Safer Zeast Novel Haram Shah Complete Romantic New Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 6 July 2024

Safer Zeast Novel Haram Shah Complete Romantic New Novel

Safer Zeast Novel Haram Shah Complete Romantic New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Safer Zeast By Haram Shah Complete Romantic Novel 


Novel Name: Safer Zeast

Writer Name: Haram Shah 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

-------------------------------------


وہ صبح صادق کی اس ہلکی سی روشنی میں اپنے چہرے کو چادر سے چھپائے وہاں سے جا رہا تھا۔اسکو مخصوص جگہ پر پہنچنا تھا وہ بھی کسی کی نظر میں آئے بغیر۔اگر وہ پکڑا جاتا تو اسکا انجام موت سے بھی کہیں زیادہ بد تر ہونا تھا۔


'اہو۔۔۔اہو۔۔۔۔'


کسی کے کھانسنے کی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا تو اسکی نظر ایک لمبے بالوں والے انتہائی گندے سے شرابی پر پڑی جو کہ اس وقت بھی کھانستے ہوئے سگریٹ کے مزے لے رہا تھا۔


اسے نظر انداز کر کے وہ آگے بڑھا تو وہاں ایک آدمی سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر خود کو چادر سے چھپائے سو رہا تھا۔پر اطمینان سانس لے کر وہ آگے مخصوص گلی کی طرف مڑا تو وہاں ایک بزرگ سا آدمی ہاتھ میں جھاڑو لئے صفائی کر رہا تھا۔


'شلام شاب۔'


اس بوڑھے نے کانپتی آواز میں کہا تو وہ خاموشی سے اثبات میں سر ہلا کر آگے کی طرف چل دیا اور اب وہ اس مخصوص سنسان حویلی کہ سامنے موجود تھا جو اس علاقے میں اپنی پراسرایت کی وجہ سے مشہور تھی۔لوگ کہتے تھے کہ وہاں بھوت ہیں لیکن ایسی کہانیاں اکثر ہی بہت سے گناہ چھپانے کے لیے گھڑی جاتی تھیں۔


اس آدمی نے ارد گرد دیکھا تو اسکی نظر صرف اس بوڑھے صفائی والے پر پڑی جو اب گلی کے نکر پر صفائی کر رہا تھا۔کافی خاموشی سے وہ اس حویلی میں داخل ہوا اور ایک مخصوص کمرے میں جا کر فرش پر موجود کچرے کے ڈھیر کو ہٹایا۔اسی کے نیچے انکے خفیہ اڈے کا داخلی دروازہ تھا۔


اس نے چادر کے اندر چھپائی ہوئی چابی کو نکال کر وہاں کا دروازہ کھولا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اندر جاتا کسی نے پیچھے سے اسکی گردن کو دبوچ لیا۔اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو وہاں وہی بزرگ تھا جو باہر جھاڑو لگا رہا تھا لیکن اسکی پکڑ تو بزرگوں والی نہ تھی بلکہ انتہائی طاقت ور اور جان لیوا پکڑ تھی۔


'اتنی آسانی سے نہیں شاب۔'


اس بزرگ بنے آدمی کی غراتی ہوئی آواز اسکے کان میں پڑی تو اسکا ہاتھ اپنی کمر کے پاس موجود بندوق کی طرف گیا۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس پر گولی چلاتا ایک بندوق اسکی کن پٹی پر رکھی جا چکی تھی۔


Drop your gun right now or I'll shoot.


ایسا کہنے والا وہی گندا سا شرابی تھا جو کہ سڑک کے کنارے کھانس رہا تھا۔وہ شخص اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ اب انکا انجام بہت برا ہو گا کیونکہ یہ لوگ کوئی اور نہیں پاک آرمی کی انٹیلیجینس تھی اور ایسا ہی ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں آرمی کے لباس میں کئی سارے جوان بندوقیں تھامے آ چکے تھے۔


'موو۔۔۔'


اس بزرگ آدمی نے اسے دھکا دے کر نیچے چلنے کو کہا اور خود پر سے کھینچ کر وہ نقلی سفید بال اور چادر ہٹا دی۔وہ شخص کانپ کر رہ گیا کیونکہ اس سپاہی کی سبز آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی۔


'بچیوں تک لے چل ورنہ تیری لاش یہیں گرا دیں گے۔'


پاک آرمی کا سبز آنکھوں والا وہ جوان غرایا تو وہ ہاں میں سر ہلا کر کانپتے ہوئے چلنے لگا۔تمام جوان ان کے پیچھے انتہائی ذیادہ خاموشی سے آ رہے تھے۔سیڑھیاں اترتے ہی پاک آرمی کے جوان ہر نظر آنے والے قوم کے دشمنوں پر فائرنگ کرنے لگے۔حملہ اتنی خاموشی سے ہوا تھا کہ ان دہشتگردوں کو سمبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔


اس سبز آنکھوں والے سپاہی نے سب کو پھیلنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہی جانے والا تھا جب اسکے کانوں میں بہت ہلکی سی آواز میں کسی لڑکی کی انتہائ درد ناک چیخ کی آواز پڑی۔اپنے ساتھیوں کو اشارہ کر کے وہ اس آواز کی سمت کا پتہ لگانے لگا مگر اب وہ آواز بند ہو چکی تھی۔


اس اندھیری جگہ پر جیل نما کافی کمرے تھے

جن میں بہت سی سکول کی بچیوں کو قید کیا گیا تھا۔ابھی کچھ دن پہلے ہی تو انہیں خبر ملی تھی کہ چند دہشتگردوں نے لڑکیوں کی سکول بس کو اگواہ کر لیا تھا۔ان کا ارادہ ان بچیوں کو باہر کے ملکوں میں سپلائی کر کے پیسے کمانے کا تھا۔کیسے جانور تھے وہ لوگ جو عارضی دولت کی خاطر اپنی قوم کی عزت کا سودا کر رہے تھے۔


اس سبز آنکھوں والے سپاہی کی نظریں جیسے جیسے ان کمروں میں بند تباہ حال بچیوں پر پڑھ رہی تھی اسکے پورے وجود میں غصے کا ایک لاوا ابلتا جا رہا تھا۔وہ انہیں آزاد کرنا چاہتا تھا لیکن پہلے اسے ان درد ناک چیخوں کے بارے میں معلوم کرنا تھا۔


وہ دائیں جانب کو مڑا تو اسکی نظر ایک دروازے پر پڑی جو کافی مظبوط نظر آ رہا تھا۔وہ اس دروازے کی طرف بڑھا تو اس کی توقع کے برعکس وہ با آسانی کھل گیا تھا۔اس کمرے میں اندھیرا تھا صرف ایک چھوٹے سے دیے سے روشنی نکل رہی تھی۔لیکن اس روشنی میں بھی وہ زمین پر پڑا ایک نازک سا وجود دیکھ سکتا تھا۔


کمرے میں کسی کو نہ پا کر وہ اس لڑکی کی طرف بڑھا جو بمشکل تیرہ سال کی تھی۔اس سپاہی نے اسکی نبض چیک کی تو زندگی کی وہ ہلکی سی حرکت ساکت تھی۔اس معصوم کو دم توڑے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی۔


وہ سپاہی مڑا تو اسکی نظر کمرے میں موجود بیڈ پر پڑی جس کے پائندے کے ساتھ ایک بچی کو باندھ کر زمین پر پھینکا گیا تھا۔

سبز آنکھوں میں بلا کی وحشت اتری تھی۔وہ قریب ہوا تو اسکی نظر اس لڑکی کے پھٹے ہوئے لباس اور جسم پر موجود زخموں پر پڑی۔انسانی گوشت جلنے کی بدبو ابھی تک اس کمرے میں موجود تھی۔وہ لڑکی بھی تقریبا بارہ یا تیرہ سال کی تھی اور اپنی بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس نے اسکے بندھے ہوئے ہاتھوں کو کھولا اور اپنی آرمی کی جیکٹ کو اتار کر اسکے جسم کر گرد لپیٹا ۔


'فکر مت کرو تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔اب تم محفوظ ہو۔'


وہ سبز آنکھوں والا سپاہی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے اسے یہ دلاسہ کیوں دیا تھا اور نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ ایسا کر کے وہ ایک معصوم کا مسیحا بن بیٹھا تھا۔


💖------------💖


'سلمان کیا کر رہے ہیں آپ؟ چھوڑیں سب اور منہ میٹھا کریں۔'


فاطمہ بیگم ہاتھ میں ایک پلیٹ لے کر کمرے میں آئیں اور جلدی سے برفی کا ایک ٹکڑا سلمان صاحب کے منہ میں ڈال دیا۔


'ارے واہ آج یہ عنایت کیوں ہو رہی ہے؟'


سلمان صاحب نے شرارت سے مسکراتے ہوئے پوچھا تو فاطمہ بیگم کے چہرے کی خوشی میں اضافہ ہو گیا۔


' کیونکہ خوشی ہی اتنی بڑی ہے مبارک ہو آپکو ماشااللہ سے نانا بننے والے ہیں آپ۔۔۔'


فاطمہ بیگم کی بات پر سلمان صاحب۔بھی مسکرا دیے۔


' ماشااللہ اور یہ خوشی ضرور حمنہ کے ہاں سے آئی ہو گی۔'


'ارے آپ کو کیسے پتہ؟'


سلمان صاحب کی بات پر فاطمہ بیگم حیران ہوئیں۔


'کیونکہ شایان کو تو جانان میں ابھی بھی بچپنا ہی نظر آتا ہے اب جانان کا بچپنا کم ہو گا تو ہی وہ اپنے بچوں کے بارے میں کچھ سوچ سکے گا۔'


سلمان صاحب کی بات پر فاطمہ بیگم ہنسنے لگیں۔


'اچھا زری کو یہ بات نہیں پتہ میں زرا اسے بھی بتا کر آتی ہوں۔'


فاطمہ بیگم اتنا کہہ کر باہر چلی گئیں تو سلمان صاحب مسکراتے ہوئے دوبارہ سے اپنی کتاب پڑھنے لگے۔انکی زندگی میں سکون تھا۔تین بیٹیوں میں سے دو کی تو شادی ہو چکی تھی جو اب اپنے گھروں میں بے انتہا خوش تھیں۔بڑی بیٹی حمنہ کا شوہر عثمان سیاست دان تھا اور حمنہ کو اپنی جان سے بھی ذیادہ چاہتا تھا۔جبکہ حمنہ سے چھوٹی بیٹی جانان کا شوہر شایان شاہ آرمی میں میجر تھا۔


سلمان صاحب کو پریشانی تھی تو صرف اپنی سب سے چھوٹی بیٹی زرش کی جو بول بھی نہیں سکتی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بچپن سے ایسی ہی تھی۔بس کچھ حادثے انسان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور انکی زرش کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔


ڈاکٹر بتاتے تھے کہ زرش کے گلے میں ایسا کوئی مسلہ نہیں جس کے باعث وہ بول نہ پائے۔مسلہ اس خوف و ہراس کا تھا جس کے زیر اثر وہ بول نہیں سکتی تھی۔زرش بہت کوشش بھی کرتی لیکن اسکا دماغ ہی اسے بولنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔بہت جگہوں سے علاج کے باوجود زرش کو ہلکا سا بھی فرق نہیں پڑا تھا۔اچانک فون کی آواز پر سلمان صاحب خیالوں کی دنیا سے باہر آئے۔


'کیسے ہو سلمان؟'


سلمان صاحب کے فون اٹھاتے ہی ایک آدمی کی آواز انہیں سنائی دی تھی۔


'کون؟'


سلمان صاحب حیران ہوئے۔


'واہ مجھے پتہ تھا کہ بھول جاؤ گے مجھے تم لیکن اپنا کیا وعدہ تو یاد ہے نا کیونکہ اگر نہیں یاد تو اسکا نقصان تمہیں معلوم ہے۔'


سلمان صاحب کو اچانک سے چھے سال پہلے کا واقعہ یاد آ گیا۔


'آر بی؟'


سلمان صاحب کے ہاتھ کانپنے لگے۔


'چلو یاد تو آ گیا نا۔آ رہا ہوں میں سلمان بہت جلد اپنی امانت لینے۔اٹھارہ کی ہو چکی ہے نا وہ اب مزید صبر نہیں ہوتا۔ نکاح کی تیاری کرو تم اپنا کیا وعدہ پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔'


وہ آدمی اتنا کہہ کر فون بند کر چکا تھا لیکن سلمان صاحب کی روح تک کو جھنجوڑ گیا تھا۔اگر وہ پہلے کی طرح خود غرض ہوتے تو شاید انہیں اس بات کی زیادہ پریشانی نہ ہوتی لیکن حالات نے انہیں مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا۔اب ان کی بیٹیوں میں انکی جان بستی تھی۔وہ کسی کی بھی بری نظر ان پر پڑنے نہیں دے سکتے تھے۔


لیکن انکی مدد کون کر سکتا تھا۔وہ شخص بہت ذیادہ طاقتور تھا دہشتگردوں کی کئی تنظیمیں چلا رہا تھا۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے وہ زرش کو ڈھونڈ سکتا تھا۔اگر وہ اسے عثمان کے پاس بھیج دیں تو اس سے حمنہ بھی خطرے میں پڑھ سکتی تھی۔تو پھر کیا وہ شایان سے مدد مانگیں۔ہاں اس معاملے میں شایان سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔یہ سوچتے ہی انہوں نے اپنا ہاتھ فون کی طرف بڑھایا۔


'اسلام علیکم۔'


شایان کے فون اٹھاتے ہی سلمان صاحب کو اسکی آواز سنائی دی۔


'و علیکم سلام بیٹا۔۔۔۔مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔'


نہ چاہتے ہوئے بھی سلمان صاحب کی آواز میں نمی پیدا ہو گئی۔


'کیا ہوا انکل خیریت تو ہے نا؟'


شایان نے پریشانی سے پوچھا تو سلمان صاحب نے اسے ساری بات بتا دی۔


'انکل آپ فکر مت کریں میں کچھ کرتا ہوں پھر میں آپکو کال کر کے بتاؤں گا کہ کیا کریں۔'


'ٹھیک ہے بیٹا مگر پلیز تم اس سب کے بارے میں کسی کو بھی مت بتانا۔میرا خدا جانتا ہے کہ یہ بات تمہارے سوا کوئی نہیں جانتا۔'


سلمان صاحب کو شایان کی بات پر کچھ حوصلہ ہوا تھا۔


'یہ میرا وعدہ ہے کہ آپکی مرضی کے بغیر اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کروں گا۔آپ بس فلحال وہ کریں جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔زرش کی حفاظت اب میری ذمہ داری ہے۔'


'ٹھیک ہے بیٹا جیسا تم کہو جانان کو میرا پیار دینا۔'


سلمان صاحب شایان سے بات کر کے فون بند کر چکے تھے لیکن اب وہ جانتے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔


💖------------💖


زرش اپنی ماں کو پیکنگ کرتے دیکھ رہی تھی۔وہ بہت کم گھر سے باہر نکلتی تھی۔حمنہ اور جانان کو تو پھر بھی سکول یا کالج جانے کی آزادی رہی تھی مگر اسکے تو ٹیچرز بھی گھر ہی پڑھانے آتے تھے۔سلمان صاحب نے نہ تو اسے کبھی گھر سے باہر جانے دیا تھا اور نہ ہی اسے اسکی کوئی خواہش تھی۔بلکہ اسکی تو کہیں جانے کے خیال سے ہی جان نکل رہی تھی۔


'لو زری ہو گئی تمہاری پیکنگ کچھ رہ تو نہیں گیا؟'


زرش نے فوراً انکار میں سر ہلایا تو فاطمہ بیگم مسکرا کر اسکے پاس آئیں۔


'تم نے تو دیکھا بھی نہیں۔'


فاطمہ بیگم نے اسکے گال کو تھام کر پیار سے کہا۔


'بیٹا فکر مت کرو ہم کوہاٹ جانان کے گھر ہی تو جا رہے ہیں۔'


زرش نے اثبات میں سر ہلایا لیکن اسے کہیں بھی جانے کا خیال اچھا نہیں لگ رہا تھا۔تینوں بیٹیوں میں سے وہ فاطمہ بیگم کے سب سے ذیادہ قریب رہی تھی۔جانان اور حمنہ ذیادہ تر وقت ایک ساتھ رہتی تھیں اور زرش فاطمہ بیگم کا سایہ بنی رہتی تھی۔


'اچھا پھر اب آپ اپنے کپڑے چینج کرو پھر نکلنا ہے ہمیں دیر ہو رہی ہے۔'


فاطمہ بیگم اسے حکم دے کر چلی گئیں تو زرش آئینے کے سامنے آ کر اپنے لباس کو دیکھنے لگی جسے بدلنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔اسنے ہمیشہ کی طرح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے خاموش لبوں کو چھوا اور پھر اپنا ہاتھ کندھے پر لے گئی۔وہ زخم بھر چکا تھا لیکن آج بھی اسکی تکلیف زرش کو اندر تک اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھی۔کچی عمر کا وہ واقعہ اسکے لیئے آج بھی بھلانا ناممکن تھا۔اسے نے تکلیف اور کرب سے اپنی آنکھیں بند کیں۔


فکر مت کرو تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔اب تم محفوظ ہو۔'


اپنے مسیحا کی مہربان آواز اور سبز آنکھیں اسکے ذہن میں گردش کرنے لگیں اور ہمیشہ کی طرح اسکو سکون اور اطمینان بخش گئیں۔لیکن پھر اسکی آنکھیں اپنی حالت پر نم ہوگئیں۔


وہ بھی جانان اور حمنہ کی طرح عام زندگی گزارنا چاہتی تھی۔بولنا چاہتی تھی کسی شہزادے کے ساتھ خوش رہنا چاہتی تھی۔مگر وہ تو کسی کے بھی قابل نہیں تھی اور یہ بات وہ بارہ سال کی عمر سے جانتی تھی۔


'زرش چلو بیٹا۔'


فاطمہ بیگم کی آواز پر زرش کا دھیان آئینے سے ہٹا ۔اپنے آنسوؤں کو غصے اور بے دردی سے صاف کر کے وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔


💖------------💖


وجدان کو نیند نہیں آ رہی تھی اس لیئے وہ رات کے ایک بجے اپنے گھر کے نچلے پورشن میں موجود جم میں پنچینگ بیگ پر مکوں کی برسات کر رہا تھا اور وہ ایسا تقریبا روز ہی کرتا تھا۔یہ گھر اس نے کافی عرصے پہلے خریدا تھا جس کے فرسٹ پورشن پر جم اور سیکنڈ پورشن پر ماڈرن طرز کا خوبصورت سا گھر تھا۔ہاشم صاحب(وجدان کے والد) تو چاہتے تھے کہ وجدان انکے پاس رہے لیکن وجدان اپنے کام کی وجہ سے ان سے دور ہی رہتا تھا اور آج کل تو وہ ویسے بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے تھے۔اب اس گھر میں صرف وجدان اور اسکا دوست سعد رہتے تھے۔


اچانک سیکنڈ فلور پر ایک ہلکی سی آہٹ سن کر وجدان کے چلتے ہاتھ رکے تھے۔ پہلے اسے لگا کہ یہ آہٹ سعد کی ہو گی مگر قدموں کی چاپ بہت ہلکی تھی یعنی وہ وجود سعد سے ہلکا تھا۔


وجدان نے اپنی شرٹ پکڑ کر جسم پہ آیا پسینہ صاف کیا۔اس وقت وہ ایک ٹراؤزر اور کالی بنیان میں ملبوس تھا اور اسی حالت میں وہ باہر نکل کر ساتھ موجود سیڑھیاں چڑھنے لگا۔کچن سے آنے والی ہلکی سی آواز پر وہ دبے قدموں سے اس طرف چل دیا تبھی اسکی نظر ایک نازک سے وجود پر پڑی۔


وہ لڑکی کسی کھوئے ہوئے بچے کی طرح ادھر ادھر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔وجدان بہت خاموشی سے اسکے پیچھے گیا اور دائیں ہاتھ سے اسکی نازک گردن کو دبوچ لیا۔


'کون ہو تم اور میرے گھر میں کیا کر رہی ہو؟'


وجدان اسکے کان میں غرایا تو وہ لڑکی خوف کے مارے کانپنے لگی مگر اسنے کوئی جواب نہیں دیا۔


'جواب دو۔'


وجدان نے اسکی گردن چھوڑے بغیر اسکا رخ اپنی طرف کیا تو اس لڑکی نے اپنی پر خوف کانچ سی آنکھوں سے اسے دیکھا لیکن پھر ان آنکھوں میں خوف کی جگہ حیرت نے لے لی۔کافی دیر اسے یونہی حیرت سے دیکھنے کے بعد اس نے اپنے لب کھولے لیکن کوئی بھی آواز نہیں نکلی۔وجدان کو اب الجھن ہونے لگی۔


'بولتی کیوں نہیں گونگی ہو کیا؟'


وجدان کے اس طرح سے غرانے پر جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔


'وجدان کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے۔'


سعد کی آواز پر وجدان نے صرف پلٹ کر ایک نظر سعد کو دیکھا لیکن اسکا بھاری بھرکم ہاتھ ابھی بھی اس لڑکی کی گردن پر تھا۔


'یہ جانان کی بہن ہے زرش۔'


سعد نے بتایا تو وجدان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے زرش کی گردن کو چھوڑ دیا۔جبکہ زرش اب باقاعدہ خوف سے کانپتے ہوئے کھانس رہی تھی۔سعد کی طرح شایان بھی وجدان کا بہت اچھا دوست اور کزن تھا۔وہ تینوں ہی آرمی میں تھے لیکن شایان ان دونوں کی طرح آئی ایس آئی کا حصہ نہیں تھا۔


'زرش گڑیا ڈرو نہیں یہ وجدان ہے شایان کا بھائی۔'


سعد نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی کیونکہ زرش کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک پل میں بے ہوش ہو جائے گی۔آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھر چکی تھیں۔


'اور میں جان سکتا ہوں کہ یہ میرے گھر میں کیا کر رہی ہے؟'


وجدان نے باقائدہ اسکی طرف اشارہ کیا۔


'شایان نے کہا تھا سلمان صاحب ،انکی بیوی اور بیٹی کو یہاں چند دن رکھنے کے لیئے۔'


'یعنی کے میرے گھر میں مہمان ہیں اور مجھے ہی نہیں پتہ۔فینٹاسٹک'


وجدان نے سپاٹ سے لہجے میں کہہ کر زرش کو دیکھا جو کہ اب اپنی گردن کو سہلا رہی تھی۔


'اگر بتا دیتی تو ایسا نہیں ہوتا۔'


وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔


'وہ بول نہیں سکتی وجی۔'


سعد کی بات پر وجدان نے کوئی تاثر نہیں دیا لیکن اس کے چلتے قدم رک گئے تھے۔


'کیا چاہئے تھا تمہیں زرش گڑیا۔'


سعد نے انتہائی نرمی سے زرش سے پوچھا تو اس نے اپنی گردن کو چھوڑ کر اپنے ہاتھ کو لبوں کے قریب کر کے اشارہ کیا۔


'چائے؟'


سعد کے پوچھنے پر زرش نے انکار میں سر ہلایا اور اپنے کیۓ اشارے کو پھر سے دہرانے لگی۔


'اوہ اچھا کافی چاہیے تمہیں میری طرح چائے پسند نہیں۔'


زرش نے پھر سے انکار میں سر ہلایا لیکن اس سے پہلے کہ وہ پھر سے اشارہ کرتی وجدان نے پانی کا گلاس اسکے سامنے کیا اور جتلاتی نظروں سے سعد کو دیکھنے لگا۔زرش نے فوراً سے وہ گلاس اپنے لبوں سے لگایا اور پانی کو ایک ہی گھونٹ میں پی کر کمرے میں بھاگ گئی۔


'یہ سب کیا ہے؟'


وجدان نے کوفت سے منہ بناتے ہوئے اس راستے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ابھی زرش گئی تھی۔


'بتا تو دیا کہ شایان نے کہا ہے کہ وہ لوگ چند دن یہاں رکیں گے باقی بات وہ کل آ کر بتا دے گا۔'


وجدان نے اثبات میں سر ہلایا۔


'ہیڈ کوارٹر سے انفارمیشن آئی وہ چاہ رہے تھے کہ ہم دونوں افغانستان چلے جائیں۔میں نے منع کر دیا اپنے وطن کے لیئے یہیں رہ کر کچھ کرنا چاہوں گا۔'


'تمہاری مرضی ہے مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بس مشن خطرناک ہونا چاہئے پھر وہ کہیں بھی ہو۔تمہارے برعکس میں یہ سب ملک کے لیئے نہیں کرتا کیپٹن۔'


وجدان نے پانی پیتے ہوئے کہا۔


'اچھا تو پھر کیا مقصد ہے؟'


سعد نے دلچسپی سے پوچھا۔


'کوئی مقصد پانا ہی میرا سب سے بڑا مقصد ہے۔'


اس سے پہلے کہ سعد اسے مزید کچھ کہتا وجدان وہاں سے چلا گیا۔


💖------------💖


(ماضی)

وہ اپنے نو سال کے بیٹے کو اپنے ساتھ لئے اندھیرے میں بھاگتے ہوئے جا رہی تھی۔اس امید میں کہ شاید کوئی اسکی مدد کر دے۔ایک بیٹے کو تو وہ درندہ پہلے ہی مار چکا تھا اب وہ دوسرے کو بھی نہیں کھونا چاہتی تھی۔


'شاہانہ رک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


اپنے پیچھے سے آنے والی آواز پر شاہانہ روح تک کانپ گئی۔اس وقت اس کے پیچھے کوئی شیطان کا بھٹکایا ہوا انسان نہیں بلکہ شیطان خود پڑا تھا۔اس نے اپنی رفتار بڑھانے کی کوشش کی سامنے نظر آنے والا ایک گاؤں اس کے لیئے تاریکی میں ایک زرہ برابر امید کا باعث تھا۔


'تمہیں کچھ نہیں ہو گا سکندر یہ تمہاری ماں کا وعدہ ہے تم سے۔'


اس نے اپنے بیٹے کو دلاسہ دیا اور پھر اسکی نظر دائیں طرف ایک اصطبل پر پڑی تو وہ جلدی سے اس طرف بھاگنے لگی۔


'سکندر یہاں سے باہر مت آنا بیٹا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔'


شاہانہ نے اسکو ایک اندھیرے کونے میں بیٹھا کر کہا تو سکندر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'آپ پلیز مت جائیں۔'


نو سال کے بچے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


'نہیں بیٹا میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ تم سکندر ہو اور وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔بلکل اپنے بابا کی طرح۔تم یہیں رہنا مجھے ان لوگوں کا دھیان بھٹکانا ہو گا۔'


شاہانہ نے آنکھوں میں آنسو لے کر اپنے بیٹے کے سر پر ایک بوسہ دیا اور بھاری قدموں سے بھاگنے لگی۔


'میں سکندر ہوں اور میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔'


سکندر اندھیرے میں بیٹھا اپنی ماں کے الفاظ دہرا کر خود کو حوصلہ دے رہا تھا۔


'سکندر۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر کہاں ہو باہر آؤ۔۔۔'


کچھ دیر کے بعد اس شیطان کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تو سکندر ایک پل کو سہم کر اندھیرے میں چھپا۔


'سکندر اگر اپنی ماں کو زندہ دیکھنا ہے تو باہر آ جاؤ بیٹا میں کچھ نہیں کروں گا۔'


اپنی ماں کے ذکر پر سکندر کا ننھا سا دل کانپا۔


'بلاؤ اسے شاہانہ۔۔۔۔'


'کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔میرا بیٹا تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔۔۔۔ادھوری ہی رہے گی تمہاری ہر خواہش۔۔۔'


شاہانہ انتہائ غصے سے بولی تو وہ شیطان قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔


'ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ایسا کیا۔۔۔۔۔۔'


اس نے ایک زور دار تھپڑ شاہانہ کے منہ پر مارا جسی کی طاقت کو برداشت نہ کرتے ہوئے شاہانہ زمین پر گری۔اس شیطان نے مسکراتے ہوئے اپنا بیلٹ نکالا اور شاہانہ کو بری طرح سے مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔


'بلاؤ اسے۔۔۔۔' وہ چلایا۔


'کبھی نہیں۔۔۔۔۔'


شاہانہ نے مار کھاتے ہوئے ضبط سے کہا۔سکندر کب سے وہاں بیلٹ سے نکلنے والی آواز سن رہا تھا۔وہ اپنی ماں سے کیئے وعدے کو قائم رکھنے کے لیئے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔لیکن اب اسکا ضبط ختم ہو چکا تھا۔سکندر نے ارد گرد دیکھا تو اسے صرف ایک چھڑی نظر آئی جسے اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اصطبل سے باہر آ گیا۔


'چھوڑو میری ماں کو۔۔۔۔'


سکندر نے ڈنڈے پر پکڑ مظبوط کر کے کہا تو اس شیطان نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔


'نہیں سکندر۔۔۔۔'


شاہانہ نے اٹھ کر سکندر کی طرف آنا چاہا تو اس نے شاہانہ کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔


'واہ تم تو بلکل باپ پر گئے ہو۔ڈر نہیں لگ رہا تمہیں؟'


اس شیطان نے مسکراتے ہوئے کہا اور شاہانہ پر اپنی پکڑ مظبوط کی۔


'سکندر صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور کسی سے نہیں۔'


سب کو اسکی بہادری پر تعجب ہوا کیونکہ وہ لوگ اس دس سالہ بچے کے چہرے پر بھی خوف کا کوئی تاثر نہیں دیکھ سکتے تھے۔


'لاؤ اسے میرے پاس۔۔۔'


شیطان کے حکم دیتے ہی اسکا ایک آدمی سکندر کی طرف بڑھا تھا۔لیکن اسکے قریب آتے ہی سکندر نے اسے ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیا۔دوسرے آدمی نے سکندر کو پیچھے سے پکڑ کر ڈنڈا اسکے ہاتھ سے دور کیا مگر پھر بھی سکندر نے اسکے ہاتھ کو اپنے ناخنوں اور دانتوں سے نوچنا شروع کر دیا۔جبکہ یہ منظر کوئی بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔


'تم تو کمال ہو سکندر تمہیں مار کر سچ میں افسوس ہو گا مجھے۔'


وہ شخص شیطانی سے مسکرا رہا تھا۔


'نہیں ۔۔۔۔۔'


شاہانہ نے غصے اور کرب سے کہا۔


'دیکھ لینا میری جان ایسا ہی ہو گا اور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو گا۔۔۔۔'


اس نے شاہانہ کے گال کو چاٹا تو وہ اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔


'چلو اب جو چاہا تھا وہ مجھے مل چکا ہے۔'


اس شیطان نے اپنے آدمیوں سے کہا اور خود شاہانہ کو اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے وہاں سے چل پڑا تھا ۔


💖------------💖

-------------------------------------

رات کے بارہ بجنے والے تھے اور الطاف اپنے کمرے میں بیٹھا دفتر کا کام کرنے میں مصروف تھا۔تبھی اچانک اسکے پاس پڑا فون بجنے لگا۔

'ہیلو۔' 

'تم اپنا ایک بھی۔۔۔۔۔کام ٹھیک سے سر انجام نہیں۔۔۔۔نہیں دے پائے۔۔۔۔اس کی سزا تمہیں ملنا بہت ضروری ہے۔' 

الطاف کے فون اٹھاتے ہی ایک لڑکی بہت ذیادہ روتے ہوئے بولنے لگی۔اس لڑکی کی آواز تو وہ کہیں بھی پہچان سکتا تھا یہ اسکی اکلوتی بیٹی کی آواز تھی۔

'حوریہ کیا ہوا ہے آپ ایسے رو کیوں رہی ہو اور یہ کیا بات کر رہی ہو آپ؟؟۔' 

وہ بہت زیادہ پریشان ہوا تھا۔

'تم جیسا۔۔۔۔۔کیڑا زندہ نہیں رہنا چاہئے۔۔۔۔ورنہ سب۔۔۔۔سب کو نگل جائے گا۔۔۔۔تمہیں مرنا ہو گا۔۔۔۔' 

حوریہ رونے کی وجہ سے اب ہچکیاں لے رہی تھی۔جبکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ اسکی بیٹی کسی مصیبت میں ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا تھا وہ تو گرلز ہاسٹل میں بہت حفاظت سے تھی۔

'حوریہ کون ہے بیٹا کون تمہیں پریشان کر رہا ہے۔؟' وہ اب بے چین ہوا تھا۔

'تمہاری بیٹی کے پاس۔۔۔۔ وقت بہت کک۔۔۔۔کم ہے لیکن تم چاہو تو۔۔۔۔بچا سکتے ہو اسے۔۔۔۔' 

حوریہ کی رندھی ہوئی آواز اسے سنائی دی۔

'تم میری بیٹی نہیں ہو سکتے کون ہو تم بتاؤ مجھے۔۔۔۔'

 الطاف فون میں چلایا ۔

'میں تمہاری بیٹی۔۔۔۔نہیں ہوں ۔۔۔۔میں تو صرف لکھ رہا ہوں۔۔۔۔اور تمہاری کمینی بیٹی یہ پڑھ رہی ہے۔۔۔۔' 

'چھوڑ دو میری معصوم بچی کو اسنے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔؟' 

اب کی بار وہ بھی روتے ہوئے بولا۔

'اپنی بندوق سے۔۔۔۔ایک سوراخ۔۔۔۔اپنے دماغ میں کر دو۔۔۔۔یا پھر کل اپنی بیٹی۔۔۔۔کا چھلنی ہوا وجود۔۔۔۔اسکے کککا۔۔۔۔کالج سے لے جانا۔۔۔۔' 

حوریہ زارو قطار رونے لگی مگر وہ کسی اور کے الفاظ ہی استعمال کر رہی تھی براہ راست وہ اپنے باپ کو کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی۔

'تمہارے پاس۔۔۔۔وقت بہت کم ہے۔۔۔۔' 

حوریہ کی آواز ایک بار پھر سے اسے سنائی دی۔

'دیکھو ایک بار میری بات سن لو۔۔۔۔' 

اس نے منت کی ۔

'دس۔'

'نو'

'آآ۔۔۔۔آٹھ۔۔۔۔' 

حوریہ کی روتی ہوئی آواز پر اسکے ہاتھ کانپنے لگے۔

'سات۔'

'نہیں رک جاؤ ۔کون ہو تم کیا چاہئیے میں کچھ بھی دینے کو تیار ہوں۔۔۔۔۔ہمیں چھوڑ دو۔۔۔۔'

 الطاف نے بھیک مانگی تو ایک پل کو دوسری طرف خاموشی ہو گئی۔

'چھ۔'

'پپ۔۔۔۔۔پانچ۔'

'نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔'

 وہ زمین پر بیٹھے رو رہا تھا مگر اسکا ہاتھ بندوق تک جا چکا تھا۔اسے اسکی بیٹی اپنی جان سے بھی ذیادہ عزیز تھی۔

'چار۔'

'تت۔۔۔۔تین'

'کون ہو تم آخر کون ہو تم۔؟؟؟' 

وہ بندوق اپنی کنپٹی پر رکھ کر چلایا۔

'دد۔۔۔۔دو۔۔۔ ' 

'ای۔۔۔۔'

ٹھاہ۔۔۔۔حوریہ کا لفظ پورا ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے دماغ میں گولی مار چکا تھا۔جبکہ گولی کی آواز کے بعد اب فون میں سے صرف حوریہ کی چیخیں اور رونے کی آواز آرہی تھی۔۔۔    

'سسس۔۔۔۔۔۔۔سکندر۔۔۔'

 اسکے زمین پر گرے موبائل فون میں سے حوریہ کی آواز آئی اور پھر اس کے بعد وہ فون بند ہو گیا۔

                        💖------------💖

زرش روتے ہوئے اپنے کمرے میں واپس آئی اس نے تو کبھی زندگی میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا سامنا کبھی اس شخص سے ہو گا۔وہ جو اسے خوابوں میں دیکھ کر سکون محسوس کرتی تھی اس سبز آنکھوں والے مسیحا کا صرف خیال ہی اس کا تمام خوف بھلانے کے لیے کافی ہوتا تھا اور  آج تو وہ اسکے سامنے تھا۔

لیکن اس نے زرش کو پہچانا نہیں تھا۔زرش کو اسکی آنکھوں میں وہ اجنبیت بہت زیادہ تکلیف دے گئی۔مگر وہ بھی کیوں یاد کرتا اسے؟وہ کیا تھی بس ایک مظلوم لڑکی ہی نا جسے اس نے ایک شیطان کے چنگل سے نکالا تھا۔زرش میں تو ایسا کچھ بھی خاص نہیں تھا۔الٹا وہ تو دھبہ تھی ایک پھر کیونکر وہ اسے یاد رکھتا۔

زرش بیڈ پر بیٹھ کر بے آواز رونے لگی وہ اتنا کیوں رو رہی تھی یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔ایسا کوئی تعلق تو نہ تھا اس شخص سے کہ اسکا بھول جانا اتنی تکیف دے گیا تھا۔

'زرش بیٹا وہاں کیوں بیٹھی ہو؟'

 فاطمہ بیگم کی آواز پر زرش نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے ۔فاصلہ بیگم نے لائٹ آن کی۔

'کیا ہوا میری جان سب ٹھیک ہے نا؟'

 فاصلہ بیگم اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پریشان ہوئیں۔زرش نے ہلکا سا مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

'تو پھر وہاں کیوں بیٹھی ہو؟' 

میں پانی پینے گئی تھی۔

زرش نے اشارہ کیا تو فاطمہ بیگم مسکرا دیں۔

'اچھا چلو آؤ سو جاؤ میری جان۔' 

فاطمہ بیگم نے اسے پیار سے پاس بلایا تو زرش انکے پاس جا کر لیٹ گئی۔فاطمہ بیگم نے مسکرا کر اسکے ماتھے کو چوما تو زرش آنکھیں موند گئی لیکن دماغ پر ابھی بھی وہ سبز آنکھیں ہی سوار تھیں اور ایسا تو چھے سال سے تھا کیونکہ انہیں یاد کیے بغیر زرش کو کبھی نیند ہی نہیں آئی تھی۔

                       💖------------💖

وجدان کی آنکھ اپنے گھر میں ہونے والے شور و غل سے کھلی اور اس سب سے اب اسے چڑ ہو رہی تھی کیونکہ اسے اکیلے رہنا بہت ذیادہ عزیز تھا اور اب اسے اپنا گھر چڑیا گھر لگ رہا تھا۔وہ اکتا کر نیچے آیا تو اسکی نظر کھلکھلا کر ہنستی ہوئی جانان پر پڑی جو کہ زرش کو گلے لگا کر بولتی ہی جا رہی تھی۔

'زری تمہیں پتہ ہے میں نے تمہیں کتنا یاد کیا ؟مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں اتنی اچانک آپ لوگوں سے ملنے آ رہی ہوں۔'

 جانان نے اب باقائدہ زرش کا گال چوما  جبکہ پاس کھڑا شایان انتہائی محبت سے  مسکراتے ہوئے جانان کو دیکھ رہا تھا۔وجدان نے وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا۔

'اسلام و علیکم وجدان بھائی کیسے ہیں آپ ؟' 

جانان نے اسے مخاطب کیا تو وجدان نے ایک گہرا سانس لے کر خود پر قابو کیا،صرف ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا اور خود شایان کے پاس چل دیا۔

'یہ بندہ کبھی نہیں سدھر سکتا کریلے ہیں پورے وہ بھی کڑوے والے۔

جانان نے زرش کے کان میں سرگوشی کی تو زرش نے ایک نگاہ وجدان پر ڈالی۔وہ تو ابھی بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ شخص اسکی نظروں کے سامنے تھا۔

'سعد بھائی کہاں ہیں؟' 

جانان نے ارد گرد نظر دوڑا کر پوچھا۔

'کام سے گیا ہے وہ۔' 

وجدان نے عام سا جواب دیا اور پھر شایان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔شایان اسکی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھتا تھا اور اس وقت وجدان ان سب لوگوں کی اپنے گھر میں آمد کی وجہ سے بے چین تھا۔شایان کے لبوں کو ایک شرارتی مسکان نے چھوا۔

'جانان بیٹا آپ لوگ کچن میں جا کر کھانے کا کچھ کر لو۔'

 سلمان صاحب کے اتنا کہتے ہی جانان نے زرش کا ہاتھ پکڑا اور اسے بہت سی باتیں سناتے ہوئے ساتھ لے گئی۔فاطمہ بیگم بھی انکے پیچھے ہی چلی گئی تھیں۔

'ہمیں تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے وجدان۔' 

شایان فوراً سے مدعے پر آیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وجدان نہ تو فالتو باتیں کرتا ہے اور نہ ہی اسے یہ پسند ہے۔وجدان ہاں میں سر ہلا کر ان کے ساتھ ڈائننگ روم میں چلا گیا۔

'وجدان ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔' 

شایان نے سلمان صاحب کی ویل چیر کو صوفے کے پاس کھڑا کیا اور خود بھی ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔

'ہاں بتاؤ۔'

 وجدان نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر پوچھا۔لیکن شایان بات کرنے کی بجائے سلمان صاحب کو دیکھنے لگا۔

'ہماری ایک گزارش ہے تم سے۔۔۔۔۔'

 سلمان صاحب نے ہچکچاتے ہوئے بات شروع کی۔

'وجدان ہم چاہتے ہیں کہ تم زرش سے نکاح کر لو۔۔۔' 

شایان نے اچانک سے کہا تو وجدان نے کوئی تاثر دیے بغیر ہی اسے دیکھا اور یہ بات وجدان کو بہت پراسرار بناتی تھی جہاں دوسرے لوگوں کے ارادوں کا انداذہ تاثرات سے لگایا جا سکتا تھا وہیں وجدان خان برف کا ایک پتلا تھا۔ایک ایسی کتاب تھا جو پڑھنے والے کے لئے بلکل کوری تھی ۔

'کیا یہ کوئی مذاق ہے؟' 

وجدان نے ایک ابرو اچکا کر شایان سے پوچھا۔

'وجدان میں جانتا ہوں کہ تم کسی بھی قسم کا رشتہ نہیں بنانا چاہتے۔تمہیں یہ نکاح صرف نام کے لیئے کرنا ہے۔ہم کبھی بھی اس رشتے کو ختم کر سکتے ہیں۔'

'وجہ جان سکتا ہوں؟' 

وجدان کا انداز بلکل عام سا تھا۔

' وہ لڑکی بہت بڑے خطرے میں ہے۔ایک شخص پڑا ہے اسکے پیچھے اور فلحال ہم اسکے بارے میں سوائے اسکے نام کے کچھ نہیں جانتے۔ہم زرش کو عثمان ،میرے یا کسی اور رشتہ دار کے پاس نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ وہ آدمی سلمان صاحب کے ہر رشتے دار کے پاس زرش کو ڈھونڈنے گا۔مگر تمہارے بارے میں وہ کبھی بھی شک نہیں کر سکتا۔' 

شایان نے اسے ساری بات کھل کر بتائی۔

'لیکن نکاح ضروری نہیں ہے یہ لوگ یونہی رہ سکتے ہیں یہاں۔'

 وجدان نے بات کو ختم کرنے

کی کوشش کی۔

'یہ زرش کے تحفظ کے لیئے ہے وجدان۔زرش کسی اور کے نکاح میں ہو گی تو وہ کچھ نہیں کر سکے گا اور اس میں دلچسپی کھو دے گا۔' 

شایان جانتا تھا کہ وجدان کو اس معاملے میں منانا بہت ذیادہ مشکل ہو گا۔

'معاف کیجئے گا پر میں ایک سترہ اٹھارہ سال کی بچی سے شادی نہیں کر سکتا پلیز آپ کسی اور سے اس بارے میں بات کر لیں۔' 

وجدان اپنی بات کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

'بارہ سال کی تھی میری معصوم بچی جب اس درندے کی نظر اس پر پڑی ۔اپنی ملکیت کہنے لگا وہ میری زرش کو اور مجھ سے کہا تھا کہ اسکے جوان ہوتے ہی وہ اس بیاہ کر لے جائے گا۔پھر وہ نا جانے کہاں غائب ہو گیا اور اب اتنے سالوں بعد واپس آ کر زرش کا مطالبہ کر رہا ہے۔میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا چہرہ تک نہیں دیکھا اسکا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بہت طاقتور اور ظالم ہے وہ۔بس کسی طرح میری بچی کی حفاظت میں مدد کر دو میری میں تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں۔'

سلمان صاحب نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ جوڑ دیے تو وجدان نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر کافی دیر سوچنے کے بعد بولا۔

'میں سعد سے اس بارے میں بات کرتا ہوں امید ہے وہ مان جائے گا لیکن میں اس سب کے لئے بلکل بھی صیح انسان نہیں ہوں۔'

وجدان کا لہجہ الجھن سے بھرا تھا۔

'اگر میں سعد کو اس سب کے لئے ٹھیک سمجھتا تو میں اس وقت تمہارے نہیں اس کے سامنے ہوتا۔وجدان سعد خود بھی اس سب سے خطرے میں پڑھ سکتا ہے اور یہ بات تم بھی جانتے ہو کہ اس میں اور تم میں بہت فرق ہے۔' 

شایان کی بات پر وجدان نے کافی دیر غور کیا اور پھر انکار میں سر ہلا کر بولا۔

'معاف کرنا دوست میں ایسا کچھ نہیں کروں ۔۔۔'

'وجدان میری خاطر یار میری دوستی کی خاطر۔پلیز۔'شایان کے لہجے میں یہ بے بسی وجدان کو بلکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔وجدان نے غصے سے اپنے دانت پیسے۔

'ٹھیک ہے مگر یہ رشتہ صرف اس شخص کے پکڑے جانے تک ہی قائم رہے گا اس کے بعد میں اسے آزاد کر دوں گا تب تک وہ میرے پاس ایک امانت کی طرح محظوظ رہے گی کوئی تعلق نہیں ہو گا ہمارے درمیان یہ سب صرف ایک سمجھوتا ہے' 

وجدان اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔سلمان صاحب خود بھی اپنی پھول سی بچی اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے مگر وہ اسے اس شیطان کے حوالے بھی تو نہیں کر سکتے تھے۔

'آپ وجدان کو سارا سچ بتا سکتے تھے ۔' 

شایان نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔

'نہیں شایان میں جانتا ہوں کہ پوری سچائی جاننے کے بعد کوئی بھی میری زری کو قبول نہیں کرتا۔یہ راز کبھی کسی کے سامنے نہیں آئے گا۔کبھی نہیں۔'

سلمان صاحب اس رات کو یاد کر کے ایک بار پھر سے کانپ گئے۔

                      💖------------💖

زرش حیرت سے آنکھیں کھولے اپنی ماں کی باتیں سن رہی تھی۔اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا۔وہ شادی نہیں کر سکتی تھی وہ تو کسی کے قابل ہی نہیں تھی۔

میں یہ شادی نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔

 زرش کے ہاتھ بہت زیادہ تیزی سے اشارے کر رہے تھے۔ فاطمہ بیگم نے بہت مشکل سے اسکی بات سمجھی ۔

'بیٹا کیوں نہیں کر سکتی آپ یہ شادی۔۔۔۔۔ وجدان بہت خیال رکھے گا آپکا وہ ایک بہت اچھا انسان ہے۔' 

فاطمہ بیگم نے پیار سے کہا لیکن زرش انکار میں سر ہلا رہی تھی۔

پر میں اچھی نہیں ہوں۔میرے سے کوئی بھی شادی نہیں کرنا چاہے گا میں بری ہوں۔ 

زرش کے اشاروں اور اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر فاطمہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

'نہیں میرا بیٹا آپ بہت ذیادہ اچھی ہو۔وجدان اچھا انسان ہے وہ تمہاری کمزوریوں کو لے کر تمہیں نیچا نہیں دیکھائے گا۔' 

فاطمہ بیگم جانتی تھیں کہ زرش بہت ذیادہ حساس تھی اور اپنی کمزوری کی وجہ سے خود کو کم تر سمجھتی تھی۔حالانکہ اپنی بیٹی کے خوف اور اسکے درد سے تو وہ بھی انجان تھیں۔زرش روتے ہوئے ان سے دور ہوئی تھی۔

وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے۔۔۔۔بابا کے کہنے پر شادی کر رہے ہیں۔

زرش نے اشارہ کیا تو فاطمہ بیگم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔وہ اپنی بیٹی کو مزید اسکی نظروں میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔اس لئے انہوں نے جھوٹ بولنے کا فیصلہ کیا۔

'نہیں میرا بچہ تمہارے بابا نے وجدان کو مجبور نہیں کیا اس رشتے کے لیے۔وجدان تمہیں پسند کرتا ہے اسی لئے تو وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔' 

زرش نے اپنی آنکھیں حیرت سے مزید پھیلا لیں۔

آپ جھوٹ بول رہی ہیں نا؟ 

زرش کے سوال پر فاطمہ بیگم نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

'نہیں زرش وہ سچ میں تمہیں پسند کرتا ہے اور تم سے شادی کرنا اسکی خواہش ہے میرا بچہ۔' 

فاطمہ بیگم نے اسکے چہرے کو پیار سے تھاما تھا۔وہ جانتی تھیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں سلمان صاحب نے بہت عرصے کے بعد انکی کوئی بات سنے بغیر صرف اپنا فیصلہ سنایا تھا فاطمہ بیگم نے فوراً انکار کر دیا لیکن سلمان صاحب کی آنکھوں میں آنسو اور انکے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ کر جھک گئیں۔

'دیکھو زرش تم بہت زیادہ اچھی اور پیاری لڑکی ہو اور اسی لئے تم کسی کی بھی خواہش ہو سکتی ہو۔اپنے آپ کو کم تر مت سمجھو۔'

 فاطمہ بیگم نے پیار سے اسکے ماتھے کو چوما اور مسکرا کر باہر کی طرف چل دیں۔انہیں زرش سے جھوٹ بولنا بہت ذیادہ برا لگا تھا۔

تم کسی کے قابل نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔ تمہارے وجود پر میری چھاپ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔صرف آر بی کی ہو تم ۔۔۔۔۔ہمیشہ یاد رکھنا یہ۔ 

بہت پرانے الفاظ زرش کے دماغ میں گونجے تھے جنہیں یاد کر کے وہ آج بھی کانپ جاتی تھی۔زرش نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی شرٹ کو کندھے سے ہٹایا تھا۔جہاں آج بھی اسکی جلی ہوئی جلد پر آر بی لکھا ہوا تھا۔ 

نہیں امی جھوٹ بولتی ہیں۔۔۔۔۔کسی کے قابل نہیں میں۔۔۔۔۔کسی کے بھی نہیں۔۔۔۔ایسا ہی کہا تھا اس شیطان نے ہاں۔۔۔۔۔۔۔ایسا ہی کہا تھا۔ 

زرش اپنی سوچ پر بے آواز رونے لگی وہ اس خوف سے،اسکے خیالات سے نجات چاہتی تھی۔وہ چلا چلا کر پوری دنیا کو اپنی بیتی، اپنا درد بتانا چاہتی تھی۔پر یہ ناممکن تھا ۔اسکے لیے سب کچھ ناممکن تھا۔

                      💖------------💖

سعد آرمی ہیڈ کوارٹر میں کرنل منور صدیقی صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔بہت ذیادہ ٹریننگ اور جدوجہد کے بعد وجدان اسے آئی ایس آئی میں شامل کروانے کے قابل ہو ہی گیا تھا۔سعد کو تو یہ ناممکن ہی لگا تھا مگر بادشاہ کو پکڑنے اور شایان کی بے گناہی کو ثابت کرنے  میں سعد کا عمل دخل اسکے کافی کام آ گیا تھا۔سعد نے ساتھ بیٹھے وجدان کو دیکھا جو ہمیشہ کی طرح ہر شے سے اکتایا ہوا نظر آ رہا تھا۔

' تو کیپٹن سعد کیا آپ ہماری سیکرٹ انٹیلیجینس کا حصہ بن کر خوش ہیں؟'

 کرنل منور صاحب نے پروفیشنل انداز میں پوچھا۔

'یس سر۔۔' 

سعد نے کافی پر جوشی سے جواب دیا۔

'کیپٹن سعد میرا ارادہ تو آپ کو پہلے مشن پر افعانستان بھیجنے کا تھا لیکن آپکی خواہش ملک میں ہی رہنے کی تھی۔' 

کرنل صاحب کی بات پر سعد ہلکا سا مسکرایا۔

'سر بہت سے غدار دہشت گرد تو ہمارے اپنے ملک میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہی رہ کر اپنے ملک کو ان سانپوں سے بچاؤں۔'

 سعد کا محب الوطنی کا جزبہ اسکے ہر انداز سے چھلک رہا تھا۔وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جو ملک کے تحفظ کی خاطر مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔کرنل منور صاحب نے سعد کی بات پر اسے مسکرا کر دیکھا۔ 

' ویری گڈ کیپٹن سعد ہمارے جوانوں کا یہی جزبہ ہے جسکی وجہ سے ہمارا یہ پاک وطن قائم و دائم تھا اور ہمیشہ رہے گا۔' 

'انشا اللہ سر۔'

 سعد نے پر جوشی سے کہا۔کرنل صاحب نے اپنا رخ وجدان کی طرف کیا جو سعد کے برعکس ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔

'ایک نئی مصیبت نے جنم لیا ہے وجدان۔کوئی ہے جو ایک سال میں پندرہ لوگوں کی جان لے چکا ہے مگر ابھی تک ہم اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائے۔پہلے یہ کیس پولیس کے پاس تھا،پھر سی آئی اے،پھر آئی بی کے پاس گیا لیکن مکمل طور پر ناکامی کے بعد اب یہ کیس آئی ایس آئی کے پاس آیا ہے اور اس شخص کو ایک دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔' 

وجدان کی آنکھوں میں چمک آئی ۔سعد بھی کافی توجہ سے انکی بات سن رہا تھا۔

'اس شخص نے ہر ایک کی جان لینے میں اپنے آپ کو کبھی سامنے کیا ہی نہیں۔بلکہ کسی نہ کسی طرح سے انہیں خود کشی پر مجبور کر دیا۔زیادہ تر لوگ حکومت کے کافی خاص آدمی تھے اور کچھ تو بزنس مین تھے۔اسی وجہ سے بہت زیادہ تہلکا مچ گیا ہے اور اس شخص کو پکڑنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔' 

وجدان نے اثبات میں سر ہلایا۔کرنل صاحب نے ایک فائل وجدان کی طرف بڑھائی تو وجدان نے اسے پکڑ کر کھولا۔سامنے ہی کسی مشہور وکیل الطاف احمد کے قتل کی ساری ڈیٹیلز تھیں۔

'اب یہ الطاف صاحب کا کیس ہی دیکھ لو۔اس شخص نے انکی بیٹی کو کڈنیپ کیا اور اس پر بم باندھ کر اسی سے اپنے باپ کو خود کشی کرنے کا کہا۔'

 معاملے کی پیچیدگی کو سمجھ کر وجدان کی آنکھوں میں چمک بڑھتی جا رہی تھی۔یہ کام دلچسپ ہونے والا تھا۔

'اس لڑکی نے کچھ بتایا نہیں اس شخص کے بارے میں؟' 

وجدان کے سوال پر کرنل صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی۔

'وہ لڑکی ہوش میں آئی تو وہ ایک کرسی سے بندھی تھی اور اسکے سامنے میز پر ایک ٹیب موجود تھا جس میں لکھے گئے الفاظ کے ذریعے اس شخص نے بچی کو دھمکایا اور الطاف صاحب کے خود کشی کرنے کے بعد کسی نے اسے انجیکشن لگا کر بے ہوش کر دیا۔پھر اسکی آنکھ واپس اپنے ہاسٹل میں کھلی تھی۔'

وجدان نے اثبات میں سر ہلایا۔

'ہم اس شخص کے بارے میں جانتے کیا ہیں ؟' 

اب کی بار سوال سعد کی طرف سے آیا تھا۔

صرف نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکندر۔۔۔'

 اس نام پر وجدان کے چہرے پر ایک پل کے لیے حیرانی آئی تھی جو کہ سعد سے چھپی نہیں رہی تھی۔

' اس کے علاوہ یہ کہ ایک لڑکی نے سکندر کو دیکھا تھا۔اس نے سی آئی اے کو جو حلیہ بتایا وہ زیادہ کام تو نہیں آیا مگر سکندر اب اس لڑکی کے پیچھے پڑا ہے۔کئی بار جان لیوا حملے کیے ہیں اس پر جن سے کسی نہ کسی طرح وہ بچتی رہی ہے۔لیکن آخری بار اس نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔شاید آپ کو وہ سکندر کے بارے میں کچھ بتا پائے۔فلحال تو وہ کرنل آصف صاحب کے پاس ہے۔'

 وجدان نے ہاں میں سر ہلایا۔جبکہ کرنل آصف کے ذکر پر سعد مسکرایا تھا۔اس شخص نے سعد پر بہت احسان کیے تھے یا یوں کہنا بہتر ہو گا کہ سعد جو کچھ بھی تھا انہیں کی وجہ سے تھا۔

' وجدان تمہیں اس سکندر کو پکڑنا ہے۔پہلے ہی ہم اس دارا کو نہیں پکڑ سکے اور اب یہ نیا دشمن پیدا ہو گیا ہے۔ پتہ لگاؤ اسکا وجدان اور اس مشن میں کیپٹن سعد تمہیں ایسسٹ کریں گے۔'

 وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور سعد بھی اس فیصلے سے متفق تھا۔

'کچھ جوان بھی تمہارے ساتھ اس مشن۔۔۔۔' 

'مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔اپنا کام اکیلے کرنا ذیادہ پسند ہے۔سعد کا ساتھ کافی ہے میرے لیے۔بس چار مہینے کا وقت دے دیں مجھے۔' 

وجدان نے کرنل صاحب کی بات کاٹی تو انہوں نے وجدان کو غصے سے دیکھا۔مگر وہ جانتے تھے کہ وجدان باقی جوانوں سے بہت مختلف تھا اور انہیں اسکی قابلیت پر پورا بھروسہ تھا اس لئے وہ خاموش رہے۔

'ٹھیک ہے وجدان چار مہینے کا وقت ہے۔اگر تم یہ نہیں کر پائے تو مشن کسی اور کے دے دیا جائے گا۔' 

وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور خاموشی سے باہر کی طرف چل دیا۔سعد نے بھی اٹھ کر کرنل صاحب کو سیلیوٹ کیا۔زندگی میں یہ ایک مقصد حاصل کر کے وجدان کافی خوش تھا۔

                    💖------------💖

(ماضی)

الفاظ درانی ایک انتہائی زیادہ اچھے اور فرشتہ صفت انسان تھے۔لوگ کہتے تھے کہ خدا نے انہیں اس زمین پر لوگوں کی مدد کے لئے بھیجا ہے وہ انسان کے روپ میں خدا کا بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہیں۔

اپنی خاندانی جائیداد کے اکلوتے وارث اور بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کے اونر ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔لیکن اس امیر ترین انسان نے ہمیشہ اپنا سارا پیسہ غریبوں پر لٹایا تھا۔مگر جب آپ اللہ کی راہ میں کچھ دیتے ہیں تو وہ چار گنا زیادہ ہو کر آپ کو ملتا ہے۔یہی معاملہ الفاظ درانی کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔

ضرورت مندوں پر پیسا پانی کی طرح بہانے کے باوجود کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھتا ہی تھا۔لیکن کمی تو اس انسان کو بھی تھی۔خدا نے سب دیا تھا،بے شمار دولت،بے تحاشہ عزت اور جان سے بھی ذیادہ پیار کرنے والی بیوی۔بس انکی کوئی اولاد نہیں تھی۔شادی کو سات سال ہو چکے تھے لیکن اولاد کی نعت انکو نہیں مل رہی تھی اور اس کے لئے الفاظ اور شاہانہ گڑگڑا کر خدا کی بارگاہ میں بھیک مانگتے تھے۔

شاہانہ نے ایک درگاہ کے بارے میں سنا جہاں پر مانی ہوئی منت ضرور قبول ہوتی ہے۔الفاظ صاحب ان سب باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے مگر پھر بھی شاہانہ کی خوشی کے لئے ان کے ساتھ چل دیے۔شاہانہ اس درگاہ میں دعا مانگنے گئی تھی لیکن الفاظ صاحب اپنے گارڈز کے ساتھ باہر کھڑے انکا انتظار کر رہے تھے۔

اچانک انہیں اپنے پیر کے ساتھ کچھ لپٹا ہوا محسوس ہوا تو ان کے نیچے دیکھتے ہی انکی نگاہ ایک سانپ پر پڑی جو انکے پیر سے لپٹ کر ٹانگ تک آ چکا تھا۔انہوں نے اپنا پیر اٹھا کر جھٹکا لیکن وہ سانپ انہیں سے لپٹا رہا تھا۔الفاظ تھوڑا گھبرا گئے اور اپنے گارڈز کی طرف مڑنے لگے تبھی انکی نظر نھنھے سے ہاتھوں پر پڑی جنہوں نے بہت بہادری سے اس سانپ کو کھینچ کر ان کے پاؤں سے جدا کیا اور وہاں سے دور پھینک دیا۔الفاظ صاحب کی جان حلق میں اٹک گئی تھی۔

'بیٹا آپ ٹھیک ہو؟اس سانپ نے کاٹا تو نہیں آپ کو؟'

الفاظ صاحب نے پریشانی سے اس چھوٹے سے بچے کو دیکھا جو بمشکل تین یا چار سال کا تھا۔

'نہیں صاب میں ٹھیک۔'

اس بچے نے مسکرا کر انتہائی معصومیت سے کہا تو الفاظ نے مسکرا کر اسکا چہرہ چوما اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔انکے باڈی گارڈز یہ منظر حیرانی سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ بچہ کافی گندی حالت میں تھا۔

'نام کیا ہے تمہارا؟ '

 الفاظ صاحب نے انتہائی محبت سے پوچھا۔انکے لئے تو یہ معصوم پھول ایک فرشتہ ثابت ہوا تھا۔

'بلو صاب۔'

 الفاظ کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔

'اور بلو تمہارے ماما بابا کہاں ہیں ؟'

 الفاظ صاحب نے اسکے مٹی سے لدے کپڑے جھاڑتے ہوئے پوچھا۔

'بلو کلا صاب ادھر رہتا۔' ا

س بچے نے درگاہ کی طرف اشارہ کیا۔الفاظ یہ جان کر کافی پریشان ہوئے۔

'ارشد پتہ کرو اس بچے کے بارے میں۔' 

ارشد اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر بعد ایک ملنگ کے ساتھ واپس آیا۔

'کون ہے یہ بچہ؟' 

الفاظ نے ملنگ سے پوچھا۔

'پتہ نہیں صاب کوئی آدمی اس دو چار دن کے بچے کو درگاہ کی سیڑھیوں پر چھوڑ گیا تھا تب سے یہیں رہتا ہے ملنگوں نے پالا تھا۔ماں باپ کون ہیں کچھ پتہ نہیں۔' 

الفاظ نے ملنگ کی بات پر نم آنکھوں سے اس نھنھے فرشتے کو دیکھا جو اپنے دھیان اپنی پرانی سے شرٹ سے کھیل رہا تھا۔

'چلیں الفاظ۔' 

شاہانہ کی آواز پر الفاظ نے اپنی نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔

'لگتا ہے شاہانہ تم سچ کہتی تھی یہاں پر مانگی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔یہ دیکھو تمہاری دعا کتنی جلدی قبول ہو گئی۔ہمارا بیٹا ہمارے سامنے ہے شاہانہ۔' 

الفاظ نے جھک کر اس بچے کو اپنی باہوں میں اٹھایا ۔

'لیکن الفاظ۔'

 شاہانہ نے انہیں کچھ کہنا چاہا۔

'شاید یہی خدا کی مرضی ہے شاہانہ ۔ہمیں شاید اسی لیے وہ اپنی اولاد نہیں دے رہا ۔وہ چاہتا ہے کہ ہم کسی اور کا سہارا بنیں۔اس کے ماں باپ نہیں ہیں اور ہماری اولاد۔ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں ہم۔'

 الفاظ کی بات پر شاہانہ نے بھی نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا۔

'ارشد قانونی کارروائی کا دھیان رکھو ہم اسے لیگلی اڈاپٹ کریں گے۔' 

الفاظ نے پھر سے بہت محبت سے اس بچے کا منہ چوما اور شاہانہ کو ساتھ لے کر اپنی مکمل زندگی کی طرف چل دیے۔

                      💖------------💖

-------------------------------------


'سر سلمان شیخ صاحب کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں پر چلے گئے ہیں۔ابھی کچھ دن پہلے وہ لوگ اپنے گھر سے صبح سویرے نکل گئے تھے۔ہم نے انکے رشتہ داروں کے ہاں بھی پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا۔'


وہ آدمی خوف سے کانپتے ہوئے سر جھکا کر ٹریڈ مل پر بھاگتے ہوئے آر بی کو سب بتا رہا تھا۔آر بی کی دہشت سے تو سب واقف تھے۔اسکی دہشت دوسرے ملکوں میں بھی پھیلی ہوئی تھی ۔نہ صرف برے لوگ بلکہ بہت سے مہذب سیاستدان، وکلا ، بیروکریٹس آر بی کے ذریعے اپنا کام نکلواتے ۔تقریباً ہر برا کام کرنے والا آدمی آر بی کے کنٹرول میں تھا لیکن اس سب کے باوجود آر بی کی اصلی پہچان کے بارے میں اس کے سب سے خاص اور بھروسہ مند آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔


'تمہیں صرف ایک کام سونپا تھا نا میں نے کہ سلمان صاحب پر نظر رکھنا وہ بھی ٹھیک سے سر انجام نیں دے پائے تم۔'


آر بی ٹریڈ مل سے اترا اور پاس کھڑے نوکر سے ٹاول لے کر اپنے سینے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگا۔35 سالہ وہ مرد وجاہت اور امیری کی نشانی تھا لیکن اس اب کے ساتھ ساتھ وہ کمینگی اور شیطانی کا مجسمہ بھی تھا۔


'مم معاف کر دیں سر۔۔۔'


وہ آدمی اب باقاعدہ رونے لگا تھا۔


'معافی ۔۔۔۔ ہممم۔ معافی لفظ کیا ہوتا ہے ؟ میں نے تو آج تک نہیں سنا۔'


آر بی نے پاس پڑے ٹیبل سے ایک بلیڈ اٹھایا۔


'نن ننہیں سر رحم کریں پلیز۔'


وہ شخص گھٹنوں پر بیٹھ کر رونے لگا تو آر بی مسکرا کر اس بلیڈ سے کھیلنے لگا۔


'کر دیتا رحم یار میں یقین جانو مجھے رحم آ بھی رہا ہے تمہاری حالت پر۔'


آر بی نے اسکے سامنے کھڑے ہو کر منہ بنا کے کہا لیکن رحم کے آثار اسکے چہرے پر دور دور تک نہیں تھے وہاں وحشت تھی صرف وحشت۔


'لیکن وہ کیا ہے نا کہ تو نے جس معاملے میں کوتاہی کی ہے وہ آر بی کے لیے سب سے اہم تھا۔ایسا سمجھ کہ اپنی سب قیمتی شے کی نگرانی پر بیٹھایا تھا تجھے اور تو وہی نہیں کر سکا۔'


آر بی گھٹنوں پر بیٹھ کر اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔وہ آدمی زارو قطار رو رہا تھا۔


'اب مجھے اپنی نور زرش کو ڈھونڈنا پڑے گا اسکا انتظار کرنا پڑے گا اور تو نے میری بے چینی کو مزید بڑھا دیا۔بہت بڑا گناہ ہے تیرا۔'


آر بی نے اسکو بالوں سے پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا اور اسکی گردن پر بلیڈ اتنی آہستہ سے پھیرا کہ وہ فوراً نہ مر سکے بلکہ آہستہ آہستہ اسے اسکی موت نصیب ہو۔اسے تڑپتا چھوڑ کر آر بی کھڑا ہو گیا۔


'فیض پتہ کرو کہ سلمان کہاں لے گیا ہے میری زرش کو ۔ہر شہر ہر جگہ پر ہمارا آدمی ہونا چاہئے۔اسکی ایک جھلک پر وہ اٹھا کر میرے پاس لائی جائے۔'


آر بی حکم دیتا پھر سے ٹریڈ مل پر بھاگنے لگا۔


'سر ایک اور مسئلہ ہے ۔'


فیض بھی تھوڑا گھبرایا ہوا تھا۔


'سر کوئی ہے جس نے ہمارے کافی خاص بندوں کو ختم کر دیا ہے ہماری جیب میں پڑے بہت سے وکلا ،سیاست دان اور جج وغیرہ۔ویسے تو یہ بات صرف آرمی اور حکومت کے درمیان ہے لیکن پھر بھی ہمارا آدمی معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔'


'کون ہے وہ؟'


آر بی نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی کیونکہ اسے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔اسکے تلوے چاٹنے والے کچھ غلام مر گئے تو کیا وہ جلد ہی نئے بنا لے گا۔ویسے بھی ان سب میں سے اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔کسی نے تو اسکی شکل تک نہیں دیکھی تھی پھر اسے کیا ٹینشن۔


'یہ بات تو ابھی تک پولیس بھی نہیں جان پائی ۔اسکا تو نام بھی نہیں پتہ تھا کچھ عرصہ پہلے ہی اسکا نام بھی سامنے آیا ہے۔'


فیض نے ساری بات تفصیل سے بتا دی۔


'ہممم۔۔۔' آر بی نے عام سے انداز میں کہا۔


'کوئی سکندر ہے سر۔'


آر بی وہیں رک گیا اور اسے گھور کر دیکھنے لگا۔


'کون؟' اس نے دوبارہ پوچھا۔


'سکندر۔' فیض نے اپنی بات دہرائی۔


'پتہ لگواؤ اسکا بھی اور زندہ پکڑنا ہے اسے۔'


آر بی کے چہرے پر عجیب سی شیطانی آئی۔


'جی سر۔'


فیض اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے چلا گیا۔


'تم کہاں سے نکل آئے سکندر الفاظ درانی تمہیں تو کتے کی موت مارا تھا۔'


آر بی نے اپنی مٹھیاں بھینچیں۔


'کوئی بات نہیں تمہیں اس بار جہنم واصل ضرور کر دوں گا۔بچ کر رہنا تم سکندر۔'


آر بی کے چہرے پر بہت ہی زیادہ خوفناک آثار نمایاں ہو رہے تھے۔

🌈🌈🌈

سعد ہیڈ کوارٹر سے باہر آیا تو وجدان گاڑی میں بیٹھا پہلے سے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔سعد آ کر وجدان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا تو وجدان نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔


'کافی دلچسپ کام لگ رہا ہے نہیں؟مطلب کوئی کافی شاطر انسان ہے اتنی چالاکی سے سب سر انجام دینا ۔کسی سی سی ٹی وی کیمرہ میں بھی نہیں آیا وہ۔'


سعد نے اس کام میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔


'ہمم۔۔۔۔اسکا مطلب کہ اس سکندر کے ساتھ ضرور کوئی ہیکر بھی شامل ہے یا پھر وہ خود ہی ایک ہیکر ہے۔'


وجدان کی بات پر سعد نے اثبات میں سر ہلایا۔پھر اس کو کرنل صاحب کی باتیں اور وجدان کا ایٹیٹیوڈ یاد آیا۔


'ویسے کرنل صاحب تمہیں صرف تمہارے نام سے کیوں بلا رہے تھے؟پوسٹ کیا ہے تمہاری؟' سعد نے کافی دلچسپی سے پوچھا۔


'میری پوسٹ جان کر کیا کر لو گے کام تو مجھے ہی اہم ملا ہے نا تم تو میری ایسسٹینس میں ہو۔'


وجدان نے سعد کا زخم کھریدا۔


'تم بہت کچھ چھپاتے ہو وجدان خان۔۔۔۔چلتا پھرتا راز ہو تم۔'


سعد اسکے بات بدلنے کے جھانسے میں نہیں آیا تھا۔


'دعا کرو کہ میرے راز کبھی جان بھی نہ پاؤ بہتر ہو گا تمہارے حق میں۔'


وجدان کینٹ ایریا میں کرنل آصف صاحب کے گھر کی طرف مڑا تو سعد اسے حیرانی سے دیکھنے لگا۔


'ہم یہاں کیوں جا رہے ہیں؟'


سعد نے حیرانی سے پوچھا۔


'کرنل آصف کو کام تھا تم سے۔'


وجدان کی بات پر سعد نے گہرا سانس لیا لیکن کرنل آصف صاحب سے ملنے کا خیال دلچسپ تھا۔


'مگر تمہارے نکاح کا کیا؟' سعد حیران ہوا۔


'تمہیں نکاح کے بارے۔۔۔۔شایان۔۔۔' وجدان نے خود ہی اندازہ لگا لیا تھا۔


'فکر مت کرو تمہارے بغیر بھی ہو جائے گا میرا نکاح ابھی زرا اپنے کام پہ دھیان دو ۔کرنل آصف صاحب کے پاس وہ لڑکی موجود ہے جس نے سکندر کو دیکھا ہے۔وہ لڑکی ضرور کچھ اہم جانتی ہو گی ۔اس سے اس بارے میں جتنا جان سکتے ہو جان لینا۔'


وجدان نے گاڑی کرنل آصف صاحب کے گھر کے باہر کھڑی کی۔سعد گاڑی سے باہر نکلا اور پھر مڑ کر وجدان کو دیکھا۔


'امید ہے جلد ہی پکڑ لو گے تم اس چالاک سے سکندر کو ۔ہوشیار تو تم بھی بہت ہو وجدان اب دیکھنا یہ ہے کہ تم دونوں میں سے ذیادہ بہتر کون ہے۔'


سعد کی بات پر وجدان کی آنکھوں میں وہی مخصوص چمک آئی تھی۔لیکن کوئی بھی جواب دیے بغیر وجدان وہاں سے چلا گیا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد کرنل آصف علی کے گھر داخل ہوا تھا۔چوکیدار نے اسے لاؤنج میں انتظار کرنے کا کہا تھا۔سعد لاؤنج میں داخل ہوا تو اسکی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو بڑا سا نظر کا چشمہ لگائے مزے سے صوفے پر بیٹھ کر میز پہ ٹانگیں رکھے کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔


'آپ بیٹھیں کرنل صاحب ابھی آ جائیں گے۔'


ملازمہ کے کہنے پر سعد اثبات میں سر ہلا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔سعد کے بیٹھتے ہی اس لڑکی نے اپنے چہرے کے سامنے سے کتاب ہٹائی اور اپنے پاؤں فرش پر رکھے۔اس نے سعد کو کافی دیر دلچسپی سے دیکھا اور پھر اپنے بال ٹھیک کر کے ایک ادا سے اپنا ہاتھ سعد کے آگے کیا۔


'ہائے آئی ایم عشال۔'


سعد نے اس لڑکی کو دیکھا جو جینز پر شارٹ فراک کے ساتھ گلے میں ایک سکارف لپیٹے اپنا چھوٹا سا ہاتھ اسکی طرف بڑھا رہی تھی۔سعد کو اس طرح کی بے باک لڑکیوں سے سخت چڑ تھی جو اپنا آپ ظاہر کرنے کو فیشن کا نام دے دیتی تھیں۔


'و علیکم السلام۔'


سعد نے ہاتھ ملائے بغیر اسے طنز کیا تھا۔


'اوپس مجھے لگا کہ آپ باقی پڑھے لکھے لوگوں کی طرح ہیلو ہائے کرتے ہوں گے۔'


عشال نے اپنا گول سا چشمہ سیدھا کیا تھا۔


'پڑھائی ہماری تہذیب اور دین کی تعلیمات سے دور جانے کا درس نہیں دیتی۔یہ ہمارے دماغوں کا فتور ہے۔'


سعد کی بات پر عشال دلچسپی سے اپنی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے دیکھنے لگی۔


'فلاسفی کے لیکچرار ہو کیا آپ؟باتیں تو شاندار کر رہے ہو۔'


عشال نے شرارت سے ایک آنکھ دبا کر کہا لیکن اس سے پہلے کہ سعد اسے کوئی جواب دیتا کرنل آصف علی مسکراتے ہوئے سعد کے قریب آئے۔سعد نے فوراً کھڑے ہو کر انہیں سیلیوٹ کیا۔


'کیسے ہیں آپ کیپٹن سعد؟'


کرنل صاحب نے سعد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


' الحمداللہ سر بلکل ٹھیک۔'


سعد کا انداز بہت مہزبانہ تھا اور ہوتا بھی کیوں نہ سعد آ ج جس مقام پر تھا انہیں کی وجہ سے تو تھا۔اسی شخص نے اس بھٹکے بچے کو ایک سیدھی راہ دیکھائی تھی۔کرنل آصف نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


'اچھا تو آرمی میں ہیں آپ۔کوئی شکوہ نہیں آپ لوگ تو پیدائشی سنجیدہ ہوتے ہیں۔'


عشال نے ایک طائرانہ نظر سعد کو دیکھ کر کہا تو آصف صاحب ہنس دیے۔


'یہ تو اچھا ہوا بھئی کہ آپ دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ آسانی ہو جائے گی آپ دونوں کے لیے۔کپتان یہ عشال درانی ہیں اور عشال بیٹا یہ کیپٹن سعد رفیق ہیں۔'


کرنل صاحب نے دونوں کا تعارف کروایا۔عشال نے جواب میں اسے منہ چڑا کر دیکھا۔


'عشال جائیں آپ کافی بنا کر لائیں اپنے ہاتھوں سے۔'


عشال نے کتاب میز پر رکھی اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔اسکی گھٹنوں سے کہیں اوپر فراک کو دیکھ کر سعد کی نظریں خود بخود جھک گئی تھیں۔


'سعد بیٹا آپ سے بہت ضروری کام تھا مجھے۔'


کرنل آصف صاحب سعد کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولے۔


'جی سر آپ حکم کریں۔'


سعد نے مسکرا کر کہا۔


'بیٹا عشال کی جان خطرے میں ہے ۔جس سکندر کے بارے میں اس نے پولیس کو بتایا اب وہ عشال کی جان لینے کے در پہ ہے۔ہمارے ایک بہت عزیز دوست نے ہی عشال کو حفاظت کے لیے ہمارے پاس بھیجا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے وہ شخص یہاں بھی پہنچ گیا۔عشال مرتے مرتے بچی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ایسا دوبارہ ہو اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اسے کچھ عرصہ اپنے پاس رکھ لو۔اسکی حفاظت کرو۔'


سعد نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کسیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کرنل صاحب کو وہ منع نہیں کر پائے گا۔ان کے بہت احسان تھے سعد پر۔


'بیٹا میں آپ کو مشکل میں نہیں ڈالتا لیکن جوان لڑکی ہے میں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا۔لیکن اگر تمہیں کوئی دقت ہے تو میں۔۔۔۔'


'نہیں سر آپ پریشان مت ہوں میں اپنی پوری کوشش کروں گا اسے حفاظت میں رکھنے کی۔'


سعد نے مسکرا کر کہا لیکن وہ مسکان اسکی آنکھوں تک نہیں پہنچی تھی۔تبھی عشال کافی کے دو مگ لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی اور دونوں مگ ٹیبل پر رکھے۔


'عشال بیٹا یہاں آؤ۔'


عشال مسکرا کر کرنل آصف کے پاس بیٹھ گئی۔


'بیٹا آپ اپنا سامان پیک کر لیں۔آپ کو ان کے ساتھ جانا ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ سعد آپکی حفاظت کا ذمہ بخوبی سر انجام دے لیں گے۔'


عشال نے ناک چڑھا کر سعد کو سر سے پیر تک دیکھا۔


'ارے اصفی انکل میں نے تو کسی سیکرٹ ایجنٹ کے پاس نہیں جانا تھا۔فون پر تو آپ یہی بات کر رہے تھے۔'


ایشال نے کمر پر ہاتھ رکھ کر سعد کا باقاعدہ جائزہ لیا تھا۔جبکہ اسکی بات پر کرنل آصف حیران رہ گئے۔


'تمہیں اس بات کا کیسے پتہ؟؟


'ارے آپ اپنی سٹڈی میں بیٹھ کر اپنے کولیگ سے بات کر رہے تھے نا تب سنا میں نے۔اب قصور سراسر آپکا ہے بندہ راز کی باتیں آہستہ آہستہ کرتا ہے۔'


کرنل صاحب نے گہرا سانس لیا۔


' یہی ہیں وہ ایجنٹ عشال بیٹا لیکن اس بات کا آپ نے ڈھنڈھورا نہیں پیٹنا۔'


آصف صاحب نے ہنس کر کہا تھا۔پچھلے دو مہینوں سے انکے پاس رہتے ہوئے عشال انہیں اپنے بچوں کی طرح عزیز ہو گئی تھی۔اسی لئے تو اس پر جان لیوا حملے کی صورت میں وہ اتنا گھبرا گئے تھے۔


'لو جی پھر تو اپنے سکندر بھائی کی موج لگ گئی ہے۔پکا اب عشال کا جنازہ نکال ہی لے گا وہ بندہ۔'


عشال نے سعد پر طنز کسا تھا۔


'نہیں عشال آپ فکر نہیں کرو بچہ بہت ذیادہ خیال رکھیں گے یہ آپکا بلکل محفوظ رہو گی آپ انکے پاس۔'


کرنل صاحب نے مسکرا کر سعد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


' چلیں آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں اصفی انکل ورنہ گٹس تو ان میں بلکل بھی نہیں لگتے مجھے۔'


عشال منہ بنا کر کہتی ہوئی اپنا سامان پیک کرنے چلی گئی تھی جبکہ سعد ضبط سے اپنی مٹھیاں کستا رہ گیا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اس مصیبت کو کب تک جھیلنا تھا۔


'اسکی باتوں پر مت جائیے گا کپتان۔کافی چلبلی سی ہے اور جلدی ڈر جاتی ہے۔پتہ نہیں کیسے وہ شخص ساری سیکیورٹی کے باوجود یہاں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔لیکن اب مجھے پوری امید ہے کہ آپ عشال کا بہت زیادہ خیال رکھیں گے اور ویسے بھی کرنل صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ اس شخص کا پتہ بھی آپ دونوں ہی لگا رہے ہیں تو جیسے ہی وہ پکڑا جائے آپ عشال کو واپس یہاں بھیج دیجئے گا۔'


'جی سر۔۔'


سعد کے ایسا کہنے پر آصف صاحب نے اسکا کندھا تھپتھپایا اور مسکرا دیے۔جبکہ سعد تو صرف یہ سوچ رہا تھا کہ نہ جانے کتنا عرصہ اسے اس آفت کو برداشت کرنا پڑے گا۔

🌈🌈🌈🌈

زرش حیرانی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جو کہ ابھی اس کے سامنے ایک سنہری عروسی جوڑا رکھ کر گئی تھیں۔اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسکا کا نکاح ہونے جا رہا ہے وہ بھی اس شخص کے ساتھ جس کو بچپن سے اس نے اپنے ہر خواب میں دیکھا تھا۔مگر یہ رشتہ تو زبردستی جوڑا جا رہا تھا نا بھلا کوئی بھی شخص کیوں اس تباہ حال گونگی لڑکی کو اپنی بیوی بنانا چاہے گا۔


'زرش نکاح شروع ہونے والا ہے تیار ہو جاؤ ۔'


فاطمہ بیگم نے بہت محبت سے کہا تھا لیکن زرش ابھی بھی انکار میں سر ہلا رہی تھی۔وہ زبردستی کسی کی زندگی میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔


'فاطمہ تم باہر جاؤ میں زرش سے بات کرتا ہوں۔'


سلمان صاحب کی آواز پر فاطمہ بیگم نے انہیں مڑ کر دیکھا اور پھر ہاں میں سر ہلا کر باہر کی طرف چل دیں۔


'کیا بات ہے بابا کی جان۔کیا آپکو وجدان پسند نہیں ہے۔'


سلمان صاحب نے بہت محبت سے زرش کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔زرش نے اپنی آنسوؤں اور کرب سے بھری آنکھیں اٹھا کر سلمان صاحب کو دیکھا۔


اس نے کہا تھا کہ مجھ سے کوئی بھی پیار نہیں کرے گا۔ہر کوئی نفرت کرے گا مجھ سے۔میں کسی کے قابل نہیں ہوں۔


زرش نے زارو قطار روتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اشارے کیے تھے۔


'نہیں میرا بچہ۔جھوٹ کہا تھا اس نے بلکل جھوٹ۔ تم سے ہم سب بہت ذیادہ پیار کرتے ہیں اور وجدان بھی کرے گا دیکھنا تم۔'


سلمان صاحب نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کیا تھا۔وہ جانتے تھے کہ وجدان یہ نکاح صرف شایان کے کہنے پر کچھ عرصہ کے لئے کر رہا تھا۔ لیکن انہیں پورا یقین تھا کہ زرش اسکو خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی۔


'یہاں دیکھو بیٹا خود کو کبھی بھی کم تر مت سمجھنا۔تم قیمتی ہو میرا بچہ بہت ذیادہ قیمتی۔اسی وجہ سے وجدان بھی تمہیں پسند کرے گا بس اسے کچھ وقت دو زرش ۔وہ شخص رشتوں سے دور بھاگنے والا ہے۔تم اسے اپنی اہمیت کا احساس دلاؤ رشتوں کی اہمیت کا احساس دلاؤ۔'


سلمان صاحب نے بہت محبت سے اسکے جھکے ہوئے سر ہلا ہاتھ پھیرا۔لیکن زرش ابھی بھی خوف میں مبتلا تھی۔


'میں جانان کو بھیجتا ہوں تمہارے پاس۔تم تیار ہو جاؤ اور مجھ پر یقین رکھو بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے میں نے۔اللہ تعالی سب بہتر کریں گے۔'


سلمان صاحب نے انتہائی محبت سے اسکے سر پر بوسہ دیا۔زرش نے بھی ایک بار پھر سے اپنے باپ پر یقین کر کے ہاں میں سر ہلایا اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگی جس نے نہ جانے اپنی اوٹ میں کیا چھپا رکھا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

(ماضی)

انکی زندگی میں جو کمی تھی وہ اس چھوٹے سے بچے کو اپنانے کے بعد پوری ہو گئی تھی۔رومان نام رکھا تھا اس بلو کا انہوں نے۔ وہ چھوٹی سی جان انکے لئے بہت ذیادہ اہم ہو گیا تھا اور پیار کا ترسا ہوا وہ بچہ انکے لاڈ پیار اور توجہ کا اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ انکو کھونے کا خیال ہی اسے تڑپا دیتا تھا اور یہ شاید اس معصوم پر کی جانے والی عنایتوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اس کے آنے کے ایک سال بعد مایوسی کو امید کی کرن مل گئی۔شاہانہ خود بھی امید سے ہو گئیں اور یہ بات درانی مینشن کے ہر باشندے کو اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی دے گئی۔


شاہانہ تو دن رات شکرانے کے سجدوں میں گری رہتی تھیں جبکہ الفاظ کا تو دل کر رہا تھا کہ اپنی پوری دولت دنیا کے ضرورت مندوں پر لٹا دے اور بدلے میں اپنے ہونے والے بچے کی سلامتی کی دعائیں منگوا لے۔ان کو خوش دیکھ دیکھ کر سب سے ذیادہ خوشی رومان کو ہوتی تھی۔


اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب الفاظ اور شاہانہ کے ہاں اس چھوٹے سے وجود نے اس دنیا میں آ کر مزید خوشیاں بکھیر دیں۔الفاظ تو بس اسکی سبز آنکھوں کے سحر میں مبتلا ہو کر رہ گئے تھے۔


'شاہانہ؟'


الفاظ اپنے نھنھے سے بچے کے گال کو چھوتے ہوئے کہنے لگے۔


'جی۔'


'اسکی آنکھیں کس پر چلی گئیں ہم میں تو کسی کی ایسی نہیں۔'


الفاظ کے لہجے میں خوشگوار حیرت تھی۔


'فکر نہ کریں بچے جب بڑے ہو جائیں تو ان کی آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔'


شاہانہ نے شرارت سے کہا۔


'خدا نہ کرے ایسا ہے میں تو چاہتا ہوں کہ اسکی آنکھیں ایسی ہی رہیں انتہائی خوبصورت ۔میرا سبز آنکھوں والا شہزادہ۔'


الفاظ نے اسکے گال کو نرمی سے چوما۔تبھی ان کی نظر رومان پر پڑی جو ہاسپٹل کے کمرے کے دروازے میں کھڑا آنکھوں میں آنسو لیے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔الفاظ نے اس بچے کو شاہانہ کو پکڑایا اور خود اٹھ کر رومان کے پاس آئے۔


'رومان میرے بچے کیا بات ہے۔'


الفاظ نے بہت محبت سے اسکے گال کو چوم کر اسے اپنے ساتھ لگایا۔


'آپ مجھے پیار نہیں کرتے نا اسے کرتے۔'


رومان کے شکوے پر الفاظ قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔


'کس نے کہا میرے بچے تم دونوں ہی میرے لیے بہت اہم ہو ۔انمول ہو تم دونوں۔چلو اب چپ کرو اور اندر آ کے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھو۔'


الفاظ نے رومان کا منہ چوم کر اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور شاہانہ کے پاس بیٹھا دیا۔شاہانہ نے بہت نرمی سے اس بچے کو رومان کی نھنھی سی گود میں دیا۔


'تو ہم سوچ رہے تھے کہ اسکا نام کیا رکھیں۔بتاؤ سب کیا نام رکھیں اسکا؟'


الفاظ نے مسکرا کر پوچھا۔


'گڈا۔' رومان کی بات پر دونوں نے قہقہہ لگایا۔


'شاہان کیسا نام ہے ؟'


شاہانہ نے اپنا آئیڈیا دیا۔


'واہ اپنے نام سے میچنگ نام سوچا ہے بیگم لیکن نہیں میں نے تو نام بہت دیر سے سوچ رکھا ہے۔'


الفاظ نے پیار سے اس نھنھی سی جان کو دیکھا۔


'ہم تو بتائیں پھر۔'


شاہانہ نے بے چینی سے پوچھا۔


'سکندر ۔۔۔۔ یہ میرا سکندر ہو گا۔سکندر الفاظ درانی۔'


الفاظ کے لہجے میں اپنے چھوٹے سے لعل کے لئے فخر تھا بھر پور فخر۔

🌈🌈🌈

سیدھے سادے نکاح کی بات ہوئی تھی۔یہ سب کیا ہے؟'


وجدان نے کوفت سے اپنی گولڈن اور سکن کلر کی شیروانی کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔شایان نے اسکو مسکرا کر دیکھا۔


'کیا مسلہ ہے یار اتنے اچھے تو لگ رہے ہو تم اس میں۔'


شایان کی بات پر وجدان نے ایک نگاہ اپنے آپ کو آئنے میں دیکھا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس شیروانی میں وجدان بے انتہا خوبرو لگ رہا تھا۔چھے فٹ سے بھی زیادہ قد،کسرتی جسامت،سرخ وسفید رنگت پر درمیانی سی داڑھی کے ساتھ وہ پہلے ہی بہت زیادہ خوبرو تھا۔اس سب پر اسکی وہ سرد سبز آنکھیں،جن میں آج تک کوئی جھانک نہیں سکا تھا۔اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے کافی تھیں۔


'بہت ذیادہ نفرت ہے مجھے اس فضول کے دکھاوے سے اور تو اور بابا بھی اس میں شامل نہیں ہو رہے۔'


وجدان نے غصے سے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر کہا۔


'ان سے بات کر لی ہے میں نے تمہیں پتہ ہے کہ وہ بات اور مجبوری سمجھ جاتے ہیں۔اچھا چل اب دیر ہو رہی ہے۔'


شایان اسے ساتھ آنے کا کہہ کر خود آگے چل دیا تھا۔وجدان کو وہ اب بلکل ہی ایک الگ انسان نظر آتا تھا۔ایک خوش باش زندگی سے بھرپور انسان اور اس تبدیلی کا باعث جانان کی محبت ہی تو تھی۔تو کیا وجدان بھی اس طرح سے بدل سکتا۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔شایان کے اندر چھپے ہوئے جزبات پہلے سے موجود تھے جن کو جانان نے آ کر پھر سے جگا دیا ہے۔لیکن وجدان کے اندر نہ تو کوئی جزبہ تھا اور نا ہی اسکے دل میں محبت پانے کی کوئی چاہ تھی۔ان سب چاہتوں کا گلا تو وہ بچپن میں ہی گھونٹ چکا تھا۔


ایک گہرا سانس لے کر وجدان باہر کی طرف چل دیا۔وہ دوستی کی خاطر یہ سمجھوتا کرنے کے لیے تیار تھا۔باہر آتے ہی وجدان کی پہلی نظر زرش پر پڑی تھی۔جو اس سنہری عروسی لباس میں آسمان سے اتری ہوئی پری لگ رہی تھی۔شایان مسکرا کر وجدان کے پاس آیا اور اسے ساتھ چلنے کا کہا۔


'سعد کہاں ہے؟'


'آ جائے گا کچھ ہی دیر میں تم جلدی سے یہ سب ختم کرواؤ الجھن ہو رہی ہے اب مجھے۔'


وجدان نے کوفت سے اپنی شیروانی کی طرف دیکھا۔


'چلیں نکاح شروع کرتے ہیں۔'


شایان نے کہا تو سلمان صاحب بھی اثبات میں سر ہلانے لگے۔


'زرش شیخ ولد سلمان شیخ آپکا نکاح وجدان خان ولد ہاشم خان کے ساتھ حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طہ پایا ہے۔کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟'


نکاح خواں کے سوال پر زرش کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگی تھیں۔خوف اسکے پورے وجود کو بچھو کی ماند ڈسنے لگا تھا۔


'آر بی کو ہو تم۔۔۔۔صرف میری ملکیت ہو۔۔۔۔تمہارے جسم پر مہر لگی ہے میرے نام کی۔۔۔۔جس نے تمہارے بارے میں سوچا بھی نا اسکی زندگی جہنم سے بھی بدتر کر دوں گا میں اور ساتھ ہی ساتھ تمہاری بھی۔'


زرش کے ذہن میں کسی کی باتیں گونج رہی تھیں اور ان باتوں کے زیر اثر زرش خوف سے کانپنے لگی تھی۔


'زرش بیٹا۔۔۔۔۔۔۔جواب دو۔۔۔۔۔'


سلمان صاحب کی آواز پر زرش ایک جھٹکے سے اپنے سب سے ذیادہ ڈراؤنے خواب سے باہر نکلی تھی۔اس نے ایک نظر اٹھا کر اس طاقتور مرد کو دیکھا تھا جسکے ہاتھوں میں وہ اپنی زندگی کی ڈور سونپنے لگی تھی۔اپنے ہونے والے شوہر کی ان سرد سی سبز آنکھوں میں جھانک کر زرش کا خوف غائب ہو گیا تھا۔ایک سکون سا اسکے دل میں اترنے لگا تھا۔جیسے کہ وہ نگاہیں اس سے وعدہ کر رہی تھیں ۔اسے یقین دلا رہی تھیں کہ اب کوئی بھی اسکو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ان سبز آنکھوں کے سحر میں مبتلا ہو کر زرش نے ہاں میں سر ہلایا تھا اور پھر سامنے رکھے گئے نکاح نامے پر اپنے دستخط کر دیے تھے۔


جبکہ وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ اسکے مثبت جواب پر اسکے ہونے والے شوہر کی رگیں غصے سے تن گئی تھیں۔اس مجبوری اور سمجھوتے کے رشتے کو نبھانے کا خیال ہی اس شخص کو زہر سے بھی بد تر لگ رہا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ اسے قبول کرنے والی اس لڑکی کا چہرہ تھپڑوں سے لال کر دے اور اس کے بعد پوچھے کہ کیا وہ اسے اب بھی قبول ہے؟


زرش سے جواب پا کر نکاح خواں وجدان کی طرف متوجہ ہوا اور زندگیوں کو جوڑنے والا وہی سوال وجدان سے پوچھنے لگا۔


' ارے واہ یہاں تو شادی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔آپ بتا دیتے ایجنٹ جی اچھے کپڑے ہی پہن آتی میں۔اب بھلا کوئی ڈینم میں بھی شادی دیکھتا ہے۔'


وجدان کے جواب دینے سے پہلے ہی ایک چہکتی ہوئی آواز انہیں سنائی دی تو سب حیرت سے سامنے کھڑی عشال کو دیکھنے لگے۔جبکہ سعد اسکا سامان تھامے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔


'ارے آپ لوگ رک کیوں گئے۔میں نے کونسا کسی ڈرامے کی طرح آ کر شادی روک دی ہے۔کیری آن۔۔۔'


جانان نے عشال کو مسکرا کر دیکھا۔آخر بعد میں ان دونوں کی خوب محفل جمنی تھی۔کبھی کبھار ہی تو جانان کو کوئی ایسا انسان ملتا تھا جس سے وہ مقابلے پر باتیں کر سکے۔


'قبول ہے۔'


وجدان نے ایک گہرا سانس لے کر جواب دیا تھا اور پھر وہی جواب اس نے تین مرتبہ دہرا دیا۔


'واہ واہ دلہے میاں تو بڑا شرما رہے ہیں اور شرمائیں بھی کیوں نا اتنی چاند سی دلہن جو مل گئی ہے۔'


عشال کی بات پر جانان اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی تھی۔


'تھوڑی دیر اپنا موٹر کی طرح چلتا ہوا منہ بند کر لو ورنہ اس دلہے میاں نے کھڑے کھڑے ہم دونوں کو گھر سے نکال دینا ہے۔'


سعد اسکے کان میں غرایا کیونکہ وجدان کو وہ مٹھیاں کستے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔


'مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایجنٹ جی ہم دونوں کے رہنے کا انتظام آپ نے کرنا ہے اس لیے اس سب کی فکر آپ خود کریں۔'


عشال سعد کو دو ٹوک جواب دے کر آگے بڑھ گئی تھی۔


' میرا سامان مت گم کر دیجئے گا۔ورنہ اپنی سیلری میں سے شاپنگ کروائیں گے مجھے۔'


عشال نے ایک پل کو رک کر سعد کو کہا اور پھر مسکراتے ہوئے جانان کی طرف چل پڑی جو اسے پاس آنے کے اشارے کر رہی تھی۔


'یا اللہ اپنے بندوں کی قوت برداشت بڑھانا۔'


سعد نے گہرا سانس لے کر اپنے اور وجدان کے لئے دعا کی۔

🌈🌈🌈🌈

نکاح کی رسم کے بعد جانان اور عشال زرش کو اسکے کمرے میں لے گئی تھیں۔سعد نے عشال کو بتا دیا تھا کہ وہ زرش کے ساتھ اسی کے کمرے میں رہے گی اور اس بات پر عشال کافی خوش بھی تھی۔


'یہاں تو سادا سا نکاح ہو رہا تھا اور میں شادی سمجھ کر ایویں خوش ہو رہی تھی۔'


عشال نے منہ بسور کر کہا تو جانان ہنسنے لگی۔گلابی رنگ کی شلوار قمیض میں وہ خود بھی ایک دمکتا گلاب لگ رہی تھی۔


'وجدان بھائی دا کریلا کا نکاح تھا اتنا بھی بہت زیادہ ہے اس بندے کے لیے۔'


جانان نے زرش کا گرارہ سمبھالتے ہوئے اسے بیڈ پر بیٹھایا تھا۔


'ویسے بہت ہی کیوٹ بندی ہو تم جانان۔'


عشال نے جانان کے پاس آ کر اسکے بھرے بھرے گالوں کو کھینچا تو زرش مسکرا دی۔جانان کا معصوم سا حسن اسے سب سے مختلف بناتا تھا۔


'نہیں جی کیوٹ تو میری زری ہے اور آج تو ماشااللہ یہ چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے۔'


جانان نے بہت محبت سے زرش کے دہکتے ہوئے گالوں کو چھوا۔


'دلہن صاحبہ آپ بھی کچھ بول لو یا کوئی منت مانگی تھی کہ نکاح ہو جائے گا تو ایک مہینے تک خاموش رہو گی۔'


عشال کی بات پر جہاں جانان کے لبوں کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی وہیں زرش نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا تھا۔


'زری بول نہیں سکتی۔۔۔۔'


جانان نے آہستہ سے عشال کو بتایا تو عشال کو اپنی بے باکی پر افسوس ہوا تھا۔


'آئی ایم سوری یارا مجھے نہیں پتہ تھا۔۔۔۔'


عشال نے اپنے ہاتھ زرش کے ہاتھوں پر رکھے تو زرش نے ہاں میں سر ہلا دیا۔تبھی اچانک سے انکے کمرے کا دروازہ بجنے لگا۔


'گڑیا شایان کب سے ڈھونڈ رہا ہے تمہیں اور اب تو اسے غصہ بھی آنے لگا ہے تم جلدی سے پہنچو اس کے پاس۔'


جانان کے دروازہ کھولتے ہی سعد شروع ہو گیا تھا۔شایان کے جانان کہاں ہے والے سوال کو کوئی دس مرتبہ سن کر وہ اب اکتا چکا تھا۔


'انکا غصہ تو میں ٹھنڈا کرتی ہوں نا۔۔۔'


جانان جلدی سے باہر کی طرف چل دی۔سعد بیڈ پر بیٹھی زرش کو دیکھ کر مسکرایا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وجدان شادی کے لئے کس طرح سے مان گیا لیکن اب وہ چاہتا تھا کہ وجدان بھی شایان کی طرح اپنی زندگی میں سیٹ ہو جائے اور اسی کی طرح خوش رہے۔سعد کو امید تھی کہ سامنے بیٹھی وہ لڑکی یہ کر سکتی تھی۔


'کیا مسلہ ہے آپکے ساتھ ایجنٹ جی یہاں کسی نے ایلفی لگا کر چپکا دیا ہے کیا جو یوں جم کر کھڑے ہو گئے ہیں۔جائیں اپنے بے کار سے کام کریں۔'


عشال اچانک سے سعد کے سامنے آئی تھی اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر سعد کو ٹھیک ٹھاک سنا گئی تھی۔


'لڑکی اپنی حد میں رہو تم۔'


سعد نے اس چھوٹی سی پٹاخہ کو گھور کر کہا۔


'میری حد کی فکر چھوڑو ایجنٹ جی اور جا کر نہ اس سکندر کی حد کا دھیان رکھو یہی نہ ہو کہ صبح کمرے میں میری جگہ پہ صرف میری گردن ملے آپکو۔اس لئے مہربانی ہو گی آپکی یہ کام دھیان سے کر لینا زندگی بہت پیاری ہے مجھے اپنی۔'


اتنی بات کہہ کر عشال اسکے منہ پر دروازہ بند کر چکی تھی جبکہ سعد اپنے دانتوں کو پیستا رہ گیا تھا۔


'مرچی کہیں کی۔'


سعد کی آواز پر دروازے کے پاس کھڑی عشال نے بہت مشکل سے اپنے قہقہے کو روکا تھا۔پھر زرش کی طرف متوجہ ہو گئی۔


'بھئی تم کیوں اپنا آپ تھکا رہی ہو چینج کر لو۔پتہ نہیں یہ سب برداشت بھی کیسے کر رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر سیاں جی کو اپنے حسن کا دیدار عشقم کروانے کی ناتواں خواہشات دل نادان میں پروان چڑھ رہی ہیں؟'


عشال کے اسطرح ڈرامائی انداز میں بات کرنے پر زرش کھلکھلا دی۔


'کہتی ہو تو بلا لوں سیاں جی کو یہاں؟'


عشال کے سوال پر زرش پوری طرح سے سرخ ہو گئی تھی۔زرش نے جلدی سے انکار میں سر ہلایا۔


'تو پھر میری پیاری بہن کپڑے بدلو اور بوجھ کم کرو اپنا۔'


عشال نے جلدی سے اسے اٹھا کر کھڑا کیا تو زرش اپنا گرارہ سمبھالتے ہوئے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔سامنے موجود آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو خودی حیران ہو گئی ۔وہ تو سچ میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔گلابی رنگت کو سنہری لباس بہت نمایاں کر رہا تھا۔جبکہ مناسب میک اپ نے اسکے نین نقش کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔


'ہاں ہاں ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔اب اپنے آپ کو خود کی نظر ہی نہ لگا دینا۔اس طرح سے دیکھنے کا کام تم سیاں جی پر چھوڑ دو۔'


عشال نے دروازے میں کھڑے ہو کر کہا اور پھر لڑکوں کی طرح زرش کو دیکھتے ہوئے سی ٹی بجانے لگی۔جبکہ وجدان کے ذکر پر زرش کا دل بہت تیزی سے دھڑکا تھا۔لیکن ایسا خوف کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔وہ تو آج بے تحاشا خوش تھی آخر اس کے خوابوں کے شہزادے اس کے مسیحا کو اسکے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا جسکا صرف خیال ہی زرش کا ہر دکھ اسکی ہر تکلیف مٹا دیتا تھا۔ہاں وہ خوش تھی اور اتنا خوش وہ پورے چھے سال کے بعد ہوئی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان کی رہی سہی نیند بھی اڑ گئی تھی وہ ساری رات نہیں سو سکا تھا۔رات کا ذیادہ تر وقت اس نے اپنی جم میں ہی گزارا تھا۔ایک عجیب سی بے چینی تھی اسے آخر وہ زندگی سے نفرت کرنے والا شخص اپنی زندگی کسی کے ساتھ جوڑ بیٹھا تھا ۔


پنچنگ بیگ پر مکوں کی برسات زوردار تھی۔اسکا ایسا غصہ بس تنہائی میں ہی باہر آتا کیونکہ دینا کے لیے وہ ایک انتہائی سرد، بے تاثر سا انسان تھا۔مگر اندر جزبات،غصے اور غم کا ایک لاوا ابلنے کو تیار تھا۔اسکا گزرا ہوا بد تر وقت اسکی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔


اسکا یہ سفاک روپ تنہائی کے سوا کبھی کسی نے نہیں دیکھا صرف تنہائی نے ہی تو سیکرٹ ایجنٹ وجدان خان کا وحشی روپ دیکھا تھا اور صرف تنہائی ہی اسکے درد کی ہم راز تھی۔


'خان ایک انسان نہیں آگ ہے جو سب کچھ جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔تم اسے قید نہیں کر پاؤ گے وجدان۔تم ہمارا حصہ ہو آرمی کا نہیں اور یہ تم بہت جلد سمجھ جاؤ گے کہ تم کسی کی غلامی کے لیے نہیں بنے۔'


ایک پرانے دوست کے کہے ہوئے الفاظ اسکے زہن میں گھوم رہے تھے۔


'فجر کا ٹائم ہو گیا ہے سوچا تمہیں بتا دوں۔'


شایان دروازے میں کھڑے ہو کر وجدان کو دیکھ رہا تھا۔وجدان اسے اپنے جیسا ہی لگتا تھا دراب کا عکس۔لیکن شایان جانتا تھا کہ اس شخص کے سینے دراب سے بھی زیادہ راز اور طوفان چھپے ہیں۔


'تم اپنی بیوی کی فکر کرو اکیلے میں جاگ گئی تو چلانے لگے گی۔'


وجدان دوبارہ سے ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر پھر سے پنچنگ بیگ پر مکوں کی برسات کرنے لگا۔


'بیوی تو تمہاری کہیں ذیادہ ڈرپوک ہے'


شایان نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہا۔وجدان کے تاثرات پل بھر میں بدلے تھے۔


'مجبوری سے بڑھ کر کچھ نہیں وہ۔صرف ایک سمجھوتا ہے اور یہ بات تم مت بھولنا۔'


وجدان نے کافی سختی سے کہا تھا۔


'میں تو یاد رکھوں گا میرے دوست لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم یہ نہ بھول جاؤ۔'


شایان نے مسکرا کر کہا۔


'دراب خان نہیں ہوں میں۔'


وجدان کی بات پر شایان قہقہہ لگا کر ہنسا۔


'پھر تو وجدان خان کی ہمت قابل دید ہو گی۔'


وجدان نے سر جھٹک کر اپنی شرٹ اٹھائی اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔


'جیسے ایک معصوم کی محبت نے میری زندگی میں سکون شامل کر دیا ۔میری دعا ہے کہ اسی طرح وہ معصوم بھی تمہاری زندگی کی خوشیاں اور تمہارے چہرے کی مسکراہٹ کو واپس لے آئے۔تم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہو وجدان۔اسے تمہاری ضرورت ہے اور تمہیں اس کی۔'


شایان نے خود میں سرگوشی کی اور مسکرا کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

💖💖💖💖

انکا نکاح ہوئے تین دن ہو چکے تھے لیکن اس وقت میں بات کرنا تو دور وجدان اور زرش کا ایک مرتبہ سامنہ بھی نہیں ہوا تھا۔اسکی وجہ سے زرش کافی افسردہ بھی تھی۔اس سبز آنکھوں والے مسیحا کو دیکھ کر جو سکون زرش کے دل میں اترتا تھا وہ زرش روزانہ چاہتی تھی لیکن وہ بے درد سجن کبھی اس کے سامنے ہی نہیں آیا تھا اور نہ ہی زرش کبھی اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔


'تم یہاں کیا کر رہی ہو سب باہر بیٹھے ہیں اور تم یہاں تنہا ہو۔کیوں بھلا۔'


جانان زرش کے پاس آئی تو زرش نے منہ بسور لیا۔ابھی صبح ہی تو زرش کو پتہ چلا تھا کہ جانان کل واپس جا رہی ہے کیونکہ شایان کو اپنی ڈیوٹی پر واپس جانا تھا۔


'ارے میری جان ناراض تو نہیں ہو نا مجھ سے میں پھر جلدی آ جاؤں گی واپس اور پھر ہم مل کر حمنہ آپی کے پاس چلیں گے۔'


جانان نے زرش کا گال چوم کر کہا مگر وہ زرش کی ناراضگی کم نہیں کر پائی تھی۔


'اچھا چلو اب باہر آؤ میں اور عشال ٹیرس پر جا رہے ہیں۔'


زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور جانان کے پیچھے چل دی مگر تب ہی اسکے کانوں میں اپنے شوہر کی آواز پڑی تو اس کے قدم بے ساختہ طور پر رکے جبکہ جانان اس پر دھیان دے بغیر جا چکی تھی۔زرش بھی وہاں سے جانا چاہتی تھی لیکن اس کی ایک جھلک دیکھنے کی چاہ نے زرش کے قدم اس کمرے کی جانب بڑھائے۔دروازے کے پیچھے چھپ کر زرش ان تینوں دوستوں کو دیکھنے لگی جو اس سے بے خبر اپنی باتوں میں مگن تھے۔


'اگر تمہیں ملک یا محبت میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو کسے چنو گے؟'


شایان نے اپنے آرمی کے بیج کو فخر سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔اسی اعزاز کو واپس پانے کے لیے اس نے اتنی محنت کی تھی۔


'اپنے ملک کو ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ '


سعد نے ایک سیکنڈ کا وقت لگائے بغیر جواب دیا۔سعد وطن کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔


'اور تم کیا چنو گے ایجنٹ وجدان خان۔۔۔؟'


شایان نے دلچسپی سے وجدان کو دیکھا جو بے زاری سے اپنی پسٹل صاف کرتا ان کو برداشت کر رہا تھا۔


'دونوں ہی نہیں۔۔۔۔محبت تو میں کسی سے بھی نہیں کرتا اور ملک سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔'


وجدان نے اپنی گن کو پاکٹ میں رکھا۔


'تو پھر آرمی کا شعبہ کیوں چنا تم نے؟'


سعد نے حیرانی سے اس سرد محر شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر کبھی کوئی تاثر آیا ہی نہیں تھا۔


'موت پانے کے لیے آرمی میں آیا تھا میں۔کیونکہ مجھے بزدلوں کی طرح حرام کی نہیں بلکہ بہادروں والی حلال کی موت چاہیے۔'


وجدان کی خواہش سعد اور شایان کو شش و پنج میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھی۔


'اور اگر تمہیں محبت ہو گئی تو۔'


اس سوال پر وجدان نے ایک ابرو اچکا کر شایان کو دیکھا۔


'تو دعا کرنا کہ وہ لڑکی پہلے ہی مر جائے۔۔۔۔۔ورنہ میری محبت اسے بہت بے دردی سے مار ڈالے گی۔'


وجدان بے تاثر چہرے سے اپنی بات کہہ چکا تھا جبکہ باہر کھڑی لڑکی کا معصوم سا دل وہ اپنی بات سے چکنا چور کر چکا تھا۔وہ معصوم جسے دل و جان سے چاہنے لگی تھی وہ اسی کی موت کا خواہشمند تھا اور یہ بات زرش کے دل کو سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھیر چکی تھی۔آنسؤں سے بھری ایک نگاہ وجدان پر ڈال کر وہ وہاں سے واپس چلی گئی۔

💖💖💖💖💖

جانان اور شایان واپس اپنے گھر جا چکے تھے۔لیکن زرش اب اتنا بھی تنہا محسوس نہیں کر رہی تھی کیونکہ عشال اسکا بہت زیادہ خیال رکھتی۔سب سی اچھی بات تو یہ تھی کہ عشال اشاروں کی زبان بہت اچھے سے سمجھ سکتی تھی۔اس لڑکی نے زرش کو تنہائی کا احساس ایک پل کے لئے بھی نہیں ہونے دیا تھااور اب تو زرش بھی اس سے کہنے لگی تھی کہ وہ اسکی بیسٹ فرینڈ ہے۔


'اچھا ایسی بات ہے تو جاؤ میرا بچہ بیسٹ فرینڈ کے لئے ایک بڑھیا سی کافی بنا کر لاؤ تا کہ مجھے بھی تو پتہ چلے کہ میری فرینڈ کتنے پانی میں ہے۔'


زرش نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔اپنی ہڑبڑی میں اسے سامنے سے آتا وجدان بھی دیکھائی نہیں دیا تھا اسی لیے تو وہ بری طرح سے اسکے سینے سے ٹکرائی اور گرنے کے خوف سے اپنی آنکھیں بہت زور سے میچ گئی۔


'آنکھیں کھولو نہیں گری تم۔' وجدان کی سنجیدہ سی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو زرش نے صرف ایک آنکھ کھول کر اسے دیکھا اور پھر گھبرا کر اس سے دور ہوئی۔


مجھے معاف کر دیں مجھے پتہ نہیں چلا۔


زرش نے گھبراہٹ میں جلدی سے اشارہ کیا جو وجدان کو بلکل بھی سمجھ نہیں آیا۔


'کیا؟'


وجدان کے سوال پر زرش مزید کنفیوز ہو گئی۔


'وہ کہہ رہی ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی چھوڑ کر چلا کریں آپکی تو خیر ہے لیکن اس زور۔دار ٹکر سے آپکی معصوم بیوی کی ہڈی پسلی ایک ہو جانی تھی۔'


عشال نے دروازے میں کھڑے ہو کر اپنی ہی بات سنائی جبکہ زرش مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکا شوہر ناراض ہو جائے ابھی تو زرش یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے منائے گی کیسے۔


'کوئی بات نہیں اور دھیان سے دیکھ کر چلا کرو۔'


وجدان نے کوفت سے زرش کو کہا اور عشال کو تو وہ مکمل طور پر نظر انداز کر گیا تھا اور یہ عشال کو کہاں گوارہ تھا۔


'اور وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اپنا سڑیل سا سستا ایٹیٹیوڈ کسی کو بیچ دیں۔فری کی چیزیں سر پہ سوار نہیں۔۔۔۔'


اونچی آواز میں چلاتی عشال کے منہ پر زرش نے اپنا ہاتھ رکھ کر اسکا منہ بند کروایا تھا۔


'کیا ڈولی اس کھڑوس کو مزہ تو چکھانے دیتی نہ جانے کیا سمجھتا ہے خود کو۔'


عشال ابھی بھی اسی راستے کو گھور رہی تھی جہاں وجدان گیا تھا۔


تم انہیں ناراض کر دیتی تو میں کیسے مناتی۔


زرش نے غصے سے اشارہ کیا تو عشال کے لبوں پر پہلے ایک ٹھرکیوں والی سی ٹی اور پھر ایک دلفریب مسکان آئی۔


'آئے ہائے بڑا خیال ہے انکی ناراضگی کا ۔خیر تھی پیار سے منا لیتی انہیں دل خوش ہو جانا تھا انکا بھی۔'


زرش نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا۔


'ایسے گزارہ نہیں چلنا ڈالی اس شخص کو اپنی موجودگی،اپنی اہمیت کا احساس دلاؤ یار ۔نہیں تو یہ ایسا ہی رہے گا۔اپنے کمرے اور اپنے آپ سے باہر نکلو اور اپنی زندگی پر دھیان دو زری اسے سمبھالنے کے لئے تمہیں محنت کرنی پڑے گی۔'


عشال اسے سمجھا کر خود واپس کمرے میں چلی گئی جبکہ زرش وہیں کھڑی اس کی باتوں پر غور کر رہی تھی۔

🌈🌈🌈🌈


وجدان ان دنوں میں سکندر کے بارے میں پتہ لگانے کی کوشش کر چکا تھا جسکا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔یہ سکندر جو بھی تھا وہ انتہائی ذیادہ چالاک دماغ کا مالک تھا۔


'تو پھر کیا پتہ چلا ہے اس سکندر کے بارے میں؟'


سعد کے سوال پر وجدان نے کافی دیر سوچا تھا۔


'کچھ خاص نہیں۔لیکن یہ شخص جو کوئی بھی ہے بلکل اکیلے کام کر رہا ہے۔اسکا کسی بھی کریمنل یا ٹیرریسٹ سے کوئی لینا دینا نہیں۔کوئی بھی اسکے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔اور تو اور جہاں کہیں بھی اس سکندر نے کسی کو مارا ہے وہاں کا سارا نیٹورک ،سی سی ٹی وی،ہیک کر کے اس وقت بند کر دیے گئے تھے۔جسکی وجہ سے ایک ہلکی سی بھی فوٹیج نہیں ہے اس کی۔'


وجدان کافی گہری سوچ میں بول رہا تھا۔


'فون کا کیا؟یہ سکندر بہت سے لوگوں کو فون سے ہی بلیک میل کرتا رہا ہے نا۔'


سعد نے حیرانی سے پوچھا۔


'جس بھی موبائل سے فون کرتا رہا ہے وہ چوری کے تھے۔ہر ایک موبائل اور ہر واردات کے بعد موبائل کو پھینک کر نیا موبائل چورا لیتا۔ویسے بھی کوئی بھی قتل سکندر نے براہراست نہیں کیا بلکہ ہر ایک کو خود کشی پر مجبور کیا ہے۔'


وجدان کی آنکھوں میں مخصوص چمک آئی تھی جو کسی چیز کو سراہنے پر ہی آتی ہے۔


'اس سب کا مطلب؟'


سعد کی دلچسپی میں بھی مزید اضافہ ہو گیا۔


'مطلب صاف ہے۔ایک سال میں صرف پندرہ لوگوں کی جان اس نے اسی وجہ سے لی ہے کیونکہ وہ پہلے اپنے شکار کے ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے اور پھر اسکی کمزوری ڈھونڈ کر اسے اپنی طاقت بناتا ہے۔جیسے دارا اپنی طاقت استعمال کرتا تھا یہ اپنا دماغ استعمال کرتا ہے۔'


'اور وہ کمزوری اتنی بڑی تو ضرور ہو گی جو ایک انسان کو خود کشی پر مجبور کر دے۔'


سعد کی بات پر وجدان کے تاثرات بہت خطرناک ہو گئے تھے۔


'بہت ہی چالاک اور شاطر ہے یہ سکندر۔مزا آئے گا اسے ڈھونڈنے میں۔۔۔۔تم اس لڑکی کو بلاؤ۔آخر پتہ تو چلے کہ جانتی کیا ہے وہ اس سکندر کے بارے میں۔'


سعد اثبات میں سر ہلا کر باہر کی طرف چل دیا ۔وجدان نے اپنے سامنے موجود تمام کاغذات کو سمیٹا تھا۔کچھ ہی دیر کے بعد سعد عشال کے ساتھ وہاں آیا تھا۔


'جلدی بتاؤ بھئ کیا کام ہے۔پتہ نہیں رنگ میں بھنگ ڈالنے کا بہت شوق ہے آپ لوگوں کو۔اتنے مزے سے میں اور زری کیرم کھیل رہے تھے۔'


عشال نے منہ بسورا۔


'یہاں چھٹیاں منانے نہیں آئی ہو تم ۔بتاؤ مجھے کیا جانتی ہو تم اس سکندر کے بارے میں۔'


وجدان نے سختی سے پوچھا۔


'کچھ زیادہ تو نہیں۔بس میں ایک بینک میں جاب کرتی تھی۔وہاں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے رات کے تقریباً دو بجے کے قریب کام سے فارغ ہو کر پارکنگ ایریا کی طرف گئی۔جب میری نظر ایک آدمی پر گئی۔اس نے بلیک جینز پر بلیک ہوڈی پہنی ہوئی تھی اور بلیک رومال سے ہی اپنا چہرہ کور کیا ہوا تھا۔جبکہ ایک پسٹل کو اس نے وہ ایک دوسرے آدمی پر

تانا ہوا تھا۔میں ایک پلر کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگی۔وہ آدمی بہت ذیادہ رو رہا تھا اور بار بار اس کالے کپڑوں والے آدمی سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کون ہے۔'


عشال ایک پل کو رکی تھی اور اسکی آنکھوں میں خوف کا سایہ لہرایا۔


'پھر۔'


وجدان نے بے چینی سے پوچھا۔


'پھر اس آدمی نے صرف ایک لفظ بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔سکندر۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس نے اس آدمی کی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر گولی چلا دی۔۔۔۔۔۔'


عشال نے گہرا سانس لیا۔


'اس کے بعد اس سکندر نے وہی بندوق اس مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پکڑائی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔میں بہت ذیادہ ڈر گئی تھی لیکن پھر بھی ہمت کر کے پولیس سٹیشن تک گئی اور انہیں ساری بات بتائی۔مگر اسکے بعد اس سکندر نے مجھے بہت دفعہ مارنے کی کوشش کی۔لیکن کسی نہ کسی طرح میں بچ ہی جاتی۔اسی طرح پروٹیکشن کے لیے پہلے پولیس کے پاس رہی۔پھر کچھ آفیسرز کے گھر۔مگر جب سکندر وہاں بھی پہنچ گیا تو شاہ انکل نے مجھے اصفی انکل کے پاس بھیج دیا۔۔۔۔۔۔اور اب آپکے پاس ہوں مگر دیکھنا وہ یہاں بھی پہنچ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔بہت خطرناک ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔'


عشال اب باقاعدہ خوف سے کانپ رہی تھی۔جبکہ وجدان ابھی بھی اسے گھور رہا تھا۔


'اس سب کے علاوہ اور کچھ بھی جانتی ہو یا نہیں ؟'


وجدان بے چین ہوا۔عشال نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


'ایک بار جب مجھے مارنے آیا تھا تو میں نے اسے قریب سے دیکھا تھا۔۔۔۔بہت قریب سے دیکھا۔۔۔۔'


'کیا دیکھا تھا تم نے؟'


وجدان نے اپنے سینے پر بازو باندھے۔


'اسکی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔سرد سی سبز آنکھیں۔۔۔۔۔۔'


عشال کی بات پر اب تو سعد بھی شش و پنج میں مبتلا ہو گیا تھا۔


'ٹھیک ہے جاؤ تم۔'


وجدان کے اجازت دیتے ہی عشال وہاں سے چلی گئی تھی۔مگر اب وجدان پہلے سے بھی ذیادہ الجھ چکا تھا۔جبکہ سعد اسے جانچتی نظروں سے دیکھتا رہا تھا۔کچھ تو عجیب تھا۔

💖💖💖💖

سلمان صاحب کو صبح ہوتے ہی انکی پارٹی کے چیر مین کا فون آیا تھا جو کہ انہیں اسلام آباد بلا رہے تھے۔سلمان صاحب سیاست چھوڑنا چاہ رہے تھے لیکن اس کے لئے بھی چیر مین سے ملنا بہت ضروری تھا۔


'کیا ہوا سلمان آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟


فاطمہ بیگم نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔


'اسلام آباد جانا پڑے گا مجھے کچھ وقت کے لیے۔چیر مین نے بلایا ہے۔'


'لیکن آپ تو پارٹی چھوڑنا چاہ رہے تھے نا۔'


فاطمہ بیگم پریشان ہو گئی تھیں کیونکہ سلمان صاحب اس حالت میں کوئی کام نہیں دیکھ سکتے تھے۔


'اس کے لیے بھی مجھے وہاں جانا پڑے گا فاطمہ اس طرح سے کام نہیں چلے گا۔'


سلمان صاحب ہلکا سا مسکرائے۔


'آپ اکیلے نہیں جائیں گے میں آپ کے ساتھ چل رہی ہوں۔'


'نہیں فاطمہ زرش تمہارے بنا نہیں رہ سکتی اور میں اسے یہاں سے لے کر نہیں جا رہا۔'


سلمان صاحب نے دو ٹوک بات کی۔


'پہلے بھی آپ نے زرش کا نکاح کروا دیا اور مجھے بس یہ کہا کہ آپ پر بھروسہ رکھوں۔اب میں آپ سے کہتی ہوں کہ آپ اپنے فیصلے پر بھروسہ رکھیں۔آج نہیں تو کل زرش کو یہیں تو رہنا ہے اپنے شوہر کے ساتھ اچھا ہے اسے عادت ہو جائے سلمان میں چاہتی ہوں کہ اب وہ میرے سائے سے باہر نکلے۔اپنی زندگی گزارے اور اس خوف کو دل سے نکال دے۔'


فاطمہ بیگم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔


'لیکن فاطمہ۔۔۔۔'


'کوئی لیکن ویکن نہیں میں آپ کو اکیلے نہیں بھیج رہی اور آپ زرش کی فکر مت کریں عشال ہے اسکے پاس اور وہ زرش کا بہت ذیادہ خیال رکھتی ہے۔'


فاطمہ بیگم کی بات پر سلمان صاحب نے کافی غور کیا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔


'اچھی بات ہے میں پیکنگ کر لیتی ہوں پھر ہماری۔'


فاطمہ بیگم اپنی بات کہہ کر وہاں سے جا چکی تھیں۔لیکن سلمان صاحب ابھی بھی اضطراب میں تھے۔اپنی معصوم بچی کو چھوڑنے کا انکا بلکل بھی دل نہیں کر رہا تھا لیکن بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں اور فاطمہ بیگم کی بات میں مصلحت بھی تھی۔زرش کو اپنے خوف سے نکلنا تھا جو کہ انکے ہوتے ہوئے نہیں ہو سکتا تھا۔پاک پروردگار میری بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔زرش کے لیے سلمان صاحب کے دل سے دعا نکلی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

'زرش چپ کر جاؤ میرا بیٹا۔پلیز رونا تو بند کرو نا۔'


فاطمہ بیگم زرش کو بہت دیر سے چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن ان کے جانے کا سن کر زرش انکے ساتھ چپکی روئے جا رہی تھی۔


'ارے کیا ہو گیا ہے زری میں ہوں نا یہاں اب تم اتنی چھوٹی بچی بھی نہیں ہو ۔ماشااللہ سے شادی ہو گئی ہے۔چپ کرو بس۔'


عشال نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا لیکن زرش کے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔


'آنٹی آپ جائیں میں اسے سمبھال لوں گی آپ بلکل بے فکر ہو کر جائیں۔'


عشال نے مسکراتے ہوئے فاطمہ بیگم کو کہا تو فاطمہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور زرش کے سر پر بوسہ دے کر وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


'اپنا خیال رکھنا زری اور بلکل بھی گھبرانا نہیں بیٹا یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔'


فاطمہ بیگم کی آواز میں نمی پیدا ہوئی تھی۔آخر کار وہ بھی کبھی اپنی بیٹی سے دور نہیں گئی تھیں اور اب ایسا کرنا ان کے لیے بھی بہت مشکل امر ثابت ہونا تھا۔ایک آخری نگاہ عشال سے لپٹی ہوئی زرش پر ڈال کر فاطمہ بیگم باہر کی طرف چل دیں جہاں سلمان صاحب انکا انتظار کر رہے تھے۔


'ارے بس کرو اب چپ بھی کر جاؤ چھٹکی گڑیا ورنہ سونامی آ جائے گا اس گھر میں اور قسم سے مجھے بھری جوانی میں ڈوب کے نہیں مرنا۔'


عشال نے شرارت سے کہتے ہوئے زرش کو اپنے ساتھ لگایا۔


'تم رو کیوں رہی ہو؟بھئی کبھی نہ کبھی تو رخصت ہو کر تمہیں اسی بندے کے پاس آنا تھا نا تو ابھی سہی۔'


عشال نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اوپر کیا۔


'پھر اب اس سب میں تمہارا فائدہ بھی تو ہے؟'


عشال نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہا تو زرش سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔


'ارے اب اپنے مام ڈیڈ کے ہوتے ہوئے تو تم اپنے ہزبنڈ کے قریب جانے سے کتراتی لیکن اب تو موقع بھی ہے اور محل بھی تو دیوانہ بنا لو وجی جی کو اپنی اداؤں کا۔'


عشال کی بات پر زرش کا چہرہ سرخ ہو گیا۔


'ہائے بس ایسی ادائیں ہی پیا جی کو دیکھانی ہیں پھر دیکھنا کیسے لٹو ہوتے ہیں تمہارے پیچھے اور سب بھول بھال کر سیدھا اپنے روم میں لے جا کر رخصتی بھی کروا ہی دیں گے۔'


زرش جو عشال کو آنکھیں بڑی کر کے دیکھ رہی تھی اسکی آخری بات پر شرم کے مارے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔عشال کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔


'یو آر ٹو سویٹ مائے لیٹل ڈال۔'


عشال نے زرش کو اسطرح سے شرماتے ہوئے دیکھ کر کہا اور خود باہر کی طرف چل دی۔ابھی وہ کچھ قدم ہی چلی تھی جب وہ بری طرح سے ایک چٹان کی ماند سینے سے ٹکرائی۔


'اف اندھے ہو گئے ہیں کیا ایجنٹ جی اور سینا ہے یا کمرشل بورڈ ہے ۔اف سر پھاڑ دیا ہے میرا۔'


سعد پر نظر پڑتے ہی عشال شروع ہو گئی تھی۔


'قصور تمہارا اپنا ہے دھیان موبائل سے ہٹا کر چلو نا۔'


سعد نے اپنے کمرشل بورڈ کی ماند چھاتی پر بازو باندھ کر کہا۔


' DYD

مجھ پر الزام مت لگائیں اب آپ۔ خود کی کہیں پہ نگاہیں اور کہیں پہ نشانہ ہے اور کہہ مجھے رہے ہیں۔


'DYD?'

سعد نے حیرانی سے پوچھا۔


Don't you dare۔


عشال کے بتانے پر نہ چاہتے ہوئے بھی سعد کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔


'تم کوئی بات سیدھی طرح سے بھی کرتی ہو؟'


سعد نے شرارت سے پوچھا۔


'ہاں بہت سی باتیں ہیں جو میں صاف سیدھی طرح کہہ دیتی ہوں۔'


عشال نے بہت معصومیت سے کہا۔


'وہ کیا؟'


'جیسے کے آپ میرے خیال میں اس دنیا کے سب سے نکمے ایجنٹ ہیں جس کو کوئی کام نہیں صرف گھر رہ کر کھانا پکاتا ہے یا مجھے پٹانے کی کوشش کرتا ہے لیکن عشال کسی سے نہیں پٹ سکتی آئی سمجھ اس لیے آپ کی یہ ٹھرکیوں والی ساتھ ٹکرانے کی کوششیں بے کار ہیں۔'


سعد حیرت سے منہ کھولے اس دیکھ رہا۔


'یہ خوش فہمی تمہیں کس نے ڈال دی کے میں تمہارے جیسی مکھی کو پٹانے کی کوشش کر رہا ہوں؟'


سعد نے اسکے چشمے کی اوڑھ میں چھپی آنکھوں کو دیکھ کر کہا۔


'ہے ایک کرونا وائرس اس نے۔'


عشال اتنا کہہ کر اپنی پونی جھلاتی وہاں سے چلی گئی جبکہ سعد تو صرف مٹھیاں کستا رہ گیا تھا۔


'تیکھی مرچی۔'

🌈🌈🌈🌈🌈


زرش کا موڈ بہت زیادہ خراب تھا۔فاطمہ بیگم اور سلمان صاحب کا اس طرح سے چلے جانا اسے بکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اسی غم میں زرش نے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔سلمان صاحب کا جانا ضروری تھا اور فاطمہ بیگم انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں لیکن کم از کم وہ زرش کو اپنے ساتھ تو لے کر جا سکتی تھیں نا بھلا زرش کا یہاں رہنا ضروری تھا۔زرش کو اس وقت سب سے ذیادہ غصہ اسی بات کا تھا جسکی وجہ سے اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔


'Hey my little doll what's going on."


زرش عشال کی چہکتی ہوئی آواز پر چوک کر اسے دیکھنے لگی جو کہ ہاتھ میں ایک ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔


'چلو جلدی سے اب،کھانا کھا لو۔تمہیں پتہ ہے وہ ایج۔۔۔۔۔۔۔سعد جی نے اپنے ہاتھوں سے پکایا ہے اور کمال مزے کا ہے ۔'


عشال مسلسل بولتے ہوئے فرائیڈ رائس پلیٹ میں نکال رہی تھی۔


'ویسے اتنے غریب تو نہیں ہیں یہ لوگ مگر پھر بھی گھر میں ایک بھی میڈ نہیں ہے۔سارا کام خود ہی نمٹا لیتے ہیں۔سچی مانو یا نہ مانو مجھے تو حد درجہ کے کنجوس لگتے ہیں دونوں۔'


عشال کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی زرش کے لبوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا تھا۔عشال پل بھر میں اسکا بگڑا ہوا موڈ ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔


'بس دیکھا ایسے ہی ہنستے مسکراتے ہوئے اچھی لگتی ہو تم میری چھوٹی سی گڑیا۔۔۔۔۔۔چلو اب تم مجھے یہ بتاؤ کے تم یہاں رہنے سے اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔بھئی تمہارے اپنے،ذاتی شوہر کا گھر ہے۔تمہیں تو یہاں حکومت کرنی چاہیے نہ کہ اسطرح سے کمرے میں بیٹھ کر منہ بسورنا چاہیے۔'


عشال نے پلیٹ زرش کے سامنے رکھی تھی اور پھر خود بھی اسکے پاس بیٹھ کر بولنا شروع ہو گئی۔


میں کبھی کہیں بھی اپنی امی کے بغیر نہیں رہی نا اس وجہ سے ۔


زرش نے اشارہ کیا تو عشال نے اپنی آنکھوں کو پھیر لیا۔


'یہ تو بلکل ایک چھوٹی سی وجہ ہے ڈال ۔بات کچھ اور ہے جو تم چھپا رہی ہو ۔اب جلدی سے بتاؤ مجھے ورنہ ناراض ہو جاؤں گی اور پھر ان کھڑوس لوگوں کے سہارے جینا تم۔سمجھی۔۔۔۔'


عشال نے مصنوعی غصے سے کہا تھا لیکن پھر بھی زرش اپنی بہت اچھی دوست کو پریشانی سے دیکھنے لگی ۔وہ بلکل بھی اپنی دوست کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔اس لئے کافی دیر سوچنے کے بعد زرش نے اپنے ہاتھ اٹھائے تھے۔


وہ۔۔۔۔۔وجدان کو میں اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔اس لئے میں انکے سامنے نہیں جانا چاہتی ۔


زرش کی بات پر عشال نے اسے پریشانی سے دیکھا۔


'پہلی بات کہ تمہیں ایسا کیوں لگا کہ وہ آدمی تمہیں پسند نہیں کرتا اور دوسری بات میٹر یہ نہیں کرتا کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے یا نہیں؟میرے لیے میٹر یہ کرتا ہے کہ وہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟'


عشال کے سوال پر زرش نے شرمیلی سی مسکان کے ساتھ اپنا سر جھکایا تھا۔زرش تو اس سبز آنکھوں والے فرشتے کو ہمیشہ سے اپنے معصوم دل میں رکھتی تھی اور اب نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں بندھنے کے بعد تو وہ شخص اب اس دل پر اپنی حکومت کا جھنڈا گاڑ بیٹھا تھا۔


'ارے واہ انکے تو ذکر پر ہی تمہارا چہرہ گلاب ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔'


عشال نے اسکے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔


'میری بات سنو دھیان سے۔۔۔۔۔۔اول تو جیسا تم سوچ رہی ہو نا ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔وجدان بھائی کے پاس کوئی وجہ ہی نہیں ہے تمہیں نا پسند کرنے کی۔ارے انہیں تو شکرانے کے نفل پڑھنے چاہیں کہ اتنی پیاری سی ڈال ملی ہے انہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر کسی وجہ سے تمہیں نہ پسند کرتے بھی ہیں نا تو تمہیں اس وجہ کو دور کرنا ہو گا زری۔۔۔۔۔۔اس آدمی کو خود سے پیار کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔۔۔۔۔اور یہ سب تم اس کمرے میں بیٹھ کر نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔'


عشال نے اسے بہت پیار سے سمجھایا۔جبکہ زرش بھی بہت دیر تک اسکی باتوں پر غور کرتی رہی تھی۔ہاں وہ چاہتی تھی کہ اسکا شہزادہ اس سے محبت کرے۔بلکل جس طرح شایان جانان سے کرتا ہے۔بلکل جیسے عثمان حمنہ کو چاہتا ہے۔ہاں نا زرش اپنی سب کمیوں کے باوجود یہ سب پانا چاہتی تھی۔


تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔


زرش نے جلدی سے عشال سے پوچھا جبکہ جواب میں عشال ایک دلفریب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔


'فلحال تو یہ چاول کھاؤ۔۔۔۔۔اسکے بعد وہ وہ کرتی جانا جو میں تمہیں کہہ رہی ہوں اور پھر دیکھنا کس طرح سے محبوب آپکے قدموں میں ہو گا یہ بنگالی بابا عشال کا وعدہ ہے بچہ۔۔۔۔'


عشال نے ایک ہاتھ اوپر کر کے کہا تو زرش ہنس دی۔اسے عشال پر پورا بھروسا تھا۔زرش نے سوچ لیا تھا کہ اب مزید وہ ڈر کر اندھیرے میں چھپنے والی لڑکی نہیں بنے گی۔بلکہ وہ اپنے حصے کی خوشیوں اور محبتوں کا مطالبہ اپنی قسمت سے کرے گی۔کیونکہ وہ زرش کا حق ہیں جسے وہ حاصل کر کے رہے گی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان کی نظر اپنے سامنے موجود کاغزات پر تھی۔سکندر اسکی سوچ سے بھی ذیادہ چالاک نکلا تھا۔وجدان کافی کوششوں کے باوجود سکندر کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں لگا سکا اور یہ بات اسے غصہ دلا رہی تھی۔


آخر کون تھا یہ سکندر اور خود کو اتنا بڑا راز کیوں بنا رہا تھا۔وجدان کو ان سوالوں کے جواب جاننے تھے جو وہ آرمی کی بتائی ہوئی حدود میں رہ کر نہیں کر پا رہا تھا۔


'تم ایک ایسی آگ ہو خان جو دنیا کو جلا سکتی ہے مگر کسی کی غلامی میں رہے گی تو بجھ جائے گی۔'


ایک پرانے دوست کے الفاظ اسکے کان میں گونجے تھے۔یہ سکندر بھی تو وجدان جیسا ہی تھا۔ایک آگ اور یہی چیز تو اسے دلچسپ بنا رہی تھی ۔ان سب کاغزات اور ثبوتوں کو واپس خفیہ جگہ پر رکھ کر وجدان نے اپنا رخ دروازے میں لگے پول کی طرف کیا اور اپنی شرٹ اتار کر اسے پول کے ساتھ لٹک کر پش اپس کرنے لگا۔


اچانک سے اسے ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو وجدان اس پول سے اتر کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا ۔ دروازے کے پیچھے سے ایک ہلکی سی آواز سنائی دینے پر وجدان اپنی پسٹل نکال کر دبے پاؤں سے اس طرف چل پڑا ۔اس نے دروازے کے ایک پٹ کو بند کر کے اسکے پیچھے چھپے وجود کو گلے سے تھام کر اپنی پسٹل اس پر تانی تھی۔وہ نازک سا وجود پل بھر میں خوف کے مارے سہم کر جم گیا تھا اور کانچ سی آنکھوں میں ڈر کے مارے نمی اتر آئی تھی۔


'مسلہ کیا ہے تمہارے ساتھ مرنا چاہتی ہو میرے ہاتھوں سے کیا۔'


وجدان نے غصے سے اپنی چھوٹی سی بیوی کو گھورا کر کہا اور اسکی ملائم گردن سے اپنا بھاری بھرکم ہاتھ ہٹایا تھا۔جبکہ زرش جس جزبے سے یہاں آئی تھی اب وہ ختم ہو چکا تھا۔


'کیوں آئی ہوں یہاں؟'


وجدان کے چہرے پر بے زاری تھی جو کہ زرش کے دل کو تیر کی طرح لگی تھی مگر پھر بھی وہ ڈٹی رہی اور عشال کی کہی بات پر عمل کرنے لگی۔


مجھے بھوک لگی ہے اور فریج میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔


بہت ہمت کر کے زرش نے اشارہ کیا۔


'کیا مطلب کچھ بھی نہیں ہے۔ سعد نے جو ڈنر بنایا تھا وہ کہاں گیا؟'


وجدان نے حیرت سے پوچھا تو زرش نے جواب میں اپنے کندھے اچکا دیے۔حالانکہ عشال کی اس چالاکی کے بارے میں وہ جانتی تھی کہ سارا کھانا اسی نے غائب کیا تھا اور پھر زرش کو وجدان کے پاس بھیج دیا۔


'اچھا آؤ میں دیکھتا ہوں۔'


زرش نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر انتہائی خوشی کے ساتھ وجدان کے پیچھے کچن میں آ گئی۔


'تمہیں کچھ بنانا آتا؟۔۔۔۔۔۔'


وجدان کا سوال ختم ہونے سے پہلے ہی زرش نہ میں سر ہلانے لگی۔وجدان نے ایک گہرا سانس بھرا جیسے کہ خود پر ضبط باندھ رہا ہو۔


'ٹھیک ہے تم بیٹھو میں کچھ کرتا ہوں'


زرش فوراً سے کرسی پر بیٹھ گئی۔وجدان نے نوٹس کیا تھا کہ وہ بہت آسانی سے ہر بات مان جاتی ہے۔اس کے علاوہ وہ بہت ہی ذیادہ معصوم اور ڈرپوک بھی ہے۔سب سے بڑھ کر وہ کمزور ہے بہت زیادہ کمزور اور کمزوری سے وجدان کو سخت چڑ تھی۔وجدان جتنی دیر کچن میں کام کرتا رہا تھا زرش اپنی چھوٹی سی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے دیکھتی رہی وہ تو اسی بات میں خوش تھی کہ اسکے مسیحا کو اسکی بھوک کی فکر ہے۔


'یہ لو اپنا کھانا اور براہ مہربانی اب مجھے گھورنا بند کرو۔'


وجدان نے آملیٹ اور ٹوسٹ اس کے سامنے رکھا۔


میں آپ کو گھور نہیں رہی تھی بس دیکھ رہی تھی کہ آملیٹ کیسے بناتے ہیں۔


زرش نے آہستہ سے اشارہ کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ تیزی سے کیا اشارہ وجدان کو سمجھ نہیں آتا۔


'میں تمہارا کوکنگ شو نہیں ہوں سمجھی۔اپنی آنکھیں محدود رکھا کرو۔'


وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔زرش اسے اپنے پاس روکنا چاہتی تھی جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو آملیٹ کا ٹکڑا منہ میں ڈال کر زور زور سے کھانسنے لگی۔اسکی بڑھتی سانسوں کی آواز سن کر وجدان تیزی سے مڑا اور اسکے پاس آ کر اسکی پیٹھ تھپتھپانے لگا۔


'آرام سے کھاؤ کوئی چھین نہیں رہا تم سے۔'


وجدان تقریباً دھاڑا تھا۔زرش جہاں اسکے غصے سے ڈر گئی تھی وہیں اسے وجدان کا اس طرح سے فکر کرنا اسے بہت ذیادہ اچھا لگا تھا۔


سوری۔۔۔۔۔۔۔پلیز آپ میرے پاس بیٹھ جائیں۔


زرش نے آہستہ سے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وجدان بیٹھنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن اگر پھر سے ایسا کچھ ہو جاتا تو وہ شایان کو کیا جواب دیتا کہ اسکی ڈرپوک سی سالی کھانا کھاتے ہوئے مر گئی۔


یہ بہت مزے کا ہے ۔


زرش نے اشارہ کر کے آملیٹ کھانا شروع کر دیا۔وجدان چاہتے ہوئے بھی نگاہیں اس پر سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔کیا تھی وہ لڑکی؟کیوں وہ اسے اس طرح سے نرمی پر مجبور کر رہی تھی۔اسے کمزور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یہی تو تھی وہ ایک کمزوری۔۔۔۔۔وجدان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کسی تھیں۔جبکہ اس معصوم کے لئے تو یہی کافی تھا کہ اسکا مسیحا اسکے پاس بیٹھا تھا۔زرش نے مسکراتے ہوئے آملیٹ کا چھوٹا سا ٹکڑا کانٹے سے لگا کر وجدان کی طرف بڑھایا جسے وجدان نے سختی سے ہاتھ مار کر گرا دیا تھا۔


'اپنی حد میں رہو۔۔۔۔۔۔ نفرت ہے مجھے ان چھچھوری حرکتوں سے۔جانتا ہوں کہ تم کم عمر ہو لیکن اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس قسم کی بے حیائی کرتی پھرو۔آخری بار سمجھا رہا ہوں کہ اپنی حد میں رہو۔۔۔۔۔ورنہ میں نے اپنے طریقے سے بتایا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔'


وجدان نے یہ سب بہت آہستہ سے کہا تھا لیکن اسکے لہجے کی سختی اور بے انتہا کی بے رخی اس معصوم کا دل چیر گئی تھیں۔زرش نے شرمندگی سے سر جھکا کر اثبات میں سر ہلایا اور گلے میں موجود آنسوؤں کے گولے کو واپس دکھیلنے لگی۔ایک آخری نگاہ اس پر ڈال کر وجدان وہاں سے چلے گیا تو کب سے قید آنسوؤں کو آزادی بخش دی گئی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

سعد اپنے کمرے کی طرف مڑا تو اسکی نظر لاؤنج میں سے آتی ہلکی سی روشنی پر پڑی۔تجسس کے مارے سعد کے قدم آہستہ سے لاؤنج کی طرف بڑھے تھے۔ان دونوں کے اپارٹمنٹ کی سیکیورٹی کافی سٹرونگ تھی وہاں کسی کا بھی باہر سے آنا مشکل تھا مگر پھر بھی سعد کا ہاتھ بے ساختہ طور پر اپنی گن کی طرف بڑھا تھا۔مگر تھوڑا آگے بڑھتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ کر اپنا ٹیب استعمال کرتی عشال کو پہچان چکا تھا۔لیکن اس وقت وہ یہاں کیا کر رہی تھی۔سعد آہستہ سے اس کے پیچھے گیا تو اسکا پارہ ہائی ہو گیا۔وہ پاگل لڑکی رات کے 2 بجے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر pubg کھیلنے میں مصروف تھی۔


Yes yes got you man."


عشال نے دانت پیستے ہوئے دو پلیرز کو مار گرایا۔سعد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو عشال نے چلاتے ہوئے وہ ٹیبلیٹ سیدھا سعد کے سر میں مار دیا۔


'آہ۔۔۔۔۔۔۔پاگل ہو گئی ہو کیا؟'


سعد سر پکڑ کر غصے سے چلایا۔


'پاگل تو آپ ہو گئے ہیں ایجنٹ جی جان نکال دی میری مجھے لگا سکندر بھائی صاحب یہاں بھی پہنچ گئے ہیں میری گیم اوور کرنے کے لیے۔'


عشال نے بھی بلکل اسی کی طرح غصے سے چلا کر کہا اور پھر سے اپنے ٹیب کو دیکھا جہاں پر اس کا پلیر اب مر چکا تھا۔


'یار کیا کیا آپ نے جیتنے والی تھی میں اور۔۔۔۔۔۔یییییاررررررر۔۔۔۔۔۔۔'


عشال نے دوبارہ اپنے ٹیب سے سعد کے سر کا نشانہ بنایا تھا مگر اس مرتبہ سعد نے اسکا ہاتھ ہوا میں ہی تھام لیا تھا۔


'اس چشمے سے خوش نہیں ہو کیا جو اسکا نمبر بڑھانے پر تلی ہوئی ہو۔کچھ تو اپنی آنکھوں پر رحم کرو۔پہلے ہی چھوٹے سے منہ پر یہ بڑھا سا چشمہ لگا کر شہد کی مکھی لگتی ہو بس دو پروں کی کمی ہے۔'


سعد نے شرارت سے اسکے چشمے کا مزاق بنایا۔


'او اچھا اپنا چہرہ دیکھا ہے گرین کلر لگا لیں تو کرونا وائرس لگیں گے۔'


عشال نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تھا۔لیکن سعد نے اسے نظر انداز کر کے اپنی توجہ اسکے ٹیب پر مرکوز کی تھی۔


'اب پتہ چلا کہ اس سکندر کو تمہارے بارے میں انفارمیشن کہاں سے ملتی ہے۔تم یہ ٹیکنالوجی ساتھ رکھتی ہو اور وہ اس کے ذریعے تمہیں ٹریک کرتا ہے پاگل لڑکی۔'


سعد نے اسے بتانا ضروری سمجھا۔عشال نے جلدی سے اپنا ٹیب سینے سے لگایا۔


'سکندر کے ہاتھوں سے شاید میں مر جاؤں گی لیکن اس ٹیبلیٹ اور اپنے موبائل فون کے کے بغیر ضرور مر جاؤں گی۔'


عشال کے ڈرامائی انداز پر سعد کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔عشال نے بھی شرارت سے اسے دیکھا تھا مگر پھر اچانک اسکی نظر زرش پر پڑی جو کہ روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔


'لو ہو گیا پنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


سعد کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر ہی عشال زرش کے پیچھے چلی گئی تھی جبکہ سعد ابھی بھی اسکی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

آر بی رات کے اس پہر بھی سونے کی بجائے اپنے گھٹیا کاموں میں مصروف تھا۔اسکے آدمیوں کی نگرانی میں باہر کے ملکوں سے ڈرگز ہماری نوجوان نسل کو برباد کرنے کے لیے ملک میں لائے جا رہے تھے۔


'سر مجھے آپ سے بات کرنی تھی؟'


فیض دروازے میں کھڑے ہو کر اجازت مانگنے لگا۔


'ہمم۔۔۔'


'سر سلمان صاحب کا پتہ چل گیا ہے وہ اسلام آباد اپنی پارٹی کے چیر مین کے پاس گئے ہیں۔پہلے بھی ہم نے عثمان ملک اور اسکی بیوی کو اٹھانے کی مکمل کوشش کی تھی لیکن یہ عثمان کافی چالاک انسان ہے۔'


آر بی کے لبوں پر وہی مخصوص خطرناک سی مسکان آئی۔


'سلمان صاحب کو یہاں لاؤ وقت آ گیا ہے کہ ہماری ملاقات ہو جائے۔' فیض اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا۔


'بہت ہوگیا چوہے بلی کا کھیل سلمان صاحب اب آپ مجھے خود ہی اپنی بیٹی کا پتہ بتائیں گے ورنہ اپنی بات نکلوانے کے بہت سے طریقے پتہ ہیں مجھے۔'


آر بی نے اپنے، دانت کچکچائے۔


'تیار رہنا میرے سنہرے پھول جلد ہی ملاقات ہو گی۔امید ہے کہ تم مجھے نہیں بھولی ہو گی۔ آخر کار میں نے تمہیں بھولنے کے قابل چھوڑا ہی کہاں تھا۔'


آر بی کے چہرے سے شیطانی ٹپک رہی تھی ۔

🌈🌈🌈


(ماضی)

الفاظ بہت زیادہ خوش تھے ایک تو انکی زندگی کو انکے دونوں بیٹوں سکندر اور رومان نے حسین بنا دیا تھا اور دوسرا ان کی کنسٹرکشن کمپنی کو گورنمنٹ نے بہت بڑا پل بنانے کا کانٹریکٹ دیا تھا۔


'تو کیا آپ کو گورنمنٹ کے کانٹریکٹ سے کافی فائدہ ہو گا؟'


شاہانہ نے انکی خوشی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


'نہیں شاہانہ بات میرے فائدے کی نہیں ہے۔بات لوگوں کی سہولت اور ہمارے ملک کے معیار کی ہے تم دیکھنا ایسا پل بناؤں گا جو کہ ہمارے ملک والوں کو صرف دوسرے ملکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر اس سے لوگوں کو بہت ذیادہ سہولت بھی تو ہوگی۔'


الفاظ تو اپنے ذہن میں سارا نقشہ بھی بنا چکے تھے۔


'بابا وہ دیکھیں سکندر کیا کر رہا ہے؟'


تیرہ سالہ رومان کمرے میں بھاگتے ہوئے آیا اور منہ بسور کر کہنے لگا۔


'ایسا کیا کر دیا اب اس لڑکے نے؟'


شاہانہ بھاگتے ہوئے باہر گئیں تو الفاظ اور رومان بھی انکے پیچھے چل دیے۔باہر سکندر دیوار پر چڑھ کر اس پر لڑکھڑاتے ہوئے چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔


'سکندر یہ کیا کر رہے ہو گر جاؤ گے۔'


شاہانہ پریشانی سے آگے ہوئیں۔


It's called acrobat mama.

رومان بھائی نے کہا کہ میں نہیں کر سکتا اس لئے میں انہیں کر کے دیکھا رہا تھا۔'


بولتے ہوئے سکندر بری طرح سے لڑکھڑا گیا تو شاہانہ چیخ مار کر آگے ہوئیں۔الفاظ نے آگے ہو کر سکندر کو کھینچا اور اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


'ڈر نہیں لگتا تمہیں؟'


الفاظ نے مصنوعی غصے سے پوچھا اپنے لعل پہ تو وہ کبھی غصہ کر ہی نہیں پاتے تھے۔


'نو بابا سکندر از بریو ۔وہ صرف اللہ تعالی سے ڈرتا ہے آپ نے ہی تو کہا تھا۔'


سکندر کی بات پر الفاظ نے مسکرا کر اسے سینے سے لگایا۔


'But your mama is not brave.look she is crying right now.


سکندر الفاظ کے پاس سے اتر کر شاہانہ کے سینے سے لگ گیا۔الفاظ ساتھ کھڑے رومان کو دیکھ کر مسکرا دیے۔ان دونوں بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔سکندر جہاں اپنی شرارتوں اور بہادری میں نئے نئے کارنامے سر انجام دیتا رہتا تھا رومان وہیں ایک مثالی بیٹا تھا جو انہیں بلکل بھی پریشان نہیں کرتا تھا۔


'سر آپ سے شیراز حسن صاحب ملنے آئے ہیں۔'


چوکیدار نے بتایا تو الفاظ حیران ہو گئے کیونکہ شیراز حسن صاحب منسٹری کے کافی اونچے عہدے پر فائز تھے۔


'ان کو لاؤنج میں بیٹھاؤ میں آتا ہوں۔'


چوکیدار اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد الفاظ بھی لاؤنج کی طرف چل دیے جہاں شیراز صاحب پہلے سے ہی انکا انتظار کر رہے تھے۔


'کیسے ہیں آپ شیراز صاحب سب خیریت ہے؟'


الفاظ مسکرا کر انکے سامنے والے صوفے پر بیٹھے۔


'جی جی سب خیریت ہے ۔وہ بس میں نے سنا تھا کہ نیا پل بنانے کا کام گورنمنٹ نے آپکی کمپنی کو دیا ہے اسی سلسلے میں آپکو مبارکباد دینے آیا تھا۔'


شیراز صاحب کے چہرے پر عجیب سی مسکان تھی۔


'آپ کا بہت بہت شکریہ۔'


الفاظ مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔


'دراصل بات یہ بھی ہے کہ یہ پروجیکٹ کافی مہنگا ہے اور ملک کےمعاشی مسائل تو آپ کے سامنے ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ بڑا پل بنانے پر اتنا پیسہ کیوں برباد کرنا۔'


شیراز صاحب نے کافی چالاکی سے کہا۔


'پیسہ برباد کرنے والی تو کوئی بات نہیں اس میں اس پل سے عوام کو کافی سہولیات فراہم ہو جائیں گی۔'


الفاظ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔


'نہیں نہیں آپ میری بات سمجھے نہیں۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اتنا پیسہ کیوں لگائیں اس پل پر ہم تھوڑا بھی تو لگا سکتے ہیں۔تھوڑا سستا میٹیریل استمعال کیا جائے گا تو لاگت خود بخود کم ہو جائے گی۔پھر باقی کا جو پیسہ بچے گا اسے آپس میں بانٹ لیں گے۔اس طرح گورنمنٹ بھی خوش،عوام بھی خوش اور ہمارا بھی فائدہ ہو جائے گا۔'


شیراز صاحب نے دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔


'یعنی آپ مجھے کرپشن کرنے کو کہہ رہے ہیں۔'


'ارے کرپشن کیسی الفاظ صاحب اسے تو پرافٹ کہتے ہیں۔'


شیراز صاحب نے مسکرا کر ایک چیک الفاظ کی طرف بڑھایا۔الفاظ نے پہلے کڑوڑوں کی قیمت کے اس چیک اور پھر شیراز صاحب کو دیکھا۔


'آپ کو پتہ ہے نا کہ سستا میٹیریل یوز کرنے سے پل گر بھی سکتا ہے اور اس پل کو بہت بڑے دریا پر بنایا جائے گا ۔اندازہ ہے آپ کو کہ یہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔'


الفاظ نے انہیں پوری معلومات دی۔


'تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مہنگا میٹیریل استمعال کرنے سے پل نہیں گرے گا۔بھئی حادثے تو زندگی کا حصہ ہیں۔جب جب جو جو ہونا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔ہم ہر چیز کو ہونے سے روک نہیں سکتے۔'


شیراز صاحب کی بات پر الفاظ نے اپنی مٹھیاں کسی تھیں۔


'جب تک حکومت میں آپ جیسے گھٹیا لوگ رہیں گے نا ہمارا ملک کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا کیونکہ ہر شے میں سے آپ لوگوں نے اپنا ذاتی فائدہ ڈھونڈ کر اپنی ہی عوام،اپنے ہی ملک کو لوٹنا ہے۔۔۔۔معاف کیجئے گا میں یہ کبھی بھی نہیں کروں گا۔پل سب سے اچھے میٹیریل کا ہی بنے گا ۔اب آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔خدا حافظ۔'


الفاظ اتنا کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چل دیے۔


'اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچ لو الفاظ کبھی سوچا ہے کہ تمہیں کچھ ہو گیا تو ان کا کیا بنے گا۔'


شیراز صاحب نے صاف سیدھے الفاظ میں دھمکی دی۔


'وہی بنے گا شیراز صاحب جو اللہ کو منظور ہو گا اور ویسے بھی ابھی آپ نے ہی تو بتایا کہ جب جب جو جو ہونا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔تو پھر میں کیوں ڈروں۔'


الفاظ اتنا کہہ کر وہاں سے چلے گئے جبکہ شیراز صاحب مٹھیاں کستے رہ گئے تھے۔


'تم نے اچھا نہیں کیا الفاظ بلکل بھی اچھا نہیں کیا۔'


اتنا کہہ کر شیراز صاحب بھی غصے کے عالم میں وہاں سے چلے گئے۔

🌈🌈🌈

سلمان صاحب اسلام آباد آئے تھے۔چونکہ انہوں نے پارٹی کو چھوڑنا تھا تو انہیں کچھ کاغذی کاروائی کے لئے بلایا گیا تھا اور اس وقت وہ گاڑی پر ہوٹل جا رہے تھے۔وہ یہاں آ تو گئے تھے لیکن زرش کی فکر ابھی بھی ان کے ساتھ تھی۔اتنا تو وہ جانتے تھے کہ آر بی اس تک نہیں پہنچ سکے گا لیکن اصل مسلہ تو زرش کے بکھرے ہوئے وجود کا تھا اسکے احساسات کا تھا۔مگر وجدان ان احساسات کو کیسے جوڑ سکتا تھا اس میں تو یہ چیزیں ہے ہی نہیں تھیں۔


'کیا ہوا سلمان آپ پریشان کیوں ہیں؟'


فاطمہ بیگم نے انکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔


'کچھ نہیں فاطمہ بس زرش کے بارے میں سوچ رہا ہوں میں نے صیح فیصلہ تو کیا ہے نا؟'


انکی بات پر پہلے سے اداس فاطمہ بیگم مزید پریشان ہو گئیں۔


'آپ فکر مت کریں سلمان اللہ تعالی سب بہتر کریں گے۔ہماری زرش بہت اچھی ہے وہ شخص ضرور اسکی ایک کمی کو بھلا کر اسے خوش رکھے گا۔'


فاطمہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔سلمان صاحب انکا ساتھ دینے کے لیے مسکرائے تو تھے لیکن وہ مسکراہٹ انکی پریشانی کم نہیں کر پائی۔انکی معصوم بچی کے ساتھ جو بیتا تھا وہ تو فاطمہ بیگم بھی نہیں جانتی تھیں۔اتنے سالوں سے وہ راز سلمان صاحب نے اپنے سینے میں ہی چھپایا تھا اور اب انکا راز دار صرف شایان تھا۔اگر مجبوری نہ ہوتی تو وہ اسے بھی سچ نہ بتاتے۔


'ہم ہوٹل پہنچتے ہی زرش سے بات کریں گے آپ کے پاس نمبر تو ہے نا وجدان کے گھر کا؟'


فاطمہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔


'نہیں نمبر تو میں نے نہیں لیا تھا لیکن کوئی بات نہیں ہم شایان کو فون کر کے اس سے پوچھ لیں گے۔'


فاطمہ بیگم نے انکی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔تبھی انکی گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔


'کیا ہوا ڈرائیور؟'


سلمان صاحب نے پریشانی سے پوچھا مگر پھر انکی نظر سامنے موجود ان دو گاڑیوں پر پڑی جنہوں نے انکا راستہ روکا تھا اور ان میں سے کافی سارے آدمی باہر نکلے جس میں سے ایک نے ڈرائیور کو گولی مار کر باہر پھینک دیا جبکہ باقی کے نقاب پوش آدمی سلمان صاحب کے گارڈز کو بھی موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔


'سلمان۔۔۔۔'


فاطمہ بیگم پریشانی سے انکے قریب ہوئیں۔تبھی ایک آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور دوسرے نے گاڑی کی بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر فاطمہ بیگم کے چہرے پر ایک رومال رکھ کر انہیں بے ہوش کیا اور انہیں دوسری گاڑی میں لے گئے۔


'چھوڑ ۔۔۔'


'خاموش بڈھے۔۔۔۔آر بی سے پنگا لیا تھا تو نے تو اب بھگت۔'


اتنا کہہ کر اس آدمی نے سلمان صاحب کے منہ پر رومال رکھ کر انہیں بھی بے ہوش کر دیا۔

🌈🌈🌈

زرش وجدان کے رویے سے پریشان ہو کر پھر سے اسکے قریب جانے سے گھبرا رہی تھی لیکن عشال نے اسکا سر کھایا ہوا تھا کہ وہ وجدان کو اپنے قریب کرے۔


'زرش دیکھ میں اس شخص کا مسلہ سمجھ چکی ہوں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ تجھے ناپسند کرتا ہے اس سڑیل انسان کو تو اپنا آپ بھی پسند نہیں۔تو نا بس اسے یہ احساس دلا کہ وہ غلط ہے یہ زندگی کتنی حسین ہے اور یہ صرف رشتوں اور پیار کی وجہ سے حسین ہوتی ہے۔سمجھ رہی ہے نا میری بات۔'


عشال کافی محبت سے کہہ رہی تھی۔


لیکن جب وہ مجھے ڈانٹ دیتے ہیں تو مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا۔وہ مجھے بہت ذیادہ اچھے لگتے ہیں آخر انہوں نے مجھے بچایا تھا اس اندھیرے میں سے نکالا۔۔۔۔'


زرش کے چلتے ہاتھ رک چکے تھے لیکن عشال اسکی ادھوری بات سن کر اب اضطراب میں آ چکی تھی۔


'کہنا کیا چاہتی ہے تو؟'


عشال نے سنجیدگی سے پوچھا پر زرش نے اپنے آنسو پونچھ کر انکار میں سر ہلا دیا۔


'زری دیکھ تو مجھے اپنی بیسٹ فرینڈ مانتی ہے نا تو مجھ سے مت چھپا بتا مجھے یارا کیا ہوا تھا؟'


عشال نے اسکے سرد پڑتے ہاتھ تھام کر کہا جو اب خوف سے کانپ رہے تھے۔زرش نے سلمان صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سب کے بارے میں کسی کو نہیں بتائے گی لیکن آخر کب تک وہ راز،وہ درد،وہ تکلیف اور خوف زرش کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔


'زری یار۔۔۔'


زرش نے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور پھر آنسو پونچھ کر اسے سب کچھ بتانے لگی۔جیسے جیسے عشال اسکے تیزی سے چلتے ہاتھوں کے اشارے پڑھ رہی تھی۔اسکی آنکھوں میں آنسو اور سینے میں ابلتا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔وہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ اسکی دوست اپنی خاموشی کے پیچھے کتنا درد سمیٹ کر بیٹھی ہے۔


'زری آئی ایم سوری۔۔۔'


زرش کی بات ختم ہوتے ہی عشال نے کھینچ کر اسے اپنے گلے سے لگایا اور زرش بھی اس کے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔


'تو فکر مت کر زری وہ شخص نہیں پہنچ پائے گا تجھ تک ۔۔۔۔ '


عشال کی اپنی آواز رندھی ہوئی تھی۔


'اور رہی وجدان کی بات تو اسے تجھ سے محبت کرنی ہو گی زری ،تمہیں تحفظ دینا ہو گا ۔یہ تمہارا حق ہے۔'


عشال نے اسکا چہرہ تھام کر اوپر کیا۔


'تم دیکھنا وجدان تم سے بہت زیادہ محبت کرے گا اور پھر اس جانور کا کہا ہوا ہر لفظ جھوٹ ثابت ہو گا زرش صرف اور صرف جھوٹ۔'


عشال کی نظروں میں بہت ذیادہ غم اور غصہ تھا۔


لیکن کیسے وہ تو مجھے ڈانٹ دیتے ہیں۔پیار کرنا تو دور کی بات ہے وہ تو مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔اسکی ہر بات سچ ہے میرا شوہر ہی مجھے نا پسند کرتا ہے۔


زرش نے افسردگی سے اشارہ کیا تو عشال کے لبوں پر ایک مسکان آئی۔


'تم بس دیکھتی جاؤ کہ میں کرتی کیا ہوں؟تم نے بس ہمت نہیں ہارنی۔'


عشال کی بات پر زرش نے کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے آنسو پونچھ کر مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا بھلا محبت میں بھی کوئی ہمت ہارتا ہے اور پھر جب محبت بھی اس قدر معصوم اور پاکیزہ ہو تو زرش جانتی تھی کہ وہ بھی کبھی ہار نہیں مانے گی۔

🌈🌈🌈🌈

سلمان صاحب کو ہوش آیا تو وہ کسی کمرے میں کرسی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔اپنے بھاری ہوتے سر اور دھندلاتی آنکھوں کو نظر انداز کر کے انہوں نے ارد گرد دیکھا تو ان کی نظر فاطمہ بیگم پر پڑی جو زمین پر اوندھے منہ گری ہوئی تھیں۔


'فاطمہ۔۔۔۔ فاطمہ۔۔۔۔'


سلمان صاحب نے پریشانی سے فاطمہ بیگم کو پکارا لیکن انکے جسم میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوئی۔وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی ممکن کوشش کر رہے تھے لیکن یہ انکے پیرالائزڈ جسم کے ساتھ ناممکن کام تھا۔تبھی دروازہ کھلا اور ایک ہیولا سا کمرے میں داخل ہوا۔


'کیسے ہیں سلمان صاحب امید کرتا ہوں آپ کو زیادہ پریشانی نہیں ہو رہی ہو گی۔'


اس آواز پر سلمان صاحب کانپ کر رہ گئے۔


'تت۔۔۔۔تم۔'


'ارے واہ آپ نے تو اتنی آسانی سے پہچان لیا۔چلیں اچھا ہے ہمیں دشواری نہیں ہوگی۔ہم آسانی سے اگلے سٹیپ کی طرف آ سکتے ہیں۔'


سلمان صاحب کو اندھیرے میں اس شیطان کی صرف آواز سنائی دے رہی تھی اسکا چہرہ وہ پچھلی بار کی طرح نہیں دیکھ سکے۔


'کیا چاہتے ہو تم؟'


سلمان صاحب نے غصے سے کہا۔


'یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کیا چاہتا ہوں میں۔لیکن پھر بھی اگر یاداشت کو کوئی مسلہ پیش آ رہا ہے تو میں بتا دیتا ہوں۔مجھے میری نور زرش واپس چاہئے۔'


اس شیطان کی آواز پر سلمان صاحب کا خون کھول اٹھا۔


'کبھی نہیں۔۔۔۔'


آر بی نے ایک زور دار مکا سلمان صاحب کے منہ پر مارا تھا۔جسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ انکی کرسی زمین بوس ہو گئی۔


'دیکھتے ہیں کب تک آپ کی زبان سے یہی بات نکلتی ہے۔'


آر بی نے اتنا کہہ کر سلمان صاحب کے جسم پر بلیڈ سے جگہ جگہ کٹ لگانا شروع کر دیے۔سلمان صاحب کی درد ناک چیخوں کی آواز سے فاطمہ بیگم بھی ہوش میں آ گئی تھیں مگر انکے جسم میں ہلنے کی طاقت بھی نہیں تھی۔


'میری نورِ زرش کہاں ہے ؟'


آر بی نے ایک مرتبہ پھر سے درد میں کراہتے سلمان صاحب کو سیدھا کر کے پوچھا۔


'نن۔۔۔۔نہیں بتاؤں گا تو چاہے کک۔۔۔۔کچھ بھی کر لی تجھے میری۔۔۔۔ معصوم بچی۔۔۔۔کبھی نہیں ملے گی۔۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔'


سلمان صاحب کی بات پر آر بی نے انہیں واپس زمین پر پھینکا۔


'بدل گئے ہو تم سلمان۔ایک اچھے مثالی باپ ہو گئے ہو کافی محبت کرنے لگے ہو اپنی ان بیٹیوں سے جنہیں تم منہوس کہا کرتے تھے لیکن کیا ایک مثالی خاوند بھی ہو؟'


آر بی ایک پل کو خاموش ہوا۔


'دیکھ لیتے ہیں کہ تم میں کون سی اچھائی زیادہ ہے؟باپ زیادہ اچھے ہو یا شوہر؟'


آر بی چل کر فاطمہ بیگم کے پاس گیا اور اپنے بوٹوں سے انہیں پیٹنا شروع کر دیا۔پورے کمرے میں فاطمہ بیگم کی چیخیں گونجنے لگی تھیں۔


'نن نہیں چھوڑ دو اسے خدا کے لئے چھوڑ دو۔۔۔مجھے مار لو لیکن اسے کچھ نہ کہو۔'


سلمان صاحب اب زارو قطار رونے لگے ۔


'چھوڑ دیتا ہوں تم مجھے میری زرش کا پتہ بتا دو میں تم دونوں کو با حفاظت واپس پہنچا دوں گا۔وعدہ ہے یہ میرا۔'


سلمان صاحب نے ایک نظر زمین پر پڑی فاطمہ بیگم کو دیکھا اس اندھیرے میں وہ ان کے زخم تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن انکے کراہنے کی آواز بخوبی سن سکتے تھے۔اپنی بیوی کی تکلیف انہیں کمزور بنا رہی تھی۔


'جواب دو سلمان۔'


آر بی کی آواز سلمان صاحب کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔


'یا اللہ مجھے معاف کرنا۔'


سلمان صاحب نے دعا کی اور پھر آر بی کے اس ہیولے کو دیکھ کر بولے۔


'نہیں تم چاہو تو ہم دونوں کو مار بھی دو لیکن میری بیٹی تمہیں نہیں ملے گی۔ہار جاؤ گے تم اپنے ہی مقدر سے دیکھنا تم۔'


سلمان صاحب نے دانت پیس کر کہا تو آر بی کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔


'تمہاری گواہی میں نکاح کروں گا اس سے سلمان دیکھ لینا تم۔جو چیز آر بی کی آنکھوں کو اچھی لگتی ہے وہ اسی پل آر بی کی ہو جاتی ہے پھر تمہاری بیٹی تو اس کالے دل میں اتر چکی ہے بہت بڑی غلطی کر دی اس نے۔ اب وہ آر بی کی ہی ہو گی اور اگر تقدیر کو یہ منظور نہیں تو میں تقدیر ہی بدل دوں گا۔'


آر بی نے جھٹکے سے فاطمہ بیگم کو زمین پر پٹکا اور باہر کی طرف چل دیا جبکہ سلمان صاحب روتے ہوئے ہوش سے بے خبر ہوتی فاطمہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔

🌈🌈🌈

رات کے دو بجے کا وقت ہو رہا تھا اور ڈاکٹر علی اس وقت کوہاٹ کے سول ہاسپٹل سے باہر نکل کر اپنے ہوٹل کی طرف جا رہے تھے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو ان کی یہاں پوسٹنگ ہوئی تھی۔ابھی انہیں ہاسپٹل سے نکلے ہوئے کچھ وقت ہی ہوا تھا جب گاڑی ایک سنسان جگہ پر پہنچ کر خود بخود رک گئی تھی۔ڈاکٹر علی نے اسے سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سٹارٹ ہی نہیں ہو رہی تھی۔تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر کالے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص انکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا۔اسکا چہرہ تک کالے رومال سے ڈھکا ہوا تھا صرف سبز خطرناک آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔


Hey who the hell are you?


ڈاکٹر علی نے غصے سے کہا تو جواب میں اس کالے کپڑوں والے آدمی نے اپنی بندوق انکے سر پر رکھ دی۔


'گاڑی سٹارٹ کر ۔'


عام سا سنجیدہ لہجا تھا۔ڈاکٹر علی نے اپنی کمر کے پاس موجود پسٹل کو نکالنے کا سوچا لیکن اتنی تنگ جگہ پر وہ اپنا ارادہ ظاہر کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتے تھے اور اس آدمی نے بندوق بھی بلکل انکی کنپٹی کے پاس رکھی ہوئی تھی۔


'گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی۔'


ڈاکٹر علی نے گھبرا کر کہا۔


'سٹارٹ کر اب کی بار ہو جائے گی۔'


اس مرتبہ لہجہ بہت ذیادہ بے زار تھا۔ڈاکٹر علی نے خاموشی سے کوشش کی تو گاڑی سچ میں سٹارٹ ہو گئی۔


'چل'


ڈاکٹر علی نے گاڑی چلانا شروع کر دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت اس شخص کی بات ماننا ہی بہتر ہے۔


'دیکھو تمہیں جو چاہیے میں تمہیں دے دوں گا۔گاڑی موبائیل پیسہ جو کچھ بھی تم چاہو۔'


ڈاکٹر علی کا انداز منت کرنے والا تھا انہیں اپنی بے وقوفی پہ غصہ آ رہا تھا کہ انہوں نے گاڑی لاک کیوں نہیں کی تھی۔


'دائیں مڑ۔' عام سے انداز میں کہا گیا۔


'دیکھو میرے پاس اور بھی بہت پیسہ ہے تم اپنی قیمت بولو تمہیں کتنا چاہیے میں تمہیں دوں گا۔'


علی نے پھر سے کوشش کی۔لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جیسے وہ تو بات کو سن بھی نہیں رہا تھا۔


'بائیں مڑ۔'


کچھ دیر بعد اس نے پھر سے کہا اور اس وقت وہ ایک کافی سنسان سے گودام میں تھے۔


'باہر نکل اور ہاتھ اوپر کر ہلکی سی ہوشیاری اور گولی سیدھا تیرے دماغ میں جائے گی۔'


ان الفاظ میں چھپی دھمکی بہت واضح تھی۔ڈاکٹر علی جانتے تھے کہ انکے پاس وقت کی کمی ہے وہاں اس کے مزید ساتھی بھی ہو سکتے تھے لیکن انہیں اپنی بندوق تک پہنچنے کا کوئی موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔


کالے کپڑوں والا وہ شخص ڈاکٹر علی پر بندوق تانے گاڑی سے باہر نکلا تو ڈاکٹر علی نے موقع پا کر جلدی سے اپنی پسٹل نکالی اور اس آدمی پر گولی چلانے لگا لیکن ڈاکٹر علی کے گولی چلانے سے پہلے ہی ایک گولی سیدھا انکے ہاتھ میں سے گزری جس کی وجہ سے انکے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر زمین پر گری تھی۔


'بولا تھا نا کہ ہوشیاری نہیں اگلی گولی تیرے سر میں لگے گی اور یاد رکھنا میرا نشانہ کبھی نہیں چوکتا۔چل اب۔'


ڈاکٹر علی کراہتے ہوئے زمین سے اٹھے اور اپنا ہاتھ تھام کر اسکے آگے آگے چل دیے۔اس کالے لباس والے آدمی نے وہاں پر موجود ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا تو ڈاکٹر علی اس پر بیٹھ گئے۔


'کون ہو تم؟'


ڈاکٹر علی نے تکلیف کے باعث آہستہ سی آواز میں پوچھا۔


'سکندر۔'


عام سا جواب آیا تھا۔


'کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا کیا چاہتے ہو تم؟'


ڈاکٹر علی تقریباً چلائے تھے۔جبکہ جواب میں سکندر نے چھوٹی چھوٹی دو شیشے کی بوتلیں ان کے سامنے رکھیں جن میں دو سفید ٹیبلیٹس موجود تھیں جو دیکھنے میں بلکل ایک جیسی تھیں۔


'دو گولیاں ایک زہر کی اور دوسری اس زہر کی دوا لیکن دیکھنے میں بلکل ایک جیسی ہیں۔تو یہ چن کہ تو ان میں سے کونسی گولی کھائے گا؟'


سکندر نے ان شیشیوں کی طرف اشارہ کیا۔


'کوئی بھی نہیں میں ایسا کیوں کروں گا بھلا؟'


ڈاکٹر علی پریشان ہوئے تو سکندر نے بندوق سیدھا انکے ماتھے پر رکھ دی۔


'تو پھر تجھے یہ گولی کھانی پڑے گی۔'


سکندر نے بندوق کی طرف اشارہ کیا۔


'سوچ لے وہاں تو بچنے کا پھر ایک موقع ہے اگر صحیح گولی چن لے تو بلکل با حفاظت جا سکتا ہے تو لیکن اگر تو نے گولی چننے سے انکار کیا تو۔۔۔۔'


سکندر نے بندوق کو زیادہ سختی سے ڈاکٹر علی کے ماتھے پر رکھا۔جبکہ بہت سوچ بچار کرنے کے بعد ڈاکٹر علی ان دونوں گولیوں کو دیکھنے لگے لیکن افسوس کی بات تو یہ تھی کہ وہ بلکل ایک جیسی تھیں۔بہت دیر کے بعد ڈاکٹر علی نے کانپتے ہاتھوں سے ایک گولی کو پکڑا۔


'میرے خیال سے تجھے دوسری چننی چاہیے۔'


ڈاکٹر علی کے کانوں میں سکندر کی آواز پڑی لیکن پھر بھی انہوں نے اسی گولی کو بوتل میں سے نکال کر نگل لیا۔


'افسوس۔۔۔کاش بات مانی ہوتی۔'


اتنا کہہ کر سکندر نے بندوق کو اپنی جیب میں رکھا اور اپنے چہرے سے رومال ہٹا کر وہ بچی ہوئی دوسری گولی اپنے منہ میں ڈال لی۔ڈاکٹر علی انتہائی زیادہ حیرت اور خوف سے سکندر کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔


'فکر مت کر دس منٹ لگیں گے تجھے مرنے میں۔کافی تیز زہر ہے لیکن اتنا بھی نہیں۔'


سکندر کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔


'کک۔۔۔۔۔کیوں؟'


ڈاکٹر علی نے روتے ہوئے پوچھا۔


'دو سال پہلے یاد ہے تیرے ہاسپٹل میں 32 بچوں کو ایک دوائی دی گئی تھی جسکا مقصد تو ان کی صحت تھا لیکن اس دوائی نے ان 32 بچوں کی جان لے لی ۔تجھ پر کیس بھی چلا تھا لیکن سارا الزام دوائی بنانے والی کمپنی پر ڈال کر تو با عزت بری ہو گیا تھا۔'


ڈاکٹر علی اپنے وجود میں بڑھنے والی تکلیف کے باعث زمین پر گرے تھے۔جبکہ سکندر اب کرسی سے اٹھ کر انکے پاس آنے لگا۔

'لیکن سچ کیا تھا یہ تو ہم دونوں جانتے ہیں کہ تو نے اس کمپنی کا نام ڈوبانے کے لئے آر بی سے پیسے لیے اور وہ زہر ان معصوم بچوں کو دے دیا۔'

سکندر ڈاکٹر علی کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔

'اب پتہ چلا کیسا لگتا ہے زہر سے مرنا۔اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آنا لیکن چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پانا۔'

سکندر نے مسکرا کر کہا۔


'مم۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔'


ڈاکٹر علی نے روتے ہوئے کہا وجود میں اٹھنے والی تکلیفوں سے وہ شخص تڑپ رہا تھا۔


'معافی اوپر جا کر ان بچوں سے مانگنا ملنے والا ہے تو ان سے اور مرنے سے پہلے جان لے کہ تجھ جیسے کمینے ملک کے دشمنوں کے لیے موت ہے سکندر۔'


سکندر اتنا کہہ کر وہاں سے اٹھا اور اپنا رومال پھر سے ناک پر چڑھا کر وہاں سے چلا گیا۔جبکہ علی وہیں پر تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔

🌈🌈🌈🌈

(ماضی)

الفاظ کی کمپنی بہت محنت کے بعد وہ پل بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی جو تقریبا ڈیڑھ سال بعد مکمل ہو کر عوام کے لئے کھول دیا گیا تھا۔الفاظ اپنی کارگردگی سے کافی خوش تھے۔مگر ایک دن انکی تمام خوشیوں کو نظر لگ گئی تھی۔جب نیوز میں یہ خبر آئی کہ وہ پل اپنے افتتاح کے پہلے مہینے ہی گر گیا تھا۔


جس کی وجہ سے تقریبا 200 سے بھی ذیادہ لوگوں کی ڈوب کر موت ہو گئی تھی اور اس سب کا الزام الفاظ کی کمپنی پر آ رہا تھا۔پولیس الفاظ کو جیل میں ڈال چکی تھی اور اب ان پر کیس چل رہا تھا۔انکی کمپنی کے شئیرز اس قدر گر گئے تھے انکا سب کچھ بک گیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص برباد ہو چکا تھا۔


شاہانہ نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر الفاظ کو بچانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن کیس بلکل بھی الفاظ کے حق میں نہیں تھا اور کرپشن کے جرم میں انہیں 20 سال کی قید ہو چکی تھی۔


الفاظ اپنی قسمت کا فیصلہ سن کر کٹہرے سے نکلے تو شاہانہ سکندر اور رومان کو لے کر روتے ہوئے ان کے پاس آئیں۔


'الفاظ۔۔۔۔'


شاہانہ نے روتے ہوئے اتنا ہی کہا۔الفاظ نے مسکرا کر نو سالہ سکندر کو دیکھا جو کافی گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔


'اپنی ماں کا دھیان رکھنا سکندر اکیلے مت ہونے دینا اسے۔'


الفاظ کی آواز غم اور مایوسی سے رندھی ہوئی تھی۔


'چلیے۔'


پولیس والے نے کہا تو الفاظ ایک آخری نگاہ ان سب پر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔انکے وکیل نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ابھی وہ تھوڑا آگے ہی گئےتھے جب ان کا سامنا شیراز صاحب سے ہوا جو مسکرا کر انکے قریب آئے تھے۔


'کیسا لگا الفاظ صاحب مجھ سے بھڑنے کا انجام بڑا غرور تھا نا اپنی ایمانداری پر ۔اب اس ایمانداری کی سزا بھگتو تم۔'


شیراز صاحب نے ہنستے ہوئے الفاظ کے کان میں سرگوشی کی تو الفاظ نے ہر چیز کو نظر انداز کر کے اس کمینے آدمی کو گریبان سے پکڑ لیا۔


'کمینے انسان تیری وجہ سے اتنے لوگوں کی جان چلی گئی۔'


الفاظ نے اسے بری طرح سے جھنجھوڑا لیکن پولیس والوں نے الفاظ کو کھینچ کر واپس اپنی گرفت میں لے لیا۔


'میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا الفاظ درانی تم نے ہی تو کہا تھا جب جب جو جو ہونا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔'


شیراز صاحب نے ہنستے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔


الفاظ صاحب کو پولیس والے باہر لے کر گئے تا کہ انہیں جیل میں لے کر جایا جائے مگر تبھی بھیڑ میں سے کسی نے ان پر گولی چلا دی جو کہ الفاظ کے دل میں لگی۔


'بابا۔۔۔۔'


اس بھیڑ میں سکندر کی درد ناک چیخ گونجی اور وہی آخری آواز تھی جو الفاظ کے کانوں میں پڑی اور پھر وہ ہوش و ہواس سے بے خبر ہو کر زمین پر گرے۔پولیس والے فوراً انہیں ہسپتال لے جا چکے تھے۔


'ماما بابا کو کچھ ہو گا تو نہیں؟'


رومان نے روتے ہوئے پوچھا جبکہ شاہانہ اور سکندر کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک ڈراونا خواب دیکھ رہے تھے۔ایسا سچائی میں تو نہیں ہو سکتا تھا نا۔صرف ایک مہینے میں انکی پوری کی پوری دنیا اجڑ گئی تھی۔


ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو پولیس والے ڈاکٹر کے قریب ہوئے جبکہ شاہانہ نے سہم کر سکندر کو اپنے سینے میں بھینچا ۔


'آئی ایم سوری ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن گولی سیدھا دل میں لگی تھی۔ہم انہیں بچا نہیں سکے۔' الفاظ تھے یا انگارے جو وہاں شاہانہ اور اسکی اولاد پر گرے تھے۔وہ لوگ تو ایک پل میں قیامت دیکھ چکے تھے۔بہت سے آنسو ان سبز آنکھوں سے ٹوٹ کر زمین بوس ہو گئے۔

🌈🌈

'زری اٹھ یار کتنا سوئے گی جلدی اٹھ نا۔'


صبح سویرے ہی عشال زرش کو جھنجوڑ کر اٹھا رہی تھی۔زرش نے جلدی سے اٹھ کر اس دیکھا۔


'سو سو کے نا اپنے نصیب بھی سلا لو گی تم۔اٹھ جا اب اور اپنے شوہر کا دھیان رکھ۔'


عشال نے اسے کھینچ کر کھڑا کیا۔زرش اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔


'ڈولی دیکھ تیرا ہزبیڈ اس ٹائم جم میں گیا ہے ابھی اس کے پیچھے فریش جوس کا گلاس لے کر جا اور اسے دے پھر وہ جم کرے،تجھے جانے کا کہے یا جو بھی کرے تو نے کہنا ہے کہ تو یہاں اس کے لیے نہیں جم کرنے آئی ہے۔سمجھ رہی ہے نا میری بات۔'


زرش نے کچھ دیر سوچا اور پھر مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔


'اچھا چل اب فریش ہو کر آ جا۔'

زرش واش روم کی طرف چلی گئی اور جب واپس آئی تو عشال نے پنک کلر کا ایک ڈریس اسے دیا۔

'یہ پہن کر آ جلدی سے۔'

عشال اسے باقاعدہ ڈریسنگ روم کی طرف دھکے دے رہی تھی۔

زرش نے وہ ڈریس دیکھا تو جلدی سے اسے ڈریسنگ روم سے باہر پھینک دیا۔مطلب صاف تھا کہ زرش وہ ٹراؤزر اور شرٹ نہیں پہن رہی تھی۔

'اور جم کرنے لہنگا پہنا کر بھیجوں کیا تجھے؟حد ہے اپنے ہزبینڈ کے سامنے لڑکی ٹراؤزر شرٹ نہیں پہن سکتی اور نائٹی کیا خاک پہنے گی۔ہائے عاشی تیرے ارمان۔'


عشال نے منہ بنایا جبکہ زرش تو ڈریسنگ روم میں ہی اسکی باتیں سن کر منہ بنا رہی تھی۔


'پہن کر آ یہ لڑکی ورنہ مجھے پہنانا بھی آتا ہے۔'


عشال نے ان کپڑوں کو واپس ڈریسنگ روم میں پھینکا جواب میں زرش نے انہیں پھر سے واپس پھینک دیا تو اس بار عشال اندر جا کر کپڑے اسکے ہاتھوں میں پکڑا کر آئی۔


'دو چوائسیز ہیں تیرے پاس یا یہ کپڑے پہن یا ہزبینڈ بدلوا لے۔'


عشال نے اپنی عینک کے پیچھے سے زرش کو غصے سے گھورا تو زرش گھبرا گئی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔کچھ دیر بعد زرش وہ ٹراؤزر شرٹ پہن کر باہر آئی تو عشال نے اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح سی ٹی بجائی۔


'چل اب تو دیکھتی جا میرا کمال۔'


عشال نے اسکے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائی اسکے انکار میں سر ہلانے کے باوجود ہلکا سا میک اپ بھی کر دیا اور اس حلیے میں زرش بہت ذیادہ کیوٹ لگنے لگ گئی تھی۔


'واہ عشال بیٹا تو تو کمال ہے۔'


عشال نے اپنا فرضی کالر جھاڑا۔


'تم مجھے اپنے بال بھی کاٹنے دو نا زرا سے تو میرے جیسا ہیر کٹ تمہیں بہت زیادہ سوٹ کرے۔'


عشال نے اپنے چہرے پر موجود آوارہ لٹوں کی طرف اشارہ کیا جن کی وجہ سے عشال بہت پیاری لگتی تھی اور اس پر اسکا وہ گول سا چشمہ اسے علیحدہ ہی روپ دے دیتا تھا۔


'اچھا چل میری جان اور دیکھا دے سیاں جی کو اپنا جادو۔'


عشال زرش کو سجانے کے بعد وجدان کے پاس جانےکا کہہ کر خود بستر میں گھس گئی تو زرش اسے گھورنے لگی۔


'کیا؟ساری ساری رات جاگ کر تمہارے لیے آئیڈیاز سوچتی رہوں اور اب مجھے سونے کا بھی حق نہیں واہ کیا صلح مل رہا ہے دوستی کا۔'


عشال نے بھی اسے گھورا۔زرش منہ بنا کر باہر چلی گئی پھر گراؤنڈ فلور پر آ کر کافی دیر اس جم کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر سوچتی رہی کہ اسے اندر جانا بھی چاہیے یا نہیں۔بہت ہمت کر کے اس نے گہرا سانس لیا اور بند آنکھوں کے ساتھ دروازہ کھول کر جم کر اندر داخل ہو گئی۔ابھی وہ تھوڑا ہی آگے گئی تھی جب اسکے کانوں میں کسی کے سی ٹی بجانے کی آواز پڑی لیکن زرش نے اسے عشال ہی سمجھا اور وہاں کھڑی رہی۔


عشال تم بہت بری ہو میں تم سے بات نہیں کروں گی۔


زرش نے آنکھیں کھولے بغیر اشارہ کیا۔


'اف ایک تو یہ کمال کا حسن اوپر سے یہ قاتلانہ اشارے جان لے لیں گے میری تو۔'


زرش نے گھبرا کر فوراً آنکھیں کھول دیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی روح تک فنا ہو گئی۔وہاں وجدان تو تھا نہیں بلکہ پتہ نہیں کونسے سات یا آٹھ لڑکے تھے جو اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے ۔زرش کا دل کر رہا تھا کہ وہ یہاں سے غائب ہو جائے لیکن خوف سے اسکی ٹانگیں جم گئی تھیں۔


'ارے یار ہاتھ لگا کر دیکھ لوں حقیقت ہی ہے نا مجھے تو بلکل موم کی گڑیا لگ رہی ہے۔'


ایک آدمی نے چھچھورے پن سے کہا ۔زرش وہاں سے جانے کے لئے مڑی تو بری طرح سے کسی چٹان کی ماند شے سے ٹکرا گئی۔اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ وجدان تھا جو ان لڑکوں کو ایسے دیکھ رہا تھا کہ انہیں یہاں پر زندہ درگو کر دے گا۔وجدان نے سختی سے زرش کا بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا۔


'کیا کہا تو نے ؟'


الفاظ بولنے سے زیادہ غرائے گئے تھے۔


'بب باس وہ۔۔۔۔'


وہ لڑکا ان سبز آنکھوں میں موجود وحشت دیکھ کر سہم گیا تھا۔زرش وہاں سے جانا چاہ رہی تھی لیکن وجدان کی لوہے کی ماند گرفت سے نکلنا اسکے لئے ناممکن تھا۔


'بیوی ہے یہ میری اپنی آنکھیں اور زبان قابو میں رکھنا ورنہ انکو اکھاڑ کر اپنی دیواروں کی زینت بنا دوں گا تا کہ میری بیوی پر اٹھنے والی ہر نگاہ کو اپنا انجام معلوم ہو جائے۔'


اس غرانے پر نہ صرف وہ لڑکے بلکہ زرش بھی کانپ کر رہ گئی تھی۔وجدان غصے سے اسے کھینچ کر وہاں سے لے آیا اور لاؤنج میں لا کر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔


'کیوں گئی تھی تم وہاں؟'


زرش نے اسکے چلانے پر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور تبھی وجدان کی نظر اسکے حلیے پر پڑی۔سلیو لیس شرٹ میں سے دودھیا بازو چھلک رہے تھے جبکہ اس گلابی ٹراؤزر شرٹ اور ہلکے سے میک اپ میں وہ خود بھی دمکتا گلاب لگ رہی تھی۔


'یہ کیا پہنا ہے تم نے؟ہمت کیسے ہوئی تمہاری خود کو ایک شو پیس بنا کر ان کے سامنے جانے کی؟ '


وجدان نے اسکے قریب آ کر اسے دونوں بازؤں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔زرش اسکی آنکھوں سے نکلتے شراروں سے اتنا ڈر گئی تھی کہ بازو میں پیوست ہوتی اسکی انگلیاں وہ محسوس ہی نہیں کر رہی تھی۔


'آئندہ اگر تمہارے جسم کا ایک بھی حصہ نظر آیا یا تم نے ایسا لباس پہنا تو تمہاری کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔آئی سمجھ۔'


زرش نے سہم کر فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

جبکہ وجدان کے پورے بدن میں جلن کا احساس غصے کا لاوا بن کر گھوم رہا تھا۔وجدان نے اسکے منہ کو سختی سے دبوچا۔


'کسی اور کی نظروں کے لئے نہیں ہو تم نہ ہی کسی اور کا حق ہے تم پر اپنے آپ کو چھپا کر رکھو ورنہ تمہیں پرندے کی مانند قید کر دوں گا۔'


وجدان نے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہاں سے چلا گیا۔جبکہ زرش ابھی بھی سہم کر صوفے پر بیٹھی رو رہی تھی۔

🌈🌈🌈

سعد کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ کیا کرے۔یہ سکندر کا معاملہ اسکی زندگی میں بہت ذیادہ اہمیت رکھتا تھا۔آخر کار یہ اسکا پہلا مشن تھا لیکن اس میں ابھی تک انہیں تھوڑی سی بھی پراگریس نہیں ملی تھی اور اب تو سکندر نے مزید ایک جان لے لی تھی۔سب تو اس ڈاکٹر کی موت کو خود کشی کہہ رہے تھے لیکن کوئی کیوں کر کسی وجہ کے بغیر خود کشی کرے گا اور وہ بھی شہر سے دور سنسان جگہ ہر جا کر۔


'ارے ایجنٹ جی آ گئے آپ اچھا ہوا مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔'

عشال نے اسکے پاس آ کر نئی ہی فرمائش کی تھی۔

'تمہیں پتہ ہے تمہارے اس سکندر نے یہاں اس شہر میں ایک آدمی کو مار ڈالا اور تم ایسے حالات میں باہر جانے کی بات کر رہی ہو بلکل بھی نہیں۔'

سعد نے صاف سیدھا انکار کیا۔عشال نے منہ بسور لیا۔

'ضروری ہے جانا پلیز۔'

عشال نے بہت پیار سے کہا۔

'نو۔۔۔۔' عشال کو پل بھر میں غصہ آیا


'اوکے فائن نہیں جاتی میں باہر آپ جائیں اور یہ چیزیں لے کر آئیں اور اگر ایک بھی پروڈکٹ ، کلر یا کوالٹی کا ردو بدل ہوا نا تو واپس جا کے اسے چینج بھی کروا کر لائیں گے۔'


عشال نے جلدی سے ایک لسٹ بنا کر سعد کے ہاتھ میں تھاما دی۔جس میں ایسی ایسی میک اپ کی چیزوں کے نام تھے جو سعد شاید پہلی مرتبہ پڑھ رہا تھا


'تم انکا کیا کرو گی میں نے تو تمہیں اتنا میک اپ لگاتے نہیں دیکھا۔'


عشال نے اس بات پر اپنا منہ کھولا۔


'اسکا مطلب آپ مجھے اتنے غور سے دیکھتے ہیں اپنی اکھیوں کو زرا سا کنٹرول میں رکھیں ایجنٹ جی۔عشال اسکو تاڑنے والوں کی آنکھیں نکال لیتی ہے'


عشال نے سختی سے کہا۔


'اور رہی بات اس میک اپ کی تو یہ میں آپکے دوست کی زندگی سنوانے کے منصوبے بنا رہی ہوں۔پتہ نہیں کب کونسا کامیاب ہو جائے۔ویسے بھی اس انسان کی بلکل بھی سمجھ نہیں آتی مجھے کہ چاہتا کیا ہے؟'


عشال نے منہ بنا کر کہا۔


'اب یاد سے لے آئیں چیزیں اور ہلکا سا بھی فرق ہوا تو واپس بھیج دوں گی۔'


عشال اپنی چھوٹی سی انگلی دیکھا کر وارن کرتے ہوئے اندر چلی گئی ۔جبکہ سعد الجھن سے ہاتھ میں موجود اس لسٹ کو دیکھ رہا تھا۔


'کہاں پھس گیا تو سعد جانی اس سے بہتر تو افغانستان تھا۔'


سعد نے کوفت سے کہا مگر پھر عشال کو یاد کر کے خود ہی ہنس دیا۔

🌈🌈🌈

آر بی غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔اتنے دن سلمان صاحب کو ٹارچر کرنے کے بعد بھی انہوں نے زرش کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔فاطمہ بیگم کی حالت تو اس قدر خراب ہو گئی تھی کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑا۔مگر سلمان صاحب اب اپنی بیوی کے بنا تنہا ہو گئے تھے اور وہ معذور انسان تکلیفوں کے باعث مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا لیکن پھر بھی سلمان صاحب نے زرش کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔


'کچھ پتہ چلا؟'


آر بی نے غصے سے فیض سے پوچھا۔


'نہیں سر ابھی تک تو کچھ پتہ نہیں لگا پائے ہم اس لڑکی کے بارے میں مگر ہمارے آدمی ہر جگہ پر ہیں اس کی ایک جھلک ملتے ہی اسکو ٹریس کر لیا جائے گا۔آر بی نے ہاں میں سر ہلایا۔


'کیسے بھی وہ جلد از جلد مجھے اپنے پاس چاہیے فیض۔کیسے بھی۔'


'سر وہ مجھے لگا تھا کہ اس شایان شاہ کو سلمان کی غیر موجودگی کا شک ہو گیا ہے۔اس لئے میں نے سلمان کے سامنے اسکی بیوی کے سر پر بندوق رکھ کر شایان سے اسکی بات کروا دی تا کہ اسے یہ لگے کہ سب ٹھیک ہے۔'


فیض نے بتانا ضروری سمجھا۔


'ہمم صیح کیا لیکن دیکھ لینا اس شایان شاہ کو کوئی عام میجر مت سمجھنا بہت ذیادہ شاطر چیز ہے۔'


آر بی نے اسے وارن کیا۔


'جی سر ۔'


فیض نے اثبات میں سر ہلایا اور آر بی کے اشارہ کرنے پر وہاں سے چلا گیا۔


'تمہیں تو میں پا کر ہی لوں گا میرے سنہرے پھول۔جنون ہو تم آر بی کا اور اس جنون کی آگ کو دنیا کی کوئی لڑکی بھی ٹھنڈک نہیں بخش سکتی۔تمہیں میرے پاس آنا ہی ہو گا کیونکہ میں ہی تمہاری زیست کی منزل ہوں۔'


آر بی زرش کے خیالی وجود سے اتنا کہہ کر مسکرانے لگا۔معصوم چڑیا کو ایک بھیڑیا قید کرنے کے لیے بے تاب تھا۔

🌈🌈🌈

وجدان ہر طرف سے ایک پراسرار دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ایک طرف وہ سکندر تھا جو اس مرتبہ ایک ڈاکٹر کی جان لے چکا تھا اور دوسری طرف وہ لڑکی جس نے وجدان کی زندگی عزاب کی ہوئی تھی۔وجدان اس سے جلد از جلد جان چھڑوانا چاہتا تھا اور وہ ایسا کر بھی دیتا اگر معاملہ شایان شاہ کا نہیں ہوتا تو۔


وجدان سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر کیوں وہ لڑکی بار بار اسکے قریب آنے کی کوشش کرتی ہے۔نہ جانے کتنی ہی بار وجدان اسے دھتکار چکا تھا لیکن وہ پھر بھی اسکے آس پاس رہنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی۔اور یہ بات وجدان کو بے چینی میں مبتلا کر رہی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی یہ کوشیشیں بے کار ہیں۔وجدان کو محبت نام کے جزبے سے ہی نفرت تھی اور زرش بس ایک پتھر سے سر پھوڑ رہی تھی اب یہ دیکھنا باقی تھا کہ وہ کب اپنا پھٹا ہوا سر تھام کر ہمت ہارتی ہے۔


وجدان تقریباً رات کے 1 بجے گھر میں داخل ہوا تو اسکی نظر صوفے پر سوئے ہوئے اس نازک سے وجود پر پڑی جواس ٹھٹھرتی سردی میں بھی کسی لحاف کے بغیر وہاں سو رہی تھی۔وجدان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اسے اس لڑکی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پہلے بھی اپنی صبح والی حرکت کو لے کر وہ حیران تھا کہ کیوں وہ اس لڑکی کو لے کر اس قدر پوزیسیسو ہو گیا تھا۔ وجدان خاموشی سے وہاں سے جانے لگا لیکن تبھی زرش کی آنکھ کھلی اور اس نے وجدان کو اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔


کیا مجھے ان سے بات کرنی چاہئے؟اگر انہیں صبح کی طرح برا لگ گیا تو؟ نہیں میں انہیں غصہ نہیں دلاؤں گی اب۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن عشال نے تو کہا تھا کہ مجھے انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلانا ہے آخر میں بیوی ہوں انکی۔تو پھر جاؤں کیا ان سے بات کرنے؟


بہت سوچ و بچار کرنے کے بعد زرش اٹھ کر وجدان کے کمرے کی طرف چل دی۔اس نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ اپنے آپ کھل گیا۔زرش نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔اچانک سے واش روم کا دروازہ کھلا اور وجدان شرٹ کے بغیر کمرے میں داخل ہوا۔زرش کی نگاہ جیسے ہی اسکی چوڑی چھاتی پر پڑی وہ جلدی سے پلٹ کر دروازے کی طرف جانے لگی جبکہ اس پر نظر پڑھتے ہی وجدان کا پارہ ہائی ہوا تھا۔


'رکو۔۔۔۔۔'


وجدان کی آواز پر زرش رک گئی تھی لیکن پلٹی نہیں۔وجدان خودی چل کر زرش کے سامنے آیا اور اب وہ اسکی زور سے میچی ہوئی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔


'کیوں آئی ہو تم یہاں؟'


وجدان نے غصے سے اپنے دانت پیس کر پوچھا۔جبکہ اسکی غصہ سے بھری آواز سن کر زرش کی روح تک کانپ گئی تھی۔


آپ کو کھانے کا پوچھنے آئی تھی۔


زرش نے آنکھیں کھولے بغیر ہی اشارہ کیا تھا۔


'اور کس نے کہا تمہیں ایسے کرنے کو؟'


'جواب دو۔'


زرش سے کوئی جواب نہ پا کر وجدان نے سختی سے کہا تو زرش نے اپنی آنکھوں کو مزید زور سے بند کر لیا۔


بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کا خیال رکھے۔


زرش نے بہت آہستہ سے اشارہ کیا۔


'او اچھا یعنی بیوی کے فرائض بخوبی سمجھتی ہو تم۔'


زرش نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔اچانک ہی وجدان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا۔زرش نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔سبز آنکھیں کانچ سی بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔

وجدان اس لڑکی کو ڈرانا چاہتا تھا۔خود سے دور کرنا چاہتا۔اسی لیے اس نے اسے سختی سے اپنے مزید قریب کیا۔


'اگر ابھی اور اسی وقت اپنا حق حاصل کرنا چاہوں تو؟'


زرش نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ تو حیرت سے آنکھیں کھولے اسکا بدلا ہوا روپ دیکھ رہی تھی۔وجدان کی نظر اسکے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر پڑی تو اس نے مزید کچھ سوچے بغیر اپنا جائز حق استمال کرتے ہوئے بہت شدت سے اسکی سانسیں اپنی سانسوں میں اتاریں۔۔۔۔ زرش جو اس حملے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی اس کی اس حرکت پر تڑپ کر رہ گئی۔۔۔


وجدان تو اسے سزا دینا چاہتا تھا خود سے دور کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی قربت ملتے ہی وہ خود کو بھول چکا تھا ۔کچھ دیر بعد غصے سے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخش کر وجدان اسکے چہرے پر آئے خوف کے سائے دیکھنے لگا۔ایک دلفریب مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔وہ اسے ڈرانے میں کامیاب ہوا تھا۔


مگر پھر اسکی نظر ان کانچ سی آنکھوں میں موجود آنسوؤں پر گئی۔جہاں پر بے انتہا خوف تھا ۔اس خوف نے وجدان کو پریشان کر دیا۔


'نور۔۔۔۔۔'


وجدان نے انتہائی نرمی سے اسکے کندھوں کو تھاما زرش تڑپ کر اس سے دور ہوئی اور اپنا کندھا پکڑ کر رونے لگی ایسے جیسے وجدان کے لمس نے اسے بہت تکلیف دی ہو۔وجدان کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو وہ سہم کر دیوار کے ساتھ لگی زرش کے پاس آیا اور اپنا ایک ہاتھ اسکے سر کے پاس دیوار پر رکھا۔


'کیا ہوا؟ اپنی آنکھوں میں اس خوف کی وجہ بتاؤ مجھے؟کس نے تکلیف پہنچائی تھی تمہیں؟'


زرش وہاں سے غائب ہونا چاہ رہی تھی لیکن وجدان کی پکڑ سے نکلنا ناممکن تھا اسی لئے وہ سر جھکا کر رونے لگی۔وجدان نے پھر سے اسکا کندھا تھامنا چاہا تو زرش نے خوف سے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور زارو قطار رونے لگی۔


'بتاؤ مجھے۔'


وجدان نے حکم دیا لیکن پھر خود ہی اچانک سے زرش کی شرٹ کو کندھے سے ہٹایا تو اسکی نظر اسکے کندھے پر موجود جلے ہوئے نشان پر پڑی ۔RB صرف دو ہندسے تھے اور وہ ہندسے زرش کے کندھے پر داغے گئے تھے۔وجدان نے غصے سے اپنا ہاتھ بہت زور سے دیوار میں مارا۔


'کس نے کیا یہ؟بولو کس نے تمہیں تکلیف پہنچائی؟'


وجدان نے تڑپ کر پوچھا لیکن زرش ابھی بھی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی۔


'جس نے بھی تمہیں تکلیف دی ہے اسکی زندگی جہنم بنا دوں گا۔۔۔۔موت مانگے گا وہ لیکن اسے موت بھی نصیب نہیں ہو گی۔۔۔۔۔جتنی تکلیف تم نے سہی ہے نا اس سے دس گناہ ذیادہ تکلیف ہر روز سہے گا وہ شخص۔۔۔۔۔وعدہ ہے یہ خان کا۔۔۔'


وجدان نے زرش کے کان میں سرگوشی کی اور پھر اس سے دور ہو گیا۔


چلی جاؤ یہاں سے نور فوراً چلی جاؤ اور اب میرے سامنے غلطی سے بھی مت آنا ورنہ یہ غصہ سب جلا دے گا۔'


وجدان کے ایسا کہتے ہی زرش روتے ہوئے جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی۔اسنے تو ایک مرتبہ مڑ کر بھی پیچھے نہیں دیکھا تھا۔

🌈🌈🌈🌈


(ماضی)


سکندر ،رومان اور شاہانہ الفاظ کی موت سے بلکل ٹوٹ گئے تھے۔اس سب پر الفاظ کی تمام پراپرٹی ڈوب چکی تھی کچھ بھی نہیں بچا تھا ان لوگوں کے پاس۔سکندر کی آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت عجیب سا غم تھا جو کہ ایک نو سالہ بچے کی آنکھوں میں نہیں ہونا چاہئے۔لیکن اس بچے نے ان آنکھوں سے اپنے باپ کی موت دیکھی تھی۔


شاہانہ کے سب سے چھوٹے بھائی نے اسے اپنے گھر میں رکھ لیا تھا۔اس نے تو شاہانہ سے کہا تھا کہ انہیں فکر کرنے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے وہ ان کا بہت ذیادہ خیال رکھے گا۔مگر انہیں حوصلہ کہاں سے آتا ۔ان کا تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔سب کچھ۔


ایک رات اسی طرح شاہانہ اپنے دونوں بچوں کو خود سے لگائے بیٹھی تھیں جب انکا بھائی بھاگتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔


'شاہانہ بھاگ جاؤ جلدی کرو وہ لوگ سکندر کو مارنے آئے ہیں جاؤ یہاں سے جلدی۔'


شاہانہ کے بھائی نے ہڑبڑی میں کہا تو شاہانہ نے کانپتے ہاتھوں سے سکندر کو اپنے ساتھ لگایا۔


'ماما آپ سکندر کو لے کے جاؤ میں ماموں کے ساتھ جاتا ہوں۔'


چودہ سالہ رومان اتنا کہہ کر باہر کی طرف بھاگنے لگا۔


'نن نہیں رومان۔۔۔'


مگر تب تک رومان وہاں سے جا چکا تھا ۔کچھ ہی دیر بعد شاہانہ کو گولیوں کی آواز کے ساتھ رومان کی چیخیں بھی سنائی دیں۔شاہانہ اور سکندر بھاگ کر کمرے سے باہر نکلے تو ان کی نظر رومان پر پڑی جو خون سے لت پت سیڑھیوں پر پڑا تھا۔سکندر نے رومان کے پاس جانا چاہا تو شاہانہ نے اسے واپس اپنے پاس کھینچ لیا۔


'وہ رہے وہ دونوں۔۔۔۔'


ایک آدمی نے چلا کر کہا تو شاہانہ نے سکندر کو اپنے ساتھ لپٹایا اور پچھلے دروازے سے بھاگ گئیں۔وہ اپنے شوہر کو تو کھو چکی تھیں اب انکی نشانی کو بھی نہیں کھونا چاہتی تھیں۔


وہ کسی بھی شے کی پرواہ کیے بغیر بھاگتی رہی تھیں۔اپنی اور اپنے بیٹے کی حفاظت کی دعائیں مانگتی رہی تھیں ۔لیکن پھر بھی وہ شیطان ان دونوں کو پکڑ کر قید کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔


شاہانہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ سکندر کو اپنے اندر چھپا لیں تا کہ اسے کوئی کچھ نہ کر پائے مگر ایسا ناممکن تھا۔جب وہ شیطان کمرے میں آیا تو شاہانہ نے سکندر کو خود میں بھینچ لیا۔

'ارے ارے شاہانہ جی پریشان مت ہوں ایسے نہیں مار سکتا آپکے بیٹے کو پہلے ہی الفاظ صاحب کے وکیل کی وجہ سے انکی موت کا شک مجھ پر آ رہا ہے اب اگر انکے بیٹے کو بھی گولی مار دوں گا نا تو وہ شک تو یقین میں بدل جائے گا اس لیے میں نے کچھ اور سوچا ہے۔'

شیراش مکرو سی ہنسی ہنسنے لگا۔

'کیا ملے گا تمہیں یہ سب کر کے پلیز میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔خدا کے لئے۔'

شاہانہ نے زارو قطار روتے ہوئے سکندر کو اپنے سینے میں بھینچا تھا۔

'یہ غلطی تو بلکل نہیں کرنی چاہئے شاہانہ بی بی بڑا ہو کر یہی لڑکا میرا سر کچلنے پہنچ جائے گا ایسا نہیں ہونے دوں گا میں اور ویسے بھی اگر ہم اتنا سب سوچنے لگ جائیں گے تو ترقی کہاں سے کریں گے ذیادہ دولت اور سکون کے لئے ذیادہ محنت بھی تو کرنی پڑتی ہے۔کاش الفاظ نے میری بات مانی ہوتی لیکن اسے ملک عزیز تھا۔'


شیراز نے افسوس سے سر جھٹکا ۔


'دیکھ لیا بچے سچائی اور انصاف کی راہ پر چلنے کا انجام۔ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔'


شیراز نے سکندر کو کھینچ کر شاہانہ سے جدا کیا۔شاہانہ نے سکندر کو پکڑنے کی کوشش کی تو شیراز نے سکندر کو چھوڑ کر شاہانہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔


'سکندر اب تم ایک کام کرو گے۔کل ہماری اپوزیشن پارٹی ریلی نکالے گی ہمارے خلاف اور میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔اس لئے تمہیں ہم صرف ایک جیکٹ پہنائیں گے اور تمہیں اس ریلی میں جا کر کھڑے ہونا ہے بس۔'


شیراز کی بات سمجھ کر شاہانہ بری طرح سے تڑپنے لگیں۔


'ننن۔۔۔نہیں۔۔۔سکندر نہیں۔'


سکندر نے بے بسی سے اپنی ماں کو دیکھا۔


'اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں تمہاری ماں کو بھی مار دوں گا۔'


شیراز نے شاہانہ کو سختی سے پکڑ کر کہا تو وہ بہادر سا بچہ خوف سے کانپنے لگا۔


'ننہیں میری مما کو چھوڑ دو میں کچھ بھی کروں گا۔'


سکندر نے زارو قطار روتے ہوئے کہا جبکہ اسے اس طرح سے روتے ہوئے،ان مردودوں کی بات مانتا دیکھ شاہانہ غصے میں آ گئی۔


'نہیں سکندر کبھی بھی کسی سے مت ڈرنا کسی کے سامنے بھی گھٹنے مت ٹیکنا کمزور مت بنو میرے بچے مت بنوں۔'


شاہانہ نے بری طرح سے روتے ہوئے کہا۔


'گھٹنوں پر بیٹھو بچے اور پھر کہو کہ میری بات مانو گے۔'

سلمان صاحب نہیں جانتے تھے کہ وہ کتنی دیر کے بعد ہوش کی دنیا میں واپس آئے تھے نہ ہی وہ یہ جانتے تھے کہ اس اندھیرے میں قید ہوئے انہیں کتنا عرصہ بیت گیا ہے۔وہ بس اپنے جسم میں اٹھنے والی بے حساب تکلیفوں اور ان کے پاس زمین پر پڑی فاطمہ بیگم کی سسکیوں کے بارے میں جانتے تھے۔وہ لوگ بس صبح شام انہیں کھانا دینے کے لیے ہی آتے تھے یا پھر کبھی کبھار شایان سے بات کروانے کے لیے۔


سلمان صاحب شایان کو کوئی اشارہ دینا چاہتے تھے لیکن فاطمہ بیگم کی زندگی بچانے کے لیے وہ ان لوگوں کے اشاروں پر ناچتے اور انہیں کی کہی ہوئی باتیں شایان کو بتا دیتے۔

وہ نہیں جانتے تھے کہ اب اس اندھیری قید سے وہ کیسے باہر نکلیں گے۔


'فاطمہ۔۔۔۔۔۔فاطمہ۔۔۔۔۔'


سلمان صاحب نے فاطمہ بیگم کو پکارا تو انہوں نے بہت مشکل سے اپنا سر اٹھا کر سلمان صاحب کو دیکھا۔


'مجھے معاف کر دو فاطمہ۔۔۔۔میں ہمیشہ سے ایک برا شوہر تھا۔۔۔۔۔اور ابھی بھی تمہارے لیے کچھ نہیں کر پا رہا۔'


سلمان صاحب نے زارو قطار روتے ہوئے کہا۔فاطمہ بیگم نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔


'آپ نے ہماری زری کو۔۔۔۔اس۔۔۔۔اس شیطان کے پاس آنے سے بچانے۔۔۔۔۔ کے لیے اتنا کچھ کیا۔۔۔۔۔۔میرے لئے وہی کافی ہے۔۔۔۔۔'


فاطمہ بیگم نے اتنا ہی کہا اور پھر سے تکلیف کے باعث بے ہوش ہو گئیں۔انہیں اس حال میں دیکھ کر سلمان صاحب زارو قطار رونےلگے۔


'یا اللہ حفاظت کرنا میری معصوم بیٹی کی حفاظت کرنا اس درندے کے ہاتھ نہ لگے وہ۔۔۔۔۔کبھی بھی نہ لگے۔۔۔'


سلمان صاحب روتے ہوئے دعا مانگ رہے تھے اور اپنے آپ کو حد سے ذیادہ بے بس محسوس کر رہے تھے۔


🌈🌈🌈

اس دن کے واقعے کے بعد زرش اور وجدان کا سامنہ نہیں ہوا تھا۔زرش کئی کئی گھنٹے اکیلے میں بیٹھ کر اس لمحے اور وجدان کی قربت کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ایک مرد کے قریب جانے کا سوچ کر ہی اس کالی رات کے سائے زرش کی یادوں پر قابض ہو جاتے تھے۔لیکن وجدان تو اس شیطان کی طرح نہیں تھا ۔وہ تو اسکا شوہر،اسکا محافظ اور مسیحا تھا۔اسکا قریب آنا تو برا نہیں لگنا چاہیے تھا نا۔مگر وجدان نے وہ نشان دیکھ لیا تھا اور اس نشان کو دیکھ کر اتنا ذیادہ غصہ بھی تو کیا تھا۔تو کیا اب وہ بھی زرش سے نفرت کرنے لگا تھا اسکا کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود اسے ہی برا سمجھنے لگا تھا۔


'بوم۔۔۔۔۔۔۔'


اپنے پیچھے سے اچانک سے یہ آواز سن کر زرش بری طرح سے ڈر گئی تھی جبکہ عشال اب قہقہہ لگا کر ہنس رہی تھی۔


'بہادر بنوں لیٹل ڈال ۔کمزور لڑکیوں کو یہ دنیا بہت آسانی سے نگل جاتی ہے۔'


عشال نے ہنستے ہوئے اسکے بال بکھیرے تھے۔


'اور تمہارا موڈ کیوں آف ہے؟ لگتا ہے سیاں جی کے ساتھ ملاقات کچھ اچھی نہیں رہی کل رات۔'


عشال مسکراتے ہوئے اسکے پاس بیٹھی ۔جبکہ وجدان کا ذکر سنتے ہی زرش پھر سے پریشان ہو گئی تھی۔وہ نشان دیکھ کر تو وجدان ضرور اس سے نفرت کرتا ہو گا۔وجدان نے تو کبھی سامنے نہ آنے کا بھی کہہ دیا تھا۔


' ارے ایسا کیا کر دیا سیاں جی نے کہ تمہاری بولتی بلکل ہی بند ہو گئی ہے۔'


شال نے ایک آنکھ دبا کر اسکے کندھے سے کندھا مارا تو زرش نے گھبرا کر جلدی سے اپنا رخ عشال کی طرف کیا۔


کچھ نہیں بس مجھے ماما کی بہت زیادہ یاد آ رہی ہے۔


زرش نے نم آنکھوں سے ایک بہانہ بنایا۔حالانکہ ابھی کل ہی تو جانان نے اسے بتایا تھا کہ سلمان صاحب اور فاطمہ بیگم اسلام آباد ہیں اور کام میں مصروف ہیں۔زرش کو کافی غصہ بھی آیا تھا کہ ایسی کیا مصروفیات کہ وہ شایان کے علاوہ کسی سے بات ہی نہیں کرتے۔


'تم جھوٹ بول رہی ہو ڈال تمہارے چہرے سے دکھتا ہے اب فٹافٹ سچ بتاؤ مجھے۔'


عشال نے حکمیہ انداز میں کہا تو زرش کے آنسوؤں میں روانی آ گئی۔


وجدان جی کو شاید پتہ چل گیا ہے اور انہیں بھی لگتا ہے کہ میں بری لڑکی ہوں۔


اشارہ کرتے ہوئے زرش کی پلکیں بھیگ گئیں۔


'اس نے تمہیں ایسا کچھ کہا؟'


عشال نے سنجیدگی سے پوچھا تو زرش نے کافی دیر سوچ کر انکار میں سر ہلایا اور وجدان کی کہی ہوئی ساری بات عشال کو بتا دی۔


'فکر ناٹ ڈولی وہ تم پر نہیں اس درندے پر غصہ ہے اور یہ تو بہت زیادہ اچھی بات ہے۔واہ لگتا ہے بنگالی بابا عشال کا محبوب آپکے قدموں میں والا طریقہ کار آمد ثابت ہو رہا ہے ہمیں کچھ اور بھی کرنا پڑے گا۔'


عشال نے پرجوشی سے کہا اور اپنی چھوٹی سی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی۔زرش کو بھی اسکی بات سن کر حوصلہ ہوا تھا۔


'آئیڈیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پرسوں تم دونوں کے نکاح کو ایک مہینہ پورا ہو جائے گا۔ایک سرپرائز پلین کرتے ہیں تمہارے سیاں جی کے لیے اور ہو سکے تو اپنے دل میں چھپی باتیں انہیں بتا دو۔'


عشال بہت ذیادہ پر جوشی سے بولی جبکہ زرش کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔


کیسے؟


زرش کے پوچھنے پر عشال پھر سوچ میں پڑھ گئی۔


'پرانے طریقے سے یار ۔۔۔۔ تم نا بس ایک پیار بھرا خط لکھو اور اپنے دل کا حال بیان کر دو اس میں۔پھر ڈیکوریشن کا ذمہ میرا اور اپنے شوہر کے دل میں اترنے کا ذمہ تمہارا۔'


عشال نے مسکراتے ہوئے اسکی چھوٹی سی ناک کو کھینچا تھا۔


مگر وہ میں کیسے کروں گی؟


زرش نے منہ بنا کر اشارہ کیا۔


'ڈونٹ وری ڈال تمہیں اتنا خوبصورت تیار کروں گی نا کہ تمہیں ضرورت ہی نہیں پڑے گی کچھ کرنے گی۔پھر جو بھی کرنا ہے وہ سیاں جی کریں گے۔'


عشال کی بات پر زرش کے چہرے پر حیا کی لالی بکھر گئی تھی۔ہاں وہ اپنے سنگ دل محبوب کے قریب ہونے کی ایک اور کوشش کرنا چاہتی تھی اور تو اور اس کوشش میں کامیاب ہو کر اسکے دل میں بھی اترنا چاہتی تھی۔زرش نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا کر کے ہی دم لے گی۔

🌈🌈🌈🌈

سعد کی نظر ان فائلز پر تھی جو سکندر کے بارے میں میں اس نے جوڑی تھیں۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اس قدر شاطر کیسے ہو سکتا ہے۔اگر سعد اور وجدان سکندر کے اگلے شکار کے بارے میں کچھ جانتے ہوتے تو اسے پھنسانے کا کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کر ہی لیتے۔لیکن سکندر کا اگلا شکار کون ہو گا یہ سکندر کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا خود وہ شکار بھی نہیں۔ایک اور بات تھی جو سعد کو اضطراب میں ڈال رہی تھی۔سکندر کی سبز آنکھیں۔کیا ایسا ممکن تھا کہ وجدان ہی سکندر ہے جیسے اس نے شایان کو دارا بنایا تھا وہ خود بھی ایسا ہی کچھ بن چکا ہو؟ نا جانے کیوں سعد نہیں چاہتا تھا کہ اسکا یہ شک سچ ثابت ہو۔


'نہیں وجدان کچھ بھی ہو جائے تم سکندر مت ہونا۔وہ دہشت گرد مانا جا رہا ہے بہت برا حال ہو گا تمہارا میرے دوست'


سعد نے خود میں ہی کہا۔اچانک سے دروازہ بجنے کی آواز پر سعد اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور گہرا سانس لے کر اپنی ساری چیزیں سمیٹنے لگا۔


'آجاؤ۔'


ہر چیز ہٹا کر اس نے کہا تو عشال کافی کا ایک مگ لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔


'کافی ایجنٹ جی مجھے لگا آپ تھک گئے ہوں گے اس لئے میں آپ کی تھکاوٹ کی دوا لے آئی۔'


عشال نے بہت زیادہ نرمی سے کہا اور اسکا یہ لہجہ سعد کو کسی گڑبڑ کے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔


'اس نوازش اور تمہارے اسطرح تمیز کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹانے کی وجہ جان سکتا ہوں؟'


سعد کی بات پر عشال نے اپنی مٹھیاں کسیں لیکن چہرے کی معصومیت کو کم نہیں ہونے دیا۔


'کچھ خاص نہیں ایجنٹ جی بس ایک چھوٹا سا فیور چاہیے۔'


عشال سیدھا مدے پر آئی۔


'میں پھر سے میک اپ نہیں لا رہا۔'


سعد کو وہ پچھلا کام یاد آیا تو اس نے غصے سے کہا۔گھنٹوں مارکٹ میں گھومنا اور پاگلوں کی طرح لڑکیوں کی چیزیں دیکھنا سعد کو کہاں بھولا تھا۔


'ارے نہیں نہیں ایجنٹ جی آپ بلکل فکر مت کریں بہت ہی ذیادہ آسان کام ہے۔'


عشال نے بہت نرمی سے کہا تو سعد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


'کل سارا دن آپ کو اپنے اس سڑیل دوست کو گھر سے دور رکھنا ہو گا اور رات کو اس کے آنے کے بعد ہم دونوں کو گھر سے دور جانا ہو گا سمپل۔'


عشال نے مزے سے کہتے ہوئے کافی کا مگ سعد کی طرف کیا۔


'پہلی بات مشکل ہے سوچا جا سکتا ہے اس کے بارے میں لیکن دوسری بات ناممکن میں اس طرح سے تمہیں بلا وجہ خطرے میں نہیں ڈال سکتا آصف انکل کو کیا جواب دوں گا۔'


سعد نے صاف سیدھی طرح سے انکار کیا۔


'ارے میری فکر چھوڑیں آپ سکندر بھائی صاحب تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ڈر کے مارے کسی اور شہر میں چلی گئی ہوں اور یہ سب بلا وجہ نہیں ہے یار میری بات سمجھیں نا۔'


عشال نے بے چینی سے کہا۔


'بلکل نہیں۔'


'یار کیا مسئلہ ہے آپ نہیں چاہتے کہ آپکا فرینڈ تھوڑا سدھر جائے اپنی بیوی پر دھیان دے کر خود بھی خوش رہے اور اسے بھی خوش رکھے؟'


عشال نے اپنی ایڑھیوں پر کھڑے ہو کر سعد کو گھور کر کہا۔


'چاہتا ہوں لیکن میں اپنے دوست کو جانتا ہوں اس لیے کوئی ضرورت نہیں۔'


سعد نے پھر سے انکار کیا۔


'کیا یار ہم انہیں تنہائی میں وقت ہی نہیں دیں گے تو کیا خاک آپکا دوست زری کے پاس جائے گا اسے اپنی محبت جتائے گا اس کے لیے انہیں تنہائی اور خوبصورت سا ماحول دینا پڑے گا تا کہ وہ دونوں۔۔۔۔۔'


عشال اپنی بے باکی میں بہت کچھ بول چکی تھی اور اسکا اندازہ ہوتے ہی اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور دہکتے گالوں کے ساتھ سعد کی طرف اپنی پیٹھ کر لی۔


'مجھے تم بے وقوف لگتی تھی لیکن میں غلط تھا لڑکی تم بے وقوف نہیں ہو۔'


سعد نے کافی نرمی سے کہا تو عشال مڑ کر اسے خوشگوار حیرت سے دیکھنے لگی۔


'بلکہ اول درجے کی بے حیا لڑکی ہو کم از کم اپنا یہ منہ کھولنے سے پہلے چار ہزار مرتبہ سوچا کرو۔'


سعد وہاں سے مڑ کر جانے لگا۔

'اچھا اچھا سوری نا پلیز اب ایسا نہیں کرتی آپ پلیز صرف ایک دفعہ میری بات مان لیں اس کے بعد نہ تو کبھی پریشان کروں گی اور نہ ہی کبھی زیادہ بولوں گی پلیز۔'

عشال نے منتیں کرتے ہوئے اپنے ہاتھ بھی جوڑ دیے۔سعد نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔

'نو سوری۔۔۔'

سعد پھر سے جانے کے لئے مڑا ۔

'ٹھیک ہے پھر میں آپکے دوست کو بتا دیتی ہوں کہ آپ سوچتے ہیں کہ سکندر وہ ہے اور دعا بھی کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کیونکہ آپکا انکی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔'


عشال نے اپنا سب سے قیمتی پتہ بھی پھینک دیا جو کہ اسکے کام بھی آیا تھا۔


'تمہیں کیسے پتہ۔۔۔؟'


'ابھی دروازے کے پیچھے کھڑے ہو کر سنا کان تیز ہیں میرے۔'


عشال نے کافی فخر سے کہا۔سعد نے ایک گہرا سانس لیا۔


'ٹھیک ہے پھر کچھ الٹا ہوا تو اسکی زمہ دار تم ہو گی۔'


عشال نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔سعد نے غصے سے اس پٹاخہ کو گھورا اور وہاں سے چلا گیا۔


'اب آیا نا ایجنٹ پہاڑ کے نیچے۔'


عشال مسکرا کر کہتی زرش کے کمرے کی طرف چل دی۔اب اسے بہت سی تیاریاں کرنی تھیں۔

🌈🌈🌈

(ماضی)

ہاشم اپنے سب سے اچھے دوست میجر منور سے ملنے آیا تھا جسکی ڈیوٹی انہیں کے ایک ایریا میں الیکشن کمپین پر نکلنے والی عوام کی حفاظت پر لگی تھی۔ہاشم کو اس سب میں کوئی دلچسپی تو نہیں تھی مگر میجر منور اسکا بہت اچھا دوست تھا اور ہاشم کا مقصد صرف اس سے ملنا تھا۔


'اچھا تم زرا یہ سیاسی تقریریں وغیرہ اینجوائے کرو میں سیکیورٹی کے انتظامات پر نظر ثانی کر لوں۔'


میجر منور کے کہنے پر ہاشم نے برا سا منہ بنا لیا۔


'تمہیں پتہ ہے کہ مجھے اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔'


ہاشم نے بے زاری سے کہا۔


'بس پانچ منٹ۔'


میجر منور اتنا کہہ کر جا چکا تھا۔ہاشم کافی دیر ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر اچانک اسکی نظر ایک نو یا دس سالہ بچے پر پڑی جو گرمی کے موسم میں بھی ایک جیکٹ پہنے ہوئے تھا اور ایک مردے کی ماند اس ہجوم کی طرف چلتا آ رہا تھا لیکن پھر اپنا ارادہ بدل کر بلکل ہی مخالف سمت کی طرف چل دیا۔


ہاشم کو یہ بہت عجیب لگا تھا اسی لیے وہ اس بچے کے پیچھے جانے لگا جو اب ایک سنسان سے اجاڑ گھر کی طرف جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جیکٹ اتار رہا تھا۔ہاشم کی نظر اسکے جسم پر بندھے بم پر پڑی تو وہ بنا کچھ سوچے سمجھے اس بچے کی طرف لپکا اور اسے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور اس بم کو دیکھنے لگا۔جو صرف چار منٹ میں پھٹنے والا تھا۔


'آپ یہاں سے چلیں جائیں ورنہ آپ بھی مر جائیں گے۔'


بچے نے انتہائی سپاٹ انداز میں کہا تھا۔مگر ہاشم کا سارا دھیان اس بم ہر تھا۔اسے ان چیزوں کا بلکل بھی علم نہیں تھا ۔اس نے سوچا کہ جا کر منور کو بلا لائے لیکن بچے کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔


'اپنی جان کی پروا نہیں تمہیں۔'


ہاشم نے پریشانی سے پوچھا۔


'نہیں میں مرنا چاہتا ہوں۔'


وہ ہاشم کو کہیں سے بھی ایک بچہ نہیں لگ رہا تھا۔


'مرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں حرام کی موت ہے۔کم از کم حلال کی موت تو مرنا۔'


ہاشم نے غصے سے کہا اور پھر سے بم کو دیکھنے لگا وقت بہت کم رہ چکا تھا۔


ہاشم کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے اپنے گلے میں چین کے ساتھ موجود بلیڈ سے جیکٹ کو کمر کی طرف سے کاٹ دیا اور اسے اس بچے سے جدا کر کے اس بلڈنگ کی طرف پھینکا اور بچے کو اٹھا کر وہاں سے بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف آ گیا۔کچھ دیر بعد اس بلڈنگ میں زور دار دھماکہ ہوا جس سے بہت زیادہ بھگدڑ مچ گئی۔لیکن ہاشم اس بچے کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر وہاں سے جا چکا تھا۔

'نام کیا ہے تمہارا؟'

تھوڑی دور جا کر ہاشم نے اپنی بھاگتی ہوئی دھڑکنوں کو قابو میں کر کے پوچھا لیکن مقابل نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

'بیٹا پلیز بتاؤ مجھے کہ نام کیا ہے تمہارا۔'

ہاشم نے پریشانی سے اس بچے کو دیکھا جو کہ اسے دماغی طور پر درست نہیں لگ رہا تھا۔

'کوئی نام نہیں ہے میرا۔'


لہجہ ہر قسم کے جزبات سے عاری تھا۔ہاشم نے باقی کا سفر خاموشی سے گزارا اور اس بچے کو سیدھا اپنے گھر لے آیا۔


'دیکھو بچے میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو یا تم پر کیا کچھ بیتا ہے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمہیں کسی کے ساتھ کی ضرورت ۔۔۔۔'


'مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے کوئی نہیں چاہیے مجھے۔'


اس معصوم کی نظروں کے سامنے اپنی ماں کا بے جان وجود گھوم گیا تھا۔اسکی گردن سے نکلتا خون،اسکی بند ہوتی آنکھیں۔مگر یہ درد ناک یادیں بھی اسکی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہیں لا پائی تھیں۔وہ بچہ اندر سے مر چکا تھا اور مردے رویا نہیں کرتے۔


'پھر یہ سمجھ لو کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔میرا ایک بیٹا تھا وجدان دو سال پہلے بیمار ہو کر اسکی موت ہو گئی۔اب میری بیوی اسکی یاد سے نہیں نکل پا رہی اور حد سے ذیادہ بیمار ہے۔'


ہاشم کو اپنی بیوی گل بانو کا خیال آیا جسے بیٹے کی موت کے صدمے نے پاگل بنا دیا تھا۔


'شاید تمہیں اگر میں وجدان بنا کر لے جاؤں تو وہ ٹھیک ہو جائے۔'


ہاشم کی آواز غم سے رندھ چکی تھی لیکن اس بچے کے چہرے پر ابھی بھی کوئی تاثر نہیں آیا تھا۔


'بولو بنو گے میرا وجدان؟'


ہاشم صاحب نے بہت امید سے پوچھا لیکن ابھی بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ہاشم نے ایک گہرا سانس لیا۔


'دیکھو میرے بچے زندگی میں ایسے موڑ آ جاتے ہیں جب ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا لیکن ایسا نہیں ہے زندگی بے مقصد چیز نہیں ہے بس ہمیں امید کی ایک کرن کی ضرورت ہوتی ہے۔'


ہاشم نے مسکرا کر کہا لیکن ابھی بھی وہ بچہ بت بنا سامنے دیکھ رہا تھا۔ہاشم نے گہرا سانس لے کر گاڑی سٹارٹ کرنا چاہی۔


'میرے پاس نہیں ہے ۔۔۔۔۔ کوئی مقصد ،کوئی امید نہیں ہے۔کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس۔'


اس بچے نے بہت زیادہ سنجیدگی سے یہ بات کی تھی۔


'تو پھر جنہوں نے تم سے یہ سب چھینا ہے انکی بربادی کو اپنا مقصد بنا لو۔'


ہاشم نے غصے سے کہا تو پہلی بار اس بچے نے پلٹ کر ہاشم کو دیکھا تھا۔


'میں کمزور ہوں۔'


اس کے لہجے میں اب غم تھا جو ہاشم کے دل کو لگا تھا۔


'ہمیشہ نہیں رہو گے خود کو طاقت ور بنا لینا اور ویسے بھی میرا وجدان کبھی بھی کمزور نہیں ہو سکتا۔'


ہاشم نے عام سے انداز میں مسکرا کر کہا اور گاڑی سٹارٹ کر لی۔اس بچے نے بھی بہت سوچ کر سکندر الفاظ درانی کو وہیں چھوڑا اور خود وجدان خان بن کر ہاشم کے ساتھ نئی زندگی کی جانب چل دیا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد نے وجدان کو سکندر کے بارے میں کچھ شبہات بتائے تھے جن کا جائزہ لینے کے لئے وجدان سارا دن گھر سے باہر رہا تھا لیکن اسکا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔وجدان رات کے گیارہ بجے گھر آیا تو گھر میں بلکل اندھیرا تھا جو کہ بہت حیرانی کی بات تھی۔اس لئے وجدان ایک پل میں چوکنا ہوا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔اپنے کمرے میں داخل ہو کر وجدان نے لائٹ آن کی تو اپنے کمرے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا۔


پورے کمرے کو پھولوں سے سجایا گیا تھا اور کمرے کے عین وسط میں ایک ٹیبل پر ریڈ کلر کا کیک بھی موجود تھا۔وجدان ایک گہرا سانس لے کر اس کیک کی طرف چل دیا۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ پورے کمرے کی سجاوٹ کو تہس نہس کر دے یا پھر اس سجے ہوئے ماحول میں اس لڑکی کے ساتھ وہ سلوک کرے کہ اس کے سامنے آنے سے پہلے وہ ہزار مرتبہ سوچے۔اچانک ہی اس کی نظر کیک کے پاس موجود خط پر پڑی تو وجدان نے اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔


'اسلام و علیکم۔


میں جانتی ہوں کہ آپکو یہ سب اچھا نہیں لگے گا اور شاید آپ مجھ سے ناراض بھی ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ لیکن میں پھر بھی آپکو کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔میں جانتی ہوں کہ آپ سوچتے ہیں کہ یہ سب میری محبت نہیں میرا بچپنا ہے۔شاید ایسا ہی ہو۔۔۔۔محبت کیا ہے یہ تو میں جانتی بھی نہیں۔۔۔۔۔بس وہی بیان کر سکتی ہوں جو میں نے آپکے لیئے محسوس کیا۔پھر آپ مجھے بتا دینا کہ یہ محبت ہے یا نہیں۔

محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر میں کہوں کہ ہمیشہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہنے والا ڈر اور خوف صرف آپکی موجودگی میں غائب ہو جاتا ہے تو کیا یہ محبت ہے؟

سارا دن ایک بار آپکو دیکھنے کی چاہ میں آپکا انتظار کرنا محبت ہے؟

آپکی آواز سننے پر روح تک کو سکون مل جانا محبت ہے؟

بس آپ کو دیکھنا آپ کو ہی سننے کی خواہش کرنا محبت ہے؟

یا صرف آپسے بات کرنے کی خواہش میں خدا سے اپنے لیے آواز مانگنا محبت ہے؟

اب آپ ہی مجھے بتا دیں کہ یہ سب محبت ہے یا بچپنا۔کیونکہ یہ احساسات میرے دل میں ہی نہیں میری روح میں بھی بسے ہیں۔


آپکی نورِ زرش۔


خط کو ختم کرتے ہی وجدان کو اپنے پیچھے سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی اور خوشبو کا ایک جھونکا اسکے پاس سے گزرا تھا۔وجدان نے مڑ کر دیکھا تو اسکی نظریں بغاوت پر اتر آئیں اور اس نازک سراپے سے پلٹنا بھول گئیں۔زرش سرخ رنگ کے خوبصورت شارٹ فراک اور کیپری پر دوپٹہ کندھوں پر پھیلائے کھڑی تھی۔مناسب سے میک اپ اور جیولری نے اسکے حسن کو مزید دو آتشنہ بنا دیا تھا۔حسن کی مورت بنی وہ نازک سی لڑکی کسی کے بھی دل میں اتر سکتی تھی۔ لیکن سامنے موجود پتھر دل انسان نے اپنی مٹھیاں غصے سے کسی تھیں۔اسکے چہرے پر بے انتہا غصہ دیکھ کر زرش گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی لیکن وجدان نے غصے سے آگے بڑھ کر اسکی بازو کو اتنی سختی سے پکڑا تھا کہ اسکی انگلیاں زرش کے بازو میں پیوست ہو گئیں۔


'یہ سب کیا ہے؟'


وجدان نے ایک نظر زرش کے سجے ہوئے نازک سے سراپے کو اور دوسری نظر اس خط کو دیکھا جس میں زرش نے اپنی معصوم محبت کا اظہار کیا تھا۔


'جواب دو۔'


زرش جو کہ اسکی آنکھوں سے نکلتے شراروں سے خائف ہو رہی تھی اسکے اسطرح سے چلانے پر باقائدہ کانپنے لگی۔لیکن اسے اپنی محبت کا اظہار کرنا تھا اس پتھر دل کو اپنی معصوم محبت کا احساس دلانا تھا۔


آپ سے محبت کرتی ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔اس لئے کیا یہ سب۔


زرش نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اسے اشارہ کر کے بتایا۔وجدان نے اس اشارے کو سمجھتے ہی سختی سے اسے کندھوں سے تھام کر دیوار کے ساتھ لگایا۔زرش نے کبھی بھی اس سرد مہر شخص کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا اور آج اسکی آنکھوں میں غصے کا لاوا ابل رہا تھا۔


'کس ناطے سے محبت کرتی ہو تم مجھ سے۔حثیت کیا ہے تمہاری۔جان سے مار دوں گا اگر دوبارہ مجھ سے کوئی ایسی بات کہی تو۔نفرت ہے مجھے تم سے،تمہارے وجود سے،تمہاری اس شکل سے۔


وجدان کی باتوں پر زرش اندر تک کانپ کر رہ گئی۔اسکے دل اور محبت کا وہ شخص اپنی باتوں سے بہت بے دردی سے قتل کر چکا تھا۔زرش نے اپنے خاموش لب کھولے تھے لیکن جب کوئی آواز باہر نہ آئی تو وہ پھر سے بے آواز آنسو بہانے لگی۔مگر اس نے بھی خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہار نہیں مانے گی۔


آپ شوہر ہیں میرے۔۔۔۔۔۔اس لیے محبت کرتی ہوں آپ سے۔


زرش نے اسے خود سے دور کر کے اشارہ کیا تھا اور اب وجدان کا بھاری بھرکم ہاتھ اسکی گردن پہ تھا۔


'ایسا صرف تمہیں لگتا ہے۔۔۔۔۔جسے تم رشتہ سمجھ رہی ہو وہ میرے لیے صرف ایک سمجھوتا ہے اور کچھ نہیں۔میری نظر میں نہ تو تمہاری کوئی اوقات ہے اور نہ ہی تمہاری محبت کی۔بول تو سکتی نہیں تم اور چاہتی ہو کہ میں ایک گونگی لڑکی کو اپنی بیوی مان لوں؟؟؟ کبھی نہیں۔۔۔۔ یہ رشتہ ایک گالی ہے میرے لیے۔'


وجدان نے اسکی آنسوؤں سے بھری نگاہوں میں جھانک کر اسکی محبت ،اسکی چاہت کا گلا گھونٹا۔زرش کے گلے میں موجود آنسوؤں کا گولا اسکی سانسیں روک رہا تھا۔


'چلی جاؤ یہاں سے اور اگر اب کبھی مجھے اپنی یہ شکل دیکھائی نا تو اپنے ہاتھوں سے مار کر پھینک دوں گا۔اس لئے اپنی یہ شکل گم کرو یہاں سے۔۔۔۔۔۔دفع ہو جاؤ۔۔۔۔۔'


وجدان ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا۔جبکہ زرش نے ایک بار پھر سے کچھ کہنے کے لیے اپنے خاموش لب کھولے تھے۔


'جاؤ۔'


وجدان غصے سے چلایا تو زرش روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔جس کو وہ جی جان سے چاہتی تھی آج وہ ہی اس پر کیچڑ اچھال کر اسے اسکی اوقت دیکھا چکا تھا۔اسے اپنا وجود بہت ہی ذیادہ بے معنی لگ رہا تھا۔یہ سب اسکے بے آواز ہونے کی وجہ سے ہی تو ہو رہا تھا۔اگر اس جلاد RB نے زرش کے جسم کو داغ کر اس سے اسکی آواز،اسکی عزت اور جینے کا حق چھین لیا تھا تو اس سب میں اسکا کیا قصور تھا۔زرش اسطرح سے اب مزید جینا نہیں چاہتی تھی۔اپنی مری ہوئی محبت کے ساتھ وہ خود کو بھی ختم کرنا چاہ رہی تھی اور اگر خودکشی حرام نہیں ہوتی تو زرش اب تک ہزار دفعہ مر چکی ہوتی۔


گھنٹوں اپنے گھٹنوں میں سر دے کر رونے کے بعد زرش نے ایک فیصلہ کر لیا تھا ۔وہ اس شخص کے لئے ایک سمجھوتا یا گالی بن کر نہیں رہنا چاہتی تھی۔اگر وہ اس سے نفرت کرتا تھا تو کیوں وہ اسے خود سے محبت کروائے کیوں پہلے سے بکھری ہوئی اپنی عزت کا مزید تماشا بنوائے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اب وہ مزید وجدان خان پر بوجھ نہیں بنے گی ۔۔۔۔۔۔۔ وجدان اسکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا نا تو اب وہ کبھی بھی اسے اپنی شکل نہیں دیکھائے گی۔۔۔۔۔


یہ سوچتے ہی زرش نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کر الماری میں سے کچھ پیسے اور چادر نکالی۔چادر اوڑھ کر وہ بہت خاموشی سے باہر کے دروازے کی طرف گئی۔ پھر سے اپنے آنسو صاف کر کے اسنے دروازے کا لاک کھولا اور ایک آخری نگاہ وجدان کے کمرے کی طرف دیکھ کر وہ روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔اسکی منزل کہاں تھی؟یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔

🌈🌈🌈

شیراز نے ایک چاقو شاہانہ کی گردن کے پاس رکھ کر کہا تو سکندر فوراً اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا۔ جبکہ اپنے بیٹے کو کمزور پڑتا دیکھ اس ماں میں ایک عجیب ہی طاقت آئی تھی۔اس نے اپنا پورا زور لگا کر شیراز کے ہاتھ سے چاقو چھین کر اسکے پیٹ میں مارا۔شیراز تڑپ کر شاہانہ سے دور ہوا لیکن شیراز کے بہت سے آدمی آگے بڑھ گئے۔


'کبھی بھی کسی کو اپنی کمزوری مت بنانا سکندر ۔اپنی طاقت خود بنو ایسی طاقت جسکی کوئی کمزوری نہ ہو۔۔۔۔میں اپنے بیٹے کی کمزوری نہیں بنوں گی کبھی نہیں۔'


شاہانہ نے زارو قطار روتے ہوئے اتنا کہا اور وہی تیز دھار چاقو اپنی گردن پر چلا دیا۔


'ماما۔۔۔۔'


سکندر چلایا اور زارو قطار روتے ہوئے اپنی ماں کے زمین پر پڑے وجود کو دیکھنے لگا اور اسی طرح شیراز کے اشارہ کرنے پر وہ لوگ سکندر کو وہاں سے لے گئے۔اس بت بنے بچے کے جسم پر ایک بم پہنایا گیا اور اس بم کو ایک جیکٹ سے ڈھانپ کر اسے کافی بھیڑ کے پاس چھوڑ کر واپس چلے گئے۔سکندر اپنے باپ،ماں ،بھائی سب کو کھو دینے کے بعد مُردوں کی طرح چلتا رہا تھا۔آنکھوں میں آنسوؤں کی بجائے پچھلے ایک ہفتے کا گزرا ہر منظر دوڑ رہا تھا۔

🌈🌈🌈

سعد عشال کو لے کر کینٹ ایریا میں آ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ عشال کو لے کر کسی بھی بھیڑ بھاڑ والے ایریا میں ہی رہے تا کہ سکندر کو ان دونوں پر حملہ کرنے کا کوئی موقع نہ ملے اور اس وقت وہ ایک کیفے میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔


'کب تک یہاں رہنے کا ارادہ ہے؟


سعد نے ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا جہاں رات کے دو بج رہے تھے۔


'کیا ہو گیا ہے ایجنٹ جی اتنا مزہ تو آ رہا ہے سچی اتنے عرصے کے بعد اتنے کھلے ماحول میں آئی ہوں روح تک سر شار ہو گئی ہے۔'


عشال نے ارد گرد دیکھ کر کہا۔


'ویسے تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا یہ طریقہ کام کرے گا؟مجھے تو بلکل امید نہیں ہے کیونکہ میں وجدان کو جانتا ہوں پھر سے اس معصوم کو ڈانٹ دے گا۔'


سعد نے کافی کا وہ تیسرا کپ پکڑا۔


'اور میں محبت کی طاقت کو جانتی ہوں ایجنٹ جی اور یہ طاقت پہاڑوں کو گرا سکتی ہے ۔بس ایک مرتبہ محبت کا سب سے اونچا مقام حاصل ہو جائے۔'


عشال نے مسکرا کر کہا تو سعد بھی اسکے چہرے کی معصومیت کو دیکھ کر مسکرا دیا۔


'ویسے کام اچھا کیا ہے آپ نے اب آپ کا راز میرے ساتھ دفن ہے تھینک یو سو مچ۔'


عشال نے پھر سے اپنا ہاتھ آگے کیا جو کہ سعد نے پھر سے نہیں تھاما تھا۔


'اب بھی ہاتھ نہیں ملائیں گے ایجنٹ جی؟'


عشال کے سوال پر سعد نے انکار میں سر ہلایا تو عشال نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔


'آپ کو پتہ ہے ایجنٹ جی آپ کنفرم جنتی ہیں۔'


عشال نے شرارت سے کہا تو سعد قہقہے لگا کر ہنسنے لگا۔عشال نے بھی سعد کا بھرپور ساتھ دیا۔


'اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔'


سعد نے دلچسپی سے کہا۔


'کیا بتاؤں کچھ خاص ہے ہی نہیں۔میں بیس سال کی ہوں۔ماما بابا کی بچپن میں ہی ڈیتھ ہو گئی تھی۔بابا کے ایک دوست نے پال کر بڑا کیا جب اٹھارہ کی ہوئی تو انکی بھی ڈیتھ ہو گئی۔تب سے اکیلی ہی خود کا سہارا بنی رہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گریجویشن کیا، کافی جابز کیں اور گزارا چلتا رہا پھر یہ سکندر بھائی صاحب زندگی میں آ گئے اور اب بس ان سے بھاگتی پھر رہی ہوں۔'


عشال نے اپنی پوری کہانی ایک ہی سانس میں سنا دی۔سعد اسے کافی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔


'آپ کا کیا ایجنٹ جی میرے بارے میں جانا ہے تو اب اپنا بھی تو بتائیں نا۔'


سعد نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر طویل خاموشی کے بعد بولا۔


'اپنے بارے میں تو وہ انسان بتاتا ہے عشال جو خود کو جانتا ہو مجھے تو کبھی یہ موقع ہی نہیں ملا۔بتا دوں گا تو نفرت کرو گی مجھ سے۔'


سعد نے مٹھیاں کستے ہوئے کہا۔


'عشال لوگوں کو انکے کردار پر جج کرتی ہے اگر آپ قابل نفرت ہوں گے تو صرف اپنے اعمال کی وجہ سے۔دوسروں کا کیا آپ پر کیوں ڈالوں۔'


عشال نے کافی سمجھداری والی بات کہی تھی۔سعد پھر سے کافی دیر خاموش رہا اور پھر اس نے بولنا شروع کیا۔


'صفائی کرنے والوں کو شہر میں کچرے کے ڈھیر پر پڑا ملا تھا میں۔یہ اہمیت تھی میری کہ مجھے کوڑے کے ساتھ اٹھا کر پھینک دیا۔دو دن کے بچے کو جسے سڑک پر موجود کوئی آوارہ کتا بھی کھا سکتا تھا ۔میرے ماں باپ نے یہ نہیں سوچا تھا؟یا شاید انہیں میں انسان ہی نہیں لگا تھا۔


خیر اس کچرا اٹھانے والے نے مجھے یتیم خانے پہنچا دیا اس یتیم خانے کے مالک رفیق علی نے ہی مجھے اپنا نام دیا۔بارہ سال کی عمر تک وہیں رہا میں۔اپنی خاطر جینا ،چوری کرنا،جیب کاٹنا اس سب میں ماہر ہو چکا تھا۔'


سعد نے ایک پل کو رک کر گہرا سانس بھرا۔


'تبھی ایک دن ریلوے اسٹیشن پر آصف انکل کا بٹوا چرانے کی کوشش میں پکڑا گیا بہت ذیادہ مار پڑی تھی تب لیکن آصف صاحب نے اس مار سے چھڑوا کر مجھ سے پوچھا کہ اس گھٹیا کام سے کیا کر لوں گا۔پل بھر کا گزارہ بس۔۔۔مقصد کیا ہے تمہاری زندگی کا؟جانتی ہو تب میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔'


سعد نے مسکرا کر عشال کو دیکھا لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپا دکھ عشال بخوبی دیکھ سکتی تھی۔


'پھر آصف صاحب نے مجھ سے،کچرے کے اس ڈھیر سے کہا کہ تمہاری زندگی تمہاری نہیں اللہ کی امانت ہے اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔اسکے بندوں کی حفاظت میں لگا دو۔اس طرح تمہاری زندگی کے بے مقصد سفر کو ایک منزل مل جائے گی۔'


سعد اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔


'پھر۔۔۔'


عشال نے نم آواز سے پوچھا۔


'پھر بس آصف انکل نے سکول داخل کروایا تب پتہ چلا کہ میں تو انٹیلیجنٹ بھی ہوں۔سکالرشپ پر کیڈٹ کالج میں داخل ہو گیا اور پھر پڑھائی مکمل کر کے آرمی میں جاب سٹارٹ کر لی اور اب اٹھائیس سال کا ہوں اور آرمی میں کیپٹن ہوں۔'


سعد نہیں جانتا تھا کہ اس نے اتنا سب کچھ عشال کو کیوں بتایا تھا اتنا سب کچھ تو شایان اور وجدان بھی نہیں جانتے تھے۔عشال نے سعد کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو سعد نے اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آ کر اسے دیکھا۔


'آپ قابل نفرت نہیں ہیں ایجنٹ جی۔بلکل بھی نہیں ہیں۔بلکہ آپ قابل احترام ہیں ہمارے ملک کی خاطر لڑنے والا ہر غازی ،ہر شہید بہت ذیادہ قابل احترام ہے۔'


عشال کی بات پر سعد نے اسے مسکرا کر دیکھا اور بہت دیر تک اسکی خوبصورت ہری آنکھوں میں جھانکتا رہا۔


'آئی تھنک اب ہمیں چلنا چاہئے کافی دیر ہو گئی ہے۔'


اچانک ہی عشال نے اسکی نظروں سے گھبرا کر کہا تو سعد نے اثبات میں سر ہلایا اور بل دے کر وہ دونوں واپس گھر کی طرف چل دیے۔

🌈🌈🌈🌈


زرش پیدل چل کر جیسے تیسے بس سٹیشن تک پہنچی تھی۔رات کے 2 بجے کا وقت ہو رہا تھا اور ایک ہلکی سی آہٹ پر بھی زرش کی جان مٹھی میں آ جاتی۔بس اسٹیشن پر بھی اس وقت ہو کا عالم تھا۔زرش جلدی سے ایک بس پر لاہور کا بورڈ لگا دیکھ کر اس میں چڑھ گئی تھی۔اسکا ارادہ حمنہ کے پاس جانے کا تھا۔ابھی بس میں بیٹھے اسے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب ایک بوڑھا کنڈکٹر اس کے پاس آیا تھا۔


'کہاں جانا ہے بیٹا۔'


ایک شفیق سی آواز زرش کی سماعتوں سے ٹکرائی تو زرش نے چوک کر اسے دیکھا اور ہزار کا نوٹ نکال کر اسکے ہاتھ میں پکڑا دیا۔


'لیکن جانا کہاں ہے؟'


زرش نے اپنے کب کھولے تھے لیکن ہمیشہ کی طرح وہ بولنے سے قاصر تھی۔اس لیے بے آواز اپنی بے بسی پر آنسو بہانے لگی۔جبکہ وہ آدمی اسے روتے دیکھ پریشان ہو گیا تھا۔


'اچھا بیٹا تم رو نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ بس راولپنڈی اور لاہور جاتی ہے کیا تم نے لاہور جانا ہے؟'


کنڈکٹر کے سوال پر زرش نے اثبات میں سر ہلایا۔


'اچھا بیٹا پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوتا۔اللہ تعالی سب بہتر کریں تمہارا یہ سفر اچھا گزرے۔'


وہ آدمی تو دعا دے کر جا چکا تھا لیکن زرش کے ذین میں ابھی بھی اسکی بات چل رہی تھی۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا سفر آسان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ مشکلات تو اسکی زیست کا حصہ تھیں ۔


کچھ ہی دیر بعد بس روانہ ہو چکی تھی اور زرش اپنی زیست کے نئے سفر پر گامزن ہو چکی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان اپنا سارا غصہ پنچنگ بیگ پر نکال رہا تھا اور ہاتھوں کو کور نہ کرنے کی وجہ سے وہ بری طرح سے زخمی ہو چکے تھے لیکن وجدان بے تاثر سا چہرہ لیے مکوں کی برسات کر رہا تھا۔زرش کا وہ روپ اسکی محبت کے اظہار کا ہر ایک لفظ اسکے دماغ میں کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔

وہ جانتا تھا کہ اپنی باتوں سے وہ اس معصوم لڑکی کا دل بہت بری طرح سے توڑ چکا تھا۔لیکن یہی بہتر تھا۔ہاں محبت ایک کمزوری ہے بہت بڑی کمزوری اور وجدان وہ کسی سے بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔کسی سے بھی نہیں۔

اسکی محبت تو جان لیوا ہے نا جسے بھی وجدان خان چاہتا ہے وہ مر جاتا ہے۔اسی لیے زرش کی موت سے بہتر ان گھٹیا باتوں سے اسکا دل توڑنا تھا پھر چاہے وہ باتیں کہنے کے بعد وجدان خود کو ختم کرنا چاہ رہا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ اپنی زبان ہی کاٹ دے جس سے اس نے اس معصوم کے دل کو چکنا چور کیا۔لیکن پھر بھی یہ اسکی موت سے بہتر ہی تھا۔۔۔۔ہاں بہت زیادہ بہتر تھا کیونکہ اس لڑکی کی موت وہ کام کر دیتی جو اتنے لوگوں کی موت بھی نہیں کر پائی تھی ،وجدان خان کا دھڑکتا دل روک دیتی۔


'ارے تم تو یہاں ہو اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا۔'


سعد کی آواز پر وجدان نے اپنا سرد مہری کا لبادا پھر سے اوڑھا تھا۔


ُکیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ؟'


سعد کی نظر وجدان کے زخمی ہاتھوں پر پڑی تھی لیکن وہ اسے نظر انداز کر گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وجدان اسے کوئی جواب نہیں دے گا۔


'صبح کے چار بج چکے ہیں وجدان اور تم ابھی تک جم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔'


'ارے میں نے تو کچھ اور ایکسپیکٹ کیا تھا اور یہاں تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور میری لیٹل ڈال کہاں ہے؟'


عشال سعد کی بات کاٹ کر جلدی سے وجدان کے پاس آئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورنے لگی۔


'اپنے کمرے میں ہی ہو گی نا۔'


وجدان کے تاثرات پھر سے سخت ہوئے تھے۔جبکہ عشال ڈرنے والوں میں سے نہیں تھی۔اس لئے اپنے پاؤں اونچے کر کے، اپنے بڑے سے چشمے کے پیچھے سے وجدان کو گھورنے لگی۔


'اگر میری پیاری سی دوست مجھے روتے ہوئے نظر آئی نا تو تمہاری خیریت نہیں بتا رہی ہوں میں۔تم عشال کو جانتے نہیں۔'


عشال نے اپنی چھوٹی سی انگلی وجدان کو دکھا کر اسے وارن کیا اور غصے سے وہاں سے چلی گئی۔


'کہاں تھے تم دونوں رات بھر؟تمہیں نہیں لگتا کہ اسکو خطرے میں ڈال کر اپنے کام سے غداری کر رہے ہو؟'


وجدان کے سوال پر سعد نے گہرا سانس لیا۔


'کیا کروں یار صحبت کا اثر تو ہوتا ہے نا جب تم لوگ اپنی زمداریوں کو سمبھال نہیں سکتے تو میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟'


سعد کے لہجے میں طنز بھرا تھا۔


'میں دراب نہیں ہوں سعد اسکے جزبات اور دل کو اس نے اپنے سینے میں دفنا دیا تھا مگر انہیں ختم نہیں کیا۔اسی لئے تو جانان کو دیکھ کر وہ پھر سے بھڑک اٹھے۔لیکن میرے میں جزبات ہے ہی نہیں اور نہ ہی کبھی آئیں گے۔'


وجدان کا اطمینان قابل دید تھا لیکن یہ جھوٹ وہ صرف سعد سے بول سکا تھا اپنے دل سے نہیں۔


'تو پھر اسکا دل توڑ کر خود کو تکلیف کیوں پہنچا رہے ہو۔'


سعد کا اشارہ اسکے ہاتھوں کی طرف تھا۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے جواب دیتا عشال ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔


'ایجنٹ جی زرش گھر میں نہیں ہے میں نے پورا گھر دیکھا ہے۔'


عشال نے ان دونوں پر بم پھوڑا تھا۔


'کیا بکواس کر رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟'


کچھ سوچے سمجھے بغیر وجدان نے اسے اسکے بازؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔


'سچ میں کہیں بھی نہیں ہے وہ میں نے پورا گھر دیکھ لیا ہے۔'


بہادر سی عشال کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرا رہے تھے۔


'میں دوبارہ چیک کرتا ہوں تم پریشان مت ہو۔'


سعد نے عشال کو وجدان کی گرفت سے چھڑوایا اور زرش کو ڈھونڈنے چلا گیا۔


چلی جاؤ یہاں سے اور اگر اب کبھی مجھے اپنی یہ شکل دیکھائی نا تو اپنے ہاتھوں سے مار کر پھینک دوں گا۔


وجدان کے ذہن میں اسی کے کہے الفاظ گونجے تھے ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس معصوم کو کھو چکا تھا اور ذمہ دار بھی وہ خود تھا۔بس وہ اتنی دعا کرتا تھا کہ غلطی سے بھی وہ اس درندے کے ہاتھ نہ لگ جائے۔اگر ایسا ہوا،،، اگر اسے کچھ ہو گیا تو وجدان نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کرے گا؟

🌈🌈🌈🌈

(ماضی)


ہاشم صاحب نے اس بچے کو اپنانے کے لیے کاغزات تیار کروائے۔انہوں نے سوچا تھا کہ اس بچے کو اسی کے باپ کا نام دیں گے کیونکہ ہمارا دین اپنے لے پالکوں کو انکے باپ ہے ناموں سے بلانے کا کہتا ہے مگر بہت پوچھنے کے باوجود اس بچے نے نہ تو اپنا اور نہ ہی اپنے باپ کا نام بتایا۔جب ہاشم صاحب نے کافی زور لگایا تو اس بچے نے اپنی سبز آنکھوں سے انہیں گھورا۔


'میرا نام اور میرے بابا کا نام میری بدنامی اور موت ہے۔کیا ابھی بھی آپ کو وہی جاننا ہے؟'


ہاشم صاحب اس چھوٹے سے بچے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر پریشان ہو گئے۔بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے اسے اپنے بیٹے کی پہچان اور اپنام نام اسے دے دیا۔سکندر الفاظ درانی اب وجدان ہاشم خان بن چکا تھا اور اس وجدان خان نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اسکی کوئی کمزوری نہیں ہو گی بلکل جیسے اسکی ماں نے کہا تھا۔


اور اسکے خیال میں انسان کی محبت کرنے والے رشتوں سے بڑی کوئی کمزوری نہیں ہوتی۔خود سے پہلے انسان انکا سوچتا ہے،اپنی جان سے زیادہ خود سے منسلک رشتوں کی جان پیاری ہوتی ہے اور ان رشتوں کی خاطر ہی تو انسان کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے پھر چاہے وہ صیح ہو یا غلط۔


ہاشم صاحب کی بیوی کی طبیعت وجدان کی موجودگی میں بہتر تو ہو گئی تھی لیکن وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائیں انکا غم انہیں بہت پہلے سے ہی نگل چکا تھا لیکن انکی موت کے بعد وجدان خان نے اپنے تمام احساسات ،جزبات ہر چیز کو انکی قبر میں دفنا دیا تھا۔


اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ اسکی قسمت میں ہی کسی کی بھی محبت نہیں لکھی گئی۔ہر محبت کرنے والا اس سے چھن جاتا تھا۔بلکل اسکے ماں باپ اور بھائی کی طرح۔اسی لیے تو وجدان خان محبت سے ہی نفرت کر بیٹھا اور گزرتے وقت کے ساتھ اسکے دل کی سختی بڑھتی گئی یہاں تک کے وہ دل ایک پتھر میں بدل چکا تھا ۔


وجدان کی زندگی کا بس ایک مقصد تھا۔شیراز حسن کی بربادی اور درد ناک موت۔اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے وجدان محض چودہ سال کی عمر میں ہاشم اور میجر منور سے چھپ چھپا کر آوارہ لڑکوں کی ایک گینگ میں شامل ہو گیا ۔جس کا لیڈر ملک تھا اور وجدان سے صرف پانچ سال ہی بڑا تھا۔ملک بھی ایک ریئس باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور کچھ حد تک بگڑا ہوا بھی تھا لیکن ملک کا مقصد ان لوگوں کو جہنم واصل کرنا تھا جو گناہ کرنے کے بعد انصاف کو خرید کر آزاد ہو جاتے اور پھر سے ایک نیا گناہ کرنے نکل پڑتے۔


ملک نے ہی وجدان کو خان کا نام دیا کیونکہ یہ انکے گروپ کا اصول تھا کہ وہ اپنی پہچان ایک دوسرے کو نہیں بتائیں گے اور انکا مقصد صرف اور صرف برے لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچانا ہو گا۔


ملک جانتا تھا کہ وجدان ان کے ساتھ صرف اور صرف بدلے کی وجہ سے شامل ہوا ہے۔ملک نہیں چاہتا تھا کہ انکے مشن میں کسی کا ذاتی مسلہ شامل ہو مگر شیراز حسن کی سچائی وہ بھی جانتا تھا۔وہ شخص سچ میں زندہ رہنے کے قابل نہیں تھا مگر فلحال وہ ان لوگوں کی پہنچ سے دور انگلستان میں چھپ کر بیٹھا تھا۔


ملک نے وجدان کے اندر ایسے غصے اور نفرت کو محسوس کیا تھا جو کہ ایک چودہ سال کے بچے کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں اور اسی غصے اور نفرت کی وجہ سے وجدان ان میں سب سے زیادہ طاقت ور اور خطرناک ہو چکا تھا۔اتنا کہ ملک بھی اس سے ڈرنے لگا اور اسے ایک آگ بلانے لگا ایسی آگ جو اس سرد مہر بچے کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھائی نہیں دیتی تھی لیکن پھر بھی اسکے اندر جلتی کرب اور غصے کی وہ آگ دنیا جلا سکتی تھی ۔

🌈🌈🌈

صبح کے چار بج رہے تھے اور گاڑی میں تقریبا ہر کوئی سو چکا تھا۔لیکن زرش مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ حمنہ کے پاس ہی رہے گی کیونکہ حمنہ ہی ایک ایسی تھی جو اپنے سے جڑے رشتوں کے نظریے سمجھتی تھی اور ان کی خواہشات کا ادب کرتی تھی۔ اس وقت زرش کو اسکی بہت زیادہ ضرورت تھی۔

اچانک ہی گاڑی رکنے پر زرش نے اپنا دھیان سامنے کیا لیکن اسے کچھ خاص نظر نہیں آیا تو وہ پھر سے باہر کی طرف دیکھنے لگی۔اپنی سوچ میں وہ اس قدر گم تھی کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اسکے ساتھ موجود عورت کی جگہ پر اب ایک مرد سوار تھا۔


'کیسی ہو؟؟؟ ڈھونڈ لیا نا تمہیں۔'


ساتھ بیٹھے شخص کی دلکش لیکن خطرناک آواز سن کر زرش کی چلتی سانسیں سینے میں اٹک گئی تھیں۔زور زور سے سانس لیتے ہوئے زرش کی نظر اس آدمی کے ہاتھوں پر پڑی جہاں مردانہ سفید انگلیوں میں وہی مخصوص RB لیٹرز والی انگوٹھی تھی۔


'تمہیں کیا لگا کہ میں اپنی گڑیا کو بھول چکا ہوں گا؟کبھی بھی نہیں میری جان ۔تمہیں یاد نہیں۔۔۔۔۔۔تم تو نشہ ہو آر بی کا ،اسکی ضد اور بھلا ضد بھی پوری کیے بغیر کسی کو چین ملا ہے؟'


زرش اب باقائدہ خوف سے کانپ رہی تھی۔وہ پھر سے وہ زندگی نہیں جینا چاہتی تھی۔زرش نے وہاں سے اٹھ کر بھاگنے چاہا تھا لیکن اسکا ارادہ جان کر وہ شخص مسکرا دیا۔


No no my little doll there is no way out.

اور اگر چاہتی ہو نا کہ تمہاری وجہ سے ان معصوم لوگوں کی جان نہیں جائے تو خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ورنہ اس بس کے کھائی میں گرنے سے 40 لوگوں کی موت کی خبر کل ٹی وی میں چل رہی ہو گی۔'


آر بی کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آئی وہ مسکراہٹ اس وجیح شخص کو مزید خوبصورت بنا چکی تھی لیکن اس وجاحت اور خوبصورتی کے پیچھے ایک بھیانک شیطان چھپا تھا جو اپنی تسکین اور خواہش کے لیے کسی کو بھی تکلیف پہنچا سکتا تھا اور یہ بات زرش سے بہتر کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔


'اور میری گڑیا تو میری ہر بات مانتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ہے نا کیونکہ بات کو نہ ماننے کا نتیجہ وہ اچھی طرح سے جانتی ہے۔'


اتنی سی بات سے وہ شخص زرش کو بہت کچھ یاد کروا گیا تھا۔زرش مزید رونے لگی۔


'کیوں پریشان کر رہے ہو بچی کو تم؟' یہ وہی بوڑھا کنڈکٹر تھا جو آر بی کے ایک آدمی سے اپنے آپ کو چھڑوا کر آر بی کے پاس آیا۔آر بی نے اپنی خطرناک بھوری آنکھوں سے اسے گھورا تو آر بی کا آدمی جلدی سے اس کنڈکٹر کو پکڑ کر باہر لے گیا اور زرش کے دیکھتے ہی دیکھتے اسکے سینے میں گولی مار دی۔بس میں موجود سب لوگ سہم چکے تھے۔


Come on my doll we need to go.


آر بی نے سیٹ سے اٹھ کر اپنی چوڑی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی تھی زرش نے اس خوفناک منظر سے اپنی آنسوؤں سے بھری نگاہیں پھیریں اور سہم کر اس سے مزید دور ہو گئی۔

Come or all of them are going to die.

اسکی آواز میں سختی محسوس کر کے زرش کی روح تک کانپ گئی تھی۔لیکن اسکے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اپنی وجہ سے وہ اتنے لوگوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتی تھی۔

زرش نے اپنا کپکپاتا ہوا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا اور خود کو مار کر اپنے سب سے ڈراونے خواب کی طرف واپس چل دی۔جہاں اندھیری رات اپنی کالی چادر پھیلائے اسکا انتظار کر رہی تھی۔

🌈🌈🌈

زرش کی آنکھ کھلی تو وہ ایک کمرے میں بند تھی۔اسے کچھ زیادہ تو یاد نہیں تھا بس وہ اتنا جانتی تھی کہ بس سے نکل کر وہ آر بی کے ساتھ کار میں بیٹھی تھی اور آر بی نے اسکے منہ پر رومال رکھا تھا جس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔اپنے ارد گرد اندھیرے کے سائے دیکھ کر زرش بری طرح سے رونے لگی ۔وہ قید کر دی گئی تھی بلکل جیسا اس آدمی نے وعدہ کیا تھا۔اچانک سے دروازہ کھلا تو زرش سہم کر بیڈ کے ساتھ لگی تھی۔


'اچھا ہوا تم جاگ گئی کب سے انتظار کر رہا تھا میں اس پل کا۔'


آر بی مسکرا کر چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسکے پیچھے دو ملازمہ ہاتھ میں ٹرے لے کر داخل ہوئیں اور جلدی سے وہ ٹرے بیڈ پر رکھ کر چلی بھی گئیں۔


'چلو باقی باتیں تو ہوتی رہیں گی ابھی کھانا کھاؤ تم۔'


آر بی نے مسکرا کر کہا تو زرش انکار میں سر ہلانے لگی۔


'گڑیا بات مانو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


اسکی آنکھوں میں سختی اترتی دیکھ زرش کے کانپتے ہاتھ بے ساختہ طور پر کھانے کی طرف بڑھے تھے۔


Good girl.

تم دیکھنا ہم دونوں ساتھ بہت ذیادہ خوش رہیں گے۔میں نے آج تک جو چاہا ہے اسے پایا ہے اور تم تو میرا سب سے بڑا جنون رہی ہو جان۔ '


آر بی نے زرش قریب ہونے کی کوشش کی تو زرش جلدی سے اس سے دور ہو گئی۔لیکن اگلے ہی لمحے آر بی نے اسے سختی سے اپنی طرف کھینچ کر اسکا منہ دبوچ لیا۔


'تم نے تو بنجے نکال لیے ہیں۔۔۔۔انہیں زرا کنٹرول میں رکھو ورنہ انہیں کاٹنے میں مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا اور مجھ سے دور جانے کا انجام بھول چکی ہو۔۔۔۔۔دوبارہ ڈیمو دیکھاؤں۔'


اسکی خطرناک آنکھوں اور باتوں کی وجہ سے زرش خوف سے کانپنے لگی تھی۔


'ارے ارے ابھی نہیں رونا میری جان ۔جانتا ہوں کہ تمہاری یہ کانچ سی آنکھیں بھیک کر مزید خوبصورت ہو جاتی ہیں ۔ اور ان بھیگی سرخ آنکھوں کی خوبصورتی تو میں نے ساری زندگی دیکھنی ہے۔'


آر بی نے زرش کے گال پر اپنے لب رکھے تھے مگر اس بار زرش نے اس سے دور جانے کی غلطی نہیں کی تھی۔آر بی بے ساختہ طور پر مسکرایا۔


'ہاں میری گڑیا ایسے ہی ہر بات مانو گی تم میری ورنہ انجام سے تو تم خود واقف ہو نا۔'


زرش نے اثبات میں سر ہلایا تو آر بی نے اپنے لب اسکے ماتھے پر رکھے۔


'مجھے لگا تھا کہ میرے اس سیاہ سے دل میں کوئی بھی نہیں اتر سکتا ۔میں تو ایک خود غرض سا انسان ہوں محبت جیسا جزبہ میرے سے بہت ذیادہ دور رہے گا لیکن دیکھو نا دل میں اتری بھی تو کون؟محبت ہوئی بھی تو ایک چھوٹی سی نازک سی گڑیا سے۔'


آر بی نے مسکراتے ہوئے زرش کے گال کو سہلا کر کہا جبکہ زرش تو اسکی قربت کے خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔


'لیکن فکر مت کرو اب بہت جلد تمہیں اپنا بنا کر دنیا سے چھپانے کا ارادہ ہے میرا ۔کیونکہ میری اس محبت کو اب کوئی لگام نہیں۔'


آر بی نے پھر سے اس کے گال کو چوما تو کئی آنسو ٹوٹ کر ان کانچ سی آنکھوں سے گرے۔پھر آر بی اسے تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔جبکہ زرش اب فرش پر بیٹھ کر بری طرح سے رو رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے گال کو زور سے رگڑ رگڑ کر صاف کر رہی تھی اس کا گھٹیا لمس وہ خود پر سے مٹانا چاہتی تھی اور اس اثناء میں وہ اپنا گال رگڑ رگڑ کر زخمی کر چکی تھی لیکن جسمانی تکلیف کا اسے احساس ہی کہاں ہو رہا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

صبح سے رات ہو چکی تھی اور زرش کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا تھا ایک ہلکا سا سراغ بھی نہیں نکال پائے تھے وہ لوگ۔ایسے لگتا تھا جیسے وہ کہیں غائب ہی ہو گئی ہے۔سعد نے شایان کو فون کر کے سارے معاملے سے آگاہ کیا اور اس وقت پولیس ان کے گھر پر شایان اور وجدان کو تمام صورتحال سے آگاہ کر رہی تھی۔

'میجر شایان شاہ ہم انہیں صبح سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کچھ بھی معلوم نہیں ہوا ایسے جیسے وہ کہیں غائب سی ہو گئی ہوں۔روڈ پر لگے سی سی ٹی وی کیمرہ میں بھی بس سڑک پر جاتے تک انکی فوٹیج ہے اسکے بعد شہر کے کسی بھی کیمرہ میں ہمیں وہ نظر نہیں آئیں۔لیکن آپ فکر مت کریں ہمارے سپاہی پوچھ تاچھ کر رہے ہیں کسی نا کسی نے تو انہیں ضرور دیکھا ہو گا۔'


شایان نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ وجدان ابھی بھی خاموشی سے دروازے میں کھڑا تھا۔


'امید ہے کہ آپ جلد از جلد کوئی نہ کوئی سراغ نکال ہی لیں گے۔'


'جی ضرور ہم اپنی پوری کوشش کریں گے ۔'


اس سے پہلے کہ شایان مزید کچھ کہتا وجدان مٹھیاں کستا وہاں سے جا چکا تھا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ زرش کہاں یا وہ کسی مصیبت میں بھی ہے یا نہیں؟ہو سکتا ہے وہ اپنی کسی دوست کے پاس چلی گئی ہو۔یہی سوچتے ہوئے وجدان تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب اچانک اسکی ٹکر سامنے سے آتی عشال سے ہوئی۔وجدان نے اسے نظر انداز کر کے اندر جانا چاہا تھا۔


'مبارک ہو آپ کو ۔۔۔۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔'


وجدان کے چلتے قدم عشال کی آواز پر رکے تھے۔


'یہی تو چاہتے تھے نے آپ کہ آپکو تنہا چھوڑ دیا جائے اور اپنی اسی بے مقصد اور بے کار زندگی کے ساتھ آپ مارے مارے پھرتے رہیں۔ آپ سے کوئی بھی محبت نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود وہ پاگل آپ کو اپنا سب کچھ مان بیٹھی جانتے ہیں کیوں؟'


عشال چل کر اسکے سامنے آئی تھی لیکن آج اسکی ہری آنکھوں کو ڈھانپنے والا چشمہ غائب تھا۔


'آپ کو تو یاد نہیں ہو گا نا لیکن ایک بارہ سال کی بچی کو باقی 35 سکول کی بچیوں کے ساتھ آپ نے ہی تو بچایا تھا جب انہیں اپنے ہی شہر سے اٹھا کر کسی اور ملک میں بیچا جا رہا تھا۔جب انکے پاس کوئی امید نہیں تھی تب آپ نے ایک مسیحا بن کر ان کو آزادی دلائی تھی۔انہیں میں سے ایک لڑکی آپ کی سو کالڈ بیوی بھی تھی۔جو اس سبز آنکھوں والے مسیحا کو خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ سمجھتی رہی۔'


وجدان بت بنا اسکی باتیں سن رہا تھا۔


'اور پھر چھے سال کے بعد اسے جب اپنے مسیحا کے ساتھ ایک پاکیزہ رشتے میں باندھ دیا گیا تو اسکا معصوم دل محبت کی آگ میں جلنے لگا لیکن اسکی بد قسمتی تو دیکھیں محبت کی وہ آتش بھی آپکو راستہ نہیں دیکھا پائی۔آپکا دل پگھلا نہیں پائی۔شاید وہ پاگل جانتی نہیں تھی کہ اس سینے میں دل ہے ہی نہیں۔'


عشال نے اپنی کرب ناک آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے اسکے سینے پر اپنی انگلی رکھی ۔

'اس لئے اب آپ بے فکر ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔ آپکے سینے میں موجود پتھر سے اب کوئی بھی سر نہیں پھوڑے گا۔کیونکہ ایسا کرنے والی لڑکی کو آپ کھو چکے ہیں۔' عشال نے دانت پیس کر کہا۔

'اور اب وہ آپ کو ملے گی بھی نہیں کیونکہ وہی جانور اسے واپس اپنی قید میں لے چکا ہے۔اب آپ خوشی خوشی اپنی تنہائی اور خود سے ہی کی جانے والی نفرت کو کھل کر اینجوائے کر سکتے ہیں۔'

عشال تو اپنی بات کہہ کر جا چکی تھی لیکن وجدان وہیں بت بنے کھڑا رہا ۔اسے اپنی غلطی پر بے پناہ پچھتاوا ہو رہا تھا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

🌈🌈🌈

(ماضی)

وجدان انیس سال کا ہو چکا تھا جب اسے ملک نے بتایا کہ شیراز حسن ملک واپس آ چکا تھا۔ اسکی ساری فیملی جو پاکستان میں ہی رہتی تھی ایک کار ایکسیڈینٹ میں مر چکی تھی اور وہ شخص کچھ عرصہ پہلے ہی انکی تدفین کے لیے پاکستان آیا تھا۔وجدان کافی غصے کے عالم میں گھر سے باہر نکلنے لگا۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اسکا انتقام،اسکی زندگی کا مقصد اسکے سامنے موجود تھا۔

'کہاں جا رہے ہو وجدان؟'


ہاشم صاحب نے تھوڑا سختی سے پوچھا۔


'دوستوں کے پاس۔'


وجدان نے سنجیدگی سے کہا۔


'میں جانتا ہوں کہ تم کس قسم کے دوستوں کی بات کر رہے ہو۔دیکھو بیٹا یہ سب صیح نہیں ہے تم اچھے لڑکے ہو اس طرح سے بری صحبت میں تو مت پڑو ۔تمہارے بچپن میں جو بھی ہوا جس کی وجہ سے آج تم زندگی اتنے بد گمان ہو اس سب کو بھول کیوں نہیں جاتے۔مکمل طور پر وجدان خان بن جاؤ کیا میری اور منور کی اتنی سی بھی وقعت نہیں ہے تمہاری نظروں میں۔'


ہاشم صاحب کی بات پر وجدان نے اپنی مٹھیاں کسیں۔


'کیا چاہتے ہیں منور انکل؟'


بے زاری سے پوچھا۔


'اس نے تمہیں کئی بار آرمی میں شامل ہونے کا کہا ہے۔'


ہاشم صاحب نے وجدان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


'میں نہیں ہونا چاہتا میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے بابا بس ایک اور اس مقصد کے بغیر میں کچھ بھی نہیں۔اگر اپنا یہ مقصد پورا نہیں کر سکا نا تو مر جاؤں گا۔'


وجدان نے ہاشم صاحب کو ایک نظر دیکھ کر کہا۔


'اپنے بچپن کے بارے میں کچھ تو بتا دو وجدان۔کیا تم اپنے اس نقلی باپ سے اتنی سی بھی محبت نہیں کرتے؟'


ہاشم صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وجدان انکو بلکل اپنا بیٹا لگتا تھا اپنا غرور لیکن وجدان نے کبھی بھی انہیں ایک باپ کی جگہ نہیں دی تھی۔


'اگر آپ مرنا چاہتے ہیں تو میں آپ سے محبت کر لیتا ہوں؟کیونکہ میری محبت ایسی ہی ہے بابا سب کی جان لے لیتی ہے۔'


اتنا کہہ کر وجدان رکا نہیں تھا اور ہاشم صاحب کو بہت ذیادہ فکر مند بھی کر گیا اسی لئے وہ ٹیلی فون کے پاس جا کر میجر منور صاحب کو فون کرنے لگے۔


'منور مجھے فکر ہے وجدان کی اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اس پر نظر رکھو۔'


ہاشم صاحب نے ساری بات کرنل منور صاحب کو بتائی۔


'تم فکر مت کرو ہاشم وجدان مجھے بھی اپنے بچوں کی طرح ہی عزیز ہے میں اسے غلط راہ پر نہیں چلنے دوں گا۔'


میجر منور صاحب نے انہیں حوصلہ دیا لیکن ہاشم صاحب کی پریشانی کم نہیں ہوئی تھی۔


وجدان ملک کے پاس پہنچا تو ملک نے اسے شیراز حسن کے ٹھکانے کا بتایا۔وجدان نے غصے سے اپنی مٹھیاں کسیں۔

'ہم آج رات ہی وہاں جا رہے ہیں۔'

وجدان نے حتمی فیصلہ سنایا۔

'ہاں خان ہم ضرور چلیں گے۔بس ایک بات ۔۔۔۔میں یہ کام اب چھوڑ رہا ہوں۔۔۔'

ملک کی بات پر وجدان نے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ ملک کو اپنا یہ کام بہت عزیز تھا۔

'کیوں؟' وجدان نے حیرت سے پوچھا۔

'اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں میں خان سب سے ذیادہ میری جان پر انہیں کا حق ہے اور ویسے بھی میرے بابا کو مجھ پر شک ہو گیا ہے۔انہوں نے مجھے اپنی قسم دی ہے کہ میں یہ سب چھوڑ دوں گا لیکن میرے دوست میرے بعد اس گینگ کو تم لیڈ کرو گے۔'


ملک نے وجدان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


'میرا مقصد آج پورا ہو جائے گا اور اس کے بعد مجھے نہ تو اس دنیا سے اور نہ ہی یہاں پر بسنے والے کسی انسان سے کوئی سروکار ہو گا۔'


وجدان نے انتہائی ذیادہ بے رخی سے کہا۔


'تو پھر کوئی اور مقصد تلاش کر لینا خان زیست کا سفر تو موت تک ہے یار اور تم اتنی جلدی تھک رہے ہو۔'

ملک نے مسکرا کر کہا۔

' مجھے اس زیست سے ہی نفرت ہے ملک ۔بس آج میرا مقصد پورا ہو جائے گا تو نہ تو مجھے موت سے کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی یہ سفر زیست کوئی اہمیت رکھے گا کیونکہ بنا مقصد یا کسی منزل کے سفر کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔'

وجدان نے سپاٹ سے انداز میں کہا۔

'اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے ہو تم خان۔'

ملک نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھ کر کہا۔


'زندگی نے تو مجھے بچپن میں ہی بڑا کر دیا تھا میں تو وہی بتا رہا ہوں جو زندگی کی تپش نے مجھے سیکھایا ہے۔'


وجدان نے اپنی سبز آنکھوں سے ملک کو دیکھ کر کہا۔

'اگر اس سب کی وجہ شیراز حسن ہے نا خان تو اسے مرتا دیکھ کر مجھے بھی بہت زیادہ خوشی ہو گی۔'

ملک نے دانت پیس کر کہا۔

'نہیں ملک موت ہی تو اسے نہیں ملے گی۔موت تو بہت چھوٹی سزا ہے ۔سزا تو تب ملے گی نا جب اسکی زندگی کو ہی جہنم بنا دوں گا میں۔'

وجدان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا اور ملک کے ساتھ اپنے پلین پر نظر ثانی کرنے لگا۔

🌈🌈🌈

زرش کو غائب ہوئے دو دن ہو چکے تھے اور ابھی تک اسکا کوئی بھی سراغ نہیں مل سکا۔وجدان کسی سے بھی بات نہیں کرتا تھا۔زرش کا دیا وہ خط ان دو دنوں میں وجدان نے کتنی مرتبہ پڑھا تھا یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔ایک احساس اس کے دل میں اٹھ رہا تھا ۔وہ احساس جس سے ہمیشہ خود کو بچانے کی قسم کھائی تھی اس نے لیکن محبت پر کبھی کسی کا زور چلا بھی ہے۔مگر محبت کے اس احساس کو سمجھنے میں وجدان نے بہت ذیادہ دیر لگا دی تھی۔۔۔بہت ذیادہ۔۔۔

'وجدان۔۔۔۔۔۔۔۔'

شایان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

'کچھ پتہ چلا؟'

وجدان نے سر اٹھائے بغیر سوال کیا۔

'نہیں وجدان کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔۔۔۔۔۔اور سب سے ذیادہ پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ سلمان انکل سے بھی کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو رہا۔'

شایان سر جھٹک کر اس کے پاس بیٹھا ۔سب سے ذیادہ پریشان تو وہ جانان کو لے کر تھا جو پریشانی کی وجہ سےبہت ذیادہ بیمار ہو گئی تھی۔جبکہ حمنہ کو تو عثمان نے اس سب کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں تھا۔

'مجھے سب کچھ بتاؤ شایان سب کچھ۔'

وجدان کے لہجے میں چٹانوں کی سی مظبوطی تھی۔

'میں نے وعدہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔'

'اب اس سب کا وقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آدھا سچ تو میں پہلے سے ہی جانتا ہوں اب کی بار مجھے پورا سچ جاننا ہے۔'

شایان نے اثبات میں سر ہلایا اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ اب سچ کو سامنے لانا بہت زیادہ ضروری تھا۔


'زرش ہمیشہ سے ایسی ڈرپوک نہیں تھی اور نہ ہی وہ بے آواز تھی۔بلکہ کافی ذیادہ چلبلی اور بہادر لڑکی تھی لیکن ایک دن یہی سب اسے مہنگا پڑھ گیا۔شرارت میں گھر آنے کی بجائے اپنی سہیلی کے ساتھ بس میں چلی گئی اور قسمت کا کھیل دیکھو اسی دن کچھ ڈاکوؤں نے اس بس کو ہائی جیک کر کے ان لڑکیوں کو دوسرے ملکوں میں بیچنے کا ارادہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی ہی عزتوں کی نیلامی پر اترے تھے وہ درندے صرف اور صرف دولت کے لیے۔'


شایان نے غصے سے اپنی مٹھیاں کسیں۔اس کے اندر کھویا ہوا دارا باہر آنا چاہتا تھا۔


'سلمان صاحب نے اپنی دولت اور سیاسی اثرورسوخ استعمال کر کے زرش کا پتہ لگوا لیا ۔انہیں لگا تھا کہ ان لوگوں کو پیسے دے کر وہ زرش کو چھڑوا لیں گے۔لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو انکا سامنا ایک شخص سے ہوا ۔۔۔۔۔۔ آر بی۔۔۔۔۔۔۔ سلمان صاحب نے صرف اسکی آنکھیں دیکھی تھیں کیونکہ اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ جب انہوں نے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو وہ آدمی زرش کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو گیا مگر اسکا نام جانتے ہی اس نے انکار کر دیا۔وہ بے ہودہ گھٹیا آدمی ایک بارہ سال کی بچی کو اپنی ملکیت کہہ رہا تھا۔اس نے کہا تھا کہ وہ لڑکی اسکا جنون ہے اور وہ صرف اسی کی ہو گی۔'


وجدان نے اپنی مٹھیوں کو ضبط سے کسا تھا۔جبکہ اگلی بات اسے بتانے لے لئے شایان نے بہت ذیادہ ہمت اکٹھی کی ۔


' اس کمینے نے سلمان صاحب کو کہا کہ وہ اس پر اپنی مہر لگائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔پھر سلمان صاحب بے بسی سے دروازے کے باہر کھڑے زرش کی درد ناک چیخیں سنتے رہے تھے۔۔۔۔'


آخری بات کہہ کر شایان نے غصے سے اپنے دانت پیسے۔جبکہ وجدان کے بے تاثر سے چہرے پر وحشت تھی صرف وحشت۔


'اور کچھ ہی دیر کے بعد اس درندے کے آدمیوں نے سلمان صاحب کو بے ہوش کیا اور انہیں وہاں سے لے گئے۔'


شایان نے ایک گہرا سانس لیا۔

'لیکن پھر وہاں پر آرمی نے اٹیک کیا ایک انتہائی قابل ایجنٹ نے آرمی کو وہاں تک پہنچایا تھا جسکی وجہ سے زرش وہاں سے آزاد تو ہو گئی تھی لیکن اس حادثے کے بعد وہ لڑکی چھ ماہ تک کوما میں رہی تھی اور ہوش آنے پر وہ اپنی آواز کے ساتھ ساتھ اپنی بہادری،وقار،چنچلہاٹ سب کچھ کھو چکی تھی اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگی تھی وہ۔'

شایان نے اپنے غصے کو کم کرنے کے لیے گہرا سانس لیا تھا۔

'وجدان تم۔۔۔۔۔۔۔۔'

'مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔ '

وجدان نے سختی سے اسکی بات کو کاٹا تو شایان اسکی حالت کو سمجھتا اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔ وجدان وہاں سے اٹھا اپنا ہاتھ بہت ذیادہ زور سے دیوار میں دے مارا ۔اس کا دل کر رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے۔آر بی پر اسے بہت زیادہ غصہ آ رہا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ غصہ اسے خود پر آ رہا تھا۔

وہ معصوم تو جانتی بھی نہیں تھی کہ باہر ایک بھیڑیا اسکی تاک میں لگا ہے۔وجدان کی زمہ داری تھی اسکی حفاظت کرنا اور وجدان اس میں ناکام ہوا تھا بہت بری طرح سے ناکام ہوا تھا۔ایک غضبناک چیخ کے ساتھ وجدان نے پاس پڑی شیشے کی میز کو پٹخ کر توڑ دیا اور پھر اپنے ہاتھ میں موجود خط کو دیکھنے لگا۔

میں نے تم سے وعدہ کیا تھا نور کہ تمہاری حفاظت کروں گا۔تمہیں کوئی بھی چھو نہیں پائے گا اور اب ایسا ہی ہو گا۔یہ میرا میری بے مقصد زندگی سے وعدہ ہے کہ ہر چلتی سانس کا مقصد اب صرف اور صرف تمہاری حفاظت اور مسکراہٹ ہے اور اس مقصد کو پانے کے لیے اپنی آخری سانس تک کوشش کروں گا۔تمہیں میں ڈھونڈ لوں گا نور۔تمہیں میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔

وجدان اپنے ہاتھ میں موجود خط کو دیکھ کر سوچ رہا تھا۔اسکا دل صدیوں بعد کسی کے لیے دھڑکا تھا اور اسی کا دل وجدان نے بہت بری طرح سے توڑ دیا تھا۔لیکن اب وجدان نے اسکی حفاظت کرنی تھی اور اسے بچانے کے لیے وجدان اپنی جان بھی داؤ پر لگاسکتا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

سلمان صاحب بے سدھ سے اندھیرے میں کرسی سے بندھے ہوئے تھے۔فاطمہ کو تو وہ لوگ کل رات ہی ان کے پاس سے لے گئے تھے۔سلمان صاحب جانتے تھے کہ انہیں ہمیشہ کی طرح زرش کا پتہ جاننے کے لیے ٹارچر کیا جائے گا اور سلمان صاحب یہ بھی جانتے تھے کہ وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہی رہیں گی۔


دروازہ کھلنے کی وجہ سے کمرے میں تھوڑی سی روشنی ہوئی تو سلمان صاحب نے دروازے کی طرف دیکھا لیکن انہیں بس ایک ہیولا ہی نظر آیا تھا


'کیسے ہو سلمان؟حالت تو اچھی نہیں لگ رہی تمہاری۔'


اس شیطان کی آواز سلمان صاحب کی سماعتوں سے ٹکرائی۔


'خیر میں تمہیں بتانے آیا تھا کہ میرا نکاح ہونے جا رہا ہے چاہتا تو تھا کہ تم بھی اس میں شامل ہوتے اپنی آنکھوں سے سب دیکھتے لیکن افسوس تمہیں یہاں سے شفٹ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔'


آر بی نے سلمان صاحب کے قریب آ کر انکی کرسی کے بازؤں پر اپنے ہاتھ رکھے۔


'پوچھو گے نہیں کہ کس سے ہو رہا ہے میرا نکاح؟'


سلمان صاحب نے پریشانی سے نظریں اٹھا کر اسکے خوبصورت لیکن شیطانی چہرے کو دیکھا۔


'تمہاری۔۔۔۔آں ہاں۔۔۔۔میری نور زرش سے۔'


آر بی نے سلمان صاحب پر بم گرایا تھا۔سلمان صاحب کو لگا کہ ان الفاظ نے ان کی روح تک کھینچ لی تھی ایسا کیسے ہو سکتا تھا زرش تو وجدان کے پاس تھی بلکل محفوظ۔


'سوچا بیٹی کے نکاح میں شرکت تو کر نہیں پاؤ گے تو تمہیں مبارکباد ہی دے دوں آخر کار ہونے والے سسر جو ہو میرے۔'


آر بی مسکرا کر ان سے دور ہوا۔


'کاش تب تم نے میری بات مانی ہوتی سلمان اپنی مرضی سے زرش کو میرے نکاح میں دے دیا ہوتا تو تب اتنا ظلم نہ کرتا میں ۔'


سلمان صاحب روتے ہوئے اس درندے کو دیکھ رہے تھے۔


'لیکن اب میں تمہاری مرضی کا محتاج نہیں ہوں زرش اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے اور اب اسے میری ہونے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا خود زرش بھی نہیں۔'


آر بی پھر سے ان کے قریب آیا۔


'لیکن فکر مت کرو تم میں نکاح کے کچھ دنوں بعد اسے تم سے ملوانے لے کر آؤں گا اور اب تو میں خوش ہوں اسی لیے تمہاری بیوی کو بھی تمہارے پاس ہی رہنے دیا جائے گا۔کیا یاد کرو گے کس سخی دل سے پالا پڑا تھا۔'


آر بی نے احسان جتانے والے انداز میں کہا اور ایک آخری نگاہ زارو قطار روتے ہوئے سلمان صاحب پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔


'یا اللہ پاک میری بچی کی حفاظت کرنا اسے بچا لینا اس شیطان سے بچا لینا۔'


سلمان صاحب نے روتے ہوئے دعا کی وہ نہیں جانتے تھے کہ آر بی زرش کے نکاح کے بارے میں جان کر کیا کرے گا کہیں زرش کو۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔سلمان صاحب تو ایسا کچھ سوچ بھی نہیں پائے تھے۔

🌈🌈🌈🌈


زرش نہیں جانتی تھی کہ اسے اس اندھیرے میں قید ہوئے کتنے دن ہو چکے تھے۔وہ دروازہ بس اسے کھانا دینے کے لیے ہی کھلتا تھا۔زرش کی حالت اس پرندے کی ماند تھی جسے قید میں رکھ کر اسکا خیال رکھا جا رہا تھا مگر تھی تو وہ قید ہی نا ایک غلام۔اور یہی سب تو اس کے ساتھ چھے سال پہلے بھی ہوا تھا۔وہ سب یاد کر زرش پھر سے خود میں سمٹ کر رو دی۔


بارہ سالہ زرش میں فاطمہ بیگم کی جان بستی تھی۔جانان اور زرش کی بھرپور شرارتوں سے ہی تو گھر میں رونق رہتی تھی۔مگر جہاں جانان بہت سی چیزوں سے ڈر کے اپنی شرارتوں کو ایک حد میں رکھتی تھی وہیں زرش بہت مرتبہ اپنی بہادری پر سلمان صاحب سے مار کھا چکی تھی۔انہیں شرارتوں میں تو ایک دن وہ اپنی گاڑی میں جانے کی بجائے اپنی دوست ربیعہ کے ساتھ بس میں سوار ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس شرارت پر اسکی بہت شامت آئے گی لیکن جو اسکے ساتھ ہوا تھا وہ تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔


بس کے چلنے کے کچھ دیر بعد ہی کچھ نقاب پوش لوگ انکی بس میں داخل ہوئے تھے اور انکے کنڈکٹر کو گولی مار کر مار دیا۔سب لڑکیاں خوف کے مارے چلانے لگیں۔


'چپپپپ۔۔۔۔اگر کسی کی آواز بھی نکلی نا تو اگلا نشانہ وہ خود بنے گی۔'


ایک نقاب پوش کی اس بات پر سب لڑکیاں خاموش ہو چکی تھیں۔جبکہ ایک اور نقاب پوش ڈرائیور کے سر پر بندوق رکھ کر اسے چلنے کا کہہ رہا تھا۔ان دہشتگردوں کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچنے کے بعد وہ لوگ اس ڈرائیور کو بھی گولیوں سے چھلنی کر چکے تھے۔


ان سب لڑکیوں کو اندھیرے کمروں میں قید کیا گیا تھا۔جہاں سب لڑکیاں ان لوگوں سے سہم جاتی وہاں صرف ایک زرش ہی ایسی لڑکی تھی جو کبھی چلا کر تو کبھی ان لوگوں پر چیزیں پھینک کر انہیں سب سے دور رکھتی۔ ربیعہ کو تو ہاتھ لگانے پر زرش نے سٹیل کے گلاس سے ایک آدمی کا سر ہی پھاڑ دیا تھا۔


'کمینی۔۔۔۔۔۔۔'


وہ آدمی اپنے ماتھے سے نکلتے خون پر ایک ہاتھ رکھتا زرش کی طرف بڑھا اور اسے تھپڑ مارنے کے لیے اپنا دوسرا ہاتھ اٹھایا جو کوئی ہوا میں ہی تھام چکا تھا۔


'نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔اتنے حسین چہرے کو بگاڑنے کا دل کرتا ہے کیا؟'


زرش نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹا کر اس آدمی کو دیکھا جو ایک غلیظ مسکراہٹ کے ساتھ زرش کو دیکھ رہا تھا۔اس نظروں سے وہ معصوم سی بچی گھبرا کر دور ہوئی تھی۔


'نام کیا ہے تمہارا؟'


وہ آدمی اپنی انگلی میں موجود انگوٹھی کو گھماتے ہوئے پوچھنے لگا۔


'ننن۔۔۔۔۔۔۔نورِ زرش۔'


'نام کا مطلب جانتی ہو اپنے۔نور یعنی روشنی اور زرش معنی چمکتا پھول۔۔چمکتے پھول کی روشنی۔کیا اس بھی ذیادہ خوبصورت نام ہو سکتا ہے بھلا؟'


اس شخص کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جو کسی چیز کے پسند آ جانے پر آتی ہے۔


'بہت جلد ملاقات ہو گی ہماری لیکن تنہائی میں۔'


اس نے شہادت کی انگلی سے زرش کے گال کو چھو کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔اس کے جاتے ہی زرش کو لگا تھا کہ بلا ٹل چکی ہے مگر اسکی مشکلات تو ابھی شروع ہوئی تھیں۔


اگلی رات ہی وہ دونوں آدمی پھر سے اس کمرے میں داخل ہوئے اور زرش کے پاس آ کر اسے ساتھ چلنے کا کہا تھا۔یہ سن کر ربیعہ نے فوراً زرش کا ہاتھ بہت زور سے پکڑ لیا تھا۔


'ڈرو نہیں بیا کچھ نہیں ہو گا۔'


زرش نے ربیعہ کو حوصلہ دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ زور زور سے انکار میں سر ہلانے لگی۔


'اے لڑکی ذیادہ ڈرامے نہیں کر اور چل میرے ساتھ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔'


اس آدمی کو ربیعہ کی طرف بڑھتا دیکھ کر زرش جلدی سے خود کو چھڑوا کر کھڑی ہوئی تھی۔


'نن۔۔۔۔۔۔نہیں دور رہو میں چل رہی ہوں تمہارے ساتھ۔'


زرش نے کھینچ کر اپنا ہاتھ ربیعہ سے چھڑوایا تھا۔ربیعہ روتے ہوئے زرش کو دیکھ رہی تھی۔


'فکر مت کرو بیا سب ٹھیک ہو جائے گا۔'


زرش نے پھر سے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی تھی حالانکہ اسکا اپنا دل بھی دہل رہا تھا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ اب کیا ہو گا۔وہ لوگ زرش کو ایک کمرے میں چھوڑ کر خود وہاں سے چلے گئے تھے۔زرش نے گھبراتے ہوئے ارد گرد کا جائزہ لیا تھا۔وہ کمرہ کافی بڑا تھا اور وہاں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی جو کہ صرف ایک کونے میں پڑے بڑے سے دیے سے نمودار ہو رہی تھی۔


'ارے ڈرو نہیں یہاں آؤ گڑیا۔'


اسی شخص کی آواز پر زرش نے گھبراتے ہوئے اسے اندھیرے میں تلاش کرنا چاہا تھا۔


'پپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز ہمیں جانیں دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


زرش کی نہ چاہتے ہوئے بھی آواز میں نمی پیدا ہوئی تھی۔


'ارے تم کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔تم ان لڑکیوں کی طرح بلکل بھی نہیں ہو تم خاص ہو بہت خاص انکا مقدر کنیز بننا ہے لیکن تمہارا نہیں۔تمہاری تقدیر میں میرا ساتھ لکھا ہے نورِ زرش۔تم میری ملکہ بنو گی۔'


اس گھٹیا شخص کی باتیں زرش کے سر پر سے گزر گئی تھیں۔


'پپپ۔۔۔۔۔۔پلیز ہمیں جانے دیں۔۔۔۔۔۔۔'


زرش نے پھر سے منت کی تو وہ شخص مسکراتے ہوئے اسکے قریب آیا۔


'تمہارے بابا آئے ہیں باہر وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ تمہیں چھوڑ دوں۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں ایسا نہیں کروں گا نور زرش۔تم میری ہو۔یہ تو تمہارے باپ کا خواب ہی ہو گا کہ میں تمہیں جانے دوں گا۔'


اس نے آگے بڑھ کر زرش کا بازو پکڑا تو زرش روتے ہوئے چلانے لگی اور اپنے آپ کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگی۔


'چپ۔۔۔۔۔۔۔۔آواز نہیں نکلے تمہاری ورنہ سزا بہت بری ہو گی۔پہلے ہی تمہارے اس کمینے باپ کے کیے کی سزا بھگتو گی تم۔میں نے شرافت سے اس سے کہا کہ تمہیں میرے نکاح میں دے دے مگر اس کمینے نے انکار کر دیا کہتا ہے میں تمہارے قابل نہیں۔اب میں تمہیں اپنے سوا کسی کے بھی قابل نہیں چھوڑوں گا۔'


آر بی نے چہرے پر شیطانیت سجا کر کہا لیکن زرش اسکی کوئی بھی بات سنے بغیر مقابلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔جب زرش کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے اپنے دانت اسکی کلائی میں گاڑ دیے۔


' آہ۔۔۔۔۔۔۔'


آر بی نے زرش کو اسکے بالوں سے دور کر کے ایک زور دار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا تھا جسکی شدت کے باعث اس کا نازک جسم بہت زور سے زمین پر گرا تھا۔


'کچھ زیادہ ہی بہادر ہو تم۔۔۔۔۔۔۔آج کے بعد نہیں رہو گی۔'


آر بی ایک غلیظ مسکراہٹ کے ساتھ زرش کی طرف بڑھا تھا جبکہ زرش اسکو دیکھ کر خوف سے چلاتی رہی تھی۔آر بی نے آگے بڑھ کر ایک رسی سے زرش کے دونوں ہاتھ بھاری بھرکم بیڈ سے باندھ دیے تھے۔


'شششششش۔۔۔۔'


ایک چاقو زرش کے چلاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھا گیا تھا۔


'اب تمہاری آواز نکلی نا تو اس چاقو سے تمہاری اس دوست کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دوں گا۔'


زرش فوراً خاموش ہو کر سہمی ہوئی آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اس درندے کو دیکھنے لگی۔


میں تم پر اپنی مہر لگاؤں گا بلکل جیسے پرانے زمانے میں اپنے غلاموں پر لگا کر ملکیت ظاہر کی جاتی تھی اور اگر اس سب کے دوران تمہاری آواز بھی نکلی نا تو تمہاری دوست زندہ نہیں بچے گی سمجھی۔۔۔۔۔'


زرش کے جسم میں خوف سوئیوں کی طرح چبھ رہا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے بند کر کے اثبات میں سر ہلایا تھا۔


Good girl.

آر بی نے اسکے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی اور پھر اپنے انیشیل والی انگوٹھی اتار کر اسے پاس موجود دیے پر گرم کرنے لگا۔زرش خوف سے آنکھیں پھاڑے اسکی ہر حرکت کو دیکھ رہی تھی۔وہ مسکراتے ہوئے زرش کے پاس آیا اور اس کی شرٹ کو کھینچ کر کندھے سے پھاڑ دیا۔زرش نے اپنی چیخ کو بہت مشکل سے روکا ۔


'ریڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


آر بی نے مسکرا کر وہ جلتی ہوئی انگوٹھی اسکے کندھے پر گاڑ دی تھی۔اس مرتبہ زرش اپنی چیخ کو نہیں روک پائی تھی۔اسکی ہر چیخ اسکے درد کی گواہی دے رہی تھی۔


'نونونو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چیٹنگ ہے یار تمہیں چلانا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔تم ہار گی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چلو کوئی بات نہیں ایک اور چانس دیا تمہیں۔۔۔۔۔۔۔'


اتنا کہہ کر وہ اس انگوٹھی کو پھر سے گرم کرنے لگا جبکہ تکلیف سے زرش کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔


'،آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


اس دفعہ انگوٹھی اس نے اسکی گردن کے پیچھے گاڑی تھی اور ایک چیخ مار کر زرش بے سدھ ہو کر زمین پر گری تھی۔


'لو تم تو پھر سے ہار گئی۔۔۔۔۔۔۔۔چچچچچ۔۔۔۔۔۔سو سیڈ گڑیا اپنی دوست کی زندگی پیاری نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔چلو ایک آخری چانس اور اگر اب نہیں چلائی تو جیت جاؤ گی۔۔۔۔۔۔'


اتنا کہہ کر اس نے مسکراتے ہوئے پھر سے انگوٹھی کو جلایا اور اس مرتبہ اسکا نشانہ زرش کے کندھے پر وہ جلا ہوا زخم ہی تھا۔۔کمرہ پھر سے دل دہلا دینے والی چیخوں سے گونج اٹھا تھا۔وہ شخص ہنستے ہوئے زرش سے دور ہوا۔


'تم تو بہت کمزور نکلی میری بہادر سی گڑیا۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی تم میری ہو۔۔۔۔۔۔۔تمہارے جسم پر یہ سب نشان اس بات کی گواہی ہیں کہ تم آر بی کی ملکیت ہو۔۔۔۔۔میری امانت ہو تم یاد رکھنا یہ۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی تم کسی کے بھی قابل نہیں رہی ان نشانیوں کو دیکھ کر تمہیں کبھی بھی کوئی بھی نہیں اپنائے گا۔ہر کوئی تمہیں گھٹیا سمجھ کر دھتکار دے گا۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔اب دیکھتے ہیں کہ تمہارا وہ کمینہ باپ تمہارے قابل کوئی شخص کہاں سے ڈھونڈتا ہے۔'


اس کے تاثرات مزید خطرناک ہو گئے تھے۔


'لیکن یہ صرف ہم دونوں جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے گڑیا صرف ہم دونوں جانتے ہیں کہ تمہاری عزت پر ہلکی سی بھی آنچ نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات تم کسی تیسرے کو نہیں بتاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔تم کسی کو بھی کچھ نہیں بتاؤ گی ورنہ یہ سچ جاننے والا ہر شخص اس دنیا سے اٹھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔سمجھی۔۔۔۔۔'


زرش کی آنکھیں تکلیف اور خوف سے بند ہو رہی تھیں۔آر بی نے مسکراتے ہوئے اسکے بال چہرے سے ہٹائے تھے۔


'آر بی کی ہو تم۔۔۔۔صرف میری ملکیت ہو۔۔۔۔تمہارے جسم پر مہر لگی ہے میرے نام کی۔۔۔۔جس نے تمہارے بارے میں سوچا بھی نا اسکی زندگی جہنم سے بھی بدتر کر دوں گا میں اور ساتھ ہی ساتھ تمہاری بھی۔اب تم ڈرو گی مجھ سے ہمیشہ ڈرو گی اور یہی ڈر تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دے گا۔'


کچھ دیر کے بعد آر بی کے آدمی اس کے حکم کے مطابق ربیعہ کو وہاں لے کر آئےتھے۔


'غلطی کی سزا ضرور ملتی ہے تم نے اپنے باپ کی غلطی کی سزا بھگتی اور تمہاری وہ دوست تمہاری غلطی کی بھگتے گی۔'


آر بی اتنا کہہ کر ربیعہ کے پاس گیا، اس کی گردن کو پکڑا اور اسے ایک جھٹکے سے توڑ اسکی گردن کو توڑ کر زمین پر پھینکا۔ایک آخری چیخ اور بہت سے آنسو زرش کی آنکھوں سے نکلے تھے۔اسکی نظریں مسلسل ربیعہ کے بے جان وجود پر گڑی ہوئی تھیں۔


آر بی زرش کے قریب آنے لگا زرش مزید سہم گئی تھی لیکن تبھی ایک دوسرا آدمی ہانپتے ہوئے اندر آیا۔


'باس آرمی نے اٹیک کر دیا ہے ہمیں جلدی سے پچھلے راستے سے نکلنا ہو گا۔'


'کیا بکواس۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


ابھی اسکے الفاظ مکمل طور پر ادا بھی نہیں ہوئے تھے جب باہر سے گولیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔


'چلیں باس جلدی کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


وہ آدمی اب آر بی کو اپنے ساتھ کھینچنے لگا تھا لیکن آر بی زرش کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا اسی لیے اپنے چاقو سے اسکی رسیوں کو کاٹنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ رسیاں بہت ذیادہ مظبوط تھیں۔آر بی جان گیا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے گا اسی لیے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔


'تم کسی کے قابل نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔ تمہارے وجود پر میری چھاپ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔صرف آر بی کی ہو تم ۔۔۔۔۔ہمیشہ یاد رکھنا یہ۔ '


زرش نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔لیکن پھر اپنے ہاتھ آزاد ہونے کے احساس پر اسکی آنکھیں کھلی تھیں اور گہری سبز آنکھوں سے ٹکرائیں۔زرش پلکیں جھپکے بغیر ان آنکھوں میں دیکھتی رہی تھی۔


'فکر مت کرو تمہیں کچھ نہیں ہو گا اب تم محفوظ ہو۔'


اس مسیحا کے وہ الفاظ ہی زرش نے سنے تھے اور ان سبز آنکھوں کو جھانکتے ہوئے زرش ہوش کی دنیا سے بے غانہ ہو گئی۔

🌈🌈🌈🌈

(ماضی)


وجدان اور ملک اپنے باقی کے ساتھیوں کے ساتھ شیراز حسن کے گھر جانے کو تیار تھے۔شیراز اس وقت شہر سے کافی دور رہ رہا تھا اور اسی بات کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھانا تھا۔


وجدان نے تو سوچ لیا تھا کہ اسے کس قدر اذیت میں مبتلا کرے گا وہ موت مانگے گا اور اسے موت بھی نصیب نہیں ہو گی۔ہر گزرتا دن اسکے کرب میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔


'خان چلو ہمیں چلنا چاہئے۔'


ملک نے کہا تو وجدان نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی چیزیں سمیٹیں اور ملک کے ساتھ چل دیا۔پورا راستہ وجدان نے کس طرح بے چینی سے کاٹا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔شیراز کی آنکھوں میں خوف اور ہار دیکھنے کی چاہ وجدان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی۔


'خان۔۔۔وہ دیکھ۔'


ملک نے گاڑی کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جہاں سے شیراز حسن کا گھر نظر آ رہا تھا اور اس وقت وہ گھر آگ کی لپٹوں میں گھرا ہوا تھا۔


'جلدی چلو۔۔۔۔'


وجدان نے بہت بے چینی سے کہا وجدان نہیں چاہتا تھا کہ شیراز اتنی آسانی سے مر جائے۔۔۔نہیں نہیں اسکی موت اتنی آسان کیسے ہو سکتی تھی ؟ لوگوں کی ہنستی کھیلتی زندگی کو اجاڑنے والا شخص خود اتنی آسانی سے کیسے مر سکتا تھا ۔۔۔۔نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔


'خان رک۔۔۔۔۔'


گاڑی کے رکتے ہی وجدان بہت ذیادہ بے چینی سے اس جلتے گھر کی طرف بڑھا تو ملک نے لپک کر وجدان کو تھاما تھا۔


'چھوڑ مجھے۔۔۔۔وہ نہیں مر سکتا ملک وہ اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا۔۔۔۔۔'


وجدان نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بے چینی سے کہا۔


'نہیں خان آگ بہت سخت ہے تو اس میں جائے گا تو جل جائے گا۔'


ملک نے وجدان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہاں پروا کسے تھی۔وجدان کی نظروں میں صرف ایک گھر نہیں جل رہا تھا اس گھر کے ساتھ وجدان کے جینے کی وجہ اسکا مقصد سب کچھ جل رہا تھا۔


'نہیں ملک وہ نہیں مر سکتا ۔۔۔۔وہ اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا۔۔۔۔۔'


وجدان نے چلا کر کہا اور ملک کی گرفت سے نکل کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔


'اتنی آگ میں کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکتا میرے یار۔'


ملک نے اسکے کندھے کو تھام کر کہا لیکن وجدان تو ان مردہ سبز آنکھوں سے اپنی زندگی کے مقصد کو اپنے سامنے جلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔تبھی پولیس اور فائر بریگیڈ کے سائرن کی آواز آئی تو ملک نے بے چینی سے وجدان کو ہلایا۔


'خان چل پولیس آ رہی ہے اسکا الزام ہم پر لگ جائے گا چل۔۔۔۔'


ملک کے لہجے سے بے چینی چھلک رہی تھی لیکن وجدان ابھی بھی بت بنا بس اس آگ کو گھور رہا تھا۔


'خان چل۔۔۔۔۔'


لیکن ابھی بھی ملک کی بات کا وجدان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔کافی دیر کوشش کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔


'تو چلا جا۔' وجدان نے سپاٹ لہجے میں کہا۔


'خان۔۔۔۔۔!!!'


'جا۔۔۔۔'


وجدان نے سختی سے کہا تو ملک وجدان کو چھوڑ کر خود اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔


فائر بریگیڈ والے آگ بجھانے میں مصروف تھے۔مگر وجدان پر نہ تو کسی نے دھیان دیا تھا اور نہ ہی وجدان وہاں سے ہلا تھا وہ تو بس ایک لاش کی مانند اس آگ کو دیکھ رہا تھا۔


'وجدان۔۔۔۔'


میجر منور صاحب نے وجدان کے کندھے پر ہاتھ رکھا لیکن وجدان نے کوئی بھی جواب نہیں دیا تھا۔تبھی ریسکیو والوں نے دو لاشیں نکال کر باہر رکھی تھیں جن میں سے ایک لاش تو کسی عورت کی تھی جو اتنی بری طرح سے جل چکی تھی کہ اسے پہچاننا ناممکن ہی تھا۔جبکہ دوسری لاش شیرازحسن کی ہی تھی کیونکہ اسکا پورا جسم جل گیا تھا لیکن چہرہ ابھی بھی پہچاننے کے قابل تھا۔


'وجدان بیٹا۔۔۔۔۔'


میجر منور صاحب نے ایک اور کوشش کی لیکن وجدان بہت دیر تک شیراز کی لاش کو دیکھتا رہا تھا جو صرف خود نہیں مرا تھا وجدان کے جینے کے ہر مقصد اور چاہ کو ساتھ لے کر مرا تھا اور پھر وہاں پر موجود خاموشی کو وجدان کی درد ناک چیخوں نے توڑا تھا۔جن میں اس قدر کرب تھا کہ ہر کوئی اس جلے گھر اور لاشوں کو نظر انداز کر کے اس نوجوان کو بری طرح سے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔


وجدان نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا تھا لیکن پھر بھی وجدان کے پاس ایک مقصد تو تھا اور جب کوئی امید ،کوئی مقصد ہی باقی نہ رہے تو زندگی بے کار ہو جاتی ہے۔


اچانک ہی وجدان نے اپنی پاکٹ سے گن نکالی اور اسے سیدھا اپنی کن پٹی پر رکھ کر گولی چلا دی لیکن عین وقت پر میجر منور صاحب نے بندوق کا رخ آسمان کی طرف کر دیا تھا۔


'پاگل ہو گئے ہو وجدان کیا کر رہے ہو تم؟'


میجر منور صاحب نے وجدان کے ہاتھ سے بندوق چھین کر پھینک دی اور وجدان کو کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔


'حرام کی موت مرنا چاہتے ہو؟'


میجر منور صاحب غصے سے چلائے تو وجدان نے آنسوؤں سے بھری سبز آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں،کرب ،تکلیف،شکست۔


'کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے مرنا چاہتا ہوں میں۔بس مرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کوئی مقصد نہیں ہے میری زندگی کا کچھ نہیں بچا اس میں۔۔۔۔۔مجھے مار دیں۔۔۔۔پلیز مار دیں مجھے۔۔۔۔۔'


میجر منور صاحب نے بہت رحم سے اس تباہ حال نوجوان کو دیکھا جو ان کے سامنے ہاتھ جوڑے موت کی بھیک مانگ رہا تھا۔


'ایسا نہیں ہے وجدان میرے بچے زندگی میں کیسے کوئی مقصد نہیں ہو سکتا،کیونکر زندگی میں اتنی مایوسی ہو سکتی ہے؟زندگی تو خود ایک مقصد ہے بیٹا ۔'


میجر منور صاحب نے وجدان کو سمجھانے کی کوشش کی۔


'لیکن میری زندگی نہیں ہے انکل میری زندگی میں کچھ بھی نہیں بچا۔مرنا ہے مجھے بس مرنا ہے مجھے۔'


وجدان زارو قطار رو رہا تھا۔


'ٹھیک ہے مر جانا ۔۔۔۔۔لیکن ایسے نہیں۔۔۔خودکشی کر کے سب سے گھٹیا اور حرام کی موت مت مرو وجدان بلکہ اپنی زندگی کو اللہ کی راہ کے میں لگا دو۔زندگی کو اس کے بندوں کی حفاظت کے لیے استعمال کرو اور ایسا کرتے مر بھی جاؤ گے نا تو کم از کم حلال کی ،ایک شہید کی موت کے ساتھ روز قیامت اپنے والدین کے سامنے سر خرو تو ہو گے۔کیا کہو گے الفاظ درانی کو؟اپنے اس عظیم باپ کو کہ میں حرام کی موت مر کے اپنے مقدر میں جہنم لے کر آیا ہوں۔'


وجدان نے حیرت سے میجر منور صاحب کو دیکھا۔


'ہاں ہم جانتے ہیں کہ تم کس کے بیٹے ہو۔تمہیں کیا لگا تھا کہ تم نہیں بتاؤ گے تو ہمیں پتہ نہیں چلے گا۔ اسی لیے تو ہم نے تمہیں ہاشم کا نام دیا تھا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ تمہارے نام کے ساتھ الفاظ کا نام تمہاری موت کی وجہ بن جائے گا۔اسی لئے تو تمہیں نئی پہچان دی تھی ہم نے وجدان۔تمہیں نئی زندگی دی تا کہ تم اپنے باپ کی طرح ایک عظیم اور بہادر انسان بنو۔نہ کہ اس لیے دی تھی کہ بزدلوں کی طرح خود کو مٹا دو۔'


وجدان نے انکی باتیں سن کر سر جھکایا۔


'میں کیا کروں؟'


وجدان نے سر جھکا کر پوچھا۔


'تم خان ہو نا وہ مشہور غنڈہ جسے برے لوگ اپنے لئے موت کا فرشتہ مانتے ہیں کیونکہ تم نے ہر برا کام کرنے والے کو اسکے انجام تک پہنچا دیا۔تم ابھی بھی یہی کام کرو گے وجدان لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر۔میں تمہیں آرمی میں کرواؤں گا اور ملک کے ہر دشمن کے دشمن بنو گے۔'


وجدان نے انہیں حیرت سے دیکھا۔


'وعدہ کرو وجدان۔۔۔۔وعدہ کرو ایک بہتر زندگی کا۔۔۔۔نیکی اور سچائی کی راہ چننے کا۔۔۔وعدہ کرو وجدان اپنی جان کو صرف اور صرف پاک وطن کے لیے گروی رکھنے کا۔'


کرنل منور صاحب نے وجدان کا ہاتھ تھام کر کہا تو وجدان کافی دیر سوچتا رہا۔ہاں وہ مرنا چاہتا تھا لیکن حرام کی موت مر کر اپنے بابا کو کیا جواب دیتا۔اگر حلال موت مرے گا تو ان کے سامنے سر جھکا کر تو نہیں کھڑے ہو گا۔


'میں وعدہ کرتا ہوں یہ زندگی صرف اور صرف اس وطن کی ہے اور کوئی مقصد نہیں ہے میرا۔ '


وجدان نے انتہائی سپاٹ انداز میں کہا اور وہاں سے چلا گیا وہ بس اکیلا رہنا چاہتا تھا۔

🌈🌈🌈

'بی بی جی۔۔۔۔۔۔۔'


زرش نے اپنے گھٹنوں پر سے سر اٹھا کر اپنے سامنے موجود چندا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔چندا کو خاص طور پر زرش کے لئے رکھا گیا تھا کیونکہ چندا اسکے اشاروں کی زبان سمجھ لیتی تھی۔اتنے دنوں سے اس نے صرف چندا کی صورت ہی تو دیکھی تھی۔آر بی تو شاید کہیں گیا ہوا تھا۔


'یہ آپکا جوڑا بی بی جی صاحب جی نے کہا ہے کہ تیار ہو جائیں پھر کچھ دیر میں آپ دونوں کا نکاح ہے۔'


الفاظ تھے یا کانٹے جو زرش کے پورے وجود کو چھلنی کر کر گئے تھے۔زرش نے اٹھ کر اس لباس کو پکڑا اور پھر اسے زمین پر پٹخ کر انکار میں سر ہلانے لگی۔


'بی بی جی ایسا نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چپ چاپ انکی بات مان لیں'


چندا نے زرش کو بہت رحم کی نگاح سے دیکھا لیکن زرش ابھی بھی انکار میں سر ہلا رہی تھی۔


میں نہیں کر سکتی یہ نکاح ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ تو کیا میں کسی کے ساتھ بھی نکاح نہیں کر سکتی۔


زرش کے ہاتھ بہت تیزی سے ہلے تھے ایک پل کے لیے تو چندا کے لیے بھی سمجھنا مشکل ہو گیا تھا۔


'کیوں نہیں کر سکتیں؟'


نہ جانے کیوں اسکے اس سوال پر زرش کے لبوں پر مسکان آئی تھی۔


'کیونکہ میرا نکاح ہو چکا ہے۔کسی کی بیوی ہوں میں اور نکاح پر نکاح نہیں ہوتا'


چندا اب سہم کر زرش کو دیکھ رہی تھی۔


'ایسا نہ کہیں بی بی جی۔۔۔۔۔۔۔'


خوف سے چندا کی آواز کانپ گئی تھی۔


'کیا کہہ رہی ہے یہ؟۔۔۔ ۔'


آر بی کی گرجدار آواز پر وہ دونوں لڑکیاں کانپ کر رہ گئیں۔


'ککککککچھ نہیں صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔'


چندا نے اپنا سر جھکا لیا تھا۔


'سیدھی طرح سے جواب دو میرے سوال کا۔'


آر بی کی آواز کمرے کے در و دیوار ہلا گئی۔زرش گھبرا کر ایک کونے میں کھڑی تھی۔


'صاحب جی۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ کہہ رہی ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔انکا نننن۔۔۔۔۔۔۔۔نکاح ہو چکا ہے کسی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔'


چٹاخ۔ایک انتہائی زور دار تھپڑ آر بی نے اسکے منہ پر مارا تھا جسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ چندا زمین پر بہت بری طرح سے گری تھی۔


'دفع ہو جاؤ یہاں سے۔' چندا جلدی سے وہاں سے چلی گئی اور اسکے جاتے ہی آر بی نے زرش کے قریب آ کر اسے بالوں سے دبوچا۔


'بولو کہ تم جھوٹ کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔'


آر بی غصے سے دھاڑا ۔زرش ڈر سے کانپتے ہوئے رو رہی تھی لیکن پھر بھی اس نے انکار میں ہی سر ہلایا۔آر بی نے بغیر سوچے سمجھے اسکا سر دیوار کے ساتھ مارا تھا اور اب اسکے سر سے خون کی ایک لکیر نکل رہی تھی۔


'کیا چھوا اس نے تجھے۔۔۔۔۔۔۔۔بول ۔۔۔۔۔۔ چھوا ہے اس نے تجھے۔۔۔۔'


آر بی کے سوال پر زرش کو اس شام کا وہ واقعہ یاد آیا تو اس نے بغیر سوچے سمجھے ہاں میں سر ہلا دیا۔ایک غضبناک چیخ کے ساتھ آر بی نے اسے فرش پر پھینکا تھا اور اپنے بھاری بوٹ سے اسکے نازک وجود کو مارنے لگا۔


'کہا تھا میں نے تجھے کہ تو میری ہے صرف میری ہے۔پھر کیسے تو کسی اور کی ہو گئی۔کیسے میرے نام کے نشانات کے باوجود اس نے تجھے اپنا لیا؟'


وہ شخص پاگلوں کی طرح زرش کو مار رہا تھا اور زرش تکیلف سے بے سدھ ہو چکی تھی۔


'اتنا پیار کیا میں نے تیرے سے۔ہر لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے مرتی تھی اور میں نے چھے سال تک تیرا انتظار کیا۔تجھے وقت دیا کہ شادی کے قابل تو ہو جائے اور یہ صلہ ملا مجھے۔'


آر بی نے زرش کے پاس آ کر اس کے منہ کو دبوچا۔


'اگر چاہوں نا تو تیری وہ حالت کر دوں کہ تجھے اپنانا تو دور کی بات ہے وہ تجھے دیکھنا بھی گوارا نہ کرے۔لیکن کیا ہے نا تو میرے دل میں بسی ہے،محبت ہے تو میری ورنہ تیری دھجیاں اڑا دیتا لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ اس گناہ کی سزا بری ہو گی بہت زیادہ بری۔'


آر بی نے جھٹکے سے زرش کو زمین پر پھینکا۔


'اسے ڈھونڈ کر مار ڈالوں گا اس کے بعد تو میری ہو گی۔آج تک جو بھی میں نے چاہا ہے اسے حاصل کر کے ہی دم لیا ہے تو تجھے کیسے کسی اور کو دے دوں۔اب بھی تو میری

ہی ہو گی لیکن زندگی کا ہر ایک دن کرب میں گزارے گی تو۔'


اتنا کہہ کر وہ تو وہاں سے چلا گیا تھا لیکن زرش بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تکلیف سے بے ہوش ہونے لگی

وجدان۔۔۔۔ ایک آخری بے آواز لفظ اسکے خاموش لبوں نے پکارا اور پھر اسکی آنکھیں بند ہوتی گئیں۔

🌈🌈🌈🌈

یہ تم کیا کہہ رہے ہو وجدان؟میں ایسا نہیں کر سکتا۔یہ پولیس کیس ہے وجدان ہم اس میں نہیں پڑ سکتے۔


کرنل منور صاحب نے وجدان کی بات سن کر اسے صاف صاف انکار کر دیا۔


'یہ جاننے کے باوجود کہ جس شخص کے پاس زرش ہے وہ ایک سمگر ہے، مافیا ہے۔'


وجدان نے سختی سے پوچھا۔


'اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے تمہارے پاس وجدان صرف تمہارے دلائل پر اتنا بڑا فیصلہ نہیں لیا جا سکتا۔'


کرنل منور صاحب کی بات پر وجدان نے غصے سے کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھے۔


'اتنے سالوں کے بعد بھی آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے۔'


'بات یقین کی نہیں ہے وجدان۔تم بھی اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ریکوایرمینٹس ہیں ان کے بغیر میں کسی قسم کا فیصلہ نہیں لے سکتا۔'


وجدان نے اثبات میں سر ہلایا۔


'ٹھیک ہے پھر اپنی نور کو خان خود ڈھونڈ لے گا ۔'


وجدان نے کرنل صاحب کو اپنا وہی پرانا وحشی روپ یاد دلایا۔


'تم وہ سب چھوڑ چکے ہووجدان اور تم نے وعدہ کیا تھا ایک بہتر زندگی کا۔حلف اٹھایا تھا تم نے اس ملک کے لیے اپنی جان کو نچھاور کرنے کا اور آج صرف ایک لڑکی کی خاطر تم اپنی پہچان،اپنا حلف سب کچھ بھولنے کو تیار ہو۔اپنے ملک سے غداری کرنے کے لیے تیار ہو۔'


کرنل صاحب نے بہت ذیادہ غصےسے اسے گھورا۔


'آپ کے لیے وہ صرف ایک لڑکی ہو گی لیکن میرے لیے وہ میرا سب کچھ ہے۔میری چلتی سانسوں کا مقصد ہے وہ۔آپ ملک سے غداری کی بات کرتے ہیں اس کے لئے تو میں پوری دنیا سے غداری کر سکتا ہوں۔'


وجدان کے لہجے کی مظبوطی اور آگ کو کرنل صاحب نے بہت حیرانی سے دیکھا۔


'یہ جان لو وجدان کہ اگر تم کسی بھی قسم کی واردات میں پکڑے گئے تو میں تمہیں نہیں بچاؤں گا۔'


کرنل منور صاحب نے بہت افسوس سے یہ بات کہی۔


'خان کو کسی کی ضرورت نہیں وہ خود ایک آگ ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں نا کہ خان اپنی نور کی تلاش میں اس دنیا کو نہ جلائے تو ابھی کے ابھی میرے سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیں۔'


وجدان اپنی بات کہہ کر کچھ دیر وہاں کھڑا انہیں دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔


کرنل صاحب چاہ کر بھی اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کروا سکتے تھے۔ان کی نظر میں وہ آج بھی وہ انیس سال کا لڑکا ہی تھا جو اپنے جینے کا مقصد اپنے سامنے جلتا دیکھ چلا چلا کر رویا تھا۔وجدان تو انہیں اپنی سگی اولاد سے بھی ذیادہ عزیز تھا اسی لیے اس معاملے میں وہ خاموشی سادھ گئے تھے ورنہ وجدان کی جو کرنا چاہتا تھا وہ پاک فوج کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا اور اب یہ راز اپنے سینے میں دبا کر کرنل صاحب خود بھی ایک مجرم بن چکے تھے۔


'سپاہی کی کزوری اسے بہت مہنگی پڑتی ہے وجدان۔وہ تمہاری کمزوری ہے اور تم میری کمزوری ہو میرے بچے۔'


کرنل صاحب نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں موند لیں۔

🌈🌈🌈🌈


میں زرش کو خود ڈھونڈوں گا۔'


وجدان نے سعد اور شایان کو اپنا فیصلہ سنایا ۔


'ٹھیک ہے وجدان ہم سب مل کر اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


'نہیں شایان تم اس سب میں شامل نہیں ہو گے۔دارا کو کسی وجہ سے ختم کیا تھا ہم نے اور وہ وجہ وہاں باہر ہے۔تم پھر سے دارا نہیں بنوں گے۔اگر ہو سکے نا تو تم سلمان صاحب اور فاطمہ آنٹی کو ڈھونڈ لو وہ دونوں بھی کافی بڑے خطرے میں ہیں ضرور اسی آر بی کے پاس ہیں وہ۔'


وجدان نے شایان کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی تھی۔


' وجدان صحیح کہہ رہا ہے تم اس سب میں شامل نہیں ہو سکتے شایان، پر تم فکر مت کرو میں وجدان کے ساتھ جاؤں گا۔'


سعد نے حتمی فیصلہ سنایا۔


'نہیں سعد تم پھر سے وہ نہیں کرو گے جو تم نے پہلے کیا ہر بار دوستی میں تم اپنی جان داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ میں خود ہی ڈھونڈ لوں گا زرش کو۔'


وجدان کی بات پر سعد چل کر اسکے سامنے آیا۔


'روک کر بتاؤ تم مجھے۔میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں اسکا مطلب ہے کہ میں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں۔'


سعد نے اس بار سختی سے کہا۔


'اور اسکا کا کیا کرو گے جو باہر ہے جسکی حفاظت کا ذمہ ہے تم پر۔۔۔۔۔'


سعد نے مسکرا کر کھڑکی سے باہر دیکھا جہاں عشال جانان کو باتوں میں لگا کر اسکا دھیان بٹانے کی ممکن کوشش کر رہی تھی۔


'اسکی حفاظت کی فکر مت کرو ۔اسکی حفاظت تو اب جینے کا مقصد بن چکی ہے کوئی بھی اس تک میری لاش پر سے گزرے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔'


سعد کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔


'جو بھی ہو سعد تم اس سب میں نہیں پڑو گے اور یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔'


وجدان اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔جبکہ سعد نے بے بسی سے شایان کو دیکھا۔


'تم سکندر کا پتہ لگواؤ اسکا نا جانے کیوں اس سب سے کافی گہرا تعلق لگ رہا ہے۔'


شایان نے اس سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔لیکن سعد کی نظر میں سکندر اتنا بڑا مسلہ نہیں تھا اسکا یہ شک کہ وجدان ہی سکندر ہے یقین میں بدلتا جا رہا تھا لیکن ایک بات کو سمجھنے سے سعد قاصر تھا کہ اگر وجدان خود سکندر ہے تو پھر وہ عشال کے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ اسے کیوں مارنا چاہتا ہے اور اپنے گھر میں رہنے کے باوجود اسے زندہ کیوں چھوڑا ہے؟اور تو اور اگر وہ خود سکندر ہے تو خود کو ہی اتنی محنت سے ڈھونڈنے کا دکھاوا کیوں کر رہا ہے۔سکندر تو ویسے بھی آجکل ایک خاموش طوفان بنا ہوا تھا نا جانے کہاں غائب ہو چکا تھا۔یہ سب باتیں سوچ کر سعد کا دماغ گھوم چکا تھا۔

🌈🌈

زرش کو پورے دو دن کے بعد ہوش آیا تھا۔ایک ڈاکٹر ہر وقت اسکا دھیان رکھنے کے لیے اسکے پاس تھی۔ ڈاکٹر عالیہ کو اس نازک سی لڑکی کی حالت پر بہت زیادہ رحم بھی آیا تھا لیکن وہ کر ہی کیا سکتی تھیں۔زرش کو ہوش آیا تو اسکے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔اس نے ایک امید کے ساتھ آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا تھا لیکن یہ اسکی بد قسمتی تھی کہ وہ ابھی بھی اسی قید میں تھی۔


'ارے واہ تم تو ہوش میں آ گئی ورنہ ڈرا ہی دیا تھا تم نے تو۔'


زرش کو اپنے پاس سے ایک عورت کی آواز آئی تو زرش نے ہلکی سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔


' فکر مت کرو بہت جلد صحت یاب ہو جاؤ گی تم ریکوری اچھی ہو رہی ہے تمہاری۔'


زرش کی آنکھیں خود بخود بند ہو رہی تھیں۔لیکن پھر بھی اسنے اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو اٹھا کر اس ڈاکٹر کو بہت مشکل سے مدد کرنے کا کہا تھا۔


'معاف کرنا میری بچی میں تمہاری مدد نہیں کر سکتی لیکن دعا ضرور کروں گی کہ خدا اس مسیحا کو بھیج دے جو تمہیں اس اذیت سے آزادی دلا دے۔


اپنے مسیحا کے ذکر پر دو آنسو چھن سے زرش کی آنکھوں سے بہے تھے۔وہ جانتی تھی کہ اسکا مسیحا کبھی بھی اسے بچانے نہیں آئے گا کیونکہ اسکی نظروں میں زرش کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔اسے اب آخری سانس تک اس اذیت کو سہنا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد پریشانی اور سوچ کے عالم میں بیٹھا اپنے ہاتھ مسل رہا تھا۔معالات کو جتنا حل کرنا چاہ رہا تھا وہ اتنا ہی الجھ رہے تھے۔سعد رازوں کی اس بھول بھولیا سے نکلنے کی بجائے اس میں مزید پھنستا چلا جا رہا تھا۔


'کیا ہوا ایجنٹ جی سب ٹھیک تو ہے نا؟'


عشال نے اسکے پاس بیٹھ کر پریشانی سے پوچھا۔


'وجدان نے میرا ساتھ لینے سے انکار کر دیا بس اسی کے لئے پریشان ہوں۔اسے لگتا ہے کہ وہ بہت زیادہ چالاک ہے ہر معاملے کو خود حل کر لے گا مگر ضروری تو نہیں کہ ایسا ہو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت برا نہ پھنس جائے۔'


سعد نے ایک گہرا سانس بھرا۔


'تو پھر ہیلپ کریں ان کی وہ نہیں مانے تو کیا ہوا آپ ان کی اجازت کے بغیر مدد کر دیں یہی تو سچی دوستی ہے۔'


عشال نے عام سے انداز میں کہا۔


'اور تمہارا کیا؟اسکی مدد کرنے جاؤں تو تمہیں کس کے بھروسے چھوڑوں؟'


'اچھا سوال ہے ۔'


عشال نے مسکرا کر کہا۔


'آپ مجھے کسی کے سہارے مت چھوڑیں اپنے ساتھ لے جائیں شاید کبھی نہ کبھی میں بھی آپ کے کام آ جاؤں۔'


عشال نے حل بتایا۔


'اور ایسا کر کے تمہیں دوگنا خطرے میں ڈال دوں بلکل بھی نہیں۔'


سعد نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا تو عشال مسکرائی۔


'آپکو پتہ ہے اس خونخوار سکندر بھائی صاحب نے مجھے چار مرتبہ مارنے کی کوشش کی لیکن میں پھر بھی بچ گئی جانتے ہیں کیوں؟ '


سعد نے عشال کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


کیونکہ میں نے سنا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے اور میری زندگی کی ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اللہ کی مرضی نہیں ہو گی کوئی بھی میرا بال بھی باکا نہیں کر سکے گا اور ویسے بھی آج نہیں کل مرنا تو ہے ہی تو بہادری سے شیروں والی موت مرو۔ایسا ہی تو آپ آرمی والے سوچتے ہیں۔میرا لڑکی ہو کر ایسے سوچنا معاشرے کی نظر میں گناہ تو نہیں ہو گا نا؟'


سعد کب سے اسکی باتوں میں کھویا تھا یہ تو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔کچھ تو خاص تھا اس لڑکی میں جو اسے سب سے مختلف بناتا تھا۔


'نہیں کوئی گناہ نہیں ہے یہ۔'


سعد نے اسکے پیارے سے چہرے کو دیکھ کر کہا۔


'آپکو پتہ ہے ایجنٹ جی۔۔۔آپ کو جھوٹ بولنا بلکل نہیں آتا کوشش مت کیا کریں۔'


عشال نے شرارت سے کہا اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


'اب آپ اس کے بارے میں زیادہ مت سوچیں دوست کو آپکی ضرورت ہے تو اسکے کام آئیں باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں۔'


سعد نے کافی سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ وجدان کو سعد کے ساتھ کی ضرورت تھی اور سعد ایسے خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔عشال تو سعد کو اپنی جان سے بھی عزیز ہو چکی تھی سعد جانتا تھا کہ اپنے جیتے جی وہ اسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔


'پر ہم اسے ڈھونڈیں گے کیسے؟ '


سعد نے عشال کی طرف دیکھا۔


'آپکا دوست ہے وہ بندہ آپ ڈھونڈ ہی لیں گے۔'


عشال نے بہت اطمینان سے کہا۔


'ہم یہاں وجدان خان کی بات کر رہے ہیں جو جب اپنی پہچان بدلتا ہے تو سامنے موجود آئینہ بھی اسے پہچان نہیں پاتا۔'


عشال پھر سے مسکرا کر اسکے پاس آئی۔


'اپنے دوست کی خاصیت تو آپ جانتے ہیں اپنی خاصیت پر بھی غور کریں۔آپ ڈھونڈ لیں گے انہیں مجھے یقین ہے۔'


عشال نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔جبکہ سعد اسے جاتا دیکھ مسکرا رہا تھا۔


'اور تمہارا یقین ہی میرا یقین ہے۔'


سعد نے ایک خواب کے عالم میں کہا۔

🌈🌈🌈🌈

رات میں جب پاکستان کے لوگ دن بھر کے کاموں کے بعد آرام کرنے میں مصروف ہوتے تھے تو بہت سی جگہوں پر لوگوں کے لیے تاریکی میں چھپنے والے گناہ کے اڈے کھل جاتے تھے۔


'اے ہٹ یہاں سے۔'


ایک انتہائ مغرور لمبے بالوں والا آدمی اپنے تین بندوں کے ساتھ ہر ایک کو حقیر شے سمجھ کر بہت رعب سے وہاں داخل ہوا تھا۔وہ آصف بیگ تھا کافی مشہور غنڈہ جو اکثر ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں عیاشی کرنے آتا۔


'اے ادھر آ ۔۔۔۔۔۔۔۔'


اس نے ایک سانولے سے گندے بالوں والے ویٹر کو اپنے پاس آنے کا کہا۔


'جج۔۔۔۔۔۔جی صاب۔۔۔۔۔۔۔'


اس ویٹر نے کافی گھبرا کر پوچھا۔


'وسکی لا سب کے لیے فٹا فٹ۔'


ویٹر ہاں میں سر ہلا کر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد ہاتھ میں وسکی کی ٹرے لے کر وہاں آیا جو آصف کے پاس آتے ہی گھبراہٹ کے مارے اس پر گر گئی تھی۔


'اے پاگل ۔۔۔۔۔۔ کمینے۔۔۔۔۔۔'


آصف نے اٹھ کر ایک زور دار تھپڑ اس ویٹر کے منہ پر رسید کیا ۔


'مممم۔۔۔۔۔۔معاف کر دو صاب میں ابی ٹھیک کر دے گا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔'


وہ ویٹر ہاتھ میں موجود کپڑے سے اسکی شرٹ صاف کرنے لگا۔


'ہٹ کمینے۔۔۔۔۔۔۔۔'


اس ویٹر کو ایک زور دارا دھکا دے کر وہ واش روم کی طرف چل دیا جبکہ باقی کے ساتھی وہاں بیٹھے اطمینان سے ہنس رہے تھے۔


وہ واش روم میں کھڑا پانی سے اپنی شرٹ صاف کرنے میں مصروف تھا جب اچانک اسکی نظر پیچھے کھڑے اس سانولے سے ویٹر پر پڑی جو ابھی بھی وہ کپڑا ہاتھ میں لپیٹے کھڑا تھا۔


'تو پھر آ گیا کتے دفع۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


ابھی اسکے الفاظ منہ میں ہی تھے جب اس ویٹر نے بجلی کی تیزی سے آگے بڑھ کر وہ کپڑا اس کے منہ پر رکھ کر اسکی آواز بند کی اور دوسرے ہاتھ سے ایک چاقو اسکی ٹانگ میں گاڑ دیا مگر اسکی چیخ وہ کپڑا روک چکا تھا۔


'آر بی کہاں ملے گا؟'


آصف کے کانوں میں ایک غراتی ہوئی آواز پڑی مگر پھر بھی اس نے انکار میں سر ہلایا۔آصف کی اس حرکت پر وہ چاقو نکال کر تین بار بہت ذیادہ تکلیف دہ عمل سے اسکی ٹانگ میں گاڑا جا چکا تھا۔


'بول۔۔۔۔۔'


وہی غراتی ہوئی آواز پھر سے اسکی سماعت سے ٹکرائی اور وہ کپڑا ہلکا سا اسکے منہ سے ہٹایا گیا۔


' تاشا۔۔۔۔۔۔۔۔تاشا جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سبی میں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبرستان میں ممممم۔۔۔۔۔مردہ چلائے کوڈ ورڈ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


یہ سب بتانے پر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا گیا تھا۔آصف چلاتا ہوا زمین پر گرا اور اس سانولے سے لڑکے کو دیکھنے لگا جو اطمینان سے اپنے چہرے پر لگے ہوئے سانولے رنگ کے بعد سر پر لگی وگ کو ہٹا رہا تھا اور کچھ دیر کے بعد سبز آنکھوں والا ایک نیا شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔


'کک۔۔۔۔۔۔کیا دشمنی ہے تیری آر بی سے۔۔۔۔۔'


اس نے گھبرا کر دروازے کو دیکھا جہاں لاک لگا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اتنے شور میں اسکی چیخ و پکار کوئی اسکا کوئی بھی آدمی نہیں سنے گا اور اس ٹانگ کو لے کر وہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ۔


'خان کی زندگی چرائی ہے اس نے ۔ خان سے اسکا نور چھین لیا۔اب خان اسکی زندگی کو اندھیرے سے بھر دے گا۔'


وجدان آگے بڑھ کر اسکے پاس گیا اور اسے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا وجدان نے تیز دھار چاقو کو اسکی گردن میں گاڑھا اور اس شخص کو ترپتا چھوڑ اپنی پہچان مکمل طور پر بدل کر وہاں سے چلا گیا۔

🌈🌈🌈🌈

زرش کی طبیعت اب کافی بہتر ہو چکی تھی لیکن پھر بھی وہ ابھی تک بیڈ سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اتنے عرصے میں ایک بار بھی اسکا سامنا آر بی سے نہیں ہوا تھا۔لیکن یہ اسے بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں یہاں سے گیا ہوا تھا۔یہ جان کر زرش کا دل کیا تھا کہ وہ سجدہ شکر میں گر جائے ۔پچھلے دنوں میں بیڈ پر بیٹھ کر اپنی آبرو کی حفاظت کے لیے بے پناہ دعائیں مانگی تھیں اس نے۔


'کیسی ہو بچی؟'


ڈاکٹر عالیہ مسکرا کر اسکے پاس آئی تھیں۔زرش اتنے دنوں میں انکے ساتھ کافی مانوس ہو چکی تھی۔


کیا آپ میری ایک بات مانیں گی؟


زرش نے بے چینی سے اشارہ کیا۔


'ہاں بتاؤ۔'


آپ پلیز اپنے موبائل سے میرے گھر فون کر کے انہیں سب بتا دیں کہ میں کہاں ہوں۔


زرش کی بے چینی پر ڈاکٹر عالیہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔


'ان کے پاس میری بیٹی ہے زرش اگر انہیں مجھ پر ہلکا سا بھی شک ہوا تو وہ ہم دونوں کو مار دیں گے۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔'


آخری الفاظ کہتے ہوئے ڈاکٹر عالیہ کی آواز میں نمی پیدا ہوئی تھی جبکہ زرش کی تو آخری امید بھی ختم ہو چکی تھی۔اس نے سوچا تھا کہ اگر کسی طرح سے اسکا رابطہ اسکے بابا یا شایان سے ہو جائے تو وہ یہاں سے نکل سکتی تھی۔


کیا آپ کسی اور کو نہیں کہہ سکتی ایسا کرنے کو؟


زرش کے چہرے پر امید کی ایک چھوٹی سی کرن تھی مگر جب جواب میں ڈاکٹر عالیہ نے اپنا سر مزید جھکا لیا تو وہ چھوٹی سی امید کی شمع بھی بھجھ گئی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان سبی پہنچ گیا تھا لیکن اس کے لئے مشکل مرحلہ اس خفیہ جگہ کو ڈھونڈنا تھا جہاں پر اسے تاشا ملتا۔لیکن دو دنوں کی کافی جدوجہد کے بعد وجدان نے اس جگہ کا پتہ لگا لیا۔وہ ایک خفیہ جگہ تھی جو کے زمین کے نیچے تھی اور اسکا راستہ ایک قبرستان میں مخصوص قبر کے نیچے سے گزرتا تھا۔


وجدان کو پتہ چلا تھا کہ لوگ اس قبرستان میں جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ وہاں پر بہت سی عجیب و غریب چیزیں دیکھائی دیتی تھیں۔وجدان جانتا تھا کہ یہ کہانیاں صرف اس قبرستان میں دفن رازوں کو دنیا سے چھپانے کے لئے بنائی گئی ہیں۔


وجدان اپنی تیاری کو ایک آخری مرتبہ چیک کر رہا تھا جب اسکی نظر اپنی جیکٹ پر پڑی جس کی جیب میں زرش کا لکھا وہ خط موجود تھا۔وجدان کے ہاتھ پھر سے بے ساختہ طور پر اس خط کی طرف بڑھے۔


'میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا نور۔۔۔۔۔۔بہت جلد ڈھونڈ لوں گا۔ بس تم میرا انتظار کرنا اور خود کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچا لینا۔لوگ زندگی میں بہت کچھ کھو دیتے ہیں نور۔۔۔۔میں نے سب کچھ کھویا ہے لیکن اب اگر تم بھی کھو گئی نا تو اس بار خود کو حرام کی موت ضرور مار لوں گا۔'


وجدان نے سرگوشیاں کرتے ہوئے بہت عقیدت سے اس خط کو اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔وہ اتنا تو ضرور جانتا تھا کہ اب وہ اس دنیا میں زندہ نہیں رہے گا جہاں نور زرش نہیں ہو گی اور اگر وہ اسے مل گئی نا تو آر بی کی وہ حالت کرے گا کہ وہ موت مانگے گا اور اسے موت بھی نہیں ملے گی۔


میری نظر میں نہ تو تمہاری کوئی اوقات ہے اور نہ ہی تمہاری محبت کی۔بول تو سکتی نہیں تم اور چاہتی ہو کہ میں ایک گونگی لڑکی کو اپنی بیوی مان لوں؟؟؟ کبھی نہیں۔۔۔۔


وجدان کو اپنے کہے الفاظ یاد آئے تو وجدان نے غصے سے اپنا ہاتھ شیشیے کی کھڑکی میں مار دیا جس کی وجہ سے اسکے ہاتھ سے خون بہنے لگا لیکن وجدان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا اصل تکلیف تو اسے وہ ان الفاظ کو اس نازک لڑکی سے کہنے کا پچھتاوا دے رہا تھا۔اس سب کا زمہ دار تو وہ خود تھا نا اور اس سوچ پر وجدان کا دل کر رہا تھا کہ سزا کے طور پر خود کو ختم کر دے۔


اچانک دروازہ کھٹکنے کی آواز نے وجدان کو دنیا سے باور کرایا تو وجدان کا ہاتھ فوراً اپنی بندوق کی طرف بڑھا۔بہت آہستہ سے آگے بڑھ کر وجدان نے دروازہ کھولا تو اپنے سامنے سعد کو دیکھ کر وجدان کافی بے زار ہوا۔


'منع کیا تھا نا تمہیں۔'


جواب میں سعد ڈھیٹوں کی طرح مسکرا دیا۔جبکہ سعد کے پیچھے جینز شرٹ میں کندھوں پر بیگ لٹکائےکھڑی عشال دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھنے میں مصروف تھی۔


'اور تم اسے بھی اپنے ساتھ لے آئے۔'


وجدان نے دونوں کو اندر آنے کا راستہ دیا اور ان کے داخل ہوتے ہی دروازہ واپس بند کر دیا۔عشال ببل چباتے ہوئے وجدان کو سر سے لے کر پیر تک دیکھنے لگی۔


' بلکل غلط کہا وجدان جی آپ نے یہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لائے بلکہ میں انہیں اپنے ساتھ لائیں ہوں سوچا آپ کی تھوڑی مدد ہی ہو جائے گی۔'


عشال سعد کو بولنے کا موقع دیے بغیر شروع ہو چکی تھی جبکہ وجدان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دونوں کو اٹھا کر یہاں سے باہر پھینک دے۔


'ہاں وجدان تم یہ سب اکیلے نہیں کر پاؤ گے۔'


سعد کی بات پر وجدان نے غصے سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔


' مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔تم دونوں بس میری مشکلات میں اضافہ ہی کرو گے خاص طور پر یہ۔'


وجدان نے عشال کی طرف اشارہ کیا تو عشال اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورنے لگی۔


Never underestimate the power of woman.

لڑکی ہوں اسکا یہ مطلب نہیں میں کچھ کر نہیں سکتی چار بار اس خطرناک سکندر بھائی صاحب سے بچ نکلنے کا رکارڈ ہے میرا سمجھے آپ۔بتا دیں کوئی اور جو اسکے ہاتھوں سے بچا ہو۔'


عشال بہت رعب سے وجدان کے سامنے کھڑی تھی لیکن وجدان نے ہلکے سے دکھےکے ساتھ اسے راستے سے ہٹایا اور تیار ہونے چلا گیا۔


'تم چل سکتے ہو سعد میرے ساتھ لیکن یہ لڑکی یہیں رہے گی۔ہم صرف دو گھنٹے کے لیے جائیں گے۔امید ہے اتنی دیر میں یہ یہاں محفوظ ہی رہے گی۔'


سعد وجدان کی بات پر مطمئن نظر نہیں آ رہا تھا وہ عشال کو ایک پل کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔


'اس لڑکی کا نام عشال ہے اور یہ غلط بات ہے سارا ایڈونچر آپ دونوں ہی کیوں دیکھیں ۔

Why should boys have all the fun.


اس سے پہلے کہ سعد عشال کی چلتی زبان کو روکتا وجدان غصے سے اسکے پاس گیا اور اپنا ہاتھ عشال کی گردن پر کافی سختی سے رکھا۔ایک سسکی عشال کہ منہ سے نکلی تھی لیکن پھر بھی وہ بہت بہادری سے وجدان کی خطرناک سبز آنکھوں میں جھانکتی رہی تھی۔


'تمہیں یہ سب مزاق لگ رہا ہے۔مزے لینے آئی ہو یہاں تو مجھے بتاؤ ابھی کے ابھی تمہیں اس سکندر کے حوالے کر دیتا ہوں تاکہ تمہارا ایڈوینچر کا شوق پورا ہو جائے۔'


وجدان نے دانت پیسے۔


'وجی۔۔۔۔۔۔۔'


سعد نے اسکے بازو پر ہاتھ رکھا تو وجدان نے ایک جھٹکے سے عشال کو چھوڑا اور اپنا سامان پکڑ کر باہر کی طرف چل دیا۔


'سڑا کریلا میں نے بھی مزا نہیں چکھایا نہ تو میرا نام بھی عشال نہیں۔'


سعد عشال کا بڑبڑانا سن چکا تھا اسی لیے مسکرا کر اسکے پاس آیا۔


'وہ پریشان ہے اسی لیے ایسا کر رہا ہے ۔'


عشال نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔


'تم یہیں رہو گی ہمارے آنے تک دروازہ بلکل بھی مت کھولنا اور اگر کوئی ناک بھی کرے نا تو خاموشی سے چھپ جانا وجدان کے پاس کمرے کی چابی ہے اس لیے ہمیں ناک نہیں کرنا پڑے گا۔سمجھی۔'


'اوکے ماما۔۔۔۔۔'


عشال نے آنکھیں ٹمٹما کر مصنوعی معصومت سے کہا تو سعد نے بہت مشکل سے اپنے قہقہے کو ضبط کیا اور پھر وجدان کے پیچھے چل دیا۔


'ہوں۔۔۔۔۔۔انہیں کیا لگتا ہے کہ میں اتنی ہی ڈرپوک ہوں۔ابھی بتاتی ہوں انہیں اپنی اہمیت۔'


عشال نے جلدی سے اپنا بیگ پکڑا اور بہت چپکے سے ان دونوں کے پیچھے چھپتے ہوئے چلنے لگی۔

سعد اور وجدان نے کافی محنت کے بعد وہ مخصوص قبر ڈھونڈ لی تھی جس کے عقب سے ایک خفیہ راستہ نکلتا تھا جو سیدھا زمین کے اندر جا رہا تھا۔وہ دونوں خستہ حال سیڑھیوں سے وہاں داخل ہوئے تو سامنے کچھ لوگ بندوقیں لے کر کھڑے تھے جنہوں نے انکا راستہ روک لیا۔


'قبرستان میں مردہ چلائے۔'


وجدان کے ایسا کہنے پر ان لوگوں نے ان دونوں کو اندر جانے کا راستہ دیا۔ویسے بھی وجدان نے بہت مہارت سے اپنے آپ کو آصف کے حلیے میں ڈھالا تھا۔وہ جگہ ذیادہ بڑی نہیں تھی بس ایک بڑا سا حال تھا جو زمین کے اندر بنایا گیا تھا اور وہاں بہت سے لوگ غیر قانونی کام سر انجام دینے آئے ہوئے تھے۔


'ہم اسے ڈھونڈ تو لیں گے لیکن باہر کیسے لے کر جائیں گے اسے یہاں سے؟'


سعد کو وجدان نے راستے میں ہی ساری بات بتا دی تھی۔


'ابھی صرف اس کا پتہ لگائیں گے حملہ کرنے کا اور بھی موقع مل جائے گا۔'


سعد نے اثبات میں سر ہلایا۔کافی دیر کچھ لوگوں سے بہانے بہانے سے پوچھنے کے بعد ان دونوں کو تاشا کا پتہ لگ ہی چکا تھا۔


'وہ رہا۔'


سعد نے چہرے سے اشارہ کیا۔تاشا اس وقت ایک آکھاڑے میں دوسرے آدمی کے ساتھ فائٹنگ میں مصروف تھا۔وہ تقریباً انتالیس سال کا ایک انتہائ سفاک دکھنے والا مرد تھا جو بہت بے رحمی سے اپنے مخالف کی ہڈیاں توڑ رہا تھا۔


' اس آکھاڑے میں جو کوئی بھی جیتتا ہے وہ بڑا انعام پاتا ہے لیکن آج کا انعام بہت حسین ہے۔تو جو کوئی بھی تاشا کو لڑنے میں ہرا دے گا یہ انعام اسکا ہو گا لیکن اگر تاشا جیت گیا تو انعام اسکا۔تو کون لڑے گا تاشا سے اس خوبصورت انعام کے لیے؟'


اس شخص نے اچانک ایک لڑکی کو سامنے کیا جسے رسیوں سے باندھا گیا تھا اور ان ہری آنکھوں میں بے پناہ خوف سمایا ہوا تھا۔سعد کے ساتھ ساتھ وجدان بھی حیرت سے اس بے وقوف لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔


'ہے کوئی۔۔۔۔'


اس سے پہلے کہ کوئی آگے بڑھتا سعد بنا سوچے سمجھے اس آکھاڑے میں اتر گیا تھا۔جبکہ تاشا اسے بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔تاشا کی گھٹیا آنکھوں میں عشال کے لئے پسندیدگی تھی اور اسے دیکھ کر سعد کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔سعد نے اپنی شرٹ اتاری تو تاشا ایک نظر اسکے کسرتی جسم کو دیکھ کر ٹھٹکا۔


'آجا ۔۔۔۔۔۔۔'


اتنا کہہ کر تاشا نے سعد پر حملہ کیا جو کہ سعد بہت مہارت سے بے اثر کر گیا تھا۔


'اسے تو میں پا کے ہی رہوں گا۔'


تاشا خباثت سے مسکرایا اور دوبارہ سے ایک مکا سعد کے چہرے پر مارنے لگا لیکن سعد نے سختی سے اسکا ہاتھ ہوا میں ہی تھام لیا اور اپنے دوسرے ہاتھ کو سختی سے بھینچ کر اسے پیٹ میں زور دار گھونسہ مارا۔


'خواب ہے تیرا۔۔۔۔۔۔۔'


اتنا کہہ کر سعد بہت ذیادہ بے دردی سے اسے مارنے لگا۔تاشا کو حملہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنے بچاؤ کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔جبکہ سعد کا دل کر رہا تھا کہ اسکی وہ آنکھیں ہی نکال دے جنہوں نے اتنی غلاظت سے اسکی عشال کو دیکھا تھا۔اچانک سعد کی نظر وجدان پر پڑی تو اس نے اپنے چلتے ہاتھوں کو روکا اور موقع پاتے ہی تاشا نے سعد پر حملہ کر دیا۔


'اب بتاتا ہوں تجھے کمینے۔'


تاشا بہت بری طرح سے سعد کو سمبھلنے کا موقع دیے بغیر مارتا جا رہا تھا۔


'نہیں۔۔۔۔۔۔'


عشال سعد کو پہچان چکی تھی اسی لیے وہ چلائی مگر ساتھ کھڑے آدمی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔


کچھ دیر بعد سعد بے سدھ ہو کر زمین پر گرا تو وہاں موجود لوگوں نے تاشا کی جیت پر تالیاں بجانا شروع کر دیں۔تاشا ہنستے ہوئے بری طرح سے روتی اور سٹپٹاتی ہوئی عشال کے پاس گیا اور اسے اپنے کندھے پر ڈال لیا۔وہ وہاں سے جا رہا تھا لیکن عشال ابھی بھی روتے ہوئے رنگ میں پڑے سعد کو دیکھ رہی تھی۔


تاشا عشال کو اپنے اڈے پر لے آیا تھا اور اپنے آدمیوں کو وہاں سے جانے کا بول کر عشال کو اپنے کمرے میں لا کر بیڈ پر پھینکا۔عشال چلاتے ہوئے اس سے دور ہوئی تھی۔


'سوچا نہیں تھا کہ اتنا حسین انعام مل جائے گا آج کی لڑائی میں۔'


وہ ہنستے ہوئے عشال کے پاس آنے لگا لیکن اچانک ہی کوئی کھڑکی سے اندر داخل ہوا اور اس سے پہلے کہ تاشا کو کچھ سمجھ آتا ،اس شخص نے ایک رومال تاشا کے منہ میں ٹھونس کر اسے بری طرح سے مارنا شروع کر دیا۔عشال پریشانی سے اس لمبے بالوں والے آدمی کو دیکھ رہی تھی جو ایک جنونی انداز میں اس گھٹیا شخص کی درگت بنا رہا تھا۔


'آر بی کہاں ملے گا۔۔۔۔؟؟؟'


وجدان نے اس سے سوال کیا تو تاشا کہ چہرے پر حیرانی کے آثار نظر آئے۔


'تو کیسے جانتا۔۔۔۔۔'


اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وجدان نے بہت بے دردی سے ایک مکا اسکے منہ پر مارا۔


'جو پوچھا ہے نا اسکا جواب دے بس۔'


وجدان نے اسکی آنکھ کے پاس ایک لوہے کا لمبا سا نوکیلا ناخن کیا جو کہ اس نے اپنے ہاتھ کے نگوٹھے پر پہنا ہوا تھا۔


'نن۔۔۔۔نہیں جانتا میں قسم سے۔۔۔۔۔'


وجدان نے ایک ہاتھ اسکے منہ پر رکھا اور انتہائی بے رحمی سے وہ نوکیلا ناخن اسکی آنکھ میں گھسا دیا۔یہ منظر دیکھتی عشال ایک چیخ مار کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔


'بول ورنہ ۔۔۔۔۔۔'


وجدان نے وہ ناخن دوسری آنکھ پر رکھا۔


'نن۔۔۔۔نہیں میرا دوست۔۔۔۔میرا دوست کام کرتا ہے اسکے لئے۔۔۔۔مگر وہ بھی۔۔۔۔۔کچھ نہیں جانتا اس کے بارے میں۔۔۔۔کوئی بھی کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔۔بس اتنا پتہ ہے کہ ان دنوں وہ زیارت میں ہے کہیں اپنی کسی لڑکی کو لے کر۔۔۔۔۔لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس شہر میں وہ کہاں رہتا ۔۔۔۔۔۔۔'


اتنا جاننا تھا کہ وجدان نے اسی نوکیلے ناخن سے اسکا گلا چیر دیا۔ایک چیخ کے ساتھ عشال نے سہمی ہوئی آنکھوں سے اس سفاک شخص کو دیکھا۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان اور عشال واپس کمرے میں واپس آئے تو سعد وہاں پہلے سے ہی موجود تھا جو کہ اپنے کندھے پر موجود زخم کا معائنہ کر رہا تھا۔وجدان نے کمرے میں آتے ہی ایک جھٹکے کے ساتھ عشال کو چھوڑا تو وہ لڑکھڑا کر سعد کے پاس گری۔عشال نے خود کو وجدان کی باتیں سننے کے لئے تیار کیا لیکن وہ اسے چھوڑ کر خاموشی سے باہر چلا گیا تو عشال نے حیرانی سے سعد کو دیکھا۔


'بات کیوں نہیں مانی تم نے؟کیوں آئی تھی وہاں جانتی بھی ہو کیا ہو سکتا تھا؟'


سعد اطمینان سے اپنے سوجے ہوئے کندھے پر سیک کرتا بول رہا تھا۔جبکہ عشال نے اسے یوں شرٹ لیس دیکھ کر اپنی نظریں جھکا لیں۔


'آئی ایم سوری کہ میں یہاں سے باہر گئی مجھے لگا تھا کہ آپ دونوں کے ساتھ ہی رہوں گی لیکن وہاں قبرستان میں وہ آدمی زبردستی مجھے باندھ کر اندر لے گیا تو اس میں میرا کیا قص۔۔۔۔۔۔۔۔'


سعد کی غصے سے سرخ آنکھیں دیکھ کر عشال کی بولتی بند ہوگئی۔


'ابھی بھی تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا کوئی قصور نہیں؟ ہم یہاں وجدان کی مدد کے لیے آئے تھے تمہارے بچپنے کی وجہ سے نئی مصیبت میں پھنسنے نہیں۔'


سعد نے دانت پیستے ہوئے اسے کہا۔


'اچھا سوری بولا نا اور ویسے بھی قصور آپکا بھی تو ہے۔'


سعد نے حیرت سے اسے دیکھا


'میرا قصور۔۔۔۔۔۔۔'


'جی ہاں اگر ہیرو بننے کا اتنا ہی شوق تھا تو وہاں گئے ہی کیوں ؟ہارنے کے لیے۔اس سے تو بہتر تھا وجدان جی کو بھیج دیتے کم از کم جیت تو جاتے وہ۔'


سعد کا منہ اسکی کی ہوئی بے عزتی پر کھل گیا تھا۔وہ تو اس آدمی کی درگت بنانے کا خواب رکھتا تھا لیکن وجدان نے اسے ہارنے کا اشارہ کیا تو سعد اس شخص سے ہار گیا ورنہ اسکی کوئی ہڈی پسلی تو توڑ ہی دینی تھی سعد نے۔


'زیادہ درد ہو رہا ہے کیا؟'


عشال نے اسکے کندھے کو دیکھتے ہوئے بہت نرمی اور محبت سے پوچھا تو سعد نے اسکے چہرے کی معصومیت میں کھو کر نہ میں سر ہلا دیا۔


'اچھی بات ہے پھر میں آرام سے سو جاتی ہوں وہاں بیڈ پر آپ یہاں صوفے پر ایڈجسٹ کر لینا۔'


عشال بہت اطمینان سے منہ اٹھا کر بیڈ کی طرف چلی گئی جبکہ سعد اسکی باتوں پر ابھی تک حیران تھا۔


What is this girl man?


سعد سرگوشی کر کے دوبارہ مسکراتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

🌈🌈🌈🌈

صبح کے چار بجنے کو تھے لیکن وجدان ابھی تک اس ہوٹل کے لان میں ایک بینچ پر بیٹھا اپنے ہاتھ میں موجود خط کو دیکھ رہا تھا۔

انہوں نے صبح ہوتے ہی زیارت کے لیے نکل جانا تھا لیکن وجدان کے دل میں موجود بے چینی بہت ذیادہ بڑھ چکی تھی۔زرش کو کھوئے ہوئے تین ہفتے ہو چکے تھے۔وہ نہیں جانتا تھا کہ زرش کس حال میں ہو گی؟وہ زندہ بھی ہو گی یا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ نہیں اسے کچھ بھی نہیں ہو سکتا کچھ بھی نہیں ہو گا اسے۔

وجدان نے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دی تھی۔


'مجھے پتہ ہے کہ تم زندہ ہو نور نا جانے کیسے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ تم زندہ ہو ۔جانتا ہوں کہ میں نے بہت ذیادہ غلط کیا یار لیکن میں کیا کرتا تم میرے دل پر اپنا قبضہ چاہ رہی تھی جہاں میں نے اتنے سالوں سے کسی کو بھی نہیں جانے دیا۔۔۔'


بہت بے بسی سے وجدان نے اس خط کو پھر سے پڑھا جو اب تک لفظ بہ لفظ اسے یاد ہو چکا تھا لیکن پھر بھی وجدان کو وہ پڑھ کر عجیب سا سکون ملتا۔


'تم نے مجھ سے پوچھا نا نور کہ کیا یہ سب محبت ہے یا نہیں؟ میں تمہیں کیسے بتاتا یار اس سوال کا جواب تو میں خود بھی نہیں جانتا تھا۔بھلا محبت سے ہی نفرت کرنے والا شخص تمہیں کیا بتاتا؟'


کیا کچھ نہیں تھا وجدان کی ان سرگوشیوں میں محبت،تڑپ،کرب،تکلیف،پچھتاوا۔۔۔


'اور اب جب مجھے اس سوال کا جواب ملا ہے تو تم ہی میرے پاس نہیں ہو ورنہ میں تمہیں سناتا کہ کس طرح میرے دل کی ہر دھڑکن چیخ چیخ کر محبت کا اقرار کر رہی ہے۔'


وجدان نے آنکھیں موند کر وہ خط اپنے سینے پر رکھا تو سکون کی ایک لہر اسکے تڑپتے دل میں اتری تھی۔زرش کا معصوم حسین چہرہ،اسکی کانچ سی آنکھیں ،وجدان کو دیکھ کر اسکے چہرے پر آنے والا سکون اور وہ شرمیلی سی مسکان،اشارہ کرنے کے لیے چلتے اسکے ان ہاتھوں کی ہر ادا،سب کچھ وجدان کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چل رہا تھا۔


'کس ناطے سے محبت کرتی ہو تم مجھ سے۔حثیت کیا ہے تمہاری۔جان سے مار دوں گا اگر دوبارہ مجھ سے کوئی ایسی بات کہی تو۔نفرت ہے مجھے تم سے،تمہارے وجود سے،تمہاری اس شکل سے۔'


پھر وجدان کے اپنے ہی کہے الفاظ اور آنسوؤں میں ڈوبی وہ کانچ سی آنکھیں اسکے ذہن میں آئی تھیں۔وجدان نے بہت کرب سے اپنی آنکھیں کھول دیں اور پھر سے اس خط کو دیکھا۔


'سزا کا حق دار ہے تمہارا یہ پتھر دل محبوب میری جان لیکن میری خودغرضی تو دیکھو یہ دل سزا بھی تمہاری قربت میں ہی چاہتا ہے کیونکہ تمہاری دوری کا صرف خیال ہی اس چلتے دل کو روک دیتا ہے۔'


لان کی اس تنہائی میں صرف وجدان پر برستی چاندنی ہی اسکی محبت کی گواہ بن رہی تھی۔


'مل جانا مجھے نور صرف ایک بار مل جانا پھر دیکھنا تمہارے دل کو دی جانے والی ہر اذیت کا مدوا محبت سے کروں گا اتنی محبت سے کہ تم اپنا ہر درد ہر تکلیف بھلا دو گی۔بس ایک بار مل جاؤ۔'


یہ آخری سرگوشی اس پتھر دل انسان نے نم آواز میں کی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

زرش کو اپنی زندگی سے ہی نفرت ہونے لگی تھی ۔وہ محسوس کر سکتی تھی کہ وہ پرندے کیسا محسوس کرتے ہوں گے جنہیں صرف اپنے شوق کے لیے لوگ پنجروں میں قید کر دیتے ہیں۔کیا ہوتی ہے ایک قیدی کی زندگی !صرف اپنے ارد گرد موجود دیوراوں کو دیکھنا اور ہر پل صرف آزادی کی خواہش اور اسکی دعا کرنا۔


وہ بس کسی بھی طرح سے وہاں سے غائب ہو جانا چاہتی تھی اسے سب کی بہت ذیادہ یاد آتی تھی اپنے ماں باپ بہنوں کی یاد تو اسکے دل کا ناسور ہی بنتی جا رہی تھی۔تبھی اچانک وہ سبز آنکھیں زرش کے دماغ میں آئیں تو دو آنسو ٹوٹ کر اسکی نگاہوں سے گرے۔


آپ نے میری محبت کی قدر نہیں کی نا وجدان اب میں آپ سے کبھی بھی نہیں مل پاؤں گی اور اگر کبھی مل بھی گئی نا تو بات بھی نہیں کروں گی آپ سے۔یہ وحشی تو میرے دماغ اور جسم کو اذیت دیتا ہے نا لیکن آپ نے تو میرے دل کو ہی ہزار ٹکڑوں میں بکھیر دیا اور اسکی تکلیف ہر ازیت سے بڑھ کر تھی وجدان ہر اذیت سے۔اب میں ٹوٹ چکی ہوں پوری طرح سے ٹوٹ چکی ہوں کبھی نہ جڑنے کے لیے۔


وہ اپنے ہی دماغ میں وجدان کے ایک فرضی وجود سے مخاطب تھی۔زرش کارپٹ پر بیٹھے اپنے خیالات میں اس قدر مگن تھی کہ اسے اپنے قیدی کی آمد کا علم ہی نہیں ہوا۔


'کیسی ہو میری گڑیا۔۔۔۔؟؟؟'


آر بی نے کافی نرمی سے زرش کے سر پر ہاتھ رکھا تو زرش ڈر کر جلدی سے اس سے دور ہوئی اور خوف سے اسے دیکھنے لگی۔وہ کب واپس آیا تھا؟زرش نے تو اس کے کبھی نہ واپس آنے کی اتنی دعائیں مانگی تھیں۔


'جانتی ہو یہ میرے ہاتھوں میں کیا ہے؟'


آر بی کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آگئی جس نے اس شیطان کو بہت زیادہ خوبصورت بنا دیا مگر تھا تو وہ شیطان ہی۔


تمہارا نکاح نامہ اور تمہارے شوہر کی ساری انفارمیشن۔'


زرش کی روح کانپی تھی اسکی بات پر۔آر بی کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔


'وجدان ہاشم خان ہے نا تمہارا شوہر۔ماس کمیونیکیشن میں بی ایس کر رکھی ہے اور کوہاٹ میں ایک جم کا مالک ہے۔ہاہاہاہا۔۔۔۔ایک جم کا مالک۔۔۔۔ '


آر بی کے چہرے اور لہجے میں بہت زیادہ حقارت تھی۔اس نے وہ پیپرز زرش کے قدموں میں پھینکے۔


'تم اس کو مجھ پر فوقیت دے رہی ہو؟میری بجائے اس کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرو گی جو تمہیں کچھ بھی نہیں دے سکتا اور ایک طرف میں ہوں جو دنیا کی کوئی بھی چیز لا کر تمہارے قدموں میں رکھ سکتا ہے۔تمہاری کسی بھی خواہش کو تمہارے دل میں آنے سے پہلے ہی پورا کر سکتا ہوں۔'


زرش جانتی تھی کہ اسکے سامنے بیٹھا وہ شخص ایک شیطان ہے اور اس وقت وہ اسے بلکل اسی طرح ورغلا رہا تھا۔ایک غلط راہ چننے کا کہہ رہا تھا۔


'جانتی ہو تم میں نے بچپن سے ہی سیکھا تھا کہ جو چیز آپ کو پسند آئے اسے مانگو نہیں بلکہ چھین لو کیونکہ مانگنے پر یہ دنیا کچھ بھی نہیں دیتی۔اب دیکھو نا غریب پیدا ہوا تھا بے تحاشہ دولت حاصل کر لی ۔لوگ کیڑا کہہ کر سائیڈ پر پھینک دیتے تھے دوسروں کو مجھ پر فوقیت دیتے اور اب میرے نام سے بھی تھر تھر کانپتے ہیں۔'


آر بی زرش کے پاس فرش پر بیٹھا تو زرش خوف کے مارے اس سے دور ہو گئی۔


'بس ایک کمی رہ گئی محبت کی جو میں تمہیں بارہ سال کی عمر میں دیکھ کر ہی تم سے کر بیٹھا۔سوچا کہ ایسا کیا کروں کہ بڑے ہونے تک تم کسی اور کی نہ ہو جاؤ پھر ان پرانے لوگوں کا خیال آیا جو اپنی ملکیتوں پر اپنا نشان چھوڑ دیتے تھے تا کہ ہر کوئی جان جائے کہ وہ چیز کس کی ہے۔میں نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔'


آر بی نے زرش کے کندھے کو نرمی سے چھوا۔


'لیکن دیکھو نا طریقہ کار آمد نہیں رہا اس جم کے مالک نے پھر بھی تمہیں حاصل کر لیا۔'


آر بی نے دانت پیستے ہوئے اپنے ہاتھ کی سختی کو بڑھا دیا تو زرش سسک کر پھر سے رونے لگی۔


'لیکن کوئی بات نہیں جیسے اس دنیا سے ہر چیز چھینی ہے نا اسی طرح تمہیں بھی چھین لوں گا اور تمہاری چاہ تو مجھے اس پوری دنیا سے بڑھ کر ہے میری گڑیا۔آخر کار تم وہ واحد لڑکی ہو جو پہلی نظر میں ہی اس کالے دل میں اتر گئی۔پہلی نظر کی محبت کو نہیں مناتا تھا میں لیکن نا جانے کیوں تم سے تو پہلی نظر میں عشق کر بیٹھا۔'


آر بی نے بہت زیادہ لگن اور محبت سے زرش کو دیکھا لیکن زرش اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ کیسی محبت ہے جو اسے اتنی تکلیف پہنچاتی ہے؟یہ کیسا عشق ہے جسنے اسکی آبرو تک کی پروا نہیں کی تھی؟یہ سب صرف محبت کی آڑ میں چھپی ضد اور جنون تھا اور کچھ نہیں


'اور میرا عشق زرا سا خود غرض ہے میری جان اسکے لئے تمہیں پانا سب سے ذیادہ اہم ہے۔پہلے ہی چھ سال انتظار کیا ہے میرے اس عشق نے اب مزید انتظار نہیں کر سکتا۔'


آر بی نے زرش کے قریب ہونےکی کوشش کی تو زرش تڑپ کر اس سے دور ہٹنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس شخص کی فولادی گرفت سے نکل پانا ناممکن تھا۔


'اس لئے بہتر یہی ہے میری جان کہ شرافت سے مان جاؤ ورنہ مجھے اور بھی بہت طریقے آتے ہیں اپنی بات منوانے کے۔'


آر بی نے کچھ اور پیپرز زرش کے قدموں میں پھینکے زرش نے ایک نظر انہیں دیکھا ۔وہ خلع کے کاغذات تھے۔


'دستخط کرو ان پر۔۔۔۔۔'


آر بی نے پین اس کے سامنے کر کے کہا تو زرش نے فوراً اپنا سر انکار میں ہلایا۔


'دیکھو میری گڑیا میں شرافت سے کہہ رہا ہوں بات مان جاؤ میری ۔تمہیں پھر سے مارنے کا کوئی ارادہ نہیں میرا۔'


آر بی نے اسے دھمکایا مگر زرش پھر بھی روتے ہوئے انکار میں ہی سر ہلا رہی تھی وہ بھلا کیسے یہ کر سکتی تھی کبھی بھی نہیں یہ نکاح ہی تو اسے اب تک اس شیطان سے بچائے ہوئے تھا۔آر بی نے سختی سے اسکے بال اپنی مٹھی میں پکڑے۔


'بڑا مان ہے نا تجھے اس شخص پر ۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔ کوئی بھی شریف مرد اتنا عرصہ گھر سے باہر کسی اور مرد کے پاس رہنے والی عورت کو نہیں اپناتا۔وہ تو جاتے ہی تجھے طلاق دے دے گا۔اس سے بہتر ہے کہ تو ابھی اس سے خلع لے اور میری بیوی بن جا قابل رشک ہو گی تیری زندگی۔ورنہ تیرے اور تیری آبرو کے بارے میں جو غلط فہمی میں باقیوں کے ذہن میں ڈال سکتا ہوں اس عمل کو سر انجام دینے میں مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔اس لئے اپنی عزت بچانی ہے نا تو شرافت سے مان جا ورنہ۔۔۔۔۔'


آر بی نے اسکے کندھے سے دوپٹہ ہٹایا تو زرش بہت دیر گھبرا کر اسکے چہرے کو دیکھتی رہی۔زرش کا خوف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چلا تھا۔زرش نے ایک نظر ان کاغذات کو دیکھا اور بہت سوچنے کے بعد ان کاغزات سے دھیان ہٹا کر بہت زیادہ حقارت سے اس نے انکار میں سر ہلایا۔


چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔ایک زور دار تھپڑ زرش کے چہرے پر مارا گیا تھا۔ایک جھٹکے سے زرش کو دھکا دے کر آر بی اٹھ کھڑا ہوا۔


'تو قابل ہی نہیں ہے میری بیوی بننے کے۔۔۔۔تیرا یہی انجام کرنا چاہیے کہ وہ شخص تیری صورت بھی نہ دیکھے۔پھر در بدر کی ٹھوکریں کھائے تو۔'


زرش اسکی بات پر کانپ کر رہ گئی تھی۔


'کل تک کا۔۔۔۔۔۔صرف کل تک کا وقت ہے تیرے پاس یا تو ان کاغزات پر دستخط کر دینا نہیں تو فیصلہ میرے ہاتھوں میں ہو گا۔۔۔۔۔سمجھ رہی ہے نا کہ پھر تیرے ساتھ کیا کروں گا اس لیے شرافت سے مان جا۔'


طنزیہ سی مسکراہٹ زرش پر اچھال کر آر بی وہاں سے چلا گیا۔جبکہ زرش دوبارہ سے اپنی قسمت کو رونے لگی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان ،سعد اور عشال دو دن پہلے ہی زیارت پہنچ گئے تھے لیکن ابھی تک انہیں آر بی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوا تھا اور یہی بات وجدان کو بہت زیادہ بے چین کر رہی تھی۔یہ اتنا بھی چھوٹا شہر نہیں تھا کہ یہاں پر انہیں سب کچھ آسانی سے مل جاتا۔


'کیا سوچا ہے وجدان تم نے؟'


سعد کے سوال پر وجدان نے اپنی مٹھیاں کسیں۔


'زرش کا پتہ لگانے کے لئے آر بی کو ڈھونڈنا ہو گا اور ایسا جلد از جلد کرنا ہو گا۔'


سعد نے اثبات میں سر ہلایا۔


'اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم دونوں الگ الگ ہو جائیں تا کہ معلومات جلدی حاصل ہو سکے۔'


سعد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


'پریشان مت ہو میرے دوست ہم انشا اللہ بہت جلد اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔'


سعد نے اسے تسلی دی کیونکہ اپنی جس کمزوری کو وجدان اتنے عرصے سے چھپا رہا تھا آج وہ کمزوری وہ پریشانی اسکے چہرے سے چھلک رہی تھی۔


'میں جا رہا ہوں۔'


وجدان نے سعد کا ہاتھ جھٹکا اور اپنا بیگ پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔آنکھوں پر ایک نقلی نظر کا چشمہ لگانے کے بعد اس نے ہاتھ میں ایک ٹوریسٹ میپ پکڑا اور چھان بین کرنے نکل پڑا۔صبح سے شام ہو گئی تھی لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔جہاں سے وہ چلا تھا وہ ابھی بھی وہیں کھڑا تھا کچھ بھی تو نہیں جان پایا تھا وہ۔ابھی بھی کھانا کھانے کے بعد وہ ایک ہوٹل میں بیٹھا موبائیل پر زرش کی تصویر دیکھ رہا تھا جو کہ جانان نے نکاح پر شرارت سے اسکا موبائیل لے کر بنائی تھی۔کئی مرتبہ وجدان نے اس تصویر کو ڈیلیٹ کرنا چاہا تھا لیکن ایسا وہ چاہ کر بھی نہیں کر پایا۔


'اب تو مل جاؤ یار اور کتنی سزا دو گی۔مانا کہ مظبوط ہوں سزا سہہ سکتا ہوں مگر ہر انسان کی ایک حد ہوتی ہے نور اور میری وہ حد ختم ہو چکی ہے۔'


وجدان نے بہت ذیادہ نرمی سے اپنے موبائل کی سکرین کو چھوا جیسے وہ اسے محسوس کر لے گا۔تبھی اسکے اوپر برفباری ہونے لگی۔


'بس اب ایک گزارش۔۔۔۔۔۔۔نہیں یہ حکم ہے میرا کہ تم بلکل ٹھیک ہو گی چاہے وہ شخص کچھ بھی کر لے نور تم اتنا مت ٹوٹ جانا کہ میں پھر جوڑ نہ سکوں۔اتنا مت بکھرنا کہ تمہیں سمیٹنا نا ممکن ہو جائے۔میرے لئے ٹھیک ہونا تم۔بس ایک آخری موقع دے دو نور صرف یہ آخری موقع پھر دیکھنا کہ تمہارا یہ پتھر دل مسیحا تمہیں کتنا چاہتا ہے۔'


ایک پانی کا نھنھا سا قطرہ زرش کی تصویر کے گال پر گرا تھا۔وجدان کو جاننے والا کوئی بھی شخص اسے بارش کا پانی ہی سمجھتا لیکن سچائی وہ پتھر دل جانتا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

زرش ابھی تک نہیں سو پائی تھی آر بی کی باتیں اسکی دھمکیوں کا خوف اسکے دل کو دہلا رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اسے کیا کرنا ہو گا وہ کس طرح سے اپنی حفاظت کرے؟ یہ خیال آتے ہی زرش پھر سے ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔یا اللہ پاک میری مدد کریں کیسے بھی مجھے آزادی دلا دیں آپ تو ہر چیز پر قادر ہیں میری مدد کر دیں۔زرش زارو قطار روتے ہوئے اپنے لیے دعائیں مانگ رہی تھی اور روتے ہوئے کب اسکی آنکھ لگ گئی یہ اسے بھی علم نہیں ہوا۔ہوش تو اسے تب آیا جب کسی نے اسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔


'زرش بی بی جلدی سے اٹھو وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔'


زرش نے حیرانی سے چندا کو دیکھا اور اٹھ بیٹھی ۔چندا نے فوراً ایک چادر اس پر اوڑھا کر اسے چھپایا۔


'چلو زرش بی بی میں تمہیں لینے آئی ہوں جلدی چلو جانا ہے ہمیں یہاں سے۔'


چندا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرنا چاہا تو زرش جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔زرش کے ذہن میں بہت سارے سوال تھے لیکن چندا اسے کوئی بھی وقت دیے بغیر باہر کی طرف لے کر چل دی اور بہت آہستہ سے گھر سے باہر نکل کر اسے ایک دیوار کے پاس لے آئی جسے پھلانگ کر زرش کو وہاں سے جانا تھا۔زرش کو ایک مہینہ یہاں رہتے ہوئے اب پتہ لگا تھا کہ وہ ایک برفانی علاقے میں تھے کیونکہ جس کمرے میں اسے قید کیا گیا تھا وہاں تو ایک کھڑکی بھی نہیں تھی۔


'باہر عالیہ بی بی کا نوکر آپکا انتظار کر رہا ہے لیکن بی بی جی عالیہ بیگم کا نام بھی زبان پر مت لانا ورنہ وہ وحشی نہ جانے کیا کر گزرے گا۔انہوں نے تو پہلے ہی یہ بغاوت کر کے اپنے سر بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔۔۔۔چلی جاؤ آپ یہاں سے وہ لڑکا آپکو یہاں سے لے جائے گا۔اب جلدی جاؤ وقت ضائع مت کرو۔۔۔'


چندا نے ایک اندھیرے میں لگی سیڑھی کی طرف اشارہ کیا تو زرش نے تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھا اور اس سیڑھی پر چڑھنے لگی۔لیکن دیوار کی دوسری طرف کچھ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے زرش ایک پل کو گھبرائی لیکن پھر ہمت کر کے وہاں سے کود گئی۔اونچی دیوار سے گرنے کی وجہ سے زرش کو کافی چوٹیں بھی آئی تھیں۔جن کو نظر انداز کر کے وہ لڑکھڑاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔جسم سردی کی شدت سے سن ہو رہا تھا۔


'چلیں بی بی۔'


زرش کی ہی عمر کے ایک لڑکے نے اس کے قریب آ کر اسے وہاں سے چلنے کا کہا تو زرش جلدی سے اسکے ساتھ سامنے موجود گاڑی میں بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد ہی وہ لوگ وہاں سے چل پڑے تھے۔


'میرا نام اسلم ہے بی بی ۔'


کار ڈرائیو کرتے ہوئے لڑکے نے بتایا تو زرش نے صرف اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر گھبرا کر پیچھے کو دیکھنے لگی۔


'کتنی مغرور ہے توبہ انسان کچھ کہہ ہی دیتا ہے۔شکریہ تک ادا نہیں کیا نک چڑی کہیں کی۔'


لڑکا ہلکی آواز میں بڑبڑایا تھا لیکن چھوٹی سی کار میں زرش وہ بڑبڑاہٹ سن چکی تھی لیکن پھر بھی وہ صرف گھبراتے ہوئے پیچھے ہی دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی اسکا پیچھا تو نہیں کر رہا۔


'ارے فکر مت کریں بی بی جی ہم نے اڑن چھو ہو جانا اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگنا دیکھ لینا آپ۔'


اسلم نے چہکتی ہوئی آواز میں کہا ۔زرش اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے کہاں چھوڑ کر آئے گا لیکن ابھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے ہاتھوں کے اشارے دیکھنے کے لیے وہ بندہ ایک پل کے لیے بھی سڑک پر سے دھیان ہٹائے۔


'اچھا ویسے اتنی مدد کی ہے نام تو بتا دو بی بی۔۔۔۔۔جانتا ہوں کہ مجھے پہلے سے پتہ ہونا چاہیے تھا لیکن مجھے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ ایک لڑکی کو وہاں سے لے کر لاہور چھوڑ آؤں اور کچھ بھی نہیں بتایا تھا اور ویسے بھی جتنا بولا جائے اتنا ہی کرتا ہے اسلم زیادہ بک بک کرنے کی عادت نہیں مجھے۔'


اسلم نے ایک اور کوشش کی مگر زرش کبھی پیچھے دیکھتی تو کبھی رونے لگ جاتی۔


'کچھ بول لو بی بی جی لمبا سفر ہے آسانی سے کٹ جائے گا۔'


اسلم نے ایک آخری کوشش کی مگر مقابل کی خاموشی دیکھ کر گہرا سانس لے لیا۔


'آپکی مرضی ہے بھئی ویسے اللہ بچائے ایسے غرور سے۔'


اسلم نے سر جھٹک کر کہا جبکہ زرش ابھی بھی روتے ہوئے آیتوں کے ورد کر رہی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

'کہاں ہے وہ بولو سب؟'


آر بی کے چلانے کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔صرف آدھے گھنٹے میں ہی وہ زرش کی غیر موجوگی کا اندازہ لگا چکا تھا اور اب سب اسکے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔


'ایک گھنٹہ۔۔۔۔۔۔ایک گھنٹے کے اندر وہ مجھے تم لوگوں کے قبضے میں چاہیے۔سمجھے اور یہاں کا سردار میرا وفادار ہے اس سے کہو کہ پولیس والوں سے بھی ناکا بندی کروا دںے نکل نہ پائے وہ یہاں سے۔'


سب آدمی اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلے گئے ۔


'ہیلی کاپٹر تیار رکھو ہمیں نکلنا ہے یہاں سے اس سے پہلے کہ پھر سے برفباری شروع ہو جائے۔'


آر بی نے اپنے آدمی سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا لیکن چندا نے اسے بہت حیرت سے دیکھا۔


'مم۔۔۔۔۔۔مگر ہم کیوں جا رہے ہیں اگر وہ مل گئی تو۔۔۔۔۔۔'


چندا نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔


'اگر نہیں،میرے آدمی اسے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے اور جہاں میں کہوں گا وہاں پہنچا دیں گے۔پولیس تو میرے کنٹرول میں ہے یہاں کی لیکن اگر اس لڑکی نے آرمی کو یہاں پہنچا دیا تو مسلہ ہو جائے گا۔تیاری پکڑو تم بھی'


آر بی اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔


'بزدل کہیں کا۔۔۔'


چندا اسکی کمر کو دیکھ کر ہلکا سا بڑبڑائی۔

🌈🌈🌈🌈

اسلم اور زرش زیارت کی حدود سے نکلنے والے تھے جب اچانک انکی نظر سامنے ہوئی ناکہ بندی پر گئی۔زرش پل بھر میں گھبرائی۔


'ارے فکر مت کریں بی بی یہ تو بس پولیس ہے کیا کہہ لے گی ہمیں۔بس یہ مت کہیے گا کہ آپ ہماری معشوقہ ہیں پھر مسلہ کھڑا ہو جائے گا۔'


اسلم نے نرمی سے کہا اور تھوڑا آگے ہو کر گاڑی روکی۔زرش نے فوراً اپنے چہرے کو چادر سے چھپایا۔


'کہاں جا رہے ہو تم لوگ؟'


ایک پولیس اہلکار کھڑکی کے سامنے ہو کر پوچھنے لگا۔


'کہاں جائے گا صاحب گھر ہی جا رہا ہے۔'


اسلم نے عام سے بلوچی لہجے میں کہا۔


'یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟نقاب ہٹاؤ لڑکی۔'


پولیس والے کی گرج دار آواز پر زرش گھبرا کر اسلم کو دیکھنے لگی۔


'خدا کو خوف کرو صاحب ہمارا بہن کیوں اپنا چہرہ دیکھائے بلوچ ہے ہم آنکھیں نکال لیتا ہے اپنی غیرت پر نظر ڈالنے والوں کی۔'


اسلم کی بات پر پولس والا گہرا سانس لے کر پیچھے ہوا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اسلم کو باہر نکالا۔


'فضا آپ انکا چہرہ دیکھو۔'


اسکی بات پر لیڈی کانسٹیبل گاڑی کی طرف بڑھی اور زرش کو باہر نکال کر اسکے چہرے سے نقاب ہٹانے لگی۔زرش کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے غائب ہو جائے۔


'وہی ہے سر۔۔۔۔۔'


کانسٹیبل کی بات پر زرش کی روح تک کانپ گئی تھی جبکہ وہ دوسرا پولیس والا اب موبائیل نکال کر فون ملا رہا تھا۔


'جی سر وہ لڑکی ہمیں مل گئی ہے آپ بس بتائیں کہ کہاں پہنچانا ہے۔'


زرش کی روح تک کانپ گئی تھی۔کیا یہی اسکے نصیب میں لکھا تھا کیا وہ پھر سے اس قید میں جانے والی تھی؟نہیں۔۔۔۔۔اس بار نہیں۔بہت ہمت کر کے زرش نے ایک زور دار دھکا اس کانسٹیبل کو دیا اور اسکی گرفت سے چھوٹتے ہی وہاں سے دوڑ لگا دی۔دوسرا پولیس کانسٹیبل اسکے پیچھے بھاگنے لگا تو اسلم نے جلدی سے اپنے پاس کھڑے پولیس والے سے بندوق چھین کر اس کانسٹیبل کی ٹانگ میں گولی چلا دی۔


'بھاگو بی بی انکو ہم دیکھ لے گا۔'


زرش کو اسلم کی آواز سنائی دی تو اس کے بھاگنے میں شدت آ گئی ۔اس کمزور سے دکھائی دینے والے اسلم نے ایک ساتھ دو پولیس والوں کو اپنی گرفت میں پکڑ رکھا تھا۔پھر ان دونوں کو اچانک ہی زور دار دھکا دیا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کو زرش کے پیچھے لے جانے لگا۔


زرش کچھ ہی دور گئی تو گاڑی میں سوار کچھ لوگ زرش کے پیچھے آ گئے۔انہیں دیکھ کر زرش کی جان مٹھی میں آ گئی۔


زرش نے جب انہیں اپنے بہت قریب پہنچتے دیکھا تو جلدی سے ساتھ موجود تنگ سی گلی میں گھس گئی جہاں وہ گاڑی نہیں آ سکتی تھی اور اپنی مکمل رفتار سے بھاگنے لگی۔سردی کی شدت سے اسکا وجود سن ہو رہا تھا اور پورے جسم میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں لیکن زرش نہیں جانتی تھی کہ پھر بھی اسکے جسم میں اس قدر ہمت کہاں سے پیدا ہو رہی تھی۔


بھاگتے ہوئے زرش اس گلی سے نکل کر واپس ایک سڑک پر آ چکی تھی لیکن اپنے پیچھے آنے والے قدموں کی چاپ وہ با آسانی سن سکتی تھی۔وہ لوگ اسکے قریب پہنچ چکے تھے بہت قریب۔زرش کی ساری امید ختم ہو چکی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ پکڑی جائے گی اور یہ بات اسکی تمام ہمت ختم کر گئی ۔زرش نے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ لوگ اسکے بلکل قریب پہنچ گئے تھے۔مگر تب ہی زرش ایک چٹان کی ماند شے سے ٹکرائی اور اسکے بھاگتے قدم وہیں رک گئے۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان ساری رات آر بی کے ٹھکانے کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا رہا تھا جسکے نتیجے میں دو لوگ اسکے ہاتھوں سے بری طرح سے پٹے بھی تھے لیکن افسوس کی بات تو یہ تھی کہ آر بی کے آدمی ہونے کے باوجود وہ لوگ اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔آر بی نے اپنے آپ کو بہت ذیادہ چھپا کر رکھا ہوا تھا اور اس بات سے ایک چیز وجدان پر ظاہر ہو گئی تھی کہ وہ بہت ذیادہ ڈرپوک انسان تھا۔


ساری رات وجدان نے سڑکوں پر گزاری تھی اور اب صبح کے وقت وہ مایوسی کی حالت میں واپس جا رہا تھا جب اسکے کانوں میں فجر کی اذان کی آواز پڑی۔بے ساختہ طور پر اسکے قدم مسجد کی طرف اٹھے تھے۔ٹھنڈا علاقہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں بہت کم لوگ تھے کیونکہ ایسے علاقوں میں جب برفباری کا سلسلہ شروع ہوتا تھا تو لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔نماز ادا کر کے وجدان نے اپنے ہاتھ اٹھائے تو وہ خوبصورت سبز آنکھیں نم تھیں۔


'مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں ہیں میرے اللہ لیکن غلطیاں تو ہر انسان کرتا ہے اور تو اسے معاف کر دیتا ہے۔لیکن مجھے چاہے تو نہ بخش لیکن اس معصوم کی حفاظت کرنا میرے مولا۔اسے مجھ سے ملا دے تاکہ میں اپنی غلطی سدھار لوں۔اسکے زخموں کا مرحم بن جاؤں،اسکے دکھوں کا مداوا کروں،وہ مسیحا بنوں جو وہ مجھے سمجھتی رہی ہے۔'


کئی آنسو ٹوٹ کر اس پتھر دل کی آنکھوں سے گرے۔


'لوگ بہت کچھ کھوتے ہیں میرے اللہ لیکن میں نے سب کچھ کھویا ہے کچھ بھی نہیں بچا میرے پاس۔سب لٹ جانے کی جیتی جاگتی مثال ہوں میں لیکن اب اگر اسے بھی کھو دیا نا تو یہ وجود نہیں بچےگا۔مٹ جائے گی میری ہستی۔ بس ایک بار میری دعاقبول کر لے اسے ملا دے مجھ سے میرے مولا ایک بار ملا دے۔'


وجدان نے دعا کے لیے اٹھائے ہوئے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے اور خدا کی بارگاہ میں تڑپ کر مانگنے والا وہ شخص ایک مرتبہ پھر سے خود کو پتھر بنا کر باہر چل دیا۔


ابھی وہ چل کر کچھ قدم ہی دور گیا تھا جب ایک نازک سا وجود اسکی کمر سے ٹکرایا وجدان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک پل کے لیے تو اسے اپنی آنکھوں پر اور قسمت پر یقین ہی نہیں آیا کیا سچ میں دل کی گہرائیوں سے مانگی ہوئی دعا اتنی جلدی قبول ہو سکتی تھی؟کیا معجزے واقعی میں ہو جاتے تھے؟


'نور۔۔۔۔۔'


بے ساختہ وجدان کے لبوں سے نکلا۔


زرش جو پیچھے دیکھنے میں مصروف تھی یہ آواز سن کر اسے سب ایک خواب لگنے لگا تھا۔وہ محسوس کر سکتی تھی کہ کیسا لگتا ہے جب صحرا میں صدیوں سے بھٹکتے ہوئے پیاسے کو جب پانی مل جائے۔کئی آنسو ٹوٹ کر ان کانچ سی آنکھوں سے گرے۔وجدان نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اس نازک وجود کو خود میں بھینچ کر اپنے آپ کو اسکی موجودگی کا احساس دلایا یقین کرنا چاہا کہ یہ سب ایک سچ ہے کوئی خواب یا سراب نہیں۔سکون کی ایک لہر اسکے پورے وجود میں گردش کرنے لگی تھی۔


'اے ہیرو چھوڑ اسے آر بی کی ہے ملکیت ہے وہ۔'


ایک آدمی کی آواز پر وجدان نے زرش کو خود سے دور کیے بغیر اپنی لہو رنگ نم نظریں اٹھا کر ان تینوں کو دیکھا۔جبکہ ان سبز آنکھوں میں سے نکلتے غضب ناک شراروں سے ہی ڈر کر وہ لوگ تین قدم دور ہوئے تھے۔وجدان نے پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی زرش کو خود سے دور کیا تو اسکی نظر زرش کے ماتھے پر موجود چوٹ کے نشان پر پڑی جس نے جلی پر تیل کا کام کیا۔ وجدان اپنی مٹھیاں بھینچتا ان تینوں کی طرف بڑھا۔


'ہے ہمت تو صرف ہاتھ لگا کے بتا اسے۔'


سرد مہر وجدان کی جگہ اب اسکے اندر چھپا درندہ،اسکا خطرناک ترین روپ خان بول رہا تھا۔ایک آدمی نے بندوق اٹھا کر گولی چلائی لیکن وجدان بہت تیزی سے اس گولی سے بچ کر اس شخص کے قریب پہنچا اور اسی کے ہاتھ میں موجود بندوق سے ایک گولی سامنے موجود شخص کے سینے میں ماری ۔دوسرے آدمی نے اپنی پسٹل سے وجدان پر گولی چلائی تو وجدان نے اپنی گرفت میں موجود شخص کو اپنے سامنے کر دیا ۔وہ گولی اسکے سینے میں لگی تو وہ شخص نیچے گر گیا۔وجدان نے اسکے ہاتھ سے بندوق لے کر اس تیسرے آدمی کی ٹانگ پر گولی ماری جس سے وہ کراہتے ہوئے زمین پر ڈھے گیا۔وجدان بندوق لے کر اسکے قریب ہوا تو اس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔


'نن۔۔۔۔۔۔۔ننہیں معاف کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔'


وہ شخص گڑگڑانے لگا۔


'جا معاف کیا۔'


وجدان نے بندوق نیچے کی اور اسکی دوسری ٹانگ میں بھی گولی مار دی۔وہ شخص اب تڑپنے لگا۔


'اگر زندہ بچ گیا نا تو بتا دینا اپنے اس آر بی کو کہ زرش صرف خان کی ہے۔نور ہے وہ اسکا اور وجدان خان اسکے نور پر نظر رکھنے والے کی آنکھیں چھین لے گا۔اس لئے دیکھ لے جتنی دنیا دیکھنی ہے بہت جلد اس قابل نہیں رہے گا وہ۔'


وجدان نے حقارت سے بھری ایک آخری نگاہ اس پر ڈالی اور مڑ کر زرش کے پاس گیا جو گھٹنوں میں سر دیے زمین پر بیٹھی تھی۔وجدان نے اسکے پتلے لباس کو دیکھا تو اپنی جیکٹ اتار کر اسکے کندھوں پر ڈال دی۔


'چلو نور۔۔۔۔۔۔'


وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر کھڑا کیا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر چلنے لگا۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اسکی دعا اتنی جلدی قبول ہو جائے گی وہ اس کے پاس تھی اسکے بہت قریب ۔وجدان کے جینے کی وجہ اسکے پاس تھی اسے اور کیا چاہیے تھا۔جبکہ زرش تو صرف یہ سوچ رہی تھی کہ وہ یہاں کیسے اور کیونکر تھا؟وہ تو اس سے نفرت کرتا تھا نا پھر یہاں کیوں آیا؟بہت سے سوال اس معصوم ذہن پر حاوی تھے۔جبکہ وجدان اپنی متاع جان کو ساتھ لگائے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہا تھا۔

🌈🌈

وجدان زرش کو لے کر اس چھوٹے سے گھر میں واپس آیا جو انہوں نے کچھ دن کے لیے کرائے پر لیا تھا۔سعد جو کافی دیر سے وجدان کا انتظار کر رہا تھا اسکے دروازہ کھٹکھٹاتے ہی دروازے کی طرف چل دیا۔جب اس نے وجدان کے ساتھ زرش کو دیکھا تو ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ جلدی سے انہیں اندر بلایا۔


'زرش تم ٹھیک ہو گڑیا؟'


سعد نے پریشانی سے پوچھا ۔جبکہ زرش کے ذکر پر ہی عشال بھاگ کر دروازے کے پاس آئی اور زرش کو کھینچ کر اپنے گلے لگا لیا۔زرش بھی کسی کا سہارا پا کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔وجدان دروازے کو لاک کر کے اندر داخل ہوا۔زرش کے وہ آنسو اس سے برداشت نہیں ہو رہے تھے وہ نہیں جانتا تھا کہ ان آنسوؤں میں اسکا کون کون سا درد چھپا تھا۔


Hey little doll stop crying or I am going to kill that bast......"


عشال کافی غصے میں تھی بہت مشکل سے اس نے اپنے آپ کو وہ جملہ مکمل کرنے سے روکا۔


'عشال تم اسے کمرے میں لے جاؤ اور کوئی گرم کپڑے دو اسے پہننے کے لیے۔'


عشال ہاں میں سر ہلا کر زرش کو دوسرے کمرے میں لے گئی۔


'کہاں سے ملی وہ تمہیں؟'


سعد نے پریشانی سے پوچھا۔


'یہ سب اتنا بھی ضروری نہیں ہے سعد زیادہ ضروری چیز اس وقت زرش کی حفاظت ہے اور ہمیں اسی کا خیال رکھنا ہو گا۔'


سعد نے اثبات میں سر ہلایا۔


'وہ ٹھیک تو ہے نا؟'


پتہ نہیں بس ایک بت کو چلا کر اپنے ساتھ لایا ہوں میں کچھ نہیں جانتا کہ اسکے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔'


سعد وجدان کی آواز میں چھپی پریشانی محسوس کر سکتا تھا۔


'وجدان ہمیں زرش سے پوچھ کر آر بی پر حملہ۔۔۔۔۔'


'کوئی فائدہ نہیں ہے سعد وہ ایک بزدل انسان ہے ابھی تک تو وہ یہاں سے چلا بھی گیا ہو گا لیکن اسکی پہنچ کافی ذیادہ ہے اس کا مطلب بہت سے لوگ زرش کو ڈھونڈ رہے ہوں گے۔'


سعد کو وجدان کی بات میں مصلحت نظر آئی۔


'پھر ہمیں جلد از جلد زرش کو یہاں سے لے کر جانا ہو گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سے نکلنا بہت زیادہ مشکل ہے۔یہ مشکل کام آرمی کی مدد سے بہت آسان ہو جاتا لیکن اب ہم دونوں ہی اس کا حصہ نہیں ہیں۔ '


سعد کے لہجے میں افسوس تھا کیونکہ سعد کو اپنے وطن اور فوج سے بہت ذیادہ پیار تھا،اپنی جان سے بھی ذیادہ لیکن اپنی دوستی کی خاطر یہ سب چیزیں قربان کر کے سعد نے دوستی کی مثال قائم کی تھی اور ایسا ہی اس نے شایان کی باری بھی تو کیا تھا۔


'ہم شایان سے کانٹیکٹ کرتے ہیں شاید وہ کچھ کر پائے۔'


سعد کی بات پر وجدان نے کچھ دیر غور کیا اور پھر جیب سے اپنا موبائل نکالا جس پر سروس بلکل بھی نہیں تھی۔


'ضرور ان لوگوں نے اس علاقے کی تمام سروسز بند کر دیں ہیں تا کہ ہم کسی سے بھی رابطہ نہ کر سکیں۔'


وجدان کی بات پر سعد نے مٹھیاں کسیں۔


'تو اسے نقاب کروا کر یہاں سے لے جاتے ہیں اپنے ساتھ۔'


سعد نے ایک اور حل بتانا چاہا۔


'مگر یہاں کے پولیس والے بھی آر بی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جن تین لوگوں سے آج میں بھڑا ان میں سے ایک پولیس والا تھا۔اسکو تو میں نے زندہ چھوڑ دیا مگر باقی اتنے خوش قسمت نہیں نکلے۔'


وجدان نے ضبط سے مٹھیاں کسیں۔


'پھر اب؟'


'ہم یہاں سے نکلنے کی مکمل کوشش کریں گے بس کے ذریعے اور اگر کسی نے ٹانگ اڑائی تو اس سے خود ہی نمٹ لیں گے۔لیکن اگر کوئی بھی مسلہ ہوا تو تم اور عشال اس میں نہیں پڑو گے۔ان لوگوں نے تم دونوں کو نہیں دیکھا اس لئے خاموشی سے چلے جانا اور پھر وادی کے اختتام پر ایک ہائی وے ہے جہاں ایک اکلوتا چائے ولا ہے وہاں ملنا مجھے دو دن بعد ٹھیک صبح دس بجے اور اگر نہیں ملوں تو اس سے اگلے دن ۔ایسا دس دن تک کرتے رہنا۔'

سعد نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔

'اور اگر نہیں۔۔۔۔۔۔۔'

'فکر مت کرو سعد میں تمہیں ضرور ملوں گا۔وعدہ رہا۔'

وجدان کی بات پر سعد نے اثبات میں سر ہلایا۔

'خدا کرے اس سب کی نوبت ہی نہ آئے۔'

سعد وہاں سے چلا گیا تو وجدان نے اس کمرے کی طرف دیکھا جہاں کافی دیر سے زرش گئی ہوئی تھی۔اسے ڈھونڈ تو لیا تھا لیکن اب اسکے پاس جانے کی ہمت ہی نہیں کر پا رہا تھا۔اپنا کہا ہر لفظ،ہر جملہ اسکے کانوں میں گونج رہا تھا۔کافی دیر وجدان باہر بیٹھا اس دروازے کو دیکھتا رہا تھا۔تبھی عشال کھانے کی خالی ٹرے لے کر باہر آئی۔


'سنو۔۔۔۔'


'بتاؤ۔'


عشال بلکل اسی کے انداز میں بولی۔


'کیسی ہے وہ؟کچھ بتایا اس نے؟'


عشال اسے پھر سے کافی باتیں سنا دیتی اگر اس نے اسکے لہجے میں چھپی پریشانی نہ محسوس کی ہوتی تو۔


'کچھ بتایا تو نہیں اس نے لیکن کافی زیادہ ڈری ہوئی ہے۔آئی تھنک آپ خود جا کر اس سے پوچھیں گے تو وہ اپنی فیلنگز بہتر طریقے سے بتا سکے گی۔آخر بیوی ہے آپکی'


عشال کی بات پر وجدان نے گہرا سانس لیا۔


'مجھے ایسا نہیں لگتا۔'


Really?

آپ لوگ عورتوں کو کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ گھٹنوں میں ہوتا ہے ۔شاید ایسا ہوتا بھی ہو۔لیکن آپ مردوں کا دل تو یقیناً گھٹنوں میں ہوتا ہے جزبات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔'


وجدان اسے خطرناک آنکھوں سے گھور رہا تھا لیکن اسکے باوجود عشال کا چلتا منہ بند نہیں ہوا تھا۔


'قسم سے آپ سے نا جزبات اور دل کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔'


عشال اپنی بات کہہ کر غصے سے وہاں سے چلی گئی اور وجدان وہاں بیٹھ کر دروازے کو دیکھتا رہا۔


'سچ میں ابھی تک یہیں ہیں آپ۔قسم سے اب تو مجھے یہ لگ رہا ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانا زیادہ بہتر تھا۔'


وجدان نے اس پٹاخہ کو غصے سے دیکھا۔


'تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی بے لگام نہیں ہوتی جا رہی؟'


وجدان نے اسے اپنی خطرناک سبز آنکھوں سے زیر کرنے کی کوشش کی مگر عشال نے اپنی ہری آنکھیں اسکی آنکھوں میں بہادری سے گاڑھیں۔


'میری زبان کو لگام لگا ہی کب تھا؟'


عشال نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے اسے دیکھا اور سعد کے پیچھے چلی گئی۔جبکہ وجدان کافی دیر بیٹھ کر یہ سوچتا رہا تھا کہ کیسے وہ اسکے دکھ کا اور کرب کا اندازہ لگائے کیسے معلوم کرے کہ وہ ٹھیک تو ہےاتنا تو وہ جانتا تھا کہ زرش سے دور رہنا اب اسکے بس میں نہیں۔جس پتھر کو زرش نے اپنی محبت سے صرف اور صرف اپنے لئے موم بنایا تھا وہ اب زرش کی محبت کا طلبگار ہو چکا تھا۔


پھر کافی دیر باہر بیٹھے سوچنے پر ایک ترکیب وجدان کے ذہن میں آئی تھی جس کی بنا پر وہ اسکی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اسکی حرکت یا تو مقابل کو بہت ذیادہ ڈرا دے گی یا غصہ دلا دے گی اور وجدان دعا کرتا تھا کیفیت دوسری والی ہی ہو۔

🌈🌈🌈🌈

زرش کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح سے وہ اس قید خانے سے نکل آئی تھی۔اپنوں میں آ گئی تھی۔لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں تھا نا کہ اسکی مشکلات ختم ہو چکی تھیں۔آر بی کے الفاظ اسکے ذہن میں گھوم رہے تھے کہ کوئی بھی مرد گھر سے باہر رہنے والی عورت کو نہیں اپناتا۔تو کیا سچ میں وجدان اسے طلاق دے دے گا؟یہ سوچتے ہی زرش پھر سے رونے لگی۔وہ صبح سے اس کے پاس بھی تو نہیں آیا تھا ایک بار بھی اس سے اسکا درد جاننے کی کوشش نہیں کی وہ ابھی بھی بلکل پہلے جیسا ہی سنگ دل تھا تو پھر وہ یہاں کیا کر رہا تھا؟


یہ سب سوچ کر زرش کو وجدان پر مزید غصہ آنے لگا تھا۔ہاں وہی تو بے وقوف تھی نا جو اپنے آپ کو یوں اس کے سامنے پیش کرتی رہی اسکے پتھر دل سے سر پھوڑتی رہی۔لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔زرش نے بہت بے دردی سے اپنے آنسو صاف کیے اور خود سے عہد کیا کہ اسے اب وجدان کی بے رخی یا کسی بھی عمل سے فرق نہیں پڑے گا۔لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکا پتھر دل محبوب کیا سوچے بیٹھا ہے؟اپنے خیالات میں اس قدر محو تھی کہ اسے دروازہ کھلنے اور لاک ہونے کی آواز ہی سنائی نہیں دی۔


'کس کی اجازت سے گئی تھی تم گھر سے باہر؟'


وجدان کی گرج دار آواز پر زرش چونک کر اسے دیکھنے لگی اور اسکی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر خوف کے عالم میں بیڈ کراؤن سے جا لگی۔


'جواب دو کیوں نکلی تھی تم گھر سے باہر؟'


وجدان کا لہجہ کافی سخت تھا اور اس لہجے کے زیر اثر زرش مزید ڈر گئی تھی۔


آپ نے ہی کہا تھا جانے کو۔


زرش نے گھبراتے ہوئے اشارہ کیا تو وجدان طوفان کی تیزی سے اسکے پاس آیا اور اسے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔زرش لڑکھڑا کر اسی کے سہارے کھڑی ہو گئی ۔وہ دونوں اتنے قریب تھے کہ زرش اسکی سانسوں کی گرماہٹ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔زرش حیرت سے اپنی آنکھیں بڑی کیے وجدان کو دیکھنے لگی۔


'پاگل لڑکی کمرے سے نکلنے کو کہا تھا میں نے گھر سے نہیں۔سراپا امتحان بنی ہوئی تھی تم میرے لیے۔دل کی دنیا ہلا گئی تھی تم۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ کیسے تمہیں دور کرتا اسی لیے کہا وہ سب ۔'


وجدان نے اسے مزید اپنے قریب کیا تو زرش کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ایک نیا سا احساس اسکے دل میں اجاگر ہوا۔خوف کی جگہ اب گھبراہٹ نے لے لی تھی۔


'اب بتا رہا ہوں اگر پھر کبھی ایسا کچھ کیا نا تو ٹانگیں کاٹ دوں گا تمہاری تا کہ چھوڑ کر جانا تو دور کی بات ہے ہل بھی نہ پاؤ اپنی جگہ سے ۔'


زرش آنکھیں بڑی کیےاسے دیکھ رہی تھی۔وہ اسے بہت کچھ سنانا چاہتی تھی اسے پوچھنا چاہتی تھی کہ کس حق سے وہ یہ باتیں کر رہا ہے۔یہ رشتہ تو ایک مزاق تھا نا اسکے لیے۔ لیکن وجدان نے اسے یہ سب پوچھنے کا موقع ہی کہاں دیا تھا اسکے دونوں ہاتھ تو وجدان کی گرفت میں تھے جنہیں وہ چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔وجدان کی نظر اسکے ماتھے پر موجود کافی گہرے زخم پر پڑی جو ضرور بہت زور سے کسی چیز کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے آیا تھا اور اب کافی حد تک بھر چکا تھا لیکن پھر بھی وہ وجدان کے اندر ابلتے غصے کے لاوے کو مزید بھڑکا گیا تھا۔


'وعدہ کرتا ہوں نور اسے میں جہنم سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا اور پھر تمہاری ہر تکلیف کا مداوا کرنا ہو گا اسے اپنی آخری سانس تک۔اسکی زندگی ہی جہنم سے بھی بدتر بنا دوں گا۔'


زرش وجدان کے غصے کا اندازہ اسکی آواز سے لگا سکتی تھی لیکن پریشان تو وہ اس بات پر تھی کہ جیسا آر بی نے کہا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا وجدان اسے ڈانٹ کر گھٹیا نہیں کہہ رہا تھا تو کیا آر بی نے جھوٹ کہا تھا؟


اچانک ہی وجدان نے اپنے دہکتے لب زرش کے ماتھے پر موجود چوٹ پر رکھے تو زرش اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور گھبرا کر وجدان کو دیکھنے لگی۔جو اب اسے ماتھے سے اپنے ہونٹ ہٹا کر اسکے گال پر موجود آر بی کے دیے تھپڑ کے نشان پر رکھ چکا تھا۔اسکے بعد جب وجدان نے وہاں سے بھی اپنے لب ہٹا کر اسکے ہونٹ کے پاس بنے زخم پر رکھ دیے تو زرش نے کانپتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنے ہاتھوں کو وجدان کے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور کرنے لگی جبکہ وجدان تو بے خود سا ہوا اسکے ہر زخم پر اپنے پیار کا مرہم لگا رہا تھا جیسے اسکی ہر تکلیف کو اپنے ہونٹوں سے چن رہا ہو۔


زرش کو تو لگ رہا تھا کہ اسکی سانسیں ہی تھم جائیں گی۔وہ کہاں وجدان کی اس قدر قربت کی عادی تھی۔جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیسے وجدان کو خود سے دور کرے تو گھبرا کر اپنے لب کاٹنے لگی جبکہ اسکی اس حرکت پر وجدان کی نظر ان سرخ لبوں پر ٹھہر سی گئی۔


'تم نے اس سینے میں موجود پتھر کو دھڑکنا سیکھایا ہے نور آئندہ مجھ سے دور مت جانا ورنہ یہ دھڑکتا دل رک جائے گا۔'


وجدان نے بوجھل سے لہجے میں کہا زرش آنکھیں بند کیے اسکی سانسوں کی گرمائش اپنے ہونٹوں کے بہت قریب محسوس کر رہی تھی اور اسی وجہ سے اسکی سانس اب مکمل طور پر سینے میں اٹک گئی تھی۔وہ اسکی بولتی آنکھوں اور معنی خیز باتوں کو نہیں سمجھ پا رہی تھی۔


'ابھی تو پیار سے سمجھایا ہے جان وجدان اگلی بار تم نے دوری کا سوچا بھی نا تو اسکی سزا کے لیے بھی تیار رہنا۔'


وجدان نے اسکی بند آنکھوں اور دہکتے گالوں کو دیکھ کر مسکرا کر کہا اور اسے چھوڑ کر دور ہو گیا۔جو وہ جاننا چاہتا تھا اسکی قربت میں جان چکا تھا۔یہ خدا کا کرنا ہی تھا کہ وہ جس طرح سے وجدان کے پاس سے گئی تھی اسی طرح سے واپس بھی آئی تھی۔اس دیو کی قید میں بھی خدا نے اسکی اور اسکی معصومیت کی حفاظت کی تھی کیونکہ ایسا نہ ہوتا تو ابھی اسکے چہرے پر شرم و حیا کی سرخی کی بجاۓ خوف و ہراس کی سفیدی ہوتی۔


وجدان کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی اسی وقت خدا کے سامنے سجدہ شکر میں گر جائے۔وجدان کے دور ہوتے ہی زرش نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے پہلے سے گلابی چہرے کو خفگی سے سجا کر اسے دیکھا۔


آپ آئندہ بلکل بھی میرے قریب مت آئے گا آپ مجھے بلکل بھی اچھے نہیں لگتے۔اب کس محبت کی بات کر رہے ہیں یہ سب تو صرف سمجھوتا اور مزاق تھا نا آپکے لیئے تو پھر اب میری تکلیف اور دوری سے کیا فرق پڑتا ہے آپکو؟


زرش نے روتے ہوئے اسے اشارہ کیا تو وجدان سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔وہ اسکی باتیں مکمل طور پر نہیں سمجھ سکا تھا لیکن اسکی آنکھوں میں موجود شکوے دیکھ کر سب سمجھ گیا تھا۔


'اور اس محبت کا کیا جانم جسکے سوال تم نے مجھ سے کیے تھے؟


وجدان کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا ۔


ختم ہو گئی وہ محبت آپکے لفظوں نے بہت زیادہ بے دردی سے مار ڈالا تھا میری محبت کو ۔


زرش نے شکوہ کنا بھیگی آنکھوں سے وجدان کو دیکھا جو اب بہت بے چینی سے اسکی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا۔زرش کی بات اسکے دل کو بہت تکلیف دے گئی تھی لیکن وجدان نے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وہ زرش کے اسی سلوک کے قابل ہے۔


'مرہم بھی میں ہی بنوں گا نورِ خان۔تمہارے دل کے ہر زخم کو اپنی بے پناہ محبت سے بھروں گا۔اتنا عشق کروں گا تم سے کہ میری محبتوں سے پناہ مانگو گی تم۔وعدہ ہے یہ اس دل کا نور جسے تم نے دھڑکنا سکھایا ہے۔


وجدان نے اچانک سے زرش کے قریب آ کر اسکے گال کے ساتھ اپنا گال لگایا تو زرش کانپتے جسم کے ساتھ جلدی سے اس سے دور ہوئی۔گھبراہٹ کے مارے اسکی پلکیں اور لب پھڑپھڑا رہے تھے اور اس حالت میں وہ وجدان کے دل میں ہلچل پیدا کر رہی تھی۔


ناراض ہوں میں آپ سے بہت ذیادہ ناراض ۔دور ہو جائیں آپ مجھ سے۔


اس سے دور ہوتے ہی زرش نے اشارہ کیا تو اس دور ہونے والی بات وجدان کو بلکل بھی پسند نہیں آئی اسی لیے اس نے زرش کو دیوار کے ساتھ لگا کر اپنی قید میں لے لیا۔زرش ابھی بھی آنکھیں بڑی کیے اسکے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہی تھی۔لیکن اسکی آنکھوں میں موجود جنون سے بہت زیادہ گھبرا بھی رہی تھی۔


'ناراض ہو کوئی بات نہیں تمہیں ہزار مرتبہ مناؤں گا لیکن یہ دور جانے والی بات آئندہ غلطی سے بھی مت کرنا سمجھی۔'


اتنا کہہ کر وجدان نے اپنے دہکتے لب اسکے ماتھے پر رکھے تو زرش کانپ کر رہ گئی۔لیکن اگلے ہی وجدان اس سے دور ہو کر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔زرش کی پلکیں بھیگی تھیں۔


اگر مجھ سے محبت نہیں کرتے تو کیوں کر رہے ہیں یہ سب؟


زرش نے روتے ہوئے سوال کیا وہ بھلا کیسے وجدان کے نفرت بھرے وہ سب الفاظ بھلا دیتی۔


'تمہیں یہ لگتا ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا؟


وجدان کے حیرت سے پوچھنے پر زرش نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔وجدان نے گہرا سانس لے کر خود پر قابو کیا تھا۔


'خود کو تھوڑا مظبوط تو کر لو جان وجدان پھر تمہیں اپنی محبت کا اندازہ اور دیدار سب کروا دیں گے لیکن ابھی تم اس کے لیے بہت نازک ہو۔'


وجدان کے لہجے میں موجود بے خودی اور تڑپ محسوس کر کے زرش نے گھبراہٹ کے مارے اپنا ہاتھ بہت زوروں سے دھڑکتے دل پر رکھا۔


'آرام کرو نور پھر ہمیں کل ہی یہاں سے جانا ہے۔'


اسکی بند نگاہوں کو دیکھتے ہوئے وجدان نے اتنا ہی کہا اور وہاں سے چلا گیا۔زرش نے آنکھیں کھول کر خالی کمرہ دیکھا تو سکھ کا سانس لیا۔


🌈🌈🌈🌈

آدھی رات کے وقت ہلکی پھلکی برفباری میں کالے کپڑوں میں ملبوس وہ وجود زیارت کے اس مخصوص گھر کی طرف جا رہا تھا۔خبر تو پکی تھی آر بی کا ٹھکانا یہی تھا۔اس نے اس محل نما گھر کے قریب پہنچتے ہی اپنا چہرہ بھی کالے رومال سے ڈھانپ لیا اور کافی مشکل سے اس اونچی دیوار کو پھلانگ کر اس گھر کی حدود میں داخل ہوا۔


گھر اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا جیسے وہاں پر کوئی بھی موجود نہ ہو۔ شاید اسکا انکشاف صیح تھا وہ لوگ یہاں سے جا چکے تھے اور اگر ایسا تھا تو اسکا یہاں آنا بے مقصد تھا۔


'یہیں مل جانا آر بی تمہاری موت آسان ہو جائے گی۔'


اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے بندوق نکال کر کہا اور سبز آنکھوں میں وحشت لیے وہ وجود آگے بڑھنے لگا۔ایک کھڑکی کو کافی مہارت سے کھول کر وہ وجود اندر داخل ہوا اور ارد گرد دیکھ کر اپنے مقصد کی چیزیں ڈھونڈنے لگا۔


مگر افسوس کی بات تو یہ تھی کہ پورا کا پورا گھر خالی تھا وہاں اسے کچھ بھی ایسا نہیں ملا جو اسکے کام آ سکے۔


'اے کون ہے تو وہیں رک جا۔'


ایک آدمی کی آواز پر کالے کپڑوں میں ملبوس شخص اپنی جگہ پر ساکت ہوا ۔


'کون ہے تو اور یہاں کیا کر رہا ہے؟'


اس شخص نے کافی غصے سے پوچھا تو ایک پل کو تو وہاں خاموشی رہی اور پھر فضا میں سراسرتی سی آواز آئی۔


'سکندر۔۔۔۔'


کالے کپڑوں میں ملبوس اس وجود نے پلٹ کر اس آدمی کو دیکھا۔


'جھوٹ بلکل جھوٹ سکندر تو۔۔۔۔'


ابھی اسکے الفاظ مکمل طور پر ادا بھی نہیں ہوئے تھے جب اچانک ہی سکندر نے اپنی بندوق اٹھا کر انتہائی تیزی اور درست نشانے کے ساتھ پہلے ایک گولی اسکے بندوق تھامے ہاتھ اور پھر دوسری گولی اسکی ٹانگ میں مار دی۔اتنا تو سکندر بھی سمجھ ہی چکا تھا کہ یہ بے بس آدمی اس گھر میں بلکل اکیلا تھا۔


'آر بی کہاں ہے؟'


سکندر نے انتہائی غصے کے عالم میں فرش پر پڑے اس آدمی کو گریبان سے پکڑ کر پوچھا۔


'نن۔۔۔۔۔نہیں جانت۔۔۔۔۔'


سکندر نے اسے مزید بولنے کا موقع دیے بغیر ہی گولی دوسری ٹانگ میں بھی مار دی۔جس سے وہ شخص کراہ اٹھا۔


'آر بی کہاں ہے؟'


اس مرتبہ سکندر کے لہجے میں بے پناہ غصہ تھا مگر افسوس کی بات تو یہ تھی کہ اتنی سی تکلیف سے ہی وہ شخص بے سدھ ہو چکا تھا۔سکندر نے اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر معائنہ کیا۔وہ شخص مر چکا تھا۔


'ناکارہ۔۔۔۔'


سکندر نے غصے سے اسے زمین پر پھینکا اور باہر کی طرف چل دیا۔دیوار کو پھر سے کافی مشکل سے پھلانگ کر وہ باہر آیا اور وہاں سے جانے لگا۔


'سکندر الفاظ درانی۔۔۔۔'


ایک جانی پہچانی آواز سکندر کی سماعتوں سے ٹکرائی تو سکندر کے چلتے قدم رکے اکسا دل ایک پل کو دہلا تھا۔


'کب تک چھپو گے تمہیں کیا لگا تھا کہ میں سچ کبھی نہیں جان پاؤں گا؟'


سکندر اب کی بار مڑا ۔سبز آنکھیں بلکل ہی اپنے جیسی سبز آنکھوں سے ٹکرائی تھیں لیکن اچانک ہی سکندر نے اپنی بندوق اٹھائی اور سامنے موجود شخص کے سر کا نشانہ بنا کر گولی چلا دی جو بلکل اسکے کان کے پاس سے گزر کے پیچھے موجود دیوار کو لگی لیکن اس سے پہلے کہ وہ شخص اس سے سمبھلتا سکندر نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور اندھیرے میں غائب ہو گیا۔سکندر کا نشانہ کبھی بھی نہیں چوکا تھا مگر اس آدمی کو مارنا اسکا مقصد نہیں تھا کیونکہ سکندر اچھے لوگوں کا دشمن نہیں۔

🌈🌈🌈🌈

صبح زرش کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں بلکل اکیلی تھی۔وجدان کی باتوں کو یاد کر کے وہ بہت زیادہ کنفیوز ہو رہی تھی لیکن اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسکی باتوں میں نہیں آئے گی پھر سے اپنی محبت اور جزبات کا مذاق نہیں بننے دے گی۔زرش یہ تو نہیں جانتی تھی کہ اب وجدان یہ سب کیوں کر رہا ہے لیکن اتنا ضرور جانتی تھی کہ اب وہ اتنی آسانی سے اسے معاف نہیں کرے گی۔


'تم اٹھ گئی۔اچھا ہے چلو اب ہمیں جلدی نکلنا ہے۔'


عشال نے اس کے سامنے آ کر اسے جیکٹ،گرم شوز،دستانے اور ایک عبایہ پہننے کو دیا۔ فجر کا وقت ہو رہا تھا اور وجدان کو لگ رہا تھا کہ یہ وقت یہاں سے جانے کے لیے بہترین رہے گا۔زرش نے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی سے وہ سب پکڑ کر پہننے لگی۔وہ بہت زیادہ ڈر بھی رہی تھی کیونکہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لوگ یہاں سے کیسے نکلیں گے۔


'چلو آؤ جلدی سے دیر ہو رہی ہے۔'


سعد نے دروازے میں آ کر کہا تو عشال نے زرش کا ہاتھ تھاما اور اسکے ساتھ باہر آ گئی۔

زرش نے سعد کو دیکھا جو اپنے ہمیشہ والے حلیے میں ہی تھا لیکن وجدان کالی شلوار قمیض پر بلوچی ٹوپی پہنے اور سکن کلر کی مردانہ چادر اوڑھے بہت ذیادہ مختلف اور انتہائی ذیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔ایک پل کے لئے تو زرش بھی اسکی وجاہت میں اس قدر کھو کر رہ گئی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب عشال وہاں سے چلی گئی تھی اور اسکی جگہ وجدان اسکے بلکل سامنے آ کر کھڑا تھا۔


'صرف تمہارا ہی ہوں نورِ خان ساری زندگی دیکھتی رہنا ابھی زرا دیر ہو رہی ہے۔'


وجدان نے مسکراتے ہوئے سرگوشی کی تو زرش اپنی حرکت کو پرکھتے ہوئے دہکتے رخساروں کے ساتھ اس سے دور ہوئی اور پھر اسکو مسکراتے دیکھ کر اپنا منہ پھلا کر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے عشال کے پاس چلی گئی۔


'زما بې ګناه مینه' (میری معصوم محبت)


وجدان نے انتہائی محبت سے کہا اور پھر ان کے پیچھے چل دیا۔برفباری کی وجہ سے کافی دیر کے بعد انہیں ایک بس ملی وہ لوگ اس میں سوار ہو گئے۔زرش وجدان کے عقب میں بیٹھی تھی۔سعد اور عشال ان دونوں سے کافی فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔سارا راستہ زرش ان سب کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی رہی تھی وہ اب اس مصیبت سے نکلنا چاہتی تھی۔اچانک گاڑی رکی تو زرش خوف سے کانپتے ہوئے وجدان کے قریب ہوئی اور اپنا کپکپاتا ہاتھ وجدان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔


'ڈرو مت انہیں شک ہو جائے گا۔میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔'


وجدان نے اسکا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے کر اسکا خوف کم کرنا چاہا لیکن زرش اسے کیسے بتاتی کہ وہ اسی کے لئے تو خوفزدہ ہے۔اگر اسکی وجہ سے اسکے مسیحا کو کچھ ہو گیا تو زرش بھی مر جائے گی۔کچھ دیر بعد کچھ لوگ بندوقیں ہاتھوں میں تھام کر بس میں چڑھے اور پوری بس کا جائزہ لینے لگے۔زرش آنکھیں بند کیے آیات کا ورد کر رہی تھی۔


'اے تم باہر آؤ۔۔۔۔۔۔۔'


اس آدمی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا لیکن زرش یہ الفاظ سن کر بری طرح سے کانپنے لگی تھی اور اسکی یہ حرکت اس آدمی کی آنکھوں سے چھپی نہیں رہی تھی۔


'تم دونوں بھی آو باہر۔'


اس نے وجدان اور زرش کی طرف اشارہ کیا۔وجدان نے ایک گہرا سانس لیا اور زرش کا ہاتھ تھام کر اٹھنے لگا۔عشال یہ منظر دیکھ کر مٹھیاں بھینچے وہاں سے اٹھنے لگی تو سعد نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'نہیں۔'


سعد کے منع کرنے پر عشال نے اسے گھور کر دیکھا۔


'لیکن۔۔۔۔۔'


'ششش خاموش رہو۔'


سعد کی گرفت اسکے ہاتھ پر مظبوط ہو گئی۔


'بزدل۔'


عشال نے اسے ایک نئے لقب سے نوازا۔تبھی وجدان زرش کا ہاتھ تھام کر بس سے باہر نکل گیا۔


'کون ہے یہ؟'


بس میں سے باہر آتے ہی ایک آدمی نے سختی سے پوچھا تو زرش ڈر کر وجدان کے پیچھے چھپی۔


'بیوی ہے ہمارا۔۔۔۔۔'


وجدان نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔


'نقاب ہٹاؤ اسکا۔'


وجدان کے ماتھے پر بل پڑے۔


'اس سے پہلے ہم تیری آنکھیں نکال دے گا۔'


وجدان کا لہجہ مکمل طور پر بلوچی تھا۔اس آدمی نے ایک بندوق وجدان کی کن پٹی پر رکھی۔


'جو کہا ہے نا کر ورنہ یہ کام میں تجھے مار کے بھی کر سکتا ہوں۔'


لیکن پھر بھی وجدان کی آنکھوں میں زرہ برابر بھی خوف نہیں تھا۔زرش وجدان سے اس طرگ سے چپک رہی تھی جیسے اسکے اندر ہی چھپ جائے گی۔وجدان نے بھی اسکا ہاتھ سختی سے پکڑا اور پھر اپنے سامنے موجود شخص کو دیکھا۔


'ٹھیک ہے لیکن چہرہ صرف تو دیکھے گا باقی سب نہیں۔'


وجدان نے نظروں سے ہی باقی چار بندوں کی طرف اشارہ کیا۔اس آدمی نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور باقی لوگوں کو پلٹنے کا کہا۔انکے پلٹتے ہی وہ زرش کے قریب آیا اور جیسے ہی اسنے اپنا ہاتھ زرش کے نقاب کی طرف بڑھایا وجدان نے اسکی گردن کے گرد ہاتھ ڈال کر اسکی گردن کو ایک جھٹکے سے توڑ کر اسے چھوڑا اور زرش کا ہاتھ تھام کر سڑک کے ساتھ موجود جنگل میں بھاگ گیا۔


وہ لوگ اپنے ساتھی کے زمین بوس ہونے کی آواز پر پلٹے اور جلدی جلدی سے وجدان اور زرش کے پیچھے بھاگنے لگے۔جبکہ بس تو ان لوگوں کے جاتے ہی وہاں سے چلی گئی۔زرش وجدان کی رفتار سے بھاگنے کی مکمل کوشش کر رہی تھی لیکن اس برف میں ایسا کرنا ناممکن تھا۔اسکا پاؤں برف میں دھنس جاتا تو اسے واپس کھینچنا بہت زیادہ مشکل ہوتا۔لیکن وہ ان لوگوں کے پیچھے آنے کی آواز بھی سن سکتی تھی۔


بہت اچانک وجدان نے ایک درخت کے پیچھے زرش کو چھپایا اور خود بھی اسکے ساتھ اس درخت کی اوٹ میں ہو لیا۔


'یہ کہاں غائب ہو گئے۔'


ان لوگوں نے قدموں کے نشان دیکھنا چاہے تھے جو کہ تیزی سے گرنے والی برف نے چھپا دیے تھے۔


'یہیں ہوں گے یہاں سے دور نہیں جا سکیں گے۔انہیں ڈھونڈو اور باقیوں کو بھی خبر کرو کہ لڑکی یہیں پر ہے۔سردار نے جیسا کہا تھا ویسا ہی ہو گا۔وہ یہاں سے نہیں نکل پائیں گے۔ '


اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر وہ لوگ چاروں طرف پھیل گئے۔وجدان نے ان پر سے نظریں ہٹا کر زرش کو دیکھا جس پر سے اسکا نقاب ہٹ کر کہیں گر چکا تھا اور اب وہ اپنے کھلے بالوں کر ساتھ وجدان کے سینے میں منہ چھپائے کھڑی تھی۔


'وہ لوگ چلے گئے ہیں۔'


وجدان نے آہستہ سے کہا تو زرش نے آنسوؤں سے بھری کانچ سی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔شاید وہ اس دنیا میں واحد ایسی آنکھیں تھیں جن کی خوبصورتی میں آنسو بے پناہ اضافہ کر دیتے تھے۔لیکن پھر بھی وجدان کو وہ آنسو بلکل بھی پسند نہیں تھے۔وجدان کو چھوٹی چھوٹی بات رونے والی لڑکیوں سے سخت چڑ تھی۔لیکن زرش کی آنکھ سے نکلا ایک ایک آنسو اسکے لیے باعث اذیت ہوتا تھا۔


'کچھ نہیں ہو گا تمہیں۔صیح سلامت واپس پہنچو گی اپنے گھر یہ وعدہ ہے میرا۔'


وجدان نے بہت نرمی سے اسکے بہتے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں پر چن لیے۔


'چلو۔۔۔۔۔'


وجدان نے اسکا ہاتھ تھاما اور گھنے جنگل کی طرف چل دیا۔اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ سیدھے راستے سے انکا یہاں سے نکلنا ناممکن تھا۔اس لئے اسے یہ کام مشکل طریقے سے کرنا ہو گا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد اور عشال کوئٹہ پہنچ چکے تھے اور اب کوئٹہ پہنچتے ہی سعد شایان کو فون کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کر چکا تھا۔

'فکر مت کر سعد می فلائٹ سے کل ہی وہاں پہنچ جاؤں گا اور تو وجدان کی ٹینشن مت لے اپنے ایک مشن میں گلیشیئر میں رکنا پڑا تھا اسے اور ایک مہینے کے بعد بھی زندہ واپس آ گیا تھا وہ۔ کیسی بھی سیچویشن سے گزر سکتا ہے ۔' 

سعد  نے گہرا سانس لیا۔

'یار بات وجدان کی نہیں زرش کی ہے اس سب کی عادی نہیں ہے وہ۔' 

سعد نے پریشانی سے کہا تو ایک پل کو دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔

'ہمم۔۔۔۔۔تو صیح کہہ رہا ہے یار ۔۔۔۔ چل میں کل ہی آ رہا ہوں وہاں۔'

 شایان نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا ۔سعد نے ایک نظر ریسٹورنٹ کے ٹیبل پر بیٹھی عشال کو دیکھا اور اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

'تم نے کھانا نہیں کھایا؟' 

سعد نے اسکے سامنے موجود کھانے کی طرف اشارہ کیا جو ابھی تک بلکل ویسے ہی پڑا تھا۔

'آپ نے بہت غلط کیا ایجنٹ جی صرف چار یا پانچ آدمی تھے وہ آپ دونوں مل کر آرام سے ڈھیر کر سکتے تھے انہیں۔'

 عشال نے انتہائی غصے سے کہا۔

'عشال وہ صرف شروعات تھی تم نے خود نہیں دیکھا تھا آگے کتنی ہی جگہ مزید لوگ اور پولیس والے ناکہ بندی کر کے کھڑے تھے۔ہر جگہ سے یوں نہیں گزر سکتے تھے ہم۔' 

سعد نے بے بسی سے کہا۔

'تو پھر ہمیں بھی اس وقت یہاں نہیں ان دونوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔' 

عشال نے اسے چشمے کے پیچھے سے گھورا تو سعد نے گہرا سانس لیا۔

' ہمیں ان کی مدد کرنی ہے عشال اور وہ ہم یہاں رہ کر بہتر طریقے سے کر سکتے تھے۔تم وجدان کو اتنا ہلکے میں مت لو وہ ہینڈل کر لے گا سب۔' 

سعد نے اسکا غصہ کم کرنے کے لیے کافی نرمی سے کہا تو عشال نے بھی ایک گہرا سانس لیا اور پھر خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔

'آئی ایم سوری مجھے آپ سے اتنی بدتمیزی نہیں کرنی چاہئے تھی۔' 

تھوڑی دیر بعد عشال نے کہا۔سعد نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔

'کوئی بات نہیں مجھے پتہ ہے کہ تم زرش کو لے کر پریشان ہو۔' 

سعد نے کافی نرمی سے کہا۔

'میں بس نہیں چاہتی کہ کسی کو بھی کچھ ہو بہت دیر کے بعد کسی سے پھر سے مانوس ہو گئی ہوں اور نہیں چاہتی کہ انہیں بھی کھو دوں۔' 

عشال کی آواز میں نمی محسوس کر کے سعد نے پریشانی سے عشال کو دیکھا جو دوسری طرف چہرہ کیے اپنے آنسو چھپانے کی مکمل کوشش کر رہی تھی۔سعد نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔

'کچھ نہیں ہو گا عشال تم فکر مت کرو بس دو دن کا وقت دو انہیں بلکل صیح سلامت یہاں لے کر آؤں گا وعدہ رہا۔' 

عشال کافی دیر سعد کی بھوری آنکھوں کو دیکھتی رہی اور پھر سعد کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔

'آپ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے میری تو خیر ہے لیکن آپکی تہذیب ڈسٹرب ہو جائے گی۔' 

سعد نے اسے پھر سے مذاق کرتے دیکھا تو ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر سے ہٹایا اور خود بھی کھانا کھانے لگا۔

                       🌈🌈🌈🌈

زرش کب سے وجدان کے ساتھ چلتی جا رہی تھی اور اب وہ بری طرح سے تھک چکی تھی لیکن پھر بھی وجدان ایک بار بھی مڑے بغیر یا اسکی بات سنے بغیر چلتا گیا۔اس سب پر اس قدر ٹھٹھرتی سردی میں زرش کا جسم سن ہو رہا تھا۔جب زرش کو لگا کہ اسکے پاؤں اور ٹانگیں اب مزید اسکا ساتھ نہیں دیں گیں تو اپنا ہمیشہ والا رونے کا شغل منانے لگی۔اسکے رونے کی آواز پر وجدان کے چلتے قدم رکے۔

'کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟' 

وجدان نے رک کر کافی نرمی سے پوچھا۔تو زرش نے انکار میں سر ہلا دیا۔

'چلو پھر۔۔۔' 

وجدان کے کہنے پر زرش چل تو پڑی لیکن وہ پھر سے رونے لگی مگر اس بار وجدان اسکے رونے کی وجہ سمجھ گیا تھا۔

'زیادہ تھک گئی ہو تو اٹھا کر لے جاؤں؟' 

وجدان نے مسکرا کر  کہا تو زرش نے اپنے آنسو روک کر پہلے آنکھیں بڑی کر کے وجدان کو حیرت سے دیکھا اور پھر ناراضگی سے اپنا منہ پھلا لیا تھا ایسا کر کے وہ بہت زیادہ کیوٹ لگنے لگی۔وجدان نے اس پر سے اپنی نظریں پھیر لیں۔

'چلو۔' 

وجدان نے اسے پھر سے کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس مرتبہ زرش نے بھرپور مزاحمت کی اور اپنا ہاتھ چھڑوا کر اشارہ کرنے لگی۔

میں تھک گئی ہوں۔

وجدان نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ایک جگہ دیکھ کر وہاں اسے لے گیا۔وجدان نے ارد گرد دیکھا وہ لوگ اسے کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔مشکل کی بات تو یہ تھی کہ انہیں ایک رات وادی کے اس جنگل میں گزارنی تھی۔جو اس ٹھٹرتی سردی میں لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔لیکن ایسی جگہوں پر پہاڑوں کے دامن میں ایسی بہت سی جگہیں مل جاتی ہیں جہاں پر برف نہیں پہنچ پاتی اور وجدان کو ایسی ہی جگہ کی تلاش تھی۔

'تمہیں بھوک لگی ہے؟'

 وجدان کے سوال پر زرش کی آنکھیں پھر سے نم ہو چکی تھیں۔وجدان نے ایک گہرا سانس لیا۔

'تو پھر اس میں رونے کی کیا بات ہے؟'

وجدان نے اپنے بیگ میں سے ایک بند نکال کر زرش کے ہاتھ میں پکڑایا اور خود ارد گرد جگہ تلاش کرنے لگا۔تبھی اسکی نظر ایک بڑے سے پہاڑ پر پڑی جسکے نیچے ایک چھوٹا سا غار موجود تھا اور وہاں برف بھی موجود نہیں تھی۔

'چلو نور ہمیں وہاں چلنا ہے۔' 

وجدان نے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا تو زرش نے انکار میں سر ہلا دیا وہ اب ایک بھی قدم نہیں چلنا چاہتی تھی۔

'چل کر جاؤ گی یا اٹھا کر لے جاؤں؟'

 وجدان کے سوال پر زرش نے اپنی آنکھیں بڑی کیں اور فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔وجدان کے لبوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا ۔

'چلو پھر۔' 

وجدان اسے وہاں پر لے آیا اور اپنے بیگ سے ایک چادر نکال کر اسکا لحاف بنا لیا۔آج رات انہیں اسی سے گزارا کرنا تھا۔وجدان کو اپنی تو فکر نہیں تھی لیکن زرش کے لئے یہ سب سروائوو کرنا ناممکن تھا۔اس سب پر وجدان آگ بھی نہیں جلا سکتا تھا کیونکہ اس وجہ سے وہ بہت سے لوگوں کی نظر میں آ سکتے تھے۔زرش سہم کر اس پہاڑ کی اوٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔وجدان اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا تو زرش نے اسے دیکھا۔

ہم یہاں سے کب باہر نکلیں گے۔

زرش نے پوچھا تو وجدان نے گہرا سانس لیا۔

'ابھی تو میں خود بھی نہیں جانتا اس بارے میں کچھ بھی نور میں جانتا ہوں کہ یہ سفر تمہارے لیے مشکل ہے لیکن یہی ایک راستہ ہے اب ہمارے پاس'

 وجدان نے اسے درست بات بتانا صیح سمجھا۔

کیاآپ سے کچھ پوچھ لوں؟

'ہمم۔۔۔۔'

 وجدان کا دھیان زرش سے ذیادہ ارد گرد تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کچھ بھی الٹا ہو انکے ساتھ۔

آپ یہاں کیوں آئے؟

زرش کے سوال پر وجدان کے ماتھے پر بل پڑے۔

'کیونکہ مجھے منفی درجہ حرارت میں اس طرح باہر سونے کا بہت شوق ہے۔بچپن کا سپنا تھا یہ میرا۔'

وجدان نے مزاق کیا لیکن وہ مذاق بھی اس معصوم کے دل پر لگا تھا۔

آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا اب میری وجہ سے آپ بھی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔

کافی دیر کے بعد زرش نے اشارہ کیا تو وجدان کا دل چاہا کہ اسکا چہرہ تھپڑوں سے لال کر دے۔آخر وہ خود کو سمجھ کیا رہی تھی۔اسکے دل کی دنیا ہلا کر کس طرح سے وہ ایسی باتیں کر سکتی تھی۔

'اب اگر تم نے یہ بکواس بند نہیں کی نا تو تمہارے دونوں ہاتھ باندھ دوں گا سمجھی۔' 

وجدان کی سختی پر زرش منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔

جھوٹ بولتے ہیں یہ بلکل بھی نہیں بدلے ایک دم ویسے ہی ہیں۔

زرش نے روتے ہوئے سوچا جبکہ وجدان نے اسکے رونے کی آواز پر بے چینی سے زرش کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔

'بہت ظلم کرتی ہو تم ان خوبصورت آنکھوں پر میری جان اور یہ اب مجھے گوارہ نہیں ہے کیونکہ تمہارے ساتھ ساتھ یہ آنکھیں بھی میری ہیں۔آئندہ کبھی بھی انہیں ایسے نم نہ دیکھوں۔'

وجدان نے کافی جزبات سے کہہ کر اسکے آنسوؤں کو کافی نرمی سے صاف کیا اور پھر پانی کی بوتل نکال کر زرش کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

زرش نے پانی پیا اور پھر اپنی ٹانگیں سینے سے لگا کر بیٹھ گئی۔زرش بہت دیر تک سامنے موجود نظارے کو دیکھتی رہی۔اگر وہ لوگ اس قدر مشکل میں نہیں ہوتے تو زرش اس برف میں کھیلتی ،اسے اپنے اوپر گراتی،وجدان کے اوپر گراتی۔یہ سوچتے ہی ایک شرمیلی سی مسکان نے زرش کے لبوں کو چھوا۔

نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔میں تو ناراض ہوں ان سے پھر بھلا کیوں انہیں اپنے ساتھ کھیلاتی۔

زرش نے کافی معصومیت سے سوچا اور پھر سے اپنے سامنے موجود چمکتی سفیدی ،درختوں کو،پہاڑوں کو اپنی اوٹ میں چھپاتی برف،بادلوں سے بھرے آسمان اور قدرت کے حسین شاہکاروں کو دیکھتی رہی۔

کیا کچھ اتنا حسین بھی ہو سکتا ہے؟

زرش نے مسکرا کر سوچا۔جبکہ اتنی دیر سے اسے یوں کھوئے ہوئے دیکھتا وجدان بھی تو یہی سوچ رہا تھا۔جہاں زرش کے لئے وہ سب دل موہ لینے والے نظارے تھے وجدان کے لیے وہ خود دل کی گہرائیوں میں اترنے والا نظارہ بنی ہوئی تھی۔

کافی دیر تک وہ دونوں وہیں بیٹھے رہے تھے۔رات گہری ہونے لگی تو وجدان نے ساتھ موجود دیوار سے اپنی کمر ٹکائی اور زرش کو کھینچ کر اپنے سینے پر گرا لیا۔زرش گھبرا کر اس سے دور ہونے لگی۔

'دیکھو نور ایڈجسٹ کرو اگر چاہتی ہو نا کہ ہم دونوں کی قلفی نہ جم جائے تو چپ چاپ یہاں آؤ۔' 

وجدان نے کھینچ کر اسے اپنے سینے میں بھینچا۔زرش نے مزاحمت کرنا چاہی تو وجدان نے بہت زیادہ سختی سے اسکی کمر کو پکڑا۔

'ابھی تو صرف اپنے سے لپٹایا ہے سکون سے لیٹی رہو ورنہ ہر حد پار کر جاؤں گا۔' 

وجدان کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی تھی۔ہلنا تو دور کی بات ہے زرش تو سانس بھی بہت آہستہ سے لے رہی تھی۔اف میری معصوم سی جان۔وجدان کے لبوں کو ایک دلفریب مسکراہٹ نے چھوا اور اسنے مسکراتے ہوئے اپنی جیکٹ اور چادر میں زرش کو چھپا کر اپنی آنکھیں موند لیں جبکہ زرش تو اسکے وجود سے ملنے والی گرمائش کی وجہ سے بہت جلد ہی سو گئی۔مگر وجدان نہیں سو پایا تھا کافی دیر تک وہ اس تھوڑی سی روشنی میں زرش کے معصوم چہرے کو دیکھ کر ڈھیروں سکون اپنے اندر اتارتا رہا تھا ۔

'ایسا مت کرو نور تمہیں اپنے دل تک رسائی دی تھی میں نے اور تم روح تک میں بستی جا رہی ہو۔جن سے بھی محبت کی ان کی محبت نے مجھے تڑپایا ہی تھا تم سے تو عشق کر چکا ہوں نور تم نا جانے میرا کیا حشر کرو گی۔' 

وجدان نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر آنکھیں موند کر خود بھی سو گیا۔

                         🌈🌈🌈🌈

وجدان کی آنکھیں کھلی تو صبح کی ہلکی سی روشنی افق پر پھیلی ہوئی تھی لیکن دھند کی وجہ سے وقت کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔وجدان نے نظریں جھکا کر اپنے سینے پر موجود اس موم کی گڑیا کو دیکھا جو ابھی تک اسکی جیکٹ میں چہرہ گھسائے سکون سے سو رہی تھی۔وجدان کو اسکا معصوم چہرہ اس دنیا کا سب سے حسین نظارہ لگ رہا تھا۔

'نور۔۔۔۔'

 وجدان نے اسکے بالوں میں ہلکے سے ہاتھ پھیرا تو ایک چھوٹی بلی کی طرح زرش کسمسا کر اسکے مزید قریب ہوئی۔وہ وجدان کے صبر کا صیح معنوں میں امتحان لے رہی تھی۔اسکے سینے میں اٹھتے جزبات خود سری پر اترے ہوئے تھے۔

'نور اٹھو۔۔۔۔'

 وجدان نے اس مرتبہ سختی سے کہا تو زرش نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں اور اپنے انتہائی قریب وجدان کو دیکھ کر جلدی سے اس سے دور ہوئی۔لیکن اس سے پہلے کہ وجدان اس سے کچھ کہتا کچھ لوگوں کے قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ وجدان کو سنائی دی۔وجدان نے زرش کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے اسے مزید اس پہاڑ کی اوٹ میں چھپایا اور خود اسکی ڈھال بن کر سامنے کھڑا ہو گیا۔اب وہ ان لوگوں کے بولنے کی سرگوشیاں بھی سن سکتا تھا۔لیکن دھند اور پہاڑ کی اوٹ میں موجود اندھیرے کی باعث وہ لوگ ان دونوں کو دیکھ نہیں پائے تھے۔زرش ہمیشہ کی طرح آنکھیں بند کیے ورد کر رہی تھی اور وجدان کی نظر بار بار ان گلابی لبوں پر ٹھہر رہی تھی۔وجدان انکے قدموں کی چاپ قریب آتے سن سکتا تھا لیکن جانتا تھا کہ وہ یہاں پر انہیں نہیں دیکھ سکتے۔

'مجھے نہیں لگتا کہ وہ دونوں یہاں ہیں چلو ہمیں کہیں اور دیکھنا ہو گا۔' 

وجدان کو ایک آدمی کی آواز سنائی دی اور اسکے بعد وہ لوگ پھر سے وہاں سے چلے گئے۔وجدان جانتا تھا کہ وہ لوگ جا چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ زرش سے دور نہیں ہوا تھا۔

'تم غلط کر رہی ہو نور بہت غلط کر رہی ہو۔' 

وجدان کی بات پر زرش نے اپنی کانچ سی آنکھوں میں سوال لے کر اسے دیکھا۔وہ دونوں ابھی بھی اس قدر ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے کہ ایک دوسرے کی سانسوں کی تپش بھی محسوس کر سکتے تھے۔

'میرے اندر جینے کی چاہ پیدا کر رہی ہو۔پھر سے کچھ چاہنے کی خواہش کو ابھار رہی ہو۔میرے قفل لگے دل پر دستک دے رہی ہو تم اور اب میں اپنے دل سے ہونے والی اس جنگ سے تھک چکا ہوں۔'

 وجدان اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے نازک لبوں پر جھکا اور اپنے سلگتے دل کو قرار بخشنے لگا۔زرش جو اسکی باتوں میں پوری طرح سے ڈوبی ہوئی تھی اس حملہ کے لیے تیار نہیں تھی اسی لیے وہ لڑکھڑا کر گرنے لگی تو وجدان نے اسکی کمر کو تھام کر خود کے مزید قریب کر لیا۔اسکی پکڑ اس قدر مظبوط تھی کہ زرش کو مزاحمت کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔

زرش کو لگ رہا تھا کہ اسکی سانسیں ہی تھم جائیں گی اسی لیے تو وجدان کی جیکٹ کو زور سے جکڑ کر مزاحمت کرنے لگی۔جبکہ وجدان تو کسی بھی شے کی پروا کیے بغیر خود میں سکون اتار رہا تھا۔کافی دیر کے بعد زرش کی بند ہوتی سانسوں کی پروا کر کے وجدان اس سے دور ہوا تو زرش آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔جبکہ رخساروں کی سرخی اسے ایک انوکھا روپ بخش گئی۔اپنے بے لگام جزباتوں کو قابو میں کر کے وجدان اس سے دور ہوا۔

'چلو اب ہمیں چلنا ہیں یہاں سے۔'

 وجدان نے اپنا سامان سمیٹا اور وہ دونوں پھر سے آگے بڑھنے لگے۔

                        🌈🌈🌈🌈

آر بی کافی ذیادہ غصے میں تھا ایک پوری رات گزر چکی تھی اور اس کے آدمی ابھی تک زرش کو نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔ہر گزرتے پل کے ساتھ آر بی کی بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔آخر کار اسنے اپنے جنون کے اتنے قریب  آ کر اسے پھر سے کھو دیا تھا۔

'پتہ چلا کہاں ہے وہ؟'

 فیض کے وہاں آتے ہی آر بی غصے سے دھاڑا ۔

'باس وہ کوشش کر رہے ہیں ہمارے آدمی پولیس بھی اپنی مکمل کوشش کر رہی ہے۔ابھی تک وہ دونوں اس وادی میں ہی ہیں وہاں سے نکل نہیں پائیں گے۔' 

فیض نے گھبراتے ہوئے کہا۔

'دونوں؟' 

آر بی نے ایک ابرو اچکا کر سوال کیا۔

'جج۔۔۔جی باس کوئی وجدان خان ہے اس لڑکی کے ساتھ شوہر ہے شاید۔۔۔۔' 

دھڑام ۔۔۔۔آر بی نے بہت زور سے اپنے سامنے موجود شیشے میز کو ٹانگ مار کر پھینک دیا ۔فیض جیسا مظبوط مرد بھی کانپ کر رہ گیا تھا۔

'فیض میری زرش مجھے واپس چاہیے کسی بھی حال میں ورنہ تم سب کے ٹکڑے کر دوں گا اس شیشے کی طرح۔' 

آر بی نے دانت پیستے ہوئے فرش کی طرف اشارہ کیا۔اسکی بھوری آنکھوں میں بلا کی وحشت تاری تھی۔

'اور مجھے اس وجدان خان کے بارے میں سب جاننا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات۔اس خان کو میں نے ہلکے میں لے کر غلطی کی ہے کوئی عام انسان نہیں ہے وہ۔پتہ لگاؤ اسکا فیض۔' 

آر بی کی بات پر فیض نے کانپتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

'جج۔۔۔جی باس۔۔' 

فیض اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا لیکن آر بی ابھی تک وہیں بیٹھا وجدان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

'تم نے اچھا نہیں کیا وجدان خان میری زرش کو مجھ سے چھین کر ،اسے چھو کر ۔تمہیں اس کی سزا بھگتنی پڑے گی بہت بری سزا۔' 

آر بی نے غصے سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا گلاس زمین پر پھینک کر توڑ دیا۔

                        🌈🌈🌈🌈

شایان صبح صبح ہی سعد کے بتائے ہوئے ہوٹل پر پہنچ چکا تھا۔اس کے ساتھ علی اور دا اور سپاہی موجود تھے۔سعد نے اسے تمام بات بتائی جسے شایان نے کافی سنجیدگی سے سنا تھا۔

'شایان اب۔۔۔؟'

سعد کافی پریشان تھا۔

'تم فکر مت کرو سعد اگر وجدان نے کہا ہے کہ وہ وہاں پہنچے گا تو ایسا ہی ہو گا۔وجدان پر تو مجھے خود سے بھی زیادہ یقین ہے اور رہی زرش کی بات تو وجدان سے ذیادہ محفوظ تو وہ کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔' 

شایان نے کافی یقین سے کہا۔

'تو پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا؟' سعد نے سوال کیا۔

'فلحال تو اس لڑکی کو یہاں سے نکالو جو دروازے کے پیچھے چھپ کر ہماری باتیں سن رہی ہے۔' شایان نے غصے سے کہا۔شایان کا سنجیدہ دراب والا روپ کبھی کبھار ہی سامنے آتا تھا۔

'میں کیوں جاؤں بھلا یہاں سے؟' عشال خود ہی دروازے کے پیچھے سے نکل کر باہر آئی اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر شایان کو گھورنے لگی۔

'کیونکہ تمہاری یہاں ضرورت نہیں ہے اور الٹا تم ہمارے لیے مشکل میں اضافہ ہی کرو گی۔' 

عشال منہ کھولے شایان کو دیکھ رہی تھی۔

'کیپٹن علی آپ خود اس لڑکی کو ساتھ لے کر جائیں اور اسے مخصوص جگہ پر پہنچا دیں۔' 

عشال کو بولنے کا موقع دیے بغیر ہی شایان نے علی سے کہا تو وہ 'یس سر' کے ساتھ عشال کے قریب ہوا۔

'میں یہاں سے نہیں جا رہی۔' 

عشال نے کافی غصے سے شایان کے سامنے آ کر کہا تو شایان نے بہت خطرناک سنہری آنکھوں سے اسے گھورا۔نا جانے ان آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ ایک پل کے لئے عشال جیسی بہادر لڑکی بھی کانپ کر رہ گئی۔

'تم سے پوچھا نہیں تمہیں بتایا ہے اور شرافت سے بات مانو ورنہ تمہیں بے ہوش کر کے بھی وہاں پہنچایا جا سکتا ہے۔' 

شایان اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو عشال منہ بسور کر سعد کو دیکھنے لگی۔

'ایجنٹ جی۔۔۔۔' 

'وہ صحیح کہہ رہا ہے عشال بات مانو۔' سعد نے بھی سختی سے کہا تو عشال اپنا پیر پٹخ کر وہاں سے چلی گئی۔

Best of luck captain.

سعد نے مسکرا کر علی سے کہا جو ابھی بھی سکتے کے عالم میں اس دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے عشال گئی تھی۔

                         🌈🌈🌈🌈

صبح سے شام ہونے کو تھی سارا دن چل چل کر زرش کا برا حال ہو چکا تھا اب تو اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ دونوں گم گئے ہیں اور اسی برف میں اب انکی قبر بننی تھی۔ان کے پاس کھانا اور پانی تو تھا لیکن وہ پانی بھی اس قدر ٹھنڈا ہو چکا تھا کہ اسکا ایک گھونٹ لینا بھی مشکل تھا۔

اچانک ہی چلتے چلتے زرش کا پاؤں ایک گہری جگہ پر جا کر بہت سختی سے مڑا۔ایک سسکی کے ساتھ زرش زمین پر بیٹھی تھی۔وجدان پریشانی سے زرش کے پاس آیا ۔

'نور کیا ہوا؟' 

وجدان کی نظر اسکے پیر پر پڑی جو گرم جوتوں میں ہی کافی بری طرح سے مڑا ہوا لگ رہا تھا۔وجدان نے ایک گہرا سانس لیا پہلے ہی وہ لوگ ان کے پیچھے پڑے تھے اور اب اس سب میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔وجدان نے آگے بڑھ کر زرش کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور چلنے لگا۔زرش روتے ہوئے اسکے سینے میں چھپ رہی تھی ۔زرش کو پکا یقین تھا کہ اسکا پاؤں ٹوٹ چکا ہے۔

'ششش چپ ہو جاؤ نور ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔ ' 

وجدان نے اسے کافی نرمی سے دلاسہ دیا لیکن زرش اپنی پیر میں اٹھنے والے بے تحاشہ درد کے سامنے کہاں کچھ اور محسوس کر سکتی تھی۔ اچانک چلتے ہوئے وجدان کی نظر ایک جمے ہوئے چھوٹے سے تالاب پر پڑی تو وجدان گہرا سانس لے کر اس طرف چل دیا۔وہ جانتا تھا کہ یہ طریقہ زرش کے لئے بہت درد ناک ثابت ہو گا مگر اس کے پاس اب کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

وجدان نے ایک جگہ پر زرش کو بیٹھایا اور خود جمے ہوئے اس تالاب کے پاس آ کر مخصوص جگہ سے برف توڑنے لگا جو کہ کچی ہونے کی وجہ سے با آسانی ٹوٹ بھی گئی تھی۔وجدان نے آگے بڑھ کر زرش کے پاؤں سے شوز اور جراب اتاری اور اسکی گلابی چھوٹے سے پاؤں کا معائنہ کرنے لگا۔

'شکر ہے زیادہ زور سے نہیں مڑا بلکہ تم دیکھنا ایک پل میں ٹھیک ہو جائے گا۔' 

وجدان نے نرمی سے کہتے ہوئے اسکا پاؤں پانی کی طرف بڑھانا چاہا تو زرش نے فوراً اپنا پاؤں واپس کھینچ لیا اور اس جھٹکے سے اٹھنے والے درد بے پھر سے سسک کر رونے لگی۔

'نور تم مجھ سے ابھی بھی ناراض ہو؟' 

وجدان کے سوال پر زرش نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو پھر منہ بنا کر اثبات میں سر ہلایا۔

'تو پھر رات کو میرے ساتھ اتنا چپک کیوں رہی تھی۔کتنی ہی بار تمہیں خود سے دور کیا میں نے لیکن تم پھر سے میرے ساتھ ہی چپک رہی تھی۔' 

وجدان نے نرمی سے اسکا پیر پکڑ کر کہا تو زرش زور زور سے انکار میں سر ہلانے لگی۔اسے تو کل رات کے بارے میں بس اتنا ہی یاد تھا کہ وہ بہت ذیادہ تھکاوٹ کی وجہ سے وجدان کی جیکٹ میں منہ دے کر۔۔۔۔اتنا سوچتے ہی زرش نے شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔

'اور یہ تو کچھ بھی نہیں جان تم نے تو مجھے کس بھی کیا تھا۔' 

نہیں جھوٹ سراسر جھوٹ ایسا تو کچھ بھی زرش کو یاد نہیں تھا۔زرش نے فوراً ہاتھ ہٹا کر وجدان کے چہرے کو دیکھا جو خود بھی دلچسپی سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔

'یہاں پر۔' 

وجدان نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا تو زرش زور زور سے انکار میں سر ہلانے لگی۔اپنی حرکتوں کے بارے میں وہ اس قدر پریشان ہو گئی تھی کہ اسے تو یہ تک محسوس نہیں ہوا تھا کہ اسکا پاؤں وجدان نے کافی دیر سے ٹھنڈے پانی میں رکھا ہوا تھا۔

'پھر یہاں پر۔' وجدان نے اپنے گال پر انگلی رکھی۔

'اور پھر یہاں پر۔' وجدان نے انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی تو زرش فوراً ہی زور زور سے انکار میں سر ہلانے لگی۔مگر تبھی وجدان نے اسکے پاؤں کو پانی میں سے باہر نکال کر ایک جھٹکے سے سیدھا کیا تو زرش سسک کر اسکے سینے سے لگ گئی۔

'آپ بہت برے ہیں مجھے بلکل بھی پسند نہیں کبھی بھی بات نہیں کروں گی آپ سے۔' 

زرش نے یہ الفاظ روتے ہوئے اپنے ذہن میں کہے تھے لیکن انہیں بول نہیں پائی تھی۔

وجدان نے اسے خود سے دور کر کے اسے اسکی جراب تو واپس پہنائی ہی تھی لیکن اپنی دونوں جرابیں بھی اتار کر اسی کے پاؤں میں پہنا دی تھیں۔زرش اب چلنے کے قابل تو ہو چکی تھی لیکن بہت آہستہ آہستہ اور درد کے ساتھ۔وجدان اتنا سمجھ گیا تھا کہ اب وہ کل صبح تک سعد کو بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ نہیں پائے گا۔اسی لیے وہ ایک اور رات اسی سنسان جگہ پر گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈنے لگا۔

                         🌈🌈🌈

سعد کو اس طرح بے بسی سے انتظار کرنا بہت زیادہ برا لگ رہا تھا ۔وہ چاہ کر بھی کسی طرح سے وجدان کی مدد نہیں کر پا رہا تھا اور یہ اسے بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔


'کیا سوچ رہے ہو سعد؟'


شایان کی آواز پر سعد خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور انکار میں سر ہلانے لگا۔


'عشال کی وجہ سے پریشان مت ہو سعد جہاں میں نے اسے بھیجا ہے وہ بہت محفوظ جگہ ہے سکندر وہاں نہیں پہنچ سکے گا۔'


شایان کو لگا تھا کہ سعد عشال کو لے کر پریشان ہے ۔


'میں اس معاملے میں پریشان نہیں ہوں شایان بس وجدان کو لے کر تھوڑا پریشان ہوں۔'


سعد کے چہرے پر سے بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ تھوڑا سا پریشان ہے۔ شایان نے اسکے کندھے پر مظبوطی سے اپنا ہاتھ رکھا۔


'تم بہت اچھے دوست ہو سعد بہت ذیادہ اچھے دعا ہے کہ خدا ہر ایک کو تمہارے جیسا مخلص دوست دے۔'


شایان نے مسکرا کر کہا۔سعد کی دوستی کا قرض تو شایان بھی ابھی تک اتار نہیں پایا تھا مگر سعد کو ایسا نہیں لگتا تھا۔


'شایان۔۔۔'


'ہمم۔۔۔۔؟؟؟'


'مجھے لگتا ہے کہ وجدان ہی سکندر ہے۔'


سعد کی بات پر شایان نے حیرت سے سعد کو دیکھا۔


Are you sure?


شایان نے حیرت سے پوچھا۔


Not completely.

لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ہی سکندر ہے۔'


شایان بھی سعد کی بات پر سوچ میں پڑھ گیا تھا۔


'اگر وہ سچ میں سکندر ہوا تو؟کیا انجام ہو گا اسکا شایان؟'


سعد کی بات پر شایان کے چہرے پر پریشانی آئی تھی۔


'موت تک کال کوٹھری مقدر ہے سکندر کا بہت بڑے بڑے لوگوں کی جان لی ہے اس نے سعد اور ایسے بہت سے کیس بھی اس پر ڈل جائیں گے جو اس نے کیے ہی نہیں۔اپنے ملک کی سیاست سے تو تم واقف ہی ہو ۔'


سعد نے بھی پریشانی سے اثبات میں سر ہلایا۔


'خدا نہ کرے ایسا ہو شایان امید ہے کہ یہ میرا وہم ہی ہو۔'


شایان نے بھی ہاں میں سر ہلایا اور اب سعد کی طرح وہ بھی سوچ میں پڑھ گیا ۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان کو کافی دیر رات رکنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آیا تھا اور اس سب پر زرش کے پاؤں کی وجہ سے انہیں بار بار رکنا پڑ رہا تھا اور افق پر آہستہ آہستہ تاریکی کے سائے بھی چھانے لگے تھے۔وجدان ایک پتھر پر بیٹھی ہوئی زرش کے قریب آیا۔


'چلو نور ہمیں بس تھوڑا سا دور جانا ہے۔'


وجدان کے ایسا کہنے پر زرش کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔


مجھ سے نہیں چلا جا رہا۔آپ مجھے یہیں پر چھوڑ جائیں اور خود یہاں سے چلے جائیں۔


زرش کی بات پر وجدان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔


'میں نے تمہیں پہلے بھی منع کیا تھا نا اس قسم کی باتیں کرنے کو تم پھر سے شروع ہو گئی اب میں سچ میں تمہارے ہاتھ باندھ دوں گا۔'


وجدان شرارت سے زرش کے قریب ہونے لگا لیکن تب ہی ایک گولی ہوا کی طرح وجدان کے کان کے پاس سے گزری لیکن اسکی آواز نہیں آئی تھی شاید بندوق پر سائلینسر لگا ہوا تھا ۔


زرش گھبرا کر وہاں سے ہٹی۔وجدان نے مڑ کر دیکھا تو اسکی نظر ایک شخص پر پڑی جو کہ دوبارہ سے وجدان کا نشانہ بنا رہا تھا اس نے دوسری گولی چلائی تو وجدان جلدی سے نیچے جھکا اور اپنے جوتے میں چھپائے ہوئے چاقو کو نکال کر اس آدمی پر اس طرح سے پھینکا کہ وہ سیدھا اسکے سینے میں لگا۔


وجدان جانتا تھا کہ انکے باقی ساتھی بھی آس پاس ہی ہوں گے اسی لئے اس نے جلدی سے اپنی کمر کے پاس چھپائی ہوئی پسٹل نکالی اور ارد گرد نظر دوڑانے لگا زرش ایک چوٹی کی اوٹ میں کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی آنکھیں آنسوؤں سے جلنے گلی تھیں۔وہی ہوا تھا جسکا ڈر تھا وجدان اسکی وجہ سے خود بھی خطرے میں پھنس گیا تھا۔


تبھی ایک آدمی کے بھاگنے کی آواز وجدان کو سنائی دی تو وجدان اس پر اپنی سائلینسر لگی پسٹل سے گولی چلا دی جس کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔ وجدان کی نظر ایک اور آدمی پر پڑی جو اسکو دیکھ کر ایک چٹان کے پیچھے چھپ گیا تھا اور وہیں چھپے ہوئے اس نے ایک گولی وجدان پر چلانے کے لیے بندوق اٹھائی تو وہاں صرف زرش کھڑی تھی اور اسے ہر حال میں زندہ پکڑنا تھا۔اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تبھی کسی نے اسکی گردن کو پیچھے سے دبوچا اور ایک چاقو کو مظبوطی سے اسکے عقب میں گاڑھ دیا۔اس شخص کو جب اپنے بچاؤ میں کچھ نہ ملا تو اس نے بندوق کا رخ اوپر کی طرف کر کے گولی چلا دی۔


وجدان نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر زرش کو دیکھا جو ابھی بھی سہم کر اس چٹان کی اوٹ میں کھڑی تھی لیکن اس آدمی کے گولی چلانے کی وجہ سے جو شور ہوا تھا اس کی وجہ سے اس چوٹی پر موجود برف کھسکنے لگی تھی۔


'نور۔۔۔۔۔۔!!!!'


وجدان چلا کر زرش کی طرف بھاگنے لگا لیکن تب تک برف کا وہ ڈھیر زرش پر گر چکا تھا اور اسکی مقدار اتنی ذیادہ تھی کہ زرش پوری طرح سے اس میں دفن ہو گئی تھی۔


' نور۔۔۔۔ نور۔۔۔ '


وجدان دیوانہ وار زرش کو آوازیں دیتا اپنے ہاتھوں سے اس برف کو ہٹا رہا تھا۔اسے اپنی جان نکلتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ اگر زرش اسے نہ ملی تو اسکی سانسیں تھم جائیں گی۔کافی دیر کی کوشش کے بعد وجدان کو زرش کی چادر کا کونہ نظر آیا تو وجدان نے اپنے کام میں مزید رفتار پیدا کی وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اگر اس نے اپنی نور کو کھو دیا تو وہ مر جائے گا۔اسے کسی بھی حال میں اپنے جینے کی اس وجہ کو ڈھونڈنا تھا۔تبھی اسے زرش کا ہاتھ نظر آیا تو وجدان نے جلدی سے اسے کھینچ کر باہر نکالا اور اسکے گال تھپتھپانے لگا۔


'نور آنکھیں کھولو۔پلیز اٹھ جاؤ۔'


وجدان کی بے چین ،بھیگی ہوئی آواز ان سنسان برفیلی وادیوں میں گونج رہی تھی۔زرش کا وجود سردی کی شدت سے بے حد سرد ہو چکا تھا وجدان جانتا تھا کہ اگر جلد ہی اس نے زرش کو کسی گرم جگہ پر نہیں پہنچایا تو وہ اسے بچا نہیں پائے گا۔وجدان نے جلدی سے زرش کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور شمال کی طرف کو بھاگنے لگا۔زرش تو آنکھیں بھی نہیں کھول رہی تھی۔


یہ شاید وجدان کی خوش قسمتی تھی کہ آدھے گھنٹے کے بعد ہی اسے ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک چھوٹی سی لکڑی اور ٹن کی جھونپڑی نظر آئی تھی۔


'میں تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا نور کچھ بھی نہیں۔'


وجدان نے مظبوطی سے زرش کو اپنے ساتھ لگایا اور اس چوٹی پر چڑھنے لگا۔کسی وجود کو اٹھا کر یہ کام کرنا تقریبا ناممکن ہی تھا لیکن وجدان کے لئے وہ جھونپڑی ڈوبنے والے کو تنکے کے سہارے کے برابر تھی۔وجدان اس جھونپڑی کے پاس پہنچا تو دروازے کے سامنے برف کا ڈھر اور ایک تالا اسکا منہ چڑھا رہا تھا۔


وجدان نے جلدی سے زرش کو ایک پتھر کے سہارے بیٹھایا اور اس کے بالوں میں موجود پن کو نکال کر دروازے کی طرف چل دیا۔تالا توڑنا بہت باریکی کا کام ہوتا ہے اور وجدان کے خوف سے کانپتے ہوئے ہاتھوں نے اسے مزید مشکل بنا دیا۔وہ شخص آج زندگی میں پہلی مرتبہ صیح معنوں میں ڈرا تھا۔تالا ٹوٹنے کے بعد وجدان نے جلدی سے دروازے میں موجود برف کو ہٹایا اور زرش کو اپنی باہوں میں تھام کر اندر چل دیا۔


جھونپڑی میں صرف ایک بیڈ ،تین کرسیاں ،ایک کونے میں چھوٹا سا واش روم اور دوسرے کونے میں ایک کچن نما جگہ بنائی گئی تھی۔وجدان نے جلدی سے زرش کو بیڈ پر لٹایا۔


'نور ۔ نور پلیز اٹھو،آنکھیں کھولو اپنی ۔'


وجدان بے چینی سے کبھی اسکے پیر سہلاتا تو کبھی ہاتھ۔زرش کا لباس بھی برف میں دھنسنے کی وجہ سے بھیگ چکا تھا۔وجدان نے پریشانی سے پہلے زرش کا کانپتا ہوا وجود اور پھر ارد گرد آگ جلانے کے لیے کسی شے کو دیکھا مگر وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا۔بہت سوچنے کے بعد وجدان کو ایک ہی حل نظر آیا۔


وجدان نے اسکی بھیگی ہوئی شال کو اس جدا کیا اور اسکی جیکٹ کے بٹن کھولنے لگا۔زرش نے اپنا کانپتا ہوا سرد ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وجدان نے نرمی سے اسے اپنے ہاتھ پر سے ہٹا دیا۔


'نہیں نور میں تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دے سکتا ۔'


وجدان نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اسکی جیکٹ بھی اتار دی اور بہت آہستہ سے اسکی شرٹ کی زپ کھولنے لگا۔زرش اسکی باہوں میں کسمسا کر مزاحمت کرنے لگی وجدان نے اسے بیڈ پر لٹایا اور اپنی جیکٹ اتار کر خود بھی بلینکٹ میں گھسا اور زرش کو خود میں بھینچ لیا۔زرش کا پورا جسم سردی کی شدت سے لرز رہا تھا۔


وجدان۔


زرش کے خاموش لبوں نے اسکا نام ادا کرنا چاہا تھا جو کہ وجدان نے پڑھ لیا اور اب اسکی بس ہو چکی تھی۔


'مجھے معاف کرنا نور لیکن اب میری محبت میرے جزبات کی حد ختم ہو چکی ہے۔تم سے دور رہنا ناممکن ہے نورِ خان۔ناممکن۔'


اتنا کہہ کر وجدان نے اسکے کانپتے ہوئے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا اور خود کو سیراب کرنے لگا۔زرش نے اپنے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کی تو وجدان نے وہ ہاتھ تھام کر تکیے کے ساتھ لگائے اور اپنی ہی منمانیاں کرنے لگا۔


زرش نے اس کی شدتوں سے گھبراتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اسکی تمام مزاحمتیں بے اثر ثابت ہوئیں۔وجدان اسے اپنی محبت کی بارش میں بھگوتا دنیا کے ہر خیال ،ہر تکلیف سے بہت دور لے گیا۔

🌈🌈🌈🌈

صبح زرش کی آنکھ کھلی تو وہ مظبوط سی باہوں کی گرفت میں تھی۔دماغ میں کئی جھماکے ہوئے۔رات کا گزرا ہر ایک منظر یاد آتے ہی زرش گھبرا کر اٹھنے لگی تو باہوں کا وہ حصار مزید تنگ ہو گیا۔


'پہلے ایک مرتبہ دور جانے کی گستاخی کر چکی ہو ابھی تو اسکی بھی سزا نہیں دی میں نے۔اب دور جانے کی سوچ کو بھی اپنے اس چھوٹے سے دماغ سے دور رکھنا۔'


وجدان کی آواز پر زرش نے گھبرا کر اسے دیکھا تو اسکے چہرے پر وہ مسکان زرش بہت دیر تک دیکھتی رہی تھی۔آج پہلی مرتبہ اس نے اتنے قریب سے اس شخص کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور زرش کو لگا تھا کہ اسکی اس مسکان سے زیادہ خوبصورت کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔اسی مسکان کے زیر اثر وہ اپنی شرم و حیا بھی بھلا چکی تھی۔


'ایسے مت دیکھو ان ہونٹوں کو جان انکی گستاخیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی تو مسلہ تمہیں ہی ہو گا۔'


وجدان کی معنی خیز بات پر زرش نے جلدی سے اپنی نگاہیں جھکائیں تو اسکی نظر وجدان کے سینے سے ہوتے ہوئے خود پر گئی۔خود کو وجدان کی شرٹ میں دیکھ کر زرش پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی اور جلدی سے آنکھوں کو زور سے میچ کر وجدان کی آغوش میں چھپ گئی۔اسکی اس حرکت پر وجدان قہقہہ لگا کر ہنسا۔


'سچ میں تمہیں میری محبت کا امتحان لینا بہت ذیادہ پسند ہے۔'


وجدان نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے زرش خود میں ہی سمٹی تھی۔ان لبوں گستاخی بڑھنے لگی تو زرش نے کافی جدوجہد سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اسے وجدان کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔وجدان نے مسکرا کر اس ہاتھ کو بھی چوم لیا زرش اپنی پوری طاقت لگا کر اس سے دور ہوئی۔


آپ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں مجھے تنگ نہیں کریں۔


زرش نے جلدی سے اشارہ کر کے اپنا حیا سے دہکتا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔وجدان مسکرا دیا وہ زرش کو مزید ستانا چاہتا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اس سب کا مزید وقت نہیں تھا۔سعد اس ہائی وے پر پہنچ چکا ہو گا اور وجدان کو جلد از جلد وہاں تک پہنچنا تھا۔اسی لیے وہ وہاں سے اٹھ کر ساتھ بنے واش روم کی طرف چل دیا۔خوش قسمتی سے وہاں موجود آگ والے گیزر میں کچھ لکڑیاں موجود تھیں۔وجدان فریش ہو کر باہر آیا تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو ابھی تک ویسے ہی چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔


'شرٹ واپس کر دیں بیگم صاحبہ میرے پاس ایک ہی ہے اور ویسے بھی یہ کافی بڑی ہے آپکے لیئے۔'


وجدان نے شرارت سے کہا تو زرش نے کمبل کو اپنے منہ تک لا کر خود کو ہی اسکی نظروں سے چھپا لیا۔خالی کمرے میں وجدان کا قہقہہ بلند ہوا جسے سن کر زرش مزید خود میں سمٹ گئی تھی۔

🌈🌈🌈🌈


تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد وہ دونوں وہاں سے نکلے تھے۔ہائی وے تک پہنچنے کے لیے انہیں ایک گھنٹہ مزید پیدل چلنا پڑا تھا۔زرش بلکل ٹھیک نہیں تھی اسکے پیر میں درد کے ساتھ ساتھ اب اس پر سردی کے اثرات بھی مرتب ہونے لگے تھے۔وجدان نے پورا راستہ ایک پل کے لیے بھی اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا جبکہ زرش تو بس اسکی بولتی نظروں سے چھپنا چاہ رہی تھی۔


وہ دونوں سڑک پر پہنچے تو انکی نظر سامنے سے آتی گاڑی پر پڑی۔سڑک چوٹی سے کافی نیچے تھی وجدان تو یہ سوچ رہا تھا کہ زرش کو وہاں کیسے لے کر جائے گا ۔سعد نے انکو دیکھتے ہی گاڑی روک کر انہیں وہاں آنے کا اشارہ کیا مگر تب ہی وجدان نے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنی جو انہیں کی طرف آ رہے تھے۔


'بھاگو۔۔۔۔!!!'


وجدان نے زرش کو کہتے ہوئے اپنی بندوق نکالی اور مڑ کر قریب آنے والے لوگوں کو شوٹ کرنے لگا مگر اب کی بار وہ مقدار میں ذیادہ تھے اور دو آدمیوں کو گولی لگتے ہی چھپ گئے تھے۔یہ دیکھ کر وجدان بھی جلدی سے زرش کو لے کر ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گیا۔


'نور پلیز گاڑی میں جاؤ اور انہیں تمہیں یہاں سے لے جانے کا کہو۔'


وجدان نے سختی سے خود سے چپکی ہوئی زرش کو کہا جو اسکی بات سنتے ہی اس سے مزید مظبوطی سے چپک کر انکار میں سر ہلانے لگی تھی۔وجدان کی نظر درختوں کے پیچھے چھپے ان غنڈوں پر تھی جو بار بار ان پر فائرنگ کر رہے تھے۔اچانک ہی ایک آدمی نے وجدان کے پیچھے سے آ کر وجدان کی گردن کو دبوچا وجدان نے اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر اسکی گردن کو دبوچا اور اسے گھما کر اپنے سامنے کیا۔


اس آدمی نے وجدان کو مارنے کی کوشش کی لیکن اس کھیل میں وہ کچا کھلاڑی تھا۔وجدان نے بہت آسانی سے اسے پیچھے دکھا دے کر ایک فائر اسکی ٹانگ میں مارا تھا۔ایسا کر کے وجدان مڑا تو زرش اپنی جگہ پر نہیں تھی۔وجدان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو زرش کو کندھے پر ڈال کر وہاں سے جا رہا تھا۔


وجدان نے بندوق اٹھا کر اسکا نشانہ بنایا لیکن اسکی گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ لیکن تبھی وجدان کے پیچھے سے کسی نے اس آدمی کی بھاگتی ٹانگوں میں گولی چلائی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔وجدان نے مڑ کر ایک نظر شایان کو دیکھا جو بہت غصے سے اب باقی کے آدمیوں کی طرف مڑ چکا تھا۔وجدان بھاگ کر زرش کے پاس پہنچا اور اسے اٹھا کر گاڑی کی طرف بھاگنے لگا۔


زرش کو لے کر وجدان کافی مشکل سے اس چوٹی سے اترا اور اسے گاڑی میں بیٹھانے لگا۔


'سعد تم اسے یہاں سے لے کر جاؤ میں اور شایان خود ہی وہاں پہنچ جائیں گے۔'


وجدان نے اپنی بندوق سعد کے سامنے کی تو سعد نے جلدی سے اسکی بندوق کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنی گولیوں سے بھری بندوق وجدان کو پکڑا دی۔


'وجدان میں۔۔۔۔'


'نہیں سعد تم بس نور کو یہاں سے لے جاؤ۔'


سعد چاہتا تھا کہ شایان کے پاس وہ جائے لیکن وجدان نے اسکی بات سنی ہی نہیں تھی۔وجدان مڑ کر وہاں سے جانے لگا لیکن اسکا دوسرا ہاتھ ابھی بھی زرش نے بہت زور سے پکڑا ہوا تھا۔وجدان نے زرش کی طرف دیکھا جو روتے ہوئے انکار میں سر ہلا رہی تھی۔

'نور۔۔۔!!'

وجدان نے بے بسی سے اتنا ہی کہا اور بہت بے دردی سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر شایان کے پاس بھاگ گیا۔زرش اسکے پیچھے جانے لگی تو سعد نے فوراً کار کو بند کر کے لاک کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔زرش ابھی بھی روتے ہوئے وجدان کو اس پہاڑی پر چڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔اگر اسے کچھ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔

'اللہ جی پلیز انہیں کچھ نہ ہو ورنہ میں مر جاؤں گی۔پلیز اللہ پاک انکی حفاظت کرنا میری ایک یہ دعا قبول کر لیں میں پھر آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی۔'


زرش نے زارو قطار روتے ہوئے اپنے سہاگ کے لیے دعا مانگی تھی۔ابھی تو اس نے وجدان کو یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے ناراض نہیں ہے وہ تو تب ہی اپنی تمام ناراضگی بھلا گئی تھی جب وجدان اسے سڑک پر ملا تھا جب وجدان اسے یہاں بچانے آیا تھا۔ کیا بھلا اپنی روح کے حصے سے بھی کوئی ناراض ہوں سکتا ہے؟


وجدان واپس آیا تو شایان آدھے سے زیادہ آدمیوں کو وہاں پر ڈھیر کر چکا تھا اس نے کسی کی بھی جان نہیں لی تھی لیکن کسی کو بھی حملہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔

باقی کی کسر وجدان نے شایان کے ساتھ شامل ہو کر پوری کر دی تھی وہ دس کے دس آدمی خون میں لت پت بے بسی سے زمین پر پڑے کراہ رہے تھے


'تم یہاں کیا کر رہے ہو؟'


وجدان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔شایان اس وقت اپنے آرمی یونیفارم میں موجود تھا۔


'تمہیں اس سب سے کیا تمہارے کام تو آیا نا؟'


شایان نے عام سے لہجے میں کہتے ہوئے اپنی جیب سے سیٹلائٹ فون نکالا اور آرمی کو اس بارے میں انفارم کرنے لگا۔


' فوجی جوان کچھ دیر تک یہاں پہنچ جائیں گے اور ان دہشتگردوں کو انکے انجام تک لے جائیں گے۔ '


وجدان نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔وجدان ایک کراہتے ہوئے آدمی کے پاس گیا۔


'مجھے نہیں لگتا یہ لوگ آر بی کے بارے میں کچھ بھی جانتے ہوں گے۔اسکا کوئی بھی آدمی اسکے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔کبھی بھی اپنے کسی عام آدمی کے سامنے نہیں آیا وہ۔'


وجدان نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔


'یہ لوگ جو بھی جانتے ہیں آرمی ان کے منہ سے اگلوا لے گی فلحال ہم زرش کو لے کر یہاں سے جتنی جلدی نکل جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔'


وجدان بھی شایان کی بات پر اثبات میں سر ہلاتا ہوا اس کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد زرش کو اسی ہوٹل میں لے کر آیا تھا جہاں وہ لوگ پہلے سے رکے ہوئے تھے۔سعد زرش کو ایک کمرے میں بیٹھا کر خود شایان سے رابطہ کرنے باہر چلا گیا تھا۔


زرش نہیں جانتی تھی کہ وہ ابھی تک سانس بھی کیسے لے رہی تھی ۔گزرا ہوا ایک ایک منٹ اس پر قیامت بن کر گزرا تھا۔بہت سے وسوسے اسکے ذہن میں گھر کر رہے تھے اور زرش روتے ہوئے بس یہ دعا مانگ رہی تھی کہ وجدان کو کچھ بھی نہ ہو ورنہ وہ تو جیتے جی ہی مر جائے گی۔مگر وہ بھی شاید قبولیت کا وقت تھا۔


کچھ دیر بعد ہی دروازہ کھلا اور وجدان بے چینی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا جبکہ زرش تو اسکو دیکھتے ہی اس سے لپٹ کر رونے لگی تھی۔وجدان کے لبوں کو ایک مسکان نے سجایا۔


'اے رو مت دیکھو کچھ بھی نہیں ہوا بلکل ٹھیک ہوں میں۔'


وجدان نے اسے خود سے دور کر کے اپنی طرف اشارہ کیا۔زرش نے بھی تسلی کے لیے اسکے سینے اور بازؤں کو چھو کر دیکھا۔وجدان کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔


'ڈرا تو تم نے دیا تھا مجھے نورِ خان وہ شخص تمہیں میرے پاس سے دور لے کر جا رہا تھا۔'


وجدان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کسیں۔تبھی زرش نے اپنے کپکپاتے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنا شروع کیا۔


'میں نے کوشش کی تھی آپ کو بلانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن میں ڈر گئی تھی بہت ذیادہ ڈر گئی تھی۔'


زرش پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اشارہ کیا تو وجدان نے آگے ہو کر اسے خود میں بھینچ لیا۔


'میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے نور بلکل بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔'


وجدان نے بہت جزبات سے کہتے ہوئے اپنے بازؤں کا حصار مزید تنگ کیا زرش کو ایسا لگ رہا تھا کہ وجدان اسے ہر تکلیف،ہر دکھ سے دور خود میں چھپانا چاہ رہا تھا اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوا تھا۔نا جانے کتنی دیر وہ دونوں اسی طرح کھڑے رہے تھے۔


'آئی تھنک اب ہمیں چلنا چاہئے۔'


شایان کی آواز پر زرش ہڑبڑا کر وجدان سے دور ہوئی۔وجدان نے بھی گھور کر شایان کو دیکھا جو ایک طنزیہ سی مسکراہٹ کے ساتھ وجدان کو دیکھ رہا تھا اور پھر شرارت سے ایک آنکھ دبا کر باہر کی طرف چل دیا۔


'چلو نور۔۔۔'


وجدان نے مسکرا کر اسکی سرخی مائل چہرے کو دیکھا اور پھر اسکا ہاتھ تھام کر شایان کے پیچھے چلا گیا۔سفر کافی لمبا تھا اور بائے روڈ آنے کی وجہ سے انہیں گھر تک پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے تھے۔


زرش تو سفر شروع ہوتے ہی سو گئی تھی اور نیند میں کب اس نے اپنا سر ساتھ بیٹھے وجدان کے کندھے پر رکھ دیا تھا اسکی تو اسے بھی خبر نہیں ہوئی تھی۔


'نور اٹھو ہم پہنچ گئے ہیں۔'


گاڑی رکی تو وجدان نے کافی پیار سے اسکے گال کو تھپتھپایا۔زرش نے آہستہ سے آنکھیں کھول کر وجدان کو دیکھا تو وجدان مسکرا دیا ۔زرش پھر سے اس مسکان کے سحر میں مبتلا ہو گئی۔وجدان نے کب کسی پر اتنی عنایت کی تھی۔


'دیکھو ہم گھر پہنچ گئے ہیں۔'


وجدان نے اسے کافی نرمی سے بتایا تو زرش ہاں میں سر ہلا کر جلدی سے اس سے دور ہوئی اور گاڑی سے نکل کر حیرانی سے اپنے سامنے موجود بڑی سے حویلی کو دیکھنے لگی۔جوشاید کسی گاؤں میں تھی اور پرانی طرز کی بہت زیادہ بڑی اور خوبصورت عمارت تھی۔ایسے کھو کر گھر کو دیکھتے ہوئے وہ خود بھی خوبصورتی کا پیکر بنے وجدابن کی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔وجدان نے زرش سے دھیان ہٹا کر سامنے دیکھا تو شایان اور سعد اپنا منہ اور آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔


'کون ہو تم؟'


سوال سعد کی طرف سے آیا جبکہ وجدان اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔


'ہمارے وجدان کا کیا تم نے؟ دا گریٹ وجدان خان جسکی کوئی کمزوری نہیں ہے اور اور کیا کہا تھا تم نے ۔۔۔۔ ہاں میں دراب خان نہیں وجدان خان ہوں۔'


شایان نے بھاری آواز کر کے وجدان کی نقل اتاری تو سعد قہقہے لگا کر ہنسنے لگا۔


'تمہارا خواب ہے سعد رفیق کہ کوئی لڑکی وجدان خان کے اعصاب پر ہاوی ہو گی۔'


اس مرتبہ سعد نے اسکی نقل اتاری تو وجدان غصے سے گاڑی سے باہر نکلا اور زرش کا ہاتھ تھام کر گھر کی طرف چل دیا جبکہ اسے ایسا کرتا دیکھ سعد اور شایان کے قہقہے فضا میں بلند ہو گئے۔


زرش گھر میں داخل ہوئی تو جانان اور عشال بھاگ کر اسکے پاس آئیں اور پہلے جانان اور پھر عشال نے اسے کس کے اپنے گلے لگایا۔


'یہ کس کا گھر ہے؟'


'میرا۔۔'


وجدان نے شایان سے پوچھا تو اس کے جواب دینے سے پہلے عثمان بولا جو ان کے عقب میں کھڑا وجدان کو گھور رہا تھا۔


'ملک۔۔۔'


بے ساختہ طور پر وجدان کے لبوں سے نکلا۔


'کیسے ہو خان۔۔۔؟؟؟'


عثمان نے مسکرا کر پوچھا تو وجدان نے گہرا سانس لے کر صرف اثبات میں سر ہلایا۔


'تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو؟لیکن کیسے؟'


شایان کو اپنے ولیمے کا واقعہ یاد آیا تب بھی تو ان دونوں کا سامنہ یونہی ہوا تھا۔


'نہ ہی جانو تو بہتر ہے۔'


جواب عثمان کی طرف سے آیا جو ابھی بھی وجدان کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔عثمان کو آج بھی ڈر تھا کہ خان اسکے جوانی میں کیے گئے کاموں کے راز نہ کھول دے۔جب شایان نے عثمان کو وجدان اور زرش کے بارے میں بتایا تو وجدان کی تصویر دیکھ کر عثمان بہت ذیاد حیرت زدہ اور پریشان ہوا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ خان اسکی نظر میں ایک برا آدمی تھا لیکن عثمان کی نظر میں وہ خطرناک تھا بہت ذیادہ خطرناک۔ہر وہ آدمی خطرناک ہی تو ہو جاتا ہے جسے اپنی زندگی پیاری نہ ہو ۔


دوسرا عثمان اس پر بھروسہ بھی نہیں کرتا تھا۔جب عثمان نے اس گینگ کو چھوڑا تو اس گینگ کو سب سے زیادہ ضرورت خان کی تھی لیکن وجدان نے برے لوگوں کو جہنم واصل کرنے والے اس گینگ کو چھوڑ کر آرمی کو چنا تھا اسی لیے عثمان وجدان کے خلاف ہو گیا تھا۔


'خیر تمہیں کچھ اور بھی دیکھانا ہے۔'


شایان نے گہرا سانس لے کر وجدان سے کہا ۔


'کیا؟'


وجدان کے سوال پر شایان نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جہاں پر زرش ویل چیر پر بیٹھے سلمان صاحب کے ساتھ لپٹ کر رو رہی تھی۔جبکہ پیچھے کھڑی حمنہ آنکھوں میں آنسو لئے انہیں دیکھ رہی تھی۔


'تم نے انہیں ڈھونڈ لیا؟'


وجدان کے لہجے میں حیرت تھی۔


'تمہیں میری قابلیت پر کوئی شک تھا؟'


شایان نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔


'خیر اس سب میں عثمان نے میری حد سے ذیادہ مدد کی تھی۔اسکی بدولت ہی میں انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔'


شایان کی بات پر وجدان نے عثمان کو دیکھا۔


'تم لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم سیاست دان کچھ نہیں جانتے لیکن یقین کرو بعض معاملات میں ہماری پہنچ تم لوگوں سے بھی ذیادہ ہوتی ہے۔'


وجدان عثمان کا طنز سمجھ چکا تھا۔جب اس نے عثمان کو آرمی میں جانے کے بارے میں بتایا تھا تو عثمان نے اس چیز کی مزاحمت کی تھی مگر وجدان نے اسکی ایک بھی نہیں سنی ۔


'شکریہ۔۔۔۔'


وجدان کے منہ سے بے ساختہ طور پر نکلا تو شایان اسے گھورنے لگا۔


'یار اب اتنا بھی حیران مت کرو مجھے تم۔اس دو انچ کی لڑکی نے تو تمہیں پورا کا پورا بدل کر رکھ دیا ہے۔'


شایان نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔وجدان عثمان کی طرف مڑا جو ابھی بھی اسے گھور رہا تھا۔


'تم میرا راز مت کھولنا میری زبان تمہارے معاملے میں بند رہے گی۔'


عثمان نے دانت پیس کر کہا۔


'میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ملک ویسے بھی میں تمہاری مدد کے لئے شکر گزار ہوں۔'


وجدان نے ایک نگاہ زرش پر ڈال کر کہا۔


'شکریہ کی ضرورت نہیں ہے میں نے بس تمہارے احسان کا بدلہ چکایا ہے خان کبھی تم نے مجھے میری زندگی کو بچانے میں مدد کی تھی۔'


عثمان کی بات پر وجدان نے اثبات میں سر ہلایا اور وجدان کے پاس آ کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


'کبھی سوچا نہیں تھا خان کہ ہم دونوں میں کوئی رشتہ بندھ جائے گا۔میں نہیں جانتا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے یا غم۔بس اتنا چاہوں گا کہ تمہاری وجہ سے میری ہنستی بستی زندگی میں کوئی مشکل نہ آئے ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔'


وجدان عثمان کے لہجے میں چھپی دھمکی کو سن سکتا تھا لیکن پھر بھی خاموشی سے اثبات میں سر ہلا گیا۔وجدان جانتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے معاملے میں فکر مند تھا بلکل اسی طرح جس طرح وجدان زرش کے معاملے تھا۔

🌈🌈🌈🌈

سعد نے گھر میں داخل ہوتے ہی بے چین نظروں سے عشال کو تلاش کیا تھا جو جانان کے پاس کھڑکی مسکراتے ہوئے اس سے باتیں کر رہی تھی اور سعد پر نظر پڑتے ہی عشال نے اپنا منہ بسورا اور پھر پانچ انگلیاں اپنے چہرے کے سامنے کر کے سعد کو لعنت کا اشارہ کیا۔


سعد کا دل کیا کہ وہ قہقہے لگا کر ہنسے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے عشال حد سے زیادہ کیوٹ لگی تھی۔سعد جانتا تھا کہ وہ اسے یہاں بھیجنے والے معاملے کو لے کر سعد سے ناراض ہے۔


'واہ اچھے اشارے ہیں کافی محبت بھرے۔'


شایان نے سعد کے پاس آ کر شرارت سے کہا تو سعد کے چہرے پر موجود مسکان گہری ہوئی۔


'اب کیا کروں دل پر بھی کسی کا زور چلا ہے بھلا یار خود بھی نہیں جانتا کیسے اور کب یہ دل میں اتر گئی؟'


سعد اپنی نظریں مسلسل عشال پر جما کر کہہ رہا تھا۔


'مجھ سے پوچھو تو میں بھی حیران ہوں کہ تمہیں اس سے محبت ہو کیسے گئی ؟مجھے تو لگا تھا کہ تمہیں اپنے جیسی دھیمے مزاج کی لڑکی سے محبت ہو گی اور دیکھو تمہیں پسند بھی آئی تو یہ پٹاخہ۔'


شایان کی بات پر سعد ہنسنے لگا۔


'سچ بتاؤں تو اس سوال کا جواب تو میں خود بھی نہیں جانتا۔'


سعد نے مسکرا کر کہا۔


'چلو آؤ میرے ساتھ تمہیں اور وجدان کو کچھ انٹرسٹنگ دیکھاتا ہوں۔'


شایان کی بات پر سعد عشال سے اپنا دھیان ہٹا کر اسکے پیچھے چل دیا۔شایان نے وجدان کو بھی ساتھ لیا اور انہیں بتایا کہ عثمان نے وجدان اور سعد کو ایک خاص کمرہ دیا تھا جہاں وہ اپنا کام کر سکیں اور کوئی بھی انہیں ڈسٹرب نہیں کرے۔شایان نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ یہاں بہت ذیادہ محفوظ ہیں عثمان نے گارنٹی دی ہے کہ آر بی انہیں کبھی بھی یہاں پر نہیں ڈھونڈ پائے گا۔شایان وجدان اور سعد کو اپنے ساتھ اس کمرے میں لے کر آیا۔


'اب کام کی طرف واپس آ جاتے ہیں مشن کمپلیٹ کرنے کا ٹائم کافی کم رہ چکا ہے تم دونوں کا۔'


شایان نے انہیں بتانا ضروری سمجھا۔


'میں اور سعد اب آرمی میں نہیں رہے یاد ہے بغاوت کی تھی ہم نے۔۔۔۔'


وجدان نے اسے یاد دلایا۔


'یہ تم سے کس نے کہا؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ کرنل منور صاحب اپنے بیٹے کی طرح عزیز وجدان کو اسکے جزبات کی بنا پر اتنی بڑی غلطی کرنے دیں گے۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔'


شایان کی بات پر وجدان شرمندہ ہوا تھا۔وجدان کو ان سے کی گئی ہر بات یاد آئی۔بچپن سے ہی تو انہوں نے اور ہاشم صاحب نے وجدان کو بہت ذیادہ چاہا تھا۔


'بابا کیسے ہیں؟'


ہاشم صاحب کا خیال آتے ہی وجدان نے شرمندگی سے پوچھا۔


'آ گیا تمہیں انکا خیال؟؟ اگلے ہفتے واپس آ رہے ہیں پھر تمہاری کلاس خود ہی لے لیں گے۔'


شایان نے مسکرا کر کہا تو وجدان کافی دیر خیالات میں کھویا رہا۔بچپن سے لے کر آج تک اس نے چاہتے ہوئے بھی خود کو ہاشم صاحب کے نزدیک نہیں ہونے دیا تھا لیکن اب وجدان کو ایسا لگتا تھا کہ سب بدل گیا تھا وہ بدل گیا تھا کیونکہ ایک بار پھر سے وجدان خان نے زندگی کو ایک موقع دیا تھا محبت کو ایک موقع دیا تھا۔وجدان نے گہرا سانس لے کر شایان کو دیکھا۔


' ہمیں سکندر کا پتہ لگانا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ضروری اس آر بی کو پکڑنا ہے۔اس لئے ہم دونوں کو ڈھونڈیں گے۔ویسے بھی کہیں نہ کہیں یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں مگر کس طرح سے یہ راز ہمیں معلوم کرنا ہے؟؟


وجدان نے اپنے سامنے موجود میز کو دیکھا جہاں سعد اسکی ساری ریسرچ لا چکا تھا۔


'لیکن آر بی ہمارا مشن نہیں ہے وجدان۔۔۔۔'


سعد حیران ہوا۔


'ہمارا مشن تو کسی بھی طرح سے بادشاہ کو پکڑنا نہیں تھا بلکہ مشن تو دارا کو ڈھونڈنا تھا ۔ مگر ہم نے مشن نہیں اصلی گنہاگار دیکھنا ہے۔'


شایان انکے قریب ہوا۔


'تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ سکندر خطرناک نہیں ہے؟'


سوال شایان کی طرف سے آیا۔


'میں نے ایسا تو نہیں کہا۔سکندر اس آر بی سے بھی ذیادہ بڑا خطرہ ہے مگر صرف ویسے لوگوں کے لیے جن کے لیے دارا خطرہ تھا۔یہ رکارڈز دیکھ لو سکندر نے صرف انہیں ہی مارا ہے جو اس زمین ،اس ملک کے لیے ناثور بنے ہوئے تھے۔'


سعد اور شایان اسکا مطلب سمجھ چکے تھے۔

شایان نے سعد کو نظروں سے اشارہ کیا تو سعد کافی سوچ بچار کے بعد وجدان کی طرف متوجہ ہوا۔


'وجدان مجھے۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ تم ہی سکندر ہو؟'


طویل خاموشی کے بعد سعد نے دل کی بات کہی۔جبکہ وجدان نے اسکی بات پر حیرت سے سعد کو دیکھا۔


'اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے صرف میری سبز آنکھوں کی وجہ سے؟'


وجدان نے مٹھیاں کستے ہوئے پوچھا۔


'نہیں میں نے۔۔۔۔۔میں نے تم پر انویسٹیگیشن بھی کی تھی جس کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ تم ہاشم انکل کے اڈاپٹیڈ بیٹے ہو اور تمہارا اصلی نام سکندر الفاظ درانی تھا۔'


سعد کو لگا تھا کہ اسے اپنا شک وجدان سے بات کر کے دور کر لینا چاہیے وہ بس یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ شک یقین میں بدلے۔


'نہیں سعد۔۔۔۔ میں سکندر ضرور ہوں لیکن یہ گینگسٹر سکندر میں نہیں ہوں یوں چھپ کر وار کرنا میرا انداز نہیں مگر یہ کوئی اور ہے جو میرے ہی ماضی کی پہچان استمال کر رہا ہے لیکن کیوں؟اسی سوال کا جواب جاننا ہے ہمیں۔'


وجدان نے اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑائے تو اس کا شک ہمیشہ کی طرح ایک ہی انسان پر گیا لیکن کیا ایسا ممکن تھا اور اگر ممکن بھی تھا تو اس سب کی وجہ کیا تھی؟وجدان نے اس سوچ کو جھٹک دینا ہی بہتر سمجھا۔


'اور یہ بھی وجدان کہ وہ شخص تمہارے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جانتا ہے؟تمہارا ماضی تو ہمیں بھی نہیں معلوم تھا پھر وہ کیسے جانتا ہے ؟'


شایان نے اپنے ذہن میں اٹھتے سوال پوچھے۔


'تم دونوں اس سکندر کو مجھ پر چھوڑ دو اب ہم سکندر کو نہیں ڈھونڈیں گے بلکہ وہ خود ہمارے سامنے آئے گا۔ہمیں زیادہ فوکس اس آر بی پر کرنا ہے۔'


وجدان کی بات پر سعد نے اثبات میں سر ہلایا ۔سعد کو وجدان پر پورا یقین تھا اگر وجدان کہہ رہا تھا کہ وہ سکندر نہیں ہے تو یہی سچ ہے۔لیکن پھر کون ہے جو سکندر کو اتنی اچھی طرح سے جانتا ہے۔ضرور وہ بچپن میں وجدان کے بہت قریب ہو گا اسی لیے تو وہ خود وجدان کا عکس بنا بیٹھا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

زرش نا جانے کتنی ہی دیر سلمان صاحب کے سینے پر سر رکھے روتی رہی تھی۔سلمان صاحب بھی اسے صیح سلامت دیکھ کر اتنے پر سکون ہوئے تھے کہ انہوں نے خود بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو خود سے جدا نہیں کیا تھا۔


فاطمہ بیگم تو تب سے انکے پاس موجود بیڈ پر سو رہی تھیں۔ان لوگوں نے سلمان صاحب سے زیادہ ظلم فاطمہ بیگم کے ساتھ کیا تھا جسکی وجہ سے وہاں سے آنے کے بعد وہ کافی وقت ہسپتال داخل رہی تھیں مگر اب انکی طبیعت بہت حد تک ٹھیک ہو چکی تھی۔


'چلو زری تم پریشان مت ہو میری جان بابا اور امی بلکل ٹھیک ہیں ابھی ڈاکٹر انہیں چیک کر کے گیا ہے بس تم انہیں آرام کرنے دو۔'


حمنہ کے ایسا کہنے پر زرش سلمان صاحب کے سینے سے ہٹ کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔


'ہاں میری جان میں بلکل ٹھیک ہوں تمہیں صیح سلامت اپنی نظروں کے سامنے دیکھ لیا اور بھلا مجھے کیا چاہیے؟'


سلمان صاحب نے بہت محبت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔جب شایان نے انہیں یہ بتایا تھا کہ وجدان نے زرش کو ڈھونڈ لیا ہے تو سلمان صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا تھا اور اب اسے بلکل صیح سلامت دیکھ کر تو سلمان صاحب جی اٹھے تھے۔ورنہ آر بی نے جب انہیں یہ بتایا تھا کہ زرش اسکے پاس ہے تو سلمان صاحب اور فاطمہ بیگم تو بلکل ہی ٹوٹ گئے تھے۔


زرش نے ایک نظر فاطمہ بیگم کو دیکھا جو سو چکی تھیں۔زرش نے اثبات میں سر ہلایا اور حمنہ کے ساتھ باہر کی طرف چل دی۔


'تم میرے ساتھ کمرے میں چلو میں تمہارے پاؤں کا مساج کر کے اس پر پٹی باندھ دیتی ہوں پھر دیکھنا تم ایک دم ٹھیک ہو جاؤ گی۔'


حمنہ نے زرش کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا کیونکہ وہ زرش کی لڑکھڑاہٹ دیکھ چکی تھی۔حمنہ اسے ایک کمرے میں لے کر آئی جہاں جانان پہلے سے ہی بیڈ پر بیٹھی کسی بات پر قہقہے لگا رہی تھیں۔زرش کو دیکھتے ہی جانان اسکے پاس آئی اور بہت محبت سے زرش کا منہ چوم لیا۔


'تمہیں پتہ ہے زری میں نے آپی نے اور عشال نے مل کر پلین بنایا ہے کہ آج رات ہم لوگ ایک ہی کمرے میں سوئیں گے اور ڈھیر ساری باتیں بھی کریں گے۔'


جانان کی بات پر زرش نے خدا کا شکر ادا کیا اب وہ کسی بھی حال میں وجدان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔


'آپی میں کیرم بھی لے کر آئی ہوں مل کر کھیلتے ہیں خوب مزہ آئے گا ۔'


جانان نے کافی پر جوشی سے کہا ۔


'لیکن جانو مجھے لگتا ہے کہ زری کو آرام کرنا چاہیے وہ تھک گئی ہو گی۔'


حمنہ کی بات پر جانان نے اپنے گال پھولا لئے۔


'تو میں اس سے کیرم ہی کھلوا رہی ہوں کبڈی نہیں۔'


جانان کی بات پر سب ہنسنے لگے تو جانان نے منہ مزید پھولا لیا۔


'کبڈی چیمپئن اپنے شوہر کو بتا کر آئی ہو تم یہاں پر سونے کے ارادے؟'


عشال نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے پوچھا۔جتنا عرصہ بھی جانان ان کے پاس رہی تھی اس میں عشال یہ تو سمجھ ہی گئی تھی کہ شایان اسے لے کر بہت زیادہ پوزیسیو ہے اور اسے کبھی بھی یہاں نہیں سونے دے گا۔


'انہیں کیا مسلہ ہو گا بھلا وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اینجوائے کریں میں نے منع کیا ہے کیا؟'


جانان نے منہ بنا کر کہا اور جا کر کیرم بورڈ کے پاس بیٹھ گئی۔تبھی دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی تو حمنہ نے شرارت سے جانان کو دیکھا۔


'لو آ گیا تمہارا بلاوا۔'


حمنہ نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہا اور ہنستے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے عثمان سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔


'میرا موبائل نہیں مل رہا۔'


عثمان نے اسے گھور کر کہا تو حمنہ نے بھی جواب میں اسے گھورا تھا۔


'عثمان روم میں ہی ہو گا۔'


حمنہ نے بے بسی سے کہا۔


'نہیں ہے جان جہاں پورا کمرہ ڈھونڈا نہیں ملا۔'


'اور اگر میں نے ڈھونڈ دیا تو؟'


حمنہ نے اسے چیلنج کیا۔


'تم چل کر ڈھونڈو تو سہی یہ سب بعد میں دیکھ لیں گے۔'


عثمان کی بات پر حمنہ گہرا سانس لے کر عثمان کے پیچھے چل دی۔


'ہمم۔۔۔۔ ایویں میرا بلاوا آیا ہے اپنے شوہر کو خود ہی قابو میں نہیں رکھا ہوا آپی نے اور کہہ مجھے رہی تھیں۔۔۔۔ارے رکو آپی کو تو آنے دو پھر کھیلتے ہیں۔'


جانان نے عشال کو بورڈ سیٹ کرتے دیکھ کر کہا۔


'بچہ تمہاری آپی اب واپس نہیں آ رہی فکر مت کرو تم ۔'


عشال نے اپنا چشمہ ایک ادا سے ٹھیک کر کے کہا اور واقعی ہی دو منٹ بعد دروازہ پھر سے ناک ہوا۔


'جائیں جانو جی آپکے ہزبینڈ کا بھی موبائل نہیں مل رہا۔'


عشال کی بات پر جہاں زرش ہنسی تھی وہیں جانان نے اپنا منہ بسور لیا۔عشال نے دروازہ کھولا تو ایک ملازمہ سامنے کھڑی تھی۔


'وہ جانان بی بی کو شایان صاحب بلا رہے ہیں۔'


ملازمہ کے ایسا کہنے پر عشال قہقہہ لگا کر ہنسی تو جانان منہ پھولا کر باہر کی طرف چل دی۔


'شایان صاحب کو تو میں مزہ چکھاتی ہوں۔'


جانان نے غصے سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔


'،تھینک گاڈ میں ان جھنجھٹوں سے آزاد ہوں میں نے کہاں بھلا کسی آدمی کے اتنے نخرے برداشت کرنے تھے ۔'


عشال نے اپنا موبائل نکال کر کہا اور مسکراتے ہوئے اپنا موبائل دیکھنے لگی۔


'تھینک گاڈ اس ایریا میں اٹرنیٹ اچھا ہے۔'


عشال نے ایک نظر زرش کو دیکھ کر مسکرا کر کہا۔


'میں تمہارے پاس سو جاؤں؟


زرش نے سوال کیا تو عشال نے اسے گھور کر دیکھا۔زرش کے سوال پر عشال کو شرارت سوجھی۔


'تمہیں غلطی لگ رہی ہے میری جان میں تمہارا شوہر نہیں ہوں اس کے پاس جا کر سو جاؤ اپنی بہنوں کی طرح۔'


عشال کی بات پر زرش کے گال پھر سے دہکے۔


اگر تم نہیں سلاتی تو میں جانان کے پاس چلی جاتی ہوں۔


زرش نے منہ بنا کر اشارہ کیا۔


'وہ تو تم پر اتنی عنایت نہیں کرے گی تمہارے مقابلے کافی عقل مند ہے جانتی ہے کہ اپنے شوہر کے پاس رہنا ہی سب سے ذیادہ بہتر ہے۔' زرش کا منہ بن گیا۔


تو میں اکیلے سو جاؤں گی۔


زرش نے اشارہ غصے سے کیا تو عشال ہنسنے لگی


'اچھا بابا سو جاؤ یہیں پر۔ '


زرش سکھ کا سانس لیتی بستر میں گھس گئی۔عشال بھی اپنے موبائل پر نظریں جمائے بستر کے دوسری طرف آئی اور آرام سے لیٹ کر فیس بک سکرال کرنے لگی۔تھوڑی ہی دیر کے بعد دروازہ پھر سے ناک ہوا۔عشال نے ٹائم دیکھا تو رات کا ایک بج رہا تھا اور پھر ایک نظر زرش کو دیکھا جو کب کی سو چکی تھی۔


'لو آ گیا اسکا بھی بلاوا۔'


عشال الجھن سے کہہ کر اٹھی اور دروازہ کھولا تو اس توقع کے عین مطابق وجدان دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔


'زرش یہاں ہے کیا؟'


'نہیں وہ تو زرش کا بھوت سو رہا ہے۔'


عشال نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی عادت کے مطابق الٹا ہی جواب دیا۔


'کم بولا کرو۔'


وجدان اسکو ہمیشہ والی ہدایت دیتا ہوا سوئی ہوئی زرش کے پاس گیا اور مسکرا کر اسکے چہرے سے بالوں کو ہٹایا۔

'تمہاری جگہ یہ نہیں ہے نورِ خان۔'

وجدان نے اسکے قریب ہو کر سرگوشی کی اور پھر اسے بازؤں میں اٹھا لیا۔زرش ایک پل کو کسمسائی اور تھکاوٹ کی وجہ سے پھر سے سو گئی۔وجدان اسکو لے کر دروازے کی طرف بڑھا جہاں عشال کھڑی اپنے موبائل کو سکرال کر رہی تھی۔

'قسم سے پیدائشی بے شرم ہو سارے کے سارے دوست۔'

عشال نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر وجدان کو بتایا ۔وجدان اسے نظر انداز کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔کمرے میں پہنچ کر اس نے ٹانگ سے دروازہ بند کیا اور زرش کو بیڈ پر لیٹا کر اسے کمبل سے اوڑھا کر خود بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا۔اتنی دیر سے جو بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا اپنی متاع جان کے قریب آتے ہی سکون سے آنکھیں مونند کر سو گیا۔

🌈🌈🌈

آدھی رات کا وقت ہو رہا تھا اور ایک اندھیرے کمرے میں میز کے پاس چھوٹا سا لیمپ جلا کر کھڑا وہ وجود بہت غور سے اپنے سامنے موجود چیزوں اور کاغذات کو دیکھ رہا تھا۔


ان چیزوں میں کئی لوگوں کی تصویریں تھی جن میں وجدان خان ،شایان شاہ،سعد رفیق،زرش نور اور عشال درانی کی تصویریں بھی شامل تھیں ۔لیکن وہ سبز آنکھیں ان سب تصویروں سے ہٹ کر ایک بچے کی تصویر پر مرکوز تھیں۔


مخروتی انگلیوں نے پین پکڑ کر اس چودہ سالہ بچے کی تصویر کے نیچے کچھ لکھنا شروع کیا تھا۔


'رومان بلو (RB)'


یہ الفاظ لکھ کر ایک کانٹے کا نشان اس بچے کی تصویر پر بنایا گیا تھا۔


'بہت جلد ملیں گے ہم آر بی اور وہ دن تمہارا اس زمین پر آخری دن ہو گا۔بس ایک بار میں تمہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاؤں پھر تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔'


نفرت بھری آواز خالی کمرے میں گونجی تھی۔پھر وہ سبز آنکھیں زرش کی تصویر کے پاس گئیں تو اس نے زرش کی تصویر کو وجدان کی تصویر کے پاس سے اٹھایا۔


'نور زرش ۔۔۔۔۔ آر بی کی سب سے بڑی کمزوری۔بہترین چارہ بن سکتی ہو تم میرے لئے۔اتنا تو پتہ چل چکا ہے کہ تمہارے لئے آر بی کسی بھی حد تک جائے گا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ تمہاری معصومیت کو مجھے چارہ بنانا پڑے گا۔یقین جانو لڑکی مجھے اس کا بہت افسوس ہے لیکن کیا کروں میرے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔تمہیں تو میرا چارہ بننا ہی پڑے گا تبھی تو وہ آر بی میرے ہاتھ میں آئے گا اور سکندر کی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا۔'


سبز آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور ان مخروطی انگلیوں نے زرش کی تصویر کو آر بی کی تصویر کے پاس رکھا۔لیکن تب ہی اسکی نظریں بھٹک کر وجدان کی تصویر پر گئیں۔


'معاف کرنا لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آر بی کی کمزوری ہی تمہاری محبت ہے وجدان خان۔اچھے لوگوں سے سکندر کی کوئی دشمنی نہیں لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ گن کے ساتھ گیہوں تو پستا ہی ہے۔مگر پھر بھی تمہیں کچھ وقت دے گا سکندر کھل کر جی لو اپنی زندگی۔'


وجدان کی تصویر کو دیکھتے ہوئے ان لبوں نے سرگوشی کی اور پھر ان تمام چیزوں کو اکٹھا کر کے بیگ میں رکھا جانے لگا لیکن تب ہی عشال کی تصویر ان ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر گری۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ لب پھر سے مسکرائے۔


'کمال کر دیا لڑکی انہیں ابھی تک زرا سا بھی شک نہیں ہوا۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔ اب دیکھنا بہت جلد تمہارا انعام تمہارے سامنے ہو گا۔بہت جلد محنت کا صلہ ملے گا تمہیں بلکل جیسا تم نے چاہا تھا۔۔۔۔بہت جلد۔۔۔۔'


لبوں پر مسکراہٹ سجا کر اس وجود نے تمام چیزوں کو اپنے بیگ میں ڈالا تھا اور اتنی سی دیر میں ہی اس شیطانی دماغ نے کئی منصوبے بنا لیے تھے اور تمام منصوبوں کا مرکز صرف ایک شخص تھا ۔۔۔۔۔آر بی۔۔۔

🌈🌈🌈🌈

فیض نہیں جانتا تھا کہ وہ کس طرح سے آر بی کو بتائے کہ نہ صرف وہ لڑکی اور وہ آدمی ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں بلکہ ان کے کافی آدمی آرمی کے ہاتھ بھی لگ گئے تھے اور وہ آدمی بھی ان کے بہت سے کاموں کے بارے میں جانتے تھے اب انہیں وہاں بھی نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔


'بب۔۔۔۔باس۔۔۔'


فیض نے کانپتی ہوئی آواز میں آر بی کو پکارا جو اس وقت سگرٹ منہ میں دبائے کسی مغرور اور انتہائی خوبصورت بادشاہ کی مانند اندھیرے کمرے میں صوفے پر بیٹھا نیوز دیکھ رہا تھا جہاں کسی سیاست دان کے بارے میں خبر چل رہی تھی۔


'بکو۔۔۔'


آر بی نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا۔


'بب۔۔۔۔باس وہ لڑکی۔۔۔۔۔ااا۔۔۔۔۔اور اسکا شوہر وہ۔۔۔۔۔ ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں اور نہ جانے کہاں ہیں۔۔۔۔۔ہم ڈھونڈ نہیں پا رہے۔'


آر بی نے انتہائی زیادہ غصے سے فیض کو دیکھا اور پھر وہاں سے اٹھ کر فیض کے پاس آیا۔اس سے پہلے کہ فیض اسکا ارادہ سمجھتا آر بی نے اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھا کر ایک انتہائی زور دار مکا فیض کے منہ پر مارا۔


'کتو ایک کام ٹھیک سے نہیں کر سکتے۔حرامی ہو سب۔۔۔۔'


آر بی نے ایک جھٹکے سے فیض کو چھوڑا جس کی وجہ سے فیض زمین بوس ہو گیا اور آر بی کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔


'جانتا ہے تیری وجہ سے وہ لڑکی میرے ہاتھ آ کر نکل گئی پہلی دفعہ آر بی کی خواہش ادھوری رہی تم سب حرامیوں کی وجہ سے اور وہ بھی میری سب سے بڑی خواہش۔'


آر بی غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔اتنا تو وہ پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ یہ وجدان خان کوئی عام سا جم کا مالک نہیں ہے اور اب اسے یقین ہو گیا تھا۔آر بی نے پہلے فیض کو خوب مارا پھر اپنی گن پکڑی اور آہستہ آہستہ اس میں گولیاں ڈالنے لگا۔فیض کانپتے ہوئے آر بی کو دیکھ رہا تھا۔


'اس وجدان خان کے بارے میں پتہ لگانے کو کہا تھا کیا پتہ چلا؟ '


آر بی نے اپنی گن کو ایک ادا سے گھماتے ہوئے پوچھا۔


'جج۔۔۔۔جی باس۔۔۔۔'


فیض نے کراہتے ہوئے اٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے ایک فائل زمین سے اٹھائی اور اسے آر بی کو پکڑا دیا وہ ویسے بھی وجدان خان کے بارے میں کچھ ذیادہ معلوم نہیں کر پایا تھا۔


آر بی نے اس فائل کے صفے پلٹنا شروع کیے۔عام سی معلومات تھی اسکے ماں باپ سکول اور کالج کے بارے میں پہلے تو وہ ہر چیز کو نظر انداز کرتا رہا مگر پھر اچانک ہی اسکی نظر وجداں خان کی تصویر پر پڑی ۔بھوری آنکھوں میں حیرت آئی تھی۔نا جانے کتنی ہی دیر وہ وجدان خان کو دیکھتا رہا تھا اور پھر آر بی نے ایک خطرناک سی چیخ کے ساتھ اس فائل کو زمین پر پھینکا اور پاس پڑے ٹیبل کو بھی الٹ دیا۔


'کیوں سکندر کیوں۔۔۔۔ہر دفعہ تم ہی کیوں چھین لیتے ہو سب مجھ سے۔'


آر بی غصے سے چلاتے ہوئے پورا کمرہ تہس نہس کر رہا تھا اور فیض خوف کے مارے کونے میں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔


'پہلے بھی سب چھین لیا مجھ سے ماں باپ دولت سب تمہیں ملا اور اب زرش بھی میری محبت بھی چھین لی کیوں ۔'


آر بی تڑپ رہا تھا اور اسکی یہ تڑپ اسکی چیخ و پکار سے ظاہر ہو رہی تھی۔


'اسی لئے نفرت کرتا تھا میں تم سے سکندر بہت ذیادہ نفرت اور اب میری سب سے بڑی خواہش بھی تمہاری وجہ سے ہی ادھوری ہے ۔۔۔۔۔نہیں چھین لوں گا میں تم سے پھر سے سب کچھ چھین لوں گا۔۔۔۔'


آر بی نے سامنے موجود ایل سی ڈی کو زمین پر پٹخ کر توڑ دیا۔فیض اب مکمل طور پر وہاں چھپ چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس وحشت کے عالم میں وہ آر بی کے سامنے جائے اور اسکا حال بھی بلکل ان چیزوں جیسا ہو۔


'مار دوں گا میں تمہیں سکندر مار دوں گا۔'


آر بی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر چلا رہا تھا۔نفرت ،بے بسی ،کرب اور وحشت کیا کچھ نہ تھا آر بی کی آواز میں۔


آر بی کو ابھی بھی یاد تھا کہ وہ کیا تھا صرف ایک کیڑا جسے کوئی دربار میں چھوڑ گیا تھا اور اس کیڑے کا کام تھا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ان سے بھیک مانگنا۔کچھ لوگ وہ بھیک دے جاتے تھے اور کچھ لوگ اسے ایک کیڑا سمجھ کر دھکا دے کر خود سے دور ہٹا دیتے ۔


مگر پھر الفاظ درانی آیا تھا اس بچے کی زندگی میں۔بلو کی زندگی میں جس نے اس بچے کو نہ صرف ایک گھر،ایک نام دیا بلکہ ماں باپ کا پیار بھی دیا۔وہ سب دیا جس کی اسے چاہ تھی اور اس بلو کو رومان بنا دیا۔ رومان بھی ان سب کو اپنا سمجھنے لگا تھا۔الفاظ روز رومان کو یہ احساس دلاتا تھا کہ وہ رومان کا مقروض ہے۔رومان نے اسکی جان بچائی تھی اور اسی لیے رومان تو انکی محبتوں چاہتوں پر اپنا حق جما بیٹھا تھا ایسا حق جو صرف رومان کا تھا اور کسی کا نہیں۔


مگر پھر سکندر پیدا ہوا اور ایک ہی پل میں اس بچے نے رومان سے وہ حق ،وہ محبت،اپنے ماں باپ کا وقت سب چھین لیا۔رومان جلتا تھا اس بچے سے تب تب جلتا تھا جب جب شاہانہ اسے اٹھا کر پیار کرتی تھیں۔سائے کی طرح سکندر کے ساتھ رہتی تھیں۔ہر وقت بس سکندر کا نام ہی ہوتا تھا انکی زبان پر۔


رومان تب تب جلتا تھا جب الفاظ آنکھوں میں ڈھیروں چاہت اور غرور لے کر سکندر کو دیکھتے تھے اسے اپنی کل کائنات اپنا وارث کہتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ رومان کو ان سے پیار نہیں ملتا تھا مگر رومان کو پیار کا ایک حصہ نہیں چاہیے تھا رومان کو تو سارے کا سارا پیار اپنے لیے چاہیے تھا۔


رومان جب جب سکندر کو دیکھتا تو وہ حسد کی آگ میں جلتا تھا اور یہ حسد کی آگ بھی تو بہت بری ہوتی ہے انسان جانتا بھی نہیں اور یہ آگ سامنے والے کو جلانے سے پہلے اسے خود جلاتی ہے۔


رومان نے بہت کوشش کی تھی الفاظ کی نظروں میں سکندر سے آگے جانے کی۔ہر برے کام کا الزام وہ سکندر پر لگاتا اور خود سب سے اچھا ایک آئیڈیل بیٹا بن کر رہتا جس کے لئے سب کچھ اسکے باپ کی خواہش ہے لیکن پھر بھی سکندر کو دیکھ کر جو چمک الفاظ کی آنکھوں میں آتی تھی وہ رومان کو دیکھ کر کبھی نہیں آئی اور رومان وہ چمک چاہتا تھا صرف اپنے لئے چاہتا تھا۔


رومان کا دل چاہتا تھا کہ وہ سکندر کو مار دے لیکن وہ جانتا تھا کہ ایسا کر کے الفاظ اسے بھی کبھی قبول نہیں کریں گے۔اسی لیے رومان نے چاہا کہ الفاظ سکندر سے نفرت کریں لیکن یہ ناممکن تھا۔سکندر کی ہر غلطی کے باوجود ناممکن تھا۔


اصلی مسلہ تو اس دن کھڑا ہوا جب شیراز صاحب کے دھمکانے کے بعد الفاظ صاحب نے اپنے وکیل کو بلایا اور اپنی ساری جائیداد سکندر کے نام کر دی اور رومان کے نام ایک ریسٹورنٹ اور ایک گھر جس سے رومان آرام سے اپنی زندگی گزار سکتا تھا مگر سکندر کی طرح عیاشی سے تو نہیں۔


اس رات رومان پوری رات روتا رہا تھا اپنے حسد کی آگ میں جلتا رہا تھا اسے ایسا لگتا تھا کہ سکندر اسکے سامنے کھڑا اس پر ہنس رہا ہے اور اسے کیڑا بلا رہا۔


'ہاہاہا تو تو کیڑا پیدا ہوا تھا بلو۔۔۔۔رومان بن جا یا کچھ بھی بن جا تو کیڑا ہی رہے گا کیڑا ہی مرے گا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔'


رومان نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے۔اسکے حسد کی وہ آگ اور شیطان رومان کو پوری طرح سے نگل گیا تھا۔اس حسد نے رومان کو سب سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا الفاظ سے شاہانہ سے،سب سے نفرت ہو گئی تھی رومان کو اور اب رومان کو بس سکندر کو روتے ہوئے دیکھنا تھا تڑپتے ہوئے دیکھنا تھا۔


اسی لئے الفاظ صاحب کے پل بنانے کے بعد وہ چودہ سالہ رومان شیراز حسن کے دفتر گیا تھا۔


'کیا بات ہے بھئی الفاظ درانی صاحب کا نا جائز آیا ہے ہمارے پاس کیا ہی بات ہے۔'


شیراز صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھے رومان کو دیکھا۔


'مجھے آپ سے کام تھا۔'


رومان نے مٹھیاں کستے ہوئے کہا۔


'بولو بچے سن رہا ہوں۔'


شیراز صاحب نے مہنگے سگار کا کش لگایا تھا۔


'آپ بابا کو برباد کرنا چاہتے ہیں نا کیونکہ انہوں نے آپکی بات نہیں مانی تھی میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں اور آپکا ساتھ بھی دوں گا لیکن بدلے میں مجھے بھی کچھ چاہیے۔'


شیراز نے حیرت سے اس بچے کو دیکھا جو اپنی عمر سے کہیں بڑا دماغ لیے وہاں بیٹھا تھا۔


'ہاں بولو۔۔۔۔'


'آپ سکندر کو مار دیں گے لیکن ابھی نہیں صیح طرح سے تڑپنے کے بعد ۔مجھے سکندر کو صحیح طرح سے تڑپتے روتے اور پھر مرتے دیکھنا ہے پھر ہی سکون ملے گا مجھے۔'


رومان مٹھیاں بھینچ کر دانت پیستے ہوئے بول رہا تھا۔نفرت کے آثار چودہ سال کے بچے کے چہرے سے چھلک رہے تھے۔شیراز صاحب مسکرائے۔ایک شیطان نے دوسرے شیطان کو پہچان لیا تھا۔


'اور اگر میں تمہاری بات مانوں تو میں جیسا جیسا کہوں گا تم ویسا ہی کرو گے؟'


شیراز صاحب نے سگار کا کش لگا کر پوچھا۔


'ہاں۔۔۔'


رومان نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔


'ڈن ہو گیا بچے ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد سے اپنا مقصد پورا کریں گے لیکن مجھے ڈبل کراس کیا نا تو ایسی جگہ مار کے پھینکوا دوں گا تمہیں کہ تمہاری لاش تک کسی کو نہیں ملے گی۔'


رومان ایک پل کو سہما اور پھر ہاں میں سر ہلا دیا۔شیراز صاحب نے مسکراتے ہوئے رومان سے ہاتھ ملایا۔


اسکے بعد رومان نے بلکل ویسا ہی کیا جیسا شیراز حسن نے اس سے کہا۔الفاظ کو پھنسانے اس پر جھوٹا الزام لگانے میں آدھا ہاتھ رومان کا تھا کیونکہ الفاظ صاحب کی تمام پرسنل ڈیٹلیز رومان نے ہی تو شیراز کو پہنچائی تھیں۔


پھر ویسا ہی ہوا جیسا رومان نے چاہا تھا الفاظ جیل میں چلے گئے اور دن رات اپنے باپ کے لئے سکندر کو روتا تڑپتا دیکھ ،اسےبخار میں مبتلا دیکھ رومان کو عجیب سا سکون ملتا ۔مگر اسکی چالاکی یہ تھی کہ اس نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی خود پر کسی کو شک نہیں پڑنے دیا تھا۔شاہانہ کی نظر پڑتے ہی رومان مگر مچھ کے کئی آنسو بہا لیتا اور اسے روتے دیکھ شاہانہ اور تڑپ اٹھتیں۔


'رومان تم تو میرے بہادر بیٹے ہو نا سکندر تو بچہ ہے تم تو ہمت کرو رومان میرا سہارا بنو۔'


شاہانہ تڑپ کر رومان کو خود سے لگا کر کہتیں۔پھر وہ دن بھی آیا جب الفاظ پر عوام میں سے ہی کسی نے گولی چلا دی لیکن یہ بات رومان اور شیراز ہی جانتے تھے کہ ایسا کرنے والا شیراز کا ہی آدمی تھا۔


شیراز نے رومان سے وعدہ کیا تھا کہ اسے الفاظ کی دولت اور سکندر کی موت دیکھنے کو ملے گی مگر اب رومان کو کچھ اور بھی چاہیے تھا اسے شاہانہ کا پیار اسکی مامتا چاہیے تھی اسی لیے تو رومان نے خود پر گولی لگنے کا جھوٹا ڈرامہ کروایا تا کہ سکندر کے مرنے کے بعد جب شاہانہ بلکل تنہا ہو جائے تو رومان انہیں سہارا دے پھر انکا سارا پیار اپنے لیے رکھ لے۔یہ تو وہ بعد میں بہانا بھی لگا سکتے تھے کہ رومان کو گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گیا تھا۔


مگر یہاں بھی سکندر ہی جیت گیا جب شاہانہ نے اپنے لعل کی موت کو دیکھنے کی بجائے اپنا گلا کاٹنا پسند کیا۔تب تو رومان کی نفرت مزید پختہ ہو گئی تھی۔


پھر رومان نے آرام سے شیراز کے آدمیوں کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھ کے ہنستے ہوئے ٹی وی پر سکندر کو بم پہنے اس گلی میں جاتے دیکھا اور پھر اس گلی میں ہونے والے اس بڑے سے دھماکے کو دیکھا جس سے سکندر کی ہڈیوں تک کا سورما بن گیا تھا کسی کو تو سکندر کی لاش بھی نہیں مل سکتی تھی۔سکون کی ایک لہر رومان کے پورے جسم میں دوڑی تھی آج اسکے حسد کی آگ کو ٹھنڈک ملی تھی۔ایک ہستا بستا گھر جلانے کے بعد حسد کا وہ جن اطمینان پذیر تھا۔


اسکے بعد رومان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ خود کو ایک طاقت بنائے گا ایسی طاقت جس کے سامنے سب جھکیں اپنے ہاتھ پھیلائیں بلکل جیسے وہ بچپن میں پھیلاتا تھا۔تب ہی وہ آر بی بنا اس ملک کا سب سے بڑا اور خطرناک گینگسٹر جسکی وحشت سے سب ڈرنے لگے۔ملک کا ہر غیر قانونی کام بلواسطہ یا بلاواسطہ آر بی ہی کرواتا تبھی تو بہت سے سیاست دان بھی آر بی کے تلوے چاٹتے تھے۔

آر بی اب کے لیے ایک دہشت بن گیا ایک ایسا شیطان جس سے سب ڈرتے تھے۔اتنا خطرناک گینگسٹر ہونے کے باوجود آر بی کبھی کسی کی نظر میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی کبھی اسکے خلاف کوئی ثبوت ملا۔


لیکن پھر ایک دن اس شیطان کو بھی محبت ہو گئی ایک معصوم سی پری سے جو اس سے بہت چھوٹی تھی۔صرف اسے دیکھ کر بہت عرصے بعد رومان کا دل دھڑکا تھا اس میں پھر سے محبت پانے کی چاہ پیدا ہوئی لیکن ایک شیطان کو پری کیسے ملتی؟


اسی لیے رومان نے اس پری کے دل میں،اسکے ذہن میں ایسی دہشت ڈالنے کا فیصلہ کیا جو اسے رومان سے کبھی بھی دور نہ ہونے دے۔وہ چاہ کر بھی رومان کو بھلا نہ پائے اور اسکے بڑے ہوتے ہی رومان اسے حاصل کر لے۔


مگر یہاں بھی رومان ہار گیا پھر سے سکندر جیت گیا تھا اور یہ بات اب رومان کو گوارہ نہیں تھی۔حسد کی وہ آگ اب پہلے سے بھی کہیں ذیادہ بھڑک چکی تھی اب کی بار تو سکندر نے رومان کے دل پر وار کیا تھا ۔رومان کی چاہت اسکی خواہش،محبت سب کچھ زرش ہی تو تھی اور اب وہ بھی باقی سب کی طرح سکندر کی تھی۔


'بولا تھا نا تجھے تو کیڑا ہے اور کیڑا ہی رہے گا دیکھ لے ہاہاہا سب کچھ ہے تیرے پاس سب کچھ مگر وہ نہیں وہ میری ہے۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔ میری ہے وہ۔'


رومان کو پھر سے سکندر اپنے سامنے کھڑا قہقہے لگا کر اسکا مذاق بناتے ہوئے نظر آ رہا تھا مگر اب کی بار وہ اکیلا نہیں تھا اسکی باہوں میں زرش تھی۔اسکے بازؤں میں رومان کی خواہش اسکی چاہت تھی۔


'آہ ۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔'


رومان اوپر کی طرف منہ کر کے بہت زور سے چلایا تھا بہت درد تھا اسکی اس چیخ میں مگر اس درد کے باوجود وہ شیطان کہیں سے بھی قابل رحم نہیں تھا۔بھلا جو حسد کی آگ میں اپنے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی جلا لے اس پر کیا رحم کرنا۔اپنا گنہگار وہ خود تھا۔فیض نے گھبرا کر آر بی کو دیکھا جس کی خوبصورت بھوری آنکھوں میں اب آنسو تھے۔


'بب۔۔۔۔باس۔۔۔۔'


فیض آہستہ سے آر بی کے پاس گیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا مگر اچانک ہی بہت تیزی سے آر بی نے اٹھ کر فیض کی گردن کو بہت زور سے جکڑ لیا۔


'مجھے وہ چاہیے فیض دونوں چاہیں بلکل زندہ ۔۔۔۔۔ اب میرے دل میں جو آگ اس سکندر نے لگائی ہے نا وہ اتنی آسانی سے نہیں بجھے گی۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے ہی جب اسکی محبت کی دھجیاں اڑاؤں گا نا تب سکون ملے گا مجھے ۔تب چین آئے گا اس دل کو۔۔۔۔'


فیض ہر ممکن کوشش کروا رہا تھا اپنی گردن کو چھڑانے کی لیکن آر بی کی پکڑ بہت مظبوط تھی آر بی کی رگیں غصے سے تن رہی تھیں۔


'میری نور زرش کو بھی سزا ملے گی اب اسے سکندر الفاظ درانی سے محبت کرنے کی بہت بری سزا ملے گی۔'


آر بی نے لہو رنگ آنکھوں سے فیض کو دیکھا۔


'ڈھونڈو انہیں فیض اور میرے ہاس لاؤ ورنہ تمہارے ٹکڑے کر کے جانوروں کو کھلا دوں گا۔ایک ہفتہ ہے بس تمہارے پاس صرف ایک ہفتہ۔'


آر بی نے ایک زور دار جھٹکے سے فیض کو چھوڑا اور فیض بھی اسے موقع غنیمت جان کر وہاں سے کھانستے ہوئے غائب ہو گیا۔


'نہیں چھوڑوں گا تمہیں اس بار سکندر بہت تڑپاؤں گا میری آنکھوں کے سامنے ہی تڑپ تڑپ کر مرو گے تم دیکھنا۔'


آر بی نے وحشت سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ بہت زور سے سامنے موجود شیشے کی کھڑکی میں مارا

🌈🌈🌈🌈

زرش اٹھی تو وہ کمرے میں بلکل اکیلی تھی مگر حیران تو وہ اس بات پر تھی کہ وہ اس کمرے میں کیسے آ گئی وہ تو عشال کے پاس نہیں سوئی تھی۔کہیں وجدان ہی تو اسے یہاں لے کر نہیں؟۔۔۔۔ایک شرمیلی سی مسکان نے اسکے لبوں کو چھوا تھا لیکن تبھی اسکی نظر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی جہاں ایک باکس پڑا تھا زرش نے جلدی سے اٹھ کر ارد گرد دیکھا وہ تو شکر ہے کہ وجدان یہاں نہیں تھی ورنہ زرش کی وہ حالت ہونی تھی کہ بس۔۔۔


زرش نے جلدی سے اس باکس کو پکڑ کر کھولا تو اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اس باکس میں کئی رنگوں کی انتہائی خوبصورت چوڑیاں تھیں۔زرش نا جانے کتنی دیر ان چوڑیوں کو دیکھتی رہی اور پھر اس کی نظر سائیڈ پر پڑے ایک کارڈ پر گئی۔


'دنیا میں بہت سی خواہشات ہوتی ہیں نورِ خان لیکن میری خواہش بہت سادہ ہے تمہیں سننے کی تم سے بہت ساری باتیں کرنے کی مگر ایسا نہیں ہو سکا اسی لئے تمہیں یہ چوڑیاں دیں ہیں تا کہ انکی کھنکنھاہٹ سے میرے دل کے اس حصے کو سکون ملے جسے تمہاری آواز سننے کی بہت زیادہ بے تابی ہے۔اگر آج تم انہیں پہن کے نیچے آئی تو میں سمجھ جاؤں گا کہ میری ہر جھوٹی بات کو بھلا کر تم نے میری سچی محبت پر یقین کر لیا۔

صرف اپنی نور کا وجدان۔


زرش کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن پہلی دفعہ وہ آنسو خوف یا غم کے نہیں تھے۔بہت محبت سے زرش نے ان چوڑیوں کو نکال کر اپنی نازک کلائیوں میں پہنا اور کتنی ہی دیر مسکرا کر انہیں دیکھتی رہی۔کیا سچ میں ان کے کھنکنے کی آواز میری زبان ہے؟


زرش نے سوچ کر اپنے ہاتھ ہلائے تو ان چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز پر خود ہی اپنا تیزی سے دھڑکتا دل تھام کر بیٹھ گئی۔نظریں حیا سے جھک گئی تھیں اور سرخ لبوں پر ایک شرمیلی سی مسکان تھی۔


اہو اہو۔۔۔۔۔'


کھانسنے کی آواز پر زرش نے گھبرا کر نظریں اٹھائیں تو سامنے ہی عشال اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔


'کیا بات ہے گڑیا میں تو یہاں تمہیں ناشتے کے لئے بلانے آئی تھی مگر تم تو اس قدر ڈوبی ہوئی تھی سیاں جی کی یاد میں اور وہ بھی اتنی خوبصورتی سے۔'


عشال نے شرارت سے اسکے دہکتے گال کو چھوا تو زرش اپنا سر مزید جھکا گئی۔


'اف یہ ادائیں شکر کرو میری جگہ سیاں جی یہاں نہیں آئے ورنہ ابھی تو صرف یہ گال ہی لال ہوئے ان کی حرکتوں نے تو تمہارا پور پور گلابی کر دینا تھا۔'


عشال کی بات پر زرش شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔


ہاہاہا۔۔۔یو آر زسٹ ٹو کیوٹ۔'


عشال اتنا کہہ کر واپس چلی گئی ۔ زرش نے ایک مرتبہ پھر سے شرما کر اپنی کلائیوں کو دیکھا اور پھر اپنا منہ بسور لیا۔


میں ناراض ہوں آپ سے اتنا ذیادہ ڈانٹا تھا نا مجھے اب اتنی آسانی سے تو نہیں مانوں گی نا۔


وجدان کو ستانے کا زرش نے سوچتے ہوئے شرارت سے وہ چوڑیاں اتار کر واپس ڈبے میں رکھ دیں اور پھر خود بھی اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان صبح ہوتے ہی اپنی عادت کے مطابق ایکسرسائیز کرنے چلا گیا تھا پھر کمرے میں واپس آیا تو اسکی نظر سوئی ہوئی زرش پر پڑی ۔وجدان کے لب مسکرائے اور پھر اسے اس تحفے کا خیال آیا جو وجدان نے کل رات ہی منگوایا تھا۔


وجدان نے اپنے بیگ سے وہ ڈبہ نکالا اور اسے زرش کے پاس رکھ دیا۔نا جانے کتنی ہی دیر وجدان زرش کے معصوم چہرے کو دیکھ کر اپنے دل میں سکون اتارتا رہا ۔جب زرش اسکی نظروں کی تپش سے کسمسانے لگی تو اسکی کا خیال کر کے وجدان وہاں سے چلا گیا۔


وہ جانتا تھا کہ زرش اسکا دیا تحفہ دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہو گی لیکن مایوسی اسے تب ہوئی جب وہ کمرے سے باہر خالی کلائیوں کے ساتھ آئی۔وجدان کے ماتھے پر کئی بل پڑے مگر اس سے پہلے کہ وہ زرش کے پاس جاتا سلمان صاحب اپنی ویل چئر پر بیٹھے وجدان کے قریب آئے۔


'وجدان بیٹا۔'


'جی ۔۔۔۔'


وجدان نے زرش سے نظریں ہٹا کر انہیں دیکھا۔


'تمہارا کس زبان میں شکریہ ادا کروں بیٹا تم نے زرش کو بچانے کے لیے اپنی جان مشکل میں ڈالی میں تو تمہارا مقروض۔۔۔۔۔'


'نہیں انکل ایسا مت کہیں میں نے جو بھی کیا وہ میرا فرض تھا نور بیوی ہے میری مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں نے یہ فرض سمجھنے میں بہت دیر کر دی۔نور میری ہی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسی لیکن اللہ کا لاکھوں شکر ہے کہ اسنے میری نور کی حفاظت کی۔کوشش کروں گا کہ میری باقی کی زندگی اللہ کا شکر ادا کرنے اور اپنی غلطیوں کا مداوا کرنے میں گزرے۔'


وجدان نے مسکرا کر کہا تو سلمان صاحب بھی مسکرا دیے۔


'بلکل صیح کہا تھا شایان نے کہ تم سے بہتر زرش کے لیے کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔'


'جی۔۔۔؟؟؟'


وجدان نے حیرت سے پوچھا۔


'جب میں نے شایان سے مدد مانگی تھی تو شایان نے مجھے کہا تھا کہ وہ چاہے تو ہم سب کو ایسی جگہ پر چھپا دے کہ آر بی کبھی بھی ہمیں نہیں ڈھونڈ پائے لیکن یہ کافی نہیں تھا۔شایان نے کہا تھا کہ زرش کو کسی کی ضرورت ہے کسی کے ساتھ کی ضرورت ہے اور وہ ساتھ تم سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ تمہیں زر ش کی اور زرش کو تمہاری ضرورت ہے ایک دوسرے کے لیے بنے ہو دونوں۔اسی لیے تو ہم دونوں نے تمہیں مجبور کیا تھا اس نکاح کے لیے اور دیکھو نا شایان کی بات درست ثابت ہی ہوئی دیر سے ہی سہی تمہیں اپنے جزبات کا احساس تو ۔'


وجدان حیرت سے سلمان صاحب کو دیکھ رہا تھا اسے اپنے دوست کی چالاکی پر حیرانی ہو رہی تھی کتنی آسانی سے اس نے وجدان کو بے وقوف بنایا تھا ۔وجدان آہستہ سے مسکرایا اور ہاں میں سر ہلایا مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ شایان کی اس چالاکی پر اسے ایک بار داد تو ضرور دے گا۔


'صدا خوش رہو بیٹا۔'


سلمان صاحب نے اسے دعا دی اچانک ہی وجدان کے ذہن میں ایک بات آئی ۔


'انکل آپ سے ایک بات پوچھوں؟'


وجدان نے اپنی مٹھیاں کستے ہو پوچھا۔


'ہاں پوچھو۔'


سلمان صاحب بھی اچانک سے اسکے بدلنے والے رویے کو دیکھ کر حیران ہوئے۔


'کیا یہ اس حادثے کا اثر ہے جس کی وجہ سے زرش بول نہیں سکتی؟'


سلمان صاحب نے وجدان کے سوال پر گہرا سانس لیا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


'میں نے بہت سے ڈاکٹرز کو چیک کروایا لیکن سب نے یہی کہا کہ زرش کو گلے کا کوئی مسلہ نہیں ہے اسکا مسلہ نفسیاتی ہے۔ایسا ہے جیسے ایک خوف ہے اسکے دل میں جو اسے بولنے نہیں دیتا اور ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتی اسکا خوف اسے چاہ کر بھی بولنے نہیں دیتا زرش کا اس پر کوئی قابو نہیں ۔اگر وہ خوف نکل جائے تو زرش پھر سے بول سکتی ہے۔مگر ہم نے اور بہت سے سائیکالوجیسٹ نے زرش کا یہ ڈر بھگانے کی کوشش کی مگر ہر طرف سے ناکامی کا ہی سامنا ہوا۔'


سلمان صاحب نے گہرا سانس لیا۔


'بہت زیادہ کوششوں کے بعد تو میں مایوس ہو گیا پتہ نہیں زرش کا یہ ڈر کیسے نکلے گا اور وہ پھر سے بولنے لگی گی ۔بہت چلبلی تھی میری بچی وجدان زندگی سے بھرپور اس شیطان کی نظر کھا گئی اسکو۔'


سلمان صاحب نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا اور وہاں سے چلے گئے جبکہ وجدان وہیں کھڑا انکی باتوں اور زرش کے خوف کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔


تبھی وجدان کی نظر زرش پر پڑی جو شاید کسی کام کی وجہ سے اسی طرف آ رہی تھی۔وجدان ایک بڑے سے پلر کے پیچھے چھپ گیا اور زرش کے قریب آتے ہی اسے کلائی سے کھینچ کر اپنے قریب کیا۔زرش کی سانس اسکے سینے میں اٹکی تھی۔


'تمہاری چوڑیاں کہاں ہیں نور خان جہاں تک مجھے یاد ہے وہ میں نے تمہیں پہننے کو کہا تھا۔'


وجدان نے زرش کو کمر سے کھینچ کر اپنے قریب کیا تو زرش اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر خود کو چھڑوانے لگی ساتھ ہی ساتھ وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔


میں ناراض ہوں آپ سے تو کیوں پہنتی۔


زرش نے گھبرا کر اشارہ کیا۔


'مجھے تو لگا تھا کہ تم مان گئی۔'


وجدان نے منہ بنا کر کہا۔


ایسا کب لگا آپ کو ؟


زرش نے آنکھیں بڑی کر کر کے حیرت سے پوچھا۔


'ارے اب جب میرے واپس آنے پر اس طرح بے چینی سے باہوں میں آئی تھی تو مجھ معصوم کو تو ایسا ہی لگنا تھا نا۔'


وجدان کی بات پر زرش کا چہرہ دہک اٹھا تھا۔


نہیں میں ناراض ہوں اور اتنی آسانی سے نہیں مانوں گی اتنا زیادہ ڈانٹا تھا آپ نے۔


زرش نے اترا کر اشارہ کیا۔وجدان نے اچانک سے اسے کھینچ کر اپنے بہت قریب کر لیا۔زرش کی سانس اسکے حلق میں اٹک گئی تھی وہ وجدان کی گرم سانسیں اپنے کان پر محسوس کر سکتی تھی۔


'ٹھیک ہے پھر میں مناؤں گا مگر اسکے بعد تمہیں مجھے تڑپانے،میری راتوں کی نیند اپنے معصوم اقرار سے چرانے اور پھر گھر سے باہر جانے والی غلطی کا بھی حساب چکانا ہو گا اس لئے تیار رہنا جان وجدان بہت سے حساب دینے ہیں تم نے۔'


وجدان نے اتنا کہہ کر اسکے کان کی بالی کو چوما اور اسے چھوڑ دیا زرش نے بس ایک نظر اسے اپنے دہکتے چہرے کے ساتھ دیکھا اور پھر جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی۔وجدان مسکراتے ہوئے اسے وہاں سے جاتے دیکھ رہا تھا لیکن اسکے جاتے ہی پھر سے اسکی بے آوازی کے بارے میں سوچنے لگا۔


💖------------

وجدان نے شایان سے جو فرمائش کی تھی اسے سن کر شایان پچھلے پانچ منٹ سے مسلسل قہقہے لگا رہا تھا۔


'ایسا بھی کوئی لطیفہ نہیں سنا دیا میں نے۔'


وجدان نے دانت پیس کر کہا۔


'نہیں یار بات زرا یہ ہے کہ تمہارے جیسا سڑو انسان جسکا ایٹیٹیوڈ اسکی ناک پر رہتا تھا اب جب ایسی بات کرتا ہے نا تو بڑا زیادہ مزہ آتا ہے ۔'


شایان اتنا کہہ کر پھر سے ہنسنے لگا۔


'تب کا کیا خیال ہے ویسے جب آپ جانان کو پہاڑی کے اس گھر میں لے کر گئے تھے کیا میں نے ایسا کیا تھا اور نخرہ تو تمہارا بھی کم نہیں تھا دراب خان۔'


وجدان نے دراب خان پر زور دیتے ہوئے طنز کیا۔


'اچھا یار غصہ مت کرو تمہیں بس ایک سرپرائز پلین کرنا ہے نا تو اس میں کیا مشکل ہے میں جانان کو بول دیتا ہوں پھر دیکھنا وہ اور حمنہ مل کے سب سیٹ کر لیں گی۔'


شایان کی بات پر وجدان نے سکون کا سانس لیا اسے یہ سب انکی مدد سے کرنا عجیب لگ رہا تھا لیکن کیا کرتا مجبوری بھی تو تھی نا اپنی متاع جان کو منانا بھی تھا اور اسے کہیں باہر بھی نہیں لے کر جا سکتا تھا۔اسی لیے وجدان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ گھر پر ہی سرپرائز پلین کرے گا اور اس کے لیے وجدان کو باقی سب کی مدد چاہیے تھی۔ویسے بھی دو دن سے وہ بہت ذیادہ مصروف رہا تھا زرش کو تو ایک بار بھی دیکھ نہیں پایا تھا۔


'اگر زرش کا معاملہ نہیں ہوتا تو میں کبھی بھی یہ سب برداشت نہیں کرتا۔'


وجدان نے مصنوعی غصے سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ابھی وجدان جا ہی رہا تھا کہ اچانک اسکی ٹکر سامنے سے آتی عشال سے ہوئی جسکی وجہ سے عشال کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔وجدان نے ایک نظر موبائل پر کھلی فیس بک کو دیکھا اور پھر موبائل پکڑ کر عشال کو پکڑا دیا۔


'کبھی اس کی دنیا سے باہر نکل کر بھی چلا کرو۔'


وجدان نے پہلے جیسی سنجیدگی سے کہا۔


'کبھی اپنا یہ سستا ایٹیٹیوڈ سائیڈ پر رکھ کر بھی بات کیا کرو۔'


عشال نے وجدان کو گھور کر کہا تو وجدان بھی جواباً کافی دیر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے گھورتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔


'ہمم سڑا کہیں کا۔'


عشال جو دھوپ کی غرض سے باہر جانے لگی تھی شایان کو وہاں بیٹھا دیکھ رک گئی پتہ نہیں کیوں عشال کو اس شخص کی آنکھوں سے عجیب سی وحشت ہوتی تھی۔


عشال نے شایان سے دھیان ہٹا کر اپنے موبائل کو پھر سے دیکھنا شروع کر دیا جس آدمی کی آئیڈی کو وہ کب سے دیکھ رہی تھی اسے دیکھتے دیکھتے اچانک عشال کی نظر ایک جگہ ٹھہر سی گئی۔گلابی لبوں پر ایک مسکان اور ہری آنکھوں میں چمک آئی تھی۔


'کافی چالاک ہو۔'


عشال نے مسکرا کر کہا اور پھر اس بندے کی آئی ڈی کو بند کر کے موبائل پینٹ کی پاکٹ میں رکھا۔


'کون چالاک ہے؟'


عشال کو اپنے پیچھے سے جانان کی آواز سنائی دی ۔عشال مسکراتے ہوئے مڑی ۔


'تمہارا ہزبینڈ اور کون میں سوچتی ہوں کہ تم جیسی پری کو یہ باگڑ بلا ہی ملا تھا کیا شادی کرنے کے لیے اس سے تو بہتر کنواری زندگی تھی میری طرح کی۔'


عشال نےاترا کر کہا جبکہ جانان کی سوئی تو ایک ہی لفظ پر اٹکی تھی۔


'ہاہاہا ۔۔۔۔باگڑ بلا ۔۔۔۔ہا ہا کتنا مزہ آئے گا جب شایان کو یہ کہہ کر پکاروں گی میں اف مجھے تو ابھی سے مزہ آ رہا ہے۔'


جانان ہنستے ہوئے اپنی باتوں میں ہی لگ چکی تھی عشال نے بھی سکھ کا سانس لیا اور جانان کے ساتھ باتوں میں لگ گئی۔


'اچھا عشال تمہیں پتہ ہے شایان نے مجھے کہا ہے کہ ہم نے زرش کے لیے سرپرائز پلین کرنا ہے کل رات تک آؤ نیچے چل کے آپی سے ڈسکشن کرتے ہیں اس بارے میں۔'


عشال بھی دلچسپی سے جانان کے ساتھ چل دی زرش کو انہوں نے بہانے سے فاطمہ بیگم کے پاس بھیج دیا تھا اور انہیں خاص طور پر ہدایت دی کہ زرش کو باہر نہ نکلنے دیا جائے۔


وجدان تو کسی کام سے اپنا حلیہ مکمل طور پر بدل کر باہر چلا گیا تھا اس وقت حال میں سب ہی موجود باتیں کر رہے تھے سوائے سعد کے جو علیحدہ سے ایک صوفے پر سنجیدگی سے بیٹھا تھا۔


'ارے کیا ہوا کیپٹن آپ کیوں اتنے اداس ہیں؟'


شایان نے سعد کے پاس بیٹھ کر شرارت سے پوچھا۔


'ارے یار دیکھو نا سب کی زندگی کتنی حسین ہوتی جا رہی ہے۔یہاں تک کہ وجدان کا بھی نکاح ہو گیا جسکی طرف سے ہمیں تو کوئی امید نہیں تھی۔لیکن لگتا ہے میرے نصیب میں شادی کا لفظ ہی نہیں لکھا گیا۔'


سعد نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر دور کھڑی موبائیل استمال کرتی عشال کو حسرت سے دیکھ کر کہا۔کل سے عشال نے بات کرنا تو دور سعد کو بلایا تک نہیں تھا۔


'تو تمہارے لئے بھی کوئی ڈھونڈ لیتے ہیں۔'


شایان نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔


'ارے اپنے اتنے نصیب کہاں؟ہم تو کنوارے ہی مریں گے۔'


سعد نے اس مرتبہ کافی اونچی آواز میں کہا تا کہ عشال کو متوجہ کر سکے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا تھا۔


'ارے کیوں بھلا میرے ہوتے ہوئے آپ کس طرح سے کنوارے رہ سکتے ہیں ایجنٹ جی۔'


عشال جلدی سے اسکے پاس آئی تو سعد اسکی بات پر مسکرا دیا۔


'یہ دیکھیں نا یہ سوشل میڈیا بڑے کمال کی چیز ہے ابھی ایک سیکنڈ میں آپ کے لئے کوئی نا کوئی ڈھونڈ لوں گی۔'


عشال نے نظریں اپنے موبائل پر گاڑ کر کہا۔


'آہا دیکھیں مل بھی گئی۔'


عشال نے جلدی سے موبائیل اسکے سامنے کیا تو شایان جو اس وقت پانی پی رہا تھا موبائل پر موجود تصویر دیکھ کر بری طرح سے کھانسنے لگا۔کیونکہ وہاں کسی لڑکی کی نہیں بلکہ ایک بھینس کی تصویر تھی۔جبکہ سعد کا تو دل کر رہا تھا کہ اس لڑکی کا موبائل ہی دیوار میں مار دے۔


'ارے کیا ہوا پسند نہیں آئی؟چچچ۔۔۔۔سوری ٹو سے ایجنٹ جی جتنا آپکا سٹینڈرڈ ہے نا آپکو تو یہی مل سکتی ہے۔'


عشال نے اتنا کہہ کر اپنا موبائل اسکے ہاتھ سے لیا اور اتراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ سعد ابھی تک سکتے کی حالت میں تھا۔

آخر کار عشال نے اپنا غصہ نکال ہی لیا تھا۔


'تیکھی مرچ ہے وہ میرے دوست اب پسند آئی ہے تو منہ تو جلائے گی نا تمہارا۔'


شایان نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو سعد دانت کچکچا کر رہ گیا۔ایک مرتبہ میری دسترس میں تو آ جائے یہ تیکھی مرچی ہر بات کا بدلہ لوں گا اس سے۔ سعد نے من ہی من میں عشال سے بدلہ لینے کے کئی منصوبے بنا لیے۔

🌈🌈🌈🌈

ان سب نے مل کر سارا دن محنت کی تھی اور شام کو چھت پر ہر چیز بلکل اسی طرح تھی جیسا وجدان نے چاہا تھا ۔جانان تو کب سے زرش کو اپنے ساتھ تیار کرنے لے کر آئی ہوئی تھی اور زرش کے کئی بار پوچھنے کے باوجود جانان نے اسے اتنا ہی بتایا تھا کہ سب اسکے لوٹنے کی خوشی میں پارٹی کرنے لگے ہیں۔


کالے رنگ کی لانگ میکسی میں لمبے بالوں کو کھلا چھوڑے مناسب سے میک اپ اور ریڈ بلڈ لپسٹک کے ساتھ زرش نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔


وجہ کیا ہے اس سب کی؟


زرش نے الجھن میں آ کر اشارہ کیا۔زرش کو نہیں لگتا تھا کہ پارٹی کے لیے اسطرح تیار ہونے کی ضرورت ہے۔


'کچھ نہیں بس میرا دل کر رہا تھا کہ میں تمہیں حد سے زیادہ پیارا تیار کروں۔یاد ہے بچپن میں ماما کا میک اپ پکڑ کے میں تمہیں لگاتی تھی اور پھر تم مجھے لگاتی اور بھوت بن کے ہم چوکیدار بابا کو کتنا ڈراتے تھے۔'


جانان نے ہنستے ہوئے کہا تو زرش بھی وہ میٹھی یادیں یاد کر کے مسکرا دی۔


' چلو اب تم یہ جیولری پہن لو اور مجھے بھی تیار ہونے دو۔'


جانان نے اپنی پلکوں پہ مسکارا لگاتے ہوئے کہا ویسے بھی جانان کو تو بس ایک چھوٹا سا بہانا چاہیے ہوتا تھا اپنی خوشی پوری کرنے کے لیے ۔زرش نے ٹاپس پہنے چونکہ میکسی کا گلا کافی تنگ اور کام والا تھا تو زرش نے ان ٹاپس پر ہی اکتفا کرنا بہتر سمجھا مگر تبھی زرش کی نظر چوڑیوں کے اس ڈبے پر پڑی جو اسے وجدان نے دیا تھا۔


پچھلے دو دن سے وجدان نہ تو اس کے سامنے آیا تھا اور نہ ہی اس سے بات کی تھی تو کہیں وہ ناراض تو نہیں ہو گئے؟زرش نے گھبرا کر سوچا بے ساختہ طور پر آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔


زرش نے جلدی سے چوڑیاں نکالی مگر ان میں کالے رنگ کی چوڑیاں تھی ہی نہیں۔


'ارے یہ ریڈ پہن لو بہت پیاری ہیں۔'


جانان نے جلدی سے سرخ رنگ کی چوڑیاں اسکی نازک کلائیوں میں پہنا دیں اور پہلے کی طرح ہی انکی کھنکھناہٹ سن کر زرش کا دل بہت تیزی سے دھڑکا تھا۔


وہ بس اتنا چاہتی تھی کہ گھر میں جو بھی فنکشن ہے وجدان اس میں شامل ہو ورنہ ہر رنگ پھیکا پڑھ جائے گا۔

🌈🌈🌈🌈

عشال اور حمنہ نے مل کر سارا چھت بہت ہی خوبصورت طریقے سے ڈیکوریٹ کروایا تھا اور اب سارا کام مکمل ہو چکا تھا بس دونوں مل کر میز پر موجود کانچ کی کینڈلز جلا رہی تھیں۔


'حمنہ۔۔۔۔'


عثمان کی غصے سے بھری آواز پر حمنہ کے چلتے ہاتھ رکے تھے۔


'لو ہو گیا مسلہ۔۔'


حمنہ نے منہ بسور کر کہا جب سے خدا نے حمنہ کو امید لگائی تھی عثمان کی محبت میں تو پہلے سے بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہی تھا مگر ساتھ ساتھ ہی عثمان حمنہ کی جان کا عزاب بھی بن گیا تھا۔


ایسے مت چلو گر جاؤ گی، یہ مت کھاؤ تمہارے لئے اچھا نہیں،کام کو ہاتھ بھی مت لگانا آرام کیا کرو تم بس، اداس کیوں ہو ہر وقت ہنستی مسکراتی رہا کرو۔


یہ سب تو عثمان کے پسندیدہ ڈائلاگ بن چکے تھے۔عثمان کا بس چلتا تو وہ حمنہ کو بیڈ سے نیچے قدم بھی نہ رکھنے دیتا۔


'تم یہاں چھت پر کیا کر رہی ہو پتہ ہے نا ڈاکٹر نے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کیا ہے اور تم یہاں تیسرے فلور پر ہو۔۔۔!!'


عثمان نے غصے سے کہا ۔عشال نے اپنی آنکھیں گھمائیں اور وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا ۔ عثمان چلتا ہوا حمنہ کے قریب آیا شلوار قمیض میں گرم چادر اپنے گرد لپیٹے وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا لیکن حمنہ اسے خفگی سے ہی گھور رہی تھی۔


'تم بات کیوں نہیں مانتی جان جہاں؟'


عثمان نے حمنہ کو کمر سے کھینچ کر اپنے قریب کیا اور اپنی چادر کو ان دونوں کے گرد لپٹ دیا۔


'کیونکہ آپ مجھے بہت تنگ کرتے ہیں عثمان اتنی پابندیاں لگا دیں ہیں آپ نے مجھ پر۔'


حمنہ نے منہ بنا کر شکوہ کیا اور اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔اسکی اس کوشش پر وہ حصار مزید تنگ ہوا تھا۔


'تمہاری اور ہماری گڑیا کی صحت میری لیے سب سے بڑی ہے اسکے لئے تو مجھے تمہیں سات پردوں میں بھی چھپانا پڑے تو میں وہ بھی کر جاؤں۔'


عثمان نے بہت محبت سے اسکے ماتھے کو چوم کر کہا۔


'سات پردوں کا تو پتہ نہیں آپکا بس چلے تو مجھے قید ضرور کر دیں اور ضروری تو نہیں کہ یہ گڑیا ہی ہو وہ میرا گڈا بھی تو ہو سکتا ہے۔'


حمنہ کی بات پر عثمان نے ڈھیٹوں کی طرح مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔


'ویسے جان جہاں اتنی سجاوٹ اور ارینجمینٹ ہم پر تو کبھی اتنی عنایت نہیں کی آپ نے۔'


عثمان کی بات پر حمنہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


'عثمان آپکے برتھ ڈے پہ اتنا کچھ تو کیا تھا میں نے آپ کو یاد نہیں پھر جب۔۔۔۔'


حمنہ بولتے بولتے رکی اور پھر شرما کر عثمان کی باہوں میں چھپ گئی۔عثمان کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔


'وہ رات بھی بھلا میں بھول سکتا ہوں جان جہاں میری زندگی کے سب سے حسین رات تھی وہ۔تم نے تو میری زندگی کو اتنا حسین بنا دیا ہے جان جان جہاں کہ اب مرنے کا بھی غم نہ۔۔۔۔۔'


حمنہ نے فوراً اپنا ہاتھ عثمان کے لبوں پر رکھا اور خفگی سے اسے دیکھنےلگی۔


'آپ ایسی باتیں مت کیا کریں ورنہ میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گی۔'


حمنہ نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا عثمان سے دوری کا صرف خیال ہی اسکی دھڑکنیں روکنے کے لئے کافی تھا۔عثمان نے مسکرا کر اسکی نم آنکھوں کو چوما اور شرارت میں پیار بھری گستاخی کر کے اسے اپنی باہوں میں اٹھالیا۔


'عثمان یہ یہ آپ۔۔۔۔۔اتاریں مجھے۔۔۔۔کوئی دیکھے گا تو کیا سوچےگا؟'


حمنہ نے گھبراتے ہوئےکہا۔


'آں ہاں جان جہاں سیڑھیاں چڑھ کر آ تو گئی ہو اب اترنے نہیں دوں گا اور کوئی دیکھ بھی لے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔'


عثمان اسے بازؤں میں اٹھا کر آہستہ سے سیڑھیاں اترنے لگا تبھی انہیں کسی کے سی ٹی بجانے کی آواز آئی۔حمنہ نے گھبرا کر سیڑھیوں کے اوپر کھڑی عشال کو دیکھا جو جینز ٹاپ میں ملبوس ببل چباتے ہوئے موبائل کو دیکھ رہی تھی اور حمنہ کی نظر پڑھتے ہی عشال نے شرارت سے ایک آنکھ دبائی حمنہ کا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوا تھا۔جبکہ عثمان تو کسی کی بھی پروا کیے بغیر اسے اپنے کمرے میں نے کر جا چکا تھا۔


'آپ بہت برے ہیں عثمان۔۔۔'


حمنہ نے گلہ کیا۔


'میں کتنا برا ہوں اس کا اندازہ تو تمہیں کمرے میں جا کر ہو گا۔'


عثمان کی معنی خیز بات پر حمنہ خود میں ہی سمٹی تھی۔

🌈🌈🌈🌈

جانان زرش کو اپنے ساتھ چھت پر یہ کہہ کر لے گئی کہ جو پارٹی انہوں نے رکھی ہے وہ چھت پر ہے اور چھت پر پہنچتے ہی جانان نے زرش کو دروازے سے چھت پر بھیجا اور خود مسکرا کر ساتھ موجود کھڑکی سے چھپ کر باہر دیکھنے لگی۔زرش کسی کھوئے ہوئے بچے مانند گھوم گھوم کر ہر چیز کو دیکھ رہی تھی۔جانان نے بہت مشکل سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روکا۔


'یہ کیا ہو رہا ہے جانان شاہ۔۔۔۔'


شایان کی آواز اپنے کان کے بلکل پاس محسوس کر کے جانان گھبرا کر پلٹی اور شایان کو دیکھا ۔


'ڈرا دیا آپ نے شایان میں تو اتنے مزے سے زری کی جاسوسی کر رہی تھی۔'


جانان نے ہنستے ہوئے دبارہ اپنا رخ کھڑکی کی طرف کیا ۔


'بہت بری بات ہے جانان شاہ اتنا گناہ ہوتا ہے کسی کی جاسوسی کرنے کا۔'


شایان نے بہت محبت سے اسے اپنی باہوں میں سمیٹ کر کہا جانان اسکی پکڑ میں مچلنے لگی تھی۔


'جھوٹ مت بولیں سعد بھائی ایجنٹ ہیں نا اگر جاسوسی کا گناہ ہوتا تو وہ ایجنٹ کیوں ہوتے؟ '


جانان نے شایان کو حیران کیا۔


' تمہیں کیسے پتہ کہ سعد ایجنٹ۔۔۔۔'


'عشال نے بتایا۔۔'


جانان نے جلدی سے بتایا تو شایان کو غصہ آ گیا ایسی باتیں جاننا جانان کے لئے خطرناک ہو سکتا تھا شایان کو ویسے ہی یہ عشال لڑکی بڑی مشکوک لگتی تھی اور اب تو معاملہ جانان کا تھا ۔شایان نے سوچ لیا تھا کہ سعد سے کہے گا کہ اسے اپنی زبان میں سمجھا لے۔


اس سے پہلے کہ عشال کو دارا کا سامنا کرنا پڑے۔شایان کی سنہری آنکھوں میں وحشت اتری تھی جسے شایان نے جانان کا معصوم چہرہ دیکھ کر چھپا لیا۔


'چلو جانان شاہ چلتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔'


شایان نے کہا اور جانان کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔


'ویسے ایک بات تو بتاؤ جانان شاہ تم کس خوشی میں اتنا تیار ہوئی ہو؟'


شایان نے شرارت سے پوچھا تو جانان نے منہ پھلا لیا۔


'کیوں نہیں ہو سکتی میں تیار کیا اور اگر آپ کو اتنی ہی بری لگ رہی ہوں نا تو آنکھیں بند کر لیں باگڑ بلے کہیں کے۔'


جانان نے اپنا نازک ہاتھ بھی اسکی آنکھوں پر رکھ دیا تو شایان اسکی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا اور کمرے میں آ کر دروازہ بند کر کے جانان کو اپنی باہوں میں بھرا۔


'بری نہیں جانان شاہ تم بہت ذیادہ خوبصورت لگ رہی ہو اتنی کہ یہ دل کہہ رہا ہے تمہیں اپنی باہوں میں لے لوں اور تمہاری سجاوٹ کو اپنے ہونٹوں سے نظرانہ عقیدت پیش کروں۔پھر مجھے یہ بھی تو ثابت کرنا ہے نا کہ میں سچ میں باگڑ بلا ہوں۔'


شایان نے پر تپش نگاہوں سے جانان کے لپسٹک سے سجے گلابی ہونٹوں کو سہلا کر کہا۔جانان ہمیشہ کی طرح گھبرا کر شایان کی پناہوں میں چھپ گئی۔


'کیا ہوا جانان شاہ تمہیں نہیں جاننا کہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہو؟'


شایان کے سوال پر جانان نے اسکی باہوں سے نکلے بغیر انکار میں سر ہلایا۔


'لیکن مجھے تو بتانا ہے کہ تم کتنی خوبصورت ہو اور یہ بھی کہ میری زندگی میں آ کر تم نے کیسے اس کو خوابوں کی دنیا بنا دیا ہے۔۔۔'


شایان نے بہت محبت سے کہہ کر اسکا چہرہ اوپر کیا اور بہت نرمی سے جانان کے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی قید میں لے لیا۔


باہر موجود چاند بھی شرما کر بادلوں میں چھپا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

زرش چھت پر آئی تو بہت ذیادہ حیران ہو گئی۔پورے چھت کو سفید اور سرخ پردوں اے بہت ذیادہ خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔لائٹنگ اور جگہ جگہ جلنے والی موم بتیوں نے سجاوٹ کو چار چاند لگا دیے تھے۔


مگر پریشان تو زرش اس بات پر تھی کہ جانان نے تو بتایا تھا کہ یہاں سب اس کے ملنے کی خوشی میں پارٹی کریں گے لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔


زرش کی نظر سرخ غلاف اور پھولوں سے سجے ایک میز پر پڑی جہاں بلکل ویسا ہی کیک پڑا تھا جیسا زرش نے وجدان کے لیے منگوایا تھا۔تبھی زرش کو تاریخ یاد آئی۔آج انکے نکاح کو دو مہینے ہو گئے تھے۔


زرش میز کے پاس گئی تو وہاں کالے رنگ کی تین ڈائریاں پڑی تھیں۔زرش نے پہلی ڈائری کو اٹھایا تو اس میں ایک جگہ پر بک مارک لگا ہوا تھا زرش نے وہ صفحہ کھولا۔ایک سال پہلے کی تاریخ صفحے کے اوپر لکھی گئی تھی۔زرش کو وہ تاریخ یاد تھی تبھی تو جانان اور حمنہ کا ولیمہ ہوا تھا۔زرش نے نیچے لکھی تحریر کو پڑھنا شروع کیا۔


'آج شایان کے ولیمے پر ایک پری پر نظر پڑی میری۔ٹوٹے پروں والی پری پر۔ اس بھیڑ میں سب سے علیحدہ بیٹھی خود میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔اسے میں پہلی نظر میں پہچان گیا تھا۔مجھے وہ بلکل اپنے جیسی لگی کسی سے بھی کوئی سروکار نہیں تھا اسے۔بلکل میری طرح ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی اسے لگتا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی اسکے درد سے واقف نہیں لیکن مجھے پتہ تھا اسکی ہر تکلیف ہر غم سے واقف تھا میں ۔ایک پل کو خیال آیا کو کاش وہ میری ہو جائے میں اسکے درد میں سما جاؤں اور وہ میرے درد میں سما جائے اور یونہی دونوں کا غم مٹ جائے۔'


زرش کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں جلدی سے اس نے وہ ڈائری چھوڑی اور دوسری ڈائری اٹھا لی جہاں کافی جگہ پر بک مارکس لگے تھے زرش نے کانپتے پہلا صفحہ کھولا ۔دو مہینے پہلے کی تاریخ تھی۔

https://www.facebook.com/Harram-Shah-novels-103741964911048/'سوچا نہیں تھا کہ اس پری کو پھر سے دیکھوں گا یہیں اپنے گھر میں کسی گمشدہ بچے کی طرح گھومتے ہوئے جاننا چاہتا تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟کیا وہ نہیں جانتی کہ مجھے دیکھے بغیر مجھ سے بات کیے بغیر وہ اس دل کو دھڑکا جاتی ہے جو مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے اسے تو خود سے ڈرانا چاہیے ۔مگر اسکی آنکھوں میں خوف نہیں آیا پہچان آئی تھی ،عقیدت آئی تھی،اسے لگتا ہے کہ میں اسکا مسیحا ہوں لیکن میں کوئی مسیحا نہیں بس ایسا شخص ہوں جسے زندگی سے پیار نہیں۔اگر مجھے زندگی سے پیار نہیں تو اسکے بے آواز ہونے کی سچائی جاننے پر اپنے اندر سب کچھ ٹوٹا ہوا کیوں محسوس ہو رہا تھا۔'


زرش کی آنکھیں اب نم ہو چکی تھیں۔اس نے بے چینی سے صفحے پلٹے تھے۔اگلی تاریخ انکے نکاح کی تھی۔


'قسمت تو دیکھو موت کو چاہنے والے اس وجدان خان کی ٹوٹے پروں والی وہ پری اسے ہی سونپ دی گئی تھی۔وہ تو کوئی حق نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے تڑپا جاتی تھی اب کیسے اس سے خود کو دور رکھوں گا؟میں سامنے ہی نہیں جاؤں گا اس کے اور اگر وہ سامنے آ گئی نا تو ڈرا دوں گا اسے ۔اس کا ٹوٹا دل یہ برداشت نہیں کر پائے گا اور نفرت کرے گی وہ مجھ سے ۔ہاں یہی سہی ہو گا تو کیا اسکی ان کانچ سی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرے سینے میں موجود پتھر ٹوٹ جائے گا۔اس پتھر کو ٹوٹ ہی جانا چاہیے ویسے بھی مجھے وہ پتھر بھی نہیں چاہیے ۔'


زرش اب بہت ذیادہ رونے لگی تھی ہر لفظ زرش کے دل کو کاٹ رہا تھا۔زرش نے کپکپاتے ہاتھوں سے اگلا صفحہ کھولا جو آج سے ایک مہینے پہلے کا تھا۔


'وہی ہوا نا جو ہونا تھا توڑ دیا میں نے اسے اسکے معصوم دل کے اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے کر دیے۔کرتا بھی کیا میں وہ کہتی ہے کہ اسے مجھ سے محبت ہو گئی ہے ۔ایسا کیسے کر سکتی ہے وہ اسے کیا لگتا ہے کہ اس شخص نے اسکے جسم کو تکلیف پہنچا کر اسے توڑ دیا تھا تو وہ برا تھا میں تو وہ ہوں جسکی محبت اسکی روح کو چھلنی کر دے گی اسے موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ایسے شخص کو کسے چاہ سکتی ہے وہ؟ لیکن نہیں جانتا تھا کہ اتنی بڑی سزا دے جائے گی وہ دل کے ٹوٹنے کی وہ تو جاتے جاتے مجھے ہی توڑ گئی پورا کا پورا بکھیر گئی مجھے۔'


زرش نے اپنے آنسو پونچھے اور پھر اس ڈائری کو چھوڑ کر نیچے پڑی اس آخری ڈائری کو اٹھایا جو کافی پرانی لگ رہی تھی اور اس میں بس ایک ہی بک مارک لگا ہوا تھا جہاں چھے سال پہلے کی تاریخ تھی۔


'اپنی زندگی میں بہت سی وحشت دیکھی ہے میں نے ۔میری اپنی زندگی ایک وحشت ہی تو تھی لیکن جو میں نے آج دیکھا وہ تو انسان کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کی حیوانگی کی منہ بولتی داستان تھی۔کیا کوئی اتنا ہی گھٹیا ہو سکتا ہے کہ پیسے کی خاطر اپنی قوم کی عزت کا سودا کر دے؟

پھر وہاں پر وہ کانچ سی آنکھوں والی لڑکی جو پھٹے کپڑوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ناجانے کیوں باقیوں کی طرح اسے بھی آرمی کے حوالے کرنے کی بجاۓ سب سے چھپا کر ہسپتال لے گیا؟

جانے کیوں میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے نا کہیں اس درندے نے اسکے مان کو تو نقصان نہیں پہنچایا؟ جانے کیوں ڈاکٹر کے لبوں سے انکار سن کر سکون کی ایک لہر میرے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔جانے کیوں اسکے گنہاگار ،اسکے ستم گر کو ڈھونڈ کر تکلیف دینے کی چاہ میں مسلسل ایک مہینا مارا مارا پھرتا رہا تھا۔جانے کیوں اسکی تکلیف اپنے وجود میں محسوس ہو رہی تھی۔میں تو اپنی تکلیف کو بھی محسوس نہیں کرتا تھا پھر اسکی کیوں؟بھول جاؤں گا اسے میں ہاں بھول جاؤ گا۔'https://www.facebook.com/Harram-Shah-novels-103741964911048/ زرش نے روتے ہوئے اس ڈائری کو اپنے سینے سے لگایا اپنی آبرو کی جس داستان کو لے کر وہ ڈرتی تھی اسکا سچ تو وجدان ہمیشہ سے جانتا تھا ۔ جیسے زرش اپنے سبز آنکھوں والے مسیحا سے دور ہوتے ہوئے بھی اسکے قریب رہی تھی اسی طرح وجدان بھی تو رہا تھا۔کیسے زرش اسکے جزبوں کو نا دیکھ پائی؟


'نور۔۔۔۔۔'


اچانک سے وجدان نے پیچھے سے آ کر اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو زرش جلدی سے پلٹی اور وجدان کے سینے پر سر رکھ کر ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔

'یہ سب میں نے تمہیں اپنی محبت کی سچائی سے واقف کروانے کے لیے کیا تھا نور تمہیں دکھی کرنے کے لیے۔'

وجدان نے اسکا چہرہ اوپر کر کے بہت محبت سے اسکے آنسو پونچھ دیے۔

' میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں نور اپنے کہے ہر لفظ کی جسنے تمہیں تکلیف پہنچائی اپنی بے وقوفی میں اپنی ہی بکھر ہوئی پری کی روح کو بھی توڑ دیا میں نے ۔کیا تم مجھے دل سے معاف کرو گی؟'

وجدان کے سوال پر زرش نے ہاں میں سر ہلایا تو وجدان مسکرا کر اسکے چہرے پر جھکا اور آنکھوں سے نکلنے والے وہ آنسو اپنے ہونٹوں سے چن لیے۔


'تم نے مجھ سے محبت کے بارے میں پوچھا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔محبت کے بارے میں تو آج بھی کچھ نہیں جانتا بلکہ اس عشق کے بارے میں جانتا ہوں جو میں نے تم سے کیا ہے وہ عشق جس نے مجھے جینا سیکھایا ہے۔'


وجدان کی بات پر زرش کی آنکھیں پھر سے نم ہو گئی تھیں۔


'اب رو مت اور پلیز میرا یہ راز راز ہی رکھنا کہ میں اپنے جزبات ڈائری میں لکھ کر ختم کرتا ہوں کوئی نہیں جانتا یہ۔'


وجدان کی بات پر زرش نے ہاں میں سر ہلایا تو وجدان نے مسکرا کر اسے باہوں میں بھرا اور ہلکے ہلکے سے موو کرنے لگا زرش اسے بتانا چاہتی تھی کہ کوئی میوزک نہیں لگا اور ایسا کرنے کے لیے زرش نے ہاتھ اٹھایا تو چوڑیوں کی کھنک سے ماحول مزید فسوں خیز ہو گیا۔


'راز آنکھیں تیری سب بیاں کر رہیں

سن رہا دل تیری خاموشیاں

کچھ کہو نا سنو

پاس میرے رہو

عشق کی کیسی ہیں یہ

گہرائیاں

جانتا ہوں کہ کوئی میوزک نہیں لگا نور خان لیکن بس تم دھن کو محسوس کرو جو میرے دل و دماغ میں تمہاری محبت کی وجہ سے بج رہی ہے۔'


وجدان کی بات پر زرش نے حیرت سے وجدان کو دیکھا کیونکہ ابھی تو اس نے کچھ کہا ہی نہیں تھا وجدان اسکی حیرت دیکھ کر مسکرایا۔


'بتایا تو تھا کہ تمہاری چوڑیاں مجھ سے باتیں کرتی ہیں۔'


وجدان نے اسکی نازک کلائی کو تھام کر سرخ چوڑیوں کو چوما تو زرش شرما کر خود میں ہی سمٹ گئی۔وجدان اسے میز کے پاس لے کر گیا اور کیک کاٹ کر زرش کو کھلایا اور زرش کے ہاتھوں سے خود بھی کھانے لگا۔


' اب تم مان گئی ہو؟'


وجدان کے سوال پر زرش نے پر جوشی سے ہاں میں سر ہلایا۔اچانک ہی وجدان نے اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا وجدان نے کمرے میں آ کر پاؤں سے دروازہ بند کیا اور زرش نیچے اتار کر اپنی باہوں میں قید کر لیا۔


'تو چلو پھر اب میرے حسابوں کی طرف آ جاتے ہیں۔تمہاری پہلی گستاخی تھی مجھے اپنی ان معصوم حرکتوں اور منصوبوں سے تڑپانے کی پہلے اسکے حساب پر آ جاتے ہیں ۔'


اتنا کہہ کر وجدان سرخ لپسٹک سے سجے نازک لبوں پر جھکا اور اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں سے الجھا لیا۔زرش نے گھبرا کر وجدان کے کالر کو پکڑا تھا۔وجدان کے عمل میں بہت شدت تھی اور اس شدت سے زرش کی سانسیں تھم رہی تھیں۔وجدان کے دور ہوتے ہی زرش گہرے سانس بھرنے لگی۔


'اب اپنی معصوم محبت کے اقرار سے میری نیندیں چرانے کی سزا۔'


اتنا کہہ کر وجدان نے اسکا دوپٹہ کندھے سے ہٹایا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر لے آیا زرش نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر مزاحمت کرنا چاہی تو وجدان نے چوڑیوں سے بھری وہ نازک کلائیاں اپنے ہاتھ میں تھام لی اور اپنی ہی منمانیاں کرنے لگا۔زرش کو لگ رہا تھا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پائے گی۔


'اور گھر سے بھاگنے کی سزا تو تمہیں پوری رات سہنی ہے۔'


وجدان نے زرش کے کان میں سر گوشی کی تو زرش کانپ کر رہ گئی لیکن وجدان کی شدت بھری محبت کے طوفان کے سامنے وہ کمزور لڑکی بہت آسانی سے ہار گئی تھی ۔

🌈🌈🌈🌈

آدھی رات کا وقت ہو رہا تھا اور اس وقت کالے کپڑوں میں ملبوس اپنا چہرہ کالے رومال سے چھپائے اور ہاتھ میں بندوق لیے سکندر ایک گھر میں داخل ہوا۔اپنے شکار کی ہر حرکت کو اس نے ٹریک کیا تھا اور اس کے خیال میں ابھی تو وہ ایک ہوٹل میں موجود تھا جو بظاہر تو ایک ہوٹل تھا لیکن اسکے اندر فحاشی اور عیاشی والا ہر کام مل سکتا تھا۔


سکندر یہ تک جانتا تھا کہ وہ شخص کون سے کمرے میں آئے گا اس لیے وہ ایک پائیپ کے ذریعے سیکنڈ فلور پر چڑھ کر کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوا اور پردے کے پیچھے چھپ گیا۔ابھی اسے دس منٹ ہی ہوئے تھے جب ایک نشے میں ڈوبا آدمی لڑکی کو اپنی باہوں میں لیے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کر لیا۔


لڑکی کے چہرے سے اسکی مجبوری چھلک رہی تھی لیکن اسکے باوجود وہ مسکرا رہی تھی۔اچانک اس آدمی نے لڑکی کو بیڈ پر دھکا دیا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا سکندر نے پردے کے پیچھے سے نکل کر ایک ریوالور کو اس آدمی کی کن پٹی پر رکھا اور دوسری ریوالور لڑکی کی طرف تانی۔


'یہاں سے جا اور اپنے آپ کو باتھ روم میں بند کر لے۔'


سکندر نے وحشت زدہ آواز میں کہا تو لڑکی جلدی سے وہاں سے بھاگی اور باتھ روم میں بند ہو گئی۔سکندر کو اتنا تو پتہ تھا کہ وہ باتھ روم سے کسی کو نہیں بلا سکے گی۔آخر کار سکندر اپنے شکار کی طرف مڑا جسکا اب سارا کا سارا نشہ اتر چکا تھا۔


'سیدھا سیدھا سوال ہے اس کا سیدھا سیدھا جواب دے دے آر بی کہاں ملے گا ؟'


سکندر نے دانت پیس کر پوچھا ۔


'میں نہیں۔۔۔۔'


ابھی الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب سکندر نے ریوالور کو ایک انچ اسکے سر سے ہٹایا اور گولی چلا دی۔گولی اپنے اتنے قریب سے گزرنے کی وجہ سے وہ آدمی کانپ کر رہ گیا۔


'اگلی بار بندوق نہیں ہٹے گی۔'


سکندر نے سختی سے ریوالور کو اسکی کن پٹی پر رکھا۔


'نہیں نہیں بتاتا ہوں آر بی کہاں ہے یہ صرف ایک آدمی جانتا ہے فیض شاکر۔'

اس آدمی نے اتنا سا ہی کہا اور ایک زور دار دھکا سکندر کو دے کر اپنی کمر کے پاس سے بندوق نکالی اور سکندر کا نشانہ لے کر گولی چلا دی ۔مگر عین وقت پر سکندر نے جھک کر خود کو اس گولی سے بچایا اور فوراً ہی اٹھ کر گولی سیدھا اس آدمی کے دماغ میں مار دی۔وہ آدمی فوراً ہی زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

'باہر آ جا لڑکی۔'

سکندر کے کہنے پر وہ لڑکی کانپتے ہوئے باہر آئی۔

'ددد ۔۔۔۔۔دیکھو میں نے۔۔۔۔'

لڑکی نے زارو قطار روتے ہوئے بولنے کی کوشش کی جبکہ سکندر نے اطمینان سے اپنی بندوق سے گولیاں نکالی اور اپنے دستانے پہنے ہاتھوں سے وہ بندوق اس لڑکی کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

'تجھے پتہ ہے ہمارا قانون عورت کو پھانسی کی سزا اتنی آسانی سے نہیں دیتا اور مجھے لگتا ہے کہ ایسی ذلت کی زندگی سے جیل میں رہنا بہتر ہو گا۔'

سکندر اتنا کہہ کر کھڑکی سے باہر نکلا اور آدھے پائیپ سے اتر کر باقی کا فاصلہ کود کر طہ کر لیا۔اسکی توقع کے عین مطابق ہوٹل کی انتظامیہ اس کمرے میں پہنچ چکی تھی اور ابھی وہاں پولیس نے بھی آ جانا تھا اس سے پہلے پہلے سکندر کو وہاں سے نکلنا تھا۔

ابھی سکندر ہوٹل سے تھوڑا دور ایک سنسان سی جگہ پہنچا تھا جب اچانک ایک جانی پہچانی آواز نے اسکا نام پکارا لیکن اس آواز نے اسکو سکندر الفاظ درانی نہیں بلکہ اسکے اصلی نام سے پکارا تھا۔سبز آنکھوں میں چمک اور نقاب میں چھپے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی تھی۔

'پتہ تھا کافی چالاک ہو تم وجدان خان لیکن مجھے پہچاننے میں بہت دیر لگا دی۔'

سکندر اپنے ہاتھ اوپر کر کے پلٹا اور وجدان کو دیکھا جو سکندر پر بندوق تانے کھڑا تھا۔اچانک ہی سکندر کے ہاتھ سے کچھ چھوٹ کر زمین پر گرا جسے پکڑنے کے لیے سکندر جھکا اور زمین سے پتھر اٹھا کر بہت تیزی سے وجدان کے ہاتھ پر پھینکا جسکی وجہ سے وجدان کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کر گر گئی۔سکندر موقع پا کر وہاں سے بھاگنے لگا۔

'بھاگ جانا تم لیکن کم از کم میری پہچان اپنانے کی وجہ تو بتا کر جاؤ؟'

وجدان کی بات پر سکندر کے قدم اپنی جگہ پر ہی رکے تھے ہری آنکھوں میں حیرت آئی اور اسی حیرت کے ساتھ سکندر نے پلٹ کر وجدان کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔

🌈🌈🌈🌈

وجدان فجر کے وقت کمرے میں واپس آیا تھا ۔اس وقت سکندر کو لے کر اسکے دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔سکندر کا سچ جان کر ایک وحشت سی وجدان کے پورے وجود پر حکومت کر رہی تھی اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اپنا ہی اس قدر سفاک اور دھوکے بعض بھی نکل سکتا ہے۔وجدان نے ضبط سے مٹھیاں کسیں غصہ اسکی رگوں میں دوڑ رہا تھا لیکن تبھی اسکی نظر بیڈ پر سوئے ہوئے نازک سے وجود پر پڑی۔

وجدان کے قدم بے ساختہ طور پر بیڈ کی طرف اٹھے تھے ۔زرش کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے ڈھیروں سکون وجدان کے دل میں اتر رہا تھا ۔پہلے والی وہ ساری وحشت اور غصہ کہیں غائب سا ہو گیا تھا۔ 

' نور۔۔۔۔' 

وجدان نے بہت محبت سے اسکے گال کو چھو کر اسے اٹھانا چاہا مگر زرش نے اٹھنے کی بجائے وجدان کا ہاتھ تھام کر اپنے چہرے کے نیچے رکھا اور پھر سے سو گئی۔ ایک مسکراہٹ نے وجدان کے لبوں کو چھوا۔وجدان کو ٹوٹ کر اپنی اسے معصوم سی جان پر پیار آیا تھا۔نا جانے کتنی ہی دیر وجدان اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھتا رہا پھر نماز کے وقت کا خیال آیا تو اپنا ہاتھ نرمی سے چھڑوا کر فریش ہونے چلا گیا۔

وجدان نے نماز ادا کر کے سلام پھیرا تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو اپنی چھوٹی سی ٹھوڈی کی نیچے ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔

'کیا دیکھ رہی ہو نور خان۔' 

وجدان نے دلچسپی سے پوچھا تو زرش نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا اور اسے دعا مانگنے کا کہنے لگی۔وجدان نے دعا مانگ کر کچھ پڑا اور زرش کے چہرے پر پھونک مار دی جس سے زرش کھلکھلا اٹھی۔

یہ کیا ہے؟

زرش نے مسکرا کر پوچھا۔

'دعا کی ہے کہ میری بیوی زرا سی بہادر ہو جائے اور دنیا،ہر مشکل کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو خوف سے سمٹے نہیں۔' 

وجدان اتنا کہہ کر جائے نماز سے اٹھا اور اسے طے کر کے زرش کے پاس آیا ۔زرش اسکو پاس آتا دیکھ شرمیلی مسکان کے ساتھ سر جھکا گئی۔وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا۔

'نور میری بات سنو چاہے کچھ بھی ہو جائے تم اپنے آپ کو مظبوط رکھنا کیونکہ تم کمزور نہیں ہو زرش تم بہادر ہو بہت ذیادہ بہادر۔میں کبھی بھی تمہیں بلاؤں تو تم مجھے جواب دو گی دو گی نا؟' 

وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر کہا زرش نے اسکی باتوں پر بہت دیر غور کیا پھر ہاں میں سر ہلا کر اپنے ہاتھ اٹھا کر چوڑیاں کھنکھائیں۔اسکی معصوم حرکت پر وجدان کے لب مسکرائے۔

'نہیں میری جان ان سے نہیں۔۔۔'

وجدان نے اسکی چوڑیوں سے بھری کلائی کو تھام کر چوما۔

'تم مجھے ان سے پکارو گی میرا نام بلاؤ گی تم۔'

وجدان نے اسکے ہونٹوں کو سہلا کر کہا اور پھر بہت نرمی سے جھک کر اسکے نازک لبوں کو چوما۔زرش آنکھیں بند کر کے خود میں ہی سمٹ گئی۔

'سب سے بڑی خواہش ہے نور ان ہونٹوں سے اپنا نام سننے کی اور اپنی یہ خواہش پوری کر کے ہی رہوں گا۔'

وجدان نے اتنا کہہ کر زرش کو چھوڑا تو زرش گھبراتے ہوئے جلدی سے واش روم میں چلی گئی اور وہاں پہنچ کر بند دروازے کے ساتھ کھڑی ہو کر اپنی دھڑکنیں شمار کرنے لگی۔

زرش فریش ہو کر باہر  کمرے میں واپس آئی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔اچانک ہی اسکی نگاہ ٹیبل پر پڑے ایک ریڈ کلر کے باکس پر پڑی۔زرش اس کے پاس مسکراتے ہوئے گئی۔باکس کو اٹھا کر اس نے کھولا تو اس میں ایک سرخ گلاب کے نیچے ایک خط پڑا تھا۔زرش نے اس خط کو کھول کر پڑھنا شروع کیا۔

'جانتا ہوں نور خان کہ تم سوچ رہی ہو گی کہ کیسا شوہر ہوں تمہیں کل تحفہ ہی نہیں دیا تو سوچا کہ آج یہ گلا بھی مٹا دوں۔ اس لیے آج رات کے بارہ بجے پچھلے لان میں اپنے فیورٹ پرندوں کے پنجرے کے پاس آ جانا۔میں تمہارا انتظار کروں گا اور ہاں اس بات کا ذکر کسی سے بھی مت کرنا نور ورنہ ۔۔۔۔' 

تمہارا خان۔

زرش نے شرما کر اس خط کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔وہ یہی تو چاہتی تھی کہ وجدان اسے اتنا پیار دے کہ وہ خود کو اس دنیا کی سب سے ذیادہ خوش قسمت لڑکی تصور کرنے لگ جائے اور اب ایسا ہی تو ہو رہا تھا۔ زرش خود میں ہی مسکراتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گئی اور اپنے محبوب کی خاطر سجنے کے لیے سب سے پیارا جوڑا تلاش کرنے لگی۔

'کیا ہو رہا ہے لٹل ڈال۔'

 عشال کی آواز پر زرش چونک کر مڑی اور جلدی سے نہ میں سر ہلانے لگی۔

'او اچھا پھر مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ کچھ چھپا رہی ہو۔' 

عشال نے اسے سر سے لے کر پیر تک دیکھا تو زرش نے پھر سے انکار میں سر ہلا دیا۔

'اچھا ٹھیک ہے بھئی جیسی تمہاری مرضی ویسے میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ جانان تمہیں ڈھونڈ رہی ہے۔'

 مشعل ہاں میں سر ہلا کر اسکے ساتھ باہر چلی گئی۔جبکہ وجدان کے اس خط کا سوچ کر  ابھی تک ایک شرمیلی سی مسکان اسکے لبوں پر تھی۔

                           🌈🌈🌈🌈

ناشتے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔عثمان تو صبح سے کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گیا ہوا تھا،وجدان بھی صبح سے ہی غائب تھا اور سعد تو کل سے ہی گھر میں نظر نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے عشال کافی پریشان تھی۔اسے کوئی اور نظر نہ آیا تو ہمت کر کے شایان کے پاس ہی چلی گئی جو ویسے تو اپنے لیپ ٹاپ میں کوئی کام کرنے میں مصروف تھا مگر اسکا دھیان کھلکھلا کر ہنستی ہوئی جانان پر تھا۔

'ایجنٹ جی کہاں پر ہیں؟کل سے نظر نہیں آ رہے۔' 

عشال نے شایان کے پاس جا کر کہا فوراً ہی شایان نے اپنی خطرناک سنہری آنکھوں سے عشال کو گھور کر دیکھا تھا۔

'مجھے نہیں پتہ کل سے ہی کہیں گیا ہوا ہے ضرور کسی کام میں مصروف ہو گا تم اپنے کام سے کام رکھو اور ہاں میری جانان سے دور ہی رہنا اگر اسے تمہاری وجہ سے ہلکی سی خراش بھی آئی نا تو تم کسی کو نظر نہیں آؤ گی۔'

شایان نے کافی غصے سے کہا تو عشال مٹھیاں بھینچتی رہ گئی۔وہ اسے بہت کچھ سنانا چاہتی تھی لیکن شایان کی وہ سنہری آنکھیں اسے وحشت زدہ کر دیتی تھیں۔

عشال منہ بنا کر زرش کے پاس چلی گئی اور وہاں بیٹھ کر جانان اور زرش کی باتوں پر غور کرنے لگی۔

'اچھا تو بتا نا زری پھر وجدان بھائی نے کیا کچھ کہا تمہیں سچی مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ وجدان بھائی دا کریلا نے اتنا سب کروایا واہ سچ میں میری بہن ہو تم تیر کی طرح سیدھا کیا ہے انہیں ورنہ ہر وقت ایسے رہتے تھے۔' 

جانان نے منہ پھلا کر کہا تو وہاں بیٹھے سب لوگ ہنسنے لگے یہاں تک کے کب سے شرماتی زرش بھی ہنسنے پر مجبور ہو گئی۔

'تو شایان ایسا نہیں تھا کیا؟' 

حمنہ نے شرارت سے پوچھا۔

'نہیں نہیں شایان ایسے منہ ٹیڑھا نہیں کرتے بلکہ جب ہم پہلی بار ملے تھے نا تو شایان نے مجھے ایسے دیکھا تھا۔'

جانان نے دانت پیستے ہوئے اپنی آنکھیں چھوٹی کر دیں تو سب ہنسنے لگے اور تو اور دور بیٹھا شایان بھی قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔

' اور پتہ ہے کیا کہا تھا انہوں نے اے لڑکی اب تمہاری آواز بھی نکلی نا تو اٹھا کے کھڑکی سے باہر پھینک دوں گا۔' 

جانان نے نقل کی خاطر آواز بھی بھاری کر لی تھی۔

'پھر تم نے انہیں بھی کریلا بلایا کیا؟' 

حمنہ نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

'نہیں انہیں تو میں نے ادرک بلایا تھا۔'

اس بات پر سب لوگ پھر سے قہقہہ لگا کر ہنسے تھے اور فاطمہ بیگم تو اپنی بیٹیوں کو یوں ہنستا دیکھ ان کے صدقے واری جا رہی تھیں۔وہ دعا کر رہی تھیں کہ انہیں کبھی کسی کی نظر نہ لگے۔

'ویسے آج ہمارا پٹاخہ کیوں چپ ہے سب ٹھیک تو ہے نا ۔' 

حمنہ نے عشال کو دیکھ کر شرارت سے پوچھا  تو جانان چہکتے ہوئے بولی۔

'وہ سعد بھائی نہیں نظر آ رہے نا اس لیے۔' 

جہاں عشال نے جانان کو گھورا تھا وہیں سب لوگ پھر سے ہنس دیے۔

'میں نا اس لیے چپ ہوں کہ کل جو کچھ میری گستاخ آنکھوں نے دیکھ لیا ہے نا وہ کہیں غلطی سے پھسل کر زبان پہ نہ آ جائے۔' 

عشال نے حمنہ کو دیکھتے ہوئے ایک آنکھ دبا کر کہا تو حمنہ سرخ ہو گئی۔عشال نے ایک ادا سے اپنا چشمہ درست کیا تھا۔

                        🌈🌈🌈🌈

رات ہوتے ہی زرش بے چینی سے سب کے سونے کا انتظار کرتی رہی تھی۔جتنی جلدی ہو سکتا تھا وہ تیار ہوئی اور باہر کی طرف چل دی مگر اچانک ہی اسکی نظر سامنے سے آتی عشال سے ہوئی۔زرش ایسے گھبرائی تھی جیسے اسکی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔زرش کتنی ہی دیر اپنی آنکھیں بڑی کیے عشال کو دیکھتی رہی۔

'کیا بات ہے جانی میرے منہ پر فیویکول کا ایڈ لگا ہے کیا جو تمہاری نظریں چپک ہی گئی ہیں اس سے۔' 

عشال نے شرارت سے کہا تو زرش فوراً انکار میں سر ہلانے لگی۔وہ باہر جانا چاہتی تھی لیکن اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیسے کرے۔زرش نے بے چینی سے ٹائم دیکھا جہاں رات کے بارہ بج رہے تھے۔

'اچھا اتنا تیار ہو کے کہیں جانا چاہتی ہو کیا؟' 

عشال نے اسکے گلابی جوڑے اور ہلکے سے میک اپ کو دیکھ کر سوال کیا۔زرش نے بے چینی سے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے ہاتھوں سے جلدی جلدی اشارہ کرنے لگی۔

مجھے پرندوں کو دانہ ڈالنا ہے۔

عشال نے حیرت سے زرش کو دیکھا۔

'اس وقت وہ بھی تیار ہو کے ۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ ڈال اس وقت تو وہ سو جاتے ہیں۔'

زرش نے انکار میں سر ہلایا۔

'اچھا ٹھیک ہے بھئی جاؤ مجھے پتہ ہے کہ پرندوں کا تو صرف بہانا ہے مقصد تو سیاں جی کے پاس جانا ہے۔'

عشال نے شرارت سے کہہ کر اسکے گلابی گال کو چھوا۔زرش خود میں ہی سمٹی تھی۔

' اچھا چلو جاؤ۔۔۔' 

عشال کے راستہ دیتے ہی زرش جلدی سے باہر کی طرف چل دی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب اسکا سامنا کسی اور سے ہو۔زرش جلدی سے لان کے پچھلے حصے کی طرف گئی مگر وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا ۔زرش بے چینی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔وجدان کو تو آ جانا چاہیے تھا زرش نے بے چینی سے سوچا۔

' زرش۔۔۔'

ایک جانی پہچانی آواز زرش کی سماعتوں سے ٹکرائی۔زرش فوراً پلٹی تو اسکی نظر سعد پر پڑی جو کالی پینٹ پر کالی ہڈی پہنے وہاں کھڑا زرش کو خطرناک آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

زرش اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ یہاں کیا کر رہا تھا لیکن زرش کوئی کوئی موقع دیے بغیر ہی سعد نے زرش کو گردن کے پیچھے سے پکڑ کر ایک رومال زرش کے منہ پر رکھا۔ 

زرش اسکی گرفت میں مچلنے لگی مگر اسکی گرفت بہت مظبوط تھی۔آخر کار رومال پر لگے کلوروفارم نے اپنا اثر دیکھایا اور زرش بے ہوش ہو کر سعد کی باہوں میں جھول گئی۔ایک خطرناک سی مسکان نے سعد کے لبوں کو چھوا۔سعد نے زرش کے ہلکے سے وجود کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور وہاں سے چلا گیا۔

                          🌈🌈🌈🌈

'آپ فکر کیوں کرتے ہیں مشتاق صاحب میں ہوں نا الیکشن تو آپ ہی جیتیں گے۔زیادہ مشکل کام نہیں ہے میں ایک مال میں حملہ کرواؤں گا کافی سارے لوگوں کی موت ہو گی اور اسکا الزام آپوزیشن پر ڈال دیں گے۔پھر تو وہ لوگ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔' 

رات کے دو بجے آر بی اپنے گھر کے مہنگے آفس میں ٹیبل کے پاس موجود کرسی پر بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ شراب کا گلاس ہاتھوں میں بہت ادا سے گھما تھا۔

'ہاہاہاہا ارے تین چار لوگ مر جائیں گے تو کیا جیت کے لئے قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں نا۔بس آپ پیسہ تیار رکھیے گا اور فکر مت کریں جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہو گا۔

آر بی کے چہرے سے شیطانی ٹپک رہی تھی۔تبھی فیض پریشانی کے عالم میں وہاں آیا۔

'باس ۔۔۔' 

آر بی نے غصے سے فیض کو گھور کر دیکھا اور دوسری طرف موجود شخص کو جواب دیے بغیر ہی فون بند کر دیا۔ 

'بکو۔۔۔' 

آر بی غصے سے دھاڑا۔

'باس وہ سکندر نے مجھ سے کانٹیک کیا ہے ہمارے ایک آدمی کے ذریعے۔۔۔۔'

فیض نے بہت ذیادہ ڈر کے عالم میں کہا۔جبکہ  اسکی بات پر آر بی نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

'یعنی  بکرا خود ہی ہمارے جال میں پھنسنے جا رہا ہے۔' 

آر بی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔فیض بھی ہلکے سے مسکرا دیا۔

'کہتا کیا ہے وہ؟'

آر بی نے دلچسپی سے پوچھتے ہوئے اپنی شراب ایک ہی گھونٹ میں پی کر گلاس میز پر رکھا اور اپنا ریوالور اٹھایا۔

'کہتا ہے اس کے پاس کچھ ایسا ہے جو آپکو اس دنیا میں سب سے ذیادہ چاہیے مگر وہ اسے صرف آپکو ہی دے گا وہ بھی آمنے سامنے۔'

آر بی کے چہرے پر بہت ذیادہ حیرت کے آثار آئے تھے۔بھلا سکندر خود ہی کیوں اپنی بیوی رومان کو دینا چاہے گا؟

'بدلے میں کیا چاہتا ہے وہ؟' 

آر بی بہت سوچنے کے بعد بولا وہ سکندر کی خواہش سمجھنے سے قاصر تھا۔

'بدلے میں وہ صرف آپ سے ملنا چاہتا ہے باس آمنے سامنے۔' 

فیض کی بات پر آر بی کے لبوں پر خطرناک سی مسکان آ گئی۔

'بہت زیادہ چالاک بنتا ہے یہ سکندر اسے کیا لگتا ہے کہ اپنی بیوی کو بلی کا بکرا بنا کر وہ آر بی تک پہنچ جائے گا ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا خواب ہے یہ اسکا ۔بلکہ اپنے بچھائے جال میں خود ہی بہت بری طرح سے پھنسے گا وہ۔' 

آر بی نے غصے سے کہتے ہوئے اپنی مٹھیاں کسیں 

'کل شام کو ہی بلا لو اسے فیض اپنی مخصوص جگہ پر وہاں میرا ہر آدمی ہونا چاہیے۔سکندر نے جو بھی منصوبہ بنایا ہو وہ اس پر ہی الٹا پڑے گا ۔ وہاں سے زندہ نہیں جا پائے گا وہ بلکہ وہیں اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی بیوی کو نوچ کر اسی جگہ کو اسکی قبر بنا دوں گا۔'

آر بی دانت پیستے ہوئے وحشت سے بول رہا تھا اور اسکی اس وحشت سے فیض کو بھی خوف آ رہا تھا۔

' جی باس جیسا آپ چاہیں۔'

آر بی نے ہاں میں سر ہلا کر فیض کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔

'اب وقت آ گیا ہے پھر سے آمنے سامنے آنے کا سکندر الفاظ درانی اور میرا وعدہ ہے کہ اس بار زندہ نہیں بچو گے تم لیکن تمہیں مارنے سے پہلے زرش کا وہ حال کروں گا نا کہ تمہیں صیح معنوں میں کرب سے گزرنے کا اندازہ ہو گا۔'

آر بی نے اپنے سامنے موجود جام کی مہنگی بوتل اٹھا کر بہت غصے سے دیوار پر مار کر توڑ دی۔

                     🌈🌈🌈🌈

گھر میں موجود سب لوگ بہت ذیادہ پریشان تھے زرش کل رات سے گھر میں نہیں تھی انہیں صبح فجر کے وقت پتہ چلا تھا جب وجدان گھر واپس آیا اور اس نے زرش کو گھر میں نہیں پایا تھا۔اس کے بعد ہی وجدان فوراً باہر چلا گیا ۔ تب سے ہی عثمان اور شایان زرش کو ڈھونڈنے کی جو توڑ کوشش کر رہے تھے مگر ایسا تھا جیسے زرش گھر سے غائب ہی ہو گئی ہو۔

 اسی وجہ سے سب لوگ بہت زیادہ پریشان تھے فاطمہ بیگم حمنہ اور جانان کا تو رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔عثمان کی اصل پریشانی تو حمنہ کے آنسو تھے وہ بار بار انہیں تسلیاں دے رہا تھا لیکن وہ سب تسلیاں اس وقت بے سود تھیں۔جب عثمان کی ہمت جواب دے گئی تو وہ حمنہ کو اپنے ساتھ چکن میں لے آیا اور اس سمجھانے لگا کہ عثمان پر بھروسہ رکھے وہ وعدہ کرتا ہے کہ سب ٹھیک کر دے گا۔

'آپ فکر مت کریں وجدان اور میں مل کر ڈھونڈ لیں گے زرش کو کچھ نہیں ہو گا اسے وعدہ ہے یہ ہمارا۔'

 شایان نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی اور ایک آخری نگاہ روتی ہوئی جانان پر ڈال کر وہ بھی گھر سے چلا گیا۔

'ابھی کل ہی تو اپنی بیٹیوں کی خوشیاں دیکھ کر دعا کی تھی کہ انہیں کسی کی نظر نہ لگے لیکن لگتا مجھ بدنصیب کی ہی نظر کھا گئی میری بیٹی کو نا جانے کہاں ہے وہ کس حال میں ہے۔۔۔۔' 

فاطمہ بیگم نے زارو قطار روتے ہوئے کہا جانان اور حمنہ انکو روتے دیکھ کر مزید رونے لگی تھیں۔

'فاطمہ ہمت سے کام لو وہ سب گئے تو ہیں زرش کو ڈھونڈنے وہ ضرور ڈھونڈ لیں گے۔' 

سلمان صاحب نے فاطمہ بیگم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر انہیں ہمت دینے کی کوشش کی لیکن اس ماں کو کہاں سے سکون آتا۔

'اللہ میری بیٹی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ابھی تو اس نے خوشیوں کا چہرہ بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا اور پھر سے یہ سب۔۔۔۔' 

فاطمہ بیگم ہاتھ جوڑ کر اللہ سے فریاد کرنے لگیں جبکہ حمنہ تو نا جانے کب سے انہیں حوصلہ دلا رہی تھی پر اسکی ہر کوشش بے اثر ہی ثابت ہو رہی تھی۔

                    🌈🌈🌈🌈

زرش کو ہوش آیا تو وہ ایک اندھیرے کمرے میں بند تھی ۔کئی جھماکے ایک ساتھ اسکے ذہن میں ہوئے تھے۔وہ تو لان میں وجدان سے ملنے گئی تھی نا پھر وہاں سعد آ گیا تھا اور پھر سعد نے وہ رومال اسکے منہ پر رکھا اس کے بعد زرش کو کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ 

زرش نے اپنے ارد گرد غور کرنے کی کوشش کی تو اسے پتہ چلا کہ وہ کمرہ ایک کال کوٹھری کی مانند ہی تھا چھے سال پہلے کی قید زرش کو یاد آ گئی سب ویسا ہی تھا سوائے اس بات کے کہ یہ کمرہ بلکل خالی تھا۔وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا۔زرش ٹھنڈی زمین سے اٹھ کر بیٹھی تھی اسکا روم روم خوف سے کانپ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ سعد نے ایسا کیوں کیا؟وہ تو وجدان کا سب سے اچھا دوست تھا اور زرش کو تو وہ اپنی بہنوں کی طرح ہی مانتا تھا نا تو کیوں کیا سعد نے ایسا ؟

زرش اٹھ کر لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے تک گئی اور زور زور سے دروازہ بجانے لگی وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وقت کونسا تھا۔نا جانے کتنی ہی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی دروازہ نہ کھلا تو زرش دروازے کے ساتھ بیٹھ کر زارو قطار رونے لگی۔

اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔خوف کی لہر اسکے پورے وجود میں گردش کر رہی تھی ایک بار پھر سے وہ ویسی ہی جگہ پر قید کر دی گئی تھی ایسا آخر اس کے ساتھ ہی کیوں کیا جاتا تھا کیا گناہ تھا زرش کا۔۔۔۔کیوں ہر ایک کا ظلم اسی کمزور پر چلتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ زرش نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہار نہیں مانے گی مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی وہ تو کمزور تھی بہت بہت زیادہ کمزور۔

تبھی اچانک سے دروازہ کھلا اور سعد اسی حلیے میں کھانے کی پلیٹ پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔زرش سہم کر اس سے دور ہوئی تھی۔

'تم یہ کھا لو ابھی اور مراحل سے گزرنا ہے تمہیں خود کو تیار کرو اس کے لئے۔'

سعد نے کھانے کی پلیٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔زرش سہم  کر مزید دیوار کے ساتھ لگ گئی پھر اپنے کپکپاتے ہاتھ اٹھائے۔

آپ ایسا کیوں کر رہے؟

تمہیں جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتا بس اتنا سمجھ لو کہ تمہارا یہ جو خوف ہے نا اسی نے تمہیں اس مقام پر لایا ہے۔تم جتنا اندھیرے اور بند کمرے سے ڈرتی ہو نا اتنا ہی تمہیں اس میں بند کیا جاتا ہے۔یہ تو اصول ہے دنیا کا زرش جب ہم ڈرتے ہیں دنیا ہمیں اور ڈراتی ہے۔'

سعد کی کسی بات کا تعلق زرش کے پوچھے گئے سوال سے نہیں تھا۔زرش روتے ہوئے سعد کو دیکھنے لگی۔

پلیز مجھے یہاں سے جانے دیں ۔۔۔۔۔۔مجھے گھر جانے دیں۔۔۔۔۔

 زرش نے روتے ہوئے اشارہ کیا اور پھر اپنے ہاتھ سعد کے سامنے جوڑ دیے۔سعد اپنا سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا۔

'مانگنے سے یہ دنیا کچھ نہیں دیتی زرش انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے۔تمہیں بھی یہاں مانگنے سے کچھ بھی نہیں ملنے والا ۔'

سعد بے رخی سے کہتا ہوا باہر چلا گیا جانے کتنی ہی دیر زرش وہاں بیٹھ کر روتی رہی تھی کھانے کو تو اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا وہ اپنی قسمت کا لکھا پڑھ نہیں پا رہی تھی۔کیا یہ سچ میں اسکی بزدلی کی سزا تھی کہ ہر کوئی اسے قید کر لیتا تھا اگر اسکے بھی پنجے ہوتے تو خود کو چھونے والے کو وہ کھروچ دیتی مگر وہ تو مجبور تھی بہت مجبور۔اپنے ڈر اور خوف کے ہاتھوں مجبور تھی وہ کیا بگاڑ سکتی تھی وہ ایک مظبوط انسان کا کچھ بھی تو نہیں۔

ایک بار ہی تو اس نے بہادری دیکھائی تھی اور اس بہادری کی سزا اسکی معصوم دوست نے بھگتی تھی جس کی وجہ سے زرش بزدل ہوئی اسے لگا تھا کہ بزدل رہنا ہی بہتر ہے جب کسی کی بات مان لو تو وہ آپکو نقصان نہیں پہنچائے گا۔لیکن وہ غلط تھی بہت بہت غلط ۔خاموش رہ کر ظلم سہنے سے ظلم کبھی بھی کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔

زرش اپنی بے بسی پر نا جانے کتنی ہی دیر آنسو بہاتی رہی تھی۔اپنے بے آواز لبوں سے وجدان کو پکارتی رہی تھی لیکن اگر وجدان نہیں آتا تو زرش کیا کرتی؟اتنا سوچ کر ہی زرش پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

وہ کتنی ہی دیر ایسے روتی رہی تھی یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔کافی دیر کے بعد سعد وہاں دوبارہ آیا اور اسکے ہاتھوں کو پکڑ کر باندھنے لگا۔زرش نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ سعد کے مقابلے میں کمزور تھی بہت زیادہ کمزور۔

'تم کمزور ہو لڑکی بہت کمزور اور اسی کمزوری اور بزدلی کی سزا بھگتو گی تم۔۔۔۔'

سعد کافی مظبوطی سے اسکے پیر باندھتے ہوئے بولا۔زرش بے بسی سے زمین پر پڑی رہی تھی۔سعد اسے مکمل طور پر باندھ کر وہاں سے ہٹا۔

'جانتی ہو تمہاری اس بزدلی کی سزا کیا ہو گی؟اپنی آخری سانس تک اس کال کوٹھری میں بند رہنا۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہا تم تو اتنی بے بس ہو کہ کسی کو اپنی مدد کے لیے پکار بھی نہیں سکتی۔قید رہو گی اس کال کوٹھری میں اور کوئی ڈھونڈ نہیں پائے گا تمہیں کبھی بھی پکارتا رہ جائے گا وہ تمہیں اور تم جواب بھی نہیں دے سکو گی۔'

زرش مسلسل روتے ہوئے انکار میں سر ہلا رہی تھی لیکن سعد نے اسے باندھ کر زمین پر پھینکا اور دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔زرش زمین پر پڑی سسکتی رہی تھی۔

وجدان آپ آ جائیں نا پلیز آ جائیں۔' 

زرش نے دل میں ہی کہا اور پھر سے رونے لگی اسے لگتا تھا کہ سچ میں وہ اسی کال کوٹھری میں رو رو کر اور گھٹ گھٹ کر ہی مرے گی۔تبھی زرش کو بند دروازے کے پار سے سعد کی آواز سنائی دی وہ شاید کسی سے بات کر رہا تھا۔

'ہاں جیسا تم نے کہا تھا بلکل ویسا ہی کر دیا ہے آگے بتاؤ کیا کروں؟'

ایک پل کو خاموشی چھائی تھی۔

'ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے آ رہا ہوں میں۔'

اس کے بعد زرش نے صرف سعد کے دور جانے کی آواز سنائی دی تھی زرش نے ہلنے کی کوشش کی لیکن جس طرح سے اسے باندھا گیا تھا وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔اپنی بے بسی پر وہ پھر سے آنسو بہانے لگی۔

                         🌈🌈🌈🌈

آر بی نے ہر طرح سے جائزہ لیا تھا جیسا اس نے چاہا تھا فیض نے سارا بندوبست بلکل ویسا ہی کیا تھا۔سکندر آر بی کے پاس نہیں اپنی موت کے جال میں آ رہا تھا۔ آر بی کا ہر بڑا چھوٹا آدمی وہاں موجود تھا۔ویسے تو آر بی اپنے کسی آدمی کے سامنے نہیں آتا تھا لیکن آج بات کچھ اور ہی تھی۔آج آر بی کے جزبات، حسد،جنونیت،آگ ہر چیز کو سکون حاصل ہونا تھا۔

'باس سب انتظام ہو چکا ہے یہ خفیہ جگہ ہے سکندر کے علاوہ کوئی بھی نہیں آ پائے گا اندر۔۔۔۔۔ باہر ہمارے کم از کم بھی تیس آدمی ہیں جو ہمارا سگنل ملتے ہی اندر آ جائیں گے۔سکندر کی بھی تلاشی لے کر ہی اسے اندر بھیجا جائے گا باقی ہمارا تقریباً ہر خاص آدمی ہے ادھر اگر دور دور تک کوئی اور ہمیں نظر آیا تو زندہ نہیں بچے گا وہ باس۔سکندر کا جو بھی پلین اس پر ہی الٹا چلے گا۔'

آر بی کے  چہرے پر خوفناک سی مسکان آئی۔

'اچھا کام کیا ہے تم نے فیض وفاداری کا ثبوت دیا ہے اور یہ جگہ مجھے پسند آئی صیح ہے نا جہاں سے یہ کہانی شروع ہوئی وہیں ختم بھی کرتے ہیں۔'

آر بی نے اسی اندرون زمین خفیہ جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں کبھی اس نے ان سکول کی بچیوں کو اگوا کر کے قید کیا تھا۔اسکے ساتھ نیچے تو کوئی چودہ پندرہ آدمی ہی تھے زیادہ آدمی اس نے باہر کی عمارت میں ہی تعینات کیے تھے اور اب انہیں بس سکندر کا انتظار کرنا تھا جو آر بی بہت ہی ذیادہ بے چینی سے کر رہا تھا۔

تبھی اسکے آدمیوں میں حل چل ہوئی انہیں ایک اکیلا آدمی گلابی شلوار قمیض میں ملبوس ایک لڑکی کو کندھے پر ڈالے وہیں آ رہا تھا۔اس نے کالی جینز پر کالی ہی ہڈی پہنی ہوئی تھی اور چہرے کو بھی رومال سے کوور کیا ہوا تھا۔سبز آنکھوں میں عجیب سے وحشت تھی۔

سکندر کے قریب پہنچتے ہی ایک آدمی نے زرش کو سکندر کے کندھے پر سے لینا چاہا تو سکندر نے اپنی سبز آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا۔

'اپنے ہاتھ خود تک رکھ ورنہ کبھی بھی یہ ہاتھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ ' 

نا جانے اس آواز میں ایسا کیا تھا کہ خوف کے مارے اس آدمی کے ہاتھ ہوا میں ہی رک گئے تھے۔ایک دوسرے آدمی نے آگے بڑھ کر سکندر کی اچھی طرح سے تلاشی لی۔زرش کے چہرے سے بال ہٹا کر اسکے چہرے اور بند آنکھوں کو دیکھ کر ہاں میں سر ہلا کر لڑکی کی تصدیق کی۔سکندر کے پاس کوئی بھی ہتھیار نہیں تھا نہ ہی کوئی بندوق اور نہ ہی کوئی چاقو۔

وہ لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اس آدمی کی بہادری کو داد دیں یا اسکی بے وقوفی پر ماتم کریں وہ موت کے منہ میں چل کر آیا تھا۔

تلاشی مکمل ہوتے ہی سکندر آگے بڑھ گیا۔ایک آدمی زمین کے اندر موجود خفیہ راستے سے سکندر کو اندر لے کر گیا جہاں بوسیدہ سیڑھیوں سے گزرتے ہی اس ہال نما تہہ خانے میں آر بی بے سکندر کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔

سکندر نے ارد گرد کا جائزہ لیا جہاں پر تقریبا چودہ یا پندہ آدمی اپنی بندوقوں کا رخ سکندر کی طرف کیے کھڑے تھے۔فیض بھی وہیں ایک سائیڈ پر کھڑا سارا منظر دیکھ رہا تھا۔

'باس۔۔۔۔'

 فیض کے مخاطب کرتے ہی آر بی نے مڑ کر سکندر کو دیکھا جبکہ اپنے بلکل سامنے رومان کو دیکھ کر سکندر نے غصے سے اپنے دانت پیسے ۔

'لو کر دی تمہاری خواہش پوری سکندر آ گیا میں تمہارے سامنے۔قسمت والے ہو جو آر بی خود تمہارے سامنے کھڑا ہے۔'

سکندر کچھ دیر وہیں کھڑا اسے غصے سے دیکھتا رہا پھر آگے بڑھا اور گلابی لباس میں ملبوس زرش کو آر بی کے قدموں میں پھینکا۔زرش شاید بے ہوش تھی اور زمین پر گرتے ہی اسکے تمام بال اسکے چہرے پر پھیل گئے تھے۔

'اور لو کر دی تمہاری خواہش پوری جس لڑکی کو چاہتے تھے وہ اس وقت تمارے قدموں میں ہے۔'

سکندر کی غصے سے بھر پور آواز اس جگہ پر گونجی۔آر بی زرش کو نظر انداز کر کے مسکراتا ہوا سکندر کے پاس آیا۔

'تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچان نہیں پاؤں گا کہ سکندر کون ہو،سکندر الفاظ درانی،یا پھر یوں کہوں وجدان ہاشم خان۔'

آر بی نے کھینچ کر نقاب وجدان کے چہرے سے ہٹایا۔وجدان نے غصے سے اپنی مٹھیاں کس لیں سبز آنکھوں میں غصے کے شرارے تھے جبکہ آر بی اسے مسکرا کر دیکھتا رہا۔

'حیران میں اس بات پر نہیں کہ تم زندہ کیسے بچ گئے اپنی آنکھوں سے تمہیں اس بم دھماکے میں مرتے دیکھا تھا حیران تو میں اس بات پر ہوں کہ تم یہ کیسے جان گئے کہ میں زندہ ہوں تمہاری آنکھوں کے سامنے تو مجھے گولی لگی تھی تم نے روتے ہوئے چلا کر بھائی پکارا تھا۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔'

 آر بی وجدان کے قریب ہوا وجدان مسلسل اپنی سبز آنکھوں سے آر بی کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہا تھا۔

'لیکن نہ صرف تم نے یہ جان لیا کہ میں زندہ ہوں بلکہ تم یہ بھی جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ تمہارے اس باپ کو پھنسانے والا میں تھا وہ سب کروانے والا میں تھا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔تبھی تو تم دو سال سے وہ خفیہ سکندر بن کے مجھے برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔۔۔۔'

آر بی نے آگے بڑھ کر وجدان کے منہ کو دبوچ لیا مگر وجدان ابھی بھی خاموش ہی کھڑا تھا۔

'تمہیں کیا لگا تھا کہ سکندر بن کر تم میرے ان دو کوڑی کے آدمیوں کو مار دو گے تو میں تباہ و برباد ہو جاؤں گا۔۔۔۔نہیں سکندر دارنی بلکل بھی نہیں۔۔۔۔میں اب وہ فقیر بلو نہیں جسے تمہارا باپ رحم کھا کر پناہ دیدے ۔۔۔۔۔۔یا رومان نہیں جس پر احسان کر کے کاروبار کا ایک حصہ اسے دیا جائے اور باقی سب اپنے لاڈلے ،اپنے وارث کو دے دیں۔۔۔۔میں آر بی ہوں وہ آر بی جس کے بلبوتے پر اس ملک کا ہر برا کام چلتا ہے۔۔۔ وہ آر بی جسکے حکمران بھی تلوے چاٹتے ہیں اگر پولیس بھی مجھے پہچان کر پکڑ لے تو بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ میرا دو فون کر کے آزاد ہو جاؤں گا میں۔۔۔۔'

آر بی نے ایک جھٹکے سے وجدان کے منہ کو چھوڑا۔

' تمہیں کیا لگا تھا کہ سکندر بن کر تم مجھ جیسی طاقت سے بھڑ سکو گے۔۔۔۔غلط تھے تم سکندر بہت غلط ہمیشہ ہی بے وقوف اور جزباتی۔اب اپنی بےوقوفی میں اس اپنی بیوی کو ہی چارہ بنا کر لے آئے تم۔۔۔۔یہ بھی نہیں سوچا کہ کیا حال کروں گا میں اسکا۔'

آر بی نے پلٹ کر بہت غلیظ نظروں سے زمین پر پڑے اس نازک وجود کو دیکھا۔آر بی نے زرش کے قریب ہونے کی کوشش کی۔

'ابھی ہماری بات مکمل نہیں ہوئی ۔ '

آخر کار وجدان کے لبوں سے بھی کچھ لفظ ادا ہوئے تھے۔آر بی نے اس نازک وجود سے اپنا دھیان ہٹا کر پھر سے وجدان کو دیکھا۔

'مقصد کیا تھا تمہارا سکندر اس سب کے پیچھے؟'

آر بی کی بات پر وجدان کے لبوں پر خطرناک سی مسکان آئی۔

'صرف تم سے یہ پوچھنا کہ تم نے ایسا کیا کیوں؟'

وجدان نے اپنی عادت کے مطابق مختصر سی بات کہی لیکن اس سوال پر آر بی کا غصہ بہت بڑھ گیا تھا۔

'تمہیں کیا لگتا ہے کیوں کیا میں نے یہ سب؟؟؟  جلتا تھا میں تم سے سکندر بہت ذیادہ جلتا تھا تمہیں وہ سب ملا جو مجھے چاہیے تھا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھ سے سب کچھ ۔میری ماں کا پیار اور وقت، بابا کی توجہ سب کچھ تم نے صرف پیدا ہونے سے ہی چھین لیا۔۔۔۔'

آر بی نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا ۔

'کیسی بات ہے کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ کئی چیزوں کے لیے ترس ترس کر مر جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو صرف پیدا ہوتے ہی صرف اپنی وراثت کی وجہ سے سب مل جاتا ہے۔ جیسے تمہیں ملا جلتا تھا میں تم سے تمہاری قسمت سے۔۔۔۔جب جب تم ہنستے تھے مجھے تکلیف ہوتی تھی،جب جب ماما بابا تمہیں پیار کرتے تھے میرا روم روم ایک آگ میں جل سا جاتا تھا۔سوچ لیا تھا میں نے کہ تمہیں اتنا ہی جلاؤں گا اتنا ہی رلاؤں گا جتنا تم مجھے جلاتے تھے۔۔۔۔۔ہاہاہاہا اور وہی کیا تھا میں نے ۔سب ویسا ہی ہوا جیسا میں نے چاہا۔'

آر بی کے چہرے پر غرور اور بہت زیادہ شیطانی تھی۔وجدان تو ابھی بھی خاموشی سے وہاں کھڑا اپنی مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔

'اور دیکھو نا وہ سب چھین کر تمہارا دل نہیں بھرا جو تم نے میری محبت بھی مجھ سے چھین لی زرش کو میں نے چاہا تھا اپنی مہر لگائی اس پر ،چھ سال اسکا انتظار کیا،پل پل اسکو ہی اپنی آغوش میں سوچا اور تم۔۔۔۔۔تم نے اسے بھی چھین لیا مجھ سے۔۔۔ '

آر بی نے غصے سے چلا کر کہا اور پھر اپنی مٹھیاں بھینچ کر اپنا دھیان اس نازک وجود سے ہٹا کر وجدان کو دیکھا۔

'لیکن اب میں رومان نہیں جو اپنی خواہش کے چھن جانے پر رو کر چپ کر جاؤں میں آر بی ہوں جو جو چاہتا ہے اسے حاصل کر کے ہی دم لیتا ہے۔۔۔۔۔اب تم دیکھو کے تمہاری آنکھوں کے سامنے کس طرح تمہاری محبت،تمہاری بیوی کی دھجیاں اڑاتا ہوں۔'

آر بی اتنا کہہ کر زرش کے قریب گیا ابھی اس نے اپنا ہاتھ زرش کی طرف بڑھایا ہی تھا جب اسکے کانوں میں وجدان کی آواز پڑی۔

'تم غلط تھے آر بی۔۔۔۔تم میری وجہ سے یا ماما بابا کی وجہ سے تکلیف میں نہیں رہے تھے۔وہ تو تمہیں بھی بہت ذیادہ چاہتے تھے۔۔۔۔۔تم غلط تھے ۔۔۔۔۔میں نے تم سے کچھ نہیں چھینا تم ہی خیرات میں ملی چیز کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے۔۔۔۔تم غلط تھے جو تم نے خود کو ایک شہزادہ تصور کر لیا ۔۔۔۔۔ حالانکہ تم تو صرف ایک نالی کے کیڑے ۔۔۔۔'

آر بی غصے سے چلایا اور آگے بڑھ کر وجدان کو اسکی ہڈی کے گریبان سے پکڑ لیا۔آر بی کی آنکھوں سے غصے اور نفرت کے شرارے نکل رہے تھے۔

'نہیں۔۔۔سکندر نہیں۔۔۔میں کیا ہوں اسکا اندازہ تو تمہیں ابھی ہو جائے گا۔'

آر بی نے غصے سے وجدان کو کہا اور اسے ایک جھٹکے سے چھوڑ کر زرش کی طرف بڑھا۔وجدان کے لبوں پر خطرناک سی مسکان آئی۔

'تم تو ابھی بھی غلط ہی ہو آر بی۔'

اس بات پر آر بی کے چلتے قدم رکے اور اس نے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے وجدان کو دیکھا۔

'میں وہ سکندر نہیں ہوں جس نے تمہارے آدمیوں کو مارا میں تو صرف وہ سکندر ہوں جسے تم نو سال کی عمر میں ہی مار چکے ہو ۔۔۔'

آر بی نے حیرت سے وجدان کو دیکھا۔

'جھوٹ۔۔۔۔۔'

وجدان مسکرایا۔

'تم غلط ہو آر بی یہ جھوٹ نہیں سچ ہے میں سکندر نہیں ہوں۔سکندر تو کوئی اور ہے۔۔۔۔'

وجدان نے مسکرا کر کہا آر بی کے ماتھے پر بل پڑے لیکن اس سے پہلے کہ وہاں موجود ہر شخص کچھ سمجھتا۔زمین پر کب سے پڑا وہ نازک وجود بہت تیزی سے اٹھا اور انتہائی زیادہ مہارت اور تیزی سے قریب کھڑے آدمیوں کی گردن میں گولی مار کر فوراً اپنا ریوالور آر بی کے ماتھے پر رکھ دیا ۔

آر بی کے آدمیوں نے ہڑبڑا کر اپنا دھیان وجدان سے ہٹا کر اس لڑکی پر کیا۔لیکن ہاتھ میں بندوق ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کر پائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اس لڑکی کو گولیوں سے چھلنی بھی کر دیں تو اسے مرنے سے پہلے ایک سیکنڈ نہیں لگے گا انکے باس کے دماغ میں گولی مارتے ہوئے۔

'سکندر میں ہوں۔۔۔۔'

آر بی نے خوف اور حیرت سے سامنے کھڑی ہری آنکھوں والی اس لڑکی کو دیکھا جسکا صرف چہرہ ہی زرش کا تھا آنکھیں اور آواز نہیں۔پھر سامنے کھڑی لڑکی نے اپنے چہرے پر سے ماسک ہٹا کر آر بی کی یہ کنفیوژن بھی مٹا دی۔اس لڑکی کو آر بی نے نو سال کی عمر میں دیکھا تھا لیکن پھر بھی ایک سیکنڈ میں اسے پہچان گیا تھا۔گیارہ سال پہلے کا ہر واقعہ آر بی کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا تھا۔

'ع۔۔۔۔عشال درانی۔۔۔۔۔'

آر بی اپنے ماتھے پر بندوق دیکھ کر ڈر گیا ۔اس نے عشال کو دھکا دینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو عشال نے ایک سیکنڈ کے وقت میں ریوالور اسکے سر سے ہٹا کر اسکے ہاتھ پر گولی ماری اور ریوالور کا رخ واپس اسکے سر کی طرف کر دیا۔آر بی تڑپ کر زمین پر گرا تھا اور پر خوف نگاہوں سے اپنے آدمیوں کو دیکھا کر اشارہ کیا۔

پہلی گولی کی آواز پر ہی عشال بہت تیزی سے ایک پلر کے پیچھے چھپی تھی۔جبکہ وجدان بھی آر بی کی گردن اور اسکے ہاتھ کو دبوچ کر اسے اپنی ڈھال بنا چکا تھا۔

تبھی اندھیرے میں سے پانچ آدمیوں نے نکل کر آر بی کے آدمیوں پر حملہ کر دیا جن میں سے ایک سعد بھی تھا جو اپنے ماہر نشانے سے ہر سامنے آنے والے آدمی کو ڈھیر کرنے لگا۔لیکن سعد کا دھیان اپنے پیچھے موجود آدمی پر نہیں گیا جو سعد کے سر کا نشانہ لے چکا تھا ۔

مگر اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا ایک گولی اس آدمی کی گردن کو چیر کر آر پار ہو گئی تھی۔سعد نے پہلے حیرت سے اپنے پیچھے ڈھیر ہونے والے اس آدمی کو دیکھا اور پھر اس نے گولی چلانے والے کو دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ گولی کسی اور نے نہیں عشال نے چلائی تھی ۔سعد عشال اور اس آدمی کے فاصلے کو دیکھتے ہوئے عشال کے نشانے کو داد دیے بغیر نہیں رہ پایا تھا۔

آر بی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو گیا تھا۔آر بی کا جال تو بہت ذیادہ مظبوط تھا پھر کیسے وہ اس میں خود ہی پھنس گیا؟اور،اسکے اتنے آدمی باہر بھی تو موجود تھے انکا کیا وہ اندر کیوں نہیں آئے؟

'باہر والوں کی فکر مت کرو وہ تو کب سے آرمی کے ہاتھ لگ گئے ہوں گے۔'

وجدان ہی بات پر آر بی حیران اور پریشان ہوا تھا۔تبھی آر بی کی نظر فیض پر پڑی جو سہم کر ہر چیز کو دیکھ رہا تھا اور پھر فیض کی نظر اپنے آپ کو گھورتے ہوئے آر بی پر پڑی۔

'مم۔۔۔۔۔میں مجبور تھا باس ان سب کے پاس میرے بیوی بچے ہیں۔۔۔' 

فیض نے سر جھکا کر کہا۔آر پہلے تو ضبط کر کے کھڑا رہا پھر غصے سے اپنی پوری طاقت لگا کر وجدان کو دھکا دیا اور جلدی سے فیض کے پاس جا کر اسکے ہاتھ سے بندوق چھین کر ایک گولی فیض کے دماغ میں ماری اور پھر فوراً اپنی بندوق کا رخ وجدان کی طرف کیا لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔

تبھی بہت مظبوط ہاتھ نے پیچھے سے آر بی کی گردن کو دبوچا۔

'بس بلو اب تیری ہر کوشش بے کار ہے۔ہار چکا ہے تو۔'

وجدان نے اسکو دھکا دیا آر بی نے فوراً بندوق آگے کر کے گولی چلانے کی کوشش کی تھی لیکن وجدان اس سے پہلے ہی گلے کے لاکٹ میں چھپایا ہوا وہ چھوٹا سا نوکیلا ہڈی کی مانن چاقو چین سے نکال کر آر بی کے بندوق والے ہاتھ میں گاڑ چکا تھا۔ایک دردناک چیخ کے ساتھ بندوق آر بی کے ہاتھ سے چھوٹی جسے وجدان نے پکڑ لیا تھا۔

'تیری ہار تیرے سامنے ہے بلو۔۔۔'

وجدان کے مسکرا کے ایسا کہنے پر آر بی نے پریشانی سے ارد گرد دیکھا۔اسکا ہر آدمی مر چکا تھا۔کوئی بھی زندہ نہیں تھا سوائے آر بی کے۔

تبھی آر بی کی نظر عشال پر گئی جو وہ انتہائی زیادہ غصے سے آر بی کو دیکھ رہی تھی۔اسکی مظبوطی دیکھ کر آر بی حیران ہوا تھا۔

'ایسے کیوں دیکھ رہے ہو آر بی ایک مظبوط عورت تم سے برداشت نہیں ہو رہی کیا؟۔۔۔ ہاں یاد ہے مجھے کہ تم نے کہا تھا کہ میں ایک لڑکی ہوں جو پیدا ہی کمزور ہوتی ہے کچھ نہیں کر پاؤں گی تمہارے خلاف سوائے تمہیں بدعا دے کر خاموش ہو جانے کے۔۔۔۔۔لیکن افسوس میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں ۔۔۔۔' 

عشال انتہائی غصے سے آگے بڑھی اور آر بی کو گریبان سے پکڑ کر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا۔آر بی نے خود کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن عشال بغیر کچھ دیکھے یا سوچے سمجھے آر بی کو پہلے اپنے ہاتھوں اور پھر اپنے پیروں سے مار رہی تھی۔

آر بی نے اپنے بچاؤ کی کوشش میں عشال کو کئ بار مارنے کی کوشش کی لیکن اسکی ہر کوشش ناکام رہی ۔عشال نے انتہائی زیادہ غصے کے عالم میں اپنا پیر آر بی کے پیٹ میں مارا جس سے آر بی تڑپ اٹھا۔

'ہر گنہگار کا وقت آتا ہے آر بی تمہیں کیا لگا تھا کہ تم کبھی نہیں پکڑے جاؤ گے۔ہمیشہ اپنی خود غرضی میں دوسروں کو تکلیف پہنچاتے رہو گے۔'

عشال نے دور ہو کر اپنا ریوالور پھر سے آر بی پر تانا ۔کیا کچھ نہ تھا عشال کی آنکھوں میں نفرت ، غصہ ،تکلیف ،کرب۔۔۔

'نہیں عشال۔۔۔۔' 

وجدان کی بات پر عشال نے ایک نظر وجدان کو دیکھا اور پھر غصے سے اپنے ریوالور کا رخ بدل کر آر بی کی ٹانگ میں بھی گولی مار دی۔آر بی درد سے بلبلا اٹھا تھا آج سچ میں اسکے گناہوں کا گھڑا بھر چکا تھا۔

تبھی سعد بھی وہاں بھاگ کر آیا جو نا جانے کب سے یہ سب حیرت سے دیکھ رہا تھا اب اسکی حیرت کا سارا مرکز عشال تھی۔

وجدان نے آگے بڑھ کر آر بی کو گریبان سے جکڑا۔ خالی عشال نے ہی مار مار کر اسکی حالت خراب کر دی تھی۔ 

'تت۔۔۔م کچھ ثابت نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔۔دو دن میں چھوٹ جاؤں گا میں جیل سے۔۔۔۔۔'

آر بی کی بات پر وجدان مسکرا دیا ۔

'فکر مت کرو تم جیل نہیں جا رہے لیکن جہاں جاؤ گے نا وہاں دعا کرو گے کہ کاش میں جیل میں ہی ہوتا۔۔۔'

وجدان نے غصے سے کہا اور آر بی کا سر پکڑ کر بہت زور سے دیوار پر مارا خون کی ایک لکیر آر بی کے سر پر سے نکلی اس کے بعد وجدان نے اسے ویسے ہی مارا جیسے وجدان نے زرش کی کمر پر چوٹوں کے نشان دیکھے تھے۔کچھ دیر بعد ہی آر بی بے ہوش ہو چکا تھا۔وجدان غصے کے عالم میں اس سے دور ہوا۔

'ہمیں اسے یہاں سے لے کر جانا ہو گا ورنہ یہ مر جائے گا۔'

وجدان نے مڑ کر سعد سے کہا لیکن سعد تو مسلسل عشال کو گھورنے میں مصروف تھا اور جواباً عشال بھی اسے ہی گھور رہی تھی 

'وجدان مجھے بتاؤ یار کیا سچ میں یہی سکندر ہے پلیز مجھے بتاؤ میں پاگل ہو جاؤں گا۔'

سعد نے بے چینی سے عشال کو دیکھتے ہوئے اپنی بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔

'کیوں ایجنٹ جی آپکو ابھی بھی کوئی شک ہے ۔۔۔۔؟؟؟ ویسے دنیا میں صرف آپکا ہی نشانہ اچھا نہیں ہے۔'

عشال نے اسکی جان بچانے والے واقعے کر چوٹ کی۔

'مطلب تم اتنا عرصہ ہمیں بے وقوف بناتی رہی یہ کہہ کر کہ سکندر تمہیں مارنا چاہتا ہے حالانکہ سکندر تم خود تھی۔'

سعد نے انتہائی ذیادہ حیرت سے کہا۔

'سعد اس سب کا وقت نہیں ہے چلو یہاں سے۔'

وجدان کی بات پر سعد نے بہت مشکل سے اپنا رخ عشال پر سے ہٹایا اور وجدان کے ساتھ مل کر آر بی کو اسی خفیہ راستے سے نکالا جہاں سے چھے سال پہلے آر بی بھاگا تھا اور آج سعد چھپ کر وہاں سے داخل ہوا تھا۔وجدان نے آربی کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھینکا اور دروازہ لاک کردیا۔عشال خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور وجدان نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔

'سعد وہیں پہنچو جہاں زرش ہے۔'

سعد کے اثبات میں سر ہلاتے ہی وجدان وہاں سے چلا گیا۔سعد کتنی ہی دیر وہاں کھڑا سوچتا رہا۔

کل ہی تو وجدان نے سعد کو یہ کہا تھا کہ اسے سکندر بن کر زرش کو گھر سے ہی کڈنیپ کرے اور عثمان کی ایک پرانی فیکٹری میں بند کرے۔سعد نے بہت ذیادہ حیرت سے وجدان سے اس سب کی وجہ پوچھی تو جواب میں وجدان نے اتنا ہی کہا تھا کہ سعد اس پر بھروسہ رکھے۔سعد نے زرش کو ڈرانےکے لیے جو کچھ کہا تھا اسے ایسا کہنے کے لیے وجدان نے ہی بولا تھا۔

سعد اس اب کی وجہ تو نہیں جانتا تھا لیکن اسے وجدان پر بھروسہ تھا۔حیران تو سعد تب ہوا جب وجدان کی بتائی ہوئی جگہ پر زرش کو بند کرنے کے بعد اسے وہاں عثمان بھی ملا ۔ زرش کو جس کمرے میں بند کیا گیا تھا وہاں پر طرف خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے تا کہ اگر زرش کی طبیعت تھوڑی سی بھی خراب ہوتی تو وہ لوگ فوراً زرش کے پاس پہنچ سکتے۔

زرش کو اس کمرے میں بند کر کے سعد نے وجدان کو فون کر کے سب بتایا تو وجدان نے ہی اسے عثمان کے گارڈز کو لے کر اس جگہ پر بلایا اور وہاں کے بارے میں سب بتا دیا۔اسی لیے سعد اور گارڈز انتہائ خاموشی سے وہاں پر آ کر چھپ گئے تھے۔

عثمان نے وجدان کے کہنے پر ہی فیض کی بیوی اور بچوں کو اٹھوا لیا تھا اور پھر فیض نے ڈر کر انکی سلامتی کے لیے آر بی کا تمام پلین وجدان کو بتا دیا جس میں وجدان نے الٹا آر بی کو ہی پھنسا دیا تھا۔

شایان بھی وجدان کے بتانے پر ہی وہاں آرمی لے کر پہنچا تھا۔آرمی نے مقابلہ کر کے باہر موجود تمام آدمیوں کو پکڑ لیا تھا لیکن زمین کے اندر موجود خفیہ جگہ کہ بارے میں وہ لوگ کچھ نہیں جانتے تھے اسی لیے باہر موجود تمام دہشتگردوں کو آرمی پکڑ چکی تھی ۔

وجدان کا پلین بہت ذیادہ اچھا تھا اور انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی مگر ایک بات سعد سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ عشال کیوں اور کیسے سکندر ہو سکتی ہے۔مقصد کیا تھا اسکا؟ اور وہ کیوں آر بی سے اتنی نفرت کرتی ہے؟سعد کو اس بات کا تو اندازہ ہو ہی گیا تھا  کہ عشال کوئی بے وقوف سی نازک مزاج لڑکی نہیں ہے جیسا کہ وہ دکھاوا کرتی رہی۔لیکن وہ ایسی کیونکر بنی اور اسے ضرورت کیوں پیش آئی؟

بہت سے سوال سعد کے ذہن میں گردش کر رہے تھے جن کا جواب صرف وجدان یا عشال ہی دے سکتے تھے۔

'یار اتنا عرصہ اس لڑکی نے ہم ایجنٹس کو بے وقوف بنایا۔کہاں کہاں ڈھونڈتے رہے ہم اس سکندر کو اور دوسری طرف سکندر کی حفاظت بھی خود ہی کرتا رہا میں۔۔۔۔۔میں نے اس بات پر غور کیوں نہیں کیا کہ پہلے سکندر کا شکار جو لوگ ہوتے تھے وہ ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے لیکن جب سے عشال ہمارے ساتھ آئی تو لوگ وہیں مرنے لگے جہاں ہم جاتے تھے۔کوہاٹ زیارت ۔اف اب پتہ چلا اسکے ہر وقت موبائل اور ٹیب پر وقت گزارنے کی وجہ عشال ہیکر ہے اور اپنے شکار کی ساری انفارمیشن وہ آن لائن ہی حاصل کر لیتی ہے۔اسی لیے رات دیر تک جاگ کر دن دو دو بجے تک سوتی رہتی تھی کیونکہ ہمارے سونے کے بعد وہ شکار کر کے واپس بھی آ جاتی تھی۔۔۔۔۔افففف کبھی اسکا سامان کیوں نہیں چیک کیا میں نے اور نہ ہی ک

اسکا موبائل وغیرہ۔۔۔۔'

سعد نے یہ سب سوچتے ہوئے اپنے بال بے چینی سے نوچے۔

'اس قدر چالاک نکلی یہ پٹاخہ اففف تیرا کیا ہو گا سعدے۔۔۔۔'

سعد اتنا سوچ کر مسکرا دیا وہاں کھڑی بائیک پکڑ کر وہ بھی انکے پیچھے چلا گیا۔

                          🌈🌈🌈🌈

سعد وہاں پہنچا تو وجدان اور عشال عثمان کے بتائے ہوئے کمرے میں آر بی کو پہلے سے بند کر چکے تھے۔وجدان نے اسکی چوٹوں پر پٹی بھی کر دی تھی تا کہ وہ مر نہ جائے۔اسکو اتنی آسانی سے موت نصیب نہیں ہونی تھی وجدان اور عشال نے جو انجام اسکا سوچا تھا آر بی کو اب سے گزرنا تھا اسی لیے تو وجدان نے اسے باقی کے دہشتگردوں کی طرح آرمی کے حوالے نہیں کیا تھا۔

وجدان اس وقت کیمرہ سے کنیکٹیڈ مانیٹرز کے پاس کھڑا بہت پریشانی سے کمرے میں بند زرش کو دیکھ رہا تھا۔

'تمہیں لگتا ہے کہ یہ سہی آئیڈیا ہے اگر کچھ الٹا ہو گیا تو۔'

وجدان نے کم از کم دسویں بار یہ سوال عثمان سے پوچھا تھا۔

'ہاں میں نے سائیکالوجیسٹ سے بات کی ہے بعض اوقات ایک خوف کو مٹانے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ انسان اپنے خوف کا سامنا کرے اور وہی سامنا ہمیں زرش کو بھی کروانا ہے۔'

وجدان نے ہاں میں سر ہلایا مگر چہرے پر پریشانی کے آثار بہت واضح تھے۔

'اگر کچھ الٹا ہو گیا تو؟'

'یہاں سے پانچ منٹ کی مسافت پر ایک ہاسپیٹل ہے ہم فوراً زرش کو وہاں لے جائیں گے۔'

وجدان نے پھر سے اثبات میں سر ہلایا۔

'تمہارا شکریہ ملک۔۔۔'

'تم مجھے عثمان بلا سکتے ہو وجدان۔۔۔اور رہی بات یہ سب کرنے کی تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تمہارا بہت بڑا احسان ہے مجھ پر جسکا قرض میں شاید ہی چکا سکوں۔'

عثمان کی بات پر وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر کمرے میں سہم کر روتی ہوئی زرش کو دیکھنے لگا۔وجدان کو وہ آنسو اور خوف بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہے تھے ۔یہ اسکی مجبوری ہی تھی ورنہ وہ کب سے زرش کو وہاں سے نکال چکا ہوتا۔لیکن اسے ابھی بے بسی سے انتظار ہی کرنا تھا۔عثمان فون سننے باہر چلا گیا تو سعد وجدان کے پاس آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

'سب ٹھیک ہو جائے گا وجدان تم فکر مت کرو۔'

وجدان نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔سعد بھی کافی دیر وجدان کے پاس بیٹھا رہا پھر اسکی نظر ایک مانیٹر پر پڑی جہاں عشال آر بی کے پاس کھڑی نا جانے اسے کیا کہہ رہی تھی۔

'وجدان تمہیں کیسے پتہ چلا عشال کے بارے میں کہ وہ سکندر ہے؟'

سعد کے سوال پر وجدان مسکرایا۔

'شک تو مجھے اس پر تب ہی ہو گیا تھا جب میں نے پہلی بار اس سے سکندر کے بارے میں بات کی تھی۔سکندر کے بارے میں بتاتے ہوئے اسکے سارے چہرے پر خوف کے آثار تھے لیکن وہ خوف اسکی آنکھوں تک نہیں پہنچا تھا۔لیکن تب میرا وہ شک بہت زیادہ کمزور تھا۔'

سعد نے ہاں میں سر ہلایا۔

'پھر وہاں زیارت میں میری نظر عشال کی کھڑکی سے نکلتے ایک کالے کپڑوں میں ملبوس وجود پر گئی میں نے اسکا پیچھا کیا اسے پکڑنے ہی والا تھا لیکن وہ دھند کا فائدہ اٹھا کر غائب ہو گئی ۔ میں نے واپس آ کر عشال کو چیک کیا تو وہ بلکل ٹھیک تھی۔تب مجھے عشال پر یہ شک ہوا کہ وہ سکندر کے ساتھ ملی ہوئی ہے لیکن یہ میں نے نہیں سوچا تھا کہ وہ خود ہی سکندر  ہو سکتی ہے۔'

سعد نے مسکرا کر عشال کو دیکھا جو کافی غصے سے آر بی کو دیکھتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔

'پھر میں نے اس پر نگرانی رکھنی شروع کر دی۔وہ کافی وقت موبائل پر گزارتی تھی جو خود میں ہی ایک مشکوک بات تھی۔اس لیے اس دن میں نے عشال کے ساتھ ٹکرانے کے بہانے سے اسکا موبائل گرایا اور اس موبائل کو اٹھا کر عشال کو پکڑانے کے بہانے سے ایک چھوٹا سا ٹریکر اسکے موبائل کی سائیڈ میں لگا دیا۔عشال بھی سمجھ چکی تھی کہ مجھے اس پر شک ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس آدمی کے پیچھے اس کلب میں گئی تھی اور وہیں میں نے عشال کو پکڑ لیا۔'

وجدان سعد کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

'اور سب سے بڑی بات۔'

'کیا؟؟؟'

سعد نے حیرت سے پوچھا۔

'عشال سب سے یہی کہتی رہی کہ سکندر کی آنکھیں سبز ہیں مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ سبز آنکھیں تو اسکی اپنی بھی ہیں۔سکندر کی یہ نشانی بتا کر وہ اپنی طرف ہی تو اشارہ کرتی تھی۔'

وجدان کی آواز میں ایک عجیب طرح کی عقیدت اور فخر تھا۔

'مگر وہ تمہارا ساتھ دینے کے لیے کیوں مانی؟'

سعد کے سوال پر وجدان نے گہرا سانس لیا۔

'کیونکہ ہم دونوں کا ایک ہی دشمن تھا آر بی اور ہم دونوں نے کبھی بھی نہیں سوچا کہ زندگی ایسے موڑ پر بھی آ جائے گی۔'

وجدان نے گہری سوچ کے عالم کہا۔سعد کے ماتھے پر بل گہرے ہوئے تھے۔

'لیکن یار مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی آخر عشال کی دشمنی کیا تھی آر بی سے؟اسے سکندر بننے کی ضرورت ہی پیش کیوں آئی؟ '

سعد کی بات پر وجدان نے گہرا سانس لیا۔

'میں تمہیں یہ سب نہیں بتا سکتا سعد یہ باتیں عشال کے بتانے کی ہیں اور اگر عشال چاہے گی تو وہ خود تمہیں سب بتا دے گی۔'

سعد وجدان سے سب جاننا چاہتا تھا لیکن سعد یہ بھی جانتا تھا کہ وجدان کی بات بلکل صیح ہے۔وہ ان تمام سوالوں کے جواب عشال سے ہی مانگے گا۔تبھی عثمان اور عشال  کمرے میں داخل ہوئے۔

'وجدان مجھے لگتا ہے یہی وقت صیح رہے گا۔'

وجدان نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں رات کے دس بج رہے تھے اس نے اثبات میں سر ہلایا اور عثمان کے ساتھ باہر کی طرف چل دیا۔

'سعد اور عشال تم دونوں زرش کی ہر حرکت پر غور کرنا اگر کچھ بھی گڑبڑ ہو یا زرش زیادہ ہی پینک کرے تو تم لوگ فوراً مجھے بتاؤ گے اور یہ کھیل ہم وہیں روک دیں گے۔'

عشال نے ہاں میں سر ہلایا اور سعد کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔وجدان بھی عثمان کے ساتھ باہر چلا گیا تھا۔سعد مسلسل ساتھ بیٹھی عشال کو گھور رہا تھا۔پہلے تو عشال اپنا سارا دھیان مانیٹرز پر رکھ کر بیٹھی رہی اور پھر سعد کی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔

'ہائے ایجنٹ جی۔'

عشال نے مسکرا کر ہمیشہ والی شرارت سے کہا لیکن یہ اسکا اصلی روپ نہیں تھا ۔وہ روپ جو سعد نے آج دیکھا تھا۔سعد اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورتا رہا تھا۔

'ایسے مت دیکھیں ایجنٹ جی ورنہ میں سمجھوں گی کہ آپ مجھ سے جیلس ہو رہے ہیں۔'

سعد نے فوراً اپنا رخ مانیٹرز کی طرف کر دیا اور زرش والے مانیٹر پر غور کرنے لگا۔

'ہم اس کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔'

عشال نے بھی بلکل سعد کی طرح اپنا رخ بھی مانیٹر کی طرف کر لیا۔

'شوق سے۔'

پھر وہ دونوں خاموشی سے زرش کو دیکھنے لگی جو ابھی بھی زمین پر بے بسی سے لیٹی رو رہی تھی۔

                          🌈🌈🌈

زرش نہیں جانتی تھی کہ کتنا وقت گزر چکا تھا۔اس اندھیرے میں تو اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ رات ہے یا دن بس دو دفعہ ایک نقاب پوش آدمی اسے پانی پلانے آیا تھا۔

زرش کے ذہن میں صرف سعد کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔

کیا سچ میں وہ بزدلی کی وجہ سے اتنی بڑی سزا کی حقدار تھی کہ اسے ساری زندگی کے لئے اس پنجرے میں قید کر دیا جاتا ۔اس کمرے میں کہیں سے بھی زرہ برابر روشنی نہیں آ رہی تھی اور اب اس اندھیرے سے زرش کو وحشت ہو رہی تھی۔

اللہ تعالی آپ نے ہمیشہ میری مدد کی ہے ابھی بھی میری مدد کر دیں میرے وجدان کو بھیج دیں میرے پاس۔آپ نے ہی تو انہیں میرا مسیحا بنایا تھا نا۔اب بھی انہیں بھیج دیں میرے پاس۔

زرش نے زارو قطار روتے ہوئے دعا کی اور پھر نا جانے کتنی ہی دیر اپنے خاموش لبوں سے وجدان کا نام لیتی رہی۔

'نور۔۔۔۔'

کافی دور سے ایک ہلکی سی آواز زرش کی سماعتوں سے ٹکرائی اور اس آواز کو تو زرش کہیں پر بھی پہچان سکتی تھی۔اس نے کیسے سوچ لیا کہ اسکا مسیحا اسے بچانے نہیں آئے گا۔

زرش نے ہلنے کی کوشش کی کسی طرح آواز پیدا کر کے وجدان کو بلانے کی کوشش کی لیکن جس طرح سے اسے باندھا گیا تھا ہلنا تقریباً ناممکن تھا۔بہت محنت کے بعد زرش ایک انچ ہی ہل پائی تھی۔

مگر اسے کسی طرح سے آواز پیدا کرنی تھی وجدان کو مخاطب کرنا تھا وہ ہمت نہیں ہار سکتی تھی۔

'نور کہاں ہو تم۔؟'

وجدان کی آواز تھوڑے قریب سے سنائی دی تھی اور اسکے ساتھ ہی زرش کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا تھا مگر وہ بے بس تھی بہت بہت ذیادہ بے بس۔

'تم تو اتنی بے بس ہو کہ کسی کو اپنی مدد کے لیے پکار بھی نہیں سکتی۔قید رہو گی اس کال کوٹھری میں اور کوئی ڈھونڈ نہیں پائے گا تمہیں کبھی بھی پکارتا رہ جائے گا وہ تمہیں اور تم جواب بھی نہیں دے سکو گی۔'

سعد کے الفاظ اسکے ذہن میں گھومے بہت سے آنسو ان کانچ سی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے تھے۔زرش کو خود سے نفرت ہو رہی تھی اپنی بے بسی سے نفرت ہو رہی تھی۔زرش بے بسی سے لیٹ کر رونے لگی تھی۔

'نور میری جان کہاں ہو تم جواب دو۔۔۔۔۔'

وجدان کی آواز مزید قریب سے سنائی دی تھی۔زرش بے بسی سے بس روئے جا رہی تھی۔کاش وہ ایسی نہ ہوتی کاش وہ بے آواز نا ہوتی تو آج چلا چلا کر وہ وجدان کو بلا لیتی۔

'چاہے کچھ بھی ہو جائے تم اپنے آپ کو مظبوط رکھنا کیونکہ تم کمزور نہیں ہو زرش تم بہادر ہو بہت ذیادہ بہادر۔میں کبھی بھی تمہیں بلاؤں تو تم مجھے جواب دو گی دو گی نا؟' 

اب کی بار وجدان کی آواز اسکے دماغ میں گونجی لیکن ان الفاظ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔زرش جانتی تھی کہ وہ بے بس تھی اور یہ کبھی بھی بدلنے والا نہیں تھا۔زرش مکمل طور پر ہار مان چکی تھی وہ ٹوٹ چکی تھی۔

'نور میری جان بلاؤ مجھے۔۔۔۔'

تبھی زرش کو وجدان کی آواز بلکل اس دروازے کے باہر سے آئی تھی زرش نے پھر سے ہلنے کی کوشش کی کچھ کرنے کی کوشش کی مگر سب بے سود تھا۔زرش نے اپنے لب کھول کر چلانے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی آواز باہر نہیں آئی تھی۔

'چلو وجدان مجھے نہیں لگتا زرش یہاں ہے ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے۔'

عثمان کی آواز پر زرش نے زور زور سے انکار میں سر ہلایا تھا۔

'نہیں عثمان میرا دل کہتا ہے کہ میری نور یہیں ہے وہ پکارے گی مجھے دیکھنا تم۔۔۔نور۔۔۔۔'

وجدان کی آواز پر زرش پھر سے رونے لگی قہ پکار تو رہی تھی وجدان کو اپنے دل دماغ میں کئ دفعہ اسے بلا چکی تھی۔وجدان ۔۔۔۔۔۔وجدان۔۔۔۔۔۔وجدان۔۔۔۔۔

ہاں چلو عثمان وہ سچ میں یہاں نہیں ہے۔'

وجدان کی اس بات پر زرش کو لگا اسکا دل بند ہو جائے گا۔وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی تھی اور وجدان کے دور جاتے قدموں کی آواز تو مایوسی کا اندھیرا تھی۔

زرش نے ایک بار پھر سے اپنے لب کھولے اور وجدان کا نام پکارا لیکن کوئی آواز باہر نہیں آئی تھی۔زرش نے روتے ہوئے اپنا سر زمین پر پٹخا تھا وہ ہار رہی تھی ہاں وہ ہار رہی تھی۔

تم بہادر ہو نور بہت بہادر۔۔۔'

وجدان کی آواز اندھیرے میں ایک چھوٹی سی کرن کی مانند تھی۔زرش نے اپنی آنکھیں زور سے میچ کر اپنے لب کھولے تھے۔

'ووو۔۔۔۔۔' ہلکی سی آواز زرش کے لبوں سے نکلی تھی۔

'وجج۔۔۔د۔۔۔۔'

آواز پہلے سے تھوڑی ذیادہ ہوئی تھی۔زرش نے مزید ہمت باندھی ہاں وہ بہادر  تھی بہت بہادر۔۔۔۔

'وجدان۔۔۔۔!!!!'

                         🌈🌈🌈

'وجدان۔۔۔۔۔!!!'

آواز تھی یا خدا کی کوئی رحمت جو وجدان کی پوری زندگی میں خوشیاں بکھیر گئی تھی۔خوشی کے کئی آنسو ٹوٹ کر ان سبز آنکھوں سے گرے تھے لبوں پر بے ساختہ الحمداللہ آیا۔عثمان نے بھی مسکرا کر اپنا ہاتھ وجدان کے کندھے پر رکھا۔

'وجدان۔۔۔۔' 

آنسوؤں سے رندھی وہ آواز وجدان کو پھر سے سنائی دی تو وجدان بھاگ کر اسے دروازے کے پاس گیا اور ایک زور دار دھکے سے دروازہ کھول کر بے چینی سے زرش کو کھولنے لگا۔زرش ابھی بھی زور سے آنکھیں میچے اسکا نام چلا رہی تھی۔

وجدان نے اسے کھول کر اپنے سینے میں بھینچا تھا۔بہت سے آنسو وجدان کی آنکھوں سے بہہ کر زرش کے بالوں میں جزب ہو گئے تھے۔

'وجدان۔۔۔۔'

زرش اسکے سینے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

'یہیں ہوں نور خان میں تمہارے پاس ہوں ہمیشہ۔۔۔'

وجدان نے اپنی پکڑ مظبوط کر کے کہا۔

'وو۔۔۔۔وجدان۔۔۔۔میں۔۔۔۔آآآ۔۔۔۔۔آپ کو بلا۔۔۔۔رہی تھی۔۔۔۔ببب۔۔۔بہت دیر سے۔۔۔۔۔بلا۔۔۔۔رر۔۔۔۔رہی تھی۔۔۔۔آپ ننن۔۔۔۔۔نہیں آ رہے۔۔۔۔۔تھے۔۔۔'

وجدان نے زرش کے بالوں کو چوم کر بہت بے شدت سے اسے اپنی باہوں میں کسا۔زرش کو تو لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بھی اپنے دماغ میں ہی بول رہی ہے۔

'میں ہمیشہ آؤں گا نور جب جب تم پکارو گی تمہارا وجدان ضرور آئے گا۔'

وجدان نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر بہت شدت سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوما ۔

'وجدان۔۔۔'

'ہاں جان وجدان۔۔۔'

وجدان نے مسکرا کر بہت محبت سے پوچھا۔زرش نے بھی اپنے آنسو ضبط کر کے منہ بسورا ۔

'سس۔۔۔سعد بھائی۔۔۔۔بہت برے ہیں۔۔۔۔۔آپ ان کو بہت۔۔۔۔۔مارنا۔۔۔'

وجدان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور پھر سے زرش کو اپنی باہوں میں کسا تھا۔

'آئی لو یو نور۔۔۔۔ آئی لو یو مور دین مائے لائف۔'

یہ الفاظ کہتے ہوئے سبز آنکھیں پھر سے بھیگ گئی تھیں۔

                         🌈🌈🌈

 فاطمہ بیگم جائے نماز پر بیٹھیں کب سے روتے ہوئے دعائیں مانگ رہی تھیں اور سلمان صاحب بہت پریشانی سے انہیں فیکھ رہے تھے۔وجدان نے زرش کی آواز واپس لانے کے اس منصوبے کے بارے میں سلمان صاحب کو بتایا تھا جس کی وجہ سے سلمان صاحب کافی پریشان تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ انکی بیٹی کے ساتھ مزید کچھ برا ہو۔

گاڑی کے پورچ میں رکنے کی آواز آئی تو فاطمہ بیگم بے چینی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی تھیں۔سلمان صاحب بھی اپنی ویل چیر پر انکے پیچھے چل دیے تھے۔جانان اور حمنہ بھی بے چینی سے کمرے میں سے باہر آئی تھیں۔

فرنٹ سیٹ سے عثمان اور سعد باہر نکلے اور بیک سیٹ سے وجدان اور عشال۔ وجدان نے زرش کو گاڑی سے باہر نکالا تو فاطمہ بیگم روتے ہوئے زرش کے پاس گئیں اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔جانان اور حمنہ بھی خوشی کے عالم میں روتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹی تھیں۔

نا جانے کتنی ہی دیر فاطمہ بیگم اور زرش ایک دوسرے سے لپٹی روتی رہیں پھر فاطمہ بیگم نے اسے خود سے دور کر کے بے چینی سے زرش کے چہرے کو چوما۔زرش کا دھیان سلمان صاحب کی طرف گیا تو وہ فاطمہ بیگم سے دور ہو کر سلمان صاحب کے پاس جا کر اپنے گھٹنوں پر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔

'بب۔۔۔بابا۔۔۔۔'

چھ سال بعد اپنی بچی کی آواز سن کر سلمان صاحب نے روتے ہوئے زرش کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔فاطمہ بیگم کے آنسو بھی غم کے آنسوؤں سے بدل کر خوشی اور حیرت کے آنسو بن گئے تھے۔

حمنہ اور جانان بھی روتے ہوئے مسکرا دیں۔

'بابا۔۔۔۔ میں۔۔۔بول سکتی۔۔۔۔'

زرش کے ایسا کہنے پر سلمان صاحب کے رونے میں روانی آ گئی تھی۔آج صیح معنوں میں انکی بیٹی اس شیطان کے چنگل سے آزاد ہو گئی تھی۔

'شکر ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔'

فاطمہ بیگم نے زرش کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔عثمان گاڑی کے پاس سے چل کر روتی ہوئی حمنہ کے پاس آیا تھا۔

'چلیں بھئی بہت رو لیا سب نے اب خوشی کا موقع ہے تو خوشی سے  مناتے ہیں اسے۔'

عثمان کی بات پر سب لوگ مسکرا دیے تھے۔

'بلکل بھئ یہ خوشی کوئی چھوٹی موٹی سیلیبریشن سے نہیں منائی جائے گی کوئی بڑا سا فنکشن کریں۔'

عشال نے آگے ہو کر چہکتے ہوئے کہا۔سب نے ہاں میں سر ہلایا۔

'ہمم ۔۔۔۔۔تین دن کا وقت دیں بس مجھے وجدان اور زرش کے ولیمے کی تیاری کرتے ہیں اسی حویلی میں آپ سب لوگوں کو دعوت دے دیں۔'

عثمان کے اس فیصلے پر سب لوگ خوش نظر آئے تھے جبکہ سب سے خوشی تو عشال اور جانان کو ہوئی تھی۔ان دونوں کا بس چلتا تو یہیں ناچنے لگ جاتیں۔کسی کو خوشی کے عالم میں اس گاڑی کی آواز ہی نہیں آئی جو اب وہاں پورچ میں آ کر کھڑی ہوئی اور دو لوگ اس گاڑی سے باہر نکلے۔

'بے غیرت دوست۔۔۔۔ہمارے بغیر ہی ہمارا بیٹا کا نکاح کر دیا اور اب ولیمے کا بھی سوچ لیا واہ۔۔۔'

سب نے اس کار کی طرف دیکھا جہاں شایان کے ساتھ ہاشم صاحب کھڑے سلمان صاحب کو گھور رہے تھے۔

'بابا۔۔۔'

ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ وجدان ہاشم صاحب کی طرف بڑھا۔

'چپ کر بابا کا بچہ۔۔۔۔مانا کچھ زیادہ ہی بگڑ گیا ہے تم  کان کھینچے گا نا ہم تمہارے پھر عقل آئے گی تمہارے کو۔'

ہاشم صاحب کی بات پر سب قہقہہ لگا کر ہنسے یہاں تک کے سلمان صاحب کے سینے سے لگی زرش بھی مسکرا دی ۔

'کوئی ولیمہ نہیں ہو رہا یہاں۔'

سب کے لبوں کی مسکان پل بھر میں غائب ہوئی ۔زرش نے گھبرا کر سلمان صاحب کے سینے میں مزید مظبوطی سے چھپی۔

'ہم باقاعدہ شادی کرے گا اپنے بیٹے کا اور تم سب کو پتہ چلے گا کہ ایک پٹھان کا شادی کیا ہوتا ہے؟'

اس بات پر سب ہنس دیے ۔ہاشم صاحب چل کر زرش کے پاس آئے۔

'چھوڑ ہمارا بیٹی کو تم تو سانس ہی بند کر دینے لگا ہے اسکا۔'

ہاشم صاحب نے زرش کو کندھوں سے تھام کر کھڑا کیا زرش نے فوراً اپنا سر جھکا لیا تھا وہ گھبرا گئی تھی کہ اگر وجدان کے بابا کو وہ پسند نہیں آئی تو کیا وجدان اسے چھوڑ دے گا؟

'ماشااللہ ماشااللہ ہمارا بیٹی تو اتنا پیارا ہے وجدان روز نظر اتارا کرو ہمارا بیٹی کا۔'

'ضرور بابا۔'

وجدان نے مسکرا کر زرش کو دیکھا زرش نے اپنا سر مزید جھکا لیا۔سب لوگ مسکرا رہے تھے۔بہت عرصے بعد انکی زندگی میں مکمل خوشی آئی تھی۔

                            🌈🌈🌈

سب لوگ ناشتے کی میز پر بیٹھے صرف اور صرف زرش کی باتیں سن رہے تھے جو اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام قصے سنانے بیٹھی ہوئی تھی۔وجدان کا موڈ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ایک تو زرش رات کو سلمان صاحب اور فاطمہ بیگم کے پاس ہی رک گئی تھی دوسرا ہاشم صاحب اس گھر میں صرف اس شرط پر رکے تھے کہ شادی تک زرش اور وجدان آمنے سامنے نہیں آئیں گے اور اگر آئے تو ہاشم صاحب وجدان کو ہوٹل لے جائیں گے ساتھ۔ان کے مطابق دونوں ترسیں گے ایک دوسرے کے لیے تو ہی شادی کا مزہ آئے گا نا۔مگر یہاں تو زرش کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ترس صرف وجدان ہی رہا تھا۔


'اففف بس کر دو زری اور کتنا بولو گی تم۔'


جانان کی بات پر زرش نے منہ بسور کر جانان کو دیکھا۔آج تو وہ جانان کو بھی بات کا موقع نہیں دے رہی تھی۔


'کک۔۔۔۔کیوں چپ کروں میں بہت بولتی ہو تت۔۔۔۔تم اب چپ کر کے بیٹھو۔'


زرش بول تو لیتی تھی لیکن فلحال اسے کچھ دشواری ہوتی تھی لفظ ادا کرنے میں۔زرش کی بات پر سب قہقہہ لگا کر ہنسے جانان نے منہ پھولا کر سلمان صاحب کو دیکھا۔


'نہیں بھئی کوئی بھی اب میری بیٹی کو چپ کرنے کا نہیں کہے گا میرے تو کب سے کان ترسے ہوئے تھے اسکی باتیں سننے کو۔'


سلمان صاحب نے بھی صاف سیدھی زرش کی حمایت کی تو زرش نے زبان نکال کر جانان کو دیکھائی اور پھر سے اپنا ایک نیا قصہ بتانا شروع ہو گئی۔


سعد کو فون آیا تو وہ سب کو ہنستا مسکراتا چھوڑ فون سننے چلا گیا۔ہیڈ کوارٹر سے کال آئی تھی وہ لوگ سکندر کے مشن کی انفارمیشن چاہتے تھے۔سعد نے اس بارے میں وجدان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ واپسی کے لئے مڑا تو اسکی نظر لان میں موجود جھولے پر بیٹھی عشال پر پڑی جو ٹراؤزر اور شرٹ پہنے دنیا سے بے خبر وہاں بیٹھی نا جانے کیا سوچ رہی تھی۔سعد نے کل رات ہی وجدان سے عشال سے شادی کرنے کی بات کہی تھی اور وجدان نے بھی بہت خوشی سے ہاشم صاحب سے بات کرنے کا کہا تھا۔


سعد بھی چلتا ہوا اسکے پاس آیا اور اس کے ساتھ موجود تھوڑی سی جگہ پر بیٹھ گیا۔


'کیا سوچ رہی ہو یہاں بیٹھ کر؟'


سعد کی آواز پر عشال نے اپنی خوبصورت ہری آنکھوں سے اسے دیکھا جن پر کل سے کوئی چشمہ نہیں تھا۔سعد اسکا بہترین نشانہ

دیکھ کر اتنا تو سمجھ چکا تھا کہ اسکی نظر بلکل ٹھیک ہے اسکا چشمہ بھی بس انہیں بے وقوف بنانے کا ایک طریقہ تھا۔


'کچھ نہیں میں بھلا کیا سوچوں گی ایجنٹ جی۔'


عشال نے مسکرا کر لاپرواہی سے کہا مگر اسکی آنکھوں میں غم تھا جو سعد سے چھپا ہوا نہیں تھا۔


'ٹھیک ہے تمہاری مرضی ہے مت بتاؤ ویسے پریشانی بتانے سے کم ہو جاتی ہے۔'


سعد نے مسکرا کر کہا۔


'بلکل غلط انسان کو بس ایسا لگتا ہے کہ کسی کو اپنی پریشانی بتا کر اپنا دکھ بانٹ کر وہ ہلکا محسوس کرتا ہے حالانکہ اصلیت تو یہ ہے کہ اس دکھ سننے والے کو ہماری تکلیف سے کوئی تعلق ہوتا ہی نہیں وہ تو بس تھوڑا اینٹرٹینمینٹ چاہتا ہے اور یہ ۔۔۔۔خود میں بھی ایک دکھ ہے۔'


عشال نے سوچ کے عالم میں کافی گہری بات کہہ دی۔


'مجھے نہ صرف تمہارے دکھ سے بلکہ تمہاری،خوشی،پریشانی،مسکراہٹ ہر چیز سے فرق پڑھتا ہے عشال سب میرے لئے اہم ہے۔'


عشال اس کی بات پر خاموش ہی رہی تھی۔سعد بھی کافی دیر اسکے ساتھ خاموشی سے بیٹھا رہا پھر اس نے سکوت توڑا۔


'تم سکندر کیوں بنی عشال ایسی کیا دشمنی تھی تمہاری آر بی سے جس نے تمہیں یہ خطرناک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا؟اور تم وجدان کے ماضی کے بارے میں سب کیسے جانتی تھی؟'


عشال نے مسلسل سامنے دیکھتے ہوئے اپنی مٹھیاں کسیں۔سعد نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


'میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ایجنٹ جی۔'


عشال نے بہت ذیادہ سنجیدگی سے کہا اور یہ سنجیدگی سعد کو اپنی منہ پھٹ پٹاخہ پر بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی اس لئے شرارت سے بولا۔


'تمہیں پتہ ہے کہ میرا مشن سکندر کو پکڑنا تھا میں چاہوں تو تمہیں آرمی کے حوالے کر سکتا ہوں۔'


سعد کی بات پر عشال نے اپنی ابرو اچکا کر سعد کو دیکھا۔


'او ریئلی۔۔۔جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔آپ ایجنٹ ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو بھی اٹھا کر کہہ دیں گے کہ یہ سکندر ہے تو آرمی ہیڈ کوارٹرز والے آپ کی بات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر مان لیں گے۔۔۔آپ تو یہ تک ثابت نہیں کر سکتے کہ سکندر ایک آدمی نہیں لڑکی ہے۔'


عشال نے ایک مغرور سی مسکان کے ساتھ کہا تو سعد بھی اسکی ہوشیاری پر مسکرا دیا۔


'مجھے تو لگا تھا کہ لڑکی ہو تو بے وقوف ہو گی لیکن تم تو کافی چالاک نکلی بہادر پٹاخہ۔'


سعد نے شرارت سے کہا۔عشال کے لبوں کی مسکان پل بھر میں غائب ہوئی۔


'آپ کو پتہ ہے ایجنٹ جی ایک عورت کمزور نہیں ہوتی۔وہ صرف کمزور بننے کا دکھاوا کرتی ہے کیونکہ یہ دنیا عورت کو کمزور دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اگر وہ عورت اس جہان کے لوگوں کا خوف دل سے نکال دے نا تو ایسی مظبوط چٹان بن سکتی ہے جس کے سامنے طاقت ور مرد بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں۔اس لئے کبھی بھی عورت کو کمزور مت سمجھنا وہ بس ایک خاموش طوفان ہے۔'


سعد عشال کی گہری سبز آنکھوں میں وہ مظبوطی دیکھ سکتا تھا اور اس مظبوطی کے سامنے سعد کی نظریں عقیدت سے جھک گئی تھیں۔


'عشال بی بی۔۔۔۔'


ملازمہ کی آواز پر سعد اور عشال دونوں اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئے تھے۔


'آپ کو ہاشم صاحب اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں۔'


عشال کے اثبات میں سر ہلاتے ہی وہ ملازمہ وہاں سے چلی گئی عشال نے مسکرا کر سعد کو دیکھا۔


'چلیں ایجنٹ جی میرا بلاوا تو آ گیا میں چلی نائس ٹو میٹ یو ۔'


عشال نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کیا جو اب کی بار سعد نے تھام لیا۔عشال کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں


'ارے واہ آپ نے میرے سے ہاتھ ملا لیا واؤ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔'


عشال نے شرارت سے کہا تو سعد نے اسکے ہاتھ پر اپنی پکڑ مظبوط کر کے اسے تھوڑا قریب کھینچا اور دوسرے ہاتھ سے عشال کے چہرے پر کٹنگ کی وجہ سے آئی آوارہ لٹوں کو ہٹایا۔


'یہ ہاتھ اس لئے پکڑا ہے عشال کیونکہ اسے زندگی بھر تھامنے کا ارادہ ہے میرا اور ہاں جواب ہاں ہی ہونا چاہیے ورنہ تمہارا یہ ایجنٹ سکندر کو سچ میں اپنے پاس قید کر لے گا ۔'


عشال سعد کی بات سمجھ نہیں پائی تھی وہ تو بس سعد کی لودیتی نظروں سے خائف ہو رہی تھی پہلے کبھی تو سعد نے اسے یوں نہیں دیکھا تھا۔


عشال نے بہت مشکل سے اپنی شور مچاتی دھڑکنوں کو خاموش کروایا اور اپنا ہاتھ چھڑوا کر جلدی سے اندر بھاگ گئی۔وہ ہال میں داخل ہونے تک سعد کی نظروں کی تپش محسوس کرتی رہی تھی۔


نا جانے کتنی ہی دیر وہیں ہال میں دیوار کے پاس کھڑے ہو کر اپنی دھڑکنوں پر قابو پانے کے بعد عشال اپنے کمرے میں گئی اور کپڑے چینج کر ہاشم صاحب کے کمرے کی طرف چل دی۔


'آ جاؤ۔'


عشال کے دروازہ کھٹکھٹانے پر ہاشم صاحب کی آواز آئی تو عشال مسکرا کر کمرے میں داخل ہو گئی۔


'اسلام و علیکم۔'


عشال نے ایک نظر سائیڈ پر کھڑے وجدان کو دیکھا اور پھر ہاشم صاحب کو سلام کیا۔


'وعلیکم السلام ! یہاں آؤ میرا بیٹا۔'


عشال مسکرا کر ہاشم صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔ہاشم صاحب نے بہت محبت سے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔


'وجدان نے مجھے سب بتا دیا ہے۔'


ہاشم صاحب کی بات پر عشال نے سوالیہ نظروں سے وجدان کو دیکھا تو وجدان نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا ۔عشال نے اپنا سر جھکا کر اپنے آنسو ضبط کیے۔وجدان نے عشال کو بھی سب بتایا تھا اور عشال کے دل میں ہاشم صاحب کے لئے عقیدت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔


' نہیں میرا بچہ افسردہ نہیں ہو ۔تم میری بیٹی ۔۔۔میری بیٹی بلکل جس طرح وجدان میرا اپنا بیٹا آج ابھی سے اسی طرح تم بھی میری بیٹی ہو۔'


ہاشم صاحب نے بہت محبت سے عشال کا چہرہ پکڑ کر کہا۔ان کی آنکھوں میں محبت اور اپنایت دیکھ کر عشال کی سبز آنکھیں بھر گئی تھیں۔


'بس اب بلکل نہیں رونا تم نے میں برداشت نہیں کروں گا۔سمجھی۔۔۔میری بیٹی کی خواہش بھی آج پوری ہو گئی ہے اور میں اپنی بیٹی کو آنکھوں میں ایک آنسو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔'


ہاشم صاحب نے عشال کے آنسو پونچھ کر کہا۔عشال بھی اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے مسکرا کر ہاں میں سر ہلانے لگی۔


'عشال تم مجھے اپنا بابا مانتی ہو؟'


'بلکل بابا دل سے۔۔۔'


عشال نے اپنے ہاتھ ہاشم صاحب کے ہاتھوں پر رکھے تھے عشال جانتی تھی کہ اسکے سامنے بیٹھا یہ شخص ایک انتہائی عظیم انسان ہے۔


'میں تم سے کچھ مانگوں تو دو گی؟'


'جان چاہئے؟'


عشال کے سوال پر ہاشم صاحب کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھی۔جبکہ وجدان بھی اپنی نگاہوں میں ڈھیروں محبت سمیٹ کر عشال کو دیکھ رہا تھا۔


'نہیں میرا بیٹا اللہ تو تمہیں میری عمر بھی لگا دے ۔۔۔۔'


ہاشم صاحب نے بہت محبت سے کہا اور پھر اپنے ہاتھ عشال کے چہرے سے ہٹا کر عشال کا ہاتھ تھاما۔


'وجدان نے مجھ سے ایک بات کہی ہے۔۔۔'


ہاشم صاحب کے بات شروع کرنے پر عشال نے تمام توجہ ہاشم صاحب کی بات پر لگا دی۔


'سعد تم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میری اور وجدان کی بھی یہی خواہش ہے کیونکہ سعد بہت ہی زیادہ اچھا انسان ہے بیٹا وہ تمہیں بے انتہا خوش رکھے گا۔'


ہاشم صاحب کی بات پر عشال نے اپنا سر جھکا لیا اب وہ سعد کی بات کا مطلب بھی سمجھ چکی تھی۔


'دیکھو بیٹا میں جانتا ہوں کہ تم ایک بہت بہادر اور خود مختار لڑکی ہو اپنے فیصلے خود ہی بہت اچھی طرح سے لے سکتی ہو لیکن آدمی اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں عشال دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔'


ہاشم صاحب کی بات پر عشال کافی دیر غور کرتی رہی۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سعد ایک انتہائی اچھا انسان تھا اسکی زندگی میں آنے والی کوئ بھی لڑکی خوش قسمت ہی ہوتی مگر عشال پھر خود سے کیے اس وعدے کا کیا کرتی؟


'اگر تمہیں سوچنے کے لیے وقت۔۔۔۔'


'نہیں بابا جیسی آپکی مرضی مجھے آپ دونوں کا ہر فیصلہ دل سے قبول ہے۔'


عشال نے انکی بات کاٹ کر کہا ہاشم صاحب نے مسکرا کر عشال کے سر پر ایک بوسہ دیا۔


'تو پھر ٹھیک ہے وجدان کی شادی کے ساتھ ہی تمہاری شادی بھی ہو گی اور کل دوپہر کو تم دونوں کا نکاح ہو گا اور پھر رات کو مہندی۔'


عشال کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔


'یہ کچھ ذیادہ ہی فری نہیں ہو گئے آپ دونوں میری شرافت دیکھ کر۔'


عشال کی بات پر ہاشم صاحب اور وجدان قہقہہ لگا کر ہنسے۔عشال بھی دونوں کے ساتھ مل کر مسکرا دی اسے لگ رہا تھا کہ اسکی ہر محرومی دور ہو گئ ہو۔پھر اسکے ذہن میں سعد کا خیال آیا تو مسکان شرمیلی ہو گئی اور عشال نے اپنا سر جھکا لیا۔


'لگتا ہے آپ کو چیلنجز پسند ہیں ایجنٹ جی تبھی تو مجھ سے شادی کر رہے ہیں اب اپنی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہیے گا۔'


عشال شرارت سے سوچ کر مسکرا دی۔

🌈🌈🌈

پچھلے دو دن سے گھر میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھیں ۔حسن صاحب بھی فریحہ بیگم کو لے کر وہاں آ گئے تھے۔حسن صاحب کو اب اپنی غلطی پر پچھتاوا تھا وہ اتنا سمجھ گئے تھے کہ جو کچھ بھی ہوا تھا اس میں ان کی بھی اتنی ہی غلطی تھی جتنی سلمان صاحب کی۔جانان عشال اور زرش تو کئی بار شاپنگ پر جا چکی تھیں جبکہ حمنہ کے لئے تو ناممکن تھا کہ وہ گاڑی کا چہرہ بھی دیکھ لے۔عثمان کا کہنا تھا کہ وہ اسے لاہور سے یہاں لے آیا یہی بہت ہے اور اگر اسے کچھ چاہیے تو عثمان پوری کی پوری مارکٹ ہی گھر منگوا لے گا۔


لیکن حمنہ نے کہا تھا کہ اسکی ضرورت کی ہر چیز جانان لے آئے گی عثمان کو اتنا تکلف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ابھی بھی جانان اور عشال کے شاپنگ پر جانے کے بعد حمنہ سجاوٹ اور تیاریوں پر دھیان دے رہی تھی ۔اتنی جلدی کی شادی کی تیاریاں کرنا کافی مشکل تھا۔


ابھی بھی وہ سب مل کر عشال کے نکاح کے لئے تیار ہو رہے تھے ۔ آف وائٹ بھاری کام والے گرارے کرتی اور دوپٹے میں ملبوس،پارلر والی کے نفاست سے کیے میک اپ اور سنہری جیولری پہنے عشال حد سے ذیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔


زرش نے عشال کو دیکھ کر سی ٹی بجائی تو سب نے حیرت سے زرش کی طرف دیکھا۔


'کیا۔۔۔یہ بھی تت۔۔۔۔۔تو ایسے ہی کرتی تھی۔'


اس بات پر عشال بھی ہنس دی۔


'لیٹل ڈال ایسا تو میں دلہن بن کے بھی کر سکتی ہوں۔'


عشال نے اتنا کہہ کر اپنے ہونٹ گول کیے اور زرش کو دیکھتے ہوئے سی ٹی بجانے لگی۔زرش ،جانان، حمنہ تینوں نے ایک جیسی کام دار سفید رنگ کی کرتی اور کیپری پر لال دوپٹے لیے ہوئے تھے اور وہ تینوں ہی نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھیں۔


'چلو اب دلہن کو لے کر چلتے ہیں اس سے پہلے کہ سعد بھائی خودی یہاں آ جائیں۔'


سعد کے ذکر پر ہی زرش کا منہ بن گیا تھا ۔سب لوگوں نے اسے سمجھا کر سعد کے بارے میں بدگمانیاں دور کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔سعد نے بھی کئی مرتبہ زرش سے معافی مانگی تھی لیکن زرش ابھی بھی سعد سے کتراتی ہی تھی۔


'ماشا اللہ میری سب بیٹیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔'


فاطمہ بیگم نے کمرے میں آ کر سب کو دیکھا تو مسکرا کر ان کے پاس آئیں اور باری باری سب کا ماتھا چوما۔


'سب سے زیادہ میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟'


جانان نے اپنا دوپٹہ ادا سے لہراتے ہوئے پوچھا۔


'بلکل بھی نن۔۔۔۔نہیں سب سے زیادہ میں۔۔۔۔پیاری لگ رہی۔۔'


زرش نے فوراً کہا تھا۔فاطمہ بیگم زرش اور جانان کو چھے سال پہلے کی طرح نوک جھوک کرتے دیکھ کر نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔انہیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کس طرح سے وہ اپنے رب کا شکر ادا کریں۔


'نہیں آج تو سب سے ذیادہ پیاری ہماری پیاری سی دلہن لگ رہی ہے۔'


فاطمہ بیگم نے بہت محبت سے عشال کے سر پر ہاتھ رکھا تو ان تینوں نے فاطمہ بیگم کی بات سے متفق ہوتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔


'لیکن عشال کے بب۔۔۔۔بعد میں سب سے زیادہ۔۔۔۔۔پیاری لگ رہی ہوں۔۔۔'


زرش کی بات پر سب ہی قہقہہ لگا کر ہنسے۔


'اچھا چلو اب دیر ہو رہی ہے نکاح کے بعد پھر رات کو مہندی کی تیاریاں بھی تو کرنی ہیں نا۔'


فاطمہ بیگم نے بہت محبت سے عشال کو کھڑا کیا اور اپنے ساتھ اسے باہر لے آئیں جہاں سعد بھی آف وائٹ کلر کی شیروانی پہنے صوفے پر بیٹھا تھا۔چھے فٹ سے بھی زیادہ قد،کسرتی جسم اور خوبرو نقوش کے ساتھ سعد وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔


فاطمہ بیگم نے عشال کو سعد کے مقابل بیٹھایا تو نا جانے کیوں عشال کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں۔


'چلیں بھئ نکاح شروع کرتے ہیں ہمارا سعد پہلے ہی بڑی دیر سے انتظار کر رہا ہے۔'


شایان نے سعد کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔ عثمان وجدان اور شایان بھی کالی رنگ کی شیروانیوں میں انتہائ ذیادہ جازب نظر لگ رہے تھے لیکن عثمان اور وجدان کا سارا دھیان تو کھلکھلا کر آپس میں باتیں کرتی زرش اور حمنہ پر تھا۔جبکہ شایان نے تو فوراً جانان کو اپنے قریب کیا تھا۔

نکاح خواں نے اللہ کا نام لے کر نکاح پڑھنا شروع کیا۔


'عشال درانی ولد الفاظ درانی ۔۔۔۔۔


اس سے آگے تو سعد نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔سعد نے بہت حیرت سے عشال کو دیکھا اسکا ذہن صرف ایک لفظ پر ہی اٹکا ہوا تھا۔ولد الفاظ درانی یہی تو وجدان کے بابا کا بھی تو نام تھا نا تو کیا عشال وجدان کی بہن تھی؟اففف یہ کیسے پراسرار راز تھے جنہیں سعد سمجھنے سے قاصر تھا۔


اپنی سوچوں میں سعد نے عشال کا اقرار بھی نہیں سنا تھا۔ہوش تو اسے تب آیا جب سعد نے مکاح خواں کے منہ سے اپنا نام سنا۔


'قبول ہے۔'


سعد نے خود سے اس وعدے کے ساتھ اپنی رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کے تمام راز جان کر ہی رہے گا۔سعد کے تین مرتبہ رضامندی ظاہر کرنے پر سب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ جانان نے تو بہت محبت سے عشال کا منہ چوم لیا آخر کار وہ اسکے پیارے بھائی کی بیوی بن گئی تھی۔


'مبارک ہو مسز سعد۔۔'


سعد نے مسکرا کر کہا لیکن اپنا دھیان سعد نے سامنے ہی رکھا تھا۔


'آپکو بھی مبارک ہو مسٹر عشال۔'


سعد نے بہت مشکل سے اپنے قہقہے کو روکا تھا۔عشال دنیا کی ہر لڑکی سے ہٹ کر تھی اور سعد خود کو بہت ذیادہ خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ اسے سعد کے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔سعد کو لگا تھا کہ اب اسکی زیست کا سفر اپنے سب سے حسین موڑ پر آ چکا تھا۔


نکاح خواں کے جانے کے بعد سب لوگ سعد اور عشال کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئے تھے۔جانان نے سعد کی انگی پکڑ لی تھی اور اپنی منہ مانگی قیمت پر ہی چھوڑنے کا کہا تھا۔


'دیکھو گڑیا یہ لوٹنے والا سلسلہ کل ہی شروع کرنا تم ۔'


جانان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


'تو پھر اپنی انگی بھول جائیں آپ۔'


سب لوگ جانان کی معصوم بات پر ہنسنے لگے تھے۔


'میرے پاس میرا والٹ نہیں ہے۔'


سعد نے بہانا بنایا۔


'میں لے کر آتی ہوں۔۔'


زرش اتنا کہہ کر جلدی سے اٹھی اور سیڑھیاں چھڑتے ہوئے سعد کے کمرے کی طرف بڑھی تھی لیکن تبھی کسی نے اچانک اسکو کلائی سے پکڑ کر ایک کمرے میں کھینچا اور ساتھ ہی دروازہ بند کر کے زرش کو دروازے کے ساتھ لگا کر اسکے گرد اپنے ہاتھوں کا حصار بنایا تھا۔


زرش نے ایک پل کو سہم کر اپنی آنکھیں میچ لیں لیکن پھر وجدان کی مخصوص مہک کو محسوس کر کے اپنا منہ بسورا۔


'اتنے دن سے مجھ سے چھپتی کوں پھر رہی ہو؟'


وجدان نے اسکے قریب ہوتے ہوئے سوال کیا زرش کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔


'ہہ۔۔۔ہاشم بابا نے منع کیا تھا آپ سے بب۔۔۔بات کرنے کو اسی لئے۔۔۔۔'


وجدان نے مسکرا کر اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔


'منع تو مجھے بھی کیا ہے لیکن پھر بھی دیکھو تم سے بات کرنے آ ہی گیا نا۔'


وجدان نے آگے ہو کر اسکے کان میں سر گوشی کی تو زرش کانپ کر رہ گئی۔


'آآ۔۔۔۔آپ اچھے بیٹے نہیں ہیں۔۔۔۔لل۔۔۔۔لیکن میں ہوں۔۔'


وجدان نے اسکی بات پر دھیان دیے بغیر ہی اپنے دہکتے لب زرش کے گال پر رکھے تھے۔


'مم۔۔۔۔میں بابا کو بتاؤں گی۔۔۔'


زرش کے ایسا کہنے پر وجدان کے لب بے ساختہ طور پر مسکرائے۔


'کیا بتاؤ گی؟'


'یی۔۔۔۔یہی کہ آپ نے مجھے۔۔۔۔۔ کمرے میں بند کک۔۔۔۔کر کے مجھ سے بات کی تھی۔'


'او اچھا یہ نہیں بتاؤ گی کہ میں نے تمہیں کس کیا یہاں پر۔۔۔'


وجدان نے اسکے گال کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔


'نہیں یہ نہیں بتاؤں گی آپکی طرح نہیں میں اچھی لڑکی ہوں۔'


وجدان نے اس بات پر قہقہ لگایا تھا۔


'اور یہ اچھی لڑکی جان ہے میری۔۔۔۔بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔'


وجدان کے بہت محبت سے کہنے پر زرش شرما کر خود میں ہی سمٹی تھی۔وجدان بے خود سا ہو کر اسکے سرخ لپسٹک سے سجے ہونٹوں پر جھکنے لگا۔


'وجدان چوہا۔۔۔'


زرش کے چلانے پر وجدان نے پلٹ کر دیکھا لیکن اتنا موقع پاتے ہی زرش دروازہ کھول کر جلدی سے بھاگ گئی تھی۔وجدان کے لب اسکی چالاکی پر مسکرائے تھے۔


'صرف کل تک کی بات ہے نور خان پھر مجھ سے دور کبھی بھی نہیں جا سکو گی تم۔'

🌈🌈🌈

رات ہوتے ہی مہندی کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔وصیح لان میں بے تحاشہ پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔سٹیج پر پھولوں سے سجے دو جھولے پڑے تھے۔پیلے اور سرخ ڈیکوریشن میں وہ جگہ بہت جازب نظر لگ رہی تھی مہمان بھی آ چکے تھے۔


عشال اور زرش کو تیار کرنے میں پارلر والی نے اپنی جی جان لگائی تھی اور اب وہ حمنہ اور جانان کو تیار کر رہی تھی۔


ہلکے پیلے رنگ کے لہنگے میں زرش آسمان سے اتری پری ہی لگ رہی تھی۔زیادہ خوبصورت تو زرش تب لگتی تھی جب وہ چہکتے ہوئے گھوم کر عشال کو دیکھا رہی تھی۔ملٹی کلر کے لہنگے میں مناسب جیولری پہنے عشال بھی تو ایک حور ہی لگ رہی تھی۔


جبکہ حمنہ اور جانان نے بلکل ایک جیسے گلابی رنگ کے لہنگے پہنے ہوئے تھے۔وہ چاروں حسن کا پیکر بنی لان میں آئی تھیں۔حمنہ نے زرش کو اور جانان نے عشال کو تھاما ہوا تھا۔جس جس کی نظر ان پر پڑھ رہی تھی وہ پلٹنا ہی بھول جاتی تھی۔


وجدان کا تو دل کر رہا تھا کہ جا کر زرش کا گھونگھٹ نکال دے تاکہ زرش کے یہ حسین روپ کوئی اور نہ دیکھ پائے۔جبکہ سعد تو عشال کو دیکھتے ہی سانس لینا بھی بھول چکا تھا۔ان چاروں نے مہرون کرتوں کے نیچے سفید شلواریں پہنی تھی اور گلے میں سکن سکارف لپیٹے ہوئے تھے۔


حمنہ نے زرش کو وجدان کے عقب میں بیٹھایا تو گھبراہٹ کے مارے زرش کے ہاتھ کپکپانے لگے جن کو کچھ دیر بعد ہی وجدان نے اپنے پر حدت ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔


عشال تو ہر چیز کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہاں کوئ تھا ہی نہیں اور وہ جانتی بھی نہیں تھی کہ یہ بات اسکے مجازی خدا کو کتنی ناگوار گزر رہی تھی۔


کچھ دیر بیٹھ کر سب لوگوں کو ہنستے باتیں کرتے ،مذاق کرتے دیکھ کر زرش نے اپنا منہ بسورا تھا۔ساتھ بیٹھا وجدان بھی تو سعد سے باتیں کر رہا تھا۔


'بلکل اچھی نہیں ہے ہماری شادی ۔'


زرش نے منہ بنا کر کہا تو وجدان نے حیرانی سے زرش کی طرف دیکھا۔


'کیوں نور خان کیا ہو گیا ہے؟ '


'دد۔۔۔دیکھیں نا سب ہنس رہے ہیں باتیں کر رہے ہیں اور۔۔۔۔۔ جن کی شادی ہے ااا۔۔۔۔انہیں یہاں بیٹھا دیا ہے یہ تو غلط ہوا نا۔'


اپنی معصوم بیوی کی بات پر وجدان کھل کر مسکرایا اور پھر کچھ دیر کے بعد اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔اسکے جاتے ہی جانان زرش کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی۔


'کتنا مزہ آ رہا ہے نا۔۔۔'


'بلکل نہیں۔۔۔'


زرش نے جلدی سے جانان کی بات کہی لیکن اس سے پہلے کے جانان زرش کو کچھ کہتی اچانک ہی تمام لائٹس بند ہو گئی تھیں۔ایک ہلچل سی پیدا ہوئی تھوڑی دیر کے بعد ہی لان کے بلکل وسط میں موجود لائٹس آن ہوئیں اور وجدان وہاں کھڑا تھا۔سب ن نے حیرت سے وجدان کو دیکھا۔


تبھی سپیکرز سے میوزک بجنے کی آواز پر وجدان نے آہستہ سے ڈانس کرنا شروع کر دیا۔سب لوگ کی حیرت تالیوں اور ہوٹنگ میں بدل گئی تھی۔


'یہ وجدان بھائی دا کریلا ہی ہیں نا۔'


جانان نے آنکھیں پھاڑ کر وجدان کو دیکھتے ہوئے کہا۔تبھی گانے کے بول سپیکر سے فضا میں گونجے۔


'اکھاں دے کٹورے

سرمہ بٹورے

لگدے چھچھورے بڑے ہائی فائی

دل تے دراٹی ساڈے چل جاتی

ماردے گلاٹی پوچھے وائے وائے

چائے میں ڈوبا بسکٹ ہو گیا

میں تو ایویں ایویں ایویں لٹ گیا۔'


وجدان نے بہت اچھا ڈانس کیا تھا سبھی نے کافی تالیاں بجائیں تبھی جانان سعد اور عشال کا ہاتھ تھام کر کھینچتے ہوئے ان دونوں کو وہاں لائی عشال مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔لیکن سب لوگ تالیاں بجا کر عشال کا نام پکار رہے تھے۔


'اب اتنا بھی بھاؤ مت کھائیں مسز سعد۔'


سعد کی سرگوشی پر عشال نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے سعد کو دیکھا اور پھر اپنی کمر پر ہاتھ رکھا۔


'ہٹ وے نگوڑے

نیم دے پکوڑے

پیچھا کیوں نہ چھوڑے

گھومیں ڈائیں بائیں

تجھ کو سدھاروں

جوتی میں اتاروں

سر پہ میں ماروں تیرے دھائیں دھائیں

رومیو بنا پرمٹ ہو گیا

تو تو ایویں ایویں ایویں لٹ گیا۔'


سب لوگو نے ہنستے ہوئے تالیاں بجا کر اور ہوٹنگ کر کے عشال کو داد دی۔عشال نے ایک ادا سے سعد کو دیکھا۔تبھی درمیان میں شایان جانان کا ہاتھ پکڑ کر آیا اور اسے اپنے ساتھ گھمانے لگا۔جانان بھی خوشی سے چہک رہی تھی۔


'بالوں کو میں سیٹ کیتا جیل مل کے

چھاتی چوڑی ڈولے شولے ڈنڈ پیل کے

کڑیے ہرایا تو نے چال چل کے باتوں والی باسکٹ بال کھیل کے'


جانان بھی مسکراتے ہوئے کمر پر ہاتھ رکھ کر شایان کا ڈانس میں ساتھ دینے لگی۔


جیل ویل دیکھ چھوری پٹتی نہیں

ڈولوں سے عمر ساری کٹتی نہیں

خوب پہچانوں تیرے دل میں ہے کیا

فطرت چھوروں کی پلٹتی نہیں

گڑ دیکھا مکھی جیسا فٹ ہو گیا

تو تو ایویں ایویں ایویں لٹ گیا۔'


جانان نے مسکرا کر شایان کو دیکھا تو شایان نے شرارت سے ایک آنکھ دبائی جانان اپنے پاؤں کے نآخن تک سرخ ہوئی تھی۔ہاشم صاحب نے عثمان کو آگے کیا پہلے تو عثمان نے خوب مزاحمت کی لیکن حمنہ کے پلیز کہنے پر عثمان مسکرا کر خود ہی درمیان میں آ گیا اور میوزک پر ڈانس کرنے لگا۔


'او میں تو ایویں ایویں ایویں ایویں ایویں ایویں ایویں لٹ گیا۔


جانان نے حمنہ کو اگے کیا حمنہ نے مسلسل انکار میں سر ہلایا اور واپس جانے لگی عثمان نے حمنہ کی کلائی تھام کر اسے روکا تھا۔


پلیز۔۔۔


عثمان کے سرگوشی کرنے پر حمنہ نے شرما کر سر جھکایا پھر اپنا ہاتھ عثمان کے سینے پر رکھ کر اسے ہلکا سا دھکا دیا۔


'کیوں میری گلی میں آ کے ویٹ کرتا

حرکتیں ڈاؤن مارکٹ کرتا

دیکھوں جو ہٹا کے کھڑکی دا پردہ

سی ٹی وی ٹی مار ایریٹیٹ کردا۔'


حمنہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر ڈانس ہنستے ہوئے ختم کیا لیکن اچانک ہی عثمان نے اسے اپنی طرف کھینچا۔


'چھڈ ایٹیٹیوڈ کبھی مان کڑیے

بلینک چیک دے دوں یا تے جان کڑیے

ایٹ دا یہ دل کر نرم زرا

دیکھ لے یہ گبرو جوان کڑیے

چھے فٹ سے ڈیڑھ فٹ ہو گیا۔

میں تو ایویں ایویں لٹ گیا۔'


عثمان کے ڈانس ختم کرتے ہی سب نے ہوٹنگ کر کے تالیاں بجائیں۔


'اب تو مزا آیا نا۔'


وجدان نے کھلکھلا کر ہنستی ہوئی زرش سے پوچھا۔


'ہاں ہاں بہت ذیادہ تھینک یو۔'


زرش نے چہکتے ہوئے کہا اور اسکے چہرے کی خوشی ہی وجدان کے لئے سب کچھ تھی۔ یونہی ہنستے کھلکھلاتے رات گزرنے لگی بہت عرصے کے بعد انکی زندگی میں خوشیاں لوٹی تھیں۔

🌈🌈🌈🌈

پفنکشن کافی دیر تک چلتا رہا تھا۔عشال کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے میں آئی تھی۔ایسے بھاری لباس پہننے کی اسے بلکل بھی عادت نہیں تھی اور اب اسے خود سے بھی الجھن ہو رہی تھی۔


اس نے بے چینی سے اپنی جیولری اور دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پھینکا اور پھر اپنے ہاتھ پیچھے لے جا کر کرتی کی ڈوریاں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔


'ڈیم یار جانو کو ساتھ لانا چاہیے تھا۔'


عشال نے الجھن سے کہا لیکن تبھی کسی نے اسکی کرتی کو ڈوری کو کھینچ کر کھول دیا۔عشال گھبرا کر پلٹی تو اسکی نظر شرارت سے مسکراتے ہوئے سعد پر پڑی۔


'یہ کیا حرکت تھی ایجنٹ جی شرم نہیں آتی آپ کو اسطرح سے آدھی رات کو ایک مظلوم بے سہارا لڑکی کے کمرے میں آ کر اسے پریشان کرتے ہوئے۔'


عشال نے مصنوعی غصے والا منہ بنا کر کہا۔اچانک ہی سعد نے اسکی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچا تھا۔عشال کی سانس اسکے حلق میں اٹکی تھی۔


'یہ مظلوم بے سہارا لڑکی میری بیوی ہے جسکے وجود پر پورا پورا حق حاصل ہے مجھے۔'


سعد نے بہت استحاق سے کہا عشال کی نظریں خود بخود جھک گئیں۔


'سارے حق آپ کو کل حاصل ہوں گے آج نہیں۔'


'تمام حق تو تب ہی حاصل ہو گئے تھے جب تم نے تین بار قبول ہے کہا تھا۔'


سعد نے جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔


'دیکھیں ایجنٹ جی اپنی یہ چھچھوری حرکتیں کنٹرول میں رکھیں ورنہ۔۔۔۔۔'


اس سے پہلے کہ عشال کچھ اور کہتی سعد نے اسکے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے لیا۔عشال نے مچل کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن پکڑ بہت مظبوط تھی۔


ناجانے کتنی ہی دیر سعد اسکے نازک لبوں پر جھکا خود کو سیراب کرتا رہا تھا۔اچانک ہی عشال نے اپنی پوری طاقت لگا کر سعد کو دھکیل کر خود سے دور کیا اور گہرے سانس بھرنے لگی۔


'چھچھورے ایجنٹ۔۔۔'


عشال نے اپنا منہ دوسری سائیڈ پر کر کے کہا۔سعد کی قربت میں اسکا گھبراہٹ کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔اتنا تو وہ کبھی بندوق چلاتے ہوئے بھی نہیں گھبرائی تھی۔عشال کو خود پر غصہ آیا تھا وہ کیوں جھک گئی سعد کے آگے اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی کسی مرد کے آگے نہیں جھکے گی۔


خود پر قابو پاتے ہی عشال تیزی سے پلٹی اور اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر سعد کے چہرے پر مارنے لگی لیکن سعد نے بھی اتنی ہی تیزی سے اسکا ہاتھ ہوا میں تھام لیا تھا۔


'کیا بات ہے دونوں بہن بھائی ہی ایک جیسے ہو خطرناک آخر ایسا کیا ہے اس درانی خون میں۔'


سعد نے اسکا ہاتھ کھینچ کر واپس اسے اپنے قریب کیا۔عشال نے اپنی ہری آنکھیں چھوٹی کر کے سعد کو دیکھا۔


'کب سے جانتے ہیں آپ کہ وجدان بھائی ہیں میرے۔'


عشال کے سوال پر سعد مسکرا دیا ۔


'ہمارے نکاح کے وقت سے۔'


سعد نے انتہائی محبت سے کہتے ہوئے اسکے چہرے سے بال ہٹائے ۔عشال کی نظریں جھک گئیں مگر اس نے سٹپٹانا بند نہیں کیا تھا۔


'اپنی محبوب کے سامنے جھک جانا کمزوری کی نہیں طاقت کی علامت ہوتا ہے عشال جیسے میں تمہاری محبت میں مکمل طور پر جھک چکا ہوں۔'


عشال سعد کی آنکھوں میں موجود محبت میں کھو سی گئی۔


'میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکوں گی۔'


عشال کی سبز آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔سعد نے بہت عقیدت سے ان نم آنکھوں کو چوما۔


'تو مت جھکو میری جان کبھی بھی مت جھکنا مجھے بھی تو تمہاری اس مظبوطی سے ہی محبت ہوئی ہے میں کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ یہ مظبوطی کبھی کم ہو۔'


سعد کی بات پر عشال نے اپنی نظریں جھکا لیں۔


'دکھ مخلص انسان کے ساتھ بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے جانتی ہو کیوں؟کیونکہ آپسے محبت کرنے والے کے لئے آپکی تکلیف اپنی تکلیفوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔'


عشال اب باقاعدہ طور پر رونے لگی وہ جانتی تھی کہ وہ ہار چکی ہے مکمل طور پر سعد کی محبت کے سامنے ہار چکی ہے۔


'ہاں میں سکندر درانی کی ہی بہن ہوں ۔الفاظ درانی اور شاہانہ درانی کی بیٹی۔'

🌈🌈🌈

(ماضی)

شاہانہ کیسے اپنے اکلوتے لعل کو مرتے ہوئے دیکھتی۔اس سے پہلے وہ ہزار موت مرنا پسند کرتی اور اپنا گلا کاٹتے وقت اس نے یہی سوچا تھا کہ مر جائے گی تو مزید غم نہیں سہنا پڑے گا اسے۔


لیکن شیراز حسن سکندر کو وہاں سے بھیجتے ہی فوراً شاہانہ کو ہسپتال لے گیا تھا۔ چونکہ گلا شاہانہ نے خود کاٹا تھا تو وہ زیادہ زور نہیں لگا پائی اور وہ کٹ بہت ہلکا سا تھا۔


شاہانہ بچ تو گئی تھی لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ وہ پھر کبھی بول نہیں پائے گی۔پھر اپنے ہوش میں آتے ہی شاہانہ نے اپنے سکندر کے بارے میں جاننا چاہا تو شیراز حسن کے سب سے خاص آدمی اور باڈی گارڈ فرمان کو بتانا پڑا کہ اسکا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا اگلے دن ہی اسے بم پہنا کر ایک دھماکے میں مار دیا گیا تھا۔


یہ جاننا ہی تھا کہ شاہانہ بلکل ہی ٹوٹ گئی۔کیا مقصد تھا اسکی زندگی کا کچھ بھی تو نہیں اسے بس مرنا تھا ہاں وہ مرنا چاہتی تھی۔


ایسا سوچ کر شاہانہ نے فرمان سے ایک چاقو چھینا اور اسے اپنے پیٹ میں مارنے لگی مگر عین وقت پر فرمان نے شاہانہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔


'پاگل ہو گئی ہو بہن ۔۔۔۔مت کرو ایسا اپنا نہ سہی اپنے ہونے والے بچے کا تو خیال کرو جو ابھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں۔'


اس بات پر شاہانہ نے ٹھٹھک کر فرمان کو دیکھا۔


'ہاں شاہانہ باجی یہی تو آخری نشانی بچی ہے تمہارے پاس الفاظ کی اسے بھی ختم کر دو گی کیا؟'


چاقو خود بخود شاہانہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا تھا۔خدا کے اس فیصلے پر شاہانہ بہت حیران ہوئیں مزید اولاد کی امید تو انہیں نے کبھی کی ہی نہیں تھی انکے لئے تو انکا پورا جہان سکندر تھا۔ ۔ہاں وہ بھلا کیسے اپنی اولاد کی جان لے لیتی اسے اس بے درد دنیا میں جینا تھا اپنی اولاد کی خاطر جینا تھا۔پھر ڈاکٹر نے بھی شاہانہ کو بتایا کہ دو مہینے ہو چکے ہیں اسے امید سے ہوئے لیکن شاہانہ اپنی پریشانی میں اپنی کیفیت کا اندازہ ہی نہیں لگا پائی تھی۔


شیراز کو جب شاہانہ اور اس کے بچے کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے سوچا کہ الفاظ کی اس نشانی کو بھی پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کروا دے لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر پایا تھا۔جو گناہ اس نے کیے تھے انکا کرب ناک خوف اسکے دل میں بیٹھ گیاتھا جو اسے رات رات بھر سونے نہیں دیتا تھا۔شیراز کو لگتا تھا کہ یہ شاہانہ کی بدعاوں کی وجہ سے ہوا ہے اسی لیے شیراز نے اسکا خیال رکھنا شروع کر دیا کہ شاید اسکا پچھتاوا اسکا خوف تھوڑا کم ہو جائے۔شیراز نے شاہانہ کو فرمان کے ساتھ انگلستان پہنچا دیا اور خود بھی سکون کی تلاش میں شاہانہ سے ملنے کے لیے جاتا اور اسکے پیر پکڑ کر روتا رہتا تھا۔مگر سکون کبھی بھی شیراز کو حاصل نہیں ہوا تھا۔گناہ کا احساس اسے اندر ہی اندر ختم کر رہا تھا۔


شاہانہ نے بہت ذیادہ دعائیں کیں کہ اللہ اسے ایک بیٹا دے جو مظبوط ہو اسکا سہارا بنے۔جو اسکا سکندر ہو۔لیکن اللہ کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔شاہانہ کے ہاں بہت ہی زیادہ خوبصورت سی بیٹی پیدا ہوئی تھی۔جسکے بارے میں جان کر ہی شاہانہ بہت ذیادہ روئی۔وہ تو ایک بیٹا چاہتی تھی،سکندر چاہتی تھی جو کہ اسکی حفاظت کرتا اسے انصاف دلاتا لیکن اس لڑکی کو شاہانہ اس دنیا سے کیسے بچاتی شیراز حسن سے کیسے بچاتی۔


مگر پھر اس بچی نے اپنی بڑی سی سبز آنکھیں کھول کر شاہانہ کو دیکھا وہ آنکھیں بلکل ویسی ہی تھیں اسکے سکندر جیسی۔


'تم سکندر ہو بیٹا سکندر ہو تم میرا۔۔۔'


شاہانہ نے روتے ہوئے اپنے خاموش لبوں سےکہا ۔فرمان نے اس بچی کا نام عشال رکھا تھا۔شیراز کو جب اسکا علم ہوا تو وہ عشال کو دیکھنے آیا۔


عشال کی معصوم صورت دیکھ کر شیراز کے اندر وہ سکون اترا جو وہ اتنے ماہ سے تلاش کر رہا تھا۔اس معصوم بچی کی ایک جھلک پر شیراز کا سارا خوف سارا پچھتاوا مٹ گیا تھا اور اس سب کی جگہ سکون نے لے لی تھی۔


شاہانہ کا بس چلتا تو وہ شیراز کا سایہ بھی عشال پر نہیں پڑنے دیتی لیکن شیراز چھپ چھپا کر عشال کو اٹھا ہی لیتا اور پھر اپنی بیٹیوں سے بھی زیادہ وہ عشال سے پیار کرنے لگا۔


عشال نے بڑے ہوتے ہوئے اپنے نام سے بھی زیادہ سکندر کا نام سنا تھا ۔اسکی ماں بولتی تو نہیں تھی لیکن اپنے اشاروں سے عشال کو ہر ظلم ہر ستم کے بارے میں بتا دیتی۔عشال نے کبھی سکندر کی تصویر بھی نہیں دیکھی شاہانہ کے پاس عشال کو دکھانے کے لئے ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔


شاہانہ کی باتوں میں ہر بار ایک ہی بات ہوتی کہ اگر اسکا سکندر زندہ ہوتا تو ان کے ساتھ یہ سب نہیں ہوتا آزاد ہوتے وہ قید نہیں۔


عشال کو شیراز سے کافی محبت تھی کیونکہ شیراز جب بھی انگلستان آتا تو عشال کو بہت ذیادہ پیار کرتا اسے گھمانے لے کر جاتا جس کی عشال کو بلکل بھی اجازت نہیں تھی۔اسکو تو ٹیچرز بھی گھر ہی پڑھانے آتے تھے۔


مگر ایک دفعہ شیراز آیا تو اسکے بلائے بغیر ہی عشال اسکے پاس گئی اور اپنی سبز آنکھوں سے اسے گھورنے لگی۔ان سبز آنکھوں میں غصہ اور بہادری دیکھ کر شیراز کو سکندر یاد آیا تھا۔شیراز کو لگا جیسے اس لڑکی کے جسم میں سکندر کی ہی روح تھی۔


'آپ برے ہیں۔'


عشال نے انتہائی غصے سے کہا شیراز نے اپنا سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا۔


'ہاں میرا بچہ میں برا ہوں بہت ذیادہ برائیاں کی ہیں میں نے۔'


شیراز کی آواز میں غم اور پچھتاوا تھا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔


'آپ نے میرے بھائی کو مارا؟؟'


عشال کے سوال پر شیراز کا سر مزید جھکا آہستہ سے شیراز نے ہاں میں سر ہلایا۔


'میں بڑے ہو کر آپ کو مار دوں گی۔۔۔'


عشال بات پر شیراز نے اپنا سر اٹھا کر عشال کو دیکھا ان سبز آنکھوں میں بہت ذیادہ بہادری تھی بلکل سکندر کی طرح۔


عشال سب سے زیادہ اپنی ماں اور فرمان کے قریب ہی تھی کیونکہ سب سے زیادہ وقت وہ ان دونوں کے ساتھ ہی گزارتی۔عشال نو سال کی ہوئی تو شیراز کی پوری فیملی ایک کار ایکسیڈینٹ میں ماری گئی ۔شیراز اس وقت ان لوگوں کے پاس تھا شیراز کو جیسے ہی یہ خبر ملی وہ شاہانہ اور عشال کو واپس پاکستان لے کر آیا اسکے بیوی بچوں کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ انکی لاش تک پہچاننے کے قابل نہیں رہی تھی۔


وہ پوری رات شیراز شاہانہ کے قدموں میں بیٹھ کر روتا رہا اپنے گناہوں کی مافی مانگتا رہا تھا اور شاہانہ مردہ آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی تھی۔


اگلے دن ہی شیراز نے ایک فیصلہ کیا۔اس نے الفاظ درانی کے برباد ہونے پر اسکی کمپنی کے جو شیرز خریدے تھے وہ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بھی تمام جائیداد عشال کے نام کر دی۔


شیراز نہیں چاہتا تھا کہ اگر اسے کبھی کچھ ہو جائے تو عشال اور شاہانہ در بدر کی ٹھوکریں کھائیں۔


انہیں پاکستان آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور اگلے دن ہی شیراز عشال اور شاہانہ کو لے کر انگلستان واپس جانا چاہتا تھا لیکن اسی رات کچھ لوگ انکے گارڈز کو مار کر گھر میں داخل ہوئے۔ شاہانہ نے سہم کر عشال کو خود میں بھینچا۔


'کیسے ہو شیراز حسن۔'


اس گینگ کے لیڈر نے شیراز کو گریبان سے پکڑ کر پوچھا۔شیراز کی روح تک کانپ گئی تھی لیکن شاہانہ حیرت سے اس تیئس سالہ لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔وہ کیسے نہ پہچانتی اسے وہ اسکا رومان ہی تو تھا۔


شاہانہ عشال کو چھوڑ کر بھاگ کر رومان کے پاس گئی اور اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی اسکا ایک بیٹا زندہ تھا رومان زندہ تھا شاہانہ کو امید نظر آئی۔


رومان نے حیرت سے شاہانہ کو دیکھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ شاہانہ آج تک زندہ تھی ۔


کہاں تھے تم رومان اتنا کچھ ہو گیا ہمارے ساتھ میرے سکندر کو مار دیا انہوں نے رومان تمہارے بھائی کو مار دیا۔


رومان نے حیرت سے شاہانہ کو اشارہ کرتے دیکھا پھر اسکی نظر کمرے کے کونے میں کھڑی عشال پر پڑی۔


دیکھو وہ عشال ہے رومان تمہاری بہن ۔۔۔۔عشال یہ بھائی ہے آپکا۔


شاہانہ نے بے چینی سے اشارہ کیا۔رومان چل کر عشال کے پاس آیا اور پھر اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر عشال کی آنکھوں میں جھانکا۔عشال کو نا جانے کیوں وہ شخص صیح نہیں لگا تھا اسی لئے اپنی آنکھوں کو خطرناک کر کے وہ رومان کو گھورنے لگی تھی۔


'تم عشال درانی ہو؟'


رومان نے ایک ابرو اچکا کر سوال کیا۔


'میں سکندر ہوں۔'


عشال نے بہت بہادری سے دانت پیس کر کہا۔رومان کو اس کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی وہ بلکل سکندر کے جیسی تھیں اور رومان کو سکندر کی یاد دلا رہی تھیں۔


'کیا کہا تو نے۔'


رومان نے غصے سے اتنا کہہ کر عشال کی نازک گردن کو پکڑا اور اسے زور سے دبانے لگا۔عشال اسکی پکڑ میں مچلنے لگی لیکن وہ نازک سی بچی کر بھی کیا سکتی تھی۔


شاہانہ حیرانی اور پریشانی سے رومان کے پاس آئی اور اسے عشال سے دور ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگی۔رومان نے ایک جھٹکے سے عشال کو دھکا دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔


'لڑکی ہے تو کمزور ہے سمجھی ایک لڑکی کچھ نہیں کر سکتی سوائے رو کر بدعا دینے کے جوتی ہے تو پاؤں کی۔'


رومان نے اتنا کہہ کر اپنے بھاری بوٹ سے ایک زور دار ضرب عشال کے پیٹ میں ماری۔


شاہانہ رومان کے آدمی کی پکڑ میں روتے ہوئے مچل رہی تھیں لیکن رومان کسی کی پرواہ کیے بغیر اس چھوٹی سی بچی کو مار رہا تھا۔تیسری ضرب پر ہی عشال بے سدھ ہو گئی لیکن وہ بے ہوش نہیں ہوئی تھی رومان شاہانہ کی طرف پلٹا۔


'آپ کو کیا لگتا ہے آپکے سکندر کو انہوں نے مارا تھا ۔۔۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔۔ لیکن مروایا تو میں نے تھا نا آپکے اس سکندر کو'


شاہانہ نے غم اور حیرت سے رومان کو دیکھا ۔


'ہاں بلکل جیسے ابھی آپکو مار دوں گا۔'


اتنا کہہ کر اس نے شاہانہ پر بندوق تان کر گولی چلا دی۔شاہانہ فوراً زمین پر گری تھیں۔چھوٹی سی عشال وہیں پڑی پڑی تڑپ کر رہ گئی تھی لیکن اس میں اٹھنے کی ہمت بلکل بھی نہیں تھی۔


رومان مسکرا کر شیراز کی طرف مڑا۔


'تو کہا تھا نا میں نے تجھے کہ الفاظ درانی کی دولت پر میرا حق ہے پھر کیونکر تو نے وہ سب کسی اور کے نام کر دیا؟'


رومان نے بہت غصے سے کہتے ہوئے شیراز کو مارا ۔


'رومان۔۔۔۔۔'


شیراز نے اسے روکنے کی ناکام کوشش کی ۔


'نہیں نہیں شیراز حسن اب میں کوئی رومان یا بلو نہیں رہا میں آر بی ہوں سمجھا۔ ایسی طاقت جو کسی کے قابو میں نہیں۔'


رومان نے ایک جھٹکے سے شیراز کو زمین پر پٹخا اور اپنے ایک آدمی سے کچھ پیپرز پکڑ کر شیراز کے سامنے پھینکے۔


'چل ان پر سائن کر اور شرافت سے ساری جائیداد میرے نام کر دے۔'


رومان کی بات پر شیراز حسن نے اپنا سر انکار میں ہلانا شروع کر دیا۔


'نہیں اس دولت پر صرف عشال کا حق ہے۔'


رومان نے اپنا بھاری بوٹ بہت شور سے شیراز کے منہ پر مارا اور اپنے ریوالور کا رخ عشال کی طرف کر دیا۔


'تو پھر اس عشال کو ہی مار دیتا ہوں۔۔۔'


رومان کی بات پر شیراز کانپ کر رہ گئے۔


'نہیں اسے کچھ مت کرنا میں کرتا ہوں سائن۔'


شیراز نے وہ پیپرز اٹھا کر جلدی سے سائن کیے۔رومان نے وہ پیپرز اسکے ہاتھ سے کھینچے اور پھر اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ان آدمیوں نے اپنی گاڑی میں سے پیٹرول لا کر ہر جگہ پر پھینکنا شروع کر دیا۔شیراز نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن چوٹوں کے بائث وہ اٹھ بھی نہیں پا رہا تھا۔شیراز کو پروا تھی تو صرف عشال کی جو ابھی بھی وہاں بے سدھ پڑی تھی جبکہ زندہ تو شاہانہ بھی تھی شیراز اسے ہلکے ہلکے سانس لیتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔


'رحم کرو ۔۔۔۔'


شیراز نے تھک ہار کر کہا جواب میں رومان قہقہہ لگا کر ہنسا تھا ۔


'رحم مجھے آتا ہی نہیں۔۔۔۔خدا حافظ شیراز اوپر جا کر میرے باپ اور بھائی کو میرا سلام کہنا۔'


رومان نے ایک ماچس جیب سے نکال کر جلائ اور اس تیلی کو شاہانہ پر پھینک دیا۔شاہانہ تڑپنے لگی۔آہستہ آہستہ آگ ہر طرف پھیلنے لگی تھی لیکن وہ شیطان وہاں سے جا چکے تھے۔شیراز نے اٹھ کر شاہانہ کی مدد کرنی چاہی تو آگ نے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


عشال ہلکی سی کھلی ہوئی آنکھیں اور بے سدھ جسم کے ساتھ بہت ذیادہ بے بسی سے اپنی ماں کو تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔بہت سے آنسو ان سبز آنکھوں سے بہے تھے۔شیراز اور شاہانہ تو جل چکے تھے اب عشال کی باری تھی۔


لیکن تبھی کوئی اس آگ میں داخل ہوا اور عشال کو ایک چادر میں لپیٹ کر پچھلے دروازے سے بھاگ گیا۔


عشال پولیس والوں کے قریب آتے سائرن کی آواز سن سکتی تھی لیکن اس کو باہوں میں اٹھا کر بھاگنے والا شخص کافی دور نکل گیا اور عشال بھی بے ہوش ہو کر اسکی باہوں میں جھول گئی۔


عشال کو کافی دن بعد ہوش آیا۔اسے بچانے والا کوئی اور نہیں شیراز کا باڈی گارڈ فرمان تھا جس نے عشال کو اپنی بیٹیوں کی طرح پالا۔اپنے بیوی بچے ہونے کے باوجود کبھی بھی انہیں عشال کے بارے میں پتہ نہیں چلنے دیا۔فرمان نہیں چاہتا تھا کہ عشال کی جان کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہو۔


عشال کئی مہینے کمرے میں بیٹھ کر آنسو بہاتی رہی تھی۔اپنی ماں کی اس قدر درد ناک موت وہ بچی بھلا نہیں پا رہی تھی۔


رومان کا کہا ایک ایک لفظ اسکے ذہن میں گونج رہا تھا لیکن اسکا عشال پر الٹا ہی اثر ہوا تھا۔وہ بزدل نہیں بنی تھی بلکہ سخت ہو گئی بہت بہت ذیادہ مظبوط۔


عشال نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس آر بی کو دیکھائے گی کہ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے جو خود سے ہوئی زیادتی پر صرف بدعا دے کر آنسو بہا لیں۔عشال اس آر بی کی زندگی جہنم سے بھی بدتر کر دے گی۔


عشال نے فرمان سے کہا تھا کہ اسے بندوق چلانا اور لڑنا سیکھا دے پہلے تو فرمان کو عشال کو اس طرح کے خطرے میں ڈالنا بہتر نہیں لگا تھا لیکن عشال کے لئے یہی اچھا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کر سکے۔اس لیے فرمان نے محض دس سال کی عمر سے ہی عشال کو لڑنا اور بندوق چلانا سیکھا دیا تھا۔ سکول میں اسکی سب سے زیادہ دلچسپی کمپیوٹر میں تھی اسی لئے عشال کمپیوٹر کا ہر طرح کا راز جانتے جانتے بڑی ہوتے تک کافی اچھی ہیکنگ کرنے لگی جبکہ فرمان اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔


فرمان عشال کا بہت خیال رکھتا تھا اسے کبھی کسی طرح کے خطرے میں نہیں پڑھنے دیتا۔لیکن جب عشال سترہ سال کی ہوئی تو فرمان کی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت ہو گئی۔بہت عرصہ تو عشال اسی صدمے سے نہیں نکل پائی تھی۔پھر عشال نے ایک فیصلہ کیا۔اس نے آر بی کو نیست و نابود کرنے کا سوچ لیا تھا ۔


مگر بھلا ایک لڑکی یہ سب کیسے کر سکتی تھی۔ایک لڑکی نہیں لیکن سکندر تو کر سکتا تھا نا۔تبھی عشال نے سکندر بن کر ایک آدمی کو مار ڈالا جس نے ایک لڑکی کا ریپ کر کے بہت بے رحمی سے اسکا گلا دبا کر مار دیا تھا لیکن اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے بچ گیا اور یہ سلسلہ عشال نے قائم ہی رکھا۔وہ پہلے بہت اچھی طرح سے چھان بین کر کے اپنے شکار کی تمام معاملات اکھٹی کرتی اسکی خامیاں اور کمزوریاں جان کر پھر ان پر حملہ کرتی۔سکندر کے نقاب کے پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز سن کر سب لوگ حیران ہوتے لیکن اپنی حیرانی کسی کو بتانے کے لیے وہ زندہ ہی نہیں رہتے۔


آر بی کے بارے میں پتہ لگاتے ہوئے عشال کی نظر قوم کے ان دشمنوں پر پڑی جو بہت بہادری سے گناہ کر کے بچ جاتے اور پھر سے وہ گناہ کرنے نکل پڑتے تھے۔اس۔ لیے آر بی کو ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ عشال انکی بھی دشمن ہو گئی۔


عشال نے آر بی کا پتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن آر بی نے اپنی معلومات کچھ ذیادہ ہی خفیہ رکھی ہوئی تھی۔عشال کے پاس بس اسکے بچپن کی ایک تصویر ہی تھی اور اسکے نام کے علاوہ عشال کچھ نہیں جانتی تھی۔عشال کو اب ایک ہی حل نظر آیا آر بی تک سکندر کا نام پہچانا پھر وہ آر بی کو نہیں آر بی خود اسے ڈھونڈتا۔


اسی لیے اس پارکنگ ایریا میں آدمی کو مارنے کے بعد اپنا حلیہ بدل کر عشال پولیس سٹیشن گئی اور انہیں سکندر کے بارے میں بتانے لگی۔


پولیس نے بھی اسے سرکاری گواہ کے طور پر پروٹیکشن دینے کی کوشش کی لیکن وہ پروٹیکشن عشال کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے لگی۔اسی وجہ سے عشال خود کو ہی چوٹ پہنچا کر کہتی کہ سکندر اسے مارنا چاہتا ہے ۔بہت جگہیں بدلنے کے بعد عشال کو کرنل آصف کے پاس بھیج دیا گیا۔کرنل آصف کے پاس جا کر عشال نے اس ڈاکٹر کے بارے میں ساری انفارمیشن اکٹھی کر لی تھی ۔


مگر کینٹ ایریا کی سکیورٹی کو توڑ کر باہر نکلنا مشکل تھا اسی لئے عشال نے پھر سے خود پر حملے کی ایکٹنگ کی اور پھر سعد کے پاس بھیج دی گئی۔


یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اسے ایک جوان آدمی کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔عشال نے بہت جلد ہی انکے گھر آ کر چیزوں کو آبزرو کر لیا۔یہاں سے وہ اپنا کام بہت آسانی سے کر سکتی تھی۔


جب عشال نے پہلی مرتبہ وجدان کو دیکھا تو اسے کچھ عجیب سا لگا ۔وجدان خان کی آنکھیں بلکل عشال کی طرح تھیں لیکن یہ ایک اتفاق بھی تو ہو سکتا تھا۔عشال نے معصومیت اور مظلومیت کا دکھاوا کر کے سعد کو تو خود پر پختہ یقین دلا لیا تھا لیکن اتنا وہ سمجھ گئی تھی کہ وجدان خان کافی ذیادہ چالاک آدمی ہے اس سے بچ کر رہنا ہو گا۔


سب کچھ عشال کے پلین کے مطابق ہوا اس نے اس ڈاکٹروں کے نام پر دھبے کو بھی مٹا دیا لیکن عشال نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اسکی دوستی زرش جیسی معصوم لڑکی سے ہو جائے گی اور نہ ہی اس نے یہ سوچا تھا کہ زرش بھی بلکل اس کی طرح اس رومان کے مظالم کا شکار ہو گی ۔


زرش کا سچ جان کر عشال نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آر بی کو اسکے انجام تک پہنچا کر رہے گی پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے۔عشال یہ بھی سمجھ گئی کہ وجدان خان اس پر شک کرنے لگا ہے اسی لئے اس نے زرش کو وہ طریقے بتائے تا کہ وجدان اپنی تمام تر توجہ زرش پر دے اور عشال کا یہ پلین بہت کامیاب بھی رہا تھا پر اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وجدان اس قدر بے حس ہو گا کہ اس لڑکی کے معصوم دل کو چکنا چور کر دے۔نہ ہی اس نے یہ سوچا تھا کہ وجدان کی بے رخی کی وجہ سے زرش گھر چھوڑ کر آر بی کے ہاتھ لگ جائے گی۔


پھر جب وجدان آر بی کو ڈھونڈنے نکلا تو عشال کو یہ موقع بلکل صیح لگا تھا ۔وجدان خان کے ذریعہ وہ بہت آسانی سے آر بی تک پہنچ سکتی تھی۔اسی وجہ سے عشال نے سعد کو وجدان کے ساتھ جانے پر مجبور کیا۔


جب وہ لوگ سبی کے قربستان میں گئے تو دو آدمیوں نے عشال کو پکڑنے کی کوشش کی پہلے تو عشال نے سوچا کہ انکی وہ درگت بنائے کہ وہ زندگی بھر یاد رکھیں لیکن پھر اس نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ وہ کسی طرح تاشا تک پہنچ جائے تا کہ پھر تاشا سے وہ آر بی کا پتہ لگوا لے اسی لیے پھر سے مظلومیت کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر عشال ان مردوں کے ساتھ چلی گئی۔


جب تاشا نے عشال کو اپنے ساتھ لے جا کر بیڈ پر دھکا دیا تو عشال نے غصے سے اپنی مٹھیاں کسیں اور تاشا کہ قریب آنے کا انتظار کرنے لگی۔پر اس کے قریب آنے سے پہلے ہی وجدان نے وہاں آ کر تاشا کو جو حال کیا تھا وہ عشال کو حد سے زیادہ پسند آیا۔مگر عشال کو ڈرنے کا جھوٹا ڈرامہ تو کرنا ہی تھا۔


زیارت جا کر بھی عشال نے زرش سے آر بی کے گھر کا حلیہ پوچھا اور وہاں چلی گئی وہاں جانے کا عشال کو فائدے سے ذیادہ نقصان ہی ہوا تھا وہ وجدان کے ہاتھ لگتے لگتے بچی تھی اور تو اور وجدان کو عشال پر شک بھی ہو گیا۔


برا تو عشال کو تب لگا جب اسے ان لوگوں نے وہاں سے واپس بھیج دیا۔لیکن ایک بات عشال سمجھ چکی تھی۔زرش آر بی کے لیے کوئی عام چیز نہیں تھی آر بی اس کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔اسی لیے عشال نے ایک پلین بنایا کہ وہ آر بی سے رابطہ کر کے اسے زرش دینے کا وعدہ کرے گی لیکن وہ وہاں زرش کو کبھی بھی لے کر نہیں جائے گی بلکہ خود اکیلی ہی آر بی کے سامنے جائے گی۔


وہ اتنا جانتی تھی کہ آر بی کی تمام گینگ اسے زندہ نہیں چھوڑے گی لیکن اس نے خود سے وعدہ کیا کہ مرنے سے پہلے وہ آر بی کو بھی مار دے گی۔


اسی لئے عشال نے ایک آدمی کے بارے میں انفارمیشن اکٹھی کرنی شروع کر دی جو کہ آر بی کے سمگلنگ وغیرہ کے کاموں میں ملوث تھا۔عشال اس سے آر بی کا پتہ لگانے گئی۔آر بی تو نہیں لیکن اسے آر بی کے سب سے خاص آدمی فیض کے بارے میں پتہ چل گیا اور عشال کے لئے یہی کافی تھا۔


عشال باہر آئی تو اسکا سامنا پھر سے وجدان خان سے ہوا۔عشال اس کو چکما دے کر بھاگنے لگی تھی لیکن پھر وجدان کے الفاظ نے اسکے پیر زمین میں گاڑ دیے۔


'بھاگ جانا لیکن پہلے مجھے میری پہچان استمعال کرنے کی وجہ تو بتا کر جاؤ۔'


وجدان کی پہچان؟عشال نے حیرت سے وجدان کی طرف دیکھا۔


'یہ تمہاری پہچان نہیں ہے جسکی ہے وہ مر چکا ہے۔'


عشال نے کرب سے مٹھیاں کستے ہوئے کہا۔


'لگتا ہے میرے بارے میں کافی کچھ جانتی ہو تم لڑکی لیکن سب کچھ نہیں جانتی۔۔۔۔میں ہی سکندر الفاظ درانی ہوں ۔۔۔۔۔۔ مرا نہیں زندہ ہوں اور اپنی پہچان کو چرانے کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔'


عشال کو لگا تھا کہ اسکی سانسیں ہی تھم جائیں گی۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا اسکا بھائی زندہ تھا اسکے سامنے تھا۔اگر وہ زندہ تھا تو کیوں نہیں بچایا اس نے عشال کو کیوں تھی وہ اس حال میں؟


'ثابت کرو کہ تم سکندر الفاظ درانی ہو۔'


عشال نے کافی غصے سے اس کے قریب آ کر کہا۔


'یہ ثابت کرنے کے لیے میری آنکھیں ہی کافی ہیں عشال الفاظ درانی۔'


وجدان نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ابھی کل اس سے ٹکرانے کے بعد ہی تو وجدان نے اسکے بارے میں تمام انفارمیشن حاصل کی تھی اور عشال کے بابا کا نام دیکھ کر وجدان کو لگا تھا کہ ایک بم اس پر پھوڑا گیا ہو۔عشال اسکی اپنی بہن تھی۔


'نہیں۔۔۔۔۔نہیں ہیں آپ میرے بھائی نہیں ہیں آپ سکندر اگر آپ میرے بھائی ہوتے تو کیوں نہیں بچایا آپ نے ہمیں۔۔۔۔کہاں تھے آپ جب اس نے مجھے مارا۔۔۔۔کہاں تھے آپ جب اس نے میری آنکھوں کے سامنے ماما پر تیل ڈال کر انہیں جلا دیا کہاں تھے آپ بھائی جب میں خود سکندر بن کر۔۔۔۔ خود کو آپ بنا کر اپنے دشمن سے لڑتی رہی اسے ڈھونڈتی رہی۔۔۔۔کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔'


عشال نے روتے ہوئے وجدان کو گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا۔آج وہ تین سال بعد رو رہی تھی۔


'میں نہیں جانتا تھا کہ میرا کوئی اپنا باقی ہے نہیں جانتا تھا کہ میری ماما زندہ تھیں۔۔۔۔نہیں جانتا تھا کہ میری اتنی بہادر بہن بھی ہے۔۔۔۔'


وجدان نے بہت محبت سے کہتے ہوئے عشال کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا تو عشال ہر گلہ بھولا کر اپنے اکلوتے رشتے،اپنے بھائی کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔


'وو۔۔۔۔۔وہ بہت برا تھا بھائی بہت۔۔۔۔۔بہت زیادہ برا۔۔۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے اس نے ماما کو جلا کر مر دیا اور میں کچھ نہیں کر پائی۔۔۔۔۔بہت بے بس تھی میں بہت کمزور۔۔۔۔۔'


وجدان نے بھی آنسو بہاتے ہوئے عشال کو خود سے لپٹایا۔


'معاف کر دو مجھے گڑیا پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔'


وجدان کی رندھی آواز پر عشال نے اپنا سر اٹھا کر وجدان کو دیکھا اور پھر نم سی مسکان کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا۔


'یہ سب اس شیراز حسن کی وجہ سے ہوا ۔صرف انا اور دولت کی خاطر اس نے ہمارے ماں باپ اور بھائی کو مار دیا۔'


عشال کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔


'کونسا بھائی؟'


'ہمارا ایک اور بھائی تھا گڑیا رومان ہم دونوں سے بڑا تھا وہ۔۔۔'


یہ سنتے ہی عشال نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کسیں۔


'نہیں۔۔۔۔ وہ جلاد ہمارا بھائی نہیں ہے آپ جانتے ہیں شیراز انکل تو صرف ایک کٹ پتلی تھے یہ سب کروانے والا رومان ہی تھا۔'


وجدان کی حیرت دیکھتے ہوئے عشال نے سب کچھ اسے بتا دیا جسے سن کر وجدان نے انتہائی غصے سے اپنا ہاتھ گاڑی کے شیشے میں مار کر وہ شیشہ توڑ دیا۔وجدان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر بیٹھے۔جس بھائی کی وہ اتنی عزت کرتا تھا اس سے اتنا پیار کرتا تھا وہ ہی آر بی تھا۔


'ہمیں اسے پکڑنا ہو گا بھائی اسے پکڑ کر اسے اسکے ہر گناہ کی سزا دیں گے۔وہ ہمارا گناہ گار تو ہے ہی لیکن ہم سے بھی زیادہ وہ ہمارے وطن کا گنہگار ہے۔ایسا درندہ بن چکا ہے جسکو قید کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔'


وجدان نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔غصے سے اسکی رگیں تن رہی تھیں۔


'ایک بات پوچھوں ؟'


'ہاں ضرور پوچھو۔'


عشال کے سوال پر وجدان نے بہت محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔نہ ہی وجدان نے اور نہ ہی عشال نے کبھی خواب میں بھی سوچا تھا کہ ان دونوں کو پھر سے انکا خونی رشتہ مل جائے گا۔


'اب تو آپ مجھے لڑکی کہہ کر نہیں بلایا کریں گے نا؟'


عشال کی رندھی ہوئی آواز میں پوچھے گئے اس سوال پر وجدان نے عشال کو کھینچ کر پھر سے اپنے سینے سے لگا لیا۔


'نہیں میری گڑیا کبھی بھی نہیں۔'


وجدان نے بہت محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا۔وجدان اور عشال دونوں کو لگنے لگا تھا کہ انہیں پورا جہاں مل گیا۔


اسکے بعد عشال اور وجدان نے مل کر آر بی کو پھنسانے کا وہ سارا پلین بنایا۔وجدان کو عشال کی قابلیت پر پورا یقین تھا اسی لئے اس بے عشال کو زرش کے حلیے میں ڈھال کر ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا اور وہ دونوں کامیاب بھی ہوئے تھے۔انکا دشمن اب انکی قید میں تھا ہر طرح کا حساب چکانے کے لیے۔انہیں ایسا لگا کہ انکی زیست کا سفر مکمل ہو گیا ہے۔

🌈🌈🌈

(حال)

سب بتانے کے بعد عشال نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر سعد کو دیکھا۔سعد نے بہت محبت سے عشال کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔وہ اپنی بہادر سی بیوی کا غم کم کرنا چاہتا تھا۔سعد نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ عشال کی ہمت بنے گا اسے مزید مظبوط مزید طاقت ور بنائے گا۔سعد نے بہت نرمی سے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر ہاتھوں میں تھاما اور بہت محبت سے اسکی نم آنکھوں کو چومنے لگا۔عشال نے اپنی آنکھیں مونند لیں۔


'تم میرا غرور ہو عشال مجھے فخر ہے کہ تم میری بیوی ہو میری محبت ہو۔میں آرمی میں ہو کر بھی ملک کے لیے اتنا سب کچھ نہیں کر پایا جو کچھ تم نے کیا ہے۔

I am proud of you.


سعد کی بات پر عشال مسکرائی ۔


'ویسے ایک بات تو بتاؤ مجھے ؟'


'کیا؟'


عشال نے دلچسپی سے پوچھا۔


'تمہاری اس ساری کہانی میں تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی حالانکہ ہم تو آپکو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھے تھے۔'


سعد نے خوب ڈرامائی انداز میں کہا تو عشال کھلکھلا کر ہنس دی۔


'کس نے کہا کہ مجھے آپسے محبت ہے؟'


سعد نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے عشال کو گھورا۔


'تو پھر یہ شادی۔۔۔۔'


'ارے یہ تو میں نے اپنے بھائی اور بابا کی بات کا مان رکھنے کے لیے کی ہے ورنہ اپنا سٹینڈرڈ تو آپکو یاد ہی ہو گا۔'


عشال نے شرارت سے ایک آنکھ دبا کر اسے وہ بھینس والا واقعہ یاد کروایا۔


'تم پھر سے بہت بول رہی ہو وائفی مت بھولو کہ پہلے تمہیں کیسے چپ کروایا تھا۔'


سعد کے ایسا کہنے پر عشال کے گال دہک اٹھے۔عشال نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا اور ایسا کرتے ہوئے وہ بہادر سی ہری آنکھوں والی لڑکی سعد کے دل میں اتر گئی تھی۔


I love you Ishaal.I love you more than life.


سعد نے بہت شدت سے کہا تو عشال سٹپٹا کر رہ گئی۔سعد کا دل اسکے چہرے پر آنے والے رنگوں کو دیکھ کر بے ایمان ہونے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ پھر سے کوئی پیار بھری گستاخی کرتا عشال نے اچانک ہی اسکا بازو بہت مظبوط سے پکڑ کر مڑوڑا اور اپنے ساتھ سعد کی کمر کے پیچھے لے گئی۔


'اب میری شرافت کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔شرافت سے نکل جائیں یہاں سے۔'


عشال نے اسے دروازے کی طرف دھکا دے کر کمرے سے باہر نکالا لیکن اس سے پہلے کہ وہ دروازہ بند کرتی سعد نے اپنے ہاتھ سے اس دروازے کو بند ہونے سے روکا۔


'ابھی کے لیے تو جا رہا ہوں میری پٹاخہ لیکن کل جب میرے کمرے میں آؤ گی تو راہ فرار نہیں ملے گی۔'


سعد نے انتہائی بے باقی سے کہا۔


'دیکھیں گے۔'


عشال نے بھی منہ اونچا کر کے ڈھیٹائی سے کہا اور دروازہ سعد کے منہ پر ہی بند کر دیا ۔پھر سعد کی باتیں یاد کر کے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔

🌈🌈🌈

صبح ہوتے ہی سب بارات کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے۔وجدان اور سعد کو ہاشم صاحب اپنے ساتھ ہوٹل لے گئے تھے۔انہوں نے عثمان کو بارات کے استقبال کا کہا خود اپنے دونوں بیٹوں کی بارات لانے کا فیصلہ کیا۔


لیکن انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس طرح سے وجدان کا فرض پورا کر کے وہ پھر صرف اور صرف عشال کے بابا ہوں گے۔


حمنہ اور جانان عشال اور زرش کو پارلر لے کر آئی تھیں۔دونوں دلہنوں کے جوڑے بلکل ایک جیسے تھے۔سرخ رنگ کے بھاری کام دار جوڑے پر برائیڈل میک اپ اور گولڈ کے زیورات پہنے وہ دونوں چاند کا ٹکڑا ہی لگ رہی تھیں۔


زرش تو ٹھیک لیکن عشال بھی ایک بار خود کو دیکھ کر نظریں جھکا گئی تھی۔جانان اور حمنہ نے آج بھی بلکل ایک جیسے رائل بلو کلر میں شارٹ فراک اور کیپری پہنی تھی۔


ان دونوں کو دیکھ کر عشال نے سی ٹی بجانے کے لیے اپنے ہونٹ گول کیے لیکن حمنہ نے اسے روک دیا۔


'نہیں عشال آج نا تم یہ ٹھرکی سی حرکتیں کسی اور کے لیے چھوڑ دو۔'


حمنہ کی بات پر جانان بھی سامنے آئی۔


'میں تو سعد بھائی سے کہوں گی کہ عشال جب جب تیار ہو نا وہ ایسے ہی سی ٹی بجایا کریں۔'


اس بات پر اپنی مہندی اور چوڑیوں کو دیکھتی زرش بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔عجیب سی کیفیت تھی زرش کی وہ ڈر رہی تھی کہ اب اسکی ان خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگ جائے ۔یہ تمام خوشیاں اسکو بہت ذیادہ محنت کے بعد تو نصیب ہوئی تھیں۔


'تم دونوں رہنے دو ویسے بھی اتنی پیاری نہیں لگ رہی کہ میں اپنی سی ٹی ضائع کروں وہ تو میں اپنی لٹل ڈال کو دیکھ کر بھی بجا سکتی ہوں۔'


عشال نے زرش کو دیکھ کر اسی مخصوص ٹھرکیوں والے انداز میں سی ٹی بجائی تو زرش دہکتے گالوں کے ساتھ اپنا چہرہ جھکا گئی۔


گارڈز ان چاروں کو لینے آئے عثمان تبسے باہر انکا انتظار کر رہا تھا۔ان لوگوں کے باہر آتے ہی جب عثمان کی نظر حمنہ پر پڑی تو پلٹنا ہی بھول گئی۔اس رائل بلو لباس میں نفاست سے کیے میک اپ،جیولری اور کھلے بالوں پر اپنا دوپٹہ سمبھالتی اسکی بیوی اسے دنیا کی سب سے زیادہ حسین لڑکی لگ رہی تھی۔


'افسوس۔'


حمنہ عشال کو گاڑی میں بیٹھا کر مڑی تو عثمان نے اسکے کان میں سر گوشی کی۔


'کیا ہوا؟'


'کاش یہاں سب نہ ہوتے تو جتنی تم خوبصورت لگ رہی ہو نا جان جہاں میں فرصت سے تمہیں خراج دیتا۔'


عثمان کی بات پر حمنہ اپنے پاؤں کے ناخن تک سرخ ہو گئی اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھنے لگی۔


میرج ہال میں پہنچتے ہی انکا استقبال پھولوں کی بارش سے ہوا۔زرش تو میرج ہال کی خوبصورتی اپنی آنکھیں بڑی کر کے دیکھ رہی تھی۔


وہ میرج ہال خزاں کے تھیم پر تھا اسی وجہ سے اندر بہت سے سوکھے پتوں والے مصنوعی درخت تھے جنہیں لائٹنگ سے سجایا گیا تھا۔باقی سب کچھ اور فرنیچر گولڈن اینڈ وائٹ تھیم پر تھا۔سٹیج کے سینٹر میں ہی بہت بڑا فانوس چمک رہا تھا۔


پھر زرش کی نظر سٹیج پر اسکے استقبال کے لیے کھڑے وجدان پر پڑی۔جو سنہری شیروانی پر مہرون پگڑی سی پہنے انتہائی زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔زرش کتنی ہی دیر پلکیں جھپکائے بغیر اپنے شوہر ،اپنے اس مسیحا کو دیکھتی رہی جس نے زرش کے سفر زیست کو ایک منزل پر پہنچایا اور وہ منزل بہت ذیادہ حسین تھی۔


عشال نے تو سعد کو ایٹیٹیوڈ دیکھانے کے چکر میں اسے آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں تھا بلکہ سارا وقت وہ ایسے دکھاوا کرتی رہی جیسے یہاں پر صرف وہی ہے اور اسکی شادی اپنے آپ سے ہی ہو رہی ہے۔


'بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔'


سعد نے سرگوشی کی جو عشال نے سننا تک گوارہ نہیں کی۔


'کر لو میری جان اپنی منمانیاں لیکن جب میرے کمرے میں آؤ گی تو میری منمانیوں کے لیے تیار کر کے آنا اپنے آپ کو۔'


سعد کی معنی خیز بات پر جہاں عشال اپنے پاؤں کے ناخن تک سرخ ہو گئی تھی وہیں اسنے خود سے عہد کیا کہ سعد کو مزا تو چکھا کر رہے گی۔


زرش ہر چیز کی پرواہ کیے بغیر سارا فنکشن اینجوائے کرتی رہی۔مزا تو اسے تب آیا جب جانان نے اسکے پاس آ کر سیلفیز بنانا شروع کر دیں اور پھر اس نے اور عشال نے خوب ٹھیڑے منہ بنا کر سیلفیز بھی بنائیں۔


فاطمہ بیگم اور سلمان صاحب اپنی بیٹیوں کی ان خوشیوں کو دیکھ کر کئی بار خدا کا شکر ادا کر بیٹھے۔


اسی طرح رخصتی کا وقت آیا تو ہاشم صاحب وجدان اور زرش کے ساتھ ساتھ جانان اور شایان کو بھی اپنے ساتھ ہوٹل میں لے گئے جو انہوں نے بک کروایا تھا اور وہاں دلہا دلہن کے استقبال کے لیے ہر چیز انہوں نے بہت شوق سے تیار کروائی جبکہ عشال کو عثمان کے گھر انہوں نے بلکل ایک بیٹی کی طرح رخصت کیا ۔


زرش کو جانان کمرے میں چھوڑ آئی اور پھر خود باہر کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے وجدان کا انتظار کرنے لگی۔


'جانان آؤ تمہیں ہمارا روم دیکھاؤں کتنا زبردست ہے۔'


شایان کی بات پر جانان نے جلدی سے انکار میں سر ہلا دیا۔اسے تو ڈبل ڈبل نیگ لینا تھا۔وجدان کی بہن ہونے کا بھی اور سالی ہونے کا بھی پھر اس نے سوچا کہ وہ وجدان کی بھابھی بھی تو لگتی ہے اور یہ سوچ کر جانان مزید چہک اٹھی۔


'جسکا آپ انتظار کر رہی ہیں نا جانان دراب وہ تو کب سے بالکونی کے راستے کمرے میں جا چکا ہے۔'


شایان کی بات پر جانان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔


'توبہ ہے بھئ آپکا یہ بھائی صرف کریلا ہی نہیں اول درجے کا کنجوس بھی ہے۔'


جانان نے منہ بنا کر کہا اور شایان کے ساتھ کمرہ دیکھنے چکی گئی۔


زرش سجے ہوئے بیڈ پر بیٹھی کبھی کمرے کی سجاوٹ کو دیکھتی تو کبھی گھبرا کے دروازے کو۔


اس طرح سے سج سنور کر وجدان کا انتظار کرنا اسکی گھبراہٹ میں بہت اضافہ کر رہا تھا۔اپنی گھبراہٹ کے مارے وہ یہ تک نہ جان پائی کہ وجدان کب سے بالکونی کے راستے کمرے میں داخل ہو گیا تھا اور اب اپنے سینے پر ہاتھ باندھے اپنی حسین پری کو گھبراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔


اچانک ہی وجدان دوسری طرف سے زرش کے سامنے آیا تو زرش نے گھبراہٹ کے مارے ہلکی سی چیخ مار دی۔


'اللہ ۔۔۔۔۔ڈرا دیا آپ نے مجھے۔'


زرش کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وجدان نے یونہی کھڑے کھڑے زرش کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔گھبراہٹ کے مارے زرش کی پلکیں جھک گئی تھیں۔


'بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو نور خان۔'


وجدان نے اسکے حسین چہرے کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے بہت ذیادہ محبت سے کہا۔اسکی قربت پر کانپتے ہوئے زرش نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


'آآ۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔میں وہ۔۔۔۔'


زرش جانتی بھی نہیں تھی کہ وہ اسے کیا کہنا چاہ رہی تھی وہ تو بس کسی طرح سے اسکی بولتی آنکھوں سے دور ہونا چاہ رہی تھی لیکن اب یہ ناممکن ہی تو تھا۔


'کیا ہوا نورِ خان آج تمہاری بولتی کیسے بند ہو گئی۔'


وجدان نے شرارت سے پوچھا تو زرش آنکھیں بڑی کر کے جلدی سے انکار میں سر ہلانے لگی۔


'مم۔۔۔۔۔میں تو بس ۔۔۔۔۔میرا تحفہ کہاں ہے۔؟'


زرش کے اچانک سے یہ سوال کرنے پر وجدان قہقہہ لگا کر ہنس دیا اور پھر اپنی جیب سے ایک مخمل کی ڈبیا نکالی جس میں ایک انتہائی خوبصورت سا پینڈنٹ تھا جس صرف دو حرف تھے N اور W۔ اور ایسا لگ رہا تھا کہ W نے N و اپنے اندر چھپایا ہوا تھا۔زرش نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


'یہ بہت ذیادہ پیارا ہے وجدان۔'


زرش نے دل سے کہتے ہوئے اپنا گلا آگے کیا جس میں وجدان نے بہت محبت سے وہ پینڈنٹ پہنایا اور پھر اپنے دہکتے ہوئے لب اسکی گردن پر رکھ دیے۔زرش نے مچل کر دو ہونے کی کوشش کی تو وجدان کی پکڑ مزید مظبوط ہو گئی۔


'ابھی کہاں نور خان ابھی تو تم نے اتنے دنوں کا حساب چکانا ہے۔'


وجدان نے اسکے سجے سنورے روپ کو اپنی پگھلا دینے والی نظروں سے دیکھ کر کہا۔سبز آنکھوں میں جزبات کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا۔


'وو۔۔۔۔وجدان آپ۔۔۔۔۔'


وجدان نے بہت محبت سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوما تو زرش اسکی باہوں میں کانپ کر رہ گئی۔وجدان اسکے لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو زرش زور سے اپنی آنکھیں میچ کر وجدان کی پناہوں میں چھپ گئی۔


'آج کوئی راہ فرار نہیں ملے گی جان تمہیں میری پناہوں میں بھی نہیں۔'


وجدان نے زرش کا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر کہا اور پھر اسکے ہونٹوں پر بہت شدت سے جھک کر اسکی سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔


زرش اسکی شدتوں سے گھبراتی کبھی اسکی پناہوں میں چھپتی تو کبھی خود میں ہی سمٹ جاتی۔


گزرتی رات نے زرش پر وجدان کی محبت کو مکمل طور پر ظاہر کر دیا۔اسکی پناہوں میں اپنا آپ زرش کو بہت قیمتی لگنے لگا تھا۔

🌈🌈🌈

سعد کمرے میں آیا تو عشال دلہن کے روپ میں بیڈ پر بیٹھی موبائل پر پب جی کھیلنے میں مصروف تھی۔سعد نے اسکی اس حرکت پر چڑ کر عشال کے ہاتھ سے موبائل چھینا۔


'اف کیا بدتمیزی ہے یہ ایجنٹ جی موبائل واپس کریں میرا۔'


عشال نے چڑ کر کہا۔


'بد تمیزی یہ ہے میری بیگم صاحبہ کہ آج کی رات آپ کو یہاں بیڈ پر بیٹھ کر شرماتے ہوئے میرا انتظار کرنا تھا نا کہ یوں فالتو کی گیمز کھیلنی تھیں۔'


سعد نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے کہا۔


'ہاں تو انتظار ہی تو کر رہی تھی۔فارغ بیٹھ کر کرتی تو بور ہو کر سو جاتی اس لیے سوچا کہ گیم کھیل لوں اور رہی بات شرمانے کی نا تو وہ مجھے بلکل بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔امم۔۔۔۔بلکہ آپ نا ایک کام کریں۔'


عشال نے سعد کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔سعد اسکے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے وہاں بیٹھ گیا۔عشال نے جلدی سے اپنے سر سے دوپٹہ ہٹایا اور اسے سعد کے سر پر پھیلا دیا۔سعد آنکھیں پھاڑے عشال کی اس حرکت کو دیکھنے لگا۔


'یہ سب کیا ہے؟'


سعد نے دوپٹے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔عشال نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی ظبط کی تھی۔


'آپ نا مجھے ٹریننگ دیں کہ دلہن کیسے شرماتی ہے پھر میں آپکو شرما کر دکھاتی ہوں۔'


سعد ہکا بکا سا اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو اپنی چھوٹی سی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔سعد نے اس دوپٹے کو سائیڈ پر پھینکا اور عشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے بہت اچانک سے اپنی باہوں میں کھینچ لیا۔عشال نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے سعد کو گھورا۔


' فکر مت کرو وائفی شرمانے کے لیے تمہیں کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو میں کروں گا نا اس پر تم خود ہی شرما شرما کر میری پناہوں میں چھپو گی۔'


سعد کی معنی خیز بات اور بولتی آنکھوں ل

کو دیکھ کر عشال کے گال دہک اٹھے لیکن اس نے اپنی ڈگمگاتی بہادری پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔


'دیکھیں ایجنٹ۔۔۔۔۔'


ابھی عشال کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب سعد نے اسکے ہونٹوں پر جھک کر اسکے الفاظ کا گلا گھونٹ دیا۔عشال نے مچل کر اس سے دور ہونے کی کوشش کی تو سعد کا عمل شدت اختیار کر گیا۔


آخر وہ کب تک مقابلہ کرتی تھوڑی دیر کے بعد وہ سچ میں شرما کر سعد کی پناہوں میں چھپنے لگی تھی۔سعد بھی سرشار سا ہوتا اس پر جھکا اپنی شدتیں اس پر لٹاتا رہا۔وہ بہادر سی لڑکی اسکی پناہوں میں چھپتی اپنا آپ مکمل طور پر اسے سونپ گئی تھی۔

🌈🌈🌈

سب کی زندگی بہت ذیادہ حسین ہو گئی تھی۔جانان اور شایان شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی حسن صاحب کے ساتھ واپس چلے گئے تھے۔ہاشم صاحب بھی وجدان اور زرش کے ساتھ ساتھ سعد اور عشال کو بھی اپنے ساتھ پشاور لے گئے تھے لیکن سعد نے وہاں اپنا علیحدہ سے گھر لے لیا اور ہاشم صاحب نے بھی اسکی اس خود داری کو سراہا جبکہ عثمان نے حمنہ کی صحت کی خاطر گاؤں میں رکنا ہی بہتر سمجھا تھا اور تو اور اس نے فاطمہ بیگم اور سلمان صاحب کو بھی اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا۔


وجدان نے آر بی کو اپنے ساتھ پشاور شفٹ کر لیا اور اسے وہاں اپنی اسی مخصوص جگہ پر قید کیا جو اسنے اور شایان نے مل کر گنہگاروں کو سزا دینے کے لئے بنائی تھی۔جہاں آر بی کو وہ روز اسی ازیت سے گزارتا تھا جس سے اس کمینے نے زرش کو گزارا تھا۔آر بی کے جسم پر جگہ جگہ وجدان نے جلا کر نشان بنائے تھے۔اب تو یہ حالت تھی کہ رومان خود بھی موت چاہنے لگا تھا۔زندگی کو اتنی ازیت سے سہنے سے بہتر اسے مرنا لگنے لگا۔


حمنہ کے ہاں بھی ایک بیٹے کی پیدائیش ہوئی جس کا نام انہوں نے سالار رکھا اور اسی طرح خوشیوں میں چار سال کس طرح گزر گئے انہیں اندازہ ہی نہیں ہوا۔ان سب کی زندگی بہت خوشی اور معمول سے چل رہی تھی اور اس معمول سے چلتی زندگی میں پریشانی اچانک ہی زرش کے بے ہوش ہونے پر آئی تھی جو ڈاکٹر کو بلاتے ہی خوشی میں تبدیل ہو گئی تھی۔


وجدان کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یوں اچانک اسکی زندگی کی اتنی حسین خبر اسے مل جائے گی جبکہ ہاشم صاحب تو بہت سا پیسا اپنی بہو کے صدقے میں لوگوں کو دے چکے تھے۔


سب سے زیادہ خوشی تو عشال کو ہوئی تھی جو پھپھو بننے پر بہت زیادہ ایکسائٹڈ ہو رہی تھی۔جبکہ ان سب میں وہ معصوم شرما شرما کر اپنا چہرہ چھپاتی جا رہی تھی۔


ابھی بھی وجدان نے زرش سے یہ کہا تھا کہ وہ اسے کوئی سرپرائز دینا چاہتا ہے اسی لیے زرش جلدی سے تیار ہو کر وجدان کے ساتھ آئی اور پورا راستہ اس سرپرائز کے بارے میں پوچھ پوچھ کر وجدان کا سر کھا گئی۔


وجدان نے ایک پرانی سی عمارت کے سامنے گاڑی روک کر زرش کو کار سے باہر نکالا۔


'اپنی آنکھیں بند کرو۔'


وجدان کے ایسا کہنے پر زرش نے جلدی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔


'نو چیٹنگ۔۔۔'


وجدان کے ایسا کہنے پر زرش نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔وجدان اسے اپنے ساتھ چلا کر لے آیا اور پھر ایک دروازے کے باہر آ کر وجدان نے زرش کو آنکھیں کھولنے کا کہا ۔


زرش نے ہڑبڑا کر اس تباہ حال جگہ کو دیکھا۔

وجدان نے سامنے موجود دروازہ کھولا اور زرش کو لے کر اندر داخل ہوا۔سامنے زخموں سے چور نڈھال سے کرسی سے بندھے آر بی کو دیکھ کر زرش ایک چیخ کے ساتھ وجدان کے سینے سے لپٹ گئی تھی۔


وہ چیخ سن کر آر بی نے بھی اپنا دھیان زرش کی طرف کیا اور اپنی چاہت کو اس طرح سے وجدان کی پناہوں میں دیکھ کر ایک آگ آر بی کے اندر سلگ اٹھی تھی۔


'نہیں نور ڈرو نہیں دیکھو اب یہ شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا کسی قابل نہیں چھوڑا اسے میں نے۔۔۔۔تم سے وعدہ کیا تھا نا کہ بہت ذیادہ ازیت سہے گا یہ تو دیکھو اپنی زندگی کو سچ میں ایک کیڑے کی مانند ہی گزار رہا ہے۔'


وجدان نے آر بی کو دیکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا جسکا سارا دھیان زرش پر تھا لیکن زرش تو ایسے لگ رہا تھا جیسے وجدان کے اندر ہی چھپ جائے گی۔


'دیکھو اسے نور اور بتاؤ اسے کہ تم کمزور نہیں ہو تم بہادر ہو بہت بہادر اور اب تم اس سے نہیں ڈرتی بلکل بھی نہیں ڈرتی۔'


زرش نے اپنا سر اٹھا کر وجدان کی آنکھوں میں اپنی کانچ سی نم آنکھوں سے دیکھا پھر سہمتے ہوئے کرسی سے بندھے آر بی کو دیکھا۔اس شخص کا کیا ہوا ہر ستم زرش کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔


'مم۔۔۔۔میں تم سے۔۔۔۔نہیں ڈرتی۔۔۔۔۔سنا تم نے نہیں ڈرتی میں تم سے۔۔۔۔۔'


زرش نے زارو قطار روتے ہوئے کہا اور اسکی پر خوف آواز سن کر آر بی کے لبوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ آئی۔وجدان نے وہ مسکراہٹ دیکھ کر اپنی مٹھیاں کس لیں۔


لیکن تبھی زرش کانپتے ہوئے آر بی کے سامنے گئی وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اسے اپنے ڈر کا سامنا کرنا ہے۔اتنا سوچتے ہی زرش نے ہاتھ اٹھایا اور ایک تھپڑ آر بی کے چہرے پر مار دیا۔آر بی کے ساتھ ساتھ وجدان نے بھی بہت حیرت سے زرش کو دیکھا۔


'برے ہو تم بہت برے تم نے بیا کو مارا تھا۔۔۔۔بیا کو مارا تھا ۔۔۔۔۔'


زرش روتے ہوئے چلانے لگی اور ساتھ ہی زور زور سے آر بی کے چہرے اور سینے پر تھپڑ اپنے نازک ہاتھوں سے تھپڑ اور مکے مارنے لگی۔


'نہیں ڈرتی میں تم جیسے برے انسان سے نہیں ڈرتی۔۔۔'


زرش نے اپنا پورا زور لگا کر اسکے چہرے پر تھپڑ مارا لیکن پھر وجدان نے آگے بڑھ کر زرش کا ہاتھ تھام لیا۔


'بس نور تھک جاؤ گی تم۔۔۔'


وجدان نے بہت محبت سے زرش کو اپنے ساتھ لگا کر کہا زرش اپنے آنسو ضبط کرنے لگی۔


'تو تمہاری خوش فہمی دور ہو گئی نا کہ زرش تم سے ڈرتی ہے جو خوف تم نے اسکے دل میں ڈالا تھا وہ عمر بھر تک ایک چھاپ بنا رہے گا ۔۔۔۔لیکن حقیقت تمہارے سامنے ہے تمہارے خوف کا ایک سایہ تک نہیں ہے میری نور پر۔'


وجدان نے بہت محبت سے زرش کو دیکھ کر کہا۔اسکی آنکھوں میں یہ محبت آر بی کو اندر تک سلگا گئی تھی۔وہ اپنے تمام زخم بھلا کر دل میں جلنے والی آگ سے سلگ اٹھا تھا۔


'ارے ہاں یاد آیا رومان میں تو تمہیں مبارکباد دینے آیا تھا۔۔۔'


آر بی نے حیرت سے وجدان کو دیکھا۔


'مبارک ہو بہت بہت تم تایا بننے والے ہو معاف کرنا میں مٹھائی لانا بھول گیا۔'


وجدان نے مسکرا کر کہا تو زرش فوراً اپنا دہکتا چہرہ وجدان کے سینے میں چھپا گئی جبکہ وجدان کی بات اور وہ منظر آر بی کو اندر تک سلگا گیا تھا۔سکندر سچ میں جیت چکا تھا اور رومان بہت بری طرح سے ہارا تھا۔


'یہ میری ہے رومان صرف اپنے خان کی نور۔۔یاد رکھنا۔'


وجدان نے زرش کو اپنے سینے میں کستے ہوئے کہا اور مسکرا کر رومان کو دیکھنے لگا جو ہمیشہ کی طرح پھر سے حسد کی آگ میں اندر ہی اندر جل رہا تھا۔


وجدان تو زرش کو وہاں سے لے گیا لیکن رومان اپنے جسم سے اٹھتی تکلیفوں کو نظر انداز کر کے اپنے سینے میں اٹھنے والی آگ پر چلا اٹھا تھا۔وہ ہار گیا تھا اتنا طاقتور ہونے کے باوجود ہار گیا کیونکہ برائی کبھی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتی ۔


اللہ نے بس برے انسان کی رسی دراز کی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی برائی کی ہر حد دیکھ لے لیکن جب وہ رسی کھینچی جاتی ہے تو اس شخص کی قابل رحم حالت پر بھی کسی کو رحم نہیں آتا اس رحمن کو بھی نہیں۔ یہی تو رومان کے ساتھ بھی ہوا تھا اسکے گناہوں نے اسے مکمل طور پر برباد کر دیا اور وہ اس بند کمرے میں اپنی ہار پر بربادی پر بس چلاتا رہ گیا۔

🌈🌈🌈

وجدان ہیڈ کوارٹر آیا تھا اسے اپنے مشن کے بارے میں انفارمیشن دینی تھی۔ساری انفارمیشن دیکھنے کے بعد کرنل منور صاحب وجدان کو گھور رہے تھے۔


'میں مان نہیں سکتا وجدان کہ تم ناکام ہو گئے ہو سکندر کو پکڑنے میں۔'


وجدان انکی بات پر مسکرا دیا ۔


'کیوں میں کیوں ناکام نہیں ہو سکتا بس اتنی سی بات ہے کہ یہ سکندر میری سوچ سے کچھ زیادہ ہی چالاک نکلا ۔'


کرنل منور صاحب نے اسے گھورا ۔


'بات اتنی سی نہیں ہے وجدان خان مجھے لگتا ہے کہ تم مجھ سے کیا وعدہ توڑ چکے ہو۔'


منور صاحب نے صدمے سے کہا۔


'نہیں انکل آپ کو غلط لگ رہا ہے میں نے اپنا وعدہ نہیں توڑا غلط راہ پر نہیں چلا اور میں سکندر نہیں ہوں ۔لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ سکندر جو کوئی بھی ہے وہ تب تک ایک انسان کے لیے خطرہ نہیں ہے جب تک وہ انسان دوسروں کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔'


وجدان کی بات کا مطلب سمجھ کر منور صاحب سوچ میں پڑھ گئے۔


'مجھے تم پر بھروسا ہے وجدان پورا پورا بھروسہ ہے لیکن مجھے یہ مشن کسی اور کو دینا ہو گا اور امید ہے کہ تمہارا سکندر اس معاملے میں محتاط رہے گا۔'


وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے اٹھ کر منور صاحب کو سیلیوٹ کرنے لگا۔منور صاحب نے حیرت سے وجدان کو دیکھا اتنے سالوں کی سروس میں آج پہلی مرتبہ وجدان نے انہیں سیلیوٹ کیا تھا۔


'تم نے ہمیشہ سے اپنی پوسٹ لینے سے انکار کیا اور خفیہ طور پر ملک کے کام آتے رہے لیکن کیا تم ابھی بھی اپنی پوسٹ لینے سے انکار کرو گے میجر وجدان خان؟'


وجدان نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔وجدان نے میجر ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنی پوسٹ قبول نہیں کی تھی اور سب جانتے تھے کہ وجدان اپنے نام کے ساتھ کوئی عہدہ پسند نہیں کرتا اسی لئے وہ اسے صرف نام سے ہی بلاتے ہیں۔


'مجھے پوسٹ سے کوئی سروکار نہیں جب تک میں ہر برے انسان کو اسکے انجام تک پہنچاتا رہوں گا میری زیست کا سفر چلتا رہے گا انکل اور یہی تو میرا وہ مقصد تھا جسے سمجھنے میں میں نے اتنا وقت لگا دیا۔'


وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا منور صاحب بھی اسکے معاملے میں مطمئین ہو گئے تھے۔


وجدان باہر آ کر گاڑی میں بیٹھا تو اسکا موبائل بجنے لگا۔وجدان نے دیکھا تو فراز کا فون تھا جسے وجدان نے آر بی کی نگرانی پر رکھا تھا ۔


'ہیلو بولو فراز۔'


'سر وہ۔۔۔وہ آر بی یہاں نہیں ہے سر بھاگ گیا ہے وہ رات میں نا جانے کہاں غائب ہو گیا۔۔'


فراز کی گھبراہٹ سے بھری آواز وجدان کو سنائی دی۔وجدان نے فون بند کیا اور زرش کو فون کرنے لگا لیکن زرش فون نہیں اٹھا رہی تھی۔وجدان نے بے چینی سے ہاشم صاحب کو فون کیا۔


'ہاں بولو وجدان۔۔'


'بابا زرش کہاں ہے؟'


وجدان کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اس نے بے چینی سے پوچھا۔


'بیٹا وہ تو گھر ہے میں زرا دوست کی طرف آیا کیوں خیریت۔۔۔'


اتنا سنتے ہی وجدان نے فون بند کیا اور کار سٹارٹ کر کے فل سپیڈ میں بھگانے لگا۔اسے جکد از جلد زرش کے پاس پہنچنا تھا۔آر بی کا سب سے پہلا نشانہ وہی تو ہونی تھی اور وجدان اسے کچھ بھی نہیں ہونے دے سکتا تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔

🌈🌈🌈🌈

-------------------------------------


'کیسے ہو آر بی۔۔۔۔؟؟


ایک لڑکی کی آواز پر آر بی نےکرسی سے بندھے ہوئے سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں بہت ہلکی سی روشنی میں کالی جینز پر کالی ہڈی پہنے عشال درانی ہاتھوں میں ایک انجیکشن لئے کھڑی تھی۔۔۔۔


'بہت برا ہوا نا تمہارے ساتھ کہاں تم بھاگنے لگے تھے اور کہاں اب۔۔۔۔!!!


عشال چل کر اسکے پاس آئی اور اسے بالوں سے پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا۔۔۔


'اپنے لالچ اور خواہشوں میں تو یہ بھی بھول گیا کہ تو ایک انسان ہے شیطان نہیں لیکن تجھے تو شوق تھا نا شیطان بننے کا تو اب بھگت۔۔۔۔!!!


عشال نے ایک زور دار مکا اسکے منہ پر مارا جس سے آر بی کی ناک ٹوٹ گئی اور خون بہنے لگا۔۔۔۔


'ویسے تیرے گناہ دیکھے جائیں نا تو ان گنت ہیں لیکن شروعات ڈرگز سے کرتے ہیں پاکستان میں ڈرگ مافیا تو نے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا نا۔۔۔۔؟؟؟


عشال اس گرد چکر لگاتے ہوئے کہنے لگی اور عشال کی ہر حرکت آر بی کو ڈرا رہی تھی اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ عشال کے عورت ہونے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ رحم کھائے گی وہ اپنے بھائی سے بھی زیادہ سفاک ہے۔۔۔۔


'جانتا ہے کیسا لگتا ہے جب کوئی اپنے ڈپریشن یا بچپنے میں ڈرگز کا عادی ہو جاتا ہے۔۔۔۔؟؟؟


عشال نے اسکا بازو سیدھا کیا اور ہاتھ میں پکڑا انجیکشن آر بی کی نس میں لگا دیا۔۔۔۔


'اسکا اندازہ تجھے تب ہو گا جب تو بھی اس زہر کا عادی ہو جائے گا اور میں تجھے یہ زہر نہیں دوں گی ہاہاہاہا تڑپے گا تو بھی ان نوجوانوں کی طرح جنہیں تجھ جیسے دولت کے بھوکوں کی وجہ سے یہ لت لگ گئی۔۔۔۔!!!


آر بی کے حواس پر اس انجیکشن کا نشہ طاری ہونے لگا تو عشال نے اسے کھول کر زمین پر پٹخا اور اپنا پیر بہت زور سے اسکے پیر پر رکھ کر اسکے پیر کو چٹخنے لگی۔۔۔۔


'بہت شوق ہے نا تجھے لوگوں کو جلانے کا آج میں تجھے بتاتی ہوں کہ جلتے ہوئے کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔!!!


عشال نے پاس پڑی پیٹرول کی پوتل اٹھا کر وہ پیٹرول اسکے گھٹنے سے لے کر پیر تک ڈالا اور مسکراتے ہوئے ماچس جلا کر اسکے پیر پر پھینک دی۔۔۔۔


آر بی کی دردناک چیخیں در و دیوار سے ٹکرائیں لیکن اسکا جسم اس نشے کے زیر اثر تڑپنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا جب آر بی بے سدھ ہو گیا اور ٹانگ کافی بری طرح سے جھلس گئی تو زرش نے اس پر پانی پھینکا اور اسے واپس اٹھا کر کرسی سے باندھ کر وحشت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Safer Zeast Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Safer Zeast written by Haram Shah  . Safer Zeast  by Haram Shah  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages