Ishq e Bekhabar By Bint E Ahmed Sheikh Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 16 September 2024

Ishq e Bekhabar By Bint E Ahmed Sheikh Complete Romantic Novel

Ishq E Bekhabar By Bint E Ahmad Sheikh New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq e Bekhabar By Bint E Ahmed Sheikh Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishq e Bekhabar 

Writer Name: Bint E Ahmed Sheikh 

Category: Complete Novel

رات کی سیاہی نے آسمان کو الوداع کہا تو آسمان نے خوش دلی سے سورج کا استقبال کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی روشنی چار سو پھیل گئی انسان اور جانوروں کے ساتھ چرند پرند بھی اپنے رب کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہوگئے ۔

ایسے ہی یہ خوشیوں بھری صبح کاردار ولا میں بھی اتری تھی اور سب خوش گپیوں میں مصروف ڈائننگ ہال میں ناشتے پر موجود تھے ۔

آج سب جلدی اٹھ گئے تھے ورنہ کاردار ولا میں دوپہیر ایک بجے تک رات کا ہی گمان ہوتا تھا لیکن آج سب جلدی ہی اٹھ گئے تھے کیونکہ آج پورے دو سال بعد اس گھر کا لاڈلا ہمیشہ کے لئے اپنے پیاروں سے اپنے لاڈ اٹھوانے آرہا تھا جس کی وجہ سے کاردار ولا کے ہر فرد کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ۔

بابا بھائی کب تک پہنچے گے ؟

انعمتہ نے ناشتہ کرتے ہوئے اذان صاحب سے پوچھا جو کہ ناشتہ کر رہے تھے باقی سب بھی سوالیہ نظروں سے ان کی ہی طرف دیکھ رہے تھے ۔

بابا کی جان آپکے بھائی نے کہا تھا بس میں نے اتنا بتادیا کہ میں آج آرہا ہوں کب تک آؤنگا یہ نہیں بتاؤنگا کیونکہ پھر آپ لوگ لینے ائیرپورٹ آجاؤگے جو کہ میں بلکل بھی نہیں چاہتا اس لئے میں خود گھر آجاؤنگا ۔

میرا ہوگیا میں چلتا ہوں ۔

ابھی اذان صاحب اپنی بات مکمل کرتے کہ مسیّب نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا اور اپنا سامان اٹھانے لگا ۔

بیٹا آج آپ کا بھائی آرہا ہے آج تو چھٹی کرلو شہزادے ۔

انعم بیگم نے مسیّب کو اپنا سامان اٹھاتے دیکھ پیار سے کہا ۔

ایم سوری مما لیکن میں چھٹی نہیں کرسکتا کافی پیشنٹ میرا انتظار کر رہے ہونگے میں چھٹی نہیں لے سکتا اس لئے میں چلتا ہوں اللّٰہ حافظ ۔

انعم بیگم کے کہنے پر مسیّب سپاٹ لہجے میں کہا اور سامان اٹھاتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں سے نکل گیا ۔

ہمارا بھی ہوگیا اب ہم سب بھی اپنے کمروں میں تیار ہونے جارہے ہیں ۔

اچھا ٹھیک ہے آپ لوگ جاؤ اور جلدی تیار ہوجانا میں اور بھابھی ایک نظر ساری تیاری دیکھ لیں ۔

حرمین کے کہنے پر فریحہ بیگم نے پیار سے کہا جس پر وہ تینوں روم میں بھاگ گئیں ۔

میرا بھی ہوگیا میں بھی ذرا باہر جارہا ہوں تھوڑا کام ہے ۔

سب کے جانے کے اذان صاحب نے کہا اور اٹھ کر باہر چل دیے تو پیچھے وہ دونوں خواتین بھی اپنے اپنے کاموں میں لگ گئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرمین مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پتہ نہیں کیا ہوگا آج ؟

انعمتہ نے مرر کے سامنے کھڑے ہوکر بال بناتی حرمین سے کہا ۔

کیوں کیا ہوا ڈر کیوں لگ رہا آج تو خوشی کا دن ہے بیوقوف حضیر بھائی دو سال بعد آرہے ہیں ۔

حرمین کے بجائے حیان نے انعمتہ سے کہا جو کہ ابھی باتھروم سے کپڑے بدل کر آئی تھی ۔

یار جب بھائی کو پتہ لگے گا کہ مشی بھابھی یہاں نہیں ہے تو وہ گھر میں وبال مچادینگے تم دونوں جانتی ہو انکا غصہ مجھے تو بس یہی سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں پتہ نہیں اب کیا ہوگا ۔

ہاں یار یہ بات تو میرے بھی دماغ میں آئی تھی خیر ابھی سے اپنا موڈ خراب مت کر جو ہوگا دیکھا جائیگا اور کسی کے سامنے غلطی سے بھی مشی کی نام مت لینا خاص کر ردابہ آپی کے سامنے ورنہ تو جانتی ہے نہ کتنی ڈانٹ پڑیگی ۔

انعمتہ کے کہنے پر حرمین نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔

ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی پتہ نہیں کیوں سب مشی سے اتنی نفرت کرتے ہیں تایا جان تائی جان امی دادی اور خاص کر ردابہ آپی حالانکہ وہ ہماری فیملی کی سب سے چھوٹی کزن ہے اور سب سے پیاری مجھے تو بہت اچھی لگتی ہے کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی سب کا احترام کرتی تھی پتہ نہیں اب کہاں ہونگی مجھے تو انکی بہت یاد آتی ہے ۔

حیان نے بھی ان دونوں کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔

بیوقوف انسان اتنی تیز آواز میں بکواس کر رہی ہے اگر کسی نے سن لیا نا شامت آجائیگی اور اب اس ٹاپک پر بعد میں بات کرینگے اٹھ کر تیار ہو جلدی سے جاؤ ۔

حرمین نے حیان کو ڈپٹتے ہوئے کہا جس پر حیان منہ بناتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاکر تیار ہونے لگی اور انعمتہ اپنے کپڑے لیکر باتھروم میں گھس گئی ۔

تینوں ایک ہی کمرے میں رہتی تھی ہر چیز سیم ہوتی تھی تینوں کی سب تینوں کو بہنیں سمجھتے تھے جبکہ حرمین اور حیان ٹوئنس تھیں لیکن انعمتہ کزن لیکن ہم عمر اور انکی سیم ڈریسنگ کی وجہ سے سب انہیں بہنیں ہی سمجھتے تھے جبکہ ان میں پیار سگی بہنوں سے بھی زیادہ تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے جیسے ہی پلین سے باہر قدم رکھا سب سے پہلے ایک گہرا سانس لیکر اپنے پاک وطن کی پاک ہوا کو اپنے اندر اتارا اور پھر اپنے بھاری برانڈ کے بوٹ میں مقید پاؤں آگے بڑھائے جبکہ اسکے پلین سے باہر نکلتے ہی سب اس حسن کے مجسمے کر دیکھ کر ساکت ہوگئے بس یک ٹک اس یونانی دیوتا کو ہی دیکھ رہے تھے جو کہ سب سے بے نیاز بلیک پینٹ کورٹ میں بلیک شرٹ کے ساتھ بلیک ہی ٹائی لگائے آنکھوں پر بلیک ہی گلاسس حتٰی الٹے ہاتھ کی کلائی میں رولیکس کی بلیک کی گھڑی پہنے اور سیدھے ہاتھ میں پکڑے بلیک ہی آئی فون میں بزی تھا جبکہ اسکا سیکیٹری مؤدب سا ہاتھ باندھے اسکے پیچھے ہی چل رہا تھا ۔

جیسے ہی وہ بوٹ میں مقید بھاری قدم اٹھاتا ائیرپورٹ میں انٹر ہوا تو اسکو دیکھتے ہی میڈیا والے بے قابو ہوتے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنے لگے جنکو اسکے لاتعداد گارڈز نے سنبھالا تھا جبکہ میڈیا کو وہاں دیکھ کر اسکی پیشانی پر بل پڑے اور اس نے ایک نظر اپنے سیکیٹری کو دیکھا جیسے آنکھسں سے ہی پوچھ رہا ہوں میں نے منع کیا تھا پھر یہ یہاں کیسے اور اب سزا کے لئے تیار رہو جبکہ اسکے ایک نظر دیکھنے سے ہی وہ بیچارہ کانپ کر رہ گیا اور بس اسے یقین ہوگیا تھا کہ اسکی سزا پکی ہے جبکہ دوسری طرف اسکا باس اسکو کانپتے ہوئے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا جس پر وہ بھی جلدی سے اسکے پیچھے بھاگا ۔

وہ جیسے ہی اپنی گاڑی کے قریب پہنچا تو جلدی سے گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا جس پر وہ شان سے گاڑی میں بیٹھا ۔

باہر نکلو اور ٹیکسی سے یا پھر پیدل آؤ یہی سزا ہے تمہاری ۔

اسکا سیکیٹری جیسے ہی اسکے ساتھ بیٹھنے لگا اس نے ایک نظر اسے دیکھتے پوئے ادائے بے نیازی سے کہا اور دوبارہ موبائل میں مصروف ہوگیا جبکہ وہ بیچارہ کم سزا پر جان خلاصی ہونے پر فوراً سے باہر نکلا اور اسکے باہر نکلتے ہی گارڈ نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی جبکے دو گاڑیاں اسکی گاڑی کے آگے تھی اور دو پیچھے اور بیچ والے بی ایم ڈبلیو میں وہ بے فکر سا بیٹھا اپنی منزل کا انتظار کرنے لگا جبکہ اپنی شریکِ حیات کا سوچ کر ہی گلابی لبوں پر تبسم بکھرا تھا جس سے گال پر موجود گڑھا اپنا دیدار کرواکر دوبارہ چھپ گیا جبکہ اپنی زندگی کا سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں موند کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ملک کے ناموار بزنس ٹائیکون حضیر کاردار دو سال بعد اپنے وطن وآپس تشریف لاچکے ہیں یہ جو آپ کر سامنے تصویر چل رہی ہے جی ہاں یہی ہیں جو پاکستان اور دیگر ممالک میں کم عمری سے ہی بیسٹ نمبر ون بزنس ٹائیکون کا آوارڈ جیتتے آرہے ہیں اور آج وہ اپنی پوری شان کے ساتھ پاکستان تشریف لاچکے ہیں ۔

نیوز اینکر چیخ چیخ کر حضیر کے آنے کا دنیا کو بتارہا تھا جبکہ اذہان صاحب نے فوراً سے ایل ای ڈی بند کردی ۔

بابا آپ بے فکر رہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کون آرہا ہے اور کون نہیں ہماری زندگی میں بس صرف آپ اور ہماری بیٹی ہمارے لئے اہم ہیں جن کی وجہ سے شاید ہم زندگی کی طرف لوٹے ہیں اور آپ دونوں ہی ہماری طاقت ہیں اور اب کوئی چاہ کر بھی ہمیں توڑ نہیں سکتا کیونکہ اب آپکی بیٹی کمزور نہیں ہے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اب نا کسی انسان سے اور نہ ہی کسی چیز سے ہماری زندگی بس ہمارے اپنوں تک محدود ہے اور یقین جانے ہم حد سے تجاوز کرنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ یہ حدود ہم نے خود اپنے لئے قائم کی ہیں ۔

خیر چھوڑیں ان باتوں کو ہم آپ کو چائے دینے آئے تھے یہ لیں چائے پیئیں ٹھنڈی ہوجائیگی ۔

مشی جو کہ اذہان صاحب کو ٹی وی بند کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی نے رسانیت سے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا اور ہاتھ میں پکڑی چاہئے انکو پکڑائی ۔

ویسے میری شہزادی آج صبح سے نظر نہیں آئی ہے کہاں نانو کی جان ۔

اذہان صاحب نے بات بدلتے ہوئے مشی سے اسکی بیٹی یعنی اپنی نواسی کے بارے میں پوچھا ۔

کل رات بہت تنگ کیا ہے ہمیں آپکی نواسی نے سو ہی نہیں رہی تھی اس لئے ہم نے ابھی سلایا ہے انہیں سورہی ہیں اور آپکو آفس سے لیٹ ہورہا ہے آپ چلے جائے شام میں آفس سے آنے کے بعد مل لیجئیگا ۔

اچھا چلو ٹھیک ہے اب شام میں ہی ملینگے میں چلتا ہوں اپنا اور میری شہزادی کا خیال رکھنا ۔

مشی کے کہنے پر اذہان صاحب نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر مشی کے سر پیار کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے جبکہ پیچھے ملازم بھی انکا بیگ صوفے سے اٹھاتا انکے پیچھے چل دیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماشاءاللہ میری بیٹیاں تو بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔

انعم بیگم نے ان تینوں کو ایک ساتھ ایک جیسے کپڑوں میں نیچے اترتے دیکھ پیار سے کہا ۔

تینوں نے ایک جیسی شیفون کی شارٹ فراک پہنی ہوئی تھی بس کلر الگ تھے انعمتہ کا پرپل تھا حیان کا ریڈ اور حرمین کا بلیو اور تینوں نے ہی ہم رنگ کھسے اور کلائیوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنی ہوئی تھی جبکہ تینوں نے میک اپ بھی ایک ہی جیسا کیا ہوا تھا آنکھوں پر لائینر لگاکر اسے بڑا کیا گیا تھا جبکہ بڑی بڑی پلکوں پر مسکارا لگاکر اسے اور خوبصورت بنایا گیا تھا گالوں پر بلشن لگاکر ان پر گلال بکھیرا گیا تھا جبکہ لپ سٹک اپنے اپنے کپڑوں کی میچنگ کی لگائی گئی تھی اور تینوں ہی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔

واقعی بھابھی پیاری لگ رہی ہیں ماشاءاللہ ۔

انعم بیگم کے کہنے پر فریحہ بیگم نے بھی انکی بات سے اتفاق کیا اور باری باری دونوں تینوں کو پیار کیا ۔

اور میں کیسی لگ رہی ہوں لیڈیز ۔

ابھی وہ لوگ آپس میں ہی لگی ہوئی تھی کہ ردابہ نے سب کو اونچی آواز میں خود کی طرف متوجہ کیا اور ٹک ٹک کرتی نیچے اترنے لگی ۔

میری بیٹی کی تو بات ہی الگ ہے بہت پیاری لگ رہی ہے میری جان ۔

انعم بیگم نے ردابہ کر بھی پیار کرتے ہوئے کہا جبکہ ان تینوں نے ایک نظر اسے دیکھ کر برا سا منہ بنایا جو کہ لونگ شرٹ میں ملبوس تھی جسکی نہ سلیوز تھی جبکہ دوپٹہ بلکل ہی ناپید تھا اور ٹراؤزر بھی بلکل ٹانگوں سے چپکا ہوا بمشکل پنڈلیوں تک تھا اور ڈارک میک اپ سے مزیّن چہرے کے ساتھ ہائی ہیلز ۔

تم تینوں نے نہیں بتایا کیسی لگ رہی ہوں ۔

ردابہ نے ان تینوں سے پوچھا جو کہ اسکا پوسٹ مارٹم کرنے میں لگی ہوئی تھی ردابہ کی آواز میں ہوش میں آئی ۔

ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ آپی ۔

ردابہ کے پوچھنے تینوں ایک دم ہوش میں آتی ہڑبڑاکر کہنے لگی ۔

تائی جان آپ تو بلکل جوان لگ رہی ہیں ۔

ردابہ نے انعم بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ ردابہ کی ہی طرح بے ہودہ ساڑھی میں ملبوس تھی ساتھ میں دو انچ کی ہیلز پہنی ہوئی تھی جبکہ فریحہ بیگم نے پیارا سا سوبر سا سوٹ پہنا ہوا تھا اور دوپٹہ بھی سر پر تھا ۔

شکریہ بیٹا یہ لو چلو آگیا میرا بیٹا ۔

انعم بیگم ردابہ کو کہنے کے ساتھ ہارن کی آواز سن کر سب کو کہا اور پھر سب باہر کی طرف بڑھ گئے ۔

اسلام علیکم آپ لوگ آئے ہیں میں سمجھی میرا بیٹا آگیا ۔

انعم بیگم نے حضیر کی جگہ مدیحہ بیگم اور انکی فیملی کو دیکھ کر کہا اور ان سے گلے ملنے لگی ۔

وعلیکم سلام چلو یہ تو اچھا ہوا ہم جلدی پہنچ گئے میں کب سے کہہ رہی تھی جلدی کرو لیکن مبّراء کی تو تیاری مکمل ہوکے نہیں دے رہی تھی ۔

چلو کوئی نہیں آپا لڑکیوں کو تیار ہونے میں ٹائم تو لگتا ہی ہے ۔

فریحہ بیگم کے کہنے پر مدیحہ بیگم نے مبّراء کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا ۔

بھائی جان نظر نہیں  آرہے اور نہ ہی برداء نظر آرہا ہے ۔

آپا بھائی صاحب تو کسی کام سے باہر گئے ہیں لیکن برداء پورا اصطبل بیچ کر ابھی تک سو رہا ہے میں نے اٹھایا تھا تو کہنے لگا اٹھ رہا ہوں اور پھر دوبارہ سوگیا اور ابھی تک نہیں اٹھا میں بھی دوبارہ اٹھانا بھول گئی ۔

ارے ممانی جان آپ غصہ نہ کریں میں دیکھتا ہو اسکو تو ۔

فریحہ بیگم کے غصے سے کہنے پر مبّشر نے کہا اور دو دو سیڑھی چڑھتا برداء کے کمرے میں گم ہوگیا جبکہ باقی سب لاؤنچ میں ہی بیٹھ گئے ۔

جبکہ ان تینوں نے ایک نظر سب کو دیکھا انعم بیگم مدیحہ بیگم آپس میں باتیں کر رہی تھی جبکہ فریحہ بیگم کیچن میں ملازمہ کو ریفریشمنٹ لانے کا کہنے گئی تھی جبکہ دوسرے صوفے پر ردابہ اور مبّراء باتوں میں مصروف تھی ۔

ان تینوں نے ایک نظر ان سب پر ڈالی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کرتی وہاں سے کھسک گئیں ۔

یہ دیکھیں آپکے بھائی بھی آگئے ۔

انعم بیگم کی نظر باتوں کے دوران داخلی دروازے کی طرف پڑی جہاں سے اذان صاحب داخل ہورہے تھے تو انہوں مدیحہ بیگم کی توجہ بھی انکی طرف کروائی ۔

اسلام علیکم بھائی جان کیسے ہے آپ ؟

وعلیکم سلام کیسی ہے میری بہن اور سب ٹھیک ۔

مدیحہ بیگم کے پوچھنے پر اذان صاحب نے انکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور پاس رکھے صوفے پر بیٹھ گئے ۔

جی سب ٹھیک اللّٰہ کا کرم ہے ۔

امی اور ازلان نہیں آئے کیا ؟

اذان صاحب نے اپنے بہنوئی اور ماں کے بارے میں پوچھا ۔

بھائی وہ دوسری گاڑی میں آرہے تھے راستے میں انکی گاڑی خراب ہوگئی اس لئے انہیں پہنچنے میں تھوڑی دیر ہوگئی ۔

اچھا چلو ٹھیک ہے اللّٰہ خیر کریگا  ۔

اور آپ سناؤ بیٹا کیا حال ہے کیا چل رہا ہے ۔

اذان صاحب نے ردابہ کے برابر میں بیٹھی مبّراء سے پوچھا جو سیم ردابہ جیسی ڈریسنگ میں ملبوس تھی ۔

الحمدللہ ماموں جان میں بلکل ٹھیک اور ابھی گھر میں ہوں کچھ دنوں تک سوچ رہی ہوں کوئی جواب ہی کرلو ۔

ارے میرے بچے جوب کی کیا ضرورت ہے آپ خود ایک بزنس مین کی بیٹی ہو آپ بابا کا بزنس دیکھ لو ۔

نہیں ماموں میں اور ردابہ پہلے جوب کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایکسپیرئینس ہوجائے اسکے بعد بابا کا آفس میں نے ہی دیکھنا ہے کیونکہ مبشر کی تو فیلڈ ہی الگ ہے ۔

اذان صاحب کے کہنے پر مبراء نے انہیں تفصیل سے بتایا ۔

اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں جب تک آپ دونوں کر ایکسپیرئینس نہیں ہوجاتا آپ حضیر کے آفس میں جوب کرلیں میں بات کرلونگا اس سے ۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے ماموں جان جیسے آپ کو ٹھیک لگے ۔

اذان صاحب کی بات سن کر تو دونوں کو ایسی خوشی ہوئی جیسے انہیں ہفتِ اقلیم مل گیا ہو اس لئے دونوں نے فوراً سے بیشتر ہاں کی کہ کہیں انکار ہی نا کردیں جبکہ اذان صاحب بھی حضیر سے بات کرنے کا سوچ چکے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابے او نشئی اُٹھ جا پتہ نہیں کون سے نشے کر کے سوتا ہے جو ایک دفعہ سوجائے تو اٹھنے کا نام نہیں لیتا ۔

مبشر نے دھاڑ سے کمرے کے دروازہ کھول کر برداء کے سر پر نازل ہوکر کمفرٹر کھینچتے ہوئے کہا ۔

ابے او آتما سونے دے کیوں تنگ کر رہا ہے ۔

برداء نے نیندوں میں ہی مبشر سے کمفرٹر چھینا اور دوبارہ سوگیا ۔

فلحال تو مردہ تو لگ رہا ہے اناج کے دشمن اٹھ جا نہیں تو پانی پھینک دونگا ۔

مبشر نے برداء کو دھمکاتے ہوئے کہا جس پر دھمکی کا زرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا ۔

صبر کر ابھی بتاتا ہوں تجھے ۔

برداء کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ مبشر نے کہا اور آگے بڑھ کر سارے پردے کھڑکیوں سے ہٹاکر کھڑکیاں کھول دی اور اے سی بھی بند کردیا ۔

ابے او ظالم آدمی یہ کیا کیا تو نے میں سو رہا تھا ۔

برداء مبشر کو کھڑکیاں کھولتا دیکھ چیخا ۔

اٹھ رہا ہے یا تجھے یہیں غسل دے دوں ۔

برداء کے چیخنے پر مبشر نے اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر برداء بڑبڑاتا ہوا وارڈروب سے کپڑے لیتا باتھروم بند ہوگیا کیونکہ مبشر کا کوئی بھروسہ نا تھا جو اس نے بولا تھا وہ کرتے ہوئے دیر بھی نہیں کرتا ۔

یار یہ مسیّب کہاں ہے وہ کیوں نہیں آیا مجھے اٹھانے ۔

برداء نے مبشر سے پوچھا جو کہ ابھی باتھروم سے کپڑے چینج کر کے آیا تھا ۔

میری بات ہوئے تھی اس سے ہسپتال گیا ہوا ہے بھائی صاحب بول رہا تھا بھائی کی وجہ سے چھٹی نہیں کرسکتا پیشنٹ انتظار کر رہے ہونگے اور پھر تم دو نکمے ڈاکٹر بھی تو چھٹی ہر ہو اس لئے کوئی تو ہوں سنئیر ڈاکٹر اس لئے وہ چلا گیا ۔

برداء کے پوچھنے پر مبشر نے اپنی مسیّب سے ہوئی گفتگو من و عن اسے بتادی ۔

نہیں مبشر مجھے لگتا ہے کوئی بات ہوئی ہے دونوں کے درمیان میں نے کافی دفعہ نوٹ کیا ہے مسیّب کتراتا ہے حضیر بھائی سے اور انکے ذکر پر بے تاثر ہوجاتا ہے اسکا چہرہ پہلے ایسا نہیں تھا لیکن اب اسکا رویہ بلکل بدل گیا ہے مجھے لگ رہا ہے کوئی سنگین مسلئہ ہے شاید ۔

مبشر کے کہنے پر برداء نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔

ہوسکتا ہے کیونکہ مسیّب کا رویہ تو مجھے بھی کھٹکا ہے لیکن میں نے اگنور کردیا خیر آج پوچھتے ہیں اس سے کہ کیا معاملا ہے فلحال تو تیار ہوجا اتنا وقت لگارہا ہے جیسے دلہن بن رہا ہوں ۔

مبشر نے بھی اسکی بات سے اتفاق کرنے کے ساتھ لیٹ تیار ہونے پر اسے جھاڑ پلائی ۔

اچھا بس زیادہ طعنے مت دے ہوگیا تیار ۔

مبشر کے غصہ کرنے پر برداء نے منہ بسورتے ہوئے کہا اور پھر دونوں نیچے چل دیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تائی جان امی بھائی حضیر بھائی آگئے ۔

وہ تینوں جو لان میں اپنی ہی مستیوں میں مگن تھی حضیر کی گاڑی کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھ تیز آواز میں ایک ساتھ چیخی جس پر انکی آواز سن کر سب باہر پورچ کی طرف بھاگے ۔

گاڑی جیسے ہی پورچ میں کھڑی ہوئی ایک گارڈ نے جلدی سے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ اپنے بھاری بوٹ میں مقید پاؤں باہر رکھتا گاڑی سے باہر نکلا ۔

بھیا ۔۔۔۔ جبکہ اسکے باہر نکلتے ہی وہ تینوں چیختی ہوئی بھاگ کر اس سے لپٹی تھی ۔

ارے تتلیوں یہ کیا تھا ابھی گر جاتے بھائی ۔

بھیا دیکھ رہے ہیں آپ برداء بھائی کیسے ہمیں تتلیاں کہ رہے ہیں ۔

برداء کے کہنے پر انعمتہ نے حضیر سے اسکی شکایت لگائی ۔

خبردار کسی نے میری شہزادیوں کو کچھ بھی کہا تو ۔

حضیر نے برداء کو مصنوعی غصے سے گھورتے ہوئے کہا اور باری باری تینوں کے سر پر پیار کیا جبکہ ردابہ اور مبّراء کوفت سے یہ میلو ڈرامہ دیکھ رہی تھیں جس میں انکو کوئی دلچسبی نہیں تھی ۔

چلو بچیوں پیچھے ہٹو بھائی کو اندر تو آنے دو ۔

اذان صاحب نے ان تینوں کو پیار سے ڈپٹتے ہوئے کہا جس پر وہ منہ بناتے ہوئے پیچھے ہوئی اور حضیر باری باری سب سے ملنے لگا جبکہ آنکھیں اپنی شریکِ حیات کو تلاش کر رہی تھی ۔

چلو بھئی اندر چلو سب کیا سارے یہی کھڑا رہنا ہے کیا میرا بچہ اتنی دور سے سفر کر کے آیا ہے تھک گیا ہوگا ۔

انعم بیگم نے سب کو باہر ہی کھڑے دیکھ کر جس پر اندر کی طرف بڑھ گئے جبکہ حضیر کی نظر مسلسل اپنی زوجہ کا س ڈھونڈ رہی تھی ۔

مما میں فریش ہونے جارہا ہوں روم بہت تھک گیا ہوں لنچ پر ملتے ہیں ۔

گھر میں داخل ہوتے ہی حضیر نے انعم بیگم سے کہا اور بنا انکی کوئی بات سنے لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اپنے کمرے میں گم ہوگیا جبکہ پیچھے سب اسکی تھکان کا سوچتے آپس میں مصروف ہوگئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذان صاحب کے جانے کے مشی نے ملازموں سے اپنی نگرانی میں سارے گھر کی صفائی کروائی کیچن صاف کروایا اور پھر اپنی اسائیمینٹ بنائی اور اب کیچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی ابھی وہ بریانی دم پر رکھ ہی رہی تھی کہ عفراء سہارے سے پکڑ پکڑ کر چلتی کیچن میں پہنچ گئی اور مشی کا دوپٹہ کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کرنے لگی ۔

آلے مما کا پالا بچہ اٹھ گیا کیا کھائیگی مما کی چھوٹی شی جان ۔

عفراء کے دوپٹہ کھینچنے پر مشی اسکی طرف متوجہ ہوئی اور اسکو گود میں اٹھاکر پیار کرتی ہوئی اسی کی زبان میں بات کرنے لگی اور ساتھ ساتھ اسکی فیڈر بھی بنارہی تھی کیونکہ عفراء کے اٹھنے سے پہلے ہی مشی سابدّانے کی کھیر اسکے لئے بناچکی تھی اور اب گرم کر کے کانچ کے فیڈر میں ڈال رہی تھی ۔

مشی نے بریانی دم پر رکھی اور عفراء کو لیکر باہر لاؤنچ میں آئی اور اسے صوفے پر لیٹا کر فیڈر پلانے لگی ۔

مشی باجی آپ کا موبائل بج رہا ہے کب سے یہ لیں ۔

مشی ابھی عفراء کو  فیڈر ہی پلارہی تھی کہ ملازمہ نے آکر اسکا فون اسے دیا جو کہ اب بند ہوچکا تھا ۔

مشی نے موبائل چیک کیا تو نانو کی کال تھی تو اس نے بنا دیر کیے کال بیک کی ۔

اسلام علیکم نانو کیسی ہیں آپ باقی سب کیسے ماموں جان ممانی جان بھائی بھابھی اور مصباح کیسی ہے ۔

دوسری طرف سے کال ریسیو ہوتے ہی مشی جھٹ سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔

وعلیکم سلام نانو کی جان میں ٹھیک الحمدللہ باقی سب بھی ٹھیک ہے اور آج میری شہزادی آئی نہیں ملنے آج اتوار تھا ۔

نانو آج آنے کا ارادہ تھا ہمارا لیکن پھر ہمیں اسائمینٹ بھی بنانی تھی اور کچھ شاپنگ کرنی تھی اس لئے آج ہم شام میں بابا کے ساتھ بازار جانے کا سوچ رہے تھے اس لئے آج نہیں آئے پھر کبھی چکر لگائینگے ۔

نانو کے ناراضگی سے کہنے پر مشی نے انہیں تفصیل سے بتایا ۔

مجھے کچھ نہیں پتا میں مصباح اور سعد کو بھیج رہی ہوں فورا سے آجاؤ کوئی بہانہ نہیں سنوگی اور یہی سے مارکیٹ چلی جانا مصباح کو ساتھ لیکر لیکن ابھی نے کی تیاری کرو ۔

نانو نے مشی کی کسی بات خاطر میں نا لاتے ہوئے دو ٹوک فیصلہ سنایا ۔

نانو ہم نے کھانا بھی بنالیا ابھی عفراء بھی سو کر اٹھی ہے انہیں تیار بھی نہیں کیا ہم نے ۔۔۔۔

مشی ہم کچھ نہیں سن رہے میں مصباح اور سعد بھیج رہی ہو آپ آئینگی بس اللّٰہ حافظ اور اب گھر آکر بات ہوگی ۔

نانو نے مشی کے منمنانے کو نظر انداز کرتے ہوئے دو ٹوک فیصلہ سنایا اور کھٹاک سے فون بند کردیا ۔

فون بند ہوتے ہی مشی نے عفراء کو اٹھایا اور کمرے میں چلی گئی اور اسے تیار کرنے لگی ۔

مشی نے عفراء کو وائٹ کلر کی فراک کے ساتھ وائٹ ہی شوز پہنائے اور وائٹ ہی کلر کا بینڈ اسکے سر پر لگایا اور سلور چھوٹی چھوٹی چوڑیاں اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پہنائی اور پھر عفراء کو پورا تیار کر کے ملازمہ کو اسکے پاس بٹھاکر خود اپنی وائٹ شیفون کی پیروں کو چھوتی فراک لیکر باتھروم میں چینج کرنے چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوکر تیار ہورہی تھی سب سے پہلے مشی نے اپنی آنکھوم میں کاجل لگایا جو کہ اسے بہت پسند تھا اور کاجل میں اسکی بڑی بڑی آنکھیں اور خوبصورت لگ رہی تھی  پھر ہلکہ سا پنک بلشن اپنے پہلے سے گلابی گالوں پر لگایا جس سے وہ اور نمایا اور خوبصورت لگنے لگے اور پھر سب سے آخر میں بلکل ہلکہ سا پنک لب بام اپنے گلابی باریک ہونٹوں کی زینت کر کے انہیں اور خوبصورت کیا اور اتنی سی ہی تیاری میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی حسن سے تو اللّٰہ نے پہلے ہی مالا مال کیا ہوا تھا لیکن وہ بات الگ تھی کہ وہ خود سے بے نیاز تھی کبھی اس نے اپنے حسن پر غرور نہیں کیا تھا ۔

مشی نے جلدی سے اپنے گھٹنوں تک آتے بالوں کی چٹیا بنائی اور برقعہ پہن کر حجاب کر کے نوز پیس لگائی جسکی پلّی پیچھے سے اسکی کمر تک آتی تھی اور ہاتھوں میں گلفس پہنے اور ایک چھوٹے سے بیگ میں عفراء ک ڈائیپر اسکا ایک سوٹ اور اسکی تمام ضرورت کی چیزیں اور اپنے میچنگ سوٹ کا دوپٹہ رکھا اور جلدی سے فون اٹھاکر اذہان صاحب کا نمبر ڈائل کیا جبکہ عفراء سفید پردوں سے سجے بیڈ پر بیٹھی ٹکر ٹکر اپنی مما کی کاروائی دیکھ رہی تھی ۔

اسلام علیکم بابا ہمیں سعد بھائی اور مصباح لینے آرہے ہیں نانو ناراض ہورہی تھی انہوں نے ہماری ایک نہیں سنی اور سعد بھائی اور مصباح کو ہمیں لینے بھیج دیا اس لئے ہم وہاں جارہے ہیں ہم نے لنچ بنادیا تھا لیکن اب ہم جارہے ہیں تو وہ سروینٹ کھالینگے اور ہم وہاں سے مارکیٹ جائینگے مصباح کے ساتھ اس لئے آپکا کریڈٹ کارڈ بھی ہم لیکر جارہے ہیں اور آپ آفس سے وہی آجانا پھر ڈنر کر کے ساتھ گھر آجائینگے اور لنچ یاد سے کرلیجئیگا ۔

اذہان صاحب کے فون اٹھاتے ہی مشی نے ایک سانس میں ساری بات کہہ ڈالی ڈالی ۔

وعلیکم سلام بابا کی جان سانس تو لے لو میرا بچہ آپ بے فکر ہوکر جاؤ اور اپنے لئے اور میری شہزادی کے لئے ڈھیر ساری شاپنگ کرلینا میں آجاؤنگا آفس سے وہی آپ کو لینے اور اپنا اور شہزادی کا خیال رکھنا ٹھیک ہے اور اب مجھے ایک میٹینگ اٹینڈ کرنی ہے اس لئے بعد میں بات کرتا ہوں اللّٰہ حافظ بچے ۔

اذہان صاحب نے پیار سے کہا اور ساری ہدایت دیکر فون بند کردیا ۔

باجی شاید آگئے سعد صاحب اور مصباح باجی ۔

ملازمہ کی گاڑی کا ہارن سن کر مشی سے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی عفراء کو اٹھاکر باہر نکل گئی 

پیچھے ملازمہ بھی مشی کا سامان اور اسکا پرس اٹھاتی اسکے پیچھے چل دی ۔

حضیر نے اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر ایک طائرانہ نظر اپنے کمرے پر ڈالی جو آج بھی ویسا ہی تھا جیسا اس نے آج سے دو سال قبل اپنی زندگی کی پسند کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ڈزائن کروایا تھا حضیر کا کمرہ اس حویلی کا سب سے خوبصورت اور سب سے بڑا کمرہ تھا جس کی ہر چیز وائٹ تھی جہازی سائز بیڈ پر وائٹ ہی چادر بچھی ہوئی تھی کشن کے کور بھی وائٹ تھے جبکہ بیڈ کو چاروں طرف سے وائٹ نیٹ کے پردوں سے ڈھانپا گیا تھا وائٹ ہی کالین بچھا ہوا تھا کمرے کے ایک کونے میں سفید ہی صوفے اور انکے سامنے کانچ کی سفید ٹیبل رکھی ہوئی تھی روم کی ایک طرف گلاس ڈور تھا جو کہ پرئییر روم تھا جبکہ بیڈ کی بائیں طرف باتھروم تھا اور بیڈ کے بلکل سامنے وائٹ ہی ڈریسنگ ٹیبل تھی اور اسکے برابر میں ایک دروازہ تھا جو کہ چینجینگ روم تھا جبکہ کمرے کے بلکل سامنے والے کونے میں ایک اور گلاس ڈور تھا جو کہ بالکونی کا تھا ۔

حضیر نے ایک بھرپور نظر اپنے کمرے میں ڈوڑائی لیکن دشمنِ جاں کہیں نہیں ملی ہوتی تو ملتی نا ۔

حضیر نے روم کا دروازہ بند کیا اور قدم قدم چلتا ہوا ڈریسنگ کی طرف گیا کیونکہ فلحال اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا کیونکہ وہ سمجھا تھا مشکات اوپر ہوگئی لیکن وہ یہاں بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے اسکا موڈ بہت بری طرح اوف ہوچکا تھا اس لئے اب اسکا ارادہ فلحال چینج کرنے کا تھا ۔

حضیر نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر گھڑی اتاری اور جیسے وہ گھڑی ڈریسنگ پر رکھنے لگا اسکی نظر وہاں پڑے ایک جیولری باکس اور ایک چھوٹی سی چٹ پر پڑی ۔

حضیر نے گھڑی رکھ کر اس چٹ کو کھولا اور پڑھنے لگا جس پر کچھ یوں لکھا تھا ( آپکی طرف سے دی گئی آپکی بیوی کو پہلی امانت جو کہ وہ میرے پاس امانت کے طور پر چھوڑ کر گئی تھی کہ آپکی امانت آپکو لوٹادوں اور آج آپ آگئے اس لئے میں نے آپکی امانت آپکو لوٹادی بدقسمتی سے آپکا چھوٹا بھائی مسیّب کاردار )۔

حضیر نے وہ چٹ پھینک کر جلدی سے وہ جوہری باکس کھولا جس میں وہ ڈائمنڈ سیٹ تھا جو اس نے مشکات کو منہ دیکھائی میں دیا تھا اور اس میں پیسوں کی ایک گڈی بھی رکھی ہوئی تھی اور ساتھ میں ایک اور چٹ تھی ۔

حضیر نے جلدی سے وہ سیٹ دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور اس چٹ کو کھولا جو کہ شاید نہیں یقیناً مشکات نے لکھا تھا ۔

( آپکی یہ امانت صرف چند گھنٹے پہننے کی گناہگار ہوں اور ان کچھ گھنٹوں کی قیمت میں نے ادا کردی ہے تاکہ آپ کا مجھ تک پہنچنے والا ہر دروازہ بند ہو جائے کیونکہ میں نہیں چاہتی کبھی بھی زندگی میں میری آپ سے ملاقات ہوں ) ۔

مشکات کی لکھی ہوئی چٹ پڑھ اس کا دماغ گھوم گیا اسکو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور جو سمجھ آرہا تھا وہ سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا ۔

حضیر نے وہ پیسے اسی ڈائمنڈ سیٹ کے ساتھ رکھے اور اس سیٹ کو ڈریسنگ کی دراز میں رکھا اور خود کو سنبھالتا ہوا چینجینگ روم کی طرف بڑھا جبکہ غصے سے کنپٹیاں پھٹنے کے قریب تھی جو چہرہ پہلے خوشی سے دمک رہا تھا اب اس پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہ تھا آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھی غرض کے وہ بہت مشکل سے خود کو کنٹرول کیے ہوئے تھا ۔

حضیر نے چینجینگ روم کا دروازہ کھولا جسکی ہر چیز کمرے کی طرح ہی سفید تھی وہ قدم قدم چلتا ہوا وارڈروب کی طرف آیا جو پوری ایک دیوار جتنی بنی ہوئی تھی اور گلاس ڈور سے اسے بند کیا گیا تھا جبکہ باہر سے بھی اندر رکھی تمام اشیاء دیکھی جاسکتی تھی ۔

حضیر نے ایک نظر اس وارڈروب پر ڈالی جس میں لا تعداد مشکات کے ان ٹچ ڈریسز تھے جو وہ خود شادی پر اپنی پسند سے لایا تھا ۔

ہر قسم کی قمیض شلوار فراکس شارٹ فراکس ساڑھیاں سلک کی نیٹ کی شیفون کی ویلویٹ کی اور ہر کلر کے عبائے اسٹالر اسکارف نوز پیس ساتھ میچنگ گلفس جب کے اسکے نیچے والے کبرڈ میں ڈھیر ساری ہر قسم کی سینڈلز تھی فلیٹ سلیپر سوفٹی ہائی ہیلز نارمل ہیلز شوز لیول ہیلز کٹ شوز کولا پوری سینڈلز کھسے جب کے اسکے برابر والے کبرڈ میں ہر قسم کی جیولری تھی اوپر والے کبرڈ میں ڈائمنڈ جیولری دوسرے والے میں گولڈ تیسرے والے میں قیمتی پتھروں کی جیولری اور سب سے آخر والے میں آرٹیفیشل جیولری تھی اور اسکے برابر والے کبرڈ میں ہر قسم کے پرس بیگ کلچ اور اسکے نیچے ہر برانڈ کے پرفیومز باڈی اسپرے وغیرہ تھے جبکہ ایک کونے میں مشکات کے برائیڈل ڈریسز ہینگ تھے جن پر گولڈ اور ڈائمنڈ کا کام تھا جو کہ حضیر نے خود اپنی پسند سے بنوائے تھے ( نکاح برات ولیمہ ) جن کے ساتھ ان کی گولڈ کی اور ڈائمنڈ کی جیولری اور سینڈلز بھی تھی ۔

حضیر نے ایک نظر مشکات کے سب سامان پر ڈالی جو کہ ان ٹچ تھا پھر اس نے اپنا رخ دوسری وارڈروب کی طرف کیا جس میں اسکے ہر قسم کے برانڈ کے کپڑے تھے پینٹ شرٹ شلوار قمیض کاٹن کی واشنگوئیر کھدر غرض کہ ہر قسم کے کپڑے وہاں موجود تھے جبکہ اسکے نیچے والے کبرڈ میں ہر قسم کے شوز سینڈلز سلیپرز تھے اور اسکے برابر والے کبرڈ میں ٹائی بو اسکے نیچے والے پر ہر برانڈ کے پرفیوم باڈی اسپرے اور عطر اور سب سے لاسٹ والے کبرڈ میں ہر برانڈ کی واچز تھیں ۔

غرض کے وہ چینجینگ روم کے بجائے کسی مال کا منظر پیش کر رہا تھا۔ حضیر نے ہلکہ سا جھٹکا دیکر گلاس وال سائیڈ کیا اور اپنا مطلوبہ سامان نکال کر واشروم میں چلا گیا جس کا ایک دروازہ ڈریسنگ روم میں ہی کھلتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم کیسے ہیں سب ؟

مشی نے شاہ ولا میں داخل ہوتے ہی سب کو سلام کیا اور اپنی نانو کے پاس جاکر بیٹھ گئی جبکہ عفراء مصباح کے پاس تھی ۔

وعلیکم سلام میری بچی آگئی آج کیوں نہیں آرہی تھی ایک اتوار کے دن تو ملتا ہے مجھے میری شہزادی سے ملنے کا اس میں بھی نخرے کر رہی تھی ۔

نانو نے مشی کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ اسکی کلاس لی جبکہ مصباح مشی کی عزت افزائی پر مسلسل ہنس رہی تھی ۔

اچھا نانو معاف کردیں آئیندہ نہیں کرینگے ہم نخرے اور تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے ۔

مشی نے نانو کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ مصباح کو گھوری سے نوازہ ۔

شماس ماموں ممانی اور سحر بھابھی کہاں ہیں ؟

مشی نے اپنے ماموں ممانی اور سحر ( سعد کی بیوی ) کو نہ پاکر پوچھا ۔

ماموں کی جان ماموں تو آپ کے سامنے ہیں لیکن آپکی ممانی روم میں آرام کر رہی ہیں ۔

شماس صاحب نے لاؤنچ میں آتے ہوئے کہا جو کہ شاید ابھی باہر سے آئے تھے ۔

اسلام علیکم ماموں جان کیسے ہیں آپ ؟

وعلیکم سلام میری شہزادی آئی ہے اب تو میں بلکل ٹھیک ہوگیا ۔

مشی کے سلام کرنے پر شماس صاحب نے اسکے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا ۔

مصباح بیٹا ذرا اپنی مما اور بھابھی سے کہہ کر کھانا لگوائیں اور میری گڑیا کو مجھے دیں ہم بھی تھوڑا سا کھیلیں اپنی نواسی سے ۔

شماس صاحب نے عفراء سے کھیلتی مصباح سے کہا جس پر وہ عفراء کو انکو پکڑاتی اپنی مما اور بھابھی کے روم کی طرف بڑھ گئی ۔

ہم بھی ممانی اور بھابھی کی ہیلپ کردیتے ہیں ۔

کوئی ضرورت نہیں ہے بیٹھی رہو کرلینگے وہ لوگ کچھ گھنٹے کے لئے آئی ہو اور اس میں بھی کام کرنے کی پڑی ہے تھوڑا اپنی ہڈیوں کو بھی سکون دیا کرو گڑیا ۔

مشی ابھی وہاں سے جاتی کہ سعد نے اسے مصنوعی ڈانٹتے ہوئے کہا جس پر وہ منہ بناکر بیٹھ گئی ۔

بات سنو تم نے میرے شوہر کو کیا ڈرائیور سمجھا ہوا ہے جو تمہیں لیکر آئے بلکہ تم یہاں آتی کیوں ہوں اپنے گھر میں بیٹھا نہیں جاتا تم سے خود کا شوہر تو پوچھتا نہیں ہے دوسروں کے شوہروں پر ڈورے ڈالنے چلی آتی ہو ہر اتوار ۔

سحر کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ مشی کو لینے سعد گیا تھا تو وہ تن فن کرتی اس کے سر پر پہنچی اور بنا کسی کا خیال کرے اسکی کردار کو دو کوڑی کا کردیا ۔

شماس اور سعد اپنی بیویوں کی زبان قابو میں کرو اور اگر کسی کو میری نواسی کے یہاں آنے سے کوئی مسلئہ ہے تو وہ خود یہاں سے جاسکتا ہے یہ میرا گھر ہے اور میں زندہ ہوں اس لئے اس گھر کے فیصلے میں کرونگی تم خالہ بھانجی اور ساس بہو مجھے مجبور نا کرو کہ میں خود تم دونوں کو یہاں سے چلتا کروں ۔

آپ اس بد ذات کی وجہ سے مجھے اور میری بہو کو یہاں سے نکالینگی ۔

نانو کے غصے سے کہنے پر فاریہ بیگم نے بھی غصے سے کہا ۔

ہاں نکال دونگی کیونکہ مجھے تم سب سے پیاری اپنی نواسی ہے یہ مت بھولو جو آج تمہارا شوہر زندہ ہے نہ وہ میری بیٹی کی وجہ سے ہے میری بیٹی نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر تمہارے شوہر کی زندگی بچائی تھی اور تم خالہ بھانجی اسی کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہوں میں تو پچھتارہی ہوں تمہاری بھانجی کو اس گھر کی بہو بناکر ایک تم کم تھی جو دوسری بھی اپنی جیسی لے آئی گھر کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔

بھائی مشی کہاں ہے ؟

ان تینوں کو آپس میں بحث کرتا دیکھ مصباح نے سعد سے پوچھا تو سب ہی اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔

ابھی تو یہی تھی ۔۔۔۔۔۔ بھائی وہ چلی گئی ہے نا اسکا پرس ہے اور نا ہی عفراء بھائی مجھے لگتا وہ چلی گئی اکیلی اسے تو راستے بھی نہیں پتہ وہ تو کبھی اکیلی کہیں جاتی بھی نہیں ہے بھائی دیکھیں کہاں گئی ہے وہ ابھی آس پاس ہی ہوگئی ۔

ہاں چلو تم بھی ساتھ چلو گاڑی میں چلتے ہیں دونوں جلدی مل جائیگی ۔

مصباح کے کہنے پر سعد نے کہا اور پھر مصباح اپنی چادر لیتی سعد کے ساتھ باہر بھاگی ۔

اچھا ہوا گئی اب نہیں آئیگی جان چھوٹی ۔

اب تم دونوں خالہ بھانجی بھی جانے کی تیاری کرو جب تک دماغ ٹھکانے نہیں آجاتا تم دونوں کا تب تک میرے گھر میں تم دونوں کی کوئی جگہ نہیں ۔

فاریہ بیگم کے کہنے پر شماس صاحب نے غصے سے کہا اور فون پر کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگے ۔

ہاں یاسر لیکر جاؤ اپنی بہن اور بیٹی کو میرے گھر میں جب تک ان دونوں کوئی جگہ نہیں ہے جب تک انکا دماغ ٹھکانے نہیں آجاتا اگلے ایک گھنٹے میں مجھے یہ دونوں اپنے گھر میں نظر نا آئیں ورنہ بتارہا ہوں دھکے دیکر نکالونگا میں دونوں کو ۔

دوسری طرف سے فون ریسیو ہوتے ہی شماس صاحب نے بنا کوئی سلام دعا کے اپنے مطلب کی بات کہی اور کھٹاک سے فون بند کر کے اپنی ماں کو لیکر انکے کمرے کہ طرف چل دیے جہاں ہمّاس شاہ دوائی کے زیرِ اپر سو رہے تھے جسکی وجہ سے انہیں کسی بات کا علم نا ہوسکا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹک ٹک ٹک ۔۔۔۔۔۔ آجائیں ۔۔۔۔ دروازہ بجنے کی آواز پر حضیر نے مرر کے سامنے کھڑے ہوکر بال بناتے ہوئے آنے والے شخص کو کمرے میں آنے کی اجازت دی ۔

برو لنچ کے لئے نیچے آجائیں سب آپکا انتظار کر رہے ہیں کھانے پر ۔

اجازت ملتے ہی برداء نے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔

ہہم چلو میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ برداء کے کہنے پر حضیر نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا جس پر برداء پلٹ کر جانے لگا ۔

برداء مسیّب کہاں ہے وہ ملا نہیں مجھ سے ۔

ابھی برداء کمرے سے باہر نکلتا کہ حضیر نے اس سے مسیّب کے بارے میں پوچھا ۔

برو وہ ہسپتال گیا ہے میں نے اور مبشر نے چھٹی مارلی تھی اس لئے کوئی تو سنئیر ڈاکٹر ہونا چاہئے تھا نہ اس لئے وہ چلا گیا کہہ رہا تھا شام میں مل لیگا آپ سے اب تو آپ یہیں ہوں ۔

ہہم چلو چلیں نیچے ۔۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر برداء نے مسیّب کی صفائی دیتے ہوئے کہا اور پھر دونوں نیچے چل دیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشی ان سب کو آپس میں بحث کرتا دیکھ وہاں سے نکل آئی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے جانا کہاں ہے کیونکہ آج سے پہلے وہ کبھی اکیلے پیدل نہیں نکلی تھی لیکن آج اسکے غزتِ نفس نے گوارہ نہیں کیا تھا کہ اتنا سب سننے کے بعد بھی وہ وہاں رکتی ۔

لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہی تھی کہ آج بھی وہ اس ظالم کی وجہ سے بے آبرو ہوئی تھی آج بھی اسی کی وجہ سے اسکا کردار داغدار کیا گیا تھا ہر دفعہ کی طرح آج بھی ہر تکلیف کی وجہ اسی ظالم شخص کی ذات تھی ۔

مشی آنسو بھاتی ہوئی پیدل عفراء کو گود میں پکڑے فٹ پاتھ پر چلتی جارہی تھی جبکہ آنسوؤں سے چہرہ بھیگ چکا تھا آنکھیں دھندلا گئی تھی جسکی وجہ اس سے دیکھا بھی سہی نہیں جارہا تھا اور دماغ تو پہلے ہی اپنے بارے میں ایسی باتیں سن کر ماؤف ہوچکا تھا جس کی وجہ سے وہ سب سے بے نیاز چلتی جارہی تھی اور اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ وہ کب فٹ پاتھ سے روڈ کے بیچ بیچ چلنے لگی ۔

مشی اس قدر بے خبری سے چل رہی تھی کہ اسے گاڑی ہارن کی آواز بھی سنائی نہیں دی رہی تھی ۔

اس سے پہلے کہ آنے والی گاڑی اسے ہٹ کرتی کسی نے زور سے مشی کو اپنی طرف کھینچا جس سے وہ اسکے ساتھ ہی سائیڈ پر گری جبکہ اس شخص نے مضبوطی سے ایک ہاتھ سے عفراء کو پکڑا ہوا تھا جسکی وجہ سے اسے کچھ نہیں ہوا لیکن اچانک گرنے کی وجہ سے وہ رونے لگی جبکہ مشی تو اس شخص کی شکل دیکھ کر ہی ساکت ہوگئی تھی ۔

مما مشکات کہاں ہے ؟

حضیر نے لنچ کرتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھی انعم بیگم سے پوچھا جبکہ اس کے سوال پر ان تینوں نے تھوک نگلا جبکہ برداء اور مبشر لنچ میں مصروف تھے اور باقی سب کے چہروں پر بیزاری کے تاثرات نمایا ہوئے ۔

مت ہی پوچھو کہ کیا گل کھلائے ہیں اس نے تمہارے جانے کے بعد ۔

حضیر کے پوچھنے پر انعم بیگم نے ناگواری سے کہا ۔

مما وہ میری بیوی ہے اس کے بارے میں جاننے کا حق ہے مجھے آخر ہے کہاں وہ بتائیں مجھے ۔

اگر تم جاننا ہی چاہتے ہو تو سنو اپنی بیوی کی سچائی اس نے پتہ نہیں اذہان کو ہمارے خلاف کیا کیا الٹا سیدھا کہا جس سے وہ تمہارے جانے کے کچھ دن بعد ہی پاکستان آکر ہم سے سارے رشتے توڑ کر اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لے گیا اور پھر آج تک اسکا کوئی پتہ نہیں ہے بس اتنا پتہ ہیکہ اس نے اپنا سارا بزنس اکستان شفٹ کرلیا ۔

حضیر کے دوبارہ پوچھنے پر انعم بیگم کی جگہ اذان صاحب نے جواب دیا ۔

آپ کہہ رہے ہیں تو مان لیتا ہوں ورنہ مجھے یقین نہیں آرہا اس بات پر ۔

حضیر کو اذان صاحب کی بات ہضم نہیں ہوئی جس پر اس نے چھپانا بھی لازمی نہ سمجھا جبکہ دماغ میں اسکے بہت کچھ چل رہا تھا ۔

مجھے تم سے امید بھی یہی تھی کہ تم ہمیشہ اپنے باپ کی بات کا یقین کروگے ۔

ہہہم ۔۔۔ میرا ہوگیا میں ہسپتال جارہا ہوں مسیّب سے ملنے وہ بزی ہے تو کیا ہوا میں تو فری ہوں میں اپنے بھائی سے ملنے چلا جاؤنگا اور پھر کل سے مجھے آفس بھی جوائن کرنا ہے ۔

حضیر نے سب کو اطلاع دی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضیر کے باہر پورچ میں آتے ہی ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ ایک شان سے آنکھوں پر گلاسس لگاتا گاڑی میں بیٹھا جبکہ اسکے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی کاردار ولا سے باہر نکالی ۔

حضیر کے ذہن میں اس وقت بیت سارے سوال تھے جنکے جواب اسکے پاس نہیں تھے وہ پیسے اور مشکات کا خط اور پھر مسیّب کا اسکے ساتھ بے رخی برتنا ہر چیز اسکے سمجھ سے باہر تھی وہ بہت بری طرح الجھ چکا تھا اسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کیا ہوا اسکے پیچھے سے کہ مشکات گھر چھوڑ کر چلی گئی اور اپنے طور پر خود تک پہنچنے تک تمام راستے بند کردیے اور پچھلے دو سالوں سے ہی مسیّب کا رویہ اسکے ساتھ بہت روڈ تھا اگر حضیر خود فون کرلیتا تو بیزاری کا اظہار کرتا اور کام کی بات کرتے پی فورأ سے فون بند کردیتا ورنہ مسیّب حضیر سے بات کیے بنا اپنا دن شروع نہیں کرتا تھا اور اب ایسا کیا ہوا تھا جو مسیّب اس قدر اس سے بدظن ہوگیا تھا اور سب سے زیادہ جو بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ مشکات نے اسکی امانت اتنے سارے افرادوں کے بجائے مسیّب کو کیوں دی جبکہ وہ تو کسی غیر محرم سے بات تک نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ پردہ کرتی تھی حضیر نے خود اسے صحیح سے شادی کے بعد دیکھا تھا ۔

یہ ساری باتیں سوچ سوچ کر اسکا دماغ پھٹنے کو تھا اس لئے اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے سیکیٹری اہتشام کا نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگایا ۔

اسلام علیکم اہتشام مجھے کل صبح تک اپنے آفس میں اس شہر کی تمام کاردار کمپنیز کی ڈیٹیل چاہئے رہائش کے ساتھ کل میں جب آفس پہنچو تو مجھے فائلز میرے کیبن کی ٹیبل پر چاہئے ۔

ڈرائیور گاڑی روکوں جلدی ۔۔۔۔۔ حضیر نے جیسے ہی فون سے دیھان ہٹاکر سامنے دیکھا کسی لڑکی کو روڈ کے بیچ و بیچ چلتے ہوئے اور سامنے سے گاڑی آتے دیکھ چیخا جس کے کندھے سے بچی لگی سورہی تھی اور بنا گاڑی کے رکنے کا انتظار کیے گاڑی کا دروازہ کھولے باہر بھاگا اور ایک ہی جست میں اس تک پہنچ کر بنا کسی کی پرواہ کیے گاڑی کے ہٹ ہونے سے پہلے اسے اپنی طرف کھینچا اور ایک ہاتھ سے بچی کو قابو کیا جبکہ جھٹکا لگنے کی وجہ سے دونوں ہی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور زمین پر گرے ۔

آپ ٹھیک ہیں ؟ حضیر نے اپنے ساتھ گرنے والے وجود سے پوچھا ۔

جبکہ مشکات اس کے بولنے سے ہوش میں آئی اور اٹھ کھڑی ہوئی اتنے میں سعد اور مصباح بھی پہنچ گئے تھے اور جلدی سے انکی طرف بھاگے ۔

کچھ نہیں ہوا شہزادی بس چپ کر جائیں ۔

حضیر عفراء کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے تو ساکت ہوگیا جو کے ٹو کاپی خزیمہ تھی لیکن پھر جلدی سے خود کو سنبھالتے ہوئے عفراء کو گود میں لیتا اٹھا اور اسے پیار کرتے ہوئے چپ کروانے لگا جو کہ شاید گرنے کے ڈر سے رونے لگی تھی ۔

اسلام علیکم آپ دونوں ٹھیک تو ہیں ۔

سعد نے انکے پاس پہنچ کر سلام کرتے ہوئے پوچھا ۔

وعلیکم  سلام جی بلکل ٹھیک ہے بس گرنے کی وجہ سے ڈول رونے لگ گئی ورنہ چوٹ نہیں لگی اور آپ دیھان سے چلا کریں ابھی آپ کو اور بچی کو دونوں کو گاڑی ہٹ کر جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بباببا ۔۔ مما ۔۔۔۔ ابھی وہ لوگ آپس میں بات ہی کر رہے تھے کہ عفراء نے حضیر کو اذہان صاحب سمجھ کر بابا کہا ( کیونکہ مشی بھی انہیں بابا کہتی تھی اس لئے عفراء بھی اسے دیکھ کر اب انہیں بابا کہنا سیکھ رہی تھی اس لئے اس نے حضیر کو بھی ازہان صاحب سمجھ کر بابا کہہ ڈالا ) جبکہ عفراء کے بابا کہنے پر مشی نے جلدی سے چھیننے کے سے انداز میں حضیر سے عفراء کو لیا اور بھاگتی ہوئی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی جبکہ کے سب اسکے اچانک عمل سے حیران و پریشان رہ گئے ۔

معذرت لیکن وہ کچھ پریشان تھیں اس لئے اس نے ایسا کیا ۔

مشی کے جانے بعد مصباح نے فوراً سے حضیر سے شرمندہ لہجے میں معذرت کی ۔

کوئی بات نہیں گڑیا مجھے لگتا ہے وہ کافی ڈپریسڈ ہیں انہیں کسی اپنے کی ضرورت ہے اور شاید وہ رو بھی رہی تھی آپ انکے پاس جاؤ اور انہیں سنبھالو ۔

مصباح کے شرمندگی سے کہنے پر حضیر نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا ۔

چلیں پھر ہم چلتے ہیں بہت شکریہ آپکا انشاءاللّہ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی ۔

سعد نے حضیر سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور پھر دونوں اپنی اپنی منزل کی طرف چل دیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔میں  نہیں دونگی می۔۔۔۔ں کسی ۔۔۔کو بھی اپنی بیٹی۔۔۔۔۔ نہیں دونگی مصباح۔۔۔۔۔۔ وہ لے جائینگے مصباح۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی مجھ ۔۔۔۔۔سے چھین لینگے میں نہیں۔۔۔۔۔۔ دونگی کسی کو بھی مصباح میں ۔۔۔۔۔۔۔اپنی بیٹی کے۔۔۔۔۔۔ بغیر مرجاؤنگی بھائی۔۔۔۔۔ بھائی مجھے چھپالیں ہاں ہاں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ چھپالیں میں نہ عفراء کو ۔۔۔۔۔۔۔۔بھی اپنے ساتھ چھپالونگی۔۔۔۔۔ پھر کوئی بھی مجھ سے میری۔۔۔۔۔ بیٹی نہیں چھیننے گا ہاں۔۔۔۔۔ مصباح میں چھپ جاؤنگی۔۔۔۔ صحیح ہے نہ آپ لوگ کسی کو بتانا ۔۔۔۔نہیں ورنہ وہ۔۔۔ میری بیٹی لے ۔۔۔۔۔جائینگے ۔

پاگل ہوگئی ہے مشی ہوش میں آ کیا بول رہی ہے کون لیکر جائیگا عفراء کو اور کیوں لیکر جائیگا ۔

مصباح اور سعد جیسے ہی گاڑی میں آئے تو دیکھا مشی عفراء کو خود میں بھینچتے ہوئے خود سے ہی الٹی سیدھی باتیں کر رہی تھی اور پھر مصباح اور سعد کو دیکھتے ہی انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگی جبکہ عفراء مسلسل رو رہی تھی لیکن اس وقت مشی بلکل بھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں لگ رہی تھی تبھی مشی کو الٹا سیدھا بولتے دیکھ مصباح نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ۔

وہ لے جائینگے۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی نہیں ۔۔۔۔۔۔دونگی میں کسی۔۔۔۔۔ کو بھی اپنی بیٹی ۔۔۔۔۔۔ماردینگے وہ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔اور میری بیٹی کو چھین ۔۔۔۔۔۔۔۔لینگے مجھ سے نہیں۔۔۔۔۔۔ دونگی میں کسی کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی ۔

مصباح کے کہنے پر مشی نے تیز آواز میں چیختے ہوئے کہا اور عفراء کو زور سے خود میں بھینچتے لگی جسکی وجہ عفراء اور زیادہ رونے لگی ۔

مشی عفراء تیرے پاس ہی ہے کوئی نہیں لیکر جارہا عفراء کو دیکھ وہ کیسے رو رہی ہے چھوڑ اسکو ۔

مشی کو اس طرح کرتا دیکھ مصباح نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا اور عفراء کو اس سے لینے لگی جبکہ وہ دونوں ہی اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے  ۔

نہیں لے ۔۔۔۔۔۔جانے دونگی میں۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو چھو۔۔۔ڑدو مار۔۔۔۔دینگے۔۔۔۔ وہ ہاں ما۔۔رد۔۔ینگے ماردی۔۔۔ن۔۔گے وہ ۔۔۔

 بھائی ہسپتال چلیں جلدی ۔۔۔۔ مصباح کے عفراء کو لینے پر مشی چیختی چیختی بے ہوش ہوگئی جبکہ اسکو بے ہوش ہوتا دیکھ مصباح نے سعد سے چیختے ہوئے کہا اور جلدی سے عفراء کو پکڑا جو کہ مشی کے ہاتھوں سے گرنے والی تھی جبکہ ایسی سچویشن دیکھ کر دونوں کے ہی ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے ۔

 مصباح کے چیخنے پر سعد نے گاڑی کی اسپیڈ فل کردی اور کچھ دیر میں ایک قریبی ہسپتال میں گاڑی پارک کی اور مشی کو لیکر اندر بھاگا جبکہ مصباح عفراء کو گود میں لیتی اسکے پیچھے بھاگی ۔

 ڈاکٹر پلیز سیف ہر ۔۔۔۔ سعد نے سامنے سے آتی ایک ڈاکٹر سے کہا اتنے میں دو وارڈ بوائے اسٹریچر لے آئے تو ڈاکٹر کے کہنے پر سعد نے مشی کو اسٹریچر پر لٹایا اور پھر ڈاکٹر کے اشارہ کرنے پر وارڈ بوائے مشی کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے ۔

 آپ پریشان نہ حوصلہ کرے انشاءاللہ اللّٰہ سب بہتر کریگا ۔

 ڈاکٹر مسیّب کاردار کو بلائے جلدی ہری آپ ابس وقت سینئر ڈاکٹر وہی موجود ہیں ۔

 ڈاکٹر نے سعد کو تسلی دینے کے ساتھ ایک میل نرس سے کہا جس پر وہ مسیّب کاردار کے کیبین کی طرف بھاگا اور ڈاکٹر خود ایمرجنسی وارڈ میں چلی گئی جہاں مشی کو لے جایا گیا تھا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سر جلدی چلیں پلیز ایک ایمرجنسی کیس آیا ہے اور سنئیر ڈاکٹر کوئی بھی موجود نہیں ہے ۔

 نرس نے بنا نوک کیے مسیّب کے کیبین میں داخل ہوتے ہوئے کہا جبکہ مسیّب جو ابھی چائلڈ وارڈ سے آکر بیٹھا تھا نرس کے کہنے پر ایمرجنسی وارڈ کی طرف بھاگا ۔

 ڈاکٹر میں نے آکسیجن لگادیا ہے باقی آپ چیک کرلیں مجھے ایسا لگتا ہے کسی ڈپریشن کی وجہ سے انکی طبیعت خراب ہوئی ہے ۔

 ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ مسیّب نے ڈاکٹر ساریہ کی بات تحمل سے سنتے ہوئے کہا اور پیشنٹ کے بیڈ کی طرف بڑھا ۔

 بھابھی ۔۔۔۔ جبکہ جیسے اس نے بیڈ کی طرف رخ کیا اور بے ساختہ اسکے منہ سے بھابھی نکلا جبکہ دو سال بعد مشکات کو اس حالت میں دیکھ کر مسیّب کے ہاتھ ہاؤں پھول گئے اور وہ تو بس ساکت سا اسے دیکھنے لگا ۔

 ڈاکٹر مسیّب کیا ہوا ہے سب خیریت ہے آپ چیک کریں ۔۔۔۔

 مسیّب کو ساکت کھڑے دیکھ ڈاکٹر ساریہ نے تیز آواز میں کہا جس پر وہ ہوش میں آتا مشی کی طرف بڑھا ۔

 ( ایک دفعہ مشکات کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ نے مسیّب نے ہی اسے آکسیجن لگایا تھا جسکی وجہ سے مسیّب نے مشکات کا چہرہ دیکھا تھا ورنہ مشکات پردہ کرتی تھی کیونکہ اسلام میں کسی تکلیف کے باعث ڈاکٹر کو اپنا چہرہ دیکھانے کی اجازت ہے )۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آپ لوگ یہاں خیریت ؟

 حضیر جو ہسپتال مسیّب سے ملنے آیا تھا تو وہاں سعد اور مصباح کو کوریڈور میں پریشانی سے ٹہلتا دیکھ پوچھنے لگا ۔

 جی وہ میری بہن طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی کو ہسپتال لائے ہیں ۔

 حضیر کے پوچھنے پر سعد نے پریشانی سے بتایا جبکہ مصباح مسلسل اپنی گود میں روتی ہوئی عفراء کو چپ کروانے کے ساتھ ساتھ خود بھی رو رہی تھی جو کہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔

 افسوس ہوا سن کر اللّٰہ بہتر کریگا یہ میرے بھائی کا ہسپتال ہے میں اس سے مل کر آتا ہوں تاکہ وہ کچھ کرسکیں اور گڑیا آپ ڈول کو مجھے دے دو یہ یہاں پریشان ہورہی ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اپنے بھائی سے مل کر ۔

 حضیر نے سعد کو کو تسلی دینے کے بعد مصباح سے کہا جس نے سعد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر اسکے اشارے سے اجازت دینے پر مصباح نے عفراء کو حضیر کی گود میں دے دیا اور حضیر اسے لیتا وہاں سے چل دیا ۔

 ڈاکٹر کیسی ہے میری بہن ؟

 مسیّب کے باہر نکلتے ہی سعد نے پریشانی سے پوچھا ۔

 آپکی پیشنٹ کو پہلے بھی ایک مائینر اٹیک ہوچکا ہے آپ لوگوں کو دیھان رکھنا چاہئے تھا اور انہیں ٹینشن سے دور رکھنا چاہئے تھا انکی یہ حالت کسی بات کی ٹینشن لینی کی وجہ سے ہوئی ہے ابھی تو فلحال کسی بات کا اسٹریس لینے کی وجہ سے انکا بی پی اور شوگر دونوں بہت زیادہ لو ہوگیا جسکی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی تھی لیکن ان دونوں چیزوں کا ایک ساتھ لو ہوجانا کافی نقصان دہ ہے اس سے انسان کی جان جانے کا بھی خطرہ ہے اس لئے آپ ان کا اچھے سے دیھان رکھیں اور انکی ڈائیٹ پر توجہ دیں اور جتنا ہوسکے ان سے جاننے کی کوشش کریں کہ آخر کس بات کی اتنی ٹینشن لی ہوئی ہے کہ انکی یہ حالت ہوگئی خیر میں چلتا ہوں کچھ دیر میں انہیں ہوش آجائیگا ۔

 مسیّب سعد اور مصباح کو مشی کی کنڈیشن سے آگاہ کرتا اپنے کیبین کی طرف چل دیا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ارے پرنسس اتنا کیوں رو رہی ہے آپ تو اتنی پیاری ہو پیارے بچے تو نہیں روتے ۔۔۔۔۔۔۔

 حضیر عفراء سے باتیں کرتا ہوا مسیّب کے کیبن میں آیا اور ایک میل نرس سے کینٹین سے ایک چائے بسکٹ اور پانی کی بوتل لانے کا کہا اور خود اسکو گود میں لیکر ٹہلنے لگا اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہا تھا ۔

 ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ نرس نوک کر کے کیبین میں داخل ہوا اور تمام چیزیں ٹیبل پر رکھ کر اور وہاں سے چلا گیا ۔

 جبکہ اسکے جانے کے بعد حضیر نے سب سے پہلے روتی ہوئے عفراء کو پانی پلایا تو وہ تھوڑی چپ ہوئی شاید وہ بھوکی تھی اور پھر حضیر اسے اپنی گود میں بٹھاکر چائے سے بسکٹ لگاکر کھلانے لگا جو کہ کچھ کھارہی تھی اور کچھ حضیر کے کپڑوں پر گرارہی تھی لیکن اب رونے کے بجائے وہ اب کھیل رہی تھی ۔ اور حضیر جو کہ اپنے کپڑوں پر دھبہ تو دور ایک سلوٹ برداشت نہیں کرتا تھا آج ایک بچی کے ساتھ بچہ بنا ہوا تھا اور اسکے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے کھانا کھلارہا تھا ۔

 ابھی حضیر عفراء کو کھانا کھلاکر اسکا فیس واش کرنے سائیڈ پر بنے باتھروم ہی گیا تھا کہ مسیّب کیبین میں داخل ہوا ۔

آپ دونوں کو احساس بھی ہے آج مجھے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی ہے شماس بھائی کے سامنے صرف آپ دونوں کی وجہ سے کیوں پیچھے پڑی رہتی ہیں آپ دونوں اس بچی کے آخر کیا بگاڑا ہے اس نے آپ دونوں کا کیوں اپنی خود ساختہ نفرت میں اسکو بھی تکلیف پہنچارہے ہیں اور خود کا بھی گھر برباد کر رہی ہیں کچھ تو خدا کی خوف کریں آپ دونوں کی وجہ سے آج میں شماس بھائی سے نظریں ملانے قابل نہیں رہا آج مجھے افسوس ہورہا ہیکہ میں نے اپنی بیٹی کو پہلے کیوں نہیں روکا جب وہ آپکے نقشِ قدم پر چل رہی تھی آپ اپنے ساتھ ساتھ میری بیٹی کا بھی گھر خراب کروائینگی لیکن ایک بات دونوں یاد رکھئیگا آج میں مے اپنی بےعزتی برداشت کرلی اگر آئیندہ ایسا کچھ ہوا تو آپ دونوں کے لئے میرے گھر کے دروازے بند ہے اور جب تک یہاں ہیں آپ دونوں کے حق میں بہتر ہیکہ میری نظروں کے سامنے نا آئیں ورنہ مجھے ڈر ہیکہ میں کچھ غلط نا کر بیٹھوں ۔

شماس شاہ کے بلانے پر جب یاسر خان وہاں گئے تو شماس شاہ نے ساری بات انہیں بتائی اور دونوں کو وہاں سے لے جانے کا کہا جبکہ انکی بات سن کر یاسر خان کو اپنی بہن اور بیٹی پر بہت غصہ آیا لیکن وہاں وہ خاموش رہے کیونکہ وہ وہاں کوئی تماشہ نہیں کرنا چاہتے تھے آخر بہن اور بیٹی کا سسرال تھا لیکن زیادہ ضبط نا کرسکے اور گھر آتے ہی انہیں وارن کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے تو رومیسہ بیگم بھی انکے پیچھے ہی کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی انکے سمجھانے کا دونوں پر کوئی اثر نہیں ہونا کیونکہ انکی بیٹی بھی اپنی پھوپھو کا کہا مانتی تھی اسکی نظر میں انکی کوئی اہمیت نہیں تھی اس لئے انہوں نے بھی اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا کیونکہ وہ اسے ہر طریقے سے سمجھا چکی تھی لیکن وہ انکی کسی بات کی کان دھرائی نہیں کرتی تھی اس لئے اب انہوں نے اسے کچھ سمجھانا ہی چھوڑدیا تھا کیونکہ کچھ لوگوں کو ٹھوکر کھاکر ہی عقل آتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیا بیٹا آپ کو آپکے بابا جان اپنے کمرے میں بلارہے ہیں ۔

فرانہ بیگم نے حیا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا جو کہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی ۔

مما میں جانتی ہوں بابا پھر یونیورسٹی جانے کا کہینگے اور آپ جانتی ہیں میں جانا نہیں چاہتی لیکن میں بابا جان کو منع بھی نہیں کرسکتی انکا دل ٹوٹ جائیگا لیکن مما مجھے ڈر لگتا ہے اتنے سارے مردوں کے درمیان پڑھنے سے ۔

فرانہ بیگم کے کہنے پر حیا نے روہانسی لہجے میں اپنی مجبوری بتائی ۔

میرا بچہ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے شماس بھی تو اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے وہ اپنی جان سے زیادہ آپکا خیال رکھیگا میری جان اپنے بابا اور بھائی پر یقین رکھو وہ آپ کو کچھ نہیں ہونے دینگے اور آپ میں کانفیڈینس پیدا کرنے کے لئے تو کر رہے ہیں یہ سب تاکہ آپ زندگی کے کسی بھی امتحان کسی بھی لڑائی کو خوبصورتی سے جیت جائیں چاہے مقابل کوئی لڑکا ہو لڑکی آپکو فرق نہیں پڑنا چاہئے اور میری شہزادی آپکے تو رزلٹ بھی اتنے اچھے ہیں اور آپ کو اسکالر شپ بھی ملی ہے آپکے بابا تو چاہتے تھے آپ باہر سے پڑھیں لیکن پھر آپکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے آپ سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا اور مجھے یقین ہے میری بیٹی اپنے بابا کا مان نہیں توڑیگی انکے لئے خود کو مضبوط بنائیگی کیونکہ اللّٰہ کے بعد آپکے بابا اور آپکے بھائی آپکی طاقت ہے اس لئے میری جان کسی سے ڈرنا کیسا میری بیٹی بہادر ہے اور اب چلو آپکے بابا آپکا انتظار کر رہے ہونگے ۔

فرانہ بیگم نے حیا کو سمجھاتے ہوئے کہا اور اسکا ماتھا چومتے ہوئے دوبارہ یاد دیھانی کروائی جس پر حیا سر اثبات میں ہلاتی فرانہ بیگم کے ساتھ انکے کمرے کی طرف چل دی جہاں ہمّاس شاہ اور شمّاس شاہ دونوں ہی اسکا انتظار کر رہے تھے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہے مسیّب تمہاری آنکھیں اتنی لال کیوں ہو رہی ہے خیریت تو ہے ؟

حضیر نے باتھروم سے نکلتے ہوئے کیبین کے دروازے پر کھڑے مسیّب کی لال انگارہ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ عفراء اسکے کندھے سے سر لگائے شاید سونے کی تیاری میں تھی ۔

واہ واہ حضیر کاردار صاحب آپ خیریت کی بات کرتے ہیں آپ جیسے شخص کسی کی خیریت پوچھتے ہوئے اچھے نہیں لگتے جو خود دوسرے کے لئے کسی ناسور جیسے زخم سے کم نا ہو جو سامنے والے کو تڑپا تڑپا کر موت کے منہ تک پہنچا دیتا ہے ۔

حضیر کے پوچھنے پر مسیّب نے تالی بجاکر تمسخر اڑاتے ہوئے کہا ۔

کیا بول رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کھل کر کہو جو کہنا ہے اور یہ کس لہجے میں بات کر رہے تم مجھ سے ساری تمیز تہذیب بھول گئے ہو کیا ۔

حضیر کو مسیّب کا لہجہ ناگوار گزرا جس پر اس نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے مسیّب ڈپٹا ۔

شکر کرے کہ میں آپ سے بات کر رہا ہوں کیونکہ آپ سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کرسکتا آخر کار بدقسمتی سے آپ جیسے سفاک انسان کا چھوٹا بھائی جو ٹہرا ورنہ یقین کریں میں آپکی شکل دیکھنا بھی گوارہ نا کرتا ۔

مسیّب نے ناگواری سے کہا جبکہ حضیر تو ششدر سا اسکے لب و لہجہ سن رہا تھا ۔

مسیّب میں نہیں جانتا کہ تمہارے دل میں میرے لئے کیا بات ہے اور نا ہی مجھے اس بات کا علم ہیکہ مجھ سے ایسی کونسی غلطی سرزرد ہوگئی جس کی وجہ سے میرا وہ بھائی جسکا مجھ سے بات کرے بغیر دن شروع نہیں ہوتا تھا وہ مجھ سے اتنا بدظن ہوگیا اس لئے تمہارے دل میں جو بات ہے تم مجھ سے شئیر کرو اگر میری غلطی ہے تو میں مداوا کرونگا ۔

حضیر نے مسیّب کو ہائیپر ہوتا دیکھ آرام سے کہا اور سوئی ہوئی عفراء کو صوفے پر لٹادیا ۔

غلطی ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا غلطی  ۔۔۔۔ غلطی جاننی ہے نہ آپ نے تو چلیں میرے ساتھ دیکھاتا ہوں میں آپکو آپکی غلطی چلیں ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ ۔

مسیّب نے حضیر کی بات کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا جس پر حضیر بھی بنا کچھ کہے چپ چاپ کیبین کا دروازہ لاک کرتا مسیّب کے پیچھے چل دیا ۔

آئیں اندر ۔۔۔۔ مسیّب نے ہسپتال میں بنے ایک روم کا دروازہ کھولتے ہوئے حضیر سے کہا جبکہ حضیر کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا لیکن فلحال وہ چپ چاپ کمرے میں داخل ہوا اور اسکے انٹر ہوتے ہی مسیّب نے دروازہ بند کردیا ۔

چادر ہٹائیں چہرے سے ۔۔۔۔۔ مسیّب نے سامنے بیڈ پر لیٹے وجود کو دیکھتے ہوئے حضیر کو دوسرا حکم دیا جس پر حضیر نے کانپتے ہاتھوں سے چادر اس وجود کے چہرے سے ہٹائی اور جیسے ہی اس کی نظر اس پری پیکر کے چہرے پر پڑی وہ سانس لینا بھول گیا زبان جیسے قوّتِ گویائی سے محروم ہوگئی دماغ نے کام کرنا بند کردیا بس وہ ساکت کھڑا اس پری کو دیکھ رہا تھا جسکے چہرے پر آکسیجن ماکس لگا ہوا تھا اور وہ دنیا و مافیا سے بیگانی سکون سے نیند کی آغوش میں تھی ۔

پہچانتے ہیں اس چہرے کو یا اپنی خواہشوں کی بھیڑ میں بھول گئے ۔

حضیر کو ساکت سا اس وجود کو گھورتا دیکھ مسیّب نے طنزیہ کہا جس پر حضیر ہوش کی دنیا میں وآپس لوٹا جبکہ مسیّب ایک نظر بھی اس وجود کو نا دیکھا اور نظریں سامنے والی دیوار پر مرکوز کرلیں ۔

ییہ یہا۔۔ں ک۔۔۔یسے ککیا ہوا ہے یہ بے ہوش کیوں ہے ۔

حضیر نے مسیّب کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا ۔

لحد میں اتار کر پوچھ رہے ہیں قبر میں کیسے ہے ۔

حضیر کے پوچھنے پر مسیّب نے پھر سے طنزیہ کہا جس پر حضیر نے پریشانی سے مسیّب کو دیکھا جو آج کسی قسم کی رعایت کے لئے تیار نا تھا ۔

چلیں یہاں سے اس سے پہلے انہیں ہوش آئے ۔

حضیر کو اپنی طرف دیکھتے دیکھ مسیّب نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑتا روم سے باہر لے گیا اور باہر جاتے ہی اسکا ہاتھ چھوڑتا اپنے کیبین کی طرف بڑھ گیا جبکہ حضیر اپنے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا کیونکہ ابھی اسے صرف اور صرف سکون کی ضرورت تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم کیسی ہیں آپ دونوں اور کب آئیں مجھے بتادیا ہوتا تو میں باہر نہیں جاتی ویسے کتنے دن کے لئے آئی ہیں ۔

اناب نے لاؤنچ میں بیٹھی فاریہ بیگم اور سحر کو دیکھ کر سلام کے ساتھ سوالوں کی بوچھاڑ کردی ۔

وعلیکم سلام لڑکی سکون سے بیٹھو کیا آتے ہی انکوائری پر لگ گئی جاؤ اپنے کمرے میں جاکر فریش ہو ۔

فاریہ بیگم نے یاسر خان کا سارا غصہ اناب پر نکالا کیونکہ اناب بھی انہیں پسند نہیں تھی جبکہ انکے اس طرح ڈانٹنے پر اناب آنکھوں میں آنسو لیتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی جبکہ رومیسہ بیگم نے افسوس سے اپنی نند اور بیٹی کو دیکھا جو کہ کچن میں ملازمہ کو کھانا لگانے کا بولنے آئی تھی لیکن  اپنی نند کو بیٹی کو ڈانٹتا دیکھ بس افسوس ہی کرسکیں کیونکہ یہ تو ہر دفعہ کا مسلئہ تھا کیونکہ فاریہ بیگم کو اناب سے پتہ نہیں کس بات کا اللّٰہ واسطے کا بیر تھا لیکن اناب پھر بھی انکی بہت عزت کرتی تھی لیکن فاریہ بیگم اس سے کبھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی تھی اور سحر اناب سے لیا دیا ہی رویہ رکھتی تھی ۔

بھئی میری بیٹی کہاں گئی بیگم اناب کو بلائیں میں نے اپنی شہزادی کے ساتھ لنچ کرنا ہے ۔

یاسر صاحب جو کہ اناب کی آواز سن کر خوشگوار موڈ میں اپنے کمرے سے باہر آئے تھے فاریہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے کیونکہ اناب کو دیکھ کر ہی انکا غصہ اڑن چھو ہوجاتا تھا کیونکہ وہ یاسر صاحب اور رومیسہ بیگم دونوں کی لاڈلی تھی ۔

اپنے روم میں گئی ہے فریش ہونے آتی ہی ہوگی آپ لوگ بیٹھے میں بلاکر لاتی ہوں ۔

رومیسہ بیگم نے یاسر صاحب کو جواب دیتے ہوئے کہا اور خود اوپر بنے اناب کے روم کی طرف بڑھیں ۔

رہنے دیں ملازمہ بلاکر لے آئیگی آپ بیٹھیں اور لنچ اسٹارٹ کریں ۔

رومیسہ بیگم کے جانے پر یاسر صاحب نے پیار سے کہا اور ملازمہ کو اشارہ کیا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی اناب کے روم کی طرف بڑھی جبکہ فاریہ بیگم اپنے بھائی بھابھی کی محبت دیکھ کر جل بھن گئی ۔

اسلام علیکم بابا جانی کیا حال ہے میرے پیارے بابا جان کا ۔

ابھی ملازمہ اوپر جاتی کہ اناب تیز تیز سیڑھیاں اترتی ہوئی آئی اور یاسر صاحب کے گلے میں دونوں ہاتھ ڈال کر محبت سے کہنے لگی ساتھ ہی ایک بوسہ انکے سر پر دیا ۔

وعلیکم سلام میں نے اپنی شہزادی کو دیکھ لیا اب میں بلکل ٹھیک ہوگیا آپ سنائیں آپکے کیا حال ہے بابا کی گڑیا ۔

اناب کے پوچھنے پر یاسر صاحب نے بھی اسکے سے سر پر بوسہ دیتے ہوئے جواب دیا جبکہ فاریہ بیگم اور سحر کو یہ منظر ایک آنکھ نہیں بھایا تھا لیکن ان دونوں نے اپنی تازہ ہوئی عزت افزائی کو سوچ کر خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی جبکہ رومیسہ بیگم دونوں باپ بیٹی کا پیار دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔

بابا چلیں لنچ شروع کریں مجھے بھی بہت بھوک لگ رہی ہے اس لئے کھانا کھانے کے بعد آپکے روم میں باتیں کرینگے ۔

اناب نے یاسر صاحب کی پلیٹ میں کھانا سرو کرتے ہوئے کہا جس پر یاسر صاحب نے سر ہلانے پر اکتفاء کیا اور کھانا کھانے لگے ۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔۔

ابھی وہ لوگ کھانا ہی کھا رہے تھے کہ ڈائیننگ پر رکھا اناب کا فون بجا ۔

اسلام علیکم کہاں تھی تم دونوں میں کب سے کال کر رہی تھی دونوں نے نہیں اٹھائی ۔

اناب نے کال یس کرتے ہی سلام کے ساتھ غصے سے کہا ۔

وعلیکم سلام بس یار مشی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی میں اور بھائی اسے ہسپتال لیکر آئے ہیں اور ابھی بھی ہم ہسپتال کی کینٹین میں بیٹھے ہیں ابھی مشی کی طبیعت بہتر ہے لیکن اسے ہوش نہیں آیا ۔

کیا ۔۔۔ اتنا سب ہوگیا اور تو مجھے اب بتارہی ہے صبر کر تیرا قتل اپنے ہاتھوں سے کرونگی اور پریشان نہیں ہو بس میں دو منٹ میں آئی ۔

اناب نے مصباح کو دھمکی دینے کے ساتھ تسلی دی اور کال کٹ کردی جبکہ سب سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔

بابا مشی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے اسے پتہ نہیں کیا ہوا ہے ابھی تک ہوش نہیں آیا میں جارہی ہو اور فکر مت کیجئیگا میں وہاں کچھ کھالونگی ابھی مصباح کو میری ضرورت ہے وہ اور سعد بھائی اکیلے ہیں وہاں ۔

اناب نے یاسر خان کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے ایک سانس میں کہا اور نیپکن سے منہ صاف کرتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔

بیٹا میں بھی چلتا ہوں میں گاڑی میں آپکا انتظار کر رہا ہوں آپ عبایا پہن کر جلدی آجائیں ۔

اناب کی بات سن کر یاسر خان نے ایک ملامت زدہ نظر دونوں پھوپھی بھتیجی پر ڈالی جہاں پر شرمندگی کے کوئی آثار نہ تھے اور اناب کو کہتے باہر پورچ کی طرف بڑھ گئے جبکہ سحر سعد کا ہسپتال میں مشی کے پاس ہونے کا سن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی اور پھر پانچ منٹ بعد ہی اناب تیزی سے عبایا پہنتی ہوئی اتری اور سب کو اللّٰہ حافظ کہتی اپنے بابا کے ساتھ ہسپتال کے لئے نکل گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذان بیٹا ابھی تک حضیر نہیں آیا سب یہاں اس سے ملنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اور وہ ہیکہ اپنی شکل ہی نہیں دیکھا رہا ۔

فریدہ بیگم جو کب سے حضیر کا انتظار کر رہی تھی اسکو نا آتا دیکھ غصے سے کہنے لگی ۔

دادو وہ مسیّب بھائی ہسپتال چلے گئے تھے نہ اس وجہ سے حضیر بھائی ان سے ملنے ہسپتال گئے ہیں آپ پریشان نا ہوں ابھی آتے ہی ہونگے ۔

ابھی اذان صاحب کچھ کہتے کہ انعمتہ نے دادو کو غصہ ہوتا دیکھ جلدی سے انہیں حضیر کی طرف سے صفائی دی ۔

آنے دے اس کو تو میں بتاؤنگی کب سے آنکھیں ترس رہی ہیں اسے دیکھنے کو لیکن وہ جانے کہاں چھپا بیٹھا ہے ۔

امی پریشان نا ہو آتا ہی ہوگا ہوسکتا ہے مسیّب کسی ایمرجنسی کو ڈیل کر رہا ہو اور حضیر اسکا انتظار کر رہا ہوں اس لئے دیر ہوگئی ہوگی ۔

دادو کا غصہ ختم نہ ہوتے دیکھ اذان صاحب نے بہانہ گڑھا ۔

لیکن انسان فون تو اٹھاسکتا ہے نہ یہ اتنے بڑے بڑے ہاتھوں میں کیا صرف سجانے کے لئے ہوتے ہیں ۔

دادو نے اذان صاحب کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھ کر انہیں گھورتے ہوئے کہا جیسے حضیر کے بجائے انہوں نے فون نا اٹھایا ہو ۔

لیں بھائی آگئے ۔۔۔۔۔ دادو کو مزید ہائیپر ہوتا دیکھ برداء نے لاؤنچ میں داخل ہوتے حضیر کو دیکھ کر سب کی توجہ اسکی طرف کروائی ۔

آگیا میرا بچہ کیسا ہے دادو کے شہزادے ؟

فریدہ بیگم نے حضیر کو لاؤنچ میں آتے دیکھ کر پیار سے کہا جبکہ حضیر بنا کسی کی بات کا کوئی جواب دیے انعم بیگم سے مخاطب ہوا ۔

میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں اور کوئی میرے کمرے کے پاس بھٹکنے کی غلطی سے بھی غلطی نا کرے ۔

حضیر نے ایک نظر لاؤنچ میں ڈالتے ہوئے انعم بیگم سے کہا اور سب کی آوازوں کو نظر انداز کرتا اپنے کمرے میں گم ہوگیا جبکہ سب پیچھے اسکی حرکت پر ششدر رہ گئے 

اسلام علیکم بابا جان ۔

وعلیکم سلام بابا کی جان آئے بیٹھے میرے پاس میری شہزادی ۔

حیا کے سلام کرنے پر ہمّاس شاہ نے محبت سے کھڑے ہوتے ہوئے اسکے سر پر پیار کرتے ہوئے جواب دیا اور اپنے پاس بیڈ پر بٹھایا ۔

بابا جان آپ اس طرح ہمارے لئے کھڑے نہیں ہوا کریں ہمیں اچھا نہیں لگتا ۔

حیا نے ہمّاس شاہ کو اپنے لئے کھڑے ہوتے دیکھ منع کیا ۔

بابا کی جان مجھے اچھا لگتا ہے اپنی شہزادی کے لئے کھڑے ہونا اور یہ تو سنتِ رسول ہے بس یوں سمجھ لے میں اس پر عمل کرتا ہوں ۔

حیا کے منع کرنے پر ہمّاس صاحب نے پیار سے کہا جس پر حیا خاموش ہوگئی ۔

آپ نے جس بات کے لئے بلایا تھا حیا کو وہ بات تو کریں ۔

فرانہ شاہ نے ہمّاس شاہ کو یاد دیھانی کرواتے ہوئے کہا ۔

حیا بیٹا میں نے آپکا ایڈمیشن شماس کی یونیورسٹی میں کروادیا ہے کیا آپ اپنے بابا کے لئے یونیورسٹی میں پڑھنا چاہوگی آپ پر کوئی سختی نہیں ہے اگر آپ انکار کردینگی تو میں شماس سے کہہ کر ایڈمیشن کینسل کروا دونگا کیونکہ میری گڑیا کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے ۔

ہماس صاحب نے حیا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا ۔

نہیں بابا ایڈمیشن کینسل نہیں کروائیگا میں جاؤنگی یونیورسٹی ویسے کب سے جانا ہے ۔

حیا نے اپنے باپ کا مان رکھتے ہوئے فوراَ سے ہامی بھری ۔

گڑیا پرسوں منڈے سے جانا ہے آپ اپنی پیکنگ کرلینا کیونکہ ہم میرے شہر والے فلیٹ میں رہینگے باقی میں آپکو وہاں جاکر گائیڈ کردونگا اور آپ پریشان نہیں ہونا میرا بچہ میں بھی اسی یونیورسٹی میں ہوں اپنی جان سے زیادہ اپنی شہزادی کا خیال رکھونگا ۔

حیا کے پوچھنے پر کب سے چپ بیٹھے شماس نے پیار سے جواب دیا ۔

چلیں اب سب لنچ کریں میں ملازمہ کو بول کر آئی تھی لنچ لگانے کا چل کر کھانا کھائیں ۔

حیا کو راضی ہوتا دیکھ فرانہ بیگم نے سب سے کہا اور پھر سب ڈائننگ ہال کی طرف چل دیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسی ہے مشی ؟ اور کہاں ہے ؟ اسے ہوش آیا کیا ؟ اور تو نے مجھے بتانا بھی گوارہ نہیں کیا ۔

اناب نے ہسپتال پہنچتے ہی کوریڈور کی بینچ پر بیٹھی مصباح سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی جبکہ یاسر خان سعد سے مشی کی خیریت دریافت کر رہے تھے ۔

ڈاکٹر نے کہا ہے ابھی بہتر ہے لیکن ابھی ہوش نہیں آیا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا مشی کی حالت دیکھ کر میں خود ڈر گئی تھی تو تجھے کیسے بتاتی ۔

مصباح نے مشی کی خراب طبیعت کا سوچتے ہوئے جواب دیا ۔

اچھا چل چھوڑ یہ بتا اذہان انکل کو بتایا اور عفراء کہاں ہیں ۔

یا اللّٰہ میں تو بھول گئی میں نے تو انکل کو بتایا ہی نہیں اور عفراء ۔۔۔۔

اناب تو اذہان انکل کو آگاہ کر میں ابھی آئی ۔

اناب کے پوچھنے پر مصباح نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور پھر عفراء کو یاد کرتی وہ جلدی سے اناب سے کہتی وہاں سے ڈاکٹر مسیّب کے کیبین کی طرف بھاگی کیونکہ اس نے مسیّب اور حضیر کو ایک ساتھ دیکھ لیا جس سے وہ سمجھ گئی تھی وہ دونوں بھائی ہیں ۔

وہ آپکے بھائی کہاں ہیں ؟

مصباح نے بنا نوک کیے مسیّب کے کیبن میں داخل ہوتے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان مسیّب سے پوچھا کیونکہ بھاگ کر آنے کی وجہ سے اسکا سانس پھول گیا تھا ۔

جبکہ دوسری طرف مسیّب جو کہ حضیر کے جانے کے بعد خود کو پرسکون کرنے کے لئے چئیر کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا اچانک دھاڑ سے دروازہ کھلنے کی آواز پر مسیّب نے آنکھیں کھول کر آنے والے وجود کی طرف دیکھا جس نے بلیک عبائے اور اسکارف کے ساتھ اسکارف کا ہی نقاب کیا ہوا تھا صرف آنکھیں ہی تھی جو نظر آرہی تھی ۔

مس ایکس وائے اینڈ زی فرسٹ آف آل آپکو کسی نے مینرز نہیں سیکھائے اس طرح دھڑلے سے کسی غیر محرم کے کیبن میں آنا آپ کو زیب نہیں دیتا اس لئے  آپ جائے یہاں سے ۔

مسیّب جو کہ پہلے ہی غصے میں تھا مصباح کی حرکت پر مسیّب نے سرد لہجے میں کہا جبکہ ایک نظر کے علاؤہ دوسری نظر بھی اس پر نہیں ڈالنا ضروری نہیں سمجھا ۔

ایم سوری مجھ سے غلطی ہوگئی لیکن پلیز میں بہت پریشان ہوں آپ بتادیں آپکے بھائی کہاں ہیں میں چلی جاؤنگی ان کے پاس میری بھانجی ہے جس کی مما یہاں ایڈمٹ ہیں اگر انکو ہوش آگیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کو نہیں دیکھا تو وہ پریشان ہوجائینگی ۔

مسیّب کا سرد لہجہ مصباح کو برا نہیں لگا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا اس سے غلطی ہوئی ہے جس پر مصباح نے شرمندگی سے معافی مانگتے ساتھ اپنی پریشانی سے بھی آگاہ کیا ۔

مما ببا ببا مما ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی مسیّب مصباح کو کوئی جواب دیتا کہ عفراء جو دونوں کی آوازوں سے اٹھ گئی تھی مصباح کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی کیونکہ عفراء نے ابھی یہ دو لفظ ہی سیکھے تھے اس لئے وہ جن جن کو پہچانتی تھی مما بابا ہی کہتی تھی جبکہ عفراء کی آواز پر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے جو کے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اور اپنے ہاتھ اٹھائے کیبن کے دروازے پر کھڑی مصباح کو اشارہ کر رہی کہ وہ آکر اسے گود میں اٹھائے ۔

میں اسی بچی کی بات کر رہی تھی یہ میری بھانجی ہے میں لیکر جارہی ہوں اور شکریہ کہہ دیجئیگا آپ اپنے بھائی کو ۔

مصباح نے مسیّب سے کہا اور عفراء کو لیکر وہاں سے چلی گئی ۔

جبکہ پیچھے مسیّب یہ سوچ رہا تھا کہ بچی کب سے یہاں تھی اور وہ کب سے یہاں بیٹھا تھا لیکن اپنی سوچوں میں اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ اسکے کیبن میں کوئی اور وجود بھی موجود ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے میرے رب میں نہیں جانتا مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوئی ہے جسکی وجہ سے میرا جان سے پیارا بھائی مجھ سے اس قدر بدظن ہوچکا ہیکہ وہ میری شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں اور میری بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور آج ہسپتال میں اسکی حالت دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھا اے دلوں کے بھید جاننے والے تو تو جانتا ہے نہ میں کتنی محبت کرتا ہوں اس سے اور آج اسکا وجود ہسپتال کے بستر پر دیکھ کر میری سانسیں تھمنے لگی تھیں کیونکہ میرے وجود کا حصہ تکلیف میں تھا تو میری سانسوں نے تھمنا ہی تھا اے میرے مالک اسے صحتیابی عطاکر یا اللّٰہ میری مشکلات آسان فرما مجھ پر اپنا رحم فرما اور میری مدد کر اور مجھے عقل و فہم عطاکر جس سے میں صحیح غلط کو پہچان کر کوئی بہترین فیصلہ کرسکوں اے مالک الملک تو تو جانتا ہے میں نے شادی سے پہلے سے اس سے پاکیزہ محبت کی ہے لیکن آج وہ میری کوتاہی کی وجہ سے مجھ سے دور ہوگئی ہے اے اللّٰہ مجھے وہ دانائی عطاکر جس سے میں اپنی غلطی تلاش کر کے اسکا مداوا کرسکوں اے کائنات کے مالک اگر یہ میرے گناہوں کی سزا ہے تو اے غفور الرحیم مجھے معاف فرما اور اگر تیری طرف سے کوئی آزمائش ہے تو مجھے اس میں ہمّت و حوصلے سے پورا اترنے کی توفیق عطا فرما آمین ۔

حضیر نے کمرے میں آتے ہی وارڈروب سے کپڑے نکال کر چینج کیے اور وضو کر کے اپنے رب کے آگے جھک گیا اور دو رکعت نفل ادا کرنے کے بعد آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ اپنے رب سے اپنے دل کا بوجھ ہلکہ کرنے لگا وہ بوجھ جو مشی کو اس حالت میں دیکھ کر دل پر تھا ۔

حضیر نے دعا کرکے اپنے ہاتھوں کو اپنے آنسوؤں سے تر چہرے پر پھیرا اور جائے نماز اٹھاکر اسکی جگہ پر رکھی اور موبائل لیکر بیڈ پر بیٹھ گیا کیونکہ اپنے غموں میں اپنے رب کو شریک کر کے اب وہ کافی پرسکون ہوگیا تھا ۔

اسلام علیکم اہتشام کل میری اذہان کاردار سے میٹینگ ارینج کرواؤ لیکن کسی اور کے نام سے ۔

حضیر نے اپنے سیکیٹری اہتشام کو ہدایت دی جس پر اس نے اوکے سر جواب دیکر فون بند کردیا جبکہ فون بند ہوتے ہی حضیر گیلری کھول کر اپنی اور مشکات کی شادی کی پکس دیکھنے لگا ۔

پکس دیکھتے ہوئے حضیر کو اپنی شادی کا دن یاد آیا کہ کسطرح مشکات فوٹو شوٹ کروانے سے منع کر رہی تھی لیکن انعم بیگم نے زبردستی دونوں کا فوٹو شوٹ کروایا تھا اور فوٹو شوٹ کا سن کر ہی کتنا گھبراگئی تھی اور جب حضیر نے اسکا ہاتھ پکڑا تو مشکات کا ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈا پڑگیا تھا ۔

جبکہ اپنی شادی کا دن سوچ کر اسکے ہونٹوں تبسم بکھرا جس سے گال پر موجود گڑھا اپنی جھلک دیکھاکر غائب ہوگیا جیسے اسے اجازت ہی اتنا سا دیدار کروانے کی تھی ۔

یار عائش کیا حال کرلیا ہے تم نے اپنا میرے پیچھے سے ابھی تو ہماری زندگی شروع ہوئی تھی لیکن تمہیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے تم صرف زندگی گزار رہی ہو میں نہیں جانتا کہ ایسا کیا ہوا جو تم مجھ سے دور ہوگئی لیکن کوئی بات نہیں میں بہت جلد تمہیں وآپس لاؤنگا کیونکہ میں تمہارے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہوں خوش رہنا چاہتا ہو اور تمہیں بھی خوش رکھنا چاہتا ہوں بس اب کوئی بھی غلط فہمی ہے میں سب دور کردونگا ۔

حضیر نے مشکات کی پکس کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر موبائل بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھ کر سونے کے لئے لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں تھکن کی وجہ وہ نیند کی وادی اتر گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپکی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے آپ ان سے مل سکتے ہیں ۔

ڈاکٹر ساریہ خان جو کہ مسیّب کے کہنے پر مشی کو چیک کرنے آئی تھی کیونکہ وہ خود میں مشکات کا سامنا کرنے کی ہمّت مفقود پاتا تھا اس لئے اس نے مشی کو چیک کرنے کے ڈاکٹر ساریہ خان کو بھیجا تھا اور اب وہ مشی کا چیک اپ کر کے مشی کے روم کے باہر بینچ پر بیٹھی اناب اور مصباح کو مشی کے ہوش میں آنے کا بتاتی چلی گئی ۔

اناب تو نے اذہان انکل کو بتایا تھا ؟

نہیں یار میں کال کر رہی تھی لیکن انکل نے ریسیو ہی نہیں کی شاید بزی ہونگے خیر اب تو مشی ٹھیک ہے تو میرا نہیں خیال اب انکل کو بتاکر انہیں پریشان کرنا چاہئے ۔

اناب نے مصباح کو بتاتے ساتھ رائے دی ۔

اچھا چل ٹھیک ہے مشی سے مل کر آتے ہیں ۔

مصباح نے مشی سے کہا اور پھر دونوں مشی کے روم میں  چلی گئی ۔

کیسی ہے مشی کیا حالت کرلیا تو نے اپنی تجھے پتہ ہے تیری حالت دیکھ کر ہم کتنے پریشان ہوگئے تھے اگر کوئی مسلئہ ہے تو شئیر کر ہم دوست سے پہلے بہنیں ہے تیری ۔

اناب نے کمرے داخل ہوتے ہی مشی سے اسکا حال دریافت کرتے ساتھ نرمی سے سوال کیا جو کہ نا جانے چھت پر کیا تلاش کر رہی تھی ۔

مجھے گھر جانا ہے مصباح ڈسچارج کرواؤ یہاں سے مجھے ۔

مشی نے اناب کی بات کو اگنور کرتے ہوئے مصباح سے نقاہت زدہ لہجے میں کہا جبکہ نظریں ہنوز چھت پر ٹکی تھی ۔

ٹھیک ہے میں بھائی سے کہتی ہوں ۔

مصباح نے عفراء کو مشی کے برابر میں لٹاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔

پھر کچھ ہی دیر میں وہ لوگ گھر جارہے تھے ۔

بابا میں مشی کے ساتھ جارہی ہوں اور رات اسی کے ساتھ رکونگی آپ ڈرائیور انکل کے ساتھ میری اسائیمینت بھیج دیجئیگا کل میں وہی سے یونی چلی جاؤنگی ۔

ٹھیک ہے آپ جاؤ میں بھیج دونگا ۔۔۔۔۔

اناب کے معصوم سا منہ بناکر کہنے پر یاسر صاحب نے اسکے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے تو اناب بھی جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی جہاں پہلے ہی مشی بیک سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی جبکہ عفراء آگے بیٹھی مصباح کی گود میں سو رہی تھی ۔

 اور پھر اناب کے بیٹھتے ہی سعد نے گاڑی آگے بڑھادی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی کی خاموشی مجھے طوفان سے پہلے کی خاموشی لگ رہی ہے مشکات بھابھی کے یہاں سے جانے کا سن کر بھی وہ خاموش ہے مجھے تو اب ڈر لگ رہا ہے بھائی کی خاموشی سے ۔

ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اور پھر حضیر بھائی کی شام والی حرکت پر بھی سب بہت غصہ ہیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا آخر ہو کیا رہا ہے اس گھر میں ۔

حیان کے کہنے پر انعمتہ نے بھی اسکی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا ۔

مجھے ایسا لگتا ہیکہ حضیر بھائی اور مسیّب بھائی کے بیچ کوئی ناراضگی چل رہی ہے کیونکہ برداء بھائی اور مبّشر بھائی دونوں نے ہسپتال کی چھٹی کی تھی لیکن مسیّب بھائی نے نہیں کی اور حضیر بھائی کے آنے کا سن کر بھی مسیّب بھائی نے کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ سب جانتے ہیکہ حضیر بھائی کے آنے کا سن کر سب سے زیادہ خوشی مسیّب بھائی کو ہوتی تھی اور اس مرتبہ انہوں نے کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا اور اسی وجہ سے ہوسکتا ہے حضیر بھائی انہیں منانے ہسپتال گئے ہوں لیکن ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی بات ہوگئی ہوگی جسکی وجہ سے حضیر بھائی اتنی پریشانی میں گھر آئے اور سب کو نظر انداز کرتے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔

ان دونوں کے کہنے پر حرمین نے اپنی رائے پیش کی وہ تینوں ابھی ڈنر کر کے اپنے روم میں آئی تھی چونکہ تینوں کا روم ایک ہی تھا اس لئے اب وہ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جبکہ باقی سب بھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے جبکہ پھوپھو بھی آج یہی رکی ہوئی تھی ۔

ہاں حرمین صحیح کہہ رہی ہے کیونکہ ابھی جب میں پانی لینے نیچے گئی تھی تب مسیّب بھائی گھر آئے تھے اور سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن وہ بہت غصے میں لگ رہے تھے ۔

میں ان سے کھانے کا پوچھنے والی تھی لیکن پھر انکا غصہ سے لال چہرہ دیکھ کر سیدھی کمرے میں آگئی ۔

حرمین کے کہنے پر حیان نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوا واقع ان دونوں کے گوش و گزار کردیا ۔

اللّٰہ خیر کرے فلحال تو سوجاؤ کل یونی جانا ہے جو ہوگا دیکھا جائیگا ۔

انعمتہ نے ان دونوں سے کہا اور اپنی سائیڈ کا لیمپ بند کرتی سونے کی لئے لیٹ گئی تو وہ دونوں بھی اپنے اپنے بیڈ پر جاکر سونے کے لئے لیٹ گئیں ۔

آپی آگئی آپ میں کھانا لگاتا ہوں ۔

ہیّاج نے لاؤنچ میں داخل ہوتی ساریہ کو دیکھ کر کہا ۔

میرے شہزادے نے کھانا کیوں بنایا میں بنالیتی آکر یا آڈر کرلیتے ابھی آفس سے آئے ہونگے تھکے ہوئے اور کچن میں گھس گئے ۔

میری پیاری اپیا آج جلدی آگیا تھا اس لئے بنالیا اور آپ کو تو پتہ ہے باہر کا کھانا مجھے پسند نہیں ہے اور ویسے بھی آپ بھی تھکی ہوئی آئی ہیں اور اگر میں کھانا نہیں بناتا تو آپ بناتی ابھی آکر یہ مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا ۔

اچھا چلو ٹھیک ہے جب کھانا بنا ہی لیا ہے تو اب جلدی سے لگا بھی دو مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے میں فریش ہوکر آتی ہوں تب تک تم کھانا لگاؤ ۔

اچھا چلیں ٹھیک ہے جلدی سے فریش ہوکر آئیں میں کھانا لگارہا ہوں ۔

ساریہ کے کہنے پر ہیّاج نے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی اپنے کمرے میں چلی گئی اور پیچھے ہیّاج کھانا ڈائننگ ٹیبل پر لگانے لگا ۔

ہیّاج میں جوب چھوڑدیتی ہوں تم پریشان ہوتے ہو کھانے وغیرہ کے لئے اور کسی ملازم یا ملازمہ کو بھی نہیں رکھ سکتے اور اللّٰہ کا شکر ہے ہمیں پیسوں کی کمی تو نہیں ہے جوب تو میں بس شوق کے لئے کرتی ہوں تاکہ میری پڑھائی ضائع نہ ہو لیکن مجھے اچھا بھی نہیں لگتا تمہارا اس طرح پریشان ہونا تم میرے اکلوتے چھوٹے بھائی ہو میں تمہارے ہر لاڈ اٹھانا چاہتی ہوں ۔

نہیں اپیا جوب چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور میری فکر نہ کریں میں بلکل بھی پریشان نہیں ہوتا اور آپکو پتہ ہے ملازمہ اور ملازم رکھ نہیں سکتے کیونکہ اگر کوئی ملازم رکھا تو وہ آپ کے لئے نامحرم ہوگا اور اگر ملازمہ رکھی تو میرے لئے اس لئے میں ملازم رکھنا نہیں چاہتا اور آئیندہ آپ ایسی مایوسی کی باتیں نہیں کرینگی آپ نے بچپن سے میرے سارے لاڈ اٹھائے ہیں مجھے آپ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے اگر میں آپ کے لئے اپنی جان بھی دے دو نا تب بھی آپکی محبت کا حق ادا نہیں کرسکتا آپکا اور مما بابا کا مقام میرے دل میں اس قدر بلند ہیکہ کوئی بھی دوسرا شخص اس بلندی تک پہنچ نہیں سکتا کیونکہ میں پہنچنے ہی نہیں دونگا ۔

خیر یہ ساری باتیں چھوڑیں اور کھانا ٹیسٹ کر کے بتائیں کہ آپکے نکمّے بھائی نے کیسا بنایا ہے ۔

ساریہ کے افسردہ لہجے میں کہنے پر ہیّاج نے اسے مان بخشتے ساتھ کھانے کی طرف توجّہ دلائی ۔

واہ بھئی میرا شہزادہ تو بہت اچھا کُک بن گیا ہے کھانا تو بہت ٹیسٹی بنا ہے ۔

ساریہ نے کھانا ٹیسٹ کرتے ہوئے ہیّاج کو داد دیتے ہوئے کہا ۔

آخر بھائی کس کا ہوں ہر کام میں پرفیکٹ تو ہونا ہی ہے ۔

اپنی تعریف سن کر ہیّاج نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا جبکہ اسکے ایسا کرنے پر ساریہ نے اسکے سر پر پیار کیا اور پھر دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا تھا مشی کو ٹھیک تو ہے نہ میری گڑیا ۔

اذہان صاحب نے مشی کو اناب اور مصباح کے سہارے چل کر آتے دیکھ پریشانی سے پوچھا جبکہ عفراء سعد کے پاس تھی چونکہ سعد نے پہلے ہی اذہان صاحب کو فون کر کے کہہ دیا تھا آپ ڈائیریکٹ گھر چلے جائے میں بھی مشی کو چھوڑنے آرہا ہوں اس لئے وہ آفس سے ڈائیریکٹ گھر آگئے تھے اور اب مشی کو اس حال میں دیکھ کر پریشانی سے استفسار کرنے لگے ۔

کچھ نہیں ہوا آپ بیٹھے انکل اور آپ لوگ گڑیا کو روم میں لے جاؤ ۔

سعد نے اذہان صاحب کو ریلیکس کرنے کے ساتھ مصباح اور اناب سے کہا جس پر وہ سر ہلاتی مشی کو لیکر اسکے روم کی طرف چلی گئی جبکہ سعد عفراء کو لیکر وہین لاؤنچ میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا ۔

انکل دیکھیں ریلیکس ہوکر میری بات سنے مشی ضد کر کے ڈسچارج ہوکر آئی ہے حالانکہ ڈاکٹر نے کہا تھا ویکنیس کی وجہ ایک ڈرپ اور لگے گی جس سے اسکا شگر لیول اور بلڈ پریشر بھی کنٹرول ہو جائیگا لیکن مشی نہیں مانی اس لئے صبح ہوتے ہی آپ سب سے پہلے ایک اور ڈرپ مشی کو گھر پر ہی لگوادینا یا میں کوشش کرونگا میں آجاؤ لیکن اگر نہیں آسکا تو آپ کسی ڈاکٹر کو بلاکر یہ ڈرپ لازمی لگوادیجئیگا ۔

سعد نے اذہان صاحب کو ساری بات بتانے کے ساتھ ڈاکٹر کی کہی ہوئی باتیں بھی انکے گوش و گزار کی جبکہ اس دوران عفراء سعد کی گود سے اتر کر اذہان صاحب کی گود میں چڑھ گئی تھی کیونکہ اپنے نانا کے ہوتے ہوئے وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی ۔

ٹھیک ہے بیٹا بہت شکریہ آج تمہاری آفس سے بھی چھٹی ہوگئی مجھے بتادہتے میں آجاتا ۔

انکل اب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں میں کوئی غیر تو نہیں  جیسے آپ شکریہ کہہ رہے ہیں مشی میری بھی کچھ لگتی ہے میری پھوپھو کی بیٹی ہے اور یقین کرے انکل جتنی مجھے پھوپھو سے محبت تھی اتنی ہی انکی پیاری بیٹی کا میں احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ ہے ہی احترام کے قابل ۔

آپ لوگ آکر ڈنر کرلیں میں نے کھانا ٹیبل پر لگادیا ہے  ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اذہان صاحب کچھ کہتے کہ ملازمہ نے آکر ان دونوں کو اطلاع دی جس پر وہ دونوں اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف چل دیے ۔

اب کیسی ہے مشی ؟ ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب نے کھانے کھاتے ہوئے اناب اور مصباح کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

انکل ابھی بہتر ہے ڈاکٹر نے نیند کی ٹیبلیٹ دی ہے تاکہ تھوڑی پرسکون ہوجائے اس لئے ابھی سو رہی ہے اور آپ پریشان نہ ہو ہم دونوں آج مشی کے پاس ہی ہیں اور بھائی آپ ڈرائیور انکل کے ساتھ میرے کمرے کی سائڈ ٹیبل پر پڑی اسائیمینٹ بھیج دیجئیگا صبح سبمنٹ کروانی ہے لاسٹ ڈیٹ ہے ۔

مصباح نے اذہان صاحب کو جواب دینے کے ساتھ سعد سے کہا ۔

ٹھیک ہے میں بھیج دونگا اور میرا ہوگیا میں چلتا ہوں رات ہوگئی ہے ۔

سعد نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا اور عفراء کو پیار کرتا چلاگیا تو پیچھے اذہان صاحب مشی سے صبح ملنے کا ارادہ کرتے عفراء کو لیکر اپنے کمرے میں چلے گئے کیونکہ آج انکا ارادہ عفراء کو اپنے پاس سلانے کا تھا جو بیٹھے بیٹھے اونگھ رہی تھی جبکہ اناب اور مصباح بھی ملازمہ کے ساتھ کچن صاف کرواکر ملازمہ کو کوارٹر میں بھیجنے کے بعد مشی کے کمرے کی طرف چل دی اور سونے کے لئے لیٹ گئی چونکہ دونوں ہی بہت تھکی ہوئی تھی اس لئے لیٹتے ہی نیند کی وادی میں اتر گئی جبکہ مشی پہلے ہی دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاسر صاحب میں چاہتی ہوں اب آپ دونوں بچوں کو یہاں لے آئے اب میں انکو مزید خود سے دور نہیں کرسکتی آپ نے دوسری شادی میری اجازت سے کی تھی کوئی گناہ نہیں کیا وہ دونوں کب سے اکیلے ہیں ماں کا سایہ پہلے ہی ان کے سر سے اٹھ چکا ہے اب میں مزید ان دونوں کو خود کی محبت سے دور نہیں رکھ سکتی مجھے وہ دونوں بھی دل و جان سے قبول ہیں میرے لئے وہ اناب اور سحر جیسے ہی ہیں میں اپنے دونوں بچوں کی طرح انکو بھی اپنے سینے سے لگاکر رکھنا چاہتی ہوں اور آپ بے فکر رہیں اناب کو میں سمجھادونگی وہ کبھی کچھ نہیں کہے گی بلکہ وہ تو خوش ہوجائیگی جب اسکو پتہ چلے گا کہ اسکا ایک بھائی بھی ہے اور رہی سحر کی بات وہ کونسا اناب کو سگی بہن ہونے کے بعد بھی منہ لگاتی ہے آپ اسکو اسکے حال پر چھوڑدیں کیونکہ اب میں کسی بھی وجہ سے ان دونوں کو خود سے دور نہیں  کرسکتی اس لئے کل ہی اپن چل کر ان دونوں کو لیکر آئینگے اور میرے بیٹے کو آپ اپنے آفس کا سی ای او بنائیگے بس میں اب اور انتظار نہیں کرسکتی ۔

رومیسہ بیگم نے یاسر صاحب کو دیکھتے ہوئے ضدی لہجے میں کہا ۔

بیگم میں بھی یہی سوچ رہا تھا وہ بھی میری اولاد ہے میرے جگر کے ٹکڑے اب میں خود بھی ان سے دور نہیں رہ سکتا حالانکہ ہر ہفتے مل کر آتا ہوں لیکن پھر بھی اب میں چاہتا ہوں جب میں آفس سے گھر لوٹو تو میرے سارے بچے ساتھ ہوں اور اب آفس کے کام بھی میں اپنے بیٹے کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے کل چلینگے اور دونوں کو یہاں لے آئینگے لیکن اب سوجائیں رات بہت ہوگئی ہے مجھے نیند بھی آرہی ہے ۔

یاسر صاحب نے انکی بات پر ہامی بھرتے ہوئے کہا اور سونے کے لیٹ گئے تو رومیسہ بیگم بھی لائیٹ آف کرتی سوگئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واٹ آ پریزینٹ سرپرائز شہزادے کب آئے تم بتایا بھی نہیں ۔

سعد جیسے ہی گھر میں داخل ہوا لاؤنچ میں ہی انیب شاہ کو بیٹھا دیکھ حیرانگی سے کہنے لگا ۔

بس سوچا سب کو سرپرائز دے دوں لیکن یہاں آکر تو میں خود سرپرائز ہوگیا ۔

کیا مطلب ہے تمہیں کونسا سرپرائز مل گیا ۔۔۔۔۔۔ اُنیب کے منہ بناکر کہنے پر سعد نے پیار سے اسکے بال بگاڑتے ہوئے کہا چونکہ سب اپنے کمروں میں سونے جاچکے تھے اس لئے شاید اُنیب لاؤنچ میں بیٹھا سعد کا ہی انتظار کر رہا تھا ۔

چلیں چھوڑیں یہ بتائیں مصباح کہا ہے وہ بھی تو آپ کے ساتھ گئی تھی ۔

سعد کے پوچھنے پر اُنیب نے بات بدلتے ہوئے مصباح کو سعد ساتھ نہ دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔ 

وہ مشی کے پاس ہے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے وہ وہیں رک گئی آج رات ۔۔۔۔۔ اُنیب کے پوچھنے پر سعد نے مختصر سا بتایا ۔

ہاں بتایا تھا بابا اور دادو نے کہ آج مما اور بھابھی نے کیا کیا ہے مشی کے ساتھ اسی وجہ سے تو بابا نے یاسر ماموں کو بلاکر مما اور بھابھی کو انکے میکے بھیج دیا ۔

آپ کو برا نہیں لگا بابا نے آپ سے پوچھے بغیر بھابھی کو انکے میکے بھیج دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سعد کو کوئی رئیکٹ نا کرتے دیکھ اُنیب نے اس سے پوچھا ۔

نہیں مجھے بلکل برا نہیں لگا بلکہ اگر آج بابا ایسا نہیں کرتے تو میں کردیتا تو نہیں جانتا آج جو میں نے مشی کی حالت دیکھی ہے  نہ اسکی حالت دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ایسے ہوگئی تھی وہ جیسے پاگل ہو ۔

مجھے سمجھ نہیں آتا بھائی پتہ نہیں کیوں سب اس معصوم کے پیچھے لگے رہتے ہیں مجھے تو دکھ ہوتا ہے اسے دیکھ کر اتنی سی عمر میں کیا کچھ نہیں سہا اس نے ابھی انیس سال کی ہے اور ماشاءاللہ سے اسکی بیٹی ایک سال کی ہوگئی ہے ۔

سعد کے منہ سے مشی کی حالت سن کر اُنیب نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا ۔

بس جو اللّہ کو منظور ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللّٰہ گڑیا کو صبر دے اور اسکی زندگی کو خوشیوں سے بھردے  آمین ۔

چلو اب رات کافی ہوگئی ہے تھکے ہوئے آئے ہو سوجاؤ میں بھی سوؤنگا صبح ملاقات ہوگی پھر ۔

اُنیب کے مشی کو دعا دینے پر سعد نے دل میں آمین کہنے ساتھ اسے سونے کا کہا تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا  تو پھر سعد نے بھی اپنے کمرے کا رخ کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضیر ابھی تک آیا نہیں ٹیبل پر جاگ تو وہ فجر میں ہی گیا تھا ۔

نہیں ابھی تک تو نہیں آیا شاید تیار ہو رہا ہو جاؤ ردابہ بلاکر لاؤ حضیر کو ۔

اذان صاحب کے پوچھنے پر انعم بیگم نے انہیں جواب دینے کے ساتھ ردابہ سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔

اہتشام دو منٹ کے اندر مجھے اذہان کاردار کے گھر کا ایڈریس سینڈ کرو ۔

ابھی ردابہ حضیر کو بلانے جاتی کہ وہ سامنے سے اپنی سحر انگیز پرسنالٹی کے ساتھ فل رائل بلو پینٹ کوٹ میں کان سے فون لگائے ٹیبل کی طرف پی آرہا تھا ۔

حضیر نے فون کان سے لگائے ہی ایک طائرانہ نظر سب پر ڈالی جبکہ حضیر کر دیکھتے ہی مسیّب نے منہ پھیر لیا جبکہ اسکی حرکت پر حضیر کو بہت دکھ ہوا لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسیّب کے ایسے رویے کی کوئی نہ کوئی بڑی وجہ ضرور ہوگی ۔

حضیر نے کال کٹ کر کے موبائل پاکٹ میں رکھا اور جاکر بنا کسی کو مخاطب کیے ٹیبل کے پاس کھڑا ہوا اور ایک گلاس میں جوس نکال کر پیا اور خاموشی سے باہر نکلتا چلا گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحب باہر حضیر کاردار آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھادیا ہے ۔

ملازم جو کہ حضیر کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہورہا تھا کیونکہ وہ حضیر کاردار تھا ایک دنیا اسے جانتی تھی ہر ملک میں اسکی شہرت کے چرچے تھے لوگ اسکی خوبصورتی اور ذہانت کی مثالیں دیا کرتے تھے اور اتنے بڑے شخص کو دیکھ کر ایک عام آدمی کا خوش ہونا تو بنتا تھا اور آدمی بھی وہ جو اسے پسند کرتا ہو ۔

 ملازم جو حضیر کو ڈرائینگ روم میں بٹھاکر بھاگتا ہوا اذہان صاحب کے پاس پہنچا تھا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہنے لگا جو ابھی ناشتہ کر کے بیٹھے تھے اناب یونی جاچکی تھی کیونکہ اسے تینوں کی اسائیمنٹ سبمنٹ کروانی تھی جبکہ مصباح مشی کے پاس بیٹھی عفراء کے ساتھ کھیل رہی تھی کیونکہ عفراء بار بار مشی کے ہاتھ سے کینولہ نکالنے کی کوشش کر رہی تھی شاید اسے پسند نہیں آیا تھا اپنی ماں کو تکلیف میں دیکھنا جبکہ مشی ابھی بھی دوائی کے زیرِ اثر تھی چونکہ اذہان صاحب نے صبح ہی ڈاکٹر کو بلاکر مشی کو ڈرپ لگوادی تھی جبکہ مصباح اسے ناشتہ کرواچکی تھی اس لئے اب وہ سورہی تھی اور مصباح عفراء کے ساتھ بیٹھی کھیل رہی تھی تاکہ وہ مشی کے پاس نا جائے ۔

 تم چلو میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ حضیر کا نام سن کر انکا چہرہ بلکل سپاٹ ہوگیا اس لئے کچھ توقف کے بعد ملازم سے کہا تو وہ سر ہلاتا وہاں سے چلاگیا جبکہ اذہان صاحب بھی اسپاٹ چہرے کے ساتھ مشی کے روم میں گئے اور مصباح کو ریفریشمنٹ کا کہہ کر عفراء کو گود میں اٹھاتے ڈرائینگ روم کی طرف چل دیے ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اسلام علیکم ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے روم میں انٹر ہوتے ہی حضیر نے احتراماً کھڑے ہوتے ہوئے سلام کیا ۔

 وعلیکم سلام ۔۔۔ حضیر کے سلام کرنے پر اذہان صاحب نے جواب دیا اور حضیر کے سامنے پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئے اور عفراء کو اپنے برابر میں بٹھالیا جو کہ ٹکر ٹکر حضیر کو دیکھ رہی تھی شاید پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ کون ہے جبکہ حضیر الفاظوں ہو ترتیب دینے لگا کہ کیسے بات شروع کی جائے جبکہ اذہان صاحب مسلسل اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔

 کیوں آئے ہوں ۔۔۔۔۔ حضیر کو کچھ نا بولتا دیکھ اذہان صاحب نے پہل کرتے ہوئے اسکی مشکل آسان کردی ۔

 اپنی بیوی مشکات کو لینے ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے اسپاٹ لہجے میں کہنے پر حضیر نے صاف گوئی سے جواب دیا ۔

 مرچکی ہے تمہاری بیوی مشکات میرے پاس میری بیٹی مشی ہے ۔

اللّٰہ نا کرے چاچو ایسے تو نا کہیں۔۔۔۔ اذہان صاحب کے سفاکی سے کہنے پر حضیر نے فوراً سے کہا۔

 چاچو میں نہیں جانتا میرے پیچھے سے کیا ہوا ہے مجھے کسی بات کا کوئی علم نہیں ہے مسیّب بھی مجھ سے بات تو دور میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا اور مشکات بھی گھر چھوڑ آئی ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر ہوا کیا ہے میں نہیں جانتا کہ میری کیا غلطی ہے اور ہے بھی تو میں آپ سے اور مشکات سے معافی مانگ لونگا لیکن میں اسے لیکر ہی جاؤنگا ۔

 حضیر نے ساری بات بے بسی سے کہتے ہوئے آخری بات ضدی لہجے میں کہی ۔

 جس دن اپنی غلطی جان جاؤ آکر لے جانا اپنی بیوی کو اگر وہ جانا چاہے تو ۔۔

 اوہ تو آپ ہے مشی کے نام نہاد شوہر جسکی مہربانی سے وہ تین مہینے کومہ میں رہی جسکی وجہ سے وہ زندہ لاش بن کر رہ گئی ارے آپ کو کیا خبر ہوگی اپنی بیوی کی آپکو تو یہ تک نہیں پتہ آپکی ایک بیٹی بھی جو ایک سال کی ہوچکی ہے ۔

 اذہان صاحب ابھی بول ہی رہے تھے کہ مصباح جو کہ ریفریشمنٹ کا سامان لیکر آئی تھی دونوں باتیں سنتی چپ نہیں رہ سکی اور فوراً سے حضیر کو آئینہ دیکھانے لگی ۔

 مصباح بیٹا آپ جاؤ یہاں سے دیکھو مشی کی ڈرپ ختم ہوئی یا نہیں اگر ختم ہوگئی ہو تو مجھے بتادینا میں ڈاکٹر کو بلالونگا ۔

 اذہان صاحب نے مصباح کو ہائیپر ہوتا دیکھ پیار سے کہا جس پر وہ ایک خونخوار نظر حضیر پر ڈالتی وہاں سے چلی گئی ۔

 انکل کیا ہوا ہے مشکات کو کیسی ہے وہ مجھے ملنا ہے اس سے ۔

 مصباح کے جانے کے بعد حضیر نے پریشانی سے اذہان صاحب سے کہا ۔

 ملنے سے منع نہیں کرونگا بیوی ہے تمہاری مل لو لیکن جو میری بیٹی کا فیصلہ ہوگا میں اسکے ساتھ ہوں فلحال وہ دوائیوں کے زیرِ اثر سورہی ہے اپنے روم میں آؤ میں لے چلتا ہوں ۔

 اذہان صاحب نے حضیر سے کہا اور اسے لیتے مشی کے روم کی طرف چل دیے ۔

 یہ روم ہے مشی کا ۔۔۔۔ ببا ببا ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے مشی کے روم کے باہر رکتے ہوئے حضیر سے کہا اس سے پہلے کے وہ اندر جاتا عفراء چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اسے پکارتی ہوئی اسکے پاس آنے لگی ۔

 یہ ہی ہے تمہاری بیٹی عفراء حضیر کاردار ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کو خود کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے دیکھ آگاہ کیا ۔

 بابا کی جان بابا کا بچہ بابا کی شہزادی بابا کی زندگی بابا کی پرنسس بابا کی اینجل بابا کی ڈول ۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے جلدی سے عفراء کو گود اٹھایا اور والہانہ چومتے ہوئے ایک ساتھ کئی القابات سے پکارنے لگا جبکہ ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں سے نکل کر داڑھی میں جذب ہوگیا جو کہ اذہان صاحب سے مخفی نہیں رہ سکا ۔

 اذہان صاحب ان باپ بیٹی کو مشی کے روم کے باہر چھوڑ کر خود وہاں سے چل دیے اور انکے جاتے ہی حضیر بھی عفراء کو گود میں اٹھائے مشی کے روم میں چل دیا جبکہ عفراء ابھی ابھی ٹکر ٹکر حضیر کو دیکھ رہی تھی ۔

مجھے تمہارے بیٹے کے تیور کچھ اچھے نہیں لگ رہے اذان لگتا ہے باہر رہ کر ساری تمیز تہذیب بھول چکا ہے دوسری دفعہ یہ حرکت کی ہے اس نے اسے سمجھالینا اپنی زبان میں ورنہ میں سمجھانے پر آئی تو اسے اچھا نہیں لگے گا ۔

حضیر کا سب کو دوسری بار اگنور کرنا دادی کو سخت ناگوار گزرا تھا اس لئے وہ حضیر کا سارہ غصہ اذان صاحب پر اتار کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

ہمارا ہوگیا ہم چلتے ہیں ۔۔۔۔ دادو کے جاتے ہی ان تینوں نے ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے سب سے کہا اور سامان اٹھاتی پورچ کی طرف بڑھ گئی جبکہ حضیر کے جاتے مسیّب بھی چلا گیا تھا ۔

یار آج اچھی خاصی کلاس لگادی دادی نے تایا ابو کی سب کے سامنے ۔۔۔۔

ویسے میں تو کہتی ہوں دادا جان کا ظرف تھا جنہوں نے اپنی موت کے وقت تک دادی کو جھیلا اور اسی وجہ سے بچارے جلدی چل بسے ۔

حیاّن کی بات پر ڈرائیونگ کرتی ہوئے انعمتہ نے کہا جس پر تینوں کا قہقہہ کار میں گونجا ۔۔۔ ویسے بول تو صحیح رہی ہے انعمتہ کبھی کبھی تو میں سوچتی ہوں کہ دادا ابو پچھتاتے ہونگے دادی سے شادی کر کے ۔

خیر انکے دل کی بات تو ان سے ہی پتہ چلنی تھی لیکن اب تو وہ ہے ہی نہیں اور ماشاءاللہ دادی کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت ہے ۔

حرمین کے کہنے پر حیّان نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔

اچھا اب بس چپ کر کے اترو یونیورسٹی آگئی ہے ۔۔۔۔ انعمتہ نے یونی کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرتے ہوئے دونوں سے کہا اور پھر تینوں گاڑی سے نکلتے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہزادے ٹیبل پر آجاؤ جلدی ناشتہ ڈھنڈا ہورہا ہے ۔

ساریہ نے ڈائننگ پر ناشتہ لگاتے ہوئے ہیّاج کو آواز دی جو کہ اپنے روم میں تیار ہورہا تھا ۔۔۔۔ بس آگیا آپی ۔۔۔ ساریہ کے آواز دینے پر ہیّاج اپنے سے کمرے سے نکل کر ٹیبل پر آتے ہوئے کہنے لگا ۔

ماشاءاللہ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا بھائی اللّٰہ نظرِ بد سے بچائے ۔

ساریہ نے یہّاج کو بلو کورٹ پینٹ پہنے دیکھ پیار سے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا جس میں وہ بہت زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا جبکہ الٹے ہاتھ کی کلائی میں خوبصورت سی گھڑی پہنی ہوئی تھی اور دائیں ہاتھ میں بلو ہی کلر کا آئی فون پکڑا ہوا تھا ۔

مجھے کسی کی نظر نہیں لگنی کیونکہ میری اپیا کی دعائیں اور ڈھیر سارا پیار جو میرے ساتھ ہر وقت ہوتا ہے آپ میرے لئے پریشان نہ ہوا کرے اب میں بچہ نہیں آئی ایم آ ینگ مین ۔۔۔ ساریہ کے کہنے پر ہیّاج نے اسے اپنے حصار میں لیکر کرسی پر بٹھاتے ہوئے شوخی سے کہا ۔

ہاں صحیح کہہ رہے ہو بڑے ہوگئے تم اب میں تمہارے لئے لڑکیاں دیکھنا شروع کردیتی ہوں ۔۔۔۔۔ ساریہ نے ہنسی دباتے ہوئے ہیّاج کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

اپیا نوٹ اگین یار لیو دس ٹاپک ۔۔۔۔ ساریہ کے کہنے پر ہیّاج نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا چلو چھوڑو یہ باتیں ناشتہ کرو ٹھنڈا ہورہا ہے ۔

ہیّاج کو برا سا منہ بناتے دیکھ ساریہ نے پیار سے کہا اور پھر دونوں نے ناشتہ شروع کیا ۔۔۔۔۔۔ 

ارے واہ ناشتہ ہورہا وہ بھی اکیلے اکیلے ۔۔۔۔ ابھی وہ دونوں ناشتہ ہی کر رہے تھے کہ یاسر صاحب اور رومیسہ بیگم نے دونوں کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔۔۔ 

مام ڈیڈ آپ کب آئے ۔۔۔۔ یاسر خان اور رومیسہ بیگم کو اپنے سامنے دیکھ کر دونوں نے حیرانگی سے ایک ساتھ پوچھا ۔

جب میرے بچے اکیلے اکیلے ناشتہ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے ساریہ کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا جبکہ یاسر صاحب ہیّاج سے بغلگیر ہوئے ۔

کیسے ہیں ڈیڈ آپ ۔۔۔۔۔ ساری رومیسہ بیگم سے ملنے کے بعد یاسر سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔ بلکل ٹھیک میرا بچہ کیسا ہے ۔۔۔۔ ساریہ کے پوچھنے پر یاسر صاحب نے پیار سے اسکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔

بھئی مجھے تو بہت بھوک لگی ہے باقی باتیں بعد میں پہلے سب ناشتہ کرلیتے ہیں ۔۔۔۔ یاسر صاحب کو ساریہ کے ساتھ بزی دیکھ کر ہیّاج نے بیچارگی سے کہا جس پر وہ تینوں بھی مسکراتے ہوئے ناشتہ کرنے لگے ۔

ویسے خیریت تو ہے آپ لوگ اتنی صبح صبح یہاں ۔۔۔ یہاج نے ناشتہ کرتے ہوئے یاسر صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

بس میں نے اور تمہاری مما نے سوچا کہ بہت رہ لیا اب تم لوگوں سے دور اب ہم سب کو ساتھ رہنا چاہئے اس لئے میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لینے آیا ہوں تاکہ ہمارے گھر میں رونق ہو جائے ۔

ہیّاج کے پوچھنے پر یاسر صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنے آنے کی وجہ بتائی ۔

 کیا چلو گے آپ لوگ ہمارے ساتھ بیٹا زبردستی نہیں ہے لیکن اب میں چاہتی ہوں میرے سارے بچے میرے ساتھ رہے آپ دونوں بھی مجھے اناب اور سحر کی طرح عزیز ہو میرا خدا گواہ ہے میں کبھی آپ لوگوں میں اور ان میں فرق کرنے کا سوچا بھی نہیں ہے ۔

 دونوں کو کوئی جواب نہ دیتا دیکھ رومیسہ بیگم نے صفائی دیتے ہوئے کہا ۔

 میں نہیں جانتا سگا سوتیلا کیا ہوتا ہے میں صرف یہ جانتا ہو کہ آپ ہماری ماں ہیں اور ماں کی محبت بے لوث ہوتی ہے اور اس بات کے آگے کچھ سننے یا بولنے کی گنجائش نہیں بچتی آپکا ہم سے اجازت لینا مجھے شرمندہ کرواگیا کیونکہ میں چاہتا ہوں آپ حق سے حکم کریں ہم آپ کی اولاد ہے اور آپ ہماری ماں باقی کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم جائینگے اور ضرور جائینگے آپ ہی تو ہماری فیملی ہیں اور وہ کوئی بدبخت ہی ہوگا جو اپنی دنیا میں جنت ہوتے ہوئے بھی اس کی قدر نہ کرے ہم ابھی چل رہے ہیں آپ لوگوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔ رومیسہ بیگم کے صفائی دینے پر ہیّاج نے انکے قدموں میں بیٹھتے ہوئے انہیں مان بخشتے ہوئے کہا اور انکے ہاتھوں پر احترام سے بوسہ دیا جبکہ یاسر خان کو آج اپنے بیٹے پر فخر ہونے لگا اور ساریہ خاموشی سے آنکھوں میں نمی لیے سب دیکھ رہی تھی ۔

 ماں صدقے ماں کی جان میرے شہزادے اللّٰہ خوشیوں سے بھری لمبی زندگی عطا کرے میرے شہزادے کو ۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے نم آنکھوں سے ہیّاج کی پیشانی چومتے ہوئے دعا دی اور ایک امید بھری نظر ساریہ پر ڈالی ۔

 جی بلکل ہم دونوں اپنے گھر جائینگے اور اپنی بہنوں اور ماں باپ کے ساتھ ایک ہپی فیملی کی طرح رہینگے بہت رہ لیے اکیلے اکیلے ۔

 رومیسہ بیگم کو خود کی طرف دیکھتے دیکھ ساریہ نے فوراً سے کہا جس پر وہ مسکرادیں ۔۔۔۔ اچھا اب آپ لوگ ناشتہ کنٹینیو کریں میرا ہوگیا میں پیکنگ کرنے جارہی ہوں ۔۔۔ ساریہ نے ان تینوں سے کہا اور پیکنگ کرنے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔ میں بھی زرہ اپنی پیکنگ کرلو میرا بھی ہوگیا ۔

 ساریہ کے جانے کے بعد ہیّاج نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے میں گم ہوگیا جبکہ رومیسہ بیگم نے ایک خوشیوں سے بھری مسکراہٹ سے یاسر صاحب کو دیکھا تو وہ بھی مسکرادیے ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حضیر نے جیسے ہی روم کا دروازہ کھولا سامنے ہی بیڈ پر دشمن جان سوتی ہوئی نظر آئی جسکی ہاتھ ڈرپ لگی ہوئی تھی اور کمرے میں بلکل ہلکی روشنی تھی شاید مشی کے آرام کے لئے ساری بتیاں گل کردی گئی تھی جبکہ اے سی کی خنکی سے کمرہ برف کی مانند ٹھنڈا ہو رہا تھا ۔

 حضیر عفراء کو گود میں اٹھائے روم میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے قدم قدم چلتا ہوا مشی کے قریب آیا اور جھک کر اسکے ماتھے پر پیار کیا جبکہ عفراء حضیر کی گود سے اچھل کر بیڈ پر کود گئی ۔

 بابا کی جان آپ تو بہت شرارتی ہیں ابھی لگ جاتی آپکو بھی اور آپکی مما کو بھی ۔۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کی حرکت پر اسکے گال کھینچتے ہوئے پیار سے ڈانٹتے ہوئے کہا جس پر عفراء نے منہ پھیر لیا شاید اسے حضیر کا ڈانٹنا پسند نہیں آیا تھا ۔

 یار عائش کیا حالت بنالی ہے آپ نے میرے پیچھے سے کم از کم میرے لئے نہیں تو ہماری شہزادی کے لئے اپنا خیال رکھ لیتی ۔۔۔ یار میں نہیں جانتا کہ تمہیں کیا پریشان ہے لیکن تمہارا یہ حال دیکھ کر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ یار تاکہ میں تمہیں دوبارہ اپنی دنیا میں لے جاؤ جہاں تم میں اور ہماری بیٹی کے سواء کوئی نہ ہو اور میں تم دونوں کا دامن خوشیوں سے بھردوں جنکی تم مستحق ہو جن سے تم محروم رہی ہو کیونکہ میری خوشی تو تم دونوں کی خوشی میں ہے تم خوش رہوگی تو میں بھی خوش رہونگا ابھی تم تکلیف میں ہو تو مجھے بھی ایک پل کا سکون نہیں کیونکہ تم میرا ہی تو حصہ ہو تو بتاؤ کہ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو انسان سکون سے کیسے رہ سکتا ہے تم تو پھر میرے وجود کا ایک اہم حصہ ہو جس سے میرا دین میری دنیا مکمل ہے یار اسطرح خود کو تکلیف دیکر میری دنیا ویران نہ کرو میں نہیں جانتا تم کس تکلیف سے گزری ہو لیکن اب میں تمہاری ہر تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں یار جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ تمہاری حالت دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ایسی تو نہیں تھی میری عائش یار میری عائش تو بہت بہادر تھی بہت نرم دل پرسکون رہنے والی دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر تڑپ جانے والی یار عائش لیکن تم اتنی سنگدل کیوں بن گئی دیکھو خود کو تکلیف دیکر مجھے کس طرح تڑپا رہی ہو یار میں اپنی پہلے والی عائش سے ملنا چاہتا ہوں ۔

 حضیر مشی کے پاس بیٹھا مسلسل اس سے باتیں کر رہا تھا جبکہ عفراء اسکی گود میں سوگئی تھی ۔۔۔۔۔

 ( میں جب بھی بیمار ہوا کرو آپ مجھے تلاوتِ قرآن پاک سنایا کریں آپ کی آواز ماشاءاللہ بہت اچھی ہے اور مجھے قرا پک کی تلاوت سے سکون ملتا ہے )۔

 حضیر کے کانوں میں مشی کی بہت پہلی کی کہی بات گونجی تو وہ عفراء کو اپنی گود سے اٹھاکر بیڈ پر سلاکر اٹھا اور وضو کر کے سامنے شیلف پر رکھے سفید غلاف والا قرآن اٹھاکر دوبارہ مشی کے پاس بیٹھا اور قرآن پاک کھول کر دھیمی آواز میں سورۃالبقرہ کی تلاوت کرنے لگا ۔

 پوری سورۃالبقرہ کی تلاوت کرنے کے بعد حضیر نے قرآن پاک بند کر کے دوبارہ شیلف پر رکھا اور بیڈ کی طرف آکر ر مشی اور عفراء کے ماتھے پر پیار کر کے کمرے سے باہر نکل گیا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 چاچو آپ کب شفٹ ہوئے پاکستان ؟

 حضیر مشی کے روم سے نکل کر لاؤنچ میں بیٹھے اذہان صاحب کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔

 میں دو سال پہلے ہی کسی کے علم میں لائے بغیر اپنا سارا بزنس پاکستان شفٹ کرچکا تھا اور پھر جب میں ہمیشہ کے لئے پاکستان آیا وہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا میرے لئے ۔

 حضیر کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے تکلیف زدہ لہجے میں کہا ۔

 کیا مقصد کیا ہوا تھا اس دن مجھے کھل کر بتائیں ۔

 اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے نا سمجھی سے پوچھا ۔

 جس دن میں سب کو بنا بتائے ہمیشہ کے لئے پاکستان آیا تھا اس دن ہی میری بیٹی روڈ پر بے ہوش اور لہولہان مجھے تحفے کے طور پر ملی جس بیٹی کو میں نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا میری وہ بیٹی مجھے بنا دوپٹے کے روڈ پر بے ہوش بے یارو مدد گار ملی جانتے ہو اس وقت میری حالت کیا تھی جب میں نے اپنی جوان بیٹی کا مردہ وجود اپنے بازوؤں میں اٹھایا تھا اس وقت کی میری تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تم خُزیمہ حضیر کاردار جب میں اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا تو پتہ ہے ڈاکٹر نے کیا کہا ۔

 بہت مشکل ہے آپ کی پیشینٹ کو بچانا انہیں بہت بری طرح سے مارا پیٹا گیا ہے انکا دائیاں بازو فریکچر ہے اور سر پر گہری چوٹ آئی ہے جبکہ جسم پر بیلٹ سے پیٹنے کے کافی گہرے نشان ہے اور پھر میری بیٹی تین ماہ تک کومہ میں رہی اور پھر جب اسکو ہوش آیا تو اسکو سنبھالنا میرے لئے انتہائی مشکل ہوگیا وہ بلکل پاگل ہوچکی تھی ہر وقت خوف میں رہتی تھی نا کچھ سنتی تھی نا کہتی تھی کسی کو بھی اپنے پاس نہیں آنے دیتی تھی کوئی بھی اس سے ملنے جاتا تو چیختی چلاتی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا وہ شخص اسے مارے گا اور پھر چیختے چیختے بے ہوش ہوجاتی تھی بہت مشکل سے اسکو سنبھالا ہے میں نے اور پھر جب اللّٰہ نے انعم کے طور پر عفراء عطا کی تب جاکر وہ بہتر ہوئی تھی باقی پچھلا ایک سال بہت مشکل سے گزارا ہے ہم خیر زندہ لاش تو ابھی بھی ہے وہ نہ ہنستی ہے نا زیادہ بولتی ہے باقی اسکے علاؤہ میں کچھ نہیں جانتا یہ بھی میں نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ بتایا ہے ورنہ آج تک مشی نے میرے بار بار پوچھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں بتایا ۔

 اذہان صاحب بتاکر خاموش ہوگئے جبکہ حضیر تو مشی کے ساتھ ہوئے ظلم سن کر ہی ششدر رہ گیا ۔

 آپ لوگ کھانا کھالیں ۔۔۔۔۔ دونوں ابھی خاموش ہی تھے کہ مصباح نے آکر کھانے کا کہا ۔۔۔۔۔ نہیں بس میں چلونگا چاچو کل آؤنگا میں مشی کو لینے ۔

 حضیر نے مصباح کو منع کرنے کے بعد اذہان صاحب سے کہا ۔

 میں چاہتا ہو ایک دفعہ تم مشی سے بات کرلو پھر اسکا جو فیصلہ ہوگا میں اسکے ساتھ ہوں باقی جیسے تمہاری مرضی خیر کھانا کھاکر جاؤ ۔

 حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے کہا جس پر وہ انکی بت مانتا لنچ کر کے وہاں سے چلا گیا ۔

اسلام علیکم کیا نام ہے آپکا اور کیا آپ بھی نیو ہے یہاں پر ۔

حیا دوسرے دن ہی شماس کے ساتھ شہر آگئی تھی اور پھر شماس ڈھیر ساری نصیحتوں کے ساتھ حیا کو اسکی کلاس دیکھا کر اپنی کلاس میں چلا گیا اور حیا خاموشی سے ایک بینچ پر بیٹھ کر پروفیسر کے کلاس میں آنے کا انتظار کرنے لگی لیکن ابھی وہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ ایک لڑکی جو کہ فل عبائے میں تھی اسکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔

وعلیکم سلام جی میرا فرسٹ ڈے ہے آج ۔۔۔۔ اس لڑکی کے پوچھنے پر حیا نے مختصر سا جواب دیا اور خاموش ہوگئی ۔

میرا نام رومیسہ چودھری ہے اور اگر آپ کو برا نا لگے تو کیا آپ مجھے اپنا نام بتاسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ حیا کو خاموش ہوتا دیکھ رومیسہ نے دوبارہ پوچھا ۔

ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے آپکا اور میرا نام حیا ہمّاس شاہ ہے ۔

آپ کم ہی بولتی ہیں یا یہاں کم بول رہی ہیں اِف یو ڈونٹ مائنڈ دراصل یہاں لوگ میرے مزاج کے نہیں ہے ایک آپ ہی مجھے اپنی جیسی لگی اس لئے میں آپ سے فرینڈ شپ کرنا چاہ رہی تھی اگر آپ برا نا مانے تو کیا ہم دوست بن سکتے ہیں ؟ کیونکہ میرا بھی آج فرسٹ ڈے ہے ۔

حیا کو دوبارہ خاموش ہوتے دیکھ رومیسہ نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا ۔

ٹھیک ہے فرینڈز دراصل میں کم ہی بولتی ہو مجھے زیادہ بولنا پسند نہیں لیکن آپکا بولنا اچھا لگا مجھے معذرت چاہتی ہوں لیکن میری نیچر ہی یہی ہے ۔۔۔۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں میں بولنا کیا چیخنا بھی سیکھادونگی آفٹر آل ہم فرینڈز ہیں ۔۔۔۔۔ حیا کی بات پر رومیسہ نے شوخی سے کہا اور دونوں ہنس دی اتنے میں پروفیسر کلاس میں انٹر ہوئے تو دونوں ہی انکی طرف متوجہ ہوگئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر میرے آنے سے پہلے تم دونوں نے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارا ہو اللّٰہ کرے پیٹ میں درد ہوجائے تم دونوں کے مجھے لائیبریری بھیج کر دونوں یہاں ٹھونسنے بیٹھ گئی بے وفا لڑکیوں پیٹ میں درد ہوگا تم دونوں کے ۔

حرمین نے کینٹین میں بیٹھی حیّان اور انعمتہ کو گھورتے ہوئے کہا جنکے سامنے سینڈوچز رکھے ہوئے تھے اور وہ دونوں آپس میں محو گفتگو تھی ۔

ابے او زیادہ فنکاری مت جھاڑ ابھی منگوایا ہے بے فکر رہ بخیلوں کی سردارنی آج تیری باری ہے بل پے کرنے کی ہم دونوں تیرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔ انعمتہ نے حرمین کی دھائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا جس پر حرمین برا سا منہ بناکر بیٹھ گئی کیونکہ آج اسکی باری تھی پے کرنے کی ۔

ویسے کیا باتیں ہورہی تھی میرے آنے سے پہلے ۔۔۔۔ حرمین نے دونوں کو چپ دیکھ کر مشکوک لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔۔ بے فکر رہ تیری برائی نہیں کر رہے تھے ہمارے گناہ ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔ حرمین کے کہنے پر حیّان نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور سینڈوچ کھانے لگی ۔۔۔۔۔ گھر پر کوئی نا کوئی ہنگامہ لازمی کھڑا ہوگا دیکھ لینا تم لوگ کیونکہ جس طرح دادو صبح حضیر بھائی پر غصہ تھی اور حضیر بھائی کا رویہ بھی بہت روکھا ہے اس لئے مجھے لگ رہا ہے کوئی نا کوئی کانڈ ضرور ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔ حرمین نے سینڈوچ کھاتے ہوئے پیشن گوئی کی ۔۔۔۔۔ ہہم کہہ تو تو ٹھیک رہی ہے کیونکہ بھائی سب کو خاموشی کی مار مار رہے ہیں ایک دم ہی بلاسٹ کرینگے جسکی زد میں اپن تینوں نے تو لازمی آنا ہے ۔۔۔۔۔ کیوں بھئی کیوں اپن تینوں کا کیا قصور ہم نے تو کچھ نہیں  کیا پھر کیوں ہم زد میں آئینگے ہماری تو کوئی سنتا بھی نہیں ہے ہم تو ویسے بھی گریبی میں آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ انعمتہ کے حرمین کے متفق ہوکر کہنے پر حیّان نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ اس لئے کیونکہ سب کا غصہ اپنے سے چھوٹے پر اترتا ہے اور ماشاءاللہ سے اپن تینوں ہی آخری کے پیس ہیں ۔۔۔۔۔ حیّان کے کہنے پر حرمین نے برا سا منہ بناتے ہوئے اسے آئینہ دیکھایا ۔۔۔۔۔ خیر جو ہوگا دیکھا جائیگا ابھی سے مت ڈرا ۔۔۔ حیان نے حرمین کی بات سمجھتے ہوئے کہا ۔

چلو اب کلاس کا ٹائم ہوگیا بہت باتیں ہوگئی اور پیٹ پوجا بھی اس لئے اب کلاس میں چلو کیونکہ کسی بھی پروفیسر نے مسیّب بھائی برداء بھائی یا پھر مبشر بھائی کو شکایت لگادی نہ تو پھر شامت آجانی ہے ۔

انعمتہ نے ان دونوں کو ڈراتے ہوئے کہا اور پھر تینوں ان تینوں کو برے برے القابات سے نوازتی کلاس کی طرف بڑھ گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کیسی ہے میری مشی سعد ؟

فرانہ بیگم نے ناشتے کی ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے سعد سے پوچھا ۔

دادو بہتر ہے ابھی ضد کر کے ہسپتال سے گھر چلی گئی تھی اس لئے مجھے رات کو آتے ہوئے دیر ہوگئی تھی جبکہ مصباح اور اناب دونوں مشی کے پاس ہی رک گئی ہیں ناشتہ کر کے میں وہی جانے کا سوچ رہا تھا ۔

دادو کے پوچھنے پر سعد نے انہیں تفصیل سے بتایا ۔

سعد بیٹا آپ آفس چلے جاؤ باقی ہم سب مشی کے پاس ہو آتے ہیں اور پھر آپ آفس سے آتے ہوئے وہاں سے ہوکر مصباح کو بھی اپنے ساتھ لے آنا ۔

ٹھیک ہے بابا لیکن شاید مصباح آج بھی مشی کے پاس ہی رکے گی ۔

شماس صاحب کے کہنے پر سعد نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔

ٹھیک ہے اگر وہ وہی رہیگی تو آپ اسے چھوڑ کر اکیلے آجانا اور ہاں اگر آپکو میرا سحر کو آپکی بنا اجازت اسکے مائیکے بھیجنا برا لگا ہے تو آپ جاکر لے آؤ مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے اور نا ہی برا لگے گا کیونکہ آپ اسکے حاکم ہو میں نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں بابا اسے وہی رہنے دے بہت دماغ آسمان پر جارہے ہیں اسکے پتہ نہیں مما اور اسے مشی اتنی بری کیوں لگتی ہے شاید میری سب سے بڑی غلطی تھی مما کے سامنے مشی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کرنا لیک  اب وہ یہ بات نہیں سمجھتی میری اس سے شادی ہوچکی ہے وہ سمجھتی ہے میرا اور مشی کا کوئی کنیکشن ہے اور میری وجہ سے ہی مشی اپنا گھر چھوڑ آئی ہے اور یہاں بھی صرف میرے لئے آتی ہے لیکن اسکی ان فضول باتوں سے مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن اب وہ سب کے سامنے مشی کو بے عزت کرتی ہے یہ میں برداشت نہیں کرونگا کہ کسی بے قصور پر میرے نام کی تہمّت لگائی جائے چاہے لگانے والی میری بیوی کیوں نہ ہو اس لئے جب تک اسکے دماغ سے خنّاس نکل نہیں جاتا میرا اسے لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے باقی رہی مما تو انکا فیصلہ آپ کرینگے اور میں آپکے ہر فیصلے آپکے ساتھ ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں مما اور سحر دونوں ایک جیسی فطرت۔کی مالک ہیں ۔۔۔۔۔ شماس صاحب کے کہنے پر سعد نے انہیں سحر کی ذہنیت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ میری معصوم بچی پر اور کونسے ظلم کے پہاڑ توڑنے ہیں اتنی مشکل سے تو وہ زندگی طرف لوٹی ہے صرف اپنی بیٹی کی خاطر میری بچی تو کسی کو نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھتی بارہ سال کی عمر سے اس نے پردہ شروع کردیا تھا وہ ایسے حرام تعلق بنائیگی جس نے اپنے باپ کے فیصلے پر فوراً سے سر جھکا دیا تھا بنا کسی سوال جواب کے سترہ سال کی عمر میں اسکے باپ نے اسکی شادی کردی تھی اللّٰہ کا قہر نازل ہوگا میری معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں پر چاہے پھر وہ میری بہو ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مشی سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہیں ہے ۔

سعد کی باتیں سن کر دادو نے نے سر ہاتھوں میں گراتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔ دادو چھوڑیں یہ سب باتیں اور جلدی سے ناشتہ کرلیں اپن تو مشی سے ملنے چلتے ہیں ۔۔۔۔ انیب نے بات بدلتے ہوئے کہا جس پر دادو سر ہلاتی ناشتہ کرنے لگی تو باقی سب بھی چپ چاپ ناشتہ کرنے لگے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مما بابا خیریت آپ لوگوں نے اتنی جلدی میں بلوایا ۔

اناب نے یاسر خان اور رومیسہ بیگم کو لاؤنچ میں انٹر ہوتے دیکھ پوچھا کیونکہ یاسر صاحب نے اسے فون کر کے جلدی گھر آنے کا کہا تھا جس پر وہ اسائیمینٹ سبمنٹ کرواتی ڈائیریکٹ گھر آئی تھی ورنہ اسکا ارادہ دوبارہ مشی کے پاس جانے کا تھا جبکہ فاریہ بیگم اور سحر بھی سوالیہ نظروں سے ان دونوں کی ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ کون ہیں بابا جان ؟

اناب نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہیاج اور ساریہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

بیٹا یہ ہے آپکے بڑے بھائی ہیّاج یاسر خان اور یہ آپکی بڑی بہن ساریہ یاسر خان ۔۔۔۔ اناب کے پوچھنے پر یاسر خان نے ان دونوں کا تعارف کروایا ۔

میں نہیں مانتی ان کو اپنا بہن بھائی پتہ نہیں کہاں سے اٹھاکر لے آئے ہیں آپ اور انہیں ہمارے بہن بھائی بنادیا ۔۔۔۔ یاسر خان کی بات پر ایک دم سب شاکڈ ہوگئے تھے لیکن سب سے پہلے سحر ہوش میں آتی چیختے ہوئے کہنے لگی ۔

خبردار آپی اگر آپ نے میرے بہن بھائی کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا میرے لئے یہ کافی ہیکہ میرے باپ نے انکا میرے بہن بھائی ہونے کی گواہی دی ہے جس پر میں آنکھیں بند کر کے یقین کرسکتی ہوں اور رہی بات آپکی تو نا مانے آپ کوئی آپکو فورس نہیں کر رہا لیکن اتنا یاد رکھے کہ اس گھر کے بڑے ابھی زندہ ہیں اس لئے آپ اپنی آواز ذرا نیچی رکھیں آپ اپنے باپ سے بات کر رہی ہیں کسی غیر سے نہیں آپکے سسرال میں آپکو کوئی منع نہیں کرتا ہوگا لیکن کسی کو اجازت نہیں دونگی اپنے ماں باپ سے اونچی آواز میں بات کرنے کی چاہے پھر وہ آپ پی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ سحر کے چیخنے پر اناب نے اسے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں کہا جس پر وہ پیر پٹختی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

اسلام علیکم آپی اور بھائی کیسے ہیں آپ دونوں میں سحر آپی کی طرف سے آپ دونوں سے معذرت کرتی ہوں وہ اپنی دنیا میں رہنے والی انسان ہیں ۔

اناب نے نرمی سے ساریہ اور ہیّاج سے سلام کرتے ہوئے ساتھ سحر کے رویے کی ان سے معذرت کی ۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں چندہ وہ چھوٹی بہن ہے میری مجھے برا نہیں لگا اچانک سے پتہ چلا ہے شاید اس لئے اوور رئیکٹ کرگئی آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیگی ۔۔۔۔ ساریہ نے اناب کو شرمندہ ہوتا دیکھ پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بھائی جان لگتا ہے آپکو انویٹیشن دینا پڑیگا ملنے کے لئے ۔

اناب نے خاموش کھڑے ہیاج کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ دیکھیں بھئی میں تو ایسی ہی ہوں زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتی اور نا ہی مجھے زیادہ دیر فارمیلیٹی نبھانی آتی ہے اور آپ تو پھر بھائی ہیں بھائی سے کیسی فارمیلیٹی ؟

ہیاج کو خاموش دیکھ کر اناب نے اپنی زبان کے جوہر دیکھاتے ہوئے اسے حقیقت سے آگاہ کیا ۔۔۔۔۔۔ چلو اچھی بات ہے پھر خوب جمے گی اپن بہن بھائی کی میں بھی زیادہ خاموش نہیں رہ سکتا اور تم سے مل کر مجھے سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی ہیکہ اب مجھ سے چھوٹا بھی کوئی ہے جس پر میں روب جھاڑ سکونگا ۔۔۔۔ اناب کے کہنے پر ہیاج نے پیار سے اسکا ناک کھینچتے ہوئے کہا جس پر سب نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔ خبردار اگر ایسا سوچا بھی تو چھوڑونگی نہیں میں آپکو سود سمیت بدلہ لونگی مجھے شریف سمجھنے کی غلطی سے بھی غلطی مت کیجئیگا کیونکہ مجھ میں شرافت کے ش کے نقطے جتنی بھی شرافت نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ تو سچ کہا ہے میری بیٹی نے ۔۔۔ اناب کے ہیاج کو وارن کرنے پر یاسر صاحب نے اسکی بات سے متفق ہوتے ہوئے کہا جبکہ ساریہ اور رومیسہ بیگم ٹیبل پر لنچ لگوارہی تھیں ۔۔۔۔۔ چلو پھر دیکھ لینگے میں بھی آپکا ہی بھائی ہوں ۔۔۔۔ اناب کے وارن کرنے پر ہیّاج نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔ اچھا بس اب بعد میں لڑلینا پہلے چل کر لنچ کرلو ۔

ہاں بھئی چلو پھر مجھے آفس بھی جانا ہے اور ہیاج کل سے آپ بھی آفس جوائن کر رہے ہیں اپنی جوب سے ریزائن کردیں ۔

رومیسہ بیگم نے دونوں لڑتے دیکھ کھانے کا کہا جس پر یاسر صاحب نے اٹھتے ہوئے ہیاج کو حکم دیا جس پر اس نے سر اثبات میں ہلاکر اپنی رضامندی دی۔

بابا جاتے ہوئے مجھے مشی کے پاس چھوڑ دینا میں شام تک آجاؤنگی ۔

اناب کیسی ہے مشی ؟ مشی نے چئیر پر بیٹھتے ہوئے یاسر صاحب سے کہا جس پر یاسر صاحب کوئی جواب دیتے کہ رومیسہ بیگم اناب سے مشی کا پوچھنے لگی ۔

مما پہلے سے بہتر ہے لیکن صبح جب میں یونی گئی تھی تو وہ سورہی تھی اس لئے میرا اس سے ملنا نہیں ہوا کل ضد کر کے گھر آگئی تھی جس کی وجہ سے انکل کو آج گھر پر ڈاکٹر بلاکر اسے ڈرپ لگوانی پڑی ۔

رومیسہ بیگم کے پوچھنے پر اناب نے تفصیل سے بتایا ۔

اللّٰہ رحم کرے معصوم بچی ہے اتنی سے عمر میں کتنے غم دیکھ لئے اللّٰہ اسے خوشیاں نصیب کرے ۔۔۔۔۔ آمین ۔۔۔ رومیسہ بیگم نے افسردہ لہجے میں مشی کو دعا دی جس پر سب نے آمین کہا اور چپ چاپ لنچ کرنے لگے ۔

انکل آپ کہیں تو میں بات کروں مشی سے ؟

مصباح مشی کے اٹھنے کے بعد اسے وضو کروا آئی تھی تاکہ وہ نماز پڑھ لے جبکہ عفراء ابھی بھی سو رہی تھی اور اب مصباح لاؤنچ میں بیٹھے اذہان صاحبِ سے مشی کے متعلق پوچھنے لگی ۔

نہیں بیٹا میں چاہتا ہوں حضیر خود بات کرے مشی سے اور پھر مشی بغیر کسی دباؤ کہ جو فیصلہ کریگی میں ہمیشہ اسکے ساتھ ہوں ۔

مصباح کے پوچھنے ہر اذہان صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا ۔

انکل مجھے سمجھ نہیں آرہی پہلے تو کبھی انہیں مشی کا خیال نہیں آیا تو آج کیسے اور کس حق سے وہ مشی کی خیریت معلوم کرنے آئے تھے ۔

بیٹا وہ ملک سے باہر تھا اور ہر بات سے انجان بھی تھا اسے کسی بات کا علم نہیں تھا لیکن جیسے ہی پاکستان آیا مشی کو ناپاکر دوسرے دن ہی اسے لینے پہنچ گیا کیونکہ اسے فکر ہے مشی کی پرواہ ہے اسے اس لئے وہ سب کام چھوڑ کر پہلے مشی کو لینے آیا ہے ۔۔۔۔۔ مصباح کے غصے سے کہنے پر اذہان صاحب نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ لیکن انکل کم از کم آپ کو پوچھنا تو چاہئے تھا کہ وہ دو سال مشی سے کیوں غافل رہے کیا وہ اسکی بیوی نہیں تھی یا انہیں اسکی پرواہ نہیں تھی یا پھر نکاح کر کے اسے گھر کی نوکرانی بنایا تھا ۔

مصباح ابھی بھی اذہان صاحب کہ بات سے قائل نہیں ہوئی تھی اس لئے دوبارہ انکی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ بیٹا میں چاہتا تو کر سکتا تھا سوال لیکن میں نے نہیں کیا کیونکہ حضیر سے سوال جواب کرنے کا حق صرف مشی کو ہے اس لئے میں چاہتا ہوں مشی خود اس سے سوال کرے اور پھر حضیر اسکے سوالوں کے جواب دیکر مشی کو مطمئین کرے پھر جو مشی اپنے لئے فیصلہ لیگی وہی ہوگا کیونکہ بیٹا ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں مثبت اور منفی اپن نے حضیر کا منفی پہلو دیکھا ہے اب اسکی سنے گے تو پتہ چلیگا کہ وہ کیوں غافل رہا اپنی بیوی سے کیا پتہ اسکی کوئی غلطی نہ ہو اور اسے بلاوجہ سزا دے دی جائے اس لئے میں چاہتا ہو یہ ان دونوں کا معاملہ ہے اور وہ دونوں ہی سلجھالیں تو اچھا ہے اور اگر حضیر کی غلطی ہوگی تو سزا کا تعیّن بھی مشی ہی کریگی کیونکہ غلط اسکے ساتھ ہوا ہے اور اگر مشی حضیر کے ساتھ جانا چاہے تب بھی میں اسے نہیں روکونگا اور نا ہی اس سے ناراض ہونگا کیونکہ اب وہ شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہے اب وہ سمجھدار ہے اب وہ جو بھی فیصلہ اپنے اور اپنی بیٹی کے لئے کریگی سوچ سمجھ کر کریگی اس لئے میں بغیر کوئی سوال کیے اسکے فیصلے میں اسکا ساتھ دونگا ۔

اسلام علیکم کیسے ہیں آپ لوگ اور میری مشی کیسی ہے ؟

ابھی مصباح اذہان صاحب کی بات کا کوئی جواب دیتی کہ فرزانہ بیگم نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا اور پھر انکے پیچھے ایک ایک کر کے سب داخل ہوتے سلام کرنے لگے ۔۔۔۔ وعلیکم سلام دادو مشی ابھی نماز پڑھ رہی ہے آپ لوگ بیٹھیں میں جوس لیکر آتی ہوں ۔۔۔۔ میری گڑیا مجھ سےتو مل لو ۔۔۔

انیب نے مصباح سے کہا جو سب کے لئے جوس لینے کچن میں جارہی تھی ۔

ارے بھائی آپ کب آئے میں نے تو آپکو دیکھا ہی نہیں کیسے ہیں آپ ؟ اور کب آئے ؟ ۔۔۔۔ انیب کے کہنے پر مصباح اسے دیکھتی حیرانگی سے کہنے لگی ۔

کل ہی نازل ہوا ہے یہ اور آج یہاں وارد ہوگیا ہے آپ اس لئے نہیں مل سکی کیونکہ کل آپ یہاں تھیں ۔۔۔۔ ابھی انیب کوئی جواب دیتا کہ شماس صاحب بول پڑے ۔

آپ لوگ باتیں کریں میں مشی کو دیکھ کر آتی ہو شاید اس نے نماز پڑھ لی ہو ۔۔۔ مصباح نے سب سے کہا اور ملازمہ کو جوس لانے کا کہتی مشی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابے او بورینگ انسان چل باہر چل کر لنچ کرتے ہیں تینوں ساتھ ۔

مسیّب اپنے کیبین میں کوئی فائلز ریڈ کر رہا تھا اتنے میں برداء اور مبشر نامی جن دھاڑ سے کیبن کا دروازہ کھولتے اسکے سر پر نازل ہوتے کہنے لگے ۔

کیوں باہر کیوں یہی کینٹین سے کچھ کھالو کام بہت ہے اس لئے نا میں کہیں جارہا ہوں اور نا ہی تم دونوں کیونکہ کل بھی تم دونوں نے چھٹی کی تھی ہسپتال کی بہت زیادہ نانسیرئیس ہوتے جارہے ہو دونوں کام کے معاملے میں مجھے مجبور مت کرو کے میں تم دونوں پر سختی کرو ۔۔۔۔۔

ان دونوں جنوں کی فرمائش پر مسیب نے انہیں گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ برا سا منہ بناکر رہ گئے ۔۔۔ اب اپنی یہ سڑی ہوئی شکلیں گم کرو یہاں سے مجھے بہت کام ہے اس لئے نکلو یہاں سے ۔۔۔۔ ان کو وہی بیٹھا دیکھ مسیّب نے دفع ہونے کو کہا ۔۔۔۔ ہم تو کہیں نہیں جارہے پہلے باہر لنچ کرینگے پھر چاہے جتنا کام کروانا ہے کروالینا لیکن آج لنچ باہر ہی کرینگے ۔۔۔

مسیّب کے کہنے پر برداء نے ضدی لہجے میں کہا جس پر مبشر نے بھی مسکین سی شکل بناکر اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔ پکّا جو کہونگا وہ کروگے ۔۔۔۔

مسیّب نے ایک بار دوبارہ پوچھا ۔۔۔۔ ہاں ہاں بس ابھی لنچ کرنے چل باہر ۔۔۔

مسیّب کو نیم رضامند دیکھ کر دونوں نے جلدی سے کہا ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں لیکن صرف ایک گھنٹے کے لئے ۔۔۔۔۔ مسیّب نے انہیں وارن کرتے ہوئے کہا جس پر دونوں نے معصوم بچوں کی طرح اثبات میں گردن ہلائی اور پھر تینوں لنچ کرنے چلے گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشی باہر بابا دادو اور بھائی آئے ہیں اگر نماز پڑھ لی ہو تو آجا تو ان سے مل لے دادو اور بابا پوچھ رہے ہیں تیرا ۔۔۔۔ میں آرہی ہوں تو جا اور انکو لنچ پر روک لینا لنچ کیے بغیر نہیں جانے دینا اور ملازمہ سے کہہ کر کچھ کھانا گھر میں بنوالے اور کچھ باہر سے منگوالینا وہ بچاری بھی اتنا سارا کیسے بنائیں گی کھانا میں بس ابھی عفراء کو تیار کر کے لارہی ہوں کیونکہ ابھی سونے دیا تو رات کو مجھے سونے نہیں دیگی تنگ کریگی ۔۔۔۔ مصباح کے کہنے پر مشی نے اسے تفصیل سے ہدایت دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے تو آجا پریشان نہیں ہو میں سب دیکھ لونگی اناب بھی آنے والی ہوگی بلکہ ابھی تک تو آجانا چاہئے تھا پتہ نہیں کہاں رہ گئے یہ لڑکی ۔۔۔۔ مشی کے کہنے پر مصباح نے اسے تسلی دیتے ساتھ پریشانی سے اناب کے بارے میں میں بتایا ۔۔۔ پریشان نہیں ہو آتی ہی ہوگی وہ کوئی بچی نہیں ہے اور ویسے بھی اگر کسی نے کڈنیپ بھی کیا ہوگا تو بے فکر رہ خود چھوڑ کر جائیگا اور ساتھ میں پوچھ کر جائیگا کہ اس بلا کو جھیلتے کیسے ہو ۔۔۔۔ مصباح کے پریشانی سے کہنے پر مشی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا اور دونوں ہنسنے لگی ۔۔۔۔ کہہ تو ٹھیک رہی ہے چل میں کچن میں جارہی ہوں تو جلدی سے باہر آجا ۔۔۔۔ مصباح نے مشی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی پیچھے مشی عفراء کو اٹھانے لگی ۔۔۔۔ مما کی جان اٹھ جائیں پھر رات میں میرے سونے کے ٹائم آپ کو کھیلنا ہوگا اور پھر آپ مما کو تنگ کروگی ۔۔۔ مشی عفراء کے پاس بیٹھ کر اسکے سر پر پیار کرتے ہوئے اٹھانے لگی ۔۔۔ اور پھر مشی نے جلدی سے عفراء کو تیار کیا بلو جینز پر ٹی پنک شرٹ ہم رنگ ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی چوڑیاں ٹی پنک کلر کے ہی شوز اور بالوں میں ٹی پنک کلر کا ہی بینڈ لگائے عفراء بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔۔ ماں صدقے مما کی جان اننّی پالی لگ لی ہے ۔۔۔۔ مشی نے عفراء کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا اور پھر کچھ پڑھ کر اس پر دم کیا اور خود کا حلیہ درست کر کے باہر چل دی جہاں سب اسکا انتظار کر رہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ اسلام علیکم

مشی نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہی سلام کیا اتنے میں بیرونی دروازے سے داخل ہوتے ہیّاج سارہ اناب اور رومیسہ بیگم نے بھی سب کو سلام کیا ۔

وعلیکم سلام آج تو خوب محفل لگے گی ماشاءاللہ سے سب ہی جمع ہیں ۔

شماس صاحب نے سلام کا جواب دینے کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا ۔

مشی بیٹا یہ آپ کے اور ہماری چھوٹی سی شہزادی کے لئے ۔۔۔۔۔ رومیسہ بیگم نے ایک شاپر مشی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جو چپس چاکلیٹس جوس بسکٹس اور کینڈیز وغیرہ سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔ آنٹی اسکی کیا ضرورت تھی آپ نے بلا وجہ میں تکلّف کیا ۔۔۔ مشی نے بنا شاپر کو پکڑے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ مما چھوڑیں اسے مجھے دیں ہم اس کے لئے نہیں اپنی شہزادی کے لئے لائے ہیں ان میڈم کے تو نخرے ہی نہیں ختم ہوتے ۔۔۔ اناب نے مشی کو شاپر نا پکڑتا دیکھ اسے گھورتے ہوئے رومیسہ بیگم سے کہا اور انکے ہاتھ سے شاپر لیتی یہ جا وہ جا جبکہ مشی سب سے سامنے شرمندہ ہوگئی ۔۔۔۔ اوئے کھوتے گاڑی سے سامان نکال لیا تھا یا گاڑی میں ہی رکھا ہے ۔۔۔ فرزانہ بیگم نے اپنے سامنے بیٹھے انیب سے پوچھا جس پر اس نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔۔ اوہ میں تو بھول گیا سامان تو گاڑی میں ہی رکھا ہے ۔۔۔۔ دادو کے پوچھنے پر انیب نے دانتوں تلے زبان دباتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ تو شکر ہے رومیسہ کے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر مجھے یاد آگیا ورنہ سارا فروٹ اور جوس کار میں ہی خراب ہوجاتا جا اب نکال کر لے آ کار سے سامان اور مصباح کو دیکر اسے کہنا جلدی سے جوس لیکر آئے مشی کے لئے پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہیکہ نہیں میری بچی نے ۔۔۔۔ فرزانہ بیگم نے سب کے سامنے ہی انیب کی اچھی طرح عزت افزائی کرتے ہوئے کہا جس پر وہ منہ بسورتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ پیچھے باقی سب دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے ۔۔۔۔ اور پھر سب مشی سے اسکی خیریت معلوم کرتے ہوئے آپس میں محو گفتگو ہوگئے جبکہ عفراء اذہان صاحب کی گود میں بیٹھ کر سب کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر میں کھانا کھاکر سب اپنے اپنے گھر روانہ ہوگئے سوائے اناب اور مصباح کے کیونکہ انکا آج بھی مشی کے پاس رکنے کا ارادہ تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے تمہاری بات مان کر باہر لنچ کیا اور تم دونوں نے کہا تھا کہ جو میں کہونگا وہ تم دونوں کروگے اس لئے اب تم دونوں رات ڈیوٹی دوگے باقی سارے ڈاکٹرز کو میں نے چھٹی دے دی ہے میں بھی بس جارہا ہوں گھر اس لئے اللّٰہ حافظ اینڈ ہیو آ گڈ نائیٹ ۔۔۔۔۔ برداء اور مبشر دونوں گھر جانے کے لئے مسیب کے کیبن میں آئے تھے کیونکہ وہ تینوں ساتھ ہی جاتے تھے اس لئے آج بھی وہ دونوں مسیب کو گھر چلنے کا کہنے آئے تھے کیونکہ جب تک وہ دونوں نہیں آتے تھے مسیب کو کام میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے لیکن آج ان کے آنے سے پہلے ہی مسیب گھر جانے کے لئے تیار کھڑا تھا اور پھر ان دونوں کے آتے ہی وہ انکا سکون برباد کرتا دل جلانے والی مسکراہٹ انکی طرف اچھالتا وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ وہ دونوں ابھی تک صدمے سے کیبن کے دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے مسیب گیا تھا ۔

یار اپنا تو قربانی کے بکرے والا حساب ہوگیا جسکو پہلے کھلا پلا کر تیار کیا جاتا ہے اور آخر میں ذبح کردیا جاتا ہے اور لوگ اسکے گوشت سے لطف اندوز ہوتے ہیں آج مسیب نے ہمارے ساتھ وہی چال چلی ہے قسم سے آج مجھے اپنا آپ قربانی کا بکرا فیل ہورہا ہے ۔۔۔۔ سب سے پہلے برداء نے صدمے سے نکلتے ہوئے مبشر سے کہا اور وہی پڑے صوفے پر ڈھہ گیا ۔۔۔۔ یار کہہ تو ٹھیک رہا ہے ایک لنچ کی قیمت اس نے ہم سے پوری رات وصول کرنی ہے اس سے اچھا تو کینٹین سے کچھ لے کر کھالیتے ۔۔۔ برادء کے کہنے پر مبشر نے بھی رونے والا منہ بناکر کہا ۔۔۔۔ چل اب کیا کیا جاسکتا ہے لیکن ہم بھی ہم ہی ہیں ٹینشن نا لے پوری رات پارٹی کرینگے ابھی پزا اور کوک آڈر کرتا ہوں اوپر والے پورشن میں جاکر خوب پارٹی کرینگے ۔۔۔۔ برداء نے مبشر کا رونے والا منہ دیکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے اس سے وقت بھی جلدی گزرے گا اور مزہ بھی آئیگا ۔۔۔۔ مبشر نے برداء سے کہا اور دونوں مسیب کے کیبن سے نکل کر اوپر والے فلور کی طرف بڑھ گئے جبکہ برداء ساتھ موبائل میں گھسا پزا وغیرہ آڈر کر رہا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضیر آجاؤ ڈنر کرلو لنچ پر بھی نہیں تھے اور ناشتے میں بھی صرف جوس لیا تھا ۔۔۔۔ کاردار ولا میں اس وقت سب ڈنر میں مصروف تھے جبکہ ڈنر کرتے وقت انعم بیگم کی نظر حضیر پر پڑی جو کہ صبح کا نکلا ابھی گھر میں گھسا تھا تو اسے ڈنر کی آفر کرتے ہوئے فکرمندی سے کہنے لگی ۔۔۔۔ نہیں مجھے بھوک نہیں ہے آپ لوگ کھائیں اور ہاں کل سب یعنی گھر کا ایک ایک فرد مشکات کو لینے جائیگا ۔۔۔۔ حضیر نے انعم بیگم کو انکار کرنے کے ساتھ سخت لہجے میں دو ٹوک فیصلہ سنایا ۔۔۔۔ کوئی نہیں جائیگا اسے لینے اپنی مرضی سے گئی ہے اور وآپس بھی خود ہی آجائیگی ۔۔۔

حضیر کی بات پر اذان صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ تو پھر ٹھیک ہے میں بھی اس گھر سے اپنی مرضی سے جاؤنگا اور وآپس بھی اپنی مرضی سے ہی آؤنگا اگر آپ لوگ ایسا چاہتے ہیں تو بشوق اپنی بات پر قائم رہیں ورنہ بھول جائیگا کہ اس گھر میں حضیر کاردار نام کا کوئی فرد رہتا تھا ۔۔۔

اذان صاحب کے کہنے پر حضیر نے سب کو وارن کرتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جبکہ باقی سب خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم اسے لانا چاہتے ہو ہم منع نہیں کر رہے لیکن یہاں سے کوئی نہیں جائیگا تم خود جاؤ اور لے آؤ آپنی بیوی کو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔ حضیر کو نا مانتا دیکھ اذان صاحب نے بات بدلتے ہوئے کہا کیونکہ مشکات کو لینے جانا انہیں اپنی توہین لگ رہی تھی ۔۔۔۔ یہی تو میری بیوی ہے یعنی اس گھر کے سب سے بڑے اور لاڈلے بیٹے کی بیوی یعنی اس گھر کی بڑی اور لاڈلی بہو اسی لئے میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ اسے عزت سے اس گھر میں لایا جائے میں اپنی بات سے نہیں پھرونگا اگر اس گھر کا ایک فرد بھی نہیں گیا تو کرادار ولا کے لوگ میری شکل دیکھنے کو ترس جائینگے ۔۔۔۔۔ اذان صاحب کے کہنے پر حضیر نے سنجیدگی سے کہا اور بنا کسی کی کوئی بات سنے سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں گم ہوگیا جبکہ پیچھے سب بڑے اسکی ڈیمانڈ پر آگ بگولہ ہوگئے کہ جس کو وہ نوکرانی سے بھی زیادہ حقیر سمجھتے تھے اب اسکو لینے جائینگے لیکن حضیر نے انکے پاس کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا ۔

یار کتنا مزہ آئیگا کل اپن سب بھابھی کو لینے جائینگے میری خواہش پوری ہوگئی مجھے اتنی پسند ہے مشکات بھابھی اچھا ہے انہیں کل لے آئینگے ۔

وہ تینوں ڈنر کے بعد کمرے میں آگئی تھی اور ایک ساتھ بیٹھی باتیں کررہی تھی کہ انعمتہ نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

ہاں بھئی ایکسائمینت تو مجھے بھی ہے بھابھی کو دیکھنے کی پتہ نہیں اب کیسی ہونگی بلکے مجھے حیرانگی ہو رہی ہے کہ وہ مان کیسے گئیں یہاں آنے کے لئے ؟ ۔۔۔۔ انعمتہ کے کہنے پر حورعین نے اسکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔

ہوسکتا ہے حضیر بھائی نے منالیا ہو ویسے بھی اتنی معصوم سی ہے حضیر بھائی نے تھوڑا سا منایا ہوگا وہ مان بھی گئی ہونگی بچاری کو تو ناراض بھی نہیں ہونا آتا ۔۔۔۔ ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے تو حیان ۔۔۔۔۔ حیان کے کہنے پر حورعین نے بھی اسکی تائید کی ۔۔۔۔ اچھا چلو چھوڑو یہ بتاؤ کہ کونسا ڈریس پہن کر جائیں ( کہیں جانے سے پہلے لڑکیوں کی سب سے بڑی ٹینشن ) ۔۔۔ انعمتہ نے بات بدلتے ہوئے ان دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ یار مجھے تو کوئی ایسا ڈریس یاد نہیں آرہا جو پہن کر جائے اگر حضیر بھائی ایک دن پہلے بتاتے تو اپن شاپنگ کر کے آجاتے ۔۔۔۔ انعمتہ کے کہنے پر حیان نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہاں اسکی تو جیسے بارات آنی ہے جو بچاری شاپنگ کرنے جاتی چپ چاپ اتنے ڈریسز رکھے ہیں ان میں سے پہن لینگے ۔۔۔۔۔ حیان کے کہنے پر حورعین نے اسے گھورتے ہوئے طنزیہ کہا ۔۔۔۔ اچھا اب لڑنا چھوڑو اور سو جاؤ صبح دیکھیں گے کیا پہنیں اس لئے اب اپنے اپنے بیڈ پر دفع ہوجاؤ مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔۔ انعمتہ نے ان دونوں کو لڑتا دیکھ دفع ہونے کا کہا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ آف کر کے لیٹ گئی تو وہ دونوں بھی اسے القابات سے نوازتی اپنے اپنے بیڈ پر دراز ہوگئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشی یار مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ عشق ہے کیا چیز ؟ مطلب کہیں بھی عشق کے معنیٰ تلاش کرو تو اس عشق لفظ کا تعلق کسی لڑکے یا لڑکی سے جڑا ہوتا ہے تیری نظر میں اس لفظ کی تشریح کیا ہوگی ؟

وہ تینوں ابھی نماز قرآن وغیرہ سے فارغ ہوکر مشی کے کمرے میں ہی تھی مصباح اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی اناب بیڈ کی دوسری سائیڈ پر بیٹھی موبائل چلارہی تھی جبکہ مشی عفراء کو سلارہی تھی جو کہ سونے کا نام نہیں لے رہی تھی تو مصباح نے ناول پڑھتے ہوئے بیڈ پر عفراء کو سلاتی ہوئی مشی سے پوچھا جبکہ مصباح کے پوچھنے پر اناب بھی اسکی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔ میری نظر میں عشق کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے کیونکہ میرے مطابق عشق کے لائق صرف ایک ہی ہستی ہے جس سے عشق کرنا ہم سب پر فرض ہے کیونکہ وہ ذات ہمارے عشق کی حقدار ہے جس سے ہم بے خبر ہے یہ کسی لڑکی سے کسی لڑکے کو دو دن کا دھواں دھار عشق ہوجانا یہ ساری یا تو افسانوی باتیں ہیں یا پھر فراڈ ہے ہاں محبت ہوسکتی ہے لیکن محرم رشتوں میں کیونکہ جس ناجائز تعلق کو اللّٰہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے اور اسکو حرام قرار دیا ہے اس تعلق میں کبھی برکت نہیں ہوتی عشق و محبت جائز ہیں لیکن محرم رشتوں سے اصل عشق کی حقدار تو ایک ہی ذات ہے جس سے ہم بے خبر ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس سے عشق کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن ہم اس سے بے خبر ہے ( یہ ہے عشقِ بے خبر ) باقی رہی محبت کی بات تو وہ صرف محرم سے جائز ہے شریعت میں پسند کی شادی جائز ہے محبت کی نہیں کیونکہ کسی غیر محرم سے محبت کی اجازت دینِ اسلام دیتا ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ آجکل جو ہماری نوجوان نسل جو پسند کی شادی کی دلیل حضرت خدیجہ رضہ کی دیتے ہیں لیکن کبھی کسی نے انکی زندگی پڑھنے کی کوشش نہیں کی کہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام کیوں اور کیسے بھیجا تھا اور کیا چیز تھی جو انہیں اپنے نبی کی پسند آئی تھی ؟ بس ایک اپنے مفاد کی بات پکڑ کر بیٹھ گئے کہ پسند کی شادی جائز ہے اور واقعی جائز ہے بشرط کہ وہ احسن طریقے سے ہو حضرت خدیجہ رضہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی حیا اور انکی ایمانداری کی وجہ سے اپنی ایک دوست نفیسہ نامی عورت کے ساتھ اپنا رشتہ لیکر بھیجا تھا ( جبکہ حضرت خدیجہ نے جس وقت اپنا رشتہ بھیجا تھا انہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہوا نہیں تھا ) اس شخص کے پاس جس کی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بکریاں چراتے تھے جب اس نفیسہ نامی عورت نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مالک سے انکے رشتے کے متعلق بات کی تو اس مالک نے انکا پیغام اپنے نبی تک پہنچایا جس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ کون ہے جو مجھ جیسے سیدھے سادھے آدمی سے شادی کرنے چاہینگی اور پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس رشتے کی رضامندی نہیں دی حالانکہ اس وقت آپکی عمر پچیس سال تھی نا ماں باپ تھے چاہتے تو خود اپنے حق میں فیصلہ کرسکتے تھے لیکن نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مالک سے کہا کہ میں اپنے چچا جان سے پوچھ کر بتاؤنگا کیونکہ اس وقت وہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ولی تھے اور پھر انکی رضامندی سے ہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کو اپنے نکاح میں لیا تھا ۔۔۔۔۔

آجکل اسطرح کوئی نہیں کرتا پہلے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں موبائلز پر چیٹینگ ہوتی ہے باہر گھر والوں سے چھپ کر ملاقاتیں ہوتی ہے دونوں ہی اللّٰہ کی بنائی ہوئی حدود کو بھول جاتے ہیں شادی کی ساری ڈسکشن آپس میں ہوجاتی ہے اور پھر ماں باپ سے کہا جاتا ہے امی ابو فلاں لڑکی ہے اس تاریخ کی شادی طے کر آئے اور اگر ایسا نا ہوا تو میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤنگا خود کو مارلونگا وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح لڑکی بھی کہتی ہیکہ فلاں دن کچھ لوگ آئینگے آپ لوگوں نے ہاں کرنی ہے اور جس تاریخ پر وہ کہیں شادی فکس کردیجئیگا ورنہ میں گھر سے بھاگ جاؤنگی یا پھر خود کو کچھ کرلونگی وغیرہ وغیرہ ان سے پوچھو کہ کیا والدین کے کوئی ارمان نہیں ہوتے یا انکی کوئی خواہشیں نہیں ہوتی اور اگر کہیں جگہ والدین اپنے موقوف پر ڈٹ جاتے ہیں تو انہیں ظالم سماج کہا جاتا ہے اور بیٹا ہو یا بیٹی ہمیشہ کے لئے ان سے دل سے دور ہو جاتے ہیں  یہ ہے آجکل کا معاشرہ ! مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک نا محرم کی چند دنوں کی نام نہاد محبت اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ایک لڑکی یا لڑکا ماں کی ممتا باپ شفقت بھائی کی عزت بہن کی محبت سب بھول جاتے ہیں خیر اللّٰہ تمام انسانوں کو ہدایت دے اور شیطان کے ان تمام ہتھکنڈوں سے ہماری حفاظت کرے آمین ۔۔۔۔ آمین ۔۔۔۔۔

مشی کی کہنے پر ان دونوں نے بھی آمین کہا ۔۔۔۔۔ اچھا مشی عفراء سوگئی تو اسکو انکل کے پاس سلادے تاکہ اپن بھی سو سکیں مجھے بہت نیند آرہی ہے ۔

اناب نے عفراء کو سوتا دیکھ مشی سے کہا ۔۔۔۔ نہیں بھئی میں تو کوئی نہیں عفراء کو خود سے دور سلاؤنگی جب تک عفراء کو خود میں قید نا کرو مجھے نیند نہیں آتی اگر تمہیں مسلئہ ہورہا ہے تو تم دونوں گیسٹ روم میں دفعہ ہوجاؤ میری بیٹی تو میرے ساتھ سوئیگی ورنہ پھر یہی ایڈجسٹ کرلو ۔۔۔۔۔

اناب کے کہنے پر مشی نے اسے گھورتے ہوئے بے مروّت لہجے میں کہا جس پر بس وہ اسے دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔ بے مروّت انسان میں کونسا تجھے ہمیشہ کے لئے خود سے الگ سلانے کا کہہ رہی تھی ایک رات کی تو بات ہے ویسے بھی کل بھی عفراء انکل کے پاس ہی سوئی تھی ۔۔۔۔۔ مشی کے کہنے پر اناب نے اسے گھورتے ہوئے آگاہ کیا ۔۔۔۔۔ کل میں ہوش میں نہیں تھی اس لئے بابا نے سلالیا ورنہ بابا کو بھی پتہ ہے مجھے میری شہزادی کے بغیر نیند نہیں آتی اور اب اگر یہاں سونا ہے تو یہیں ایڈجیسٹ کرلو ورنہ گیسٹ روم میں دفع ہوجاؤ میں تو سورہی ہوں ۔۔۔۔۔ اناب کے کہنے پر مشی نے اسے ہری جھنڈی دیکھاتے ہوئے کہا اور اپنی سائیڈ کا لیمپ آف کرتی خود پر اور عفراء پر اچھی طرح کمفرٹر ڈالتی آنکھیں بند کرتی سونے کے لئے لیٹ گئی جبکہ پیچھے وہ دونوں منہ کھولے مشی کی کاروائی ملاحظہ کرنے لگی اور پھر غصے سے اسے القابات سے نوازتی وہی سوگئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم کیا کر رہے ہیں وہ دونوں جن ؟

مسیب نے ڈنر کے بعد اپنے روم میں آتے ہی ہسپتال کے ایک نرس کو کال کرکے برداء اور مبشر کے بارے میں پوچھا جسے وہ ان دونوں کی جاسوسی کے کام پر معمور کر کے آیا تھا ۔۔۔۔۔ وعلیکم سلام سر وہ دونوں تو اوپر کے فلور پر پارٹی کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ مسیب کے پوچھنے اس شخص نے بھی ایک ایک لفظ سچ کہا ۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے ایک کام کرو اوپر والا فلور لاک کردو اور وہاں کا مین سوئچ بھی آف کردو اور چاہئے کچھ بھی ہو جائے نہ سوئچ آن کرنا او نا ہی اس فلور کا لاک کھولنا صبح فجر تک گرمی میں رہینگے تو خود ہی عقل ٹھکانے آجائیگی ۔۔۔۔۔ مسیب نے نرس سے کہا اور کال کٹ کر کے موبائل بیڈ پر اچھالا اور وارڈروب سے اپنے کپڑے لیتا فریش ہونے کے لئے باتھروم میں گھس گیا ۔

کیوں آئے ہیں آپ یہاں ؟ مسیب جو کہ ابھی فریش ہوکر باہر آیا تھا سامنے اپنے بیڈ پر حضیر کو پوری شان سے براجمان ہوتا دیکھ سپاٹ لہجے میں کہا ۔

تم سے بات کرنے آیا ہوں انفیکٹ اپنی گناہ کی تلاش میں آیا ہوں تاکہ معلوم کرسکوں کس گناہ کی سزا تمہاری بے رخی کی صورت میں جھیل رہا ہوں ۔

مسیب کے سپاٹ لہجے میں کہنے پر حضیر نے بھی سنجیدگی سے کہا ۔

آپ میرے مجرم نہیں ہیں اس لئے جسکے مجرم ہے اس سے ہی اپنا جرم معلوم کریں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے اگر میں تمہارا مجرم نہیں ہو تو مجھے سزا دینے کے حقدار بھی تم نہیں ہو تو پھر یہ بے رخی کیوں برت رہے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسیب کے کہنے پر حضیر نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے آج سے آپکی اور میری ناراضگی ختم لیکن میں چاہتا ہوں آپ اپنا گناہ تلاش کر کے اسکا مداوا کریں ۔۔۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مسیب نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔۔ میرے جگر تو نہیں جانتا تیری یہ بے رخی تیرے بھائی کو کیسے دیمک کی طرح کھارہی تھی اور رہی میرے گناہ کی بات تو میں نہیں جانتا کہ میرا گناہ کیا ہے لیکن میں کل اسکا مداوا کرنے جارہا ہوں اور پوری شان و شوکت سے اسے وآپس لیکر آؤنگا میں نہیں جانتا میرے پیچھے سے کیا ہوا ہے لیکن میں جاننا چاہتا ہوں لیکن کوئی بتانا ہی نہیں چاہتا اب تو میری مدد کریگا تو ضرور میں سب ٹھیک کردونگا تو میرا دائیاں بازو ہے میں تیرے بغیر ادھورا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ حضیر نے مسیب کو خود میں بھینچتے ہوئے کہا جبکہ ایک آنسو آنکھ سے نکل کر داڑھی میں جذب ہوگیا ۔۔۔۔ بھائی مسیب بھی حضیر کے بغیر نا مکمل ہے اور مجھے معاف کردیں اپنے رویے پر بس میں غصے میں تھا اس لئے اتنا تلخ ہوگیا تھا اپنا چھوٹا اور نادان بھائی سمجھ کر معاف کردیں ۔۔۔۔۔ مسیب نے حضیر سے الگ ہوکر اپنے کان پکڑتے ہوئے مسکین سی شکل بناتے ہوئے کہا جس پر حضیر ہنس پڑا اور اس کو دیکھ کر مسیب بھی ہنس پڑا اور ایک مرتبہ پھر حضیر نے مسیب کو خود میں بھینچا اور اسکے سر پر پیار کیا ۔۔۔۔۔ اچھا چلو اب سوجاؤ میں بھی چلتا ہوں صبح سے بزی تھا اس لئے کافی تھک گیا ہوں اس لئے اب نیند آرہی ہے اور اب تو بلکل فریش ہوکر سوؤنگا تو اور اچھی نیند آئیگی ۔۔۔۔۔ حضیر نے مسیب کو تائید کرتے ہوئے کہا اور اسکے بال بگاڑ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھوپھو آپ بات کریں نہ سعد سے کہ وہ مجھے آکر لے جائیں اگر سعد مجھے لے گئے تو میں آپکو وہاں کی ہر رپورٹ دونگی اور آپکو بھی وہاں وآپس لے جانے کی کوشش کرونگی ۔۔۔۔۔ ساریہ نے فاریہ بیگم کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے مجھے فون دے میں کال کروں سعد کو ۔۔۔۔۔

فاریہ بیگم نے ساریہ کی بات مانتے ہوئے کہا تو ساریہ نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھاکر سعد کا نمبر ڈائل کیا اور اسپیکر آن کر کے فون انہیں پکڑایا ۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم کیسا ہے میرا بیٹا ماں کی یاد نہیں آرہی مجال ہے جو ایک فون بھی تم تینوں میں سے کسی نے اپنی ماں کو کر کے حال احوال پوچھا ہو ۔۔۔۔ فاریہ بیگم نے سعد کے کال اٹھاتے ہی سلام کے ساتھ شکوہ کیا ۔۔۔۔۔ وعلیکم سلام مما ایسی بات نہیں ہے بس بزی تھا ۔۔۔۔۔ سعد نے انکے سلام کا جواب دینے کے ساتھ مختصر جواب دیا ۔۔۔۔ اچھا بیٹا اب سارہ کو لے جاؤ آکر وہاں بھی کسی عورت کی ضرورت ہوگی میری بیٹی پر سارا کام پڑ گیا ہوگا ۔۔۔۔۔ فاریہ بیگم نے چاپلوسی سے اپنی بات کہی ۔۔۔۔ نہیں مما یہاں سب ٹھیک ہے سارا کام ملازم کرتے ہیں مصباح کوئی کام نہیں کرتی آپ بے فکر رہیں اور سارہ کو وہی رہنے دیں جب اسکے دماغ کا خنّاس نکلے گا خود آجائیگی میں پاس اور بھی بہت کام ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سعد نے فاریہ بیگم کو دو ٹوک جواب دیا اور فون بند کردیا جبکہ وہ دونوں بس فون کو گھور کر رہ گئیں ۔۔۔

اب سعد کو تمہیں خود منانا ہوگا اب میں کچھ نہیں کرسکتی میری مانو تو کل چلی جاؤ گھر اگر تم اس بات پر آڑی رہی کہ سعد لینے آئے تو وہ نہیں آئیگا بلکہ معاملات اور خراب ہوجائینگے تم اسکی باتیں سن چکی ہو ۔۔۔۔

فاریہ بیگم نے سارہ کو سمجھاتے ہوئے کہا جبکہ وہ اپنی عزت افزائی پر پیر پٹکتی اپنے کمرے میں چلی گئی اور پیچھے فاریہ بیگم کندھے اچکاتی سونے کے لئے لیٹ گئیں ۔

تو تم ہو شاہ خاندان کی بیٹی حیا ہمّاس شاہ ۔۔۔۔ حیا کو یونیورسٹی آتے ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہوچکا تھا اور اس ایک مہینے میں اسکا ڈر کافی کم ہوچکا تھا جبکہ رومیسہ سے اسکی دوستی اس ایک مہینے میں بہت گہری ہوگئی تھی جس میں زیادہ تر ہاتھ رومیسہ کا ہی تھا کیونکہ وہ بہت چلبلی اور باتونی تھی جبکہ حیا ہمیشہ اسکی بات کا مختصر سا جواب دیتی یا پھر بس اسکی باتوں اور اوٹ پٹانگ حرکتوں پر مسکرادیتی تھی اور ابھی بھی رومیسہ کے اصرار پر وہ دونوں کینٹین میں بیٹھی اپنے آڈر کا ویٹ کرنے کے ساتھ باتوں میں مگن تھی ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہی تھی کہ ایک لڑکی نے آکے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا جب کے اس کے پوچھنے پر حیا ناسمجھی اور پریشانی کے تعصورات سے اسے دیکھنے لگی کیونکہ اسے جاننا تو دور حیا نے اسے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ جی میں ہی حیا ہمّاس شاہ ہوں لیکن معذرت کے ساتھ آپ کون ؟ میں نے آپکو پہچانا نہیں ۔۔۔۔۔ فاریہ کے پوچھنے پر حیا نے نرم اور شائستہ لہجے میں جواب دیا جبکہ فاریہ کو دیکھ کر رومیسہ کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں میں تعارف کروادیتی ہوں میں ہو فاریہ طیّب خان آپکی اس نیچ ذات کی دوست کی مالکن ۔۔۔۔۔۔ حیا کے پوچھنے پر فاریہ نے ایک کاٹدار نظر رومیسہ کے سفید چہرے کو دیکھ کر اونچی آواز میں کہا جس سے کینٹین میں بیٹھے سب افراد انکی طرف متوجہ ہوئے جبکہ رومیسہ اپنی اتنی توہین پر ضبط سے آنکھیں میچ کر رہ گئی ۔۔۔۔ وہ تو مجھے معلوم ہوگیا ہے آپکے لہجے اور آپکی سوچ سے کہ کون نیچ ہے اس لئے برائے مہربانی یہاں سے تشریف لے جائے اس سے پہلے کے میں سارے لحاظ بھلائے اس بھری کینٹین میں آپکو آپکی نیچ سوچ سے واقفیت کرواؤں ۔۔۔۔۔۔ فاریہ کے کہنے پر حیا نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے سرد لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔ ویسے ایسی نیچ لڑکیوں کا کام یہی ہوتا ہیکہ امیر اور معصوم لڑکیوں سے دوستی کر کے ان سے پیسے بٹورنا اور امیر لڑکوں کی نظروں میں آنا ۔۔۔۔۔۔ فاریہ نے حیا کی بات کو اگنور کر کے ایک بار پھر رومیسہ کے کردار کی دھجیاں اڑائی ۔۔۔۔۔۔ انففففف ۔۔۔۔ بس بہت سن لی میں نے آپکی بکواس آپ جیسی لڑکیاں ہیں جو یہاں ایسی جگہوں پر آکر اپنے والدین کے پیسے ضائع کرتی ہیں کیونکہ شعور تو اتنی ڈگریاں لیکر بھی نہیں آتا اور رہی بات رومیسہ کی تو آپ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ کون بہتر ہے آپ یہاں اپنے والد کی وجہ سے ہیں جبکہ یہ غریب گھرانے کی لڑکی اپنی محنت اور لگن سے اسکالر شپ حاصل کر کے یہاں تک پہنچی ہے اور جس مقام اور ذات پات کی آپ بات کر رہی تو یاد رکھیں یہ سب آپکو اللّٰہ نے دیا ہے اس میں آپکا کوئی کمال نہیں اور جو رب آپکو یہ مقام یہ عیش و عشرت دینے پر قادر ہیں نہ تو وہ چھین بھی سکتا ہے یاد رکھیں اسی تکبر کی وجہ سے ہی شیطان جنت سے بے دخل کردیا گیا تھا کہیں ایسا نہ ہو آپکا یہ تکبر آپکو کہیں کا نہ چھوڑیں اور آپ کسی پناہ گاہ کے لئے ترس جائیں آئیندہ میرے سامنے آنے کی کوشش بھی مت کیجئیگا ورنہ آپ ابھی حیا ہمّاس شاہ کو جانتی نہیں ہیں اور نا ہی جانے تو بہتر کیونکہ اگر جان گئیں تو آپکے حق میں بہتر نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ فاریہ کے کہنے پر حیا نے دھاڑتے ہوئے کہا جبکہ اسکے دھاڑنے پر سارے کینٹین میں سناٹا چھا گیا جبکہ سب دھم سادھے حیا کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریاں اور اسکی منہ سے نکلے لفظ سن رہے تھے کسی میں بھی اسے روکنے ہمت نہیں تھی حیا اچھے سے فاریہ کو اسکی اوقات دیکھاتی رومیسہ کا ہاتھ پکڑے وہاں سے نکتی چلی گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک نئی صبح کا نیا سورج کاردار ولا پر خوشیوں کی چادر لپیٹے طلوع ہوا جسکا پرندوں نے خوبصورتی سے استقبال کیا ۔۔۔۔ اور اسی ولا کے سب سے بڑے اور خوبصورت کمرے میں آؤ تو وہ حسن کا مجسمہ رائل بلو پینٹ کوٹ میں ملبوس شیشے کے سامنے کھڑا خود کو بے دریغ خوشبو سے معطر کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔ اچھی طرح خود کو خوشبو سے نہلا کر اس نے اپنے الٹے ہاتھ کی مضبوط کلائی میں برانڈڈ گھڑی پہنی اور اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاتا اپنے بھاری بوٹوں میں مقید مضبوط قدموں سے نیچے کی طرف چل دیا جہاں سب ڈائننگ ہال میں اسکا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔۔۔ حضیر نے ڈائننگ ٹیبل پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر سب کو سلام کیا جسکا سب نے سر کی جنبشن سے جواب دیا اور پھر وہ خاموشی سے مسیب کے برابر والی چئیر کھینچ بیٹھ گیا جبکہ سب کی نظریں اسی پر تھیں ۔۔۔ ابھی گیارہ بج چکے ہیں بارہ بجے تک آپ سب چاچو کے گھر پہنچ جائیگا مجھے ایک دو کام ہے میں وہ نمٹاکر آپ لوگوں کو وہیں جوائن کرونگا اور مجھے امید ہے کوئی میری بات کی خلاف ورزی نہیں کریگا ۔۔۔۔ حضیر نے سب کو خاموش بیٹھا دیکھ حضیر نے کہا اور ایک گلاس جوس کا پیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر  گیارہ پچاس پر نا چاہتے ہوئے بھی سب تیار ہوتے اپنے گاڑیوں میں سوار ہوگئے جن میں کچھ کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے جبکہ کچھ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے رہ گئے اور وہ سب سے بے نیاز اپنے کاموں میں مگن تھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹا آج کچھ مہمان آرہے ہیں آپ لنچ ریڈی کر کے روم میں چلی جائیگا اور جب تک میں نہ کہو باہر نہیں آنا ٹھیک ہے میرا بچہ ۔۔۔۔۔ اناب اور مصباح صبح ہی یونی جاچکی تھی اور انکا ارادہ صرف دو لیکچر کے بعد وآپسی کا تھا کیونکہ آج انکا موڈ مشی اور عفراء کے شاپنگ کرنے کا تھا جبکہ مشی عفراء کی وجہ سے نہیں جا پائی تھی جس کی صبح سے طبیعت ناساز تھی اور ابھی وہ سارے گھر کی ملازمہ سے صفائی کرواکر بیٹھی تھی کہ اذہان صاحب نے اسے کہا چونکہ حضیر نے پہلے ہی اپنی آمد کا انہیں کال کر کے بتادیا تھا اس لئے وہ بھی آج آفس نہیں گئے تھے ۔۔۔۔۔ اوکے بابا آپ مینیو بتادیں میں لنچ ریڈی کردونگی ۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بیٹا جو آپ کو ٹھیک لگے وہ ہی بنوالیں اور خبردار جو خود لگی رہی ملازمہ سے کہہ دیں وہ بنالینگی ۔۔۔۔۔۔ اذہان صاحب نے مشی کو جواب دینے کے ساتھ تنبیہہ کی ۔۔۔۔۔ اچھا چلیں ٹھیک ہے بس میں انکی مدد کروادونگی ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے ان تسلی دیتے ہوئے کہا اور عفراء کو انکے پاس بٹھاتی کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر گیارہ پچپن پر وہ ملازماؤں کے ساتھ مل کر سارا لنچ ریڈی کرواچکی تھی چونکہ وہ سب صبح سات بجے ہی ناشتہ کرلیتے تھے اس لئے لنچ بھی ایک بجے کرلیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے مشی نے جلدی ہی سارا لنچ ریڈی کروادیا تھا بس صرف فرائی کرنے کی چیزیں رہتی تھی جو کہ اینڈ ٹائم ہونی تھی اور بریانی کو دم دینا تھا اس لئے وہ جلدی سے سارا کام نبٹاتی عفراء کو لیکر اپنے کمرے چلی گئی اور اسے تیار کیا وائٹ چینز کے ساتھ پرپل کلر کی شرٹ اور سر پر وائٹ بینڈ سیدھے ہاتھ میں اسٹیل کی چوڑیاں جبکہ الٹے ہاتھ میں پرپل کانچ کی چوڑیاں اور ساتھ میں پرپل کلر کے کٹ شوز پہنے وہ نیلی آنکھوں والی شہزادی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔ مشی نے ہر بار کی طرح تیار کرنے کی بعد اسے پیار کیا اور اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا اور اسے بیڈ پر لٹاتی اپنے کپڑے لیتی واشروم میں گھس گئی کیونکہ اناب اور مصباح کے آنے کا ٹائم ہورہا تھا اور دونوں اسے تنبیہہ کر کے گئی تھی کہ وہ ریڈی رہے تاکہ وہ لنچ کرتے ہی شاپنگ کے لئے نکل جائے اور وآپسی پر مشی کو ڈراپ کر کے انکا ارادہ اپنے اپنے گھر جانے کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مشی اسکائی بلو شیفون کی گھٹنوں تک آتی فراک پہنے باتھروم سے نکل شیشے کے سامنے آئی اس نے اسکائی بلو فراک کے ساتھ وائٹ اسٹریٹ پاجامہ پہنا ہوا تھا جبکہ اس فراک کی آئیستیں چن دار تھی ۔۔۔

مشی نے جلدی سے اپنے گھٹنوں تک آتے سلکی بال سلجھائے اور انہیں سادی سی چٹیاں میں کور کیا اور چہرے پر ہلکی سے کریم کے ساتھ بلکل ہلکہ سے پنکش لپ لوز لگائی اور آنکھوں میں کاجل لگایا جو کے اسے بے حد پسند تھا اور پھر بیڈ سے وائٹ میچنگ دوپٹہ اٹھاکر سر پر لیا جبکہ باہر سے مسلسل ہلکی ہلکی آوازیں رہی تھی جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ مہمان آچکے ہیں ۔۔۔۔ مشی نے اپنا دوپٹہ سر پر درست کر کے بیڈ پر دیکھا تو عفراء سوچکی تھی تو مشی بھی اسکے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اس کے سر پر پیار کرتی اناب اور مصباح کے آنے کا ویٹ کرنے لگی کیونکہ اسے باہر مہمانوں سے ملنے کا نا شوق تھا اور نا ہی تجسس اس لئے وہ مسلسل باہر سے آتی آوازوں کو اگنور کرتی اناب اور مصباح کا نمبر ڈائل کرنے لگی جو کہ وہ اٹھا نہیں رہی تھی تھک ہار کر مشی نے موبائل سائڈ پر رکھا اور عفراء کے برابر میں دراز ہوتی آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی گاڑیاں جیسے ہی کاردار مینشن میں رکی وہ سب ایک ایک کر کے کار سے نکلے تو اذہان صاحب کو وہی گیٹ پر اپنے استقبال کے لئے کھڑے پایا تو سب بچے بھاگ کر ان سے لپٹ گئے اور ان سے حال احوال دریافت کرنے لگے جس پر انہوں نے بھی انہیں پیار کیا اور ان کے سوالوں کا جواب دینے لگے اتنے میں ایک اور تیز اسپیڈ سے آتی کار وہاں آکر رکی جس سے سب آنے والی شخصیت کے طرف متوجہ ہوئے جو گاڑی کا دروازہ کھولتا شان سے باہر نکلا اور وائٹ شرٹ پر رائل بلو کوٹ کو جھٹکا دیکر درست کیا اور پھر سب ایک دوسرے سے مل کر گھر میں داخل ہوئے اور لاؤنچ پر پڑے صوفوں پر بیٹھ گئے اور انکے بیٹھتے ہی ملازمائوں نے مختلف قسم کے جوسز انکے سامنے پیش کیے ۔۔۔۔۔۔۔ کیسا ہے میرا بیٹا اب تو ماں سے ملنا تو دور کی بات فون بھی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔ فرانہ بیگم نے خاموش بیٹھے اذہان صاحب سے شکوہ کیا جس پر سب جو آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے دادو کی آواز پر انکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔ یہ نوبت بھی آپ لوگوں کی وجہ سے آئی ہے ورنہ میں تو اپنے سگے رشتوں کے پیار میں اندھا تھا ۔۔۔۔۔ فرانہ بیگم کے کہنے اذہان صاحب نے اسپاٹ لہجے میں جواب دیا جس سے ایک پل کے لئے لاؤنچ میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نہیں یہ سب تمہاری بیوی اور بیٹی کا کیا دھرا ہے جو آج تم سب اپنوں سے دور اکیلے ہوکر رہ گئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر پھوپھو نے اپنا بولنا فرض سمجھا جس پر حضیر اپنی مٹھیاں بھینچتا اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگ میرے گھر مہمان ہیں اور میری بیٹی کے سسرال والے بن کر آئے ہیں اس لیے ماضی کو نا ہی کھودے تو اچھا ہے ورنہ اگر ماضی کھلا تو کوئی بھی اپنا چہرہ آئینے میں دیکھنے کے قابل نہیں رہیگا ۔۔۔۔ پھوپھو کے تنفر سے کہنے اذہان صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا جبکہ بچے سارے نا سمجھی اور خاموشی سے گفتگو سن رہے تھے کیونکہ وہ ماضی سے نا واقف جو تھے  ۔۔۔۔۔

بابا ی۔۔ہہہ کککو۔۔ن ہہ۔۔ے۔۔۔ مشی جو کہ کسی کام سے کچن میں جارہی تھی سامنے لاؤنچ میں بیٹھے افراد کو دیکھ کر ہکلاتے ہوئے جوفزدہ لہجے میں اذہان صاحب سے پوچھنے لگی جبکہ اسکی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے جو کہ وائٹ اسکارف سے نقاب کیے ہوئے تھی جس سے صرف اسکی آنکھیں واضح ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ مشی بیٹا میری بات سنے میری شہزادی آپکے سسرال والے آپکو لینے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ننہہہں۔۔۔ ہہم۔۔۔۔م نننہیںں۔۔۔ جج۔۔ایینننگے ۔۔۔۔ننہییں ۔۔۔ ببباابببا ۔۔۔۔ ہہہہ۔۔مممیںںں۔۔۔ ممماردیینگگے ۔۔۔۔ ہہم نہیں جائینگے ۔۔۔۔۔ ہم شادی نہیں کرینگے ہمیں شادی نہیں کرنی ہمیں نہیں کرنی شادی ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی خوفزدہ ہوتے ہوئے الٹا سیدھا کہنے لگی ۔۔۔۔ جبکہ اذہان صاحب مشی کو دوبارہ اس فیز میں آتا دیکھ گھبرا گئے ۔۔

نہیں بابا ہم نہیں کرینگے شادی نہیں کرنی آ۔۔۔پ ہمیں جان سے ماردیں اپنے ہاتھوں سے ہمارا گلہ دبادیں بابا یہ نہ کہیں نہ نہیں کرینگے ہم شادی ہم ہ۔۔م م۔۔یں یہاں سے چلے۔۔۔جائینگے ہاں ہاں چلے جائینگے ۔۔۔۔

ہم اس شخص سے نہیں کرینگے ش۔۔ادی ۔

بابا ہم۔۔۔ نے آپکو اب تک دکھ دیے ہیں نہ تو پھر ہممم زندہ کیوں ہیں کیو۔۔ں ہیں ہم زندہ ہہممممیں تو مرجانا چاہے ہاں ہاں ہمیں مرجانا چاہئے ہمیں مرجانا چاہئے ۔

مشکات روتی ہوئی اپنے بابا سے فریاد کرتی خود سے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگی اس وقت بلکل بھی اپنے حواس میں نہیں تھی ۔

مشکات بیٹا سنبھالو خود کو نہیں کہہ رہا میں کچھ میرا بچہ شادی ہوچکی ہے آپکی خزیمہ سے میری جان ۔

بابا وہ ماردیگا ہمیں سب ماردینگے ہمیں ہاں ہاں ماردینگے ہم نہیں کرینگے شادی بابا اس سے پہلے سب ہمیں ماردیں ہمیں  مرجانا چاہئے ہاں ہاں مرجانا چاہئے بابا۔ہم مرجائینگے ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ہم مرجائینگے ہاں ہمیں مرجانا چائیے ۔۔۔۔۔۔

مشکات خود سے کہتی اپنے بال نوچتی اپنے بات پر خود ہی پاگلوں کی طرح قہقہہ لگانے لگی جبکہ اذہان صاحب سے اسے سنبھالنا مشکل ہورہا جبکہ خزیمہ تو ساکت سا اپنی شریک حیات کو دیکھ رہا تھا جسکا سب گھر والے خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے تھے لیکن اسے سنبھالنے والا اسکے باپ کے سواء کوئی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔ 

میرا بیٹا بابا کی شہزادی آپ تو بہت اچھی ہو بابا کی شہزادی ایسے نہیں کہتے آپ تو بابا کی جان ہو بابا کا مان ہو بابا کا فخر ہو غرور ہو ۔

اذہان صاحب مشکات کے نزدیک جاتے ہوئے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں بابا ہمارے پاس مت آئیں ہم گندے ہیں تبھی تو مما بھی ہمیں چھوڑ گئی ہم بدکردار ہیں ہمارے قریب مت آئیں مت آئیں ہمارے قریب ہاں میں ہ۔۔۔۔م  آپکو بھی گندہ کردینگے ہمیں مرجانا چاہئے ہاں اب ہم مرجائینگے نہ تو کوئی آپکو طعنہ نہیں دیگا ہاں ہم مرجائینگے ۔

مشکات اذہان صاحب کو اپنے پاس آتے دیکھ ہذیانی کیفیت میں کہتی ڈائننگ ٹیبل سے چھری اٹھاتی اپنی کلائی پر رکھتی ہوئی کہنے لگی ۔

مشکات ہٹاؤ چھری ۔۔۔۔ 

خزیمہ مشکات کو اپنی کلائی پر چھری رکھتا دیکھ ہوش میں آتے دھاڑا جبکہ سب خاموش تماشائی کی طرح اس پریزاد کا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔

مشکات میں نے کہا چھری ہٹاؤ ۔

بیٹا چھری ہٹادو ۔۔۔۔۔۔۔ مشکات کو خزیمہ کی بات نہ سنتا دیکھ اذہان صاحب بے بسی سے روتے ہوئے کہنے لگے ۔

نہیں بابا اب آپکو کوئی پریشان نہیں کریگا کوئی بھی نہیں ہم جارہے ہیں مما کے پاس ہاں ہم مما کے پاس جارہے ہیں ہاں ہمیں مرجانا چاہئے آہہہہہہہہ ۔۔۔۔

مشکات کو اذہان صاحب کی طرف متوجہ دیکھ کر اذہان ایک جست میں اسکی طرف بڑھا اور چھری اسکے ہاتھ سے لیکر پھینک کر اسے خود میں بھینچ گیا جبکہ مشکات کی حالت دیکھ کر وہ خود پر کیسے ضبط کررہا تھا یہ بس وہی جانتا تھا ۔

چھوڑیں ہمیں چھوڑیں بابا ہمیں ماردینگے بابا بچائیں بابا ہمیں ماردینگے بابا بچائیں بابا چھوڑیں ہمیں چ۔۔ھوڑ۔۔۔یں ہ۔۔۔می۔۔ں ۔

مشکات خزیمہ کی پکڑ میں خوف سے مچلتی اپنے باپ کو پکارتے پکارتے اسکی باہوں میں جھول گئی ۔

مشی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اناب اور مصباح جو کہ ابھی یونی سے وآپس آئییں تھی مشی کا بے جان وجود حضیر کے ہاتھوں میں دیکھ کر چیختی ہوئی اسکی طرف لپکی تو سب انکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔ مشی ۔۔ مشی میری جان آنکھیں کھول کیا ہوا ہے مشی ۔۔۔ مصباح اور اناب حضیر کو دھکہ دیکر مشی کا بے جان وجود خود سنبھالتی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔ کیوں آئے ہیں آپ سب کیا کہا آپ لوگوں نے بولیں ۔۔۔ اناب سرد نظروں سے ان سب کو گھورتی ہوئی دھاڑی جبکہ مصباح مسلسل مشی کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔ اگر میری مشی کو کچھ ہوا تو یاد رکھئیگا میں کسی کو نہیں چھوڑونگی اینٹ سے اینٹ بجادونگی کاردار ولا کی اور آپ ہے نہ اسکے شوہر ایسے ہوتے ہیں شوہر جب بھی اسکے سامنے آتے ہیں اسکی تکلیف کی وجہ بنتے ہیں چلیں جائیں یہاں سے اس سے پہلے کہ میں ہر لحاظ بھول جاؤں ۔۔۔۔۔ مصباح ان سب کو دھمکانے کے ساتھ حضیر کے طرف مڑ کر چیخی ۔۔۔۔

جاؤ بی بی ہمیں بھی کوئی شوق نہیں تمہاری اس پاگل دوست کو اپنے گھر لے جانے کا اسے سسرال کی نہیں پاگل خانے کی ضرورت ہے ۔۔۔ باسسسس بہت سن لی میں نے آپکی بکواس پھوپھو بہتر ہیکہ آپ لوگ چلے جائیں یہاں سے میری بیوی ہے میں خود سنبھال لونگا میری بہت بڑی بھول تھی آپ سب کو یہاں لیکر آنا اس لئے مہربانی کر کے چلے جائیں آپ سب یہاں سے ۔۔۔۔۔ مدیحہ بیگم ابھی الٹا سیدھا بول ہی رہی تھی کہ حضیر انہیں خاموش کرواتا دھاڑا اور سب کو پرے کرتا مشی کے بے جان وجود کو لیکر مشی کے کمرے کی طرف بھاگا تو مسیب برداء مبشر مصباح اناب اذہان صاحب حرمین حیان اور انعمتہ بھی اسکے کمرے کی طرف بھاگے جبکہ باقی سب داخلی دروازے سے  نکلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پلیز آپ لوگ سائڈ پر ہوجائیں مجھے دیکھنے دیں ۔۔۔۔ مسیب نے ایک نظر سب کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سب ایک سائڈ ہوگئے تو مسیب جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھا جہاں حضیر نے مشی کو لٹایا تھا اور خود بھی اسکا ہاتھ پکڑے وہی کھڑا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ بھائی ریلیکس کچھ نہیں ہوا بھابھی کو آپ پریشان نہ ہو ابھی ہوش میں آجائینگی مسیب چیک اپ کر رہا ہے ۔۔۔۔ برداء نے حضیر کو مسلسل پریشان ہوتا دیکھ تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ چاچو یہ کچھ میڈیسن اور انجیکشن منگوادیں اور بھائی میرے ساتھ آئیں ۔۔۔۔ مسیب نے اذہان صاحب کو پرچی دیتے ہوئے حضیر سے کہا ۔۔۔۔

ببا مما ۔۔۔۔ عفراء جو سب کے شور سے اٹھ بیٹھی تھی اپنے چھوٹے ہاتھوں سے مشی کے منہ  پر مارتی ہوئی اسے پکارنے لگی جس پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔ بابا کہ جان بابا کی شہزادی مما سو رہی ہیں مما کو ریسٹ کرنے دیں اپن باہر چلتے ہیں ۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کو گود اٹھاتے ہوئے پیار کرتے ہوئے کہا اور مسیب کے ساتھ باہر نکل گیا تو انکے پیچھے ہی برداء اور مبشر بھی روم سے نکل گئے جبکہ اذہان صاحب پہلے میڈیسن منگوانے کے لئے باہر جاچکے تھے جبکہ وہ پانچوں وہیں مشی کے پاس بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔

بولو مسیب ۔۔۔۔۔۔ حضیر نے باہر لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا اور عفراء کو بھی اپنی گود میں بٹھالیا تو وہ اسکے گلاسس سے کھیلنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی بھابھی بہت زیادہ خوفزدہ ہے انہیں پہلے ایک دفعہ مائینر اٹیک بھی ہوچکا ہے اور وہ تین مہینے کومہ میں بھی جاچکی ہیں جسکی وجہ سے انکا دماغ کافی ویکنیس کا شکار ہے اور پھر انکے دل میں کسی چیز کا خوف ہے جو کہ اپنی فیملی سے جڑا ہے اس لئے جب بھی وہ اپنی فیملی کے کسی بھی فرد یہاں تک کہ آپکو بھی دیکھتی ہیں تو وہ وآپس اسی فیز میں چلی جاتی ہیں جبکہ بار بار انکا ایسے بے ہوش ہوجانا ٹھیک نہیں ہے اللّٰہ نا کرے لیکن اس طرح بے ہوش ہونے سے انکے دماغ کی نبض بھی پھٹ سکتی ہے ابھی فلحال میں نے انجیکشن منگوایا ہے اسکے لگانے سے تھوڑی ریلیکس ہوجائینگی لیکن یہ انکی بیماری کا پراپر علاج نہیں ہے وقتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسیب حضیر کو مشی کی کنڈیشن سے تفصیل سے آگاہ کرتے آخر میں بات ادھوری چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔ مسیب بے فکر ہوکر اپنی بات مکمل کرو ۔۔۔۔۔ مسیب کے خاموش ہونے پر حضیر نے اسے بات کنٹینیو کرنے کا کہا ۔۔۔۔۔ دیکھیں بھائی برا نہیں مانئیگا لیکن میں ایز آ ڈاکٹر یہی کہونگا کہ آپ کسی سائیکیٹریسٹ کو دیکھائیں بھابھی کو یا پھر اگر نہیں دیکھانا چاہتے تو آپ بھابھی کی کنڈیشن ان سے ڈسکس کریں بھائی میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بھابھی پاگل ہیں کیونکہ سائیکیٹریسٹ کے پاس جانے والا ہر شخص پاگل نہیں ہوتا وہ بھابھی کو بہتر ٹریٹ کرسکتے ہیں باقی جیسے آپ کو ٹھیک لگے ۔۔۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مسیب نے اپنی بات مکمل کرنے ساتھ صفائی دی جس پر خزیمہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔۔۔۔۔ صاحب یہ دوائیاں ۔۔۔۔ ملازم نے لاؤنچ میں آتے ہوئے دوائیاں مسیب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلاگیا ۔۔۔۔ تم رہنے دو میں لگادونگا انجیکشن ۔۔۔۔۔ حضیر نے مسیب سے کہا اور عفراء کو اذہان صاحب کے پاس بٹھاکر مشی کے روم میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔

مصباح آپ عفراء کو کچھ کھلادیں شاید وہ بھوکی ہے اور عائش بھی ہوش میں نہیں ہے ۔۔۔۔ حضیر نے مشی کے کمرے میں آکر مصباح سے کہا اور مشی کے بازو سے آئستین اوپر کر کے انجیکشن لگانے لگا ۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری میری گڑیا کو تو میں بھول گئی ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مصباح نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور باہر کی طرف بھاگی تو وہ چاروں بھی ایک ایک کر کے کمرے سے نکل گئی جبکہ حضیر ایک تھکن زدہ سانس خارج کرتا مشی کے سر پر پیار کرتا وہیں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا اپنی جلتی ہوئی آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایکسکیوزمی کیا دو منٹ بات کرسکتے ہیں ؟

رومیسہ اور انعمتہ ابھی لیکچر لیکر کلاس سے نکل ہی رہی تھی کہ ایک لڑکا تیزی سے انکے برابر چلتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔ دیکھیں مسڑ آپ جو کوئی بھی ہے مجھے آپ سے بات کرنے اور سننے میں کوئی غرض نہیں ہے آپکا ہمارے پاس کھڑے ہوکر بات کرنا ہمارے کردار پر سوالیہ نشان بنا سکتا ہے اس لئے فلحال آپ جائیں اگر آپکو واقع کوئی ضروری بات کرنی ہے تو میرے بھائی کے سامنے کیجئیگا ۔۔۔۔۔ کسی اجنبی کو اپنے ساتھ چلتے دیکھ ایک لمحے کیلئے تو حیا خوفزدہ ہوئی لیکن جلدی سے خود کو کمپوز کرتی اسپاٹ لہجے میں دو ٹوک کہتی رومیسہ کے ساتھ وہاں سے چلی گئی جبکہ پیچھے کھڑا شخص اسکے لفظوں اور لہجے سے متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکا ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم  اب تو ہم بات کرسکتے ہیں نہ آپ کے بھائی آپکے ساتھ ہیں ؟

یاسر پارکنگ کی طرف جاتے حیا کے ساتھ شماس کو دیکھ کر جلدی سے فاریہ کو اپنے پیچھے آنے کا کہتا تیز قدموں سے ان تک پہنچتا کہنے لگا ۔۔۔۔۔ وعلیکم سلام کہو یاسر کیا بات ہے ۔۔۔۔ یاسر کے کہنے پر حیا کی جگہ شماس نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کیونکہ شماس اسے جانتا تھا وہ تھرڈ ائیر کا اسٹوڈینٹ ہونے کے ساتھ ہماس صاحب کے جگری دوست کا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔ دراصل میں فاریہ کی طرف سے معذرت کرتا ہوں میں جانتا ہوں اس نے بہت غلط کیا ہے میں اسے سمجھاؤنگا لیکن پلیز آپ کوئی ایکشن مت لیجئیگا کیونکہ اگر بابا کو خبر ہوگئی تو وہ اسکی پڑھائی چھوڑوادینگے ۔۔۔۔۔ یاسر نے نظریں نیچی کرتے ہوئے معذرت کی ۔۔۔۔ آپکی غلطی نہیں ہے اس لئے آپ معذرت کر کے مجھے شرمندہ نا کریں رہی فاریہ آپی کی بات تو جس طرح انہوں نے سب کے سامنے رومیسہ کا تماشہ لگایا ہے بلکل اسی طرح کل اسی وقت پر سب کے سامنے یہ رومیسہ سے ایکسکیوز کرلینگی تو میں کچھ نہیں کرونگی اور سزا بھی اس لئے ہیکہ کہ ابھی تک انکے چہرے پر شرمندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ادر وائز آپ جانتے ہیں کسی پر بہتان لگانے کی سزا شریعت اور ہمارے گاؤں میں کیا ہے اسی کوڑے وہ بھی بنا رحم کے اور یقین جانے انکی یہ نازک جان یہ سزا برداشت نہیں کرپائینگی بھلے کوئی شخص مڈل کلاس سے ہی کیوں نہ ہو ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم سب کے سامنے اسکی توہین کرے اور اس پر بہتان لگاکر لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع فراہم کریں مڈل کلاس لوگوں کے پاس دولت نہیں لیکن عزت ضرور ہوتی ہے جس کے لئے وہ اپنی دینے سے گریز نہیں کرتے اس لئے جس طرح آپکی بہن نے رومیسہ کو سب کے سامنے زلیل کر کے اس پر تہمت لگاکر لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع دیا ہے ٹھیک اسی طری کل سب سے معافی مانگ کر وہ سب کے منہ بند کروائینگی ورنہ جیسے گاؤں میں مجرم کو بیچ چوراہے پر سزا دی جاتی ان کو بھی ایسے ہی ملیگی پھر بھلے ہی انکے ساتھ طیّب خان کا حوالہ ہی کیوں نہ ہو چلیں بھائی ۔۔۔۔۔۔ یاسر کی بات پر حیا نے فاریہ کو گھورتے ہوئے کہا اور بنا اسکی کوئی بات سنے شماس کو لیتی وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکے دو ٹوک فیصلے پر یاسر لب بھینچ کر رہ گیا اور فاریہ کو اپنی عزت و جان کے لالے پڑ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذہان سے بات ہوئی کیا تمہاری اذان ؟

فریدہ بیگم نے لنچ کرتے اذان کاردار کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ ہاں ہوئی تھی کہہ رہا تھا کہ سیمسٹر کمپلیٹ ہونے والا ہے اسکے بعد چھٹیاں ہے بھائی اسی چھٹیوں میں شادی کرلیں تاکہ میں آرام سے آپ کی شادی اٹینڈ کرسکونگا ۔۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے میں بھی یہی بات کرنیوالا تھا ماشاءاللہ سے تمہاری پڑھائی بھی مکمل ہوگئی ہے اور اب تو بزنس سنبھال رہے ہو تو میں بھی تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتادو ورنہ میری نظر میں ہے ایک دو لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔ اذان صاحب کے کہنے پر فارس کاردار نے اپنے ارادے بتاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ ارے آپ اتنا ہی کہہ رہے ہیں تو بتادیتا ہوں آپ لوگ ہماس انکل سے حیا کا رشتہ مانگ لیں ۔۔۔۔ انکے پوچھنے پر اذان تو جیسے تیار بیٹھا تھا جھٹ سے اپنی پسند بتائی ۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ تم سے بہت چھوٹی ہے اور دوسری بات وہ ابھی پڑھ رہی ہے اور تیسری اور آخری بات کہ ہماس کا ابھی حیا کی شادی کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تم کہتے ہو تو میں ہم تمہارا رشتہ لے جائینگے لیکن اگر ہماس نے منع کردیا تو تم دوبارہ یہ بات نہیں کروگے اور جس لڑکی سے میں کہونگا چپ چاپ شادی کرلوگے ۔۔۔۔۔ اذان کے بات تحمل سے سننے کے بعد فارس کارداد نے اسے تفصیل سے بتایا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی ۔۔۔۔۔ اذان نے ان سے کہا اور نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔ شاہ جی میں کہہ رہی تھی کہ ازلان کی بھی ساتھ ہی کردیتے ہیں اسکی پڑھائی بھی ختم ہونے والی ہے ۔۔۔۔

اذان کے جانے کے بعد فریدہ بیگم نے فارس شاہ سے کہا ۔۔۔۔ نہیں ابھی اتنی جلدی نہیں کرو ابھی اسے سکون سے پڑھنے دو اور پھر جب وہ اس قابل ہو جائیگا کہ شادی جیسی زمیداری اٹھاسکے تو میں اسکی شادی میں بھی دیر نہیں کرونگا لیکن ابھی اسے سکون سے پڑھنے دو اور رہی اذہان کی بات تو وہ بہت چھوٹا ہے اور ہاں ثانیہ آپا سے بات کرلینا کیونکہ میں اذان کے ساتھ ہی فریحہ کے فرض سے بھی فارغ ہونا چاہتا ہوں پھر دو چھوٹے ازلان اور اذہان رہ جائینگے انکی بھی جلدی کردونگا ۔۔۔۔۔ فریدہ شاہ کے کہنے پر فارس کاردار نے انہیں تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاکر رہ گئی ۔۔۔۔۔

اور ہاں کل تیار رہنا ہماس کے گھر چلینگے رشتہ لیکر ۔۔۔۔ فارس کاردار نے ڈائننگ سے اٹھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے تو پیچھے وہ بھی سر جھٹکتی ملازمہ کو برتن اٹھانے کا کہتی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیا کردیا تم نے فاریہ تمہاری وجہ سے مجھے بھی زلیل ہونا پڑرہا ہے تمہارا یہ غرور کسی دن تمہیں لے ڈوبے گا تمہیں اندازہ بھی تمہاری وجہ سے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی ہے مجھے تم اپنے غرور میں یہ تک بھول گئی کہ تمہارے نام کے آگے ایک انصاف پسند شخص طیب خان کا نام لگتا ہے تم اپنے غرور میں اتنی آندھی ہوگئی کہ ایک معصوم کی ذات روندھ گئی تمہیں کس نے حق دیا کسی کی ذات پڑ کیچڑ اچھالنے کا اس پر تہمت لگانے کا دعا کرو کہ کہیں وہ دل برداشتہ ہوکر خود کو کچھ کر نہ لے ورنہ تمہارے حق میں بہت برا ہوگا خیر اچھا تو اب بھی نہیں ہے تمہیں کل سب کے سامنے اس سے معافی مانگ کر اپنی انا قربان کرنی ہوگی یہ شاہ زادی کا فیصلہ ہے اور اگر تم نے نہیں مانا تو دوسری صورت تمہیں اس بہتان کی سزا اپنے نازک جسم پر جھیلنی پڑیگی اور تم اچھی طرح جانتی ہو تم شاہ زادی کی بات سے انکار نہیں کرسکتی کیونکہ وہ طاقت رکھتی ہے اپنے لفظوں میں اور کردار میں بلکہ دعا کرو کہ شماس شاہ یا شاہ خاندان کے کسی فرد کو اس بات کا علم نا ہو کہ تم نے شاہ زادی سے بدتمیزی کی ہے اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو یاد رکھنا بابا جان خود تمہیں زندہ دفنادینگے وہ سب کی کتنی لاڈلی ہے یہ تم اچھے سے جانتی ہو شاہ خاندان کے ہر فرد کی جان شاہ زادی میں ہے یہ سب جانتے ہوئے بھی تم نے یہ بیوقوفی کیوں کی ؟ اب خمیازہ بھگتنے کے تیار ہوجاؤ فیصلہ تمہارا ہے کہ اپنی انا کو قربان کرنا چاہونگی یا اپنی جان کو ۔۔۔۔۔۔ حیا کے وہاں سے چلے جانے کے بعد وہ دونوں بھی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کے لئے روانہ ہوگئے تھے ابھی وہ کچھ آگے ہی آئے تھے کی یاسر نے افسوس سے پیسنجر سیٹ پر بیٹھی ناخن کترتی فاریہ کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر وہ خاموش ہی رہی کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بہت غلط کرچکی ہے اور اب اسے فیصلہ کرنا تھا اپنی آنا یا جان دونوں میں سے ایک قربان کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ صاحب کاردار صاحب اور انکی بیگم آئے ہیں میں نے مہمان خانے میں بیٹھا دیا ہے ۔۔۔۔۔ شاہ صاحب اور فرزانہ بیگم لاؤنچ میں بیٹھے بات کرنے کے ساتھ ساتھ چائے سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے کہ ملازم نے نہیں کاردار صاحب اور انکی اہلیہ کی آمد کی اطلاع دی تو وہ دونوں اٹھ کر مہمان خانے چل دیے ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم کیا حال ہے جگر کیسے آنا ہوا وہ بھی بن بتائے ۔۔۔۔ ہماس شاہ نے مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی فارس کاردار سے کہا اور ان سے بغلگیر ہوکر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ بس یار تجھ سے تیری قیمتی چیز لینے آیا تھا اس لئے سوچا چھاپہ ماردوں ۔۔۔۔۔ ارے بھئی ہم غریبوں کے پاس کیا ایسا قیمتی ہے جو ہم اپنے یار کی خدمت میں پیش کرسکیں ۔۔۔۔ فارس کاردار کے کہنے پر ہماس شاہ نے عاجزی سے کہا ۔۔۔۔۔ آج میں یہاں حیا کو اپنی بیٹی بنانے آیا ہوں تیرا کیا خیال ہے ۔۔۔۔۔ فارس کاردار نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اپن مدعا بیان کیا ۔۔۔۔ حیا تیری ہی بیٹی ہے اس میں کہنے والی کونسی بات ہے ۔۔۔۔۔ ہماس شاہ انکی بات سمجھ کر بھی انجان بن گئے اور پھر فارس کاردار کچھ کہتے کہ ملازمہ لوازمات سے بھری ٹرالی لے آئے اور ٹیبل سجانے لگی جس پر دونوں خاموش ہوگئے ۔۔۔۔۔ ہماس شاید تو سمجھ نہیں رہا میں یہاں اذان کے لئے حیا کا رشتہ مانگنے آیا ہوں بے فکر ہوجا انکار کا بھی تجھے پورا حق ہے اس سے ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آئیگا ۔۔۔۔ ملازمہ کے جانے کے بعد فارس کاردار نے کھل کر بات کی ۔۔۔۔ دیکھ فارس برا نہیں ماننا لیکن اذان حیا سے عمر میں بھی بڑا ہے اور میں ابھی کسی صورت بھی حیا کی شادی نہیں کرنا چاہتا ابھی میری بیٹی چھوٹی ہے اور اسکا فرسٹ سیمسٹر ہی چل رہا ہے میں اتنی جلدی اپنی بیٹی کو خود سے دور نہیں کرونگا بلکہ ابھی تو میں نے حیا کی شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے ابھی اسکی عمر ہی اٹھارہ سال ہے اور میں چار پانچ سال تک اسکی شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ میری بیٹی بہت معصوم ہے وہ اس لئے کم از کم جب تک اسکی پڑھائی مکمل نہیں ہوجاتی میں اسکی منگنی بھی نہیں کرونگا اور اگر کل کو میری بیٹی نے مجھے اپنی پسند سے آگاہ کیا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے تو میں بنا ناراضگی کہ اسکی شادی اسکی پسند سے کردونگا کیونکہ میں اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے میری طرف سے صاف انکار ہے اور بہت سی اچھی لڑکیاں مل جائینگی اذان کو لیکن میں ابھی حیا کی شادی تو دور منگنی بھی نہیں کرونگا ۔۔۔۔۔۔ فارس کاردار کے کہنے پر ہماس شاہ نے کھل کر دو ٹوک بات کی ۔۔۔۔۔۔ کوئی بات ہی ہماس مجھے اچھا لگا تو نے اپنے دل کی بات کی مجھ سے تو باپ ہے انکار کا حق رکھتا ہے اس سے ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آئیگا جوڑے تو آسمان پر بنتے ہیں اذان کی بیوی وہی بنے گی جو اسکے نصیب میں ہوگی ۔۔۔۔ فارس شاہ نے بغیر برا منائے ہماس شاہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ چل اب ہم چلتے ہیں مجھے کام سے جانا ہے بس میں جلدی سے اذان اور فریحہ کے فرض سے فارغ ہونا چاہتا ہوں اور پھر اذہان کی بھی چھٹیاں ہونے والی ہے تو وہ پاکستان آئیگا اس لئے اسکی چھٹیوں کے دوران ہی میں دونوں کے فرض سے فارغ ہونا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ فارس کاردار نے ہماس شاہ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا  ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں بس شماس کا بھی آخری سیمسٹر ہے اسکے بعد میں بھی بس شماس کی شادی کرونگا پھر حیا رہ جائیگی اسکی تو ابھی مجھے کرنی ہی نہیں ہے جب تک پڑھائی مکمل نا ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چل پھر ملتے ہیں اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ فارس کاردار نے ہماس شاہ سے الوادعی کلمات کہے اور وہاں سے چلے گئے پیچھے ہماس شاہ ایک تھکن زدہ سانس خارج کر کے وہیں صوفے پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی ہم کہاں جارہے ہیں یہ گھر کا راستہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔ حیا نے ایک نظر رستے پر ڈال کر ڈرائیونگ کرتے ہوئے شماس شاہ سے پوچھا ۔۔۔۔۔ ہاں ہم گھر نہیں جارہے بلکہ لنچ کرنے جارہے ہیں کچھ دور کی مسافت پر ایک اچھا ریسٹورنٹ ہے میں اکثر وہاں لنچ یا ڈنر کرلیتا ہوں آج اپنی گڑیا کے ساتھ لنچ کرنے کا دل تھا اس لئے لے آیا آپ کو ۔۔۔۔ بھائی یہ تو گڈ ہوگیا میں جب سے شہر آئی ہوں آپ مجھے کہیں گھمانے لیکر بھی نہیں گئے ۔۔۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میری گڑیا بھائی بزی تھے آج سارا دن اپنی شہزادی کے نام لنچ کے بعد شاپنگ پر چلینگے میرا کارڈ خالی کردینا بس خوش ۔۔۔۔ نہیں پھر اسکے بعد ڈنر کر کے ہی گھر جائینگے کیونکہ اتنا تھکنے کے بعد میں کھانا نہیں بنانے والی ۔۔۔۔ شماس شاہ کے کہنے پر حیا نے ہری جھنڈی دیکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے جیسی میری گڑیا کی مرضی اور چلو اترو اب ریسٹورنٹ آگیا ۔۔۔۔ شماس شاہ نے ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی روکتے ہوئے کہا تو حیا اپنا بیگ گاڑی میں چھوڑتی موبائل لیکر باہر نکل گئی اور پھر شماس بھی اپنا بیگ گاڑی میں چھوڑ کر گاڑی لاک کرتا اسکے ساتھ اندر چل دیا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کھاؤگی آڈر کرو ۔۔۔۔ شماس شاہ نے حیا کی طرف مینیو کارڈ بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ بھائی میرے لئے تو چاؤمن منگوالیں باقی اپنے لئے خود آڈر کرلیں ۔۔۔۔ شماس شاہ کے پوچھنے پر حیا نے کہا اور موبائل میں مصروف ہوگئی تو شماس شاہ نے اشارے سے ویٹر کو بلاکر اپنا آڈر لکھوایا ۔۔۔۔

یاسر خان کس چیز کی معذرت کر رہا تھا کیا کیا ہے اسکی بہن نے ؟ ۔۔۔ ویٹر کے جانے کے بعد شماس شاہ نے موبائل میں گم حیا سے پوچھا ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں بھائی بس وہ جھڑپ ہوگئی تھی فاریہ آپی کی رومیسہ سے اور کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ شماس شاہ کے پوچھنے پر حیا نے مختصر سا بتایا ۔۔۔۔۔۔ گڑیا اب آپ اپنے بھائی سے باتیں چھپاؤگی ۔۔۔۔۔ شماس شاہ نے حیا کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ اچھا نہ بتارہی ہوں ایسے کیوں گھور رہے ہیں مجھ معصوم کو ۔۔۔۔۔۔ شماس کو مسلسل خود کو گھورتا دیکھ حیا نے برے برے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بتارہی ہوں لیکن آپ کسی کو نہیں بتائینگے اور نا ہی کبھی ظاہر کرینگے کہ میں نے آپکو کچھ بتایا ہے اور غصہ تو بلکل بھی نہیں ہونگے ۔۔۔۔۔ حیا نے بات شروع کرنے سے پہلے تنبیہہ کرنا ضروری سمجھا ۔۔۔۔۔ میری ماں نہیں کرتا کچھ بھی بتاؤ کیا کیا ہے خان زادی نے ۔۔۔۔۔ شماس شاہ نے حیا کی ساری شرطیں مانتے ہوئے کہا تو حیا نے ساری بات اسکے گوش و گزار کردی ۔۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی میری بہن کا انصاف سن کر اچھی بات ہے میری گڑیا نے بہترین سزا دی ہے ویسے کافی کانفیڈینس آگیا ہے ورنہ تو آنا ہی نہیں چاہتی تھی آپ یونی ۔۔۔۔۔ بس بھائی مت پوچھیں جب یہاں آ ہی گئی تھی تو کانفیڈینس تو ہونا ہی تھا خیر چھوڑیں اس بات کو کھانا کھائیں ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔۔۔ حیا نے شماس کو جواب دینے کے ساتھ اسکی توجہ کھانے طرف کروائی اور پھر دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں ن۔۔ہیں بابا نہ۔۔یں جاؤنگی میں بابا ووووہ عفراء کککو چچھین لینگے بابا وہ عفففراء کو لے۔۔۔۔ جائینگے ۔۔۔۔۔ حضیر کو آنکھیں موندے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ اسے مشی کی دھیمی خوفزدہ سرگوشیاں سنائی دی تو وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔ عائش کوئی نہیں چھین رہا عفراء کو ریلیکس رہیں ۔۔۔۔۔۔ حضیر مشی کو بے ہوشی میں بڑبڑاتا دیکھ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے ریلیکس کرتے ہوئے کہنے لگا جس سے وہ تھوڑی دیر میں ہی دوبارہ نیند میں چلی گئی ۔۔۔۔۔ حضیر کچھ دیر اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتا رہا اور پھر اذان کی آواز سن کر مشی کے سر پر بوسہ دیکر اٹھا اور اپنا کوٹ صوفے پر رکھا اور گھڑی چشمہ اتار کر ڈریسنگ پر رکھا اور شرٹ کے کف فولڈ کرتا باتھروم میں چلا گیا ۔۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد باتھروم سے وآپس آیا تو اسکے چہرے اور ہاتھوں سے پانی ٹپک رہا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ وضو کر کے آیا ہے حضیر نے آئستین صحیح کر کے کف بند کیے اور کبرڈ سے جائے نماز لیکر قبلہ رخ کھڑے ہوکر جائے نماز بچھائی اور تکبیر کہہ کر جائے نماز پر نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد نماز پڑھ کر اس نے دعا کی اور جائے نماز اٹھاکر وآپس کبرڈ میں رکھا اور چلتا ہوا بیڈ کے پاس آیا اور مشی کے سر پو ہاتھ کر کچھ پڑھنے لگا ۔۔۔۔۔ حضیر نے پہلے تھوڑی بلند آواز میں تین دفعہ درودشریف پڑھی پھر سات مرتبہ سورۃ الفاتحہ پڑھیں اور تین تین دفعہ چاروں قل پڑھے ( سورۃالخلاس ، سورۃالفلق ، سورۃالناس ، سوراۃالکٰفرون ) اور چند نظریں بد کی دعائیں پڑھیں اور پھر تین مرتبہ درودشریف پڑھ کر مشی پر دم کیا اور پھر کوٹ پہن کر اپنا سامان اٹھاتا باہر چل دیا کیونکہ اب مشی کو ہوش آرہا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسے دیکھ کر دوبارہ سے اپنی حالت خراب کرلے اس لیے چپ چاپ ایک نظر اسے دیکھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔ بھائی آجائیں لنچ کرلیں آپ بھی میں ابھی آپکو ہی بلانے والی تھی ۔۔۔۔۔ مصباح نے حضیر کو آتا دیکھ سالن کا باؤل ڈائننگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا جبکہ باقی سب پہلے سے وہاں موجود تھے ۔۔۔۔۔ نہیں گڑیا مجھے بھوک نہیں  ہے ۔۔۔۔۔ بھائی اگر آپ ایسا کرینگے تو مشی کو کون سنبھالیگا ہمیں جتنا سنبھالنا تھا آپکی غیر موجودگی میں سنبھال چکے اس لئے اب اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کو خود سنبھالیں اور ایسا کرنے کے لئے آپکو طاقت کی ضرورت پڑیگی اور طاقت حاصل کرنے کے لئے آپکو کھانا کھانا پڑیگا اس لئے جلدی سے آجائے اور لنچ کریں ۔۔۔۔۔ حضیر کے انکار کرنے پر اناب نے کسی بچے کی طرح اسے سمجھاتے ہوئے کہا جبکہ اسکے انداز پر سب مسکرانے لگے اور حضیر نا چاہتے ہوئے بھی مسیب کے برابر والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور اپنی پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی ڈال کر کھانے لگا تو باقی سب بھی خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔

میرا ہوگیا میں چلتا ہوں چاچو میں جارہا ہوں مجھے کچھ کام ہے لیکن آپ مجھے عائش کی طبیعت کے بارے میں آگاہ کرتے رہئیگا اور مسیب تم ان تینوں کو گھر چھوڑ کر تم تینوں بھی ہسپتال جاؤ میں نہیں چاہتا ہم میں سے کسی کو دیکھ کر عائش کی دوبارہ طبیعت خراب ہو اس لئے آپ لوگ کم سے کم عائش کے سامنے آنے کی کوشش کرنا تاکہ عائش کی طبیعت ٹھیک رہے ۔۔۔

حضیر نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اذہان صاحب کو کہنے بعد مسیب سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔ جی ٹھیک ہے بھائی اب بے فکر رہیں ہماری وجہ سے بھابھی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مسیب نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ٹھاہہہہہ ۔۔۔۔ ابھی حضیر کوئی جواب دیتا کہ سب آواز کی طرف متوجہ ہوئے جہاں عفراء نے ہاتھ مار کر پانی کا جگ گرادیا جس سے سارا پانی ٹیبل پر پھیل گیا اور ٹیبل سے نیچے گرنے لگا ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔ ابھی وہ لوگ ہونے والی افتاد سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ عفراء پانی میں ہاتھ مارتی کھلکھلانے لگی ۔۔۔۔ بابا کی جان اتنی شرارتی ہو آپ ابھی لگ جاتی تو میری شہزادی کو ۔۔۔۔۔ حضیر عفراء کو گود میں اٹھاکر پیار کرتے ہوئے کہنے لگا جبکہ عفراء اسکے اٹھاتے ہی بھاں بھاں کرتی رونے لگی ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے بابا کی اینجل کہیں لگی ہے کیا ایسی کیوں رو رہا ہے میرا بچہ ۔۔۔۔ بھائی رہنے دیں اسکا ایسے ہی باجا بجتا ہے جب کوئی اسے پانی میں کھیلنے نہیں دیتا یہ پانی کی دیوانی ہے جہاں پانی ہو وہاں عفراء نہ ہو ناممکن سی بات ہے ۔۔۔۔ حضیر کے پریشانی سے کہنے پر مصباح نے اسے آگاہ کیا ۔۔۔۔ ویسے آپکی دوست بھی پانی کی دیوانی ہے وہ بارش میں نہائے بغیر نہیں رہتی تھی چاہے کتنی تیز سردی کی بارش کیوں نہ ہو اپنی مما کی عادت چرائی ہے عفراء نے ۔۔۔۔ ہاں یہ تو آپ نے صحیح کہا ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اناب نے اسکی تائید کرتے ہوئے کہا جبکہ باتوں کے دوران مصباح ملازمہ سے ٹیبل صاف کرواچکی تھی چونکہ سب کھانا کھا چکے تھے اس لئے مصباح نے ملازمہ کو چائے بنانے کا کہا تو وہ سب اٹھ کر لاؤنچ میں آگئے ۔۔۔۔ چلو بھئی آپ لوگ چائے انجوائے کریں میں کچھ دیر اپنی بیٹی کو کڈنیپ کر کے لیکر جارہا ہوں لیکن عائش کو نہیں بتائیگا کہ میں لیکر گیا ہوں وہ سمجھے گی میں اس سے عفراء کو چھین کر لے گیا اس لئے جیسے ہی وہ ہوش میں آئے مجھے کال کردیجئیگا میں عفراء کو وآپس لے آؤنگا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹا حق ہے تمہارا تمہاری بیٹی ہے میں منع نہیں کرونگا لیکن دیھان رکھنا عفراء کا یہ بہت شرارتی ہے اور اب تو چلنے بھی لگی ہے اس لئے دیھان رکھنا یہ منٹ میں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کو اجازت دینے ساتھ تنبیہہ کی ۔۔۔ بے فکر رہے چاچو میری جان ہے میری بیٹی میں دیھان رکھونگا اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ حضیر نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اور عفراء کو لیکر چلا گیا تو پیچھے وہ سب بھی ملازمہ کی لائے ہوئی چائے سے لطف اندوز ہوکر اپنی اپنی منزل کی طرف چل دیے ۔۔۔ 

................... Bint E Ahmed Shaikh ................

آسلام علیکم کیسی ہے اور کیا کر رہی تھی ۔۔۔ حیا نے نماز سے فارغ ہوکر رومیسہ کو ویڈیو کال کی اور اسکے کال اٹھاتے ہی سلام کرنے کے ساتھ حال احوال پوچھنے لگی ۔۔۔۔ وعلیکم سلام ٹھیک ہو تو بتا کیسی ہے ۔۔۔۔۔ حیا کے پوچھنے پر رومیسہ نے مدھم آواز میں اپنا حال بتا نے کے ساتھ اسکا حال احوال دریافت کیا ۔۔۔۔ کل یونی آرہی ہے نہ تیرے لئے ایک سرپرائز ہے بہت ہی کمال کا اس لئے کل شرافت سے یونی آجانا ۔۔۔ حیا نے رومیسہ کے دھیمے لہجے کو اگنور کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ نہیں حیا اب مجھ میں ہمت نہیں ہے سب کا سامنا کرنے کی ہم مڈل کلاس لوگ ہیں ہمارے پاس ایک عزت ہی ہوتی ہے اور فاریہ جیسے لوگ اپنے غرور میں ہماری عزتِ نفس تک روند کر رکھ دیتے ہیں میں یونیورسٹی چھوڑ رہی ہو میں نہیں آؤنگی یونی ۔۔۔۔ حیا کے کہنے پر رومیسہ ضبط کے باوجود روتی ہوئی کہنے لگی ۔۔۔۔ میری دوست اتنی کمزور تو نہیں تھی اتنی باشعور ہوکر تو اتنی بزدلوں والی باتیں کر رہی ہے اللّٰہ پر بھروسہ رکھو اللّٰہ سب بہتر کریگا جس نے تم پر یہ بہتان لگایا ہے نہ کل وہ ہی سب کے سامنے تمہارے کردار کی گواہی دینے کے ساتھ تم سے معافی مانگے گی اس لئے بے فکر رہو اور چپ چاپ کل یونی آجانا کسی کی وجہ سے خود کو برباد کرنا کہاں کی عقلمندی ہے پاگلوں جیسی باتیں نہیں کر اور خبردار اب اگر روئی تو ذرا سا بھی ایک گلاس دودھ کے ساتھ پین کلر لیکر سوجا صبح انشاءاللہ فریش اٹھے گی بلکہ میرے سامنے لے جلدی سے ۔۔۔۔ یار میں لے لونگی  تو پریشان نہ ہو ۔۔۔۔ حیا کے کہنے پر رومیسہ نے منہ بناتے ہوئے کہا کیونکہ حیا کے سمجھانے پر اسکا دماغ تھوڑا فریش ہوگیا تھا ۔۔۔۔ رومیسہ میں نے کہا چپ چاپ دودھ کا گلاس کچن سے لیکر آؤ اور میرے سامنے پین کلر اور دودھ پیو ۔۔۔۔ رومیسہ کے بہانہ بنانے پر حیا نے دانت پیستے ہوئے کہا تو رومیسہ کو چارو نا چار اٹھنا پڑا ۔۔۔۔ پی لیا میری ماں اب ٹھیک ہے ۔۔۔۔ رومیسہ نے دودھ کا کلاس ختم کرکے حیا کو دیکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ہاں اب ٹھیک ہے اور اب کچھ بھی سوچے بغیر سوجا چپ چاپ اور کل مجھے پہلی والی ہی رومیسہ ملنی چاہئے ورنہ یہ روتی دھوتی رومیسہ کو میں نے خوب مارنا ہے ۔۔۔۔ اچھا میری ماں اب بند کر تاکہ میں سوؤں ۔۔۔۔ اچھا چل ٹھیک ہے سوجا اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ رومیسہ کے کہنے پر حیا نے کہا اور لیپ ٹاپ بند کر کے خود بھی سونے کے لئے لیٹ گئی ۔۔۔۔

....................... Bint E Ahmed Shaikh ..............................

بابا آپ لوگ گئے تھے کیا ہماس انکل کے گھر ؟۔۔۔ اذان نے ڈنر کرتے ہوئے فارس کاردار سے پوچھا جس پر سب انکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا حیا چھوٹی ہے اور ہماس اسکی ابھی شادی نہیں کریگا ہم گئے تھے اور اس نے بھی یہی کہا ہیکہ ابھی اسکا شادی تو دور منگنی کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے اور اسکا کہنا ہیکہ اگر حیا اپنی پسند سے شادی کرنا چاہیگی تو تب بھی وہ انکار نہیں کریگا اس لئے انتظار لاحاصل ہے میں تمہاری اور فریحہ کی جلد از جلد شادی کرنا چاہتا ہوں اور جیساکہ تم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہاں بات نہیں بنی تو میں تمہاری شادی اپنی مرضی سے کرونگا لیکن اگر اب بھی کوئی آپشن ہے تمہارے پاس تو بتاسکتے ہوں ورنہ پھر میں کل ہی سعدیہ آپا کے گھر جاکر تمہارے لئے انعم کا ہاتھ مانگونگا اور مجھے یقین ہے وہ مجھے مایوس نہیں کرینگی اور پھر اسی مہینے کے آخر میں تمہاری اور فریحہ کی شادی طے کردونگا کیونکہ اذہان کے پیپر ہوگئے ہیں آج کل میں ہی وہ بھی آنے والا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں ہر فنکشن میرے لاڈلے کے سامنے ہو ۔۔۔۔ اذان کے پوچھنے پر فارس کاردار نے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا ۔۔۔۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے میں راضی ہو ۔۔۔۔ چلو بھائی یہ تو گڈ ہوگیا اور اب تو اذہان بھی آرہا ہے اور مزہ آئیگا ۔۔۔۔ اذان کے کہنے ازلان نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا بس اب چپ چاپ کھنا کھاؤ بہت باتیں ہوگئیں ۔۔۔۔ فارس کاردار نے سب کو ڈپٹتے ہوئے کہا تو پھر سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔

.............................. Bint E Ahmed Shaikh ...........................

اہتشام شہر کے سب سے اچھے سائیکیٹریسٹ سے کل میری میٹینگ ارینج کرواؤ اور میرے لئے ایک کپ کافی بھیجو ۔۔۔۔ حضیر نے فائلز چیک کرتے ہوئے بنا اہتشام کو دیکھے آڈر دیا ۔۔۔۔۔ اوکے سر ویسے یہ گڑیا کون ہے ۔۔۔۔۔ اہتشام نے عفراء کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ حضیر کے موبائل کا معائینہ کرنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔ ٹھاہہہہہ ۔۔۔۔ ابھی حضیر کوئی جواب دیتا کہ ٹھاہ کی آواز پر سامنے صوفے پر بیٹھی عفراء کو دیکھا جس نے موبائل کو بال کہ طرح دیوار پر دے مارا ۔۔۔۔۔ میرے بچے لگی تو نہیں میری شہزادی اتنا غصہ کیوں آرہا ہے میری جان ۔۔۔۔ حضیر فائلز چھوڑ کر عفراء کے پاس بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا جس نے اسکے بیٹھتے ہی منہ پھیر لیا ۔۔۔۔ جبکہ اہتشام منہ کھولے کبھی حضیر کو تو کبھی ڈیڑھ فٹ کی عفراء کو دیکھ رہا تھا جو اسکا موبائل توڑ کر اب نخرے دیکھا رہی تھی اور حضیر جو اپنی ایک چیز ادھر سے ادھر ہوجانے پر پورے آفس کی شامت لے آتا تھا ابھی اپنے موبائل کے ٹوٹنے بنا کوئی رئیکشن دیے اس ڈیڑھ فٹ کو منانے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو بیٹی ہے میری ۔۔۔۔ حضیر نے اہتشام کو منہ کھولے دیکھ کر اسے گھورتے ہوئے کہا کیونکہ وہ اسکے دماغ میں چلتی ہوئی سوچ پڑھ چکا تھا ۔۔۔۔ ماشاءاللہ سر بہت پیاری ہے شکل کے ساتھ ساتھ غصے میں بھی آپ پر گئی ہے ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ ظاہر سی بات ہے میری بیٹی ہے تو مجھ پر ہی جائیگی ۔۔۔۔۔ اہتشام کی بات پر حضیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جب کہ عفراء ان دونوں کو مصروف دیکھ کر باہر نکل گئی تھی جس سے دونوں ہی بے خبر تھے ۔۔۔۔ سر اب تو آپ کو بچ کر رہنا پڑیگا آپ کے ٹکر کا بھی کوئی آگیا ہے جو آپ سے اپنے نخرے اٹھوائے ۔۔۔۔۔ ہم تو دل و جان سے حاضر ہیں اپنی اینجل کے نخرے اٹھانے کے لئے بلکہ یہ تو ہماری شہزادی کی کرم نوازی ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے نخرے اٹھانے کا شرف بخشے ۔۔۔۔ اہتشام کی تنبیہہ کرنے پر حضیر نے عاجزی سے کہا ۔۔۔۔ اللّٰہ آپ کو ہمیشہ اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ اہتشام نے حضیر کو مسکراتے دیکھ دعا دی اور وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔ عفراء کہاں گئی عفراء میرا بچہ کہاں ہوں ۔۔۔۔ حضیر اہتشام کے جاتے ہی عفراء کو موجود نا پاکر پریشانی سے اسے آوازیں دینے لگا ۔۔۔۔ عفراء بیٹا کہاں ہو آپ آواز دو ۔۔۔۔ عفراء کو آواز نہ دیتا دیکھ حضیر نے اسے ڈھونڈتے ہوئے دوبارہ پکارا ۔۔۔۔ یا اللّٰہ کہاں چلی گئی ۔۔۔۔ پورے آفس میں ڈھونڈنے کے بعد حضیر نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور جلدی سے باہر بھاگا ۔۔۔۔۔ اہتشام عفراء کو دیکھا ہے وہ تمہارے پیچھے تو نہیں نکلی آفس سے ۔۔۔۔ حضیر نے کوریڈور میں کھڑے اہتشام سے پریشانی سے پوچھا جو کہ کسی ورکر سے بات کر رہا تھا ۔۔۔۔ نہیں سر میرے پیچھے تو نہیں آئی ۔۔۔۔۔ اہتشام ڈھونڈو اسے مجھے دس منٹ کے اندر اندر میری بیٹی اپنے پاس چاہئے ورنہ میں کسی کو نہیں بخشونگا ۔۔۔۔۔ اہتشام کے کہنے پر حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا جس سے سب اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔ ریلیکس سر یہی ہونگی ہم سب ڈھونڈتے ہیں آپ یہ پانی پیئے ۔۔۔۔ اہتشام نے حضیر کو ریلیکس کرتے ہوئے صوفے پر بٹھاکر اسے پانی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیسے ہوجاؤ میں ریلیکس میری بیٹی میرے ہی آفس سے غائب ہے وہ صرف ایک سال کی ہے اسے تو صحیح سے تو بولنا بھی نہیں آتا کیسے ہوجاؤ میں ریلیکس ۔۔۔۔ حضیر پانی کے گلاس کو ہاتھ مارتے ہوئے دھاڑا جو کہ گر کر کرچیوں میں تقسیم ہوگیا ۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں پوری بلڈنگ کھنگال لی گئی لیکن عفراء کا نام و نشان نا ملا ۔۔۔۔ یا اللّٰہ میں کیا جواب دونگا عائش کو اے میرے رب میری بیٹی کی حفاظت کرنا ۔۔۔۔ سر کہیں بھی نہیں ہے ہم نے پوری بلڈنگ کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن وہ کہیں نہیں ملی ۔۔۔۔حضیر ابھی دل ہی دل میں اللّٰہ سے عفراء کی سلامتی کی دعا ہی کر رہا تھا کہ گارڈ نے سر جھکاکر اسے مایوسی سے اطلاع دی ۔۔۔۔ ( عفراء پانی کی دیوانی ہے بھائی ) مصباح کی آواز حضیر کے کانوں میں گونجی تو بنا ایک پل کی دیر کیے اوپر کی طرف بھاگا جس پر باقی سب بھی اسکے پیچھے اوپر بھاگے جہاں ایک طرف ریسٹ روم بنا ہوا تھا جو کہ حضیر کے زیرِ استعمال تھا اور ساتھ میں ہی سوئمنگ پول بنا ہوا تھا جس کے کارنر پر کرسیاں اور ٹیبل لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔ حضیر دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر پہنچ تو سامنے ہی عفراء سوئمنگ پول میں پیر لٹکائے اس میں اترنے کی کوشیشوں میں تھی ۔۔۔۔ عفرااااءءءء ۔۔۔۔ حضیر عفراء کو پکارتے ہوئے سوئمنگ پول کی طرف بھاگا جہاں عفراء اسکی آنکھوں کے سامنے گری تھی حضیر فوراً سے سوئمنگ پول میں کودا اور عفراء جو کہ ابھی ڈوبی بھی نہیں تھی اسے باہر نکالتے ہوئے خود میں بھینچا ۔۔۔۔۔ میرا بچہ میری شہزادی میری اینجل میری پری حضیر عفراء کو والہانہ چومتے ہوئے اسے الگ الگ القابات سے پکارنے لگا جبکہ سب حیرات و رشک سے حضیر کو اپنی سے پیار کرتا دیکھ رہے تھے  ۔۔۔۔ دو منٹ کے اندر ایک کپ چائے اور کافی اوپر بھیجو اور دس منٹ کے اندر عفراء کا ڈریس میرے پاس پہنچے ۔۔۔۔ حضیر نے خود پر پڑتی سب کی حیران نظروں کو اگنور کرتے ہوئے اہتشام کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سر پر سنگ کی طرح غائب ہوا اور باقی سب بھی  ہوش میں آتے وآپس اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے جبکہ حضیر عفراء کو لیکر ریسٹ روم میں چلا گیا ۔۔۔۔ میرا بچہ آپ نے تو بابا کو ڈرا ہی دیا تھا میری جان آپ تو بہت شرارتی ہیں چاچو صحیح کہہ رہے تھے اب تو آپ کے پیروں میں بیڑیاں ڈالنے پڑیگی ۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کے گال پر بوسہ دیکر ہنستے ہوئے کہا جس پر عفراء نے فوراً سے برا سا منہ بنایا ۔۔۔۔ چلو شاباش تھوڑی چائے پی لو میری شہزادی سردی لگ جائیگی ۔۔۔۔ حضیر نے چائے کا کپ عفراء کے منہ پر لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آہہہ شہزادی یہ کیا کیا آپ نے آپ کتنی پریشان کرتی ہو مجھے اتنا پریشان کر رہی ہو تو مما کو کتنا پریشان کرتی ہونگی ۔۔۔۔۔ حضیر نے ٹشو سے اپنی شرٹ صاف کرتے ہوئے کہا جس پر عفراء نے کُلّی کردی تھی شاید اسے چائے پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔۔ ابھی حضیر اپنی شرٹ صاف ہی کر رہا تھا کہ عفراء نے اس کی کافی کا مگ اٹھایا اور کافی پینے لگی ۔۔۔۔ عفراء آپ تو مجھے ہر پل حیران کر رہی ہو آپ کو کافی پینی تھی ۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کو حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اسکے مگ سے کافی پینے میں مگن تھی ۔۔۔۔ چلو بس اب آپ کو گھر چھوڑ کر آجاؤ عائش پریشان ہوجائیگی ۔۔۔۔۔ حضیر نے عفراء سے کہا اور اسے گود میں لیتا چل دیا ۔۔۔۔۔

بھیّا میں آجاؤ ۔۔۔۔۔ حیا نے شماس کے کمرے کا دروازہ بجاتے ہوئے آواز لگائی ۔۔۔ آجاؤ میرا بچہ ۔۔۔۔ بھائی مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔ اجازت ملنے پر حیا نے شماس کے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری جان کہو ایسی کیا بات ہے جو میری شہزادی کو پریشان کر رہی ہے جو اتنی رات کو میری کمرے آئی آپ ۔۔۔ شماس نے حیا کو بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا ۔۔۔۔ جی بھائی بس ابھی میں رومیسہ سے بات کر کے سونے کے لئے لیٹی تھی تو میرے دماغ میں خیال آیا جس نے مجھے بے چین کردیا اس لئے میں نے سوچا آپ سے شئیر کروں کیونکہ آپکو  پتہ ہے جب تک میرا مسلئہ حل نہیں ہوگا مجھے نیند نہیں آئیگی ۔۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ہاہاہاہا میرا بچہ بتاؤ کیا بات ہے جو میری شہزادی کو سونے نہیں دے رہی ۔۔۔ حیا کے کہنے پر شماس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ وہ بھائی میں یہ کہہ رہی تھی کہ میری دوست رومیسہ ہے ناں وہ بہت اچھی ہے اسکے بابا طیّب انکل کے ڈرائیور ہیں تو وہ ان کے ساتھ گاؤں میں رہتے ہیں لیکن رومیسہ اور اسکی والدہ رومیسہ کی پڑھائی کی وجہ سے شہر میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ان کے گھر کوئی مرد بھی نہیں ہے وہ دونوں اکیلی ہوتی ہیں تو میں کہہ رہی تھی کیو نہ اپن ان دونوں کو یہاں لے آئیں میرا بھی دل لگ جائیگا اور پھر جب آپ باہر ہوتے ہیں تو میں بھی اکیلی ہوجاتی ہوں اس لئے میں چاہتی ہوں کہ ہم رومیسہ اور انکی والدہ کو یہاں لے آتے ہیں اس سے انکے کرائے کے پیسے بھی بچ جائینگے اور انکو ایک مرد کا سہارا بھی ہوجائیگا اور پھر میرا بھی دل لگ جائیگا ۔۔۔۔ ہہمم تو یہ بات ہے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اگر آپکی دوست اور انکی والدہ کو کوئی پریشانی نہ ہو تو اگر ایسا ہوگا تو اچھا ہوجائیگا مجھے بھی باہر جاتے وقت آپکی ٹینشن نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ تھینگ یو سو مچ بھائی بہت شکریہ  پھر ہم کل یونی سے وآپسی پر اسکے گھر چلینگے ۔۔۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جیسے میری گڑیا کی مرضی اب جاؤ جاکر سوجاؤ سکون سے میری شہزادی صبح یونی بھی جانا ہے ۔۔۔۔ شماس نے حیا کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ اوکے بھائی اللّٰہ حافظ شب بخیر ۔۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے بھی اسکے سر پر پیار کیا اور اپنے کمرے میں بھاگ گئی ۔۔۔

................................. Bint E Ahmed Shaikh .........................

فاریہ کیا ہوا ہے تو اتنی پریشان کیوں ہے ؟ ۔۔ انعم نے فاریہ سے پوچھا جو کہ ابھی یونی آئی تھی فاریہ کو پریشان دیکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔ ہیلو گرلز کیا ہورہا تھا ۔۔۔۔ فاریہ انعم کی بات کا ابھی کوئی جواب دیتی کہ فریحہ جو ابھی یونی آئی تھی ان کے پاس آکر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہورہا لیکن میرا دم ضرور نکل رہا ہے ۔۔۔۔۔ فریحہ کے پوچھنے پر فاریہ نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا ہوگیا ہے تجھے کس بات کا غصہ آرہا ہے صبح صبح ۔۔۔۔۔ فاریہ کے غصے سے کہنے پر فریحہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ تم دونوں کو نہیں پتہ اس شاہ زادی نے میری زندگی خراب کی ہوئی ہے کہہ رہی ہے سب کے سامنے اس سو کالڈ رومیسہ سے معافی مانگو قسم سے حد ہوگئی اب یہ دن آگئے کہ میں یعنی فاریہ خان اس مڈل کلاس رومیسہ سے معافی مانگو وہ بھی سب کے سامنے جو کہ ہمارے ہی پیسے پر پلتی ہے ۔۔۔۔۔ اور تم ایسا کیوں کروگی ۔۔۔ فاریہ کی بات سن کر اب تک خاموش بیٹھی انعم نے پوچھا جس پر فاریہ نے اسے کل ہوئی ساری داستان بتادی ۔۔۔۔ تو تم نے کیا غلط کہا صحیح تو کہا ہے تو تم کیوں معافی مانگنے لگی اس سے ۔۔۔۔ ساری بات سننے کے بعد فریحہ نے کہا ۔۔۔۔ اس نے مجھے دھمکی دی ہیکہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو وہ گاؤں میں ہر مجرم کی طرح بیچ چوراہے پر اسّی کوڑے لگوائے گی ۔۔۔۔ کچھ نہ کچھ کرنا پڑیگا اس شاہ زادی کا ۔۔۔۔۔ فاریہ کی بات سننے کے بعد انعم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا مطلب کیا کرینگے اگر شاہ زادے کو پتہ لگ گیا نہ تو زندہ زمین میں گاڑھ دینگے تینوں کو ۔۔۔۔۔ انعم کی بات سن کر فاریہ نے یاسر کی باتوں کے زیرِ اثر ڈرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا تم پریشان نہ ہو اب دیکھ میں کیا کرتی ہو تو پریشان نہ ہو بس سب مجھ پر چھوڑدو ۔۔۔۔ انعم نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ دونوں کو تسلی دی ۔۔۔۔ اچھا چھوڑو ان باتوں کو میں تمہیں ایک گڈ نیوز سناتی ہوں ۔۔۔۔ فریحہ نے دونوں کو دیکھتے ہوئے پراسرار مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔ چل بھئی تو بھی بتا کیا گڈ نیوز ہے ۔۔۔۔ آج مما بابا اذان بھائی کا رشتہ انعم کے لئے لیکر جائینگے اور آج ہی بات پکی کر کے آئینگی اور پھر اذہان بھی آرہا ہے اس لئے اس مہینے کے آخر میں اذان بھائی کے ساتھ میری بھی شادی ہے ۔۔۔۔ انعم کے بیزاری سے پوچھنے پر فریحہ نے آرام سے ان کے سروں پر بم پھوڑا ۔۔۔۔ کیا لیکن انعم تو اذہان سے شادی کرنا چاہتی ہے تو پھر یہ اذان بھائی کہاں سے بیچ میں آگئے ۔۔۔۔ فریحہ کے کہنے پر فاریہ نے پریشانی سے کہا ۔۔۔۔ دیکھ انعم میری بات سن اذہان کی ابھی شادی نہیں ہوگی کیونکہ اسکی ابھی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی اور اگر اسے کوئی پسند ہوگی تو بابا اور مما بھی کوئی اعتراض نہیں کرینگے اذہان اپنی مرضی کا مالک ہے وہ وہی کرتا ہے جو اسکا دل چاہتا ہے میری بات مان اذان بھائی سے شادی کرلے تو گھر کی بڑی بھابھی بن جائیگی اور پھر ہم دونوں مما کو اپنی طرف کر کے اپنی مرضی سے ازلان اور اذہان کی شادی کروادینگے اور تو بڑی بھابھی ہوگی تو سب پر اپنا حکم چلانا اور اذہان تو تجھ سے چھوٹا بھی ہے اس لئے اذان بھائی سے شادی کرلے اس میں اپن دونوں کا فائدہ ہی فائدہ ہے ۔۔۔۔۔ فاریہ کے کہنے پر فریحہ نے اسے سمجھایا ۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے اب ایسا ہی ہوگا تو بے فکر رہ اور اب چلو اپنا کام بھی سر انجام دینا ہے ۔۔۔۔۔ انعم نے فریحہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تو وہ تینوں بھی کلاس کی طرف چل دی ۔۔۔۔۔

............................... Bint E Ahmed Shaikh ...............................

ایکسکیوزمی ذرا بات سننا ۔۔۔۔ انعم نے پاس سے گزرتی لڑکی کو آواز دی ۔۔۔ جی کہیں ۔۔۔۔ وہ لڑکی انعم کے پاس جاکر پوچھنے لگی ۔۔۔ وہ جو سامنے لڑکی ہے نہ آپ اس پر کسی طرح جوس گرادیں ۔۔۔۔ اس لڑکی کے پوچھنے پر انعم نے ڈائیریکٹ مدعے کہ بات کی ۔۔۔۔ اور ایسا کر کے مجھے کیا ملے گا ۔۔۔۔ انعم کی بات پر اس لڑکی نے آئیبرو اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جو تم چاہو ۔۔۔ ٹھیک ہے پھر وقت آنے پر بتاؤنگی میں آپ کو ۔۔۔۔ انعم کے کہنے پر اس لڑکی نے چلاکی سے کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ہو جائیگا کام ۔۔۔۔ اوکے اب جاؤ ہم سب یہیں کھڑے ہیں تم جاؤ ۔۔۔۔ اوکے ۔۔۔ انعم کے کہنے پر وہ لڑکی سر اثبات میں ہلاتی کینٹین کے اندر بیٹھی حیا کہ طرف چلی گئی ۔۔۔۔ اس لڑکی نے پہلے کینٹین سے جوس خریدا اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی حیا کی ٹیبل کے قریب آئی اور جان کر کے لڑکھڑاکر اپنے ہاتھ میں پکڑا جوس حیا کے حجاب پر گرادیا ۔۔۔۔ اوہ سوری سو سوری غلطی سے ہوگیا ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اس لڑکی کی نوٹنکی کو نا سمجھتے ہوئے حیا نے سادگی سے کہا اور اپنا سامان اٹھاتی وہاں سے واشروم کی طرف چل دی ۔۔۔۔ حیا ابھی واشروم میں انٹر ہی ہوئی تھی کہ انعم جو کہ اسکے پیچھے ہی آرہی تھی حیا کے واشروم میں انٹر ہوتے ہی باہر سے دروازہ لاک کردیا ۔۔۔۔ حیا نے واشروم میں انٹر ہوتے ہی جلدی سے اپنا اسکاف پانی سے صاف کیا اور دوبارہ صحیح سے اسکارف باندھتی اپنا سامان اٹھاکر باہر جانے کے لئے دروازہ کھولنے لگی ۔۔۔۔ یہ کھل کیوں نہیں رہا یا اللّٰہ یہ کیا ہوگیا ۔۔۔۔ حیا خود سے بڑبڑاتی دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سود ۔۔۔۔ یا اللّٰہ میں تو  بھول ہی گئی موبائل تو میرے پاس ہی ہے ۔۔۔۔ حیا نے خود سے کہا اور بیگ سے موبائل نکال کر ایک ہاتھ سے رومیسہ کو کال کرنے لگی جبکہ دوسرے ہاتھ سے مسلسل دروازہ بجارہی تھی ۔۔۔۔ رومیسہ یار پِک اَپ دا کال ۔۔۔ حیا تیسری دفعہ رومیسہ کا نمبر ڈائل کرتی خود سے کہنے لگی ۔۔۔۔ یا اللّٰہ رومیسہ تو لائیبریری میں ہے کس کو کال کروں ۔۔۔۔ حیا یاد آنے پر اپنے سر پر ہاتھ مارتی ہوئی بڑبڑانے لگی ۔۔۔۔ ہاں بھائی کو کال کرتی ہوں ۔۔۔۔ حیا نے شماس کا نمبر ڈائل کر کے موبائل کان سے لگایا جبکہ دوسرے ہاتھ سے دوبارہ دروازہ بجانے لگی ۔۔۔۔ ابھی وہ دروازہ بجا ہی رہی تھی کہ ایک دم سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔ حیا نے دروازہ کھلنے پر سامنے دیکھا تو فاریہ کا بھائی یاسر کھڑا تھا ۔۔۔۔ جزاک اللّٰہ ۔۔۔۔ حیا نے ایک سے دوسری نظر ڈالے بغیر یاسر سے کہا اور وہاں سے بھاگتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔

................................ Bint E Ahmed Shaikh ..............................

سعدیہ آپا آپ میری بہن ہو امی ابو اور بھائی صاحب کے جانے کے بعد میرے پاس صرف آپ رہ گئی اس بھری دنیا میں اور آپ نے مجھے بہت محبت دی میں آپکی محبت کا قرض نہیں اتارسکتا لیکن میں آج آپکی بڑی بیٹی انعم کو اپنے اذان کے لئے مانگنے آیا ہوں کیا آپ مجھے اس قابل سمجھتی ہیکہ آپکی بیٹی میری بڑی بہو کے رتبے پر فائز ہو ۔۔۔۔ فارس کاردار سعدیہ بیگم کے سامنے بیٹھے عاجزی سے کہنے لگے ۔۔۔۔ میرے بھائی تو تو میری جان ہے تو بھی میرا اس فانی دنیا میں واحد سہارا ہے تو نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میری بیٹی تو خوش نصیب ہے جو تیری بہو بنے گی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میں ایک دفعہ انعم سے پوچھنا چاہونگی ۔۔۔۔ فارس کاردار کے عاجزی سے کہنے پر سعدیہ بیگم نے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔ آپا بلکل آپ ضرور انعم سے پوچھیں لیکن میں چاہتا ہوں اسی ماہ اذان کی اور فریحہ کی شادی کردوں کیونکہ اذہان کی چھٹیاں ہے تو وہ انشاءاللّہ کل آرہا ہے ایک مہینے کے لئے اس لئے میں چاہتا ہو  اس ماہ کے آخر میں ہی اذہان کی موجودگی میں شادی ہوجائے تو میرا شہزادہ بھی شادی سکون سے اٹینڈ کرلیگا ۔۔۔۔ لیکن اتنی جلدی تیاری کیسی ہوگی فارس ۔۔۔۔ فارس کاردار کے کہنے پر سعدیہ آپا نے پریشانی سے کہا ۔۔۔ آپا آپ کا بھائی زندہ ہے آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے سارے انتظامات میں دیکھ لونگا بس آپ انعم سے ہوچھ کر شادی کے لئے ہاں کردیں ۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی بس میں ایک دفعہ انعم سے پوچھ لوں مجھے یقین ہے میری بیٹی انکار نہیں کریگی جاؤ مستبشرہ انعم کو بلاکر لاؤ ۔۔۔۔ سعدیہ بیگم نے فارس کاردار کو جواب دینے کے ساتھ مستبشرہ سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتی چلی گئی ۔۔۔۔ اسلام علیکم  ۔۔۔۔۔ انعم نے مستبشرہ کے ساتھ لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا اور سعدیہ بیگم کے پاس جاکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ انعم میری جان آپکے فارس ماموں اذان کے لئے آپکا رشتہ لیکر آئے ہیں مجھے تو اس رشتے میں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ کیا کہتی کو کوئی زبردستی نہیں ہے جو آپ کہوگی وہی ہوگا ۔۔۔۔ سعدیہ بیگم نے نرم لہجے میں انعم سے پوچھا ۔۔۔۔ امی جیسے آپ لوگوں کی مرضی مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔ چلو بھئی مستبشرہ بیٹا مٹھائی لے آؤ پھر اس مہینے کی پچیس تاریخ کو ہم آپکے ہاں بارات لیکر آئینگے ۔۔۔۔ انعم کے ہاں کرتے ہی فارس کاردار نے مستبشرہ کو مٹھائی لانے کا کہنے کے ساتھ سعدیہ بیگم سے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلا گئی اور پھر کچھ دیر میں شادی کے معاملات طے کر کے وہ اپنے گھر کو روانہ ہوگئے ۔۔۔۔۔

..................................... Bint E Ahmed Shaikh .........................

مشی کچھ کھالے کب سے بھوکی ہے میری جان ۔۔۔۔ مصباح نے مشی سے کہا جو کہ ابھی نماز پڑھ کر اٹھی تھی ۔۔۔۔ مصباح مجھے بھوک نہیں ہے میری عفراء کہاں ہے اس نے کچھ کھایا ۔۔۔۔ مشی نے مصباح کو انکار کرنے کے ساتھ عفراء کا پوچھا ۔۔۔۔ ہاں وہ اذہان انکل کے پاس ہے میں نے کھانا کھلادیا تھا ۔۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر مصباح نے جھوٹ کہا کیونکہ ابھی تک حضیر عفراء کو چھوڑ کر نہیں گیا تھا ۔۔۔۔ چل میں بابا کے کمرے میں جارہی ہوں عفراء کے پاس تو میرے لئے وہی کھانا لے آ تھوڑا سا ۔۔۔۔ مشی نے مصباح سے کہا اور اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل گئی ۔۔۔۔ یا اللّٰہ رحم اب کیا ہوگا عفراء تو ابھی تک آئی نہیں ۔۔۔۔ مشی کے روم سے نکلتے ہی مصباح خود سے بڑبڑاتی ہوئی باہر بھاگی ۔۔۔۔یہ لے مشی تو عفراء کو ہی لینے آرہی تھی نہ ۔۔۔۔۔ اناب نے مشی کو اذہان صاحب کے کمرے کی طرف جاتے دیکھ عفراء کو اسکی  گود میں دیتے ہوئے کہا جسے حضیر ابھی ابھی چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔۔ میری جان مما کی شہزادی کہاں تھی آپ اور یہ کپڑے آپ کو کس نے پہنائے یہ تو آپ کے نہیں ہیں ۔۔۔۔ مشی نے عفراء کو گود میں لیتے پیار کرتے ہوئے اسکے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ووہ مشی میں لیکر آئی تھی یہ سوٹ عفراء کے لیے اور پھر اس نے پانی میں کپڑے گیلے کرلیے تھے اس لئے میں نے یہ ڈریس پہنا دیا ۔۔۔۔ مشی کے تفتیش کرنے پر اناب نے جلدی سے بہانہ گھڑا ۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے ویسے ڈریس تو بہت پیارا لگ رہا ہے اب تو جلدی سے دودھ اور کیلا مجھے لا کر دے میں عفراء کو کھلاؤ ۔۔۔۔ مشی نے اناب سے کہا تو وہ سر ہلاتی چلی گئی جبکہ مصباح پہلے ہی مشی کے لئے کھانا لینے جاچکی تھی اور پیچھے مشی عفراء کے ساتھ لاؤنچ میں بیٹھی کھیلنے لگی ۔۔۔۔۔۔

صاحب آپ کو بڑے صاحب کھانے کی ٹیبل پر بلارہے ہیں ۔۔۔

ملازم نے حضیر کو اذان صاحب کا پیغام دیا ۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جاؤ میں آتا ہوں ۔۔۔ حضیر نے ملازم سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتا چلا گیا تو حضیر بھی اپنا لیپ ٹاپ بند کر کے نیچے کی طرف چل دیا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر نے ڈائننگ ٹیبل پر سب کو سلام کیا اور چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ حضیر بیٹا ہم سے بھی ناراض ہو کیا ہم نے کچھ نہیں کہا تھا مشکات کو ۔۔۔ حضیر کے بیٹھتے ہی انعم بیگم نے کہا ۔۔۔ نہیں میں کسی سے ناراض نہیں ہوں آپ لوگ بے فکر رہے اور رہی عائش اور عفراء کی بات تو وہ میری بیوی  اور میری بیٹی ہے میں انہیں خود دیکھ لونگا ۔۔۔ حضیر نے سب بڑوں کے سروں پر آرام سے بم پھوڑا ۔۔۔

کیا مطلب عفراء کون ہے کیا تمہاری کوئی بیٹی بھی ہے ؟ حضیر کے کہنے پر اذان صاحب نے حیرانگی و پریشانی سے پوچھا ۔۔۔ جی ماشاءاللّٰہ سے ایک سال کی بیٹی ہے میری عفراء خُزیمہ حضیر کاردار ۔۔۔۔ حضیر نے اذان صاحب کی اڑتی ہوئی رنگت دیکھتے ہوئے بریانی کا چمچ منہ میں رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

پتہ نہیں کون ہے کس کی بیٹی ہے جس کو تمہاری بیٹی بنادیا اس کمبخت ماری نے اور تو نے خوشی خوشی قبول بھی کرلیا میں تو کوئی نہ مانو اگر بیٹا ہوتا تو چل ٹھیک تھا لیکن بیٹی ناجانے کس ک۔۔۔۔۔۔ 

انففففف ۔۔۔۔۔ فریدہ بیگم ابھی مشکات کے بارے میں زہر اُگل ہی رہی تھی کہ حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا اور پانی کا جگ ہاتھ مارکر گرادیا جو کہ گرنے کی وجہ سے کرچی کرچی ہوگیا جبکہ سب حضیر کی دھاڑ سے اپنی جگہ ہل کر رہ گئے ۔۔۔۔۔ 

خبردار اگر کسی نے بھی میری بیوی اور بیٹی کے بارے میں ایک لفظِ غلط بھی اپنے منہ سے نکالا یقین جانے دادو یہ بکواس کرنے والی آپ تھی اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں ابھی اور اسی وقت اسی محل میں اس شخص کی قبر بنادیتا لیکن آپ اس خوش فہمی میں نہیں رہنا کہ مجھ پر آپکی باتیں اثرانداز ہورہی ہیں بلکل بھی نہیں پتہ ہے کیوں ؟ کیونکہ اپنی بیوی کی پاکیزگی اور کردار کی میں گواہی دیتا ہوں اور مجھے اپنی بیوی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ ہے اور اسکے علاؤہ کون کیا کہتا  مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پھر بھی میں کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میری عائش اور میری عفراء کے بارے میں کوئی غلط بات کرے اس لئے برائے مہربانی آئیندہ اپنی زبانوں کو سب قابو میں رکھیں ورنہ اگر میں بے قابو ہوا تو یقین کریں آپ سب مل کر بھی مجھے سنبھال نہیں پائینگے ۔۔۔۔۔۔۔

حضیر نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا جبکہ اسکی پیشانی کی ابھری ہوئی رگیں اور بھینچی ہوئی مٹھیاں اسکے ضبط کی گواہی دے رہی تھی ۔۔

کام ڈاؤن حضیر کوئی کچھ نہیں کہہ رہا غصہ ختم کرو اور بیٹھ کر کھانا کھاؤ ۔۔۔۔ اذان صاحب نے حضیر کو پچکارتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بھر گیا میرا پیٹ آپ لوگوں کی باتوں سے بہت شکریہ ۔۔۔۔ اذان صاحب کے کہنے پر حضیر نے سرد لہجے میں کہا اور کرسی کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا تن فن کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور کمرے کا دروازہ اتنی زور سے بند کیا کہ کاردار مینشن کی درودیوار اور اسکے مکین ہل کر رہ گئے ۔۔۔۔

............................... BINT E AHMED SHAIKH ..........................

ہاں بولو اہتشام کام ہوا یا نہیں ۔۔۔۔ حضیر نے اہتشام کی کل پک کرتے ہی بنا سلام کیے کام کی بات کی ۔۔۔۔ سر انکا نمبر وغیرہ سب لے لیا ہے لیکن وہ کہہ رہی ہیں کہ وہ ابھی ملک سے باہر ہیں اس لئے اگر کوئی کام ہے تو آپ ابھی آن لائن میٹینگ کرلیں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم مجھے نمبر وغیرہ سینڈ کرو میں ابھی کال کرلیتا ہوں ۔۔۔ اہتشام کے کہنے پر حضیر نے اسے ہدایت دی اور فون کال کاٹ کر آجکی اپنی اور عفراء کی تصویریں دیکھنے لگا جو اس نے آج لی تھی ۔۔۔

ٹرن ۔۔۔ ابھی وہ تصاویر ہی دیکھ رہا تھا کہ اسکے موبائل کی میسج ٹون بجی تو حضیر نے انبکس کھول کر چیک کیا تو اہتشام کا میسج تھا جس میں اس نے سائکیٹرسٹ کا نمبر وغیرہ بھیجا تھا ۔۔۔۔ حضیر نے بنا ایک پل کی دیر کیے کال ملائی ۔۔۔۔ 

اسلام علیکم حضیر کاردار اسپیکنگ ۔۔۔۔ کام کے اٹھاتے ہی حضیر نے جلدی سے کہا ۔۔۔۔ وعلیکم سلام جی کہیں آپ کو مجھ سے کیا کام ہے آپ کے سیکیٹری نے مجھ سے بات کی تھی مگر ایم سو سوری میں اپنے ہسبینڈ کے ساتھ آؤٹ اوف کنٹری ہوں اس لئے آپ سے مل نہیں سکی لیکن آپ مجھے اپنا مسلئہ بتاسکتے ہیں ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں سس دراصل میری وائف کے ساتھ کچھ حادثات پیش آئے ہیں میری غیر موجودگی میں جن سے میں بھی بے خبر ہوں لیکن ان حادثات کی وجہ سے میری وائف کو مائنر اٹیک بھی ہوچکا ہے اور وہ تین مہینے کومہ میں بھی رہی تھی ابھی وہ اپنے بابا کے گھر ہے لیکن میں جب انہیں لینے گیا تو وہ مجھ سے بھی خوفزدہ ہوگئی اور وہ سمجھنے لگی کہ میں اسے ماردونگا اور اپنی بیٹی اس سے چھین لونگا حالانکہ جب میں باہر گیا تھا تو سب صحیح تھا ہمارے بیچ نہ کوئی لڑائی نا جھگڑا نا ناراضگی کچھ نہیں تھا لیکن وہ مجھے یا میرے گھر کے کسی بھی فرد کو دیکھ کر اس قدر خوفزدہ ہوجاتی ہیکہ وہ اپنے حواس میں نہیں رہتی الٹی سیدھی باتیں کرتی ہے خود کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کرتی ہے اور پھر کچھ دیر بعد بے ہوش ہوجاتی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کرو وہ تو میری شکل دیکھ کر ہی اتنی خوفزدہ ہے تو میں اسے کیسے گھر لیکر آؤ میری ایک بیٹی بھی ہے ایک سال کی اور میں دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کے کہنے پر حضیر نے مشکات کی ساری کنڈیشن اسے بتائی اور ساتھ میں اپنی بے بسی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھیں مسڑ کاردار معذرت کے ساتھ شاید آپکو میری بات بُری لگے لیکن ایز آ ڈاکٹر میں سب سے پہلے آپ کو آپ کی لاپرواہی بتانا چاہونگی بقول آپ کے جب آپ انہیں چھوڑ کر گئے تھے تب تک سب ٹھیک تھا یعنی آپکے پیچھے سے آپ کے گھر والوں کا سلوک آپکی وائف کے ساتھ بہت ہی زیادہ برا رہا ہے جسکی وجہ سے آپکی وائف آپکے گھر والوں سے خوفزدہ ہوتی ہے اور جیساکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ کہتی ہیکہ آپ یا آپکے گھر والے انہیں ماردینگے تو آئی ہوپ کہ آپکے گھر والوں نے انہیں ذہنی ٹارچر کرنے کے ساتھ جسمانی ٹارچر بھی کیا ہو جسکی وجہ سے وہ سب سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں لیکن ان سب میں آپکا اپنا کردار کہاں ہے کیا کبھی جب آپ ان سے بات کرتے تھے تو کیا آپ نے ان کے لہجے میں ڈر خوف یا ایسی کوئی چیز محسوس نہیں کی ؟ 

نہیں میری ان دو سالوں میں اپنی وائف سے بات نہیں ہوسکی کبھی میں بزی ہوتا تو کبھی وہ اس لئے کبھی بات نہیں ہوسکی ہماری ۔۔۔۔۔ ڈکٹر کے پوچھنے پر حضیر نے شرمندگی سے کہا ۔۔۔۔۔ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ اپنی وائف کے بغیر نہیں رہ سکتے تو کیسے آپ نے اپنی وائف سے بنا بات کیے دو سال گزار دیے یہ آپکی لاپرواہی آپکی وائف کو آپکی طرف سے بدظن اور خوفزدہ کرچکی ہے جب آپ نے انکی کوئی خیر خبر نہیں لی تو آپکی وائف کے ذہن میں بھی یہی بات بیٹھ گئی کہ آپ بھی سب کی طرح ہیں اور جب آپ انہیں لینے گئے تو انکے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہوگی کہ آپ گھر لے جاکر اسی طرح لاپرواہ ہو جائینگے اور آپکے گھر والے انکے ساتھ پہلے جیسا ہی سلوک کرینگے اور یہ سب سوچیں جب انکے دماغ پر حاوی ہوجاتی ہیں تو وہ اپنے ہواس میں نہیں رہتی اور چونکہ وہ تین مہینے کومہ میں رہ چکی ہے اسکی وجہ سے انکے دماغ کی وینز ویک ہے اور وہ ڈپریشن برداشت نہیں کرپاتی اسی لئے وہ بے ہوش ہوجاتی ہیں لیکن جب وہ اٹھتی ہیں تو بہتر ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی بلکل ایسا ہی ہے مجھے بھی ابھی اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے اگر میں دو سال اپنی وائف سے غافل نہیں رہتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے لیکن اب میں کیا کروں ؟ مجھ سے اسکی ایسی حالت دیکھی نہیں جاتی ۔۔۔۔۔۔۔

حضیر نے شرمندگی سے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے بے بسی سے کہا ۔۔۔۔۔۔

دیکھیں اگر آپ انکو صحیح کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو انکا اعتماد جیتنا ہوگا یعنی آپکو انکے آس پاس رہ کر انہیں احساس دلانا ہوگا کہ آپ ان سے انکی بیٹی نہیں چھینے گے جسکے لئے آپ کو انکے آس پاس رہنا ہوگا لیکن اجنبی بن کر ہوسکتا ہے شروع میں انکی کنڈیشن وہی رہیگی لیکن پھر آہستہ آہستہ جب انہیں اس بات کا یقین ہوجائیگا کہ آپ ان سے انکی بیٹی الگ نہیں کرینگے تو وہ أپ سے خوفزدہ نہیں ہونگی اور آپ کو دیکھ کر اپنے ہواس قابو میں رکھیں گی اور بے ہوش بھی نہیں ہونگی اور پھر اسکے بعد آپ آہستہ آہستہ اپنے اور انکے درمیان اجنبیت کی دیوار ختم کردیجئگا اور ان سب چیزوں کے دوران آپکو انکی ڈائیٹ کا پورا خیال رکھنا پڑیگا اور انہیں ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھنا ہوگا اور جب وہ آپ پر یقین کرنے لگ جائینگی تو آپ انکو اپنے ساتھ رہنے پر راضی کرلینا اور پھر جب وہ آپ سے ڈرنے چھوڑدیں تو آپ ان سے ہر بات جان کر انکا ہر خوف ختم دینا ۔۔۔۔ میں نے جو یہ چیزیں بتائی ہیں یہ کرنے میں آسان نہیں ہے لیکن آپ کو ہمت نہیں ہارنی آپکی وائف کو دوائیوں کی نہیں بلکہ آپکے وقت توجہ اور محبت کی ضرورت ہے یہ تین چیزیں ہی میڈیسن کی طرح کام کرینگی اس لئے آپ میری ہدایت پر عمل کر کے دیکھیں انشاءاللّہ سب بہتر ہوگا اور اگر پھر بھی کوئی مسلئہ ہو تو آپ مجھ سے ڈسکس کرلیجئیگا ۔۔۔۔۔۔۔

تھینک یو سو مچ ڈاکٹر انشاءاللّہ میں اپنا بیسٹ دینے کی کوشش کرونگا ۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کے کہنے پر حضیر نے تشکرانہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔ دیکھیں مسڑ حضیر ہر عورت دولت کی بھوکی نہیں ہوتی بلکہ ایک اچھی عورت کو دولت سے زیادہ اپنے ہسبینڈ کے وقت اسکی توجہ اور اسکی محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر خواتین ان چیزوں کے نا ملنے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے اس لئے زیادہ تر نفسیات کا مسلئہ عورتوں کے ساتھ ہی پیش آتا ہے اور جس عورت کو یہ چیزیں اپنے ہسبینڈ کی طرف سے ملتی ہے تو وہ ہر چیز سکون سے سہہ جاری ہے اور آپکی وائف کے ساتھ بھی یہی مسلئہ ہے انہیں آپکی توجہ وقت اور محبت کی ضرورت ہے آپ انہیں یہ چیزیں دیکر دیکھیں انشاءاللّہ وہ بلکل ٹھیک ہو جائینگی خیر اب میرے ہسبینڈ آگئے ہیں اللّٰہ حافظ ۔۔۔ اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔ ڈاکٹر کے کہنے پر حضیر نے بھی اللّٰہ حافظ کہہ کر لیپ ٹاپ بند کردیا جبکہ ابھی بھی ڈاکٹر کی باتیں اسکے ذہن میں گردش کر رہی تھی اور اسے اپنی لاپرواہی پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ وہ کیسے اتنا غافل ہوگیا اپنی عائش سے کہ اسے یہ تک معلوم نا ہوسکا کہ وہ باپ کے عہدے پر فائز ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔

حضیر بیٹا میں آجاؤ ۔۔۔۔۔ حضیر اپنی سوچوں میں ہی گم تھا کہ اذان صاحب کی آواز سے ہوش کی دنیا میں لوٹا ۔۔۔۔۔ جی آجائیں ۔۔۔۔ حضیر کے اجازت دینے پر اذان صاحب روم میں داخل ہوتے اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئے ۔۔۔ 

جی کہیں کیا بات ہے ۔۔۔۔ اذان صاحب کو خاموش بیٹھے دیکھ کر حضیر نے اسپاٹ لہجے میں کہا ۔۔۔۔ حضیر تمہارے آنے کی خوشی میں کل میں نے گرینڈ پارٹی رکھی ہے اس لئے تم جسکو انوائیٹ کرنا چاہو تو کرلینا ۔۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر اذان صاحب نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔ 

اذان صاحب کے کہنے پر حضیر نے مختصر سا جواب دیا ۔۔۔۔ اور مجھے یہ کہنا تھا کہ ردابہ اور مبّراء جوب کرنا چاہتی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ وہ تمہارے آفس میں جوب کرلیں تاکہ انہیں ایکسپیرئینس ہوجائے پھر اسکے بعد وہ خود اپنے بابا کا بزنس سنبھال لینگی ۔۔۔۔ اذان صاحب اپنی بات کہہ کر حضیر کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔ میرے خیال سے گھر میں فاقے تو نہیں ہورہے یا گھر کے مردوں نے چوڑیاں تو نہیں پہن رکھی جو ان دونوں کو جوب کرنے کی ضرورت پڑی ہے خیر میرے بولنے کا حق نہیں بنتا اس لئے آپ پرسوں ان دونوں کو آفس بھیج دیجئیگا میں خود دیکھ لونگا ۔۔۔۔ اذان صاحب کی بات پر حضیر نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے طنزیہ کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے پرسو آجائینگی وہ اب سوجاؤ بہت رات ہوگئی ہے میں چلتا ہوں ۔۔۔۔ اذان صاحب نے حضیر کے طنز کو اگنور کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے تو پیچھے حضیر بھی سونے کے لئے لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

کہاں چلی گئی تھی تم میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں تجھے میں دو منٹ لائیبریری کیا گئی تو پتہ نہیں کہاں غائب ہوگئی ۔۔۔۔ رومیسہ نے حیا کو کینٹین کی طرف آتے دیکھ گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

یار مت پوچھ کیا ہوا ہے میرے ساتھ مجھے تو لگتا ہے کسی کی شرارت ہے ۔۔۔۔ حیا نے ٹیبل پر اپنا سامان رکھتے ہوئے پھولتے ہوئے سانس سے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ کیا ہوا ہے بھوک بھی ۔۔۔۔ حیا کی بات سن کر رومیسہ نے بیزارگی سے پوچھا ۔۔۔ 

میں تیرا کینٹین میں انتظار کر رہی تھی کہ ایک لڑکی نے میرے اوپر جوس گرادیا تو میں واشروم چلی گئی تاکہ اپنا اسکارف واش کرسکوں لیکن میں جیسے ہی واشروم میں انٹر ہوئی کسی نے دروازہ باہر سے بند کردیا اور پھر میں نے جب اسکارف واش کر کے دروازے کھولنے کی کوشش کی تو وہ کھلا ہی نہیں تو میں دروازہ بجانے لگی اور پھر مجھے یاد آیا کہ میرے پاس ایک عدد موبائل بھی ہے پھر میں نے موبائل نکال کر تجھے اتنی ساری کالز کی اور پھر کالز کرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ تو لائیبریری میں ہے تو موبائل سائلینٹ پر ہوگا پھر میں نے بھائی کو کال کی لیکن ان کے کال اٹھانے سے پہلے ہی فاریہ کے بھائی یاسر خان نے دروازہ کھول دیا اور آئی ڈونٹ نو کہ وہ کہاں سے آئے ۔۔۔۔ رومیسہ کے پوچھنے پر حیا نے ساری تفصیل اسکے گوش و گزار کردی ۔۔۔۔

چل کوئی نہیں تو یہ بتا کیا سرپرائز ہے کل تو تو بڑے سرپرائز کی بات کر رہی تھی ۔۔۔۔ رومیسہ نے منہ بسورتے ہوئے حیا سے کہا ۔۔۔۔ آگیا تیرا سرپرائز بھی جانی بس بے فکر رہ ۔۔۔ حیا نے سامنے سے ایک دوسرے سے باتیں کرتی آتی انعم فریحہ اور فاریہ کو آتے دیکھ پراسرار لہجے میں کہا اور اٹھ کر ان تینوں کی طرف چل دی جبکہ پیچھے رومیسہ حیرانگی سے حیا کو دیکھنے لگی ۔۔۔

جی تو مس فاریہ طیّب خان آپکی سزا کے بارے میں آپکاکیا ارادہ ہے ۔۔۔۔ حیا نے ان تینوں کے پاس جاکر دل جلا دینی والی مسکراہٹ سے کہا جبکہ وہ تینوں تو حیا کو یہاں دیکھ کر ہی شاکڈ تھی ۔۔۔ کیا مطلب کونسی سزا کس سزا کی بات کر رہی ہو تم ۔۔۔۔ حیا کے کہنے پر فاریہ کے بجائے انعم نے انجان بنتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ وہ آپ کو آپ کی دوست اچھے سے بتائینگی اور اگر یہ نہیں مانتی میری بات تو کوئی بات نہیں میرے پاس دوسرا آپشن بھی ہے اور مجھے یقین ہے آپ کبھی بھی خود پر ظلم برداشت نہیں کرپائینگی کیونکہ ہم جو انسان ہے ناں بہت ہی کمزور ہے اس لئے دوسروں پر ظلم کر کے خود کو طاقتور سمجھتے ہیں لیکن جب وہی ظلم آپکے ساتھ ہو تو برداشت نہیں ہوتا خیر کل بھی چوائس آپکی تھی اور آج بھی آپکی ہے اس لئے ایز یو وش ۔۔۔۔۔ حیا ان تینوں کو سلگاتی ہوئی دوبارہ اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گئی جبکہ رومیسہ ان سب کو پریشانی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

میرے پاس اب کوئی راستہ نہیں ہے مجھے اسکا کہا پورا کرنا ہی ہوگا ورنہ وہ جو کہہ رہی ہے سچ کر دیکھائے گی کیونکہ وہ شاہ زادی ہے اپنے بات سے پیچھے نہیں ہٹے گی ۔۔۔ فاریہ نے حیا کو دیکھتے ہوئے ان دونوں سے کہا اور حیا اور رومیسہ کی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

ایم سوری مس رومیسہ میں نے کل آپ سے مس بیہیو کیا جسکے لئے میں بہت شرمندہ ہوں اگین سوری اینڈ ناؤ ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ فاریہ نے رومیسہ کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا اور وہاں سے نکلتی چلی گئی تو انعم اور فریحہ بھی حیا کو خونخوار نظروں سے گھورتی اسکے پیچھے چلی گئی ۔۔۔

میں نے کہا تھا نا کل فاریہ خود تم سے سب کے سامنے معافی مانگے گی اور یہ معافی لازمی تھی اور تمہارا حق تھا ورنہ میں ایسا کبھی نہیں کرتی خیر اب اپنا موڈ صحیح کرو اور بےفکر رہو اب کوئی کچھ نہیں کریگا ۔۔۔ حیا نے رومیسہ کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے تسلی دیتے ہوئے کہا اور پھر دونوں جوس پینے لگیں ۔

................... Bint E Ahmed Shaikh ......................

اسلام علیکم چاچو مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے تو آپ میرے آفس آجائیں ۔۔۔ حضیر نے اذہان صاحب کو کال کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ وعلیکم سلام خیریت تو ہے حضیر ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔ جی چاچو سب خیریت ہے آپ آجائیں تو بات کرتے ہیں میں آفس میں ہی آپکا انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں پہنچتا ہوں ۔۔۔ اوکے اللّٰہ حافظ ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کردیا ۔۔۔۔

اہتشام سب ورکرز کو کہو پانچ منٹ کے اندر کانفرنس روم میں پہنچے پانچ منٹ کا مطلب پانچ منٹ ۔۔۔۔ اذہان صاحب سے بات کرنے کے بعد حضیر نے اہتشام کو کال کر کے ہدایت دینے کے ساتھ تنبیہہ کی اور فون رکھ کر اپنا کوٹ پہنا اور خود بھی کانفرنس روم کی طرف چل دیا اور پھر حضیر کے کہنے کے مطابق اہتشام سمیت سب ورکرز پانچ منٹ میں کانفرنس روم میں موجود تھے ۔۔۔۔

اسلام علیکم ایوری ون میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس لئے میں ڈائیریکٹ کام کی بات کرونگا آپ سب کو یہاں جمع کرنے کا مقصد آپ سب کو انوائیٹ کرنا تھا آج میرے گھر میں میرے بابا کی طرف سے میرے ہمیشہ کے لئے پاکستان آنے کی خوشی میں گرینڈ پارٹی ہے جس میں آپ سب انوائیٹڈ ہیں اور مجھے امید ہے آپ سب آئینگے کیونکہ یہاں پر ہر کام کرنے والا یا والی ورکرز میرے بھائی بہن ہے اس لئے میں چاہونگا کہ آپ سب اپنے بھائی کی خوشی میں شامل ہو شام چھے بجے انشاءاللّٰہ پارٹی کا آغاز ہوگا اس لئے آپ سب وقت پر پہنچ جائیگا اور اگر کسی بہن یا بھائی کا ٹرانسپورٹ کا مسلئہ ہے تو آفس کی گاڑی انہیں پک اینڈ ڈراپ دیگی اور اہتشام اس کی زمیداری تمہارے زمہ ہے اور آج سب بارہ بجے تک آف کرلیجئیگا اللّٰہ حافظ۔۔۔

حضیر اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ سب کارادار ولا جانے کے لئے ایکسائیٹڈ ہونے لگے ۔۔۔

اسلام علیکم چاچو کیسے ہیں آپ ؟ 

حضیرنے کیبن میں انٹر ہوتے ہوئے اذہان صاحب سے سلام کرنے کے ساتھ حال احوال پوچھا جو کہ ڈائیریکٹ حضیر کے کیبن میں آئے تھے اور اسکو نا پاکر اسکا انتظار کرنے لگے ۔۔۔ 

وعلیکم سلام میں الحمدللہ ٹھیک تم بتاؤ ایسی کیا بات کرنی تھی جسکے لئے تم نے مجھے ارجنٹ بلایا ہے ۔۔۔ 

اذہان صاحب نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔ وہ دراصل چاچو کل رات میں نے ایک سائیکیٹریسٹ سے عائش کی کنڈیشن ڈسکس کی تھی تو۔۔۔۔ اذہان صاحب کے پوچھنے پر حضیر نے انہیں بتاتے ہوئے بات اُدھوری چھوڑ دی ۔۔۔۔ مجھے برا نہیں لگا تمہارا کسی سائیکیٹریسٹ سے بات کرنا تم اسکے شوہر ہو اسکے لئے بہتر فیصلہ کروگے اور میں بھی بس اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے اپنی بات مکمل کرو ۔۔۔

اذہان صاحب نے حضیر کی ادھوری بات کا مطلب سمجھتے ہوئے اسے بات مکمل کرنے کا کہا جس پر حضیر کے اپنی اور ڈاکٹر کی ساری گفتگو انکے گوش و گزار کردی ۔۔۔۔ ہہہم تو اب کیا کرنے کا ارادہ ہے تمہارا کس طرح آس پاس رہوگے تم مشی کے ۔۔۔۔ حضیر کی ساری بات تحمل سے سننے کے بعد اذہان صاحب نے ہنکارا بھرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ چاچو میں عائش کی یونی ایز آ پروفیسر جوائن کرنے کا سوچ رہا ہوں اس سے پورا دن تو نہیں لیکن تقریباً آدھا دن تو میں اسکے آس پاس گزار ہی لونگا ۔۔۔ اذہان صاحب کے پوچھنے پر حضیر نے انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا ۔۔۔۔ گڈ آئیڈیا لیکن پروفیسر کی جوب اور آفس سنبھالنا بہت مشکل ہوجائیگا تمہارے لئے ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کی بات سننے کے بعد اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ناٹ آ بگ ڈیل چاچو میں ہینڈل کرلونگا اور پھر اہتشام ہے وہ سنبھال لیگا ۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی اب میں چلتا ہوں میری میٹنگ ہے ۔۔۔۔ حضیر کی بات سن کر اذہان صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ دراصل چاچو آج بابا نے گرینڈ پارٹی رکھی ہے میرے ہمیشہ کے لئے پاکستان آنے کی خوشی میں تو میں چاہتا ہوں آپ عائش اور عفراء کے ساتھ پارٹی میں شرکت کریں عائش کی ٹینشن مت لیجئیگا میں سنبھال لونگا اور عائش اور عفراء کا ڈریس بھی میں بھجوادونگا بس آپ عائش کو بتاکر نہیں لائیگا کہ اس پارٹی میں ہم سب ہونگے ۔۔۔۔ حضیر نے اذہان صاحب کو اٹھتے دیکھ جلدی سے کہا ۔۔۔۔ دیکھو بیٹا میں وہاں آنا تو نہیں چاہتا لیکن صرف تمہاری خاطر آؤنگا کیونکہ داماد سے پہلے تم میرے بیٹے ہو اور بے فکر رہو مشی اور عفراء کو ساتھ لاؤنگا صرف اور صرف تمہاری خواہش پر لیکن اگر کسی نے وہاں میری بیٹی یا نواسی کے متعلق کوئی غلط بات کی تو میں سارے لحاظ بھول جاؤنگا اس لئے سب کو پہلے ہی سمجھا دینا ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ چاچو آپ پریشان نا ہو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور اگر کہیگا بھی تو میں اپنی بیوی اور بیٹی کے لئے کافی ہوں اس لئے آپ بے فکر رہیں اوہ سوری میں تو باتوں ہی باتوں میں ریفریشمنٹ ہی بھول  گیا ۔۔۔۔ حضیر نے اذہان صاحب کو تسلی دینے کے بعد یاد آنے پر شرمندگی سے معذرت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں میں کوئی مہمان تو نہیں ہو ابھی میری میٹینگ ہے اس لئے چلتا ہوں نیکسٹ ٹائم کرلینا ریفریشمنٹ اللّٰہ حافظ ۔۔۔ حضیر کو شرمندہ دیکھ کر اذہان صاحب نے نرمی سے کہا اور وہاں سے چلے گئے تو پیچھے حضیر بھی اپنا سامان اٹھاتا آفس سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

..................... Bint E Ahmed Shaikh ....................

یار ایسے بھی کوئی کرتا ہے آج پارٹی ہے اور کل بتادیا اب مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہا کیا پہنوں ۔۔۔۔ حیّان نے وارڈروب میں سر دیے روہانسی لہجے میں کہا ۔۔۔۔ حیان اب اگر تو نے دوبارہ یہ جملہ دہرایا نا تو قسم سے میری فلائینگ چپل آئیگی تیرے پاس تیری بارات نہیں ہے جو تو نے اتنا ادھم مچایا ہوا ہے ۔۔۔۔ حیان کے کہنے پر بیڈ پر بیٹھی موبائل چلاتی حورعین نے دانت پیستے ہوئے کہا کیونکہ پچھلے ایک گھنٹے سے حیان کپڑوں کا رونا ہی رو رہی تھی ۔۔۔۔

انو دیکھ رہی ہے یہ مجھ معصوم پر کیسے تشدد کرنے کے پلان بنارہی ہے اسکو خود کو تو کوئی فکر ہی نہیں ہے شام میں پارٹی ہے اور یہ میڈم یہاں مزے سے موبائل میں مصروف ہیں ۔۔۔۔ حورعین کے کہنے پر حیان نے وارڈروب سے سر نکال کر واشروم سے باہر آتی انعمتہ کو دیکھتے ہوئے حورعین کی شکایت کی ۔۔۔۔ حیان کی بچی حورعین تجھ پر تشدد کریں نا کرے لیکن اگر اگلے پندرہ منٹ میں کمرہ اپنی اصل حالت میں نہیں آیا نا تو میں نے تیرا ڈائیریکٹ جہنم کا ٹکٹ کاٹ دینا ہے ۔۔۔۔ انعمتہ نے پورے کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر حیان کو گھورتے ہوئے کہا جو کہ کسی جنگ کے میدان کا منظر پیش کر رہا تھا کشن زمین پر گرے ہوئے تھے بیڈ شیٹ آدھی زمین پر تھی تو آدھی بیڈ پر جبکہ کمفرٹر آدھا صوفے پر اور آدھا زمین کو سلامی پیش کر رہا تھا نیچے بچھے قالین پر وارڈروب کے کپڑے پڑے تھے جو کہ حیان بی بی اپنے کپڑوں کے غم میں پھینکے جارہی تھی ۔۔۔۔ انعمتہ کے کہنے پر حیان نے بھی ایک نظر کمرے پر ڈالی اور پھر انعمتہ کو دیکھ کر اپنے دانتوں کی نمائش کرنے لگی ۔۔۔

یہ اپنے دانت اندر کرو ورنہ مجھے انہیں توڑنے میں ذرا بھی مسلئہ نہیں ہوگا اور جلدی سے روم کو اسکی اصل حالت میں وآپس لاؤ اور ڈریس کی فکر نہیں کرو حضیر بھائی نے کہا ہے ایک گھنٹے تک تینوں کے ڈریس جیولری اور سینڈلز پہنچ جائیں گی لیکن اس سے پہلے مجھے کمرہ بلکل صاف چاہئے ورنہ میں تمہیں تمہارے آج کے ڈریس سے محروم کردونگی ۔۔۔۔۔ 

ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ انعمتہ نے حیان کو دانت نکالتے دیکھ دھمکاتے ہوئے کہا جس پر حورعین نے قہقہہ لگایا ۔۔۔ ہنس لو ہنس لو حورعین بی بی تمہارا بھی وقت آئیگا تب پوچھوں گی اور میں رانی کو بلارہی ہوں وہ کردیگی صفائی مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام ۔۔۔ حیان نے حورعین کو ہنستا دیکھ خفگی سے کہا اور ساتھ میں انعمتہ کو اپنے پھوہڑ پن سے آگاہ کرتی واک آؤٹ کرگئی جبکہ پیچھے انعمتہ تاسف سے سر ہلاکر رہ گئی یعنی اسکا کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ 

........................ Bint E Ahmed Shaikh .................

آج اس پارٹی میں میری بیوی اور بیٹی بھی آئینگی اور خبردار کسی نے ایک لفظِ غلط بھی اپنے منہ سے نکالا ورنہ یاد رکھئیگا میں کسی کا لحاظ نہیں کرونگا اس لئے بنا کوئی بدمزگی کیے خود بھی انجوائے کیجئیگا اور مجھے بھی کرنے دینا اور ہاں بابا میری بیوی یا بیٹی کی ایک تصویر بھی میڈیا کے پاس نہیں جانی چاہئے نا کسی نیوز چینلز پر اور نا ہی کسی اخبار میں اور آپ کسی کیمرہ مین کو بھی عائش کے پاس بھٹکنے سے بھی منع کرینگے کیونکہ میں نہیں چاہتا کوئی میری بیوی اور میری معصوم بیٹی کو غلط نگاہ سے دیکھے باقی کسی پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے بہنوں کے لئے باپ زندہ ہے اور وہ خود بالغ ہیں اپنا اچھا برا جانتی ہے باقی سب کے بھی سر پرست موجود ہے اس لئے میں کسی پر زور زبردستی نہیں کرسکتا لیکن میری بیوی اور میری بیٹی میری ذمیداری ہے اور ان پر میں حق رکھتا ہوں اور میری بیوی خود میرے مزاج کی ہے اس لئے ان سب چیزوں کو میری فیملی سے دور رکھئیگا باقی جس کا جو دل چاہے وہ کرے ۔۔۔۔۔ حضیر نے لاؤنچ میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہوتے سب لوگوں سے کہا اور ایک نظر سب پر ڈال کر بنا کسی کو کچھ کہنے کا موقعہ دیے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

مشی بیٹا بات سنیں ۔۔۔ لاؤنچ میں بیٹھے نیوز سنتے اذہان صاحب نے کیچن میں کام کرتی مشی کو آواز دی ۔۔۔ جی بابا آئی بس سالن بھون لوں ۔۔۔ مشی نے کیچن میں سے ہی سالن بھونتے ہوئے آواز لگائی کیونکہ مصباح اور اناب اپنے گھر جاچکی تھی ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے آپ پہلے کام کرلو پھر فرست سے میری بات سن لینا ۔۔۔ ٹھیک ہے بابا بس پانچ منٹ ویٹ کریں ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے کہا تو اذہان صاحب دوبارہ نیوز سننے میں مصروف ہوگئے جبکہ عفراء ان کے پاس بیٹھی ٹی وی کے ریموٹ سے کھیل رہی تھی ۔۔۔۔

جی کہیں بابا خیریت ہے ۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد مشی لاؤنچ میں آتی نیوز سنتے اذہان صاحب سے پوچھنے لگی ۔۔۔ بیٹا آج شام ایک پارٹی میں جانا ہے اس لئے آپ اور عفراء ریڈی رہئیگا چھ بجے تک ۔۔۔ بابا میں کیا کرونگی پارٹی میں جاکر آپ چلے جانا یا پھر عفراء کو لیجائیگا ۔۔۔ اذہان صاحب کی بات سننے کے بعد مشی نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری شہزادی آپکا جانا لازمی ہے تبھی تو کہہ رہا ہوں ورنہ میں نے آج سے پہلے آپ کو کبھی فورس  نہیں کیا آج کہہ رہا ہوں تو کوئی بات ہوگی نا ۔۔۔ مشی کے کہنے پر اذہان صاحب نے ایموشنلی بلیک میل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ ارے میرے پیارے بابا جان میرا وہ مطلب نہیں تھا آپ تو ایموشنل ہوگئے ٹھیک ہے میں ریڈی ہوجاؤنگی اور کچھ ۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ یہ ہوئی نا میری بیٹی والی بات آپکا اور عفراء کا ڈریس تھوڑی دیر میں آجائیگا آپ دونوں نے وہی پہننا ہے اور اس معاملے میں نو بحث ۔۔۔ اوکے جیسے آپکی مرضی ۔۔۔ اذہان صاحب کے دو ٹوک کہنے پر مشی نے نرمی سے کہا ۔۔۔ اچھا بابا کھانا لگادوں یا پھر دیر میں کھائنگے ۔۔۔ نہیں ابھی بھوک نہیں تھوڑی دیر سے کھاؤنگا ۔۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے پھر میں نماز پڑھنے جارہی ہوں آپ عفراء کا دیھان رکھنا یہ کیچن میں نہ چلی جائے ۔۔۔ ہاں جاؤ نماز پڑھ لو میری شہزادی اپنے نانو کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اچھے بچوں کی طرح ۔۔۔۔ مشی ہے کہنے پر اذہان صاحب نے عفراء کو پیار کرتے ہوئے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتی اپنے روم میں چلی گئی ۔۔۔۔

............................. Bint E Ahmed Shaikh .................................

آج شام چھے بجے کاردار ولا میں حضیر کے مکمل پاکستان شفٹ ہونے کی خوشی میں پارٹی ہے اس لئے آپ سب شام میں ریڈی رہئیگا اور سارہ اور ہیّاج بیٹا آپ دونوں نے تو لازمی چلنا میں کوئی بہانہ نہ سنوں ۔۔۔۔۔

یاسر خان نے لنچ کرتے ہوئے ایک نظر ٹیبل پر ڈال کر سب کو آگاہ کرنے کے ساتھ سارہ اور ہیّاج کو تنبیہہ کی ۔۔۔۔ بابا کیا ضرورت ہے زبردستی کرنے کی اگر وہ نہیں جانا چاہتے تو مرضی ہے انکی شاید انکو آپکی اولاد کہلانا پسند نا ہو ۔۔۔۔ یاسر خان کے کہنے پر سحر نے ان دونوں پر طنز کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 

آپی آپ مجھے یہ بتائے کہ آپ کو سکون کیوں نہیں پسند آپ کو اچھا لگتا ہے کہ بار بار کوئی آپکی انسلٹ کرے یا آپ نے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا سکون برباد کرنے کا بھی ٹھیکا لے رکھا ہے ۔۔۔ سحر کے کہنے پر اناب نے اپنا چمچ پلیٹ میں پٹکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا جبکہ اسکے اتنے سنجیدہ لہجے میں کہی جانے والی بات پر باقی سب اپنی اپنی مسکراہٹ لبوں میں دباگئے ۔۔۔۔۔

دیکھ رہے ہیں بابا کیسے یہ مجھ سے زبان چلارہی ہے میں بڑی ہوں اس سے لیکن یہ میرا زرہ لحاظ نہیں کرتی ابھی بھی دیکھیں کیسے بدتمیزی کر رہی ہے مجھ سے اور آپ خاموشی سے سن رہے ہیں ۔۔۔ اناب کی بات پر سحر نے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ یاسر خان سے اناب کی شکایت کی ۔۔۔۔۔

آپی اس زبان درازی پر بھی مجھے آپ نے ہی مجھے مجبور کیا ہے ورنہ آپکے علاؤہ میں کسی سے بھی اس لہجے میں بات نہیں کرتی اور یہ فرق صرف اور صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ نے کبھی مجھے چھوٹی بہن سمجھا ہی نہیں ہے اس لئے اب  مجھے بھی آپکی ضرورت نہیں ہے پہلے میں اکیلی تھی لیکن اب میرے بہن بھائی موجود ہے اس لئے آپ پہلے کی طرح اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنا اور ایک دوسرے سے بدگمان کرنا بند کریں یہ آپ کے لئے بہتر ہوگا ورنہ آپ ہمارے دلوں میں اپنا مقام اور عزت دونوں کھودینگی اس لئے اپنی زہر اگلتی زبان اور اپنے خرافاتی دماغ کو تھوڑا سکون دیں ۔۔۔۔

سحر کے شکایت کرنے پر اناب نے اچھی طریقے سے اسکی طبیعت صاف کی جس پر وہ چمچ پٹکتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئی ۔۔۔۔

اناب آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہئے تھا آپکی بڑی بہن ہے گڑیا ۔۔۔۔ سحر کے جانے کے بعد یاسر خان نے اناب کو مصنوعی گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ معصوم سا منہ بناکر کندھے اچکاگئی جبکہ اس کی کیوٹ سی حرکت پر سب مسکرادیے ۔۔۔۔

.......................... Bint E Ahmed Shaikh .....................................

چلو رومیسہ چھٹی کا ٹائم ہوگیا ہے بھائی ہمارا پارکنگ میں انتظار کر رہے ہیں جلدی کرو ۔۔۔۔ حیا نے اپنا سامان سمیٹتے ہوئے  اپنا بیگ پیک کرتی رومیسہ سے کہا ۔۔۔۔ تو تم چلی جاؤ میں بھی بس جارہی ہوں گھر ۔۔۔۔ حیا کے کہنے پر رومیسہ نے لاپرواہی سے کہا اور اپنے بیگ کی زب بند کر کے کندھے پر ڈالا ۔۔۔۔ ہاں تو چلو نا آج تم ہمارے ساتھ چل رہی ہوں کیونکہ آج میں اور بھائی تمہارے گھر جائینگے ۔۔۔۔۔ رومیسہ کے کہنے پر حیا نے اپنا بیگ کندھے پر ڈال کر بکس کو ہاتھوں میں اٹھاتے ہوئے کہا اور آگے کی طرف چل دی ۔۔۔۔ کیوں بھئی کس خوشی اور تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے اور یہ پروگرام کب بنا تمہارا ۔۔۔۔ حیا کے کہنے پر رومیسہ نے اسکے پیچھے چلتے ہوئے ہڑبڑاکر ایک ساتھ سوال کر ڈالے ۔۔۔۔۔۔

ہم جس لئے جارہے ہیں وہ تمہیں گھر جاکر پتہ چل جائیگا اور تمہیں پہلے اس لئے نہیں بتایا کیونکہ ابھی بتانا تھا اور ہمارا پروگرام کل رات کو بنا اور اب اگر تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل گئے ہو تو جلدی چلو بھائی کا فون آرہا ہے یقیناً وہ پارکنگ میں ہمارا انتظار کر رہے ہونگے ۔۔۔۔۔

رومیسہ کے پوچھنے پر حیا نے اسکی طرف رخ کر کے تحمل سے اسکے ہر سول کا جواب دیکر اپنے موبائل کی اسکرین دیکھاتے ہوئے کہا جہاں شماس کی کال آرہی تھی اور آگے بڑھ گئی تو مجبوراً رومیسہ کو بھی اسکے پیچھے جانا پڑا ۔۔۔۔ پارکنگ میں پہنچ کر حیا نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو سامنے ہی اسے شماس گاڑی کے قریب کھڑا نظر آیا جو کہ یقیناً انکا ہی انتظار کر رہا تھا ۔۔۔ حیا شماس کو دیکھ کر رومیسہ کا ہاتھ پکڑتی گاڑی کی طرف بڑھ گئی جبکہ شماس ان دونوں کو اپنی طرف آتا دیکھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

روز تو شماس خود حیا کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا لیکن آج اسکے ساتھ رومیسہ تھی جسکے لئے ایسا کرنے کا اسکے پاس حق نہیں تھا اس لئے آج وہ حیا کے لئے بنا دروازہ کھولے کار میں بیٹھ گیا تھا تاکہ رومیسہ احساسِ کمتری کا شکار نا ہو جبکہ شماس کی آج کی حرکت پر حیا بھی بنا سوال کیے چپ چاپ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر رومیسہ کو بٹھاتی خود بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی کیونکہ وہ بھی شاید شماس کی انٹینشن سے واقف تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے چھوٹے سے گھر کے سامنے کھڑے اسکا گیٹ بجارہے تھے کیونکہ گھنٹی شاید خراب تھی ۔۔۔۔۔

صبر بچے صبر آرہی ہوں ۔۔۔ رومیسہ کے مسلسل دروازہ بجانے پر اندر سے کسی خاتون کی آواز آئی جو کہ یقیناً رومیسہ کی والدہ تھی جس پر رومیسہ کے دروازہ بجاتے ہاتھ رکے تھے ۔۔۔۔

کیا ہوگیا ہے رومی کونسے کتے تیرے پیچھے پڑے تھے جو تیرے ہاتھ ہی نہیں رُک رہے تھے ۔۔۔۔ لائبہ بیگم نے دروازہ پر کھڑی رومیسہ کو گھورتے ہوئے کہا جبکہ رومیسہ ایک نظر انہیں دیکھ کر خاموشی سے اندر چلی گئی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اگر اس نے کوئی جواب دیا تو امی نے دروازے پر ہی بنا مہمانوں کا لحاظ کی چپل سے شروع ہوجانا ہے اس لئے خاموشی میں عافیت سمجھی ۔۔۔۔

ارے بچے آپ لوگ آؤ اندر آؤ باہر گرمی میں کیوں کھڑے ہو یہ رومیسہ بھی جھلی ہے بنا مہمانوں کا بتائے خاموشی سے اندر چلی گئی ۔۔۔۔

لائبہ بیگم کی جیسے ہی نظر ان دونوں پڑی تو محبت سے انہیں اندر نے کی دعوت دینے کے ساتھ لائبہ کی خامی سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا جس پر حیا نے ہونٹوں کو بھینچ کر اپنی مسکراہٹ کو روکا ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم آنٹی کیسی ہے آپ ؟ حیا نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے ان سے سلام کرنے ساتھ انکا حال دریافت کیا ۔۔۔۔ وعلیکم سلام بچے میں بلکل ٹھیک آپ لوگ بیٹھو میں ابھی ٹھنڈا جوس لیکر آئی ۔۔۔

لائبہ بیگم نے حیا کے سول کا جواب دینے کے ساتھ کہا اور وہاں سے کیچن میں جانے لگی جبکہ ان دونوں کے اپنی گھر آنے کی خوشی ان کے چہرے سے پتہ لگ رہی تھی جبکہ رومیسہ ڈائیریکٹ اپنے روم میں عبایا وغیرہ اتارنے چلی گئی تھی ۔۔۔۔ امی آپ بیٹھ جائیں میں لیکر آتی ہوں ۔۔۔۔ 

لائبہ بیگم کے کہنے پر رومیسہ نے کہا جو کہ اپنے کمرے سے باہر آتی انکی بات سن چکی تھی اور کیچن میں چلی گئی تاکہ کچھ کھانے پینے کا انتظام کرسکے ۔۔۔۔

بیٹا خیریت سے آنا ہوا کیا کوئی کام تھا آپ دونوں کو ؟ لائبہ بیگم نے ان دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیونکہ وہ دونوں ہی پہلی دفعہ انکے گھر آئے تھے ۔۔۔۔

جی آنٹی سب خیریت ہے بس ہم آپکو اور رومیسہ کو یہاں سے لے جانے آئے ہیں آج سے آپ اور رومیسہ ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہینگے اور رومیسہ یونی بھی میرے اور بھائی کے ساتھ ہی جایا کریگی ۔۔۔۔

حیا تیری محبت اور خلوص کا بہت شکریہ لیکن میں نہیں چاہتی کہ کل کو کوئی دوبارہ میرے یا میرے ماں باپ کے بارے میں یا انکی تربیت پر سوال اٹھائے تیری ہر بات سرآنکھوں پر لیکن معذرت کے ساتھ میں تیری یہ بات نہیں مان سکتی ۔۔۔۔۔ ابھی لائبہ بیگم حیا کو کوئی جواب دیتی کہ رومیسہ جو کہ ریفریشمنٹ لیکر وہاں آئی تھی حیا کی بات سن کر سنجیدگی سے کہنے لگی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ٹرے درمیان میں رکھی ٹیبل پر رکھ کر اپنی مما کے برابر والے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

آپ کی بات درست ہے گڑیا لیکن آپ دو لیڈیز کا اکیلے رہنا بھی سیو نہیں ہے گھر میں کسی جینٹس کا ہونا لازمی ہے اور ہمارے گھر بھی میرے باہر جانے کے بعد حیا اکیلی ہوجاتی ہے کیونکہ گھر کے گارڈز وغیرہ کو گھر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ بھی غیر محرم ہے اس لئے آپ لوگوں کے آنے سے مجھے بھی آسانی ہوجائیگی اور جب بھی میں گھر سے نکلونگا مجھے حیا کی ٹینشن نہیں ہوگی دوسرا حیا کا بھی دل لگ جائیگا آپ دونوں کی موجودگی میں اور آپ دونوں کو بھی ایک اپنے مرد کا سہارا ہو جائیگا اور رہی بات اسٹیٹس کی تو وہ میرے اور حیا کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ہم سب مٹی سے بنے ہیں اور ہم سب کو ہی مٹی میں جانا ہے یہ ہی ایک انسان کی حقیقت ہے اس لئے جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اللّٰہ کی دین ہے اور اس پر ہر غریب ہر مسکین اور ہر اس شخص کا حق ہے جس کو اسکی ضرورت ہو اس لئے آپ دونوں ہمارے ساتھ چل رہی ہیں کیونکہ میں آپ کے فادر سے بات کر چکا ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر آپ چاہے تو خود بھی اپنے بابا سے بات کر کے تسلی کرلیں حیا ابھی یہی ہے مجھے ایک دوست کے پاس جانا ہے شام تک آپ لوگ اپنی پیکنگ کرلیجئیگا میں آکر آپ تینوں کو لے جاؤنگا اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔

رومیسہ کی بات سن کر کب سے خاموش بیٹھے شماس نے نرم لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ اب انکے پاس اب کوئی انکار کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی شماس صحیح کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔

خیریت تو ہے ازلان تو نے مجھے اتنی ارجنٹ بلایا ہے اور کون ہے ہسپتال میں ؟ شماس نے ہسپتال کے کوریڈور میں ٹہلتے ازلان کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا ۔۔۔ یار وہ میرے خالو کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور میں پریشان تھا اس لئے تجھے بلالیا ۔۔۔ شماس کے پوچھنے پر ازلان نے کہا ۔۔۔۔ چل کوئی بات نہیں یہ بتا اب کیسے ہیں انکل ۔۔۔۔ ازلان کے کہنے پر شماس نے اسے ریلیکس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

مسڑ ازلان آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے اور کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے وہ پہلے سے ہائی بلڈ پریشر اور دل کے مریض ہے اس لئے انکے پرہیز کا خاص خیال کیا جائے کیونکہ بد پرہیزی کی وجہ سے انکی طبیعت خراب ہوئی ہے اس لئے آپ لوگ پرہیز کا خاص خیال رکھیں اور ڈرپ ختم ہونے کے بعد آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں  ۔۔۔ ازلان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ڈاکٹر نے روم سے باہر نکلتے ہوئے انہیں خوشخبری سنائی اور وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ 

چل اللّٰہ کا شکر ہے انکل ٹھیک ہے میں ڈسچارج پیپر بنواتا ہوں تو جاکر انکل سے مل لے ۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے ۔۔۔ شماس کے کہنے پر ازلان نے کہا اور روم کی طرف بڑھ گیا تو شماس بھی ڈسچارج پیپر بنوانے چلا گیا ۔۔۔

بھائی بابا ٹھیک تو ہیں ناں کیا کہا ہے ڈاکٹر نے ؟ 

مدیحہ نے ازلان کو گھر میں انٹر ہوتے دیکھ پریشانی سے پوچھا جو کہ اؤنچ میں بیٹھی ان ہی کا انتظار کر رہی تھی جبکہ اس نے اپنی والدہ کو نیند کی ٹیبلیٹ دے کر سلادیا تھا ۔۔۔ گڑیا آپ پریشان نہیں ہو انکل بلکل ٹھیک ہیں بس تھوڑی بد پرہیزی کی وجہ سے انکی طبیعت خراب ہوگئی تھی اس لئے اب آپ ان پر سخت نظر رکھنا تاکہ آئیندہ یہ بدپرہیزی نا کرسکیں ۔۔۔

ازلان کے جواب دینے سے پہلے ہی شماس جو کہ صالح صاحب کو لیکر آرہا تھا نے جواب دیا اور انکو لیکر انکے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

اللّٰہ کا شکر ہے ازلان بھائی آپ شماس بھائی کو جانے نہیں دیجئیگا میں ابھی چائے بناکر لاتی ہوں ۔۔۔۔ مدیحہ نے اللّٰہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ازلان سے کہا اور چائے بنانے کے غرض سے کچن میں چلی گئی تو پیچھے ازلان بھی انکل کے روم کی طرف بڑھ گیا جہاں شماس صالح صاحب کے ساتھ موجود تھا ۔۔۔۔۔

............................ Bint E Ahmed Shaikh .................................

یار یہ مسیّب کہاں دفعان ہے ابھی تک نظر نہیں آیا میں نے کالز بھی کی اٹینڈ ہی نہیں کر رہا ۔۔۔۔ مبشر نے برداء کے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے کہا چونکہ پارٹی کا سن کر فریحہ بیگم صبح پی تشریف لاچکی تھی اور ہر مرتبہ کی طرح مبّشر کا ڈیرہ برداء کے روم میں تھا جبکہ مبّراء ردابہ کے ساتھ رہنا پسند کرتی تھی ۔۔۔۔۔

ابے یار اس بیچارے کی تو خود زندگی تیل ہے البتہ تو وہ مہان ڈاکٹر چھٹی کرتا ہی نہیں ہے اور جب کرتا ہے تب ہی کوئی ایمرجنسی ہوجاتی ہے اور اسے جانا پڑجاتا ہے آج بھی وہ ہالف لیو پر آگیا تھا پارٹی کی وجہ سے لیکن بیچارے نے خوشی بھی پوری سی نہیں منائی تھی کہ ہسپتال سے فون آگیا کہ ایمرجنسی ہے اور مریض فوراً سرجری کرنی پڑیگی اس لئے اسے دوبارہ جانا پڑا اور اب تو ہوسکتا ہے بیچارہ پارٹی میں بھی لیٹ ہو جائے ۔۔۔۔

مبشر کے پوچھنے پر برداء نے اپنے نادیدہ آنسو صاف کرتے ہوئے ساری بات مبشر کے گوش و گزار کی ۔۔۔۔ چل بھئی اچھا ہوا ہے اسکے ساتھ اس رات ہمارے ساتھ کیا کیا تھا اس نے یاد ہے ناں اللّٰہ نے اس سے بدلہ لیا ہے ہمارا آج اسکے ساتھ یہ ہونا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔ برداء کے کہنے پر مبشر نے دل جلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

مسیّب کے ساتھ کچھ ہو نا ہو میں تیرا ساتھ بہت کچھ کردونگا اگر تو نے اگلے تو منٹ میں اپنے یہ لنڈے کے جوتے نہیں اتارے تو ۔۔۔۔ برداء نے مبشر کو جوتوں سمیت بیڈ پر دراز ہوتا دیکھ تیوری چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں تو ایسے ہی صحیح ہوں اگر تجھے پریشانی ہے تو تو خود اتاردے ۔۔۔ 

برداء کے کہنے پر مبشر نے بنا موبائل سے نظریں اٹھائے بے نیازی سے کہا ۔۔۔۔ تیری تو ایسی کی تیسی تو کیا تیرا تو باپ بھی اتاریگا جوتے ورنہ دفع ہوجا یہاں سے ۔۔۔ مبشر کے کہنے پر برداء نے تکیہ اسکے سر پر مارتے ہوئے کہا جس سے مبشر کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر کارپیٹ پر گرا جبکہ اسکا سر بیٹ کراؤن سے جا لگا ۔۔۔۔ اب تو نہیں بچیگا مجھ سے بیغرت انسان تو نے میرا اتنا مہنگا موبائل گرادیا ۔۔۔۔ برداء کے مارنے پر مبشر نے بھی اسے تکیہ مارتے ہوئے کہا اور پھر ان دونوں کی نا ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔

............................... Bint E Ahmed Shaikh ...............................

بھائی میں آجاؤ ۔۔۔ مصباح نے سعد کے کمرے کا دروازہ نوک کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ آجاؤ گڑیا ۔۔۔ مصباح کے پوچھنے پر سعد نے اسے اجازت دی تو مصباح اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی جبکہ صوفے پر بیٹھا اُنیب بھی سوالیہ نظروں سے مصباح کو دیکھنے لگا ۔۔۔

کیا ہوا ہے مصباح کوئی کام تھا ؟ 

مصباح کے کچھ نا بولنے پر سعد نے گود میں رکھے لیپ ٹاپ کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ بھائی میں یہ کہہ رہی تھی کہ اب تو ایک ہفتہ ہوگیا ہے آپ جاکر بھابھی کو لے آئیں اتنی سزا کافی ہے ان کے لئے اور پھر اگر مشی کو پتہ چلا کہ آپ نے اس کی وجہ سے بھابھی کو میکے بھیج دیا ہے تو وہ ناراض ہوجائیگی آپ سے بابا کو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن آپ جاکر بھابھی اور امی دونوں کو لے آئے ورنہ لوگ باتیں کرینگے کہ ابھی تک میکے میں بیٹھی ہیں دونوں پلیز بھائی لے آئے آپ دونوں کو پھر بابا بھی کچھ نہیں کہینگے ۔۔۔ سعد کے کہنے پر مصباح نے منت کرنے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔

مصباح پہلی بات تو یہ ہیکہ نا تو میں نے اسے میکے بھیجا ہے اور نا میں اسے لانے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن اگر وہ خود آنا چاہے تو مرضی ہے اسکی لیکن میں کسی صورت اسے لینے نہیں جاؤنگا شادی کو دو سال ہونے والے ہیں اور ان دو سالوں میں سحر نے مجھے سکون کا سانس نہیں لینے دیا اور میں کچھ کہتا ہوں تو فوراً سے مما اسکی سائیڈ لے لیتی ہیں کیونکہ مجھ سے شاید بہت بڑی بھول ہوگئی تھی کہ میں نے مشی جیسی لڑکی کو اپنا ہمسفر بنانا چاہا میں چاہتا تھا کہ میری شادی مشی سے یا پھر اسی جیسی کسی لڑکی سے ہو جو سادی ہو خود بھی سکون سے رہے اور مجھے بھی سکون سے رہنے دے لیکن شاید اللّٰہ کو کچھ اور ہی منظور تھا مما نے مجھ سے کہا کہ وہ سحر سے میری شادی کرنا چاہتی ہیں حالانکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا لیکن مما نے مجھ سے کہا کہ ایک دفعہ شادی ہوجائے پھر اپنے رنگ میں رنگ لینا اور پھر مما کے کہنے پر میں راضی ہوگیا اور پھر صرف اور صرف مما کی خواہش کی خاطر میں نے سحر سے شادی کرلی اور پھر شادی کی رات سے مجھے مشی کے نام کے طعنے سننے کو ملتے ہیں کیونکہ مشی والی بات سحر کو بتانے والی بھی مما تھی میں نے پہلے اسے بہت صفائیاں دی لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوا کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ مجھے اس بات سے بلیک میل کر کے اپنے حکم پر چلائیگی لیکن میں اسکے کیا کسی کے بھی حکم ماننے والوں میں سے نہیں بلکہ حکم منوانے والوں میں ہوں دو سال تک تو وہ مجھے مشی کے نام سے ذہنی ٹارچر کرتی آئی ہے اور پھر کبھی دادو سے بدتمیزی کرتی ہے کبھی تم سے تو کبھی بابا سے بھی کرجاتی ہے شروع میں میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن اس نے میری ایک بات نہیں مانی بلکہ ساری بات مما کو بتادی ایک کی دو لگاکر اور پھر مما بھی اسکو سمجھانے کے بجائے مجھ پر غصہ کرنے لگی اور ان سے بھی مجھے وہی طعنہ سننے کو ملا کہ میں تو مشی سے شادی کرنا چاہتا تھا اس لئے میں سحر کے ساتھ زیادتی کرتا ہوں میں نے ہر چیز برداشت کی ہے سحر کی اسکا بدتمیزی کرنا زبان درازی کرنا چیخنا اپنی منوانا ہر غلط بات بھی میں نے اسکی چپ چاپ سہی صرف اس لئے کہ کہیں سحر مشی کو غلط نا کہ دے اور میں نے اسے سختی سے منع بھی کیا تھا اور مما کو بھی لیکن دونوں نے میری ایک نہیں سنی اور مشی کے کردار کو داغدار کردیا اور یہاں میری برداشت ختم ہوگئی اس لئے اگر اسے آنا ہوگا تو خود آجائیگی اور اگر نہیں آنا تو کوئی بات نہیں بلکہ سحر کے نا ہونے سے گھر میں اور میرے زندگی میں سکون ہے جو کہ شادی کے بعد ختم ہوگیا تھا اور رہی بات مما کہ تو وہ بابا اور انکا معاملا ہے میں انکے بیچ میں نہیں آؤنگا اور نا تم دونوں میں سے کسی کو آنے دونگا اس لئے جو ہورہا ہے چپ چاپ خاموش تماشائی بن کر دیکھو اور اچھا ہے لوگ انکو میکے رہنے پر طعنے دینگے تو انکو بھی اندازہ ہوگا کہ انکے اس طعنے سے مشی پر کیا گزری ہوگی اور اب اس ٹاپک پر کوئی بات نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔

مصباح کے کہنے پر سعد نے اسے تفصیل سے بتاتے ہوئے دو ٹوک کہا ۔۔۔۔

مصباح بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو اور شام میں کاردار ولا پارٹی میں چلنے کی تیاری کرو وہاں سب ہونگے مزہ آئیگا ۔۔۔۔

سعد کی بات پر انیب نے اسکی تائید کرتے ہوئے مصباح کا دیھان پارٹی کی طرف لگایا ۔۔۔۔ اُف بھائی اچھا ہوا آپ نے یاد دلادیا میں تو بھول ہی گئی تھی میں نے تو اپنے کپڑے بھی پریس نہیں کیے میں تو چلی ۔۔۔۔ انیب کے کہنے پر مصباح نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور اپنے روم میں چلی گئی تو پیچھے وہ دونوں بھی دوبارہ سے اپنے کام میں بزی ہوگئے ۔۔۔۔

بابا یہ اتنا ہیوی گاؤن مجھے کیوں پہننے کا بول رہے ہیں کتنا عجیب لگے گا یہ ڈریس وہ بھی کسی اور کی پارٹی میں یہ تو وہ مثال ہوگئی کہ بیگانے کی شادی میں عبداللّٰہ دیوانہ لیکن اب بابا کو انکار بھی نہیں کرسکتی چل پہن ہی لیتی ہوں جو ہوگا دیکھا جائیگا ۔۔۔۔

مشی وائٹ ہیوی گاؤن کو دیکھتی منہ کے زاویے بگاڑتی خود سے کہنے لگی اور ڈریس لیکر چینج کرنے کے لئے باتھروم چلی گئی ۔

تھوڑی دیر بعد مشی گاؤن کو اپنے ہاتھوں کی مدد سے بمشکل اٹھاتی باہر نکلی جو کہ پیچھے سے ٹیل تھا اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ایک نظر ڈریسنگ وال پر لگی گھڑی پر ڈالی جو کہ پونے چھے بجارہی تھی ۔۔۔

یا اللہ میں نے اتنی دیر کردی چل کوئی نہیں نماز بھی تو ضروری تھی ۔۔۔

مشی خود سے کہتی خود کو تسلی دینے کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی چلا رہی تھی ۔۔۔ 

ہلکہ پھلکہ میک اپ کرنے کے بعد مشی نے بالوں کو فولڈ کر کے کیچر لگایا تاکہ وہ اسکارف کی نیچے سے نظر نا آئے اور پھر گاؤن کے میچنگ کا وائٹ سلک کا دوپٹہ بیڈ کی پائنتی سے اٹھاکر سر پر رکھا اور پنوں کے ذریعے حجاب باندھا اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر وائٹ ہائی ہیلز پہننے لگی ۔۔۔

مشی بیٹا آجاؤ اور کتنی دیر لگے گی بچے ۔۔۔۔ 

مشی ابھی اپنی سینڈلز کے اسٹریپس باندھ ہی رہی تھی کہ باہر سے اذہان صاحب کی آواز آئی ۔۔۔۔

آئی بابا بس پانچ منٹ ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے انہیں جواب دیا اور ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو کہ پورے چھے بجارہی تھی ۔۔۔

مشی نے اسٹریپس باندھ کر جلدی سے نقاب کیا اور گاؤن کے ساتھ آئے گلفس پہن کر ڈریسنگ پر رکھا کلچ اٹھایا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے موبائل کو کلچ میں ڈالا اور عفراء کا رومال اور فیڈر وغیرہ ایک چھوٹے سے بیگ میں ڈال کر جلدی سے باہر بھاگی جہاں اذہان صاحب عفراء کو گود میں لیے بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس اسی کا انتظار کر رہے تھے جبکہ عفراء نے بھی سیم مشی جیسا گاؤن پہنا ہوا تھا ساتھ میں میچنگ سینڈلز سر پر چھوٹا سا کراؤن اور ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی چوڑیاں پہنے ساتھ میں آنکھوں میں نیند لیے بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔۔۔ چلیں بابا پہلے ہی دیر ہوگئی دراصل وہ میں نماز اور اذکار پڑھ رہی تھی اس لئے دیر ہوگئی سوری ۔۔۔ مشی نے باہر آکر اذہان صاحب کو وضاحت دینے کے معذرت کرتے ہوئے کہا اور پھر وہ تینوں گاڑی میں سوار ہوکر کاردار ولا کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

کاردار ولا کے پورے لان کو پھول غباروں برقی قمقموں اور دیگر اشیاء سے بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا جس کو دیکھ کر ہر دیکھنے والی آنکھ میں ستائش ابھری تھی اور وہاں آنے والا ہر فرد تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دلوں میں حسد بغض اور کینہ جیسی بیماری کے ساتھ ہونٹوں پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے محفل کا حصہ بنے ہوئے تھے اور ان سب سے بے نیاز کاردار وا کا لاڈلا اپنے روم میں گھسا نا جانے کیا کرنے کی تگ ودو میں تھا جس سے سب انجان تھے جبکہ باقی سب لان میں موجود تھے اذان صاحب اور مسیّب انٹرنس پر کھڑے لوگوں کو ریسیو کر رہے تھے تو دوسری طرف مدیحہ بیگم فریحہ بیگم اور انعم بیگم بھی اسی کام میں مشغول تھی جبکہ برداء اور مبشر ویٹرز کو ہدایت دینے کے ساتھ دیگر کاموں میں مشغول تھے جبکہ ان سب سے بے پرواہ وہ تینوں اپنی سیلفیاں لینے میں مصروف تھی تو دوسری طرف مبّراء اور ردابہ شدت سے کسی کی آمد کی منتظر تھی تاکہ وہ اپنی چال چل کر اس میں کامیابی حاصل کرسکے غرض کے ہر ایک اپنے اپنے مشاغل میں مصروف دیکھائی دے رہا تھے ۔۔۔۔۔

جبکہ جس کے لئے اہتمام کیا گیا تھا وہ اپنے روم میں ڈریسنگ کے سنے کھڑے ہوکر خود کو فائینل ٹچ دے رہا تھا حضیر نے تیار ہوکر ایک نظر سامنے وال پر لگی گھڑی پر ڈالی جہاں چھے پچیس ہو رہے تھے جبکہ اسکی زندگی اور شہزادی ابھی تک نہیں پہنچے تھے جس کا وہ شدت سے منتظر تھا حضیر نے ایک نظر سامنے آئینے میں نظر آتے اپنے وجود پر ڈالی جو کے سفید کوٹ پینٹ میں مصر کا شہزادہ لگ رہا تھا جبکہ بائیں ہاتھ کی کلائی میں برانڈڈ سفید گھڑی اسکی اسکن کے کلر سے میچ کر رہی تھی جبکہ پاؤں بھاری وائٹ بوٹوں میں قید تھے ۔۔۔۔

حضیر نے ایک طائرانہ نظر خود پر ڈال کر ڈریسنگ سے پرفیوم اٹھاکر خود پر اچھے سے اسپرے کیا اور اپنا موبائل اٹھاتا روم کے بیک ڈور سے بیک گارڈن کی طرف چل دیا جہاں اس نے اذہان صاحب کو اپنی شریکِ حیات اور اپنی شہزادی کو لانے کا کہا تھا ۔۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

مشی گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھے موندے بیٹھی تھی جبکہ عفراء بھی اسکی گود میں لیٹی سوچکی تھی جبکہ اذہان صاحب گاڑی کو کاردار ولا کی جانب جانے والی سڑک پر دوڑا رہے تھے ۔۔۔۔

بابا اور کتنی دیر لگے گی آپ بے وجہ میں مجھے اور عفراء کو لیکر آئے ہیں دیکھیں سوگئی ہے اب یہ اور پارٹی کے شور سے کچی نیند سے اٹھ گئی تو مجھے پریشان کریگی ۔۔۔۔ مشی نے ایک نظر اپنی گود میں سوئی ہوئی عفراء کو دیکھ کر ڈرائیونگ کرتے ہوئے اذہان صاحب سے پریشانی سے کہا ۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا بیٹا میں سنبھال لونگا میری نواسی کو آپ بس انجوائے کرنا اب خوش ۔۔۔۔ مشی کے پریشان ہونے پر اذہان صاحب نے جھٹ سے مسلئہ سولو کیا ۔۔۔۔۔ بابا آپ جانتے ہیں مجھے نہیں پسند یہ پارٹیز وغیرہ جہاں حلال اور حرام کی تمیز ہی نہیں ہوتی کسی کو بھی اس لئے میں ایسی محفل کا حصہ ہی نہیں بنتی اور کبھی آپ نے بھی مجھے فورس نہیں کیا لیکن آج تو آپ نے بلیک میلنگ کی حد ہی کردی تھی ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے خفگی سے کہا اور اپنا رخ ونڈو کی طرف کرلیا جو کہ ناراضگی کا اظہار تھا ۔۔۔۔ میرا بچہ ناراض ہے اپنے بابا سے میری گڑیا کوئی وجہ ہوگی تبھی تو میں نے آپکو فورس کیا ہے ورنہ میں کبھی بھی آپ کو اپنے ساتھ نہیں لاتا ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب نے فرنٹ مرر سے کچھ دور نظر آتت کاردار ولا کو دیکھتے ہوئے کہا اور گاڑی ولا کے پچھلے لان کی طرف روکی ۔۔۔۔۔

بابا ی۔۔۔ہ آپ کہہہاں ۔۔۔لے آئے می۔۔ں نہیں ججاؤنگی اندر آپ گگھر چچلییں بس ۔۔۔ مشی نے کاردار ولا کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ ہوکر لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں اذہان صاحب سے کہا جو کہ اسکی طرف کا دروازہ کھول کے کھڑے ہوئے تھے اور اسے باہر آنے کے کہہ رہے تھے ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا میرا بچہ بابا ہے نہ آپکے پاس اور پھر تھوڑی دیر کی بات ہے اپن وآپس گھر چلینگے اب شاباش باہر آؤ ۔۔۔۔ مشی کے خوفزدہ ہونے پر اذہان صاحب نے اسے پچکارتے ہوئے کہا جسکا چہرہ خوف سے پیلا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔ نہیں ہہہم نہیں آ۔ئی۔۔نگے وہ م۔۔ار دی۔۔نگ۔ے اور عفراء ک۔۔و چچھیین لل۔۔ین۔۔گگے ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے سوئی ہوئی عفراء کو خود میں بھینچتے ہوئے کہا اور پیچھے کی جانب کھسکنے لگی تو اذہان صاحب نے موبائل نکال کر حضیر کو میسج کیا ( حضیر بیٹا میں گارڈن کے بیک سائیڈ پر کار کے پاس کھڑا ہوں اور مشی کو کار سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی ہے کاردار ولا کو دیکھ کر اور کار سے باہر بھی نہیں نکل رہی اب تم ہی کچھ کرو ) ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کو میسیج کیا اور خود وہی کھڑے ہوکر حضیر کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔

اور پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ حضیر بیرونی گیٹ سے نکلتا ہوا انکی طرف آتا ہوا نظر آیا جبکہ حضیر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اور بھی اپنے حواس کھونے لگی ۔۔۔ بابا یی۔۔ہ ککی۔۔وں آر۔۔ہہے ہیں ممیں ننہیںں ججاؤ۔۔نگ۔۔ی وہ مارررددییننگگے ممماردیینگگے نننہہہیییںں وووہہہ ممماردیینگگے ۔۔۔۔۔ حضیر کو اپنی طرف آتا دیکھ مشی اذہان صاحب سے التجا کرتی بیہوش ہوگئی ۔۔۔۔

کیا ہوا چاچو آپ ایسے کیوں کھڑے ہیں ؟ ۔۔۔ حضیر نے کار کے باہر کھڑے اذہان صاحب سے پوچھا ۔۔۔۔ مشی نے تمہیں دیکھ لیا اور پھر سے بیہوش ہوگئی ہے ۔۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے پریشانی سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہو ڈاکٹر نے کہا تھا شروع شروع میں ایسا ہوگا پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیگی آپ عفراء کو لیکر اندر چلیں میں عائش کو لیکر آتا ۔۔۔ اذہان صاحب کے پریشان ہونے پر حضیر نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا تو اذہان صاحب عفراء کو لیکر اندر چلے گئے تو حضیر بھی عائش کو لیکر اپنے روم کی طرف چل دیا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

جلدی سے پانی اور جوس لیکر آؤ ۔۔۔۔ حضیر نے عائش کو بیڈ پر لیٹا کر ویٹر سے کہا تو وہ جلدی سے باہر کی طرف پانی لینے چلا گیا ۔۔۔۔ لاؤ مجھے دو اور تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔ دروازہ نوک ہونے کی آواز پر حضیر نے ویٹر سے پانی اور جوس لیتے ہوئے کہا تو وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔ عائش اٹھو عائش ۔۔۔۔ حضیر نے پانی کے چھینٹے مشی کے منہ پر مار کر اسے ہوش دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو منہ پر کچھ گیلا محسوس کر کے مشی نے اپنی آنکھیں کھولیں جبکہ ذہن ابھی بھی بیدار نہیں ہوا تھا ۔۔۔ عائش یہ جوس پیو ۔۔۔۔ حضیر نے عائش کو اٹھاکر جوس پلایا جو اسکو کڑوا تو لگا لیکن غائب دماغی کی وجہ سے وہ پی گئی یقیناً اگر ہوش میں ہوتی تو حضیر اسکے پاس نا ہوتا ۔۔۔

آہہہ میرا سر ۔۔۔ جوس پی کر مشی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کراہی ۔۔۔ کیا ہوا ہے عائش سر میں زیادہ درد ہورہا ہے کیا ؟ مشی کے کراہنے پر حضیر نے فکرمندی سے پوچھا جس پر مشی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ حضیر باہر چلو سب انتظار کر رہے ہونگے مشی ٹھیک ہے پریشان نہ ہو ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر سے کہا تو حضیر نے بھی انکی بات پر سر اثبات میں ہلایا اور مشی کا نقاب ٹھیک کرکے اسے کھڑا کیا تو مشی ایک دم لڑکھڑانے لگی ۔۔۔۔ دیھان سے عائش ۔۔۔۔ حضیر نے مشی کو سنبھالتے ہوئے کہا اور اسے لئے نیچے لان کی طرف چل دیا تو اذہان صاحب بھی اسکے پیچھے ہی نیچے چل دیے ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

مسیّب یہ حضیر کہاں رہ گیا ہے بلاؤ اسے سب اسکا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ڈیڈ آپ غصہ نہیں ہو میں بلاکر لاتا ہوں ۔۔۔۔۔ اذان صاحب نے مسیب کو اپنے پاس بلاکر تھوڑے غصے سے کہا تو مسیب نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اور وہاں سے جانے لگا ابھی وہ دو قدم ہی چلا تھا کہ ہال کی تمام لائٹس آف ہوگئی اور ایک اسپاٹ لائٹ باہر لان کی طرف نکلتی ہوئی سیڑھیوں پر تھی جس کی روشنی میں حضیر عفراء کو گود میں لئے ایک ہاتھ سے مشی کو سنبھالے شان سے پروقار چال چلتے ہوئے ان کی طرف ہی آرہا تھا جبکہ اس سلطنت کے بادشاہ جیسی آن بان شان رکھنے والے کے ساتھ حور جیسی اسکی ملکہ اور اس بادشاہ کے ہی عکس کی شہزادی کو دیکھ کر ہال میں مختلف صدائیں بلند ہوئی ۔۔۔

ماشاءاللہ ۔۔۔ نائس کپل ۔۔۔ میڈ فور ایچ ادھر ۔۔۔ ویری بیوٹیفل کپل ۔۔۔۔

جبکہ ان کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت سے لوگ رشک اور خوشی سے دیکھ رہے تھے تو وہیں بہت سے لوگ اپنی آنکھوں میں حقارت غصے اور نفرت کی چنگاریاں لئے انہیں گھور رہے تھے جیساکہ اگر بس چلے تو یہیں اپنی حسد کی آگ میں انکے وجود کو جلاکر بھسم کردینگے لیکن شاید وہ بھول بیٹھے تھے کہ حسد کی آگ سب سے پہلے حسد کرنے والے کو ہی جلاتی ہے ۔۔

لیڈیز اینڈ جینٹل مین جیساکہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج کی یہ پارٹی میرے بڑے بیٹے کے ہمیشہ کے لئے پاکستان شفٹ ہونے کی خوشی میں رکھی گئی ہے  اور اسکے ساتھ ساتھ آج میں اپنی کمپنی کا سی ای او اپنے لاڈلے بیٹے حضیر خُزیمہ کاردار کو بنانے کا خواہشمند ہوں تو حضیر آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ۔۔۔۔ ان تینوں کے اسٹیج پر پہنچتے ہی اذان صاحب نے مائک میں سب کو مخاطب کرنے کے بعد مشی اور عفراء کو اگنور کرتے ہوئے حضیر سے رائے لی ۔۔۔

 اسلام علیکم ایوری ون فرسٹ آف آل میں آپ سب سے اپنا تعارف کروانا چاہونگا سو آئی ایم حضیر خُزیمہ کاردار اینڈ شی از مائے وائف اینڈ ڈاٹر مشکات حضیر خُزیمہ کاردار اینڈ عفراء حضیر خُزیمہ کاردار اور سیکنڈ میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہماری خوشیوں میں شریک ہوئے اور جیساکہ آپ سب جانتے ہیں میں خود ایک بزنس ٹائیکون ہوں تو مجھ پر ویسے ہی بہت زمیداریاں ہیں اور میرا ایک اصول ہیکہ جتنی زمیداریاں میں نبھاسکتا ہوں اتنی ہی ذمیداریوں کا بوجھ میں اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہوں سو ڈیڈ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور مجھے اتنی عزت اور مان بخشا لیکن معذرت کے ساتھ میں یہ زمیداری نہیں نبھاسکونگا سو پلیز آپ یہ زمیداری گھر کے کسی اور ممبر کو سونپ دیں آئی ہوپ وہ مجھ سے زیادہ اچھی طرح اس زمیداری کو نبھائیگا ۔۔۔۔۔

اذان صاحب کے کہنے پر حضیر نے مشی اور عفراء کا تعارف کروانے کے ساتھ شائستگی سے انکار کیا جس پر اذان صاحب آگ بگولہ ہوگئے لیکن سب کے سامنے خود پر ضبط کرنے لگے ۔۔۔۔ 

مجھے خوشی ہوئی میرے لختِ جگر نے اپنے بھائیوں کا خیال کیا اور میں ان ٹیپیکل فادرز میں سے نہیں ہوں جو اپنی اولاد پر اپنی مرضی مسلط کرے اور مجھے یقین ہے اگر میرے بیٹے نے کہا ہے تو واقعی کاردار ولا کا کوئی اور فرد اس زمیداری کو اچھے سے نبھائیگا کیونکہ میں نے اپنی اولاد کو محنت کرنا سیکھایا ہے اور آج اپنی محنت کے تحت ہی کاردار ولا کا ایک ایک فرد ایک اونچے مقام پر فائز ہے خیر مشکات بیٹا آپ کچھ کہنا چاہینگی ۔۔۔۔۔

اذان صاحب نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے مشکات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جس میں حضیر اپنی مٹھیاں بھینچتا غصہ ضبط کرنے لگا کیونکہ حضیر نے بمشکل مشکات کو کھڑا کیا ہوا تھا جو کہ بار بار لڑکھڑا رہی تھی اور اسکی آنکھیں پلکوں کا بوجھ اٹھانے سے انکاری تھی جس سے بار بار وہ آنکھیں جھپک کر خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ذہن کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے سے قاصر تھا جبکہ اسکی یہ حالت حضیر کو بھی پریشان کر رہی تھی اس لئے وہ جلد از جلد اسٹیج سے اترنا چاہتا تھا لیکن اذان صاحب نے اسے کھڑے رہنے پر مجبور کردیا کیونکہ اب اگر وہ انکار کرتا تو اذان صاحب کی انسلٹ ہوجاتی اور اگر مشکات کچھ الٹا سیدھا غیر حاضر دماغ کی وجہ سے کہہ دیتی تب بھی اس پر اور مشکات پر سب ہنستے اس لئے وہ پریشانی سے خاموش کھڑا مشی کے جواب کا انتظار کرتا رہا ۔۔۔۔

جی بلکل ۔۔۔۔ اذان صاحب کے کہنے پر مشی نے بمشکل اپنی آنکھوں کو کھولتے ہوئے جواب دیا جس پر سارے لان میں خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔

اذان صاحب کے کہنے پر مشکات نے انہیں جواب دیتے ہوئے انکے ہاتھ سے مائک لیکر دل میں بسم اللہ پڑھ کر پڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔

پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

بدنگاہی نا کر بدنگاہی نا کر ۔

پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

بدنگاہی نا کر بدنگاہی نا کر ۔

مشی نے ایک پیراگراف مکمل کر کے ایک خاموش نظر پورے لان میں ڈالی جہاں سب دھم سادھے اسکے آواز کے سحر میں جکڑے اسے سن رہے تھے ۔

آنکھ پُرنم نہ ہو دل میں کچھ غم نہ ہو ۔

مقصدِ زندگی غیر محرم نہ ہو ۔

آنکھ پُرنم نہ ہو دل میں کچھ غم نہ ہو ۔

مقصدِ زندگی غیر محرم نہ ہو ۔

مشی نے دوسرا پیراگراف مکمل کر کے ایک نظر حضیر کو دیکھا جو کہ رشک بھری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

بے خبر چھوڑ آوارگیِ نظر ۔

بدنگاہی نا کر بدنگاہی نا کر ۔

پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

مشی نے تیسرا پیراگراف مکمل کر کے اذان صاحب کو دیکھا جو اسے ہی گھور رہے تھا ۔

مصنوعی یار کا مصنوعی پیار ہے ۔

مصنوعی پیار میں دل گرفتار ہے ۔

مصنوعی یار کا مصنوعی پیار ہے ۔

مصنوعی پیار میں دل گرفتار ہے ۔

مشی نے تیسرا پیراگراف مکمل کر کے آنکھیں بند کر کے چوتھا پیراگراف شروع کیا ۔۔

رب کی جانب چلو تیز سے تیز تر ۔

بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 مشی نے چوتھا پیراگراف مکمل کر کے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا جہاں اناب اور مصباح مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

 تجھ کو ڈگری ملی ڈَگ٘رِ مولا نہیں ۔

 تیرے ہونٹوں پہ کیوں ذکرِ مولا نہیں ۔

 تجھ کو ڈگری ملی ڈَگ٘رِ مولا نہیں ۔

 تیرے ہونٹوں پہ کیوں ذکرِ مولا نہیں ۔

 مشی نے پانچواں پیراگراف مکمل کر کے حضیر کے کندھے سے لگی عفراء کو پیار بھری نظر سے دیکھا ۔

 راہِ شیطان کو چھوڑ دے اے بشر ۔

 بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

 رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

 بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 مشی نے چھٹا پیراگراف مکمل کر کے حضیر کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موندتے ہوئے آخری پیراگراف شروع کیا ۔

 دل پریشان ہے معصیت (نافرمانی/گناہ) چھوڑدے ۔

 رب مہربان ہے معصیت چھوڑدے ۔

 دل پریشان ہے معصیت چھوڑدے ۔

 رب مہربان ہے معصیت چھوڑدے ۔

 چاہتے ہو دعاؤں میں ہُدہُد اثر ۔

 بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

 رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

 بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 پُرسکون زندگی چاہتے ہو اگر ۔

 رب کی منشاء پہ چل بندہِ بے خبر ۔

 بدنگاہی نہ کر بدنگاہی نہ کر ۔

 مشی نے جیسے ہی آخری پیراگراف مکمل کیا اسکے ہاتھ سے مائک چھوٹ کر گرا اور وہ ایک دم لڑکھڑاتی گرنے کو تھی کہ حضیر نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالا جبکہ مشی کو گرتے دیکھ مسیّب برداء مبشر جلدی سے بھاگتے ہوئے اسٹیج پر آئے برداء نے جلدی سے عفراء کو حضیر سے لیا تو حضیر نے جلدی سے مشی کو سنبھالا اور اسے لیکر اندر رہائشی حصے کی طرف بڑھ گیا تو باقی سب بھی اسکے پیچھے اندر بھاگے ۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یار تو اس مشی کا انتظار تو ایسے کر رہی تھی جیسے کچھ بہت بڑا کرنے والی ہے لیکن ابھی تک کچھ کیا تو نہیں تو نے ۔۔۔ مبّراء نے سامنے اسٹیج پر نظم پڑھتی مشی کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ردابہ کے کان میں سرگوشی کی جو کہ اسٹیج کی طرف ہی متوجہ تھی ۔۔۔۔ 

تیر کمان سے نکل چکا ہے اب دیکھنا یہ ہیکہ تیر لگتا کہاں ہے ۔۔۔۔

مبّراء کے پوچھنے پر ردابہ نے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ سجاتے ہوئے اسٹیج پر کھڑی مشی کو دیکھتے ہوئے ذومعنٰی لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔

کیا مطلب میں سمجھی نہیں کیا کیا ہے تو نے ؟

 ردابہ کی بات پر مبّراء نے ناسمجھی سے پوچھا جس پر ردابہ کے ہونٹوں پر رقص کرتی شیطانی مسکراہٹ اور گہری ہوئی ۔۔۔

جب میں فون کال سننے پچھلے لان میں گئی تھی تو میں نے حضیر کو مشی کو لاتے دیکھا تو میں نے اسکا پیچھا کیا حضیر مشی کو اپنے روم میں لیکر جارہا تھا بیک ڈور سے کیونکہ وہ بے ہوش تھی اور پھر جاتے ہوئے حضیر نے ایک ویٹر کو پانی اور جوس لانے کو کہا تو وہ وہاں سے چلا گیا تو میں بھی اس ویٹر کے پیچھے گئی اور جوس میں نشے آور گولیاں ملادی اور پھر ویٹر وہ جوس لے گیا اور پھر مشی نے وہ جوس پیا ہوگا جس کی وجہ سے وہ لڑکھڑا رہی تھی لیکن حضیر نے اسے سنبھالا ہوا تھا لیکن میرے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ نشے آور گولیوں نے اپنا اثر اتنی دیر بعد کیوں دیکھایا حالانکہ جوس پیتے ہی مشی کو سوجانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور میرا سارا پلان چوپٹ ہوگیا لیکن کوئی بات نہیں اگر میں نے یہ پارٹی حضیر کے ساتھ انجوائے نہیں کی تو میں نے مشی کو بھی انجوائے نہیں کرنے دیا ۔۔۔

واہ یار ردابہ کیا دماغ پایا ہے تو نے تو وہ مثال قائم کی وہ کہتے ہیں ناں کہ نا کھاؤ نا کھانے دوں ڈھول دوں ۔۔۔ مبّراء کے پوچھنے پر ردابہ نے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنا گھٹیا کارنامہ اسکے گوش و گزار کیا جس پر مبراء داد دیے بغیر نا رہ سکی ۔۔۔۔۔ یہ تو بس شروعات ہے میری جان آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔ ردابہ نے مبّراء سے داد وصول کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہا اس بات سے بے خبر کہ ان یہ گفتگو ان کے لئے عنقریب پھانسی کا پھندہ ثابت ہونے والی ہے ۔۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

بھائی بھابھی نے یہاں آنے کے بعد کچھ کھایا یا پیا تھا کیا ؟

مسیّب نے مشی کا معائنہ کر کے پاس کھڑے حضیر سے پوچھا جو کہ پریشانی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کھایا تو کچھ نہیں تھا لیکن میں نے اورنج جوس پلایا تھا ۔۔۔ اچھا آپ باہر چلیں میرے ساتھ اور پریشان نا ہو بھابھی سو رہی ہیں بے ہوش نہیں ہیں ۔۔۔ حضیر نے کہنے پر مسیب نے کہا اور باہر چلا گیا تو پیچھے حضیر بھی مشی پر کمفرٹر ٹھیک کرکے اسکے ماتھے پر پیار کر کے باہر چلا گیا ۔۔۔۔ مسیب مجھے کھل کر بتاؤ آخر مسلئہ کیا ہے ۔۔۔۔ کمرے سے باہر آکر حضیر نے مسیب سے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔۔

بھائی بھابھی کو جو آپ نے اورنج جوس پلایا تھا اس میں نشے آور دوائی مکس تھی اور چونکہ جوس کھٹا تھا اس لئے بھابھی پر دوائی کا اثر کم اور دیر سے ہوا ہے لیکن بھابھی بلکل ٹھیک ہیں بس انہیں آپ سکون سے سونے دیں جب دوائی کا نشہ ختم ہوگا بلکل ٹھیک اٹھینگی ۔۔۔۔ شکر ہے اللّٰہ کا لیکن یہ حرکت جس نے بھی کی ہے وہ بچے گا نہیں مجھ سے خیر موسم خراب ہورہا ہے کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے تم لوگ سارے مہمانوں کو رخصت کرو کیونکہ میں باہر نہیں آرہا اب اور برداء کو کہو عفراء کو مجھے دیکر جائے وہ سورہی تھی باہر پریشان ہورہی ہوگی ۔۔۔۔ 

حضیر نے مسیب کو اپنے خطرناک ارادوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہدایت دی جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا چلا گیا ۔۔۔

حضیر بیٹا اب اجازت دو ہم بس اب گھر جائینگے موسم خراب ہورہا ہے ۔۔۔۔

مسیب کے جانے کے بعد جیسے ہی حضیر اپنے روم میں جانے کے لئے مڑا تو اذہان صاحب عفراء کو گود میں لیے اسکی طرف آتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔۔

چاچو موسم خراب ہے آج آپ یہیں رک جاؤ عائش بھی سورہی ہے اور عفراء بھی اور خدانخواستہ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی یا بارش تیز ہوگئی تو آپ پریشان ہو جائینگے اس لئے پلیز آج رات یہی رک جائیں صبح بھلے آپ فجر میں چلے جائیگا ۔۔۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے التجا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میں یہاں پر نہیں رکنا چاہتا تم اچھے سے جانتے ہو پھر بھی مجھے فورس کر رہے ہو ۔۔۔

 میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے چاچو میری کسی بات سے انکار بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ اذہان صاحب کے گھورتے ہوئے کہنے پر حضیر نے مسکین سے شکل بناتے ہوئے مکھن لگایا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن میں یہاں ایز آ گیسٹ رات گزارونگا اس لئے مجھے کوئی فیملی پروٹوکول دینی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرا صرف تم بچوں سے رشتہ ہے اور باقی کاردار ولا کے سب بڑے میرے لئے اجنبی ہے اس لئے کوئی میرے ساتھ رشتے نبھانے کی کوشش نا کرے ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے اسپاٹ لہجے میں اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ سامنے گیسٹ روم میں چلے جائیں آپکو کوئی ڈسٹرب نہیں کریگا انفیکٹ میں کسی کو بتاؤنگا ہی نہیں کہ آپ یہاں ٹہرے ہیں اور اب عفراء کو مجھے دے دیں تاکہ تھوڑا وقت میں بھی اپنی شہزادی کے ساتھ گزارلوں ۔۔۔۔۔۔

آپکی شہزادی آج رات آپکو رات میں سورج دیکھائیگی کیونکہ میڈم اپنی نیند پوری کرچکی ہے اور اب ساری رات اسکے ساتھ جاگ کر آپکو کھیلنا پڑیگا اور یہ میڈم آپکو تگنی کا ناچ نچائیگی ۔۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے عفراء کو اسکی گود میں دیتے ہوئے آگاہ کیا ۔۔۔ کوئی بات نہیں چاچو آپ نہیں جانتے میں نے کتنی دعائیں کی تھی اللّٰہ سے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ پہلی اولاد بیٹی دے اور میں کتنا بدنصیب باپ ہوں بیٹی کی پیدائش کا مجھ بدبخت کو معلوم ہی نہیں ہوسکا اور اب ایک سال بعد بیٹی ملی ہے تو میرا دل کرتا ہے میں اپنا سارا وقت اپنی بیٹی کے ساتھ گزاروں میری شہزادی شرارتیں کرے اور میں اسکو عائش سے ڈانٹ پڑنے سے بچاؤ عفراء کے ساتھ خوب کھیلوں بس میں اپنے احساسات لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ۔۔۔۔

اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا جبکہ اپنے ہاتھوں سے کیے گئے خسارے پر ایک پشیمان سا آنسو آنکھوں کی باڑ توڑ کر داڑھی میں جذب ہوگیا ۔۔۔ بیٹا ابھی بھی وقت ہے ابھی تو کچھ بگڑا بھی نہیں ہے تمہاری شادی کو دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے اس لئے جو بھی اب تک ٹھوکر کھائی ہے اس سے عقل حاصل کرو تاکہ آگے کی زندگی خوشگوار گزر سکے سکھ دکھ تو زندگی کا حصہ ہے لیکن جب سکھ یا دکھ اپنے شریکِ حیات سے بانٹ لیا جائے تو اس دکھ یا پریشانی کا بوجھ کم ہوجاتا ہے ایک اچھی شریکِ سفر ملنا آج کے دور میں بہت مشکل ہے اور تمہیں اللّٰہ نے ایک بہترین پرہیزگار اور خوبصورت بیوی سے نوازہ ہے تو اسکی قدر کرو اور اس سے پیار محبت سے پیش آؤ کیونکہ تمہاری نسل کو وہی سنواریگی اور اگر تم اس سے تلخ لہجہ اختیار کروگے تو وہی تلخی تمہاری نسل بھی پائی جائیگی یہ بات میری یاد رکھنا میں نے کبھی بھی مشی کے سامنے حیا سے اونچی آواز میں بات نہیں کی کیونکہ مجھے پتہ تھا آج میں کرونگا تو کل کو مشی بھی کریگی اور ممکن ہے پرسو مشی مجھ سے بھی تیز آواز میں بات کرے کیونکہ ایک بچہ والدین اور استاد کی نصیحتوں سے زیادہ اسکے عمل اور فعل سے سیکھتا ہے اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کے پہلے خود عمل کرو پھر دوسروں کو تلقین کرو تاکہ پھر دوسرا چاہے کوئی بھی ہو آپکو پلٹ کر یہ طعنہ نا دے سکے کہ خود تو عمل کرتا نہیں ہے اور دوسروں کو تلقین کرتا ہے بیٹا زندگی بہت مختصر ہے کب کیا پتہ کس کا دم نکل جائے اس لئے جتنا ہوسکے اپنی آخرت کی تیاری کرو اور اپنے گناہوں کی کثرت سے معافی مانگو تاکہ روزِ محشر سرخرو ہوسکوں خیر اب میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں میرے سونے کا ٹائم ہوگیا ہے ۔۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کو سمجھاتے ہوئے کہا اور اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے گیسٹ روم میں چلے گئے تو حضیر بھی عفراء کو پیار کرتا اپنے روم میں چل دیا ۔۔۔

رات کے بارہ بجے کا وقت تھا پارٹی اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی اور سب مہمان جاچکے تھے چونکہ سب پارٹی کی وجہ سے بہت تھک گئے تھے اس لئے اپنے اپنے کمروں میں خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ایسے میں کاردار ولا کے سب سے کشادہ اور خوبصورت کمرے میں ایک سالہ عفراء بیڈ پر بیٹھے ٹکر ٹکر پورے کمرے کا جائزہ لینے میں مگن تھی ۔۔۔

آہہہ ۔۔۔ حضیر ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا کہ اسے لگا کہ کوئی اسکے بال پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے اور پھر تکلیف کو نا سہتے ہوئے اسکے منہ سے کراہ نکلنے کے ساتھ اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا عفراء دونوں ہاتھوں سے اپنی پوری جان لگاکر حضیر کے بال کھینچ رہی تھی ۔۔۔

کیا ہوا بابا کی شہزادی بال تو چھوڑو بابا کے ۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کی مٹھی پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے مسکین سی شکل کے ساتھ اس سے گزارش کی جس پر عفراء کے کھلکھلانے کی آواز پورے کمرے میں گونجی جیساکہ اسے حضیر کی بات سمجھ آئی ہو ۔۔۔ چلو اپن باہر چلتے ہیں کیونکہ آپ کا تو مجھے سونے کا اب کوئی ارادہ نہیں لگتا اور پھر ہماری آواز سے آپکی مما اٹھ جائینگی ۔۔۔۔

حضیر نے بمشکل اپنے بال عفراء کی مٹھیوں سے چھڑاواکر بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا اور اسے گود میں اٹھاتا کمرے سے باہر چل دیا تاکہ مشی کی نیند خراب نا ہو ۔۔۔۔ میرا بچہ کب سے بھوکا ہے چلو بابا آپکو فیڈر پلاتے ہیں لیکن بابا کو فیڈر بنانی ہی نہیں آتی اب کیا کریں عفراء ؟ 

حضیر عفراء کو گود میں اٹھائے اس سے باتیں کرتے ہوئے لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگا جس پر عفراء کھلکھلانے لگی جیسے حضیر کی ساری بات اسکے سمجھ میں آرہی ہو ۔۔۔

چلو کوئی نہیں آپکی پھوپھو کب کام آئینگی ؟ انکے روم میں چلتے ہیں تاکہ وہ میرے بچے کا فیڈر بناکر دیں آخر انکا بھی کچھ حق ہے ۔۔۔

حضیر عفراء سے بات کرتا ہوا اسے گود میں اٹھاتا انعمتہ والوں کے روم کی طرف بڑھ گیا جبکہ عفراء مسلسل حضیر باتوں پر سر ہلاکر اسکا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یار آخر کس نے کی ہوگی یہ حرکت تمہیں کسی پر شک ہے کیا ؟

انعمتہ نے وارڈروب میں اپنا سامان رکھتے ہوئے اور دونوں سے پوچھا جو کہ فریش ہوکر اسی کے بیڈ پر براجمان تھیں ۔۔۔

مجھے شک نہیں یقین ہے وہ بھی ثبوت کے ساتھ اور میں بہت جلد وہ ثبوت حضیر بھائی کو دینے والی ہوں تاکہ انہیں بھی تو پتہ چلے کہ انکا کون دشمن ہے جو بلاوجہ ہی انکی خوشیوں کے پیچھے پڑا ہے ۔۔۔۔

انعمتہ کے پوچھنے پر حیان نے غصے سے کہا ۔۔۔۔ کیا مطلب ہے تیری بات کا کیسا ثبوت اور کیسا یقین کھل کر بتا ۔۔۔۔

حیان کے کہنے پر حرمین نے اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا جب کہ انعمتہ بھی اسکے پر بیڈ پر بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

دراصل جب بھابھی بے ہوش ہوئی تھی اور بھائی انہیں اندر لیکر آرہے تھے تو میں انکے پیچھے اندر ہی آرہی تھی تو میرا گزر ردابہ آپی اور مبراء آپی کے پاس سے ہوا جو کہ اپنی پرسنل باتیں  کر رہی تھی تو میں وہاں رک کر انکی باتیں ریکارڈ کرنے لگی اور یہ رہی انکی پرسنل گفتگو جو کہ میرے پاس ثبوت ہے ۔۔۔

ان دونوں کے پوچھنے پر حیان نے تفصیل سے انہیں بتاتے ہوئے ردابہ اور مبراء کی ریکارڈ کی گفتگو انہیں سنادی ۔۔۔۔ واہ حیان واہ قسم سے مزہ آگیا زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے ۔۔۔۔ حیان کی بات سن کر حورعین نے اسے تھپکی کم مارتے ہوئے شاباشی دی ۔۔۔۔ ڈیش انسان ہاتھ ہے کہ ہتھوڑا میری پوری کمر لال کردی مار مار کے میری معصوم ہڈیوں کا کچومر نکلنا باقی  رہ گیا بس ۔۔۔۔ حیان نے حورعین کو گھورتے ہوئے کہا جس پر اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کی ۔۔۔ ایک سیکنڈ میں اندر کرلے اپنے دانت ورنہ مجھے توڑنے میں کوئی مسلئہ درپیش نہیں آئیگا ۔۔۔۔ حورعین کے ہنسنے پر حیان نے جلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

ٹک ٹک ٹک ۔۔۔۔ ابھی حورعین کوئی جواب دیتی کہ انکے روم کا دروازہ نوک ہوا ۔۔۔۔ اتنی رات کو کون ہے اللّٰہ خیر کرے کہیں کسی کے ٹپکنے کی خبر نہ ہو کیونکہ رات کے اس وقت ایسی ہی خبریں آتی ہے ۔۔۔۔ دروازہ بجنے پر حیان نے اپنی زبان کے جوہر دیکھانے لازمی سمجھے جبکہ انعمتہ کے گھورنے پر فوراً سے صفائی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ اب اپنی زبانوں پر قفل لگاؤ دونوں میں دروازہ کھولنے جارہی ہوں اب آواز نا آئے دونوں کی ۔۔۔۔ انعمتہ نے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا جس پر دونوں نے اچھے بچوں کی طرح اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی تو انعمتہ انہیں گھورتے ہوئے دروازہ کھولنے چلی گئی ۔۔۔

بھائی آپ خیریت اتنی رات کو ؟

دروازہ کھولنے پر حضیر کو سامنے دیکھ کر انعمتہ نے حیرانی و پریشانی سے پوچھا ۔۔۔ ہاں گڑیا آپجی بھتیجی اٹھ گئی تھی اور میری شہزادی نے کچھ نہیں کھایا اس لئے اس کا فیڈر بنادو مجھے تو کچھ آتا ہی نہیں ہے یو نو ۔۔۔۔

انعمتہ کے پوچھنے پر حضیر نے اسے جواب دیا جبکہ وہ دونوں بھی حضیر کی آواز سنتی دوڑتے ہوئے دروازے تک آئیں تھی ۔۔۔۔

اچھا چلیں بھائی اپن سب نیچے چلتے ہیں ساتھ کافی بھی پیئے گے اور باتیں بھی کرینگے ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر حیان نے فوراً سے پلان بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

خیریت کہاں جانے کی باتیں ہورہی ہیں کوئی ہمیں بھی بتائے ۔۔۔۔ ابھی وہ لوگ باتیں ہی کر رہے تھے کہ برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ تینوں نمودار ہوئے جو کہ آوازیں سن کر باہر آئے تھے اور ان چاروں کو گھورتے ہوئے مشکوک لہجے میں پوچھنے لگے ۔۔۔۔ ہم نیچے جاکر کافی پینے کا پلان بنارہے ہیں ساتھ میں گپ شپ کا بھی آنا ہے تو آجاؤ ورنہ اپنے دڑبوں میں دفعہ ہوجاؤ ۔۔۔۔۔

حضیر نے ان تینوں سے کہا اور نیچے کی جانب چل دیا تو وہ پلٹن بھی اسکے پیچھے ہی چل دی ۔۔۔۔

صحیح ہے بھئی اب آپ کا روم ایک پلاٹ جتنا بڑا ہے تو ہمارے روم تو آپکو دڑبے ہی لگے گیں کیونکہ ہم سوتیلے جو ہیں ۔۔۔ 

حضیر کے کہنے پر برداء نے اپنے نا دکھنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ ابے اوہ اپنی یہ دو نمبر ایکٹنگ بند کر 1965 کی فلم کے سستے ہیرو ۔۔۔ مبشر نے برداء کو جھڑکتے ہوئے کہا اور لاؤنچ میں لگے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ چل میں تو پھر بھی سستا ہیرو ہوں لیکن تجھے تو کوئی اپنی فلم میں ولن بھی نا لے ۔۔۔۔ برداء نے بھی اس کے پاس صوفے پر دراز ہوتے ہوئے حساب بے باک کیا ۔۔۔

مجھے ولن بننا بھی نہیں ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں آگ لگاتے پھرے ۔۔۔ برداء کے کہنے پر مبشر نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ لیکن حرکتیں تو تیری ساری پھپھی کٹنی والی ہے ۔۔۔ برداء اب اگر تو نے کچھ اور بکا تو میں تیرا گلا دبادونگا ۔۔۔ اور جیسے میں نے تو چوڑیاں پہن رکھی ہے نہ ۔۔۔ مبشر کے کہنے پر برداء نے اپنی کلائی اسے دیکھاتے ہوئے کہا جبکہ انعمتہ اور حورعین کچن میں کافی اور عفراء کا فیڈر بنانے گئی ہوئی تھی اور باقی حیان مسیب اور حضیر کوفت سے انکی لڑائی دیکھ رہے تھے جو سوتنوں کی طرح لڑنے میں مصروف تھے اس بات سے بے خبر کہ عفراء میڈم وہاں سے غائب تھی ۔۔۔

ویسا تیرا سائز کیا ہے ۔۔۔ برداء کے کہنے پر مبشر نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔۔۔ جانی جو تیرا ہے وہ میرا ہے ۔۔۔ مبشر کے پوچھنے پر برداء نے بھی آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔ خدا کے لئے چپ کرجاؤ کیوں سوتون کی طرح لڑ رہے ہو رات کا ایک بج رہا ہے سب سو رہے ہیں تم لوگ جاگ رہے ہو تو اسکا یہ مطلب نہیں ہیکہ پورا ملک جاگ رہا ہے ۔۔۔ ابھی مبشر کوئی جوابی کاروائی کرتا کہ حضیر نے ان کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی سوچیں میری کیا حالت ہوتی ہوگی ان دونوں کے بیچ جب یہ سوتنوں کی طرح لڑتے ہیں قسم سے بھائی مجھے انکے شوہروں والی فیلینگ آتی ہے کہ یہ دونوں میری بیویاں ہوں اور میں انکو آپس میں لڑتا دیکھ چپ کرواتا ہوں لیکن میری کوئی سنتا نہیں ہے جب تک ایک ایک تھپڑ بطورِ تحفے سے میں انہیں نہیں نوازتا ۔۔۔۔

حضیر کے کہنے پر کب سے خاموش بیٹھے مسیب نے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جس پر ان دونوں نے اپنی بتیسی کی نمائش کی ۔۔۔

یہ لیں گرما گرم کافی ۔۔۔ انعمتہ نے کافی کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اور عفراء کا فیڈر کہاں ہے ۔۔۔ حورعین لیکر آرہی ہے سوجی کی کھیر بنائی ہے اسکے لئے ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر انعمتہ نے جواب دیا ۔۔۔ بھائی عفراہ کہاں ہے ۔۔۔ حیان نے عفراء نا پاتے حضیر سے پوچھا ۔۔۔

آہہہہ ۔۔۔ ابھی حضیر کچھ کہتا کہ حورعین کی چیخ پر سب کچن کی طرف بھاگے ۔۔۔ کیا ہوا حورعین بچے ۔۔۔ حضیر نے حورعین سے پوچھا جو کہ فریج کھولے منہ پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے فریج کے اندر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر حورعین نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنا رخ فریج کی جانب کرلیا تو حضیر نے بھی اسکی نظروں کا تعاقب کیا جبکہ باقی سب پیچھے کھڑے مسلئہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔

عفراء ۔۔۔ حضیر نے حورعین کی نظروں کا تعاقب کیا تو سامنے فریج کے اندر بیٹھ کر آئسکریم کھانے سے زیادہ کپڑوں اور منہ پر لگاتی عفراء کو دیکھ کر صدمے سے بے ساختہ اسے پکار بیٹھا جبکہ اسکی پکار پر سب آگے ہوتے عفراء کو دیکھنے لگے اور پھر ایک قہقہوں کے نا رکنے والا طوفان اٹھا جبکہ سب کو دیکھ کر عفراء بھی کھلکھلانے لگی ۔۔۔ یہ کب بیٹھی فریج میں کسی نے دیھان بھی نہیں دیا اور اگر تھوڑی دیر ہوجاتی یا اللّٰہ عفراء آپ بہت شرارتی ہو ۔۔۔۔۔ حضیر نے عفراء کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا اور سنگ سے اسکا منہ دھلانے لگا جبکہ سب اپنی مسکراہٹ دباتے حضیر کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔

کیا سے کیا ہوگئے بھائی واقعی اولاد سب کچھ کروادیتی ہے ۔۔۔۔

مسیب نے حضیر کو دیکھتے ہوئے پاس کھڑے سب سے کہا ۔۔۔ حیان بیٹا آپ عفراء کے لئے سوجی کی کھیر لے آئیں ۔۔۔۔ حضیر نے حیان سے کہا اور عفراء کو لیکر دوبارہ لاؤنچ میں آگیا تو سب بھی اسکے پیچھے لاؤنچ میں آگئے ۔۔۔۔

ویسے حضیر بھائی کوئی کچن میں جانا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا ۔۔۔۔۔

برداء عادت سے مجبور بولے بغیر نا رہ سکا ۔۔۔۔ واقعی سہی کہا لیکن تمہاری اس بات کا جواب تمہیں تب دونگا جب تم باپ بنوگے ۔۔۔ برداء کے کہنے پر حضیر نے بغیر برا مانے جواب دیا اور اپنی کافی اٹھاکر پینے لگا جبکہ عفراہ کو ایک ہاتھ سے اس نے قابو کیا ہوا تھا جو کہ اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

آہہ ۔۔۔ حضیر نے ابھی کپ منہ سے لگایا ہی تھا کہ عفراء نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اس سے کپ چھینا جس سے تھوڑی سی کافی جھلک کر حضیر پر گری جبکہ عفراہ اسکے سمجھنے سے پہلے حضیر کے مگ کو منہ سے لگاچکی تھی جبکہ سب منہ کھولے اسکی کاروائی دیکھ رہے تھے اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ مگر خالی کر کے حضیر کو دے رہی تھی ۔۔۔۔ 

ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ بھائی قسم سے یار بہت کیوٹ ہے عفراء آپ کو ٹکر کہ بیٹی دی ہے اللّٰہ نے صحیح ناکوں چنے چبوائیگی آپ کو ۔۔۔۔ عفراء کی حرکت پر مسیب نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ عفراء اب حضیر کی گود میں چڑھ کر آنکھیں موند چکی تھی جو کہ اس کے سونے کا واضح اظہار تھا ۔۔۔ آخر بیٹی بھی تو میری ہے اور اب اپنے اپنے کمروں میں جاؤ رات کے تین بج رہے ہیں اور میری شہزادی بھی سونے لگی ہے اس لئے میں تو روم میں جارہا ہوں ۔۔۔۔ حضیر نے سب کو حکم دیتے ہوئے کہا اور عفراء کو لیکر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو باقی پیچھے سب بھی اپنے اپنے روم کی طرف چل دیے ۔۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر نے ایک نظر ڈائننگ ٹیبل کی چئیرز پر بیٹھے تمام افراد کو دیکھتے ہوئے سلام کیا جو کہ مشی کو فل سیکیورٹی کے ساتھ چھوڑ کر ابھی آیا تھا ۔۔۔ وعلیکم سلام بیٹا آجاؤ ناشتہ کرلو کہاں گئے تھے اتنی صبح صبح اور یہ چادر کس کی ہے ۔۔۔ انعم بیگم نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ اسکے ہاتھ پر پکڑی چادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا جو حضیر مشی کے سوئے ہوئے وجود کو اوڑھاکر لیکر گیا تھا اور آتے ہوئے اپنے ساتھ لے آیا تھا تاکہ مشی کو شک نا ہو ۔۔۔ میں عائش کو چھوڑنے گیا تھا اور یہ چادر بھی عائش کی ہے ۔۔۔ حضیر انعم بیگم کو مختصر سا جواب دیکر بنا انہیں کوئی دوسری بات کرنے کا موقعہ دیے لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اپنے روم میں چلا گیا جبکہ اسکی حرکت پر انعم بیگم کھول کر رہ گئیں ۔۔۔۔

حضیر اپنے روم میں آکر آفس جانے کے لئے تیار ہوا اور آئینے میں سے ایک نظر اپنے وجود پر ڈال کر وارڈروب کی طرف بڑھا اور اپنا سیف کھول کر مشی کو دیا ہوا منہ دیکھائی کا سیٹ اس میں سے نکال کر اپنے آفس بیگ میں رکھا اور سیف دوبارہ سے لاک کرتا ڈائننگ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

ردابہ جو آپ نے کل سیٹ پہنا تھا وہ کہاں سے لیا تھا ؟

حضیر نے بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے ردابہ سے پوچھا جبکہ سب حضیر کے سوال پر اسے تعجب سے دیکھنے لگے تو دوسری طرف ردابہ دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی کہ حضیر نے مشی کے ہوتے ہوئے بھی اسے نظروں میں رکھا ۔۔۔

میں نے گفٹ کیا تھا اچھا تھا ناں ۔۔۔ ردابہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انعم بیگم نے حضیر کو جواب دینے کے ساتھ سوال کیا کیونکہ وہ تو چاہتی ہی یہی تھی کہ حضیر مشی کو چھوڑ کر ردابہ کو اپنالے ۔۔۔ ہہہم ۔۔۔ انعم بیگم کے پوچھنے پر حضیر نے صرف ہنکارہ بھرا ۔۔۔

صاحب آپ کے کہنے کے مطابق کل والے سب ویٹرز حاضر ہیں ۔۔۔

ابھی انعم بیگم کچھ کہتی کہ ایک ملازم مؤدب سا ہاتھ باندھے نظریں نیچے کئے وہاں آکر حضیر سے کہنے لگا جس پر حضیر نے ایک نظر ان سب پر ڈالی ۔۔۔ اس ویٹر کے علاؤہ سب جاؤ ۔۔۔ حضیر نے ایک ویٹر کے علاؤہ سب کو جانے کا کہا تو سب وہاں سے چلے گئے جبکہ وہ بیچارہ اپنی غلطی تلاش کرنے لگا ۔۔۔

جوس کل تم ہی لائے تھے ناں ۔۔۔ حضیر نے اس ویٹر کا گریبان پکڑ کر سرد لہجے میں پوچھا ۔۔۔ جججی صاحب ۔۔۔ حضیر کے جارحانہ انداز پر اس ویٹر نے کپکپاتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ تو پھر کیا ملایا تھا اس جوس میں اور کس کے کہنے پر ملایا تھا ۔۔۔ ویٹر کے جواب دینے حضیر نے ایک زوردار طمانچہ اسکے منہ پر مارکر دھاڑتے ہوئے کہا جس پر ویٹر زمین پر جاگرا جبکہ سب دھم سادھے حضیر کا جلالی روپ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے کسی کی ہمّت نہیں  ہورہی تھی حضیر کو روکنے کی ۔۔۔ صاحب معافی صاحب مجھے نہیں پتہ صاحب قسم سے اللّٰہ کی قسم مجھے کچھ نہیں معلوم ۔۔۔ حضیر کے مارنے پر اس ویٹر نے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی میں نے آپکو ایک ریکارڈنگ بھیجی ہے اس سے آپ کو پتہ چل جائیگا اصل گناہگار کون ہے ۔۔۔

حضیر کو دوبارہ ہاتھ اٹھاتے دیکھ حیان نے جلدی سے آگے بڑھ کر حضیر کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔ دفعہ ہوجاؤ یہاں سے اور دوبارہ مجھے نظر نا آنا ورنہ تمہاری لاش بھی کسی کو نہیں ملیگی ۔۔۔ حیان کے کہنے پر حضیر نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کر کے ویٹر کو دھمکاتے ہوئے کہا جس پر ویٹر اپنی جان خلاصی ہونے پر گرتا پڑتا وہاں سے بھاگا تھا ۔۔۔

ردابہ اور مبراء اگر آفس آنا ہے تو وقت پر پہنچ جانا ۔۔۔ ویٹر کے جانے کے بعد حضیر نے ردابہ اور مبراء سے کہا اور ٹیبل سے اپنا سامان اٹھاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

مصباح یہ حضیر بھائی خود کو سمجھتے کیا ہیں پہلے مشی کو زبردستی پارٹی میں بلوایا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سب کو دیکھ کر اسکی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اور پھر اسکی حفاظت بھی نہیں کر پائے انکے ہی گھر میں ان کی ہی بیوی کو کوئی نشے آور گولیاں جوس میں ملامر پلاگیا اور انہیں خبر تک نہیں ہوئی یہ تو اچھا ہے کہ مشی انکے گھر جانے کو راضی نہیں ہے ورنہ تو کاردار ولا کے لوگ مشی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینگے ۔۔۔۔ مصباح کے فون اٹھاتے ہی اناب شروع ہوگئی ۔۔۔

اناب اناب کالم ڈاؤن اتنا ہائیپر نہیں ہو میں جانتی ہو تیری جان بستی ہے مشی میں لیکن پگلی ہر بات کو نیگیٹو نہیں لیتے حضیر بھائی نے مشی کو پارٹی میں اس سے بلایا تھا تاکہ وہ مشی کو سب لوگوں سے مسز حضیر کے طور پر متعارف کرواسکیں تاکہ کوئی مشی پر ایک نظرِ غلط ڈالنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے کہ اسکے بعد اسکا انجام کیا ہوگا ہر بات کو نیگیٹو نہیں لیتے اور جو کل مشی کے ساتھ حادثہ ہوا وہ اسکے نصیب تھا اس میں حضیر بھائی کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہوتا تو نے دیکھا نہیں تھا کہ حضیر بھائی نے مشی کو ایک منٹ کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا کیونکہ وہ مشی سے محبت کرنے کے ساتھ اسکی قدر کرتے ہیں اور دوسری بات انہیں اپنے گھر والوں پر یقین نہیں ہے تبھی تو انہوں نے نا تو مشی کو اسکے سسرالیوں سے ملوایا اور نا ہی عفراء کو اسکے ددھیال سے اور ہر کام میں اللّٰہ کی مصلحت ہوتی ہے اور اب حضیر بھائی اور محتاط ہو جائینگے اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اگر انکو مجرم پتہ لگ گیا تو دیکھنا تم وہ کیا حال کرتے ہیں اسکا اور ممکن ہے کہ اگر اب حضیر بھائی مشی کو اپنے ساتھ لیکر جائیں تو الگ گھر میں لیکر جائیں جہاں انکی فیملی کے سواء  کوئی نا ہو ۔۔۔ خیر مجھے تو اپنے ہونے والے جیجو پر ترس آرہا ہے تیری جذباتیات اور نیگیٹوٹی دیکھ کر ۔۔۔

مصباح نے اناب کو رسان سے سمجھانے کے ساتھ شرارت سے کہا ۔۔۔ تو میں بھی کہہ دونگی بھئی ہم تو ایسے ہی ہے من موجی شادی کرنی ہے تو کرو اور اگر نہیں کرنی تو تم اپنے راستے اور میں اپنے ۔۔۔ مصباح کے کہنے پر اناب نے بھی شوخی سے جواب دیا ۔۔۔ رہنے دے میڈم یہ تو وقت بتائیگا خیر مجھے تو مشی کا ایکسپیرئینس دیکھ کر شادی کے نام سے بھی ڈر لگنے لگا ہے ۔۔۔ اناب کے کہنے پر مصباح نے ڈرتے ہوئے کہا ۔۔۔ مصباح کہہ تو تو صحیح رہی ہے سب سے زیادہ تو مشی ڈرتی تھی شادی کے نام سے لیکن دیکھ سب سے پہلے اسی کی شادی ہوئی اور اب ماشاءاللہ سے ایک بچی کی ماں ہے لیکن جتنا برا مشی کے ساتھ ہوا ہے ناں اللّٰہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نا کرے اللّٰہ کسی دشمن کو بھی مشی جیسا سسرال نا دے ۔۔۔ مصباح کے کہنے پر اناب نے دعا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا چل ٹھیک ہے نماز کا وقت ہورہا ہے بعد میں بات کرونگی ۔۔۔ چل ٹھیک ہے میں بھی بس نماز پڑھنے جارہی ہوں ۔۔۔ مصباح کے کہنے پر اناب نے بھی الوادعی کلمات کہہ کر فون کاٹ دیا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

آپ یہ سیٹ چیک کر کے بتائیں کہ یہ سیٹ اصلی ہے یا نقی ۔۔۔ حضیر گھر سے ڈائریکٹ جیولر کے پاس ہی آیا تھا تاکہ اپنے شک کی تصدیق کرواسکتے اس لیے اب جیولری شاپ میں بیٹھا جیولر کو سیٹ دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔

پانچ منٹ سر میں ابھی چیک کر کے بتاتا ہوں چھوٹو جا سر کے لئے جوس لیکر آ ۔۔۔ جیولر نے حضیر کو جواب دینے کے ساتھ دکان میں کام کرتے چھوٹے لڑکے سے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا دکان سے باہر چلا گیا ۔۔۔

معزرت کے ساتھ سر لیکن میں نے اس سیٹ کو اچھی طرح چیک کیا ہے یہ نقلی ہے ۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد جیولر نے حضیر کو سیٹ دیتے ہوئے کہا جو کہ چھوٹو جا لایا ہوا جوس پی رہا تھا ۔۔۔ ہہہم ٹھیک ہے ۔۔۔ اپنے شک کی تصدیق ہونے پر حضیر نے جوس ختم کر کے ڈبہ ڈسٹبین میں پھینکتے ہوئے کہا اور سیٹ کاؤنٹر سے اٹھاکر دوبارہ سے اپنے آفس بیگ میں رکھا اور وائلٹ سے چند نوٹ نکال کر جیولر کو دیے اور وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

سر ردابہ میم اور مبراء میم آئی ہیں ۔۔۔ حضیر جو کہ فائلز میں سر دیے انہیں ریڈ کرنے میں مصروف تھا اہتشام کے کہنے پر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ انہیں اندر بھیجو اور آج سے میم نہیں مس کہنا کیونکہ آج سے وہ دونوں بھی یہاں کی ایپلوائے ہونگی ۔۔۔ حضیر نے اہتشام کو ہدایت دیتے ہوئے کہا اور دوبارہ فائلز کی طرف متوجہ ہوگیا جس پر اہتشام وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ 

ہائے ۔۔۔ ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ دونوں بنا نوک کیے ایک ادا سے ہائے کہتی ہوئی آفس میں انٹر ہوئیں ۔۔۔

مس ردابہ اینڈ مس مبراء آئی تھنگ میں اور آپ دونوں مسلم ہیں ۔۔۔ حضیر نے ان دونوں کو چئیر پر بیٹھتا دیکھ خود بھی چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے ہاتھوں میں پین کو گھماتے ہوئے پروفیشنلی انداز میں انہیں شرمندہ کیا ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر کے شرمندہ کرنے پر دونوں نے آہستہ آواز میں سلام کیا ۔۔۔ وعلیکم سلام آئیندہ میرے روم میں انٹر ہونے سے پہلے نوک کیجئیگا خیر ویلکم ٹو کاردار کنسٹرکشنز ۔۔۔ حضیر نے دونوں کو ایک دفعہ پھر شرمندہ کرتے ہوئے خوش آمدید کہا جس پر دونوں اپنی اس قدر بے عزتی پر دانت کچکچاکر رہ گئیں ۔۔۔

خیر مس ردابہ اینڈ مس مبراء یہاں کام کرنے کے کچھ اصول ہیں جن کو میں بھی فالو کرتا ہوں اور مجھے امید ہے آپ دونوں بھی انہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے یہاں کام کرینگی تو اب ہم ذرا اصولوں کی فہرست پر نظرِ ثانی کرتے ہیں ۔۔۔

1)یہاں پر کوئی کسی کا رشتہدار نہیں ہے چاہئے پھر وہ میں بھی کیوں نا ہوں سب یہاں پر ایمپلائز ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کرنا سب پر لازم ہے ۔۔۔

2)یہاں کے ہر ایمپلائی کی ویلیو میری نظر میں ایک جیسی ہے چاہے پھر وہ میرا سیکیٹری ہو یا پھر اس بلڈنگ کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار سو اس لئے کسی کو بھی کمتر سمجھ کر کسی سے بھی بدتمیزی کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔

3)مجھے ہر کام پرفیکٹ وقت پر اور سیلقے سے چاہئے خواہ کام بڑا ہو یا چھوٹا غلطی کی معافی نہیں سزا ملیگی وہ بھی سخت ۔۔۔

4)کوئی بھی ایک دوسرے سے یا خاص کر کوئی لڑکا یا کوئ لڑکی کو ایک دوسرے سے فضول گفتگو کرنے کی اجازت نہیں سوائے کام کے اور اگر میں نے کسی کو دیکھ لیا فضول میں ایک دوسرے سے فری ہوتے ہوئے یا پھر کسی کی بابت میرے پاس شکایت آئی تو اسی وقت ان دونوں فریق کو جاب سے خارج کردیا جائیگا کیونکہ مجھے اپنے آفس میں یہ بےحیائی پسند نہیں ہے ۔۔۔

5)ہر لڑکی جو اس کمپنی میں کام کریگی اس کے لئے جینز پینٹ یا کسی بھی قسم کا بیہودہ لباس زیب تن کرکے آفس آنے کی اجازت نہیں ہے صرف قمیض شلوار اور فراکس کی اجازت ہے اور ساتھ میں کم از کم سر پر حجاب لازمی ہو ۔۔۔

یہ پانچوں اصول سب کے لئے ہیں لیکن چونکہ آپ دونوں گھر کی ہو اس لئے أپ دونوں کے لئے چھٹا اور آخری رول یہ ہے کہ آپ دونوں نا تو یہاں کی کوئی بات گھر پر ڈسکس کرینگی اور نا ہی گھر کی بات آفس میں اور اگر آپ دونوں میں سے کسی نے بھی گھر پر کسی کو میری شکایت لگاکر فیور لینی چاہی تو وہ دن آپ دونوں کا اس کمپنی میں آخری دن ہوگا کیونکہ آپ دونوں مجھے اچھے سے جانتی ہیکہ میں کسی کی نہیں سنتا سوائے اپنے کیونکہ بچپن سے ہی میں اپنی کرنے کا عادی ہوں باقی آپ دونوں سمجھدار ہیں خیر باقی کا کام آپ دونوں کو مس عینہ بتادینگی اس لئے اب آپ دونوں جاسکتی ہیں ۔۔۔

حضیر اپنی بات مکمل کر کے دوبارہ فائلز کی طرف متوجہ ہوگیا جبکہ وہ دونوں اپنے سارے خواب ٹوٹتے دیکھ پیر پٹکتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئیں ۔۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔

حضیر ابھی ایک فائل پر غور وفکر کرنے میں مصروف تھا کہ برابر میں رکھا موبائل بجنے لگا جس پر حضیر نے ایک نظر فائلز سے ہٹاکر موبائل کو دیکھا جہاں رونگ نمبر سے کال آرہی تھی ۔۔ حضیر نے مصروف ہونے کی وجہ سے کال کاٹ کر موبائل سائلینٹ پر لگادیا اور دوبارہ سے اس فائل کا مطالعہ کرنے میں محو ہوگیا ۔۔۔ ابھی وہ فائل پر لکھے پوائنٹس پڑھ ہی رہا تھا کہ صبح  حیان کی کی گئی سرگوشی اس کے کانوں میں گونجنے لگی جس پر حضیر نے جلدی سے موبائل اٹھاکر واٹس ایپ آن کیا جہاں حیان نے اسے ایک وائس ریکارڈنگ بھیجی تھی ۔۔۔ حضیر جلدی سے ریکارڈنگ کو پلے کر کے سننے لگا اور پھر جیسے جیسے وہ سنتا گیا اسکا غصہ آسمان کو چھونے لگا غصے سے اسکی رگیں پھول گئی آنکھیں لال انگارہ ہوگئیں اور ماتھے کی رگیں ابھرنے لگی لیکن وہ خود پر ضبط کیے سنتا رہا ۔۔۔ 

ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد حضیر نے موبائل بند کر کے پاکٹ میں ڈالا اور سارے کام وہی چھوڑتا گاڑی کی چابی اٹھاتا آفس سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

اب نا جانے کونسا طوفان لانے والا تھا حضیر ردابہ کی زندگی میں جو سب سے انجان مبراء کے ساتھ مس عینہ کے کیبن میں اپنا کام سمجھ رہی تھی ۔۔۔

آہہہ ۔۔۔ مشی سو کر اٹھی تو سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگی جس پر وہ سر تھام کر کراہنے لگی ۔۔۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد مشی نے ادھر ادھر دیکھا تو خود کو اپنے کمرے میں پایا جبکہ کپڑے بھی کل والے ہی تھے ۔۔۔ مشی نے ایک نظر اپنے برابر میں دیکھا جہاں عفراء مزے سے کل والی فراک میں ہی سو رہی تھی جس پر دھبے لگے ہوئے تھے ۔۔۔ یا اللّٰہ عفراء یہ کتنے گندے کپڑے کر لئے آپ نے ۔۔۔ مشی نے سوتی ہوئی عفراء کے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا اور خود اٹھ کر وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال کر واشروم میں چلی گئی ۔۔۔ پانچ منٹ بعد واشروم سے نکل کر مشی نے اپنے بال باندھے اور عفراء کی وارڈروب سے اسکے کپڑے نکال کر بیڈ کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

عفراء مما کی جان اٹھ جاؤ بیٹا کافی وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ مشی نے عفراء کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا جس پر وہ کسمساکر دوبارہ سوگئی تو مشی نے سوتی ہوئی عفراء کو گود میں اٹھایا اور واشروم میں لے جا کر اسے فریش کیا اور اسکو تیار کر کے اسے بیڈ پر بٹھا کر خود کمرہ سمیٹنے لگی ان سب میں وہ کل کا سارا واقعہ بھول چکی تھی جبکہ عفراء میڈم بلو پینٹ پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے ہاتھوں میں میچینگ چوڑیاں پہنے بالوں کی پونی بناکر میچینگ کلپ لگائے بیڈ پر بیٹھی ٹکر ٹکر مشی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔ ابھی مشی کام ہی کر رہی تھی کہ مشی کا سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل بجا مشی نے موبائل اٹھاکر دیکھا تو اذہان صاحب کی کال آرہی تھی ۔۔۔ اسلام وعلیکم بابا آپ نے ناشتہ کیا تھا صبح ؟ اور آپ مجھے اٹھائے بغیر آفس چلے گئے ۔۔۔ کال یس کرتے ہی مشی نے ناراضگی سے کہا ۔۔۔ وعلیکم سلام میری شہزادی پریشان نہیں ہو میں نے ناشتہ کرلیا تھا آفس میں اور میں نے آپ کو نیند سے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور پھر آج میں اپنی نواسی سے ملے بغیر بھی آگیا اس لئے ابھی میں گھر کے باہر گاڑی میں کھڑا ہوں آپ جلدی سے عفراء کو ملازمہ کے ساتھ باہر بھیج دو میرا آج اپنی نواسی کے ساتھ شاپنگ کرنے کا موڈ ہے ۔۔۔

لیکن بابا آپ اندر تو آجاتے اور پھر عفراء تو بھوکی ہے میری آنکھ ابھی کھلی ہے میں نے کچھ کھلایا ہی نہیں عفراء کو ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے پریشانی سے کہا ۔۔۔ نہیں بیٹا مجھے دیر ہورہی ہے بس جلدی سے عفراء کو بھیج دو میں باہر سے اسے کچھ کھلادونگا ۔۔۔ اچھا چلیں ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی میں بھیجتی ہوں ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے ہامی بھر  کر فون بند کیا اور ملازمہ کے ساتھ عفراء کو باہر بھیج دیا اس بات سے بے خبر کے اس نے عفراء کو اذہان صاحب کے نہیں بلکہ حضیر کاردار کے پاس بھیجا ہے ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

حضیر آفس سے نکل کر بے مقصد سڑکوں پر گھومتا خود کا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اس اشتعال میں گھر گیا تو بہت کچھ برا ہوجائیگا ۔۔۔ ایک گھنٹے سڑکوں پر گشت کرنے کے بعد حضیر نے اپنی منزل کے باہر گاڑی روک کر اذہان صاحب کو کال کی ۔۔۔

اسلام علیکم چاچو کیسے ہیں آپ ؟

اذہان صاحب کے کال اٹھانے پر حضیر نے سلام کے ساتھ انکا احوال پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام برخوردار کیسے یاد کیا مجھ غریب کو ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے شرارت سے کہا ۔۔۔ چاچو میں عفراء کو باہر لے جانا چاہتا ہوں  خیر لے کر جانا تو عائش کو بھی چاہتا تھا لیکن نہیں لے جاسکتا اس لئے عائش کو فون کر کے کہیں کہ عفراء کو آپکے گھر کے باہر بھیجے میں باہر کھڑا ہوں ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر حضیر نے ڈائریکٹ مدّعے کی بات کی ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں فون کرتا ہوں پانچ منٹ ویٹ کرو ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے اسے جواب دیکر فون کاٹ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے حضیر بے حد محبت کرتا ہے عفراء اور مشی سے اور حضیر کا حق تھا ان دونوں پر اس لئے اذہان صاحب نے بنا کوئی سوال کیے حامی بھرلی ۔۔۔

اور پھر پانچ منٹ بعد ہی ایک ملازمہ عفراء کو حضیر کو دیکر چلی گئی جسے پہلے ہی اذہان صاحب نے سمجھادیا تھا کہ جب بھی حضیر عفراء کو لینے آئے یا گھر آئے تو مشی کو اس بات کی خبر نہیں ہونے دینا ۔۔۔ 

میری جان بابا کی شہزادی میرا بچہ ۔۔۔ حضیر نے عفراء کو گود میں لیکر پیار کرتے ہوئے کہا جبکہ عفراء کو دیکھتے ہی حضیر کا سارا غصہ جیسے ختم ہوگیا تھا ۔۔۔ حضیر عفراء کو لیے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور اسے اپنی گود میں بیٹھا کر کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھادی ۔۔۔

آج بابا اور عفراء خوب ڈھیر ساری شاپنگ کرینگے آپکی بھی اور مما کی بھی ۔۔۔ حضیر نے شہر کے سب سے بڑے مال کے باہر گاڑی روک کر عفراء کو اپنی گود میں اٹھاکر پیار کرتے ہوئے کہا اور اسے لئے مال کے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ حضیر نے سب سے پہلے بے بی گارمنٹس کا رخ کیا اور پھر ڈھیر سارے ڈرسز شوز سینڈلز بیندز کلپز اور چوڑیاں وغیرہ عفراء کے لئے خیریدے اور اب اسکا رخ لیڈیز بتیک کی طرف تھا ۔۔۔ حضیر نے مشی کے لئے بھی ڈھیر ساری شاپنگ کی تھی ڈریسز سینڈلز بیگز عبائے جیولری واچز غرض کے ہر چیز جو اسے پسند آرہی تھی وہ خریدتا جا رہا تھا ۔۔۔ حضیر نے شاپنگ مکمل کر کے پیمنٹ کی اور دکان سے باہر کی طرف بڑھ گیا کیونکہ اب اسکا رخ پارکنگ طرف تھا جبکہ اسکے گارڈز تمام شاپنگ بیگز لیے اسکے پیچھے تھے جو کہ حضیر کے بلانے پر سیکیورٹی کے لئے یہاں موجود تھے ۔۔۔۔

تم گارڈز کی گاڑی میں جاؤ میں خود ڈرائیو کرونگا ۔۔۔ حضیر نے اپنے لئے پارکنگ میں کھڑی کار کا دروازہ کھولے ادب سے کھڑے گارڈز سے کہا تو وہ حکم کی تکمیل کرتا گارڈز کی گاڑیوں کی طرف بڑھ گیا جبکہ حضیر عفراء کو لیکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے روڈ پر ڈالی ۔۔۔

میری شہزادی بڑی خاموش ہے کیا ہوا ہے بابا کی جان کو ۔۔۔ حضیر نے عفراء کو ابھی تک کوئی شرارت نا کرتا دیکھ ڈرائیونگ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ آہہہ ۔۔۔ اچھا بابا نہیں پوچھتا کچھ بھی ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر عفراء نے اسکی داڑھی کے بال نوچ لیے جس پر وہ کراہتا ہوا کہنے لگا اور ساتھ میں ایک ہاتھ سے عفراء کی چھوٹی سی مٹھی سے داڑھی کے بال چھڑوانے لگا جو اس نے فوراً سے چھوڑدیے ۔۔۔ چلو اب بابا اور عفراء لنچ کرنے کے ساتھ آئسکریم بھی کھائینگے ۔۔۔ 

حضیر نے فائیو اسٹار ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی روکتے ہوئے عفراء سے کہا اتنے میں ایک گارڈ نے جلدی سے اسکا دروازہ کھولا جس پر حضیر گاڑی سے نکل کر عفراء کو گود میں اٹھاکر اندر ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

کیا کھانا ہے بابا کی جان کو ۔۔۔ حضیر نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے اپنے برابر میں چئیر پر بیٹھی عفراء سے پوچھا جو کہ ٹکر ٹکر وہاں کی ہر چیز کا جائزہ لینے میں مگن تھی ۔۔۔ ایک چاؤمن لے آئیں آپ ۔۔۔ عفراء کو اپنی طرف متوجہ نا پاکر حضیر نے ویٹر کو آڈر دیا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا چلا گیا جبکہ حضیر موبائل نکال کر چیک کرنے لگا ۔۔۔ 

حضیر ابھی اپنا موبائل چیک کر ہی رہا تھا کہ ٹھاہہہہہ کی آواز پر ہڑبڑاتے ہوئے آواز کی طرف متوجہ ہوا جبکہ ارد گرد کے لوگ بھی آواز پر انکو ہی دیکھ رہے تھے جہاں عفراء میڈم ٹیبل پر بیٹھی ہاتھ مار کر گلاس نیچے گرا چکی تھی جو کہ زمین پر گرتے ہی کرچی کرچی ہوگیا تھا جب کا عفراء میڈم تالیاں بجاتی کھلکھلانے لگی تھی ۔۔۔

ٹھاہہہہہ ۔۔۔ حضیر ابھی ایک صدمے سے ہی نہیں نکلا تھا کہ عفراء نے ٹیبل رکھا کرسٹل کا واز بھی ہاتھ مار کر زمین پر پھینکا اور اس کے پھولوں کو ہاتھ میں لیکر کھیلنے لگی اور اسکی حرکتوں پر سب دلچسپی اسکو ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ عفراء بری بات بچے ایسے نہیں کرتے ۔۔۔ حضیر نے سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر عفراء کے ہاتھ سے پھول لیتے ہوئے کہا جسکی پتیاں عفراء اپنے ہاتھوں سے توڑ رہی تھی ۔۔۔ حضیر کے پھول لینے پر عفراء میڈم فل رونے کی تیاری میں تھی کہ اسکی نظر ٹیبل پر رکھی چمچ اور پلیٹ پڑی جس پر عفراء نے رونے کا ارادہ ترک کر کے جلدی سے چمچ اٹھایا اور پلیٹ پر اسے مارنے لگی جس سے پورے ہوٹل میں ایک شور سا برپا ہوگیا اور ایک دفعہ پھر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے جبکہ ویٹر بے بسی سے حضیر کو دیکھ رہا تھا جو کہ ابھی حضیر کا آڈر لیکر آیا تھا لیکن وہاں کا حال دیکھ کر حیرانی و پریشانی سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ ڈونٹ وری آئی ول پے فار ایوری تھنگ ۔۔۔ حضیر نے ویٹر کی بے بس نظروں کو دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی جبکہ عفراء بیگم ابھی تک اپنے شغل جاری رکھنے کے ساتھ کھلکھلانے میں مصروف تھی ۔۔۔ 

عفراء بری بات بابا پاس آئیں ۔۔۔ حضیر نے عفراء کے ہاتھ سے چمچ اور پلیٹ لے کر رکھا اور ابکی بار اسے اپنی گود میں بٹھایا تاکہ وہ دوبارہ ٹیبل پر نا چڑھ جائے چونکہ اب ٹیبل پر گرم چاؤمن رکھی ہوئی تھی جو ابھی ویٹر رکھ کر گیا تھا ۔۔۔ حضیر ایک ہاتھ سے عفراء کو قابو کرتے دوسرے ہاتھ سے چاؤمن کھانے لگا جبکہ عفراء میڈم مسلسل خود کو حضیر کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش میں تھی ۔۔۔ ابھی حضیر چاؤمن کھا ہی رہا تھا کہ عفراء نے اپنا ایک ہاتھ حضیر سے چھڑاواکر ٹیبل پر رکھا کانٹا اٹھایا اور حضیر کی نقل کرتے ہوئے اس میں چاؤمن لیکر حضیر کی طرح کھانے لگی جس پر وہ آدھا منہ اور آدھا اسکے کپڑوں پر گرا ۔۔۔ میرا بچہ بابا کی کاپی کر رہا ہے ۔۔۔ عفراء کی حرکت پر حضیر نے مسکراتے ہوئے پیار سے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا اور اپنے ساتھ ساتھ عفراء کو بھی کھلانے لگا ۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد دونوں نے آئسکریم کھائی جو کہ حضیر نے عفراء کو اپنے ہاتھ سے کھلائی تھی لیکن پھر بھی وہ ہاتھ مار کر اپنے کپڑوں پر گرا چکی تھی اور پھر حضیر نے پزا چاؤمن بریانی مشی کے لئے پیک کروایا اور وآپسی کی طرف روانہ ہوگیا ۔۔۔ راستے میں حضیر نے مشی اور عفراء کے لئے فروٹس جوس بیکری سے کیک بسکٹس اور مارٹ سے لیز کرکرے چاکلیٹ کینڈیز وغیرہ لی اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا تھا کیونکہ بار بار اذہان صاحب کی کال آرہی تھی چونکہ شام کے چھے بج چکے تھے اور وہ یقیناً آفس سے گھر جارہے تھے اس لیے حضیر کو کال کر رہے تھے ۔۔۔

اسلام علیکم چاچو ۔۔۔ حضیر نے اذہان صاحب کے گھر کے باہر گاڑی روک کر انہیں سلام کیا جو خود بھی ابھی پہنچے تھے اور اب گاڑی میں بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ وعلیکم سلام کیسا گزرا دن بیٹی کے ساتھ ۔۔۔ اذہان صاحب نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔ میری بیٹی کے ساتھ میرا دن آج اتنا اچھا گزرا کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا لیکن میں چاہتا ہوں میرا ہر دن عائش اور عفراء کے ساتھ گزرے ۔۔۔ انشاء اللّٰہ یہ دن بھی بہت جلد آئیگا اللّٰہ پر بھروسہ رکھو اور ناامید نا ہو آزمائشیں اللّٰہ کے نیک بندوں پر ہی آتی ہیں ۔۔۔ حضیر کے افسردگی و حسرت  سے کہنے پر اذہان صاحب اسکا شانہ تھتھپاتے ہوئے اسے تسلی دی ۔۔۔ 

چاچو دو سال سے عائش اور عفراء آپ کے پاس ہیں آپ ہی انکا خرچا اٹھاتے ہیں حالانکہ دونوں میری زمیداری ہے اس لئے اب میں اپنی زمیداری خود نبھانا چاہتا ہوں ۔۔۔ حضیر نے کافی دن سے اپنے ذہن میں چلتے خیال سے اذہان صاحب کو آگاہ کیا ۔۔۔ حضیر میں مانتا ہوں کہ مشی اور عفراء تمہاری زمیداری ہیں لیکن بیٹی اور نواسی تو میری بھی ہے اور اللّٰہ کا کرم ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے تم بیشک ان پر خرچ کرو تمہاری بیوی اور تمہاری اولاد ہے لیکن میری بیٹی بھی مجھ پر بوجھ نہیں ہے میری اکلوتی بیٹی ہے میرا سب کچھ اسی کا ہے لیکن میری غیرت گوارہ نہیں کریگی کہ میری بیٹی میرے گھر ہوکر تم سے یا کسی سے کچھ مانگے باقی جب تم اسے لے جاؤگے تو پھر اپنی زمیداریاں اچھے سے نبھالینا لیکن ابھی جب تک وہ میرے گھر ہے میں اس چیز کی تمہیں اجازت نہیں دونگا ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر اذہان صاحب نے سنجیدگی سے منع کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے چاچو لیکن کل مشی کر لازمی یونی بھیج دیجئیگا کیونکہ کل انکی فرسٹ کلاس میں ہی لونگا پرنسپل سے بات ہوگئی ہے میری اور اب میں چلتا ہوں کافی دیر ہوگئی ہے اللّٰہ حافظ ۔۔۔ اذہان صاحب کے انکار پر حضیر نے بحث نا کرتے ہوئے انہیں تنبیہہ کی اور الوادعی کلمات کہہ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد اذہان صاحب بھی اندر کی طرف چل دیے جبکہ اذہان صاحب پہلے ہی عفراء کو اور سارے سامان کو ملازمہ کے ہاتھوں اندر بھجوا کے تھے ۔۔۔

بابا کیا ضرورت تھی اتنی ساری شاپنگ کرنے کی میرے اور عفراء کے پاس پہلے ہی سب چیزیں موجود ہیں آپ نے بلاوجہ اور شاپنگ کرلی ۔۔۔۔

مشی نے نے ڈھیر سارے بیگز کو کو دیکھ کر اذہان صاحب سے خفگی سے کہا ۔۔۔ بس جو مجھے پسند آیا میں نے لے لیا اور میں فریش ہو کر مسجد جارہا ہوں نماز پڑھنے مغرب کی اذان ہوگئی ہے ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں بھی نماز پڑھنے جارہی ہوں ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے کہا اور عفراء کو لیکر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ کمرے میں آکر مشی نے عفراء کو بیڈ پر بٹھایا اور وضو کرنے باتھروم چلی گئ ۔۔۔

پانچ منٹ بعد مشی وضو کر کے باہر نکلی اور کبرڈ سے جائے نماز نکال کر نیت باندھ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ مشی نے ابھی ایک رکعت ہی پڑھیں تھی اور دوسرے کے قیام میں تھی کہ عفراء بیڈ سے نیچے اتر کر قدم قدم چلتی مشی کے پاس آئی اور اسکی جائے نماز پر سجدے میں چلی گئی ۔۔۔ مشی نے قیام کے بعد رکوع کیا اور پھر سجدے میں جاتے وقت عفراء کو سائیڈ کر کے خود سجدہ کیا جبکہ عفراء مشی کو دیکھ کر دوبارہ سے اسکے برابر میں ہی سجدہ ریز ہوگئی اور پھر اسی طرح مشی کو دیکھ دیکھ کر عفراء نے نماز مکمل کی ۔۔۔

مشی نے نماز پڑھ کر جائے نماز تہہ کرکے کبرڈ میں رکھا اور شیلف سے قرآن پاک اٹھاکر بیڈ پر بیٹھ کر تھوڑی بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی ( کوئی بھی عبادت بلند آواز سے کرنی چاہئے کم از کم اتنی آواز ہونی چاہئے کہ آپکی آواز آپکے کانوں تک پہنچے اور بلند آواز سے تلاوت کرنے سے شیطان دور بھاگ جاتا ہے ) 

عفراء مسلسل مشی کو تنگ کر رہی تھی کبھی قرآن پاک کا ورق پلٹ دیتی کبھی اسکے ہاتھ سے قرآن پاک چھینے کی کوشش کرتی ۔۔۔ مشی عفراء سے عاجز آتی اسے اپنی گود میں بٹھاکر قابو کرگئی اور تھوڑی اور بلند آواز میں تلاوت کرنے لگی جبکہ عفراء مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مشی نے اسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور پھر عفراء مشی گرفت میں پھڑپھڑاتی سوگئی ۔۔۔ میرا پیارا بچہ مما کی جان ۔۔۔ مشی نے اپنی گود میں سوتی ہوئی عفراء کو پیار کیا اور ایک ہاتھ سے اسے اپنی گود سے بیڈ پر لٹایا اور پھر قرآن پاک کو جزدان میں ڈال کر شیلف پر رکھا ۔۔۔

ٹرننن ۔۔۔ مشی ابھی شیلف پر قرآن پاک رکھ کر واپس عفراء کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھی کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اسکے موبائل پر میسج ٹون بجی ۔۔۔ آسلام علیکم کیسی ہو ؟ ۔۔۔ مشی نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھاکر انبکس کھولا تو انجان نمبر سے میسج جگمگارہا تھا ۔۔۔ وعلیکم سلام آپ کون ۔۔۔ مشی نے انجان نمبر دیکھ کر ماتھے پر ڈالتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ کیا کر رہی تھی ؟ مقابل نے اسکا سوال اگنور کرتے ہوئے دوسرا سوال پوچھا ۔۔۔ دیکھیں مسڑ یا مس آپ جو کوئی بھی ہیں سیدھے سے بتادیں کون ہیں ورنہ بلاک کردونگی ۔۔۔ اپنا سوال اگنور کیے جانے پر مشی نے غصے والے ایموجیز کے ساتھ جواب دیا ۔۔۔ آپکا خیرخواہ غمکسار ہمدرد ۔۔۔ دیکھیں آپ پہیلیاں نا بجھائیں سیدھے طریقے سے جواب دیں ورنہ میں بلاک کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاؤنگی ۔۔۔ 

چھوڑو یہ بتاؤ کل یونیورسٹی جاؤگی ؟ مقابل نے ایک دفعہ پھر مشی کی بات کو اگنور کر کے سوال کیا ۔۔۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے نہیں چھوڑی اپنے پیچھے کوئی آزمائش جو مردوں کے لئے عورتوں ( کی آزمائش) سے بڑھ کر نقصان پہنچانے والی ہو ( صحیح مسلم 6945 ) ۔۔۔

مقابل کے سوال کے بدلے مشی نے جواب دیا اور نمبر بلاک کر کے کمرے سے باہر ڈنر ٹیبل پر لگانے چل دی ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ویسے ردابہ آپکو اترن پہننے کا شوق کب سے شروع ہوا ؟

کاردار ولا کے سب افراد ڈنر کرنے کے بعد لاؤنچ میں بیٹھے لطف اندوز  ہورہے تھے کہ حضیر نے اچانک ردابہ پر گہرا طنز کرتے ہوئے کہا جبکہ سب تعجب سے حضیر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔

آپکو ایسا کس نے کہا ردابہ کاردار کبھی مر کر بھی کسی کی اترن پہننا پسند نا کرے ۔۔۔ ردابہ نے حضیر کے طنز پر تلملاتے ہوئے مغرور لہجے میں کہا ۔۔۔

اوہ تو پھر کل پارٹی میں تم نے عائش کی منہ دیکھائی کا سیٹ کیوں پہنا کیونکہ بقول تمہارے تم مر کر بھی کسی کی اترن نا پہنو ۔۔۔

حضیر نے ردابہ کی بات اسی پر مار کر مدعے کی بات کی ۔۔۔

وہ سیٹ تمہاری سو کالڈ بیوی کا نہیں تھا مجھے تائی جان نے دیا تھا ۔۔۔

مائینڈ یور لینگویج ردابہ اور ذرا پوچھو اپنی تائی جان سے کہ وہ سیٹ کس کا تھا اور تم بھی اتنی معصوم نہیں ہو تمہیں بھی پتا ہے وہ سیٹ میں نے عائش کو منہ دیکھائی میں دیا تھا ۔۔۔ 

یہ سیٹ میں نے ردابہ کو دیا تھا اور نا تمہاری بیوی کا نہیں ہے تم اپنی بیوی سے پوچھو وہ سیٹ کہاں ہے یا وہ بیچ کر کھاگئی ۔۔۔ مما مجھے اتنا مجبور نا کریں کہ میں کچھ غلط کرجاؤں آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں وہ سیٹ عائش کا ہے اور جو سیٹ عائش کے پاس تھا وہ نقلی ہے ۔۔۔ ہاں تو بیچ دیا ہوگا تمہاری بیوی نے اور تم اس کی کلاس لینے کے بجائے ہم پر چڑھ دوڑے رہے ہو ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر انعم بیگم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ دیکھیں مکلاوے کی رسم میں میرے کہنے پر عائش نے ساڑھی ہر یہ سیٹ پہنا تھا اور جو وہ نقلی سیٹ ہے اس میں اور اس سیٹ میں کتنا فرق ہے دیکھیں اس تصویر کو اس سیٹ کی بناوٹ بلکل ردابہ کے سیٹ جیسی ہے جو اس نے کل پہنا تھا ۔۔۔ انعم بیگم کے کہنے پر حضیر نے اپنے موبائل میں مشی کی تصویر انہیں دیکھاتے ہوئے کہا جس میں مشی نے بلیک ساڑھی ہر حضیر کا دیا ہوا سیٹ ہی پہنا تھا ۔۔۔ تو تمہارے پاس کیا ثبوت ہیکہ میں نے وہ سیٹ چینج کیا ہے ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر انعم بیگم نے گڑگڑاتے ہوئے کہا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ دو سال بعد انکی حرکت یوں سارے عام کھل کر سامنے آئیگی ۔۔۔

بھائی صحیح کہہ رہے ہیں مما نے بھابھی کا سیٹ ردابہ کو دیکر اسکے بدلے نقلی سیٹ بھابھی کو وآپس دیا تھا اور بھابھی کو نہیں معلوم کہ جو سیٹ انکے پاس تھا وہ نقلی تھا کیونکہ مما نے بھائی کے جاتے ہی ان سے سیٹ اتراواکر لوکر میں رکھوا دیا تھا اور یہ سب میرے سامنے کی باتیں ہیں لیکن میں خاموش تھا آج بھائی نے ذکر کیا تو میں نے بھی سب کہہ دیا ۔۔۔

بات سیٹ کی نہیں ہے اگر مما آپ کو چاہئے تھا میں اس سے اچھا لادیتا آپ کو لیکن بات یہ ہیکہ وہ میں نے عائش کو شادی کے بعد پہلا تحفہ دیا تھا اسکے اہمیت میری نزدیک بہت تھی مجھے بلکل بھی اچھی نہیں لگی آپکی یہ حرکت اس لئے آئیندہ گریز کیجئیگا اور رہی اس سیٹ کی بات تو میں ہزار ایسے سیٹ لادونگا مشی کو لیکن آپکی اس حرکت نے مجھے بہت مایوس کیا ہے مجھے ۔۔۔ مسیّب کے گواہی دینے پر حضیر نے اسپاٹ لہجے میں انعم بیگم سے کہا اور اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا جبکہ انعم بیگم اور ردابہ سب کے سامنے اپنی اتنی بے عزتی پر مٹھیاں بھینچ کر رہ گئیں ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یار مشکات آج اتنی دیر کیوں کردی آنے میں ؟

مصباح نے مشکات کو اپنے پاس چئیر پر بیٹھتے دیکھ پوچھا ۔

یار بس آج بابا کو آفس لیٹ جانا تھا اور تجھے پتہ ہے بابا خود مجھے چھوڑنے آتے ہیں بس اس لئے دیر ہوگئی ۔

مصباح کے پوچھنے پر مشکات نے پانی پی کر بوتل کا کیپ بند کرتے ہوئے کہا ۔

اچھا چھوڑ تجھے پتہ ہے آج نئے پروفیسر آئینگے سننے میں آیا ہے باہر سے پڑھ کر آئے ہیں اور کافی ہینڈسم ہے ۔

مصباح نے بات بدلتے ہوئے اشتیاق سے مشکات کو بتایا ۔

تو میں کیا کروں تجھے پتہ ہے مجھے ان چیزوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں سو پلیز میرے سامنے یہ فضولیات مت بکا کر ۔

مصباح کے بتانے پر مشکات نے بیزارگی سے کیا ۔

اچھا سن تو نے اسائیمنٹ بنالی سر مقصود کی ۔

بنالی لیکن ابھی ریچیک نہیں کی کل رات کو دیر تک وہی بنارہی تھی جسکی وجہ سوئی بھی دیر سے اور اب مجھے اتنی شدید نیند آرہی ہے دل کر رہا تو بول رہی ہے نہ تیرے منہ پر ٹیپ لگادوں اس لئے اس سے پہلے میں اپنے کہے پر عمل کرو چپ ہوجا ۔

مصباح کے مسلسل بولنے پر مشکات نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور ڈائس پر سر رکھ کر آنکھیں موندلیں ۔

ہاں بس مجھ پر ہی بس چلتا ہے تیرا مجھے تو اپنے جیجو پر ترس آتا ہے پتہ نہیں کیسے تجھے برداشت کرتے ہونگے تجھے اللّٰہ انہیں صبر دے ۔

مشکات کے کہنے پر مصباح خود سے ہی بڑبڑانے لگی جبکہ مشکات نیند کی وادیوں میں جاچکی تھی ۔

ابے اٹھ سر آگئے ؟

مصباح پہلے تو حضیر کو اپنے کلاس روم میں دیکھ کر حیران ہوئی لیکن پھر جلدی سے خود کو کمپوز کرتی مشی کو کہنی مارتی اٹھانے لگی ۔۔۔

ابے سونے دے تنگ مت کر ۔

مشکات نے نیند میں ہی مصباح کو جواب دیا اور دوبارہ سوگئی ۔۔۔

اسلام علیکم سر گڈ مارننگ ۔

حضیر کے کلاس میں آتے ہی مصباح نے مشکات کو اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے سب کے ساتھ کھڑے ہوکر اسے کو سلام کیا ۔

وعلیکم سلام آئی اینڈ سٹ ڈاؤن ۔

کلاس کے سلام کرنے پر حضیر نے روعب داد آواز میں جواب دیا ۔

جبکہ پوری کلاس اس حسن کے مجسمے کو دیکھنے میں محو تھی جس کی نظریں سوئی ہوئی مشکات پر ٹکی تھی ۔

سفید کلر جس میں گلابی گھلی ہوئی تھی ڈارک براؤن جیل سے سیٹ کیے گئے بال بڑی بڑی ڈارک براؤن ہی آنکھیں لمبی ناک باریک گلابی ہونٹ دونوں گالوں پر پڑتے ڈمپل جو کہ اپنا دیدار کم ہی کرواتے تھے اور سونے پر سہاگا نفاست سے بنائی گئی بئیرڈ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ اللّٰہ نے اسے حسن سے ملا مال کیا تھا لڑکیاں تو لڑکیاں بلکہ لڑکے بھی اس کو دیکھنے میں محو تھے ۔

میں آپکا نیا ٹیچر ہو سر آصف کی جگہ اب میں پڑھاؤنگا اس لئے آپ لوگ ایک ایک کر کے سب اپنا تعریف کروائیں ۔

حضیر کے بولنے پر سب ہوش میں آئے اور اپنا اپنا تعارف کروانے لگا ۔

سر آئی ایم مصباح شماس شاہ ۔

مصباح نے اپنی باری آنے پر اپنا تعارف کروایا جبکہ مشکات ابھی بھی دنیا و مافیا سے بے نیاز نیند کے مزے لوٹ رہی تھی ۔

ایکسکیوزمی مس ۔

حضیر چلتا ہوا مشکات اور مصباح کی ڈیکس کے قریب آیا اور ڈیکس بجاتے ہوئے اسے مخاطب کرنے لگا ۔

مس آپ یہاں سونے آئی ہیں ۔

مشکات کو ٹس سے مس نا ہوتے دیکھ حضیر نے تھوڑی بلند آواز میں کہا ۔

مشکات نے کسی کی آواز سن کر اپنی آنکھیں کھولیں لیکن اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ایک دم اسکی پوری آنکھیں کھل گئیں ۔

مشکات نے اپنی آنکھیں رگڑ کر یقین کرنا چاہا کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی لیکن پھر بھی سامنے اسی شخص کو کھڑے دیکھ اسکا چہرہ سفید پڑنے لگا جبکہ مشکات کی اس حرکت پر حضیر کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اپنی جھلک دکھا کر سیکنڈ میں غائب ہوگئی ۔

مس ذرا آپ اپنا تعارف کروانا پسند کرینگی ۔

حضیر نے شائستہ لہجے میں مشکات سے کہا جو کہ اسکو دیکھ کر تھر تھر کانپ رہی تھی جبکہ ساری کلاس ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی ۔

مس میں آپ سے بات کر رہا ہو ۔

حضیر نے مشکات کو جواب نہ دیتے دیکھ دوبارہ بلند آواز میں مخاطب کیا جبکہ اس کو اپنے سامنے دیکھ کر سارا ماضی مشکات کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے سارے زخموں سے پھر سے خون رسنے لگا ہو ساری باتیں کان میں گونجنے لگی سارے الزام لوگوں کے طعنے اپنوں کے بہتان اور پھر وہ سب برداشت نہ کرتے ہوئے حوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی ۔۔۔

کہا ہوا ہے مشی کو مصباح ؟ 

اناب جو ابھی کلاس میں انٹر ہوئی تھی مشی کو بے ہوش دیکھ کر مصباح سے پوچھنے لگی لیکن حضیر کو دیکھ کر وہ خود سمجھ گئی ۔۔۔ مشی ۔۔۔ مصباح نے مشی کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ جبکہ پانی کے چھینٹے منہ پر پڑنے پر مشی نے بھی اپنی آنکھوں سے پلکوں کی جھالر کو اٹھایا تو مصباح کو خود کے اوپر جھکے پایا ۔۔۔ سوری آپ سب کو پریشان کردیا ۔۔۔ ذہن کے بیدار ہوتے ہی مشی نے اسپاٹ لہجے میں سب سے کہا اور اپنی بکس اٹھاکر کر کلاس سے چلی گئی جس پر حضیر نے اناب اور مصباح کو اشارہ کیا جس پر وہ دونوں بھی سر اثبات میں ہلاتی بھاگنے سے انداز میں کلاس سے نکلی ۔۔۔

مشی ایسا کب تک چلے گا یار ۔۔۔ مصباح نے کینٹین میں بیٹھی مشی کے سامنے والی چئیر پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔ مصباح یہ میرے بس میں نہیں ہے تو جانتی ہے ۔۔۔ مصباح کے کہنے پر مشی نے  اسپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔۔۔ یار ہم مانتے ہیں تیرے بس میں نہیں ہے لیکن جب تک تو خود اپنے دل سے خوف نہیں نکالے گی تب تک ایسے ہی ہوگا تیرے دل میں عفراء کے چھن جانے کا خوف ہے ناں تو میری جان عفراء کوئی ٹافی نہیں ہے کہ کوئی بھی چھین کر لے جائیگا اور ہم سب لے جانے دینگے تیری اس طبیعت کی وجہ سے چاچو اور ہم سب کتنے پریشان ہو جاتے ہیں اگر تجھے اللّٰہ نا کرے کچھ ہوگیا تو تو چاہتی ہیکہ عفراء بھی تیرے جیسی زندگی گزارے ہمارے لئے نہیں تو کم از کم اپنی بیٹی کے لئے خود کو مضبوط کر اور دیکھ تو جتنی بھی کوشش کرلے عفراء کو حضیر بھائی سے دور کرنے لیکن نہیں کرسکتی کیونکہ یار وہ باپ ہے اسکا یار عفراء حضیر بھائی کی بھی اولاد ہے وہ بھی پہلی وہ کتنے تڑپتے ہونگے عفراء کے لئے تو بھی تو ماں کے پیار سے محروم رہی ہے کیا تو چاہتی ہے تیری بیٹی کی زندگی میں بھی کوئی خلاء رہے یا وہ باپ کے پیار سے محروم رہے ۔۔۔

مشی میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تو حضیر بھائی کو معاف کردے یا انکے ساتھ چلی جا بے شک تو ان سے ناراض رہ جو تمہارے درمیان مسائل ہے انہیں حل کر لیکن تم دونوں اپنی رنجیشوں میں عفراء کا بچپن اسکی خوشیاں تو خراب نا کرو یار ایک سال تو وہ بچی پہلے ہی باپ کی محبت سے محروم رہی ہے اب تو اسے باپ کی محبت کی اشد ضرورت ہے اب عفراء سمجھدار ہورہی ہے اسکا بھی حق ہے باپ سے اپنے لاڈ اٹھوانے اور اپنی ضد منوانا کا اب اپنے اس ڈر کو ختم کر خود کو مضبوط بنا اور اپنی لڑائی خود لڑ تجھے حضیر بھائی سے جو مسلئہ ہے تم خود حل کرو بے شک تو حضیر بھائی سے ناراض رہ وہ تم دونوں کا مسلئہ ہے لیکن اپنے بیچ عفراء کو نا گھسیٹو یار تمہارے مسلئوں میں اسکا بچپن خراب ہوجائیگا ۔۔۔

ہاں مشی اناب صحیح کہہ رہی ہے اللّٰہ پر یقین رکھ وہ انشاءاللّہ بہترین کریگا ۔۔۔ اناب کے سمجھانے پر مصباح نے بھی اس سے متفق ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

سر حضیر آپ تینوں کو اپنے آفس میں بلارہے ہیں ۔۔۔ ابھی وہ تینوں باتیں کر رہی تھی کہ ایک لڑکی نے آکر انہیں حضیر کا پیغام دیا اور وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ چل چلیں بھائی کو کوئی کام ہوگا اور اب خبردار جو تو بے ہوش ہوئی بہت مارونگی بی بریو یار کھا نہیں جائینگے بھائی تجھے ۔۔۔ مصباح نے اپنا سامان اٹھاتے ہوئے مشی کو تنبیہہ کی اور پھر تینوں حضیر کے آفس کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ٹک ٹک ٹک ۔۔۔ اناب نے حضیر کے آفس کے باہر کھڑے ہوکر دروازے پر نوک کیا ۔۔۔ آجائیں ۔۔۔ اندر سے اجازت ملنے پر  وہ تینوں آفس میں انٹر ہوئیں ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ وعلیکم سلام بیٹھیں ۔۔۔ ان تینوں کے سلام کرنے پر حضیر نے چئیرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی آپ نے بلایا تھا ۔۔۔

اناب نے چیئر پر بیٹھتے ہوئے حضیر کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ اتنے میں ایک بچہ چار کپ کافی بسکٹ سینڈوچز اور دیگر چیزیں ٹیبل پر رکھ کر چا گیا ۔۔۔ پہلے ناشتہ کریں پھر بات ہوگی آپ دونوں کی دوست بغیر ناشتے کے گھر سے آئی ہے ۔۔۔ حضیر نے ٹیبل پر رکھے سامان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جبکہ مشی بلکل خاموش تھی ۔۔۔

نیکسٹ کلاس کا ٹائم ہوگیا ہم دونوں چلتے ہیں ۔۔۔ مصباح اور اناب نے کافی پی کر جلدی سے کہا اور اپنا سامان اٹھاتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ بھوکی کیوں آئی گھر سے ناشتہ کرو ورنہ یہاں سے جانے نہیں دونگا ۔۔۔ اناب اور مصباح کے جانے کے بعد حضیر نے مشی کی برابر والی چئیر بر بیٹھتے ہوئے کہا جو کہ خاموشی سے زمین کو گھور رہی تھی اور بمشکل خود کو بے ہوش ہونے باز رکھے ہوئے تھی ۔۔۔ نہیں کر رہی ناشتہ چلو کوئی بات نہیں اٹھو باہر کسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں وہاں ناشتہ کرینگے دونوں ۔۔۔ مشی کو مسلسل خاموش دیکھ کر حضیر نے چئیر سے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نہیں میں کر رہی ہوں ۔۔۔ حضیر کو اٹھتا دیکھ مشی نے فوراً سے کہا جس پر حضیر مسکراتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گیا اور اسکے ساتھ ہی ناشتہ کرنے لگا ۔۔۔

میری بیٹی کیسی ہے ؟ حضیر نے کافی کا سپ لیتے ہوئے مشی سے پوچھا ۔۔۔

جبکہ مشی نے حضیر کے لہجے میں حسرت محسوس کر کے ایک نظر اسے دیکھا جس کے چہرے پر اپنی بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے ایک والہانہ شفقت سے بھری مسکراہٹ رقص کر رہی تھی ۔۔۔ ٹھیک ہے الحمدللّٰہ ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر مشی نے پھر سے مختصر جواب دیا ۔۔۔ جاننا نہیں چاہوگی میں وآپس کیوں آیا ہوں ۔۔۔ حضیر نے مشی کو چپ دیکھ کر دوبارہ سے خود پہل کی ۔۔۔ میں پہلے سے جانتی ہوں لیکن آپ اپنے منہ سے بتانا چاہتے ہیں تو آپکی مرضی ۔۔۔ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ مشی نے تفصیلی جواب دیا ۔۔۔ اچھا تو پھر بتاؤ میں کیوں آیا ہوں وآپس ۔۔۔ مشی کی بات پر حضیر نے اپنا رخ اسکی طرف کرتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا ۔۔۔ 

اپنی بیٹی کو لینے آئے ہیں کیونکہ میں تو آپکو پسند کبھی تھی ہی نہیں تبھی تو شادی ہوتے ہے مجھ سے پیچھا چھڑاواکر چلے گئے تھے اور اب اپنی بیٹی کو لینے آئے ہیں ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر مشی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسپاٹ لہجے میں جواب دیا جبکہ انتہائی ضبط کے باوجود ایک آنسو بغاوت کرتا گال پر بہہ گیا ۔۔۔ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کس نے بھرا یہ خناس تمہارے دماغ میں عفراء سے پہلے تم آئی ہو میری زندگی میں بعد میں عفراء اس لئے آئیندہ تمہاری زبان سے یہ الفاظ نا سنوں میں ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے درشت لہجے میں کہا ۔۔۔ اوہ اگر اتنی ہی میں اہمیت کی حامل تھی تو آج سے پہلے کہاں تھے آپ اور آپ کی باتیں اور آپ کی یہ محبت خیر مجھے شکوے شکایت کا حق ہے ہی کب اور بے فکر رہیں جب چاہیں اپنی بیٹی سے مل لیجئیگا میں منع نہیں کرونگی بس گزارش ہے مجھ سے میری زندگی جینے کا سہارا مت چھینئیگا بس اتنے سے رحم کی بھیک مانگتی ہو آپ سے باقی کچھ نہیں چاہئے مجھے ۔۔۔ مشی نے اپنا دوپٹہ حضیر کے آگے پھیلاتے ہوئے آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ التجا کی ۔۔۔ 

یار کیا کر رہی ہو پاگل ہوگئی ہو کیا مجھ سے زیادہ تمہارا حق ہے عفراء اور میں کیوں چھینوگا اسے میں تو تم دونوں کو ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اگر تم مجھے پسند نہیں ہوتی تو میں شادی کیوں کرتا تم سے میں کسی کی ماننے والوں میں سے نہیں بلکہ اپنی منوانے والوں میں سے ہوں میں نے اپنی مرضی سے تمہیں اپنے نکاح میں لیا ہے پاگل چاچو تو اتنی جلدی شادی پر راضی نہیں تھے کیونکہ تم سترہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن میری ضد پر انہیں ماننا پڑا کیونکہ میں وآپس جانے سے پہلے تمہیں اپنے نام کرنا چاہتا تھا عفراء ہم دونوں کی بیٹی ہے اور میں کیوں دور کرونگا عفراء کو تم سے کیا میں تمہیں اتنا ظالم نظر آتا ہوں جو ایک شیرخوار بچی کو اسکی ماں سے الگ کردونگا جو ابھی دو سال کی بھی نہیں ہوئی ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے انتہائی دکھ سے کہا ۔۔۔ لیکن آپ نے مجھ سے شادی بابا کے مجبور کرنے پر تھی کیو کہ انہوں نے آپکے آگے ہاتھ جوڑے تھے تاکہ آپ مجھ سے شادی کرلیں ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے حیرانگی سے کہا ۔۔۔ دماغ خراب ہے تمہارا اور اب میرا بھی کروگی میں تمہیں اتنا بیغیرت نظر آتا ہوں کہ اپنے چاچو سے ہاتھ جڑوانگا اپنے آگے بلکہ چاچو تو راضی نہیں تھے لیکن  میں نے زبردستی راضی کیا تھا چاچو کو میں نے امریکہ میں ہی چاچو سے بات کرلی بابا اور مما نے تو بس میرے ضد کرنے پر فارمیلیٹی کے لئے چاچو سے تمہارا رشتہ مانگا تھا پاگل لڑکی ۔۔۔ اور پھر جب ضد پوری ہوگئی تو ایک جیتے جاگتے وجود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود اپنی دنیا میں اپنے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے کے لئے چل پڑے ۔۔۔ 

مشی نے شکوہ کرتے لہجے میں حضیر سے کہا ۔۔۔ مانتا ہوں میری غلطی ہے میں تم سے غافل رہا لیکن اب میں اپنی ہر غلطی کا مداوا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں تمہارے اور عفراء کے ساتھ خوشحال زندگی گزارنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں تم اور عفراء میرے ساتھ گھر چلو ۔۔۔ میں کاردار ولا مر کر بھی نہیں جاؤنگی اور اب اس معاملے میں کوئی بات نہیں ہوگی ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے اسپاٹ لہجے میں کہا اور اپنا سامان اٹھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ حضیر سر اپنے ہاتھوں گرا لیا کیونکہ وہ جتنا سب چیزوں کو آسان سمجھ رہا تھا اتنی ہی چیزیں الجھی ہوئی تھی جنکو سلجھانے میں وقت درکار تھا ۔۔۔

سامان پیک کرلیا ہو تو چلیں ۔۔۔ شماس نے وآپس آکر حیا سے پوچھا ۔۔۔ جی بھائی ہوگیا بس رومیسہ اور آنٹی عبایا پہن رہی ہیں ۔۔۔ اچھا پھر میں سامان گاڑی میں رکھواتا ہوں ۔۔۔ حیا کے جواب دینے پر شماس نے کہا اور سامان لے جاکر گاڑی میں رکھنے لگا ۔۔۔ اور وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔

چلو آؤ میں تمہیں گھر دیکھاتی ہوں اور بھائی آپ جاکر کھانا لے آئیں باہر سے کیونکہ میرا ابھی کھانا بنانے کا کوئی موڈ نہیں ہے بلکہ مجھے ابھی آنٹی اور رومیسہ کے ساتھ وقت گزارنا ہے ۔۔۔ حیا نے رومیسہ کو کہنے کے ساتھ شماس کو مخاطب کرتے ہوئے چہکتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے بھائی کی جان میں باہر سے لے آؤنگا کھانا اللّٰہ حافظ ۔۔۔ حیا کے کہنے پر شماس نے پیار سے اسکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا اور رومیسہ کے سر پر ہاتھ رکھتا وہاں سے چلا گیا جو کہ حسرت سے ان دونوں کے پیار کو دیکھ رہے تھی جبکہ لائبہ بیگم اندر جاچکی تھی ۔۔۔ 

چلو آجاؤ رومیسہ میں تمہیں اپنا روم دیکھاتی ہوں اور تم میرے روم میں رہوگی جب کے میرے برابر والا روم آنٹی کا ہے جبکہ سامنے والا بھائی کا ہے اب آجا اپن پہلے سامان سیٹ کرلیں پھر بیٹھ کر گپیں لگائینگے ۔۔۔

مشی نے رومیسہ کا ہاتھ پکڑتےہوئے کہا اور اپنے روم میں لے گئی اور پھر حیا کے کہنے کے مطابق دونوں نے پہلے سارا سامان سیٹ کیا اتنے میں شماس کھانا لے آیا پھر سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر کھانا کھانے کے بعد شماس اپنے روم میں چلاگیا اور لائبہ بیگم بھی آرام کی غرض سے اپنے روم میں چلی گئیں اور وہ دونوں اپنے روم میں باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کافی سے بھی لطف اندوز ہورہی تھی اور پھر رات بارہ بجے جاکر وہ دونوں نیند کی وادیوں میں اترگئیں ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐ ⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

حیا دیکھو میں تمہاری لاڈلی کی لاڈلی کو لیکر آیا ہوں ۔۔۔ یار اٹھ کر تو دیکھو کتنی شرارتی ہے ہماری نواسی ۔۔۔ یار اب تو اٹھ جاؤ دیکھو ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے میں کتنا اکیلا ہوگیا ہو مشی کو تمہاری ضرورت ہے اس نے ساری زندگی تم سے محروم گزاری ہے یار اب تو اسکو ماں کی محبت سے ماں کے لمس سے روشناس کروادو یار ۔۔۔ کتنا یاد کرتی ہے تمہیں یار اب تو اٹھ جاؤ کیوں صبر آزمارہی ہو ہم سب کا ۔۔۔ 

اٹھ کر دیکھو تو یار تمہارے انتظار میں بالوں میں چاندنی آگئی ہے اب تو مجھے بھی میرے صبر کا پھل دے دو ۔۔۔ تم تو کہا کرتی تھی نا کہ میں کبھی کسی بھی حالات میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤنگی کیونکہ میں جانتی ہو نا آپ میرے بغیر رہ سکتے ہیں اور نا میں تو دیکھو اب تم ہی اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکی لیکن میں تو اب بھی تمہارے پلٹنے کے انتظار میں ہوں ۔۔۔

میں نے اپنی جوانی تمہارے انتظار میں گزاری ہے یار لیکن بڑھاپے میں تو مجھے تنہائی کی نظر نہیں کرو ۔۔۔ مشی بھی کچھ دن کی مہمان ہے آج نہیں تو کل حضیر اسے لے جائیگا اور پھر سے وہی تنہائی میرا مقدر بن جائیگی جو جوانی میں تھی ۔۔۔ یار حیا پندرہ سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے انتظار کے لئے اب میرا صبر ختم ہورہا ہے میں ناامید نہیں ہوں لیکن کبھی کبھار مایوس ضرور ہوجاتا ہوں ۔۔۔ حیا اگر اس دن تم میرے سامنے نہیں آتی تو وہ گولی مجھے لگتی اور میں تمہاری جگہ ہوتا اور تم میرا انتظار کرتی پھر تم سے پوچھتا کہ انتظار کرنا کیسا ہوتا ہے ۔۔۔ اللّٰہ نے ایک ہی اولاد عطا کی ہمیں حیا لیکن ہم اسکو کو کوئی خوشی نہیں دے سکے اس بچی نے بچپن سے آج تک محرومیوں میں گزاری ہے  لیکن وہ آج بھی اُف نہیں کہتی میں نے کبھی اسکے منہ سے شکوہ نہیں سنا ۔۔۔ یار میری زندگی کی دو ہی تو وجہ ہیں ایک تم اور دوسری مشی لیکن دیکھو مجھے دونوں کی طرف سے سکھ حاصل نہیں ہے نا بیٹی کی حالت دیکھی جاتی ہے اور نا تمہاری خیر بیٹی کو سنبھلنے کے لئے تو تمہارا داماد آگیا ہے لیکن مجھے سنبھالنے کے لیے میرے دل کی باتیں سننے کے لئے تمہیں اٹھنا ہوگا ۔۔۔ میں روز اپنے رب سے دعا کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے وہ میری ضرور سنیگا ۔۔۔ اپنا خیال رکھنا چلتا ہوں تمہاری بیٹی کا یونیورسٹی سے آنے کا وقت ہوگیا ہے اور وہ جب تک عفراء کو نہیں دیکھے گی اسے سکون نہیں ملیگا ۔۔۔ تمہاری بیٹی کو تو یہ بھی نہیں پتہ کے اسکی ماں زندہ ہے لیکن زندہ ہو کر بھی زندہ نہیں ہے اور میں اسے بتانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا جس دن تم نے میرا کہا مان لیا اس دن اپنی بیٹی کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی دونگا ۔۔۔ خیر چلتا ہوں اللّٰہ حافظ ۔۔۔

اذہان صاحب روز کی طرح آج بھی مشی کے یونی جانے کے بعد عفراء کو لیکر اپنے اپارٹمنٹ میں اپنی زوجہ سے ملنے آئے تھے جسکا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کیونکہ اس اپارٹمنٹ میں پچھلے پندرہ سالوں سے ان کی بیگم زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی لیکن انہیں یقین تھا ایک دن وہ انکی محبت میں اور انکی دعاؤ کے قبول ہونے پر وہ موت کو مات دیکر ضرور زندگی کی طرف لوٹینگی لیکن کس کو کیا خبر کے انکا یقین ٹھیک ہے یا ابھی اور آزمائش باقی تھی ۔۔۔۔ روز کی طرح اذہان صاحب آج بھی اپنی شریکِ حیات سے ڈھیروں باتیں کر کے انکے سر پر پیار کرتے عفراء کو لیکر گھر کی طرف چل دیے جو کہ جب سے آئی تھی اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے روم میں لگی مشینوں کا معائنہ کرنے میں مصروف تھی ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

کیا بات ہوئی حضیر بھائی سے ؟۔۔ مصباح مشی اور اناب کو اپنے ساتھ گھر لے آئی تھی اور اب تینوں مصباح کے روم میں بیٹھی تھی کہ اناب نے پوچھا ۔۔۔ کیا بات ہونی ہے مجھے اور عفراء کو ساتھ لے جانے کا کہہ رہے تھے میں نے صاف انکار کردیا کہ میں مر کر بھی کاردار ولا نہیں جاؤنگی میں پہلے ہی موت کے منہ میں جاکر اس جہنم سے نکلی ہو اب دوبارہ اس جہنم میں نہیں جاؤنگی پہلے تو میں اکیلی تھی میں نے سب سہہ لیا لیکن اب تو میری بیٹی میرے ساتھ ہے اور میں اپنی بیٹی کو کبھی بھی کسی کے طنز و طعنوں کا شکار نہیں بننے دونگی میں اپنے باپ کے گھر ہی ٹھیک ہوں لیکن میں کسی قیمت پر بھی کاردار ولا نہیں جاؤنگی کیونکہ میں نے اپنا بچپن تنہائی میں گزارا ہے جہاں مائیں اولاد کو زندگی گزارنے کے فن سیکھاتی میں نے وہ فن قرآن و احادیث سے خود اپنی ترتیب کی ہیں مجھے معلوم ہے بھری محفل میں ہوکر اکیلا ہونا کسے کہتے ہیں جب اپنے ہی دوسروں کے سامنے آپکی تضحیک اور تذلیل کریں تو کیسا محسوس ہوتا ہے میں نے بہت کچھ سہا ہے لیکن میں اپنی بیٹی کے معاملے میں کسی چیز پر کمپرومائز نہیں کرونگی ۔۔۔

اچھی بات ہے تجھے وہاں جانا بھی نہیں چاہئے لیکن کیا حضیر بھائی تجھے انکل کے پاس رہنے دینگے ؟

مشی کے کہنے پر مصباح نے اس سے پوچھا ۔۔۔ وہ انکا مسلئہ ہے لیکن میں نے صاف انکار کردیا ہے اور ابھی میرا کوئی ارادہ نہیں ہے انکے ساتھ جانے کا اور آگے وقت بتائیگا کہ کیا لکھا ہے میرے نصیب میں کیونکہ میں اپنا ہر معاملا اللّٰہ کے سپرد کرچکی ہوں خیر اس بات کو چھوڑ یہ بتا نانی جان اور نانا جان  کہاں ہے ؟ مصباح کے پوچھنے پر مشی نے اپنے ارادوں سے آگاہ کرتے ہوئے فریدہ بیگم اور ہماس شاہ کا پوچھا ۔۔۔

دادا اور دادو اپنے روم میں آرام کر رہے ہیں میں نے انکو بتایا نہیں  ہے تم آگئی ہو ورنہ تمہیں خود کے پاس سے اٹھنے نہیں دیتے۔۔۔ چل کوئی نہیں میں ان سے ملنے انکے روم میں جارہی ہوں نانی کی روز کال آتی ہے میرے پاس میں ان سے مل لوں ورنہ وہ ناراض ہوجائینگی ۔۔۔ مصباح کے کہنے پر مشی نے اسے جواب دیا اور نانا نانی سے ملنے انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی تو پیچھے وہ دونوں بھی اسکے پیچھے چل دی ۔۔۔

تمہیں عزت راس نہیں ہے پھر آگئی تم اتنی بے عزتی کے بعد بھی بی بی تم میں سیلف ریسپیکٹ نام کی بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں خود کا شوہر تو پوچھتا نہیں ہے منہ اٹھائے آئے دن یہاں آجاتی ہے ارے بیبی اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنائی ہوتی تو آج یوں دوسروں کے در پر بھٹکنا نہیں پڑتا لیکن تم جیسے لوگوں کو تو عادت ہے دوسروں کے دروں پر پلنے کی پہلے منہوس ماری ماں کو کھاگئی اور پھر باپ بھی اپنے کندھوں سے بوجھ اتار کر دوسروں کے دروں پر پلنے کے لئے چھوڑ کر باہر ملک چلاگیا اور پھر تم جیسی لڑکیوں کی یہی تربیت ہوتی ہے دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارنا ۔۔۔ مشی ابھی مصباح کے کمرے سے باہر ہی نکلی تھی کہ سحر جو کہ سعد کے نا لانے پر آج خود ہی آگئی تھی سامنے مشی کو دیکھ کر تضحیک آمیز لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ 

بسسسس ۔۔۔ بہت کرلی آپ نے بکواس آپ سعد کی وائف ہے اس لئے پہلی اور آخری دفعہ وارن کر رہا ہوں اپنی زبان کو لگام دیجئیے ورنہ مجھے سارے لحاظ بھولنے میں لمحہ نہیں لگے گا اور کیا کہا کہ شوہر پوچھتا نہیں ہے تو آپ کو بتادوں کہ میں ہر کسی کو جوابدہ نہیں ہو میری بیوی کو چھوڑ کر آپ ذرا خود پر نظرِ ثانی کریں جس کو شوہر نے میکے بھیج دیا میری بیوی تو میری مرضی سے اپنے باپ کے گھر رہی ہے میری عائش آپ کی طرح نہیں ہے جو شوہر کا سکون برباد کر کے رکھے عائش سانس بھی مجھ سے پوچھ کر لیتی ہے اتنی فرمانبردار ہے وہ میری اور آج تو آپ نے میری پاکدامن بیوی کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کرلی ہے لیکن اگر آئیندہ آپکی زبان کنٹرول میں نہیں رہی تو یاد رکھئیگا میں بھی بھول جاؤنگا کہ آپ ایک عورت ہیں ۔۔۔

سحر ابھی مشی کے خلاف زہر اگل ہی رہی تھی کہ حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا جو یہاں مشی کو لینے ہی آیا تھا لیکن سحر کے الفاظوں نے اسکا دماغ گھمادیا جس پر حضیر نے بھی لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اچھی طرح اسکی طبیعت صاف کرتا عائش کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا جبکہ سب جو کہ حضیر کی دھاڑ پر کمروں سے باہر آئے تھے حضیر کو اپنے گھر دیکھ کر حیرت زدہ بھی تھے لیکن پھر سحر کی حرکت دیکھ کر سب خونخوار نظروں سے اسے گھورنے لگے جبکہ فریدہ بیگم تو پاس رکھے صوفے پر ڈھہ گئی ۔۔۔

یا اللّٰہِ اب حضیر کبھی بھی میری بچی کو یہاں نہیں بھیجیگا ۔۔۔ چٹاخ ۔۔۔

ابھی دادی افسردہ لہجے میں کہہ ہی رہی تھی کہ تھپڑ کی آواز پر سامنے دیکھنے لگی جہاں سحر منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے خونخوار نظروں سے گھورتے سعد کو دیکھ رہی تھی جبکہ سب بھی منہ پر ہاتھ رکھتے ان کی طرف متوجہ تھے لیکن بولنے کی کسی نے بھی غلطی نہیں  کی تھی ۔۔۔ مجھے یہ تھپڑ بہت پہلے ماردینا چاہئے تھا کیونکہ لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانتے میں نے کتنا سمجھایا تمہیں کتنی صفائیاں دی تمہاری ہر بات مانی صرف اس لئے کہ تم اپنی خود ساختہ نفرت میں مشی کو داغدار نا کردو لیکن تم نے میری ایک نہیں سنی اور وہی کیا جو تمہارے دل نے چاہا اس لئے اب میں بھی وہی کرونگا جو میرا د چاہے گا میری نظروں سے دفعہ ہوجاؤ ابھی اور اسی وقت اس سے پہلے کہ میں ایک اور تھپڑ تمہارے منہ پر جڑدو اگر مجھے تم اس گھر میں اب نظر آئی تو یاد رکھنا تمہارے لئے اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔ سعد نے دھاڑتے ہوئے کہا اور کرسی کو ٹھوکر مارتا تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا جبکہ پیچھے سب بھی ایک افسوس بھری نظر سحر پر ڈال کر ایک ایک کر کے اپنے کمروں میں چل دیے جبکہ اناب سحر کو اپنے ساتھ گھسیٹتی ہوئی اپنے ساتھ لے گئی جو کہ بت بنے کھڑی تھی ۔۔۔

تمہارے منہ میں زبان نہیں تھی سعد کی وائف تمہارے بارے میں کس قدر واہیات باتیں کررہی تھی اور تم خاموشی سے سب چپ چاپ سن رہی تھی ۔۔۔ 

حضیر نے ڈرائیو کرتے ہوئے کھڑکی سے سر ٹکاکر آنکھیں موندے بے آواز آنسو بہاتی مشی سے درشتگی سے سوال کیا ۔۔۔ میں کچھ پوچھ رہا ہو تم سے جواب کیوں نہیں دے رہی ۔۔۔ مشی کو جواب نا دیتا دیکھ حضیر بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے دبا دبا سا دھاڑا ۔۔۔ جھوٹ میں بولونگی نہیں سچ سننے کی آپ میں طاقت نہیں اس لئے خاموشی ہی بہتر ہے کیونکہ جس دن میں نے اپنی زبان کھولیں تو آپ تو کیا بہت سے لوگ منہ چھپانے کے لئے جگہ تلاشتے پھرینگے اس لئے مجھے خاموش ہی رہنے دیں کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے اسے دیکھتے ہوئے اسپاٹ لہجے میں جواب دیا اور اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑ لیا ۔۔۔

تم کہنا کیا چاہتی ہو کھل کر کہو میں طاقت رکھتا ہوں سچ سننے کی ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے بولنے پر اکسایا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ مشی اپنے اندر رکھا برسوں کا غبار ہلکہ کرلے ۔۔۔ سچ سننا چاہتے ہیں تو سنیں آپکی وجہ سے ہوا ہے یہ سب جن بیویوں کے شوہر انکے سر پر نہیں ہوتے ہیں نا وہ ساری زندگی یونہی زلیل ہوتی ہیں کبھی کسی ہاتھوں تو کبھی کسی اور کے اور کیا کہتی میں انہیں ٹھیک تو کہہ رہی تھی وہ پچھلے دو سالوں کبھی آپ نے پوچھا کہ میں کس حال میں ہوں زندہ بھی ہوں کہ مرگئی شادی شدہ ہوکر بھی میں نے اکیلے گزارے ہیں یہ دو سال کیونکہ میرا کوئی سائبان نا تھا آپکی ماں نے مجھ سے شادی شدہ ہونے کا بھی حق چھین لیا تھا آپ کے جاتے میری چوڑیاں نوز پن تک اتروادی تھی کہ کہیں میں کسی کو بتا نہ دوں کہ میں آپ کی صرف نام کی بیوی ہوں کہیں کوئی جان نا لے کہ میں آپکی ماں کی بہو ہوں لیکن وہ اللّٰہ ہے نہ اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا انہوں نے کتنی کوشش کی کہ کوئی جان نا لے کہ میں آپکی بیوی ہوں لیکن دیکھیں آپ کو مجھ سے دور کرنے کے بعد بھی میں آپکی بیٹی کی ماں ہوں ۔۔۔ 

مجھے یہ بتائیں کہ میں آپ کے ساتھ بھاگ کر آئی تھی یا میں نے آپ سے منتیں کی تھی کہ مجھ سے شادی کرلیں بلکہ میں تو اس آسرے میں تھی کہ میری شادی ہوتے ہی میری جان چھوٹ جائیگی اس جہنم سے لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ جہنم ہی میری قسمت میں ہے میں نے صرف اپنی باپ کی خوشی دیکھ کر شادی کے لئے ہاں کی تھی حالانکہ میں بلکل بھی خوش نہیں تھی کیونکہ نا تو مجھے آپ سے کسی قسم کی امید تھی اور نا ہی دلی لگاؤ میں نے صرف اپنے باپ کی خوشی کے لئے ہاں کی تھی کیونکہ اس رشتے سے میرے بابا خوش تھے تو میں نے بھی انکی خوشی کے لئے اندھے کنویں میں چھلانگ لگادی لیکن مجھے ڈر تھا کہ میری زندگی مجھ پر اور تنگ ہوجائنگی اور وہی ہوا آپ سے شادی کے بعد جو کسر باقی تھی وہ بھی پوری ہوگئی ۔۔۔

تو اب آپ کو دوسروں کا بولنا کیوں برا لگ رہا ہے میں تو بچپن سے ایسے کلمات سنتے آرہی ہوں بس فرق اتنا ہے کہ پہلے کوئی اور تھا اور اب سحر بھابھی ہے اور کیونکر انکو جواب دیتی کس وجہ پر جواب دیتی کیونکہ میرا تو خود کھونٹا مضبوط نہیں  جو شادی کے بعد بھول گیا تھا کہ اسکی کوئی بیوی بھی ہے میں تو بچپن سے لاوارث ہوں پہلے اللّٰہ نے ماں کو مجھ سے لے لیا اور پھر باپ نے دوسروں کے دروں پر پلنے کے لئے چھوڑدیا اور پھر جب شادی ہوئی تو شوہر بھی مجھ جیسے بوجھ سے اپنی جان چھڑواتا چلا گیا ۔۔۔ مجھے اب لوگوں کی باتیں بری نہیں لگتی کیونکہ میں یہی باتیں سنتی جوان ہوئی ہوں اب تو عادت ہوگئی ہے اس لئے آپکو بھی برا نہیں لگنا چاہئے ۔۔۔ تکلیفیں تو میں نے سہی ہے تو برا آپ کو کیوں لگ رہا ہے ۔۔۔ بچپن سے محرومیاں اور تنہائیاں میرا نصیب رہی ہیں جن پر الحمدللہ میں خوش ہو مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں ہے پال لونگی اپنی بیٹی کو سمجھادونگی بیٹا تیرے نصیب میں بھی صبر کرنا لکھا ہے اپنی ماں کی طرح ۔۔۔

آپ کو کیا پتہ میری تکلیف کا کس قدر میرا دل خون کے آنسو روتا تھا جب میری بچی مجھ سے کوئی چیز مانگتی اور میرے پاس اس چیز کو خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور باپ سے مانگتے ہوئے شرم آتی تھی کہ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی باپ پر بوجھ بنی بیٹھی ہوں لیکن کیا کرتی اور کوئی راستہ بھی نہیں  خود تو صبر کرلیتی اس بچی کو کیسے صبر کرواتی لیکن مجبور تھی عفراء کو رونے دیتی لیکن وہ چیز دلوا نہیں پاتی کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں  ہوتے تھے بابا خود دے دیتے تھے تو چاہتے ہوئے بھی منع نہیں کرپاتی تھی کیونکہ جانتی تھی کہ اگر بابا سے نہیں  لونگی تو کون دیگا کس سے مانگونگی کس سے کہونگی میری بیٹی کو فلاں چیز کی ضرورت ہے مجھے فلاں چیز کی ضرورت کیونکہ عفراء کا باپ تو ہوتے ہوئے بھی نہیں تھا ۔۔۔ پہلے باپ کے ہوتے ہوئے تایا کے در پر پلی اور بلکل میری طرح میری بیٹی بھی باپ کے ہوتے ہوئے نانا کے در پر پل رہی ہے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوگی ۔۔۔ آپ بات کرتے ہیں میرے کہنے کی میں کہنے پر آئی تو سب کچھ کھول کر رکھ دونگی اور مہربانی آپکی کہ دو سال بعد آپکو یاد آگیا کہ آپکی کوئی بیوی اور بیٹی بھی ہے لیکن اب مجھے آپکی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے عادت ہوگئی ہے تنہائیوں اور محرومیوں میں زنگی گزارنے کی ہر حالات سے اکیلے لڑنے کی اور میں جانتی ہوں میرا اس دنیا میں میرے اللّٰہ کے بعد میری بیٹی کے سواء کوئی نہیں بہت سہہ لیا میں نے اب میں وہی کرونگی جو مجھے صحیح لگے گا میں اپنی بیٹی کو اپنی جیسی زندگی نہیں گزارنے دونگی اور اسکے لئے مجھے جو کرنا پڑا کرونگی بس آپ اتنا سمجھ لیجئیگا آپکی بیوی تب ہی مرگئی جب آپ اسے اپنے نام کر کے بے یار و مددگار چھوڑ گئے تھے اور آج یہ ہماری آخری ملاقات تھی آج کے بعد مجھ سے ملنے یا بات کرنے کی بھی کوشش نہیں کیجئیگا آپ اب میرے لئے ایک اجنبی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی پھٹ پڑی تھی اور روتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولتی بھاگتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی جبکہ حضیر وہیں منجمند ہوگیا بلکہ ساکت کیونکہ آج اسے اسکے جرم کی سزا سنادی گئی تھی جبکہ سزا سن کر حضیر کو اپنا سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

اے میرے رب میری مشکلیں آسان فرما اے مالک الملک تو سب جانتا ہے میرا ظاہر بھی اور باطن بھی تو تو میری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے یا اللّٰہ میرے گناہوں کو معاف فرما اے میرے رب جس آزمائش میں تو نے مجھے ڈالا ہے مجھے اس میں سرخرو بھی کرنا اے غفور الرحیم مجھے ہمت و استقامت عطا کر میں انصاف کرسکوں میں مشی کو وہ خوشیاں دے سکوں جن سے وہ محروم رہی ہے اور جن کی وہ حقدار ہے یا ربّی تو تو جانتا ہے کہ جو ہوا سب انجانے میں ہوا مانتا ہوں میں لاپرواہ تھا لیکن میرے رب مجھے اندازہ نہیں  تھا کہ میری لاپرواہی کی وجہ سے میری ہی زندگی مجھ سے روٹھ جائیگی ۔۔۔

اے موسیٰ کو راستہ دیکھنے والے میری بھی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر اور مشی کے دل میں میرے لئے رحم ڈال دے ۔۔۔ اے حق اور باطل کو جاننے والے میرے سامنے حق اور باطل کو واضح کردے اے عدل و انصاف کے بادشاہ مجھے اتنی عقل و فہم عطا کر کہ میں انصاف سے عدل کے ساتھ کوئی بہترین فیصلہ کرسکوں آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔۔۔

حضیر مشی کو چھوڑ کر ڈائریکٹ گھر آیا تھا اور اب اپنے کمرے میں جائے نماز پر بیٹھا اپنے رب سے محو گفتگو تھا جبکہ آنسوؤں سے چہرہ تر تھا ۔۔۔

حضیر نے دعا مکمل کر کے اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے اور جائے نماز تہہ کرکے اسکی جگہ پر رکھی اور چلتا ہوا سائیڈ ٹیبل کی طرف آیا اور وہاں سے اپنا موبائل اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگا ۔۔۔ ایک بیل دو بیک تین بیل ۔۔۔ مقابل کو بیل جارہی تھی لیکن وہ اٹھا نہیں رہا تھا ۔۔۔ عائش پلیز فون اٹھاؤ یار خدا کے لئے پلیز ۔۔۔ مشی کے کال نا اٹھانے پر حضیر نے بے بسی سے میسج سینڈ کرتے ہوئے خود سے کہا اور پھر دوبارہ سے کال کرنے لگا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

مشی گھر آکر فوراً سے اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی اور وضو کر کے اپنا حالِ دل  ہمیشہ کی طرح اپنے رب کو سناکر اب کافی ہلکہ پھلکہ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ دعا کے دوران مشی کو وقفے وقفے سے موبائل بجنے کی آوازآئی تھی لیکن وہ نظر انداز کر کے اسی طرح اپنے رب کے ساتھ محو گفتگو رہی اور تھوڑی دیر بعد اٹھ کر جائے نماز تہہ کر کے کبرڈ میں رکھی اور موبائل اٹھاکر بیڈ پر بیٹھ کر انبکس چیک کرنے لگی جہاں ایک ان نون نمبر سے میسج تھا ۔۔

آپ کون ؟

مشی کو شک تو ہوگیا تھا کہ یہ حضیر کا نمبر ہے لیکن اس نے پوچھنا لازمی سمجھا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف مشی کا اجنبی میسج پڑھ کر ایک آنسو حضیر کی آنکھ سے نکل کر داڑھی میں جذب ہوگیا ۔۔۔ کافی جلدی کردی ہمیں بھولنے میں شریکِ سفر ۔۔۔ حضیر نے بے دردی سے اپنا آنسو صاف کرتے ہوئے میسج کا جواب دیا جبکہ دوسری طرف مشی اسکا میسج پڑھ کر ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔۔ بھولنا آسان ہوتا تو آج ہماری ملاقات واقع نہیں ہوتی خیر اگر آپ چاہتے ہیں تو آپکی بات پر عمل کرسکتی ہوں کیونکہ بقول آپکے فرمانبردار بیوی جو ٹہری ۔۔۔ مشی کا جواب پڑھ کر حضیر نے فوراً کال کی جو کہ اٹھالی گئی ۔۔۔ یار بس کردو خود کو مجھے تکلیف دینا مانتا ہوں گناہ ہوا ہے لیکن اتنی بڑی سزا تو نا دو پہلے ہی دو سال دوری میں گزرے ہیں اور اب کتنا وقت دوری میں گزارنا ہے ۔۔۔ مشی کے کال اٹھاتے ہی حضیر نے گھمبیر لیکن نم آواز میں بے بسی سے کہا ۔۔۔

اگر سب کچھ بھول بھی جاؤں تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ اپنے کہے پر قائم رہینگے ۔۔۔ مشی نے اپنے الٹے ہاتھ سے چہرہ صاف کرتے ہوئے حضیر سے سوال کیا ۔۔۔ مجھ پر نہیں لیکن اپنے رب تو بھروسہ کرسکتی ہوں میں تمہیں اور عفراء کو ہر وہ خوشی دینا چاہتا ہوں جنکی تم حقدار ہوں پلیز ایک آخری موقعہ دے دو ۔۔۔ میرا مان تو نہیں توڑینگے ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے پھر سے سوال کیا جبکہ آنسو مسلسل گالوں کو بھگورہے تھے ۔۔۔ تمہارا صبر رائگاں نہیں جانے دونگا ۔۔۔ حضیر نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر خوبصورتی سے اسکے سوال کا جواب دیا ۔۔۔ لیکن میں اس قید خانے میں وآپس قید نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس قید میں ایک آزاد پنچھی کی طرح رہو ۔۔۔ مجھے خوف آتا ہے کیونکہ میں اس جگہ کو خود کے لئے دنیاوی جہنم تصور کرتی ہوں ۔۔۔ بے شک پہلے کرتی ہونگی کیونکہ میں نہیں تھا اب میں ہوں تو اسی جہنم کو تمہارے لئے جنت بنادونگا ۔۔۔ 

اگر میں دوبارہ قید کردی گئی ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔ تو میں وہ زندان توڑ دونگا یقین رکھو مجھ پر نہیں اللّٰہ پر ۔۔۔ حضیر نے مشی کا خوف دور کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ اللّٰہ پر یقین ہے تبھی تو آج زندہ ہوں ورنہ م۔۔۔ ششش ۔۔۔ ایسا نہیں ہونا تھا کیونکہ تم میرے لئے زندہ ہو اور میں تمہارے لئے آئیندہ ایسے فضول بات زبان پر نا لانا ۔۔۔ مشی نے ابھی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ حضیر نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ۔۔۔ کب لینے آؤں ۔۔۔ مشی کو خاموش ہوتا دیکھ حضیر نے دوبارہ پوچھا ۔۔۔ اس کا فیصلہ بابا کرینگے اور اب میں عفراء کو دیکھ لوں بعد میں بات ہوگی اللّٰہ حافظ ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے کہا اور کھٹاک سے فون بند کرکے باہر کی طرف چل دی جہاں عفراء کے کھلکھلانے کی آوازوں کے ساتھ اذہان صاحب کے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھی جبکہ دوسری طرف فون کے بند ہوتے ہی حضیر نے سکون سے آنکھیں موندلیں 

بابا آپی کو سمجھادیں کہ اگر آئیندہ انہوں نے مشی کے خلاف ایک لفظ بھی بولا تو یقین کریں مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا میں بھول جاؤنگی کہ یہ میری بڑی بہن ہیں یا میرا ان سے کوئی خون کا رشتہ ہے ۔۔۔ اناب نے سحر کو لاؤنچ میں بیٹھ کر چائے سے لطف اندوز ہوتے تمام افراد کے بیچ پھینک کر دھاڑتے ہوئے کہا جبکہ سب اسکی حرکت پر ششدر سے اناب کو ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہو ۔۔۔ اناب کی بات پر سحر نے اسکے سامنے آتے ہوئے تیش میں کہا ۔۔۔ ہاں کیونکہ مشی مجھے آپ سے زیادہ عزیز ہے مشی کے لئے اناب جان بھی دے سکتی ہیں کیونکہ وہ اس قابل ہے کہ اسکے لئے جان دی جائے میرے والدین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مجھے مشی سے محبت ہے اس لئے اگر آپ نے دوبارہ اسکے خلاف کچھ کہا تو یقین کریں اپنے حق میں مجھ سے برا کسی کو نہیں پائینگی ۔۔۔ سحر کے کہنے پر اناب نے غراتے ہوئے کہا ۔۔۔

اناب بھائی کی جان ریلیکس ہوجاؤ بتاؤ تو صحیح ہوا ہے کیا ؟

اناب کو غصے سے لرزتا دیکھ ہیّاج نے اسے اپنے حصار میں لیکر پرسکون کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ پوچھیں ان سے بھائی یہ عورت سب کے سامنے اس پاکباز کے کردار کی دھجیاں اڑا کر آئی ہے آپ لوگوں کو پتہ ہے سعد بھائی نے تھپڑ مار کر گھر سے نکالا ہے اور صحیح نکالا ہے قسم سے اگر حضیر بھائی کی جگہ کوئی اور مرد ہوتا تو عورت ہونے کا لحاظ بھی نا کرتا ۔۔۔ آپ جانتے ہیں وہ سب کے دلوں پر راج کرتی ہے اور انہوں نے اسکی بے بسی کا تماشا بناکر رکھ دیا اس کے کردار کو داغدار کرتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہیں آئی اور اسی وجہ سے آج پھر سے سعد بھائی نے انکو گھر سے نکال دیا ۔۔۔ ارے اور کتنی ذلیل ہونگی آپ اپنی زبان کے پیچھے بند کردے لوگوں کی زندگیوں میں دخل دینا اپنی زندگی پر اور اپنے شوہر پر توجہ دیں جو آپکو دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہے ۔۔۔ ہیّاج کے پوچھنے پر اناب نے اسے جواب دیتے ہوئے آخر میں سحر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

ارے کیا اول فول بکتی جارہی ہو بڑی بہن ہے تمہاری عزت کیا کرو اسکی تم تو معصوم ہو تم کیا جانو اس چالاک لومڑی کو اسکی ماں ب۔۔ 

بسسس ۔۔۔ فاریہ بیگم ابھی مشی کے خلاف زہر اگل ہی رہی تھی کہ اناب نے ڈیکوریشن پیس کو زمین پر مار کر دھاڑتے ہوئے کہا جبکہ اسکا یہ جنونی روپ دیکھ کر سب دہل گئے ۔۔۔ ایک لفظ بھی نہیں کہینگی آپ یہ جو آج آپی کا حال ہے نہ وہ صرف اور صرف آپکی وجہ سے ہے آپ نے بنایا ہے آلی کو اس طرح کہ آج وہ اپنی انا کے چکر میں اپنا گھر تک خراب کرنے پر تلی ہے اور انکو ذرا سا خوفِ خدا نہیں ہے جو ایسے ہی مشی پر بہتان باندھ رہی ہیں آپ انکو سمجھانے کے بجائے آپ خود انکو شیٔ دے رہی ہیں آپ نے اپنے اندر کا زہر آپی میں منتقل کردیا ہے جو اب وہ دوسروں کی خوشیوں کو ڈس رہی ہیں ۔۔۔

جو معاملہ ہے ان میاں بیوی کے درمیان ہیں آپ کون ہوتی ہیں انہیں طعنہ دینے والی اسکے شوہر نے کبھی اس پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا نا اسکی زبان درازی پر اور نا ہی گھر سے دھکے دیکر نکالا ہے تو اب کریں اسکا اور اپنا موازنہ کہ کس قدر بہتر ہے وہ آپ سے وہ دوسروں کے دکھوں کو خود کا دکھ سمجھ کر انکی دلجوئی کرتی ہے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن آپ اسکو بے عزت کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی وہ اسکی نانی کا گھر ہے وہ آئے نا آئے اسکی مرضی آپ کون ہوتی ہیں اسے بے دخل کرنے والی اور پھوپھو آپ جس مرحوم عورت کی برائی کر رہی ہیں اور جس مرحوم عورت کے کردار پر آپ کیچڑ اچھال رہی ہے آج اسی کی بدولت آپ کے شوہر زندہ ہیں آپ کے شوہر کی خاطر ہی اس عورت نے جانتے بوجھتے خود کو جہنم میں جھونکا تھا صرف اور صرف اپنے بھائی کی محبت میں اور اس لئے کہ آپ بھری جوانی میں بیوہ ہوجاتی اور آپکا بچے بچپن میں ہی یتیم ہو جاتے اس مرحوم عورت نے اپنے بھائی کی جان کی خاطر خود کو پیش کردیا اور ہر طرح کے دکھ جھیلے لیکن آپ کو آف نہیں کہا وہاں انکی زندگی سسرال والوں نے جہنم بنادی تھی اور میکے میں آپ نے ارے آپ کو تو اس عورت کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا جس نے آپ کو بھری جوانی میں بیوہ ہونے سے بچالیا ۔۔۔

آپ تو اس عورت کی پیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے اور اسی طرح آپکی لاڈلی بھی مشی کے پیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے ان ماں بیٹی کا صبر مثالی ہے آپ دونوں کے طعنے سن کر بھی وہ منہ پر قفل لگائے رکھتی ہیں اُف تک نہیں کہتی ذرا جھانکے اپنے گریبان میں کہ کیا ہیں وہ اور کیا ہیں آپ دونوں آپکا دل خود گواہی دیگا خدا کے لئے ہوش کے ناخن لیں دوسروں کی زندگی کو برباد کرنے میں وقت صرف کرنے سے اچھا ہے اپنی زندگی اور آخرت سنوارے ۔۔۔ امید ہے میری کچھ باتیں تو آپ دونوں کے بھوسے سے بھرے دماغ میں بیٹھے گی ۔۔۔

فاریہ بیگم کے کہنے پر اناب نے اچھی طرح انہیں آئینہ دیکھایا اور تن فن کرتی وہاں سے چلی گئی تو سارا ہیاج اور یاسر صاحب بھی ایک افسوس بھری نگاہ ڈال کر باہر کی طرف چل دیے تو رومیسہ بیگم بھی اناب کی روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

کاردار ولا میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا اور ہوتا بھی کیوں نا آج انکا لاڈلا آنے والا تھا فارس کاردار کے چہرے سے تو مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہورہی تھی اور بلکل اسی طرح انکی بیگم بھی خوشی سے ہر کام اپنی نگرانی میں کروارہی تھی ۔۔۔ کئی قسم کے پکوان پکوائے جارہے تھے اور کاردار ولا کے کونے کونے کو شیشے کی مانند چمکایا جارہا تھا کیونکہ کاردار ولا کا ہر فرد واقف تھا کہ آنے والا وجود کتنا نفاست پسند ہے ۔۔۔ جبکہ جس شخص کے لئے اتنی خوشیاں منائی جارہی تھی اس نے کسی کو بھی ائیرپورٹ پر آنے سے منع کردیا تھا بلکہ پلین کے لینڈ ہونے کا وقت بھی کسی کو نہیں بتایا تھا تاکہ کوئی اسے لینے نا پہنچ جائے کیونکہ اس مغرور شہزادے کو پروٹوکول کچھ خاص پسند نا تھی وہ سب کی طرح خود کو بھی صرف ایک عام آدمی ہی سمجھتا تھا اور بلکل اسی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا لیکن کبھی کبھار اپنے گھر والوں کی خوشی کے لئے اسے ان کا کہا بھی ماننا پڑتا تھا لیکن جس بات پر وہ ضد کرجائگ پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی ضد پوری کر کے ہی رہتا تھا ۔۔۔

پتہ نہیں کب آئیگا کب سے اسکا انتظار کر رہے ہیں بلاوجہ ٹائم بھی نہیں بتایا کوئی لینے چلا جاتا لیکن وہی اسکی بے جا ضد اور اب دیکھیں ابھی تک اسکا کچھ پتہ نہیں ہے ۔۔۔ مسز کاردار نے فارس کاردار کو دیکھتے ہوئے خفا لہجے میں کہا ۔۔۔ آجائیگا بیگم پریشان نا ہو وہ کوئی بچہ تو نہیں ہے ۔۔۔ 

اسلام علیکم ایوری ون ۔۔۔ فارس کاردار ابھی اپنی زوجہ کو تسلی ہی دے رہے تھے کہ اذہان نے لاؤنچ میں داخل ہوتے سلام کیا ۔۔۔ وعلیکم سلام آگیا میرا شہزادہ ماں صدقے کیا حال ہیں میرے لال کے ۔۔۔ مسز فارس نے اذہان کو اپنے سامنے دیکھتے رندھے لہجے میں کہا اور پیار سے اسکا ماتھا چوما ۔۔۔ کیسی ہیں آپ اور ڈیڈ آپ کیسے ہیں ۔۔۔ اذہان نے اپنی والدہ سے پوچھنے کے ساتھ فارس کاردار سے پوچھا ۔۔۔ میں ٹھیک الحمدللہ اور اب میرا بیٹا آگیا ہے تو میں تو پھر سے جوان ہوجاؤنگا ۔۔۔ اذہان کے پوچھنے پر فارس کاردار نے اسے خود میں بھینچتے ہوئے اسکے ماتھے پر بوسہ دیکر شوخی سے کہا ۔۔۔ آپی اور بھائی آپ دونوں کیسے ہیں ؟ اذہان اپنے والدین سے ملنے کے بعد فریحہ کاردار اور اذہان کاردار سے ملنے لگا ۔۔۔ الحمدللہ چھوٹے تم سناؤ کیا حال ہے ۔۔۔ اذہان کے پوچھنے پر اذان کاردار نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔ الحمدللّٰہ ازلان بھائی نظر نہیں آرہے ۔۔۔ اذہان نے اذان کاردار کو جواب دینے کے ساتھ ازلان کاردار کو نا پاتے پوچھا ۔۔۔ وہ بھی بس پہنچنے والا ہوگا تم پہلے فریش ہوجاؤ تھکے ہوئے آئے ہونگے ڈنر پر مل لینا ۔۔۔ اذہان کاردار کے پوچھنے پر فارس کاردار نے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یونیورسٹی کیوں نہیں گئیں آج تم تینوں ۔۔۔ کاردار ولا کے سب افراد معمول کی مطابق ڈنر کے بعد چائے کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ حضیر نے ان تینوں کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ بھائی بس آج دل نہیں  کر رہا تھا ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر حیان نے مسکین سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ کونسی بات ہوگئی دل نہیں کر رہا تھا آج معاف کر رہا ہوں آئیندہ پنش کرونگا تینوں کو ۔۔۔ حضیر نے ان تینوں کو گھورتے ہوئے تنبیہہ کی جس پر وہ شرافت سے سر اثبات میں ہلا گئیں ۔۔۔

ویسے حضیر آپ نے تو کہا تھا کہ آپکی ڈکشنری میں تو غلطی کی معافی نہیں سزا ہوتی ہے ۔۔۔ حضیر کو ان تینوں کو معاف کرتا دیکھ ردابہ نے آگ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔ فرسٹ آف آل ردابہ میں تم سے بڑا ہوں تو یو کال می بھائی اور سیکنڈ یہ تینوں میری چہیتییاں ہیں اتنی کنجائش پر انکا حق ہے لیکن آئیندہ ضرور سزا میلگی ۔۔۔ حضیر نے ردابہ کو ہدایت دیتے ہوئے کہا جس پر ان تینوں نے اپنی بتیسی کی نمائش کی جبکہ تھری سیٹر صوفے پر بیٹھے وہ تینوں بھی ردابہ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے لطف اندوز ہوتے کافی کے کپ کو منہ سے لگا گئے ۔۔۔

اور ہاں اب میں آپ لوگوں کی یونی میں پروفیسر ہو اس لئے ذرا سنبھل کر رہنا مجھے کوئی شکایت نہیں ملنی چاہئے نا پڑھائی میں اور نا ہی شرارتوں میں ورنہ وہیں سب کے سامنے پیش کرونگا ۔۔۔ حضیر نے ان تینوں کو ہنستا دیکھ وارن کرتے ہوئے کہا جبکہ حضیر کے یونی میں پروفیسر ہونے کا سن ان تینوں کی ہوائیاں اڑنے لگی جنہیں دیکھ کر وہ تینوں قہقہہ لگا گئے ۔۔۔ 

کیا ہوا ملک الموت کو تو نہیں  دیکھ لیا جو تم تینوں کا سانس اٹک گیا ۔۔۔ برداء نے ان تینوں کے سفید پڑتے چہروں کو دیکھ کر لطف لیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ 

ملک الموت کو تو فلحال نہیں دیکھا لیکن پھانسی کی سزا تو سنادی گئی اب بہت جلد ان سے بھی ملاقات ہوجائیگی ۔۔۔ برداء کے کہنے پر حورعین نے بیچارگی سے کہا جبکہ حضیر آٹھ کر اپنے روم میں جاچکا تھا ۔۔۔ پریشان نا ہو بھابھی بھی اسی یونی میں پڑھتی ہیں کوئی مسلئہ ہو تو بھابھی کو بھائی کے سامنے کردینا بھائی کچھ نہیں کہینگے ۔۔۔ مسیب نے ان تینوں کی بیچارگیوں والی شکل دیکھتے ہوئے تسلی دی ۔۔۔ ہاں یہ سہی ہے اب ہم ہر بات میں بھابھی کو استعمال کرینگے پھر بھائی چاہ کر بھی کچھ نہیں  کرسینکے بہت اچھا آئیڈیا دیا ہے آپ نے مسیب بھائی ۔۔۔ انعمتہ نے مسیب کے مشورے پر اسے داد دیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور ان دونوں کو اشارہ کرتی اپنے روم میں چلی گئی تو وہ دونوں بھی اسکی پیچھے چل دی ۔۔۔ اب اللّٰہ ہی جانتا ہے کہ ان تینوں کے خرافاتی دماغ میں کیا چل رہا تھا ۔۔۔

مشی میری بچی میں تجھ سے معافی مانگتی ہوں اس بدبخت سحر کی طرف سے میرے ہوتے ہوئے میرے گھر میں میری لاڈو کے ساتھ یہ سلوک ہوا اور میں کچھ نہیں کرسکی ۔۔۔ مصباح نانو شماس صاحب سعد کے ہمراہ مشی سے معافی مانگنے آئے تھے جبکہ انیب ہماس صاحب کے پاس رک گیا تھا ۔۔۔ نانو آپ معافی مانگ کر مجھے کیوں شرمندہ کر رہی ہیں میں نے بھابھی کی بات کو دل پر نہیں لیا میں کسی سے بھی ناراض نہیں ہوں آپ پریشان نا ہو ۔۔۔ فریدہ بیگم کے کہنے پر مشی نے انہیں پیار سے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔ مشی میں بھی بہت شرمندہ ہوں سحر نے مجھے تمہارا سامنا کرنے قابل نہیں  چھوڑا لیکن میں مجبور ہوں میں نے اسے بہت روکا ہے لیکن وہ میری بھی نہیں  مانتی وہ باغی ہوگئی ہے اور اس میں سارا ہاتھ امی کا ہے میں سحر کی وجہ سے تم سے معافی مانگتا ہوں پلیز اپنے بھائی کی طرف سے اپنا دل صاف رکھنا ۔۔۔ بھئی یہ کیا معافی تلافی لگائی ہوئی ہے میرے دل میں کسی کے لئے کچھ بھی نہیں ہے سوائے محبت عزت اور احترام کے اور اب آپ لوگ مجھے میری ہی نظروں میں شرمندہ کر رہے ہیں معافی مانگ کر پلیز ایسا نہیں کریں ۔۔۔ سعد کے معافی مانگنے پر مشی نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

مشی کیا حضیر اب تمہیں اجازت دے دیگا ہمارے گھر آنے کی ؟

فریدہ بیگم نے اپنے ذہن میں مچلتا سوال کر ڈالا ۔۔۔ نانو میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی دیکھیں وہ بھی مرد ہے اور ہر مرد کی طرح اگر انکی بیوی کا کردار داغدار کیا جائے یا پھر کوئی اسے طعنے دے یہ کوئی غیرت مند مرد برداشت نہیں کریگا باقی میں بات کرونگی ان سے سمجھاؤنگی ہوسکتا ہے میری بات مان جائیں لیکن جب تک ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا آپ لوگ مجھ سے ملنے آجایا کریں کیونکہ آپ لوگوں کے سواء میرا کوئی نہیں ہے ۔۔۔

ایک تو تیرے باپ کو بھی اتنی جلدی تھی شادی کی اتنی سی عمر میں شادی کردی تمہاری بچی کو زندگی انجوائے بھی نہیں کرنی دی پہلے بھی قید تھی اور اب اور زیادہ قید ہوگئی میری بچی ۔۔۔ فریدہ بیگم نے ہر دفعہ کا کہا جملہ دوبارہ دہرایا کیونکہ انہیں اذہان صاحب کا مشی کی جلدی شادی کرنے کا فیصلہ بلکل پسند نہیں آیا تھا ۔۔۔

نانو ایسے نہیں کہا کریں آپ کو پتہ ہے حضرت عائشہ کا نکاح سات سال کی عمر میں ہوا تھا رخصتی نو سال کی عمر میں اور اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بیوہ ہوگئیں تھی ۔۔۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیکہ کہ جب میرا نکاح ہوا تو میں باہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی تو جیسے ہی نکاح کا وقت ہوا میری آنا آئیں اور مجھے اندر لے گئیں اور میرا نکاح ہوگیا لیکن پھر بھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرا نکاح ہوگیا ہے کیونکہ مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن پھر جب میری والدہ میرے باہر جانے پر روک ٹوٹ کرتی تب مجھے معلوم ہوا کہ میرا نکاح ہوگیا ۔۔۔

نانو شادی کو ہم نے مشکل بنایا ہوا ہے ہم چھوٹی بچیوں کی شادی کردیتے ہیں اور پھر سسرال والے ان معصوم بچیوں پر اتنی زمیداریاں ڈال دیتے ہیکہ وہ اپنے آپ بھول جاتی ہیں لیکن شریعت کے حساب سے شادی بلکل بھی مشکل نہیں ہے ۔۔۔ آپ کو پتہ ہے نانو نکاح کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک دفعہ حضرت ابو بکر کے گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ بیٹھی رو رہی تھی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے امّ رومان ( حضرت ابو بکر کی زوجہ ) سے کہا کہ میں نے کہا تھا نا کہ اس کو کچھ نا کہنا یہ میری ہے تو امّ رومان کہنے لگی کہ عائشہ میری باتیں اپنے والد سے لگاتی ہے پھر آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بھی عائشہ کو کچھ نا کہا کرو ۔۔۔

آپ کو پتہ ہے نانو رخصتی کے بعد بھی حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیا سے کھیلا کرتی تھیں کیونکہ انکو دو کھیل بہت پسند تھے ایک جھولا جھولنا دوسرا گڑیا سے کھیلنا ۔۔۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیا سے کھیل رہی تھی کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف لے آئے تو ان کو دیکھ کر آپکی سہیلیاں ادھر ادھر ہوگئیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو دوبارہ بلایا اور حضرت عائشہ کے ساتھ کھیلنے کو کہا ۔۔۔ آپ صلی علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ لگواتے تھے کبھی حضرت عائشہ انہیں کہانی سناتی تو کبھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انہیں کہانی سناتے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی چبائی ہوئی ہڈی چباتے اور جہاں سے حضرت عائشہ پانی پیتی وہی سے منہ لگاکر پانی پیتے اور تو اور آخری وقت میں جس کا آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹا منہ میں لیا تھا تو حضرت عائشہ تھیں اور آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کا دم بھی حضرت عائشہ کے سینے پر نکلا تھا ۔۔۔ اور حضرت عائشہ نے رخصتی کے بعد نو سال آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے لیکن ایک دفعہ کے علاؤہ ( جب خرچے کی ڈیمانڈ پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا ) کبھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے انکا اختلاف نہیں ہوا ۔

نانو ہسبینڈ وائف کا رشتہ بہت خوبصورت ہے لیکن آج ہم لوگوں نے اس قدر اس رشتے کو برا بنادیا کہ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہوئے خوف کھاتے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہم دینِ اسلام کو چھوڑ کر مغرب کی پیروی کر رہے ہیں ورنہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت عائشہ کی ازدواجی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے ہم سب کے لئے میں تو کہتی ہوں ہر لڑکا اور لڑکی کو شادی سے پہلے سیرتِ عائشہ ( حدیث کی کتاب ) یا دیگر اسلامی کتب سے ازدواجی زندگی کے متعلق اسلامی تعلیمات ضرور حاصل کرنی چاہئے اس سے ایک عامل شوہر اپنی بیوی اور اپنے حق میں بہترین فیصلہ کرسکتا ہے لیکن افسوس کہ آج کل ہمارے پاس ہر چیز کے لئے وقت ہے سوائے اسلام کا متعلہ کرنے کے لئے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کے لئے ۔۔۔

میری جان تم بلکل صحیح کر رہی ہوں لیکن افسوس ہم کوئی کام بھی شریعت کے مطابق نہیں کرتے تبھی تو آج سب سے پیچھے ہیں ورنہ ایک وقت تھا جب مسلمانوں کے نام سے ہی منافقین کانپ جایا کرتے تھے لیکن آج معاشرے میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے بس اللّٰہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کردے آمین ۔۔۔ آمین اچھا چلیں ڈنر کرتے ہیں ساتھ میں ۔۔۔ فریدہ بیگم کے کہنے پر مشی نے آمین کہتے ہوئے کہا تو وہ بھی سر اثبات میں ہلاتی مشی کے ہمراہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

میں آرہا ہوں آج اپنی بیگم کے ہاتھ کا ناشتہ کرونگا اور ساتھ ہی یونی چلینگے ۔۔۔ حضیر نے یونی کے لئے تیار ہوکر مشی کو میسج کیا اور اپنے موبائل اور گاڑی کی چابی ڈریسنگ سے اٹھاکر نیچے کی طرف چل دیا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر نے ڈائننگ پر سب کو سلام کیا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ وعلیکم سلام حضیر ناشتہ تو کرلو ایسے ہی بھوکے جارہے ہو ۔۔۔ انعم بیگم نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ حضیر کو ناشتے کا کہا ۔۔۔ نہیں میں اذہان چاچو کے گھر کرونگا عائش اور عفراء کے ساتھ ۔۔۔

کیوں کیا تمہارے گھر میں فاقے ہورہے ہیں برخوردار ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر فرزانہ بیگم نے ناگواری سے کہا ۔۔۔ معذرت کے ساتھ دادو لیکن وہ میرے چاچو کا گھر ہونے کے ساتھ ساتھ میرا سسرال بھی ہے اور یقین کریں میرا وہاں ناشتہ کرنا میرے چاچو + سسر کو بلکل بھی برا نہیں لگے گا خیر اللّٰہ حافظ ۔۔۔ فرزانہ بیگم کے کہنے پر حضیر نے انہیں جواب دیا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ اذان صاحب اس کی حرکت پر دانت پیستے رہ گئے ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

عائش یار اٹھو یونی کا ٹائم ہورہا ہے ۔۔۔ حضیر گھر میں انٹر ہوا تو خاموشی نے اسکا استقبال کیا تو وہ کسی کو نا پاتے مشی کے روم میں آیا تھا جہاں دونوں ماں بیٹی سکون سے سو رہی تھی ۔۔۔ حضیر نے ایک نظر سامنے وال پر لگی گھڑی پر نظر ڈال کر مشی کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ کب آئے ۔۔۔ حضیر کے اٹھانے پر مشی نے بالوں کو فولڈ کر کے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ میں ابھی آیا ہوں میرا ارادہ تھا آج بیگم کے ہاتھ کا ناشتہ کرنے کا میں نے میسج بھی کیا تھا لیکن تم اٹھی نہیں اس لئے ناشتے کو چھوڑو جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ورنہ یونی کے لئے لیٹ ہو جائینگے ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر حضیر نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ یا اللّٰہ اتنی دیر کیسے ہوگئی آپ بیٹھوں میں پانچ منٹ ناشتہ بناکر لاتی ہوں ۔۔۔ مشی نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا اور کمفرٹر دور اچھال کر باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔ 

یار رہنے دو ناشتہ کینٹین میں کرلینگے بس تم جلدی سے ریڈی ہوجاؤ میں عفراء کو اٹھارہا ہوں ۔۔۔ مشی کے بھاگنے پر حضیر نے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی وارڈروب سے کپڑے لیتی باتھروم میں چلی گئی ۔۔۔ 

بابا کی جان اٹھ جائیں دیکھو بابا آئے ہیں میری لاڈو ۔۔۔ مشی کے جانے کے بعد حضیر نے عفراء کے سر پر پیار کر کے اسے اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ یار اٹھ جاؤ پہلے ہی دیر ہوگئی میری جان آپکی مما دونوں کو ڈانٹے گی ۔۔۔ عفراء کو ٹس سے مس نا ہوتے دیکھ حضیر نے دوبارہ سے اسے اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔ اگر ایسے اٹھاتے رہے نا تو آپ کی لاڈو نے شام تک نہیں اٹھنا ۔۔۔ مشی نے حضیر کو عفراء کو اٹھاتے دیکھ تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے کہا اور خود آگے بڑھ کر سوئی ہوئی عفراء کو گود میں اٹھاکر باتھروم میں چلی گئی ۔۔۔ یار تم تھوڑا تو رحم کھاؤ بچی پر دیکھو کیسی میری بیٹی نیند میں جھول رہی ہے ۔۔۔ 

مشی کے باتھروم سے باہر آتے ہی حضیر نے مشی کے کندھے سے لگی عفراء کو دیکھتے ہوئے مشی سے کہا ۔۔۔ ابھی مجھے ظالم ہی رہنے دیں کیونکہ رحم کھانے کا نا میرے پاس نا وقت ہے اور نا ہی موڈ ۔۔۔ مشی نے وارڈروب سے عفراء کے کپڑے نکالتے ہوئے کہا اور اسے چینج کروانے لگی ۔۔۔ یار کتنی دیر لگے گی ریڈی ہونے میں ۔۔۔ حضیر نے عفراء کے بال بناتی مشی کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ آپ کو دیر ہورہی ہے تو چلے جائیں میں عفراء کو فیڈ کرواکر آؤنگی ۔۔۔ عفراء کو کہاں چھوڑوگی ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے اسکی بات اگنور کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ میں نانو کے چھوڑ کر جاتی ہوں عفراء کو ۔۔۔ عفراء آج سے میرے ساتھ یونی جائیگی اور میں کوئی آرگیو نہیں سنوگا ۔۔۔ مشی کے بتانے پر حضیر نے دو ٹوک کہا ۔۔۔ لیکن میں اسٹوڈینٹ ہوں میں کیسے لیکر جاسکتی ہوں عفراء کو یونی آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔ حضیر کی ضد پر مشی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم اسٹوڈینٹ ہو لیکن میں تو ٹیچر ہوں نا میں لے جاؤنگا اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لیکن کہیں اور چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ وہ تو صحیح ہے لیکن عفراء مجھے وہاں پہچان لیگی اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی ہمارے ریلیشن کے بارے میں جانے ورنہ سب کو یہی لگے گا کہ آپ مجھے فیور دیتے ہیں ۔۔۔

 کوئی بات نہیں اگر پتہ بھی لگ جائے تو اتنی کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ کیش رکھو اپنے پاس اور یہ میرا کریڈٹ کارڈ بھی ۔۔۔ میرے پاس ہیں پیسے ابھی مجھے ضرورت نہیں ہے بابا نے دیے تھے مجھے ۔۔۔ حضیر کے پیسے دینے پر مشی نے انکار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ چاچو نے دیے ہیں میں نے نہیں تم اور عفراء میری زمیداری ہو اور جب بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو چاچو کے بجائے مجھے کہوگی اور اب رکھو اسے ۔۔۔ مشی کے انکار کرنے پر حضیر نے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے ہدایت دی ۔۔۔ بس میں عبایا پہن لوں پھر چلتے ہیں ۔۔۔

 مشی نے عفراء کو بیڈ پر بٹھاکر حضیر کے ہاتھ سے کیش اور کریڈٹ کارڈ لیتے ہوئے کہا اور اٹھ کر وارڈروب سے عبایا نکال کر پہننے لگی ۔۔۔ چلیں اب اٹھ جائیں ۔۔۔ مشی نے عبایا پہن کر بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے بیڈ پر بیٹھے کم لیٹے ہوئے حضیر سے کہا ۔۔۔ چلو ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے عفراء کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا اور پورچ کی طرف چل دیا تو مشی بھی اسکے پیچھے ہی چل دی ۔۔۔

خزیمہ گاڑی کہاں ہے ؟

مشی نے پورچ میں گاڑی کی جگہ بائک کو کھڑا دیکھ ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے حضیر سے پوچھا ۔۔۔ آج ہم بائک پر جائینگے ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے عفراء کو ہیوی بائیک پر بیٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ خزیمہ آپ پاگل ہوگئے ہیں عفراء بھی ساتھ ہے یار وہ گر جائیگی اور آپ بنا گاڑی اور گارڈز کے آگئے حالانکہ آپ جانتے بھی ہیں کتنے دشمن ہیں آپ کے ۔۔۔ یار کچھ نہیں ہوتا اتنا نہیں ڈرا کرو اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کر کے آیا ہو کچھ نہیں ہوگا مجھے اور تمہیں تو بائک کا سفر پسند ہے اس لئے چپ چاپ بیٹھ جاؤ ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے پیار سے ڈپٹتے ہوئے کہا ۔۔۔ مجھے پسند تو ہے لیکن کبھی بیٹھنے کا اتفاق نہیں ہوا اس لئے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا بے فکر رہو گرنے نہیں دونگا اب جلدی سے بیٹھ جاؤ پہلے ہی دیر ہورہی ہے ۔۔۔ حضیر نے بائک اسٹارٹ کر کے مشی کو وقت کا احساس دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ خزیمہ عفراء گر جائیگی ابھی وہ صحیح سے گرپ نہیں کرتی ۔۔۔ اچھا ایک کام کرو اپنا ہاتھ آگے کر کے عفراء کو پکڑ لو پھر نہیں گریگی ۔۔۔ مشی کو ڈرتے دیکھ حضیر نے کہا جس پر مشی نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر کے سختی سے عفراء کو پکڑا جب کہ دسروے ہاتھ سے اپنا عبایا پکڑا ۔۔۔ بیٹھ گئی صحیح سے چلیں ۔۔۔ چلیں ۔۔۔ حضیر کے پوچھنے پر مشی نے کہا اور تو حضیر نے بائک سڑک پر ڈال دی جبکہ مشی دل ہی دل میں سفر کی دعا اور آیت الکرسی پڑھنے لگی ۔۔۔

یار آج سر نہیں آئے تو کوئی گیم کھیلتے ہیں ۔۔۔ کلاس کی ایک لڑکی نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ گڈ آئیڈیا اچھا ہے مزہ آئیگا ۔۔۔ اس لڑکی کے کہنے پر کچھ نے اسکی تائید کرتے ہوئے کہا جبکہ کچھ کلاس سے باہر چلے گئے ۔۔۔

چلو رومیسہ اپن بھی چلتے ہیں مجھے نہیں کھیلنی کوئی گیم ۔۔۔ حیا نے رومیسہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ نہیں یار ہم بھی کھیلینگے مزہ آئیگا ۔۔۔ رومیسہ نے حیا کی بات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔ یار چل نا مجھے نہیں کھیلنی چل نا پلیز ورنہ میں جارہی ہوں اکیلی ۔۔۔ رومیسہ کو اپنی بات پر کان نا دھرتے دیکھ دھمکاتے ہوئے کہا ۔۔۔ یار کھیلتے ہیں نا مزہ آئیگا میں تجھے بھی جانے نہیں دونگی اس لئے چپ چاپ بیٹھ جا ۔۔۔ 

حیا کے دھمکانے پر رومیسہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔ 

چلو گیم اسٹارٹ کرتے ہیں تو گیم یہ ہے کہ ہر فرد کو ایک منٹ دیا جائیگا اور میں ان پرچیوں میں سے ایک پرچی اٹھاؤنگی اور جو اس پرچی میں لکھا ہوگا وہ لپسنگ کرونگی جسے مقابل کو بتانا ہوگا کہ پرچی میں کیا لکھا ہے اور جس نے غلط بتایا اسے جو میں کہونگی وہ کرنا پڑیگا ۔۔۔

چلو ٹھیک ہے مزہ آئیگا ۔۔۔ اس لڑکی کے کہنے پر سب نے ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے کہا اور پھر گیم شروع کی گئی ۔۔۔

گیم شروع ہوئے تقریباً بیس منٹ گزر چکے تھے اور مختلف طلبات ہارنے پر اپنی اپنی سزا بھگت رہے تھے اور اب باری تھی حیا کی ۔۔۔

تو بتاؤ حیا کیا لکھا اس پرچی میں ۔۔۔ مقابل نے حیا کو دیکھتے ہوئے لپسنگ کی جس پر سب اسے ایپریشیئٹ کرتے ہوئے کہنے لگے لیکن صد افسوس پورا منٹ گزر گیا لیکن حیا کے کچھ پلے نا پڑا جس پر وہ بھی باقی سب کی طرح ہار گئی ۔۔۔ چونکہ حیا ہار چکی ہے تو اب حیا کوئی سونگ سنائیگی ۔۔۔ مقابل نے حیا کو ہارتے دیکھ سزا سنائی ۔۔۔ دیکھیں مجھے سونگ وغیرہ نہیں آتے کیونکہ میں اس چیز میں دلچسپی نہیں رکھتی اس لئے اگر آپ لوگ کہیں تو میں نظم ضرور سناسکتی ہوں کیونکہ مجھے وہی یاد ہے ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے ہمیں بس تمہاری آواز سننی ہے اس لئے تم کچھ بھی سنادو ۔۔۔ حیا کی بات سن کر ایک لڑکی نے کہا جس پر باقی سب نے تائید کی چونکہ گیم میں سب لڑکیاں ہی تھی اس نے حیا نے آسانی سے آنکھیں بند کر کے نظم پڑھنا شروع کی ۔۔۔

سوائے پیارے مولا کے کسی کو نا بتانا تم ۔

ہر مشکل میں کام آتا ہے اللّٰہ نام تیرا ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

کوئی صدمہ تمہیں پہنچے مصیبت کوئی آجائے ۔

کسی کا غم تمہارے دل کے گوشوں میں سما جائے ۔

کوئی صدمہ تمہیں پہنچے مصیبت کوئی آجائے ۔

کسی کا غم تمہارے دل کے گوشوں میں سما جائے ۔

سوائے پیارے مولا کے کسی کو نا بتانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

رکھوں اگر دل کسی کا تو گلے اسکو لگانا پھر ۔

کرو وعدہ کسی سے اگر اسے پورا نبھانا تم ۔

رکھوں اگر دل کسی کا تو گلے اسکو لگانا تم ۔

کرو وعدہ کسی سے اگر اسے پورا نبھانا تم ۔

کرو تم پر بھروسہ جو اسے پھر نا ستانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

یہاں انسان ہی انسان کو ستاتے ہیں رلاتے ہیں ۔

خوشی کے دیپ انسان کے یہاں انسان بھجاتے ہیں ۔

یہاں انسان ہی انسان کو ستاتے ہیں رلاتے ہیں ۔

خوشی کے دیپ انسان کے یہاں انسان بھجاتے ہیں ۔

بشر اکثر ہے یکساں حق کو نا بھلانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

جفاؤں کا زمانہ ہے وفاؤں کو ترستا ہے ۔

یہاں شیطان آپس میں لگاکر آگ ہنستا ہے  ۔

جفاؤں کا زمانہ ہے وفاؤں کو ترستا ہے ۔

یہاں شیطان آپس میں لگاکر آگ ہنستا ہے ۔

عداوت کے آلاؤ میں ہے دانش جل نا جانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا سنانا تم ۔

کسی انسان سے دنیا میں امیدیں نا لگانا تم ۔

دکھوں دردوں کے افسانے زمین پر نا لگانا تم ۔

ماشاءاللّٰہ ماشاءاللّٰہ بہت پیاری آواز ہے آپکی حیا ۔۔۔ حیا کے نظم مکمل کرتے ہی ایک لڑکی نے اسکی تعریف کرتے ہوئے کہا جس پر باقی سب نے اسکی تائید کی ۔۔۔ جزاک اللّٰہ خیر فی الدارین واحسن الجزاء ۔۔۔ سب کے تعریف کرنے پر حیا نے احسن طریقے سے انہیں جواب دیا اتنے میں سر کلاس میں داخل ہوئے تو سب سر کی طرف متوجہ ہوگئے ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

اے میرے جسم و جان کے مالک اے ہر چیز پر قدرت رکھنے والے میرے رب مجھے اس قید سے رہائی دلوادے اے موسیٰ کے رب جس طرح تو نے دریا میں موسی کے لئے راستے بنائے اسی طرح میرے لئے بھی اس قید سے نکلنے کے راستے بنا ۔۔۔ اے مالک الملک تجھے تیرے نام و صفات کا واسطہ مجھے اس زندان سے آزاد کروادے ۔۔۔ اے کائناتِ دو جہان کے پروردگار پچھلے بیس سالوں سے میں اس قید میں صرف تیرے کن کا منتظر ہوں جس طرح تو نے یوسف کو مصر کے بادشاہ کی قید سے باعزت بَری کیا اے میرے مولا مجھے بھی اس قید سے نکال کر مجھے میرے اہل و عیال کے پاس پہنچا دے ۔۔۔ یا اللّٰہ اب تو میرے بالوں بھی چاندنی بھی آچکی ہے میرے بچے جوان ہوگئے ہونگے میری بیوی ادھیڑ عمر کو پہنچ چکی ہوگی اے میرے رب میں نے اپنی جوانی اس قید میں گزاری ہے یا اللّٰہ مجھے بڑھاپے میں اپنے اہل و عیال کا ساتھ نصیب فرما ۔۔۔ اے ابو القاسم کے رب میرا صبر رائیگاں نا جانے دینا ۔۔۔ 

اے اللّٰہ تو تو ہر چیز پر قادر ہے ایک پتّہ بھی تیرے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا اے میرے مالک جیسے تو نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں رزق دیا تو نے عیسٰی کو بن باپ کے پیدا کیا تو نے یعقوب کو اپنے بیٹے سے ملواکر اسکی بینائی اسے لوٹائی یا اللّٰہ مجھ گناہگار کی بھی یہاں سے نکلنے میں راہنمائی کر ۔۔۔ اے میرے رب تو تو سب جانتا ہے میں بے گناہ ہوں لیکن پھر بھی پچھلے بیس سالوں سے اس قید کی سزا کاٹ رہا ہوں لیکن مجھے کوئی شکوہ شکایت نہیں تجھ سے لیکن میرے مولا ہوں تو میں بھی بندہِ بشر خطاؤں کا پتلا اے دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والے میری بھی دعاؤں کو قبول فرما اور میری لئے آسانیاں پیدا فرما آمین ثم آمین اللّٰھم آمین یا رب العٰلمین ۔۔۔

پچھلے بیس سالوں سے ناجانے دن میں کتنی دفعہ اپنے رب سے اپنی رہائی کی دعا مانگنا اسکا معمول بن چکا تھا اور اسے یقین تھا کہ بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ایک دن اسکی دعا ضرور قبول ہوگی اور اسے اس رہائی سے آزادی ملے گی اور اپنے رب پر کامل یقین کے ساتھ وہ رب کے کن کا منتظر تھا کیونکہ اسے پتہ تھا اللّٰہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اسکا رب رحمٰن الرحیم ہے اگر اس رب نے اسے اس حال میں رکھا ہے تو یقیناً اس کا انعام بھی بہت خوبصورت ہوگا اور اپنے کامل یقین کی وجہ سے وہ اپنے رب کی رضا میں شامل ہوکر پچھلے بیس سالوں سے اس محل میں قید تھا جہاں سے رہائی ناممکن تھی لیکن وہ جانتا تھا اسکا رب ناممکن کو ممکن کرنے والا ہے اسکے لئے کچھ مشکل نہیں ہے اور اپنے اسی یقین کے ساتھ پچھلے بیس سالوں کی طرح آج بھی وہ اپنے رب سے رہائی مانگ رہا تھا اور شاید اسکی دعا کی قبولیت کا وقت آچکا تھا کیونکہ بیشک اللّٰہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرنے والا ہے اور بہت جلد اسے اس زندان سے رہائی ملنے والی تھی ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یہ نظم کون پڑھ رہا تھا ۔۔۔ اذہان نے کلاس میں انٹر ہوتے ہی ایک نظر پوری کلاس پر ڈال کر سوال کیا جو کہ ازلان سے ملنے یونی آیا تھا کیونکہ کل صالح صاحب کی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ نہیں آسکا تھا اذہان سے ملنے اس لئے اذہان آج خود اسکی یونی آگیا تھا اور وہ ازلان کو ڈھونڈتے ہوئے کلاس سے باہر گزر ہی رہا تھا کہ کسی نسوانی آواز پر نا چاہتے ہوئے بھی رکا اور آواز کے بند ہوتے ہی کلاس میں انٹر ہوکر سوال کرنے لگا جہاں اسے سر سمجھ کر سب اسکی طرف متوجہ تھے ۔۔۔ 

سر یہ شاہزادی پڑھ رہی تھی نظم ۔۔۔ اذہان کے پوچھنے پر کلاس میں سے ایک لڑکی نے حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا جو کہ اپنے بیگ میں کچھ تلاش کر رہی تھی ۔۔۔ واٹس یور گڈ نیم مس ۔۔۔ اس لڑکی کے کہنے پر اذہان نے ڈائیریکٹ حیا کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ جبکہ اذہان کے مخاطب کرنے پر اپنے ارد گرد دیکھنے لگی کیونکہ اسے لگا تھا شاید اس نے کسی کو مخاطب کیا ہے ۔۔۔ مس میں آپ سے مخاطب ہوں ۔۔۔ حیا کو ادھر ادھر دیکھتا دیکھ اذہان نے دوبارہ سے اسے مخاطب کیا ۔۔۔  مائے سیلف حیا شاہ ڈاٹر آف ہماس شاہ ۔۔۔ اذہان کے پوچھنے پر حیا نے اپنا تعارف کروایا اور دوبارہ سے اپنے بیگ کی طرف متوجہ ہوگئی ۔۔۔ میں کوئی ٹیچر نہیں ہوں شاید آپ لوگ مجھے نیو ٹیچر سمجھے میں چلتا ہوں بیسٹ آف لک ۔۔۔ اذہان نے سب کی غلط فہمی دور کی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

گڈ مارننگ سر ۔۔۔ حضیر کے کلاس میں انٹر ہوتے ہی سب نے اسے گڈ مارننگ وش کیا ۔۔۔ اسلام علیکم  میرے خیال سے ہم سب یہاں شاید مسلمان ہیں اور جامعہ بھی مسلمانوں کی ہے تو آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ یہاں پر رولز بھی اسلام کے فولوز کرنے چاہئے ہم جیسے مسلمانوں کے بارے میں ہی علامہ اقبال فرماتے ہیکہ ۔۔۔

یہی سبق دیتا ہے ہمیں ہر شام کا ڈھلتا سورج ۔۔۔

کہ مغرب کی طرف جاؤگے تو ڈوب جاؤگے ۔۔۔

اور آجکل ایسا ہی ہیں ہم اسلام کو فولو کرنے بجائے مغرب کی طرف بھاگ رہے ہیں اس لئے آج ہم سب سے پیچھے ہیں خیر آپ لوگ مجھے گڈ مارننگ کی جگہ سلام کرینگے ۔۔۔ سب کے گڈ مارننگ کہنے پر حضیر نے نرم لہجے میں سب کو سمجھاتے ہوئے کہا جس پر سب نے اسکے سلام کا جواب دیا ۔۔۔

سر یہ پیاری سی ڈول کون ہے ؟

ایک لڑکی نے حضیر کی چئیر پر بیٹھی عفراء کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر سب سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھنے لگے جبکہ اناب اور مصباح اشاروں سے مشی سے عفراء کے متعلق پوچھنے لگی جس پر مشی نے لاعلمی کا اظہار کیا چونکہ آج مشی کے لیٹ آنے کی وجہ سے اناب اور مصباح ساتھ بیٹھی تھی اور مشی پیچھے بیٹھی تھی اس وجہ سے وہ اشاروں میں باتیں کر رہی تھی ۔۔۔ شی از مائے ڈاٹر عفراء حضیر کاردار ۔۔۔ اس لڑکی کے پوچھنے پر حضیر نے سب سے عفراء کا تعارف کروایا جو کہ حضیر کی چئیر پر بیٹھی حضیر کے موبائل کا معائنہ کرنے میں مصروف تھی جبکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی لڑکی مسلسل حضیر کو گھورنے میں مصروف تھی جس سے اسے الجھن ہورہی تھی لیکن وہ اگنور کر رہا تھا ۔۔۔ سر آپکی بیٹی بھی آپ کی طرح بہت خوبصورت ہے ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اسی آگے والی لڑکی نے بے باکی سے کہا جس پر حضیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور پھر حضیر نے ایک غصے بھری مشی پر ڈالی جو کہ ہنس رہی تھی ۔۔۔ 

مس مشکات کاردار آپ آگے آکر بیٹھے اور مس آپ پیچھے جائیں ۔۔۔ مشی کو ہنستا دیکھ حضیر نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈال کر اسی لڑکی سے کہا ۔۔۔ لیکن سر پہلے میں یہاں بیٹھی تھی ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر اس لڑکی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ آج سے اور ابھی سے مس مشکات یہاں فرنٹ پر بیٹھے گی اور میں اپنی بات دہرانے کا قائل نہیں ہوں ۔۔۔ اس لڑکی کو بحث کرتا دیکھ حضیر نے سرد لہجے میں کہا جس پر وہ لڑکی نا چاہتے ہوئے بھی اپنا سامان اٹھاکر پیچھے جانے لگی ۔۔۔ مس کاردار کیا آپکو انویٹیشن دینا پڑیگا آگے آنے کے لئے ۔۔۔ حضیر نے مشی کو ٹس سے مس نا ہوتے دیکھ اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ دانت پیستی اپنا سامان اٹھاکر آگے آکر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور اسکے آگے بیٹھتے ہی حضیر نے عفراء کو اسکے برابر میں بیٹھا کر پڑھانا شروع کیا جس پر مشی بس اسے گھور کر رہ گئی ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ مشی حضیر کے بلانے پر اسکے آفس میں بیٹھی تھی لیکن وہ خود پتہ نہیں کہاں غائب تھا ابھی وہ اسکا انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسکے موبائل کی مسیج ٹیون بجی مشی نے انبکس کھول کر دیکھا تو غیر شناسا نمبر سے میسج تھا ۔۔۔ وعلیکم سلام آپ کون ؟ مشی نے مقابل کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ آپکا ہمدرد غمکسار ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر مقابل نے جواب دیا جسکو پڑھ کر مشی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ وہی نمبر ہے ۔۔۔ 

مسلئہ کیا ہے آپکا کیوں میرے پیچھے پڑے ہیں آپ ؟

مقابل کے میسج پڑھ کر مشی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے غصے والے ایموجیز کے ساتھ میسج سینڈ کیا ۔۔۔ آج شام آپکو آپکے گھر پر سرپرائز ملے گا پھر آپکو اندازہ ہوجائیگا کہ میں کیوں پیچھے پڑا ہوں ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر مقابل نے مطلب کی بات کی جبکہ میسج پڑھ کر مشی کا اور زیادہ پارہ ہائی ہوا ۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پردے کے ذریعے مرد کے دل میں مسلمان عورتوں کا خوف ڈالا تھا چونکہ جب پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو منافقین عورتوں کو چھیڑا کرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم نہیں پڑتا تھا کہ مسلمان عورت کون ہے اور غیر مسلم کون اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے پردے کے ذریعے منافقین کے دل میں خوف ڈالا تھا مسلم عورتوں کا لیکن آج کل کے مسلمان ان منافقین سے بھی بدتر کردار اد کر رہے ہیں منافقین عورتوں کو پردے میں دیکھ کر انہیں تنگ نہیں کرتے تھے لیکن آج کل ان موبائلز پر نا جانے کتنے ہی ابنِ آدم بنتِ حوّا کا گھر خراب کر رہے ہیں ۔۔۔ 

آپ لوگوں کو اندازہ ہے آپ صرف ایڈوینچر کے لئے کسی بھی لڑکی کے نمبر پر پیار بھرے میسجز کرتے ہیں یا پھر ایسا کوئی میسج جس سے معلوم ہو کہ آپ انہیں جانتے ہیں لیکن مقابل کو خبر ہی نا ہو کہ آپ کون ہے اور پھر یہی میسیجز کسی لڑکی کا باپ بھائی شوہر پڑھ لے پھر کیا ہوتا ہے اس بیچاری کا کردار داغدار ہوجاتا ہے اس معصوم پر زندگی تنگ ہوجاتی ہے اسے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے صرف اور صرف اس نا معلوم فرد کی وجہ سے جس کے ایڈوینچر کے چکر میں اس معصوم کی زندگی برباد ہوجاتی ہے اسے بدکرداری کے طعنے دیے جاتے ہیں اور اسکی ساری زندگی صرف اسکے ایڈوینچر کے چکر میں برباد ہوجاتی ہے ۔۔۔ اس لئے خدارا اپنے اس عمل سے باز آجائے آئیندہ مجھے میسج مت کیجئیگا ورنہ یقین جانے بہت برا ہوگا آپ کے ساتھ کیونکہ میرا کردار اور میرا ایمان ابھی اتنا کمزور نہیں ہے جو کہ آپ جیسے لوگوں کے لئے داغدار کرو ۔۔۔ مشی نے اچھی طرح مقابل کو آئینہ دیکھاکر نمبر بلاک کردیا ۔۔۔

کہاں تھے آپ کب سے انتظار کر رہی ہوں مجھے بلاکر خود پتہ نہیں کہاں غائب ہوگئے ؟ حضیر کو آفس میں انٹر ہوتے دیکھ مشی نے مقابل کا سارا غصہ حضیر پر اتارا ۔۔۔ یار کیا ہوگیا ہے تمہاری کلاس کی لڑکی مل گئی تھی کچھ پوچھ رہی تھی اس لئے اسے بتانے میں وقت لگ گیا ۔۔۔ مشی کو غصہ ہوتا دیکھ حضیر نے اسے فوراً سے صفائی دیتے ہوئے کہا اور اپنی چئیر پر بیٹھ کر عفراء کو اپنی گود میں بٹھالیا ۔۔۔ اچھا کیوں بلایا تھا مجھے آپ کے انتظار میں میری کلاس نکل گئی ۔۔۔ اچھا بس غصہ ختم کرو عفراء رو رہی تھی اس لئے بلایا تھا ۔۔۔مشی کے خفگی سے کہنے پر حضیر نے اسے بلانے کی اصل وجہ سے آگاہ کیا ۔۔۔

ہاں تو اسے بھوک لگ رہی ہے کیا ضرورت تھی یہاں لانے کی اب میں تو اسکی فیڈر بھی لیکر نہیں آئی کتابوں کی جگہ عفراء کا دودھ فیڈر رومال وغیرہ لیکر آتی ناں بولا بھی تھا نانی کے گھر چھوڑدونگی لیکن آپ نے آج تک کبھی میری سنی ہے جو اب سنتے اب کیا کروں دیکھیں کیسی رو رہی ہے اب کروائیں چپ اسے ۔۔۔ حضیر کے پریشانی سے کہنے پر مشی نے روتی ہوئی عفراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ یار یہ چپ ہی نہیں کر رہی سنبھالو اسکو ۔۔۔ لائیں مجھے دیں اور کوئی بسکٹ وغیرہ لاکر دیں مجھے میں اسے کھلاؤ شاید کھالے ورنہ آپ پر گئی ہے ضد پر جب ضد پر آتی ہے تو کچھ بھی نہیں کھاتی ۔۔۔ بس ہر وقت مجھ پر طنز کے تیر چلاتی رہنا ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔ میں طنز نہیں کر رہی حقیقت بیان کر رہی ہوں یہ آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں اور اب جائیں بسکٹ لیکر آئیں ۔۔۔

اچھا جارہا ہوں ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے کہا اور وہاں سے چلاگیا پیچھے مشی عفراء کو چپ کروانے لگی ۔۔۔ یہ لو کھلاؤ اسے تاکہ چپ کرے یہ مجھ سے دیکھا نہیں جارہا اس کا رونا ۔۔۔ حضیر نے مشی کی طرف بسکٹ بڑھاتے ہوئے کہا جو کہ وہ ابھی کینٹین سے لیکر آیا تھا ۔۔۔ آلے مما کی جان بس چپ ۔۔۔ مشی نے عفراء کو پچکارتے ہوئے کہا اور اسے صوفے پر لیکر بیٹھ کر بسکٹ کھول کر کھلانے لگی ۔۔۔ یا اللّٰہ یہ نہیں کھارہی میں کیا کروں ۔۔۔ عفراء کو منہ سے بسکٹ نکالتا دیکھ مشی نے پریشانی سے کہا ۔۔۔ لو پہلے یہ پانی پلاؤ اسے ۔۔۔ مشی کے پریشان چہرے کو دیکھ کر حضیر نے اسکی طرف پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا تو مشی نے گلاس عفراء کے منہ سے لگاکر اسے پانی پلایا ۔۔۔ اب کھلاکر دیکھو شاید کھالے ۔۔۔ عفراء کو پانی پیتا دیکھ حضیر نے مشی سے کہا جس پر اس نے عفراء کو بسکٹ کھلایا ۔۔۔ شکر اللّٰہ کا کھالیا اس نے ورنہ یہ بہت ضدی ہے ۔۔۔

مشی نے عفراء کو بسکٹ کھلاتے ہوئے حضیر سے کہا اتنے میں ایک چھوٹا بچہ کافی اور سینڈوچ وغیرہ ٹیبل پر رکھ کر چلاگیا ۔۔۔ لاؤ عفراء کو مجھے دو یہ سوگئی ہے تم سینڈوچ کھالو صبح بھی ناشتہ نہیں کیا تھا ۔۔۔ حضیر نے مشی کی گود میں سوتی عفراء کو دیکھتے ہوئے مشی سے کہا جو کہ پیٹ بھرتے ہی سوگئی تھی ۔۔۔ آپ نے بھی نہیں کیا تھا صبح ناشتہ آپ بھی کھالیں ۔۔۔ مشی نے سوتی ہوئی عفراء کو حضیر کی گود میں دیتے ہوئے کہا اور خود کھانے کے ساتھ حضیر کو بھی کھلانے لگی ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐Bint E Ahmed Shaikh ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

مجھے سمجھ نہیں آیا اس لڑکے نے میرا نام کیوں پوچھا ۔۔۔ حیا نے صبح سے اپنے ذہن میں مچلتا سوال رومیسہ سے پوچھا دونوں اس وقت کمرے میں بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ باتیں کر رہی تھی ۔۔۔ ہاں اس بات پر تو مجھے بھی تعجب ہوا پوری کلاس میں اس نے تمہارا ہی نام کیوں پوچھا ۔۔۔ ہاں یہ تو ہے لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کہیں دیکھا ہو اس شخص کو یا پھر ممکن ہے وہ کسی میں ملتا ہوں ۔۔۔ ہوسکتا ہے ویسے بھی کہتے ہیں ایک شکل کے سات آدمی دنیا میں ہوتے ہیں تو ہوگا ان ساتوں میں سے ایک ۔۔۔ حیا کے پرسوچ انداز میں کہنے پر رومیسہ نے شوخی سے کہا ۔۔۔ کل حویلی جانا ہے بابا نے بلایا ہے فارس انکل کے ہاں دعوت ہے انکا بیٹا باہر سے آیا ہے اس لئے انہوں نے ایک دعوت رکھی ہے جس میں صرف خان حویلی شاہ حویلی اور کاردار ولا کے لوگ ہونگے اس لئے کل جائینگے حویلی ویسے بھی چھے مہینے ہونے کو آرہے ہیں میں ایک دفعہ بھی حویلی نہیں گئی مما اور بابا روز فون کرتے ہیں اور اب تو میرا بھی بہت دل کر رہا ہے حویلی جانے کا اس لئے کل ویکینڈ ہے کل چلینگے اپن سب ۔۔۔ 

حیا نے رومیسہ کو اپنے پلان سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم اور شماس بھائی جارہے ہو نا پھر میں گھر کی تفصیلی صفائی کرلونگی تمہارے پیچھے سے ۔۔۔ میڈم ایسا کچھ نہیں ہورہا کیونکہ آپ بھی ہمارے ساتھ چل رہی ہیں اور نو آرگیو ۔۔۔ رومیسہ کے کہنے پر حیا نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہم لوگ کیا کرینگے جاکر تم ہوکر آجانا ۔۔۔ جب جانتی ہو تمہارے انکار کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں  ہے تو پھر کیوں اپنے الفاظ ضائع کر رہی ہو بس ہم سب کل چل رہے ہیں ڈیٹس فائنل اور اب میں سونے لگی ہوں ۔۔۔ رومیسہ کے انکار پر حیا نے اسے اسے گھورتے ہوئے دو ٹوک جواب دیا اور اپنی سائیڈ کا لیمپ آف کرتی چادر اوڑھ کر سونے کے لئے لیٹ گئی جسکا مطلب تھا اسے اس بارے اب کوئی بات نہیں کرنی جبکہ حیا کی حرکت پر رومیسہ افسوس سے سر نفی میں ہلاکر اپنی جگہ پر لیٹ کر سائیڈ لیمپ آف کرگئی کیونکہ وہ جانتی تھی ہونا وہی ہے جو حیا چاہے گی اس لئے بحث بیکار تھی ۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

 اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوکر ایک نظر وہاں بیٹھے افراد پر ڈال کر سلام کیا چونکہ حضیر مشی کو یونی سے لنچ کروانے ریسٹورنٹ لے گیا تھا اس لئے انہیں آنے میں دیر ہوگئی تھی اس لئے جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے ملازمہ نے انہیں مہمان کی آمد کی اطلاع دی تو حضیر ڈرائنگ روم میں آگیا جبکہ مشی عفراء کو لیکر اپنے روم میں چلی گئی ۔۔۔

وعلیکم سلام برخوردار بیٹھو آفس نہیں گئے ؟ حضیر کے سلام کرنے پر اذہان صاحب نے اسکے سلام کا جواب دینے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔ ابھی یونی سے آیا ہوں تھوڑی دیر میں آفس جاؤنگا آپ سے کام تھا اس لئے سوچا آپ سے مل لوں پہلے ۔۔۔ حضیر نے اذہان صاحب کو جواب دینے کے ساتھ اشارے سے مہمانوں کی بابت پوچھا جس پر انہوں نے کندھے اچکادیے جیسے کہہ رہے ہوں مجھے نہیں پتہ ۔۔۔

بھائی صاحب دراصل ہم اپنے بیٹے کے لئے آپکی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں چونکہ دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا آپ کو کوئی اعتراض ہوگا ۔۔۔ حضیر اور اذہان صاحب کو آپس میں باتیں کرتا دیکھ وہاں بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے اپنے آنے کا مقصد بہت ہی اعتماد سے انکے گوش و گزار کیا جیساکہ انہیں پتہ ہو انکار نہیں ہوگا بتایا ۔۔۔ سوری ٹو سے بٹ آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے چاچو کی ایک ہی بیٹی ہے اور وہ میری وائف ہے اور ماشاءاللّٰہ ہم دونوں کی ایک بیٹی بھی ہے ۔۔۔ مقابل کی بات پر حضیر نے اپنی مٹھیوں کو بھینچ کر بمشکل اپنا غصے کنٹرول کرتکے تحمل سے جواب دیا جبکہ اسکی سرخ ہوتی رنگت اور کنپٹی کی پھولی ہوئی رگیں اسکے بے انتہا غصے میں ہونے کا ثبوت دے رہی تھی  ۔۔۔

میاں وہ میرے بیٹے کو پسند کرتی ہے ہم آج اسی کے بلانے پر رشتہ مانگنے آئے ہیں ورنہ ہمیں اپنی بےعزتی کروانے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن وہ بات الگ ہے آپکی بیوی آپکے نکاح میں ہوکر اور بچی کی ماں ہوکر ایسے کرتوت کر رہ۔۔۔ بسسسسس ۔۔۔ آنٹی آپ لیڈیز ہیں اس لئے میں آپکا لحاظ کر رہا ہوں ورنہ اپنی بیوی کے بارے میں اتنے غلط الفاظ استعمال کرنے والے کو میں زندہ دفنانے میں لمحہ نا لگاؤ اس لئے اس سے پہلے کہ میں سارے لحاظ بھول جاؤ آپ لوگ یہاں سے تشریف لے جائیں ۔۔۔ 

جارہے ہیں میاں ہمیں بھی کوئی شوق نہیں ہے تم جیسے کل کے لڑکے سے اپنی عزت کروانے کا جسکو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ہماری ہی مت ماری گئی تھی جو تمہاری بدچلن بیوی کا رشتہ لینے چل پڑے ۔۔۔ وہ رہا راستہ ۔۔۔

اس خاتون کے چپ نا کرنے پر حضیر نے انہیں دروازہ دیکھاکر کر گویا دفعہ ہونے کا کہا جس پر وہ مشی کے بارے میں اول فول بکتی وہاں سے چلی گئی۔۔

چاچو میں آفس سے آتے ہوئے مشی اور عفراء کو اپنے ساتھ گھر لیکر جاؤنگا مشی کو بتادیجئیگا چلتا ہوں اللّٰہ حافظ ۔۔۔ مہمانوں کے جانے کے بعد حضیر نے دو ٹوک اذہان صاحب سے کہا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ پیچھے اذہان صاحب خوفزدہ سے مشی کے کمرے کی طرف چل دیے ۔۔۔

بابا خزیمہ کہاں گئے ؟

مشی نے لاونچ میں بیٹھے اذہان صاحب سے پوچھا ۔۔۔ وہ آفس چلاگیا ہے اور کہہ کر گیا ہے جاتے ہوئے آپ دونوں اپنے ساتھ لیکر جائیگا اور ویسے بھی کل میں امریکہ جارہا ہوں تو بہتر ہے آپ حضیر کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔ 

ایسے کیسے چلے گئے مجھے بنا بتائے خیر کون آیا تھا ؟

اذہان صاحب کی بات پر مشی نے اچھنبے سے پوچھا ۔۔۔

آپکے رشتے والے آئے تھے کہہ رہے تھے آپ نے بلایا ہے اور آپ اور انکا بیٹا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے اسکو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے آگاہ کیا جبکہ نظریں مسلسل مشی کے چہرے کا طواف کر رہی تھی جبکہ مشی کے چہرے پر ان کی بات سن کر سوائے خوف اور پریشانی کے کچھ نا تھا ۔۔۔

بابا میں تو کسی کو جانتی بھی نہیں ہوں پسند کرنا تو دور کی بات مجھے تو پتہ بھی نہیں ہے وہ کون لوگ تھے اور ایسا کیوں کہہ کر گئے ہیں بابا میرا یقین کریں میں اللّٰہ کی قسم کھاتی ہوں مجھے کچھ نہیں پتہ میں نے نہیں بلایا کسی کو ۔۔۔ بابا جب میں نے کنوارے پن میں کسی لڑکے کو پسند نہیں کیا اب تو میں حضیر کے نکاح میں ہوں میری ایک بیٹی ہے بابا میرا یقین کریں میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔ بابا آپ تو جانتے ہیں نا اپنی بیٹی کو بابا میں نے آج تک کسی غیر محرم سے بلا ضرورت بات تک نہیں کی آپ کو یقین ہے نا مجھ پر میں کبھی مر کر بھی ایسا نہیں کرسکتی ۔۔۔

اذہان صاحب کی بات سنتے ہی مشی ہذیانی ہوکر انہیں اپنا یقین دلانے لگی جبکہ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا جبکہ اذہان صاحب دکھ سے اپنی لاڈلی کو دیکھ رہے جسکے نصیب میں پتہ نہیں اور کتنی آزمائشیں باقی تھی ۔۔۔

ششش ۔۔۔ بس چپ میرا بچہ چپ بلکل میں جانتا ہوں میری شہزادی ایسی نہیں ہے اور حضیر کو بھی تم پر یقین ہوگا تبھی تو اس نے ان کی اچھی خاصی عزت کر کے گھر سے نکال دیا اور مجھے کہہ کر گیا ہے کہ تمہیں بتادوں کے وہ آفس سے آتے ہوئے تمہیں لیکر جائیگا ۔۔۔ اذہان صاحب نے روتی ہوئی مشی کو سینے سے لگاکر سر پر پیار کرتے ہوئے کہا جس پر مشی تھوڑی ریلیکس ہوئی ۔۔۔ 

بابا خزیمہ غصے میں گئے ہیں ناں پتہ نہیں  بابا اب کیا ہوگا خزیمہ میرا یقین کرینگے بھی یا نہیں بابا مجھے بہت ٹینشن ہورہی ہے اب کیا ہوگا ۔۔۔ 

مشی جو ابھی اذہان صاحب کی بات پر ریلیکس ہوئی تھی حضیر کا سوچتے ہوئے پریشانی و خوف سے اذہان صاحب سے کہنے لگی ۔۔۔

گیا تو وہ غصے میں ہے ظاہر سی بات ہے کوئی غیر کسی غیرت مند مرد کی بیوی کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرے تو غصہ تو اسکا حق ہے لیکن بے فکر رہو حضیر کو آپ پر پورا یقین ہے وہ لوگوں کی فضول باتوں پر دھیان نہیں دیگا اور اگر آپکو پھر بھی پریشانی ہورہی ہے تو حضیر کو کال کرکے بات کرلو ۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے میں ابھی کال کرتی ہوں ۔۔۔ اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے انکی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے آنسو صاف کرتی کمرے میں چلی گئی ۔۔۔

خزیمہ پلیز فون اٹھائیں ۔۔۔ مشی کمرے میں آکر مسلسل حضیر کو فون کر رہی تھی لیکن وہ اٹھا نہیں رہا تھا لیکن مشی پھر سے کال کرنے لگی مگر اس بار حضیر نے کال کاٹ کر موبائل آف کردیا ۔۔۔ یااللّٰہ میں کیا کروں کہیں خزیمہ مجھے تو قصوروار نہیں  سمجھ رہے ۔۔۔ حضیر کا نمبر بند ہوتا دیکھ مشی نے خود کلامی کی اور تھک کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگالیا جبکہ خاموش آنسو بند آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے ۔۔۔

اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر ۔۔۔ مشی ابھی آنکھیں موندیں بیٹھی ہی تھی کہ اسکے کانوں میں قریبی مسجد میں دی گئی اذان کی آواز گونجی جس پر مشی نے بند آنکھوں سے پوری اذان کا جواب دیا جبکہ اذان سن کر مشی کو اپنے دل میں ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا ۔۔۔ مشی اذان کا جواب دیکر اٹھی اور وضو کی نیت سے باتھروم چلی گئی ۔۔۔ پانچ منٹ بعد مشی باتھروم سے وضو کر کے باہر نکلی اور کبرڈ سے جائے نماز نکال کر قبلہ کی طرف بچھایا اور نیت باندھ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد مشی نے اپنی نماز مکمل کرکے دعا کے لئے اس بے نیاز رب کی بارگاہ میں اپنے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔

اے میرے رب تو نے مجھے آزمائش میں ڈالا اور ہر آزمائش میں مجھے صبر اور استقامت عطا کی اور مجھے ہر آزمائش میں سرخرو کیا ۔۔۔ اے میرے رب میں جتنا شکر ادا کروں اتنا کم ہے تو نے مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا تو غفور الرحیم ہے میرے مالک مجھ گناہگار کو بخش دے ۔۔۔ اے مریم کے رب تو نے عمران کی بیٹی مریم کو بن شوہر کے بیٹا عطا کیا اور اسکی پاکیزگی کی گواہی عیسٰی بن مریم سے گود کی عمر میں بول کر دلوائی اسی بیٹے کے ذریعے مریم کو ہر تہمت ہر بہتان سے سرخرو کیا ۔۔۔ اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب لاڈلی بیوی عائشہ کے رب تو نے اس کی پاکیزگی بیان کرنے کے لئے قرآن میں آیتیں نازل کی ۔۔۔ اے جرح کے رب تو نے اسکی پاکیزگی کی گواہی ایک نومولود بچے سے دلوائی ۔۔۔ 

اے اللّٰہ اسی طرح میرے لئے بھی کوئی معجزہ کردے میرے رب تو تو ہر چیز پر قادر ہے میں تیری گناہگار بندی ہوں لیکن میرے رب تو جانتا ہے یہ گناہ میں نے نہیں کیا یہ مجھ پر تہمت ہے بہتان ہے یا اللّٰہ میرے پاس تیرے سواء کوئی گواہ کوئی ثبوت نہیں ہے اور مجھے یقین ہے بیشک تو مجھے اس تہمت اور بہتان سے باعزت بری کردیگا جیساکہ تو نے مریم کو اسکی قوم کے سامنے کیا جیسا کہ تو نے عائشہ کو کیا اور جیساکہ تو نے جرح کو بری کیا اور انکو عزت عطا کی اے میرے مالک میرے شوہر کے دل میں میرے لئے کوئی شک نا ڈالنا اور مجھے ہر بار کی طرح اس بار بھی اپنی اس آزمائش میں سرخرو کرنا آمین ثم آمین اللّٰھم آمین یا رب العٰلمین ۔۔۔

مشی نے نماز پڑھ کر اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کی اپنے حالِ دل اس پاک ذات کو سنایا جو بیشک ہر چیز پر قادر ہے اور رو رو کر اسے اپنی بے بسی اور لوگوں کی بے حسی بتائی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ زندگی اگر پوری اندھیرے میں ڈوب بھی گئی تو اس میں روشنی کی کرن وہ پاک ذات ہے جو بیشک اندھیروں کو روشنی میں بدلنے پر قادر ہے ۔۔۔۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐ Bint E Ahmed Shaikh⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ابھی جو شخص اپنی وائف کے ساتھ یہاں سے نکلا ہے مجھے میرے آفس پہنچنے سے پہلے آفس کے بیسمینٹ میں چاہئے ۔۔۔ حضیر نے مشی کے گھر کے باہر کھڑے اپنے گارڈز کو حکم دیا اور ایک شان سے گلاسز اپنی آنکھوں پر لگاتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا جس کا دروازہ گارڈز کھولے ادب سے کھڑا ہوا تھا اور پھر اسکے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آفس کے روڈ پر ڈوڑادی ۔۔۔ کیونکہ حضیر صرف مشی کے ساتھ ہی خود ڈرائیونگ کرتا تھا ورنہ ڈرائیور ہی اسکی گاڑی ڈرائیو کرتا ہے ۔۔۔

اسلام علیکم سر ۔۔۔ حضیر جیسے ہی اپنے آفس میں داخل ہوا سب نے احتراماً کھڑے ہوکر اسے سلام کیا جسکا اس نے سر کے اشارے سے جواب دیا اور مغرورانہ چال چلتا اپنے کیبن میں چلا گیا ۔۔۔ 

کیا حال ہے آفس کے اہتشام ۔۔۔ حضیر نے چئیر پر بیٹھتے ہوئے اہتشام سے پوچھا جو کہ اسکے پیچھے ہی آفس میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

الحمدللّٰہ سر حال تو بہت اچھے ہیں لیکن پٹیل کمپنی کے لوگ آپ سے میٹنگ کرنا چاہ رہے ہیں کافی دن سے آپ سے میٹنگ کرنے کا وقت پوچھ رہے ہیں لیکن میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ ان دونوں آپ بزی ہے تو اب آپ بتادیں انہیں کیا جواب دینا ہے ۔۔۔ 

حضیر کے پوچھنے پر اہتشام سے پروفشنل انداز میں حضیر کو آگاہ کیا ۔۔۔

ہہہم ۔۔۔ ایک کام کرو کل فرائیڈے ہے تو انہیں پرسو ہفتے دوپہیر دو بجے کا ٹائم دے دو اور انہیں وارن کردینا کہ اگر ایک منٹ بھی لیٹ ہوئے تو میری طرف سے میٹنگ کینسل اس لئے وقت پر پہنچے کیونکہ مجھے اور بہت کام ہے اور مجھے وقت برباد کرنے والے بلکل نہیں پسند اور ہاں میرے لئے ایک بلیک کافی بھیجو ۔۔۔ حضیر نے اہتشام کو جواب دینے کے ساتھ وارن کیا اور ساتھ میں کافی کا آڈر بھی دے ڈالا جس کا صاف مطلب تھا کہ اب دفعہ ہوجاؤ جبکہ حضیر کی بات پر اہتشام سر اثبات میں ہلاتا وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا ۔۔۔

سر آپکا کام ہوگیا ۔۔۔ حضیر ابھی کافی پی ہی رہا تھا جو کہ اہتشام ابھی دیکر گیا تھا جبکہ دماغ میں اس عورت کی باتیں گردش کر رہی تھی ۔۔۔ ابھی حضیر کسی نتیجے پر پہنچتا کہ ایک گارڈ نے آکر کام ہوجانے کی اسے اطلاع دی ۔۔۔ ہہہم تم جاؤ اور اسے ہوش میں لاؤ میں آتا ہوں ۔۔۔ مقابل کی بات پر حضیر نے ہنکارہ بھرتے ہوئے جواب دیا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا وہاں سے چلاگیا پیچھے حضیر بھی اپنی کافی ختم کر کے اپنا کوٹ جھٹکے سے صحیح کرتا اپنے آفس سے باہر نکل گیا ۔۔۔

دیکھو جو پوچھوں گا وہ سچ سچ بتانا کیونکہ میں دوبارہ اپنی بات دہرانے کا عادی نہیں ہو اس لئے پہلے ہی وارن کر رہا ہوں ورنہ انجام کے ذمیدار تم خود ہوگے اور اس غلط فہمی میں نہیں رہنا کہ میں تمہاری عمر کا لحاظ کرونگا ۔۔۔ میں لحاظ کر بھی لیتا اگر بات میری بیوی کا نا ہوتی تو خیر بتاؤ کس کے کہنے پر میری بیوی کا رشتہ لیکر آئے تھے ۔۔۔ حضیر نے مقابل کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ کر سرد لہجے میں وارن کرتے ہوئے سوال کیا جبکہ حضیر کے برف سے بھی زیادہ سرد لہجے پر مقابل کپکپاکر کر رہ گیا ۔۔۔

وووہ۔۔ مممیرے بییٹے نے کہا تھا کہ ووہ ااور۔۔ آپپکی ۔۔۔ کیا اٹک اٹک کے بول رہے ہو سیدھے طریقے سے بول ورنہ یہ زبان ہی کاٹ دونگا ۔۔۔ مقابل کے اٹک کر کہنے پر حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

وہ میرے بیٹے نے کیا تھا کہ وہ اور آپکی بیوی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اسی نے ہمیں رشتہ لینے کے لئے بھیجا تھا قسم سے مجھے نہیں پتہ تھا وہ آپ کی بیوی ہے میں اور میری بیوی تو بس اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے رشتہ لینے گئے تھے میں سچ کہہ رہا ہوں پلیز میرا یقین کرو بیٹا میں تمہارے باپ کی عمر کا ہوں میں اللّٰہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔

حضیر کے دھاڑنے پر مقابل نے طوطے کی طرح اپنی زبان کھولیں اور روتے ہوئے اپنے ہاتھ جوڑ کر حضیر کو یقین دلانے لگا ۔۔۔

ٹھیک ہے میں نے مان لیا آپ سچ کہہ رہے ہیں لیکن اگر مجھے پتہ لگا کہ آپکا کہا ہوا ایک لفظ بھی جھوٹ ہے تو یاد رکھئیگا آپ کو مجھ سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور تم جس طرح لیکر آئے ہو چھوڑ کر آؤ انہیں اور ان پر اور انکے بیٹے پر سخت نظر رکھو مجھے ایک ایک پل کی رپورٹ چاہئے انکے گھر کے ہر فرد کی ۔۔۔ مقابل کو اچھی طرح دھمکانے کے بعد حضیر نے جاتے ہوئے اپنے گارڈز کو ہلکی آواز میں ہدایت دی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

واہ انعم آج ملازموں کو بھی انوائیٹ کیا ہے کیا انکل فارس نے ۔۔۔ 

فاریہ نے حیا کے ساتھ رومیسہ کو دیکھ کر استہزایہ ہنستے ہوئے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔

 آج فارس کارداد کے گھر گیٹ ٹوگیدر پارٹی تھی اور حیا رومیسہ کو زبردستی ناصرف حویلی لائی تھی بلکہ اپنی دوست کی حیثیت سے کاردار ولا بھی لے آئی تھی جبکہ لائبہ بیگم نے آنے سے صاف انکار کردیا تھا اور وہ گھر ہی شاہ حویلی میں مہمان کی حیثیت سے مہمان خانے میں ہی ٹہری تھی ۔۔۔

میں نے کہا تھا نا کہ مجھے نہیں جانا تم مجھے زبردستی لیکر آئی ہو مجھے پتہ تھا یہ تینوں کوئی بھی موقعہ جانے نہیں دینگے مجھے نیچا دیکھانے کا لیکن میں صرف تمہارے ضد کرنے پر آئی تھی لیکن بس اب میں جارہی ہوں مجھ سے نہیں سہی جاتی اپنی بے عزتی ۔۔۔

فاریہ کے کہنے پر رومیسہ نے نم لہجے میں حیا سے کہا اور وہاں سے جانے لگی ۔۔۔ میں نے انوائیٹ کیا ہے انہیں اپنی بہن بناکر آپ کو کوئی پروبلم ۔۔۔

رومیسہ ابھی دو قدم ہی چلی تھی کہ اسے اپنی پشت پر ایک مردانی آواز سنائی دی جس پر رومیسہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہی نوجوان ان تینوں سے مخاطب تھا جن کو انکی کلاس نیو ٹیچر سمجھی تھی ۔۔۔

اذہان جس نے فاریہ کو رومیسہ کی اونچی آواز میں توہین کرتے دیکھ ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے سنا اور پھر رومیسہ کا روکر وہاں سے جانا اسے اچھا نہیں لگا جس پر اس نے فوراً سے ان تینوں سے  ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

نننہیں مجھے کیا پروبلم ہوسکتی ہے تمہاری مہمان ہے ۔۔۔

اذہان کے سنجیدگی سے کہنے پر فاریہ نے گڑبڑاتے ہوئے کہا کیونکہ سب جانتے تھے اذہان بہت سرپھرا سا شخص ہے وہ کب کیا کر جائے کسی کو خبر نہیں ہوتی وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور اگر کسی کی کوئی بات اسے بری لگ جائے پھر مقابل کو منہ دیکھانے لائق نہیں چھوڑتا ۔۔۔

گڈ ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ جس طرح آپ مہمان ہیں وہ بھی مہمان ہے یہاں پر اس لئے یہاں پر نا کوئی ملازمہ ہے اور نا ہی کوئی ملکہ اس لئے ذرا اپنی زبان پر کنٹرول کیجئیے ۔۔۔

فاریہ کے کہنے پر اذہان نے اچھے طریقے سے انکی طبیعت صاف کی اور رومیسہ کی طرف بڑھ گیا جو کہ نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی لیکن  اسکو خود کی طرف آتا دیکھ نظریں جھکاگئی ۔۔۔

گڑیا اللّٰہ نے ہم سب کو انسان بنایا ہے وہ بھی ایک ہی مٹی سے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب اللّٰہ کا دیا ہوا ہے اور کب لے لے کچھ پتہ نہیں تو اس لئے کبھی کسی کے سامنے خود کو کمتر نہیں سمجھنا غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں ہے اور ان برینڈڈ کپڑوں سے کوئی بڑا اور عزت کے قابل نہیں ہوتا اللّٰہ کے نزدیک سب سے معتبر وہ شخص ہے جسکا اخلاق اچھا ہو اور وہ متقی ہو اس لئے لوگوں کی باتوں پر دیھان دینے کے بجائے اللّٰہ کو راضی کرو اور آئیندہ کسی کی بھی بکواس کو دل پر نہیں  لینا ۔۔۔

اذہان نے رومیسہ کے پاس رک کر اسے سمجھایا اور بڑے بھائی کی طرح اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کھانا لاؤ آپکے لئے ۔۔۔ مشی نے باتھروم سے نکلتے حضیر کو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر حضیر نے سنجیدگی سے انکار کیا اور ٹاول صوفے پر پھینکتا بیڈ پر سوتی ہوئی عفراء کی کے برابر میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا ۔۔۔

ناراض ہیں مجھ سے ۔۔۔ مشی نے حضیر کو اتنا سنجیدہ دیکھ بمشکل اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میں کیوں ناراض ہونے لگا ۔۔۔ حضیر نے مشی کو جواب دیکر آنکھیں موند لیں جس سے صاف ظاہر تھا وہ اب اور کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ مشی کے پوچھنے پر حضیر نے مختصر سا جواب دیا اور جھک کر عفراء کے سر پر پیار کیا ۔۔۔

خزیمہ میں اللّٰہ کی قسم کھاتی ہوں مجھے کچھ نہیں پتہ میں نے کسی کو نہیں بلایا میں انہیں جانتی تک نہیں ہوں یقین کریں میرا میں مر کر بھی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی میرے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اللّٰہ گواہ ہے میں بے گناہ ہوں اور ہر چیز سے لاعلم ہوں مجھے نہیں پتہ انہوں نے میرا نام کیوں لیا خدارا میرا یقین کریں ۔۔۔

حضیر کو آنکھیں موندتا دیکھ مشی حضیر کے ہاتھ پر اپنا سر رکھ کر ہچکیوں سے روتے ہوئے  اسے اپنی بے گناہی کا یقین دلانے لگی ۔۔۔ میں نے کچھ پوچھا تم سے یا کچھ غلط کہا جو تم مجھے صفائی دے رہی ہو ۔۔۔ اپنے ہاتھ کو مشی کی گرفت میں نم ہوتا دیکھ حضیر نے آنکھیں کھول مشی کے لرزتے وجود کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

لیکن آپ نے یہ بھی تو نہیں کہا آپ کو مجھ پر یقین ہے یا پھر آپ نے بھی ان لوگوں کی باتوں پر یقین کرلیا ہے ۔۔۔ مشی نے حضیر کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جبکہ آنسو ابھی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔

کیا اب مجھے اپنی شریکِ حیات کو بھی اس بات کا یقین دلانا پڑیگا کہ مجھے اس پر خود سے زیادہ یقین ہے یہ دو شخص تو کیا اگر پوری دنیا بھی کہے تو کبھی انکی باتوں میں آکر تم پر شک نا کروں ۔۔۔ شک رشتوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور میں اتنا بیوقوف اور کمظرف نہیں ہوں جو دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے رشتے کو خراب کروں ۔۔۔

میری یہاں جان نکل رہی تھی یہ سوچ سوچ کر کہ کہیں آپ ان لوگوں کی بات پر یقین نا کرلیں اور پ اتنے مزے سے بیٹھے مجھے روتا ہوا دیکھ رہے ہیں انسان تسلی کے دو بول ہی بول دیتا ہے تاکہ میں مطمئن ہوجاتی ۔۔۔

حضیر کے پیار سے کہنے پر مشی نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا بس اب رونا بند کرو اور پیکنگ کرلو ہمیں چلنا ہے ۔۔۔

حضیر نے مشی کو اب بھی مسلسل روتا دیکھ اسکے آنسو صاف کرکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

 میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا میں نہیں جاؤنگی وہاں آپ کو پتہ ہے وہاں کے لوگوں کو دیکھ کر میری طبیعت بگڑ جاتی ہے کیونکہ جو کچھ میرے ساتھ وہاں ہوچکا ہے میں چاہ کر بھی خود کو مضبوط نہیں بنا پاتی ان سب کو دیکھ کر مجھے پھر سے اپنا ساتھ کیا گیا ان لوگوں کا سلوک یاد آجاتا ہے اور چاہتے ہوئے بھی میں اپنے حواس پر قابو نہیں رکھ پاتی ۔۔۔

بیشک آپ مجھے کسی جھونپڑی میں رکھیں کہیں بھی رکھیں لیکن میں کاردار ولا نہیں جاؤنگی ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے اسے اپنی کیفیت سے آگاہ کرتے ہوئے ضدی لہجے میں کہا ۔۔۔ 

مشی میں ہوں بے فکر رہو کوئی کچھ نہیں کہے گا آج نہیں تو کل جانا تمہیں وہیں ہے کیونکہ جہاں میں رہونگا وہیں تم بھی رہوگی تو اس لئے اب اس معاملے پر بحث نہیں کرو اٹھ کر پیکنگ کرو بلکہ پیکنگ کو بھی چھوڑو تمہارے اور عفراء کی سب چیزیں موجود ہے وہاں اس لئے بس اٹھ کر عبایا پہنو ۔۔۔

مشی کے ضد کرنے پر حضیر نے سنجیدگی سے دوٹوک کہا ۔۔۔

خزیمہ آپ کے نزدیک میری کوئی اہمیت نا پہلے تھی نا اب ہے میں کہہ رہی ہوں میں نہیں جاؤنگی لیکن آپ لے جانے پر بضد ہیں لیکن اس دفعہ میں بھی اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹونگی میں کسی قیمت پر کاردار ولا نہیں جاؤنگی اور میں جاؤ بھی کیوں جب انہوں نے نہ تو مجھے کبھی بہو قبول کیا تو وہ میری بیٹی کو بھی کبھی قبول نہیں کرینگے اور میں اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی برا سلوک قبول نہیں کرونگی اس لئے اب اگر آپ ناراض میں بھی ہو تو میں پھر بھی نہیں جاؤنگی ۔۔۔

میں مر گیا ہو کیا تمہاری حفاظت کرنے کے لئے میں جب کہہ رہا میں سب سنبھال لونگا پھر اتنا کیوں ڈر رہی ہوں شاباش اٹھو جاکر برقعہ پہنو ۔۔۔

مشی کے ضد کرنے پر حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا جبکہ آخری بات نرمی سے کہی ۔۔۔

 یاد رکھیں اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا نا تو میں کبھی آپ کو معاف نہیں کرونگی جانتی ہوں آپکہ نظر میری کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن آپ کے اچھے رویے کی وجہ سے میں گمان کر بیٹھی کہ شاید میری بھی کوئی اہمیت ہے آپکی نظر میں لیکن آج مجھے یقین ہوگیا کہ نا کل آپکی نظر میں کوئی اہمیت تھی اور نا ہی آج بے فکر رہیں اب اگر مر بھی گئی نا وہاں تو آپ سے اُف بھی نہیں کہونگی ۔۔۔

حضیر کے دھاڑنے پر مشی نے روتے ہوئے کہا اور بے دردی سے ہنے آنسو صاف کرتی کبرڈ سے اپنا برقعہ نکال کر پہننے لگی جبکہ حضیر کے دھاڑنے پر عفراء اٹھ کر رونے لگی تھی ۔۔۔ بس بابا کی جان چپ میری شہزادی میرا بچہ ۔۔۔

حضیر نے روتی ہوئی عفراء کو اپنی گود میں بٹھاکر اسے کے گالوں پر پیار کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈال کر اسے پلایا ۔۔۔

چلیں ۔۔۔ حضیر نے مشی کو برقعہ پہن کر کھڑا ہوتا دیکھ پوچھا جس پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو حضیر مشی کے اگنور کرنے پر اپنے لب بھینچتا عفراء کو گود میں اٹھاکر باہر کی طرف بڑھ گیا تو مشی بھی خوف سے لرزتی بے آواز آنسو بہاتی بمشکل خود کو سنبھالتی حضیر کے پیچھے چل دی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر نے گھر میں داخل ہوکر اونچی آواز میں سلام کیا جس پر سب جو کہ ڈنر میں مصروف تھے اسکی طرف متوجہ ہوئے جبکہ مشی اسکے پیچھے چھپی کھڑی تھی اور عفراء اسکی گود میں سب کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی ۔۔۔

وعلیکم سلام بھائی بھابھی آئیں ڈنر کریں ہمارے ساتھ ۔۔۔

مسیب نے حضیر کے سلام ک جواب دینے کے ساتھ اسے ڈنر کی دعوت دی جبکہ مشی کو یہاں دیکھ کر سب شاک میں تھے ۔۔۔

ہاں یار بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔ مسیب کے کہنے پر حضیر نے نارملی اسکو جواب دیا اور مشی کا لرزتا ہاتھ اپنی سخت گرفت میں پکڑتا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جبکہ مشی کو ایسا لگ رہا تھا وہ ابھی اپنے حواس کھودیگی کیونکہ ضبط کے باوجود بھی وہ اپنی پرانی یادوں کو دماغ پر سوار ہونے سے روک نہیں پارہی تھی لیکن پھر بھی بمشکل ضبط کیے ہوئے تھی ۔۔۔

بیٹھو ۔۔۔ حضیر نے چئیر کو گھسیٹ کر مشی کو بیٹھنے کا کہا جس پر وہ بمشکل خود کے حواس قابو میں رکھتی چئیر پر بیٹھی گئی جبکہ یہ منظر دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل جل کر خاک ہوگئے اور ینگ جنریشن نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی اور پھر مشی کو بٹھانے کے بعد حضیر برابر والی کرسی گھسیٹ کر عفراء کو اپنی گود میں لیکر بیٹھ گیا ۔۔۔

عائش ٹھیک سے کھانا کھاؤ یہ پوری پلیٹ فنش کرنی ہے تمہیں ۔۔۔ 

حضیر نے مشی کو پلیٹ میں چمچ ہلاتا دیکھ غصے سے اسکی پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو کہ اس نے ہی دیگر اشیاء سے بھری تھی ۔۔۔ جبکہ مشی اسکی بات کو نظر انداز کرتی تھوڑے سے چاول چمچ میں لیکر کھانے لگی ۔۔۔

بھابھی یہ کباب ٹرائے کریں ۔۔۔ انعمتہ نے مشی کے لرزتے ہاتھ کو دیکھ کر اسے ریلیکس کرنے کے لئے کباب کی ٹرے اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جس پر مشی نے کوئی ریسپونس نہیں دیا کیونک وہ انعم بیگم کو خود کو گھورتا ہوا دیکھ چکی تھی جس سے اسکے رہے سہے اوسان بھی خطا ہورہے تھے ۔۔۔

حیان گڑیا دو کپ کافی میرے روم میں بھیج دینا بہت تھک گیا ہوں تھوڑی دیر ریسٹ کرونگا ۔۔۔ ڈنر کے بعد سب معمول کے مطابق لاؤنچ میں جانے لگے تو حضیر نے مشی کی بگڑتی طبیعت کو دیکھ کر حیان سے کہا اور مشی کا ہاتھ پکڑتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔۔۔

مشی نے کمرے میں آکر برقعہ اتارا اور بنا حضیر سے کوئی بات کیے کبڈ کی طرف بڑھی اور عبایا ہینگ کر کے کبڈ سے کپڑے لیکر چینج کرنے چلی گئی جبکہ حضیر عفراء کو بیڈ پر بیٹھاکر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہی دراز ہوکر مشی کے باہر نکلنے کے انتظار کرنے لگا ۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔

ابھی حضیر مشی کے باہر نکلنے کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ اسکا فون بجا ۔۔۔

حضیر نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر دیکھا تو اسکے گارڈ کی کال تھی جس پر حضیر نے کال یس کی اور بیڈ سے اٹھ کر سلائڈنگ ڈور کھولتا بالکونی میں چلا گیا ۔۔۔

اسلام علیکم بولو کیا خبر ہے ؟

حضیر نے موبائل کان سے لگاتے ہوئے مقابل سے سلام کرنے کے ساتھ اپنے مطلب کی بات کی ۔۔۔ وعلیکم سلام سر آپ کا شک بلکل ٹھیک تھا وہ لڑکا بھابھی کی یونی میں پڑھتا ہے لیکن جب میں نے اسکی انفورمیشن نکلوائی تو کسی برے کام میں ملوث نہیں ملا اور نا کوئی ایسی بات پتہ لگی جس سے اس پر شک کیا جائے لیکن پھر بھی میں اسکی پوری نگرانی کر رہا ہوں ہوسکتا ہے کچھ پتہ لگ جائے ۔۔۔

مقابل نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ ساری جمع کی ہوئی انفورمیشن حضیر کے گوش و گزار کردی ۔۔۔ ہہم ٹھیک ہے کڑی نظر رکھو اس پر اور اگر کچھ اور پتہ لگے تو مجھے انفورم کردینا ۔۔۔

عففررررااااءءءء ۔۔۔حضیر ابھی مقابل کو ہدایت دیکر فون بند ہی کر رہا تھا کہ اسے مشی کی چیخ سنائی دی چونکہ سلائڈنگ ڈور کھلا ہوا تھا اس لئے حضیر آسانی سے مشی کی چیخ سن سکتا تھا جبکہ مشی کی چیخ سن کر حضیر الٹے پاؤں اندر بھاگا ۔۔۔

مما کی جان مما کی شہزادی میری جان نکال دی تھی آپ نے ابھی اگر کچھ ہوجاتا آپ کو آپکے بابا کو کچھ نہیں ہونا تھا لیکن آپکی مما مرجاتی میری جان ۔۔۔

مشی نے عفراء کو جلدی سے گود میں اٹھاکر والہانہ پیار کرتے ہوئے کہا جو کہ بیڈ سے نیچے اتر رہی تھی جہاں کانچ ہی پانچ پھیلا ہوا تھا چونکہ شاید عفراء نے ہاتھ مار کر گلاس اور جگ نیچے گرادیا تھا جس کی وجہ سے کانچ زمین پر پھیل گیا تھا ۔۔۔

کیا ہوا ہے عفراء کو اور تم چیخی کیوں ؟

حضیر نے مشی کے اس قدر شدید عمل کو ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا جس نے عفراء کو خود میں بھینچا ہوا تھا اور پے در پے آنسو چہرہ بھگو رہے تھے ۔۔۔

 اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے زندہ ہیں دونوں لیکن وہ وقت دور نہیں جب آپ خود ہم دونوں کی لاشیں اپنے کندھے پر اٹھائینگے پہلے تو میرے باپ نے میری زندہ لاش کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا تھا اور اب یہاں سے رہائی کی قیمت مجھے اور میری بیٹی کو اپنی جان سے چکانی پڑیگی ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی نے بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا اور بیڈ پر بیٹھ کر عفراء کو فیڈ کروانے لگی جو کہ ڈر کر رونے لگی تھی ۔۔۔ 

پاگل ہوگئی ہو تم یا تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ساری تمیز بھولتی جارہی ہو ۔۔۔ مشی کی بات حضیر کو ناگوار گزری تھی جبھی وہ غصے سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔ ہاں ہوگئی ہوں میں پاگل بلکہ میں نفسیاتی بھی ہوں بدتمیز بھی بیغیرت بھی بدکردار بھی سب ہوں میں لیکن مجھے ایسا بنانے والے کاردار ولا کے لوگ ہیں آپ کے گھر والوں میں بنایا ہے مجھے ایسا اگر چھوڑنا چاہتے ہیں تو چھوڑدیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑیگا کیونکہ شادی کے بعد بھی اکیلے دو سال گزارے ہیں اور اب بھی اللّٰہ کے سہارے اپنی بیٹی کے لئے اکیلی زندگی گزارلونگی ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے بھی چیختے ہوئے جواب دیا چونکہ کمرہ ساؤنڈ پروف تھا جسکی وجہ سے باہر آوزیں نہیں جارہی تھی ۔۔۔

ایسا کیا ہوگیا تمہارے ساتھ جو تم اتنی بکواس کر رہی ہو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو اتنا ہائیپر ہوتا دیکھ دھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

بڑی جلدی یاد آگیا خیر میرے بتانے پر بھی آپ نے کونسا یقین کرلینا ہے اور اب بتانے کا بھی کیا فائدہ لے تو آئے مجھے دوبارہ اس جہنم میں ۔۔۔

جب آپ دوبارہ سے دو سال بعد میری زندگی میں آئے تو میں آپکے اچھے رویے کی وجہ سے سمجھی تھی کہ شاید میری اندھیری زندگی میں اجالے کی کرن بن کر آئے ہیں لیکن مجھ بیوقوف کو کہاں خبر تھی یہ دو دن کا اجالا مجھے پھر سے اندھیروں میں جھونک دیگا لیکن اس بار میں اکیلی نہیں میری بیٹی بھی ساتھ ہے اور دیکھئیگا ایک دن آپ اپنی اسی ضد اور انا کی وجہ سے ہم دونوں کو کھودینگے پھر پچھتاتے رہیئگا لیکن جب تک کے لئے میں بھی صبر سے یہیں اس زندان میں قیدی بن کر بیٹھی ہوں ۔۔۔

میں دو منٹ باتھروم کیا چلی گئی عفراء کو آپ کے پاس چھوڑ کر آپ بھی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اگر عفراء بیڈ سے اتر جاتی تو جانتے بھی ہیں کتنی زیادہ چوٹ آتی اسے لیکن آپ کو ہماری پرواہ ہی کب ہے آپ کو تو اپنی ضد پیاری ہے تو کریں اپنی ضد پوری میں خود سنبھال لونگی اپنی بیٹی کو جیسے اب تک سنبھالتی آرہی ہوں آپ کو پہلے بھی اپنے خواب پیارے تھے اور اب بھی صرف اپنی ضد پیاری ہے اور ہم ماں بیٹی کہاں ہے آپکی زندگی میں کہیں بھی نہیں پہلے میں نے آپکو معاف کردیا تھا لیکن میں آپ کو اب کبھی بھی معاف نہیں کرونگی کبھی بھی نہیں ۔۔۔ 

مشی نے اپنے دل بھڑاس نکال کر عفراء کو بیڈ پر لٹایا جو کہ اسکے گود میں  سوگئی تھی اور کمفرٹر اوڑھ کر خود بھی عفراء کے پاس دراز ہوکر اپنی سائیڈ کا لیمپ آف کرگئی جبکہ حضیر تو ابھی تک مشی کے الفاظوں پر ساکت کھڑا تھا جو کہ تیر کی طرح اسکے سینے میں پیوست ہوئے تھے اسے دکھ ہوا تھا کہ مشی اسے کتنا غلط سمجھتی ہے جبکہ ہر مرد کی طرح وہ یہ بھول گیا تھا کہ خود کو غلط سمجھنے پر مجبور بھی اسی نے کیا ہے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

چٹاخ ۔۔۔

تیری یہ ہمت تو مجھے انکار کرے تجھے تو میں بتاتی ہوں آئیندہ کچھ بولنے کے لائق نہیں چھوڑونگی میں تجھے تیری ساری اکڑ ابھی نکالتی ہوں میں ۔۔۔انعم بیگم نے مشی کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا جبکہ مشی کا لاغر وجود انکے زوردار تھپڑ کی تاب نا لاتے ہوئے فرش پر جاگرا جس سے لاؤنچ میں لگی کانچ کی ٹیبل کا کنارہ مشی کے سر پر لگا اور اسکے سر سے خون بہنے لگا ۔۔۔

تجھ میں اتنی ہمت گئی تو مجھے یعنی انعم اذان کاردار کو انکار کریگی تجھے میں بتاتی ہوں بیغیرت ۔۔۔ جاؤ ڈنڈا لیکر آؤ ۔۔۔ انعم بیگم نے فرش پر گری مشی کے بالوں کو دبوچ کر غرارتے ہوئے کہا اور پاس کھڑی ملازمہ کو حکم دیا جس پر وہ بوتل کے جن کی طرح غائب ہوئی جبکہ مشی درد کی وجہ سے سر میں اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نا کرتے ہوئے سسکنے لگی جبکہ باقی سب خاموش تماشائی بنے ایک معصوم پر ظلم ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔۔۔

نہیں نہیں پلیز نہیں ۔۔۔ آہہہہہہہ ۔۔۔ 

مشی نے ملازمہ کو ڈنڈا لاتے دیکھ انعم بیگم کے پاؤں پکڑ کر گڑگڑاتے ہوئے کہا جس پر انعم بیگم نے حقارت سے اسے دور پھینکتے ہوئے ڈنڈے سے مارنا شروع کردیا جس سے پورے کاردار ولا اسکی چیخوں سے گونج اٹھا ۔۔۔

آہہہہہ نہیں مارو نہیں مارو اللّٰہ آہہہہہہ ۔۔۔

مشی نیند میں خود کو انعم بیگم سے بچاتی چیخنے لگی ۔۔۔

عائش عائش اٹھو کیا ہوا ہے اٹھو کوئی نہیں مار رہا عائش ۔۔۔

مشی کے چیخنے پر حضیر جسکی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی ہڑبڑاتے ہوئے اٹھا اور مشی کو نیند سے جگانے لگا ۔۔۔

دور رہو نہیں مارو پلیز نہیں مارو ۔۔۔

مشی حضیر کو خود پاس دیکھ کر جلدی سے بیڈ سے اتر کر دیوار سے لگتی اپنے ہاتھوں کو لپیٹ کر خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگی کیونکہ اسکا زہن بھی تک اپنے حواسوں میں نا لوٹا تھا ۔۔۔

عائش کوئی نہیں مار رہا کوئی نہیں ہے ادھر دیکھو میری طرف میں ہوں خُزیمہ ۔۔۔

حضیر مشی کے پاس آتا اسکو خود میں بھینچتا اسکے بالوں میں ہاتھ چلاکر اسکو پرسکون کرتے ہوئے کہنے لگا جبکہ مشی ابھی بھی ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔۔

ادھر بیٹھو اور یہ پانی پیو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو بیڈ پر بیٹھاکر پانی دیتے ہوئے کہا جس میں اس نے مشی کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے نیند کی گولی حل کردی تھی ۔۔۔

مشی نے تھوڑا سا پانی پی کر گلاس وآپس حضیر کو دیا ۔۔۔

لیٹو اور سونے کی کوشش کرو ۔۔۔ حضیر نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر مشی کو لیٹاتے ہوئے کہا جبکہ مشی ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ چپ چاپ لیٹ گئی شاید دوائی نے اپنے اثر شروع کردیا تھا ۔۔۔

یااللّٰہ میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا مشی کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جو وہ اس حال میں پہنچ گئی مجھے کوئی کچھ بتانے کو بھی تیار نہیں ہے میں کیا کرو کس سے پوچھو کیا فیصلہ کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا مما بابا کچھ اور کہتے ہیں اور چاچو اور مشی کچھ اور کس کی بات پر یقین کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا مسیب نے بھی کچھ نا بتانے کی ٹھانی ہوئی ہے یا اللّٰہ اب تو ہی میری رہنمائی کر میری مدد کر میرے مالک ۔۔۔

حضیر نے سوئی ہوئی مشی کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اللّٰہ کو مخاطب کیا کیونکہ مشی کی طبیعت دیکھ کر وہ بہت الجھ گیا تھا اور اب اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔۔۔

حضیر ایک تھکن بھری سانس خارج کرتا اپنے بستر پر لیٹ گیا اور انہی باتوں کو سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گیا ۔۔۔ 

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

بھائی ہمیں شاپنگ کرنے ہے اس لئے گاڑی مال کی طرف موڑلیں ۔۔۔

حیا نے گاڑی میں بیٹھ کر شماس سے کہا ۔۔۔ کیوں بھئی کس خوشی میں شاپنگ کرنی ہے ۔۔۔ حیا کے کہنے پر شماس نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں اذان بھائی کی شادی ہے اور فارس انکل نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے ساری شاپنگ خود کروائیں گے لیکن مجھے ان سے لینا اچھا نہیں لگ رہا اس لئے میں پہلے ہی شاپنگ کرلونگی تاکہ انکل کو آسانی سے انکار کردونگی یہ کہہ کر میں نے شاپنگ کرلی ہے ورنہ انکا خلوص دیکھ کر مجھ سے انکار نہیں کیا جائیگا اور آپ جانتے ہیں وہ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں اور پھر ہم دونوں کو ساتھ دیکھ کر بابا بھی ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں ۔۔۔

ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہوں لیکن میں مزاق کر رہا تھا اس لئے اب اترو گاڑی سے اور میری شہزادی کو جو لینا ہے لے لینا ۔۔۔ حیا کے کہنے پر شماس نے مال کی پارکنگ میں گاڑی روکتے ہوئے کہا چونکہ یونیورسٹی سے کچھ دور کی مسافت پر ہی مال واقع تھا اس وجہ سے وہ جلدی ہی مال پہنچ گئے تھے ۔۔۔

چلو رومیسہ اپن دونوں سیم شاپنگ کرینگے اور تمہاری ساری شاپنگ میری طرف سے ۔۔۔ حیا نے رومیسہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے مال کے اندر لے گئی جبکہ شماس بھی انکے پیچھے مال میں داخل ہوا ۔۔۔ 

بھائی یہ دیکھیں کیسی لگ رہی ہے ۔۔۔

حیا نے ایک ڈارک گرین انگرکّھا پیروں کو چھوتی فراک شماس کو دیکھاتے ہوئے پوچھا جو کہ اذہان سے باتیں کر رہا تھا جو شماس کو مال میں انٹر ہوتے دیکھ چکا تھا اور اب اس سے باتوں میں مصروف تھا کہ حیا کی آواز پر دونوں اسکے طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔

بہت پیاری ہے جو میرے بچے کو اچھی لگے وہ لے لو ۔۔۔

بھائی میں آپ کو اس لئے لائی ہوں تاکہ آپ میری ہیلپ کرسکیں کیونکہ رومیسہ نے تو اپنی مکھڑی کھولنی نہیں ہے لیکن اب آپ بھی یہاں کھڑے ہیں ایسے تو میں نہیں کرونگی شاپنگ انسان کچھ تو آئیڈیا دے اس سے اچھا تو میں مما کے ساتھ آجاتی ۔۔۔ 

حیا نے شماس کو تھوڑا دور کھڑا دیکھ منہ پھولاتے ہوئے کہا چونکہ شماس کے مڑنے پر اذہان اسکی آڑ میں ہوگیا تھا جسکی وجہ سے حیا نے اسے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ دو منٹ میرا بچہ بس ابھی آیا ناراض نہیں ہو ۔۔۔ حیا کو خفا ہوتا دیکھ کر شماس نے پیار سے کہا ۔۔۔ اچھا جلدی آئیں پھر جلدی شاپنگ کر کے جلدی گھر چلینگے لائبہ آنٹی گھر پر اکیلی ہیں ۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے کہا اور دوبارہ کاؤنٹر کی طرف مڑ گئی ۔۔۔

آپ یہ اور ایک ایسا ڈریس ییلو کلر میں پیک کردیں ۔۔۔ حیا نے سیلز گرل کو ڈریس پکڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔ حیا یار یہ کیا ہے میرے پاس کپڑے ہیں بہت سارے میں وہ پہن لونگی مجھے ضرورت نہیں ہے کپڑوں کی تو کیوں نہیں سمجھ رہی ۔۔۔ رومیسہ نے حیا کو ڈریس سیل گرل کو دیتا دیکھ روہانسی ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ دیکھ آنٹی کے لئے کیسا رہے گا ۔۔۔ حیا نے لائبہ کی بات کو اگنور کر کے ایک لائٹ پیچ کلر کا ڈزائنر سوٹ اسے دیکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ یار کیوں کر رہی یہ سب نہیں کر نا کیوں بات نہیں مان رہی میری ۔۔۔ حیا کو اپنی بات اگنور کرتے دیکھ رومیسہ نے بے بسی س التجا کی ۔۔۔ چل تو چھوڑ میں خود لے لونگی ۔۔۔ حیا نے ایک دفعہ پھر رومیسہ کی بات کو اگنور کرتے ہوئے کہا اور سیلز گرل کو وہ سوٹ دیتے ہوئے پیک کرنے کا کہا اور رومیسہ کے نا نا کرتے ہوئے بھی اس نے ساری شاپنگ کرلی جبکہ شماس ابھی بھی اذہان کے ساتھ شاپنگ کے ساتھ ساتھ نا جانے کونسے رازوں نیاز میں مصروف تھا جبکہ وہ دونوں اپنی شاپنگ مکمل کرتی پارکنگ کی طرف چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم کیسے ہیں آپ اور یہاں شاپنگ کے لئے آئے ہیں ۔۔۔ 

اذہان جو کہ آج اپنی شاپنگ کے ارادے سے مال آیا تھا چونکہ اذان کی شادی میں بہت کم دن رہ گئے تھے اس لئے آج اذہان شاپنگ کا معرکہ سر کرنے مال آیا تھا لیکن مال میں شماس کو داخل ہوتا دیکھ اس کے پاس آکر سلام کے ساتھ حال احوال پوچھنے لگا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں بلکل ٹھیک ہاں بس گڑیا کو شاپنگ کروانے لایا تھا اذان بھائی کی شادی کی اور اب جب آ ہی گیا ہو تو خود بھی کرلونگا آپ بھی غالباً  شاپنگ کرنے آئے ہونگے ۔۔۔ شماس نے شائستگی سے اذہان کے سوال کا جواب دینے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔

جی شادی میں کافی کم ٹائم رہ گیا ہے مما بار بار کہہ رہی تھی کہ شاپنگ کرلو لیکن میں نے سوچا اینڈ پر کرونگا اس لئے آج مما نے زبردستی بھیجا ہے کہ جاکر شاپنگ کرلو کیونکہ پھر پرسو سے فنکشنز اسٹارٹ ہوجائینگے ۔۔۔

شماس کے پوچھنے پر اذہان نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا آجاؤ ساتھ ہی کرلیتے ہیں شاپنگ ایک دوسرے کی ایڈوائس سے اچھی شاپنگ ہوجائیگی ۔۔۔ ہاں یہ بھی ٹھیک پھر چلتے ہیں ۔۔۔ شماس کی بات پر اذہان نے کہا اور پھر دونوں اپنی اپنی شاپنگ کرنے لگے ۔۔۔

بھائی اگر آپ ہے دو منٹ پورے ہوگئے ہوں تو پلیز پارکنگ میں تشریف لے آئیں ہم دونوں وہی کھڑی ہیں ۔۔۔ شماس جو کہ اپنی شاپنگ مکمل کر کے اذہان کے ساتھ شاہ سے نکل ہی رہا تھا کہ اسکا فون بجا جس پر شماس نے اذہان سے بات کرتے ہوئے بنا دیکھے کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگایا تو اسپیکر سے حیا کی طنزیہ آواز ابھری ۔۔۔

ارے میرا بچہ میں بھول گیا تھا اذہان کے ساتھ اپنی شاپنگ کرنے لگ گیا میری بھی شاپنگ ہوگئی بس میں ابھی پارکنگ کی طرف ہی آرہا ہوں ۔۔۔

شماس نے حیا کو خفا ہوتا دیکھ پیار سے کہا جبکہ اذہان کو رشک ہورہا تھا حیا پر جسے اللّٰہ نے اتنی محبت کرنے والا بھائی دیا ۔۔۔ 

جلدی آئیں ہمیں گھر جانا ہے ۔۔۔ حیا نے شماس کو حکم دیا اور کھٹاک سے موبائل بند کردیا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف موبائل بند ہونے شماس نے کان سے ہٹا کر پاکٹ میں رکھا اور اذہان سے مخاطب ہوا ۔۔۔ 

میں چلتا ہوں میری شاپنگ ہوگئی ہے میری بہنیں پارکنگ میں میرا انتظار کر رہی ہے انشاءاللّٰہ پھر ملاقات ہوگی ۔۔۔ چلیں کوئی بات نہیں اللّٰہ حافظ ۔۔۔ 

شماس نے اذہان سے شائستگی سے کہا اور مصافحہ کر کے اس سے اجازت لیتا وہاں سے چلا گیا تو پیچھے اذہان بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

شکر اللّٰہ کا ختم ہوئی شادی بس اب کل وآپس جاکر پیپر کی تیاری کرنی ہے نیکسٹ ویک سے پیپر ہیں ۔۔۔ حیا نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر بالوں میں کنگھا کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ کر موبائل چلاتی رومیسہ سے کہا ۔۔۔ میڈم کل فریحہ آپی کا ولیمہ ہے اگر آپکو یاد ہو تو ۔۔۔ حیا کے شکر ادا کرنے پر رومیسہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

چل میں تو کوئی نہیں جارہی کل ولیمے میں اپن تو کل بھائی کے ساتھ وآپس شہر چلینگے پیپر سر پر ہیں میرا تو پوری شادی اٹینڈ کرنے کا دل نہیں تھا لیکن فارس انکل نے مجھے فون پر خاص تاکید کی تھی آنے کی پھر میں انکے خلوص دیکھ منع نہیں کرپائی پہلے ہی وہ میرے خود سے شاپنگ کرنے پر ناراض ہوگئے تھے ۔۔۔

ہاں یہ تو ہے میں بھی بس صرف تیرے زبردستی کرنے پر آئی ہوں ورنہ میں کبھی نا آتی اس نک چڑھی انعم کی شادی پر پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو ۔۔۔

حیا کے کہنے پر رومیسہ نے منہ بگاڑتے ہوئے انعم کا زکر کیا ۔۔۔

بری بات رومیسہ یوں کسی کی پیٹ پیچھے برائی نہیں کرتے بہن پہلے اپنے گناہ کم ہیں جو برائی کر کے انہیں اور بھی بڑھا دیں ہمارے برائی کرنے سے انہیں تو نا کوئی نقصان ہونا ہے اور نا ہی فائدہ الٹا ہمیں ہی نقصان اٹھانا پڑیگا ۔۔۔ رومیسہ کے کہنے پر حیان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

اذہان بھائی نے اس دن پارٹی میں ان تینوں کو اچھی طرح ڈانٹا تھا جسکی وجہ سے اب تینوں مجھے کچھ نہیں کہتی ۔۔۔ رومیسہ نے حیا کی بات کو اگنور کرتے ہوئے اسے آگاہ کیا ۔۔۔ کون اذہان کس کی بات کر رہی ہو تم ۔۔۔

رومیسہ کے کہنے پر حیا نے نا سمجھی سے پوچھا ۔۔۔

ارے وہی جو اپنی کلاس میں کر تمہارا نام پوچھ کر گئے تھے انکی بات کر رہی ہوں میں ۔۔۔ حیا کے ناسمجھی سے کہنے پر رومیسہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ تمہیں کیسے پتہ اسکا نام اذہان ہے ۔۔۔ رومیسہ کے یاد دلانے پر حیا نے اسے مشکوک لہجے میں گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

بدتمیز انسان میں نے اذہان بھائی کہا ہے اور فارس انکل انہیں آواز دے رہے تھے اور میں وہیں کھڑی تھی اس لئے مجھے پتہ چل گیا کہ انکا نام اذہان ہے ۔۔۔

حیا کی بات پر رومیسہ نے اپنی گود میں رکھا کشن اسے مارتے ہوئے صفائی دی ۔۔۔ اچھا اچھا میں نے کچھ کہا تھوڑی ہے اور تو کیا سمجھی مجھے کیا پتہ ۔۔۔ حیا نے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے معصومیت سے کہا ۔۔۔ 

ہاں جانتی ہوں میں تیری بات کا مطلب اور اب مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں سونے لگی ہوں ۔۔۔ رومیسہ نے منہ پھلائے ہوئے حیا سے کہا اور کمفرٹر اوڑھ کر اپنے سائیڈ کا لیمپ آف کر کے آنکھیں موند گئی جس پر حیا بھی اپنی ہنسی روکتی اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️ 

عفراء کو جلدی تیار کرو نیچے چل کر ناشتہ بھی کرنا ہے ۔۔۔

حضیر نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر بال بناتے مرر سے عفراء کو تیار کرتی مشی سے کہا جو کہ خود بھی وائٹ کلر کی کرتی اور پاجامے کے ساتھ وائٹ ہی شیفون کا دوپٹہ اوڑھتی عفراء کو وائٹ ہی شلوار قمیض پہنارہی تھی چونکہ آج جمعہ تھا اس لئے ہر جمعے کی طرح مشی نے خود بھی وائٹ پہنا تھا اور عفراء کو بھی وائٹ ہی پہنایا تھا ۔۔۔

میں کچھ کہہ رہا ہوں تمہیں سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔

حضیر نے مشی کو جواب نا دیتا دیکھ اپنا رخ اسکی طرف کرکے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔ مجھے نہیں جانا نیچے آپ میرا ناشتہ کمرے میں ہی منگوادیں ورنہ میں بھوکی بیٹھی ہوں ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے اسے بنا دیکھے عفراء کو میچنگ چوڑیاں پہناتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ تم میرے ساتھ نیچے چل رہی ہوں اور اب میں انکار نا سنوں ۔۔۔ مشی کو انکار کرتے دیکھ حضیر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور عفراء کے پاس آکر اسے پیار کرنے لگا ۔۔۔

 آپ کی بات مان کر اس جہنم میں آگئی ہوں لیکن اب آپ کی ہر بات نہیں مانوگی نہیں جارہی میں نیچے اور مہربانی کر کے آپ جائیں اپنے گھر والوں کے پاس مجھے اور میری بیٹی کو نہیں ہے ضرورت آپکی ۔۔۔ 

اتنی بدتمیزی کیوں کر رہی ہوں میں نے یہی کہا ہے ناں کہ نیچے چلو ۔۔۔

میں پیدائشی بدتمیز ہوں اور کچھ ۔۔۔ حضیر کے کہنے پر مشی نے بھی تنک کر کہا ۔۔۔ عائش اب تم باغی ہورہی ہو ۔۔۔ اس بغاوت پر بھی آپ اور آپکے گھر والوں نے مجبور کیا ہے ورنہ بقول آپکے میں ایک فرمانبردار بیوی ہوں جو سانس بھی اپنے شوہر سے پوچھ کر لیتی ہے ۔۔۔ حضیر کے غصے سے کہنے پر مشی نے اسکی بات دہراتے ہوئے طنزیہ کہا ۔۔۔ یار کیا ہوگیا ہے کیوں خود کی اور میری زندگی اجیرن کر رہی ہوں ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے کہا جبکہ اسکے بیٹھتے ہی عفراء حضیر کی گود میں چڑھ گئی ۔۔۔

میری تو زندگی پہلے بھی اجیرن تھی باپ کے گھر جاکر تھوڑا آرام آیا تھا لیکن بے فکر رہیں اب پھر ویسی ہی ہوجائیگی آپ کی مہربانی سے اور رہی آپکی بات تو نا میں نے کل کسی چیز سے آپ کو روکا تھا اور نا ہی آج روک رہی ہوں اور اگر روک بھی لوں تو آپ نے کونسا میری کوئی بات مان لینی ہے ۔۔۔

حضیر کے بیٹھنے پر مشی نے پاس بیڈ پر رکھا اپنا برقعہ اٹھاکر پہنتے ہوئے کہا ۔۔۔ عائش میں تمہاری کوئی بے جا ضد نہیں ماننے والا چپ چاپ نیچے چلو ناشتہ کرنے ۔۔۔ میں نے کہہ دیا میں نہیں جاؤنگی نیچے اور کس ضد کی بات کر رہے ہیں آپ بتائیں آج تک کونسی ضد پوری کی ہے آپ نے میری اور کونسے نخرے اٹھائیں ہیں ۔۔۔ 

حضیر کے کہنے پر مشی نے اپنا نقاب پہنتے ہوئے کہا اور حضیر کی گود سے عفراء کو اٹھانے لگی ۔۔۔ کہاں لیکر جارہی ہو عفراء کو ۔۔۔ حضیر نے مشی کو عفراء کو اٹھاتے دیکھ پوچھا ۔۔۔ عفراء کو نانو کے چھوڑ کر یونی جاؤنگی اور وآپسی پر مصباح کے ساتھ میں بھی نانو سے ملنے جاؤنگی اور اگر لینے آنا ہو تو ڈنر کے بعد آجائیگا ورنہ مرضی ہے آپ کی ۔۔۔ 

حضیر کے پوچھنے مشی نے اسے جواب دیا اور اپنی بیگ اٹھاکر کندھے پر ڈالا ۔۔۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد میں تمہیں وہاں جانے دونگا تمہیں تم کہیں نہیں جارہی اتارو برقعہ ۔۔۔ مشی کی بات سن کر حضیر نے غصے سے غراتے ہوئے کہا ۔۔۔ 

آپکی یہ غیرت مجھے یہاں لاتے ہوئے کہاں تھی سحر بھابھی نے تو صرف زبان سے مجھے برا بھلا کہاں ہے لیکن یہاں تو مجھے باقاعدہ ذہنی اور جسمانی ٹارچر کرنے کے ساتھ مجھے مارنے تک کی کوشش کی گئی ہے تو میں کیسے ایسے لوگوں پر بھروسہ کر کے اپنی بیٹی ان ظالموں کے حوالے کرجاؤں ۔۔۔

اور تب کہاں تھے آپ اور آپکی یہ نام نہاد غیرت جب میں کومہ میں تھی اور میری بوڑھی نانی اور مصباح دن رات میری تیمارداری میں لگے رہتے تھے تب کہاں تھی آپکی غیرت جب عفراء کی پیدائش پر میں اور میری بیٹی مرتے مرتے بچے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا تب کہاں تھی آپکی غیرت جب میرا وجود اتنا ناکارہ ہوگیا تھا کہ میں خود کو سنبھال نہیں پاتی تھی بیڈ سے نیچے اترنے کے لئے بھی مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی اپنی بچی کو کیسے سنبھالتی تب کہاں تھے آپ جب مجھے سب سے زیادہ آپکی ضرورت تھی ۔۔۔

پتہ ہے کہاں تھے آپ ؟

آپ اپنے خواب پورے کرنے میں مصروف تھے آپکو کیا فکر ہم ماں بیٹی مرے یا جئیے اور آج آپکی یہ نام نہاد غیرت جاگ گئی تب کہاں تھی آپکی غیرت جب آپکے گھر میں جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا میرے ساتھ تب کہاں تھے آپ جب دو دو دن تک ایک پانی کی بوند کے لئے میں ترستی تھی تب کہاں تھے آپ جب مجھ پر جسمانی تشدد کیا جاتا تھا اور آج آپکی غیرت جاگ گئی ۔۔۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپکی وجہ سے اپنے ننھیال سے تعلق توڑ دوں صرف سحر بھابھی کی وجہ سے تو بھول ہے آپکی کیونکہ میں احسان فراموش بلکل بھی نہیں ہوں جب بھی مجھے آپ کی ضرورت پڑی آپ کی جگہ میں نے انہیں پایا ہے تو صرف ایک شخص کی وجہ سے میں  اپنے پورے ننھیال کو چھوڑدوں ایسا کبھی مر کر بھی نہیں کرونگی جتنے ان لوگوں کے مجھ پر احسان ہے نا میں مرتے دم تک ان کا بدلہ نہیں چکاسکتی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی بولنے پر آئی تو مقابل کو خاموش کرواگئی ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کہہ رہا آج نہیں پرسو سنڈے کو میں خود چھوڑ کر آجاؤنگا اور آج یونی نہیں جاؤ پلیز ۔۔۔ مشی کو ہائیپر ہوتا دیکھ حضیر نے نرمی سے کہا ۔۔۔

میری پہلے ہی بہت چھٹیاں ہوچکی ہیں مزید کرنے کی گنجائش نہیں ہے میرے پیپر بھی قریب ہے اس لئے آپ جائیں یا نا جائیں میں جارہی ہوں ۔۔۔

حضیر کے نرمی سے کہنے پر مشی نے دو ٹوک کہا اور کمرے سے نکل گئی تو حضیر بھی عفراء کو گود اٹھاتا پیچھے چل دیا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

مشی نے ایک نظر سب کو دیکھ کر اونچی آواز میں سلام کیا اور داخلی دروازے کی طرف بڑھ گئی تو حضیر بھی اسکو چھوڑنے کے غرض سے اسکے پیچھے ہولیا ۔۔۔

حضیر بیٹا ناشتہ تو کرلو ۔۔۔ انعم بیگم نے حضیر کو مشی کے پیچھے جاتا دیکھ بمشکل اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ مام عائش کو یونی ڈراپ کر کے آجاؤ پھر کرؤنگا اسے دیر ہورہی ہے ۔۔۔ انعم بیگم کے کہنے پر حضیر نے انہیں جواب دیا اور داخلی دروازہ عبور کرگیا جبکہ پیچھے انعم بیگم تلملاتی رہ گئیں ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اب اذہان کی بھی شادی ہوگئی تو اب میں بھی شماس کی شادی کرنا چاہتی ہوں تو بتاؤ شماس بیٹا تمہیں کوئی پسند تو نہیں ۔۔۔ فریدہ بیگم نے ایک نظر ڈائننگ پر ناشتہ کرتے افراد پر ڈال کر اعلانیہ کہا اور آخر میں شماس کو مخاطب کیا ۔۔۔

ہاں بتادو برخوردار جو بھی پسند ہے ورنہ پھر میں اور تمہاری ماں فاریہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں تمہارے لئے ۔۔۔ فریدہ بیگم کے کہنے پر ہماس شاہ نے انکی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ نہیں بابا مجھے کوئی پسند نہیں ہے آپ لوگ جس سے چاہے شادی کروادیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ ہماس صاحب کی بات پر شماس نے شائستگی سے انہیں مان بخشا ۔۔۔

ارے واہ میرے بھیا تو بڑے معصوم نکلے میں تو سمجھی تھی ایک آدھی نکل ہی آئیگی لڑکی ۔۔۔ حیا نے شماس کو چھیرتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔

نو جی میں ایسا بلکل بھی نہیں ہوں جیسا آپ سمجھی میری پیاری بہنا ۔۔۔

شماس نےحیا کی شرارت کا جواب بہت پیار سے دیا ۔۔۔ بھائی میں مزاق کر رہی تھی ۔۔۔ مجھے پتہ ہے اور مجھے بلکل برا نہیں لگا آپکی بات کا ۔۔۔

حیا کے کہنے پر شماس نے پیار سے اسکی ناک کھینچتے ہوئے کہا جبکہ انکی پیار بھری نوک جھونک سے سب لطف اندوز ہورہے تھے ۔۔۔

چلیں بھئی میرا تو ہوگیا اب شہر جاکر پہلے نیند پوری کرونگی اور پھر پڑھائی اور مما آپ آج ہی بھائی کا رشتہ پکا کر آئیں اور اسی مہینے ہم بھائی کی شادی کرینگے کتنا مزہ آئیگا ۔۔۔

مشی نے سب کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے فریدہ بیگم کو ہدایت دی ۔۔۔

بلکل جیسا میرا بچہ چاہے گا وہی ہوگا ٹینشن ناٹ آج ہی ہم جائینگے شماس کا رشتہ لینے آپ جارہی ہوں ورنہ آپ بھی ساتھ چلتی اپنے بھائی کا رشتہ لینے ۔۔۔ حیا کی بات پر ہماس صاحب نے پیار سے کہا ۔۔۔

نہیں بابا میرے پیپر ہیں اس لئے اب میں کوئی چھٹی افورڈ نہیں کرسکتی اس لئے آپ دونوں جائیں اور رشتہ پکا کر کے مجھے اس مہینے شادی کی خوشخبری سنائیں ۔۔۔ ہماس صاحب کے کہنے پر حیا نے انکار کرتے ہوئے لاڈ سے کہا ۔۔۔ جیسے میری شہزادی کا حکم ۔۔۔ ہماس شاہ نے حیا کے سر پر پیار کرتے ہوئے اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔

چلو بھئی اب اگر اپنے لاڈ اٹھوالیے ہو تو چلو راستے میں لائبہ آنٹی اور رومیسہ کو بھی پک کرنا ہے ۔۔۔ شماس نے دونوں باپ بیٹی کے پیار کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا مما بابا اللّٰہ حافظ ۔۔۔ شماس کے کہنے پر حیا نے دونوں کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا اور شماس کے ساتھ وہاں سے چلی گئی کیونکہ انہیں لائبہ بیگم اور رومیسہ کو بھی پک کرنا جو خان حویلی اپنے بابا سے ملنے گئی ہوئی تھی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

خان صاحب کوئی مہمان آئے ہیں میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھادیا ہے ۔۔۔

ملازمہ نے لاؤنچ میں چائے سے لطف اندوز ہوتے یاسر خان اور رومیسہ بیگم سے کہا کیونکہ آج گھر میں وہ دونوں ہی موجود تھے سارہ ہسپتال تھی ہیّاج آفس اناب میڈم سورہی تھی جبکہ سحر اور فاریہ بیگم کہیں باہر گئی ہوئی تھی ۔۔۔

ٹھیک ہے تم جاؤ جاکر ریفریشمنٹ کا انتظام کرو ہم آتے ہیں ۔۔۔ ملازمہ کے کہنے پر رومیسہ نے اسے ہدایت دی تو وہ سر اثبات میں ہلاتی کچن کی طرف چلی گئی اور پھر پیچھے وہ دونوں بھی اپنے کپ ٹیبل پر رکھتے وہاں سے ڈرائنگ روم کی طرف چل دیے ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ دونوں نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے  ہوئے مہمانوں کو سلام کیا ۔۔۔ وعلیکم سلام کیسے ہیں آپ لوگ ۔۔۔ مقابل نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ الحمدللّٰہ اللّٰہ پاک کا کرم ہے لیکن معذرت کے ساتھ میں نے آپ لوگوں کو پہچانا نہیں ۔۔۔ 

یاسر صاحب نے مقابل کو نا ہچانتے ہوئے معذرت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی آپ ہمیں نہیں جانتے لیکن ہم آپ کو جانتے ہیں دراصل ہم یہاں اپنے بیٹے کا رشتہ لیکر آئے ہیں آپکی بیٹی سارہ کے لئے میں نے اسے ہسپتال میں دیکھا تھا ماشاءاللّٰہ بہت اچھی بچی ہے اس لئے اگر آپ لوگ اپنی رضامندی ظاہر کردیں تو باقی معاملات طہ کرلینگے ۔۔۔

مقابل نے ہتھیلی پر سرسوں اگانے والی جلدی مچاتے ہوئے کہا ۔۔۔ دیکھیں ہمیں کچھ وقت دیں جہاں بیٹیاں ہو وہاں رشتے آتے ہیں لیکن میں فوراً ہاں نہیں کرسکتا کیونکہ نا میں آپکو جانتا ہوں نا آپکے بیٹے کو اس لئے مجھے تھوڑا وقت دیں تاکہ میں اپنی طرف سے ساری جانچ پڑتال کروالوں پھر ہی آپکو کوئی جواب دونگا بیٹی کا معاملہ ہے میں ایسے ہی ہاں نہیں کرسکتا ۔۔۔

مقابل کی بات پر یاسر خان نے سنجیدگی سے نرم لہجے میں جواب دیا ۔۔۔

ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی ایک ہفتے کا وقت لے لیں آج جمعہ ہے آپ ہمیں جمعرات کو جواب دے دیجئیگا اور اگر آپکا جواب مثبت ہوا تو جمعہ کو ہم سارہ کو منگنی کی انگوٹھی پہنا جائینگے ۔۔۔

ٹھیک ہے انشاءاللّٰہ جمعرات تک میں آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردونگا ۔۔۔

آپ لوگ یہ ریفریشمنٹ لیں ۔۔۔ یاسر خان نے مقابل کی بات پر ہامی بھرتے ہوئے کہا جبکہ انکی جلد بازی انہیں ناگوار گزری تھی لیکن وہ خاموش رہے ۔۔۔

عفراء کہاں ہے ؟

مشی نے سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک ساتھ لاؤنچ میں بیٹھ کر باتیں کرتے افراد پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بلند آواز میں پوچھا چونکہ آج جمعہ تھا تو فریحہ بیگم والے بھی آگئے تھے کیونکہ جمعہ کا دن سب اپنے کاموں کو چھوڑ کر ایک ساتھ گزارتے تھے اس لئے ابھی بھی سب لاؤنچ میں بیٹھے گپیں ہانکا رہے تھے ۔۔۔

یہیں ہوگی ابھی تو یہیں تھی ۔۔۔ حضیر نے مشی کو دیکھتے ہوئے کہا جس نے فل وائٹ شیفون کی فراک کے ساتھ میچنگ وائٹ دوپٹے سے نقاب کیا ہوا تھا جبکہ وائٹ ہی شال بائیں کندھے پر لٹک رہی تھی جبکہ حضیر نے بھی آج وائٹ کرتے پاجامے کے ساتھ ہاف وائٹ شال پہنی ہوئی تھی ۔۔۔

کیا مقصد ہے یہیں ہوگی آپکو پتہ نہیں ہے وہ کتنی شرارتی ہے آپ اتنے لاپرواہ کیسے ہوسکتے ہیں ۔۔۔ حضیر کی بات پر مشی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔ بھابھی ریلیکس مل جائیگی عفراء گھر میں ہی ہوگی جاؤ سب دیکھو عفراء کہاں ہے ۔۔۔

مشی کے غصہ کرنے پر مسیب نے اسے ریلیکس کرتے ہوئے کہا اور ساتھ میں ملازموں کو حکم دیا جس پر وہ بوتل کے جن کی طرح غائب ہوئے ۔۔۔

خزیمہ مجھے دو منٹ کے اندر اپنی بیٹی اپنے سامنے چاہئے اس لئے آپ نے عفراء کو اپنے پاس روکا تھا کہ اس سے لاپرواہ ہو جائیں ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے عائش وہ میری بھی بیٹی ہے ابھی میرے پاس ہی کھیل رہی تھی وہ ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا جبکہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔۔۔ صاحب عفراء بیٹی کہیں نہیں ہے ہم نے پورا گھر دیکھ لیا ۔۔۔

ایک کے بعد ایک ملازم نے آکر مایوسی سے اطلاع دی ۔۔۔ 

خزیمہ اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں کسی کو نہیں چھوڑونگی یہی کہا تھا نا آپ نے کہ میں مر گیا ہو کیا تمہاری حفاظت کے لئے تو اب کہاں تھے آپ ارے ابھی تو پورے چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے اگر میری بیٹی کو ایک خراش بھی آئی تو میں کبھی معاف نہیں کرونگی آپ کو ۔۔۔

ملازم کے اطلاع دینے پر مشی نے حضیر کا گریبان پکڑ کر چیختے ہوئے کہا اور بےدرد سے اپنے آنسو صاف کرتی عفراء کو ڈھونڈنے کے غرض سے باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔ اور پھر مشی کو بھاگتے دیکھ سب بھی عفراء کو ڈھونڈنے لگے ۔۔۔

عفراء مما کی جان کہاں ہوں میری شہزادی مما کی جان نکل رہی ہے یار کیوں پریشان کر رہی ہو مما کو ۔۔۔ مشی نے روتے ہوئے عفراء کو آواز دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ مشی عفراء کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بیک گارڈن کی طرف آگئی تھی جب کہ کچھ لوگ اندر ڈھونڈ رہے تھے اور کچھ آگے کی طرف لیکن کسی کو بھی ابھی تک عفراء نہیں ملی تھی ۔۔۔

عففررررااااءءءء ۔۔۔ مشی عفراء کو بیک گارڈن کے پھولوں کے پاس زمین پر بے سدھ لیٹا دیکھ چیختی ہوئی اسکے پاس بھاگی جبکہ اسکی چیخ سن کر سب بھی بیک گارڈن کی طرف بھاگے ۔۔۔

مما کی جان آنکھیں کھولو کچھ نہیں ہوگا میری شہزادی کو عفراء آنکھیں کھولو عفراء مما مر جائیگی ۔۔۔ مشی عفراء کے نیلے پڑتے وجود کو خود میں بھینچ کر چیختے ہوئے کہنے لگی جبکہ اسکی چادر بھاگتے ہوئے پیچھے ہی گر گئی تھی ۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا میری شہزادی ہاں کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ مشی خود سے بڑبڑاتی عفراء کو لیکر بمشکل اٹھی اور لڑکھڑاتے قدم سے داخلی دروازے کی طرف بھاگی جب کہ لڑکھڑانے کی وجہ سے اسکی چپل ٹوٹ گئی جسے وہ وہیں پھینک کر ننگے پیر بھاگی اسکا دوپٹہ بھی سارا کھل گیا تھا لیکن اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔۔۔

بھابھی گاڑی میں بیٹھیں ۔۔۔ انعمتہ نے بھاگتی ہوئی مشی کو پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھاڑ میں جاؤ سب میری بیٹی مر جائیگی ۔۔۔ مشی نے انعمتہ کو دھکہ دیتے ہوئے کہا اور دوبارہ ننگے پاؤں ننگے سر باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔

عائش گاڑی میں بیٹھو جلدی ۔۔۔ حضیر نے بھاگتی ہوئی مشی کو بازو سے پکڑا اور گاڑی میں بیٹھاکر خود میں بیٹھ گیا جبکہ انکے بیٹھتے ہی مسیب کی گاڑی ہواؤں سے باتیں کرنے لگی ۔۔۔

میری شہزادی آنکھیں کھولو مما کی جان مما مرجائیگی عفراء آنکھیں کھولو میں بہت مارونگی مما کو تنگ نا کرو عفراء تو میری پیاری بیٹی ہے ناں ۔۔۔ مشی نے اپنی گود میں بے سدھ نیلے پڑتے عفراء کے وجود کو جھنجھوڑ کر چیختے ہوئے کہا ۔۔۔

بھائی آپ بھابھی کو لیکر آئیں عفراء کو مجھے دیں ۔۔۔ مسیب نے گاڑی ہسپتال کی پارکنگ میں روک کر گاڑی سے اتر کر بیک ڈور کھول کر نیچے نظریں کیے حضیر سے کہا جس پر حضیر نے مشی سے عفراء کو چھین کر مسیب کو دیا تو وہ جلدی سے عفراء کو لیکر اندر بھاگا ۔۔۔

کہاں لے گئے میری بیٹی کو میں کسی کو نہیں چھوڑونگی ۔۔۔ مسیب کو عفراء کو لے جاتا دیکھ مشی نے چیختے ہوئے حضیر کے سینے پر مکے برساتے ہوئے کہا ۔۔۔ چلو اپن کو بھی اندر چلنا ہے مسیب اندر لیکر گیا ہے عفراء کو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو اپنی شال سے کور کرتے ہوئے کہا اور اسکے بے جان وجود کو اپنے ساتھ گھسیٹتا ہسپتال کے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آج کیسے ہم غریبوں کو اپنی مہمان نوازی کا شرف بخشا ۔۔۔

طیب خان نے ہماس شاہ پر طنز کرتے ہوئے کہا چونکہ آج وہ شماس کے لئے فاریہ کا ہاتھ مانگنے آئے تھے اور اب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ایک دوسرے سے مخاطب تھے ۔۔۔

تم جیسے غریب ہوگئے تو دنیا کا ہر شخص خوشی خوشی غربت قبول کرلیگا ۔۔۔

ہماس شاہ نے بھی طیب خان کے طنز کو جواب طنز سے دیا ۔۔۔

اچھا بھئی اب کام کی بات کرو جس کے لئے تجھے ہماری یاد آئی ہے ورنہ تجھ سے بڑا بے وفا کوئی نہیں ہے ۔۔۔

طیب خان نے آنے کا مقصد پوچھنے کے ساتھ شکوہ کیا ۔۔۔

چل ہم بے وفا ہیں تو تو ہی با وفا ہوکر ثابت کردیتا کہ تو خان ہے ۔۔۔

اوئے بس بس میں جانتا ہوں تو مجھے ایموشنل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن میں نے بلکل بھی نہیں ہونا اس لئے کام کی بات کر ۔۔۔

ہماس شاہ کی بات پر طیب خان نے انہیں گھورتے ہوئے کہا جس پر ہماس شاہ نے قہقہہ لگایا ۔۔۔ بھئی ہم تو یہاں فاریہ بیٹی کو اپنی بیٹی بنانے آئے ہیں ۔۔۔

اوہ بھائی فاریہ تیری بیٹی ہے تجھے آج کیسے یاد آگئی ۔۔۔

ہماس شاہ کی بات پر طیب خان نے الجھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

ابے اوئے چول انسان میں اپنے شماس کے لئے فاریہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں ۔۔۔

طیب خان کے نا سمجھنے پر ہماس شاہ نے کھل کر کہا ۔۔۔

تو یوں کہہ نا ۔۔۔ میری طرف سے تو ہاں پر بس ایک دفعہ فاریہ سے پوچھ لوں لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔۔ طیب خان نے اپنی رضامندی دیتے ہوئے شرط کا کہا ۔۔۔

چل اب بھونک بھی دے کیا شرط ہے تیری ۔۔۔

طیب خان کو خاموش ہوتا دیکھ شماس شاہ نے انہیں اکساتے ہوئے کہا ۔۔۔

بھئی مجھے بھی یاسر کے لئے حیا چاہئے اگر تو راضی ہے تو دونوں رشتے پکے کرلیتے ہیں ۔۔۔ طیب خان اپنی شرط بتاتے ہوئے ہماس شاہ کو دیکھنے لگے جو انکی بات سن کر خاموش ہوگئے تھے ۔۔۔

دیکھ طیب میں سیدھی بات کرونگا میں حیا کی اتنی جلدی شادی نہیں کرونگا میری ایک ہی بیٹی ہے اور اسکی مرضی کے خلاف تو بلکل بھی نہیں فلحال تو میرا ارادہ اسکی منگنی کرنے کا بھی نہیں تھا لیکن  اب تو نے کہا ہے تو میں حیا سے پوچھوں گا آخری فیصلہ وہی ہوگا جو حیا چاہے گی اور مجھے یقین ہے اس بات سے ہماری دوستی میں فرق نہیں آئیگا ۔۔۔

ہماس شاہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

تو پاگل ہوگیا ہے ان نئے رشتوں کے وجہ سے ہم اپنا پرانا رشتہ توڑینگے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تو دو دن کا وقت لے لے اور حیا سے بات کرلے کہ وہ کیا کہتی ہے اگر وہ انکار بھی کریگی تو مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے اور اسی طرح میں بھی فاریہ سے پوچھ کر دو دن میں تجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کردونگا ۔۔۔

ہماس شاہ کے کہنے پر طیب خان نے نرم لہجے میں کہا اور پھر وہ کچھ دیر بات کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

ڈاکٹر کیسی ہے میری بیٹی ؟

ڈاکٹر کے آئی سی یو سے باہر نکلتے ہی حضیر نے بے چینی سے پوچھا جو کہ خاموشی سے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا جبکہ مشی ساکت سی بے آواز آنسو بہاتی دیوار سے سر ٹکائے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔ حضیر کی آواز بھی اسکے ساکت وجود میں ہلچل پیدا نا کرسکی ۔۔۔

دیکھیں مسڑ کاردار ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپکی بیٹی نے کوئی زہریلا پودا ہاتھ میں لیا تھا جس کا کانٹا اسکے ہاتھ میں چبھ گیا ہے وہ اس پودے کا زہر بچی کے پورے جسم میں پھیل گیا ہے آپ لوگوں نے لانے میں بہت دیر کردی اگر جلدی لے آتے تو زہر پورے جسم میں نہیں پھیلتا لیکن ہم اپنی پوری کوشش کر رہے کہ جلد از جلد بچی کے جسم سے زہر نکال دیں باقی ہوگا وہی جو اللّٰہ کو منظور ہوگا ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر ڈاکٹر اسے عفراء کی کنڈیشن سے آگاہ کرکے اسکا کندھا تھپتھپاتے دوبارہ اندر چلا گیا جبکہ حضیر کو اپنا سب کچھ ختم ہوتا نظر آرہا تھا ۔۔۔ بھائی صبر کریں اللّٰہ بہتر کریگا اگر آپ ایسے کرینگے تو بھابھی کو کون سنبھالے گا ۔۔۔ مبشر نے حضیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا جو کہ ابھی مدیحہ بیگم حورعین حیان برداء اور انعمتہ کے ساتھ وہاں آیا تھا ۔۔۔

مبشر کے کہنے پر حضیر نے اپنی نظریں اٹھاکر سامنے دشمنِ جاں کو دیکھا جو کہ اجڑی حالت میں بلکل ساکت ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی جبکہ آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔

مشی اللّٰہ بہتر کریگا پریشان نہیں ہو حوصلہ رکھو ۔۔۔ 

مدیحہ بیگم نے مشی کے پاس بیٹھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے حوصلہ دیا ۔۔۔

پتہ نہیں سب مجھے کیوں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مما تھی تو زندگی کتنی خوبصورت تھی پھر مما مجھے چھوڑ کر چلی گئی پھر جب مما کے عم سے نکلی نہیں تھی ک ہ بابا مجھے چھوڑ کر باہر چلے گئے سارا بچپن اکیلے گزارا پھر جب شادی ہوئی تو شوہر چھوڑ کر چلاگیا اکیلے اپنی بیٹی کو اور خود کو سنبھالا اور اب ۔۔۔ اب تو میرے جینے کی وجہ ہی ختم ہو جائیگی ۔۔۔ کیا میں اتنی بری ہوں کہ سب مجھے اکیلا چھوڑ جاتے ہیں اگر اب میری بیٹی کو کچھ ہوگیا تو مرجاؤنگی میں تو ۔۔۔

مدیحہ بیگم کے کہنے پر مشی نے کھوئے کھوئے سے درد بھرے لہجے میں کہا اور خالی خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کو گھورنے لگی جبکہ مشی کے الفاظ وہاں کھڑے سب لوگوں کے دلوں کو خون کے آنسو رلانے لگے ۔۔۔

حضیر بیٹا ابھی مشی کو سب سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے سنبھالو اسکو اس سے پہلے یہ اپنے حواس کھودے ۔۔۔ مشی کے بات سن کر مدیحہ بیگم نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے حضیر سے کہا جسکی خود کی آنکھیں نم تھی ۔۔۔

مدیحہ بیگم کے کہنے پر حضیر نے سر اثبات میں ہلایا اور مشی کے پاس جاکر بیٹھا جو کہ دوبارہ خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو گھر رہی تھی ۔۔۔

عائش بات کرو مجھ سے جو دل میں آرہا ہے بولو چیخوں لڑوں مجھ سے ۔۔۔

حضیر نے مشی کے پاس بیٹھ کر اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر کہا جبکہ حضیر کی بات پر مشی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جبکہ اسکی خاموشی حضیر کو ڈرا رہی تھی ۔۔۔

عائش میں کچھ کہہ رہا ہوں سنائی نہیں دے رہا بات کرو مجھ سے چیخوں چلاؤں لڑوں جو دل کر رہا ہے بولو مجھے بات کرو مجھ سے ۔۔۔ مشی کو اپنے حواس میں نا ہوتا دیکھ حضیر نے تھوڑا غصے سے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا جبکہ مشی خاموشی سے آنکھیں موند کر اپنا سر حضیر کے کندھے پر رکھ گئی ۔۔۔

بھائی بھابھی کو سونے نہیں دینا ورنہ انکو ہوش میں لانا بہت مشکل ہوجائیگا آپ باتیں کریں بھابھی ۔۔۔ مشی کو آنکھیں موندتا دیکھ برداء نے تیز لہجے میں کہا جبکہ مشی کی حالت دیکھ کر حیان حورعین انعمتہ ہچکیوں سے رونے لگی جبکہ مدیحہ بیگم کے بھی آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔

عائش اٹھو ادھر دیکھو میری طرف میں کیا کہہ رہا ہوں بات سنو میری آنکھ بند نہیں ہونی چاہئے تمہاری ورنہ بہت مارونگا میں آنکھیں کھولو ۔۔۔ حضیر مشی کا سر اپنے کندھے سے اٹھاکر اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا اور اسکی چادر ٹھیک کرنے لگا ۔۔۔

حورعین پانی دو جلدی ۔۔۔ حضیر نے مشی کو دوبارہ آنکھیں موندتا دیکھ حورعین سے پانی مانگا تو اس نے جھٹ سے اپنے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل حضیر کو دے دی جو وہ آتے ہوئے کینٹین سے لائی تھی ۔۔۔

مشی آنکھیں کھولو میری طرف دیکھو سنو مجھے میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔

حضیر نے پانی کے چھینٹے مشی کے چہرے پر مارتے ہوئے کہا ۔۔۔

مسیّب عفراء کیسی ہے ؟

مسیّب کو آئی سی یو سے نکلتا دیکھ برداء نے پوچھا تو سب بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔ زہر سارا باڈی سے نکال دیا ہے بس دعا کریں ہوش آجائے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔ برداء کے پوچھنے پر مسیب نے ایک نظر سب پر ڈال کر تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور وہی بینچ پر بیٹھ گیا جبکہ حضیر کے ہاتھ سے پانی کی بوتل چھوٹ کر زمین پر گری اور مشی ہوش سے بیگانہ ہوتے ہوئے حضیر کے کندھے پر سر رکھ گئی اور باقی ان تینوں کی ہچکیاں سسکیوں میں بدل گئی غرض کہ ہر آنکھ اشک بار تھی ۔۔۔

بھائی بھابھی کو دیکھیں ۔۔۔ انعمتہ کی نظر جیسے ہی لڑکھتی ہوئی مشی پر پڑی اس سے ساکت بیٹھے حضیر سے چیختے ہوئے کہا ۔۔۔

بھائی بھابھی کو روم میں لیکر چلیں جلدی ۔۔۔ مسیب نے خود ہمت کرتے ہوئے حضیر کو جھنجھوڑتے ہوئے سامنے بنے پرائیویٹ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخ کر کہا جس سے حضیر ہوش میں آتا مشی کے بے جان وجود کو لیکر سامنے روم میں لے جاکر بیڈ پر لٹایا جبکہ مسیّب اور ڈاکٹر سارہ جلدی سے مشی کا چیک اپ کرنے لگے تھے جن کو برداء نے بلایا تھا ۔۔۔

اور حضیر روم کی دیوار سے ٹیک لگائے خاموش نظروں سے بیڈ پر لیٹے بے جان وجود کو دیکھ رہا تھا جسے اسکے دیکھتے ہی دیکھتے مختلف قسم کی نالیوں میں جکڑدیا گیا ۔۔۔ بھائی نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے بھابھی کا ۔۔۔

مشی کا معائنہ کرنے کے بعد مسیب نے شکستہ لہجے میں ساکت کھڑے حضیر کے کندھے پر رکھتے ہوئے اسے آگاہ کیا اور روم سے نکل گیا جبکہ حضیر ابھی بھی بیڈ پر لیٹے وجود کو دیکھ رہا تھا جو کہ ہوش سے بیگانہ پڑی تھی ۔۔۔

اسلام علیکم بابا کیسے ہیں آپ اور مما کیسی ہیں ۔۔۔

حیا نے ہماس صاحب کے کال پک کرتے ہی سلام کے ساتھ انکا حال پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں الحمدللّٰہ ٹھیک اور آپکی مما بھی بلکل ٹھیک ہیں میرا بچہ کیسا ہے ؟ ہماس صاحب نے حیا کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ پیار سے اسکا حال دریافت کیا ۔۔۔ میں الحمدللّٰہ بلکل فٹ فاٹ اب آپ بتائے کیا بات ہوئی طیب انکل سے انہوں نے ہاں کردی کیا ۔۔۔

حیا نے جلدی سے اپنے مطلب کی بات کی ۔۔۔

اچھا ہوا آپ نے یاد دلادیا مجھے بھی آپ سے ضروری بات کرنی تھی بچے ۔۔۔

حیا کے کہنے پر ہماس شاہ نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی کہیں بابا میں سن رہی ہوں ۔۔۔ 

بیٹا ہم گئے تھے رشتہ لیکر لیکن طیب نے ایک شرط رکھی ہے اس نے یاسر کے لئے تمہارا ہاتھ مانگا ہے دیکھو بیٹا کوئی زبردستی نہیں ہے آخری فیصلہ میرے بچے کا ہوگا میں نے اسے منع اس لئے نہیں کیا کیونکہ میں پہلے آپکا فیصلہ جاننا چاہتا تھا اور اگر آپکا جواب مثبت ہوا تو ابھی صرف منگنی کردینگے شادی تبھی ہوگی جب میری جان کہے گی ۔۔۔۔

ہماس شاہ نے پیار سے ساری بات حیا کے گوش و گزار کردی ۔۔۔

بابا میں آپکی بیٹی ہوں آپکو پورا حق ہے میرے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا کیونکہ مجھے یقین ہے آپ میرے حق میں کبھی غلط فیصلہ نہیں کرینگے اس لئے جو بھی فیصلہ کرینگے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ آپ کو کیا جواب دینا ہے اور بابا اب بعد میں بات ہوگی میں ڈنر کرنے جارہی ہوں مما اور اپنا ڈھیر سارا خیال رکھیگا اللّٰہ حافظ ۔۔۔

ہماس شاہ کی بات پر حیا نے انہیں مان بخشتے ہوئے کہا اور فون کٹ کرتی کمرے سے باہر بھاگ گئی جہاں سے رومیسہ کی آوزیں آرہی تھی جو کہ اسے ڈنر کرنے کے لئے بلارہی تھی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

عفراء کیسی ہے اور مشی کہاں ہے ؟

اناب اور مصباح نے کوریڈور میں کھڑے سب لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو کہ سارہ کے فون کرنے پر انیب اور ہیاج کے ساتھ ہسپتال آئی تھی ۔۔۔

بھابھی پرائیویٹ روم میں ہے انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے جبکہ عفراء کو وینٹیلیٹر پر رکھا ہوا ہے ابھی کوئی بہتری کی خبر نہیں ہے ۔۔۔

حیان نے اپنی بھاری ہوتی آواز میں انہیں جواب دیا جو کہ اپنا سانس بحال کر رہی تھی جو بھاگ کر آنے کی وجہ سے پھول گیا تھا ۔۔۔

مشی کا روم کہاں ہے پلیز جلدی بتاؤ ۔۔۔

حیان کے بتانے پر اناب نے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔

بھائی ہیں بھابھی کے پاس اور بھابھی ابھی ہوش میں نہیں ہیں آپ تھوڑی دیر بعد مل لیجئے گا ۔۔۔ ہہہم ٹھیک ہے ۔۔۔

حیان کے بتانے پر اناب نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا اور وہی بینچ پر بیٹھ گئیں جبکہ مدیحہ بیگم اور انعمتہ پرئیر روم میں نماز ادا کر رہی تھی کیونکہ حورعین اور حیان ابھی پڑھ کر وآپس آئی تھی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم سر حیا میم کیسی ہیں ؟

اذہان کاردار آج صبح کی فلائٹ سے امریکہ پہنچے تھے اور اب شام میں AMH ہسپتال کا راؤنڈ لگانے آئے تھے جو کہ حیا اذہان کاردار کا تھا لیکن ان کے کومہ میں جانے کے بعد وہاں کی ہیڈ چارلی جیسٹن تھی جو کہ امریکہ میں ہی رہائش پزیر تھی اور اسکے والد جیسٹں پیرالائز تھے اس لئے حیا بیگم نے ہی اسے سپورٹ کی تھی اور آج وہ جس مقام پر تھی حیا کاردار کی وجہ سے ہی تھی وہ اسی کے انڈر پورا ہسپتال تھا جبکہ اذہان صاحب مہینے میں ایک دفعہ ایک راؤنڈ خود ضرور لگاتے تھے اور آج بھی ہر مہینے کی طرح حاضر تھے ۔۔۔

وعلیکم سلام حیا میم بلکل ویسی ہی ہیں جیسی پچھلے پندرہ سالوں سے ہیں اب تو مجھے لگنے لگا ہے کہ کہیں میرا صبر ضائع نا ہوجائے ۔۔۔

چارلی کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے مایوسی سے کہا ۔۔۔

سر مایوس نا ہوں انشاءاللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کا صبر رائگاں جانے نہیں دینگے آپ کو پتہ ہے حیا میم کی خواہش تھی کہ میں مسلم ہوجاؤ اور دیکھیں میں میرے ہسبینڈ البرٹو اور میرے بابا مسلم ہوگئے ہیں اور میں نے اپنا نام حبیبہ میرے ہسبینڈ نے زید اور بابا نے عمران رکھا ہے ۔۔۔

واہ ماشاءاللّٰہ اور یہ کب ہوا بھئی اس بات پر تو ایک کافی تو بنتی ہے ۔۔۔

حبیبہ کے کہنے پر اذہان صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی بلکل سر پہلے آپ ہسپتال کا وزٹ کرلیں پھر سب اسٹاف کے ساتھ ایک چھوٹی سی میٹنگ کرلینگے ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے میں مزاق کر رہا تھا لیکن مجھے بہت خوشی ہوئی اللّٰہ آپ تینوں کو دینِ اسلام پر قائم و دائم رکھے ۔۔۔ آمین ۔۔۔ 

ایکسکیوزمی ۔۔۔ اذہان صاحب اپنے موبائل کے رنگ کرنے پر ایکسکیوز کر کے سائیڈ پر بنے لان کی طرف چلے گے چونکہ نیچے بہت بڑا AMH میڈیکل کالج تھا جس میں غریب لوگوں کو فری میں تعلیم دی جاتی تھی اور اس میں ہر استاد بہترین تھا جبکہ حیا بیگم خود وہاں ٹیچر تھی ۔۔۔

اسلام علیکم بولو ۔۔۔ اذہان صاحب نے اپنا موبائل کان سے لگاتے ہوئے مقابل کو سلام کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ وعلیکم سلام سر حیا میم کو ہوش آگیا ہے لیکن۔۔۔

کیا لیکن ۔۔۔ مقابل کے بات سن کر اذہان صاحب کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ گئے جبکہ مقابل کے لیکن لفظ نے الجھادیا تو وہ بے چینی سے پوچھنے لگے ۔۔۔ سر وہ مشکات میم اور عفراء ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں عفراء گڑیا نے زہریلا پودا اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جس سے وہ کانٹا انکے ہاتھ میں چبھ گیا اور سارا زہر جسم میں پھیل گیا اور اب انہیں وینٹیلیٹر پر رکھا ہوا ہے جبکہ مشکات میڈم کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے ۔۔۔

مقابل نے اذہان صاحب کو اچھی بری دونوں خبر سے آگاہ کیا ۔۔۔

میں پہنچ رہا ہوں تم ہسپتال میں ہی رہو اور مجھے اپڈیٹ دیتے رہنا ۔۔۔

مقابل کی بات پر اذہان صاحب نے بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا ۔۔۔ اللّٰہ نے بیوی کو نئی زندگی دی تو بیٹی اور نواسی موت کے منہ میں چلی گئیں ۔۔۔

اے میرے رب میں تیری ناشکری نہیں کرونگا کیونکہ بیشک تیرے ہر کام میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جسے ہم نادان لوگ نہیں سمجھ سکتے بس دعا کرتا ہوں جو میرے اختیار میں ہے مجھے اس عمر میں بیٹی اور نواسی کا دکھ نا دیکھانا یااللّٰہ میرے پہنچنے سے پہلے انکی صحتیابی کی خبر مجھے سنادینا ۔۔۔ اذہان صاحب نے فون بند کر کے وہی کھڑے ہوکر اپنے رب سے التجا کی اور اپنے آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے وہاں سے نکلتے چلے گئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

حضیر کچھ دیر کھڑا مشی کو گھورتا رہا اور پھر قدم قدم چلتا بیڈ کی طرف بڑھا اور بیڈ کے قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گیا ۔۔۔

یار میری غلطی کی اتنی بڑی سزا تو نا دو عائش کہ تم اور عفراء دونوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا ۔۔۔ مانتا ہوں اپنی ضد اور انا میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھا ہوں لیکن اتنی بڑی سزا تو نا دو ۔۔۔ پہلے دو سال کی دوری کم تھی جو اب بھی تم مجھ سے دور جانے پر تلی ہو یار عائش رحم کرو مجھ پر آئیندہ کبھی تمہیں  اور عفراء کو نظر انداز نہیں کرونگا پلیز یار معاف کردو ایک بار پلیز ایک بار آٹھ جاؤ ایک موقعہ دے دو ۔۔۔

حضیر مشی کے ہاتھ کو پکڑے اس سے التجا کر رہا تھا جو کہ ہوش و حواس سے بیگانہ اسکا صبر آزمارہی تھی جبکہ آنکھوں سے آنسو بہہ کر مشی کا ہاتھ بھگو رہے تھے جو کہ حضیر کے ہاتھ میں تھا ۔۔۔

بھائی عفراء اب خطرے سے باہر ہے اور اذہان چاچو بھی امریکہ سے نکل گئے ہیں وہ دائریکٹ ہسپتال آئینگے انکے گارڈز نے مجھے ابھی انفارم کیا ہے اور باہر میڈیا پہنچ گیا ہے اب آپ بتاؤ کیا کرنا ہے ۔۔۔

مسیّب جو کہ ابھی عفراء کا معائینہ کر کے حضیر کو خوشخبری دینے کے ساتھ ساری صورتحال سے بھی آگاہ کیا ۔۔۔

مبشر اور برداء کو کہوں کے اذہان چاچو کے گارڈز کے ساتھ باہر میڈیا کو سنبھالے اور انعمتہ سے کہو سب لیڈیز کو لیکر گھر جائیں اور تم میری یہاں سے نکلنے میں مدد کروگے میں عائش اور عفراء کو لیکر یہاں سے جارہا ہوں اور یہ بات کسی کو بھی نہیں پتہ چلنی چاہئے کیونکہ مجھے پتہ ہے اگر عائش کو ہوش آگیا یا پھر چاچو یہاں پہنچ گئے تو وہ عائش کو لے جائینگے اور میں ایسا بلکل بھی نہیں چاہتا اس لئے ان کے آنے سے پہلے مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور تم سب سے پہلے مجھے ایک نیند کا انجیکشن لاکر دو مجھے عائش کو لگانا ہے تاکہ وہ ہوش میں نا آئے اہتشام ہسپتال کے پیک ڈور کی طرف گاڑی میں میرا انتظار کررہا ہے پہلے میں عائش کو لیکر جاؤنگا گاڑی میں اور تم میرے پیچھے سے عفراء کو لیکر آؤگے اور اگر کوئی دونوں کے بارے پوچھے تو کہہ دینا حضیر لے گیا ہے ۔۔۔

مسیب کے کہنے پر حضیر نے تیزی سے دماغ چلاتے ہوئے اپنا پلان بتایا ۔۔۔

بھائی یہ آپ صحیح نہیں کر رہے بھابھی اور بدگمان یوجائینگی آپ سے اور کیا آپ بھابھی کو باہر لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔۔۔

مسیب نے حضیر کو تنبیہہ کرنے کے ساتھ کریدتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

نہیں ہم پاکستان میں ہی رہینگے میں اپنا سارا کام آن لائن ہینڈل کرلونگا اور عائش اور عفراء کی بھی بہترین کئیر کرسکونگا اور رہی عائش کی بات تو اسے میں خود ہینڈل کرلونگا بس تمہیں جتنا کہا ہے اتنا کرو ۔۔۔

مسیب کے سوال پر حضیر نے اسے ہدایت دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی بس اپنا بھابھی کا اور عفراء کا خیال رکھئیگا ۔۔۔

مسیّب نے حضیر کے گلے ملتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلاگیا ۔۔۔

اور پھر پانچ منٹ بعد ہی نرس انجیکشن لیکر روم میں داخل ہوئی جس پر حضیر نے انجیکشن اس سے لیکر اسے وآپس بھیج دیا اور عائش کی آئستین اوپر کر کے اسکے بازو میں انجیکشن لگایا اور پھر انجیکشن توڑ کر ڈسٹبن میں پھینک دیا اور مشی کو اچھی طرح اپنی شال سے کور کرنے لگا ۔۔۔

ابھی حضیر مشی کو کور کر کے مسیب کے میسج کا انتظار کر رہا تھا کہ اسکا موبائل بجا اس نے انبکس کھول کر چیک کیا تو مسیب کا ڈن کا میسج تھا ۔۔۔

حضیر نے اوکے لکھ کر میسج سینڈ کیا اور عائش کو لیکر روم کے بیک ڈور سے ہسپتال کے بیک سائیڈ کی طرف چل دیا چونکہ وہ سائیڈ سنسان ہی رہتی تھی اس لئے حضیر کو پریشانی نہیں ہوئی ۔۔۔

حضیر مشی کو لیکر جیسے ہی بیک ڈور کے پاس پہنچا تو وہاں کھڑے گارڈ نے جلدی سے دروازے کا تالا کھولا جس کو مسیب نے ہی حضیر کی مدد کے لیے بھیجا تھا جبکہ حضیر مسلسل ارد گرد نظریں دوڑا رہا تھا ۔۔۔

صاحب دروازہ کھل گیا ۔۔۔ گارڈ نے تالا کھول کر حضیر سے کہا جس پر حضیر سر اثبات میں  ہلاتا گیٹ سے باہر نکلا تو اسے سامنے ہی اپنی گاڑی کے ساتھ اہتشام کھڑا نظر آیا جبکہ حضیر کو آتے دیکھ اہتشام اپنا رخ بدل کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔

حضیر نے مشی کو بیک سیٹ پر لٹایا جسکا دروازہ اہتشام پہلے ہی کھول چکا تھا اور کھڑے ہوکر مسیب کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔

ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ مسیب عفراء کو گود میں لاتا نظر آیا ۔۔۔

حضیر نے آگے بڑھ کر مسیب سے عفراء کو لیا اور اسکے سر پر پیار کیا ۔۔۔

بھائی یہ بھابھی کی اور عفراء کی دوائیاں ہیں آپ وقت پر دے دیجئیگا اور یہ ڈرپس ہیں ایک بھابھی کو اور ایک عفراء کو لگنی ہے اس لئے آپ گھر پہنچتے ہی پہلے یہ ڈرپس لگائیگا اور پریشان نہیں ہونا بھائی بھابھی کو جلدی ہوش آجائیگا اور عفراء کو ہوش آگیا ہے لیکن دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی ہیں اور یہ ماسک لگالیں آپ تاکہ کوئی پہچان نا سکے آپکو ۔۔۔ 

مسیب نے حضیر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا جس پر حضیر اثبات میں ہلاتا اس سے بغلگیر ہوا اور ماسک لگاکر عفراء کو لیکر گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ حضیر کے بیٹھتے ہی اہتشام آگے پیسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا اور اسکے بیھٹے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کردی چونکہ گاڑی کا پچھلا حصہ بلکل ایک پرائیویٹ کیبن کی طرح بنا ہوا تھا جسکی وجہ سے اہتشام اور ڈرائیور پیچھے نہیں دیکھ سکتے تھے بس درمیان میں اوپر کی جانب ایک چھوٹا سا شیشہ لگا ہو تھا جس سے حضیر آگے کی طرف دیکھ سکتا تھا ۔۔۔

اب ناجانے کب تک انہیں سفر کرنا تھا اور کون جانے اس سفر کی منزل کیا تھی ۔۔۔

اذان فاریہ کا رشتہ پکا ہوگیا ہے شماس شاہ سے اور حیا کا یاسر خان سے ۔۔۔

انعم نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر تیار ہوتے اذان سے کہا جس پر ایک پل کو اسکے ماتھے پر بل پڑے لیکن ایک منٹ میں ہی وہ خود کو کمپوز کر گیا ۔۔۔

تو میں کیا کروں ۔۔۔ انعم کی بات پر اذان نے بیزاری سے کہا ۔۔۔

کچھ نہیں بس میں تو بتارہی تھی خیر چھوڑیں یہ بتائیں کب تک آئینگے شام میں ۔۔۔ اذان کا بیزار لہجہ دیکھ کر انعم نے صفائی دینے کی ساتھ بات بدلتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کیوں تمہیں کوئی کام ہے تو کہو ۔۔۔ 

نہیں بس وہ میں سوچ رہی تھی کہ ہماری شادی کو مہینہ ہونے والا ہے اور آپ مجھے کہیں باہر بھی نہیں لیکر گئے تو آج ڈنر باہر کرلیتے ہیں ۔۔۔ 

اذان کے سنجیدگی سے پوچھنے پر انعم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا ۔۔۔

ٹھیک ہے شام سات بجے تک ریڈی رہنا میں جلدی آجاؤنگا اور پھر ڈنر کے بعد لونگ ڈرائیو پر چلے گے ۔۔۔ انعم کو خود سے ڈرتا دیکھ اذان نے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔

اچھا چلیں ٹھیک ہے میں تیار رہوں گی ۔۔۔ چلو سہی ہے پھر میں چلتا ہوں اللّٰہ حافظ ۔۔۔ انعم کے کہنے پر اذان نے کہا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تو انعم بھی اسکے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئی کیونکہ اب اسکا رخ فریدہ بیگم کے کمرے کی طرف تھا جن کو ایک مہینے میں ہی انعم اپنا بنا چکی تھی ۔۔۔

اسلام علیکم امی کیا کر رہی ہیں آپ ناشتہ کیا آپ نے ؟

انعم نے فریدہ بیگم کے روم داخل ہوکر سلام کرنے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں تو کچھ نہیں کر رہی بس یہ رسالہ پڑھ رہی تھی تم بتاؤ اذان گیا آفس ۔۔۔ جی امی چلے گئے ہیں اور آپ کو پتہ میری دوست فاریہ ہے ناں اسکی شادی فکس ہوگئی ہے اس مہینے کے آخر میں شماس شاہ اور اسکا بھائی ہے ناں یاسر اسکی منگنی حیا سے ہوگئی ہے ۔۔۔

فریدہ بیگم کے پوچھنے پر انعم نے انہیں مثبت جواب دیکر چہکتے ہوئے بتایا ۔۔۔ اچھا لیکن ابھی تک تو ہماس بھائی نے کوئی بات نہیں بتائی ورنہ چھوٹی سے چھوٹی بات خان حویلی کی اور شاہ حویلی کی پتہ ہوتی ہے ۔۔۔ 

وہ اصل میں دو دن پہلے وہ لوگ رشتہ لیکر آئے تھے فاریہ کا تو طیب انکل نے شرط رکھی کہ وہ بھی حیا کا رشتہ یاسر کے لئے لینا چاہتے ہیں اور پھر دو دن کا وقت لیا تھا دونوں نے جواب دینے کے لئے اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی طیب انکل نے فون کر کے فاریہ کے رشتے کے لئے ہاں کردی تھی تو ہماس انکل نے بھی یاسر کے لئے ہاں کردی ۔۔۔

فریدہ بیگم کے کہنے پر انعم نے انہیں تفصیل سے بتایا ۔۔۔

چلو اچھی بات ہے خوشنصیب ہے یاسر جو اسے حیا جیسی لڑکی ملے گی کروڑوں میں ایک ہے حیا اسکی جتنی تعریفیں کرو کم ہے بہت اچھی بچی ہے حیا میرا ارادہ تھا اپنے اذہان کے لئے حیا کو مانگنے کا لیکن جوڑے تو آسمان پر بنتے ہیں شاید حیا یاسر کے نصیب میں تھی خیر کوئی بات نہیں یاسر بھی اپنا بچہ ہے اور بہت ہی سادہ اور شریف ہے انشاءاللّٰہ حیا کو خوش رکھے گا ۔۔۔ 

چھوڑیں نا امی ہر انسان اچھا یا برا خود اپنے لئے ہوتا خیر آپ نے بتایا نہیں کہ آپ نے ناشتہ کیا یا نہیں ۔۔۔ انعم کو فریدہ بیگم کا حیا کی تعریف کرنا ناگوار گزرا تھا جس پر وہ جلدی سے بات بدلتی پوچھنے لگی ۔۔

ہاں ہلکہ پھلکہ فجر کے وقت کیا تھا لیکن اب مجھے بھوک لگ رہی ہے تم ایسا کرو ملازمہ سے کچھ کھانے کو بنوادو میرے لئے ۔۔۔

اچھا چلیں آپ اپنا رسالہ پڑھیں میں کچھ اچھا سا بنواکر لاتی ہوں ۔۔۔

فریدہ بیگم کے کہنے پر انعم نے کہا اور وہاں سے چلی گئی تو پیچھے فریدہ بیگم بھی دوبارہ سے اپنا رسالہ اٹھاکر پڑھنے لگی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آج شماس کا ولیمہ تھا جس کا انتظام شاہ ولا کے گارڈن میں ہی کیا گیا تھا ۔۔۔

رنگ برنگی لائٹس غباروں اور پھولوں سے بے لان کو بے تحاشہ خوبصورت سجایا گیا تھا ۔۔۔ سب مہمان آچکے تھے خان حویلی کے اور کاردار ولا کے تمام افراد سوائے اذہان کے جو کہ دوبارہ امریکہ جاچکا تھا چونکہ اسکا لاسٹ ائیر تھا اور اس نے وہاں پر اپنا بزنس بھی اسٹارٹ کیا تھا جسکی وجہ سے وہ اذان کی شادی سے فارغ ہوتے ہی دوبارہ امریکہ چلاگیا تھا ۔۔۔

حیا تھوڑی دیر سکون سے بیٹھ جا صبح سے تو گھن چکر بنی ہوئی ہے نا کچھ کھایا نا پیا ہے بے ہوش ہو جائیگی تو یہاں بیٹھ میں تیرے لئے جوس لیکر آتی ہوں ۔۔۔ رومیسہ نے حیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا جو کہ مہمانوں میں صبح سے ادھر سے ادھر پھر رہی تھی اور فنکشن میں بھی سب سے لیٹ تیار ہوئی تھی اور اب بلیک باربی فراک میں باربی ہی لگ رہی تھی لیکن ابھی بھی اس نے سکون کا سانس نا لیا تھا جس پر رومیسہ کا صبر جواب دے گیا تو اسے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔

یار میرے اکلوتے بھائی کی شادی کا لاسٹ فنکشن ہے بعد میں وہی کھانا پینا وہی روٹین ہوجائیگی مجھے کھل کر انجوائے کرنے دے ۔۔۔

رومیسہ کے غصہ کرنے پر حیا نے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے معصومیت سے کہا ۔۔۔

ہاں ایسا انجوائے کرنا ہیکہ ہسپتال کی سیر کر کے آنی ہے تم نے اس لئے چپ چاپ یہاں بیٹھ میں ابھی آئی یا پھر ایک کام اسٹیج پر شماس بھائی اور بھابھی کے پاس چلی جا ۔۔۔ 

حیا کے معصومیت سے کہنے پر رومیسہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گی جبکہ حیا اسکے جانے کے بعد برے برے منہ بناتی اپنا ایک ہاتھ گال کے نیچے رکھتی ٹکر ٹکر سب کو دیکھنے لگی ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ ابھی حیا سب کا معائینہ ہی کرنے میں مگن تھی کہ کسی مردانہ گھمبیر آواز پر مقابل کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔

وعلیکم سلام اذان بھائی ۔۔۔ حیا نے ایک نظر اذان پر ڈال کر اپنی نگاہیں جھکاتے ہوئے سلام کا جواب دیا ۔۔۔

سنا ہے منگنی ہوگئی ہے تمہاری خیر زیادہ دیر نہیں چلنے والی کیونکہ تمہارے بابا نے میرے رشتے کے لئے انکار کیا تھا اور اب میں بھی دیکھتا ہوں کیسے ہوتی ہے تمہاری شادی اگر میں نے تمہارے باپ کو مجبور نا کردیا تمہاری مجھ سے شادی کروانے پر تو میرا نام بدل دینا ۔۔۔

اذان نے ایک نظر حیا کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اپنے بھائی کی شادی میں بھی فل پردے میں تھی سوائے آنکھوں کے باقی کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا حتٰی کے ہاتھوں میں بھی اس نے گلفز پہنے ہوئے تھے ۔۔۔

تو پھر غفور انکل کیسا رہیگا ۔۔۔ حیا نے مقابل کی بات پر بنا کان دھرے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے معصومیت سے مقابل کو آگ لگائی ۔۔۔

تممم ۔۔۔ حیا یہ لو جوس پیو اور میرے ساتھ اسٹیج پر چلو شماس بھائی کب سے تمہیں بلارہے ہیں ۔۔۔ اذان ابھی کچھ کہتا کہ رومیسہ جو کہ اپنی ہی دھن میں چلی آرہی تھی حیا کو جوس کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہنے لگی اور اذان کو اگنور کرتی حیا کا ہاتھ پکڑتی اسے اسٹیج پر لے گئی جہاں شماس اسی کا انتظار کر رہا تھا جبکہ حیا کی بات پر اذان بمشکل اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے اپنا غصہ کنٹرول کرتا وہاں سے واک آؤٹ کرگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیا ہوا ہے ازلان تم نے مجھے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے اور کون ہے ہسپتال میں ۔۔۔ فارس کاردار نے ہسپتال کے کوریڈور میں چکر لگاتے ازلان سے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔ وہ بابا خالہ اور خالو گھر سے کاردار ولا جانے کے لئے نکلے تھے لیکن راستے میں انکا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور ابھی وہ آئی سی یو میں ہیں ۔۔۔ فارس صاحب کے پوچھنے پر ازلان نے ماتھے ہو مسلتے ہوئے پریشانی سے انہیں سب بتایا ۔۔۔

مدیحہ بیٹی کہاں ہے اسے پتہ ہے کیا ؟

فارس کارداد نے مدیحہ کو نا پاکر ازلان سے پوچھا ۔۔۔ بابا وہ پرئیر روم میں ہے اس نے رو رو کر اپنی حالت خراب کرلی ہے ۔۔۔ فارس کاردار کے پوچھنے پر ازلان نے انہیں آگاہ کیا ۔۔۔

آپ میں سے فارس کاردار کون ہیں ؟

ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ ڈاکٹر نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ میں ہوں ڈاکٹر ۔۔۔ ڈاکٹر کے پوچھنے پر فارس کاردار نے جواب دیا ۔۔۔ دیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے لیکن وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں اس لئے آپ ایک بار ان سے مل لیں شاید وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں آپ سے اس لئے پلیز آپ مل لیں ان سے ۔۔۔ ڈاکٹر فارس کاردار سے کہتا انکا شانہ تھپتھپاتے وہاں سے چلاگیا جبکہ فارس کاردار ازلان اور مدیحہ جو کہ ابھی وہاں آئی تھی روم میں داخل ہوئے ۔۔۔

بابا ۔۔۔ وہ تینوں جیسے ہی روم میں داخل ہوئے مدیحہ اپنے باپ کو پٹیوں میں جکڑا دیکھ انہیں تڑپ کر پکارتی ہوئی انکے پاس بھاگی ۔۔۔

مدیحہ ممیرری بچچی اپپنے بباببا ککی بات ممانوگگی ناں مممیں چچاہتتا ہہوں ککہ تتتمم اببھھی اااورر ااااسسسی وققت ازللان سسے نککاح ککرللو ۔۔۔

ففارسس ممیرری ششہززادی ککا خخیال رککھنااا ۔۔۔

صالح صاحب نے مدیحہ سے کہنے کے بعد فارس کاردار سے التجا کی ۔۔۔

بابا آپ جو بولینگے میں کرونگی پلیز آپ خاموش ہو جائیں آپ کو تکلیف ہورہی ہے ۔۔۔ مدیحہ نے انکا پھولتا ہوا سانس اور چہرے پر تکلیف کے اثرات دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ 

صالح بچی ٹھیک کہہ رہی ہے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے میں نکاح خواں کا بندوبست کرتا ہوں تمہارے سامنے ابھی ازلان اور مدیحہ کا نکاح ہوگا پریشان نہیں ہو انشاءاللّٰہ اللّٰہ بہتر کریگا ۔۔۔ فارس کاردار نے مدیحہ کی بات سے متفق ہوکر صالح صاحب کو سمجھاتے ہوئے کہا اور اپنے فون میں نمبر ڈائل کرتے تیزی سے وہاں سے باہر نکل گئے ۔۔۔

اور پھر کچھ ہی دیر میں مدیحہ ۔۔ مدیحہ صالح سے مدیحہ ازلان بن گئی ۔۔۔

بابااااا ۔۔۔ مدیحہ صالح صاحب کا ساکت ہوتا وجود دیکھ کر چیختی ہوئی انکے پاس بھاگی جبکہ ڈاکٹر جو کہ انہیں مسز عائشہ صالح کے انتقال کی خبر دینے آیا تھا صالح صاحب کی طرف بھاگا اور انکا معائنہ کرنے لگا ۔۔۔

ایم سوری ہی از نو مور اینڈ ہز وائف آلسو ۔۔۔ ڈاکٹر نے صالح صاحب کے چہرے پر وائٹ کپڑا ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ نہیں مما بابا مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے میں اکیلی ہوگئی مجھے بھی مرجانا چاہے ہاں مممرججاننا چچچاہئے ۔۔۔ ڈاکٹر کی بات سن کر مدیحہ خود سے بڑبڑاتی زمین بوس ہوگئی ۔۔۔

مدیحہ بچے آنکھیں کھولو مدیحہ اٹھو بیٹے ۔۔۔ 

فارس کاردار زمین پر پڑی بے ہوش مدیحہ کے چہرے پر پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔ 

ازلان تم مدیحہ کو لیکر گھر جاؤ میں شماس کے ساتھ ڈیڈ باڈیز گھر لیکر آتا ہوں ۔۔۔ مدیحہ کو ہوش میں نا آتا دیکھ فارس کاردار نے ازلان سے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا مدیحہ کو لیکر وہاں سے چلا گیا پیچھے اذہان صاحب اور شماس ڈیڈ باڈیز کو گھر لے جانے کا انتظام کرنے لگے ۔۔۔

ڈھائی سال بعد ۔۔۔

میں اپنے بھائی سے حیا کی شادی کبھی بھی نہیں ہونے دونگی کیونکہ یہ رشتہ میرے ماں باپ نے کیا تھا اب وہ ہی نہیں رہے تو یہ رشتہ بھی ختم ۔۔۔

فاریہ نے لاؤنچ میں بیٹھے سب افراد پر نظر ڈالتے چیختے ہوئے کہا ۔۔۔

آپ کیا منگنی توڑینگی میں توڑتی ہوں یہ منگنی ویسے بھی میں کوئی مری نہیں جارہی آپکے بھائی سے شادی کرنے کے لئے یہ میرے والدین کا اور آپکے والدین کا فیصلہ تھا جس پر میں نے سب کی خوشی دیکھ کر اپنے والدین پر اپنا فیصلہ چھوڑ دیا تھا لیکن اگر میں اس وقت منع کردیتی تب بھی کوئی مجھ سے زبردستی نہیں کرتا ۔۔۔

لیکن اب بس بہت ہوا میں خود یہ رشتہ ختم کرتی ہوں معذرت کے ساتھ بابا جانی لیکن میں مزید اپنی ذات کی توہین برداشت نہیں کرسکتی جانتی ہوں طیب انکل کی خواہش تھی کہ میں انکی بہو بنو لیکن بابا جان میری بھی کوئی عزتِ نفس ہے اور مجھے یقین ہیکہ اگر آج طیب انکل زندہ ہوتے تو وہ خود یہ منگنی توڑ دیتے ۔۔۔

حیا نے فاریہ بیگم کو کہنے کے ساتھ ہماس شاہ سے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ دیکھا ۔۔۔ دیکھا آپ سب نے کیسے زبان چلاکر گئی ہے مجھ سے اور آپ سب چپ چاپ سن رہے ہیں میری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے اس گھر میں میں جارہی اپنے باپ کے گھر اپنے بچوں کو لیکر ۔۔۔ فاریہ بیگم حیا کی بات پر آگ بگولہ ہوتی شماس شاہ ہماس شاہ اور فرزانہ بیگم کی طرف دیکھ کر چیخی ۔۔۔

اپنی آواز نیچی رکھو اور خبردار جو میری بہن کے خلاف الفاظ بولا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اور تمہیں جانا ہے نا تو شوق سے جاؤ لیکن میرے بچے یہیں رہینگے اپنے باپ کے گھر بابا پاس آؤ سعد ۔۔۔ شماس نے فاریہ بیگم کو سنانے کے ساتھ صوفے پر لیٹے چھ مہینے کے انیب کو اٹھایا اور سعد کو اپنے ساتھ لیتا اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ پیچھے فاریہ آگ بگولہ ہوتی ڈرائیور کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی جبکہ ہماس شاہ اور فرزانہ بیگم تاسف سے سر نفی میں ہلاکر رہ گئے کیونکہ یہ تو روز کا معمول تھا جب سے شماس کی شادی ہوئی تھی فاریہ نے انکے گھر کا سکون برباد کردیا تھا ۔۔۔

یہ یہاں تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہے یاسر ؟

فاریہ جو کہ ڈرائیور کے ساتھ خان حویلی آئی تھی رومیسہ کو یاسر کے ساتھ خان حویلی میں دیکھ کر غصے سے چیخی ۔۔۔

فاریہ رومیسہ بیوی ہے میری اور وہ بھی پچھلے دو سالوں سے اور میرا نکاح بابا جان نے کروایا تھا رومیسہ کے بابا کے انتقال کے بعد اور وہ حج سے آکر ہماس انکل کو بتانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن وہ پلین کریش میں انتقال کرگئے اور ویسے بھی آپ کونسا میری حیا سے منگنی پر خوش تھی سو آپکی دلی مراد پوری ہوگئی ۔۔۔

یاسر اور فاریہ چونکہ جڑواں تھے اس لئے ایک دوسرے کو نام سے ہی پکارتے تھے ۔۔۔ یاسر نے فاریہ کی بات سن کر سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

بیشک میں حیا سے تمہاری شادی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی لیکن میں اس ڈرائیور کی بیٹی کو بھی اپنی بھابھی کبھی قبول نہیں کرونگی طلاق دو اسے ابھی میں کیا جواب دونگی اپنے سسرال والوں کو شماس تو مجھے چھوڑ دینگے ۔۔۔ 

یاسر کے کہنے پر فاریہ نے اپنے چہرے سے معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

بے فکر رہیں حیا سب جانتی ہے بلکہ ہمارے نکاح میں وہ خود موجود تھی اور آپکے ہنگامہ کرنے پر حیا منگنی توڑ چکی ہے کیونکہ وہ بس مواقعے کے انتظار میں تھی جو آپ نے اسے دے دیا اس نے ابھی رومیسہ کو فون کر کے بتایا ہے ۔۔۔ 

اچھا تو دو سال ہوگئے تمہاری شادی کو تو تمہارے بچے بھی ہونگے ۔۔۔

فاریہ نے اپنی دال نا گلتی دیکھ بات بدل دی ۔۔۔ نہیں اللّٰہ نے ابھی ہمیں صاحبِ اولاد نہیں کیا لیکن انشاءاللّہ اللّٰہ جلدی ہم پر اپنا کرم کریگا ۔۔۔

فاریہ کے کہنے پر یاسر نے سنجیدگی سے کہا جبکہ رومیسہ خاموش تماشائی بنی کھڑی تھی ۔۔۔

میں رومیسہ کو ایک شرط قبول کرونگی تمہیں انعم کی بہن مستبشرہ کو اپنے نکاح میں لینا ہوگا ہوسکتا ہے اللّٰہ تمہیں اولاد سے نوازدے ۔۔۔

فاریہ نے چلاکی سے پینترا بدلتے ہوئے کہا ۔۔۔ اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپکی بات مانوگا ۔۔۔ فاریہ کے کہنے پر یاسر نے ایک آئیبرو اچکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو میرا اور تمہارا ہر تعلق ختم ۔۔۔

یاسر کی بات پر فاریہ نے چنگھاڑتے ہوئے کہا اور وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

بیڈ پر لیٹے وجود میں ہلکی سے جنبشن ہوئی پھر اس وجود نے ہلکی سے اپنی آنکھیں کھولیں لیکن روشنی کی وجہ سے فوراً سے دوبارہ بند کرلی پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ کھولیں اور پھر بند کرلی اور پھر تھوڑی دیر بعد تیسری مرتبہ اپنی پوری آنکھیں کھول کر چھت کو گھورنے لگی جبکہ ذہن ابھی تک بیدار نہیں ہوا تھا ۔۔۔

شکر ہے اللّٰہ کا عائش تمہیں ہوش آگیا ۔۔۔

اس کے کانوں میں ایک مردانی آواز گونجی جس پر مشی نے اپنا رخ دائیں جانب کیا جہاں حضیر بیٹھا اس سے مخاطب تھا جو کہ صوفے پر بیٹھا اسکے ہوش میں آنے کا منتظر تھا حضیر مشی کو ایک خوبصورت سے ڈبل سٹوری والے گھر میں لیکر آیا تھا جو اس نے اپنی پہلی کامیابی پر خریدا تھا اور وہ گھر انتہائی خوبصورت تھا اگر چھوٹا سا سفید محل کہا جائے تو غلط نا تھا کیونکہ وہ پورا گھر شیشے کا سفید رنگ سے بنا ہوا تھا اور اس گھر کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا سوائے اہتشام کے ۔۔۔

اب کیسا فیل کر رہی ہو عائش ۔۔۔ مشی کو خود کو ناسمجھی سے گھورتا پاکر حضیر نے اسکے بال سہلاتے ہوئے دوبارہ پوچھا اور حضیر کے دوبارہ مخاطب کرنے پر مشی کا ذہن آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا جس سے اسکے چہرے کے تعصورات بھی بگڑنے لگے ۔۔۔

عفراء ۔۔۔ عفراء کہاں ہے میری بیٹی عفراء کہاں ہے ۔۔۔

ذہن کے بیدار ہوتے ہی مشی نے نقاہت زدہ لہجے میں پریشانی سے حضیر سے پوچھا اور اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔

لیٹی رہو اور عفراء بلکل ٹھیک ہے اپنی بائیں طرف دیکھو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو اٹھتا دیکھ جلدی سے اسے پکڑتے ہوئے دوبارہ لٹایا اور اسے بائیں جانب دیکھنے کا کہا جہاں عفراء ٹکر ٹکر اسے ہی دیکھ رہی تھی شاید وہ بھی ابھی اٹھی تھی لیکن اسکی رنگت پیلی پڑ رہی تھی ۔۔۔

کیا کر رہی ہو عائش بس پوری ہونے والی ہے ڈرپ پھر میں اتاردونگا ۔۔۔

حضیر نے عائش کو اپنے ہاتھ سے ڈرپ نوچتا دیکھ جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔ عفراء کو مجھے دیں مجھے اسے پیار کرنا ہے پلیز جلدی دیں مجھ سے اٹھا نہیں جارہا ۔۔۔ 

مشی نے حضیر کو دیکھتے ہوئے نقاہت زدہ لہجے میں بے بسی سے کہا ۔۔۔

ایک منٹ روکو میں دیتا ہوں تم لیٹی رہو ۔۔۔ مشی کے کہنے پر حضیر نے اس سے کہا اور دوسری طرف سے عفراء کو گود میں لیکر اسکے گال پر بوسہ دیا اور اسکے سر پر پیار کرتا عفراء کو مشی کے پاس لٹادیا ۔۔۔ 

میری شہزادی مما کی جان میرا بچہ ماں صدقے کیا حالت ہوگئی میری جان کی ۔۔۔ مشی نے عفرء کو والہانہ چومتے ہوئے کہا جب کے آنسو دوبارہ سے چہرہ بھگونے لگے ۔۔۔ عائش بس کرو یار ٹھیک ہے عفراء اللّٰہ کا شکر ہے تمہاری پھر سے طبیعت خراب ہوجائیگی ۔۔۔ حضیر نے مشی کو روتا دیکھ بے بسی سے کہا ۔۔۔

ہمیں اس حال میں پہنچانے والے بھی آپ ہی ہیں خیر پوری ہوگئی نا آپکی ضد اب پلیز مجھے اور میری بیٹی کو اکیلا چھوڑدیں ۔۔۔

مشی نے عفراء کو سینے سے لگاتے سنجیدگی سے نرم آواز میں کہا اور دوبارہ عفراء کو پیار کرنے لگی جبکہ مشی کی ناراضگی محسوس کر کے حضیر نے بے بسی سے ایک نظر مشی کو دیکھا اور اسکے سر پر پیار کرنے بعد عفراء کے سر کا بوسہ لیا اور کمرے سے باہر چلاگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مشی اور عفراء کہاں ہے ؟

اذہان صاحب نے کاردار ولا میں داخل ہوکر دھاڑتے ہوئے کہا جو کہ اپنے گارڈ کے اطلاع دینے پر کاردار ولا آیا تھا جس نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ مشی اور عفراء ہسپتال میں نہیں ہے جبکہ باقی سب بھی کاردار ولا وآپس چلے گئے ہیں ۔۔۔ جبکہ انکی آواز سن کر سب اپنے اپنے کمروں سے باہر نکل آئے ۔۔۔

یہ تو آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ کہاں لیکر چلی گئی میرے بیٹے کو آپکی بیٹی اسے آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے تھے جو وہ اسے سب سے الگ لے گئی ۔۔۔

اذہان صاحب کے غصے سے کہنے پر انعم بیگم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے مشی کے خلاف زہر اگلا ۔۔۔ بس کردیں مما بھابھی تو ہسپتال میں بے ہوش تھی بھائی لیکر گئے ہیں انہیں آپ بلاوجہ بھابھی کو الزام نا دیں ۔۔۔ 

انعم بیگم کے کہنے پر مسیب نے انہیں غصے سے کہا ۔۔۔ چاچو آپ بے فکر رہیں بھائی بھابھی کو لیکر گئے ہیں اور عفراء اور بھابھی دونوں ٹھیک ہیں آپ پریشان نا ہو ۔۔۔ 

مسیب نے انعم بیگم کو چپ کروانے کے بعد اذہان صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ حضیر کو میرا پیغام دے دینا کہ مجھ سے بات کرے مجھے اس سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔ مسیب کے کہنے پر اذہان صاحب نے انعم بیگم کو اگنور کر کے سنجیدگی سے مسیب سے کہا اور وہاں سے جانے لگے ۔۔۔

اذہان کب تک سب سے دور رہنے کا ارادہ ہے اب وآپس لوٹ آؤ ۔۔۔

اذہان صاحب ابھی دو قدم ہی چلے تھے کہ اذان صاحب کی آواز انکے کانوں میں پڑی ۔۔۔ معذرت کے ساتھ لیکن میں اتنا بیغرت شوہر اور باپ نہیں ہوں کہ میں اس جگہ کو اپنی پناہ گاہ بناؤ جہاں نا کبھی میری بیوی کو اسکا مقام ملا اور نا کبھی میری بیٹی کو اس لئے آئیندہ مجھ سے اس قسم کی بات کرنے سے پہلے اپنے اور اپنے گھر والوں کے کرتوتوں پر نظرِ ثانی کرلیجئیگا مسڑ اذان فارس کاردار ۔۔۔

اذان صاحب کی بات پر اذہان صاحب نے انکی نکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا اور وہاں سے نکلتے چلے گئے جبکہ اپنی اتنی بے عزتی پر اذان صاحب اپنی مٹھیاں بھینچ کر بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کرتے وہاں سے واک آؤٹ کرگئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

ان ڈھائی سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا اللّٰہ نے اذان اور انعم کو ایک سالہ حضیر اور چھے مہینے کے مسیب سے نوازا تھا جبکہ مدیحہ اور ازلان کو اللّٰہ نے ایک سالہ ردابہ اور تین مہینے کے برداء سے نوازا تھا اور فریحہ اور زالان کو ایک سالہ مبراء اور چار مہینے کے مبشر سے نوازہ تھا ۔۔۔

اور دو سال پہلے طیب خان اور انکی اہلیہ حج سے وآپسی پر پلین کریش میں انتقال کرگئے تھے جبکہ اس فانی دنیا سے کوچ کرنے سے پہلے انہوں نے یاسر کا نکاح بنا کسی کو بتائے رومیسہ سے کردیا تھا جس کے والد ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال کرگئے تھے لیکن اپنے آخری وقت میں طیب خان سے اپنی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی کی حفاظت کا وعدہ لیکر گئے تھے جس کو نبھاتے ہوئے انکے گزرنے کے کچھ وقت بعد ہی طیب خان نے یاسر کی نکاح رومیسہ سے کرواکر یاسر کو رومیسہ کا محافظ بنادیا تھا جبکہ یاسر نے بھی یہ زمیداری پورے دل سے باخوشی قبول کی تھی جبکہ انکی شادی کے چھے مہینے بعد ہی لائبہ بیگم ہارٹ اٹیک کے باعث رومیسہ کو اس فانی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر اپنے شوہر کے ہمراہ ہوگئی ۔۔۔

یاسر نے شادی کے بعد بھی رومیسہ کو پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی اور اب وہ بھی حیا کے ساتھ چھٹے سیمسٹر میں تھی جبکہ یاسر شماس ازلان انعم فاریہ اور فریحہ کی پڑھائی مکمل ہوچکی تھی اور اذہان بھی امریکہ میں اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنا بزنس سنبھال رہا تھا جو کہ ان سالوں میں ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا لیکن اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وہ اذان کی شادی کے بعد دوبارہ پاکستان نہیں آیا تھا اور اسی وجہ سے فارس کاردار نے اسکی اجازت سے صالح صاحب اور عائشہ بیگم کے انتقال کے کچھ وقت بعد ہی آزان کا ریسیپشن کردیا تھا اور اب سب اپنی اپنی پرسکون اور بزی لائف میں مشغول تھے ۔۔۔

عائش اٹھو اور تھوڑا سا کھانا کھاؤ پھر تمہیں دوائی بھی لینی  ہے ۔۔۔

حضیر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر کھانے کی ٹرے رکھ کر عائش کو اٹھاتے ہوئے کہنے لگا جو کہ حضیر کو روم میں آتا دیکھ اپنی آنکھوں بند کرتی اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھ گئی تھی جبکہ مشی کی یہ حرکت حضیر نے باخوبی دیکھ لی تھی ۔۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے جب لگے گی تب کھالونگی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے بنا آنکھیں کھولیں اسپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔۔۔

یار بات تو کرو مجھ سے اب کیوں اگنور کر رہی ہو لے تو آیا میں تمہیں الگ گھر میں ۔۔۔ حضیر نے مشی کے پاس بیٹھ کر اسکا بازو آنکھوں سے ہٹاکر بے بسی سے کہا ۔۔۔

میں نے آپ کو کب کہا تھا کہ مجھے الگ گھر میں جانا ہے پہلے اپنی بات کی تصیح کرلیں میں نے یہ کہا تھا کہ آپ مجھے کاردار ولا کے علاؤہ جہاں بھی لیکر جائینگے میں باخوشی آپکے ساتھ جاؤنگی اور اب لانے کا کیا فائدہ وہاں کارادر ولا میں اٹھارہ گھنٹے رہنے کی قیمت میں اور میری بیٹی چکا چکے ہیں اور اگر آپ اب بھی مجھے وہاں لے جانا چاہتے ہیں تو میں منع نہیں کرونگی کیونکہ مجھے پتہ ہے میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے زندگی میں پہلی مرتبہ آپ سے کوئی بات منوانا چاہی تھی لیکن اب نصیحت ہوگئی ہے اس لئے کبھی آپ سے کوئی امید نہیں رکھونگی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

اچھا چھوڑو سب باتیں پہلے کچھ کھالو پھر میڈیسن لینی ہے ۔۔۔ 

حضیر نے بات بگڑتی دیکھ ٹاپک چینج کرتے ہوئے مشی کا دیھان دوبارہ کھانے کی طرف کیا جس پر مشی سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹرے میں رکھا سوپ اٹھاکر پینے لگی ۔۔۔ 

پتہ ہے کبھی کبھی میرا شدت سے دل کرتا ہے کہ ان محلوں کو آگ لگا دوں جہاں محبتوں کی جگہ سازشیں ہی سازشیں ہیں میں اللّٰہ سے دعا کرتی تھی کہ مجھے بھلے غریب انسان ملے لیکن ایسا شخص ہو کہ جب مجھے اسکی ضرورت پڑے وہ میرے آگے ڈھال بن جائے اور وہ میری تکلیفوں کو سمجھے دن میں زیادہ تو نہیں کم از کم آدھا گھنٹہ میرے ساتھ گزارے لیکن شاید میری اس دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیا گیا ہے ۔۔۔

مشی نے سوپ پینے کے بعد حضیر کو دیکھتے ہوئے دکھ سے کہا جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کیا میں تمہارے قابل نہیں یا تم مجھے پسند نہیں کرتی ۔۔۔

مشی کی بات سن کر حضیر نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے غصے سے پوچھا ۔۔۔

میں نے ایسا کب کہا میں نے آپکے نکاح میں آنے کے بعد آپ سے محبّت مجھ پر فرض جو میں نبھانا باخوبی جانتی ہوں میں آپکی امانت ہوں اور میں اس میں خیانت کر کے منافق نہیں بننا چاہتی اور یہ میری ہی محبت ہے جو میں آج آپ کے نکاح میں ہوکر آپ کے پاس بیٹھی ہو ورنہ ہر مرد کی طرح آپ کو بھی اپنی محبت کو نکاح میں لینے کے بعد کہا یاد تھا کہ آپکی بیوی کہاں اور کس حال میں ہے یا پھر آپکی ہوئی بیوی بھی ہے ۔۔۔

مشی نے حضیر کی بات کا نرمی سے جواب دیا ۔۔۔

کیا تم مجھے معاف نہیں کرسکتی ۔۔۔ 

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد حضیر نے ہلکی آواز میں پوچھا ۔۔۔

کیا میں اس قابل ہوں یا میری آپکی زندگی میں اتنی اہمیت ہیکہ آپ مجھ سے معافی کے طلبگار ہیں ...

حضیر کے کہنے پر مشی نے نرمی سے مگر سوالیہ لہجے پوچھا ۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ میری زندگی میں تمہاری اور عفراء کی کیا اہمیت ہے ؟

مشی کے سوال پر حضیر نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا ۔۔۔

اگر سچ کہوں تو ابھی تک میں کچھ اندازہ نہیں لگا پائی کیونکہ انسان ایک دوسرے کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے اسی لئے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عورتوں سے اظہارِ محبت کرتے رہا کرو تاکہ وہ تم سے بدگمان نا ہوجائیں ۔۔۔

لیکن میں ابھی تک آپکی زندگی میں اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں لگا پائی کیونکہ ابھی تک آپ نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس سے مجھے لگے کہ میں آپکی زندگی میں اہمیت کی حامل ہوں کیونکہ میں نے ہر میدان میں خود کو اکیلا پایا ہے خود کی خود ہی حفاظت کی ہے بلکہ آپ نے اپنی ضد میں میری نفی کی ہے جس سے مجھے یہی لگا ہیکہ آپ کی زندگی میں میری کوئی اہمیت نہیں ہے باقی دل کا حال اللّٰہ بہتر جانتا ہے ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی نے صاف گوئی سے کہا ۔۔۔

صحیح کہا تم نے شاید میں ہی غلط ہوں لیکن اس لئے غلط ہوں کیونکہ کبھی تم نے اپنی تکلیف مجھے نہیں بتائی کبھی اپنی خوشی میں مجھے شامل نہیں کیا کبھی اپنے غم مجھ سے نہیں بانٹے کبھی اپنی آب بیتی مجھے نہیں سنائی یا شاید وقت نے ہمیں موقعہ نہیں دیا خیر اب میں ہر چیز صحیح کرنا چاہتا ہوں اس لئے مجھے ایک موقعہ دو ایک بار مجھ اعتبار کر کے تو دیکھو تمہیں مایوس نہیں کرونگا ۔۔۔ 

آپ پر اعتبار ہے تبھی تو آپ سے شکوے شکایت کر رہی ہوں تاکہ آپ دور کرسکیں آپ ایک موقعہ مانگ رہے ہیں میں تو آپکو ساری زندگی موقعے دینے کو تیار ہوں کیونکہ آپ میری بیٹی کے باپ ہیں میں اکیلی ہوتی تو شاید معاملات کچھ اور ہوتے لیکن اپنی بیٹی کی خاطر میں آپکی ساری کوتاہیوں کو بھولنے کی کوشش ضرور کرونگی کیونکہ میں نہیں چاہتی اپن میاں بیوی کے کسی بھی معاملات کا اثر میری بیٹی پر پڑے ۔۔۔

یقین کریں خزیمہ یہ دنیا بہت ظالم ہے اس لئے میں کوئی عمل ایسا نہیں کرنا چاہتی جسکا کل کو میری بیٹی کو طعنہ ملے کہ تیری ماں تو ایسی تھی اور آپ سے بھی ہیی چاہتی ہوں کہ آپ بھی کبھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا جس کا میری بیٹی کو طعنہ ملے دنیا جھوٹے بہتان لگاتے ہوئے دیر نہیں کرتی خیر اب ختم کریں اس ٹاپک کو اور عفراء کے ہاتھ پکڑیں میں اسے دوائی دوں ۔۔۔

مشی نے بات ختم کرتے ہوئے حضیر کی توجہ عفراء کی طرف کروائی جو کہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

آپ عفراء کے ہاتھ پکڑیں ۔۔۔ مشی نے سیرپ اسپون میں ڈال کر حضیر سے کہا جس نے سر اثبات میں ہلاکر مشی کے دونوں ہاتھ پکڑلیے ۔۔۔

یار کیسے ظالموں کی طرح دوائی دے رہی ہو میری بیٹی کو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو عفراء کو منہ دبوچتے دیکھ اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

آپ کی بیٹی شرافت کے لائق نہیں ہے ابھی ہاتھ مارکر ساری دوائی گرادیتی ورنہ پھر منہ سے نکال دیتی ہے ۔۔۔ حضیر نے کہنے پر مشی نے اسے عفراء کے کارناموں سے آگاہ کیا ۔۔۔ 

یار یہ کتنے کیوٹ فیس بنارہی ہے میری شہزادی ۔۔۔

حضیر نے عفراء کو دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا جو کہ دوائی لینے پر عجیب و غریب منہ بنارہی تھی ۔۔۔ 

ہاں بس اسی وجہ سے تو سب کو پیار آتا ہے آپکی لاڈلی پر ۔۔۔

آئے بھی کیوں نا آخر بیٹی کس کی ہے ؟

مشی کے کہنے پر حضیر نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میری ۔۔۔ مشی کے چلاکی سے جواب دینے پر حضیر نے زوردار قہقہہ لگایا جبکہ مشی بھی ہولے سے ہنس دی اور عفراء نے بھی کھلکھلاکر اپنے ماں باپ کا ساتھ دیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیسی ہو حیا ؟

اذہان صاحب نے بیڈ کے پاس رکھی چئیر پر بیٹھتے ہوئے حیا بیگم سے پوچھا جو کہ کاردار ولا سے ڈائریکٹ یہیں آئے تھے ۔۔۔

ممییںں ٹھھیکک ہہہوں ممششیی ککیسی ہہے ۔۔۔

اذہان صاحب کے پوچھنے پر حیا بیگم نے اٹکتے ہوئے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے ساتھ مشی کے بارے میں پوچھا ۔۔۔

سر میم پندرہ سال بعد کومہ سے وآپس آئی ہیں ابھی انہیں ہوش تو آگیا ہے لیکن ابھی انکی باڈی بہت ویک ہے اس لئے ابھی یہ موو نہیں کرسکینگی لیکن آہستہ آہستہ ایکسر سائز سے انشاءاللّہ میم بلکل ٹھیک ہو جائینگی ۔۔۔

نرس نے اذہان صاحب کو آگاہ کیا جو کہ حیا بیگم کو اٹک کر بات کرتا دیکھ نرس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔

ٹھیک ہے مشی تمہیں یاد کرتی ہے میں نے بتایا نہیں ہے کسی کو بھی کہ تم زندہ ہو اور جب تک تم پہلے کی طرح صحت مند نہیں ہوجاتی میرا بتانے کا ارادہ بھی نہیں ہے ۔۔۔

نرس کی بات سن کر اذہان صاحب نے اسے جانے کا اشارہ کر کے حیا بیگم کو جواب دیا جبکہ اذہان صاحب کا اشارہ سمجھتے ہی نرس وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ 

ممجھھے ممششیی سسے مملنننا ہہہے ۔۔۔

پہلے پوری طرح صحیح ہوجاؤ پھر میں ملوادونگا مشی سے اور اب تو ہماری ایک نواسی بھی ہے عفراء اتنی شرارتی ہے وہ لیکن پہلے ٹھیک ہوجاؤ اسکے بعد سب سے مل لینا ورنہ پھر تمہیں اس حالت میں دیکھ کر مشی پریشان ہوجائیگی ۔۔۔

حیا بیگم کے کہنے پر اذہان صاحب نے انہیں رسان سے سمجھایا ۔۔۔

سر میم کی دوائی کا وقت ہوگیا ہے اس لئے انکو سوپ پلاکر دوا دینی ہے ۔۔۔

حیا بیگم ابھی کچھ کہتی کہ نرس نے اذہان صاحب کو اپنے ہاتھ میں پکڑے سوپ کے باؤل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

آپ سوپ مجھے دے دیں اور مجھے دوائی بتادیں کیسے دینی ہے میں دے دونگا اور آج آپ چھٹی کریں کل صبح آجائیگا ۔۔۔

اذہان صاحب نے نرس سے سوپ کا باؤل لیتے ہوئے کہا جس پر وہ انہیں حیا بیگم کی دوائیوں سے آگاہ کرتی چلی گئی تو اذہان صاحب بھی ان سے بات کرنے کے ساتھ انہیں سوپ پلانے لگے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم بھائی بھابھی اور عفراء کو ہوش آگیا کیا ؟

مسیب نے اذہان صاحب کے جانے بعد اپنے کمرے میں آکر حضیر کو کال کی اور اسکے کال اٹھاتے ہی فوراً سے مشی اور عفراء کے متعلق پوچھا ۔۔۔

وعلیکم  سلام ہاں دونوں ٹھیک ہے الحمدللّٰہ ۔۔۔

مسیب کے پوچھنے پر حضیر نے عفراء کے ماتھے پیار کرتے ہوئے جواب دیا جبکہ مشی فریش ہونے گئی ہوئی تھی ۔۔۔

بھائی اذہان چاچو آئے تھے بہت غصے میں بھابھی اور عفراء کا پوچھ رہے تھے جس پر مما نے سارا الزام بھابھی پر لگادیا کہ وہ آپ کو لیکر گئی ہیں سب سے دور لیکن پھر میں نے مما کو چپ کروادیا تھا لیکن چاچو کہہ کر گئے ہیں کہ آپ ان سے رابطہ کریں انہیں آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔

مسیب نے آج ہوئے ہنگامے کے بارے میں حضیر کو آگاہ کیا ۔۔۔

مجھے افسوس ہوا مما کی بات پر لیکن خیر میں چاچو سے بات کرلونگا تم پریشان نا ہو ۔۔۔ مسیب کی بات پر حضیر نے افسوس سے کہا ۔۔۔

بھائی آپ کو بھابھی کو ابھی کاردار ولا لانا نہیں چاہئے تھا کم از کم مجھ سے ایک مرتبہ پوچھ لیتے ۔۔۔ 

تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد مسیب نے حضیر سے کہا ۔۔۔

مسیب میں چاہتا تھا وہ سب سے گھلے ملے سب کے ساتھ خوش رہے اس طرح عفراء کو بھی ددھیال کی محبت ملے گی ورنہ دور رہ کر عفراء بھی ددھیال کی محبت سے محروم ہوجائیگی ۔۔۔

بھائی آپ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آپ خود کو بھابھی کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ جس گھر میں ان پر اتنے ظلم کیے گئے انکی زندگی کو جہنم سے بدتر کردیا گیا اور پھر اتنی مشکلوں سے اس جہنم سے آزادی ملنے کے بعد کیا وہ دوبارہ اس جہنم میں جانا پسند کرینگی ۔۔۔

 خیر جو ہوگیا سو ہوگیا اب آپ بھابھی کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں انہیں ٹینشن سے دور رکھیں کیونکہ انکا برین بہت ویک ہے وہ ڈپریشن برداشت نہیں کرپائینگی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مسیب نے اسے رسان سے سمجھایا ۔۔۔

ہہہم ٹھیک ہے میں سمجھ گیا اب فون رکھتا ہوں اللّٰہ حافظ ۔۔۔

مسیب کی بات پر حضیر نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے فون بند کردیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم چاچو کیسے ہیں آپ ؟

حضیر نے مسیب کے کال کانٹے کے بعد اذہان صاحب کو کال کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں بلکل ٹھیک مشی اور عفراء کیسی ہیں ؟

اذہان صاحب جو کہ ابھی حیا بیگم کو دوائی دیکر سلاچکے تھے حضیر کی کال آتا دیکھ حیا بیگم کی نیند کا خیال کرتے باہر لاؤنچ میں جاکر بات کرنے لگے ۔۔۔

دونوں الحمدللُٰہ ٹھیک ہے بلکہ مشی نماز پڑھ رہی ورنہ میں آپکی بات کروادیتا ۔۔۔

اذہان صاحب کے پوچھنے پر حضیر نے ایک نظر نماز پڑھتی مشی کو دیکھ کر اذہان صاحب کو آگاہ کیا ۔۔۔

تمہاری حرکت کی وجہ پوچھ سکتا ہوں میں مسڑ حضیر خزیمہ کاردار ۔۔۔

اذہان صاحب مدعے کی بے پر آتے سنجیدگی سے پوچھنے لگے ۔۔۔

چاچو میں ڈر گیا تھا کہ کہیں آپ مشی اور عفراء کو مجھ سے دور نا کردیں یا پھر مشی خود عفراء کو لیکر مجھے چھوڑ کر نا چلی جائے اور مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اسے روک پاتا اس لئے میں نے چور راستہ چنا ۔۔۔

اذہان صاحب کے پوچھنے پر حضیر نے صاف گوئی سے کہا ۔۔۔

تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میں تمہیں مشی اور عفراء سے الگ کردونگا حضیر میں نے ہر دفعہ ہر معاملے میں تمہارا ساتھ دیا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری بیٹی کی آٹے میں نمک کے برابر بھی کوئی غلطی نہیں تھی ۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا اور اب بھی سمجھارہا ہوں حضیر اپنے بیوی بچوں کی ڈھال ایک باپ اور ایک شوہر کو بننا پڑتا ہے ورنہ ان کے ساتھ  کب کوئی کیا کرجائے کچھ پتہ نہیں ہوتا میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے اور آج بھی دے رہا ہوں لیکن آئیندہ کی امید مت رکھنا کیونکہ جتنے دکھ تمہاری وجہ سے میری بیٹی کو ملے ہیں ان دو سال میں وہ کافی ہے میں اپنی بیٹی کو مزید دکھ نہیں سہنے دونگا اور تم جانتے ہو مشی مر کر بھی میری بات کا انکار نہیں کریگی ۔۔۔

حضیر کی بات سن کر اذہان صاحب نے اسے سمجھانے کے ساتھ دھمکایا ۔۔۔

چاچو چاہے کچھ بھی ہوجائے آپ آئیندہ مزاق میں بھی مشی کو مجھ سے الگ کرنے کی بات نہیں کرینگے میں نے اسے بہت مشکل سے پایا ہے اس لئے اب کھونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خیر پھر بات ہوگی اللّٰہ حافظ ۔۔۔

اذہان صاحب کی بات پر حضیر نے سنجیدگی سے کہا اور الوداعی کلمات کہتا فون بند کرکے عفراء کو اپنے اوپر لیٹاکر لیٹ گیا اور آنکھیں موند کر اپنا غصہ کنٹرول کر نےنے لگا جو کہ اذہان صاحب کی بات سے عود کر آیا تھا ۔۔۔

یار مصباح مجھے بہت غصہ آرہا ہے پتہ نہیں کہاں لے گئے حضیر بھائی مشی کو دو دن ہوگئے میں اس سے ملی بھی نہیں ہوں جب سے حضیر بھائی وآپس آئے ہیں حضیر بھائی نے قید کرلیا ہے مشی کو پہلے وہ اسے کاردار ولا لے گئے اور اب پتہ نہیں کہاں لیکر غائب ہوگئے ہیں مجھے پتہ ہوتا ناں کہ حضیر بھائی مشی کو کاردار ولا وآپس لیکر جائینگے تو قسم سے میں نے اچھی خاصی انہیں سنانی تھی حضیر بھائی کو کہ وہ یاد کرتے مشی تو معصوم ہے کوئی بھی اس سے اپنی بات منوالیتا ہے اسے اپنے لئے لڑنا ہی نہیں آتا کبھی کبھی تو میرا دل کرتا مشی کو جھنجھوڑ کر کہوں کہ بہن اتنے معصوم اور اچھے لوگوں کی دنیا نہیں ہے دو سال اسکی شادی کو ہوگئے ایک سال کی بیٹی کی وہ ماں ہے لیکن تھوڑی سی بھی شاطر نہیں ہیں اور سب اسکی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔

اناب اور مصباح دونوں ہسپتال سے اناب کے گھر آگئی تھی اور اب اناب مسلسل کمرے میں ٹہلتی مصباح کو اپنے نادر خیالات سے آگاہ کر رہی تھی ۔۔۔

بس کردے اناب ایک گھنٹے سے تیری چک چک سے میرا سر درد کرنے لگ گیا ہے حضیر بھائی اسکے ہسبینڈ ہیں وہ اسکی بات نہیں مانے گی تو پھر کس کی مانے گی ۔۔۔ مانا کہ مشی بہت معصوم ہے لیکن تو بھی بہت جذباتی ہورہی ہے تو ابھی ان حالات سے نہیں گر رہی اور نا ماضی میں گزری ہے جن حالات کا سامنا مشی نے کیا ہے اور وہ اکیلی نہیں ہے اسکی بیٹی بھی اسکے ساتھ ہی اگر وہ اکیلی ہوتی تو شاید حالات کچھ اور ہوتے لیکن عفراء بھی ہے جس کی خوشیوں کے لئے وہ خود کو قربان کردے گی جب تو اس اسٹیج پر آئیگی تب تجھے اندازہ ہوگا ۔۔۔

اناب کے کہنے پر مصباح نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

مصباح شاید تو ٹھیک کہہ رہی ہے لیکن مجھے مشی سے بات کرنی ہے پتہ نہیں اسکی طبیعت کیسی ہے عفراء کیسی ہے اسے ہوش آیا یا نہیں مجھے ٹینشن ہورہی ہے اپنے پاس تو کوئی نمبر بھی نہیں  ہے جس سے مشی کی خیریت پتہ کرسکیں ۔۔۔

میری جان میں جانتی ہوں مجھے بھی اتنی ہی ٹینشن ہورہی ہے جتنی تجھے ہورہی ہے لیکن اب کیا کرسکتے ہیں سوائے صبر کے جب تک مشی اپن سے خود رابطہ نہیں کرتی اس لئے اب اپنا خون نا جلا اور چپ چاپ بیٹھ جا ۔۔۔

اناب کے کہنے پر مصباح نے اسے پچکارتے ہوئے کہا اور پھر دونوں دوسری باتیں کرنے لگیں ۔۔۔

مصباح میرے پاس حیان کا نمبر ہے کیوں نا اپن اس سے حضیر بھائی کا نمبر لے لیں یا پھر اس سے خیریت پتہ کرلیں مشی اور عفراء کی انہیں تو کچھ پتہ ہوگا نا کیونکہ ان کے تین نمونے ڈاکٹر جو ہیں ۔۔۔

ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہی تھی کہ اناب نے یاد آنے پر مصباح سے کہا ۔۔۔

حد ہوگئی ہے اناب اگر ان تینوں نے کبھی تیرے منہ اپنے لئے یہ الفاظ سن لئے نا تو تینوں نے مل کر تیری چٹنی بنادینی ہے اور اب اپنی زبان کو سکون دے کر حیان کا نمبر ملاکر کال اسپیکر پر کر ۔۔۔

اناب کے کہنے پر مصباح نے اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر اناب برے برے منہ بناتی اسکی بات پر عمل کرنے لگی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

یاسر پلیز آپ فاریہ آپی کی بات مان لیں آپ کے پاس بھی ایک ہی رشتہ بچا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کا وہ رشتہ بھی ٹوٹ جائے پلیز میری بات مان لیں اور شادی کرلیں مستبشرہ سے ویسے بھی سعدیہ آنٹی کے انتقال کے بعد وہ اکیلی ہوگئی ہے اسے بھی سہارا مل جائیگا اور ہوسکتا ہے اللّٰہ آپ کو صاحبِ اولاد بھی کردے ۔۔۔

رومیسہ نے بیڈ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر کام کرتے یاسر سے بے بسی سے کہا ۔۔۔

رومیسہ اس ٹاپک پر دوبارہ بات نہیں ہوگی اگر میرے نصیب میں اولاد ہوگی تو اللّٰہ تعالیٰ خود ہی ہم پر اپنا کرم کردیگا ۔۔۔

یاسر نے لیپ ٹاپ سے سر اٹھاکر سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

یاسر آپ کو اللّٰہ کی قسم ہے آپ میری بات مانے گے ورنہ میں آپکو چھوڑ کر چلی جاؤنگی ۔۔۔

یاسر کو نا مانتے دیکھ رومیسہ نے دھمکاتے ہوئے کہا ۔۔۔

دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کیسی بکواس باتیں کر رہی ہو اگر ایسا کچھ کرنے کا سوچا بھی تو مجھ سے برا تمہارے حق میں کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔

رومیسہ کی بات پر یاسر نے لیپ ٹاپ بند کر کے دھاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

آپ کچھ بھی کہہ لیں اگر آپ نے کل تک میری بات نہیں مانی تو پرسو آپ مجھے اس گھر میں نہیں پائینگے ۔۔۔

رومیسہ یاسر کے غصے سے ایک پل کو ڈر گئی تھی لیکن پھر خود کو کمپوز کرتی یاسر سے کہتی کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مما بابا بھائی مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔

حیا نے لاؤنچ میں بیٹھے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

کہو میرا بچہ کیا کہنا ہے ۔۔۔

حیا کی بات پر شماس شاہ نے اسے پیار سے بات جاری رکھنے کا کہا ۔۔۔

آپ سب پلیز میری بات تحمل سے سنیے گا رومیسہ کے والد کے انتقال کے وقت انہوں نے رومیسہ کی زمیداری طیب انکل کو سونپی تھی جس پر انکے انتقال کے کچھ دن بعد طیب انکل نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا کیونکہ وہ رومیسہ کو یاسر بھائی کے نکاح میں دینا چاہتے تھے تاکہ انکے بعد یاسر بھائی رومیسہ کی حفاظت کریں اور رومیسہ اور لائبہ آنٹی کے پاس کوئی ایک محرم رشتہ موجود ہو اس لئے انہوں نے اس بات کا ذکر مجھ سے کیا تھا ۔۔۔

میں نے انکی بات سن کر یہی فیصلہ سنایا کہ رومیسہ اور یاسر بھائی کا نکاح کردیا جائے کیونکہ بھائی کی شادی کے فوراً بعد ہی مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ بھابھی کبھی بھی میری شادی یاسر بھائی سے نہیں ہونے دینگی اور میں بھی یہ منگنی توڑنا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی بھابھی مجھے وہاں بھی سکون سے رہنے نہیں دینگی ۔۔۔

اس لئے یہ سب باتیں اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے طیب انکل کے ساتھ مل کر رومیسہ اور یاسر بھائی کا نکاح کروادیا اور وہ یہ بات آپ لوگوں سے حج کی ادائیگی کے بعد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہیں دی اور میں کسی طرح یہ رشتہ ختم کرنا چاہتی تھی اور آج بھابھی کی باتیں سن کر میری برداشت ختم ہوگئی تھی میں ہر دفعہ انکی باتیں انکے فضول کے طعنے خاموشی سے سن لیتی تھی لیکن آج میری بس ہوگئی تھی اور مجھے بہانہ بھی مل گیا تھا اس لئے میں نے یہ منگنی توڑدی ۔۔۔

اور مجھے امید ہے آپ میں سے کوئی بھی مجھ سے ناراض نہیں ہوگا کیونکہ اپنے دفاع میں بولنے کا میرا حق ہے میں پچھلے دو سال سے خاموش تھی لیکن بھابھی میری تذلیل کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اس لئے آج میں نے بھی جواب دے دیا اگر کسی کو برا لگا ہو تو معذرت ۔۔۔

حیا نے اپنی بات مکمل کر کے ایک نظر سب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

میرے بچے کسی کو کچھ بھی برا نہیں لگا اور آپ نے بہت اچھا کیا مجھے فخر ہے میری شہزادی پر ۔۔۔

حیا کے کہنے پر ہماس صاحب نے اسکے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا جس پر حیا نے سوالیہ نظروں سے شماس کی طرف دیکھا جس پر اس نے بھی مسکراکر سر اثبات میں ہلاکر ہماس صاحب کی بات سے اتفاق کیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آپ کو بابا سے اس لہجے میں بات نہیں کرنی چاہئے تھی وہ آپ سے بڑے ہیں اور آپ کے چاچو بھی ۔۔۔

مشی نے جائے نماز تہہ کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹے حضیر سے کہا ۔۔۔

اندازہ ہے مجھے بس چاچو نے ایسی بات کی کہ مجھے غصہ آگیا خیر میں معذرت کرلونگا ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے شرمندگی سے کہا ۔۔۔

عائش ایک بات پوچھو اسکا سچ سچ جواب دینا ۔۔۔

آپ کو مجھ سے کچھ پوچھنے سے پہلے کب سے اجازت کی ضرورت پڑگئی اور میں نے کب آپ سے جھوٹ بولا ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے خفگی سے کہا ۔۔۔

اگر کبھی تمہیں مجھے یا چاچو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو کس کا کروگی ۔۔۔

حضیر نے مشی کی خفا نظروں کو اگنور کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جو میرے اور میری بیٹی کے حق میں بہتر ہوا میں حالات کے حساب سے اس کا انتخاب کرونگی چاہے پھر وہ کوئی بھی ہو ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی نے صاف گوئی سے کہا ۔۔۔

انسان دل رکھنے کے لئے ہی ہامی بھرلیتا ہے ۔۔۔

حضیر دیکھیں انسان کو وقت سے پہلے کوئی عہدوپیمان نہیں باندھنے چاہئے کیونکہ ہوسکتا ہے آپ ایک دوسرے سے بڑے بڑے وعدے کرلیں اور وقت اور حالات اس کے برعکس ہوں اور آپ کو انہیں توڑنا پڑے اس لئے وقت سے پہلے کسی کو امید دلانا صرف دھوکے میں رکھنا ہے کیونکہ وقت آنے پر سب صرف اپنے دفاع کرتے ہیں اور موت کی طرح یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسکو نظر انداز کرنا بیوقوفی کے سواء کچھ نہیں اس لئے میں بھی آپ سے کوئی وعدہ نہیں کرونگی کیونکہ وقت اور حالات دیکھتے ہوئے ہی میں فیصلہ کرونگی کہ میرے حق میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے ۔۔۔۔

حضیر کے خفگی سے کہنے پر مشی نے اسے رسان سے سمجھایا ۔۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔ حضیر ابھی کچھ کہتا کہ اسکا موبائل بجا ۔۔۔

عائش یار کال پک کر کے اسپیکر پر کردو ۔۔۔

حضیر جو کہ عفراء کو اپنے سینے پر لیٹائے ہوئے تھا نے مشی سے کہا جس پر مشی نے کال یس کر کے اسپیکر پر کیا اور دوسری طرف سے آکر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔

اسلام علیکم حضیر کاردار اسپیکنگ ۔۔۔

حضیر نے مقابل کی آواز نا سنتے خود سلام کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

وعلیکم سلام اب تو ماں کو پہچانوگے بھی نہیں بیوی کیا ملی تم تو جورو کے غلام بن گئے ارے اگر اسی بیوی کے کرتوت پتہ چلے نہ تمہیں تو ایک منٹ نا لگاؤ تم اسے چھوڑنے میں یہ تو میں ہو جس نے آج تک سب کچھ آنکھوں دیکھتے اور کانوں سنتے اُف نہیں کہا کہ کہیں تمہار گھر خراب نا ہو جائے اور اب تو تمہاری ایک بیٹی بھی ہے اور تم اس بیوی کی خاطر اپنی ماں کو چھوڑ گئے ارے تمہاری بیٹی کو بھی اپنا جیسا بنادیگی وہ بیغیرت دور رکھو اپنی بیٹی کو اس بیغیرت سے بلکہ میں تو کہتی ہوں تم عفراء کو لیکر کاردار ولا آجاؤ اور چھوڑدو اسے اسکے باپ کے گھر خود دماغ ٹھکانے آجائی۔۔۔۔

حضیر نے انعم بیگم کو مسلسل مشی کے خلاف زہر اگلتا دیکھ کال کاٹ دی کیونکہ نا تو وہ ان سے بدتمیزی کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ ماں تھی اسکی اور نا ہی وہ اپنی بیوی کے بارے میں کوئی غلط بات سننا چاہتا تھا اس لئے اس نے کال ڈراپ کر کے ایک نظر مشی کو دیکھا جو نم اور شکوہ کرتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی حضیر نے اسکی آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھ نظریں چرالیں جس میں مشی اٹھ کر خاموشی سے کمرے نکل گئی ۔۔۔

اسلام علیکم اناب کیسی ہے ؟

مشی جو تھوڑی دیر بعد روم میں آئی تھی حضیر کا موبائل بجتا دیکھ موبائل سائلینٹ کرنے کی نیت سے آگے بڑھی لیکن اناب کا نمبر دیکھ کر جھٹ سے کال اٹھاکر سلام کرتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

وعلیکم سلام میں بلکل ٹھیک ۔۔۔ شکر ہے تجھ سے بات تو ہوئی تو بتا تو کیسی ہے اور عفراء کی طبیعت کیسی ہے ؟

اناب نے مشی کی بات کا جواب دیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

الحمدللّٰہ میں بھی ٹھیک ہوں اور عفراء بھی اور بتا پیپرز کب سے اسٹارٹ ہیں ۔۔۔ 

مشی نے اناب کو جواب دینے کے ساتھ پیپرز کا پوچھا ۔۔۔

ہاں مجھے یہ بتانا تھا کہ کل لاسٹ ڈیٹ ہے فیس جمع کروانے کی میں نے اور مصباح نے کروادی ہے تو بھی کروادے جلدی اور پیپیرز بھی نیکسٹ ویک سے اسٹارٹ ہیں ۔۔۔

ایک کام کر جو میری گولڈ کی چین تیرے پاس رکھی ہے اسے بیچ کر فیس جمع کروادے پتہ نہیں کل یونی آؤں یا نہیں لیکن تو یاد سے فیس جمع کروادینا ۔۔۔

تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے تو اپنی چین بیچ کر کیوں جمع کروارہی ہے حضیر بھائی کو بول وہ کروادینگے آخر شوہر ہے تیرے فرض ہے انکا تیرے اخراجات اٹھانا ۔۔۔

مشی کی بات سن کر اناب نے بھڑکتے ہوئے کہا ۔۔۔

اناب وہ ان دونوں کا معاملہ ہے تو انٹیرفئیر نہیں کر ۔۔۔

مشی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مصباح نے اناب کو گھورتے ہوئے کہا چونکہ وہ اسپیکر کھول کر بات کر رہی تھی اس لئے مصباح انکی گفتگو آسانی سے سن سکتی تھی ۔۔۔

اناب میرے پاس وہی چین ہے جو تیرے پاس ہے میرے اور مجھ سے پیسے مانگے نہیں جاتے میں نے کبھی بابا سے پیسے نہیں مانگے اس لئے مجھے عادت بھی نہیں ہے اس لئے میں جو تجھے کہہ رہی ہوں تو وہ کر اور خبردار جو تو نے اپنی زبان کسی کے سامنے کھولی ۔۔۔

مشی مجھے تیری بات سمجھ نہیں آتی پہلے تو چل حضیر بھائی نہیں تھے لیکن اب تو وہ آگئے ہیں تو تو کیوں ان پر اپنا حق نہیں جتاتی ان سے اپنا حق مانگا کر وہ شوہر ہے تیرے کوئی غیر نہیں جو تو ایسے کہہ رہی ہے تو انکو بتا فیس کا وہ خود جمع کروادینگے ۔۔۔

اناب چھوڑ ان باتوں کو میرے اور ان کے پیسے الگ تھوڑی ہیں ۔۔۔

اناب کے جذباتی ہونے پر مشی نے بات کو رفع دفع کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

مشی وہ پیسے الگ ہی ہیں کیونکہ اگر تجھے وہ پیسے حضیر بھائی نے دیے ہوتے تو مجھے کوئی مسلئہ نہیں تھا لیکن وہ پیسے تیرے ہیں جو تو نے اپنی گولڈ کی چین بیچ کر سیو کیے تھے ۔۔۔

خبردار اناب تو کسی سے ذکر نہیں کریگی کہ میں نے اپنی گولڈ کی چین بیچی تھی ۔۔۔

تجھے پتہ ہے جو کچھ بھی آج تک میں نے بیچا ہے اس چیز کے پیسے میں نے عفراء کے لئے استعمال کیے ہیں کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ جیسے میں تایا کے گھر پلی ہوں وہ بھی اپنے نانا کے گھر پلے اور ویسے بھی وہ گولڈ میری مما کا تھا جو بابا نے مجھے شادی پر دیا تھا اپنے سسرال کی چیز پر تو مجھے پہننے کا اختیار نہیں کجاکہ بیچنا اور مجھے یہ چیزیں اپنی عزتِ نفس سے زیادہ پیاری نہیں ہے ۔۔۔

مشی ان دو سالوں میں تو نے اپنا سارا گولڈ بیچ دیا ہے جو انکل نے تجھے دیا تھا اور اب یہ آخری چین بچی ہے تو یہ بھی بیچنا چاہتی ہے اگر حضیر بھائی کو پتہ لگ گیا تو وہ غصہ نہیں کرینگے ۔۔۔

وہ کیوں غصہ کرینگے شادی کے بعد سے لیکر آج تک ایک روپے کا واسطہ نہیں ہے میرا ان سے تو کس حق سے غصہ کرینگے خیر اگر کر بھی لیں تو میں خود دیکھ لونگی تو بس ابھی مصباح کے ساتھ جیولر کے پاس جاکر چین بیچ کر میری فیس جمع کروادینا ۔۔۔

ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی لیکن قسم سے مجھے دکھ ہوتا ہے تیرے لئے لیکن میں کچھ کر نہیں سکتی ۔۔۔ 

تو دکھ مت کر میری جان یہی زندگی ہے چل اب بعد میں بات ہوگی اللّٰہ حافظ ۔۔۔

مشی نے اناب کی بات کا جواب دیتے ہوئے الوداعی کلمات ادا کر کے فون بند  کر کے ایک تھکن بھری سانس خارج کر کے ایک نظر بیڈ پر سوئے حضیر اور عفراء پر ڈال کر باہر چلی گئی کیونکہ اب اسکا رخ کیچن کی طرف تھا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کل تمہاری فیس جمع کروانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں اور کیا ضرورت تھی کھانا بنانے کی میں باہر سے منگوالیتا ابھی تو تم پوری طریقے سے ٹھیک بھی نہیں ہوئی ۔۔۔

حضیر نے کھانا کھاتے ہوئے مشی سے پوچھا ۔۔۔

ہاں کل لاسٹ ڈیٹ ہے لیکن میں نے فیس جمع کروادی ہے اور میری طبیعت ٹھیک تھی اس لئے میں نے کھانا بنالیا ۔۔۔

مشی نے بریانی کا چمچ منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔

اچھا یہ بتاؤ ذرا کتنا گولڈ بیچ چکی ہو تم ابھی تک ؟

حضیر نے مشی سے نارمل انداز میں پوچھا جبکہ حضیر کے سوال پر مشی کا رنگ اڑا لیکن ایک منٹ سے پہلے ہی مشی نے خود کو کمپوز کرلیا ۔۔۔

سارا بیچ دیا لیکن بے فکر رہیں مما کی طرف کا تھا ۔۔۔

کیا آپ مجھے بتانا پسند کرینگی کہ میرے ماہانہ ایک لاکھ بھیجنے اور چاچو کے پیسے دینے کے بعد بھی ایسی کیا ضرورت پڑگئی تھی تمہیں کہ تمہیں اپنا گولڈ بیچنا پڑا ۔۔۔

حضیر نے چمچ پلیٹ میں پٹک کر غراتے ہوئے کہا ۔۔۔

ذرا بتانا پسند کرینگے آپ کہ کب آپ نے مجھے ایک لاکھ ماہانہ بھیجے شادی کے بعد سے لیکر آج تک ایک روپیہ بھی آپ نے مجھے نہیں دی سوائے ان چند ہزار کے جو میرے پاس ابھی بھی رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔

اور رہی بات کہ کیا ضرورت پڑگئی تو ہاں تھی مجھے ضرورت کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری طرح میری بیٹی کو بھی طعنے ملے کہ باپ کے ہوتے ہوئے وہ نانا کے گھر پلی ۔۔۔ 

میں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ کہیں کہ حضیر دا بزنس ٹائیکون کی بیٹی نانا کے پیسوں پر پل رہی ہے جیسے اسکے بیوی اپنے تایا کے پیسو پر پلی ۔۔۔

میں نہیں چاہتی کہ لوگ کل کو میری بیٹی کو طعنہ دے کہ یہ دیکھو یہ ہے حضیر دا بزنس ٹائیکون کی بیٹی جو اپنے نانا کے پیسوں پر پل کر جوان ہوئی ہے ۔۔۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ کہیں کہ وہ حضیر جو لوگوں کی مدد کرتا ہے اسکی خود کی اولاد نانا کے خرچے پر پل رہی ہے کیونکہ شاید اسے اپنی بیٹی پسند نہیں تھی ۔۔۔

اس لئے بیچا میں نے اپنا گولڈ کیونکہ باپ کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اسکی کوئی اولاد بھی ہے وہ تو اپنے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے میں مگن تھا لیکن میں نے اپنی بیٹی کو اپنے خرچے پر پالا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ جیسے میں دوسروں پر بوجھ بنی بلکہ اسی طرح کوئی اور دوسرے لوگ بھی میری بیٹی کو اسکے نانا پر بوجھ بنادیں یہ تھی میری ضرورت جس کے لئے میں نے اپنی ماں کا دیا ہوا گولڈ بیچ دیا اور بے فکر رہیں آپکی دی ہوئی ہر چیز آپکے گھر موجود ہے ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے بھی غصے سے جواب دیا جبکہ حضیر تو اسکی باتیں سن کی خاموش ہوگیا تھا اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے ۔۔۔

عائش میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے ہر ماہ ایک لاکھ بھجوائے ہیں صرف تمہارے خرچے کے لئے ۔۔۔

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد حضیر نے مشی کو یقین دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں نے کب کہا آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ نے بھجوائے ہونگے لیکن مجھے ایک روپیہ بھی نہیں ملا آپ نے جس کے اکاؤنٹ میں بھجوائے تھے ان سے پوچھیں کہ وہ چوبیس لاکھ کہاں گئے جو میرے نام پر آپ سے لیے گئے ہیں ۔۔۔

حضیر میں نے محل میں رہ کر غریبوں جیسی زندگی گزاری ہے مجھے عید پر نیا سوٹ نصیب نہیں ہوا میں نے پیوند لگے سوٹ پہنے ہیں میری پاس دو چادریں نہیں تھی پہننے کے لئے کہ میں ایک دھوکر ایک پہن لو دسمبر کی سردیوں میں میں نے اس گیلی چادر سے خود کو چھپایا ہے میرے پاس پہننے کے لئے ایک سوائیٹر نہیں تھا میرے ماضی سے آپ انجان ہیں اور انجان ہی رہیں تو بہتر ہے کیونکہ اگر آپ نے میرا ماضی جاننے کی کوشش کی تو آپ مجھ سے نظریں چراتے پھرینگے ۔۔۔

مشی نے حضیر کو اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے کہا اور برتن اٹھاکر کیچن میں چلی گئی جبکہ حضیر سے مشی کی بات سن کر کھانا کھانا دوبھر ہوگیا جس پر وہ کھانا وہی چھوڑتا گاڑی کی چابی لیتا گھر سے نکل گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیسے آنے دے دیا تمہیں تمہاری بیوی نے ۔۔۔

حضیر کو گھر میں انٹر ہوتا دیکھ اذان صاحب نے طنزیہ کہا ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے ڈیڈ آپ کیسی ٹپیکل باتیں کر رہے ہیں وہ کیوں منع کریگی مجھے یہاں آنے سے ۔۔۔

اذان صاحب کی بات پر حضیر نے بمشکل خود کو کچھ غلط کہنے سے روکتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔

جیسے تم اپنی بیوی کے فرمانبردار بنے پھر رہے ہو مجھے تو یہی لگتا تھا کہ وہ تمہیں دوبارہ یہاں آنے بھی نہیں دیگی ۔۔۔

بابا آج تک میں نے عائش کی ایک بات بھی نہیں مانی اور اب بھی میں اپنی مرضی سے عائش کو یہاں سے لیکر گیا ہوں اس لئے آپ لوگ یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ میں نے یہ سب مشی کے کہنے پر کیا ہے ۔۔۔

بس بس جانتے ہیں ہم تم کس کی زبان بول رہے ہو زیادہ صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ 

حضیر نے بات پر فریدہ بیگم نے نخوت سے کہا ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے بھائی ابھی آئے ہیں انہیں سکون سے بیٹھنے تو دیں ۔۔۔

سب کو بولتا دیکھ انعمتہ نے بلند آواز میں کہا ۔۔۔

نہیں بچے بس جارہا ہوں شاید میں نے یہاں آکر غلطی کردی ۔۔۔

انعمتہ کی بات پر حضیر نے کہا اور وہاں سے چلاگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیسا ہوا پیپیر عائش ؟

حضیر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے مشی سے پوچھا ۔۔۔ آج مشی کا آخری پیپر تھا اور دونوں یونی سے وآپس گھر جارہے تھے ۔۔۔

اچھا ہوا اور شکر ہے پیپر ختم ہوگئے ٹینشن ختم ہوگئی ۔۔۔

تم تو پیپیرز کی ٹینشن میں کھانا پینا اور سونا سب بھول گئی تھی اب سکون سے سونا گھر جاکر ۔۔۔

گھر جاکر کھانا بنانا ہے مجھے پھر نماز پڑھ کر سوئونگی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے یاد دیھانی کرواتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہم ریسٹورنٹ جارہے ہیں لنچ کرنے تم گھر جاکر آرام کرنا بس ۔۔۔

مشی کی بات پر حضیر نے کہا اور گاڑی ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں پارک کی ۔۔۔

کیا کھاؤگی ؟

حضیر نے مشی کی طرف مینیو کارڈ بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

کچھ بھی منگوالیں میں کھالونگی ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی نے کہا جس پر حضیر نے ویٹر کو آڈر لکھوایا تو وہ وہاں سے چلا گیا ۔۔۔

ینگ جنریشن ملنا چاہ رہی تھی تم سے ۔۔۔

ویٹر کے جانے کے بعد حضیر نے مشی سے کہا ۔۔۔

ان کے بھائی کا گھر ہے جب چاہے آسکتے ہیں میں نے کسی کو منع تو نہیں کیا ۔۔۔

مشی نے حضیر کی بات پر سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

لیکن وہ سب چاہتے ہیں میں تمہیں وہاں لیکر جاؤ ۔۔۔

اس بات کا فیصلہ تو آپ کرینگے اس لئے مجھے بتانے کا مطلب ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے آئیبرو اچکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میں جاننا چاہ رہا تھا کہ تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میرے چاہنے یا نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے ہوگا تو وہی جو آپ چاہینگے تو میرا فیصلہ جاننا ضروری نہیں اور میں نا ہی اپنے الفاظ ضائع کرنا پسند کرونگی ۔۔۔

مشی نے اسپاٹ لہجے میں جواب دیا کیونکہ جب بھی کاردار ولا کی بات ہوتی تھی دونوں کے درمیان تلخ کلامی ضرور ہوتی تھی ۔۔۔

پھر ایسا کرتے ہیں کل ویکینڈ ہے تو شام کو سب کو ڈنر پر انوائیٹ کرلیتے ہیں ۔۔۔ حضیر نے بیچ ک راستہ نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے میں ڈنر ریڈی کرلونگی ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے اپنی رضامندی ظاہر کی ۔۔۔

اچھا چھوڑو ان باتوں کو لنچ کرو ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔

حضیر نے مشی کا دیھان کھانے کی طرف کروایا تو چپ چاپ دونوں لنچ کرنے لگے ۔۔۔

یار کیا ہوگیا ہے اتنی دیر لگادی تم لڑکیوں نے ہم کسی کی بارات لیکر نہیں جارہے جو تم لوگوں کا سنورنا ہی ختم نہیں ہورہا ۔۔۔

مبشر نے ان تینوں کو کمرے سے نا نکلتا دیکھ جھنجھلاتے ہوئے کہا جبکہ مبراء اور ردابہ تیار ہوکر لاؤنچ میں بیٹھی تھی آج وہ لوگ حضیر کے گھر ڈنر پر جارہے تھے ۔۔۔

جتنا بھی تھوپ لو رہنا پھر بھی تم تینوں نے چڑیل ہی ہے ۔۔۔

برداء نے ان تینوں کو ساتھ نکلتا دیکھ دانت دیکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہم جیسی حسین چڑیلیں چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیگی ۔۔۔

برداء کے کہنے پر حیان نے اتراتے ہوئے کہا ۔۔۔

مس خوش فہمی ہمیں تم جیسی چڑیلیں چاہئے بھی نہیں بس تم تینوں پتہ نہیں کہاں سے گلے پڑ گئیں ۔۔۔

بھائیییی۔۔۔۔ برداء کے دوبارہ سے کہنے پر تینوں ایک ساتھ چیخی ۔۔۔

یار خدا کو مانو لڑکیوں ہمارے کانوں کے پردے پھاڑنے ہیں کیا ابھی تو ہماری شادی بھی نہیں ہوئی ۔۔۔

ان تینوں کے ایک ساتھ چیخنے پر مبشر نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔

تم دونوں کو لڑکی دینی بھی کس نے ہے نکمو ۔۔۔ اور اب چلو سب ۔۔۔ بھائی انتظار کر رہے ہیں فون آیا ہے انکا ۔۔۔

اچھا چلو وہاں پر پھر سے کنٹینیو کرینگے ۔۔۔

مسیب کی بات پر برداء نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے بھاگ گیا اور مسیب جس نے برداء کو مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تھا نفی میں سر ہلاتے باہر گاڑی کی طرف چل دیا اور پھر سب حضیر کے گھر کی طرف چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

عائش بس بہت ہوگیا کب سے کچن میں گھسی ہوئی ہو جتنا کھانا بن گیا بہت ہے باقی میں باہر سے لے آؤنگا اس لئے ایک منٹ سے پہلے باہر نکلو ۔۔۔

حضیر نے کیچن میں آکر مشی سے کہا جو عصر کے بعد سے ڈنر بنانے میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔

خزیمہ بس ہوگیا بریانی دم پر رکھ دی ہے بس یہ سالن بھون رہی ہوں لاسٹ ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے سالن بھونتے ہوئے کہا ۔۔۔

عائش یہ لاسٹ ہے اسکے بعد جاکر فریش ہو حالت دیکھو اپنی پوری پسینے میں ہورہی ہو اور ابھی پوری سی ٹھیک بھی نہیں ہوئی ہو پھر سے بیمار پڑجاؤگی ۔۔۔ کہا بھی تھا میں نے کہ باہر سے لے آتا ہوں لیکن تم نے تو جیسے نا ماننے کی قسم کھا رکھی ہے ۔۔۔

سسی۔۔۔ دیکھیں آپ کے ڈانٹنے پر میرا ہاتھ جل گیا ۔۔۔

مشی نے اپنا ہاتھ حضیر کو دیکھاتے ہوئے کہا جو کہ لال ہورہا تھا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ ابھی حضیر کچھ کہتا کہ اناب اور مصباح سلام کرتی کچن کی طرف آئیں ۔۔۔

وعلیکم سلام آپ دونوں آگئی اب سمجھائیں اپنی دوست کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ کچن کی جان چھوڑ دے لیکن یہ کسی کی سنتی نہیں ہیں میں نے اتنا کہا کہ باہر سے کھانا آجائیگا لیکن یہ مانی نہیں میں تو پچھتا رہا ہوں یہ ڈنر ارینج کر کے اب بھی ہاتھ جل گیا ہے میڈم کا لیکن انکے کام ہی ختم نہیں ہورہے ۔۔۔

اناب اور مصباح کو دیکھ کر حضیر نے غصے سے کہا اور روم میں چلاگیا ۔۔۔ 

جب بھائی کہہ رہے تھے کہ باہر سے کھانا آجائیگا تو کس خوشی میں تو کیچن میں گھسی ۔۔۔

حضیر کے جانے کے بعد اناب نے مشی کو تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

یار پتہ نہیں باہر کا کھانا کیسا آتا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے سسرالیوں کو کوئی بات بنانے کا موقعہ ملے اور ویسے بھی مجھے عادت ہے یہ سب کام کرنے کی تو پریشان نہیں ہو میں ٹھیک ہوں ۔۔۔

یار مشی پہلے کی بات کچھ اور تھی ابھی تیری طبیعت بھی ٹھیک نہیں اوپر سے ایک بچی کا ساتھ ہے تیرا عفراء بھی بیمار ہے اگر تو ان سب جھمیلوں میں رہی تو خود اور بھی بیمار ہو جائیگی پھر عفراء کو کون سنبھالیگا خیر اب جا کمرے میں بھائی ناراض ہوگئے ہیں تجھ سے جاکر انکا موڈ ٹھیک کر میں اور اناب باقی کام دیکھ لینگے ۔۔۔

نہیں بس سارا کام ہوگیا بس کیچن صاف کرنا رہے وہ ابھی ملازمہ آئیگی تو وہ کردیگی تم لوگ بیٹھو میں تیار ہوکر آتی ہوں ۔۔۔

ملازمہ پتہ نہیں کب آئیگی تو جا جاکر اپنے سرتاج کو منا ہم کرلینگے ۔۔۔

نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کسی کام کو ہاتھ لگانے کی تم مہمان ہو میری میں خود کرلونگی اگر ملازمہ نہیں آئی تو خبردار جو تم دونوں کسی چیز کو ہاتھ لگایا ۔۔۔

اچھا نہیں کر رہے تو جا اس سے پہلے کے حضیر بھائی کی آواز آئے ۔۔۔

مشی کی بات سن کر دونوں نے اسے کچن سے باہر دھکیلتے ہوئے کہا تو وہ ان دونوں کو گھورتی اپنے روم میں چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیا ہوا ہے کیوں موڈ خراب ہے آپکا ۔۔۔

مشی نے روم میں آکر انجان بنتے ہوئے حضیر سے پوچھا جو کہ منہ پھلائے بیڈ پر بیٹھ کر نیوز سن رہا جبکہ اس نے بھی ابھی تک چینج نہیں کیا تھا ۔۔۔

تم سے مطلب تمہیں تمہارا کچن بلارہا ہے جاؤ شوہر کی تو ویسے بھی آپکو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

مشی کے پوچھنے پر حضیر نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا ۔۔۔

یار کیا ہوگیا ہے بس میں نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو کوئی بات کرنے کا موقعہ ملے اس لئے سارا کھانا میں نے خود بنایا ہے ۔۔۔

اور اگر آئیندہ آپ نے کہا ناں کہ مجھے ضرورت نہیں ہے آپکی تو لڑائی ہوجائیگی وہ بھی بہت بری والی ۔۔۔

یار کیا ہوگیا ہے اب کیوں منہ سجھایا ہوا ہے بھئی مجھے منانا نہیں آتا اور نا ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے ۔۔۔

حضیر کو کچھ نا بولتا دیکھ مشی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

مجھے پتہ ہے میرے ناراض ہونے سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

یار اب آپ لڑکیوں کی طرح میری باتیں پکڑینگے ۔۔۔

حضیر کی بات سن کر جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا بس سوری آئیندہ آپکی ہر بات مانوگی بس اب تو موڈ ٹھیک کرلیں ۔۔۔

حضیر کو نا مانتا دیکھ مشی نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اگر آئندہ تم نے مجھے کسی بھی کام کے بدلے اگنور کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ابھی صرف ناراض ہوا ہوں اگلہ دفعہ سزا دونگا ۔۔۔

مشی کے منانے پر حضیر نے مانتے ہوئے دھمکی دی ۔۔۔

خیر وقت بتائیگا ابھی جاکر ریڈی ہوجائیں سب آنے والے ہونگے میں بھی عفراء کو تیار کر کے خود بھی فریش ہونگی ۔۔۔

جارہا ہوں لیکن میری بات کو ہلکے میں مت لینا ورنہ پچھتاؤ گی ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر اسے وارن کرتے ہوئے کہا اور باتھروم چلاگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

یار اناب یہ کچرا باہر والے ڈسٹ بن میں پھینک دے میں بس کیچن کا پوچا لگا لوں ۔۔۔

مصباح نے کچرے کا شاپر اناب کو دیتے ہوئے کہا جس میں ریپیرز تھے اور خود پوجا لگانے لگی جبکہ اناب نے کچرے کا شاپر اندازے سے باہر ڈسٹ بن میں پھینک دیا جو کہ گھر میں انٹر ہوتے برداء کے منہ کو سلامی دے گیا  ۔۔۔

ٹھاہہہہ ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔

ابے یہ جناتوں کیطرح کون ہنس رہا ہے آجا دیکھتے ہیں ۔۔۔

اناب نے مصباح سے کہا اور وہ دونوں باہر لاؤنچ میں آئیں جہاں وہ سب ینگ جنریشن ہنس ہنس کر دوھرے ہورہے تھے جبکہ کچرے کا شاپر برداء کے پیروں میں تھا جو کہ اپنے اتنے وارم ویلکم پر صدمے میں تھا جسے دیکھ کر دونوں کو ساری بات سمجھ میں آگئی جبکہ اناب کی حرکت پر مصباح نے اسے گھورا ۔۔۔

اناب میں نے ڈسٹ بن میں ڈالنے کا کہا تھا کسی پر پھینکنے کا نہیں ۔۔۔

مصباح نے اناب کے کان میں سرگوشی کی جس نے مسکین سی شکل بناکر مصباح کو دیکھا ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے یہ جناتوں کی طرح کیوں ہنس رہے ہو تم لوگ ۔۔۔

حضیر جو کہ ان سب کے ہنسنے کی آواز سن کر عفراء کو لیکر باہر آیا تھا ناسمجھی سے ان کو دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔

وہ بھائی کسی نے کچرے کا شاپر باہر ڈسٹ بن میں پھینکا لیکن بیچ میں برداء بھائی آگئے تو اس شاپر نے برداء بھائی کو سلامی پیش کردی ۔۔۔

چلو کوئی نہیں برداء پاکستان میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔

حضیر نے برداء کو پچکارتے ہوئے کہا جس پر سب ہنستے ہنستے لاؤنچ میں لگے صوفوں پر بیٹھ گئے تو برداء بھی اناب کو گھورتا منہ بسورتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ برداء کو خود کو گھورتا دیکھ اناب نے آنکھیں گھمائیں ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ مشی نے لاؤنچ میں آکر سب کو سلام کیا ۔۔۔

وعلیکم سلام بھابھی ماشاءاللّٰہ آپ تو بہت پیاری لگ رہی ہیں بلکہ آپ تینوں بہت پیارے لگ رہے ہیں میچنگ میں اللّٰہ نظرِ بد سے بچائے ۔۔۔

انعمتہ نے مشی کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ خوشی سے کہا ۔۔۔

جزاک اللّہ ۔۔۔ مشی نے انعمتہ کی بات کا مختصر جواب دیا ۔۔۔

بھابھی آپ نے اپنا اور عفراء کا ڈریس کہاں سے لیا بہت پیارا لگ رہا ہے ۔۔۔

حیان نے بات کو بڑھانے کے لئے مشی کے ڈریس کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا جو کہ وائٹ فراک تھی جسکے باڈر گلے آئستین اور پاجامے پر بلوچی سپمل بیل کے ساتھ شیشوں کی کڑائی کی گئی تھی اور عفراء کا بھی بلکل سیم سوٹ تھا جبکہ حضیر وائٹ کرتے پاجامے میں بہت وجہہ لگ رہا تھا ۔۔۔

یہ سوٹ میں نے خود ڈزائن کیا ہے کرائی بھی میں نے خود کی ہے اور سلائی بھی ۔۔۔ ارے واہ بھابھی بہت پیارا بنایا ہے آپ نے اور کیا کیا آتا ہے آپ کو ۔۔۔

ابکی بار حورعین نے اشتیاق سے پوچھا ۔۔۔ مجھے الحمدللّٰہ ہر کام آتا ہے سلائی کڑائی پارلر کا کام مہندی سب آتا ہے ۔۔۔ حورعین کے پوچھنے پر مشی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ 

واہ بھئی بھابھی پھر تو ڈن ہوگیا آج کل میں ہی رمضان کا چاند نظر آنے والا ہے عید پر ہم سب آپ سے ہی مہندی لگوائینگے ۔۔۔

ہاں بس جہاں فری میں کام ہو سب سے پہلے بھابھی آپ ان تینوں کو ہی پائینگی ۔۔۔ انعمتہ کے کہنے پر برداء نے اپنا بولنا فرض سمجھا ۔۔۔

برداء بہت پٹوگے اگر میری بہنوں کے بارے میں کچھ کہا تو ۔۔۔

برداء کے کہنے پر حضیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

بھائی آپ صحیح کہہ رہے ہیں یہ گھر پر بھی بہت تنگ کرتا ہے تینوں کو ۔۔۔

مبشر بھائی آپ بھی کوئی پارسا نہیں ہیں برداء بھائی کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں ہم تینوں کو تنگ کرنے میں ۔۔۔

مبشر کے کہنے پر حیان نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

اب آپ تینوں کو یہ گدھے اگر تنگ کریں تو مجھے بتانا میں پھر میں انکو اچھے سے بتاؤنگا میں گھر سے الگ ہوا ہوں تم لوگوں سے نہیں ۔۔۔

بھائی آپ ان دونوں کی کلاس لیں ہم بھابھی کے ساتھ ڈنر لگواتے ہیں ۔۔۔

انعمتہ نے مشی کو ڈنر لگاتے دیکھ حضیر سے کہا اور مشی کے ساتھ ڈنر لگوانے لگیں ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

عائش میں چاہتا ہوں تم سب سے گھل مل کر رہو لیکن تم آج بھی خاموش خاموش ہی تھی اگر کوئی بات ہے تو مجھ سے شئیر کرو ۔۔۔

حضیر نے عفراء کو سلاتی مشی سے کہا ۔۔۔

خزیمہ میں چاہ کر بھی ان سے گھل مل نہیں پاتی میں جانتی ہوں میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ان میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ مسیب بھائی نے تو میری مدد بھی کی ہے لیکن ہوسکتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے اس لئے پلیز مجھے تھوڑا وقت دے میں آپ کے تمام کہے الفاظ اور خواہشوں پر پورا اترنے کی کوشش کرونگی ۔۔۔

یار عائش میرا وہ مطلب نہیں تھا خیر جب سے میں آیا ہوں میں نے نوٹ کیا ہے تم کوئی بھی جیولری نہیں پہنتی پہنا کرو تاکہ شادی شدہ لگو ایک تو تمہاری ایج سے کوئی یقین نہیں کرتا اوپر سے تم کنواری بن کر گھومتی ہو ۔۔۔

حضیر نے صفائی دینے کے ساتھ مشی کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ آپ جیلس ہورہے ہیں ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔

زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو ۔۔۔

حضیر نے مشی کو ہنستا دیکھ تپتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا نہیں  ہنس رہی دراصل میں نے مما کیطرف کا سارا گولڈ بیچ دیا اور آپکی طرف سے جو ملا تھا وہ آپکی مما نے آپ کے جاتے ہی مجھ سے لے لیا بلکہ جو میں نے پہنا ہوا تھا وہ بھی اترواکر خود کے پاس رکھ لیا تھا اور آرٹیفیشل مجھے سوٹ نہیں کرتا اس لئے نہیں پہنتی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے تفصیل سے بتایا ۔۔۔

مجھے یہاں آئے اتنے دن ہوگئے تم مجھے بتا نہیں سکتی تھی ۔۔۔

میں خود کیوں بتاتی اور اگر بتا بھی دیتی تو آپ کو میری بات پر یقین نہیں آتا اور آپ سمجھتے میں آپ کو آپکی ماں کے خلاف کر رہی ہوں اس لئے میں نے آپ کو آج تک کچھ بھی نہیں بتایا اور جو آپ نے خود پوچھا اس بات پر میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

خیر چھوڑو ان باتوں کو میں نے ایک سیٹ بننے کے لئے دیا ہوا تھا کل تک آجائیگا تم وہ سیٹ پہن کر رکھنا باقی کی جیولری بھی میں تمہیں مما سے لادونگا ۔۔۔

نہیں آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ان سے کچھ بھی لانے کی وہ پہلے ہی مجھ سے نفرت کرتی ہیں اور اب اگر آپ جاکر ان سے میری جیولری مانگے گے تو انکو لگے گا میں نے آپ کو سیکھا کر بھیجا ہے اور جو کل سیٹ آئیگا میں وہ پہن لونگی باقی جب ضرورت پڑی تب دیکھی جائیگی ۔۔۔

عائش تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے وہ ساری جیولری تمہاری ہے اور میں نے وہ اپنے پیسوں سے تمہارے لئے بنوائی تھی وہ کوئی خاندانی جیولری نہیں تھی جو مما لے لینگی تو کوئی بات نہیں میں مما کو اور لادونگا لیکن مجھے نہیں پسند کوئی تمہاری چیزوں پر قبضہ کرے ۔۔۔

حضیر آپکے پیسوں پر آپکی ماں کا سب سے پہلا حق ہے اور جیولری میں نے پہنی یا انہوں نے ایک ہی بات ہے آپ اتنا نہیں بڑھائیں بات کو مجھے بس گھر میں سکون چاہئے اور کچھ بھی نہیں اگر آپ کو اتنی ہی پسند ہے جیولری تو مجھے اور بنوادیجئیگا میں پہن لونگی اللّٰہ کا شکر ہے پیسوں کی تو کمی نہیں ہے اس لئے اتنی اتنی سی باتوں کو اگنور کرنا سیکھیں ورنہ آپکا سکون برباد ہو جائیگا ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا اور اپنی طرف کا لیمپ آف کرتی سونے کے لئے لیٹ گئی جبکہ حضیر کتنی ہی دیر اسکی پشت کو دیکھ کر سوچتا رہا کہ کیا تھی وہ لڑکی کہ اتنا سب کچھ سہنے کے بعد بھی وہ اسے اسکی ماں کا حق یاد دلارہی تھی ۔۔۔

حضیر بیٹا کل ہوسکتا ہے پہلا روزہ ہوجائے تو آج میں مشی کو اپنے ساتھ لے جاؤ اب تو جب سے تم لیکر آئے ہو مشی نے ہمیں انی شکل بھی نہیں دیکھائی اب بھی ہم ہی ملنے آگئے اس لئے اب میں مشی کو کچھ دن کے لئے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں ۔۔۔

فریدہ بیگم ہماس شاہ شماس شاہ اور انیب آج مشی سے ملنے آئے تھے جبکہ سعد شماس شاہ کے کہنے پر سحر کو لینے خان ولا گیا تھا جو کہ اس سے معافی مانگ چکی تھی جس پر شماس شاہ نے سعد کو سحر کو لینے بھیجا تھا اور سب مشی سے ملنے آئے تھے اور اب فریدہ بیگم مشی کو اپنے ساتھ شاہ حویلی لے جانا چاہتی تھی ۔۔۔

جبکہ فریدہ کی بات پر مشی نے اپنی مسکراہٹ روکی تھی جب کے حضیر کے منہ پر بارہ بج گئے تھے ۔۔۔

نانو میں ملوانے لے آؤنگا عائش اور عفراء کو ۔۔۔

فریدہ بیگم کی بات پر حضیر نے منمناتے ہوئے کہا ۔۔۔

بیٹا کافی دن ہوگئے مشی کو شاہ حویلی آئے ہوئے کچھ دن کے لئے بھیج دو مشی کو بے فکر رہو تمہاری بیوی اور بیٹی کا جان سے بڑھ کر خیال رکھینگے ۔۔۔

حضیر کو منمناتا دیکھ ہماس شاہ نے اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا جبکہ انکی بات پر حضیر پہلو بدل کر رہ گیا ۔۔۔

نانو میں پھر کبھی آؤنگی ابھی مجھے کچھ کام ہے میں انشاءاللّٰہ عید کے بعد آؤنگی دس پندرہ دن کے لئے ۔۔۔

مشی نے حضیر کا اشارہ سمجھ کر فریدہ بیگم سے کہا اور آخر میں حضیر کو ہارٹ اٹیک دے گئی جس پر حضیر نے اسے غصے سے گھورا ۔۔۔

چلو ٹھیک پھر بس ہم نکلتے ہیں اگر چل لیتی تو اچھا ہوجاتا کافی دن سے آئی نہیں لیکن میاں کے آتے ہی تم بھی اپنی بوڑھے نانا اور بوڑھی نانی کو بھول گئی خیر اگر کل روزہ ہوگیا تو پہلی افطاری شاہ حویلی کرنا اور اگر پرسو ہوا تب بھی پہلی افطاری شاہ حویلی میں ہی ہوگی دونوں کی ۔۔۔

مشی کی بات فریدہ بیگم کو کچھ خاص پسند نہیں آئی جس پر وہ شکوہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکم بھی دے گئیں ۔۔۔

ارے میری پیاری نانو ناراض تو نا ہوں میں ملنے آؤنگی ناں اور میں آپ دونوں کو بھول سکتی ہوں یہ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا ۔۔۔

فریدہ بیگم کے ناراض ہونے پر مشی نے انہیں اپنے حصار میں لیتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔۔

اچھا اچھا بس اب زیادہ مسکے نا لگا نہیں ہوں میں ناراض جیسے تجھے سہولت لگے آجانا جانتی ہوں تو اپنے میاں کی بولی بول رہی ہے لیکن کوئی بات نہیں شادی کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے چل اب ہم چلتے ہیں ۔۔۔

مشی کے لاڈ سے کہنے پر فریدہ بیگم نے مشی کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا جس پر وہ اور حضیر دونوں خجل سے ہوگئے ۔۔۔

اچھا چلیں اللّٰہ حافظ اپنا اور نانا جان کا خیال رکھئیگا اور ہمارے لئے ڈھیر ساری دعائیں کرئیگا ۔۔۔ میری ساری دعائیں تو میری جان کے لئے ہیں اپنا اور عفراء کا بھی خیال رکھنا ۔۔۔

مشی کے کہنے پر فریدہ بیگم ایک بار پھر اسکے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا اور پھر باقی سب بھی مشی اور حضیر سے مل کر شاہ حویلی روانہ ہوگئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

بیگم ذرا بتانا پسند کرینگی کہ یہ دس پندرہ دن شاہ حویلی رہنے کی کس نے اجازت دی آپکو ۔۔۔ 

حضیر نے مشی کو تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

کیا مطلب اتنے دنوں بعد جاؤنگی تو کیا دس پندرہ دن بھی نہیں رکونگی یہ تو نا انصافی ہے ۔۔۔

بیگم میں آپکو ایک رات نا رکنے دوں آپ دس پندرہ دن کی بات کر رہی ہو اگر یہ نا انصافی ہے تو ایسے ہی سہی لیکن اب اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ میں آپ کو کہیں رکنے دونگا جہاں جاؤگی میرے ساتھ جاوگی اور وآپس بھی میرے ہی ساتھ آؤگی ۔۔۔

خزیمہ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی میں تو رکونگی شاہ حویلی عید پر سب ہونگے تبھی تو میں نے ابھی جانے سے انکار کردیا اور اب آپ عید پر جانے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔۔۔

عائش میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا میں تمہیں کہیں بھی رکنے نہیں دونگا دو سال رہی ہو نا اپنے میکے آپ بھول جاؤ کہ کبھی ایک رات میں تمہیں میکے رہنے دونگا اور اب اس بات پر مزید بحث نہیں ہوگی اگر تم آج خود بھی انکار نہیں کرتی تو میں خود کردیتا خیر یہ بتاؤ تم نے افطاری کے لئے ہاں کیوں نہیں کی نانو کو ۔۔۔

مشی کے روہانسی ہونے پر حضیر نے دو ٹوک کہہ کر بات بدلتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

آپ سے پوچھے بغیر کیسے ہاں کردیتی بعد میں آپ منع کردیتے تو کتنی انسلٹ ہوتی میری اس لئے میں ایسا کوئی کام ہی نہیں کرتی جس سے بے عزتی ہونے کا خطرہ ہو ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مشی نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔

اچھی بات ہے لیکن اب نانو کو انفارم کردینا پہلی افطاری ہم وہیں کرینگے اب خوش ہوجاؤ ۔۔۔ حضیر نے مشی کے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے حکم تو آپ کا ہی چلنا ہے میری بات کی کونسا پہلے کوئی اہمیت تھی جو اب ہوگی ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی اسے جواب دیکر بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں چلی گئی جبکہ پیچھے حضیر سر نفی میں ہلاتا صوفے کی پشت سے ٹیک لگا گیا کیونکہ وہ مشی کی یہ بات ماننے کا بلکل بھی ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مسیب میں آجاؤ بیٹا ۔۔۔

انعم بیگم نے مسیب کے کمرے کے دروازے پر نوک کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

آجائیں مما آپ کو میرے روم میں آنے کے لئے نوک کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

مسیب جو کہ کسی پیشنٹ کی فائل ریڈ کر رہا تھا انعم بیگم کی آواز سن کر فائل بند کر کے سائیڈ پر رکھتے ہوئے پیار سے کہنے لگا ۔۔۔

اب تو سارا دن ہسپتال میں مصروف رہتے ہو رات میں بھی دیر سے آتے ہو ایک گھر میں رہ کر بھی تم سے ملاقات مشکل ہوگئی ہے ۔۔۔

بس مما آج کل کچھ زیادہ مصروفیات ہوگئی ہیں انشاءاللّٰہ کوشش کرونگا آپ کے لئے وقت نکالنے کی ۔۔۔

انعم بیگم کے شکوہ کرنے پر مسیب نے عاجزی سے کہا ۔۔۔

ہاں میں اور تمہارے بابا بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ تمہارا اور برداء کا مکمل انتظام کردیں تاکہ تمہاری شکلیں تو گھر میں نظر آئیں ۔۔۔

مسیب کی بات پر انعم بیگم نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنا مقصد بیان کیا ۔۔۔

مما میں آپکی بات سمجھا نہیں آپ جو کہنا چاہ رہی ہیں کھل کر کہیں ۔۔۔

انعم بیگم کی بات مسیب کے سر پر سے گزر گئی تھی تبھی وہ ناسمجھی سے پوچھنے لگا ۔۔۔

میں اور تمہارے بابا چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی کردیں ایک بیٹے کی شادی کی تو بہو بیگم میرا بیٹا لے اڑی لیکن اب ہم تمہاری اور برداء کی شادی کرنا چاہتے ہیں تاکہ گھر میں ہلہ گلہ ہو کافی وقت سے کوئی سیلیبریشن نہیں ہوئی اس لئے اور اگر کسی کو پسند کرتے ہو تو بتادو ورنہ میرے پاس دو آپشن ہیں تمہارے لئے ۔۔۔

مسیب کے ناسمجھی سے پوچھنے پر انعم بیگم نے کھل کر اپنے مطلب کی بات کی ۔۔۔

مما جیسے آپکی اور بابا کی مرضی مجھے تو کوئی پسند نہیں لیکن آپ ذرا اپنے آپشنز پر روشنی ڈالیں ۔۔۔

انعم بیگم کی بات پر مسیب نے اپنی رضامندی دیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میں چاہتی ہوں مبراء یا مصباح ان دنوں میں سے کوئی ایک میری بہو بنے اب تم بتاؤ کس کو اپنے نکاح میں لینا پسند کروگے ۔۔۔

مسیب کے پوچھنے پر انعم بیگم نے پوچھا ۔۔۔

مبراء تو میرے لئے بہنوں جیسی ہے امی آپ دوسرے آپشن کی بارے میں سوچ سکتی ہیں ۔۔۔ مسیب نے انعم بیگم کی بات کا گول مول جواب دیا ۔۔۔

میں سمجھ گئی میرے شہزادے ہم کل ہی رشتہ لیکر جائینگے انشاءاللّٰہ اب تم آرام کرو تھکے ہوئے ہونگے ۔۔۔

مسیب کے جواب پر انعم بیگم نے ہنستے ہوئے کہا اور اسکے ماتھے پیار کر کے اسے آرام کرنے کی ہدایت دیتی وہاں سے چلی گئی جبکہ مسیب بھی لائیٹ آف کرتا سونے کے لئے لیٹ گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

یار مما آج اتنی خاموش خاموش کیوں ہیں اگر کوئی بات ہے تو اپنے بیٹے سے شئیر کریں میں چٹکیوں میں آپکی پریشانی دور کردونگا ۔۔۔

برداء جو کہ مدیحہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا انکو گم صُم دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔

پریشان تو میں واقع بہت ہوں ردابہ کی وجہ سے مجھے سمجھ نہیں آرہا وہ کیوں سیراب کے پیچھے اپنی زندگی برباد کرنا چاہ رہی ہے ابھی وہ ماضی سے واقف نہیں ہے اسے صرف مفاد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور وہ بیوقوف خود دوسرے کے ہاتھ کا کھلونا بن رہی ہے بن باپ کی اولاد ہے ذرا سی اونچ نیچ سے اسکی زندگی برباد ہو جائیگی لیکن وہ سمجھتی نہیں ہے میں سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں لیکن اسکی آنکھوں پر لوگوں جھوٹے پیار اور فریب کی پٹی بندھی ہوئی ہے جس سے اندھی ہوکر وہ مخلص محبتوں کو خود سے دور کر رہی ہے ۔۔۔

برداء کے پوچھنے پر مدیحہ بیگم نے اپنی پریشانی اس سے شئیر کی جس میں آج کل وہ گم رہتی تھی ۔۔۔ کئی کئی گھنٹے وہ ردابہ کے بارے میں سوچتے ہوئے گزار دیتی تھی لیکن انہیں اسے سیدھی راہ پر لانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا سوائے اللّٰہ سے دعا کرنے کے جو وہ کثرت سے کرتی تھیں ۔۔۔

مما آپ پریشان نہیں ہوں آپی سنبھل جائینگی ۔۔۔

برداء نے مدیحہ بیگم کو مصنوعی دلاسہ دیتے ہوئے کہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا وقت نا جانے کب آئیگا جب اسکی بہن کو عقل آنی تھی ۔۔۔

برداء کیسے نا پریشان ہوں اسکی شادی کی عمر ہے لیکن  وہ راضی ہی نہیں ہے کیونکہ جو اس دماغ میں خناس بھرا گیا ہے وہ اسی خوش فہمی میں جی رہی جو کہ دھوکے کے سواء کچھ نہیں ہے ۔۔۔

مشکات کو دیکھو تم سب میں سب سے چھوٹی ہے اور اسکی شادی کو دو سال ہوگئے ہیں اور اللّٰہ جلدی ہی اسے رحمت سے نوازدیا اسکا تو باپ تھا پھر بھی اس نے اپنی ساری زندگی لوگوں کی سازشوں کا شکار ہوتے گزاری ہے لیکن تمہارا تو باپ بھی نہیں ہے ۔۔۔

لیکن اب میں ردابہ کی وجہ سے حورعین اور حیان کو گھر نہیں بٹھاسکتی اس لئے اب اگر کوئی اچھا رشتہ آیا تو میں حیان اور حورعین کے فرض سے سبکدوش ہوجاؤنگی اور اب تم بھی بتادو اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتادو ورنہ پھر میری نظر میں ایک دو لڑکیاں ہے ان میں سے کسی ایک کے لئے ہاں کردو تو میں بات آگے چلاتی ہوں ۔۔۔

مما مجھے تو کوئی پسند نہیں آپ بتائیں آپ نے کس کس کو پسند کرلیا میرے لئے بھلے چار جائز ہے لیکن میرے لئے ایک ہی کافی ہے اور وہی میرے سر پر بال چھوڑدے تو غنیمت ہے ۔۔۔

مدیحہ بیگم کے پوچھنے پر برداء نے انکا مونڈ ٹھیک کرنے کے لئے شرارت سے کہا ۔۔۔ چل بدمعاش ۔۔۔ میں مبراء یا پھر اناب کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔

مدیحہ بیگم نے برداء کو سرزنش کرنے کے ساتھ آگاہ کیا ۔۔۔

مما کیا ہوگیا ہے کچھ تو رحم کریں مجھ پر اگر مبراء سے کروادی نا آپ نے تو شادی کی پہلی رات ہی آپکا بیٹا لے اڑے گی وہ اس لئے دوسرے آپشن کے بارے میں سوچیں ۔۔۔

مدیحہ بیگم کی بات پر برداء نے کانوں ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا ۔۔۔

چل ٹھیک ہے جیسے تو کہے ویسے مجھے بھی اناب پسند ہے اور اب چل اٹھ اپنے کمرے میں جا مجھے آرام کرنا ہے ۔۔۔

اچھا چلیں ٹھیک ہے آپ آرام کریں اللّٰہ حافظ ۔۔۔

مدیحہ بیگم کے کہنے پر برداء کے انکے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔

آج پہلا روزہ تھا اور مشی نانو کے جانے تیاری کر رہی تھی جبکہ حضیر کسی کام سے آفس گیا ہوا تھا ۔۔۔

مما کی جان تھوڑا سا کھالو میری شہزادی بیٹی ۔۔۔ 

مشی نے سوجی کی کھیر کا چمچ عفراء کے آگے کرتے ہوئے پیار سے کہا جو کہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسے کھانا کھانے میں تنگ کر رہی تھی ۔۔۔

عفراء اب میں آپ کو مارونگی صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ نے میری جان ۔۔۔

عفراء کو نا کھاتا دیکھ مشی نے روہانسی لہجے میں کہا ۔۔۔

مشی بیٹا آپ سے کوئی ملنے آیا ہے ۔۔۔

ابھی مشی عفراء کو زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ملازمہ نے آکر مشی کو بتایا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے آپ ریفریشمنٹ کا انتظام کریں میں آتی ہوں ۔۔۔

مشی نے ملازمہ کو ہدایت دی تو وہ سر اثبات میں ہلاتی کچن میں چلی گئی جبکہ مشی بھی عفراء کا منہ دھلاکر اسے لئے ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

مشی نے ڈرائنگ روم میں بیٹھی انعم بیگم کو دیکھ کر اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے سلام کیا جبکہ خوف سے اسکی بری حالت ہورہی تھی ۔۔۔

وعلیکم سلام کیسی ہو ۔۔۔

انعم بیگم نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے سلام کا جواب دیا ۔۔۔

ویسے بڑی خوش نظر آرہی ہو ہونا بھی چاہئے آخر میرے سب سے فرمانبردار اور خوبرو بیٹے کو قابو میں کرلیا ہے خوش ہونا تو بنتا ہے ۔۔۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ صرف آپکی سوچ ہے ورنہ انگلیوں سے ناخن دور نہیں ہوتے ۔۔۔

انعم بیگم کے طنزیہ کہنے پر مشی نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔

میری سوچ کیا ہے یا کیا نہیں لیکن شاید تم اپنی اوقات بھول گئی تمہاری حیثیت صرف ایک ونی کی بیٹی سے زیادہ کچھ نہیں جس کی اوقات کسی ملازم سے بھی کمتر ہے ۔۔۔

مشی کا خود کو جواب دینا انہیں ناگوار گزرا تھا جس پر وہ ساری اداکاری سائڈ پر کرتی پھنکاری ۔۔۔

یہ تو آپ کے نزدیک ہے جسکی مجھے کوئی پرواہ نہیں ورنہ اللّٰہ کے نزدیک کون کس سے مقام میں بلند ہے وہ اللّٰہ بہتر جانتا ہے خیر آپ بھول رہی ہیں میں اذہان کاردار کا خون ہوں اور حضیر کاردار کا نصف ایمان ۔۔۔

آج مشی نے خود کے لئے لڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اس لئے ہمت کرتی انعم بیگم کے سب سوال کا جواب دے رہی تھی ۔۔۔

داد دینی پڑیگی تمہاری ہمت کی آخر یہ ہمت میرے بیٹے کی ہی دی ہوئی ہے لیکن کوئی بات نہیں بس کچھ دن اسکے کے بعد وہ تمہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کریگا دیکھ لینا ۔۔۔

انعم بیگم نے طیش میں کر مشی کو دھمکایا ۔۔۔

کوئی بات نہیں جب دو سال انکے بغیر گزارے ہیں آگے بھی گزارلونگی ۔۔۔

انعم بیگم کی بات پر مشی نے دوبدو جواب دیا ۔۔۔

تمہاری یہ ہمت میرے آگے زبان درازی کرو شاید پہلے کی مار بھول چکی ہو کوئی بات نہیں میں تمہیں یاد دلا دیتی ہوں کہ میں وہی انعم ہوں جس نے تمہیں ایک وقت کی روٹی کے لئے ترسایا جس نے تمہیں دسمبر کی ٹھنڈ میں ساری ساری رات لان میں کھڑا رکھا جس نے بھری دھوپ میں تم سے کپڑے دھلوائے بنا ایک پانی کی بوند دیے میں وہی انعم ہوں جس کے سامنے تم آتے ہی تھر تھر کانپتی تھی لیکن کوئی نہیں آج تمہارے یہ پر میں کاٹونگی تمہارے ہی گھر میں آج میں تمہارا وہ حشر کرونگی کے یاد رکھوگی ۔۔۔

انعم بیگم نے مشی کو آج خود سے نا ڈرتے دیکھ دھاڑتے ہوئے کہا اور ملازمہ کی لائی ہوئی گرم چائے مشی کے ہاتھ پر گرانے لگی ۔۔۔

یہ کیا کر رہی ہیں آپ پاگل ہوگئیں ہیں ۔۔۔ حضیر جو تھوڑی دیر پہلے آیا تھا اور مشی اور نعم بیگم کی ساری گفتگو سن چکا تھا انعم بیگم کو مشی کے ہاتھ پر چائے گراتا دیکھ انکے ہاتھ کو پرے جھٹکتے ہوئے دھاڑا جبکہ جھٹکا لگنے کی وجہ سے چائے دوسری طرف گری اور کپ کرچیوں میں تقسیم ہوگیا ۔۔۔

ہاں ہوگئی ہوں پاگل نہیں قبول کرتی میں اسے اپنی بہو کے روپ میں پہلے اسکی ماں نے تمہارے باپ پر ڈورے ڈالے لیکن وہ ناکام رہی لیکن اپنی ماں کا ادھورا چھوڑا کام اس نے پورا کیا تمہیں اپنے قابو میں کر کے ۔۔۔

میرا روزہ ہے اور روزے میں آپ کے منہ لگ کر میں اپنا روزہ خراب نہیں کرنا چاہتی اس لئے پلیز یہاں سے جائیں اور آئیندہ میری ماں کے بارے میں اتنی گھٹیا باتیں کی تو میں خاموش نہیں رہوں گی ۔۔۔

مشی نے انعم بیگم کو انگلی اٹھاکر وارن کرتے ہوئے کہا اور عفراء کو اٹھاتی اپنے کمرے میں چلی گئی جو کہ اونچی آوازیں سن کر رونے لگی تھی ۔۔۔

دیکھا تم نے کیسے تمہاری بیوی مجھے تمہارے گھر سے جانے کا بول رہی ہے اور تم چپ چاپ زن مریدوں کی طرح کھڑے ہو ۔۔۔

مما پلیز آپ ابھی یہاں سے جائیں اور آئیندہ یہاں نہیں آئیگا کوئی بھی کام ہو مجھے فون کردیجئیگا میں کاردار ولا آجاؤنگا ۔۔۔

حضیر نے انعم بیگم کی بات کو اگنور کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

ہاں اب تم اس دو ٹکے کی لڑکی کی خاطر مجھے اپنے گھر سے نکال رہے ہو لیکن یاد رکھنا ایک دن تم خود اسے دھکے دیکر یہاں سے نکالوگے اور مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے یہاں آکر اپنی بےعزتی کروانے کا اور تم سے تو اب تمہارے بابا ہی بات کرینگے ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر انعم بیگم اسے اچھی طرح سناکر اپنا بیگ اٹھاتی تن فن کرتی وہاں سے چلی گئیں جبکہ حضیر بھی اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

عائش مجھے تمہارا سارا ماضی جاننا ہے جو آج تک تم نے مجھ سے چھپایا ہے ۔۔۔ حضیر نے کمرے میں آکر مشی کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

چھوڑدیں میرے ماضی کو جاننا کیونکہ آپکا جاننا ضروری نہیں ہے ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔

عائش میں جس کشمکش اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو کیا تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا کہ میری الجھنیں سلجھادو ۔۔۔

کچھ الجھنیں سلجھنے کے بعد بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اس لئے ہر چیز جاننا ہر شخص کے لئے اچھا نہیں ہوتا ۔۔۔

ایسا کیا ہے جو تم نہیں بتانا چاہتی مجھے ہاں بتاؤ آج میں بھی جان کر رہونگا ۔۔۔ مشی کو نا بتاتا دیکھ حضیر نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے غصے سے دھاڑتے ہوئے ضدی لہجے میں کہا ۔۔۔

کیونکہ میں نہیں چاہتی سچ جاننے کے بعد کاردار ولا کا شیرازہ بکھر جائے کیونکہ میں نہیں چاہتی آپ کے سامنے آپ کے پاک رشتے بےنقاب ہو جس سے آپ کو خود سے شرمندہ ہونا پڑے کیونکہ اگر اب ماضی کے اوراق پلٹے گئے تو ہر ایک کو اپنا کیا بھگتنا پڑیگا اس لئے میں آپ کو پیار سے سمجھارہی ہوں پلیز میرے ماضی کو جاننے کی کوشش چھوڑدیں اور سکون سے رہیں بھول جائے کہ میرا کوئی ماضی بھی تھا ۔۔۔

میں بھی آپکی خاطر سب بھولنے کی کوشش کرونگی کیونکہ میرا ماضی جیسا بھی تھا میرا حال اور مستقبل آپ اور عفراء ہیں جن کی ذرا سے تکلیف مجھے ٹڑپادیتی ہے میں آپ کو بکھرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی بہت وقت بعد مجھے سکون نصیب ہوا ہے اس لئے پلیز مجھے سکون سے رہنے دیں مجھے بار بار میرا ماضی یاد کرواکر اذیت مت دیں ۔۔۔

حضیر کے غصے سے کہنے پر مشی نے بھی چیختے ہوئے کہا اور آخر میں نرمی سے اسے سمجھانے لگی جبکہ آنسوؤں سے چہرہ تر تھا ۔۔۔ جبکہ حضیر مشی کو اپنے بات سے پیچھے نا ہٹتا دیکھ گاڑی کی چابیاں اٹھاتا باہر نکل گیا جبکہ حضیر کے باہر نکلتے ہی مشی وہیں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

حضیر بہت غصے میں گھر سے نکلا تھا اور اپنا غصہ کم کرنے کے لئے بے مقصد سڑکوں پر گاڑی چلارہا تھا جبکہ دماغ میں انعم بیگم کی باتیں گردش کر رہی تھی وہ بہت سی الجھنوں کا شکار تھا جو کہ سلجھ کر نہیں دے رہی تھی جس کی وجہ سے وہ کافی ذہنی اذیت کا شکار ہورہا تھا ۔۔۔

ہوش تو اسے مغرب کی اذان پر آیا ۔۔۔

حضیر نے اذان سن کر پاس بنی دکان سے پانی کی بوتل لیکر اپنا روزہ کھولا اور قریبی مسجد میں نماز ادا کرنے چلا گیا ۔۔۔

حضیر نماز پڑھ کر وآپس کار میں بیٹھا اور اب اسکا رخ کاردار ولا کی طرف تھا چونکہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا وہ ہر حال میں ماضی جان کر رہے گا لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ مشی اسے کبھی بھی نہیں بتائیگی اس لیے اس نے کاردار ولا سے ماضی جاننے کا فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کاردار ولا کی طرف چل دیا ۔۔۔

مسیب کہاں ہے ؟

حضیر نے کاردار ولا میں داخل ہوکر ملازمہ سے پوچھا ۔۔۔

صاحب وہ تو ابھی تک ہسپتال سے نہیں آئے ۔۔۔ 

اچھا ٹھیک وہ جیسے ہی گھر آئے اسے میرے کمرے میں بھیج دینا اور مجھے ایک کپ کافی کا بناکر کمرے میں بھیجو کسی ملازم کے ہاتھ ۔۔۔

ملازمہ کے بتانے پر حضیر نے ہدایت دی اور اپنے کمرے میں چلاگیا ۔۔۔

کیا کر رہی ہو اور حضیر کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔

انعم بیگم جو ملازمہ کو حضیر سے بات کرتے دیکھ چکی تھی اسکے جاتے ہی ملازمہ سے استفسار کرنے لگی ۔۔۔

بیگم صاحبہ وہ مسیب بابا کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور مجھے کافی روم میں بھیجنے کا بول کر گئے ہیں ۔۔۔

انعم بیگم کے پوچھنے پر ملازمہ نے انہیں بتایا ۔۔۔

اچھا یہ گولی کافی ملادینا میرا بچہ تھکا ہوا آیا ہے تھوڑا آرام کرلیگا ۔۔۔

انعم بیگم نے ایک ٹیبلیٹ ملازمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی ان سے میڈیسن لیتی کیچن میں چلی گئی اور پھر انکی ہدایت کے مطابق وہ میڈیسن کافی ملاکر ملازم کے ساتھ حضیر کو بھجوادی ۔۔۔

ٹک ٹک ٹک ۔۔۔

آجائیں ۔۔۔ دروازہ نوک ہونے پر حضیر نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر آنے والے وجود کو اجازت دی تو ملازم کافی کی ٹرے پکڑے روم میں داخل ہوا اور سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر جس خاموشی سے آیا تھا اسی خاموشی سے چل دیا ۔۔۔

ملازم کے جاتے ہی حضیر نے کافی پی اور کافی پیتے ہی اس پر غنودگی طاری ہونے لگی اور لاکھ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی آنکھیں کھلی نا رکھ سکا اور نیند کی وادی میں اتر گیا اور پھر جب اسکی آنکھ کھلی تو سحری کا وقت ہو رہا تھا جبکہ وقت دیکھ کر حضیر حواس باختہ سا نیچے بھاگا جہاں سب سحری کر رہے تھے ۔۔۔

ارے بھائی سحری تو کرلیں وقت ختم ہونے والا ہے ۔۔۔

انعمتہ نے اسے جلدی میں باہر کی طرف جاتا دیکھ جلدی سے کہا جس پر اس نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ڈالی جہاں سحری کا وقت ختم ہونے میں دس منٹ باقی تھے اور اگر وہ گھر جاتا تو اسکی سحری نکل جاتی ۔۔۔

حضیر انعمتہ کی بات سن کر ڈائننگ کی طرف بڑھا اور سحری کرنے لگا اور اسکے سحری کرتے ہی اذان ہوگئی جس پر سب مرد حضرات اٹھ کر نماز کے لئے چل دیے اور پھر مسجد سے ہی حضیر اپنے گھر کی طرف چل دیا اسے مشی کی ٹینشن ہورہی تھی جو گھر میں اکیلی تھی ۔۔۔

دوسری طرف مشی نے بھی صرف پانی سے روزہ کھولا اور نماز پڑھ کر حضیر کا انتظار کرنے لگی لیکن وہ نہیں آیا مشی کو حضیر کا انتظار کرتے کرتے عیشاء ہوگئی اب اسے اور زیادہ پریشانی ہونے لگی اور ساتھ میں ڈر بھی لگ رہا تھا اتنے بڑے گھر میں اکیلی تھی جبکہ اسکے پاس موبائل بھی نہیں تھا جو حضیر کو فون کر کے ہوچھ لیتی ۔۔۔

مشی نے سب برے وسوسوں کو جھٹک کر عیشاء کی نماز اور تراویح وغیرہ پڑھی اور پھر اسکے بعد قرآن پاک پڑھ کر خود کو مصروف کرنے لگی ۔۔۔

کافی دیر عبادت کرنے کے بعد وہ عفراء کے پاس لیٹ کر ذکر و اذکار کرنے لگی جبکہ جیسے جیسے وقت زیادہ ہوتا جارہا تھا ویسے ویسے مشی کے ڈر میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔۔۔

مشی نے اپنے ڈر کو قابو کرتے ہوئے سونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور پھر اسی طرح ڈرتے اور اذکار کرتے سحری کا وقت ہوگیا مشی نے فروٹ باسکٹ سے ایک سیب نکال کر کھایا اور اذان کی آواز پر نماز قرآن پڑھ کر دوبارہ سونے کے لئے لیٹ گئی اور سونے کی کوشش کرنی لگی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں نیند کے دیوی اس پر مہربان ہوگئی ۔۔۔

اسلام علیکم  بھائی کیسے ہو آپ بھابھی اور میری شہزادی کیسی ہے ؟

مسیب نے حضیر کے کیبن میں داخل ہوکر چئیر پر بیٹھتے ہوئے سلام کرنے کے ساتھ حال احوال پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں بھی ٹھیک ہوں الحمدللّٰہ عائش اور عفراء بھی ٹھیک ہیں ۔۔۔

مسیب کے پوچھنے پر حضیر نے اپنے حال احوال سے آگاہ کیا ۔۔۔

ملازمہ نے بتایا کہ کل آپ مجھ سے ملنے آئے تھے کاردار ولا لیکن جب میں آپکے روم میں آیا تو آپ سورہے تھے خیریت تو ہے ؟

مسیب نے حضیر سے کل کی بابت پوچھا ۔۔۔

ہاں بس کچھ کام تھا تم سے پہلے یہ بتاؤ کیا لوگے چائے یا کافی ؟

مسیب کے پوچھنے پر حضیر نے پوچھا ۔۔۔

کافی منگوالیں ۔۔۔ مسیب کے کہنے پر حضیر نے انٹرکام کان سے لگاکر مقابل کو دو کافی کا آڈر دیا ۔۔۔

میں عائش کا ماضی جاننا چاہتا ہوں اگر تمہیں کچھ پتا ہے تو پلیز مجھے بتادو میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کس کو صحیح سمجھوں اور کس کو غلط اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں کسی مظلوم کے حق میں زیادتی نا کرجاؤ چاہے پھر وہ عائش ہو یا مما کیونکہ دونوں رشتے ہی میرے لئے اہمیت کے حامل ہیں ۔۔۔

حضیر نے مسیب کو کل والی ساری بات بتانے کے بعد پریشانی سے کہا ۔۔۔

تو بھائی آپ بھابھی سے پوچھیں وہ خود بتادینگی آپ کو ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مسیب نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔

یہی تو مسلئہ ہے عائش کچھ بتانے پر راضی ہی نہیں ہے اسکا کہنا ہیکہ اگر ماضی کے اوراق پلٹے تو بہت سے رشتے بے نقاب ہوجائینگے اور ہر کسی کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑیگی ۔۔۔

ٹک ٹک ٹک ۔۔۔

ابھی مسیب کچھ کہتا کہ دروازہ نوک ہوا اور اجازت ملنے پر اہتشام دو کافی کے کپ لیکر آفس میں داخل ہوا ۔۔۔

اہتشام ایک گھنٹے کے اندر مجھے ایک لیٹیسٹ موبائل اپنی ٹیبل پر چاہئے ۔۔۔

حضیر نے اہتشام کو ٹیبل پر کافی رکھتا دیکھ حکم دیا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا باہر چلاگیا ۔۔۔

مسیب تو جو بھی جانتا ہے مجھے بتادے اور کون ہے ایسا جو مجھے ماضی بتاسکے وہ بھی سچ سچ ۔۔۔

اہتشام کے جانے کے بعد حضیر نے سلسلہِ کلام وہیں سے جوڑا ۔۔۔

بھائی جب میں ہاسٹل سے وآپس گھر آیا تھا تو میں نے مما بابا دادو ردابہ ان سب کا سلوک بھابھی کے ساتھ انتہائی برا پایا آپ میری بات کا شاید یقین نا کریں لیکن بابا تک بھابھی ہر ہاتھ اٹھاتے تھے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے بہت کوشش کی کہ بھابھی کے حق میں کچھ کہوں لیکن بھابھی نے مجھے اللّٰہ کی قسم دیکر چپ کروادیا اور یہ کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان پر میرے نام کی تمہت لگے اور یہ بات میرے دل و دماغ کو ہلاگئی اور پھر میں چاہ کر بھی بھابھی کے حق کچھ بول نہیں سکا لیکن میرا رویہ گھر والوں سے روڈ ہوگیا اور یہی وجہ تھی میری آپ سے ناراضگی کی ۔۔۔

سب گھر والے بھابھی کو ملازمہ سے بھی کم تر سمجھتے ہیں لیکن مجھے یہ نہیں معلوم اسکے پیچھے وجہ کیا ہے ایسا کیوں ہے حالانکہ وہ بھی کاردار ولا کا خون ہے بلکہ کاردار ولا کے لاڈلے بیٹے کی اکلوتی بیٹی ہے اسکے ساتھ ایسا سلوک اور جس دن بھابھی کاردار ولا سے گئیں تھی اس دن میں گھر نہیں تھا اس لئے مجھے نہیں معلوم اس دن کیا ہوا تھا لیکن مجھے لگتا ہے مدیحہ چچی ہمیں بتاسکتی ہیں ماضی کے متعلق وہ بھی سچ سچ ۔۔۔

کل مما نے کہا تھا کہ حیا چچی ونی ہوکر آئیں تھی تو کیا پھر ازلان چاچو کا قتل ہوا تھا جو شماس انکل نے کیا تھا ۔۔۔

مسیب کے کہنے پر حضیر نے اپنے اندازے سے کہا ۔۔۔

بھائی یہ بات تو آپکے منہ سے سن رہا ہوں لیکن دادا جان طیب دادا جان اور ہماس دادا جان تو بہت گہرے دوست تھے خیر اصل بات ہمیں مدیحہ چچی ہی بتاسکتی ہے ۔۔۔

بات تو تمہاری بھی ٹھیک ہے پھر چچی سے ہی پوچھینگے ۔۔۔

مسیب کے کہنے پر حضیر پرسوچ انداز میں کہا ۔۔۔

مما بابا اور دادو شماس انکل کے گھر مصباح کے لئے میرا رشتہ لیکر جائینگے افطار کے بعد آپ بھابھی کو کسی بہانے وہاں لے آنا اپن سب وہیں مدیحہ چچی سے سب کچھ پوچھ لینگے اور مجھے یقین ہیں وہ ہمیں سب کچھ سچ سچ بتا بھی دینگی ۔۔۔

ہاں یہ صحیح ہے مما والے جیسے ہی گھر سے نکلیں تم مجھے فون کردینا میں آجاؤنگا عائش کو لیکر ۔۔۔

اچھا چلیں اب میں چلتا ہوں مجھے ہسپتال جانا ہے آج ایک سرجری ہے اللّٰہ حافظ ۔۔۔ چلو ٹھیک ہے اللّٰہ میرے بھائی کو کامیاب کرے آمین اللّٰہ حافظ ۔۔۔

مسیب کے کہنے پر حضیر نے الوداعی کلمات ادا کیے اور پھر مسیب حضیر سے مصافحہ کرتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مشی کی آنکھ کھلی تو اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی لیکن حضیر کہیں نہیں تھا جس پر اسے اور زیادہ پریشانی ہونے لگی ۔۔۔

مشی نے اپنے بال سمیٹے اور گھڑی نظر ڈالی جہاں سوئی گیارہ کا ہندسہ عبور کرچکی تھی مشی جلدی سے اٹھی چپل پہن کر واشروم گئی اور پانچ منٹ بعد فریش ہوکر ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر بال بنانے لگی ۔۔۔

مشی جیسے ہی بال بنانے کے لئے برش اٹھانے لگی اسے ایک چٹ نظر آئی مشی نے وہ کھولی اور پڑھنے لگی ۔۔۔

(پریشان نہیں ہونا میں آفس جارہا ہوں تم سورہی تھی اس لئے میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا (حضیر کاردار) ۔۔۔

مشی نے چٹ پڑھ کر ڈسٹ بن میں ڈالی اور اپنے بال بنانے لگی ۔۔۔

بال بناکر مشی کچن میں چلی گئی ۔۔۔

کچن میں جاکر مشی نے جلدی سے عفراء کے لئے ٹوس سینک کر سادہ نمک کا انڈہ بنایا اور اسکے چھوٹے سے مگ میں نیم گرم دودھ ڈال کر ٹرے میں رکھا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

عفراء مما کی جان اٹھ جاؤ آپکو ناشتہ کروادوں کل بھی آپ نے صحیح سے کھانا نہیں کھایا تھا ۔۔۔

مشی عفراء کے ماتھے پر پیار کر کے اسے جگانے لگی جس پر وہ کسمساکر دوبارہ سوگئی ۔۔۔

یہ لڑکی ایسے نہیں اٹھے گی ۔۔۔ مشی نے خود سے کہا اور عفراء کو گود میں اٹھاکر باتھروم لے گئی اور پھر دو منٹ بعد عفراء کا منہ دھلاکر باہر آئی اور اسے ناشتہ کروانے لگی ۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی جدو جہد کے بعد مشی عفراء کو ناشتہ کروانے میں کامیاب ہوئی اور پھر عفراء کو نہلاکر تیار کیا اتنے میں ملازمہ آگئی ۔۔۔ 

مشی عفراء کو لیکر لاؤنچ میں آئی اور اسے چاند گاڑی میں ڈال دیا اور خود ملازمہ سے صفائی کروانے لگی اتنے میں ظہر کی اذان ہوگئی ۔۔۔

ظہر کی اذان سن کر مشی نے نماز ادا کی اور قرآن پاک کی تلاوت کی اتنے میں تین بج گئے ۔۔۔

قرآن پاک پڑھنے کے بعد مشی نے عفراء کو فیڈر بناکر پلائی اتنے میں حضیر سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوا جبکہ ملازمہ چاچکی تھی ۔۔۔

وعلیکم سلام ۔۔۔

مشی نے حضیر کے سلام کا جواب دیا اور عفراء کا خالی فیڈر اٹھاکر کچن میں چلی گئی اور فیڈر دھوکر اسے بوائل کرنے لئے چولہے پر رکھ کر دوبارہ لاؤنچ میں آئی جہاں حضیر عفراء کے ساتھ کھیل رہا تھا جبکہ اسکا کوٹ اور بیگ سائیڈ والے صوفے پر رکھا تھا ۔۔۔

مشی نے چپ چاپ اسکا کوٹ اور بیگ اٹھایا اور کمرے میں چلی گئی تو حضیر بھی عفراء کو گود میں اٹھاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

کل تمہیں ڈر تو نہیں لگا ؟

حضیر نے کمرے میں آکر عفراء کو بیڈ بٹھایا اور ڈریسنگ کے سامنے آکر اپنی واچ اتارتے ہوئے مشی سے پوچھنے لگا ۔۔۔

میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔

مشی کے کوئی جواب نا دینے پر حضیر نے اپنا رخ اسکی طرف کرتے ہوئے پوچھا جو کہ اسکا کوٹ ہینگ کر رہی تھی ۔۔۔

یار سوری پتہ نہیں کل کیسے میری کاردار ولا میں آنکھ لگ گئی اور پھر جب میں صبح گھر آیا تم سورہی تھی تو میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھایا ۔۔۔

حضیر مشی کی خاموشی کی وجہ سمجھتا صفائی دینے لگا ۔۔۔

میں نے آپ سے کچھ کہا جو آپ صفائی دے رہے ہیں ۔۔۔

حضیر کو اپنی صفائی دیتا دیکھ مشی نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

تو پھر مجھے اگنور کیوں کر رہی ہو میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی ۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے آئیبرو اچکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے بس آپکے سوال پر خاموش رہنا مناسب سمجھا ۔۔۔

خیر چھوڑو اس بات کو شام کو افطار کے بعد کاردار ولا چلنا ہے ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے آگاہ کیا اور مشی کے ہاتھ سے کپڑے لیکر فریش ہونے چلاگیا جبکہ مشی نے دکھ بھری نظر سے حضیر کی پشت کو دیکھا ۔۔۔

میں تھوڑی دیر ریسٹ کرونگا تم بھی سوجاؤ روزے سے ہو ۔۔۔

 حضیر نے بیڈ پر دراز ہوتے مشی سے کہا اور عفراء کو اٹھاکر خود پر لٹایا ۔۔۔

 آپ آرام کریں مجھے افطاری بنانی ہے ۔۔۔

 کیچن میں جانے کی ضرورت نہیں ہے گرمی بہت ہے میں باہر سے لے آؤنگا سب کچھ تم چپ چاپ سوجاؤ ۔۔۔

 مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے گھورتے ہوئے ڈپٹا ۔۔۔

 آپکو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ ریسٹ کریں میں باہر ہوں کوئی کام ہو تو آواز دے دیجئیگا ۔۔۔

 مشی نے حضیر کی گھوری کو کسی خاطر میں نا لاتے ہوئے خفگی سے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ حضیر مشی کو بعد میں منانے کا سوچتا آنکھیں موند گیا ۔۔۔ 

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

حضیر کے منع کرنے بعد بھی افطار مشی نے بنالی تھی جس پر حضیر اس پر اچھا خاصہ غصہ بھی ہوا تھا اور اب افطار کر کے مشی ٹیبل سے برتن اٹھاکر کیچن میں رکھ رہی تھی جبکہ حضیر نماز پڑھنے چلا گیا تھا ۔۔۔

مشی نے سارے برتن کچن میں رکھ کر مغرب کی نماز ادا کی اور پھر سورۃالواقعہ کی تلاوت کرنے لگی ۔۔۔

ابھی وہ تلاوت ہی کر رہی تھی کہ حضیر بھی نماز پڑھ کر آگیا اور اپنے کپڑے لیکر واشروم چینج کرنے چلاگیا جبکہ مشی نے حضیر کو روم میں آتا دیکھ قرآن پاک بند کر کے شیلف پر رکھا اور کیچن میں جاکر برتن دھونے لگی ۔۔۔

برتن دھوکر مشی دوبارہ روم میں آئی تو حضیر ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال بنارہا تھا ۔۔۔

مشی حضیر کو نظر انداز کرتی وارڈروب کی طرف بڑھی اور عفراء کے کپڑے نکال کر اسکو تیار کرنے لگی ۔۔۔

عفراء کو تیار کر کے مشی اپنے کپڑے لیکر واشروم میں چلی گئی ۔۔۔

پانچ منٹ بعد مشی واشروم سے چینج کر کے آئی اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر بال بنانے لگی ۔۔۔

مشی نے بال بناکر منہ پر کریم لگاکر آنکھوں میں کاجل لگایا اور وارڈروب سے اپنا عبایا نکال کر عبایا پہن کر حجاب کے ساتھ نقاب کیا اور بیڈ پر رکھے اپنے پرس میں اپنی ضرورت کی چیزیں ڈالی اور صوفے پر بیٹھ کر سینڈل پہننے لگی ۔۔۔

جبکہ حضیر اپنی تیاری مکمل کر کے عفراء کو گود میں لئے کھڑا مشی کے ریڈی ہونے کا انتظار کر رہا تھا اور پھر مشی کے ریڈی ہوتے ہی دونوں کاردار ولا کے لئے نکل گئے ۔۔۔

اسلام علیکم ایوری ون کیا حال ہے سب کے ؟

حضیر مشی کو لیکر ڈائریکٹ مدیحہ بیگم کے  روم میں آیا تھا جہاں اسکی توقع کے عین مطابق سب ینگ پارٹی پہلے سے موجود تھی ۔۔۔

وعلیکم سلام بھائی بھابھی بیٹھیں ہم آپ لوگوں کا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔

مسیب نے سلام کا جواب دینے کے ساتھ ٹو سیٹر صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو دونوں اس پر بیٹھ گئے ۔۔۔

چاچی آپ کو تو پتہ تو ہوگا میرا یہاں آنے کا مقصد اس لئے پلیز جلدی سے میری الجھنیں سلجھائیں تاکہ میں کوئی بہترین فیصلہ لے سکوں ۔۔۔

حضیر نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاکر بیٹھی مدیحہ بیگم سے اسپاٹ لہجے میں کہا تو سب بھی منتظر نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگے جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتی بتانا شروع ہوگئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

ماضی ۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب فاریہ کے بلیک میل کرنے پر رومیسہ نے یاسر خان کی زبردستی شادی انعم کی بہن مستبشرہ سے کروائی تھی پھر مستبشرہ سے نکاح کے نو مہینے بعد اللّٰہ نے رومیسہ اور یاسر خان کو ایک بیٹی سے نوازہ جس کا نام انہوں نے سحر رکھا اور اسکے تین مہینے بعد مستبشرہ اور یاسر خان کو اللّٰہ نے دو جڑواں بچوں سے نوازہ جبکہ انکی پیدائش کے وقت مستبشرہ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئی اور جو انعم اور فاریہ کی پلاننگ تھی رومیسہ کو یاسر خان سے طلاق دلوانے کی وہ دھری کی دھری رہ گئی ۔۔۔

اور سارہ اور ہیّاج کے چھے مہینے بعد انعمتہ کی پیدائش ہوئی جس پر مستبشرہ کی خواہش پر ہیّاج سے انعمتہ کی نسبت جوڑدی گئی ۔۔۔

ابھی انعمتہ کو ہوئے ایک ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا کہ کاردار ولا پر ایک قیامت ٹوٹی ۔۔۔

ایک دن اذان بھائی ازلان کو شکار پر لے گئے اور اتفاق سے اس دن شماس شاہ بھی شکار پر آیا ہوا تھا اور وہ تینوں جس جنگل میں شکار پر گئے ہوئے تھے وہ تینوں حویلیوں سے زیادہ قریب بڑا اور گھنا تھا اور زیادہ تر ان تینوں گاؤں کے لوگ اسی جنگل میں شکار کرتے تھے ۔۔۔

تینوں نے شکار کے لئے گولی چلائی تو ایک گولی ازلان کے دل میں لگی اور اسی وقت دم توڑگئے اذان بھائی انکی لاش کو گھر لائے اور انکا کہنا تھا کہ ازلان پر گولی شماس نے چلائی ہے حالانکہ شماس کا کہنا تھا کہ میں نے جو گولی چلائی تھی وہ ہرن کو لگی ہے اور میرا رخ دوسری سمت تھا ۔۔۔

خیر ازلان کی تدفین کے دوسرے دن جرگہ بیٹھایا گیا جس میں اذان بھائی کے گارڈز نے گواہی دی کہ شماس شاہ کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی ازلان کاردار کے سینے میں پیوست ہوئی اور وہ موقع پر ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔۔۔

اس سچویشن میں سب سے زیادہ پریشان فارس انکل اور ہماس انکل تھے تیسرا دوست تو چل بسا تھا اور اب دونوں کو اپنی دوستی بھی دشمنی میں بدلتی ہوئی نظر آرہی تھی جبکہ اذان صاحب ایک پل کو سکون سے نہیں بیٹھ رہے تھے انہیں اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینا تھا اور انعم بھابھی نے فریدہ بیگم کو بھی اس بات پر ایموشنلی بلیک میل کر کے راضی کرلیا تو وہ بھی اپنے بیٹے کے جوان خون کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتی تھی جبکہ اذہان اور فارس انکل چاہتے تھے معاملہ ختم ہو جائے کیونکہ اگر یہ قتل ہوا بھی تھا تو انجانے میں ہوا تھا اور میں بھی ہیی چاہتی تھی ۔۔۔

خیر اذان صاحب کو اذہان اور فارس انکل نے بہت سمجھایا تو وہ اس وقت انکی بات مان گئے لیکن جرگے میں جاتے ہی انہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور شماس شاہ کے خون کے بدلے حیا شاہ کو ونی کے لئے مانگ لیا لیکن جرگے کے بڑوں نے یہی فیصلہ کیا کہ یا تو شماس شاہ کو قتل کردیا جائے یا پھر حیا شاہ کو ونی کیا جائے اور انہیں فیصلہ کرنے کے لئے ایک دن کا وقت دیا گیا ۔۔۔

اور پھر جب جرگے کا فیصلہ حیا کو پتہ چلا تو اس نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ میں ونی ہوکر جاؤنگی جبکہ شماس شاہ خود کو قتل کروانے پر راضی تھے جس پر حیا نے سب کو دھمکی دی کہ اگر شماس شاہ کو آپ لوگوں نے انکے حوالے کردیا تو میں خودکشی کرلونگی پھر آپ لوگ ایک ساتھ دو جنازوں کو کاندھا دیجئیگا ۔۔۔

اور پھر سب حیا کی ضد کے آگے ہار مان گئے سوائے شماس شاہ کے لیکن حیا  اسے کسی خاطر میں نا لائی ان دونوں بہن بھائیوں کی محبت مثالی تھی ۔۔۔

دوسرے دن جرگہ بیٹھا اور حیا کے نکاح کا وقت آیا تو اذان صاحب نے حیا کو اپنے نکاح میں لینے کا فیصلہ سنایا جس پر فارس شاہ نے انہیں سب کے سامنے جھاڑدیا اور حیا کا نکاح اذہان سے ہوگیا ۔۔۔

جرگے میں صرف نکاح ہوا تھا اور اذہان اور فارس انکل نے حیا کو دوبارہ شاہ حویلی بھیج دیا یہ کہہ کر کہ نکاح تو ہوگیا لیکن شادی پوری دھوم دھام سے ہوگی اور ہماس شاہ اور شماس شاہ کو یقین دلایا کہ حیا کے ساتھ ونی والا سلوک نہیں کیا جائیگا اسے گھر کی چھوٹی بہو کی اہمیت دی جائیگی جس پر وہ مطمئین ہوتے حیا کو لیکر چلے گئے ۔۔۔

اور پھر ایک ہفتے کے اندر اندر اذہان اور حیا کی شادی بہت ہی دھوم دھام سے کی گئی جس پر نا تو انعم بیگم راضی تھی نا ہی اذان شاہ اور نا ہی فریدہ بیگم ۔۔۔ فریدہ بیگم کچے کانوں کی تھی اس لئے وہ وہی کرتی تھیں جو انعم بیگم انہیں کہتی تھی ۔۔۔

حیا رخصت ہوکر کاردار ولا آگئی اور پھر جب بھی انعم بھابھی یا فریدہ بیگم حیا کے ساتھ کچھ برا کرنا چاہتی اذہان فوراً سے حیا کے آگے ڈھال بن جاتا اور پھر گھر کا ماحول بگڑتا دیکھ فارس انکل کے کہنے پر اذہان شادی کے ایک ہفتے بعد ہی حیا کو لیکر امریکہ چلاگیا اور اذہان کی شادی کے دو مہینے بعد اللّٰہ نے مجھے حورعین اور حیان سے نوازہ اور انکی پیدائش کے آٹھ مہینے بعد اللّٰہ نے یاسر خان کو اناب اور فاریہ اور شماس شاہ کو مصباح سے نوازہ اسکے ایک سال بعد اللّٰہ نے حیا اور اذہان کو مشی سے نوازہ  ۔۔۔

دن تیزی سے گزرتے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ انعم بیگم کے دل میں حیا کے لئے نفرت بڑھتی گئی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اذان بھائی نے پہلے حیا سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی اور پھر جرگے میں بھی وہ حیا سے نکاح کرنا چاہتے تھے اور پھر کاردار ولا اور شاہ حویلی کا تعلق بھی ویسا ہی تھا وہی محبت تھی اور حیا بھی جب بھی پاکستان آتی اذہان اسے اپنے سسرال لازمی لیکر جاتا اور اذہان اور فارس انکل کے مطابق حیا سے کوئی بھی برا سلوک نہیں کیا گیا بلکہ اذہان نے اسے اپنی ہتھیلی کا چھالا بناکر رکھا ہوا تھا اور پھر جب مشی ہوئی تو وہ انتہائی خوبصورت تھی حیا بھی بہت خوبصورت تھی لیکن مشی اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھی کاردار ولا کے لڑکوں میں سب سے خوبصورت حضیر تھا تو لڑکیوں میں مشی تھی دونوں ایک دوسرے کی ٹکر کے تھے اور اسی بات سے انعم بیگم اور خار کھاتی تھی کیونکہ وہ حیا جتنی خوبصورت نہیں تھی اور مشی اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھی اس لئے اسے دونوں ماں بیٹی سے نفرت تھی  ۔۔۔

وقت کا کام ہے گزرنا اور وقت گزرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشی چار سال کی جبکہ حضیر سات سال کا ہوگیا ۔۔۔

جبکہ ان چار سالوں میں انعم بیگم نے اپنا بوتیک کھول لیا تھا اور اذہان نے حیا کے لئے امریکہ میں ہسپتال بنوایا تھا جو کہ ابھی بھی امریکہ کے بڑے ہسپتال میں سے ایک ہے ۔۔۔

اور ایک دن فارس انکل ہارٹ اٹیک سے چل بسے جسکی خبر اذہان کو دی گئی تو وہ پہلی ہی فلائیٹ سے حیا اور مشی کو لیکر پاکستان پہنچا اور وہ گھر راستے میں ہی تھے کہ انکی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس میں حیا کا انتقال ہوگیا ۔۔۔

اذہان کے لئے یہ وقت بہت مشکل تھا کیونکہ فارس انکل کا بھی وہ بہت لاڈلا تھا جبکہ حیا سے بھی وہ بے پناہ محبت کرتا تھا ۔۔۔

کچھ مہینے اذہان اپنے غم میں ڈوبا رہا اور پھر سب کے سمجھانے پر وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا اور فریدہ بیگم کے کہنے پر مشی کو پاکستان چھوڑ کر امریکہ چلاگیا جنہوں نے اسے یہ کہا تھا کہ وہاں پرائے ملک میں مشی کی دیکھ بھال کون کریگا اور اس وقت سچ میں مشی سے بے حد محبت کرتی تھی اور پھر اسکے بعد شروع ہوئے مشی کے امتحان کے دن ۔۔۔

اذہان کو گئے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ انعم بیگم نے فریدہ بیگم کے کان بھرنا شروع کردیے کہ مشی تو ونی کی بیٹی ہے کیا ہوا اگر اپنا بدلہ حیا سے نہیں لے سکی تو اسکی بیٹی تو ہے اور فریدہ بیگم صدا کی کچے کانوں کی انکی باتوں میں آگئ اور مشی کو دھتکارنا شروع کردیا ۔۔۔

شروع میں حضیر مشی کو بچاتا اور اسکے ساتھ کھیلتا اور زیادہ تر اسے سنبھالتے ہوئے پایا جاتا جس پر انعم بیگم اور اذان بھائی نے حضیر کا مشی سے لگاؤ دیکھ کر حضیر کو امریکہ بورڈنگ میں بھیج دیا اور مسیب کو بھی بورڈنگ میں بھیج دیا ۔۔۔

شروع شروع میں تو فریدہ بیگم کا رویہ مشی کے ساتھ اچھا رہا لیکن پھر وہ بھی انعم بیگم کی باتوں میں آنے لگیں وہ ازلان کے قتل کا بدلہ مشی سے لینے لگی ہر بات پر اس چھوٹی سی بچی کو مارا جاتا اذان صاحب انعم بیگم اور فریدہ بیگم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے بری طریقے سے پیٹ ڈالتے کبھی سزا کے طور پر پورا پورا دن بھوک رکھتے تو کبھی اندھیرے اسٹور میں پورا دن بند کردیتے کبھی بھری سردی میں لان میں کھڑا کردیتے تو کبھی پوری دوپہیر ننگے پاؤں پچھلے لان میں کھڑا کردیتے تو کبھی اسے بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیتے ۔۔۔

اکثر مشی بے ہوش ہوجاتی لیکن ان ظالموں کو اس پر رحم نہیں آتا اور جب میں نے مشی کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کی تو مجھے یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ اگر اپنے بچوں سمیت اس گھر سے نکلنا نہیں چاہتی تو گونگی بِہری اور اندھی بن کر رہو اور پھر میں اپنے بچوں کی خاطر خود غرض ہوگئی کیونکہ میرے سر پر نا باپ کا سایہ تھا اور نا ہی شوہر کا اس لئے میں نے خاموشی اختیار کرلی ۔۔۔

لیکن اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں مشی کو چھپ چھپاکر کر کھانا کھلاتی اسے دوائی دیتی اسکی مرھم پٹی کرتی جو مجھ سے ہوسکتا تھا میں کرنے کی کوشش کرتی اور پھر جب بھی اذہان بھائی کا فون آتا تو فریدہ بیگم اور انعم بھابھی اپنے پاس بٹھاکر مشی کی بات اذہان صاحب سے کرواتی جس پر بیچاری بچی خوف سے صرف وہی کہتی جسکا اسے حکم دیا جاتا اور جب اذہان گھر آتا تو اسکے سامنے اچھا بننے کے لئے مشی سے پیار جتایا جاتا اور اسے نئے کپڑے پہنائے جاتے اور اذہان جب بھی آتا تھا مشی کو اپنے پاس سلاتا اسے گھوماتا پھیراتا لیکن مشی کو اتنا ڈرایا ہوا تھا کہ وہ اکیلے میں بھی اذہان کو کچھ نہیں بتاتی تھی ۔۔۔

ایسے ہی وقت گزرتا گیا اور مشی بڑی ہوتی گئی اب تو نا اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا اور نا ہی کام کرنے میں اسے دقت ہوتی تھی کیونکہ اسے ہر چیز کی عادت ہوگئی تھی بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ملازموں کا بھی مشی پر رعب چلتا تھا ۔۔۔

ایک دفعہ کی بات ہے تمہاری شادی سے تقریباً دو سال پہلے جب مشی پندرہ سال کی تھی انعم بیگم نے کسی بات پر مشی کو سزا کے طور پر دسمبر کی سردی میں پوری رات لان میں کھڑا رکھا اور اسکے پیچھے کتے چھوڑدیے اس رات مشی کی آہوں اور چیخوں نے مجھے سونے نہیں دیا لیکن میں بھی مجبور تھی اور پھر صبح مشی لان میں بے ہوش ملی اور اسے بہت تیز بخار تھا لیکن  ظالموں کو پھر بھی رحم نہیں آیا ۔۔۔

انعم بیگم نے بےدردی سے بھری سردی میں پانی کی بھری بالٹی مشی پر الٹ دی جس سے وہ ہوش میں آئی اور پھر پورے دن گدھے گھوڑوں کی طرح اس سے کام کروایا رات میں جب میں اس کے کمرے یعنی اسٹور روم میں گئی تو مشی کا وجود نیلا پڑرہا تھا جبکہ منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اور ہاتھ ہاؤں بلکل مڑچکے تھے ۔۔۔

اس وقت میں مشی کی حالت دیکھ کر بہت ڈر گئی تھی لیکن میں اسے ہسپتال بھی نہیں لیکر جاسکتی تھی تو میں نے بوا کو بلوایا جو کہ دائی تھی اور اب انکا انتقال ہوچکا ہے اور پھر انہوں نے جڑی بوٹیوں سے اسکا علاج کیا اور صبح اذانوں پر جاکر مشی کو ہوش آیا لیکن پھر صبح ان ظالموں نے وہی گدھے گھوڑوں کی طرح کاموں پر لگادیا ۔۔۔

اور پھر جب تم نے اذہان سے ضد کر کے مشی سے شادی کے لئے راضی کیا اور انعم بھابھی اور اذہان بھائی کو منایا تو بظاہر وہ تمہاری بات مان گئے لیکن انعم کے دل میں مشی کے لئے نفرت اور بڑھ گئی کیونکہ اسے لگتا تھا حیا اذان کو چھیننا چاہتی تھی اور اب مشی حضیر کو اس سے چھیننا چاہتی ہے اس لئے انہوں نے مشی کو ڈرا دھمکاکر رشتے سے انکار کرنے کا کہا لیکن اذہان نے مشی سے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا اور تمہاری ضد پر شادی کے لئے ہامی بھردی اور جب رشتہ پکا ہوگیا تو انعم بھابھی نے اپنی ساری نفرت مشی کو مار کر نکالی اس دن بھابھی نے مشی کو ڈنڈے سے بےتحاشہ مارا تھا ۔۔۔

لیکن مشی نے سب سے اپنے زخم چھپالیے اور تمہاری شادی مشی سے ہوگئی انعم بھابھی اوپر سے خوش تھی صرف تمہیں دیکھانے کے لئے صرف وہ ایک ہفتہ جو تم یہاں رہے وہ سکون کا تھا لیکن تمہارے جاتے ہی انعم نے سب سے پہلے مشی سے سارا زیور چھین کر اپنے پاس رکھا اور تمہارے کمرے کو لاک لگاکر مشی کو وآپس اسٹور روم میں شفٹ کردیا اور مشی کا موبائل بند کر کے اپنے پاس رکھ لیا اور اسکی سم توڑدی پھر سے مشی کی وہی زندگی شروع ہوگئی بلکہ اس سے بھی بدتر اور جب تمہارا فون آتا انعم اپنے سامنے بٹھاکر بات کرواتی جس سے مشی تم سے بھی کوئی بات نہیں کرپاتی تھی ۔۔۔

اور پھر تمہاری شادی کو ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا جب انعم نے خلع کے پیپر بنوائے اور مشی کو سائن کرنے کا بولا اور اس نے خلع کے پیپر اس لئے بنوائے تاکہ تمہیں حق مہر نا دینا پڑے اور پھر اس بار زندگی میں پہلی مرتبہ مشی نے انعم کی بات کا انکار کیا اور پیپر پر سائن کرنے سے منع کردیا جس پر انعم بھابھی نے اور اذان بھائی دونوں نے مشی کو اتنا مارا کے اسے لہو لہان کردیا جبکہ فریدہ بیگم نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انکا کہنا تھا کہ اچھا ہے اسے ماردو تاکہ میرے کلیجے میں ٹھنڈک پڑے اور میرے بیٹے کے قتل کا بدلہ پورا ہو اور پھر انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مشی کو لہولہان کر کے بنا دوپٹے کے گیٹ سے باہر پھینکوادیا اور اتفاق سے اسی دن اذہان کا یہاں آنا ہوا اور مشی کو اس حالت میں پڑے دیکھ کر اذہان مشی کو لے گیا اور پھر کبھی مڑ کر یہاں کا رخ نہیں کیا اور پھر جب بھی تم فون کر کے پوچھتے تو انعم تمہیں یہ کہہ دیتی کہ اذہان اسے لے گیا اور پھر چاہ کر بھی تم اس سے رابطہ نہیں کرسکے یہ تھا مشی کا دردناک ماضی جو تم جاننا چاہتے تھے ۔۔۔

مدیحہ بیگم نے ساری بات بتانے کے بعد حضیر کو دیکھتے ہوئے کہا جسکا چہرہ ضبط سے سرخ ہورہا تھا اور مٹھیاں بھینچی ہوئی تھی جبکہ مشی کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا ۔۔۔

حضیر بنا کچھ کہے جھٹکے سے اٹھا اور بنا کسی پر ایک نظر ڈالے مشی کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے نکلتا چلاگیا ۔۔۔

اترو ۔۔۔

حضیر نے اپنے گھر کے آگے گاڑی روک کر اسپاٹ لہجے میں مشی سے کہا ۔۔۔

آپ نہیں آرہے کیا اندر ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے پوچھا ۔۔۔

نہیں مجھے کچھ کام ہے تم اترو ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے بنا اسکی طرف دیکھے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

میں آپکو کہیں نہیں جانے دے رہی چلیں گھر میں ابھی آپ غصے میں ہیں ڈرائیونگ بھی اتنی تیز کر رہے تھے غصے میں خود کو نقصان پہنچالینگے اس لئے گاڑی پورچ میں پارک کر کے اندر چلیں ۔۔۔

عائش میں نے کہا اترو گاڑی سے ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے دھاڑتے ہوئے کہا جس سے عفراء جو کہ مشی کی گود میں سورہی تھی اٹھ کر رونے لگی ۔۔۔

آپ کی نظر میں بھلے آپکی جان کی ہمیت نہیں ہوگی لیکن میرے اور میری بیٹی کے لئے آپ ہمارا سائبان ہیں اور میں آپ کو خود کو نقصان پہنچانے نہیں دونگی بیٹھے رہے یہیں ۔۔۔

حضیر کے دھاڑنے پر مشی نے عفراء کو خود سے لگاتے ہوئے غصے سے کہا اور حضیر کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے انجیکشن سے چابی نکال کر گاڑی سے اتر کر گھر میں داخل ہوگئی جبکہ حضیر مشی کی حرکت پر غصہ ضبط کرتا گاڑی کا دروازہ کھول کر اترا اور گاڑی کا دروازہ دھاڑ سے بند کر کے تن فن کرتا اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

یہ لیں پانی پیئں اور غصہ ٹھنڈا کریں ۔۔۔

حضیر کے لاؤنچ میں انٹر ہوتے ہی مشی نے پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جس پر حضیر نے ایک غصے بھری نظر مشی پر ڈال کر اسکے ہاتھ سے پانی لیتا ایک سانس میں پی کر کمرے میں چلاگیا پیچھے مشی بھی گلاس کیچن میں رکھ کر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔

مشی نے کمرے میں داخل ہوکر ایک نظر حضیر کو دیکھا جو خاموشی سے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنی گھڑی اتار کر گھڑی اور گاڑی کی چابی دراز کھول کر اس میں رکھنے لگا ۔۔۔

میری بات سنیں ذرا ! شوق آپ کو تھا میرا ماضی جاننے کا تو مجھ سے کس خوشی میں ناراضگی دیکھائی جارہی ہے میرا کیا قصور جو مجھ سے بات نہیں کر رہے ۔۔۔

مشی نے حضیر کو خاموش دیکھ کر کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا جبکہ حضیر اسکی بات کو اگنور کیے اپنے سر کو مسلتا بیڈ پر دراز ہوگیا ۔۔۔

سر میں درد ہورہا ہے تو میں دبادوں ۔۔۔

مشی نے حضیر کو سر مسلتا دیکھ اپنا عبایا وارڈروب میں رکھتے ہوئے  فکرمندی سے پوچھا ۔۔۔

سوجائیں بعد میں بات کرینگے ۔۔۔

حضیر کے کوئی بھی جواب نا دینے پر مشی بیڈ پر بیٹھ کر اسکا سر دباتے ہوئے کہنے لگی جبکہ حضیر نے فوراً سے اسکی بات مانتے ہوئے اپنی آنکھیں موندلیں ۔۔۔

کافی دیر سر دبانے کے بعد جب مشی کو یقین ہوگیا کہ حضیر سوگیا تو مشی نے اسکا سر صحیح طریقے سے تکیے پر رکھ کر کمفرٹر ٹھیک کیا اور اپنے بستر پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں اور کچھ ہی دیر میں نیند کی وادی میں اتر گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

خیریت سے آنا ہوا آپ لوگوں کا !

اس وقت شاہ حویلی کے ڈرائنگ روم میں شماس صاحب فاریہ بیگم ہماس شاہ فرزانہ بیگم فریدہ بیگم اذان صاحب اور انعم بیگم بیٹھے ہوئے تھے تو سب کو خاموش دیکھ کر فرزانہ بیگم نے بات کا آغاز کیا کیونکہ فارس کاردار اور حیا کے انتقال کے بعد انکے تعلق میں کافی دوری آگئی تھی ۔۔۔

آج ہم ماضی بھلاکر آپ سے آپکی قیمتی چیز مانگنے آئے ہیں تاکہ جو تعلق کمزور ہوگیا وہ وآپس سے مضبوط ہوجائے اور امید ہے آپ لوگ انکار نہیں کرینگے ۔۔۔

فرزانہ بیگم کے پوچھنے پر فریدہ بیگم نے نرمی سے جواب دیا ۔۔۔

آپ اگر کھل کر بات کرینگی تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔۔۔

فریدہ بیگم کی بات پر ہماس شاہ نے شائستگی سے کہا ۔۔۔

دراصل انکل ہم اپنے بیٹے مسیب کے لئے آپکی پوتی اور شماس شاہ کی بیٹی مصباح کا رشتہ مانگنے آئے ہیں اور امید ہے آپ لوگ ہمیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائینگے ۔۔۔

ہماس شاہ کی بات پر اذان کاردار نے اپنی آمد کی وجہ سے انہیں آگاہ کیا ۔۔۔

دیکھیں اذان بھائی ۔۔۔ بیٹا بیٹی کا معاملہ ہے ہم سوچ کر جواب دینگے ۔۔۔

ابھی شماس شاہ کچھ کہتے کہ ہماس شاہ نے انہیں ہاتھ دباکر خاموش کروانے کے ساتھ خود نرمی سے انہیں جواب دیا ۔۔۔

بے شک انکل آپ جیسے چاہے اپنی تسلی کرلیں اور مجھے امید ہے آپ ہمیں مایوس نہیں کرینگے اور مسیب آپ سب کے سامنے بڑا ہوا ہے پھر بھی اگر آپ لوگ کچھ معلومات کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کرلیں لیکن پلیز تھوڑا جلدی اور مثبت جواب دیجئے گا ۔۔۔

جی بہتر بیٹا انشاءاللّہ ہم کل تک آپکو اپنے جواب سے آگاہ کردینگے ۔۔۔

اذان صاحب کی بات پر ہماس شاہ نے کہا اور پھر کچھ دیر بیٹھ کر وہ لوگ کاردار ولا کی طرف چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️ 

بھائی اب تو حضیر بھائی بلکل بھی کاردار ولا نہیں آئینگے کہیں بھائی ہم سے بھی بدگمان نا ہوجائیں ۔۔۔

حضیر کے جاتے ہی انعمتہ نے پریشانی سے مسیب سے کہا ۔۔۔

میری شہزادی ہمارے بھائی کی جان ہم میں بسی ہے وہ خود کو تو بھول سکتا ہے لیکن اپنوں سے جڑے رشتوں کو نہیں اور ہماری تو ان سب میں کوئی غلطی نہیں ہے تو وہ ہم سے کیونکر ناراض ہونگے اور رہی بات کاردار ولا آنے کی تو کوئی بات نہیں ہم ان سے ملنے وہاں چلے جائینگے اب ہم اپنے بھائی کے لئے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں ۔۔۔

انعمتہ کے کہنے پر مسیب نے اسے پیار سے سمجھایا جس پر باقی سب نے بھی اسکی تائید کی ۔۔۔

تبھی بھابھی ہم سے چاہ کر بھی فرینک نہیں ہوپاتی اتنی سی عمر میں کتنا کچھ سہا ہے انہوں نے ۔۔۔

ظاہر سی بات ہے جسکی ساری زندگی اپنوں کی نفرت اور اپنے ناکردہ گناہ کی سزا جھیلتے گزری ہو وہ شخص کیسے اپنے مجرم کے گھر والوں سے فرینک ہوگا بلکہ فرینک ہونا تو دور کی بات کوئی شخص بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا لیکن یہ تو بھابھی کی اعلٰی ظرفی ہے جو وہ ہم سے اچھے بات کرتی ہیں اور انہوں نے کبھی بھی ہم سے کوئی طنزیہ بات نہیں کی بلکہ جب بھی بات کرتی ہیں بہت شائستگی اور نرمی سے کرتی ہے کبھی بھی بھابھی نے کسی سے بھی تلخ لہجے میں بات نہیں کی ۔۔۔

لوگ کہتے ہیں کہ والدین کے گناہوں کی سزا اولاد کو ملتی ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسا ہے بھی لیکن بھابھی نے ہمیں کسی بات کی بھنک بھی نہیں لگنے دی سچ میں بھابھی صورت اور سیرت دونوں کی بے انتہا خوبصورت ہیں ۔۔۔

حیان نے محبت سے مشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

قسم سے حیان نے زندگی میں پہلی بار کوئی ڈھنگ کی بات کی ہے ۔۔۔

برداء نے ماحول کی سنجیدگی کو دور کرنے کے لئے حیان کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

شکر ہے میں نے کر تو لی آپ تو مجھ سے بڑے ہیں آپ نے تو آج تک صرف فضول بکواس ہی کی ہے جسے سن کر ہمارے سروں میں اور درد ہوجاتا ہے ۔۔۔

برداء کی بات پر حیان نے تپادینے والی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا ۔۔۔

ویسے بات ہے رسوائی کی پر بات سے سچائی کی ۔۔۔

حیان کے کہنے مبشر نے اسکا ساتھ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

دوست دوست نا رہا بھائی بھائی نا رہا ۔۔۔

مبشر کی بات سن کر برداء نے جلتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا ۔۔۔

یار بھائی یہ تھرڈ کلاس ایکٹینگ مت کیا کریں یقین کریں پورے بندر لگتے ہیں ۔۔۔

حورعین نے برداء کو ایکٹنگ کرتا دیکھ کوفت سے کہا جس پر سب نے قہقہہ لگایا ۔۔۔

ہاں ہاں اوڑالو مزاق جب میری بیگم آئیگی ناں پھر وہ جواب دیگی تم سب کو  میری بے عزتی کا ۔۔۔

سب کے قہقہہ لگانے پر برداء نے منہ بسورتے ہوئے جل کر کہا ۔۔۔

کوئی دے ہی نا دے تجھ جیسے بندر کو اپنی بیٹی ۔۔۔

برداء کے کہنے پر مسیب نے اسکی ٹانگ کھینچتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں جارہا ہوں یہاں سے تم سب میرے پیچھے پڑگئے ۔۔۔

برداء نے جلتے ہوئے کہا اور وہاں سے واک آؤٹ کرگیا جبکہ اس کے پیچھے پھر سے سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ان سب کو اس طرح ہنستے دیکھ کر مدیحہ بیگم نے دل ہی دل میں سب کے ہمیشہ ہنستے مسکرانے کی دعا کی ۔۔۔

بابا آپ نے مجھے انکار کیوں نہیں کرنے دیا مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے آپ بھول گئے میری جان سے عزیز بہن کے ساتھ انہوں نے کیا کیا اور پھر اسکے بعد میری معصوم سی بھانجی کے ساتھ کتنا ظلم کیا میرے اختیار میں ہوتا تو میں کبھی بھی مشی کی شادی حضیر سے نہیں ہونے دیتا اس لئے جب میں مشی اور حضیر کی شادی کے خلاف تھا تو میں اپنی بیٹی کیسے دے دونگا میں کسی قیمت پر بھی مصباح کی شادی مسیب سے نہیں کرونگا میری اکلوتی بیٹی ہے میں اسے ان ظالموں کے حوالے نہیں کرونگا ۔۔۔

اذان صاحب والوں کے جاتے ہیں شماس شاہ جو کہ ہماس شاہ کے اشارے پر خاموش بیٹھے تھے انکے جاتے ہی پھٹ پڑے ۔۔۔

شماس فیصلے جذبات میں نہیں کیے جاتے اور ابھی میں زندہ ہو اور تم سے زیادہ دنیا دیکھی ہے میں نے اور تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں اپنی جان سے عزیز ہوتی کو ایسے ہی کسی کے بھی حوالے کردونگا مانا کہ مجھے اور تمہاری ماں کو مشی سے محبت زیادہ ہے لیکن اسکا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمیں اپنے پوتوں اور پوتی سے محبت نہیں ہے میں جو کچھ کرونگا اسکی بھلائی کے لئے ہی کرونگا لیکن اگر تم خود فیصلہ کرنا چاہتے ہو تو مرضی ہے تمہاری تم باپ ہو میں تمہیں روکونگا نہیں لیکن تمہیں سمجھانا میرا فرض باقی آگے جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔

شماس شاہ کی بات پر ہماس شاہ نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

معذرت بابا جان بس مجھے ایک دم حیا یاد آگئی تو میں جذباتی ہوگیا ۔۔۔

شماس شاہ کو اپنے لہجے کا احساس ہوا تو شرمندگی سے کہنے لگے ۔۔۔

دیکھو شماس میں جانتا ہوں تم حیا سے بے انتہا محبت کرتے تھے لیکن مجھ سے اور تمہاری ماں سے زیادہ نہیں اور ہمیں مشی میں حیا کی ہی پرچھائی نظر آتی ہے اس لئے ہمیں مشی سے زیادہ محبت ہے لیکن پھر بھی ہم اسے کسی بھی ظلم سے نہیں بچا پائے خیر میں چاہتا ہوں کہ تم ایک دفعہ مسیب سے ملو پھر اسکے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا اور رہی بات حیا کی تو حیا کو شادی کے بعد اذہان نے اسے ہتھیلی کا چھالا بناکر رکھا ہے اور حضیر اور مشی کے تو حالات ہی الگ تھے اور ضروری نہیں کہ جو کچھ مشی کے ساتھ ہوا وہ مصباح کے ساتھ ہو کیونکہ نا تو مسیب حضیر ہے اور نا ہی مصباح مشی اس لئے جو بھی فیصلہ کرو سوچ سمجھ کر کرنا ۔۔۔

ٹھیک ہے بابا جان صبح اپن دونوں مسیب کے پاس ہسپتال چلینگے اسکے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا ۔۔۔

ہاں اتنا بتادوں کہ یہ فارس کی خواہش تھی جو اس نے اپنے آخری دنوں میں مجھ سے کہی تھی لیکن مجھے اتنی مہلت ہی نہیں ملی کہ میں اسے کوئی جواب دے پاتا ۔۔۔

شماس شاہ کے کہنے پر ہماس شاہ نے انہیں آگاہ کیا ۔۔۔

بابا جان آپ نے مجھے بتاکر اچھا کیا اب مجھے فیصلہ لینے میں اور بھی آسانی ہوگی مجھے مسیب میں کوئی کمی نہیں لگتی بلکہ مجھے پسند ہے مسیب لیکن کچھ لوگوں کی وجہ سے میں انکار کر رہا تھا ۔۔۔

بیٹا ہم ایک کے کیے کی سزا سب کو تو نہیں دے سکتے اس لئے کوئی بھی فیصلہ کرو سوچ سمجھ کر کرنا ۔۔۔

ہماس شاہ نے شماس شاہ کو سمجھاتے ہوئے کہا اور انکا کندھا تھپتھپاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آپ اٹھ گئے تو مجھے بھی اٹھادیتے ۔۔۔

مشی نے اپنے بل باندھتے ہوئے ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر آفس کے لئے تیار ہوتے حضیر کو دیکھ کر کہا ۔۔۔

لائیں میں آپکی ٹائی باندھ دوں ۔۔۔

مشی نے بیڈ سے اٹھ حضیر کے پاس آتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں اپنے کام خود کرسکتا ہوں ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے بنا اس پر ایک نظر ڈالے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے جب آپکو میری اور میری بیٹی کی ضرورت نہیں ہے تو میں بھی بابا یا نانو کے پاس چلی جاؤنگی ۔۔۔

مشی کی اب بس ہوگئی تھی تبھی وہ حضیر سے غصے سے کہتی باتھروم چلی گئی ۔۔۔

ایسے پتہ نہیں کیسے چلی جاؤگی ابھی جانے دے رہا ہوں میں تمہیں ۔۔۔

مشی کی بات پر حضیر نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔

آپ چھوڑ کر آرہے ہیں مجھے یا میں بابا کو بلالوں یا نانو کے سے کسی کو بلالوں ۔۔۔

مشی نے باتھروم سے وآپس آکر ٹاول سے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

حضیر میں سچ کہہ رہی ہوں اگر آپ نے اب مجھے اگنور کیا تو میں آپ کے پیچھے سے اکیلی ہی چلی جاؤنگی پھر ڈھونڈتے رہیگا کم از کم مجھے اپنے قصور تو بتائیں آخر ایسی کیا غلطی کردی میں نے جو آپ مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کر رہے ۔۔۔

حضیر کو خاموش دیکھ کر مشی نے غصے سے کہا اور وارڈروب کھول کر اپنا برقعہ نکالنے لگی ۔۔۔

ادھر یہ میکے کی دھمکیاں ناں جاکر کسی اور کو دینا اگر ایک قدم بھی اس گھر سے باہر نکالا تو ٹانگیں توڑ دونگا سمجھیں اور رہی بات تمہارے قصور کی  تو تمہارا ایک قصور ہی سب پر بھاری ہے اس لئے اگر حساب لینے پر آیا تو دے بھی نہیں پاؤگی ۔۔۔

مشی کے دھمکی دینے پر حضیر نے اسے بازؤں سے دبوچتے ہوئے غصے سے کہا اور اسے جھٹکے سے چھوڑتا آفس کا بیگ لیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

باجی آپ کے پاس موبائل ہے کیا ؟

مشی نے لاؤنچ کی ڈسٹنگ کرتی ملازمہ سے پوچھا ۔۔۔

جی گڑیا ہے لیکن چھوٹا والا ہے ۔۔۔

اچھا اس میں بیلنس یا پیکج ہے کیا ؟

ملازمہ کے مثبت جواب دینے پر مشی نے دوبارہ پوچھا ۔۔۔

جی گڑیا تھوڑا سا بیلنس ہے موبائل میں ۔۔۔

اچھا مجھے ایک کال کرنی ہے کیا آپ مجھے اپنا موبائل دینگی ۔۔۔

جی گڑیا لے لو ۔۔۔ مشی کے کہنے پر ملازمہ نے موبائل اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جو کہ مشی نے فوراً سے ملازمہ کے ہاتھ سے لے لیا ۔۔۔

ملازمہ سے موبائل لیکر مشی نے جھٹ سے مصباح کا نمبر ملایا اور فون کو کان سے لگاکر مصباح کے فون اٹھانے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔

اسلام علیکم مصباح کیسی ہے تو باقی سب کیسے ہیں ؟

مصباح کے کال اٹھاتے ہی مشی نے سلام کے ساتھ سب کا حال احوال پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں بلکل ٹھیک ہوں اور الحمدللّٰہ باقی سب بھی بلکل ٹھیک ہیں تو سنا کیسی ہے اور میری گڑیا کیسی ہے ؟

میں اور عفراء دونوں ٹھیک ہیں الحمدللّٰہ اور میں نے ملازمہ کے نمبر سے کال کی ہے مجھے تجھ سے ایک کام تھا ۔۔۔

مشی نے مصباح کو اپنا حال چال بتانے کے ساتھ مدعے کی بات کی ۔۔۔

بول میری جان کیا بات ہے سب خیریت تو ہے ناں اور حضیر بھائی کہاں ہے ؟

مشی کے کہنے پر مصباح نے فکرمندی سے کہنے کے ساتھ حضیر کا پوچھا ۔۔۔

وہ تو آفس گئے ہیں تو مجھے سعد بھائی یا انیب بھائی کے ساتھ لینے آجا تھوڑی دیر تک ۔۔۔

مشی نے اپنے نچلے ہونٹ کو چباتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔

ہاں میں پہنچتی ہو تھوڑی دیر تک یہاں پر بھی سب تجھے بہت یاد کر رہے ہیں خاص کر کے دادو اور دادا جان بس تو ریڈی ہوجا میں سعد بھائی کے پاس جارہی ہوں کہیں وہ آفس نا چلے جائیں ۔۔۔

مشی کی بات سن کر مصباح نے خوشی سے کہا اور فون بند کردیا جبکہ فون بند ہوتے ہی مشی نے موبائل وآپس ملازمہ کو دیا اور خود عفراء کو لیکر کمرے میں چلی گئی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں مشی عفراء کو لیکر مصباح اور سعد کے ساتھ شاہ حویلی چلی گئی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر نے عادت کے مطابق گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کیا لیکن  روز کی طرح آج کوئی جواب نہیں آیا جس پر حضیر اپنا سامان لاؤنچ کے صوفے پر رکھ کر کیچن کی طرف بڑھ گیا کیونکہ جب بھی وہ آفس سے گھر آتا تھا مشی کیچن میں پائی جاتی تھی اور حضیر کی آواز سنتے ہی سب کام چھوڑ کر اسکے لئے پانی لیکر لاؤنچ میں چلی آتی تھی ۔۔۔

عائش ۔۔۔

حضیر نے مشی کو کیچن میں ناپاکر آواز دی اور سامان صوفے سے اٹھاکر کمرے میں چلاگیا ۔۔۔

عائش کہاں ہو ؟

حضیر نے کمرے میں داخل ہوکر ایک نظر پورے کمرے میں ڈال کر پھر سے آواز دی لیکن وہاں کوئی ہوتا تو جواب دیتا ۔۔۔

حضیر اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لئے واشروم کا دروازے پر ہاتھ مارا تو وہ کھل گیا اور پھر مشی کو نا پاکر حضیر تن فن کرتا کمرے سے باہر نکلا اب اسکا رخ گارڈ کی طرف تھا تاکہ اس سے اپنے شک کی تصدیق کرسکے کیونکہ ملازمہ تو کام کرتے ہی چلی جاتی تھی ۔۔۔

میڈم کہاں ہے ؟

حضیر نے گیٹ پر کھڑے گارڈ سے غصے سے پوچھا ۔۔۔

سر وہ تو آپ کے جانے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد چلی گئی تھی ۔۔۔

وہ اکیلی گئی ہے یا کوئی آیا تھا اسے لینے ؟

گارڈ کے بتانے پر حضیر اپنے شک کو یقین میں بدلتا دیکھ بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا جبکہ کنپٹی کی پھولی ہوئی رگیں غصے سے سرخ پڑتاچہرہ اور ہاتھوں کی بھینچی ہوئی مٹھیاں اسکے بے پناہ غصہ کا ثبوت دے رہی تھی ۔۔۔

سر وہ سعد سر اور انکے ساتھ میڈم کی دوست آئی تھی ان کے ساتھ ہی میڈم گئی ہیں ۔۔۔

گارڈ نے حضیر کے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر ڈرتے ہوئی جلدی سے کہا جس پر حضیر وآپس گھر کے اندد چل دیا ۔۔۔

کمرے میں وآپس کر حضیر نے اپنا کوٹ ہینگ کر کے آفس بیگ کو اسکی جگہ پر رکھا اور وارڈروب سے کپڑے لیکر باتھروم چلا گیا ۔۔۔

پانچ منٹ بعد باتھروم سے فریش ہوکر باہر آیا اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال بنائے اور خود پر پرفیوم کی بارش کر کے الٹے ہاتھ کی مضبوط کلائی میں برانڈڈ گھڑی پہن کر گاڑی کی چابی موبائل اور کلاسس لیکر باہر کی طرف چل دیا اور اب اسکا رخ شاہ حویلی کی طرف تھا جبکہ اب اسکا غصہ کافی حد تک کم ہوچکا تھا ۔۔۔

تجھے پتہ ہے سارہ آپی کی شادی فکس ہوگئی ہے عید کے پانچ دن بعد ۔۔۔

اناب نے مشی اور مصباح کو بتایا جو کہ مشی کا سن کر شاہ حویلی آئی تھی اور اب مصباح کے روم میں بیٹھی وہ تینوں باتوں میں مصروف تھی کہ اناب نے انہیں آگاہ کیا ۔۔۔

اچھا کب ہوئی شادی فکس تو نے بتایا بھی نہیں بدتمیز ۔۔۔

اناب کے کہنے پر مصباح نے اسے اپنی گود میں رکھا کشن مارتے ہوئے خفگی سے کہا ۔۔۔ 

یار میرے ذہن میں نہیں رہا تھا ورنہ تم دونوں کو نا بتاؤ ایسا ہوسکتا ہے کیا میرے پیٹ میں کوئی بات ہضم نہیں ہوتی جب تک تم دونوں کو نا بتادوں ۔۔۔

اچھا چل بس معاف کیا زیادہ صفائی مت دے ۔۔۔

اناب کے صفائی دینے پر مشی نے احسان کرنے والے انداز میں کہا ۔۔۔

آپ تینوں کو بڑی بیگم صاحبہ اپنے کمرے میں بلارہی ہیں ۔۔۔

ابھی وہ تینوں لڑنے میں مصروف تھی کہ ملازمہ میں نے آکر انہیں فررزانہ بیگم کا پیغام دیا جس پر وہ تینوں جلدی سے اٹھتی انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

نانو خیریت تو ہے آپ نے ہم تینوں کو بلایا اور آپ سب ایک جگہ اکھٹے ہوئے ہیں سب خیریت ہے ناں ۔۔۔

مشی نے کمرے میں داخل ہوکر ایک نظر پورے روم ڈال کر کہا جہاں شماس شاہ ہماس شاہ فاریہ بیگم سحر سعد انیب سب پہلے سے موجود تھے اور فرزانہ بیگم ہے برابر میں جاکر بیٹھ گئی ۔۔۔

مصباح کے لئے مسیب کا رشتہ آیا ہے تم بتاؤ کیا کہتی ہو اس معاملے میں ۔۔۔

مشی کے پوچھنے پر فرزانہ بیگم نے اس سے ڈائیریکٹ مدعے کی بات کی ۔۔۔

جیسا آپ لوگوں کو ٹھیک لگے نا میں انکار کرونگی اور نا ہی اقرار وہ میرا سسرال ہے تو یہ میرا میکہ ہاں لیکن اتنا ضرور کہونگی مسیب بھائی میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔۔۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اگر تم لڑکا یا لڑکی کسی کے لئے رشتہ دیکھو تو ان میں یہ تین چیزیں ضرور دیکھو ( دین , خوبصورتی اور حسب نسب ) اور یہ تینوں خوبیاں مسیب بھائی میں موجود ہیں اللّٰہ کے کرم سے پانچ وقت کے نمازی ہیں میں نے انہیں قرآن پڑھتے ہوئے بھی دیکھا ہے خوبصورت بھی ماشاءاللّٰہ بہت ہیں اور حسب نسب بھی اچھا ہے دین کے حساب سے تو انکار کی کوئی وجہ نہیں باقی آپ لوگ دیکھ لیں کیونکہ دنیاوی بھی مال و دولت دیکھا جاتا ہے وہ بھی اللّٰہ کے کرم خوب ہے عمر بھی زیادہ نہیں ہے باقی جیسے آپ لوگوں ٹھیک لگے ۔۔۔

مصباح بیٹا آپ کیا چاہتی ہو ؟

مشی کی بات سن کر شماس شاہ نے مصباح سے پوچھا ۔۔۔

بابا جیسے آپ لوگوں کی مرضی جو آپ لوگوں کا فیصلہ ہوگا وہی میرے حق میں بہتر ہوگا ۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں مسیب سے ایک ملاقات کر کے اپنا فیصلہ سنادونگا ۔۔۔

شماس شاہ نے ایک نظر سب کو دیکھ کر اپنا فیصلہ سنایا چونکہ سعد اور انیب مسیب کے حق میں اپنی رضامندی دے چکے تھے ۔۔۔

چلو اب سب عصر کی نماز پڑھ لو اذان ہوگئی ہے ۔۔۔

شماس صاحب کی بات پر ہماس شاہ نے کہا تو سب اٹھ کر نماز کے لئے چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم انکل خیریت سے آنا ہوا ۔۔۔

مسیب نے اپنے کیبن میں داخل ہوکر شماس شاہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

کیوں کیا میں نہیں آسکتا برخوردار ۔۔۔

نہیں انکل ایسی بات نہیں ہے دراصل یہاں ہسپتال میں کوئی بھی خوشی سے نہیں آتا اس لئے پوچھا تھا ورنہ جب دل چاہے آپ آسکتے ہیں آپکا اپنا ہی ہسپتال ہے ۔۔۔

شماس شاہ کی بات پر مسیب نے اپنی چیئر پر بیٹھتے ہوئے عاجزی سے کہا ۔۔۔

دراصل مجھے تم اسے ایک اہم بات کرنی تھی معلوم تو تمہیں ہوگا ہی تمہارے والدین تمہارا رشتہ میری بیٹی کے لئے لائے ہیں بس اسی سلسلے میں تم سے کچھ بات کرنی تھی ۔۔۔

انکل آپ کو جو پوچھنا ہے کھل کر پوچھیں آپ بیٹی کے باپ ہیں آپ کا حق ہے لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا ماضی کو بھلا دیں کیونکہ اگر ہم ماضی میں رہے تو مستقبل کے رشتے خراب ہوجائینگے ۔۔۔

شماس شاہ کی بات پر مسیب نے نرمی سے انہیں سمجھایا ۔۔۔

بیٹا میں آپکی طرف سے بلکل مطمئین ہوں آپ میرے سامنے پلے بڑے ہو لیکن آپ جانتے ہو جو کچھ مشی کے ساتھ ہوچکا ہے وہ سب مجھے اپنی رضامندی دینے سے روک رہا ہے ۔۔۔

انکل اس وقت حالات کچھ اور تھے اور بھائی بھی یہاں نہیں تھے اور ضروری نہیں کہ ہر ایک کا نصیب ایک جیسا ہو میں بس اتنا کہونگا میں اپنی پوری کوشش کرونگا کہ آپکی بیٹی کی آنکھوں میں میری وجہ سے آنسو نا آئیں اور میں اپنی کوشش کرونگا کہ میں آپکی بیٹی کو خوش رکھو باقی جو آپکا دل کہے آپ وہ فیصلہ کریں ۔۔۔

شماس شاہ کے کہنے پر مسیب نے بنا کوئی عہد و پیمان کیے انہیں مطمئین کردیا ۔۔۔

چلو ٹھیک ہے پھر انشاءاللّہ میرا جواب آپکے والدین تک پہنچ جائیگا اب میں چلتا ہوں افطار کے وقت ہورہا ہے ۔۔۔

شماس شاہ نے مسیب سے کہا اور اس سے مصافحہ کرتے چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

میں اپنے پوتے برداء کا رشتہ آپکی بیٹی اناب کے لئے لائی ہوں مجھے یقین ہے آپ مجھے مایوس نہیں کروگے ۔۔۔

فریدہ بیگم مدیحہ بیگم اذان صاحب اور انعم بیگم آج برداء کا رشتہ اناب کے لئے لیکر خان حویلی آئے تھے اور پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فرزانہ بیگم نے مدعے کی بات کی ۔۔۔

ہم آپ کو سوچ کر جواب دینگے ۔۔۔

میں جانتا ہوں یاسر تمہاری ایک بیٹی کی عید کے بعد شادی ہے تو اس لئے اگر تم ہاں کردو تو ہم اس میں ہی منگنی یا نکاح کی رسم کرلینگے ۔۔۔

ٹھیک ہے میں انشاءاللّٰہ کل تک آپ لوگوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردونگا ۔۔۔

مجھے امید ہے ہمیں مثبت جواب ملے گا ۔۔۔

انشاءاللّٰہ اور میں چاہتا ہوں کہ مستبشرہ کی خواہش بھی جلد ہی پوری کردی جائے ۔۔۔ 

اذان صاحب کی بات پر یاسر خان نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

تمہاری امانت ہے جب چاہے آکر لے جاؤ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم مثبت جواب دے دو تو دونوں کی ایک ساتھ ہی کردینگے ۔۔۔

ٹھیک ہے پھر آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردونگا پھر باقی معاملات طہ کرلینگے ۔۔۔

 چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔

 یاسر خان کی بات پر اذان صاحب نے کہا اور پھر سب افطار کے وقت وآپس شاہ حویلی کی طرف لوٹ گئے ۔۔۔ 

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سلام کیا جس سے لاؤنچ میں بیٹھے سب افراد اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔

وعلیکم سلام آؤ بیٹا کیسے ہو مشی نے بتایا ہی نہیں کہ تم نے آج آنا تھا ۔۔۔

ہماس شاہ نے حضیر کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی بس میں نے بتایا نہیں تھا مشی کو ۔۔۔

اچھا چلو کوئی نہیں آؤ بیٹھو ۔۔۔

حضیر کی بات پر شماس شاہ نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔

عائش کہاں ہے ۔۔۔

کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد حضیر نے مشی کا پوچھا ۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں ہے شاید قرآن پاک پڑھ رہی ہے جاؤ مل لو اس سے ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر فرزانہ بیگم نے اسے مشی کا بتایا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا مشی کے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر نے روم داخل ہوکر سلام کیا جو کہ پہلے حیا کے زیرِ استعمال تھا جبکہ مشی جو کہ قرآن پاک پڑھ رہی تھی حضیر کی آواز سن کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا تھا بھلے وہ غصے ہی غصے میں آگئی تھی لیکن دل ہی دل میں حضیر کے ریئکشن سے خوفزدہ بھی بہت تھی اور اب تو وہ خود پہنچ چکا تھا ۔۔۔

وعلیکم سلام ۔۔۔

مشی نے جلد ہی خود کو کمپوز کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور قرآن پاک بند کر کے بیڈ سے اٹھ کر شیلف پر رکھا ۔۔۔

تم کس سے پوچھ کر آئی یہاں منع کر کے گیا تھا ناں میں تو پھر تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بات کے خلاف جانے کی ۔۔۔

حضیر نے مشی کے قریب آکر اسکے بازوؤں کو دبوچ کر غصے سے غراتے ہوئے کہا لیکن دھیمی ہی رکھی تاکہ کوئی اور نا سن لیں ۔۔۔

خزیمہ میں اتنی بے مول نہیں ہوں جتنا آپ نے اور آپ کے گھر والوں نے کردیا پہلے میں انکی باندھی تھی اور آپ نے مجھے اپنا غلام بنالیا ہے میری بھی کوئی عزتِ نفس ہے جانتی ہوں شوہر کی نافرمانی کرنا گناہ ہے لیکن اس گھر میں رہ کر بھی کیا کرنا جس گھر کے مکین کے دل میں ہی میرے لئے جگہ نا ہو آپ کے اس رویے کی وجہ سے مجھے اپنا آپ اس گھر میں بوجھ محسوس ہورہا تھا خیر میں تو ساری زندگی کسی نا کسی پر بوجھ بنتی آئی ہوں آج کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن کم از کم مجھے میرا قصور تو بتائیں ۔۔۔

حضیر کے غصے سے کہنے پر مشی نے اسکے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔۔

تم نے ہر بات مجھ سے چھپائی میں نے شادی کی رات ہی تم سے سختی سے کہا تھا کہ کوئی بھی بات ہو مجھ سے نہیں چھپاؤگی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی لیکن تم نے تو اپنی شخصیت سے ہی مجھے بے خبر رکھا کیا میری بات کی اتنی ہی اہمیت تھی تمہارے نزدیک کہ میرے ہزار دفعہ پوچھنے کے باوجود بھی تم نے مجھے کبھی بھی کچھ بھی نہیں بتایا کیا اتنا ہی اعتماد تھا تمہیں مجھ پر اور تم تو ابھی بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں یہاں تک کہ تم نے مجھے اس بات سے بھی لاعلم رکھا کہ مما ہماری طلاق کروارہی تھی کیا میرا ناراض ہونے کا حق نہیں بنتا ؟

حضیر نے دبے دبے لہجے میں دھاڑتے ہوئے کہنے ساتھ آخر میں سوال کیا ۔۔۔

مجھے یہ بتائیں آپ شادی کے بعد کتنے دن رہے پاکستان میں صرف اور صرف ایک ہفتہ میں کیسے اعتماد کرلیتی آپ پر کہ آپ میری بات کا یقین کرینگے بات بھی وہ جو آپکے والدین کے خلاف ہو اگر میں اس وقت آپ کو سب بتاتی ناں تو آپ اسی وقت مجھے تین بول بول کر فارغ کردیتے اور میں اتنی بیوقوف نہیں تھی جو اتنی سی عمر میں طلاق کا داغ لگوا لیتی آپ کو صرف اپنے بات کی نفی کرنے پر اتنا غصہ آرہا ہے اور میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔۔۔

اصل بات یہ ہے خزیمہ کے آپ شدید غصے ہیں اپنے والدین پر لیکن ان پر آپ اپنا غصہ اتار نہیں سکتے تو اس لئے ایک فضول سی وجہ کو میرا قصور بناکر اپنے اندر کا سارا غصہ مجھ پر نکال رہے ہیں ۔۔۔

لیکن مجھے اتنا بتادیں کیا میں انسان نہیں ہوں ؟ یا میرے کوئی احساسات یا جذبات نہیں ہیں ؟ یا پھر میرے پاس دل نہیں ہے ؟ آپ محبت کے داوے کرتے ہیں لیکن آپ کے دل میں شاید میرے لئے کوئی جذبات ہی نہیں ہے اور اب میں تھک چکی ہوں اپنی ناقدری کرواکر اپنی عزتِ نفس کو روند کر بس اب میری برداشت ختم ہوگئی ہے اس لئے پلیز چلے جائیں یہاں سے اور جو دل میں آئے وہ فیصلہ کریں آپ میری طرف سے آزادی ہیں جائے جاکر اپنی ماں کی خواہش پوری کریں ردابہ آپی سے شادی کر کے میں تو آپ کے قابل ہو ہی نہیں کہاں آپ حضیر خزیمہ کاردار دا بانس ٹائیکون اور کہاں میں گھریلو عام سی اللّٰہ کی بندی آپ کو تو اپنے مقابلے کی کوئی چاہئے ہوگی تو جائیں میری طرف سے اجازت ہے کیونکہ اب میں ایسے رویہ نہیں سہہ سکتی میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا اب نہیں بھگت سکتی زندگی کے انیس سال میں نے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے میں وقف کیے لیکن میری ہمت جواب دے گئی ہے ۔۔۔

بیشک آپ دوبارہ امریکہ چلے جائیں میری طرف سے فل اجازت ہے بس میرا پیچھا چھوڑدیں میں سمجھتی تھی آپ دوسروں سے الگ ہیں آپ انصاف کرنا جانتے ہیں لیکن آپ نے بھی سب کی طرح مجھے مجرم نا ہوتے ہوئے بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا آپ بھی سب جیسے ہی ہیں اور مجھے نہیں ضرورت اب کاردار ولا کے کسی بھی فرد کی چاہے اب وہ فرد آپ ہی کیوں نا ہو میں گزارلونگی اپنی زندگی اپنی اللّٰہ اور بیٹی کے سہارے جیسے پہلے گزار رہی تھی آپ جائیں اپنی زندگی ہنسی خوشی گزاریں بھول جائیں کہ آپکی کبھی شادی بھی ہوئی تھی یا آپکی کوئی بیوی یا بیٹی بھی ہے جیسے ان دو سالوں میں بھولے بیٹھے تھے میں بھی صبر کرلونگی کہ شاید اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے خود کے لئے چن لیا ہے اس لئے مجھے اپنے ہر قریبی شخص سے توڑواکر خود کے قریب کرلیا جائیں چلے جائیں یہاں سے اور دوبارہ میرا صبر آزمانے مت آئیگا ۔۔۔

مشی نے درد بھرے لہجے میں حضیر سے کہا جبکہ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور پھر اس سے اپنے ہاتھ چھڑواتی باتھروم چلی گئی جبکہ حضیر کتنی ہی دیر ساکت نظروں سے اس جگہ کو گھورتا رہا جہاں کچھ وقت پہلے مشی کھڑی شکوے کرتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔

مشی باتھروم سے باہر آئی تو حضیر جاچکا تھا جبکہ حضیر کو روم میں نا پاکر مشی کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی اور پھر وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی نیچے چل دی ۔۔۔

مشی بیٹا حضیر ابھی آیا تھا اور ابھی چلا بھی گیا خیریت تو ہے ناں ۔۔۔

جی بس وہ بتانے آئے تھے کہ وہ آفس کے کام سے آؤٹ آف کنٹری جارہے ہیں ۔۔

شماس شاہ کے پوچھنے پر مشی نے گڑبڑاتے ہوئے جھوٹ کہا ۔۔۔

پھر حضیر بھائی کے وآپس آنے تک تو یہیں رک جا مزہ آئیگا ۔۔۔

نہیں مصباح میں بابا کے پاس جاؤنگی کافی دن ہوگئے ان سے ملے ہوئے نا میری ان سے بات ہوئی اس لئے افطار کے بعد گھر جاؤنگی ۔۔۔

چلو بیٹا جیسے تمہیں ٹھیک لگے لیکن ملنے آتی رہنا تمہارا اپنا گھر ہے میرے بچے ۔۔۔

جی نانا جان آپ پریشان نا ہو میں ملنے آؤنگی اور اگر میں نا آؤں تو آپ لوگ آجانا ۔۔۔

ہماس شاہ کے کہنے پر مشی نے محبت سے کہا ۔۔۔

اچھا بس اب اذان کا وقت ہورہا ہے سب خاموشی سے دعا مانگیں ۔۔۔

سب کو آپس میں لگا دیکھ کر فرزانہ بیگم نے ٹوکتے ہوئے کہا تو سب ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے لگے اور پھر کچھ ہی دیر بعد اذان ہوتے ہی سب نے روزہ افطار کیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

پھر کیا جواب ہے آپ لوگوں کا ۔۔۔

ہماس شاہ شماس شاہ فرزانہ بیگم فاریہ بیگم افطار کے بعد کاردار ولا آئے تھے جبکہ سعد سحر کے ساتھ خان حویلی گیا ہوا تھا اور مصباح انیب کے ساتھ مشی کو چھوڑنے گئے ہوئے تھے ۔۔۔

ہمارا جواب مثبت ہے لیکن ساتھ میں میں اپنے انیب کے لئے حیان کا رشتہ مانگتا ہوں مجھے یقین ہے ہماری طرح آپ لوگ بھی انکار نہیں کرینگے ۔۔۔

اذان صاحب کے پوچھنے پر ہماس شاہ نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے ہمیں رشتہ منظور ہے ۔۔۔

کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی مدیحہ بیگم نے اپنی رضامندی دی کیونکہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں سے پوچھ چکی تھی کہ اگر انہیں کوئی پسند ہے تو بتادیں جس پر انہوں نے فرمانبردار بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان پر یہ فیصلہ چھوڑ دیا تھا اور جب اتنا اچھا رشتہ آیا تو مدیحہ بیگم نے جھٹ سے ہاں کردی ۔۔۔

ہمیں بھی یہ رشتہ منظور ہے انیب بھی گھر کا بچہ ہے تو پھر نیکی کے کام میں دیر کیسی تو کیوں نہ آنے والے جمعے کو نکاح رکھ لیں ۔۔۔

اذان صاحب نے مدیحہ بیگم کی بات سے متفق ہوتے ہوئے اپنی رائے دی ۔۔۔

بھابھی مجھے بھی اپنے مبشر کے لئے حورعین چاہئے آج میں اسی مقصد سے یہاں آئی تھی اور جب سب طہ ہی ہورہا ہے تو میری بھی عرضی قبول کریں ۔۔۔

فریحہ بیگم جو کہ کب سے خاموش بیٹھی تھی نکاح کی ڈیٹ فائنل ہوتا دیکھ عاجزی سے کہنے لگی ۔۔۔

بھابھی مجھے یہ رشتہ بھی منظور ہے اچھی بات ہے میری دونوں بیٹیاں گھر میں ہی جائینگی مبشر بھی میرے سامنے بڑا ہوا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ اچھا ہے میں بیٹے کے ساتھ دونوں بیٹیوں کے فرض سے بھی سبکدوش ہوجاؤنگی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یاسر بھائی نے فون کر کے رشتے کے لئے ہاں کی ہے ۔۔۔

چلو بھئی یہ تو بہت اچھا ہوگیا پھر ایک کام کرتے ہیں اس جمعے کو سب بچوں کے نکاح رکھ لیتے ہیں اور رخصتی لڑکیوں کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ۔۔۔

مدیحہ بیگم کے بتانے پر فریدہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

جیسے آپ لوگوں کو ٹھیک لگے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔

چلو پھر جب کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو انعم سب کا منہ میٹھا کرواؤ ۔۔۔

ہماس شاہ کے کہنے پر فریدہ بیگم نے انعم بیگم سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتی ملازمہ سے مٹھائی لانے کا کہنے کچن کی طرف بڑھ گئی پیچھے باقی سب بھی خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مشی کے باتھروم کا دروازہ بند کرنے کی آواز پر حضیر ہوش میں آیا اور پھر بنا کسی سے کچھ کہے خاموشی سے شاہ حویلی سے نکل گیا تھا اور اب بلاوجہ سڑکوں پر گاڑی دوڑارہا تھا جبکہ دماغ میں مشی کی باتیں گردش کر رہی تھی ۔۔۔

ہر دفعہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی مشی کی تکلیف کی وجہ بن جاتا تھا جتنا مشی کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا اتنی ہی اسے تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔

حالانکہ آج وہ صرف مشی کو آگاہ کرنے گیا تھا کہ وہ لندن جارہا ہے کچھ دنوں کے لئے کیونکہ آج ہی اسے وہاں کے مینیجر کا فون آیا تھا وہاں کچھ مسلئے ہورہے ہیں جو وہ خود ہینڈل نہیں کرپارہا اس لئے اب حضیر نے آج نو بجے کی فلائٹ سے لندن جانا تھا لیکن شاہ حویلی جاکر اسے پھر سے مشی کا اپنی بات کی نفی کرنے یاد آیا تو اسے دوبارہ سے غصہ آنے لگا جو وہ مشی پر اتارگیا لیکن مشی کی باتوں نے اسے ساکت کردیا تھا ۔۔۔

حضیر نے ایک جگہ گاڑی روک کر وقت دیکھا تو افطار میں کچھ وقت ہی باقی تھا جس پر حضیر نے اپنی نظر روڈ پر ادھر ادھر کوئی دکان تلاش کرنے کے لئے دوڑائی تو اسے تھوڑی دور ایک دکان کھلی ہوئی نظر آئی تو حضیر نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور اس دکان کی طرف چل دیا اور وہاں پہنچ کر دکان سے ایک پانی کی بوتل اور کچھ کھانے کی اشیاء لیکر دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور اب اسکا رخ گھر کی طرف تھا ۔۔۔

لیکن ابھی وہ گھر سے کافی دور تھا کہ اذان کی آواز اسکے کانوں میں پڑی جس پر حضیر نے گاڑی کو ایک طرف روک کر روزہ افطار کیا اور گاڑی مسجد کے راستے کی طرف ڈال دی ۔۔۔

حضیر نماز پڑھ کر گھر گیا اور گھر جاکر اپنی پیکنگ کی اور ملازم کو کاردار ولا فون کر کے بتانے کا کہہ کر آئیرپورٹ کے لئے نکل گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ پاکستان کو اللّٰہ حافظ کرتا لندن چلاگیا اب ناجانے اسکی وآپسی کب ہونی تھی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آاااپ کککونننن ؟

انیب اور مصباح مشی کے بہت فورس کرنے کے بعد بھی اسے باہر سے ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انکے جاتے ہی مشی عفراء کو گود میں لیتی اندر گھر میں داخل ہوئی لیکن لاؤنچ میں خود سے ملتی جلتی عورت کو دیکھ کر لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھنے لگی ۔۔۔

ارے میرا بچہ کب آیا مجھے انفارم کردیتی میں لینے آجاتا اپنی شہزادی کو ۔۔۔

اذہان صاحب جو کہ کچن سے دو مگ کافی کے ساتھ نکلے تھے مشی کو دیکھ کر اسکے اندر مچی بے چینی سے بے نیاز محبت سے پوچھنے لگے ۔۔۔

بابا ییہہہ ککون ہہے ؟

مشی نے بمشکل خود پر قابو پاتے اذہان صاحب کی بات کو اگنور کرتے ہوئے خود کو محبت لٹاتی نظروں سے دیکھتی عورت کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

اوہ سوری بیٹا میں تو انکا تعارف کروانا ہی بھول گیا یہ ہیں میری وائف اور آپکی مما حیا اذہان کاردار ۔۔۔

مشی کے پوچھنے پر اذہان صاحب نے نارمل لہجے میں مشی کے سر پر بم پھوڑا جبکہ اذہان صاحب کی بات سن کر مشی تھکن زدہ سی پاس رکھے صوفے پر ڈہہہ گئی جبکہ اذہان صاحب خاموشی و سنجیدگی سے اور حیا بیگم محبت لٹاتی نظروں سے مشی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

مشی نے تھوڑی دیر بعد اپنا جھکا سر اٹھاکر خود کو حفظ کرتی حیا بیگم کو دیکھا جبکہ چہرے پر آنسو لڑیوں کی مانند بہہ رہے تھے جنہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی تھی اور پھر ایک جھٹکے سے صوفے سے اٹھ کر حیا بیگم کے پاس جاکر ان سے لپٹ گئی اور اونچی آواز میں رونے لگی ۔۔۔

مشی اس وقت بلکل اس بچے کی طرح تھی جو کہ چوٹ لگنے پر ساری دنیا سے چھپ کر اپنی ماں کی گود میں خود کو چھپاکر روتا ہے جبکہ مشی کو اس طرح روتے دیکھ کتنے ہی آنسوں اذہان صاحب کی آنکھوں سے نکل کر بے مول ہوئے اور حیا بیگم کا بھی چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور ان دونوں ماں بیٹی کی ہچکیاں اور سسکیاں لاؤنچ کی خاموشی میں گونج رہی تھی شاید دونوں برسو سے خود میں بھرا غبار آنسوؤں کے ذریعے نکال رہی تھیں ۔۔۔

ایک ممتا بھری گود کی پیاسی تھی تو دوسری اپنی اولاد کو ممتا کی چھاؤں میں لینے کے لئے تڑپی تھی ۔۔۔

مشی بیٹا بس کرو آپکی مما اور آپکی دونوں کی طبیعت خراب ہوجائیگی اور عفراء کو دیکھو آپ دونوں کو روتا دیکھ کیسے سہم گئی ہے ۔۔۔

دونوں کو کافی دیر بعد بھی چپ نا کرتے دیکھ اذہان صاحب نے عفراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چپ کروانے کی کوشش کی ۔۔۔

کیسی ہیں آپ اور کہاں تھی اتنے وقت سے ؟

اذہان صاحب کے کہنے پر مشی نے حیا بیگم سے الگ ہوکر انکے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کرتے ہوئے محبت سے پوچھا ۔۔۔

آپکی مما الحمدللُٰہ بلکل ٹھیک ہیں اور حیا پچھلے پندرہ سالوں سے کومہ میں تھی اور کچھ دنوں پہلے ہی ہوش آیا ہے میں نے آپ کو اس لئے نہیں بتایا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ جب آپکی مما اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جائے تب میں آپ سے ملواؤ تاکہ آپ کو زیادہ خوشی ہوتی لیکن شاید اللّٰہ کو کچھ ہی منظور تھا ویسے بھی میں ایک دو دن میں آپکی مما کو لیکر آپ سے ملنے آنے والا تھا لیکن اس سے پہلے ہی آپ نے مجھے یہاں آکر سرپرائز دے دیا ۔۔۔

مشی کے پوچھنے پر حیا بیگم کی جگہ اذہان صاحب نے سہمی ہوئی عفراء کو گود میں لیکر انکے پاس والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔

مجھے تو کچھ بولنے دیں کب سے آپ خود ہی جواب دیے جارہے ہیں ۔۔۔

اذہان صاحب کو مشی کے سوال کا جواب دیتا دیکھ حیا بیگم نے خفگی سے کہا جس پر اذہان کاردار نے زندگی سے بھرپور قہقہہ لگایا جبکہ انکو ہنستا دیکھ عفراء بھی تالیاں بجاتی کھلکھلانے لگی ۔۔۔

ارے بھئی بیگم آپ ہماری چھوٹی سی مہمان پیاری سے شہزادی سے تو ملیں یہ ہیں آپکی نواسی مشی اور حضیر کی بیٹی عفراء حضیر خزیمہ کاردار ۔۔۔

اذہان صاحب نے عفراء کو پیار کر کے اسے حیا بیگم کی گود میں بیٹھاتے ہوئے کہا جس پر حیا بیگم عفراء کو والہانہ محبت سے پیار کرنے لگی جیسے ساری محبت آج ہی اس پر لٹانا چاہتی ہو ۔۔۔

سر ڈنر لگادیا ہے ۔۔۔

چلو بھئی مشی آپ بھی فریش ہوکر آجاؤ آج ساتھ ڈنر کرتے ہیں باقی باتیں بعد میں ہونگی ۔۔۔

ملازمہ کے کہنے پر اذہان صاحب نے مشی سے کہا جس پر وہ سرشاری سے سر اثبات میں ہلاتی روم کی طرف بڑھ گئی اور پیچھے اذہان صاحب اور حیا بیگم عفراء سے کھیلتے ہوئے ڈائننگ کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

میڈم میں کب سے آپ کو فون کر رہی ہوں آپ فون ہی نہیں اٹھارہی مجھے آپ کو ایک دھماکے دار نیوز دینی تھی ۔۔۔

مقابل کے فون اٹھاتے ہی ملازمہ نے بڑے اشتیاق سے مقابل کو آگاہ کیا ۔۔۔

کیسی نیوز بتاؤ ذرا ۔۔۔

لیکن میڈم جی تھوڑی سی ہم پر عنایت کریں ہم تو آپ کے غلام ہیں ۔۔۔

مقابل کے پوچھنے پر ملازمہ نے فوراً سے اپنے مطلب کی بات کی ۔۔۔

اگر تم نے مجھے خوش کیا تو میں تمہیں خوش کردونگی اب یہ تم پر منحصر ہیکہ تم کس قسم کی نیوز سناتی ہو مجھے ۔۔۔

میڈم نیوز تو بڑی کام کی ہے سن کر آپ خوش ہو جائینگی ہم آپکو خوش کرینگے تبھی تو آپ ہمیں خوش رکھینگی ۔۔۔

مقابل کے کہنے پر ملازمہ نے لالچی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا ۔۔۔

چلو پھر بتاؤ ایسی کیا نیوز ہے جس سے میں خوش ہوجاؤنگی ۔۔۔

میڈم جی میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے پکی رپورٹ ہے ۔۔۔

مقابل کے پوچھنے پر ملازمہ نے ساری بات اسکے گوش و گزار کر کے اپنی سچائی کا یقین دلایا ۔۔۔

واقعی تم نے مجھے خوش کردیا اب تمہیں بھی خوش کرنا مجھ پر لازم ہوگیا بے فکر رہو تم جو چاہوگی تمہیں مل جائیگا بس اسی طرح مجھے خوش کرتی رہا کرو کیونکہ اس میں فائدہ تمہارا ہی تمہارا ہے اور اب میں فون رکھ رہی ہو ۔۔۔

مقابل نے ملازمہ کی بات سن کر اپنے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا جبکہ دوسری طرف سے فون بند ہوتے ہی ملازمہ برے برے منہ بناتی اپنے کام میں لگ گئی ۔۔۔

مشی بیٹا کل سب کے نکاح ہیں اور ابھی تک تم نے اپنی اور عفراء کی شاپنگ بھی نہیں کی روز کل کل بول کر ٹال دیتی ہو آج تو آخری دن ہوگیا ہے کب کروگی شاپنگ ۔۔۔

حیا بیگم جو کہ روز مشی کو شاپنگ کا بول بول کر تھک گئی تھی آج تھوڑے غصے سے استفسار کرنے لگی ۔۔۔

( خزیمہ آپکی وجہ سے مجھے اپنے سگے ماں باپ سے بھی جھوٹ بولنا پڑرہا ہے اب میں انہیں کیا بتاؤ کہ میرے پاس تو پیسے بھی نہیں ہیں شاپنگ کرنے لئے )۔۔۔

مشی نے بمشکل اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھتے ہوئے تصور میں حضیر سے شکوہ کیا ۔۔۔

مشی میں تم سے بات کر رہی ہوں بات کرتے کرتے کہاں کھو جاتی ہو ۔۔۔

مشی کو کہیں اور ہی کھویا دیکھ حیا بیگم نے اسکا شانہ ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

کچھ نہیں مما بس میرا دل نہیں کر رہا شاپنگ کرنے کا میرے اور عفراء کے کپڑے رکھے ہیں وہی پہن لونگی اور عفراء کو بھی وہی پہنادونگی ۔۔۔

حیا بیگم کے جھنجھوڑنے پر مشی نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا ۔۔۔

حد ہوگئی ہے مشی تمہارا دل نہیں کر رہا تم نا جاؤ میں تمہارے بابا کے ساتھ جاکر خود ہی شاپنگ کر کے آجاؤنگی اور خبردار جو دوبارہ پرانے سوٹ پہننے کی بات کی ۔۔۔

اچھا اس بات کو چھوڑیں مجھے زبردست سی اپنے ہاتھ کی بریانی بناکر کھلائیں میرا بہت دل کر رہا ہے ۔۔۔

مشی نے حیا بیگم کو شاپنگ کے موضوع سے ہٹاتے ہوئے کہا جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئی ۔۔۔

مجھے پہلے کیوں نہیں بولا میں ابھی بناتی ہوں اپنی بیٹی کے لئے پگلی کہیں کی جو دل کریں اپنی ماں کو کہا کر میں بناکر کھلاؤنگی اپنی شہزادی کو ۔۔۔

مشی کی بات پر حیا بیگم نے اسے محبت سے ڈپٹتے ہوئے کہا اور بریانی بنانے کچن میں چلی گئی اور پیچھے مشی عفراء کو کھانا کھلانے لگی ۔۔۔

مشی باجی یہ گارڈ نے دیا ہے کہہ رہا تھا کوئی کورئیر والا دیکر گیا ہے ۔۔۔

ابھی مشی عفراء کو زبردستی کھانا ہی کھلا رہی تھی کہ ملازمہ نے ایک لفافہ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے یہ مجھے دے دو تم جاکر اپنا کام کرو ۔۔۔

مشی نے ملازمہ سے لفافہ لیتے ہوئے کہا تو سر اثبات میں ہلاتی چلی گئی پیچھے مشی نے لفافہ ٹیبل پر رکھا اور عفراء کو کھانا کھلاکر اسکا منہ صاف کر کے اسے گود میں لیکر ٹیبل سے لفافہ اٹھاکر کمرے میں چلی گئی کیونکہ اب عفراء میڈم کے سونے کا وقت ہورہا تھا ۔۔ 

کمرے میں آکر مشی نے عفراء کو سلایا اور پھر سائیڈ پر رکھا لفافہ کھول کر دیکھنے لگی ۔۔۔

لفافہ کھول کر جیسے ہی مشی کی نظر لفافے اندر والے پیپیرز پر پڑی اسکی سانسیں سینے میں اٹک گئے ایسا لگا جیسے روم میں آکسیجن کی کمی ہوگئی ہو دو سیکنڈ میں ہی پورا جسم پسینے میں نہا گیا ہاتھ کانپنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے چہرے پر آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی ۔۔۔

شاید یہی ہے میرا نصیب اور مجھے یقین یہی میرے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ میرا رب کبھی بھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا کوئی بات نہیں میں بھی اللّٰہ کی رضا میں راضی ہوں اگر ہمارے نصیب میں جدائی لکھی ہے تو کوئی مسلئہ نہیں اللّٰہ نے مجھے عفراء جیسے بہترین تحفے سے نوازہ ہے ۔۔۔

طلاق کے پیپرز دیکھ کر مشی نے خود کو ہمت دلاتے ہوئے کہا اور پیپرز پر بنا سائن کیے انہیں لفافے میں ڈالا اور اپنی الماری کے لاکر میں رکھ دیے کیونکہ مشی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب بات آمنے سامنے ہوگی جب تک حضیر ان پیپرز پر سائن کر کے اسے شریعت کے مطابق طلاق نہیں دیگا تب تک وہ بھی ان پیپرز پر سائن نہیں کریگی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ ؟

حضیر اپنے آفس میں بیٹھا کچھ فائلز ریڈ کر رہا تھا کہ اسکا فون رنگ ہوا تو حضیر نے سائیڈ پر رکھا موبائل اٹھاکر دیکھا تو مسیب کی کال تھی ۔۔۔

حضیر نے مسیب کی کال دیکھ کر فائل بند کر کے سائیڈ پر رکھی اور موبائل اٹھاکر کال کو یس کر کے کان پر لگایا ۔۔۔

وعلیکم سلام میں الحمدللّٰہ بلکل ٹھیک ہوں تو سناؤ کیا حال ہے ۔۔۔

میں بھی الحمدللّٰہ بلکل ٹھیک آپ بتائیں کب آرہے ہیں کل میرا اور انعمتہ کا نکاح ہے اور آپ ابھی تک نہیں آئے دس از ناٹ فئیر بھائی ۔۔۔

حضیر کے پوچھنے پر مسیب نے اپنا حال احوال بتاتے ہوئے خفگی سے کہا ۔۔۔

کیا تمہارا نکاح ہورہا ہے اور مجھے کسی نے بتایا بھی نہیں ۔۔۔

حضیر کو شاک ہی تو لگا تھا مسیب کی بات سن کر کہ اسکے بھائی بہن کا نکاح تھا کل اور اسے کسی نے بتانا ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔ 

بھائی ایسے کیوں رئیکٹ کر رہے ہیں کہ آپ کو کچھ بھی نہیں پتا ۔۔۔

حضیر کے حیرانگی سے کہنے پر مسیب نے منہ پھلائے ہوئے کہا ۔۔۔

مسیب سچ میں مجھے نہیں پتا اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں یہاں ہوتا کیا ؟ پاگل میں اپنے بھائی بہن کا نکاح چھوڑ کر پرائے ملک بیٹھا ہوتا ۔۔۔

حضیر نے مسیب کو اپنی بات کا یقین دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

لیکن مجھے تو مما نے کہا تھا کہ انہوں نے آپ کو بتادیا ہے لیکن آپ اپنے کام کی وجہ سے نہیں آسکوگے اس لئے ہی تو میں نے آپ کو فون کیا ہے ۔۔۔

حضیر کے انجان بننے پر مسیب نے اپنے اور انعم بیگم کے درمیان ہوئی گفتگو حضیر کے گوش و گزار کردی ۔۔۔

مسیب میں نہیں جانتا کہ مما نے یہ جھوٹ کیوں بولا لیکن سچ میں مجھے نہیں پتا تھا اب تو نے بتادیا ہے تو میں پہلی فلائٹ سے پاکستان پہنچ رہا ہوں ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے بھائی آرام سے آئیگا رات میں بیٹھ کر بات کرینگے اللّٰہ حافظ اپنا خیال رکھیئگا ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مسیب نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا اور فون کے بند ہوتے ہی حضیر نے پہلی فلائٹ بک کروائی اور ائیرپورٹ کے لئے نکل گیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر ائیرپورٹ سے ڈائیریکٹ مال گیا تھا اسے رہ رہ کر اپنی بیوقوفی پر غصہ آرہا تھا کہ اپنے غصے کے چکر میں وہ مشی کو پیسے اور موبائل بھی دیکر نہیں آیا تھا اور اسی لئے وہ سب سے پہلے مال گیا اور پھر وہاں سے شاپنگ کر کے کاردار ولا آیا تھا جبکہ سامان اس نے سارا گاڑی میں ہی رہنے دیا تھا کیونکہ اسکا ارادہ فریش ہوکر مشی اور عفراء سے ملنے جانے کا تھا 

۔۔۔ 

وعلیکم سلام کیسا ہے میرا بچہ اب تو عید کے چاند کی طرح ہوگیا کیا یاد نہیں آتی تجھے اپنوں کی صرف اس منحوس کی خاطر سب سے دور ہوگیا تو کیا کچھ نہیں کیا تو نے اس کے لئے اور دیکھ بدلے میں اس نے تجھے تحفے میں خلع کے پیپرز بھیجے ہیں ۔۔۔

فریدہ بیگم نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ طلاق کے پیپرز اسکے سامنے لہراتے ہوئے کہا جو کہ ابھی گارڈز نے ملازمہ کے ساتھ بھیجا تھا کہ کورئیر والا دیکر گیا ہے جبکہ فریدہ بیگم کی بات سن کر حضیر کا چہرہ غصے سے لال ہونے لگا کنپٹی کی رگیں پھولنے لگی اور بھینچی ہوئی مٹھیاں اور بگڑا ہوا تنفس حضیر کے بے پناہ غصے کا ثبوت دے رہے تھے ۔۔۔

بھول ہے اسکی کہ وہ مجھ سے چھٹکارا پالیگی اسے تو لحد میں بھی میرے نام کے ساتھ اترنا ہے لیکن بہت بڑی غلطی کی ہے اس نے یہ کاغذ کے ٹکڑے بھیج کر جسکی اسے کڑی سزا بھگتنی پڑیگی ۔۔۔

حضیر نے بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے سرد لہجے میں کہا اور فریدہ بیگم کے ہاتھ سے پیپرز لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے اچھال دیے اور پھر بنا کسی پر ایک نظر ڈالے وہاں سے نکلتا چلاگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اسلام علیکم سر کیسے ہیں آپ ؟

کاردار ولا سے نکل کر حضیر ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا اذہان صاحب کے گھر جارہا تھا کہ ڈیش بورڈ پر رکھا اسکا موبائل رنگ کرنے لگا ۔۔۔

موبائل کی آواز پر حضیر نے گاڑی ایک طرف لگاکر کال پک کی تو مقابل نے سلام کے ساتھ اسکا حال احوال پوچھا ۔۔۔

وعلیکم سلام کام کی بات کرو ۔۔۔

حضیر نے مقابل کو سلام کا جواب دینے کے ساتھ اسپاٹ لہجے میں کہا ۔۔۔

سر جس شخص نے میم کے گھر رشتہ بھیجا تھا میں نے اس پر نظر رکھی ہوئی تھی کوئی مشکوک چیز تو نہیں ملی لیکن تقریباً پانچ چھے دن پہلے ایک عورت کے کہنے پر اس نے ایک طلاق نامہ اور ایک خلا نامہ بنوایا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہیکہ وہ خلا نامہ اور طلاق نامہ آپکے اور میڈم کے نام پر تھا میں نے اس عورت کی تصویر آپ کو بھیجی ہے آپ دیکھ لیں ۔۔۔

حضیر کی سنجیدہ آواز سن کر مقابل نے جھٹ سے ساری بات اسکے گوش و گزار کردی ۔۔۔

ٹھیک ہے تم اس پر کڑی نظر رکھو مجھے اسکی پل پل کی رپورٹ چاہئے باقی میں خود دیکھ لونگا اللّٰہ حافظ ۔۔۔

حضیر نے مقابل کی بات سن کر اسے اور ہدایت دیکر فون بند کرکے واٹس آیپ آن کر کے اس عورت کی تصویر دیکھنے لگا جبکہ تصویر کو دیکھتے ہی حضیر کو پہچاننے میں ایک سیکینڈ نہیں لگا کیونکہ تصویر میں اور کوئی نہیں انعم بیگم تھی ۔۔۔

مما آپ کا رتبہ ایسا ہے کہ میں آپکو کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اب میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بھی کوئی زیادتی نہیں ہونے دونگا اب میں عائش کو اسکا حق اسکا مقام دلا کر رہونگا یہ میرا خود سے وعدہ ہے ۔۔۔

حضیر نے ایک تھکن بھری سانس خارج کر کے تصور میں انعم بیگم کو کہنے کے ساتھ خود سے عہد کیا اور فون بند کر کے ڈیش بورڈ پر رکھا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے اذہان صاحب کے گھر کی طرف جاتی سڑک پر ڈال دی ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

حضیر اذہان صاحب کے گھر میں داخل ہوا تو پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔۔۔ 

حضیر لاؤنچ میں کسی کو نا پاکر ڈائیریکٹ مشی کے روم میں آیا اور مشی کو جائے نماز تہہ کرتا دیکھ سلام کیا ۔۔۔

وعلیکم ۔۔۔

مشی نے حضیر کے سلام کے جواب میں فقط وعلیکم کہا اور جائے نماز کو کبرڈ میں رکھ کر شیلف پر رکھا قرآن پاک اٹھایا اور سورۃالواقعہ کی تلاوت کرنے لگی ۔۔۔

آج مشی نے حضیر کو پانی کا بھی نہیں پوچھا تھا جس کو حضیر نے بہت شدت سے نوٹ کیا تھا ورنہ (حضیر کے گھر میں آتے ہی مشی سب سے پہلے اسے پانی کا گلاس پکڑاتی تھی )لیکن اگنور کرتا پاس رکھے صوفے پر بیٹھ کر مشی کی تلاوت مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا جبکہ نظریں مشی پر ہی ٹکی ہوئی تھی جسکی لال انگارہ آنکھیں اور دھیما دھیما لرزتا وجود اسکے بےتحاشہ رونے کا ثبوت دے رہا تھا ۔۔۔

یہاں پر کوئی گواہ موجود نہیں ہے اس لئے کل سب کے سامنے شریعت کے مطابق طلاق دیجئیگا تاکہ سب گواہ رہیں کہ آپ نے مجھ سے اپنا ہر رشتہ ختم کرلیا ہے ۔۔۔

قرآن پاک کی تلاوت مکمل کر کے مشی نے قرآن پاک پر غلاف چڑھاتے ہوئے اسپاٹ لہجے میں کہا اور قرآن پاک کو دوبارہ شیلف پر رکھ کر بیڈ پر سوئی عفراء کے پاس آکر بیٹھ گئی اور حضیر کی طرف سے اپنی پیٹھ کرلی جو کہ اسکی سخت ناراضگی کا صاف اظہار تھا ۔۔۔

وہ طلاق کے پیپرز میں نے نہیں بھیجے عائش میری بات کا یقین کرو ۔۔۔

مشی کے الفاظ حضیر کو تیر کی طرح چبھے تھے لیکن خود پر ضبط کرتا بے بسی سے اپنی صفائی دینے لگا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مشی حق پر ہے کوتاہی اسکی طرف سے ہوئی ہے ۔۔۔

میں نے تو طلاق کے پیپیرز کا نام ہی نہیں لیا اور بقول آپ کے کہ آپ نے وہ پیپرز نہیں بھیجے تو آپکو کیسے پتا وہ پیپرز طلاق کے ہیں ۔۔۔

مشی نے بنا حضیر کو دیکھے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

عائش میں اللّٰہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں وہ پیپرز میں نے نہیں مما نے بھیجے ہیں اور خلع کے پیپرز مجھے بھیجے ہیں جو میں ابھی پھاڑ کر آیا ہوں میں تو لندن تھا مجھے تو مسیب والوں کے نکاح کا بھی نہیں پتہ تھا یہ تو مجھے مسیب نے کال کی تو مجھے پتا چلا کہ کل سب کا نکاح ہے اور مجھے افسوس ہے میں غصے میں تمہیں نا پیسے دیکر گیا اور نا ہی موبائل جس سے تم سے رابطہ کرسکوں یہ سب مس انڈسٹینڈنگ مما نے کرئیٹ کی ہے پلیز میرا یقین کرو ۔۔۔

آپ نے اللّٰہ کی قسم کھائی ہے اس لئے میں آپکی بات پر اعتبار کر رہی ہوں کیونکہ حدیثِ قدسی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہیکہ اگر کوئی شخص جھوٹی بھی اللّٰہ کے نام کی قسم اٹھائے تو آپ کو یقین کرلینا چاہئے کیونکہ اس نے اللّٰہ کی قسم کھائی ہے اور اگر وہ جھوٹی قسم اٹھائے تو اللّٰہ اسے خود سزا دیگا ۔۔۔

میں یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور نا یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے آپکی بات پر یقین ہے میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہیکہ میں آپکی بات کا نہیں آپکی قسم کا یقین کر رہی ہوں اور اللّٰہ کی قسم اٹھانے کے بعد مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں صرف آپکی بات کا یقین کرونگی جو کہ میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا حکم ہے ۔۔۔

حضیر کے منمناتے ہوئے کہنے پر مشی نے اسپاٹ لہجے میں سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔

جب میری بات پر یقین ہے تو لاؤ مجھے وہ پیپرز دو میں تمہاری آنکھوں کے سامنے وہ پیپرز خود پھاڑونگا ۔۔۔

میں نے آپکی بات پر نہیں آپکی قسم پر یقین کیا ہے ۔۔۔

مشی نے حضیر کی بات کا جواب دیا اور اٹھ کر الماری کے لاکر سے پیپرز نکال کر حضیر کو دیے جسے حضیر نے بنا ایک منٹ لگائے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے روم ڈسٹ بن میں ڈال کر آگ لگادی ۔۔۔

یہ تمہاری کلائیاں کیوں خالی ہے میں نے کہا تھا ناں کہ چوڑیاں پہن کر رکھا کرو ۔۔۔

حضیر کی جیسے ہی مشی کی کلائی پر پڑی فوراً سے خفگی سے کہا ۔۔۔

اتنی گرمی میں مجھ سے نہیں پہنی جاتی اور پھر کچن میں کام کرنے سے گرم ہوجاتی ہیں اور پھر ہاتھ جلتے ہیں ۔۔۔

حضیر کے خفگی سے کہنے پر مشی نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کیونکہ حضیر کے پیپرز پھاڑنے پر مشی کو تھوڑا سکون ہوگیا تھا ۔۔۔

تو تمہیں کس نے کہا ہے کیچن میں جاکر کام کرنے کو ضرورت کیا ہے کچن میں کام کرنے کی لیکن اب میں تمہاری کلائیاں خالی نا دیکھوں چوڑیاں پہنو فوراً سے اور برقعہ پہنو اپن گھر چل رہے ہیں کل مسیب کا نکاح ہے اپن وہی سے شامل ہونگے ۔۔۔

خزیمہ مجھے نا کسی نے نکاح میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے اور نا ہی کسی نے مجھے بتایا ہیکہ مسیب بھائی یا انعمتہ کا نکاح فکس ہوگیا ہے جب وہ مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو میں بھی اپنی بے عزتی کروانے بنا دعوت کے نہیں جاؤنگی میں نانو کی طرف سے شامل ہوگئی آپ بھلے وہاں سے شامل ہو آپکے بہن بھائی ہیں اور وہ آپکے والدین ہیں لیکن میں وہاں سے شامل نہیں ہونگی ۔۔۔

حضیر کے حکم دینے پر مشی نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

بتایا تو مجھے بھی کسی نے نہیں تھا تو کیا میں بھی اپنے بھائی بہن کی خوشیاں چھوڑ کر ناراض ہوکر بیٹھ جاؤں ؟

آپ غلط بات کر رہے ہیں میں نے یہ نہیں کہا آپ بے شک شامل ہو آپکے بہن بھائی ہیں اور جہنوں نے آپکو پوچھنا تو دور کی بات آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا وہ آپکے ماں باپ ہیں اور پلیز یہ نہیں کہئیگا کہ وہ میرے بھی تو ماں باپ کی جگہ ہیں کیونکہ میرا جواب یہی ہوگا کہ نہیں ہیں وہ میرے والدین کی جگہ بلکہ میرا صرف ان سے سسرال کا رشتہ اور یہ رشتے میں نے نہیں انہوں نے ختم کیے ہیں ۔۔۔

میں ہمیشہ سے ماں کی ممتا کی چھاؤں کے لئے تڑپتی رہی ہوں اور مما کے انتقال کے بعد میں نے وہ چھاؤں آپکی والدہ اور مدیحہ چچی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہوں نے ہی مجھے تپتی دھوپ میں لاکھڑا کیا ہے اور ہر مرتبہ مجھے دھتکارا ہے اس لئے اب مجھ میں اتنی ہمت و استقامت نہیں ہیکہ میں لوگوں کی دھتکار سہوں اور اللّٰہ کا میں جتنا شکر ادا کروں کم ہیکہ اللّٰہ نے مجھے وآپس سے تمام محبت کرنیوالے رشتے عطا کردیے ہیں ۔۔۔

چلو ٹھیک ہے اب میں تمہیں کسی بھی کام کے لئے فورس نہیں کرونگا تم وہی کرو جو تمہیں صحیح لگے لیکن ابھی برقعہ پہنو ۔۔۔

مشی کی بات سن کر حضیر نے اسے برقعہ پہننے کا کہا ۔۔۔

کہاں لیکر جارہے ہیں آپ وہ بھی اس وقت ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے وال پر لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کہ نو کا ہندسہ بجارہی تھی چونکہ حیا بیگم اور اذہان صاحب شاپنگ پر گئے ہوئے تھے اس لئے گھر میں کوئی نہیں تھا ۔۔۔

تمہیں مہندی نہیں لگوانی کیا کل نکاح ہے تمہاری نندوں دیوروں اور دوستوں کا اس لئے برقعہ پہن لو تمہیں پارلر لے جاؤ اور یہ کپڑے وارڈروب میں رکھو تمہارا اور عفراء کا کل کا ڈریس ہے آج تم بھلے یہیں رک جاؤ کیونکہ میں کاردار ولا میں رکونگا آج رات لیکن کل ہال سے ہی گھر چلینگے ۔۔۔

حضیر نے مشی کی طرف بیگز بڑھاتے ہوئے کہا جن پر ایک نظر ڈالنا بھی مشی نے گوارہ نہیں کیا تھا حضیر کے کہنے پر مشی نے چپ چاپ بیگز لیکر الماری میں رکھ دیے اور برقعہ پہن کر سوئی ہوئی عفراء کو گود میں لیکر حضیر کے ساتھ چل دی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

میری بیٹی کے بھی مہندی لگوانا ۔۔۔

حضیر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک پیار بھری نظر مشی کی گود میں خاموش بیٹھی عفراء پر ڈال کر مشی سے کہا ۔۔۔

میرے خود کے مہندی لگی ہوگی میں کیسے اسے سنبھالونگی یہ ساری منہ پر لگالے گی اپنے ۔۔۔

پہلے عفراء کے لگوادینا میں اسے سنبھال لونگا پھر تم آرام سے اپنی مہندی لگوالینا ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے جھٹ سے حل پیش کیا ۔۔۔

عائش تم نے مجھ سے پیسے کیوں نہیں مانگے تمہیں شاپنگ کرنی تھی نکاح کی اگر مجھے مسیب نہیں بتاتا تو تم کیا پہنتی میں دینا بھول جاتا ہوں تو مجھ سے مانگ لیا کرو یار یا میری پاکٹ سے نکال لیا کرو میں نے تمہیں کتنی مرتبہ سمجھایا ہے میں شوہر ہوں تمہارا یار حق جمایا کرو مجھ پر دوسروں کے حق تو بڑی جلدی یاد دلاتی ہو تم مجھے اور خود کا پتہ نہیں ہے ۔۔۔

مجھے اچھا نہیں لگتا مانگنا آپ کو دینا ہو تو خود دے دیا کریں ۔۔۔

حضیر کے سمجھانے پر مشی نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

ہسبینڈ وائف کے بیچ میں تکلفات نہیں ہوتے عائش یہ بات سمجھو میں دوسروں کے برابر نہیں ہو جن سے تم ریزرو رہو جن سے ہر بات کرنے میں تمہیں جھجھک محسوس ہو تم نے اپنے دل یہ ڈر بٹھالیا ہیکہ اگر تم مجھ پر اپنا حق جتاؤگی تو میں تمہیں جھڑک دونگا دوسروں کی طرح دھتکار دونگا ۔۔۔

کوئی ناز نخرے اٹھانے والا بھی تو نہیں ہے حق ان پر جتایا جاتا ہے جہاں انسان کو پتہ ہو کہ آپکی چلے گئی یا آپکی بات کو اہمیت دی جائیگی آپکو عزت و مان سے نوازہ جائیگا میں آپکی بات کی تھوڑی سی نفی کردوں تو آپکو فوراً سے غصہ آجاتا ہے اور پھر آپ غصے میں کیا کہہ اور کرجاتے ہیں اسکا آپکو بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے اور مجھے یہ افسوس ہوتا ہیکہ میں نے آپ سے امید لگائی ہی کیوں ۔۔۔

آپ عشق و محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن اپنے ہی عشق سے ہمیشہ بے خبر ہی رہے عشق میں تو دلوں کے حال سے لوگ باخبر ہوتے ہیں لیکن آپ کو تو ہمارے ظاہری حال سے ہی واقفیت نہیں ہے دل تو بہت دور کی بات ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے اذیت سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں اپنی کوتاہیوں کو سدھارنے کی کوشش کرونگا لیکن یہ سچ ہیکہ بچپن سے اب تک میری دل میں تم تھی ہو اور ہمیشہ رہونگی مانتا ہوں تمہیں تکلیف دے جاتا ہوں لیکن کوشش کرونگا انشاءاللّہ اب میری طرف سے تمہیں کوئی تکلیف نا پہنچے ۔۔۔ 

آپکے قول سے زیادہ آپکے عمل کی اہمیت ہے میرے نزدیک امید ہے آپ اپنے قول پر پورے اتریں گے ۔۔۔

ویسے میری بیگم کو دوسروں کو لاجواب کرنا بہت اچھے سے آتا ہے ۔۔۔

الحمدللُٰہ اللّٰہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازہ ہے ۔۔۔

آخر بیوی بھی تو میری ہے میرے ہی مطابق ہونی چاہئے تھی معصوم اور سادہ لگتا ہی نہیں ہے کہ تم اس دور کی لڑکی ہو ۔۔۔

اور میری معصومیت اور سادگی سے آپ فائدہ اٹھاکر مجھے اپنے غصے سے ڈراتے ہیں ۔۔۔

عائش تم نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ میں نے مما کو کچھ کہا یا نہیں ؟

وہ آپکا مسلئہ ہے آپکی ماں ہیں آپ جو چاہو انکے ساتھ کرو لیکن صرف اتنا یاد رکھنا آپ کی جنت انکے قدموں تلے ہے ہر کسی کو اپنے کیے کی سزا کاٹنی ہے اس لئے آپ اپنی آخرت سنوارے باقی سب اللّٰہ کے سپرد کردیں وہ آپ کو مایوس نہیں کریگا ہر کوئی اپنی قبر میں خود جواب دیگا ۔۔۔

اعلیٰ ظرفی بہت بڑی مثال ہو تم ۔۔۔

مشی کے جواب میں حضیر بس یہی کہہ سکا ۔۔۔

ہر وہ شخص اعلٰی ظرفی کی مثال ہے جو اللّٰہ سے ڈرتا ہے اور اسکے اور اسکے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی احکامات پر عمل کرے ۔۔۔

اچھا اب جاؤ اندر میں کار میں انتظار کر رہا ہوں پہلے عفراء کے مہندی لگوانا اور تم اپنےپیروں پر بھی لگوالینا اور یہ اپنے پاس رکھو پیمنٹ میں پہلے ہی کرچکا ہوں ۔۔۔

حضیر نے پارلر کے باہر گاڑی روک کر مشی کو کیش دیتے ہوئے کہا اور عفراء کو پیار کر کے مشی کی طرف کا دروازہ کھولا ۔۔۔

حضیر کے دروازہ کھولنے پر مشی گاڑی سے اتر کر حضیر کو اللّٰہ حافظ کہتی پارلر کے اندر چلی گئی ۔۔۔

اسلام علیکم یار عائش تیار ہوگئی کیا تم آجاؤ میں تمہیں پک کرنے ۔۔۔

حضیر نے سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک ہاتھ سے اپنے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے کان سے موبائل لگائے عائش سے پوچھا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں پہنچتا ہوں عفراء کہاں ہے ریڈی ہوگئی کیا میری شہزادی ؟

عائش کے جواب پر حضیر نے عفراء کا پوچھا ۔۔۔

ٹھیک ہے میں پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں میں پہنچ کر تمہں مس بیل دونگا تم عفراء کو لیکر باہر آجانا ٹھیک ہے اللّٰہ حافظ ۔۔۔

حضیر تم لینے نہیں جاؤگے اسے جب وہ سسرال کی طرف سے شریک ہی نہیں ہورہی تو تم کیوں لینے جارہے ہو اسے خود ہی آجائیگی اپنے ننھیال والوں کے ساتھ تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اسے لینے جانے کی تم جاکر مسیب کو دیکھو کہ تیار ہوا یا نہیں دیر ہورہی ہے ہال کے لئے بھی نکلنا ہے ۔۔۔

انعم بیگم جو کب سے حضیر کو بات کرتا سن رہی تھی کہ حضیر کے فون بند کرتے ہی تنفر سے کہنے لگی ۔۔۔

اگر یہاں سے اسے بڑی بہو کی عزت اور مقام ملتا تو وہ ضرور یہاں سے شریک ہوتی خیر وہ تو بہو ہے آپ لوگوں نے تو مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھایا میں تو بقول آپ کے آپ کا لاڈلہ بیٹا ہوں خیر وہ میری بیوی اور بیٹی ہے یعنی میری ذمیداری جس کو نبھانا مجھے اچھے سے آتا ہے ۔۔۔

حضیر انہیں کھٹاک سے جواب دیتا وہاں سے نکلتا چلاگیا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

بابا کی جان اتنی پیاری لگ رہی ہے اللّٰہ نظرِ بد سے بچائے میری شہزادی کو ۔۔۔

مشی جو کہ حضیر کے مس بیل دینے پر عفراء کو لیکر پارلر سے باہر آئی تھی تو حضیر نے عفراء کو مشی کی گود سے لیکر پیار کرتے ہوئے کہا جو کہ اسکن اور مہرون لہنگا پہنے ہاتھوں میں میچنگ چوڑیاں اور سر پر چھوٹی سی ماتھا پٹی لگائے بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔۔

اور مشی کو چلنے میں مدد دیتا اسے گاڑی میں بٹھاکر خود دوسری طرف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر عفراء کو گود میں بٹھایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر دوڑادی ۔۔۔

حضیر مشی اور عفراء کو لیکر ہال کی بیک سائیڈ سے ڈریسنگ روم میں آیا تھا جہاں مشی نے اپنا عبایا اتارا اور مرر میں خود کا عکس دیکھ کر اپنا حجاب اور نقاب سیٹ کرنے لگی ۔۔۔

عائش ادھر آؤ ساتھ پکس لیتے ہیں ۔۔۔

حضیر نے عفراء کی ڈھیر ساری پکس لینے کے بعد اپنا نقاب صحیح کرتی مشی سے کہا اور پھر مختلف پوز سے ڈھیر ساری پکس لینے لگا ۔۔۔

باقی سب ابھی تک نہیں آئے کیا ؟

مشی نے کسی بھی قسم کے شور کو نا پاکر حضیر سے پوچھا ۔۔۔

نہیں شاید اپن سب سے جلدی آگئے لیکن سب پہنچنے والے ہیں چلو اپن باہر چلتے ہیں ۔۔۔

مشی کی بات پر حضیر نے اسے جواب دیا اور انہیں لیکر ڈریسنگ روم سے باہر ہال کی طرف نکل گیا جہاں اب مہمان آنا شروع ہوچکے تھے اور پھر کچھ ہی دیر میں شاہ حویلی خان حویلی اور کاردار ولا کے لوگ بھی ہال میں پہنچ گئے تھے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

نکاح ہونے کے بعد مبارکباد کا شور اٹھا اور دلہنوں کو لے جاکر اسٹیج پر دلہوں کے ساتھ بٹھایا گیا جو کہ فل وائٹ لہنگے کے ساتھ بلڈ ریڈ کلر کے دوپٹے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ دلہوں نے وائٹ کرتے پاجاموں پر دلہنوں کے دوپٹوں کے کلر کے پرنس کوٹ پہنے ہوئے تھے جبکہ مشی اور عفراء نے بلکل سیم اسکن اور مہرون کلر کے لہنگے پہنے ہوئے تھے اور مشی نے بائیں کندھے پر مہرون کلر کی شال ڈالی ہوئی تھی ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں ساتھ میں حجاب پر لگی ماتھا پٹی اور دو انچ کی ہیل کی سینڈل پہنے وہ سب میں نمایا لگ رہی تھی جبکہ حضیر نے مہرون کلر کے پینٹ کوٹ کے ساتھ اندر اسکن شرٹ پہنے بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔

مشی مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔

مشی ابھی دلہنوں کو اسٹیج پر بٹھاکر نیچے اتری ہی تھی کہ سحر نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی بھابھی کہیں ۔۔۔

سحر کے کہنے پر مشی نے ادب سے کہا جبکہ سحر جو کہ پہلے ہی مشی کے ساتھ اپنے رویے پر شرمندہ تھی مشی کے نرم رویے پر اسکا دل کیا چلو بھر پانی میں ڈوب مرے ۔۔۔

مشی میں بہت شرمندہ ہوں میں نے آج تک تم سے بہت برا رویہ رکھا ہے تم پر  الزامات لگائے تمہارے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کی لیکن ان سب چیزوں نے مجھے سعد کی نظروں میں گرادیا اور جب اللّٰہ نے میری راہنمائی کی تو مجھے بھی اپنی تمہاری ساتھ کی گئی زیادتیوں کا احساس ہوا ہے میں دل سے تم سے اپنے کوتاہیوں زیادتیوں کی معافی مانگتی ہوں ہوسکے تو پلیز مجھے معاف کردینا ۔۔۔

بھابھی میرے دل میں نا پہلے آپ کے لئے کوئی نفرت یا بغض وغیرہ تھا اور نا اب ہے کیونکہ مجھے یقین ہیکہ ہر کسی کو اپنا کیا بھگتنا ہے اور ہم انسانوں کی اتنی اوقات نہیں کہ ہمیں کسی کی سزا جزا کا فیصلہ کریں کیونکہ ہر انسان خطا کا پتلہ ہے آپ بے فکر رہیں میرے دل میں آپ کے لئے کوئی کینہ نہیں ہے آپ کل بھی میرے لئے قابلِ احترام تھی اور آج بھی اتنی ہی قابلِ احترام ہیں آپ بے فکر رہے ۔۔۔

سحر کے شرمندگی سے کہنے پر مشی نے رسانیت سے کہا ۔۔۔

تم واقعی صورت اور سیرت دونوں کی بہت خوبصورت ہو اور آج تو ماشاءاللّٰہ بہت ہی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔

جزاک اللّٰہ بھابھی مجھے خزیمہ بلارہے ہیں میں آتی ہوں ۔۔۔

مشی نے سحر کی بات کا نرمی سے جواب دیا اور وہاں سے چلی گئ ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

سب گھر چلے گئے چلو اپن بھی چلتے ہیں عفراء بھی سوگئی ہے ۔۔۔

ہاں بس میں عبایا پہن لوں پھر چلتے ہیں ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا اور ڈریسنگ روم میں جاکر عبایا پہننے لگی ۔۔۔

چلیں ۔۔۔ 

مشی نے برقعہ پہن کر حضیر کے پاس آتے ہوئے کہا اور پھر دونوں گھر کی طرف چل دیے ۔۔۔

تم نے بتایا نہیں چچی زندہ ہیں آج تو سب کو بہت اچھا سرپرائز ملا ہے ۔۔۔

حضیر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے مشی سے پوچھا جس کی گود میں عفراء سورہی تھی ۔۔۔

مجھے خود کچھ دن پہلے پتہ لگا تھا بابا نے مجھے بھی نہیں بتایا تھا کیونکہ مما کومہ میں تھی اور آج بابا سب کو سرپرائز دینا چاہتے تھے اس لئے میں نے آپ کو بھی نہیں بتایا ۔۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔

ابھی حضیر کوئی سوال کرتا کہ ڈیش بورڈ پر رکھا موبائل بجا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔ حضیر نے کال یس کر کے فون کان پر لگاکر مقابل کو سلام کیا ۔۔۔

کیا کب اور کیسے ہوا چلو ٹھیک ہے ہم پہنچ رہے ہیں ۔۔۔

کیا ہوا خُزیمہ خیریت تو ہے آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں ۔۔۔

حضیر کے کال بند کرتے ہی مشی نے حضیر کو پریشان دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا ۔۔۔

سعد کی وائف کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے شاید ہال سے وآپسی پر سب ہسپتال میں ہیں اپن بھی وہیں جارہے ہیں ۔۔۔

مشی کے پوچھنے پر حضیر نے پریشانی سے مشی سے کہا اور گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی ۔۔۔

اور کون کون تھا گاڑی میں ۔۔۔

حضیر کی بات سن کر مشی نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

مجھے کچھ نہیں پتہ چاچو کا فون تھا انہوں نے مجھے بس ایکسیڈنٹ کا بتایا ہے باقی وہاں جاکر پتہ چلے گا ۔۔۔

اللّٰہ خیر کرے ۔۔۔ 

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیا کہا ڈاکٹر نے خیریت تو ہے ؟

حضیر نے کوریڈور کی بینچ پر بیٹھے سعد سے پوچھا ۔۔۔

ڈاکٹر کہہ رہے ہیں خون بہت زیادہ بہہ گیا ہے اور سر پر بھی بہت گہری چوٹ آئی ہے ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔۔

ہوا کیسے ایکسیڈنٹ اور کون کون تھا گاڑی میں ۔۔۔

صرف سحر ہی تھی وہ ڈرائیور کے ساتھ خان حویلی جارہی تھی راستے میں گاڑی ٹرک سے ٹکراکر درخت میں لگی ڈرائیور تو موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا اور سحر آئی سی یو میں ہے ۔۔۔

ڈاکٹر کیسی ہے میری وائف ؟

سعد نے ڈاکٹر کو آئی سی یو سے باہر نکلتے دیکھ پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

مسڑ شاہ اللّٰہ کو یہی منظور تھا شی از نو مور ۔۔۔

ڈاکٹر نے سعد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلاگیا جبکہ ڈاکٹر بات سن کر پورے کوریڈور میں وحشت بھرا سناٹا چھاہ گیا ۔۔۔

اور کون کون تھا گاڑی میں ۔۔۔

حضیر کی بات سن کر مشی نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

مجھے کچھ نہیں پتہ چاچو کا فون تھا انہوں نے مجھے بس ایکسیڈنٹ کا بتایا ہے باقی وہاں جاکر پتہ چلے گا ۔۔۔

اللّٰہ خیر کرے ۔۔۔ 

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیا کہا ڈاکٹر نے خیریت تو ہے ؟

حضیر نے کوریڈور کی بینچ پر بیٹھے سعد سے پوچھا ۔۔۔

ڈاکٹر کہہ رہے ہیں خون بہت زیادہ بہہ گیا ہے اور سر پر بھی بہت گہری چوٹ آئی ہے ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ۔۔۔

ہوا کیسے ایکسیڈنٹ اور کون کون تھا گاڑی میں ۔۔۔

صرف سحر ہی تھی وہ ڈرائیور کے ساتھ خان حویلی جارہی تھی راستے میں گاڑی ٹرک سے ٹکراکر درخت میں لگی ڈرائیور تو موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا اور سحر آئی سی یو میں ہے ۔۔۔

ڈاکٹر کیسی ہے میری وائف ؟

سعد نے ڈاکٹر کو آئی سی یو سے باہر نکلتے دیکھ پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

مسڑ شاہ اللّٰہ کو یہی منظور تھا شی از نو مور ۔۔۔

ڈاکٹر نے سعد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلاگیا جبکہ ڈاکٹر بات سن کر پورے کوریڈور میں وحشت بھرا سناٹا چھاہ گیا ۔۔۔

سحر کے انتقال کو بیس دن گزر چکے تھے اور سب معمول کے مطابق اپنی اپنی روٹین پر آچکے تھے بے شک دکھ سب کو تھا لیکن مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا اور نا ہی کسی کے جانے سے وقت رکتا ہے اور پھر اسی طرح ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے ہوئے عید کا دن آن پہنچا ۔۔۔

حضیر اٹھ جائیں ساڑھے چھے بج رہے ہیں ساڑھے سات پر تو نماز ہے ۔۔۔

مشی نے حضیر کو اٹھاتے ہوئے کہا جو کہ تھوڑی دیر پہلے ہی سویا تھا اور اب اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔

اٹھ گیا میں تم میری شہزادی کو اٹھاؤ ۔۔۔

آپکی شہزادی کو میں نے نہلا بھی دیا ہے بس اسے تیار کر رہی ہوں اتنے میں آپ بھی فریش ہوکر آجائیں ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے اسے آگاہ کیا تو حضیر عفراء کو پیار کرتا باتھروم چلا گیا ۔۔۔

مما کی جان اب کپڑے گندے نہیں کرنا بس بیڈ پر ہی بیٹھی رہنا مما بس کمرہ سمیٹ لیں ۔۔۔

مشی نے عفراء کو تیار کر کے اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے التجائیہ لہجے میں کہا جس پر عفراء کھلکھلانے لگی جیسے اسے مشی کی ساری بات سمجھ میں آرہی ہو ۔۔۔

مما کی جان میری شہزادی ماں صدقے ۔۔۔

عفراء کے کھلکھلانے پر مشی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا اور کمرہ سمیٹنے لگی ۔۔۔

یار عائش تم دوسرے روم کا باتھروم استعمال کرلیتی ۔۔۔

حضیر نے باتھروم سے باہر آتے ہوئے تولیے سے بال رگڑتے ہوئے کمرہ صاف کرتی مشی سے کہا ۔۔۔

ہاں دوسرے روم میں چلی جاتی اور پھر آپکی شہزادی روم کے ساتھ ساتھ خود کا بھی حشر برا کرلیتی ۔۔۔

اب اتنی بھی شرارتی نہیں ہے میری بیٹی ہنا بابا کی جان ۔۔۔

مشی کے خفگی سے کہنے پر حضیر نے برا مناتے ہوئے مشی کو کہنے کے بعد عفراء کو مخاطب کیا جس پر وہ تالیاں بجاتی کھلکھلانے لگی اور اپنے ہاتھ حضیر کی طرف اٹھالیے جس کا مطلب اب اسے گود میں لے لو ۔۔۔

آپ اپنی شہزادی کے لاڈ اٹھائیں میں فریش ہونے جارہی ہوں ۔۔۔

حضیر کو عفراء کو گود میں لیتا دیکھ مشی نے کہا اور وارڈروب سے اپنے کپڑے لیتی باتھروم چلی گئی اور پیچھے حضیر عفراء کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ ریڈی ہونے لگا ۔۔۔

اللّٰہ سات بج گئے نماز نکل جائیگی عید کی ۔۔۔

مشی نے باتھروم سے نکل کر وال پر لگی گھڑی پر نظر ڈال کر پریشانی سے کہا اور جلدی سے ڈریسنگ کے سامنے آکر بال سلجھانے لگی ۔۔۔

آرام سے ریڈی ہوجاؤ ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے ۔۔۔

حضیر نے مشی کو جلدی جلدی بال سلجھاتا دیکھ ریلیکس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جانے میں بھی تو ٹائم لگے گا ناں ۔۔۔

مشی نے حضیر کی بات کا جواب دیا اور وارڈروب سے اپنا عبایا نکال کر پہنا پھر بالوں میں کیچر لگاکر حجاب کے ساتھ نقاب کیا اور بیڈ پر رکھے پرس میں پیسے موبائل عفراء کے بسکٹ فیڈر اور رومال وغیرہ پرس میں رکھا اور بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل پہننے لگی ۔۔۔

مشی نے آج وائٹ شیفون کی فراک کے ساتھ چوڑیدار پاجامہ اور ہم رنگ دوپٹہ پہنا ہوا تھا کلائیوں میں میچنگ چوڑیاں اور وائٹ ہی سلیپرز پہنے تھے اور عفراء کا بھی مشی جیسا سیم سوٹ تھا جبکہ حضیر نے کاٹن کے وائٹ شلوار قمیض کے ساتھ وائٹ ہی شال لی ہوئی تھی ۔۔

یا اللّٰہ اب یہ اسٹیپ بند نہیں ہورہا ۔۔۔

مشی نے سینڈل کے اسٹیپ سے جدوجہد کرتے ہوئے روہانسی لہجے میں کہا ۔۔۔

لاؤ میں باندھو ۔۔۔ 

مشی کو جھنجھلاتا دیکھ حضیر نے مشی کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں پاگل ہوگئے ہیں کیا آپ میں خود باندھ لونگی ۔۔۔

اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے لاؤ پاؤں آگے کرو دیر ہورہی ہے ۔۔۔

مشی کے کہنے پر حضیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور اسکے نا نا کرنے کے باوجود بھی حضیر نے اسے سینڈل پہنائی اور پھر دونوں باہر کی طرف چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

خیر ہے آج کوئی نظر نہیں آرہا ہوسکتا ہے اللّٰہ نے آج مجھے اس قید سے آزاد کرنے کے لئے اسباب بنائے ہو ۔۔۔

اس شخص نے اس محل نما گھر میں ایک دو گارڈز کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا اور دوبارہ اپنے کمرے میں چلا گیا کیونکہ اب اسے موقع سے فائدہ اٹھانا تھا ۔۔۔

اس شخص نے کمرے میں آکر خود کو شال سے کور کیا اور کمرے کو اندر سے لاک کر کے واشروم گیا اور پھر واشروم کا بھی دروازہ لاک کیا اور باتھروم کی بائیں دیوار کے اوپر کی طرف بنے ہوادان کو کھولا اور اس میں سے دوسری طرف پائیمپ پر چڑھ کر ہوادان دوبارہ اٹکایا اور پائیمپ سے تھوڑا نیچے کی طرف اتر کر پاس کھڑے درخت میں کود گیا ۔۔۔

اس شخص نے درخت سے تھوڑا باہر کی طرف جھانک کر دیکھا تو گارڈز پتوں کی چرچراہٹ سن کر درخت کی طرف ہی آرہے تھے اور انکو اپنی طرف آتا دیکھ وہ شخص مکمل درخت کی اوٹ میں ہوگیا اور پھر پانچ منٹ بعد ہی اس شخص کو قدموں کی آواز دور ہوتی سنائی دی ۔۔۔

گارڈز کے دوبارہ گیٹ کی طرف جاتے ہی وہ درخت کی پچھلی طرف سے نیچے اتر کر جھاڑیوں میں گم ہوکر آہستہ آہستہ بنا آواز پیدا کیے گیٹ کی طرف بڑھنے لگا جہاں دو گارڈز پہرا دے رہے تھے ۔۔۔

اس شخص نے جھاڑیوں میں چھپ کر سامنے بنی جھاڑیوں میں ایک بڑا سا پتھر پھینکا جس سے وہ دونوں گارڈز اس طرف متوجہ ہوئے اور گارڈز کو اس طرف جاتا دیکھ وہ شخص جھاڑیوں کی بائیں طرف بنی دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کود گیا ۔۔۔

کودنے کی وجہ اسے بہت سی چوٹیں آئی تھی لیکن وہ یہ موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتا تھا بیس سال بعد اللّٰہ نے اسے یہ موقع دیا تھا اور وہ اسے گنوانا نہیں چاہتا تھا اس لئے ہمت کرتا سامنے بنے جنگل کی طرف بھاگا ۔۔۔

چونکہ جنگل زیادہ گھنا نہیں تھا اس لئے مسلسل پندرہ سے بیس منٹ بھاگنے کے بعد اسے دوسری طرف سڑک دیکھائی دی جہاں ایک ٹرک کھڑا ہوا تھا ۔۔۔

وہ شخص بنا آواز پیدا کیے ٹرک کی طرف بڑھا شاید ٹرک کا ٹائر پنکچر تھا اور ڈرائیور شاید پنکچر لگارہا تھا اس لئے وہ اس شخص کو نا دیکھ سکا اور وہ شخص خاموشی سے ٹرک کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔

اور پھر کچھ دیر بعد ٹرک چلنے پر اس شخص نے اپنے بھیگے چہرے کے ساتھ اسی ٹرک میں سجدہِ شکر ادا کیا کیونکہ اسکے رب نے اسکا صبر ضائع نہیں ہونے دیا تھا اور بیس سال بعد اسے رہائی دلوائی تھی بیشک وہ رب ہر چیز پر قادر ہے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

مشی عید کی نماز وغیرہ پڑھنے کے بعد عیدگاہ میں دوسری خواتین سے عید مل رہی تھی کہ اسکا موبائل بجا ۔۔۔

مشی نے مقابل عورت کی کسی بات کا جواب دیتے ہوئے بنا دیکھے کال یس کر کے کان سے لگایا ۔۔۔

اسلام علیکم عائش باہر آؤ میں انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔

مشی کے فون اٹھاتے ہی حضیر نے اپنے کام کی بات کی اور فون بند کردیا جبکہ فون کے بند ہوتے ہی مشی نے اس عورت سے الوداع کلمات کہے اور عبایا پہنتی باہر کی طرف بڑھ گئی کیونکہ عفراء پہلے ہی حضیر کے پاس تھی ۔۔۔

اپن کہاں جارہے ہیں خزیمہ ؟

مشی نے بائیک پر حضیر کے پیچھے بیٹھتے ہوئے پوچھا کیونکہ آج حضیر مشی کو عیدگاہ بائیک پر لایا تھا اور اب مشی کو بائیک پر بیٹھنے سے ڈر بھی نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ کافی دفعہ حضیر کے ساتھ بائیک پر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔

چاچو چچی سے ملنے جارہے ہیں ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے پہلے کاردار ولا چلیں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ آپکے والدین یہ سمجھیں کہ آپ ان سے زیادہ اہمیت میرے والدین کو دے رہے ہیں اس لئے پہلے کاردار ولا چلیں اور ویسے بھی مما بابا شاہ حویلی ہونگے ۔۔۔

فلحال پہلے ریسٹورنٹ جارہے ہیں ناشتہ کرنے پھر دیکھتے ہیں کہاں جانا ہے ؟

مشی کے کہنے پر حضیر نے ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں بائیک روک کر ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا جبکہ حضیر کے بائیک روکنے پر مشی نے بائیک سے اتر کر عفراء کو گود میں لیا اور تینوں اندر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔

کیا کھاؤگی عائش ؟

حضیر نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے مشی سے پوچھا ۔۔۔

کچھ بھی منگوالیں ۔۔۔

تمہارے پاس اسکے علاؤہ کوئی اور جواب نہیں ہے جو ہر دفعہ یہی کہتی ہو ۔۔۔

مشی کی بات پر حضیر نے اسے گھورتے ہوئے طنزیہ کہا ۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیا آڈر کروں اس لئے آپ سے کہہ دیتی ہو کہ جو منگوائینگے میں بھی کھالونگی کیونکہ میں کھانے میں نخرے نہیں کرتی ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں منگوالیتا ہوں ۔۔۔

مشی کے صفائی دینے پر حضیر نے کہا اور ویٹر کو آرڈر لکھوایا تو وہ چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی ناشتہ کرتے کاردار ولا کی طرف چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اب کیا ہوگا انکل ؟

میری مانیں تو کردیں سارہ آپی کی شادی کیونکہ اسلام میں بھی تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سحر آپی کے انتقال کو تو بیس دن ہوگئے ہیں ۔۔۔

میں آپ لوگوں کی تکلیف سمجھتی ہوں لیکن کوئی بھی دکھ اگر ہم دل سے لگائیں گے تو وہ ناسور بن جائیگا انکل آپ لوگوں کی دوسری اولادیں بھی ہیں جو آپ دونوں کو کھونے سے ڈرتی ہیں آپ لوگ انکے لئے جیئیں کیونکہ اس دنیا سے ہر کسی کو جانا ہے آج نہیں تو کل ہم اپنے خوشی اور غم نہیں روک سکتے کیونکہ وقت ایک جگہ نہیں ٹہرتا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی زندگی آگے بڑھانی پڑتی ہے پھر چاہئے اس میں ہماری خوشی اور رضا ہو یا نہیں لیکن ہمیں کرنا پڑتا ہے یہ ہی دنیا کا دستور ہے ۔۔۔

اور رہی بات کہ لوگ کیا کہیں گے تو انکل لوگوں کا کام ہی بولنا ہے جس کو جو بولنا ہے بولنے دیں أپ صرف وہ کریں جس میں اللّٰہ کی رضا اور آپکی خوشی شامل ہو پہلے زمانے میں تو مہم جہاد پر بھی نکاح ہوجایا کرتے تھے اس لئے میری بات مانیں تو کردیں آپی کی شادی ۔۔۔

سارہ کے سسرال والے عید کے پانچوے دن شادی مانگ رہے تھے جبکہ یاسر خان شادی آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن وہ لوگ مانگ نہیں رہے تھے اس لئے یاسر خان نے آج سب لوگوں سے مشورہ کرنے کے لئے سب کو ڈنر پر انوائیٹ کیا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے پھر آج سے چار دن بعد یعنی عید کے پانچوے دن سارہ کی بارات ہے اور چھٹے دن ولیمہ مایوں مہندی نہیں ہوگی یہ سب رسمیں اناب اور ہیّاج کی شادی میں کرلینگے ۔۔۔

مشی کی بات یاسر خان کو سہی لگی اور پھر سب بھی مشی کی بات پر متفق تھے اس لئے انہوں نے سب کو آگاہ کرنے کے ساتھ اسی وقت سارہ کے سسرال فون کردیا تھا اور پھر کچھ دیر بعد ڈنر کر کے سب اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے ۔۔۔

 اسلام علیکم سر میں آپکی کیا ہیلپ کرسکتی ہوں ؟

 ریسیپشن پر کھڑی لڑکی نے مقابل سے پیشہ وارانہ لہجے میں سوال کیا ۔۔۔

 اذہان کاردار سے کہیں ازلان کاردار ان سے ملنے آیا ہے ۔۔۔

 لڑکی کے پوچھنے پر مقابل نے آنکھوں پر چشمہ لگاتے ہوئے ایک ادا سے کہا ۔۔۔

جبکہ اس کی بات پر پیچھے کھڑے اذہان کاردار جیسے پتھر کے ہوگئے انہیں اپنی سماعت پر یقین نہیں ہوا بس وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے وجود کی پیٹھ کو گھور رہے تھے ۔۔۔

سر یہ شخص آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔

ریسیپشن پر کھڑی لڑکی نے سامنے کھڑے اذہان صاحب کو دیکھ کر جلدی سے ادب سے کھڑے ہوکر سر جھکاتے ہوئے اطلاع دی جبکہ اسکی آواز پر اذہان صاحب ہوش کی دنیا میں لوٹے ۔۔۔

میرے آفس میں بھیج دیں اور جب تک میں نا کہوں کوئی میرے آفس میں نا آئے اور دو بلیک کافی جلدی سے آفس میں بھیجیں ۔۔۔

اذہان صاحب نے اس لڑکی کو ہدایت دی اور مقابل کو اپنی پیچھے آنے کا اشارہ کرتے اپنے آفس کی طرف چل دیے جبکہ مقابل بھی انکا اشارہ سمجھتا انکے پیچھے چل دیا ۔۔۔

پہچانا مجھے یا بھول گئے چھوٹے ۔۔۔

وہ دونوں آگے پیچھے آفس میں داخل ہوئے تھے اور اذہان صاحب کے کرسی پر بیٹھتے ہی مقابل نے اذیت بھری مسکراہٹ سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

آپکے تعارف کے لئے آپکا نام ہی کافی ہے پہچان تو دور کی بات ۔۔۔

تم آج بھی مقابل کو لاجواب کرنے کا ہنر رکھتے ہو لاڈلے قسم سے تمہیں دیکھ کر زندگی کے اذیت بھرے بیس سال کی تکلیف کم ہوتی محسوس ہورہی ہے ۔۔۔

اور جو آپ نے ہمیں بیس سال اذیت میں رکھا اسکا حساب کون دیگا ۔۔۔

مقابل کی بات پر اذہان صاحب نے انہیں گھورتے ہوئے کہا جس پر مقابل نے جاندار قہقہہ لگایا اور پیار سے انہیں خود میں بھینچتے ہوئے ماتھے پر پیار کیا جبکہ مقابل کے ایسا کرنے سے اذہان صاحب کی آنکھیں فارس کاردار کو یاد کر کے نم ہوگئیں کیونکہ دو شخص ہی انہیں ایسے پیار کرتے تھے ایک فارس کاردار تو دوسرا وہ شخص جو آج بیس سال بعد انکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔

جب جسم کا کوئی بھی حصہ ناسور بن جائے تو تکلیف پورے جسم کو سہنی پڑتی ہے شہزادے لیکن بے فکر رہو اب اس ناسور کو جسم سے کاٹ کر پھینکنے کا وقت آگیا ہے اور مجھے یقین ہے میرا لاڈلہ شہزادہ اپنے بھائی کی ہر قدم پر مدد کریگا ۔۔۔

اذہان صاحب کے کہنے پر مقابل نے انہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

چاچو یار یہ کونسی بات ہوگئی ہے چچی میری بیگم کو آپکے گھر لے گئی ہیں اور میں انہیں منع بھ۔۔۔۔۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ حیا بیگم صبح ہی مشی اور عفراء کو لینے پہنچ گئی تھی اور انکا کہنا تھا کہ شام میں سارہ کی بارات میں بھی مشی وہیں سے شریک ہوگی اور انکے دو ٹوک کہنے پر حضیر بیچارہ نا کچھ کرسکا اور نا کہہ سکا بس بیچارہ سا منہ بناکر آفس چلا گیا اور اب جھنجھلاتے ہوئے حیا بیگم کی شکایت کرنے اذہان صاحب کے آفس آیا تھا لیکن مقابل کو دیکھ کر اسکی زبان کو بریک لگی ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

مقابل پر نظر پڑتے ہی حضیر نے جھٹ سے سلام کیا ۔۔۔

وعلیکم سلام ۔۔۔ 

مقابل نے حضیر کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ اذہان صاحب کو سوالی نظروں سے دیکھا ۔۔۔

حضیر خزیمہ کاردار سن آف اذان فارس کارداد ۔۔۔

اذہان صاحب نے مقابل کی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے فٹ سے حضیر کا تعارف مقابل سے کروایا جبکہ حضیر انہیں پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کیونکہ مقابل بیالیس تینتالیس سال کا خوبرو شخص اسے دیکھا دیکھا لگ رہا تھا لیکن اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے کہاں دیکھا ہے ۔۔۔

ازلان کاردار سن آف فریدہ اینڈ فارس کاردار اینڈ دا برادر آف اذان اذہان اینڈ فریحہ کاردار ۔۔۔

حضیر کو ہونقوں کی طرح خود کو دیکھتے پاکر مقابل نے مسکراتے ہوئے حضیر کی طرف ہاتھ بڑھاکر اپنا تفصیلی تعارف کروایا ۔۔۔

ازلان چاچو آپ تو مرگئے تھے ناں ۔۔۔

ازلان کاردار کے تعارف کروانے پر حضیر نے بے ساختہ کہا جس پر ازلان صاحب اور اذہان صاحب دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا جبکہ حضیر کو بھی جب اپنی بات سمجھ آئی تو خجل سا ہوتا ہنس دیا ۔۔۔

لوگوں کی نظر میں ماردیا گیا تھا جبکہ بیس سال سے کسی اپنے کی قید میں تھا عید والے دن بمشکل وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا ہوں ۔۔۔

حضیر کی بات پر مقابل نے مختصر سا بتایا ۔۔۔

چاچو آپ کھل کر بتائیں کس نے آپ کو قید کیا تھا اسکا حشر نشر بگاڑدونگا میں آپ جانتے نہیں ہیں آپ کے بنا چچی نے کتنی مشکلوں سے بچوں کو بڑا کیا ہے آپ کے جانے کے بعد اللّٰہ نے آپ کو دو جڑواں بیٹیوں سے نوازہ ہے اور دونوں ہی بے حد شرارتی ہے ۔۔۔

جس دن اذان بھائی مجھے شکار پر لیکر گئے تھے اسی دن شماس بھی وہاں شکار پر آیا ہوا تھا اذان بھائی نے وہاں مجھ پر گولی چلائی جو کہ میرے بازو میں لگی اور اپنے بندوں کہہ کر مجھے قید کروادیا اور سب کو یہ کہہ دیا کہ میں مرگیا اور جو لاش آپ لوگوں کو دیکھائی گئی تھی وہ میری نہیں شماس کے گارڈ کی تھی جس نے اذان بھائی کو مجھے گولی مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ شماس کو اطلاع کرتا اذان بھائی نے اسے ماردیا اور اسکا چہرہ مسخ کر کے اسکی لاش کو میری لاش بناکر سب کے سامنے پیش کیا ۔۔۔

اور یہ سب انہوں نے اس لئے کیا کیونکہ کہ وہ شماس کی بہن حیا سے شادی کرنا چاہتے تھے اور ساری جائیداد اپنے نام کروانا چاہتے تھے جو کہ تینوں بھائیوں کے نام تھی ۔۔۔

اذان بھائی نے موقعے سے فائدہ اٹھاکر شماس پر میرے قتل کا الزام لگادیا اور اسکی جگہ حیا کو ونی مانگ لیا لیکن آخر وقت پر بابا نے حیا بھابھی کی شادی اذہان سے کرواکر انکا سارا پلان خراب کردیا اور پھر اسکے بعد بھی اذان بھائی حیا بھابھی کو دھمکاتے رہے کہ وہ اذہان کو چھوڑ کر ان سے نکاح کرلیں لیکن بھابھی نے انکی بات نہیں مانی اور پھر بابا کے انتقال والے دن اذان بھائی نے اذہان کی گاڑی پر فائرنگ کرواکر اذہان کو مارنے کا حکم دیا لیکن حیا نے اذہان کو دھکہ دیکر وہ گولی خود کھالی اور کومہ میں چلی گئی ۔۔۔

یہاں بھی اذان بھائی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے کہ اذہان کے مرنے سے اذہان کا حصہ جائیداد میں ختم ہوجائیگا کیونکہ انکی سوچ تھی کہ بابا تو مرگئے وہ بھابھی اور مشکات کا حصہ اپنے نام کروالینگے اور مجھے انہوں نے مجھے ویسے بھی قید کیا ہوا تھا تو میرا حصہ بھی وہ اپنے نام کرلینگے دوسرا وہ حیاکو کسی طرح مجبور کر کے اپنے نکاح میں لے لینگے لیکن انکا پلان کامیاب نہیں ہوا ۔۔۔

پھر انہوں نے حضیر کے ضد کرنے پر مشی کی شادی حضیر سے کروائی تاکہ مشی کے ذریعے وہ ساری پراپرٹی حضیر کے نام کرواکر مشی کو طلاق دلواکر حضیر کی شادی ردابہ سے کروادینگے جسکو شروع دن سے انہوں نے حضیر کے خواب دیکھائے تھے اور پھر ردابہ کے ذریعے مجھے بلیک میل کر کے ساری پراپرٹی خود کے نام کرواکر ردابہ کو بھی طلاق دلوادینگے لیکن انکا کوئی پلان کامیاب نہیں ہوا صرف اس وجہ سے کیونکہ ہمارا حضیر ان جیسا نہیں ہے وہ صورت اور سیرت دونوں میں میرے لاڈلے اذہان پر گیا ہے ۔۔۔

ازلان نے ساری سچائی اذیت بھری مسکراہٹ کے ساتھ دونوں کے گوش و گزار کردی جبکہ حضیر تو اپنے باپ کے ظلم کی داستان سن کر ساکت بیٹھا تھا اس میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ وہ کوئی اور سوال کرتا بس خاموشی سے ٹیبل پر رکھے کافی کے مگ کو گھور رہا تھا اسے آج شرم آرہی تھی ان دونوں کو اپنا ماں باپ کہتے ہوئے ۔۔۔

بھائی آپکو کیسے پتہ لگا یہ سب آپ تو قید میں تھے ۔۔۔

اذان بھائی مجھے خود اپنے ناپاک ارادوں سے آگاہ کر کے میری بے بسی سے لطف اٹھاتے تھے ۔۔۔

اذہان صاحب کے پوچھنے پر ازلان نے جواب دیا ۔۔۔

مجھے شرم آتی ہے انہیں اپنا بھائی کہتے ہوئے لیکن اس بات کو جھٹلا بھی نہیں سکتے خیر آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے ۔۔۔

اذہان صاحب نے حضیر کے ساکت وجود کو دیکھتے ہوئے ازلان صاحب سے کہا ۔۔۔

کل انشاءاللّہ ملاقات کا شرف بخشینگے بھائی جان کو کل ان کے سارے گناہوں سے پردہ اٹھائینگے ۔۔۔

چاچو آپ لوگ جو بھی بابا کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں کریں کیونکہ وہ آپ لوگوں کے مجرم ہیں میں آپ لوگوں کو نہیں روکونگا لیکن پلیز میرے یا میرے بہن بھائیوں کے لئے اپنے دل میں کوئی عداوت یا نفرت مت رکھئے گا ہم ہر چیز سے بے خبر ہیں آج تک ہمارے لئے بھی ہماری ماں باپ ہمارے آئیڈیل تھے لیکن خیر والدین کا نیک ہونا بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللّٰہ نے ہمیں اس نعمت سے محروم رکھا ہے ۔۔۔

ازلان صاحب کے کہنے پر حضیر نے اپنی نم آنکھیں چھپاتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا ۔۔۔

حضیر مضبوط بنو تم مرد ہو زندگی میں بہت سی آزمائشیں آتی ہیں ہمارے انبیاء علیہ سلام کو بھی اللّٰہ نے انکے قریبی رشتوں کے ذریعے آزمایا ہے حضرت ابرہیم کے والد مشرک تھے حضرت لوط کی بیوی حضرت نوح کے بیوی بچے اپنی نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے چچا اور دادا ۔۔۔

تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے جس میں انسان اپنوں کے ذریعے ہی آزمایا گیا ہے بس اپنا تعلق اللّٰہ سے مضبوط رکھو اور حق اور سچ کا ساتھ دوں انشاءاللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ سب بہتر کریگا ۔۔۔

ازلان صاحب نے حضیر کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

چاچو میں اپنے دادا فارس کاردار کا لاڈلہ پوتا ہوں جنہوں نے کبھی کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا ہے ہر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے کبھی ہمت نہیں ہاری اور نا کبھی اپنا تعلق اپنے رب سے کمزور ہونے دیا ہے اور انشاءاللّہ میں بھی آپکو انکا پرتو بن کر دیکھاؤنگا ۔۔۔

ازلان کی بات پر حضیر نے ایک عزم سے کہا جس پر اذہان صاحب اور ازلان مسکرادیے اور پھر آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آج آجائے یہ مشی اسکا میں خون کردونگی ابھی تک نہیں آئی یہ بارات بھی آگئی ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں پہنچی ۔۔۔

اناب نے ہال کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے مصباح سے غصے سے کہا ۔۔۔

وہ دونوں کب سے مشی کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ ابھی تک ہال میں نہیں پہنچی تھی ۔۔۔

وہ دیکھو آگئی ۔۔۔

اناب کے غصہ کرنے پر مصباح نے اسکا رخ دروازے کی طرف کرتے ہوئے کہا جہاں مشی حضیر کے ساتھ چلتے ہوئے انکی طرف ہی آرہی تھی اور حضیر کی گود میں عفراء تھی ۔۔۔

بہت جلدی نہیں آگئی تم اب بھی نا آتی رخصتی کے بعد آجاتی آرام سے ۔۔۔

مشی جیسے ہی انکے پاس پہنچی اناب اسے دیکھتے ہی برس پڑی جبکہ حضیر عفراء کو لیکر لڑکوں کی سائیڈ پر چلا گیا تھا ۔۔۔

بہن اب میں شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہوں اور جو یہ تمہارے حضیر بھائی ہے ناں یہ میری عفراء سے بھی چھوٹے ہیں جب شادی ہوگی ناں تیری جب پتہ چلے گا ۔۔۔

مشی جو حضیر کے لیٹ کرنے کی وجہ سے ویسے ہی غصے میں تھی اناب کے کہنے پر اس پر ہی برس پڑی ۔۔۔

اچھا بس غصہ کیوں ہورہی ہے ۔۔۔

غصہ نہیں ہوں تو کیا کرو پہلے ہی حضیر کے لیٹ کرنے کی وجہ سے مجھے اتنا غصہ آرہا تھا اوپر سے اس نے سنادی آتے ہی ۔۔۔

مصباح کے کہنے پر مشی نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا چل نکاح ہونے والا ہے اسٹیج پر چلتے ہیں ۔۔۔

مشی کو غصہ میں دیکھ کر اناب نے کہا تو وہ تینوں اسٹیج کی طرف چل دی ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

کیا ہوا یاسر تو اتنا پریشان کیوں لگ رہا ہے ؟

شماس شاہ نے یاسر خان سے کہا جنکے چہرے سے ہی انکے پریشان ہونے کا پتہ لگ رہا تھا ۔۔۔

شماس میرے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے دولہا جو ہے وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اسکی دو بیٹیاں بھی ہیں اس نے مجھے خود ابھی بتایا ہے اسکے والدین اسکی زبردستی شادی کروارہے ہیں صرف دولت کی خاطر لیکن وہ نہیں کرنا چاہتا اس نے مجھے بتانے کی بہت کوشش کی لیکن اسکے باپ نے اسکو مجھ سے اکیلے میں ملنے نہیں دیا وہ اپنے ماں باپ کی حرکت پر شرمندہ ہے لیکن وہ شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔

شماس شاہ کے پوچھنے پر یاسر خان نے بے بسی سے ساری بات انہیں بتادی ۔۔۔

کوئی بات نہیں اچھا ہوا ہمیں پہلے پتہ لگ گیا بعد میں پتہ نہیں کیا کرتے ہماری بچی کے ساتھ تم پریشان نہیں ہو سارہ کا نکاح آج اور ابھی ہوگا وہ بھی سعد سے ۔۔۔

یاسر خان کی بات سن کر شماس شاہ نے دو ٹوک اپنا فیصلہ سنایا جس پر سب نے اتفاق کیا اور پھر کچھ ہی دیر میں سارہ سارہ یاسر خان سے سارہ سعد شاہ بن کر شاہ حویلی رخصت ہوگئی ۔۔۔

سب سے پہلی فرست میں میں اپنے بال کٹواؤنگی پاگل کردیتی ہے عفراء کھینچ کھینچ کر کل بھی اس نے میری بہت بری حالت کردی تھی بال کھینچ کھینچ کر میرے سر میں درد ہوگیا تھا ۔۔۔

مشی نے مرر کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال سلجھاتے ہوئے حضیر سے کہا جو کہ بیڈ پر بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا جبکہ عفراء میڈم خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے بال کٹوانے کی اتنے پیارے بال ہے تمہارے ناشکری ہو تم میرے بھی داڑھی اور سر کے بال نوچتی ہے عفراء تو اسکا کیا مطلب ہے میں بھی گنجا ہوجاؤ یا داڑھی کٹوادوں بچی ہے وہ تو اسے اتنی سمجھ تھوڑی ہے ۔۔۔

مشی کی بات پر حضیر نے موبائل سے نظریں اٹھاکر اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہیں بھی آپکے گھنے اور لچّھے دار بال میرے تو اتنے بڑے ہیں مجھ سے سلجھتے بھی نہیں ہے اور عفراء سارے دن میرے پاس ہوتی ہے آپ تو آفس ہوتے ہیں اس لئے اتنی باتیں آرہی ہیں آپ کو ۔۔۔

اچھا تو پھر فل لیئرز کٹوالوں تمہارے بالوں بہت اچھے لگینگے گھنے اور سلکی جو ہیں بہت پیارے لگے گے تمہارے بال ۔۔۔

مشی کی روتی صورت دیکھ کر حضیر نے حل پیش کیا ۔۔۔

فل لئیرز کٹوالو بہت اچھے لگے گے تمہارے بال ۔۔۔

مجھ سے یہ ہی نہیں سنبھلتے اس کچرے کو کون سنبھالیگا اور میری بیٹی نے میرے بالوں کو گھاس بنادینا ہے ۔۔۔

مشی نے شروع میں حضیر کی نقل اتارتے ہوئے اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر حضیر نے قہقہہ لگایا ۔۔۔

کٹواؤگی تو لئیرز ورنہ کوئی ضرورت نہیں ہے بال کٹوانے کی ۔۔۔

میں کٹواہی نہیں رہی میں تو آپ کو بول کر پچھتائی ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے بالوں کی چٹیا بناکر برش کو ڈریسنگ پر پٹکتے ہوئے کہا اور دھاڑ سے دروازہ بند کرتی کمرے سے باہر چلی گئی اور اسے اپنے پیچھے حضیر کا ایک زوردار قہقہہ سنائی دیا جس سے اسکے لبوں پر بھی مسکراہٹ آگئی کیونکہ مشی ہی جانتی تھی کہ اپنے باپ کی سچائی جاننے کے بعد حضیر کی کیا حالت تھی اور مشی نے کتنی مشکل سے اسے سنبھالا تھا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

آج اتوار کا دن تھا اس وجہ سے کاردار ولا کے لوگ لنچ کے بعد لاؤنچ میں بیٹھ کر چائے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے کبھی کوئی ہنستا کبھی مسکراتا تو کبھی کوئی منہ بناتا غرض کہ لاؤنچ کا منظر ایک ہیپی فیملی کا منظر پیش کر رہا تھا لیکن کب تک ہیپی رہتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

وہ سب ابھی محو گفتگو ہی تھے کہ سلام کی آواز پر آنے والے وجود کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ ازلان صاحب کو دیکھ کر اذان صاحب کا چہرہ فق ہوا اور باقی سب بھی حیرانگی و خوشی کے عالم میں انی نشستوں سے کھڑے ہوگئے کچھ کے ہاتھ منہ پر پڑے تو کچھ نے کسی چیز کا سہارا لیکر خود کو گرنے سے سنبھالا چونکہ ایک مرا ہوا وجود بیس سال بعد انکے سامنے زندہ کھڑا تھا یہ حقیقت تسلیم کرنا ہر کسی کے لئے بے حد مشکل تھا ۔۔۔

کیا ہوا بھائی جان ایسا بھی کیا شاک لگا کہ سلام کا جواب دینا ہی بھول گئے ۔۔۔

ازلان صاحب نے اذان صاحب کا فق چہرہ دیکھ کر استہزایہ ہنستے ہوئے انکے قریب آتے ہوئے کہا جبکہ انکے پیچھے شاہ حویلی خان حویلی کے لوگ مشی حضیر حیا بیگم اور اذہان کاردار کھڑے تھے جنکو پلان کے تحت سچائی سے آگاہ کر کے یہاں آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔۔۔

بابا میرے بابا بابا ۔۔۔

اذان صاحب ابھی کچھ بولتے کہ ردابہ روتی ہوئی اپنے باپ کو پکارتی انکے سینے سے جالگی جسے ازلان کاردار نے خود میں بھینچ کر اسکے سر پر پیار کیا ۔۔۔

بابا آپ زندہ ممیرے بابا میرے بابا ۔۔۔

ردابہ کو دیکھ کر برداء بھی خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے بے ربط جملے کہتا انکے مہربان شفقت بھرے بازوؤں میں سماکر ہچکیوں سے رو دیا جبکہ اس شرارتی سے لڑکے کو بچوں کی طرح روتے دیکھ سب کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔۔۔

اپنے بابا سے نہیں ملوگی میری شہزادیوں ۔۔۔

ازلان صاحب نے کچھ دیر بعد برداء اور ردابہ کو خود سے جدا کر کے حیان اور حورعین کے پاس آکر اپنے بازوؤں کو کھولتے ہوئے کہا جو کہ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ ساکت سی کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھی جنہیں وہ پہلی نظر میں پہچان گئے تھے کیوں نا پہچانتے وہ دونوں بلکل انکی کاپی جو تھی ۔۔۔ جبکہ انکی بات سن کر وہ دونوں ہوش میں آتی ان سے لپٹ کر سسکنے لگی ۔۔۔

بس میرا بچہ بس اب آگئے نا آپ لوگوں کے بابا اب کوئی کچھ نہیں کرسکے گا اب ہم ہمیشہ ساتھ اور خوش رہینگے ۔۔۔

ان دونوں کافی دیر بعد بھی ہچکیوں سے روتا دیکھ ازلان صاحب نے ان کے سر پر باری باری پیار کر کے اذان صاحب کو گھورتے ہوئے کہا جیسے بہت کچھ باور کروانا چاہ رہے ہو ۔۔۔

مما میری جنت کیسی ہیں آپ کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی میرے آنے کی ۔۔۔

ازلان صاحب نے کچھ دیر بعد ان دونوں کو دور کر کے فریدہ بیگم کے قدموں میں بیٹھ کر عقیدت سے انکے ہاتھ چومتے ہوئے کہا جو کہ ساکت سی بیٹھی تھی ۔۔۔

میرا بچہ میرا ازلان میری زندگی میری جان میرا شہزادہ ۔۔۔

ازلان کی بات پر فریدہ بیگم ہوش میں آتی انہیں اپنے گلے سے لگاتی والہانہ چومنے لگی ۔۔۔

مما اب یہ آنسو نہیں آنے چاہئے آپکی آنکھوں میں آگیا ہے نا آپ کا بیٹا ہر راز سے پردہ اٹھانے ہر ناسور کو کاٹ کر پھینکنے چاہے پھر وہ کوئی اپنا ہی کیوں نا ہو ۔۔۔

ازلان صاحب نے فریدہ بیگم کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے معنی خیزی سے کہا جس پر وہ انہیں ناسمجھی سے دیکھنے لگی ۔۔۔

تھوڑا سا صبر کریں میری مما آج ہر راز سے پردہ اٹھے گا کیونکہ اذان بھائی جان ۔۔۔

فریدہ بیگم کی سوالیہ نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے ازلان صاحب نے انہیں تسلی دی اور اذان صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر دانتوں کو چباکر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا جبکہ انکی معنیٰ خیز باتوں پر اذان صاحب کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگی ۔۔۔

آپ سب رازوں سے پردہ اٹھائینگے یا یہ نیک کام بھی میں ہی کردوں ۔۔۔

ازلان صاحب نے آئیبرو اچکاتے ہوئے اذان صاحب سے پوچھا جس پر وہ نگاہیں چرانے لگے جبکہ انکو آج اپنے کیے ہر ظلم یاد آرہے تھے ۔۔۔

چلیں کوئی نہیں یہ کام بھی میں ہی انجام دے دیتا ہوں ۔۔۔

اذان صاحب کو نظریں چراتا دیکھ ازلان صاحب نے کہا اور ایک ایک کر کے اذان صاحب کے سارے کرتوتوں سے پردہ اٹھاتے گئے ۔۔۔

اور پھر ازلان صاحب کی باتیں سن کر سب بے یقینی سے اذان صاحب کو دیکھنے لگے جبکہ فریدہ بیگم تو سینے پر ہاتھ رکھتی صوفے پر ڈھہ گئیں انہیں اپنے کیے ظلم یاد آنے لگے ۔۔۔

جس بیٹے اور بہو کو انہوں نے اپنے سینے سے لگاکر رکھا اصل میں کھنجر انہوں نے ہی گھونپا تھا اور جنہیں آج تک وہ قصوروار سمجھ کر سزا دیتی آئیں تھی وہ تو معصوم اور بے قصور تھی سب سے زیادہ سزا تو مشی نے کاٹی تھی بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی اس نے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹی تھی ۔۔۔

اذان صاحب خود کے لئے اپنے بیوی بچوں کی نظر میں بدگمانی اور بے یقینی دیکھ کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے وہی ڈھہہ گئے ۔۔۔

بابا بابا آنکھیں کھولیں کیا ہوا ہے بابا آنکھیں کھولیں بابا ۔۔۔

اذان صاحب کے گرتے ہی حضیر ان کے پاس بھاگا اور انکے گال تھپتھپاتے ہوئے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔

حضیر اٹھو بھائی کو ہسپتال لیکر چلیں ۔۔۔

اذہان صاحب نے حضیر سے کہا اور اذان صاحب کو لیکر باہر کی طرف بھاگے جبکہ حضیر نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا جو اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اسکے باپ کی جان کی پرواہ کر رہے تھے اور پھر آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتا انکے پیچھے بھاگا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اذان صاحب کو اس دنیا سے گئے تقریباً دو مہینے ہوگئے تھے جبکہ جوان بیٹے کی موت کے غم نے فریدہ بیگم کو بھی توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ صرف اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئیں تھی پچھتاوے انہیں اندر ہی اندر ناگ کی طرح ڈس رہے تھے اور شوہر کے مرنے کے بعد انعم بیگم کا بھی سارا غرور ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔

 اور شوہر کے انتقال کے غم میں انہیں فالج کا اٹیک ہوگیا جسکی وجہ سے وہ ہر چیز کے لئے محتاج ہوکر رہ گئیں تھی لیکن مشی انکی خدمت میں کوئی کمی نہیں رکھتی تھی اور سارے گھر کی ذمیداری حیا بیگم مدیحہ بیگم اور مشی پر تھی جسے وہ بہت اچھی طرح سرانجام دے رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مسیب حضیر اور انعمتہ کی دلجوئی کرتی اور انہیں اس قدر پیار دیتی کہ انہیں ماں باپ کی کمی محسوس نا ہو ۔۔۔

فریدہ بیگم کے معافی مانگ کر التجا کرنے پر اذہان صاحب اور حضیر حیا بیگم اور مشی اور عفراء کو لیکر کاردار ولا میں ہی شفٹ ہوگئے تھے اور ازلان صاحب اذان صاحب کا بزنس سنبھال رہے تھے جبکہ اذہان صاحب اور حضیر اپنا اپنا ہی بزنس دیکھ رہے تھے ۔۔۔

سب چیزیں وآپس اپنی روٹین پر آگئی تھی لیکن دل سب کے افسردہ تھے بیشک کسی نے بھی اذان صاحب کی موت کی خواہش نہیں کی تھی لیکن جو اللّٰہ کو منظور اسکے آگے نا کبھی کسی کی چلی ہے اور نا کبھی چلے گی بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔۔۔

ڈیڑھ سال بعد ۔۔۔

یا اللّٰہ میں کیا کرو اس لڑکی کا ابھی کوئی چوتھی دفعہ میں نے اسے نہلایا تھا اور یہ پھر مٹی میں ہوکر آگئی حضیر میں آپکے پاس بٹھاکر مسحب کو فیڈر پلانے گئی تھی تو یہ آپ کے پاس سے ہلی کیسے ؟

مشی نے لاؤنچ کے داخلی دروازے سے ملازمہ کے ساتھ دانتوں کی نمائش کرتی عفراء کو دیکھ کر روہانسی لہجے میں کہا جو کہ پوری مٹی میں لت پت ہورہی تھی ۔۔۔

آج جمعہ تھا اس لئے ہمیشہ کی طرح آج بھی سب لوگ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے مسیب کی گود میں اسکا چھے مہینے کا بیٹا تھا جبکہ برداء بھی اپنے چار ماہ کے بیٹے کو سلانے کی کوشش کرنے کے ساتھ باتیں بھی کر رہا تھا اور اذہان صاحب کی گود میں حضیر کا سات ماہ کا بیٹا مسحب تھا چونکہ عفراء اکلوتی لڑکی تھی اس لئے کوئی بھی اسے کچھ نہیں کہتا تھا اور وہ سب کی بے حد لاڈلی تھی ۔۔۔

یار عائش یہ ابھی تو میرے پاس تھی پتہ نہیں کب گئی ہے عفراء میرے پاس سے ۔۔۔

یار صبح سے میں نے کوئی گھر کا کام نہیں کیا کیونکہ میرے خود کے بچوں کے کام نہیں ختم ہوتے دوسرے کام تو بعد کی بات ہے اور آپ سے ایک کام نہیں ہورہا کہ عفراء کو پکڑ کر بیٹھ جائیں تھوڑا اسکا دیھان رکھ لیں تاکہ جو آپ نے مجھے آج امریکہ جانے کا آڈر دیا ہے اسکی پیکنگ کرلوں ۔۔۔

حضیر کے کہنے پر مشی نے سب کے سامنے اسکی اچھی خاصی طبیعت صاف کردی جبکہ مشی کے غصہ کرنے پر سب نے اپنی اپنی ہنسی بمشکل روکی تھی کیونکہ سب جانتے تھے جب بھی حضیر کو کہیں باہر ملک جانا ہوتا تھا تو دونوں کی ایسے ہی ماہ بھارت ہوتی تھی دونوں کی کیونکہ مشی جانا نہیں چاہ رہی ہوتی تھی اور حضیر اسے زبردستی اپنے ساتھ لیکر جاتا تھا ۔۔۔

اور آج تو حیان اور انیب کی بیٹی کا عقیقہ تھا اس لئے آج رات سب کا ارادہ شاہ حویلی رکنا تھا لیکن مشی اور حضیر کی آج رات ہی امریکہ کی فلائٹ تھی مشی شاہ حویلی رکنا چاہتی تھی کیونکہ جب سے حضیر پاکستان شفٹ ہوا تھا وہ مشی کو کہیں بھی رکنے نہیں دیتا تھا وہ اپنی بات کا بہت پکا تھا ساتھ لیکر جاتا اور ساتھ ہی لے آتا تھا کسی کے بھی کہنے پر نہیں رکنے دیتا تھا مشی کو اس لئے سب نے کہنا بھی چھوڑ دیا تھا لیکن مشی اپنی زور آزمائی کرتی رہتی تھی لیکن رزلٹ وہی نکلنا تھا جو حضیر کی مرضی ہوتی تھی ۔۔۔

بیگم آپ کتنا ہی غصہ کرلیں امریکہ تو آپ نے چلنا ہے میرے ساتھ ہر حال میں ۔۔۔

حضیر نے مشی کے غصے کو کسی خاطر میں نا لاتے ہوئے اپنی ہنسی دباکر کہا ۔۔۔

آپ نے کبھی میری بات مانی ہے جو اب مانے گے کرنی تو اپنی ہی ہوتی ہے میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔۔۔

حضیر کی بات پر مشی نے جلتے ہوئے اپنا ہمیشہ والا ڈائیلاگ کہا اور وہاں سے واک آؤٹ کرگئی جبکہ اپنے پیچھے لاؤنچ میں بیٹھے افراد کا زوردار قہقہہ اسے بخوبی سنائی دیا تھا ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

حضیر دیکھیں دو دن کی تو بات ہے دو دن کے لئے میں جاکر کیا کرونگی آپ اکیلے چلے جائیں میں دو دن شاہ حویلی میں رہ لونگی دیکھیں میرا تو میکہ بھی وہی ہے اور میں پچھلے ڈھائی تین سال سے رکنے نہیں گئی یہاں تک کہ آپ نے مجھے مصباح اور انیب بھائی کی شادی میں بھی نہیں رکنے دیا پلیز سب وہاں رات رکے گے مجھے بھی رکنے دیں پکا آپکے پاکستان آنے سے پہلے وآپس آجاؤنگی ۔۔۔

مشی عقیقہ میں جانے کے لئے عفراء کو تیار کرتی بیڈ پر بیٹھے مسحب سے کھیلتے حضیر کو منانے کی کوشش بھی کر رہی تھی ۔۔۔

مسحب بابا کے شیر اپنی مما کو کہہ دو کوئی مکھن کام نہیں آنا اس لئے چپ چاپ تیار کرلیں جانا تو پڑیگا بابا کے ساتھ مما کو آپ کو اور بابا کی شہزادی کو ۔۔۔

حضیر نے مشی کے پھولے ہوئے منہ پر ایک نظر ڈال کر مسحب سے باتیں کرتے ہوئے کہا جس پر وہ کھلکھلانے لگا ۔۔۔

حضیر اب میں سچ میں رودونگی آپ مجھے کہیں بھی جانے دیتے آپ کے شام کو آفس سے آنے کے بعد سے لیکر صبح وآپس آفس جانے تک مجھے روم سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے چاہے آپ گھر پر ہو یا نا ہو مجھے آپ کے علاؤہ کسی کے ساتھ بھی باہر جانے کی اجازت نہیں ہے چاہے کتنا ہی ضروری کام ہو اور چاہے میں بابا کے ساتھ ہی کیوں نا جارہی ہوں ۔۔۔

سب کہیں بھی گھومنے پھرنے کہیں بھی جائیں مجھے آپکے بغیر کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔

میں پھر بھی آپکی سب باتیں مانتی ہوں لیکن آپ میری کوئی بات نہیں مانتے ۔۔۔

مشی نے اب کی بار باقائدہ آنسوؤں سے روتے ہوئے اسے ہر بات یاد دلاتے ہوئے کہا کیونکہ اسکا بلکل بھی دل نہیں تھا امریکہ جانے کا لیکن حضیر تھا کہ اسے ساتھ لے جانے پر بضد تھا ۔۔۔

عائش تم جانتی ہو میں کتنا وقت تم سے غفلت میں رہ چکا ہوں اس لئے اب ایک سیکنڈ بھی تم کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دے سکتا پہلے بھی میں نے اپنے اپنوں پر بھروسہ کر کے تمہاری زمیداری انہیں سونپی تھی لیکن کیا ہوا میں تو سکون سے رہا لیکن تمہاری زندگی عذاب ہوگئی اسی لئے اب میں چاہ کر بھی تمہارے اور بچوں کے معاملے میں کسی پر کسی پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہتا اور نا کرونگا اور اس بات پر چاہے پھر تم رو دھو چیخوں چلاؤ مجھے کوئی فرق نہیں پڑیگا میں تمہاری یہ باتیں ساری زندگی نہیں مانوگا تمہیں ساری زندگی اس طرح ہی رہنا پڑیگا یہ اپنا ذہن بنالو تاکہ آئیندہ سے میرے ساتھ جانے سے انکار نا کرسکو ۔۔۔

مشی کے رونے پر حضیر نے سنجیدگی سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا اور دوبارہ سے مسحب کے طرف متوجہ ہوگیا تو مشی بھی اپنی بات کا اتنا سنجیدہ رئیکشن دیکھتی چپ چاپ ٹیڑھے میڑھے منہ بناتی اپنے کپڑے لیتی چینج کرنے چلی گئی اور پھر عقیقے کے اختتام پر وہ دونوں سب کو الوداع کرتے امریکہ چل دیے ۔۔۔

♥️ Bint E Ahmed Shaikh ♥️

اس ڈیڑھ سال میں بہت کچھ بدل چکا تھا بہت سے خوشی کے موقعوں کے ساتھ بہت سے غم بھی ان سب کی زندگیوں میں آئے تھے جن پر ان سب نے صبر کیا اور آج سب ایک ساتھ اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ بہت خوش تھے ۔۔۔

اذہان صاحب کے انتقال کے چھے مہینے بعد ہی فالج کی بیماری کے ساتھ انعم بیگم خالقِ حقیقی سے جاملیں اور مسحب کی پیدائش پر فریدہ بیگم نے اس دنیا کو خیرآباد کہہ دیا ۔۔۔

اسی طرح ایک سال پہلے مسیب مصباح ، برداء اناب، انیب حیان، مبشر حورعین ، ہیاج انعمتہ ، اور ردابہ اہتشام کی شادی ہوچکی تھی اور اب مسیب اور مصباح کا چھے ماہ کا بیٹا تھا برداء اور اناب کا بھی چار ماہ کا بیٹا تھا انیب اور حیان کی سات دن کی بیٹی تھی مبشر اور حورعین کا ایک مہینے کا بیٹا تھا ہیّاج اور انعمتہ کی دو ماہ کی بیٹی تھی اور ردابہ اور اہتشام کا تین ماہ کا بیٹا تھا ۔۔۔

 جبکہ مبّراء کسی کے ساتھ منہ اندھیرے ایک خط چھوڑ کر گھر سے بھاگ گئی تھی اور اس خط میں اس نے لکھا تھا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ بھاگ رہی ہے اسے ڈھونڈنے کی کوشش نا کی جائے اور پھر اس طرح دوسروں کے کردار پر کیچڑ اچھالنے والی فریحہ بیگم کا سر سب کے سامنے جھک گیا اور وہ کسی کو کچھ بولنے قابل نہیں رہی بیشک قدرت نے سب کے ساتھ بہترین انصاف کیا تھا جبکہ ردابہ نے اپنے باپ کا مان رکھتے ہوئے اہتشام سے شادی کرلی تھی اور اب اپنے تین ماہ کے بیٹے کے ساتھ ایک خوبصورت اور پرسکون زندگی گزار رہی تھی ۔۔۔

بیشک پر پریشانی کے بعد آسانی ہے اور بیشک اللّٰہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا مہربان ہے ۔۔۔

تمت بالخیر ۔۔۔۔

the end

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq e Bekhabar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq e Bekhabar written by Bint E Ahmed Sheikh.Ishq e Bekhabar by Bint E Ahmed Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages