھی کر کے فنڈز اکٹھے کر لوں گا تا کے انھیں آنے میں آسانی رہے ۔۔۔۔۔۔لیکن برائے مہربانی تم اپنے جیسی ایک ایک کاربن کاپی کو یہاں لاؤ ۔۔۔۔۔۔وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے مزے سے ایسے باتیں کر رہا تھا  جیسے دونوں میں کتاب بدل دوستی ہو۔۔۔۔۔۔۔ جی پنجاب کی دوپٹہ بدل دوستی کو میں نے مانچسٹر میں کتاب بدل دوستی کا نام دے دیا ۔۔۔۔۔ٹھیک کیا نا ؟ 

امریحہ رکی اور شرارے اگلتی آنکھوں سے کارل کو دیکھا ۔۔۔

کارل بھی روک گیا بہت مزے سے امریحہ کو دیکھنے لگا پھر اپنی ناک پر انگلی رکھ لی۔ ۔۔۔۔۔تم ایکس مین سیریز میں کام کرتی رہی ہو یہ دیکھو ۔۔۔۔۔میری خال جل کر پھٹ رہی ہے امریحہ نے کانوں میں ایر فون لگی اور میوزک تیز کر دیا

کر دیا۔ کارل کا قہقہہ اس کی پشت پر دیر تک فضا میں منتشر رہا۔

بس میں بیٹھ کر ایسے دانت پر دانت جمائے جیسے ان دانتوں تلے کارل کی گردن ہو۔۔۔ آ۔۔۔خ تھو۔۔۔ کیا سوچ رہی تھی وہ۔۔۔

کاش میں بھی کارل جیسی ہوتی یا ویرا جیسی، پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی۔۔۔ دو بدو جنگ ہوتی۔

الله جی میرے ذہن میں کوئی ترکیب ڈال دیں کہ اس کارل، فال، شال، کو ہی سب عطا کیا ہوا ہے۔

کارل عالیان سے متعلق دھمکی دے کر تقریباً غائب ہی ہو گیا تھا۔ شاید وہ عالیان کو ڈھونڈتا رہا تھا اور جب عالیان واپس آگیا تو دوبارہ امرحہ سے اس کا ٹکراؤ نہیں ہوا تھا۔۔۔ اپنی عادت سے مجبور ہوکر وہ اسے لائبریری میں چھیڑ بیٹھا اور امرحہ نے پھر سے جیسے اسے اپنے پیچھے لگوالیا۔

ویسے بھی اسکے بارے میں مشہور تھا کہ الٹے کام کیے بنا اسے نیند نہیں آیا کرتی تھی۔۔۔ نہ ہی کھانا کھایا جاتا تھا اس سے۔۔۔ اسکے انسانی ڈھانچے میں سپر اسپرنگ فکس تھے جو اسے کسی پل چین سے رہنے نہ دیتے۔ یہ اسپرنگ اتنے کارآمد تھے کہ دس قدم انسانوں کی طرح چلنے کے بعد وہ گیارہویں قدم پر چھلانگ یا چھلانگ نم چال ضرور اپنا لیتا۔

آتے جاتے اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی چیزیں اچک لینا تو اسکے بائیں کاتھ کی چھوٹی انگلی کا کام تھا۔۔۔۔ یعنی دو ہاتھوں سے برگر پکڑے، منہ کھولے کھانے والا ایک بڑی سی مزےدار سی بائیٹ لینے کے چکروں میں ہے کہ برگر ہی نہیں رہا۔۔۔ عی۔ی شائقین برگر شکار کیطرف ہنس کر دیکھتے ہیں اور اشارے سے بتاتے ہیں۔۔۔

کارل۔۔۔

اب برگر شکار کارل  کو بمشکل ڈھونڈتا اسکے پاس جاتا ہے اور اسے شرم دلاتا ہے، تو الٹا کارل اسے انتظامیہ کے پاس جانے کی دھمکی دیتا ہے کہ آخر ایک بزنس اسٹوڈنٹس پر ایسا گھٹیا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ آخر کیسے۔۔۔

رات کو ویرا آئی اپنی ہنسی دباتی۔

 یہ کیا ہے۔۔۔؟ اس نے آئی فون اسکے آگے کیا، وہاں اسکی اسٹاپ پر ننگے پاؤں کھڑی تصویر تھی اور ٹائٹل تھا۔۔۔

مانچسٹر میں سو سالہ سردی کا ریکارڈ ٹوٹنے پر دور جدید کی نیلسن منڈیلا کا احتجاج۔

ویرا کارپٹ پر پیٹ پکڑے کسی افغان بلی کی  طرح ہنسی کی زیادتی کیوجہ سے اس سے بات بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ تھپڑ کھانے کے بعد آج وہ اسکے کمرے میں آئی تھی اور ایسے لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔۔۔ امرحہ،ویرا کو دیکھ رہی تھی۔

شاید واقعی آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔

امرحہ فون ہاتھ میں لیکر بیٹھ گئی اور بس بیٹھی ہی رہ گئی۔ کارل نے آدھی یونیورسٹی کو کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں اسکی تصویر پر ٹیگ کر دیا تھا۔ امرحہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آدھی یونی کے کمنٹس اس نادر و نایاب تصویر کے نیچے پڑھتی۔ اپنی ایسی مضحکہ خیز تصویر دیکھ کر ہی اسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھر گئی تھیں  اسے رونا بھی آ رہا تھا اور ویرا کو دیکھ دیکھ کر ہنسی بھی۔۔۔

ویرا پاگل ہوۓ جارہی تھی۔۔۔ وی زندگی سے بھرپور غبارے چھوڑ اور پھوڑ رہی تھی۔۔۔ چینی پریڈ کے بعد سے امرحہ مسکرا نہیں سکی تھی۔۔۔۔ اسے یقین تھا اب وہ تاعمر نہیں ہنس سکے گی۔ لیک  ویرا کی ہنسی جیسے اسے اشارے دے رہی تھی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا پیاری۔۔۔ ایک نہ ایک دن سب ٹھیک ہوہی جاتا ہے۔۔۔

تم جانتی ہو مانچسٹر نے تمہیں کیا تحفہ دیا ہے۔

اپنی ہنسی کی چھکڑ ریل کو بمشکل روک کر ویرا بول پائی۔ 

"کارل۔۔۔

تمہیں کارل سے نوازا گیا ہے۔

خوش قسمت ہو تم۔"

کھلی کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا نے امرحہ کو اپنی موجودگی کا احساس .اب ....ہاں اب.....اسے یہ ہوا نرم لگی......سرگوشیاں کرتی...... اسکے دل کو تھوڑا قرار سا آیا... .سکون کی ایک لہرا اٹھی.

"مانچسٹر یونی میں تعلیمی دورانیہ سے متعلق جو ڈائریز ہم لکھ رہے ہیں نا امرحہ؟وہ سب ایک طرف ہوں گی' لیکن جو یادیں تمہاری اسٹوڈنٹ ڈائری میں رقم ہوں گی  نا نوبل انعام وننگ ہوں گی.تم اپنے پوتے 'پوتیوں کو ہنسا ہنسا کر مار ڈالو گی.ہر طرح کی یادوں سے مالا مال ہو چکی ہو......کتنی خوش قسمت ہو نا تم........ مقناطیس کی طرح تم اپنی طرف کھینچتی ہو کہ آو .........مجھے ستاو. ....رلاو. "

ہنستے ہنستے ویرا کو پھندا لگ گیا تو امرحہ نے جھک کر اسکی کمر میں زوردار گھونسا مارا......ویرا منہ کھول کر حیرت سے اس دیکھنے لگی کہ کیوں مارا.وہ بھی اتنی زور سے ..... .

"کچھ تمہاری ڈائری میں بھی لکھا جانا چاھیےتھا.میں تمہارے پوتے ' پوتیوں کو بور ہوتے نہیں دیکھ سکتی."امرحہ نے معصومیت سے کہا.ویرا نے اسکی بال مٹھیوں میں بھر لیے اور اسکے سر کو جھٹکے دینے لگی.یہی کام امرحہ نے کیا.

دونوں کارپٹ پر لوٹ پوٹ گتھم گتھا ہو گئیں .

"میرے پوتے' پوتیوں بور نہیں ہوں گے.میں انہیں تمہارے قصے سنا سنا کر ہنسا ہنسا کر خوش گفتار گرینڈ مدر ہونے کا خطاب حاصل کر لوں گی.وہ ہر وقت میرے ساتھ ہی چپکے رہیں گے کہ گرینڈ ماں پلیز اس امرحہ دی لاسٹ ڈک کی باتیں سنائیں نا."

"میں بھی تمہارے قصے سنایا کروں گی.Ball Gingerفکر نہ کرو."

************************

"مانچسٹر کے راج ہنس!تم نے مسکراتا کم کردیا ہے یا کفایت کر رہی ہو؟"دادا پوچھ رہے تھے .بہت بار پوچھ چکے تھے

"تھک جاتی ہوں نا .......مشکل ہے زندگی؟"

"مشکل تو ہے."وہ دادا کو نہ بتا سکی کہ کیا مشکل ہے.

"اگر مجھے نہیں بتاسکتیں تو سائی ہے نا."

"آپ سائی سے پہلے ہیں میرے لیے دادا."

"پھر بھی .....کچھ رشتے کتنے ہی قریبی ہوں 'ان سے سب نہیں کہا جا سکتا."

دادا ٹھیک کہہ رہے تھے.عالیان کی بات کو لے کر وہ سائی کے پاس ہی گئی تھی.دادا سے وہ سب کہنا چاہتی تھی پر کہہ نہ سکی.

"تمہاری ماں اور دادی دانیہ کی شادی کرنا چاہتے ہیں'لیکن تمہارے ماموں نہیں مان رہے'کہتے ہیں کہ شادی دھوم دھام سے کرنی ہے'ابھی تم لوگوں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں."

"یہ کیا بات کی انہوں نے دادا؟"

"یہی تو میں نے کہا تمہاری ماں سے کہ پوچھو اپنے بھائی سے 'ہم کیا بھوکے مر رہے ہیں.آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو رہا ہے.واجد کی دکاں ٹھیک ہو رہی ہے.منافع آنے لگا ہے.وہ تمہارے دیے قرض کو جمع کر رہا ہے .خاندان کی ایک تقریب میں اسنے کسی سے کہہ دیا تھا کہ وہ شادی میں فضول خرچی نہیں کرے گا.تمہارے ماموں کو اس بات کی خبر ہو گئی."

"بابا کیا کہتے ہیں دادا؟"

"واجد کا کہنا ہے کہ اسکے پاس ضائع کرنے کے لیے فضول پیسے ہیں ہی نہیں'پہلے کی بات اور تھی'اب جو کچھ جمع تھا 'وہ سب دکان  میں لگ گیا.واجد نے برا وقت دیکھا ہے .کسی نے اس برے وقت میں اسکا ساتھ نہیں دیا.خاندان میں کسی نے بھی قرض کے نام پر چند ہزار بھی نہ دیئے.واجد بہت بد دل سا ہو گیا ہے سب سے.مشکل ہے یہ منگنی رہے .واجد نے تو دانیہ سے یہ تک کہہ دیا ہے کہ وہ پڑھنے کیلیے تمہارے پاس چلی جائے.ہوتی رہے گی شادی سال دوسال میں .....امرحہ'واجد کہہ رہا تھا کہ اسکا وہی سکہ اسکے کام آیا'جسے اسنے اور خاندان والوں نے کھوٹا سمجھ لیا تھا۔بہت یاد کرتا ہے تمہیں۔بار بار میرے پاس آتا ہے۔کہتا ہے تمہارےساتھ بہت زیاتی ہوتی رہی۔“امرحہ کی آنکھیں نم ہوگئیں....”تو بابا کو احساس ہو گیا ....وانیہ کیا کہتی ہے۔“

”صاف کہہ دیا ہےاس نے مر جاؤں گئی کسی دوسرے ملک نہیں جاؤں گی۔وہاں پڑھو بھی کام بھی کرو ،کیا ضرورت ہے اتنے وبال پالنے کی ،مجھے کون سا منسٹر بننا ہے کسی ملک کا ۔“یا فون پر لگی رہتی ہےیا سوتی رہتی ہے اتنی آرام دہ زندگی چھوڑنے کی اسے کیا ضرورت ہے بھلا۔“ آرام دہ زندگی تو امرحہ کی تھی ۔زندگی کی روح کام ہے....صرف کام....چلتے رہنا.....حرکت میں رہنا.....علم کےکام میں مصروف....عمل کےکام میں مصروف....اتنی سی زندگی میں انسان کے پاس اتنا وقت ہی  کہاں ہےکہ ضائع کرتا پھرے...سو کر....رو کر یا موج مستی میں۔

یہ زندگی انسان کو بھلائی کے کام کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔خیر اکھٹا کرنے کے لیے ،اسے کھیل تماشے کی نظر نہیں کیا جا سکتا۔شفاف ،میٹھا پانی بھی ٹھہر جائے تو بدبو دینے لگتا ہے۔کیچڑ میں بدل جاتا ہے ،انسان کیونکر خود کو ٹھہرا کر برباد کر سکتا ہے۔کائنات کی ہر شے.....ہر شے ہمہ وقت حرکت میں ہے اور تا قیامت رہے گی۔انسان ساکن ہو کر گناہ کبیرہ کا مرتکب کیسےہو سکتا ہے۔یہ تو انسانی رتبے کی منافی ہے۔سراسر منافی ۔

”ہنستی رہا کرو امرحہ !تمہاری خاموشیاں اتنی گہری کیوں ہوتی جا رہی ہیں۔؟“دادا کو ایک بس اس کی ہی فکر تھی۔امرحہ نے دادا کو ہنس کر دیکھا دیا ۔ٹھیک اسی وقت کارل اس کے قریب سے استہزائیہ ہنس کر گزرا....اس کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو ....ابھی تمہاری یہ ہنسی بھی غائب کرتا ہوں۔مسئلہ ہی کوئی نہیں۔امرحہ کو جیسے آگ لگ گئی۔دادا کو اس نے بائے کہا اور سائی کے پاس آئی جوتے والے قصےکے بعد اس نے لاکھ ذہن لڑایا،لیکن کارل کو مزا چکھانے کی کوئی ایک بھی ترکیب نہیں سوچ سکی۔

”مجھے مشورا دو۔“سائی کو ساری بات سنا کر اس نے مشورا مانگا ۔”تھوڑا بہت بدلہ تو جم سے بھی لیا جا سکتا ہے ۔“سائی ہنسنے لگا ۔

”ہنستے ہوئے تم بلکل میرے دادا جی جیسے  لگتے ہو۔“

”کیا تمہارے دادا میرے جیسے جوان ہیں یا میں ان جتنا بوڑھا ہوں۔“

”ہنستے ہوئے تم ان جتنے سادہ اور معصوم لگتے ہو۔“

امرحہ نے ہونٹ سکیڑے۔وہ سائی کے مشورے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔آخر اسے جم کا خیال کیوں نہیں آیا ۔گو اینٹ کا جواب پتھر تو ہر گز نہیں تھا،لیکن اینٹ کا جواب کچھ تو تھا،وہ بھی صرف پانچ پونڈ میں 

”مجھے مشورا دو۔“سائی کو ساری بات سنا کر اس نے مشورا مانگا ۔”تھوڑا بہت بدلہ تو جم سے بھی لیا جا سکتا ہے ۔“سائی ہنسنے لگا ۔

”ہنستے ہوئے تم بلکل میرے دادا جی جیسے  لگتے ہو۔“

”کیا تمہارے دادا میرے جیسے جوان ہیں یا میں ان جتنا بوڑھا ہوں۔“

”ہنستے ہوئے تم ان جتنے سادہ اور معصوم لگتے ہو۔“

امرحہ نے ہونٹ سکیڑے۔وہ سائی کے مشورے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔آخر اسے جم کا خیال کیوں نہیں آیا ۔گو اینٹ کا جواب پتھر تو ہر گز نہیں تھا،لیکن اینٹ کا جواب کچھ تو تھا،وہ بھی صرف پانچ پونڈ میں ۔

امرحہ جم کے پاس جائے ،پہلےہمیں اس کی تاریخ تک جانا چاہیے۔تو جم کی تاریخ کچھ یوں تھی کہ وہ اکثرکلاس میں اونگھتا ہوا پایا جاتا تھا۔اب پوری یونی میں وہ اکیلا تو نہیں تھا جو یہ کرتا تھا۔کم او بیش یونی کا ایک ایک اسٹوڈنٹ اپنے پورے تعلیمی سال میں چالیس سے پچاس بار اس عظیم سانحے سے ضرور گزرتا۔کچھ اس سانحے سے زیادہ گزارتے....کچھ کم،لیکن فیض یاب  سب ہی ہوتے۔کچھ کلاس میں اونگتے پائے جاتے۔کچھ ہر جگہ اور بہت سے کسی بھی جگہ.....مطلب کسی بھی جگہ.....

آپ بس میں بیٹھے ہیں،آنکھ کھلی ۔

”اوہ میں تو بہت آگے آگیا۔“جلدی سے بس بدلی ....بس چلی.....آنکھ پھرسے لگی۔

”اوف میں تو بہت پیچھے آگیا۔پہلا لیکچر گیا۔

جولی کافی لینے گئی ہے۔جولی واپس نہیں آئی ۔جولی کےکافی کے مگ جو بعدازاں ایک ہوش مند رحم دل اسٹوڈنٹ نے صرف اس خیال سے اٹھا لیے ہیں کہ کافی ٹھنڈی ہو کر بےکار ہو جائے گی اور جولی کو سوتے سے اٹھا دینا توبلکل بھی مناسب نہیں ہے۔بے چاری سو تو رہی ہے نا اور سوتے ہوئے کتنی پیاری  بھی تو لگ رہی ہے۔خیر جولی کینٹین کاؤنٹر پر سر رکھے اونگھ رہی ہے اور کاؤنٹر مین اس پر پانی کی چھینٹے بھی مار چکا ہے۔لیکن جولی بدستور اونگھ رہی ہے ۔کاؤنٹر کی طرف آتے کسی مہربان نے اس کے کھلے منہ کی تصویر لےکر  The tab  بھیج دی  ہے۔یعنی یونی کے باغوں میں ،درختوں تلے،کلاس کے دوران ،کوریڈور میں،باتھ رومز،واش رومز،بس ،ٹیوب،بازار ،کیفے،ریسٹورینٹ،لائبریری میں تو خاص طور کر اور کینٹین میں تو ضرور ہی.....کون تھا جو منہ کھول کر اونگھتا پایا نہیں جاتا تھا۔ایگزمز کےدنوں میں تو ٹیبل اور کرسیوں کے نیچے بھی،اور تو اورکوڑا دان کی آڑ میں چھپ کر بھی۔جب کوئی اس اونگھ سے محفوظ نہیں تو سزا صرف ایک جم کو ہی کیوں....اور وہ تو تھا ہی دوسری قسم والوں میں سے۔

پہلی قسم آنکھیں بند کرکے قدرتی اونگھ لینے والی.......

دوسری قسم آنکھیں کھول کر خود پر جبر کرکے غیرقدرتی  اونگھ لینے والی .....دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے تعلیمی ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے اور ایک اچھے اسٹوڈنٹ کا خطاب پانے کے لیے آنکھیں میچ کر نہیں انہیں کھول کر سوتے ہیں....جی ہاں .....ایسا ممکن ہے۔

مارٹن لائبریری سے کتابیں ایشو کروا رہا ہے ۔

”برائے مہربانی ذرا جلدی کریں اور مجھےیہ ایشو کر دیں۔“ہاتھ کو کتابوں پر رکھتے ہوئے۔

”یہ میرا ہاتھ ہے۔“لائبریرین ۔

”اوہ .....میں مذاق کررہا تھا۔“آنکھیں مسل کر ۔

”یہ رہیں میری تین کتابیں .....انہیں ایشو کر دیں۔“

”معذرت کے ساتھ .......یہ لائبریری کی ملکیت ہے....ہم اپنے زیر استعمال کمپیوٹر اور دیگر مشین ایشو نہیں کر سکتے۔آپ کو صرف کتابیں ہی ایشو کی جا سکتی ہیں۔“

”اوہ آپ سمجھے نہیں ،میں آپ کو ہنسانا چاہ رہا تھا۔“مزید سختی سے آنکھیں مسلتے ہوئے۔

”ویل.....تمہارے جیسے دو تین پہلے ہی مجھے بہت ہنسا گئے ہیں۔مجھ میں مزید سکت نہیں رہی ہنسنے کی.....اب یہ کام تم اپنے پروفیسرز اور یونی ڈین کے ساتھ جا کر کرو۔“

”آپ برا مان گئے، میرا مقصد محض تفریح تھا۔“

”میں اس طرف دائیں رخ کھڑا ہوں اور میرے کافی مگ پرسے بھی ہاتھ اٹھا لو.....یہ بھی ایشو نہیں ہو گا۔“

اب جیکب لائبریری آیا ہے ۔

”مجھے میری مطلوبہ کتابیں نہیں مل رہیں۔“

”ملیں گی بھی کیسے.....ہم کینٹین میں کتابیں نہیں رکھتے....ڈین کا آرڈر نہیں ہے نا۔“

زونی کینٹین گئی ہے۔

”ایک وینلا کوک....نہیں..... میرا خیال ہے مجھےکریم کافی لینی چاہیے۔ایک کریم کافی۔“

”ٹھیک ہے کتابوں کی الماری میں ڈھونڈ لو ....دو ونیلا کوک اور کریم کافی میرے لیے بھی۔“

”جانسن اپنے دوست کے کمر میں زوردار گھونسا مار کر کہتا ہے ۔

”تم نے مجھ سے بیس پونڈ لیے تھے،میرے مرنےطکے بعد واپس کرنےکا ارادہ ہے؟“

”نہیں....ایگزمز میں تمہارے پیپر چیک کرنے کے بعد ....“پروفیسر ویلم کی آواز گونجتی ہے....کوریڈور جو پروفیسر کو گھونسا پڑنے پر ساکت سا ہو گیاتھا۔فلک شگاف قہقہوں سے گونج اُٹھتا ہے....اوہ بے چارے جانسن کا اب کیا ہوگا....خدا پوچھے اس نیند سے۔

تو ہمارا جم ان دوسری قسم والوں میں سے تھا...بےچارہ...پروفیسرکا ماننا تھا کہ وہ رات بھر آورہ گردی کرتا ہے اور پھر ان ہی کی کلاس میں ایسے اونگتا ہے ،جیسے ان کا لیکچر س قابل ہی نہیں کہ اسے سنا جائے....یہ تو سراسر بے عزتی ہوئی نا۔جبکہ جم جاب کرتا تھا اور رات گئے تک پڑھتا ،آورہ گردی کا تو اس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔

آہستہ آہستہ جم کی خدمات دوسرے اسٹوڈنٹس نے بھی حاصل کرنی شروع کر دیں تو جم نے کچھ اصول وضع کر لیے------اب جب بھی کام کرنا ہی تھا تو ذرا طریقے سے کر لینا چاھیے تھا نا .

ایک دن کے یونی کے صرف 5 پونڈ-------بس'ٹیوب سے شکار کے پیچھے پیچھے رہائش گاہ تک دس پونڈز....... .درمیان میں دو گھنٹے کی بریک.......رات اور چوبیس گھٹنے کے بیس پونڈز .....یعنی شکار کے پیچھے پیچھے جم بازاروں 'گلیوں 'شاپنگ سینٹر تک جائے گا.......صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر....زومبی. ...اسٹائل میں گردن کو ایک ہی زاویے پر اکڑائے جم از گھورنگ. 

ذیادہ تر صرف یونی کا ہی پیکیج لیتے .......بہت کم دوسرا بیس پونڈز کا پیکیج بھی لیتے.جم کے فن کے دوسرے رہنما اصول.

"اسے رشوت نہیں دی جا سکتی'سکتی' بے شک شکار اسے اپنا کریڈٹ کارڈ پکڑا دے یا پچاس ہزار پونڈ ہاتھ سے دے..."

شکار کا کوئی قصور ہونا ضروری ہے.معصوم لوگوں کو وہ تنگ نہیں کرے گا اور اگر بعد ازاں ثابت ہو گیا کہ شکار معصوم تھا تو اسے پانچ پونڈ دینے والے کے ساتھ وہ یہی سب مفت میں کرے گا.تو جب جم ڈیوٹی دیتا تو یونی میں قہقہے بلند ہوتے.

"جم از آن ہز ورک ( جم اپنے کام پر)."

مشن امبیکا.....ڈپارٹمنٹ بیالوجی...عمر بیس سال ....انتہائی تیز طرار بد تمیز نمک مرچ لڑکی'قصور ....اپنی کلاس فیلو روزلین کے لمبے قد پر پھبتیاں کس نا اور اسے مسز ایفل کے نام سے ڈیپارٹمنٹ میں مشہور کر دینا.

ہاتھ میں پانچ پونڈ لے کر امرحہ جم کے پاس آئی.

کارل'بزنس ڈیپارٹمنٹ 'بد تمیز'انتہائی بد تمیز'میرے ہاتھ سے کتابیں چھین کر لے گیا'پھر انہیں ضائع کر دیا.مجھے بھاری جرمانہ بھرنا پڑا. پھر میرا جوتا کاٹ دیا.پورے ڈیڑھ سو پونڈ کا تھا میرا جوتا......."

غصے اور شرمندگی سے آنا کے گال اور کان سرخ ہوگئے۔ اس نے آس پاس نظر دوڑائی، سب انھیں ہی دیکھ رہے تھے۔ جم کارل کے پیچھے پڑا تھا تو بدلے کے طور پر کارل جم کی منگیتر کے پیچھے۔

آنا نے غصے سے ابلتے ہوئے جم کے ہاتھ پر زوردار چٹکی بھری  پر مجال ہے جو جم نے سی بھی کی ہو۔

یعنی تم میری بات نہیں مانو گے۔۔۔

اب انا بےچاری کی آواز بھیگ گئی۔ امرحہ کی قسمت ہی خراب۔۔۔ کیا ضرورت تھی جم کو یونی میں اپنی منگیتر رکھنے کی۔۔۔

اسطرح بزنس تو نہیں ہوتے نا۔۔۔  اسکے پانچ پونڈ ضائع ہوگئے۔ کارل کو کیا کوفت ہوئی الٹا جم ہی کوفت کا شکار ہو رہا لوگا اندر ہی اندر۔۔ اب 5 پونڈ کے لیئے اپنی سویٹ ہارٹ کو ناراض تو نہیں کرے گا یقیناً ۔۔۔

اور پھر بیس منٹ تک جم کو بے نقط سنانے اور نم آنکھیں رگڑنے کے بعد بھی جم کے انہماک میں فرق نہ آیا تو آرٹ اسکول کی سب سے خوبصورت لڑکی آنا نے انگلی سے انگوٹھی اتار کر جم کی جیب میں ٹھونس دی۔۔

پاپا ٹھیک کہتے تھے تم انسان کے نام پر ایک بن مانس ہو۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔

سوں سوں کرتی آنا چلی گئی۔۔۔ سب تو یہ توقع کر رہے تھے کہ آنا جم کو ایک تھپڑ سے نوازے گی لیکن وہ تو اسے بن مانس ثابت کرکے چھوڑ لی گئی تھی۔

امرحہ دور سے بھی دیکھ سکتی تھی کہ کارل زیرِ لب ہنسا ہے ۔ امرحہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی آئی۔ کیونکہ جم آخر کار سوں سوں کرتی آنا کے پیچھے بھگ کھڑا ہو تھا۔ 

اگر دادی یہ منطر دیکھ لیتیں تو جم اور آنا کے پاس کاریں اور کہتیں۔۔۔

بیٹا جم مل گیا سبق۔۔  اب اس امرحہ سے دور رہنا۔۔۔کہو تو میں تمہیں اسکی ہسٹری شیٹ سنا دوں۔۔۔۔

لیکن اب کوئی فائدہ نہیں۔ تمہارے ساتھ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اور کافی برا ہوچکا۔۔۔

کارل پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا مانچسٹر یونی کو انگلی پر فٹبال کی طرح گول گول گھما کر اپنی فتح کا واضح اعلان کرے اور کہے کون ہے جو مجھے زچ کر سکے۔

•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••

مانچسٹر یونی اسٹوڈنٹ اور چند دوسرے ملکوں کی اسٹوڈنٹس کی سوسائٹیوں نے مقامی برطانوی خاندانوں سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ ان ملاقاتوں کا مقصد ایک دوسرے کے معاشرے، رسم و رواج تاریخ، رحجانات وغیرہ کے بارے میں جاننا تھا۔ ایسی ملاقاتیں قربت کا باعث بنتی ہیں۔۔۔ امرحہ نے اپنا نام پہلے سے ہی دے دیا تھا اور امرحہ کو اوکے کر دیا گیا تھا۔ مختلف ملکوں کے اسٹوڈنٹس کا بیس رکنی گروپ مسٹر اینڈ۔سز پاؤل کے گھر پہنچ گیا جہاں پاؤل خاندان کے ساتھ دو اوع خاندان موجود تھے۔ مسٹر اینڈ مسز ایڈم اور مسٹر اینڈ۔سز گڈل اوران تین خاندانوں کے ٤ عدد شرارتی اور ایک سیکنڈ میں ساٹھ سوال پوچھنے جیسے بچے۔ ملاقات کے لیئے لان میں نشست کا انتظام کیاگیا تھا۔ دھند ستمے اٹے لان میں کوئلے کی دو بڑی انگھیٹیاں رکھی گئی تھیں۔۔ اسکے چاروں اطراف نشستیں لگائی گئیں تھیں۔ پھولوں کے گلدستے جابجارکھے گئے تھے۔  بھالو سے سفید کتے بھی ادھر ادھر گشت کر رہے تھے۔۔ گھر کی عمارت دھند میں لک چھپ جارہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی اور ہی جزیرے پر آچکے ہوں۔۔۔ انہیں اتنے اچھے خیر مقدم کی ر

توقع نہیں تھی۔امرحہ کے پاس صوفے پر ایک نو سالہ بچی اسکرٹ میں ملبوس بیٹھی تھی اور امرحہ حلف اٹھانے کو تیار تھی کہ بچی بہت ہی معصوم نظر آرہی تھی۔

تم کس نسل سے ہو۔۔؟ یہ اسکا پہلا سوال تھا۔، وہ۔۔۔۔

”سنا ہے.....ہندوستان میں زبردستی شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔“مسز ایڈم نے پوچھا۔

”میں ہندوستانی نہیں ،پاکستانی ہوں۔“امرحہ بڑی جزبز ہوئی۔

مسز ایڈم ہنسنے لگی”تم سب پاکستانی انڈین ہندوستانی کہالئے جانے پر اتنا چڑتے کیوں ہو۔ہندوستانی سے مراد برصغیر ہوتا ہے۔تم لوگ ہمیں یورپین کہتے ہو۔ہم نہیں چڑتے،جبکہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی کبھی ایسا ہی ماحول تھاجیسا انڈیا اور پاکستان میں ہے۔ہندوستان سے مراد ایک خطہ ہےجو بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔جسے یورپ میں” جادو نگری“ کہا جاتا ہے۔میرے رشتے کے چچا جب  اپنے کاروبار میں دیوالیہ ہو گئے تو انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔پہلے وہ بنارس گئے اور پھر سندھ...واپسی پر ان کا کہنا تھا کہ ان شہروں کر سفر نے انہیں پاگل ہونے سے بچا لیا۔بنارس میں وہ سادھوؤں کے ساتھ وقت گزارتے رہے اور سندھ میں پیروں فقیروں کے ساتھ۔“

امرحہ خاموش ہو گئی اور مسز ایڈم کے پوچھے گئے سوال کے بارے میں سوچنے لگی۔امرحہ کو ڈر تھاکہ اس سے یہ سوال پوچھا جائے گا اور وہ پوچھ لیا گیا ۔

”ایسا نہیں ہے۔جہاں تعلیم اور سوچ کی کمی ہے۔وہاں یہ سب ہوتا ہے،اسلام نے تو سختی سے لڑکا لڑکی کی مرضی پوچھنے کا حکم دیا ہے۔معاملہ کوئی بھی ہو اسلام جبر کا مخالف ہے۔جبر کی کوئی گنجائش نہیں اسلام میں۔“

”اور یہ جو غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔لندن میں ایک پاکستانی لڑکی کو اس کے باپ اور بھائی نے مار کر تہ خانے میں دبا دیا تھا۔“مسز ایڈم بولیں۔امرحہ کےہونٹ خشک ہو گئے۔

”جس نے ایک انسان کاقتل کیا ،وہ کل انسانیت کا قاتل ہے۔اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے۔زور زبردستی کی تو کوئی گنجائش نہیں ،تو قتل کی کیسے ہو گی،وجہ کچھ بھی ہو جو لوگ ایسا کرتے ہیں،وہ لوگ اسلام کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔یہ ان کا ذہنی جنون ہیں،ہمارا مذہب،ہمارا قانون،ہمارا معاشرہ نہ اس کء اجازت دیتا ہے ،نہ ہی تعلیم ،یہ اپنے گناہوں کے خود ذمہ دار ہیں۔افسوس یہ ہے کہ یہ خود کو مسلمان کہلواتے ہیں،ایک اچھا مسلمان ہرحال  میں وہی کرتا ہے جو چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔نہ کم نہ زیادہ،ٹھیک ٹھیک وہی۔ہم سب بھی ایسے لوگوں کو اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں،جتنا آپ لوگ کرتے ہیں۔“

سب اس کی باتوں کو بغور سنجیدگی سے سنتے رہے اور سر ہلاتے رہے۔

باری باری پھر سب کے خاندانوں کے بارے میں پوچھا گیا۔

”یعنی تمہارے وہاں ابھی بھی خاندان بڑے بڑےہوتے ہیں۔گڈ....کیا گھر بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں رہنے کے لیے؟“امرحہ نے اپنے خاندان کے بارے میں بتایا تو اس سے پوچھا گیا۔

امرحہ گڑبڑا گئی،یعنی کچھ کنبے جتنے زیادہ بڑے تھے۔گھر اتنے ہی چھوٹے تھے۔ان کے اس سوال کا مقصد طنز نہیں تھا۔وہ صرف یہ معلوم کرنا چاہتےتھے کہ کیا لوگوں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ بڑے کنبے بنا کر انہیں پال بھی لیتے ہیں۔امرحہ کہاں سے چھوڑتی کہاں سے بتاتی،ان کے گھر صفائی کرنے والی آپا کے گیارہ بچے تھے اور وہ ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں رہتی تھیں۔

دادا کے ایک دوست کے سات شادی شدہ بیٹے پانچ کمروں کےایک گھر میں رہتے تھے۔

”سب مل جل کر رہنا پسند کرتے ہیں۔“سو باتوں کی ایک بات امرحہ نے کر دی۔

”اگر کسی خاندان میں چار پانچ ،بیٹے ہو تو.....کیا وہ ایک ہی گھر میں ہمیشہ رہیں گے۔“

”گھر کی سربراہ ماں پانچوں بچوں کو ایک ہی گھر میں اپنے پاس رکھنا چاہیں گی۔“

”ایک ہی گھر میں ....پانچوں کو ان کی بیویوں اور بچوں کو ؟“

”جی سب کو .....اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کسی وجہ سے کہیں الگ رہائش اختیار کرنا چاہیے گا تو والدہ رہ رہ کر اپنا برا حال کر لیں گی۔“

”کیوں،وہ روئیں گی کیوں؟“تینوں خواتین نے مشترکہ Aww(آؤ) کیا۔

”وہ کسی ایک کو بھی خود سے جدا نہیں کرنا چاہیں گی۔“

”بچے بڑے ہو جائیں، خاص کر ان کی شادیاں ہو جائے تو انہیں الگ زندگی شروع کرنی ہی ہوتی ہے۔ہر ایک کو پرائیوسی چاہیے ہوتی ہے۔یو نو پرسنل اسپیس۔“

”کیا بات کر رہی تھی مسز گڈل....“امرحہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔”پاکستانی مائیں کیا جانیں،پرسنل اسپیس یا پرائیوسی....انہیں تو اپنےلال اپنی آنکھوں کے سامنے چاہئیں۔“

”بس وہ انہیں اتنا پیار کرتی ہیں کہ ان کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہنا چاہتیں۔“

”اور بیٹے....وہ کیا کہتے ہیں؟“ مشترکہ آؤ کے بعد پوچھا گیا۔

”بیٹے بھی وہی چاہتے ہیں جو ماں جی چاہتی ہیں۔“

 AWW(آؤ)

تینوں خواتین اپنی نم آنکھیں صاف کرنے لگیں۔وہ پاکستانی مشترکہ خاندانی نظام سے متاثر نظر آرہی تھیں۔امرحہ انہیں دادا دادای،نانا نانی، وغیرہ کرداروں کے بارے میں مزید بتانےلگی کہ کیسے وہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ہیں اور خاندان کو جوڑے رکھنےمیں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

”اسی لیے مشرقی لوگ جو مغرب کا سفر کرتے ہیں تو اپنے گھروں کو یاد کر کے روتے ہیں۔“مسز ایڈم ٹشو سے آنکھیں رگڑنے لگیں۔

امرحہ ترچھی نظروں سے تینوں خواتین کو دیکھتی رہی۔اس نے یہاں اپنی بہترین پرفارمنس دی تھی۔ڈی این اے بچی خاموشی سے امرحہ کے پاس بیٹھی اسے ہمہ تن گوش سن رہی تھی۔امرحہ کو صرف ایک اس بچی سے ڈر تھاکہ کہیں وہ اسے غلط نہ ثابت کر دے۔

”تم اپنے گھر کو یاد کرکے روتی ہو ؟“ڈی این اے بچی نے پوچھا۔

اب امرحہ اسے کیا بتاتی کہ اسے تو اس خیال سے ہی رونا آجاتا تھا کہ اسے کبھی تو واپس گھر جانا ہی ہے۔

”نہیں....ابھی مجھ پر یہ نوبت نہیں آئی۔“

پاکستانیوں کی کوئی ایک خوبی بتاؤ؟ 

وہ مشکل حالات میں بھی زندہ رہنا جانتے ہیں۔

امریحہ نے جھٹ سے کہا۔ ۔۔

مانچسٹر والوں کی کوئی ایک بری خوبی بتاؤ؟ امریحہ نے پوچھا 

ہم بد ترین حالات کو بدلنا جانتے ہیں اس نے مضبوط قوت ارادی کے تاسر کے ساتھ کہا۔۔۔۔

امریحہ دنگ سی دیکھتی رہ گئی ان سب کے ساتھ گروپ فوٹو لی گئی ۔۔۔

 مسٹر ایڈم نے ان کے لئے ایک چھوٹی سی تقریر کی جس کے آخری جملے کو امریحہ نے ڈی این اے بچی کی طرح کاپی میں نوٹ کر لیا۔۔۔

There are never any winners or any looser participation is remembered that  and enjoy the challenge of each moments as it Aries now...

امریحہ اپنے ساتھ گیر استعمال شدہ  ایک گرم شال اور ایک کشمیری طرز کا شولڈر بیگ لے گی تھی اور ایک پاس یہ تنوں چیزیں اس نے ان تنوں خواتین کو پیش کی اور ان تنوں کے چہرے ایسے دھمکنے لگے جیسے انہیں بیش قیمت جواہرات پیش  کر دئے گئے ہوں جاتے ہووے ان سب کو ہوم بیک پایی دی گئی۔ڈی این اے بچی نے اسے اپنا ای میل اڈریسس دیا کے امریحہ ہر صورت اسے اپنی رپورٹ بیجھ دے 

امریحہ اسے ضرور بیجھ  دے گی اگر وو اپنا ڈی این اے کروانے میں کامیاب ہو گئی تو اور خوش قسمتی سے وہ ریڈ انڈین بھی نکل آئ تو۔ ۔۔۔

مانچسٹر پکاڈلی گارڈن میں 230 فٹ اونچا سٹار فلائیر جھولا تھا 

امریحہ دیکھو گی دو سو تیس فٹ کی بلندی سے مانجسٹر کیسا لگتا ہے؟ یونی کے باغ میں گم سم بیٹھا دیکھ کر ویرا نے قریب آ کر اسے لالچ ڈی اور زبردستی اسے اپنے ساتھ بیٹھا کر پکاڈلی گارڈن لے آئ کچھ وہ اداس تھی کے قریب سے گزرتے عالیان کو اس نے ہائی کہا تو وہ اتنی تیزی سے آگے بڑھ گیا جیسے وہ اس سے کوئی خیرات مانگ رہی ہو اور وہ اسے خیرات دیتے دیتے تھک گیا ہو اور کچھ وہ اپنے ذہن کو کہیں اور لگانا چاہتی تھی تا کے کم سے کم سوچ سکے کے وہ مانچسٹر کو دو سو تیس فٹ کی بلندی سے دیکھنے کے لئے جھولے میں بیٹھ گئی لیکن دو سو تیس فٹ کی بلندی سے اسے مانچسٹر تو کہیں نظر نہیں آ رہا تھا وہاں سے تو موت نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔موت ۔۔۔۔۔

ویرا نے اس کی قمر میں گھونسا جڑا خاموش بیٹھو امریحہ۔

لیکن امریحہ نے دور۔۔۔۔ بہت دور دھندلے ہوتے مانچسٹر کو جیسے آخری بار  دیکھا اور سارے مانچسٹر کو گواہ بنایا میں مرنے جا رہی ہوں۔ ۔۔او مجھے بچا لو۔۔۔۔۔ہائے مجھے بچا لو 

وہ ایسے چلائی۔ ۔ایسے چلائی۔۔اور چلاتی ہی رہی کے بہت سے وقتی بہرے ہو گئے

یونی کے کئی سٹوڈنٹس سٹار فلائییر میں موجود تھے۔گول گول جھومتے جھولے میں بیٹھے انہوں نے اپنے کانوں میں  انگلیاں تھونس لی ویرا نے سختی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔مرنے والے کے کوئی ایسا کرتا ہے بھلا ؟ وہ مرنے جا رہی ہے بھلا چلائے بھی نا؟ دادا۔۔۔۔۔دادی جی۔ ۔۔۔۔۔

وہ تو اس لئے بھی سٹار فلائییر میں بیٹھ گئی تھی کے روسی کومانڈو ویرا کے سامنے اس کی سبکی نا ہو۔پر سبکی بہتر تھی۔ ۔۔۔۔ بہ نسبت موت کے ہے نا؟ تم اتنا ڈرتی ہو زمین پر آتے ہی ویرا نے اس کے بازو پر زور دار چوٹکی بھری امریحہ سن سی نا ہو چکی ہوتی تو اس چٹکی پر چلا اٹھتی۔

 مجھے نہیں پتا تھا میں اتنا ڈرون گی۔۔۔۔۔۔ویسے ایسے ڈرتی نہیں آج نا جانے کیوں ڈر سی گئی۔۔۔۔۔۔۔امریحہ صاف جھوٹ بول رہی تھی۔۔۔۔مجھے یقین ہوگیا تھا یہ سٹار فلائییر کا آخری رائیڈ تھا۔۔۔۔تم مر جاتی اپر ہی حکومت اسے بین کر دیتی۔۔۔۔

شکر تھا وہاں کارل نہیں تھا۔۔۔۔۔امریحہ آس پاس شرمندہ سی دیکھ رہی تھی جو لوگ ان کے ساتھ بیٹھے تھے وہ بھی کڑے تیوروں سے گھور کر گزر رہی تھے ہمارا تو مزہ خراب کر دیا یو یونی چک۔۔۔۔۔۔۔

huh

امریحہ رات کو سوئی تو پھر سے دو سو تیس فٹ کی بلندی پر تھی۔۔۔آنکھ کھلی تو سادھنا اور این او این اس کے سرحانے کھڑی تھی۔۔۔۔۔ویرا نے ضرورت محسوس نہیں کی تھی آنے کی۔۔۔۔۔۔۔

کوئی برا خواب دیکھ لیا؟ سادھنا اسے پانی پلانے لگی 

میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔شکریہ آپ دونو جائیں۔۔۔۔۔

این اون اسکی ہتھیلیاں مسل رہی رہی تھی  ۔۔۔جب تم  ٹھیک ہوتی ہو تو اس طرح سے چلاتی ہو؟ این اون نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کار کہا اور کمرے سے چلی گئی۔ ۔۔۔ 

کوئی پریشانی ہے تمھے؟ سادھنا اس کے قریب بیٹھ گئی 

 نہیں۔ 

تم پہلے جیسی نہیں رہی۔۔۔۔

پہلے جیسی کیسی؟ 

تم مرجھا گئی سی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لگتا ہے تمہارے اندر کچھ سوکھتا جا رہا ہے۔ ۔۔۔

تھک جاتی ہوں میں۔ ۔۔۔

کاش یہ تھکن ہی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔اور تم بلکل ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔۔سادھنا اس کے بال چھو کر چلی گئی۔ ۔۔۔۔

کاش یہ خواب ہی ہو اور کھڑکی کے پیچھے عالیان کھڑا ہو۔ 

کڑوٹ بدل کار اس نے سونے کی کوشش کی۔۔۔۔۔اگلے دن اسے شرو ع کے دو لیکچر چھوڑ کر اسے ایک پاکستانی گھر جانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔سادھنا کی قمر میں بہت درد تھا اس لئے وو اپنی ڈیوٹی دینے نہیں جا سکتی تھی لیکن خاتون بہ ضد تھی  ان کے گھر شام کو پارٹی تھی' اس لئے سادھنا ہر صورت اپنا کام  کر کے جائے۔۔۔۔۔سادھنا کو قمر پر ہاتھ رکھے کراہتے دیکھا تو امریحہ نے اس کی جگہ جا کر کام کی پیش کش کی جو  سادھنا نے بہت مشکل سے مانی۔ ۔۔۔۔خاتون نے اس سے سارے گھر کا اتنا کام لیا کے وہ واپس یونی جانے کے قابل نہیں رہی۔

یونی۔ ۔۔۔۔جاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھائی اسے یہ سب پہلے مشکل لگتا تھا۔لیکن اب وہ اسکی عادی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔زندگی تھوڑی سی مشکل تھی۔ ۔۔۔۔بدترین نہیں۔۔۔۔۔۔۔ہاں جو سکون اس کے پاس ہوا کرتا تھا اب وہ کہیں نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران اسے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ کے ساتھ شیکسپئر کے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا'شیکسپئر کے لکھے ڈرامے  اچھے تھے۔بہ کمال ہوتے تھے لیکن اسٹیج پر آ کر انہوں نے حد کر ڈی تھی۔ ۔۔۔۔اتنے زبردست آنکھ جھپکے بنا دیکھتے جاؤ دوسرے سمسٹر میں کورس کی نویت بدل گئی تھی اور وہ مشکل لگنے لگا تھا۔ ۔۔۔۔یونی میں مشہور تھا کے جب تک پہلے سمیسٹر کی کتابوں سے دوستی ہونے لگتی ہے 

اور سمسٹر ختم ہو جاتا ہے اور دوستی جو ہوتے ہووے رہ چکی ہوتی ہے وہ ایگزیم میں دشمنی نبھا کر جاتی ہے۔ ۔۔

نہیں۔ ۔۔۔نہیں اس میں بیچارے سٹوڈنٹس کا کوئی قصور نہیں وہ کتابوں کو بھی ایسے ہی سر پر سوار کرتے ہیں 

جیسے فیس بک' ٹویٹر اور یو ٹیوب کو۔۔۔۔۔۔۔

انہیں انہیں پڑھنے کی بھی اتنی جلدی ہوتی ہے جتنی لاگ ان ہونے کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریحہ کو ٹافورڈ شاپنگ سینٹر میں بالی وڈ ڈھابہ اچھے معاوضہ پر جاب افر ہوئی لیکن اس نے انکار کر دیا....اس کا دل نہیں چاہا اپنا سٹور چھوڑ کر جانے کے لیے.....وہاں سات سیلزمین اور دو منیجر تھے وہ ان سب  کی عادی ہو چکی تھی۔بغیر کسی وجہ کہ ان سے وابستگی محسوس کرتی تھی۔

امرحہ تبدیلی کو پسند بھی کرتی تھی اور تبدیلی سے خائف بھی رہتی تھی.....اس نے اپنی زندگی میں ایک چیز کے لیے پورے شدت سے تبدیلی کہ خواہش تھی....اپنے ماحول کے بدل جانے کی.....پاکستان میں اس کےلیے بنا دئے گئے ماحول میں اس کا دم گھٹتا تھا....وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔اور اب یہاں ....یہاں اسے ہر چیز کے ساتھ گہری وابستگی محسوس ہوتی تھی.....یونیورسٹی کے ساتھ....اپنی کلاس کے ساتھ....کلاس میں موجود اپنی نشست کے ساتھ،کلاس ڈور تک کے ساتھ....یونی کےایک ایک درخت کے ساتھ،گھاس کے ایک ایک قطعہ کے ساتھ....یونی میں جابجا ایستادہ خاموش مشہور شخصیات کے مجسموں تک کے ساتھ بھی.....ہر چیز اسے اپنا آپ محسوس کرواتی تھی....اس سے باتیں کرتی تھی....وہ جانتی تھی وہ مانچسٹر میں مہمان ہےاور یہی چیز اسے کرب میں مبتلا کر دیتی تھی.....آکسفورڈ روڈ پر واقع چرچ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر وہ کبھی کبھی دادا سے بات کر لیا کرتی تھی ورنہ خاموش بیٹھی آتی جاتی ڈبل ڈیک بسوں کو تکا کرتی تھی اور ہنستے ہوئے مسکراتے باتیں کرتے اسٹوڈنٹس کو کس قدر حسرت لیے دیکھا کرتی تھی.....کبھی کبھی وہ بھی ہنسنے والوں میں شامل رہی تھی .....بےفکری تھی.....چرچ کی سیڑھیوں پر اکیلے بیٹھنے کی نوبت وہ خود پر خود لےآئی تھی....اور اکثر وہ وہاں پائی جاتی.....اور سوچا کرتی کہ اگر اسے پاکستان جانا ہے تو ان سب چیزوں کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے جانا ہے.....یہ سب جو اس کا اپنا نہیں تھا لیکن جس نے اسے اپنا بنا لیا تھا.....یہ سب اپنا ہے....یہ سب اپنا نہیں رہے گا.....یہ یہیں رہ جائے گا....اگر یہ سب یہیں رہ گیا تو وہ تو خالی ہاتھ رہ جائی گی نا.....تو کیا مانچسٹر اسے سب دے کر سب واپس بھی لے لے گا .....دوسرے سمسٹر نے اس پر خوف طاری کر دیا تھا۔دوسرا سمسٹر بھی ایک دن ختم ہو جائے گا ،تیسرا اور چوتھا بھی....بس پھر سب ختم....چلو گھرواپس.....اسی ماحول میں جس میں وہ نجس تھی.....وہ رات کو مانچسٹر میں سوتی.....صبح آنکھ کھلتی تو لاہور ماڈل ٹاؤن اپنے گھر میں ہوتی .....دادا کے کمرے کی کھڑکیوں سے روشنی لکیر بناتی عین اس کی آنکھوں عین اس کی آنکھوں پر برس رہی ہوتی۔تلملا کر وہ  آنکھ کھولتی سامنے ہی دادا اور اس کی مشترکہ دیوار پر جگمگا رہی ہوتی....وہ چیخ مار کر اُٹھ جاتی۔

”میں لاہور کب آئی....مانچسٹر کہا گیا ؟“

اس کی دل کی ڈھرکن کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ جاتی،شٹل کاک کے نیم اندھیرے کمرے میں وہ گہری گہری سانسیں لے رہی ہوتی ،اُٹھ کر کھڑکی تک جاتی،باہر مانچسٹر پر نظر دوڑاتی.....اسے پھر بھی لگتا یہ خواب ہی ہے....حقیقت میں تو وہ ماڈل ٹاؤن اپنے گھر کے بیڈ پر سوئی یہ خواب دیکھ رہی ہے.....

وہ ویرا کو فون کرتی .....”ویرا ! صبح یونیورسٹی جانا ہے۔“

”نہیں....صبح تمہیں الیکٹرک چیئر پر بیٹھایا جانا ہے....صبح تمہاری موت کا دن ہے.....ویرا چلا کر کہتی۔

وہ کہی بار اس بے چاری کو ایسے ہی تنگ کر چکی تھی۔

”تمہیں یہ راتوں کو کیا دورے پڑتے ہیں امرحہ ....“صبح ویرا پوچھتی۔

وہ اب اسے اپنے دوروں کی کیفیت کیا سمجھاتی کہ جب اس کی آنکھ لاہور میں کھلتی ہے تو اس پر کیا گزارتی ہے....

وہ سائی کےپاس اگلی صبح آئی .....

”سائی !میں نے خواب میں  دیکھا کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے۔“

”اچھا !“وہ مسکرانے لگا ۔”کیا اب مجھے یہ نہیں پوچھ لینا چاہیے کہ کس کے ساتھ؟“

”ہاں پوچھ لو....لڑکی کا چہرہ تو نظر نہیں آیا لیکن اس نے چولی پہن رکھی تھی ہاتھوں میں گول گول مہندی لگا رکھی تھی۔“

بسنت بہاری رنگوں نے سائی کے وجود کا احاطہ کیا ۔

”سنا ہے خواب اُلٹےہوتے ہیں جیسے وہ نظر آتے ہیں اس سے ....“

”یہ اُلٹ نہیں ہو گا....میرے دادا کہتے ہے فجر کے وقت دیکھے گئے خواب سچے ہوتے ہیں۔“

”کیا واقع ؟“بسنت بہاری رنگ پھر سے اس کے وجو کے  گرد اڑانیں بھرنے لگے۔

”مجھے حیرت ہےکہ تم نے میرے لیے خواب دیکھا ۔“

”مجھے حیرت نہیں ہے....ہم باقاعدہ دوست نہ سہی ،ہم میں ایک تعلق تو ہے....تم نے کتنی بار سنا ہے مجھے....“

سائی کی آنکھیں نم ہو گئیں وہ Say it all تھا .پوری یونی اس کے پاس آتی تھی ....اور وہ.....اس کے پاس کوئی نہیں ہو گا شاید ۔

”میں جذباتی ہو رہا ہوں ،مجھے تمہارا خواب اچھا لگا ۔“

”کیا تم مجھے اپنی شادی میں بلاؤ گے؟“

”کیا تم میری شادی میں آؤ گی.....ہاں ضرور آنا ....عالیان کے ساتھ....اوہ....“اس نے اپنی زبان پکڑی ....وہ واقع جذباتی ہو رہا تھااس کی زبان پھسل گئی تھی....مطلب عالیان بھی اس کے پاس آیا تھا ....شاید آدھی رات کو آیا ہو....اسے جگا کر بورڈ کو اس کے پاس ٹکا کر ....یا اسے اپنے ساتھ چہل قدمی پر آمادہ کرکے.....بہار سے پہلے اور بہار کے بعد نجانے وہ کتنی بار آچکا ہو گا سائی کے پاس ....امرحہ سے ملنے کے بعد اور امرحہ کو چھوڑ دینے کے بعد .....

سائی کے سامنے قہقہہ لگاتےہوئے....سائی کے سامنے آنسو چھپاتے ہوئے....

ایک بار امرحہ نے عالیان سے پوچھا تھا ۔

”تم کبھی سائی کے پاس گئے ہو ؟“

”ہاں !“وہ شرارت سے مسکرانے لگا .....مسخری ہنسی....

”تم ایسے کیوں ہنس رہے ہو ؟“

”ایسے کیسے ؟“

”مسخری سے....“

”مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ میں مسخری ہنسی ہنس رہا ہوں۔“

”ایک بار میری بہن بھی ایسے ہی ہنسی تھی میں نے اس کے بال پکڑ لیے تھے.....دوبارہ نہیں اس نے مجھے چڑایا تھا.....“

”میں تمہیں چڑا تو نہیں رہا....البتہ تم میرے بال پکڑ سکتی ہو....ویسے بال پکڑ کر تم کیا کرتی ہو....؟“

”میں نے اس کا سر دیوار میں دے مارا تھا.....“

غیر ارادی طور پر عالیان اس سے ایک قدم دور ہوا.....اپنا سر بچانے کے لیے.....امرحہ نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔

”مجھے یقین دلاؤ کہ تم مذاق ہی کر رہی ہو ....“وہ رک کراسے دیکھنے لگا۔

”میں نے ایسا کیا ہے....“امرحہ کو اس کی حیرت اچھی لگی۔

”تم بہت چھوٹی ہو گی تب نا.....“حیرت سے اس کی آنکھیں امرحہ پر ٹھہر سی گئیں۔

”نہیں میں فرسٹ ایر میں تھی تب.....“

”اور اس کاکیا بنا ؟“بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی کو اس نے بائیں آنکھ کے کنارے رکھا ۔

”کس کا میری بہن کا ؟“امرحہ کو اس کی حیرت اچھی لگی۔

”نہیں، اس کے  بے چارے سر کا ....؟“

”ٹھیک ہی رہا ....بس اب وہ ذرا تیز آواز میں بات کرے تو اس کے سر میں ٹیس اُٹھتی ہے.....“امرحہ نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا ۔

”کیا اب بھی تم تیار ہو اپنے بال پکڑوانے کے لیے۔“

”نہیں....بالکل نہیں.....“وہ اپنے سر کو اس سے 215

اور دور لے گیا.

"پھر بتاو تم نے سائی سے کیا کہا ......میرے بارے میں ہی کچھ کہا ہو گا...."

"تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ تمہارے بارے میں ہی کچھ کہا ہو گا....."

"تمہارے ہنسنے کے انداز سے .......کیا تم نے اسے یہ بتایا ہے کہ میں بھیں بھیں کر کے روتی ہوں اور ایسا کرتے کس قدر بڑی لگتی ہوں....یا تم نے اسے یہ بتایا ہے کہ میں نے تمہیں تھپڑ مار دیا تھا.....؟"

عالیان لب دبائے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کرتا رہا اور جب مزاقا "صرف اسے ڈرانے کے لیے امرحہ نے ہاتھ اسکے بالوں کی طرف بڑھائے تو وہ قہقہہ لگاتا ہوا بھاگ گیا.

"میں اب اسے یہ بتانے جا رہا ہوں کی وہ تم جیسی خونخوار جنگ کی بلی سے بچ کر رہے....."جاتے ہوئے وہ کہہ کر گیا. 

سائی دیکھ رہا تھا کہ امرحہ چپ کی چپ ہی رہ گئی ہے......

"امرحہ...."سائی نے اسے متوجہ کیا.

خاموشی سے سائی کو دیکھ کر امرحہ اسکے پاس سے چلی آئی.....اور بزنس ڈیپارٹمنٹ آ گئی.

کاش آج تو اسے عالیان نظر آ جائے.....اور کوریڈور میں دیوار کے ساتھ سر ٹکائے' ایک سیدھی اور ایک ترچھی ٹانگ کھڑی کیے اپنے آئی فون کے ساتھ مصروف وہ اسے نظر آ گیا.....امرحہ کو خود کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اتنے بڑے مانچسٹر میں اکیلی رہ گئی ہے ....جبکہ اسے دیکھ کر اسنے جانا تھا کہ اکیلا ہونا کسے کہتے ہیں......

وہ ایسے خاموش کھڑا تھا جیسے  اسکی زبان نے کبھی کلام کی زحمت ہی نہیں اٹھائی..نہ وہ یہ خواہش رکھتی ہے.....کوئی اتنا خاموش ہو سکتا ہے کہ اس پر یہ گمان گزرے ....عالیان پر یہ گمان پختہ ہو رہا تھا.....جن بہاروں کو ساتھ لیے وہ چلا کرتا تھا'ان سب بہاروں کو خفا کیے ان سے خفا ہوئے وہ بے نور سا کھڑا تھا اسے دیکھ کر مسکرانے پر مائل لوگ مسکراہٹ روک لینے پر مجبور ہو جاتے تھے......امرحہ کو اسکی اس شبیہ نے شاکر و جامد کر دیا....کیا یہ عالیان ہے؟

"تم یہاں ایسے کیوں کھڑی ہو؟"ویرا پیچھے سے آئی اسکے ہاتھ میں کافی مگ تھے.

"میں....میں تمہیں ڈھونڈنے آئی تھی."

"کیا میں گم ہو چکی ہوں....کب؟"

"مجھے تمہارا فون چاھیے تھا'دادا سے بات کرنی ہے.....میرے فون میں کچھ مسئلہ ہے'لاو اپنا فون دکھاو....."وہ ویرا تھی......ویرا...زیرو....زیرو....

سیونٹی  (0070) 

"تم اپنا فون دے رہی ہو یا نہیں......"امرحہ نے برا ماننے کی اداکاری کی.

"اپنا فون دو'میں ٹھیک کر دیتی ہوں پاگل. ..."

"وہ خبر تھا میں گھر کر چھوڑ آئی ہوں...."امرحہ کی قسمت خراب کہ اسی وقت اسکے بیگ کی اوپری جیب میں رکھے فون پر کسی کا میسج آیا.....کس پاگل نے اسے اس وقت میسج بھیجا تھا. ....یہ کوئی وقت تھا بھلا....ویرا نے دائیں آنکھ کی کمان اچکائی"یعنی دوں تو گھر ہے نا امرحہ.....ہے نا.....؟"

"اوہ یہ تو میرے پاس ہی ہے ...."امرحہ کی اداکاری عروج پر تھی.

"اور بھی کچھ دیکھ لو... کیا کیا تمہارے پاس ہی ہے جسے تم گمشدہ سمجھے بیٹھی ہو."

"یہ کافی کس کیلیے ہے؟"

"میرے اور عالیاں کیلیے."

نجانے کیوں لیکن اسے لگا کہ گرم کافی ویرا نے اس پر انڈیل دی ہے.... وہ ہے کون عالیان کے لیے کافی لے جانے والی.... اور عالیا کیوں پیئے گا اسکی کافی....جی نہیں ........نہیں پیتا وہ ایسے ویسوں کی کافی ٹوئیٹ ...... سوچ کا یہ ریلہ ایک دم سے اسکے ذہن میں آیا..... وہ تیزی سے جانے لگی اور جاتے جاتے اپنے ایشین فلیگ کے نام سے مشہور ہو چکے دوپٹے کو تیزی سے سنبھالنے کی آسکر ایوارڈ اداکاری کرتے ویرا 216

کی کافی گرا بیٹھی۔

اوہ سوری۔۔۔ کریمی ایوارڈ اداکاری۔۔۔

ویرا کی دائیں آنکھ کی کمان پھر سے اچکی امرحہ۔۔۔۔

ویرا نے اتنا ہی کہا تھا کہ امرحہ جلدی سے واپس پلٹ آئی۔۔۔ عالیان اس سے ناراض ہے۔۔  ٹھیک ہے ایسا ہی ہے۔۔۔

لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ۔۔۔ کہ۔۔۔

خیالات کا ہجوم اسکے دماغ میں جھکڑ کی طرح چلنے لگا۔۔۔ وہ عالیان کو دیکھنے کیوں گئی تھی۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ یہ سوال اسکے اندر بازگشت بن گیا۔۔۔

سب ٹھیک ہوجائے گا یا بس سب ختم ہوجائے گا۔۔۔؟ امرحہ بلاوجہ یونی کے چکر لگانے لگی۔۔۔

اسے کسی پل چین نہیں تھا۔۔۔ سو جھوٹ سچ بول کر اس نے اپنے آپ کو تسلی دے لی تھی۔۔۔ تو وہ تسلی قائم کیوں نہیں رہ رہی تھی۔۔۔ وہ پاگل بنی بلاوجہ یہاں ست وہاں گھوم رہی ہے۔۔۔

یہ کیا تم تتلی بنی چکرارہی ہو۔۔۔؟  کسی نے کبھی اسکے پیچھے آکر کہا تھا۔۔۔

میں یونی گھوم رہی ہوں   

میں تمہیں روز ہی یونی گھومتے دیکھتا یوں۔۔۔ کتنا گھومنا ہے تم نے۔۔۔؟؟؟

مجھے ایسا کرنا پسند ہے۔۔۔ لیکن ٹھہرو۔۔۔ تم روز میرا پیچھا کرتے ہو۔۔۔؟ 

ایک دم اسکے چہرے کے رنگ بدلے جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔۔ 

ایسی باتیں معلوم ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔

تم میری جاسوسی کرتے ہو نا۔۔۔؟؟

اسے جاسوسی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔۔۔

بیگ میں سے اس نے 

دو لولی پاپ نکالے ایک خود کھانے لگا ایک اسکے آگے کیا۔۔۔

کیا تم دائم کے لیئے کام کر رہے ہو۔۔۔ اسے یہ خوف رہتا ہے کہ یونیورسٹی میں، میں ضرور کچھ الٹا سیدھا کرکے پاکستان کا نام لے ڈوبوں گی۔۔۔اسے میری سمجھداری پر شک کیوں ہے آخر۔۔۔؟

لولی پاپ منہ میں لگائے وہ جی جان مگا کر ہنسا۔۔۔ تم باتوں کو کتنے رخ دے ڈالتی ہو امرحہ۔۔۔! تم ایسی باتیں کرنا کہاں سے سیکھتی ہو۔۔ نہ میں تمہاری جاسوسی کر رہاہوں۔۔۔ نہ ہی دائم نے مجھے تمہارے پیچے لگایا ہے۔۔۔ ویسے پاکستان میں تم کافی مقبول رہی ہوگی۔۔۔

امرحہ سناٹے میں آگئی ۔۔۔ اب اسے کیسے معلوم یہ۔۔۔

اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے۔۔۔؟؟؟ اسکا رنگ فق ہو گیا۔

لولی پاپ منہ سے نکال کر وہ بلند و بانگ قہقہے لگانے لگا۔۔۔ تمہاری شکل بتارہی ہے کہ میری بات کو پھر سے تم نے اپنی مرضی کا رنگ دے ڈالا ہے۔۔  تم باتوں کو اپنی مرضی کا رنگ دیتی ہو۔۔۔اور ایسے غصہ کرتی ہو ۔۔۔ بھڑکتی ہو۔۔۔اور چڑ جاتی ہو۔۔۔ کتنا زرخیز دماغ ہے تمہارا امرحہ۔۔۔ میں نے آج تک اتنا زرخیز دماغ کسی کا نہیں دیکھا۔۔۔امرحہ نت نئی سوچوں کی عظیم کاشتکار۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔

یہ پکڑو اپنا لولی پاپ۔۔۔ میں نہیں کھاتی یہ ۔۔  بچی نہیں ہوں میں۔۔۔ وہ برا مان گئی اور آگے بڑھ گئی اور وہ لولی پاپ پکڑے اسکے پیچھے ہولیا۔۔۔ اور تب تک اسکے پیچھے ہی رہا، جب تک اس نے وہ لولی پاپ کھا لیا۔

خود سے اور سوچوں سے تھک کر امرحہ نے خود کو تھکا ڈالا۔۔۔ ایسی تھکن جو کسی آرام اور دوا سے جانے والی نہ تھی۔۔۔

************************************

"کھیل تماشا" کتاب دس بار سے زیادہ لیڈی مہر کو سنائی جاچکی تھی۔۔۔ ماسٹر بالی اور رجنی نے شٹل کاک میں دیر تک راج کیا تھا۔۔۔ لیڈی مہر کا دل ہی نہیں بھرتا تھا اس کتاب کو سن سن کر۔۔۔ اور امرحہ کو ایسے یاد ہو گئ تھی کہ وہ آرام سے شروع سے آخر تک تقریر کی طرح اسے سنا سکتی تھی۔۔۔ دسویں بار تو امرحہ نے کتاب پکڑنے کی زحمت ہی کی تھی ورنہ کتاب تو اسے ازبر  ہو چکی تھی۔

پھرامرحہ انہیں ایک محبت سو افسانے سنانےلگی....نہیں نہیں اشفاق احمد کے لکھے نہیں یونیورسٹی میں لکھے جانے والے چلتے پھرتے افسانے۔

”سائی کی طرف سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن دیپا گجرات سے ہے اور سنا ہے اس کے خاندان والے خاصے روایتی ہیں....انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ دیپا ایک سیاہ فام عیسائی کو پسند کرنے لگی ہے تو مشکل سے ہی اسے ایک بھی دن یونی میں رہنے دیں.....“

لیڈی مہر سر ہلاتی رہیں انہیں سائی کی کہانی نء جذباتی کر دیا تھا۔

”مجھے تو عالیان کی فکر ہونے لگی ہے تمہاری کہانیاں سن سن کر.....“

امرحہ نے لیڈی مہر کو دیکھ کر نظریں چرا لیں۔

”شارلٹ بھی آنے والی ہےفون آیا تھا اس کا .....عالیان بھی شاید کسی نمونے کو پسند کر چکا ہو گا ....“وہ خاموش سی ہو گئیں۔

”عالیان کتنا بھی انکار کرے میں جلد ہی اس کی شادی کر دوں گی.....وہ کہتا ہے کامیاب بزنس مین بن جاؤں گا تو سوچوں گا ....لیکن تب تک شاید میں دیکھ نہ سکوں....مجھے انکار تو نہیں کرے گالیکن میں زبردستی نہیں کرنا چاہتی.....“

آپ اس سے بہت پیار کرتی ہیں نا ؟“

”نہیں ....وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے ....اس کی محبت مجھے حیران کر دیتی ہے....میں نےایک سال پہلے اسے منع کیاتھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر گھر نہ آیا کرے....دیکھ لو میری سالگرہ کے علاوہ وہ کبھی مجھ سے پوچھے بغیر گھر نہیں آتا....وہ کچھ نہ کہے مجھ سے....میرے لے کچھ خاص نہ کرے....مجھے خبرہو جاتی ہے کہ میرے دس بچوں میں سے  سب سے زیادہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے....دوسرے بچے احسان مند ہو کر عقیدت میں مجھ سے محبت کرتےہیں لیکن جب پہلی بار میں نے اسے گود میں بٹھایا اور اس کی روتی ہوئی آنکھوں کو چوما تو وہ ایسے میرے سینے سے لگ گیا جیسے مجھ میں سما جائے گا ....وہ مجھ سے بار بار پوچھتا ۔میں اسے چھوڑ کرتو نہیں جاؤں گی....اس کی ماں کے بعد میں دوسری عورت ہوں جس سے وہ بےتحاشا محبت کرتا ہے اور مجھے یقین ہےتیسری عورت اس کی بیوی ہو گی جس پر وہ قربان ہی ہو جائے گا ....عالیان بہت سمجھ دار ہےلہکن بعض معاملات میں وہ بہت شدت پسند بھی ہے۔“

”عالیان کے ماں باپ،خاندان ....اس نے ہمت کرکے پوچھا ۔ایک بار پہلے بھی اس نے یہ ہمت کی تھی اور لیڈی مہر نےکہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ماضی کے بارے میں ان کے علاوہ کسی اور سے بات کرنا نہیں چاہتیں،یہ بہت احساس معاملہ ہے۔

”تم عالیان کی دوست ہو امرحہ.....!لیکن یہ غلطی کبھی نہ کرنا۔اس سے اس کے ماضی کے بارے میں پوچھنے کی ....ایک بار میں نے کوشش کی تھی۔اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کے میں اس بارے میں کبھی بات نا کروں۔وہ تکلیف سے گزرنا نہیں چاہتا'اتنے سے ذکر پر وہ کی دن گم سم رہا تھا۔ایک دن وہ ٹھیک ہو جائے گا میں جانتی ہوں۔ہر دکھ اور صدمے کے بھرنے کا اپنا ایک الگ وقت اور انداز ہوتا ہے۔میرے لئے تو یہی کافی ہے کے وہ اپنی زندگی میں خوش باش ہے' بہت مشکل سے میں نے اسے ٹھیک کیا تھا' جب تک وہ اور ٹھیک نا ہو جائے میں اور کسی کو اسے تکلیف نہیں دینے دوں گی۔ ۔۔۔۔۔چاہے وہ کوئی بھی ہو۔خاندان کے نام پر اس کے پاس صرف ایک ماں تھی .جو جوانی میں ہی مر گئی۔۔۔۔اب میں ہوں اسکا خاندان۔۔۔۔۔۔۔اس لئے مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کے وہ کسی ایشیائی لڑکی کو پسند نا کر لے۔ذات پات اور خاندان یہ سب ایشیائی لوگوں کے لئے بہت اہم ہوتا ہے ایک سال پہلے یونی میں عالیان کا ایک دوست بنا تھا' پاکستان سے تھا۔اچھا دوست تھا اسکا لیکن جب اسے معلوم ہوا عالیان کی ماں ایک عیسائی عورت تھی تو اس نے آہستہ آہستہ عالیان سے تعلق ہی ختم کر لیا کہاں وہ عالیان کو اپنی زمینوں اور باغوں کی سیر کو بلا رہا تھا۔۔۔۔۔عالیان بہت آبدیدہ ہوا اس لڑکے کے سلوک سے زمانہ جاہلیت میں جو لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے جو مشرک تھے پھر مسلمان ہو گئے لیکن ان میں سے بہت سوں کے گھر والے مسلمان نہیں ہووے تھے تو کیا جو مسلمان ہو چکے وہ اس لیے قابل نفرت رھیں گے؟ کے ان کے خاندان کے لوگ ابھی بھی مشرک ہیں؟ جب عالیان چھوٹا تھا میں نے اسے بتایا تھا کے اس کے کاغذات میں دو مزہب لکھے گئے ہیں مسلمان اور عیسائیت۔ ۔۔۔۔اسے دونوں مذاہب کی تعلیم ڈی گئی میں نے اس سے درخواست کی کے وہ بالغ ہونے تک ایسا کوئی کام نا کرے جو اسلام کے منافی ہو اور اس نے میری درخواست مانی۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے عیسائی بچے بھی پالے ہیں امریحہ!  لیکن میں نے ان کی مزہبی تعلیم میں کبھی اپنی خود غرضی کو آڑے نہیں آنے دیا۔۔۔۔۔میں چاہتی تو سب بچوں کو اسلام قبول کرنے کے لئے کہ سکتی تھی وہ مجھ سے اتنے متاثر تھے کے فورا میری بات مان لیتے۔۔۔۔۔وہ مجھے خدا کے بعد کا درجہ دیتے تھے۔ ۔۔لیکن میں اپنی ذات میں چھوٹی ہو جاتی۔۔۔۔۔میرے دو بیٹے اسلام کی سٹڈی کر رہے ہیں۔۔۔اللّه کو منظور ہوا تو وو اسلام قبول کر لیں گے شارلت اور مورگن کبھی غیر مناسب لباس نہیں پہنتی۔۔۔۔۔میرے لئے اتنا ہی بہت ہے میری روایات میں سے کچھ کو انہوں نے اپنایا۔۔۔۔۔وہ مجھے وضو کرواتے رھے ہیں ۔ ۔۔۔۔میں قران پڑھا کرتی تھی تو میرے پاس آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔۔۔۔اذان پر خاموش ہو جایا کرتے ہیں۔ ۔۔۔انھیں یاد ہوتا ہے رمضان کب اے گا؟عید کب ہو گی؟ جو احدیث اور احکام انھیں سنائے ہیں وہ انہیں یاد ہیں۔۔۔۔۔

دیکھو امریحہ!ہم سچی محبت میں سب کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔۔سب۔ ۔۔۔لیکن تنگ دلی' خود گرزی اور تعصب کو دل سے ختم کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کو صاف کرو۔۔۔۔۔پاک کرو تو ہی محبت مقدس ہو کر اڑتی ہے ۔۔۔۔جیسے خدائی ہستیوں پر خدائی پیغامات نازل ہوتے ہیں ۔۔۔۔محبت بھی تو خدائی پیگام ہوتی ہے محبت حساب کتاب سے بری ہوتی ہے دل میں بال برابر فرق بھی ہو تو محبت اپنا رخ بدل لیتی ہے ۔۔۔۔منہ پھیر لیتی ہے ۔۔۔۔اس کے ابدی قیام کے لئے وجود کو پاکیزہ رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔

امریحہ خاموش تھی۔ اسے خاموش ہی رہنا تھا 

چند دنوں بعد اس نے ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو تیز آواز میں نشست گاہ میں بحث کرتے سنا نشست گاہ کا دروازہ بند تھا پھر بھی آوازیں باہر آ رہی تھی 

کون ہے یہ؟ امریحہ نے سادھنا سے پوچھا 

معلوم نہیں سال ڈیڑھ سال پہلے آیا تھا کافی بحث کر کے گیا تھا ۔۔۔۔

پولیس بلوانی پڑی تھی،بعد میں یہ گھر کے اطراف میں گھومتاپھرتا دیکھا گیا  تھا۔“

امرحہ نے رات کو لیڈی مہر سے پوچھا تو انہوں نے سختی کا ایسا تاثر دیاکہ امرحہ معذرت کرکے اٹھ آئی۔

”یعنی دور رہو اس معاملے سے“....اور امرحہ دور ہو گئی...

رات کو وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ اس نے عالیان کو دیکھا ....یہ پہلی بار تھا اسے دیکھ کر اسے بہت برا لگا....اس کی سائیکل کے پیچھے ویرا بیٹھی تھی....شٹل کاک کے باہر اسے اتار کروہ چلا گیا اور وہ ذرا سی لنگڑاتی ہوئی اندار آگئی....

”کیاہوا تمہارے پاؤں کو ؟“امرحہ نے بڑے تنقیدی نظروں سے اس کے پیر کو دیکھا ۔اسے اس کی پیر کی قطعا کوئی فکر نہیں تھی....

”سٹرک پر گر گئی تھی۔ہلکی سی چوٹ آگئی ہے....“

”تمہاری سائیکل کہاں ہے....؟“

”آج تو میں سائیکل پر گئی ہی نہیں....“

”تو تم واپس کیسے آئی ہو؟“

ویرا نے بڑے آرام سے اسے دیکھا ”امرحہ ! تم نے کھڑکی سے دیکھ تو لیا ہے کہ مجھے عالیان چھوڑ کر گیا ہے۔“

امرحہ کو خاموش ہونا پڑا...یعنی اس کا پاؤں ٹوٹا تو اس نے عالیان سے کہا کہ مجھے گھر چھوڑ آؤ....رات کے اس وقت....اور وہ بھی آگیا....

رات گہری سیاہ ہو گئی....اور نیند سے اُڑان بھر لی....ساری رات آسمان سے سیاہی برستی رہی....سب کچھ اس سیاہی کے لبادے میں ملفوف ہو گیا.....اس کے لیے اگلی کہی راتیں سونا دوبھرہو گیا۔اس نے پھر ہمت کی عالیان کے پاس جانے کی....دوبارہ گئی اور اس کی پشت دیکھ کر سہم کرپلٹ آئی۔وہ آنکھیں جو اسے دیکھ کر جگمگایا کرتی تھیں اب اسے پہچاننے سے بھی انکاری ہو  جاتی تو وہ رو سی پڑتی....اور پھر ایک بار وہ اسے پکارنے کی جرات کر بیٹھی۔

”عالیان !“وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بات کر رہا تھا،دوست چکا گیا تو وہ اس کی طرف پلٹا....اتنی دیر لگی اسے پلٹنے میں...

اس سے اگلی بات نہ ہوسکی اور گھبرا کر اس نے بیگ میں سے ایک عدد چاکلیٹ اس کے آگے کی....

”یہ لو میری طرف سے ٹوئیٹ....“

ایک لمحے کے لیے ہی صیح لیکن وہ حیران ہوا.....

”میں تمہارے لیے لائی ہوں.....“امرحہ نے مسکرانےکی کوشش کی جبکہ وہ رو دینے کو تھی۔

”میں ٹوئیٹ نہیں لیتا۔“اس نے اپنا رخ موڑ لیا۔

”تو مجھے دے دو....میں ابھی بھی لیتی ہوں....“اس کی پشت سے وہ بولی.....آواز کانپ رہی تھی اور وہ خود بھی.....

عالیان نے ذرا سی گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا وہ لاجواب ہو چکا تھا....صرف ایک لحظے کےلے وہ پرانا عالیان نظر آیا اور وہ پھر تیزی سے آگے بڑھ گیا جیسے کسی بھولے بھٹکے انسان نےاسے راستہ پوچھنے کے لیے روکا تھا۔

کتنا کچھ بدل گیا ہے....کتنا کچھ بدل رہا ہے.....

امرحہ نےاسے دور تک جاتے دیکھا....اور جب وہ نظر آنا بند ہو گیا تو پلٹ گئی....جس وقت وہ پلٹی اس وقت عالیان نےاسے بہت دور سے خود کو مکمل چھپا کر جاتے دیکھا۔

اسے اس کےپیچھے جانے کی کوئی حاجت نہیں رہی تھی نہ ہی وہ یہ چاہتا تھاکہ وہ اس کے پیچھے آیا کرے۔اسے خود کو اس سے دور ہی رکھنا تھا وہ خود کو دور ہی لے گیا تھا لیکن ......

رات بھر جاگنے کے بعد وہ منہ اندھیرے حال سے نکل گیا تھا۔گھٹن کا یہ عالم تھا کے اسے لگتا تھا زمین اور آسمان آپس میں مل رھے ہیں اور وہ ان دونوں کے درمیان دب کر مر جائے گا۔پہلے وہ ھال کے باغ میں آیا اپنا سانس بھال کرنا چاہا لیکن ایسا نا کر سکا اور اسے تیز تیز سڑک پر بھاگنا پڑا۔ہر چیز اسے خوف زدہ کر رہی تھی۔اس کا دم گھوٹ رہی تھی۔ ۔وہ بھاگتا رہا۔۔۔بھاگتا رہا شہر کے اندر ہو کر بھی شہر سے دور نکل گیا۔

اگر وہ کسی سے بھاگ رہا تھا تو وہ کسی اس کے اندر تھا اور اس کسی کو وہ اپنے ساتھ لئے بھاگ رہا تھا وہ کسی ایک مارگریٹ تھی ایک ولید البشر۔۔۔۔۔ایک سسکیاں بھرتا ہوا' ایک دھتکارتا ہوا وہ لوگوں سے سجا میدان حشر تھا اور ہر طرف خون ہی خون تھا۔مارگریٹ کی معصومیات کا' شدت کا '،عقیدت کا' محبت کا۔ ۔۔۔۔

آخری چیز کوڑیوں کے مقابل دوسرے پلڑے میں رکھی گئی تھی اور بے وزن رہی تھی اس وقت اسے اپنی ذات سمیت دنیا کے کسی عجوبے میں دلچسپی نا رہی تھی  

اسے کسی عروج' کسی کامیابی '،  کسی زندگی کی چاہ نا رہی' اپنی ذات کی حکمرانی میں اس نے ایک غلام کی حثیت  اختیار کر لی۔نئے جہانوں کی دریافت کے خواب پست ہووے۔یہ خیال ہی اسے دیوانگی لگا کے اب وہ پہلے کی طرح ٹھیک ٹھیک زندہ رہ سکے گا۔اس پر ہر خیال گراں گزرا سوائے موت کے خیال سے۔۔۔۔اس پر وارد ہونے والی چیزوں میں آگے بھی موت رہی اور پیچھے بھی۔۔۔۔اول بھی آخر بھی ۔۔۔۔۔ضروری بھی اور اشد بھی۔۔۔۔

وہی سب اسکے ساتھ ہونے لگا جو مارگریٹ کے ساتھ ہوا تھا' اپنے بیٹے سے بے تحاشا محبت کے باوجود وہ اس کے لئے زندہ نا رہ سکی اور ولید البشر کے ساتھ نفرت کے باوجود وہ اسکے لئے مر گئی۔۔۔

اس میں قصور مارگریٹ کا نہیں تھا اس میں قصور اس در فنا کا تھا جو محبت کی مٹھی میں بند ملتا ہے 

ایک ہی رات میں یہ در فنا اس کے وجود کی سیپی میں آن براجمان ہوا اور وہ اس کیفیت میں آ گیا جس میں پل سی چھلانگ لگائی جاتی ہے کنپٹی پر پستول رکھ دی جاتی ہے اور ٹریگر دبانے میں تامل نہیں کیا جاتا یا سر کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کار درودیوار سی ٹکڑیں مری جاتی ہیں اور دل کے مقام پر مکے مارے جاتے ہیں 

یہ نقطہ فنا ہوتا ہے۔ بس مٹ جانے کی خواہش اسکا آگاز ہوتا ہے۔وہ قبرسستان مارگریٹ کے پاس بھی گیا تھا وہ وہاں مارگریٹ کے مرنے کے بعد پہلی دفع خود چل کر گیا تھا  کڈز سینٹر میں بچوں کے قبرستان جانے کا انتظام کیا جاتا تھا لیکن وہ سختی سی انکار کر دیا کرتا تھا اسے مارگریٹ کے پاس نہیں جانا تھا جو اب تابوت میں تھی کیا تھا اگر وہ اس ایک کمرے کے تابوت میں خود کو زندہ مردہ رکھنے پر قدرت رکھ لیتی اب وہ اس کے پاس آیا تھا تو اس کے ہاتھ میں پھول نہیں تھی آنکھوں میں آنسو بہت تھے ۔۔۔۔

مارگریٹ کی قبر کو مسلتے ہاتھیلی کے ساتھ اس کے اپنے اندر سی کچھ گوشت کے دھیمی آنچ پر چلنے بساند آنے لگی اس نے خود کو سونگہا۔۔۔۔۔۔۔پاگلوں کی طرح سونگھا۔۔۔۔۔۔۔وہ تو مارگریٹ بن رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اسے خوف آیا۔ ۔۔۔وہ وہاں سی بھا گا اسے مارگریٹ تو نہیں بننا تھا جب کے وہ مارگریٹ ہی بن رہا تھا یعنی وہ مارگریٹ سی ملنے نہیں اس کے تابوت میں جگہ لینے گیا تھا وہ مانچسٹر سی دور ہو گیا تھا۔۔۔اس نے زمین کی حدوں سی نکل جانا چاہا۔وہ بے سمت سفر کرتا رہا وہ ایک ہی ٹرین میں ایک ہی نشست پر دن بھر' رات بھر بیٹھا رہتا وہ کسی بھی ایک شہر کی ایک سڑک پر کڑوڑوں بار چکراتا رہتا چابی کے گوڈے کی طرح۔۔۔۔چلتا تو چلتا ہی رہتا رکنا فراموش کر دیتا بیٹھتا تو صدیاں گزار دیتا وہ فیصلے کی کفیت میں تھا نا نتیجے کی۔۔۔۔وہ آر تھا نا پار....بس وہ گم ہو چکا۔۔۔۔۔۔اور خود کو ڈھونڈنے کی رتی برابر کوشش نا کرتا ہوا عالیان تھا۔جیسے اس پر سب اشکار ہو چکا تھا اور وہ سب سے انجان بھی تھا

دیکھو میں کود جاؤں گی ولید۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں کود ہی جاؤں گی۔۔۔۔۔۔آ کر مجھے روک لو۔۔۔۔۔۔۔لو میں کود رہی ہوں۔۔۔او ولید آ جاؤ۔ ۔۔۔۔آخری سفر سے پہلے آخری جملوں میں ایک جملہ یہ بھی تھا۔۔۔۔۔وہ سہم کر مارگریٹ سے لپٹ جاتا کے وہ اٹھ کر بھاگ نا جائے اور کود نا جائے 

اور وہ زندگی کے اس طرف کود ہی گئی اور زندگی کے اس طرف اسکا بیٹا تھا لندن برج پر۔ ۔۔۔۔مارگریٹ کو لندن برج پسند تھا ان دونوں کی آخری تصویر وہیں لی گئی تھی کود جانے کا خیال اس کے ذہن میں بھاگ دوڑ رہا تھا وہ ایک بینچ  پر بیٹھا تھا۔

تم یہاں بیٹھو میں تمہارے کھانے لئے کچھ لاتی ہوں 

ایک افرقی عورت کی مشقت زدہ تھکی ہوئی آواز آئ وہ ایک آٹھ سالہ بچے کو اس کے پاس بٹھا کر خود چلی گئی۔بچا لاگر اور بیمار سا تھا ماں کودور جاتے دیکھنے کے بعد اس نے اپنے قریب رکھے تھیلے کو کھولا اور اس میں سی کس قدر عقیدت سی تین گھوڑوں کا گول گول گھومنے والا کھلونا نکالا۔

کھلونا کافی خستہ ھال اور ٹوٹا پھوٹا سا تھا بچے نے انگلی کو ایک گھوڑے کی اگلی ٹانگوں میں پھنسا کر اسے گول گھما دیا گھوڑے آگے پیچھے بھاگنے لگے گھوڑے کی ٹاپوں اور ہنہنانے کی آوازیں کھیلونے میں سی نکلنے لگی بچہ ایسے مسکرانے لگا جیسے ان میں سی ایک گھوڑے پے وہ خود سوار ہو ۔۔۔۔سب سے آگے والے پر ۔۔۔۔۔۔گھوڑں کے ساتھ اسکی مسکراہٹ دوڑنے لگی۔۔بچے کے ننھے سی قہقے نے عالیان کو متوجہ کیا پھر اسکی جاندار مسکراہٹ نے۔۔۔بچہ ساری دنیا سی بےنیاز گھوڑں کو دوڑا رہا تھا۔۔۔۔۔

تم انھیں دوڑانا چاہتے ہو؟ بچے نے اجنبی نظریں خود پر محسوس کر کے اسے اپنا خزانہ استعمال کر لینے کی اجازت دینی چاہی۔۔۔

یہ دیکھو یہ ایسے چلتا ہے۔ اس نے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں کو پکڑ کے گھمایا۔

اور سنو اسکی آوازیں کتنی پیاری ہیں۔میں نے کبھی اتنی پیاری آوازیں نہیں سنی تم نے بھی نہیں سنی ہو گی کھلونا اس نے عالیان کے قریب کیا اور یہ سب کرتے وہ ایسے پر جوش سا تھا کے ایک اجنبی اس کے کھیلونے سے متاثر ہو چکا تھا عالیان نے اس بچے کو ایسے دیکھا کے ان دنوں وہ ہر چہرے کو ایسے دیکھتا تھا کے یہ سب کیوں زندہ ہیں؟ کیا انہیں نہیں مرنا 

اسی پل اس کے اندر کسی قووت نے اسے اکسایہ کے وہ اس بچے سے مکالما کرے اور پھر اس مکالمے پر وہ خود کو آر یا پار کرے۔یہ قوت اتنی شدت سے اسکے اندر جاگی کے اتنے دنوں سے ایک لفظ بھی منہ سے نا نکلتے کی زہمت کرتے عالیان نے خود کو بولتے پایا۔اس نے بچے کے ہاتھ سی کھیلونا لے لیا۔

یہ تو ٹوٹا ہوا ہے؟ اس نے قدرے سفاکی کہا 

بچے کا چہرہ پھیکا پڑا اور اسے اپنی پیاری چیز کے لئے ایسے کلمات پر صدمہ پہنچا۔

نہیں یہ بلکل ٹھیک ہے اس نے اس انداز سی کہا کے دنیا کا کوئی انسان اسے جھٹلا نہیں سکتا تھا 

دیکھو !اس گھوڑے کی دم نہیں ہے۔اس والے کا سر نہیں ہے۔ اور اس گھڑسوار کا بازو ٹوٹا ہوا ہے۔

اس بات سے اسے اور صدما ملا لیکن اس نے ایسا انداز اپنا لیا کے وہ اس بات کے خلاف بھی ڈٹ کر دکھا  سکتا ہے۔۔۔

اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔ یہ گھوڑے پھر بھی دوڑتے ہیں۔۔۔

اس نے اس انداز میں ہنس کر کہا جیسے و

عالیان پاگل ہو۔ 

عالیان پاگل ہی تھا۔  وہ بچے کی بات پر سن ہوگیا۔

اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔ یہ گھوڑے پھر بھی دوڑتے ہیں۔۔  یہ گونج اسکے کانوں کے پردوں سے کہیں اندر آگئی۔۔۔ بہت دور تک۔۔۔

بچے نتمے جو فلسفہ اپنا رکھا تھا۔ وہ فلسفیوں کے بس کی بات نہ تھی۔ 

اگ ان سب گھوڑوں کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں۔۔۔

سر بھی۔۔۔ اور سب گھڑ سوار مر جائیں تو۔۔ ؟ اسکی آواز کانپ رہی تھی  

یہ پھر بھی دوڑیں گے، میں انہیں دوڑالوں گا اور گھڑ سواروں کو مرنے نہیں دوں گا۔۔۔

بچے نے انقلاب برپا کر دینے والے انقلابی کے سے انداز  میں ہاتھ کی مٹھی کو ہوا میں لہرا کر کہا۔

یہ دیکھو۔۔۔ اس نے ایک گھڑ سوار پر انگلی رکھی۔۔۔

یہ ٹوٹ کر گر چکا تھا۔۔۔ تمہاری زبان میں یہ مرچکا تھا۔۔۔ میں نے اسے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھ کر باندھ دیا۔۔۔ تم غور کروگے تو بھی تمہیں وہ باریک مضبوط دھاگہ دکھائی نہیں دے گا جس سے میں نے اس گھڑ سوار کو باندھا ہے۔۔۔ کرو غور، ڈھونڈو دھاگہ۔۔۔

عالیان نے غور کیا وہ دھاگے کو نہیں ڈھونڈ سکا۔۔۔ بچہ اس معاملے میں اپنے فن کی بلندیوں پر رہا تھا۔

میں نے کہا ناں میں گھڑسواروں کو مرنے نہیں دوں گا۔۔۔ میں انہیں زندہ رکھنا جانتا ہوں۔۔ یہ گھوڑے کی پیٹھ پر ہمیشہ موجود رہیں گے۔ بچے نے آخری معرکہ سر کرلینے والے سپہ سالار کی آواز کی کھٹک کی طرح کھنک کر کہا۔

میں نے کہا نا میں گھڑسواروں کو مرنے نہیں دوں گا، میں انہیں زندہ رکھنا جانتا ہوں۔ یہ فقرہ عالیان کے اندر آسمان پر نکلنے والی دھنک کی طرح پھیل گیا۔ 

اور اسکی چابی۔۔۔ یہ بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔۔۔

اس کے اندر چھپ کر بیٹھے پرانے عالیان نے دعا کی کہ کاش بچہ اسے لاجواب کردے۔

بچہ نے فاتح کی سربسجود ہوتی مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں پر سجا لیا۔

اسکی چابی ہے میرے پاس۔۔۔ جو کبھی نہیں ٹوٹے گی۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔ اس نے وہ انگلی جو وہ گھوڑے کی ٹانگوں میں اڑس کر انہیں دوڑاتا رہا تھا اٹھائی۔

یہ اسکی چابی ہے۔۔۔ میں ہوں اس کھلونے کی چابی۔۔۔ کہہ کر اس نے گھوڑوں کو اس عظیم چابی کے ذریعے پھر سے دوڑایا اور مایوسی کے میدان میں امید کے گھوڑے دوڑنے لگے۔۔۔ اس نے اسے لاجواب کردیا تھا۔

سیپی نے منہ کھولا اور فنا کو اگل دیا۔۔۔۔

کیونکہ انسان پر یہ جائز نہیں کہ اپنے اندر وہ اسے جگہ دے۔

اس آب فنا کا چشمہ اس پر حرام کیا گیا ہے۔۔۔حرام تر۔۔۔ ایک بچہ بھی جانتا ہے ٹوٹے ہوئے کھلونے کو کیسے چلایا جائے گا۔۔۔

میں ہوں اس کی چابی۔۔۔ گھڑسوار مقابلے کے جوش سے للکار اٹھے، گھوڑوں کی ٹاپوں نے دلدلی جنگلوں کو بھی پچھاڑ ڈالا۔۔۔ ان پر انسان سوار تھے۔۔ وہ انسان جو بزدلی اور کم ہمتی کے سمندروں کو بھی پاٹ جاتے ہیں۔۔۔ گھوڑے کو گرنے نہ دو۔۔۔ گھڑسوار کو مرنے نہ دو۔۔۔ اقوال یاد کرکے زندگی گزارنے کی کوشش مارگریٹ کو کاش کوئی یہ فلسفہ سکھا دیتا۔۔۔ اور اب وہ زندہ ہوتی اور اس کا بیٹا پل کے دہانے نہ بیٹھا ہوتا۔۔۔

جو انسان روتا ہے وہ آسمانی فرشتوں کو رنجیدہ کر دیتا ہے۔۔۔

فرشتے کیوں رنجیدہ یوتے ہیں ماما؟

انسان کو رونے کے لیئے نہیں بنایا گیا۔۔۔۔ اس پر اشرف ہونے کا تاج سجایا گیا ہے اس تاج کو سجا کر انسان روئے گا تو رنجیدہ ہی کرے گا نا۔۔  انہوں نے انسان کی تخلیق دیکھی ہے اور وہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ انسان کو علم و حکمت عطا کی گئی جو انہیں نہیں دی گئی .اگر انسان وہ منظر دیکھ لے جب کائنات کا رب اسکی تخلیق کرتا ہے اور نطفے میں جان ڈالتا ہے اور اسے پروان چڑھانا ہے اور لوح پر اسکا نام لکھا جاتا ہے اور رشتوں کو اس بندے کے لیے ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں تو انسان صرف اور صرف اپنے مقصد حیات کے لیے جدوجہد کرے....وہ دکھ پر صبر کرے'نعمت پر شکر کرے 'وہ زندگی کو بامقصد بنانے کو بندگی جانے....رتبوں  میں سب سے پہلا رتبہ تخلیق میں لائے جانے کا ہوتا ہے اور ہر تخلیق پا جانے والے کو اس رتبہ پر فخرو شکر کرنا چاہیے."

مانا مہر نے اسے گود میں بیٹھا کر کہا ......اڈے یہ یاد تھا...  اڈے وہ بھول گیا تھا تو ہی اس حالت میں یہاں بیٹھا تھا.

"زندگی میں جو جذبہ آپکو برباد کرنے لگے اس جذبے سے دور ہو جائیں......کیونکہ انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسکی تخلیق کا فیصلہ خدا نے کیا ہے .....وہ اپنا خدا خود نہیں بن سکتا وہ خود کو برباد نہیں کر سکتا."

بچے کی پیشانی چوم کر عالیان وہاں سے آٹھ آیا....اسے مارگریٹ نہیں بننا تھا ....اسکے پیچھے بچہ گھوڑے دوڑا رہا تھا... ساز بجا رہا تھا....کیونکہ اس کھلونے کی چابی وہ خود تھا....اور وہ گھڑسوار اس وقت تک نہیں گر کر مریں گے جب تک وہ چابی سلامت تھی.

زندگی کھیل نہیں ہے.....زندگی میدان ہے.... ابد کا میدان......اور ابد کی زندگی کے لیے......گھوڑے گرنے نہ دیں.....گھڑ سوار کو مرنے نہ دیں....... یہ فرض ہے ورنہ انسان اشرف ہونے کا شرف کھو دے گا.یہ حقیقت ہے۔۔۔وہ مانچسٹر واپس آیا تو رات ہو چکی تھی وہ اپنی جاب پر ہارٹ راک آ گیا.

"مجھ سے کچھ نہ پوچھنا."کارل نے اسکی آ کر گردن دبوچ لی تھی.

"دوبارہ ایسے غائب نہ ہونا."اسے گھونسا جڑ کر اس نے چلا کر کہا تھا اور آج رات کو کارل اسے زبردستی سڑک پر گھسیٹ لایا تھا.دونوں مٹر گشت کرنے لگے.آتے ہوئے کارل نے ایک ہال میٹ کا پیزا اٹھا لایا تھا جو وہ ذرا سی دیر کے لیے ادھر ادھر ہوگیا تھا.

"تمہارا کب تک ٹھیک ہونے کا ارادہ ہے."پزا کو سونگھ سونگھ کر کھاتے اسنے بھرے ہوئے منہ سے پوچھا.

"میں ٹھیک ہوں."

"تم اپنے ٹھیک ہونے کے بارے میں مجھ سے ذیادہ نہیں جان سکتے 'جب تم چھوٹے تھے تب تم ایسے رہا کرتے تھے."

"ٹھیک ہے..... ابھی میں پورا ٹھیک نہیں ہوں ......"

"چلو پھر یہ بتاؤ پورے ٹھیک کب تک ہو جاؤ گے."

"زندگی ایک عجیب مضمون ہے کارل ..."

"بالکل نہیں!زندگی ایک خالی مضمون ہے 'یہ مضمون پڑھا جانے والا نہیں لکھا جانے والا ہے اسے ہم لکھتے ہیں 'یہ زندہ دل ہوگا 'رنگین یا کامیاب یہ ہم طے کرتے ہیں 'یہ مشکل ہوگا'بے کار یا فضول یہ بھی ....اسکا عنوان ہم ہیں"میں کارل"تم عالیان"مجھے دیکھو کیا تم نے مجھے کبھی روتے ہوئے دیکھا ہے.میں نے خود کو خود کبھی روتے نہیں دیکھا' سینڑ میں جس دن تم سے شرارت کی تھی تمہاری رونی صورت دیکھ کر کی تھی تم جیسے تھے ویسے بچے مجھے پسند نہیں تھے تم میرے مزاج کے بچے نہیں تھے."

"جانتا ہوں...."

"میری سمجھ میں نہیں آ رہا میں تمہارے ساتھ اتنا اچھا کیوں بن رہا ہوں پر سنو......ایک دن چرچ میں سروس کے بعد فادر نے مجھے روک لیا میں خاموش اور اداس رہا کرتا تھا 'کافی چھوٹا تھا میں اس وقت.وہ کئی بار مجھے سمجھا چکے تھے کہ زندگی کا ایسے اداس ہو کر نہ گذاروں.اس دن انہوں نے میرے سامنے ایک گلاس توڑا،گلاس گر کر ٹکرےٹکرے ہو گیا ۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ان ٹکڑوں پر ننگے پاؤں چلنا چاہوں گا ....میں نے انکار کردیا۔انہوں نےکہا دکھ ٹوٹا ہوا گلاس ہے،کرچیاں اور ٹکرے....ان پر چل کر ہم خود کو زخمی ہی کر سکتے ہیں،بس جو ہو چکا ہے اسے بدلہ نہیں جا سکتا .....گلاس ٹوٹ چکا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا ،ٹوٹے ہوئے گلاس کو اُٹھاؤ اور اس کو باہر پھینک دو،ا سکی کرچیوں پر خود کو گھسیٹتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ،یہ کم عقلی اور بےوقوفی ہےجبکہ انسان سے ارفع توقعات وابستہ کی جاتی ہیں.....کارل سارا پیزا کھا چکا تھا اور خالی ڈبی ڈسٹ بن ڈھونڈ کر اس میں ڈال چکا تھا۔

”یہ سب باتیں کرکے میں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ میں تم سے زیادہ سمجھ دار اور بہادر ہوں۔“

عالیان خاموش ہی رہا۔

”اگر تم اس کی وجہ سے اپ سیٹ ہو تو میں اسے یونیورسٹی سے نکلوا بھی سکتا ہوں۔“کارل نے سنجیدگی سے کہا۔”اور تمہیں اس کی ٹویٹ لے لینی چاہیے تھی لے کر مجھے دے دیتے۔“

”کیسے نکلوانے کا کہہ رہے ہو ؟“

”امرحہ کو ....“کارل کو حیرت ہوئی اس کے انداز پر

”کون امرحہ.....؟“

کارل خاموش اسے دیکھتا رہا پھر کندھے اچکا دیے....”کون امرحہ....دلچسپ“

”تم کس بارے میں بات کرنا چاہ رہے ہو کارل ....“

”ٹھیک ہے بات یہی ختم.....بلکہ سب ختم....پھر تم پہلے جیسے کیوں نہیں ہو رہے،ایسا لگتا ہے تمہاری کھال میں کوئی اور چل پھر رہا ہے۔“کارل نے اس کی ناک کی چٹکی لی ۔

”عالیان کے کھال میں عالیان ہی ہے۔“عالیان نے اس کے دونوں کانوں کو ایک ساتھ مروڑا۔

”خود کو دھوکا دے رہے ہو ؟“

”ایک دوڑ ہو جائے....؟“عالیان نے پیش کش کی ۔

کارل نے جاندار قہقہہ لگایا”بات بدل رہے ہو ؟“

”چار....تین.....دو.....“عالیان نے انگلیاں اُٹھائی۔

”ایک...“کارل چلایا اور بھاگ کھڑا ہوا ....عالیان بھی۔

اب بس یہی حل تھا....بھاگتے پھرنا....آنکھیں میچ لینا ....کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینا ....راستہ بدل لینا ....غیر حاضر ہو جانا ....غیر ہی بنے رہنا  مشکل تھا مشکل سے ہی ہونا تھا۔

ابھی ان کی ڈور ہال سے ذرا دور ختم ہی ہوئی تھی اور کارل جیت گیا تھاکہ ایک پاؤں میں اپنا ایک میں کسی دوسرے کا جوتے پہنے شاویز کارل کے سامنے آیا ....اتفاق سے اس کے دائیں ہاتھ میں باکسنگ گلوز تھا۔

”میرا پیزا تم نے کھایا ؟“وہ باکسنگ رنگ میں آیا۔نہیں تم سے کس نے کہا ....؟“کارل پر سارے جہان کی معصومیت سجی تھی۔

”تمہارے چمکیلے ریکارڈ نے .....اب شرفت سے میرا پزا واپس کردو۔“

کارل نے پورا جبڑا کھول دیا ”دیکھو کیا اس میں تمہارا پزا ہو کر گزرا ہے؟“

شاہ ویز نے منہ پھیر لیا اور ناک پکڑ لی....”یہ باکسنگ گلوز تم دیکھ رہے ہو نا اور تم جانتے ہو عامر خان میرا پسندیدہ باکسر ہے....تم مجھے اکسا رہےہو کہ میں اسے اسی سٹرک پر خراج تحسین پیش کروں۔“اس نے باکسر کی طرح اچھل اچھل کر کہا۔

”بڈی تم عالیان سے پوچھ لو ....میں نے تو دو ہفتوں سےپزا کی شکل نہیں دیکھی۔“

”جبکہ ان دو ہفتوں میں پورے دس پزا ہال سے غائب ہوئے ہیں.....“شاہ ویز نے دائیں ہاتھ کو لہرا کر کہا....کارل نے اس سے ناک بچائی۔

”اس نے ہی پزا کھایا ہے۔“عالیان نے کہا۔

کارل ذرا حیرت نہیں ہوئی اسے عالیان سے یہی توقع تھی ۔شاہ ویز ہاتھ پھر لہرایا،مکا مرنے کے لیے نہیں بلکہ متوقع مکے کی آمد کی خبر دینے کے لیے.....

”جو Testoni کے جوتے تم نے مارک کو رینٹ پر دیے تھے میں اختیاطاً انہیں اس کی وارڈروب سے نکال کر اپنی وارڈروب میں لاک کر آیا ہوں ....“

عالیان پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا کہ اب کارل تم کیا کرو گے....کارل خاموش سا شاہ ویز کو دیکھنے لگا ،اس کے جوتے پزا سے مہنگے تھے۔

”اب تم پزا لےآنا اور جوتے لے جانا جب تک پزا نہیں آئے گا فی گھنٹہ جوتوں پر ہرجانہ بڑھتا جائے گا....ایک گھنٹے بعد آنے کی صورت میں ،میں دو سن جوتے استعمال کرکے تمہیں دوں گا....اور میں یہ بتادوں  کہ انہیں پہن کر فٹبال کھیلنےکا اردہ رکھتا ہوں۔“شاہ ویز نے خلائی مکا لہراکر کہا۔”Hamm“کارل نے شاہ ویز کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”پچھلے ہفتے تم نے جیری کو اپنا ہنڈی کیم استعمال کے لیے دیا تھا...جیری اتنا لاپروا ہے کہ اسے اسٹڈی ٹیبل پر ہی رکھتا ہے۔“کارل نے تیزی سے کہا اور ہال کی طرف دوڑ لگا دی جب تک شاہ ویز کو بات سمجھ میں آئی تھوڑی سی دیر ہو چکی تھی پھر بھی وہ کارل کے پیچھے تیزی سے بھاگا لیکن کارل ہال کا داخلی دروازہ پار کر چکا تھا۔

”اور میں یہ بتا دوں کہ میں ہینڈی کیم کو نہلانے کا اردہ  رکھتا ہوں۔“کارل نے بھاگتےہوئے چلا کر کہا۔

عالیان نےبھی دونوں کے پیچھے بھاگنا مناسب سمجھا کیونکہ اس کا اردہ شاہ ویز کی مدد کرنے کا تھا۔

                          *......*......*

اسلامی اسٹوڈنٹ سوسائٹی اسلام کو لے کر ایک ڈاکومنٹری بنوا رہی تھی جس کا ذمہ ڈیرک کو دیا گیاتھا۔

ڈیرک نے ظاہر  ہے امرحہ کو بھی ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی،جو امرحہ نے قبول کرلی۔ڈاکومنٹری کا موضوع مختلف مذاہب کے اسٹوڈنٹس کے خیالات جاننا تھا جو وہ اسلام کے لیے رکھتےتھے۔

ڈیرک اور اس نے مل کر سولات لکھے۔انہیں کم سے کم چالیس اسٹوڈنٹس  سے سوالنامے کے جوابات لینے تھے۔ڈاکومنٹری کا دورانیہ بیس منٹ تھا۔ریکارڈنگ کے لیے انہوں نے مختلف اسٹوڈنٹس سے رابطے کر لیے تھے۔

کچھ ریکارڈنگ یونیورسٹی کیمپس میں کی جانی تھی کچھ یونی کے باغ میں ،اسٹوڈنٹس ہالزاور کچھ قریبی کیفےاور سٹرک پر.....

ریکارڈنگ شروع ہوئی تو تقریبا سب نے ہی ان کے ساتھ تعاون کیا اپنے خیالات کے اظہار کےلیے وہ آزاد تھے اور وہ آزدانہ ہی اظہار کرتے تھے۔کچھ اسٹوڈنٹس کے تاثرات کافی منفی اثرات لیے ہوئے تھے کہ امرحہ سختی سے اپنے لب بھینچ لیتی،اسلام کو لے کر اتنی غلط فہمیاں پروان چڑھ چکی ہیں ا س کا اسے اندازہ نہیں تھا۔مغربی لوگ حالات سے باخبر رہتے ہے یہ ایک سچ ہے لیکن اس سے بھی بڑا سچ وہ میڈیا ہے جو انہیں اپنی مرضی کے جھوٹ دکھاتا ہے۔ایک اسلامی ملک پاکستان میں میڈیا کی لگامیں کسی ہاتھ میں نہیں ہیں تو کسی دوسرے ملک کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کے خلاف جتنی بھی غلط فہمیاں یا پروپیگنڈہ ہو چکا ہےاس کو لے کر مسلم امہ نے کو لائحہ عمل نہیں بنایا۔جو بنایا ہے وہ بہت کمزور ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلم امہ مل بیٹھ کر اس بارے میں سوچےاور کچھ کرے...کچھ تو...کہ اسلام پر لگے دہشت گردی کے الزام سے چھٹکارا حاصل کا جائے۔

لہکن ہو یہ رہا ہےکہ سب بیٹھتے توہے لیکن مل کر نہیں ،شخصی سطح پر بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن ایک قوم کی حیثیت سے کچھ بھی نہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ سیاہ دھبہ دن بدن پھیلتا ہی جا رہا ہے گھروں میں بیٹھے ،ہاتھ میں فون لیے ہم صرف اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے خلاف لمبے لمبے کمنٹس ہی کر سکتے یا مختلف گروپس اور پیجز پر لر سکتے ہیں یہ ہے ہمارا سارا کا سارا جہاد اور یہ ہے ہماری اسلام کے حق میں جنگ۔۔۔۔کافی کے مگ سی کافی پتے۔۔۔۔اسلام۔۔۔۔۔اسلام کرتے۔اسلام کے حق میں پوسٹ شئر کرتے تصویریں اپلوڈ کرتے اگر زیادہ ہو تو پروفائل پکچر تبدیل کرتے۔۔۔

اسلام کے لئے خدمات تمام ہوئی' لاگ آف ہو گئے اور سو گئے یا ٹی وی اون کر لیا 

جاپانی اور جرمن دوسری جنگ عظیم میں مفتوح رہے تھے۔یہ ماضی ہے جاپانی اور جرمن ترقی کے ہر میدان کے فتح ہیں یہ ھال ہے 

ہر قوم اپنے پر ٹوٹنے والی افتاد سی سبق سیکھتی ہے اس افتاد سی چھٹکآرا حاصل کر لیتی ہے مسلم قوم کیوں نہیں؟

جنگ عظیم دوئم کے دوران جاپانیوں کو وھشی اور دریندے کہا گیا۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔ اور آج دنیا میں انہیں امن پسند قوم کی حثیت سی سب سی آگے کھڑا کیا جاتا ہے۔۔۔۔دنیا کا کوئی انسان جاپانی سے زیادہ امن پسند نہیں ہو سکتا 

تقدیریں بدل جاتی ہیں اگر قومیں بدل جائیں تو اور قومیں صرف اس وقت بدلتی ہیں جب ان کی سوچ بدلے۔۔۔۔اور سوچ تب روشن ہوتی ہے جب جہالت کا اندھیرا چھٹ جائے اور جہالت کا اندھیرا چودہ سو سال پہلے قرآن کی تکمیل سی چھٹ چکا ہے اس مٹا دیا گئے اندھیرے کے بعد بھی اگر ہم جاہل رھیں تو تف ہے ہم پے۔ ۔۔۔پھر بھی قابل احترم قوم نا بن سکیں تو ہم خسارے میں ہیں۔۔۔۔۔قوموں میں قوم نا کہلائی جائیں تو دھبہ ہیں ہم۔ ۔۔۔۔۔۔۔

اندھے' گونگے اور بہروں کے لئے کوئی و,عدہ نہیں کامرانی کا  نا شجاعت کا  

پال کا تعلق یونان سی تھا جو تقریباً لا مذہب ہی مشہور تھا 

یونی میں وہ اپنے تیز مزاج کی وجہ سے جانا جاتا تھا اسے تخریبی ذہن کا مالک بھی کہا جاتا تھا 

ڈاکومنٹری کے لئے جب سٹوڈنٹس سی رابطے کے گئے تو اس نے ڈیرک سے ریکارڈنگ کی خواہش کا اظہار کیا۔کیمرہ آن ہوتے ہی اس نے اسلام کو لے کر انتہائی شدت پسندانا خیالات کا اظہار شروع کر دیا' ڈاکومنٹری کے لئے آزادی رائے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسکا یہ مطلب نہیں تھا ایسا گرا ہوا انداز اپنایا جاتا۔۔

ریکارڈنگ oak ہاؤس کے باغ میں کی جا رہی تھی ڈیرک نے کمرہ بند کر دیا توضد کرنے لگا کے اسے آزادی رائے کا پورا حق استعمال کرنے دیا جائے 

تمہارا انداز مناسب نہیں ہے ڈیرک نے تحمل سی جواب دیا 

کیوں میرے انداز کو کیا ہے وہ چڑ گیا 

تم الزامات لگا رھے ہو 

کیا الزام لگایا ہے؟ 

مجھے تم سی بحث نہیں کرنی۔۔۔ڈیرک نے بات ختم 

تم میری بے عزتی کر رہے ہو۔۔۔۔وہ بلا وجہ غصے میں آ گیا 

اور تم جو اتنی گھٹیا زبان استعمال کر رھے ہو شکر کرو میں نے تمہارا منہ نہیں توڑ ڈالا امریحہ بولے بغیر نا رہ سکی جب کے ڈیرک نے اسے خاموش رہنے کے لئے کہا تھا 

پال اور بھڑک اٹھا اور گالیاں دینے لگا اور امریحہ کو مخاطب کر کے اسلام کی ہتک کرنے لگا 

ڈیرک نے امرحہ کو چلنے کا اشارہ کیا تو وہ اپنی جگہ سی حلی بھی نہیں

مجھے سن لینے دو اسکی بکواس امریحہ غصے میں 

اسکی ضرورت نہیں ہے امریحہ چلو عقل سی کام لو 

لیکن امریحہ نے عقل سے کام نہیں لیا اور پال  کی بکواس سنتی رہی 

امرحہ خدا کے لئے چلو ڈیرک منت کرنے لگا ....

وہ امریحہ کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

جاہلوں سے بحث نہیں کرتے امریحہ۔ڈیرک نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔۔

یہ یونی سٹوڈنٹ ہے جاہل نہیں ہے امریحہ غصے سے بولی 

تم یہاں سے چلو بس۔

پال مسلسل الٹی سیدھی باتیں کر رہا تھا اس سے ایسے سوال پوچھ رہا تھا جنکے جواب میں یا تو خاموش رہا جا سکتا تھا یا پھر اسکے منہ پر تھپڑ مارے جا سکتے تھے اور جب اس نے مقدس ہستیوں کو لے کر زہر اگلا تو امریحہ نے یک دم اس کے منہ پر کس کے چانٹا دے مارا۔

بکواس بند کرو اپنی ذلیل انسان۔۔۔۔۔امریحہ کی برداشت کی حد ختم ہو گئی اس نے یونی کے سٹوڈنٹ کو تھپڑ مار دیا تھا پال اس تھپڑ کو لے کر اسے یونی سے نکلوا سکتا تھا 

ڈیرک ایک دم سی پال اور امریحہ کے درمیان آیا 

امریحہ بھاگو یہاں سے  ڈیرک چلایا۔پال کسی بھنسے کی طرح بے قابو ہو رہا تھا کچھ دوسرے سٹوڈنٹس ڈیرک اور پال کی طرف بھاگے جو گتھم گھتھا ہو رہے تھے۔۔۔۔پال امریحہ کی گردن دبوچ لینا چاہتا تھا 

امریحہ زرد سی ہو گئی اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔

ذرا سی دیر میں صورت ھال بدل گئی۔۔۔۔اور انتہائی خوف ناک صورت ھال اختیار کر گئی اس نے یونی کے سٹوڈنٹ کو تھپڑ مار دیا تھا اس تھپڑ کو لے کر پال اسے یونی سے،  نکلوا سکتا تھا۔

وہ گھر آ گئی ویرا سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔

دو گھنٹے بعد ڈیرک کا اسے فون آیا وہ اسے سٹوڈنٹ یونین کے دفتر آنے کے لئے کہ رہا تھا۔وہ یونین کے آفس آ گئی ڈیرک نے فورا سی پہلے معاملا یونین کے سپرد کر دیا تھا ساری صورت ھال ایک سٹوڈنٹ کے خلاف جانے والی تھی امریحہ کے ڈیرک اسے منا کر رہا تھا پال کو بولنے دے اور وہاں سے چلی جائے لیکن امریحہ سی اپنا غصہ نہیں دبایا جا سکا اس نے پہلی بار براہراست کچھ سنا تھا وہ بھی اپنی یونی کے سٹوڈنٹ کے منہ سے۔۔۔۔

یونین کے صدر' اسلامی سوسائٹی کے صدر اور پاکستانی سوسائٹی کے صدر نے ان تینوں سے الگ الگ بات کی پھر سٹوڈنٹ یونین کے چند دوسرے فعل لیکن بہت ہی سمجھدار سٹوڈنٹس کی موجودگی میں میٹنگ کی گئی۔

یونین کے صدر جےپٹرسن نے امریحہ کے عمل کو نا پسند کیا

وہ بکواس کر رہا تھا میں برداشت نہیں کر سکی امریحہ کو جے پٹرسن کے رد عمل پر غصہ آیا 

بہر ھال اسنے زبان کا استعمال کیا اور اپنے ہاتھ کا آپ کا رد عمل شدید تھا آپ جانتی ہیں وہ اس بنا پر آپکو یونی سے نکلوا سکتا ہے۔ 

مائی فوٹ۔۔۔اگر اس نے دوبارہ بھی ایسی بکواس کی تو میں اسکا منہ توڑ دوں گی میٹنگ میں موجود ایک ایک شخص نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا 

آپ اپنے مذھب کے کس اصول کے تحت اسکا منہ توڑیں گی؟

عالیان اس سے پوچھ رہا تھا 

تشدد کی تو اسلام میں گنجائش ہی نہیں ہے۔ ۔۔

انتہائی حد پر جا کر بھی۔ ۔۔۔اور ایسی فضولیات کی گنجائش ہے؟ امریحہ کو عالیان کی بات بری لگی اسے یہ بھی برا لگا کے وہ اتنے سارے لوگوں میں اسے غلط ثابت کرنا چاہ رہا ہے

نہیں نا ہم پال کے رد عمل کے حامی ہیں نا آپکے جےپٹرسن نے کہا۔

لیکن آپ سب صرف مجھے ہی غلط کہ رہے ہیں 

آپ غلط ہیں عالیان ،نے سنجیدگی سے کہا۔

امریحہ اس کی شکل دیکھتی رہ گئی تو وہ اسے اس قدر نا پسند کرنے لگا۔غصے اور دکھ کے الاؤ نے اس پر ہلا بول دیا وہ جیسے عقل سے بیگانہ سی ہو گئی 

ہونہ۔۔۔۔یونین کی اس میٹنگ کے ارکان عیسائی ہیں یا یہودی یا لا مذھب وو کیسے  میری حمایت کر سکتی ہیں ایک مسلمان کو کیسے ٹھیک کہ سکتے ہیں؟ امریحہ کا دماغ واقعی ہی کام کرنے لگا ۔۔۔۔

عالیان ،نے سختی سے اپنے لب بھنچ لئے اس نے اتنی نا پسندیدگی سی امریحہ کو دیکھا کے اس نے آج ٹک شاید ہی کسی کو ایسے دیکھا ہو گا یونین کے افراد سمجھ دار پڑھے لکھے انسان ہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں یہاں ہم سب مذھب سے بالاتر ہو کر بات کر رھے ہیں ہم مسلے کے حل کے لئے آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔۔۔آپکو سمجھانے کے لئے۔۔۔۔آپکی غلطی ہے آپ مان جائیں۔۔۔۔۔پال سی موفہمت کر لیں۔ ۔۔

ہرگز نہیں۔۔۔

آپکو اس سے پہلے معذرت کرنی ہو گی آپ کر لیں وہ بھی کر لے گا ورنہ اس ماملے کو ہم یونی انتظامیہ کے پاس جانے سے نہیں روک سکتے 

جو ہو گا میں دیکھ لوں گی پر میں اس سے معذرت ہرگز نہیں کروں گی 

ٹھیک ہے یہ معاملہ یونی انتظامیہ کے پاس ہی جانا چاہیے پھر۔۔۔۔مس امریحہ کا یونی سے چلے جانا ہی بہتر ہے یہ عالیان کی کرخت آواز تھی جسے سن کے امریحہ بلبلا اٹھی۔

ہاں وہ اس سے شدید نفرت ہی تو کرنے لگا ہے 

میٹنگ بگیر کسی نتیجے کے برخاست ہوئی 

امریحہ نے سٹوڈنٹ یونینسے باہر نکلتے عالیان کو جا لیا 

تو تم مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگے ہو کے مجھے ایسے یونی  سے نکلوا دینا چاہتے ہو؟ 

میں تمھے نکلوا رہا ہوں؟ 

تم نے جےپٹرسن سے کہا ہے 

ہاں میں نے کہا اور ٹھیک کہا 

مجھے یونی سے نکل جانا چاہیے؟وہ سن چکی تھی پھر بھی اس نے تصدیق چاہی 

بلکل۔۔۔۔اس نے تصدیق کر دی 

امریحہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی اتنی نفرت اب اس سی۔ ۔۔۔

تم مسلمان ہوتے تو تمہارے دل پر چوٹ لگتی صرف نام رکھ لینے سے اور چند کتابیں پڑھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا جس طرح کی بکواس اس نے کی تھی وھ قتل کئے جانے کے لائق تھا۔

عالیان کے رویے پر بھرک کے امریحہ نے اس پر گہری چوٹ کی۔

عالیان نے بہت صبر سی امریحہ کو دیکھا جیسے کسی جاہل کو علم کی نظر سے جانچا 

ایسے کتنے قتل ہووے تھے iس دور میں جس میں محمدؐ پر پتھر برسایے گئے؟وہ سوال کر رہا تھا اور امریحہ اسکی شکل دیکھ رہی تھی 

بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جواب دو جب انکے جوتے خون سے بھر گئے تھے انہیں برا بھلا کہا جاتا رہا۔۔۔جب وہ اپنی قوم کے پاس واپس اے تو انہوں نے اپنی قوم کو کیا حکم دیا تھا۔ملیامیت کر دو ان لوگوں کو جنہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔

انکی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ ۔۔۔۔کیا کوئی ایسا حکم دیا تھا انہوں نے؟ غصے میں بھڑک جانے والوں میں سے ایک کے پاس اسکا جواب نہیں تھا۔

کیا اسکے عورت کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا جو ان پر گند پھنکا کرتی تھی؟ ایک اللّه کا پیغام پھیلانے والے کے سامنے جب مشرک' جاہل اللّه کو برا بھلا کہتے اور مذاک اڑاتے تو کیا وہ غصے میں بھرڑک کر ایک ایک کا منہ توڑ دیا کرتے تھے۔۔۔جو اللّه کے نبی تھے جو تم سی زیادہ اللّه کے قریب تھے کیا وہ یہ کہا کرتے تھے؟

ساری دنیا میں اسلام کا تماشا تم جیسے بھڑک بھڑک جانے والے مسلمانوں نے بنایا ہے۔تم مسلمان ہو نا اسلام کو مانتی ہو نا۔پھر غصے میں بھڑکنے کی وجہ؟

غصہ تو حرام ہے نا۔ ۔۔۔ہر ہلال میں حرام۔۔۔حرام کا مطلب حرام۔۔۔۔کبھی حرام کو ہلال ہوتے دیکھا ہے؟  

کسی بھی صورت کسی بھی ماحول میں۔

،غصے میں برا بھلا کہنا' گریبان پکڑ لینا ' تشدد کرنا۔۔۔۔۔یہ کون سا مذھب ہے جس کی تصویر اٹھا کر تم دنیا کو دکھا رہی ہو تم نبی کے نام پر جان دینے کو تیار ہو گی اور لینے کو بھی تیار ہوگی لیکن اس نبی جیسی بننے پر تیار نہیں ہو گی

اسلام اینٹ کا جواب پتھر نہیں ہے مس امریحہ۔ ۔۔۔ بلکل نہیں۔۔۔۔۔۔اسلام اینٹ کا جواب برداشت ہا تحمل ہے صبر ہے حکمت ہے اور سب سے بڑھ کر خاموشی ہے 

اسلام گالی کا جواب گالی نہیں در گزر ہے 

کیا تم نے در گزر کیا؟ کس نبی نے کب در گزر سے کام نہیں لیا؟ کب کب خاموشی اختیار نہیں کی؟ نبیون کے لئے سب سے زیادہ صبر 'خاموشی اور حکمت کے احکامات اترے ہیں نبیون نے یہی درس اپنی امتوں کو دئے ہیں۔۔تم کسی نبی کو مانتی ہو تم کس مذھب کی پیروکار ہو؟  تم میں برداشت نہیں ہے تم میں صبر نہیں ہے تم کون ہو؟ 

کل پوری انسانیات وحشی پن پی اتر اے تو بھی اسلام اسکی مخالفت کرتا ہے اپنے برائے نام اسلام کو صرف کھڈ تک رکھو۔بھڑک کر اسے مار کر تم نے ثواب نہیں کمایا۔۔۔تم اسے بولنے دیتی۔ ۔۔۔کیا اس کے کہنے سی وہ سب سچ ہو جاتا جو جھوٹ ہے؟ غلط ہے تم جانتی ہو یہاں کیا ہو سکتا ہے۔بارود کے ڈھیر پر تم نے چنگاری پھینک دی تھی پال کا ہلکا بہت برا ہے وہ ایک سپورٹس پرسن ہے یونی اسے سپورٹ کرتی ہے اس کی کئی چاہنے والے ہیں یہاں ان سب سپپورٹرز کو ملا کر اس نے تمہارے خلاف۔۔۔۔۔یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر لینا تھا عرب اور افریقہ کے مسلمان اس معاملے میں بہت حساس ہیں وہ بھی ایک محاذ بنا لیتے ایک ایسی جگہ جہاں مسلمان بھی ہے۔عیسائی بھی ہیں اور دیگر مزاہب کے لاگ بھی یہاں مذھبی آگ بھڑ ک اٹھتی مانچسٹر یونی دنیا کی امن پسند یونیورسٹیوں میں ایک ہے۔لیکن پھر یہ امن پسند نا رہتی تمہاری ذرا سی غلطی کا نقصان کتنا بڑا ہوتا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی ایسی صورت تمہارا یہاں سے چلے جانا ہی ٹھیک ہے 

تو کیا اس نے ٹھیک کیا؟ امریحہ کی آواز رندھ گی

اس نے غلط کیا بر ہال زبان سے' مسلمان تم ہو اچھائی کی توقع تم سے تھی اس سے نہیں یونی انتظامیہ  اس معاملے کو دیکھے تو شاید تم دونوں کو یونی سے نکال دے کیوں کے تمھے یونی رکھنے کی صورت میں مذھبی گروپس بننے کا خطرہ برقرار رھے گا جب کے یونی کو ہر ھال میں اپنے ماحول کو تعصب سے پاک رکھنا ہے یہ ایک درس گاہ ہے یہاں دنیا بھر سے لاگ آتے ہیں پڑھنے کے لئے ۔۔۔۔ایک ایسی درسگاہ میں آ کر اگر تم تحمل اور برداشت کا مظاہرہ نہیں کر سکتی تو بہتر ہے گھر چلی جاؤ

تو تمہاری یہ خواہش ہے کے میں گھر چلی جاؤں؟ 

نہیں امریحہ ہم یہاں ذاتی معاملات پر بحث نہیں کر رھے۔۔۔۔اگر تمھے کوئی بات نہیں سمجھنی ہے تو بہتر ہے میرا وقت ضائع نا کرو۔جب جےپٹرسن نے مجھے فون کیا تو مجھے نہیں پتا تھا اس ماملے میں تم بھی شامل ہو۔ورنہ میں خود کو اس ماملے سے دور رکھتا لیکن اب اگر مجھے یہ محسوس ہوا کے ماملا بگڑ سکتا ہے تو میں یونی سے تمھے نکلوانے کے لئے پر زور سفارش کروں گا میں یونی سٹوڈنٹس کے درمیان مزھبی چپقلش ،نہیں دیکھ سکتا یہ کہ کر وہ چلا۔اسکی سب باتیں ٹھیک تھی ایک بات تو بلکل ٹھیک تھی کے وہ امریحہ کو واقع ہی نہیں جانتا تھا اسے اس کے ہونے نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔

وہ جاب پر نہیں گئی تھی اور سڑکوں پر مٹرگشت کرتی رہی 

رات ہو گئی اور رات سے اور رات 

جےپٹرسن کو اس نے فون کر دیا تھا وہ پال سے مفاہمت کے لیے تیار تھی....مانچسٹر کی ایک ایک چیز جو اسے اچھی لگا کرتی تھی اسے زہر لگ رہی تھی اس کا دل کہیں دور بھاگ جانے کو چاہ رہا تھا۔کہیں چھپ جانے کو کہیں بھی موجود نہ ہونے کو....

وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اسے خود کے ساتھ کیا کر لینا چاہیے

کشتی کے پیندے میں ہوئے سورخ کی مانند ....وہ سمندر کے کھارے پانی سے خود کو بچا لینےپر قادر نہ رہی تھی....اور وہ تو اس پربھی قادر نہیں رہی تھی کہ کسی طرح سے اس سوراخ کو ہی بند کر ڈالے۔

تو اس ڈوب ہی جانا تھا....اگر یہی طےتھا تو اسے زیادہ مچلنا نہیں چاہیےپرسکون رہنا چاہیے.....لیکن اس سے یہ بھی تو نہیں ہو رہا تھا....وہ داخلی طور پر ایک مشکل دور سے گزار رہی تھی اور اس کاالزام وہ صرف اپنے سر نہیں لے سکتی تھی کہ سب اس کی وجہ سے ہوا اور اس میں سراسر اسی کاتو قصور ہے۔

                       *......*.....*

وہ جے پیٹرسن کے پاس موجود تھی۔

”میں سارے معاملے کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔“

”ڈاکومنٹری پر فی الحال کام نہیں ہو گا....یا آپ لوگ اسے ریلیز نہیں کریں گے.....اس سارے معاملے سے آپ کسی کو آگاہ نہیں کریں گی اپنے قریبی ساتھوں کو بھی نہیں،ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ ہوں گی....آپ کسی کو کسی صورت یہ نہیں بتائی گی کہ پال نے کیا کیا کہا....the Munchester tab یا کسی بھی دوسرے اخبار تک یہ بات کسی بھی صورت نہیں جانی چاہیے۔آپ بلکل خاموش رہیں گی....کوئی کچھ بھی پوچھے گا تو آپ لاعلمی کا اظہار کریں گی۔پال چاہتا ہے کہ آپ اس سے معذرت کریں۔“

”پہلے معذرت وہ کریں گا کیونکہ پہل اس نے کی تھی۔“

”ٹھیک ہے کل اپنی پہلی کلاس لینے کے بعد یہاں آ جائیے گا۔"

جے پیٹرسن سے ملنے کے بعد امرحہ عالیان سے ملنے اسکے ڈیپارٹمنٹ آئی لیکن وہ اسے نہ ڈھونڈ سکی۔۔۔چونچا وہ سائیکل اسٹینڈ کے قریب کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی کلاسز لے کر جب وہ اپنی سائیکل کے پاس آیا تو وہ فوراً اس کے پاس آگئی۔۔۔

"میں اپنے تلخ رویے کی معذرت چاہتی ہوں عالیان!"

"جے پیٹرسن نے مجھے بتایا ہے کہ معاملہ ختم ہوچکا ہے۔۔"عالیان نے اس سے ٹھیک ویسے ہی بات کی جیسے پیٹرسن نے امرحہ سے کی تھی۔

"میں اس معاملے کی نہیں۔۔۔۔تمہاری اور اپنی بات کر رہی ہوں."

"تمہاری اور میری کوئی بات نہیں ہے جسے کیا جائے۔"سائیکل نکال کر وہ آگے بڑھ گیا اور اس پر بیٹھ کر اتنی شدت سے پیڈل گھمایا جیسے کسی پرانے صدمے کو نئے انداز سے دفع کرتا ہو۔

امرحہ نے غصے میں اس پر طنز کیے تھے کہ وہ المذاہب ہے یا صرف نام کا مسلمان ہے 'لیکن نام کا مسلمان وہ نکلا یا خود امرحہ' امرحہ کو خدشہ رہا تھا کہ وہ حرام فوڈ کھاتا رہا ہوگا ۔۔۔۔اور امرحہ حرام کی قسم غصے میں کئی ہزار بار مبتلا ہو چکی تھی ۔ وہ ہاتھ سے کھانے والے کو ہی حرام کہتی تھی اور اس حرام کا کیا جو غصہ غیبت اور چغلی کی صورت وہ کئی بار کھا چکی تھی۔  اسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا لیکن یہ کیسا فخر تھا جو صرف نام کا تھا۔۔۔

لیڈی مہر کا کہنا تھا کہ وہ چاہتا تو اپنی ماں کا مذہب اپنا سکتا تھا لیکن اس نے باپ کا مذہب اپنایا۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر کوئی زبردستی نہیں کی گئی تھی'بالغ ہونے کے بعد اختیار اس کے ہاتھ میں تھا اور اس نے اسلام کا انتخاب کیا۔۔۔وہ ایک عام مسلمان نہیں ہے۔۔۔۔  

"لیکن امرحہ نے اسے عام بھی نہیں سمجھا تھا۔۔۔وہ ایک عیسائی عورت کا بیٹا ہے یورپ میں پلا بڑھا ہے 'اس کے باپ کا اتاپتا نہیں تھا اسکے ساتھ دوستی کی جا سکتی ہے۔ رشتہ داری نہیں وہ خوبصورت ہے، لائق فائق ہے سمجھدار، بردبار ہے لیکن پھر بھی پاکستانی معاشرے میں صفر ہے۔۔۔کیونکہ اسکی ماں عیسائی تھی۔۔۔ اور اسکا باپ سوالیہ۔۔۔ اسکے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔۔۔ اسے ایک مسلمان عورت نے پالا ہے اور اسکی پرورش ایک بے سہارا بچوں کے سینٹر میں ہوئی ہے۔۔۔ صرف ان چند باتوں سے ہی 

مانچسٹر کا ٹاپر ۔۔۔ صفر ہوجاتا ہے۔

اس نے ٹھیک کہا امرحہ! اسلام گالی کا جواب گالی نہیں ہے۔۔۔ 

دادا امرحہ کو سمجھا رہے تھے۔

عالیان کو صرف ایک یونی فیلو ثابت کرکے اس نے دادا کو ساری بات بتا دی تھی۔ میں بھی غلط نہیں تھی دادا۔۔۔ جو میں نے سیکھا، دیکھا وہی میں نے کیا، میں نے اپنے گھر میں کبھی ایسی باتیں نہیں سنیں۔۔۔ کیسا تحمل اور کیسی بردباری۔۔۔ یاد ہے اماں، ابا کیسے لڑا کرتے تھے۔

تم اماں، ابا اور ماحول کو چھوڑو۔۔۔ بتاؤ کیا میں نے تمہیں یہ سب نہیں سکھایا، میں نے تم میں بردباری اور تحمل پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ جب تم مانچسٹر جارہی تھیں تو میں نے تم سے کہا تھا کہ امرحہ دوسروں کے لیئے مثال بننا کہ تم اب اکیلی نہیں اپنے ساتھ اپنے ملک و مذہب کا نام لیے جارہی ہو۔۔۔ تمہارا ایک غلط قدم تمہاری قوم پر انگلی اٹھائے گا۔۔۔ تم نے کتنی بار مجھے کہا کہ دادا روسی بہت سخت جان ہوتے ہیں۔۔ ۔ جبکہ روسیوں کے نام پر تم صرف ایک ویرا کو جانتی ہو۔۔۔ تم نے کہا جرمن بہت صلح جو اور امن پسند ہوتے ہیں جبکہ تمہارا صرف ایک ہم جماعت جرمن ہے۔۔ 

پال بھی تم ہی سے سارے مسلمانوں کو تشبیہ دے گا۔۔۔

تم خاموشی سے چلی آتیں تو کہتا، بے شک خود سے ہی کہ مسلمان خاموشی سے نظرانداز کرنا جانتے ہیں۔۔۔ تم نے الٹا یونین کے صدر پر طنز کیے، امرحہ ایک بات یاد رکھنا اور ایسا تاقیامت ہوگا جہاں ایک سچا ہوگا وہاں اس کے سو مخالف ضرور ہونگے۔۔۔ ہم لڑ کر، بھڑک کر دوسروں پر یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ہم سچے ہیں۔۔۔؛؛؛::

صرف ہمارا مذہب سچا ہے۔

ٹھیک ہے دادا۔

تمہاری آواز اتنی بوجھل کیوں ہے۔۔۔؟؟؟

ٹھیک ہے آپکو ایسے ہی لگ رہا ہے۔۔۔۔

میرے خواب میں ت۔ روئی ہوئی آئی تھیں۔۔۔ اگر تم روتی رہی ہو تو مجھے وجہ بتا دو۔۔۔ کیا اس مسئلے کو لے کر پریشان تھیں؟؟

میں کیوں روؤں گی بھلا۔۔۔؟؟؟

امرحہ بچے! تم یہ بھول جاتی ہو کہ میرا دل تمہارے دل سے جڑا ہے۔۔۔ میرا دل اداسی سے بھرتا جارہا ہے۔۔۔ اور ایسا اس لیئے  ہے کہ تمہارا دل اداس ہے۔۔۔ میں اپنے دل سے تمہارے دل کا حال جان جاتا ہوں۔۔۔

آپ کا وہم ہے۔۔۔

میں دعا کروں گا یہ میرا وہم ہی ہو۔۔۔

ہاں ضرور دعا کیجیے گا۔۔۔ کہ سب وہم ہی ہو۔ اس نے فون بند کیا اور کھڑکی کھول دی۔

اگر دل ایک دوسرے دل سے جڑ جائے تو سب معلوم یوتا رہتا ہے۔۔۔؟ سب۔۔۔ لیکن اگر وہ جڑ جائے تو ہی نا۔۔۔

************************************

شارلٹ اپنے نمونے کو لے کر آئی تھی اور کیا نمونہ لائی تھی کہ نشست گاہ میں بیٹھی این اون تک نظریں چراکر جورڈن کو دیکھ رہی تھی جو خود لڑکا سی بنی گھوما کرتی  تھی اور جسے "لڑکا نامی مخلوق" سے اتنی ہی دلچسپی تھی کہ "بس یہ بھی ایک مخلوق ہے۔۔۔"

سادھنا خاص امرحہ کو اسکے کمرے سے نکال کر لائی تھی۔۔۔

میں نے اب تک کی زندگی میں اےمتنا خوبصورت انسان نہیں دیکھا۔۔۔ سادھنا نے جورڈن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے آہ کی صورت کہا۔امرحہ نشت گاہ سے ذرا دور کھڑی جامد سی ہوگی۔

"میں نے اتنی بڑی یونیورسٹی میں اس کے قریب قریب کا بھی نہیں دیکھا۔"

سادھنا نے امرحہ کے بازو پر چٹکی بھری"ہم اسے نظر لگا دیں گے۔"

"نظر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔"

جانے کس دل سے خواہیش کی تھی ماما مہر نے کہ شارلٹ ہالی وڈ کا ہیرو ہی اٹھا لائی تھی۔چند ایک فلموں میں چھوٹے بڑے کردار  ادا کر چکا تھا ۔بڑے بھی کر ہی لے گا اور سپر سٹار بھی بن ہی جائے گا۔

ماما مہر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس گڈے کو کس شوکیس میں سجا کر اس شوکیس کا دنیا کے سامنے افتتاح کریں....یا ایک بڑی سی نمائش رکھ لیں کہ دیکھو میر داماد....ہے کسی کے پاس ایسا.....؟"

"تمہیں کہاں ملا شارلٹ ؟"ماما مہر نے سرگوشی کی۔

ایم اون نے کان خاص ان کے قریب کر لیے......اف یہ سچ اسے بھی معلوم کرنا تھاکہ اسے چنی منی ہاتھ لگائے کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے جیسے گڈے کہاں پائے جاتے ہیں.....

ماما مہر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس گڈے کو کس شوکیس میں سجا کر اس شوکیس کا دنیا کے سامنے افتتاح کریں....یا ایک بڑی سی نمائش رکھ لیں کہ دیکھو میر داماد....ہے کسی کے پاس ایسا.....؟"

"تمہیں کہاں ملا شارلٹ ؟"ماما مہر نے سرگوشی کی۔

ایم اون نے کان خاص ان کے قریب کر لیے......اف یہ سچ اسے بھی معلوم کرنا تھاکہ اسے چنی منی ہاتھ لگائے کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے جیسے گڈے کہاں پائے جاتے ہیں.....

ہارورڈ یونی سے ماما،جورڈن ایک شارٹ کورس کے لیے آیا تھا،کورس کیا اور چلا گیا پھر کچھ مہینے بعد آیا اور مجھے یہ انگوٹھی پہنا دی.....اس نے انگوٹھی والا ہاتھ آگے کیا،اگر نشست گاہ کی سب لائٹس بجھا دی جاتیں تو انگوٹھی میں جڑا ہیرا بتاتا کہ اس کی قیمت کیا ہے وہ اتنی روشنیوں میں بھی اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔

”مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ اس نے تمہیں پسند کرلیا ہے۔“

شارلٹ کا منہ اتر گیا ۔وہ بلاشبہ خوب صورت تھی لیکن جورڈن جتنی بہرحال نہیں......لیکن ماؤں کو تو صرف اپنے ہی بچے پیارے لگتے ہیں نا.....

”کتنی خوش قسمت ہوں میں شارلٹ !“ماما مہر نے بچوں کی طرح دونوں ہاتھ تھوڑی تلے ٹکائے۔

امرحہ نے ہنسی کی زیادتی کی وجہ سے منہ پھیر لیا البتہ سادھنا کو نشست گاہ سے جانا پڑا.....کیا انداز تھا ماما مہر کا.....

”فلمی ستارے آئیں گے....بولو مجھے شادی کے انتظامات کرنے ہیں.....انجلینا جولی،بریڈپٹ کے آنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟صرف خاندان کے لوگ ہوں گے یا قریبی دوست....اورمیڈیا....میڈیا آئے گا۔“

شارلٹ کی گلابی رنگت پیلی سی پڑ گئی۔اس نے آنکھیں گھما کر جورڈن کی طرف دیکھا کہ وہ ان کی طرف متوجہ تو نہیں۔”بالکل نہیں ماما،جورڈن کو یہ سب پسند نہیں ۔“

”لیکن مجھے پسندہے یہ شارلٹ ....تم جانتی ہو  میری کتنی بڑی خواہش تھی کہ میرا بچہ ہالی وڈ اسٹار بنے لیکن کتنے برے ہو تم سب .....سوائے عالیان کے کوئی آڈیشن دینے نہیں گیا اور میری قسمت دیکھو وہ آڈیشن میں ناکام ہو گیا ،ویسے وہ ہر جگہ ٹاپ کرتا ہے....شارلٹ میری مانو تو بلی اب تو مجھے بنا بنایا ہیرو مل گیا ہے ....مجھے مت روکو۔“

”ٹھیک ہے ماما!چپکے سے بلوا لیجئے گا۔“شارلٹ نے کان کے قریب ہو کر کہا۔

”تم جورڈن سے یہ بھی کہنا کہ وہ فلمی ستاروں کو شادی میں ضرور بلائے خاص کر بریڈپٹ کو .....“

سادھنا واپس آکر بیٹھ چکی تھی اور اس آخری بات پر پھر باہر جانے کو تھی ۔

آریان دن بدن صحت یاب ہو رہا تھا سادھنا تو چڑیا کی چوں چوں پر بھی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستی تھی....این اون البتہ جورڈن کو دیکھنے میں مصروف تھی.....

”کیا آپ چاہتی ہے میں یہاں سے اُٹھ جاؤں۔“

جورڈن نے بانسری سی میٹھی لے میں بہت مہذب انداز  سے این اون سے پوچھا۔این اون نے گھبرا کر ناں میں سر ہلایا۔

”برائے مہربانی اپنی نظریں مجھ پر اٹھالیں یا خود کو....شکریہ....“

این اون خاموشی سے اس کی شکل دیکھنے لگی.....

یعنی اس نے جورڈن کےلب تو ہلتے دیکھے تھے پر آواز اس کے کانوں کے پردوں سے اندر نہیں اتر سکی تھی....سادھنا کو منہ پر ہاتھ رکھ کر پھر سے باہر جانا پڑا.....اور یوں بہار کی اولین دلہن شارلٹ اور بہار کا گڈا جورڈن ماما مہر سے شادی کی اجازت لے گئے۔

رات بھر شارلٹ کی چمکتی ہوئی آنکھیں امرحہ کی آنکھوں میں اندھیرا کرتی رہیں۔شارلٹ کا بھی کوئی خاندان نہیں تھا اس کی ذات پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان تھے،لیکن جورڈن اسے بیاہ کرلے جا رہا تھا۔شارلٹ نے بتایا تھا کہ جورڈن کا  خاندان کافی بڑا ہے اور وہ شارلٹ کولے کر بالکل خوش نہیں ہیں اور انہوں نے صاف صاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا ہے،لیکن جورڈن نے ان کی ناپسندیدگی کی پروا نہیں کی اور انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔

تو یہ ہوتی ہے محبت ....بنا کسی سوال و جواب کے....

ٹھیک ہے ”محبت “کا اندھا ہونا ضروری نہیں لیکن ”محبت  “ کا ہی اتنا بینا ہونا بھی ٹھیک نہیں....کہ پہلے سوال نامے کو بھرو پھر آگے بڑھو،جمع تفریق کرو حاصل جمع نکالو،پھر اقرار ،انکار کرو ....اور یہ بھول جاؤ کہ محبت ہی تو سب سے پہلے ذات و نسل کا فرق مٹاتی ہے....عرش و فرش کا.....تخت وخاک کا .....کم و زیادہ کا  محبت ہی تو سب برابر کر دیتی ہے۔جز سے کل ہوتی ہے اور کل ہی رہ جاتی ہے اگر ایسا نہ کرے تو وہ محبت نہیں رہتی ۔سوال و جواب نکالتے وہ رات گزار گئی۔

اگلی رات ویرا ااسے سائیکل پر بیٹھا کر لے گئی وہ اسے آکسفورڈ روڈ کی طرف لیے جا رہی تھی۔

”ہم کہاں جا رہے ہیں.....“

”یونی “ویرا کھڑی ہوکر سائیکل چلا رہی تھی۔

”اس وقت....آدھی رات کو ....“امرحہ مضبوطی سے سائیکل تھامے رہی۔

وہ بس گر جانے کوہی تھی ،اتنی بار ویرا کے رولر کوسٹر پربیٹھ جانے کے باوجود ہر باراسے یہی لگتاکہ یہ اس کا  آخری سفر ہے اور اگلا سفر آخرت کی طرف ہو گا ۔

”ہاں....ضروری ہے۔“ویرا نے اور تیزی سے سائیکل چلائی۔

اکسفورڈ روڈ پر اس کی سائیکل رکی تو وہ حیران رہ گئی وہاں کم سے کم پندرہ اسٹوڈنٹس اور موجود تھے ویرا نے ہینڈی کیم امرحہ کے ہاتھ میں پکڑایا۔

”مجھے ٹھیک سے شوٹ کرنا..“

”کیا کرنے جا رہی ہو تم.....!“امرحہ کا خیال تھا روڈ پر وہ سب دوڑ لگائیں گے۔

”دیکھ لینا ۔“ویرا نے ہاتھو کو رگڑا۔

خود کو گرم کرنے کے لیے ان سب نے پہلے دوڑ لگائی پھر اولڈ کیمپس کے محراب کے اندار ہو گئے تاکہ روڈ پر لگے کیمرے انہیں شوٹ نہ کر سکیں۔

”ہمارےپاس زیادہ سے زیادہ دس منٹ ہیں اور پولیس آنے کی صورت میں کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہو گا ۔“

ایک لڑکے نے جس نے اومچی اُٹھان والی ٹوپی پہن رکھی تھی ہاتھ میں پکڑے دھاتی پلیٹ کو چمچ سے بجا کر کہا۔

امرحہ نے پولیس کے نام پر خوف سے ویرا کو دیکھا ۔

”ویرا یہاں کیا ہونے جا رہا ہے۔“

”تمہارا خون.....پھر ہم تمہیں یہاں دفن کر دیں گے۔“ویرا نے سفاکی سے کہا۔

”ٹن،ٹن،ٹن “دھاتی پلیٹ پر چمچ بجا  ان بے چاروں کے پاس دس منٹ تھے نا.....

زبان کے نیچے انگلیاں رکھ کر سیٹی بجائی  اور محراب کے سامنے پوزیشن لیے کھڑے کمانڈوز یونیورسٹی آرک پر ٹوٹ پڑے.....اسے سر کرنے کے لیے۔

امرحہ کو نہیں معلوم تھا کہ یونی کو سر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے.....اسے گمان سا ہوا ذرا دور ایک کیمرا چھپا ہوا ہےجس کے پیچھے جیمز کیمرون کھڑا اپنی نئی آنے والی فلم کےلیے ریکارڈنگ کر رہا ہے۔

امرحہ نےسر کو جھٹکا سا دیا ”کیا وہ پاگل خانے سے بھاگے پاگلوں کے درمیان تھی.....؟“

نہیں وہ مانچسٹر یونی کے ان سٹوڈنٹس کے کرتب دیکھ رہی تھی جنہوں نے خفیہ سوسائٹی بنا رکھی تھی جن میں شامل ایکس مین' سپائیڈر مین'  اور جمپر بننے کے مواقع تلاش رہتے تھے یعنی وہ افوا درست تھی کے چند سٹوڈنٹس نے کی سو فٹ اونچی آمنے سامنے کی دو عمارتوں کی چھتوں پر رسہ تان کر ان پر چہل قدمی کی وہ چہل قدمی کرنے والے کون ہوں گے ان ہی مین سے کوئی نا کوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ان چار لڑکیوں اور دس لڑکوں مین سے کوئی۔

ویرا چھ فٹی چھپکلی آرک پے یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔جیسے یہ اسکا خاندانی پیشہ ہو دیواروں پے رینگنا' چڑہایاں چڑنا۔۔۔۔بس سب سر کر لینا جیسا کے امریحہ سوچ رہی تھی کے وہ اب گرے گی تب' تو ان مین سے کوئی ایک بھی نہیں گرا تھا۔ ۔۔۔ 

البتہ انکے وہ غبارے جو انہوں نے منہ مین لے رکھے تھے اور جن مین پانی بھرا وہ پھٹتے گئے وہ کھیل سے باہر ہوتے گئے اور آرک سے کودتے گئے۔ ۔۔۔۔جیسے پہاڑ پر درخت پر چڑھائی کی جاتی ہے ایسے ہی وہ اوپر سے اوپر جا رہے تھے اصل کوہ پیما اور بن مانس بھی انکے ساتھ آ کر مقابلا کرتے تو ہارجاتے

 یہ حقیقت ہے آنکھوں دیکھی چودہ مین سے چھ اپنے غباروں سمیت یونی آرک تک پوھنچنے میں کامیاب ہو گئے ان چھ نے اپنے پانی بھرے غبارے فضا میں پھوڑ کر اپنی فتح کا علان کیا ان چھ میں کارل اور ویرا بھی شامل تھے۔

وننر حضرات مسکراتے ہووے نیچے کود گئے۔

یہ کھیل کا پہلا راونڈ تھا دوسرا ابھی باقی تھا اب انہوں نے پہلے سے زیادہ بڑے اور وزنی غبارے منہ میں لے لئے۔ایک دو تین کا اشارہ کیا گیا سیٹی بجائی گئی اور لنگور حضرات مستقبل کے ایکشن ہیرو ہیروئنز پھر سے آرک پر ٹوٹ پڑے ویرا کمانڈو بچے نے جنگلی گوریلے کی پھرتی سے کونے میں فٹ پتہ کو جھپٹا کے امریحہ نے پلکیں بھی نہیں جھپکی تھی کے یہ جا وہ جا ادھر ادھر ہاتھ پاؤں پھنساتی ویرا تیزی سے اوپر چڑھ رہی تھی ایک تو چڑھائی اوپر سے پانی بھرے غبارے آسان کام نہیں کرتے تھے وہ ۔۔۔۔۔ایک ایک کر کے چار کے غبارے پھٹے اور وہ نیچے کود گئے۔۔۔۔۔رہ گئے کارل اور ویرا اب کارل کو ہارنا موت لگ رہا تھا اور ویرا کو ہار مان لینا 

ویرا ایک رخ سے کارل مخالف رخ سے محراب کی چوٹی کی طرف بڑھ رہے تھے موت اور زندگی کی جنگ تھی دونوں کم و بیش ایک ہی وقت میں اس سفید جھنڈے پر جھپٹے جو انہوں نے پہلے ہی وہاں لگا دیا تھا۔۔۔

جھنڈا ویرا اور کارل کے ہاتھ میں بیک وقت آیا کارل نے زور سے دھکا دیا ویرا گرتے گرتے بچی ویرا نے اس سے زیادہ زور دار جھٹکا دیا لیکن کارل ہلا تک نہیں اور زور زور سے دانت نکالنے لگا ویرا نے غبارہ اوپر ہی پھوڑ دیا لیکن کارل نے غبارہ امریحہ کے سر پر پھوڑنا چاہا لیکن امریحہ پیچھے ہٹ گئی۔۔۔۔خیالی جیمز کیمروں نے تالی بجائی اور انگوٹھے کا اشارہ دے کر کیمرا بند کر دیا دونوں میں سے اصل وننر کون ہے اور کس کے ہاتھ میں پہلے جھنڈا آیا اس کے لئے جو دوسرے کھلاڑی کھڑے دیکھ رہے تھے ان سے ووٹنگ کرائی گئی جس کے رزلٹ میں کارل دس ووٹ لے کر جیت گیا یہ سب تمہارے چمچے ہیں اس لئے فیصلہ تمہارے حق میں آیا 

ویرا بھڑک اٹھی وہ کارل کو سمجھتی ہی کیا تھی نت نئی شرارتوں کا چوہاداں' چوہا ہی۔ ۔۔۔۔۔چلو میرے دوست اس قابل تو ہیں کے ایسے کارآمد چمچے بن سکیں تمہاری زنگ آلود چمچی تو اس قابل بھی نہیں ہے سیڑھی لگا کر بھی دی نا تو یہ دو فٹ اوپر چڑھنے سے پہلے ہی چیخ چیخ کر سارے مانچسٹر کو اٹھا دے گی مس رشیا اپنی چمچی بدلو کارل نے انگلی اٹھا کار امریحہ کی طرف کر کے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا سب ہی ہنسنے لگے امریحہ کا خون کھول اٹھا اور اسکا جی چاہا کے کارل کا منہ یوں توڑ ڈالے کے اسے بیس تیس سیکنڈ کے اندر آرک کی چوٹی کو ہاتھ لگا کر دکھا دے اور غبارے کو پتھروں سے بھر کر اس کے سر پر پھوڑ دے اہ پر ایسے سپنے ہی دیکھے جا سکتے ہیں تصویر تانگنے کے لئے سٹول پر کھڑی ہو جاتی تو دادا سے سٹول پکڑواتی کے کہیں سٹول ہل کر اسے گرا نا دے اب جو سٹول پر ایسے کھڑا ہو گا اس پر ایسے جیکی چن والے سپنے دیکھنا بنتا تو نہیں ایک زور دار سیٹی  گونجی اور خوفیا سوسائٹی کے ارکان میں کھلبلی مچی جلدی جلدی سے وہ ایک ایک سائیکل پر دو دو تین تین بیٹھے اور یہ جا وہ جا سیٹی رات کو گشت کرنی والی یونی پولیس کی آمد کا اعلان دینے کے لیے ہی خوفیا سوسائٹی کے ہی ایک رکن نے بجائی تھی جو اسی کم پر مامور تھا امریحہ سمجھی پولیس آ گئی 

ہائے میری یونی گئی امریحہ چلائی ویرا نے اسے کھینچ کر سائیکل پر بٹھایا 

اب ہمے یونی سے نکال دیا جائے گا نا امریحہ نے دانت پر دانت جمائے 

ویرا نے قہقہ لگایا میں پورا برطانیہ ہلا دوں گی اگر کسی نے ایسا کیا تو تم تو ہلا ڈالو گی میں کیا ہلاوں گی میری تو دادی نے اس دفع میرے ماتھے پر لکھوا دینا ہے منحوس ماری جہاں جاتی ہے بیڑا گرک کر آتی ہے 

ویرا کا قہقہ بڑا عظیم تھا اور امریحہ کے ذہن میں آنے والا خیال اس سے بھی زیادہ عظیم تھا اور اس نے اس خیال کو عملی جامہ بھی پھنا دیا ہینڈی کیم سے بنی ویڈیو اس نے موحترم ڈین اور انتظامیہ کو میل کر دی دیرک سے سیکھی ایڈیٹنگ سے اس نے ویرا کو کاٹ کر نکال دیا اور صرف کارل کو رہنے دیا  اسکا دل چاہا کے دا ٹیب میں بھی بیجھ دے لیکن ویب پر یہ ویڈیو پوسٹ ہوتے ہی کارل یونی میں اور زیادہ مشور ہو جاتا کیوں کے سارے سٹوڈنٹس بر حال بہت پسند کرتے ہیں اور اس طرح کارل کے نام کا ڈنکا یونی میں بجنے لگتا 

ویڈیو بیجھ دی گئی کتابوں اور جوتوں والا حساب برابر ہو گیا  امریحہ رات کو سکوں سے سوئی اتنے سکون سے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی چیخ مار کر وہ اٹھ بیٹھی کار ل اسکے بستر پر سانپوں سے بھرا باکس انڈھیل رہا تھا اف یہ میں نے کیا کر دیا امریحہ نے اپنا پسینہ صاف کیا 

کاش ڈین کا ای ڈی ہیک ہو جائے یا ڈین ہی۔ ۔۔۔۔۔۔ڈین ہی 

امریحہ نے سونے کی کوشش کی اور اگلی بار گلہ گھوٹنے سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی اب وہ کیسے مارنا پسند کرے گی یہ فیصلہ اب کسی اور کو کرنا تھاآپ جانتے ہے کون ہے وہ۔۔۔۔ہاں جی وہی

                              *.......*........*

امریحہ بت سی بن گئی اب نہ پوچھ سکی کیا واقع ہی 

ویرا نے اسکی بارہ بجے والی شکل دیکھی اور امریحہ نے اسکی میں تمہیں کھا جاؤں گی والی شکل پر غور کیا دونوں کے جبڑوں سے یک دم پھر پھر قہقوں کے کبوتر نکلے 

یہ تم دونوں میں کیا کھچڑی پک رہی ہے آج کل؟

صبح ناشتے کی میز پر لیڈی مہر پوچھ رہی تھی 

امریحہ نے نہ میں صرف منہ ہلایا جب کے ویرا نے منہ پھیلا لیا لیڈی مہر نے این اون کی طرف دیکھا وہ آج کل لیڈی مہر کی کریندا خاص بنی ہوئی تھی اور اس نے چابی کی گڑیا کی طرح سب سنا دیا 

سب۔ ۔۔

لیڈی مہر کافی دیر ویرا کو دیکھتی رہی 

یہ تو مجھے معلوم تھا تم میں بہت کچھ خاص ہے لیکن اتنا زیادہ خاص مجھے اندازہ نہیں تھی اور امریحہ تم۔۔۔۔۔۔تمہیں یہاں آ کر پر لاگ گئے ہیں یا پھر تم اپنے سامان میں چھپا کر لائی تھی جو تم نے یہاں آ کر لگا لئے؟ 

دونوں کھی کھی کرنے لگی 

زمین پر گھومو پھرو جو مرضی کرو کبھی قانون نہ طورو دنیا میں ایسا کوئی شوق نہیں جو اصولوں کو توڑ کر پورا کیا جائے حدوں سے باہر بر حال نہیں نکلنا چاہیے خاص کر ایک سٹوڈنٹ کو 

ویرا نے گھور کر امریحہ اور این اون کو دیکھا ہر طرف سے اسکی بہادری پر لعن طعن کی جا رہی ہے 

مجھ سے بچ جانا تم ویرا نے جاپانی میں این اون کو دھمکی ڈی 

یہ مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی دے رہی ہے آنٹی!این اون نے ایک کی چار لگا کر بتائی 

امریحہ کا منہ کھل گیا یعنی این اون بھی پر سامان میں رکھ کر ساتھ لائی تھی یا یونی کے باغ سے توڑے تھے آخری خیال پر اتفاق کیا جاتا ہے 

یونی میں کارل آیا اسے دیکھ کر چلا گیا پھر اگلے دن وہ بس سے اتری ہی تھی کے وہ اس کے پاس آیا اور ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔ امرحہ نے بس کی کھڑکی سے دیکھ لیا تھا۔۔۔ وہ سنجیدگی سے یونی کی دیوار کے ساتھ کمر ٹکائے آتی جاتی بسوں کی طرف دیکھ رہا تھا یعنی مس امرحہ ینگ لیڈی آف پاکستان کا انتظار کیا جارہا تھا۔ امرحہ نے ساتھ بیٹھے اسٹوڈنٹ سے پانی کی  بوتل لیکر گھونٹ پانی پیا۔۔۔ بس ایسے ہی گلا خشک سا ہو رہا تھا اسکا جی تو چاہا کہ اگلے سٹاپ پر اتر جائے پر وہ ڈرتی ورتی تھوڑی تھی کارل سے۔۔۔ کیا سمجھتا ہے کارل اسے۔۔۔ہیں۔۔۔؟؟

سینے پر ہاتھ باندھے ہڈکیپ سے سر کو ڈھانپے وہ اسے جم کے انداز سے گھورنے لگا۔۔۔ اب وہ نہ بول رہا تھا، نہ رستہ چھوڑ رہا تھا وہ کتنی بھی تیزی سے دائیں بائیں سے ہو کر نکل جانا چاہتی اتنی ہی پھرتی سے وو اسکے آگے اجاتا۔۔۔

میرا رستہ چھوڑو۔۔۔ امرحہ نے چلا کر کہنا چاہا لیکن آواز نکلی ہی نہیں۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی کہاں ہے۔۔۔؟؟

کیا مسئلہ ہے تمہارا کارل۔۔۔؟؟؟

تم۔۔۔

اب تک تم مجھے پنچ (punch) مارتے رہے ایک میں نے ماردیا۔۔۔

مجھے تمہارا پنچ اچھا لگا۔۔۔ ہمیں اب دوستی کر لینی چاہیے۔۔۔

میں لنگوروں سے دوستی نہیں کرتی۔۔۔

پر مجھے مینڈکیاں پسند ہیں۔۔۔امرحہ۔۔۔

The Disaster Queen

کارل دی فتور۔۔۔

آکسفورڈ روڈ پر دونوں آمنے سامنے کھڑے لڑ رہے تھے۔

فتور؟ ہڈکیپ کو اس نے سر کو دائیں بائیں کرکے اتارا۔۔۔ اسے غصہ آ رہا تھا۔

ہاں فتور۔۔۔ کرتے رہو اسے اب گوگل۔۔۔

ضرورت نہیں ۔۔۔ مجھے  یہ نام پسند آیا ہے۔۔۔ تم پر جچ بھی بہت رہا ہے بلکہ اسے اپنے نام رجسڑڈ کروالو۔

Hmmm ...

پھر ملتے ہیں امرحہ۔۔۔

اسکے کراس بیگ کی اوپری جیب سے جھانکتی ایک عدد چاکلیٹ کو نکال کر وہ چلاگیا، ساتھ ہنٹ دے گیا۔۔۔ بھاڑ میں جائیں اسکے ہنٹ۔۔۔ امرحہ یونی آگئی اور سارا دن اس حد تک محتاط رہی کہ کلاس میں ہادی الرحمن نے پین مانگا تو وہ شک سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

کیوں چاہیے تمہیں مجھ سے پین؟

میرا پین کام نہیں کر رہا۔۔۔ وہ بے چارا مصری گھبرا گیا۔

تم کسی اور سے لے لو۔۔۔ مجھ سے ہی کیوں مانگ رہے ہو۔۔۔؟؟

تم میری ساتھ کی سیٹ پر بیٹھی ہو نا اور اتفاق سے مجھے یہ غلط فہمی رہی تھی کہ تم کافی خوش اخلاق ہو اور پین نامی چیز عاریتاً مانگ لینے پر ایسے خونخوار نہیں ہوجاتی ہوگی۔۔۔ 

"میرے پاس کوئی پین نہیں ہے۔ "تین پین اسکے بیگ میں رکھے تھے۔۔۔

پامیلا نے اس سے کہا۔ تھوڑی دیر کے لیے میری بکس اور لیپ ٹاپ کو سنبھال سکتی ہو مجھے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ تک جانا ہے، صرف پندرہ منٹ کے لیے۔

میں خود بھی وہیں جارہی ہوں۔ کہہ کر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی۔۔ نہیں وہ سائی کے پاس جارہی تھی۔۔۔

پورا دن وہ نفسیاتی مریضہ بنی رہی۔

چند دن گزرے تو وہ اس واقعے کو بھولنے لگی، اسے اور بھی بہت کام تھے جیسے کہ پاکستانی اسٹوڈنٹ سوسائٹی کے ساتھ مل کر امرحہ سوشل ورک کر رہی تھی۔

مقامی ہسپتال کے لیے انہیں فنڈز اکھٹے کرنے تھے۔

بچوں کے بہرے اور اندھے پن کے علاج کے لیے۔۔

امرحہ، شزاءسے اچھے خاصے پونڈز نکلوانے میں کامیاب ہوچکی تھی، ساتھ ہی شزا نے اسے اپنے "پرانے" اور "بےکار" بیگ، جوتے اور کوٹ دیے تھے، جو امرحہ نے اپنے اور آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں کو اچھے داموں بیچ دیے۔ وہ عالیان کے پاس بھی گئی تھی۔۔۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ پھر سے چھپ کر اس دیکھ رہی تھی اور وہ ایک دم سے اسکے سامنے آ گیا تھا.

"میں فنڈز جمع کر رہی ہوں."وہ گھبرا گئی باکس آگے کیا.ثبوت!

اس نے چند پونڈز فنڈ باکس میں ڈال دیے اور جانے لگا.

"بچوں کے اندھے اور بہرے پن کا علاج ہونا ہے .....علاج مہنگا ہوتا ہے ہمیں ذیادہ پونڈز چاہیئں. "اسکی پشت سے گھوم کر وہ جلدی سے آگے آئی اسکا راستہ روک لیا.اسے ذیادہ پونڈز نہیں اسکا ذیادہ وقت چاہیے تھا.

اس نے اپنے کراس بیگ سے ساری کتابیں نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیں اور بیگ کے پیندے میں پڑے ہوئے سکوں کو اکھٹا کیا اور فنڈز باکس میں ڈال دیے....اور پھر سے جانے لگا.

"کتنے شرم کی بات ہے عالیان  .....!تم نے کتنا کم فنڈ دیا ہے."

"میرے  پاس جتنے تھے میں نے سب اس باکس میں ڈل دیے ہیں."وہ بے زاری سے بولا.

"یہ تو بہت بری بات ہے' بلکہ قریب قریب بے عزتی کی."اسنے  کہتے اپنے بیگ سے جلدی سے دس پونڈز نکالے اور باکس میں ڈال دیے.

"یہ دس پونڈز کی ٹوئیٹ میں نے تمہاری طرف سے باکس میں ڈال  دی ہے ' اب تم مجھے دس پونڈز واپس کر دینا.....ٹھیک ہے کر دینا یاد سے."امرحہ کو اپنی بہادری پر حیرت ہوئی.

عالیان خاموش اسے دیکھ رہا تھا.

"جب چاہے واپس کر دینا 'میں جلدی کا شور نہیں مچاوں گی."امرحہ کہہ کر پلٹ آئی 'جیسے وہ اسے دیکھ رہا تھا 'اس پر تو  امرحہ نے یونی کے بیچ میں بیٹھ کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دینا تھا.لیکن اس بار کوئی اسکے سامنے گھٹنوں کے بل آ کر نہیں بیٹھے گا'وہ یہ جانتی تھی.اس بار مغرب اور مشرق کا ٹال میل نہ ہو گا اس بار اسے چپ نہ کروایا جائے گا.....نہ جان ....نہ پہچان اس یونی میں کوئی امرحہ نہیں.....اسی یونی میں کوئی عالیان بھی نہیں .

کارل فورا اسکے پاس آیا اور صرف دو پونڈز باکس میں ڈالے"یہ لو'آج سے ہم دوست ہیں."چمک دار دانتوں کی نمائش کی....خوامخواہ.

امرحہ نے فنڈز باکس کو کھول کر دو پونڈز نکالے'اس میں اپنے بیگ سے دو پونڈز نکال کر شامل کیے اور اسے واپس کیے.

"یہ لو 'دوبارہ ایسی بات مت کرنا."اسکی آخری دھمکی کی وجہ سے وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی تھی.اب یہ دوستی کی فرمائش بھی اسی کی کڑی ہو گی.

کارل نےاپنی آنکھیں چندھیا لیں'لیں'اسکے پاس اس شہہ کی مات فی الحال نہیں تھی'جب وہ ایسے مسکراتا تھا تو مطلب اسکا یہ ہوتا کہ مجھے اچھا لگا....بہت اچھا لگا....میں نے انجوائے کیا'ویسے وہ یونی کا ایک ایک لمحہ ہی انجوائے کر رہا تھا.

وہ ہر کھیل کا بادشاہ تھا.اسکے سر پر فتح کا تاج سجتا تھا. یونی میں وہ اسٹوڈنٹ یونین کے صدر سے ذیادہ مقبول تھا اور ظاہر ہے اپنی حر کتوں کی وجہ سے تھا.اب یونی میں موجود کمپیوٹر کو ایک اسٹوڈنٹ استعمال کر کے اٹھتا ہے تو فورا اس پر کارل بیٹھ جاتا  ہے اپنے موبائل کو اس کمپیوٹر سے جوڑ کر ننھا منا سا لیکن خطرناک ہیکنگ سوفٹ وئیر عارضی طور پر انسٹال کرتا ہے اس کمپیوٹر پر استعمال ہوئے تازہ تازہ آئی ڈی کے پاس ورڈز کو توڑتا ہے اور بس.........

نہیں وہ بلیک میل نہیں کرتا.... ہرگز نہیں وہ آئی ڈی اور پاس ورڈ کا غلط استعمال بھی نہیں کرتا 'بس وہ تھوڑا بہت ڈیٹا 'تصویریں 'کچھ پیغامات'کچھ چیٹ موبائل میں محفوظ کرتا ہے اور پھر اسے دی پرنٹ ورک کے کسی مہنگے ریسٹورنٹ میں لنچ ڈنر کروا دیا جاتا ہے'سینما کی ٹکٹ لے دی جاتی ہے'کھانے پینے کی دوسری اشیاء اسکی وارڈ روب میں بھر دی جاتی ہیں اور اسی وارڈ روب میں چند اور نئی شرٹس آ جاتی ہیں'نئے شوز بھی اور اسے اپنی ایک نئی کار استعمال کیلئے دی جاتیں جنہیں وہ دنوں واپس نہ کرتا جب تک مانچسٹر کی ایک ایک سڑک کی سیر نہ کر لیتا.....بس یہی سب چھوٹا بڑا....وہ بھی سب اپنی خوشی میں کرتے ہیں وہ مجبور نہیں کرتا.

اسٹوڈنٹس کے گھروں میں پرانک کالز کرنا بھی اسکا مشغلہ ہے'لیکن اس مشغلے کا استعمال وہ اس وقت کرتا جب وہ انسانوں سے بور ہو چکا ہوتا.وہ اسٹوڈنٹس کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے مختلف کہانیاں گھڑ کر انکے گھر والوں کو سناتا اور اگلے دن وہ بے چارے ہال میں بھاگے جاتے کہ آخر سلویو کیوں خود کشی کرنے جا رہی تھی.... صرف سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے پر خودکشی....؟

اور شیشے راتوں کو اٹھ اٹھ کر الو کی آوازیں کیوں نکالتا وہ بھی کھڑکی سے آدھا دھڑ باہر نکال کر ....کیا وہ الو کی طرح اڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے؟اوہ گوش.....اور یہ کرسٹی کو نالیوں سے اتنی الرجک کیوں ہونے لگی ہے کہ اس نے تین بلیوں کا قتل کردیا اور انہیں اپنے بیڈ کے نیچے دفنا دیا اور جس دن اسے قتل کرنے کیلئے کوئی بلی نہیں ملتی وہ بلی کی صورت والی اپنی ہال میٹ لڑکیوں پر حملہ کر دیتی ہے.....Duzzzz     Duzzzzzz کرسٹی قاتلہ بننے جا رہی ہے.... 

اور روفی وہ کیا کرنا چاہتا ہے آخر' وہ اپنے کیمسٹری کے پروفیسر کو دیکھتے ساتھ پھولوں کی طرح کیوں چلانے لگتا ہے اور ہال کی آخری منزل کی چھت پر آدھی رات کو چڑھ کر وہ کسے آوازیں دیتا ہے.....کیا ' کیا اسکا کہنا ہے کہ مارلن منرو اس سے ملنے آتی ہے.....آہ میرا روفی ......وہ تو بہت لائق تھا.ہال میں والدین اپنے پاگل 'دیوانے بیمار ذہن بچوں سے مل جاتے اور بچے سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتے کہ آخر یہ کون ہے جو ان کے گھر راتوں کو فون کرتا ہے اور والدین یہ سوچتے کہ بچے ان سے کچھ نہ کچھ چھپا رہے ہیں .......لیکن کیوں' اسکی کیا وجہ ہے.....؟

وجہ کارل تھی اور کافی بڑی وجہ تھی.

امرحہ کافی آگے جا چکی تھی کارل سے مکالمہ میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ کارل بھاگ کر اسکے پاس آیا۔۔۔

ٹھیک ہے نہیں کرتا دوستی کی بات۔۔۔ ویسے میں بہت اچھا انسان ہوں۔۔

مجھے تم جیسے انسانوں سے دور رہنا چاہیے۔

میں پاکستان کو بہت پسند کرتا ہوں،۔ کاش وہ میرا ملک ہوتا، خاص کر لاہور پر تو میں فدا ہوں۔

اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

مجھے تشویش ہورہی ہے، پاکستان کی قسمت کو لیکر خاص کر لاہور کو لے کر۔

میں بزنس ٹائیکون بن جاؤں گا تو پاکستان کو کافی بزنس دونگا۔

اف، اتنے برے حالات کبھی نہیں آئیں گے میرے ملک پر۔۔۔

کیونکہ جتنے برے آنے تھے وہ تو تمہاری پیدائش سے آچکے ہونگے نا۔۔۔ پوری جان سے قہقہہ لگاتا وہ چلا گیا۔

امرحہ تو سناٹے میں ہی آ گئ، اسے بہت بری لگی اسکی آخری بات، حقیقت میں اب تک کی جانے والی ساری باتوں اور حرکتوں میں سب سے زیادہ بری بات، وہ کون تھا اسکے ماضی کے بارے میں ایسی خطرناک بات کرنے والا۔۔۔

جس طرح کارل تھا اور وجوہات وہ کرگیا تھا امرحہ کو یقین سا ہوگیا کہ وہ اسکی پیدائشی تاریخ جان چکا ہے۔۔۔

ہاں ایسا ہی ہو گیا ہے ، وہ کسی نہ کسی طرح سے اسکا ماضی بھی جان چکا ہے، اب وہ یونی میں ان باتوں کا اشتہار لگاتا پھرے گا نا۔

وہ جان گیا کہ ڈین کو ویڈیو بھیجنے کا معرکہ مارنے والی پاکستان میں کس حیثیت کی مالک رہی ہے۔۔۔ امرحہ نے اپنا فون، اپنا بیگ چیک کیا کہ ضرور اس نے ان میں کوئی چپ لگادی ہوگی یا ویرا سے لگوادی ہوگی بعد میں ویرا جینلز لارنس، طرز کی صورت پر بمشکل اسےمعصومیت طاری کر کے کہہ دے گی۔

”مجھے کیا پتہ تھا وہ تمہاری نحوست کے بارے میں جان جائے گا۔“

وہ اور دادا اکثر ماضی کے بارے میں بات کرتے رہتے تھے۔وہ اپنے فون کو ایم ایس سی کرنے والے مارک کے پاس لے گئی "مرک ؟ اسے چیک کرو اس میں کوئی ایسا سسٹم تو فکس نہیں جس سے کوئی اور میری باتیں سن سکے۔“

”تم مذاق کر رہی ہو ؟“فون اس نے ہاتھ میں لیا اور سیدھا ان بکس میں پہنچا،کیونکہ اب یہ ایک یونیورسل عادت بن چکی ہے فون کسی کا بھی ہو جانا سیدھا ان بکس میں ہوتا ہے۔

”میرے پیغامات پڑھنا بند کرو ....میں سنجیدہ ہوں۔اس میں کوئی ایسی چپ لگی ہے نا کہ ہوئی میری ساری گفتگو سنتا رہے۔“

مارک سنجیدگی سے فون چیک کرتا رہا پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔

”ہاں تمہارا شک ٹھیک ہے ،اس میں ایک سسٹم فکس ہے۔“

”اوہ !“امرحہ کا گلابی سفید رنگ سیاہ پڑ گیا۔

”تم اس بٹن کو دباؤ گی تو ساری یونیورسٹی دھماکے سے اُڑ جائے گی اور اس بٹن کو دباؤ گی تو پورا مانچسٹر غائب ہو جائے گا....اور اس تیسرے بٹن کو دبانے سے تم خود غائب ہو جاؤ گی،تم لوگوں کو نظر آنا بند ہو جاؤ گی....میرا خیال ہے تم اس تیسرے بٹن کا استعمال کرو...“

فون اس کے آگے کر کے وہ اسے ایک ایک بٹن کے بارے میں سنجیدگی سے بتانے لگا....بے حد سنجیدگی سے...پھر فلک شگاف قہقہہ لگایا۔

”کیا تمہارے پیچھے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس لگی ہے امرحہ؟“ہنسنے سے فارغ ہو کر اس نے پوچھا۔

سب ایک سے بڑکر ایک تھے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس بہتر تھی کارل سے....اسے کارل ناپسند تھا جبکہ وہ تو اتنا پیارا تھا .....ہر فن مولا سا....سوچتا،کرتا اور ہو جاتا....آخر کتنے ہے دنیا میں ایسے لوگ....؟

جب کبھی وہ دیوار کے ساتھ کمر ٹکائے ،ایک ٹانگ کو کھڑا دوسری کو ترچھا دیوار پر جمائے دونوں ہاتھوں کو جیب میں رکھے کھڑا ہوتا  تو اس کی آرتی اتارنے کو دل چاہتا ایک تو اس لیےکہ وہ آس پاس والوں کو ”مجھے رک کر،پلٹ کر دیکھو۔“پر مجبور کر دیتا دوسرااس لیے کہ ”یہ بھونچال یہاں کھڑا ہے “کاش تا قیامت یہاں ہی کھڑا رہے،یہیں کھڑے کھڑے اس کا مجسمہ بن جائے،پر اب یہ حرکت نہ کرے۔“

مائیکل انجیلو اس کا مجسمہ بناتا تو اسے ایک اور زندگی خدا سے مستعار لینی پڑتی صرف اتنی سی بات سوچنے کے لیے کہ وہ ایک خوب صورت انسان کا مجسمہ بنائے یا خوبصورت شیطان کا ....یا.....یا....یا۔بس زندگی تمام ہو جاتی اس کی۔

وہ بے حد گورا تھا،گلابی گورا،نیلی آنکھیں ،پتلی ناک،گھنی بھنویں ،لمبی گردن اور ذرا سا لمبوتر چہرہ.....قد ویرا سے ذرا کم عالیان سے ذرا زیادہ....کبھی کبھی مونچھیں رکھ لیتا  تو ایسے لگتا جیسے کسی قدیم سلطنت کا جنگجو سلطان ہے جو شیروں کو دائیں بائیں بٹھا کر طعام کیا کرتا تھا ....اور ان ہی کی طرح دھاڑ ا کرتا تھا۔

ہاں وہ اتنا خوبصورت ضرور تھا کہ اگر گاؤں کی مٹیاریں پانی کی گھڑے اپنی لچکیلی کمر پر ٹکائے پگڈنڈی پر چلتے کارل کے پاس سے گزارتیں تو ضرور کہتیں۔

”وے تو کینا سوہنا اے....کج خدا دا خوف کر.....ویے تو اینا سوہنا کیوں اے ؟“

کارل مسکرا دیتا ہے اور شانے اچکا دیتا ہے....اور مٹیاروں کے سبھی گھڑے ....ہاہاہا...Dhuzzz.....Dhuzzz......Dhuzz

رات کو امرحہ سادھنا کے کمرے میں آئی وہ آریان کے لیے چند تحائف پیک کر رہی تھی۔

”عالیان گھر کیوں نہیں آتا؟“امرحہ نے پوچھ ہی لیا۔

”پہلے ویک اینڈ پر آجاتا تھا پھر اس کی ماما نے منع کر دیا۔“

منع کیوں کر دیا؟ امریحہ سادھنہ کی مدد کرنے لگی۔میں نہیں جانتی رات گئے کبھی کبار آ جاتا ہے۔

کب میں نے اسے کبھی آتے نہیں دیکھا 

ایک دو بار سے زیادہ نہیں آیا رات گئے آتا ہے کچھ دیر ٹھہر کر چلا جاتا ہے زیادہ وہ کھڑکی کے راستے آنا پسند کرتا ہے اسی لئے لیڈی مہر کے کمرے کی کھڑکی اندر سے بند نہیں ہوتی اسی مہینے اسکی سالگرہ آنے والی ہے اے گا کیک لے کر

اسی مہینے؟؟تمہیں پکا معلوم ہے اسی مہینے نہ؟ 

ہاں سادھنہ مسکرانے لگی 

اچھا۔۔۔۔یعنی پھر وہ چنا منا کیک لے کر کھڑکی کے راستے اے گا امریحہ یک دم خوش ہو گئی 

لیکن اس بار اسے بچا ہوا کیک نہیں ملے گا چلو کوئی بات نہیں حالات برے ہو چکے تھے تو اچھے بھی ہو جائیں گے آخر ایک دن سب ٹھیک ہو ہی جائے گا امید کے پودے کو پانی دیتے رہنا چاہیے اور اسے اتنا تناور کر دینا چاہیے کے مایوسی کا جنگل دور دور تک اگنے نہ پاے ویسے بھی سائ کہتا تھا 

اختتام پر سب نہ سہی لیکن بہت کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے 

 امریحہ کہتی ہے اختتام پر سب برا ہوگا تو کچھ اچھا بھی تو ہو گا بلکے ضرور اچھا ہی ہوگا سب 

اور میرا یہ کہنا ہے کے اختتام کو بھول جائے 

زندگی ہر پل صرف شوروات کا نام ہے اسے تن دہی سے جاری و ساری رکھیں۔

اگلے دن یونی میں وہ کلاس لے کر نکلی ہی تھی کے دادی نے بہت وقت نکال کر اسے شرف بات چیت بخشا وہ بھی انکی پسند کے جواب دیتی رہی 

نہیں ناچنے گانے والی جگہوں پی نہیں جاتی ہاں کلب نہیں جاتی دادی حلال گوشت ہی کھاتی ہوں دادی سہولت سے مل جاتا ہے جی دو لوگ جاتے ہیں مجھے یونی چھوڑنے پھر جاب پر گھر لے کر بھی آتے ہیں اکیلی نہیں جاتی دادی بلکل اکیلی نہیں نکلی گھر سے 

تم پاکستان آ رہی ہو ؟

پاکستان۔۔۔اسکا سانس اٹکنے لگا تو اصل بات یہ تھی 

کب ختم ہو رہی ہے تمہاری پڑھائی؟

کیوں کیا کرنا ہے؟ 

تمہاری شادی اور کیا؟ 

کیاکہ رہی ہیں دادی؟  اس نے چلا کر پوچھا 

شادی ۔۔۔۔شادی دادی اس سے زیادہ چلا

آپ بول کیوں نہیں رہی دادی مجھے آپکی آواز نہیں آ رہی 

بول تو رہی ہوں حماد دیکھو اسکی تصویر تو آ رہی ہے اسے میری آواز کیوں نہیں جا رہی 

ہماری آواز آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تمہیں نظر آ رہا ہوں

دادی بولیں نہ کہاں گئی میرا لیکچر ہے اچھا میں جا رہی ہوں 

وہ سکائپ سے لاگ اوف ہو گئی اور لفظ شادی اسکے کانوں میں سائیں سائیں کرنے لگا تمہارا رنگ پیلا پڑ رہا ہے امریحہ قریب سے گزرتی جمیکا نے رائے زنی کی ۔۔۔۔۔

in the memory of the katy cat

یہ جو بورڈ تھا امریحہ کی کلاس فیلو لورین کی پشت پر زنجیر سے جھول رہا تھا رات اسکی بلی کا انتقال ہو چکا تھا اور آج وہ سوگ منا رہی تھی  اسنے کالی شرٹ اور سکڑٹ پہن رکھی تھی اور بال برش نہیں کے تھے منہ بھی نہیں دھویا تھا رو رو کر اسکی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی اور اس نے رات سے کچھ نہیں کھایا تھا یہ بھی نظر آ رہا تھا امریحہ اس کے پاس گئی اسکی بلی کا افسوس کرنے زندگی میں پہلی بار وہ کسی جانور کے مرنے کا افسوس کر رہی تھی اور کافی مشکل سے ہنسی روک کر رہی تھی 

کیسے مری بیچاری بلی؟

ایسے نہ کہو وہ بیچاری نہیں تھی بہت بہادر تھی پرنسز۔ ۔۔

اوہ پرنسز کیٹی کیسے مر گئی لورین؟

غم کی شدت سے پھر لورین بے قابو ہو گئی آنکھیں ٹشو میں چھپا لی اور ایک ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کے اسکی موت کے بارے میں نہ پوچھا جائے اسے بہت تکلیف ہوتی ہے امریحہ آنکھیں پٹ پتا کر اسے دیکھتی رہی بلی کی یاد میں دونوں ہاتھ گود میں رکھ لئے اب سچ یہ تھا امریحہ کو دور کے عزیزوں کی وفات پر رونا نہیں آیا تھا اب لورین کا ساتھ دینے کے لئے کیسے رو لیتی اور لورین کی جان پڑ آخر کیا مصیبت ٹوٹ پڑی کے ایک بلی کے لئے ایسے جان ہلکان کر رہی تھی باقی سب سنجیدگی سے کٹی پرنسز کا ا فسوس کر کے جاتے رہے ایک امریحہ ہی اس بیچاری لورین کا دکھ نہیں سمجھ پا رہی تھی کچھ لاگ لورین جیسے حساس تھے کے بلی کے لئے آنسو بھا رہے تھے اور کچھ کارل  جیسے انسانوں کو ہی آٹھ آٹھ آنسو دلا رھے تھے 

امریحہ جاب سے واپس آ رہی تھی وہ بس میں بیٹھی تھی رات کا وقت تھا بس تقریباً خالی ہی تھی 

ہائے ڈی کوئین کارل کی آواز اسکی نشت کی دوسری طرف کی رو کی نشست سے آئ اس نے ہڈ پہن رکھا تھا اور ہوڈ کیپ سے سر کو پیشانی تک چھپا رکھا تھا امریحہ اپنے چہرے پڑ بےزاری لے آئ جو دادی اسے دیکھ کر اپنے چہرے پڑ لے آتی تھی اب وہ سمجھی دادی کا قصور نہیں تھا نجس لوگوں کو دیکھ کر ایسے ہی منہ بن جایا کرتے ہیں۔آج کی رات خوف ناک خواب دیکھ کر گزرنے والی تھی رات کے اس وقت اسے جو دیکھ لیا تھا وہ اور عالیان سائیکل کا استعمال زیادہ کرتے تھے خدا جانے آج وہ بس میں کیوں سوار تھا 

تم مجھے بہت بری طرح سے نظر انداز کر رہی ہو آخر کو ہم یونی فیلو ہیں پھر میرے تم پڑ کتنے احسانات بھی ہیں خاص کر وہ اگر میں ہارٹ راک میں وہ ڈیسک نہ چلاتا تو سوچو عالیان جیسا بور انسان تمہارا سر کھا رہا ہوتا اور تم مجھ جیسے سپر ہیرو سپر فاسٹ بندے سے مہروم ہو جاتی 

کتنی بدقسمت ہو گی وہ لڑکی جسکا یہ ہیرو ہو گا یعنی شوہر بے چاری نے ایسے مذاک میں کوئی بات کھ ڈی اور کارل نے اسکا بدلا لینے کے لئے اسے چھت سے الٹا لٹکا دیا یا فریج میں بند کر دیا ورنہ لانڈری مشین میں ٹھونس کر گھما دیا اور نہیں تو گریب کا ایک ادھ کان ہی کاٹ لیا امریحہ سوچتی رہی اور کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی 

آج صرف تمہارے لئے میں بس میں سوار ہوا ہوں امریحہ نے ذرا سی گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا مسکراہٹ اسکی آنکھوں میں چمک رہی تھی 

امریحہ کو خوف سا آیا یہ یہاں۔ کیا کر رہا ہے بس کے کراے میں میں اپنے پونڈ ضائع نہیں کرتا وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اس کی نشیست کے پاس آ گیا 

جو دو پاؤنڈ تم نے مجھے دئے تھے ان میں کچھ اور ملا کر میں یہ لے آیا ہوں اس نے وہ ہاتھ جو ہڈ کی پاکٹ میں تھا نکالا اور چھن سے ایک ہتھکڑی نکل کر سامنے آی پلک جھپکنے کی دیر تھی کارل نے اس کے ہاتھ جو اگلی نشیست کی پشت کے گول راڈ پڑ رکھا تھا میں ہتھکڑی دال کر راڈ کے ساتھ لاک کر دیا 

یہ امریحہ دنگ رہ گئی اس نے ہتھکڑی کو جھٹکا دیا 

کارل کیا بدتمیزی ہے یہ؟؟

”ہیلپ !“

 وہ بڑے آرام سے اُٹھا اور اس کی طرف آیا ۔امرحہ کی قسمت خراب کہ وہ پتلی گلی نما سٹرک بند تھی اور اس کے آگے سے ہو کر نہیں جا سکتی تھی۔

”ہیلپ.....ہیلپ۔“ساتھ اس نے بیگ میں سے فون نکالنا چاہا لیکن ہاتھوں میں اس بری طرح کپکپاہٹ تھی کہ بیگ کی زپ بھی نہیں کھول سکی،وہ بند گلی کے آخری دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑی تھی اور وہ بڑے مزے سے  اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔

”اب اگر ےتمہاری آواز نکلی تو میں تمہارا گلا کاٹ دوں گا۔“

”خدایا.....اے اللہ....“امرحہ نے بلند آواز سے کہا وہ بس بے ہوش ہو جانے کو تھی۔

”اللہ “وہ استہزائیہ ہنسا۔

دیوار کا سہارا لینا امرحہ کے لیے محال ہو رہا تھا وہ بس گر جانے کو تھی۔

”کیا ہو رہا ہے یہاں ؟“ایک تیز ٹارچ کی روشنی گلی میں چمکی۔ماسک مین تیزی سے بھاگ گیا  ٹارچ والا گلی کے اس حصے کی طرف آیا  جس طرف امرحہ تھی۔ خوف اور تکلیف کی وجہ سے امرحہ کو ٹھیک سے دیکھنےاور سمجھنےمیں وقت لگا ۔

”اوہ خدایا..... کیا ہوتا رہا ہے یہاں؟“ وہ امرحہ کو دیکھ کر بری طرح چونکا  امرحہ نیچے بیٹھ گئی اس کے لیے  کھڑا رہنا مشکل ہو رہا تھا۔

”تم ٹھیک ہو “وہ گھٹنوں کے بل اس کےقریب بیٹھ گیا۔امرحہ نے خوف سے ہی اسے بھی دیکھا اور اُٹھنے کی کوشش کی۔

”ٹھہرو۔میں تمہارے لیے پانی لاتا ہوں۔“آدمی جلدی سے گیا اور پانی کی بوتل لے آیا۔

”لو یہ پیو اور اپنی سانسیں درست کرو۔پرسکون ہو جاؤ،میں ابھی پولیس کو بلاتا ہوں۔“امرحہ ہاتھ سے پسینہ صاف کرنے لگی۔اس کی سانسیں قابو میں ہی نہیں آرہی تھیں۔

”اس طرف ساتھ ہی میرا اسٹور ہےمیں کوڑا دان میں کوڑا ڈالنے آیا تو مجھے ہیلپ کی آواز آئی۔تم میرے اسٹور میں چل کر بیٹھ سکتی ہو ،آؤ میرے ساتھ میں پولیس کو فون بھی کرتا ہوں۔“

”نہیں پولیس رہنے دیں۔کیا آپ مجھے ٹیکسی میں بیٹھا سکتے ہیں ؟“

”رکو لڑکی! تم ایسے نہیں جا سکتیں تم غیر ملکی ہو تمہارے ساتھ مانچسٹر میں یہ سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا،جو ہم خود اپنے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے ۔آؤ میرے ساتھ۔“وہ نیم بوڑھا آدمی آگے آگے چلنے لگا ۔

امرحہ کو ناچار اس کے ساتھ جانا پڑا۔تھوڑے ہی فاصلے پر اس کا اسٹور تھا۔کہنی سے اوپر اس کے دائیں بازو میں کافی تکلیف تھی ،وہ جگہ خون سے گیلی ہو رہی تھی”تمہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟“

”نہیں ....میں ٹھیک ہوں اسے میرا بیگ چاہیے تھا بس....“

تھوڑی دیر میں پولیس آگئی  امرحہ نے سارا واقع بتا دیا ۔

”آپ پہچانتی ہیں اسے ؟“پولیس مین پوچھ رہا تھا۔

”وہ ماسک میں تھا“

”آواز ؟“

”نہیں جانتی اسے....آواز بھی نہیں۔“

”آپ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ ہیں اکثر  ایسے اسٹوڈنٹ مذاق کرتے ہیں۔“

”نہیں ! وہ یونی اسٹوڈنٹ تو نہیں لگتا تھا اسے میرا بیگ چاہیے تھا۔“

”کیا اس نے مانگا تھا یا چھینا تھا؟“

”مانگا تھا۔میں نے نہیں دیا تو مجھے گرا دیا اس نے۔“

اس کے ہاتھ میں چاقو دیکھ کر بھی آپ نے اسے دینے سے انکار کر دیا  جس میں صرف بیس پونڈز تھے،آپ کو ڈر نہیں لگا ؟“

بوکھلاہٹ میں میں نے انکار کر دیا سب کچھ ایک دم سے ہوا۔

پولیس کی ہی گاڑی اسے گھر چھوڑ گئی۔گھر آ کر اس نے بازو کا حال دیکھا گہرے رنگوں کی وجہ سے خون نظر نہیں آیا تھا فرسٹ ایڈ باکس کچن سے لا کر اس نے بڑی مشکل سے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کی پٹی کی فرسٹ ایڈ باکس میں کوئی انٹی بائیوٹک نہیں تھی اور اسے بازو پر کافی تکلیف ہو رہی تھی گرم دودھ میں ہلدی ڈال کر اس نے پی لی اور کمرے میں گم سم بیٹھ گئی۔

خاموش۔۔۔۔بلکل چپ 

میں ایک بہادر لڑکی ہوں بہت دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے خود سے کہا میرے بازو میں تکلیف ہے لیکن میں اسے برداشت کر سکتی ہوں مجھے رونا آ رہا ہے لیکن میں روں گی نہیں میں خوف زدہ ہوں لیکن میں اپنے خوف پر قابو پا لوں گی عمل کا رد عمل ہے میں اسے اپنے عمل سے بدل دوں گی میں اسے ٹھیک کر لوں گی مجھے ڈرنا نہیں چاہیے میں اکیلی ہوں لیکن اکیلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کے بزدل یا کمزور بن جایا جائے ویرا صبح کے قریب گھر آئ تھی  عالیان کے کلاس فیلوز اور حال میٹس نے اس کے لئے برتھڈے پارٹی کا انتظام کیا تھا ویرا وہیں تھی رات بھر ۔۔۔۔۔روسی دھن کی سیٹی بجاتی جب ویرا اپنے کمرے میں چلی گئی تو امریحہ نے اٹھ کر اپنے بیگ میں سے کارڈز نکال کر الماری میں رکھے باکس میں رکھا پھول تو اس نے مسل کر آکسفورڈ روڈ پر ہی پھینک دیا تھا اگر وہ پھول عالیان کو دے بھی دیتی تو کیا وہ  لے لیتا لے لیتا تو چلتے چلتے کہیں بھی پھینک دیتا وہ تو رات بھر مزے سے پارٹی کرتا رہا تھا امریحہ بھی مانچسٹر میں موجود ہے وہ تو یہ بھی بھول چکا تھا کبھی وہ اسکی دوست رہی تھی اس کبھی کے لئے ہی وہ اسے پارٹی میں بلا لیتا امریحہ شو اسٹور پر سارا وقت اس پارٹی کے بارے میں ہی سوچتی رہی تھی گھیسی ہوئی تین جینز کی پینٹون میں سے کوئی ایک اس نے پہنی ہو گی شاید ہلکے مٹے مٹے نیلے رنگ کی اور یونیفارم کی طرح جانی جانے والی کی کی بار استعمال کی جانے والی چند مخصوص ٹی میں سے کوئی ایک شاید کالی جس کی پشت پر موٹے تنا ور درخت کی صرف جڑیں سرمئی رنگ میں پھیلی پری تھی اور جو عالیان کو بہت پسند تھی یا شاید نیلی پر سفید وہی سفید جس کی فرنٹ پر سرچ می لکھا تھا 

آخر تمہارا کیا مطلب ہے کیا ڈھونڈ لیا جائے تم میں سے؟

جنہیں کچھ ڈھونڈھنا ہو گا وہ کیا کیوں تو نہیں پوچھیں گے نا وہ تو بس کر گزرے گے 

کیا کر گزرے گے ؟

وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا تم نہیں سمجھو گی 

اور وہ نہیں سمجھی تھی ٹھیک کہا تھا اس نے اس کے پاس گھسے ہووے اور پرانے کپڑے ہی تھے یہ میں نے چار سال پہلے لی تھی یہ تین سال پہلے یہ جوتے یونان جرمنی اور فرانس تک جا چکے ہیں ابھی بھی دیکھ لو کتنے اجلے آجلے ہیں اور مضبوط بھی ان کے ساتھ مزید تین چڑ ٹورز کے جا سکتے ہیں تم کافی کنجوس ہو۔پرانی شرٹس تم خود ہی تراش خراش لیتے ہو یا جو جو کو دے دیتے ہو اور وہ فرانس کی قدیم و جدید تجردی آرٹ تمہاری شرٹس پر بنا دیتی ہے مجھے تو اسکی بنائی علامتون سے بغاوت کی بو آئ 

ہاہاہا باغی ہی ہے اس کے آرٹ سے بنی شرٹس جب میں پہنتا ہوں تو اسے بہت سے آرڈر ملتے ہیں اس لئے تو وہ اتنی امیر ہے میں تو اسکا چلتا پھرتا ماڈل ہوں اور میں کنجوس بلکل نہیں ہوں صرف فضول خرچ نہیں ہوں میرے اس کراس بیگ کو دیکھو،بتاؤ یہ کتنا پرانا ہے؟

کم سے کم دس سال پرانا امرحہ نے چڑ کر کہا 

ہاہاہا نہیں یہ یونی کے پہلے دن سے میرے ساتھ ہے چند ایک بار پھٹ چکا ہے لیکن میں اسے سلا ئی کر لیتا ہوں دھو دیتا ہوں میں ایک یونی سٹوڈنٹ ہوں ماڈل نہیں جو نت نئے کپڑے پہن کر ہی یونی آ سکتا ہے بس۔ ۔۔۔۔یہ بیگ یہ جوتے اور کپڑے صرف استعمال کی چیزیں ہیں انہیں چیزیں ہی رہنے دینا چاہیے جنوں نہیں بنا لینا چاہیے انسانی ترقی کا راز ان سے ہے نا یہ ترقی کے رضا کار ہیں ان کے لئے پاگل ہونا پاگل پن ہے 

ایک سال میں تم کتنی کھریداری کرتے ہو ؟

بہت کم ضرورت پڑتی ہے مما،مورگن اور شارلت کرسمس پے گفت دے دیتی ہیں کچھ دوست جو موٹے ہو جاتے ہیں یا انکی وارڈ روب میں مزید کپڑوں کے لئے جگہ نہیں بچتی وہ کم قیمت پر نیلامی کر دیتے ہیں اگر بہت ضرورت ہو تو میں اور کارل وہ لے لیتے ہیں 

تو تم پیسوں کا کیا کرتے ہو؟ 

اسکو حیرت تھی مما مہر کے بیٹے کی یہ حالت تھی وہ جاب بھی تو کرتا ہے 

ویل یہ ایک راز ہے تمہارے پاپا کیا بہت امیر ہیں تم کتنے نت نئے کپڑے بدلتی ہو یونی کے پہلے دن جو تم نے لباس پھنا تھا وہ میں نے دوبارہ نہیں دیکھا وہ گرمیوں کے لئے تھا گرمی اے گی تو دوبارہ استعمال کروں گی 

امریحہ جھوٹ بول رہی تھی اپنا وہ سوٹ وہ این اون کو دے چکی تھی کیوں کے امریحہ کو وہ اچانک سے برا لگنے لگا تھا اپنی طرف سے اتنی کفایت کے باوجود وہ ہر مہینے اپنے اسٹور سے کم قیمت پر دو جوڑے جوتوں کے لے لیتی تھی کافی ساری جینز لے چکی تھی ٹاپ بھی گرم کوٹ جیکٹس اور بیگز دستانے تو اتفاق سے اس کے پاس اتنے ہو چکے تھے انہیں کاٹ کر سی کر ایک نیا سویٹر بن سکتا تھا اسے دستانوں کی لباس کے ساتھ میچنگ کا اتنا خبط ہو گیا تھا اور پاکستان سے جو وہ گرم کپڑے لائی تھی ان کے ساتھ دستانے میچنگ کرتے کرتے بس ہی ہو گئی تھی 

امریحہ عالیان کی شرٹس کو انگلیوں پر گن سکتی تھی اور گن رہی تھی تو اس نے پہلے جو جو کی تجردی آرٹ سے سجی شرٹ پہنی ہو گی بلیک جینز پر اس نے پھونک ماری ہو گی اور کیک کاتا ہو گا اور کارل کے منہ میں ڈالا ہو گا شاید کیک کارل نے ہی کاٹ لیا ہو اور موم بتیوں کی جگہ کوئی راکٹ فٹ کر دیا ہو اور کیک عالیان کے منہ میں ڈالنے کی بجاے منہ پر تھوپ دیا ہو ساتھ ساتھ ان غباروں کو پھوڑا گیا ہو گا جن میں کارل نے پٹاخے بھرے ہوں گے جو زمین پر گرتے خود با خود پھوٹنے لگتے ہیں کان پھاڑ دینے والی آوازوں کے ساتھ پٹاخوں کے گرتے ہی سب چیخیں مرتے ادھر ادھر بھاگے ہوں گے خاص کر لڑکیاں 

اور پھر تیز میوزک لگایا گیا ہو گا سب ساتھ ایک آواز میں گاتے ہوں گے 

its my friends birthday

so dance buddy dance.....dance

عالیان کے گرد انہوں نے گول دائرہ بنا لیا ہو گا ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے وہ شانے دائیں بائیں لگاتے جھومتے جاتے ہو گے 

its my friensz birthday

so i m dancing

امریحہ گم سم حالت سے چونکی 

its my friends birthday 

so i m praying 

امریحہ نے آنکھیں بند کر کے اس کے لئے دوا کی اگلی صبح وہ یونی نا جا سکی دیر سے سو کر اٹھی۔اسے بخار ہو رہا تھا۔پہلے ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر کو بتایا کہ حادثاتی طور پر وہ اپنا ایک بازو ایک لوہے کی سلاخ سے زخمی کر بیٹھی اس کے زخم میں سوجن تھی بہت اور اس کے لیے بازو کو حرکت دینا مشکل تھا۔اسے ہر حال میں یونی جانا تھا ،لیکن اس کا بخار بڑھ رہا تھا ،اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔وہ آدھے راستے سے ہی گھر واپس آگئی ،تیز دھار چاقو اس کی کھال میں گھسا تھا زخم تازہ تھا تو اتنی تکلیف نہیں تھی،لیکن اب تو اس برداشت ہی نہیں ہو رہا تھا۔وہ گھر آکر سو گئی ۔

اسے اتنا تیز بخار ہوگاا کہ وہ مدہوشی میں بڑبڑانے لگی۔سادھنا رات اس کے کمرے میں ہی سوئی  اور جب اگلی صبح وہ اسے سوپ پلا رہی تھی تو وہ تذبذب سے امرحہ کو دیکھنے لگی۔

”اگر یہ سوپ تم نے پینا ہے تو پی لو پلیز مجھے ایسے نہ دیکھو۔“امرحہ نے مذاق کیا ۔

”تمہارے اور عالیان کے درمیان کچھ ہوا ہے؟“

”کچھ کیا....کچھ بھی نہیں ....دائیں بازو کی تکلیف پورے جسم میں ڈورگئی۔

”ویرا عالیان کی برتھ ڈے پارٹی میں گئی تم کیوں نہیں گئیں ؟“

”تمہیں تو معلوم ہے یہ لوگ کیسی کیسی شرارتیں کرتے ہیں پارٹی میں،دادا نے منع کر دیا۔“

”تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نارضگی ہے،پہلے تو تم اس کی کافی باتیں کرلیا کرتی تھیں میرے ساتھ...؟“

”نہیں....وہ مصروف ہوتا ہے بہت.....اس کے اور دوست بھی تو ہیں،میں اس کے لیے اتنی اہم نہیں ہوں۔“

”کیا تمہیں یہی دکھ ہے کہ تم اس کے لیے اتنی اہم نہیں ...؟“

”دکھ....نہیں دکھ کیوں ہو گامجھے؟“

”تو پھر امرحہ تم رات بھر اس کا نام لے کر روتی کیوں رہی ہو ؟“

امرحہ خاموش سادھنا کو دیکھتی رہی،لفظوں کو  اس حلق سے نکلنے میں دقت درپیش تھی۔

”میں روتی رہی ہوں ؟“

”اتنی اونچی آواز میں کہ مجھے کمرے سے باہر جا کر دیکھنا پڑا کہ آواز گھر میں کہاں تک جا رہی ہے۔“

”بخار میرے سر کو چڑھ گیا ہو گا ۔“

”بخار.....تم اس طرح رو رہی تھیں کہ میں بھی رونے لگی۔میرا دل پھٹنے لگا اور میں نے پراتھنا کی کہ بھگوان تمہیں سکون دے۔“

”میں ...میں دادا کو یاد کر رہی ہوں گی۔پتا نہیں ڈاکٹر نے کل کیسی دوا دی تھی۔“

”سادھنا نے کھڑکی کے پردے اُٹھا دیے،باہر روشن دن نکلا تھا،دھوپ چمک رہی تھی مانچسٹر کی دھوپ لاہور کی دھوپ کی چھوٹی بہن سی.....اوپری من سے روٹھ جانے والی سہیلی سی.....دوپٹے کا کونا دانتوں میں دبا کر دلہن بنی ننھی سی بچی کی ایویں،ایویں شرماہٹ سی اورکسی جان سے پیارے کی ”پکی کٹی سی بھی....

”اور کتنے دن بیمار رہنا ہے؟“

ویرا اچھل کر اس کے بیڈ پر کودی،امرحہ کا زخمی بازو بال بال بچا جسے وہ کشن پر رکھے نیم دراز سی تھی اس نے ویرا کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا،بازو کے زخم کا تو بالکل بھی نہیں۔

”میرا تو دل چاہتا ہے میں اب بیمار ہی رہوں۔“اس کے اتنے مایوسانہ انداز پر ویرا چونک سی گئی۔

”امرحہ !پارٹی سب دوستوں نے مل کر عالیان کو دی تھی،سرپرائز پارٹی بھی،اگر عالیان کی طرف سے ہوتی تو تم بھی وہی ہوتیں،وہ تمہیں ضروربھی بلاتا“

امرحہ کو تھوڑا سکون ملا ہاں اگر وہ پارٹی کا انتظام  کرتا تو اسے بلاتا ،لیکن وہ ہارٹی شارٹی کرنے والوں میں سے نہیں تھا جو کپڑوں پر پیسے ضائع نہیں کرتا تھا وہ پارٹی پر کیوں کرے گا۔

”تم اپنے گھر پارٹی کرتی تھیں؟“وہ اس کے سالگرہ سے اگلے دن پوچھ رہا تھا۔

پارٹی؟ امریحہ گڑ بڑا کر رہ گئی جس طرح سے اسکا یوم ای پیدائش مشور ہو چکا تھا وہ تو صرف یوم سیاہ یا یوم دفعان بلا کے طور پر ہی منایا جا سکتا تھا 

نہیں۔ ۔۔کوئی پارٹی نہیں 

گھر میں کیک کاٹ لیتی ہو گی دوستوں کے ساتھ ہے نا ۔۔۔

[  ] نہیں(اہ بھر کر اسکی بھی نوبت نہیں آئ تھی)دادا کے ساتھ پہلے بادشاہی مسجد جاتی تھی نفل پڑھنے شکرانے کے دادا کہتے تھے اپنی پیدائش کے دن زیادہ عبادت کرنی چاہیے خدا کو بتانا چاہیے کے ہم اسکے شکر گزار ہیں کے اس نے ھمیں بنایا اور کس قدر پیار سے بنایا ہمارے لئے نبی بیجھے ہمارے لئے اپنے پیغامات آسمان سے اتارے ھمیں خدا کو بتانا چاہیے کے ہم خوش ہیں کے ہمارے لا وجود کو وہ وجود میں لانے کے لئے وہ رازی ہوا 

[  ] گڈ پھر؟ عالیان متاثر نظر آنے لگا پھر مجھے وہ اپنی پسند کا گفت دے دیتے اور اپنی پسند کے پارک لے جاتے اور رات میں میری ہی پسند کے ہوٹل میں کھانا کھلا دیتے امریحہ کو یہ بتاتے ہووے ڈر بھی تھا کے کہیں وہ یہ نا پوچھ لے کے ہر جگہ دادا ہی کیوں ؟

[  ] میں متاثر ہوں امریحہ۔۔۔

[  ] اور تم؟ تم کیا کرتے ہو؟ 

[  ] کرتا تو نہیں ہوں لیکن کرنا چاہتا ہوں اس نے دونو آنکھیں میچ کر پھر انہیں کھول کر کہا اور مسٹری سے مسکرانے لگا میں چاہتا ہوں کے جب میری سالگرہ ہو میں سپر مین بن جایا کروں بے شک صرف ایک گھنٹے کے لئے اور مما کو اڑا کے اپنے ساتھ لے جایا کروں دور بہت دور بادل کے ایک ٹکڑے پر تیز ہوا موم بتی کو بجھا دے میں اور ماما مل کر کیک کاٹیں یا پھر میں انہیں وکٹوریہ فال لے اڑوں گرتے ہووے پانیوں کی پوچھاڑ کے دوران کسی اونچی نوکیلی چٹان کے کنارے پانی کے پردے کے بس اتنے قریب کے ہاتھ بڑھا کر ہاتھ گیلے کر لو۔ ننھی منھی بونددیں میرے کیک کو گیلا کر رہی ہوں کبھی میں پیٹر کے مجسمے کو احترام سے اٹھا کر اسکی کشتی سے نیچے رکھوں اور اسکی کشتی کو سمندر میں لے جاؤں اور۔ ۔۔۔۔۔

[  ] میں خوف زدہ ہو رہی ہوں عالیان۔

[  ] اگر وہ سپر مین نہیں بنا تو امریحہ کو ڈر تھا کے وہ کسی نا کسی طرح یہ سب کر لے گا اسکے خواب کیسے بڑے بڑے تھے اسکے۔یو نو بڑے بڑے؟ بادل کے ٹکڑے پر جا کر کیک کاٹنا۔شکر ہے اس نے آتش فشاہ کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ویرا اپنے کمرے سے گیٹار لے آئ تھی اور اسے کوئی روسی نظم سنانے لگی تھی گاتے ہووے وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کے کوئی بھی اس پے نثار ہو سکتا تھا لیکن امریحہ کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس پے نثار ہونے کا بھلا اسے کیا ضرورت تھی اتنی پیاری فراک پہن کے عالیان کے پیچھے سائیکل پر بیٹھنے کی۔

[  ] مجھے یہ شک سا کیوں ہے کے تم مجھے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی ہو؟

[  ] ویرا نے درمیان میں روک کر پوچھا 

[  ] تم اتنی پیاری لگ رہی ہو دل چاہ رہا تمہیں کھا جاؤں اب امریحہ یہ تو نہیں کہ سکتی تھی کے میں تمہیں کھا جانا چاہتی ہوں 

[  ] یہ پیار سے کھا جانے والا انداز تو نہیں ہے ویرا نے دوسرا روسی گانا گاتے ہووے کہا این اون اور سادھنا بھی اسکے کمرے میں آ گئی بعد ازاں لیڈی مہر بھی 

[  ] اسکی اتنی سی بیماری پر وہ کیسے کیسے اسکا دل بہلا رھے تھے وہ کوئی دنیا جہاں کی دولت نہیں لوٹا رہے تھے اس پر صرف ذرا سی توجہ ہی دے رھے تھے اور یقین جانیں بر بیمار کو بیماری میں ذرا سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے شام کو سائ اسکی خریت معلوم کرنے آیا تھا امریحہ نے اسے فون کر کے سب بتا دیا تھا وہ اسکے لئے پھول لیا تھا۔۔۔

[  ] تم اس واقعے کے بارے میں کسی سے بات نا کرنا سائ ظاہر ہے ایسا ہی کروں گا لیکن تم اس کے پاس ضرور جانا 

[  ] کیا مجھے جانا چاہیے؟

[  ] ہان بلکل تمہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے 

[  ] میں خوف زدہ نہیں ہوں مجھے اسکے پاس جانا تو تھا ہی اسکے پاس اسی لئے میں نے پولیس سے جھوٹ بولا 

[  ] بس ٹھیک ہے تم نے ٹھیک کیا تم چیزوں کو بہتر انداز میں سوچ رہی ہو 

[  ] مجھے یہی سب کرنا تھا سائ ورنہ بات بہت بگڑ جائے گی 

[  ] صحت یابی کی دوائیں دیتا سائی چلا گیا لیکن صرف کمرے سے ،نشست گاہ میں لیڈی مہر سے اسکی مڈ بھیڑ ہو گئی تھی اور وہ نا جانے انھیں کون کون سی کہانیاں سنا رہا تھا کے وہ ہنس ہنس کر بحال ہو رہی تھی 

[  ] تمہاری یونی میں کتنے مزے مزے کے لاگ پڑھتے ہیں سادھنا اس کے لئے رات کا کھانا لائی تو ہنسی کو کنٹرول کرتے ہووے بولی 

[  ] تمہیں سائ اچھا لگا؟

[  ] ہاں بہت۔ ۔وہ یونی کے ابتدائی دنوں کی باتیں کر رہا تھا 

[  ] سادھنا کیا تم آسمان کے ساتھ الٹا لٹکنا چاہتی ہو؟

[  ] اگر ہاں تو تم عالیان کو فون کرو اور کہو تمہاری ملاقات کارل سے کروا دے میں شرط لگاتی ہوں تم اس طرح دوبارہ کبھی ہنس نہیں پاؤ گی 

[  ] نہیں مجھے کارل نہیں چاہیے وہ تمہیں ہی مبارک ہو شکر کرو تمہاری باتیں سن کر میں نے خوف زدہ ہو کر مانچسٹر نہیں چھوڑ دیا 

[  ] دادا بھی شکر کریں گے میں نے اس سے خوف زدہ ہو کر دنیا نہیں چھوڑ دی کاش آج کل میں ہی وہ مرنے شرنے والا ہو آمین 

[  ] اپنی کلاس لینے کے بعد وہ پال کے ڈیپارٹمنٹ آ گئی تھی اور اسکا انتظار کرنے لگی تھی 

[  ] مجھے تم سے بات کرنی ہے پال وہ اپنی کلاس سے باہر نکلا امریحہ تیزی سے اسکی طرف گئی اسکے دوست بھی اس کے ساتھ تھے میرے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے اسے جیسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا 

[  ] میں سب کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی 

[  ] امریحہ نے بہت بہت مضبوط لہجے میں کہا 

[  ] مجھے اس سے دلچسپی نہیں تم کیا چاہتے ہو 

[  ] تمہیں اس رات والے واقعے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ 

[  ] تمہیں اپنی بکواس سنانے کے لئے میں ہی ملا تھا وہ بھڑکنے کی ناکام اداکاری کرنے لگا 

[  ] میرے بازو پر زخم ابھی بھی تازہ ہے اگر تم اپنے دوستوں کے سامنے بات کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے 

[  ] میرا خیال تھا یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہو گا 

[  ] پال اپنے دوستوں سے الگ ہو کر چلنے لگا امریحہ اسکے پیچھے ہی تھی دونوں ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکل اے تو امریحہ اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی 

[  ] تم مجھے تھپڑ مار سکتے ہو 

[  ] میں تمہیں پھر سے بتاؤں تم میرا وقت۔۔۔۔۔

[  ] تم اسی وقت مجھے سب کے سامنے تھپڑ مار سکتے ہو ،ایک نہیں جتنےجی چاہے مار سکتے ہو میں تمہیں اجازت دیتی ہوں،امرحہ نے اتنی سنجیدگی اور متانت سے کہا کہ وہ کچھ بول ہی نہیں سکا 

"اور اگر تم نے اکیلے میں مارنے ہے تو بھی،تم مجھے برا بھلا کہہ سکتے ہو ،گالیاں دے سکتے ہو ،سب کر سکتے ہو لیکن اس کے لیے تمہیں قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں اپنا کیرئیر اپنی تعلیم داو پر لگانے کی ضرورت نہیں ہے، تم اسپورٹس پرسن ہو یونی کے لیے میڈل جیت کر لائے ہو ،ہیرو ہو یونی کے،لیکن اخبارت ،میڈیا لمحوں میں تمہیں ہیرو سے زیرو بنا دے گا۔“

”تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو ؟“وہ ہنسا۔

”ہاں سنو !  میری بات مکمل ہونے دو ،اس رات اس آدمی نے میرے منع کرنے کے باوجود پولیس کو بلا لیا تھا۔میں نے ان سے جھوٹ بول دیا تھا۔صبح پولیس کا فون آیا تھا انہوں نے مین روڈ پر لگے کیمروں سے تمہاری فوٹیج حاصل کر لی ہے،جس میں تم میرا بازو گھسیٹ کر گلی کے اندر لے جا رہے تھے۔انہوں نے تمہارا قد کاٹھ سب نوٹ کر لیا ہے،میں انہیں بتا سکتی تھی پال کہ یہ تم ہو۔ تم نے ہاتھوں میں جو دستانے پہن رکھے تھے وہ بھی تمہارے بائیں ہاتھ کے چھ انگلیوں کو چھپانے میں ناکام تھے۔اگر میں پولیس سے کہو تو وہ ضرور باریک بینی سے اس معاملے کو دیکھیں گے۔مزید اگرتمہارے چاقو سے بنا یہ زخم میں نے پولیس کو دیکھا دیا تو تم جانتے ہو یہ صرف ہراساں کرنے کا کیس نہیں رہے گا ،تمہیں یونی سے نکال دیا جائے گا،کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی تم نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے....تمہارا کیریر ختم۔“

وہ اسے گھور رہا تھا”مجھے نفرت ہے تمہاری شکل سے۔“

”کیا تمہارے پاس اس نفرت کی وجہ ہے....ایک تھپڑ نا.....اور میرا مسلمان ہونا.....تم سو تھپڑ مجھے مار لو....مگر ایسے خود کو کرمنل مت بناؤ....تم ہر طرح سے اپنا غصہ مجھ پر نکال سکتے ہو۔“

”تم غلط جگہ اپنا لیکچر دینے کا شوق پورا کر رہی ہو ۔“

”اگلی بار مجھے نقصان پہچانا چاہو تو اتنا خیال رکھنا کہ تمہیں نقصان نہ پہنچے۔“

”تمہیں میرے نقصان کی اتنی فکر کیوں ہے ؟“وہ استہزائیہ ہنسا۔

”کیونکہ اب تم مجھے انسان ہونےکی حیثیت سے نہیں ایک مسلمان ہونےکی حیثیت سے دیکھتے ہو ،تو ٹھک ہے ایک مسلمان تمہارے اس حملے کو درگزار کرتا ہے....میں چاہو تو اسی وقت تمہیں پولیس کو پکڑوا سکتی ہو،تم پر جرم ثابت ہو جائے گا۔تم یونی سے باہر ہو گے تو ایک مسلمان ،ایک اسلام کو ماننے والا تمہارا کیریر،تمہاری نیک نامی بچا رہا ہے.....تمہارے حملے کو درگزار کر رہا ہے.....تم نےاسلام کو لے کر وہ سب کیوں کہا۔میں نہیں جانتی لیکن اب تم یہ جان لو تمہارے ساتھ ایسا کرنے کے لیے میرا مذہب کہہ رہا ہے....تم اسلام سے نفرت کرتے ہو شاید،لیکن اسلام کاپیروکار نہ تم سے نفرت کرتا ہے اور نہ تمہارے مذہب سے اور نہ ہی کرے گا....مجھے نفرت کا درس نہیں دیتا میرا مذہب.....تم کسی بھی وقت میرے منہ پر آکر تھپڑ مار سکتے ہو۔اس کے لیے تمہیں خود کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.....میں یہاں پڑھنے آتی ہوں اور تم بھی.....اگر ہم ایک دوسرے کو پسند نہیں کرسکتے تو ہمیں ایک دوسرے کا احترام ضرور کرنا  چاہیے....اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو غیر جانب دار ہو جانا چاہیے....خاموش ہوکر الگ ہو جانا بہت سےمسائل حل کر دیتا ہے.....“

”میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں  چاہتا “وہ سختی سے بولا۔

”ٹھیک ہے تمہیں میری شکل نظر نہیں آئے گی۔“امرحہ کہہ کر آگئی۔

”اسلام گالی کا جواب گالی نہیں ہے.....اسلام اینٹ کا جواب برداشت ہے۔“

اینٹ کا جواب،برداشت اور حکمت وہ پال کو دے آئی تھی اور اسے امید تھی سب اچھا ہی ہوگا.....کیونکہ حکمت کبھی مضر نہیں ہوتی۔رات کو لیڈی مہر نے ان سب کو نشست گاہ میں ایک ساتھ بلایا۔

”میں تم سب سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں  انسانیت کے ناطے اور ان سب سے بھی کہیں بڑھ کر ایک ماں کی محبت کے ناطےسے....تم سب مجھ سے وعدہ کرو کہا اگر کوئی میرے بارے میں، اس گھر اوع میرے بچوں کے بارے میں تم سےکچھ بھی پوچھے گا توتم ایک لفظ بھی نہیں بتاؤ گی....“

”کچھ ہوا ہے کیا؟“ویرا نے پوچھا۔

”میں تفصیلات نہیں بتا سکتی ،تم چاروں پوری ایمانداری سے مجھ سےوعدہ کروکہ کوئی کسی بھی طرح کی معلومات  تم سے لینا چاہے گا تو مجھے بتاؤگی  تمہارے سامنے کسی کا نام لیا جائے یا کسی کی شکل و صورت کے بارے میں پوچھا جائے تم نے ایک لفظ منہ سے نہیں نکالنا ۔یہ سب میں اپنے بچوں کے فائدے کے لیے کر رہی ہوں۔میں بہت مشکل سے انہیں زندگی کی طرف لائی ہو میں ان کےدلوں کے حال جانتی ہوں،ان پر کیا گزرتی رہی ہے۔مجھ سے زیادہ کون جانے گااس لیے ایک ماں تم سب سے درخواست کرتی ہے کہ حد سے زیادہ اختیاط کی جائے اور اگر کوئی کچھ پوچھے تو فوراً پولیس کو فون کای جائے۔سادھنا کے ساتھ چند دن پہلے یہی ہوا ہے لیکن سادھنا کی عقلمندی کا مظاہرا کیا  اور آکر مجھے بتا دیا....“

ان سب نے بڑی محبت کے ساتھ لیڈی مہر کو وعدہ دے دیا.....

امرحہ کہی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ وہ کچھ پریشان سی رہتی ہیں،اس نے پوچھا تو انہوں نے اتنا ہی کہا کہ یہ بہت ذاتی سا مسئلہ ہے،وہ بتا نہیں سکتیں۔

                            *..........*.........*

عالیان اپنی کلاس لے کر نکلا ہی تھا کہ یونین کا صدر جے پیٹرسن مسڑی ہنسی ہنستا اس کے پاس آیا۔

”کسی کا خون کرنے جا رہے ہویا کرکے آئے ہو ؟“

عالیان نے گھنٹوں کی محنت سے بنائے گئے اس کےہیر سٹائل کو دونوں ہاتھوں سے خراب کر دیا۔پیڑسن اپنے نت نئے ہیر سٹائل کےلیے یونی میں بدنام  ترین تھا۔اس وقت ایک کینگرو اس کے سر پر پوز بنائے  بیٹھا لگتاتھا۔

”تم اپنے علاوہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھ سکتے نا؟“وہ بھنا  گیا۔

”اب ٹھیک ہے ورنہ اسطرح ہنستے تم کارل، کارل سے لگ رہے تھے۔“

”خدا مجھے بچائے بلکہ مار ہی ڈالے اگر میں کارل،کارل لگوں....“

”بس پھر تم ایک دو دن میں مرنے ہی والے ہو ....“

”امرحہ کیسی ہے؟“جے پیڑسن نے ایک دم سے پوچھا بلکہ کچھ ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

”کون ؟“عالیان نے بھر پور سنجیدگی سے پوچھا۔

”تمہاری دوست.......“

”میری کوئی دوست امرحہ نہیں .....“

”کم آن frish (فرینڈ کی جدید شکل)وہی جس کے پیچھے تم ہر وقت رہا کرتے تھے۔“

”تم مجھ سے ایسے غیر ضروری باتیں کرنے آئے ہو ؟“

”تم اس سے کسی وجہ سے ناراض ہو کیا ؟“

”پھر وہی فضول باتیں......“

” اچھا اچھا سنو !اسٹوڈنٹ یونین کی بلڈنگ میں موجود سیف روم جیسے سیکریٹ روم بھی ہم کہہ لیتے ہیں کو جانتے ہو نا۔جہاں اسٹوڈنٹس نام ظاہرکیے بغیر کچھ بھی لکھ کر جا سکتے ہیں۔کوئی شکایت یا کوئی بھی مسئلہ....تو فریش سب سے زیادہ تمہارے خلاف شکایتیں موصول ہوئی ہیں اور درخواستیں بھی۔اس روم کی دیواروں پر ایک انچ جگہ نہیں بچی ،ہر خط میں لکھا ہے عالیان کی نارضگی ختم کروائی جائے،جابجا دیواروں پر پیغامات چپکے ہیں.....“

”کس نے کیا ہے یہ؟“اب عالیان بھنا گیا۔

”ویل فریش نام نہیں لکھا ،لکھا بھی نہیں جاتا ،اتنا سب بھی اس لیے بتایا کہ تم یونین کے فعال رکن ہو ،مطلب صدر ہو ....“پیٹرسن نے ایک آنکھ بند کی” اور سنو ،وہ راما کہہ رہا تھا کہ اگر اسٹوڈنٹ پارٹی جیسا  ایک اور مذاق  ہم اس لڑکی کے ساتھ کر لیں تو اس بار اس کی آنکھوں سے وہ ساگر نکلے گا کہ سارا مانچسٹر اس میں ڈوب کر بہہ جائے گا اور پھر جب آئندہ آنے والی نسلیں تحقیق کریں گی  کہ آخر مانچسٹر کے ساتھ کیا بنی  اور اسے بہا کر لے جانے والا سیلاب آخر آیا کہاں سے تھا وہ بھی ایسا غضب ناک تو بیش بہا کھدائی اور تحقیق کرنے کے بعد انہیں خاتون  پاکستان امرحہ کی دو آنکھیں ملیں گی.....“

”تم کہنا کیا چاہتے ہو .....؟“

”صرف اتنا کہ مانچسٹر کو اس ساگر میں ڈوب کر بہہ جانے سے بچا لو ....جو پیغامات دیواروں پر چپکے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بس بہت جلد ہم پر یہ آفت آنے ہی والی ہے،تم اسے مذاق سمجھو لیکن میری درخواست بھی.....میں مانچسٹر کو ڈوبتے نہیں دیکھ سکتا ....ویسے مجھے ناراض لوگوں کو منانے کا یہ انداز اچھا لگا ،تم مان جاؤ گے اور پھر سے اس کے دوست بن جاؤ گے تو میں اس طریقے کو یونین اور یونیورسٹی میں رائج کروا دوں گا....اپنا یہ سائی بھی تو ایسے ہی مشہور ہوا ہے میں بھی ہو جاؤ گا....“وہ کھی کھی ہنسنے لگا۔

عالیان پر اپنی کوفت پر قابو پانا مشکل سا ہو گا وہ تیزی سے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف لپکا۔

”اسٹوڈنٹ یونین کےسیکریٹ روم میں تم لیٹرز لکھ لکھ کر آتی رہی ہو ؟“وہ ایک دم سے اس کے سامنے آکر کہنے لگا۔

امرحہ خوفزدہ سی اس کی شکل دیکھنے لگی اور صرف نا میں گردن ہلا سکی۔

”وہ تمہارے ہی لکھائے میں ہے سب ....“

”میں نے نہیں لکھے....“وہ اور زیادہ ڈر گئی۔

”تم نے بائیں ہاتھ سے لکھے ہیں.....“

”بائیں ہاتھ سے تو مجھ سے پین بھی نہیں پکڑا جاتا....یہ سب یونی فیلوز کو کام ہو گا۔“

”یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اتنے فارغ نہیں ہیں....“

”اس میں فارغ ہونےکی کیا بات ہے یہ تو نیکی کا کام ہے۔“اس کی زبان سے پھسلا۔

”تو یہ نیکی کا کام تم نےسب سےکہا کرنے کے لیے ....؟“وہ استہزائیہ ہنسا۔

”نہیں....“امرحہ کو اس کا انداز برا لگا۔

”تو پونڈز دئیے ہوں گے سب کو تم نے....“طنزیہ کہہ کر وہ جانے لگا۔

یہ بات اس کے انداز سے زیادہ بری لگی .....”وہ سب میں نے لکھے ہیں....داد دو مجھے عالیان میں نے سیکرٹ روم کو ہزاروں خطوط سے بھر دیا....“

”ایسے بے کار کام کے لیے داد دیتا ہوں تمہیں....“اس نے پلٹ کر کہا۔

”تم مجھ سے ناراض ہونا پسند کرتے ہو مجھ سے.....وہ گھوم کر اس کے سامنے  آکرکھڑی ہوئی۔

”نا ہی تم سے ناراض ہوں اور نا ہی تمہیں نا پسند کرتا ہوں کیونکہ یہ کرنے کے لیے کسی تعلق کا ہونا ضروری ہے اور ہمارے درمیان .....“

”تم تو کہا کرتے تھے۔تم میرے دوست ہو ....“

”اب میں کہہ رہا ہوں میں تمہارا دوست نہیں ہوں۔“

”تم مجھے معاف کیوں نہیں دیتے....“

”میں معاف کر چکا ہو ...“

”تو تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے....“

”کیونکہ میں سب باتیں ختم کر چکا ہوں.....کہہ کر وہ رکا نہیں چلا گیا۔

اب یہ وہی مقام تھا کہ وہ گلستان بھر کے گل اس کے قدموں میں بچھا دے گی تو بھی وہ انہیں پھلانگ کر گزار جائے گا....کیونکہ ایک بار وہ کانٹے بچھا چکی تھی...اب آسمان کے ستاروں کی جھرمٹ بھی اسکی راہوں میں ڈھیر کر دینے پر اس کی اندھیری راہوں میں روشنی نہ کر سکے گی.....

ماحول انگشت بدنداں تھا اور ہوا نےاپنے پر اپنی آنکھوں پر لپیٹ کر آنکھیں میچ لی تھیں....قسمت سے پوچھ پڑتال نہیں کی جا سکتی کیونکہ کبھی یہ چنگیز خان کی خون آلودہ تلوار ہوتی ہے اور کبھی حاتم طائی کا کمال سخاوت....”قسمت“

                              *.......*.......*

”اگر ساری دنیا تباہ ہو رہی ہو اور کسی ایک چیز کو آئندہ انسانی زندگی کی ترقی کے لیے قائم رہنے کی اجازت ہو تو میں یہ اجازت سائیکل کے لیے لینا پسند کروں گی .....سائیکل....تکبر سے پاک،چلانے والے کی شاہی سواری “

شٹل کاک کے سامنے والے سٹرک پر اس نے این اون کے ساتھ مل کر کافی مشق کر لی سائیکل چلانے کی ۔سیدھی سٹرک پر وہ بنا ڈرے ڈرے چلا لیتی،سادھنا اور این اون کو پیچھے بٹھا کر بھی مشق کی،کسی کو پیچھے بیٹھا کر سائیکل چلانا اپنے لیے سائیکل چلانے والے کے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن اس نے تھوڑا بہت اس سلسلے میں ڈر خوف نکال ہی لیا۔دو بار  وہ یونیورسٹی کے راستے تک بھی گئی این اون پیچھے بیٹھی ہوتی۔

”سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں نا؟“اس کا سانس گم ہو ہو جاتا۔

”کیا واقع ؟“این اون اپنا ہیر بینڈ ٹھیک کرنے لگی۔

”پاگل مجھے دیکھ رہے ہیں .....“سائیکل ڈگمگائی۔

”کیوں تم ہو کیا جو تمہیں دیکھا جائے....“ حسد۔

”پاکستانی....پاکستانی لڑکی سائیکل چلا رہی ہے....نا“فخر۔

”پاکستانی لڑکی سائیکل چلائے تو اسے سب دیکھتے ہیں....کیوں ایسا تضاد کیوں“ شکوہ....

”چپ کر جاؤ این اون میں نے تمہیں گرا دینا ہے “دھمکی....

”تم مجھے گرا دو....لیکن سائیکل تو تھوڑی تیز چلاؤ۔کم سے کم میں آخری لیکچرتو لے کو۔“

”ٹھہرو اس بس جو گزار جانے دو  اس کے ڈرئیور کو بہت جلدی ہے “اس نے سائیکل روک دی،کوئی پچاسویں بار اس نے سائیکل روکی  کہ یہ کار گزار جائے،یہ شرارتی بدتمیز لڑکا گزار جائے،ذرا ٹریفک کم ہو لے سٹرک خالی ہولے،وغیرہ وغیرہ،مزید وغیرہ وغیرہ بھی۔

جو بس ہمارے پیچھے ہے ،اسے بھی گزار جانے دو اور جو بسساس کے پیچھے ہے اس بھی آگے آ لینے دو،آگے آ کر اسے بھی گزار جانے دو....ٹھہرو مجھے بس میں  ہی بیٹھ جانے دو....“

خبردار جو تم اتریں این.....

”اس رفتار سےتمہارے سائیکل چلانے کے دوران میں دس بار اتر کر بیٹھ چکی ہوں بیٹھ بیٹھ کر تھک جاتی ہوں تو کھڑی ہو کر ساتھ چلنے لگتی ہوں،اور اس ایشین فلیگ کو تھوڑے اور بل دو گردن میں ،میں تابوت میں بند ہو کر جاپان واپس جانا  نہیں چاہتی۔“

سائیکل روک کر اس نے ایشین فلیگ کو دو اوع بل دئیے گردن میں ،اس نے جینز پر ٹاپ پہن رکھا تھا تاکہ زیادہ یورپین لگے۔سر پر اس نے کیپ پہن رکھی تھی جس کی جھری سے اس کے لمبے بالوں کی ٹیل باہر نکلی ہوئی تھی۔

یونی کی طرف جاتے دائم اور راما نے اسے دیکھا  اور دونوں نے سارے دانت نکال دئیے اور چلتے چلتے روک کر اسے دیکھنے لگے۔دائم نے ہاتھ سے پرفیکٹ کا اشارہ بھی کیا اور اتنی سی بات پر وہ سائیکل گرا بیٹھی.....این اون بھاگ کر یونی چلی گئی وہ اکیلی پیدل سائیکل کو لیے یونی  کے اندار آئی۔”یہ پاکستانی،ہندوستانی برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ ان کی خطے کی لڑکیاں ایسے سائیکل چلائیں الٹا حواس باختہ کر دیتے ہیں.....“وہ غصے سے بڑبڑانے لگی۔

آنے والے دنوں میں آدھا راستہ وہ چلاتی اوع آدھا این اون ،تب کہی جاکر وقت پر یونی پہنچ پاتے،کبھی ویرا ان کے آگے ہوتی گارڈ کی صورت ۔وہ تیز سیٹی بجاتی اور دوسرے سائیکل سواروں کو پیچھے کرتی جاتی کہ ینگ لیڈی آف پاکستان  اپنی سواری چلا رہی ہے تھوڑا ڈرتی ہے ذرا پیچھے ہو جائیں.....

ایک دن ایسے ہی راستے میں وغیرہ وغیرہ سے ڈر کر سائیکل کو روکے وہ بمشکل یونی روڈ تک آئی کہ پیچھے سے ایک دم سے عالیان کی سائیکل عین اس کے پہلو میں دائیں طرف برابر میں آئی۔وہ بھی اپنے دھیان میں تھا اور امرحہ بھی اور جب امرحہ کی اس پر نظر پڑی تو وہ اتنی بری طرح گھبرا گئی کہ دائیں رخ ٹھیک اس کی سائیکل کے اوپر سائیکل گرا بیٹھی 

این اون جاپانی میں چلائی جس کا اردو ترجمہ یہ ہے 

ہائے اماں جی میں مر گئی 

امریحہ کی سائیکل پوری کی پوری عالیان کی سائیکل کے اوپر تھی خود وہ بھی پورے اور یہ سب ایسے ہوا کے۔۔۔

وہ آیا اسے دیکھا اور گرا دیا 

دو سائیکلوں کے اس ٹکراو سے مانچسٹر روڈ ہل سا گیا اور اس کے نتیجے میں جو کام سب سے برا ہوا وہ یہ تھا کے اسکی سائیکل کے آگے لگے اسٹینڈ باکس میں سے کچھ سینڈوچز ٹشو میں لپیٹے رکھے تھے شاید وہ ناشتہ کر کے نہیں آیا تھا اور وہ ناشتہ آکسفورڈ روڈ پر نکل کر گر گیا تھا اور دو عدد سینڈوچ روڈ پر پیچکے بکھرے پڑے تھے وہ کچھ بھی ہون گے لیکن سینڈوچ نہیں ہوں گے 

عالیان نے ایک غصیلی نظر امریحہ پر ڈالی اور پھر سینڈوچز کو دیکھا اور جیسے رو دینے کو ہو گیا اس بیچارے کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا 

میری غلطی نہیں امریحہ بھی رو دینے کو ہو گئی 

اس نے اپنی سائیکل اٹھائی بے چارے ہو چکے سینڈوچز سمیٹے اور جانے لگا 

عالیان این اون نے آواز دے کر روکا اور اس کے پیچھے سائیکل پر بیٹھ گئی 

اب سارا مانچسٹر اسکی سائیکل کے پیچھے بیٹھے گا سوائے اس کے 

یونی کے اندر جا کر این اون کو ڈھونڈا اسے برگر لے کر دیا 

کہنا تمہاری طرف سے ہے 

یعنی تمہاری طرف سے مجھے اور میری طرف سے عالیان کو 

پاگل کہنا ٹویٹ ہے لے لو 

پر میں تم سے ٹویٹ لینا نہیں چاہتی اور اسے دینا نہیں چاہتی 

امریحہ نے اسکی پونی کھینچی اور آدھا گھنٹہ لگا کر اسے ساری بات سمجھائی 

این اون برگر ہاتھ میں لے کر بزنس اسکول کی طرف جانے لگی کچھ فاصلہ رکھ کر امریحہ بھی اسکے پیچھے پیچھے تھی اسے یقین تھا کے وہ ضرور کوئی گڑ بڑ کرے گی اور گڑ بڑ ٹھیک اس کے سامنے آ گئی 

کارل نے برگر ہاتھ میں لئے ایک ننھی بچی کو جاتے دیکھا تو روک گیا اور اسکا حال احوال پوچھنے لگا اور پھر برگر اس سے لے لیا 

این اون پلٹی ہی تھی کے اس نے برگر کی ایک بڑی بائیٹ لی 

تم نے کارل کو برگر کیوں دیا امریحہ رو دینے کو ہو گئی 

اس نے کہا وہ عالیان کے پاس ہی جا رہا ہے وہ اسے دے دے گا میں نے اسکا شکریہ ادا کیا اور آ گئی 

ایک بار پھر جاؤ اسکا سر پھوڑو اور آ جاؤ 

یہ کام اب تم خود کر لو میں تھک گئی ہوں کہہ کر وہ ننھی بچی چلی گئی 

بڑی بچی دل مسوس کر رہ گئی کاش کوئی عالیان کو ٹویٹ دے دے 

ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کچھ کرنے کا کے ویرا ہاتھ میں برگر اور کوفی لئے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتی ہوئی نظر آئ 

امریحہ کا دھاڑیں مار مار کر رونے کو دل چاہا اتنے برے روس میں کوئی یونی نہیں تھی کے ویرا وہاں پڑھ سکتی اسے مانچسٹر آنے کی ضرورت کیا تھی بھلا؟

اندھیرے گار میں پڑے رہنے کی سی کفیت تھی 

کسی ایک طرف روشنی کی لکیر بناتی نظر آ رہی تھی روشنی کی لکیر بڑھتی ہی جا رہی تھی غار کا دھن کھل رہا تھا پر سکوں اور آزاد ہونے کی کفیت تھی کے دوڑ سے آتی چاپ قریب آتی سنائی دی سہما دینے والی چاپ کو گھٹنوں میں سر دئے لیا جائے کان لپیٹ لئے جائیں ایک ہیولا بنتا قریب سا آیا لمبے سایے کے اس پار روشنی کے دھن کے عین سامنے کھڑا ہوا اور روشنی کو پیچھے دھکیل دیا اور اندھیرا 

عالیان ہر بڑا کر اٹھا نیم اندھیرے کمرے میں وحشت زدہ خود کو بستر پر پایا اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھی جیسے رات بھر بھاگتا رہا ہے کوئی اس کے پیچھے تھا اسکے کانوں میں وہ التجائی چاپ اب بھی زندہ تھی وہ اسے محسوس کر رہا تھا وہ خواب میں سے ہو کر آیا تھا جیسے خود کو کھینچ کر خواب سے باہر نکالا تھا وہ خوف زدہ بھی تھا یہ کچھ اور تھا جو بھی تھا اسکی دائیں آنکھ میں آنسو تھا 

امریحہ رات کو جاب سے واپس آ رہی تھی کے سڑک پر چلتے ایک مہذب انسان نے اسے روکا 

خاتون اپکا تھوڑا سا وقت چاہیے 

امریحہ روک گئی جی فرمایئں 

آپ خاتون مہر کی بیٹی ہیں؟

نہیں امریحہ سمجھی آدمی مہر کے مرحوم شوہر کے رشتےداروں سے کوئی ہے 

انکی لے پالک بیٹی نہیں ہو؟

نہیں میں تو پاکستان سے ہوں یونی میں پڑھتی ہوں ان کے گھر میں پیانگ گیسٹ کے طور پر رہتی ہوں 

اچھا۔۔۔۔مطلب تم انکے سب بچوں کو جانتی ہو گی جتنے اس خاتون نے لے کر پالے ہیں 

امریحہ کو ایک دم لیڈی مہر کی بات یاد آ گئی اور وہ آگے چلنے لگی 

میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتی آپ جائے یہاں سے 

انہوں نے دس بچے پالے ہیں کیا تم ان سب کے نام جانتی ہو انکی شکلیں امریحہ اور تیزی سے چلنے لگی وہ بھی ساتھ چلنے لگا 

مجھے صرف لڑکوں کے برے میں معلومات چاہیے کے وہ کہاں ہیں کس ملک میں ہیں کون کون ہیں انکی تصویریں مل سکیں تو بہتر ہو گا تم یہ چوٹی سی جاب کرتی ہو کتنا کما لیتی ہو میں تمہیں پورے ایک لاکھ پاؤنڈ دوں گا 

امریحہ حیرت سے رک کر دیکھنے لگی یہ کون تھا جو اتنی بڑی رقم دینے کو تیار تھا 

اگر چاہو تو زیادہ بھی دے سکتا ہوں 

میں پولیس کو بلا لوں گی جناب 

دو لاکھ پاؤنڈ۔۔۔۔۔تین لاکھ پاؤنڈ۔۔۔۔۔جواب دو 

جانتی ہو کتنے پیسے ہوتے ہیں یہ تحمل سے میری بات سنو تم جذباتی ہو کر بھاگ رہی ہو تمہیں کچھ زیادہ کام نہیں کرنا صرف اتنا کے وو سب لڑکے اس وقت کہاں ہیں کس کس ملک میں ہیں اور انکے نام کیا ہیں بس اتنا ہی اور اتنے سے کام کے اتنے پیسے اتنے کے تم ساری زندگی شاید ہی کما سکو 

پہلے بچوں کو چھوڑ جاتے ہو پھر انھیں ڈھونڈتے اور خریدتے پھرتے ہو؟امریحہ نے طنز سے کہا

اسنے بہت سکوں سے امریحہ کے طنز کو سہا ہاں کچھ ایسا ہی ہے اگر تم تھوڑا سا تعاون کر دو کچھ بہتر ہو گا 

میں کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کروں گی 

چار لاکھ پاؤنڈ 

میں پولیس کو فون کرنے لگی ہوں امریحہ نے فون نکال کر ہاتھ میں لیا 

پانچ لاکھ پاؤنڈ 

امریحہ نے آجز آ کر اسکی شکل کی طرف دیکھا اور نمبر ڈائل کرنے لگی تمہارا کام بہت آسان ہے تمہیں صرف یہ معلوم کرنا ہے کس لڑکے کی ماں کا نام مارگریٹ جوزف تھا؟

امریحہ فون کان سے لگانا بھول گئی وہ اس انسان کی شکل دیکھ رہی تھی

۔

میں اب بھی پولیس کو فون کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں 

تم جلد ہی مجھے فون کرو گی اتنے پیسے کم نہیں ہوتے کہہ کر وہ چلا گیا۔ 

اس کے جانے کا انداز ایسا تھا جیسے اسے یقین تھا کے اسے ضرور فون کیا جائے گا کیوں کے اس نے مبالغے کی حد تک ایک بہت بڑی رقم آفر کر دی تھی۔اس کے لئے کسی کا بھی لالچ میں آ جانا فطری ہے 

امریحہ خود کو کسی فلم کا کردار محسوس کرنے لگی 

مارگریٹ جوزف کے بیٹے عالیان جوزف کو کوئی ڈھونڈھ رہا ہے۔کون؟ مارگریٹ کے خاندان کا کوئی شخص یا اس کے باپ کے خاندان کا کوئی یا اس کا باپ ہی یہ شخص عالیان کا باپ یا کوئی انکل نہیں ہو سکتا کیوں کے ایک تو وہ سیاہ فام تھا اور دوسرا چالیس سے کم 

مگر عالیان کے لئے لیڈی مہر نے درخواست کی تھی کے کوئی کچھ بھی پوچھے نا بتایا جائے لیکن کیوں؟ وہ عالیان کو کیوں چھپا رہی تھی؟

گھر آنے تک وہ کافی دیر اس معاملے میں سوچتی رہی اور پھر لیڈی مہر کے کمرے میں جا کر انہیں سب بتا دیا وہ اس شخص کا حلیہ پوچھنے لگی  

تم کسی سے ذکر نا کرنا اسکا خاص کر عالیان سے 

یہ کون تھا؟

امریحہ یہ سب معاملات اتنے نازک ہیں کے میں اس بارے میں کسی سے بات نہیں کر سکتی اور تمہارے لئے یہ جاننابھی ضروری نہیں 

کیا آپ عالیان کو اس کے ماں یہ باپ کے خاندان سے دور رکھ رہی ہیں؟امریحہ نے سنگدلی سے پوچھا 

انہیں اس بات سے تکلیف ہوئی۔نہیں عالیان کے لئے کر رہی ہوں 

امریحہ کو تھوڑا غصہ آیا وہ سب معاملات اپنے ہاتھ میں کیوں رکھنا چاہتی ہیں انہیں عالیان کو اس معاملے سے با خبر رکھنا چاہیے اسے لگا کے وہ اس معاملے میں خود غرضی دکھا رہی ہیں انہیں شاید عالیان کے چھن جانے کا ڈر ہے وہ عمر کے اس حصّے میں ہیں کے کسی کے ساتھ اسے بانٹنا نہیں چاہتی یہ انہیں لگتا ہو گا ایسے وہ ان سے بہت دور چلا جائے گا امریحہ کے بیگ میں اس شخص کا دیا کارڈ رکھا ہے امریحہ اس بات کو گول کر گئی 

اس نے اس بات کو مختلف انداز میں سوچا اور اندر ہی اندر اس کے منفی پہلووں پر غور کرتی رہی 

عالیان کا ایک خاندان ہو گا بہن بھائی آنٹی انکل نا جانے کون کون ۔۔۔

کسی وجہ سے اگر وہ عالیان سے دور ہووے بھی تو اب وہ عالیان کو ڈھونڈھ رہے ہیں نا۔ ۔۔۔یونی میں امریحہ نے عالیان کو دیکھا تو اسکا دل چاہا کے اسے جا کر بتاے کے کوئی اسے ڈھونڈھ رہا ہے یہ اتنی بڑی بات تھی کے اس کے اپنے اندر رکھی نہیں جا رہی تھی اور خود کو بھی اس بارے میں بار بار سوچنے سے روک نہیں پا رہی تھی 

سادھنا کے ساتھ وہ اس سے ملنے اس کے حال آئ تھی اور وہ دونو ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے 

آپ نے یہاں آ کر مجھے حیران کر دیا 

اگر میں تمہارے جیسی ہوتی تو میں بھی تمہاری کھڑکی سے آتی تم سے ملنے 

اسی لئے تو میں چاہتا ہوں کے میں سپر مین بن جاؤں اور آپکو اپنے ساتھ اڑاؤں۔

اگر تم سپر مین بن بھی گئے تو میں تمہارے ساتھ کسی چوٹی یہ بادل کے ٹکڑے پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوں گی 

آپ کو تیار ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی آپکو صرف آنکھیں بند کرنے کی ضرورت ہو گی 

اپنے ساتھ اڑانے کے لئے تم کسی اور کو تیار کرو ڈگری کے بعد کیا پلین ہے تمہارا مزید ایک اور ڈگری کے ساتھ کوئی بزنس شروع کروں گا 

ٹھیک ہے میں سوچ رہی ہوں ہم کسی اور ملک چلے جائیں 

کس ملک اور کیوں ماما؟ 

کسی بھی ملک تم دیکھ لینا جو تمہیں اچھا لگے 

آپ نے ایک دم سے برطانیہ چھوڑنے کے بارے میں کیوں سوچ لیا 

کافی عرصے سے سوچ رہی ہوں بس تم یہ بات ذہن میں رکھنا 

ٹھیک ہے لیکن میں حیران ہوں میں جانتا ہوں آپکو مانچسٹر سے کتنی وابستگی ہے 

مجھے اپنے بچوں کے علاوہ کسی سے کوئی وابستگی نہیں 

میں سمجھا نہیں ماما 

تم اسے چھوڑو مجھے یہ بتاؤ امریحہ اور تمہارے درمیان کیا چل رہا ہے 

کیا مطلب 

دوستی ختم کردی ہے اس سے؟تم ایسے تو نہیں ہو دوست بنا کر چھوڑ دینے والے۔۔امریحہ لوگوں کو جلد ناراض کر دیا کرتی ہے لیکن اسے جلد ہی اس بات کا احساس بھی ہو جاتا ہے اس میں خوبیاں اور خامیاں ساتھ ساتھ ہیں اور یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہوتی ہم سب ایسے ہی ہوتے ہیں کہہ کر انہوں نے عالیان کی طرف سے جواب کا انتظار کیا 

دیکھو جواب میں تم خاموش ہو یہ تمہارا ذاتی مسلہ ہے مجھے تم سے ایک اور بات پوچھنی ہے عالیان میں تمہاری ماں ہوں شاید تمہارا دل دکھے 

مجھے اس شخص سے نہیں ملنا ماما نا مجھے اسے ڈھونڈھنا ہے 

شاید اسے مل کر اچھا لگے؟

وہ میرے لئے گالی ہے اور گالی کبھی اچھی نہیں لگتی 

مجھے اس شخص کے تضکرے سے بھی اتنی تکلیف ہوتی ہے کے مجھے لگنے لگتا ہے 

ٹھیک ہے بات ختم بس خاموش رہو پر سکوں رہو میں شارلٹ کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں فون پر اسکی ساس نے بہت سخت اور چھبھتے ہووے لہجے میں مجھ سے بات کی 

آپ جورڈن کا سوچیں اسکی ماما کا نہیں 

پریشان نا ہوں 

پریشان نہیں دکھی ہوں اس نے کڈز سینٹر میں پرورش پائی ہے ایک مسلم خاتون کی لے پالک بیٹی ہے کتنی بری وجوہات ہیں یہ 

عالیان سے زیادہ کون جان سکتا تھا اب کے یہ کتنی بڑی وجوہات ہیں 

اچھی بات تو یہ ہے ماما کے جورڈن شارلٹ سے محبت کرتا ہے 

اس ایک شخص کی محبت نا کافی ہونے لگتی ہے جب اس سے جڑے دوسرے لوگوں کی نا پسنددیدگی بڑھنے لگتی ہے 

نہیں ماما پھر دوسروں کی نا پسنددیدگیوں کی پروا نہیں رہتی 

تو تم محبت کے بارے میں سوچتے ہو اس شخص اور اس شخص کے بارے میں 

نہیں آپ جانتی ہیں مجھے ماما مارگریٹ نہیں بننا 

تو تم ماما مہر بن جاؤ میں نے اپنے شوہر سے بے لوث محبت کی ہے 

اور آپ کو بدلے میں بے لوث محبت ملی بھی 

تمہیں بھی میلے گی مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے یہ جان کر کے تم محبت سے دور بھاگ رہے ہو تم جوان ہو زندگی کے عملی میدان سے ابھی دور ہو اپنے ذہن و دل کو وسعت دو اور یاد رکھو بھاگ جانا کسی جذبے سے ہو یا عمل سے نقصان دھ ہوتا ہے 

نا بھاگنا بھی فائدے مند نہیں ہوتا ماما۔۔۔۔

یہ اور برا ہے تمہاری زندگی صرف ایک تعلق تک محدود نہیں ہونا چاہیے انہوں نے عالیان کو گہری نظروں سے دور تک دیکھا 

تم آج کل مارگریٹ کی ڈائریاں پڑھ رھے ہو؟ تم اپنی عمر سے بہت بڑے لگ رھے ہو 

کیا آپ مجھے وہ ڈائری بھی دے سکتی ہیں جو آپ کے پاس ہے ؟

جب تم شادی کر لو گے اور اپنے بچوں کو سائیکل ریس میں ہرا دیا کرو گے تب تمہیں وہ میلے گی تم نے پھر سے مارگریٹ کی باتیں شروع کر دی ہیں اسے یاد کرو لیکن اسکے اہ کے انداز سے نہیں خوش ہو کر یاد کرو اسے 

جو انسان زندگی میں خوش نہیں رہا اسے اس کے مرنے کے بعد خوشی سے یاد نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس شخص کی بد قسمتی کا موازنہ اپنی قسمت کے ساتھ کرنے پڑ مجبور ہو جاتے ہیں

تم بد قسمت نہیں ہو تمہیں میرے عالیان کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے 

اگر دنیا میں آپ نا ہوتی تو میں دنیا کے ہر انسان سے نفرت کرتا 

میں نا ہوتی تو کوئی اور ہوتا 

نہیں ماما کوئی اور نا ہوتا آپ کے علاوہ کوئی اور مجھ سے ایسی محبت نا کرٹا آخر کار میں نے یہ جان لیا ہے 

بہار کی دلہن کی شادی کی تیاریاں اتنے زور و شور سے جاری تھی جیسے وہ شاہی خاندان کا آخری چشم و چراغ ہو ڈیزائنرز، ویڈنگ پلینیرز اور انکی ٹیم گھر میں ایسے آتے جاتے جیسے وہ اسی گھر میں رہتے ہوں بس کچھ دیر کو گھر سے بھر چلے جاتے ہوں 

ماما آپ اتنے پیسے کیوں برباد کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔

تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کے تم پے مزید احسان نا کروں کرسمس پڑ تحائف لیتے بھی تم سب کو شرم آتی ہے اب تم مجھے دینا چاہتے ہو کچھ لینا نہیں ایسا کر کے تم سب لاگ مجھے دوسری عورت دوسری ماں ہونے کا احساس دلاتے ہو میرا سب کچھ تمہارا ہے میری آنکھوں کا نور اور میری زندہ رہنے کی قوت بھی تم مجھ سے فرمائش نہیں کرتے کیوں کے میں دوسری عورت ہوں وہ خفا ہو گئی 

شادی کے دن مجھے ہاتھی چاہیے دس بارہ تو ضرور ہی ہوں جھیل کنارے چہل قدمی کریں شارلٹ نے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دی فرمائشیں شروع ہو گئی 

اگر تمہیں ہاتھی چاہیے تو شادی سری لنکا میں کرنی ہو گی یا پھر افریقہ میں انہیں ہاتھیوں سے اب بھی مسلہ نہیں تھا 

نہیں مجھے تو مانچسٹر میں ہی ہاتھی چاہیے اگر اب آپ نے مجھے اور جزباتی کیا تو میں سفید چیتوں کی بھی فرمائش کر سکتی ہوں آپ ہی میری آنکھوں کا نور اور زندہ رہنے کی قوت ہیں 

تم اور جذباتی ہو سکتی ہو لیکن صرف اتنا بتا دو کے تم شادی کرنا چاہتی ہو یا جنگل آباد کر کے شکار کرنا چاہتی ہو 

ماما مہر نے قہقہ لگایا شارلٹ نے دھڑا دھڑ انکا منہ چمنا شروع کر دیا 

شادی سے ایک ہفتہ پہلے جورڈن کا خاندان امریکہ اور دوسرے ملکوں سے مانچسٹر میں اکٹھا ہو گیا اور وہ سب عارضی رہائش گاہ میں رہنے لگے 

شارلٹ انکے استقبال کے لئے گئی اور کافی پریشان حال واپس آئ 

جورڈن ماما مہر کے بلانے پڑ اپنے ماما پاپا کے ساتھ ڈنر پڑ آیا تھا تمام وقت ماحول میں تناو رہا اسکی ماما عصاب تانے سارا وقت خاموش بیٹھی رہی اور پاپا نشست گاہ میں ٹنگی مشور پینٹنگز دیکھتے رہے کھانے کے نام پر چند نوالے کھایے گئے اور جانے میں جلدی کی گئی

تمہیں یقین ہے جورڈن تمہیں خوش رکھ سکے گا،اس کی ماں کی آنکھوں میں واضح حقارت تھی تمہارے لیے،اگر تم اس سے محبت نہیں کرتیں چھوڑ دو اسے،میں نہیں چاہتی دنیا میں کوئی بھی تمہیں ان نظروں سے دیکھے۔“لیڈی مہر کی آنکھیں اس وقت سے نم سے تھیں۔

”جورڈن مختلف مزاج کا ہے ماما!“وہ کہہ نہ سکی کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے اب اسے چھوڑ نہیں سکتی وہ بھی صرف اس کی ماں کی حقارت کی وجہ سے......

”محبت کرتا ہے تم سے،خالی خولی بڑ تو نہیں مار رہا....“

”مجھے یقین ہے اس کے جذبے پر.....آپ ایسے پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

”تمہار یہ یقین ہمیشہ قائم رہے.....میں دعا گو رہوں گی۔“

لیڈی مہر نے سادھنا اور امرحہ کو جورڈن کے گھر بھیجنا چاہا ،جورڈن کے کچھ اور رشتے دار بھی آچکے تھے وہ چاہتی تھیں کہ دونوں جا کر زرا جانچ پڑتال کرکے آئیں کہ جورڈن کے باقی افراد خاص کر خواتین کس مزاج سے تعلق رکھتی ہیں تاکہ شادی کے انتظامات میں وہ ان کی پسند کے مطابق ردو بدل کر دیں۔میڈیا کو بلانے کا خیال تو انہوں نے دل سے ہی نکال دیا تھا،اتنے نازک مزاج لوگ تھے نہ جانے کس بات سے بھڑک اٹھتے۔

                         *.........*..........*

یہ فرمائش سنتےہی امرحہ اور سادھنا کا دم سا نکل گیا۔جورڈن کی ماما کی تنی ہوئی بھنوؤں کو دیکھ کر ہی وہ ڈر گئی تھیں کہاں اب دوسری خواتین سے ملنا ۔

”ہم بہانہ کیا کریں گے کہ کیوں آئے ہیں ؟“امرحہ گھبرا گئی۔

”سادھنا ! تم کہہ دینا میں جورڈن کو ابٹن لگانے آئی ہوں ،مارکیٹ سے تھال لیتی جانا ،بتا دینا شارلٹ میری چھوٹی بہن جیسی ہے ابٹن کی رسم کرنی ہے۔“سادھنا کا رنگ ابٹن جیسا پیلا ہو گیا۔

امرحہ شلوار قمیص ،سادھنا ساڑھی میں”دلہا جورڈن “کو ابٹن لگانے آگئیں۔

”تمہیں فون کرکے آنا چاہیے تھا جورڈن گھر نہیں ہے۔“جورڈن کی ماما نے بھنوؤں کی کمانوں میں تیر رکھتے ہوئے کہا۔

”اس رسم میں بنا بتائے آتے ہیں۔“امرحہ نے مسکرا کر کہا۔شکرہے۔ایسی باتیں گوگل نہیں ہو سکتیں ۔وہ دونوں چھ عدد خواتین کے نرغے میں بیٹھی تھیں کچھ ادھر ادھر ٹہل رہی تھیں۔امرحہ نےایک ہی نظر میں اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ سب بہت  نازک مزاج اور جدید فیشن کے دلدادہ ہیں۔ان سب نے ایسے ملبوسات اور زیورات پہن رکھے تھےکہ اگر ان میں سے صرف ایک خاتون کو اٹھا کر بھاگ لیا جاتا  اور مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا تو ساری عمر پیسے کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہ رہتی۔یا امرحہ کے سامنے بیٹھی جورڈن کی آنٹی کا ایک ہاتھ ہی کاٹ کر ساتھ لے جایا جاتا تو بہت ہوتا بلکہ بہت زیادہ ہوتا۔دن روشن تھا اور وہ سب قلعے نما عمارت کے سامنےدور تک پھیلے لان میں بیٹھے تھے جن میں کئی لمبے لمبے درخت بھی تھے۔دو مرد اور تین لڑکے درختوں سے ذراآگے نشان بازی کا کھیل کھیل رہے تھے اور کافی ہنگامہ کر رہے تھے۔امرحہ اورسادھنا کو اُٹھنےکی جلدی تھی کہ کہی دلہا جورڈن نہ آجائے اور انہیں ابٹن کی رسم کرنی ہی پڑے،لیکن جورڈن کی ماما نے چائے کا آرڈر دیا تھااور  آرڈر تھا کہ آکر ہی نہیں دے رہا تھا ۔

”آنٹی جولیا ! اب آپ کی باری ۔“نشانچیوں کے ہجوم میں سے ایک لڑکا آیا اور بندوق آگے کی۔

”میں نے مردوں کو ہرانا چھوڑ دیا ہے رافیل !“آنٹی جولیا جواہرت سے سجی انگلیوں کو لہرا کر مسکرائیں۔اسی دوران رافیل کی نظریں سادھنا سے ہو کر امرحہ پر آکر ٹھہر گیئں۔

”یہ کون ہیں ؟“وہ امرحہ کو دیکھے جا رہا تھا۔

”یہ شارلٹ کے گھر سے آئی ہیں کوئی ہندوستانی رسم کرنے....“

”کیا رسم ہو گئی ؟“اس نے بندوق کی نال امرحہ کے کندھے پر رکھ کر پوچھا ۔امرحہ کو اس کی جرات پر حیرات ہوئی۔وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔

”ہمیں چلنا چاہیے “سادھنا جلدی سے اُٹھ کر کھڑی ہوئی۔

”چاہیے پی کر جانا .....بیٹھ جاؤ تم ہندوستانی لوگوں کو نشست و برخاست کے آداب کب آئیں گے؟“آنٹی جولیا کی آواز ناپسندیدگی جذبے سے پر تھی۔امرحہ نے کندھے پہ رکھے بندوق کی نال کو ہاتھ سے جھٹکا ”یہ کن آداب میں سے ہے ؟“آنٹی جولیا کا منہ بن گیا ،رافیل مزے سے امرحہ کو دیکھتا رہا ۔

”رافیل! تم انہیں لے جاؤ ان کی نشان بازی دیکھو۔“انداز استہزیہ تھا لیکن ہتک سے بھرا۔

”اوہ ہاں .....“رافیل نے کس قدر کمینگی سے اپنی تھوڑی مسلی۔

”انہیں تو گانا آتا ہو گا یا ناچنا ،ایسے کام ان کے مرد کرتے ہیں ،یہ تو مردوں کے پیر چھوتی ہے صرف جھک جھک کر.....“جورڈن کی ماما کہہ کر دیر تک ہنستی رہیں۔

سادھنا ضبط سے سرخ ہو گئی اگر بات شارلٹ اور لیڈی مہر کی نا ہوتی تو دونوں اتنا ضبط بالکل نہ کرتیں،سادھنا خاموشی سے دوبارہ بیٹھ گئی۔

”دنیا بھر میں بے حس لوگوں کے اندازواطور ایک جیسے ہوتے ہیں وہ ہتک کرکے شرمندہ ہوتے ہیں نہ خوفزدہ،انہیں دوسروں کو گراتے رہنے کا مشغلہ محبوب ہوتا ہے۔ وہ سب ان دونوں کو ہندوستانی سمجھ رہے تھے۔رافیل نے بلند و بانگ قہقہہ لگایا اور سادھنا اپنی انگلیا چٹخانے لگی۔امرحہ کھڑی ہو گئی اور ہاتھ آگے کیا کہ بندوق اسے دے دی جائے۔

”آہاں.....“وہ مسکرایا یعنی اسے چڑایا۔بندوق اس کےہاتھ میں ہی تھی۔سادھنا اپنی جگہ سے گرتے گرتے بچی۔”چلو جلدی گھر چلیں“وہ اس کے قریب جلدی سے اُٹھ کر آئی۔

”رکو ذرا.....“امرحہ رافیل کے ساتھ چلنے لگی۔

”کیا پاگل پن ہے۔“ہندی میں سادھنا چلائی۔

”آج یہ پاگل پن ہو جانے دو.....دنیا میں کسی بھی انسان کو کسی بھی ہنر یا قابلیت کی بنا پر کسی دوسرے انسان کی بے عزتی کرنےکا کوئی حق نہیں۔“

درختوں سے ذرا اس طرف پانچ بناوٹی کھوکھلے کدو مختلف فاصلوں پر رکھ دئیے گئے تھے۔ایک سے دوسرا دور تھا دوسرے سے تیسرا اور پہلے سے آخری.....پہلے رافیل نے نشانے لگائے اور دیکھتے ہی دیکھتے کدو ہوا میں منتشر ہو گئے پانچواں نشانہ چوک چکاتھاپھر بھی سب اس کے لیے تالیاں بجا رہے تھے،یعنی پانچواں کدو ذرا مشکل سے ہی منتشر ہوتا تھا اس کا فاصلہ زیادہ اور نشانہ ذرا مشکل تھا۔

”دیکھنا تمہاری کلائی نہ ٹوٹ جائے۔“رافیل نے بندوق اس کے آگےکی۔وہ سب استہزائیہ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے،یعنی ان کا خیال تھا کہ وہ سراسر جزباتی ہو رہی ہے۔ناچ گانے کے علاوہ کیا آتا ہو گا انہیں بھلا ۔

امرحہ نے بندوق پکڑی اور پکڑکر ایسے اس میں کارتوس بھرا کہ رافیل کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔امرحہ دادا جان کےساتھ بلوچستان جاتی رہتی تھی نا ،دددا کے اس دوست کے گھر میں تین لڑکے اور اس کےہم عمر چار لڑکیاں تھیں۔وہ سب دن رات یہی نشانے لگانے کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔دادا کے دوست کو شوق تھا سالانہ مقامی مقابلے میں ان کےبیٹے اول آئیں اور وہ آتے بھی تھے۔لڑکے دن رات مشق کیا کرتے تھے تو لڑکیاں بھی کر لیتیں اور جب امرحہ وہاں جاتی تو امرحہ بھی یہی کھیل کھیلا کرتی تھی۔امرحہ کی ہم عمر لڑکیاں تو اتنی ماہر تھی کہ اپنے بھائیوں کو ہرا دیتی تھیں۔

بائیں آنکھ بند کرکے،سانس کو اندرگم کرکے،صرف ہدف پرنظر رکھ کے،آنکھ کی پتلی ہو ساکت رکھ کر امرحہ نے ٹریگر دبا دیا....اور

 سادھنا نے اپنا رکا ہوا سانس چھوڑا اور دونوں آنکھوں کو کھول کر دیکھا 

دوسرا کدو پہلے سے زیادہ فاصلے پر تھا وہ بھی منتشر ہوا تیسرا چوتھا اور پانچویں کی باری آ گئی 

مقابلہ برابر نہیں ہونا چاہیے اب سادھنا نے اس کے کان میں سر گوشی کی 

مقابلہ برابر نہیں ہونا چاہیے اس نے خود سے کہا۔بلوچستان میں اس نے جتنی بھی مشق کی ہو وہ ایک ماہر نشانچی نہیں تھی کبھی کبھار وہ لاہور میں پٹھانوں سے بندوق لے کر غباروں پر مشق کر کے اپنا شوق پورا کر لیا کرتی تھی اس نشانے کا لگ جانا قسمت ہوتا موجزہ یا تکا 

زرتاش نے کہا تھا نشانہ بازی میں فاصلہ اتنا اہم نہیں جتنا ارتکاز  حدف پڑ ایسے نظر رکھو جیسے پوری دنیا میں ایک ہی حدف باقی ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں 

ہتھیار کو اپنے ارتکاز کے ہم آہنگ کرو اور ٹریگر دبا دو 

اور اس نے ٹریگر دبا دیا 

فاصلہ زیادہ تھا نشانچی مشرقی تھا مجمع خاسدو متکبر تھا اور پانچواں کدو منتشر۔۔۔

امریحہ نے بندوق پڑ سے دونوں ہاتھ چھوڑ دئے وہ پٹاخ سے گری اسکی بلا سے بے کار ہو جائے اب صرف مرد حضرات اور سادھنا نے تالیاں بجائی 

رافیل کی شکل دیکھنے کے قابل تھی اس کے ہم عمر لڑکے نظروں ہی نظروں میں اسکا مذاق اڑا رھے تھے وہ دونوں واپس آ گئی اور اپنے پیچھے سناٹا چھوڑ آئ 

اینٹ کا جواب چمتکار سادھنا بہت خوش تھی 

تم آریان کی فیورٹ آنٹی ہو 

گھر آ کر انہوں نے نشانے والی بات چھپا کر باقی سب بتا دیا تھا امریحہ شاید وہ نشانہ نا لگاتی اگر سادھنا کاش یہاں ویرا ہوتی نا بڑبراتی 

تم سب یونی سے اپنے دوستوں کو بلا سکتی ہو مہر نے ان سب کو اجازت دی 

امریحہ نے سائ کو بلایا ویرا نے کسی کو بھی نہیں این اون چند جاپانی دوستوں کو اور عالیان نے کارل کو 

تمہیں کس نے بتایا کے کارل بھی آ رہا ہے؟

کارل ایک بورڈ پشت پر لٹکاے گھوم رہا تھا کے جو اسے اپنا بہترین سوٹ دے گا یا لے کر دے گا وہ اس کے چند اہم کام کر دے گا تم جانتی ہو نا اس کے اہم کاموں کا مطلب ؟

کوئی بھی اس کی نا معقول حرکتوں سے خوش نہیں ہے کسی سے سوٹ نہیں ملے گا اسے 

کسی سے؟ ویل پیاری ڈی کوئین مانچسٹر ٹاپ بزنس مین کی بیٹی اسے مک لارین میں بیٹھا کر لے گئی تھی خرید داری کرانے سنا ہے اسے اپنے سابقہ بوائے فرینڈ سے کوئی حساب برابر کرانا تھا کارل سے شانے اچکا کر ویرا ہنسنے لگی 

امریحہ ہنس بھی نا سکی وہ تو یہ بھی چاہتی تھی ویرا بھی شادی پڑ نا ہو لیکن اس کے چاہنے سے کچھ نا ہو سکا اور شادی کا روشن نکھرا نکھرا دن سب سمیت آ موجود ہوا 

ہیڈن پارک کی طرز کا پارک تھا جہاں شادی کا انتظام تھا 

گھاس کا وسعت لئے پھیلا میدان تھا جھیل تھی جھیل پر پل تھا پل کی اس طرف گھاس کے میدان لمبے لمبے درخت اور پھول تھے کہیں کہیں پہاڑوں کے ٹیلے بھی تھے پل کے اس طرف سامنے ایک قدیم عمارت بھی تھی جس کے اندر رات کی پارٹی کا انتظام تھا پل کے اس طرف سفید گھورے چہل قدمی کر رھے تھے اور جا بجا پھیلے سوان تھے جو آسمان سے نازل ہوتے دن کو خواب ناک ہو رہے تھے پریوں کی شادی ماما مہر کی بیٹی کی شادی تھی انہیں یہی سب چاہیے تھا گلابی پھولوں سے سجے چبوترے کے پس منظر مین جھیل پل درخت ٹیلی سوان اور گھورے تھے اور چبوترے کے سامنے۔

دو اطراف نشستیں امریحہ نے گلابی چوڑی دار پڑ سفید کامدار دوپٹہ لیا تھا ویرا اور این اون شارلٹ کے ساتھ تھی وہ باہر آ گئی مہمان آ رہے تھے اور تقریب شروع ہونے مین تھوڑا ہی وقت تھا سفید گھوڑوں اور سوان کو دیکھنے کے لئے وہ پھولوں سے سجے پل سے جھیل کی طرف آ گئی اس طرف دھند بہت سی دھند چھوڑی جا رہی تھی تا کے تقریب کے آغاز سے پہلے وہ اصلی دھند کی شکل اختیار کر لے ابھی اس نے پل کے اس طرف پیر رکھا ہی تھا کے مشین سے مصنوعی دھند کا ایک ریلہ چھوڑا گیا پہلے ہی اتنی دھند چوڑی گئی تھی کے مزید چھوڑ دی گئی 

ہاتھ کا پنکھا بناتی وہ دھند کو ہٹانے لگی کے اسکا ہاتھ تھپڑ کی صورت انسانی خال سے ٹکرایا 

وہ انسانی کھال عالیان کی تھی وہ اس کے عین سامنے تھا اسکے گال سے اسکا ہاتھ چھوا تھا اگر ان کے درمیان آنے والے اس پل کو کھینچ کر لمبا کر دیا جائے کے اس دوران کچھ یہ ہوا کے اس نے عالیان کو دیکھا اسکی سرد مہر اور دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھوں مین سے دو آنکھوں کو دیکھا جن کو دیکھنے کے بعد نا دیکھنے کا راستہ نہیں ملتا جن کی چکا چوند مین بھی مدہم نہیں پڑتی جو بینائی رکھنے کے علاوہ بھی کی کمالات رکھتی ہیں جن سے مل کر بچھڑا نہیں جاتا پھر پیشانی پر گرتے اسکے بکھرے بال اور ان کے نیچے تنی بھنوں کو پھر چند دنوں کی بڑھی شیو کو اور پھر عالیان کو جس کے وجود سے شناسائی کی جھلک ابھر کر معدوم ہو چکی تھی اور اس کے ارد گرد پھیلی دھند کو اس دھند میں دھندلے نظر آتے درختوں پھولوں سفید گھوڑون اور سوان کو 

ہان وہ ایک شہزادہ ہی تھا بلا شبہ 

لیکن وہ سینڈریلا نہیں تھی وہ اسکا جوتا لے کر نے آیا تھا نا اسکا ہاتھ پکڑ کر گھوڑ ے پر بیٹھانے آیا وہ ایک لمحہ تھا وہاں ایک امریحہ تھی ایک عالیان تھا 

ایک ساحر تھا اسکا سحر تھا 

اور ایک باب محبت تھا جسے پڑھ کر بند کیا جا چکا تھا زمین پر بکھرتی دھند رقص کناں ہونے کے لئے تیار ہوئی اور پھر جھوم کر ان کے قریب آ گئی امریحہ نے چاہا کے وہ دھند کو دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر اسکی آنکھوں میں بھر دے کے وہ کہیں جانے کا راستہ ڈھونڈھ نا پے اور وہیں کھڑا رہے پھر کیا حرج اگر قیامت بھی آ جائے 

اوہ آئ ایم سوری اس نے معذرت کی جب کے دھند کا شکریہ ادا کیا 

وہ آگے بڑھنے لگا اور اس کے دوپٹے میں الجھ کر گر گیا دھند میں اسے اسکا سفید دوپٹہ کیسے نظر آ سکتا تھا 

اف مجھے پھر معاف کر دو دوپٹے کا شکریہ جو اس نے مافی مانگنے کا ایک اور موقع دیا 

وہ جھنجلا کر اٹھا اور ایسا کرتے اس کے بال پیشانی پڑ اور بکھر گئے اور اس پر سے نظریں ہٹانے کے لئے ارادے مضبوط کرنے پڑے 

تم اتنا غصہ کیوں کرنے لگے ہو عالیان؟

دوپٹہ سنبھالنے کی بجائے اس نے اور پھیلا دیا تا کے وہ پھر سے گر جائے 

تم اتنا غصہ کیوں دلاتی ہو اس نے غصے سے کہہ کر آگے بڑھ جانا چاہا 

سرد ملک میں رہ کر تم اتنی جلدی گرم کیوں ہو جاتے ہو؟وہ جلدی سے اس کے سامنے آئی ۔عالیان کے پاس کئی جواب ہو ں گے لیکن اس نے اسے ایک بھی دینا ضروری نہیں سمجھا ۔"اگر تم میری تھوڑی ہیلپ کر دو اور مجھے کسی سفید گھوڑے پر بٹھا دو......"چوڑی دار پاجامہ،اونچی ہیل،کانوں میں بندے پہنے امرحہ گھوڑے پر بیٹھنے آئی تھی ۔"اگر تم گھوڑے کی لگام پکڑ لو تو مجھے گھوڑے سے ڈر نہیں لگے گا ۔"وہ اسے بتا رہی تھی کہ اس کا رعالیان کا اور گھوڑے کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

چچ چچ کی  شکل بناتا ،تاسف سے سر ہلاتا وہ پھر سے آگے جانے لگا۔

”چلو تم گھوڑے پر بیٹھ جاؤ اور میں لگام پکڑ لوں گی ....اب خوش....چلو اب مسکرادو....“

وہ پھر سےاس کے سامنے آئی جلدی سے۔

”ان گھوڑوں پر لگام اور زین نہیں ہے انہیں تمہاری سواری کے لیے یہاں نہیں لایا گیا ۔“وہ جواب دیے بغیر رہ نہ سکا۔

”اچھا زین اورلگام کیوں نہیں ہے؟“

”وہ تم گھوڑوں سے جا کر پوچھ لو ۔“

”چلو ہم دونوں چل کر پوچھ لیتے ہیں،ویسے بھی مجھے گھوڑوں کی زبان نہیں آتیں۔“

”تمہیں تو انسانوں کی زبان بھی نہیں آتی۔“اس نے گہرے انداز سے کہا ۔اس کی آنکھوں کی ماند پڑتی چمک سےامرحہ افسردہ ہو گئی۔

”تم پہلے والے عالیان کیوں نہیں بن جاتے ؟“

”تمہیں خاموش رہنا سیکھنا چاہیے۔....ورنہ دور رہنا ۔“

”تم سیکھا دو یہ سب .....“

”تم تو خود استاد ہو امرحہ ،جو سبق تم دیتی ہو کوئی اور نہیں دےسکتا ۔“

”ہوسکتا ہے میرے پلو سے یہ سبق باندھ دیے گئے ہوں۔“

”مجھے یہ سب جاننے میں دلچسپی نہیں ۔“

”تمہیں اپنے بال تراشنے چاہیے تھے ،تمہاری بالوں کی نوکیں تمہاری آنکھوں کو پریشان کر رہی ہیں۔“

غیرارادی طور پر اس نے اپنے بال پیشانی سے اُٹھائے اور امرحہ مسکرا دی جس پر وہ اور خفا سا ہوا۔

”میں نے تو صرف اس لیے کہا کہ تمہارے بالوں  سے زیادہ مجھے تمہاری آنکھوں کی فکر ہے۔“

”میں اپنی فکر کرنے کے لیے خود ہی کافی ہوں۔“

”جانتی ہوں تمہیں خود پر ناز ہے۔“امرحہ اس کی تیز آواز سے گھبرا گئی ،لیکن کہے بغیر رہ نہ سکی کیوں کہ وہ بات کو طول دینا چاہتی تھی۔

”ہاں اتنا تو ضرور ہے کہ میں تم جیسا نہیں ہوں ۔“امرحہ کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے انداز میں دیکھ کر اس نے کہا ۔امرحہ کے کانوں میں سائیں سائیں ہونےلگی ”جب تم مشرق کا سفر کرو گے تو تم پر بہت سے راز کھلیں گے۔“

”مجھےایسے خطے کی طرف سفر نہیں کرنا چاہا رازوں اور روایتوں کا احترام انسانوں سے بڑھ کر کیا جاتا ہے۔“

امرحہ لاجواب ہو گئی وہ آگے بڑھ گیا اور وہ اس کی پشت سے چلائی۔

”جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے تو تم ضرور پچھتاؤ گے.....تمہیں گھوڑے پر بیٹھنے میں میری مددکر دینی چاہیے تھی۔“

امرحہ جھیل میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتی رہی۔جھیل خوبصورت تھی۔اس پر تنا آسمان یا اس میں جھلملاتا اس یا عکس ۔

اس کی نظروں نے اس کے عکس کے حق میں فیصلہ دیا۔

پل پر سے گزارتے عالیان نےبرائے نام گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا اور ایسا کرنے پر اسے افسوس ہوا کیوں کہ اس نے  خود کے ساتھ کیے عہد کو تھوڑ دیا تھا۔

امرحہ اسےجاتےہوئے دیکھ رہی تھی۔ایک پل ان کے درمیان بھی تھا ۔وہ اِس اور اُس طرف تھے۔اب وہ جہاں ہوا کرتی ہے،وہ وہاں سے چلا جایا کرتا ہے اس نے خود کو اتنا بدل لیا ہےاوراسے اس پرافسوس بھی نہیں۔امرحہ نےاپنا دوپٹہ سنبھلااور اسکی طرف آنے لگی جہاں وہ شخص کھڑا ہو گا جو آج اہتمام سے تیار ہو کر آنا بھول گیا تھا اور جس نے ٹائی باندھنے کا تردد بھی نہیں کیاتھا،جسے تقریب میں آنے کی جلدی نہیں رہی ہو گی اور کان میں سرگوشی کرنے کی بھی۔

”مجھے بتایا جائے کیا دلہن صرف سفید لباس والی ہے...اچھا....اور سفید دوپٹے والی ؟“

شارلٹ کی شہ بالیاں اس بار صرف دو تھیں شار لٹ کی دوست اور ویرا ٰ امرحہ کوکہا  گیاتھا،لیکن اس نےاورساد  ھنانے انکار کر دیا ،جورڈن کے خاندان کی نازک مزاجی نے انہیں برہم کر دیا تھا،انہیں ان سب کی نظروں میں آنے کی خواہش نہیں تھی۔

شارلٹ دلہن بن کر آئی تو امرحہ نے دیکھا کہ دلہن کے بعد سب نے جس چہرے کو دیر تک دیکھا وہ ویرا کا تھا، اس نے ہلکا ارغوانی آف شولڈر فراک پہنا تھا اور وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی اگر بلیک آوٹ کر دنوں میں اسے کسی عمارت کی چوٹی پر بیٹھا دیا جاتا تو وہ اپنے آدھے شہر کو  حسن کی چکا چوند سے منور کر دیتی ۔

”ویرا نے اتنی خوبصورتی کا کیا کرنا ہے ؟“امرحہ نے دیکھا کہ دور کھڑے عالیان نے بھی ویرا کو دیکھا تو امرحہ یہ سوچے بنا رہ نہیں  سکی ۔

”اگر ویرا صحرا گوبی کا سفر اختیار کر لے  اور صحرا میں بھٹک جائے  اور پیاسی....پیاسی....“امرحہ اسے یہ بددعا دیے بغیر نہیں رہ سکی وہ یہ کرنے پر مجبور تھی۔

دو خاندان ایک جگہ موجود ہو کر بھی کیسے الگ الگ رہتے ہے یہ شارلٹ اور جورڈن کی شادی میں دیکھا جا سکتا تھا۔تناؤ موجود تھا اور خوشی کے بجائے گھبراہٹ ہو رہی تھی،وہ سب آپس میں دھیمی آوازوں  میں باتیں کر رہے تھے کہ کہیں ان کی مسکراہٹوں کا غلط مطلب  نہ نکال لیا جائے ان کے بیش قیمت لباس ،زیورات ان کی ہاتھوں کی حرکات ،ان کے لبوں کا وا ہونا کچھ ایسا تھا کہ سانس گھٹنے لگتا۔وہ ایک شادی میں شریک ہونے سے زیادہ کسی نیلامی میں شریک ہوئے لگتے تھے جہاں وہ اپنے رتبے کی بولی  سننے آئے ہوں۔شادی کی رسم شروع ہو گئی اور جب انگوٹھی پہنانے کی باری آئی اور دلہا نے اپنے شہ بالے کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ انگوٹھی اسے دی جائے تو شہ بالے نے اپنی جیبیں ٹٹولنی شروع کر دیں۔”انگوٹھی تو نہیں ہے۔“رافیل نے ہاتھ اُٹھا دیے۔

”تم دیکھو،شاید تمہارے پاس ہو۔“اس نے دوسرے شہ بالے سے کہا۔اس نے بھی اپنی جیبیں ٹٹولیں اور ہاتھ اُٹھا دیے۔”میرے پاس نہیں ہے۔“ دونوں نے یہ حرکت کرتے کافی وقت لیا تھا،پادری بے زاری سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

”تم دیکھو،شاید تمہارے پاس ہو ؟“دوسرے شہ بالے نے تیسرے شہ بالے سے کہا۔

تیسرے نے بھی خود کو ٹٹولا اور اس بار جورڈن کے انکل سے کہا ۔

”آپ کے پاس تو نہیں انکل....!میرے پاس بھی نہیں ہے۔“انکل نے بھی اپنا کوٹ کنگالا اور ساتھ بیٹھی آنٹی جولیا سے یہی کہا۔آنٹی جولیا نے اپنا پاوچ اور ہاتھوں کی انگوٹھیاں دیکھیں اور اگلی خاتون سے کہا ”آپ کے پاس ہو شاید “اگلی خاتون نے بھی کم بیش یہی کیا اور اپنے سے اگلے کی طرف اشارہ کر دیا۔آگےسےآگے....قطار در قطار وہ اپنے سے آگے بیٹھنے والے کو اشارہ کرنے لگے۔

پادری صاحب حد سے زیادہ نے زار ہو چکے تھے ۔دلہن رو دینے کو ہو گئی تھے لیڈی مہر اپنی نم آنکھیں چھپا رہی تھیں۔

”یہ لوگ واقع شارلٹ کو پسند نہیں کرتے۔“

آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزار چکا تھا ان کی تلاشیاں ہی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھیں اور پھر آخر کار جب ان کے ایک ایک بوڑھے،عورت،مرد،لڑکی،لڑکے اور بچے نے خود کو کنگال ڈالا اور کوئی ایک بھی نہیں بچا تو وہ......

”انگوٹھی نہیں ہے.....یہ شادی نہیں ہو سکتی“وہ یک آواز چلائے۔

سکوت چھا گیا....تناؤ اور بوجھل پن  اور بڑھ گیا۔شہ بالے رافیل نے چھینک ماری انگوٹھی اس کے منہ سے نکل کر باہر گری اسے اٹھا کر اس نے دلہا کو دی۔شادی کی رسم ہو گئی لیڈی مہر کی چہرے کے سارے رنگ اڑتے ہی رہے۔

شادی میں ہنسی مزاق ،شرارت معمول کا حصہ ہیں،لیکن اس شرارت پر ہتک غالب تھی۔انہیں شارلٹ کے ساتھ یہ سلوک پسند نہیں آیا۔ عالیان انہیں لے کر ذرا دور چلا گیا اور جب واپس لایا تو وہ مسکرا رہی تھیں۔رات کی تقریب قلعے کے انداروسیع ہال میں تھی جسے سفید اوع بنفشی رنگوں کے خوبصورت امتزاج سے خواب ناک بنایا گیا تھا ۔جیسے کسی قدیم شہزادی کی خوشیوں کے جام لہرائے جا رہے ہوں۔کارل اور عالیان شادی کی تقریب کے دوران سے ہی غائب تھے۔اسے ان دونوں کے غائب ہونے کی سمجھ نہیں آئی،بلکہ کارل تو ایسے تیار ہو کر آیا تھا جیسے اسی کی شادی ہو ۔امرحہ کو کارل کے جانے کی خوشی تھی اس نے سادھنا اور این اون کے ساتھ انگلش طرز پر گول گول گھومنے کی کوشس بھی کی تھی۔ابھی کیک نہیں کاٹا گیا تھا ۔شارلٹ کافی مرجھائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔بہرحال کیک کی ٹرالی لائی گئی اس سے پہلے کہ وہ دونوں کیک کاٹتے ہال کا دروازہ دہشت ناک انداز سے کھلا  اور ایک پاگل دیوانہ شخص شارلٹ کی طرف آیا ،جسے دیکھتے ہی شارلٹ نے چیخ ماری دی اور اتنی شدت سے ماری کہ ہال کا ماحول جامد ہو گیا اور سب اسے دیکھنے لگے اور ٹھیک اسی دوران اس پاگل نےسر سے ہاتھ اوپر اٹھا کر پسٹل سے فائر کیا ۔

فریز کسی نے بال برابر بھی جنبش کی تو میں اسے گولی سے مار دوں گا۔فائر کی آواز سے سہم کر چیخوں سے گونجھتا ہال سناٹے سے بھر گیا ۔

”تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو شارلٹ؟“وہ چلایا اور پسٹل کا رخ جورڈن کی طرف کر دیا۔”تم شادی کر رہی ہو ....تم شارلٹ...تم....یہ سب....“

شارلٹ بری طرح سہم گئی اور جوردن تو تھا ہی ایکٹر وہ ایسے سہما کہ ذرا دور کھڑی اس کی ماں سے دل کا دورہ چند انچ کے فاصلے سے گزرا....

”یہ پاگل خانے سے کیسے بھاگا"ہال میں سے کسی کی آواز ابھری اور وہ خود بھی....وہ سائی تھا جو اس پاگل کی طرف بڑھ رہا تھا۔

”اپنی جگہ پر واپس چلے جاؤ ورنہ مجھے اپنے اس ہاتھ کی انگلی کو زحمت دینی پڑے گی“اس نے شرٹ کے اندر سے دوسرا پسٹل والاہاتھ نکالاکر اور ا س کی طرف تان کر کہا پہلا پسٹل بددستور جورڈن پر تنا تھا۔

”چلے جاؤ یہاں سے میک!“سائی قریب جاتے چلایا۔امرحہ نے حیرت سے سائی کو دیکھا بھلا اس کا کیا کام یہ تو شارلٹ کو جانتا بھی نہیں تھا اور اس پاگل نے اپنی انگلی کو زحمت دے دی  اور فائر کر دیا ۔گولی سائی کے بازو میں لگی اور خون کی دھار اس کے بدن سے پھوٹی اور وہ وہیں گر گیا۔

”سائی !“امرحہ نے چیخ ماری اور اس کی طرف لپکنے لگی کہ ویرا نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑلیا ۔” ہمیشہ گڑبڑ کرتی ہو ،بیٹھ جاو ورنہ تمہیں تو ہو شوق سے گولی مار دے گا ۔“ویرا نے ایک ہاتھ اس کے کمر میں دیا اور ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھا اور اس کے کان میں کہا۔

”میں نے کہا نہ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا ۔“وہ حلق کے بل دھاڑا۔

اس کا حلیہ ہی ایسا تھا ہال میں سب دبک گئے......سکوت چھا گیا۔

ذرا دور سے ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں اور پولیس کے بھی....یعنی ان کے بچاؤ کے لیے لوگ آرہے تھے۔ جلدی ہی شارلٹ کے سابقہ پاگل عاشق کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ تم تو مجھ سے پیار کرتی تھی شارلٹ  اور شادی....شادی....وہ کس سے کر رہی ہو ؟“پسٹل کا رخ جورڈن کی طرف کر کے وہ اچھل اچھل کر چلایا ،اتنی اونچی آواز میں کہ ان کے کانوں کے پردے ہل گئے اور خوف سے آنکھیں بند کرلینےکو جی چاہا۔

”سائی !“امرحہ اس دوران سسک رہی تھی۔

”میرے جگہ تم کسی اور کو لے آئیں۔“اس نے قہقہہ لگایا۔

”ٹھیک ہے میں اپنی جگہ خالی کروا لیتا ہوں۔“اس نے جورڈن کے کنپٹی پر پسٹل رکھی۔جورڈن کی ماما اور چند دیگر خواتین کی چیخیں نکل گئیں،جس کے جواب میں اس پاگل نے پسٹل کا رخ ان کی طرف کرکے ہوائی فائر کر دیا۔

”کوئی آواز نہیں....“وہیں ان کی آوازیں بند بلکہ گم سی ہو گئی۔

”چلو شارلٹ میرے ساتھ ....“

”میری شادی ہو چکی ہے میک.....! جورڈن میرا شوہر ہے۔

”جورڈن تمہارا شوہر تھا ....یہ ابھی مردہ ہونے جا رہا ہے ۔“اس نے تھا کو لمبا کھینچ کر کہا۔

”مجھے تم سے نفرت ہے....میں تمہارے جیسے پاگل انسان کے ساتھ ایک منٹ نہیں رہ سکتی ....سائیکو....نفرت ہے مجھے تم سے۔“

”مجھے اس سے نفرت ہے میں ایک اور منٹ اسے زندہ نہیں چھوڑ سکتا ۔“

ہال کے اندار بھاگتے ہوئے تین چار لوگ آئے ،حلیے سے وہ ہسپتال کے ملازم لگتے تھے اور پاگلوں کا پاگل نظر آتا ڈاکٹر  جس کی آنکھوں پر بہت بڑا چشمہ تھا۔

”میک۔چھوڑ دو اسے۔ہمارے ساتھ واپس چلو ۔“ڈاکٹر ذرا دور سےمحتاط انداز میں چلایا۔ہال والوں کی نظریں اب ڈاکٹر پر تھیں۔

”مجھے پاگل سمجھا ہے کیا ؟“اس نے جنونی قہقہہ لگایا اور پسٹل کا رخ ڈاکٹر کی طرف کر دیا ۔”حساب کتاب تو تم سے بھی باقی ہیں میرے ۔“

”تم یہ نہیں کر سکتے ۔“میک یعنی پاگل کو اور بھڑکایا۔

”میں یہ ضرور کروں گا ۔“اچھل اچھل کر وہ چلانے لگا ۔اسے دیکھ دیکھ کر  خوف اور بڑھنے لگا  اور اس وقت خوف سے دم ہی نکل گیا ،جب ڈاکٹر نے اچھلتے میک کو غافل سمجھ کر اس پر قابو پانے کےلیے ایک دم سے حملہ کر دیا۔ حملے کی صورت دو فائر فوری ہوئے  ہال خواتین کی چیخوں سے گونج اٹھا ،جن میں سب سے نمایاں چیخ جورڈن کی ماما کی تھی۔فائر کے ساتھ ہی ہال کی لائٹس بجھ گئیں۔لوگوں کے اُٹھنے ،گرنے،بھاگنے کی آوازیں  بھی آئی اور جورڈن کے کراہنے اور ماما جورڈن کے چلانے کی بھی۔ایک منٹ سے بھی کم وقت میں یہ ہوا ۔اتنی چیخ و پکار پر بھی لائٹس آن نہ کی گئی اور جب لائٹس آن کی گئی تو کیک کے پاس نہ مردہ دلہا تھا نہ دلہن ،اور اس کا پاگل خانے سے بھاگا بوائے فرینڈ اور نہ ہی اس پاگل کا ڈاکٹر۔

وہ سب غائب تھے...وہ سب کہاں تھے۔ہال میں نظریں گردش کر رہی تھیں۔ہال میں آرکسٹرا نے دھن چھیڑی اور اونچے چھت تلے بنے وسیع گول دائرے نما اندھیرے ،ڈانس فلور پر اسپاٹ لائٹ روشن ہوئی اور روشنی چلتے چلتے ایک جگہ پر آکررک گئی،دلہا اور دلہن پر ۔جورڈن نے ہاتھ اوپر اُٹھایا جسے تھام کر دلہن گول گول گھومنے لگی۔دوسری اسپاٹ لائٹ چلتی دو اور لوگوں پر آکر گئی۔پاگل کارل اور ڈاکٹر عالیان پر۔انہوں نے سر کو جھکا کر داد لینی چاہی  اور دلہا دلہن کی نقل اتارتے گول گول گھومنے لگے۔رکے ہوئے سانس تنفر سے بحال کیے گئے۔انہیں گمان تک نہیں ہوا تھا کہ یہ کیا ہوا  ہے۔دلہن والوں اور دلہا کے صرف مردوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجا بجا کر ہال سر پر اٹھا لیا ۔کارل اور عالیان کے ویڈنگ پرانگ (مذاق) نے میدان مار لیا تھا۔کچھ کو تو مار ہی ڈالا تھا۔ امرحہ بھی کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہی تھی آج اسے کارل بھی اچھا لگ رہا تھا۔ویرا نے اس کے کان میں سب بتا دیا تھا صرف چند گھنٹوں میں سب پلان کیا گیا تھا شارلٹ اور جورڈن بھی ان کے ساتھ تھے۔کارل اور عالیان کا گیٹ اپ ایسا تھاکہ امرحہ نے بہت دیر میں انہیں پہچانا۔ان کی پرفارمنس لاجواب تھی۔پاگلوں سے بڑھ کر کارل پاگل لگ رہا تھا۔تو اسی لیے ہر چار میں سے تیسرے کو کارل ہونا چاہیے،ہر تین میں سے دوسرے کو اور ہر دو میں سے ایک پہلے میں تھوڑا کارل ضرور ہونا چاہیے۔کیونکہ کبھی کبھی یہ بہت ضروری ہوتا۔

مجھے اچھا لگا امرحہ نے میرے لیے اتنی دردناک چیخ ماری ۔“

”مجھے تو یہ لگنےلگا کہ یہ پرانک الٹا ہمارے گلے ہی پڑ جائے گا۔خواتین کی چیخوں کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔“

”میں دیکھ رہاہوں بات بدلنے میں تم کافی ماہر ہو چکے ہو۔“

”تمہیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے کہ مجھے بات بدلنی پڑے یا جس کا میں جواب دینا نہ چاہوں۔“

”عالیان ! میں اچھا برا سب سنتا ہوں لیکن صرف وہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں جو ٹھیک ہو ۔میری بات غور سے سنو عالیان ! اگر میری جگہ گولی تمہیں لگتی تو تم دیکھتے کہ ہال امرحہ کی چیخوں سے گونج اُٹھتا اور تم یہ بھی دیکھتے کہ...“

”یہ تمہارا وہم ہے ،مجھےایسی کوئی خوش فہمی نہیں ،نہ ہی پالنی ہے۔“

”تم سائی پر وہم کا الزام نہیں لگا سکتے۔“

”ٹھیک ہے لیکن اب میں اس سے آگے نکل آیا ہوں ۔“

”پلٹ کر دیکھو،کسے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔اور یاد رکھنا ہمیں صرف گمان ہی ہوتا ہے کہ ہم آگے بڑھ آئے ہے ۔صرف گمان...میں چاہتا اس گمان کے غلط ثابت ہونے سے پہلے تم خود ہی اسے غلط ثابت کر دو۔“

”سائی ہم خود کو کتنی بھی بلندی پر کھڑا کر لیں،کچھ لوگوں کے لیے ہم ہمیشہ پستیوں کے پاس رہتے ہیں،ان دیکھے سیاہ دائرے جو ہمارے گرد کھینچ دیے جاتے ہیں ہمیں نظر آئیں نہ آئیں،ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے۔“

”میں اختلاف نہیں کروں گا تم سے ۔“

”تم میں یہ خوبی ہے سائی کہ تم ہر بات کو جلد سمجھ جاتے ہو۔“

”عالیان میں بات کو نہیں ،جس حالت میں بات کی جاتی ہے،بس اسے سمجھ جاتا ہوں۔اور تم سے بھی یہی کہوں گا اس حالت کو سمجھنے کی کوشش کیا کرو جس میں ناپسندیدہ باتیں کی جاتیں ہیں۔“

”میرا خیال ہے ہمیں سب چھوڑ دینا چاہیے اور پرسکون ہوجانا چاہیے ۔کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں کوئی اور بات کروں ؟“

سائی نے ٹھنڈا سانس لیا۔”تم چاہتے ہو تو ٹھیک ہے ۔کرو کوئی اور بات۔“

”کیا تم نے کبھی کسی کا انتظار کیا ہے کہ وہ تمہارےپاس آئے اور تم اسے سنو۔“

”بہت سے ہیں اور ان میں سےایک کارل ہے۔لیکن میں جانتا ہوں وہ کبھی میرے پاس نہیں آئے گا۔“

”بہت سے ہیں اور ان میں سےایک کارل ہے۔لیکن میں جانتا ہوں وہ کبھی میرے پاس نہیں آئے گا۔“”ہاں وہ کبھی نہیں آئے گا  وہ خود پر یہ نوبت کبھی نہیں لائے گا،جانتے ہو وہ اپنا اتنا بڑا مداح ہے کہ اپنے کمرے میں لگے شیطان کے پوسٹر کے پاس کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا۔”کارل کے بعد میں تمہاری ذہانت کا مداح ہوں۔“

”شیطان کہتا ہو گا ”خود سے پہلے میں بھی تمہاری مداح ہوں  جناب کارل !“کہہ کر سائی اور عالیان  دیر تک بچوں کی طرح ہنستے رہے۔

جناب کارل کہیں اور دل ہی دل میں قہقہے لگارہے تھے۔

”این ! تم بیٹھے بیٹھے اتنی موٹی کیسے ہو گئیں ؟ایک دم سے اسے سائیکل وزنی لگنے لگی تھی۔

”موٹی نہیں موٹا ۔“نیلی آنکھیں مٹکا کر وہ مسکرایا۔

اپنے خدشے کے سچ ہونے کے خوف سے اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔اس کے پیچھے کارل بیٹھا تھا اور این ذرا دور کھڑی دانت نکال رہ تھی۔

”کیا ہوا چلاؤ نا سائیکل ۔“

”کھڑے ہو کر اس نے سائیکل کو جھٹکا دیا کہ وہ گر جائے گا بھلا وہ کوئی عالیان تھا جو جھٹ سے گرجاتا ۔وہ آرام سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔

”اگر تم مجھے اپنے سائیکل پر بیٹھا لو تو میں اس وقت تھا بیٹھا رہ سکتا ہوں جب تک پاکستان نہ آجائے ۔حتی کہ چاند تک لے جانا چاہو تو بھی ۔“

”میں تمہیں اس وقت تک ضرور بیٹھائے رکھ سکتی ہوں جب تک جہنم نہ آجائے ۔“

”ٹھیک ہے اپنے ٹھکانے تک لے چکو آگے جنت تک میں پیدل چلا جاؤں گا ۔“

امرحہ پیدل ہی سائیکل لے کرآگے آگے چلنے لگی اس کے ہوتے ہوئے وہ سائیکل چلانے کی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اسے ایسے گرا دے کہ وہ بستر سے ہی نہ اٹھ پائے۔

”میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سائیکل اچھی چلا لیتی ہو ایک ریس ہو جائے؟“

امرحہ کو اس کی بات پر ہنسی آئی لیکن وہ ہنسی نہیں سنجیدگی سے آگے آگے چلتی رہی وہ ساتھ آنے سے باز نہ رہا ۔

تم مجھے نظر انداز کر رہی ہو ۔چلو میں تمہاری اس حرکت کو نظر انداز کرتا ہوں۔سنوچند سالوں بعد جب میں مئیر بن جاؤں گا اور پھر بہت جلد وزیرعظیم ،تو میرا اردہ تیسری عالمی  جنگ شروع کروانے کا ہے تاکہ تم جیسے بے کاراور ڈرپوک لوگ ختم ہو جائیں،تم سمجھ ہی رہی ہو گی کہ میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ مجھ جیسی عالمی شخصیت جس پر کئی ہزار کتابیں لکھی جا رہی ہوں  گی۔“

”اور جو کہی ملکوں کے پولیس اور فوج کو مطلوب ہو گا ۔“امرحہ نے معصومیت سے اس کی بات مکمل کی۔

”تمہیں مجھے ٹوکنا نہیں چاہیے تھا،لیکن میں تمہیں اس کے لیے معاف کرتا ہوں تو مجھ جیسے عظیم ہستی سے ہار جانا بھی  بہت زیادہ قابل فخر ہو گا۔“

”یونی میں اس فخر کو حاصل کرنے کا اعزاز تم کسی اور کو کیوں نہیں دیتے ۔“

”میں اپنے مقابلے پر عام لوگوں کو نہیں لاتا اس پر خوش ہو جاؤ کہ تم خاص ہو ۔“

”تم اور عالیان ایک ریس کیوں نہیں لگاتے ۔میں عالیان پر بیٹ لگانا چاہتی ہوں۔“

”تم عالیان کی سپوٹرر ہو....آئی سی۔“

”بالکل....“

”ابھی بھی...؟“

”ہمیشہ رہوں گی...“

”بے چارہ عالیان “

”دی گریٹ عالیان۔“اس نے گردن کو فخریہ اٹھا کر کہا کہ کارل اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔

”میں تمہیں بتا دوں میں اس سے حسد رکھتا ہوں نہ اسے ہرانے کی خواہش،میں اسے کہی بار ہرا چکا ہوں۔اگر تم نے مجھے ہرا دیا تو میں تم دونوں کی دوستی کروا سکتاہوں یہ میرے بائیں ہاتھ کھیل ہے۔تمہیں میری قابلیت پر شک نہیں ہونا چاہیے۔”

”اس سے دوستی کے لیے مجھے تم سے مدد نہیں لینی چاہئے یہ میرے دماغ کے بائیں حصے کا مشورہ ہے۔مجھے اس بائیں حصے کے مشورے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔“

”ریس تو ہو گی امرحہ ...ورنہ تمہاری بہت بےعزتی ہو گی۔“

”دیکھتے رہو خواب۔“وہ سائیکل لئے چلی گئی۔

                   *............*............*

دادا آج کل بہت خوش رہتے تھے جیسے وہ مل گیا ہو جس کی تلاش ہو۔وہ پوچھتی تو ہنس کر خاموش ہو جاتے۔ان کے ایسے انداز کے بعد اسے بے سکونی سی رہتی۔وہ کلاس میں توجہ سے لیکچر سن پاتی نہ سٹور پر کام ٹھیک سے ہو پاتا ،دادا کے روایے اسے سہما دیتے اتنا کہ وہ بزنس ڈیپارٹمنٹ تک جاتے جاتے واپس پلٹ آتی۔

”میں کہی بار مل چکا ہوں اس سے اور میں بتا نہیں سکتاکہ میں کتنا خوش ہوں، میں اسے ہر طرح سے آزما چکا ہوں ،ابھی میں نے گھر میں بات نہیں کی۔“

اسے پہلی بار داد کی آواز بھدی لگی اور الفاظ بدنما۔

”آپ کو مجھ سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئں دادا“وہ بہت مشکل سے یہ کہہ پاتی۔

دادا حیران ہوئے”تم شرما رہی ہو تو نہیں کرتا ۔“

”بالکل نہیں بس مخھے تعلیم مکمل کرنے دیں۔“

”شادی تمہاری ڈگری کے بعد ہی ہو گی امرحہ۔“

”میری شادی نہیں ہو گی ،مجھے شادی نہیں کرنی۔“

”شہریار بہت روشن خیال ہے اور “

”وہ ورلڈ بینک کا صدر یا کسی یونیورسٹی کا چانسلر ہی کیوں نہ ہو۔“

”تو تم فیصلے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہو۔“دادا کا انداز ایسے سنجیدہ ہو گیا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا ہو گا۔

دونوں کے درمیان سکوت چھا گیا جس سے دادا کے خدشات کی تصدیق ہو گئی۔

”ٹھیک ہے لیکن مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی۔“

”میں صرف ہاں،ناں کا اختیار استعمال کر رہی ہوں۔“

”میں تمہاری ناں سے بھی واقف ہوں اور ہاں سے بھی انجان نہیں ،مجھے پاگل مت بناؤ۔“

”تو آپ چاہتے ہے میں خود کو پاگل کر لوں۔“وہ چٹخ کر بولی۔

ایک بار پھر دونوں کے درمیان سکوت تن گیا ۔دادا اس کے انداز پر حیران رہ گئے۔

”کون ہے وہ امرحہ ! برطانوی ،پاکستانی،روسی،مصری، امریکی،کون ہے وہ مسلم....غیر مسلم....مجھے بتانے لگو تو اس کا حسب نسب ہاتھ میں رکھ کر بیٹھنا ،تمہیں ملک سے باہر پڑھائی کی اجازت دی تھی،بغاوت کی نہیں،جانتی ہو نا تم سے متعلق سوال مجھ سے ہوتے ہے یہ بھی جان لو تم سے پہلے انگلیاں مجھ پر اٹھیں گی۔“دادا کا انداز بھی تیز تھا آواز بھی۔

”آپ غلط سمجھ رہے ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے،وہ اندار ہی اندار چٹخ کر ٹوٹ گئی۔

”ڈگری لے کو پھر بات کرتے ہے۔“دادا نے مزید اسے سننا گوارہ ہی نہ کیا۔

”حسب نسب ہاتھ میں لیے بیٹھنا۔“کتنے ہی دن کتنے ہی باراس نے  سر کو جھٹک لیکن وہ اس فیقرے کی گونج سے جان نہیں چھڑا سکی،اس کے دل پر اس پہاڑ کا بوجھ آگرا جسے کبھی سر نہ کیا جا سکا ہو ۔یونی میں وہ عالیان کے راستے کی طرف جاتی اور پلٹ آتی۔

”کیا فائدہ ؟“خود سے کہتی بھی اور پوچھتی بھی۔

سمسٹر ختم ہونے کو تھا لیکن زندگی تو ختم نہیں ہوئی نا۔اس ایسے لوگوں کی زندگی ویسے بھی لمبی ہوتی ہے ۔جو من چاہئے رستے پر چلے بھی ہوں اور واپس آنے پر مجبور بھی ہوں ۔وہی لوگ بے اختیار ہو کر جاتے ہیں اور کسی اختیار والے کے خوف سے لوٹ آتے ہیں ۔

اس نے سیف روم جا کر کئ نوٹ دیواروں پر چپکا دیے۔

کاش اللہ بندے کی پیشانی پر لکھ دیتا کے یہ میرا بندہ ہے یہ میرا بندہ نہیں ۔پھر حسب نسب مذہب پر سوال نہ اُٹھتے ۔۔۔

وہ کالی سیاہی سے سنہری حروف لکھتی جاتی۔

مجھے افسوس رہے گا کائنات کی بہترین چیز اٹھا لینے کا حق  میری ہتھیلیوں کو نہیں دیا گیا اور اس نے یہ بھی لکھا لاچاری اور بے بسی اپنے عروج پر ہے میں اپنی آنکھوں کو مائل ہونے اور کانوں کو متوجہ ہونے سے روکنے سے معذور ہوں ۔سمعی اور بصری حسین میرے سے پہلے نکلیں اور پھر مجھے یاد نہیں رہا کے یہ کبھی میرے حلقہ اختیار میں تھے میں دنیا میں کسی انسان کو ٹھیک سے یہ سمجھا نہیں سکوں گی کے  میر اپنے اختیار سے کب نکلنا شروع ہوئی اور پھر ختم ہو جانا ممکنات میں سے ایک  ہو جاتا  ہے میں ایک کمزور انسان ہوں ۔ناممکنات کی طرف پیش قدمی کیسے کروں؟؟ مجھے رک جانے کا عندلیہ نہ دیا جائے مجھے چلتے رہنے کی نوید سنائی جائے کوئی سجدے میں میں میرے لئے سر جھکائے صرف میرے لئے دعا مانگے میں جہاں پابند ہوں آزاد کروا لے جائے ۔

______________

میری چھوٹی بہن ہے فیشن ڈیزائننگ پڑھ رہی ہے ماسکو میں ۔اور چھوٹا بھائی نیویارک فلم اکیڈمی کا اسٹوڈنٹ ہے ۔ماما پاپا دونوں ریسٹورنٹ دیکھتے ہیں میں اپنے ریسٹورنٹ میں بہت کام کیا ہے ان فیکٹ پاپا نے مجھ سے کام لیا ہے وہ خود بھی بہت کام کرتے ہیں اگر تم ہمارے ریسٹورنٹ آؤ تم اچھی طرح مشاہدہ کرنے کے بعد بھی نہیں بتا سکو گے کہ کتنی پرانی ہے اور کتنے عرصے سے زیرِاستعمال ہے ۔

یعنی تمارے پاپا، چیزوں کو سنبھالتے نہیں ان سے پیار کرتے ہیں؟ 

ہاں بالکل ۔ویسے وہ تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے 

واقعی ہی؟ 

ہاں وہ کہتے ہیں اچھے انسان کا دنیا میں ہونا قدرت کی طرف سے انعام ہوتا ہے 

میں اچھا انسان ہوں؟ عالیان گھاس پر نرمی سے ہاتھ پھر رہا تھا یہ سوال کرتے اس کے ہاتھ رک گئے ۔

بالکل ۔ویرانے سر کو خم دے کر  مسکرا کر کہا

تمہیں کیسے پتہ؟ 

اچھے انسان کے بارے میں پتہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اچھائی کے پتے اپنی ذات میں رکھتا ہے ۔

اگر میں اچھا ہوں تو ماما کی وجہ سے ۔

تم یہ کیوں نہیں مانتے کے اپنی وجہ سے اچھے ہو؟ 

کیونکہ میں نہیں ہوں مجھے یہ بتاؤ مستقبل میں تمھارا ہوٹل کھولنے کا ارادہ ہے؟ 

ابھی اس بارے میں نہیں سوچا ۔ڈگری کے بعد دنیا گھومتے کا ارادہ رکھتی ہوں ۔جب سے پیدا ہوئی ہوں پڑھ ہی رہی ہوں ۔اچھا کیا میں تمہیں وہ باتیں بتا سکتی ہوں جو مجھے تم میں اچھی لگتی ہیں؟ 

نہیں

میں پھر بھی بتاؤں گی اور اس سے پہلے یہ بتانا چاہوں گی جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو تم ڈیپارٹمنٹ کے کسی اسٹوڈنٹ کے ساتھ آنکھیں بھیگی کرنے کی مشق کر رہے تھے پھر تم دونوں زبان تھوڈی سے لگانے لگے آئی مسٹ سے تمہاری زبان لمبی ہے پھر تم دونوں نے کانوں کو پھڑپھڑانا شروع کیا میں نے اپنی کلاس فیلو سے پوچھا کیا اسپیشل لوگ بھی یہاں پڑھتے ہیں پھر اس نے آنکھ مار کر تماری طرف دیکھ کر کہا یہ تو واقعی ہی اسپیشل ہے 

ہاہاہا اچھا

ہاں کلاس میں  جب بیٹھتے تم ایسے پھولوں کی پتیاں بنا رہے تھے جو تخیل میں  ہو سکتا ہے زمین پر نہیں 

تو یہ اچھی بات ہے؟؟ 

ہاں کیونکہ تم ان چیزوں کے بارے میں بھی سوچتے ہو جو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ان کے بارے میں کتنا سوچتے ہو گے جو موجود ہیں تم انجان رہنے والوں میں سے نہیں ہو۔

اپنے بارے میں  جان کے اچھا لگاویرا۔تم سمجھ دار لڑکی ہو عالیان مسکرا دیا 

تم ایک اچھی لڑکی ہو کہتے تو مجھے زیادہ اچھا لگتا 

تم ایک اچھی لڑکی ہو ۔

ہاں اب ٹھیک ہے 

ویرا مزید اسکی خوبیاں بتانے لگی اور کاغز کا بنا جہاز اڑنے لگی جو ان کے درمیان آکر گرا اس نے اسے اٹھایا اور پڑھا۔پہلے وہ حیران ہوئی پھر مسکرانے لگی۔

اچھا عالیان پھر ملتے ہیں ہاتھ ہلا کر  وہ  چلی گئی 

عالیان جہاز اٹھا کر پڑھا امرحہ ؛؛اس کی نظر وہی ٹھر گئی 

ویرا امرحہ کے سر پر پہنچ چکی تھی تم نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے میں روز تمہیں دو تین گھنٹے مشق کروا سکتی ہوں ۔صبع جلدی اٹھ جایا کرنا 

کیا کہہ رہی ہو اور کس چیز کی مشق؟ 

سائیکل کی 

وہ کیوں؟ 

کارل کو چیلنج دیا ہے نا تم نے اب کیا ریس میں ہارنا ہے 

وہ کریم کافی پینے کی تیاری کر رہی تھی ۔پورا مگ گرا بیھٹی کس نے کس کو چیلنج کیا؟ 

تم نے کارل کو ۔

ویل ڈن امرحہ ۔اسی دوران آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی ثنا خاص اس کے پاس آئی۔۔

میں نے تم پر پندرہ پونڈ شرط بھی  لگا دی ہے 

امرحہ اس کی شکل دیکھنے لگ کے آخر ہو کیا رہا ہے ۔

شکر ہے کسی نے تو کارل کو ٹکر کا سوچا

امرحہ دیوانوں کی طرح ثنا اور  ویرا کو دیکھنے لگی۔دونوں کے ہاتھوں میں کاغز کے بنے جہاز تھے جس کے ایک کونے امرحہ کارل سائیکل ریس اور دوسری طرف وقت جگہ ٹائم لکھا تھا ۔نیچے یہ لکھا کے امرحہ نے کارل کو چیلنج کیا اور کارل نے قبول کر لیا ۔

یہ جہازیونی بھر میں خوب اڑے ایک امرحہ کے سر آ لگا دور کار کھڑا دانت نکال رہا تھا۔امرحہ فوراً اس کے پیچھے لپکی تو وہ بھاگ گیا ۔اس نے ڈھونڈا نہیں ملا جب وہ  پیر پٹخ کر مڑی تو  وہ  اس کے  سامنے  آ گیا ۔

مجھے ڈھونڈ رہی ہو؟ میں حاضر ہوں 

یہ کیا ہے؟ اس نے جہاز اس  کے  اگے لہرایا 

ہماری ریس ۔اگلے ہفتے ۔امرحہ اور کارل

ساتھ ساتھ 

میری  طرف سے  ہزار دو ہزار جہاز اور  اڑا دو یونی میں  مجھے  فرق نہیں  پڑتا۔

”فرق پڑے گا تمہاری بہت بےعزتی ہوگی،ریس

ضرروہوگی۔،،

”اگرمیں تمہیں قتل کردوں

تو .....تو تمغہ ملےگا ۔“

”نہیں سلیوٹ

......جومیں خود تمہیں دوں گا،اگر تم

مجھے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو....سنو

امرحہ ،بلکہ دیکھو ڈی کوئین تم ڈر کیوں

رہی ہو....چلو تم یہاں کھڑے کھڑے مان

لو کہ آئی ایم کارل دی گریٹ ۔اور تم

کارل دی گریٹ سے ڈرتی ہو ۔“

”ہونہہ .....کارل

دی گریٹ ....کارل دی گریٹ.....“کارل

سے بحث فضول جان کر وہ پلٹ آئی،اسے کوئی

دلچسپی نہیں تھی،نہ فکر کہ کارل یونی

میں کیا علان کرتا پھر رہا ہے،وہ کیا

پاگل تھی جو اس کے ساتھ ریس لگاتی۔

”چلو

آؤ میں تمہیں مشق کروا دوں۔“رات کو ویرا

اسے کمرے سے لے جانے آئی۔

”پاگل ہو گئی

ہو تم بھی،چار دن مجھے سائیکل چلاتے

نہیں ہوئے کہ میں ریس لگانے چل پڑوں....ناممکن

 اور مجھے کوئی دلچسپی بھی نہیں ۔“

”ناممکن

کا سوچ کر بیٹھی ہو تو اسے ممکن کیسے

کر سکتی ہو بھلا۔“

”یہ پاگل پن ہے ویرا

۔“

”کر گزرو یہ پاگل پن.....پاکستانی

اور انڈین کافی جذباتی ہو رہے ہیں۔تم

پر شرط لگائی ہے۔تم لوگ عجیب ہو ویسے

،مقابلے میں کوئی تیسرا غیر ملکی ہو

تو تم پاکستانی ہندوستانی ایک ہو جاتے

ہو ....اینی وے تم اب پیچھے نہیں ہٹو

گی۔“

”ویرا مجھ سے  توسائیکل ہی نہیں

چلے گی۔“

”میدان میں اترو گی تو دیکھنا

کیسا جوش آئے گا تم میں ۔“

”ہوش آئے

گا تو جوش آئے گا نا ۔“

سادھنا اور لیڈی

مہر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی ہاتھ

لہرا لہرا کر تقریریں کیں کہ معمولی

سی ریس ہی تو ہے کون سا اولمپک کی دوڑ

ہے۔این اون بھی آگئی اور جاپانی مقولے

تر جمعہ کر کر کے سنانے لگی ۔ساتھ اس

نے کھڑےکھڑے تین،چار شجاعت اور بہادری

سے لبالب  بھری جاپانی کہانیاں بھی سنا

دیں ۔اس کے علاوہ سب بہت پرجوش تھی اور

اس میں ناک تک جوش بھر دینے کو تیار

تھیں۔نشت گاہ میں رات بھر چار خواتین

اسے اپنے نرغے میں لیے بیٹھی رہیں اور

تب تک نہیں چھوڑا  جب تک اس کا سر ہاں

 میں نہیں ہل گیا۔صبح وہ سب سے پہلے

وہ بزنس ڈیپارٹمنٹ گئی۔کارل اور عالیان

کھڑے باتیں کر رہے تھے۔....وہ ان کے

قریب گئی۔

”میں ریس کے لیے تیار ہوں

۔“اس نے این کی کہانی کے کردار کی طرح

گردان کو بلند کرکے کہا  اور  صرف عالیان

کو مسکرا کر دیکھ کر آگئی۔

”پوری یونی

میں تمہیں امرحہ ہی ملی تھی ریس لگانے

کے لیے؟“

”ہاں.....جیسے پوری دنیا میں

تمہیں ایک وہی ملی تھی پرپوز کرنے کے

لیے۔“کارل نے مذاق بالکل نہیں کیا تھا،وہ

یہ بات کہتے سنجیدہ تھا۔

             *.........*.........*

وہ

لائبریری کے اطراف میں ٹہل رہی تھی کہ

کب وہ آتا اور وہ اسے آتا نظر آگیا۔وہ

جلدی سے اس کے پاس آگئی۔

”ہائے عالیان

کیسے ہو....بال کٹوا کر بڑے اچھے لگ

رہے ہو ،اچھا سنو ہفتے کو میری ریس ہے،تم

آؤ گے؟“

وہ خاموش چلتا رہا .....اور

اچھا لگ رہا تھا ایسا کرتے۔

”کیا تم

مجھے تھوڑی سی مشق کروا سکتےہو ،میں

نےکارل سے اس لیے ہاں کہی کیونکہ تم

نے ایک بار کہا تھا ہار جانے والےان

 لوگوں سےہزار درجےبہتر ہوتےہیں جومقابلہ

کر نے کی ہمت ہی نہیں کرتے جواب کےانتظا

ر میں وہ اس کی طرف دیکھنے لگی،لیکن

وہ خاموش تھا۔دونوں ہاتھوں کو پینٹ کی

جیبوں میں ڈالے وہ بے نیاز نظر آنے کے۔

”زیرو....ون....ٹو......زیرو ون ٹو.....“

امرحہ اور امرحہ جیسے چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے ۔بہت تیز اور مرتب آواز تھی۔

”زیرو ون....اسٹارٹ ساونڈ.....ایکشن آن۔“

فوجیوں کی طرح پیر زمین پر مارے گئے اور جو جہاں کھڑا تھا وہاں کھڑا ہو گیا....جامد....فریز....کئی سو اسٹوڈنٹس.....کئی سو مختلف انداز میں.....

امرحہ اور عالیان جیسے دوسرے اسٹوڈنٹس سر اٹھا اٹھا کراردگرد دیکھنے لگے۔دور دور تک یہی منظر تھا ،جو اسٹل تھے۔ان کے درمیان جو اسٹل نہیں تھے وہ اڑسے پھنسے  کھڑے تھے۔کلاسز لے کر نکلتے دوسرے اسٹوڈنٹس اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھنے لگے.....دور دور تک یہ ساکن انسانی مجسمے کھڑے تھے۔

امرحہ دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کے درمیان پھنسی ہوئی کھڑی تھی۔عالیان پانچ لڑکوں میں گھرا کھڑا تھا۔سمجھنے میں وقت نہ لگا بڑے پیمانے پر کچھ ہونے جا رہا ہے۔کچھ وقت ایسے ہی گزر گیا،جب یونی کے اندار سے اپنی آخری کلاسز لے کر دوسرے اسٹوڈنٹس بھی نکل آئے تو روبوٹک آواز پھر گونجی۔

”کیپ کام....اسٹے اسٹل....ایکشن آن۔“

کوئی گھوم گیا،کسی نے سر گھما لیا،کسی نے پیر کسی نے ہاتھ اور کوئی جھک گیا اور وہ نئے روبوٹک شکل میں ڈھل گئے۔جیسے روبوٹ رک رک کر بھاگ رہے ہوں....اور پھر اگلے ایکشن میں انہوں نے ایک ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے اور چوکور خانوں کی شکل اختیار کرگئے اور ان چکور خانوں میں جونیئرز آگئے۔عالیان اور امرحہ آمنے سامنے کے خانوں میں تھے۔

”ہائے عالیان میں یہاں ہوں۔“امرحہ نے خوشی سے اسے آواز دی۔

غیراردی طور پرعالیان نے فوراً گردن موڑ کر دیکھا،وہ اپنے موبائل سے ویڈیو بنا رہا تھا۔

”میں تمہارے لیے کچھ لائی ہوں۔“اس نے ہاتھ میں پکڑے اسکیچ کو لہرا کر کہا ۔عالیان نے واپس ایسے گردن موڑی ،جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ 

ایکشن آن کی ایک زور دار گونج اورپیروں کی دھمک چوکور خانے تکون کی شکل اختیار کر چکے تھے۔دور،دور تک ایک دوسرے سے جڑا تکونی جال بنا نظر آنے لگا۔کئی سو اسٹوڈنٹس اب کئی ہزار ہو چکے تھے۔وہ آہستہ آہستہ اس میں شامل ہوتے جارہے تھے۔یونی کے کونوں کھدروں سے نکل کر انہوں نے یقیناً اس کی مشق کی تھی۔کارل دور سے بھاگتا ہوا آیا اور درمیان میں کود گیا ۔ایسا ہی ان دوسرے اسٹوڈنٹس نے کیا جو اس تکونی جال سے باہر کھڑے تھے۔انہیں تو انتظار تھااس لمحے کا.....

”زیرو ون ٹو....ون ٹو....اسٹے فوکس...“

اس بار وہ گھومے ہاتھ چھوڑے،پھر ہاتھ پکڑے....اب وہ دائروں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔لاتعداد دائروں کی..... ایک ساتھ جڑے دائروں کی......“

”اسٹے فوکس .....کیپ کام.....اٹس ٹربیوٹ ٹائم۔“

آوازیں اور....اور بلند ہو گئیں۔ہاتھ چھوڑے،گھومے پھر پکڑ لئے.....پہلے سے بڑے دائرے بن گئے تھے۔

عالیان امرحہ ایک دائرے میں آچکے تھے اور کارل سامنے والے میں۔

”اٹس ٹربیوٹ ٹائم۔“آوازیں پیروں کی دھمک کے ساتھ گونج رہی تھیں اور پھر انہوں نے ان کے گرد گول گول گومنا شروع کر دیا ۔فوجی مارچ کرنےکے انداز میں.....کئی پروفیسرز بھی آچکے تھے اور ڈین کو بھی آنا پڑا۔سینئرز کی آوازوں کے علاوہ ہر کوئی خاموش رہنا چاہتا تھا۔وہ کئی ہزار تھے اور جس انداز سے وہ یہ سب کر رہے تھے وہ قابل تحسین تھا۔ان کی ریہرسل کی اڑتی اڑتی خبریں ان تک پہنچی تھیں۔

                    we are champion

ان کے گرد گول گول مارچ کرتے انہوں نے اپنی آواز کو ایک ساتھ ملا کر گانا شروع کیا۔انہوں نے کامیاب ریہرسل کی تھی۔ان کی آواز  کورس میں تھی۔وہ گا رہے ہیں......وہ جو یونی سے جا رہے ہیں......ٹو ون،زیرو ایکشن ریلوڈڈ.....اسٹے اسٹل گول دائروں میں گھومتے وہ رک گئے۔ان کا رک جانے کا عمل قابل داد تھا ۔ایکشن ری لوڈڈ.....ایکشن آن..“

دائروں سے باہر نکلے کھڑےسنئرز نے دائروں کے درمیان آکر بڑے بڑے غبارے چھوڑے  اور جیسےہی وہ تھوڑا اوپراُٹھے انہیں فائر کر کے پھوڑ دیا گیا.....

وہ اور بلند آواز سے گانے لگے ۔ساتھ تالیاں بجانے لگے اور داستان گو نے اپنا پین اور ڈائری بیگ میں رکھ کر شمولیت اختیار کی اور آواز کے ساتھ آواز ملائی۔

غبارے جو فضا میں پھوٹے تھے ان سے نکلی افشاں بکھرنے لگی۔سنہری،سرخ،سبز ،پیلی ہر رنگ کی .....ان کے بالوں اور سروں پر....ان کے ہاتھوں اور چہروں پر......

امرحہ نے ہاتھ میں پکڑا اسکیچ کھول کر پھیلا لیا۔افشاں اس پر گرنے لگی ۔اس نے اسے افشاں سے بھیگ جانے دیا ،خود کو بھی۔

ہر چہرہ سج گیا ،رنگ گیا.....کاش تالیوں کی گونج،قدموں کی دھمک اورگانے کے بول کبھی ختم  نہ ہوں۔کاش فضا میں بکھری افشاں کبھی سمیٹی نہ جائے اور کاش کوئی جادوگر کمال کر دیکھائے ،وہ وقت کو ٹھہرا جائے۔

مانچسٹر یونیورسٹی کو یہ یاد رکھنا پڑے گا..... جاتے ہوئے سنئرز نےاسے کیسا خراج پیش کیا تھا۔

رہ جانے والوں کی آنکھوں میں نمی آنے میں وقت نہ لگا ۔دائروں میں موجود اسٹوڈنٹس نے اسے عزاز سمجھا ۔ان کے لیے جو گانا گایاانہیں وہ ترانہ لگا۔ اور امرحہ کو یہ ٹربیوٹ اس لیے بھی  زیادہ اچھا لگا  کہ اس نے ایک ہی دائرے میں خود کو اور عالیان کو کھڑے پایا ....کاش ایسے دائرے روز بنیں.....اور پھر کبھی نہ ٹوٹ سکیں۔

سینئرز نے ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا جو ایک اسٹوڈنٹ کے گھر کے لان میں ہو رہی تھی ۔امرحہ آچکی تھی ۔ویرا نے کہا تھا وہ دیر سے آئی گی ۔البتہ کارل وہاں پہلے سے موجود تھا ۔عالیان بھی کہیں  نظر نہیں آرہا تھا ۔پارٹی میں سب نارمل تھا ۔بس تین چیزیں ذرا سی ابنارمل تھیں۔”روئی سے بنی شرٹس “

جنہیں تین اسٹوڈنٹس نے پہن رکھا تھا۔مختلف نظر آنے کے لیے یا ایونٹ کو یادگار بنانے کے لیے روئی کے گول گول گیندوں کو سی کر شرٹ کی صورت دی گئی  تھی۔بقول ان کے اپنی طرز کا مختلف پہناوا۔

”بھالو ہی لگ رہے ہیں۔“امرحہ اس طرف دیکھنے اس اجتناب کر رہی تھی کہ پھر اس کی ہنسی نہیں رکنی تھی ۔ایک لڑکی آئی اس کے پاس اسے اپنی لیپ اسٹک پکڑائی  ”اسے تھوڑی دیر کے لیے پکڑومیں ابھی آئی اپنا پاوچ کہیں رکھ کر بھوک گئی ہوں۔“

امرحہ نے لیپ اسٹک پکڑی اور جیسے ہی لڑکی گئی اسے کھول کر دیکھا کہ اس کا شیڈ کیسا ہے ،لیکن شیڈ کے بجائے آگ کا شعلہ نکلا۔وہ ٹھیک اسی دوران اس ست زرا دور شور اُٹھا،اسے آگ کے شعلے نظر آئے ساتھ چلانے کی آوازیں۔میزوں پر سجے مشروبات ان پر اچھالے گئے،ان پر جنہوں نے روئی سے بنی شرٹس پہن رکھی تھیں اور جن کی شرٹس میں آگ بھڑک اُٹھی تھی۔تینوں بری طرح  سے  اچھل رہے تھے،اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا تھا  پارٹی میں۔

”آگ بجھا دی گئی  لیکن یہ آگ ان کے شرٹس میں لگائی کس نے ؟“

”اس نے۔“کارل نے امرحہ کی طرف اشارہ کیا۔

ہر وقت مزاق کا وقت نہیں ہوتا کارل۔۔امرحہ نے بہت سخت انداز میں کہا ۔ماحول بہت سنجیدہ ہو چکا تھا ان تینوں کو فرسٹ ایڈ کے لئے اندر لے جایا گیا ۔ساری پارٹی کا ماحول بدل چکا تھا اس وقت کارل کا یہ مزاق 

یعنی تم نے مذاق میں نہیں سنجیدگی سے یہ حرکت کی 

امرحہ کی سنجیدگی سب نے دیکھ لی کارل نے سب سے پوچھا ۔۔۔جھوٹ بول رہا ہے مجھے کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی امرحہ نے دیکھا سینرز کا موڈ ایک دم بدل گئے ۔

میں نے خود دیکھا اسے آگ لگاتے اس کے ہاتھ میں لائٹر بھی ہے کارل مذاق کے موڈ میں قعتاً نہیں تھا ۔یہ حرکت صرف تم کر سکتے ہو امرحہ بھی مذاق میں نہیں تھی 

لیکن اس بار تم نے کی امرحہ تم نے انتہائی گٹیا حرکت۔

ایسے کام میں نہیں تم کرتے ہو اور یہ لائٹر مجھے اس نے  پکڑایا کہہ کر آس پاس نظریں دوڑائیں اس لڑکی کی تلاش میں مگر وہ وہاں کی نے ایک تھی ۔

کس نے کسرل نے پوچھا 

وہ یہیں ہے اور وہ تم ہو ۔

اس لڑکی نے مگر اب وہ یہاں نہیں ہے 

امرحہ نے چلا کر کہا کہ وہ تم ہو سب جانتے ہیں ایسی حرکت تم کرتے ہو 

ہاں مگر اس بار تم نے کی مجھے پھسانے کے لیے انہیں جلایا ایسی جان لیوا حرکت میں نے کبھی نہیں کی ۔

تو تم مجھ پر کیسے الزام لگاسکتے ہو اس کی آواز میں تیزی تھی ۔یہاں اور لوگ بھی تو ہیں ۔

کیونکہ میں نے خود تمہیں دیکھا اور میرا دعوا ہے اور لوگوں نے بھی دیکھا ہو گا ۔جھوٹ غلط مجھے تو ہنسی بھی نہیں آ رہی ایسے گٹیا الزام پر ۔

شرمندگی تو ہونی چاہیے نا کارل اور سنجیدہ ہو  گیا ۔

جس نے مجھے آگ لگاتے دیکھا وہ بتائے امرحہ نے سب کے چہروں کو دیکھا 

جو ہوا جانے دیں مگر امرحہ تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہئے تھا پارٹی ہوسٹ نے قدرِ تاسف سے کہا ۔

امرحہ حیران رہ گئی تم بھی مجھ پر شک کر رہے ہو  کارل کی بات مان کر۔بات کارل کی نہیں ان لوگوں کی جان کی ہے  مجھے اچھا  نہیں لگا تم نے یہ کہا

جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں تم  دونوں ملے ہوئے ہو۔

میرا خیال ہے اب بات ختم کر دینی چاہئے 

پارٹی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی ۔

امرحہ سینئر لڑکی سارہ نے نے سر ہلا کر افسوس کہا

ان سب سے کتنی اچھی ہیلو ہائے تھی مگر پھر بھی وہ کسرل کی بات مان گئے ایک لائیٹر ہاتھ میں تھا اور کیا ثبوت تھا ان کے پاس۔۔امرحہ کی آنکھیں بھیگ گئی اور یہ بھی خیال آیا کے سب مل کر مذاق کر رہے  ہیں مگر ان کی شرٹس پر آگ لگی تھی ماحول بتا، رہا تھا  مذاق، نہیں وہ شک کر رہے ہیں ۔۔۔میں نے آگ نہیں لگائی میں پاگل ہوں جو ایسی حرکت کروں گی سب نے کارل کا یقین کیا یہ تو میرا دشمن ہے اور اسے بھی لگاتی اور مان بھی جاتی اگر یہ جل جاتامر جاتا۔اس کی آنکھیں چھلک جانے کے قریب تھی ۔میں نے بھی تمہیں آگ لگاتے دیکھا تھا امعحہ جیک نے پیشانی رگڑتے ہوئے  کہا۔۔۔امرحہ نے جیک کو بے یقینی سے دیکھا کیا تم سب میرے ساتھ پرانک کر رہے ہو

پرانک تو تم کر رہی ہو جیک کے اس الفاظ پر اس کی آنکھیں چھلک پڑی اب کوئی فائدہ نہیں تھا ایسے ماحول میں  رہنے کا میرا خیال ہے اب مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے اسے یقین تھا اب اسے کوئی نہیں روکے گا مگر جیک کی آواز آئی تم ایسے نہیں جا سکتی امرحہ 

کیوں تم پولیس بلوانا چاہتے ہو ۔اس نے مڑ کر دیکھا 

نہیں 

تو کیا اور بےعزتی کرنی ہے میری۔

نہیں بس یہ بتانا تھا کے تماری روتی شکل دیکھے بنا کوئی بھی یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا جیک نے ایک طرف اشارہ کیا تینوں بھالو نیو شرٹس میں دانت نکال رہے تھے 

کارل نے کہا ان کو میری مدد چاہیے تھی اور میں انکار نہیں کر سکا امرحہ یہ دیکھ رہی تھی ۔۔آخر بڑھاپے میں ہمارا کچھ تو اثاثہ ہونا چاہئے معاف کرنا اور ہمیں یقین ہے تم جانے والوں کو معاف کر دو گی۔وہ مرد جو اس کی رونے والی آنکھوں پر فدا ہوا تھا وہ اسے روتا نہیں دیکھ سکتا تھا یہ اسے اب معلوم ہوا تھا اس نے پہلے کیوں نہیں سوچا کہ ابتدا کہا سے ہوئی تھی 

آخری لموں میں عالیان پارٹی میں آ چکا تھا اور اس نے محسوس کر لیا تھا وہ اس میں غلط نہیں ہو سکتی وہ اب بھی دھاڈیں مار کر رونے لگے گی کیا اسے اس کی شکل سے لگے گا کہ اب بھی وہ اسکے ساتھ رونے کو تیار ہے ۔

عالیان نے دیکھ لیا تھا اور فورا اپنی نظریں پھیر لی۔ کل رات ہی مارگریٹ کالفاظ اپنے زہین میں نقش کیے تھے ۔میں ہر رات اس سے نفرت کا عہد کر کے سوتی ہوں اور ہر صبع عہد توڈ کر اٹھتی ہوں ۔دنیا میں ہر بیماری کا علاج ہو گا محبت کا نہیں ۔بے شک محبت ایک بیماری ہے جو  ختم ہونے کا  نام نہ لے اور ختم کر  دے۔وہ خود کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس بے لگام رشتے کو ختم کر دینا چاہتا تھا

وہ باقاعدہ مارگریٹ کی ڈائیریاں پڑھنے لگ گیا تھا ۔جس درد کے احساس کو پڑھتا تھا پہلے خود پر کندہ کر لیتا جن الفاظ کو روکے جانے سے کشید کیا گیا تھا یہ عام الفاظ نہیں تھے ۔یہ وہ الفاظ تھے جنہیں لیے کوئی مر چکا تھا عا لیان مارگریٹ کو اب یہ ڈائریاں پڑتے رہنا تھا۔

عالیان نے دیکھ لیا تھا اور فورا اپنی نظریں پھیر لی۔ کل رات ہی مارگریٹ کالفاظ اپنے زہین میں نقش کیے تھے ۔میں ہر رات اس سے نفرت کا عہد کر کے سوتی ہوں اور ہر صبع عہد توڈ کر اٹھتی ہوں ۔دنیا میں ہر بیماری کا علاج ہو گا محبت کا نہیں ۔بے شک محبت ایک بیماری ہے جو  ختم ہونے کا  نام نہ لے اور ختم کر  دے۔وہ خود کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس بے لگام رشتے کو ختم کر دینا چاہتا تھا

وہ باقاعدہ مارگریٹ کی ڈائیریاں پڑھنے لگ گیا تھا ۔جس درد کے احساس کو پڑھتا تھا پہلے خود پر کندہ کر لیتا جن الفاظ کو روکے جانے سے کشید کیا گیا تھا یہ عام الفاظ نہیں تھے ۔یہ وہ الفاظ تھے جنہیں لیے کوئی مر چکا تھا عا لیان مارگریٹ کو اب یہ ڈائریاں پڑتے رہنا تھا۔

وہ سب چلے گئے اس وقت کو بھی  ساتھ لے گئے دنیا کے کونوں میں بکھرنے اور پھر کبھی نہ ملنے کے لئے جیت کا جشن منانے اور شورکرنے والے اب اس کو بچپنا سمجھے گے 

کسی اداس شام کسی سڑک کے کنارے چلتے دریا کے کنارے کسی کیفے میں یونیوسٹی پر مبنی فلم دیکھ کر اداسی میں ہوا کریں گے ۔اس پارٹی میں سب نے ایک ایک منٹ کی تقریر سب سے پہلے ویرا نے الوداعی روسی گانا گایا میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لی اور دور جا کر بیٹھ گئی اس کے لئے جو دل میں ناپسندیدگی چھپا رکھی تھی اب وہ باہر بھی آنے لگی تھی مجھے کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا 

کارل نے تقدیر میں کہا کہ اسے افسوس رہے گا کے ان میں سے چند ایک کو الو نہیں بنا سکا کیونکہ باقی الوؤں نے وقت لے لیا تھا ۔عالیان نے بہت کچھ  کہا اور میرا دل کے وہ بس بولتا ہی رہے ۔اس نے کہا میں تم سب کو تمہاری عادتوں سمیت یاد رکھوں گا ۔بھلا میں کیسے بھول سکتا ہوں تم سب نے اپنی اپنی برتھ ڈے پارٹی پر ایک ایک پونڈ کے کیک سے ساٹھ ستر اسٹوڈنٹس کے پیٹ بھرے تھے ۔پھر اترا اترا کر اسے گرینڈ پارٹی کا نام دیا تھا ۔تم میں سے اکثر جب بھی کسی نے مجھے ٹوئیٹ دی میرے ہی ساتھ بیٹھ کر ساتھ ساتھ کھا لی آدھی اور جب بھی واپس لی پوری لی

اپنے خالی والیٹ دیکھا دیکھا کر مجھے ترس دلوایا

اور جب کبھی میں نے اپنا والٹ تمہارے اگے کیا تم نے منہ بنا وہ بھی دی ہک جتنا بڑا سبز۔

عالیان کے بعد میں کھڑی ہوئی تقریر کے لئے اس کے ساتھ اور اس کے بعد میرا نام ہی آنا چاہیے نا میں نے کہا ۔

مجھے اگر سمیٹ لینے کا ہنر ہوتا تو میں تم سب کو چھوٹے چھوٹے بونے بنا کر ایک میں ڈال کر ساتھ رکھ لیتی۔

کئ نہ جانے دیتی میری اس بات پر سب نے زور دار تالیاں بجائی۔اور سائی پورے دو منٹ تک کھڑا روتا رہا اسکی جگہ کارل نے تقریر کی  ۔۔میں نے ایک کتاب لکھ لی ہے جس میں سب کے راز عیاں ہو گئے  جاتے جاتے سب ہزار ہزار پونڈ میرے پاس جمع کروا جانا اور کتاب میں سے اپنا نام اور راز کٹواتے جانا ورنہ جند سالوں بعد اخبارات کی سرخیاں بننےکے لئے تیار ہو جاؤ ۔شکریہ سائی ان بھس کارل

میں نے عالیان کو اسکیچ نہیں دیا تھا ایگزمیز کی تیاری کے دوران کئ بار جا کر پلٹ آئی کے کئ اپ سٹ نہ ہو  جائے اور اس کا رزلٹ خراب نہ ہو جائے کیونکہ ہرحال میں اتنا تو جان گئ تھی کہ میں اس کے لئے وبال بن گئی ہوں۔امتحانات کے  بعد کھیلوں کے مقابلے ہوئے تھے ۔

کشتی رانی کے مقابلے میں عالیان اور کارل کی کشتی الٹ گئی اس وقت کنارے پر کھڑے میں نے خود کو پانی میں ڈبویا تھا اور اس حالت میں مجھ پر بہت سے انکشاف ہوئے ۔۔

سب اسٹوڈنٹس کتابیں کپڑے دوسری چیزیں سالوں کے لئے خرید رکھا تھا اب ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے اس سامان کو ہم نے نیلام کر دیا ۔۔اوک ہاوس میں اگٹھا کیے جانے والا ساز وسامان سے ایک ڈائری ملی۔جس پر سائی کو دے دی جائے لکھا تھا ۔سائی کو دینے سے پہلے اس کے پیج ورق گردانی کرنے سے خود کو روک نہیں پائی ڈائری لکھنے والا بہت حساس طبیعت کا تھا اس نے خزاں میں گرنے والے پتوں پر بھی آنسو بہائے ڈائری کے آخر پر میں نے خود کا نام دیکھا اس کے اگے صرف اتنا لکھا تھا ۔

میں نے اسے روتے دیکھا وہ بار بار اپنی آنکھیں مسل رہی تھی مانچسٹر سے دور دنیا کے کسی کونے میں ریتے ہوئے یہ ضرور سوچوں گا ۔کیا وہ دونوں ایک ہو گئے 

ان ستروں نے میرے اندر سناٹا بھر دیا اور پھر میرے وجود نے سب سے چھپ کر عالیان عالیان کا ورد کیا 

میری آنکھوں میں بہت خوبصورت مناظر قید ہیں ۔

جب عالیان کے بکھرے بالوں پر پلکوں پر افشاں گرنے لگی

وہ اچھل رہا تھا ان کے ساتھ گا رہا تھا میں نے اس پل کا جامد کر لیا اور اس کے قریب ہو کر اس کی پلکوں کو پھونک مار کر افشاں کو ہتھیلی میں قید کر لیا ۔میری مٹھی کھول کر افشاں کسی کی ہمت نہیں چرا سکے۔وہ ویڈیو بنانے میں مصروف تھا  میں آنکھوں  میں  منظر سمٹ رہی تھی ہمجھے کچھ خبر نہیں تھی میرے اگے پیچھے کیا ہو رہا ہے ۔مجھے اس سے مطلب بھی نہیں تھا ۔میں اسے چند بار سائیکل سے گرا چکی ہوں میرا خیال ہے وہ اتفاق تھا 

لیکن دیکھنے والوں کا کہنا ہے یہ اتفاق نہیں ہے میں اس پر میں اب وضاحت نہیں دوں گی وضاحتوں سے دور رہنا، چاہتی ہوں میری کلاس فیلو کا کہنا ہے سوچیں ادھا حسن کھا جاتی انسان مکمل ہوا ہی کب ہے 

ہر رات پیغامات لکھ کر رکھنا اپنا معمول بنا لیا تھا ۔

میں جانتی ہوں اپنی زات کا حساب کتاب دوسروں  سے لینے  پر ہمیشہ غلط ثابت ہوتے ہیں اور خود ہمیں حساب کتاب کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی میں نے اب اجازت لیے بغیر اپنی زات کے سارے سوال نکال لیے ہیں اور جوابات میں عالیان کو نکلتے پایا ہے 

گوشوارہ امرحہ بنام عالیان

ڈائری کے آخری صفات تک آتے آتے میں نے سوچنا کم کر دیاکیونکہ میں نے  ایسا کرنا شروع کیا  تو میری مھٹی کھل جائے گی اور میری افشاں اڑ جائے گی ۔۔۔

عالیان کی ڈائری کا صفحہ 

میرے بہت سے یونی فیلوز جا چکے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ میں سہم گیا ہوں ۔۔میرا مانچسٹر میری ماما میری دنیا ہیں  مگر ایک بار پھر میں خود کو خالی محسوس کر رہا تھا کیا یہ سب کے جانے سے ہوا ہے ۔

میں نے خود کو فصول کام کرتے بھی پایا. سڑک پر چلتے سب کے چہروں میں جانے کیا ڈھونڈا چلتے انداز جوتوں کی بناوٹ پرغور کیا۔

کبھی کبھی لگتا میں بے مقصد زندگی گزار دوں گا۔اور عملی طور پر کچھ نہیں کر سکوں گا ۔مجھے خود کو پر جوش کے  لیے ماما مہر کو یاد کرنا پرتا ہے ۔اور ماما مارگریٹ کو خیال آتے ہی میں کسی تکلیف کی کیفیت میں آ جاتا ہوں ۔مسکرانا آسان تھا مگر خوش رہنا مشکل ۔وہ ساری چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا کرتا تھا ان سب سے نفرت کیوں ہو گئی تھی ۔

اور میں نے جو خود کو ماما کے خطوط اور ڈائریوں سے دور رکھا۔اب ان کو ہر وقت پڑھنے پر کیوں مائل رہتا ہوں ۔

میں ماما کی ڈائریوں سے سبق لے رہا ہوں مجھے وہ نہیں بننا جو ماما بن گئی تھی ۔اسے کمزوری تھی میں بھی کمزور ہوں۔۔لیکن کسی کو ہمت دکھانی ہی پڑھے گی۔

میں خود کو مجبور بھی پاتا ہوں اور پابند بھی ۔میں دو حصوں میں بٹا ہوا ہوں مگر مجھے پر سکون زندگی گزارنی ہے مجھے دوحصوں کو ایک کرنا ہو گا مجھے ویرا کو ہاں کر دینی چاہیئے ۔روس دیکھنے کے لئے اس کا روس اچھا ہی ہو  گا ۔اس کی طرح  اب مجھے زندگی زیادہ خوشی سے جینی ہو گی۔تا کے بے خودی مجھے ہرا نہ دے ۔

                                                      **********

امتحانات کے بعد میں روس جانا چاہتی تھی مجھے پاپا سے ملنا تھا ۔برف پر پھسلنا تھا میں ساری تیاری کر کے بھی نہیں گئ۔میں بھی کیوں نہیں گئی عالیان ہاں کر دیتا تو اب تک ہم روس بیٹھے ہوتے ۔اس نے کہا ابھی وہ روس دیکھنا نہیں چاہتا تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں نے بھی اپنا سامان کھول دیا۔مجھے اپنے اس پاس کے لوگوں سے محبت کرنی آتی ہے ۔اسی لئے میں اس وقت عالیان کا بہت خیال رکھ رہی ہوں  ساری دنیا سے زیادہ اسے ضرورت ہے ۔اس وقت

                         *********************

امرحہ نے جو ڈائری مجھے دی اسے پڑھ کر میں کئ ٍراتیں سو نہیں سکا۔وہ اایسے اسٹوڈنٹ کی تھی جو احساسات سے بھری پڑی تھی ۔جو بہت دن فیصلہ کرنے میں ناکام رہا کے اس کی دوست ہے یا اس سے محبت ہو گئی ہے لڑکی اس کے  گاؤں میں ان کے گھر کے سامنے رہتی تھی ۔ایک رات اسے اس لڑکی کی موت کی خبر موصول ہوئی تھی لڑکی کر.                                                                                                 دماغ کی نس پھٹ گئی  تھی اس کے لئے اسے فیصلہ کرنا آ آسان تھا  ہم دائمی جدائی سے  طے ہاتے ہیں  تو احساس اور میں بہت لوگوں کو یہ حساس دلا نے کی کو شش کرتا ہوں ۔کے ٹھیک ٹھیک وہ یہ تحریر سمجھ سکیں ۔۔۔

کن مراحل سے گزر کے۔

کچھ کا خیال تھا اسامی سب بتا سکتے ہیں یہ بھی اکسفوروڑ سے کہاں کہاں لے جاتے ہیں یہ بھی کے برگر کتنے کا ہے کافی کتنے کی ۔ایک نے یہ بھی پوچھ لیا کے اس کا دوست ڈمی کہاں ہے ۔ان دنوں یونی مشہور تھا کہ کس کی ڈرسنگ کر کے مشہور ہو جائے گی 

ایک سال پہلے عالیان نے اس کے ساتھ بالکل ٹھیک کیا تھا ۔

کیونکہ ہر ایک کی برداشت ایک حد تک ختم ہوتی ہے جس جس مقام سے یہ گزرا اس اس مقام سے وہ گزرے گی تو جان پائے گی ۔

جیسمین تماری گردن پر کیا ہے وہ چلائی کیا ہے؟؟؟؟؟ 

گردن تو نیلی پڑ گئی لگتا ہے زریلا کیڑا ہے اف یہ تو اتر ہی نہیں رہا لگتا ہے  اس نے ڈنگ اندر ڈالا ہے زہر تماری گردن میں پھیل رہا ہے یہ سن کر جیسمین نے زور سے چلایا

ان کے تاثرات دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی امرحہ کی ہنسی نکل گئی ۔ان سب میں معاہدہ ہوا تھا کارل کے بارے میں کوئی اپنی زبان نہیں کھولے گا ۔

ڈرگ آیا اس کے پاس میری جگہ کھڑی ہو  کیسا لگ رہا ہے 

کاش میری بھی ناک لمبی ہوتی میں بھی اپنے احساسات جان پاتی۔

ہاہاہا جس طرح تم میرے ناک کو گور رہی تھی اسی رات میں نے ناک کی سرجری کا سوچ لیا تھا ۔

پھر سوچنا ترک کیوں کیا اس نے دانت نکالے

اسے چاکلیٹ ٹویئٹ دے کر گپ شپ لگا کر چلا گیا ۔ایک لڑکا پینٹ کوٹ پہنے کالا چشمہ پہنے ڈرم بجاتا یونی داخل ہوا ساتھ اور بھی تین لوگ اور فوٹو گرافر 

امرحہ منہ کھولے دیکھ رہی تھی  کیا وہ اتنا ہی خوبصورت ہے ہمیشہ سے اگر گارڈ اور فوٹو گرافر نہ بھی ہوتے تو بھی ہجوم کو روک لینے کا کمال رکھتا تھا اس کا فیورٹ سپر سٹار اس سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔کیا یہ سچ ہے؟؟ 

سب گردن موڑ موڑ کر دیکھ رہے تھے  فوٹوگرافر فوٹو کے لیے مرے جا رہے تھے ۔

مسٹر جین نے مانچسٹر یونی میں پڑھنے کا فاصلہ کیا  ہے ۔میں اس بات کی تفتیش میں ہوں کے اس کے لاکھوں فینز کو یونی نظامہ روک پائیں گے ۔

مجھے خدشہ ہے وہ ایسا نہیں کر پائیں گے ۔

پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر گردن اٹھا کر یونی کو دیکھنے لگا۔ایسا کرتے اس نے گردن کو ایسا خم دیا امرحہ سانس لینا بھول گئی ۔سارے اپنا کام چھوڑ کر مسٹر جین کو دیکھ رہے تھے ضرور یہ کوئی سٹار ہے  یا شاہی خاندان سے ہے ۔بہت لوگ پاگلوں کی طرح فوٹو ویڈیو بنانے لگے

تا کہ اپنے مقامی اخبارات میں دے سکیں ۔اسی دوران لڑکیوں کا ٹولا ان کا جانب لپکا گارذ نے لڑکیوں کو دور سے ہی روک لیا ۔۔

آنے دیں انہیں اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا 

لڑکیوں نے بےہوش ہونے سے پہلے پہلے آٹوگراف کے لیے اگے ہاتھ بڑھائے۔اور برلڑکے لڑکیاں آنے لگے حلقہ توڑنے کی کوشش کی سب کو خوشی تھی کے کوئی سٹار ان کی یونی میں پڑھے گا ۔۔سب سے بڑی بات کے مسٹر جین نے اتنی کامیابیوں کے بعد بھی پڑھنے کا فاصلہ کیا 

اس کی آواز اتنی اونچی تھی آدھی یونی سن سکتی تھی آرام سے

وہ آیا اور آتے ہی چھا گیا ۔چند منٹ لگے فریشرز اس کے گرد

گھیرا بنا کر کھڑے ہو گئے اور جو ادھر اُدھر تھے وہ بھی اسی کی طرف دیکھنے لگے کہ کون آیا ہے سب کے موبائلوں والے ہاتھ بند تھے اور اس کے کھیرے کے اندر بورڈ بلند ہوا جس کے ایک طرف لکھا تھا 

ویلکم فریشز دی ار یو سینٹرز تھینکس فادری اٹینشن

اور بورڈ کے دوسری طرف لکھا تھا 

یو ار آسم فولز

نیے آنے والے لوگوں کی طرح بورڈ پڑھتے رہ گئے اور پھر ان بلند بانگ قہقہوں کو سننے لگے

جب عالیان سے آٹوگراف لے رہے تھے وہ بھی فوراً اس کے پاس آ گئی اور ایک سادہ پیپر اگے کر دیا اس پر اپنا نام لکھ دوامرحہ نے اس کے سامنے آ کر بہت خوش ہو  کر کہا

وہ اس انسان کے سامنے تھی جو پوری یونی کا مرکز بنا ہوا تھا 

عالیان نے ایسے ہی کاغذ پر  لکیریں کھینچ دی

مجھے تمھارا نام چاہئے لکیریں نہیں اس نے اردو میں کہا 

نا چار اس نے  نام لکھ دیا تو وہ کارڈ بنے کارل کو دھکا دے کر حلقے سے باہر آ گئی ۔

رپورٹنگ کرتی ویرا کے پاس سے  گزری اور خود کو ہجوم سے دور لے گئی اس کا خیال تھا وہ ایک مرکعہ سر کر آئی ہے اس کا نام لکھوا لائی ہے اس سے پہلے اس نے بے نیازی سے اپنے فینز، کو دیکھا تو امرحہ دنگ رہ گئی ۔اس میں کتنی ادائیں ہیں ختم ہوتی نہیں گنتی میں 

جب وہ اس کا نام لکھوا کر لے گی تو عالیان کو لگا وہ اس کا مزاق اڑاوائے. گی۔

اور اب اسے شدت سے لگنے لگا تھا وہ اس  کا کھلونا ہے

دل چاہا کھیل لیا ورنہ توڑ پھوڑ کے پھینک دیا

اس نے نیے آنے والوں کو الو بنایا وہ سب ہنس رہے تھے یہ عالیان کا ظاہر تھا لیکن اندر سے وہ خاموش تھا اور سوچ رہا تھا ایک مزاق تو اس کے ساتھ ہوا جو عملی تھا  اور  اسے ہی بے عمل کر ڈالا۔

#امرحہ_کی_ڈائری_کا_صفحہ

میں نے اسے انکار کر دیا مجھے ایک مسلمان سے شادی کرنے میں دلچسپی نہیں تھی پھر میں نے ہر رات جاب سےواپسی 

پر اس اپنے رستے میں کھڑا پایا۔ہر رات ہر صبع وہ مجھے دیکھتا رہتا اور میں اسکے پاس سے گزر جاتی اتنا مستقل مزاج کے میرے انکار پر بھی وہ میرے رستےپر کھڑا رہتا

میرے ساتھ بس میں سفر کرتا خریداری کے وقت پاس پاس رہتا پھر کتنے مہنوں بعد ایک دن اسے وہاں کھڑے نہیں پایا 

تو میں  نے اپنی انکھوں کی روشنی کم ہوتی محسوس کی

اسکے وہاں کھڑے نہ ہونے سے دنیا میں کچھ کیوں نہیں رہا 

میں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا خدا مجھے بتائے ایسا ہی ہے

میں گھر واپس آ گئی اور رات صدیوں پر میحط ہو گئی 

پلکوں کی جنبش کے سوا میرے وجود نے حرکت نہیں کی۔

مجھے اس سے محبت تو نہیں ہو گئی تھی مگر وہ میرے لیے ضروری ہو گیا تھا اب اگر وہ مجھے صبع شام نظر نہیں آیا تو میری بینائی پر اثر ہو گا اب اگر اسکا سایہ میرے ساتھ نہیں رہ  تومیرا سایہ بے وجود ہو جائے گا اس رات میں نے سوچا اسے ہاں کہنے میں مجھے تامل کیوں ہے 

کیا میں مغرور ہوں یا بہت خوبصورت ہوں یا، اور فرق غالب ہے ۔۔

لیکن دو انسانوں کی پہلی شناخت انسان ہونا ہوتا ہے نا۔

یہ میری قابلیت تھی یا اس شخص کی قوت میں نے ایسا فلسفہ خود کو سیکھا دیا۔محبت دنیا کا سب سے بے اختیار جزبہ ہے اور یہی اس کی بڑی خوبی ہے 

عالیان نے کئ با اسے اپنے رستوں میں دیکھا وہ ایسے ظاہر کرتا جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں وہ جانتا تھا اس شخص اور امرحہ میں ایسی خامیاں اور خوبیاں ہیں پہلے جکڑ لینا پھر جھٹک دینا پہلے ہنسانا پھر رولانا اپنے ساتھ زندہ رکھنا پھر دور کر کے مردہ کر دینا یہ لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں برباد کرنے والے لوگ سراب ہوتے ہیں ان کے پیچھے بھاگو تو پا کر دلدل بن جاتے ہیں اس میں دھنس کر دم توڈ دیا جائے یہی چاہتے ہیں 

تو مارگریٹ اور اس کی زندگی میں آنے والا شخص اور آنے والی لڑکی ایک جیسے تھے 

امرحہ پر ترس کھاؤ عالیان

سائی تمہیں ہر وقت اس کا وکیل بنے رہنے کا بہت شوق ہے 

تم غلطی پر ہو وکیل میں تمارا ہوں خود کو دیکھو عالیان بڈی تم کسی کو دھوکہ دے رہے ہو ۔

دھوکے سے ہی تو نکل آیا ہوں 

یہ سال وہ چلی جائے گی  تو چلی جائے گی 

جب چلی جائے گی تو اتنی آسانی سے کہہ سکو گے؟ 

بالکل

دیکھو وہ ایک مختلف ماحول سے آئی ہے 

مارگریٹ کا شوہر بھی مختلف ماحول سے آیا تھا سب بے حس لوگ ایک ماحول سے آتے ہیں خود غرض

وہ بے حس نہیں ہے 

ٹھیک ہے تو پھر میں ہوں بے حس

تمہیں اس پر اتنا غصہ ہے یاد رکھنا غصہ اپنوں پر ہی ہوتا ہے 

اپنا وہ ہوتا ہے سائی جس کےلئے تمہارے دل میں احساس ہوتا ہے اور امرحہ۔۔ٹھیک ہے سنو امرحہ کیا ہے وہ جانتی تھی میں اس کے لئے کیا جزبات رکھتا ہوں بے وقوف نہیں تھی وہ پھر مجھ سے دور کیوں نہیں ہوئی؟ 

اس نے مجھے روک کر یہ کیوں نہیں کہا کے تم ایک غیر مسلم عورت کے بیٹے ہو تمہارے باپ کی خبر نہیں مجھے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا اگر میری ماما نے میری تربیت نہ کی ہوتی اگر ایک مسلمان حثیت درس نہ لیا ہوتا تو جانتے ہو میرے ساتھ کیا ہوتا میں پاگل ہو جاتا مجھے بےوقوف بنا کر ایسا سلوک کیا گیا ہے میں اس پر بھڑکا نہیں چلایا نہیں اس بتایا نہیں کے وہ کتنی خود غرض ہے ۔میں یہ نہیں بھول سکتا کے وہ سب کچھ جانتے ہوئے میرے ساتھ رہی

جیسے میرا دل توڑنا اس کا مقصد تھا ۔کیا محبت اور دوستی میں فرق نظر نہیں آتا۔۔صاف نظر آتا ہے اگر دوستی ہی تھی تو دوستی کا لحاظ کر کے بے عزتی نہیں کرتی ویرا کے سامنے میری اور میری ماں کی کیسے بےعزتی کی 

احترام وہ ہوتا ہے جو تہنائی میں بھی کیا جائے اور دل دماغ سوچوں میں بھی ۔سائی اگر میری ماں کے ساتھ محبت کرنے والا احترام کا رشتہ بھی رکھتا تو آج میری ماں زندہ ہوتی

امرحہ کو ایک کھلونا چاہئے تھا دوست یونیوسٹی کو سب سے موسٹ وانٹڈMost wanted

ایک اسٹوڈنٹ اس کے ساتھ ہے اس کے آس پاس رہتا ہے بس یہی حثیت تھی اس کے لیے میری وہ آج بھی میرے پاس آتی ہے کہ میں اس کا دوست بن جاؤں جب تک اسے ثبوت نہیں مل گیا اس نے مجھے لامذہب سمجھا مجھے لے کر وہ فام بھرتی رہی اور خانوں میں ٹک مارک کرتی رہی اتنی ہمت تو میری ماں نے بھی نہیں کی  سائی میں کسی بلندی سے زمین بوس ہوا تھا تم سمجھ سکتے ہو کیونکہ تم نے گڈ سینڑ میں  پرورش پائی ہے نہ ہی تمھاری ماں مارگریٹ رہی ہے ۔

سائی کو دکھ ہوا اسے آٹ آل نہیں ہونا چاہیے تھا اسے سن کر وہ کیسے سکون سے سو پایا کرے گا عالیان کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ رو دینے والا تھا 

میں کئ حصوں میں بٹا ہوا ہوں مجھے خود کو سمیت لینے دو فیصلہ کر لینے دو 

فیصلہ  دماغ سے  کرنے جا رہے ہو سائی نے پوچھا 

نہیں تجربات سے اپنی ماں کے

تو تم اس سے محبت کرنا چھوڑ چکے ہو یہ سوال کرتے سائی کا دل بھر آیا۔

میں اس بارے میں سوچنا چھوڑ چکا ہوں ۔

تم اپنی زندگی اور ماں کی زندگی کا موازنہ کر کے غلط کر 

رہے ہو ۔

جب ٹھیک کر رہا تھا تب بھی غلط ہوا تھا 

تمہارے لیے دعا گو ہوں کاش میں تمہیں ایک ڈائری دے سکتا جو میرے لیے اوک ہاوس ایک اسٹوڈنٹ چھوڑ گیا تھا 

اس نے ایک جگہ لکھا کے اب وہ اس چیز کی قدر جان گیا جو اسکے پاس نہیں رہی۔

میرے ہاتھ بھی خالی ہیں کچھ نہیں ہے ان میں

اس نے لکھا کہ  زندگی کی حقیقت میرے سامنے کھل چکی ہے اور یہ کام امرحہ نے کیا 

اور اس نے یہ بھی لکھا 

میں نے اپنے جزبات کو سلاتارہا اسے نہیں بتایا اب وہ سو چکی اور میں خود کو بتاتا پھرتا ہوں

میں اسے بتا چکا، تھا سائی بتا چکا تھا عالیان چلا اٹھا

اور آخری بات اس ڈائری میں یہ 

اور میں نے جان لیا محبت واقع ہونے سے زیادہ قیام پر قائم رہنا ضروری ہے 

سائی عالیان نے اسے شیٹ کے کالر سے پکڑا کیا تم سسکتی مارگریٹ کو بھی یہ مشورہ دیتے مارگریٹ کی ڈائریاں بھی لے جاؤ پھر مشورہ دینا میں دیکھوں گا تم کتنے انسان دوست ثابت ہو سکتے ہو سائی میں دیکھوں گا۔

سائی بالکل چپ ہو گیا اس کے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی ۔

_______________________

موسم پھر سے سرد ہونے لگا تھا اتنا گرم تھا ہی کب کے سرد ہونے میں وقت لگتا ۔چلتے چلتے بارش ہونے لگتی ہے اس پھر چلتے ہی رک بھی جاتی ہے فریشز کے بارے میں آئے دن کچھ نا کچھ سنانے کو ملتا. کاش وہ ان میں سے ہی ہوتی وہ سب نہ ہوتا جو ہو چکا وہ عالیان سے ملتی اور اس بار زیادہ سمجھ داری کا ثبوت دیتی اور پھر اسے سڑک پر اکیلے نہ چلنا پڑتا موسم کے بدلنے پر اسے اداسی نہ ہوتی 

کسی نے فرصت نکال کر اسے بدعا دی تھی کہ وہ اس حال

آچکی تھی۔عالیان اس کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آنے لگا تھا۔ اس میں  تیزی سے تبدیلیاں آرہی تھیں۔ ہر دن وہ پہلے سے زیادہ سخت اور بدلا ہوا لگتا تھا۔

"زندگی کی بدترین صورت جانتے ہو کون سی ہوتی ہے سائ! دو پیاروں میں سے ایک کو چننا۔۔"

"اور دو میں سے ایک کو چھوڑ دینا۔۔"

"ہاں اور اس سے بھی بدترین صورت وہ ہوجاتی ہے جس میں جسےچنا ہو اس کے ساتھ خوش نہ رہ پانا۔۔"

"اپنے بارے میں سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں سائ،کیا شخصیت ہر میری،ساری زندگی روتی رہی،اتنی ہمت نہ کر سکی کہ اپنے ماحول کے خلاف ڈٹ جاتی۔۔ اسے بدل دیتی۔۔ احساس کمتری کا شکار رہی۔ میرے ماضی میں کچھ بھی قابل ذکر نہیں،میں  نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے۔میں کسی کو خوش رکھ سکی نہ خود کو،میری ایک دوست کہتی ہے کہ دوسروں سے پہلے اپنا بننا ضروری ہے۔میں کبھی اپنی نہیں بنی،بس ہر وقت بےچارے بنے رہنا،کیا ہوں میں، کمزور ہوں، جھوٹی، خودغرض، بےحس۔۔کیا ہے میرے ہاتھ میں ۔۔؟"

"تمھارے ہوتھ میں  یہ سوچ ہے کہ تم کیا ہو۔۔ جب انسان خود سے سولات پوچھنے لگتا ہے تو وہ خود کو بلندی کی طرف لے جارہا ہوتا ہے۔"

کیسی بلندی سائ۔۔ میں نے عالیان  کے ساتھ کیا کیا۔۔ ویرا کے سامنے میرے معاشرے کی بےعزتی نہ ہوجاۓ۔میں  نے عالیان  کی کھل کر بےعزتی کردی الفاظ تو وہی ہوتے ہیں نا جن پر احترام کی لگامیں ہوں، ورنہ تو سب ہتک ہے۔ انداز۔۔ آواز سب۔۔ اگر میں عالیان کی جگہ ہوتی تو ساری عمر امرحہ کی شکل نہ دیکھتی۔ میں اس جگہ کو ہی چھوڑ دیتی جہاں امرحہ ہوتی، میرے خاندان میں  بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے میں سالوں نہیں ملی، بات نہيں کی، سلام نہیں کیا، انہیں  دیکھ کر منہ پھیر لیا۔۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جنھوں نے میرا دل دُکھایا تھا،میری تزلیل کی تھی، میری انتہا پسندی دیکھو کہ کالج کی میریی دوست جو میرے بارے میں  سب جانتی تھی ،ایک دن میرے ساتھ چلتے چلتے گر گئ اور مزاقاً کہنے لگیـ"تمھارے ساتھ چل رہی تھی گرنا تو تھا۔"اور پھر اس کے لاکھ منانے پر بھی میں نے اس سے کبھی بات نہیں کی۔ اس کے فادر کی ڈیتھ ہوگئ۔ میں نے اس سے صرف افسوس کیا جبکہ اسے میری اس سے زیادہ ضرورت تھی۔

"مجھے بس یہ یاد رہتا ہے کہ مجھے تکلیف ہوئ۔۔ میں۔۔ میں۔۔ بس عالیان کے کھردرے سخت رویۓ سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اور میں اس تکلیف کو لے کر بیٹھ جاتی ہوں۔ مجھے اپنی کتنی فکر رہتی ہے۔ میرا اور عالیان کا کوئ مقابلہ نہیں، جانتے ہوں، سادھنا کو آریان کے لہے سب سے زیادہ پیسے جمع کرکے وہ دیتا ہے، سادھنا سے زیادہ اسے یاد رہتا ہے کہ آریان کی سرجری کب ہونا ہے۔ وہ بھڑکتا نہیں  ہے چلاتا نہیں ہے۔ وہ کتنا ذہین ہے جتاتا نہیں ہے، اس کے خیالات کس قدر عظیم ہیں۔ وہ سکھاتا ہے۔ اتراتا نہیں ہے۔"

"یہ سب تمھیں اب معلوم ہواہے امرحہ؟" سائ اتنا فسردہ ہوگیا کہ امرحہ جان ہی نہیں سکتی تھی۔

"معلوم تو تھا، قدر نہیں تھی سائ! کہانا مجھے افسوس ہے خود پر مجھ میں کچھ قابل ذکر نہیں ہے۔ مجھے ویرا اچھی نہیں لگتی، مجھے اس کی ضرورت پڑتی ہے تو میں  اس سے کام نکلوالیتی ہوں، اس سے مسکرا کر بات کر لیتی ہوں اور منہ پھیر کر ناپسنديدگی سے اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔ اسے معلوم ہو کہ میں اس کے بارے میں کیسے سوچتی ہو تو اسے بھی دکھ ہو۔۔ وہ مجھ سے ایک ہی سوال پوچھے۔"میں نے تمھارے ساتھ ایساکیا بُرا کیا ہے؟"

میں سب کے ساتھ بُرا کرتی ہوں اور بیچاری بھی خود ہی بن جاتی ہوں۔ یہ منافقت اور سنگدلی ہے۔"

"تم ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہو۔۔ لیکن امرحہ ! انسان جب اپنا احتساب کرتا ہے تو وہ وقت بہت خاص ہوتا ہے۔"

Pg#254

"تم پاکستان کیوں نہیں جاتی اپنے گھر والوں سے ملو، انہیں نئے ماحول کی اچھی اچھی باتیں بتاؤ، لوگوں سے جب تک ملا نہ جاۓ وہ برے اور عجیب ہی لگتے ہیں۔۔ تم ذہنی طور پر اچھا محسوس کروگی۔"

"کیا واقعی۔؟" 

ہاں، یونی میں ایک لڑکی جب جب میرے قریب سے گزرتی، اسے دیکھ کر مجھے لگتا کہ یہ مجھے پسند نہیں کرتی۔ ایک لمبا عرصہ ایسے ہی چلتا رہا، پھر ایک دن ایک اسٹوڈینٹ نے مجھے اس کی طرف سے ایک رقعہ دیا جس پر لکہا تھا۔" تم مجھے پسند نہیں کرتے۔۔ پر کیوں۔۔؟"

"فاصلے ابہام پیدا کرتے ہیں اور ابہام شیطان کا پہلا ہتھیار ہے کیوں کے یہ ہر مثبت جزبے اور سوچ پر حملہ آور ہو کر اسے چت کر ڈالتا ہے۔"

"تم ٹھیک کھ رہے ہو سائ! لیکن عالیان کیوں اس ابہام کے زیرِاثر آرہا ہے۔"

"تم جانتی ہو امرحہ! میں کسی کی بتائ کوئ بات نہیں  کر سکتا۔۔"

"ٹھیک ہے لیکن مجھے کوئ مشورہ دو۔۔"

سائ اسے دیکھ کر رہ گیا وہ اسے ایسا کیا مشورہ دےسکتا تھا جو سب ٹھیک کرسکتا۔۔ اس کے پاس بلاشبہ ایسے لفظ تھے نہ جادو۔۔

"بہت دیر نہیں ہونی چاہیے کہ انتیظار پر فرمان غالب آجاۓ۔۔ اور فراق کو رخصت ہونے کی اجازت  نہ ملے۔"

سائ ہولے سے بڑبڑایا اتنا کہ امرحہ نے سن لیا۔ اسے یاد آرہا تھا یہ جملہ اس نے کہیں پڑھا تھا۔ کہاں۔۔ ہاں اوک ہاوس سے ملنے والی ڈائری میں۔۔ اس جملے کو استعمال میں لاۓ جانا امرحہ کو نحس لگا۔

ویرا اسے کافی کے لیے کیفے لے آئ تھی۔ وہ ہر بار اسے انکار نہیں کرسکتا تھا کیونک اسے احساس تھا کہ انکار کتنا بھی ٹھیک ہو تکلیف دہ ہوتا ہے۔

کافی پینے کے بعد انہوں نے پُل پر چہل قدمی شروع کردی، شام رات کے ساتھ جا ملنے والی تھی، بارش پھوار کی صورت برس رہی تھی اور ویرا ننّھے بچوں کی طرح سر اٹھا اٹھا کر آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ ساتھ اسے روس کے کھانوں کے بارے میں بتارہی تھی۔

"کرسمس کی چھوٹیوں میں تو روس چلوگے نا؟"

"نہیں ویرا میں ماما کے ساتھ جانا چاہتا ہوں، ہم گرم علاقوں کی طرف سفر کریں گے۔"

ٹھیک ہے۔ لیکن کیا وہ روس نہیں آسکتیں؟"

"بہت زیادہ ٹھنڈ ان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔"

"پھر ڈگری کے بعد۔۔؟"

"ابھی تو بہت وقت ہے۔"

"تم بہت وقت پہلے ہی مجھے ہاں کھ دو نا۔۔۔"

وہ خاموش ویرا کے بالوں پر گرنے والی پھوار دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں اور تھا۔

"میں لاہور آنا چاہتا ہوں۔"

"کیوں؟"

"کیوں نہ آؤں؟"

"تم نے تو کہا تھا کہ ابھی تم ایشیا کے سفر کا ارادہ نہیں رکھتے۔"

"میں ایشیا کے سفر کا ارادہ اب بھی نہیں رکھتا۔ میں لاہور کی بات کر رہا ہوں۔" 

"لاہور ایشیا میں ہی ہے۔"

"لاہور ایشیا میں نہیں، میری ٹاپ لسٹ میں ہے جہاں پہلی فلائٹ سے جایا جاۓ۔"

"اچھا۔۔ دیکھ لو ویسے لاہور میں مچھر بھی ہوتے ہیں۔"

"تم مجھے مچھروں سے ڈرا رہی ہو۔۔ ہاں تم یہی کر رہی ہو۔"

"بلکل نہیں  صرف خبردار کر رہی ہوں۔۔ تم نے ڈیئگی کا نام سنا ہے اس کے کانٹتے ہی انسان فوراً سے پہلے مرجاتا ہے۔۔ بلکل جھٹ پٹ"

"تو لاہور میں ایسا فوری مار دینے والا ڈینگی ہے ورنہ دو تین گھنٹے تو دنیا کا ہر ڈینگی مچھر دے دیتا ہے مرنے کے لیے۔۔"

ہمارے پاس وی آئی پی ڈینگی ہے۔ اپنے رسک پر لاہور آنا مجھ سے شکایت نہ کرنا۔"

کیا وہ لاہور والوں کو نہیں کاٹتا۔۔؟؟

نہیں یہی تو اسکی خصوصیت ہے وہ غیر ملکی پر حملہ آور ہوتا ہے۔

"جب میں لاہور جاؤں گا تو کیا میں بھی غیر ملکی ہوں گا اس کے لیے۔"

"ڈینگی کے لیے۔۔؟"

"نہیں لاہور کے لیے۔۔'

"روس کی برف کو جانتے ہونا، پھر نہ کہنا بتایا نہیں۔۔"

"ہاں'اس کے کاٹنے سے انسان مر جاتا ہے۔"

"ہاہاہا، برف کاٹتی نہیں عالیان۔۔۔!"

ہلکی سی جھرجھری کا شکار ہوا۔ وہ ویرا تھی اور ہنستی جا رہی تھی۔

میں نے تو ولید کو اتنا لمبا عرصہ سنا بھی نہیں تھا، مٹھی سے ریت کی طرح پھسل جانے والے زندگی کے، صرف چند سال ہی اور ان چند سالوں میں ہی اس نے مجھے اپنے سوائے سب کے لیے بہرہ کر دیا اور دوسروں کے لیے گونگی تو میں تب ہی ہو گئی تھی جب میں اس سے ہمکلام ہونا شروع ہوئی تھی۔ یہ وہ ابتدا تھی جو اس کے جانے کے بعد انتہا کو پہنچی۔

میں عالیان کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں اتنی غلطیاں کر چکی ہوں اور نہ کروں، اور میں پھر غلطی کر جاتی ہوں، میں ولید کے لیے آنسو بہانے لگتی ہوں۔ میں یہ غلطی اپنی ہر سانس کے ساتھ کرتی ہوں اگر دنیا میں مجھے کسی کو نصیحت کرنے کا موقع دیا جائے تو میں نصیحت کروں گی کہ"خود کو ختم کردینے کے ہزاروں طریقوں میں سے"محبت" کو سب سے آخر پر بھی نہ رکھیں۔۔۔زندہ درگور ہونے کے لیے کسی اور جذبے کا انتخاب کریں۔

مجھے اس ایک کمرے کے گھر میں ہر وقت چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ میں پیدائشی اندھی ہوجاتی لیکن ایسی اندھی نہ ہوتی کہ مجھے میرا بیٹا نظر نہ آئے، لیکن اسے دھتکار دینے والا شخص ہر جگہ نظرآئے ۔۔۔تو کیا مجھے ایسی بے اختیاری پر کوڑے نہیں برسانے چاہییں۔۔

عالیان نے اپنی ہتھیلی میں بارش کی پھوار سمیٹی۔

"ٹھیک ہے ہم ضرور چلیں گے ویرا!" اپنی بے اختیاری کو اس نے بھی معاف نہ کیا۔

چند دنوں بعد وہ رات کو شٹل کاک آیا اور ماما مہر کی گود میں سر رکھ کر لیٹا  رہا۔ وہ چھت کو دیکھ رہا تھا پھر دیوار پر ٹنگی تصویر دیکھنے لگا پھر اس کی نظریں کھڑکی سے باہر بھٹکنے لگیں۔

کیا تلاش کر ہو۔۔؟

" آپ کو کچھ بنا کر کھلاؤں ؟" سائی ٹھیک کہتا ہے وہ بات بدلنے میں ماہر ہو چکا ہے۔

" رات کے اس وقت۔؟"

"کیا وقت ہوا ہے؟"

"تمہیں آئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے اور تم ایسے خاموش ہو کہ مجھے لگ رہا ہے تم نے کئی دنوں سے کسی سے بات بھی نہیں کی این بتا رہی تھی کہ یونی میں بھی تم ایسے ہی رہتے ہو، منہ کھولو اور مجھے اپنی زبان دکھاؤ ، اس میں ضرور کوئی مسلہ ہوگا۔

اس نے فرمابرداری سے منہ کھول کر زبان دکھا دی۔

"اب کھڑکی کے پاس جاؤ زور سے چلاؤ مجھے معلوم ہو کہ تم میں کتنی قوت باقی ہے۔"

وہ کھڑکی کے پاس آیا۔۔۔باہر امرحہ کھڑی اسی کھڑکی کو دیکھ رہی تھی بظاہر اس کے ہاتھ میں فون تھا اور وہ ٹھنڈ میں ٹہل رہی تھی۔

چلانہ پڑتا۔۔ آجاؤ 

وہ واپس آکر بیٹھ گیا۔۔این کو آپ نے میری جاسوسی کے لیے لگا رکھا ہے۔۔"؟

(Note ! Aik Khas Members Ki Requst Pr Ye Post Kiya)

اسے چھوڑو" یہ بتاؤ اتنے مشینی مشینی کیوں ہو رہے ہو؟" تم میں جو خاصی نرمی کا عنصر ہوا کرتا ہے وہ کہاں ہے؟ 

کیا میرا رویہ برا ہے ماما

برا نہیں عجیب ہے ۔سہارا دینے والا یا یونی میں کسی لڑکی نے تمہیں پرپوز کر دیا ہے تم نے انکار کر کے اس کا دل توڑا ہے اور تم اس کے لیے احساس ہو رہے ہو ۔

نہیں اس نے ہنسنے کی کوشش کی 

تو کیا تم نے کسی کو پرپوز، کیا اس نے انکار کر دیا تو تم نے ان آٹھ دس لڑکیوں سے بدلے لے لیے ہیں ۔

کرسمس کی چھوٹیوں میں  میرے ساتھ  چلے گی  ماما

مجھے کہاں سنبھالتے پھرو گے 

کارل تم ویرا امرحہ سب مل کر جانا

آپ ہر بار انکار کر دیتی ہیں 

میں انکار نہیں کرتی تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی کیا تم مجھے سویڈن لے کر جانا چاہتے ہو؟ 

ہرگز نہیں مجھے سوئیڈن نہیں پسند 

تم کتنا بدل رہے ہو عالیان جب تم واپس آئے تھے تو تم نے کیا کہا تھا ۔

وہ بیان غیر حقیقی تھا حقیقت یہ ہے کہ مجھے نہیں پسند 

تمہیں تو جلدی شادی کر لینی چاہیے اس سے پہلے کے سب 

غیر ضروری لگنے لگے۔

میں ایک نارمل انسان ہوں ماما فکر نہیں کریں 

تمہیں امرحہ کیسی لگتی ہے؟ 

آپ کو ویرا کیسی لگتی ہے؟ اس نے فورا کہا  ویرا؟؟؟؟؟ 

جی وہ ایک سمجھ دار لڑکی ہے سب سے بڑی بات عزت کرنا جانتی ہے ۔اسکی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات کو سمجھتی ہے میں نے اسے بے غرض اور پرخلوص پایا وہ ہر ایک کی مدد کو تیار ریتی ہے وہ حسد رشک سے پاک ہے اس کی بہت ساری خوبیاں ہیں ماما۔

تم نے ایک دم ویرا کی ایسے بات کی جیسے اس کی وکالت کر رہے ہو۔لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا یہ وکالت تم نے میرے لیے کی یا خود کے لیے ۔

آخری بات سے عالیان کے چہرے کے سب رنگ نچوڑ لیے۔

دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو مجھے نا پسند ہو۔

میں کسی نہ کسی طرح قابل نفرت لوگوں سے  بھی محبت کا رستہ نکال لیتی ہوں ۔

میں کسی سے نفرت نہیں کرتا ماما سوائے ایک کے ۔۔

ہم کتنوں سے محبت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں اس سے اہم ہے کے ہم کتنوں سے نفرت کر چکے ہیں محبت کورا ہو نہ ہو  نفرت کورا ہوتی ہے 

میں اس شخص سے محبت نہیں کر سکتا میں مارگریٹ نہیں بن سکتا 

میں صرف اس کی بات نہیں کر رہی انہوں نے بہت سنجیدگی سے دیکھا 

پھر مجھے نہیں پتہ آپ کس کی بات کر رہی ہیں 

مجھے ڈر تھا عالیان کے تم ایک دن مارگریٹ کو لے کر بہت سوچا کرو گے 

ماما کے بارے میں سوچنا برا ہے کیا .؟؟

مارگریٹ کے بارے میں سوچنا نہیں جو اس کے  ساتھ ہوا اس کے بارے میں سوچنا تم میری اولاد ہو میں تمہاری آنکھ کی پتلی کی حرکت بھی پہچانتی ہوں 

ان آنکھوں کی چمک کہاں گم کر آئے ہو یہ پوچھا ہی نہیں میں نے ابھی بھی نہیں پوچھوں گی۔بس یہی کہوں گی  پرسکون رہو جلد باز میت بنو خود کو وقت دو

میں جلد باز تو نہیں ماما۔۔

ہاں میں ہوں،لیکن بعض معاملات میں ہم ہوجاتے ہیں اور ہمیں خود کو پتہ نہيں چلتا۔"وہ خاموش ہوگیا۔ ایک جملہ اس کے ذہن میں بجنے لگا۔

پہلے اس نے مجھے یہ بتایا کہ میں  اس کے لیے کس قدر ضروری ہوں پھر اس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ میں کتنی غیر ضروری تھی۔

---------------------

دادا کا اجاڑ پلاٹ بک گیا تھا۔ اور انہوں نے لیڈی مہر سے قرض لی رقم واپس کرنے کے لیے اسے دی تھی اور کچھ مزید رقم کہ وہ دائم کو دے سکے۔ "

دائم کو پیسے میں دوں گی۔"

"اب جب پیسے ہیں تو اسے دےدو امرحہ! تم صرف دل لگا کر پڑھو، بےشک جاب چھوڑ دو۔۔"

"نہیں دادا ! جوکام میں نے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ہیں خود ہی کروں گی۔۔"

"تمھارا آخری سال ہے میرا مشورہ ہے کہ تم جاب چھوڑ کر پڑھو، تمھیں اب اخراجات کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے سب پیسے تمھارے اور دانیہ کے لیے رکھے ہیں۔"

"سب دانیہ کے لیے رکھ دیں مجھے کچھ نہیں چاہیے۔"

"تو اب تمھیں کیا چاہیے امرحہ۔۔ تمھیں باہر آنا تھا تم آگئیں اب سے پہلے تک تم بہت خوش خوش مجھ سے بہت ساری باتیں کیا کرتی تھیں،پچھلے دنوں تم اس لیے اداس رہی کہ تمھارے بہت سے یونی فیلوز چلے گئے، اب نئی وجہ کون سی ہے مجھے بتاؤ، تمھارا آخری سال ہے یونی میں۔۔ دل لگا کر صرف پڑھو۔"

"یاد ہے مجھے،یہ میرا آخری سال ہے۔ لگتا ہے دادا زندگی کا ہی آخری سال ہے۔"

"اب ایسی باتیں کرنے لگی ہو۔۔؟"

"معلوم نہیں دادا !لیکن اس سے آگے مجھے زندگی نظر نہیں آئی۔ سب ختم ہوا سا لگتا ہے۔"

"تم مجھے اپنی طرف سے مزید فکرمند کر رہی ہو امرحہ۔۔!"

"دادا ! کبھی میں خوش ہوتی ہوں تو فوراً غم زدہ ہوجاتی ہوں، زندگی اچھی لگتی ہے تو فوراً بری بھی لگنے لگتی ہے، بھاگتے بھاگتے پھر نہ چلنے کی ہمت رہتی ہے نہ چاہ۔ میری ایک کلاس فیلو کہتی ہے کہ ایسی کیفیت خطرناک ہوتی ہیں آپ کسی کنارے کھڑے ہوتے ہیں،اس طرف آتے ہیں نہ اُس طرف جاتے ہیں۔"

"تمھیں کس طرف جانا ہے ہو بتاؤ امرحہ۔؟" دادا کی آواز کھردری ہوگئ۔

"حسب نسب نہیں ہے میرے پاس کیسے بتاؤ۔"سر پر لٹکتی تلوار کو اس نے گر جانے دیا، دونوں کے درمیان سکوت رہا اگلی بات کرنے میں  دادا نے کافی وقت لیا۔

"کون ہے وہ؟"ان کے انداز میں حوصلہ افزائی ناپید تھی۔

"دوست۔"

"خرابی دوست سے ہی شروع ہوتی ہےـ" اگلی بات کرنے میں دادا نے پھر وقت لیا۔

"تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے۔"

"مجھ سے یہ نہ پوچھیں، جو میں آسانی سے بتا رہی ہوں، وہ میرے لیۓ اتنا آسان نہیں رہا۔"

"میری سماعت پر یہ جتنا گراں گزرا ہے تمھاری زبان پر نہیں گزرا ہوگا۔ تم پاکستان آؤگی تو یہ باتیں ہوں گی۔" 

وہ تلخی سے ہنسی۔"دادا ! آپ چاہتے ہیں کہ میں بس پاکستان آجاؤ۔ آپ کی احتیاظ اچھی ہے کہ اس طرح دور بیٹھے باتیں کرنے سے بات بڑھ جاۓگی۔ میں آپ کے ہاتھوں سے نکل جاؤں گی، میں جو یہاں اتنی دور اکیلی ہوں۔ کچھ بھی کر سکتی ہوں اور اگر یہیں کی یہیں رہ گئ تو آپ کیا کرلیں گے۔"

دادا نے کوئ جواب نہیں  دیا۔

"میں نے اتنی بڑی بات کھ دی اور آپ خاموش ہیں۔"

"تم بھی خاموش رہو امرحہ میں جان گیا ہوں کہ اس میں ضرور ایسی کوئ خرابی ہے کہ اس کے بارے میں  بات کرتے تمھارا انداز ایسا ہے۔"

"وہ ایک عیسائی عورت کا بیٹا ہے اور میں  اس کے بارے میں نہیں جانتی وہ ایک اچھا انسان اور ایک اچھا مسلمان ہے بلکہ۔۔۔"

"امرحہ میں پاکستان میں تمھارا انتیظار کر رہا ہو۔ تمھیں پاکستان آنا ہےـ"

اور دادا نے بھی وہی اندار اپنا لیا جس کی وہ توقع کر رہی تھی۔وہ خاموش ہوئ اس نے محسوس کیا کہ وہ کئ گھنٹے بت بنے تو رہ سکتی ہے۔ لیکن دادا کے اس انداز کے بعد بولنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ وہ دادا کو بتانا چاہتی تھی،کہ اس نے کسی کی پلکوں سے افشاں چن لی ہے وہ جو چار قدم اس سے دور جاتی تھی اور دو قدم اس کی طرف بڑھاتی پھر پلٹ جاتی تھی وہ ان عین اسکے سامنے جا کھڑی ہوئ ہے اور وہ دادا کو یہ بھی بتانا چاہتی تھی کہ ان کا اس پر اور خود اس کاخود پر اختیار نہیں رہا اور یہ بھی کہ اب اگر وہ پلٹی تو پھتر کی بن جاۓ گی، نہ وہ ان کے کام کی رہے گی نہ اپنے۔۔ اس نے اتنا سب جان لیا ہے تو ہی دادا سے بات کی ہے نا۔۔

"امرحہ میں پاکستان میں تمھارا انتیظار کر رہا ہوںـ"دادا کو پھر سے کہنا پڑا۔

اسے دادا کے انداز پر غصہ آگیا،دکھ بھی ہوا اس کا دل کیا جواب دیے بیغر لاگ آف ہوجاۓ لیکن وہ بھڑک کر خود کو یہ کہنے سے روک نہيں سکی۔

"آپ چاہتے ہیں میں خود پر زندگی حرام کرلوں اس دروازے پر دستک دوں جو صرف مرنے والوں کے لیے کھلتا ہے۔"

"مرنے کی بات کر رہی ہو امرحہ ۔۔! پھر یہ بھی یاد رکھنا بوڑھوں پر مات بنا کسی تردّد کے جلد مہربان ہوتی ہے۔"

امرحہ جہاں کی تہاں رہ گئ۔ 

دادا چلے گئے۔  

"کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو۔؟"سادھنا نے کمرے کے آگے سے گزرتے اسے دیکھا پو اندر آگئ۔ 

"زندگی میں کون سا مقام ایسا ہوتا ہے سادھنا کہ لگنے لگتا ہے کہ بس اب زندہ رہنےکا کوئ فائدہ نہیں ہے۔؟" 

"جب ہم کچھ ایسا کر گزرے جو ہمیں نہیں  کرنا چاہیے۔" سادھنا کچھ کچھ سمجھ رہی تھی۔

"ایسا کیا ؟"

"میں دوسروں کے بارے میں کچھ کھ نہیں سکتی لیکن میں  نےاپنے بارے میں ایسا محسوس کیا تھا، آریان کے پاپا سے پسند کی شادی کی تھی۔ ہم دو مختلف ذاتوں سے تھے۔ میرے گھر والے نہیں مان رہے تھے، پھر ہم نے خود شادی کرلی، اور پھر جب ہمیں آریان کی بیماری کے بارے میں معلوم ہوا، مجھے لگا میرے ماتا پتا کی بددعا لگی ہے۔ میں ان سے پہلے ہی معافی مانگ چکی تھی، وہ مجھے معاف کرچکے تھے لیکن میری ماں نے ایک بات کہی تھی، وہ بولیں "تم نے

 تو اپنی خوشی جی لی اور اب ہمیں اپنا دکھ مرن سمے تک کاٹنا ہے۔ ہم تمھارے دشمن نہیں تھے بس سماج میں  سر اٹھا کر چلنا تھا۔تم نے ہمارا سر ہی کاٹ ڈالا۔دھن دولت قسمت سے،مان سمان سماج سے۔"

غلطوہ نہیں تھے،غلط میں  بھی نہيں تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے امرحہ ماں باپ اور اولاد اگر آمنے سامنے ہوں اور دونوں ہی غلط ہوں،اور دونوں ہی ٹھیک۔۔ تو بھگوان ان دو میں سے ماں باپ کا ساتھ دیتا ہے،کیونک جو مان سمان ان کا ہوتا ہے وہ ہمارا نہیں ہوتا۔۔ اس وقت میں نے سوچا تھا۔ میرے پاس رمیش نہ ہوتا ، آریان بھی نہ ہوتا۔ میرے ماتا پتا کے پاس ان کا مان سمان ہوتا۔"

امرحہ جہاں کی تہاں رہ گئ۔

اگلے دنوں دادا نے اس سے بات چیت ہی بند کردی۔ وہ کتنی ہی فون کالزکرتی وہ فون نہ اٹھاتے، لاگ نہ ہوتے،یہ ان کی ناراضگی کا عملی ثبوت تھا،

صرف ابھی بات کرنے پر امرحہ کو اس صورت حال کا سامنا تھا۔ اس نے فیصلہ سنا دیا تو وہ جان دے کر ثبوت دیں گے کہ دیکھو دو ضدیوں میں سے بڈھے ضدی کی جیت ہوئ۔

دانیہ نے اس سے بات کی۔

"کیا اہا ہے دادا سے تم نے ایسا۔۔۔ وہ تو کسی سے بات ہی نہیں  کر رہے۔"

"میں نے ان سے پیسے لینے سے انکار کیا تھا۔"

"اب وہاں جا کر تم اتنی بڑی ہو گئ ہو امرحہ !کہ دادا کو انکار کرنے لگی ہو، تمھاری تو جان ہے دادا میں  ہیں نا؟"

دانیہ طنز کر رہی تھی، یہ بات اسے تھپڑکی طرح لگی۔ وہ علان کیا کرتی تھی کہ دادا اس کی جان ہیں تو اب۔۔ اس جان کا خیال کیوں نہیں رہا اسے۔ وہ اسے جزباتی بلیک میل نہیں  کر رہے تھے،بس پرانے وقتوں کے آدمی تھے تو بس اتنی بڑی بات سنبھال نہیں سکے۔

عیسائی ماں۔۔ لاپتا باپ۔۔ گھر نہ خاندان، نام نہ نشان۔۔

وہ ان پیغامات کو کس دل سے عالیان کو دیتی جو کئ راتوں سے وہ لکھ رہی تھی وہ دادا کی جان پر رحم کرتی تو اپنی جان کا کیا کرتی۔ دادا سے بات کرنے سے پہلے ہی تو اس نے ان پیغامات کو عالیان کو دینے کی کوشش کی تھی اور اچھا ہی ہوا اس نے انہیں نہیں لیا۔

---------------------

"یہ تمھارے لیے چند پیغامات میں نے بہت جرات سے لکھے ہیں پلیز انہیں پڑھ لو۔"

"انہیں بھی سیف روم میں جا کر لگادوـ"

"دنیا دکھاوے کے لیے نہیں ہیں یہ عالیان۔!"

"ان میں جو لکھا ہے وہ میں ہارٹ راک میں  سن چکا ہوں۔"

"ان میں جو لکھا گیا ہے ،وہ سنا گیا ہے نہ کہا۔۔"

"امرحہ ۔! اب تمھیں جو کہنا ہے وہ سننے کے لیے میں خود کو موجود نہیں پاتا۔ "

"تم کس قدر ضدی ہو عالیان ۔"

"ہاں، میں بہت ضدی ہوں۔"

"تم نے کہا تھا،تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

"کرتا تھا اور بکواس کر رہا تھا۔"

"جھوٹ بول رہے ہو نا تم۔ جھوٹ۔ ایسی ہی بات تھی تو سائ کے منہ سے پال کے حملہ کا سن کر تم اپ سیٹ کیوں ہوگۓ تھے۔ پال مجھ پر دوبارہ حملہ نہ کردے تم اسٹور سے گھر تک مجھے چھوڑنے کیوں آتے رہے تھے۔ رافیل کو تم نے جھیل میں  دھکا دے دیا کیونکہ وہ بار بار مجھے تنگ کر رہا تھا کارل کو تم نے فائر کر کے گرا دیا تاکہ میں ریس جیت لوں۔ اتنے سارے سچ ہیں اور تم جھوٹ بول رہے ہو۔"

" تم خوش فہمی میں مبتلا ہو امرحہ! کارل پر فائر کرنے کے لیے مجھے ویرا نے کیا تھا،وہ جانتی تھی کہ اگر تم ہار گئیں تو دبارہ کبھی کسی سے مقابلہ نہیں  کر سکوگی۔۔ وہ ہرحال میں  تمھیں جیتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔ کارل کے ساتھ کوئ بھی یہ کرنے کو تیار نہیں تھا تو میں نے کردیا صرف ویرا کے لیے۔"

"صرف ویرا کے لیے ۔" امرحہ کے کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔

"تم نے کبھی یہ غور ہی نہیں کیا کہ دوسرے تمھارے لیے کیا کچھ کرتے ہیں، انہیں تمھاری کتنی فکر۔ تمھیں صرف اپنی نادانی کی فکر ہے۔ پال نے تم پر حملہ کیا۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا، تمھاری جگہ کوئ بھی ہوتا مجھے دکھ ہوتا۔ کارل نے خاص جا کر پال کو سمجھایا۔ یعنی اسے بھی دکھ ہوا۔ ایسا ہونا نارمل ہے اور جے پیٹرسن کے کہنے پر ہم تین لوگ تمھیں گھر تک چھوڑتے رہے تاکہ پال دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔ خود جے پیٹرسن کتنی ہی راتیں یہ ڈیوٹی دیتا رہا۔ میری ڈیوٹی تھی امرحہ۔! اور رافیل کو صرف اس لیے دھکا دیا کیونکہ وہ پرانک کا ماسٹرمائنڈ تھا۔ اس نے ماما کو اداس کر دیا تھا۔"

"یہ سب جھوٹ ہے عالیان۔۔ یہ سب تم خود کرنا چاہتے تھے۔ خود۔

"جو میں خود کرنا چاہتا ہوں وہ صرف اتنا ہے کہ میں تم سے دور رہنا چاہتا ہوں۔"

"جن سے ایک بار محبت کی جاتی ہے ،ان سے نفرت کرنےکاگناہ نہیں کرنا چاہیے ۔"

"جن سے ایک بار دھتکار ملے ان کے پاس واپس پلٹ کر جانے کا جرم نہیں کرنا چاہیے، میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی پریڈ میں تمھارے پیچھے آنا تھا۔ میں تمھارا کھولونا نہیں ہوں امرحہ۔۔!"

"تمھیں کیا پتا میں کس کس کا کھلونا ہوں۔"وہ سوچ کر رہ گئ کھ نہ سکی۔

"یونیورسٹی بھری پڑی ہے جا کر کسی کو بھی دوست بنا لو۔" اس کا انداز کبھی بھی اہیسا نہیں تھا جیسا اب ہو چکا تھا۔

امرحہ اس کی طرف دیکھتی رہ گئ۔۔ "دوست"ہاں وہ دوست۔۔ دوستی ہی تو کر رہی تھی تب بھی۔۔ اب بھی۔

"ٹھیک ہے وہ دادا سے بات کرےگئ ۔" اس نے اپنی اور اس کی آخری ملاقات میں سوچا تھا۔ وہ بات کر چکی تھی اور دادا کے ایسے ناراض ہونے پر سوچ رہی تھی کہ ابھی وقت اس کے ہاتھ میں ہے۔

"وقت اس کے ہاتھ میں تھا۔" یہ اس کا اپنا خیال تھا کیونکہ " برننگ مین" جانے کے لیے تیار ہوچکا تھا۔ وہ پورا کا پورا جل جاۓ گا آگ کی لپیٹیں اس اے اٹھیں گی اور وہ دیکھتی رہ جاۓ گی۔

"بلیک روک ڈیزرٹ" میں ہونے والے برننگ مین طرز کا فیسٹیول ایک دوسری کمپنی مانسچڑ شھر سے ذرا دور کروارہی تھی۔ یہ فیسٹیول ایک رات پر مشتمل تھا جو بہت بڑے میدان میں ہورہا تھا۔ وہ جاب سے گھر جا رہی تھی کہ این اسے لینے آئ۔ ویرا اس سے پہلے ہی جانے کا کھ چکی تھی لیکن وہ نہیں گئ، وہ اپنے آپ میں اتنی گم صم سی ہوگئ تھی کہ نہ کسی سے بات کرنے کو جی چاہتا تھا نہ ہی ملنے کو۔

"چلو وہاں ساری یونی اکھٹی ہوئ ہوگی۔ مرے جا رہے تھے سب وہاں جانے کے لیے۔"

"عالیان بھی ہوگا وہاں۔؟"اس نے پوچھا۔

"ہونا تو ضرور چاہیے۔"

عالیان بھی وہاں ہوگا وہ سوچ کر این کے ساتھ آہی گئ۔ ایک سو بیس فٹ اونچا برننگ مین میدان کے عین درمیان میں ایستادہ تھا۔ آس پاس آگ کے کئ کرتب ہو رہے تھے ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ کوئ منہ سے نکال رہا تھا، کوئ ہاتھ میں لے کر اچھال رہا تھا، کوئ کمر کے گرد گھوما رہا تھا، کہیں آگ کی سائیکل چلائ جا رہی تھی،آگ سے جلتی تنی رسّی پر چلا جا رہا تھا اور کہیں آگ سے جلتے دائروں میں قلا?

"بلکل جیسے تمہاری سائیکل چلتی ہے۔"

امرحہ کی نظر کارل پر گئی جو منہ سے آگ نکال رہا تھا " آگ ،اگ کو آگ لگا رہا ہے۔۔۔خدا کرے آگ ہی لگ جائے۔۔" 

این کارل کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔۔ کارل کافی کرتب دکھا رہا تھا آگ سے۔۔۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے دیکھ رہی تھی۔ سائی بھی اسے وہی مل گیا۔

" تم نے تو کہا تھا تم نہیں اوگی" سائی کچھ خوش نہیں ہوا تھا اس کے وہاں آنے سے۔

بس این لے آئی ۔۔۔ عالیان کو دیکھا ہے تم نے۔۔۔۔ آیا ہے وہ؟

" ایا تو ہے اب وہ پتا نہیں کس طرف ہے۔۔۔تم نے وہ ڈھانچہ دیکھا ہے جس پرسب اپنی زندگی کے پچھتاوے لکھ رہے ہیں۔۔۔پھر وہ ڈھانچہ بھی جلایا جائے گا۔۔۔ آؤ وہاں چل کر لکھیں۔۔۔"

وہ سائی کے ساتھ آگئ ۔۔ ایک روتے بسورتے آدمی کا ڈھانچہ تھا صرف سر جو میدان میں پڑا تھا اتنا بڑا تھا کہ کوئی سو افراد اس پر بیک اپنے پچھتاوے لکھ رہے تھے۔

" میں تا عمر پچھتاؤں گی کہ میں نے تمہارا دل دکھایا، میں تمہارے لیے تکلیف کا باعث بنی  عالیان۔۔'

سائی کو وہیں چھوڑ کر وہ عالیان کو ڈھونڈنے لگی  وہ تو اسے نظر نہ آیا  ویرا اسے پشت سے نظر آگئی ۔ وہ کسی کے کان بات کر رہی تھی اور جب وہ زرا پیچھے  ہوئی تو امرحہ کو معلوم ہوا وہ کان عالیان کا تھا۔

دونوں نے سیدھے کھڑے ہو کر منہ سے آگ نکالی ایک ساتھ پھر انکے دو کلاس فیلوز نے نکالی جو کافی دور تک گئی ۔ شاید ان دونوں کے گروپس میں شرط لگی تھی۔

مجمعے میں کھڑی امرحہ اکیلی ہوگئی ۔

جب وہ منہ سے آگ نکالنے سے فارغ ہوچکے تو ویرا نے عالیان کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا اور ہاتھ میں فائر پوئی (fire poi) تھام لی اور اسے اپنے ساتھ تیزی سے گھمانے لگی ۔ آگ کی لہریں اسکے جسم کے ساتھ گول دائروں میں مختلف اشکال میں کئی رنگوں میں بنتی چلی گئیں۔۔وہ اسے کمر کے پیچھے لے گئی، سر سے  اوپر، دونوں پیروں کے نیچے سے پھر سر کے اوپر۔۔۔

فائر پوئی اسکے وجود کے ہم آہنگ ہوگئی وہ اتنی تیزی اور کمالیت سے اس کے نے نئے کرتب  دکھا رہی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ ساری عمر صرف اسی کھیل کو کھیلتی رہی ہے اس نے صرف اسی کی مشق کی ہے۔

اگر وہاں اس کے سامنے عالیان موجود نہ ہوتا تو امرحہ ضرور دادو تحسین سے اسکی طرف دیکھتی ۔۔

لیکن اب جتنی آگ ویرا کے ہاتھ میں تھی اس سے کہیں زیادہ امرحہ کی نظر میں تھی ۔۔۔امرحہ کا دم گھٹ رہا تھا اسکی سبھی حسیں انگشت بدنداں تھیں۔

اب ویرا نے عالیان کے گرد گھومنا شروع کر دیا۔۔

آ س پاس موجود پوئی فیلوز ان دونوں کو دیکھنے لگے ۔۔

امرحہ نے اپنے دل پر آگ کی لپٹیں محسوس کیں۔۔

اس نے زرا غور کیا اور اپنی غلط فہمی دور کرنی چاہی ، لیکن وہ اور بڑھ گئی ویرا نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے پینٹ ہاؤس کے شو کیس سے ڈرا کیا تھا اور جو بن کر اسے اتنا اچھا نہیں لگا تھا وہ ایک دو بار یونیورسٹی پہن کر جاچکی تھی پھر وہ ایک عرصے تک اسکی وارڈروب میں پڑا رہا تھا۔ امرحہ کو لگا وہ اسے پھینک دے گی لیکن اسے پھینکا نہیں گیا تھا۔۔

عالیان کھڑا تھا اور ویرا کے کرتب ختم ہونے میں نہیں آرہے تھے اور پھر وہ رک گئی، عین عالیان کے سامنے، بہت ہی کم فاصلہ رکھ کے۔۔اس نے کچھ کہا۔

عالیان  خاموش اسے دیکھتا رہا۔۔

اتنی دور سے۔۔اتنی زیادہ دور سے بھی اسے سننے میں زرا مشکل نہ ہوئی کہ ویرا نے اس سے کیا کہا ہے۔۔

"میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں"میرے ساتھ روس چلو گے پاپا سے ملنے؟؟۔۔بارہ گھنٹے بجے۔۔اور مجمع میں سکوت چھا گیا۔۔ اور پھر بارہ ایک کا گھنٹہ بجا مجمع نے سکوت کو شور سے توڑا 

ستر فٹ اونچے ڈھانچے میں آگ بھڑکی اور وہ جلنے لگا۔سر سے گردن گردن سے سینے تک پورے کا پورا آگ نے قیامت کا منظر کر دیا۔جیسے سب جل جانے کا وقت آ چکا ہو ۔

عالیان نے ویرا کے ہاتھ کو نرمی سے چھوا اور مسکرایا ۔

اسی پر بات ختم نہیں ہوئی ویرا نے یونی فیلوز کو تالیاں بجا کر متوجہ کیا عالیان کی طرف اشارہ کیا اور بولنے لگی۔پھر عالیان کی طرف بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھ جوڈ دیے۔

اور تیز تیز بولنے لگی انداز بچگانہ بھی تھا دل ربا بھی ۔

یونی فیلوز دلچسپی سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔

اور پھر عالیان نے کچھ کہا تو تالیاں بجنے لگی ویرا اٹھ کر مسکرانے لگی۔ایسی مسکراہٹ ویرا کے ہونٹوں پر دیکھائی نہیں دی ۔۔سائی اس کے عین پیچھے گھڑا تو امرحہ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو ۔سائی کی آواز لرز رہی تھی ۔

امرحہ نے اسے دیکھا سائی کی حالت دیکھ کر ڈر گئی ۔

ویرا عالیان سے کیا کہہ رہی ہے تم جانتے ہو نا؟ 

سائی نے اس سے آنکھیں چرائی تو وہ سمجھ گی کہ جانتا ہے ۔ویرا تمہارے پاس آئی تھی سائی کیا کہا اس نے  امرحہ چلا اٹھی۔سائی کھڑا رہا وہ کسی کا راز کسی کو کیسے دے سکتا تھا ۔امرحہ جھٹکے سے پلٹی۔

زندگی میں سب کو اگے بڑھنا ہوتا ہے امرحہ سائی نے نرمی سے کہا ۔امرحہ کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔

عالیان اس کے ساتھ اگے بڑھ رہا  ہے  کہانی کا یہ وہ موڑ تھا جو دل اور آنکھوں سے  پوشیدہ تھا ۔

اگر ہم کسی کو نہیں پاسکتے تو ظاہری بات ہے اسے کوئی اور پا لے گا ۔سائی کے لئے مشکل ترین ہو گیا اس کی طرف دیکھ کر بولنا ۔

امرحہ تیزی سے اگے بڑھی 

کہاں جا، رہی ہو  امرحہ

گھر

اتنی جلدی گھر دیکھو ابھی تو شروع ہوا اس نے اپنی طرف سے اسے بہلانے کی بہت کوشش کی 

وہ تو کب کا جل چکا امرحہ رش کو ہٹاتی ہوئی جا رہی تھی  سائی اس کے پیچھے لپکا۔لیکن نہیں پہنچ سکا۔ایک چنگاری اڑتی ہوئی اس کے فرشی دوپٹے پر گر گئی ۔

یہ تو ہونا ہی تھا وہ بڑبڑائی

وہ ساری یادیں زہن سے کھرچ ڈالے گی ۔صرف ایک منظر کو ذہن سے مٹانے کے لیے ۔جو اس نے ابھی ابھی دیکھا تھا  عالیان اور ویرا ویرا اور عالیان

وہ اس پسند کرتی تھی یہ جانتی تھی اس شادی کے لیے شادی کرے گی وہ نہیں جانتی تگگ مرحہ تمارا دوح پٹہ این چلایا۔

این اسکے پاس آیا دوپٹہ زمین پر رگڑ تھا نظر نہیں آتا

آتا ہے نظر چل کر مرنے لگی ہوں سب آوو ہوو کر رہے تھے چنگاریاں اڈ ری

ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔۔

"امرحہ سنو۔۔کیا ہوا ہے تمہیں؟" این نے اس کی حالت پر غور کیا۔

اسے جواب دیے بنا وہ چلی آئی ، آگ سے بھرے میدان کو پار کر کے۔۔۔ اس سے باہر نکل کر اسے ٹیکسی کے لیے دور تک چل کے جانا تھا وہ لمبی سڑک پر پیدل چلنے لگی اس کی پشت پر برننگ مین ایستادہ تھا ۔۔ اسے لگا وہ ہاتھ اٹھا کر اسکی طرف اشارہ کر رہا ہے۔۔۔ وہ دیکھو وہاں بھی کوئی جل رہا ہے اور مجھ سے زیادہ جل رہا ہے۔۔۔ وہ مجھ سے پہلے جل کر راکھ ہو جائے گا۔

اسے پیدل چلنے میں کوئی قباحت نہ ہوئی کیونکہ اسے معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کہاں کیا کر رہی ہے۔

اس کے محسوسات چلا رہے تھے کہ اس نے دیر کر دی۔۔ اسکی آنکھ کی پتلی اسے بار بار چند مناظر دکھا رہی تھی۔

وہ جھک کر اس کا ماسک اٹھا رہا ہے۔۔۔ ویرا اس آگے جھکی ہوئی ہے۔۔۔ وہ ہزاروں کی پریڈ میں اسے ڈھونڈ رہا ہے۔۔ وہ ہزاروں کے مجمع میں ویرا کا ہاتھ نرمی سے تھپک رہا ہے۔۔ وہ اس کے کمرے کی کھڑکی سے کود رہا ہے وہ اسی کھڑکی سے رخ موڑے جا رہا ہے۔۔۔

دور۔۔۔بہت دور۔۔۔وہ دور جاچکا ہے۔

اور یہ رات کے آخری پہر کا قصہ ہے۔۔

آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے گرنے لگے اس نے باکس کھولا اور سب سے پہلی چیز جو اس کے ہاتھ نے اٹھانی چاہی وہ رول ہوا کاغذ تھا۔ اس نے اسکا ربن کھول کر اپنے سامنے پھیلا لیا گھٹنوں کے بل نیچے ایسے بیٹھ گئ جیسے عقیدت کے پیشِ نظر ایسا کرنا لازم تھا۔

"سویڈن جاتے میں نے ٹرین میں اسے بنانا شروع کیا تھا پھر جہاں جہاں میں گیا میرے ساتھ رہی میں نے ہر خوبصورت جگہ رک کر اسکی  نوک پلک سنواری۔۔دریا کے ساتھ چلتے میں نے ان بیلوں میں رنگ بھرے، چار اطراف پہاڑوں میں گھر کر مجھے ان بیلوں میں پھول بنانے کا خیال آیا  اور ہزاروں کے ہجوم میں گھومتے میں نے یہ سوچنے اور فیصلہ کرنے میں کافی وقت لیا ، یہ زمین کو چھوئے گی یا نہیں۔۔۔ اور کیا تم نے کبھی پھولوں کو کمر کے گرد لپیٹا  ہے دیکھو یہ فراک کے گرد لپیٹے کیسے لگ رہے ہیں۔۔"

اس نے اس تصویر کو ان خوبصورت جگہوں پر بیٹھ کر بنایا تھا جہاں جہاں وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہو۔۔۔وہ اسے ساتھ لے گیا تھا۔۔۔

"سوئیڈن سے صرف یہی لائے ہو میرے لیے۔۔؟"

"یہ صرف نہیں ہے۔۔" اسکا منہ بن گیا وہ بہت اداس ہو گیا۔

"تم نے کبھی آرٹ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی ، ہر تصویر بولتی ہے۔" وہ اداسی سے گویا ہوا ۔ جو کہانی وہ لکھ کر لایا تھا امرحہ نے اسے نہیں پڑھا تھا۔

"مجھے انسان کی زبان سمجھ میں اجائے یہی کافی ہے۔"

اداسی کو جھٹک کر اس نے ایک نئی داستان کراس  بیگ میں سے نکالی اور ایسا کرتے وہ بہت خوش تھا۔۔

اداسی ختم ہو چکی تھی جیسے وہ جانتا تھا کہ یہ جادو ضرور چلے گا۔

وہ ایک لکڑی کا پل تھا جو بہت بڑی جھیل کے اوپر بنا تھا۔ پل کے اس طرف ایک لڑکا کھڑا منہ پر ہاتھ رکھے کسی کو آواز دے رہا تھا پل دوسری طرف جنگل اور پہاڑ تھے۔ ایک درخت کے پیچھے کھڑی ایک لڑکی اپنی ہنسی دباتی چھپی کھڑی تھی۔

وہ کتنی زبانیں اور داستانیں اپنے ساتھ لایا تھا، وہ اسے کچھ سنا رہا تھا کیا کچھ بتا رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے گھاس پر اس ماڈل کو نکال کر رکھا امرحہ نے اپنا سانس گم ہو تے پایا۔

"تو کیا وہ اس سے سوال کردیگا۔۔اور اسے انکار کر دینا ہو گا جیسے کہ اس نے سوچ رکھا ہے یہ خواب اتنی جلدی ختم ہو جاتے ہیں پھر وہ ایسے اس کے آس پاس نہیں رہے گا

یہ کس بچے کے لیے لائے ہو اس نے سنگ دلی سے اس کا خواب توڑ دیا ۔

بچے؟؟؟ وہ دیر تک سوچتا رہا جیسے اس کا نھنا سا دل بھی ٹوٹ گیا ہو زمین سے پھوٹتی پھولوں سے لدی بیلیں دلکش رنگوں میں لپٹی۔

لڑکی  لمبے بال کندھے پر بکھرے آ رہی تھی 

وہ امرحہ تھی 

کیسی ہے؟  اس نے شوق سے پوچھا اس متعلق پوچھا جس کی کہانی وہ بنا کر لایا تھا 

 اچھی ہے 

تم زرہ تفصیل سے دیکھو اسکی آواز کمزور ہو گئی ۔

بہت تفصیل سے دیکھ چکی اس نے لا پروائی سے کہا ۔تصور میں ایک سایہ لڑکی کی طرف آتا نظر آ رہا تھا  جو  پھولوں کا ہی حصہ لگ رہا تھا جیسے پہلی نظر دیکھا نہیں جا سکتا تھا امرحہ نے خود کو دیکھنے سے پہلے اس کو دیکھ لیا وہ عالیان تھا جس پر اس نے انگلی نہیں رکھی تھی ۔اس پر امرحہ نے نظر رکھ لی تھی ۔

اسے ایک پل لگا جیسے وہ سب سمجھ گئ تھی ۔وہ اس کھڑکی کے نیچے کھڑا مسکرا کیوں کر رہا تھا ۔وہ یونی میں اسکے پیچھے پیچھے کیوں رہتا ہے وہ کئ سے گزرے وہ سامنے آ جاتا ہے ۔وہ شو اسٹور میں اس کی منت کیوں کرنے آیا تھا ۔مانچسٹر میں پہلی برف دیکھتے ہی اس اپنے چاروں اطراف محسوس کرتے ہی سب جان لیا تھا وہ کہانی سمجھ گئ تھی جو اسے سنائی نہیں گئی تھی ۔

اسی وقت وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی وہ اپنے پیچھے اس کے قدموں کی چاپ نہیں سنتی تو بے چین ہوجاتی۔

جب وہ سامنے نہیں آتا تو اسے سامنے آتا کوئی اچھا نہیں لگتا۔وہ اسے ڈھونڈ نہ لیتا تو یہ اس کے پاس پہنچ جاتی 

تو یہ  کھلونا نہیں  ہے؟ 

اس نے مزید اس کا دل توڑ دیا وہ اس کی مشق بہت پہلے سے کر رہی تھی ۔نہیں یہ ایک تصویر کی عملی شکل ہے امرحہ اس چھوا جا سکتا ہے بدلا بھی جا سکتا ہے 

دیکھو پل کے اس طرف لڑکا کھڑا لڑکی کو آواز دے رہا ہے جس کے ساتھ مل کر مچھلی کا شکار کرنا ہے اسے ۔اور ہاتھ پکڑ کر تیتلیوں کے پیچھے بھاگیں گے ۔

تو کھلونا ہی ہوا نا تیتلیوں کے پیچھے بچے ہی بھاگتے ہیں 

بچے نہیں امرحہ مصوم دل تیتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں 

کیا تمارا دل نہیں چاہتا کے تمارا لاہور یہ مانچسٹر سارا گھر تیتلیوں سے بھر جائے رنگ برنگی تتلیوں سے ہمارے اگے پیچھے اڑیں

تم بزنس کہ اسٹوڈنٹ ہو نا عالیان؟ 

میرا دماغ بزنس اسٹوڈنٹ ہے دل نہیں ۔تم  کتنی معمولی بات بھی نہیں سمجھتی تم۔ میں تمھیں ہر بات تفصیل سے سمجھا سکتا ہوں۔۔ اس نے حوصلہ  نہیں ہارا۔ ہر بات وہ تفصیل سے سمجھ چکی تھی اس وقت وہ یہی چاھتا تھا نا کہ پل کے اس طرف کھڑا عالیان جو اسے آواز دے رہا ہے تو اس کی آواز پر وہ درخت کی پیچھے سے نکل کر چلتی اس کے پاس آجاۓ اور کہے۔

"لو میں آگئ تم اپنی بے سُری آواز کو تھوڑا سُریلا کر کے آواز نہیں دے سکتے۔؟"

"جب تم میرے پاس نہیں ہوتی تو یہ

 بے سُری ہوجاتی ہے ۔۔ اب سنو کیا اس میں سُر آۓ "

"ہاں اب کچھ بہتر ہےـ"  ہیٹ کو سر پر جماۓ  وہ اس سے اگے چلے گی ۔۔

"اس ٹوکری میں کیا ہے۔؟" وہ اس کے پیچھے آۓگا۔۔ ضرور آۓگا۔۔

"چیری۔"وہ مڑے بیغر ادا سے کہے گی۔

"اتنی سی چیری۔" اسے صرف بات کرنے کا بہانہ چاہیے ہوگا۔

"میں اتنی ہی کھتی ہوں۔۔ ہاہاہا۔۔ تمھارے لیے نہی لائ۔۔"

"لیکن میں تو تمھارے لیے لایا ہوں۔"وہ لینے سے زیادہ دینے کے لیے تیار رہے گا۔

"کیا۔؟" اب وہ پلٹے گی اسے دیکھے گی۔

"یہ ۔۔" اس نے مٹھی کھول دی اور تتلی اڑتی ہوئ اس کے سر پر سے گزر گئ وہ سمجھ گئ کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔ تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کا بہانا کرتے دراصل اس کے پیچھے بھگنا۔۔ اسے تتلیاں نہیں  چاہیں تھیں، ان کے پیچھے بھگتی امرحہ  چاہیے تھی۔۔ اسے مچھلیوں سے مطلب نہیں  تھا اسے اس کے ساتھ بیٹھنے سے غرض تھی۔۔ اسے پھول اچھے لگتے تھے اگر وہ اس کی پوشاک میں گندهے ہوں، اسکی کمر سے لپٹے ہوں یا سر پر تاج کی صوررت رکھے ہوں۔

"یہ جو تمھیں کھلونا لگ رہا ہے جس دن یہ تمھیں کھلونا نہ لگے مجھے بتانا۔۔"

"اچھا! تم کیا کروگے۔؟" اس کا دل ڈوب گیا۔

"جس دن اسے سمجھنے کی سمجھ لے آؤ گی اس دن یہ سوال نہیں کروگی۔ "

"اگر مجھے کبھی بھی سمجھ نہ آئ تو۔" اپنے خوف کو اس نے زبان دے دی۔

"ایسا ہونا ممکن نہیں۔۔ یہ پھر کوئ بددعا ہی ہوگی جو تمھاری عقل کو دی گئ ہوگی۔" بددعا اسکی عقل کو نہیں  قسمت کو دی گئ تھی۔ اس نے درخت کے پیچھے کھڑی لڑکی کو لے جا کر اس کے ساتھ کھڑا کر دیا۔۔ دونوں کو جھیل کے کنارے بیٹھا دیا۔۔سورج ڈھلنے لگا۔۔ وہ وہی بیٹھے رہے۔۔ وہ یہ چاہتا تھا تو وہ بھی یہی چاہتی تھی۔۔ لیکن اسکا چاہنا بند کمرے میں ایک عملیتصور کے ساتھ ہی کر سکتی تھی، اس نے مانا کہ وہ ایک نحس وجود ہے، وہ عالیان کے لیے نحوست لے کر آئ تھی۔ ایک ایسے شخس کے لیے جو بچوں سے زیادہ معصوم تھا، جو اس کے لیے نت نئی کہانیاں بنتا تھا، اور ایسا کرنے وہ کتنی ہی راتیں جاگتا رہا ہوگا۔

---------------------

"اچھا چلو ایک کہانی سنو۔" رات کو یہ بہانا کرتے کہ وہ بس اس کے اسٹور کے سامنے سے گزر رہا تھا وہ گھر تک کے لیے اتفاق سے اسکا ہم راہی بن گیا اور راستے میں اسے کہانی سنانے لگا۔ "

تم سب کو کہانیوں کا اتنا شاق کیوں ہے۔ سنتے بھی ہو۔۔ سناتے بھی ہو۔۔"

کہانی کا بہانا کر کے رات کو وہ اس سے ملنے آیا تھا یا کہانی کے لیے بہانا بنایا تھا، امرحہ اس سے پوچھ لینا چاہتی تھی۔

"ہم فرشتے ہیں نا۔!"

"فرشتے۔"

"ہاں،بچے فرشتے ہی تو ہوتے ہیں۔۔" شٹل کاک اے کتنی ہی دور وہ اسے لے کر بس سے اتر گیا۔

"کتنےاسٹاپ پہلے اتر گۓ تم!" وہ چلا اٹھی۔

ﮈاکٹرز کہتے ہیں رات کو چہل قدمی کر کے سویا جاۓ تو بہت گہری نیند آتی ہے.

یقینا ان ﮈاکٹرز میں سے ایک ﮈاکٹر عالیان ہوں گے

ہاہاہا تمھیں میری باتوں پر یقین کرنے کی عادت ﮈالنی چاہیے

مجھے تمھارے جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرنی چاہیے.چلو کہانی سنو.ایک جادوگرنی نےایک شہزادے کو جادو سے غائب کردیا.غائب مطلب وہ موجود ہے.لیکن کسی کو دکھائی نہیں دیتا وہ سن سکتا ہے لیکن بول نہیں سکتا.اسے ایک شہزادی سے محبت ہوتی ہے.لیکن شہزادی اسے لاعلم ہوتی ہے.جادوگرنی شہزادے سے کہتی ہے کہ اگر اس نے شہزادی کو اپنی محبت کا یقین دلا دیا.تو وہ اس کے جادو سے آزاد ہو جاۓ گا.

اچھا پھر...?

"پھر اب تم پوری کرو"

کیا?

"کہانی..."

"پر کہانی تو تم سنا رہے تھے"

"یہ ایسی ہی کہانی ہے نا ...آدھی سنانے والے کی آدھی سننے والے کی...اب تم یہ بوجھو شہزادہ کیسے شہزادی کو اپنی محبت کے بارے میں بتائے گا..."

اس کے سرہانے پھول رکھ کر..."

پھولوں سے اسے کیسے یہ معلوم ہوگاکہ یہ وہی رکھ رہا ہے.."

بہت عجیب پہیلی اور غریب کہانی ہے...

کوشش تو کرو.

کبھی بہت فارغ ہوئ تو کرو گی.اور ﮈاکٹرز ٹھیک کہتے ہیں مجھے بہت گہرینیند بس آنے ہی والی ہے..."اس نے اسے خاموش کروا دیا جبکہ وہ فورا کہانی بوجھ چکی تھی..

شہزادہ پیغامات لکھے گا اور اسےکسی ایسی جگہ باندھ دے گاجہاں سے شہزادی کا گزر ہوتا ہے.چلو مان لیتے ہیں شہزادی کے کمرے کے باہر لگے درخت کے ساتھ,رات کے وقت وہ ان کے ساتھ گھنٹیاں باندھ دے گااور ان گھنٹیوں کو ہلاۓ گا شہزادی نیند سے جاگ جاۓ گی اور اسے جاگے ہی رہنا پڑے گاجب تک وہ درخت کے پاس آکرپیغامات پڑھ نہیں لیتی.وہ درخت کی شاخوں میں جا بجا بندھے پیغامات کو پہلے حیرت سے دیکھے گی.پھر وہ انہیں ایک ایک کر کے پڑھے گی.اور پھر ہر رات کو وہ گھنٹیوں کے بجنے کا انتظار کرے گیاور پھر ایک دن شہزادہ جادو سے آزاد ہو جاۓ گا.

اس رات وہ سو نہ سکی ایسی کہانی سن کر نیند کیسے آسکتی تھی.اور آخری پہر کی اس رات اسنے اسکیچ کے پیچھے وہ ساری کہانی لکھ دی.لیکن یہ کیا جادو الٹاہوگیا.اب وہ سن رہا تھا نا ہی بول رہا تھااور یہ سب خود اسکی اپنیوجہ سے ہوا تھاوہ سب سمجھتی تھی اور انجان بنتی تھی اسے یہ فجر حاصل ہو گیا تھا کہ کوئی اس پر ایسے فدا ہے.اور اس نے خود ایسی خود غرضیسیکھ لی کہ اسے فاصلہ رکھا  نہ اپنے پلان کے مطابق اسے پہلے یہ بتایا کہ وہ پاکستان میں اپنی بات پکی کروا کر آئی ہے.

اس نےاسے انکار کیا نہ اقرار کے قابل سمجھا.اس نے اپنے اس پورے پلان پر بھی ٹھیک سے عمل نہیں کیا.جس کے تحت انہیں صرف دوست رہنا تھا..اگر وہ اسے ہر حال میں انکار کرنے کا ارادہ ہی کیے ہوۓ تھیتو اسے خود کو اتنا آگے نہیں لانا چاہیے تھا..ایک بار میں سکس کے مڑٹرم اگزیمز میں فیل ہو گئی.اتنا روئی اتنا روئی کہ بے حوش ہو گئی,پھر ہوش میں آئی پھر روئی اور پھر بے حوش ہو گئی... میرے رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں فیل ہوگئی ہوں.خواب سچا ہو گیا.یعنی اب وہ خواب بھی سچا ہوگا.جس میں میری گردن کٹی ہوئی ہےاور سمندر کے پانی کے اوپر تیر رہی

عالیان اسکی شکل کی طرف کئی لحظے دیکھتا رہا اور پھر اسکے قہقہے تھمنے میں آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا اس نے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔۔ہنس ہنس کر اسکا سر درد کرنے لگا تھا۔ 

اسکی ایسی ہنسی دیکھنے کے لیے وہ اپنے ماضی کو کھنگال کر چند واقعات اسکے روبرو لائی تھی۔۔ وہ خود کو بھی ٹھیک سے یہ بتا نہیں سکتی تھی کہ جب وہ اس کی کسی بات پر ہنستا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس نے ثواب کمایا ہے۔۔۔اسکی بھوری آنکھیں پانی سے بھر جاتی ہیں تو مشرقی ساحرہ کو اپنے سحر پر پیار آنے لگتا ہے۔

وہ ہنسنے میں ایسے مصروف رہتا ہے کہ وہ اسے دیکھنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔

"کیا تم مجھے ہمیشہ ایسے ہنسا سکتی ہو؟" وہ ہنسی کے درمیان پوچھتا ہے۔

وہ خاموش ہو جاتی ہے جیسے سوال سنا ہی نہیں۔

ایسے وقت وہ دوسرے حصے والی امرحہ بن جاتی ہے۔جسے معلوم ہے کہ انہیں ہمیشہ ساتھ نہیں رہنا۔

وہ بیک وقت خودغرضی  اور خود ترسی  کی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔

وہ خود سے بھی اقرار نہیں کرتی کے وہ کیا چاہتی ہے اور۔۔۔

چینی خاتون نے ربن دیتے ہوئے اس سے پوچھا " اگر تم شادی شدہ ہو یا جلد ہی شادی کرنے والی ہو یا تم جانتی ہو کہ تمہیں کس سے شادی کرنی ہے تو تم اسکا نام سن پر لکھوا سکتی ہو۔۔"

امرحہ نے خاتون کو دیکھا اور مسکرا نہ سکی۔ کیا وہ اس کے دل کا چور پکڑنے کو ہیں۔

"میں چینی میں تم دونوں کے نام لکھ دوں گی" وہ پھر سے مسکرائیں جیسے وہ چوری پکڑ چکی ہوں۔

اس سے سوال کیا جارہا تھا۔۔اسکا سر گھومنے لگا  جو کام خود سے بھی چھپا کر کیا جارہا تھا۔۔اسکا اقرار کسی کے سامنے کیسے کر لیتی وہ پلٹ کر جانے لگی پھر جیسے اس نے اسے بدشگونی جانا۔ جب دل میں کوئی ہو تو دل سب شگونوں اور بدشگونوں کے حساب رکھنے لگتا ہے۔۔وہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔۔۔پھر وہ تہوار کا موقع تھا اور پھر تہواروں پر ویسے ہی بہت سی اجازتیں دے دی جاتی ہیں تو اس نے خود کو یہ اجازت دے دی۔۔اور اسے یہ بھی لگا کہ آسمانوں سے اس سے پوچھا جارہا ہے۔

"کس کا نام لکھوانا ہے اپنے نام کے ساتھ امرحہ؟"

وہ جو پلٹ گئی تھی واپس پلٹی"میرا نام امرحہ ہے اور اس کا۔۔۔"

"اس کا؟" خاتون مزید مسکرانے لگیں۔

"وہ۔۔۔اسکا۔۔۔عالیان۔۔"

خاتون نے سر کو جنبشِ دی اور دونوں کے نام چینی میں لکھ دیے۔

ان دو ربن کو لے کر اسکا  چلنا دوبھر ہو گیا۔ اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ اسے لگا کہ وہاں  موجود ہزاروں لوگ جو ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں تو دراصل اس کی دل کی دھڑکن کو تلاش کر رہے ہیں۔۔۔اسی کو لیکر سرگوشیاں کر رہے ہیں۔۔۔اسی پر مسکرا رہے ہیں۔۔۔اور سر ہلا کر اسے بتانا چاہتے ہیں کہ ہاں ہم جان گئے ہیں تم کیا کر آئی ہو۔۔۔دیکھو تم پکڑی گئی۔۔

وہ مسکرائی اور مسکراہٹ غائب بھی کرلی ۔۔۔اسے یہ بھی لگا کہ اس نے کوئی بڑا گناہ کر لیا ہے۔۔ اور یہ بھی کہ زندگی میں  اب اسے ایسی چیز ملی ہے جو اتنی قیمتی ہے کہ اسے دنیا کا ہر محفوظ کو نا غیر محفوظ لگنے لگا ہے اور اسے لگنے لگا ہے کہ دنیا میں ہر کوئی اس کے ان ربنز کو چرا لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔۔ اگر عالیان ڈریگن پریڈ میں آتا تو وہ اگلے کئی دنوں تک اس کا سامنا  نہ کرتی ۔۔۔ چینی اسٹالوں پر  گھومتے اس بہت کچھ دیکھا۔۔۔ادھر عالیان۔۔۔ ادھر عالیان۔۔۔،ہر انکھ،ہر انداز،ہر مسکراہٹ عالیان، اس خود کو شیشے میں دیکھا اور وہاں بھی عالیان کو پایا۔۔۔

"ہم اچھے دوست بنے رہے گے پھر میں پاکستان pg#268

"چلی جاؤ گی اگر اس نے کچھ کہا تو میں کھ دوں گی کہ میری بات میرے کزن کےساتھ طے ہے۔"

یہ تھا اس کا پلان جو اس نے ترتیب دے رکھا تھا اور اس پلان کی وجہ یاد بنی تھی جو اسے عالیان کو دیکھ کر آیا کرتی تھی۔

--------------------

"جب تک اسے کوئ نوکری نہیں مل جاتی۔۔ تم اسے رکھ لو واجدـ"

"جب ایک بار کھ دیا نہیں ۔۔ تو نہیں ۔"

"کیوں اتنے انتہا پسند بن رہے ہو۔۔؟"

"جی میں ہوں انتہا پسند۔۔ اور کیا سننا ہے مجھ سےـ"

"انسان کو اتنا سخت دل نہیں ہونا چاہیے۔"

"میرے اپنے اصول ہیں بابا ! آپ مداخلت نہ کریں بابا۔۔!"

"اصول ہیں شریعت نہیں کہ  بدلی نہ جا سکے۔"

"شریعت ہی سمجھ لیں۔"

"شریعت ہی سمجھ لیں ۔"یہ جملہ اس کے کانوں میں اس وقت ضرور گونجتا جب جب اس کی نظر عالیان پر پڑتی۔ 

ان کی کالونی کا چوکیدار عیسائی تھا ، اپنے بیٹے کی نوکری کے لیے پریشان تھا جو ایک ٹانگ سے معزور تھا اور صرف بیٹھنے والا ہی کام کر سکتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے اور اس کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے، جہاں وہ کام کرتا تھا وہ نوکری کسی وجہ سے جاتی رہی۔

چوکیدار دادا کے پاس کئی بار آیا تھا کہ بابا اسے عارضی طور پر اپنی شاپ پر رکھ لیں لیکن بابا نےلاکھ منت پر بھی نہیں  رکھا۔ چند ہزار دے دیۓ کے اس کی امداد کر دیں۔

"امداد ہی لینی ہوتی تو نوکری کےلیے تڑپ نہ رہا ہوتا۔" دادا نے پیسے واپس کر دیے۔ 

جو اپنی شاپ پر ایک عیسائی لڑکے کو ملازم نہیں رکھ رہے تھے وہ ایک عیسائی عورت کے بیٹے کو گھر میں داماد ہونے کی حیثیت سے گھسنے دیتے۔ جسے نوکری نہیں  دی تھی اسے بیٹی دیتے۔ جس کے لیے ضد نہیں توڑ رہے تھے اس کے لیے روایت توڑتے؟

وہ عالیان کو پاکستان  لے جاتی اور اس کی تزلیل کرواتی۔

اور رات کے آخری پہر کی اتنی ہی کہانی ہے کہ گھٹنوں کے بل وہ زمین پر جھکی اا تصویر کو سینے سے لگاۓ رو رہی ہے،جس میں نظر آتے اس کے مہیب عکس کو اس نے پینسل سے گہرا کر لیا تھا۔ وہ ڈریگن کے ماسک تلے بھی روتی رہی تھی۔ وہ جیسے جان گئی تھی کہ اب اسے رونا ہی ہے۔ وہ روتی رہی۔۔ روتی رہی کیونکہ وہ جانتی تھی اسیے اس سے الگ ہی رہنا ہے۔ وہ اسے دوستی کے لیے منا لے گی، محبت تک بات نہیں لاۓ گی۔

لیکن اب اس رات برننگ مین کو اپنی پشت پر دور چھوڑتے وہ بات محبت تک لے آئ تھی۔ اس نے اس بار محبت کا ترازو ہاتھ میں پکڑا تھا، اور دونوں طرف عالیان کو بیٹھایا تھا۔

خوف کو دل میں ہی لیے وہ بےخوف ہو کر آگے بڑھی تھی۔ ہاں اب تو۔۔ اب ہی تو اس نے وہ دھن تشکیل دینی شروع کی تھی جو عالیان کے وجود سے پھوٹتی روشنی سے مل کر رقص کناں ہونےکو تھی۔ اب ہی تو اس نے اس کی آنکھوں پر تنی کمانوں کے کنارے سے جا ملنے کی ٹھانی تھی۔ اس نے انہیں تصور میں  کتنی ہی بار اپنی پوروں سے چھوا تھا۔ عالیان کو روک کر اسے ساکت کر کے اب ہی تو اسے سامنے بیٹھا کر دیکھتے رہنے کا کنول آسن جمایا تھا۔

سسکیوں نے سناٹے سے ہمکلام ہونا چاہا۔ وقت نے بےدردی سے بڑھ جانا چاہا۔ 

تقدیر نے ترحم کے آنسوں ٹپکاۓ۔

اندھیرے، آگے سے روشن ہوتے اس راستے پر چلتے "خلیفہ " نے اپنی داڑھی کو بھیگ جانے دیا۔

ساری عمر دیکھتے رہنے سے اس کا جی نہیں بھرنے والا تھا۔۔اب وہ آخری بار دیکھ آیا تھا۔ وہ جو عشق مجازی میں آقا تھا وہ عشق حقیقی کی باندی کو چھوڑ آیا تھا۔۔۔

اب وہ محبوب کے محبوب کو پانے نکلا تھا۔۔۔رات کے ایسے آگ آگ ہوتے پہر میں لامنزل چلتے خلیفہ نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔اسکا دل دائمی جدائی کے خوف سے کرلا رہا تھا۔۔۔اسکی سیاہ داڑھی سفید ہونے جارہی تھی۔

"اور عشق۔اس پر یہ جائز نہیں کہ غفلت برتی جائے۔۔"

نار کو پیچھے چھوڑتے نار کو وجود میں لیے اسے لگا وہ تب سے چل رہی ہےجب سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔ آخر اسکا سفر کب ختم ہوگا۔۔۔ہوگا بھی یا نہیں۔۔۔اس کے پیروں کے ساتھ اسکے  آنسوؤں نے جو سفر کیا وہ کہاں جاکر رکے گا اب۔۔۔

کئی ٹیکسیاں  اسکے قریب سے گزر گئیں اس نے کوئی ایک بھی نہیں لی۔۔وہ کوٹ کے کالر سے اپنی آنکھیں رگڑتی رہی۔۔اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔وہ کئی بار گرنے لگی تھی۔۔اسے اپنی  آنکھیں صاف  ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔

اسکے کانوں میں لفظوں کی دھمال مچی تھی۔۔

" مجھ سے شادی کرو گی امرحہ۔۔؟" مجھ سے شادی کرو گی امرحہ؟ شریعت ہی سمجھ لیں۔۔ حسب نسب لے کر بیٹھنا۔۔اسے ایک شہزادی سے محبت ہے لیکن شہزادی اس بات سے لاعلم ہے۔۔میرے ساتھ روس  چلو گے پاپا سے ملنے۔۔میں تمہارا کھلونا نہیں ہوں ۔

امرحہ۔۔اب تمہیں  جو کہنا ہے وہ سننے کے لیے میں خود کو موجود نہیں پاتا۔۔۔جن سے ایک بار دھتکار ملے ان کے پاس پلٹ کر جانے کا جرم  نہیں کرنا چاہیے۔۔"

اور اسکا وہ گیت جو پورا بنایا گیا تھا نہ  آدھا ، وہ سڑک پر اسکے قدموں  تلے بکھرتا چلا گیا۔۔لفظوں کی دھمال میں کرلانے لگا۔ 

"آغاز بہار کی آمد ہے۔۔"

سانسیں معطر ہونے لگی ہیں

مرتسم ہے دھنک بھی آنکھوں میں

نیا جہاں دل میں سجنے لگا ہے

اب وہ سجنے لگا ہے۔۔"

"ٹیکسی کو وہ بمشکل روک کر وہ اس میں بیٹھ سکی اور گھر آگئی۔۔اور اس سامان کو پیک کرنے لگی جسے ساتھ لے کر پاکستان جانا تھا۔ ۔ ۔اپنے سامان میں اس نے سب سے پہلے چھپا کر رکھے باکس کو باہر نکال کر رکھا۔۔۔وہ پہلی فلائٹ سے ہمیشہ کیلئے پاکستان جانے کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔کیونکہ وہ جان چکی تھی اس نے اس شخص کو کھو دیا ہے جسے اب کوئی اور پاچکا ہے۔

امرحہ زندگی میں کبھی عالیان کو دیکھ سکے گی؟

کیا عالیان ہمیشہ کے لیے امرحہ کو اپنی زندگی سے نکال  چکا ہے؟ امرحہ اسکے بغیر کیسے جی پائے گی؟

بعد امرحہ کو اپنی رہائش اور اپنے اخراجات کا خود  بندوبست کرنا ہوگا۔ یہ سب  باتیں برطانیہ پہنچنے کے بعد اسے دائم بتاتا ہے۔ دادا جی امرحہ کے لیے پیسہ اکٹھا کر کے برطانیہ بھجواتے ہیں۔۔باقی اسے خود اپنے بل بوتے پر کرنا ہو گا۔ عذرا،شرلی اور للی کول سے اسکی ابتدائی ملاقات ہوتی ہے۔

امرحہ پڑنے کے ساتھ ساتھ ایک کافی شاپ پر جاب کرنے لگتی ہے اور لیڈی مہر کے گھر اسکی رہائش کا بندوست بھی ہوجا تا ہے۔۔ لیڈی مہر بے اولاد خاتون ہیں۔ انہوں نے شٹل کاک نامی اپنے ہاسٹل نما گھر میں مختلف بچوں کو اولاد کی طرح رکھا جاتا ہے۔۔انہی میں ایک عالیان مارگریٹ ہوتا ہے۔۔وہیں سادھنا، ویرا اور این اون سے اسکی دوستی ہو جاتی ہے۔ جاب کے دوران وہ ڈیرک کے ساتھ مل کر ڈاکومنٹریز فلم بنانے لگتی ہے۔

اسی دوران امرحہ کے بابا جنکی اعظم مارکیٹ میں قالین کی دوکان ہوتی ہے آگ لگ جاتی ہے جس سے انکا بیس پچیس لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے۔ انہیں اٹیک ہو جاتا ہے۔

امرحہ انہیں تسلی دیتی ہے اور ڈاکومنٹری فلم سے ملنے والے پیسے ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیتی ہے۔ اسکے علاؤہ لیڈی مہر بھی اسے ایک چیک دیتی ہے۔ امرحہ وہ رقم بھی انہیں بھجوا دیتی ہے۔ امرحہ کے والد بہت خوش ہوتے ہیں۔  امرحہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہے جب عالیان مارگریٹ کسی سپائیڈر مین کی طرح اسکی کھڑکی میں جھانکتا ہے۔ امرحہ کی چیخ نکل جاتی ہے۔

عالیان بتاتا ہے یہ اسکا گھر  ہے، وہ اسکے کمرے کی کھڑکی سے کود کر باہر نکل گیا، تھوڑی دیر بعد گھر میں آوازیں گونجنے لگی تو سادھنا نے بتایا لیڈی مہر کا بیٹا آیا ہے۔

وہ لیڈی مہر کے کمرے میں گئی تو اس نے دیکھا کہ وہ بیڈ پہ بیٹھا لیڈی مہر کو کیک کھلا رہا تھا۔۔ اسے یاد آیا ایک بار لیڈی مہر نے اسے بتایا تھا کہ انکا بیٹا بھی اسی یونیورسٹی

میں پڑھتا ہے اور بہت قابل ہے۔ 

امرحہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا نام عالیان تھا اور اسکی ماں کا مارگریٹ۔۔اسے عجیب سا لگا۔۔ناجائز؟؟

دوسرے دن لیڈی مہر کی سالگرہ تھی جو انکے بچوں نے بڑے اہتمام سے منائی۔۔انہوں نے امرحہ کو عالیان کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ایک ادارے سے لیا تھا اور بڑی تندہی سے اسکی تربیت کی۔۔

امرحہ کو افسوس ہوا اسکی اماں نے کبھی بھی بیٹوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی تھی۔۔

ویرا کا ساتھ امرحہ کو احساس دلا رہا تھا کہ عورت بھی بہادر ہوسکتی ہے۔ عالیان کی توجہ نے امرحہ کو ایک عجیب احساس سے دو چار کر دیا، وہ لاشعوری طور پر عالیان سے متاثر ہو رہی تھی۔

ہاٹ راک میں امرحہ اور ویرا کی باتیں ریکارڈ  کر کے چلانے پر امرحہ دیر تک اس سے ناراض ہو جاتی ہے۔۔ امرحہ کو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ عالیان کے بارے میں اس نے یہ کہہ کر اچھا نہیں کیا۔

ہاٹ راک کیفے کے باہر امرحہ اسکا انتظار کرتی ہے مگر اس سے صحیح سے بات نہیں کرتا ۔ رات کو عالیان ویرا کو شٹل کاک چھوڑ جاتا ہے۔ امرحہ کو یہ بات بری لگتی ہے کہ عالیان اپنی سائیکل پر ویرا کو چھوڑنے ایا ۔ ویرا امرحہ کو بتاتی ہے وہ گر گئی تھی اور اس کے پاؤں پر چوٹ آئی تھی۔ اس لیے عالیان اسے گھر تک چھوڑنے آیا تھا۔۔

امرحہ ہمت کر کے عالیان سے دوبار ملنے جاتی ہے ۔ وہ اسے ٹوئیٹ میں چاکلیٹ دیتی ہے۔ عالیان حیران ہوتا ہے۔۔ پھر اسکی ٹوئیٹ لینے سے انکار کر دیتا ہے۔۔ اس پر امرحہ کہتی ہے اگر تم ٹوئیٹ دو تو میں ابھی بھی تیار ہوں۔

عالیان لاجواب ہو جاتا ہے۔

اس کے بیگ بیڈ پر رکھے تھے وہ بری طرح سے ہانپ رہی تھی ۔تیاری ہو چکی تھی یہاں سے جانے کی ۔

وہ اپنے کمرے کی  کھڑکی کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی ۔یہاں سے کبھی وہ کودا تھا جزبات کے  کنارے پر کھڑی تھی جہاں سے سے ٹوٹا نظر آتا تھا 

خود پر حملہ آور ہو چکی تھی ۔اپنی کپکپی پر قابو پانے کے لئے اپنے گرد اپنے پازو لپیٹ لئے تھے 

عروج پیچھے رہ چکا تھا محبت اس سے اگے نکل چکی تھی وہ عالمِ فنا میں تھی دنیا میں بہت کچھ ضروری ہو  گا

لیکن عالیان سے پہلے نہیں اس سے پہلے سب فنا ہو گا اس کے بغیر بھی ہاں یہی بات تھی جو بہت پہلے طے ہو چکی تھی کے جو اب اس کے بغیر ہو گی وہ زندگی نہیں ہو گی

اب پھول کھلے نہ بہار آئے نہ خوشیوں کا دور ہو گا نہ مسکراہٹ کی آمد کوئی گیت سہانہ نہیں لگے گا نہ کسی کی داستان میں دل اٹکے گا اب موت کی نشانیوں کا انتظار کیا جائے گا ۔

نہ بولنے کی غرض رہے گی نہ سننے کی چاہت۔

صبع تک وہ اپنے فیصلے پر جھولتی رہی

وہ مرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی نہ مر مر کے جینے کا 

ویرا گھر آ چکی تھی اور این بھی ویرا نیویارک جانا چاہتی تھی جس ٹیکسی میں گھر آئی تھی اسی میں ائرپورٹ جانا، تھا وہ واپس بیٹھ کر چلی گئی  این اس کا دروازہ بجاتی رہی۔لیکن اس نے کھولا نہیں ۔

تم نا صرف خود پاگل ہو بلکہ دوسروں کو  بھی کر دینے کی طاقت رکھتی ہو۔۔۔ وہ رات بھر اسے فون کرتی رہی اس نے اٹھایا نہیں وہ سمجھی کئ اور ہے اور وہ گھر پر تھی ۔

اس عمارت میں جاتے ہی اس کی نی زندگی سانسیں لے لگ گئی تھی اور اس عمارت سے نکلتے ہی زندگی آخری سانسیں لینے لگی لگے گی  وہ مانچسٹر پر اڑان بھرتے پرندے آخری بار دیکھ کر  اسٹور میں  چلی گئی 

تماری ڈیوٹی تو شام میں ہوتی تو پھر؟ منیجر نے پوچھا 

اسڑور روم میں کچھ جوتے ہیں وہ مجھے خریدنے ہیں وہ  آٹک کر بولی 

اچھا خرید لو

وہ اسٹور روم گئی اور جوتے اٹھا لائی جنہیں عالیان نے پہن کر دیکھا تھا اس نے ایسی جگہ چھپا دیے تھے کے کوئی اور نہ خرید سکے۔

جوتوں کے وہ تین عدد جوڑے تھے ۔مینجر نے انہیں دیکھا اور شرارت سے مسکرانے لگا۔بے شک ان میں نقص معمولی ہے ۔لیکن میں پھر بھی تمہیں مشورہ دوں گا کہ تم اس شاہی خاندان کے فراد کے لیے ےم انہیں بھی معمولی سمجھو اور ان تین کے بجائے تم ایک وہ لےلو جسے میں نے ایک میگزین میں پرنس ہیری کو پہنے دیکھا تھا ۔اُس نے مسکرا کر کہا لیکن اس کی تاریک سنجیدہ تھی ۔

مسکرا نہیں سکی اور بتا بھی نہیں سکی کہ جوتے عالیان کے لیے معمولی ہی ہو گئے ۔لیکن اُس کے لیے بہت حاص ہیں وہ انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے ۔وہ ان باقیات کو اکٹھا کر رہی جو پورا عالیان نہیں بنا سکتیں ۔پر کیا ارادہ ہے پرنس ہیری کے جوتے کے بارے میں ۔

جس انداز سے عالیان اسٹور آتا تھا سب کو اندازہ ہو چُکا تھا کہ وہ جوتے لینے تو ہرگز نہیں آتا بلکہ ایک بار مینجر نے شیشے کے پار سڑک کی طرف اشارہ کیا اور کہا ۔۔دیکھو یہ وہی ہے جس نے آج تک ہمارے اسٹور سے کچھ نہیں لیا۔سوائے تہمارے قیمتی وقت کے۔

امرحہ چِڑ جاتی ۔۔پتا نہیں۔

اُُس کی آئیس کریم ختم ہو چکی ہے ۔اور تمہاری جاب ٹائمنگ بھی ۔ ویسے وہ تم سے کیا کہتا ہے کہ میں یہاں سے گزر  تھا تو سوچا تم سے ھاے ہیلو کرتا جاؤں۔یا وہ یہ کہتا ہے کے میں مانچسڑ کے فلاں کونے میں واقع فلاں ریسٹورنٹ دریافت کر لیا ہے جہاں ملنے والا فش سوپ اتنے مزےکا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ اس کے شیف نے کوئ جادو پڑھ کر پھونکا ہے ۔اور سنو وہ پیچھلے پندرہ مینٹ سے ادھر اُدھر ٹہل رہا ہے جو گزر رہے ہوتے ہیں ۔وہ ایسے پندرہ مینٹ تک انتظار نہیں کرتے۔اگر وہ تمہارے سامنے یہ جھوٹ گھڑے تو تم مسڑی سے مسکرا سکتی ہو۔

اب وہ اداسی میں مسکرا دی اور نفی میں سر ہلادیا کہ ہیری کے جوتے نہیں چاہیں۔جوتے اسٹور میں ہی رکھوا کر وہ باہر آ گئ۔وہ اپنے واجبات لینے آئ تھی ۔لیکن فی الحال اُس نے اپنے واجبات کو چند گھنٹوں کے لیے ٹال دیا۔اُس نے خود کو بھی چند گھنٹوں کے لیے ٹال دیا ۔اُسے شکوہ ہونے لگا کے مانچسڑ پر جو دھند اُتر رہی ہے وہ اس کی آنکھوں میں کیوں گھس رہی ہے کہ اُسے چلنے پھرنے میں دشواری ہو رہی ہے ۔اگر ایسا نا ہو تو وہ جلدی سے اپنے کام سمیٹ لے۔بلکہ بہت تیزی اور پُھرتی سے۔اور وہ جو بار بار اپنے وجود پر کسی چیز کے قایم ہونے کا پتا معلوم کر رہی ہے تو اُس سے بھی اُسے فُرست ملے اور اُس کے کالے کوٹ کے اندر کیا چیز پاش پاش ہو چُکی ہے زارا دم لے کر اُس کا بھی حال چال پوچھے۔

اُس نے خود کو مانچسٹر کو کھوجتے پایا ۔اچھا خیال تھا ۔وہ مانچسٹر کو کھوج رہی ہے ۔کئ لوگوں نے اُس کے گلابی گالوں اور سرخ آنکھو ں کو ٹھٹک کر دیکھا۔اُس پر ترس کھایا جا سکتا تھا اور اُس نے خود کو قابلِ رحم ہی بنایا تھا ۔

اُس کے اندر ایک جذبہ بار بار سر اٹھا رہا تھا کہ وہ دنیا کو آگ لگا سے اور سب سے پہلے خود کو ۔ اُس نے نفرت سے اپنے خاندان کے بارے میں سوچا ۔اور پھر آخری نقطے پر ٹہر کر وہ خود سے نفرت کرنے میں مشغول ہو چُکی تھی اُس نے دبے دبے غصے سے دادا کے بارے میں سوچا اور چاہا کہ انہیں اپنے ساتھ کھڑا کر لے۔اور اُس شخص کی طرف دیکھتے رہنے کا حُکم دے جو برنٹنگ مین کے ساتھ جل راکھ ہو چُکا تھا اور کیا پھر بھی دادا یہ کہنے کا حوصلہ کر پائے گے ۔

حسبِ نسب لاؤ۔اُکی راکھ کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر بھی وہ اپنا سوال نہیں بدل پائیں گئے کیا تب بھی وہ اس کے دل کی بات مان لینے پر مجبور نہیں ہو جائیں گئے ۔ٹنھڈی پھوار اُس کا سر بیھگو رہی تھی اور وہ ان قِصے کہانِیوں میں غلطاں ہو چُکی تھی  جو معاشرے میں کتابوں میں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں ۔وہ جن میں سب ہوتا ہے پر ملن نہیں

ہوتا

داستان امرحہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔بہت کچھ اس نے الٹا پلٹا کر دیا اور باقی حالات نے 

وہ کسی کو راضی نہ رکھ سکی نہ خود کو نہ عالیان کو 

دونوں ایک ہی رستے پر چلتے چلتے ایک دوسرے کی پشت پر آ گئے وہ اپنی وجوہات کی وجہ سے نہیں دیکھ رہا تھا یہ اپنی گھوم پھر کر وہ پھر اسٹور آ گئی اپنی واجبات لینے

تمہارا کوئی پوچھنے آیا تھا اسے دیکھتے ہی منیجر نے  کہا 

عالیان سانس، سے بھی پہلے اس نے نام حلق سے نکالا

کوئی سائی تھا میں نے کہہ دیا وہ آئی تھی چلی گئی ۔

سائی وہ بڑبڑائی وہ کافی بار اسے فون کر چکا تھا اس نے کال نہیں ریسو کی  اس نے سائی کے لیے اپنے اندر نفرت محسوس کی غصہ بھی ۔

مجھے میرے بقاجات چاہے اس نے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا 

تم جاب چھوڑ رہی ہو؟ 

ہاں اس نے نظر چرا کر کہا

کئ اور جاب مل گئی؟ 

مجھے اب جاب کی ضرورت نہیں رہی۔

تم ٹھیک تو ہو امرحہ

جی بالکل ٹھیک ہوں 

بیٹھ جاؤ امرحہ منیجر نے نرمی سے کہا 

وہ پاس پڑے اسٹول پر بیٹھ گئی اور باہر سڑک دیکھنے لگی

کہیں جا رہی ہو؟ 

امرحہ نے چونک کر دیکھا اسے کس نے بتایا

اتنا وقت تمہارے ساتھ گزارا اور تم کیسے خاموشی سے  روپوش ہو رہی ہو اگر تمہارا جانا ضروری ہے اچھے انداز سے  بائے کر کے جاؤ ورنہ مجھے موقع دو میں تمہیں اس انداز سے  الوداع کہوں. جس انداز میں میں نے تمہیں خوش آمدید کہا تھا 

وہ اتنی سی بات پر رونےلگی اور آنکھیں مسلتے ہوئے منیجر کو دیکھا 

میں نہیں جا رہی  کہیں نہیں جا ر

پھر جاب کیوں چھوڑ دی؟ 

یہ دیکھنے کے لیے کے کیا کچھ چھوڑ سکتی ہوں میں سب چھوڑ سکتی ہوں لیکن اسے نہیں پوری شدت سے جانے کا فیصلہ کرنے کے  باوجود میں ساری قوتیں لگا کر خود کو روک لینا چاہتی ہوں 

رہ جاؤ یہاں 

دنیا کے کسی اور کونے میں اب وہ کیسے رہ سکتی ہے اب بھلا؟ 

دنیا کے کسی اور کونے میں رہنے کی اب تمہیں کوئی ضرورت  نہیں 

یہاں بھی اب میری ضرورت نہیں رہی یہاں بھی نہیں رہ سکتی میں اور جا بھی نہیں سکتی 

اسے اتنی جلدی کیوں تھی مجھے ہنسانے اور رولانے کے کام اتنی جلدی کیوں کیے وحسن اسے دیکھ رہا تھا 

وہ جوتوں والا؟؟  بہت کچھ سمجھ چکا تھا اب اور سمجھ 

رہا تھا 

میں اپنے جانے کے سامان کر رہی ہوں اور خود کو روکنے کے بھی میں بری طرح سے منتشر ہوں۔

میرا ایک حصہ میری مٹھی میں  ہے اور ایک اس کے وجود میں.. مے خود کو کہا کھڑا  کروں  اور کہاں سے چلتا کروں، میں  فصلہ نھیں کرپا رہی.. ولسن! میں نے اسے کھیل نہیں سمجھا تھا، مگر کھیل کی طرح ہی کھیل گئ۔۔ اسی لیےتو محبت میں ہار جیت ہوتی ہے۔ اگر ہم اس سے نہ کھیلیں تو ایسا تو نہ ہو نا۔۔ صرف جیت ہی ہو۔۔ بس جیت۔۔"

ولسن میز کے کنارے سے ٹک کے کھڑا ہوگیا۔ امرحہ اردو میں بول رہی تھی، اسے الفاظ سمجھنے مے دِقت تھی.. محسوسات سمجھنے مے ہر گز نہیں۔۔

"میں نے ہر خوبصورت شےکی طرف سر  اٹھا کے دیکھا ہے.. آنکھیں گاڑ کر.. دل جما کر .. پھر بھی میں یہ یقین حاصل نہ کر پائ کہ میں ان کے سہارے جی لوں گی وہ میرے لیے کچھ تو سہارا بن جائیں گی۔۔ دیکھو یہ سڑک پر چلتے لوگ، ہستے مسکراتے لوگ مجھے کتنے ہیبت ناک لگ رہے ہیں اور یہ آسمان سے برستی پھوار  مجھے اس پر ترس بھی آرہا ہے مجھے یہ  کیسی حقیر بھی لگ رہی ہے۔یہ میرے آنسووں سے مقابلہ کر رہی ہے۔۔ اور میں  نے ساری بڑ ی نعیمتوں کو گِن کر دیکھ لیا ہے ۔ ان کے انبار بھی مجھے دیے گۓ تو میرے لئے رائی برابر بھی خوشی کا سامان  نہ ہوسکے گا .. میں  کبھی حساب میں اچھی نہیں رہی اور دیکھو،آج ہر غم کے جواب میں وہ نکلتا ہے اور ہر خوشی کی سوال میں بھی۔۔ میرا حساب اچھا ہوگیا ہے "

میز پر رکھے ٹشو باکس کو ولسن نے آگے کرنا قابل تحقیر جانا۔۔وہ بچوں کی طرح  اپنے کسی پیارے کھلونے کے  ٹوٹ جانے پر رو  رہی تھی.. اسے لاڈ سے چپ کروایا جا سکتا تھا یا تسلّی سے، صرف اسکی انکھیں خشک کر دینا کافی نہیں ہوگا۔

"میں سوچتی ہو اگر اپنی ہتھیلیوں پر انسو بہاتی رہوں تو شید میری قسمت بدل جاۓ" اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ اسے سننے کے لیۓ کان اس کے منہ کے پاس لے جانا پڑتے تو ثابت ہواکہ وہ اپنے آپ سے بات کر رہی تھی۔

میں اسے کبھی یہ بتا نہیں سکی کہ وہ مجھے کتنا اچھا لگتا ہے۔اب اسے کون بتاۓگا کہ امرحہ نے اسے کتنا پسند کیا، اتنا کی میں نے اس کی پلٹ جانے پر  اس کی پشت کو اوجھل ہو جانے تک دیکھا اور اسکے سامنے آنے پر میں نے اپنی نظر سے اس کی نظر اتاری۔۔ اگر وہ مجھے نہ ملا ہوتا تو مجھہے یہ کبھی معلوم نہ ہوتا کہ خدا کی رحمت کیسے انسانی صورت مجسم ہوتی ہے اور اگر کرم اور مہربانی کی کوئی  پہلی صورت ہے تو وہ اس جیسے انسان کی زندگی مے شامل ہونا ہے۔  اندھیروں پر قابض ہوجانے والا وہ  روشن ستارہ جو طلوع ہوا کرتا ہے غروب نہیں۔ 

رات کو انکھیں بندکرنے سے پہلے مجھے یہ منظر دیکھنا یاد رہتا ہے کہ کیسے وہ  سر اٹھا کر قہقہے لگاتا ہے.. مجھے دلی سکون ملتا ہے اس منظر کو دہراکر جب وہ میرا ماسک اٹھانے جھکا تھا۔ جو مسکراھٹ اس وقت اس نے اپنےہونٹوں پر سجا رکھی تھی، وہ  ان جذبو کو عطاکی جاتی ہیں جو اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں اس مسکراہت سے میں اسکی مداح ھوگئی اور طلب گار بھی۔ میں اسے یہ بھی نہیں  بتا سکی کہ وہ خاموش رہتا ہے تو گنگناتا ہوا لگتا ہے  اور اگر وہ  گنگنا لے  تو ساری خاموشیوں  کو جگاتا لگتا ہے ۔ میں نے تو اے کچھ بھی نہیں بتایا اور نہ اس نے مجھے سنا۔ اس نے اپنے کان ویرا کے منہ کے آگے کر دیے،کتنی جلدی میں  تھا وہ بدہیت ہوتی ہےایسی عجلت کہ مٹھی میں قید کر لینے والے مٹھی کھول دینے پر مائل ہوں۔"

اپنے وجود کو ساکت رکھے، دونو ہاتھ گود  مے رکھے اسے  دیکھتے ولسن کی نظروں  میں ترحم بڑھتا جا رہا تھا۔ 

"تمھیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں، وہ ایک  دن خود تمھرے پاس  آۓگا ۔"

"مجھے بھی یہی خوش گمانی تھی۔ "

"جوش گمان ہونا اچھا ہے، بجاے بد گمان ہونے کے۔۔ اپنے دل کو اور ہلکا کرلو۔۔ لیکن کہیں مت جاؤ۔

جس حالات میں وہ بیٹھی تھی اسی حالت میں اٹھ کرباہر

 آگئ۔

وقت کے ساتھ ساتھ محبت نے شدت اختیار کرلی تھی۔ ڈریگن پریڈ تک وہ کچھ اور تھی۔ اب کچھ اور تھی۔ چشمہ دریابن چکا تھا اور دریا ایسے پانیوں میں گرتا تھا جس کی وسعت کی کوئ حد نہیں تھی۔

جو کچھ ان کے درمیان ہوچکا تھا وہ اب سے پہلے عام اور معمولی لگتا تھا ۔ کہانی کا ایک علمیہ حصہ.. جو ہر قصے کہانی سے جڑا ہوتا اور پھر سے سب خوش.. اور اب جب واقعی عالیان  کسی اور کے سپرد ہوا تھا تو سب خوش فہمیاں، غلط فہمیاں دور ہو گئ تھیں۔ سب اتنا آسان نہیں  تھا۔ حقیقت، سوچوں اور اندازوں سے کہیں آگے کی چیز ہوتی ہے۔ 

اس نے ہاتھ میں پکڑے شاپر کو دیکھاـ "کیا وہ اتنے سے عالیان پر راضی ہوجاۓ گی۔"

" نہیں۔۔ہاں نہیں۔۔"

خود سے کئ ہزار بار یہ سوال پوچھ چکے اور اس کا جواب جان چکے اور اپنا سب کچھ ہار چکے عالیان کو جیتنے کے لیے اس نے ایک آخری جوا بھی کھیل لےنا چاہا۔ 

اس کے خاندان کو حسب ونسب چاہۓ تھا اور اسے وہ۔۔

خاندان کے نام پر اسکے پاس کچھ تو ہوگا۔۔ کوئ تو۔۔ اور نہ جانے وہ کوئ کتنا معتبر ہو کہ عتراض کا سوال ہی نہ اٹھے۔۔

وہ ویرا کو ہاں کھ چکا ہے تو نہ بھی کھ دے گا۔۔ امرحہ کی ہاں کے بعد کسی نہ کی گنجائش نہ رہے گی۔ اس نے کوٹ کی جیب سے فون نکالا اور کافی عیر تک اسے دیکھا۔ وہ پہلے بھی ایک بار اس نمبر پر فون کر چکی تھی۔اسے کچھ نہیں بتایا گیا تھا بلکہ الٹا انہیں یہ شک ہوگیا تھا کہ وہ صرف پیسوں کے لیۓ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ ان کی مدد بھی کر سکتی ہے۔ 

برننگ مین اسکے سامنے آکے کھڑا ہوگیا اور اسے یہ بتانےلگا کہ اب اسے ساری زندگی اسی طرح جلنا ہوگا اور برننگ مین یہ نہیں جانتا تھا کہ آگ سے جل جانا جدائ کی آگ سے بہت کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔

---------------------

نیویاک سٹی کا مقامی ریسٹورنٹ ہے جس کی چھت کی زیبائش آنے والوں کو سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر دیتی اور جس کے ساۓ تلے بیٹھ کر کھانے میں وہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ ہال میں پھیلی 

میزوں پر بیٹھے لوگ کھانے کو محبت اور نرمی سے برت رہے ہیں اور اپنے سامنے بیٹھے شخص کی آنکھوں میں دیکھنے کو پسند کر رہے ہیں۔ افراتفری کو وہ باہر چھوڑ آۓ ہیں اور فرش سے چھت تک تنی شیشےکی دیواروں سے دیکھائ دیتی نیویاک شھر کی روشنیوں کو اپنے ساتھ ساتھ،لیکن پس منظر میں رکھتے ہیں۔

وہ بلندی پر ہیں اور یہی تو انہیں پسند ہے۔

سامنے ہال کی اس دیوار کے سامنے جس پر مقامی مصور نے اپنا شہکار ثبت کیا ہے کی دو فٹ اونچی ڈائس پر مائیک کے سامنے سفید فراک میں ملبوس وہ کھڑی ہے ۔۔ ویرا۔۔

"میری شام بنام عالیان"اسنے یہ فقراہ مسکرا کر کہا، لیکن وہ آواز کو زیادہ بلند نہیں کر سکی اور اس نے اپنی نظریں میزوں پر سجی بلوری شمعوں پر بھٹک نھٹک جانے دیں۔

"پہلی بار میں تب چونکی تھی جب اسنئمنٹ بناتے بناتے میں تھک کر رک گئ اور ہاتھ میں پکڑے پین سے میں نے عالیان کا نام لکھا اور پہر میں نے صفحے کو اس نام سے بھر دیا اور میں زرا نہیں تھکی۔ اپنے اعلاوہ کسی اور کا نام لکھنا، یہ کام کرنا مجھے اچھا لگا۔پھر جب وہ نوٹ پیڈ میرے لیۓ بیکار ہوگیا تو بس میں نے اس صفحے کو نکال کر سنبھال لیا۔"

ریسٹورنٹ اپنے قیام کی سالانہ تقریب کا ایک سلسلہ شام بنام بنا رہا تھا اور وہاں موجود لوگوں سے درخواست کی گئ تھی کہ وہ اس شخص کے نام کا اعلان کریں جو دنیا میں ان کے لیۓ سب سے زیادہ خاص ہونے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔چند سالوں بعد مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آے گئ.مجہے اب بی آرہی ہےلیکن مجھے اس ہنسی پر کو شرمندگی نہیں.  کہہ کرہ تک گئ.  اسے اس کئ رورت  محسوس ہوئ.  اسے چاہت الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے. اس نے سوچا. 

میں زندگی میں اتنی پر یکٹیکل رہی ہوں کہ منہ میں وہ احساسات ہی کم ہونے لگے جو نان پر یکٹیکل ہوتے ہیں.  پہلے میرا خیال تھا کہ میں اسیے شخص سے شادی کروں گئ جو پاپا کئ طرح کاہوگا. شاہد ہر لڑکی ہی ایسا چاہتی ہے. مجھے یقین تھا کہ میں کبھی  اپنے پاپا جیسے انسان سے نہیں  نل سکوں گئ اور ابھی تک ملی بھی  نہیں  اور اب یہ اتنا  قوری بھی  نہیں رہا.  مجھے  ذہانت سے لینا دینا تھا  اور یہ عالیشان کا میدان تھا  لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ اس کی سایکل کے پیچھے  بیٹھے  جب میں نے اسے پکڑنا چاہا اور پھر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے  خیال آیا کہ وہ برا مان جاے  گا اور اس خیال کے آتے ہی مجھے  خبر ہوئ  کہ مجھے  اس کی یہ ہیبات اچھی لگتی ہے. وہ ہنسی اور رک گی اور ہلکے سے گردن کو م دیا  اور ایسا کرتے اس کے کھلے با ل لہرگے _اج اس نے ترچھی  ما نگ نکال کر سامنے سے بالوں کی لٹ کو اٹھا لر اسے بل سے لر چمک دار سنہری پن لگائ  تھی . وہ وہاں اپنی ساری خوب سورتیوں اور مترنم ادائ ں سمیت موجود تھی . 

"میں ابھی  تک اس کی سب اچھی باتوں کئ فہرست  نہیں بنا ذکی اور ایسا مجھے  کرنا بھی  نہیں." ہاتھ  کو ہلکا سا لہرا کر اس نے ایسے اشارہ کیا کہ ہال میں ہلکی ہنسی کئ آوازہ گونج اٹہیں."میرا خیال تھا  کہ وہ یونی میں بس ایسے  ہئ مشہور ہے جیسا  کہ خوبصورت اور ذہین اسٹوڈنٹس  ہو جاتے ہیں.  پھر مجھے  معلوم ہوا کہ ہر تیسری لڑکی کا اس پر خرد ہے اور ہر دوسری لڑکی کے بارے میں ابھی  تک نہیں جان سکی کہ وہ کیا کرتی ہوائ. "

پال میں ہنسی پھر  گونجی اور اس بار دیر تک گونجتی رہی. سب اسے توجہ سے سننے پر خوش تھے. 

اور مجھے  کبھی  اس خبط کئ سمجھ  نہیں آی. معلوم ہوا تو یہ کہ اس میں کچھ  تو ہے,  کچھ بہت زیادہ, جب اسے اپنا منہ  بند لر لیتا ہے اور میرےنزدیک یہ ہی اصل  طاقت ہے.  دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہوںگے جو ایک انسان کو اٹھا  لر زمین  پر پٹھ دینے کئ طاقت رکہتےہوں گے لیکن ایسے کتنے لوگ ہوں گت جو زبان کو ہلانےکی معمولی لیکن بے بس لر دینے والی قوت کو قابو میں رکہتےہوں گت.  میںنے جب جب اسے کچھہ سنانا چاہا اسے ہمہ تن گوش پایا اسے بد مزاج اور چڑچڑاتے نہیں دیکھا.

ہاں اگر مجھے فہرست تیارکرنی ہئ ہو تو میں اس کے اخلاق کو سب سے اوپر رکہوں. وہ مضبوط اعصاب کا مالک ہے. اگر میں ایک آئیرن لیڈی ہوں,  جیسا کہ میرے بارے میں کہا جاتا ہے تو میں اس کے سامنے خود کو سرف انسان محسوس کرتی ہوں.  وہ وہی سانچہ ہے جو لفظ انسان پر پورا اترنا ہے.  اس کی موجودگی میں وقت جلدی گزرتا ہے اور اس کئ غیر موجودگی میں وقت کو اس تک لے جانے کئ تمنا کئ جاتی ہے.  پاپا کہتے ہیں وہ انسان بلاشبہ خوش قسمت ہوتا ہے حس کے گرد خاندان  کا جہرمٹ  سجتا ہے.  میں اس میں ا سافہ کرنا چاہوں گئ کہ وہ خاندان خوش قسمت ہو گاجس کا جہرمٹ عالیان کے گرد سجے گا. "

اس کی آنکھوں  کئ چمک اتنی بڑہ گئ  تھی  کہ عین اس کے سر پر لگے فانوس کئ چمک کو مانند کرنے لگی تھی.

تو میں نے سوچنے میں زیادہ وقت نہیں سریع کیا.  اکثر لوگ کر  جاتے  ہیں نا اور میں اور میں نے اس چیز کا انتظار  بہی نہیں کیا کہ وہ مجھ سے آکر کہرا.  "آؤ نل کر زندگی گزرایں. " مجھے  اندازہ تھا  کہ اب مشکل سے ہی وہ کسی سے یہ کہے گا.  ایک بار کہہ کر ہئ اس کے ساتھ  برا ہوا تھا  . مجھے  خوشی ہے کہ میں نے کہہ دیا.  مجھے  کہہ لینے دین کہ میں خوش ہوں مطمئن  بھی ,کیونکہمیری ماما نے ایک بار کہا تھا 'شادی اس انسان سے کرنا جس کی تمہیں نگرانی نہ کرنی پڑے ' میں نے بھی کہا کہ اسکے اخلاق کو میں سب سے اوپر رکھتی ھوں تو مجھے ایسے اخلاق کے حامل انسان کی نگرانی کی کبھی ضرورت پیش نہیں آے گی مجھے یقین ھے وہ ان ھی لوگوں میں سے ھے جو انسانوں کو استعمال کرتے کیونکہ وہ انہیں کوئ چیز نھیں سمجھتے وہ جھوٹ بول لیتا ھے اور ایسے بولتا ھے کہ شہادتیں دیتا ھے کہ وہ جھوٹ بول  رھا ھے ..اس سے مل کر میں نے ایک بات سیکھی ھے کہ بہت حال یہ انسان کہ ہاتھ ہوتا ھے کہ وہ اپنی ذات کو کس قدر خوبصورت بناتا ھے  

اسے تین منٹ کا وقت دیا گیا تھا جیسے کو سب کو دیا تھا , لیکن وہ بیس منٹ لے چکی ےھی اور ابھی بھی بول رھی تھی بولنے والا شخص خاموش ھونے کو تیار نھیں تھا تو شھر کی روشنیوں کو پس منظر میں رکھ کر بیٹھنے والے لوگ اسے چپ کروانے پر آمادہ نھیں تھے وہاں اس شخص کے بارے میں ذکر کیا جا رہا تھا جس کے بارے میں بولتے اور سنتے وقت سے ٹھر جانے کی گزارشکی جاتی ھے

مائیک کے پاس کھڑے اسکے گال گلابی ھو چکے تھے اس نے محبت کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا اور کسے خبر تھی اس نے یہ لفظ چھپا  کر رکھا تھا , وہ وہاں کھانا کھانے آئ تھی یہ سب کہنے نہیں لیکن اگر کہہ  دیا تو اچھا ھی کیا شا ید بہت اچھا کیا ..

برننگ مین نائٹ ھے اور اس کے گرددیرا گول گول گھوم رھی ھےاسکی سماعتوں نے ھونی کی چاپ سن لی تھی اور اسے صاف صاف نظر آنے لگ گیا تھا وہ کسی اور کی زندگی میں جا رہا ھے  

 ' یہ آنا اور جا نا ان کے معاملے کبھی صدیوں میں ملے ھو تے کبھی پلو ں میں, 'وہ ایک مرد تھا اور اس پر یہ تصور گراں گزرتا تھا کہ اس کے سامنے سے اسے اپنا لینے کی خواہش کی جائے .یہ حق وہ اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا . یہ رسم اسے ادا کر نی تھی  اسے یہ برا نہیں لگا کہ اسکا حق چھین لیا گیا ھے بس وہ ششدر سا رہ گیا ھے کوئ اسے اپنا لینے کی با ت کر رہاھے _ امرحہ نہیں _ بس کوئ  _ ہاں بس پھر وہ کوئ ھی ھو ..

وہ جا نتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس موڑ پر لے آیاتھاجس پر وہ خود کو کسی اور کے حوالے کر دینا چاہتا تھا اور دوسرے معنوں وہ کھیل ختم کر دینا چا ہتا تھا .. لیکن کھیل ختم نہیں ہوا تھا .. اسے ہر آواز بری لگ رہی تھی.... ہر انداز پر اسے اچنبھا  ہوا بر ننگ مین جل رہا تھا اور اپنی ساری تپیش اپنے اندر منتقل کر رہاتھا 

جس زمین پہ وہ کھڑاتھا وہ اسء کھسکتی ھوئ لگی .. ویرا اس کے سامنے کھڑی تھی .. لیکن اس منظر نے اسکا دل نہیں لبھایا .. وہ جس کے سامنے کھڑاتھا وہ منظر ماضی کی اوراق سے نکل کر اس کے سامنے داستان بنا کر کھڑا تھا

آگ سے بھرے میدان کے دائرے اس کے گرد کھنچ گئے اور لاتعداد گھنٹے اس کے سر پر بجنے لگے 

 'میں تم  سے شادی کرنا چاہتی ہوں ' اس نے یہ بات سن لی تھی..اور اسے یہ بات سنائ بھی نھیں دی تھی .. یہ ایک انہونی کے ھو جانے کی سناؤنی تھی اور ایک اعلان بھی کہ جوہرات جڑے بیش قیمت آنجورے کے پینڈے میں سوراخ ھو جائے تو پھر اسے یہ غرض نھیں رہتی کہ اس میں جوہرات محفوظ کیے جانے لگے ھیں یا کھنکتے سکے وہ تو بس اتنا جان لیتا ھے کہ وہ جام طہور ھونے کا فخر کھو چکا ہے اور یہ اعلان اسکی صداقت کی نشاندہی کرتا ہے جب یریم جل سے لب لباب ھوئے پیالا دل کے ساتھ یہ ھوتا ھے تو اسکو یہ فکر نہیں رہتی کہ اس نے کیا کھو کر اب کیا ھونے کا اعزاز پایاہے ..

اسکا دل اپنا فخر کھو نے جا رہا تھا اور یہ کیفیت بہت ہیبت ناک ھوتی ھے دل میں پہلے آنے والے کو ہم آخری سانس کے بعد بھی نہیں نکالنا چاہتے..اس عمد کو کر کے توڑنا ھی نہیں چاھتے ..

پودا لگنے لگتا ہے, کیونکہ ہمارا دل پڑھی جانے والی کہانی کا کوئ کردار نہیں ہے,  جسے پڑھتے پڑھتے اس پر لعن طعن کی جاتی ہےاور اس پر دو حروف بھج کر ساری ہمدردیاں با وفا لٹا دی جاتی ہیں دل اپنی کہانی کاری بن ک پڑھ نیں سکتا اور اگر ہم کسی ناقدرے کو سزا دینا چاہتے ہیں تو بہت جلد یہ جان لیتے ہیں کہ سزا تو ہم نے اپنے لیے تجویز کر لی ہےاور تکلیف سب سے زیادہ ہم بھگت رہے ہیں ناقدر اور نا شکرا ہی سہی اس کے أگے پیچھے مہبوب کا لفظ لگتا ہے اور یہ وہ لفظ ہے جس کے وزن پر کوئ دوسرا لفظ پورا اترتا ہے نا أدھا 

اس نے اپنی ماں کے بارے میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرلتی تو اس کے ساتھ ایسا نہ ہوتا امرحہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ولید البشر جیسی ہے اور خود اپنے بارے میں فیصلہ اسے اب کرنا تھااب وہ کیا چاہتا ہے "ویرا-"

اس نے اسکے ہاتھ کو نرمی سی چھوا- "جواب کے لیے اسرار نہ کرو - مجھے وقت دو..... "

"جتنا چاہے ووت لیلو صرف اتنا بتا دو کہ میں تمھے اچھی لگتی ہوں؟"وہ اسکے سامنے بیٹھ کہ معصومانہ کہنے لگی. 

وہ بہت پیاری تھی...  پر خلوص اور معصوم... اگر وہ ویران نہ ہوتی تو اسکے لیے وہی امرحہ ہوتی..

ہاں تم بہت اچھی لگتی ہو مجھے اس نے خوش دلی سے کہا اور وہ اتنی زیادہ خوش ہوئی اور اتنی زیادہ  خوش کے  اسے حیران کر دیا اتنی سی بات پر اتنی خوشی اور امرحہ اتنی اہم بات سن کر مسکرا بھی نہیں سکی۔۔وہ ویرا کے لیے اتنا اہم تھا اور امرحہ کے لیے اتنا غیر اہم اسے دوستی کی ضرورت تھی اور وہ اسے  دوست بنا، کر نہیں رکھ سکی تھی ۔۔اس نے ویرا کو دیکھا جو تالیوں کا جواب خود بھی تالیوں میں دے رہی تھی مسکرا رہی تھی 

جیسے زندگی میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے  اسکے لئے ایسے ہی مسکرانا چاہے پہلے اس پغام کو  عزت دی جانی چاہیے پھر قبول کا احترام کرنا چاہئے اس پر بہت ادراک ہو رہے تھے اسے ان پر  کان بھی دھرنے چاہئے تھے پھر فیصلہ کرنا چاہئے ۔۔لیکن جو فیصلہ بے اختیاری میں ہونا چاہئے جو فیصلہ اختیاری میں ہواس میں کیا ہوتا ہے جو اس میں نہیں ہوتا۔۔اس نے گھوم کر چاروں طرف نظر ڈالی تو اس کی ساری دلچسپیاں ختم ہو گئی ہر طرف اسے ایک ہی چیز نظر ائی آگ۔۔

برننگ مین خوش قسمت ہے کتنی آسانی سے ختم ہو رہا ہے

ویرا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اس کے ہاتھ میں نرمی تھی پھر بھی اس پر پہاڑ آ گرا۔۔۔وہ ویرا کی خوشیوں کے معترف تھا 

پھر بھی اس نے بھاگ کر جانا چاہا۔وہ ایک خوبصورت لڑکی 

تھی مسکراہٹ اس پر سجتی تھی 

وہ ایک خوبصورت مرد تھا وہ اپنی مسکراہٹ گنوا رہا تھا ۔

یہ اگلی رات ہے وہ ہارٹ راگ کے اسٹور میں بند تھا ۔زمین پر بیٹھا اپنی ماں کو اندھیرے میں موجود پایا ایسا اس نے خود چاہا اس سے سوال کیے۔یہ سب اس لیے ہو رہا کے میں آپ کا خون ہوں اس لیے بھی کے قدرت کا آپ سے انتقام پورا نہیں ہوا

ڈی جے کے الفاظ سے mash up سے اس کی آواز زیادہ پر اثر نہیں تھی 

میں ایک انسان ہوں ماما اور میں سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتا جو مجھے ٹھیک لگ رہا ہے ہو سکتا ہے وہ غلط ہو 

جو غلط ہے ٹھیک ثابت ہو جائے میں کتنا بھی عقل مند ہو جاؤں مجھے یہ یاد رہتا ہے بہت سے معاملات میں عقل کا عمل دخل ہوتا ہی نہیں میرے دل کے ہر حصے میں یہ بات نقش تھی کے آپ نے بیوقوفی کی میرا دل مجھے یاد دلاتا ہے میں بیوقوفی  کر رہا ہوں لیکن کہاں یا مجھے ٹھیک سے اندازہ نہیں ہو رہا میں آپ کے ماضی میں جینے لگا ہوں اور میرا حال میرا ماضی بن رہا ہے میں زندگی میں دوبار انتہاٰ تکلیف سے گزرا جب آپ کو سرد ہوتے دیکھا اور ایک تب جب امرحہ کے دل کو اپنے لیے سرد پایا ۔اس دوسری تکلیف نے مجھے پہلی تکلیف بھلا دی۔میں آپ کی اور اپنی محبت میں پھنس گیا ہوں ۔آغاز میں نہیں انجام میں۔سائ کہتا ہے کہ میں نے امرحہ کو معاف نہیں کیا ۔میں نے معاف کر دیا ہے ۔لیکن آگے کیا۔

اب میں اس پر سوچ رہا ہعں آگے کیا ؟ایک پُر خلوصِ دل ویرا کو مایوس کردوں یا ایک سخت دل امرحہ کے لیے خود کو تنہا کر لوں۔یہ ایسے بھی ہے کے میں ایک ایسے دل کے پیچھیے باگوں جومجھے ضمانت کے طور پر چند لفظ بھی نہیں دیتا ۔سائ کہتا ہے کے یے اس کی روایات ہیں جو وہ ایسے پابند ہے ۔توماما ایک انسان جس کی چاہت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اپنے جذبے کو روایات سے اوپر لے جائے۔

کیا ایک انسان ہر شے سے بلند نہیں رکھا جا سکتا ۔کیا ایک انسان کو ارفع بنانے کے لیے اس طاقت محبت کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔کیا ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے برتا نہیں جا سکتا ۔ایک انسان کیتنا قیمتی ہے. یہ مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو کھودیا،جو اپنا آپ کھونے جا رہا ہے ۔

کیا آپ کے محبت سے لبریز دل کے مقابلے میں کائنات کی کوئ چیز ٹھہر سکتی ہے ۔اور کیا یہ کہا نہیں جاتا کہ جس نے ایک انسان کو پالیا اس نے سب پالیا۔تو کیا میں وہ انسان نہیں ہوں جسے پاکر سب پالیا جاے؟ میں امرحہ کے لیے انسان کیوں نہیں ہوں؟ 

                   *********

سائ دوبارہ گھر آ چکا ہے تم کہا تھیں؟ اس کی شکل دیکھتے ہی سادھنا پوچھنے لگی۔

"میں جاب پر تھی۔

آج چھٹی ہے اوت تم صبح ہی گھر سے نکل گئں کہا گئ تھی تم؟؟ 

"ایسے ہی خریداری کرنے؟ وہ نشت گاہ کے سامنے کھڑی تھی ۔

"اتنی صبح؟ 

"اتنی صبح بھی نہیں گئ تھی ۔

اپنے کمر ے کی کھڑکی سے میں نے تمہیں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا، میں آریان سے بات کر رہی تھی ۔؛؛

"کیسا ہے آریان اب؟؟ 

سائ کہہ رہا تھا وہ اسٹور بھی گیا تھا ۔تم وہاں بھی نہیں تھی ۔وہ بہت پریشان تھا ۔"

"میری فون پر اس سے بات ہو چکی ہے.

میں نے اس سے پوچھا کہ تم دوبار آچکے ہو فون پر امرحہ سے رابطہ کیوں نہیں کرتے تو وہ خاموش رہا ۔

وجہ کچھ اور ہے۔؟؟

بس ایسا ہی پاگل سا ہے وہ۔  وہ چلتی اپنے کمرے تک آگئ پیچھے پیچھے ہی سادھنا تھی ۔امرحہ نہیں چاہتی تھی کے سادھنا اس کے کمرے میں آے۔ اس کے کمرے کی حالت ایسی اچھی نہیں تھی ۔

تم کہی جا رہی ہو؟؟  کمرے میں اتے ہی سادھنا کی بیڈ پر رکھے سوٹ کیس پر گئ۔

نہیں- اب نہیں۔ جوتوں کا شاپر اس نے ایک طرف رکھ دیا ۔

سادھنا نے ایک سوٹ کیس اٹھا کے دیکھا کافی وزنی ہے۔

اس میں فالتوں کا سامان ہے میں چیرئٹئ کے لیے دے رہی ہوں ۔۔

یہ دو اتنے بڑے سوٹ کیس چیرئٹئ؟؟ 

"ہان۔ "جھوٹ بولتے وہ زرہ نہیں گبھرائ ۔

تم کچھ چُھپا رہی ہو امرحہ؟؟  وہ اس کے قریب آ کے کھڑی ہو گئ ۔

نہیں سادھنا میں کچھ نہیں چُھپا رہی ۔ خود کو بہت پُر وقار بنا کر اس نے کہا ۔

پھر کیا کرتی پھر رہی ہو ۔اتنی صبح کیوں نکلی تھی تم۔گھر سے ؟؟**.

اپنے لیے نکلی تھی۔اپنے خاندان کے مان سمان کے لیے، اُس کا انداز تلخ ہو گیا 

"کچھ ہوا ہے کیا؟ 

تمہاری آنکھیں سرخ ہیں اور چہرہ ماتم زدہ "وہ طنزیہ ہنسی ۔ہان ایسا ہی ہے "کہتے ہیں اُس نے نظریں نہیں چرائیں۔تم کچھ اور نہیں تم کچھ اور نہیں دیکھ رہیں سادھنا؟؟ 

کچھ اور ۔سادھنا کی پیشانی کی کھال سمٹ گئ۔ کیا میں تمیں بدلی بدلی جُرات مند نہیں لگ رہی؟ 

نہیں تم مجھے نڈر لگ رہی ہو ۔اس کے چہرے کے عضلات سکڑ گئے۔ایک ہی بات ہے۔ امرحہ بیٹھ کے اپنے جوتے کے تسمے کھولنے لگی ۔نہیں جرات مند بہادر کو کہتے ہیں اور نڈر نہ ڈرنے والے کو ۔بے حس کو بھی ۔تسمے کھولتے امرحہ کے ہاتھ رُک گئے "تم نے کس کتاب میں نڈر کو بے حس پڑھا ہے؟  تسموں کی گرہ کھولنے کے بجائے اُس نے گرہ لگا دی۔

اپنی زندگی کی کتاب میں سادھنا نے دیکھ لیا اُس نے گرہ لگا دی ہے۔

امرحہ سر اُٹھا کے سادھنا کو دیھکنے لگی "تم نہیں سمجھو گی ۔

میں بھی اپنی بہن سے یہ ہی کہا تھا ۔تسموں میں ایک اور گرہ لگ گئ۔

کیا وہ عالیان ہے؟ تسموں کو دوسری گرہ لگتے بھی سادھنا نے دیکھ لی تھی ۔

وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئ ۔کیا تمیں عالیان پسند نہیں؟؟  میرے بیٹے کو زندگی دینے والے فرشتوں میں سے ایک وہ بھی ہے۔وہ مجھے کیوں پسند نہیں ہوگا "

تو تم نے سوال ایسے کیا جیسے تمیں اعتراض ہو۔****

ہمیں ہی تو اعتراض نہیں ہوتا امرحہ...... 

سادھنا اتنی زہین ہو گی امرحہ کو اندازہ نہیں تھا ۔ایک لفط میں ساری بات سمیٹ دی ۔پوری توجہ اُس نے تسمے کھولنے میں لگا دی اور اٹھ کر وارڈروب تک آئ ۔لیکن یہ سوچ کر نہیں کھولی کہ خالی وارڈروب دیکھ کر سادھنا اور سوال کے گئ۔

مجھے کوئ تو جواب دو ۔وہ دونوں ایک ہی حطے سے تھی ۔اور سادھنا اپنی طرف سے اُسے وہ سب سمجھانا چاہ رہی تھی ۔جو خود اُس نے بعد میں سمجھا تھا۔

مجھے اعتراض نہیں ہے سادھنا ۔اور میری بلا سے ساری دُنیاکو ہو۔ تھوڑا بہت اگر عالیان کے آگے پیچھے کا پتا چلے تو ٹھیک۔ ورنہ اب مجھے کوئ پروا نہیں ۔مجھے اپنے دل کے سوا کیسی کی بھی پروا نہیں۔میں نے دیکھ لیا ہے اسے کھو کر کیسا لگتا ہے ۔اور اس احساس کے ساتھ جینے کی مجھے کوئ خواہش نہیں۔میری آنکھوں سے دیکھوں مجھے اب اس کے سوا کوئ نظر نہیں آرہا۔میں پہلے ہی بہت بُرا کر چکی ہوں۔پھر نہیں کروں گئ۔

تم نے اپنے دادا سے بات کی ۔سادھنا کو سن کے حیرت نہیں ہوئ۔

کی تھی اور جواب وہی آیا تھا جس کی تواقع تھی ۔انہیں اچھے انسان سے مطلب نہیں ہے۔ انہیں ایک اچھا خاندان چاہیے تیز آواز میں کہہ کے وہ واش روم چلی گئ۔تاکہ سادھنا کمرے سے چلی جائے۔وہ زبان سے کہہ رہی تھی کہ وہ بہادر ہو گئ ہے ۔اور واش روم میں وہ پسینہ پسینہ ہو رہی تھی ۔

فون کرنے سے پہلے اس نے اپنے دماغ کو سُلا دیا تھا ۔اس سے پہلے بھی جب اُس نے فون کیا تھا وہ گبھرا رہی تھی ۔

ہیلو ۔ہان۔جی۔نہیں میں اپنا نام نہیں بتاؤں گئ ۔مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ مار گریٹ کی اولاد کے بارے میں کون معلوم کرنا چاہتا ہے ؟؟

تمیں اس بارے میں فکر مند ہونا چاہیے کھردرے انداز سے کہا گیا ۔

مجھے کچھ معلومات مل جائے تو شاید میں کچھ کر سکوں۔ اُس نے بات بنائ۔

پیسے دیے جائے گے معلومات نہیں ۔

میرا صرف ایک سوال ہے ۔کون ہے جو یے سب جاننا چاہتا ہے۔مارگریٹ کا شوہر؟؟ 

تھوڑی دیر خاموش رہی فون بند کر دیا گیا۔

اُس نے لوکل فون بوتھ سے فون کیا تھا ۔لیکن اس بار اُس نے اپنے موبیل سے فون کیا تھا۔ میں بتانے کے لیے تیار ہوں۔لیکن اس کے فوراً بعد مجھے بتایا جائےگا کہ کون یہ سب معلوم کرنا چاہتا ہے؟؟ 

کچھ دیر خاموش رہی پھر اُسے ہولڈ کروایا گیا ٹھیک ہے۔

عالیان ۔مارگریٹ ۔اسٹوڈینٹ آف مانچسڑ یونیورسٹی۔ ایم بی اے ۔رہائشAnselm۔ہال وہ روانی سے بول گئ کہ مبادا وہ اپنا ارادہ ہی بدل دے۔اب مجھے میرے سوال کا جواب دیں ۔خوف نے یک دم اس کے گرد گیھرا تنگ کر دیا۔ ۔عالیان کا باپ کہہ کے فون بند کر دیا ۔اُس نے بہت پُر سکون سانس لی اُس کے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔۔

اب اُس کا باپ غیر مسلم ہو تو موجود تو ہو گا  ۔اس پر موجودہ سوالیہ نشان تو مٹے گا ۔وہ دادا کو منانے کی کوشش کرے گئ کے وہ ایک مسلمان سے شادی کرنے جا رہی ہے ۔باقی کی گنجائش اگر نہیں بھی نکلی تو اب وہ اس بارے میں نہیں سوچے گی ۔بہت سوچ لیا بہت رولیا یک دم سے خیال آیا کہ اسے معلوم ہوا کے عالیان کے کاغذات میں وہ مذہٰب لکھوانے گئے تھے ۔ایک مذٰہب اسلام تھا یعنی اس کا باپ مسلمان ہی تھا ۔اس سوچ نے اسے اور ہلکا پلکا کر دیا ۔اس نے اپنا دماغ منفی سوچو ں سے آذاد کر دیا اور اپنا سامان کھول دیا ۔*******

ویرا نیویارک اپنے بھائ کے پاس آئ تھی ۔ایلکسی نے درمیانے درجے کی ایک فلم میں پوسٹ پروڈکشن کا کچھ کام کیا تھا اور اب فلم کا پریمیر تھا ۔روس سے اُس کے ماما۔پاپا بھی آئے تھے پریمیر رات کو تھا اور شام کو وہ پاپا کے ساتھ نیویارک کی سڑکوں پے چہل قدمی  کر رہی تھی ۔تمہارے نیویارک آنے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئ ۔انہوں نے ویرا کا ہاتھ اپنے بازو کے خم میں دیا ۔اور کے چہرے پر دبے دبے اُس جوش کو جانچا  جس کے لیے وہ انہوں چہل قدمی کے لیے لائ تھی ۔

میں ایلکسی کے لیے آئ ہوں اور آپ سے ملنے بھی۔

تم کرسمس کی چھٹیوں کے لیے پیسے اکھٹے کر رہی تھی اس ملاقات میں کیسے ویسٹ کر دیے ۔؟؟

میں اتنی بھی کنجوس نہیں پاپا ۔

تم اتنی بھی شاہ خرچ نہیں ویرا ۔

میں آپ کو یاد کررہی تھی آپ کو ملنا چاہتی تھی آپ سے ۔اُن کے بازو کو تھامے وہ پوری اُن کے ساتھ چِپک گئ۔

جب جب تم۔مجھ سے یے کہتی ہو مجھے محتاط کر دیتی ہو ۔ ایک سال پہلے تم نے یے تب کہا تھا جب تمیں مانچسڑ جا کے پڑھنا تھا ۔

مانچسڑ جاکےپڑھنے کافیصلہ غلط تو نہیں تھا ؟؟

نہیں ۔لیکن روس میں سب ہے یونیورسٹی بھی ۔

میں نئے ماحول میں آنا چاہتی تھی ۔

امرحہ سے ۔کارل سے ۔عالیان سے۔؟ 

بلکل مجھے ان سب سے مل کو بہت اچھا لگا ۔

یہ روس میں مجھے نا ملتے ۔

روس میں جو روسی تم سے ملتے وہ ان سے بُرے نہ ہوتے ۔رُک کر انہوں نے ویرا کو جتایا ۔

آپ ہمیشہ اس ایک بات کو ثبوت کیوں دیتے رہتے ہیں ۔کہ آپ بہت محب وطن ہیں۔۔

میں ہوں ۔اور اس میں کیا بُرا ہے۔ ہر انسان کو اپنی سر زمین سے محبت کرنی چاہیے ۔اور اس کی حمایت کرتے رہنا چاہیے۔اپنی اولاد کے سامنے تو حاص کر۔۔

محب وطن ہونے کے ساتھ محب دنیا بھی ہونا چاہیے۔ اس دنیا کا بھی کچھ حق ہے ہم پر ۔ تمہارا نکتہ کافی اہم ہے اوت مجھے پسند بھی آیا اور مجھے یہ خیال بھی آ رہا ہے کے تم نے یہ محب دنیا کا فلسفہ یہاں مانچسٹر آ کر سیکھا  آکر سیکھا ہے ۔ اپنے بازو کے خم میں موجود اُس کے بازو کو دوسرے ہاتھ سے تھپک کے اُنہوں نے مسکرا کر کہا ۔

کسی سے ملوانا ہے آپ کو اُس نے ایک دم سے کہہ دیا۔۔

میری کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا ۔انہوں نے اپنے سر کو ہلایا۔۔

کیسے ۔وہ ہنسی ۔۔

تم مجھے بار بسر یہ کہتی تھی تم۔پڑھ پڑھ کے تھک چُکی ہو تمہاری آنکھو کے گِرد جھریاں نمودار ہونے لگی ہیں دوسرے معنوں میں تم بوڑھی ہو رہی ہو ۔کتابوں کے صفحات پڑھ پڑھ کے تم اوبنے لگئ ہو ۔ اور زندگی کو بس درس گاہوں تک ہی تو نہیں رہنا چاہیے نا ۔

وہ زور سے ہنسی ۔یہ سب تو میں مزاک میں کہہ رہی تھی ۔

لیکن میں سنجدگئ سے سنتا رہا ہوں ۔ تمیں شادی کرنی ہے ۔؟؟

نہیں کرنی چاہیے۔؟؟

ضرور کرنی چاہیے۔

آپ نے پوچھا نہیں کون ہے۔؟

پوچھنا نہیں ۔ملنا چاہتا ہوں۔۔

پھر بھی۔

ضرور پوچھ لیتا ۔اگر تمیں نہ جانتا ۔کافی عقل مند ہو تم۔ بے وقوفی تو نہیں کی ہوگئ۔

وہ بہت زہین ہے۔

اوہ تو مسئلہ زہانت ہے۔ شادی کر کے مات دینا چاہتی ہو۔ایسے ہراؤ گی اُسے۔

نہیں۔نہیں۔مجھے اُس کی شرافت پسند ہے ۔۔

کیتنے شریفوں سے مِل چُکی ہو جو اُس کی شرافت کو اولین کر رہی ہو؟؟؟ 

آپ جانتے نہیں کیتنا صفر کر چُکی ہوں دنیا کا ۔

تو تم نے اپنے تجربے کی بِنا پر اُسے چُنا؟؟  

میں اس کا فیصلہ نہیں کر سکی ۔ اُس نے جھوٹ نہیں بولا ۔۔

کب آنا چاہتی ہو گھر ؟؟

ڈگری لینے کے بعد۔اُس کا نام عالیان ہے ۔

اوہ عالیان میں اُسے جانتا ہوں ۔میری بیٹی ویرا اکثر اُس کا زکر کرتی ہے ۔ویرا دل کھول کر ہنسی اور سر اُن کے کندھے پر رکھ دیا۔میں اکثر سب کا ہی زکر کرتی ہوں پاپا۔

ٹہرو ۔مجھے اپنی یاداشت کنھگال لینے دو ۔میری بیٹی ویرا نے اُس کے بارے میں کیاکیا کہا ہے ۔انہوں نے اپنی کنپٹی کو مسلا۔

کل عالیان کا برتھ ڈے ہے اور میں پندرہ دن سے مالز کی خاک چھان رہی ہوں اور کوئ ایک بھی تحفہ دریافت نہیں کر سکی جو اُسے پسند آسکے تو آخر میں کیا کروں۔ میں پھر سے مال جا رہی ہوں ۔انہوں نے ویرا کے انداز کی نقل اُتاری ۔

۔۔بابا۔۔وہ اور ہنسنے لگے اور زیادہ شدومد سے کنپٹی مسلنے لگے اور ویرا نے اُن کے ہاتھ کو سختی سے اپنے ہاتھ میں بینھچ لیا ۔۔

عالیان کو ساتھ لے آتی۔۔

اُس نے کہا وہ اپنی کلاس نہیں چھوڑ سکتا ۔۔

تو امرحہ کو ہی ساتھ لے آتیں مجھے اُس سے باتیں کرنی تھی بہت ساری ۔۔

اُس نے بھی کہا وہ اپنی کلاس نہیں چھوڑ سکتی ۔۔

 "دونوں  نے  ایک ہی بات کی... دونو بہت اچہے  دوست ہیں نا ؟"

"تقریباً...امرحہ نے یہ بات عالیان سے سیکھی ہے ۔"

"اور اس پر سختی سے عمل بھی کرتی ہے؟" روک کر انہوں نے ویرا کو دیکھا اور ویرا نے اپنی گردن ان کے شانے سے ہٹالی۔

-------------------

رات کو اس نے اپنے لئے کافی بنائ اور کمرے مے جا کر اسکو یاد آیا کہ مگ وہ  کچن میں ہی بھول آیا ہے۔ پھر کچن سے مگ لا کر سامنے رکھ کر وہ اسے پینا بھول گیا۔ پھر وہ بلا وجہ ہال میٹس کے کمروں میں چکر لگاتا رہا۔ کچھ اسے بیٹھنے کے لیۓ کھتے تو وہ کمرے سے ہی باہر چلا جاتا۔

دو بار اس نے اپنا بستر ٹھیک کیا، تکیے سیٹ کیۓ اور لیٹ کر کتاب پڑھنے لگا پھر اس نے اس فلور پر جانے کا فیصلہ کیا جہاں ہفتہ وار خود ساختہ تھیٹر لگا تھا، اتوار کی رات تھی اور کارل شاہ ویز مل کر پروفیسرز اور فریشرز کی نقل اتار رہے تھے۔ وہ کوریڈار کے آخری سرے پر اپنے ڈرامے کر رہے تھے اور باقی کوریڈور میں ہال میٹس کرسیوں پر بیٹھے گلے پھاڑ پھاڑ کر ہنس رہے تھے۔ درمیان درمیان میں شاہ ویز زنانہ کپڑے بھی پھن لیتا اور کسی لڑکی فریشر کا کردار نبھاتا، کارل نے اسے بھی گھسیٹا۔ "کہا تھے تم کب سے بلارہے ہیں تمھیں۔"

"پڑھ رہا تھا۔" اس نے جھوٹ بولا۔ "چلو پروفیسر oope set کو بہت دنو سے ہم یاد کر رہے ہیں۔"

اپنے ذہن کو بہلانے کے لیۓ وہ اپس سیٹ بن کر کھڑا ہو گیا۔ آنکھوں پر چشمہ لگا لیا۔ بالوں کو پانی لگا کر سر پر جما لیا اور زرا سا کب نکال کر سر کو کھجانے لگا۔ دس اسٹوڈینٹ سامنے بیٹھ گۓ۔موبائل

"Oops..oops...pick up the call"

کی مضحقہ خیز ٹون کے ساتھ بجا پروفیسر اچھی طرح جانتے تھے کہ یونی میں انہیں کیا کہا جاتا ہے، ٹون کی آواز پر گردن کو جھٹک کر انھوں نے ایسے تاثرات دیۓ جیسے کسی نے پیچھے دبۓ پاؤں آکر ان کی کنپاٹی سے گن لگا دی ہو"فریز پروفیسر" اور پروفیسر فریز۔۔ حرکت کا سوال ہی نہیں۔

"کس کا فون ہے یہ" ہلے بیغر کہا گیا۔

ایک لڑکی (شاہ ویز)نے ہاتھ اٹھا کر زرا دور بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا"اس کا پروفیسر" اس تیسرے لڑکے نے چوتھے کی طرف اس طرح یوں دس لوگوں کے بیس بازؤوں کا جال بن گیا ہے جس میں پروفیسر الجھ گۓ۔ فون ابھی الجھ رہا ہے۔

ہر ایک ہاتھ بلند ہونے پر پروفیسر کے تاثرات کا مظاہرہ کرتے وہ سب کے پیٹ میں بل ڈال دیتا اور آخر ایک لڑکی  "کاکروچ " جیسی بلا کو دیکھ کر ایسے چلاتی ہے کہ پروفیسر کلاس کے باہر پاۓ  جاتے ہیں۔ کوریڈور میں  بیٹھے وہ سب اپنی کرسیوں سے نیچے لڑھک گۓ۔

پروفیسر صاحب کے ساتھ ایسے oops وہ کئ بار کر چکے تھے۔

"آج تمھاری پرفارمنس ہی لاجواب تھی یا خود بھی اپ سیٹ ہو۔"

"میں ٹھیک ہوں۔" 

"تم مجھے اپنےٹھیک ہونے کا مت بتایا کرو۔ ویسے میرا خیال تھا کہ ویرا مجھے پسند کرتی ہے۔" کارل نے کوریڈور کی دیوار سے کمر ٹکائ اور ہاتھ باندھ لیے کارل بہت سی لڑکیوں کے بارے میں یہ دعوا کرتا تھا کہ وہ دل ہی دل  میں اسے پسند کرتی ہیں اور کچھ وقت بعد جب وہ لڑکی کسی بھلے انسان کے ساتھ دیکھائ دیتی تو کارل کہتا کہ اس نے مجھے پروپوز کیا تھا، لیکن مجھے اس کی نیلی آنکھيں پسند نہیں تھیں تو انکار کر دیا۔ بلکہ اکثر ہال میٹس یا کلاس فیلوز اسے بتاتے کہ کارل وہ جو سبز آنکھوں والی معصوم سی لڑکی، جس کا تم پر کرش تھا نا، وہ آج فلاں ریسٹورنٹ میں ایک

ہینڑسم لڑکے کے ہاتھ سے اپنی انگلی میں  انگھوٹی پہنتی پائ گئ ہے۔افسوس اسے یہ کام بجھے دل سے کرنا پڑا جب کہ وہ تو تمھیں پسند کرتی تھی۔"

"تو تم ویرا کو پسند کرتے ہو۔" عالیان اسکی تاریخ جانتا تھا، اسے چڑا رہا تھا۔

"میرا دماغ تھوڑا بہت کام کرتا ہے بڑی۔" وہ فلہال چڑنے والا نہیں تھا۔

"ویرا کا بھی تھوڑا بہت کام کرتا ہے نا بڈی۔!"

"تمھاری ناک توڑ دوں گا میں۔"اس نے گھونسا تان کر کہا۔

"پھر بھی لڑکیاں تمھے پروپوز  نہیں  کریں گی۔" اپنے ہاتھ کے گھونسے سے عالیان نے اس کے گھونسے کو روکا۔

"کیونکہ ان کی نظر کمزور ہے انھیں لگتا ہے کہ تم کوئ شہزادےویہزادے ہو۔"

شاید،لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کی نظریں کمزور نہیں ہے، انھیں یقین ہے کہ تم کوئ  شیطان ویطان ہو۔"

"زیادہ اچھلو مت، رم میں صرف ایک خوبی ہے کہ تم سگريٹ نہیں پیتے اور لڑکیوں کو سگریٹ سے نفرت ہوتی ہے۔"

"اور تم میں صرف ایک خرابی ہے کہ رم سگريٹ کے ساتھ ساتھ خون بھی پیتے ہو۔"

"تم بچ گۓ ہو ابھی تمھارا خون پینا ہےـ"

اس نے اس کی گردن کو دبوچا۔

"فرشتے کا خون تمھے بد ہضمی کردے گا۔ہضم نہیں ہوگا تمھیں۔" عالیان  نے اپنی گردن اس سے دور کی۔

"فرشتے تو فرشتوں کا خون پیتے ہی نہیں تو یہ کام مجھے ہی کرنا ہےاور میںاسے ہضم بھی کروالوں گا اور سنو دی اینجل !اگلے ہفتے دو الوؤں کے ساتھ ریس ہے،انعامی رقم پچیس پونڈ میں نے طے کروالی ہے۔"اس نے آنکھ  ماری۔

ساری یونی جانتی تھیکہ وہ کیسے اسٹوڈینٹس کو بھڑکاتا تھا اور پھر انہیں مقابلہ کرنا ہی ہوتا تھا۔یعنی ہر صورت مقابلہ،ورنہ ان کی غیرت کی موت۔

"ہاں ایک اور بار میں تمھارا اور ویرا کا بریک اپ بھی کرواسکتا ہوں،تمھیں یاد ہے نا تم نے میرے کتنے بریک اپس کرواۓ تھے۔"

کارل کھ کر دبارہ تھیٹر کی طرف لپکا، عالیان  کے تاثرات ایک دم سے بدلے، کارل نے مزاق کیا تھا مگر اسے وہ ہتک یاد آگئ تھی جو ہارٹ واک میں اسکی ہوئ تھی۔ وہ اپنے کمرے میں آگیا۔

"امرحہ ۔۔وہ کون ہے۔۔ میں اسے نہیں جانتاـ"

پھر سے پرانی تکرار۔ جب انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے تو ان ٹکڑوں میں جابجا خوف،وہم اور  بے عتباری قابض ہوجاتی ہے۔درزوں اور درازوں ہی میں۔۔ پھر یہ درزے پہاڑ بننے لگتی ہیں اعر پھر ان پہاڑوں کو سر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اب اس وقت وہ خود کو ان پہاڑوں میں گہرا پا رہا تھا اور ان پر "ویرا " نام کی صدا لگا رہا تھا جو پلٹ کر امرحہ کی صورت آرہی تھی۔

ایک دروازہ اس نے اپنے اندر کھلتا پایا کہ وہ ویرا کے کتنے  بھی پلس پوائنٹس نکال لے، ایک پوائنٹ فلحال شاید کبھی ان میں شامل نہیں  ہوسکے گا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔

اس نے خودکو وقت دیا۔۔ جلدبازی ہتک نہیں ہوگی اور آخری  بار جب وہ اس کے پاس آئ تھی تو اس کے لیۓ کچھ لائ تھی۔۔ پیغامات۔۔ ان میں کیا لکھا تھا اس نے یہ جاننا نہیں چاہا تھا لیکن اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کاش چپکے سے اس کے کمرے سے چرا کر وہ انہیں پڑھ لے۔ یہ کوئ ایسا مشکل کام نہیں اس کے کمرے تک وہ  بہت آسانی سے جا سکتا تھا۔

---------------------

یونیورسٹی میں ویرا کے پروپوزل کی خبر اسٹوڑینٹس اور گروپس میں سنی اور سنائ گئ عالیان  کے پروپوزل کو دبے دبے انداز میں زیر بحث لایا گیا تھا۔ کیونک اس کے پروپوزل کی خبر ہارٹ راک سے نکلی تھی۔

اور اس انداز میں نکلی تھی کہ اسٹوڈینٹس نے اسے کمال رحمدلی سے نظر انداز کر دیا تھا، کیونکہ  اگر وہ ایسا نہ کرتے تو عالیان کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ان سب کی ہمدردیاں عالیان کے ساتھ تھیں اور بہت سے اسٹوڈینٹس کے نزدیک امرحہ خودغرض تھی بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے تعلقات میں اتارچڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں اور کچھ کا مانناتھا کہ بات شروع ہوئ۔۔اور ختم ہوگئ۔۔ بس۔

"اور اب یہ ہیرا کہاں سے آگئ؟"بون فائر پارٹی میں آگ کے گرد بیٹھے ان سب کے گروپ میں پلیٹ اور مگ ہاتھ میں پکڑے بیٹھتے شرلی نے کہا۔

"جب دو میں فاصلہ اتنا زیادہ ہوگا تو تیسرا تو آۓ گا ہی۔"للی نے چچ چچ کے انداز میں کہا اورطشرلی کی پلیٹ سے چکن پیس اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا۔

"تم نے دیکھا تھا وہرا کو پروپوز کرتے؟"شرلی نے بیٹی لو سے پوچھا۔

ہاں مجھے اسٹوڈینٹس کی تالیونج نے متوجہ کیا وہاں زیادہ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے اسٹوڈینٹس ہی موجود تھے۔"بیٹی لو کافی پی رہی تھی۔

"عالیان نے کیا کہا ؟" ازرا نے پوچھا

"اس کا جواب مبہم تھا۔جارحیا بتا رہی تھی کہ اس نے کہا جواب کے لیے اسے کچھ وقت چاہیے۔"

"اور کیا جواب ہوگا اسکا؟"ہانا نے سہم کر کہا۔ 

ظاہر ہے ہاں۔اگر ہاں نہ ہوتا تو ویرا کے پروپوز کرنے کی نوبت ہی کیوں آتی۔"عزرا نےسنگ دلی سے کہا۔

تو ثابت ہوا عالیان کو امرحہ سے کوئ دلچسپی نہیں ہے۔شرلی نے ہونٹ سکوڑ کر راۓ دی۔

"میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ ایک کرسچن عورت کے بیٹے سے کوئ تعلق نہي  بناۓگی" عزرا نے شانے اچکا کر اپنی راۓ کی تصدیق چاہی اور سب کی طرف دیکھا۔

"جب وہ نئی نئی یہاں آئ تھی تو تم نے کہا تھا یہ بہت بگڑ جاۓ گی۔"شرلی نے عزرا کو اسکی ایک اور راۓ یاد دلائ۔ 

"بگڑنے سے میرا مطلب یہ تھا کہ وہ غیر مناسب کپڑے  پہننے لگے گی،بارز میں جاۓگی، پارٹیز اٹینڈ کرے گی، اس کے دوستوں کے حلقے میں بہت سے لوگ ہونگے۔ ٹھیک ہے میری راۓ غلط ثابت ہوئ،اس نے ویسٹرن کپڑے پہنے لیکن غیر مناسب نہیں، وہ ریسٹورنٹ اور کیفے میں  دیکھی گئ لیکن نائٹ کلب میں نہیں۔"

 "تو ۔۔۔؟" ہانا نے پوچھا۔

"تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ اپنی روایات کے ساتھ جڑی ہوئ ہے۔ یہاں اسے کوئ  بھی نہیں دیکھ رہا پھر بھی اس نے وہ سب نہیں کیا جو اکثر اسٹوڈینٹس کیا کرتے ہیں۔ آزادی کا بےجا استعمال۔"

"اسے یہ یاد تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ "شرلی نے بہت وثوق سے کہا۔

وہ بزدل ہے اگر عالیان مجھے پروپوز کرتا تو میں ساری دنیا سے لڑ کر اسے ہاں کھ دیتی۔۔۔ بہاڑ میں جاۓ ۔۔دنیا۔۔ اصول۔۔ قانون۔۔"للی نے سنجیدگی سے کہاـ "اسی لیے اس نے تمھیں پروپوز  نہیں کیا۔ "عزرا نے اسے چڑایا۔

"عالیان کو پوری یونی میں وہی ملی تھی؟" شرلی نے کہتے ہوۓ مگ ہانا کے آگے کیا کہ خیر سے ایک مگ کافی اور لادے۔

"ویرا کے بارے میں کیا خیال ہے؟"ہانا مگ لے کر اٹھتے ہوۓ بولی۔" ویرا کی شخصیت کا ریکارڈر اتنا صاف ہے کہ اسے انکار کرنا بےوقوفی ہوگی۔" عزرا نے کہا۔

"مجھے کہانی  کے کلائمکس کا انتیظار ہے" ہانا واپس آکر بیٹھ گئ۔

"مجھ سے سن لوـ عالیان ویرا کا ہاں کہے گا۔ امرحہ کو عالیان کی پرواہ ہوتی تو ایسے اس کی بے عزتی 

نہ کرتی۔ کس انداز میں وہ عالیان  کے بارے میں بات کر رہی تھی۔" چھوٹے ذہن کی۔"عزرا نے نخوت سے کہا 

"اگر امرحہ ایسے اس کی بے عزتی کر چکی ہے اور اسے عالیان  سے کوئ مطلب نہیں  تو وہ عالیان  کے پاس بار بار جاتی کیوں رہی ہے؟"

"اس کا ضمیر ملامت کرتا ہوگا،شادی تو وہ اپنے پاپا کی مرضی سے ہی کرے گی"شرلی نے ایسے کہا جیسے وہ امرحہ کو اچھی طرح سے جان گئ ہے۔

تو پھر عالیان کو اتنا پاگل بننے کی ضرورت کیا تھی۔ہر وقت عالیان اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ ہانا کے انداز میں ساری ہمدردیاں عالیان  کے لیے تھیںـ

"ضرورت نہیں خودغرضی۔۔"عزرا نے سر کو جھٹک کہ کہا۔

"لگتی نہیں۔۔لیکن ہوگئ ہے۔کوئ بھی ہوسکتا ہے۔ کوئ لڑکا ایسے آگے پیچھے  ہو تو کوئ  بھی ہو سکتا ہے۔۔"

"ویسے مجھے امرحہ نے کافی کمپلیکس دیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ایسی بونگی لڑکی میں اسے ایسا کیا اچھا لگا ہے۔"تھوڑی دیر خاموش رہ کر جیسے عزرا نے اقرار کیا۔اب اس کے بال کافی بڑے ہو چکے تھے اور اس پر جچ بھی رہے تھے۔

چاروں نے قدرے حیرت سے عزرا کو دیکھا کہ کیا وہ مزاق کر رہی ہے۔ لیکن مزاق کے آثار نظر نہیں آۓ۔

"شاید اسکا بونگا پن۔۔"شرلی ہسنے لگی اور آگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ "وہ کہتا تو میں بھولی بن جاتی ۔۔" اف عزرا کا سنجیدہ انداز۔

"تم کہنے سے بنتی وہ بنی بنائ تھی۔"للی نے کھ کر قہقہ لگایا۔

"میں سمجھتی تھی کہ عالیان مجھے پسند کرتا ہے۔۔"عزرا آج رات رو کر سونا چاہتی تھی۔ 

"تم یہ کیسے سمجھی۔۔؟"ہانا کو اس کی سنجیدگی پر حیرت ہورہی تھی۔

"وہ مجھے ٹوئٹس دے کر لینا بھول جاتا تھا۔"

"بس اتنی سی بات پر تم سمجھی کہ وہ تمھیں۔۔"ہانا نے بمشکل اپنی ہنسی دبائ جبکہ عزرا نے اسے گھور کر دیکھا۔

یہی موضوع دو اور لوگوں میں زیر بحث تھا۔دائم اور نوال میں۔

"اب مجھے امرحہ پر ترس آتا ہے۔" نوال نے سوپ پیتے ہوۓ کہا۔

"مجھے نہیں لگتا کہ وہ عالیان کو پسند کرتی ہے۔ نجانے کیوں لیکن مجھے ہمیشہ سے ہی لگا کہ وہ مختلیف خیالات کی لڑکی ہے۔ "دونوں ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔

"تمھارا مطلب عجیب خیالات کی؟"نوال امرحہ کے ساتھ تھی۔

"شاید۔۔"

"عالیان کوپسند کرنے میں ایسی کون سی سائنسں چلانی تھی اسے۔"

"یار، سیدھی سی بات ہے۔جب تمھارے گھر میرا پروپوزل گیا تو تمھارے نانا نے کیا کہا تھا۔؟"

"کہا تو کچھ نہیں تھا انہیں تنھارے خاندان کے بارے میں معلومات چاہیے تھیں۔"

"میرا شجرہ نسب۔۔ میری ذات۔۔ میری ماماکی طرف کے خاندان کے بارے میں معلومات۔۔ میرے پاپا کی طرف کے خاندان کے بارے میں بھی۔۔"دائم نے جتایا۔

"کم ان یار، انہوں نے یہ سب ایسے ہی پوچھا تھا، ویسے بھی وہ ذرا پرانے خیالات کے انسان ہیں اور پھر بڑے ہیں۔ اگر کچھ پوچھ بھی لیا تو یہ کوئ  ایسا بڑا ایشو نہیں ہے۔ بس یہی خیالات امرحہ کے ہونگے۔" 

"وہ اتنی دقیانوسی نہیں ہو سکتی ماسٹرزکر رہی ہے، روشن خیال ہےـ"

"چلو پھر یہ مان لیتے ہیں کہ وہ روشن خیال  ہے لیکن اس کے گھر والے نہیں۔"

"تمھارا مطلب اس نے اپنے گھر بات کی ہوگی۔۔؟"

ویراور عالیان...سائی نے نرمی سے اسے کچھ سمجھانا چاہا.

ان دونوں کا نام ساتھ ساتھ نا لو سائی...خدا کے لیے..

تو تم حقیقت کا مقابلہ ایسے کرنا چاہتی ہو..خود کو بدلو امرحہ.

کتنا تو بدل لیا ہے_تم جانتے ہی نہیں, اس رات سے اب تک میں کتنا بدل چکی ہوں.

سائی کو اس میں انوکھے پن کا احساس ہوا_اس کے چہرے کے تاثرات میں کچھ اور بھی نمایاں ہونے لگا.

میں نے عالیان کے باپ کو فون کیا ہےوہ اسے ﮈھونﮈ رہے تھے.انکا بھیجا ایک آدمی مجھ تک بھی آیا تھا.اور اب میں نے انھیں عالیان کے بارے میں بتا دیا.لیﮈی مہر کو کوئی حق نہیں کہ وہ اسے اس کے خاندان سے دور رکھیں...عالیان کو اسکا خاندان مل جاۓ گا.دادا عالیان سے ضرور ملنا چاہیں گے__

سائی نے سہم کر امرحہ کو دیکھاتو اس کے چہرے پر نمایاں ہونے والا تاثرخودغرضی کا تھا.اس کے اپنے ہی اندر کچھ چھن سے ٹوٹ گیا_اس نے اپنا نچلا ہونٹ کاٹا_اگر وہ خود کو عہد توڑنے کے اجازت دیتاتو امرحہ کو بتاتاکہ عالیان اپنے باپ کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا_وہ اس کی ماں کو مرنے کے لیے چھوڑ گیا تھا اور اسے بھی__

یہ تم نے کیا کیا امرحہ..وہ بے آواز بڑبڑایا_عالیان کو اپنے باپ سے ملنا ہوتاتو وہ خود اسے ﮈھونڑ لیتا_تم نے اپنے اور اس کے تعلق کو تابوت میں دفنا کراس میں وہ آخری کیل ٹھونک دی.جو اب قوت سے نکلے گی نا تدبیر سے_اب وہ قسمت کی رحمدلی کا محتاج ہوگااور قسمت کو رحمدلی پر اکسانےکے لیےبہت آنسوبہانے پڑتے ہیں.. وہ خاموش کھڑا سوچ رہا تھا..

تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہوسائی...

میں چاہتا ہوں تم اپنے لیے دعا کرو..بہت ساری دعائیں کرو..کہہ کر سائی پلٹ آیا.اس کا دل برا ہوگیاتھا.اور اسے امرحہ پر غصہ سا آیا تھا.....

رات کے آخری پہر وہ چونک کر اٹھا.

اس کے سینے پر مارگریٹ کی ﮈائری تھی اوراسکی آنکھ میں نمی تھی..وہ چھت کو دیکھنے لگا پھر آس پاس.اسے یہ یاد کرنا پڑا کہ وہ کہاں ہے اور اس کےساتھ کیا ہوتا رہا ہے.

ان کیفیات کا شکار وہ بچن میں ہوا کرتا تھا.جب بستر پر روتےروتے سوجایا کرتا تھا.اور پھر سوئی جاگی حالت میں اسے لگا کرتا تھا کہ کوئی اس کے سرہانےبیٹھے سرگوشیاں کرتا رہا ہے.ایسی سرگوشیاں جو اسے بوجھل نہیں کرتی تھیں اور آنکھ کھلنے پر اسے رو دینے پر مجبور کردیتی تھیں.وہ اس خوشبو کو بہت قریب محسوس کرتا.جو مارگریٹ کے سوتھ لگ کر سونے سے اس کے اندر حلول کر گئی تھی.اور جسے اس نےاپنے اندر سے کبھی جدا نہیں ہونے دیا تھا.

وہ سرگوشیوں کی رات تھی.وہ مارگریٹ کی خوشبو کوبہت وضاحت سے محسوس کر رہا تھا.وہ اٹھ کر بیٹھ گیا.اور اسے لگا وہ بس ہاتھ بڑھا کر اپنی ماں کو ﮈھونڑ نکالے گا.اس نے کمرے میں اندھیرا ہی رہنے دیا.اور خود وہ بچہ ہی بن گیا.جو اپنی ماں کےساتھ سویا کرتا تھا.اس نے بہت دھیمی آواز میں مارگریٹ کو پکارا

"ماما!"

اور پھر وہ اپنی آنکھیں مسلنے لگا.ﮈائری کو ہاتھوں سے چھوا اور لیٹ کر پھر سےاسے اپنے سینے پر رکھ لیا..

صبح آنکھ کھلتے ہی اس نے وہ سب یاد کرنا چاہا جو رات بھر اس کے ساتھ ہوتا رہا تھا.کافی دیر تک بستر میں پڑا وہ ﺫہین پر زور ﮈالتا رہا_ کہیں سرگوشیاں تھیں. کہیں امرحہ اور دیرا  اور کہیں وہ خود__

بھاگ پڑنے..ہانپ جانے اور رو دینے کی کیفیات غالب رہیں..

اس نے محسوس کیا کہ وہ ﺫہنی طور پرکچھ زیادہ ہی الجھا ہوا ہےاسے خود کو معول پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے.اسے خود کو وقت دینا چاہیےاور خود کو تھکا دینے کے بجاۓپرسکون رہنے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے.

اپنا بستر اور کمرہ صاف کرنے میں اسے معمول سے زیادہ وقت لگا پھر اس نے خود کو ﺫرا زیادہ اچھی طرح سےتیار ہونے دیا.تاکہ زیادہ ہشاش بشاشنظر آۓ.اس نے سائی کی گفٹ کی چیک شرٹ پہنی کارل کا گفٹکیاکوٹ اور بالوں کوہیئرجیل لگا کر شیٹ کیا.

کارل اس کے کمرے میں آیا"یہ لو اپنا ناشتہ"

لیپ ٹاپ کو بندکرتے اس نے کارل کی لائی ٹرے کو دیکھا تین عدد موٹے تازے سینڑوچز اور کافی کا مگ...مجھے نہیں کرنا ناشتہ..!" اس نے ہنسی دبا کر کہا.

برننگ مین ایونٹ میں آگ کے مختلف کرتبوں میں عالیان نے کارل کو ہرایا تھا.اب کارل کو اسے لنچ کروانا تھا.اور لنچ سے پہلے وہ اسکا پیٹ اچھی طرح سے بھر دینا چاہتا تھا جبکہ اپنی باری وہ تین تین وقت رہا کرتا تھا.

"آج تم فوج بھی لے آؤتو آج میں ناشتہ نہیں کروں گا"عالیان نے اسے اور جلانا چاہا.

" فوج کا سربراہ آگیا ہے کافی ہے..."اسنے بڑھ کر دروازہ لاک کیا.

شرافت سے انھیں کھا لو ورنہ مجھے تمھارا منہ کھول کر انہیں اندر ﮈالنا پڑے گا.اور یہ کوٹ اتار دو اس پر کافی کے داغ لگ سکتے ہیں. "

عالیان نے اپنا موبائل نکالا اور دو منٹ بعد لاک کھلنے کی آواز آئی.شاہ ویزاور سائی دروازے میں کھڑے تھے.عالیان نے پہلے سے ہی چابی شاہ ویز کو دے دی تھی.اور اس نے موبائل پر بیل دی تھی اور دونوں نے کارل کی لائی ٹرے پر ہلا بول دیااور عالیان دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا.

میں نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا.اپنی جیب بھر کے نکالنا آج...آج لنچ میں میں تھیں بھی کھا جاؤں گا"کہہ کر وہ بھاگ گیا.

اچھا کیا تم نے یہ سینڑوچز کھا لیےورسٹ فلور پر جو جوئیل ہے نا,اسے میں جا کر بتا آتا ہوں کہ اسکی جو ناشتے کی ٹرے غائب ہوئی ہے وہ کہاں ہے.کارل دانت نکال کر فرسٹ فلور کی طرف بھاگا.

یونیورسٹی سے عالیان ہارٹ راک آگیا.کارل نے لنچ ٹال دیا تھاوہ جانتا تھا کارل ایک دو دن ایسے ہی ٹالے گا, پھر بھی وہ ایک بھاری بل کی ادائیگی سے نہیں بچ پاۓ گا.

ہارٹ راک میں داخل ہوتے ہی اسے سامنے مینیجر نظر آیا.جو غیر معمولی بات تھی.اس کے تاثرات کافی حیران کن تھے.اور اس کی آنکھوں میں ایسا اچھنبا تھا جیسے وہ پہلی بار عالیان کو دیکھ رہا تھا.

تم ٹھیک ہو.کارل نے شرارت سے اسکی ٹھوری کو چھوا.

"ہاں...!" اس نے بھی مسکرانے کی کوشش کی.

آج کیفے خالی کیوں ہے کوئی ایشو..

"پرائیوٹ بکنگ" کہتے اس نے ترچھی نظروں سے تن کر کھڑے اور چاق و چوبند نظر آتے دو گارﮈ نما آدمیوں کو دیکھا.

"اوہ.." اس نے سیٹی بجائی.."پورا کیفے"

ہاں..."

اور اسٹارف..."

تم اس طرف چلے جاؤ.."مینجر نےاندر ایک ہال کی طرف اشارہ کیا.

اسٹاف میٹنگ ہے.."?

مینجر نے اسکا سوال سنا لیکن جواب دیے بغیر وہ اپنے آفس کی طرف چلا گیا.مینجر کے انداز پر اسے حیرت ہوئی.لیکن پھر بھی وہ اسکی ہدایت پر عمل کرتے اسٹاف میٹنگ کا سوچتے اسہال کی طرف آگیا جس کی طرف اسے جانے کا کہا گیا تھا.

یال میں چوکور میزوں میں سے ایک کے گرد ایک شخص قیمتی تھری پیس میں ملبوس ,عجلت کا انداز لیے اپنی گھڑی کو دیکھ رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سےاپنی ٹھوڑی کو مسل رہا تھا..

Pg#178

تھوڑی کو مسل رہا تھا۔ اس کا سر اس انداز میں اور ایسی بے نیازی لیے ہوۓ اٹھا ہوا تھا جیسے اس کی سلطنت کی رعایاء سامنے زمین پر بیٹھی تھی اور وہ ان پر اپنے من چاہے احکامات نافد کرنے جا رہا تھا۔ اس کا پہلا تاثر مطلق الغان کا تھا اور اگلا تاثر پہلے کی گواہی۔۔

سامنے میز پر  پرچ میںکافی کپ اوندھا پڑا ہوا تھا۔ آہٹ پر احکام صادر کرنے والے شخص نے سر اٹھایا اور عالیان پر اس کی طرف آنے والی روشنی روک لیتے وجود کی حقیقت کھل گئ۔ 

سیاہ تل نے ساری روشنیاں کسی سیاہی چوس کی طرح جزب کرلیں۔

چھناکے سے ہال کی چھت سے جھولتے قمقے ٹوٹے۔۔

گزر چکے سب ہی وقت کی دبی دبی سسکیاں اور آہیں اپنی قبروں سے اگل دیں۔

کچے گوشت کے جلنے کی بو اس کے نتھنوں میں گھسی اور دنیا بھر کی مخلوق اور ماداوں کا درد زہ اسکے وجود سے لپٹ گیا۔۔ ہال میں پھیل گیا۔۔آہیں اٹھیں۔

یہ اس کے اندر شدید خواہش رہی تھی یا شدید نفرت کہ اس کی نظریں آنکھ کے کنارے پر برجمان تل پر ٹھر گئیں اور جیسے ایسا تل ساری دنیا میں کل انسانیت میں ایک ہی انسان رکھتا تھا ۔۔ اور یہ وہی انسان ہی تو تھا۔ کھڑے کھڑے وہ اپنی ہی پرچھائیں بن گیا اور اس پر اپنے گپت ہونے کا ادراک ہوتا۔۔ سمعی بصری قوتیں در فنا میں پناہ لینے کو ہوئیں اور عالم فنا کا شور عالم وجود میں کانوں کے پردے پھاڑنے لگا۔

اس کی سانسوں نے باد سموم (زہریلی ہوا)کی موجودگی کو محسوس کیا۔

چار بھوری آنکھیں اٹھیں۔ایک دوسرے کی سمت۔۔

"اورجس دن میں اور ولید پہلی بار ایک چھت تلے اکھٹے ہوۓ، مجھے یقین ہوگیا کہ اس سے تعلق مجھ پر واجب تھا۔۔ اور اس سے محبت مجھ پر فرض۔۔"

اٹھ کر ملیں اور ٹھر گۓ۔۔

"جب وہ سو جایا کرتا تھا میں جاگ جاگ کر اسے دیکھا کرتی تھی، میں اپنی سانسوں کی آمدورفت کو اتنا بے ضر بنا لیا کرتی تھی کہ وہ اس کی نیند میں مخل نہ ہوسکیں اور اسے جی بھر کر دیکھتے رہنے کا میرا خواب ٹوٹ نہ جاۓ۔۔"

عالیان  نے  اتنا لمبا سانس لیا جیسے آخری سانس۔۔

"جب وہ مجھے دیکھاکرتا تھا تو مجھے یقین ہوجایا کرتا تھا کہ مجھے خاص اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہےـ اگر وہ مجھے نہیں دیکھے گا تو میرے ہونے کا مقصد ختم ہوجاۓ گا۔۔"

وہ کھڑا ہوا اور چل کر اس انداز میں اس کی طرف آیا جیسے سدھاتے ہوۓ جانور کی پشت پھیرنے کا ارادہ ہو۔

وہ مہزوم(شکست خوردہ)بنا کھڑا تھا کہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا جا سکتا تھا۔

اس کے اندر دفن بند تابوتوں کے ڈھکن ایک جھٹکوں سے کھلے اور اسے صاف صاف مارگریٹ دیکھائ دینے لگی۔۔ رونا۔۔ تڑپنا۔۔ ہاتھ کاٹ لینا۔۔ بڑبڑانا۔۔ چلانا۔۔ بھول جانا۔۔ بھٹک جانااور پھر "سرد " ہوجانا۔۔

آہیں۔۔ صدائیں۔۔ واویلا اور خاموشی۔

"میں نے تمھیں پھچان لینے میں وقت نہیں لیا۔"

ولیدالبشر نے اپنے دونوں ہاتھ کہنی سے اوپر اس کے بازوؤں پر رکھے اور اسے جوش سے جھنجھوڑا۔

"اس کے ہاتھ کو ہاتھوں میں لے کر بیٹھے رہنے کے خواب میں نے ہر رات دیکھے۔ میں ہر رات ایک ہی خواب دیکھ لینے پر قدرت حاصل کر چکی ہوں۔ جو بھی ہے۔۔ میں  ہر رات اہتمام سے اس خواب کے لیے خود کو تیار کرتی ہوں۔"

"تم میں میری کتنی شباہت ہے"

ولیدالبشر نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ عالیان  بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اس کے لوٹ آنے کی دعائیں میں نے اتنی

کثرت سے کیں،جیسے لمحوں میں بنجر زمین پر جنگل اُگ آۓ اور اس جنگل میں ، میں نے اپنی باقی مندہ قوتوں کو اکھٹا کر کے اس کے نام کی صدائیں لگائیں۔۔"

pg#179

"میرے بیٹے دیکھو۔۔ دیکھو اپنے باپ کو" اس  نے اسکے سینے کے مقام پر جوش سے ایک گھوسا مارا۔

"اب ہم ایک ساتھ ہیں۔۔ میں تمھارے سامنے کھڑا ہوں۔۔ تمھارا باپ۔۔ ولیدالبشر۔۔"

"میں نے ایک افریقی جادوگر کو اپنی جماپونجی تھما دی اور اس کے کہے پر ایمان لے آئ کہ ولید ضرور آۓ گا۔"

"وہ آگیا ہے"عالیان  بڑبڑایا۔۔ "افریقی جادوگر نے وقت کیوں نہ بتایا۔؟" آواز اس کے اندر چکراتی رہی۔ 

"کچھ بولو مائ سن۔۔ میں نے تمھاری آوازیں خوابوں میں سنی ہیں۔!"

" جان لو مارگریٹ۔۔ آفاق ایک احرام ہے جس نے تمھاری ساری دعاوں کو حنوط کر دیا ہے اورکوئی ایک بھی دوا آسمان کو چھید  کر ولید کو چین لانے کی طاقت ن نہیں رکھتی،مجھے اپنی قوت دوا پر ملال رہے گا ۔۔"

حال کی دیوار پر مارگریٹ  کی فلم چل رہی تھی  ایک کے بعد اگلا منظر۔۔پھر اگلا۔۔آخری منظر میں وہ سرد تر ہوتی جارہی تھی، یس کی آواز کی لکنت یس کی ناپید ہوتی قوت کا نشان دی رہی تھی۔ 

"اس کے ساتھ گزری ساعتیں میں گنوانا   نہیں چاہتی مے اپنی آنکھیں بینڈ کر لینے کو ہوں اور ان آنکھوں میں اسے مقید۔۔ مے ماضی کا حصّہ بننے جا رہی ہوں لیکن میں  انھے ماضی کے سپرد  نہیں کرونگی ۔۔اگر ارواحکو دیا کا موقع دیا جایگا تو میری پھیلی پھر سے وہ ہوگا اور آخری بھی۔۔"

یس کی کندھے پر ایک ہاتھ آکر ٹھر گیا۔۔وہ ہاتھ اس کے  داۓ گال پر آیا اور گال کو نرمی سے مسلنے لگا۔۔

"عالیان !"یس نی آواز کو روح میں اور انگلی کو دل پر محسوس کیا۔ ہال  کی دیواروں پر بھاگتی دوڑتی مارگریٹ کی فلم اندھیروں میں گم ہونے لگی۔

"عالیان !"ہاتھ گال مسل رہا تھا۔

اسے دق مائیں ملی تھیں۔۔ باپ نہیں۔۔ اسکی آنکھيں لبالب بھر گئیں۔ اسکے باپ کا ہاتھ اسکے گال پر تھا۔وجود میں آنے والا ، وجود میں لانے والے کی بہت قدرکرتا ہے۔ خون میں ایک ابال ہوتا ہے جو دنیا کی کسی آگ سے نہیں ابلتا اور خونی رشتے کی صرف آنچ سے ابل کر چھلکنے لگتا ہے۔دنیا میں کسی بھی انسان سے دل کھول کر نفرت کی جاسکتی ہے۔ خونی رشتے سے نفرت کرنے کے لیے پتھر سا دل چاہیے۔ اسکا دل چاھا۔۔ حتہ کہ وہ مٹتے بنتے مارگریٹ کی زندگی کے مناظر دیکھ رہا تھا کہ وہ اس چوڑے سینے میں سر دے لے اور پھوٹ پھوٹ کر روۓ اسنے چاہا کہ وہ اپنی یاداشت کو گم کردے اور ولیدالبشر  سے ناپسندگی کا جذبہ بھولہ بسرا کردے۔ ہاں وہ خود سے کیے گیے وعدے سے وعدہ خلافی کردے۔۔اس کے سامنے اسکا باپ کھڑا تھا۔۔اس کے قد کے عین برابر۔۔ اسکی آنکھوں کے عین سامنے۔۔اسکے گال اور شانے اس گرمی سے دہک رہے تھے جو اسکا باپ اسکے وجود میں منتقل کر رہا تھا۔اسکے دل کے مقام پر گھونسا پڑا۔ وہ اسے گمشدہ مسرت سے لبریز کر دینے کو تھا۔

"بہت بڑے ہو گۓ ہو تم ہاں۔۔!تمھیں ہونا ہی تھا۔" ہاتھ اسکے سر کے بالوں تک گیۓ!اسنے  خود کو ایک قدم پیچھے کیا۔

 ولیدالبشر نے ذرا چونک کر اس خاموش کہڑے مجسمے کو دیکھا جسے عربی ہاتھوں نے بغربی ڈھب میں ڈھالا تھا جس کے چوڑے شانے اور اونچا قد اسکے مضبوط  ہونے کی دلیل دے رہے تھے اور جس کی عرب رنگ آنکھيں اتنی بے تاثر تھیں جیسے وہ سدا روشنی سے انجان رہی ہیں اور جن کی بینائ کا واسطہ صرف اندھیرے سے رہا ہے۔

" دیکھو عالیان۔۔!میں نے تمھیں ڈھونڈ نکالا۔۔" دو قدم خود کو پیچھے لے جاتے ولیدالبشر نے دونوں بازو وا کر دیے۔۔ اس اونچے، لمبے، طاقتور مرد لو قابو کرلینے کے لیے نس اتنا ہی کافء تھا۔

عالیان کے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔

pg#180

وہ  چار قدم پیچھے ہوا ور نامحسوس انداز میں  گہرے گہرے سانس لیے مارگریٹ  کی ڈوبتی ابھرتی تصویروں پر ابھی بھی اسکی نظر تھی۔

"مجھے گم کیوں کیا تھا؟" الفاظ کو اس نے جان لگا کر بے تاثر رکھا۔

ولیدالبشر  ٹھٹک کے رہ گیا۔عالیان کے سوال پر اس کے تاثرات  نے حکم عدولی کی مہر لگائ۔اس نے اپنی نظریں بدلیں پھر ان میں معملہ فہمی چہلکنے لگی۔ عالیان  نے ان بدلتے تاثرات کو بھانپ لیا۔ 

"تمھارا باپ تمھارے پاس پہلی بار آیا ہے۔۔اس کے سینے سے لگنے سے پہلے ایسا سوال کوئ بھٹکا ہوا ہی کر سکتا ہے۔"آواز میں دبا دبا سا جلال تھا اور الفاظ سے زیادہ ان کی ادائیگی میں ایسی طاقت تھی کہ عالیان  نے سوچا کہ اگر یہ شخص " میں مر رہا ہوں، میری بانہوں میں آجاو" کھ دیتا تو وہ اسکے قدمو میں جا بیٹھتا۔ اب میرا باپ میرے پاس پہلی بار کیوں آیا؟ اس نے خود کو مضبوط کرنا چاہا جبکہ اسے یقین ہونے لگا تھا کہ سامنے کھڑے شخص کو اس کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کی سب آوازیں سنائ دے رہی ہیں۔ " تمھیں سب معلوم ہوجاۓ گا۔۔ میں بتاؤں گا ۔۔ آو میرے ساتھ یہاں بیٹھو۔۔ " پیشانی پر ناگواری کی لکیریں ابھریں اور اسکی آواز کی خود ساختہ نرمی معدوم ہونے لگی۔

عالیان ، مارگریٹ جوزف نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ ڈٹ کر کھڑا تھا،گو ایسا کرنے میں بہت سی قوت حائل تھیں۔

"مجھے کھڑا رہنے دیں تاکہ ہم دونوں کو چلے جانے میں آسانی رہے۔"اس کی آواز کھردری ہوگئ۔

کرسی کو اس کے لیے باہر نکالتے ولیدالبشر  کے ہاتھ روک گۓ اور جم زدہ گردن پر ناگواری کی چھپی ہوئ۔۔ نسسیں بھی ابھر آئیں مگر انہیں فوراً  چھپا لیا گیا۔ لیکن عالیان دیکھ چکا تھا۔اسکی نظر سامنے موجود انسان کی ایک ایک جنبش پر تھی۔

"ہم جائیں گے تو ایک ساتھ جائیں گےـ" ولید مسکرایا۔

"ایک ساتھ کا مطلب جانتے ہیں آپ۔۔۔"

اب ولیدتھوڑی کو مسلتے اسے دیھکنے لگا  ایک ایسےکہلاڑی کی طرح جسے اپنا اگلا مہرہ چلنا تھا ورنہ بساط اُلٹ جاتی۔

"پتہ نہیں اس عورت نے تمھیں میرے بارے میں کیاکیا کہانی بنا کر سنائ ہے۔"

"انہیں لیڈی مہر کہۓ۔۔ میں ان کے لیے احترام کی درخواست کروں گا۔"

"میں مارگریٹ کی بات کر رہا ہوں۔"

ولیدالبشر  کے منہ سے اس نام کے نکلتے ہی وہ ٹھیک اس جگہ پر جا کے کھڑا ہوگیا جہاں سے چلا تھا۔" سرد مردہ ہاتھ سے ہاتھ چھڑاۓ جانے سے۔"

"ایسی سختی اور نخوت سے ماما کا نام مت لیں۔ـ" وہ چلا اٹھا۔

ولید نے اسے سرد نظروں سے دیکھا۔ "تمھارا انداز بتا رہا ہے کہ تمھیں میرے بارے میں غلط بتایا جاتا رہا ہے۔"

"ہوسکتا ہے اب آپ ٹھیک بتا دیں۔۔" ولیدالبشر  نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو انگھوٹے کے ساتھ رگڑا۔۔شاید عادتاً اس کی جھکی ہوئ بھنوئیں ذرا سا اور جھک گئیں،اور عالیان  نے ان میں وہ رنگ دیکھا جو آسمان پر ُاڑتے باز پر نشانہ باندھے شکاری کی آنکھ میں اس وقت ابھرتا ہے جب وہ ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھانے والا ہوتا ہے۔اور باز کا شکاری تند خو اور دورفہم ہوتا ہے۔۔آسمان سے جالینے والا۔۔۔ صرف شست ہی باندھ کر مار دینے والا۔

میں نے مارگریٹ کو اچھی عورت سمجھ کر شادی کی.وہ مجھے چھوڑ گئی اور تمھیں بھی لے گئی اور میں پاگلوں کی طرح تمھیں ﮈھونڑتا رہا.اتنے سال میں کہاں کہاں نہیں گیاپھر مجھے معلوم ہواکہ اس کی موت واقعہ ہو گئی ہےمیں بہت مشکل سے تم تک پہنچا ہوں عالیان...

اور جس آنچ سے اسکے خون میں ابال اٹھے تھےوہ خون ایک دم سےسرد ہوگیا.وہ استہزائیہ ہنس دیا

"ناروۓ کے ہوٹل میں کس عورت کو طلاق اور دھتکار دی تھی آپ نے?.

ولیدالبشر کو جھٹکا سا لگا.اسے بتایا گیا تھاکہ وہ بہت چھوٹا تھا جب اسے بے سہارا بچوں کے ادارے میں داخل کروایا گیا تھا اسے توقع نہیں تھی کہ اسےاس بارے میں بھی معلوم ہوگا.

جس فلیٹ میں شادی کر کے انہیں رکھا تھاوہ اسی فلیٹ میں مر گئی تھیں تو آپ انہیں کہاں پاگلوں کی طرحﮈھونڑتے رہے تھے.میری پیدائش سے پہلے آپ انگلیڑ چھوڑ چکے تھے.بہت آسانی سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہےکہ دوبارہ آپانگلینڑ آۓ...

میں اپنے دوست کو بھیجتا رہا تھا تمھیں ﮈھونڑنے...اپنے انداز کی تلخی کواس نے بمشکل قابو میں کیا..

آپ خود کیوں نہیں آۓ?

مجھے انگلینڑ سے نکال دیا گیا تھا. میرے کاغزات میں گڑبڑتھی.مارگریٹ نے مجھ سے رابطہ ختم کر دیا تھا"

آپ کی نیت میں گڑبڑ تھی مجھے یقین ہے اس کا.انگلینڑ سے نکلتے ہی آپ نے ناروے میں شادی کر لی تھی فورا...

وہ میری مجبوری تھی.

میں کیا تھا....ضرورت...مجبوری...خواہیش...وقت گزاری...?

میں صرف اسلیۓ غلط نہیں ہو سکتا کہ تم سے الگ رہا...تم غصے میں ہو.

آپ جھٹ بول رہے ہیں ..ایک ساتھ اتنے جھوٹ بول دیےآپ نے..."

خود کو پر سکون کرو...تھوڑے نارمل ہو جاؤ..

ٹھیک ہے ..اگلی بار پھر اتنے ہی سالوں بعد آئیں گا شاید میں نارمل ہو چکا ہوں.وہ پلٹ کر جانے لگا.

کیا چاہتے ہو تم?

آپ کیا چاہتے ہیں?

میں تمھیں لینے آیا ہوں.."اتنے سالوں بعد کیوں? مجھے صرف سچ سننا ہے ورنہ کچھ نہیں..

 ولیدالبشر نے اپنے اندرتیزی سے جوڑ توڑ کیے.

میں نے مارگریٹ کو طلاق دے دی تھی, یہ میرا حق تھا اور وہ غصے میں آگئی...

جب ناروے میں وہ آپ کو میرےبارے میں بتا رہی تھیں تب آپ نے کیا کہا تھا.

میں سمجھا وہ جھوٹ بول رہی ہے.

نہیں آپ سمجھے میں آپ کا نہیں کسی اور کا بچہ ہوں.ہتے وہ ﺫرا شرمندہ نہیں ہوا.حکم عدولی کرنے والوں کودی ھانے والی سزاکے اعلان کرنے کے انداز کو ولید نے بمشکل دبایا.

"کسی اور کے بچے کو اب کیوں سمیٹنے آۓ ہیں?"

یہ غلط ہے ...جھوٹ ہے.

عالیان ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گیااور خود کو سوچنے کے لیے وقت دیااس کے سامنے ایک صحت مند خوش شکل,قیمتی لباس اور جوتوں میں ملبوساسکا باپ کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں وہ گھڑی تھی.جو ایک معروف کمپنی آرﮈر پر صرف "ایک" تیار کرتی ہے.ولیدالبشر کی کھال پر ایکجھری نہیں تھی وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتارہا تھا.وہ اسکن سرجری سے کئی بار گزر چکا تھا.اسکی خوبصورتی اسکا لباس اسکا انداز اسکے الفاظ اسکےتاثرات کوئی ایک بھی چیزاس بات کی گواہی نہیں دے رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے غم میں گھلتا رہا ہے.اسکی ماں گھل گھل کر مر چکی تھی.اور اسکا باپ کھلا گلاب بنا

اس کے سامنے موجود بیٹے کی جدائ پڑ رونا چاہتا تھا ...

'یہ صرف میرے لیے یہاں نہیں آیا ' عالیان نے اپنا سر پکڑ لیا اور ولیدالبشر نے آ گے بڑھ کر اسکے سر بوسہ لیا 

'تم خود کو پر سکون رکھو اور آؤ میرے ساتھ. یہ میری بدنصیبی تھی کہ میں نے تمہیں کھو دیا .. زندگی نے بہت برا کیا میرے ساتھ .. مجھے معاف کر دو.. لیکن اس میں میرا کوئ قصور نہیں تھا'

عالیان سر جھکائے ہی رکھا ..اسکی ماں کا ایک آنسو گرتا تھا تو وہ تڑپ اتھٹآ تھا اسکا باپ رو کر اس کا بوسہ لے رہا یے اور وہ بت بنا بیٹھا ہے ..

'آپ میرے باپ بننے آئے ہیں اور  مجھے آپ کا بیٹآ نہیں بننا مجھے آپ میں دلشسپی نہیں ھے اور ہو گی بھی کیوں ?  ' عالیان نے بہت کھردرے اور غیر جذباتی انداز سے کہا وہ ایسے سپاٹ ہو گیا جیسے مشین ھو 

'تمہارا باپ ایک کامیاب بزنس مین ھی اور  تمہیں اس میں دلچسپی نہیں'الٹی طرف سے ولیدالبشر نے وہ پتا پھینکا جسے سیدھے سیرھےاور صاف صاف عالیان نےپڑھ لیا وہ ذرا سا چونکا اور اس کی نظروں سے ٹپکتی لالچ ولیدالبشر نے تاڑ لی اور خود کو داد دی 

' میرا سب کچھ تمھارا ھی ھے میں سمجھ سکتا ھوں کہ تم نے کیسے زندگی گزاری ھوگی میرا پاس بہت کچھ ھے عالیان .. میں تمہیں بہت کچھ دے سکتا ہوں'  

اور اس باز کو مار گراتے وہ چوک گیا اسکا انداز کا روباری ھو گیا اور وہ بھول گیا کہ اسے فیالحال  ایک غم زدا باپ کا ہی کردار نبھاتے رہنا  تھا ...

خصلت پانی میں تیرتا ھواکاگ ہے جو زیر پانی رہ ہی نہیں سکتا اسے اوپر آنا ہی ھے ...

'میں نہیں مانتا کہ آپ کے پاس کچھ ھوگا چند ہزارڈولرز کے سوا ' اس نے لالچی اندازاپنا لیا 

'اس پورے ہارٹ راک کو بک کروانے کے لیے جا نتے ہو کتنے ہزار پونڈز چاہیں'

:وہی چند ہزار نا میرے پاس اس سے زیادہ پیسے ہیں ماما مہر کے پاس اس سے زیادہ دولت ہے'

'تمھاری ماما مہر کے پاس میری دولت کا ایک حصہ بھی نہیں ہوگا'ولید چڑگیا

'اچھی بڑ ہے ' عالیان بھر پور استہزائیہ ہنسا   

'بڑ نہیں ھی یہ ' ولید غصے سے بھڑک اٹھا .

شاید اسے اپنی دولت اتنی پیاری تھی کہ اس پہ طنزاسکا گوارہ نہیں تھا ..وہ تیزی سے ہال سے  باہر گیا اور وا پس آ کر ایک فائل اسکے سامنے رکھ دی 

'اسے کھولو اور پڑھو میری کمپنی اور اس کے شیئرز کتنی مالیت کے ہیں  'اسکا انداز ایسا تھا جیسے کہتا ھو ... دیکھو .. پڑھو .. ولیدالبشر کےنا قیمتی ہے کیا سمجھ کر تم ایسے قیمتی انسان سے ایسی بات کر رہے ہو

اور بس ایک پل لگا عالیا ن کو بات سمجنے میں .. اسکا شک یقین میں بدل گیا  اور اس پقین پر اسکا دل پاش پاش ہو گیا موہوم سی جو امید تھی وہ دم توڑ گئی  اندر ہی اندر اس حقیقت پر وہ رو دینے کو ہو گیا وی اس سے نفرت کرتا تھ?

اگلی بات کرنے کے لئے عالیان نے چند کہرے

سانسں لیے۔ اس کا دل چاہا وہ اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر ہال سے باہر چلا جاۓ اسے اپنے دل سے رونے کی واضح آوازیں آرہی تھیں۔

" یعنی اس کے پاس اتنی مہلت بھی نہیں کہ وہ اپنے شئیرز قانونی طور پر منتقل کر جاتا۔ ان بیوہ خاتون کا بھی سگا بیٹا ہونے کی حیثیت سے اس کےحصہ میں "ففٹی پرسینٹ" شیئرز آۓ ہوں گے۔۔ کچھ آپ کی سوتیلی اولادیں بھی ہوں گی اور اب آپ کی دوسری سگی اولاد ہے تو یہ شیئرز کمپنی کے طے کیے اصولوں کے مطابق صرف اسے منتقل ہو سکتے ہیں ورنہ یہ واپس کمپنی کے پاس جائیں گے۔ جو یقیناً آپ کو گوارا نہیں ہوگا۔ میراا اور آپ کا ڈی این اے بھی ہوگا  ورنہ آپ کسی کو بھی اپنی سگی اولاد بنا کر پیش کر دیتے اور ایک مخصوص مدت کے بعد آپ کچھ کر نہیں  سکیں گے۔ آپ کو ہر صورت ایک بالغ اولاد چاہیے۔" وہ رکا۔ "اس لیے آپ مجھے ڈھونڈتے رہے"

فائل کو اس نے نخوت سے کھسکا دیا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اسے اطمینان تھا کہ اپنے باپ کے جال کو  اسی پر الٹ دیا تھا۔

"مجھے اس سب میں  کوئ دلچسپی نہیں ۔"اس نے بہت آرام سےاس شخص کو الو بنادیا تھا۔

"تم یہ نہیں کر سکتے۔"ولید تڑپ اٹھا۔

"میں یہ کر رہا ہوں۔" وہ استہزاء ہنسا۔

"میں تمھارا باپ ہوں، تم کس طرح پیش آرہے ہو میرے ساتھ؟"

وہ ایک بزنس مین سے پھر ایک "باپ" بن گیا۔۔ ایسا کرنا پھر سے ضروری ہو گیا تھا۔

"مجھے اس باپ سے کوئ لگاؤ نہیں " اس نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا۔

"تم میرا خون ہو عالیان۔۔"

"آپ کودیر سے یاد آیا۔۔"

"ہمیں اب ایک ساتھ مل کر رہنا چاہیےــ"

"ٹھیک ہے ۔۔"اس نے دونوں جیبوں میں  ہاتھ دیے اور پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آنے لگا۔ "صرف یک سچ بتا دیں۔۔ ماما کو کیوں چھوڑ دیا تھا۔۔ سچ بتائیں گا  پھر میں  سب کرنے کے لئے تیار ہوں۔" 

ولیدالبشر  نے جھوٹ بول کر دیکھ لیا تھا اس نے سچ کو بھی آزما لینا چاہا۔

"آپ نے انہیں ذلیل کیا۔۔؟"

"مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھ عدالت میں گھسیٹ لے گی۔۔۔ مارگریٹ کے ساتھ میرا تعلق کچھ بھی رہا ہوں ،میں تمھارا باپ ہوں، کیا برا کیا ہے تمھارے ساتھ میں نے۔۔؟"

"اس کیفے ے باہر نکلیں اور ملنے والے پہلے انسان کو بتائیں کہ اپنی اولاد کو میں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اتنے سالوں بعد آج اس سے مل رہا ہوں تو وہ آپ کو بتادےگا کہ آپ نے کیا کیا۔۔"

"میں شرمندہ ہوں۔۔"

عالیان نے افسوس سے اتنے رنگ بدلتے اس انسان کی طرف دیکھا جس کے ایک رنگ "محبت "کے جال میں اس کی ماں آگئ تھی۔

"تم بہت تلخ ہورہے ہو۔۔ میری توقع سے زیادہ۔۔ میرے ساتھ چلو۔۔ سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔"

"میں پھر اپنا سوال دہراوں گا۔۔ ماما کو کیوں چھوڑ گئےتھے۔؟"

ولیدالبشر ایسے اپنی تھوڑی مسلنے لگا جیسے اپنے مزاج کے برخلاف کچھ برداشت کر رہا ہو اور اسے سوال پوچھے جانے کی عادت رہی ہو،سوالوں کا جواب دینے کی نہیں ۔۔

"میں اسے پسند کرتا تھا پھر میری اس میں دلچسپی ختم ہوگئ تھی۔"

وہ جیسے کسی گلستان سے توڑ لیے گئے پھول کی بات کر رہا تھا یا راستے میں  آنے والے کسی پھول کو پیر تلے مسل دینے کی۔ اس کا انداز اس سے بھی بدتر تھا۔

عالیان نے بہت تک اس خوش شکل انسان کو دیکھا، جس نے یہ بات اتنی آسانی سے کھ دی تھی۔۔ اس عورت کے لیے جس کی زبان اس کے نا کی ادائی کرتے کرتے نہیں تھکی تھی۔

pg#184

جو ایسے ایڑیاں رگڑتی رہی تھی جسے یس کی وجود سے زہریلے حشرات لپٹے اسے  ڈنگ پر  ڈنگ  مر رہے ہوں۔ اس وقت عالیان کو اپنی ماں پر بہت ترس ایا۔ اسکا پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جب چاہا۔ اتنی محبت اور ایسے کرب کے بعد بھی۔۔ اسکی ماں کے ہوتھ میں کیا ایا۔۔ شرمندگی۔۔ پچھتاوے،احساس ،دکھ کا ایک لفظ بھی نہیں۔۔ "اگر مارگریٹ اس وقت نہ مرتی تو اب مر جاتی۔۔"اس کے اندر آلاؤ سا دہکا،اسکے ہاتھ کی پوریں اتنی گرم ہوگئ کہ ولید انہیں چھو لیتا تو جل جاتا۔۔

"میں آپ سے نفرت کرتا تھا۔اب اور زیادہ کرتا ہوں آپ سے مزید بات چیت کا میرا کوئ ارادہ نہیں۔۔" اس نے ولیدالبشر کے منہ کےعین سامنے اپنا منہ لے جا کر کہا۔

ولید ایک قدم پیچھے ہوا ۔اس ٹھکرادی گئ عورت کی اولاد کے ایسے انداز نے اسے سیخ پا کردیا اس نےخود کو بمشکل روکا کہ وہ اس لٹکے کی بھی وہی تزلیل کردے،جو اس کی ماں کی،کی تھی۔

"تم لاکھوں ڈالرز ٹھکرا رہے ہو۔" اب وہ صاف صاف ایک کاروباری انسان بن گیا۔

"وہ کروڑوں ہوں تو بھی۔۔"

"ہوں۔۔تو تمھے زیادہ حصہ چاہیے۔۔؟"

عالیان استہزاء ہنسا۔۔

"بولوکتنا چاہیے۔۔وہ میری ساری زندگی کی کمائ ہے۔۔ تمھیں راضی ہونا پڑے گا۔"

اب عالیان اسے ترحم سے دیکھنے لگا۔ "پیسوں کو کمائی کہ رہے ہیں۔انسانوں کو کس گنتی میں گنتے ہیں۔ مجھے مجبور نہ کریں کہ میں آپ کے ساتھ وہ کروں جو آپ دوسروں کے ساتھ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔۔"

"تمھیں میرے کام آنا ہی پڑے گا۔"

"میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔"

"تو تم اپنی قیمت بڑھا رہے ہو۔۔؟"

"اگر آپ اس مدد کا سوال ماما سے کرتے تو وہ کبھی انکار نہیں کرتیں۔۔میں مارگریٹ  نہيں ہوں۔"

"تو ٹھیک ہے مارگریٹ  کے لیے ہی سہی" اسے سودا کسی بھی صورت کروانا تھا۔

"اگر وہ میرے لیۓ زندہ رہتیں تو شاید۔۔ وہ آپ کے لیے مر گئیں تو بلکل بھی نہیں۔۔"عالیان سب حساب لے لینا چاہتا تھا،جو اپنی ماں کیططرف سے اسے چکانے تھے۔

"میں آفیشلی مارگریٹ کو اپنی بیوی تسلیم کرلوں گا۔۔"

"اس کی ضرورت ہے، نہ اسکا فائدہ انہیں حاصل ہوگا۔۔"

"تمھیں یہی شکوه ہے نہ کہ میں

 نے اس کی بےعزتی کی۔۔ٹھیک ہے میں اسے عزت بھی دوں گا اور اپنی بیوی  ہونے کا خطاب بھی۔۔میں پریس کانفرنس کروں گا۔۔"

"انہیں مار دینے کا عتراف کون کرےگا۔۔؟"اس کی پیشانی پر کئی لکیریں  بن گئیں۔

ولیدالبشر کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے،اس کیببرداشت کی حدیں ختم ہورہی تھیں۔

"تم یہ ثابت کر رہے ہو کہ تم میرا ہی خون ہو۔۔ تم اپنی اہمیت بڑھا رہے ہو۔۔ تمھیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔اور بڑھالو اپنی قیمت۔۔ میں دینے کے لیے تیار ہوں۔۔مہنگی چیزیں خریدنے کا مجھے شوق ہے۔۔"کبھی خود بک چکے ولید کو لگتا تھا دنیا میں سب بکنے کے لیے ہی موجود ہے۔

عالیان  اندر ہی اندر ہنسا۔۔ یہ شخص تھوڑی دیر کے لیے بھی ایک اچھا باپ ہونے کی اداکاری نہیں کر سکا۔

"میری قیمت آپ نہیں چکا سکتے۔۔" طنز سے کہہ کر وہ تیزی سے جانے لگا۔۔ کبھی ایسے ہی اس کی ماں بھی اس کے سامنے کھڑی ہوگی اورطوہ پشت دکھا دکھا کر جاتا ہوگا۔۔

"اگر مجھے تمھاری ضرورت ہے تو تمھیں بھی کہیں نہ کہیں میری ضرورت ضرور ہوگی عالیان ولید۔۔!"

pg#185

قریب رکھے میز پر انگلیاں  بجا کر اس نے کہا۔

"دنیا میں کوئ ایسا کھیل نہیں جسے ایک ہی انداز سے جیتا جاسکے۔"ولیدالبشر اس فلسفہ پر یقین رکھتا تھا۔ عالیان پہلے سے زیادہ نفرت سے پلٹا۔

"دنیا میں آپ وہ آخری انسان بھی نہیں ہونگے۔۔ جس کی مجھے ضرورت ہوگی ۔۔ لکھ کر محفوظ کر لیں۔۔میں کبھی آپ کی طرف نہیں لوٹوں گا۔"

"ہوں۔۔" ولیدالبشر  کے لب وا ہوۓ ۔۔

"عالیان ولید۔۔ تمھیں میرے نام کی۔۔ میری موجودگی کی ضرورت ہے۔۔"انگلیاں اور تیزی سے میز پر بجنے لگیں۔

"باقی ماندہ زندگی کے لیے یہ خوش فہمی آپ پال سکتے ہیں۔"وہ پلٹ کر جانے لگا۔

"پھر سوچ لو۔۔ ان کاغزات پر سائن کردو اور میرے ساتھ چلو۔"

یہ ایک ایسا انداز تھا کہ ولیدالبشر  اس پر کوئ احسان کر رہا ہے۔

"مجھے اپنا باپ مانو نہ مانو۔ اہک تجربہ کار انسان مان لو۔۔ اس ایشیائی لڑکی کے پاس کوئ تو وجہ ہوگی جو اسے تم سے زیادہ ضروری تھی۔۔"

پہاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے دشمن کے زہر بجھے تیر کی طرح جو فاتح کی پشت پر لگتا ہے اور اس پر فتح کا سورج حرام کر دیتا ہے۔عالیان  کی پشت پر تیر بن کر یہ آخری بات لگی اور اسنے جھٹکے سے گھوم کر اسے دیکھا۔۔ دنیا میں جتنی کراہیت آمیز چیزیں تھیں ان کے بوجھ تلے اس نے خود کو پایا۔

--------------------

اجنبی نمبر سے کال تھی۔ وہ آخری لیکچر لے کر نکل رہی تھی۔

میں ولیدالبشر،عالیان کا باپ بات کر رہا ہوں۔ اس کی ہیلو کے جواب میں فوراً  کہا گیا۔۔۔اس کی سمجھ میں نہیں ایا کہ اس سےآگے کیا بولے۔

"تم نے پیسے لینے سے انکار کیوں کر دیا۔؟"

"میں نے یہ پیسوں کے لیے نہیں کیا۔"وہ ٹھر ٹھر کر بولی، اس کی آواز کانپ رہی تھی۔

"پھر کس کے لیے کیا ہے۔؟"

"عالیان میرا دوست ہے میں صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے پاپا سے ملے۔۔" 

"بس صرف اس لیے۔؟"

"جی۔۔"

"تمھارا تعلق کہا سے ہےــ؟"

"پاکستان سے۔۔"

"مسلمان ہو۔۔؟"

"جی۔۔"

بہت دیر خاموشی رہی کہ اسے لگا فون بند کر دیا جاۓ گا۔

"عالیان تمھارا کتنا اچھا دوست ہے۔؟"

وہ خاموش رہی۔

"تم نے اس سے کبھی پوچھا نہیں کہ اس کا باپ کہاں ہے۔؟"

"میں نے پوچھنا چاہا تھا۔۔" وہ بات کرتے جھجک رہی تھی۔

"تو۔۔؟"

"وہ اس بارے میں بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔"

ل"یکن تم میرے بارے میں جاننا چاہتی تھیں ۔۔کیوں۔؟"

وہ پھر سے خاموش ہو گئ اور دوسری طرف بھی خاموشی چھائ رہی۔

"عالیان سے شادی کرنا چاہتی ہو؟"

 اس سے کوئ جواب نہیں دیا گیا۔

"میں نے تمھاری دونوں فون کالزکی ریکارڈنگ سنی ہے۔۔ مجھے یہ اندازہ فوراً  ہو گیا تھا۔۔ گھبراؤ نہیں۔۔ مجھے بتاؤ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔۔؟" آپ کو اپنے بیٹے کے پاس ہونا چاہیے۔۔ اسے یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں نے آپ کو سب بتایا ہے۔۔ شاید اسے اچھا نہ لگے۔۔" اس کی آواز اور زیادہ۔

کانپنے لگی

اسے اس کے باپ سے ملنا اچھا ضرور لگے گا۔۔میں سب سمجھ گیا۔۔تمہارا شکریہ۔۔تم یقیناً "میرے بیٹے کے لیے اچھے جذبات رکھتی ہو۔۔کیا نام ہے تمہارا؟"

"امرحہ!"

امرحہ تم سمجھدار ہو۔ کیوں کہ تم جانتی ہو کہ ایک باپ کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔۔اس پر اصرار کرتی رہنا امرحہ۔۔میں اور میرا بیٹا جلد تم سے ملیں گے۔

 🌻 🌻 🌻

تم بہتر طور پہ سمجھ سکتے ہو کیا وجہ ہوگیا۔۔اس نے پیسے لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اور تمہارے بارے میں سب بتا  بھی دیا۔ اس نے یہ نیکی یقیناً اپنے لیے کی۔ مجھے معلوم ہوا ہے تم نے مذہب اسلام اپنایا ہے اور وہ لڑکی بھی مسلمان ہے۔۔"

اس کے وجود میں جلتی آگ کی تپش نقطہ  عروج کو جا پہنچی کہ اسکی کھال پگھل جانے کو ہو گئ۔

اچھے مسلمان خاندان بنا باپ کہ ناجائز اولادوں کو اپنی بیٹیاں نہیں دیتے۔۔"

عالیان سن سا ہوگیا۔

اس کے منہ پر چانٹا پڑا

"اس نے میرے آدمی سے ایک ہی سوال کیا تھا۔۔

مارگریٹ کے بیٹے کو اس کا باپ ہی ڈھونڈ رہا ہے نا۔۔

اور جب اسے معلوم ہو گیا باپ ہی ہے تو جیسے اسکی کوئی بڑی مشکل آسان ہوگئ۔ تم ایک آزاد معاشرے میں رہتے ہو۔لیکن باپ کا سوال آج بھی مہذب معاشروں میں پہلے پوچھا جاتا ہے۔۔۔باپ کے نام کے بغیر تم ناجائز ہو۔۔۔میں کہاں ہوں اس بارے میں لوگ پوچھتے تو ہوں

گے۔۔"

ولید رکا۔۔جیسے اب سارے کام ہو گئے۔

اس عورت کے نام کے ساتھ تم کسی مسلم خاندان میں شامل ہونے کا سوچھ بھی نہیں سکتے۔میرے بغیر تمہاری حیثیت ہی کیا ہے۔۔ولید البشر نے اس آخری بات سے عالیان کو ایسے ذلیل کردیا٬جیسے مارگریٹ اور اسکی اولاد کی ہتک لاحق صرف اسی کے پاس  ہے۔

اور اس نے اس حق کا ٹھیک ٹھاک استعمال کیا۔

تمہاری غیر مسلم ماں کے بارے میں آسانی سے یہ سوچ لیا جائے گا کہ وہ کس طرح کی۔۔۔"

اپنی زبان کو لگام دو۔۔"عالیان دھاڑا

کس نام اور کس خون کی بات کر رہے ہو۔لعنت تو تم ہو۔۔"

تم اس ملعون عورت کا خون نہ ہوتے تو جانتے کہ باپ کے ساتھ کس طرح پیش آیا جاتاہے۔۔"

میں تمہارا ملعون خون نہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔

اس نے اس کرسی اور میز کو طیش میں پیر سے ٹھوکر ماری۔۔جس کہ پاس وہ کھڑا تھا۔ باہر کھڑے گارڈز اندر لپکے

ولید نے اشارے سےانہے روکا۔

تم میرے کام آجاؤ٬میں تمہارے کام آجاؤں گا۔کم ڈیل سمجھ لو ۔اتنے جذباتی نہ ہو۔"

تھو ہے اس ڈیل پر۔۔

پر سکون ہو جاؤ۔ تم جانتے نہیں تم کس عورت کی اتنی طرف داری کر رہے ہو؟؟

ہاں جسے تم نے مار ڈلا۔"اس نے غصے میں ایک اور کرسی کو ٹھوکر ماری۔"تم نے اسے اپنے جال میں پھانس لیا تھا وہی جال کاٹتے کاٹتے وہ مرگئ۔۔"

اور اپنے پیچھے ان مردوں کو روتا چھوڑ گئی جن کے ساتھ وہ ہر رات۔۔۔"

عالیان نے جھپٹ کر اسکے کوٹ کا کالر پکٹرا اور گھونسا اسکے منہ کے قریب لایا دونوں گارڈز فوراً اس پر جھپٹے۔

میری تربیت اچھے ہاتھوں میں نہ کی ہوتی میں ایک مسلمان نہ ہوتا تو تمہارا گلہ دبوچ لیتا۔ اور دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مجھ سے بچا نہ سکتی ولید۔۔" گارڈز اسے پوری قوت سے پیچھے کھینچ رہے تھے اور وہ چلا رہا تھا۔

"اگر ایک بھی اور لفظ ماما کے بارے میں کہا تو یہ بھی کر گزروں گا۔"

اس نے گارڈز سے خود کو آزاد کروایا اور انگلی اٹھا کر چلایا۔۔

pg#187

"تم وہ غلازت ہو جس مہیں میری ماں اپنی بد نصیبی سے جا گری۔ اگر میرا بس چلے تو میں اپنا جسم چھیل ڈالوں تاکہ تمھارے غلیظ خون کا ایک قطرہ میرے جسم میں نہ رہے۔"ولیدالبشر ششد رہ گیا۔

"ساری دنیا کی دولت میرے آگے ڈھیر کروگے، تو بھی اب مجھ سے اپنے لیے احترامکا ایک لفظ نہیں سن سکو گے۔مجھے تمہاری ضرورت کبھی نہیں پڑے گی ۔وہ  میری آخری سانس ہی کیوں نہ ہو۔ میں زندگی مستعار لینے کے لیے تب بھی تمھارے پاس نہيں آؤں گا۔"

---------------------

پرنٹ ورک کی  حدود سے وہ  ایسے  نکلا جیسے بندوق سے گولی۔اگر وہ  تھوڑی دیر اور روک جاتا تو ولیدالبشر کا گلا اس وقت تک دبوچے رکھتا جب تک وہ حلق سےآخری سانس نہیں اگل دیتا۔اس نے زندگی میں کبھی اس شخص سے ملنے کی چاہ نہیں کی تھی۔وہ جانتا تھا وہشخص اسکے سامنے آۓ گا تو خود وہ انسانی رتبے سے گِر جاۓ گا۔

"اگر وہ کبھی تمھارے سامنے آجاۓ تو تحمل سے کام لینا۔" ماما مہر اسے نصیحت کر چکی تھیں۔ "مجھ سے وعدہ کرو۔"تم صبر سے کام لوگے۔ تم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دوگے۔ تم میری تربیتکی لاج رکہوگے۔"

 وہ سائیکل کو ہوا میں اُڑا رہا تھا،اسے سڑک پر بس،گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ اپنا گرم کوٹ وہ ہارٹ راک میں پھیک آیا تھا۔اپنی شرٹ کے بٹن اس نے کھول  چکا  دیے تھے،کف الٹ دیے تھے۔ اس کی شرٹ ہوا سے باتیں کر رہی  تھی۔ اتنی ٹھنڈ بھی اس کی گرمی کم کرنے میں ناکام تھی۔ 

اس کی خون رنگ آنکھيں  ٹمٹما رہی تھیں۔ اب اس کے سمجھ میں آرہا تھا کہ ماما نے اسے گھر پر آنے سے منع کیوں کر دیا تھا۔وہ اسکا پیچھا کرتے ہوۓ گھر تک پہنچ  چکا تھا اور گھر والوں تک بھی۔ گر ماما کی اولادیں نہ ہوتیں تو وہ اس سے پہلے اس تک پہنچ چکا ہوتا۔ اس کا پاب اسے ڈوبتے ہوۓ جہاز کو بچانے کے لیے اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ 

اپنی لین میں چلتی کار سے آگے نکل جانے میں وہ اسی کار سے ٹکرا گیا اور رگڑ کھاتا ہوا۔۔ سڑک پر گرا۔ اسے کوئ دعا لگی۔ کار اس کے اوپر سے نہیں گزری۔ اس کے ہاتھ اور گھٹنے چھل گۓ جس گال پر ولیدالبشر  اپنا ہاتھ رگڑتا رہا تھا،وہاں سرخ لکیریں بن گئیں۔ اور اس سے خون رسنے لگا۔

اس نے اسے ایک ٹوکن سے زیادہ اہمیت نہ دی، جس کے ڈالتے ہی اس کے پیسوں کی مشین چلنے لگتی۔ 

"کیا تم ٹھیک ہو۔؟"کار والا جلدی سے نکل کر اس کے پاس آیا جبکہ وہ اپنی سائیکل کھڑی کرکے اس پر سوار ہوچکا تھا۔ ٹھنڈی ہوا اس کے تازہ زخموں کو ادھیڑنے لگی اور اس میں سے گرم خون رسنے لگی۔ وقت ایک شرارہ ہے جلا دینے پر قادر۔ دونوں ماں بیٹا ایک سے نصیب کے حامل تھے۔ دونوں نے ایک ہی انسان کے ہاتھوں ذلت اُٹھائ۔ دوبارہ وہ کسی کار سے نہ ٹکرا جاۓ،اس نے اپنی آنکھيں رگڑیں۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہےـ"

"مجھے غلط مت سمجھنا۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔ مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بتاؤ۔"

"تم غلط وقت پر پوچھ رہی ہو۔"

"جانتی ہوں۔۔ وہ سب  کہنے سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا پہر بھی۔۔مجھے اپنے فادر۔۔"

"میراکوئ باپ نہیں امرحہ۔۔!صرف ایک ماں تھیں جو مر گئیں۔۔"

"اچھے مسلمان خاندان بنا باپ کی ناجائز  اولادوں کو اپنی بیٹییا نہیں دیتے۔"

"باپ کا سوال آج بھی مزہب معاشروں میں پہلے پوچھا جاتا ہے۔ باپ کے نام کے بیغر تم ناجائز ہو۔"

#یارم

#سمیرا_حمید ✍

#پاٹ_47

"تمہاری غیر مسلم ماں کے بارے میں آسانی سے  یہ سوچ لیا جاۓ گا کہ وہ کس طرح کی۔۔ تم اس معلون عورت کا خون ہو۔۔" 

"معلون عورت ۔۔معلون عورت۔" 

آتش فشاں پھٹنے سے پہلے جو اس کے اندر دھماکے ہوۓ تھے، وہی دھماکے اس  میں زلزلہ برپا  کرنے لگے،ایک خیال اس خیال اس کے ذہن سے ہو کر گزرا، اسے سڑک کی مخالف سمت میں گھس جانا چاہیئے اور سامنے سے آنے والی کسی بس سے ٹکرا جانا چاہیے۔

ولیدالبشر  اسے کیسے جتا گیا تھا کہ اسکا نام اس کے لیے ضروری ہے۔  اس کی پاک باز ماں کے لیے آج بھی وہی انداز اپنایا گیا تھا۔ وقت اس زندہ کے لیے بھی نہیں بدلہ تھااور اس مردہ کے لیے بھی نہیں۔ وقت نے اس کے درجات میں تبدیلی کی تھی تو بس  اتنی کہ اسےاور پستی کی طرف لے گۓ تھے۔

اس عورت نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ اسے عزت کے لائق سمجھا جا رہا تھا نہ محبت کے،اس نے کہاں کیا گستاخی کی تھی کہ مرنے کے بعد اسے زندہ رہ جانے والے روند رہے تھے۔ اسکے لیے رویا نہیں گیا۔۔ پچھتایا نہیں گیا۔ اس کی ریاضت اتنی کوٹھی تھی کہ اسے لفظوں میں سب سے بدتر الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔

اور عالیان نے پہلی بار سوچا کہ۔" میری ماں مارگریٹ جیسی بدنصیب عورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔"

ولید اسے بھی استعمال کر گیا تھا۔ اور اسے بھی استعمال کربے ہی آیا تھا۔  جو عورت اس کے فراق میں مر گئ تھی۔وہ اس پر پہر سے لعنت بھیجنے آیا تھا۔اس کا اکلوتا رشتہ اس کا خون پی گیا تھا۔

اس کے جسم میں جابجا سراخ ہوگے تھے اور ان سراخوں سےوہی کراہیں سنائ دینے لگی تھیں جو اس کی ماں کے وجود سے پھوٹتی تھیں۔

اس  نے سائکل کو اسٹور کے باہر پھینکا اور بھرپور طاقت سے شیشے کے دروازے کو دھکیل کر اس کے سر پر پیچھا۔

دور کھڑے ورکرز نے اس کے انداز کو حیرت سے دیکھا وہ اس لڑکے کو جانتے تھے وہ کافی عرصے بعد اسٹور  میں آیا تھا اور ایک نئے اور عجیب انداز میں آیا تھا۔ وہ اس کے سر پر پھنچا اور اس کا بازو گھیسٹ کر کھڑا کیا اور اسٹور سے باہر لے گیا۔

"ولید کو فون کر کے تم نے بتایا تھا میرے بارے میں۔؟"

اس کی آواز بلند تھی اور اس کا انداز۔ اس کی آنکھيں ۔اف۔! امرحہ کا دل چاہا، وہ اپنی آنکھيں  بند کر لے اور اپنے سکڑتے ہوۓ دل کو بند ہوجانے کا عندیہ دے دے۔

اس کی پلکھیں لرز رہی تھیں  اور اس کا انداز اس کے گال پر موجود خراشوں سے رستا خون تکلیف  سے اس کی بے نیازی ظاہر کر رہا تھا۔ اس کے بازو پر موجود اس کا ہاتھ اتنا گرم تھا کہ اس کی کھال میں سلاخ  کی طرح گھس رہا تھا۔

وہ سہم گئ۔۔ اس نے اسکا ایسا شدت پسندانہ  انداز پہلے کبھی  نہیں دیکھا تھا۔

"عالیان۔۔!"اتنی ہی آواز نکل سکی۔

" ولید کو فون تم نے کیا تھا۔؟"وہ دھاڑا۔

اسٹور کا مینیجر اسٹور سے باہر نکل آیا تھا۔ اسٹور کے اندر کام کرتے ورکرز کام روک کر اور کسٹمرز جوتوں سے نظرئیں ہٹا کر شیشے کی دیوار کے پار کھڑے انھیں دیکھ رہے تھے۔ سڑک پر چلتے کچھ دوسرے لوگ چونک کر ان کی طرف دیکھ کر گزر رہے تھے۔ 

"کیاہوا۔۔ ہے۔ تمھیں ۔؟" خوف سے اس کا سانس روک جانے کو تھا۔

"تم نے فون کیا ہے نا۔؟" وہ پوری قوت سے پہر سے چلایا۔ اور اسکا گرم ہاتھ اس کی کھال میں گھسنے لگا اور وہیں اس کا خون جم گیا۔ اس کے دل میں تکلیف اُٹھی، اور اس نے مر جانا چاہا۔

"صرف اس لیے عالیان کہ مجھے۔"

pg#189

اسکا جملہ  گال  پر پڑنے والے طاقتور  تھپڑ کے درمیان میں ہی رہ گیا تھا۔اور اسکے سفید گال پر ثبت ہونے کا نشان چھوڑ گیا۔ ہونٹوں کےکنارے تھرتھراۓ، آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئ اور اس نے جان لیا کہ"سب ختم"یورپ کا سفر پچھم میں ہوا اور سورج ڈوب گیا۔ پروگ(جدائ) نے اپنی آمد کا طبل بجایا۔۔ اب وہ اس کا عالیان  نہ رہانہوہ اس کی امرحہ۔۔ اور پھر اس قمراش نے بدہیت ہوتے ہوۓ انگلی اُٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا۔۔

"یہ تھپڑ تمھیں اس روز پڑنا چاہیے تھاجب تم نے میری ماں کی بے عزتی کی تھی۔۔ یہ تھپڑ ولید کو بھی اس عورت کے ہاتھوں پڑنا چاہیے تھا  جو میری  ماں تھی۔ اب میں  دنیا میں  کسی  شخص کو یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میری ماں پر انگلی اٹھائے ۔"الفاظ کی ادائ میں ایسی ٹوٹ پھوٹ تھی کہ جیسے وہ صدیوں سے لکنت زدہ رہے ہوں۔

آج سے پہلے اس کی آواز اتنی اونچی نہیں ہوئ تھی۔آج سے پہلے وہ ایسے بے قابو نہیں ہوا تھا۔

امرحہ کا عالیان وہ اس روپ کا سوداگر کیونکر ہوا۔۔؟

اگر اسکے ہاتھوں میں مشعل دی جاتی تو وہ دنیا کو آگ لگانا شروع کر دیتا اور شروعات خود سے کرتا۔

"میری ماں کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ولید سے محبت تھی اور میری تم سے ۔"اسکے لکنت زدہ جملوں ادائ میں پھر وقت لیا۔۔

"تم ہر بار نئے انداز سے دکھ دیتی ہو۔۔ کتنی ظالم ہو تم امرحہ ۔۔" ان الفاظ نے صدیوں سے کہیں آگے کا سفر طے کیا اور اسکی زبان سےادا ہوۓ۔۔۔ اس کے ان الفاظ پر امرحہ کا جی چاہا، مرجاے۔۔

وہ اسٹور کے ایک طرف گری اپنی سائیکل کی طرف لپکا۔ اس کی ناک سے خون نکلنے لگا تھا۔۔ اس کی ویسٹ پر قطرے گر رہے تھے۔۔ اس کے پاس اس خون سے نبٹنے کا خذبہ باقی نہیں رہا تھا وہ کس کس زخم کی رک کر دیکھ بھال کرتا۔

امرحہ اس کے پیچھے لپکی اور اس کا بازو پکڑلیا "مجھے معاف کردو عالیان ۔۔"

 اس نے جھٹک کر اپنا بازو اس سے آزاد کروایا اور گری ہوئ سائیکل کو اٹھانے لگا۔خون کے قطرے سڑک پر گرے۔

"میں  نے یہ سب اس کیے کیا۔۔ تمھارے لیے کیا عالیان !بہت محبت کرتی ہوں تم سے۔۔"پہلی بار اس نے عالیان  کے سامنے اس محبت کا اقرار کیا۔۔ نا حق کیا۔

"یہ سب دادا کے لیے۔۔ میں تو ۔۔ میری بات سنو اللہ کے لیے ۔۔"

"میرے لیے اب تم مر چکی ہو امرحہ ۔۔"گیلی ناک کو اس نے آستین سے رگڑا۔

اس کے خون اور اس کی آنکھوں پر امرحہ کی نظریں گڑی تھیں۔

"تمھارے بیغر میں مر ہی جاؤں گی۔۔ پلیز میری بات سن لو۔۔" اس نے لپک کر پھر اس کا بازو مضبوطی سے تھام لیا۔

وہ سائیکل پر بیٹھ چکا تھا۔ "جا کر۔ دیکھو یہ بھی مجھے کوئ فرق نہیں پڑے گا۔۔"خون آلود آستین کو اس نے امرحہ کی گرفت سے آزاد کروایا۔

"اگر فرق ہی نہیں دیکھنا ہے عالیان تو چلو مر کر دیکھتے ہیں۔" وہ استہزاء ہنس دی اور ساتھ ہی رودی۔ وہ سائیکل لے کر چلا گیا۔

برہ کی نزولیت نے آسمان تک بلند قعلےکھڑے کرنا شروع کر دیے۔ اس نے اسے جاتے دیکھا۔۔ وقت نے اپنے تھال سے"رمز حقیقی" کا پہلا سکہ اُچھالا۔

اس نے خود کو اکیلے کھڑے پایا۔

وقت نے اسی تھال سے"خط تقدیر" کا دوسرا سکہ اچھالا۔

اس پر انکشاف ہوا۔وہ اسے اپنے ساتھ   نہ لے گیا ۔ تیرے سکے کا وار وقت نے اس کے دل پر کیا جو"فراق یار" کا تھا اور وہ رونے لگی۔

اے آنکھ تو کیوں روتی ہے

نگاہِ محبوب نے مجھے ایک داستان سنائی

اے آنکھ تو پھر کیوں روتی ہے

وہ داستان عشق تھی

اے آنکھ پھر تو رونا بند کر

اس میں میرا نام تھا'جو اب مٹ چکا

ہاں اب تو رو۔۔

                  ✡     ✡      ✡

اندھیرا رات کی تاریکی سے نہیں' نصیب کی تاریکی سےبڑھ جاتا ہے۔

اندھیرا دکھ کا ہم جولی۔

ایسا اندھیرا پھر جس کی تاریکی میں جلد کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا۔

ناک سے بہنے والا  خون تھک کر رک چکا تھا۔اس نے اتنی بھی زحمت نہیں کی تھی کہ ٹشو ناک پر ہی رکھ لیتا درپردہ اس نے جان لینے کی کوشش کی شاید۔ وہ اس وقت اس کیفیت میں نہیں تھا جس میں "میں کتنا دکھی ہوں" سوچا جایا کرتا ہے، وہ اس وقت اس کیفیت میں تھا جس میں کوئی سوچ کام نہیں کرتی۔وہ کرسی پر چپ  بیٹھا تھا۔ ہاتھ گود میں تھے اور کمرہ اندھیرے میں۔۔اور خود"گمشدہ".

سائی اس کے کمرے کا دروازہ بجا رہا تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ کھول نہیں رہا تھا۔بس ایسا تھا کہ وہ سن نہیں رہا تھا۔ سائی کو سادھنا نے فون کیا تھا اور وہ فوراً اس کے کمرے کی طرف لپکا تھا۔ کارل موجود نہیں تھا،جاب سے آف ہونے کی وجہ سے وہ کلب چلا گیا تھا اور یقیناً پاگلوں کی طرح ناچ رہا ہوگا اسی لیے فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ صرف وہی اس کا کمرہ کھول سکتا تھا اور جب اس نے فون اٹھا لیا تو اسے آنے میں زرا وقت نہیں لگے گا۔۔ سائی نے مختصراً اسے سب بتایا اور کمرہ کھول کر کارل سائی کو باہر ہی چھوڑ کر عالیان کے پاس آگیا۔

کارل اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تو عالیان کو اس کی موجودگی کی خبر ہوئی۔ اس نے آنکھیں اٹھا کہ کارل کو دیکھا تو کارل کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھنا

مشکل ہو گیا اسکا دل رک کر پھر چلا۔

"عالیان! اس نے اس کے زخم خوردہ گال پر ہاتھ پھیرا اور اس کی اپنی آنکھیں نمی سے چھلک جانے کو ہو گئیں جب اس پر پہلی بار یہ ادراک ہوا تھا کہ وہ دنیا میں اکیلا ہے تو اس کی آنکھیں ایسی ہوگئیں تھیں۔ اور اس کے بعد اب۔ 

اس نے زندگی میں جس پہلے انسان سے محبت کی تھی وہ عالیان تھا اور جس کے لیے وہ آگ میں کود سکتا تھا وہ بھی عالیان ہی تھی۔

اس نے گود میں رکھے اسکے ہاتھ اپنے

لیے اور اس پر ظاہر ہوا جیسے اس نے کسی مرچکے انسان کے ہاتھوں کو چھو لیا۔ان ہاتھوں میں زندگی کی بوجھل تپش بھی ناپید تھی۔

اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے دو ناخن جڑ سے اکھڑے ہوئے تھے

 اور اتنی تکلیف پر بھی وہ کیسے خاموش تھا۔اس میں سہن زیادہ تھی یا فراموشی۔

'تم کب بڑے ہوگئے عالیان۔؟؟" اس نے اس کے سر کے بال نرمی سے مسلے اور اسکی لاپتا نظروں کا پتا کرنا چاہا۔ پھر وہ اٹھ کر اسکی وارڈروب تک آیا اور نچلے خانے میں رکھا فرسٹ ایڈ باکس نکالا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کے روئی سے اسکے گال صاف کرنے لگا۔ اسکی ناک کے پاس خون کے لوتھڑے جمے تھے۔ انہیں اس نے نرمی سے صاف کیا اور پھر ان ناخنوں کو جو سارے اکھڑ چکےتھے۔ اور زرا سے جڑ کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ کٹر سے کاٹا اور عالیان نے "سی" بھی نہ کی۔

تمہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میری کچھ سانیں تم میں سے راستہ بنا کر مجھ تک آتی ہیں اور یہ بھی نہیں  بھولنا چاہیے کہ کارل کا شمار بھی بدنصیبوں میں ہوتا،اگر اسکے پاس عالیان نہ ہوتا"

وہ مجھ سے ملنے بھی آیا تو اپنے فائدے کے لیے

Pg#191

"کارل ! میرا باپ اس نے یہ بھی نہیں  پوچھا کہ اس کے بیغر کیسے رہا۔ اتنے سال۔ اس کے بیغر میں  نے کیسے گزارے۔ میری ماں کب اور کیسے مر گئ۔ اس کی قبر کہا ہے۔ وہ کتنی تکلیف میں رہی۔ اس پر کیا کیا بیتی کوئ ایک بھی بات اس نے نہیں پوچھی۔"

عالیان نے بولنا شروع کر  دیا اور کارل نے خود کو کئ راتوں اور دنوں تک سننے کے لیے تیا کر لیا۔ اس نے عالیان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے رکھے تھے اور وہ انہیں نرمی سے تھپک رہا تھا۔

دوسری طرف امرحہ سائ کے سامنے کھڑی تھی۔ دونوں ہال کے بیرونی گیٹ کے باہر کھڑے تھے۔

"ابھی وہ ٹھیک نہیں ہے۔ تمھارا اس سے ملنا ٹھیک نہیں ہے۔" سائ نے قدرے سختی سے کہا۔ 

ایسی سختی سے جو اس کے مزاج کا خاصا نہیں تھی۔

"وہ غصہ میں نہیں تکلیف میں ہے سائ! میں  نے سب نیک نیتی سے کیا۔ میرا یقین کرو۔"

"نہیں۔ تم نے نیک نیتی سے نہیں  سنگدلی سے کیا۔ اپنے لیے امرحہ ! تمھیں اپنے خاندان کے لیے اس کا خاندان چاہیے تھا۔ تمھیں اس سوال کا جواب معلوم کرنا تھا کہ وہ جائز ہے یا ناجائز۔ تمھیں اس پر ایک لیبل چاہیے تھا۔ اس کے خاندانی ہونے کا۔"

"تم ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرتی ہو نا امرحہ ! تم نے اس بات کو لے کر مجھ سے مشورہ نہیں کیا، اگر تم مجھ سے پوچھتی تو میں منع کر دیتا۔ امرحہ اتنی سیدھی سی بات نہیں سمجھ سکیں کہ خاندان لاپتا نہیں ہوا کرتے وہ خود کو لاپتا کر لیتے ہیں۔ اگر کوئ اس کا باپ تھا تو اب تک کہاں تھا۔ اس نے بےسہارا بچو کے ادارے میں پرورش کیوں پائ، ایک دوسری خاتون نے اس کی ماں ہونے کا فرضہ کیوں ادا کیا اور اسی خاتون نے اس کے باپ کو اس کے بارے میں کیوں نہیں  بتایا۔ وہ اسی حالت سے ڈرتی تھیں جس حالت میں اب عالیان ہے۔ تم تھوڑی سی عقل استعمال کرتیں تو سب سمجھ جاتیں۔"

امرحہ کی آنکھوں نے اس کی ذات کے اندر کی ویرانیاں بہت تفصیل سے دیکھیں۔

"میں اس سے محبت کرتی تھی اس کے لیے ہر حد سے گزر گئ۔"

"ہر حد سے۔ ہاں تم گزر گئ ۔ دیکھو اسے کتنی تکلیف ہوئ۔ کیا کبھی عالیان نے تمھیں تکلیف دی۔"

امرحہ نے ناں میں سر ہلانا فرض جانا۔

"امرحہ ! پہلے تم خود فیصلہ کرلو کہ تمھیں کیا کرنا ہے۔ جب اس نے  تمھیں پروپوز کیا تو تم نے کہا کہ تم اس سے محبت کرتی ہو،لیکن اس محبت کو اپنا سکتی ہو نہ اعلان کر سکتی ہو۔ تمھیں اس سے الگ رہنا ہے۔ پھر تم نے کہا تم اس کے بیغر رہ نہیں سکتیں اور تم اپنے گھر والوں سے بات چاہتی ہو۔"

"میں نے دادا سے بات کی تھی۔"اس کی روح نے اس کے جسم کو اکیلا چھوڑنا شروع کردیا۔ 

"امرحہ ! سیدھی سی بات ہے وہ جہاں ہے جیسا ہے تمھیں اسے ایسے ہی قبول کرنا ہے۔ تم اس کے معاشرتی رتبہ کو بدل کر ہی اسے اپنا نہیں سکتی۔ یہ منافقت ہوگی تم اسے اس کا حساب کتاب نہیں کر سکتیں۔ یہ کوئ کھیل نہیں ہے کہ جب تم کھیل سکو تو ٹھیک ورنہ چھوڑ کر چلی جاؤ  کہ تم جیت نہیں سکتیں اور جاتے جاتے اسے ہرا جاؤ۔ کبھی تم نے غور کیا ہے کہ تم نے اس شخص کا کیا حال کر دیا ہے۔ تم سے پہلےو وہ اور کارل سب کا ناک میں  دم کیۓ رکھتے تھے۔ پڑھنے کے علاوہ جو انہیں دوسرا کام ہوتا وہ شرارتیں تھا، یہاں سے جانے والا ہر اسٹوڈینٹ یونیورسٹی کو بھول سکتا ہے لیکن اسے نہیں ۔ اس کی ایک زندگی تھی ہنستی مسکراتی، کھلکھلاتی ہوئ۔ اور تم نے خود یہ قبول کیا تھا کہ تم یہ جانتی تھیں تھی کہ وہ کس قدر تمھیں پسند کررہا ہے اور تم نے یہ ہونے دیا۔ تم کیا اختتام چاہتی ہو اب اس سارے قصے کا امرحہ ۔ کہ سب ٹھیک ہوجاۓ۔ تم امرحہ پہلے خود کو ٹھیک کرو۔ فیصلہ کرو اور خود کو سناؤ۔"

سائ ذرا دیر کے لیے روکا۔

pg#192

"لیکن اس سے پہلے میں تمھیں مشورہ دوں گا کہ فلحال عالیان سے دور رہو۔"

"امرحہ نے گیلی ہوچکی دل کی دھرتی سے  آنکھیں اٹھا کر سائ کو دیکھا۔" ہر طرف سے اسے دور رہنے کے فیصلے سناۓ جا رہے تھے۔

"اس کے فارر اسے پہلے سے ہی ڈھونڈ رہے تھے۔"

"ہاں۔ میں جانتا ہوں۔ لیڈی مہر نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا سب۔ جب اتنے عرصے سے وہ انہیں عالیان سے دور رکھتی رہیں، توتم نے انہیں یہ کامیابی کیوں حاصل کرنے دی۔"

"تمھیں لگا کہ وہ عالیان کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہیں؟ اسے اس کے باپ سے ملنے نہیں دے رہیں؟"

"ہاں۔ "اس نے سچ بولا۔

"جب تم نے مجھے بتایا تو میں نے دعا کی کہ یہ حرکت تمھارے حق میں جاۓ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امرحہ ہم میں سے کون ہے جو تمھارے بارے میں برا سوچتا ہے۔ امرحہ تمھیں ہماری کوئ بات تو ماننی چاہیے تھی۔"

سائ کتنا ٹھیک کھ رہا تھا۔ اس نے اسے مشورہ دیا تھا کہ دادا کے پاس چلی جاۓ اور انہیں سمجھاے۔ لیکن اسے خوف تھا کہ دادا اسے واپس ہی نہیں آنے دیں گے۔

"پہلی بار مجھے دکھ ہوا امرحہ کہ میں  ایک سخت دل انسان کا دوست ہوں۔" 

"اس کے جدا ہونے کے خیال سے میرا دل سخت ہوگیا۔" اس نے اپنا جرم مان لیا۔

"اس نے خود کو ویرا کے قریب کیوں ہوجانے دیا۔" یہ وہ دکھ تھا جو اسے ساری زندگی نہیں بھولنے والا تھا۔ جو اس کی آخری سانس تک اسے بنجر کیے رکھنے والا تھا۔

"تم نے اسے دور کیوں ہوجانے دیا؟"

"اس کی محبت میرے لیے اتنی جلدی ختم ہوگئ۔"

اب تمھاری محبت اس کے لیے ایک دم سے اتنی جاگ اٹھی کہ تم یہ سب کر گزریں۔ یا یہ سوچ کر تمھیں سکون ملتا رہا کہ وہ محبت تو تم ہی سے کرتا ہے نا۔ اور تمھیں یہ دکھ ہوا کہ وہ کسی اور کی طرف متوجہ کیوں ہوا ۔ اسے تمھارے پیچھے ہی رہنا تھا اور پھر جو چاہے تم اس کے ساتھ کرتیں۔ ویرا نے اسے خود پروپوز کیا اس نے اسے بڑھاوا نہیں دیا تھا۔ وہ اس کا دوست تھا۔ اگر۔۔ محبت کو ایک طرف رکھ دیا جاۓ۔ تو امرحہ اور ویرا میں سے عالیان کے لیے بہتر کون ہے۔ میں چاہو گا تم اس بارے میں بھی سوچو۔"

امرحہ نے سیاہ۔۔ پتلیاں غیر مرئی نقطے سے ہٹا کر سائی کی طرف دیکھا اور دیکھتی ہی رہی۔ "ویرا" اسے کچھ وقت لگا یہ نام بڑبڑانے میں۔

"ہاں اگر محبت کو ایک طرف رکھ دیاجاۓ تو امرحہ میں کیا ہے؟" اس نے خود سے سوال کیا۔

"کتنی ہی امرحہ ہوں گی دنیا میں لیکن کتنے بہت سے عالیان نہیں ہونگے۔"

"پال کے حملے کے بارے میں جب ہمارے ہال میٹ نے بتایا تو ہم سب پیٹ پر ہاتھ رکھے شاہ ویذ اور کارل کے تھیٹر پر ہنس رہے تھے اور اس کی ہنسی ایسے رک گئ کہ جیسے دوبارہ وہ کبھی نہیں ہنس سکے گا۔وہ ساری رات نہیں سو سکا امرحہ۔ جے پیٹر سن نے تین لوگوں کی ڈیوٹی نہیں لگائ تھیں اس نے لگائ تھیں۔ وہ کارل اور ویرا کتنی ہی راتیں تمھیں خاموشی سے بحفاظت تمھیں گھر تک چھوڑ کر آتے رہے،انھوں نے ظاہر کرکے تم پر احسان نہیں جتایا۔ تمھاری ہمت، بہادری، حکمت کو انھوںنے صرف تمھارا ہی رہنے دیا۔ تمھیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔ تمھیں ان کے ماضی کے بدنما داغوں کی طرف دیکھنا نہیں چاہیے۔ وہ جہاں ہیں جیسے ہیں، تمھیں قبول کرنا چاہیے۔ امرحہ ہم ب نے ہارٹ راک میں چلنے والی ریکارڈنگ سنی اور کبھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ ہم نے کچھ سنا ہے۔ اور تم نے۔ تم نے اب تک کیا کیا؟"

"دعائیں ۔ بس دعائیں ــ"

pg#193

"میں تھمیں شرمندہ نہیں کر رہاـ"

"اسے میرے آنے کے بارے میں مت بتانا سائی۔!"

"میں ضرور بتاؤں گا۔ لیکن تم ابھی گھر جاؤ۔ میرا لہجہ اور انداز برے ہوسکتے ہیں لیکن میرا مقصد غلط نہیں ہے۔"

"میں جانتی ہوں سائی۔ لیکن میرے آنے کے بارے میں تم اسے نہ بتانا۔ میرے دادا کبھی نہیں مانیں گے۔ اور اب تو عالیان  بھی نہیں مانے گا۔ میں اسکے لیے" کوئی نہیں " بھی نہیں رہی اب۔ اور وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے اور وہ پہلے بھی غلط نہیں تھا۔

"میں چاہتا ہوں تم پرسکون رہو۔"

"ہاں میں بھی یہی چاہتی ہو لیکن چاہنے سے سب کہاں ہوتا ہے۔"

"تم گھر جاؤ آرام کرو۔"

"ہاں مجھے آرام کرنے ہی کی راہیں ڈھونڈنی پڑیں گی اب۔!"

وہ اندر آئی تو پولیس کی ایک گاڑی کھڑی  تھی اور اندر آفسر لیڈی مہر کے پاس بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔

"عالیان کا باپ آیا تھا امرحہ۔"سادھنا اس کے قریب آئی۔

"دونوں میں بہت دیر بات چیت ہوتی رہی۔پھر پولیس بلوانی پڑی۔" سادھنا اس کی شکل پر کچھ کھوج رہی تھی۔

"تم نے ٹھیک نہیں کیا امرحہ۔" اس نے گہرا سانس بھر کر کہا۔

امرحہ کے پچتاوے پر یہ بات، آخری سل کی طرح آکر گری اور امرحہ پوری کی پوری دفن ہو گئی۔

لیڈی مہر نے بہت سرد نظروں سے امرحہ کو دیکھا اور جو تھوڑی بہت قوت امرحہ  میں بچی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ اسکا جی چاہا کہ دیوار پر ٹنگی بندوق اتار کر اس میں کارتوس بھر کر اپنی کھوپڑی اڑا دے۔ اور بس پھر سب ٹھیک۔

---------------------

ایک لڑکی ہے امرحہ۔۔۔

کشمیر کے سبزہ زار سی۔۔۔

داستان کے گلاب سی۔۔۔

زمرد جڑے عطردان سی۔۔۔

وہ کمرے میں  آگئی اور بیڈ پر بیٹھ گئ پھر اٹھ گئ وہ اتنی پتھر جگہ پر نہیں بیٹھ سکی، پھر وہ کرسی پر بیٹھی اور اسی ایک تکلیف کو محسوس کرتے اٹھ کھڑی ہوئ۔ اس نے واش روم میں بہت دیر منہ پر پانیکے چھینٹے مارے اس کے گال کی سرخی پھر بھی کم نہ ہوئ۔

وہ کمرے میں جگہ بدل بدل کر بیٹھنے لگی اور آخری وقت میں وہ کرسی پیچھے، نیچے کونے میں خود کو محفوظ سمجھنے لگی۔ اس کی کیفیات میں کوئ سودائ حلول کر گیا۔ اور اس کی ہوش مندی کو کوئ وحشی لے اڑا۔

اس نے اپنا سر گھٹنوں میں  دے لیا۔ اسے بہت دیر تک اپنے زندہ رہ جانے کے خیال سے خوف آیا۔

ایک لڑکی ہے امرحہ۔۔۔

نافرمان کی بددعا سی۔۔۔

ساحر کے جلال سی۔۔۔

اور موت کے الہام سی۔۔۔

اس کی زندگی کہیں بہت لمبی نہ ہوجاۓ،اس پر یہ خیال کوڑے برسانے لگا۔

"تم کتنی ظالم ہو امرحہ؟"

"ہاں میں  بہت ظالم ہوں۔۔ مجھے اب معلوم ہوا کہ میں  بہت بری ہوں ۔۔ میں  نے اب ٹھیک ٹھیک خود کو پہچان لیا ہے۔"

زمین کا وہ کونا۔۔مشرق۔۔ اس کی مٹی کی زرخیزی میں ہی "بنجر پن" کی گانٹھیں گندھی ہیں۔

مشرق کایہ کونا امرحہ ۔۔ اس کی زرخیز جڑوں میں گندھی گانٹھیں کھلنے لگیں اور  اس پر اس کا بس نہیں  چلا، اور وہ اس بس نہ چلنے پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

کئ گھنٹے ایسے ہی گزر گۓ۔ رات نے اپنا سفر نا تمام کرنے کی قسم اٹھالی اور قسم نہ ٹوٹنے کا عہد باندھ لیا۔ ساری نزاکتیں اس کے اندر دم توڑنے لگیں اور سارے ارمان خود کو خود دفنانے لگے۔۔

pg#194

۔۔وہ روتی رہی اور پریم روگی جڑیں اس میں پھوٹنے لگیں۔

میز پر رکھا اس کا فون کب سے بج رہا تھا۔ رات کے تین بجے تھے۔ فون بہت ہیر تک وقفے وقفے سے بجتا رہا۔

"امرحہ تمھارے دادا کا فون ہے تم فون کیوں نہیں اٹھا رہیں، وہ بہت پریشان ہورہے ہیں۔" بہت دیر تک اس کا دروازہ بجانے کے بعد سادھنا تیز آواز میں چلانے لگی۔

"وہ کھ رہے ہیں، انہیں تم سے ابھی بات کرنی ہے وہ بہت گھبراۓ ہوۓ ہیں۔۔ شاید ان کی طبعیت ٹھیک نہیں۔۔ امرحہ کہاں۔۔  امرحہ ۔۔ دروازہ کھولو۔۔"

اپنا منہ صاف کر کے امرحہ نے دروازہ کھول کر یہ کہنا چاہا کہ ان سے کھ دو وہ سو رہی ہے اور کل دن میں بات کرے گی،لیکن سادھنا کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا اور دادا سامنے ہی تھے۔

دادا نے اسے دیکھا اور جیسے کسی خدشے کی تصدیق ہوگئ۔ وہ اس سے ناراض تھے اور کتنے ہی دنوں سے اس سے بات نہیں کر رہے تھے۔

"امرحہ !"وہ اس کا نام لےکر آگے بولنا ہی بھول گۓ۔

سادھنا لیپ ٹاپ کو میز پر رکھ کر بہت دکھ سے امرحہ کو دیکھتی ہوئ چلی گئ۔

"تم ٹھیک ہو؟"دادا کو نظر آگیا تھا پھر بھی پوچھا۔

"بلکل۔"اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔

"تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے اور تمھارا چہرا۔۔؟"

"ٹھیک تو ہے سب ۔۔" کھ کر وہ مسکرائ دادا پر جیسے بجلی گری۔

"نہیں مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔" دادا نے ہمت کر کے کھ دیا۔

"کیوں اب آپ کو ٹھیک کیوں نہیں لگ رہا۔ اب ہی تو سب ٹھیک ہوا ہے۔ میں نے آپ کے لیے سب ٹھیک کردیا۔ اب آپ کو فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔"

"تم ناراض ہو مجھ سے؟"اس کی حالت کے مقابلے میں  انہیں یہ سوال بہت بودا لگا۔

"نہیں ۔ ناراض تو آپ مجھ سے ہوسکتے ہیں۔۔ میں نہیں ۔۔ یہ حق مجھے کہاں دیا گیا ہے۔۔"

"تم طنز کر رہی ہو مجھ پر۔؟"

"یہ گستاخی میں کیسے کرسکتی ہوں؟"

"تمھیں کیا ہوا ہے امرحہ مجھے بتاؤ۔۔ میں سوتے سے اٹھ بیٹھا۔۔ میرا دل بند ہوجانے کو ہے۔۔"

"آپ کو معلوم ہے دل بند ہونا کسے کہتے ہیں؟"آنسوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ  گرنے لگے۔

"امرحہ ۔۔ "دادا۔ کانپ سے گۓ۔

"مجھے معلوم کرنا ہے دادا، دل بند ہونا کسے کہتے ہیں، آپ کو بتانا ہی پڑے گا مجھے۔۔"

"جب۔۔ جب جان سے پیارا کوئ تکلیف میں ہو میری بچی۔۔"دادا کو بولنا پڑا۔

"اور جان سے پیرا کون ہوتا ہے؟"

"تم ہو مجھے جان سے پیاری ۔۔ تم" ان کی اپنی آواز کانپ کر رہ گئ۔

"ہونھ ۔۔ دادا دل تب بند نہیں ہوتا جب جان سے پیارا تکلیف میں ہوتا ہے، یہ دل تب بند ہونے لگتا ہے جب کوئ جان سے پیارا جان چھڑا لیتا ہے۔۔ جب وہ خود سے دور کر دیتا ہے۔۔ جب وہ منہ پر تھپڑ مار دیتا ہے اور جب وہ کہتا ہے" جاؤ آج سے تم میرے لیے مرگئیں" اس کی کئ گھنٹوں تک رو چکی آنکھوں نے پھر سے خود کو آنسوؤں کے حوالے کردیا۔

"امرحہ ۔"دادا اتنا ہی بول پاۓـ

اور جاننا چاہیں گے کیا ہوتا ہے۔۔ جب وہ یہ کھ دیتا ہے تو مر جانے کو دل چاہتا ہے۔۔ دل چاہتا ہے حلق میں ہاتھ ڈال کر سانسیں کھینچ لیں اور زندگی سے جڑا ان کا تعلق کاٹ ڈالیں،جسم چیر کر دل باہر نکال پھینکیں، اور رگوں کو چھید کر ان میں دوڑتا خون بہا ڈالیں۔

Pg#195

"امرحہ !کیا کرنے جا رہی ہو تم؟"دادا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور اپنے بیڈ پر بیٹھے رہنا ان سے مشکل ہوگیا ۔

"سنیں دادا۔۔ سب سنیں اب۔۔ میں آپ کو سب بتاتی ہوں۔" لیپٹاپ میز پر رکھا اور وہ سامنے نچے آلتی پالتی جما کر بیٹھی تھی، اس نے اپنی ناک رگڑی اور ایک گہرا سانس لیا۔

انسانوں کے ہجوم میں مجھے ایک انسان ملا۔۔ ایک انسان دادا۔۔ جانتے ہیں انسان کسے کہتے ہیں۔ جس کی آنکھوں میں احترام ہو اور الفاظ میں نرمی۔۔ جس کے اخلاق میں رحم دلی ہو اور مقاصد میں اعلاظرفی  ۔۔ وہ ساتھ ہو تو شان ہو ورنہ سب گمان ہو۔

ایسا انسان جو بولتا ہے تو زخموں پر مرہم  رکھتا ہے اور نہ بولے تو زخم ہرے نہیں کرتا۔ جو احساسات پر کمندے نہیں ڈالتا، بلکہ ان پر پھوار بن کر برستا ہے۔۔ وہ انسان دادا۔۔ مجھے اپنی قسمت پر شک رہا تھا اور یہ شک اس انسان سے ملنے پر رشک ہوگیا۔ کبھی ملے ہیں آپ ایسے انسان سے؟ اس نے کبھی میرے بارے میں کوئ سوال نہیں کیا اور سوال کیابھی تو اتنا کہ "مجھ سے شادی کرو گی؟"

"امرحہ !چپ ہوجاو میں نے کہا نا!"

اس کی کیفیات ممیں کوئ سودائ حلول کر چکا تھا۔ اس سودائ سے دادا کو خوف آرہا تھا۔

"کیوں چپ ہوجاؤ اب میں؟"وہ روکر بولی۔

"مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمھارے انداز پر"

"آپکو صرف مجھے دیکھ کر تکلیف ہورہی ہے۔۔ صرف دیکھ کر۔۔ خوش قسمت ہیں آپ ۔۔ کہ آپ امرحہ نہیں  ہیں۔"

"کیا ہوا ہے۔ تم کی کرنے جا رہی ہو؟"

"ڈریں مت میں مرنے نہیں جا رہی۔ اس کی نوبت نہیں آۓ گی، اس نے جب کہا تم میرے لیے مرچکی ہو ۔۔ یہ کام تب ہی ہوگیا تھا۔"

"امرحہ! میری بات سنو خا کے لیے۔"

"آپ چپ کر کے مجھے سنیں۔ خدا کےلیے آپ کو یہ شکوہ نہیں  ہونا چاہیے کہ آپ سے سب کہا نہیں گیا۔ وہ اعلان سنیں جو مجھے بلندی پر چڑھ کر کرنا تھا۔ کل عالم کو اکھٹا کر کے۔ اب صرف ایک آپ کے سامنے کرتی ہوں۔" خشک ہونٹوں کو اس نے زبان سے گیلا کیا جیسے اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ اس حالت میں اس کا نام لے۔

"مجھے انسانوں سے دلچسپی نہیں تھی ۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا انسانوں میں کوئ عالیان بھی ہے۔" دادا نے اپنے لب بھینچ لیے۔

ہم مشرقی لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں دادا۔ بیٹیوں کی رخصتی کے خیال سے ہی گھنٹوں روتے رہتے ہیں اور ان کے دل کے ارمانوں پر ایک آنسو نہیں بہاتے ہمیں یہ مان رہتا ہے کہ ہماری اولاد ہمارا سر نیچا نہیں کرتی۔ اور ہم یہ غرور حاصل نہیں  کر پاتے کہ ہم نے اولاد کی خوشیوں کو نیچا ہونے نہیں دیا۔ دادا ہمارے سروں پر خاندان کی عزت کی پگڑیاں سجائ جاتی ہیں اور ہمارے دل کے تخت سونے رہ جاتے ہیں اور کوئ ان پر اہ بھی نہیں بھرتا۔ مشرقی عورت ارتقاء کا ذریعہ کیوں ہے۔۔ خود ارتقاء کیوں نہیں ؟ یہ سوال میں  نے خود سے کئ بار پوچھا اور خود کو یہ بھی بتایا کہ مشرق ایک گنجال خطہ ہے، فلسفیوں کے ان فلسفوں سے بھرا ہوا جن کے پیندے میں تعصب ہوتا ہے اور کنارے پر منافقت۔

آپ بھی وہی مشرقی فلسفی نکلے۔ میں نے آپ سے اس کی بات کی اور آپ نے مجھے چپ ہوجانے کے لیے کہا۔۔ یہ چپ کا تالا۔۔ اس کی چابی کہاں گم رہتی ہے۔ کبھی تو اس تالے کو کھلنے کی اجازت دیں، ہمارے یہاں کی حکم کی پٹاریوں کے غلام، جن بنیوں پر ناچتے ہیں، ان بنیوں کو بھی تو توڑا جاۓ۔

pg #196

اب آپ مجھے بتائیں کہ میں آپ کے خطہ کے کس حکیم کے پاس جاؤں کہ وہ میرے درد کو ٹھیک کردے، لیکن زخم پر مرہم رکھے، پر میرے تو جسم پر کوئ چاٹ ہی نہیں، مجھے کسی بزرگ سے دم کروانا چاہیے کی اب آنکھيں بند کرنے پر مجھے نیند آجایا کرے اور منہ کھولنے پر سانس۔۔ ایک بات آپ ہی مجھے سیکھا لر بھول گئے، جب میں نے اپنی ایک کالج کی دوست چھوڑ دی تھی، آپ نے کہا تھا کہ قیمتی انسان روٹھ جاۓ تو تمہیں اپنے نقصان پر پیشمانی سے رونا چاہیے، چیزوں سے لاپرواہی برتو اور انہیں گم کردو۔۔ قیمتی انسانوں کی پرواہ کرو اور انہیں گم نہ ہونے دو۔۔"

اتنا کہتے کہتے وہ بیٹھے بیٹھے امرحہ سے برزن(بڈھی)ہوگئ، جوانی قصہ پارینہ ہوگئ۔

"دادا قیمتی انسان سے اپ کا مطلب "حسب نصب والا قیمتی انسان " ہوگا۔ اور باقی سب بےکار۔۔ ہے نا۔۔ میں نے آپ سے کہا تھا میری زندگی ختم ہورہی ہے، مجھے آگے زندگی نظر نہیں آرہی۔۔ اور کس طرح کہتی دادا۔۔! کہ آپ سمجھ جاتے۔ ایک انسان آپ کے سامنے ختم ہونے کی نشانیاں بیان کررہا ہے اور آپ کہتے ہیں آپ کی سماعت پر گراں گزر رہا ہے۔ میں یہاں آرہی تھی تو آپ نے کہا تھا کی ہمت سے کام لینا، ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرنا اور اس۔۔ اس جدائی کا ۔۔ اس کا مقابلہ میں نے سکندرانہ وار بھی کیا تو بھی شکست میرا ہی مقدر ہوگی۔۔ میں  ختم ہونا شروع ہو گئی ہوں اور اس عمل کی تکمیل میں بہت وقت نہیں لگے گا۔ آپ دادا۔"اس نے آہ بھری۔

" آپ چاہتے تھے میں آپ کے سامنے ڈٹ جاؤں یا آپ چاہیتے تھے میں دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلوں تو دادا میں نے آپ کا انتخاب کرلیا، میں ڈٹ سکتی تھی، اکیلے ہی فیصلہ کر کے آگے بڑھ سکتی تھی، لیکن میں نے آپ کے مان سمان کو گرنے نہیں دیا، میں نے اپنے ساتھ برا کر لیا، لیکن آپ کے ساتھ برا ہونے نہیں دیا۔ آ"پ ایک اچھے انسان ہیں۔۔ میں بھی۔۔ وہ بھی۔۔ ہم تین اچھے انسان ایک دوسرے کے لیے اچھے نہیں  ہوسکے۔"

اس کی بھیگی آواز خشک تر ہو گئ تھی۔

"اب میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، اپنا دل نکال کر میں آپ کو دے دوں یا اسے کہیں باہر پھینک دوں کیونکہ اب یہ مجھے زندہ رکھنے کے بجاۓ مار ڈالے گا۔"

"امرحہ تم ۔۔ تم کیا کرنے جا رہی ہو۔۔؟"

"ڈریں نہیں  دادا۔۔ میں خودکشی نہیں  کروں گی۔۔ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی، اب ?

شعلہ زن غاروں سے چمگادڑیں اسکے وجود کے اردگرد منڈلانے لگی اور پاتال نے اپنی موجودگی میں اسکی موجودگی کا  بگل بجایا۔

عالیان مارگریٹ 

اس نے آنکھیں کھولی اور جانا کے اندھیرے کا سفر ابھی ختم نہیں  ہوا جس سفر کی چا نہیں تھی اس سفر کو اب شوق سے ساتھ گھسیٹ رہا تھا ۔اس کا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس کا فیصلہ کرنے والا وہاں کوئی موجود نہیں تھا ۔اس نے ایک گہری سانس لی وہ اپنے زندہ مردہ کی تصدیق کر رہا تھا ۔اپنے زندہ ہونے کا صدمہ بہت صدمے سے جیھلا تھا وہ اس احساس سے گزرہ جو زندہ لوگوں کا شیوہ نہیں تھا 

اس رات لیڈی مہر اسے اپنے ساتھ امریکہ شارلٹ کے گھر لے آئی تھیں...اسے  سکون آور ادویات اور نیند کی گولیاں دی گئی تھیں... پھر بھی وہ ایک اچھی نیند حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا... وہ غنودگی میں بڑبڑاتا رہا اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا... لیڈی مہر نے اسکا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور وہ مسلسل اس پر پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں... انہیں ڈر تھا کہ اسکا نروس بریک ڈاؤن نہ ہو جائے...اسکی آنکھوں کے گرد ویسے ہی گہرے گڑھے بن گئے تھے جو اسکی آنکھوں پر قابض رہے تھے....

مارگریٹ کو وہ اس اسپتال سے جانتی تھیں'جہاں وہ اپنے چیک اپ کے لیے جایا کرتی تھی...مارگریٹ اکثر ان سے عالیان کا ذکر کرتی... اسکے مرنے کی خبر معلوم ہونے کے بعد انہوں نے بہت مشکل سے عالیان کو ڈھونڈا تھا.... انہیں مارگریٹ جیسی معصوم دل لڑکی کی موت پر اتنا دکھ تھا کہ وہ کئی راتیں روتی رہی تھیں...

عالیان کو پہلی بار دیکھنا کسی صدمے جیسا تھا.... اتنے سے بچے کی صورت میں مارگریٹ کے آخری ایام رچے بسے تھے...اسکے مجسمہ وجود میں مارگریٹ کے رنگ اتنے گہرے تھے کہ انہیں خوف محسوس ہوا کہ یہ بچہ نارمل زندگی نہیں گزار سکے گا.وہ دنیا میں رہ کر دنیا سے الگ ہونے میں وقت نہیں لے گا اور اسی خوف کے سہارے انہوں نے پھونک پھونک کر قدم رکھے تھے.... اسے ریزہ ریزہ جوڑا تھا... اسے دعاؤں اور محبت سے تعمیر کیا تھا.... اس میں "انسان"لقب کند کیا تھا ...

اور انکے شاہکار کو ولید ایک دھکے سے پاش پاش کر گیا تھا... انہیں اس سب کا ڈر تھا.... اسی لیے ولید کو اس سے دور رکھا رہی تھیں.... جن بچوں کے والدین کے ساتھ سانحات گزرے ہوں'وہ بچے اس سانحے کی پرچھائیں بن جاتے ہیں.... وہ نارمل ہو کر ابنارمل ہونے میں وقت نہیں لیتے...انہیں سوئی بھی چبھے تو وہ اپنے پرانے دردوں پر رونے بیٹھ جاتے ہیں... ایسے بچے جنہوں نے معمول سے ہٹ کر بچپن گزارا ہو وہ کرب کی ساری سرحدوں کو چھو کر آئے لگتے ہیں'وہ رونے کیلئے کسی جلد باز کی طرح تیار رہتے ہیں اور خوش ہونے پر وہ خود کو خود ہی حیرت سے دیکھتے ہیں.... 

بمشکل دو گھنٹے کی نیند لے کر اٹھ بیٹھا اور گھنٹوں ہی پانی سے کھیلتا رہا.... پانی کی بوندوں کو دیکھ کر اس نے سوچا 'وہ پانی ہی ہوتا....بہہ جاتا....نشان چھوڑ جاتا اور مٹ جاتا... واش روم میں موجود ایک چیز پر نظر رکھتا'سوچتا اور اگلی کی طرف ٹھہر جاتا.....خود کو بے وقعت کرنے میں اس نے وقت نہ لیا اور وضاحت سے جان لیا کہ بدقسمتی "زندہ ہونا ہے"... اور خوش قسمتی بے جان ہونا...

اس نے گرم پانی کا استعمال نہیں کیا تھا اور ٹھنڈے پانی کے استعمال نے بھی اسے ٹھنڈا نہیں کیا تھا....

اسکی شکست وریخت کے ذرے سال خوردہ ہو چکے لمحوں کی سطح پر تیرتے اسے ترس کھائے دیکھ رہے تھے... وہ ابھی یہ طے نہیں کر سکا تھا کہ اسے سب سے زیادہ ماتم کس کا منانا تھا.... اپنی ماں کا .....ماں کے شوہر کا یا ان دونوں کی اولاد یعنی اپنا....اور سب سے ذیادہ نوحہ کناں اسے کس احساس پر ہونا چاہیئے 'اپنی محبت پر....مارگریٹ کی محبت پر یا"تھو"سے بھی کمتر اپنی حیثیت پر.......

"جورڈن اور شارلٹ کسی فلمی پارٹی میں جارہے ہیں'تمہیں لے جانا چاہتے ہیں...."آخر کار جب وہ واش روم سے باہر آ چکا تو صبر سے اسکا انتظار کرتی ...ماما مہر نے انداز میں شوق بسا کر اسے لالچ سا دیا....

"میں کیا کروں گا جا کر؟"تو لیے سے وہ اپنے گیلے بال رگڑر رہا تھا اور اپنی آنکھوں کی سرخی چھپا رہی تھیں... آنکھیں اندر کو دھنسنے کے سفر میں مبتلا لگتی تھیں اور ان پر تین کمانیں زخمی گھڑسوار کی طرح بس زمین پر آ گرنے کو تھیں اور اسکی خوبصورتی وہ بازگشت لگنے لگی تھی جو صحراؤں میں پیاسے جانور ریت میں...

Pg#181

ریت ہونے سے پہلے سنتے ہیں۔

"فلمی ستاروں کو دیکھنا۔ اگر میں تمھاری جگہ ہوتی تو فوراً  چلے جاتی۔" انہوں نے آواز میں  اتنا جوش بھر لیا کہ بس وہ چلا ہی جاۓ۔ 

"خدا نہ کرے کہ آپ میری جگہ ہوتیں۔" قد آدم کھڑکی کے پاس بیٹھ کر وہ شارلٹ کے گھر کے وسیع باغ کو دیکھنے لگا۔ شارلٹ پودوں کی کاٹ چھانٹ میں مصروف تھی۔

"میں عالیان ہوتی تو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوتی۔" وہ بھی کھڑکی کے پاس اس کے سامنے ذرا سے فاصلے پر بیٹھیں تھیں۔ شارلٹ نے کٹر سے ایک غیر ضروری شاخ کو کاٹا۔ اسے لگا اس کٹر سے کئ  غیر ضروری شاخ وہ ہے۔

"آپ مجھ سے اتنا پیار کیوں کرتیں ہیں؟"

وہ باپ کا ڈسا تھا اب اسے ہر محبت پر شک تھا۔

"میں تم سے اس سے بھی زیادہ پیار کیوں نا کروں۔ مہر کی محبت پر تمھیں شک نہیں  کرنا چاہیے۔ میں نے محبت کو ہمیشہ باوضورکھا ہے، میں ایک مکمل انسان نہیں  ہوں۔ لیکن اپنی محبت کو میں نے نامکمل رہنے نہیں دیا۔"

"مجھ میں ایسا کیا ہے ماما جو آپ۔۔آپ مجھ سے۔۔" اس کی آنکھيں نم ہو کر اور اندر کو دھنسنے لگیں، جس نے خود پر محبت کو فرض کر لیا تھا۔ وہ اب "محبت"پر سوال اٹھا رہا تھا۔ وہ محبت پر اپنے ایمان سے جا رہا تھا۔

"تم میں ایساکیا نہیں ہے جو تمھیں سینے سے لگا کر نہ رکھا جاۓ۔ تم ایک شخص کے پیمانے سے دوسروں کے پیمانے ناپ نہیں سکتے۔"

شارلٹ غیر ضروری شاخیں کاٹتی ہی جا رہی تھی اسنے خود کو قریب الوقت کٹ جانے والی شاخ پایا اور وہ اپنے ہی اندر سہم گیا۔

"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔؟"

"کیونکہ میں یہ جانتی تھی کہ وہ تمھیں کیوں ڈھونڈ رہا ہے، اس کے پاس وہ وجہ نہ ہوتی تو میں فوراً اسے تمھارے پاس لے آتی۔ عالیان میں نے بہت محنت سے سب بچو کو ان کے دکھوں سے نکالا تھا اور تمھیں خاص طور پر۔۔ تم بہت حساس رہے ہو، میری گود میں سوتے تم ان باتوں کو دہرایا کرتے تھے جو مارگریٹ کیا کرتی تھی، میں نے اینٹ اینٹ تمھیں جوڑا ہے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ آکر تمھیں مسمار کر جاۓ اور میں یہ نہیں  چاہتیکہ کام  تم اپنے ساتھ اب کرو۔۔ اگر میری محبت کی کچھ قدر کرتے ہو تو پھر سے میرے عالیان بن جاؤ۔"

"آپ جانتی تھیں سب؟"

شارلیٹ کے کٹر میں تیزی آگئ تھی۔ شاید وہ سارا باغ کاٹ ڈالے۔۔ کوئ پھول باقی نہ رہے ۔۔۔ سارے باغ کی بہار اجڑ جاۓ۔

"ہاں ! دو سال پہلے اس کا ایک آدمی آیا تھا۔ اس وقت اسے صرف شک تھا کہ تم میرے پاس ہو، خوش قسمتی سے ایک خاتون کو اسی سینٹر سے بچہ گود لے گئ تھیں اس بچے کی ما کا نام مارگریٹ تھا وہ عورت برطانیہ چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلی گئ۔یہ لوگ اسے ڈھونڈتے رہے۔ کڈذ سینٹر نے کسی بھی طرح کی غیر ضروری معلومات کسی کو بھی نہیں دی تھی، لیکن یہ تھوڑا بہت معلوم کرنے میں کامیابہو گۓ انھوں نے وہ سارے والدین کھنگال لیے جنھوں نے بچے گود لیے تھے۔ آخر میں ان کا شک پھر مجھ پر ٹہر گیا۔ ڈینس کو ناروے بھیج کر میں نے سب معلوم کروالیا تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ ولید کو عالیان  کیوں چاہیے مجھے اس کی کم ظرفیپر دکھ ہوا اور میں جانتی تھی تمھیں حقیقت معلوم ہوگئ تو تم بھی اچھا محسوس نہیں کروگے۔ مجھے تمھاری تعلیم کی فکر تھی۔ لیکن ایک وقت میں، میں  یہ بھی چاہتی تھی کہ تم خود اس سے مل لو۔۔ ایک بار۔۔ سب جان کر، اس طرح تمھیں تکلیف نہ ہوتی۔ اگر ڈینس، مارک اور باقی سب دوسرے ملکلوں میں  نہ ہوتے تو وہ تم تک جلدی پھنچ جاتا۔  انھیں یہی شک رہا کہ تم دنیا میں کہیں اور موجود ہو۔"

pg#182

عالیان کی آنکھيں سرخ ہوتی جارہی تھیں۔ اسکے سامنے ہارٹ راک کا وہ ہال گھوم رہا تھا جس کی زمین پر ولید کھڑا تھاـ اس کی انگلی اس کی طرف اٹھی ہوئ تھی اور تمسخرانہ قہقہے لگانے کے لیے اس کا ذہن بےتاب لگتا تھا۔

"تم اسے معاف کردو عالیان، تم میرے بیٹے ہونا؟"

"میں اس کے پاس جاؤں گا اور تمام شیئرز  اپنے نام لگواؤں گا۔"

"تم مجھے دکھ دے رہے ہو۔۔ تم میرے عالیان کو گم کر رہے ہو۔"

"میری ماں کی زندگی کے نقصان کے ہرجانے میں اس کا کچھ تو نقصان ہونا چاہیے نا ماما۔"یہ کہتے اس کا انداز سخت ہوگیا۔

"نقصان اس کا نہیں تمھارا ہوگا۔ اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو تمھیں اس شخص کے لیے برباد نہیں کرنا چاہیے۔ میں جان گئ ہوں کہ تم اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو۔ تم ان شیئرز کو کوڑیوں کے مول بیچ دوگے۔ لیکن"

"نہیں۔۔ میں چیرٹی کردوں گا۔"

"تمھیں خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں ۔۔ تمھیں بدلہ لینے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا۔ انصاف کا ترازو آللّہ کے ہاتھ میں  ہی رہنے دو۔ تم بس آگے بڑھو۔"

"میں تو بہت پیچھے چلا گیا ہوںـ"

"شارلٹ کچھ دیر سستا کیوں نہیں لیتی۔" کہہ کر اس نے شارلٹ کے بارے میں سوچا، جس کاکٹر والا ہاتھ تیزی سے چل رہا تھا۔

آج سے بہار ختم ہونے کو ہے۔۔ ستم ظرفی قسمت پر راج کرنے کو ہے۔۔ مقاصد زندگی پر نظر ثانی کی جاۓ اور متاع جان کی تعریف بدلی جاۓ۔

"تو آؤ پھر بھاگ کر واپس اپنی جگہ پر۔ کیا میرے ہوتے تمھیں کہیں لاپتا بھٹکنے کی ضرورت ہے۔ میں  جانتی ہوں کہ تم اس وقت کیا سوچ رہے ہوگے، لیکن عالیان انسان کے پاس دو آنکھیں ہوتی ہیں جو وہ دیکھتی ہیں جو اس کے سامنے ہوتا ہے۔ قدرت کی ہر ساعت آنکھ ہے۔ ہر ساعت انصاف ہے۔ ہر ساعت حساب ہے۔ تم مارگریٹ کے لیے دعاۓ مغفرت کرتے ہو، اس سے بڑھ کر اس کے لیے کیا انعام ہوگا۔ تم ولید کا نام بھی لینا پسند نہیں کرتے، اس سے بڑھ کر اس کے لیے کیا سزا ہوگی۔ عالیان ہم چاہتے ہیں کہ جو برا کرے، جو برا ہو اس کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا ہو۔ بس اسی ایک خواہش سے ہم بھی اس برے انسان جیسے بن جاتے ہیں۔ تم اسے فراموش کردو اور یہی سزا کافی ہے اس کے لیے۔ اگر تم بدلے کے پلڑے میں جا بیٹھے تو میری محبت کا پلڑا کبھی نہیں جھکے گا۔ تم سوچ لو، تمھیں ولید اور مہر کے پلڑے میں سے کس کے پلڑے کو وزنی کرنا ہے۔" آنسوں بڑی روانی سے لیڈی مہر کی آنکھوں سے نکلے۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے کوئ ان کی عمر بھر کی کمائ لے جا کر کنویں میں پھینکنے والا تھا۔

عالیان ان کے قریب زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر آنکھوں سے لگا لیے۔

"مجھے خوشی ہے کہ تم نے میری پرورش کی لاج رکھ لی اور تن وہاں سے آگۓ۔ تم میرے بیٹے ہو۔  تم نے یہ ثابت کر دیا۔ تمھیں اللّہ کے انصاف پر ایمان رکھنا چاہیے۔" اس کی نظریں پھر سے شارلٹ پر جا ٹہریں۔ 

"اسے فراموش کر دینے کی سزا دوں؟" اس نے خود سے پوچھا۔

"اسے معاف نہیں کر سکتے تو اس کے خیال کو ترک کردو۔ دنیا میں اس انسان سے بڑھ کر کوئ بد نصیب نہیں ہوتا، جس کے وجود کو لا وجود مان لیا جاۓ۔ اس کے ہونے کو نہ ہونا کر دیا جاۓ۔"

شارلٹ نے ایک طائرانہ نظر باغ پر ڈالی اس نے بہت دل لگا کر کانٹ چھانٹ کی تھی۔

pg#183

"امرحہ کو بھی معاف کردو۔۔" ان کی آواز نرم ہوگئ۔

"کردیا معاف اور ترک بھی کردیا۔" اس نے ٹھنڈے انداز میں کہا اور پھول کو گرتے دیکھا جو شارلٹ کے کٹر سے حادثاتی طور کلپر کٹ کر نیچے ہی گر رہا تھا۔ شارلٹ کے چھرے پر افسردگی چھا گئ جیسے اس نے کسی زندہ قنسان کا قتل کر ڈالا ہو۔

"میں نگار عالم ۔۔ میں سنگ آستاں۔"

میں لوح نگینہ ساز۔۔ میں لوح شعلہ بیاں۔"

عفونت میری رہ گزرگاہیں

میں جمال۔۔ میں کمال۔۔ میں ابہام۔۔

میں گپت ہوں

"میں قسمت ہوں۔"

---------------------

ویرا ایلکسی اور پاپا کے ساتھ اسکیٹنگ کر رہی تھی۔ ایک راؤنڈ میں اس نے دونوں کو ہرا دیا۔ اب وہ دوسرے راؤنڈ کی طرف بڑھ رہی تھی اور کافی آگے نکل آئی تھی کہ اس کی جینز میں رکھا فون فل وائبریشن کے ساتھ بجنے لگا۔ سواۓ ایک کال کےطاس نے سب کالز کو "سائلنٹ" پر رکھا تھا اور وہ ایک کال عالیان کی تھی۔ اپنی رفتار آہستہ کر کے اس نے فون نکال کر سنا۔

"کہاں تھے فرش میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے۔"

جواب میں خاموشی ملی،پھر یہ سوال "کیا برننگ مین نائٹ پر پوچھا گیا اپنا سوال تمھیں یاد ہے ویرا؟"

ہاں،اپنی رفتار کو اس نے بلکل روک لیا اور سڑک کے کنارے لگے لیمپ پوسٹ کے ساتھ ٹک کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے چہرے پر جابجا خون کی لہریں دوڑ گئیں اور اس نے اپنے دل کی دھڑکن کسی ساز کی طرح سنی، جسے سنتے ہی ایڑیاں بل کھانے لگتی ہیں۔

"مجھے تم جیسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کر کے بہت خوشی ہوگی ویرا۔" 

ایلکسی جوش سے نارے لگاتا ویرا کے پاس سے گزرا۔ "ویرا ! تمھارا یہ پرانک اب نہیں چلے گا۔" وہ چلاتا دور ہوتا گیا۔

وہ مسکرانے لگی۔"اور۔۔"

"میں مانسچڑ میں تمھاری واپسی کا انتظار کروں گا۔" کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

وہرا اور زیادہ مسکرانے لگی۔

"تم ہار جاؤگئ ویرا۔۔" اس کے پاپا بھی چلاتے ہوۓ قریب سے گزر کر آگے نکل گۓ۔ 

ویرا نے موبائل جیب میں رکھا اور اپنے جوتوں تلے لگے پہیوں کو اس نے اس زور سے سڑک پر رگڑا جیسے وہ کسی جہاز کے پہیے ہوں اور اڑان بھرنے سے پہلے رفتار پکڑ رہے ہوں۔ 

پہلے اس نے پاپا کو پیچھے چھوڑا اور پھر وہ ایلکسی کے پیچھے لپکی۔

دوسری طرف امرحہ اپنی کلاس لے کر نکل رہی تھی کہ کارل اسکے پاس آیا۔ دو دن اسے بخار رہا تھا۔وہ آج ہی یونی آئی تھی۔

"کیسی طبیعت ہے تمھاری امرحہ ؟"

"میں ٹھیک ہوں۔ شکریہ ۔" وہ الفاظ ضائع نہ کرتی تو اس کی شکل بتا رہی تھی کہ وہ کتنی ٹھیک ہے۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"

"مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔۔ حساب لینے۔"

"نہیں، اس بار تم نے غلط سمجھا مجھے، میں حساب لینے نہیں بات کرنے کرنے آیا ہوں۔"

دونوں ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گۓ۔ 

"میں گھر گیا تھا تم سے ملنے۔ تم کافی بیمار تھیں، میں واپس آگیا۔"

"مجھے سادھنا نے بتایا تھا اور مجھے خوف آیا تھا تم سے۔"

"اور میں تمھارے بیمار ہوجانے سے ڈر گیا۔"

"کہ میں جلدی نہ مر جاؤں؟ "

"تمہیں مرنے کی بات نہیں کرنی چاہیئے امرحہ.....زندگی کی روشنی کو ایسی باتوں سے مدھم نہ کرو."

امرحہ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں مسلیں. 

کارل گردن اسکی طرف موڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ وہ دوسرے عالیان کو ہی دیکھ رہا ہے.اسکی خاموشی بھی اس کی خاموشی جیسی تھی.

"عالیان امریکہ میں ہے. "اس نے یہاں سے بات کرنا شروع مناسب سمجھا.

"میں جانتی ہوں."امرحہ کی ایک دوسرے میں پیوست ہتھیلیاں لرزنے لگیں.

"تم ایک اچھی لڑکی ہو امرحہ!"وہ نرمی سے بولا.

"اب اس پر مجھے یقین نہیں رہا."وہ تلخی سے بولی.

"میں دعوا کرتا ہوں کہ تم عالیان کو سمجھیں ہی نہیں.تمہیں کچھ وقت لگا کر اور کچھ عقل استعمال کر کے سمجھنا چاہیے تھا امرحہ!جب اس نے تمہیں پروپوز کیا تھا تو میرے لیے یہ عام سی بات تھی.عالیان نے میرے کتنے ہی بریک اپ کروائے.وہ صرف اتنا کرتا کہ میری فرینڈز کے ساتھ اچھی طرح بات کر لیتا اور انکے ساتھ کچھ وقت گزار لیتا 'اور انکے لیے کافی یہی ہوتا.یہ سب میرے لیے عام باتیں تھیں.مجھے معلوم ہوتا کہ وہ تم سے بریک اپ کے بعد اس حالت میں آ جائے گا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا .میرے لیے وہ ایک مذاق تھا اور اب اندازہ ہوا کہ وہ کافی بےہودہ مذاق تھا.مجھے بعد میں احساس ہواکہ اسے کس قدر برا لگا کہ اسکی مدر پر سوال اٹھے.میں اپنی ماما سے نہیں ملا 'لیکن اگر کوئی میرے والدین پر سوال اٹھاتا تو میں اسے سبق سکھا دیتا.لیکن عالیان نے کچھ نہیں کیا.اس نے میرے پوچھنے پر کہا کہ اگر انسان درگزر نہ کر سکے تو اسے صبر کرنا چاہئیے. اسنے درگزر بھی کیا اور وہ خاموش بھی رہا.اسکی ڈائری جو کہ میں اسے بتائے بغیر بہت آرام سے پڑھ لیتا ہوں.میں اس نے ایک جگہ لکھا تھا ."میرا یہ افسوس جاتا ہی نہیں کہ مجھ سے کسی کھلونے کی طرح کھیلا گیا .میرا یہ دکھ کم ہونے میں نہیں آ رہا کہ جو مجھے سب سے سچا لگا تھا وہ میرے ہی منہ پر مجھ سے جھوٹ بول گیا."

اور اس نے ایک جگہ لکھا کہ"جو لڑکی میرے لیے پہلی تھی اس کے لیے میں آخری بھی نہیں تھا."

اور اس میں لکھا تھا کہ "بہت دکھ ہوتا ہے اس وقت کہ جس کے لیے ہم ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیں اور وہ خود دنیا میں آگے نکل کر ہمیں پیچھے اکیلا چھوڑ دے."

کہہ کر کارل خاموش ہوا اور پھر بولا.

"پھر بھی مجھے یقین تھا کہ تم  عالیان کو منا لو گی'فاصلہ کم کر لوگی اور ساتھ ہی مجھے یہ خوف بھی تھا کہ تم یہ سب نہیں کر سکو گی'کیونکہ تم بند بند لڑکی ہو....تم نے کبھی اپنی صلاحیتیں آزمایئں ہی نہیں.....اور امرحہ!میں سوچتا ہوں کہ تم نے "بہت کچھ کر سکتی ہوں میں"میں سب کچھ خراب کیسے کر دیا.اور میں تو یہ بھی اب تک نہیں سمجھ سکا کہ تم چاہتی کیا ہو؟تم نے عالیان کو انکار کر دیا اور عالیان کے آس پاس بھی رہیں.....سیف روم کی دیواروں کو تم نی پیغامات سے بھر دیا.یہ سب کیا تھا امرحہ...؟"

"پاگل پن..."وہ رو دینے کو ہو گئی.

"ویرا نی اسے پروپوز کیا تو وہ ایسے خوش نہیں تھا جیسے تمہیں کرنے سے پہلے تھا.امرحہ ہماری زندگی میں شامل ہونے والے شخص میں اتنی ہمت تو ہونی چاہیے کہ وہ جاکر ہمیں جیت لائے اور وہ تمہیں جیت لاتا'اگر تم نے سوال اسکی جان کے پیارے پر نہ اٹھائے ہوتے....عالیان کے فادر اسے ڈھونڈ رہے تھے اور یہ بھی ٹھیک رہتا'اگر تم انہیں بتا دیتیں'لیکن جس وجہ کے لیے تم نے عالیان کا بتایا وہ وجہ ٹھیک نہیں تھی کہ تمہیں اسکے فادر کی موجودگی کی ضرورت ہے.ایک ایسے انسان کی موجودگی کی ضرورت جو اسکے نزدیک اسکی مدر کا قاتل ہے.

Pg#185

کارل رک کر اسے دیکھنے لگا کہ آگے بولے یا نہ بولے۔

امرحہ بس ایک کوشش کر رہی تھی کہ وہ اس کے سامنے رو نہ پڑے۔ اسکی پور پور سے آنسوں ٹپک رہے تھے۔ ایک آنکھوں کو سمبھالنا زیادہ مشکل نہیں لگا اسے۔ وہ عام انسانو کی طرح سیڑھیوں پر بیٹھی تھی، پھر بھی عام انسان نہیں لگ رہی تھی، اس کے دکھ نے اسے نمایاں کر دیا تھا اور اس کے پاس رک کر گٹھنوں کے نل نیٹھ کر اسے تسلی دینے کو جی چاہتا تھا، لین اتنا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔

کیا وہ قسمت کا وہ الہام تھی جس کا ڈھنڈورا قسمت اپنی بنیاد سے پیٹتی ہے۔

"عالیان نے ویرا کو شادی کے لیا ہاں کہہ دیا ہےـ" کارل نے اس کے لیے اپنے انداز کو حد سے زیادہ نرم بنا لیا۔

سائ کے زریعے  اسے یہ بات معلوم ہوچکی تھی، لیکن دبارہ یہ سن کر اسے ایسا لگا جیسے یونیورسٹی نے اپنا رخ آتش فشاں کے دہن کی طرف موڑ لیا ہو۔

"اس نے یہ فیصلہ کسی بھی ذہنی حالت میں کیا ہو۔۔ لیکن امرحہ ! اب کوئی نیا ردعمل اسے نئی تکلیف دےگا۔۔ تم سمجھ رہی ہو ناں امرحہ ؟"

"میں پہلے سے ہی سمجھ چکی ہو۔۔ میں یونیورسٹی چھوڑنے کےلیے بھی تیار ہوں۔"

کارل کو اس بات سے صدمہ ہوا "ایسے نہ کہو پلیز۔۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ جس حالت میں وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا، وہ ایک ایسی حالت تھی جو اسکی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔ اب کوئی نئی تکلیف اس پر کیا کر گزرے گی اس کا اندازہ میں لگا سکتا ہوں۔۔ تو امرحہ ! میں تم سے صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس سے دور رہنا ۔۔ اب تم نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو۔۔"

"مجھے کچھ نہیں کرنا۔۔ میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ ویرا ایک اچھی لڑکی ہے، عالیان نے ٹھیک فیصلہ کیا۔ میرے سارے عمل جزباتی اور بےوقوفانہ تھے۔ مجھے اپنے ایک ایک عمل پر دکھ اور شرمندگی ہے۔ میں نے تمھارے دوست کو بہت تکلیف دی۔ پاکستان میں میرے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ میں سب کچھ تباہ کر دینے والوں میں سے ہوں۔ میں  وہ سیاہی ہوں جو ساری روشنیاں نگل لیتی ہے۔ میں دوسروں کی خوشیوں پر بجلی بن کر گرتی ہوں۔"

"کیا پاکستان والوں کے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جو میرے، ویرا، سائی اور عالیان کے پاس ہیں۔۔؟" کارل نے بہت سنجیدگی  سے پوچھا۔

امرحہ نے سر جھکا دیا وہ بلکل پھوٹ پھوٹ کر رو دینے کو تھی بس اب۔ 

کارل نے بہت غور سے اسے دیکھا، "میں جانتا ہوں کہ میں نے میس کیا، اگر وہ ریکارڈنگ عالیان نہ سنتا تو تمھیں لے کر اتنا تلخ نہ ہوتاـ"

"یہ سب ایسے ہی ہونا تھا یہی میری قسمت تھی۔"

"میں قسمت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ سب ہمارے اپنے ہوتھ میں ہوتا ہے۔"

"تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو ۔۔ میں تمھاری طرف سے ملامت کے لیے تیار ہوں۔"

"ملامت کی حق دار صرف میں ہوں۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ مجھ سے دور رہنا۔"

"ہم دوست ہیں امرحہ ۔"کارل دکھی سا ہو گیا۔

"نہیں۔۔ اب ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہم اس پر عمل کریں گے تو اچھا رہے گا۔" وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور کارل کو دیکھے بنا تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ اور کسی ایسے کونے کو ڈکونڈنے لگی جہاں چھپ کر وہ بیٹھ جاۓ۔

کچھ اس کے ذریعے، کچھ سادھنا کے ذریعے دادا کو سب معلوم ہوگیا تھا۔ وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر روتے رہے کہ وہ ان کی جان پر رحم کھاۓ ۔

pg#186

۔۔اپنی جان کے ساتھ کچھ نہ کرے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر مانسچڑ آجائیں۔

ان کے رونے اور ان کی منت سماجت نے امرحہ کو شرمندگی سے زمین میں دھنسا دیا۔ اپنے دل کو وہ کفن میں لپیٹ چکی تھی، دادا کو اذیت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ دو دن وہ بستر پر پڑی رہی اور دو دن دادا اس کے سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر ساکت اسے دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھ کھلتی تو وہ سامنے موجود ہوتے جیسے انھوں نے اس دوران پلکھیں بھی نہیں جھپکیں۔ اس بوڑھے شخص کے لیے یہ بہت جان لیوا مشقت تھی۔ غنودگی اور بےہوشی میں وہ جو بڑبڑاتی رہی وہ وہسب سنتے رہے۔ بار بار دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے اور روتے رہتے۔ انھیں یقین تھا کہ جو پھونکیں وہ اسے مار رہے ہیں وہ اس پر کارگر ثابت ہونگی۔ امرحہ سے زیادہ وہ جان کنی میں  لگنے لگے، تو امرحہ اس پیارے انسان کی بے مثال محبت میں بستر سے اٹھ بیٹھی، انھیں کھا کر دکھایا، بول کر دکھایا، چل کر دکھایا، ہنس کر دکھایا۔۔ وہ ایک اچھی اداکارہ بن گئی۔ اس نے ایک محبت کے نقصان پر دوسری محبت کو نقصان میں نہیں جانے دیا۔ وہ نہادھو کر یونی آگئی اور ساتھ ساتھ دادا کو دکھاتی رہی کہ وہ کلاس لینے جا رہی ہے۔ اب وہ لائبریری جا رہی ہے۔ اب کینٹین۔ اب جاب پر۔۔ 

اور فون کو جیب میں رکھتے ہی وہ ایسی ہوجاتی جیسے چار اطراف سے کوئی اس کا خون نچوڑ رہا ہے اور اس کے جسم میں خون سے بھری نالیاں خالی ہوتی جا رہی ہیں۔

دادا اسے یہ سمجھانا بھی نہیں بھولے کہ وہ وہاں پڑھنے کے لیے گئی ہے۔ اور اسے اپنے مقصدحیاتکو پانے پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ دادا کو کہہ نہ سکی جب حیات ہی نہ رہے تو "مقصد حیات"کہاں رہ پاتے ہیں۔

دادا ہر پندرہ بیس منٹ بعد اسے فون کرتے تھے۔ "محبت ایسے ہی کمزور کر دیتی ہے اور لاچار بھی۔"

وہ ان کی آواز جو کسی انہونی کے ڈر سے لرز رہی ہوتی سنتی تو سوچنے لگتی۔ شاید آپ کو معلوم ہوجاۓ کہ بے بسی کسے کہتے ہیں اور اپنے کسی پیارے کے بیغر رہنا کیسا لگتا ہے۔ میرے لیے آپ وہاں سو نہیں پاتے، کسی کے لیے میں  یہاں سو نہیں پائی، میں ہار بھی گئی اور آپ کو جتوا بھی ڈالا، ایسے کھلاڑی آپ کو صرف "محبت" میں ملیں گے۔ میں کسی کے لیے مر بھی گئی اور آپ کے لیے زندہ بھی ہوں۔ ہاں میں صرف آپ کے لیے زندہ ہوں۔

---------------------

ایک لڑکا ہے عالیان۔

 عرب کے سلطان سا۔

داستان کے جمال سا۔

آسمانی فرمان سا۔

وہ شارلٹ کے ساتھ آگیا تھا، صرف اور صرف ماما کے لیے۔ وہ اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا رہی تھیں اور وہ ٹھیک سے سو بھی نہیں پائی تھیں۔ وہ چاہتا تھا وہ کچھ دیر آرام کرلیں۔ ماما نے اس کی لیے بہترین سوٹ آڈر پر منگوایا تھا، اپنے ہاتھوں سے اس کی ٹائی باندھی تھی، جورڈن سے اس کا ہیر اسٹائل بنوایا تھااور اس کی بھوری آنکھوں کو باری باری چوم لیا تھا۔

"حسن کی تعریف کے لیے تمھارا خیال پیش کر دینا ہی کافی ہے۔ شاید تمھیں کوئی ڈائریکٹر دیکھ لے اور اپنی فلم میں سائن کرلے۔۔ میں تمھیں پہلے ہی بتا دوں تمھیں پہلے ایک ایکشن فلم کرنی ہے۔" وہ چاہتی تھیں کہ وہ مسکرادے۔

"اگر ایسا ہوا تو میں ضرور فلم کروں گا یونی چھوڑ دوں گا۔" وہ اپنی ماما کے لیے مسکرا دیا۔

تم چاہو تو ابھی بھی یونی چھوڑ دو۔۔ یہاںشارلٹ کے پاس رہو، ہوتی رہے گی پڑھائی۔ میں بھی یہیں رہ لوں گی تمھارے ساتھ، ہم اپنا گھر لے لیں گللللل۔

ہم دنیا گھومیں گے، مجھے سان مرینو جانا ہے، سنا ہے سان مرینو کے لوگ بہت خوش اخلاق ہوتے ہیں، ذرا ان سے مل کر آئیں، کیا ایسا ہی ہے یا صرف افواہ ہی ہے۔"

وہ مسکرانے لگا۔ وہ سیاہ جرابیں پہن رہا تھا ان کے سامنے بیٹھ کر "آپ سچ میں چاہتی ہیں کہ میں ہیرو بن جاؤ؟"

"ہاں۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ چاہتی ہوں کہ تم وہ کرو جو تم کرنا چاہتے ہو۔" 

"میں خود کو ختم کر لینا چاہتا ہوں۔" وہ بڑبڑیا۔

وہ ایک گول سفید ستون کے ساتھ دایاں شانا ٹکا کر کھڑا تھا۔ پہلے وہ مسکرا مسکرا کر سب سے ملتا رہا جیسے ان سب سے ملنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش رہی ہو، پھر وہ چند خوبصورت لڑکیوں سے(جو اتنی خوبصورت تھیں جیسے انھیں بنانے کے بعد فرصت سے ان کے نقص نکالے جاتے رہے ہوں اور انھیں کامل کر کے ہی چھوڑا گیا ہو) سے باتیں کرتا رہا تھا۔ پھر وہ صرف سنتا رہا تو بولنا بھول گیا پھر اسے سر جھٹک کر خود کو سننے کےلیے موجود کرنا پڑا پھر وہ خود کو الگ کر کے اس ستون کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔

ہال بہت بڑا تھا۔ اور چھت بہت اونچی۔ ہول کر کراؤن سے دو اطراف کھلی سیڑھیاں ہلکا سا بل کھاتی کسی نخریلی کی پوشاک میں اٹھتی، لہر کی طرح لہراتی اوپر جارہی تھیں اور ہال کی طرف نکلی گول بالکونیاں دور جدید کی پریوں سے  سجی، بنی اپنی موجدگی کی اہمیت کا احساس اپنی شان وشاکت سے دلا رہی تھیں۔ ہنستے، مسکراتے، بے فکرے نظر آتے لوگ، ٹولیوں کی صورت بکھرے کھڑے تھے۔ صرف ایک بالکنی تھی جس میں سیاہ گاؤن میں ملبوس کھڑی لڑکی اکیلی تھی اور اپنے ناخن کتر رہی تھی اور نیچے سر کر کر کے ایک مخصوص کونے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ کسی کے انتظار کی شدت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ناخن کھاتے کھاتے خود کو بھی ادھیڑ ڈالے گی۔

"ایسے کیوں کھڑے ہو عالیان ۔؟" شارلٹ اس کے پاس آئی۔

"میں سب دیکھ رہا ہوں۔" اس کی نظر اوپر سیاہ گاؤن والی لڑکی پر اٹھ گئی۔ اف اس کے انتظار کی شدت۔

"تم دیکھو مت۔ ملو اور باتیں کرو۔"

"میں  ان سب کو جانتا بھی نہیں ۔"

ی"ہ ضروری بھی نہیں بہت سے لوگ پہلی بار آۓ ہیں پارٹی میں اور میں تو تمھیں اپنی دوستوں کے ساتھ چھوڑ کر آئی تھی۔"

"میں یہاں کھڑے رہیناچاہتاہوں شارلٹ۔"

"ٹھیک ہے لہکن زیادہ دیر کھڑے نہ رہنا۔" نرمی سے اس کا گال چھو کر شارلٹ چلی گی، اس کی نظریں چھت سے جھولتی لمبی لمبی کرسٹل لڑیوں پر جا ٹکیں جن سے ٹنگے قمقمے جل بجھ رہے تھے اور پھر وہ سارے قمقمے بجھ گئے اور اتنی بہت ساری لڑیاں دائرہ بنا کر چکرانے لگیں۔ اور پھر سیڑھیا اس دائرے میں ایسے شامل ہوئی جیسے نخریلی حسینہ شدت سے اونچی ایڑیوں پر گھومنے لگی ہوں اور اس کی پوشاک دنیا کی ہر چیز جا لینےکو ہو۔ یوں پوشاک کے کناروں نے بالکونیوں کو جالیا اور انھیں اپنے دائرے میں گھسیٹ لیا پھر دیوارو کو اور چھت کو بھی اور پھر وہاں موجود ہر شے نے دائرے میں پناہ سمیٹ لی۔ اس نے سر کو جھٹکا۔

دائرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور اپنے اندر ہر چیز کو سمو رہا تھا۔ زمین سے فلک تک تن جانے کے قریب اس چکر کو اس نے خوف سے دیکھا۔

نزاکت بھرا قہقہہ اس کے کانوں سے ٹکرایا، اس نے گردن موڑ کر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ قہقہہ پھر بلند ہوا اور پھر ہر طرف سے قہقہہ بلند ہونے لگے۔ اتنے بلند قہقہوں کی آوازیں اسے پریشان کرنے لگیں۔ پھر ایک قہقہہ ان سب میں امتیازی ہوگیا۔

" ولیدالبشر کا۔"pg#188

"تم کتنی بھی اونچی ہواں میں اڑلو۔ تمھارا نصیب پستی ہی رہے گا۔ جیسے مارگریٹ کا تھا۔ تم دونوں میرے بیغر کچھ بھی نہیں ہو۔"

پوشاک کے کناروں نے اسے آلیا۔ سب گھومنے لگا اور وہ بھی۔ ہال کی ساری روشنیاں گل ہوگئی۔ اندھیرا چھا گیا۔ کائنات میں روشنی کا نشان نہ رہا۔

"مقام نامعلوم ہے۔"

"فشاری۔" وہ ایک باایمان مرد ہے۔ اس نے روشنی کی چاہ چھوڑ دی اور زندگی کی بھی۔ اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوۓ ہیں اور منہ بھی اس نے ایک برگزیدہ دعا کی تیاری کی۔ اس نے سب پاکیزہ الفاظ سمیٹے اور انہیں اپنی روح کے مقام پر رکھا۔ اس نے شانوں میں شان اقدس بیان کرنے کی نوید خود کو دی اور اپنے جکڑے وجود اور آزاد روح کو اللہ لفظ کی ادائیگی کی عبادت پر مائل پایا۔

موت کی چاپ اسے اپنے قریب سنائی دی جو اس کی عبادت میں مخل ہوئی، اس نے پھر بھی عبادت کے اس رتبے کو روح سے نکل جانے نہ دیا۔ اور پھر اسے اس شخص کا نام لے کر ایک خاص دعا کرنی تھی، جس کے لیے موت اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پیر کاٹ دیے جائیں گے۔ اور سر بھی۔ شاید۔ اور اسے اس کی پرواہ نہیں تھی۔ اسے موت کے پروانوں کی پھونکوں نے قطعاً نہیں سہمایا۔ وہ فشاری ہے اور وہ "حقیقت" پا چکا ہےـ اب وہ اسے جھٹلاۓ گا نہیں۔

اندھیرے کی ریوڑ پر چابک پڑے اور کبھی نہ بجھنے کے لیے اندھیرے جل اٹھے۔ اسے مارگریٹ نظر آئی۔ اس نے سر کو جھٹکا اور پھر سے دیکھا"ہاں یہ ماما ہی ہیں۔"

اس کا جی اس سے لپٹ جانے کو چاہا لیکن وہ دائرے میں چکراتے خود کو اور انہیں ایک مقام تک نہ لا سکا۔ اس نے خود کو بے بس اور لاچار پایا۔ اس نے دیکھا کہ مارگریٹ کے وجود میں  جابجا کانٹے اگ آۓ ہیں اور اس کا اپنا دل یہ دیکھ کر کرب سے لبالب ہورہا ہے اور اس نے محسوس کیا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر قیامت آنا شروع ہوگئی ہے۔ ہر چیز اپنے نقطہ زوال کی طرف بھاگی جا رہی ہے۔

"تو کیا آپ نے جان لیا کہ آپ نے کیا پایا؟" اپنی ہی آواز اس نے بھی سنی۔

"ماما! آپ نے کیا پایا زندگی میں ؟" اس سوال کا جواب مجھے نہ ملا تو میں اپنے سارے نشان کھودوں گا۔۔ جب آپ مر رہی تھیں تو آپ نے کس طرح پرواز کی چاہ کی تھی۔۔ ولیدالبشر کی طرف۔۔ اگر آپ نے ایسا کیا ہوگا تو میں اپنے دل میں آپ کو رکھوں یا نہ رکھوں مجھے اس بارے میں سوچنا ہوگا۔۔  اگر آپ مرنے سے پہلے اسے اپنے اندر سے نکال دیتیں تو میرے زندہ ہونے پر وہ موت بن کر نازل نہ ہوتا۔۔ اب میں  ساچتا ہوں کہ آپ کی موت پر زمین کو پھٹ جانا چاہیے تھا اور آسمان کو آگرنا چاہیے تھا۔۔ اسان کے لیے بنی کائنات کو اسکے دکھ پر اتنا تو ماتم کرنا ہی چاہیے۔"

وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا پھر بھی اسکا دم گھٹ رہا تھا۔

"میں ولیدالبشر کی قابلیت کا مداح ہوگیا ہوں۔۔ اس نے میری محبت بھی نگل لی۔۔ وہ صرف ایک ہی۔۔ وہ صرف ایک ہی دل کو خالی کر کے صابر نہیں ہوا۔۔ اسے یہ غرور ہے کہ مجھے اس کی ضرورت ہے اور میں یہ گناہ ضرور کروں گا۔۔ میں  اس کے ہونے کو نہ ہونا ضرور کروں گا۔۔ مجھے کوئی اعلان بھی کرنا پڑے تو میں کروں گا میرا کوئی باپ نہیں ۔۔ اور ماما!"

"عالیان !"شارلٹ  نے اس کا شانا ہلایا۔۔

 اس نے شارلٹ کو دیکھا وہ کچھ بول رہی تھی۔۔ کیا اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔ پھر شارلٹ نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پھر وہ دیکھ پایا کہ ویٹر اس کے پیروں کے قریب گری ٹرے اٹھا رہا ہے۔۔ وہاں کانچ ہی کانچ بکھرا تھا۔۔ کچھ گردنیں اس کے رخ مڑی ہوئی تھیں۔۔ بالکنی میں کھڑی لڑکی کی آنکھيں اس پر جمی تھیں۔۔

اس نے ناخن کترنا بند کر دیا تھا۔

 چھت سے جھولتی لڑیاں جل اٹھیں۔۔اور اس نے شارلٹ کو ایسے دیکھا  جیسے پوچھ رہا ہو کیا قیامت کے آنے کے آثار معدوم ہو چکے ہیں۔۔یا بس قیامت آ گئی؟

تم ٹھیک ہو؟ شارلٹ نے شفقت سے پوچھا۔

وہ ہاں نہ کہہ سکا۔اسے افسوس ہوا جب سب کچھ ختم کرنے کا فیصلہ ہو چکا تو ارادہ کیوں بدل  گیا۔۔اسے افسوس ہوا شمعیں پھر سے روشن کیوں کر دی گئیں۔۔اندھیرے پر روشنی کو کیوں غالب آنے دیا گیا۔۔

ہاں اسے دکھ کائنات کے پھر سے آباد ہونے ہو جانے پر۔۔۔ نقطہ زوال کے مٹ جانے پر۔۔

شارلٹ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں ہی رکھا اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے لگی اور وہ اس کے پیچھے ایسے  چلنے لگا جیسے اسے کچھ اور کرنے پر اختیار ہی نہ ہو۔۔ 

" ایک لڑکا ہے عالیان...

بھلا دی گئی دعا سا...

بجھ چکے چراغ سا...

عروج سے زوال سا۔۔۔"

                 ✡      ✡      ✡

سارا مانچسٹر اس کے آنسوؤں میں نہ بہا اور وہ خود ہی ان میں غرقاب ہو گئی۔ چھپ کر رونے کے مشغلے کو اس نے ایسا اپنا لیا جیسے فرض عبادت ہو جو بعد از توبہ کی جاتی ہے۔۔ راتیں وہ کھڑکی میں کھڑی تمام کر دیتی اور دن کو اس نے دھوکہ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔ اسکی گیلی آنکھوں نے دھند کے پردوں میں فنا ہونا شروع کر دیا کہ شاید وہ اس کے عکس کو جالیں جو وہ وہاں تھا ہی نہیں۔۔۔ شاید کسی معجزے نے خود پر اسکا نام لکھوا لیا ہو۔۔ اور شاید کسی تارک الدنیا کی صدیوں پہلی مانگی گئی دعا کی خیر اسے بھی لینے کو ہو۔۔۔  اور کہیں کسی فراق زدہ کی تڑپ  آسمان تک جا کر واپس پلٹتے ہوئے اس کے لیے بھی رحمت اکھٹی کر لائی ہو۔۔۔ شاید

اسے ہر طرف سے عالیان نام کا جاپ سنائی دینے لگا۔۔ وہ اس جاپ کو سنتی رہتی اور اپنے دل کے مقام کو مسلتی رہتی۔۔ ہر ساعت اسکے  نام کی پکار بن گئی ۔۔۔ ہر شبیہہ اس کی

صورت میں ڈھل گئی۔۔ اس نے اس کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کر دی، جس کے ثواب میں اسے ملنے والا تھا نا انعام میں۔۔ 

لیڈی مہر کے آنے سے پہلے وہ کہیں اور رہائش کا انتظام کر چکی تھی۔۔لیکن سادھنا نے جانے نہیں دیا۔۔

ایسی بے مروت نہ بنو انہوں نے کتنا خیال رکھا تمہارا، انکے آنے تک انتظار تو کرو۔۔

انکا سامنا نہیں کرنا چاہتی میں۔۔ بہت شرمندہ ہوں میں۔۔

تم انکے سامنے شرمندہ ہونا میں تمہیں جانے نہیں دوں گی، تم نے مشورہ کیے بغیر فیصلہ کر کے دیکھ لیا کیا ہوتا ہے۔۔۔ دوسروں کی مان لینے میں کبھی ہماری بھلائی بھی ہوتی ہے۔۔۔"

اب مجھے بھلا کہاں بھلائی نصیب ہو گی،، وہ دونوں سادھنا کے کمرے میں موجود تھیں۔۔

ایک غلطی کی ہے دوسری غلطی نہ کرو ،ہوسکتا ہے کچھ بہتر ہو جائے۔ 

وہ تلخی سے ہنس دی اور یہ سوچ کر رک گئی کہ  کوئی دوسری غلطی نہ ہو جائے ۔۔

میں نے ایک لفظ نہیں کہا اور تم گھر چھوڑ کر جا رہی تھی؟

اگلے دن لیڈی مہر نے اسے رات میں اپنے کمرے میں اپنے سامنے بٹھا کر پوچھا۔

ایک لفظ نہیں کہا" یہی تو برا کیا اسکا سر جھکا ہوا تھا اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کمرے کی کس چیز پر نظریں ٹکائے ۔

نہیں امرحہ کچھ برا میں نے بھی کیا۔۔۔ جہاں کچھ غلط ہوتا ہے وہاں صرف ایک انسان کی وجہ سے نہیں ہوتا، کہیں اس کے بڑوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، کہیں اس ماحول کا ،اور کہیں اس فضا کا جو معاشرے میں رچی بسی ہوتی ہے 

آپ ایسے نہ کہیں پلیز

تمہارے دادا نے بات کی تھی مجھ سے کے وہ کون لڑکا ہے جسے امرحہ پسند کرتی ہے جس کی ماں غیر مسلم ہے اور باپ کا پتہ نہیں ان کا انداز اور لہجہ مجھے اچھا نہیں لگا۔

میرے بیٹے کے لیے کوئی ایسی بات بھی کرسکتا ہے 

مجھے دکھ ہوا سن کر میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔

میں جانتی تھی بات اگےبڑھی تو ساری تکلیف پھر سے عالیان کو اٹھانی پڑے گی اور میں یہ نہیں چاہتی تھی اور یہ بھی نہیں چاہتی تھی جو اب ہوا

امرحہ عالیان اپنی ماں کے لیے بہت احساس ہے سب ہی ہوتے ہیں پر جن کی ماں کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہو جیسے مارگریٹ کے ساتھ تو بچے اور بھی احساس ہو جاتے ہیں 

میں نے تمہیں عالیان کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں بتایا تھا کہ تم عالیان کے دوست ہو کچھ بھی اس کے سامنے کہہ دیتی تو دکھ میرے بیٹے کو ہوتا اس کا باپ ولید ہے جس نے مارگریٹ سے شادی کی اور پھر بتائے بغیر چھوڑ گیا اکیلے دکھ سہتی مارگریٹ مر گئی میں نے اس کی وہ حالت بھی دیکھی بالکل دیوانوں کی طرح والید کو ڈھونڈتی پھرتی اور ولید نے عالیان کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا۔

مارگریٹ سے اس نے آخری ملاقات میں بہت برا بھلا کہا تھا 

اس کے کردار پر اس کےمذہب پر انگلی اٹھی اور اب ولید عالیان کو اپنے مقصد کے لئے ڈھونڈ رہا ہے 

اسے عالیان سے کوئی لگاؤ نہیں وہ ایک خود غرض انسان ہے 

میرے پاس مارگریٹ کی ڈائری ہے اسکی آخری سطروں میں لکھا ہے ۔

میں دعا کرتی ہوں عالیان کبھی اپنے باپ سے نہ ملے نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے مجھ سے بد تر سلوک اس سے کرے گا

اس سطر نے مجھے پریشان کیا اور پھر وہی ہوا۔

جس کا ڈر تھا عالیان بہت دکھی ہو گیا ۔امرحہ

امرحہ سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ کتنا دکھی ہو گیا 

اور اب عالیان ویرا سے شادی کرنا چاہتا ہے 

وہ ٹھیک کر رہا ہے اس نے فوراً کہا

ہاں شاید ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے 

میرا عالیان میرا فرشتہ 

کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی

بحرحال یہ تمہارا گھر ہے تم رہو یہاں میں کل کی طرح اج بھی وہی ہوں ماں ہوں نا تو تمارے ساتھ سخت ہو گئی ایک ماں کو معاف کر دو۔

اس بات سے آپ نے مجھے بے مول کر دیا

میں نے تمہارے لئے عالیان کو سمجھایا مگر شاید اس کا دل سخت ہو گیا ۔

دل تو میرا سخت تھا سوچ کر لیڈی مہر کے ہاتھ چوم کر اٹھ گئی 

وہ چاہا کربھی گھر نہ بدل سکی مگر ویرا کے آنے تک یہاں سے چلی جانا چاہتی ہے دو دن وہاں رہی تو ویرا واپس آ چکی تھی  اور وہ دوست کے فلیٹ

تم وہاں کیوں گئی ہو آن لائن بھی نہیں آتی فون بھی نہیں اٹھاتی

مریم نے چند، دن ساتھ رہنے کا کہا میں انکار نہیں کر سکی

آ جاؤ گھر فلم دیکھیں گے 

ٹھیک ہے میں چند دنوں تک آجاؤں گی

تم ناراض ہو کے میں نے تمہیں عالیان کو پرپوز pg#191

کرنے کی بعد کسی کو نہیں بتایا، میں نے  سائی کے علاوہ کسی سے بات نہیں کی تھی- "

"میں  ناراض کیوں ہونگی ویرا یہ تمہارا ذاتی معمالہ ہے -"

"پھر بھی--" ویرا بہت خوش لگ رہی تھی -

"تمھیں ایسا نہیں سوچنا چاہیئے میں تمھارے لئے خوش ہوں- تم نی ایک اک انسان کا انتیخاب کیا-"

"پاپا نے کہا میں علیان کو لے کر روس آؤ اور تمھیں بھی -"

"ٹھیک ہے -"

"میں نے تمھاری باتیں فل پرفارمنس کے ساتھ  اور وہ ہنس ہنس کر دیوانے ہوگۓ۔ انہوں نے کہا کہ امرحہ چند سال ہمارے پاس آکر رہے یہ چند سال ہمیں پاکستان اپنے پاس رکھے انہوں نے کہا کہ میرے دل میں حسرت جنم لینے لگی ہے کہ کاش امرحہ میری بیٹی ہوتی۔۔ معصوم اور فرشتہ سی۔۔ہاہاہاہا۔۔! دیکھو انہیں اپنی بیٹی اب بری لگنے لگی ہے۔ امرحہ مجھے شیطان کـھ رہے تھے اور تمھارے لیے ایک پیغام دیا ہے کہ ایک چھوٹا لوہے کا شکنجا خریدلو جہاں کہیں کارل نظر آۓ اس کی ناک میں گاڑ دو۔۔"

ویرا شروع ہوئ تو بولتی رہی اور وہ سنتی رہی اچھا تھا کہ ساری گفتگو فون پر ہوری تھی ورنہ فل پرفارمنس میں دینے میں  وہ صفر ہی رہتی۔

ایک بات امرحہ نے اپنے دل پر نقش کرلی تھی۔"اب وہ کسی کی بھی زندگی میں کوئ مسلہ نہیں کریگی۔"اسنے سارے حساب نکال لیۓ تھے ویرا غلط تھی ہی نہیں۔ ۔ نہ ہی عالیان ۔۔ غلط بس وہ تھی۔ اس نے عالیان کو اپنی حبتکے بارے میں بتایا نہ ویرا کو۔ اب اسے کوئ شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ باب یہیں ختم کردیا گیا اور آخری سطر میں "سب ختم" لکھا رہ گیا۔

وہ یونی اسے جاتی جیسے یونی جا کر بھی وہ موجود نہ ہو۔ آنے والے دنوں میں اس کی آواز بھولی بسری داستان کی مانند ہوگئ اور پھر وہ ایسے موجود ہونے لگی کہ اپنی غیر حاضری کے ثبوت دینے لگی۔ اس نے خود کو گم کر لیا۔ ایسے جیسے وہ قصہ پارینہ ہو۔اسےدیکھ کر یہ یاد کرنا پڑتا کہ ہاں یہ وہی لڑکی ہے۔۔  وہی لڑکی جو امرحہ تھی۔۔ وہ امرحہ رہی بھی اور نہیں بھی۔

سائ اکثر اس کے پاس آجاتا لیکن اسے زیادہ بولنے پر مائل نہ کر پاتا ۔ اب سائ بولتا اور امرحہ سنتی۔

مانسچڑ یونیورسٹی  میں  سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس کےاندر۔۔ اس کے باہر سب ٹھیک۔۔ ایک دن وہ اس کیفے گئ جہاں اسے پہلی جاب ملی تھی۔

"یعنی تم مجھے بھولی نہیں، اس بار تم پورے دو مہینے بعد آئ ہو ملنے۔"وہ مسکرا دی۔

"کتنا بدل گئ ہو تم۔۔ مس آخروٹ۔۔!"

"کیسے۔۔" وہ مسکرا رہی تھی پھر بھی  وہ کھ رہے تھے کہ وہ بدل گئ ہے۔

" جب تم جاب حاصل کرنے آئ تھی اور تم نے اپنے یونی فیلوز کا استعمال کیا تھا تو میں  نے سوچا تھا کہ تم دنیا کو اپنے آگے لگا لینے کی طاقت رکھتی ہو لیکن اب تمھیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ تم دنیا سے ہی بھاگنے کو تیاری کر رہی ہو۔۔"

"آپ کے شہر نے مجھے بدل دیا۔۔" کافی کے مگ کے کنارے پر انگلی پھیرتے اس نے کہا۔

"اگر یہ میرے شھر نے کیا ہے تو مجھے شکایت ہے مانسچڑ سے اور تمھیں مشورہ دوں گا کہ اپنے گھر لوٹ جاؤ اور پہلے جیسی بن کر آؤ۔"

"ایک بار گئ تو ہر چیز سے جاؤں گی نہ پہلے سی نہ بعد سی۔۔"

انہوں نے غور سے اس کی شکل کو دیکھا۔۔ "تمھارا مسلہ شھر نہیں۔ کوئ اور ہے اسے حل کرو مس آخروٹ۔۔!دبارہ آنا تو خود کو پہلی جیسی بنا کر آنا۔۔" کافی ختم کر وہ بے دلی سے اٹھ آئ۔ وہ سارے شھر میں تسلیاں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔

pg#191

کرنے کی بعد منے کسی کو نہیں بتایا، میں نے  سائ کے علاوہ کسی سے بات نہیں کی تھی- "

"میں  ناراض کیوں ہونگی ویرا یہ تمہارا ذاتی معمالہ ہے -"

"پھر بھی--" ویرا بہت خوش لگ رہی تھی -

"تمھیں ایسا نہیں سوچنا چاہیئے میں تمھارے لئے خوش ہوں- تم نی ایک اک انسان کا انتیخاب کیا-"

"پاپا نی کہا میں علیان کو لے کر روس آؤ اور تمھیں بھی -"

"ٹھیک ہے -"

"میں نے تمھاری باتیں فل پرفارمنس کے ساتھ  اور وہ ہنس ہنس کر دیوانے ہوگۓ۔ انہوں نے کہا کہ امرحہ چند سال ہمارے پاس آکر رہے یہ چند سال ہمیں پاکستان اپنے پاس رکھے انہوں نے کہا کہ میرے دل میں حسرت جنم لینے لگی ہے کہ کاش امرحہ میری بیٹی ہوتی۔۔ معصوم اور فرشتہ سی۔۔ہاہاہاہا۔۔! دیکھو انہیں اپنی بیٹی اب بری لگنے لگی ہے۔ امرحہ مجھے شیطان کـھ رہے تھے اور تمھارے لیے ایک پیغام دیا ہے کہ ایک چھوٹا لوہے کا شکنجا خریدلو جہاں کہیں کارل نظر آۓ اس کی ناک میں گاڑ دو۔۔"

ویرا شروع ہوئ تو بولتی رہی اور وہ سنتی رہی اچھا تھا کہ ساری گفتگو فون پر ہوری تھی ورنہ فل پرفارمنس میں دینے میں  وہ صفر ہی رہتی۔

ایک بات امرحہ نے اپنے دل پر نقش کرلی تھی۔"اب وہ کسی کی بھی زندگی میں کوئ مسلہ نہیں کریگی۔"اسنے سارے حساب نکال لیۓ تھے ویرا غلط تھی ہی نہیں۔ ۔ نہ ہی عالیان ۔۔ غلط بس وہ تھی۔ اس نے عالیان کو اپنی حبتکے بارے میں بتایا نہ ویرا کو۔ اب اسے کوئ شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ باب یہیں ختم کردیا گیا اور آخری سطر میں "سب ختم" لکھا رہ گیا۔

وہ یونی اسے جاتی جیسے یونی جا کر بھی وہ موجود نہ ہو۔ آنے والے دنوں میں اس کی آواز بھولی بسری داستان کی مانند ہوگئ اور پھر وہ ایسے موجود ہونے لگی کہ اپنی غیر حاضری کے ثبوت دینے لگی۔ اس نے خود کو گم کر لیا۔ ایسے جیسے وہ قصہ پارینہ ہو۔اسےدیکھ کر یہ یاد کرنا پڑتا کہ ہاں یہ وہی لڑکی ہے۔۔  وہی لڑکی جو امرحہ تھی۔۔ وہ امرحہ رہی بھی اور نہیں بھی۔

سائ اکثر اس کے پاس آجاتا لیکن اسے زیادہ بولنے پر مائل نہ کر پاتا ۔ اب سائ بولتا اور امرحہ سنتی۔

مانسچڑ یونیورسٹی  میں  سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس کےاندر۔۔ اس کے باہر سب ٹھیک۔۔ ایک دن وہ اس کیفے گئ جہاں اسے پہلی جاب ملی تھی۔

"یعنی تم مجھے بھولی نہیں، اس بار تم پورے دو مہینے بعد آئ ہو ملنے۔"وہ مسکرا دی۔

"کتنا بدل گئ ہو تم۔۔ مس آخروٹ۔۔!"

"کیسے۔۔" وہ مسکرا رہی تھی پھر بھی  وہ کھ رہے تھے کہ وہ بدل گئ ہے۔

" جب تم جاب حاصل کرنے آئ تھی اور تم نے اپنے یونی فیلوز کا استعمال کیا تھا تو میں  نے سوچا تھا کہ تم دنیا کو اپنے آگے لگا لینے کی طاقت رکھتی ہو لیکن اب تمھیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ تم دنیا سے ہی بھاگنے کو تیاری کر رہی ہو۔۔"

"آپ کے شہر نے مجھے بدل دیا۔۔" کافی کے مگ کے کنارے پر انگلی پھیرتے اس نے کہا۔

"اگر یہ میرے شھر نے کیا ہے تو مجھے شکایت ہے مانسچڑ سے اور تمھیں مشورہ دوں گا کہ اپنے گھر لوٹ جاؤ اور پہلے جیسی بن کر آؤ۔"

"ایک بار گئ تو ہر چیز سے جاؤں گی نہ پہلے سی نہ بعد سی۔۔"

انہوں نے غور سے اس کی شکل کو دیکھا۔۔ "تمھارا مسلہ شھر نہیں۔ کوئ اور ہے اسے حل کرو مس آخروٹ۔۔!دبارہ آنا تو خود کو پہلی جیسی بنا کر آنا۔۔" کافی ختم کر وہ بے دلی سے اٹھ آئ۔ وہ سارے شھر میں تسلیاں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔

مارگریٹ کے لیے وہ کوئ جگہ نہ ڈھونڈ سکا کہوہ اسے کس حصے میں  رکھے کہ اسے دیکھنے سے اسے خوشی ہوا کرے۔

وہ خود کو بدل رہا تھا۔۔ یہ اسکا ماننا تھا۔ ابتداء  اس نے چیزوں  سے کی اور وہ سب ایسے کرتا رہا جیسے کسی کو یہ سب دیکھا رہا ہو۔۔ کس کو۔۔؟ اس نے یہ بیٹھ کر طے نہ کیا اور عالیان"ہارٹ بریکر "کے نام سے فریشرز  میں  مقبول  ہوگیا۔ اس نے نئ آنے والی لڑکیوں کا جیسے دل ہی توڑ دیا کیوں کہ ہو اور ویرا جگہ جگہ ساتھ ساتھ دیکھے جانے لگے، چہل قدمی کرتے ہوۓ ،ساتھ ساتھ سائیکل چلاتے ہوۓ،لان میں بیٹھے باتیں  کرتے ہوۓ، لائبریری میں ساتھ بیٹھے پڑھتے ہوۓ اور کب?

اُسے پیارے تھے ہان کبھی کبھی اُن تصویروں کو دیکھتے اُسے سانس لینے میں مسئلٰہ ہوتا اور ایک بار اُس نے محسوس کیا کہ جیسے جِسے ہم سارے کا سارا اپنا سمجھتے ہیں وہ سارے کا سارا کسی اور کا ہو جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کو ئ ہمارے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا رہا ہو اور ہمیں دکھارہا ہوکہ دیکھو کیسا لگتا ہے ۔

اُس نے عالیان کے پاس جانے کی کوئ کوشش نہیں کی تھی۔اپنی غلطی کی معافی مانگنے کی۔ وہ اُسے اپنی صورت ہی نہیں دکھانا چاہتی تھی کہ اُسے پھر سے تکلیف ہو۔ اُس نے ایک خط لیکھ کے سائ کو دےدیاتھا  کہ او اُس کے پاکستان جانے کے بعد عالیان کو دےدے ۔خط میں اُس نے اپنی غلطیوں کی معافی منگی تھی اور کچھ نہیں۔

ان ہی خزاں رسیدہ دنوں میں اُس کا سامنا پال سے ہوا ۔اُس کا انداز ایسے تھا کے جیسے وہ خاص اُس سے ملنے آیا ہو ۔اُس پہلے بھی اُس کا اس سے سامنا ہوتا رہا تھا لیکن وہ راستہ بدل لیتی تھی ۔

میں اب تم سے معزرت کرنے کے قابل ہو چُکا ہوں ۔ اُس نے مسکرا کر دوستانہ انداز میں کہا۔اُس کے پہلے ہی جملے پے امرحہ حیران رہ گئ۔وہ اُس کے سامنے کھڑا تھا۔

مجھے حقیقتاً اب افسوس ہوا ہے کہ میرا ردِ عمل کس قدر غلط تھا ۔ میں نے تمیں نقصان پنچانا چاہا بدلے میں تم نے اٰعلٰی ظرفی کا مظاہرا کیا تم نے یے ثابت کر دیا کہ تم ہر حال میں مجھ سے بہتر انسان ہو ۔امرحہ مجھے یے جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ پیغامات تم مجھے پوسٹ کرتی رہی ہو۔ 

امرحہ زارا سے چونکی اُس واقعے کے بعد امرحہ اُسے پیغامات پوسٹ کرتی رہی تھی۔

وہ ہفتے میں دو بار ایسا کرتی وہ باقاعدگی سے لیڑ اُسے ٹائپ کر کے بیجھتی رہی۔

شروع کے پیغامات چھوڑ کر میں نے بعد میں انے والوں کو زرا توجہ سے پڑھنا شروع کر دیا تھا پھر میں نے اُن پر سوچنا شروع کر دیا اور پھر میں ان سے متاثر ہونے لگا ۔ان میں کوئ ایسی بات نہیں ہوتی تھی کہ عام سمجھ بوجھ والے انسان کو اچھی نا لگے چند ماہ پہلے میں نے مذہب پر کچھ کتابیں لے کر پڑھیں اور مجھے معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کتاب میں وہ لیکھا تھا جو تم مجھے لیکھ لیکھ کر پوسٹ کرتی رہی تھی ۔

"میں تمیں قرآن کی آیتیں لیکھ کر بیجھتی رہی تھی ۔

معلوم ہو گیا ہے مجھے تم نے میرے ساتھ ایسا سعلوک کیا میں متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا ۔کیا تم مجھے انسان سمجھنا چھوڑ سکتی ہو امرحہ۔۔

امرحہ مسکرا دی اور کہا پال تم نے لا علمی کے باعث میرے مذہب کے بارے میں جو کہا تو میں نے معاف کر دیا ۔مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستای کرتے میں تو میں یا کوئ بھی مسلمان برداشت نہیں کرتا۔

کچھ اور باتیں کر کے جب پال چلا گیا تو امرحہ کو لگا جیسے وہ کسی امتحان میں پاس ہو گئ ہو ۔چلو اس کے ہاتھ کوئ تو کامیابی آئ ۔ اُس واقعے نے اُسے کے اندر یے احساس پیدہ کیا کہ عقل اور سوجھ بوجھ سے کیے گئے عمل کبھی بے کار نہیں جاتے عقل کرشمعہ ساز ہے اور یہ معجزوں کی رتھ کی سوار ہے ۔ سائیکل پر جایا کرو نا یونی تم تو بھول ہی گئیں سادھنا رات کو اُس کے پاس بیھٹی باتیں کر رہی تھی۔

دل نہیں چاہتا سائیکل چلانے کو ۔وہ پڑھ رہی تھی۔

تمہارا تو اب زبان ہلانے کو بھی دل نہیں چاہتا ۔سادھنا نے اُس ہنسانا چاہا۔

میری زبان نے بہت کمالات دیکھائے ہیں نا۔ اسی لیے۔ اُس نے ہنس کر کہا لیکن بات مزاک نہیں تھی ۔اگر انسان سے غلطی نا ہو تو وہ انسان نا ہو۔

اگر غلطیاں ہی ہوتی رہے تو بھی انسان نا ہو۔ اُس نے سر اُٹھا کر کہا ۔

اُس کے انداز پر سادھنا خاموش ہو گئ اور کچھ دیر ٹہھر کر اپنے کمرے میں چلی گئی 

اگلے دن وہ یونیورسٹی سے ہسپتال آ گئی کارل کا معمولی سا اکسیڈینٹ ہوا تھا ایک امیر زادے نے کارل نے چلا چلا، کر سڑک پر ہنگامہ کیا جس سے اس کی ہڈیاں چور چور ہو گی وہ خود امیر زادہ کے ساتھ پراویٹ ہسپتال آیا تھا وہ مزے کر رہا تھا اس کا چلنا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا 

امرحہ دو دن بعد اس کے پاس جانے کا فیصلہ کر سکی

ہسپتال کاونٹر پر لڑکی نے پوچھا تم دوست ہو  امرحہ نے منہ بنا کر سر ہلا دیا۔

ٹھیک ہے مگر زیادہ دیر ہسپتال میں رکنا ٹھیک نہیں ہوتا 

کتنا اچھا ہوتا تم سب کے ساتھ یونیوسٹی جوائن کر لیتے

دو دن بہت ہوتے ہیں ہسپتال میں اس نے منہ بنا کر کہا امرحہ اسکی بات سمجھ نہیں سکی۔

اس کا مطلب ہے تم اپنے دوست سے کہو جلدی ڈسچارج ہو جائے 

امرحہ کارل کے روم کی طرف بڑھی پتہ نہیں ڈاکٹر کب اسے ڈسچارج کریں گے 

امرحہ اس کے کمرے میں آئی تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اس کا خیال تھا عالیان نہیں ہو گا مگر وہ سامنے ہی بیڈ پر بیٹھا پیڈ پر کچھ نوٹ بنا، رہا تھا ۔دروازہ کھلنے پر سب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا عالیان نے بھی 

امرحہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اندر جائے یا لوٹ جائے 

کارل اچھل کر اس کی طرف لپکا ہائے امرحہ تم خالی ہاتھ تو نہیں آئی 

سائی اور  شاہ ویز پوسٹلگا رہے تھے جس پر لکھا تھا جلدی ٹھیک ہو جاؤ کارل۔سائی اور شاہ ویز نے بھی اسے دیکھ لیا اور مسکرائے ۔

لاؤ اب یہ چاکلیٹ کا ڈبہ مجھے دے دو اس نے کھنچے ہوئے بیڈ کی طرف آیا امرحہ کے تاثرات سے وہ سمجھ گیا وہ اسے بیمار نہیں سمجھ رہی تو چاکلیٹ لاک میں رکھ دی کے واپس ہی نہ مانگ لے پھر کراہنے لگا اپنی زخمی کلائی اور پاؤں دیکھانے لگا

عالیان نے ایسے ظاہر کروایا جیسے کمرے میں کوئی آیا ہی نہیں وہ اپنے نوٹ بنانے میں مصروف رہا 

میں دو دن سے تکلیف میں ہوں تم اب آئی ہو امرحہ

امرحہ جاتے جاتے ہسپتال والوں کی خبرگری بھی کرتے جانا

ان کا بھی یہی کہنا، ہے کہ یہ دو دن تڑپتے رہیں شاہ ویز نے کہا

تم کب تک رہو گے یہاں امرحہ نے پوچھا 

جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ 

"لیکن تم تو مجھے ٹھیک لگ رہے ہو۔۔"

 نہیں میں ٹھیک نہیں ہوں نا! اس نے آنکھ مار کر کہا۔

تھوڑی دیر بیٹھ کر امرحہ اٹھ ائی۔ سائی امرحہ کے ساتھ باہر تک آیا اور اسے ہمدردی سے دیکھنے لگا جو کمرے سے باہر تک عجیب حالت میں چلتی آئی تھی۔

"تم بیٹھی ہی نہیں" آجاؤ واپس چلتے ہیں۔کارل اتنے مزے مزے کے لطیفے سنا رہا ہے نرسز کے بارے میں۔۔۔اور تمہیں پتا ہے ہسپتال کے رومز سے بھی کھانے پینے کی چیزیں غائب ہونا شروع ہوگئی ہیں اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ نرسز بھی یوں چلا سکتی ہیں۔ میرے سامنے ایک نے چلا چلا کر ہسپتال سر پر اٹھا لیا۔

اسکی کلائی پر جو کپڑا چپکا تھا وہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ بےچاری ایک انجیکشن لگانے آئی تھی اسے رات کو۔۔ کون تھا جو اپنے اپنے روم سے نکل کر اس نرس کو دیکھ نہیں رہا تھا۔

سائی نے اسے ہنسانے کیلئے یہ سب کہا تھا اور اس یا دل رکھنے کو وہ ہنس دی اور چلی آئی  اور اندر عالیان کارل کا لنگھڑا اسکیچ بنا چکا تھا اور اسکے زخمی ہاتھ میں ایک عدد چاکلیٹ کا ڈبہ بھی تھما دیا تھا۔۔۔ اور کارل کی آنکھیں۔۔۔کوئی دیکھتا تو عالیان سے پوچھتا۔۔

یہ کون سا کارل ہے جس کی آنکھیں اتنی سیاہ ہیں۔۔

اتنی سیاہ کہ ان میں جھانک کر مشرق کی ساری رمزیں بوجھی جاسکتی ہیں۔۔سارے قصے کہانیاں پڑھی جاسکتی ہیں اور جو اتنی محفوظ ہیں کہ ان میں اتر کر سارے دروازے بند کر کے قید ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ایسی پناگاہیں جو زمین کو میسر نہیں، انکے مالک ہونے کا اعتراف صرف ایک ہی انسان پا سکتا ہے۔۔۔

ایسا انسان جس کے ساتھ لفظ "محبت"جڑا ہو۔۔۔

عالیان کی پنسل آنکھوں کی پتلیوں کو اور سیاہ کر رہی تھی اور وہ یہ جانتا نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

             ⚛          ⚛           ⚛

فریشر میں سے ایک لڑکی ایما کے ساتھ کارل کی دوستی

اتنی بڑھ گئی کہ لڑکی کو کارل کو پرپوز کرنا پڑا اور کارل نے آخر یہ اعزاز حاصل کر ہی لیا کہ کوئی اسے بھی پرپوز کر سکتا ہے۔ لڑکی کا تعلق لندن سے تھا اور وہ کسی ہال میں رہنے کی بجائے ایک بہت بڑے گھر میں رہ رہی تھی۔ یعنی وہ اتنی اسیر تھی۔

یونی فیلوز کو کارل کی قسمت پر رشک آیا اور لڑکی کی قسمت پر افسوس ہوا،پھر انھی یونی فیلوزکو لڑکی کی قسمت پر رشک آیا اور کارل کی قسمت پر افسوس بھی نہ ہوا۔

کارل نے کوشش کی تھی کہ وہ ایک عام انسان بن کر رہے، لیکن ایک دن وہ عام انسان بنے رہنے سے چوک گیا۔ ایمان کی برتھ ڈے پارٹی پر جس میں لندن سے آیا  اسکا خاندان بھی شریک تھا۔ اس نے کچھ ایسے پرانک(مذاق) کر ڈالے کہ سب دنگ رہ گئے کہ پرانک اور دہشت گردی میں کوئی میں کوئی تمیز نہ کیا۔۔۔؟؟

ان میں سب سے معمولی اور بےضرر پرانک صرف اتنا سا تھا کہ اس نے سرخ کارپٹ پر نظر نہ آنے والی ڈوری کی بارودی سرنگ بچھا دی جس سے پیر نہیں الجھتے۔۔

پھر اس نے ڈوری کے سرے کو آگ دکھادی۔۔اور وہ ڈوری کسی چھلاوے کی طرح سانپ بنی پھلجھڑی کی طرح کارپٹ پر رقص کرنے لگی۔۔ مہمانوں کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ بھاگ کر کہاں جائیں۔ ہر طرف اس پھلجھڑی کا جال بھڑک جاتا۔ یہ سب سے معمولی اور بےضرر پرانک تھا باقی کے معمولی اور غیر اہم پرانک۔۔ بقول مہمان"خدا کی پناہ"

بس اتنی سی بات تھی اور ایما نے اس کے منہ پر انگھوٹی دے ماری کہ وہ ایک دیوانہ انسان ہے۔۔۔

انگھوٹی سائی نے کیچ کی اور الفاظ عالیان نے یاد کر باقی کے ہال میٹس کو سنائے ۔۔ شاویز نے نیلا گاؤن پہن کر ایما بن کر۔۔۔سانحے کی ہوبہو نقل اتار کر دکھائی اور ہال میں"ایما برتھ ڈے پارٹی" کے عنوان سے تھیٹر کیا گیا۔۔جس نے تھیٹر ڈراموں کی تاریخ کو بدل ڈالا اور سب کامیڈی ڈراموں کا"باپ ڈرامہ"کا خطاب حاصل کیا۔

ایما تو پگل تھی کارل تو بس اسکی برتھڈے پارٹی کو یادگار بنا رہا تھا۔۔

"یادگار"

ویرا کے لیے وہ یادگار لمحہ تھا۔۔ان سب کے مشترکہ دوستوں کی برتھ ڈے پارٹی تھی جس میں ان دونوں نے گانا گایا تھا۔ اس نے عالیان کو روسی گیت کی مشق کروائی تھی اور وہاں موجود سب لوگوں کا ماننا تھا کہ اس سے بہترین گانا انہوں نے نہیں سنا اور پھر جب ویرا اکیلی گٹار پر گانا گانے لگی تو دور کونے میں کھڑے ہو کر عالیان اسے دیکھنے لگا ۔ اسکا عکس پانی کی طرح جھلمل کر رہا تھا۔ بن اور مٹ رہا تھا نہیں رہا تھا۔۔

" ویرا ایک اچھی لڑکی ہے اس نے خود سے کہا ، اور خود کو یاد دلایا۔

اسکی صورت بن اور بگڑ رہی تھی جو اچھی بات نہیں تھی اسے تو نقش ہو جانا چاہیے تھا۔

اس نے ویرا کے پاپا سے کئی بار بات کی تھی وہ اس سے اسکی دلچسپیوں کے بارے میں پوچھتے اور اس سے بات کر کے بہت خوش ہو جاتے۔۔

ماما مہر ہفتے میں دو بار اس سے مل کر جاتیں۔۔ اور وہ ریسٹورنٹ یا ہوٹل میں ڈنر کر لیتے، فلم دیکھنے چلے پہلے ماما مہر نے اسے چھپا کر رکھا ہوا تھا کہ ولید کے آدمی اس تک نہ پہنچ جائیں۔ اب اس احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔ ولید کے آدمی اب بھی اس کے پاس اسے مختلف بہانوں سے منانے آئے تھے اور وہ ان سے اچھی طرح سے نبٹتا تھا۔

اور ایک بار وہ سیکرٹ روم بھی گیا وہ سمجھ نہیں سکا  کہ وہ وہاں کیوں آیا ہے ۔ اس نے ایسے ہی دیواروں کو دیکھا اسکی نظروں نے کچھ ڈھونڈنا چاہا۔ امرحہ کی لکھائی پر اسکی  نہیں ٹھر گئیں اور اس نے نظریں پھیر بھی لی۔۔ تو پھر وہ یہاں کیوں آیا تھا؟ اس نے کاغذ پر چند سطریں لکھیں۔

" ویرا ایک اچھی لڑکی ہے۔۔بہت  اچھی لڑکی۔۔"

وہ کاغذ کو گھورتا رہا کیا اسے یہی لکھنا تھا۔۔۔ ہاں پر یہی کیوں؟

میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میرے دل کی وسعت کہاں کھو گئی ہے۔۔۔

میں ظالم ہوں یا مظلوم۔۔

میں اچھا کر رہا ہوں یا میرے ساتھ برا ہو رہا ہے۔۔"

دوسرے کاغذ پر اس نے لکھ کر چپکا دیا اور مانچسٹر کی حدود سے دور نکل گیا۔۔

شام نے اپنا پیراہن رات کے حوالے کیا۔۔

رات تین بجے کے قریب وہ ایک دم سے اٹھی اور بستر ایسے چھوڑا جیسے قیامت آگئی ہو۔ کوٹ اور جوتے اس نے کیسے پہنے اسے معلوم نہیں ہوا اور وہ کمرے کے باہر بھاگی اور بیرونی دروازے کو پار کیا جو ان لاک تھا۔ اور تیزی سے شیڈ کی طرف بڑھی اور اپنی سائیکل نکالی ابھی وہ اس پر بیٹھ  ہی پائی کہ  سادھنا کی آواز اسکے پیچھے سے آئی ۔

امرحہ کہاں جا رہی ہو؟

وہ پسینہ پسینہ ہو چکی تھی اور اس کی سانسیں قابو میں نہیں آرہی تھیں۔۔کہ اس نے سادھنا کی طرف دیکھا۔۔ پھر خود کو اور سائیکل کو۔۔۔ Analm ہال میں آگ لگی ہے۔ آنسو اسکی آنکھوں سے

کسی سیلاب کی طرح نکل رہے تھے۔۔

تمہیں کس نے بتایا؟ سادھنا اس سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔۔

"مجھے؟" اب وہ چونکہ اور یاد کرنے لگی ۔

ہاں۔۔کس نے بتایا۔۔۔ سائی نے یا کارل نے؟؟

وہ خاموش سادھنا کو دیکھتی رہی اور پھر سائیکل کو واپس رکھا اور اپنے گال رگڑے اور گھر کے اندر قدم  بڑھا دیے ۔ اس نے خواب دیکھا تھا یا کچھ اور تھا  اس نے آگ لگی دیکھی تھی وہ سادھنا کے سامنے شرمندہ ہوگئی۔۔

بتاؤ امرحہ تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے امرحہ کا شانہ ہلایا۔

کسی نے نہیں۔۔میرا وہم تھا شاید

سادھنا بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی ۔ امرحہ! ہال میں واقعی آگ لگی تھی ابھی دس منٹ پہلے ویرا مجھے بتا کر اس طرف گئ ہے 

. سب ٹھیک ہیں   وہاں.."سادھنا نے اسکا گال چھو کرکہا -

"تو ویرا جا چکی ہے.."وہ واپس آپنے کمرے میں پالٹ آئ اور ان دعاؤں کو دوہرانے لگی جو تا عمر اسے عالیان  کے لئے دہراتے رہنی تھیں پھر اس نے سائی کو فون کیا اور احوال پوچھا وہاں سب ٹھیک تھا حادثاتی آگ تھی جس پر قابو پا لیا گیا تھا- امرحہ نے فون بندکردیا تو سائی عالیان کے پاس آیا-

"کسی نے امرحہ کو اگ کے بارے میں نہیں بتایا تھا لیکن اسے معلوم ہوگیا اگر فون پر تم اسکی آواز سن لیتنے تو کانپ جاتے.. عالیان..! تم اسے خود سے الگ ہی رکھو لیکن اسے ناپسند نہ کرو..  اسے ایک اسے شخص کا مشوارہ مان کر اس پر عمل کرلو،جس نے اب تک کی عمر میں سب سے بےلوث محبت ہی کرنا سکھا اور سیکھایا ہے-"سائ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ 

عالیان کی آنکھوں کی پتلیاں جھلملا گئں اور وہ سائکے پاس سے اٹھ آیا۔غصہ،انا،دکھ،پچھتاوا،بےرحمی وہ ان سب کا ملغوبہ بن گیا تھا۔ وہ آج جو بن گیا اس نے ایسا بننے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اب تک جو اس کے ساتھ ہوچکا تھا۔ اس نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا اس کے ساتھ ہوگا۔ وہ بیک وقت بےرحم اور رحم دل انسان بن گیا تھا۔ظالم اور معصوم،جلدباز اور صابر،ذہیں اور سودائ۔۔ آسان اور مشکل۔۔ وہ اپنی ذات کو بھول بھلیوں اور اپنے فیصلے کی گرداب میں پھنس چکا تھا۔ وہ اب ایک ایسے شخص کی کہانی بن گیا جس کے پاس سب ہوتا ہے بس اپنا آپ ہی نہیں ہوتا۔۔ جو سب کچھ ڈھونڈ نکالتا ہے سواۓ اپنے۔

ہارٹ راک میں  اس کی نظر ایک ایسی لڑکی پر ٹھر گئ جس نے سرخ رنگ کی فراک پہن رکھی تھی اور بالوں کو کھلا چھوڑ رکھا تھا۔وہ ڈانس فلور پر ایسے ناچ رہی تھی جیسے کوئ اور بھی اسکے ساتھ ناچ رہا ہے،کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ   رکھا ہے۔ کوئ اسے بانہوں میں تھام کر گھما رہا ہے۔آس پاس والوں نے اسے پہلے لڑکی کا ایک مزاق سمجھا پھر اسکی سنجیدگی اور کمال فن دیکھ کر انہوں نے مزاق کا پہلو ترک کر دیا۔

 ڈانس فلور پر باقی سب رک کر پیچھے ہوگۓ اور وہ اکیلی ویسے ہی محو رقص رہی،جیسے اس کا محبوب اس کے ساتھ محو رقص ہے۔ اس کی آنکھيں بند تھیں اور چھرے پر کمال معصومیت،لڑکی کے انداز میں ایسی بےخودی تھی کہ گمان ہوتا تھا کہ وہ کسی نظر نہ آنے والے وجود کے ساتھ موجود ہے۔ سب اسے بہت فرصت سے دیکھ رہے تھے اور کوئ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ رقص روک دے۔ ایسے رقص قسمت سے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔سب نے اپنی حرکت کو جامد کرلیا کہ مبادا کوئ آواز ہو اور وہ چونک جاۓ۔

کچھ دیر گزری، اسنے آنکھيں کھولیں، اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کرتی رہی ہے، لیکن وہ شرمندہ نہیں ہوئ بلکہ وہ مسکرائ جیسے"ملاقات محبوب"تمام ہوئ۔بخوشی،اور وہ ڈانس فلور سے ہٹ گئ۔

وہاں موجود ایک شخص اس کی کیفیت سمجھنے کا دعوا کر سکتا تھا۔ وہ عالیان  تھا۔۔کچھ دن پہلے وہ کیفے کے اسٹور میں آیا تھا۔ اور اسٹور میں آکر باہر جانا بھول گیا تھا وہ فرش پر بیٹھ گیا اور کتنا ہی وقت گزار دیا وہ تب چونکا جب اس کا فون بجا۔ ویرا نے اسے کچھ نوٹس کے بارے میں پوچھنے کے لیے فون کیا تھا۔

ویرا کی آواز اسے واپس لے آئ اور وہ اس سے خائف نہیں ہوا۔ویرا سے زیادہ سمجھدار لڑکی اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔اس کا دل بہت بڑا تھا وہ جلد برا نہیں مانتی تھی۔اس کی باتیں سننے میں مزا آتا تھا۔اس کے ساتھ چلتے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔وہ دل دکھانے والوں میں  سے ہرگز نہيں تھی اس نے ایک بار اسے بادام کیک بنا کرکھلایا تھا اور وہ بیچاری خاموشی سےکھاگئ تھی، بچے ہوۓ آخری ٹکڑے کو  کھانے پر عالیان کو معلوم ہوا کہ اس نے اس سے بدمزہ کیک ساری زندگی کبھی نہیں بنایا ہوگا۔

اور امرحہ نے بادام کیک بنانا سیکھ لیا تھا۔ اس نے وہ کیک سادھنا کے لیے بنایا تھا، اس کی سالگرہ کے لیے pg#200

سادھنا اس کا اتنا خیال رکھتی تھی اسے بھی کچھ اس کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ویرا نے اخبار کے دفتر میں باقاعدہ جاب کرلی تھی،اور وہ کافی مصروف رہنے لگی تھی۔ امرحہ کا خیال تھا کہ ویرا بہت اچھی صحافی بن سکتی ہے۔ویرا اسے اپنے آفس بھی لے کر گئ تھی اور وقت نکال کر وہ اسے اپنی سائیکل پر بیٹھا کر مانسچڑ گھوماتی رہتی، اور ایک بار وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں  لے کر چھل قدمی کرنے لگی۔

امرحہ کا دل افسوس سے بھر گیا۔سائ ٹھیک کہتا ہے۔ سب اس کے ساتھ کتنے اچھے ہیں یہ وہ اندازہ بھی نہیں کر سکتی تھی اور اگر وہ ویرا کو بتادے کہ عالیان اس کے لیے کیا ہے تو ویرا شاید بہت آرام سے عالیان کو پہچاننے سے ہی انکار کردے۔لیکن اب اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی۔

عالیان کے باپ کی آمد سے ویرا واقف ہوچکی تھی لیکن اسے کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ امرحہ نے وہ سب کیا تھا۔اسے بہت اوپر اوپر کی عام سی باتیں معلوم ہوئیں تھیں۔ سادھنا،کارل،سائ، لیڈی مہر کسی نے بھی دوبارہ کسی سے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ عالیان امریکہ گیا تھا تو ویرا کو ہی معلوم تھا کہ وہ ماما مہر کو لے کر شارلٹ کے گھر گیا تھا۔

عالیان اور ولیدالبشر کی ملاقات کیسی رہی اس نے یہ بھی معلوم کرنا نہیں چاہا تھا۔لیڈی مہر نے اسے بس اتنا کھ دیا تھا کہ وہ عالیان سے اس بارے میں کوئ بھی بات نہ کرے اور اس نے ایسا ہی کیا تھا۔

---------------------

ویرا سے بہت کم بات ہوپاتی تھی اس کی،رات کو وہ بہت دیر سے واپس آتی اور یونی میں وہ اس کے ڈیپارٹمنٹ جا نہیں سکتی تھی۔ویرا کی اسٹڈی ٹف تھی اس لیےاسے لائبریری سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔

امرحہ نے پہلی بار کے تجربے کی بعد، وقت سے پہلے اپنی اسائیمنٹ بنانا سیکھ لیا تھا۔ ویسے بھی اس کے پاس پڑھنے کے علاوہ کام ہی کیا تھا۔ یونی میں اس کے بہت سے دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے دوست اسے ڈھونڈتے اسکے پاس آتے کہ وہ کہاں گم ہے، نظر کیوں نہیں آتی اور اس کے ایشین فلیگ نے لہرانا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ اور اسکی سائیکل آج کل کسی کو گرا کیوں نہیں رہی۔اوراب ریس کب ہوگی۔۔ کارل کے ساتھ۔بلکہ اب تو فاٹ بال میچ ہونا چاہیے۔

کارل کے ساتھ اس کی سائیکل ریس اتنی مقبول ہوئ کہ جیسے اس نے ورلڈ سائیکلینگ کا میڈل جیت لیا ہو۔بہت بڑی تعداد آئ تھی اسٹوڈینٹس کی ریس دیکھنے۔وہ سب امرحہ کو سپوٹ کرنے آۓ تھے،اتنی اہم تھی امرحہ ان کے لیے۔اور اب بھی وہ اسے اپنی پارٹیز میں بلانا نہیں  بھولتے تھے۔ دائم نے نوال کی برتھ ڈے پارٹی پر اسے بلایا ،لیکن وہ بار بار کے اصرار پر بھی نہیں گئ۔

اخبارات میں  ویرا کے آرٹیکلز دھڑا دھڑ آ رہے تھے۔وہ ان آرٹیکلز کو پڑھتی اور ان کے تراشے کاٹ کر اس نے ایک فائل بنانی شروع کر دی،اسے یہ سب پاکستان  اپنے ساتھ لے کر جانا تھا۔اب حقیقت میں وہ ویرا کو اپنے دل کے بہت قریب محسوس کیا کرتی تھی۔ایک ایسی دوست جو اسے اب تک کی زندگی میں اب تک نہیں ملی تھی۔ اس نے کارل کو چھرا لگوایا تاکہ امرحہ ہرحال میں جیت جاۓ۔ ویرا کے لیے اس کی جیت اتنی خاص تھی۔وہ فہرست بناتی تو تھک جاتی جو جو کچھ ویرا نے اس کے لیے کیا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ روس لے جانا چاہتی تھی،اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی اور امرحہ واقعی میں  اب اس کی مٹھی میں  بند ہوجانا چاہتی تھی۔

"اختتام۔"وقت کا ہو یا کسی عمل کا۔۔کتنا بھی خوشگوار ہو،دکھی کر جاتا ہے۔۔ کسی بھی چیز کا ختم ہوجانا دل پر آری چلا جاتا ہے۔

سب ختم ہورہا تھا ۔۔ سب۔

فارغ وقت میں وہ البم بناتی رہتی۔کارل،ویرا،سائ اور عالیان کی مختلف تصویریں کاٹ کاٹ کر چپکاتی رہتی ساتھ ان کی کہیں باتیں لکھتی جاتی۔

Pg#201

۔۔ ایما برتھ ڈے پارٹی کی جتنی تصویریں یونی میں پھیلی تھیں، وہ سب اس نے حاصل کر لیں تھیں۔ ہال میں ہونے والے "ایما برتھ ڈے پارٹی" ڈرامہ کی تصویریں بھی اسے مل گئیں تھیں، جس میں عالیان ایما کا باپ بنا تھا، سائی ایما کی ماما اور شاہ ویز ایما اور وہ سب کارل پر قہر بن کر برس رہے تھے، اور باقی ہال میٹس ہنس ہنس کر مرنے کےقریب ہوگئے تھے۔

 اس نے اس البم میں  اپنا سارا جہان سمیٹ لیا۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر ہنستی اور روتی رہی۔ وہ ان سب کو اپنے سینے سے لگا کر رکھنا چاہتی تھی۔ اس کا دل ان سب سے آباد رہنے والا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہنے والے تھے۔

لیڈی مہر کو بھی کہانیاں سنانا اس نے بند نہیں کیا تھا۔ اسے آخر کار خود سے کہانی بنانا آگیا تھا۔ اس نے اپنے خاندان کی پسند کی شادی کرنے والوں کے قصے کہانی بنا کر سنا دیے، جسے بہت پسند کیا گیا۔ این البتہ درمیان میں بہت سوال پوچھتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر لڑکا لڑکی شادی کرنا چاہتے یں تو فلاں ماموں کو کیوں مسلہ ہے، یا فلاں تایا جی یا دادی جی یا ابا جی کو۔۔ اور آخر پھوپھو جی اپنی بیٹی کی شادی کہیں اور کیوں نہیں کر دیتیں اسی لڑکے سے کیوں۔۔ اور خالہ جی نے شادی میں نہ آنے کی دھمکی کیوں دی۔۔ اور آخر اس بات کا کیا مطلب ہے کہ "تم آج سے ہمارے لیے مر گئے۔"

نشست گاہ میں آتش دان کے پاس ویرا کے علاوہ سب ہوتے۔ کسمس آنے والی تھی تو ہو لیڈی مہر کے بچو اور ان کے بچو کے لیے تحائف بھی پیک کرتے جاتے۔ ایک پہاڑ تھا تحائف کا جو انھیں پیک کرنا تھا۔ وہ اور سادھنا مل کر ان تحائف کی خریداری بھی کرتے جو لیڈی مہر کو پسند آۓ۔

عالیان جاب پر جانے سے پہلے گول دائرے کی صورت سائیکل چلاتا ہی جاتا، چلاتا ہی جاتا، خود کو چکروں میں لےلیتا۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر چکر آنے لگتے لیکن وہ باز نہ آتا۔

کارل ارو وہ ایک ساتھ واپس آتے اور کسی نہ کسی ہال میٹ کے کمرے میں گھس جاتے، پیزا منگواتے، فلم دیکھتے اور دو گھنٹے سو کر یونی آجاتے اور کلاس میں اپنی آنکھيں بمشکل کھلتے پاۓ جاتے اور ایسے ہی ہو اونگھ رہے تھے کہ شاہ ویز نے دونوں کے ناک کے نتھوں میں دو عدد پینسلیں اڑس دیں اور تصویر کھینچ کر "The tab manchester"

بھجوادیں۔

امرحہ نے وہ تصویر دیکھی تو بے اختیار ہنس دی اور تصویر کو محفوظ کر لیا۔

 دوسری طرف عالیان نے خوب جم کر خریداری کی چھٹیوں میں ٹور پر جانے کے لیے۔

"تم کتنا بدل گۓ ہو ، کتنی فضول چیزیں اٹھا لاۓ ہو۔" سائی نے اس کی خریداری دیکھ کر کہا۔

"ہاں۔۔ تاکہ اگلی بار ولید مجھے دیکھے تو اسے یہ نہیں لگنا چاہیے کہ میں بک سکتا ہوں کیونکہ شاید میں نے حسرت زدہ زندگی گزاری ہے۔"

"چیرٹی کے لیے فضول خرچی نہیں کرتے تھے، نیکی کرتے تھے۔ صرف ایک انسان کو دکھانے کے لیے فضول خریداری کر رہے ہو، نیکی ضائع کر رہے ہو۔" سائی نے تاسف سے کہا۔

 نئی خریدی گئی شرٹس کو اپنے ساتھ لگا لگا کر دیکھتے عالیان کے ہاتھ رک سے گئے۔

"میں بہت برا ہوگیا ہو۔۔ ولیدالبشر جیسا؟" سنجیدگی سے وہ پوچھ رہا تھا۔

اس کے سوال پر سائی سہم کر اسے دیکھنے لگا۔ "تم کیاکیا سوچنے لگے ہو عالیان" اس نے نرمی سے کہا۔

کارل آیا، ساری خریداری کو دیکھا، دو شرٹس اٹھایں، ایک جوڑا جوتے، ایک ہڈ اور اپنے کمرے کی طرف یہ کہتے بھاگ گیا کہ "کرسمس کا گفٹ میں الگ سے لوں گا۔"

"کرسمس۔"

کرسمس کی چھٹیوں سے چند دن پہلے فٹ بال میچ کی دھوم مچی اور کافی زوروشور سے اس سے متعلق خبریں سنی گئی۔

فریشر اور عالیان، کارل کی دو ٹیموں کے درمیان میچ تھا آپس میں انھوں نے انعامی رقم بھی طے کی تھی۔

کارل امرحہ کے پاس آیا۔ "ہمارا میچ ہے ٹیم کا حصہ بننا ہے تمھیں"

"مجھےکھیلنا آتا ہے نہ مجھے اس میں دلچسپی ہے۔"

"تمھیں صرف بھگنا ہے۔۔ برف پر بھاگ تو لوگی ناں۔۔ ورنہ گرتی رہنا۔۔ گول کرنے کی ضرورت نہیں نہ ہی ڈیفنس۔۔ تم بہت انجواۓ کروگی امرحہ ۔۔ میرا خیال ہے تمھیں مھجے فوراً ہاں کہہ دینی چاہیے۔"

"میرا نہیں خیال۔" وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑی تھی۔

"دیکھنے آؤگی۔" وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔

"نہیں ۔"وہ بلاوجہ کتاب کا کونا مروڑنے لگی۔

"تمھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کبھی دوست رہے ہیںـ"

"یاد ہے سب اور یہ بھی کہ وہ سب کبھی تھا۔"

"میں تمھیں برف میں دبانا چاہتا ہوں۔"

"مجھ میں اب برف میں دبنے کی طاقت نہیں رہی۔۔ تم مجھے زمین میں دفنا سکتے ہو۔"

"آخر یونیورسٹی کی ہر لڑکی مجھ سے دور کیوں بھگتی ہے؟" اس نے اس کی آخری بات کے اثر کو ذائل کرنا چاہا۔

"آخر تم ہر لڑکی کو دور کیوں بھگا دیتے ہو؟"

"اتنا اچھا تو ہوں میں ۔۔" اس نے منہ لٹکا لیا اور پھر ایک دم ہنس کر بولا۔

"اب تو آؤگی نا؟"

امرحہ نے ناں میں  سر ہلایا۔ "تمھاری آفر کا شکریہ لیکن میری طرف سے معزرت۔"

"تم ایک الجھا سوال لگنے لگی ہو۔۔ بلکل عالیان کی طرح۔" چڑ کر کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔

عالیان ! اس نے اس نام کی سرگوشی ایسے کی جیسے کوئی جرم کر رہی ہو۔ کارل کو جاتے دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ اس کے پیچھے جاۓ، وزنی فائل اس کے سر پر دے مارے اور کہے" ہاں بڈی میں ضرور کھیلوں گی ہم فریشر کو ہرا دیں گے" لیکن وہ یہ نہ کرسکی۔

ویرا نے بھی اسے منانا چاہا میچ کے لیے، لیکن اس نے طریقے سے اسے منع کر دیا۔ این گئی تھی اور اپنے موبائل  سے اسے میچ دکھا رہی تھی۔ اس میچ کی دھوم مچی تھی، وہ برف پر بھاگ رہے تھے، گر رہے تھے، لڑ رہے تھے، ایما بھی فریشر کی ٹیم کا حصہ تھی اور کارل نے اتنی بار اسے برف پر گرایا کہ بےچاری کے منہ سے خون نکلنے لگا اور وہ فرسٹ ہاف سے پہلے ہی میچ چھوڑ کر چلی گئی۔

تینوں گول عالیان نے کئے تھے اور وہ برف پر ایسے بھاگتا رہا جیسے زمین کو روند ڈالنا چاہتا ہو اور فٹ بال کو اس نے ایسے پیروں کے نشانے پر رکھ رکھ کر اچھالا جیسے  سنگ باری کر کے کسی کو مار ڈالنا چاہتا ہو۔ عالیان، کارل کی ٹیم جیت گئی۔

اس رات اسے پھر نیند کی گولیاں کھا کر سونا پڑا۔ اسے عالیان، ویرا، کارل کے پرجوش نعرے رات بھر سنائی دیتے رہے۔ وہ اپنے دل کے مقام کر مسلتی رہی۔ نیند کی گولیاں بھی نیند لانے میں ناکام ہوگئیں تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، اپنے بستر پر اور گہرے گہرے سانس لینے لگی اور میچ کی ریکارڈنگ نکال کر عالیان کو برف پر گرتے، اٹھتے، فٹبال کی طرف لپکتے دیکھنے لگی۔ اور اس نے یہ بھی جان لیا کہ اب اسے صرف پڑھنے سے ہی سروکار نہیں رہا۔ ایک عالیان میں کتنے ہی نئے انسان گھس آۓ ہیں۔

اور پھر کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوگئی اور سب جانے لگے۔ مانسچڑ راج ہنسوں سے خالی ہونے لگا۔

"ہمارے ساتھ چلو امرحہ!"سائی نے اس کی منت کی۔

"مجھے نہیں جانا۔ دادا نے منع کیا ہے۔"

"تم جھوٹ بول رہی ہو۔"

"ہاں۔۔ پھر سچ یہ ہے کہ مجھے نہیں جانا۔" اس نے بے تاثر انداز میں کہا۔ جسے دیکھ کر سائی افسردہ سا ہوکر خاموشی سے چلا گیا۔

pg#203

ویرا نے بھی اسے ساتھ چلنے کو کہا کہ ان چھ لوگوں کا گروپ جا رہا ہے وہ بھی چلے، لیکن اس نے بہت عام سے انداز میں پڑھائی کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔

"پھر تو یہ موقع نہیں ملے گا نہ، ایک ساتھ ہونے کا شاید یہ آخری چانس ہے۔" اس نے ویرا کو مسکرا کر دیکھا دیا لیکن ساتھ پھر بھی نہیں گئی۔

عالیان، کارل، سائی، ویرا، شاہ ویز اور ان کا کوئی داسرا مشترکہ دوست مل کر جا رہے تھے لیڈی مہر نے سائی کو بلا کر ہدایت دی تھیں کہ ہر وقت عالیان کے ساتھ ساتھ ہی رہنا۔

اسے ان سب کے جانے کا انتظار تھا، اسے ایک اہم کام کرنا تھا جس کا موقع پھر کبھی نہیں ملنا تھا اور جب وہ سب چلے گئے تو وہ یونی آگئی۔

---------------------

"برف جدائی کی پیامبر ہے یہ بہار کے درمیان حائل ہے۔

 آسمان سے یہی پیامبر نازل ہورہا ہے۔"

کسی سل گرفتہ پری کی فراق دیدہ انگلیوں سے نکلتے بربط کے ساز کی مانند دھند اپنی دل ربائی کے قصے بیان کرنے سے زیادہ فراقیہ قصوں پر رونے پر قائل ہے۔

 وہ جیسے ہی یونیورسٹی کی سڑک پر آئی دھند نے درد بینا کی طرح اس سے لپٹ جانا ضروری سمجھا۔

وہ بزنس ڈیپارٹمنٹ نہیں جا سکی تھی۔ وہ اس کی بیرونی دیوار کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور ان دیواروں پر ہاتھ رکھ دیے جن کے پاس، جن کے ساتھ وہ لگ کر کھڑا  ہوا کرتا تھا۔ اس نے ساری دیواریں چھو ڈالیں اور وہ درختوں کے پاس آگئی جن کے قریب وہ کھڑے ہوۓ تھے۔ اس حصے میں  جہاں کبھی وہ بیٹھے تھے۔ ان کونوں میں  جہاں بیٹھ کر وہ کتاب پڑھا کرتا تھا اور کافی پیا کرتا تھا۔

وہ نظروں سے ان جگہوں کی نظریں اتار رہی تھی۔ اب اسے ڈر نہیں تھا کہ کوئی اسے دیکھ لے گا اس لیے اس نے اپنے گیلے گال صاف نہیں کیۓ۔ جب سے اس نے اسے تھپڑ مارا تھا اس نے اس سے فاصلہ رکھ کر بھی نہیں دیکھا تھا، اس سے بات نہیں کی تھی۔ ہسپتال میں وہ سر جھکاۓ بیٹھی رہی تھی۔ یہ سب اس عہد کا حصہ تھا جو اس نے خود سے کیا تھا کہ وہ اسے اور تکلیف نہیں  دے گی۔ لیکن اپنے لیے وہ اور تکلیف اکھٹی کرنے یہاں اس کے تصورات سے لپٹنے آگئی تھی۔

سفید مانسچڑ میں خون آلود یادیں اپنی بنیادوں سے اٹھ کھڑیں ہوئیں اور زندگی نے اس کے اشکوں پر ترس کھا کر پیچھے کی طرف اپنی سواری موڑلی۔

تان سین نے چراغاں کرنے کے لیےدیپک راگ کی چوکڑی جمائی۔

سفید دھند میں جگنو ٹمٹمانے لگے اور آسمانی مرغولوں کو چاک کرتا عالیان اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔ دائیں سے۔۔ بائیں سے۔۔ آگے سے۔۔ پیچھے سے۔۔ ہر طرف سے لیکن اب اسے اس سے بھاگنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ وہ تو چاہتی تھی کہ وہ اس کی طرف آۓ اور وہ آرہا تھا۔

"جو حقیقت میں واقع نہ ہوسکے وہ قرب کی چاہ کروالیتی ہے۔"

وہ ایڑی کے بل گھوم گئی اور اس نے ہر طرف سے اسے اپنی طرف آنے دیا۔ اسے اس خواب کے سراب ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔

"عالیان۔۔ " اس نے سر گوشی کو جھٹکا اور آواز کو بلند ہوجانے دیا۔

وہ یونی محراب کے پاس تھی اس محراب کے پاس وہ کمر ٹکا کر اس کا انتظار کیا کرتا تھا۔ اس نے اس مقام پر اپنے گال رکھ دیے اور دونوں ہاتھوں سے اس جگہ کو تھام لیا۔

بے اختیاری، بے خودی کی ہم جولی ہے اور یہ دونوں ہم جولیاں "محبت" کی صفوں میں اول ہیں۔

اس کی بے اختیاری نے اس کی خشبو کو جالیا اور بےخودی اس خشبو میں جھومنے لگی۔ ایک بچہ اپنی ماں کو نظم سناتا ہوا فٹ پاتھ سے اس کے پاس سے گزرا اس نے اپنی حالت میں پھر بھی تبدیلی نہیں کی۔

pg#204

کچھ وقت ایسے ہی گزر گیا۔

ارواح سے مبرا ہستیوں نے جانا کہ" محبت کی عبادت "کی جارہی ہےـ

پھر وہ اسی کے انداز میں کمر ٹکا کر کھڑی ہوگئ۔ زندگی کی سواری نے ان سب یادوں کو اس کے پاس اتارنا شروع کر دیا جو متلق العنان بنی اس کی ذات پر حکمرانی کرنے پر نازاں تھیں۔

"تمھیں بات کرنے کی تمیز سیکھنی چاہیے۔"

"تمھیں تھکن اتارنے کی مشق کرنی چاہیے۔"

وہ اپنی مرضی سے ایک ایک منظر کو دہراتی رہی۔

"لاہور خالی ہوچکا ہے اس کے پاس سب نہیں رہا۔ تم جو یہاں ہو۔"

"امرحہ ! دیکھو میں تمھارا چلینج قبول کرتا ہوں۔"

وہ قلابازیاں کھا رہا تھا۔ محراب کے ساتھ ٹکی کھڑی امرحہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

"میں سارا مانسچڑ اکھٹا کر لاؤں گا۔" وہ ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑا ہوگیا۔

"جاؤ کر لاؤ۔"امرحہ  اسے جواب دے رہی تھی۔

"ان کے ہاتھ میں بورڈز ہونگےـ"

"ضرور ہونے چاہیں۔" وہ پورے دل سے مسکرائ۔

ساری ڈریگن پریڈ محراب کے سامنے سجی کھڑی تھی اور اس میں وہ مسکراتی کھڑی تھی۔

"ایک بورڈ تم بھی تیار رکھنا۔" اس نے اس کے گال چھو کر کہا۔

"وہ تو میں نے کب سے تیار کر لیا۔" کہہ کر وہ پریڈ میں بھاگ گئ اور وہ اس کا نام لیتے اس کے پیچھے بھاگنے لگا اور پیچھے سے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا۔

"مجھ سے شادی کروگی امرحہ ؟"

دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔ ساری پریڈ ان کے گد اکھٹی ہونے لگی۔ سارا ہجوم ان دو کے گرد سمٹ آہا۔ چینی ساختہ ڈرموں کی قطاریں سجادی گئیں اور سرخ لباس پہنے لڑکوں نے ڈرم اسٹک کو ہوا میں بلند کر لیا۔

"ہاں۔ "اس نے وہ مسراہٹ اپنے چھرے پر سجالی جو تا عمر نہیں سجنے والی تھی شاید، سرخ لباس والوں نے اپنے اٹھے ہاتھوں کو ڈرموں پر بے قابو ہوجانے دیا۔ رنگ پھیل گئے۔ خشبو بکھر گئ۔ چراغ جل اٹھے۔ دن سج گیا۔ بہار نکل آئی۔ ایک امرحہ اور ایک عالیان  کے گرد پریڑ دائرے میں چکرانے لگی۔ تو ان کی بہار کا ماخز وہ تھے۔ ہاں اس بار ان کی بہار کا ماخز وہ تھے۔ مشرق کی سندری اور مغرب کا سلطان۔

امرحہ نے ہاتھ پھیلاے اور کچھ برف اس میں اکھٹی کی اور اس مٹتے بنتے ہیولے کی طرف اچھال دی جو وہاں نہیں تھا اور صرف وہاں ہی تو تھا۔

تم اتنی دیر سے آۓ عالیان۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ کھڑا لرلیا اور وہ کھڑا ہوگیا۔

"کیا تم میرا انتظار کر رہی تھیں؟" اس کی تھوڑی کو چھو کر اس نے شرارت سے پوچھا۔

"کیا نہ کرتی؟"ہونٹ کاکونا دبا کر اس نے کہا۔

"میں ایک برا انسان ہوں میں نے تمھیں انتظار کروایا۔"

"دیکھو عالیان ! تمھارا مانسچڑ برف میں ڈوب رہا ہے۔" اس سفید مانسچڑ کی طرف ہاتھ کیا۔

"دیکھو ذرا۔۔ میرے مانسچڑ کو کون دیکھ رہا ہے" اس نے دو انگلیوں سے اس کی ناک پکڑ لی۔

"مجھے امرحہ کہتے ہیں۔۔ کون نہیں۔" اپنی ناک چھڑوا کر اس نے اس کی ناک پکڑ کر کہا۔

"کیا میں تمھارے لیے برف اکھٹی کردوں امرحہ ؟" اس نے اس کے منہ کے سامنے آکر پوچھا ان دونوں کی آنکھوں نے طویل سفر طےکیا۔ جس کے کبھی نہ ختم ہونے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ 

"برف کیوںـ؟"

تا کہ تم اس سے اپنی  پسند کا گھر  بنالو.  بلکہ  آؤ چلؤ یہاں بیٹھ کر  گھر  بناتے  ہیں. "اس کا ہاتھ  پکڑکر  وہ اسے برف کے ڈھیر  کے پاس لے جانے لگا. 

"نہیں عالیان  تم یہاں میرے پاس کھڑے رہا, کہیں مت جاؤ وعدہ کرو.  کہیں نہیں جاؤ گے. ؟ اس کی آواز میں سارا بچا کھچا درد سمٹ آیا. 

دونوں  ایک ساتھ  جڑے  محراب میں دبکے  تھے. ان کے سر  ایک دوسرے سے مس ہو رہے تھے اور دایاں  ہاتھوں کی ہتھیلیاں  اپنی لیکروں  اسمیت ایک دوسرے میں مدغم ہوئ  تھیں. 

"نہیں جاؤں گا. "اس نے اس کے  گال پر پھوک  ماری.  اور. 

عرب کئ ریت نے اڑ کر آمنہ کئ پیشانی  کا بوسہ  لیس. سیاہ چغے میں لپیٹے آنسووں. سے بھگیے چہرے  کو اس نے زمین پر سجدے کے لئے تیار کیا. وہ محمد بخش  کے لیے خدا سے اس کی ساری رحمتیں  مانگنے والی تھی. اور پھر  وہ خود کو خدا کے حوالے لر دینے  والی تھی. آمنہ ایک درویش  سفت عورت  ..اس مرد سے دستبردار  ہونے جارہی  تھی  حس سے وہ وابستہ ہوئ تھی.

اس نے آنکھیں  بند کیں  اور ان آنکھوں کے پردوں پر محمد  بخش  کو پایا اس نے آنکھیں  اس کی آنکھوں میں  گاڑدیں.  عالیان  نے امرحہ کئ. "اگر میں برف ہوتی تو تمہارے  قدموں پر گرتی. "

"تم برف ہوتیں تو میں بھی  برف ہوتا.  مجھے  وہی ہونا ہے جو تمہیں ہونا ہے امرحہ.. "اس نے دونوں ہتھلیاں  اس کے گالوں پر رکہ کر کہا .

وہ ہنسنے لگی. "یارم.... یارم. " وہ گنگنانے  لگی.

مجھ پر جو راز  کھولا گیا ہے وہ تم ہو امرحہ. ناک پھر  اس کے ہاتھ میں تھی. 

کیسا راز؟؟؟

یہی زندگی  کیا ہے. زندگی امرحہ  ہے. "وہ ہنسنے  لگی اور اس نے اپنا سر دیوار کے ساتھ  جڑ دیا اور اس کئ آنکھوں  میں دیکھ کر مسکرانے  لگی. اور....پھر  ....پھر  اسے آنکھیں کھول  دینی  پڑیں اور ان کئ نمی کو ہاتھ  کی پشت سے صاف کرنا پڑا.  وہاں کھڑے  کھڑے اسے کہی پہر بیت چکے تھے  پھر  بھی  وہ وہاں تاعمر  کھڑی  رہنے پر بضد تھی  .

دادا نے اس کی منت کی کے وہ بھی کئ گومنے چلی جائے 

خود کو مانچسٹر کے طلسم سے دور لے جانا چاہتی تھی 

سامان باندھ کر این کے پیچھے فرانس چلی گئی ۔اس کے ساتھ کومنے میں مصروف رہی نیے سال کے جشن کو دیکھتی رہی۔لوگ کیا کیا کر رہے تھے  امرحہ نے اپنی ہتھیلیوں کو مسلا یہ سب اتنے خوش کیوں ہیں ۔؟

عالیان نے اسمان پر بننے مٹنے والے رنگوں کو دیکھا اور نظریں ہٹانے میں ناکام رہا اس پر تھکن سی سوار ہو گئی رات تو ابھی ہوئی تھی اس کے اگے کھڑے کاتل ویرا سائی اچھل کود کر رہے تھے عالیان بس ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا

سب سے نظریں بچا کر اس نے کہیں دور نکل جانا چاہا ۔

کہاں جا رہے ہو عالیان؟ ویرا نے پوچھا

میں کچھ کھانے کے لیے لینے جا رہا ہوں۔۔۔ بس ابھی آیا ۔ اس نے جھوٹ بولا اور تیزی سے ہجوم میں خود کو گم کر لیا  کہ ویرا اسے لپک کر نہ آ لے ۔ وہ چلتا رہا چلتا رہا اور میڈرڈ کے ایک گم نام سے  چھوٹے سے کیفے میں بیٹھ گیا۔

وہ کافی کی کتنی پیالیاں پی  چکا تھا وہ گنتی بھلا چکا تھا اس نے اپنا سر لکڑی کی میز پر رکھا تھا اور نظریں گلی میں ساز بجاتے اس نوجوان پر ٹکا دی تھیں، جس کے سامنے کئی بچے اور بوڑھے ناچ رہے تھے۔

اتنے  بھدے ساز اور آواز پر یہ سب کیسے ناچ سکتے  ہیں اور آخر وہ کیا وجہ ہے جو انہیں ایسے ناچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ وہ سوچنے لگا 

ساز کا تار ٹوٹا اور اسے ایک تھپڑ کی گونج سنائی دی۔۔

"بہت محبت کرتی ہوں میں تم سے۔۔"

اچھا تو ساز اس کے لیے رکا۔۔اور تار یوں ٹوٹا

اس نے میز پر پڑے اپنے سر کا رخ بدل لیااور اس بار اسکی نظر ایک ٹوٹے ہوئے لیمپ پوسٹ پر جا پڑی۔۔جو کبھی روشن ہوتا ہوگا۔۔

             ⚛         ⚛        ⚛

ویرا کو جب اس کے فرانس جانے کا معلوم ہوا تو وہ بہت خفا ہوئی۔۔

تم میرے ساتھ کیوں نہیں گئیں۔۔؟ وہ بہت سخت ناراض تھی۔

تم نے فرانس نہیں جانا تھا اور مجھے فرانس دیکھنا تھا۔ وہ اپنے کپڑے الماری میں رکھ رہی تھی۔

تم کہتی تو ہم فرانس چلے جاتے ۔ تم نے تو کہا تم نے جانا ہی نہیں ہے۔

تم تین چار بار فرانس جا چکی ہو  میرے ساتھ پھر سے جاتی تو تمہارا ٹور خراب ہو جاتا ۔

تمہارے ساتھ ہوتی تو اس بار فرانڈ دیکھنے کا مزا آ جاتا۔۔ویرا نے منہ پھلا لیا

سائی اس سے اتنا ناراض ہوگیا کہ خفگی کی زیادتی سے اس سے بات ہی نہیں کی۔۔

امتحانات شروع ہوگئے۔۔

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

امتحانات کی تیاری کے لیے وہ علی لرننگ نہیں گئی۔ اس نے گھر میں ہی تیاری کرلی۔ اور دل لگا کر پڑھنے کی کوشش کی تاکہ اس کا رزلٹ اچھا رہے ۔

سب کتابوں میں گم ہو گئے کارل تک لائبریری میں پایا جاتا البتہ ایما کو علی لرننگ میں زور دار کرنٹ کاجھٹکا دے کر اسے فلور پر لڑکھڑا کر اس نے اس کے دائیں ہاتھ میں فریکچر کروا دیا اور  کوئی بھی زندہ یا مردہ ثبوت نہ چھوڑا جو یہ ثابت کر سکے یہ سب اس نے کیا ہے۔۔۔ ایما نے انگھوٹی اس کے منہ پر دے ماری تھی۔ وہ اسے ہی کہیں اٹھا کر دے مارنا چاہتا تھا۔

عالیان کبھی کبھی علی لرننگ میں ایسے ہی گشت کرتا پایا جاتا تو کارل اسے گھسیٹ کر اسٹڈی روم میں لیکر جاتا یا کبھی دور سے ہی چلاتا۔

تمہارا دماغی توازن ٹھیک ہو جائے تو اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ جانا۔۔امتحانات ہوگئے۔۔۔اور رزلٹ بھی آگیا

چوتھا اور آخری سمسٹر شروع ہوگیا۔

وقت نے اپنی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیں اور وہ خلافِ توقہ سست روی سے گزرنے لگا۔۔ زندگی ایسی اداکارہ بن گئی جو میک اپ اتار دے  اگلا سوانگ رچانے سے پہلے پرسکون بیٹھے رہنے کی کوشش کر رہی ہو۔۔اس کے ہاتھ گود میں ہوں اور وہ بڑی بے دردی اور بے حسی سے اپنا دھلا چہرہ ائینے میں دیکھ رہی ہو۔۔

شٹل کاک میں لیڈی مہر کے  ایک ساتھ چار بچے آ گئے تھے۔ ڈینس اور مارک دو دن رہ کر چلے گئے تھے جبکہ شارلٹ اور مورگن رہ گئیں۔۔

جورڈن آیا ہے ؟ این نے شارلٹ سے ملتے ہی پوچھا ۔۔

نہیں۔۔شارلٹ پوری جان سے قہقہ لگا کر ہنسی۔

ویرا کو عالیان کی فیوچر وائف کی حیثیت سے لیڈی

مہر نے ان سے ملوایا ۔ہفتے کے دن شارلٹ اور مورگن عالیان کو ساتھ لے کر سائیکلوں پر مانچسٹر کی سڑکوں پر نکل پڑے۔۔اور ان دونوں نے عالیان کی جیب میں ایک پونڈ نہیں رہنے دیا۔تینوں کی آپس میں اچھی دوستی تھی اور رابطے میں رہتے تھے ۔

تم مانچسٹر میں شادی کرو گے یا روس میں؟ 

ریسٹورنٹ میں ڑینر کرتے آنکھ مار کر شارلٹ نے پوچھا ۔

مجھے ہمیشہ یہ کیوں شک ہے کے ماما کے ہی گھر میں تمہاری دلہن موجود ہے ۔مورگن بولی

تم کچھ نیا تو کرتے شارلٹ کے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے تھے ۔

نیا کیا؟ 

یہی کہ اچھلتے کوداتے چھلانگیں لگاتے اپنی دلہن کا ہاتھ پکڑ کر بھگا لے جاتے اس کی لمبی سفید پوشاک اسے بھاگنے نہیں دے رہی ہوتی تم اٹھا کر بھاگتے 

ہر لڑکی کے اندر ایک ہیرو چھا ہوتا جو کچھ نیا کرے

تو تم خوش قسمت ہو تمہیں ہیرو مل گیا  عالیان ہنس پڑا

مورگن اٹھی اور کہہ کہ میں  شروع ہونے جا رہی  ہوں  اس نے  مائیک اٹھایا اور کچھ ابتدائی الفاظ کہے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر وہ شروع ہو گئی عالیان اور ویرا کی فرضی داستان عشق سنانے

ایک دن ایک لڑکی اپنی ہی دھن میں سائیکل چلانی جا رہی تھی کہ ایک بھلکڑ سے لڑکے کے ساتھ اس کی ٹکر ہو گئی 

لڑکی ویرا. لڑکا عالیان

شارلٹ نے اس کی طرف اشارہ کیا سب گردن موڈ کر عالیان کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے عالیان کو بھی مسکرانا پڑا۔

یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی کہہ سکتے ہیں سائیکل کی پہلی ٹکر. ایک رات ویرا اپنے گھر جا رہی تھی کچھ غنڈے اس کے پیچھے آئے۔انہوں نے  اسے دبوچ لیا ٹھیک اسی ٹائم ادھر عالیان آ گیا بالکل فلموں کی طرح ہوا ہیروہن نھنی سی بچی بن جاتی ہے اور پھر ہیرو اپنا کام جاری کرتا ہے 

مطلب ہیرو کے ہوتے ہیروہن بہادری نہیں دکھاتی آخری جملہ شارلٹ نے سر گوشی کی صورت کیا ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر ہال میں تالیاں گونج پڑی

عالیان نے اپنا سر جھکا لیا یہ کیا کر رہی ہے شارلٹ 

ماما کا اس کے بارے میں  خیال بالکل ٹھیک ہے ۔

جارڈن کی جگہ اسے فلموں میں کام کرنا چاہیے دوسری مسٹر بین آرام سے بن جائے گی ۔مورگن کے الفاظ اور انداز پر عالیان بلند قہقہہ لگا کر ہنسا

خدا کے لیے اسے ہی قہقہے لگاتے رہا کرو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے تمہیں مورگن نے محبت سے اس کی  تھوڑی کو چھو کر کہا ۔

عالیان نے ویرا کو اٹھایا اسکی ناک پیشانی سے خون صاف کیا اسے ساتھ گھر تک چھورنے آیا۔جبکہ اس کو ٹیکسی بھی تو کروا کر دے سکتا تھا ۔

کہانی یہاں شروع ہوتی ہے لیکن میں آپ کو  تھوڑا بہت بتا دوں تاکہ آپ کا تجسسو برقرار رہے ویرا کو ایک اور لڑکا بھی پسند کرتا ہے جو اپنے کالج کا باکسر ہے اور عالیان کو ایک امیر باپ کی بیٹی پسند کرتی ہے جو کرائے کے غنڈوؤں سے لوگوں کا حلیہ بگاڑنے کو برا نہیں سمجھتی 

تمہیں یاد ہے میری شادی پر تم نے گانا گایا تھا گٹار کے ساتھ عالیان پارٹی میں موجود کسی اور کے لئے پرفومس دے رہا تھا ہمارے لئے نہیں ۔

لیکن میری شادی میں تو ویرا تھی ہی نہیں مورگن نے گلاس سے منہ لگاتے ہوئے کہا۔

باکسر کو معلوم ہو چکا عالیان کا وہ اپنے دوستوں کے ہم راہ عالیان پر ہلیہ بول دیتا ہے شارلٹ ساتھ ساتھ اداکاری بھی کر کے دیکھا رہی تھی شارلٹ کی شادی میں ویرا موجود تھی اور میری فرمائش پر بھی تم نے گانا نہیں گایا تھا ۔

اس کا انداز ایسا ہو گیا تھا اس نہماک سے اسے دیکھ رہے تھے کچھ نے کھانا چھوڑ دیا تھا 

ویرا کومے میں تھی نا

شارلٹ کا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا باتوں باتوں میں کہانی بن لینا۔ماما کو وہ ہنسا ہنسا کر دہرا کر دیتی تھی 

جھٹ پھٹ کہانی بنا کر سنا دیا کر کرتی تھی جس میں امرحہ پاکستان آگئ اور عالیان اس کی تلاش میں پیچھے جاتا ہے لیکن سب اس نے کیا مزاحیہ انداز میں تھا ۔

وہ ڈئینر کے بعد انہیں گھر تک چھوڑنے اور ہال تک واپس آنے کی ہمت جواب دیے چکی تھی مجھے لگاتا ہے اس بار دلہا بھاگےگا

ٹھنڈ میں بھی اس کی پیشانی پر پسینہ  آ گیا  دوسروں کے سامنے نارمل بن کر رہنا آسان نہیں ہوتا رات کے اندھیرے میں وہ سائیکل کور چلتا رہا 

ماما مہر کو وکیل کیس ہنڈل کر رہا تھا اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ولید البشر باز آنے کو تیار نہیں تھا 

ٹھنڈی رات اس کی سوچوں کی گوا بنی

کیا وہ اس لیے اس وقت سائیکل چلا، رہا ہے  کہ کچھ ٹائم پہلے شارلٹ نے  ہال میں کیا  کہا اس کی اور ویرا کے  محبت بھری داستان سنائی ہے اس کہانی میں  کرداروں کے نام بدل دیے گئے

کہانی میں ایک کردار کی موت ہو تو دوسرا خود مر جاتا ہے 

موت

کی کہانی میں ہو، یا، حقیقت میں اسے خوشآمدید نہیں کیا جا سکتا 

موت سایہ بن کر آئے یا سایہ بن کر ساتھ لے جائے اس کی نحوست کم نہیں ہوتی ڑ

امرحہ کو پرانی امرحہ کہہ کر بھی پکارا نہیں جا سکتا مگر امرحہ دادا کے ساتھ پرانی امرحہ بن کر باتیں کرتی رہی ۔دادا اس کے لیے پہلے جیسے ہوں گے مگر وہ دادا کے لیے پہلے جیسی نہیں رہی تھی باتیں کرتے دادا کو اب کئ بار پوچھنا پڑا 

سن رہی ہو امرحہ

وہ سر ہلا دیتی۔

واجد سارے گھر کو پینٹ کروا، رہا اور تمارے لئے عماد کا کمرہ خالی کروا کر ڈائزانر کو بولا اچھی سی ڈائکریٹ کرو میری بیٹی آ رہی ہے بہت پڑھی لکھی ہو گئ اب تو تمہیں سب بدلا ملے گا خوب صورت ہو گیا بہت سے پھول بھی لگوائے واجد کہہ رہا تھا تمہیں نیو کار بھی لے دے گا۔

اور ہاں میں تمہیں پارک لے جایا کروں تم وہاں سائیکل چلانا

خاندان سے واجد نے رابطہ ختم ہی کر دیا بہت کم آنا جانا

ویسے بھی  اب تم خود سمجھ دار ہو گئی ہو. خود کو بدل لیا ہے اب معاشرے کو بدلنا ہے  سن رہی ہو امرحہ؟ 

جی دادا جان اس نے سنا نہیں بھی ہوتا تو ویسے ہمی بھرتی اور گہرا سانس لیتی۔

اچھا بتاؤ اب میں نے کیا کہا؟ 

آپ نے کہا؟ وہ سوچ میں پڑ گئی اپ نے کہا حماد نے ہیوی بائیک لے لی وہ چلاتا آپ کو ڈر لگتا ہے ۔

امرحہ یہ تو میں نے ایک گھنٹے پہلے کہا تھا اس کا مطلب تم نے اس کے بعد نہیں سنا۔

سنی ہیں دادا

ان کو اپنی باتیں دہرانی پڑتی سائی کو بھی اس کے سامنے بات دوہرانی پڑتی۔

میں تمہیں کل فون کر رہا تھا تم نے بات کیوں نہیں کی؟ 

میں مصروف تھی سائی وہ کینٹن میں تھی سائی اسے ڈھونڈاتا ہوا آیا۔

جب مصروفیات ختم ہو جاتی تو کر لیتی مجھے کال

میں پھر بھول گئی اس نے جھوٹ کہا وہ سائی سے بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی وہ کئ بار انکار کر چکی تھی وہ بار بار اسرار کرتا

میں نے تمہارے لیے بھی آن لائن ٹیکٹ بک کروا لی ہے 

سائی میں کہہ چکی ہوں مجھے نہیں جانا اسے غصہ آ گیا ۔

ساری یونی جا رہی ہے تم کیوں نہیں؟ 

بس نہیں مجھے شوق نہیں ہے فٹبال میچ دیکھنے کا

میچ نہیں دیکھنا ہمارے ساتھ بیٹھ جانا 

سائی نہیں  تو  نہیں 

امرحہ میری دوستی میں کیا کمی رہ گئی .

جو تم ٹھیک ہونے کو تیار ہی نہیں تمہارے لیےدنیا میں صرف ایک ہی انسان اہم ہے ہم سب کی اہمت صفر ہے سائی نے افسوس سے کہا 

میرے لیے تم بھی اہم ہو سائی

تم ابن کے ساتھ فرانس چلی گئی اور مجھے انکار کر دیا 

اب خود کو ایسے محدود کر لو گی اب تو تم سب کو اپنا دشمن ہی سمجھو گی۔تھوڑی تفریح کر سکتی ہو نا میرے گروپ کے ساتھ چلو

سائی تم مجھے بے جا مجبور کر رہے ہو جبکہ میرا بالکل بھی دل نہیں ہے 

چلو مجبور ہی سہی ہر ایک مرا جا، رہا ہے جانے کے لئے 

سارا مانچسٹر خالی ہو جائے گا تمہیں بہت مزا آئے گا دیکھ لینا 

سائی تم سب جا رہے ہو نا، تو خالی مانچسٹر کی حفاظت کے لئے مجھے چھوڑ  جاو اور اب مجھے کئ مزا نہیں آتا، سائی۔

بہت بار کی طرح تم مجھے پھر انکار کر رہی ہو امرحہ

امرحہ اس کی طرف دیکھ کر حیران رہ گئی اس زمینی فرشتہ جو ہمیشہ ساتھ رہا اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا

جو ہرر وقت اس کے ساتھ مہربان رہتا۔

کارل نے بس اتنی مہربانی کی فریشزر کو بھڑکا بھڑکا کر ان سے  مختلف کیھلوں میں ٹیکٹ دے کر کافی پیسے اکٹھے کر رہا تھا عالیان جانا نہیں چاہتا تھا کارل اسے لے جائے بغیر چھوڑ نہیں رہا تھا 

مجھے پتہ ہے ٹرافی انگلینڈ کی ہے 

اچھا تو بنا دیکھے ہی پتہ کر لیا 

ہی ہی عالیان نے دانت نکالے

جوانی میں تم بنا دانت اچھے نہیں لگو گے ۔

ٹرافی ہماری ہے اس لیے ہم برازیلا جا رہے ہیں 

برازیلا چلو گی امرحہ کارل امرحہ کے پاس بھی آیا اسے منانے 

میرے پاس پیسے نہیں ہیں امرحہ نے بہانہ بنایا 

میرے پاس ہیں وہ مسکرایا جس کی وجہ سے اس نے لائبریری کا بھاری فائن بھرا تھا وہ اسے اپنے پیسوں سے اسے برزیلا لے جا رہا تھا

امرحہ نے اسے نرمی سے دیکھا تم بہت اچھے ہو کارل

میں برا بھی بن جاؤ گا اگر تم نہیں گی تو

وہ مسکرا دی اور  بیگ سے چاکلیٹ نکال کر اس کے اگے کی جو اس نے  پکڑ لی

تم ایک خوش قسمت انسان ہو کیونکہ تم کارل ہو یہ  کہہ کر وہ لائبریری سے  نکل گئی 

عالیان کارل ویرا شاہویز جمعہ کو ہی نکل گئے تھے سائی نے ٹھیک کہا تھا ساری یونی ہی برزیل لینڈ کر رہی تھی 

اس نے میچ کا زکر دادا سے نہیں کیا مگر سادھنا نے بتا دیا تھا 

تم جھوٹ بول رہی ہو تمہیں میچ سے دلچسپی نہیں 

تم مجھے معاف کرنے کے لئے تیار ہی نہیں امرحہ

دادا اسے عالیان نہیں دے سکے تھے وہ اب اسے سب دے رہے تھے ۔

ایسی بات نہیں میرا دل نہیں چاہا رہا۔اس کی آنکھیں نم ہو گئیں جو مشکل سے ہی خشک رہتی تھی اب

تمارا آخری سمسٹر ہے پھر تم واپس آ جاؤ گی جاؤ گھوم آؤ۔

دادا نے ویرا کا نام نہیں لیا انہیں لگتا تھا کہ ویرا کے نام سے اسے تکلیف ہوتی ہے جبکہ ایسا نہیں تھا ویرا کی دوستی اور محبت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی ۔ویرا نے اسے باقاعدہ ساتھ لے جانے کے لیے منت کی تھی ۔

تم اتنا کیوں بدل گئی ہو امرحہ کیا ہو گیا ہے چلو ہمارے ساتھ 

میں کب بدلی ہوں ویرا؟ 

تم کتنی شدت سے مجھے انکار کر رہی ہو اور کئ بار ایسا ہوا، ہے ایسا لگتا ہے تمارے بھیس میں کوئی اجنبی ہمارے درمیان گھس آیا ہے اب تم عالیان سے بات نہیں کرتی اسے تنگ بھی نہیں کرتی اور بھی بہت کچھ میں جو محسوس کرتی ہوں میری عقل اسے تسلیم نہیں کرتی وہم لگتا ہے سب

تمارا وہم ہی ہے ویرا میری پڑھائی اتنی ٹف ہو گئی زیادہ ٹائم اسائنمنٹ بنانے میں لگ جاتا ہے 

ویرا خاموشی سے دیکھ رہی تھی روس تو چلو گی نا؟ 

ہاں اس نے اسے ٹالنے کے لیے بول دیا 

جلدی نہیں آنے دوں گی وہاں سے ویرا نے انگلی اٹھا کر کہا

پھر دونوں ہنسنے لگی۔

امرحہ کیا کر رہی ہو

آواز جادو کی طرح چھو منتر ہوئی

وہ خوشی سے پلٹی تم آ گئے عالیان؟ 

ابو نواس کی شاعری روح میں ساعیت کرنے والی شاعری رحمان کے سروں سے ہم کلام ہوکر "سماں یار" میں دھنس گئ۔

"یہ سب کیا ہے؟"وہ اس سے زیادہ خوش ہوا۔

"ہماری کہانی۔ تم نے یہ پیغامات مجھ سے نہیں کیے تو میں نے یہ یہاں باندھ دیے۔" وہ چل کر ایک پیغام کے پاس گیا اور اسے پڑھنے لگا۔

"میں اپنی ابتداء پر تمھارا نام لکھتی ہوں اور میری انتہا تمھارے سوا کچھ نہیں ۔" پڑھ کر وہ مسکرانے لگا۔

امرحہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لے گئی اور دائیں بائیں جھول کر شرارت سے مسکرانے لگی پھر اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر شاخوں پر جھولتی گھنٹیوں کو ترنم سے ایسے بجا ڈالا جیسے "اسد اللہ خان غالب" کے کلام سے لبالب ہوۓ، چاندی کی ظراف وادی کیلاش کی پریوں کی نازک انگلیوں تلے بج اٹھے۔

ارتکاز واجب ہے۔

سماں یار ہے۔

کشتی کی لمبی نوک جو پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ دھندلے اندھیرے پل کے نیچے سے نکلی اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر اس پر اچھال دیا۔

"عالیان پر۔"

اور ایک ایسی مسکراہٹ خود پر سجا لی جیسے وہ پرستان کی ملکہ ہو اور اپنے پری زاد کے ساتھ بکھی پر سوار پرستان کی پرواز پر جا رہی ہو۔

"مجھے تمھاری مسکراہٹ یاد آتی ہے اور میں خود مسکرانا بھول جاتا ہوں۔" عالیان نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دن سے روشن اس کی آنکھوں کو پایا۔

"میری ساری مسکراہٹ تم نے لے لیں۔۔ اب کہتے ہو مسکرانا بھول گئے۔"

"تم آنکھوں کی پتلیاں گول گول گھمایاں کرتی تھیں؟"

"تم کہا کرتے تھے تو کرتی تھی۔۔اب تم کہتے ہی نہیں ہو۔" وہ اٹھلا گئی۔

"امرحہ۔۔ چلو ہم پھر سے دوست بن جاتے ہیں۔" اس کے ہاتھ کی پشت کو اس نے باری باری آنکھوں سے لگایا۔

"نہیں۔۔ اب ہم دوست نہیں بن سکتے۔" اس مے اپنے ہاتھ کی پشت کو دیکھا۔

"کیوں۔؟ تم مجھ سے نفرت کرتی ہو ؟"

"نہیں۔۔ یہ نہیں کرسکتی۔"

"محبت کرتی ہو؟"

"محبت۔۔ یہ بھی نہیں۔"

"کوئی تو جزبہ ہوگا تمھارے پاس۔۔میرے لیے۔؟" کشتی چمکیلی جھیل پر رواں دواں تھی اور پھر وہ ایک دوسرے پل کے اندھیرے میں جا چھپی۔۔ ابابیلوں کے جھنڈ پیچجے رہ گئے اور کوئلوں کی کوکوں  نے اندھیرے کے سروں کا پیچھا کیا۔

دوب(عمدہ گھاس)مخمل کی طرح بچھ گئی۔۔ اندھیرے سے روشنی میں آتے اس نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر میں پایا اور دوسرا اس کے ہاتھ میں پیوست۔

"شوق دید واجب ہے۔"

"سماں رقص ہے۔"

وہ سرخ پوشاک میں تھی اور اس کے بالوں میں لہریں تھیں۔ دوب ائی ہموار زمین پر وہ محو رقص تھے۔ وہ شرما کر ایسے ہنس رہی تھی جیسے اسے اس پر اعتراض تھا۔

"نیلے سمندر میرے لیے سیاہ ہیں۔" گنگناہٹ صورت اس نے سرگوشی کی۔

"تمھاری آنکھوں کی سیاہی میں بس جانے کا خبط مجھے بہت پیارا ہے۔"

وہ مسکرانے لگی۔" اور۔۔"

"میرے پیروں تلے بچھی سب ہی راہیں تم تک آتی ہیں۔ تم یہ جان لو میری سانسیں تم سے ہوکر آتی ہیں۔"

اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ "اور۔۔"

"امرحہ مجھے انتظار رہے گا کہ انتظار کب ختم ہوگا۔" کہتے ہو اداس ہو گیا۔

"مجھے انتظار رہے گا کہ انتظار ختم 

ہونے کا انتظار کیا جاۓ گا۔" کہہ کر وہ بیٹھ گئی۔ بے تحاشہ پھول اُگ آۓ۔

"بتاؤ تم کس کے لیے جان دے سکتی ہو؟" وہ بھی اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا۔

"جان تو کب کی دے دی"

" ہم نے بہت گڑبڑ کردی نا امرحہ "

"ہاں بہت۔۔ اور اب سوچنے کا وقت نکل گیا۔"

"میں نے تمھیں بہت یاد کیا۔"

"میں تمھیں بھول ہی نہیں  پائی۔"

"تمھیں مجھے بتانا چاہیے تھا۔"

 "تمھیں یاد رکھتے رکھتے میں سب بھول گئ۔ تمھیں بتانا بھی۔ تمھیں یاد رکھتے میں نے کچھ اور یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔"

"میں عالیان نہ ہوتا تو تمھارا خواب ہوتا۔۔ جسے تم ہر رات دیکھتیں"

"میں امرحہ ہو کر بھی عالیان ہی ہوں، تم میرے اندر بس چکے ہو، میں نے اپنا آپ رخصت کر دیا ہے عالیان۔"

"تم ایک جادوگر ہو امرحہ ۔" وہ خود کو اس کی آنکھوں کے اتنا قریب لے گیا کہ  اس کی پلکھیں امرحہ کے گلابی گالوں پر لرزنے لگیں۔

"تم میرا سحر ہو عالیان۔"

"تم سے محبت مجھ پر فرض ہے۔"

"میں نے اس فرض کو قضا ہونے نہیں دیا۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کہاں جا رہی ہو؟"

"پتا نہیں۔"

"رک جاؤ۔"وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

"روک لو۔"اس نے گردن موڑ کرکہا خود کو نہیں۔

تیز روشنی نیم اندھیرے میں بدل گئی۔

 خوف اور درد کی تتلیاں مقام نامعلوم سے اڑتی ہوئی آئیں۔ وہ سب سیاہ تھیں۔انہونی کا بگل بجا۔

"دعا واجب ہے۔"

"سماں ہجر ہے۔"

اس نے جھٹکے سے گردن کو اس کے گرتے ہوۓ وجود کی طرف موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کے آس پاس خون ہی خون تھا۔ وہ اپنی جگہ بت بنا کھڑا تھا۔ اور ذرا دور اس کی بند ہوجانے پر مائل آنکھیں اس پر ٹکی تھیں۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ لیکن وہ اس کی طرف نہیں بڑھ رہا تھا۔

وہ کھڑا تھا۔۔ وہ کھڑا ہی رہا۔

"اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔"

"یہ تو بہ باف ہے۔"

اپنے لمبے لبادے میں لپٹی وہ" چاہ توبہ" کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ پیشانی سے کھینچ کر کنارے کو ناک تک لائیں اور ایک ساتھ اہنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیے۔ اندھیری رات ان پر سایہ فگن تھی اور "آب توبہ" زمین کی تہوں میں جل تھل یو رہا تھا۔

انہوں نے دعا کی ابتداء کی۔" اےخدا۔ "

اور آنکھیں بند کر لیں۔

عالیان نے آنکھيں کھول دیں۔

اس کی جسم میں خون کا ایک قطرہ نہیں رہا تھا اور اس کے دل نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ اس کی آنکھيں اندھیرے میں بھٹک رہی تھیں۔ اسے بہت دیر میں یاد آیا کہ وہ کہاں ہے۔ اس نے اٹھنے کی ہمت کی، لیکن اس کی ہمت جواب دے گئ۔

مارگریٹ کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ یہ ہوتا رہا تھا۔ وہ اپنی من پسند جگہوں پر اس کے ساتھ پایا جاتا رہا تھا۔۔ اب پھر یوں۔۔ امرحہ کے ساتھ۔

جسم کی گرمی سے اس کا منہ جل رہا تھا۔ اٹھ کر وہ واش روم میں گیا اور منہ کر یخ پانی پیا۔ وہ برازیل میں تھا۔ ہوٹل کے کمرے میں دوسرے سنگل بیڈ پر موجاد کارل بے خبر سو رہا تھا۔ وہ ٹیرس پر آگیا اور بہت دیر تک شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھتا رہا۔ اس کی کیفیت واپس مانسچڑ کی طرف بھاگ جانے کی سی ہوگئ تھی۔۔ شٹل کاک کی طرف۔۔ کھڑکی کے نیچے۔

اس پر ہلکی سی کپکپی تاری تھی اور اس کے ہاتھ واضح کانپ رہے تھے۔ اس کا ٹیرس کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر رونے کو دل چاہا۔ بہت زیادہ روتے رہنے کا 

وہ ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گیا اور اپنے سر کو ہاتھوں میں تھام لیا اور پھر اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑلیا۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ خواب کے آخری حصے کو دہراتا۔ فون بیڈ سائیڈ سے اٹھا کر واپس ٹیرس پر آکر اس نے سائی کو فون کیا۔

"تم ٹھیک ہو سائی۔؟"

"ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔ اس وقت فون کیا تم نے؟" سائی خود بھی نیند میں سے جاگا ہوا لگ رہا تھا۔

"نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔ بس ایسے ہی فون کیا۔" سائی کچھ دیر خاموش رہا۔

"تمھیں کچھ کہنا ہے مجھ سے؟"

"ہاں۔۔"

"کہو۔۔"

"میرا بہت رونےکو دل چاہ رہا ہے۔ مجھے روشنی میں بھی اندھیرا نظر آرہا ہے۔"

"تم ماما مارگریٹ کو یود کر کے سوۓ تھے؟"

"انہیں میں نے بہت اچھے تصورات کے ساتھ یاد کیا۔  میں ان کے ساتھ بہت  اچھی باتیں کی۔ میں اب کی اپنی کیفیت ٹھیک سے سمجھ نہیں پارہا سائی۔"

" تمھیں ایک اچھی نیند لینی چاہیے۔"

"ہاں۔۔ شاید۔۔ سائی تمھاری امرحہ سے کب ملاقات ہوئی تھی؟"

سائی اپنے بستر پر پورا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس شخص نے جیسے صدیوں بعد امرحہ کا نام لیا تھا۔ 

"آج ملاقات ہوئی تھی۔ تم اسے فون کر سکتے ہو۔" سائی نے خوشی سے کہا۔

"ٹھیک ہے وہ۔؟" اس کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوئی۔

"ہاں۔۔ بلکل ٹھیک ہے۔۔ بہت اچھا لگا تم نے اس کے بارے میں پوچھا۔"

"شکریہ سائی۔۔ تم سو جاؤ اب۔۔" شاید اس نے سائی کو بلاوجہ پریشان کیا۔ 

"تم بھی۔"

فون کو ہاتھ میں لے کر سوچتا رہا۔ پھر ہوٹل کے کاؤنٹر تک آیا اور امرحہ کو فون کیا۔

"ہیلو۔" امرحہ کی آواز آئی۔

وہ خاموش رہا۔ وہ بات کہاں سے شروع کرے گا اور کہاں ختم کرے گا۔ اور کہے گا کیا۔ تو وہ خاموش ہی رہا امرحہ نے فون بند کردیا۔

"میں نے تمھیں بہت یاد کیا امرحہ۔" فون بند ہوگیا تو وہ بڑبڑایا۔

"میں نے تمھیں وہ سزا دی جو خود میں نے بھگتی۔"وہ کمرے میں واپس آگیا اور ٹیرس پر کھڑا ہوگیا۔ اسی نہیں لگتا تھا کہ اسے نیند آسکے گی اب۔

 آنکھيں جاگتے رہنے کا عہد باندھ چکی تھیں۔وہ سائی اور این کے ساتھ برازیلا آچکی تھی۔ وہ کافی دیر سے ٹیرس پر کھڑی تھی۔ اندر این سو رہی تھی۔ابھی جو فون آیا تھا، اس نے جان لیا تھا کس کا تھا۔

اس شخص کو شبہ تھا کہ وہ اس کی خاموشی کو پہچان نہیں سکتی تھی اور اسے یقین تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔۔ کلام کے لیے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہوگی، پہچان کے لیے نہیں۔ کیا وہ اسے پھر سے بتانا چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے اسے کتنی تکلیف کاٹنی پڑی۔ وہ کس تکلیف سے گزرا۔ اس کی اچھی بھلی زندگی کو اس نے اندھیرا کنواں بنا دیا۔ روشنی اندر جاتی ہے نہ اندھیرا باہر نکلتا ہے۔

 وہ سب جو وہ اسے نہیں کہہ سکا۔ وہ اب کہنا چاہتا ہے۔ امرحہ کو خوف محسوس ہوا۔ خوف سے اس کا وہم کسی اژدھے کی طرح ہیوہیکل ہوگیا۔

اب وہ نئے سرے سے سوچ رہا تھا۔ پہلے دن سے۔ پہلی ملاقات سے۔ پہلے جملے سے۔ ایک لڑکی جس کی آنکھوں کا کاجل ایسے پھیل گیا ہے کہ گالوں کو بھی سیاہ کر گیا ہے۔ وہ اس کے سامنے کھڑی ہے۔ وہی لڑکی ڈریگن ڈریس میں اس کے ساتھ کھڑی ہے اور پھر وہی لڑکی ہر جگہ اس کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ وہ چھپ کر بیٹھتا ہے تو بھی۔ یہ کیسی لڑکی ہے جو اس کے ساۓ سے زیادہ اس کے ساتھ ہے۔ روح سے زیادہ اس پر سوار ہے۔

pg#216

"تم کہتے ہو تم ماما مارگریٹ نہ بن جاؤ اور مجھے یہ خوف ہے کہ تم ولیدالبشر بن جاؤگے، اپنا کر چھوڑ دینے والے۔" سائی نے کہا تھا۔

اس نے اپنا سر تھام لیا۔

سر اٹھا کر اس نے چند گہرے گہرے سانس لیے۔کچھ بھی تھا وہ خوش تھی کہ عالیان نے اسے فون کیا تھا برا بھلا کہنے کے لیے ہی سہی۔ وہ اسے یاد تو رکھتا تھا۔ اس کا نام بھولا نہیں تھا۔ دنیا میں کوئی امرحہ بھی ہے اس میں یہ احساس زندہ تھا۔

زندہ رہنے کے لیے بہت ضرورتیں درپیش ہوں گی،لیکن جینے کے لیے صرف" ایک۔"

امرحہ کے لیے۔ "ایک عالیان"

عالیان کے لیے۔ "ایک امرحہ"

---------------------

آیئے برازیل اسٹیڈیم کر اندر  چلتے ہیں۔

سریز کا فیصلہ کن میچ ہے۔ انگلینڈ اور برازیل آمنے سامنے آنے والے ہیں۔لگتا ہے سارا برازیل اٹھ کر اسٹیڈیم میں آگیا ہے۔ میچ شروع ہونے سےپہلے ہی لگ رہا ہے میچ ختم ہونے کے قریب ہے۔ دونوں ٹیمیں ایک ایک گول کر چکی ہیں اور اب دونوں ٹیموں کے شائقین مرے جا رہے ہیں کہ بس ان کی ٹیم فیصلہ کن گول کردے۔ برازیلیں شائقین کچھ تندی میں تھے۔ وہ انگلینڈ کے شائقین اور کھلاڑیوں کے نام لے لے کر فقرے چست کر رہے تھے۔ انہیں بتا رہے تھے کہ انگلینڈ ٹیم کس بری طرح سے ہار جانے والی ہے۔

یہ سب ہونا معمول ہے۔ فٹ بال کی دنیا میں جو نہیں ہوتا ہی کم ہوتا ہے۔ شائقین جتنا زیادہ کرتے ہیں۔ کم ہی کرتے ہیں۔ فٹ بال فیور اسٹیڈیم کے اندر اتنے ہائی ٹیمپریچر پر ہوتا ہے جیسے وہاں اہتمام سے آتش فشاں پھٹنے والا ہو۔ اس فیورکا تصور اسکرین سے میچ دیکھنے والے کرہی نہیں سکتے۔

وہ۔۔ ویرا۔۔ کارل اور چند دوسرے یونی فیلوز آگے پیچھے بیٹھے تھے۔ انہوں نے انگلینڈ ٹیم کی شرٹس پہن رکھی تھیں اور کارل، ویرا نے اچھل اچھل کر سارا اسٹیڈیم ابھی سے سر پر اٹھا لیا تھا۔ عالیان خاموش بیٹھا انھیں ناچتے دیکھ رہا تھا۔

ایسے ہی ناچتے کودتے کارل نے ایک پیاری سی بچی کی گود میں رکھے سینڈوچز غائب کر دیے۔ بچی جس کے ماما، پاپا اس کے پاس ہی کھڑے تھے، اپنی دھن میں اچھل رہے تھے تاکہ وہ اسکرین پر نظر آسکیں۔ ایک دم سے اپنی گود خالی پا کر رونے لگی اور اپنے اچھلتے کودتے باپ کی شرٹ کھینچنے لگی۔

" شرم کرو لٹل اینجل کو رولا دیا۔"عالیان نے تیزی سے چلتے اس کے جبڑے کو دونوں ہاتھوں میں سختی سے دبا کر کہا۔ بچی ان سے ذرا سی دور ہی بیٹھی تھی۔

"اینجل تو کسی نہ کسی طرح زندہ رہ ہی لیتے ہیں، ہم شیطانوں کو اپنا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بھوک لگی تھی، میں نے محنت کی اور خوراک حاصل کرلی۔ ویسے بھی اس کا باپ اسے اور لے دے گا۔ میرا تو کوئی باپ نہیں ہے نا جو مجھے لے کر دے گا۔"

"میں ابھی بچی کے باپ کو بتاتا ہوں۔" عالیان اس کی طرف جانے لگا۔

"اگر تم نے یہ کہا تو برازیلا میں فٹ بال کی تاریخ کا سب سے بڑا ہنگامہ ہوگا اور وجہ صرف سینڈوچ ہوگا۔۔ ایک سینڈوچ کے لیےتم نجانے اتنے شائقین کو مروا دوگے اور کتنوں کو زخمی کرواکر عمر بھر کے لیے معزور کردوگے۔"

"یہ میں کروں گا؟"عالیان نے اس کے بال مٹھی میں جکڑ کے کہا۔

"ہاں تم ۔۔ صرف تم۔۔ " اس نے بھی عالیان کے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔ برازیلا اسٹیڈیم میں دو لڑکے ایک دوسرے کے بال مٹھی میں جکڑے کھڑے تھے۔

بچی کے ہاتھ میں اب ایک بڑی آئس کینڈی آچکی تھی اور کارل اب آئس کینڈی کو دیکھنے لگ تھا۔ بچی کے باپ نےپھرتی سے بچی کو چپ کروا دیا تھا۔

"تمھاری لٹل اینجل کی پسند اچھی ہے مجھے یاد آیا کہ میں آئس کینڈی کو بہت سے بہت مِس کر رہا تھا۔"  کارل نے آنکھیں گول گھمو کر کہا۔

عالیان ہنس دیا .'تم ایسے کیوں ہو?'

'لڈل اینجل سا?' کارل نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں ..'Big devil بگ ڈیول سا ?

 'کیا میں بگ ڈیول ہوں.. نہیں نا ? ' اس نء پیچھے بیٹھی قصہ گو کی طرف رخ مور کر کہا اور رشوت کے طور پر چاکلیٹ نکال کر آگے کی 

عالیان پھر مسکرایا 'بند کرو اپنا یہ ڈرامہ'

'ویسے تم نہت گم صم سے ہو ..کچھ ہوا ہے  ?

میں ٹھیک ہوں .. ہونا کیا ہے ? کارل کی نظروں سے وہ بچ نہیں آسکتا تھا 

کچھ ہے تو بتاؤ فرش .. تم شور سے پریشان ہو ..

یو نو می سارااسٹیڈیم خا لی کرواسکتا ہوں ابھی جا کر برازلین فین کو دبوچ لیتا ہوں اور اسکی ٹیم کے بارے میں بھرکتا ہوا جملہ کہہ دیتا ہوں..بس پھر گیم شروع اور یاں جو افواہ میں بم کی یہاں پھیلا سکتا ہوں..وہ بم بننے سے اب تک کسی نے نہیں پھیلائ ہو گی..بس پھر اسٹیڈیم خالی '.

اتنے پیسے لگا کر ہم میچ دیکھنے آئے

 ہیں خالی اسٹیڈیم نہیں '

پتا نہیں کیوں مجھے میچ دیکھنے سے زیادہ دلچسپی کسی اور چیز کو دیکھنے میں ہے بڈآی اگر میں شائقین کو آپس میں لڑوادوں تو کیسا رہے گا  میچ تو کئ بار دیکھ چکے ہیں ہم اب ذرا یہ بھی تو دیکھیں براہ راست ہنگامہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے ?'

'شیشے کی خالی بوتلیں تمہارے سر پر لگیں گی نا تو مزہ آ جائے گا براہ راست ہنگامہ دیکھنے کا'

وہ انسان ابھی بنا نہیں جو کرل کے ساتھ یہ کر سکے .. کارل ادھر ادھر  دیکھنے لگا اور کس کے پا س سے کھانے کی چیز اڑائ جا سکتی ہے

'وہ بنا بنایا انسان تمہارے ساتھ بیٹھا ہے '

'تم بھی کارل ہو' کارل نے اس کے دونوں گال مروڑے

میچ شروع ہونے میں ابھی وقت تھا بڑی بڑی اسکرینوں پر اسٹیڈیم پر موجود شائقین دکھائے جا رہے تھے 

'یہ مقامی شائقین  تو ابھ سے پاگال ہو رہے ہیں' کارل نے زرا دور موجود ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو اپنی ٹیم کے حق میں عجیب و غریب نعرہ لگا رہا تھا 

'تمھارا اھی نشہ ٹوٹ رہا ہوگا , جا کر تم بھی اس کے ساتھ پاگل ھو جاؤ'عالیان نے اسی لڑکے کی سمت دھکہ دیا 

امرحہ نے سائ کو منی کر دیا تھا کہ وہ ویرا کو نہ بتائے کہ وہ وہاں موجود ہے انہیں سائ کی آمد کا پتا تھا  اسکی نہیں .. ویسے بھی انہوں نے کل چلے جانا تھا این اور امرحہ نے بھی انگلینڈ ٹیم کی شرٹس پہن رکھی تھیں 

این ایسے اچھل رہی تھی جیسے جاپانی نا ہو بلکہ برطانوی ہو اور اسکا ایک آدھ بھائ یا دوست ٹیم میں شامل ہو . اس نے ٹیم کی نمائندگی کرتی لمبی سی ٹوپی بھی پہن تکھی تھی اور منہ کو پورا رنگا ہوا تھا  ساتھ ہاتھ میں بورڈ پکر رکھا تھا 'ٹرافی ہماری ہے' جس پر پیچھے کہیں سے کسی نے  کلر بال پھنک کر اسے بد نما کر دیا تھا یعنی ٹرافی انگلینڈ کی نہیں برازیل کی ہے

منظر کچھ ایسا تھا جیسے ولڈ کپ فائنل ہو 

امرحہ کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی وہاں آکر ..ویسے بھی عالیان نے رات کو جو کال کی تھی اور کسی بھی وجہ کو لے کر کی تھی ..اس کے لئےبہت بڑی بات تھی وہ بھی کھڑی ہر کر اہن کے ساتھ اچھلنے لگی اور ریہرسل کے طور پر بنائ جانے والی 'ویز' کا حصہ بننے لگی پورے اسٹیڈیم میں لہریں گھوم رہی تھیں اور یہ قابل دید منظر تھا 

وہ ہنسے لگی .. اسے سب اچھا لگا جیسے سارے غم بس مٹ گئے 

عالیان .امرحہ ..ویرا اور کارل ایک ساتھ چلائے ..

اسکرین پر اچھلتی این کے قریب وہ کھڑی تھی اور اپنی طرف آنے والی لہر کو دیکھ رہی تھی تینوں نے اسے دیکھ لیا تھا  ویرا، نے اسے فون کیا 

تم کہاں ہو امرحہ؟ 

وہ ہنس دہ اسٹیڈیم 

پاگل گندی بچی بتا نہیں سکتی تھی 

میں نے سوچا سرپرائز دوں

سرپرائز اسکرین پر آ کر  ویرا بہت خوش تھی اسے دیکھ کر 

این اور امرحہ سائی کے ساتھ ہیں ویرا نے سب کو بتایا 

تم نے بتایا نہیں کے تمہارے ساتھ امرحہ بھی ہے عالیان نے سائی کو فون پر کہا 

اس نے منا کیا تھا  عالیان

عالیان خاموش ہو کر اسکرین کی طرف دیکھنے لگا وہ پھر سے نظر آ جائے مگر اب کھلاڑی کھیل رہے تھے 

امرحہ کے پیچھے فاؤل فاؤل کے نعرے لگنے لگے 

یہ کیا ہو رہا ہے سائی کوئی لڑائی ہو رہی ہے کیا؟ امرحہ سہم گی

یہ سب ہوتا ہے امرحہ آخری منٹوں میں دیکھنا کیا ہو گا 

دوسرا ہاف ختم ہونے والا تھا ویرا کو میسج آیاوہ پڑھ کر پریشان ہو گئی 

کیا ہوا شاہ ویز نے پوچھا؟ 

میرے دوست کا میسج ہے اس نے کہا کوئی ہنگامہ ہونے کی خبر ملی ہے 

کیسے ہنگامے کی؟ 

زیادہ اسے بھی نہیں پتا کوئی غیر ملکی نے نشانہ بنایا ایسا ہی ہے کچھ 

ایسا کچھ نہیں ہو گا ایسی خبریں پھیل جاتی ہیں  یہاں بہت اچھی سیکیورٹی ہے پولیس جانتی ہے امن کیسے رکھنا ہے تمہیں خبر ملی انہیں بھی تو ملی ہو گی

کارل نے کہا اچھا ہنگامہ ہو ہی جائے میں بھی تو دیکھو فلم بنا ٹیکٹ کے 

اور پھر تمارا دوست کنفرم بھی نہیں عالیان نے کہا۔

ویرا نے سب دوستوں کو میسج کر دیا کے میچ ختم ہوتے ہی فورا اسٹیڈیم سے نکلیں کوئی خطرہ مول نہیں لینا کوئی بدمدگی نظر آئے تو پرسکون رہیں

Pg# 219 

آخری پندرہ منٹ میں برازیلیں کھلاڑیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن آخری چھٹے منٹ میں گول انگلینڈ نے کردیا۔

جوش اور افسوس سے ٹیموں کے شائقین نے اسٹیڈیم سر پر اٹھا لیا۔ سائی ویرا کا پیغام پڑھ چکا تھا۔ اس نے امرحہ اور این کو چلنے کے لیے کہا۔ عالیان اور ویرا اٹھ چکے تھے جبکہ اچھلتا کودتا کارل پہلے ہی کہیں غائب ہوچکا تھا۔ ویرا نے اب واضح خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ کہیں کوئی ایسا نعرہ گونجتا کہ اس حصے میں بات بڑھ جاتی۔ میچ کے دوران گالی گلوچ، ہاتھا پائی، توتڑاخ، خالی بوتلیں پھینکنا عام باتیں تھیں، لیکن ایسی تندی اور طیش نہیں ہوتا تھا جو اب دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے سب جان بوجھ کر کیا جا رہا تھا۔

"سائی نکل چکا ہے؟"عالیان نے پوچھا۔

"ہاں۔۔ اس نے کہا وہ جا رہا ہے۔"ویرا نے فون کان سے ہٹایا۔

وہ دونوں اسٹیڈیم سے سے باہر نکل آۓ۔ ابھی وہ سڑک تک ہی آۓ تھے کہ پولیس کی نفری تیزی سے اسٹیڈیم کی طرف بھاگتی ہوئی نظر آئی۔ ان کا انداز الرٹ تھا۔ ایک دم ہی اسٹیڈیم کے باہر اسٹیڈیم کے اندر کچھ ہوجانے کا منظر نمایاں ہوگیا۔

"چلو عالیان ۔۔ جلدی چلو۔" ویرا آگے کو بھاگی وہ بھی سڑک پر اس کے ساتھ بھاگا اور ذرا دور جاکر رک گیا۔

"کیا ہوا۔؟" ویرا پلٹی۔

"امرحہ۔" اس کے چھرے کے سارے رنگ اڑ گئے اور اسے دیکھ کر ویرا کی اپنی شکل پر ساۓ لہراۓ۔

ویرا نے فون نکالا۔۔ امرحہ کو فون کرنے کے لیے۔۔لیکن عالیان پہلے ہی کال ملا چکا تھا۔

دو بار بیل ہوئی ۔" ہیلو۔" امرحہ کی آواز آئی۔

"امرحہ !تم کہاں ہو؟"

الفاظ پورے ادا نہیں ہوۓکہ فون ڈیڈ ہوگیا۔ اس نے دبارہ کال ملائی، لیکن فان بند جا رہا تھا۔

---------------------

اس کا فون بند جانا ہی تھا۔ اس کے فون کی بیٹری نکل چکی تھی اور وہ کہیں دور گر گیا تھا۔ اور وہ خود بھی گر گئی تھی۔ وہ بس نکل جانے کو ہی تھے کی بھڑکا ہوا ایک گروپ اوپر سے گھتم گھتا ہوتا ان کے اوپر آکر گر گیا۔ امرحہ  کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا اور  اس کے سر سے خون نکلنے لگا۔ سائی نے جلدی سے اسے اٹھایا۔ ایک مقامی فین نے سب کو دھکا دیا۔ سائی بھی دور جا کر گرا۔

میچ کا آخری منٹ ختم ہوچکا تھا۔ انگلش ٹیم جیت چکی تھی اور فوراً اسٹیڈیم میں مختلف جگہوں پر گروپ کے گروپ آپس میں  الجھ کر گھتم گھتا ہو گۓ۔ اور ایک دوسرے پر مختلف ٹھوس چیزیں پھینکنے لگے تھے۔ اس سارے عمل کو تیس سیکنڈ بھی نہیں لگے ہوں گے، جیسے سب کھچ  پلان تھا کہ ایسا ہی ہونا ہے۔

اسٹیڈیم کی اندرونی حالت ایک دم سے بدلی اور عام شائقین سہم گئے۔ منظر ہولناک ہوگیا۔ شور بڑھ گیا اور ہنگامے کے آثار نمایاں ہو گئے جو چھپا ہوا تھا وہ نکل آیا۔ اسٹیڈیم نے جنگ کا میدان بدنے میں ایک منٹ کا وقت بھی نہ لیا۔ این کہیں آگے نکل چکی تھی۔ امرحہ کوسر پر چوٹ کی وجہ سے بری طرح سے چکر آرہے تھے۔ سائیبھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اکیلی دھکےکھاتی، جگہ بناتی آگے بڑھنے لگی کی ایک ہپی لڑکے نے اسکا بازو دبوچ لیا۔ سیکیورٹی فوج تیزی سے اندر داخل ہو رہی تھی۔ ساتھ ہزار شائقین کے ہجوم میں ایک دم سے بھگدڑ مچی۔ تیزی سے باہر نکل جانے کا انداز ایسا ہوگیا کہ قیامت آگئی ہو۔ خالی بوتلیں اور جسم کے  دوسرے حصوں پر آکر رلگنے لگیں۔  دوبارہ امرحہ کی کمر پر کوئی وزنی چیز آکر لگی۔ جس نے اس کا بازو دبوچا تھا۔ پوری قوت لگا کر اس سے بازو چھڑوا کر وہ آگے کو بھاگی تھی۔ لیکن اس کے بازو پر پھر وہی گرفت پڑی اور سرخ آنکھوں والے اس عادی  نشی ہپی لڑکے نے اس کی گردن پر جھک کر کاٹنا چاہا۔ امرحہ نے پوری شدت سے چیخ ماری۔

اس کا فان بند جا رہا ہے، یہ معلوم ہوتے ہی اپنا فون سڑک پر ہی پھینک کر وہ روش میں  مخالف سمت بھاگا، ویرا بھی اس کے پیچھے لپکی۔

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

"تم اس گیٹ کی طرف جاو میں دوسرے گیٹ کی طرف جاتی ہوں۔" بھاگتے ہوۓ ویرا چلائی۔

اس کے بھاگنے کے انداز میں ایسی شدت تھی کہ وہ بہت سو کو پھیلانگتا، گراتا ، دھکے دیتا ہوا آگے بڑھا۔ ایک ہجوم تھا جو منتشر باہر نکل رہا تھا اور پولیس کی نفری بڑھتی ہی جا رہی  تھی۔ جو ہجوم میں نظم لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بچوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بھگدڑ کا ماحول تھا۔

"امرحہ " وہ پوری قوت سے رش میں گھس کر چلانے لگا۔ اس کی آواز میں ایسی گرج تھی کہ اتنی افراتفری میں بہت سوں نے اسے گھری ردن موڑ کر دیکھا۔

"امرحہ " وہ پھر چلایا اس کی سانسیں بے قابو ہورہی تھیں۔ اگر امرحہ فوراً اس کے سامنے آجاتی تو وہ زمین پر گر جاتا۔ اس میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ وہم اسے ہولانے لگے تھے اور خوف نے اس کے دل پر پنجے گاڑ دیے تھے.

۔ اسے الہام ہوا اور وہ گیٹ سے اندر ہوگیا۔ پولیسکی نفری کھڑی سب کو باہر نکال رہی تھی۔لیکن وہ سر کو جھکا کر اس کے پقر ہوگیا۔اس نے پورے اسٹیڈیم کے ہزارو چکر بھی لگانے پڑے تو اسے کم لگتے اس انسان کے لیے جسے ڈھونڈا جارہا تھا۔

امرحہ باہر ہوسکتی تھی اسے یہ خیال آیا لیکن اس کا وجدان اسے بتا رہا تھا کہ وہ اندر ہی ہے اور ٹھیک نہیں ہے۔

اس نے ا کا بازو کسی خنخوار جانور کی طرح پکڑ رکھا تھا اور وہ اسے گھسیٹ کر کسی خاص سمت لے کر جارہا تھا۔ وہ چلا رہی تھی، خود کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اس ہپی کے دوسرے ساتھی نے اس کے گرد گھیرا سا بنا لیا تھا اور اسے مضبوطی سے کمر سے پکڑ رکھا تھا اور وہ دونوں آپس میں اپنی زبان میں بات کر رہے تھے جسے امرحہ نہیں جانتی تھی۔

عالیان تیزی سے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا  اور اسے مسلسل آوازیں دے رہا تھا، 

ہیلی کاپٹر گراؤنڈ کے اوپر پرواز کرنے لگے۔ یعنی معاملہ شدت اختیار کر چکا تھا۔

سیکیورٹی فورس ہر طرف پھیل رہی تھی۔ کہیں سیکیورٹی فورس اور شائقین میں تصادم ہورہا تھا۔ کہیں شائقین اور شائقین میں ۔ معاملہ ایسے بگڑ رہا تھا جیسے جلتی آگ پر تیل ڈالا جا رہا ہو۔

وہ اسے دیے وسرے گیٹ سے نکال کر باہر لے جا رہے تھے۔ ان کا انداز کچھ ایسا تھا کہ وہ اسے گاڑی میں ڈال کر لے جانے والے ہیں۔ وہ معاشرے کے موقعے سے فائدہ اٹھانے والے ناسور تھے جو ہر جگہ پاۓ جاتے ہیں اور اپنی بد خسلتیسے باز نہیں آتے۔ کارل کو سائی مل گیا تھا اور اس نے امرحہ کے لاپتا ہونے کا بتا دیا تھا۔ دوسری طرف سے کارل آیا تھا۔ این، سائی، شاہ ویز اور چند دوسرے اسٹوڈینٹس اسے رش میں باہر دیکھ رہے تھا۔ سائی نے سب کو فون کر کے بتا دیا تھا، کیوں امرحہ کا فون بند جا رہا تھا تو اسے ڈر تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔

کارل کی نظر دور سے امرحہ پر پڑی اور وہ تیزی سے بھاگتا ہوا اس کی طرف آیا۔ وہ عام نارمل انداز میں نہیں چل رہی تھی۔ اسے ایک لڑکا گھسیٹ رہا تھا اور دوسرا باا بار اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا منہ دبا رہا تھا۔ کارل اس کے پاس پھنچتا اس سے پہلے عالیان سیٹیں پھیلانگتاپوا ان کے قریب چلا گیا۔ وہ پیچھے کہیں سے بہت تیزی سے بھاگتا ہوا آیا تھا اور آتے ہی اس نے ان لڑکوں کو لاتیں اور گھونسیں مارنا شروع کر دیے۔ کارل بھی پھنچ گیا اور  جس کی گردن ہاتھ آئی دبوچ لی۔

امرحہ بری طرح سے خوف زدہ تھی۔ وہ کانپ رہی تھی اور اس کے سر سے خون نکل رہا تھااور ناک منہ سے بھی۔

دولڑکے پہلے ہی بھاگ گئی اور ایک کارل سے خود کو چھڑا کر بھاگا۔ امرحہ پر نظر پڑتے ہی عالیان کی آنکھيں نم ہوگئیں۔ اس نے ڈری سہمی امرحہ کو اپنے ساتھ لگا لیا اور ہاتھ سے اس کی ناک منہ کا خون صاف کیا اور اس کے سر کے زخم کو دیکھنے لگا۔

pg#221

"تمھیں کافی چوٹ آئی ہے۔" اس نے یہ کہا اور اس نے یہ سنا تو وہ فوراً خود کورونے سے روک نہیں سکی۔

"نہیں زیادہ نہیں مجھے بلکل تکلیف نہیں ہورہی اب۔" ٹوٹ ٹوٹ کر الفاظ نکلے جیسے جزبات کی شدت سے الفاظ بکھر سے گئے۔

اس کا سر عالیان کے سینے سے لگا تھا۔ اس سر پر لگی کتنی ہی بڑی چوٹ میں درد کیسے اٹھ سکتا تھا بھلا۔

کارل نے جلدی چلنے کا اشارہ کیا اور آگے بھاگ گیا۔ اسے اپنے ساتھ لگاۓ عالیان باہر کہ طرف آیا۔

 اور گیٹ سے باہر ہونے سے پہلے ایک زور دار دھکا لگا کہ امرحہ کا ہاتھ عالیان سے چھوٹ گیا اور وہ گر پڑنے کے انداز سے بہت آگے نکل گئی۔

"سڑک سے دور کسی محفوظ حصے کی طرف بھاگ جانا امرحہ ۔!" عالیان پیچھے سے چلایا اور پورا زور لگا کر اس نے ہجوم میں سے جگہ بنا کر آگے نکل جانا چاہا۔ امرحہ نے دھکے کھاتے، آگے بڑھتے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور عالیان کا دل وہیں ٹھر گیا۔

"احترام واجب ہے۔ سماں عشق ہے۔"

ہجوم نے اسے ایک اور دھکا دیا وہ آگے نکل گئ۔

دھکے نے اسے لڑکھڑا دیا اور وہ اور پیچھے ہوگیا۔

امرحہ نے پھر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

"وقت نے دغادی وہ وہیں ٹھر نہ گیا۔"

اگلے دھکے سے وہ باہر نکل گئ۔

سڑک کا منظر کچھ اور ہوچکا تھا۔ منٹوں کی گیم تھی۔ لمحوں میں بدل گئ۔ سیکیورٹی فورس منتشر ہجوم سے نپٹنے میں مشغول تھی۔ رات کا وقت تھا اور آنسو گیس کے دھوئیں نے رات کو خطرناک بنا دیا۔ ربڑ کی گولیاں فائر کی جا رہی تھیں۔ مختلف اشکال کے ماسک پہنے ہوۓ افراد سیکیورٹی فورس پر ٹھونس چیزیں اور انسو گیس اچھال رہے تھے۔ کہیں کچھ گروپس آپس میں متصادم تھے، کس فورس کے ساتھ۔۔

ایک بڑا ہنگامہ برازیلا اسٹیڈیم کے اندر اور باہر پھوٹ چکا تھا۔

ایک ایسا ہنگامہ جو سانحہ میں بدلنے ہی والا تھا۔ ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں چار سو گونج رہی تھیں۔دور دور تک سڑک پر ایک جنگ کا عملی منظر دیکھا جا سکتا تھا۔

"تصادم کی تصویر تھی اور بغاوت کی بو۔"

وہ سڑک پر نکل کر ایک سمت بھاگنے لگا۔ کارل اس کے پیچھے ہی تھا۔

"امرحہ کہاں ہے ؟"کارل نے چلا کر پوچھا۔

"اسے میں نے سڑک سے دور نکل جانے کے لیے کہا تھا۔" دو فائر فضا میں گونجے اقر چیخوں سے کان پھٹنے لگے۔ ان پر شیشے کی بوتلیں اچھالی گئں ایک نے آگے بڑھ کر کارل پر حملہ کرنا چاہا جسے کارل نے پہلے ہی دبوچ لیا اور سڑک کے ایک طرف نیچے زمین پر پٹخ دیا۔

وقفے وقفے سے،لیکن تیزی اور شدت سے انسو گیس اچھالی جا رہی تھی اور ربڑ کے فائر کیے جا رہے تھے۔ کون دفاع کر رہا تھا اور کون حملہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ عالیان تیزی سے سڑک پر بھاگ رہا تھا اور چلا رہا تھا۔" امرحہ ۔"

اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا۔ اسے اپنا خواب یاد آرہا تھا۔۔ اندھیرا۔۔ دھواں۔۔ تصادم اور خطرہ۔

نشانیاں اچھی نہیں تھیں۔ وہ ذرا دیر کو رک کر ہانپنے لگا۔ اس سے اگلا قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا۔ اس کے پیروں کے پاس آکر ایک گیس کا گولا گرا۔ وہ تیزی سے دوسری طرف ہوا۔ اس کے بازو پر ربڑ کی گولی آکر لگی، لیکن وہ رکا نہیں، اس کا جسم اسے حرکت کرنے سے جواب دیتا جا رہا تھا۔ اس کی کیفیت اس انسان سی ہوگئ، جسے اپنے کسی عزیز کے تابوتکو اٹھانے کے لیے کہاجاتا ہے اور وہ خود کو پہاڑ اٹھا لینے کے قابل تو سمجھ لیتاہے، لیکن تابوت نہیں۔

pg#222

برازیلا اسٹیڈیم دھواں اگلنے لگا۔ چند ایک جگہ آگ بھڑک اٹھی تھی۔ دھئیں کے پھیلاوں سے سڑک پر حرکت بحال ہوگئ۔

پوری قوت لگا کر وہ پھر بھاگا اور چلایا۔ "امرحہ ـ" وہ ساری دنیا کو آگ لگا دے گا۔ اگر کچھ ہوا تو وہ سب جلا ڈالے گا۔ اب وہ طیش سے سڑک پر بھاگنے لگا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ راستے میں آنے والوں کو روند ڈالے، کچل ڈالے، ورنہ حاق پھاڑ کر اتنی شدت سے چلاۓ کہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت ہوجائیں۔

اس نے پھر آواز دی۔ "امرحہ ۔"

---------------------

اس کا دوپٹا کب کا کہیں گر چکا تھا۔ اسے چلنے میں مسلہ ہو رہا تھا۔ چند لوگ اس پر آگرے تھے اور اس کی ٹانگ جیسے ٹوٹ ہی گئ تھی۔ دھوئیں کے بادلوں میں  اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سخت چبھن ہورہی تھی اور ان میں  سے مسلسل پانی نکل رہا تھا۔

وہ گبھی ایسے کسی تصادم سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو زندگی میں پہلی بار اسٹیڈیم فٹ بال میچ دیکھنے آئی تھی۔ اسے تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ہنگامی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے۔ اس وقت اس کی عقل بلکل ماؤف ہوچکی تھی اور وہ بری طرح سے سہم چکی تھی۔ اسے ہر ایک سے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی اسے گھسیٹے گا اور مار دے گا۔ سڑک کا منظر انتہائی ہولناک ہوچکا تھا۔ اس کا دل چاہا واپس اندر بھاگ جاۓ۔

اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرف بھاگے اور پھر جس طرف بہت سے لوگ بھاگے جا رہے تھے وہ بھی بھاگنے لگی۔ سڑک پر وہ سب منتشر ہوگئے۔ سیکیورٹی فورس کی نفری بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ پھر بھی تصادم تھمنے کا نام ہی نہیں  لے رہا تھا۔ وہ تیزی سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ لیکن اب وہ ڈیفنس کرنے کی پوزیشن میں آچکے تھے جو گروپس حملے رک رہے تھے، ان کے حملے بہت شدید تھے۔

صرف چند منٹ لگے یہ سب ہونے میں۔ صرف چند منٹ۔

عالیان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ٹھیک سمت بھاگ رہا ہے یا نہیں، بس اسے اس کا وجدان کہہ رہا تھا کہ اسے اسی سمت جانا ہے۔

ایک اور گولا اس کے ذرا پیچھے اور آگے آکر گرا۔۔ اور دھوئیں کے بادل پھیلنے سے پہلے اس نے امرحہ کو بہت دور دیکھ لیا۔ 

"امرحہ ۔" وہ پوری جان سے چلایا کہ وہ اس کی طرف دیکھ لے، لیکن وہ بہت دور تھی، اس سے ٹھیک سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ وہ ڈر کر کھڑی تھی۔ اس سے ذرا آگے ایک گروپ میں تصادم ہورہا تھا اور اس کے پیچھے گیس کے گولے پھینکیں جارہے تھے۔

فاصلہ سمٹا۔ وہ بھاگ کر اس کی طرف لپکا۔

سڑک کے دوسری طرف سے اس پار سے ویرا نے اسے دیکھ لیا اور وہ اس کی طرف بھاگی۔

"امرحہ۔"فاصلہ سمٹ چکا تھا۔ وہ اس سے کچھ ہی دور تھا۔ اب امرحہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

"ارتکاز واجب ہوا۔ سماں یار غالب آیا۔"

اور اتنی دور سے وہ عالیان کے اس طرح اپنی طرف بھاگتے آنے پر فدا ہوگئ۔

"محبت صبح کا عالم ہے۔ اس میں رات نہیں ہوتی۔"

وہ اس کے لیے کیسے بھاگا پھر رہا تھا۔

"محبت ابد کی گھڑی ہے۔ یہ فنا نہیں ہوتی۔"

جو ہوچکا تھا اب تک۔ وہ مٹ چکا تھا۔

"محبت، طرب کا ساز ہے اس میں آہ نہیں ہوتی۔" جو فاصلہ تھا وہ کم ہونے لگا تھا۔

"کہیں مت جاؤ۔" دھوئیں کے بادلوں نے دو لوگوں کی ایک سوچ کو جا لیا۔" اب کہیں مت جاؤ۔"

وہ عالیان کی طرف گھوم چکی تھی اور اس کی طرف آرہی تھی۔

اور ایک بھڑکے ہوۓ لڑکے نے انگلینڈ ٹیم کی شرٹ پہنے ایک لڑکی کے سر پر شیشے کی وزنی بوتل سے ضرب لگائی۔

وہ لڑکی جو امرحہ تھی۔ ویرا بجلی کی سی تیزی سے امرحہ کی طرف لپکی۔

شرٹ پہنے ایک لڑکی کے سر پر  شیشے کی وزنی بوتل سے ضرب لگائی ۔

وہ لڑکی جو امرحہ تھی ۔ویرا بجلی کی سی تیزی سے امرحہ کی  طرف لپکی۔

کارل اور سائی بھی اگے پیچھے اس کی طرف آ رہے تھے اس کے سر پر  چوٹ لگتے دیکھ کر عالیان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی وہ  بھاگتے بھاگتے روک گیا کیونکہ 

دو فائر ہوئے 

برازیل کے اسٹیڈیم کے باہر پھیلا دھواں عالیان کی آنکھوں میں گھس آیا ۔سارا بھاگتا دوڑتا ہجوم اسے پاؤں میں دوندتے جا رہا تھا 

وہ جہاں تھا وہی کھڑا رہا 

ایک فائر ربڑ کی گولی کا تھا 

ویرا پوری شدت سے چلائی اور سب پر پھلانگتی ہوئی اس کی طرف آئی۔

دوسرا فائر ربڑ کا نہیں  تھا 

کارل اور سائی نے کتنے لوگوں کو دھکے دے کر اس تک پہنچنا چاہا کچھ فاصلے دائمی جدائی کے ہاتھوں طے پاتے ہیں اس سے پہلے نہ خبر ہوتی ہے نا احساس 

وہ سڑک پر گھٹنوں کے نل گری اور پھر پشت سڑک پر جا لگی۔خون اس کے گرد پھیلنے لگا

امرحہ اس نے چلانا چاہا مگر چلا نہیں سکا وہ وہی کچھ دور تھا جو امرحہ کا عالیان تھا ۔

اس نے اسکی طرف بھاگنا چاہا بھاگ نہیں سکا

تو یہ ثابت ہو گیا جسم سے جان اس وقت نہیں  نکلتی جب اپنی جان نکلتی ہے یہ جان اس وقت نکلتی ہے جب جان سے پیارے کی جان نکلتی ہے ۔

دعا واجب کر دی گئیں اسمان پر منادی ہوئی

اس کے جسم سے جان نکل گئی اور وہ گھٹنوں کے بل سڑک پر گرتا چلا گیا 

امرحہ کے پاس پہنچے سے پہلے کارل نے عالیان کو دیکھا تو اس نے جانا کے ایک مر چکا ہے دوسرا مرنے جا رہا ہے 

کیونکہ عالیان نے اس انسان کی آنکھیں بند ہوتی دیکھ لیں

جس میں اس نے خود کو بند کر لیا تھا 

اسکی آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا ان کا رنگ سرخ نہیں تھا

امرحہ کے وجود سے عالیان کی اپنی زندگی قطرہ قطرہ پہنے لگی۔

اے آنکھ تو کیوں روتی ہے قافلے والے چلے گئے 

وہ پیچھے اکیلا چھوڑ گئے اے آنکھ تو رونا بند کر

اس قافلے میں میرا محبوب تھا افسوس ہاًں پھر تو  رو

سانس روک لی دل دھڑکنا بھول گیا 

امرحہ اور عالیان کے درمیان اس کششِ کا فاصلہ وقت کیسے کرے گا عالیان کی زندگی میں امرحہ ایک خوبصورت یاد بن کر رہے گی ۔

یوں جیسے امیر شہر مچان پر کھڑا رہ گیا ہو اور زہر بجھے نیزوں نے اس شہر کی زندہ سانسوں کو مالِغنمت سمجھ کر لوٹنا شروع کر دیا ۔

نکر حیات پر  آگ کے گولے برسائے جانے لگے ۔اور خاتمے کی راگ دیمک بنی گس گئ ہے 

امیر جہاں اپنے لوٹنا سڑک پر دیکھ رہا تھا 

موت کی سانس اس ہو کرتیں پھر بھی وہ زندگی کی لو پھونک مار کر بھجا دینے کا اختیار بحکم خدا اپنے پاس رکھتی ہے 

اس کے شہر یہ پھونکیں تیز آندھی کی طرح چلیں۔

امر اور  مرن زندگی دو لفظ ہیں ۔

سیکیورٹی فورس نے امرحہ کی طرف یکدم یلغار کی اور اس کے گرد اپنی ڈیفنس شیلڈر لیے دائرے میں کھڑے ہو گئے اور دوسرے کچھ کھڑے کچھ گھٹنوں کے بل۔

Pg#180

 ۔پوزیشن لیے ربڑ کی گولیاں فائر کرنے لگے، جبکہ وہ اس طرف ایسے ایستادہ جیسے اب وقت آخر تک یہی حکم اس پر مہر تھا۔

شور ایک دم دھماکوں کی صورت پھٹا۔ انسانی بستی کے گولے نے  کشش کا تھال الٹ دیا اور برازیلا اسٹیڈیم زمین سے پہلے اٹھا اور پھر ہر چیز اپنی حد بندی سے نکل جانے کے لیے اپنی حدوں کی نافرمان ہوئ اور عمارتیں اور لوگ بے وزن ہونے لگے۔ پھول اور درخت۔ جھیلیں اور ابشاریں۔ سبزے اور خطےکرہ زمین سے اٹھنے لگے۔ بہاریں اور نغمے۔ ابابیلیں اور فاختائیں۔ خوشبوئیں اور میوے بھی پیچھے نہ رہے۔

"اور اے ابن الوقت! ان دو لفظوں کی حقیقت مجھ پر اب کھلی۔"

"امر "یار کا ہونا اور "مرن"اس کا نہ ہونا۔

اپنے ہی جسمکے جلنے کی بو بلا تامل اس کے نتھنوں میں گھسنے لگی۔ حرکت کرنے کے لیے جو طاقت درکار تھی، وہ اس کے دائراہ اختیار میں نہ تھی۔ کارل،ویرا یا سائی اس طرف اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ وہ اس طرف سامنے امرحہ  کے پاس تھے۔ جو شدت تکلیف میں ہوگی یا اس سے مبرا ہوچکی ہو گی۔

الہام اس کے کانوں میں پھونکیں مارنے لگے اور پیش گوئی کی زبانیں نکل آئی۔

سائرن بجاتی ایمبولینس آئی۔ سیکیورٹی فورس نے جیسے اب دبنگ دھاوا بول دیا اور سڑک سے ہجوم ایسے چھٹنے لگا جیسے وہ سب اسی ایک سانحے کے انتظار میں تھے، جو عالیان پر گزر چکا تھا۔ ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے تھے۔ ایمبولینس اور رضاکار تیزی سے حرکت میں آچکے تھے۔ فورس سڑک پر اور اطراف میں جال کی طرح پھیل گئ۔ دو اہلکار دور سے عالیان  پر بھاگتے ہوۓ چلاۓ، پھر ایک چلاتے ہوۓ اس کے قریب آیا اور جھک کر اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا کر گھسیٹنے لگا۔ ساتھ وہ تیز آواز میں کچھ کہہ رہا تھا اور پھر اتنی افراتفری میں  اس نے ذرا کی ذرا جھک کر اسے دیکھا چوک گیا۔

"تم ٹھیک ہو؟"اس نے پوچھا۔

ایمبولینس اب جا رہی تھی۔ اور وہ اس کے قریب سے گزر گئ۔ نتھنوں سے بو اس کے اندر اترنے لگی۔

امیر شھر نے اپنی ہتھیلیوں کو خولی پایا۔ جیسے ابتداۓ وقت سے اٹھا ہجر وصل کی دھرتی پر قیام گاہ بناتا، ابدیت کی مشعلوں سے روشن" شھر" اجڑ گیاـ

"تو امرحہ چلی گئ۔  یا جا رہی ہے۔ یا چلی جاۓ گی۔"

دل نے دھڑکنیں مستعار لیں، سانسو نے زندگی کو التجائیہ صدا دی اور اس کے مجسمے میں سیکیورٹی اہلکار نے اسے ایک محفوظ حصے کی طرف اچھال سا دیا ارو تیز آواز میں ایک سمت چلے جانے کا اشارہ کیا لیکن وہ سیکیورٹی اہلکار کے بتاۓ اشارے کی مخالف سمت بھاگا اور راستے میں آنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو دھکیلتا اور پھیلانگتا اس مقام تک پہنچ گیا ، جہاں سڑک سرخ تھی اور کانچ کی بوتلیں ٹوٹی ہوئی بکھری پڑی تھیں اور خون کے چھینٹے کانچ پر جمع تھے۔

اس بار تین، چار اہلکار اس کی طرف لپکے کہ اسے اٹھا کر کہیں پھینک دیں کہ وہ تیزی سے ان سے ٹکراتا ہوا اس جگہ پر جھک کر بیٹھ گیا اور خون پر اپنے ہاتھ رکھ لیے۔

"اور سن اے شھر یاراں کی ملکہ ! اس میں ذرا وقت نہ لگا اور میں  تم ہوگیا اور تم ہی رہ گیا۔"

اور اس کے آنسوں  اس خون پر گرے جو امرحہ کا تھا۔ اہلکاروں نے اسے کوئی ضدی۔۔ عجیبب وغریب حرکتیں کرنے والا فین سمجھ کر گردن، بازو اور کالر سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے دور لے جانے لگے۔

---------------------

جب اسے ایسے سڑک سے دور لے جایا جا رہا تھا تو سائی نے پیچھے سے چلا کر اس کا نام لیا۔

"کب سے ڈھونڈ رہا ہو تمھیں کہاں تھے تم؟"

سائی اس کی طرف بھاگا آیا اور اپنایونی ورسٹیراز دکھایا۔اہلکار نے اس کا بازو چھوڑ دیا تیز تیز یہ کہہ کر چلا گیا کے  جلدی اپنی جائے رائش کی طرف چلے جائیں 

اس دوران عالیان سہم کر سائی کو دیکھ رہا تھا پھر سائی سے الگ اگے تیز تیز چلنے لگا۔سائی کے  لیے  عالیان کی یہ حرکت غیر متوقع تھی ۔

عالیان سائی چلایا اور اس کے پیچھے لپکا۔

کہاں جا رہے ہو اس کی طرف تیز چال چلتے ہوئے سائی نے ہانپ کر کہا ان چند منٹوں کی بھاگ دوڑ میں وہ بری طرح تھک چکا تھا 

یہ اب مجھے بتائے گا کہ امرحہ کے ساتھ کیا ہوا؟ 

عالیان بھاگنے لگا اس نے سوچا کہ اب بس دنیا میں کئ جاچھپے کے اسے معلوم ہو سکے اور نہ کوئی اسے بتا سکے کے امرحہ چلی گئی وہ کبھی بھی اس کی بند آنکھوں کو اپ ی کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے گا کبھی نہیں 

عالیان تم اسپتال جا رہے ہو اس کے ردِعمل سے سائی چلایا 

اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عالیان کیا کر رہا ہے 

یا پھر یہ اپنا دماغی توازن گھو گیا ہے ۔

عالیان نے رفتار تیز کر دی اپنے بگڑے دماغی حالت کی تصدیق کر دی۔سائی نے جیسے بھانپ لیا اس کا دل بھر آیا

اسٹیچر پر جاتے ہوئے اس نے تمارا نام لیا تھا سائی نے چلا کر کہا۔

خود اگے نکلتا ہوا سڑک کو پیچھے چھوڑتا ہوا عالیان رک گیا ایمبولینس فائر برگیڈ کی گاڑیاں آ جا رہی تھی اس نے پلٹ کر سائی کو دیکھا پھر شجر ستاروں سے بھرا آسمان دیکھا جیسے خدا تک جانے کا رستہ تلاش کر رہا ہو۔

وہ زندہ ہے نا سائی وہ دونوں فاصلے سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے 

آؤ اسپتال چیلں عالیان سائی اس کے پاس آ چکا تھا اپنی ہاتھ سے اس کے گیلے گال صاف کر رہا تھا ۔

خدا کے لیے بتاؤ سائی؟ 

اسے کچھ نہیں ہو گا عالیان اس نے محبت سے عالیان کے ہاتھ تھام کر دبا کر کہا جو کہنا ضروری تھا پر امید رہنا بہت ضروری تھا 

اسے کچھ نہیں ہوا یہ کہہ دو خدا کے لیے ۔

pg#182

اس نے اپنے ہاتھ چھڑوا کر سائی کو شانو سے تھام کر جھنجھوڑا۔

"پلیز کہہ دو۔۔" کھڑے ہونے کی طاقت پھر سے ختم ہونے لگی اور وہ کھڑے رہنے سے معزور اور گر جانے پر مجبور ہوگیا۔ سائی اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا اور اس کے گال کو شفقت سے چھوا۔

"آؤ عالیان ! ہم خدا سے دعا کریں۔"

تھوڑی دیر ان کے درمیان خاموشی رہی ، جیسے انہونی کی چاپ پر کان دھرنے جارہے ہوں۔

"آؤ۔۔ ہم امرحہ کے پاس چلیں۔" سائی نے کہا جس پر عالیان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ دیکھنے کا یہ انداز امید کی کرن کھوجنے جیسا تھا۔

کیا روم کے مصوروں نے "عشق عیاں" کے ساۓ تلے بناۓ اپنے شاہکاروں پر سیاہ دوات انڈیل دیں، جبکہ اس کے وجدان نے سنگ دلی کو آنکھوں پر بٹھاۓ اور رحم دلی کو بالاۓ طاق رکھتے اپنے مرتب سوال نامہ میں  سے پہلا سوال اس پر داغا اور وہ بلبلا اٹھا۔

"کیا الہامی اوراق حکم کی بجاآورئ کے لیے رازداری اور پوشیدگی سے پھڑپھڑاۓ؟"دوسرے نے پہلے وجدان کو مات دی۔

اور کیا دجلہ وفرات میں جوار بھاٹا اٹھا اور پربت کی چوٹیاں سوگ میں اس لیے جھک آئیں کہ آفاق نے تمھاری دعاؤں کو الٹ دیا، کیونکہ انہوں نے "ہجریار" کو مر قسم پایا۔ اور کیا سزا کے لیے تمھارا زندہ رہنا قائم ٹھرا، اور مبارک ساعتوں کو ہمیشہ کے لیے رخصت کر دیا گیا۔

سائی نے دیکھا کہ وہ سکڑتا جا رہا ہے جیسے مٹ جانے کو ہے۔

کیا "بحریاراں"پر رواں سفید بادبانی کشتیاں بس ڈوب جانے کو ہوئیں اور "مشک آہوں" مثل کافور۔۔ "کافور" ہوا۔

---------------------

ہسپتال میں کھڑے اس کی آنکھيں خشک ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔ کارل، ویرا ، سائی اور باقی سب اس کے ارد گرد، آس پاس کھڑے تھے۔ ویرا اس کا ایک ہاتھ اپنے ہوتھ میں  لے کر سہلا رہی تھی۔ اس کے اپنے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ زندگی میں پہلی بار کمزوری اور کم ہمتی کا شکار ہوئی تھی۔ ساری انسانی طاقت سب ایک جگہ بے بس ہوجاتیں ہیں جہاں "ہوجا "کاحکم لگ جاتا ہے۔

کارل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ عالیان سے ایسا کیا کہے کہ وہ آرام سے کہیں بیٹھ جاۓ اور پانی کے دو گھونٹ ہی پی لے۔ دیوار کے ساتھ لگ کر وہ کب تک ایسے ہی کھڑا رہنا چاہتا ہے جیسے "آنے والوں" اور "جانے والوں" کا راستہ روک لے گا۔

رات کے دو بجے کا وقت ہے ان سب کو وہاں کھڑے کئی گھنٹے گزر چکے ہیں۔ آپریشن تھیٹر سے امرحہ کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ وزنی بوتل کی دو ضربیں اس کے سر کے پچھلے حصے اور گرسن سے ذرا نیچے لگی تھیں۔ گولی اس کا بایاں شانہ چھو کر گزری تھی۔ وہ گولی اس کے دل، اس کے سر، اس کی آنکھ پر لگتی اگر بوتل کی ضرب سے وہ اپنا توازن کھو کر لڑکھڑا نہ جاتی۔۔ پھر وہ وہی مر جاتی۔

کتنی ہی بار لیڈی مہر، سادھنا،شارلٹ، مورگن فون کر چکی تھیں، لیکن عالیان نے کسی سے بھی بات نہیں کی تھی۔ وہ بس خاموش کھڑا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا مارگریٹ کا انتظار کر رہا ہے۔ مارگریٹ کو سسکتے ہوۓ سن رہا ہے۔ کڈز سینٹر کے کسی کونے میں چھپا بیٹھا رو رہا ہے۔ ماما مہر کے سینے سے لگا خود کو رونے سے روک رہا ہے۔ وہ جتنا کچھ بھی دیکھ رہا تھا ان میں  خود کو دکھوں میں گھرا ہی دیکھ رہا تھا۔

پھر ان مناظر میں امرحہ  آگئی اور بار بار پلٹ کر آتی رہی۔۔ خود پر اختیار رکھتے اس نے امرحہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹنے نہیں دیا، کیونکہ اسے یہ خوش فہمی لاحق ہوئی کہ ایسے وہ امرحہ کو زندہ رکھے ہوۓ ہے.

۔وہ ایک خوش آئندہ عمل ہے۔ جبکہ اسی دوران جب جب اسے ماما مارگریٹ تابوت میں  آنکھیں بندکیے نظر آئیں تو وہ سہم کر چونک چونک جاتا۔ اسے بد شگون جانتا اور فوراً اسے نظرانداز کر دیتا۔

کارلاور ویرا کتنے ہی طریقوں سے ڈاکٹر اور اسٹاف کی منت کرچکے تھے کہ انھیں دور سے امرحہ کو دیکھ لینے دیا جاۓ، لیکن انھیں اجازت نہیں مل رہی تھی۔ رات چار بجے کے قریب کارل دس منٹ کے لیے ایک سینئر ڈاکٹر کے آفس میں گیا اور صرف پانچ منٹ کی اجازت لے کر باہر آیا۔ عالیان کا ہاتھ پکڑ کر اسے آئی سی یو ڈیپارٹمنٹ کے اندر کیا اور ایک نرس آگے اسے امرحہ کے کمرے کے سامنے شیشے کے اس طرف لے آئی۔

وہ امرحہ کو دیکھنا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی، وہ یہ ہمت کر بھی رہا تھا اور نہیں  بھی، اس نے سر جھکا رکھا تھا اور اسے اٹھانے کے لیے تیار بھی تھا اور نہیں بھی۔ کیونکہ کسی چلتے پھرتے انسان کو بے بسی سے زندگی اور موت کے بستر پر پڑے دیکھنا سب سے بدترین منظر ہوتا ہے۔ ایسے مناظر اپنی تاب میں بے مثال ہوتے ہیں۔

اس نے اہک ہاتھ پھیلا کر شیشے پر رکھا اور پھر دوسرا، دس انگلیوں کی جھریوں میں سے ایک جھری پر اپنی آنکھ رکھ دی اور دوسری آنکھ کو تین انگلیوں اوٹ میں بند ہی رکھا۔ نقشنین آخروٹی قد آدم آئینہ ہے اور ارغوانی پوشاک میں ملبوس، گھیر دار فرشی دامن کو گھٹنوں سے ذرا سا اوپر اٹھاتی امرحہ کو منعکس کررہا ہے۔ شفاف روشنی گندم کی بالیوں کی طرح اس کے ادھ گنسھے بالوں میں  جھوم رہی ہے۔

ڈریگن پریڈ سے پہلے وہ یہ خواب دیکھا کرتا تھا۔

زخموں میں جکڑی اور مختلف مشینوں اور ٹیوبوں سے منسلک امرحہ کو اس نے دیکھا اور آنکھیں بند کر لی۔ انگلی کی جھری سمیٹ لی، خواب کی کھڑکی کھول دی۔

"اس کے جوتے کو بکل بند ہونے میں نہیں  آرہا اور اتنی گھیردار پوشاک اسے الگ سے تنگ کر رہی ہے۔" اس نے آنکھ کو کھولا اور اسے قطاً نہیں مسلا کہ وہ ٹھیک سے کام کرے۔ ایسے منظر کو دیکھنے کے لیے شفاف بینائی کی ضرورت بھی کسے تھی بھلا۔

دونوں ہاتھوں سے اس نے گھٹنوں سے ارغوانی ریشم کو پکڑ کر اٹھا رکھا ہے اور وہ نیچے بیٹھ کر اس کے جوتے کو بکل بند کر رہا ہے اور پھر سر اٹھا کر مسکرا کر اسے دیکھتا ہے۔

"تم سے اتنا سا کام بھی نہیں ہوتا؟" وہ کہہ رہا ہے۔

"اگر ہوجاتا تو تم یہ شرف کیسے حاصل کر پاتے؟"آنکھيں ترچھی کر کے گردن کو ادا سے ذرا اور اٹھا کر اس نے کہا۔

آنکھيں بند کیے گردن سیدھی رکھے اس نے اب خاموش رہنا پسند کیا۔

اگر اسے اندر جانے کا موقع دیا جاۓ تو وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لے اور صرف ہاتھ سے چھو کر اسے محسوس کرے۔

تم نے یہ پیغامات مجھ سے نہیں لیے تو میں نے یہ یہاں باندھ دیے۔

"رک جاؤ۔"

"روک لو۔"

انگلیوں کی جھریاں اس نے پھر سمیٹ لیں اور اپنے جھکے شانوں اور بند آنکھوں اور اپنے اونچے قد کے ساتھ وہ ایک "دعا" میں ڈھلنے لگا۔

حمزہ توف کے گاؤں میں سفر پر جانے والوں کی بخیریت واپسی کے لیے چراغ دیپ محل میں رکھ دیے گیے اور پھر گاؤں بھر کی چوکھٹیں چراغوں سے سج گئیں اور اب وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی لوئیں دھیمی ہونے سے پہلے مسافر لوٹ آئیں گے۔ شیشے کی دیوار پر پھیلی ہتہیلیوں پر اس نے اپنا سر ٹکا دیا اور اس کا وجود" لو "میں بدلنے لگاـ اور دعا کے چراغوں میں جل جانے کو ہوا ، جانے والوں کی راہ میں ایک ایک کر کے چراغ رکھے جانے لگے اور دور کہکشاؤں کے ہجوم کو چیرتی ان کی لوئیں "عرش معلٰی"پر سجدہ ریز ہونے کو باوضو ہوئیں۔

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

 دعا میرا کلام ہے۔

اس پر میرا اختیارہے۔

قبولیت اس کا "جمال" ہے۔

اسے اب اس دعا سے ضروری کام کوئی نہیں تھا۔ اس کا ارتکاز بیرونی دنیا کی کوئی مداخلت توڑ نہیں سکتی تھی۔

کارل نرس کے ساتھ آیا شاید نرس اسے شائستگی سے کہہ کر اور اس کا شانہ ہلاہلا کر تھک گئی تھی۔ کارل نے اسے شانوں سے تھاما اور باہر لے آیا۔ لیکن دراصل وہ وہیں "مقام دعا" پر ہی کھڑا رہ گیاـ وہ کسی کو یہ نہیں سمجھا سکتا تھا کہ اپنی من پسند جگہ پر موجود ہونے کے لیے وہاں ظاہراً موجود ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

کارل نے اسے ایک جگہ پر بیٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گیا اور کتنی ہی دیر اسے دیکھتا رہا۔۔ شاید وہ پوچھنا چاہتا تھا۔

"اتنی زیادہ محبت کرتے ہو امرحہ سے۔۔ اتنی کہ مرے جا رہے ہو اس کے لیے؟"

ذرا دور بیٹھے ویرا اور سائی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ویرا اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگی، جو وہ نہیں کیا کرتی تھی۔لیکن اب وہ سب ہوگا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ویرا اٹھ کر عالیان سے دور چلی گئی۔ اس کے لیے مشکل تھا اسے ایسے دیکھنا، کتنا کچھ ایک دم سے زندگی میں مشکل ہوگیا تھا۔ جیسے گن گن کر سانس لینا۔ کوئی کارل سمیت ان سب سے پوچھتا اب تک کتنی گنتی ہو پائی۔

---------------------

"سادھنا کمرے کی کھڑکی کھول دو" نشست گاہ میں بیٹھے انھوں نے کہا۔

"اتنی ٹھنڈ میں ؟"

"ہاں کھول دو۔۔ بلکہ سب کھڑکیاں کھول دو۔"

"آپ کو ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔"

"ٹھنڈ لگ جاۓ کوئی غم نہ لگے۔"

انھوں نے بڑی دل گرفتی سے کہا۔

دونوں کئی گھنٹے سے خاموش نشست گاہ میں بیٹھی تھیں۔ سادھنا نے اپنی عبادت کی تھی۔۔ اور لیڈی مہر نے اپنی۔۔ اور دونوں ہی نے ایک ہی انسان کی لیے کتنی ہی دیر دعائیں کی تھیں۔ فون ان کے پاس ہی رکھے تھے اور جب کوئی فون بجتا تو دونوں ہی اسے اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھیں۔

لیڈی مہر اپنی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔

---------------------

آنکھیں بار بار صاف کرنے پر بھی خودبخود نم کیوں ہورہی ہیں اور ان کے ہاتھ پیر کیوں کانپ رہے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آرہی۔ انھوں نے امرحہ کو فون کیا، لیکن اس کا فون بند جا رہا تھا۔ انھوں نے خود ہی سوچ لیا کہ میچ دیکھ رہی ہوگی۔ موبائل کی چارجنگ ختم ہوگئی ہوگی۔ چند گھنٹے انھوں نے مشکل سے گزارے، فون پھر بھی بند ہی لا۔ اٹھ کر نفل پڑھے، دعا مانگی،لیکندل پر گہری ہوتی افسردگی کم نہیں ہوئی۔ بس ان کا دل امرحہ میں ہی اٹکا ہوا تھا اور بس یہ ہی چاہت تھی کہ  اس کی آواز سن لیں۔ انھوں نے سادھنا کو فون کیا۔

"امرحہ فون نہیں اٹھا رہی، تم ویرا یا این کا نمبر دو یا سائی کا۔"

سادھنا چپ ہو کر سوچنے لگی پھر کچھ دیر بعد بولی۔

"وہاں سگنلز کا مسلہ ہے شاید میں این اور ویرا کو خود بھی فون کر رہی ہوں۔ کسی کا نمبر نہیں مل رہا۔ یہ بچے باہر جا کر لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔ کھوم پھر کو واپس ہوٹل آئیں گے تو خود ہی کر لیں گے۔" سادھنا نے جھوٹ بولا۔

"میچ تو کب کا ختم ہوچکا ہوگا۔"

ہاں ۔۔ پر سنا ہے میچ کے بعد وہں سڑکوں پر نڑا مورچ ہوتا ہے۔۔ میچ انگلینڈ جیت گیا ہے ۔۔ تو شاید" سادھنا کی زبان لڑکھڑا سی گئی۔

دادا نے فون بند کر دیا۔ ٹی وی پر چلنے والی برازیلا اسٹیڈیم میں ہونے والے تصادم کی چھوٹی سی خبر انھوں  نے دیکھی نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ گھر میں کسی کو معلوم نہیں تھا ۔۔امرحہ اس وقت برازیل میں ہے دونوں کے معمولات زیادہ تر دونوں میں ہی رہتے تھے دادا کو امرحہ کے علاوہ کسی اور سے بات نہیں کرنی ہوتی تھی ۔

                       ©©©©©©

اس کے دونوں بازوؤں اسے ہو گئے تھے جیسے انگاروں پر جل رہے ہوں وہ تھک چکی تھی  مگر جال جیسے کاٹتے رہنا تھا جیتنی تیزی سے وہ کاٹتی اتنی تیزی سے اور بن جاتے

جیسے مکڑوں کو اس کی سزا کے  لیے یہ کام دیا گیا ہو

یک دم جالوں نے اس کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس کی ساری قوت ختم ہو گئی ۔اس کے زہین میں اشکال بننے لگی۔

اگر میں جوان ہوتا تمارے ساتھ کرکٹ کھیلنا میں بوڑھا انسان ہوں جلدی تھک جاتا ہوں ۔

آواز رستہ بنا کر آئی اور اسے چھو کر چلی گئی 

مجھے ویرا کہتے ہیں سپر پاور روس کو تو تم جانتی ہو گی

میں اسی ملک کی سپر گرل ہوں ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں تم مجھے دی ویرا کہو۔

ویرا کی اشکال بن کر آئی وہ سائیکل سے گر گئی ۔تمہیں ہر حال یہ ریس جیتنی ہے میری ایک ٹانگ ٹوٹ جائے یا دونوں 

پھر سائی کی اشکال بننے لگی

کارل کو دیکھا جو ٹھنڈے برف والے پانی میں جان لیوا احساس ہوا۔

اس کے بعد اس کے کانوں میں شور بڑھ گیا جیسے ساری دنیا کے حشرات کرلا رہے ہیں 

اسی دوران ایک آواز عرش کو چھوتی ہوئی خدا کی پناہ میں اسے سمٹنے کو ہوئی

وہ اندھا دھند بھاگ رہی ٹکرا رہی گر گئی  خواب در خیال خواب ہو گیا ۔

آواز نے بلندیوں پر اور بلندیاں جمائیں اور وہ عرش میں جا بسنے کو ہوئی۔اے خدا بلند سے  بلند کرتی چلی گئی 

یہ کون ہے  خواب در خیال کی  پہلی پہیلی نہ بوجھ سکی۔

آخر کار وقت کے زمر نے آنکھیں کھول دی

امرحہ شور دب گیا بڑھ گیا مگر پہیلی خواب در خیال کی اس نے بوجھی لی۔

عالیان وہ شدت سے کراہنے لگی دونوں ہاتھ چلا کر جالوں کو چاک کر ڈالا۔

عرش معلہ پر کسی دعا نے جا کر سجدہ کیا 

بہت دیر بعد اس نے آنکھیں کھولی تو وہاں کوئی نہیں تھا 

ایک نرس اور ڈاکٹر اسے چک کر رہے تھے اس کا بی پی چک کرتے نرس نے مسکرا کر  دیکھا

وقت تمہیں زندہ رکھے مجھے کہا گیا کہ میں تمہیں یہ  کہوں۔وہ ماحول کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی ۔

لیکن صرف اس جملے کو ہی پہچان سکی۔اس اسے یہ یاد رہ گیا کے کس نے اسے یہ کہنے کا کہا ہو  گا۔وہ پھر سے گہری نیند میں چلی گئیں ۔جب دوبارہ آنکھیں کھولی تو شیشے کے باہر کوئی کھڑا اسے نظر آیا ۔

یہ کون ہے ایسے کھڑا ہے جیسے کوئی اس کا پیارا مر چکا ہے 

اسے پہچاننے میں تھوڑا وقت لگا۔کیونکہ وہ عالیان تو تھا

مگر عالیان جیسا نہیں تھا تو یہ عالیان ہے ان کا کون عزیز مر چکا ہے ؟

کیا وہ میں ہوں تو کیا میں مر چکی ہوں یا ابھی زندہ ہوئی ہوں۔اس نے بہت کوشش کی کے جاگی رہے مگر دماغ پھر سے سو گیا ۔

             ©©©©©©©©©©©

اپنے دونون ہاتھ اس نے شیشے پر رکھے ہوئے تھے  جیسے چھو رہا تھا  ہسپتال کا  سٹاف اس سے  اجز آ چکا تھا 

وہ لڑکا نہ تھک رہا تھا نہ ہٹ رہا تھا 

وہ اس او کے روم کے باہر کھڑا رہنے پر مجبور ہو چکے تھے

اس کے دوست کا کہنا تھا کہ آخر وہ ہوش میں کیوں نہیں آرہی اٹھ کر بیٹھ کیوں نہیں رہی۔اتنا بڑا ہسپتال ایک نھنی سی لڑکی نہیں ٹھیک کر پا رہا ۔

نھنی لڑکی سب سے انجان لیٹی کے باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے 

جس رات وہ ماما مارگریٹ کا ہاتھ اپنے ہاتھ  میں لیے بیٹھا رہا تھا وہ دراصل اسی خوش فہمی میں تھا کے ماما چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی -پر.

وہ چلی گئیں ۔اتنا بڑا ہو کر بھی وہ اس لیے کھڑا ہے کہ وہ کہیں جا نہیں سکے گی مسلہ پہلے بھی وہی تھا مسلہ اب بھی وہی ہے جب ڈاکٹرز اسے اچھی طرح چک آپ کر چکے تو وہ بس دو منٹ اندر جا سکا۔اس کے قریب جا کر اس کا دائیں ہاتھ اپنی ہتھلی پر رکھا

خدا مجھ پر بہت مہربان ہے امرحہ اس میں کوئی شک نہیں 

دو منٹ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کھڑا رہا ۔

وہ آنکھیں کھول نہیں پائی مگر اس کی چاپ کی منتظر  اس کی سماعت بازی لے گئ۔

خدا مجھ پر مہربان ہے امرحہ 

اس کی ہتھیلی کی گرمی محسوس کر پا رہی تھی 

یارم یارم کلام فارسی رباعبوں کے ہجوم سے اٹھا

یہ خواب ہے تو اس کے نہ ٹوٹنے کی دعا ضرور کرنی چاہیے 

اگر حقیقت ہے تو اس کے خواب نہ ہونے کی دعا بھی لازم ہے 

کچھ اور وقت گزرا اسے محسوس ہوا کسی نے نرمی سے اس کے ہاتھ کو چھوا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔

میں زندگی میں کبھی نہیں روئی اور تم نے رلا، دیا 

سب خراب کاموں کی زمہ دار تم ہو امرحہ

جب سائی آیا وہ سوئی جاگی سی تھی وہ اسے دیکھ کر چلا گیا پھر کارل آیا۔

خدا تم سے پوچھے امرحہ خود بیڈ پر لیٹی ہو اور ہمیں باہر کھڑا کیا ہوا ہے ۔باہر بیٹھنے کی جگہ ہے لیٹنے کی نہیں میرے اگے پیچھے کتنے لوگ کھانے پینے کی چیزیں لیے گھوم رہے ہیں کسی پر ہاتھ صاف نہیں کیا شرافت سے اپنا لے کر کھاتا رہا ۔تم اس حالت چند اور گھنٹے رہی تو میں فرشتہ صفت انسان بن جاؤں گا مجھے فرشتہ بننے سے بچا لو امرحہ

کھولتی بند ہوتی آنکھوں سے امرحہ پہلی بار مسکرائی 

تم فرشتہ بن بھی گے تو فرشتوں میں شیطان کہلاؤ گے امرحہ نے سوچا۔

بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں رہی اس نے پاپا کو فون کیا ۔۔پاپا آپ ٹھیک کہتے ہو اس نے آواز میں ٹہھراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی ۔کیا وہ اس کی آواز سے چونک گئے امرحہ تو ٹھیک ہے نا؟ 

وہ ٹھیک ہو رہی ہے 

تو تم کس بارے میں مجھے ٹھیک کہہ رہی ہو ویرا؟ 

جو زیادہ عقل مند، ہوتے ہیں وہ ایک ایسی بیوقوفی کر جاتے ہیں جو ان کی زہانت پر قہقہہ لگاتی ہے ۔

تو تم نے یہ بیوقوفی کی؟ انہیں بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔وہ کس بے وقوفی کی طرف اشارہ کر رہی ہے

ہاں اس کی آواز بھیگ گی وہ اپنے باپ کے سامنے رو پڑی۔

تمہیں خود کو مضبوط کرنا چاہیے ۔جب وہ کافی دیر رو چکی تو انہوں نے  کہا۔

مجھے تکلیف اس بات سے ہوئی کے میں انجان رہی اور مجھے انجان رکھا گیا ۔

کیا تم یہ چاہتی ہو تمارے بارے میں لوگ سوچیں کہ تم برف سی ٹھنڈی بے معنی ہو ۔تم میں جزبات کی وہ گرمی نہیں جو ہم انسان ایک دوسرے سے کرتے ہیں ۔

ویرا خاموشی سے سنتی رہی۔

تم نے ایک بار مزاق میں مجھے کہا تھا  کے تم  تجربات میں مجھ سے اگے نکل گئی ہو۔میں نے یہی کہا تھا کہ کتنا ہی تجربے کار ہو انسان کے اندر کے بھید نہیں جان سکتا ۔

وہ عالیان سے ایک بار ملے تھے اور انہیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کے ویرا امرحہ عالیان کی صرف دوست نہیں ہے 

ٹھیک کہہ رہے ہیں اور عالیان کا بھید امرحہ ہے وہ آواز سے رونے لگی اس لئے نہیں کے بھید کھلا اس لیے کے بہت دیر سے کھولا۔

                  ©©©©©©©©©©

وہم یقین میں لیپٹے ان پر کھل رہے تھے ۔اور دادا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا جب ساندھنا کو خبر ہوئی کے اب امرحہ خطرے سے باہر ہے تو بتایا کہ چھوٹا سا ہنگامہ ہوا امرحہ تھوڑی زخمی ہوئی ہے ۔بس خوف سے بے ہوش ہے دادا کو سن کر کھڑا رہنا مشکل ہوا دیوار کا سہارا لینا پڑا

امرحہ ٹھیک ہے دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی ہے 

تم جھوٹ بول رہی ہو تم اب بھی جھوٹ بول رہی ہو 

سادھنا چپ کر گئی وہ جھوٹ ان کے لئے ہی بول رہی تھی ۔

دور تھے تو یہ صدمہ سہنا مشکل ہو گا 

دوسری طرف شاہ ویز مانچسٹر واپس پہنچ چکا تھا 

ویرا کی روسی انگلش تلفظ دادا کو سمجھ نہیں آرہی تھی اور وہ تیز تیز اردو بولے جا رہے تھے جو ویرا اور سائی کو سمجھ نہیں آ رہے تھے جب بھی ان لوگوں کی دادا سے بات ہوتی درمیان میں امرحہ بات کلیئر کرتی۔۔وہ اشاروں سے انہیں پرسکون رہنے کا بول رہے تھے مگر سب بے کار جا، رہا تھا۔وہ بار بار اپنی گیلی انکھین صاف کر کے کہہ رہے تھے انہیں امرحہ سے ملوایا جائے 

سائی ٹیبلٹ عالیان کے پاس لایا

تم امرحہ کے دادا سے بات کر لو تمہیں اردو آتی ہے ۔

انہیں ہماری کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ۔وہ آنکھیں مسل کر ٹیبلٹ لے کر پر سکون گوشے میں آ گیا ۔گلے کو صاف کر کے سلام کیا

امرحہ ٹھیک ہے دوائیوں کے اثر سے سو رہی ہے  جلدی جاگ جائے گی ہسپتال کے رولز سخت ہیں ہم ابھی اس کے پاس نہیں جا سکتے۔سائی یہی کہہ گیا اور وہ سب اس نے کہہ دیا۔

دادا خاموش ہو گئے اور معلوم کرنے لگے کے کتنی زخمی ہے

جو شخص امرحہ سو رہی کا جھوٹ بول رہا تھا وہ  صدیوں کا جاگا لگ رہا تھا 

ایک ہی دکھ کو جھیلنے دو لوگ آمنے سامنے آ گئے 

دادا کی تصدیق عالیان کو دیکھ لینے سے ہو گئی ۔اب پہلے جیسے نہیں تھے جو وسوسوں کی وجہ سے ہو گئے تھے 

وہ زخمی کیسے ہوئی دادا نے پوچھا

مجھے ٹھیک سے نہیں پتہ

دنیا کے ایک کونے میں ایک شخص اور دوسرے کونے میں دوسرا پر دادا جان گئے کے ہسپتال والا شخص ان سے کئ اگے بازی لے گیا امرحہ کی تکلیف سے وہ اپنی یاداشت کھو بیٹھا ۔وہ سمجھ گئے وہ ایک ایسے شخص سے ہم کلام ہیں جو احترام اور رحم دلی ہے خود تکلیف میں ہے ان کے زخموں پر مریم لگا رہا ہے 

تم عالیان ہو  وہ جان تو چکے تھے بس احترام دینے کے لئے پوچھا اس نے سر ہلایا 

امرحہ ٹھیک عالیان اس با انہوں نے یہ پوچھا 

جی ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی رہے گی

زندگی میں پہلی بار اس جزبے کو پاس سے محسوس کیا کیسا لگتا ہے ضروری نہیں جو ہمیں بہت پیارا ہو وہ دوسرے کو بھی اتنا ہی ہو 

یونی میں آٹھ معمولی ذخمی ہوئے تھے ان میں ایک امرحہ تھی جیسے گولی لگی تھی باقی معمولی زخمی تھے ۔امرحہ کے علاوہ پانچ اور ابھی تک ایڈمنڈ تھے باقی واپس مانچسٹر جا چکے تھے 

حکومتی نمائندے بار بات ہسپتال کا چکر لگا، رہے تھے  اس دوران کارل اور ویرا نے  ایک  کانفرنس میں  حصہ لیا کانفرنس میں کارل نے صحافیوں سے ایسے اپ ڈیٹ کیا کے ایک صحافی نے دوسرے کے کان میں پوچھا 

یہ کسی بڑی سیاسی پارٹی کا ڈیزسن تو نہیں کسی کو بولنے نہیں دے رہا 

کارل ہی حاضر دماغ تھا اور اس سب معمولات میں عین شاہد گواہ تھا جو ہر طرح سے بریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا اس بے چارے نے اپنے جسم پر لاتعداد بوتلیں کھائی کتنے لوگوں کو بچایا اور ایک فائر کرنے والے کے سر کھونسا بھی ماراآنسو گیس والوں کو لاتیں ماری کتنوں کو گھسٹ کر باہر نکالا ۔اس کی کمر پر ذخم آئے کہنیوں چھل گئ

سر سے خون نکلا مگر، اس نے کسی زخم کی پروا نہیں کی

خطاب دیتے اس کے پاسپورٹ پر 

Banned tilla fter death 

کا ٹھپا لگا دیتے ۔

اس کی دھواں دار پرفارمنس دیکھ کر دوسرے چینلز اسے کال پر کال کرنے لگے اس نے تھوڑا تھوڑا وقت سب کو دے دیا ۔اور ساتھ یہ بھی بتایا کے وہ مانچسٹر یونی کا اسٹوڈنٹ ہے اور اسٹوڈنٹ کا لون جلد سے جلد اترنا چاہتا ہےکارل اگر چاہتا تھا  آرام سے الیکشن جیت جاتا تھا 

گولی امرحہ کو چھو کر گزری اور مشہور وہ ہو گیا ۔

کارل نے ہر ایک کا ہر عمر کا بن کر بتایا کے کیسے جوان لڑکی  فیشن والی بنا اس کے سر پر بوتل ماری گئی  پھر نک چڑی لڑکی بنا سب کو ہنسا ہنسا کر مرنے کے قریب کر دیا 

فلور پر کھڑا کارل کمیرے کی طرف دیکھ کر اشارہ کر کے کہنے لگا۔

ایسے تو آپ کے سر پر دو تین بوتلیں اور مار دے گا۔تو یہ ردِعمل ٹھیک نہیں شکر کریں ایک بوتل لگی ہے سر پر ہاتھ رکھ کر نکلنے کی کوشش کریں اپنے ناخنوں کو ہتھیار سمجھنا چھوڑیں۔یہ ہتھیار ہوتے تو فوج میں سپاہیوں کی جگہ بلیاں بھرتی ہوتی سب بہت ہنسے اور اس دباؤ، سے نکل آئے تھے جو امرحہ کو لے کر ان کو تھا ۔یہ اس رات کی بات ہے جب امرحہ کو روم شفٹ کر دیا گیا 

شو کے بعد اسے مانچسٹر سے اپنے پروفیسر کافون آیا۔

میں نے اور میری بیوی نے تمہاری حرکتوں سے پہلی بار مزا لیا۔ہم بہت ہنسے میں تو ہنسے ہوئے صوفے سے گر گیا  تم اتنے کیوٹ تھے  ہميشہ سے یا میری نظر کمزور رہی ہے

جواب میں کارل نے لمبا قہقہہ لگایا افسوس ہے پر یہی سچ ہے آپ کی نظر ضرورت سے زیادہ کمزور رہی میں مانچسٹر آتے آپ کے ٹومی کی خیریت پوچھنے آؤں گا ڈینر بھی کر لو گا۔

              ©©©©©©©©

اسے روم شفٹ کر دیا گیا ویرا اور سائی اس کے ساتھ رہے۔

سب کلاس فیلوز آتے جاتے رہے اور سب کی رات فلائٹ تھی جو جا چکے وہ ویڈیو کال سے حال پوچھتے رہے ۔

کارل صبع سے  یہی تھا پھر ہوٹل تیار ہونے چلا گیا ۔

اسے اسٹوڈیو جانا تھا وہ وقفے وقفے سے امرحہ کو پھول دیتا رہا بقول سائی وہ ادھر اُدھر سے گول کر کے لاتا رہا 

اس دوران عالیان کونے میں رکھی کرسی پر خاموشی سے بیھٹا رہا جب سائی اور ویرا چلے گئے تو اپنی کرسی اس کے بیڈ کے پاس لے آیا۔امرحہ سو چکی تھی اور اس کے سر میں  درد اور  آنکھیں بار بار بند ہو جاتی تھی..

وہ دوائی کے اثر میں تھی مگر درد سے ہل جول رہی سوتی جاگتی تھی عالیان خاموشی سے اپنی انکھوں میں اس کی تصوریں اتار رہا تھا 

دن نے شام کو آواز دی شام رات پر ختم ہوئی۔وہ خاموشی سے اس کی تصوریں چراتا رہا ۔

زمانہ حال کے امرحہ عالیان آمنے سامنے کھڑے ہو گئے 

اس نے ایک دم سے رنگ بکھرے موقلم کو مٹھی میں جکڑ لیااور آنکھیں کھول دی۔

میں ایک امرحہ

میں اس کے سنگ سنگھا اس کے ہمرہ قابض ہوتی چلی گئی 

لفظوں کی فل حال ضرورت باقی نہ رہی۔وہ اسے دیکھ رہی تھی  وہ سر جھکائے اس کی ہتھیلی پر رنگ بکھیر رہا تھا 

جو دنیا کی کسی بھی دکان سے نہیں خریدے جا سکتے پھر سر اٹھایا اور اس کی مسکراہٹ کو جان لیا وہ بھی اس دیکھ کر مسکرانے لگا جیسے زندگی میں کبھی کانٹا بھی نہ چھبا ہو ۔

تم نے میرے ہاتھ پر کیا بنایا اتنے لمبے عرصے بعد گفتگو کا آغاز ہوا اور  امرحہ نے  یہ پوچھا پہلا سوال۔

خود کو ۔۔اس نے وہ جواب دیا جس کے بعد باقی سوال کی ضرورت نہیں رہی۔

خود کو۔۔۔۔۔ اس نے انجانی خوشی میں کتنی بار دورایا

اس سوال کے جواب میں اور کوئی جواب ہوتا تو کتنا بدصورت ہوتا۔اس نے خود کو اس کی دسترس میں کر دیا

خود کو اس میں رقم کر دیا ۔

جھالروں کو کناروں میں پیوست رکھے چمکتے دمکتے سرخ وسبزباریک تھال پوشوں کو اتار لیا گیا اور تھالوں کو چھتوں اور شہہ نشینوں،دہلیزوں اورچوکھٹوں میں تقسیم ہوجانے دیا۔امرحہ نے محسوس کیا کہ مسرت نقرئی قہقہے لگاتی اس کی وجود میں اہتمام سے سرایت کر رہی ہے اور اس بار اس کا قیام عارضی نہیں ہو گا.....یقیناً نہیں ہو گا۔اس نے چاہا کہ وہ چھلانگ لگا کر بیڈ سے کود جائے اور کھڑکی سے باہر خود کو نکال کر پوری قوت سےچلا کر پوچھے۔”کیا اس وقت دنیا میں مجھ سے زیادہ خوش قسمت انسان کوئی ہے؟“

”ہے.......؟اچھا پھر یہ بتاؤ تمہارے پاس عالیان ہے؟“

لیکن اس نے یہ سب نہیں کیا کیونکہ اسے کچھ اورکرنا اور کہنا تھا۔

”تم نے تو کہا تھا میں تمہارے لیے مرچکوں جیسی ہوں.....میں مر بھی جاؤں تو بھی تمہیں فرق نہیں پڑے گا۔“

امرحہ اپنی ساری تکلیف بھول چکی تھی لیکن اسے حیرت انگیز طور پر یہ سب اپنے نام کی طرح یاد تھا،وہ آگے بڑھنے سے پہلے پچھلے حساب چکانا چاہتی تھی۔

لفظ مر کے استعمال سے  جیسےعالیان پھر سے نیم مردہ سا ہوگیا  اور اداسی سے بولا”ہاں مجھے صرف فرق ہی نہیں پڑا۔“

تم ایک برے انسان ہوامرحہ ذرا سا اُٹھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور یہ کرتے اس نے جان بوجھ کر عالیان کی مدد نہیں لی۔

”بلاشبہ...... میں ایک برا انسان ہوں۔“عالیان نے بہت آرام سے مان لیا۔

”تم انتہائی بددماغ اور غصیلے انسان ہو ۔“پہلے جملے سے امرحہ کی تسلی نہیں ہوئی۔

"ہاں،اور میں دیوانہ سا بھی ہوں."عالیان نے اسکی تسلی کرنی چاہی.

"تم ضدی اور ہٹ دھرم بھی ہو."

"بلکل ،اور میں بھی بہت بد تمیز بھی ہوں."

"ہاں تم نے ابھی تک بات کرنے کی تمیز نہیں سیکھی. تم اتنے....کتنے سارے بڑے ہو گئے ہو لیکن ابھی اتنا بڑا سا منہ بسور لیتے ہو.تمہاری آنکھوں کی سختی بارود کی طرح محسوسات کے پرخچے اڑا دیتی ہے."

"ہاں....بلاشبہ تم سچ کہہ رہی ہو."اسنے کہا جبکہ امرحہ کے ذخیرہ الفاظ پر وہ ہنسنا چاہتا تھا.

"تمہارا دل پتھر کا انسان ہوں."

امرحہ کو سمجھ نہیں آتی کہ اور اسے کیا کیا کہے.جو یونیورسٹی کی محراب میں اسے سمیٹے کھڑی تھی.وہ اب اسے اس کی برائیاں گنوا رہی ہے اور اسے بتا رہی ہے کہ وہ کس قدر برا ہے.

کہا جاتا ہے کہ عورت شکوے کا دوسرا نام ہے اور میں یہ کہتی ہوں کہ "محبوبہ"شکوے کا پہلا نام ہے.

"میں نے سنا کہ تم مجھے آوازیں دے رہے ہو اور تمہاری آواز فرش اور عرش تک اٹھتی جاتی ہے."عالیان کی برائیاں ختم ہو گئیں یا اسکی یاداشت جاتی رہی تو اگلی بات اسنے یہ کہہ دی اور بے آواز رونے لگی اور ادی رونے کے دوران اسنے فیصلہ کیا کہ اسے عالیان کے ساتھ انتہائی سخت رویہ اپنانا چاہئیے. کم ازکم اتنے وقت تک کے لیے جتنے وقت عالیان نے اپنائے رکھا.

"تم میرا ہاتھ چھوڑ دو اور سن لو میں کئی سالوں تک تم سے بات نہیں کروں گی."

اور عالیان جو دلگرفتی سے اسے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ اور سوچنے لگا تھا کہ شاید وہ اسے ناپسند کرنے لگی ہے اس کی اس بات پر ہنس دیا.

"ٹھیک ہے مت کرنا بات لیکن صرف اتنا بتا دو کہ امرحہ میرے ساتھ تو رہو گی؟"

"نہیں."امرحہ نے انکار کر دیا.

"یہ بھی ٹھیک ہے.... پھر میں تمہارے ساتھ رہ لوں گا."امرحہ کی گیلی پلکوں کو اسنے انگلی کی پور سے خشک کرتے ہوئے کہا.

"نہیں...."اسنے پہلے سے ذیادہ سختی سے کہا.

اور عالیان نے اسکی ادا جانا اور اسے بتانا چاہا کہ اب دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں رہی جہاں امرحہ اسے چھوڑ کر رہ سکے اور اسے وہاں رہنے بھی دے.

"میں اس بات پر قائم رہوں گی."عالیان جواب میں خاموش  ہی رہا تو اسنے اسے یاد دلایا کہ "نہیں"کا مطلب کیا ہوتا ہے.....""نہیں ہی".

عالیان پھر ہنس دیا."اس بار نہیں کا مطلب نہیں نہیں ہے امرحہ ،ہوا بھی تو میں اس نہیں کو قبول نہیں کروں گا."اسنے اسکے ہاتھ کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان نرمی سے رکھا.

"سنو امرحہ میں نے ایک اچھی دعا مانگنا سیکھ لیا ہے.میں نی جان لیا ہے کہ ہمیں کس ساعت میں دیر تک قیام کرنا ہے کہ ہم اس ساعت کو جالیں جو خدا کی رضامندی سے لبریز ہوئی ہوتی ہے کہ ہمیں ہماری پسندیدہ نعمت عطا کر فی جاتی ہے.میں نے ان نعمتوں کا شمار کرنا چاہا جو ہمیں عطا کی گئیں اور میں نے ماما کے بعد تمہارا نام لیا.میں نے خدا کو بتایا کہ اسکی مہربانی مجھ پر کیسے ظاہر ہوئی."تمہاری آنکھیں."یہ بھی سنو امرحہ کہ میں نے جان لیا ہے کہ بہاروں کا ہمیشگی قیام کسے کہتے ہیں.  یہ ایک امرحہ کا ایک عالیان کے پاس ہونے کو کہتے ہیں.مجھے معلوم ہوا کہ خوشنما تخلیقات کی خوشنمائی کا راز کیا ہے."یہ ایک امرحہ اور عالیان کا ساتھ ہے."

"میں نے اس حقیقت کی تفصیلات پالیں کہ کوئی چال،کوئی پینترا کارگر نہیں کہ جو دل پر ازمایا جائے اور یہ ہمارے اختیار میں رہے اور دنیا میں کوئی حکمت ایسی نہیں جو اس میں داخل ہو جانے والے کو نکال باہر کرے اور یہ ممکن کر دکھائے کہ میرا جو حصہ تم میں ہے وہ تم واپس کر سکو اور میرے پاس جتنی ادھوری،مکمل تم ہو وہ میں تمہیں لوٹا سکوں اور ہم الگ الگ زندگی گزار سکیں.ایسی حکمتیں ناپید ہیں امرحہ اور ایسی حکمتیں ناپید ہی رہیں گی."کہہ کر وہ رکا.

شیرینی تقسیم کر دی گئی اور چاندی کے سکے زمانہ حال کے مہمانوں کے سروں کے اوپر سے اچھال دیئے گئے اور اب وہ اپنے سازندوں کی طرف لپک رہے ہیں.....ان سب کو ایک دعائیہ گیت گانا ہے اس متوقع دلہن کے لیے جس کے گلانار گالوں کو سرخی کی لیے غازے کی ضرورت نہیں رہی.

"میری بے اعتنائی پر تمہارا شکوہ جائز ہے اور تمہاری کم عقلی پر میرا'لیکن اب اگر ہم اس سب کو خوبصورت پروں والا سرخاب بنا کر اڑا دیں گے تو ہمیں ان تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کا موقعہ مل جائے گا خو بے اعتناء اور کم عقل نہیں اور جو خوش رنگ پھولوں پر قیام کرتی ہیں اور معصوم لوگوں کو چھو کر گزرنا ناپسند کرتی ہیں."

کیا کھڑکی کھلی رہ گئی ہے.....یقینا ہاں.....کیونکہ آسمان سے اترتی کہکشاں قافلوں کی صورت کھڑکی سے کمرے میں اترنے لگی ہے اور ان کے سروں سے گھوم کر دیواروں پر اسی تصویر میں ڈھل کر نقش ہو چکی ہے جو تمثال گر نے اسکی ہستی پر سجا دی ہے.

"میں ہزاروں الفاظ جانتا ہوں،معنی بے معنی کئی جملے بول سکتا ہوں لیکن مجھے افسوس ہے امرحہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے میرے پاس اچھے الفاظ ہیں نا پراثر جملے."

اب ابو علی ابن مکلاء کے شاگرد خطاط درسگاہ کے سفید سنگی احاطے میں حوض کے اطراف قطار میں بیٹھنے لگے ہیں.

وہی جملہ جو مجھ پروارد ہوا اور جس کے متعلق میں نے اب جانا.

"درسگاہ کی اونچی سفید محرابوں نے شفیق استادوں کی طرح خطاطوں کی نگرانی کی."

"اور پھر اسے"تعویذ حب"صورت لکھ کر"محراب حب"کی چوکھٹ سے باندھ دیا."وہ بولتا گیا.

سنگ بصرئ کی تختیاں خطاطوں نے تھام لیں اور مبتلائے تعریف خدا ہوئے.

"ایک پہلی اور آخری بات صرف اتنی ہے کہ میں پہلے عالیان تھا.....پھر میں تم ہو گیا اور اب میں تم ہی رہ گیا امرحہ ."

اسکی ہتھیلی کو وہ آنکھوں تک لے گیا اور .......

"استاد محترم کے اشارے پر صندلی قلمیں بلوری دواتوں میں ڈبو کر "عروس الخطوط."اپنائے انہوں نے خطاطی کی ابتدا کی.

"محبت آسمانی فرمان ہے نافرمانی کی اجازت نہیں."

سنگ بصرئ کی پیشانی پر انہوں نے لکھ دیا.

اسی ہاتھ کو آنکھوں سے ہونٹوں تک لے آیا.

"محبت پرندہ پربت ہے پاتال اسکا نشیمن نہیں...."

سنگ بصرئ کی دوسری سطر کر دی گئی .....

پھر اسکے ہاتھ پر وہ احترام بجا لایا.....

"محبت مشک ہے بھید میں قید نہیں." تو تحریر مکمل ہوئی .....”لوحِ حُب “لکھ دی گئی ۔

شگرفی ،ارغوانی،سبزو لاہی سیاہی سے ب خطاط گل کاری کرتے جاتے ہیں اور خدا واحد کی تعریف بیان کرتے جاتے ہیں اور پھر دعا کی ابتدا کچھ یوں کرتے ہیں ”لوحِ حُب کو خدا وقت کے ہاتھوں زندہ رکھے......زندہ رکھے......پرشاب رکھے.....وقت کے زوال سے خدا اسے بچائے رکھے......بچائے رکھے اور” محراب حُب “ کی پیشانی پر روشن رکھے......یوں رکھے کہ ”روزِازل“”روزِابد“سے جا ملے.....“

            *...........*...........*

گہرائی ہے.....اونچائی ہے......لوگ ہیں ......پس منظرمیں بجھتے شہر کی چلتی روشنیاں ہیں......اور اس کے سر کے عین اوپر کئی سو کرسٹل لڑیوں کا چھتا ہے جو برقی ارتعاش سے ایسے حرکت میں ہے جیسے مشرقی حسینہ بے خودی میں اپنا آنچل دھیمی ہوا کے سپرد کر رہی ہو۔

”مشرقی حسینہ......امرحہ“

مقام اونچائی پر ہے اور وہ مائیک کے سامنےہے۔

”وہ.....ویرا“

اس نے بجھتے شہر کی جلتی روشنیوں کو دیکھا اور اس کی آنکھیں اداسیوں کے پانیوں سے چمکنے لگیں اور گلے کو کھنکارے  بنا اس نے بولنا شروع کیا۔”پہلے میں نے بات شروع کی اور ختم کرنا بھول گئی اب مجھے سمجھ نہیں آرہی میں بات کہاں سے شروع کروں امرحہ سے.....خودسے یا عالیان سے.....؟“

”امرحہ ......“آپ اسے نہیں جانتے میں بھی نہیں جانتی تھی ،مجھے صرف یہ معلوم تھا وہ میری دوست ہے لیکن کچھ وقت گزارہ ،مجھے معلوم ہوا میں اس کی دوست نہیں تھی۔اگر میں اس کی دوست ہوتی تو وہ مجھ سے وہ سب کہہ دیتی جو کسی اور سے نہیں کہہ سکتی تھی۔وہ بات جو اس نے آپریشن تھیٹر میں جانے سے پہلے کہی یا اس وقت جب وہ گر گئی تھی۔جب میں اس کی طرف لپکی تو میں نے دیکھا وہ پوری شدت سے آنکھیں کھولے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے......میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ اتنی تکلیف میں بھی اس سمت دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جس طرف عالیان گر چکا تھا۔ایسی تکلیف دہ بے ہوشی میں وہ ہاسپٹل آنے تک کہی بار چونک کراُٹھی اور اس نے عالیان کا نام لیا۔جتنی بار وہ چونک کر اُٹھی اتنی ہی بار وہ اپنے زخموں سے زیادہ کسی اور ہی تکلیف میں تھی۔“

ویرا رکی اور اس نےایک نظرسب کو دیکھا ۔وہ دیکھ سکتی تھی جن کو وہ اپنے اور عالیان کےبارےمیں بتاگئی تھی انہیں امرحہ کےبارے میں جاننا کیسا لگ رہا تھا۔”شاک“

ویرانے سر اُٹھا کر گرنے کے قریب آنسوؤں کو آنکھوں کے اندار کرنا چاہا لیکن وہ اندر ٹھہرے دوسرے آنسوؤں کو بھی باہر لے آئے۔

”عالیان خوبصورت دلوں میں سے ایک کا مالک  وہ سٹرک پر ایسے گر گیا جیسے گولی اسے لگی ہو وہ بھی سیدھے دل پر“وہ رکی اور کافی ٹائم روکی رہی۔

”ایک ہی وقت میں دونوں ایسے مجھ پر آشکار ہوگئے۔“

جب امرحہ آپریشن تھیٹر میں تھی اور عالیان سر جھکائے خاموش کھڑا تھا تومیں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا۔

”وہ ٹھیک ہوجائے گی وہ اتنی جلدی بےہوش نہ ہوتی اگر اس کے سر پر ضرب نہ لگتی۔“

وہ ٹھیک ہو جائے گی وہ اتنی جلدی بےہوش نہیں ہوتی اگر سر پر چوٹ نہیں آتی تو 

اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گرنے لگے۔

ایک جوان مرد رو رہا تھا ٹھیک کر رہا تھا ۔ایک مرد اگر اپنی بیوی بیٹی ماں کے لیے روتا ہے تو ان سے بے حد محبت کرتا ہے  اس لئے کہہ کر وہ حد افزودگی میں نظر آنے لگی۔

جب عالیان ایک بار امرحہ کو دیکھ آیا تو میں نے اس کا ہاتھ تھام کر  کہا۔تم ایک اچھے اداکار ہو اور امرحہ بھی 

تم امرحہ کے علاوہ سب کے ساتھ خوش رہنے کی اداکاری کرتے رہے ۔دنیا کے ہر انسان کے ہوتے تم نے امرحہ کو جاتے دیکھا تو ساری اداکاری بھول گئے ۔تم دنیا کے ہر انسان کے ساتھ خوش رہ سکتے ہو مگر زندہ تم امرحہ کے ساتھ رہ سکتے ہو۔میرے ساتھ تعلق نبھانے کی کوشش اچھی تھی ۔

تمہارے دل میں میں نے اپنا احترام کھو دیا ویرا۔

اس نے اس انداز سے کہا کے میرے دل میں اس کا اور احترام بڑ گیا اور  میں نے کہا

ہاں ایسا ضرور ہوتا اگر تم نے مجھ سے کہا ہوتا کے تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔تم نے ہمیشہ بس کہا کے تم اچھی لڑکی ہو ۔۔اب تم امرحہ کو بتا دینا کے اگر تم دونوں میں تیسرے کی گنجائش ہوتی تو عالیان برازیلا میں  امرحہ کے لیے دیوانہ ہو کر نہیں بھاگ رہا ہوتا ۔اس بار تم اسے زیادہ یقین سے بتانا زیادہ وقت لینا ہاتھ پکڑ کر بات کرنا تا کے جا نہ سکے۔وہ انکار نہیں کرے گی میں نے اسے بے ہوشی میں تمہارا نام بڑبڑاتے سنا اس سے بس منظر کی ساری روشنیاں بجھ گئی 

میں بےوقوف تھی یہ سب جان نہیں سکی۔اب سمجھ نہیں آرہا میں یہ کہانی اپنےپوتو کو سناؤں گئی تو میرے بارے میں کیا سوچیں گے ۔کیا وہ اپنی گرینڈ مام کو برا کہیں گے؟

اس نے گیلے گال صاف کیے وہ اپنی گرینڈ مام پر فخر کریں گے پیچھے سے سازئی نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ چونک کر پلٹی۔

لوگ گم ہو گئے لائٹ بند ہو گئی کہانی سنا دی گئی 

وہ اکیلی کھڑی تھی  سائی ہوٹل شفٹ ہو چکا تھا ایک گھنٹے کی نیند بھی لے چکا تھا ۔پھر وہ بے چین ہو کر اٹھا اسے یاد آیا وہ بہت خوش سویا تھا کیونکہ المیہ داستان ترمیہ ہو چکی تھی ۔۔تو پھر ہربڑاکر کیوں اٹھا وہ بیڈ پر بیٹھ گیا اتنے سال ہوئے اسے سائئ بنے اب سب کے پاس جاتا سنو کوئی کام تو نہیں شاید کسی کو میری ضرورت ہو 

وہ اٹھا دوسری منزل آیا دستک دی جواب نہیں آیا

پھر یہ سوچا کہ امرحہ کے پاس ہسپتال نہ چلی گئی ہو۔

اسے فون کیا فون بند تھا ۔۔کاونٹر سے پوچھا انہوں نے ایک بارکی طرف اشارہ کیا ڈھونڈنے لگا وہ خاموش خود سے باتیں کرتی اکیلے میں وہ اس کے پیچھے سب سنا، اسے خبر بھی نہیں  

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے لے آیا، دونوں کارپٹ پر دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے 

میں جانتا ہوں تم دکھی ہو بات سائی نے شروع کی

ہاں بہت دکھی ہو سائی سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں مجھے ہمیشہ یہی لگا امرحہ عالیان کو دوست کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتی

Pg#197

 ۔۔عالیان۔۔ سائی ایسا ہی تو ہوتا ہے ایک بریک اپ کے بعد کچھ وقت لگا اور سب ٹھیک۔۔ میں امریکہ سر واپس آئی تو امرحہ مجھے کچھ بدلی ہوئی لگی۔ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ دادا ایسے لڑکے سے اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں جس کو وہ پسند نہیں کرتی۔ میں نے پوچھا تو تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟ تو اس نے کہا مجھے اس سب سے دلچسپی نہیں ہے" یہ کہہ کر ویرا نے تاسیف بھرا انداز اپنا لیا۔

"کیا میں  ایک بری لڑکی ہوں سائی؟" سائی کو جیسے دلی صدمہ ملا۔

"پتا نہیں"اس نے خودکلامی کے انداز میں کہا۔

کچھ باتوں کے ہوجونے میں ہمارا اختیار نہیں ہوتا ویرا۔ ان کے ہونے یا نہ ہونے پر۔ ایک اچھا ڈرائیور اگر حادثہ کر دے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سڑک، گاڑی اور دوسرے عوامل نے مل کر اس حادثے کے اسباب پیدا کر دیے ہیں۔ اچھے اور برے واقعے کے اسباب بنتے ہیں ویرا۔

"عالیان کو خود کو پاگل بنانے کے ضرورت کیا تھی سائی!  تم نے دیکھا وہ کیسے اس کا نام لے لے کر بھاگتا پھر رہا تھا۔"

"اس نے خود کو پاگل نہیں بنایا ویرا بس چاید اس پر زرا دیر سے ادراک ہوا۔"

دونوں تھوڑی دیر خاموشی سے اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی سوچ کو سوچتے رہے۔

"تو گرینڈ موم نے عالہ ظرفی کو مظاہرہ کیا۔" سائی نے ہنس کر ایک نئی بات شروع کی۔

ویرا زرا سا ہنس دی۔" اگر نہ کرتی تو امرحہ روسیوں کے بارے میں اپنے پوتوں پوتیوں کو کیا بتاتی کہ وہ خودغرض ہوتے ہیں اور ہماری جگہوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ وہ خود روس آتی نہ اپنی پوتی کو کبھی آنے دیتی، بلکہ روس کے بارے میں ٹی وی میں کوئی چل رہی ہوتی تو وہ چینل بدل دیتی۔ اور سوچتی کہ روس دنیا کے نقشے پر ہوتا ہی نہیں تو کتنا اچھا ہوتا۔"

سائی پوری جان سے ہنسنے لگا۔" تم مذاق میں ایسا کہہ سکتی ہو، لیکن حقیقت میں ایسا کبھی نہ ہوتا۔" اگر میری اور عالیان کی شادی ہوجاتی تو ایسا ہی ہوتا۔" وہ اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگی اور ایسا کرتے وہ ایسی بچی لگنے لگی، جس کی ساری گڑیاں چرالی گئی ہوں اور ان کے کپڑے جلا دیے گئیں ہوں۔

سائی نے محبت سے اسے دیکھاـ" سائی اس مشرقی لڑکی کا پرنس تھا۔ تمھارا پرنس چارمنگ کہیں اور تمھارا انتظار کر رہا ہوگانا۔"

ہاں بس یہی کام رہ گیا ہے۔ سب کام چھوڑ کر اس پرنس چارمنگ کو ڈھونڈتے پھرنا یا اس کے انتظار میں بیٹھ جانا۔ میں ایک بالغ اتنی بڑی سی لڑکی ہوں۔ دی لیڈی ویرا مجھے تم ان فیری ٹیلز سے نہیں بہلا سکتے۔ وہ چڑ گئی۔

"فیری ٹیلز ہماری حقیقی زندگی سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوسکتیں ویرا۔"

"جہاں ایک سائی ہے ، ایک ویرا ، ایک کارل، دو امرحہ اور عالیان، کیا کسی فیری ٹیل میں یہ سب ہوں گے؟"

ہمارے پاس دکھ ہیں، ملنا، بچھڑنا، رونا، مسکرانا، گر جانا، اٹھ جانا۔۔ یہ سب ہیں کہیں کم ۔۔ کہیں زیادہ۔۔ شان دار محل ۔۔ قیمتی ملبوسات، آرائش زندگی، کھیل کود، مسکراہٹیں، خوب صورتی اور نغمے ہی زندگی کو فیری ٹیل نہیں بناتے۔ زندگی کو فیری ٹیل ہماری ساچ بناتی ہے۔ پرنس چارمنگ وہ نہیں جو ایک بڑی سلطنت کو بشہزادہ ہے یا جو بہت خوبصورت ہے۔ پرنس چارمنگ ہر وہ انسان ہے جو ایک شفاف دل کا مالک ہے۔ جو بلا امتیاز انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ میں ، تم، عالیان، امرحہ، کارل، ہم سب۔

یہ زندگی تب بھی فیری ٹیل سےخوبصورت ہے جب ہر سائت ہمیں فضا میں بسی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ آسمان شاندار محل کی طرح لگتا ہے اور زمین مخملیں قالین جو ہر ایک نئے قدم پر ایک نئے رنگ میں ڈھلتا ہے۔"

ویرا نے سائی کے کھندے پر سر رکھ دیا اور اسے Pg#198 

اسے خاموشی سے سنتی رہی اور سنتے سنتے سو گئی۔ سائی نے اسے ایسے سوتے دیکھا تو چاہا کہ آج کی پوری رات اسے اس انسان کے لیے دعائیں کرتے گزار دینی چاہیے اور وہ زیر لب دعائيہ نظموں کو اییسے دہرانے لگا کہ وہ نیند سے جاگ نہ جاۓ لیکن نیند میں ہی سن بھی لے۔

"ویرا۔" موت سی برف میں کھلتے اکلوتے پھول کی طرح وہ اس احساس کو خاطر میں نہ لائی کہ خزاں میں وہ ا"کیلی بہار" ہےـ

میری کہانی کہ یہ دو کردار۔

طلوع آفتاب سے۔

دوستی میں حرف خاص سے۔

مثالوں میں "بے مثال" سے۔

--------------------

برازیلا سے وہ وی آئی پی سیٹ سے مانسچڑ آئی جہاں اسے ڈاکٹروں کی اگلی ہدایت تک رہنا تھا۔ سارے اخراجات برازیلیں حکومت اٹھا رہی تھی۔ وی اسے مکمل صحت یاب کر کے بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن اسے مانسچڑ آنے کی جلدی تھی۔ اس کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنے والوں کی تعلیم کا نقصان ہورہا تھا۔ وہ سب لوگ ویک اینڈ کا سوچ کر میچ دیکھنے گۓ تھے۔ این، ڈیرک  وغیرہ پہلے ہی واپس آچکے تھے۔ کارل ، ویرا، سائی اور عالیان اس کے ساتھ ہی تھے۔ کارل کا تو ویسے بھی برازیلا میں ٹی وی پر مستقبل کافی روشن ہوگیا تھا۔ اسے تو چند اور دن وہاں رکنے پر اعتراض نہیں تھا۔

سادھنا اور لیڈی مہر ائیر پورٹ سے اس کے ساتھ  ہسپتال گئے، اور ہسپتال میں اس کے پروفیسرز، کلاس فیلوز، یونی فیلوز   آ، آ کر ملتے رہے۔ شزا بھی اس کے لیے پھول لے کر آئی۔ ڈیرک تو برازیلا میں بھی اس سے کئی بار مل چکا تھا اور دائم وغیرہ کا گروپ ہانا، شرلی، سب وہاں پر بھی اس سے مل گئے تھے اور یہاں بھی آتے رہے۔ اسٹور کا مینیجر، اس کے کولیگز اور اس کا پہلا باس تو کئیں بار آۓ۔

"یہ کیسا حادثہ تھا مس آخروٹ! جو تمھیں برازیلا میں پیش آیا اور تمھیں ٹھیک کر گیا؟" انھوں نے سنجیدگی سے اس کا جائزہ لے کر کہا۔

مس آخروٹ جواب میں صرف مسکرادی۔

"تو برازیلا نے تمھیں بدل دیا۔"

"شاید ۔۔"وہ اور مسکرا دی۔

اس دوران کارل نے اس کے لیے لائی جانے والی چاکلیٹس اور کوکیز کو سعادت مندی سے اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ سائی نے امرحہ سے کہا کہ اس نے سب سے کہا ہے کہ پھول لے جانے کے بجاۓ وہ چاکلیٹس لے جائیں، کیوں کے امرحہ کو چاکلیٹس بہت پسند ہیں نا۔۔ اور ایک ایسا انسان جس کے شانے پر گولی لگی ہو، اسے ایسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو مہیا کر دینی چاہیں نا۔

ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں سے ایک بھی امرحہ کے منہ میں گئی، البتہ ہال میں کارل نے اپنے کمرے کی حفاظت چوری پروف کردی۔

جب وہ گھر آئی تو اس کے کمرے کو سادھنا، ویرا اور این نے مل کر محتلف پوسٹرز، کاٹونز اور دعاؤں سے سجا رکھا تھا۔ دیواروں پر اس سب کی مختلف موقعوں پر لی جانے والی تصویریں لگیں تھیں اور یونی فیلوز کے پیغامات کارڈز کی صورت دیواروں سے جھول رہے تھے۔

یونیورسٹی نے اسے آفیشل لیو دے دی تھی۔ اس کے لیکچر ریکارڈ کیے جا رہے تھے اور اسے گھر ملتے تھے۔ سائی ایک بار اس کے پاس ضرور آتا۔ کافی پی کر چلا جاتا۔ عالیان یونی سے پہلے، یونی اور جاب کے بعد اتنی بار اس سے مل کر جاتا کہ لگتا وہ واقعی اسپئڈرمین ہے۔ عمارتیں پھیلانگتا آتا جاتا ہے۔

کارل اپنی الٹی سیدھی تصویریں کھیچ کھیچ کر اسے بھیجتا رہتا کہ "خوبصورت انسان کو دیکھنے سے انسان جلد صحت یاب ہوتا ہے۔"

وہ اب تک ہی فون پر دادا سے بات کرتی رہی تھی اور اسے حیرت یہ ہوئی تھی کہ دادا نے ایک بار بھی Pg#199

۔۔ نہیں کہا نا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔جب وہ شٹل کاک آگئی تو اٹھ کر بیٹھنے لگی جبکہ ابھی اٹھنے سے اس کے سر میں ٹیسیں اٹھتی تھیں اور اس کا بایا شانہ درد کرتا تھا اور اکثر وہ کئی کئی گھنٹے متلی کا شکار رہتی تھی اور اچانک ہی اسے بخار ہوجاتا تھا تو دادا پہلی بار اسے دیکھ کر بات کر نے لگے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ وہ انہیں دیکھنا چاہتی ہے۔

"اب مجھے بتاو کیا ہوا تھا؟"

"ایسے ہی فینز بھڑک اٹھے اور لڑتے لڑتے مجھ پر گر گئے۔"وہ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر زخم کے نشانات اب کچھ مندمل اور کچھ قابل برداشت ہوگئے تھے۔ سر کو اس نے دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا کیونکہ پچھلے حصے میں لگی بینڈچ سامنے سے زرا سی نظر آتیطاور گردن کی بھی۔

"بس۔۔"دادا نے آرام سے پوچھا۔

"جی۔۔"جو جھوٹ سادھنا نے بولا تھا وہ اسے ہی لے کر آگے چل رہی تھی۔

"تمھارے بس اتنے معمولی سے زخمی ہونے پر ویرا، کارل، سائی اور عالیان اتنے پریشان ہو گئے؟"

"وہ مجھے ہوش نہیں آرہا تھا نا اس لیے۔ میرے سر پر چوٹ آئی تھی۔ بس خوف زدہ ہوگئی تھی بہت، بہت زیادہ۔"

مانسچڑ کے ہسپتال میں جب وہ آئی تو قس نے بتایا وہ گھر آچکی ہے اور جب گھر آگئی تو بتایا یونی جانے لگی ہے۔ اور دادا نے اس سے ایک بھی بار کوئی سوال یا تکرار نہیں کی، جو وہ کہتی وہ سن لیتے اور اسےصحت مندی اور سلامتی کی دعائیں دیتے رہتے۔

"جب میں نے باری باری ویرا، سائی اور عالیان کو دیکھا تو مجھے جیسے کچھ بھی پوچنے کی ضرورت نہیں پڑی اورچمجھے لگا کہ وہ مجھ بےچارے باڑھے پر ترس کھا رہے ہیں۔ مجھے صدمے سے بچانا چاھتے ہیں۔ میں نے شہریار کی مدد لی۔ وہ ایک پڑھا لکھا سمجھدار انسان ہے۔ اس نے کچھ وقت لگایا انٹرنیٹ پر اور اسے معلوم ہوا کہ تصادم میں کل تین لوگوں کو گولیاں لگیں ہیں اور ان میں سے ایک مانسچڑ یونیورسٹی کی اسٹوڈینٹ ہے۔ پھر اس نے یونیورسٹی انتظاميہ سے رابطہ کیا اور اسے بتایا گیا کہ وہ ایک اسٹوڈینٹ امرحہ واجد ہے۔ تم نے مجھ سے جھوٹ اس لیے بولا کہ میں ایک بوڑھا انسان ہوں۔ ایسی خبر سن کر مجھے کچھ نہ ہوجاۓ۔ سادھنا سے لے کر سائی تک سب مجھ سے چھپاتے رہے۔ یہ ایک اچھی حکمت عملی تھی مجھ بوڑھی جان کے لیے امرحہ ۔۔ لیکن میں انجائنا کے درد کا شکار ان ہی دنوں ہوا۔ جانتی ہو کس لیے؟ کیونکہ تم نے خو کو خود ہی مر جانے دیا۔ تم نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ تم نے خود کو اہم نہیں جانا۔ تمھیں بہانہ مل گیا مرنے کا۔ تم نے چاہا کہ تم مر جاو۔۔ تم نے خود کو نحفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔طتم نے اپنی کمزوری ظاہر کی، ہمت اور طاقت نہیں ۔"

"یہ غلط ہے۔"

"یہ غلط تب ہوتا اگر تم ٹھیک رہتی۔ تم موت کی باتیں کرتی تھیں۔ میں نے اپنا پاسپوٹ ایمرجنسی ویزے لے لیے بھیجا، لیکن مجھے ویزا نہیں ملا۔ میں وہاں آتا امرحہ  اور تم سے پوچھتا کہ کیا زندگی واقعی ایسی بےکار شے ہے کہ اسے موت کے حوالے کر دیا جاۓ۔"

"نہیں۔۔ وہ ایک حادثہ تھا دادا اور بس۔"

"تم ساری دنیا سے جھوٹ بول سکتی ہو، مجھ سے نہیں۔" 

وہ خاموش ہو گئی۔

"تم مرنا چاہتی تھیں؟"

"ہاں۔" اس نے اطراف کر لیا۔ "میں نے خود کو مارنا نہیں چاہا تھا، لیکن وہ سب جب وہاں ہوا تو میں نے دعا کی تھی کہ کاش میں مر جاؤں۔ کیونکہ میں خودکشی نہیں کر سکتی تھی اور طبعی عمر تک خود کو گھسیٹ نہیں  سکتی تھی۔ میں بظاہر بھگتی رہی خود کو بچانے کے لیے اوع اندر ہی اندر میں یہ خواہش کرتی رہی کہ میں زندہ نہ رہوں۔"

مجھے سزا دینے کے لیے، یہ بتانے کے لیے کہ. اگر ہم زندہ لوگوں کئ قدر نہیں کرتے تو وہ مر  کے اپنی قدر بڑھو لیتے ہیں. "

وہ خاموش رہی کیونکہ  یہ ہی سچ تھا.  وہ عالیان اور دادا کو مر کر  دکھانا  چاہتی تھی  اسلیے بھی  کہ اسے زندہ رہنے میں دلچسچی نہیں.  رہی تھی.  

"پاکستان آجاو. "

ایسا نہیں ہو سکتا ... وہ رو دینے کو ہو گئ. 

"پھر  چلی جانا میں تمہاری دیکھ بھال کرنا چاہتا  ہوں تم سے ملنا چاہتا  ہوں"

وہ دادا کئ طرف  دیکھنے لگی. "آپ مجھے  واپس نہیں آنے دے گے؟؟"

"ایک نمازی سے وعدہ لے لو"دادا نے بہت پر یقین انداز سے کہا.. 

"ٹھیک  ہے پھر  مجھے  وعدہ دیں. "اس نے بہت دیر سوچنے کے بعد کہا.

اس کے پاس دس چھٹیاں  تھیں, وہ ان چھٹیوں میں جا کر  واپس آسکتی تھی. اس نے اپنا ٹکٹ بک کر والیااور ویرا  کو ساتھ  چلنے کے لئے کہا. 

"تم لیوپر  ہو میں نہیں. "ویرا نے اس کی گال پر چٹکی  لی

. " چند دنوں کئ بات ہے.  تمہیں  یونی سے نکال نہیں دیا جاے گا. "

ویرا وار زیادہ ہنسنے لگی لیکن شرارت سے. "میں تمہارا یہاں انتظار  کروں گئ بلکہ ہم سب کریں گے. "

میں ایک خود غرض  لڑکی ہوں نا ویرا؟؟؟عالیان کے ساتھ  وہ آگے اسے بڑھئ  کیسے اس پر سرف  اس کا حق تھا . اور خود غرضی سے بھی  ویرا کے بارے میں نہیں سوچا اور اب وہ اتنے  دنوں سے ویرا سے بات کرنا چاہ رہی تھی  لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی  .

"تمہارے  کمرے میں رکہا وہ البم  میں نےدیکہ لیا  ہے جس  میں میری تصویر  پر تم نے لکھا  ہے.  دوستی کئ تعریف  کے لیے  ویرا کا نام کافی ہے.  اگر تم خود غرض  ہو تیں تو اپنے البم میں جگہ جگہ مجھے  محفوظ نہ کر تیں. "

" میں تم سے حسد کرتی رہی اور تمہیں اپنا دشمن بھی  سمجہتی  رہی لیکن یہ سب پرانی باتیں ہیں

پھر  میں نے عالیان  کے لئے تم سے بہتر کسی کو نہیں پایا. "

ویرا ہنس دی. " عالیان کے لیا تم ساری دنیا کو اپنا دشمن بنا لیتں  . یہ سرف تم ہئ کر  سکتی ہو اور میں ان جزبات  کئ قدر کرنے پر مجبور  ہوں. "

"تم دکہ اور تکلیف  سے گزریں؟؟بہت مشکل سے امرحہ یہ پوچھا پائ. 

"ہاں میں گزری امرحہ!لیکن اس سے بہت کم جس سے تم گزریں  میں تم دونوں سے محبت کرنے پر مجبور ہوں.  تم سرف عالیان کی ہئ نہیں ہو اور عالیان  سرف تمہارا  ہئ نہیں ہے اور یہ حسد ورشک سے کہیں آگے کے جزبات  ہیں. " اپنے گال سے اس کے گال رگڑ کر ویرا طلئ گئ.  یہ سبح کا وقت ہے اور وہ یونی جانے سے پہلے اس سے مل کر جاتی ہے. 

ٹھیک  ہے.  وہ عالیان  کے ساتھ  آگے نکل آی ہے لیکن اب اگر وہ گردن موڑ لر پیچھے دیکہتی  ہے تو جانتی  ہے کہ پیچھے  کتنی توڑ پہوڑ  کرتی آی ہے.  اور اس توڑپہوڑ میں سب سے زیادہ نقصان  میں ویرا ہئ ہے. "

انسان اپنے  عمل میں کتنی ہئ کھرا  کیوں نہ ہو, کہیں نہ کہیں وہ اتنا پست سرور ہو جاتا ہے کہ خود سے بھی  نظریں نہیں ملا پانا.  ویرا کی سورت یہ پستی اسے یاد رکہنی ہوائ. 

اگلے دن جب اس کی فلایٹ تہی پاکستان کئ تو رات کو سوتے میں غیر  معمولی آوازں کے ارتعاش سے اس کی آنکھ کھل  گی.  دن بہر اس کی عالیان  سے بات نہیں ہو سکی تھی کہ وہ اسے بھول گیا آخر بھول گیا. 

وہ چند دنوں سے کافی مصروف نظر  آرہا تھا  اس سے کھڑے کھڑے  مل جاتا اور ماما مہر کے ساتھ  باتوں میں مصروف  رہنا.  اس کے سامان کو اس نے معنی خیزی  سے دیکھا  اور کوئ تبصرہ  نہیں کیا اور اسے یہ سب برا  اور اسے کوئ فرق نہیں پڑ رہا ھے.. یعنی محبت پھر سے کم ہونے لگی ہے.دونوں کے درمیان متوقع ضروری باتیں ایک طرف رہ گئیں اور جیوں رہ گئیں وہ سوچتی رہ گئ 

تو رات کے پہلگ پہر اسکی آنکھ کھلی اسے سمجھ نہیں آئ کہ اتنی ٹھنڈ میں سادھنا نے اسکے کمرے کی کھڑکی آخر کس کے لیے کھول دی کہ  جو براازیلا میں گولی سے نہیں مری یہاں ٹھنڈ میں مر جائے.. جب وہ سوئ تھی کھڑکی بند تھی اب کھڑکی کھلی تھی اور ٹھنڈی ہوا فرصت سے اندر آ رہی تھی  اور ساتھ اپنے سنگ کچھ اور بھی لا رہی تھی 

یہ ننھی منھی چھوٹی بڑی گھنٹیوں کے  ہوا کے دوش پر بجنے کی آوازیں تھیں .. وہ زیر لب ہنسی .. یہ میرا خواب ہے.. تمہیں تو پھر آگے بڑھنا چا ہیے.  وہ کھڑکی تک آئ 

 دھند میں لپٹے درخت پر شٹل کاک کے بیرونی دیوار پر لگی لائٹ ایسے پڑ رہی تھی کہ وہ آدھا اندھیرے میں تھا آدھا نیم روشنی میں اور جو نیم روشنی میں تھا وہ رنگ برنگی اشکال  میں جھولتے کارڈوں سے سجا تھا اور وہ اس دو شیزہ کی طرح مسکرائ جسے اسکا غمشدہ جوتا مل چکا تھا 

حال ماضی کے درخت کی شاخوں پر فاتح ہونے پہ متبسم ہے تو شہزادے نے جان لیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور ادھوری کہانی مکمل کرلی گئی ہے اس نے ھرم.کوٹ پہنا دائیں ہاتھ سے مفلر کو گردن پر بل دیے بائیں ہاتھ سے اسے کام.کرنے میں مشکل ہوتی تھی لیکن اب یہ مشکل.رفع ہو گئ تھی

 درا صل سارے ہی دربدر برازیلا کے اسپتال میں ہی رفع ہو گئے تھے  اس نے ہر رات درخت پر جھولتے پیغامات پڑھنے کے خواب دیکھے تھے اس کے خواب نکل کر حقیقت میں بدل گئے وہ باہر آئی اور گھوم کر کمرے کے سامنے لگے درخت کی طرف آئی یہ میرا خواب ہی ہے ہاں ضرور خواب ہی ہے وہ بڑبڑائی پیغامات مختلف رنگوں سے جھول رہے تھے 

عالیان :سکے پر کند نام امرحہ کی طرف اچھالا جو اس کی پیشانی پر سج گیا 

امرحہ:اسی سکے پر کند نام امرحہ نے عالیان کی طرف اچھال دیا جو اس کے انکھ کے پاس دمک اٹھا عالیان اندھیرے حصے میں کھڑا تھا امرحہ اسکی موجودگی سے انجان تھی اس کا خیال تھا امرحہ کو درخت تک لانے میں بہت دشواری ہو گئی مگر ایسا نہیں ہوا اندھیرے سے روشنی کی طرف اس نے قدم بڑھائے

محرم کے کانوں میں سر گوشیاں عیاں کرنے کو لپکیں اور  پس منظر میں  الله رکھا رحمان کی رازو نیاز کرتی دھنیں پریم پریت کے سرگم پر دل دھنتے محو اظہار ہو گئیں 

دونوں اپنی اپنی منزل طے کر رہے تھے امرحہ کا خیال تھا کے  اس یسج لڑی کو کارل اور سائی نے مل کر سجایا اور چلے گئے ۔اس نے ہاتھ بڑھیا اور ہوا میں جھولتے پیغام پکڑ کر پڑھنے لگی۔

میں نے تمہیں بہت یاد کیا ۔

دلفریب خوشی کے احساسات امرمہ کے دل پر نازل ہونے لگے وہ دوسرا پیغام پڑھنے لگی

تم ایک جادو گر ہو امرحہ امرحہ یوں مسکرائی جیسے اسکی بات چرا لی ہو 

جب تم نے رونا شروع کیا میرا دل چاہا میں بھی تمارے ساتھ رو دوں کیونکہ ایک ہی جیسے لوگوں کو ایک ساتھ موقع کب ملتا ہے 

امرحہ نے قہقہہ  لگایا اور ڈر گئی  کیونک اندھیرے میں درخت کے پیچھے سے  عالیان سامنے آ گیا 

اوو تم یہاں ہو؟ 

ہاں تو مجھے کہاں ہونا چاہئے 

جہاں غائب رہنے کے لئے تم موجود رہتے ہو۔اسے یاد ایا وہ تو اس سے ناراض تھی ۔

وہ محبت سے اسے دیکھتا رہا اور یہ ناراض ہونا فرض سمجھتی حق بھی 

میں نے ان پیغامات کو جلا ڈالا تھا میری یاداشت اچھی ہے دن رات لگا کر پھر سے لکھ لیے۔وہ اپنے غائب رہنے کی وجہ بتا رہا تھا وہ مکمل امرحہ سے چھپا رہا تھا کہ کیا غلطیاں کر رہا ہے ۔

تماری بالوں کی نوکیں تماری آنکھوں کو پریشان کر رہی ہیں 

کیا میں تماری انکھوں کو اس پریشانی سے بچا لوں؟ 

اس نے مزہب انداز سے پوچھا اور جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اس کی آنکھوں کو پریشانی سے بچا لیا

اپنی پیشانی پر اس کا لمس محسوس کرتے ہوئے وہ زرا پیچھے ہوئی اور سر اٹھا کر پیغام پڑھنے لگی۔

اس نے ایک چالاکی کی تھی دوسری زبانوں میں بھی پیغام لکھے تھے تا کہ امرحہ اس سے ان کے مطلب پوچھے وہ دو دن سے بھاگ بھاگ کر مختلف ہال میں جا کر لکھواتا رہا وہ ہنس ہنس کر لکھتے رہے اگر امرحہ گوگل کرتی تو سب کا مطلب اس پتہ چل جاتا کے عالیان مجھے اجازت دو میں  تماری ناک پکر لوں کارل کے ہاتوں آنکھوں کے اشاروں سے کچھ ایسا مطلب ہی نکل رہا تھا ۔

کیا تم نے ٹھیک سے ناک صاف کرنا سیکھ لیا 

نہیں 

گندی چاکلیٹ کے ساتھ ناک بہتی ہے 

اور چینی میں ایک جملہ عالیان تم ایک اچھی لڑکی ہو بلکہ تم میں بہت ساری لڑکیاں چھپی ہوئی ہیں 

اور جاپانی جملے کا ترجمہ خدا کے لیے اپنے ایشین فیلنگ کو سنبھال کر رکھو آدھی یونی ان سے الجھ کر زخمی ہو چکی ہے جو بچی ہے وہ زخمی ہونے کے لیے قطار میں کھڑی ہے 

اور مصری جملہ تھا 

شکر ہے خدا کا ہمارا مانچسٹر  ڈوبنے سے  بچ گیا

اور کورین جملہ عالیان مجھ پر شکر لازم ہے لکھنے کے لئے کہا تھا اور کچھ یوں لکھ گیا 

ہم بھی  مانچسٹر کی پیداوار اپنی امرحہ لاہور پر اترے گی انہیں بھی معلوم ہو دن میں تارے رات میں سورج کیسے دکھتے ہیں پھر کیا، وہ شکر ادا کریں گے 

اگلا جملہ اطالوی میں تھا وہ وہاں پہنچ گئی یہ کیا لکھا، ہے اس نے زمین پر گھٹنے ٹیک دیا، اس کا ہاتھ پکڑ لیا  اس پر یہی لکھا ہے میرے سامنے جھک کر میرا ہاتھ تھام لو۔

اتنے چھوٹے جملے کا اتنا بڑا مطلب 

ہاں جیسے ایک امرحہ کا مطلب سارا عالیان

اس سے اگلا پیغام فرنچ میں تھا اس نے  چور آکھوں سے عالیان کو دیکھا اور پوچھنے کی غلطی نہیں کی ۔مگر بتانے کی جلدی کی  اس کا مطلب ہے میرا دوسرا ہاتھ بھی تھام لو ۔۔بیٹھے بیٹھتے ہی اس نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا 

اس بار اس کی ہنسی اتنی گونجی کے سیف الملوک میں پریاں کی آنکھوں میں چمک اتر آئی ہو جیسے۔

ایک پیغام کو وہ دوبارہ دوہرانے لگا، ہاتھ پکڑ کر  امرحہ مجھ سے شادی کرو گی۔؟ جان کر، دوہرایا اس نے 

امرحہ کا سارا وجود ہی خوف میں سمیٹ آیا اور اسے یاد آیا زندگی بھی کن کن مراحل سے گزارتی ہے وہ سب پیچھے رہ گیا، تھا اگے اب بڑھنا، تھا 

محبت پر فرمان غالب آ گیا اور فراق رخصت ہو گیا محبت کو من کر کے محرم بنا دیا۔اب نہ تکرار کی ضرورت رہی نہ انکار کی۔

               ©©©©©©©©©©(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

وہ لاہور واپس آ گئی اور دیکھ کر بہت خوش ہوئی گھر ایسے سجا تھا جیسے کوئی اہم شخصیت آ رہی ہے اس کا نیا کمرہ بہت سجایا گیا مگر اس نے وہ حماد کو دے دیا خود اپنے اور دادا کے کمرے میں رہی

دانیہ کی منگنی ٹوٹنے کی خبر تو اسے مانچسٹر میں ہی مل گئی تھی واپس آ کر پتہ چلا خاندان سے تعلق بھی اب برائے نام رہ گیا 

سب گھر والے والوں کو اس کے زخمی ہونے کا دادا نے بتا دیا، تھا گولی لگنے کا نہیں دادا اکیلے ہی اسے ائرپورٹ لینے آئے تھے وہ سمجھی نہیں تھی کیوں کیونکہ وہ گلے مل کر بہت رونا چاہتے تھے اسے سمجھ نہیں آ ریی تھی کیوں رو رہے ہیں ابھی وہ ٹھیک ہوئی تھی اسے دادا کی حرکت مشکوک لگ رہی تھی  بلکہ دادا سے ہی ڈر لگ رہا تھا 

یہ اتنا دور رہنے کا اثر تھا یا زخمی ہونے کا دادی اماں اس سے اکلوتا ہونے جیسا سلوک کر رہی تھی اس کے آنے کے تین گھنٹے بعد ہی تینوں میں جنگ چھیڑ گئی حماد علی اور دانیہ اپنی اپنی چیزیں لے کر قعلہ بند ہو گئے تینوں نے اس کا سامان کھول کر خود  ہی سب کچھ نکال لیا تھا تین گھنٹے بھی پتہ نہیں کیسے روکے رہے 

اس کو آئے ایک ہفتہ نہیں ہوا کے اس نے سنا، دادی کسی فیملی کو بلا رہی ہیں اس نے بہت آرام سے خود کو واش روم میں گرا لیا اور ظاہر کیا کہ اس سے  تو چلا نہیں جاتا

آنکھوں کے اگے اندھیر چھا جاتا اور وہ بات کرنا ہی بھول جاتی سب ڈرامہ کیا 

دادا البتہ زیرِ لب دیکھ کر ہنستے اس نے سوچا یہ اپنا شہریار تیار کر کے بیٹھے ہیں ایک دو شہریار دادی اماں کے پاس بھی ہیں 

اس نے اور عالیان نے سب معاملات میں بات کی تھی امرحہ نے اس لیے نہیں کی فلحال کچھ بگاڑنا نہیں چاہتی تھی وہ یہ سب واپس جا کے کرنا چاہتی تھی حالات جیسے تھے ویسے تھے بس فرق تھا  اس بار عالیان اس کے ساتھ تھا دادا کو منانا، تھا 

عالیان نے اسے بتایا تھا دادا کی اور اس کی بات ہوتی رہتی ہے 

تم سے ملنے کچھ لوگ آ رہے ہیں جس بسر اس نے  معزور کا ڈرامہ کیا دادا وہی آ کر بولے

لیکن میں تو چل نہیں سکتی کیسے ملوں گی؟ 

آپ بھول رہے ہیں برازیلا میں کوئی گولی لگی تھی گولی سمجھتے ہیں آپ وہ گولی زرہ سی نظر آنے لگی۔

ہاں گولی مطلب گولی ہی دادا ہنس پڑے۔تو گولی کھانا آسان ہے اتنا درد رہتا مجھے چکر بھی آتے ہیں  مانچسٹر سے لاہور صرف آپ کے  لیے آئی ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ٹھیک ہو گئی مجھے بیمار سمجھا جائے دادا

وہ بیمار کے کمرے میں آجائیں گے دادا اس کے انداز سے  محفوظ ہوئے ۔

ہو سکتا ہے اس ٹائم میں سو رہی ہوں وہ نیم دراز ہو گئی 

جب تم جاگ رہی ہو گی وہ تب آئیں گے 

میرے کمرے سے دوائیوں کی بو، آتی ہے مجھ سے بھی  سادھنا کہتی ہے چھی چھی منہ بنانے میں تو  اس کا جواب نہیں ۔

دادا بہت دیر ہنستے رہے پھر بولے میں ان مہمانوں کو انکار کر دوں کے تم نہیں ملنا، چاہتی 

جی بالکل پھر کبھی سہی

پھر کب تم مانچسٹر چلی جاؤ گی لیڈی مہر کے پاس کئ وہ تمارا ہاتھ نہ مانگ لے

اس نے چونکنے میں وقت لیا کیونکہ بات دیر سے سمجھ آئی

آپ مزاق، کر رہے ہیں نا، دادا

نہیں امرحہ اب مزاق نہیں انہوں نے سنجیدگی سے کہا 

سنو میری پیاری مانچسٹر سے دو خوبصورت لوگ لاہور آئے ہیں  لیڑی مہر اور ان کا بیٹا عالیان اس وقت وہ ہوٹل میں  ہیں ابھی ان کے ساتھ چائے پی کے آ، رہا ہوں کل دن میں عالیان ہمارے گھر آئے گا ۔

امرحہ کے دیکھنے اور سننے کےا نداز  میں بے یقینی  تھی. 

آپ کیا کر  رہے ہیں دادا؟اس نے سہم لر پوچھا  اس کا رنگ پیلا  پڑ گیا.  اور اس کے شانے  میں تکلیف  اٹھی  اور بڑہنے لگی. 

"وہ سب جواب  میں تمہارے  لئے کر  سکتا  ہوں. مجھے  تمہیں کچھ  باتیں بتانی  ہیں امرحہ! تم جانتی  ہئ ہو کہ میری ماں اس کے لئے  مر  گئ  تھیں کہ انہیں سانپ نے کاٹ لیس تھا اور ان کا بروقت علاج  نہیں ہو سکا  تھا.  ہم سب بہن  بھائ  ان کے گرد جمع  ہو کر  رو رہے تھے  اورمیںں دیکھ رہا تھا  کہ کیسے  موت ان کئ سفیدی کو سیاہی میں بدل رہی ہے.  وہ میری زندگی کا سب سے درد ناک وقت تھا  اور دوسرا درد ناک وقت وہ تھا  جب تم میرے سامنے بیٹھی رو رہی تھیں.  امرحہ تمہیں  بھی  سانپ نے کاٹ لیا  تھا  اور زہر تہماری  آنکھوں سے پھوٹ  رہا تھا  وہ سنگ چور تھا  اور اس کا زہر تمہاری رگوں  میں دوڑتا مجھے  دکھائ  دینے لگا تھا.  تمہاری  سورت  کئ سیاہی نے میری آنکھوں  کا نور  جزب  کرنا شروع  کر دیا اور میں جان گیا کہ بر وقت علاج  نہ ہوا تو کون تمہیں مرنے سے بچا سکے گا.  میں نے عالیان  کے لئے  لیڈی  مہر سے بات کرنا چاہی  لیکن مجھے  سادھنا  نے بتایا  کہ عالیان  اور ویرا  شادی کر  رہے ہیں  . میری غیرت  نے گوارانہ  کیا کہ میں عالیان سے بات کروں.  لیکن میں خدا کے خدمت میں اپنی بات رکہ  دی  ہے حقیقتاً یہ مجھے  اس وقت معلوم ہوا جب میں نے برازیلا  میں اس سے بات کی. "

...........................

پہلی گفتگو  کے بعد دوسری گفتگو  ڈیڑھ گھنٹے  کے بعد ان کے درمیان ہوئ.  دادا نے عالیان کو فوں کیا تھا 

"تمہیں حیرت  ہوگی میری بات سن کر لیکن اگر تم یقین  رکہو کہ میں جہوٹ نہیں بول رہا تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک دم سے تمہیں  اپنے  دل کے بہت قریب پایا ہے جنتی ہی قریب امرحہ ہے.میں ان احساسات  کئ قدر کرتا  ہوں جن کے زیر اثر  تم اس حالت میں نظر آرہے  ہو.  میں ایک بوڑھا  انسان ہوں میری سوچین بھٹک بھٹک جاتی ہیں لیکن میری ایک سوچ تم پر آکر ٹھہرا  گئ ہے کہ میں نے جسیے  انسان کے بارے میں امرحہ کی باتیں لاپروائ  اور تنفر  سے جیون سنیں . میں نے اس بات کو معمولی کیوں جانا جب اس نے کہا کہ تم ایک اچھے انسان ہو. "

عالیان خاموشی  سے سب سنتا رہا اور حقیقت  یہ تھی  کہا اسے اس بات کی پروا  نہیں تھی  کہ دنیا میں اپنی عظمت  کئ دھاک  کس کس پر بٹھا چکا  ہے اسے سرف ایک ہی دکھ تھا  کہ جو پیغامات  اس کے لے  لکھے گۓ اس نے وہ نہیں لیے اور جو ہاتھ  اس سے چھوٹ گیا اس نے وہ مضبوطی پکڑ کیوں نہ لیا.  اس وقت اس پر اپنی ذات کئ ساری پستیاں اور خرابیاں عیاں ہوگیں  اور اس نے اپنا ساری بد سورتی دیکھ کئ. 

"کبھی  کبھی  ہم بوڑھے کچھ  باتیں دیر سے سمجھتے ہیں. "دادا نے یہ آخری بات کی جو ایک پچھتاوے کا احساس  لئے ہوے تھی.......... 

"تم نے مجھ سے کہا کہ انسان کے ہجوم  میں تمہیں  ایک انسان ملا جس کئ آنکھ  میں رحم دلی اور اخلاق میں نرمی ہے.  میں یہ کیسے  بھول  گیا  کہ ساری زندگی تم نے بے رحمی اور بد اخلاقی  ہی دیکھی تھی  تو اب اس کی اصل قدر دان تم ہی تو تھیں  . تم نے کہا امرحہ تمہیں ہمیشہ  اپنی قسمت پر شک رہا جو عالیان کے ملنے  سے رشک میں بدل گیا اور تم نے کہا امرحہ کہ مشرق  ایک گنجان  خط ہے,  فلسیفوں کے ان فلسفوں سے بھرا ہوا جن کے پنیدے میں تعصب ہوتا ہے اور کنارے پر منافقت. 

تم نے اتنی بڑی بات کہہ دی  میں کی راتیں اس سوچ کو لے کر  جاگتا رہا کہ تم نے اتنی  بڑی بات کسے سکھ  کئ.  تم معاشرے  کئ جڑوں میں کب گہس گیں اور کھری کھوٹی حقیقت  کیسے  اکھاڑ لائیں.؟؟؟

تو تم واقعی میں بدل چکی تھیں ۔مجھے پہلے اس سوچ نے پریشان رکھا پھر جب میرے دل سے خود ساختہ تعصب چھٹا تو مجھے تم پر فخر ہوا

ہاں امرحہ قیمتی انسان سے مطلب حسب و نسب

میں یہی چاہتا تھا تم ہم دو میں سے ایک کا انتخاب کر لو

امرحہ کچھ وقت لگتا ہے ہم اپنے آپ کو پا ہی لیتے ہیں اور میں نے بھی اپنا کھرا کھوٹا پا لیا تمارے پاس کوئی آئلہ نہیں تھا انسان کے ناپنے کا پھر بھی تم نے جان لیا انسان کس کو کہتے ہیں ۔

اگر تم بے قصور ہوتے ہو تو قصور ہمارا بھی نہیں ہوتا ہاں امرحہ ہمیں یہ مان رہتا، ہے کہ ہماری اولادِ ہمارا سر نیچا نہیں ہونے دے گی ۔میرے جیسے اولاد کی  خوشیوں کو نیچا نہیں ہونے دیتے۔ایک دن میں پارک میں بیٹھا ہوا تھا دیکھ رہا تھا بچے پرندوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ایک بچے نے اپنے باپ سے کہا مجھے باڑنا ہے باپ نے اسے  کندھے پر اٹھا لیا، اور  بازوں اس کے پکڑ کر  کھول کے  بھاگنے لگے اڑنے کے انداز میں  وہ ایک اچھا انسان تھا مجھے سیکھا گیا کے میں  تمارے دو پر کیوں نہیں بن گیا تاکہ تم اڑ سکو میں  نے تمہیں موت کی طرف کیوں دھکیل دیا میں  نے تمارا سارا جوش خروش ختم کر دیاتمارے مقصد ختم ہو گئے تم بجھ گئی میں  نے پھر اپنا آپ تمہیں دے دیا.یہی سیکھا انسانوں کی قدر کرو انہیں گم نہیں ہونے دو۔

لیڈی مہر نے مجھے خود فون کیا تھا  مجھے  بہت سارے  حساب کتاب کرنے ہیں اسی لیئے انہیں اور تمہیں بولایا 

میں نے ہی انہیں منا کیا تھا میرے انے کا نہیں بتائیں مجھے پتہ تھا تم منا کر دو گی واجد سے ڈراؤ گی۔پھر خود بھی نہیں آتی کیونکہ تم سمجھتی ہو اس صورت حال کو 

بابا نہیں مانے گئے امرحہ ڈر گئی 

وہ بعد کی بات یہ اگر تمارے شانے میں گولی کے اثرات کم ہو گئے تو لیڈی مہر کے لیے کمرہ تیار کر دو وہ ہمارے گھر رہیں گی ان کے آنے کی اطلاع تماری دادی اماں کو دے دی

شانے کی تکلیف تو ختم تھی دماغ میں تھی بابا اور  عالیان یہی سوچ رہی تھی 

اس نے ہوٹل کی شاپ سے شلوار قمیض خرید کر پہن لیا

شلوار قمیض مجھ پر سوٹ کر رہی ہے  اس نے ماما مہر سے پوچھا

یہ بنی ہی تمارے لیے ہے اس کی پیشانی چوم کر انہوں نے کہا 

اسے تسلی نہیں ہوئی کیونکہ وہ تو ماں ہیں ایسے ہی بول سکتی تو اس نے ہوٹل کے باہر اسٹاف سے پوچھا سب نے ہنس کر کہا ہاں

اس نے سوچا ہوٹل والے ہیں  اخلاق نبھا رہے ہیں لاہور والوں سے پوچھنا چاہئے ۔سڑک پر دو چا نہیں  آٹھ دس لوگوں سے پوچھا وہ ہنس کر جواب دیتے اسے دل چاہا رہا تھا سب کو گلے لگا لے سجنو بیلیو میں آج لاہوری ہوایا۔

آج سے یہی میرا لباس ہے  میں بھی لاہوری ہوں  آپ کھیر کو انگلی سے چاٹتے ہو میں  بھی  آج چاٹوں گا ابھی نیا ہوں پتنگ بازی بھی سیکھ جاؤں گا نہاری پائے میں نان ڈبو ڈبو کر کھایا کروں گا ۔پھر امرحہ کو کال کی امرحہ کی دادا سے بات ہو چکی اسے پھر بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ عالیان لاہور آ چکا ہے ۔۔

امرحہ میں لوگوں سے پوچھا یہاں برف پڑھتی ہے انہوں نے کہا اتنی پڑتی ہے کہ ہم مہنوں گھر سے نہیں نکلتے 

امرحہ ہنس، دی اور 

اور یہ کہ میں ایک عورت سے پوچھا یہ امرحہ کہاں ملے گی الٹا وہ مجھ سے پوچھنے لگی کے وہ واپس آ گئی اتنی مشکل سے لاہور سے نکالی تھی اتنا تنگ کر رکھا ہے تم نے لوگوں کو 

ہاہا مجھے سارا لاہور تو نہیں جانتا 

لیکن سارا لاہور اب مجھے ضرور جان جا ئے گا۔

ایسے خوش تھا جیسے شہرِ لاہور کی چابی اسے پیش کر دی ہو 

ضرور جان جائے گا اتنا چلا کر جو بول رہے ہو امرحہ نے اس کی خوشی محسوس کر لی تھی 

چلا نہیں رہا خوش ہوں خواب میں اس شہر کی سڑکوں پر تمہیں ڈھونڈتا رہا ہوں اب خود نہیں گم جانا پیچھے شور بہت ہے 

ہاں سفر میں ہوں اس لیے 

کہاں کا سفر

اب مجھے کیا پتہ ڈرائیور چلا رہا میں پیچھے صبر بچے سے پوچھتا ہوں 

یہ تمارے ساتھ بچے کیا کر رہے ہیں؟ 

سکول کے بچے ہیں یار

تو بس میں بیٹھے ہو؟ 

نہیں رکشے میں 

کون سے رکشے میں؟ 

جس کے اگے پیچھے 5  6لوگ بیٹھتے ہیں

اف عالیان تم چاند گاڑی میں بیٹھ گئے 

اسے چاند گاڑی کہتے ہیں  سو کیوٹ

میں چاند گاڑی کو مانچسٹر کی سڑکوں پر  بھاگتے دیکھ رہا ہوں تم نے کہا 5 6 اس میں  تین اگے تین پیچھے  بیٹھتے امرحہ کو اس کی فکر ہوئی کے تنگ بیٹھتا ہے ہم تنگ نہیں ہم پانچ پیچھے بیٹھے ہیں  

پانچ امرحہ چلا اٹھی 

ہاں امرحہ تین سیٹ پر ہیں دو بچے گھٹنوں پر ہیں 

عالیان کا فون جا کر سڑک پر گرا بچوں نے شور ڈالا رکشہ روکو پھر جا کے فون اٹھا، لائے اس نے ان کیا امرحہ کی کال آ رہی تھی  وہ فون گر گیا تھا وہ سر مسل رہا تھا جو زور سے لگ گیا تھا 

تم تو نہیں گرے نا تو کوئی ٹیکسی نہیں لے سکتے تھے میں ٹیکسی کر رہا تھا پھر یہ چاند گاڑی پسند، آ گئی  ہوٹل والے تو سائیکل دے رہے تھے  مجھے رستہ معلوم نہیں تھا واپس، کر دی اگر تم سائیکل پر ہو رستہ بتاتی تم لاہور گھوم لیتے۔

ہاہا مجھے خود نہیں آتے رستے اپنے ساتھ آپکو بھی گم کر لیتی

اچھا، آؤ پھر گم ہو جائیں امرحہ عالیان کے علاوہ کسی کو نہیں ملتے۔

ہم نہیں میں نقشہ لے کر آ جاتا

یہ تمہاری یونی نہیں کے نقشہ لے آتے

میں امرحہ نہیں نقشہ ہاتھ میں لے کر گم جاؤں

دادا تو ملنے نہیں دیں گے اپنے گھر کا ایڈریس دو میں کھڑکی تک ا جاؤ گا

یہ مانچسٹر نہیں کے تم عمارتوں کو پھلانگ کر آ جاؤ

کیوں 

یہاں ساتھ  ابا، جی بھی ہوتے یہاں 

اپنے پاپا، سے ڈرا رہی ہو  میں ڈرنے والا نہیں 

مینارِ پاکستان کے پاس چاند گاڈی رکی اس نے سلفی لی اور اپ ڈیٹ کر دی

کارل کو بھوکا کمنٹ آیا یہ تمارے ساتھ بیٹھے بچے کیا کھا رہے ہیں بونے چنے کھا رہے اور شکر کر رہے کارل جیسا بھوکا نہیں اور عالیان جیسا دل نہیں 

عالیان نے لکھا اس کے کمنٹ کو ہر حال

میٹ نے  لائک کیا۔

            ©©©©©©©©

شاہی مسجد میں نماز کے بعد وہ وہاں کھومتا رہا کاغذ کی کون میں بھنے چنے کھاتا رہا پھر دادا آ ملے اور لیڑی مہر کو گھر چھوڑ آئے تھے 

تمارے دل میں شاید ہو کے تمارا، ویل کم اچھے سے نہیں ہوا، امرحہ کے گھر کی  طرف سے میں ہی تمہیں آ کر  مل رہا ہوں 

نہیں میں نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا میں یہاں اجنبیت محسوس نہیں کی میرے ساتھ میرے گھٹنوں پر بچے بیٹھے اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں چنے ڈال رہے تھے  بہت اچھا لگا اس سے اچھا کیا ویل کم ہو  گا 

دادا کو عالیان کی  بات بہت اچھی  لگی

کیا اب ہم غور طلب باتیں کریں وہ کھانا کھا چکا تو دادا نے پوچھا ۔

اس نے سر ہلا دیا

میں نے یہاں آنے سے پہلے کہا تھا صرف ایک بار اگر تم اپنے والد کو ساتھ لے آو تو آسانی رہے گی بے شک اس کے بعد تم ان سے کبھی نہیں ملنا تو تم نے انکار کر دیا 

کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کے لیڈی مہر تماری والدہ ہیں 

دادا اچھی طرح جانتے تھے وہ بہت بڑی بات کر رہے ہیں اور واقعی بڑی تھی عالیان کے چہرے کا رنگ ایک دم بدلا

ماما مہر میری ماما ہی ہے مگر ماما مارگریٹ کی موجودگی چھپانا ان پر ظلم ہے اور میں دوسرا انسان ہوں گا جو ان پر ظلم کروں گا میں آپ سے درخواست کرتا ہوں امرحہ کے گھر والوں کو ماما مارگریٹ کا بتائیں پہلے سے ہی اس نے بہت ٹھہر ٹھہر کر بات کی ۔

تم یہاں کے مسائل کو نہیں جانتے

میں اپنی خوشی کے لیے اپنی ماں کو کمتر کیسے کر دوں

عالیان امرحہ کا باپ نہیں مانے گا 

عالیان خاموش ہو گیا  جو میٹھا کھا چکا تھا وہ کڑوا ہو گیا تھا 

دادا کے ک احساس تھا اس کا دل دکھایا ہے  انہوں نے فون پر بہت باتیں کی مگر یہ بات سامنے کرنا چاہتے تھے 

شاید تم سوچو واجد ایک جاہل انسان ہے تو اس جیسے سب باپ ایسے ہی ہیں

لیکن دراصل یہ ہمارا حساب کتاب ہے سیدھا سیدھا حساب کجھور کے درخت سے جو اترے وہی کجھور جو جھاڑیوں سے ملے وہ کھجور نہیں ہوتی ہم لوگ بنیاد کو دیکھتے ہیں عالیان

ہمارے یہاں شادی دو لوگوں میں نہیں دو خاندانوں میں ہوتی ہے اور دو خاندان مل کر نھباتے ہیں 

دنیا بھر میں گھوم لو کوئی باپ اپنی اعلاد کو نقصان نہیں سوچتے اور کوئی ماں نہیں جو بچوں کی خوشی کے لیے کوشش نہیں کی ہو امرحہ کا باپ بھی اس کا برا نہیں چاہئے گا نہ ماں اس کی  خوشی سے حاسد کرے گی لیکن کچھ خانہ پوری کرنی پڑتی ہے  ضروری ہے ۔دادا کہہ کر اسے دیکھنے لگے۔

عالیان کو ایک بات سمجھ آ چکی تھی اس نے کتنی اسانی سے کہہ دیا تھا اس خطے کا سفر نہیں کرنا، جہاں انسان سے زیادہ رسموں کو اہمیت دی جاتی ہے دراصل رسموں کا احترام ہی انسان کا احترام ہے 

مجھے تماری ایک بات بہت اچھی لگی تھی تم نے امرحہ کو اگسایا نہیں ورنہ زمانہ ایسی ترقی کر چکا یہ کام مشکل نہیں تھا 

نہیں میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا اگر کرتا بھی تو امرحہ کبھی نہیں  مانتی۔

میں جانتا ہوں تم کل آ رہے ہو پر کوئی بات نہیں کرنا بعد میں دیکھا جائے گا دادا کوئی زیادہ پر امید نہیں لگ رہے تھے 

      ©©©©©©©©®

تمارا گھر بہت خوبصورت ہے امرحہ

شکریہ ۔۔ان کے سونے سے پہلے ان کے پاس بیٹھی تھی اماں اور دادی سے بھی اچھا میزبان ہونے کا ثبوت دیا

لیڑی مہر اور ان دو میں اچھی خاصی باتیں ہو گئی تھی 

مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے تمہیں گھر میں دیکھ کر 

مجھے بھی ۔۔شالٹ کا ہميشہ کہنا، ہے عالیان میرا لاڈلا ہے اب اس نے مجھے صاف صاف کہہ دیا، خبر دار جو امرحہ کو اپنی لاڈلی بنایا اگر ایسا ہوا تو وہ اہنی کہانیاں سنانا مجھے بند کر دیں گی 

امرحہ ہنسنے لگی۔" پھر ایسا غضب مت کیجیۓگا۔" اس نے جب تمھیں مورگن کی شادی میں دیکھا تھا تو میرے کان میں کہا تھا۔ "اپ کی بہو خود چل کر آپ کے گھر آگئی ہے۔"

امرحہ ہنس دی، لیکن خوف سے وہ ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہو پارہی تھی۔ دانیہ بھی اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی تو لیڈی مہر نے اس سے کہانی کی فرمائش کردی۔امرحہ اٹھ کر کمرے میں آگئ اور دادا کا انتظار کرنے لگی۔

دانیہ کو گوسپ میں کافی دلچسپی رہاکرتی تھی۔ اسی کا سہارا لے کر اس نے اپنی کالج کی لڑکیوں کی  الٹی سیدھی کہانی بنا کر سنانی شروع کی اور کہانی اتنی دلچسپ  ثابت ہوئی کہ دس منٹ کے اندر اندر لیڈی مہر سو گئیں۔

"دیکھا میری کہانی کا کمال؟" دانیہ نے فخریہ کہا۔

"ہاں دیکھا بوگس کہانیوں پر انھیں ایسے ہی نیند آجاتی ہے۔"

"تم جل رہی ہو۔"

"تمھاری خوش فہمی کو جلا رہی ہوں۔"

اگلے دن لنچ سے پہلے عالیان دادا کے ساتھ گھر آگیا اور کافی دیر تک حماد، علی، بابا اور دادا کے نرغے میں بیٹھا رہا۔ اماں اور دادی سے بھی بات چیت ہوگئی اس کی، کچھ دیر کو وہ ذرا اکیلا ہوا تو اس نے اپنی ایک سیلفی لی اور فخریہ اپڈیٹ کردی۔

"امرحہ  کے گھر لنچ کے لیےـ"

"کنجوس امرحہ نے کیا کیا بنایاہے تمھارے لیے؟"کارل کا فوری فون آیا۔

"مانسچڑ کے بھیسنے کارل کا بھیجا پرائم ڈش ہےـ"

"پھر تو مانسچڑ کے دوسرے بھیسنے عالیان کے کان سیکنڈ پرائم ڈش ہوں گے۔"

"ہاہاہا۔"وہ ل کھول کر ہنسا کیونکہ آخر کار وہ امرحہ کے گھر آچکا تھا، لیکن امرحہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ اور پھر ڈرائنگ روم سے ملحق ڈائننگ میں  اس نے اسے دیکھا۔ وہ میز پر کوئی کھانے کی ڈش رکھ رہی تھی۔ اور اس کا انداز ایسا تھا کہ وہ تو اسے جانتی ہی نہیں ۔۔ تم کون ہو اجنبی۔۔ کیا نام ہے تمھارا۔۔ پر دیسی ہو۔۔ ہمارے دیس کیا لینے آۓ ہو؟

عالیان اسے حیران دیکھتا رہا۔ "یہ امرحہ کو کیا ہوا؟"

لنچ جو امرحہ اور دانیہ کے علاوہ سب نے ساتھ بیٹھ کر کیا، کے بعد دادا نے عالیان کو چلنے اشارہ کیا۔

یعنی یہ کیا عالیان نے منہ بسور لیا۔ اس نے تو امرحہ کا کمرہ بھی نہیں دیکھا تھا،نہ ٹیرس نہ کھڑکی۔ نہ پوعا گھر کہ وہ لاؤنج کے کس صوفے میں بیٹھ کر، لیٹ کر ٹی وی دیکھتی تھی اور کس پر سے سوتے میں لڑھک کر گر جاتی تھی۔ کس دیوار کی کس تصویر کو ٹانگتے اسٹول پسل گیا تھا۔ اور لان کے کس حصے میں  وہ کرکٹ کھیلتی رہی ہےاور اس کے گھر کے آس پاس کے وہ کون سے گھر ہیں جن کی ڈور بیل بجابجا کر وہ بھاگتی رہی ہے اور وہ کون سا گھر ہے، جس کی بیل بجاتے اسے الیکٹرک شاک لگا اور گھر میں وہ کون سی اونچائی ہے جس پر سے وہ سپر مین بنی کودنے والی تھی اور وہ کون سی دیوار ہے جس پر ا نے اسکول کا

 ہوم ورک لکھ دیا تھا اور  بدلے میں اس کے کان لمبے اور پونیں ڈھیلی کی گئی تھیں۔اور وہ لکڑی کی الماری کہاں ہے جہاں وہ چھپ کر بیٹھ جایا کرتی تھی کہ گھر کے باہر ایک شیر آگیا ہے اور وہ ہم سب کو کھا جاۓ گا، بڑا سا منہ کھول کر بس غڑپ کر جاۓ گا  ہمیں۔۔ ہاں جی۔

عالیان کو ہوٹل آنا پڑا اور رات کو دادا لیڈی مہر کو بھی ہوٹل چھوڑ گۓ۔ انھوں نے رشتے کی بات کر دی تھی اور عالیان کے لیے امرحہ کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔

واجد صاحب نے دادا کے اشارے پر ان سے کہا کہ وہ سوچ کر جواب دیں گے۔ دادا کے علاوہ امرحہ  اور امرحہ  سے متعلق معلومات سب کو بہت کم تھیں۔ وہ سب بہت اوپر اوپر کی باتیں جانتے تھے۔ جیسے انھیں پتا تھا کہ امرحہ کی لینڈ لیڈی ایک بیوہ خاتون ہیں۔ انھوں نے دس بچے لے کر پالے ہیں۔ اس کا انھیں علم نہیں تھا۔ انھیں پہلے اس بات پر حیرت تھی کہ امرحہ  کے آتے ہی فوراً  وہ کیوں آرہی ہیں۔دادا نے کہہ دیا کہ میں  نے ہی بلایا ہے۔ ان کا بیٹا ہے اس کے لیے امرحہ  کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں۔

"امرحہ اسی گھر میں رہتی ہے جس می یہ لڑکا رہتا ہے؟"واجد صاحب کا پہلا سوال یہ تھا۔

"نہیں  لڑکا ہاسٹل میں رہتا ہے۔"

"اپنے گھر کے ہوتے ہوۓ ہوسٹل میں کیاں رہتا ہے؟"

"یہ خاتون مہر جسمانی نقص کا شکار ہوگئی تھیں۔ ان کے ساتھ ہندستانی لڑکی ان کی دیکھ بھال کے لیے رہتی ہے اور امرحہ کی طرح چند دوسری لڑکیاں ، تو لڑکے کا قیام انھیں مناسب نہیں لگا۔"

یہ عالیان  کے گھر آنے سے پہلے کی باتیں تھیں، جو دادا نے دادی اماں اور واجد صاحب کو بتائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عالیان  سے مل لیں تو باقی باتیں بعد میں  ہی ہوں۔ اور سب نے عالیان  سے مل لیا اور الفاظ کے استعمال کے بغیر یہ بھی بتا دیا کہ انھیں عالیان  سے مل کر کتنا اچھا لگا ہو تو دادا نے باقی باتیں بتانے کا فیصلہ کیا۔

"آپ کہہ رہے تھے کہ امرحہ کے کونووکشن کے لیے آپ مانسچڑ جائیں گے تو اب میں  بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔ پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔"

دادا نے اپنے آپ کو تیار کیا وہ اپنے بیٹے سے خوفذدہ نہیں تھے، لیکن وہ چاہتے تھے جو باتیں اب وہ آگے کرنے جا والے ہیں ان پر بھڑکے کے بجاۓ تحمل سے تبادلہ خیال کیا جاۓ۔

"کیا تمھیں عالیان پسند نہیں آیا؟"

"آیا ہے اسی لیے تو کہہ رہا ہو، وہاں چلیں گے۔۔ دیکھ بھال کر لیں گے۔"

"میں نے دیکھ بھال لیا ہے، میں چاہتا ہوں ہم دونوں کا نکاح کر دیں، منگنی کے حق میں، میں نہیں ہوں۔" دادا نے اپنی طرف سے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔

"آپ نے کہا دیکھ بھال لیا ہے اسے۔ آپ تو خود پہلی بار مل رہے ہیں۔ اور اتنی جلدی کیا ہے منگنی یا نکاح کی۔ کچھ ہی مہینے ہیں نا۔ ہم چلیں گے۔ پھر دیکھیں گے۔"

"ٹھیک ہے ہم مانسچڑ چلیں گے لیکن تم صبروتحمل سے میری چند  باتیں سن لو۔"

واجد صاحب کی پیشانی پر پہلی بار شکن نمودار ہوئی۔" کیسی باتیں؟"

"عالیان مسلمان ہے اور بہت اچھا لڑکا ہے۔"

"وہی تو آپ کو کیسے پتا بابا کہ وہ اچھا ہے؟" وہ ہنسے۔

"پتا چل جاتا ہے۔" اس دلیل کو وہ کسی بھی دلیل سے پائیدار نہیں بنا سکتے تھے۔

"ایسے ایک بار ملنے سے نہیں پتا چلتا۔"

"میرا تجربہ اتنا ہوچکا ہے کہ۔"

"میرا تجربہ آپ جتنا نہیں ہوا۔ اور مجھے تجربہ نہیں  تسلی کرنی ہے۔"

دادا نے ایسے گہرا سانس بھرا جیسے خود کو تسلی دیتے ہوں۔ "دراصل خاتون مہر ایک بے اولاد بیوہ خاتون ہیں، ان کے شوہر ڈاکٹر تھے۔ ان خوتون نے بچوں کی پرورش کے ایک پرائیوٹ ادارے سے دس بچے لے کر پالے، عالیان کے والد کو نام ولیدالبشر ہے اور وہ اس وقت ناروے میں ہے، ولیسالبشر اور عالیان کی ماں کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔" دادا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کس بات کو پہلے کریں اور کس کو بعد میں۔ وہ ذرا گھبرا سے گئے۔

"تو یہ خوتون عالیان کی خالہ ہیں؟ یا کوئی اور رشتے دار؟" شکن گہری ہونے لگی۔

"یہ اس کی ماں ہیں، پالا ہے اسے۔" دادا شکن کی کہرائی ناپ سکتے تھے۔

واجد صاحب بہت دیر تک اپنے باپ کی شکل دیکھتے رہے ان کی ساری خوشی کافور ہوگئ جو عالیان سے مل کر ہوئی تھی۔

"یعنی عالیان بھی ان ہی دس بچوں میں سے ایک ہے جنھیں یتیم خانے سے لے کر پالا ہے؟"ان کا اندر پھٹ سا گیا ۔

یتیم خانے نہیں بچوں کے 

ایک ہی بات ہوئی نا بابا باپ نے  کیوں نہیں  رکھا اسے؟ وہ عالیان سے اسے کہا نام بھی نہیں لینا چاہتے تھے 

دادا جان گئے کہ کیسا وہ لڑکا جس سے واجد خوش اخلاقی سے  بات کرتا رہا اب بد اخلاقی سے زیرِ بحث لایا جانے لگا۔

عالیان کی والدہ اسکے پچپن میں فوت ہو گئی تھی دادا نے 

کہا

میں باپ کا پوچھ رہا ہوں وہ تلخی سے  بولے

باپ اس کا لاپروا، انسان ہے اس کو کبھی بیٹے کی پروا نہیں ہوئی 

باقی رشتے دادا نانا ماموں؟ 

عالیان کی ماں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ۔

اور اس کے والدین اس کی شادی سے پہلے وفات پا گئے ۔

تو اس کی شادی کس نے کی والید البشیر کے ساتھ؟ 

ہمارے اور ان کے ماحول میں فرق ہے واجد

رشتوں میں تو فرق نہیں ہوتا خونی ہر جگہ ہوتے

بولیں نا اور باپ نے کیوں نہیں رکھا اسے؟ 

آپ نے منع کیا تھا میں ان سے کچھ نہ پوچھوں میں یہی سمجھا وہ امرحہ کی لینڈ لیڈی کا بیٹا ہے 

باپ نے کیوں نہیں اپنایا وہ بھی ایک لڑکے کو کچھ تو وجہ ہو گئی میں کاروباری آدمی ہوں مجھے پاگل مت بنائیں 

امرحہ آپ کی لاڑلی ہے اس کا یہ مطلب نہیں اسے آزادی دے دی جائے ۔یہ امرحہ کے ساتھ پڑھتا ہے نا یہ امرحہ اور آپ کا رچایا ہوا کھیل ہے امرحہ لیڈی کو اسکی ماں بنا کر لے آئی ورنہیتیم خانے ہوتا آزاد معاشرے کی پیداوار کسی کا گناہ

ایسا نہیں ہے  دادا غصے سے بولے

تو پھر کیا ہے بابا آپ کے اور امرحہ کے بیچ کیا چل رہا ہے آپ نے اسے مانچسٹر بھیجا میں چپ رہا اب اس کی زندگی کا فیصلہ میں کروں گا باپ ہوں اس کا 

عالیان بہت اچھا لڑکا ہے واجد

اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے کیا؟ 

کیا سب اچھے لوگوں کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے؟

ہاں لکھا ہوتا ہے خاندان باپ دادا شرافت رکھ رکھاؤ۔حسبُ و نسب یہ ہوتی ہیں پریشانیوں کی لکھائی ۔ایک عورت کو اٹھا لائے اس کی ماں بنا، کر ۔

وہ اسکی ماہ ہی ہے واجد

سگی ماں تو نہیں نا پھر۔۔اور باقی کے بچے۔۔وہ سب کون ہیں ۔یہ کیسا خاندان ہے نہ اگے نہ پیچھے ایک عورت اس کے دس بچے۔

ایک عظم ماں کی بے عزتی کر رہے ہو واجد دادا نے دلی افسوس سے کہا۔

آپ نے میری بےعزتی کی ہے ایسے لوگوں کو گھر بلوا کر 

کوئی ضرورت نہیں اب امرحہ کو وہاں جانے کی پہلے غلطی کر دی آپ کے حوالے کر کے 

کیا بیٹی بیٹی لگا رکھی ہے بیٹی تب ہوتی اس کے درد سمجھتے کبھی آنسو پونچھے اس کے 

اسے کھلایا پلایا جوان کیا کیا کم ہے؟ 

بڑا احسان کیا، ہے کھلا پلا کر جو جیتا ریے ہو کھلانا پلانا ہی سب نہیں ہوتا تم نے محبت کی ادائیگی کب کی تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کے رونے کے لئے وہ گھر کے کس کونے کی طرف بھاگتی ہے 

ہاں میں ایک برا باپ ہوں اب چپ کر جائیں ساری بات ختم

میں فیصلہ کر چکا ہوں آخری رائے تم سے لی ہے فیصلہ میرا ہی ہو گا۔

دادا نے ایسے سنجیدگی اور مضبوطی سے کہا کے واجد صاحب رک کر انہیں دیکھنے لگے۔امرحہ دانیہ کے کمرے میں تھی وہی سب باآسانی سن رہی تھی 

آپ مجھے سب سچ سچ بتائیں کیا ہے یہ سب؟ 

عالیان کی والدہ ایک غیر مسلم تھی اس نے ایک مسلما ولید سے شادی کی عالیان ہوا اور وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا دھوکا دیا اس نے اسے ۔اور دوسری شادی کر لی عالیان کی ماں اور خاتونِ مہر ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی تھی ۔

واجد اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا جو انہوں نے کہا اسان نہیں تھا 

آپ ایک غیر مسلم عورت کے بیٹے کے لیے امرحہ کے رشتے کی بعث کر رہے ہیں۔

تجربے کی آنکھ سے دیکھا ہے میں  نے یہ سب دیکھ چکا پہلے بھی دادا اٹھ کر کھڑے ہو گئے ۔کمرے میں دادی اور اماں آ گئی کے بات بڑھ نہ جائے۔دادا نے سب کو دیکھا اور کہا۔امرحہ میری ہے اور اس کے فیصلے کرنے کا حق بھی میرا ہے عالیان بہت اچھا لڑکا ہے مجھے اس کے ماضی سے کوئی سرکار نہیں ۔مجھے وہ پسند ہے میں امرحہ کی شادی اسی سے ہی کروں گا۔

آپ کو لڑکا پسند ہے یا پھر آپ کی لاڑلی اسے خود پسند کر کے لائی ہے؟ 

واجد تیزی سے کہتے امرحہ کی طرف بڑھے. امرحہ انہوں نے چلا کر بلایا

واجد دادا ان کی طرف لپکے

تمہیں وہاں پڑھنے بھیجا تھا یا یہ سب کرنے؟ وہ دانیہ کے کمرے میں اسکے پاس گئے اور بازو سے  جھنجوڑا

دادا نے لپک کر انہیں امرحہ سے دور کیاعماد علی دانیہ سب کمرے میں موجود تھے 

جاہلوں والے طریقے نہیں کرو تحمل سے بات کرو۔

کون ہے یہ امرحہ تم جیسے یہاں لائی ہو؟ 

دادا اسے بازو سے پکڑ کر بڑے جتن سے اپنے کمرے میں لائے

امرحہ رونے لگی یہ اسکی خوش فہمی تھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بیٹھ جاؤ واجد خدا کے لیے تم وہ ہو اپنی اولاد کے پاس بیٹھ کر پیار سے کبھی بات نہیں کی تمہیں یہ بھی نہیں پتہ امرحہ وہاں کون سے مضمون میں پڑھ رہی ہے اور چلے ہو اس کی زندگی کے فیصلے کرنے تم جسے باپ ہوتے ہیں جن کی اولاد گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے اہنی بیٹی کے پاس بیٹھو اسے سنو اس کی جگہ خود کو رکھو پھر دیکھو

مجھے یہ رشتہ پسند نہیں بات ختم

بس نہیں آپ نے شہریار کی بات کی تھی اس کے خاندان کو بلوا لیں

تو تم نہیں مانو گے 

کبھی نہیں میں نے اپنی ناک نہیں کٹوانی خاندان میں 

ٹھیک ہے واجد بات ختم دادا نے دادی اماں کو اندر بلویا اور کہا جمعہ کو امرحہ اور عالیان کانکاح ہے میں نے امام صاحب سے بات کر لی ہے ۔

یہ بچگانہ حرکتیں چھوڑ دیں بابا بچگانہ ہوتی تو چھوڑ دیتا میں نے خاندان کے سمجھدار لوگوں سے بھی بات کر لیں 

آپ نے ڈھنڈورا پیٹ دیا کیوں؟ 

دادی اماں  کی آواز سے سہم گی امرحہ مانچسٹر بھی دادا کی مدد سے گئ تھی سب پر اچھی طرح بات واضح ہو گئی  کہ. اس کی زندگی کے باقی فیصلے بھی انہیں ہی کرنے ہیں 

وہ عالیان میں کچھ دیکھ کر ہی تو اس کے حق میں اتنا بول رہے تھے وہ کبھی بھی امرحہ کا برا نہیں چاہتں گے 

سنو واجد زندگی میں پہلی بار اس کے دل کی بات کو سمجھو تماری بیٹی اسی لڑکے کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے اور تماری مرضی اس میں لازم چاہئے ۔

تو آپ مان رہے ہیں امرحہ ہی لائی ہے اس لڑکے کو؟ 

میں سوالوں جوابوں میں تم سے نہیں جیت سکتا  تم امرحہ کو نافرمانی کی بد دعا بھی دے سکتے ہو مگر یاد رکھنا فرمانبردار اولاد کو بدعا نہیں لگتی امرحہ بالغ ہے اسے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے مگر اس نے یہ سب تم پر چھوڑا 

فرض میں سب سے پہلا فرض محبت کا ہوتا ہے 

دادا نے لیڈی مہر کو سب بات سے اگاہ کیا مگر عالیان کو کچھ نہیں بتایا 

ایک بار بابا پھر امرحہ کے پاس آئے

تمارے دادا تمارا نکاح کرنا چاہتے ہیں تم انہیں کہو تمہیں منظور نہیں پاکستان میں کمی نہیں لڑکوں کی

امرحہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی

وہ چلائے امرحہ۔۔۔۔۔

ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے دادا ان دونوں کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے 

میرے لیے کچھ تو آسانیاں پیدا کریں بہت دھمے سے اس نے کہا ۔

جانتی ہو لوگ کتنی باتیں کریں گے 

لوگ تو پیدا ہی باتیں کرنے کے لیے ہوئے میں اور تم بھی تو لوگ ہیں آج ہم شروعات کرتے ہیں سب کے خود منہ بند ہو جائیں گے دادا نے بھی آرام سے سب بول دیا ۔

دنیا آپ کے اشاروں پر نہیں چلے گی 

دنیا میرے اشاروں پر نہیں چلے گی تو میں بھی دنیا کے اشارے پر نہیں چلتا۔امرحہ کی خوشیاں تو میں ہر گز اس کالی سیاہی سے نہیں لکھوں گا 

مجھے معلوم تھا یہی کچھ ہو گا بابا غصے سے چلے گئے دادا اس کے پاس اسے چپ کروانے لگے ۔

اس لیے میں نے تمہیں اور عالیان کو یہاں بلوایا میں چاہتا تو مانچسٹر آ کر تم  دونوں کی شادی کر دیتا پھر تمارا باپ بھی کہتا کہ تم نے خود سے کر لی اور میں پردے ڈال رہا ہوں پھر کبھی خاندان والے لڑکیوں کو پڑھنے نہیں بھیجتے باہر بہت سوچا میں نے اس بارے میں اب

ایک آخری حل یہی ہے کہ تم خود واجد کے پاس جاؤ کوشش کر کے دیکھو شاید مان جائے ۔

مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے 

آو میرے ساتھ وہ اسے لے کر اس کمرے میں آ گئے وہ خاموش بیٹھے تھے امرحہ قریب جا کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا 

مجھ پر وہ بوجھ نہیں ڈالیں جو میں اٹھا نہیں سکوں 

بہت مشکل ہو جائے گا پھر سب

میں تمارا باپ ہوں میرا کچھ خیال کرو میں تمارا برا، نہیں سوچوں گا۔

میرے بھلے پر ہاں کر دیں اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کیا ۔

یہ کبھی نہیں ہو گا، امرحہ ان کا انکار ہی رہا ۔

وہ ان کا ایسے سن کر کتنی دیر ان کے پاس روتی رہی۔دل میں سوچ رہی تھی دادا بھی نہ مانتے تو یہ ناممکن ہو جاتا۔

جمحے کو تماری بیٹی کا نکاح ہے واجد دادا یہ کہہ کر امرحہ کو لے کر چلے گئے ۔

یہ نکاح کبھی نہیں ہو گا دادا امرحہ اور رونے لگی۔

اگر الله کی طرف سے لکھا ہے تو کوئی بھی نہیں روک سکتا

تمارے باپ نے کہا کے بے دین لڑکے کو لڑکی سونپ کر خود نتائج بھگتنا میں خود ڈگمگا جاتا ہوں بڑے کہتے ہیں کسی کا رشتہ لینا ہو اسکی ماں کو دیکھو اور میں نے خاتون مہر کو دیکھا بہت اچھی ہیں انہوں نے اچھی پرورش کی  تو تسلی میں ہو جاتا ہوں 

دادا نے بات ختم کی چپ چپ ہو گئے جیسے نیے سرے سے حساب کتاب کر رہے ہوں ۔

لیڈی مہر گھر آئی پھر سے بات کرنے مگر بابا، چپ کر کے گھر سے نکل گئے سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے۔

ساری صورتحال عالیان کو خبر ہو گئی یہ بھی کہ امرحہ چاہتی تھی مجھے ابھی کچھ نہ پتہ چلے ٹوٹ نہ جاؤں ....

پہاڑ تھا کہ سر ہونے کو نہیں آ رہا تھا 

لیڑی مہر نے عالیان کو سوچوں میں گم دیکھا اور سمجھایا کہ تم روایتوں کے بارے میں غلط نہیں سوچو امرحہ کے دادا نے ہمیں سب پہلے بتا دیا تھا کچھ نہیں چھپایا گیا سب اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں ایک دوسرے کو غلط سمجھ رہے ہیں امرحہ کے باپ کے لئے تم غلط ہو اور تمارے لئے وہ 

ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ۔خبر دار رہنا سب کا، سامنا کرنا الگ دو باتیں ہیں ماما۔

میں ان کے اسٹور گیا سارا دن خوف زدہ ہی رہ

خود کو بہت کمتر محسوس کیا اور خوف شدت سے  لگا کہ وہ میری ماما کے بارے میں کچھ کہہ دیں گے ۔میں ان کو اپنا، سمجھتا ہوں کیونکہ وہ امرحہ کے سب اپنے ہیں ۔لیکن وہ مجھے کبھی اپنا نہیں بنا، سکتے۔

وقت لگے گا، اور سب ٹھیک ہو جائے گا

سب غلط بھی ہو سکتا ہے 

غلط بھی ہو تو بھی سوچو کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

امید بڑے کام کی چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا چاہئے 

سب پر امید ہونے سے نہیں ہوتا نا ماما

سب کچھ ایک طرف عالیان بری طرح تکلیف میں تھا کے اسے پسند نہیں کیا گیا اسے لگ رہا تھا وہ سب سے پیچھے رہ جانے والا ہے بے کار انسان ہے جیسے ولید البشر اس کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگا، رہا ہو کے دیکھ لی اپنی حثیت 

تم دو عظیم عورتوں کے بیٹے ہو میرے دل میں تمہاری بہت قدر ہے 

یہ دو عورتیں سب کے لیے کیوں عظیم نہیں ہیں اس نے امرحہ کے والد کا نام نہیں لیا۔

تو تمارے لئے ان کی کوئی اہمیت نہیں جو میں اور امرحہ ان کے بارے میں رکھتے ہیں 

عالیان شرمندہ سا ہو ایسا نہیں ہے 

جمحے کو تمارا نکاح ہے دادا نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا 

اپ نے تو کہا تھا اپ نے نکاح والی بات امرحہ کے بابا کو منانے کے لئے کی تھی 

میں بس، اس کا ردِعمل دیکھنا تھا اگر مان جاتا تھا بات اور تھی 

آپ یہ سب امرحہ کے لیے کر رہے ہیں؟ 

میں وہ کر رہا ہوں جو مجھے ٹھیک لگ رہا ہے اس میں کچھ بھی غلط نہیں نہ میں نہ تم اور نہ یہ فیصلہ 

مجھے نہیں لگتا یہ نکاح ہو گا میں خوف، زدہ ہوں اس نے دل کی بات کہہ دی دادا کے جانے کے بعد دیر تک سائی سے باتیں کرتا رہا اس کے بعد کارل سے کی ۔

امرحہ ویرا سادھنا سے ساری رات رائےاور تسلیاں لیتی رہی

دادا نے یہ بھی امرحہ کے باپ سے کہا کہ تماری بیٹی نے ایک بار خودکشی کی کوشش کی اور مری نہیں اب وہ بنا خود کشی کے مر جائے گی تم قبر پر بیٹھ کر انسو بہنا

بات اس انداز سے کی گئی کے دل رو دینے کو ہو گیا 

دادا امرحہ کے پاس آئے وہ سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی 

میں نے ویزے کے لیے کاغزات جمع کروا دیے ہیں

جلد ہی میں بھی مانچسٹر آ جاؤں گا مجھے یقین ہے واجد دانیہ اور سب کو آنے کی اجازت دے دے گا۔

آپ کیا بات کر رہے ہیں دادا وہ مجھے یہاں سے جانے دیں گے تب نا

امرحہ اب اپنے باپ کی خاموشی کا احترام کرو۔

یہ نکاح جمعہ کو ہو گا ورنہ کبھی نہیں ہو گا 

آپ نے نکاح کا فیصلہ ہی کیوں کیا، دادا سال دو، سال ٹہھر جاتے ابا مان جاتے

میری عمر دیکھو امرحہ اتنا بوڈھا سوتا بھی ہے تو لگتا ہے اب آنکھ قبر میں کھولے گی پھر میرے بعد تمارا کیا ہو گا

میں ساتھ ہوں تو واجد نہیں مان را 

میں نہیں ہوا تو کیا کر لو گی اس نے اپنی ایک دوست کو گھر آنے کا کہہ دیا تھا 

آپ اپنے مرنے کی باتیں ایسے بے رحمی سے کیوں کر رہے ہیں امرحہ ان سے لپٹ گئی 

موت تو اپنے وقت پر، آ جاتی ہے کسی سے مشورہ تھوڑا کرتی ہے اگر موت پوچھ کر آتی تو دنیا کا کوئی کام ادھورا نہیں رہتا اپنی ماں کے بعد میں نے تم سے بے حد محبت کی اور اس کی وجہ نہیں جان سکا۔

میں نے جو تمہیں تکلیف دی اسکی جتن کرتا ہوں 

آپ نے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی

دی ہے میں نے دی ہے اب دعا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔

امرحہ اور دادا ساری رات باتیں کرتے رہے

اس رات کا امرحہ کو صبع ہونے کا شدت سے انتظار تھا  وہ اس دن کی روشنی اگے وقتوں کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہتی تھی 

               ©©©©©©©©

کیا تمہاری یونیورسٹی میں سب عالیان جیسے ہی ہیں 

دانیہ نے پوچھا 

نہیں سب الگ الگ ہی ہیں عالیان تمہیں اچھا لگا؟ 

لفظ اچھا بہت چھوٹا ہے عالیان اور دادا خریداری کرنے گئے ان کا موقع مل گیا 

دادا اکثر کہا کرتے تھے امرحہ کی قسمت تم سب پر بازی لے جائے گی دادا کی ساری دعائیں تمہیں ہی لگ گئی ویسے دادا مجھے بھی کہتے رہتے ہیں کہ میں بھی ان کی پیاری ہوں اب دیکھتے ہیں کتنی دعائیں لگتی ہیں مجھے 

امرحہ ہنسنے لگی۔

بہت خوش بھی تھی امرحہ اور بابا کا خیال آتے ہی بجھ بھی جاتی یہ خیال آتا امرحہ عالیان کے لیے انکار کر دو یہ شادی نہیں ہو سکتی 

ان دنوں وہ سو نہیں سکی کھانا سہی سے کھا نہیں سکی سر میں کیسے درد رہااس کی بھی پروا نہیں کی زندگی ایک دم سے پھر سے ایسی. پیچیدہ لگنے لگی جو کبھی حل نہ ہو سکے۔دادا کی ساری حکمت دھری کی دھری رہ جائے گی 

یہ کیا ہو رہا ہے سب معمولی ہے تو مجھے کیوں غیر معمولی لگ رہ ہے وہ یہ سب سوچتی

ادھر کارل کا بس نہیں چل رہ تھا کے اسکرین سے عالیان کا گلہ دبوچ لے

تم شادی کر رہے ہو میرے بغیر 

تو نہیں کرنی تھی کیا ؟

زیادہ بکواس نہیں کرو زیادہ ایمرجنسی ہے کچھ دن روکو مجھے آنے دو

حالات کچھ ایسے ہیں  کہ ضروری ہے اور یہ شادی نہیں 

شاہ ویز کا کہنا ہے نکاح شادی ہی ہوتا، ہے  

ارے شادی رخصتی ہوتی ہے نکاح نہیں 

امرحہ کے لئے ہم کیسے بھاگ دوڑ کی کئ دن سوئے نہیں وہ ہسپتال تھی تو  اور اب شادی ہمارے بغیر کارل اور دکھی لگنے لگا

تم نے تو کہا تھا بس امرحہ کے گھر والوں سے ملنے جا رہے ہو ماما نے مجھے یہی کہا، تھا کارل تم نے کہا تھا امرحہ کو جیت لانا یہاں جیت لانے کا ماحول نہیں ہے نکاح امرحہ کے دادا کا فیصلہ ہے میں انکار نہیں کر سکا۔

کافی دیر وہ کارل سے باتیں کرتا رہا پھر، اس نے امرحہ اور عالیان کی کہانی ماما کو سنائی وہ سو گی وہ پھر بھی نہیں سو سکا اسے ڈر تھا دادا ابھی آئیں گے اور کہیں گے نہیں ہو سکتا امرحہ کا روتے ہوئے فون آئے گا کہ واپس چلے جاؤ شادی نہیں ہو سکتی 

اس میں صبع ہو گئی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اس صبع کو کیسے خوشآدید کرے اس نے وہ انگوٹھی ہاتھ میں لی جو ماما مارگریٹ نے اسے دی ماما مہر اسے ساتھ لے آئی تھی کہ ہاں ہو جائے تو امرحہ کو پہنا دیں گے اسے یقین ہونے لگا، کہ اب یہ امرحہ کے ہاتھ میں نہیں دیکھ سکے گا۔انکار کا احساس اس پر ہیوی تھا خود کو اس نے صحراؤں میں بھٹکے پایا اور اس نے. ماما کے ساتھ ناشتا کرتے وہ ناشتا نہ کرنے کا بہانہ کرتا رہا ۔

عالیان تم کب بڑے ہو گے وہ ہنس دی

شادی کے بعد۔۔ وہ ہنس نہیں سکا

تم ایسے بجھے بجھے کیوں ہو میرے بیٹے ؟

سب باتوں کا علم ہونا تمہیں ضروری نہیں امرحہ کے دادا نہیں مجھے وعدہ کیا ہے وہ مایوس نہیں لوٹایں گے ۔اور بھی بہت ساری باتیں ہوئی تھی ہمارے درمیان تم بس، یہ جان لو وہ یہ نکاح جلد، سے جلد کر دینا، چاہتے ہیں ۔

امرحہ کے بابا مان بھی جاتے تو بھی وہ منگنی نہیں کرتے 

عالیان وہ ضرور ہو کر رہے گا جو الله نے تمارے لئے طے کر لیا ہے تم نے کہا تھا تم ایک اچھی دعا مانگنا سیکھ گے ہو۔ اس اچھی دعا کو پھر، سے دوہراؤ۔

              ©©©©©©©©©

میں عالیان سے محبت کرتی ہوں اور امرحہ سے بھی اور اس خالص محبت میں کوئی کوٹ نہیں ۔اگر برازیلا میں امرحہ کی موت ہو جاتی تو دو لوگ جاتے میں نے جان لیا ایک کے ساتھ دو موتیں کیسے ہوتی ہیں ۔میں نے پھر خود کو روک لیا میرا، عالیان پر گرفت تھی جو کے امرحہ پر نہیں تھی ۔سائی کہتا، ہے بہت کم لوگ ملانے کا، سبب بنتے ہیں اکثر دور کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں ۔

عالیان کو امرحہ سے پہلی نظر میں پیار ہوا اور اسے یہی تھا ساری دنیا میں ایک وہی ہے جس کے ساتھ وہ رہ سکتا ہے آپ سب کا کہنا ہے میں اکیلی ہو، گئی ہوں میرا ماننا، ہے اب امرحہ کے بغیر شاید ہی میری زندگی مکمل ہو جب میں مانچسٹر آ رہی تھی تو پاپا. نے کہا تھا ۔دیکھتا ہوں تم مانچسٹر سے ایسا کیا لے کر آتی ہو جو روس سے نہیں ملتا۔تو اب میرے پیش کرنے کے لیے امرحہ ہے 

ساری کلاس ہنس دی

امرحہ کے پاس عالیان ہے 

عالیان کے پاس کارل اور کارل کے پاس شیطان 

کسی ایک نے کہا تو سب ہنس پڑے کارل بھی 

عالیان اس وقت پاکستان میں ہے اور چند گھنٹوں میں اس کی شادی ہو جائے گی اور مجھے ان کی شادی میں شرکت کرنی ہے  وہ بہت دھما بولی ان کی ہنسی میں شامل بھی نہیں ہو سکی۔

مجھ سے ایک لڑکی نے کہا کہ اب امرحہ سے ہار مان لی دوستی ختم کر لی تو ہم کوئی حالتِ جنگ میں نہیں تھے اور دوستی تو ویسی ہی ہے میں نے حقیقت کو کھلِ دل سے قبول کیا  ہے امرحہ اور عالیان کی کہانی کو نیک تمناؤں کی ضرورت تھی میں آج کے دن ان کے لئے بہت دعا گو ہوں 

اس کی آواز میں نمی تھی سب جان گئے کہ وہ بہادر بننے کی کوششیں کر رہی ہے ۔

میں کھوکھلی ہندی ہنس رہی ہوں میں عالیان کو بہت یاد کرتی ہوں ۔اس کا ہاتھ پکڑ نے کا حق میں نے کھو دیا۔

سائی جو ان دونوں کو اپنے ساتھ لے جانے آیا تھا کلاس کے باہر سب سن کر اس کا دل سکڑنے لگا پھر ویرا کلاس سے ایسے نکلی جیسے عالیان کی زندگی سے 

                 ©©©©©©©

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

وہ جمعہ کی نماز سے دو گھنٹے پہلے ہی آ گیا اور مسجد میں ٹیک لگائے گنبد کو دیکھ رہا تھا وہ بہت شدید مارگریٹ کو یاد کر رہا تھا اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھی اور وہ محسوس کر رہا تھا ۔مرنے والے ہمارے ساتھ ساتھ زندہ رہتے ہیں بہت دیر وہ سر جھکائے ایسے بیٹھا رہا

اس نے اپنے سر کو زرا، سا، اوپر اٹھایا ہاتھ میں پکڑا جھومر ماتھے پر لگا، کر، دیکھنے لگی ۔سرخ دوپٹے کو کھنچ کر ناک تک گھونگھٹ کی صورت لے آئی۔

دادا نے ایک دم سے دروازہ کھولا تو وہ گھبرا گی اور جھومر والا ہاتھ سمیٹ کر نیچے کر لیا ۔گھونگھٹ ناک تک ہی رہا ۔

اس نے رخ نہیں موڑا دادا نے  آئنے سے دیکھ کر کہا دلہن دلہن کھیلنے والی اب خود دلہن بنی ہوئی ہے وہ ایک نیے روپ میں لگ رہی تھی ایک الگ امرحہ دادا نے سوچا پرانی امرحہ کہاں گئی ۔نیا روپ کہاں سے چرا لائی۔

جھومر والے ہاتھ کو پسینہ آ گیا اس نے گھونگھٹ اٹھا کر مڑ کر دادا کو دیکھا اور مسکرا دی۔اس نے نہ میک آپ کیا تھا نہ زیوار پہنا تھا دائرے میں لگی مہندی اس کے ہاتھ پر برجمان تھی ۔اس نے ابھی جوتے نہیں پہنے تھے مگر قد میں اونچی تھی ۔آج اس سے زیادہ خوبصورت دنیا میں کوئی نہیں تھا ۔آج مسرت پر اس کی بادشاہی تھی ۔

دادا نے اگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی اور ہاتھ پکڑ کر واجد کے کمرے میں  لے آئے۔

وہ خوف سے کچھ بول نہیں سکی دادا نے بابا کا ہاتھ اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیا پھر لے کر باہر آ گئے ۔اماں دادی نے سب کیا جو انہیں خیرات کرنا تھا ۔شاہی گاؤں کے لوگ استقبال کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے ۔

               ©©©©©©©©©

نماز جمعہ کی ادائیگی ہو گئی اور دعا مانگی جانے لگی 

نماز کے بعد دادا حماد اور چند بزرگ عالیان کے پاس آ گئے 

خواتین والے حصے میں لیڈی مہر بھی آ گئی اور نماز سے پہلے وہ انہیں دعائیں  لے آیا، تھا اور  ان کا ہاتھ چوم آیا تھا ۔

دعا ہو گئی تو عالیان اٹھا امام صاحب نے سب نمازیوں کے بیٹھے رہنے کا کہا۔اور پھر عالیان کا تعارف کروایا 

یہ عالیان مارگریٹ ہے یہ برطانیہ سے آئے ہیں یہ مانچسٹر یونیوسٹی میں پڑھ رہے ہیں ان کی حقیقی والدہ فوت ہو چکی یہ اپنی سر پرست والدہ کے ساتھ آئے ہوئے ہیں عالیان الحمدلله مسلمان ہیں اور  بنتِ عبدالوجد عبدالکریم سے نکاح کرنے آئے ہیں یہ چاہتے ہیں آپ سب ان کے نکاح میں شرکت کریں اور دعائیں دیں۔

عالیان امرحہ کا  امرحہ عالیان کی 

عالیان نے خود پر سب کی نظریں پائی اور مسکراہٹ چھپانے میں نکام رہا ۔اس نے جانا کے سب اس کے دل کی تیز تیز دھڑکنے سن رہے ہیں ۔

عالیان نے قریب بیٹھے دادا کی طرف دیکھا اور دھمی آواز، سے پوچھا اجازت ہے دادا۔؟ 

جواب میں دادا مسکرائے 

عالیان قاری صاحب کو حق مہر، اور سب تفصیلات بتا چکا، تھا ۔پھر دادا نے گواؤں کے نام لئے اور ان کا تعارف کروایا ۔

پھر قاری صاحب خواتین کے حصے میں گے نکارہ بجنے لگا ساعت نکاح

گھونگھٹ سے وہ دیکھ سکتی تھی کون آ رہا  ہے اور کیسے ساتھ لا رہا ہے ۔وہ دونوں کتنے لوگوں کی موجودگی میں کہاں موجود ہیں ۔

یارم یارم یارم میرے یار میرے دوست میرے محبوب 

خوشی نے اپنے پرانے سارے معنی کھو دیے۔

وہ بگی سے اترا کوئی اس جیسا نہیں تھا اس کی طرف نظر بھر کے دیکھنا مشکل ہو رہا تھا ۔

وہ جو دلہا ہے 

عمبر آب سا

عشق میں قیام سا

زبان فیض میں کلام سا

وہ سنجیدہ تھا مگر اندر اس کے جشن کا سامں تھا ۔آنکھیں اس کے راز اگل رہی تھی ۔گھونگھٹ کے پار امرحہ مسکرا دی۔اسے صبع عالیان کا میسج آیا تھا ماما کہتی ہیں اگر خدا کی طرف سے نکاح طے ہے تو بس طے ہے ۔اگے ہمیں کچھ نہیں سوچنا چاہئے ۔

لیڈی مہر اس کے ساتھ تھی اور وہ دیکھ رہی تھی کے کیسے وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا رہی تاکہ اس کی ہنسی نمایاں نہ ہو ۔جب اس نے گھونگھٹ نکال لیا تو ویرا نے دیکھا وہ آج سے پہلے اتنی خوبصورت کبھی نہیں لگی

اگر یہ سرخ رنگ کا کمال ہے تو اسے ہمیشہ یہی پہننا چاہیے ۔

سب باتیں کر رہی تھی امرحہ نے اشارے سے چپ کروایا کے امام صاحب آ رہے ہیں اس نے عالیان کا نام نہیں لیا۔امام صاحب جعفری کے پاس نیچے کالین پر بیٹھ گئے ۔

عالیان بھی انہیں کے ساتھ بیٹھ گیا ۔باقی سب بھی 

عالیان اور امرحہ جعفری کے آمنے سامنے بیٹھ گئے پل کے پل عالیان نے نظر اٹھا کر  دیکھا اسے سرخ رنگ کی جھلک نظر آئی۔اس وقت اسے امرحہ کو دیکھنے کی جلدی نہیں تھی ۔

اسے امرحہ کو سننے کی بےچینی تھی ۔وہ اس مقام تک اس کی رضا مندی سے پہنچا تھا لیکن اسے وہ خاص جملہ سننا، تھا ۔

امام صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا ۔امام صاحب نے بنیادی نکات کے بعد امرحہ سے پوچھا 

قبول ہے؟؟ 

من پسند، سوال گلِ گلزار

قبولیت دو دلوں کے رنگ ایک ہو جانے کو ہے 

امرحہ نے چاہا کے کہہ دے عالیان مارگریٹ قبول ہے 

عالیان مسکرا دیا امرحہ بھی کیونکہ اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا اور اس نے سن لیا کہ قبول ہے ۔

یوں کہا کے سب سن لیں ۔

امرحہ کے بعد عالیان نے قبول ہے کہا۔قبول ہے اس نے پھر کہا۔۔۔نکارہ بجنے لگا. قبول ہے وہ کہتے رہنا، چاہتا تھا کہ کوئی ایسی سماعت نہ ہو جو سننے سے رہ جائے ۔دونوں کتنے خوش تھے انہیں محسوس ہوا کہ اب تک جو خوشیاں ملی وہ کتنی چھوٹی ہیں اس خوشی کے سامنے ۔نکاح پاک عمل ہے دو دلوں کے ملنے کا امام صاحب نے خطبہ نکاح دیا، اور دعا کرنے لگے ۔سب نمازی دعا میں شریک تھے امین کر رہے تھے ۔فرشتے بھی امین کہہ رہے ہوں گے ۔

پھر امام صاحب نے اٹھ کر عالیان کو گلے لگایا اور مبارک باد دی۔پھر دادا نے باقی سب نے گلے لگا کر مبارک باد دی

عالیان کو لگا، ساری دنیا نے اس کے نکاح میں شرکت کی ہے ۔اب جیسے ساری دنیا ہی جشن منا، رہی ہے ۔

حماد اور علی سب میں مٹھائی تقسیم کرنے لگے جو لیڈی مہر نے مہنگائی تھی ۔پھر عالیان خود بھی میٹھائی تقسیم کرنے لگا۔ڈھیروں مبارکیں وصول کی بچوں کے گالوں پر جھک جھک کر پیار کیا ۔

آپ دلہا ہو ایک بچے نے میٹھائی لیتے پوچھا 

ہاں میں دلہا ہوں 

اس نے خوش دلی سے کہا بلکہ اس کا دل تھا بار بار پوچھا جائے کہ میں دلہا ہوں ۔

دادا نے امرحہ کو کتنی ہی دیر سینے سے لگائے رکھا ۔

میں نے اپنا فرض ادا کر دیا مجھ سے زیادہ آج اس دنیا میں کوئی خوش نہیں ۔

میں کبھی بھی آپ کا شکریہ ادا، نہیں کر پاؤں گی دادا

بہت مشکل سے وہ یہی کہہ پائی۔

مسجد خالی ہونے لگی۔

عالیان نے  Anslim ہال میں مشترکہ مبارک باد دی 

اور کارل سائی سے کتنی دیر بات کرتا رہا 

دیکھ لو دلہا نہیں بھاگا وہ مورگن سے کہہ رہا تھا ۔

مورگن ہنسی تم لاہور ہو نا، روس ہوتے تو بھاگتے 

ایک سایہ سا اس کے چہرے پر لہریا ابھی اس کی بات ویرا، سے بھی ہوئی تھی وہ اس کے ساتھ کافی لمبا مزاق کرتی رہی ۔عالیان نے گہرا سانس لیا شاید ہميشہ اس کے دل میں رہنے والی تھی اس نے پیارے دلوں  میں نے ایک پیادے دل کی  مالکہ لڑکی کو ہاں کہہ کر  کیسے واپس موڑ دیا تھا ۔امرحہ کی صورت وہ فائدے میں رہا تھا ۔اس پیاری لڑکی کا نقصان کر، کے اعلا ظرفی میں وہ ویرا میں وہ ویرا سے بازی نہیں لے سکتا 

آپ شارلٹ اور مورگن کی شادی میں بھی رو رہی تھی ماما میری بھی میں تو کہیں رخصت ہو کر نہیں جا، رہا  اس نے ان کی نم انکھیں صاف کی ۔

لیڈی مہر ہنس دی الله نے میری دعا قبول کر لی۔

میری بھی ماما وہ مسکرایا۔

سب کے ساتھ فوٹو بنائے پھر ماما کو گاڑی تک چھوآیا اور دادا سے اجازت لی کچھ دیر امرحہ کے ساتھ رہنے کی

           ©©©©©©©©©

عالیان نے اس کا وہ ہاتھ تھام لیا جس میں  ماما کی انگوٹھی تھی امرحہ نے دوپٹہ لپیٹ رکھا، تھا اور سر جھکا ہوا تھا ۔اس کا ہاتھ پکڑ کر  محرابی برامدے میں لے آیا۔جس کی ٹھنڈی ہوا سجدوں اور دعاؤں کی گواہ بنی تھی ۔دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہو گئے ۔

امرحہ مجھے عالیان کہتے ہیں اس کے بعد اسے اپنا آپ یاد آیا۔

عالیان مجھے زوجہ عالیان کہتے ہیں اس کا بھی وہی حال تھا 

کیسی حیرت انگیز بات ہے امرحہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ایک لڑکی اس شہر کی ہو گی میری جان اپنی مٹھی میں لیے ہو گی۔

مجھے اس میں شک ہے 

کس میں؟ 

تماری جان میں اپنی مٹھی میں رکھتی ہوں یہ اختیار تو تم رکھتے ہو۔

وہ ہنس دیا پھر پوچھا، یہ کیا ہے انگلی سے جھومر کو چھو کر پوچھا 

یہ تم پر بہت اچھا لگ رہا ہے 

کتنا اچھا؟ 

اتنا کے میں چاہتا ہوں تم اسے ایسے ہی ہر، وقت پہنے رکھو

امرحہ من چاہی ہنسی ہنس دی۔یہ ہر وقت  نہیں لگایا جا سکتا ۔

پھر بھی میں یہی کہوں گا اسے ہر وقت لگایا جائے ۔

امرحہ کے جسم میں ہلکا سا ارتعاش تھا اور عالیان یہ محسوس کر  سکتا تھا وہ زیرِلب مسکرایا اور امرحہ نے اسکی مسکراہٹ کو بڑا محبوب پایا جس محبت نے اس کے دل پر قبصہ کر لیا تھا  ویباب اس کے  نام کر دی گئی تھی 

ملکیت کا یہ احساس سب پر حاوی ہو گیا۔

عالیان نے سوچا، جیسے چھپ کر دیکھنا وہ مقابل آ گیا وہ کون ہے جو س سے دور لے جا، سکے

میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں امرحہ۔

میں تم سے وہ سننا چاہتی ہوں 

میں تم پر مر مٹا ہوں اور مجھے اپنا مر مٹنا بہت عزیز ہے 

امرحہ دیر تک ہنستی رہی

اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں ناراض ہو جایا کرو گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا کے میں تمہیں پسند کرنے لگ جاؤں

میں تم سے لڑوں گا مگر کبھی دور نہیں کروں گا۔میں عالیان تمارا ہونے کا حق کبھی تم سے نہیں چھینو گا

دنیا میں شاید ہی کوئی مکمل زندگی گزارنا ہو ہم بھی ان میں سے ہوں گے ۔ایسا کبھی نہیں ہو گا کے ہم مکمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔

اب وہ رکا اب بولنا نہیں سننا، چاہتا ہے جو میں نے تمہیں پیغامات لکھے تھے مجھے ان میں سے کوئی سنا، سکتی ہو۔

امرحہ نے اسے دیکھا  ایسا بھی کیا ضروری ہے 

ہے  نا

مجھے کچھ یاد نہیں وہ ایسے ہو، گئی جیسے اسے تو اپنا نام بھی یاد نہیں 

سندری امرحہ اپنی یاداشت سنبھالو 

کیسے میرے سر پر زخم آئے ہیں ۔

تمارے زخم تو ٹھیک ہو گئے ہیں 

پھر بھی ان زخموں نے یاداشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مجھے یہ نہیں تھا کہ میں مرنے جا رہی ہوں مجھے تھا کے میں تم سے دور جا رہی ہوں میں نے دنیا کو دیکھنا چھوڑ دیا جب سے تمہیں دیکھا ہے  سب بھول سکتی ہوں سوائے تمارے. اس کا کیا مطلب ہے 

تم بتاؤ امرحہ کے لیے تالیاں 

تم بجھ کر دیکھاؤ

عالیان دنیا مرسب سے پیارا ہے 

ہاہاہا نہیں 

کیا میں پیارا نہیں ہوں ابھی شادی ہوئی اسے لگا، اسے صدمہ ملنے والا ہے 

نہیں  نہیں  مطلب کے اس کا یہ مطلب نہیں 

اس کا مطلب ہو گا بہادری عالیان کے دم سے ہے ۔

تم کتنے خوش فہم ہو عالیان

مجھے ایسی خوش فہمیاں عزیز ہیں 

عالیان تو تھکنے والا نہیں تھا پھر اس نے اس کے سر پر ہلکی سی ثضرب لگائی 

آئی یاداشت واپس

امرحہ ایسے خوش ہوئی جیسے واقعی یاداشت آ گئی ہو۔

                  ©©©©©©©©

ائیر پورٹ پر صرف سادھنا ہی آئی تھی عالیان کو حیرت ہوئی کوئی بھی نہیں آیا جاب پر جانا، اتنا ضروری تھا سب کو. جب وہ گھر آئے تو عالیان مسکرا، دیا دنیا میں ایک ہی مظلوم قوم ہے جو اپنے خلاف آواز بلند، نہیں کر سکتی....

ہر کام ممکن ہے شوہر بن کر انسان بن جانا مشکل ہے شوہروں کی  قوم

امرحہ کے لیے ایک نوٹ پر لکھا، تھا ہمارے پاس اب دو اپشن ہیں مانچسٹر سے نکل جائیں یا امرحہ کو جہھلنا پڑے

کافی ہنسنے کیے بعد دونوں اندر کی طرف چل پڑے. لپکے ۔دروازے پر ہاتھ رکھا وہ ایسے کھولاجیسے اندر سے کسی سےدھکا دیا گیا تھا ۔

اور ایک دم شٹل کاک کے کونوں کھدروں سے فوج نمودار ہوئی ایک زبان چلائیں سرپرائز ۔۔۔۔۔

کیسا اچھا سرپرائز تھا 

کارل ویرا سائی سب اگے کھڑے تھے 

آٹس شو ٹائم کارل نے انگلی اٹھا کر کہا ون ٹو تھری کر کے گلے میں جولتی گٹار پر زور سے ہاتھ مارا کے امرحہ دوبارہ کانوں میں ہاتھ رکھ لیا کے بہری ہی نہ ہو جائے ۔

عالیان نے خود کو اور امرحہ کو اٹھانے کی کوشش کی اور کارل ویرا اور سائی کا شور دیکھنے لگے۔جو کسی اسٹار کی خوفناک نقل کر رہے تھے پیچھے پوری یونی آ موجود ہوئی ہل ہل کر ان کا ساتھ دینے لگی 

پھر سب نے مل کر کہا congratulations امرحہ نے سوچا کیسے شریف لوگ ہیں کیسے مبارکباد دے رہے ہیں 

ان میں سے ایک نے گفٹ دیا جو بعد میں امرحہ نے بہت شوق سے  اپنے کمرے میں جا کر کھولا پنچ نکل کر اس کتناک پر جا لگا، بہت بار دیکھا تھا اس نے فلموں ڈراموں میں ایسا پنچ مگر پھر بھی اسکی ناک کو سوجا گیا ۔

ایک تحفہ کارل کے لئے لایا تھا عالیان لاہور سے گزرتے ایک ایسی دوکان سے گزار جو روایتی دیسی سامان تھا وہاں سے عالیان نے کارل کے لیے حقہ پیک کروایا اس کا طریقہ بھی پوچھا لایا تم سگریٹ بہت پیتے ہو یہ ڈیڈ ہے اس کا 

صرف ڈیڈ اٹھا لائے ماما، بھی لاتے

وہ اگلی بار جا کر لے آؤں گا. لپکے ۔دروازے پر ہاتھ رکھا وہ ایسے کھولاجیسے اندر سے کسی سےدھکا دیا گیا تھا ۔

اور ایک دم شٹل کاک کے کونوں کھدروں سے فوج نمودار ہوئی ایک زبان چلائیں سرپرائز ۔۔۔۔۔

کیسا اچھا سرپرائز تھا 

کارل ویرا سائی سب اگے کھڑے تھے 

آٹس شو ٹائم کارل نے انگلی اٹھا کر کہا ون ٹو تھری کر کے گلے میں جولتی گٹار پر زور سے ہاتھ مارا کے امرحہ دوبارہ کانوں میں ہاتھ رکھ لیا کے بہری ہی نہ ہو جائے ۔

عالیان نے خود کو اور امرحہ کو اٹھانے کی کوشش کی اور کارل ویرا اور سائی کا شور دیکھنے لگے۔جو کسی اسٹار کی خوفناک نقل کر رہے تھے پیچھے پوری یونی آ موجود ہوئی ہل ہل کر ان کا ساتھ دینے لگی 

پھر سب نے مل کر کہا congratulations امرحہ نے سوچا کیسے شریف لوگ ہیں کیسے مبارکباد دے رہے ہیں 

ان میں سے ایک نے گفٹ دیا جو بعد میں امرحہ نے بہت شوق سے  اپنے کمرے میں جا کر کھولا پنچ نکل کر اس کتناک پر جا لگا، بہت بار دیکھا تھا اس نے فلموں ڈراموں میں ایسا پنچ مگر پھر بھی اسکی ناک کو سوجا گیا ۔

ایک تحفہ کارل کے لئے لایا تھا عالیان لاہور سے گزرتے ایک ایسی دوکان سے گزار جو روایتی دیسی سامان تھا وہاں سے عالیان نے کارل کے لیے حقہ پیک کروایا اس کا طریقہ بھی پوچھا لایا تم سگریٹ بہت پیتے ہو یہ ڈیڈ ہے اس کا 

صرف ڈیڈ اٹھا لائے ماما، بھی لاتے

وہ اگلی بار جا کر لے آؤں گا

کیونکہ اب وہ محسوس کرتا کے وہ پرسکون ہو گیا ہے بے چینی کے نشان اس کے دل سے مٹنے لگ گئے تھے کافی بناتے امرحہ کو یاد کرتا اور وہی بھول جاتا امرحہ کے ساتھ لگ جاتا فون بند کرتا تو یہی سوچتا اب امرحہ کیا کر رہی ہو گی۔کبھی کبھی اسے خواب میں ڈر کر اٹھ بیٹھتا جو برازیلا میں ہوا وہ اس ٹائم فون نہیں کرتا بلکہ سائیکل لے کر آ جاتا اور امرحہ کو سوتے دیکھ کر سکون ہوتا تو چلا جاتا۔اب وہ دونوں مختلف کھیل کھیلتے میں چھپوں گا تم ٹائم نوٹ کر کے ڈھونڈنا ایک بار ایک انکل انٹی ائسکریم کھا رہے تھے امرحہ وہاں چھپی عالیان نے ایک منٹ میں بولا فریزر 

پھر عالیان چھپا تو امرحہ نے 15 منٹ میں ڈھونڈا وہ ایسے کے گرنے کا نٹک کیا اور عالیان فورا آ گیا اور اس نے پکڑ کیا

پھر دونوں قہقہے لگا کر ہنسنے لگے کتنی بڑی ڈرامے باز ہو تم  چلو پھر سے کرو وہ ساری بات سمجھ گیا یہ ڈرامہ سو بار بھی ہوا تو تم اس جال میں آ جاؤ گے ۔

میں پھر گر جاؤں گی تم پھر سے آ جاؤ گے عالیان نے چھپ جانے والا کھیل کسی اور دن کے لیے رکھا اور اسے وہ خواب سنانے لگا جس میں پھولوں سے لدی کشتی ان دونوں کے ساتھ رواں تھی اس نے اس خواب کو سچ کرنے کا وعدہ بھی کر لیا 

               ©©©©©©©©©©©

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

لیڈی مہر چند دن مورگن کےپاس رہ آئی تھی وہ نانی بن گئی تھی انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کے خدا کی کس کس نعمت کا شکر ادا کریں

انسان دوست کو خدا نوازتا ہی رہتا ہے وہ کبھی دکھی نہیں ہوتے۔

ویرا کا بھائی چند دن کے لئے مانچسٹر آیا ایک کار میں اسے ٹھنس کر مانچسٹر گھمایا بے چارا پچھلی سیٹ پر کارل عالیان اور سائی کے ساتھ  پچکپچک کر بیٹھا رہا اور ویرا کار چلاتی رہی امرحہ شور کرتی رہی 

جاتے وقت وہ ویرا کے کیے بیان جاری کر گیا 

اگر تم ان سب کو روس لانے کا ارادہ رکھتی ہو تو روس کے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

ڈگری کے بعد شادی اور امرحہ عالیان کو وہء جانا، تھا 

کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے

رات کی  پارٹی میں میں تیاری ایسے کے کسی ہیرو ہیروئن سے کم نہ لگے شارلٹ نے کارل سے ایک  فلمی پارٹی کے پاس حاصل کر لیے تھے عالیان کو تو زرا بھی دلچسپی نہیں تھی شاہ ویز سائی جا رہے تھے  

ان تینوں کا جوش وخروش دیکھ کر عالیان قہقہے لگا رہا تھا پھر شارلٹ آ گئی اس کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگی

تم نے برازیلا میں کتنے لوگ پھلانگ کر اور کتنے کو گھونسے مار کر بھاگے تھے میں یہ کہانی ماما کو ہی نہیں تماری شادی میں بھی سناؤں گی۔

ایسا کچھ نہیں ہوا وہ ہنس دیا

تو مورگن نے ٹھیک کہا تھا کہ میں شادی کے دن بھاگو گا شارلٹ نکاح کے بعد اسے کوئی پچاس بار کہہ چکی تھی اس سے بات کرتے بائے کی جگہ یہ جملہ کہنا شروع کر دیا تھا لیکن کتنا اچھا ہوتا تو عین شادی کے وقت بھاگتے کتنی حسرت ہے ایسے مناظر کو براہ راست دیکھنے کی ایسی چھوٹی خواہش بھی نہ پوری ہو تو کیا فائدہ 

تم پارٹی میں جا رہے ہو  

نہیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں  ہے،

اچھی بات ہے  ویسے ویرا اور امرحہ میرے ساتھ جا رہی ہیں این بھی اس اتفاق سے سادھنا بھی 

عالیان چونکا کیا فلم اسٹار بھی آ رہے ہیں؟ 

آئیں یا نہ آئیں تمہیں تو اس میں دلچسپی نہیں 

نہیں مجھے فلم اسٹارز سے ملنا ہے 

کس والے سے؟ پیرا مونٹ کی فلم امرحہ سے  ویسے ویرا امرحہ کافی تیار ہو کر جا رہی ہیں ۔

اچھا وہ سوچنے لگا اسے کیوں نہیں بتایا گیا 

اسے اس لئے نہیں بتایا وہ آپس میں ہی انجوائے کرنا چاہتی تھی انہیں معلوم تھا کے کارل. جا رہا ہے ۔لیکن اسے لفٹ کسی نے نہیں کروانی تھی ۔

ہال واپس آ کر وہ بھی  تیار ہونے لگا جانے کے لئے ۔ان سب کو اس پر ہنسنے کا موقع مل گیا وہ چپ کر کے ہنسی سنتا رہا اور پھر پارٹی آ گئے ۔کوئی لڑکی فون نہیں اٹھا رہی تھی اف کتنی تیز ہو جاتی ہیں جب لڑکیاں ایک ساتھ ہوتی ہیں 

عالءان سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر تھک گیا، اسے امرحہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی اسے سادھنا، اور این ایک جگہ نظر، آ گئی 

امرحہ کہاں ہے  اس نے  سادھنا، سے پوچھا، اس نے گندھے اچکا دیے۔

اف یہ خواتین بھی نا

اسے ویرا بھی نظر آ گئی قریب ہی شارلٹ تھی لیکن امرحہ نہیں تھی اس نے ان کے قریب جا کر امرحہ کا پوچھا انہوں نے اسے ایسے دیکھا جیسے جانتی نہیں کے کون ہے کیا بات کر رہا ہے 

پھر وہ خود ہی سر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگا دور امرحہ کی جھلک نظر آ ئی جو مسکرا کر کسی کی آڑ میں چھپ رہی تھی وہ اس کی طرف لپکا لیکن وہ وہاں تھی نہیں کتنی بار اسے ایسے ہی نظر آتی رہی اور غائب ہوتی رہی عالیان کو بہت شوق تھا نا اسے ڈھونڈنے کا تو وہ یہ شوق، آج اس کا پورا کر رہی تھی 

کئ سو لوگوں میں چھپ جانے کا کھیل اچھا ہے رش بڑھ رہا تھا عالیان کا کام اور مشکل ہو رہا تھا ۔اسی افراتفری میں عالیان کا پاؤں سیڑیوں سے پھسل گیا اور وہ گر گیا ایک منٹ میں امرحہ اس کے سامنے تھی ۔جاؤ پھر چھپ جاؤ میں تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا میں سو بار گروں گا تم سو بار آؤ گی عالیان نے آنکھ مار کر کہا اور اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا کے پھر چھپ نہ جائے آج وہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتا تھا امرحہ سرخ پوشاک میں تھی وہ یقینا انکار نہیں کرے گی. میں ایک خوش قسمت انسان ہوں میں ایک دوست رکتا ہوں میری خوشیوں کے رستے سارے میرے دوست کے دل سے ہو کر آتے ہیں 

تمارے ساتھ بزنس کا ارادہ بدل دیا 

وہ کس لئے؟ 

میرا خیال ہے پہلے مجھے زندگی انجوائے کر لینی چاہئے ۔

کتنے معصوم لگ رہے ہو یہ سب کہتے کارل

پتہ نہیں عالیان کوئی بدعا دے گیا ایسی معصومیت کی 

میرا بھی دل کرتا شرارتیں کروں 

برطانوی شہزاری کیسی ہے 

ویسے ایما ایک اچھی لڑکی ہے اس کی مسکراہٹ بہت پیاری ہے میں اسے جب بھی اکیلا دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کتنی خوش قسمت ہے ایما تمارے بغیر کیسے خوش خوش ہے 

وہ کتنی پیاری ہے یہ امرحہ تمہیں بتائے گی کیونکہ اس کی مسکراہٹ کا امرحہ کو تفصیل سے بتاؤں گا 

ہاہا پھر تو ایما کو منا لو۔

میں عالیان نہیں کے اس کے پیچھے پاگل ہو جاؤں نہ وہ امرحہ ہے کے پاگل کر دے یہ لڑکیاں بھی حشرات کی طرح ہیں ہر طرف سے نکل آتی ہیں  

تم جب تک لڑکیوں کو حشرات سمجھتے رہو گے وہ تمارے ساتھ سنجیدہ کیسے ہوں گی 

میں خود کو انسان سمجھتا ہوں کافی ہے 

اسی شام امرحہ ویرا کی سائیکل کے پیچھے بیٹھی آئسکریم کھا رہی تھی امرحہ نے تو ویسے بھی جاب چھوڑ دی تھی ویرا کے پاس وقت تھا تو دونوں. نکل پڑیں ادھر اُدھر کھاتے پیتے مانچسٹر میں اوارہ گردی کرتی رہی۔میں اب بھی رات کو اکثر ڈر کے اٹھ جاتی ہوں وہی سب نظر آتا ہے جو  تمارے ساتھ برازیلا میں ہوا تھا وہ زندگی کا بد ترین احساس تھا  امرحہ

میں نے محسوس کیا میرا جسم برے جان ہو رہا ہے مجھے کچھ سنائی دکھائی نہیں دے رہا 

ویرا پہلی بار اس سے اس واقعے کو سن رہی تھی 

سائیکل پر پیچھے بیٹھی امرحہ کی آنکھیں نم ہو گئی اور اس نے محبت سے ویرا کی کمر کے گرد اپنے ہاتھ حمائل کر لیے۔

میں نے اس وقت محسوس کیا امرحہ کے وہ زندگی کیا ہو گئی جو تمارے بغیر ہو گی میں نے خود کو روتے پایا لگ رہا تھا تمہیں کچھ ہوا تو میں ساری دنیا کو آگ لگا دوں گی اب تک سمجھ نہیں میرا ایسا کیا ہے جو تم سے جڑ گیا میں نہیں رہ پاتی تمارے بغیر

اب امرحہ سائیکل چلانے لگی ویرا پچھلے بیٹھ گئی 

               ©©©©©©©©©

میں تمہیں اس لیے خوش قسمت نہیں کہوں گی کے تمہیں عالیان ملا اس لیے کہوں گی کے تم دیری کی بیٹی بن گئی ہو۔دونوں نشت گاہ میں بیٹھی تھی امرحہ ابھی ماما مہر کو ان کے کمرے میں سلا کر آئی تھی این بھی سو چکی تھی 

جب میں جہاں آرہی تھی تو دل تھا مر جاؤ، انجانے ماحول میں انجانے لوگوں میں مجھے رہنا، عزاب لگتا ہے جب میں یہاں آ گئی مجھے لگا ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر آ گئی ہوں۔آریان بہت بمار تھا اس مجھے بہت سارے پیسوں کی ضرورت تھی اس گھر کے سارے پیسے میرے حوالے تھے 

آج تک مجھ سے ایک پیسے کا حساب نہیں لیا۔روز آریان کو کال جاتی روز دیری اسے کہانی سناتی۔اریان کی ماں کی دعا رد کی جا سکتی مگر دیری کی نہیں 

لیڑی مہر نے آریان کو مانچسٹر بلوا لیا تھا عالیان کی شادی کے لئے اور سادھنا سے گزرے وقت نہیں گزر رہا تھا 

تم بہت خوش قسمت لڑکی ہو امرحہ سادھنا نے گیلی آنکھوں سے اسے کہا۔

ہاں بہت زیادہ اب دنیا میں کون ہے جو مجھے سیاہ بخت کہہ سکے 

میں ماما، مہر کے زیرِ سیایہ رہنے والی ہوں

دادا روز فون کرتے روز رو پڑتے پہلے یہ تھا کے پڑھنے گئی ہے آ جائے گی  اب یہ کے پرائی ہو گئی ہے وہ بابا کو بھی سلام دعا کرتی پھر خاموشی چھا جاتی اور فون بند، ہو جاتا دادا نے کہا تھا باپ کی خاموشی کا احترام کرو تو وہی کر رہی تھی ۔محبت ادھر بھی قائم تھی ادھر بھی رات کتنی سیاہ ہو سویرا ضرور ہوتا ہے 

                  ©©©©©©©©

سمسٹر ختم ہونے کو تھا پھر ان کی پیاری دلاری یونی میں گزرنے والے دن ڈائریوں میں قید کر رہی تھی 

سب اسٹوڈنٹس اپنے اپنے زندگی کی راہوں میں بکھر جانے والے تھے ۔

سائی روپا، سے اظہار محبت نہیں کر سکا کہ وہ اس کی مشکلات کا باعث بنے گی لیکن روپا نے خود اظہار کردیا سائی کے لئے یہی بہت تھا ۔نوال اور دائم کی شادی ہو گئی ۔

خاص سمسٹر ختم ہونے سے پہلے کی تاکہ سب شرکت کر سکیں ۔امتحانات کے بعد عالیان اور امرحہ کی شادی کا شور تھا تو انہوں نے امتحانات سے پہلے ترجیع دی۔

سب سائیکل لے کر نکلے اور پہے وہ آکسفورڈ روڑ اور ملحقہ سڑکوں پر سائیکلوں سے مارچ کرتے رہے پھر وہ یونی کے اندر آ گئے اور پوری یونی کا ایک چکر لگایا پھر وہ سب مخصوص راستے پر گزرے جہاں رنگوں بھرے تالاب تھے سب انہیں دیکھ رہے تھے ٹی وی پر بھی دیکھایا جا رہا تھا 

تعلیمی ادارے کو خیر باد کہنے سے اداس کن لمات کوئی نہیں ہوتے اور وہ سب ان کو یاد گار بنا، رہے تھے 

کاش انسان کے بس میں ہوتا ہر اچھے پل کو مھٹی میں دبا لیتا ایک بار بچھڑ جائیں تو کتنی ڈائریوں میں دل میں مقید کر لو مگر وہ بس، یادیں ہی تو ہیں ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں 

امرحہ نے اس احساسات کو لے کر خود کو دلگرافتا ہوتے دیکھا 

وہ کارل کے سر پر کتابیں مار رہی تھی اور سائی کے پاس بیٹھی رو، رہی تھی 

وہ سب ہی سائیکلوں کو چلاتے مانچسٹر کی سڑکوں کو رنگین کر کے دور جا رہے تھے پہلے کارل سائی اور عالیان نے ریس لگائی

پھر کارل اور ویرا نے اور وہ انہیں عالیان کے ساتھ کھڑی ہو کر دیکھ رہی تھی 

                    ©©©©©©©

لیڈی مہر خدا کے بنائے خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھی میں نے اپنے اپ کو کھنگالا دیکھا کوئی ایسا دکھ جس نے مجھے برباد کر دیا ہو جواب ہے نہیں 

میرے عزیز شوہر اپنے مقرر وقت پر رخصت ہو گئے میں نے ان کی موت پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا

میں خدا کو کتنا، راضی کر سکتی ہوں یہ اس کی مخلوق کو راضی رکھ کر پتہ چلتا ہے الله کے بندے خوش ہوں گے تو یقینا وہ خوش ہو گا میرے لیے مکمل زندگی آریان کا ٹھیک ہو جانا اور وہ ٹھیک ہو رہا 

میں اب اپنی ماں سے کہتی ہوں میں نے جان لیا ماں ہونا کیسے کہتے ہیں میں عظیم نہیں ہوں مگر، آریان کہتا ہے میں ایک باہمت اور عظیم ماں کا بیٹا ہوں اور آریان کے یہ الفاظ میرے کل اثاثہ ہیں 

جو کلام خاموشی کرتی ہے وہ زبان نہیں کر سکتی جو بیان نہیں کیا جا، سکتا وہی محسوس کیا جا سکتا ہے سائی نے کہا میں دنیا گھوم پھر کر، یہی خاموشیاں محسوس کرنا چاہتا ہوں 

ویرا زندگی سفر ہے اور اس کے پڑاؤ، سے گزرتے مشکلات کا شکار ہوئی ہوں خود کو ٹھیک سمجھنا، کے میں ایک اچھا انسان ہوں لیکن مجھے یہ خوشی ہے کہ میں نے محبت کو سرد پڑنے نہیں دیا اور نفرت کو اس کی طرف پیش قدمی نہیں کرنے دی. جزباتی طور پر کمزور ہو رہی ہوں مگر مسلسل اگے بڑھتی رہوں گی میں سخت جان لڑکی ہوں میں نے برف پر اترنا چڑھنا سیکھا ہے یہ سبق میں بھولتی نہیں 

کارل:دنیا کیسی عجب ہے مجھے تفصیل کے لیے نکلنا چاہیے 

دکھ جس دریا میں بہتا ہے میں اس دریا پر پل بنا کر گزر جاؤں گا یہ بات پہلے سے طے تھی کے ڈگری کے بعد میں عالیان ماما مہر  کے گھر شفٹ ہو جائیں گے مل کر بزنس. کریں گے 

امرحہ:میرے خطے میں اڑنے کا رواج نہیں یہ کوئی شرمندہ بات نہیں مگر میں وہ اڑان ضرور آڑوں گی جو ہر انسان کو حق ہے زندگی کی وسعتوں میں اپنے آسمان تلاش کرتی رہوں گی ۔جوزندگی کے ہر عمل کے داموں فروخت ہوتا ہے

عالیان؛::میں نے مقصدحیات کی جامع وضاعت مجھ پر کھلی تو میں نے اس کے  دکھ کم ہوتے پایا ماما کو لے کر جو میں  محسوس کیا کرتا تھا اب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں بعض دفعہ ہم اپنے لیے خود تکلیف بھاگ دوڑ اکٹھی کر لیتے ہیں آنسو بہنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں مگر انہیں ترک کرنے کے طریقے نہیں سوچتے ہم سب سے زیادہ ظالم اپنے لیے ہوتے ہیں ۔میں اب خود کو بہت تبدیل پایا ہے اب پیچھے دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ جان لیا۔

               ©©©©©©©©

لیڈی مہر نے شادی کے کارڈ بنانے کے لیے کہہ دیا شادی کی تیاریاں زوروشور سے  جاری تھی وہاں شٹل کاک میں دونوں کے لیے ایک چھوٹا سا الگ گھر خریدا 

میرا دل چاہتا ہے سارا برطانیہ مانچسٹر کو اگٹھا کر لوں میرا، بیٹا اپنی دلہن کو بگی سے نکلے تو سب ہاتھ ہلا کر اس کا استقبال کریں 

امرحہ شادی کے دن پودا لگانا چاہتی ہے تاکہ ان کی زندگی سرسبز شاداب رہے

امتحانات سے ختم ہونے سے پہلے انہوں نے پارٹی رکھ لی پارٹی کا ابتدا کارل کے ڈانس، سے ہوا پہلے بہت اچھا کیا پھر لنگڑا بن کر مطلب شادی کے بعد عالیان کا حال سب ہنس، رہے تھے کارل نے سب کی طرف اشارہ کیا تم پر پھر لوگ ایسے ہنسیں گے 

مجھے انتطار رےگا عالیان نے بھی آنکھ مار کر کہا 

سائی ڈرم بجا، رہا تھا  شاہ ویز، گانا گا رہا تھا  کے پھر سے  ہال اندھیرے میں ڈوب گیا روشنی ہوتے ہیں امرل سائیکل چلاتا نظر آیا عالیان کو گرا کر یہ جا، وہ جا پھر آیا، پھر گرا، کر عالیان کے لیے ابھی وقت ہے پچھلے دروازے سے بھاگ نکلو پھر نہ گدھے میں شمار ہو، گا نہ گھوڑے میں  بس شوہر

میں شمار ہو گا وہ بھی شرمندگی سے 

عالیان نے کارل سے کہا اچھی زندگی گزارنی ہے تو چپ چاپ شادی کر لو اب وہ شادی کے مشورے پر خوش، ہو رہا تھا تماری شادی کسی شہزادی سے ہو گی اور وہ ساٹھ سیکنڈ کے اندر اندر صدمے سے مر جائے گی 

کارل کی تو جیسے ہنسی ایک دم غائب ہو گئی پھر ہنستے اور ہنساتے رہے 

یہ بھی اچھا جلدی جان چھوٹ جائے گی سو شہزادیاں مر جائیں کارل کی بلا سے 

تم مانچسٹر چھوڑ دو گےتم برطانیہ بھی چھوڑ دو گے ڈیرک نے کہا

اب یہ نہ کہہ دینا دنیا بھی چھوڑ دے گا۔سائی بھی کیوں پیچھے رہتا فورا بولا

اس نے تو نہیں کہا تو تم اس کے کندھے پر گن رکھ کر  کہلوا دو

اب میں بھی سب کے لیے پیشن گوئی کرتا ہوں  کارل نے کہا تم سب نے بری طرح مجھے یاد کرنا ہے یاد رکھنا میرے نام کے دورے پڑا، کریں گے یہ دعا کرو گے کہیں سے میں آ جاؤں اپنے بچوں کے نام کارل رکھوگے اپنی سویٹ ہارٹ کو سویٹ کارل کہا، کرو گے تماری بیویاں نفسانی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گی تمارے پاس سب ہو گا مگر کارل نہیں 

زندہ رہنے کے لئے بہت ضرورتیں پیش ہوں گی لیکن ہلچل کے لیے صرف کارل

پارٹی سے  اگلے دن امرحہ کو ویرا لیڈی مہر سادھنا شارلٹ کی طرف سے دی جانے والی پارٹی تھی جس میں کارل نے لڑکی کے گھٹ آپ میں  گھسنے کی کوشش کی 

اس نے ایسا میک آپ کیا کے سب حیران ہوتے کہ ایسا بھی ہو  سکتا ہے مگر سائی نے  ویرا کو کال کر کے بتا دیا، کے کارل آ رہا ہے ویرا نے کارل کو ہال کے دروازے سے چلتا کیا

(یارم ناول پیار مرتا نہیں  خاموش ہو جاتا ہے  پیج نے مکمل کر لیا جس کا مکمل رائٹن لنک چاہئے ہمارے پیج سے حاصل کریں شکریہ)

پارٹی سے پہلے ویرا نے  این کے ساتھ مل کر اس کے پیغامات چرا لیے اور ہال کے درخت پر سجا دیے اور یہ عالیان کی خواہش بھی تھی پارٹی میں بہت بہت انجوائے کیا. تاج پھولوں کا ویرا نے امرحہ کے سر پر رکھا اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی اب سب ہال میں آواز گونجنے لگیں  امرحہ امرحہ امرحہ کو وہ تاج کسی ایک کے سر پر رکھنا تھا امرحہ کسی ایک کے سر پر رکھنے کے لئے تیار نہیں تھی اخر کار انہیں تھکا کر تاج کسی ایک کے سر پر رکھا

میرا دلہا جوڈرن جیسا ہو این خوشی سے چلائی تاج اس کے سر پر  رکھا، تھا میرا جوڈرن ہی نہ لے اڑنا شارلٹ نے قہقہہ لگایا عالیان کی بہت بڑی تصویر اور  اس کو پندرہ لڑکیوں نے ٹکڑوں میں اٹھا کر مکمل کیا ہوا تھا، اب امرحہ کو ان سے  وہ سب ٹکڑے باری باری لا کے تصویر مکمل کرنی تھی 

اس میں  وقت مقرر تھا کہ اتنے وقت تک نہیں کر پائی تو دنیا کی پھوئڑ محبوبہ ہو گی لڑکیوں نے بہت تنک کیا امرحہ منت خوشامد کر کے مانگ رہی سب سے پھر ویرا کے پاس آئی ویرا، نے ارام سے دے دیا امرحہ نے ویرا سے  کہا تم مجھے دعا کی طرح لگتی ہو تمہیں دعا کی ضرورت نہیں پھر امرحہ نے جلدی سے عالیان کی تصویر مکمل کر لی سب نے تالیاں بجائیں اور امرحہ کو ہال سے  باہر لے جایا گیا 

بہت سارے آہنے تھے اور ایک کے پیچھے عالیان ہرہم دیکھتے ہیں تم اسے ڈھونڈ نکالتی ہو کے نہیں آہنیے بھی عجیب تھے کسی میں موٹی کسی میں چھوٹی کسی میں چیونٹی جیسی تین سہی تھے جن میں مکمل نظر آ رہی تھی وہ سب کے پاس سے گزری اور سر گوشی میں کہا عالیان کہا ہو کوئی اشارہ ہی دے دو

عالیان کا بھی دل چاہا کے ہولے سے پیر مار دے تا کے اتنے سارے لوگوں میں امرحہ کا سر بلند رہے پھر وہ مسکرایا کے چپ جانا ڈھونڈنا کبھی تو ایمان داری سے ہو

امرحہ ایک ایک کر کے سب آئینوں کے پاس جانے لگی پھر سب کے درمیان کھڑی ہو گئی کون سا کھولے جس میں امرحہ بہت لمبی لگ رہی یا وہ جس میں  مکمل لگ رہی بہت غور کر رہی تھی

ایک پر اس نے ہاتھ رکھ دیا جس میں وہ مکمل تھی اس نے سوچا عالیان نے مجھے مکمل کر دیا وہ بلند آواز سے بولی اس میں ہے عالیان جب دیکھا گیا تو عالیان مسکراتا ہوا سامنے آ گیا وہ خوشی سے چلائی تم میرا مکمل عکس ہو عالیان اگے بڑھا اور امرحہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہا میں تم  سے  مکمل ہوں امرحہ ہر طرف مسکراہٹ تھی امرحہ نے مسکرا کر سب کو دیکھا شدت جذبات سے ایک لفظ نہیں بول سکی۔

مجھے اس حقیقت پر گمان ہے عالیان وہ زرا سا اس سے اگے بڑھ گئی تھی گردن موڑ کر  اس سے  کہا 

عالیان نے اتنے پیار سے  دیکھا کے امرحہ کا دل چاہا وہ سو پھول ببن جائے اور اس پر نچھاور ہو جائے 

تم سے محبت میرا فرض ہے وہ اس کے پاس چلا آیا

اس فرض کو میں کبھی قضا نہیں ہونے دوں گی

                ©©©©©©©©©

دادا آ چکے ہیں اور  ویرا این کے والدین بھی شٹل کارک میلہ سج گیا واپس دیسوں میں کہانیاں دو راتوں میں سنا، دی گئی اور اب سب مانچسٹر یونی کی تقریب میں موجود ہیں 

ایک ایسا دن جب اعزاز یافتہ ہونے کا احساس احساس ہوتا ہے پھر بلندی چھوٹی لگتی ہے حوصلہ جواں

گولڑ میڈل گلے میں پہنے ویرا اور  کارل ڈگریاں ہاتھ میں لیے

عالیان امرحہ شاہ ویز سائی نے 

علم سے قیمتی کچھ بھی نہیں ہم چمپیئن ہیں وہ ایک ساتھ چلائے

اور علم کسی کی میراث نہیں اور علم کی فرصیت پر کوئی شک نہیں  سب بہت خوش تھے 

مسکراہٹوں کی اجاہداری اور جشن کا ساماں تھا

وہ سب اس رستے کے کنارے کھڑے تھےجہاں سے سرخ کار کو آنا تھا۔اور وہ دور سے آتی نظر آنے لگی جس کی پچھلی سیٹ پر ماما مہر کا شہزادہ بیٹھا نظر آ رہا تھا اس کے ساتھ دادا کی پری امرحہ اور اگے دلہا دلہن

ان کے آتے ہی فیضا میں شور اٹھا عالیان کار سے نکل کر امرحہ کو ہاتھ تھامنے کے لئے تیار ہے امرحہ بھی اسے ہاتھ پکڑانے کے لئے تیار ہے عالیان امرحہ کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف جا رہا ہے وہ سمجھی جگہ دیکھانے لایا، ہے جہاں ان کی شادی ہوئی تھی ۔۔تم کس یاد کو تازہ کرنے آئے ہو عالیان؟ 

امرحہ کو اگلا سوال کرنے کی ضرورت نہیں تھی وہ اسے اپنا ہر خواب بتا چکا تھا ۔

تم نے کہا تھا جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تو مجھے پچھتانا پڑے گا گھوڑے پر بیٹھنے کے لئے تماری مدد کرنی پڑے گی ۔

امرحہ دیر تک مسکراتی رہی

ہاں میں پچھتانا نہیں چاہتا امرحہ 

پھر اسے گوڑے کے پاس لے گیا  اس کا بیٹھنے میں مدد کی اور اگے سے لگام پکڑ لی

عشق جو اسرا عظیم ہے 

یہ دونوں اس کے رازدار ہیں 

اور ان آخری الفاظ پر بنت حمید اپنی قلم روک دیتی ہے 

مکمل کی میں نے داستان افکار

راستانِ یارم.  یارم

سب تعریف خدا کے لئے ہیں جو لفظ اتارتا ہے انہیں ترتیب دلواتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے 

بےشک

  ختم_شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yaaram Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yaaram written by Sumera Ahmad. Yaaram by Sumera Ahmad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages