Sulagti Shab Ki Chandni By Tayyaba Chaudhary Complete Romantic New Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 6 July 2024

Sulagti Shab Ki Chandni By Tayyaba Chaudhary Complete Romantic New Novel

Sulagti Shab Ki Chandni By Tayyaba Chaudhary Complete Romantic New Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sulagti Shab Ki Chandni By Tayyaba Ch Complete Romantic Novel 


Novel Name: Sulagti Shab Ki Chandni

Writer Name: Tayyaba Ch

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

چلو آؤ محبت پہ کچھ گفتگو کر کے دیکھتے ہیں

آج ہم بھی بیواؤں کی بیوائی کا کھیل دیکھتے ہیں

یہ ایک سنسان علاقے میں موجود عالیشان بنگلہ تھا جو چاروں اطراف سے جنگلی اور اونچی اونچی سرو کی جھاڑیوں کے درمیان گھیرا ہوا تھا۔ 

بہت پیچھے ہی بائیک روک کے اب وہ پیدل چلتی ہوئی پھونک پھونک کر قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی۔

سیاہ جینز اور جیکٹ، چہرے پر کپڑے کا ماسک چڑھائے وہ جو کوئی بھی تھی اس کا ارادہ تھا اس بنگلے میں چلتی غیر سرکاری سرگرمیوں کو اپنے ہاتھ میں تھامے ڈی ایس ایل آر میں قید کرنا۔

وہ ابھی سرو کی جھاڑیوں کے قریب پہنچی ہی تھی کہ اس کا فون رنگ کیا۔

"میرے نزدیک کسی بھی قسم کی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔"  اس نے بڑبڑاتے ہوئے فون پاؤر آف کر دیا تھا۔

وہ تھی نور مطلب روشنی......سب کہتے تھے وہ اللّٰہ کی جانب سے بھیجی گئی ایک فرشتہ ہے۔

کوئی کہتا تھا وہ آئی ایس آئی سے ہے کوئی اسے سپر لیڈی کہتا تھا مگر وہ جو بھی تھی کسی مجرم  کو نہیں بخشتی تھی......اب تک کئی لوگوں کے خلاف ثبوت جمع کر کے بنا خود کو ظاہر کیے وہ کوٹ تک بھی پہنچا چکی تھی۔

مگر نہ اسے کوئی چور پکڑ سکا نہ کوئی سپاہی۔

میڈیا میں بھی اس کے چرچے تھے، تمام چینلز والے اس کے پیچھے پڑے تھے کہ پکڑ کر سب سے پہلے اپنے چینل پر نیوز چلائیں۔

مگر وہ تو کسی کے ہاتھ نہیں آنے والی تھی۔

وہ کوئی پولیس آفیسر نہیں تھی.....اور نہ ہی وہ خوفیا ایجنسی سے تعلق رکھتی تھی، وہ  کوئی ڈیڈیکٹو بھی نہیں تھی مگر کون تھی؟ یہ کوئی نہیں جانتا.....بلیک مافیا میں اس کا خوف پیچھلے کچھ دنوں سے بڑھ گیا تھا۔

ویسے اس کا نام سب جانتے تھے کیونکہ وہ ایک عدد کارڈ جس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا وہ ثبوتوں کے پارسل کے ساتھ چھوڑ کر جاتی تھی۔

*****

"ہماری کبھی بھی شادی نہیں ہو سکتی مادفہ! خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔"

یہ لفظ اسی شخص کے ہی تھے جو اس سے بےانتہا محبت  کرتا تھا۔

جو کل تک اسے شادی کے متعلق خواب دکھاتا تھا۔ دل و جان اس پر نثار کرنے تک جا سکتا تھا آج.....اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ اس نے یہ کہہ دیا؟

"ساتف! پلیز کال مت کاٹنا۔میری بات سنو۔"

چند پل بعد وہ ہوش میں آئی تو تیزی سے بولی۔

آواز مدھم ہی رکھی گئی تھی کیونکہ باہر برآمدے میں بڑے بھائی اور والد صاحب سو رہے تھے۔

"تم نے خود اپنے والدین کو بھیجا تھا میرے گھر۔تو اب کیا ہوگیا؟"

"بس نہیں کر سکتا۔"

ساتف کی آواز میں بےزاری تھی۔

"مگر کیوں؟ تم نے کہا تھا ہماری شادی ہو گی۔میں تم سے اس قسم کی عجیب بات کی امید نہیں کرتی تھی ساتف! پلیز مجھے دھوکہ مت دو۔"

وہ غصیلے لہجے میں گویا ہوئی۔

"واٹ.....؟ ہاہاہا..... میں نے تمہیں کب دھوکا دیا؟ میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط کیا بھی ہے؟ تم مجھ سے کبھی ملنے آئی بھی ہو؟"

اس کا ایک ایک لفظ مادفہ کے دماغ پر بجلیاں گرا رہا تھا۔اسے لگا وہ شاید برے خواب میں ہے۔

لب کچل کر اس نے خود کو یقین دلایا کہ وہ اب خواب میں نہیں ہے پہلے تھی جو اس سے وفا کی امید کر رہی تھی۔

"تمہارا مطلب اگر میں......م میں تم سے تنہائی میں ملاقاتیں فرماتی تو......"

پورا وجود کپکپانے لگا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ساتف اتنے گھٹیا لفظوں کا چناؤ بھی کرے گا۔

"تم سو جاؤ مادفہ! ابھی مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ہم کل بات کریں گے۔" اس نے عاجز آتے ہوئے کہا۔

"ن نہیں مجھے ابھی بتاؤ ساتف! کہ تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کر سکتے؟مجھ میں کیا کمی ہے۔م میں اس کمی پہ توجہ دوں گی۔خود کو تمہارے مطابق بنا لوں گی مگر پلیز.....یہ رشتہ ختم مت کرو۔تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ ایک رشتہ جڑنے سے میری زندگی کتنی آسان ہو جانی تھی۔پلیز رحم کرو مجھ پر۔"

اس کے لبوں سے درد میں ڈوبی سسکی ابھری تھی ہونٹوں پر حنائی ہاتھ رکھ کر اس نے ان سسکیوں کا گلا دبایا۔

بہت کچھ تھا جو اسے رونے پر مجبور کر رہا تھا۔

بہت سارے ایسے طنزیہ و حقارت بھرے لہجے سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے.....بہت سی شکی آنکھیں دور کھڑیں اسے گھور رہی تھیں۔

"منگنی ٹوٹ گئی تو لوگ کیا کہیں گے؟ 

پلیز ساتف!....." وہ منت سماجت پہ اتر آئی تھی۔

حالات ہی ایسے تھے کہ اسے منتیں کرنی پڑ رہی تھیں۔

جو لڑکی کسی انسان کے سامنے کبھی منت ترلے کے لیے جھکی نہیں تھی آج اس شخص کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔

"ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ نہیں چھوڑ رہا۔ اب سو جاؤ ورنہ تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی۔" اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا تھا۔

اور وہ سر ہلا کر رہ گئی۔

فون کاٹتے ہوئے اس نے منہ تکیے میں چھپا لیا۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ ساتف کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبی ہوئی تھی......مگر ایسا کچھ تو تھا کہ اس کے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ مگر کیا؟

رات بھر آنسو بہانے اور شدید ٹینشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے بہت تیز بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اس نے جس شخص سے وفا کی امید رکھی تھی وہ بیوفائی پہ اتر آیا تھا۔

یوں اچانک سے؟

کیوں؟

کیا وجہ؟

کئی سوال تھے پر جواب خاموش تھے۔

**********

یونیورسٹی میں ہر جانب معمولی سی چہل پہل تھی۔

 وہ جیسے ہی سیڑھیاں اترتی کوریڈور میں آئی پہلی نظر جس شخص پہ پڑی تھی اس کے منہ کے زاویے بری طرح بگڑ گئے۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص یوں ہی برا لگنے لگتا ہے..... بنا کسی وجہ کے۔

یہ شخص پھر بھی کئی وجہ سے اسے زہر جتنا برا لگتا تھا.....

"حدثان!...وہ دیکھ، تمہیں منہ چڑھا رہی ہے۔"

اس کے ساتھ کھڑے لڑکے نے سروش کو منہ بسورتے دیکھ لیا تھا تبھی حدثان کے شانے پہ تھپکی دے کر اس کی جانب متوجہ کرنے لگا۔

وہ تیزی سے منہ موڑ کر پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ گئی تھی۔

"کون تھی وہ؟"

حدثان کو بس ایک جھلک ہی اس کے سر پہ لپیٹے براؤن حجاب اور لونگ شرٹ  کی نظر آئی تھی اور وہ سمجھ تو گیا تھا مگر پھر بھی پوچھنا ضروری سمجھا۔

"ارے وہ ہی اپنی مس سروش۔مجھے لگتا ہے تم سے جلتی ہے۔"

"کیوں میں لڑکی ہوں کیا؟ اور یہ اپنی کیوں کہہ رہے ہو.....اپنی ہو گی تمہاری، ہماری تو وہ کچھ نہیں لگتی۔" حدثان کا مضحکہ خیز انداز میں کہا گیا جملہ ان سب کو ہنسنے پر مجبور کر گیا۔

"نہیں یار تمہارے گریڈز سے جلتی ہے۔تم ہمیشہ موج مستی کر کے بھی اے گریڈ لاتے ہو اور وہ کتابی کڑی بنی رہتی ہے اس کے باوجود پیچھے رہ جاتی ہے اور بی گریڈ مشکل سے ملتا ہے بچاری کو۔"

حامد نے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلا کر شانے آچکا گیا۔

"یہ بات تو ہے۔پر مجھے لگتا ہے اسے کوئی اور بھی پرابلم ہو سکتی ہیں۔" ایک دوسرے دوست نے کہا۔

"کیا پرابلم؟" حدثان حیرانگی سے بولا۔

"نہیں کچھ نہیں...." وہ لڑکا تیزی سے نفی میں سر ہلا گیا تو حدثان نے بھی جانچتی نگاہوں کو اس پر سے ہٹا لیا۔

"خیر چھوڑو آؤ لائبریری چلتے ہیں۔"

وہ کتاب اپنے دوست کی جانب بڑھا کر کوریڈور میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے لائبریری کی جانب بڑھ گئے۔

"آج کی رات  ایم این اے عاصم پر بھاری پڑ گئی....وہ  اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ اپنے بنگلے پر ڈرگز اور افیم کی ڈیل کر رہے تھے.... انہیں نہیں معلوم تھا کہ سپر لیڈی وہاں موجود ہیں۔جی ہاں......"

کوریڈور میں جیسے ہی وہ داخل ہوا اس کی سماعتوں سے اینکر کی پیشہ ورانہ  آواز ٹکرائی۔

دائیں دیوار سے ٹیک لگائے دو لڑکے کھڑے موبائل پر خبریں سن رہے تھے۔

" ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ایم این اے عاصم کے بنگلے سے بھاری مقدار میں ڈرگز اور افیم کی برآمد نے کافی ہلچل مچادی ہے، ایم این عاصم کا کہنا ہے یہ سپر لیڈی کا کام ہے، وہ جان بوجھ کر میرے گھر میں ڈرگز چھپا کر فوٹو لے کر  مجھے بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں..... یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گیں؟ اور وہ جو تصویریں سپر لیڈیز نے جسٹس افتخار تک پہنچا دی  ہیں....وہ اوریجنل ہیں۔ان میں صاف صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ایم این اے عاصم ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔" 

حدثان نے تیزی سے اپنا فون نکالا اور اپنے دوست سعد کو کال کرنے لگا۔

ایم این اے عاصم کا صاحبزادہ سعد اس  کا بہترین دوست تھا۔

"یار یہ بھی کیا آفت لڑکی ہے۔کسی مجرم کو نہیں بخشتی" حدثان کے ایک دوست نے کچھ کچھ فخریہ انداز میں کہا تھا۔

"یار مجھے تو کوئی آدمی لگتا ہے، ایک لڑکی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ایسی خطرناک جگہوں پر تنہا جا سکے۔" دوسرے دوست نے کہا۔

"ایکسکیوز می!.....تم لوگ سمجھتے کیا ہو خود کو؟ تم لوگوں کو لگتا ہے کہ لڑکیاں کچھ نہیں کر سکتیں؟ " پیچھے سے ان کی ایک کلاس فیلو آ کر سختی سے بولی تھی۔ وہ دونوں ہڑبڑا کر اس کی جانب پلٹے۔

"تم جیسے مردوں کی اسی چھوٹی اور گھٹیا سوچ لو بدلنے کے لیے سپر لیڈی پیدا ہوئی ہیں، اور وہ کوئی مرد نہیں لڑکی ہے، دیکھا کیسے سب کو چنے چبوا رہی ہے۔" وہ فخریہ انداز میں گردن اکڑا کر کہہ رہی تھی۔

"مائی ڈیئر فیلوز لڑکیوں کو کبھی کم مت سمجھنا، زمانہ بدل رہا ہے، آج کی لڑکی کل کی لڑکی سے مختلف ہے، کل کی لڑکی سے مضبوط ہے اور اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے۔مگر تم لوگ کہاں سمجھو گے چھوٹی سوچ والے، چل ہٹ۔" وہ سختی سے کہتی آگے بڑھ گئی تھی۔

اور وہ دونوں اپنی جگہ کھڑے رہ گئے۔

"سعی ہے بھئی، جب سے یہ مس افلاطون آئی ہے.... لڑکیاں کیسے اکڑ اکڑ کر چلتی ہیں....ڈر نام کی چیز ہی نہیں رہی۔" ایک نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔ پھر وہ دونوں حدثان کی جانب بڑھ گئے۔

"عاصم صاحب کا کہنا ہے کہ تمام تصاویریں نقلی ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں اور ڈگر سپر لیڈی نے اس کے ہاں رکھی ہے.......اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ ایسا کیوں کریں گیں؟"

"وہ کافی دیر سے مجھے پیسوں کے لیے بلیک میل کر رہی تھی مگر میں نے انکار کر دیا اور اس نے یہ سب کیا مگر وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔" ایم این اے عاصم بہت اطمینان سے کہہ رہا تھا۔

"کیا یہ الزام درست ثابت ہو گا؟ کیا سپر لیڈی خود پر لگے اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے سامنے آئیں گیں؟ کیا انہیں سامنے آنا چاہیے؟" انکر نے عوام سے استفسار کیا تھا۔

سروش نے فون پر چلتی نیوز  سے نگاہیں ہٹا کر  ونڈ سکرین کے پار بےحد تیزی سے پریشان کن حالت میں اپنی گاڑی میں بیٹھتے حدثان اور اس کے دوستوں کو دیکھا تھا۔

"کمال کر دیا سپر لیڈی تم نے تو، بس اب اس پی ٹی آئی والے حدثان  پر بھی ہاتھ صاف کر لو میرا دل خوش ہو جائے گا۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے مسکرا دی تھی۔

پھر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگی۔

****

چوہدری حدثان والد صاحب اپنے گاؤں میں بلند مقام رکھتے تھے۔گاؤں کے سرپنچ ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی پارٹی کے مضبوط رکن بھی تھے، بینک بیلنس ، کوٹھیاں کاریں.... ڈھیروں نوکر چاکر اردگرد گھومنے والے۔

یعنی ہر لحاظ سے چوہدری حدثان  کا بیک گراؤنڈ کافی مضبوط اور اچھا تھا۔

پڑھائی میں بھی بہت ہوشیار تھا حالانکہ اسے سروش نے کبھی ٹک کر پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔

ٹیچرز کا پسندیدہ شاگرد اور دوستوں کا دوست۔

مگر یونیورسٹی اور اس دنیا میں اگر کوئی تھا اس سے چڑنے والا تو وہ انسان سروش تھی۔

وجہ جو بھی تھی مگر اسے وہ شوخا لڑکا ذرا بھی پسند نہ تھا۔

سروش کے دو بھائی تھے جو کہ شادی شدہ تھے ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود دونوں بھاوجیں اپنا چولہا چوکی الگ کر چکی تھیں۔ اس کے والدین کچھ سال قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ان دنوں سروش دماغی طور پر بہت زیادہ اپ سیٹ رہنے لگی تھی۔

ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شوخ و چنچل سی سروش بہت سنجیدہ ہو گئی تھی۔کسی نے بھی اسے اس کیفیت سے نکالنے میں ساتھ نہیں دیا.....یہاں تک کہ والدین کے رخصت ہونے کے بعد اس کا تو ٹھکانہ بھی بدلتا رہتا تھا۔

چھوٹی بھاوج تنگ آ جاتی تو وہ اسے بڑے بھائی کی جانب بھیج دیتی،جب بڑی بھاوج تنگ آتی تو وہ دوسری جانب بھیج دیتی۔

بھائیوں نے جب یونیورسٹی کی فیس دینے سے انکار کر دیا تو اس نے جاب کی تلاش شروع کر دی۔

مگر......ہر جگہ ناکامی ہی حاصل ہوئی۔

تبھی اس نے اپنی اس اکیڈمی سے رجوع کیا جہاں سے  اس نے ایف ایس سی کی تعلیم حاصل کی تھی۔

اس مرتبہ اس کی قسمت اس پہ مہرباں تھی.....اس کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں اور اسے نوکری مل گئی۔

مگر پھر بھی اتنے پیسے نہیں بن پاتے تھے کہ وہ بھابھیوں کو بھی تحفے دے کر خوش کر سکے.....اور باپ کی وراثت سے ملی ایک ٹوٹی پھوٹی سی گاڑی جسے وہ ہرگز نہیں بیچنا چاہتی تھی اس میں پٹرول بھی ڈلوا سکے،تبھی اس نے شام چھ سے نو بجے تک محلے کے بچوں کو ٹویشن پڑھانا شروع کر دی۔

آج کے دور میں جتنا بھی پیسہ ہو وہ کم ہی ہوتا ہے یہ خیال اس کی بڑی بھابھی کے تھے۔

خیر پھر بھی وہ اپنی زندگی سے خوش تھی کہ......وہ زندہ تو ہے والدین کے لیے پڑھ کر ان کی مغفرت کی دعا تو کر سکتی ہے۔

****

اسے اکیڈمی سے تنخواہ ملی تو وہ آج مارکیٹ جا نکلی۔

اسے لکھنے کا اور پینٹنگ کا شوق تھا اور وہ سوچتی تھی کہ زیادہ ساری پیٹنگز بنا کر بیچے گی پھر پیسے ملیں گے.....اور ان کا کیا کرے گی......؟

یہ وہ جانتی نہیں تھی۔

مختلف برش اوئل کلر ،واٹر کلر اور ڈائری لے کر جب پے کرنے کاؤنٹر پہ آئی تو وہاں کھڑے شخص کو دیکھ اس کا منہ پھر سے زاویے بدلنے لگا۔

"یا خدا....ہر جگہ مت بھیج دیا کرو اس لفنگے کو۔"

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھی اور اسے اگنور کیے ہی اپنے سامان کا بل ادا کرنے لگی۔

وہ محسوس کر رہی تھی کہ حدثان بار بار اسے تریچھی نظر سے دیکھ لیتا ہے۔

"شکریہ۔"

سنجیدہ انداز میں دکان دار کو شکریہ کہتے ہوئے اس نے سامان اٹھایا اور دکان سے نکل گئی۔

"او ہیلو مس سروش! پرابلم کیا ہے آپ کی؟"

اسے امید نہیں تھی کہ وہ شخص یوں اس کے پیچھے آ دھمکے گا۔

اس نے ناگواری سے پلٹ کر اسے گھورا اور اپنی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی۔

"ایک منٹ، پہلے بتاؤ تمہیں مجھ سے پرابلم کیا ہے؟"

اس نے آگے بڑھ کر دروازے پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔

"تم یہ کر کیا رہے ہو چوہدری حدثان! لوگ دیکھ رہے ہیں ہاتھ اٹھاؤ۔"

وہ ایک پل کو تو حیران ہوئی مگر دوسرے ہی پل سنبھل کر ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولی۔

"پہلے میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔ تمہارا یہ رویہ ٹھیک نہیں۔تم جانتی ہو لوگ ہمارے متعلق طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔"

اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے اترنے لگے تھے وہ سہم گئی۔

اس نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر حدثان نے اس کی کلائی سختی سے تھام لی۔

"چپ چاپ یہاں ہی کھڑی رہو اور میری بات سنو۔"

دوسرے ہاتھ کو اٹھائے شہادت کی انگلی دکھا کر سخت لہجے میں بولا۔

" د.......دیکھو حدثان! مجھ سے دور رہو اور اپنی حدود میں رہ کر بات کرو۔" اس کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔

پوری قوت لگا کر اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس نے سینے پہ بازو باندھے رخ پھیر لیا۔

" تم ایک مشہور شخصیت ہو یوں کر کےمیرا اور اپنا تماشا مت بناؤ، جاؤ یہاں سے پلیز۔ایک عورت کی عزت کیا ہوتی ہے اور بےعزتی کس میں ہوتی ہے تم شاید جانتے نہیں۔"

سروش نے سر جھکائے کہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ ٹھہری۔

"تم نے جو میرا ڈرامہ بنا رکھا ہے اس کا کیا؟ کیا صرف عورت کی عزت ہوتی ہے مرد کی کوئی نہیں؟"

وہ کیا کہہ رہا تھا سروش کے سر کے اوپر سے سب گزر رہا تھا۔

گردن گھما کر ایک نظر اس پہ ڈال کر وہ پھر سے سر جھکا گئی۔

حدثان نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں، لوگ آ جا رہے تھے۔

اور پارکنگ ایریا کے بیچ و بیچ کھڑے ہو کر اسے کچھ بھی سمجھنا اس کے لیے مشکل ترین کام تھا۔

"چلو میرے ساتھ۔"

اس کے ہاتھ سے گاڑی کی چابی جھپٹ کر فرنٹ دروازہ کھولتے ہوئے وہ سروش کو ہراساں کر گیا تھا۔

اپنے گارڈز کو اس نے اشارہ کیا تو وہ سب اس کی گاڑی کی جانب تیزی سے بڑھ گئے تھے۔

"یہ تم کیا کر رہے ہو؟ میری گاڑی سے باہر نکلو ابھی.........اسی وقت......."

دو قدم آگے بڑھ کر اس نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔

"تم بیٹھ رہی ہو یا میں تمہارے گھر چھوڑ آؤں یہ گاڑی؟پھر بتاتی رہنا اپنے گھر والوں کو کہ میرے پاس تمہاری گاڑی کیوں تھی۔میں اس  وقت یہاں صرف تم سے ملنے آیا ہوں اس بات کی تصدیق بھی ہو گی تو کیا جواب دو گی انہیں؟"

 گاڑی سٹارٹ کر کے اس نے شانے اچکاتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا۔

وہ غم وغصہ پہ ضبط کرتی ہوئی لیفٹ سیٹ پہ جا بیٹھی کہ اس کا کوئی پتہ نہ تھا سچ میں جا نکلتا گھر۔

اسکے بیٹھتے ہی حدثان گاڑی بھگا لے گیا۔

"مسٹر حدثان.....! آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے ٹارچر کرنے کی؟"

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بہت غصیلی آواز میں گرجی تھی۔

"جیسے تم نے مجھے یونیورسٹی ہی کیا میری ازدواجی زندگی میں بھی ایک جوک بنا دیا ہے۔ٹھیک اسی طرح مس سروش!"

وہ اس سے بھی زیادہ غصے میں چلایا تھا۔

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

"تمہاری وجہ سے میری اور میری بیوی کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔

تمہاری وجہ سے وہ مجھ پہ شک کرنے لگی ہے۔" وہ بنا رکے بولے جا رہا تھا۔

"واٹ......تم شادی شدہ ہو؟"

وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے حیران کن انداز میں بولی تھی۔

"ہاں ہوں۔تو؟ تمہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

تم مجھے بس یہ بتاؤ مجھ سے تمہیں پرابلم کیا ہے؟"

اس کا لہجہ ہنوز خود میں درشتی سموئے ہوئے تھا۔

" دیکھو مجھے تم سے کوئی پرابلم نہیں ہے بس تم مجھے اچھے نہیں لگتے۔

ایک دفعہ میں نے تمہیں ہوٹل میں چند لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تھا جو کہ عجیب و غریب لباس زیب تن کیے ہوئے تھیں۔

مجھے لگا تم......"

"وہ میری کزن کی فرینڈز تھیں جو انگلینڈ سے آئی تھیں، ڈفر ان کو میں ہوٹل سے پک کرنے آیا تھا۔

یوں ہی بان کسی بھی تصدیق کے کسی کے متعلق رائے قائم نہیں کر لی جاتی۔ سمجھ میں آئی بات؟"

اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے وہ دانتوں پہ دانت جمائے بولا۔

سروش لب کچلتے ہوئے شرمندگی سے سر جھکا گئی۔

"میری وجہ سے کسی کی شادی شدہ لائف خراب ہو میں یہ نہیں چاہتی۔تم مجھے اپنی بیوی کے پاس لے چلو میں اسے سب کلیئر کر دوں گی۔"

چند پل کی خاموشی کے بعد اس نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔

"وہاں ہی لے جا رہا ہوں۔"

اس مرتبہ لہجہ کچھ ہموار ہوا تھا۔

"کیسی بیوی ہے تمہاری ذرا بھی یقین نہیں ہے تم پر؟

اب تمہاری وکالت میں کروں گی؟"

وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھی۔

"سپیڈ کم کرو میری گاڑی کا نقصان ہوا تو چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔"  وہ اسے سپیڈ بڑھاتے دیکھ چنخ اٹھی تھی۔

"تو ایسی کھٹارا رکھی کیوں ہوئی ہے بچی کر ایک سائیکل خرید لو۔" بدلے میں وہ بھی پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا۔

"مسٹر  چوہدری! میں تمہاری طرح کوئی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئی ، یہ گاڑی میرے ڈیڈ کی آخری نشانی ہے جو کہ مجھے بہت عزیز ہے۔" آخری جملے پر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

"ایم سوری۔" وہ نرمی سے کہتے ہوئے رفتار کم کر چکا تھا۔

"تم مجھے......اپنے گھر ہی لے جا رہے ہو نا یا پھرررر....."

"اوہ شیٹ اپ...... بکواس بند کرو اپنی۔"

 موڑ کاٹتے ہوئے اس نے سروش کو ڈپٹ کر خاموش کروایا۔

وہ لب بھینچ کر غصے پر ضبط کرتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

سرسبز قالین کی طرح  بیچھی ہوئی فصلوں کی قطاریں شروع ہو چکی تھیں۔

پکی سڑک کے دونوں جانب اونچے اونچے سفیدے کے درخت.....سبزا اس کو ہمیشہ سے ہی ایسے مناظر بہت پسند تھے اس کا بچپن بھی گاؤں میں گزرا تھا   جہاں طرح طرح کے باغات تھے پھول تھے۔

اسے بچپن سے جو وہاں چیز زیادہ پسند تھی وہ دوسرے گاؤں تک پگڈنڈی پہ چلتے جانا، دوسرے گاؤں کے کتوں کا پیچھے لگنا اور ان سب کزنز کا بھاگ جانا......کبھی درختوں پر چڑھ کر آم، آمرود توڑنا۔

صبح سویرے نہر کے کنارے دور تک چلنا اور پہروں سب کزنز کا مل بیٹھنا۔

وہ جو بچپن کو یاد کرنے میں کھو سی گئی تھی تبھی اس کا فون بج اٹھا۔

وہ ہڑبڑا کر آنکھیں کھول کر پیچھے ہوئی۔

اتنے میں گاڑی بھی رک گئی تھی۔

سروش نے بیگ کھولا اور فون نکال کر نمبر دیکھا جس پہ  "بھابھی کالنگ" آ رہا تھا۔

"آہ......پھر سے کوئی فرمائش۔"

وہ بوجھل سانس کرتے ہوئے بڑبڑائی۔

"چلو محترمہ اب گاڑی سے اترو۔"

اس نے دھیان نہیں دیا تھا، تبھی حدثان  گاڑی سے اتر کر اس کی جانب والی کھڑکی بجاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

"اسلام و علیکم بھابھی!"

گاڑی کا دروازہ کھول کر اترتے ہوئے اس نے کال اٹینڈ کی۔

ستائشی نظر اس اونچی عمارت پہ تھی۔

گولڈن اور سفید پینٹ کی گئی وہ عمارت محل سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

سامنے بالکنی تھی جس کی ریلنگ پہ کافی سارے مختلف اقسام کے پھولوں کی بیلیں نیچے کی جانب لٹک رہی تھیں۔

"بھابھی! میں ابھی ایک گاؤں میں آئی ہوں، آپ کو گھر آ کے سب بتاؤں گی۔" اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تھا۔

حدثان جو اس سے بہت آگے آگے چلتا جا رہا تھا پل بھر کو گردن گھما کر اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے پھر سے ناک کے سیدھ چلنے لگا۔

اس نے کال کاٹ کر فون ہینڈ بیگ میں ڈالا۔

اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی حویلی کے مین گیٹ کی سیڑھیاں چڑھتی اندر داخل ہوئی۔

"تم بیٹھو میں ابھی جازیہ کو بلاتا ہوں۔"

وہ اسے ٹی وی ہال میں چھوڑ کر خود باہر نکل گیا۔

ٹی وی پر نیو چل رہی تھی سروش اس جانب متوجہ ہو گئی۔

"ایم این اے عاصم پر لگے تمام الزامات سچ ثابت ہو گئے ہیں، پارٹی سے انہیں برخاست کرتے ہوئے دس سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک مرتبہ ہم پھر سے سپر لیڈی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔" کسی  نیوز چینل کی اینکر پرشوخ انداز میں کہہ رہی تھی۔

وہ ٹی وی پر سے نگاہیں ہٹا کر وہاں کا جائزہ لینے لگی۔

وہاں کی ہر چیز بہت ہی نفیس اور جدید تھی۔

گولڈن اور بلیک کلر کی جدید سٹائل کے روئل ڈیزائن والے صوفے میز اور کارپٹ۔

دیواروں پر لگی پینٹنگز۔

ہر چیز ہی نفیس تھی۔

"واؤ امیزنگ چوائس۔" اس کے منہ سے بےاختیار ہی نکلا تھا۔

"ایکسکیوز می کون ہیں آپ؟"

تبھی کسی بچے نے پیاری سی آواز میں اسے پیچھے سے پکارا تھا۔

اس نے نگاہوں کا رخ دائیں جانب کیا۔

تین سالہ ننھا منا، سفید روئی کی مانند نرم و ملائم اور سرخ رخساروں والا بچہ دیکھ کے اسکے قدم بےاختیار اس خوبصورت بچے کی جانب بڑھے۔

سفید ٹی شرٹ اور بیلو جینز پہنے گہری کالی آنکھوں سے وہ چہرے پہ بلا کی سنجیدگی لیے اسے گھور رہا تھا۔

"میں سروش ہوں اور آپ؟"

"میں چوہدری تازر حدثان ہوں۔"

وہ بال بیٹ پھینک کے اس کی جانب اپنا چھوٹا سا ہاتھ بڑھا کر گویا ہوا۔

سروش نے نرم سی مسکراہٹ لیے جھک کر اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھتے ہوئے اس کی انار کی مانند سرخ رخسار پر بوسا دیا۔

"بہت اچھا لگا آپ سے مل کر چوہدری  تازر حدثان!"

وہ اٹھ کر کھڑی ہوتی ہوئی مسکراتے ہوئے بولی۔

"مجھے بھی بہت اچھا لگا۔آپ کے ہاتھ بہت پیارے ہیں آنو! میرے جیسے نرم نرم۔"

وہ اس کی تعریف پہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

"اچھا جی۔آپ سے تو بہت کم پیارے ہیں آپ تو بہت کیوٹ ہیں۔"

وہ اسے باہوں میں اٹھا چکی تھی۔

"کون ہو تم...... تم نے میرے بچے کو کیوں اٹھا رکھا ہے؟"

وہ صوفے پہ جا کر بیٹھی ہی تھی کہ باہر والے دروازے سے کوئی لڑکی اندر داخل ہوتے ہی خوف زدہ سی ہو کر بولی۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

****

"پاپا جی.....! ماما......ساغر......! دیکھو یہ  یہ بچہ چور ہمارے گھر آ پہنچی ہے۔ کوئی ہے؟" وہ لڑکی اونچی اونچی چلانے لگی تھی۔ 

"ارے آپ غلط سمجھ رہی ہیں میں.....میں سروش ہوں، شہر سے آئی ہوں۔"  

وہ جو اس نرم و نازک سی لڑکی کے موہنے سراپے میں کھو گئی تھی......اس کے چلانے پہ بری طرح چونکی۔

"اچھا تو اب تم میرا بچہ چرانے آئی ہو ڈائن...... پہلے میرے شوہر کو اپنی اداؤں سے لبھانے کی کوشش کر رہی ہو.....اب میرے بچے کو بھی چھننے آ گئی۔

چھوڑو۔" 

وہ اس کے ہاتھوں سے تازر کو کھینچتے ہوئے حقارت سے بولی۔

سروش کو لگا اس کے پیروں تلے سے ابھی زمین نکل جائے گی اور وہ پورے بھار سے نیچے گرے گی۔

ضبط سے اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا۔

"دیکھیے آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔میں ایسی لڑکی بلکل بھی نہیں ہوں۔میں اور........"

وہ ہوش میں آتے ہی اس کی جانب بڑھی۔

"بس کرو.... وہاں ہی رک جاؤ....."

وہ موٹی موٹی کاجل بھری آنکھوں کو پھیلائے مومی ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے تیزی سے بولی۔

بیشک وہ حسین ترین لڑکی تھی۔

سی گرین نفیس ایمبرائیڈری والی  کرتی اور سفید ٹراؤزر پہ ریشمی آنچل جسے یوں سر پہ اوڑھا گیا تھا کہ سامنے ڈالے کمر سے نیچے جاتے کالے سیاہ ریشمی بال نظر آ رہے تھے۔

سفید و گلابی رنگت۔سوہنے نین نقش، باریک ہونٹ معصوم سی لڑکی اب ایک عورت کے روپ میں کھڑی تھی۔

اس کی موہنی صورت ایسی تھی کہ سروش کا سارا غصہ ہوا ہونے لگا بہت سحر انگیز سرپا تھا جازیہ حدثان کا۔

"دیکھو جازیہ حدثان! میری بات غور سے سن لو پہلے، پھر کچھ بھی کہتی رہنا۔"

وہ آگے بڑھ کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔

جازیہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

"تم جتنی خوبصورت ہو تمہیں لگتا ہے کہ حدثان کسی بھی اور لڑکی کی جانب دیکھے گا؟

اور اوپر سے تمہارا ایک عدد بیٹا بھی ہے۔

میں نے تمہارے شوہر کو چند مغربی لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تھا تو لگا وہ بہت غلط مرد ہے۔

تبھی مجھے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا....مگر اس نے کلیئر کر دیا ہے کہ وہ اس  کی کزن کیں دوستیں تھیں۔" وہ اس سے ذرا فاصلے پر ہو گئی تھی۔

"اور یہ مت سمجھنا کہ وہ ہینڈسم ہے یا کچھ بھی ہے تو ہر لڑکی اس سے محبت کر لے گی۔میرے جیسی تو بلکل بھی نہیں۔ "

وہ ہاتھ اٹھا کر ایک ہی سانس میں تیز تیز  بولتی چلی گئی۔

"میں ایک پریکٹیکل لائف گزار رہی ہوں جس میں محبت کی گنجائش نہیں ہے تو اس میں پھر سوچو ایسی محبت کی گنجائش کیسے ہو گی جس میں بندہ آل ریڈی کسی کا شوہر ہو؟ بلکل بھی نہیں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔

ہال میں سب جمع ہو گئے تھے اس کی زبان لڑکھڑائی نہیں تھی۔

اس نے پلٹ کر اپنا بیگ اٹھایا اور اس کے قریب جا رکی۔

"اور ایک آخری بات......اپنے شوہر پہ یقین کرنا سیکھو۔سنی سنائی پہ یقین کر کے اپنا گھر برباد کرنا بیواقوف عورتوں کا کام ہے۔

امید ہے آئندہ تمہیں مجھ سے کوئی پرابلم نہیں ہو گی....." وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ کر آگے بڑھنے لگی تھی کہ کچھ یاد آنے پہ رکی اور پھر سے پلٹ کر اس کے سامنے آئی۔

"اپنے گھر میں سکون برقرار رکھنا عورت کا اپنا کام ہے۔

اور مرد کی محبت پہ یقین کرنا ایک اچھی بیوی کا فرض ہوتا ہے۔

اور ہاں......میں یہاں تک کیوں آئی ہوں تم یہ ہی سوچ رہی ہو گی نا؟"

اس نے تریچھی نظر اس پہ ڈال کر تازر کو گود سے اتارا تو وہ بھاگتے ہوئے اپنی دادی کے پاس چلا گیا۔

"کوئی لڑکی اپنے دامن پہ داغ برداشت نہیں کر سکتی امید کرتی ہوں آج کے بعد میرے نام سے اپنے شوہر کا نام جڑیں گی نہیں۔

اگر میری بےعزتی ہوتی ہے تو تمہارے شوہر کی بھی ہوتی ہے۔

اور مجھے اس کی بےعزتی کی پرواہ نہیں مگر اپنی عزت کی ضرور ہے۔چلتی ہوں......خدا حافظ۔"

وہ ایک نظر ٹیرس پہ کھڑے ریلنگ پہ ہاتھ جمائے حدثان پہ ڈالتی وہاں سے پروقار قدم اٹھاتی چلی گئی تھی۔

اس کے جاتے ہی وہاں ایک مرتبہ تو سکونت پذیر ماحول بن گیا تھا۔

جازیہ سر جھکائے شرمندگی سے لب کچل رہی تھی۔

اپنی بڑی بہن کی باتوں پہ یقین کر کے اس نے غلطی کی  اسے سمجھ آ گیا تھا۔حدثان پرسکون سی سانس بھرتا کمرے کی جانب بڑھ گیا اب اسے مصنوعی ناراضگی دکھانی تھی۔

ان کی شادی کو تین سال ہوئے تھے۔

تب وہ بی ایس کے ایگزامز دے کر فارغ ہوا تھا اور جازیہ ایف اے کے۔

جازیہ کے والد بہت بیمار تھے والدہ پہلے نہیں تھیں تو دونوں گھروں کے فیصلے پہ دونوں بچوں کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے شادی کر دی گئی۔

ایک سال بعد ہی اللّٰہ نے جازیہ کی گود ہری کر دی۔

 دونوں میں بےحد محبّت تھی۔

مگر ایک دن اس کی بڑی بہن جو حدثان کی کلاس فیلو تھی اس سے ملنے آئی اور نجانے کیا کیا کہہ کر چلی گئی۔

حدثان جب رات کو شہر سے واپس لوٹا تو جازیہ کیا........کسی ایک بھی فرد نے اسے مخاطب نہ کیا اور یہ ناراضگی کئی دنوں تک چلتی رہی۔

سب سے چھوٹی والی بہن سے معلوم اصل بات ہوئی تو اس نے جازیہ کو بہت سمجھایا۔کئی مرتبہ تو وہ اس سے ناراض بھی ہو گیا۔ مگر آج تو اس کے دوستوں نے بھی کہہ دیا تھا کہ سروش اور اس کے درمیان کچھ نہ کچھ تو ہے۔

تبھی اسے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ صرف گھر تک ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی میں بھی چل رہا ہے۔

مگر آج  اب یقین ہو گیا تھا کہ اس کی زندگی اب پھر سے پہلے جیسی حیسن ہو جائے گی۔

جازیہ کے دل میں جو شک تھا وہ دور ہو جائے گا۔

اور یہ سب سروش کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا وہ اس کا مشکور تھا۔

•••••••••••

دو تین دن تو مادفہ کو بخار نے خوب لتاڑا۔

آج طبیعت کچھ بہتر تھی تو وہ اپنے گھر میں اپنی پسندیدہ جگہ.... چھوٹے سے لون کی جانب بڑھ گئی

جوتا اُتار کر گھاس پہ بیٹھتے ہی اس کا دل و دماغ کہیں اور جگہ جا بھٹکا تھا۔

سرد ہوائیں اسے اڑاتے ہوئے کہیں اور ہی جگہ لے گئی تھیں۔

گھٹنوں پر سر ٹکائے اس نے آنکھیں موند لیں۔

نرم ہوا نے اس کے سنہری چہرے کو چھو لیا تھا۔

تبھی بینچ پہ پڑا اس کا فون بج اٹھا۔

ایک آنسو لڑکھڑا کر رخسار پہ پھسلا تھا اور سوچوں..... یادوں کا طلسم ٹوٹ گیا۔

جس نمبر سے کال آ رہی تھی اسے دیکھتے ہی اس نے سوچنا شروع کیا کہ کال اٹھائے یا نہیں۔

"اف.....ایک مرتبہ پھر یہ لیکچر دینا شروع کر دیں گے۔"

اس نے پیشانی مسلتے ہوئے سوچا اور کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگا لیا۔

"اب طبیعت کیسی ہے؟"

سلام دعا کے بعد سامنے سے استفسار کیا گیا۔

"بہتر ہوں۔"

"کیا ہوا تھا؟"

"کچھ خاص نہیں۔"

وہ اکتاہٹ سے بھرے لہجے میں بولی۔

"پھر بھی......؟ ساتف نے کچھ کہا؟"

سامنے سے لہجہ نرم اور خود میں فکر سموئے ہوئے تھا۔

"وہ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا سمجھے آپ۔" نجانے کیوں وہ تلخ ہو گئی تھی۔

"ہائپر کیوں ہو رہی ہو؟" وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔

"زبیر! کچھ بھی نہیں ہوا..... موسم کی تبدیلی کی وجہ سے بخار ہو گیا ہے۔" وہ گہری سانس بھر کر خود کو نارمل کرتے  ہوئے بولی....نجانے غصہ کیوں آ رہا تھا۔

وہ کچھ دیر اس طرح سے خاموش ہوا کہ مادفہ کو لگا شاید کال کٹ گئی۔

"مادفہ! اب بس بہت ہو گیا میں اس مرتبہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر ہی آؤں گا۔کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔بہت رہ لیا پاکستان۔" جب بولا تو اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔

"مگر اب میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکوں گی۔کیونکہ ساتف کو برا لگے گا نا تو...." وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولتی بولتی بات اُدھوری چھوڑ گئی۔

دوسری جانب پھر سے خاموشی چھا گئی۔

"ٹھیک ہے اب میں......ریسٹ کر لوں پھر بات ہو گی۔"

زبیر  نے جب طویل خاموشی اختیار کی تو اس نے کال کاٹ کر فون پھر سے بینچ پہ ڈال دیا۔

اسے اچھی طرح سے یاد تھا......

یونیورسٹی میں اپنی کلاس کے ساتھ وہ مری کے ٹوؤر پہ گئی ہوئی تھی۔

جب ساتف سے ٹکراؤ ہوا۔

یہ بہت عام سا ٹکراؤ تھا مگر جب وہ اس کے گھر تک پہنچ گیا تو اسے حیرانی ہوئی اور زیادہ حیرت تب ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ وہ اس کا کھویا ہوا کلچ لوٹانے آیا تھا جو وہ وہاں گرا آئی تھی۔

وہ بہت شریف لڑکا تھا اور اس کی شخصیت میں بھرا  نخرہ اس کو مزید وجہہ بنا دیتا۔ حالانکہ وہ کوئی زیادہ پرکشش اور دیوانہ کر دینے والا لڑکا نہیں تھا۔

سانولی رنگت کا مالک وہ نوجوان صرف خوبصورت کالی اور موٹی موٹی آنکھوں کی بدولت ہی پرکشش لگتا تھا۔

 جب وہ ماما سے باتیں کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی کسی دوست کا بیٹا ہے، اور لاہور میں ہی رہتے تھے مگر اب وہ شیخو پور  میں جا بسے تھے۔

اسے حیرت کا بڑا جھٹکا تب لگا جب چند دن بعد ہی اس کے والدین اس کا ہاتھ مانگنے پہنچ گئے۔

ساتف کی جانب سے محبت کا پیغام تھا۔

گھر والوں نے ہمیشہ کی طرح اس کے فیصلے کے لیے زبیر کو کال کی تھی اس نے سوچ کر بتانے کا کہا۔

"زبیر! مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔" اس نے فون پر جب یہ لفظ کہہ تو دوسری جانب زبیر کئی لمحے خاموش ہی تو ہو گیا تھا۔

"مادفہ! تم اس لڑکے کو جانتی تک نہیں پھر؟"

"کبھی نا کبھی تو مجھے شادی کرنی ہے نا زبیر! پھر ساتف کیوں نہیں؟ وہ چاہت سے رشتہ لایا ہے انکار مت کرنا۔" مادفہ نے نرمی سے کہتے ہوئے بلاآخر زبیر کو منا لیا تھا۔

اپنی جانب سے زبیر نے پوری تسلی کر کے رشتے کے لیے منظوری دے دی تھی۔ 

رسمی سے انداز میں اس کو ساتف کے ساتھ منسلک کر کے ساتھ کے والدین چلے گئے اور پھر ایک دو بار کے بعد پلٹ کر نہ دیکھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی ساتف سے جڑے رشتے کی اہمیت بڑھنے لگی۔وہ اس پہ یقین کرنے لگی تھی۔اس کی وفا کو ماننے لگی تھی.....

اور وہ یہ بھول گئی کہ وفا کا کھیل ہمیشہ ہی یقین کرنے والے کو مات دیتا ہے....

اور اچانک........ہی جو اس کے قصیدے پڑھتا تھا۔ ایک دن میں تین مرتبہ مادفہ کی آواز نہ سن لیتا بےقرار سا رہتا.......اور وہ اسے سمجھاتی رہتی کہ اتنی دیوانگی مت دکھاؤ۔

وہ اکثر اپنے فیوچر کو لے کر مطمئن ہو جاتی کہ ساتف جیسا شخص اس کا ہمسفر ہو گا۔

مگر اب وہ ہی شخص اس سے کہتا پھر رہا تھا ان دونوں کی شادی نہیں ہو سکتی۔

آخر کیوں؟

کیا وجہ تھی اس کے انکار کی؟

اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

"مادفہ......!"

ماما کی کھوئی کھوئی کسی گہری کھائی سے آتی آواز نے اسے بری طرح چونکا دیا تھا۔

وہ خیالات کی دنیا سے نکل کر حال میں لوٹ آئی۔

"کیا ہوا ماما! سب ٹھیک تو ہے نا؟"

ماما کے چہرے کی اڑی ہوائیاں دیکھ وہ گھبرا کر اٹھی تھی۔

دل نے کسی انہونی کی خبر دی۔

"بیٹا!.....وہ تمہارے پاپا کو طارق صاحب کی کال آئی تھی اور......"

ان کے آنسو  پلکوں کی دہلیز پھلانگ کر رخساروں پر موتیوں کی طرح چمکنے لگے تھے۔

"اور؟"

ان کو شانوں سے تھام کر خوف سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہ ان کے چہرے پر چھائے قرب کو دیکھ کر سمجھ تو گئی تھی کہ کیا ہوا ہو گا..... مگر وہ ان بجلیوں کو بھی خود پہ گرانا چاہتی تھی۔

"اور وہ کہہ رہے تھے کہ ساتف نے انکار کر دیا ہے۔

ایک مہینے بعد اس کی کسی اور سے شادی ہے۔"

ان کے لفظ پگلے ہوئے سیسے کی مانند کانوں میں پڑے تھے۔

" اور کہہ رہے تھے کہ ہم سب کو بھی آنا ہو گا۔ہم بھلا اتنے ہی گئے گزرے ہیں جو......"

وہ آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے پلٹی ہی تھیں کہ اپنے پیچھے دھڑام کی آواز سن تیزی سے مڑیں۔

سامنے کا منظر ان کو حواس باختگی میں مبتلا کر گیا تھا۔

مادفہ سر کے بل اینٹوں پہ  گری تھی۔

لہو نے سنہری اینٹوں کو سرخ کرنا شروع کر دیا تھا۔

"مادفہ......!"

حلق کے  بل چلاتے ہوئے وہ اس تک پہنچیں۔

"مادفہ! آنکھیں کھولو۔نہیں بیٹا ایسے ہی دل پہ کیوں لے گئی جھلی۔منگنیاں تو ٹوٹتی رہتی ہیں....تمہیں رشتوں کی کمی کہاں ہے.....پلیز اٹھ جا۔"

وہ کھوئے کھوئے انداز میں کہتے ہوئے پھر اونچی اونچی رونے لگی تھیں۔

منگنیاں تو ٹوٹتی ہی رہتی ہیں مگر جو انگلیاں بعد میں اٹھتی ہیں اس سے وہ بھی واقف تھیں۔

یکِ بعد دیگر سب گھر والے وہاں جمع ہو گئے تھے۔

کچھ ہی دیر میں اسے قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔

"سریس پرابلم نہیں ہے۔ معمولی چوٹ ہے..... دماغی طور پر ان کو کوئی صدمہ پہنچا ہے جس کی بدولت وہ اپنے ہوش میں نہیں رہیں۔ 

اب وہ ٹھیک ہیں میڈیسن ٹائم پر دیجیے گا اور دھیان رکھیے گا۔"

 ڈاکٹر نے ماما سے کہا تھا۔

وہ لب بھینچے وہاں ہی بیٹھ گئیں۔

"یا اللّٰہ.....میری بچی کو صحت عطا فرما۔"

وہ سختی سے لب بھینچے، آنکھیں میچ کر کوریڈور میں پڑی کرسی پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئیں۔

"زبیر کو کال کرنی چاہیے۔ بہت خفا ہو گا اگر نہ بتایا اسے۔" پاپا نے فکرمندی سے کہا۔

"نہیں نہیں، ایسا نہیں کرئیے گا.....اس نے ہم سے تفتیش کرنی ہے اور میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ زبیر کے سوالوں کے جواب دے سکوں۔" وہ تیزی سے بولیں۔

"ٹھیک ہے آپ حوصلہ رکھیں۔"

"مجھے مادفہ بہت عزیز ہے جی۔" وہ ان کے ہاتھ پر پیشانی ٹکاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

"کچھ نہیں ہوا بس ذرا سی ٹینشن کی وجہ سے بےہوش ہوئی ہے اور چوٹ بھی گہری نہیں۔" پاپا نے انہیں تسلی دی۔

****

لائبریری سے کتابیں اٹھائے وہ جیسے ہی

باہر نکلی تو سامنے سے آتے حدثان کو دیکھ اس کے قدم اچانک رک گئے تھے۔ 

سفید شرٹ اور گرے جینز زیب تن کیے ہاتھ میں ایک عدد کورس کی کتاب تھامے وہ رفتہ رفتہ چلتا اس کے سامنے آ رکا۔

"ہائے....." وہ اپنی گہری کالی آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے کھڑا تھا۔

"اسلام و علیکم!"

سروش  رخ پھیر کر لائیبریری میں داخل ہو گئی۔

وہ یوں ہی الماری میں سے کسی کتاب کی تلاش شروع کر رہی تھی۔

"و علیکم السلام! ایکچلی مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے الماری سے ٹیک لگائے نظر کتابوں پہ لگائے بولا۔

سروش نے حیرت سے رخ پھیر کر اس کی جانب دیکھا۔

"اس دن تم نے میرے لیے جو بھی کیا....."

وہ اس کے گھورنے پہ خاموش ہوا۔

"میرا مطلب تھا کہ......"وہ کنپٹی مسلتے ہوئے بولا۔

"تمہارا مطلب جو بھی تھا......مگر اب تمہیں مجھ سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

حدثان اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

سروش نظریں جھکائے  لب بھینچے....بنا کچھ مزید کہہ ہی وہاں سے چلی گئی تھی۔

"اس لڑکی کی پرابلم کیا ہے آخر؟"

وہ مٹھیاں بھینچ کر غصے پہ ضبط کرتا آگے بڑھ گیا۔

اس نے محسوس کیا تھا کہ سروش اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر  بنا کچھ کہہ ہی وہاں سے چلی گئی یہ بات بھی حدثان کو ہضم نہیں ہوئی تھی۔

ہر روز ان دونوں کا ٹکراؤ کہیں نہ کہیں ہو جاتا، سروش اس کو پتہ نہیں کن نگاہوں سے دیکھتی اور پھر سر جھکائے وہاں سے چلی جاتی۔

وہ پریشان تو نہیں تھا مگر اس کی آنکھوں میں چھپی وہ بات جو وہ کہنا چاہتی تھی وہ ضرور پریشان کر رہی تھی۔

کیا تھی وہ بےبس سی بات جو اس کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی مگر ہونٹوں پر نہیں آ رہی تھی؟

"میرا دماغ چل گیا ہے...." وہ اپنا وہم سمجھ کر  اس بات کو جھٹلاتا رہا۔

****

"ڈیڈ! اس وقت سعد کو میری سپورٹ کی ضرورت ہے۔ آپ پلیز مجھے یہ کرنے دیں......اس مرتبہ اگر وہ الیکشن جیت گیا تو ہمیں بھی فائدہ ہو گا۔" اس نے رازداری سے کہا۔

"دیکھو حدثان! تم اگر یوتھ کو سعد کے لیے ووٹنگ دینے پر آمادہ کر سکتے ہو تو باپ کو کیوں نہیں سپورٹ کر رہے؟اور تم کیوں کر اس کی مدد کرنا چاہتے ہو؟" چوہدری صاحب الجھن بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولے۔

"ڈیڈ آپ سمجھ نہیں رہے میری بات..... دیکھیں میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔" وہ ذرا سا اور قریب ہوا ان کے۔

پھر جو جو وہ کہتا گیا چوہدری صاحب مسکرا دیئے۔

"ٹھیک ہے اس مرتبہ ہم الیکشن نہیں لڑیں گے۔" انہوں نے کہا تو حدثان اثبات میں سر ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔


تجھے تلاشا ہر جگہ کہ اب تھک چکی ہوں

سکون کے جیسا ہے توں لاپتہ،لاحاصل......


چھٹے سمیسٹر کے ایگزامز نزدیک آتے جا رہے تھے وہ پوری طرح سے ایگزیمز کی تیاریوں میں مصروف تھی۔

اب تو سروش نے اسے دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا، بلکہ اس کے راستے سے بھی نہیں گزرتی تھی۔

جہاں سے وہ آتا دکھائی دیتا تو وہ راستہ بدل لیتی۔

اس کے اس بی ہیور کی وجہ کیا تھی؟

آخر وہ ایسا کیوں کر رہی تھی؟

اور اب تو وہ کچھ دنوں سے یونی بھی نہیں آ رہی تھی۔

چوہدری حدثان نے بھی کسی بات پہ غور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ آج کل جلسوں جلوسوں میں مصروف تھا، ابھی بھی یونیورسٹی کے وسیع ہال میں وہ سعد کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

سروش بےدلی سے چند پل اس کی تقریر سنتی رہی پھر وہاں سے نکل کر لائیبریری جا بیٹھی۔

******

اس وقت نور اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اپنے مشترکہ بیسمنٹ میں تھی۔

ایک ینگ اور بلا کا ہینڈسم نوجوان دائیں جانب سٹڈیز ٹیبل پر بیٹھا سامنے کھلی موٹی سی ڈائری پر کچھ لکھ رہا تھا اس کی ڈائری کے قریب تصویریں پڑی تھیں جن کو ایک لڑکی اس کے کہنے کے مطابق بلینک چھوڑے صفے پر لگا رہی تھی.....یہ تھے منال اور توحید

نور کا رخ ایل ای ڈی کی جانب تھا جہاں حدثان چوہدری، سعد کے لیے ووٹ مانگ رہا تھا۔

چوتھا افراد نور کی چیئر کے ساتھ ہی کھڑا تھا، کسرتی جسامت چھ فٹ سے نکلتا قد.....وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے چشمے کے پیچھے سے ہی ایپ ای ڈی کو گھور رہا تھا۔

نور نے زچ ہو کر ریموٹ سامنے میز پر اچھالا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تم کہاں چلی؟" باسم نے آگے بڑھ کر ایل ای ڈی بند کی اور اس کی جانب بڑھا۔

وہ رک کر اس کی جانب پلٹی اس کی گہری نشیلی آنکھوں میں جھانکا اور دھیرے سے مسکرائی پھر اس کی جانب بڑھی۔

"تم فکر کرتے بلکل بھی اچھے نہیں لگتے، سوٹ نہیں کرتا تم پر۔" اس کی شرٹ کا کالر درست کرتے ہوئے وہ غیر سنجیدگی سے بولی تھی۔

باسم سر جھکا کر دھیمی سی مسکراہٹ لیے سر ہلا گیا۔

منال اور توحید کی نگاہیں بھی ایک پل کو ملی تھیں دونوں شرارت بھری مسکراہٹ لیے اپنے کام میں پھر مصروف ہو گئے۔

"اچھا لگوں یا نہ لگوں فکر تو مجھے ہمیشہ رہے گی۔" وہ اس کی رخساروں کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے جذبات سے چور لہجے میں بولا تھا۔

نور نے دھیرے سے اس کے ہاتھوں کو رخساروں پر سے ہٹا دیا۔

"اتنی ساری بےسکونیوں کے درمیان تم واحد سکون ہو۔" وہ محض سوچ سکی تھی کہنے کی ہمت اس میں آج بھی نہیں تھی۔

"باہر کہیں چلیں؟ مسلسل کام نے تھکا دیا ہے۔" باسم نے تیزی سے جذبات کو سنبھالتے ہوئے کہا۔

"نہیں یار! مجھے کچھ ایک دو کام ہیں........تو آج مشکل ہے۔ اوکے اللّٰہ حافظ، توحید، منال کھانا گرم کر کے کھا لو۔اور باسم....!" وہ اپنی کیفیت کو سنبھالنے کے لیے تیزی سے بولنے لگی تھی۔

باسم کی نگاہیں تو اس کے حسین چہرے پر چپک کر رہ گئی، جنہیں بمشکل قابو میں کرتے ہوئے وہ اس پر سے نگاہیں ہٹا گیا۔

"پلیز اب ریسٹ کر لو،الیکشنز آ رہے ہیں مصروفیات بڑھنے والی ہیں اسی لیے تم سب فریش چاہیے مجھے۔"

"مادام ہم تو ہر وقت ہی فریش ہوتے ہیں۔بس آپ باسم بھائی کو فریش رہنے کا بولیں پتہ نہیں کون سی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں آج کل۔" توحید نے بیک وقت دونوں کی ٹانگ کھینچی تو وہ دونوں اپنی اپنی جگہ اسے گھور کر رہ گئے۔

پھر بنا ایک دوسرے سے نگاہیں ملائے مخالف سمت پلٹ گئے تھے۔ نور بےحد تیزی سے تہہ خانے سے نکلنے والی سیڑھیاں عبور کرتی گئی۔

یہ ایک عالیشان بنگلہ تھا جو کھیتوں کے درمیان میں واقع ہونے کے ساتھ ساتھ چاروں اطراف سے شیشم کے بڑے بڑے درختوں کے درمیان چھپا ہوا تھا۔

اس نے باہر نکلتے ہی ایک نگاہ اس گھر پر ڈالی جو کئی سالوں سے ویران پڑا تھا، جہاں کبھی رونقیں لگی ہوتی تھیں، جہاں توحید اور منال کی شرارتیں عروج پر رہتی تھیں.....جہاں سکون تھا ایک خاندان آباد تھا اور اب.....اب تو وہاں وحشتیں، سناٹے گونجتے تھے اس کی آنکھوں میں ایک پل کو نمی ضرور اتری مگر وہ روئی نہیں۔ تیزی سے کھڑکی کھول کر باہر چھلانگ لگا دی۔

*****

آج جازیہ کی سالگرہ تھی وہ اسے شہر میں سرپرائز دینا چاہتا تھا تبھی الیکشن کی تیاریوں سے آج ہاتھ کھینچ کر صبح سے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے اپنے شہر والے بنگلہ کو ڈیکوریٹ کروانے میں لگا ہوا تھا۔

پورے بنگلہ کو روشن کر دیا گیا جازیہ کی پسند کے پھولوں سے گھر کو سجایا گیا....کینڈلز، بلونز.... فوٹو ٹریز کینڈل کیج، فلاور کیج...... سارا کام ختم کرنے کے بعد وہ ایک تفصیلی جائزہ لے کر چار بجے اسے گاؤں سے لینے چلا گیا۔

شام کو جب وہ واپس لوٹے تو کافی اندھیرا تھا۔

گاڑی روک کر وہ تیزی سے اترا اور جازیہ کی جانب والا دروازہ کھولا۔

ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی تو اسنے دلکشی سے ہنستے ہوئے اپنا نازک سا ہاتھ حدثان کے ہاتھ میں دے دیا۔

دروازہ کھول کر وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے۔

ڈھیر ساری پھولوں کی پنکھڑیاں ان دونوں پہ برسنے لگیں۔

"Happy birthday to you my life_line."

وہ جو حدثان کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ تالی بجاتے ہوئے گنگنایا۔

جازیہ خوشی کے آنسو روتی اس کے سینے سے لگ گئی۔

"ایم سو ہیپی کہ مجھے آپ کے جیسا لائف پارٹنر ملا۔اتنی محبت اتنی عزت .....اور دل کی بات سمجھ جانے والا.....میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس مرتبہ آپ میری برتھ ڈے بھول گئے مگر تمہیں یاد تھا۔"

وہ ہاتھوں کو پھیلائے گول گول گھومنے لگی۔

ریشمی کھلے بال بھی اس کے ساتھ اڑنے لگے تھے وہ اس کے شانے پہ ہاتھ ٹکا کر اس کے پیچھے سے گھوم کر جب سامنے آ کھڑی ہوئی تو حدثان نے کھلکھلاتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا۔

" Happy birthday to you..... happy birthday to you.... dear."

وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو چکے تھے اس آواز پہ چونک کر پلٹے تھے۔

وہ , تالی بجاتی ہونٹوں پر پیاری سی مسکان لیے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ان دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا۔جازیہ کی آنکھوں میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی جبکہ حدثان نے خفگی سے نفی میں سر ہلایا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"وہ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے بولا تھا۔

"تمہیں ایک سرپرائز دینے آئی ہوں....." اس کی تیکھی نظر جازیہ پر ہی تھی جو اس کے دیکھنے پر ایک پل کو ہڑبڑا سی گئی۔

"تو یہ بھی کوئی وقت ہے کسی کے ہاں آنے کا؟

جاؤ یہاں سے۔" حدثان کے لہجے میں کوئی مروت نہ تھی شدید غصہ اور حقارت بھری تھی۔

سروش کے ہونٹوں کو طنزیہ مسکراہٹ نے چھوا۔

"چلی جاؤں گی پہلے جازیہ اور تمہیں سرپرائز تو دے لوں۔"

اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے فون کے کی بورڈ پر انگلیاں چلانی شروع کی تھیں۔

"حدثان......! یہ.....یہ لڑکی اس وقت تمہارے گھر کیا کر رہی ہے؟اور یہ اتنی سجی دھجی ہوئی کیوں ہے؟"وہ ایک تنقیدی نگاہ سروش کے سراپے پہ ڈال کر چلاتے ہوئے آگے بڑھی تھی۔

"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی حدثان.....!" اس کی آنکھوں میں، لہجے میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔

"جازیہ! م میری بات سنو.....تم جیسا سمجھ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔" وہ اس کو دونوں شانوں سے تھامے محبت سے چور چور لہجے میں بولا تھا۔

سروش نے لب کچلتے ہوئے گہری سانس بھری اور اس دیوانے کو افسردگی سے دیکھا۔

"ٹھیک ہے تو میں اسے یہاں سے دھکے مار کے نکالنے والی ہوں......اوکے؟" وہ آنسوؤں کو رگڑتی آگے بڑھی اور سروش کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کھینچنے لگی۔

"ایک منٹ چھوڑو مجھے.....حدثان! مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے پلیز میری بات تو....."

اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتی جازیہ نے اس کی رخسار پر سناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔وہ بوکھلا کر رہ گئی تھی۔فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔

"آئندہ میرے شوہر کے آس پاس بھی نظر نہ آنا۔جانتی ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو۔"

اس نے مرمریں انگلی دکھاتے ہوئے وارننگ دی تھی۔

حدثان کے ہونٹوں پر بروقت اطمینان بھری مسکراہٹ بکھری تھی،اس کے دل کو سکون ملا تھا کہ اس کی بیوی کو اس پہ یقین ہے۔

"ایک بات میری تم کان کھول کر سن لو جازیہ بیگم......!"وہ دانتوں پہ دانت جمائے اس کی جانب بڑھی اور اس کا منہ ہاتھ میں جکڑے حقارت سے بولی۔اس کی اس بدتمیزی پرحدثان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔

"تمہیں میں چھوڑوں گی نہیں۔تمہارا اصلی روپ میں دنیا کو ضرور دکھاؤں گی۔ تمہاری اس خوبصورتی سے ہی حدثان بیوقوف....." اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتی حدثان نے اسے شانے سے دبوچ اپنی جانب گھما کر اس کی دوسری رخسار پہ زور کا تمانچہ رسید کیا تھا۔

"سمجھتی کیا ہو تم خود کو؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو چھونے کی؟ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ ابھی پولیس کو بلوا لوں گا اور تمہیں جیل جانے سے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔" وہ جو بری طرح سے لڑکھڑائی تھی رخسار پر ہاتھ رکھے اس کی نفرت بھری آواز پہ آنکھیں میچ کر رہ گئی۔

"تم جیسی عورتوں کی وجہ سے ہی ہنستے بستے گھر برباد ہوتے ہیں۔ نکلو یہاں سے چال باز عورت۔"وہ اس کا ہاتھ تھام کر کھینچتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا۔

"تم غلط کر رہے ہو حدثان!" وہ سنجیدگی سے بولی۔

"جسٹ شیٹ اپ...... دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"وہ دھاڑا اور دروازے کو کک مار کر کھولتے ہوئے اسے باہر دھکیل کر ودروازہ بند کر کے واپس پلٹا تو جازیہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے صوفے پہ بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔

"جازی! پلیز ٹیک اٹ ایزی....تم جانتی ہو میں کبھی تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔ تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔"

اس کے سامنے نیچے گھٹنے دوہرے کیے بیٹھ کر اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔سچ بولتی آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں گاڑھے وہ محبت اور عقیدت سے گویا تھا۔

"یہ وہ بھی جانتی ہے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔اس کا اور میرا کبھی مکمل تعارف بھی نہیں ہوا یعنی ہم بس ایک دوسرے کو صرف نام تک جانتے ہیں۔

اور تم کو وہ حویلی میں بتا کر آئی تھی نا کہ اس نے مجھے لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تھا جو کہ تمہاری دوستیں تھیں۔اور اسے لگا تھا میں برا مرد ہوں...مگر آج وہ یہاں کیوں آئی تھی....؟"

وہ کبھی تیز لہجے میں بول جاتا توکبھی بہت ہی آہستہ اور سوچتے ہوئے۔

اسے آخری بات پر سوچتے دیکھ جازیہ نے لب کچلتے ہوئے سر جھکا کر اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال لیے۔

"تم اسے جتنی بھولی سمجھ رہے ہو نا وہ اتنی ہے نہیں۔ آج صبح وہ میرے پاس آئی تھی اور تمہیں معلوم ہے اس نے مجھ سے کیا کہا؟"وہ اٹھ کر دو قدم اس سے دور جا کھڑی ہوئی۔

حدثان کی پیشانی پہ سوچ کے بل پڑے تھے۔

"کیا.....؟"حیرت سے بھرے لہجے میں سوال کرتے ہوئے وہ اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"یہ ہی کہ....." دونوں ہاتھوں سے آنسوؤں کو رگڑ کر سوں سوں کرنے کے بعد وہ گویا ہوئی۔

"کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ میں تم سے طلاق لے لوں نہیں تو وہ مجھے اور تازر کو مار دے گی۔"

اس نے گویا حدثان کی سماعتوں پہ بم گرایا تھا۔

"واٹ......؟"

"ہاں حدثان...! تم نہیں جانتے وہ تمہیں حاصل کرنا چاہتی ہے....اور وہ آج یہاں کیوں آئی تھی یہ تمہیں پتہ ہو؟" اس کے اچھنبے کو دور کرنے کے بعد اس نے استفسار کیا۔

"مجھے نہیں معلوم یار.....! کچھ دنوں سے ہمارا ٹکراؤ نہیں ہوا تمہیں پتہ ہی الیکشن نزدیک ہیں اور میں بہت مصروف ہوں اور جب ہوا تو وہ مجھے اگنور کر کے نکل جاتی۔" وہ کہتے ہوئے ایک دم خاموش ہوا۔

جازیہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی۔

"اب سمجھ میں آئی بات......" اس کی پیشانی کی رگیں تن چکی تھیں۔

سفید چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔

جازیہ نے سوالیہ سہمی نظروں سے اسے دیکھا۔

"وہ میرے سامنے انجان بنتی ہے اور پیٹھ پیچھے......"

وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے پیچھے کو جھکا اور پھر سیدھا ہوا۔

"دیکھو جازیہ....!"

وہ اس کو دونوں شانوں سے تھامے گہری سانس خارج کر کے غصہ قابو میں کرتے ہوئے بولا۔

"تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہارا تھا، ہوں اور ہمیشہ رہوں گا.....ویسے بھی وہ مجھے ابنارمل لگتی ہے۔خیر ہم اپنا اتنا اچھا دن کیوں برباد کریں میں دیکھ لوں گا اس مکار کو، چلو کیک کاٹتے ہیں۔"

وہ آخر پہ ماحول میں پیدا ہونے والی بدمزگی کو دور کرنے کی خاطر مبہم سا مسکرا دیا۔

اور اس کی ایک ہی پیاری سی مسکراہٹ نے جازیہ کے گلاب کی پتیوں جیسے گلابی ہونٹوں کو بھی کھلا دیا۔

وہ فخریہ اور فاتحانہ مسکراہٹ لیے حدثان کے ہمراہ چل دی۔

********

وہ ہارے ہوئے انداز میں فٹ پاتھ پر چل رہی تھی۔

سینے پہ ہاتھ لپیٹے رفتہ رفتہ اپنی بےنشاں منزل کی جانب گامزن تھی۔

اچانک ہی ایک گاڑی اس کے پاس آ کر رکی تھی۔

وہ بنا دھیان دیئے چلتی رہی۔

اس نے محسوس کیا تھا کہ دروازہ کھول کر کوئی باہر نکلا تھا۔

اب وہ بھاری مردانہ قدموں کی آہٹ اپنے پیچھے سن سکتی تھی۔

دل ایک دم سے خوف کے سمندر میں ڈوبنے لگا، وجود سے جان نکلنے لگی تھی مگر وہ بنا اس بندے کو اپنے خوف کا یقین دلائے چلتی گئی۔

اب لائٹر جلایا گیا تھا۔

اور وہ ڈر کے مارے پوری طرح اس شخص کی جانب گھوم گئی۔

ہراساں سی وہ الٹے پاؤں دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔

ہائی سول کی بدولت اس کا پاؤں مڑ گیا اس سے پہلے کہ وہ گرتی سامنے والا چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا اور آگے بڑھ کر اسے تیزی سے تھام لیا۔

اتنے میں دائیں بائیں دونوں جانب سے سڑک پہ گاڑیاں گزری جن کی روشنی میں وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ پائے۔سروش کی نظریں جیسے ہی اس شخص کی پیشانی پہ دائیں جانب پڑیں تو بری طرح چونکی۔

"ثمروز......! تم؟"

اس کا ہاتھ چھوڑے وہ جیسے خوشی سے چلائی تھی سامنے والے نے آتی ہی حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہونے والے حادثے کو ایک پل میں بھول گئی تھی۔اکثر ایسا ہی ہوتا ہے جب کوئی بچپن کا ساتھی اچانک سامنے آ جائے تو خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔

بندہ دنیا کے سارے دکھوں سے نکل کر اس جگہ......بچپن میں جا اٹکتا ہے۔

"کیا تم مجھے جانتی ہو....؟"سامنے والے کا سپاٹ لہجہ اسے خاموش کروا گیا۔

"کیا پتہ یہ وہ نہ ہو......."وہ سوچتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹی۔

تبھی ایک اور گاڑی گزری تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔

وہ ہی سنجیدہ آنکھیں، عنابی ہونٹ اور بےداغ سنہری چہرہ۔مگر کچھ چیزیں ایسی تھیں جو بدل چکی تھیں۔

وہ جو پہلے بےڈھنگے کپڑے پہنتا تھا اب بہت سٹائلش، پنٹ کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔جہاں وہ سترہ سال کا ثمروز ہلکی ہلکی مونچھیں لیے اور بکھرے بال لیے چکراتا پھرتا رہتا تھا اب چہرے پہ سٹائلش بیرڈ اور بالوں نے پف کی شکل لے لی تھی۔

اب وہ سترہ سال کا نہیں بلکہ ایک خوبرو نوجوان اس کے سامنے کھڑا تھا۔

"اوہ مائی گاڈ ارے تم.....اتنا بدل جاؤ گئے سڑو بوائے کبھی سوچا نہیں تھا۔نہیں میرا مطلب ہے بارہ سال بعد تم ایسے دکھائی دو گے یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔کیا بات ہے گوریوں کا جادو چل گیا کیا؟" وہ نان سٹاپ بول رہی تھی اسے چھیڑتے ہوئے ہنس رہی تھی۔

اور وہ حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ ہے کون؟

"اوہ لگتا ہے تمہیں یاد نہیں آیا.....چلو میں یاد دلاتی ہوں۔یہ جو نشان ہے تمہاری پیشانی پہ......"

وہ اشارہ اس کی پیشانی پہ لگے تریچھے زخم کے نشان کی جانب کرتے ہوئے بولی۔

ثمروز کا ہاتھ خودبخود اپنی پیشانی پہ جا ٹھہرا تھا۔

"یہ ہماری ہی دین ہے.....امید کرتی ہوں اب یاد آ جائے گا۔"

اس کی کوشش کامیاب ہو چکی تھی۔وہ مبہم سا مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گیا۔

"اوہ تو یہ تم ہو لڑکو ماسی ...."

"شٹ اپ ماسی تو میں ہرگز نہیں ہوں۔خیر تم بتاؤ بیوی کہاں ہے تمہاری؟" اس نے سینے پہ ہاتھ لپیٹتے ہوئے استفسار کیا۔

"وہ.......وہ تو۔" ثمروز کا چہرہ پھیکا پڑ گیا تھا۔

"کیا ہوا ثمروز.....! سب ٹھیک تو ہے نا؟"

وہ اس کے لہجے کی لرزش کو محسوس کر چکی تھی۔ اکثر جھوٹ بولتے وقت وہ یوں ہی اٹکتا تھا۔

"ہوں.....کیا مطلب؟ میں نے تو ابھی کچھ کہا بھی نہیں ہے...." وہ اچھنبے سے اسے دیکھنے لگا۔

وہ مبہم سا مسکرا دی۔

"کم آن چپن میں ہم اچھے دوست تھے۔ خیر چھوڑو یہ بتاؤ تم تو کہتے تھے تم کبھی باہر چلے گئے تو کبھی بھی واپس پاکستان نہیں آؤ گے۔پھر کیوں لوٹ آئے؟"

وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے سنجیدگی سے بول رہی تھی۔

"شاید کبھی بھی نہ آتا اگر میری بیوی یہاں نہ آئی ہوتی۔وہ پاکستان آئی ہوئی ہے ناراض ہو کر۔اسے لینے آیا ہوں۔" گہری سانس خارج کر کے اس نے آخر کہہ ہی دیا۔

"پر کیوں؟" اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔

"اب اور کہاں تک چلنے کا ارادہ ہے ؟ٹائم دیکھو کیا ہو چکا ہے.......اور تم مجھے یہ بتاؤ رات کے اس وقت یہاں کیا کر رہی یو؟" اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے نرمی سے استفسار کیا۔

"محترمہ یہ گاؤں نہیں ہے جہاں رات دیر تک باہر رہو گی تو کوئی کچھ نہیں کہہ گا یہ شہر ہے۔تم ویسی ہی پاگل اور گھومی ہوئی ہو بلکل نہیں بدلی، چلو تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔"وہ سختی سے کہتے ہوئے واپس پلٹا۔

"میں بدل گئی ہوں ویسی نہیں رہی۔" اس کے لہجے اور آنکھوں میں گہری سنجیدگی تھی، چند پل ثمروز اسے دیکھتا رہا۔

"گھر چلو۔" اس پر سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے گویا ہوا۔

"مجھے ابھی کہیں نہیں جانا تم چلے جاؤ بھابھی کو جا کر مناؤ۔"وہ پلٹ کر کہتی پھر سے مخالف سمت چلنے لگی۔

"سروش.....!" وہ دانتوں پہ دانت جمائے اس کی جانب لپکا۔

اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو پسلیوں پہ ٹکائے وہ بولنے لگا۔

"چلو گاڑی میں بیٹھو۔"

"ڈرا رہے ہو؟" اس کے لہجے کی سختی پہ وہ منہ پھلائے بولی۔

"تمہیں بھلا میں ڈرا سکتا ہوں سر پھری کو......جس کے ہاتھ میں جو بھی آتا ہے دے مارتی ہے ابھی یہ پتھر یاد ہے مجھے۔چلو اب پلیز۔" وہ آخر میں منت بھرے لہجے میں بولا۔

وہ ہنستے ہوئے اس کے ساتھ چل دی۔

"بہت زیادہ بدل گئے ہو تم تو......اب تو تمہیں ہنسنا اور تانے مارنے بھی آ گئے ہیں۔" وہ دوپٹہ سینے پر درست کرنے کے بعد کھلے بالوں کو بھی بن بنا کر سیٹ کر رہی تھی۔

ثمروز نے ذرا سی گردن گھما کر اسے دیکھا تو سامنے سے آتی گاڑی کی روشنی نے اس کی رخساروں پر بہہ چکے کاجل کو دکھایا تھا۔

"بیٹھو؟" کچھ پل سوچوں کے سمندر میں ڈوبنے کے بعد سر جھٹک کر اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔

"کیا بات ہے ثمروز میاں! تمہیں تو گاڑی چلانا بھی پسند نہیں تھا، بائیک پسند تھی نا۔"

اس نے سیٹ پہ بیٹھتے وقت کمینٹ پاس کیا۔

"وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ایک اور بات میں تم سے پورے نو سال بڑا ہوں۔یعنی انتیس ایئر اولڈ ہوں،اور تم بیس کی ہو، تمہیں نہیں لگتا کہ مجھے بھائی کہنا چاہیے؟" ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا تو وہ مبہم سا مسکرا دی۔

"وقت کے ساتھ واقع ہی بہت کچھ بدل جاتا ہے مگر اتنا بھی نہیں۔خیر تمہارے بڑے ہونے کا مطلب یہ تھوڑی ہے تمہیں بھائی بولتی پھیروں الحمد اللّٰہ میرے دو بھائی ہیں اور مجھے وہ ہی کافی ہیں۔" وہ تیز لہجے میں بول گئی تھی۔

اور اس غلطی کا احساس تب ہوا جب ثمروز نے اس کی جانب گردن گھمائی۔

"گھر میں سب کیسے ہیں؟ آنٹی انکل؟ بھائی.....بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں؟" اس نے اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔

"ماما ،پاپا اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔اور بھائی ٹھیک ہیں، شادی شدہ ہیں۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔

"آنٹی انکل....؟.....کب کیسے........ایم سوری مجھے معلوم نہیں تھا۔" وہ گردن گھما کر اس کے چہرے پر چھائی گہری خاموشی کو دیکھ کر افسردگی سے بولا

"کچھ سال پہلے ہی وہ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے.......اٹس اوکے......" گہری سانس بھرتے ہوئے ایک پل کے لیے وہ آنکھیں موند گئی۔

"سٹڈی کیسی جا رہی ہے؟" وہ بات بدل گیا۔

"نہیں معلوم آج کل کہاں جا رہی ہے...." سرد آہ بھرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔

"اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟ گھر والوں کو معلوم ہے؟"

"ہاں جی معلوم ہے اور میں یہاں کوئی کیٹ واک کرنے یا سیر و تفریح کیلئے تو آئی نہیں تھی۔

کسی نامراد بےفیض اور خود غرض کی زندگی بچانے آئی تھی۔خیر چھوڑو.....تم رائٹ لے لو۔"

"ہاں.....آہاں۔ابھی تک زندگیاں بچانے کا شوق ہے ؟"

وہ جو انہماک سے اس کی بات سن رہا تھا چونکتے ہوئے سر اثبات میں ہلا کر رائٹ سائیڈ کی جانب گاڑی گھما گیا۔

"افکورس.... فیوچر میں بہت جانی مانی ڈاکٹر جو بننا ہے۔" وہ چہک کر بولی تو ثمروز مسکرا دیا۔

"تم نے گھر والوں سے کیا کہا؟"

"بھابھی کو بتا کر آئی تھی کہ میں کس کام کے لیے جا رہی ہوں اور آپ اتنی صفائیاں کیوں مانگ رہے ہیں؟

آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے اوکے....؟"

وہ تیزی سے بولی۔

"میں کچھ نہیں سمجھ رہا سروش! بس تمہیں بتا رہا ہوں کہ اس وقت گھر سے باہر مت نکلا کرو۔بچپن والی عادتوں کو بدلنا چاہیے۔"

"مگر میں نہیں بدل سکتی۔"اچانک ہی وہ کہ گئی تھی اور ثمروز نے اس کی جانب حیرت اور سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"کتنے بچے ہیں تمہارے؟" وہ بھی اسی کے انداز میں اس مرتبہ جلدی سے بات بدل گئی تھی۔

"ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔"

"ماشاءاللّٰہ فوٹو دکھاؤ مجھے بھابھی اور بچوں کی۔"

وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

"ابھی تو میرے پاس میرا فون بھی نہیں ہے پھر کبھی دکھاؤں گا۔کہاں گھر ہے تمہارا؟"اس کی بات پہ وہ منہ بسور کر رہ گئی۔

"کہیں کوئی انگریزن ونگریزن تو نہیں ساتھ لے آئے؟"

"اتنی ہمت کہاں مجھ میں اگر ہوتی تو......." کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ تھکے ہوئے لہجے میں گویا ہوا اور بات اُدھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا۔

گاڑی رک چکی تھی۔

سروش نے ایک خاموش نظر باہر ڈالی اور لب بھینچے دروازہ دھکیل کر گاڑی سے اتر گئی۔

"تم نہیں آؤ گے؟"جھک کر اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا۔

"ہاہاہا......اپنے بھائیوں کے ہاتھوں مروانا چاہتی ہو؟"

وہ کھوکھلا سا قہقہہ لگا کر اس انداز میں گویا ہوا کہ وہ خاموش ہو گئی۔

"شب بخیر۔ اللّٰہ حافظ۔"

گاڑی سٹارٹ کر کے وہ وہاں رکا نہیں تھا بلکہ گاڑی اڑاتے ہوئے اور پیچھے صرف اپنے نشانات چھوڑ کر چلا گیا جیسے وہ ہمیشہ سے کرتا آیا تھا۔

وہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو رگڑ کر اس خالی راہ کو دیکھتی اپنے گھر کی جانب بڑھ گئی۔

آج اس کی زندگی میں دونوں ہی عجیب حادثے ہوئے تھے۔

ثمروز کا اچانک سے واپس آنا جہاں اسے خوشی میں مبتلا کر گیا تھا وہاں ہی ایک ڈر بھی تھا۔

وہ واپس آ گیا تھا.....کہیں کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لے جس کا جواب سروش کے پاس ہرگز نہیں تھا.....

اور دوسری جانب حدثان، جازیہ کا اسے بےعزت کر کے گھر سے نکال دینا جہاں حیران کن تھا وہاں ہی اسے غم و غصّے میں بھی مبتلا کر گیا۔

****

پورا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔

دوپہر کا وقت تھا اور سب اپنی اپنی آرام گاہ میں سو رہے تھے۔

وہ تھی جو اس وقت باہر درخت کی چھاؤں تلے بیٹھی نجانے کس دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔

"کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی؟"

اپنے پیچھے آواز سن کر وہ چونکی نہیں تھی۔

"آ گئی تم؟"

"ہوں.......تم نے بلایا تھا آنا ہی پڑا۔"

وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔

"یونیورسٹی کیوں نہیں آ رہی؟

تمہارے لیکچر نصیر صاحب لے رہے ہیں۔

"چلو لیونگ روم میں چل کر بیٹھتے ہیں تمہیں یہاں گرمی لگے گی۔"

وہ اسکی بات کو اگنور کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تمہیں نہیں لگتی کیا؟"

"نہیں جب احساسات کے دروازے بند ہو جائیں تو یہ دھوپ بھی بدن پہ بلکل ہوا کی مانند لگتی ہے۔وہ ہوا جو جلتے وجود کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔

آہ.....خیر....چلو لیونگ روم میں چلتے ہیں۔"

وہ زخمی مسکراہٹ لیے کہتی ہوئی گھر کے اندرونی جانب بڑھ گئی۔

"بیٹھو......کیا لو گی؟"

"تمہیں....."

غازی نے چہک کر کہا۔

"ہاہاہا...... جس نے لینا تھا اس نے تو لیا نہیں تم کیا کرو گی میرا؟.....ماشاءاللّٰہ تمہارا تو کوئی بھائی بھی نہیں ہے میرے جتنا...... سارے ہی ٹیڈے ٹیڈے ہیں۔"

ماحول کو خوشگوار بنانے کی خاطر اس نے قہقہہ لگایا۔

"یہ کھوکھلے قہقہے کس کو دکھا رہی ہو؟

مجھے یا خود کو؟"

غازیہ چند پل اسے دیکھتی رہی پھر بھنویں آچکا کر سنجیدگی سے استفسار کرنے لگی۔

"یار! کم از کم قہقہے تو ہیں۔"

وہ گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھی تھی۔

"میں ہر بار دھوکہ کھا جاتی ہوں، ٹھکرائی جاتی ہوں مگر یار..... تاسف سے یہ امید نہیں تھی مجھے......اگر وہ مجھ سے شادی کر لیتا نا تو سب ٹھیک ہو جاتا۔سب کی زندگی مطمئن ہو جاتی۔"

اس کا لہجہ تو مضبوط تھا البتہ آنکھیں موتی ضرور برسا رہی تھیں۔

"تم جانتی ہو وہ تمہارے قابل ہی نہیں تھا......کوئی بہت اچھا بندہ ہے جو اللّٰہ نے تمہارے لیے چنا ہے اس کا انتظار کرو۔اور اس کو اللّٰہ کا لکھا سمجھ کر اللّٰہ پہ ہی چھوڑ دو۔شاید اس میں تمہاری اپنی ہی بھلائی ہو۔"

وہ اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔

"ویسے ایک آئیڈیا ہے میرے پاس....تمہیں اس کی شادی میں جانا چاہیے۔"

کچھ دیر کی خاموشی اور اس کے چہرے پر چھائے سناٹے کو دیکھ غازی نے کہا۔

"کیا بکواس کر رہی ہو؟میں کیوں جاؤں گی اس کی شادی میں؟"

وہ بھڑک اٹھی۔غصے سے سرخ ہوتی وہ استفسار کر رہی تھی۔

"چپ چاپ میری بات غور سے سن۔"

وہ اسے شانے سے تھام کے اپنی جانب کھینچ کر گویا ہوئی پھر وہ بولتی گئی اور اس کی آنکھیں پھیلتی گئیں۔

"نہیں نہیں.......میں ایسا کچھ بھی نہیں کروں گی......"

وہ خوف سے پیچھے کو سرکتی نفی میں سر ہلا کر بولی۔

"تو کیا تم یہ چاہتی ہو کہ وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہے کہ تم یہاں جل رہی ہو اور وہ پھولوں کی سیج سجانے میں لگا ہوا ہے۔

تم نے کون سا اس کی جان لینی ہے بس وہ ہی جلن جو تمہیں ہو رہی ہے وہ ہی اس کو محسوس کرانی ہے سمجھی کچھ؟"

غازی نے کہا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔

"کیا تمہیں اس سے محبت تھی؟"

"تمہیں کیا لگتا ہے غازی؟"

اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ سنجیدگی سے بولی۔

"کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کہوں.... خیر میرے آئیڈیا کے متعلق سوچنا۔"

وہ گہری سانس خارج کرتی بولی۔

وہ بس سر ہلا کر رہ گئی۔

غازی جو اسے پٹی پڑھا رہی تھی وہ سوچ کر بھی اسے برا لگ رہا تھا۔

کم از کم وہ کسی اور عورت کی لائف خراب نہیں کر سکتی تھی۔

مگر اس کا دل بغاوت کر رہا تھا اسے یہ انتہائی قدم اٹھانے پہ مجبور کر رہا تھا۔

"میں تمہارے لیے کچھ لے کر آتی ہوں۔"

انگلیاں پٹختی وہ کیچن کی جانب بڑھ گئی۔

وہ کیسے کر سکتی تھی ایسا کچھ بھی؟

اگر زبیر کو علم ہو گیا تو......؟ یہ ڈر بھی کچھ کم نہ تھا۔

*********

وہ آج بےدلی سے یونیورسٹی گئی تھی۔

اسے امید تھی کہ حدثان ضرور آئے گا اور اسے کھری کھری سنائے گا۔

اور اس نے بھی عزم کر لیا تھا کہ وہ اسی وقت اسے ہر بات ،ہر سچ......ہر راز بتا دے گی کہ جازیہ اس کے ساتھ فیئر نہیں ہے ،وہ دھوکہ دے رہی ہے اسے....

دوسرا لیکچر اٹینڈ کر کے وہ حدثان کو متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔

"سروش....! پروفیسر محمد عقیل تمہیں کمیسٹری لیب میں بلا رہے ہیں جلدی جاؤ۔"

اس کی کلاس فیلو نے اسے سفید کوٹ تھماتے ہوئے پھولی سانسوں کے ساتھ کہا تو وہ اسے اپنی کتابیں اور بیگ تھمائے تیزی سے لیب کی جانب بڑھ گئی۔

پھولی سانسوں کے ساتھ وہ لیب میں پہنچی تھی جو سنسنان پڑی تھی۔

"لگتا ہے سب چلے گئے۔ ویسے پروفیسر نے کیوں بلایا مجھے؟"

چند پل رک کر سانس بحال کرنے کے بعد وہ پلٹنے والی تھی کہ کسی نے اس کا ہاتھ تھام کر پوری قوت سے اسے اپنی جانب کھینچا تھا اس حملے کے لیے وہ ہرگز تیار نہ تھی سو کھینچتی چلی گئی۔

اس کا سر سامنے والے کے شانے سے ٹکرایا تھا اور وہ تیزی سے سر اٹھا کر سامنے کھڑے غصے سے لال ہوتے چوہدری حدثان کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"ح حدثان....! "

وہ اس کے شعلے کی مانند دہکتے ہاتھوں کو اپنے شانوں پر سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہوئی بوکھلا کر بولی۔

"چپ ایک دم چپ اگر تمہارے منہ سے ایک بھی آواز نکلی تو یہاں ہی جان سے مار کر لاش کیمیکلز میں پھینک کر جلا دوں گا۔"

حدثان نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے سفاکی سے اس کے شانوں پہ دباؤ بڑھاتے کہا۔

وہ خوف سے لرز اٹھی تھی۔

اس نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ حدثان ایسا بھی کرے گا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی تھی میرے گھر آنے کی؟

کیوں تم میری خوشیوں کو برباد کرنے پہ تل گئی ہو؟

آخر پرابلم کیا ہے تمہاری۔"

اسے دیوار کے ساتھ سختی سے چپکانے کے بعد زور کا مکا دیوار پہ مارتے ہوئے بولا۔

وہ خوف سے اس کے زخمی ہوئے ہاتھ کی پشت کو دیکھنے لگی جس سے خون بہہ رہا تھا۔

"میں شادی شدہ ہوں اور ایک بچے کا باپ بھی اس کے باوجود تم میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہو۔تم جیسی عورتیں ہی ہوتی ہیں جو بسے بسائے گھر برباد کر دیتی ہیں۔تمہیں اور کوئی ایکٹیویٹی نہیں ملی تو میری زندگی برباد کرنے نکلی۔" وہ اس سے دو انچ کے فاصلے پر کھڑا نفرت اگلتے جا رہا تھا اور وہ چپ چاپ آنکھیں موندے' لب بھینچے ضبط سے اسے سن رہی تھی۔

اس کا ایک ایک لفظ سروش کو زخمی کر رہا تھا۔

"کیوں تم جازیہ کے پاس گئی تھی؟میری جانب دیکھو اور بتاؤ مجھے..." اس کے منہ کو ہاتھ میں جکڑے وہ کرختگی سے گویا ہوا۔

سروش کو اپنے جبڑے ہلتے محسوس ہوئے تھے۔

"حد...... حدثان! جو تم سمجھ رہے ہو ویسا نہیں ہے تم ایک مرتبہ میری بات تو سن لو۔" وہ بہت مشکل سے ایک ایک لفظ ادا کر رہی تھی۔

"جی تو چاہتا ہے تمہاری جان لے لوں۔اس مرتبہ آخری وارننگ ہے تمہارے لیے مجھ سے اور میری بیوی سے اور میرے گھر سے بہت دور رہو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔"

وہ ضبط کی انتہا پر تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرتا سروش نے اسے وحشی بنتے دیکھ خود کو سنبھالا اور اسے پوری قوت سے دھکا دے کر دروازے کی جانب بڑھی۔

مگر اس سے پہلے ہی وہ اس تک پہنچ گیا تھا۔

"اتنی بھی کیا جلدی ہے جنتی رسوائی مجھے میرے خاندان والوں سے ملی ہے تمہیں بھی تو کسی نہ کسی کے سامنے ذلیل کرنا ہے۔" وہ اسے کمر سے تھامے گویا ہوا۔

سروش کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی تھی۔

وہ سمجھی نہیں تھی.........مگر سب سمجھ بھی گئی تھی۔ وہ اسے بدنام کر دے گا؟ یہ سوچ ہی اس کا دل بند کرنے میں کافی تھی۔

"ن نہیں پلیز......تم غلط کر رہے ہو۔میں مجرم نہیں ہوں تمہارا مجرم کوئی اور ہے، جو تمہارے جذبات کے علاؤہ اعتبار کے ساتھ بھی کھیل رہا ہے۔" آخر اس نے ہمت کر ہی لی تھی بولنے کی۔

"تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ اب کون سی نئی کہانی سناؤ گی؟" وہ نفرت سے اسے خود سے دور دھکیل کر رخ پھیر گیا۔

"تمہاری بیوی تمہیں دھوکہ دے رہی ہے۔" اس نے چکراتے سر کو تھامتے ہوئے ہموار لہجے میں کہا تھا۔

"کیا بکواس کر رہی ہو تم؟ ہوش میں تو ہو؟" وہ پوری طرح اس کی جانب گھوم گیا تھا۔

"ہ ہاں م میں سچ کہہ رہی ہوں وہ کسی سے تنہائی میں ملتی ہے میں نے اسے دیکھا تھا۔ سمجھایا بھی....."

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی حدثان کا ہاتھ ہوا میں گھوم کر اس کی رخسار پر پڑا تھا اور پانچ انگلیوں کا نشان چھوڑ گیا۔

وہ دائیں جانب زمین پر گرتی چلی گئی۔

بال بکھر کر چہرے کے گرد پھیل گئے تھے۔

دونوں ہاتھوں کو فرش پہ ٹکا کر اس نے اپنا سر اٹھایا تھا اور حدثان کو حیرت سے بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"خبردار جو تم نے اپنی گندی زبان سے میری بیوی کے خلاف کچھ بھی کہا۔وہاں جا کر جازیہ کو میرے خلاف بھرتی رہی ہو اور اب میرے سامنے میری ہی بیوی کے کردار پہ کیچڑ اچھال رہی ہو۔" وہ وحشی بن چکا تھا سروش کو اس سے خوف سا محسوس ہوا۔

وہ پیچھے کو سرکی ہی تھی کہ حدثان اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

اس کا رنگ اڑ گیا تھا....وہ خوف سے بھری نگاہوں کو اس پہ ٹکائے ہوئے کانپتے ہاتھ کو ناتواں سی کوشش کے زیرِ اثر پیچھے کھینچ رہی تھی۔

حدثان نے ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ ڈر کے مارے آنکھیں میچ گئی۔

"تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم جانتی تھی کہ میں اپنی ازدواجی زندگی میں خوش ہوں تو پھر تم نے کیوں اتنی گھنونی چال چلی؟ بتاؤ کیوں؟"وہ اس کے ہونٹ سے بہہ رہے خون کو سفاکی سے صاف کرتے ہوئے ٹھہرے ٹھہرے ہوئے مگر سخت لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔

" م میں نے......کچھ غلط ن نہیں کیا ح حدثان!"

اس کے حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے۔

وہ اسے بہت کچھ بتانا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں ہو پا رہی تھی، حدثان کی آنکھوں کی سرخی اسے خوف سے دوچار کیے ہوئے تھی۔

"اچھا تو اب تم مکر جانا چاہتی....؟ خیر میرے پاس بھی ثبوت ہے تمہارے گھٹیا کارناموں کا۔"

وہ اس کی کلائی پہ دباؤ ڈالتے ہوئے بولا اور جینز کی جیب سے فون نکال کر اس پہ جتنی سختی سے انگلیاں چلا رہا تھا اتنی ہی سختی سے اس کی انگلیاں سروش کی کلائی میں پیوست تھیں۔

وہ درد کی شدت سے لب کچل رہی تھی۔

اس کے بس میں نہیں تھا کہ وہ چینخے چلائے لوگوں کو اکٹھا کرے اور دکھائے کہ یہ شخص جو بہت شریف اور نیک ہے دیکھو یہ کتنا وحشی ہے.....اُس کے ساتھ کیسا ظالمانہ سلوک کر رہا ہے۔

اگر ایسا کچھ کرتی تو بھی وہ خود کو بدنام خود کرتی۔

کیونکہ لوگ صرف اس کی غلطی دیکھتے مگر غلطی کے مرکزی کردار اس مرد کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔

"غور سے دیکھو اسے اور پھر اپنی سزا تہہ کر لو۔"

اس کی آنکھوں میں نفرت سے دیکھتے ہوئے اس نے کہا تو سروش کی چھٹی حس نے اسے کچھ غلط ہونے کی خبر دی۔

"حدثان صرف میرا ہے اور میں اسے تمہارا نہیں ہونے دوں گی.....بہت محبت کرتی ہوں میں اس سے۔

اور جب اسے یہ بات معلوم ہو گئی تو وہ تمہیں چھوڑ کر میرے پاس آ جائے گا۔اب میں دیکھتی ہوں تم کیا کرو گی۔"

"تم میرے شوہر کو مجھ سے نہیں چھین سکتی تمہیں جو چاہیے مجھے بتاؤ میں دوں گی مگر اپنے شوہر کو نہیں دے سکتی، خدا کا واسطہ تمہیں ہماری زندگی مت خراب کرو۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی اور یقیناً جازیہ نے یہ ویڈیو چوری بنائی تھی تبھی تو وہ نظر نہیں آ رہی تھی۔

جازیہ کی آنسوؤں میں ڈوبی آواز بھی ابھری تو اس نے آنکھیں پھیلائے حدثان کو دیکھا جو اسے ہی کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"ہاہاہا......مجھے جب حدثان مل گیا تو سب کچھ مل جائے گا یہ دولت یہ بڑی بڑی عمارتیں یہ گاڑیاں۔

سوچو تمہارے پاس کیا رہ جائے گا؟اب بھی وقت ہے میری بات مان لو خود ہی دفعہ ہو جاؤ۔"

وہ قہقہہ لگا کر کہتے ہوئے چہرے کو حقارت بھرے تیور دے کر دانت پیس رہی تھی۔ویڈیو وہاں ہی ختم ہو چکی تھی۔

"اب بتاؤ کہ تم جیسی عورتوں کی کیا سزا مقرر کی جائے؟"

فون بند کر کے جینز کی جیب میں گھساتے ہوئے اس نے استفسار کیا تو وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی چلی گئی۔

"یہ سب......آدھا سچ ہے تم حقیقت سے ابھی واقف نہیں ہو۔تم وہ ہی دیکھ رہے ہو جو تمہیں جازیہ دکھا رہی ہے تم وہ بھی دیکھو جو حقیقت ہے۔یہ ویڈیو سچ ہے مگر میں.....میں کیسے سمجھاؤں تمہیں کہ سچ یہ نہیں ہے۔"

وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی لہجے میں سے ڈر واضح ٹپک رہا تھا۔

"شیٹ اپ.....جسٹ شیٹ اپ۔میں نے سوچا تھا کہ تم ایک اچھی لڑکی ہو جب تم نے جازیہ کو سمجھایا تو لگا میں نے غلط کیا تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کر کے۔مگر نہیں تم تو بہت ہی گھٹیا اور کریکٹر لیس....."

"بس کر دو چوہدری حدثان! میرے کردار پہ کیچڑ مت اچھالو۔ تم جیسے مرد ہوتے ہیں جو بیوی کی خوبصورتی کے دیوانے ہوتے ہیں اور اس کے عیبوں سے ناواقف۔تم بہت بیواقوف ہو اب سے نہیں بلکہ....."

وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روکتے ہوئے چلائی تھی۔

"تم کہہ رہی ہو وہ کسی سے ملتی ہے؟"چند پل اسے دیکھنے کے بعد وہ گویا ہوا۔

"ہاں وہ تمہیں دھوکہ دے رہی ہے اور تم اتنے بیوقوف ہو کہ سچ اور جھوٹ کو نہیں سمجھ پائے۔"

"بکواس بند کرو اپنی۔ وہ ہر وقت گھر میں ہی ہوتی ہے، کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی، پردہ کرتی ہے وہ۔

پانچ وقت کی نمازی ہے اور تم جیسی منہ پھٹ اور سر پہ دوپٹہ لپیٹ کر سارا دن بازاروں میں پھرنے والی لڑکی اس پاک دامن عورت پہ کیچڑ اچھال رہی ہے۔

اگر یہ بات تمہارے متعلق ہوتی تو میں مان لیتا کہ تم دھوکے بار اور بدکردار......"

"مزید میں کچھ برداشت نہیں کروں گی۔"

اس کی سماعتیں زخمی ہونے لگی تھیں۔

دکھ میں چور چور لہجے میں کہتے ہوئے اس نے شہادت کی انگلی نفی میں ہلائی اور خود کو سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ایک بات میری کان کھول کر سن لو۔"

وہ اٹھ کر اسے بازو سے تھامتے ہوئے اپنی جانب گھما کر بولا۔

وہ بےجان تھی.....تبھی اس کے بازو پہ منہ کے بل گری۔

"اگر آئندہ تم نے میری ازدواجی زندگی میں مداخلت کی تو مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہو گا۔"

وہ اسے وارننگ دے کر دروازہ کھول کے تیز قدم اٹھاتا چلا گیا۔

اس کے ہونٹوں کو عجیب سی مسکراہٹ نے چھوا تھا۔

"اگر تمہاری بیوی شاطر ہے تو میں اس سے بھی زیادہ شاطر ہوں۔تم مجھے درد دو گے تو کیا میں تمہیں دھوکے بازوں سے بچاؤں گی نہیں۔"

بالوں میں انگلیاں چلا کر انہیں بن کی شکل دیتے ہوئے وہ خودکلام تھی۔

"مگر ان زخموں کا بدلہ تو میں اس جازیہ سے لے کر ہی رہوں گی۔تم فکر مت کرنا چوہدری حدثان!"

دیوار پہ لگے شیشے میں دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی رخسار پہ رکھا جہاں حدثان کا ہاتھ چھپ چکا تھا پھر اس نے اپنے ہونٹ کو چھوا جس سے خون بہہ رہا تھا پیشانی پہ لگی رگڑ بھی اس ظالم کی ہی دین تھی۔

وہ دونوں ہاتھوں کو منہ پہ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

ان زخموں سے زیادہ درد ان لفظوں نے دیا تھا جو حدثان کے منہ سے اپنے لیے وہ سن چکی تھی۔

"تمہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گی چوہدری حدثان..! اس سلوک کی مجھے امید نہیں تھی مگر تم بھی کیا کرتے اس کی محبت میں اندھے ہو چکے ہو۔"

اس نے اپنے بالوں کو کھول کر دائیں رخسار پہ یوں ڈالا کہ ایک آنکھ کے ساتھ ساتھ تھپڑ کا نشان بھی چھپ گیا۔

دوپٹے کو سر پہ ٹکائے وہ سینے پر ہاتھ باندھے باہر کی جانب بڑھ گئی۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کوریڈور میں چلتی جا رہی تھی۔

"نہیں یار، سروش کو لیب میں بلوانے کے بدلے میں حدثان نے آج ڈنر کا وعدہ کیا ہے۔"

اسے جانی پہچانی آواز سنائی دی تو وہ رک کر اس کمرے کی کھڑکی کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔

یہ وہ ہی لڑکی تھی جس نے اسے کہا تھا پروفیسر لیب میں بلا رہے ہیں۔

"وہ تمہارے ساتھ ڈنر پر جائے گا تمہیں یقین ہے؟"

اس لڑکی کی دوست نے استفسار کیا تھا۔

"ہاں یقین ہے۔ کیونکہ اس نے میرے سامنے سیون سٹار

ہوٹل میں ٹیبل بک کروایا ہے۔"

وہ چہکی تھی۔

اس کو اپنی سماعتوں پہ یقین کرنا مشکل ہوا تھا۔

ایک پل کو تو وہ سمجھی کہ وہ لڑکی بکواس کر رہی ہو گی مگر دوسرے ہی پل اسے یقین ہو گیا کہ حدثان کا جو بھی دل چاہیے وہ کر گزرتا ہے۔

ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ سجائے وہ وہاں سے چلی گئی۔

"اب دیکھو میں کیا کرتی ہوں۔ایک جھٹکا تو تمہیں بھی ملنا چاہیے۔دیکھتے ہیں تمہاری ازدواجی زندگی کتنی سٹرانگ ہے۔"

وہ دانتوں پہ دانت جمائے غصے اور آنسوؤں میں ڈوبے لہجے میں بڑبڑائی۔


تیری بے رخی نے یہ کیا کیا؟

ہمیں کس موڑ پہ لا کر چھوڑ دیا

اب تو محبت محبت لکھتا ہے

مجھے موت موت لگتا ہے


*****

 یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟"

ماما اس کی بات سن کر پھوٹ پڑی تھیں۔

"ماما! میں کسی ڈرامے یا فلم کی ہیروئن نہیں ہوں جو اپنی بےعزتی پہ دبک کر بیٹھی آنسو بہاتی رہوں۔

میں ایک حقیقت ہوں جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور میں اس زیادتی کا بدلہ لے کر رہوں گی۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

"تم کیا کہہ رہی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا مگر تمہاری مہربانی.......تم اس کی شادی میں شرکت نہیں کرو گی۔" وہ ہاتھ جوڑ کر سخت لہجے میں بولیں۔

"ماما پلیز.....میں کون سا اکیلی جاؤں گی میری دوست بھی ساتھ جا رہی ہیں۔وہ تاسف کی بہن کی فرینڈ ہے۔

پلیز مجھے جانے دیں ماما۔" وہ ان کے ہاتھ تھامے التجاء کر رہی تھی۔

"تمہارے بابا ہرگز رضامندی نہیں دیں گے۔اور زبیر تو بلکل بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا۔"

"آپ منا لیں جیسے بھی مگر منا لیں پلیز۔میں پیکنگ کرنے لگی ہوں۔اور زبیر کو مت بتائے گا۔" وہ کہتے ہوئے وارڈروب کی جانب بڑھ گئی۔

ماما پریشانی کے عالم میں کھڑی اسے دیکھتی رہ گئیں۔

ان کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیوں جانا چاہتی ہے؟

وہ کیا کرنا چاہتی ہے؟ مگر انہیں اس پہ یقین تھا کہ وہ کچھ بھی غلط نہیں کرے گی۔

رات کو جب اس کے بابا آئے تو انہوں نے ان سے اجازت یہ کہہ کے لی کہ دوست کی شادی ہے چلی جائے گی تو موڈ فریش ہو جائے گا وہ مان گئے تھے۔

غازی کی والدہ اسے پک کر کے اپنے گھر لے جا چکی تھیں۔

"مگر بیٹا! تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ تم پہ توجہ دے گا؟"

غازی اپنی والدہ سے ہر بات شیئر کرتی تھی سو یہ بھی انہوں نے ان سے فرینکلی شیئر کر لی۔

ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے مادفہ کی نظر ہنوز ایک غیر مرائی نقطے پر تھیں۔

"ماما......! پلیز آپ ہمیں کنفیوژ مت کریں، یہ پہلے ہی اتنی خوبصورت ہے جب تھوڑا خود کو سجائے گی تو مزید پیاری اور دلکش نظر آئے گی کہ تاسف بس اسے ہی دیکھتا رہ جائے گا۔

اور ویسے بھی وہ اس سے محبت کرتا تھا محبت کی کشش بھی تو کھینچے گی۔"

"کرتا تھا ہے تو نہیں۔"

غازی کی بات کے جواب میں انہوں نے ایک ایک لفظ پہ زور دیا۔

"ماما....! پلیز آپ ہمیں الجھائیں مت ہمارا ساتھ دیں۔"

اس نے التجاء کی۔

"ٹھیک ہے ٹھیک.....ایک بات یاد رکھنا مادفہ! یہ جو مرد ہوتے ہیں نا اپنا دل صرف ایک عورت کو ہی دیتے ہیں پھر چاہیے وہ راستے بدل لے، کچھ بھی ہو جائے کبھی نہ کبھی وہ دل ان کو کھینچ لاتا ہے چاہیے وہ کتنی ہی خوبصورتی میں گھیرے رہتے ہوں۔"

وہ سمجھانے لگی تھیں اور وہ انہماک سی سن رہی تھی۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس لڑکی کو بھی اتنا ہی تڑپائے گی جتنا کہ وہ خود تڑپی۔

دل میں اتنی نفرت بھر چکی تھی ساتف اور اس کی ہونے والی دلہن کے لیے کہ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جا کر آگ لگا آئے۔

مگر اسے ایک دفعہ ہی آگ نہیں لگانی تھی رفتہ رفتہ ہوا دینی تھی۔

یہ جو غصہ ہوتا ہے بہت بری چیز ہے کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رہتی۔

تبھی تو یہ حرام ہے۔

اور وہ اس غم و غصّے میں جل رہی تھی۔

***********

گھر جا کر سروش سارے کام نمٹانے کے بعد اپنے کمرے میں جا کر جیسے ہی آرام کرنے کی غرض سے بیڈ پہ گری اس کے فون پہ کال آئی تو اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔

بنا آنکھیں کھولے ہی اس نے بیڈ پہ ہاتھ مارتے ہوئے فون ڈھونڈا اور جیسے ہی نمبر پہ نظر پڑی تو انجان نمبر دیکھ کر کال کاٹ دی۔

دوسری مرتبہ پھر سے کال آنے لگی تھی۔

اس مرتبہ کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا اور بنا بولے دوسری جانب سے کسی کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔

"ہیلو........" گھمبیر آواز اس کی سماعتوں میں گونجی۔

"ثمروز.....؟" فون کان سے ہٹا کر دیکھتے ہوئے اس نے حیرانگی سے پکارا۔

"جی ٹھیک پہچانا۔ ثمروز ہی ہوں۔کیا کر رہی ہیں؟"

"کچھ خاص نہیں زخموں پہ مرہم لگا رہی ہوں۔" شیشے میں اپنے چہرے پہ لگے زخموں کو دیکھتے ہوئے اس نے سرد لہجے میں کہا۔

"زخموں پہ مرہم؟کیا ہوا ٹھیک تو ہو؟" اسکے لہجے میں فکر تھی ایک پل کو سروش کا ہاتھ رکا تھا۔

"اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے میری؟"اس کا لہجہ ہنوز سرد ہی تھا۔

"مجھے تمہاری ہمیشہ سے فکر تھی سروش! اس بات سے تم اچھی طرح واقف ہو۔"

"فلحال تو تم کو کسی اور کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ میری۔"کال کاٹ کر فون بیڈ پہ اچھالتے ہوئے اس نے مرہم بےرحمی سے پیشانی پہ مسلی تھی اور پھر ٹیوب پھینک کر بیڈ پہ گرتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

کچھ دیر رونے کے بعد وہ واشروم گھسی اور شاور لے کر براؤن رنگ کی لونگ شرٹ اور لائٹ براؤن پلازو پہنے دوپٹہ سینے پہ پھیلائے باہر نکلی۔

"کہاں جا رہی ہو؟"

"ہوٹل جا رہی ہوں۔"

بھابھی کے سخت انداز میں پوچھنے پر اس نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔

"کیا؟ ہوٹل کیا کرنے؟"

"فکر نہ کریں آپ جانتی ہیں آپ کی نند کس ٹائپ کی بندی ہے۔ویسے بھی آپ سب کے مطابق اس مزاج اور روکھی پھیکی صورت کو کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اور یقین مانے یہ ہی سچ ہے۔" اس نے ان کی جانب کھوکھلی سی مسکراہٹ اچھالی اور پورچ کی جانب بڑھ گئی۔

"دھیان سے جانا اور اپنا خیال رکھنا۔" اسے معلوم تھا اگر وہ روکے گیں تو بھی وہ نہیں رکے گی سو اسے خدا حافظ کہہ کر سبزی کاٹنے میں مصروف ہو گئیں۔

ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ ہوٹل پہنچی تھی۔

شیشے کا دروازہ دھکیل کر وہ ہوٹل میں داخل ہی ہوئی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی اور بھی اسی وقت دروازہ عبور کرتے ہوئے آگے بڑھا۔

فون کان سے لگائے ہنوز گفتگو میں مصروف وہ حدثان ہی تھا۔

سفید کلف زادہ کرتہ، پاجامہ زیب تن کیے ڈھیروں خوشبوؤں کو خود میں سموئے وہ آج اس لڑکی سے ملنے آیا تھا جس نے سروش کو اس تک پہنچانے میں مدد کی تھی۔

وہ جس ٹیبل پہ بیٹھا تھا سروش اس ٹیبل سے چار ٹیبل چھوڑ کر بیٹھ گئی۔

منہ کے سامنے منیوں کارڈ کیے آنکھوں پر سے ذرا سا ہٹا کر وہ اس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی۔

جہاں ذرا برابر بھی افسوس یا کوئی رنج نہ تھا۔وہ اس پہ ہاتھ اٹھا کر کیا ثابت کر گیا تھا....یہ ہی کہ وہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے؟یا پھر کوئی راہ چلتی؟ مگر یہ اوقات اس نے ہی بنائی تھی.....نہ کرتی اس بگڑے ہوئے نواب زادے کی زندگی میں انٹر فیئر۔

"ہائے ہنی....."ہاتھ ہلا کر وہ لڑکی جب نزاکت سے بولی تو سروش نے چونکتے ہوئے تیزی سے پیشانی میز پہ ٹکا لی تاکہ کوئی اس کی آنکھوں کی برسات نہ دیکھ پائے۔

تبھی کسی نے انگلی سے ٹیبل بجایا تھا۔

سروش نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ اسے حیرانی ہوئی۔

"ثم....."

"ششششش....." وہ جلدی سے اس کے سامنے والی کرسی سنبھال گیا۔

"آ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"

"مجھے بتاؤ کہ تم یہاں کیوں ہو؟ کیا حدثان کا پیچھا کر رہی تھی؟ تم رو کیوں رہی ہو؟"

وہ بہت مدھم آواز میں سارے سوالات ایک ساتھ کر گیا تھا۔

اتنے میں ویٹر آیا تو وہ دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

"سب سے پہلے تو کوئی رومانٹک سا سونگ پلے کرواؤ۔"

اس نے سنجیدگی سے کہا تو ویٹر یس سر کہتے ہوئے پلٹ گیا۔

"آپ نے ایسا کیوں کہا....."

"یہاں بہت خاموشی ہے مدھم آواز بھی وہ سن لے گا۔اگر رومانٹک سانگ پلے ہو گیا تو وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو جائیں گے اور کہیں توجہ نہیں دے پائیں گے۔" وہ سنجیدگی سے بولا وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد فضا میں آئمہ بیگ کی سریلی آواز گونجنے لگی۔


گواہ سی یار توں میرے عشق دا

نکلیا بیوفا توں اکھاں کسے ہورنال لائیاں


اس کے بیگ کی سٹرپ پہ چلتے ہاتھ تھم گئے تھے ایک نظر اٹھی تھی سامنے بیٹھے ثمروز کے شانے کے پیچھے وہ واضح نظر آ رہا تھا۔


سدا میں منیاں توں میرا تے میں تیری آن۔

دس ہوں کیویں ونڈاں اپنی جند جانیاں


اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی وہ قہقہے لگا رہا تھا۔

"کیسے کوئی انسان اتنا سفاک ہو سکتا ہے؟"

سروش کی رگ رگ میں زہر بہنے لگا تھا۔ یہ زہر نفرت و محبت کا ملا جلا تھا۔


یار بیوفا تے میرا رب ہی گواہ

سوہنے رب آگے دیواں دیواں میں دوہیاں

دوہیاں دوہیاں دوہیاں دیواں میں دوہیاں

وے میں رب کولوں پوچھاں

میں دنیا تے کیوں آئی آں

رویں نال توں میرے میں فیر وی کٹاں جدائیاں

ہر رات میں رو رو کے اپنیاں اکھاں سوجائیاں


درد کم نہیں ہو رہا تھا بلکہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

اس کو اتنا خوش دیکھ کر اس کے اندر آگ سی جلنے لگی تھی۔

اور ثمروز نے یہ کیسا گانا پلے کروایا تھا؟

"رومانٹک سانگ ایسا ہوتا ہے؟" اس نے خفگی سے ثمروز کی جانب دیکھا۔

"ہاں شاید......کبھی سنا نہیں تو معلوم نہیں....." وہ شانے آچکاتے ہوئے بولا۔

"محبت کرتی ہو اس سے؟" ثمروز کی نظریں تو کھانے پہ ہی تھیں مگر وہ اس کی حالت سے واقف ہو رہا تھا۔

"نہیں......اب میں چلتی ہوں۔" وہ بیگ سنبھال کر مضبوط لہجے میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

تبھی حدثان کی اچانک ہی نظر اس پہ پڑی تھی۔

ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ وہ اسے گھورتی ہوئی وہاں سے آندھی طوفان کی طرح غائب ہوئی تھی۔

اس کے خاموش چہرے پہ ضرور کوئی تاثر تھا کہ پل بھر کو حدثان کے ہاتھ منہ کی جانب براؤنی کا ٹکڑا لے جاتے ایک پل کو تھم گیا تھا۔

اس نے پلٹ کر اس جانب پھر سے دیکھا جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑی تھی۔مگر اب وہ شخص وہاں نہیں تھا جو اس کے ساتھ بیٹھا تھا وہ میز سنسنان تھی۔

ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر اس شخص کی تلاش کی مگر وہ غائب تھا۔

ایک گہری سانس بھرتے ہوئے سر جھٹک وہ سامنے بیٹھی لڑکی کی جانب متوجہ ہو گیا۔

سروش جو اس کے کرتوتوں کو اپنے فون کے کیمرے میں قید کرنے کی غرض سے آئی تھی مگر ایسا نہیں کر سکی۔

*****

وہ ٹیرس پر کھڑی دور دور تک پھیلی ویرانی اور جھاڑیوں کو بےوجہ گھور رہی تھی۔

تیز ہوا سے سرسراتے درخت اور پورے چاند کی روشنی میں نظر آتیں وہ چار قبریں جن پر اب سبزا اگ چکا تھا۔

گھر کے قریب ہی جنگل تھا جس سے گیدڑوں اور لومڑیوں کی آوازیں واضح سنائی دے رہی تھیں۔

اس نے اپنے پیچھے قدموں آہٹ کے ساتھ ساتھ سکھے پتوں کے پیروں تلے آنے پر چنخنے کی آواز بھی سنی تھی۔

"نور! کتنی مرتبہ تمہیں منع کیا ہے کہ رات کو یہاں مت آیا کرو، کتنا خوفناک منظر ہے۔" باسم نے فکرمندی سے کہا۔

"چھ سال ہو چکے ہیں مگر میں اس خوفناک رات کو ان گزرے سالوں میں ایک پل بھی فراموش نہیں کر پائی۔" اس نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے بےحد سنجیدگی سے کہا تھا۔

باسم نے آگے بڑھ کر دھیرے سے اس کے ہاتھ کو تھام لیا تھا۔

"ایک دن ضرور انصاف ملے گا۔"

"ثبوت نہیں ہیں تو انصاف کہاں ملے گا۔" وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے طنزیہ ہنستے ہوئے بولی۔

"تمہیں پتہ ہے ہم بےوجہ بھاگ رہے ہیں۔ اور ہم نے ساری زندگی بھاگتے رہنا ہے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہم جس کا بھلا کرتے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے فائدے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں، کیا فایدہ حاصل کرنے والے ہمارے جیسے ہوتے ہیں؟ جن کی اپنی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔"

"جو جو سوچتا ہے سوچنے دو، کہنے دو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں......میں نے شروع میں ہی آگاہ کر دیا تھا کہ دنیا اچھا کہہ گی تو وہاں بہت سے لوگ برا بھی کہیں گے مگر ہمیں محض اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ ہم ان لوگوں کے لیے نہیں کر رہے یہ سب کچھ اپنے ملک کے لیے کر رہے ہیں۔ اور تم ان لوگوں کے متعلق سوچو جو تمہیں پسند کرتے ہیں۔"

"وہ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ میں کوئی لڑکا ہوں۔میرا کوئی اپنا وجود نہیں ہے باسم! تم سمجھ رہے ہو؟"

"تمہارا وجود ہے، تم نور ہو،تم ینگ جنریشن کی انسپریشن ہو نور!اور یہ اچانک تمہیں ہو کیا گیا ہے؟ اپنے مقصد سے کیوں بھٹک رہی ہو؟ ہمیں دنیا سے چھپ کر رہنا ہے بس۔" باسم نے اسے شانوں سے تھام کر کہا۔

"کیا فایدہ چھپنے کا باسم؟ اب تو سب لوگ بھول گئے ہوں گے۔ ہمیں بھی اپنی زندگی اسی طرح گزارنی چاہیے جیسے نارمل لوگ گزارتے ہیں۔"

"ہم کبھی بھی ویسی زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور نہ ہی گزار سکتے ہیں۔" باسم نے بوجھل سی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

"کبھی کبھی میرا دم گھٹتا ہے اس پرسرار ماحول سے، جی چاہتا ہے کہ میں بھی عام لڑکیوں کی طرح زندگی گزاروں۔" وہ آج اتنی اداس ہو رہی تھی کہ رو دی، باسم کے دل کو کچھ ہوا۔

"تم نے کبھی مجھے بتایا نہیں کہ تمہارے کیا خواب ہیں، میرا مطلب کہ تم کیسے زندگی گزارنا چاہتی ہو؟"

وہ چاند کی روشنی میں اس کے چمکتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔

"جیسے ہم چھ سال پہلے گزارتے تھے۔ ایک فیملی، گھر.....رشتے......اور تمہیں یاد ہے تم ہمیں شاپنگ کے لیے لے کر جاتے ہوتے تھے، مجھے ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا ہوتا تھا اسی بات پر ثوبیہ ناراض ہو جاتی تھی۔" ثوبیہ کے نام پر ایک آنسو اس کی رخسار پر بکھرا تھا۔

باسم نے باہم لب بھینچ لیے۔

نور نے ذرا سی گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر اس چوتھی قبر کو جس کی تختی پر ثوبیہ رحمان لکھا تھا۔

"ایم سوری میری وجہ سے ہوا سب، میں.....میں ہوں ہی منحوس۔" وہ منہ ہاتھوں میں چھپا کر روتے ہوئے باسم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر زمین پر بیٹھ گئی تھی۔

باسم نے تیزی سے اس کے جڑے ہاتھ کھولے اور اسے شانوں سے تھام کر کھڑا کرتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا۔

"کچھ بھی تمہاری وجہ سے نہیں ہوا، میں کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ وہ لوگ ڈیڈ کے دشمن تھے۔پلیز تم کبھی مت سوچنا کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔" وہ دھیرے سے اسے خود سے جدا کرتے ہوئے گویا ہوا۔

وہ چاروں جتنے مضبوط تھے مگر اتنے ہی اندر سے ٹوٹے ہوئے تھے۔

ان چاروں نے ہی اپنا سب کچھ کھو دیا تھا اور اب جو تھا ان کے پاس وہ ایک دوسرے کا ساتھ اور محبت تھی جو ان کے جینے کی وجہ تھی۔

"چلو.....اندر چلو۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر پلٹا تھا۔

"باسم! وہ آیا ہوا ہے۔کیا مجھے اس سے ملنا چاہیے؟" اس کی بات پر باسم کے قدم زمین نے جکڑے تھے اور اس کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی، نور نے اس کے ہاتھ کو دیکھا جو اب پہلوؤں میں جا گرا تھا۔

"ہاں تمہیں ملنا چاہیے۔" وہ اپنے جذبات کو سنبھالتے ہوئے اس کی جانب پلٹا۔

نور براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

"تو تمہاری بےچینی کی وجہ یہ تھی نور کہ وہ لوٹ آیا ہے۔" باسم اس کے چہرے پر کچھ تلاشتے ہوئے سوچ رہا تھا۔

"ہوں۔اوکے گڈ نائٹ۔" وہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر تہہ خانے میں چلی گئی تھی۔

باسم انگاروں کی بھٹی میں ساری رات جلتا رہا اور پورے گھر میں چکراتا رہا تھا۔

"وہ آج بھی اسے چاہتی ہے، اور میں پاگل کیا کیا سمجھ بیٹھا تھا.....میں تو محض اس کا اچھا دوست ہوں اور تو کچھ نہیں۔" جیسا طوفانی موسم تھا اس سے زیادہ طوفان اس کی سوچوں میں تھا۔

*****

"غازیہ! تم اسے ساتھ کیوں لائی ہو؟" ساتف کی بہن نے اس پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے غازیہ سے استفسار کیا۔

آواز بہت آہستہ رکھی گئی تھی مگر وہ سن چکی تھی۔

"تمہارے بھائی کی شادی دیکھنے آئی ہوں کارڈ بھیجا تھا نا ہمیں۔ یاد نہیں ہے کیا؟" مادفہ بھنویں آچکاتے ہوئے اس سے بھی زیادہ ناگواری کا اظہار کر رہی تھی۔

نیلم نے بہت غور سے اس کے سراپے کو دیکھا تھا۔

یہ وہ مادفہ نہیں تھی جسے وہ منگنی والے دن دیکھ کر آئی تھی۔یہ تو کوئی ماڈرن لڑکی تھی اور وہ سادہ اور خود سے ہی بےزار سی لگی تھی۔

جینز پہ گھٹنوں سے تھوڑی اوپر جاتی سکائے کرتی اور لمبے بال جنہیں سٹریٹ کر کے مزید لمبا کر دیا گیا تھا آبشاروں کی مانند کمر پہ بکھرے ہوئے تھے دائیں جانب مانگ نکال کر چھوٹی سی چٹیا کی گئی تھی۔سفید چہرہ اور نزاکت سے کیا گیا میک اپ۔وہ بلکل ویسی ہی تھی جیسی کوئی ہیروئن ہو سکتی ہے۔

"اس چہرے پر مت جانا.... پہلے بھی تم لوگ اس پر جا چکے ہو۔" وہ اس کو اپنا سراپا دیکھتے پا کر استہزائیہ انداز میں مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔

"تجھ جیسی لڑکی سے اسی بات کی امید تھی۔یوں میک_اوؤر کے بعد تم یہ ثابت کرنا چاہتی ہو کہ تم جیسی خوبصورت کوئی اور لڑکی نہیں ہے۔ مگر یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ایک بات کان کھول کر سن لو...."

وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی۔

"میری بھابھی چاند جیسی ہے۔ اس کی آنکھیں ہیرانی جیسی ہیں اور ناک تو یہاں ہے اس میں جب ناک میں لونگ چمکتا ہے تو چار سو چاندی بکھرتی ہے، ہونٹ تازہ گلاب کے پھول جیسے۔اور ہاں یہ سب اس کے پاس قدرتی ہے تمہاری طرح فیشیل وغیرہ کروا کے نہیں گوری ہوئی۔" وہ اسے بتا رہی تھی کہ وہ خوبصورت نہیں ہے مگر مادفہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے چہرے پہ آئے ریشمی بالوں کو پیچھے جھٹکا۔

"یعنی وہ....تمہاری جو بھابھی ہے انسان کہیں سے بھی نہیں ہے۔بلی یا پھر ہرنی ہے۔"وہ نیلم کی جلتی پہ مزید تیل ڈال کر آگ لگا رہی تھی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بھابھی کے متعلق ایسا کچھ کہنے کی؟بلی تم ہو گی بلکہ ہو......اپنی شکل نہیں دیکھی کبھی تم نے بھوکی عوام.....؟" وہ دانتوں پہ دانت جمائے اس کی جانب بڑھی تھی مادفہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہوئی کہ اس آوارہ منہ پھٹ لڑکی کا کوئی بھروسہ نہ تھا کہ وہ اس پہ ہاتھ اٹھا لیتی۔

ابھی دو قدم پیچھے ہوئی ہی تھی کہ اپنے دھیان میں فون پہ نظریں جمائے ان کی جانب آتے ساتف کے سینے سے ٹکرائی اس سے پہلے کہ وہ گھبرا کر دائیں جانب گرتی ساتف نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔

وہ جیسے ہی پلٹی تو اس کے لمبے سلکی بال ساتف کے بائیں ہاتھ پہ گرے تھے۔

پل بھر کو تو وہ مجسمہ بنا اسے دیکھتا رہا پھر ہوش میں آتے ہی اس کا ہاتھ چھوڑا اور نظریں جھکا گیا۔

آج وہ ایک ماڈرن لڑکی کا کردار ادا کر رہی تھی، مگر اسے ایک ٹھیک ٹھاک دوپٹے کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی۔

حالانکہ یہاں کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔اور اس نے جتنی بھی لڑکیوں کو دیکھا تھا سب ہی ماڈرن تھیں یہ سوچ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"اگر زبیر کو معلوم ہو گیا کہ میں اس وقت کہاں ہوں تو؟" اس کے دل میں بار بار یہ خوف بڑھ رہا تھا۔

"بھائی! میری بات سنیں....یہ لڑکی ہمارے ساتھ....."

نیلم نے اس پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے ساتف کا ہاتھ تھاما تھا۔

"فلحال گھر چلو۔ یہاں تماشا مت لگاؤ۔"

وہ اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے غازیہ اور اس کا بیگ تھامے گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

اس نے فاتحانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے نیلم کے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھا تھا اور ساتف کے پیچھے چل دی۔

"تم نے اچھا نہیں کیا غازی! مجھے معلوم ہے یہ پلان تمہارا ہی ہے۔" وہ اس کی جانب گھومتے ہوئے بولی تو غازی انجان بننے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔

"میں نے کیا کیا؟ " اس نے ایک نظر مادفہ پہ ڈالی جو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی گاڑی کے پاس جا رکی تھی۔

ساتف نے سامان ڈگی میں رکھا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے اس کے سامنے جا رکا۔

مادفہ جو فون پہ انگلیاں چلا رہی تھی اسے مکمل نظر انداز کئے ہوئے تھی اور جب اس نے سر اٹھا کر ساتف کی جانب دیکھا تو چہرے پہ بہت بگانی سی مسکراہٹ سجا لی۔

"کیسی ہو؟"

وہ ہاتھ بڑھا کر فرنٹ دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔

"اللّٰہ کا شکر ہے۔میری جگہ یہاں کبھی نہیں تھی اور نہ کبھی ہو گی۔"

جھک کر جب اس نے دروازہ بند کیا تو ایک بار پھر سے اس کے لمبے بال ساتف کے چہرے کو چھو گئے تھے۔

اتنی قربت کی خواہش رکھی تھی اس نے مگر قسمت نے اس سے سب کچھ چھین لیا تھا، پل بھر کو تو وہ بھول گیا کہ وہ کھڑا کہاں ہے ؟

کس کے سحر میں مبتلا ہو رہا ہے؟

مادفہ نے اس پہ تیکھی نگاہ ڈالی اور پیچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے بیٹھ گئی۔

جب اس نے پوری قوت سے دروازہ بند کیا تو ساتف بری طرح چونکا۔

وہ ندامت سے لب کچلتا سر جھکائے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

"مجھے لگتا تھا کہ یہ وکٹیں گرانا مشکل ہیں مگر یہاں تو معاملہ آسان لگ رہا۔مرد بھی نا بہت گھٹیا شے کا نام ہے،ایک تھوڑا سا میک اپ، فینسی کپڑے بس پھر......یہ دل پھینک مرد پھسلے۔اف..... بلیڈی فول۔" اس کے دل میں اس مرتبہ بہت شدید نفرت پیدا ہوئی تھی ساتف جیسے مردوں کے لیے۔

اسے اس مرتبہ یہ ضرور لگا تھا کہ اب وہ کسی پہ بھی بھروسہ نہیں کرے گی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ زندگی بھر شادی نہیں کرے گی۔کسی مرد کے دھوکے میں نہیں آئے گی۔

جیسے جیسے راستہ کٹ رہا تھا اس کے چہرے پہ چھائی نقاہت اور نفرت مزید بڑھ رہی تھی۔

گاڑی ایک کشیدہ گلی والے محلے کے دو منزلہ عمارت کے سامنے رکی تھی۔

سفید اور گرے پینٹ کی گئی عمارت سنہری، اور سبز لائٹوں میں چھپی ہوئی تھی۔

بےتاثر چہرہ لیے وہ گاڑی سے اتری۔

رات کے اندھیرے میں بھی گلی اور وہ ایک گھر منفرد لگ رہا تھا۔

"چلیں؟"

بےدھیانی میں وہ گھر کو گھور رہی تھی جب ساتف نے اسے چونکایا۔

وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی، کہ ساتف کی آواز بھی نہیں سننا چاہتی تھی۔مگر وہ چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ لیے اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

نظر اس کے چمکتے لمبے گھنے آبشاروں جیسے بالوں پہ ہی تھیں۔

وہ اندر جا کر سب کو خوش دلی اور تہذیب سے ملی تھی۔

"مجھے لگا تھا تم نہیں آؤ گی۔"

ساتف کی والدہ نے اس کے ساتھ صوفے پہ نشست سنبھالتے ہوئے قدرِ طنزیہ انداز میں کہا۔

"ایسے کیسے نہ آتی آنٹی! آپ نے اتنی محبت سے کارڈ بھیجا تھا۔ماما پاپا نے بھی آنا تھا مگر ان کے اچانک کام نکل آیا تو ماما نے کہا میں چلی جاؤں......"وہ مسکرا کر گویا ہوئی تبھی اس کے فون پہ رنگ ہوئی۔

شانے پہ لٹکے اسٹائلش بیگ کی زیپ کھول کر فون نکالا اور نمبر دیکھتے ہی اس نے بےاختیار سے سر اٹھا کر سامنے ستون سے ٹیک لگائے کھڑے ساتف کی جانب دیکھا۔

اس کی آنکھوں میں عجیب سا جنون تھا۔

وہ گھبرا کر لب بھینچ کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔

"ایکسکیوز می آنٹی! ماما کی کال ہے۔"

وہ مسکرا کر کہتی اٹھی اور کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگاتی دائیں جانب بڑھ گئی۔

"کیا مسئلہ ہے؟"

"اوپر آ کر میری بات سنو۔"اس کے بھڑکنے پہ وہ شیریں لہجے میں گویا ہوا تھا۔

"مگر...."

اس کے بولنے سے پہلے وہ کال کاٹ گیا۔

"کیا مصیبت ہے یار میں یہاں آئی کیوں، اگر اس کمینے آوارہ نے بدتمیزی کی تو......؟" وہ تلملا کر رہ گئی تھی دل میں خوف سا بھر گیا۔

پیر پٹختی وہ پھر سے مسز ہمدانی کے ساتھ جا بیٹھی۔

ٹیرس پہ کھڑے ساتف نے پھر سے اسے کال کی۔

پھر میسج، پھر کال۔

وہاں بیٹھے ہر انسان کی نظریں اس کے ہاتھ میں پکڑے فون کی جانب تھیں۔

"کون ہے بیٹا! اٹھا لو فون۔"

ساتف کی خالہ نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"نہیں ایسی کوئی خاص کال نہیں ہے۔رانگ نمبر ہے۔"

دانتوں پہ دانت جمائے اس نے فون کو پاؤر آف کر کے بیگ میں ڈال دیا۔

ساتف ہاتھ مل کر رہ گیا۔

"کب تک بچ سکو گی۔تمہیں نہیں معلوم اب تم میری دسترس سے باہر نکل نہیں سکتی۔"

وہ پہلے تو غصے میں لال پیلا ہوا اور پھر کچھ سوچ کر مسکرا کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

مادفہ نے گردن گھما کر اسے جاتے ہوئے دیکھا اور سکون کا سانس لیا۔

*********

سروش نہ چاہتے ہوئے بھی آج کل محض حدثان کے متعلق سوچ رہی تھی۔

لاکھ مرتبہ خود کو ٹوک چکی تھی مگر ہر جانب سے سوچ بھٹک کر اس شخص پہ جا رکتی۔

اس کی پیاری سی مسکراہٹ میں وہ کھونے لگتی۔

کبھی اچھی یادوں سے اس کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو جاتی تو کبھی تلخ یادیں آنکھوں کا کاجل اپنے ساتھ بہا لے جاتیں۔

اسے یہ فلینگز اچھی لگ رہی تھیں۔

کبھی اس کا جی چاہتا کہ وہ اس سے اتنی نفرت کرے کہ وہ خود سے نفرت کرنے لگ جائے تو کبھی وہ سوچتی کہ وہ اس سے اتنی محبت کرے کہ دنیا کی بناوٹی محبتوں کی پٹی اس کی آنکھوں پر سے کھل جائے اور اس کی سچی محبت پر اسے یقین آ جائے،کبھی سوچتی کہ وہ اس کی بہت اچھی دوست ہے اسے ہر بری نیت والوں سے بچا سکتی ہے۔

"یہ تم کیا سوچ رہی ہو سروش! وہ شخص تمہارا کبھی نہ تھا اور نہ کبھی ہو گا۔ کیوں خود کو تکلیف دینے کے ساتھ ساتھ اس کی سو کول....ازدواجی زندگی میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کر رہی ہو۔وہ خوش ہے اپنی بیوی کے ساتھ۔"

دماغ نے سخت لہجے میں اسے ٹوکا تھا۔

"مگر وہ جھوٹ پہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی بیوی اسے دھوکہ دے رہی ہے.....وہ دھوکے باز لڑکی ہے۔" دل نے وضاحت پیش کی۔

"تو اس سے تمہیں کیا۔ اس نے جو تمہاری یہ حالت کی اس کے بعد بھی تم سوچتی ہو اس کے ساتھ غلط ہو رہا ہے؟ نہیں.....یہ اس کی سزا ہے سروش! کہ جس طرح کا وہ خود ہے ویسے ہی اس کو ہمسفر ملی۔"

دماغ نے درست کہا تھا اور دل اپنا سا منہ لیے خاموش ہو گیا۔

اس نے سر جھٹک کر سونے کی کوشش کی تھی مگر جس طرح طوفان یہاں دل میں تھا ویسا ہی طوفان اور برسات باہر برس رہی تھی۔

بار بار کھلی کھڑکی کے پردے ہلتے اور بجلی کی چمک اور بادل گرجنے کی آواز اس کی سماعتوں میں گونجنے لگتی۔

وہ کوئی ڈرپوک یا دبو نہیں تھی کہ ان بادلوں سے گھبرا کر چینخیں مارتی۔

کیونکہ حالات نے اسے بہت زیادہ مضبوط بنا دیا تھا۔

ہاں مگر اسے خوف سا محسوس ہو رہا تھا اس طوفانی بارشوں سے۔

تبھی نظریں کھڑکی پہ ٹکائے وہ اٹھ کر وہاں تک گئی پردے درست کر کے کھڑکی بند کرنے ہی والی تھی کہ اس کی نظر گلی میں اپنے کمرے کی دیوار کے ساتھ کھڑی گاڑی پہ پڑی تو وہ چونکی۔

"رات کے اس پہر کون یہاں کھڑا ہے؟"

گردن گھما کر گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے اس نے پھر سے پردے پیچھے ہٹا کر گلی میں جھانکا تھا۔

بجلی چمکی تو وہ شخص اسے واضح نظر آنے لگا۔

سینے پہ ہاتھ باندھے جیپ سے ٹیک لگائے۔

سفید ٹی شرٹ اور گرے جینز زیب تن کیے وہ دکھ و درد کا مجسمہ بارش میں مکمل طور پہ بھیگ چکا تھا۔

کالے بال پیشانی پہ بکھرے تھے جن میں سےبارش کی بوندیں ٹپک رہی تھیں، اور اس کی اداس نظریں اسی کی آرام گاہ کی جانب لگی ہوئی تھیں۔

سروش نے لب کچلتے ہوئے تیزی سے کھڑکی بند کر دی تھی اور اسی سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گئی۔اسے امید نہیں تھی کہ وہ یوں آئے گا۔

مگر وہ سراپا سوال بنا کھڑا تھا۔

جس لمحے سے اسے خوف محسوس ہوتا تھا وہ اتنی جلدی آ جائے گا اسے معلوم نہیں تھا۔

"وہ مجھ سے سوال کرے گا اور میرے پاس جواب نہیں ہیں۔"

آگے بڑھتے ہوئے ،کانپتے ہاتھ کو بڑھا کر پانی کا جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے وہ بڑبڑائی تھی۔

اس کے ہاتھ کی لرزش واضح تھی۔

********

"مادفہ! میں نیلم لوگوں کے پاس جا رہی ہوں، تم چلو گی؟"

وہ جو کھڑکی سے سر ٹکائے دور آسمان کو دیکھتی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے نجانے کہاں کھوئی ہوئی تھی اس کے پکارنے پہ چونک کر پلٹی۔

"نہیں میں آرام کروں گی تم جاؤ۔"

اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو غازی سر ہلا کر چلی گئی۔

اس کی سوچ بس یہاں تک جا رہی تھی کہ اس نے یہ کیا کر دیا؟

اسے یہاں آنے کی ضرورت کیا تھی؟

خود پہ کوفت بھری نگاہ ڈال کر وہ سوچتی ہوئی بالکنی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔

تپتی دھوپ جیسے بدن پہ چند بوندیں گریں تو سکون سا ملنے لگا۔

ایک جانب رکھی گئی کین کی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے اس نے سر کرسی کی پشت پہ گرایا اور آنکھیں موند گئی۔

"اگر زبیر کو معلوم ہو گیا کہ میں یہاں آئی ہوں تو....." وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔

"یا اللّٰہ اسے معلوم نہ ہو......وگرنہ بہت خفا ہو جائیں گے۔"وہ بےچینی سے پہلوؤں بدل گئی۔

"بارش میں تنہا بھیگنے کا مزہ نہیں آتا۔"

ساتف جو سامنے والے گھر......جہاں اس کا دوست آباد تھا ادھر گیا ہوا تھا جب وہ اپنے دوست کی بالکنی میں آیا تو مادفہ کو آنکھیں موندے آسمان کی جانب منہ کیے دیکھا چند پل وہ یک ٹک اس کو بےتاب نگاہوں میں محبت بھرے دیکھتا رہا اور پھر مسکرا کر بھاگتے ہوئے گھر پہنچا اور سیدھا بالکنی پہ بریک لگائی۔

مادفہ نے ڈرتے ہوئے اسے گھورا اور کرنٹ کھا کر کھڑی ہوئی۔

اس سے پہلے کہ وہ واپس پلٹتی ساتف نے اسے تھام کر پیچھے لے جاتے ہوئے دیور سے چپکا دیا تھا۔

دونوں ہاتھوں کو دائیں بائیں رکھ کر گویا اسے قید کر لیا گیا۔

مادفہ کا دل خوف سے لرز اٹھا تھا۔

اسے ساتف سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنے کمزور کردار کا حامل ہو گا اتنی جلدی اس کی جانب متوجہ بھی ہو جائے گا۔

"ایک بات کہوں اگر تم اپنی سادگی کے ساتھ بھی آتی تو یقین مانو میں تمہیں دیکھتا رہ جاتا۔

محبت ہے تم سے.....بہت زیادہ محبت.....یہ بات نہ میں خود سمجھ سکا نہ تمہیں سمجھا سکا۔" وہ اس سے دو انچ کے فاصلے پر تھا۔

مادفہ نے دانتوں پہ دانت جمائے پیشانی پہ غصے کی لکیریں لیے اسے گھورا۔

دل ہی دل میں وہ شرمندہ بھی ہوئی تھی کہ غازیہ کی باتوں میں آ کر نہ یہاں آتی.....

"مجھے جانے دو ساتف! تم جیسا شخص محبت نہیں کر سکتا۔تم کبھی سریس نہیں ہو سکتے۔پرسوں تمہاری بارات ہے اور تم ہو کہ......"

"شششش.....تم جانتی ہو کہ میں نے صرف تم سے محبت کی ہے۔"

اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر وہ اسے بولنے سے بھی روک چکا تھا مادفہ کا رنگ خوف سے سفید پڑنے لگا۔

وہ جو گیم کھیل رہی تھی اس پہ الٹی پڑ رہی تھی۔

"بکواس بند کرو ساتف! میں صرف تم سے نفرت کرتی ہوں نفرت۔بےپناہ نفرت......تم سے کیا ہر مرد سے نفرت ہے۔"

وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے دبی دبی آواز میں چلائی تھی اور پوری قوت سے اسے پیچھے دھکیل کر کمرے کی جانب بھاگ گئی۔

وہ مادفہ کی نگاہوں سے کیا دل سے بھی گر چکا تھا۔

کرب سے آنکھیں میچ کر مکا دیوار پہ برساتے ہوئے وہ اپنی بےبسی پہ رو دیا تھا۔

"کیسے یقین دلاؤں تمہیں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔"

اور وہ جانتا تھا اب مادفہ یقین نہیں کرے گی اور وہ یقین دلوا بھی نہیں سکتا تھا۔

کچھ دیر وہاں رکے رہنے کے بعد وہ تیزی سے دروازے کی جانب بڑھا تھا۔

جیسے ہی دھکیلا دروازہ کھلتا چلا گیا۔

وہ کمرے میں نہیں تھی۔بیڈ پہ اس کا بیگ پڑا تھا۔

ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر وہ اس کے بیگ کی جانب بڑھا۔

تلاشی لینے کے بعد اسے مطلوبہ شے مل گئی۔

چھوٹی سی ڈائری کو ہاتھ میں پکڑ کر بائیں ہاتھ سے آنسوؤں کو رگڑ کے اپنی جیب سے پین نکالا اور جو وہ اسے کہنا چاہتا تھا سب کچھ اس پہ تحریر کر کے وہاں سے چلا گیا۔

نیچے ہال میں خواتین محفل جمائے ہوئے تھیں۔

کیونکہ آج نیلم کی مہندی تھی جو تقریباً سادگی میں ہی کی جا رہی تھی۔

وہ بھی ان سب کے درمیان زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے بیٹھی تالی پیٹ رہی تھی۔

وہ وہاں سے گزرا تو اسکی خالہ نے اسے بھی کھینچ کر بیٹھا لیا۔

کچھ ہی دیر میں اس کے سارے کزنز وہاں جمع ہو گئے تھے۔

ایک جانب لڑکیاں تھیں اور دوسری جانب لڑکے۔ شعرو شاعری کی محفل جم گئی۔

ہنسی مذاق کا میدان سج چکا تھا کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب ساتف کی سرخی مائل نگاہوں کی تپش مزید برداشت نہ ہوئی تو وہ اٹھ کر سینے پہ ہاتھ لپیٹے سر جھکائے مڑ گئی۔

"اب تمہاری باری ساتف.....!"

ایک کزن نے اس کے شانے پہ تھپکی دے کر کہا تو اس کی نگاہیں سیڑھیاں چڑھتی مادفہ سے واپس پلٹیں۔


"ترک کر دیا ہے یہ عشق کا قصہ

اب جو ہو گا افسانہ، وہ ہماری موت کا ہی ہو گا!"


مادفہ کے قدم تھم گئے تھے وہ اس کی پشت پہ نگاہیں ٹکائے زخمی لہجے میں گنگنا رہا تھا۔

سب نے واہ واہ کی تو وہ بنا پلٹے آگے بڑھ گئی۔

"ایکسکیوز می گائز.....میں سونے جا رہا ہوں۔"

وہ اس قدر خود کو کمزور محسوس کرے گا یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

اسے لگتا تھا کہ بس کچھ دن کی محبت تھی جو فرض پہ قربان کر دی آنے والی سے پھر سے ہو جائے گی۔

مگر محبت پلاننگ قبول نہیں کرتی اور اس کی پلاننگ بھی محبت کی عدالت میں رد ہو چکی تھی۔

اور وہ یہ بھی جان چکا تھا وہ اپنے آپ کو کتنا گرا چکا ہے۔

اپنی محبت سے ہاتھ کھینچ کر اس نے خود کو اذیتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں مبتلا کر لیا ہے۔

وہ چاہ کر بھی اس سلسلے کو ختم نہیں کر سکتا تھا۔

********

دیکھ کر چلا کر' کہ یہ غرور اچھا نہیں

اے عشق! کمزور بھی ہوتے ہیں کچھ لوگ


کچھ دیر بعد اس نے جب پھر سے کھڑکی کھولی تو وہ وہاں ہی کھڑا تھا۔

وہ سر تھام کر رہ گئی۔

"اگر بھائیوں نے اس کو دیکھ لیا تو یہ تو گیا پھر۔"

وہ خوف زدہ سی بیڈ کی جانب بڑھی اور فون اٹھا کر اس کا نمبر ڈائل کرنے لگی مگر اس سے پہلے ہی اس کی کال آ گئی۔

"تم یہاں کیوں آئے ہو؟ جاؤ یہاں سے۔تم جانتے ہو اگر تمہیں کسی نے دیکھ لیا......"

وہ کال اٹینڈ کرتے ہی بھڑکنے لگی مگر سامنے والے نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے جو استفسار کیا وہ اسے خاموش کرواتے ہوئے ایک کپکپی اس پہ چھوڑ گیا۔

"وہ کہاں ہے؟" بس تین لفظ ہی تھے جو اس کے لیے لاجواب تھے۔

"مجھے نہیں معلوم۔ ت تم چلے جاؤ۔"

"باہر آؤ۔"

"تم پاگل ہو چکے ہو ثمروز! شادی شدہ ہو بچوں کے باپ ہو اور اپنی حرکتیں چیک کرو۔"وہ بھڑک اٹھی تھی۔

دوسری جانب اس نے زور سے مکا سٹیرنگ پہ برسایا تھا۔

"میں نے کہا ہے سروش! ابھی اسی وقت باہر آؤ۔

آج میں جواب لیے بغیر نہیں جاؤں گا تمہیں نہیں معلوم کہ میں ہر وقت مر رہا ہوں مجھے کسی کی بات پر یقین نہیں بس تم پر ہے ۔پلیز....."وہ ضد پہ اتر آیا تھا۔

" اب آپ کہہ رہے ہیں آپ کو کسی پر یقین نہیں تو پہلے کیوں تھا؟ جب سب کچھ تباہی کے دہانے پر تھا تب تو آپ نے سب پر یقین کیا تھا بنا کسی کی بھی نیت کو جانے۔میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے ثمروز! تم جا سکتے ہو۔آئندہ مجھ سے اس کے متعلق کچھ مت پوچھیے گا میں کچھ نہیں بتا سکتی۔"وہ تیز کاٹ دار لہجے میں کہتی فون بند کرنے ہی والی تھی کہ دوسری جانب ثمروز کا وحشت زدہ قہقہہ گونجا۔

"تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو۔کم از کم ایک مرتبہ تو مجھے اس کا دیدار کروا دو۔ مجھے دیکھنا ہے کہ وہ مجھے بھول کر کیسے زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ میں تو جہاں تھا وہاں ہی کھڑا ہوں۔پلیز سروش...! م مجھے اس کی یاد آ رہی ہے۔"

اس مرتبہ ہنسنے کی باری سروش کی تھی اور وہ جب ہنسی تو ہنستی چلی گئی۔

یہاں تک کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

"چوہدری ثمروز! اپنی زندگی میں تم آگے بڑھے ہو وہ نہیں۔شادی پہلے تم نے کی تھی اس نے نہیں۔چھوڑ کر تم بھاگے تھے وہ نہیں۔زندہ تم ہو وہ نہیں اور آئندہ مجھ سے اس معاملے کو لے کر سوال نہ کرنا.....وگرنہ میں تم سے نفرت کرنے سے اپنے دل کو روک نہیں سکوں گی۔" ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی۔

"جو گناہ تم نے کیا تھا اس کی معافی تمہیں اب مل نہیں سکتی۔اور اگر تم کو اعتراض نہ ہو تو یہاں سے چلے جاؤ۔"اس نے کہتے ہی کھٹاک سے فون بند کیا اور بیڈ پہ اچھال کر سینے پہ ہاتھ لیپٹ لیے۔

کوئی بچھڑا اپنا یاد آیا تھا۔

ان دونوں کی آنکھوں سے برسات برس رہی تھی ان دیکھی بارش کے قطرے ثمروز کے دل کو جلا رہے تھے۔

تو یہ بارش ان دونوں کے لیے درد بھری یادوں کا تازہ کر گئی تھی۔

کچھ دیر وہ سٹیرنگ پہ پیشانی ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھا رہا پھر گاڑی بھگا لے گیا۔

سچ ہی کہتے ہیں برسات بچھڑے لوگوں کی یادیں تازہ کر دیتی ہے۔ثمروز کے ساتھ بھی وہ ہی ہوا تھا اور اس نے سروش کو بھی گزرا کل یاد دلوا دیا تھا۔

وہ بھولی نہیں تھی مگر دل کے ایک کونے میں دفن کر چکی تھی۔آج ثمروز کے ہونٹوں سے وہ نام جو دنیا بھول گئی تھی سن کر اس کے دل میں سانپ ڈنگ مارنے لگے تھے۔

درد مزید بڑھا تھا۔

نڈھال وجود کو سنبھال کر وہ بیڈ پہ گر گئی تھی۔

وہ جب اگلے دن یونیورسٹی پہنچی تو کوریڈور میں سب سے پہلا ٹکراؤ ہی ثمروز سے ہوا تھا۔

ایسا ٹکراؤ کہ اس کا سر گھوم گیا وہ فون پہ نگاہیں جمائے ہوئے تھا تو وہ سر جھکائے کسی اور ہی دنیا میں گم چلی جا رہی تھی اور اچانک ہی دونوں کا ٹکراؤ بری طرح سے ہوا۔

"ایم سوری.....آپ ٹھیک ہیں؟"

وہ جھک کر اس کی کتاب اٹھاتے ہوئے سیدھا ہوا۔

سروش نے بس ایک نظر ہی اس کے چہرے پر ڈالی تھی۔ثمروز کی سرخی مائل آنکھوں میں مکمل خاموشی تھی، چہرہ بےتاثر تھا۔

"ثمروز...! رکو کچھ بات کرنی ہے تم سے۔"

وہ جب اس کو کتابیں تھما کر ایک خاموش نظر اس پہ ڈال کر مخالف سمت بڑھا تو وہ کچھ یاد آتے ہی اس کے پیچھے بڑھی۔

"کیا بات کرنی ہے؟"

"یہاں نہیں چلو پیچھلے گراؤنڈ چلتے ہیں۔"

اس نے کہا تو ثمروز نے سر اثبات میں ہلا کر چلنے کا اشارہ کیا۔

"بولو؟"اجنبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے رخ پھیر کر ایک شانا سفیدے کے درخت سے ٹکائے سینے پہ ہاتھ باندھے اور بےوجہ ہی ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

"رات کو جو میں نے بدتمیزی کی اس کے لیے ایم سوری۔"

"مجھے تم سے عزت ملی بھی کب تھی۔"وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے گویا ہوا۔

"میں سچ میں شرمندہ ہوں۔مگر ثمروز......! ذرا سوچو تمہارے دو بچے ہیں۔تم بلکل بھی اچھا نہیں کر رہے۔

بھابھی کو دھوکہ دے رہے ہو تم ثمروز! بھول جاؤ اسے وہ تمہارا پاسٹ تھی اور بھابھی حال ہے۔"وہ اسے سمجھا رہی تھی۔

"تو کیا مجھے اس کے متعلق جاننے کا حق نہیں ہے؟

تم تو گواہ ہو نا ہماری سچی کھری محبت کی۔میں بھاگا نہیں تھا یہ بھی تم جانتی ہو۔"وہ تڑپ کر بولا تھا۔

"تمہیں تکلیف ہو گی سب جان کر۔ تمہاری ایک غلطی نے بہت کچھ بدل دیا ہے ثمروز! کاش تم وہ ایک غلطی نہ کرتے۔

کاش تم وہ الزام اس پہ نہ لگنے دیتے تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی۔آج میں یہ نہ ہوتی میں وہاں ہوتی جہاں آج جازیہ ہے۔مگر تم بزدل تھے ثمروز! سب ختم کر دیا تم نے۔"وہ یکدم سے پھوٹ پڑی تھی۔

"کیوں تم نے اتنی زندگیاں برباد کر ڈالیں؟ کیوں؟" اس کا گریبان تھامے وہ پھر سے پاگل ہو رہی تھی۔

یونیورسٹی کا یہ حصہ سنسنان تھا۔ اس پاگل کو صرف ثمروز دیکھ رہا تھا۔

"میں بزدل نہیں تھا سروش....! میں نے سب سچ بتایا تھا، بات کی تھی شادی کی حدثان کے والدین سے،مگر ان کی نیت میں کھوٹ تھا میں یہ نہیں جان سکا۔تم نے صرف حدثان کو کھویا ہے جو کہ تمہارا بہترین دوست تھا مگر میں نے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ تم کو اپنی اچھی دوست کو بھی کھویا ہے.....سب کچھ کھو دیا میں نے....."وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامے کر اپنے گریبان کو چھڑواتا درد سے چور چور لہجے میں گویا ہوا تھا۔

پھر جب اس نے ساری حقیقت اسے بتانا شروع کی تو وہ لب بھینچے اسے سنتی گئی۔

"میں نے واپس آ کر اسے اور تم سب کو بہت ڈھونڈا تھا.....حویلی میں اور گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے۔کوئی کہتا وہ مر چکی ہے، بھاگ گئی ہے۔پھر بھی نے ڈھونڈا مگر وہ ملی نہیں۔"

"کیا؟"اسے گہرا صدمہ پہنچا تھا اور وہ سر تھامے وہاں ہی بیٹھتی چلی گئی۔

ثمروز بولتا جا رہا تھا.....وہ کیوں گیا....کیا ہوا ہر ایک سچ سے سارے پردے اٹھا رہا تھا۔

"ایم سوری ثمروز! مگر تمہیں سب نے گمراہ کیا.....اس کی شادی نہیں ہوئی۔"جب وہ سب کچھ بتا کر خاموش ہوا تو چند پل کے بعد وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔

ماں باپ کو کھونے کا درد وہ اپنے وجود اور روح پہ جھیل چکی تھی۔

"مگر بتاؤ وہ کہاں ہے؟"وہ گہری سانس بھرنے کے درمیان بولا۔

پھر سے خاموشی آ ٹھہری تھی۔

"وہ مر چکی ہے، اس نے گاؤں والوں کی باتوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔" اور اس نے جب یہ بتایا تو ثمروز کی سانسیں حلق میں اٹک گئیں، دل کی دھڑکن بےحد مدھم ہو گئی۔

وہ مزید بولنے ہی والی تھی کہ تبھی سروش کا فون بج اٹھا۔

ایک نظر اس پہ ڈال کر زمین پہ پڑے بیگ میں سے فون نکالا اور آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اپنی عادت کے مطابق بنا دیکھے ہی کال اٹینڈ کر لی۔

"اگر اپنے چوہدری حدثان کی سلامتی چاہتی ہو تو اس پتے پہ آ جاؤ....."

اس کے بولنے سے پہلے ہی کسی مرد کی بھاری آواز اس کی سماعتوں میں گونجی تھی۔

"ہیلو....ک کون بات کر رہا ہے؟ ہیلو کیا ہوا حدثان کو....."

"اور ہاں کسی کو بتانے کی کوشش بھی کی تو یہاں یہ مر جائے گا۔"

وہ کرنٹ کھا کر اٹھی تھی۔

"کون بات کر رہا ہے ہیلو...... ح حدثان کہاں ہے؟"

کانپتی آواز کے ساتھ اس نے پوچھتے ہوئے پلٹ کر ثمروز کو دیکھا جو سیدھا ہو کر کھڑا اسے تشویش بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔

وہ ہیلو ہیلو کرتی رہی مگر دوسری جانب سے رابطہ کاٹ دیا گیا تھا۔

"مجھے جانا ہو گا ثمروز!"وہ خوف سے سفید پڑ رہی تھی بنا کچھ بھی سوچے سمجھے وہ وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

مگر جاتے جاتے لوکیشن ثمروز کو بتا گئی۔

"کیا ہو گیا ہے اسے اچانک سے؟ اور حدثان نے کیا کیا اب؟"وہ ایک ہاتھ کمر پہ ٹکائے دوسرے سے پیشانی مسلتے ہوئے دائیں بائیں دیکھتا خود بھی اس کے پیچھے تیزی سے بڑھ گیا۔

*****

"کیا کر رہے ہو توحید! جلدی ہاتھ چلاؤ مجھے جج تک یہ ثبوت آج ہی پہنچانے ہیں۔" کافی کا مگ اس کے قریب میز پر رکھتے ہوئے نور نے اس کے شانے پر تھپکی دے کر ایک نظر اس کے لیپ ٹاپ کی سکرین پر ڈالی۔

"بس دو منٹ مزید باس، فائل ریڈی ہے بس۔" توحید نے ہنوز کی بورڈ پر انگلیاں نچاتے ہوئے کہا تھا۔

"منال! یہ تم کس کی لوکیشن دیکھ رہی ہو؟" اس کے پاس فروٹس کی پلیٹ رکھتے ہوئے استفسار کیا۔

وہ ان کو ناشتہ دینے کے ساتھ ساتھ کام بھی چیک کر رہی تھی۔

"چیک تو سعد کی کر رہی تھی مگر جازیہ حدثان کی جانب مڑ گئی، وہ یہاں ہے اس وقت۔" منال نے جو لوکیشن ٹریک کی تھی وہ کسی تعمیراتی عمارت میں تھی۔

"جازیہ صبح صبح یہاں کیا کر رہی ہے؟ ذرا چیک کرو سروش اور حدثان اس وقت کہاں ہیں؟ کیمرہ ہے وہاں آس پاس کوئی؟" نور نے تیزی سے کہتے ہوئے ہاتھ میز پر جماتے ہوئے ایل ای ڈی کو دیکھا تھا۔

"میں چیک کرتی ہوں۔" منال نے سیب کا ٹکڑا منہ میں دباتے ہوئے تیزی سے ہاتھ چلانے شروع کیے تھے۔

"کوئیکلی۔ اس روڈ پر جتنے بھی کیمرے ہیں سارے ہیک کر لو۔ حدثان اور سروش کی لوکیشن کے بارے میں جلدی اپڈیٹ کرو مجھے۔" وہ کہہ کر واپس پلٹ گئی۔

باسم کے لیے کافی اور توس پلیٹ میں سجائے وہ اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔

مگر وہ وہاں نہیں تھا اسے حیرانی ہوئی۔

پھر وہ باہر نکلی۔

"حدثان اور سروش یونیورسٹی میں ہیں۔ بیلڈنگ کے کیمرے ہیک کر رہی ہوں مگر وہ ابھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔" منال بےحد تیزی سے انگلیاں بھی چلا رہی تھیں ور ساتھ ساتھ اتنی ہی تیز رفتار سے بول بھی رہی تھی۔

نور سیڑھیاں چڑھتی ہوئی وہاں پہنچی جہاں وہ رات کو کھڑے تھے۔

اس کے اندازے کے مطابق باسم وہاں ہی پڑے وان سیٹر صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو رہا تھا۔

نور کے ہونٹوں پر پیاری سی مسکراہٹ بکھری۔

"باسم!" دھیرے سے اس کا شانا ہلاتے ہوئے وہ مدھم آواز میں بولی۔

"باسم!" اس پر جھکتے ہوئے وہ اس کے شانے پر پڑے پیپل کے سوکھے پتے کو اٹھاتے ہوئے سیدھی ہوئی۔

وہ کسمسا کر دھیرے سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھنے لگا۔

"گڈ مارننگ کیپٹن.....ہمارا جہاز گلگت بلتستان میں لینڈ کر چکا ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیا۔

"گڈ مارننگ میم۔" اس نے اس کی گہری مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ یہاں کیوں سوئے؟"

"بس ٹہلتے ٹہلتے تھک گیا تو بیٹھ گیا، بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی تو سو گیا۔" وہ کہتے ہوئے آگے بڑھا تو نور نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام کر روک لیا۔

وہ حیران کن نگاہوں سے اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے پلٹا وہ سر جھکائے سکھے پتوں کو دیکھ رہی تھی۔

"مجھے معلوم ہے کہ تم رات بھر میری بات کے متعلق سوچتے رہے ہو گے۔ مگر وہ بس ایک جذباتی مرحلہ تھا۔" وہ دھیمے اور پریشان کن لہجے میں گویا ہوئی۔

"تو کیا تم اس سے ملنا نہیں چاہو گی؟" اس نے جھجھکتے ہوئے استفسار کیا۔

"تم جانتے ہو نا نور کسی بھی انسان سے نہیں مل سکتی۔" وہ اس کے چہرے پر بہت کچھ تلاش چکی تھی اب دھیرے سے پلٹ کر اس تک آئی پھر بنا پلکیں جھپکائے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔

"کیا تم مجھ پر جادو کر رہی ہو؟" چند لمحوں بعد باسم نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔

"شششش.....میں کچھ معلوم کرنا چاہا رہی ہوں، تم دو منٹ شانت رہو میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میں یہ کر پاتی ہوں یا ابھی بھی ناکام ہوں۔" اس نے دونوں ہاتھوں کو باسم کے شانوں پہ رکھتے ہوئے انہیں سیدھا کیا اور پھر آنکھیں موند لیں۔

"کیا تم ریڈی ہو؟" اس کے پوچھنے پر باسم مسکرا دیا۔

"ایکسپیرمنٹ کے لیے بابا کو بھی میں ہی ملتا تھا اب تم بھی مجھ پر ہی کرو گی خیر چلو میں ریڈی ہوں مگر زیادہ میرے دماغ میں گھسنے کی کوشش مت کرنا۔" وہ خفگی سے گویا ہوا۔

وہ مسکراتے ہوئے گہری سانس بھر کے آنکھیں کھول کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔

"باسم بھائی! نور!" منال نے چلا کر پکارا تو نور کے وجود نے ایک جھٹکا کھایا۔

"کیا مصیبت ہے یار۔" تو تلملا کر پیر پٹختی آگے بڑھ گئی۔

"شکر ہے۔نہیں تو محترمہ جان جاتی کہ میں اس کے متعلق کیا سوچتا ہوں۔" وہ سوچتے ہوئے پرسکون سا سانس بھر کر اس کے پیچھے بڑھا۔

"یہ دیکھیں سروش اسی روڈ پر جا رہی ہے۔" منال نے تیزی سے بتایا۔

"جازیہ کیمروں میں دکھائی کیوں نہیں دے رہی؟ سارے کیمرے ہیک کیے ہیں نا؟" نور تیزی سے آگے بڑھی۔

"جی سب ہیک ہیں بس ٹاپ فلور پر کیمرے نہیں ہیں۔"

"وہ وہاں ہے؟"

"نہیں وہ یہاں ہے۔ مگر ابھی کیمرے کے سامنے نہیں آ رہی۔" منال نے کہا تھا۔

"اور کوئی اس کے علاؤہ....."نور لب بھینچھے سکرین کو بہت غور سے دیکھنے لگی۔

تبھی اس نے اور لوگوں کو دیکھا تھا، جازیہ بھی سامنے آ چکی تھی۔

"میرا سوٹ لے آؤ توحید!" اس نے تیزی سے کہتے ہوئے دراز میں سے گن نکالی۔

"میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا۔" باسم تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

وہ جب اپنے کمرے میں سے ریڈی ہو کر نکلی تو

****

سروش ریش ڈرائیونگ کرتی، کئی مرتبہ موت کے منہ سے بچتی وہاں پہنچی تھی۔

اس کا دماغ سن ہونے لگا تھا۔وجود بےجان.....

اسے جب معلوم ہوا تھا کہ حدثان وہ ہی ہے جو اس کا بچپن کا ساتھی تھا۔

وہ کوئی شرارت کرتے تو مل کر.....کسی کو تنگ کرنا ہوتا تو وہ دونوں ایک ساتھ ہوتے۔

کسی لڑکے سے سروش کی لڑائی ہوتی تو وہ اس لڑکے کو مار پیٹ کر سر پھوڑ آتا۔

جب کبھی اسکول میں اس کی کسی کے ساتھ لڑائی ہو جاتی تو سروش ہیٹلر بنی ہاتھ میں ڈنڈا اٹھائے پہنچ جاتی۔

ان دونوں کی دوستی بہت مشہور تھی۔

بچپن سے دس سال کی عمر تک ان دونوں کے درمیان کوئی تیسرا دوست تھا تو صرف ثمروز رہا تھا۔

مگر پھر اچانک ہی کچھ ایسا ہو کہ سب بگڑ گیا.....

"حدثان.....! حدثان...!"

رات برسنے والی برسات ابھی بھی موسم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔

وہ چلا چلا کر اس اونچی عمارت کو سر پہ اٹھائے ہوئے تھی۔

دو تین فلور کی سیڑھیاں چڑھ کر دائیں جانب پلٹتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

قدم یکدم رک گئے۔

اُڑتے بالوں کو ہاتھوں سے پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ پیشانی پہ حیرت کے بل لیے اس کو گھور رہی تھی۔

سامنے ہی وہ لکڑی کی کرسی پہ بیٹھی تھی۔

اس کے دائیں بائیں دو نوجوان لڑکے کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں ریوالور تھے۔

پلٹ کر دائیں بائیں دیکھا تو اسے وہاں بھی تین چار لڑکے نظر آئے۔وہ ساری صورتحال ایک سیکنڈ میں سمجھ چکی تھی کہ اس کے ساتھ گیم کھیلا گیا ہے۔

وہ اس لڑکی کی جانب پلٹی تھی جو اب سگریٹ سلگا رہی تھی۔

ایک تاسف بھری نگاہ اسکے مغربی لباس میں لپٹے نازک سے سراپے پہ ڈالتے ہوئے وہ بمشکل ہی پکار سکی تھی۔

"جازیہ...ت تم....."گرنے سے بچنے کی خاطر اس نے دیوار کا سہارا لیا تھا۔

اب آگے کیا ہونے والا تھا اسے کچھ علم نہیں تھا۔

اور جازیہ کا پلان بھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرنا کیا چاہتی ہے؟

سروش کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔


جاناں تیری یادوں میں

اور ہم نہ جلیں

ایسا ممکن تو نہیں

****

وہ حیران کن نگاہوں کو آئینے پہ جمائے ہوئے تھی۔

"یہ میں نے اپنا کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟"

وہ صوفے سے اٹھ کر تیزی سے سنگھار کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

گرے نفیس کام دار گھٹنوں سے اوپر جاتی اسٹائلش شرٹ کے نیچے سفید تنگ پاجامہ پہن رکھا تھا۔

لمبے بالوں کی ٹیل پونی کی ہوئی تھی اور میک اپ بھی بہت اچھا کیا گیا تھا۔

ہر چیز پرفیکٹ تھی ایک دم فلموں کی ہیروئن جیسی۔

مگر اسے ہیروئن نہیں بننا چاہیے تھا........اس نے آئینے میں ابھرے اپنے عکس پہ ہاتھ رکھتے ہوئے افسردہ سی آہ بھری دو قدم پیچھے ہٹی تھی جیسے یقین آ گیا تھا کہ وہ خود ہی ہے۔

دل میں مچلتی بدلے کی آگ کو اس نے اپنی عزت نفس سے زیادہ اہمیت دی تھی؟

یہ اس نے کیا کیا؟

"مادفہ! جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔"

"غازی! تم نے یہ کیا کیا......مجھے ایسا کیوں بنایا۔ مجھ سے نہیں ہو گا یار!میں واپس جا رہی ہوں۔ یہ لباس یہ سب..... نہیں یار! یہ میں نہیں ہوں۔"

وہ چونک کر بولی اور ہیل والے سینڈل سے پیروں کو آزاد کرتی ہاتھوں میں پہنی بریسلٹ اور واچ اتار اتار کر پھینکنے لگی۔

"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے مادفہ!ہر مرتبہ عورت ہی کیوں خاموش ہو جاتی ہے؟ تم خاموش نہیں ہو سکتی اس تذلیل کا بدلہ لو گی۔"وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔

"مگر اس طرح.....؟نہیں...."وہ اچھنبے سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے خود پہ ہنسی تھی۔

"ساتف کا قصور ہے تو اس کی سزا اس کی بہن کو یا پھر اس کی بیوی کو کیوں ملنی چاہیے؟ یا مجھے کیوں ملے؟ میں....میں جا رہی ہوں۔ ایک پل بھی نہیں رک سکتی میرا سانس بند ہو جائے گا۔"

وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر تیزی سے وارڈروب کی جانب بڑھی تھی۔

اس مرتبہ اُس نے واقع ہی اپنے دل کی سنی تھی۔

"مجھے کوئی شوق نہیں کسی بےگناہ کو سزا دینے کا۔

بےگناہی کی سزا کی تکلیف میں اپنے وجود اور روح پہ کئی مرتبہ سہہ چکی ہوں۔علم ہے مجھے اس اذیت کا...." اونچی اونچی بڑبڑاتے ہوئے وہ اپنے کپڑے بیگ میں رکھ رہی تھی۔تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی وہ دونوں چونک کر پلٹیں۔

مادفہ نے سرعت سے رخ پھیر کر کپڑے پیک کرنے شروع کئے۔

اس کے بال پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے بلکہ وہ سارا ہی بکھرا بکھرا سا لگ رہا تھا۔آنکھوں میں گہری سرخی لیے اس کی پشت پر بکھرے لمبے بالوں کو گھورتا رہا۔

"تم جا رہی ہو؟" نظریں اس کے تیزی سے پیکنگ کرتے ہاتھوں پہ ٹکائے حیران کن لہجے میں سوال کیا گیا۔

"ہاں جا رہی ہے یہ۔" ایک خفگی بھری نگاہ مادفہ پہ ڈالتے ہوئے غازی کمرے سے نکل گئی تھی۔

"تو ہمت نہیں ہو رہی کیا اپنے عاشق کی شادی میں شرکت کرنے کی؟"وہ سینے پہ ہاتھ لپیٹے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"عاشق اور تم.....؟"استہزائیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہ کہتے ہوئے پلٹی اور نفی میں سر ہلا کر اٹیچی کیس کی زیپ بند کرنے لگی۔

"ہاں تو اور کیا.......دیکھو میری حالت۔ کم از کم تم ہی رحم کھا لو مجھ پہ۔"اس کے لہجے میں درد تھا التجاء تھی۔

"یو ناؤ واٹ....."وہ اس کی جانب پلٹی اور دو قدم آگے بڑھی۔

سینے پہ ہاتھ لپیٹے آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں گاڑھے گویا ہوئی۔

"تم جیسے لڑکوں سے مجھے نفرت نہیں محسوس ہوتی بلکہ......ترس آتا ہے۔تم جانتے ہو ساتف! آج اپنی اس حالت کے زمہ دار تم خود ہو۔"اس کا ایک ایک لفظ ساتف بہت مشکل سے سہہ رہا تھا۔

"تم جانتی ہو میری بیوی تم سے کئی گنا زیادہ خوبصورت ہے۔اسی لیے تم نہیں رک رہی نا.... کہ اتنی خوبصورت لڑکی کے سامنے کہیں تم اپنا اعتبار کھو نہ بیٹھو؟"اس کو کوئی طریقہ نہیں مل رہا تھا مادفہ کو روکنے کا سو اس کی انا پہ وار کرنے لگا۔

وہ پل بھر کو لب بھینچ کر رہ گئی تھی پھر عجیب سی مسکراہٹ لیے بریف کیس سے لہنگا نکالتی واشروم کی جانب بڑھ گئی۔

"دیکھ لیتی ہوں تمہاری وائف کو بھی۔" دروازہ کھٹاک سے بند کر لیا گیا۔

ساتف کے ہونٹوں پر بےجان سی مسکراہٹ آ ٹھہری تھی۔

"وہ خوبصورت ہے مگر تم تو میرے دل میں بس چکی ہو مادفہ! اس کی خوبصورتی تمہاری محبت سے جیت نہیں پائی۔تمہیں دیکھ کر جو احساسات دل میں سر اٹھاتے ہیں اسے دیکھ کر تو.....کچھ نہیں ہوتا۔تم جانتی نہیں ہو یہ رشتہ مجبوری کا ہے۔"

ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بس سوچ سکا تھا اور پھر بیڈ پہ پڑا مادفہ کا جھمکا اٹھا کر جیب میں ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔

وہ اپنا بےڈھنگا لباس اتار کر اب لہنگا کرتی زیب تن کیے بالوں کو کمر پہ کھلا چھوڑے سیڑھیاں اتر رہی تھی جب نیچے ہال میں کھڑے ساتف نے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔

اسے محسوس ہوا تھا کہ اس کا دل بس مادفہ کے ہونے سے ہی دھڑکتا ہے،اس کی سانسیں اسے دیکھ کر بےترتیب ہوتی ہیں، بےاختیار ہی اس کے قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھے تھے۔

"ساتف! یہاں کیا کر رہے ہو جلدی سے ریڈی ہو جاؤ جا کر۔"اس کے طلسم کو والدہ محترمہ نے اپنی کڑک آواز کے ساتھ توڑا تھا۔

"جی بس جا رہا ہوں۔"ان پہ ایک نظر ڈال کر وہ پھر سے مادفہ کو دیکھنے لگا۔

"ابھی جاؤ بھئی۔ بارات پہنچنے والی ہے ہوٹل اور گھر کے مرد ہی استقبال کے لیے نہیں ہوں گے۔جاؤ جلدی جاؤ۔"وہ اسے کمرے کا راستہ دکھا کر آگے بڑھ گئیں۔

"جلدی کرو سب گاڑیاں تیار کھڑی ہیں دیر مت کرو۔ابا نے پھر سے واویلا مچا رکھا ہے۔" کسی نے کہا تھا۔

وہاں جلدی جلدی کی ہلچل مچی ہوئی تھی۔

"غازی!"وہ جیسے ہی کچن کے سامنے سے گزرنے لگا تو غازی کو کچن میں دیکھ کر وہ اس جانب ہی بڑھ گیا۔

"ہوں؟"

اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے وہ آنکھوں کے اشارے سے بولی کیوں کہ منہ میں تو رس گلہ تھا۔

"مادفہ کو چھوڑ جانا وہ میرے ساتھ ہوٹل آئے گی۔

پلیز پلیز مجھ پہ یہ آخری احسان کر دو ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔تم جانتی ہو نا مجھے بہت حسرت ہے مادفہ کے ساتھ وقت گزارنے کی اس سے باتیں کرنے کی۔"وہ کہتے کہتے تصور میں مادفہ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے، ہنستے ہوئے خود کو دور جھیل کنارے دیکھنے میں کھو سا گیا تھا۔

"او ہیلو خوابوں کی دنیا سے واپس آ جاؤ....میں کیسے چھوڑ جاؤں؟اور ویسے بھی تمہاری تو شادی ہو رہی ہے پھر اس کے پیچھے کیوں دم ہلاتے پھر رہے ہو؟"

اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے غازی نے نہایت بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔

"تم سے جتنا کہا ہے وہ کرو۔ اور شادی کیا دوسری نہیں ہو سکتی؟جب میں نے موم ڈیڈ کی لائی گئی لڑکی پہ سوتن ڈالی تو پھر ان کی آنکھیں کھولیں گیں۔"وہ کیا کہہ رہا تھا غازی کچھ نہیں سمجھی۔

"کہیں یہ اس کی چال تو نہیں ہے؟"وہ آنکھیں سکوڑے اسے گھورتی گئی۔

"چھوڑ کے جانا پلیز۔"وہ ہاتھ جوڑ کر کہتے ہوئے پلٹ گیا۔

"یہاں تو وہ معاملہ ہے "آ بیل مجھے مار"

میں چاہتی تھی مادفہ اور ساتف ایک ساتھ جائیں کب سے کھپ رہی تھی پلاننگ کر رہی تھی مگر یہاں تو جب دلہا راضی تو پھر کیا کرے گی دلہن رانی۔

اب تو بیٹا مادفہ تم ساتف کے ساتھ ہی جاؤ گی۔" وہ چہکتی ہوئی کیچن سے نکل گئی۔

******

"ہاں میں تمہاری سوتن جازیہ حدثان چوہدری...."

وہ سگریٹ کے کش لیتی حقارت سے بولی۔

"ت تم یہ سب کیا کر رہی ہو جازیہ! ح حدثان کو دھوکہ کیوں دے رہی ہو؟ ایسا مت کرو وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔آخر تمہیں اور چاہیے بھی کیا؟"

وہ دیوار کے ساتھ سر ٹکائے آنکھیں موندے مدھم آواز میں بولی تھی۔

دل میں تکلیف ہو رہی تھی کہ حدثان کو دھوکہ دیا جا رہا تھا اور وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔

"ہاہاہا......تو اس سے تمہیں کیا؟وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو توں کیوں جل رہی ہے؟میرا شوہر ہے میں اسے دھوکہ دوں یا نہ دوں تمہیں کیا؟"وہ بھڑک اٹھی تھی۔

آگے بڑھ کے سروش کے چہرے کو ہاتھ میں جکڑتے ہوئے وہ اپنے بیلٹ سے ریوالور کھینچ کر اس کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے بولی۔

"تم کیوں مرنے لگی ہو جگر.....؟ حدثان نہیں چاہیے؟"

اس کی سختی سے بند آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پچکارنے والے انداز میں بولی۔

"اسے نہیں بتاؤ گی کہ تم نے مجھے اس حالت میں دیکھا ہے؟اچھا ایسا کرو نمبر ڈائل کرو اس کا میں سب بتاتی ہوں اسے کہ میں اس وقت اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر اس کی خواہ مخواہ کی خیرخواہ کے ساتھ کیا کرنے والی ہوں۔ "وہ پلٹ کر میز پہ بیٹھ گئی تھی۔

"تم کچھ بھی نہیں کر سکتی جازیہ! حدثان کو میں سب بتا دوں گی۔"

وہ پیشانی پہ آئی پسینےکی بوندیں صاف کرتے ہوئے بولی۔

"اس دن بھی بتانے ہی آئی تھی نا بلکہ دکھانے آئی تھی؟دھکے مار کر باہر پھینک آیا تھا وہ تمہیں۔"

وہ تمسخر اڑانے والے انداز میں ہنسی۔

اتنے میں نیچے گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔

جازیہ نے جلدی سے سگریٹ پھینکی منہ میں ہیوٹ ٹافی چبائی اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے استہزائیہ مسکرائی۔

ہاتھ بڑھا کر اپنے کھلے بالوں کو مزید بکھیر دیا اور تیزی سے دیوار کے پیچھے غائب ہو گئی چند پل بعد جب وہ باہر آئی تو اس کے تن پر شلوار قمیض تھی۔

اس کی رخساروں پر تھپڑوں کے نشانات دیکھ سروش کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئی تھیں وہ کچھ نہیں سمجھی۔

"تم لوگ چھپ جاؤ۔ جلدی۔اسد تم بھی پیچھلے راستے سے نکلو....."

اپنے گارڈز کو حکم دے کر وہ اب اس مرد کی جانب متوجہ تھی جو ٹھیک اس کے ساتھ کھڑا تھا۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا اس کی رخسار چھو کر وہاں سے بھاگ گیا....

مگر تبھی اس نے فائرنگ کی آواز سنی اور اپنے آدمیوں کو باری باری گرتے دیکھا۔

وہ خوف زدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ یہ کس نے کیا ہے مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔وہ تیزی سے میز سے اتری تھی اور اپنی قمیض کو شانے سے نوچ کر پھاڑ ڈالا۔

پیروں کی چھاپ اب سیڑھوں پہ بہت قریب آ چکی تھی۔

وہ جو خالی خالی نگاہوں سے اس کی ساری کارکردگی دیکھ رہی تھی کچھ بھی نہیں سمجھ پائی۔

"نہیں جازیہ! ت تم....یہ گن پھینک دو۔"

جازیہ نے جب اپنے شانے پہ پستول رکھا تو وہ خوف زدہ سی اس کی جانب بھاگی اس سے پہلے ہی اس نے اپنے دائیں شانے پہ گولی مار کر کچینختے ہوئے ریوالور اس کی جانب اچھال دیا۔

اور وہ بنا کچھ سمجھے غیر ارادی طور پر ریوالور کیچ کر چکی تھی۔

ایک نظر ریوالور پہ ڈال کر جب اس نے جازیہ کی جانب دیکھا تو خوف سے دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر سے دیوار سے جا لگی۔

"گیم از اوؤر سروش! حدثان تمہارا نہ تھا، نہ ہے، نہ کبھی ہو گا۔وہ ہمیشہ سے میرا تھا۔بچپن سے......" نفرت،حقارت سے کہتے ہوئے اس نے آخری لفظوں پہ زور دیا اور گولی اس پہ چلا دی۔

"سروش!" نور جو جازیہ کے آدمیوں کو ختم کر کے اس جانب آ رہی تھی اس پر چلتی گولی کو روکنے کی خاطر پاس پڑی لکڑی اچھالی تھی مگر گولی کو روک نہیں پائی۔

گولی سیدھی سروش کے پیٹ میں گھسی تھی۔

وہ آہ کے ساتھ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ایک جھٹکا کھا کر پیچھے گرتی چلی گئی۔ مگر اس سے پہلے ہی کسی نے اسے تھام لیا تھا۔

"سروش.....!

ثمروز اس کے پیٹ پہ رکھے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے پھٹی پھٹی نگاہیں اس کے چہرے پر ڈال کر چلایا تھا۔

وہ مبہم سا مسکراتی ایک آہ کے ساتھ اس کی آغوش میں آنکھیں موند گئی۔

"چلو نور!" باسم اسے ان کی جانب بڑھتا دیکھ تیزی سے اس کا ہاتھ تھام گیا۔

"تم انسانوں کے سامنے نہیں آ سکتی تم جانتی ہو۔" وہ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے مضبوط لہجے میں گویا ہوا۔

نور نے ہاتھ چھڑوایا ایک نظر ثمروز اور اس کی گود میں بےہوش ہوئی سروش کو دیکھا اور پلٹ کر ہاتھ کو جھٹکا دیا تو اس میں سے رسی نکلی جس کے سرے پر بندھا ہوا اوزار دیوار میں پیوست ہو گیا تھا وہ لٹک کر بلڈنگ سے اتر گئی جبکہ باسم نے اپنے اڑنے والے گیجٹ کا استعمال کیا تھا۔

ثمروز نے گردن گھما کر جازیہ کو دیکھا جو زمین بوس ہو چکی تھی۔

"ح حدثان....!"

جازیہ کی گردن دائیں جانب ڈھلک گئی تھی۔

ٹھیک اسی وقت دائیں جانب سے حدثان سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا تھا اور جازیہ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کی جان رخصت ہونے لگی۔

وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس تک پہنچا تھا۔

"ج جازیہ....! آنکھیں کھولو یہ سب کیا ہے ک کس نے تمہاری یہ حالت کی۔میری جان....! ب بتاؤ مجھے میں نہیں چھوڑوں گا اسے کہاں ہے وہ؟ تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔" اس کا منہ تھپتھپاتے ہوئے وہ پاگل پن کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

جازیہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے کانپتے ہاتھ کو اٹھا کر ایک جانب اشارہ کیا۔

حدثان نے گردن گھما کر اس جانب دیکھا تو اسے لگا وہ بہت برا خواب دیکھ رہا ہے۔ایسا خواب جس کی اس نے کبھی خواہش ہی نہ کی تھی۔

ثمروز ،سروش کو باہوں میں اٹھائے بھاگ کر گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر ڈال کر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا تھا۔

وہ سختی سے آنکھیں میچ کر رہ گیا۔

"چوہدری ثمروز! تم دونوں کو میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔میری عزت پہ وار کیا ہے تم نے اس کریکٹر لیس لڑکی کے ساتھ مل کر۔اب.....اب اپنا انجام تم خود دیکھ لینا۔"

وہ شیر کی مانند دھاڑتے ہوئے جازیہ کو باہوں میں اٹھائے وہاں سے چلا گیا تھا۔

"یہ سب کیا ہو گیا؟ مگر جو بھی ہوا ہے لگتا بہت کچھ غلط ہوا ہے۔اس وقت سروش کی جان کو خطرہ ہے۔چوہدری حدثان اسے دیکھ چکا ہے اب اسے معاف نہیں کرے گا اور مجھے بھی......ان حالات میں سب سے بہتر کیا رہے گا؟" کچھ دیر بعد ہی ثمروز کا ماؤف دماغ پھر سے بیدار ہوا تھا۔ اسے جو ان حالات میں سمجھ آیا اس نے وہ ہی کیا۔

وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ حدثان چوہدری کبھی بھی پولیس کو انفارم نہیں کرے گا بلکہ اپنے وڈیروں کی طرح اپنی پاؤر استعمال کرے گا۔

ان حالات میں ان دونوں کا وہاں رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔

مگر سروش کو وہ اس حالت میں کہیں بھی نہیں لے جا سکتا تھا؟

******

"کوئی ہے دروازہ کھولو......"

وہ کمرے کا دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک چکی تھی۔

وہ جو سن کر بھی ان سنی کیے ہوئے تھا کچھ دیر بعد کمرے کی جانب بڑھا۔

"ارے تم یہاں؟" انجان بننے کی ایکٹنگ عروج پہ تھی۔

"اس غازی کی بچی کو تو میں ابھی پوچھتی ہوں۔"وہ اس کو نظر انداز کرتی لہنگا سنھالتی آگے بڑھ گئی۔

"مگر سب جا چکے ہیں مادفہ!" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا اطمینان سے کہتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"کیا مطلب؟"

"مطلب کہ ہوٹل کے لیے سب نکل چکے ہیں۔ بس ایک ڈرائیور بچا ہے۔اور وہ....." ایک ہاتھ سینے پہ دھرے دوسرے کو اوپر اٹھائے وہ سر جھکائے بولا۔

"وہ ہوں میں ناچیز۔ چلو چلیں۔" وہ جھک کر اس کا ہاتھ تھام کے دائیں جانب سر کو خم دے کر گویا ہوا۔

"میرا ہاتھ چھوڑو ساتف!" وہ زور سے چلائی تھی اور پوری قوت سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے آزاد کرواتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی۔وہ حیران ہی تو رہ گیا تھا۔

"اس قدر غصہ و نفرت بھری پڑی ہے تمہارے دل میں؟" تاسف بھرے لہجے میں وہ کھوئے کھوئے انداز میں استفسار کر رہا تھا۔

"اس سے بھی زیادہ بہت زیادہ۔نفرت ہے مجھے تم جیسے مردوں سے۔تم نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا اور اپنے نام کی انگوٹھی پہنائی تمہارے اس عمل سے مجھے لگا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ محبت کر کے اسے نبھانا بھی جانتے ہیں.....مگر نہیں۔مرد مرد ہی ہوتا ہے......بےوفا ،دھوکے باز اور مطلبی۔" ایک ایک لفظ حقارت بھرے لہجے میں چبا چبا کر ادا کرتے ہوئے وہ پورچ کی جانب بڑھ گئی۔

"ت تم سمجھتی کیا ہو خود کو محترمہ؟ تم صرف اپنے متعلق سوچ رہی ہو۔مطلبی تو تم ہو مادفہ! جو میری تکلیف نہیں دیکھ پا رہی۔" وہ آندھی طوفان کی طرح اس تک پہنچا تھا اسے شانوں سے دبوچ کر گاڑی کے ساتھ چپکائے وہ اس کے خوف زدہ چہرے کو آنکھوں کے احصار میں لیے تیز لہجے میں بولتا اس کو خوف زدہ کر گیا تھا۔

"دیکھو میری آنکھوں میں۔"ساتف نے اس کے شانوں پہ دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔اس نے نفرت بھری نگاہ اس پہ ڈالی اور رخ پھیر گئی۔

"کچھ نہیں ہے تمہاری آنکھوں میں سوائے دھوکے کے اور اب اگر تم نے مجھے چھونے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے غصے سے کہتی پلٹ کر آگے بڑھ گئی تھی۔

"تو آئی کیوں تھی؟ مجھے تڑپتے ہوئے دیکھنے؟" وہ پھر سے بجلی کی پھرتی سے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔

"بکواس بند کرو اور چابی دو ہوٹل پہنچنا ہے۔ لوگ کیا سوچیں گے میں اور تم یہاں اکیلے۔اوہ مائی....." وہ سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر آنکھیں موندے گھبراہٹ بھرے لہجے میں کہتی اس کی جانب پشت کیے کھڑی ہو گئی۔چند پل وہ خالی خالی نگاہوں اسے تکتا رہا اور پھر گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

"میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔" لیفٹ سائیڈ والا دروازہ کھول کر اس نے مادفہ کو افسردگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔وہ منہ بسورے یوں کھڑی تھی کہ دوسرے ہی پل وہاں سے غائب ہو جائے گی۔

"آ جاؤ پہلی اور آخری مرتبہ اپنا کچھ وقت مجھے دے دو۔م میں اتنا برا بھی نہیں ہوں یار! کہ تم اتنا سا یقین بھی نہ کر سکو۔" وہ رو رہا تھا مگر آنسوؤں نے اس کا ساتھ ہرگز نہیں دیا تھا دل تو ہر وقت اس تباہی پہ ماتم کرتا تھا۔

"اپنے ڈرامے بند کرو۔" کرخت لہجے میں کہتے ہوئے پیر پٹختی آگے بڑھی اور سیٹ پہ بیٹھتے ہی ٹھک سے دروازہ بند کیا۔

"ڈرامے......" کھوکھلا قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا۔

مادفہ نے سختی سے آنکھیں میچ کر رخ پھیر لیا تو اس نے نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے گاڑی اسٹارٹ کر لی۔روڈ پہ گاڑی نارمل رفتار سے چل رہی تھی۔

دونوں کے درمیان کچھ نہیں تھا کہنے سننے کو سو طوفانی خاموشی تھی۔اس کا دل گھبرانے لگا تھا ایک نظر مادفہ پہ ڈالی جو رخ پھیرے بیٹھی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر آڈیو پلیئر آن کیا۔


پہلے عشق میں توں نے مجھ کو دھوکہ دیا ہے

دوجا لوگوں کو ہنسنے کا بھی موقع دیا ہے

جھوٹی تیری تھی قسمیں جھوٹے تیرے تھے وعدے

جھوٹی تیری وفاداریاں

جا دیکھی تیری یاریاں


معنی خیز نگاہوں سے مادفہ کو دیکھتے ہوئے وہ استہزائیہ مسکرایا تھا۔مگر وہ اس سے انجان سامنے دیکھتے ہوئے نجانے کہاں کھوئی ہوئی تھی۔

مادفہ نے بہت پہلے ہی گانے سننے چھوڑ دیئے تھے کیونکہ جب بھی وہ کسی قسم کا بھی کوئی گانا سنتی اس کے دل میں آگ سی مچ جاتی تھی۔وہ اپنے دل میں بہت بےسکونی محسوس کرتی تھی۔

وہ کتابیں بھی ہسٹری والی پڑھتی تھی کہ ناولز اور دیگر شاعری پڑھتے ہوئے وہ جو طوفانی تباہی اپنے دل میں محسوس ہوتی وہ برداشت نہ کر پاتی تھی۔


کانچ کے جیسا تیرا تھا رشتہ

اک آہٹ سے ٹوٹ گیا ہے

توں جو بدلی بدلہ زمانہ

میرا خدا بھی روٹھ گیا ہے

میری ساری دعائیں

میری ساری وفائیں

مانگتی ہیں یہ تجھ سے

توں بھی سن لے صدائیں

تیری ساری وہ دل دل داریاں

جا دیکھی تیری یاریاں


ہر ایک لفظ ساتف کے دل کو چیر رہا تھا۔

جیسے جیسے گھٹن بڑھ رہی تھی گاڑی کی سپیڈ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔

وہ پھر بھی نہیں چونکی تھی شاید وہ وہاں نہیں تھی۔

اس کی سوچ ،دل و دماغ کہیں اور جگہ پہنچا ہوا تھا۔


ہم نے وفا کی، تم نے جفا کی

عشق کی رسمیں تم نے نہ نبھائیں

میری یہ الفت ،میری محبت

نفرت میں ہی تم نے جلا دی

آنکھ میری جو نم ہے

توں نے توڑا بھرم ہے

خواب ہونے تھے پورے

یہ میرا......


"اب اگر تم نے اسے پلے کیا تو میں اس ویڈیو پلیئر کو باہر پھینک دوں گی۔"

نجانے کس بری یاد نے اسے کانپنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ تیزی سے حال میں لوٹتے ہوئے ساتف کی جانب دیکھنے لگی پھر تیزی سے اس نے ہاتھ مار کے ویڈیو پلیئر بند کیا اور انگلدشت دکھاتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے چلائی۔

ساتف نے رخ پھیر کر اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ چہرہ سرخ ہوا پڑا ہے۔یوں معلوم ہو رہا تھا کہ اس کا دل رو رہا ہے مگر آنکھیں ایک دم خشک تھیں۔

ہوٹل تک خاموشی ہی چھائی رہی تھی۔

مگر جب گاڑی پارکنگ ایریا میں رکی اور وہ تیزی سے جانے لگی تو ساتف نے اسے پکارا تھا۔

"ایک بات پوچھوں؟"

اس کے قدم اچانک رک گئے۔وہ رفتہ رفتہ چلتا مادفہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"کیا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟میرا مطلب جس ہجرِ فراق میں،میں جل رہا ہوں کیا کبھی اس آگ سے تم واقف ہوئی ہو؟"

سوال ایسا تھا کہ اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور بےاختیار ہیں نفی میں سر ہلاتی تیز قدم اٹھاتی اس سے دور ہوتی چلی گئی وہ لب کچلتا وہاں ہی جم گیا تھا۔پیروں میں تو جیسے جان باقی نہیں رہی تھی۔

راستے میں ساتف نے محسوس کیا تھا کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے مگر ابھی وہ جو اس کی آنکھوں میں دیکھ چکا تھا وہ کچھ اور تھا۔

"وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی شاید وہ کوئی اور ہے.....مگر کون؟ اگر کوئی اور ہے تو وہ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی تھی؟" دل نے سرگوشی میں کئی سوال کر ڈالے تو وہ آنکھیں میچے گرنے سے بچنے کی خاطر گاڑی سے ٹیک لگا گیا۔

"یہ تم کیا کر رہے ہو ساتف! ایک مرد ہو کے ایک لڑکی کے سامنے کمزور پڑ رہے ہو؟ اور تمہاری بیوی کتنی خوبصورت ہے.....دنیا کی حسین ترین لڑکی اور مادفہ تو ایک عام سی لڑکی ہے۔اس سے محبت ہو جائے گی تمہیں کہ حسن بھی بہت اہم ہے اس دل کو بہلانے کے لیے۔اب بس بند کرو یہ محبت کا ڈرامہ۔"

انا تلوار اٹھائے میدان میں اتری اور منٹوں کا کھیل سیکنڈوں میں کھیل کر جیت گئی۔

وہ چند پل وہاں کھڑا رہا پھر گہری سانس بھرتے ہوئے چہرے پہ ویسا ہی اپنا مخصوص نخرہ سجائے اندرونی جانب بڑھ گیا۔

اور ہمیشہ کی طرح محبت تو پیچھے ہی انا کی قید میں رہ گئی تھی۔

اس نے حسن کا انتخاب کر لیا تھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی....اپنے لیے آسان راستہ چن لیا تھا اور وہ راستہ مادفہ ہرگز نہیں تھی۔

مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا تقدیر بہت بڑی چیز ہے اور محبت بہت بری۔

********

ثمروز اسے ایک پرائیویٹ کلینک لے کر پہنچا تھا۔

"سسٹر! ایمرجنسی کیس ہے پلیز ڈاکٹر کو بلائیں۔"

اسے اسٹریچر پر ڈال کر ایک کمرے میں پہنچا کر کے وہ باہر نکلا تھا۔

"سر! اس وقت کوئی بھی ڈاکٹر یہاں نہیں ہے۔ اور یہاں آپریشن نہیں ہوتا آپ مریضہ کو سرکاری ہسپتال لے جائیں....اور یہ تو پولیس کیس بھی ہے۔"

نرس نے کہا تو وہ کچھ دیر تو سوچتا رہا پھر گویا ہوا۔

"میں خود آپریشن کر لوں گا آپ میری ہیلپ کریں۔میں جو سامان کہوں گا وہ لا کر دیں۔"

"مگر سر......؟"

"ایم ڈاکٹر ثمروز چوہدری۔فرام یوکے۔"

اس نے جینز کی جیبوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنا کارڈ نکالا اور ان میں سے ایک لڑکی کی جانب بڑھا کر تیزی سے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"اور ہاں....."وہ جاتے جاتے پلٹا۔

"اگر کوئی بھی میرے متعلق پوچھتا ہوا یہاں آئے تو کہہ دیجیے گا کہ میں یہاں نہیں ہوں۔"

اس کے کہنے پہ پورے اسٹاف نے تیزی سے اثبات میں سر ہلائے تھے۔

" تم جا کر ان کی ہیلپ کرو۔"اس نرس نے اپنے ساتھ کھڑی نرس سے کہا تو وہ سر ہلاتی ہوئی ثمروز کے پیچھے بڑھ چل دی تھی۔

ایک ہی گولی نے سروش کو زندگی اور موت کے درمیان لٹکا دیا تھا۔مگر ثمروز کے لیے آپریشن سنبھلنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا۔آپریشن کامیاب ہوا تھا۔

اور اللّٰہ کے کرم سے ثمروز نے اسے مرنے سے بچا ہی لیا۔

خون کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔تب تک ہسپتال کا انچارج ڈاکٹر بھی آ گیا۔ثمروز نے اسے گول مول مختصر بات بتائی تھی۔

"ڈاکٹر ثمروز! آپریشن کامیاب رہا ہے مگر بلڈ کی بہت اشد ضرورت ہے۔نہیں تو مریضہ کو بچانا امپوسیبل ہو سکتا ہے۔" اس کے ساتھ کھڑے ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

"میرا بلڈ گروپ میچ کرتا ہے۔"

"اوکے ڈاکٹر چوہدری! مگر اس سے پہلے پلیز آپ فارم فِل کر دیں۔" ڈاکٹر نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"میں بلڈ دینے کے بعد فارم بھی ِفل کر دوں گا ڈونٹ وری۔"

ثمروز تیزی سے ساتھ والے بیڈ کی جانب بڑھا۔

ڈاکٹری گلوز وغیرہ اتار کر وہ پیرؤں کو جوتے سے آزاد کرتے ہوئے بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔

"اوکے ڈاکٹر ثمروز! ڈونٹ وری۔" ڈاکٹر نے کہتے ہوئے نرس کو اشارہ کیا تھا اور خود وہاں سے ہٹ گیا۔

"کیا آپ یقین سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کا بلڈ مریضہ سے میچ کرتا ہے؟"نرس اس کے بازو کو تھامتے ہوئے عجیب سے انداز میں گویا ہوئی۔اس نے گردن گھما کر سروش کو دیکھا۔

"جی۔آپ جلدی کریں پلیز۔"

اس نے تھوڑا سا سر اٹھا کے سروش کو دیکھا تھا جو دنیا جہاں سے بیگانی آنکھیں موندے ہوئے تھی وہ ضبط سے نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے آنکھیں موند گیا۔

"پتہ نہیں یہ لڑکی کیا لگتی ہے ڈاکٹر ثمروز کی جو یہ اتنا پریشان ہو رہے ہیں اس کے لیے؟"

نرس نے ایک نظر سروش اور دوسری ثمروز پہ ڈال کر نقش نین کا جائزہ لیا جو ذرا برابر بھی نہیں ملتے تھے۔

"ہو گی کوئی......مجھے کیا۔" شانے آچکاتے ہوئے اس نے ثمروز کے خون کی بوتل سے نالی سروش کی رگ میں لگائی تھی۔

ثمروز سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہاں زیرِ تعمیر عمار پر ہوا کیا تھا؟ان دونوں نے ایک دوسرے پہ گولی کیوں چلائی؟اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ سروش کو کال آئی تھی اور اسے حدثان کی جان خطرے میں ہے یہ کہہ کر بلایا گیا تھا۔پھر آگے کیا ہوا؟ کیا وجہ تھی اس ساری صورتحال کے پیچھے؟

"ابھی مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ چوہدریوں سے کیسے بچنا ہے۔" اس نے سر جھٹکتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری اور ایک مرتبہ پھر سے سروش کی جانب دیکھا تھا۔


کیسی ہے یہ محبت

بس ذرا سی طلسمی سی؟

تیرے لہجے سرد ہواؤں جیسے

میری چاہت گرم دوپہر جیسی

تیری قربت خزاؤں کا پہلا پہر جیسے

اور میری یہ خواہش تجھے پانے کی

جاناں بس اک خواب جیسی

مجھے آتا نہیں کچھ بھی سمجھ

کیسی ہے یہ محبت

بس ذرا سی طلسمی سی؟

****

وہ غازیہ کے ساتھ چپکی ہوئی تھی مگر وہ جب نیلم کے ساتھ چپک کر سٹیج پہ ہی بیٹھ گئی تو وہ کوفت میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔

"غازی!....میں جا رہی ہوں۔"اس نے اشارہ آخری ٹیبل کی جانب کیا۔وہ سر اثبات میں ہلا کر پھر سے نیلم سے باتیں کرنے لگی۔وہ ریشمی آنچل شانے پہ درست کرتی سٹیج سے اتر گئی۔

"مسز ہمدانی نے بڑا ہاتھ مارا ہے۔اس کی بیٹی کو بڑا کھاتا پیتا سسرال ملا ہے۔اب دیکھنا اس کے قدم ہی زمین پہ نہیں ٹھہرنے والے۔"اس کے قدم عورتوں کی سرگوشیوں نے روک دیئے تھے۔

"تو اور کیا بہن! تم تو کچھ بھی نہیں جانتی۔ ہم تو محلے والے ہیں سب جانتے ہیں اس کی اور اس کی بیٹی کی چالاکیاں۔"ایک اور عورت نے منہ کے زاویے بگاڑے تھے۔

اس نے اچھنبے سے پلٹ کر دیکھا۔

"میں کیوں کان رکھ رہی ہوں مجھے کیا.....؟"وہ شانے آچکا کر آگے بڑھنے ہی والی تھی ایک مرتبہ پھر سے اس کے قدم رک گئے۔

"نیلم کا چکر چل رہا تھا۔بھلا بتاؤ اسلام آباد سے اِدھر اُدھر یونیورسٹی ہی نہیں تھی کیا؟"

"ہاں بہن! میں نے تو سنا تھا بڑا ڈرامہ کیا اس اتنی سی چھوکری نے۔"

"سنا ہے ساتف اپنی منگیتر سے بہت محبت کرتا تھا۔میرا بیٹا دوست ہے نا اس کا بتا رہا تھا کہ بڑا پریشان تھا بچارا ساتف اپنی ماں اور بہن کی وجہ سے کہ گھر والے فورس کر کے اسے منا چکے ہیں اس شادی کے لیے۔"

اس نے چونکتے ہوئے اس عورت کی جانب دیکھا تھا اور پھر بےحد حیرانگی سے ہال کے آخری حصے پہ کھڑے ساتف کی جانب دیکھا۔

کچھ لڑکوں کے ساتھ کھڑا وہ ہنستے ہوئے کچھ بات کر رہا تھا.....ذرا بھی تو پریشان نہ تھا وہ۔

"ارے بہن یہ سب ڈرامے ہیں ساتف کے بھی.....بھلا کروڑوں کی جائیداد، ڈھیروں جہیز اور سونا چاندنی دیکھ کر بھلا دماغ ماؤف نہیں ہو گا کیا ساتف کا۔"

وہ سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئی کہ مزید کچھ بھی سننا محال ہو رہا تھا۔

"سب بکواس ہے بھلا اس جیسا بزدل شخص بھی محبت کر سکتا ہے؟ اونہہ۔"

وہ ہال سے نکل کر کوریڈور کی سیڑھاں اترتی میدان میں گھاس پہ رکھے بینچ پہ جا بیٹھی۔کھلے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بنا کے سر بینچ کی پشت پہ گرا لیا۔

"دنیا میں آئے تنہا تھے جائیں گے بھی تنہا.....پھر اس دنیا میں رہ کر انسان کسی ایک مضبوط ساتھ کا خواہش مند کیوں ہوتا ہے؟" اس نے پرسوچ انداز میں ہمکلامی کی تھی تبھی فون پہ کال آنے لگی تو آنکھیں کھول کر ایک نظر سکرین پر ڈالی اور پھر پوری طرح ہوش میں آ کر اٹھ کے سیدھی ہو بیٹھی تھی۔

"و علیکم السلام! میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں۔" مبہم سی مسکان ہونٹوں پر سجائے اس نے آنکھیں موند کر پھر سے سر بینچ کی پشت سے ٹکا کر استفسار کیا۔

"تم ساتف کی شادی میں شرکت کرنے گئی اور مجھے بتایا تک نہیں اتنی بڑی ہو گئی ہو مادفہ؟" سامنے والے کے لہجے سے ٹپکتی خفگی اس کا سکون اڑانے کے لیے کافی تھی وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔

"زبیر! میں...."

"میں تم سے بہت خفا ہوں مادفہ! مل کر بات کریں گے اپنا خیال رکھنا اور کل تک واپس لوٹ جانا۔" وہ اس کی بات کاٹ کر کہتا کال کٹ کر چکا تھا۔

وہ اضطرابی کیفیت میں لب کچلتی اٹھ کر ادھر ادھر چہل قدمی کرنے لگی۔

وہ کچھ سوچتی سوچتی پلٹی تو اچانک نگاہ بارات پر پڑی اور پھر دولہے پر وہ ایک لمحے کو تو ساکت ہو گئی تھی.....اس کے لیے ساری دنیا تھم چکی تھی۔

"چوہدری حدثان کا بھائی.......دولہا۔" اس کو اپنی سانسیں تھمتی محسوس ہوئی تھیں۔دوسرے ہی پل رگوں میں نفرت کا زہر پھیلتا چلا گیا۔

"اب مجھے سمجھ آ چکا ہے کہ میں یہاں کیوں آئی تھی۔" سینے پہ ہاتھ لپیٹے وہ چوہدری فیملی کو ناچتے جھومتے خوشیاں مناتے اور آتش بازی کرتے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔وہ حقارت سے منہ پھیر کر مٹھیاں بھینچے سیدھی چلتی گئی۔جہاں وہ تھی وہاں اندھیرا تھا جہاں وہ لوگ تھے وہاں روشنی تھی۔مگر کون جانتا تھا کہ روشنی کہاں ہے.....وہ بےخبری میں چلتی چلتی ہوٹل کے ساتھ واقع گارڈن کے ٹریک پہ تھوڑا آگے آ گئی تھی۔

"سوری مسٹر ملک! ہم نہیں آ سکیں گے۔ایکچلی میری چھوٹی بہن اور بھائی کی شادی ہے۔ مصروفیات بہت ہیں سو......ڈونٹ مائنڈ۔"

اچانک ہی اس کے قدم اس آواز پہ رکے تھے۔وہ یہ آواز بہت مرتبہ سن چکی تھی کئی ریکارڈنگ سن چکی تھی اس آواز میں۔کئی چالاکی و مکاری بھرے جملے سن چکی تھی۔

"ہا....چوہدری حدثان۔" اس کے ہونٹوں پر تمسخر اڑانے والی مسکراہٹ ابھری تھی۔

"ہاہاہا.....افکورس۔ اوکے مسٹر ملک! ٹیک کیئر، خدا حافظ۔" وہ کال کاٹ کر چند پل رکا رہا تھا گہری سانس بھرتے ہوئے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر سر جھکائے پلٹا اور چند قدموں پہ ہی جا کر وہ کسی سے بری طرح ٹکرایا تھا۔

اس نے ہاتھ مادفہ کے شانوں کے گرد ڈالتے ہوئے اسے اور خود کو گرنے سے بچایا۔اسی چکر میں وہ اسے خود کے بہت قریب کر چکا تھا۔

مادفہ نے دانتوں پہ دانت جمائے اسے پوری قوت سے پیچھے دھکیلا اور اس کے پاؤں پہ زور سے اپنا ہیل میں قید پاؤں مارتی وہاں سے بھاگ نکلی۔

"اوہ مائی گاڈ......کون ہے؟ رکو بیوقوف لڑکی۔ "وہ کراہا کر پیر زور سے ٹریک پر مارتا تیز رفتار سے اس کے پیچھے بڑھا تھا مگر وہ بھاگتے ہوئے مین روڈ تک پہنچی۔

"چلو میرے ساتھ۔"

اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے حدثان کو دیکھا اور قریب ہی کھڑے ساتف کا ہاتھ تھام کر تیزی سے بھاگ کر پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ گئی۔

"مجھے بھگا کر لے جا رہی ہو؟" وہ شوخ ہوا۔

"شیٹ اپ یار....ابھی کوئی سوال نہیں پلیز جلدی گاڑی چلاؤ۔"وہ دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تو وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

"یہ سب کیا تھا تم بھاگ کیوں رہی تھی؟"

یعنی اس نے حدثان کو اس کے پیچھے نہیں دیکھا تھا؟ مادفہ نے سکھ کا سانس لیا۔

"ایکچلی یہاں ہسپتال میں ایک مریضہ ایڈمٹ ہے جو کہ میری پروفیسر دوست کی کزن ہے۔اسے بلڈ کی ضرورت ہے تو اسی لیے مجھے بہت زیادہ ایمرجنسی میں جانا پڑ رہا ہے بلڈ دینے۔" کچھ دیر سوچنے کے بعد جب وہ بولی تو جھوٹ بولنے میں کمال کر گئی۔

"تو تم مجھے کیوں لے کر آئی ہو؟ میری بہن کی بارات وہاں آئی کھڑی ہے اور میں یہاں تمہارے ساتھ ہوں۔" اس نے کرخت لہجے میں کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں اچھال کر سٹیرنگ پہ مارا۔

"تم بس مجھے تھوڑا سا آگے اتار دو میں چلی جاؤں گی پھر ہسپتال۔"وہ اطمینان سے بولی۔

وہ محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔

ہسپتال کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے وہ باہر نکلا اور اس کی جانب والا دروازہ کھولا۔

وہ مسکراتے ہوئے اتری اور چند پل اسے دیکھنے کے بعد دھیمی سی مسکراہٹ لیے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

"اور ہاں تمہیں اس لیے لائی ہوں کیونکہ تم پہ مجھے بھروسہ تھا۔اب تم جلدی سے چلے جاؤ وہاں تمہاری غیر موجودگی کے متعلق علم ہوا تو تمہارے لیے مشکل ہو جائے گی۔"

وہ اس کے شانے پہ تھپکی دیتے ہوئے اپنائیت بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔

ساتف نے اچھنبے سے اس کے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اس کی جانب۔

"تم پاگل ہو چکی ہو اس لیے میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔"

اس نے سنجیدگی سے کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

"نہیں نہیں ابھی تو پاگل کرنا چاہتی ہوں....."وہ پرسوچ انداز میں کہتے ہوئے مسکرائی۔

"تم جاؤ اب تمہاری بہن کی بارات ہے ساتف!"

وہ سمجھانے والے انداز میں بولی تو ساتف کچھ دیر اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈتا رہا جب وہاں اپنے لیے اپنایت دیکھی تو پُرسکون مسکراہٹ لیے لب بھینچے دو قدم آگے بڑھا۔

"تو کیا جو میں دیکھ رہا ہوں وہ سب سچ ہے؟"

"ت تم کیا دیکھ رہے ہو؟"

وہ مصنوعی شرم و حیا سے کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی بلکہ لہنگا سنبھالتی ہوئی وہاں سے ہٹ گئی۔وہ ہنس کر پلٹ گیا۔

"ایم سوری ساتف! مگر اب میری باری ہے۔ دھوکہ بازی،اور فریب کا کھیل اب میں کھیلوں گی۔اور اس کھیل میں سب کی مات ہو گی آئی پرامسس...." کوریڈور میں رکتے ہوئے اس نے سانسیں ہموار کر کے نخوت سے سر جھٹک کر سوچا تھا۔

*****

باسم کو تہہ خانے کی سیڑھیاں اترتے دیکھ نور تیزی سے اس کی جانب بڑھی تھی۔مناہل اور توحید بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

"باسم! سروش کیسی ہے؟" نور نے استفسار کیا۔

"اب وہ خطرے سے باہر ہے۔فکر نہیں کرو ثمروز اس کے پاس ہی ہے۔"وہ اس کا سر تھپکتے ہوئے گویا ہوا۔

جہاں اس نے اطمینان کا سانس لیا وہاں ہی مناہل اور توحید بھی مطمئن ہو کر واپس اپنی اپنی نشست سنبھال گئے تھے۔

"ثمروز اس کے ساتھ ہے تو اب ہمیں فکر نہیں کرنی چاہیے، سب اپنے کاموں میں لگ جاؤ۔" وہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ کر پلٹ گئی تھی باسم وہاں ہی کھڑا اسے دیکھتا چلا گیا۔

"کیا تم سروش کو دیکھنے جانا چاہتی ہو؟" اس کے استفسار پر نور کے قدم رک گئے تھے وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹی۔

"میں دیکھ کر کیا کر لوں گی؟ اسے ٹھیک تو نہیں کر سکتی نا.....کیونکہ ایسا کوئی جادو نہیں ہے میرے پاس۔" ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہہ کر وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے سر جھکا گئی۔

"اور تم دیکھ آئے ہو نا.....مجھے یقین ہے تم پر کہ وہ ٹھیک ہے۔"

وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر مڑی۔

"کیا تم ثمروز کی وجہ سے نہیں جانا چاہتی؟" باسم نے بےاختیار ہی سوال کیا تھا اور اس کے سوال پر جہاں نور کو شاکڈ لگا تھا وہاں ہی ان دونوں نے بھی چونک کر باسم کی جانب دیکھا تھا۔

"مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کیوں پوچھ رہا ہوں مگر....." ایک لمحے کو وہ خاموش ہوا۔

توحید اور مناہل سرعت سے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے تھے۔

"مگر کیا تم آج بھی ثمروز کو چاہتی ہو؟" یہ سوال کرتے ہوئے جتنی تکلیف باسم کو ہوئی تھی اس سے کئی گنا زیادہ اسے ہو رہی تھی،سختی سے لب بھینچے وہ صوفے کی پشت پر ہاتھ ٹکائے سر جھکا کر سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی۔

باسم رفتہ رفتہ چلتے ہوئے اس کے پہلوؤں میں آ کھڑا ہوا تھا۔

"تو میرا شک ٹھیک تھا۔" وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے اس کی غیر ہوئی حالت کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

"مجھے لگتا ہے تمہیں ہسپتال جانا چاہیے۔ ثمروز برسوں بعد لوٹا ہے اس سے بھی مل لینا......مجھے یقین ہے وہ بھی تم سے پہلے جتنی ہی محبت کرتا ہو گا۔بیسٹ آف لک۔" تیزی سے کہتے ہوئے وہ پلٹ کر وہاں سے چلا گیا تھا اور نور دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اندر اٹھتے درد کو دباتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی اور چند لمحوں بعد ہی وہ تڑپ تڑپ کر بےآواز روتی چلی گئی۔

سمجھایا تو تھا کہ ہم بنجاروں سے عشق مت کر......

اب رہ گئے نا تنہا تو تڑپتے کیوں ہو......؟

*******

"تمہیں ہوا کیا تھا بتاؤ گی مجھے؟"وہ کب سے بس ایک ہی سوال دوہرا رہی تھی اور مادفہ کان لپیٹے بستر پہ پڑی بس اسے تکے جا رہی تھی

"آج ساتف کی بارات ہے،اور تم یوں بہانہ بنا کر بستر پہ لیٹ گئی۔"

"کیونکہ میں وہاں نہیں جاؤں گی۔"اس نے سر اٹھا کر تیز لہجے میں کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔

"پر کیوں؟"

"کیونکہ......ہا......تم وجہ جاننا چاہتی ہو؟" نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے اس نے نگاہیں اٹھا کر غازی کو دیکھا۔

"ہاں میں جاننا چاہوں گی۔"

"دروازہ بند کرو۔"اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اشارہ دروازے کی جانب کیا۔

وہ دروازہ بند کر کے اس کے پاس جا بیٹھی۔

"چوہدریوں سے میری دشمنی بہت پرانی ہے، جتنی نفرت مجھے ان سب غلیظ لوگوں سے ہے اتنی کبھی کسی نے کسی سے نہیں کی ہو گی۔" وہ سختی سے بیڈ شیٹ مٹھیوں میں بھینچے، دانتوں کو کچلتے ہوئے غصے سے کانپتی آواز میں بولی۔

"مگر اتنی نفرت کیوں؟"

"مجھے نفرت ہے ان کی اس اونچی حویلی سے جس کی بنیاد کئی لوگوں کی لاشوں پہ رکھی۔اس رنگیلی دیواروں سے جن کو سروش کی فیملی اور ثمروز کے خون سے رنگا ہوا ہے۔" اس نے غصے کی شدت میں اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہتے ہوئے لمبا سانس بھرا تھا۔

"سروش اور ثمروز کون؟"

غازیہ کے استفسار پر اس نے لہو رنگ آنکھوں سے اسے گھورا۔

پھر سب کچھ بتاتی چلی گئی۔وہ خوف زدہ سی سب سن رہی تھی کہ دنیا میں کیسے ظالم لوگ پائے جاتے ہیں۔

***

مطلب عشق کا تو زندگی سنوارنا ہے

صاحب!

ظلم کہتے ہیں ہم'

کسی کی خوشیاں اجاڑنے کو



"بابا جان! مجھے نہیں معلوم کیسے بھی......مگر مجھے چوہدری ثمروز اور سروش دونوں زندہ چاہے۔"

وہ اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے ہوئے چلانے کے ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم کی ساری چیزوں کو توڑ بھی رہا تھا۔

"تم فکر مت کرو حدثان! میں ان دونوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔" انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے اس کو شانوں سے تھاما۔

"تم جاؤ بہو کے پاس، اللّٰہ نے اسے نئی زندگی دی ہے،اس کا دھیان رکھو۔"انہوں نے اس کے ہاتھ سے شیشے کے ٹکڑے لیتے ہوئے کہا اور ایک نظر ان زخمی ہاتھوں پہ ڈال کر پلٹ گئے وہ زمین پہ گری ہوئی کرسی کو ٹھوکر مارتا ڈرائنگ روم سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔

"او پپو.....!" چوہدری صاحب اپنے خاص بندے کو غصے سے آوازیں دیتے ہوئے مردان خانے کی سمت چل دیئے تھے۔

"ج جی جی سرکار۔"

وہ بندوق شانے پہ لٹکاتے ہوئے ان کی جانب بڑھا اور سر جھکائے مؤدبانہ انداز میں گویا ہوا۔

"کیا خبر ہے ان دونوں کی؟"

آواز سرگوشی سے اونچی نہیں تھی۔

"سرکار....شہر کے ایک چھوٹے جے(سے) ہسپتال وچ(میں) رکے ہوئے نے(ہیں)....سرکار کڑی (لڑکی) کی حالت بہت خراب اے(ہے) گولی پیٹ وچ(میں لگی اے جی،ہوش میں ابھی نئیں آئی جی۔"

تفصیل سن کر چوہدری صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی سربراہی کرسی کی جانب بڑھ گئے۔رات کا وقت تھا اور اس وقت چند ایک ملازموں کے سوا وہ دونوں ہی وہاں موجود تھے۔

"اگر کوئی تمہارے بیٹے کو تکلیف دے تو تم کیا کرو گے پپو؟"وہ کرسی پہ گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے۔

"جی سرکار؟"وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگا۔

"مار دو۔" وہ اٹل لہجے میں کہہ رہے تھے۔

ان کی بات پر پپو کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں۔

"ک کیا سرکار....م مار دوں؟"

"ہاں پپو.....! مار دو، ہماری عزت کا سوال ہے۔ان دونوں نے ہماری بہو کے ساتھ زیادتی کی ہے۔" وہ گرج کر بولے تو وہاں موجود سارے ملازم سہم کر نکلتے بنے۔

ان میں سے ایک نے پلٹ کر ان دونوں کو دیکھا تھا اور پھر پیشانی پہ چمکتی بوندوں کو صاف کرتے ہوئے سہمے مگر تیز قدموں سے فصلوں کی جانب بڑھ گیا۔

"مگر سرکار! ثمروز سرکار کے مرنے سے باجی بیوہ ہو...."

"جتنا کہا گیا ہے اتنا ہی کرو.....زیادہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اور ہاں اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ یہ موت ایک حادثہ لگنی چاہیے۔سمجھے.....؟"اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ دبے دبے غصے سے رازداری سے بولے۔پپو نے تھوک نگلتے ہوئے بمشکل اثبات میں سر ہلایا تھا

"شاباش جاؤ اب.....اور ہاں ایک بات کا خاص خیال رکھنا اس بارے میں حدثان کو کچھ بھی پتہ نہ چلے۔" اس کے شانے پہ داد کی تھپکی دے کر وہ اٹھ کے تیز قدم اٹھاتے وہاں سے ہٹ گئے۔

"نمک کھایا اے چوہدریوں کا اب یہ مینوں(مجھے) نمک بنا رے نوں۔" پپو پیر پٹختے ہوئے وہاں سے نکلا اور اپنے ساتھیوں کو اکھٹا کر کے شہر کے لیے روانہ ہو گیا۔

فصلوں میں چھپے ہوئے شخص نے ان سب کو جیپ پر نکلتے دیکھا تو تیزی سے فون پر ثمروز کو کال ملا دی۔

****

وہ سروش کے بیڈ کے قریب کرسی رکھے،ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے پریشان نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ کسمسائی اور دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنے لگی۔

وہ مسکراتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا تھا۔

"welcome back to the beautiful world."

وہ جو حیران کن نگاہوں سے چاروں اطراف دیکھ کر یہ سوچ رہی تھی کہ وہ زندہ کیسے؟

ثمروز کی آواز پہ چونکی اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے بےدلی سے مسکرا دی۔

"کیسا محسوس ہو رہا ہے؟"

"بہت ہی عجیب...."

وہ گہری سانس دھیرے سے بھرتے ہوئے مایوسی سے بولی۔

"وہ ہمیں مار دیں گے۔"

"سروش....! تمہیں پوزیٹو سوچنا چاہیے۔ اور ابھی تو کچھ بھی نہیں سوچنا چاہیے۔"اس کی بات پہ ایک پل کو تو وہ خود بھی خاموش ہو گیا۔

"وہ وہاں آیا تھا نا؟ میں تھوڑی بہت تو ہوش میں تھی....." وہ عجیب سی کیفیت کے زیر اثر تھی۔

آنکھیں موندے سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں ثمروز کو دیکھا اور پھر سے آنکھیں میچ لیں۔

"اور مجھے لگتا ہے اب ہم زیادہ دن جی نہیں سکیں گے۔"بوجھل سانس فضا کے سپرد کرتے ہوئے وہ اٹل لہجے میں بولی۔

"کچھ نہیں ہو گا، تم فکر مت کرو۔"

وہ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر پُراعتماد لہجے میں تو نہیں کہہ سکا تھا سو سروش کچھ پل اسے خاموش نگاہوں سے تکنے کے بعد ٹھنڈی آہ بھر کے رخ پھیر گئی۔وہ بھی کرسی پہ ایزی ہو کر بیٹھتے ہوئے سر کرسی کی پشت سے ٹکا گیا۔

فون کی گھنٹی پہ وہ سیدھا ہوا اور آنکھوں کو مسل کر فون نگاہوں کے سامنے کیا۔

"نظیرے۔"

زیر لب بڑبڑاتے ہوئے وہ ایک نظر سروش پہ ڈالتا ہوا کمرے سے نکل گیا تھا۔

"ہاں نظیرے! کیا خبر ہے؟"

"سرکار....! آپ وہاں سے چلے جائیں۔وہ.....وہ بڑی سرکار کے آدمی آپ کو م مارنے آ رہے ہیں۔ جتنی جلدی ہو ٹھکانہ بدل لیں۔"اتنا کہہ کر وہ کال کاٹ گیا۔

ثمروز نے لب سختی سے بھینچ لیے تھے....اسے اپنی سن ہوتی سماعتوں پر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یہ لفظ سن چکا ہے۔

"تو تایا سائیں، آپ اپنی بیٹی کے بیوہ ہونے کی پرواہ کیے بنا مجھے مارنے پہ تل گئے ہیں۔اور سروش.....؟اس کا کیا قصور ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ غلط کر سکتی ہے جازیہ کے گناہوں کی سزا آپ سروش کو اور مجھے نہیں دے سکتے۔مگر آپ یہ بات ہرگز نہیں سمجھیں گے ۔" افسردگی سے سوچتے ہوئے وہ اٹھا تھا اور ڈاکٹر سعد کے آفس کی جانب بڑھ گیا۔

کیونکہ وہ جانتا تھا اپنے تایا کی بےوجہ کی ضد اور نفرت کو اگر وہ ٹھان چکے تھے کہ ان لوگوں کو مارنا ہے تو اب وہ انہیں جان سے مار کر ہی دم لینے والے تھے۔

"ڈاکٹر مجھے آپ کی مدد چاہیے۔" وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔

"ابھی ایک ایمبولینس منگوائیں......اور مجھے فیصل آباد سے نکالیں۔" ساری بات بتاتے ہوئے اس نے پُرامید نگاہوں سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا جو تذبذب تھا۔

"ڈاکٹر! یقین کریں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔مگر پلیز ہماری مدد کریں.....آپ ان آدمیوں سے کہہ دیجیے گا میں یہاں سے مریضہ کو لے کر لاہور چلا گیا ہوں۔" اس کی بات پر ڈاکٹر کچھ دیر سوچتا رہا پھر اثبات میں سر ہلا کر نمبر ڈائل کرنے لگا۔

وہ واپس پلٹا اور بھاگتے ہوئے کمرے تک پہنچا۔

کھٹک کی آواز پہ دروازہ کھلا تو وہ بری طرح سے ڈر کے چنخ اٹھی۔

"ریلکس میں ہوں۔"

وہ واقع ہی خوف زدہ تھی۔

"ہمیں ابھی یہاں سے نکلنا ہو گا۔"اس نے کہا تو سروش خوف سے کانپنے لگی۔

"ت تو وہ ہمیں مارنے کے لیے آ رہے ہیں....ہیں ناں؟"

"ڈاکٹر ثمروز! ایمبولینس آ گئی ہے۔"

ثمروز نے بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ دروازہ دھکیل کر ڈاکٹر سعد اندر داخل ہوئے اور پیچھے پیچھے دو نرسیں اور وارڈ بوائے۔

"تم فکر مت کرو سروش! کچھ بھی نہیں ہو گا۔"

شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

*****

وہ دھیرے دھیرے چلتی اس کے ساتھ آن کھڑی ہوئی تھی۔

سکھے پتوں پر ڈھیروں سگرٹیں پڑی تھیں جن کے محض سر جلا کر پھینک دیا گیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔

ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا جو سرخ آنکھوں سے چاند کو گھورنے میں مصروف تھا۔

ایک نگاہ اس کے رینک پر جمے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر ہمتیں جمع کرتے ہوئے اس کے سلگتے ہاتھ پر اپنا یک ٹھنڈا ہاتھ رکھ دیا تھا مگر وہ ایک لمحے کو بھی نہ چونکا اور نہ ہی اس کے ساکت وجود میں کوئی حرکت ہوئی تھی۔

"تم کیوں بےوجہ پریشان رہتے ہو؟" دھیرے سے استفسار کرتے ہوئے وہ اس کی جانب نرم نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"وہ محض میرا پاسٹ ہے باسم! اور تم...." ایک لمحے کو رکتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی۔

آج اس نے سوچ لیا تھا کہ اپنے دل میں جو بھی وہ قید کیے ہوئے ہے کہہ ڈالے گی۔

"تم میرا حال اور مستقبل ہو.....میں اس سے کبھی بھی اپنے ماضی کے حوالے سے ملنا نہیں چاہوں گی اور نہ ہی مجھے اس کو دیکھنے کی خواہش ہے.....ہاں بس کچھ سوالات جن کے جواب اس سے چاہیے اور کوئی احساس اس سے نہیں جڑا۔"

اس کی بات پر باسم نے ایک نگاہ اس کے ہاتھ پر ڈالی اور دوسری اس کے جھکے سر پر بمشکل مسکراہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ پھر سے سنجیدہ ہو کر سامنے دیکھنے لگا تھا۔

"مجھے لگتا تھا کہ تم سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے تم سمجھتے ہو مجھے مگر تم نے مجھے مایوس کیا ہے۔بےوجہ شک کر کے مجھے ہرٹ کیا ہے تم نے۔" وہ رونے لگی تھی۔

باسم نے بےاختیار ہی اسے شانوں سے تھام کر خود سے لگا لیا تھا۔

اس جوابی حملے کا اس کے وہم و گمان بھی علم نہ تھا سو وہ رونا بھول کر حیرانگی سے اس کے دل کی دھڑکنیں سننے لگی تھی۔

"ایم سوری۔مگر مجھے تم خوش اور اپنے ساتھ چاہیے ہمیشہ......آئی نو میں اس معاملے میں مطلبی شخص ہوں۔" آخر پر وہ مبہم سا ہنسا تو نور کے وجود میں جان سی لوٹی تھی اس نے اپنی باہوں کو باسم کی کمر کے گرد حائل کرتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا اور پھر اس کی محبت بھری آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے شرما کر سر جھکا گئی تھی۔

وہ جاندار قہقہہ لگاتے ہوئے اس کی پیشانی پر لب رکھ گیا۔

"وہ دونوں محفوظ ہیں۔"

"ہوں ثمروز سمجھدار ہے۔ ایم جیلس۔" وہ مصنوعی ناراضگی سے گویا ہوا تو نور نے اس کے شانے پر تھپکی رسید کی۔

"تم سے زیادہ انٹیلجنٹ ہرگز نہیں ہے۔" سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے وہ محبت سے گویا ہوئی تو وہ ہنس دیا تھا۔

"چوہدریوں کے آدمی اب لاہور میں ان دونوں کو ڈھونڈیں گے اور وہ دونوں ملتان جا چکے ہیں۔"

"چلو ان کی جانب سے تو بےفکر ہوئے ہم۔" وہ پرسکون ہو کر اس کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئی تھی۔

"مگر میں آپ دونوں کے لیے فکرمند ہوں۔" توحید کی آواز پر وہ دونوں بری طرح سے سٹپٹا کر ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے۔

باسم تیزی سے سہنے سے شرٹ درست کرنے لگا جب کہ نور بےوجہ ہی اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگی۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" باسم نے گلا کھنکارتے ہوئے لہجے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی۔

"مجھے تو پہلے سے ہی پتہ تھا بڑے بھیا کہ کچھ تو کھچڑی پک رہی ہے......"

"چپ اوئے بیوی ہے میری۔"

"پتر رخصتی ابھی نہیں ہوئی۔" اس نے کسی بڑے بوڑھے کی مانند کہا تھا۔

نور شرمیلی سی مسکراہٹ لیے وہاں سے کھسک گئی تھی جبکہ باسم نے آگے بڑھ کر توحید کی گردن کو بازو میں دبا لیا تھا۔

آج برسوں بعد توحید نے اسے یوں دل سے مسکراتے دیکھا تھا تبھی ہنستے ہنستے ایک دم سے رونے لگا تو باسم نے اسے کھینچ کر سینے سے لگا لیا تھا۔

****

چوہدریوں کے آدمی سروش کے بھائیوں کے پاس آ کر انہیں بلیک میل کرنے لگتے تو اس کے بھائیوں نے تو باقائدہ کہہ دیا تھا وہ ہمارے لیے مر چکی ہے.....اگر مل جائے تو جو مرضی سلوک کر لیں۔

وہ دونوں ثمروز کے ایک دوست کے گھر میں رہتے تھے۔

ملتان کا یہ محلہ مڈل کلاس تھا۔

ان کا مکان چار مرلے پہ مشتمل تھا جس میں ایک کمرہ اور واحد واش روم، ایک چھوٹا سا کچن تھا۔

دو مہینے ہو چلے تھے انہیں یہاں۔

وہ دونوں ہی زیادہ باہر نہیں نکلتے تھے، ثمروز جاتا اور اس کے لیے میڈیسن ، فروٹ وغیرہ لے آتا۔نرس ان کی ہمسائی تھی جو سروش کی بینڈیج وغیرہ کر دیتی تھی۔ایک مہینہ پندرہ دن تو وہ ہی ککنگ بھی کرتا رہا مگر جب وہ کچھ صحت یاب ہونے لگی تو اس نے کچن سنبھالنا چاہا۔

"کیا تمہیں میرے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں آتا؟" وہ ناراضگی سے بولا۔

"نہیں نہیں ثمروز! ایسی بات نہیں ہے میں بس....."

"تو پھر تم آرام کرو۔ ابھی تمہارے زخم کچے ہیں ایسے میں اگر تم کام کرو گی تو بیمار پڑ جاؤ گی۔"

وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تو وہ محض سر ہلا کر رہ گئی جبکہ وہ مسکرا کر سبزی کاٹنے لگا۔

" ثمروز!...کب تک ہم چھپ کر رہیں گے؟" کچھ پل کی خاموشی کے بعد وہ نم آواز میں بولی تو اس نے سر اٹھا کر سروش کی جانب دیکھا۔

"جب تک حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے، جب تک تم صحت یاب نہیں ہو جاتی تب تک تو چھپنا ہی پڑے گا۔"

وہ سنجیدگی سے کہہ کر سبزی کی ٹوکری اٹھا کے کچن کی جانب بڑھ گیا۔

سروش نم آنکھوں کے ساتھ کچن کے کھلے دروازے سے اسے کام کرتے دیکھتی رہی اور پھر آنکھوں پر بازو رکھ کر آنکھیں موند گئی۔

****

وہ اب صحت یاب ہو چکی تھی، اب تو کام کاج کر سکتی تھی مگر زیادہ مشقت سے پرہیز کرنا تھی۔

ان دونوں کا دن بھر کام یہ ہی ہوتا کہ وہ یا تو ٹی وی دیکھتے رہتے یا پھر کوئی کتاب پڑھ لیتے جو ثمروز لاتا تھا۔ثمروز کے ایک انسپکٹر دوست کے تحت انہیں خرچے کے پیسے مل جاتے تھے کہ اپنے کریڈیٹ کارڈز وغیرہ وہ یوز نہیں کر سکتا تھا۔

موبائل فون اور سوشل میڈیا کے بنا بھی زندگی گزر سکتی ہے مگر سکون کے بنا نہیں.....ان گزرے دنوں میں ان دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ مہربان نہیں ہوئی تھی۔

"چائے۔"

ثمروز کی چارپائی کے ساتھ رکھی چارپائی پر بیٹھ کر اس کی جانب چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولی۔

وہ جو چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کپ لے کر سر جھکائے کچھ بولنے کے لیے لفظ جمع کرنے لگا۔

"سروش...! میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔"کپ نیچے رکھتے ہوئے وہ اس کی جانب پوری طرح متوجہ ہوا۔

"میں سن رہی ہوں بولو...."

سرہانے رکھا ڈائجسٹ اٹھا کر کھولتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولی۔

"ساتھ والے اشفاق صاحب نے مجھے آج اپنی بیٹھک پہ بلایا تھا۔"

"تو؟" وہ ہنوز لاپرواہی سے بولی۔

"تو وہ کہہ رہے تھے کہ......وہ تمہیں بہو بنانا چاہتے ہیں۔"وہ اس کی بات پہ چونک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔

"مجھے نہیں کرنی شادی۔" نگاہیں چراتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

"میں انہیں سب بتا چکا ہوں۔ وہ تمہاری حفاظت کر سکتے ہیں چوہدریوں سے۔"وہ سمجھانے والے انداز میں بولا۔

"حفاظت تو تم بھی کر رہے ہو، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں تم سے شادی کر لوں۔" وہ تنک کے بولی۔

"کیا بول رہی ہو سروش! میں تم سے دس سال بڑا ہوں اور بھائیوں کی جگہ پر ہوں۔ کچھ تو لحاظ کرو بولتے ہوئے۔" وہ بھڑک اٹھا تھا۔

"تو پھر وہ بھی تو مجھ سے اتنا بڑا ہے۔تم نے یہ بات کیسےکی۔اور ایک بات....."وہ پیرؤں کو چپلوں میں پھنسا کر اٹھی۔

"میں حدثان چوہدری سے محبت کرتی ہوں یہ اچھی طرح سے جانتے ہو تم۔آئندہ میری شادی کی بات بھی مت کرنا۔"

وہ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ ثمروز نے اسکا ہاتھ تھام کر روک دیا۔

"وہ حدثان جس نے تمہیں کبھی نہیں چاہا؟وہ حدثان جس نے بچپن سے تم سے نفرت کی ہے؟ یا وہ حدثان جو تمہیں مارنا چاہتا ہے؟کس حدثان کی بات کر رہی ہو تم سرو؟ " وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔

"تب وہ بچہ تھا ثمروز! صرف بارہ سال کا تھا،ناسمجھ تھا....جو اسے کہا گیا تھا وہ اس نے کیا۔جو اس کے دل و دماغ میں ڈالا گیا اسے اس نے مان لیا.....اور ابھی بھی تو وہ سچائی سے واقف نہیں ہے جو اسے جازیہ بتا اور دکھا رہی ہے اسی پر یقین کر رہا ہے۔" ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے وہ بولی تو ثمروز بےیقینی سے نفی میں سر ہلا کر ہنس دیا۔

"وہ غلط نہیں ہے.....بس جازیہ سے محبت کرتا ہے اور اس کے ساتھ وفا نبھا رہا ہے۔ہر شوہر کا فرض ہے یہ۔" بوجھل سی سانس ہونٹوں سے آزاد ہو کر فضا میں گھل گئی تھی اور وہ گرنے کے سے انداز میں چارپائی پر بیٹھی تھی۔

"پھر تو وہ بہت بڑا بیوقوف ہے یار...!" وہ تمسخر اڑانے والے انداز میں ہنس دیا اور جھک کر چائے کا کپ اٹھا کر ہونٹوں سے لگائے اس کی جانب دیکھنے لگا۔

"وہ واقع ہی بیوقوف ہے بہت زیادہ محبت کرتا ہے جازیہ سے۔اس کا فرض ہے اس پہ یقین کرنا اور میرا بھی دوستی کی خاطر ایک فرض بنتا ہے اسے سچائی سے آگاہ کروں۔"

"اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ تمہاری بات سنے گا؟تم اس کے سامنے گئی تو وہ تمہیں جان سے ہی مار دے گا۔" ثمروز نے افسردگی اور دبے دبے غصے سے کہتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے۔

"مگر میں کوشش کرنا چاہوں گی۔" وہ چند پل تو خاموش رہی پھر اٹھ کر جاتے ہوئے کہہ کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔

"مرنے کی کوشش؟"

"ہاں شاید...." کچن کے دروازے کی دہلیز پر رکتے ہوئے وہ پلٹ کر بولی۔

ثمروز نے کپ خالی کر کے نیچے رکھا اور پاؤں چارپائی پر رکھ کر چِت لیٹ گیا۔

وہ برتن دھو کر جب واپس لوٹی تو وہ سو چکا تھا۔ہر روز کی طرح سروش نے اپنی چارپائی پہ پڑی رضائی اٹھا کر اس پہ اڑھا دی اور خود ڈائجسٹ اٹھا کے زیرو واٹ کے بلب کی روشنی میں لفظ گردانی کرنے لگی۔

مگر کل تک جو ناول اسے بہترین لگ رہا تھا اب اس کا دل اُچاٹ ہو گیا تھا۔

ایک جانب ڈائجسٹ پٹخ کر وہ اٹھی اور بےوجہ ہی ادھر سے اُدھر چکرا لگانے لگی۔

"کاش ایک دفعہ ماں!.....آپ مجھے مل جائیں۔ میں بہت اداس ہو گئی ہوں، آپ کی گود میں سر رکھ کر سونا چاہتی ہوں بہت بےچینی ہے۔کاش آپ زندہ ہوتیں۔"

سینے پہ ہاتھ لپیٹے وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی۔سنہری رنگ میں ہلدی گھل گئی تھی۔آنکھوں سے ہونٹوں تک طوفانی خاموشی اور سنجیدگی کا راج تھا۔

سلکی بال مرجھا سے گئے تھے۔

وہ خاموشی سے رو رہی تھی اور ایسا وہ ہر روز کرتی تھی۔

ثمروز نے بھی ہر روز کی طرح آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا اور پھر لب بھینچے کروٹ بدل لی۔اور یہ سچ تھا کہ اب ساری رات اسے بھی نیند نہیں آنی تھی۔

****

آج ساتف کا ولیمہ تھا اور وہ تو یوں بیٹھا تھا جیسے مار مار کے دلہن کے عقب میں لا پھینکا ہو۔

"مادفہ! تم کیا کرنے والی ہو؟" اس نے گاڑی جب ہوٹل کے دروازے کے سامنے روکی تو غازی نے متجسس انداز میں استفسار کیا۔

"کچھ نہیں بس ساتف اور اس کی بیوی کو گفٹ دینے کا ارادہ ہے۔" وہ پیچھلی سیٹ پہ پڑا گفٹ اٹھا کر مسکراتے ہوئے بولی۔

"کیا؟ تم یہاں صرف اسے گفٹ دینے آئی ہو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟" اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔

"نہیں سمجھدار۔ چلو چلتے ہیں۔"وہ اس کا ہاتھ دبا کر نرمی سے بولی اور دروازہ دھکیل کر باہر نکلی۔غازی تیزی سے باہر نکلی اور اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

اس نے ایک ستائشی نگاہ مادفہ پہ ڈالی۔

پیروں تک جاتی گرے میکسی، جس پہ گولڈن اور سلور ،نفیس اور سیمپل سا کام کیا گیا تھا زیب تن کیے ہوئے تھی۔غلافی آنکھوں کو گرے اور بلیک سموکی آئی میک اپ سے سجایا گیا تھا اور باریک ہونٹوں پر لپ اسٹک،رخساروں پہ پنک بلش آن نے اسے مزید چمک دمک بخش دی تھی۔اسٹرابری جوڑے سے نکلی چند لیٹیں اس کی صراحی نما گردن اور کومل رخساروں کے گرد جھول رہی تھی۔بلاشبہ وہ حسین ترین لڑکی تھی۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"وہ اس کی نگاہوں کے سامنے ہاتھ ہلا کر بولی۔

"یہ ہی کہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔" غازی مسکرا کر اس کے شانوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔

"مجھے تو میں عجیب لگ رہی ہوں۔"وہ ،وہ ہی بات بولی جو بیوٹی پارلر میں بھی بول رہی تھی۔

"بلکل بھی نہیں۔ بس تم اپنا اعتماد بحال رکھنا۔اپنے حسین سراپے سے انجان ،بڑی پیاری سی مسکان ہونٹوں پر لیے پُراعتماد انداز میں قدم اٹھاتی۔" وہ اسے ایک مرتبہ پھر سے سمجھانے لگی۔

"آں......میں سمجھ گئی۔"وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔

"تمہاری شکل سے تو نہیں لگ رہا۔"غازی منہ بنا کر اسے گھورنے لگی۔مادفہ نے جب قہقہہ لگاتے ہوئے نگاہیں ہوٹل کی جانب اٹھائیں تو تیزی سے اس نے خفگی سے غازی کی جانب دیکھا۔

"حدثان.....وہ وہ بھی آیا ہے؟"

ایک نظر پھر سے چوہدری حدثان پہ ڈالتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔

"ہاں تو ظاہری سی بات ہے اس کی بہن کا ولیمہ ہے تو وہ تو آئے گا ہی۔"

"مجھے اس شخص سے خوف محسوس ہوتا ہے۔" اس نے کپکپی لیتے ہوئے رخ پھیر لیا۔

"وہ تمہیں نہیں جانتا تو گھبرا کیوں رہی ہو؟"اس نے کرختگی سے کہا۔

"ہاں......یار میں کیوں گھبرا رہی ہوں، وہ تو مجھے جانتا بھی نہیں ہے۔" اس نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

"تم چلو میں آتی ہوں۔" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی اور اپنے چہرے کے گرد بکھرے بالوں کو سنوارنے لگی۔

غازی سر اثبات میں ہلاتی ہوٹل کی اندرونی جانب بڑھ گئی۔اس نے اپنے سٹائلش کلچ میں رنگ کرتے فون کو نکالا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اسلام و علیکم!"

گفٹ دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس نے فون دائیں ہاتھ میں تھام کر کان سے لگایا۔

"جی ماما! میں کل تک واپس آ جاؤں گی۔"وہ سیڑھاں چڑھتے ہوئے بول رہی تھی مگر دھیان حدثان کی جانب تھا جس نے سیاہ رنگ کے ڈنر پینٹ،کوٹ کے ساتھ سفید شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔

ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا اور دوسرے میں مشروب کا گلاس تھامے وہ اپنے سامنے کھڑے آدمیوں سے محو گفتگو تھا۔چہرے پہ سنجیدگی لیے وہ واقع ہی ایک وجہہ اور پرکشش مرد لگ رہا تھا۔ مادفہ نے سختی سے سر نفی میں جھٹکا۔

"جی جی ماما! میں اب فون رکھتی ہوں۔" وہ اس کے نزدیک پہنچ چکی تھی تبھی تو جلدی سے فون بند کر کے کلچ میں ڈالتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی۔آخری سیڑھی پہ پہنچی ہی تھی کہ بےاختیار ہی اس کا پاؤں پھسلا اور ہاتھ میں پکڑا کلچ اور گفٹ زمین بوس ہو گیا۔سامنے کھڑے حدثان کی نظر بھی اس پہ پڑ چکی تھی وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور اس سے پہلے کہ وہ پیچھے گر کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند جاتی حدثان نے تیزی سے اس کو تھامتے ہوئے اپنی جانب کھینچا....وہ خوف سے کانپتی ہوئی حدثان کے شانے سے آ لگی آنکھیں زور سے موندے اس کا بازو تھام چکی تھی۔

حدثان کے ہاتھ میں سے مشروب کا گلاس چھوٹ کر زمین بوس ہو چکا تھا۔وہ ہڑبڑا کر اپنے دوستوں کی جانب دیکھنے لگا جو منہ اور آنکھیں پھاڑے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔حدثان کے دیکھنے پر وہ رخ پھیر کر یوں شو کرنے لگے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ہوں۔

"آپ ٹھیک ہیں۔"

اسے شانوں سے تھام کر خود سے دور کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا کہ دوسرے ہی لمحے وہ بری طرح سے چونک کر پیچھے ہٹی۔وہ دونوں ہاتھوں کو پینٹ کی جیبوں میں ٹھونسے،پیشانی پہ بل ڈالے اسے بہت گہری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

"Am sorry and thank you."

وہ بولی تو حدثان نے چونک کر آنکھیں پھیلائے اس کی جانب حیرانگی سے دیکھا۔

وہ ایک رسماً مسکراتی نگاہ اس پہ ڈال کر اس کے عقب سے نکلتی ہوٹل کے دروازے کی سمت بڑھ گئی۔

"Wow..... She is o beautiful."

اسے تب ہوش آیا جب ایک دوست نے اس کے شانے پہ تھپکی دے کر کہا۔

"کہاں گئی وہ؟"حدثان ادھر ادھر متلاشی نگاہیں دوڑاتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔

"وہ تو اندر چلی گئی ہے۔کیا تم جانتے ہو اسے؟"

"ہاں.......نہیں میرا مطلب پتہ نہیں۔میں ابھی آتا ہوں۔"

وہ سمجھ نہیں پایا کہ کیا کہہ تبھی تیزی سے پلٹا اور اندرونی جانب بڑھ گیا۔

مادفہ ساتف کی وائف سے ملتے ہوئے پیچھے ہٹی اور نرمی سے مسکرائی تھی جس پر ساتف نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کے مکمل حسن کو دیکھا اور بمشکل نگاہیں ہٹا پایا۔

"ایم سوری میں آپ دونوں کے لیے تحفہ تو لا نہیں سکی ایکچلی وہ....."

"یہ لائی ہیں۔" حدثان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پیچھے سے کہا تو وہ سرعت سے پلٹی۔وہ ایک ہاتھ میں اس کا کلچ اور دوسرے میں گفٹ تھامے کھڑا تھا۔

"مس! یوں اپنا قیمتی سامان بیچ راستے چھوڑ کر نہیں جایا کرتے۔"

وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا۔

ساتف کو اس کا مادفہ سے بات کرنا بہت برا لگ رہا تھا۔وہ مٹھیاں بھینچے سر جھکا گیا۔

"چور چوری بھی کر لیتے ہیں۔"

وہ اس کی جانب اس کا سامان بڑھاتے ہوئے بولا۔

"اوہ بہت شکریہ مسٹر۔مگر جب تک آپ جیسے اچھے اور شریف شہری موجود ہیں چور چوری نہیں کر سکیں گے۔" اس نے رسمی سی مسکراہٹ پیش کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنی دونوں چیزیں تھام لیں۔

وہ چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ لیے سر ہلاتا پلٹ گیا تھا۔مادفہ چند پل تو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ اس شخص کو اس کے پیچھے آنے کی ضرورت کیا تھی؟پھر سر جھٹک ان دونوں کی جانب متوجہ ہوئی۔

"یہ تمہارے لیے شگفتہ!.....تم واقع ہی بہت پیاری ہو۔"

وہ جھک کر اس کی رخسار چھو کر بولی اور تحفہ اس کی جانب بڑھایا۔

"ایم سوری ساتف! آپ کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔" وہ دل لوٹ لینے والی مسکان ہونٹوں پر سجائے ہوئے تھی۔اور وہ دنیا جہاں کی پرواہ کیے بنا اس کے سحر انگیز سراپے میں کھو سا گیا تھا۔

"ساتف! کہاں کھو گئے بھئی؟"اس نے ہاتھ ساتف کے چہرے کے سامنے ہلاتے ہوئے استفسار کیا۔وہ بری طرح سے چونکا جو کہ شگفتہ نے محسوس کیا تھا۔

جبکہ وہ ان دونوں پر ایک نظر ڈالتی ایکسکیوز کرتی پلٹ گئی تھی۔

اسے وہاں کھڑے رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا نہ ہی ساتف کی نگاہوں سے جھلکتی محبت بھا رہی تھی۔کیونکہ اب وہ کسی اور کا تھا....اور وہ چاہ کر بھی اس شخص سے محبت کا ڈرامہ نہیں رچا سکتی تھی۔وہ جب بھی کچھ غلط کرنے کے متعلق سوچتی تھی کر ہی نہیں پاتی تھی.......یہ ہی تو اس کی اچھائی اور انسانیت تھی۔

"اب یہ غازی کہاں مر گئی۔" وہ متلاشی نگاہوں سے اس کو تلاش کرتی ہال سے نکل کر سیکنڈ فلور کی جانب جاتی سیڑھاں چڑھنے لگی۔

"مجھے چوہدری حدثان کہتے ہیں اور آپ یقیناً سروش ہیں۔"

وہ ابھی تھوڑا سا آگے بڑھی ہی تھی کہ اپنے پیچھے حدثان کی آواز سن کر سٹپٹا گئی مگر اپنے قدموں کو نہیں روکا۔

"میں آپ سے مخاطب ہوں مس سروش!" وہ اس کو اپنی جانب متوجہ نہ پا کر تیزی سے آگے بڑھا اور اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔

"مجھ سے مخاطب ہیں تو پھر مس مادفہ کہہ کر پکاریں۔" وہ سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے سخت لہجے میں بولی مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

"مادفہ....ہا....اب یہ کون سا نیا ڈرامہ ہے؟" وہ تمسخر اڑانے والے انداز میں بولتے ہوئے دو قدم اس کی جانب بڑھا۔وہ خوف زدہ ہوتی پیچھے ہٹتی دیوار سے جا چپکی تھی۔

"جیسے کہ میں اس چہرے کو بھول چکا ہوں۔"وہ دھیرے سے ہاتھ دیوار پہ رکھتے ہوئے ذرا سا اس کی کی جانب جھک کر اس کی آنکھوں میں براہ راست جھانکتے ہوئے بولا۔

"آپ ہوش میں تو ہیں مسٹر چوہدری! یہ کون سا طریقہ ہے کسی عورت سے بات کرنے کا؟" وہ بھڑک اٹھی تھی۔

"اوہ کم اون سروش! مجھے بیوقوف مت بناؤ۔ ویسے تم زندہ کیسے ہو اب تک؟ تمہیں تو مر جانا چاہیے تھا۔"وہ اس کی رخساروں پر بکھریں لٹوں کو چھوتے ہوئے گھمبیر مدھم لہجے میں گویا ہوا۔اب مادفہ کی برداشت کی حد ختم ہو چکی تھی۔پٹاخ چٹاخ......زور کا تمانچہ اس کی رخسار کو پیش کرتے ہوئے وہ دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیل کے پھرتی سے اس کی گرفت سے آزاد ہوئی تھی۔

"پتہ نہیں کہاں سے منہ اٹھا کر آ گئے ہو۔تم مجھے کسی کا نام بھی دے کر میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کرو گے تو میں کچھ کہوں گی نہیں؟غلط فہمی ہے مسٹر۔" وہ انگلی اٹھا کر دانتوں پہ دانت جمائے گویا ہوئی۔

"میرا نام مادفہ آفندی ہے....تم جانتے نہیں ہو مجھے کہ میں ایک لمحے میں تمہارا حشر نشر کروانے کی طاقت رکھتی ہوں۔اور اگر اب تم میرے آس پاس بھی بھٹکے تو انجام کے زمہ دار تم خود ہو گے، پولیس کو بلوا کر اندر کروا دوں گی تمہیں مسٹر حدثان چوہدری! اور تم جانتے نہیں کہ یہاں آفندیز کا راج چلتا ہے۔" وہ بےحد غصے سے کہتے ہوئے آگے بڑھی تھی مگر دوسرے ہی پل حدثان کے بےلگام قہقہے کی بدولت اسے رکنا پڑا۔

"انٹرسٹنگ.....ہاہاہا...بٹ ویری فنی.....ایم سوری مس مادفہ! یقین ہو گیا کہ آپ واقع ہی سروش نہیں ہیں۔" وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنسائے ایک ایک قدم اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔

"کیونکہ وہ جانتی تھی کہ پولیس کو چوہدری جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔اور جہاں چوہدری کھڑے ہو جائیں وہاں ان کے علاؤہ کوئی اور راج نہیں کر سکتا۔" وہ اب بےحد سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے اسے گھور رہا تھا۔

"خیر میں چلتا ہوں اگر کوئی مدد چاہیے ہو تو یہ میرا نمبر۔"

وہ پینٹ کی جیب سے ایک وزٹنگ کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔

"تم جیسے گھٹیا بندے کی مدد مجھے ہرگز نہیں چاہیے ہو گی۔"وہ وزٹنگ کارڈ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے منہ پہ مارتی آگے بڑھ گئی اور وہ وہاں ہی کھڑا حیرتوں میں ڈوب سا گیا۔


چہرہ وہ ہی تھا

نزاکت بھی وہی تھی

مگر انداز میں

نمایاں تبدیلی نظر آئی تھی...!!

ان بیتی صدیوں میں

وقت یا وہ شخص بدلا ہے....؟

یا ہم سے ہی پہچاننے میں

انہیں غلطی ہوئی تھی


"چہرہ تو سروش کا ہے.......کیا یہ واقع ہی مادفہ ہے یا پھر سروش؟" وہ سوچ میں پڑ گیا تھا۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ عجیب سی مسکان لیے پلٹ گیا۔

"چل جائے گا پتہ کہ یہ کون ہے؟"

*****

دن مزید سرک گئے۔

وہ اب پہلے سے بہت زیادہ صحت یاب ہو چکی تھی۔

ثمروز نے جب سے اشفاق کے بیٹے کے پرپوزل کو ریجکٹ کیا تھا،وہ لڑکا تو پاگل ہی ہو گیا تھا۔ اس نے بدلے کی خاطر ان دونوں کو ذلیل کرنا شروع کر دیا۔

ثمروز اور سروش کے کردار پہ کیچڑ اچھالا جانے لگا۔لوگ ان سے بہن بھائی ہونے کا پروف مانگنے لگے تھے۔

ان کو ایک دوسرے کے ساتھ غلط لفظوں میں پکارے جانے لگا۔محلے والے ان دونوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے جو کہ ثمروز کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔

"ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے۔"

ایک رات جب وہ اسے چائے کا کپ تھما کر واپس پلٹنے لگی تو وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔

"ہم کب تک بھاگیں گے ثمروز!.....اور کہاں کہاں سے، کس کس سے بھاگیں گے؟ کیا ہم واپس نہیں جا سکتے؟" وہ سامنے والی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے گویا ہوئی۔

"نہیں جا سکتے سروش! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے نہ تمہارے حق میں ثبوت اور نہ ہی فوجیں....کہ میں وہاں جا کر ان لوگوں سے لڑ سکوں۔وہ ہمیں دیکھتے ہی مار دیں گے۔"وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

"ٹھیک ہے۔میں ضروری سامان پیک کر لیتی ہوں۔"

وہ اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئی۔اور اسی رات وہ لوگ اپنا مختصر سا سامان لے کر وہاں سے چلے گئے۔

بس اسٹاپ پر کھڑے ہوتے ہوئے جب وہ گھڑی پہ ٹائم دیکھ رہا تھا تو سروش نے کہا۔

"ثمروز! کم از کم ہم ایک مرتبہ اپنی صفائی تو پیش کر سکتے ہیں۔ دیکھو پہلے بھی جب تم بھاگ گئے تھے تو آپی نے خودکشی کر لی تھی۔اور اب پھر......اگر ہم نے مزید دیر کی تو خدا جانے وہاں کیا ہو جائے۔"

"میں بھاگا نہیں تھا۔ مجھے وہاں سے دھوکے سے نکالا گیا تھا۔"وہ تیزی سے سنجیدگی سے بولا۔

"ہمیں فیصل آباد جانا ہو گا۔"

"مگر....."

"تم سامنے مت آنا میں یونیورسٹی جاؤں گی اور حدثان سے مل کر اس کو سب کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گی۔"

اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ تیز لہجے میں بولی۔

"جیسے وہ تو تمہاری بات سن لے گا اور مان بھی لے گا۔" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کی دماغی حالت پہ افسوس کرنے لگا۔

"آپ بار بار کیوں مجھے میری اوقات یاد دلا رہے ہیں؟"

وہ تلملائی۔

"میری اور تمہاری اوقات ایک ہی ہے۔تو میں بھلا ایسا کیوں کروں گا؟"وہ افسردہ لہجے میں گویا ہوا۔

"میں بس اتنا ہی کہہ رہا ہوں کہ ہمیں فیصل آباد نہیں جانا چاہیے۔"

"اور میں کہہ رہی ہوں ہم فیصل آباد ہی جائیں گے۔" وہ ہٹ دھرمی سے کام لے رہی تھی۔وہ اسے بےبس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خاموش ہو گیا۔

فیصل آباد جانے والی بس کی سیٹ پہ بیٹھتے ہوئے بھی وہ اسے یہ ہی کہہ رہا تھا کہ۔

" فرار کا راستہ درست ہے کم از کم تم زندہ تو رہو گی۔"

"میں ہی مروں گی نا۔" کمال کا اطمینان تھا۔

"سوچ لو اکیلی مرو گی.....میں تو تمہیں فیصل آباد چھوڑ کر غائب ہونے والا ہوں۔"کھڑکی پہ پردہ درست کرتے ہوئے اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

"تمہاری عادت ہے غائب ہونے کی۔"

وہ اس کی بولتی بند کروا چکی تھی۔وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

وہ سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند کر سو گئی تھی جبکہ ثمروز کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی، وہ وہاں جا کر کس طرح ان لوگوں کا سامنا کرے گا؟ کیا کرنا چاہیے اسے؟ یہ سب سوچیں اسے بہت پریشان کر رہی تھیں۔

"بس اتنا جانتا ہوں کہ میں سروش کو کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گا۔انجانے میں ہی سعی مگر میری وجہ سے ایک لڑکی خود کو ختم کر چکی ہے.....اب ایک اور ویسی غلطی نہیں کروں گا" وہ سوچتے ہوئے سر سیٹ کی پشت سی ٹکا گیا تبھی سروش کا سر ڈھلک کر اس کے شانے پر آ ٹکا تھا اس نے گردن گھما کر اپنے شانے پر سر رکھے سو رہی سروش کو ایک نظر دیکھا اور پھر گردن گھما لی۔

سارا رستہ اس نے خود کو چوہدریوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا تھا.....

مگر یہ بھی سچ تھا کہ یہاں پاکستان میں اس کی پاؤر زیرو تھی یہاں صرف چوہدری حدثان لوگوں کی حکمرانی تھی تو وہ پولیس کا سہارا بھی نہیں لے سکتے۔


جانی یہ محبت والا مذاق نہ کر ہم سے

اس مذاق کے صدقے ہی تو آج تک ہنستے پھر رہے ہیں


وہ دونوں فیصل آباد کے بس اڈے پہ اترے تو فجر کی اذانیں ہونے لگی تھیں۔

وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ بھوکی بھی ہے اور پیاسی بھی۔پانی تو مل گیا، مگر اب مسئلہ تھا کھانا۔

"میرے پاس اس وقت صرف سو روپیہ باقی ہے سروش!"

"ابھی مجھے بھوک نہیں ہے۔" شال کو شانوں کے گرد مضبوطی سے لپیٹے وہ سر جھکائے اس کے برابر میں چل رہی تھی۔

"جھوٹ تو یوں بول رہی ہو جیسے میں تمہیں جانتا ہی نہیں ہوں۔"

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگا۔

"کیا کھاؤ گی؟"

"ایک سو روپے میں تم مجھے کیا کھلاؤ گے اور خود کیا کھاؤ گے؟"

وہ لوگ اڈے سے واک کرتے مین روڈ پر پہنچ چکے تھے۔

اس نے گردن گھما کر ثمروز کو دیکھا اور پھر سر جھکا گئی۔

"میں تین دن بھی بھوکا پیاسا رہ سکتا ہوں،مگر تم نہیں۔"

"ثمروز! آج میں یونیورسٹی جاؤں گی۔وہاں ہی بات ہو سکے گی۔"

وہ سرے سے بات بدل گئی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا۔

"ایک مرتبہ پھر سوچ لو۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔

"مجھے مزید کچھ نہیں سوچنا۔" اکتا کر کہہ کے رکتے ہوئے اس نے ثمروز کی جانب خالی خالی نگاہوں سے دیکھا۔

"ثمروز! کیا تمہیں لگتا ہے وہ مجھے مار دے گا؟" خوف سے کانپتی آواز اور دکھ بھرے لہجے میں استفسار کیا گیا۔

"ہاں شاید۔اگر تم اس کی جگہ ہوتی تو تم بھی شاید وہ ہی کرتی۔"

وہ بیگ دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے شانے آچکا کر لاپرواہی سے بولا۔وہ خاموش ہو گئی۔

ثمروز کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے۔کسی حد تک اس کی ناراضگی جائز بھی تھی کیونکہ یہ ٹھیک وقت نہیں تھا....نہ واپس لوٹنے کا نہ ہی جازیہ کی سچائی بتانے کا کیونکہ ان کے پاس ثبوت نہیں تھے بلکہ کچھ بھی نہیں تھا خالی ہاتھ اپنی بےگناہی ثابت کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے یہ وہ جانتا تھا۔

"اوکے.....میری بات سنو ثمروز!" جب وہ کافی دیر تک نہ بولا تو وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

"ہم ایک ڈیل کرتے ہیں۔"

"کیسی ڈیل؟"

"اگر حدثان نے میری بات سن لی اور مجھ پہ یقین کر لیا تو میں اس سے ہی شادی کروں گی۔اور اگر....."

"اور اگر؟" وہ اپنے لفظوں پہ زور دیتے ہوئے بولا۔

"اور اگر......ایسا کچھ نہ ہوا اور میں اس کے وار سے بچ گئی تو جو تم کہو گے میں کروں گی۔مگر پلیز ابھی مجھے سمجھنے کی کوشش کریں اور ناراض مت ہوں مجھ سے۔"آخری بات پہ اس کے لہجے میں نمی سی گھل گئی تھی۔

"میرے پاس اور کوئی بھی اپنا نہیں رہا تمہارے سوا۔"

وہ آخر میں لبوں کو سختی سے دانتوں تلے دبائے گھٹ گھٹ کر رو دی۔

"ریلکس سروش! میں تمہارے ساتھ ہی ہوں۔ بس اپنی ڈیل یاد رکھنا۔"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہوئے بولا تو وہ سر اثبات میں ہلا کر آنسوؤں کو رگڑنے لگی۔


میں تجھے بھول جاؤں گی جاناں

یہ خیال مار دیتا ہے مشغلہ بدلتے بدلتے

****

وہ اپنی کلاس لے رہی تھی کہ کلاس روم کا دروازہ کھٹکھٹا کر پروفیسر عاقب نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

"پروفیسر مادفہ!"

"ایکسکیوز می اسٹوڈنٹ۔اپنی اسائنمنٹ یہاں پہ جمع کر دیں۔"اس نے اشارہ ڈائس کی جانب کیا اور خود دروازے کی جانب بڑھ گئی۔

"جی سر؟"

"مادفہ! آپ نے بتایا نہیں کہ زبیر آفندی آپ کے کزن ہیں؟" وہ اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے تو مادفہ مبہم سا مسکرا دی۔

"مجھے نہیں لگتا تھا کہ اس کی کوئی ضرورت ہے، مجھے اپنی قابلیت پر پوزیشن بنانے کا شوق ہے۔" وہ مدھم سی مسکان لیے بولی۔

"اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ بہت ذہین اور قابل ہیں مادفہ!"وہ ان کی بات پہ ہنس کر اثبات میں ہلا کر رہ گئی۔

"زبیر پاکستان آئے ہوئے ہیں اور بتایا تک نہیں......یعنی بہت خفا ہیں جناب۔"وہ جیسے ہی پرنسپل کے آفس کے سامنے پہنچی نظریں گلاس ڈور کے پار گئی تھیں۔

نیو بیلو تھری پیس پینٹ کوٹ زیب تن کیے،ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ایک ہاتھ صوفے کی پشت پہ رکھے اور دوسرے میں فون تھامے وہ اپنی نظر ہنوز فون کی سکرین پر جمائے بیٹھے شخص نے جب خود پہ کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس کی تو سر اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا۔

اس شخص کی ہیزل براؤن آنکھیں جیسے ہی مادفہ کی سیاہ کالی آنکھوں سے ٹکرائیں تو اس کا دل زور سے دھڑکا تھا تبھی وہ گھبرا کر سرعت سے سر جھکا گئی۔


تیری آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں مجھ سے

بڑی دیر لگے گی یہ جذبات پڑھتے پڑھتے


"یا اللّٰہ خیر.....کاش میں ساتف کی شادی میں شرکت نہ کرتی۔کیا ضرورت تھی وہ کام کرنے کی جو زبیر کو پسند نہیں ہوتا۔" وہ اپنے ڈرتے دل کو قابو میں کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔پروفیسر اپنی کلاس لینے جا چکے تھے۔ وہ گہری سانس بھرتے ہوئے دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔کوٹ کا سامنے والا ایک بٹن بند کرتے ہوئے وہ اس کی جانب بڑھا۔

"اسلام و علیکم!" چار قدموں کے فاصلے پر رکتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔

یہ رویہ پہلے کبھی مادفہ کے لیے اختیار نہیں کیا گیا تھا..... کم از کم اس کے ساتھ تو وہ ایسے لٹھ مار انداز میں آج تک نہیں مخاطب ہوا تھا۔

"و....و علیکم السلام!" پلکوں کے پردے ایک پل کو اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے وہ پھر سے نظریں چرا گئی۔

"چلیں؟"

"کہاں؟"اس نے چونکتے ہوئے پوچھا۔

زبیر نے اس کے سوال پہ فون پر سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"گھر......" وہ کہہ کر آگے بڑھا تو مادفہ بھی اس کے پیچھے چل دی۔

" امریکہ سے کب واپس آئے؟"

"ابھی آیا ہوں۔"

اس کے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تو مادفہ لب بھینچ کر ایک نگاہ اس پر ڈال کے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔وہ دروازہ بند کرتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا۔

"تو پہلے شاپنگ ،پھر لنچ اور پھر تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔" وہ چابی گھماتے ہوئے بولا۔اس کے لہجے میں بدلاؤ تھا اور یہ محسوس کرنے کے بعد وہ وجہ بھی سمجھ چکی تھی۔

"ناراض ہو؟" اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا تھا۔

"کیا مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے؟" سخت لہجے میں جواب کے بدلے سوال موصول ہوا۔

"ہونا چاہیے.....مجھے واقع ہی وہاں نہیں جانا چاہیے تھا مگر زبیر!...اس نے میری تذلیل کی تھی مجھے بھی ب بدلہ لینے کا حق......ہے۔"وہ ڈرتے ہوئے بولی۔

"بدلہ.....؟"چونک کر گردن گھما کے اسے بےیقینی سے دیکھتے ہوئے بریک پہ پاؤں مار کر سگنل پہ گاڑی روکی۔وہ لب کچلتے ہوئے سر جھکا گئی۔

"یہ تم کہہ رہی ہو مادفہ؟" اس کے لہجے میں ٹوٹے ہوئے اعتبار کی کرچیاں تھیں۔

"I can't believe this."

اس نے نفی میں سر ہلایا۔

"بدلہ....ہاہاہا....تم تو کہتی تھی بدلہ انسان نہیں لیتے۔

کیا تم انسان نہیں رہی؟"

کیسا لہجہ تھا وہ اتنی مضبوط لڑکی بھی اپنے آنسو روک نہ سکی۔

"نہیں زبیر! میں ایسا نہیں چاہتی تھی۔ بار بار خود کو ملامت کر رہی تھی مگر مجھے وہاں جانا ہی تھا....قسمت میں یہ لکھا تھا۔" وہ سر جھکائے دھیمے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

پل بھر کو خاموشی چھائی رہی تو وہ بولا۔

"ہا......قسمت... بلکل۔" زور سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کھڑکی سے باہر نظر ڈال کر ہاتھ بڑھا کے ڈیش بورڈ پہ پڑا چشمہ اٹھایا اور آنکھوں پہ چڑھا کر گاڑی اسٹارٹ کی۔

"وہ حدثان...میرا پیچھا ضرور کرے گا۔" کچھ دیر بعد وہ بہت مدھم آواز میں بولی تھی۔

"اگر وہ تمہارے پیچھے آیا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔" سٹیرنگ پہ زور سے مکا برسا کر وہ غصیلے لہجے میں گویا ہوا تو مادفہ خوف زدہ ہو کر پہلوؤں بدل کر رہ گئی تھی۔

"پلیز مجھے مت ڈراؤ زبیر.....!" وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔

"تمہیں ڈرنا بھی چاہیے مادفہ! میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بعد تو تمہیں سچ میں ڈرنا چاہیے۔" اس نے مصنوعی ہنستے ہوئے کہا۔

"دیکھو، مجھے واقع ہی میری غلطی کا احساس ہے۔مگر میں نے کچھ بھی نہیں کیا وہاں۔"

"مگر بہت کچھ ہو چکا ہے۔ اس حدثان چوہدری نے تمہیں دیکھ لیا ہے اور وہ اس چہرے کو پہچان چکا ہو گا۔" وہ اب اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو چکا تھا۔

"ہاں پہچان چکا ہے،مگر میں اس سے کیوں ڈروں گی؟

میں سروش نہیں مادفہ ہوں۔" وہ ہنستے ہوئے بولی تو زبیر نے گردن گھما کر اسے گھورا۔

"اب پلیز اپنا موڈ خراب مت کرو۔ دو مہینے بعد آئے ہو اور منہ پھلائے بیٹھے ہو۔اگر ایسا ہی کرنا تھا تو آتے ہی نہ۔" ناراضگی سے کہتے ہوئے رخ پھیر لیا۔

وہ اب خود ناراض ہو چکی تھی۔ زبیر کو منانے کا یہ ہی ایک طریقہ تھا کہ وہ خود ناراض ہو جائے۔

"ہاہاہا....یہ ٹھیک ہے بھئی۔ ناراض میں تھا۔"

"مگر اب میں ہوں۔" وہ شانے آچکا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔وہ مسکرا دیا۔

گاڑی مال کے سامنے روک کر اس نے گلاسز اتار کے رخ اس کی جانب کیا۔

"تو اب تمہیں منانا ہو گا؟"

"بلکل۔"

"اوکے تو......ہم اگلے ہفتے ہی امریکہ جا رہے ہیں۔ماما تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔"

وہ بولا تو مادفہ کا چہرہ کھل اٹھا۔

"بھیا نے اپنی لگژری بس ریڈی کر لی ہے اور ہم سب کسی جزیرے پر پکنک منانے جائیں گے۔"

"نو زبیر......! جزیرے پر نہیں۔" وہ خفگی سے چلا اٹھی تو وہ ایک دم سے قہقہہ لگا کر سامنے روڈ پر نگاہیں جما گیا۔

"اچھا بابا مذاق تھا.....ہم لوگ کسی اور جگہ چلیں گے۔ابھی طے نہیں پایا تو تمہاری رائے ضرور لی جائے گی۔"

"اور بھیا میری ہی بات مانیں گے۔"

اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے ہاتھ اوپر اٹھایا تو زبیر نے مسکرا کر اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔

"ماما نے تمہارے لیے کچھ تحفے بھیجے ہیں۔مگر وہ گھر جا کر ملیں گے ابھی تو چلو۔"

اس نے اشارہ مال کی جانب کرتے ہوئے کہا اور دروازہ دھکیل کر اترا گلاسز لگا کر گاڑی کے سامنے سے گھوم کر اس کی جانب والا دروازہ کھولا وہ گاڑی سے نکل کر اس کے ہمراہ چلتی ہوئی مال کی جانب بڑھی۔

"زبیر! میں کیا سوچ رہی تھی..." شرارتی سی مسکان لیے بات اُدھوری چھوڑ کر اسے دیکھا۔

"ایمزون چلیں۔"

اس نے چہک کر کہا تو وہ ایک بار پھر سے قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"تو تم جانوروں کا شکار ہونا چاہتی ہو؟"

پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔مادفہ نے مبہم سی مسکراہٹ لیے دائیں ایک نگاہ اس پر ڈالی اور رخسار کو چھوتی بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

وہ دونوں یوں ہی ہنستے ہوئے باتیں کرتے ایک جیولری کی شاپ میں داخل ہوئے۔

"مجھے معلوم ہے تم نے دو مہینے سے کچھ بھی نہیں خریدا ہو گا۔جتنی چاہو شاپنگ کر سکتی ہو۔"

اس نے گلاسز اتارتے ہوئے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر مادفہ پہ روک دیں۔وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکراتے ہوئے اس کے شانے پہ تھپکی دے کے آگے بڑھ گئی تھی زبیر نے ایک پل کو رک کر اپنے شانے کو دیکھا اور پھر پیشانی مسلتے ہوئے مسکرا کے اس کے پیچھے بڑھ گیا۔وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا وقفے وقفے سے ایک نظر مادفہ کے چہرے پہ بھی ڈال رہا تھا جہاں دنیا جہاں کی معصومیت اور دلکشی آباد تھی۔لمبی پلکیں جن میں وہ کئی بار الجھا تھا.....گہری آنکھوں میں کئی مرتبہ ڈوب کر ابھرا تھا۔اس کے گلابی ہونٹوں کو ہلتے وہ کئی پل دیکھ سکتا تھا اور اس کی آواز کو پوری زندگی سن سکتا تھا۔مگر مادفہ نے ساتف کا رشتہ قبول کیا تھا۔ہاں اگر زبیر اپنا پرپوزل بھیجتا تو وہ قبول کر بھی لیتی مگر اس نے کبھی ایسی بات غلطی سے بھی منہ سے نہیں نکالی تھی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے ناں نہ کہہ دے۔اور ہاں کہتی بھی تو کیسے؟ وہ اس کا نہیں تھا یہ وہ جانتی تھی....وہ خود بھی واقف تھا کہ جو اک سوچتا ہے یہ ممکن نہیں۔

"کہاں کھو گے؟"

وہ جو اسے تکتے ہوئے خیالات کی دنیا میں کھو چکا تھا اس کی آواز پہ بری طرح سے چونکا اور سر کھجاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے آگے بڑھ گئی۔

"کیا کر رہے ہو زبیر؟ یہ نازک سی لڑکی تمہاری بہترین دوست، کزن ہے....بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔" وہ خود کو ملامت کرتا اس کے ہمقدم ہوا تھا۔شاپنگ کرتے ہوئے وہ مسلسل اس سے رائے جان رہی تھی اور وہ جانتا تھا کہ بنا اسکی پسندیدگی شامل کیے وہ کچھ نہیں خریدے گی۔

اس کی شاپنگ سے فری ہو کر وہ اب زبیر کے لیے کچھ خریدنا چاہتی تھی۔

"بازاروں میں آوارہ گری کرنے کی عادت تمہاری گئی نہیں ہے ابھی تک۔"

حدثان کی آواز پر وہ دونوں رک کر اس کی جانب پلٹے تھے۔ناک کے نیچے ہی چوہدری حدثان سینے پہ ہاتھ باندھے ان دونوں کو گھور رہا تھا۔

"تم یہاں تک بھی پہنچ گئے؟ میں نے کہا تھا نا کہ میں مادفہ ہوں۔" اس نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"ثمروز سے دل بھر گیا؟ کیا یہ نیا بوائے فرینڈ ہے؟"

اس کا اشارہ زبیر کی جانب تھا جو ناگواری اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے اسے گھور رہا تھا۔

"شیٹ اپ.....جسٹ شیٹ اپ۔کون ہو تم؟"

زبیر کا دماغ اس کے لفظوں پہ گھوم گیا تھا۔وہ دو قدم آگے بڑھا تو مادفہ نے اس کا بازو تھام کر روک لیا۔

"رہنے دو زبیر! ایسے گھٹیا لوگوں کے منہ لگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔" وہ ایک تیکھی نگاہ حدثان پر ڈال کر بولی تو وہ استہزائیہ ہنس دیا۔

"فکر مت کرو مادفہ! ایسے لفنگے لڑکوں کی عقل ٹھکانے لگانا زبیرآفندی کو اچھے سے آتا ہے۔"وہ اس کا ہاتھ تھپک کر آگے بڑھا۔

حدثان تمسخر اڑانے والے انداز میں مسکرا رہا تھا

"میں ہوں چوہدری حدثان فیصل آباد کا ایم این اے.....اور ہاں جدید دور کا سٹائلش غنڈہ بھی کہہ سکتے ہو۔" وہ گردن اکڑا کر گویا ہوا تھا۔

زبیر ساکت آنکھوں سے اسے گھورتا رہا۔

"بہت خطرناک بندہ ہوں، تم جیسا ممی ڈیڈی بچہ مجھ سے الجھا تو مر مرا جائے گا......لیکن تم سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے، بس اس لڑکی کو میرے حوالے کر دو۔" وہ اس کے عقب سے نکل کر مادفہ کی سمت بڑھا تو وہ بےاختیار ہی ایک قدم پیچھے ہٹی۔

"زندگی میں مجھے تمہاری چھ اور ہم شکل مل بھی گئیں تو میں پھر بھی یہ ہی کہوں گا کہ تم سروش ہو۔" اس کی سرخ آنکھوں میں جھانک کر وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوا اور ابھی مادفہ کا ہاتھ تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ زبیر نے پلٹ کر اس کا بازو دبوچ لیا۔وہ جو ہراساں سی کھڑی تھی تیزی سے زبیر کے پیچھے چھپ گئی تھی، وہ چھ فٹ کا لمبا چوڑا مرد اس کے سامنے کھڑا تھا تو اسے اب چوہدری حدثان نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔

"اگر تم غنڈے ہو تو میں بھی رئیس زادہ ہوں....تم جیسے غنڈے میں اپنے اندر کے کاموں کے لیے ہائر کرتا ہوں اور پھر انہیں پاؤں تلے رکھ کر مسل دیتا ہوں....." زبیر کی پیشانی پر غصے کے بےشمار بل تھے تو وہاں ہی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔حدثان نے بےاختیار ہی مٹھیاں بھینچ کر خود کو کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا تھا۔

"سو دیکھو مسٹر حدثان! شرافت سے یہاں سے چلے جاؤ وگرنہ ایسی عزت افزائی کریں گے ساری زندگی یاد رکھو گے۔یہ میری کزن ہے،میری عزت ہے تو آئندہ اگر اسے ایک آنکھ سے بھی دیکھنے کے متعلق سوچا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" وہ اس کا بازو سختی سے جھٹک ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔

"چلو مادفہ!"

پلٹ کر مادفہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ مخالف سمت بڑھ گیا۔حدثان کی نظریں مادفہ پہ ہی جمی ہوئی تھیں جو نم ساکت پلکوں کے ساتھ زبیر کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

مٹھیاں بھینچے غصے پہ قابو پاتے ہوئے وہ وہاں سے ہی پلٹ گیا۔


وہ مادفہ پہ نظر رکھے ہوئے تھا۔

مادفہ پروفیسر تھی اور یہاں دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ پینٹنگ کی پروفیسر تھی.....یعنی سروش کو پینٹنگ کا شوق تھا....اس نے مادفہ کے متعلق ساری جانکاری حاصل کر لی تھی۔

اس کے تمام پیپرز یہ بتاتے تھے کہ وہ مادفہ آفندی ہے.....امریکہ سے ماسٹرز کیا اور پینٹنگ اس کی ہابی تھی، امریکہ میں اس کی ایک آرٹ گیلری بھی تھی.....اس کے ڈیٹا کی ساری فائلز سامنے تھیں جو یہ بتاتیں تھیں کہ وہ مادفہ آفندی ہے سروش چوہدری نہیں مگر حدثان کا دماغ اس چیز کو قبول نہیں کر رہا تھا سو اس کا ارادہ تھا کہ وہ جیسے ہی یونیورسٹی سے نکلے گی تو اسے اٹھا لے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔اور اسے حیرت کا شدید جھٹکا تو تب لگا جب وہ کسی ہینڈسم اور بہترین پرسنیلٹی والے شخص کے ساتھ باہر نکلی۔وہ ان دونوں کا پیچھا کرتے ہوئے مال پہنچ گیا تھا۔ان کو باتیں کرتے اور آپس میں ہنستے دیکھ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ابھی اس لڑکی کو گولی مار دے مگر نہیں.......اسے ابھی بہت کچھ جاننا تھا جس سے وہ انجان تھا تو اسے یہ لڑکی جو مادفہ تھی یا سروش؟ وہ زندہ چاہیے تھی۔

****

اتنے ڈھیر سارے دنوں کے بعد جب وہ یونیورسٹی آئی تو اسے بہت عجیب لگ رہا تھا۔یوں جیسے وہ جگہ اس کے لیے پرائی ہو گئی ہو۔مگر آج وہ یہاں پڑھنے نہیں بلکہ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے آئی تھی۔وہ جہاں سے بھی گزر رہی تھی اسٹوڈنٹس اسے عجیب و غریب نگاہوں سے گھورتے اور سرگوشیاں کرتے۔

اس کی چھٹی حس نے کسی انہونی کا الارم بجایا تھا۔

"ارے سروش! کیسی ہو؟"یہ اس کی دوست لائبہ کی آواز تھی۔اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی مگر لائبہ نے ناگواری سے اسے پیچھے کیا اور زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولی۔

"تم تو حدثان کے بہنوئی کے ساتھ بھاگ گئی تھی نا؟ شادی کر لی یا بنا نکاح کے ہی ساتھ رہے رہی ہو؟"

یہ لفظ نہیں تھے بلکہ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو اس کی سماعتوں میں گرایا گیا تھا۔

"ک کیا بکواس کر رہی ہو میں...."

"ارے جانے دو یار...! ایسی مڈل کلاس لڑکیاں دوسروں کے بسے بسائے گھر ہی تو توڑتی ہیں۔"

"ہاں تو اور کیا پہلے حدثان کے پیچھے پڑی رہی جب اس نے بھاؤ نہیں دیا تو پھر اس کے کزن کے پیچھے پڑ گئی اور وہ بھی کتنا بیوقوف تھا اپنے دو بچوں اور بیوی کوو چھوڑ چھاڑ کر اس کو لے کے بھاگ گیا۔"

"شیم آن یو سروش! شیم آن یو سروش!"

کئی آوازیں اس کا دل چیر رہی تھیں وہ اس جھرمٹ میں اکیلی کھڑی آنسوؤں سے بھری نگاہوں سے سب کو دیکھتی ہوئی دونوں کانوں پہ سختی سے ہاتھ جما کر ان آوازوں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی جو اس کی روح تک کو چھلنی کر رہی تھیں۔کچھ پل وہ وہاں کھڑی انسانیت کے ہاتھوں اپنی عزت کا اَن دیکھا جنازہ نکلتا دیکھتی رہی پھر سب کو دھکیلتی وہاں سے واپس بھاگی۔لمبی راہداری پہ بھاگتے ہوئے وہ ایک دم سے سامنے سے آتے حدثان سے بری طرح ٹکرائی تھی وہ جو موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دائیں رخ دیکھ رہا تھا بےاختیار ہی اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے گرنے سے بچا چکا تھا۔

"حدثان!...." وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بےاختیار ہی رو دی تھی۔ وہ چند پل تو اسے دیکھتا رہا پھر ناگواری سے پیچھے دھکیل دانتوں پہ دانت جمائے اس کی جانب بڑھا۔

"ح حدثان! پلیز میری بات سنو میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔" وہ ڈرتے ہوئے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ رہی تھی۔

"تم بچ نہیں سکتی تم نے میری بہن کا سہاگ چھین لیا ہے۔تم نے میری بیوی کو مارنا چاہا ہے....تم دونوں نے حویلی کی اور بابا جان کی عزت کو مٹی میں ملا دیا۔اب بچ نہیں سکتی تم......" حقارت سے کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کا رنگ سرخ ہوا تھا۔

آج وہ سروش کو حسین نہیں لگ رہا تھا۔آج اس کے ہلتے عنابی ہونٹ اسے مسکرانے پہ مجبور نہیں کر رہے تھے۔آج وہ اسے وحشی لگ رہا تھا....وحشی درندہ۔

سر نفی میں جھٹک کر وہ ہونٹوں پہ ہاتھ رکھے رک گئی۔

"میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں حدثان! میں اور ثمروز بےقصور ہیں۔ہم بھاگے نہیں تھے اور......"

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی جازیہ کی بہن کہیں سے نکل کر سامنے آئی تھی اور زور کا تمانچہ اس کی رخسار پہ دے مارا۔

"یو بیچ......"

وہ پاگلوں کی مانند یِک بعد دیگرے تمانچے اس کی کومل رخساروں پر مار رہی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے آدھی یونیورسٹی وہاں جمع ہو گئی۔دو تین پروفیسر بھی ان تماشائیوں میں شامل بس تماشا دیکھ رہے تھے۔

"اس عورت نے ہماری یونیورسٹی کا نام بدنام کیا ہے۔

اس نے میری بہن کا شوہر چھننے کی کوشش کی ہے اور میری کزن کا شوہر چھین کر اس کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔اگر ہم اس کو یہاں سے اس کی اوقات یاد دلوا کر نکالیں گے تو آئندہ کوئی بھی لڑکی ایسی غلیظ حرکت نہیں کرے گی۔تو کیا کہتے ہو تم لوگ؟"

وہ ان سب سے مخاطب تھی۔

سروش نے اس کی بات پہ رخسار سے ہاتھ اٹھا کر خوف زدہ سی نگاہ حدثان پہ ڈالی تھی.....اس کی آنسوؤں بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک لمحے کو وہ آگے بڑھنے لگا تھا مگر پھر جازیہ کا خون میں لت پت وجود نگاہوں کے سامنے آ گیا تو وہ نخوت سے سر جھٹک رک رخ پھیر گیا۔وہ بھلا کیوں کر اس کی مدد کرتا؟

"بلکل ٹھیک کہا....اس کی تو چھترول کرنی چاہیے۔تاکہ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتوں کو سبق حاصل ہو کہ بری عورتوں کو ذلت ہی وصول ہوتی ہے۔"

ایک اور لڑکی نے کہا تھا۔ وہ سب خود کو دیویاں سمجھ رہی تھیں اور سروش کو شیطان۔جازیہ کی بہن نے اپنے بیگ سے پین نکال کر اس میں سے انک اس کے چہرے پر پھینکی تھی سروش نے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا لیا۔اس کی روح اس پتھر کے جسم کے اندر ماتم منا رہی تھی، اس وقت اس نے شدت سے خواہش کی تھی کہ کاش وہ ثمروز کی بات مان لیتی۔

"اگر اتنے برے کارنامے انجام نہ دیتی تو آج یوں منہ چھپانا نہ پڑتا۔"کسی نے اسے مزید زخمی کیا تھا۔

ان سب نے اپنے بیگ کھنگالنے شروع کیے اور سیاہی اس پہ پھینکنے کے لیے آگے بڑھے تھے مگر ایک ہوائی فائر نے ان سب کو اپنی اپنی جگہ پر ساکت ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

"خبردار......اگر کسی نے ایک بھی قدم آگے بڑھایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" ثمروز سخت لہجے میں کہتے ہوئے آگے بڑھا تھا۔اس کے ساتھ دو پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔

سب اسٹوڈنٹ ہی قدرِ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹے تھے۔ثمروز ایک ایک قدم اٹھاتا اس کے سامنے آ رکا۔

"میں نے کہا تھا نا کہ مت جاؤ.....ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس مطلبی کو حقیقت سے آگاہ کر کے بچانے کی۔مگر نہیں.......تم نے میری بات رد کر دی۔اور چلی آئی سچ کی دیوی بننے۔"اس نے افسردگی سے ایک نظر سروش پہ ڈالی اور پھر نفرت بھری نگاہ حدثان پہ ڈال کر دانت پیستے ہوئے بولا۔

اپنے شانوں پہ جھولتی شال اتار کر سروش کے سر پہ دیتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ تھامے وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ کچھ سوچ کر رک گیا۔

"بہت افسوس ہوا مجھے اس تعلیمی ادارے کی پستی دیکھ کر۔

ارے تم لوگوں نے اس معصوم سے بھی پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا بیتی ہے اس پر؟ ایک عورت سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟یا یہ جاننے کی کوشش کی کہ واقع ہی وہ سچ ہے جو یہ دونوں بول رہے تھے یا جھوٹ؟"وہ ان سب کی جانب پلٹتے ہوئے ان بےحس لوگوں سے ہی مخاطب تھا۔

"میں بتاتا ہوں آپ سب کو کہ سچ کیا ہے۔"

"نہیں ثمروز! بس چلو یہاں سے۔" وہ تڑپ کر منمنائی۔

"ہاں سروش.....! تم نے وعدہ کیا تھا میرے ساتھ، وہ وعدہ یاد ہے نا؟"وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔

سروش نے پھر مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس سے پہلے ہی بول پڑا۔

"اگر تم لوگوں نے اس کے لیے یہاں ہی عدالت لگا لی ہے تو پھر انصاف بھی اسے یہاں ہی ملنا چاہیے۔"

وہ ریوالور پہ نگاہیں جمائے بولتے ہوئے اس گول دائرے میں گھوم رہا تھا جو اسٹوڈنٹس سروش کے گرد بنائے ہوئے تھے۔

حدثان اس کی جانب بڑھا تھا۔

"تم یہاں کوئی ڈرامہ...."

"چوہدری حدثان....! اب اگر تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اس میں موجود پانچوں گولیاں تم پہ چل جائیں گیں۔"اس کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے وہ وحشت سے بولا، حدثان نے مٹھیاں بھینچ کر خود کو روکا۔

"یہ جو تم چھوکرے لوگ ویڈیوز بنا رہے ہو بناتے رہنا ایک منٹ بھی فون نیچے ہوا تو تم اوپر پہنچ جاؤ گے۔"

وہ ایک ایک لڑکے پہ نظر ڈالتے ہوئے ریوالور کا اگلا حصہ اپنی کنپٹی پر آہستگی سے ٹھونک کر اطمینان سے بول رہا تھا۔

"او مسٹر پروفیسر......کہاں چل دیئے؟ اب تک تماشا دیکھ رہے تھے تھوڑا سا اور دیکھ لو۔" وہ ہنستے ہوئے بولا تو پلٹتے ہوئے پروفیسر خجل سے ہوتے رک گئے۔

"ہاں جی تو جج کون ہے.....یہ محترمہ ماہم چوہدری....!" ثمروز کی طنزیہ نظر اس پہ پڑی جو بہت مشکل سے خاموش کھڑی ان دونوں کو کھا جانے والے انداز میں گھور رہی تھی۔

"جی تو جج صاحبہ...! مجھ سے شکایت مت کیجیے گا کہ اب یہ تو نہیں کہنا چاہیے تھا.....پوری یونیورسٹی بلکہ پوری دنیا کے سامنے۔مگر اب جب آپ لوگ سروش کو بدنام کرنے کی کوشش کر چکے ہیں تو ظاہری سی بات ہے میں خاموش تو رہوں گا نہیں۔" ایک لمحے کو خاموش ہوا۔

"کیچڑ اچھالو گے تو خود پہ بھی چھینٹیں تو پڑیں گیں نا۔" وہ شانے آچکا کر تمسخر اڑانے والے انداز میں ہنسا تھا

"ثمروز! میں کہہ رہی ہوں چلو.....مجھے نہیں بتانا سچ۔" سروش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔وہ چاہا کر بھی حدثان کی عزت کو یوں محفل میں اچھالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

"میں نے کہا تم چپ رہو گی سروش!" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے اٹل لہجے میں گویا ہوا۔

"اس لڑکی نے کسی کا گھر برباد نہیں کیا بلکہ آباد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور معلوم ہے وہ شخص کون ہے جس کی سروش نے زندگی بہتر کرنے کی کوشش کی؟ یہ....." اس نے اشارہ حدثان کی جانب کیا۔

"یہ مسٹر حدثان چوہدری......میرے تایا زاد بھائی اور میرے سالے صاحب.....اتنے رشتوں کے اس سے جڑنے پر اب مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ یہ کمینہ میرا اتنا اپنا ہے۔خیر...." وہ اس پر سے نگاہیں ہٹا کر رخ پھیر گیا۔

"ایک منٹ ایک نمونہ دکھاتا ہوں۔" اس نے اپنی قمیض کی جیبوں کو ٹٹولا۔

"نہیں ثمروز! وہ لڑکی ہے۔ اس کی عزت مت اچھالو،یوں دنیا کے سامنے اسے رسوا مت کرو۔" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے چلائی تھی۔

"تم بھی لڑکی ہو ان دونوں کزنز نے تمہاری عزت بھی اچھالی ہے۔انہیں خیال آیا؟" وہ اپنا فون نکال چکا تھا۔

سب کی تجسّس آمیز نگاہیں اس کے ہاتھ میں پکڑے فون پر جمی ہوئی تھیں۔سروش نے فون جھپٹنا چاہا مگر ثمروز نے اس کا ہاتھ تھام کر کوشش ناکام کر دی تھی۔

"تم جانتے ہو اس دن کیا ہوا تھا؟ دیکھو یہاں...." اس کی جانب بڑھا اور فون کی اسکرین اس کی نگاہوں کے سامنے کر دی تھی۔

اب وہاں وہ منظر چل رہا تھا جہاں سروش اور جازیہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں۔جازیہ سگریٹ نوشی کر رہی تھی۔بہت ہنس رہی تھی اور دیوار کے ساتھ لگی سروش خوف زدہ تھی۔

پھر جازیہ نے ایک ریوالور اس کی جانب اچھالا اور ایک اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔یہ سب دیکھتے ہوئے حیران رہ گیا۔

چہرے کا رنگ پل پل بدل رہا تھا۔

سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔

دل بند ہونے لگا

"اس سے پہلے کیا ہوا تھا یہ تم اپنی بیوی سے ہی پوچھ لینا....."

وہ ناگواری سے منہ کے زاویے بدل کر پلٹا۔

"اور ہاں ہم لوگ بھاگے نہیں تھے بس ان چوہدریوں کے کتوں سے بچنے کے لیے چھپ گئے تھے۔ایسا کرنا اگر کسی کو بھاگنا لگتا ہے تو وئی ڈونٹ کئیر۔"

اس نے فون پہ انگلیاں چلاتے ہوئے باری باری ماہم اور حدثان کو دیکھا جو پتھر کے ہو چکے تھے۔

"پپو مار دو ان دونوں کو.... اور اس طرح سے مارنا کہ ایکسڈنٹ لگے۔" یہ چوہدری صاحب کی آواز تھی۔

اس نے فون کی اسکرین سب کی جانب گھمائی تھی۔

حدثان کی نگاہوں کے سامنے لا کر روکتے ہوئے اس کے چہرے پر تمسخر اڑانے والی مسکراہٹ سج گئی۔

"امید ہے آپ سب کو معلوم ہو ہی گیا ہو گا کہ قصور وار کون ہے۔اور بےقصور کون...."

وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا اور سروش کی جانب بڑھا۔

"اور ہاں چوہدری حدثان! تمہاری بہن کو کل ہی ڈیوس پیپرز سائن کر کے بھیج دوں گا۔ کہہ دینا اپنے باپ سے مجھے مار کر دکھائے۔" وہ چیلنج کرنے والے انداز میں کہہ کر ریوالور پولیس اہلکار کی جانب اچھالتا سروش کا ہاتھ تھامے وہاں سے چلا گیا تھا۔پیچھے اب لوگ شرمندہ تھے تو حدثان گم صُم سا کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟وہ جس سے اس قدر محبت کرتا تھا اس لڑکی نے ایسا قدم کیوں اٹھایا؟

"اب کہاں جانے کا ارادہ ہے؟"باہر نکلتے ہی ثمروز نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔

"م مجھے میرے گھر جانا ہے۔ بھائیوں سے ملنا ہے۔"

وہ روتے ہوئے بولی۔

"تو پھر اس میں رونے والی کون سی بات ہے پاگل؟ چلو چلتے ہیں۔"

اس نے دیوار کے ساتھ کھڑی گاڑی کا فرنٹ دروازہ اس کے لیے کھولتے ہوئے کہا اور اس کاسر تھپک کر مسکرا دیا۔

"گاڑی کہاں سے لی ہے؟اور یہ ریوالور یہ ساری ریکارڈنگ؟ اور....یہ ہمت۔"

گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔

"گاڑی دوست کی ہے، یہ ریوالور بھی اسی کا ہے۔ اور ریکارڈنگ بھی ایک خیرخواہ دوست کی مدد سے حاصل کی ہیں۔مجھے معلوم تھا کہ وہ ڈرامہ کریٹ ضرور کریں گے اسی لیے وہاں آیا۔اور ہاں ہمت پندرہ سال پہلے ہوئے حادثے کی بدولت آئی....ایک مرتبہ پھر میں تمہیں تنہا چھوڑ کر وہی غلطی دوہرانا نہیں چاہتا تھا۔"سٹیرنگ پہ ہاتھ جمائے وہ نرمی سے بولا۔

"تمہارا دوست کوئی غنڈہ ہے کیا؟"

"نہیں وہ ایک کیپٹن ہے.....خیر ان باتوں کو چھوڑو ایسے تو تمہیں گھر نہیں چھوڑ سکتا پہلے میرے دوست کے گھر چلتے ہیں۔تم فریش ہو کر چینج کر لینا پھر تمہیں چھوڑ دوں گا۔"

اس نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"ثمروز...!" کچھ دیر بعد اس نے اسے پکارا۔

"ہوں؟"

"پلیز تم بھابھی کو طلاق مت دینا۔ تمہارے دو بچے بھی ہیں وہ تمہاری بیوی ہیں.... پلیز۔"

"اس نے میرے ساتھ اجیسٹ ہونے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی.....حالانکہ میں نے اپنے دل میں اس کے لیے جگہ بنائی کہ وہ میرے بچوں کی ماں ہے

وہ ہمیشہ ہی مجھے طلاق سناتی رہتی تھی۔ اتنی سہولتیں فراہم کیں اس کے لیے نوکر، چاکر....مگر نہیں اسے پتہ نہیں کیا بیماری ہے۔ ہمیشہ ہی لڑتی رہتی ہے اور طلاق طلب کرنے لگتی ہے۔اب اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دوں گا بہت جلد۔"وہ اضطرابی کیفیت میں گھیرے ہوئے بول رہا تھا اس بات کا اندازہ اس کے پہلوؤں بدلنے سے ہو رہا تھا۔

"مگر بچے؟" سروش کو فکر ہوئی۔

"وہ میں اسے ہرگز نہیں دوں گا۔چوہدریوں کے سائے تلے رہے تو وہ دونوں بھی ان جیسے بن جائیں گے۔"

وہ کہہ کر خاموش ہوا تو سروش بھی اثبات میں سر ہلا کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔

"تو چوہدری حدثان! تمہارا میرا ساتھ یہاں تک کا ہی تھا۔مگر مجھے دکھ کیوں نہیں ہو رہا تم سے بچھڑتے وقت؟" دل نے دہائی دی۔

"ایسے گھٹیا لوگوں سے بچھڑنے پہ خوشی ہوتی ہے دکھ نہیں۔"ضمیر نے جواب نہیں بلکہ اسے دوستی، ہمدردی، محبت کی کچہری میں کھڑا کر کے زناٹے دار تھپڑ رسید کیا تھا تو وہ لب بھینچ گئی۔

زندگی بھی کس موڑ پہ آ رکی تھی، کل جو سکون کی نیند سوتی تھی آج اس کی نیندیں اڑ چکی تھیں۔

اس کے پاس سکونت کے لیے کچھ تھا بھی تو نہیں.....

اور یہ بےچینی، بےسکونی اس نے خود پیدا کی تھی۔

*****

"باسم!" نور نے اسے پکارا تھا۔

اس نے گردن گھما کر نور کی جانب دیکھا تھا....اور پھر چونک کر اسے سر تا پا دیکھا تھا۔

وہ جو ایک خوبصورت مہرون ساڑھی بطور تحفہ اس کے لیے بیڈ پر رکھ کر آیا تھا.....اس وقت نور کو جینز شرٹ میں ملبوس دیکھ کر وہ خاصہ بدمزہ ہوا تھا۔

"مجھے کچھ کام سے باہر جانا ہے۔ تم توحید کے ساتھ مل کر ملک عمران کی ریپوٹ تیار کر لو شام کو جج صاحب تک پہنچانی ہے۔" گھڑی پر ٹائم نوٹ کرتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئی تھی۔

باسم خفا سا ہو کر صوفے پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ اس کی ناراضگی بھانپ چکی تھی تبھی ایک قدم اس کی جانب بڑھی۔

"ساڑھی بہت اچھی تھی۔" اس کی شرٹ کے کالر کو چھیڑتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں بولی۔

"اسی لیے پہنی نہیں۔" وہ ناراضگی سے اس کے ہاتھوں کو تھام کر کالر پر سے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھا۔

"کیپٹن صاحب اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا۔میری بات تو سن لیں۔" پھرتی سے پلٹ کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ شوخ لہجے میں گویا ہوئی۔

"ساڑھی پہن کر آپریشن پر تو جا نہیں سکتی نا۔جانتے ہیں نا آپ کہ ہماری خوشیوں سے بڑھ کر لوگوں کی زندگی اہم ہے۔اور ویسے بھی رات تک لوٹ آؤں گی تو آپ کو ساڑھی پہن کر ضرور دکھاؤں گی.... حالانکہ ساڑھی پہننی آتی نہیں ہے مجھے۔" اس کے بالوں کو بگاڑتے ہوئے ہنس کر کہتی وہ پلٹ گئی تھی۔باسم اس کی اس حرکت پر مسکر کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

"میں انتظار کروں گا۔"

پیچھے سے اس کی آواز سنائی دی تو نور قہقہہ لگا کر ہنستی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی تھی۔

****

ثمروز کے دوست کی فیملی بہت اچھی تھی۔

انہوں نے ان دونوں کو تحفظ کا احساس دلایا تھا۔

لنچ کرنے کے بعد وہ دونوں سروش کے گھر کی جانب نکلے تھے۔راستہ خاموشی سے کٹ گیا۔

"ثمروز! مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"

گاڑی جیسے ہی گلی میں اس کے گھر کے سامنے رکی تو وہ کئی پل اپنے گھر کے دروازے کو دیکھتی رہی پھر اس کی جانب رخ پھیر کر خوف زدہ ہو کر بولی تھی۔

"وہ تمہاری فیملی ہے سروش! تمہاری بات سنیں گے اور سمجھیں گے۔"

اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نرمی سے کہا۔

"اور میں نے یہاں سے نکلتے ہوئے آخری کال تمہاری بڑی بھابھی کو کی تھی انہیں بتایا تھا کہ ہم خطرے میں ہیں۔"

اس نے کہا تو وہ وحشت سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی۔

"جانے انجانے میں تم نے مجھے ہر جانب سے مصیبت میں پھنسا دیا ہے ثمروز! میری زندگی پہلے کم مصیبتوں میں گھیری ہوئی تھی جو تم نے ایک اور مصیبت میرے گالے ڈال دی۔کیا ضرورت تھی تمہیں بھابھی کو کال کر کے یہ سب بکنے کی؟"

وہ بےحد غصے سے کہتے ہوئے دروازہ دھکیل کر گاڑی سے نکل گئی تھی۔

"اونہہ....میں نے اسے بچایا ہے۔اپنی جان اس کے لیے خطرے میں ڈالی.....بےوجہ تایا سائیں سے دشمنی مول لی مگر یہ خوش اب بھی نہیں ہے۔"

وہ تپ کر سوچتے ہوئے گاڑی سے اترا اور اس کے پیچھے چل دیا۔

اس نے دروازے پر دستک دی تھی کہ اپنے پیچھے مردانہ قدموں کی چھاپ سن کر پلٹی۔

"تم چلے جاؤ یہاں سے۔" وہ اس کو ڈرانے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔

"کیوں؟" بھنویں سکوڑ کر استفسار کیا۔

"مرو گے اور مجھے بھی مروا دو گے، پلیز جاؤ۔"

"ٹھیک ہے مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔"

وہ دو قدم پیچھے ہٹا اور دیوار کے پیچھے چھپ گیا۔

تبھی دروازہ کھلا تھا اور وہ تیزی سے ایڑھیوں پہ ہی پلٹی۔سامنے کھڑی بڑی بھابھی کے چہرے پر پل بھر کو تو خوشی کے تاثرات نمودار ہوئے مگر دوسرے ہی پل وہاں خوف نے جگہ لے لی تھی۔ سروش کے مسکراتے ہونٹ بھی سکڑ گئے۔

"بھابھی!" وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے ان کی جانب بڑھی تھی مگر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔

"کون ہے باہر؟"

بڑے بھیا کی آواز سن کر وہ دو قدم آگے بڑھی تھی مگر بھابھی نے اسے پیچھے دھکیل دیا تھا۔

"و وہ سامنے وہ نسیم بہن کا لڑکا تھا بلا رہی ہیں میں ابھی آتی ہوں۔"

وہ تیزی سے باہر نکلیں اور دروازہ بند کرتے ہوئے سروش کی کلائی دبوچ کر اسے کھینچتے ہوئے آگے بڑھیں، ثمروز ان کے اس عمل پر تیزی سے سامنے آیا۔

"لے جاؤ اسے۔ وگرنہ اس کے بھائی اسے جان سے مار دیں گے۔"اسے ثمروز کی جانب دھکیلتے ہوئے انہوں نے سختی سے کہا۔

وہ گر جاتی اگرجو ثمروز اسے شانوں سے نہ تھام لیتا۔

"دیکھیں بھابھی ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ بس اپنی جان بچانے کی کوشش کی تھی میں نے آپ کو کال بھی کی تھی مگر....."

"مگر تم لوگ مجرم قرار دئیے جا چکے ہو....چوہدریوں سے ہی نہیں بلکہ اس کے بھائیوں سے بھی تم دونوں کو خطرہ ہے۔اس کے چاچے اور بھائی بہت بھڑکے ہوئے ہیں تم لوگ سامنے آئے تو وہ چوہدریوں کو فون کر دیں گے۔مہربانی کر کے یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ۔"

وہ ایک سانس میں تیز مگر مدھم آواز میں کہہ رہی تھیں۔

ان کی ہراساں نگاہیں گلی میں دونوں جانب دوڑ رہی تھیں تو کبھی گھر کے دروازے سے ٹکرا رہی تھیں۔

"بھابھی...! پلیز مجھے..."

"ایک لڑکی کی جان تو تم لے ہی چکے ہو مگر اب اس کو مت مار دینا۔ شادی کی ہے تو خیال بھی رکھنا.....اور ہاں یہاں کبھی مت آنا ہمارے لیے تم مر چکی ہو۔"

وہ سروش کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے سخت اٹل لہجے میں ثمروز سے کہہ کر وہاں سے پلٹ گئیں۔

"بھابھی....!"

وہ ان کے پیچھے بھاگنے کی خواہش رکھتی تھی مگر ثمروز نے اس کو شانوں سے سختی سے تھام رکھا تھا۔

"ثمروز! چھوڑو مجھے....."وہ تڑپ رہی تھی مگر وہ پتھر کا بت بنا کھڑا تھا۔

"چلو سروش!" وہ اسے کھینچتے ہوئے گاڑی کی جانب بڑھا جبکہ وہ مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔

فرنٹ دروازہ کھول کر اسے سیٹ پہ بیٹھا کے سختی سے دروازہ بند کرتے ہوئے ایک نظر اس بڑے گیٹ پہ ڈالی جو کچھ دیر پہلے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے سروش کے لیے بند ہو چکا تھا۔

وہ نخوت سے سر جھٹک کر مٹھیاں بھینچے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ سروش کے کمرے کی کھڑکی کھلی اور ایک بیگ اس کے قدموں میں آ گرا۔

سرعت سے سر اٹھا کر جب اس نے اوپر دیکھا تو وہاں بھابھی کھڑی تھیں۔ ایک نگاہ ثمروز پر ڈالی اور کھڑکی بند کر کے دی تھی۔

ثمروز نے جھک کر بیگ اٹھایا اور گلاسز لگا کر تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے گاڑی اڑا لے گیا۔

نور جو دائیں دیوار کی اوٹ میں بائیک لگائے کھڑی تھی تیزی سے نکل کر باہر آئی تھی۔

ایک نگاہ گلی کی نکڑ سے اوجھل ہوتی گاڑی پر ڈالی اور دوسری اس گھر پر۔

ایک افسردہ سا آنسو سیاہ گلاسز کے پیچھے سے نکل کر رخسار پر بہہ گیا تھا۔وہ تیزی سے پلٹ کر ہیلمٹ پہنتی بائیک اسٹارٹ کر چکی تھی۔

"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا......بھابھی بھی نہیں سمجھیں....انہیں بھی لگتا ہے کہ ہم دونوں نے شادی....ہاہاہا.....واٹ اے جوک۔"

وہ سختی سے مٹھیاں بھینچے خود پہ ہنسی تھی۔

گاڑی ڈرائیو کرتے ثمروز نے ایک افسردہ سی نگاہ اس پہ ڈالی۔

"یہ تمہاری بھابھی نے کھڑکی سے پھینکا ہے۔"

وہ اس کا دھیان ہٹانے کی خاطر بولا اور بیگ اس کی گود میں رکھ دیا۔سروش نے تیزی سے آنسوؤں کو رگڑا اور بیگ کی زپ کھولی تھی

اس میں کچھ پیسے تھے اور اس کے سارے ڈاکومنٹس اور پاسپورٹ۔ اور ایک خط تھا....

وہ ہر چیز کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"مجھے معلوم ہے کہ تم نے غلطی کی ہے، مگر مجھے یہ یقین بھی ہے کہ تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔تم نے یہ سب کیوں کیا میں اس سے بھی واقف نہیں ہوں۔

خیر...میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آ رہا۔

میں تمہیں کوئی دعا نہیں دوں گی مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ تم دونوں یہاں سے بہت دور چلے جاؤ.....جہاں اپنی شادی شدہ زندگی گزار سکو۔کیونکہ یہاں تم دونوں کو کوئی سکون سے جینے نہیں دیں گے۔میں نے کبھی تم سے نفرت نہیں کی مگر مجھے تم سے محبت بھی نہیں ہے.......ہاں مگر تمہارے لیے رحم ہے میرے دل میں۔"

وہ خط بلند آواز میں پڑھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

"حوصلہ رکھو سروش! سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بےفیض لوگوں کی مدد کرنے کی یہ سزا ہے تمہاری۔تم سانپ کی مدد کر کے اس سے محبت کی خواہش مند تھی مگر وہ تمہیں اور مجھے ڈھس چکا ہے۔"

وہ افسردگی سے کہہ رہا تھا....اس کا اشارہ حدثان کی جانب تھا۔وہ مزید ٹوٹ کر رو دی۔ثمروز نے اسے خاموش نہیں کروایا تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل کے درد کو آنسوؤں سے نکال دے۔

آگے زندگی کیا موڑ لینے والی تھی وہ نہیں جانتا تھا مگر زندگی بہت مشکل ہونے جا رہی تھی یہ وہ جان چکا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ سروش کمزور پڑ جائے۔

"سروش! جتنا بھی رونا ہے رو لو مگر دل سے یہ خوف نکال دو کہ تم اکیلی ہو.....میں تمہارا بھائی ہوں تمہارے ساتھ اور ہمیشہ رہوں گا۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ مرتے دم تک تمہارے ساتھ سائے کی مانند رہوں گا کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا۔"

وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا سروش اس کا ہاتھ تھام کے اس پر پیشانی ٹکا کر گھٹ گھٹ کر روتی چلی گئی۔

وہ نم آنکھوں سے سامنے روڈ کو دیکھتا ڈرائیو کرتا رہا۔ اس کو محض سروش کے بےگھر ہونے کا دکھ تھا وگرنہ وہ ایک بہت ہی مضبوط مرد تھا جو باپ کی موت کے بعد محض ایک دفعہ اپنی محبت سے بچھڑنے پر رویا تھا یا پھر آج سروش کے لیے رو رہا تھا۔

"میں تمہارے بھائیوں سے ضرور بات کروں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ تم بہت ہی اچھی اور پاک دامن لڑکی ہو۔میری وجہ سے تمہارے کردار پر کوئی آنچ آئے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔" وہ سختی سے اسٹیرنگ پکڑتے ہوئے ضبط کی انتہا کو چھو رہا تھا۔

"نہیں ثمروز! تم ان کے پاس نہیں جاؤ گے تمہیں میری قسم۔" تیزی سے اس کا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے وہاں سے قسم دے رہی تھی۔

"یہ کیا کر رہی ہو؟ ان کو سچ تو بتانا ہو گا نا۔"

"کوئی فایدہ نہیں.....اب ہم کسی کو صفائیاں پیش نہیں کریں گے۔اگر ان لوگوں کو ہم بدکردار لگتے ہیں تو یہ ہی سعی۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے غصے سے بالوں کو جھٹک کر بولی تھی۔

"اور ویسے بھی یہ لوگ ہم پر یقین نہیں کریں گے۔ اور میں یعنی سروش..... لوگوں کو یقین دلاتے دلاتے تھک چکی ہے کہ میں غلط نہیں ہوں.....میں غلط نہیں ہوں....میں غلط نہیں ہوں۔" وہ ایک دم سے چیخنے لگی تھی۔ ثمروز نے تیزی سے بریک پر پاؤں مارتے ہوئے گاڑی روک کر اسے اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا۔

"بس بچے.....ششش۔" وہ اس کا سر تھپکتے ہوئے نرمی سے اسے چپ کروا رہا تھا جبکہ وہ اس کی شرٹ ہو مٹھیوں میں بھینچے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔

زندگی پل بھر میں بدل گئی تھی....انہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کچھ ایسا ہو گا۔

ثمروز چاہتا تھا کہ اس کے بھائیوں کے پاس جائے مگر حالات کہہ رہے تھے کہ ان دونوں کو یہاں سے بہت دور چلے جانا چاہیے جہاں صرف سکون ہو۔جہاں سروش کو کوئی دماغی ٹینشن نہ ہو.....اس کی جو حالت تھی وہ بہت گھبرا گیا تھا۔

***

میری سانسوں میں، دھڑکن،روح میں تم ہی تو بستے ہو

پھر.....تجھ سے چھپ کر بھی تو جاؤں گی کہاں؟


شام کے سائے ہر سو اپنی چادر پھیلائے ہوئے تھے۔

چھوٹے سے صحن میں شیشم کے درخت سے کچھ فاصلے پر چارپائی رکھی ہوئی تھی۔جس پہ سرخ پھولوں والی چادر بچھا رکھی تھی اور وہ اپنی تمام تر وجاہتوں اور خوشبوؤں کے ساتھ بیٹھا تھا۔

جبکہ باقی تینوں افراد دوسری ایک چارپائی پہ بیٹھے تھے۔

"آنٹی، انکل.....میں مادفہ کو لینے آیا ہوں۔ جب تک ہم امریکہ نہیں جا رہے یہ میرے ساتھ رہے گی۔"

وہ کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے صحن میں بیٹھے زبیر کی بات پہ وہاں ہی دروازے میں تھم گئی۔

"پر پتر جی...!جوان جہاں لڑکی تمہارے ساتھ، تمہارے گھر میں کیسے رہے گی؟"

والد صاحب پریشان تھے۔

"انکل آپ فکر نہیں کریں ہم لوگ بہت جلد امریکہ واپس جا رہے ہیں۔اور یہاں مادفہ اس لیے نہیں رہ سکتی کیونکہ آگر وہ چوہدری حدثان یہاں تک پہنچ گیا تو آپ سب کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اور میں یہ نہیں چاہتا۔"

اس نے کہا تو کب سے خاموش بیٹھے بھیا بولے۔

"ٹھیک ہے تم اسے لے جاؤ۔ مادفہ! اپنے کپڑے پیک کرو اور جاؤ زبیر کے ساتھ۔" بھائی کہہ کر ایک نظر زبیر پہ ڈالتا وہاں سے ہٹ گیا۔

اس نے نظریں اٹھا کر مادفہ کی جانب دیکھا۔

ذرد لباس زیبِ تن کر رکھا تھا، کھلے سیاہ کالے کمر سے تلے جاتے آبشاروں جیسے بال دائیں شانے پہ جھول رہے تھے،موٹی موٹی آنکھوں میں خوف لیے وہ بار بار لمبی پلکوں کے پردے گرا رہی تھی۔نرم لبوں کو سختی سے بھینچے وہ مومی انگلیاں پٹختی واپس پلٹ گئی۔ زبیر نے خود کو سرزنش کی اور رخ پھیر کر آنٹی، انکل سے گفتگو کرنے لگا۔

کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تھی۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا.....وہ افسردہ تھی اس کے چہرے سے واضح معلوم ہو رہا تھا۔ آنکھیں کافی حد تک لال تھیں جو چغلی کھا رہی تھیں کہ اندر وہ روتی رہی ہے۔وہ گھر والوں سے ملنے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے چلتی گھر کی دہلیز پار کر گئی۔

"پریشان کیوں ہو؟"

"ہاں.......ہوں؟" وہ جو کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی اچانک چونک گئی تھی۔

"میں نے پوچھا پریشان کیوں ہو؟"

"مجھے پاکستان سے بہت دور جانا ہے.....کیا ہم آج ہی امریکہ نہیں جا سکتے؟" وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔

"میں کوشش کرتا ہوں۔" کچھ دیر اس کی جانب دیکھنے کے بعد وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

"کیا تم ساتف کے لیے رو رہی ہو؟"

اس کے استفسار پر مارفہ نے بری طرح چونکتے ہوئے زبیر آفندی کی جانب دیکھا۔

"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں اس کے ساتھ ٹوٹی منگنی کی بدولت روؤں گی؟" اس نے سنجیدگی سے الٹا اسی سے ہی سوال کر ڈالا۔

"آنٹی نے بتایا کہ تم اس سے رشتہ ٹوٹنے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکی تھی اور بےہوش ہو گئی؟"

"ہاہاہا......آپ کو ایسا لگتا ہے تو ٹھیک ہی لگتا ہو گا۔"

چند پل وہ خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی پھر ہنستے ہوئے بولی۔

"خیر چھوڑو....کوئی اور بات کرو۔"

وہ اس کے ہونٹ کھلنے سے پہلے ہی بولی۔

زبیر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ڈیش بورڈ پہ پڑا فون بج اٹھا۔

"دیکھو ذرا کس کی کال ہے۔" وہ گاڑی کو موڑتے ہوئے بولا۔

مادفہ نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور جیسے ہی نظر سکرین پر چمکتے نام پہ پڑی تو وہ لب بھینچ کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"الفت کی کال ہے۔" وہ بےتاثر لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

اس نے فون مادفہ کے ہاتھ سے لے کر کال اٹینڈ کی اور فون کان سے لگا لیا۔

"میں کیوں کسی سے رشتہ ٹوٹنے پہ صدموں میں آؤں گی....؟ نجانے کیوں میں تم سے محبت کرنے لگی....

یہ جانتے ہوئے بھی کہ الفت....." وہ رخ پھیر کر پیشانی مسلتے ہوئے سوچنے لگی۔

"نہیں.....زبیر بس میرا بہترین دوست ہے۔میں ہرگز اپنے رشتے کو complected نہیں بناؤں گی۔"

وہ خود سے لڑ رہی تھی۔اب سے نہیں پیچھلے کئی سالوں سے۔مادفہ عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا تھی،کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ پہلے پہل اپنے ہی احساسات و جذبات سمجھنے سے قاصر تھی....مگر جب سب کچھ سمجھ میں آیا تو وہ اپنی نگاہوں میں ہی مجرم بن کر رہ گئی۔یہ ایسی کیفیت تھی کہ اسے ڈھلتے سورج کی روشنی اور بدلتے موسموں کی خوبصورتی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا.....کیونکہ اس کے دل کی بستی میں کوئی رنگ نہ تھا......صرف ایک موسم......موسم خزاں تھا جو ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا کہ کوئی اور حسین موسم آنے کو نہ تھا۔

"کن سوچوں میں گم ہو محترمہ؟" اسے تب ہوش آیا جب زبیر نے دروازہ کھول کر اسے متوجہ کیا۔

"کچھ نہیں۔"

نفی میں سر جھٹک کر وہ دروازہ تھام کے اتری اور مین گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔وہ بھی چشمہ اتار کے شہد رنگ بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس کے پیچھے بڑھ گیا تھا۔

"کہاں جا رہی ہو؟" اسے سیڑھاں چڑھتے دیکھ وہ حیرت سے بولا۔

"سونے جا رہی ہوں۔"

وہ پیشانی مسلتے ہوئے تھکاوٹ بھرے لہجے میں بولی۔

"ابھی سونا نہیں ہے یار! مجھے بہت سی باتیں کرنی ہیں تم سے،اور ہاں آج ڈنر تم کرواؤ گی۔" وہ نرم سی مسکراہٹ لیے کوٹ اتار کے لاؤنج میں پڑے امریکین اسٹائل سفید و کریم کلر صوفے کی پشت پر ڈالتے ہوئے آستینوں کو فولڈ کر کے خود بھی صوفے پر بیٹھ گیا۔

" کیوں جی میں ڈنر کیوں کرواؤں؟ پارٹی تو تمہاری جانب بنتی ہے نا۔"وہ اپنی ترنگ میں واپس لوٹ آئی تھی۔

"میری جانب کب؟ کیسے اور کیوں؟"

وہ تو کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔

"کیونکہ ابھی مجھے سیلری نہیں ملی۔" رازداری سے کہتے ہوئے وہ ہنس دی۔

"ہاہاہا....ٹھیک ہے اب ایسا کرو تم بھی ریڈی ہو جاؤ میں بھی ابھی آیا۔" چٹکی بجا کر اٹھتے ہوئے وہ ہنستے تیز قدم اٹھاتا سیڑھاں چڑھ گیا۔

جبکہ وہ مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔

گردن گھما کر صوفے پہ پڑے اس کے کوٹ پہ جیسے ہی نگاہ ٹھہری اس کے قدم خودبخود سیڑھیاں اتر کر آگے بڑھے اور ہاتھوں نے نرمی سے سرمئی کوٹ اٹھایا تھا۔ زبیر کے کلون کی خوشبو اس کے چاروں اطراف بکھرنے لگی وہ بےاختیار ہی اس کے کوٹ کو سینے سے لگا کر آنکھیں موند گئی۔

"میری قسمت میں صرف تمہاری خوشبوئیں ہی ہیں زبیر آفندی! شاید میں اس قابل نہیں ہوں کہ مجھے تمہاری محبت حاصل ہو، تمہارا ساتھ نصیب ہو۔"

وہ افسردگی سے آنکھیں موندے بڑبڑائی تھی۔

دل نے اِس جانے پہچانے شخص کی خوشبوؤں کو محسوس کر لیا تھا تبھی تو تیزی سے دھڑکنے لگا۔

"یہ ایک الگ قسم کا احساس ہے زبیر! جو صرف تمہارے لیے ہی میرے دل میں پیدا ہوا ہے۔مگر دیکھو نا قسمت.....تم کسی اور کے ہونے والے ہو۔"

کئی آنسو اس کے روتے دل کا ساتھ دیتے ہوئے رخسار پہ بہہ گئے تھے۔وہ خوف زدہ سی ہو کر اس کے کوٹ کو صوفے پر پھینک کے پلٹی منہ کو دونوں ہاتھوں میں چھپا کے آنسوؤں کو رگڑتی بھاگتے ہوئے سیڑھاں چڑھ گئی۔

"میں یہ کیا کر رہی ہوں؟کہیں میں جازیہ کا کردار تو ادا نہیں کرنے لگی یا پھر........س سروش کا؟" وہ اپنے جذبات سے ڈر چکی تھی۔

"ن نہیں میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی ایک مرتبہ پھر سے کوئی جازیہ یا سروش نہیں پیدا ہو گی۔"

وہ سختی سے نفی میں سر ہلاتی تیزی سے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔تقریباً آدھا گھنٹہ اسے لگا تھا خود کو کمپوز کرنے میں۔اور وہ سارے جذبات، دل میں چھپائے کمرے سے باہر نکلی تھی۔

"چلیں؟"

ریشمی کالا آنچل شانوں پر ٹھیک سے اوڑھ کر وہ نرم سی مسکراہٹ لیے بولی۔

وہ جو پوری طرح فون پہ مصروف تھا اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"تم روتی رہی ہو؟"

نگاہیں جب ملیں تو وہ سنجیدگی سے استفسار کرتا صوفے پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔وہ سٹپٹا کر سر جھکا گئی تھی۔

اس نے اپنی موٹی موٹی غلافی آنکھوں کو کاجل سے بھر لیا تھا کہ سرخی واضح نہ ہو مگر سفید ناک جو سرخی مائل ہو چکی تھی اسے چھپانا بھول گئی تھی۔

"نہیں تو۔"

"پھر ناک پہ کسی مچھر نے کاٹ لیا کیا؟"

وہ شرارت سے کہتے ہوئے صوفے کی پشت پر پڑا اپنا کوٹ اٹھانے کے لیے جھکا۔

"نہیں وہ بلش آن لگایا ہے۔" کوئی اور بہانہ نہ ملا تو یہ ہی کہہ دیا۔

"مجھے تو تم لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی۔ بھلا ناک پہ بلش آن لگانے کا کیا تُک بنتا ہے؟"

وہ اکتاہٹ سے بولا تو مادفہ ہنس دی۔

"اس سے فریش لک آتا ہے، آپ نہیں سمجھیں گے۔ چلیں اب دیر ہو رہی ہے۔"

"بھئی ٹھیک ہے تم لیڈیز کو اللّٰہ ہی سمجھے۔"

وہ دونوں آگے پیچھے چلتے دروازے کی جانب بڑھ گئے تھے۔

****

کھانا کھانے کے درمیان وہ دونوں بھیا کے بچوں کی شرارتوں کو یاد کرتے ہوئے ہنس رہے تھے۔

"واقع ہی یار وہ سب بہت ہی اچھے ہیں....میرا مطلب ہے تمہاری پوری فیملی۔ اور الفت بھی.......بہت....."

وہ کانٹے کے ساتھ چکن تکہ بوٹی کاٹ رہی تھی اور جیسے ہی اس نے سر اپنی پلیٹ سے اٹھایا زبان کو تالے لگ گئے۔آنکھیں پھٹ کے باہر آ گئیں اور چھری کانٹا ہاتھ سے چھوٹ کر پلیٹ میں گر گئے۔

"ز زبیر!....." وہ خوف سے کانپ کر رہ گئی تھی۔

مادفہ کی خوف سے بھری نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے جب اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھا تو پل بھر کے لیے شاک کے مارے وہ بھی ساکت ہو گیا تھا۔

چوہدری حدثان ان کے پیچھلے میز پہ بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ کے قریب رائفل پڑی تھی۔مادفہ کی جان حلق میں آ گئی تھی۔وہ اب اٹھا تھا اور ایک ایک قدم چلتا مادفہ کی جانب بڑھا۔ایک ہاتھ اس کی کرسی کی پشت پر ٹکاتے ہوئے وہ اس پہ جھکا تو زبیر آفندی کا خون کھول اٹھا۔

"وہ کہاں ہے؟ بس اتنا بتا دو۔"

"چوہدری حدثان! حد مت بھولو اپنی۔" زبیر غصے پہ قابو پاتے ہوئے دانتوں پر دانت جمائے بولا تھا۔

"او فرنگی......"وہ اب اس کی جانب پلٹا تھا، شیر کی طرح پھنکارتے ہوئے بولا۔

"توں ہمارے درمیان میں مت بولنا وگرنہ اڑا دوں گا۔"وہ اس کی پیشانی پر بندوق کی نالی رکھ چکا تھا کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر اسے روکے۔ وہاں موجود فیملیاں ڈر کر بھاگ چکی تھیں۔

"چوہدری حدثان!"

مادفہ نے دانتوں پہ دانت جما کر اسے پکارا۔

"حکم کرو سروش!....حدثان ہمہ تن گوش ہے۔"

وہ اس کے ساتھ کرسی کھینچ کر تیزی سے بیٹھتے ہوئے نرمی سے بولا۔

"ہمارے پیچھے نہا دھو کر کیوں پڑے ہوئے ہو؟

چاہتے کیا ہو ہم سے؟ جب ایک مرتبہ کہہ دیا کہ میں مادفہ ہوں پھر بار بار سروش کیوں کہ رہے ہو؟"

وہ تنگ آ کر براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بےخوف ہو کر بولی تھی۔

"تم سروش ہو اور جب تک تم یہ بات قبول نہیں کر لیتی تب تک میں پیچھے پڑا رہوں گا۔"اس کی سوئی ہنوز اسی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔لہجہ بےشک اٹل تھا مگر بےبسی نگاہوں سے جھلک رہی تھی اور وہ ٹکٹکی باندھے مادفہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔

"پہلے سے کافی ماڈرن ہو گئی ہو اور خوبصورت بھی.... رنگ و روپ بھی بہت نکھر گیا ہے۔"

"دیکھو مسٹر چوہدری! میں مادفہ ہوں اس بات کا پروف دے سکتی ہوں۔"

اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ اس انداز سے بولی کہ وہ لب بھینچ کر دوسرے پل خوف زدہ سا ہو کے بےمقصد ہی اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔

پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور جانے ہی لگا تھا کہ مادفہ کی بات نے اس کے قدم روک دیئے۔

"روکو چوہدری حدثان! کچھ بات کرنی ہے تم سے۔"

وہ سوچتے ہوئے ایک دم سے بولی تھی کہ زبیر نے حیرت سے چونک کر اسے دیکھنے لگا۔وہ اس کی اٹھتی نگاہوں کو محسوس کر چکی تھی مگر نظر انداز کرتی اٹھی اور حدثان کی جانب بڑھ گئی۔ زبیر مٹھیاں بھینچے آنکھیں زور سے میچ گیا تھا کہ اس کے اندر ایک آگ سی جلنے لگی تھی جس آگ میں وہ حدثان کو بھسم کر ڈالنے کو من ہو رہا تھا۔

"کل پانچ بجے تم لاہور زو پہنچ جانا مجھے تمہیں کچھ سچائی سے آگاہ کرنا ہے۔تم سے اپنی اور زبیر کی جان چھڑوانی ہے۔ اوکے؟"وہ سنجیدگی سے کہہ کر بنا اس کا جواب سنت پلٹ گئی تھی اور وہ اس کو کرسی پہ بیٹھتے اور زبیر کی جانب نرمی سے دیکھتے پا کر تیزی سے وہاں سے ہٹ گیا۔

"تم کیوں اسے ثبوت دو گی کسی بھی بات کا؟" زبیر آفندی کی آنکھوں میں لالی اتر آئی تھی۔

"زبیر! ابھی ہمیں یہاں سے چلنا ہو گا سب بتاتی ہوں۔"

وہ اپنا بیگ اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی تو اسے بھی مجبوراً اٹھنا پڑا۔

"آپ مجھے بتانا پسند کریں گی کہ آپ اس گھٹیا شخص سے اکیلی ملنے کیوں جا رہی ہیں۔"گاڑی کے پاس پہنچتے ہی وہ پھوٹ پڑا۔

"میں نے دیکھا ہے زبیر! کہ وہ ہم دونوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔اس کا چہرہ پڑھا ہے وہ ہمیں مارنے نہیں آیا تھا بس ڈرانے آیا تھا۔" سینے پر ہاتھ باندھے وہ گہری سانس بھر کر گاڑی سے ٹیک لگاتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔

"میں تمہیں وہاں اکیلے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا۔"

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔

"مگر مجھے جانا ہو گا۔"وہ اٹل لہجے میں بولی۔

"میں نے کہا ہے نا تم نہیں جاؤ گی۔" وہ زور کا مکا گاڑی کی چھت پہ رسید کرتے ہوئے غصے سے دبی دبی آواز میں چلایا۔

وہ سہم گئی۔

"دیکھو مادفہ! وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔میری بات سمجھنے کی کوشش کرو پلیز تم وہاں نہیں جاؤ گی۔"

اس کی آنکھوں کی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوئے وہ خود کو نارمل کرتا التجاء آمیز لہجے میں گویا ہوا۔

مگر وہ انہماک سی اس کی ہیزل براؤن آنکھوں میں دیکھتی رہی۔

"وہ مجھے نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دیکھو زبیر! اسے بھی سچائی جاننے کا حق ہے۔ اور ایک یہ ہی طریقہ ہے ہم دونوں اس سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔"

جب وہ اس کی نگاہوں سے نظر چرا کر سر جھکا کے سینے پہ ہاتھ لپیٹے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا تو وہ چونکی۔

"ہر وقت رائفل اس کے پاس ہوتی ہے' وہ کچھ بھی کر سکتا ہے،وہ بہت خطرناک شخص ہے۔"اس نے خفگی سے نفی میں سر ہلایا تو مادفہ مبہم سا مسکرا دی۔

"میری فکر مت کرو کہا نا وہ مجھے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔"

"مگر مجھے تمہاری فکر ہے مادفہ!" وہ فکرمندی سے بولا تو مادفہ نے سرعت سے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا اور پھر سر جھٹک کر ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے بولی۔

"جہاں تک میرا خیال ہے اس نے رائفل کسی اور ہی چکر میں رکھی ہوئی ہے۔"

"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی مگر میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔"

وہ کہنی گاڑی پہ ٹکاتے ہوئے اس کی جانب رخ پھیر کر گویا ہوا۔

"نہیں تم نہیں جاؤ گے۔"

"مادفہ....!"

وہ غصے کو ضبط کرتے ہوئے مٹھیاں بھینچ گیا۔

" پلیز مجھ پہ یقین رکھیں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا۔"

بےدھیانی میں وہ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے منانے لگی تھی۔ زبیر نے گردن گھما کر اس کے ہاتھ کو دیکھا تو اس نے گھبرا کر سرعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

"چلو بھئی گھر چلیں یا یہاں ہی کھڑے رہ کر رات گزارنی ہے؟"

اس کی گھبراہٹ کو دور کرنے کی خاطر وہ ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بھی زبردستی کی مسکراہٹ لیے گاڑی میں بیٹھ گئی۔

اگلے دن وہ پانچ بجے گھر سے نکل گئی تھی۔

جبکہ حدثان چار بجے سے زو میں موجود چھوٹی سی پہاڑی پر سب سے آخری کونے پہ کھڑا تھا۔

کالا کرتہ پاجامہ زیب تن کیے ہوئے،ایک ہاتھ میں رائفل تھی تو دوسرے میں سگریٹ تھی وہ وقفے وقفے سے کش بھرتا اور دھواں فضا میں بکھیر دیتا۔

وقت کتنا آگے جا چکا تھا۔

گزرے پانچ سالوں میں اس نے نجانے کیا کیا نہیں کھویا تھا....بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس نے اپنا سب کچھ ہی کھو دیا تھا۔

"حدثان! تمہاری بیوی تمہیں دھوکہ دے رہی ہے۔"

سروش نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی وہ چونک کر آنکھیں کھولتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا مگر وہ ہمیشہ کی طرح کہیں نہیں تھی بس اس کی آواز تھی جو پیچھلے پانچ سالوں سے اس پر کوڑے برسا رہی تھی۔

"تم جیسی عورتوں کی وجہ سے ہی گھر برباد ہوتے ہیں۔نکلو یہاں سے۔"

حدثان کی اپنی آواز نے اس کا چہرہ سفید کر دیا تھا۔

"ن نہیں پلیز......تم غلط کر رہے ہو۔میں مجرم نہیں ہوں تمہارا مجرم کوئی اور ہے جو تمہارے اعتبار کے ساتھ بھی کھیل رہا ہے۔"

"ہاں وہ تمہیں دھوکہ دے رہی ہے اور تم اتنے بیوقوف ہو کہ سچ اور جھوٹ کو نہیں سمجھ پائے۔"

"وہ تمہیں دھوکہ دے رہی ہے۔"

سروش کی آواز چاروں اطراف سنسناتی گولیوں کی آواز کی مانند گونج رہی تھی۔

کبھی وہ چنخ کر کہتی تو کبھی نرمی سے۔

"ہاں سروش! تم ٹھیک تھی اس نے مجھے دھوکہ دیا وہ مکار تھی سرو...! وہ دھوکے باز تھی۔"

اس نے سگریٹ پھینک کر آنکھیں میچ لی تھیں۔

"ایکسکیوز می مسٹر چوہدری!"

مادفہ کی آواز پہ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔وہ ٹھیک اس سے چار سیڑھاں نیچے کھڑی تھی سینے پہ ہاتھ لپیٹے ہوئے غزلی آنکھوں کو اس پہ ٹکائے اور پیشانی پہ نمایاں بل لیے، اس کے خوبصورت باریک گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ سختی سے بھینچے تھے۔ سیاہ ریشمی آنچل ہوا کی زد میں آڑ رہا تھا۔

ہلکے لال رنگ کا پرینٹڈ گھٹنوں تک جاتا کرتہ اور سیاہ ٹراؤزر میں ملبوس وہ موسم کی تمام تر خوبصورتی خود میں سموئے ہوئے تھی۔

"بیٹھیں مس.....ہا.... کیا کہوں تمہیں۔ دل تو چاہتا ہے سروش کہوں۔"

وہ اس کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات نوٹ کرتے ہوئے نظریں جھکائے اٹھ کر پلٹا اور وہاں پڑی گول میز کے گرد ایک بینچ پہ بیٹھتے ہوئے کھوئی کھوئی مسکراہٹ لیے بولا۔

"میں جو ہوں مجھے وہ ہی کہو تو بہتر رہے گا۔" ایک ناگوار سی نظر میز پہ پڑی رائفل پہ ڈالتے ہوئے وہ سنجیدگی اور ناگواری سے بولی۔

"تمہیں یہاں یہ رائفل لانے کی اجازت کس نے دی؟"

اسے حیرت ہوئی تھی۔

"پیسے کے سامنے ہر قانون ختم ہو جاتا ہے۔" عجیب سی ہنسی ہنستے ہوئے اس نے کہا تھا۔ وہ دور اونچے درختوں پر نگاہیں ٹکائے ہوئے تھی۔

"ڈرو نہیں میں تمہیں ماروں گا نہیں۔"

"مجھے معلوم ہے تم مجھے مار نہیں سکتے۔" وہ تمسخر اڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے اس کے سامنے پڑے بینچ پہ بیٹھ گئی۔

"ہوں.....تمہارا باڈی گارڈ نظر نہیں آ رہا۔"

"وہ میرا باڈی گارڈ نہیں.....کزن ہے میرا۔"

شانے پہ لٹکے بیگ کو اتار کر میز پر رکھتے ہوئے بولی۔

"ٹھیک ہے......اپنے بارے میں بتاؤ۔"

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ گہری سانس بھرتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی میں پہنی انگوٹھی گھمانے لگا۔

"میں کیوں بتاؤں تمہیں اپنے بارے میں؟ یہاں صرف تمہیں یہ دینے آئی ہوں۔"

ایک ڈائری نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ تیز لہجے میں بولتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"رکو مادفہ!"

وہ حیران کن نگاہوں سے ڈائری کو دیکھتے ہوئے بولا۔

وہ رکی اور پلٹی۔وہ بےچین ضرور تھا بےسکونی اس کے چہرے سے واضح ظاہر ہو رہی تھی۔

"کیا ہوا چوہدری حدثان!....جب وہ تمہیں بتاتی تھی کہ تمہاری وائف تمہیں دھوکہ دے رہی ہے تب تم نے اسے پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر تم لوگوں نے مار ہی دیا اسے...سروش کو مار کر خوش نہیں رہ پائے؟"

"سروش کو مار.....ن نہیں نہیں میں کیوں ماروں گا اسے؟ میں تو خود پانچ سالوں سے اسے ڈھونڈ رہا ہوں......مگر...." وہ کہتے کہتے ایک دم چونک کر رکا اور غور سے اسے دیکھنے لگا۔

"تم اگر سروش نہیں ہو تو مجھے کیسے جانتی ہو، یہ سب کیسے جانتی ہو؟" وہ اس کے طنزیہ لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے بےچینی سے گویا ہوا۔

"ویسے تمہاری بیوی تو بہت حسین ترین تھی پھر بھی اتنی بدصورت نکلی.....افوہ...."وہ ہنستے ہوئے بولی تو حدثان ڈائری وہاں ہی رکھ کر اس کی جانب بڑھا اور شانوں سے تھام کر ستون سے لگاتے ہوئے اس کی گردن پر بازو رکھ کر دانتوں پہ دانت جمائے بولا۔

"یہ تمسخر اڑانے والی مسکراہٹ، طنزیہ فقروں کے تیر مجھ پہ مت برساؤ۔ جب کچھ بھی نہیں جانتی ہو تو کچھ بھی مت کہو۔" بازو کا دباؤ بڑھایا گیا تھا۔

مادفہ خوف سے سپید پڑ گئی۔ آنکھوں میں خوف واضح تھا۔

"ایم سوری.....ایم سوری...." وہ خوف زدہ ہو کر تیزی سے پیچھے ہٹا اور ہاتھ اٹھا کر بولا۔

"زبیر ٹھیک کہہ رہے تھے تم خطرناک آدمی ہو، مجھے اکیلے نہیں آنا چاہیے تھا۔"

وہ دوپٹہ درست کرتی تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔

"روکو مادفہ.....مادفہ....!بات سنو۔ایم سوری ایم سو سوری۔"

وہ جھک کر رائفل اور ڈائری اٹھا کر اس کے پیچھے تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے بولا۔

"مسٹر چوہدری! میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ اس ڈائری میں سب کچھ لکھا ہوا ہے۔سروش مر چکی ہے اور آپ اسے مجھ میں ڈھونڈ بھی نہیں سکتے۔"

وہ آخری سیڑھی پہ رکتے ہوئے اس کی جانب پلٹی تو کھلے بالوں کی چند لیٹیں جھول کر چہرے پر آ گئیں۔

"مگر تم اتنا سب جانتی کیسے ہو؟تمہاری شکل و صورت، آواز سب کچھ....سب کچھ سروش جیسا ہی تو ہے۔ تو میں کیوں مان لوں کہ تم مادفہ ہو؟"وہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا۔

"ٹھیک ہے میں تمہیں بتاتی ہوں۔ وہ حصہ.....جو اس ڈائری میں نہیں ہو گا۔"وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔

"پہلے یہ بتاؤ ثمروز کہاں ہے؟"

اس نے استفسار کیا۔

"اس ڈائری میں ان کے متعلق بھی لکھا ہو گا۔" وہ رخ پھیر کر چلنے لگی۔

وہ بھی اس سے فاصلے پر چل رہا تھا۔

ٹھنڈی ہوا ان دونوں کو چھو کر گزر رہی تھی، مادفہ نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا جو رفتہ رفتہ سیاہ بادلوں سے ہر جانب سیاہی بکھیرنے لگا تھا۔

"میری دادی کہتی تھیں جب ایسی سیاہی دھرتی پہ چھا جائے تو کہیں ظلم ہوا ہوتا ہے یا پھر کسی کا قتل ہوتا ہے۔"

وہ کھوئے کھوئے انداز میں کہہ رہی تھی جب حدثان نے سرعت سے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔

"تمہارا قتل نہیں ہو گا۔ ہاں اگر ثمروز مل جائے تو اسے نہیں چھوڑوں گا ہرگز نہیں۔" آخر میں وہ غصے سے بولا تھا۔اور اس سے بھی کہیں زیادہ غصے سے مادفہ نے اسے گھورا تھا۔

"مجھے کچھ دیر پہلے لگا تھا کہ شاید تمہیں سروش اور ثمروز کی موت نے نیک بنا دیا ہو گا مگر میں یہ کیسے بھول گئی کہ تم چوہدریوں کا خون ہو۔

ایک مرتبہ تمہارے باپ نے ان دونوں کو مروا دیا اب تم ان دونوں کو مارنے پہ تل گئے ہو۔مرے لوگوں کو کون مارتا ہے چوہدری حدثان؟"وہ رک کر اس کے سامنے رکتے ہوئے تیز لہجے میں گرج کر بولی تھی

زور زور سے بادل گرجا اور مینہ برسنے لگی۔

"کیا...کیا کہا....ت تم نے...ڈیڈ نے....؟"

اس کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ کر زمین بوس ہو چکی تھی۔

"میں مادفہ آفندی ہوں زبیر آفندی کی کزن، ہم دونوں امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں، میرا بہت برا ایکسڈنٹ ہوا تھا اور میرا چہرہ پوری طرح سے بگڑ گیا تھا میری سرجری ضروری تھی اور....مجھے بس سروش کی شکل ملی ہے۔ کیونکہ تب ڈاکٹروں کے سامنے وہ ہی چہرہ تھا،جو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ کر جانے والا تھا بس یہ ہی میں بتا سکتی ہوں باقی تم سروش کی ڈائری میں پڑھ لینا۔"

وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی اور تیزی سے پلٹ گئی۔

"نہیں ڈیڈ ایسا نہیں کر سکتے......" وہ گھٹنوں کے بل زمین بوس ہو چکا تھا۔

وہ رکی تھی اور پلٹ کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔اس وقت وہ شخص قابلِ رحم لگ رہا تھا۔

"انسانیت کے ناطے تمہارا فرض بنتا ہے کہ اتنی بڑی سچائی بتا کر اسے یہاں اکیلے نہ چھوڑ کر جاؤ۔"

وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھی مگر پھر ضمیر کی آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔

"اس نے کب انسانیت دکھائی تھی۔ یا اب کون سا انسانیت نے اس کا رخ کیا ہے بلکہ وہ خود ہی انسانیت سے بہت دور بھاگتا رہا ہے۔سروش پہ کتنے ظلم ڈھائے اور ابھی تک وہ ثمروز.....اونہہ...... یہ شخص اسی لائق ہے۔"

اس کو جیسے ہی سب یاد آیا تو وہ سختی سے لب بھینچے پلٹ گئی۔

"مجھے سروش سے ملنا ہے۔ایک ایک پل تڑپتا ہوں اس کو دیکھنے کی خاطر، اس سے معافی مانگنے کی خاطر...."

مادفہ کے کانوں میں حدثان کی تڑپ بھری آواز گونجی تو ایک مرتبہ پھر اس کے پاؤں زمین میں دھنستے چلے گئے۔

"جب کوئی اپنی زندگی پہ کھیل کر آپ کی زندگی بچا رہا ہو تو اس پاگل شخص پہ یقین بھی کر لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ بیوقوف نہیں ہوتا۔"

وہ دوپٹہ سختی سے خود پہ لپیٹے بولی اور رفتہ رفتہ آگے بڑھ گئی۔مینہ بہت زوروں سے برس رہی تھی جس وجہ سے وہ چند پلوں میں ہی بھیگ چکی تھی۔

ابھی چند قدم ہی چلی تھی کہ سامنے سے شاہ زبیر تیز قدم اٹھاتا اس کی جانب آتا دکھائی دیا۔وہ جو ہرنی کی مانند خوف زدہ سی چل رہی تھی اسے دیکھتے ہی اس کے وجود میں جان آنے لگی۔

"تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی؟کب سے ٹرائے کر رہا ہوں؟ اس نے تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی تو نہیں کی؟ کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں خراب موسم میں باہر تنہا مت جایا کرو۔"

اپنا کوٹ جلدی سے اتار کر اس کے دونوں شانوں پہ ڈالتے ہوئے وہ فکرمندی سے اپنے مخصوص انداز میں بولتے جا رہا تھا اور وہ انہماک سی اس میں کھو گئی تھی۔

"کیا ہوا؟" اس کے استفسار پر وہ مسکراتے ہوئے سر جھکا گئی۔

"اتنی فکر مت کیا کرو کہیں ہمیں عشق ہی نہ ہو جائے آپ سے۔" وہ بڑبڑائی۔

"کیا کہہ رہی ہو اونچی آواز میں کہو۔"

"ک کچھ نہیں....." وہ سٹپٹا گئی۔

"اسے کیا ہوا یہاں ہی سجدے دینے شروع کر دیئے؟ لگتا ہے بہت نیک ہو گیا ہے۔" اس نے حدثان کو دیکھتے ہوئے شریر لہجے میں کہا۔

"سروش کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھ کر حدثان کی جانب دیکھتے ہوئے تمسخر اڑانے والے انداز میں بولی۔زبیر نے چونک کر اسے دیکھا۔

"بیوی کے حسن کا بھوت اترتے ہی سروش یاد آ گئی۔اونہہ.....چلو چلتے ہیں۔"

وہ کہہ کر پلٹی مگر زبیر آفندی نے اس کی کلائی تھام کر روک دیا۔

"اسے یہاں چھوڑ کر جانا انسانیت نہیں۔"

وہ اس کی کلائی چھوڑتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

"میں نے بھی یہ ہی سوچا تھا مگر یہ اسی لائق ہے۔"

"نہیں ہمیں اسے اس کے ٹھکانے تک چھوڑنا ہو گا۔

میں جانتا ہوں یہ درد......بہت جان لیوا ہوتا ہے.....جب ہمارے اپنے ساتھ نہ ہوں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے اور اس کے ساتھ تو اس وقت کوئی بھی موجود نہیں ہے۔"

زبیر کی بات پہ وہ اچھی خاصی چونکی تھی۔

سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پھر ایک نظر حدثان پہ ڈالی جو منہ ہاتھوں میں چھپائے ہوئے تھا۔

"ہوں.....میں نے ساری انفارمیشن حاصل کی ہے اس کے متعلق پھر بتاؤں گا فلحال وقت نہیں ہے۔ چلو اس کی مدد کرتے ہیں اسے ہماری ضرورت ہے۔"

وہ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے زبیر کی بات ماننی پڑی۔

شانے آچکا کر وہ اس کے کوٹ کو سختی سے تھامے رخ پھیر گئی۔

وہ جو سر جھکائے کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تھا اپنے سامنے رکتے پیروں کو دیکھ چونکا اور سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

وہ نیرو سرمئی جینز ،سفید بٹنوں والی شرٹ زیب تن کیے اس کی جانب اپنا باتھ بڑھا رہا تھا۔

"ہم تمہارے دشمن نہیں اور نہ ہی تم ہمارے دشمن ہو۔

ہم تو ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔جب کوئی کسی کو جانتا نہ ہو تو پھر صرف ایک ہی رشتہ ہوتا ہے۔انسانیت کا۔"

وہ پل بھر کو خاموش ہوا۔

حدثان کے چہرے پر پل بھر میں سختی در آئی تھی۔وہ خون برساتی نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے اٹھا۔

"اگر تم چاہو تو ہمارے ساتھ چل سکتے ہو۔" زبیر اس کی آنکھوں کے بدلتے رنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔

"میں اتنا بھی کمزور نہیں ہوں مسٹر آفندی کہ اٹھنے کے لیے کسی انجان کی جانب مدد طلب نگاہوں سے دیکھوں۔"

وہ ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہتے ہوئے رائفل اٹھاتا تیز قدموں سے واپس پلٹ گیا تھا۔

"کہا تھا نا کہ وہ اسی لائق ہے۔ کر لی مدد.....چلو اب....."

مادفہ نے طنزیہ انداز میں کہا تو وہ بری طرح سے چونکا اور شانے آچکا کر اس کے ساتھ چل دیا۔

"کل صبح کی فلائٹ ہے ہماری جا کر پیکنگ کر لو اپنی۔"

"ٹھیک ہے۔"

وہ جو اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دنیا کو اپنے قدموں میں محسوس کر رہی تھی اس کی اِس بات پہ آسمان سے زمین پہ آ گری تھی۔ مادفہ کو پاکستان سے بھی جانا تھا اور امریکہ بھی نہیں جانا تھا۔

کیونکہ وہاں جاتے ہی زبیر کی توجہ کی شدتیں ختم ہو جاتی تھیں اور وہ اسے اگنور کرنے لگتا تھا.....پر ایسا ہرگز نہیں تھا یہ اس کی خود کی پیدا کردہ سوچ تھی جو اسے سکون کی سانس نہیں لینے دے رہی تھی۔

الفت کی عجیب وغریب نظریں اور مادفہ کو زبیر کے ساتھ بات کرتے دیکھ کوئی نہ کوئی ڈرامہ کریٹ کرنا یہ سب اسے بلکل بھی پسند نہ تھا مگر اسے یہ سب جھیلنا تھا۔

آفٹر آل الفت ، زبیر آفندی کی زندگی میں وہ مقام حاصل کرنے جا رہی تھی جس جگہ کی جستجو کئی لڑکیوں کے دلوں میں ہی رہ گئی تھی اور ان لڑکیوں کی قطار میں مادفہ بھی تھی.....

وہ امریکہ بھی سکون سے نہیں رہ سکتی تھی اور پاکستان میں بھی نہیں۔شاید وہ خود سے بھاگ رہی تھی؟

یا پھر زبیر آفندی سے......جس سے وہ عشق کرنے لگی تھی۔مگر کچھ تو تھا....کوئی زندگی کا ایسا صفحہ جس کے مکمل ہونے کی اسے خواہش تھی پر ابھی ہوا نہ تھا۔

وہ جو خیالات کی دنیا میں گم تھی فضا میں گولی اور بادلوں کے گرجنے کے ملے جلے شور پر بری طرح ڈر کر چنختے ہوئے پلٹی اور زبیر کے شانے سے جا لگی۔

وہ بھی چونک کر مادفہ کے ہاتھ کو تھامے اسے تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے گولی کی آواز کی سمت میں پلٹا تھا۔

اور سامنے ان دونوں نے جو دیکھا وہ ایک ہولناک منظر تھا۔

بیک وقت ایک دوسرے کی جانب خوف زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ پھر سے سامنے کی جانب متوجہ ہوئے۔

آس پاس سے گزرتے سیر کے لیے آئے لوگ ڈر کے مارے چنختے ہوئے خود کو بچاتے یہاں وہاں بھاگنے لگے تھے۔

"زبیر......!"

وہ اس کا ہاتھ تھامے مخالف سمت بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ ساکت کھڑا سامنے دیکھ رہا تھا۔

تین چار......نہیں شاید سات آدمی تھے جو حدثان پہ گولیاں کھول چکے تھے اور وہ سنگی بینچ کے پیچھے چھپا وقفے وقفے سے سر باہر نکال کر فائر کر دیتا۔

"زبیر! چلیں یہاں سے....پلیز چلیں۔"

وہ خوف سے چنخی تو زبیر کو ہوش آیا، وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کو ساتھ لیے گاڑی کی جانب بھاگا تھا۔

"تو یہ وجہ تھی رائفل اٹھانے کی۔چوہدری حدثان نے دشمن بھی بنا رکھے ہیں۔"

وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بس سوچ رہی تھی۔

زبیر نے گردن گھما کر جب اس کے دھواں دھار ہوتے چہرے کو دیکھا تو ایک لمحے کو چونکا تھا پھر سختی سے لب بھینچے سامنے روڈ پر دیکھنے لگا۔

*******

تیری بیوفائی کے روگ کو دل میں سنبھال رکھا ہے

باؤلی' منتشر دھڑکنوں کو بھی بچا کر رکھا ہے



وہ لاہور زو سے بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر نکلا تھا مگر ایک گولی اس کے دائیں بازو میں پیوست تھی۔گاڑی پورچ میں روک کر وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ ہال تک پہنچا اور صوفے پہ گرتے ہوئے اس نے سختی سے لب بھینچے، آنکھوں کو بار بار چھپکتے ہوئے لمبے سانس لینے کے درمیان خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کی...پر درد سے مدہوش طاری ہو رہی تھی۔

"سرکار....کیا ہوا آپ کو؟"

جیسے ہی ملازم نے کیچن سے باہر دیکھا تو حدثان کے ہاتھ کو خون و خون دیکھ کر گھبراتے ہوئے اس کے پاس دوڑا چلا آیا۔

"مجھے اوپر لے چلو۔اور ایک سیخ گرم کر کے لے آؤ۔ جلدی۔"

بہت مشکل سے کہتے ہوئے وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"نہیں سرکار! یہ ٹھیک نہیں ہے......م میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس...."

"نظیرے! تمہیں جو کہا ہے وہ کرو۔وہاں چار آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار کے آیا ہوں،ایسے میں ڈاکٹر کے پاس جانا ٹھیک نہیں ہے۔اور ہاں یہ رائفل اچھے سے صاف کر کے توڑ کے کباڑ میں پھینک آؤ۔"

وہ اشارہ میز پہ پڑی رائفل کی جانب کرتے ہوئے بولا۔

"جی سرکار....! جو حکم۔" وہ اسے سہارا دے کر کمرے میں چھوڑ کے بھاگتے ہوئے باہر نکلا مرہم پٹی اور گرم سیخ لے کر وہ پھر واپس آیا تھا۔

"تم جاؤ رائفل لے جاؤ۔" وہ سیخ تھامے بمشکل اٹھا اور قدآدم شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

بائیں ہاتھ سے سیاہ کرتے کی آستین کو کھینچ کر بازو سے پھاڑتے ہوئے وہ رفتہ رفتہ سیخ اپنے سرخ و سفید مسل پہ رکھ رہا تھا۔نظیر اس منظر کو کبھی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا دل کو تھامے وہ کمرے سے بجلی کی پھرتی سے نکلا ضرور تھا مگر دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

درد کی انتہا کو چھوتے ہوئے جب اس نے گولی نکال لی تو درد سے نڈھال ہو کر بیڈ پہ بائیں کروٹ کے بل گر کے آنکھیں موند گیا۔ضبط کی انتہا کو چھوتے ہوئے اس نے بہت مشکل سے بند ہوتی آنکھوں کو کھولا اور چہرے پہ ہاتھ پھیر کر ضبط سے چمکتی پسینے کی بوندیں صاف کرتے ہوئے پٹی کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر ناکام رہا اور لاکھ کوششوں کے باوجود بےہوش ہو گیا تھا۔نظیرے نے بھاگ کر اسے بیڈ پر الٹا کیا اور فرسٹ ایڈ باکس میں سے مرہم پٹی نکال کر کرنے کے ساتھ ہی اسے انجیکشن بھی لگا دیا۔یہ سارا ٹریٹمنٹ کا سامان ہم وقت حدثان کے کمرے میں موجود ہوتا تھا کہ کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔آج اس کے پاس کوئی بھی نہ تھا جو اس کی تکلیفوں کو سمجھتا یا پھر اس کا خیال رکھتا۔

وہ اتنے بڑے بنگلے میں تنہا ہی درد کو برداشت کرتے ہوئے بےہوش ہوا تھا اور یہ تو طے تھا کہ اسے سوائے نظیرے کے یہاں ہوش میں لانے والا کوئی انسان موجود نہ تھا۔

*****

دوسری جانب وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ....یہ کون سا نیا ٹویٹس آیا ہے؟چوہدری حدثان ایم این اے کیسے بنا اور وہ جو پارک میں ہوا وہ کیا تھا؟سروش کی زندگی تک تو ایسا کچھ نہیں تھا تب تو وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا....پھر سیاست کا رخ کیوں کر کیا؟

ان تمام سوالات نے مادفہ کو بےحد متوجہ کیا تھا وہ پوری رات سو نہیں سکی تھی اگر سونے کی کوشش کرتی تو فائرنگ کی آواز کانوں میں گونجنے لگتی۔

وہ ڈر کر اٹھ بیٹھتی۔آخر جب مسلسل یہ ہی کنڈیشن رہی تو وہ بیڈ سے اٹھی اور قدموں کی آواز پیدا کیے بنا سیڑھاں اترتی پیچھلے لون کی جانب بڑھ گئی۔

سنگی بینچ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھتے ہوئے وہ دور آسمان پہ چمکتے چودھویں کے چاند کو دیکھنے لگی جو حسین تو تھا مگر تنہا کھڑا تھا۔اکثر یہ ہی ایک چیز تھی جو اسے ہر سوچ سے نجات دلا کر اپنے حسن کی جانب متوجہ کر لیتا تھا۔وہ گہری سانس بھرتی اٹھی اور بیڈ سائز جھولے پہ تکیہ درست کرتی چیت لیٹ گئی۔

آنکھیں موندے لمبی سانس کھینچ کر تازی ہوا کو اپنے اندر اترا۔آنکھیں موندتے ہی دھیان بھٹک کر زبیر کی جانب چلا گیا تھا۔بند آنکھوں کے سامنے زبیر آفندی اور الفت ہاتھوں میں ہاتھ لیے جزیرے کے کنارے چل رہے تھے اور وہ دور ریت پہ بیٹھی مٹی کا گھر بنا رہی تھی۔بار بار نگاہیں ان دونوں کی جانب اٹھ رہی تھیں۔

وہ دونوں ایک ساتھ کتنے خوش تھے....ہنستے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے اور ان کے قدم ایک ساتھ اٹھ رہے تھے کہ.........یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اب بہت دور تک چلیں گے۔

زبیر نے کافی آگے جا کر پلٹ کے اس کی جانب دیکھا تو وہ سٹپٹا کر سر جھکائے مٹی میں ہاتھ مارنے لگی۔

مادفہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور تیزی سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے وہ زبیر کی ہیزل براؤن آنکھوں کو نگاہوں کے پردے سے ہٹانا چاہتی تھی مگر ناکام رہی۔

بےبسی سے مٹھیاں بھینچے وہ خود کو کنٹرول میں کر رہی تھی مگر آنسوؤں پہ ضبط نہ کر پائی تھی۔

"مجھے الفت کے زبیر سے محبت نہیں ہو سکتی۔ ایک مرتبہ پھر سے سروش جیسا کچھ نہیں ہو گا۔ میں سروش نہیں ہوں۔"وہ خود کو سمجھاتے ہوئے آسمان کو دیکھنے لگی۔

خیالات کہاں سے کہاں کا سفر طے کر رہے تھے۔

کبھی زبیر آفندی کی جانب دھیان چلا جاتا اور اس کے دل میں عجیب سا خطرناک طوفان برپا کر جاتا۔

تو کبھی سروش کی بدولت دھیان حدثان کی جانب جاتا اور وہ آج شام میں ہوئے واقعے کے متعلق سوچنے لگتی۔

"کیا ساری رات سوئی نہیں ہو؟"

صبح بریک فاسٹ کی میز پہ جب اس نے استفسار کیا تو مادفہ بےدلی سے مسکرا دی۔

"ایکچلی میں آج رات واقع ہی نہیں سو سکی۔"

"کیوں؟"

لہجے میں سنجیدگی تھی۔

اس نے جوس کے دو گلاس بھرے ایک اس کے سامنے رکھا اور دوسرا اپنے سامنے۔

"بس یوں ہی۔ پھر سوچا پیکنگ کر لوں۔ ویسے فلائٹ کتنے بجے کی ہے؟"

اس کے استفسار پر زبیر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

"دس بجے کی۔"

"ہوں ٹھیک ہے۔"

وہ مروتً مسکرا دی کیونکہ فلحال دل ہر شے سے اچاٹ ہو چکا تھا۔زبیر نے غور سے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھا تھا اور جوس کی جانب متوجہ ہو گیا۔

********

"زبیر! ہمیں ساتف کی جانب جانا ہے پہلے۔"

وہ لوگ ائیرپورٹ کے لیے نکل رہے تھے کہ مادفہ نے سنجیدگی سے کہا۔

وہ ناسمجھی سے سر ہلا کر رہ گیا تھا۔

ان کے گھر تک وہ دونوں خاموش رہے تھے۔ وہ مادفہ کی چپ محسوس کر کے بہت پریشان ہو رہا تھا مگر نجانے کیوں وہ خود بھی کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔

ساتف اور اس کے گھر والے اسے بزنس ٹائیکون زبیر آفندی کے ساتھ دیکھ کر حیران ہی تو ہو گئے تھے۔

"یہ میرے فرسٹ کزن ہیں۔" اس نے ان سب کی سوالیہ نظروں کا جواب مسکراتے ہوئے دیا۔مسز ہمدانی کے تو ہوش ہی اڑنے لگے تھے۔

"مسز منیر نے کہا تھا تم ان کی بہن کی بیٹی ہو؟"مسز ہمدانی نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔

"ایکچلی غلطی ان کی نہیں ہے۔میرے والدین سے ان کے اچھے تعلقات تھے، میں انہیں شروع سے ہی ماما کہتی تھی......امریکہ رہ رہ کر تھک گئی تو سوچا پاکستان چلی جاتی ہوں۔ انہوں نے مجھے کہیں رکنے نہیں دیا.....بس یہ ہی۔" وہ جتنے اطمینان سے بتا رہی تھی وہاں موجود افراد کے چہرے اتنی ہی حیرانگی ٹپکا رہے تھے۔

مسز ہمدانی دل ہی دل میں پنچ و تاب کھا کر رہ گئیں، نظریں جیسے ہی اپنے بیٹے پہ ڈالیں تو وہ اس کی آنکھوں کو مادفہ پہ ٹکا دیکھ کر مجرموں کی مانند سر جھکا گئیں۔انہوں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا تھا محض دولت کے لالچ میں مگر اب جانا کہ مادفہ ان کی بہو سے کہیں زیادہ امیر و کبیر تھی۔

"میں ساتف سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔"

اس نے کہتے ہوئے رخ زبیر کی جانب کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔جبکہ ساتف کی بیوی کا رنگ اڑنے لگا تھا وہ پنچ و تاب کھا کر مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔

وہ اٹھی تو ساتف بڑے پرجوش انداز میں اٹھا تھا اس نے یہ بات محسوس کرتے ہوئے ایک تیکھی نگاہ اس پہ ڈالی اور پھر شگفتہ کی جانب متوجہ ہوئی۔

"شگفتہ! میں تم دونوں سے بات کرنا چاہتی ہوں۔اٹھو۔"

ان دونوں کو اپنے ہمراہ لے کر وہ بالکنی میں جا کھڑی ہوئی۔

"ساتف! میں نے ڈائری پڑھ لی تھی۔تمہارے گھر والوں نے تمہیں شادی کے لیے فورس کیا......کیا یہ بات شگفتہ جانتی ہے؟"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے دور آسمان کو دیکھ رہی تھی۔

"میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہے.....مگر یہ پھر بھی میری جان چھوڑ کر نہیں جا رہی۔"وہ حقارت سے شگفتہ کو دیکھتے ہوئے بولا تو وہ غصے سے اسے گھورنے لگی۔

"یہ تمہاری غلط فہمی ہے مسٹر ساتف! تمہیں چھوڑ کر میں کبھی نہیں جاؤں گی۔محبت کرتی ہوں تم سے....تمہیں تو اب مادفہ کو چھوڑ دینا چاہیے تھا۔کیا کمی ہے مجھ میں؟" شگفتہ پھوٹ پڑی تھی۔

"عقل کے ناخن لو ساتف! وہ بیوی ہے تمہاری۔ کیا کمی ہے اس میں۔ اتنی پیاری ہے، معصوم ہے اور تم سے محبت کرتی ہے مزید تمہیں کیا چاہیے؟ اور تم شگفتہ! تم بھی سب بھول جاؤ مجھے ساتف سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔میں اس سے شادی کیوں کر رہی تھی یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے۔بس اتنا جان لو کہ میں نے تمہارے شوہر کو کبھی بھی نہیں چاہا اور نہ کبھی چاہ سکتی ہوں۔اپنی زندگیوں میں سکون پیدا کرو۔" وہ اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے بول رہی تھی۔ مادفہ کی آنکھوں میں سچائی تھی، لہجے میں عقیدت تھی۔شگفتہ لب بھینچے سر جھکا گئی۔

"اگر تم اپنی بیوی کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے تو تم کسی کے ساتھ بھی وفا نہیں نبھا سکتے۔وہ مرد اچھا نہیں ہوتا ساتف! جو اپنی بیوی کے بجائے دوسری لڑکیوں کے پیچھے بھاگتا پھرے۔جبکہ اپنا ہمسفر اتنا حسین اور اچھا ہو۔"

"مگر میں تمہیں چاہتا ہوں،حسین تو تم بھی ہو۔"

وہ بےبسی کی مورت بنا کھڑا تھا۔

"دیکھو اگر ہماری شادی ہو جاتی نا تو میں تمہیں محبت کبھی نہ دے سکتی۔یہ تو شکر ہوا کہ نہیں ہوئی نہیں تو میں بیوقوفوں کی مانند تو کئی زندگیوں سے کھیلنے چلی تھی۔" وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔

"واٹ....؟ تمہیں مجھ سے وفا کی امید تھی نا؟ پ پھر تم یہ کیا کہ......."

"وہ سب حالات سے سمجھوتا تھا۔میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اپنے دل کی مان کر کسی اور کی محبت کو چھین کر لوں اسی لیے میں نے تمہارا پرپوزل قبول کر لیا تھا۔اور مجھے لگتا تھا کہ ہماری شادی ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا میں اس شخص کو بھول جاؤں گی جو کسی اور کا ہونے کے باوجود میرے دل کی سلطنت پہ براجمان کر رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے....."

وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

"قسمت کے سامنے ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ساتف! اور میری قسمت نے میرے لیے کچھ اور ہی چن رکھا ہے۔" وہ ان دونوں پہ ایک ایک نظر ڈال کر خاموش ہو گئی۔

"کیا وہ شخص وہ ہی ہے جو اس وقت تمہارے ساتھ آیا ہے؟" ساتف کا لہجہ سپاٹ اور چہرے پر ویرانی تھی۔

"میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔بس یہ بتانے آئی ہوں کہ تمہارا اور میرا ساتھ چند دنوں کا ہی تھا.....قسمت نے اتنا ہی لکھا تھا۔" ایک لحاظہ بھر کو خاموش ہوتے ہوئے وہ اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"اور اب تم اپنی بیوی جو کہ اللّٰہ نے تمہاری قسمت میں لکھی ہے اسے دکھ نہیں دو گے۔"

اس نے سنجیدگی سے کہا تو ساتف نے گردن گھما کر اپنی بیوی کو دیکھا جو اپنی مومی انگلیوں میں الجھی ہوئی تھی۔

وہ ان دونوں کو سمجھانے کے بعد وہاں سے ہٹ گئی تھی۔

اور ان دونوں کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ وہ اب آرام سے زندگی بسر کریں گے۔مگر اس کی اپنی زندگی؟

اس متعلق مادفہ کے پاس خود کو سمجھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔

ائیرپورٹ پر پہنچ کر بھی وہ خاموش رہی تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ جانے سے پہلے ایک مرتبہ حدثان سے مل کر جان لے کہ سروش اور ثمروز کے متعلق اس کی رائے بدلی یا نہیں؟اپنے گناہوں پہ شرمندہ بھی ہے یا نہیں؟

پر پھر ایک مایوسی نے دل میں گھر کر لیا وہ بےچین ہونے لگی۔

اور اس بےچینی کی وجہ....الفت اور زبیر کا ساتھ تھا۔

اسے اب ہر وقت زبیر اور الفت کو ہر وقت گھر سے باہر گھومتے پھرتے اور واپسی پہ ہنستے مسکراتے لوٹتے وقت آفندی کا خود کو اگنور کر کے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ جانا.....پھر الفت کا اس کے کپڑے پریس کرنا......ٹائی لگانا.....ی یہ سب دیکھنا تھا۔اور اپنی ناتواں جان پہ برداشت کرنا تھا۔

سینے میں جو دل تھا نا.....وہ چھن سے ٹوٹا تھا اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے زبیر آفندی کو بھی علم نہیں ہوا۔

"کاش زبیر!.....حالات ایسے نہ ہوتے۔" نم آنکھوں کے ساتھ سوچتے ہوئے اس نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔

*****

جانے سے پہلے وہ اپنی بیوی سے ملنا چاہتا تھا۔

اسے بھی اپنے ساتھ لانا چاہتا تھا مگر جب نظیرے نے انہیں یہ بتایا کہ وہاں وہ دوسری شادی کرنا چاہتی ہے اور چوہدری صاحب راشتہ ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ بچوں کو بھی نہیں رکھنا چاہتی تو وہ بےحد پریشان ہو گیا۔

"ثمروز! تمہیں واپس چلے جانا چاہیے۔" وہ پریشان سا صحن میں چکرا رہا تھا جب ادریس نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"دیکھو تمہارے دو بچے ہیں، بیوی ہے تم یوں کسی پرائی لڑکی کی خاطر اپنی زندگی داؤ پہ نہیں لگا سکتے۔اپنی ازدواجی زندگی کے متعلق سوچو اور میرے بھائی لوٹ جاؤ واپس۔"

وہ اپنایت سے بولا ثمروز چند پل اسے دیکھتا رہا پھر بوجھل سانس فضا کے سپرد کرتے ہوئے سینے پہ ہاتھ باندھے سر جھکائے بولا۔

"لیکن سروش....اس کا کوئی دوسرا سہارا نہیں ہے میرے سوا۔میں اسے چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں؟ جبکہ تم خود اس کے بھائیوں کے پاس سے ہو کر آئے ہو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے...... پھر بھی تم کہ رہے ہو اسے میں تنہا چھوڑ دوں؟"

"اور اگر شبانہ کو میرے ساتھ رہنا ہوتا تو پاکستان کبھی نہ آتی اور اب جو وہ کر رہی ہے وہ تو ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔"

وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ جیسے حالات تھے ان حالات میں شبانہ کو اس کا ساتھ دینا چاہیے تھا اپنے شوہر کو سمجھنا چاہیے تھا اسے مگر وہ تو ان عورتوں میں سے ہرگز نہ تھی۔وہ سب سے زیادہ اسے جانتی تھی پر سمجھتی نہیں تھی۔چاہتی ہوتی تو کبھی اسے چھوڑنے کی خواہش نہ کرتی۔

"وہ شروع سے ہی مجھ سے طلاق چاہتی تھی.....اور میں اس کی خواہش پوری کر دوں گا۔"

"واٹ تم اسے طلاق..... دے دو گے؟ ادریس حلق کے بل چلایا۔

سروش جو پانی پینے کچن کی جانب بڑھ رہی تھی اس کی بات پہ بری طرح چونک کر رک گئی۔

"ہاں....اتنے سال اسے برداشت کیا ہے اب مزید برداشت نہیں ہو رہا۔اسے طلاق بھجوا دوں گا۔"

"سروش کی شادی کی عمر ہو گئی ہے اس کے متعلق کیا سوچا ہے؟"

"وہاں امریکہ جا کر سروش کی سٹڈی شروع کرواؤں گا پھر کسی اچھے سے لڑکے کے ساتھ شادی کر کے اسے محفوظ ہاتھوں میں سونپ دوں گا۔"

وہ حتمی فیصلہ کر چکا تھا۔

سروش دل تھام کر دیوار سے ٹیک لگا گئی۔

"اگر تم نے اپنے لیے یہ ہی فیصلہ کیا ہے تو ٹھیک ہی ہو گا مگر سروش کے لیے یہ فیصلہ بہترین فیصلہ نہیں ہے۔"

ادریس کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

"کیا مطلب؟"

وہ پوری طرح اس کی جانب گھوم گیا۔

"دیکھو ثمروز...! تم نے جو راستہ چنا ہے نا اس راستے پر صرف تمہارے ساتھ سروش ہے جسے تم نے چوہدریوں سے بچایا ہے، اس کے بھائیوں سے بچایا ہے، اور اس کے ساتھ صرف تم ہو۔"

وہ بولا تو ثمروز کی پیشانی پہ سوچ کے بل پڑے۔

"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ صاف صاف کہو نا؟"

"مطلب تم اس کے لیے بہترین لائف پارٹنر ہو۔تم اس کے محافظ تو بن ہی گئے ہو اب ہمسفر بھی بن جاؤ۔تم دونوں کی کمیسٹری زبردست ہے۔"

"شیٹ اپ یار.....تم ہوش میں تو ہو؟ وہ میری چھوٹی بہن جیسی ہے۔" ثمروز غصے سے دبی دبی آواز میں دھاڑا۔

"یہ رشتہ بہت مضبوط ہے مگر وہ تمہاری سگی بہن نہیں ہے ثمروز! دنیا نہیں سمجھے گی یہ بات۔ یہ معاشرہ بہت ہی سفاک اور تماشائی ہے۔"

"تم چپ رہو یار! مجھے مزید مت الجھاؤ۔پہلے ہی بہت پریشانیاں ہیں۔اور وہاں کوئی بھی نہیں جانتا ہو گا کہ وہ میری سگی بہن نہیں ہے۔" وہ پیشانی مسلتے ہوئے اضطرابی کیفیت میں بولا۔

"ٹھیک ہے مگر....." اس کی جیسے ہی نظر دائیں جانب پڑیں تو وہ خاموش ہو گیا۔

اس کے خاموش ہونے پہ ثمروز نے بھی پلٹ کر اس جانب دیکھا جہاں وہ دم سادھے کھڑی ساکت آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔

"میں چلتا ہوں۔"

وہ ثمروز کے شانے پہ تھپکی دے کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

"میں نے کہا تھا تم سے کہ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو.... پھر کیوں؟"مردہ قدموں سے وہ اس کی جانب بڑھی۔

"میں نے بھی کہا تھا کہ میں تمہیں ان لوگوں سے بچاؤں گا۔"وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولا۔

"تم نے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے۔میری وجہ سے بھابھی طلاق مانگ رہی ہے۔ تمہارے بچوں پر سے ماں کا سایہ اٹھ جائے گا.....اب بھی وقت ہے ثمروز!....."

اس کا لہجہ بھر آیا تھا۔

"بیوی پہلے ہی طلاق لینا چاہتی تھی اور بچے میں کبھی اسے نہیں دوں گا اور رہی تمہاری بات تو تمہیں میں اس مشکل سے نکال لوں گا۔"وہ اطمینان بھرے انداز میں گویا ہوا۔

"کیوں طلاق مانگتی تھی؟ کیا وجہ تھی؟"

وہ سخت لہجے میں استفسار کرتے ہوئے رخ پھیر گئی۔

"اسے میرا ساتھ پسند نہیں تھا خیر اب مزید ایک سوال نہیں۔ اور تمہیں کچھ بھی ایسا ویسا نہیں سوچنا۔اوکے؟"

وہ نرمی سے کہتے ہوئے وہاں سے ہٹ گیا تھا جبکہ سروش کئی پل وہاں کھڑی اپنی واپسی کے بند دروازوں کو دیکھتی رہی۔

"کہاں جاؤں میں؟ ثمروز کے بنا میرا کون ہے؟ کون ہے جس کے سائے تلے محفوظ رہوں گی؟"

"تنہا رہ گئی تو یہ درندوں سے بھری دنیا مجھے....مجھے نوچ گھسوٹ ڈالے گی۔"

کئی سوچیں اس کا سانس لینا مشکل کر رہی تھیں۔

****

اگلے دن وہ دھڑلے کے ساتھ چوہدریوں کی حویلی پہنچ گیا تھا......وہاں کھلبلی سی مچ گئی تھی۔

"نہ گولی چلانا اور نہ ہی مجھے مجبور کرنا۔"

اس نے رائفل شانے پر ٹکائی ہوئی تھی جسے دیکھ کر چوہدری کے سارے پالتو سہم کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔

"میری بیوی کو بلاؤ۔"

وہ کرسی کو پاؤں مار کر سیدھی کرتا بلکل چوہدری صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔حدثان نے مٹھیاں بھینچ کر اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کی۔

"یہ رہے طلاق کے پیپرز۔" اس نے طلاق کے کاغذات میز پر پھینکے تھے۔

اس نے پلٹ کر سیڑھیاں اترتی اپنی بیوی کو دیکھا۔

"تم جیسی عورتیں گھر بسانے کے قابل ہی نہیں ہوتیں.....سات سال سے میں تم جیسی بےوفا اور خودپرست جھوٹی عورت کے ساتھ ضائع کر دیے جسے اپنے بچوں تک کا خیال نہیں...." وہ کہتے ہوئے اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔

"بہت شوق ہے نا تمہیں طلاق کا......تو سنو آج میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں.....تمہیں طلاق دیتا ہوں.....تمہیں طلاق دیتا ہوں۔"

وہ کہہ کر دو پل اس کی جانب دیکھتا رہا اور پھر پلٹ کر بنا رکے وہاں سے ہٹ گیا تھا۔

بنا رکے چوہدریوں کی دہلیز پھلانگ گیا تھا اور اپنے پیچھے چنخ و پکار چھوڑ آیا تھا۔

*******

ثمروز اور سروش جیسے ہی امریکہ کے لیے نکلے تو ائیرپورٹ پر چوہدریوں کے آدمی انہیں ڈھونڈنے پہنچے تھے مگر ادریس نے ان کی مدد کی اور انہیں امریکہ کی فلائٹ پہ بیٹھا دیا۔اور اس نے اپنے آدمیوں کے ذریعے چوہدریوں کے آدمیوں کو بھٹکا دیا کہ وہ لوگ ریلوے کے ذریعے کراچی جا چکے ہیں ایئرپورٹ کا محض ایک دکھاوا تھا۔

"وہ تم لوگوں کو گمراہ کر چکے ہیں جناب! ہم نے چیک کیا ہے مگر ان دونوں کی سیٹ کنفرم ہوئی ہی نہیں۔" انسپکٹر نے سنجیدگی سے کہا تھا۔وہ لوگ بنا کچھ سوچے سمجھے بھوکے کتوں کی مانند گاڑیوں کی سمت بھاگ گئے تھے۔ان دونوں نے سکھ کا سانس بھرا تھا۔

امریکہ کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے ثمروز کے گھر تک وہ خاموشی سے امریکہ کی خوبصورت اونچی عمارتیں اور سڑکیں دیکھتی گئی تھی۔

"نیسی! میم کے لیے اوپر والا روم سیٹ کر دو۔"

وہ بریف کیس ہال میں ہی چھوڑ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔

نیسی ادھیڑ عمر کی خاتون تھی جو کہ ان کے گھر کام کرتی تھی اور ان کی غیر موجودگی میں بھی گھر کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔سروش نے نظریں اٹھا کر چاروں اطراف دیکھا نفاست سے سجایا گیا چھوٹا سا مگر خوبصورت امریکین اسٹائل ہال کو ستائشی نگاہوں سے دیکھا۔

دائیں دیوار پہ قدآدم تصویر ثمروز چسپاں تھی، نیوی بیلو پینٹ کوٹ اور سفید کلاسک شرٹ پہ بیلو چیک والی ٹائی اور آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگائے جدید امریکین اسٹائل صوفے پہ شان سے بیٹھا تھا۔اس کے چہرے پر جو سنجیدگی تھی وہ ہی اس کی شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھی۔

"کتنے بدل گئے ہو تم ثمروز۔" وہ سوچتے ہوئے دھیمی سی مسکراہٹ لیے یک ٹک فوٹو کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظروں کے تعاقب میں نیسی نے دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکرا دی۔

"ہیلو میم! میرا نام نیسی ہے۔"

اس کی آواز پہ سروش بری طرح چونکی۔

"اسلام و علیکم! میں سروش ہوں۔"

"ویلکم ٹو نیو ہوم میم!"

نیسی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔

"ابھی آپ اس روم میں جا کر آرام کر لیں میں تب تک آپ کا کمرہ سیٹ کر دیتی ہوں۔"

وہ اس کے ساتھ چلتی ایک بائیں جانب واقع کمرے کے سامنے جا رکی۔

"یہ ثمروز صاحب کا کمرہ ہے ویسے تو یہ اکثر بند ہی رہتا ہے مگر وہ کبھی کبھی یہاں آ جاتے ہیں۔"

اس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں وہ سر جھکا کر اتنا کہہ کے پلٹ گئی۔

اس نے ہاتھ دروازے پر رکھا تو دروازہ کھلتا چلا گیا،وہ تذبذب سی اندر داخل ہوئی۔کمرہ بہت ہی نفاست سے سجایا گیا تھا۔سفید رنگ کی دیواریں، ایک دیوار پہ ثمروز کی بےشمار تصویریں تھیں۔دوسری دیوار میں کتابوں کی الماری بنی ہوئی تھی وہاں بےشمار انگلش، اُردو،برٹش اور فارسی کے علاؤہ فرانسیسی زبان کی کتابیں سجی ہوئی تھیں۔

"ثمروز نے برٹش اور فرانسیسی کب سیکھی؟" وہ حیرانگی سے سوچتے ہوئے کتابوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ان میں کئی کتابیں بہت پرانی بھی تھیں۔

"میں بھی کتنی بیوقوف ہوں......وہ یہاں بیس سالوں سے رہ رہا ہے سیکھ لی ہو گی کہیں سے بھی۔" سر جھٹک کر کتابوں کی الماری کے سامنے سے ہٹ کر اس کے قدم خودبخود ہی اس دیوار کی جانب بڑھے جہاں تصویروں کے روپ میں یادیں سجی تھیں،وہاں ہر ایک یاد گار لمحے کو تصویر میں قید کر کے دیوار پہ لٹکایا گیا تھا۔

"بچے تو بہت پیارے ہیں۔" اس کی نظر جیسے ہی فیملی فوٹو پہ گئی وہ بےاختیار مسکرا اٹھی۔

گول مٹول چھ سالہ بچہ اور چار سالہ بچی ثمروز کی رخساروں پر ہونٹ رکھے ہوئے تھے اور اس کی بیوی پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھی۔اس کی نظریں تمام چھوٹے فریم کے درمیان میں لٹکائے بڑے فریم پہ جا کر اٹکیں۔ یہ ثمروز کی جوانی کی فوٹو تھی۔ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے صوفے پہ بیٹھے ہوئے ثمروز کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔کلین شیو اور ہلکی ہلکی مونچھیں اس پر بہت ہی جچ رہی تھیں۔

"یہ بہت پرانی تصویر ہے جب میں نیا نیا امریکہ آیا تھا تب بنوائی تھی،یہ واحد تصویر ہے بچپن کی جو مجھے پسند ہے۔" وہ جو شاور لے کر سر تولیے سے رگڑتے ہوئے واشروم سے نکلا تھا اسے وہاں دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا پھر نارمل انداز میں بولا۔

وہ تیزی سے پلٹی اور اسے اپنے ٹھیک پیچھے پا کر چونک کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔

"آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔"

"ڈرو نہیں اب یہاں تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔بلکل پُر سکون ہو کر رہو۔"

وہ مسکراتے ہوئے بولا اور کرتہ کی آستینوں کو فولڈ کرتا صوفے پہ جا بیٹھا۔

سروش ایک نظر مزید اس کی تصویر پہ ڈال کر دوپٹہ شانوں پہ درست کرتی سامنے ڈبل بیڈ پر ایک کونے پہ ٹک گئی تھی۔

"ایک بات بتائیں۔آپ اتنی اچھی پرسنیلٹی کے حامل شخص اور بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ دل اور کردار کے بھی اتنے اچھے ہیں پھر بھابھی کیوں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی؟ مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی یا میں اس سچ کو قبول کرنا نہیں چاہا رہی۔"

اس کے استفسار پر وہ خامش نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔

"اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو....."

"کیونکہ میں مصروف رہنے لگا تھا اور اسے لگتا تھا کہ میرے باہر کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔"

اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا وہ تو منہ کھولے اسے حیرت سے دیکھے گئی۔

"تو تم نے انہیں سمجھایا نہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟"

"بہت سمجھایا.....کئی مرتبہ اس کے سامنے ہاتھ تک بھی جوڑے ہیں محض اس لیے کہ وہ چلی گئی تو میرے بچے کیسے رہیں گے..... بچوں کے لیے میں نے اس کی ہر بات مانی، یہاں تک کہ ہر معاملے میں خاموش ہو گیا.....مگر وہ نہیں مانی.....اسے نہ میری پرواہ تھی نہ بچوں کی۔ایک رات ہسپتال میں ایمرجنسی کیس آ گیا تو میں ادھر چلا گیا تھا اور وہ پیچھے سے بچوں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر پاکستان چلی گئی۔"

افسردگی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کے سامنے پڑی شیشے کی میز سے سگریٹ کی ڈبی اٹھائی اور ایک سگریٹ نکال کر لائٹر اٹھایا۔

"ہا......خیر چھوڑو اب تو قصہ ہی ختم ہو گیا....تم اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہو تو رکھ سکتی ہو۔"

وہ بات بدل گیا۔

"ہاں چاہتی تو میں بھی یہ ہی ہوں مگر پیسے....."

"فکر نہ کرو یہ مسئلہ میرا ہے۔بھائیوں کے ہوتے ہوئے بہنوں کو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔" وہ نرمی سے گویا ہوا تو سروش لب بھینچے اسے دیکھنے لگی۔

"بچے اسکول سے کب لوٹتے ہیں؟" وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی۔

"وہ ہاسٹل میں رہتے ہیں۔"

"واٹ.....ثمروز! تم نے ساری عمر ہاسٹلوں میں گزاری ہے تو اب بچوں کو بھی سزا دو گے؟ والدین کی محبت کو تم ترسے ہو انہیں تو یہ سزا مت دو۔"

"ان کی ماں کو بچے گھر اچھے نہیں لگتے تھے وہ کہتی تھی آزادی سے رہنے کا حق ماں باپ کو بھی ہے۔"

وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے بولا۔

"اب لے آؤں گا واپس، سال ضائع نہ ہو اسی لیے ان کے ایگزامز کا انتظار کرنا پڑے گا۔" وہ افسردہ ہو گیا تھا۔

سروش محض اس کے چہرے پر چھائی اداسی کو دیکھتی رہ گئی تھی۔دروازے پہ دستک ہوئی تو وہ دونوں دروازے کی جانب متوجہ ہوئے۔نیسی ہاتھ میں کھانے کی ٹرالی تھامے کھڑی تھی۔

"مجھے تو لگا تھا پاکستان جا کر آپ اسموکنگ چھوڑ دیں گے۔"نیسی میز پہ کھانا لگاتے ہوئے بولی۔

وہ دھیرے سے ہنس دیا۔

"عادتیں بدلی نہیں جاتیں۔" سگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر رکھتے ہوئے وہ سیدھا ہو بیٹھا۔

"آ جاؤ سروش!"

"آں.....نہیں میں پہلے فریش ہونا چاہوں گی۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ایم سوری میم! مجھے لگا تھا سر اپنے بیڈروم میں جائیں گے مگر....."

وہ کمرے سے باہر نکلی تو نیسی بھی اس کے پیچھے پیچھے آئی تھی۔

"اٹس اوکے....اور آپ مجھے سروش کہہ سکتی ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

"آپ اس بیڈروم....."

"نہیں مجھے آپ بچوں کا روم دکھا دیں میں وہاں چلی جاتی ہوں۔"

وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر اسے کمرے کی راہ بتا کے خود اس کا روم سیٹ کرنے چلی گئیں۔

******

رفتہ رفتہ زندگی پھر سے اپنے ٹریک پہ واپس آ رہی تھی۔

ثمروز دن میں جاتا اور شام کو واپس لوٹتا۔وہ کبھی ہسپتال ہوتا تو کبھی کسی بزنس میٹنگ میں۔اس نے بھی ایڈمیشن لے لیا تھا یونیورسٹی جانے لگی تھی۔صرف اتوار کا دن ہوتا تھا جو وہ دونوں ساتھ گزارتے تھے۔اور اگر بچے آ جاتے تو ان کے ساتھ وہ خوب ہلا گلا کرتی تھی۔بھائیوں کی یاد اس کی آنکھوں کو نم کر دیتی۔

مگر یہ ایک کڑوی حقیقت تھی کہ اس کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا.... حالانکہ ثمروز نے لاکھ کوششیں کی تھیں کہ اس کے بھائیوں کی بدگمانی دور کر دی جائے.... ادریس نے جا کر ساری سچائی بھی بتائی مگر وہ نہیں ماننے تھے بلکہ اسے بھی بےعزت کر کے گھر سے نکال دیا تھا۔

وہ اکثر سوچتی تھی کہ بھائی اگر ہوتے ہیں تو ثمروز جیسے بہنوں کی حفاظت کرنے والے محافظ ہوتے ہیں۔

آج اتوار تھا اور ان دونوں نے شاپنگ اور بچوں سے ملنے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔

سرمئی کرتہ پاجامہ، اسی ہی رنگ کا ریشمی آنچل سینے پہ پھیلائے وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔

"چلیں......."

اس نے آخری سیڑھی پہ پہنچتے ہی جب ثمروز کو مخاطب کیا تو وہ جو نیسی سے چائے کا کپ تھام رہا تھا اس کی جانب متوجہ ہوا۔

میک اپ سے پاک چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے، آنکھوں میں کاجل کی لکیر اس کے حسن کو مکمل کر رہی تھی،ریشمی بالوں کو سٹریٹ کر کے دائیں شانے پہ ڈالے ہوئے تھا۔وہ جانے کے لیے بےتاب کھڑی تھی۔

وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکراتے ہوئے اٹھا اور چائے کا کپ جھک کر میز پہ رکھتے ہوئے گاڑی کی چابی اور اپنا وائلٹ، فون اٹھا کر نیسی کی جانب گھوما جو ہاتھ اٹھائے سروش کی نظر اتار رہی تھیں۔

"ارے آپ اپنی چائے تو ختم کریں۔" اس نے کپ میں بچی چائے دیکھی تو ثمروز کو ٹوکا۔

"دیر ہو رہی ہے....اوکے نیسی آنٹی! ہم چلتے ہیں۔"

وہ مسکراتے ہوئے اسے چلنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا۔

"ایک منٹ رکو سروش!" وہ جانے لگی تو نیسی نے روک لیا۔

"جی؟"وہ پلٹ کر مسکراتے ہوئے ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

"ایک بات کہوں برا تو نہیں مانو گی؟" انہوں نے جھجکتے ہوئے استفسار کیا تھا۔

"نہیں نہیں نیسی آنٹی! میں نے کیوں برا ماننا ہے۔آپ بےجھجھک کہیں۔" وہ ان کا ہاتھ تھامے نرم سی مسکراہٹ لیے بولی۔

"ثمروز اور تم شادی کر لو۔ہاں میں جانتی ہوں وہ تم سے چند سال بڑے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے تم دونوں کے درمیان کوئی میجک والا رشتہ ہے۔جیسے تم ان کا خیال رکھتی ہو یا جیسے وہ تمہارا...ایک دوسرے کو سمجھتے بھی خوب ہو.....ایک لائف پارٹنر چننے کے لیے اور کیا چاہیے ہوتا ہے؟تم دونوں ایک دوسرے کے لیے پرفیکٹ ہو۔"

وہ نان اسٹاپ بول رہی تھیں اور وہ ساکت کھڑی انہیں سن رہی تھی۔

"سروش....! جلدی کرو یار۔"

ثمروز کی آواز پہ پہلی مرتبہ اس کا دل بےاختیار دھڑک کر پسلیوں کو توڑ باہر آنے کی کوشش کرنے لگا تھا، پہلی مرتبہ اس کے چہرے پر لالی بکھری تھی،اس کے ہاتھ پاؤں بھی کانپنے لگے تھے۔

"ان کی پہلی بیوی کو ان کی قدر نہیں تھی جبکہ وہ ایک بہترین ہمسفر ہیں....چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے ایسا لائف پارٹنر نہیں ملے گا۔اس بارے میں سوچنا.....سب کچھ بھول کر......صرف ثمروز کے متعلق سوچنا اور پھر فیصلہ کرنا۔" وہ اس کی رخسار چھو کر بولیں۔

"ارے بھئی اب یہاں کیوں کھڑی ہو گئی چلو بھی۔"

وہ کہتے ہوئے ہال میں ہی آ گیا تھا۔

"جاؤ....اور سوچنا ضرور میری بیٹی۔" نیسی پیار سے کہتے ہوئے پلٹ گئیں۔

"کیا کہہ رہی تھیں وہ؟"

اس نے استفسار کیا تو سروش نے بےاختیار ہی سر اٹھا کر اسے دیکھا اور نفی میں گردن ہلا کر سر جھکا گئی۔

"اچھا..... چلیں؟"

"ہوں۔"

"رکو سروش!"

وہ اثبات میں سر ہلاتی آگے بڑھی ہی تھی کہ ثمروز نے کچھ سوچتے ہوئے اسے پکارا۔وہ تذبذب ہوتی رک گئی۔

نیسی کی باتوں کا ایسا اثر ہوا تھا کہ وہ ثمروز کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔اس کی سانسیں بہت قریب محسوس ہوئی تھیں، دل ایک مرتبہ پھر سے اتنا زور سے دھڑکا کہ وہ آنکھیں موندے مٹھیاں بھینچ گئی۔

ثمروز نے گردن گھما کر اس کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا اور دوپٹے کا دائیں سرا پکڑے پھیلا کر اس کے سر پہ اوڑھے وہ تین قدم پیچھے ہٹا اور مسکراتے ہوئے بولا۔

"اب ٹھیک ہے۔ چلو اب...."وہ اس کے شانے پہ تھپکی رسید کرتا پلٹ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

اور وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی......اپنی سوچ پہ لانت بھیجتی تیزی سے اس کے پیچھے بڑھی۔

وہ سارا دن اس کے ساتھ رہی تھی مگر پہلے جیسا کچھ بھی نہیں رہا تھا۔اس کی توجہ سروش کے دل کو دھڑکنے پہ مجبور کر دیتی تو وہ شرمندگی سے سر جھکا جاتی۔

"وہ مجھے بہن سمجھتا ہے اور میں۔ تف ہے تجھ پہ سروش!"

کھانا کھاتے وقت بےاختیار ہی اس کی نظریں چوری چوری ثمروز پہ جا ٹھہرتیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے تیکھے نین نقش میں کھو جاتی، پھر شرمندہ سی ہو کر سر جھکا جاتی.....اچانک کیا ہو گیا تھا....؟

"سروش! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"

اس کے کہنے پہ وہ اثبات میں سر ہلا کر دوپٹے کو انگلی پہ لپیٹنے لگی۔

"تمہیں یاد ہیں وہ مسٹر جہانزیب.....جنہوں نے ہمیں دعوت دی تھی؟"

اس نے یاد دلانے کی کوشش کی تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی.......حالانکہ اس وقت اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔

"ان کے بیٹے آصف سے بھی تم ملی تھی۔ بہت اچھا خاندان ہے،اچھا لڑکا ہے، پڑھا لکھا بھی ہے....اپنے والد کے ساتھ خاندانی بزنس سنبھال رہا ہے بہت ہی اچھا لڑکا ہے۔"

وہ رک رک بول رہا تھا اور وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"انہوں نے......تمہارا ہاتھ مانگا ہے آصف کے لیے۔ مجھے تو لڑکا بہت پسند ہے۔"

یہ بات سنتے ہی اس کا سر گھوم گیا تھا پیروں تلے سے زمین سرک گئی اور وہ خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ثمروز کو دیکھنے لگی۔ اس نے جب اپنی پلیٹ سے سر اٹھا کر سروش کو دیکھا تو وہ تیزی سے رخ پھیر کر سر جھکا گئی۔

آنکھوں میں ہی نہیں دل میں بھی چبھن ہوئی تھی۔

"میں نے ان سے وقت مانگا ہے جو تم فیصلہ کرو گی وہ ہی مانا جائے گا۔مگر لڑکا بہت اچھا ہے سروش! سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔" وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے ویٹر کو بلانے لگا۔

جب کہ وہ گلاس دیوار کے پار ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔

آج اسے دو پرپوزل ملے تھے۔

ایک پرپوزل نیسی نے پیش کیا تھا ثمروز کا.....جسے وہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ وہ اس کے اسٹرانگ کردار کی قسم بھی اٹھا سکتی تھی، وہ شخص واقع ہی میں ایک بہترین ہمسفر تھا۔اور ایک پرپوزل ثمروز نے پیش کیا تھا.......جسی ایسے انسان کا جسے وہ جانتی تک نہ تھی۔یاد بھی نہیں تھا کہ وہ کسی آصف نامی شخص سے ملی تھی.....ثمروز کے ساتھ وہ اکثر دعوتوں میں جاتی رہتی تھی مگر اس نے کبھی کسی مرد سے بات تک نہیں کی تھی۔ثمروز جس سے تعارف کرواتا محض ہیلو ہائے کر کے وہ پھر ثمروز کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی۔

"ثمروز! مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔"وہ سوچتے ہوئے بولی۔

"ہاں کہو نا؟"وہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"مجھے تم سے شادی کرنی ہے ثمروز!......تم ایک بہترین انتخاب ہو۔ تمہارے بغیر جینے کی عادت اب مجھے نہیں رہی......شاید مجھے تم سے محبت ہو گئی......"

"تم ہوش میں تو ہو کیا بکواس کر رہی ہو؟میری نرمی کا یہ صلہ دیا تم نے؟ ہمارے رشتے کو ہی یہ نام دے دیا.....اور محبت تو تم حدثان سے بھی کرتی تھی نا تو کہاں گئی وہ محبت؟اب تمہیں میں اچھا لگنے لگا ہوں؟ کل کو تمہیں کسی اور سے عشق ہو جائے گا۔ کوئی دین ایمان ہے تمہارا؟" وہ دونوں ہاتھوں کو میز پہ مار کر چلایا تھا۔

"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ثمروز....! میں سچ کہہ رہی ہوں یہ سب سچ ہے۔" وہ تیزی سے آنکھیں کھول کر بولی مگر منظر کچھ اور تھا۔

وہ ویٹر کو پے کرتے ہوئے بےحد چونک کر اسے دیکھنے لگا جو سفید پڑ چکی تھی۔

"کیا ہوا سروش؟ کیا ایسا نہیں ہے؟"

وہ ویٹر کو فارغ کرتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوا۔

وہ پھٹی پھٹی ہراساں سی نگاہوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔

"سروش!...."

وہ پریشان سا اٹھ کر اس کے شانے کو ہلاتے ہوئے بولا۔

وہ بری طرح ڈر گئی۔

"تم ٹھیک تو ہو؟"

"ہوں.....م میں خواب دیکھ رہی تھی.......یہ سب بہت عجیب ہو رہا ہے۔"

"کیا ہو رہا ہے؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" وہ فکرمندی سے اس کی پیشانی چھونے لگا تو وہ اس کے چھونے پر کرنٹ کھا کر پیچھے کو سرکی۔

"ک کچھ نہیں۔ چلیں۔پ پلیز چلیں یہاں سے۔"وہ تیز لہجے میں نہ سمجھ آنے والی باتیں بولتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ اس کے دھواں ہوتے چہرے کو دیکھتا ناسمجھی سے سر اثبات میں ہلاتا چل دیا۔

سروش نے پورا راستہ خاموشی سے آنسو پیتے ہوئے کاٹا تھا۔

گھر جاتے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیا دروازے کے بند ہونے پہ ان دونوں نے چونک کر اوپر دیکھا۔

"کیا کہہ دیا ہے آپ نے اسے؟ خوشی خوشی گئی تھی روتی ہوئی آئی ہے۔"

نیسی نے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ صرف رشتے کی بات کی ہے۔

اور نیسی سمجھ گئی کہ ماجرہ کیا ہے۔وہ دھیرے سے مسکرا دی تھیں۔

*********

امریکہ کی سرزمین پہ اس نے پہلی مرتبہ قدم نہیں رکھا تھا۔مگر وہ خوش تھی یہاں کی فضا میں اس کے لیے اپنایت تھی۔وہ ائیرپورٹ سے باہر آ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کو اپنے اندر کھینچتے ہوئے مسکرا دی۔زبیر آفندی نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا اور چشمہ اتار کے مسکرا کر رخ پھیر گیا۔

"بہت خوش لگ رہی ہو خیریت؟"سینے پہ ہاتھ لپیٹے وہ اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑا رہا تھا جب اس کی نگاہ سامنے سے آتی الفت پہ پڑی۔

"ہوں میں واقع ہی بہت خوش ہوں یہاں سب اپنے ہیں۔ یہ ملک اپنا ہے۔ یہاں کی ٹھنڈی ٹھنڈی فضا اور برف باری اپنی ہے۔" وہ اپنی خوشی بیان کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

آفندی نے پھر سے گلاسز آنکھوں پر لگائے اور بیگز کی ٹرالی دھکیلی وہ بھی اس کے ساتھ چل دی۔

الفت پہ نگاہ پڑتے ہی اس نے اپنی توجہ زبیر سے پوری طرح ہٹا لی تھی۔اس سے بغلگیر ہونے کے بعد الفت نے دل لوٹ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ مصافحہ کے لیے ہاتھ زبیر کی جانب بڑھایا تو اس نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا مومی ہاتھ تھام لیا تو وہ محبت بھری مسکان ہونٹوں پر سجائے سر جھکا گئی۔

"کیسا رہا سفر تم دونوں کا؟" گاڑی کی جانب بڑھتے ہوئے الفت نے استفسار کیا۔

"بہت اچھا تھا۔ اس مرتبہ تو مادفہ نے میرا ہاتھ بھی زخمی نہیں کیا۔" اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے چشمے کے پیچھے سے ہی مادفہ کو دیکھا جو کہ بےاختیار ہنس دی تھی۔

"اب بڑی ہو گئی ہے ماشاءاللّٰہ۔ ہمیشہ تو میرے زبیر کو زخمی نہیں کرتی رہے گی۔"

اس نے 'میرے' پہ زور دیتے ہوئے کہا اور ایک تیکھی نظر مادفہ پہ ڈالی۔وہ بس مسکرا دی تھی۔

وہ جب ڈرائیونگ سیٹ پہ جا بیٹھی تو زبیر نے آگے بڑھ کر پیچھلا دروازہ مادفہ کے لیے کھولا وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر رسمً مسکرا کے دوپٹہ سنبھالتی سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی وہ دروازہ بند کرکے سامنے لیفٹ سیٹ پہ جا بیٹھا۔

"تم مادفہ کی بہت کیئر کرتے ہو زبیر! مجھے تو لگتا ہے یہ مجھے منہ دکھائی میں ملنے والی ہے۔"اس کا لہجہ اتنا کاٹ دار ضرور تھا کہ مادفہ کا رنگ اڑ گیا۔

"کیسی باتیں کر رہی ہو الفت! بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی ہو۔"وہ سنجیدگی سے بولا اور بیک مرر سے اسے دیکھا۔وہ ہنوز سر جھکائے بیگ میں کچھ تلاش رہی تھی یوں لگ رہا تھا اس کی نہیں کسی اور کی بات ہو رہی ہو مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے دل میں کتنا کچھ ٹوٹ رہا ہے۔

"خیر چھوڑو.....ہم لوگ کل پکنک منانے جا رہے ہیں جزیرے پر۔"

اس کی بات پہ مادفہ کے ہاتھ ایک پل کو تھمے تھے مگر دوسرے ہی پل اس نے سر جھٹک کر پھر سے تلاش شروع کر دی۔

"مگر اس مرتبہ مادفہ کی رائے لی جانی تھی۔اس کی پسندیدہ جگہ پر جانا تھا۔"

"مجھے جزیرے پہ جانا ہے زبیر!.....تو کیا ہوا مادفہ اگلی مرتبہ اپنی پسندیدہ جگہ بتا دے گی۔" وہ اطمینان سے بولی۔

"دس از ٹو مچ." وہ بڑبڑا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جبکہ الفت نے بیک مرر سے اسے دیکھا جو اب اپنے فون پہ مصروف تھی۔

"مادفہ! تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا ہم سب جزیرے پر چل رہے ہیں؟"

وہ اس کی بات پہ یوں چونکی جیسے ان کی باتیں سن ہی نہ رہی ہو۔

"ہوں.....کیا کہا؟"

"جزیرے پر جانے میں کوئی پرابلم تو نہیں؟" الفت نے گاڑی موڑ سے موڑتے ہوئے تیکھے لہجے میں مگر مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔

"نہیں مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے۔مجھے کیوں ہونی۔"

وہ زبردستی مسکرائی تھی حالانکہ اسے جزیرہ کبھی پسند نہیں تھا مگر وہ الفت کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔

"ایم سوری مادفہ! مگر میرا بہت من تھا زبیر تو مجھے سمجھتا ہی نہیں ہے۔ تم جانتی ہو میں اور آفندی نے پہلی مرتبہ اسی جزیرے کے کنارے ایک دوسرے کو پرپوز کیا تھا۔" وہ چہک کر بولی تو مادفہ لب بھینچے سر اثبات میں ہلا گئی۔وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں سکتی تھی....نہ زبان ساتھ دیتی تھی نہ حالات۔ زبیر نے پھر کوئی بات نہیں کی رخ موڑے کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا۔نہ ہی وہ بولی.....الفت کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا گھر پہنچتے ہی وہ بدتمیزی کا مظاہرہ کرتی کمرے میں بند ہو گئی۔اس کی جانب مادفہ اور بھابھی ہی متوجہ تھیں۔

بھابھی نے ایک نظر اس پہ ڈالی تو وہ سر جھکا کر مسز آفندی کی جانب متوجہ ہوئی۔

"میں آپ سب کے لیے گفٹس لائی ہوں۔"

اس کا بیگ ملازم نے وہاں لا رکھا تو وہ کھول کر ان سب کے تحفے نکال نکال کے ان کی جانب بڑھانے لگی۔

وہ سب ہنستے مسکراتے خوشگوار ماحول میں تحفے وصول کر رہے تھے۔

"میرے لیے کیا لائی ہو مادفہ؟"

بھابھی نے الفت کو لا کر جب زبیر کے قریب صوفے پر بیٹھایا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

مادفہ نے چہرے پہ بکھری لٹوں کو سمیٹ کر کان کے پیچھے کیا اور مسکراتے ہوئے ایک نگاہ ان دونوں پر ڈالی بیگ سے ایک لال گفٹ پیک نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا۔

"تھینک یو سویٹی۔"چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ لیے اس نے تحفہ وصول کیا۔

"بھابھی اپنی بہن کو کافی اچھی طرح سے سمجھا کر باہر لائی ہیں۔خیر مجھے کیا لینا دینا۔"وہ سر جھٹک کر بچوں کے ساتھ مصروف ہو گئی۔

چاروں بچے اسے کھینچتے ہوئے لون میں لے جا رہے تھے جب اس نے پلٹ کر ان دونوں کو قہقہے لگا کر ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کی جانب متوجہ دیکھا تھا۔


تجھے دیکھ کر کسی غیر کے ساتھ بھی

یہ دل اپنے ٹوٹنے پہ، بڑی شدت سے روتا ہے


"وہ دونوں ایک ساتھ کتنے اچھے لگتے ہیں۔" اس نے مسکرا کر سوچا اور بچوں کے ساتھ لون کی جانب بڑھ گئی۔

"ارے بچو اس بچاری کو ریسٹ تو کرنے دو۔"

مسز آفندی نے کہا مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔

اور مسز آفندی جانتی تھیں کہ مادفہ کا دل بچوں کے درمیان زیادہ لگتا تھا۔

*******

سنو مر بھی جائیں گے اک دن

بڑھتا ہی جا رہا ہے یہ دردِ دل


وہ بستر پہ چت لیٹا تھا جب روتی ہوئی شگفتہ کی کال وصول ہوئی۔

"کیا ہوا چندا! سب ٹھیک ہے نا، تم کیوں رو رہی ہو؟"

وہ بہت مشکل سے اٹھ کر بیٹھا تھا۔

"بھیا! ساتف کہتے ہیں وہ مجھے طلاق دے دیں گے۔ وہ......وہ کسی اور سے محبت کرتے ہیں بھیا! ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ یہاں سب بہت برے ہیں مجھے لے جائیں پلیز میں اب مزید ایک منٹ بھی یہاں نہیں رکنا چاہتی۔ بس اب بہت ہو گیا میں مزید نہیں جھکوں گی آپ آ کر کے جائیں مجھے۔" وہ بلک بلک کر رو دی تھی۔

حدثان سر تھام کر رہ گیا۔

"ہیلو.....ہیلو بھیا! آپ سن رہے ہیں نا؟"

وہ خاموش ہوا تو شگفتہ مزید پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"ہاں......تمہیں وہاں اپنی جگہ بنانی ہو گی شگفتہ! اپنے شوہر کے دل میں جگہ بناؤ، یوں حالات سے بھاگنا بری بات ہے.....وہ محبت اور پسند ہے تمہاری۔ہم نے زبردستی تو کی نہیں تھی تمہارے ساتھ۔"اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

"آپ سے کچھ کہنا ہی فضول ہے میں حاور بھائی سے بات کرتی ہوں وہ ان کی بہن کو گھر سے نکالیں۔اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو میرے ساتھ ہوتا ہے۔"

"شیٹ اپ....شگفتہ! میری ساتف سے بات ہوئی ہے اب جب وہ تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو تم اسے موقع کیوں نہیں دے رہی؟ تم حاور کو کال نہیں کرو گی....."

اس نے چلا کر کہا مگر وہ اس کی پوری بات سنے بغیر کال کاٹ گئی تھی۔اس نے فون اٹھا کر بیڈ پہ پھینکا اور پھر سے تکے پہ سر گرا کر آنکھیں موند گیا تھا۔

"بھاڑ میں جائیں۔پہلے کب میری بات مانی ہے ان لوگوں نے۔"وہ دانتوں پہ دانت جمائے بڑبڑایا۔

"ڈیڈ.....!"

تبھی دروازہ دھکیل کر تارز کمرے میں داخل ہوا اور پیچھے پیچھے نظیر۔

وہ مسکراتے ہوئے اٹھا اور دائیں بازو کو پھیلا کر اسے خود میں بھینچ کر چومنے لگا۔

"میرا لختے جگر کیسا ہے؟" اس کے ہاتھ چوم کر وہ محبت سے بولا۔

"بلکل ٹھیک ہوں، آپ کو کیا ہوا؟ چوٹ کیسے لگی؟"

نو سالہ تازر فکر مندی سے اپنے والد کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔

"کچھ نہیں بس معمولی سا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔اب بلکل ٹھیک ہوں میرے چاند۔" وہ اس کے سلکی بال بگاڑتے ہوئے مبہم سی مسکراہٹ لیے گویا ہوا تھا۔

"سرکار ناشتہ لے آؤں؟" نظیرے نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ناشتہ کرنے کے درمیان بھی وہ دونوں ہنستے مسکراتے باتیں کرتے رہے تھے۔

تازر کافی دنوں بعد ہاسٹل سے آیا تھا تو اس کی باتیں ختم نہیں ہو رہی تھیں ،وہ مسکراتے ہوئے تازر کو سن رہا تھا۔

وہ جب بیڈ پہ دوبارہ جا لیٹا اور وہ اس کے پاؤں دبانے لگا اس نے لاکھ ٹوکا مگر وہ رکا نہیں۔

"ڈیڈ! آپ سے ایک بات پوچھوں؟"

"جی بیٹا پوچھو۔"

اس نے تارز کا ہاتھ تھام کر اپنے سینے پہ اسے لٹا لیا۔

"آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم دونوں کو ہی ایک عدد ماما کی ضرورت ہے۔"

اس کی بات پہ حدثان حیران رہ گیا تھا...وہ بچہ کتنی آسانی سے یہ کہہ گیا تھا۔

"دیکھیں ڈیڈ! آپ نے سروش آنٹی کی بات نہیں مانی تھی حالانکہ انہوں نے آپ کی بہت مدد کرنے کی کوشش کی تھی مگر آپ نے ان کی ایک نہیں سنی تھی۔"اس نے افسردگی سے کہا۔حدثان کہیں اور جا پہنچا تھا۔

یونی ورسٹی کا وہ گراؤنڈ......

سروش کی خوف زدہ اس پر ٹکی نگاہیں....

لوگوں کی گھٹیا باتیں......

اس کے کردار پہ اچھالنے والا کیچڑ.......

اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔

"ہاں بیٹا....! بہت برا کیا تھا ہم نے اس کے ساتھ اور تمہارے تایا ثمروز کے ساتھ اس کی سزا بھی ہمیں ملی ہے۔تمہاری دادو ،دادا، خالہ چل بسے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کرنا چاہیے.....سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے تاکہ ہمارے لفظوں سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، سوچ سمجھ کر چلنا چاہیے تاکہ ہمارے قدموں تلے کوئی بےقصور نہ روندا جائے۔"

اسے وہ حادثے کی رات یاد آئی تھی جب تین لاشیں ایک ساتھ حویلی میں لائی گئی تھیں۔

"اور تمہاری پھوپھو پاگل ہو گئیں۔" وہ بوجھل سانس بھرتے ہوئے بولا۔

اس مرتبہ نگاہوں کے سامنے شبانہ آ کھڑی ہوئی تھی۔

بکھرے بال، میلے کپڑے ، کبھی ہنستی تو کبھی روتی مگر اس کی زبان پہ ایک ہی نام تھا ثمروز......ثمروز......جو کبھی لوٹ کر نہیں آنے والا تھا۔

"ڈیڈ! اگر سروش آنٹی زندہ ہوتیں تو آپ ان سے شادی کر لیتے؟"اس نے استفسار کیا تو وہ زخمی سا مسکرا دیا تھا۔

"میں اسے خود شادی کے لیے پوچھتا اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگتا۔مگر تم جانتے ہو وہ پھر بھی نہ مانتی۔"

مایوسی سے کہتے ہوئے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔

تازر نے مزید کچھ بھی نہیں کہا اور خاموش ہو کر افسردگی سے دوبارہ اس کے سینے پر سر ٹکا گیا تھا۔

حدثان دو سال پیچھے چلا گیا تھا جب اس نے اپنی آنکھوں سے جازیہ کی سچائی کو دیکھتا تھا۔

ثمروز اور ،سروش نے جو بھی کہا تھا اس پر اسے یقین نہیں تھا....جازیہ نے بھی قسمیں اٹھائیں کہ یہ ویڈیو ایڈیٹ کی ہوئی ہے۔

"میں سچ کہہ رہی ہوں حدثان! تمہاری قسم میں سچ کہہ رہی ہوں.....یہ ویڈیو فیک ہے.....جہاں میں ہوں وہاں وہ تھی اور یہ جو لڑکا ہے یہاں ثمروز تھا۔"

اور اس نے جازیہ کی بات مان بھی لی تھی کیونکہ اس نے ایک سوفٹویئر والے کو ویڈیو دی تھی جس کی اس نے اوریجنل ویڈیو نکال کر دی تھی......اور وہ جازیہ کے کہہ مطابق تھی۔

وہ پھر سے جازیہ پر یقین کر کے آنکھیں موند گیا،مگر ساری حقیقت یہ ہی نہیں تھی.......

*****

"جازیہ! میں آج زمینوں پر ہی رکوں گا۔ تم سارے دروازے بند کر لو۔ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے فصلوں کو سیراب کرتے مزدوروں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے فون پہ اسے کہا تھا۔

"مجھے تمہارے بغیر نیند نہیں آتی حدثان!"

"میری زندگی مجھے بھی تمہارے بنا نیند کیا چین بھی نہیں آتا مگر اب بابا کے بعد ان کا کام بھی مجھے ہی دیکھنا ہے۔"اس نے محبت بھرے انداز میں سمجھایا تو وہ سمجھ گئی تھی۔

مگر نجانے کیوں حدثان کا دل بےچینی سے بھرا پڑا تھا اس سے بات کرنے کے بعد بھی سکون نہیں ملا تھا۔

اسے لگ رہا تھا کچھ غلط ہونے والا ہے۔

اور پھر سب غلط ہی ہو گیا......

رات کے دو بجے کا وقت تھا جب وہ ٹارچ کی روشنی میں منڈیر کنارے چلتے ہوئے واپس فارم ہاؤس جا رہا تھا تب اسے نظیرے کی کال وصول ہوئی۔اور جو اس نے کہا تھا وہ سنتے ہی اس کی روح تک کانپ گئی۔

"سرکار.......ساتھ والے چک کے سرپنچ کے لونڈے کی کار ہماری حویلی کی طرف جاتی سڑک کنارے کھڑی تھی۔

میں نے اسے حویلی کی طرف بھی جاتے دیکھا ہے آپ جلدی سے آ جائیں۔"

"تم نے روکا کیوں نہیں؟ جانتے ہو نا کہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں بنتی ہماری.....دشمنی چل رہی ہے ہماری۔"

اس کے ہاتھ سے ٹارچ لائٹ چھوٹ کر گر گئی تھی اور وہ بےسود وہاں سے بھاگا۔

پانی اور کیچڑ سے وہ جب گزرا تو کئی چھینٹیں اس کے سرمئی کرتہ پاجامہ کو گندہ کرتی گئیں۔لینڈ کلاؤزر پہ وہ حویلی پہنچا تھا۔

"یا اللّٰہ جازیہ ٹھیک ہو۔"

گاڑی پیچھے ہی روک کر وہ دبے قدموں سے بھاگتے ہوئے حویلی میں داخل ہوا۔

پوری حویلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی مگر گیسٹ ہاؤس روشن تھا۔

جہاں دو لوگ دنیا کی نظروں میں دھول جھونک کر ایک دوسرے کو بھی محبت کے نام پر دھوکہ دے رہے تھے۔

اس کی نگاہوں کے سامنے اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔مگر گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا کوریڈور کو عبور کرتے ہوئے وہ جیسے ہی گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوا پہلے کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کر اس کے قدم اچانک ساکت ہوئے تھے اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے خود کو.......اپنے وجود کو ہوا میں بکھرتے ہوئے محسوس کیا......اسے لگا وہ ابھی پورے بھار سے زمین بوس ہو جائے گا........جلتی آنکھوں کو سختی سے میچ کر دونوں ہاتھوں میں سر گرا کر اس نے تیزی سے گرنے سے بچنے کے لیے دیوار سے ٹیک لگا لی۔

"جازیہ! اگر حدثان کو معلوم ہو گیا تو؟"

اس آواز کو وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا.....بےیقینی مزید بڑھی...... دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔

"کم آن ڈارلنگ اسے پیچھلے تین سالوں سے کچھ معلوم نہیں ہوا اب کیسے ہو گا۔ ڈونٹ وری جو ہمارے راستے کا کانٹا تھا وہ تو خودبخود ہی ہٹ گیا۔اب کیا ڈرنا۔"

اس کی بہکی بہکی آواز نہیں تھی حدثان کے لیے سیسہ تھا جو وہ کانوں میں انڈیل گئی تھی۔

"ویسے کبھی کبھی مجھے بہت برا لگتا ہے یوں ملنا......میں اپنے بہترین دوست کی بیوی کے ساتھ عشق کرتا ہوں یہ بات مجھے شرمندہ بھی کرتی ہے مگر یہ دل،کیا کروں اس کا جو تم پر فدا ہے۔" وہ آخر پہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔

"تمہارے دوست کی ہی غلطی ہے......میرے ہیرو تو تم تھے وہ سمجھا ہی نہیں......ایویں ہی ویلن بن کر آ گیا ہمارے درمیان اور مجھے یہاں قید کر دیا۔"

یہ اس کی بیوی تھی......نہیں نہیں یہ تو اس کی مجرم تھی، اس کی محبت کی مجرم.....اس کے اعتبار کی قاتل۔

"اچھا بتاؤ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو؟"

"تو تم اسے ختم کر دینا......خیر اب وہ مجھے اتنا بھی عزیز نہیں ہے۔اس نے مجھے دیا ہی کیا ہے قید کے سوا۔"

حدثان سے مزید برداشت نہیں ہوا تھا وہ اپنی سن ہوتی سماعتوں میں مزید کوئی بم برداشت نہیں کر سکتا تھا.....تبھی اپنے مردہ وجود کو گھسیٹتے ہوئے ہال میں رکھے صوفے پہ جا گرا۔

کچھ پل ہی لگا تھا سن ہوئے اعصاب کو جگانے میں۔اس کے اندر کا مرد جاگا تھا.....ایک وڈیرے نے انگڑائی لی اور وہ چند پل بعد ازخالی دماغی کے ساتھ اٹھا اور اس سمت بڑھا جہاں دیوار پہ دو بندوقیں لٹکی ہوئی تھیں۔ان میں سے ایک بندوق کھینچ کر وہ آندھی طوفان کی مانند گیسٹ ہاؤس کی جانب بڑھا تھا۔

اس نے پاؤں مار کر دروازہ دھکیلا تو ان کے قہقہوں کو بریک لگی۔سعد کرنٹ کھا کر اٹھا تھا جبکہ جازیہ کا تو وجود ہی پتھر کا ہو چکا تھا۔

اس نے ایک خون برساتی نگاہ اس کے بےلباس سراپے پہ ڈالی اور زہرخند انداز میں مسکرا کر ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا گیا۔

"ح حدثان.....! م میں...."

"ششششش..."

اس نے وحشت سے اس کے منہ پہ انگلی رکھی۔

"تم سے میں کوئی بھی سوال نہیں کروں گا.....اور تم سعد....."

وہ اب اپنے جگری دوست کی جانب پلٹا تھا۔

"ارے تمہاری خاطر میں نے کیا کیا نہیں کیا....؟

تمہیں الیکشن جیتنا تھا میں نے خود کو چناؤ سے الگ کر لیا۔تمہیں ووٹرز کی ضرورت تھی میں نے اپنے سپورٹرز کو بھاری رقم دے کر تمہیں ووٹنگ دلوائی۔

تمہیں ایم این اے بنایا۔مگر....."

حدثان نے ایک بےجان سا تمانچہ اس کی رخسار پہ رسید کیا۔

"ت تم نے میری عزت پہ ہی وار کیا.......تم تو آستینوں کا سانپ ہو.....اب میں تمہیں بلکل بھی نہیں چھوڑوں گا۔"

اس نے بندوق سعد پہ تان دی تھی۔

"حدثان!.....اس کی کوئی غلطی نہیں ہے م میں نے اسے بلایا تھا۔چھوڑ دو اسے.......میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔"

جازیہ اپنے کپڑے سنبھالتی سامنے آ گئی تھی۔

چند پل پہلے کی ساری شرمندگی بھلائے اس کے سامنے دیوار بن گئی تھی۔

"محبت.....؟" وہ تمسخر اڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے آگے بڑھا اور جازیہ کے ریشمی بالوں کو اس کے چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے مٹھیوں میں جکڑ کر پیچھے کو جھٹکا دیا وہ درد کے مارے چنخ اٹھی تھی۔

"یہ محبت نہیں جسموں کا کھیل ہے میری جان۔ محبت تو وہ تھی جو ثمروز اور سروش نے مجھ سے کی تھی۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے اسے پرے دھکیل چکا تھا۔

"کتنی عجیب بات ہے۔"

وہ شانے آچکاتے ہوئے بےبس سا ہو کر صوفے پر گر کے آنکھیں موند گیا۔ٹھیک اسی وقت سعد نے اپنی جیب سے ڈیجیٹل ریوالور نکال کر اس پہ گولی چلا دی تھی جو کہ نشانہ چوک جانے کی بدولت حدثان کے شانے میں جا کر پیوست ہو گئی۔

"سعد......!" جازیہ خوف سے چلا اٹھی۔

جبکہ حدثان اپنے شانے کو تھامے بےیقینی سے سعد کو دیکھنے لگا۔

"دیکھو جازیہ....! ہم اسے مار کر حویلی کو آگ لگا کے بھاگ جاتے ہیں.....سب کو لگے گا کہ حویلی میں غلطی سے آگ لگنے کی بدولت سب کچھ جل کر خاک ہو گیا۔ہم اپنی زندگی آرام سے گزاریں گے۔ہم ساری زندگی اس طرح ہی تو نہیں گزار سکتے نا.....کبھی سروش کا ڈر کبھی ثمروز کا تو کبھی اس حدثان کا۔"

سعد نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر کہا۔اس نے خوف سے حدثان کو دیکھا جو پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔مگر آنکھوں میں نفرت و غصہ لیے انہیں ہی گھور رہا تھا۔

"ٹھیک ہے.......ٹھیک ہے سعد......مار دو اسے۔"

اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد حقارت سے کہا تھا حدثان کی آنکھ میں سے ایک آنسو نکلا تھا جو اس نے زمین پر گرنے نہیں دیا بےرحمی سے ہاتھ کی پشت سے رخسار کو رگڑ ڈالا۔سعد نے رخ پھیر کر نخوت بھری نگاہوں سے حدثان کی جانب دیکھا جس کی آنکھیں پوری کھل گئی تھیں۔

"چوہدری حدثان!.....مرنے سے پہلے ایک سچ سنتے جاؤ۔"جازیہ اس کی جانب بڑھی اور اس کے کان میں جھک کر بولی۔

"سروش نے مجھے سعد کے ساتھ ہوٹل میں دیکھا تھا اس نے ویڈیو بنالی تھی.....مجھے کہتی تھی کہ میں تمہیں خود بتا دوں نہیں تو وہ بتا دے گی...اس دن جب میری برتھڈے تھی وہ تمہیں وہی ویڈیو دکھاںے آئی تھی مگر میرے بہترین ڈارمے پر تم نے جو کیا تمہیں یاد ہی ہو گا......اور وہ ویڈیو جو ثمروز نے تمہیں دکھائی تھی وہ بھی سچ تھی.....جو بعد میں سعد نے ایڈٹ کروا کر اپنی اور میری جگہ ان دونوں کو فٹ کر دیا۔"

وہ بالوں کو جوڑے کی شکل دیتے ہوئے بول رہی تھی۔

"اب تمہیں مر جانا چاہیے حدثان....! بہت بیوقوف ہو تم...اور بیوقوفوں کی پہلے ہی کمی نہیں ہے اس دنیا میں۔" وہ سعد کے شانے پہ کہنی ٹکاتے ہوئے بولی۔

وہ درد کی شدت کی انتہا کو چھو رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے مارتے اس دن حویلی میں دو فائر ہوئے تھے کہ اس کے بعد حدثان نے اس رائفل کو ہی تھام لیا۔اپنی پڑھائی چھوڑ کر وہ ایک وڈیرے کا روپ دھار چکا تھا۔اس نے اسی انداز میں ان دونوں کو مارا جس طرح وہ اسے مارنا چاہتے تھے۔

گیسٹ ہاؤس کو آگ لگا دی۔

اگلے دن ایک ہی خبر تھی ہر نیوز چینل پر ایم این اے سعد نے چوہدری حدثان پہ قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے ان کے گیسٹ ہاؤس کو آگ لگا دی......چوہدری صاحب کی بیوی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور سعد خود فرار۔اس نے ریپورٹرز کے سامنے تھوڑا سا رونے کا ڈرامہ کیا تھا اور سب کی ہمدردیاں بٹورنے میں کامیاب رہا تھا۔

اگلے الیکشن میں اس نے ایم این اے کی سیٹ جیت لی تھی۔ان ہی دنوں سعد کے گھر والوں کو معلوم ہو گیا کہ اصل معاملہ کیا تھا۔دونوں مخالف پارٹیاں تھی خوب دشمنی نے ہوا پکڑی۔پر اب وہ حدثان پہلے والا نہیں رہا تھا جسے وہ لوگ جانتے تھے۔دھوکہ کھا کر وہ سنبھلا تو بہت بھیانک انداز میں.....اس نے دو قتل کیے کہ پھر پیچھے اسے کتنے ہی کرنے پڑے۔اسلام آباد میں وہ صرف ایم این اے ہی نہیں بلکہ غنڈے کے نام سے بھی مشہور ہو چکا تھا۔

مخالف پارٹی نے اسے بہت بدنام کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی اس کی عزت بدنامی سے بلند تھی۔وہ جہاں قدم رکھتا تھا دشمن دبک کر بیٹھ جاتے تھے وہ سروش اور ثمروز کی موت کو اب بھول نہیں پاتا تھا کہ بہن اور بھائی کی شادی کے دوران اسے مادفہ نظر آئی اس کے قدم بےاختیار ہوئے مگر اسے جب مادفہ نے بتایا کہ وہ سروش نہیں ہے وہ بہت مایوس ہوا۔پر اب اس کے پاس ڈائری تھی.....سروش کی لکھی گئی اپنی زندگی پہ کہانی تھی۔

وہ حال میں لوٹا.....تازر سو چکا تھا اس نے گردن گھما کر دائیں جانب سائیڈ ٹیبل پہ پڑی ڈائری کو ایک نظر دیکھا اور پھر سر بیڈ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند گیا۔

کچھ دیر یوں ہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے تارز کو سرہانے پر لٹایا اور اٹھ کر ڈائری اٹھاتے ہوئے صوفے پہ جا بیٹھا۔

یہ وہ ہی ڈائری تھی جو سروش نے اس دن مارکیٹ سے خریدی تھی جب وہ اسے بازار سے اپنی حویلی لے آیا تھا۔

اس نے ڈائری ٹھیک اسی جگہ سے کھولی جہاں سے وہ تھوڑی کھلی کھلی ہوئی تھی۔

اندر ایک سوکھا لال گلاب صفحے پہ چسپاں تھا۔

"آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ محبت کیا ہے۔ عشق کسے کہتے ہیں۔مجھے لگتا تھا کہ مجھے چوہدری حدثان سے محبت ہے.....مگر یہ بس میری خود کی پیدا کی گئی ایک سوچ تھی۔میں تو بس اس لیے اس کی مدد کر رہی تھی کیونکہ وہ میرا بچپن کا دوست تھا۔جس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے دس سال گزارے تھے۔جسے کوئی ہاتھ بھی لگاتا تو میں اس بندے کا حشر نشر کر دیتی تھی۔اور جب معلوم ہوا کہ کوئی اس کے جذبات کے ساتھ کھیل رہا ہے تو میں خاموش نہیں رہ سکی۔"

وہ پڑھتے پڑھتے چونکا۔

"بچپن کا دوست؟"

ان لفظوں نے اسے بری طرح چونکا دیا مگر وہ آگے پڑھنے لگا۔

آج اس پہ وہ راز بھی کھلنے جا رہے تھے جن سے وہ واقف نہ تھا۔

********

ہوتی ہیں منتشر

یہ دھڑکنِ دل

رکتا ہی نہیں........یہ دردِ مسلسل



وہ واک سے واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک سرخ گلاب تھا جسے بےخیالی میں ہی اس نے لان کے پھولوں میں سے توڑا تھا۔

وہ سینے پہ ہاتھ لپیٹے کھڑکی سے ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

لان کی راہداری پر پہنچتے ہی ثمروز نے گلاب کا پھول بےدھیانی میں پھینکا تو وہ لب بھینچ اس پھول کی قسمت پہ افسوس کرنے لگی جو اس شخص کی ہاتھ کی زینت نہیں بن سکا تھا.....بےشک جھٹلایا جا چکا تھا جو اب برف پہ پڑا تھا۔

"یہ سب جو بھی ہوا ہے ٹھیک نہیں ہوا ثمروز!....میرے دل کو سکون نہیں مل رہا....یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔"وہ ثمروز کو بنا پلکیں جھپکائے دیکھے جا رہی تھی جب وحشتوں نے اسے گھیرے میں لے لیا وہ تیزی سے کھڑکی پر پردے درست کرتی رخ پھیر گئی۔

"مگر میری غلطی نہیں ہے۔" دل نے منمنا کر کہا تھا۔اس نے پلٹ کر ذرا سا پردہ ہٹا کر دیکھا تو وہ وہاں سے جا چکا تھا۔گلاب کے پھول کو بارف نے چھپانا شروع کر دیا تھا۔وہ بےاختیار ہی بجلی کی پھرتی سے پلٹی تھی اور بیڈ پہ پڑی شال اٹھا کر شانوں کے گرد لپیٹتے ہوئے بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی سیڑھاں اترتے ہوئے وہ ہال میں ثمروز کے عقب میں بیٹھے آصف اور اس کے والد کو بنا دیکھے باہر کی جانب بھاگی تھی۔

"سروش....!"

ثمروز نے پکارنا چاہا مگر اس کو بدحواسی کے عالم میں بھاگتے پا کر بری طرح الجھ گیا۔

"میں دیکھتی ہوں۔" نیسی تیزی سے اس کے پیچھے بڑھی۔

وہ لان میں گھاس پہ برف کے تلے دبے گلاب کے پھول کو نکال کر نم ہوتی نگاہوں کے سامنے کرتی زخمی سا مسکرا دی۔

"سروش...!"نیسی نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پکارا تو وہ گلاب کا پھول کوٹ کی جیب میں چھپا کر تیزی سے پلٹی۔

"کیا ہوا یہاں کیوں آ گئی؟"

"کچھ نہیں نیسی آنٹی! بس موسم اچھا ہے اسی لیے۔"وہ چادر سینے پہ درست کرتی اڑتے بالوں کو سمیٹ کر دائیں شانے پہ ڈالے بولی۔

وہ نیسی کے ساتھ ہی چلتی ہوئی ہال میں داخل ہوئی مہمانوں کو سلام کیا اور ایک زخمی سی نگاہ ثمروز پہ ڈالتی سیڑھاں چڑھ گئی۔

"تو ثمروز صاحب! کیا جواب دیا ہے سروش نے؟

اسے آصف پسند تو آ گیا ہے نا؟"

آصف کے والد کی بات سنتے ہی اس کے قدم دروازے کے سامنے رک گئے تھے۔

"سر وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی آپ کے بیٹے میں کوئی خرابی نہیں ہے مگر.....سروش ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔"

اس سے پہلے کہ ثمروز کچھ کہتا نیسی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا۔

"ثمروز! تم نے نوکروں کو اتنا سر پہ چڑھا کے رکھا ہے کہ وہ ہمارے سامنے زبان چلا رہے ہیں۔" آصف کے والد بھڑک اٹھے تھے۔

نیسی شرمندہ سی ہو کر سر جھکا گئی تھی۔

ثمروز نے اس کے چہرے کی وہ خوشی دیکھ لی تھی جو کچھ دن پہلے اس رشتے کی بات پہ کھو گئی تھی۔

"یہ گھر کی فرد ہیں اور میں نے انہیں کبھی بھی نوکر نہیں سمجھا۔ملک صاحب! سروش واقع ہی ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اور شاید اسے آصف پسند بھی نہیں آیا سو معذرت خواہ ہوں۔آپ ناں سمجھیں۔" اس نے سروش کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ خوشی سے چہکتی ہوئی کمرے میں چلی گئی تھی۔

جب وہ لوگ چلے گئے تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ٹریک سوٹ بدل کر کرتہ پاجامہ زیب تن کیے وہ سروش کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا،دروازے پہ ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوا تو سروش سامنے ہی بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹی ہوئی تھی۔

ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا جسے وہ انگلیوں کے درمیان گھماتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔گلا کھنکار کر ثمروز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی اور پھول تیزی سے ڈائری میں رکھ کے وہ گھبرائے ہوئے انداز میں دوپٹہ سینے پہ پھیلانے لگی تھی۔

"آج اسی خوشی میں کیوں نا کہیں گھومنے چلیں؟"

وہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔

"وہ جزیرہ......جس پہ آپ نے لے جانے کا وعدہ کیا تھا وہاں چلیں؟"

اس نے اسے یاد دلانا چاہا تو وہ سر اثبات میں ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"تیاری پکڑو پھر۔"

سر کو دائیں جانب جنبشِ دے کر وہ باہر نکل گیا۔

آج سروش کا چہرہ خوشی سے گلاب ہو رہا تھا۔اس نے دل کے فیصلے کو تسلیم کر لیا تھا اور اس انوکھے جذبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔

برف باری اس کے ریشمی سلکی بالوں پہ گر رہی تھی۔

چلتے چلتے اچانک ہی اس کا پاؤں ہموار اور ناہموار جگہ پہ آیا تو وہ گرنے لگی مگر ثمروز نے اسے شانوں سے تھام کر گرنے سے بچا لیا۔

"دھیان کہاں ہے تمہارا۔ ابھی گر جاتی تو؟"

وہ اسے بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا۔پہلے اسے اچھا بھی لگتا تھا مگر اب وہ اس لہجے میں خاص محبت کی ملاوٹ چاہتی تھی....بلکہ وہ تو ثمروز کی محبت کے مطلب کو ہی بدلنا چاہتی تھی۔دونوں کچھ دیر برف پر چہل قدمی کرتے رہے پھر ایک کھجور کے درخت تلے جا بیٹھے۔

"یہ میری پسندیدہ جگہ ہے۔ یہاں بھیڑ کبھی نہیں ہوتی، بلکہ یہاں کوئی آنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔"

وہ اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔ جزیرے پر مکمل خاموشی اور سکونت پذیر ماحول تھا۔

"شبانہ اور بچوں کے ساتھ میں اکثر یہاں آیا کرتا تھا اور.....ہم لوگ یہاں کیمپنگ بھی کرتے تھے۔"

وہ مدھم سی مسکراہٹ لیے بولا۔

"واؤ.....ویسے واقع ہی جگہ بہت خوبصورت ہے۔" اس نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں، چاروں اطراف دور دور تک پانی ہی پانی تھا اور بہت مختصر سا رقبہ تھا جزیرے کا۔

"ہاں.....میں سوچ رہا ہوں کہ...." اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب اس نے چار پانچ ہٹے کٹے مردوں کو ہاتھوں میں بندوقیں تھامے اپنی جانب آتے دیکھا۔

اسے کسی انہونی کا شک و شبہ ہوا تو وہ پھرتی سے اٹھا۔

سروش بھی اس کی نگاہوں کا تعاقب کرتی اٹھی اور گھبرا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"سروش! بوٹ کی طرف بھاگو۔" وہ تیزی سے بولا مگر سروش نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے کوٹ کو مٹھیوں میں بھینچے ساکت کھڑی رہی تھی۔

"ن نہیں.......پ پلیز ہمیں کچھ مت کہو۔"

وہ جب چاروں آدمی ان کے قریب آئے بنا کچھ بولے ثمروز پہ بندوقیں تان گئے تو وہ خوف سے کانپ کر زمین بوس ہوتی ہاتھ جوڑ گئی تھی۔

"دیکھو چھوڑ دو ہمیں۔جو قیمت مانگو گے دوں گا۔"

جھک کر سروش کو شانوں سے تھام کر اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا۔

"ہم چوہدری صاحب کے بندے ہیں کوئی بکاؤ نہیں۔اور ہم یہاں تمہیں اور اس چھوری کو ختم کرنے آئے ہیں۔" اتنا کہتے ہی ان میں سے ایک نے بندوق کی نالی اس کی چھاتی پہ رکھ دی۔

وہ اپنی اور سروش دونوں کی زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں ان سے ہتھا پائی کرنے لگا۔

"ہمیں یہاں سے جانے دو۔"

وہ ایک کے ہاتھ سے بندوق کھینچتے ہوئے ان پہ تان چکا تھا۔

"ثمروز! بچاؤ مجھے۔ "

وہ ہاتھا پائی کے درمیان سروش کو فراموش کر چکا تھا تبھی ان میں سے ایک نے سروش پہ جھپٹا مارا۔وہ خود کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"چوہدری ثمروز! اپنی بیوی کی سلامتی چاہتے ہو تو بندوق پھینک دو نہیں تو اس حسین چڑیا کی جوانی تیری آنکھوں کے سامنے ہی لٹ جائے گی۔" وہ غنڈہ سروش کے چہرے کو ہاتھوں میں دبوچے ہوئے بولا۔

"اوئے.....(گالی).....چھوڑ اسے۔"

وہ آپے سے باہر ہو گیا تھا۔

جیسے ہی اس نے گولی اس شخص پہ چلائی ادھر اس کے ساتھیوں نے ثمروز کے شانے پہ وار کیا گولی شانے میں پیوست ہوئی تو اس کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کر گر گئی تھی۔

وہ جو اس کی جانب بڑھ رہی تھی وہاں ہی فریز ہو کر بےجان سی ہو کے بھری بھری ریت کی مانند زمین پر بکھرتی چلی گئی۔

"باندھ دو اس سالے کو۔"

گولی چلانے والے نے گرج کر کہا تو اس کے دونوں ساتھی ثمروز کو ایک درخت کے ساتھ باندھنے لگی۔

"جلا کر ماریں گے سالے کو۔"

اس غنڈے نے اپنے لونگ کوٹ ک جیب سے پٹرول کی بوتل نکالی اور ثمروز کے چہرے اور کپڑوں پہ انڈیل دی۔وہ چنخ کر بےاختیار ہی اس کی جانب بھاگی تھی مگر ایک آدمی نے اس کے پیٹ میں زور سے ٹانگ ماری تو وہ درد کی شدت سے کراہتے ہوئے پھر سے زمین بوس ہو گئی۔

"نہیں پلیز.......پلیز اسے چھوڑ دیں۔ میں اس کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں چھوڑ دیں اسے۔" وہ پیٹ کے درد سے تڑپتے ہوئے اٹھی تھی اور ہاتھ جوڑے روتے ہوئے بولی مگر منتوں کا بھی کوئی فایدہ نہ ہوا تھا.....ان سفاک درندوں کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوا۔

مدہوشی کے عالم میں اس کی جانب دیکھتے ثمروز کے بدن کو آگ نے پکڑ لیا تھا۔

وہ پاگلوں کی طرح چنختی ہوئی اس کی جانب بڑھی تھی مگر اس سے کچھ فاصلے پر ہی وہ پاؤں پھسلنے کی بدولت بری طرح پتھر پہ سر کے بل گری اور دنیا فانی سے بےخبر ہو گئی۔

ان غنڈوں نے جب تیزی سے نزدیک آتی ایک بوٹ کو دیکھا تو سروش کا سانس جو بند ہو چکا تھا چیک کرتے ان دونوں کی ایک ایک تصویر بناتے وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔

حدثان نے ڈائری بند کی اور صوفے پہ اچھال کر سر تھام لیا۔

اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔آنکھوں سے بےآواز آنسو ٹپک رہے تھے۔

"آپ نے کیسے سوچ لیا بابا سائیں کہ کسی کو اتنی درد ناک موت دینے کے بعد آپ کو آسان موت آئے گی۔"

اس کی نگاہوں کے سامنے اپنے باپ کی لاش آئی تھی جو آدھی جلی ہوئی تھی۔ماں کی لاش ایسی تھی کہ بوڑھے گوشت میں گاڑی کے ٹوٹے کانچ اندر تک پیوست ہو گئے تھے اور جازیہ کی بہن جس کا پورا منہ خراب ہو گیا تھا کہ لاش کی پہچان مشکل تھی۔اللّٰہ نے کیا انصاف کیا تھا........سروش کی بہن کی موت سے لے کر سروش کی موت تک سب کا بدلہ پورا ہو چکا تھا۔مگر حدثان کے دل میں جو آگ بھڑکی تھی اب اس میں وہ تینوں آدمی جلنے والے تھے۔

"ہاں فاروق! پانچ سال پہلے ابا کے ساتھ جو لڑکے کام کرتے تھے مجھے ان سے ملنا ہے۔ باڈی گارڈ کی ضرورت ہے۔ کل تک انہیں لاہور بھیج دے لوکیشن میں سینڈ کر دوں گا۔"

اس نے فون پر کہا اور اگلے بندے کی سنے بنا ہی کال کاٹ دی۔

*********

وہ سب لوگ پکنک کی تیاری میں مصروف تھے۔

جبکہ مادفہ بےزار سی کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر چکرا رہی تھی۔اس کے دل میں بےچینی بڑھ رہی تھی، نگاہ کھڑکی کے پار برف باری پر جا ٹھہری تو دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔

"کم آن ڈارلنگ جلدی کرو دیر ہو رہی ہے۔"بھابھی نے کہا تو وہ ان کی جانب پلٹی۔

"یہ موسم بھی وہ ہی برف باری بھی....اور....اور آپ سب نے اسی جزیرے کا انتخاب کیا۔مجھے جزیروں سے خوف آتا ہے میں نہیں جاؤں گی۔"تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔

"جزیروں سے خوف....مائی فٹ......بس زبیر کو میرے ساتھ دیکھ کر جلتی ہی۔"

سیڑھاں اترتی الفت نے سن لیا تھا تبھی زہر خند لہجے میں گویا ہوئی۔بھابھی نے ایک خاموش نظر اس پہ ڈالی اور ہال کی جانب بڑھ گئی جہاں سب محفل جمائے بیٹھے تھے۔ زبیر بچوں کے ساتھ لڈو کھیل رہا تھا جبکہ مسز آفندی ملازمہ کے ساتھ سامان پیک کروا رہی تھی۔وہ بھی ان کی مدد کرنے لگی۔

الفت پیروں کو جوتے سے آزاد کرتی زبیر کے برابر میں جا بیٹھی تو وہ محض ایک نگاہ اس پہ ڈال کر مسکراتے ہوئے لڈو کی جانب متوجہ ہوا۔تبھی ہیلز کی آواز ہال کے فلور پہ ابھری تھی۔سب نے بیک وقت اس کی جانب دیکھا جو سیاہ لانگ کوٹ کے تلے سیاہ جینز زیب تن کیے۔ سر پر گرم ٹوپی اور گلے میں مفر لپیٹے دائیں شانے پہ شولڈر بیگ تھا جس میں سے وہ کچھ تلاش کرتی وہاں سے گزرنے لگی کہ مسز آفندی نے اسے مخاطب کیا۔

"مادفہ! کہاں جا رہی ہو بیٹا؟"ان کے استفسار پر اس کے قدم رک گئے۔گردن گھما کر اس نے ایک نظر زبیر پہ ڈالی جو اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔

مادفہ نے سلکی بالوں کو سٹریٹ کر کے کمر پہ کھلا چھوڑ رکھا تھا،چند بال چہرے پہ لٹوں کی شکل میں بکھرے تو اس نے ہاتھ بڑھا کر انہیں پیچھے کرتے ہوئے بیگ سے ایک چابی نکال کر مسز آفندی کو دکھائی۔

"ثمروز کے گھر جا رہی ہوں۔" نظریں ہنوز زبیر پہ ٹکائے کہا تو اس نے بےحد چونک کر مادفہ کی جانب دیکھا نجانے کیا تھا اس کی آنکھوں میں کہ وہ تاب نہ لاتے ہوئے دوسرے ہی پل سر جھکا گیا تھا۔سب خاموش ہو چکے تھے......کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

"میں اب تک غلطی پر تھی میرا گھر تو وہ ہے..... یہ نہیں۔"

وہ مزید کچھ بھی کہتی تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔

"کہاں کھو گئے تم سب چلو دیر ہو رہی ہے زبیر! اٹھو یار کم آن۔وہ نہیں آنا چاہتی تو یہ اس کا فیصلہ ہے۔"الفت ان سب کی توجہ مادفہ کی جانب سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

مگر اس نے جو آج ان دونوں کی نگاہوں کو ایک ہوتے دیکھا تھا وہ الفت کو پریشان کر گیا۔

"آپیا...!"

وہ اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی جہاں بھابھی یعنی اس کی بہن کھانا پیک کر رہی تھی۔

"آپ آنٹی سے بات کریں مجھے زبیر سے ابھی شادی کرنی ہے۔"

"واٹ تم پاگل ہو گئی ہو؟ ابھی کیسے ہو گی؟" وہ اس کے پاگل پن پہ بوکھلا کر رہ گئی تھیں۔

"میرا مطلب ہے بہت جلد کرنی ہے۔ وگرنہ وہ.....وہ اس مادفہ کی جانب مائل ہو جائے گا۔وہ مجھے چھوڑ دے گا اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گی....ایک مرتبہ پھر سے نہیں میں زبیر کو کھو سکتی......آپ بس ابھی آنٹی سے بات کرو۔" اس نے خفگی سے کہا۔

بھابھی نے اسے ریلکس کرنے کے لیے ہامی بھر لی کہ وہ مسز آفندی سے بات کریں گیں۔

وہ لوگ بڑے جوش و خروش سے پکنک منانے نکلے تھے۔زبیر بھی خوش تھا مگر اس کا دماغ مادفہ کی سرخ آنکھوں میں اٹک کر رہ گیا تھا۔

****

وہ جب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو کئی کھٹی میٹھی یادوں کی پٹاری کھل گئی تھی.....وہاں ہر جگہ ثمروز تھا، اس کی خوشبوئیں تھیں جنہیں محسوس کرتے ہوئے وہ گزرے کل میں کھو گئی تھی۔گھر کی حالت بہتر تھی پر ابھی بھی اتنی نہیں تھی کہ وہاں کوئی انسان رہ سکتا۔مٹی اور جالے اس جگہ کو پراسرار بنائے ہوئے تھے۔ہاتھ بڑھا کر بڑی لائٹ آن کرتے ہی اس کی نظر سامنے دیوار پہ لگی قدآدم تصویر پہ پڑی۔دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی اور جو دھول مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے مٹی ہٹائی تو دل نے پھر سے چنخنا شروع کر دیا تھا،بےآواز آنسو رخساروں کو تر کرتے چلے گئے۔اس نے ہاتھ کھینچا اور رخ پھیر کر گھر پہ ایک نظر ڈالی۔

"اب ٹھیک ہے چلو۔"

ہال میں وہ کھڑا اس کے سر پہ دوپٹہ اوڑھ رہا تھا۔مادفہ مدھم سی آواز میں ہنستی ہوئی آگے بڑھی تو دونوں سائے غائب ہو گئے۔اس نے بےدلی سے یہاں وہاں دیکھا اور پھر زخمی سی مسکراہٹ لیے ٹھنڈی آہ بھر کے صوفے پر سے کپڑا ہٹا کر کوٹ اور بیگ کو اس پہ اچھال کر ہال کی صفائی کرنے لگی۔

"عید نزدیک ہے ثمروز! مجھے کیا تحفہ دیں گے؟" اس نے جب کچن میں قدم رکھا تو سامنے کافی میکر میں کافی بناتی سروش اور سنک سے ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ لپیٹے کھڑا ثمروز نظر آئے تھے۔یہ کتنا خوبصورت اور مکمل منظر تھا....

"جو تم مانگو گی ملے گا۔" وہ فراخ دلی سے گویا ہوا۔

"پکا جو بھی؟"

"ہاں بھئی جو بھی۔"

وہ اس کی بات اور بولنے کے انداز کو سمجھے بنا اپنے لفظوں پہ زور دیتے ہوئے مسکرا کر بولا۔

"میں تجھے مانگ لوں گی تجھ سے۔"وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکراہٹ دبا گئی۔

"بتاؤ کیا تحفہ چاہیے؟"

"بعد میں بتاؤں گی۔"وہ مسکرا کر کہتی کچن سے نکل گئی تھی۔

"ابھی بتاؤ یار۔"وہ بھی مادفہ کے قریب سے گزرا تھا اس نے گردن گھما کر دیکھا تو دونوں سائے کہیں غائب ہو گئے۔اس کے قدم سنک کے پاس جا رکے تھے،ہاتھ بڑھا کر سنک کو اس جگہ سے چھوا جہاں ثمروز ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے پلٹ گیا تھا۔


موقع ہی نہیں ملا مجھے تجھے مانگنے کا

وقت بھی قسمت کی طرح ظلم کر گیا


اس نے نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے آنسوؤں کو پلکوں کی دہلیز پھلانگنے سے روکا اور سر جھٹک کر کچن کی صفائی کرنے لگی۔

اس کام سے فارغ ہو کر جب وہ ڈائننگ ہال میں گئی تو سامنے میز پہ ہاتھ جمائے اس کی جانب جھکا کھڑا تھا اور اس کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھی سروش نخرے کر کر کے سوپ پی رہی تھی۔

"سروش! اچھے بچوں کی مانند سارا ختم کرو۔" اس نے انگلی اٹھا کر سختی سے کہا اس کے سخت لہجے میں بھی محبت تھی۔

"ثمروز!......"اس کا منہ لٹک گیا۔

"بلکل بھی نہیں.......اتنے دنوں سے بخار ہے تمہیں اور تم نخرے دکھا رہی ہو......ادھر دو میں پلاتا ہوں۔"

وہ اس کے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے سوپ پلانے لگا وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے ہوئے پینے لگی۔

مادفہ کی رخساروں پر بےشمار آنسو بہہ گئے تھے۔وہ جہاں جہاں جا رہی تھی وہاں وہاں ثمروز کی پرچھائیاں نظر آتیں، ہر ایک لمحہ اس کو دکھائی دیتا وہ رات آٹھ بجے تک پورے گھر کی صفائی ستھرائی کر کے فری ہوئی اور لائبریری جا گھسی۔ثمروز کا صوفہ اسی انداز میں آڑھی ترچھی شلف کے پاس پڑا تھا۔

سامنے پڑی شیشے کی میز پر چند فائلیں بھی ویسے ہی پڑی تھیں اور سگریٹ کی ڈبی بھی.........جیسے اس دن وہ چھوڑ کر گیا تھا۔مادفہ نے ہاتھ بڑھا کر فائلوں کو اٹھایا اور مٹی جھاڑ کر ان میں سے ایک فائل کو کھولا تھا....یہ اس کی کمپنی کی فائل تھی،کوئی ڈیل سائن کی گئی تھی جس کے پیپر وہاں ہی پڑے رہ گئے تھے ۔مادفہ نے اس کے سائن پہ انگلیاں چلاتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ رخساروں پر آنسو مزید تیزی سے بہنے لگے تھے۔

"ثمروز...!"کانپتے ہونٹوں نے بےاختیار اسے پکارا تھا اور وہ بھری بھری ریت کی مانند زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔سر صوفے پہ رکھے وہ بلک بلک رو دی تھی۔کئی پل گزر گئے وہ روتی رہی.....دل کا غبار نکلا تو اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔آج اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ وہ اکیلی تھی....اس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہ تھا یہ احساس بھابھی نے اسے دلایا تھا۔

وہ جب آنے لگی تھی تو اسے بھابھی نے بتایا تھا کہ وہ اس گھر کی فرد نہیں ہے اور اس نے جب ان کی بات پر غور کیا تو سچ یہ ہی تھا....

"دیکھو مادفہ! میری بات کا برا مت ماننا مگر تم الفت کی جگہ چاہ کر بھی نہیں لے سکتی۔سب کی خوشی اسی میں ہے کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔تم زبیر اور الفت کے درمیان میں آ رہی ہو۔خواہ تم نہیں بھی چاہتی مگر ایسا ہے......تم ثمروز کے گھر چلی جاؤ پلیز.... یہاں سے چلی جاؤ.....ہم نے بہت دکھ دیکھیں ہیں مادفہ! مزید میں اپنی بہن کو دکھی نہیں دیکھ سکوں گی۔"یہ سب سن کر اس کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔کہہ بھی تو وہ ٹھیک رہی تھیں۔

کہاں جگہ تھی اس کے لیے؟

وہ دل کو یوں ہی سمجھائے پھر رہی تھی کہ وہ اس کی فیملی ہے مگر آج دل نے کچھ بھی نہیں سمجھا تھا اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہو چکا تھا۔

اور بہتر یہ ہی تھا وہ آفندی فیملی کو چھوڑ کر وہاں چلی جائے جہاں کوئی نہ ہوتے ہوئے بھی کوئی تھا.....ہاں یہاں ثمروز کا احساس تھا، اس کی پرچھائیاں اور یادیں تھیں جن کے سہارے وہ جی سکتی تھی۔

صبح کا سورج طلوع ہوا تو وہ اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھی سیڑھیاں چڑھنے ہی لگی تھی کہ اس کی نظر ثمروز کے کمرے پہ پڑی۔

بکھرے بالوں کو سمیٹ کر کمر پہ ڈالتے ہوئے وہ چادر شانوں کے گرد مضبوط کرتی پلٹی اور اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

****

مسز آفندی پریشان سی ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھیں اپنی پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھیں۔

"کیا ہوا بیگم آپ پریشان لگ رہی ہیں؟"

احمد آفندی نے استفسار کیا تو وہ ان کی جانب خالی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔

"مادفہ ابھی تک نہیں آئی۔مجھے بہت فکر ہو رہی ہے۔"

انہوں نے افسردگی سے کہا۔

"وہ بچی نہیں ہے بیگم! جو آپ ان کی اتنی فکر کر رہی ہیں۔"

"مگر اس نے کل سے کچھ بھی نہیں کھایا ہو گا۔اور وہ ثمروز کے گھر میں اکیلی تھی، پتہ نہیں رات کیسے گزاری ہو گی۔"

سیڑھاں اترتے زبیر کے قدم ایک پل کو ساکت ہوئے تھے۔

"کیا مطلب مادفہ ابھی تک واپس نہیں لوٹی۔" بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔اسے لگا تھا وہ آ کر سو چکی ہو گی۔

"بھابھی! میرا کھانا پیک کر دیں اور مادفہ کا بھی۔"

وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے والدین کو سلام کر کے بھابھی کی جانب متوجہ ہوا۔

"مگر زبیر!....."

"یہ ٹھیک رہے گا۔ جاؤ بیٹا ساری رات بچی بھوکی اور اوپر سے اکیلی کیسے رہی ہو گی لے آؤ اسے۔"

بھابھی کی بات کاٹتے ہوئے مسز آفندی نے کہا تو وہ بس "جی ممی جی!" کہہ کر واپس پلٹ گئیں۔

"بچی..... اونہہ۔"

وہ ٹوکری میں کھانا پیک کر کے رکھ کے لائی تو زبیر اپنی گاڑی کی چابی اور فون اٹھا کر کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا۔

بھابھی نے ایک شکوہ بھری نگاہ مسز آفندی پر ڈالی اور وہاں سے ہٹ گئیں۔

*****

آج پانچ سال بعد اس نے یہ لباس پہنا تھا۔

بےاختیار ہی اس نے سرمئی ریشمی دوپٹے کا پلو تھام کر سر پہ اوڑھ لیا جو ڈھلک کر شانوں پر آ گیا تھا۔

شیشے میں اسے وہ نظر آیا تھا....مسکراتے ہوئے اس کے قریب آیا تھا اور آنچل اس کے سر پہ دے کر پلٹ گیا۔

بےساختہ ہی مادفہ نے شیشے پہ ہاتھ رکھا مگر وہ دونوں سائے منظر سے غائب ہو گئے تھے تبھی وہ بےبسی سے مسکرا کر سر جھکا گئی۔

وہ اپنے ہینڈ بیگ سے لپ گلوس اور کاجل نکال کر پھر سے شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔غلافی آنکھوں کو کاجل سے بھر کے زخمی نظر اپنے سوگوار سراپے پہ ڈالی۔

گاڑی بنگلے کے سامنے جیسے ہی رکی اس کی بےچینی بڑھ گئی تھی......کئی سال گزر گئے تھے اسے اس جگہ پر آئے ہوئے۔ جب سے وہ رخصت ہوا تھا اس نے یہاں قدم نہیں رکھے تھے۔بیل بجانے کے بعد وہ اضطرابی کیفیت میں سینے پہ ہاتھ لپیٹے لب کچلنے لگا تبھی نظر دائیں جانب لگی نام پلیٹ پہ پڑی تو اس کی نظریں ساکت سی ہو گئیں۔

"چوہدری ثمروز۔"

زیرِلب بڑبڑاتے ہوئے اس نے گہری سانس بھری اور نفی میں سر ہلا کر ایک مرتبہ پھر سے بیل بجائی۔

دوپٹہ سینے پہ پھیلائے وہ ہونٹوں پر لپ گلوس لگا رہی تھی جب دروازے پر بیل ہوئی مادفہ کے دل کو اچانک سے کچھ ہوا تھا اور وہ تیزی سے کمرے سے نکلی اور سیڑھاں اترنے لگی تو ایک مرتبہ تو بری طرح سر چکرایا تھا مگر وہ سختی سے سر جھٹک کر پھر سے سیڑھیاں اترنے لگی اور دروازے کی جانب بڑھی۔

"آ رہی ہوں۔"

"اوہ تم ہو..... آؤ اندر۔"

دروازہ کھول کر وہ ایک پل کو تو ساکت ہوئی تھی مگر دوسرے ہی پل سنبھل کر ایک جانب ہو کے اسے راستہ دیتے ہوئے بولی۔وہ جو کھویا کھویا اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں میں الجھا ہوا تھا بولا۔

"ایک منٹ میں کھانا لے آؤں۔"

زبیر پلٹ کر گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

وہ دروازہ تھامے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔جب واپس لوٹا تو اس نے نگاہوں کا رخ پھیر لیا تھا۔

"تم بیٹھو چل کے میں کھانا لگاتی ہوں۔"

وہ ٹوکری تھامے اشارہ ثمروز کے کمرے کی جانب کرتے ہوئے بولی تو وہ سر اثبات میں ہلا کر کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔


ایک سچ ہے جو سکون کی سانسیں مجھے لینے نہیں دیتا!

میں اس کے دل میں زندہ نہیں، دفن ہو چکی ہوں!

********

ہر شے کے ٹوٹنے سے شور بلند ہوا تھا

جب ٹوٹا دل تو ہرسو سکون چھا گیا



رات کا آخری پہر تھا۔ایک کالی گاڑی اندھیرے کو چیرتی ہوئی اس لوہے کے بڑے گیٹ کے سامنے آ رکی ہوئی۔ گاڑی کے دروازے کو پاؤں مار کے کھولتے ہوئے وہ باہر نکلا تھا۔کالا کرتہ پاجامہ زیب تن کیے.....دائیں ہاتھ میں رائفل تھامے،پیشانی پہ بل اور آنکھوں میں غضب ناک غصہ لیے بارعب قدم اٹھاتا وہ گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔گارڈز نے اسے دیکھتے ہی پھرتی دکھاتے ہوئے تیزی سے دروازہ کھول کر اسے سلام کیا تھا۔

"ہاں رحمت بخش! آ گئے وہ تینوں؟" سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر ایک کش بھرتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا تو رحمت بخش سر اثبات میں ہلا کر اس کی انگلی کے اشارے پر وہاں سے چلا گیا۔

"السلام و علیکم چوہدری صاحب!" وہ جیسے ہی ہال میں پہنچا صوفے سے اٹھتے ہوئے ایک شخص نے اسے سلام کیا۔وہ بنا جواب دیئے صوفے پر ،ٹانگ ٹانگ پہ چڑھائے جا بیٹھا۔ سگریٹ کے کش بھرنے میں یوں مصروف تھا جیسے یہاں یہ ہی کام کرنے آیا ہو۔ان تینوں نے ایک دوسرے کی جانب حیرانگی سے دیکھا تھا۔

"میں نے سنا ہے تم لوگ بندے جلانے میں بہت ماہر ہو۔"

بچی سگریٹ کو ایک جانب اچھالتے ہوئے اس نے کہا تو ان تینوں نے حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"چوہدری صاحب! کام کی بات کریں۔ ہم لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں، آپ جو کہیں گے وہ سب کریں گے......بلاآخر آپ کے والد صاحب کے وفادار بندے رہ چکے ہیں۔"درمیان میں بیٹھے آدمی نے کہا تو وہ استہزائیہ ہنستے ہوئے ان کی جانب دیکھنے لگا۔

"وہ تو ہے......مگر اب اسی وفاداری کی قیمت بھی تو اب تم لوگ ہی چکانے والے ہو۔"وہ گھٹنوں پر ہاتھ ٹکائے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ک کیا مطلب؟ ہم سمجھے نہیں۔" رنگ تو تینوں کے اڑ گئے تھے مگر ہونٹوں پر خوف بھری مسکراہٹ سجائے بیٹھے رہے۔

"آج کا ہی دن تھا نا وہ بھی۔ اتوار کا......یاد ہے نا امریکہ کا وہ جزیرہ....."

اس نے میز پہ پڑی شراب کی بوتل اٹھائی اور ان تینوں پر شراب انڈیلنے لگا۔انہوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر اس نے گن پوائنٹ پر انہیں خاموش کروا دیا۔حدثان نے کانچ کی بوتل زور سے فلور پہ پٹخی تو دو لڑکے ایک کمرے سے نکل کر تیزی سے اس جانب آئے تھے۔

"پلروں سے باندھ دو ان حرامیوں کو۔" وہ زور سے چلایا تھا۔

"ن نہیں چوہدری صاحب! آپ غلط کر رہے ہیں۔"

"تو تم لوگوں نے تو جیسے بہت ٹھیک کیا تھا ثمروز اور سروش کو مار کر۔" وہ شیر کی مانند دھاڑتے ہوئے پلٹا تھا اور زور کا مکا اس بندے کے منہ پہ دے مارا۔

اتنا زور کا مکا تھا کہ بچارے کا جبڑا ہلنے لگا تین چار دانت ٹوٹ کر خون کے ساتھ منہ سے باہر نکل آئے۔

وہ گڑگڑا رہے تھے، اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے مگر حدثان کچھ بھی نہیں سن رہا تھا۔صوفے پہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ ان تینوں کو اپنے آدمیوں کے ہاتھوں مار کھاتے دیکھ رہا تھا۔

"بس کرو....."وہ ہاتھ اٹھا کر بولا تو اس کے آدمی رک کر دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔

"شاید تم لوگوں کو اب سروش کے درد کا احساس ہو جائے مگر ابھی تو....." وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے چہرے پر وحشت بھری مسکراہٹ سجائے لائٹر کو جلا بجھا رہا تھا۔

"ثمروز کی تکلیف کو محسوس کرنا باقی ہے۔"اتنا کہتے ہی اس نے لائٹر درمیان والے کی جانب پھینکا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے آگ نے پکڑ لیا۔

وہ چنخنے لگا۔

حدثان سینے پہ ہاتھ لپیٹے اطمینان سے اسے چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔آگ اب دوسرے دونوں کے بازوؤں تک پہنچ چکی تھی۔

"کچھ دیر بعد پانی پھینک کر آگ بجھا دینا اور انہیں ہسپتال لے جانا۔"اپنے بندے کے کان میں کہتے ہوئے اس نے ایک نظر ان تینوں پہ ڈالی۔

"وہ دونوں زندہ ہیں......ہمیں بچا لو چوہدری صاحب....! وہ دونوں زندہ ہیں۔" وہ گڈبائے کا اشارہ دیتے ہوئے پلٹا تو ان میں سے ایک نے چلا کر کہا۔

حدثان کے قدم زمین نے جکڑ لیے،وہ ایڑھیوں پہ پلٹا۔

اس نے اشارہ کیا تو اس کے آدمیوں نے چند لمحوں میں آگ بجھا دی۔

کچھ دیر بعد انہیں ہسپتال پہنچایا گیا۔

وہ وہاں ہی رہا تھا جب تک کہ ان میں سے ایک کو ہوش نہیں آیا۔

"بتاؤ کیا جانتے ہو ان دونوں کے بارے میں؟" کرسی کھینچ کر بیڈ کے نزدیک بیٹھتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔

وہ بندہ آنکھیں کھولے حدثان کی جانب دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں بولنے لگا۔

*********

وہ تینوں وہاں سے بھاگ نکلے تھے تبھی وہ بوٹ وہاں آ رکی۔

یہ آفندی فیملی تھی۔

"اوہ مائی گاڈ۔فیض! میری مدد کرو آگ بجھانی ہو گی۔" احمد صاحب نے جلدی سے بوٹ میں رکھی پانی کی کین اٹھائی دوسری کین فیض نے نکالی اور ساتھ ایمرجنسی میں کال کرنے لگا۔زرینہ اور مسز آفندی نے بھاگ کر سروش کو سیدھا کیا۔

زرینہ بھابھی نے اپنا کوٹ اتار کر اس پہ دیا۔

اور اس کی پیشانی پہ جمے خون کو خوف زدہ سی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے شہ رگ پہ ہاتھ رکھ کر اس کی سانسیں چیک کرنے لگیں وہ زندہ تھی۔

"زندہ ہے یہ......"

ان دونوں کو ہسپتال پہنچایا گیا احمد صاحب بھی ساتھ گئے تھے جبکہ فیض وہاں ہی رک گیا۔

"پولیس کا معاملہ ہے....آپ سب گھر جائیں۔"

"دادو! ہماری پکنک؟"

"بیٹا! وہ پھر کبھی۔"

وہ بچوں کو سمجھاتے ہوئے لے کر بوٹ کی جانب بڑھ گئیں تھیں۔فیض نے پولیس کو جگہ واردات پہ بلا کر سارے ثبوت ان کے حوالے کرتے ہوئے انہیں لے کر ہسپتال پہنچا۔

"ڈیڈ!......ان دونوں کی کیا کنڈیشن ہے؟"

وہ پولیس آفیسر پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے احمد صاحب کی جانب بڑھا۔

"لڑکی تو ٹھیک ہی ہے مگر ابھی ہوش میں نہیں ہے۔پر لڑکے کی بہت بری حالت ہے۔ دونوں آئی سی یو میں ہیں۔ اللّٰہ ہی کرم کرے۔ "انہوں نے افسردگی سے کہتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

"میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں آپ ان کو لڑکی کے پاس لے چلیں یہ دیکھنا چاہتے ہیں اسے۔" وہ ان کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہتے ہوئے ڈاکٹر کی جانب بڑھ گیا۔

تقریباً دو دن بعد سروش کو ہوش آیا تھا وہ خوف زدہ سی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چنخنے لگی تھی۔

"ثمروز.....ث ثمروز! نہیں پلیز اسے مت مارو۔"

وہ بڑبڑاتے ہوئے بیڈ سے اترنے ہی لگی تھی کہ فیض جو صوفے پہ بیٹھا بیٹھا سو چکا تھا تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔

"ریلکس......مائی ڈیئر سب ٹھیک ہے۔" اس نے جلدی سے سروش کو شانوں سے تھام کر نرمی سے واپس لٹانا چاہا۔

"ن نہیں وہ ٹھیک نہیں ہے.....وہ مار دیں گے اسے مجھے جانے دیں.....وہ لوگ ثمروز کو مار دیں گے...وہ جل رہا ہے.......چوہدری ثمروز م مجھے تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔م میں اس کے بنا جینے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی۔م مجھے بھی مار دیں...."

وہ اپنا آپ چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔

مگر تبھی نرسوں نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تھا۔

پولیس آفیسر بھی کمرے میں آ چکا تھا۔

"چوہدری ثمروز......؟" فیض بڑبڑایا اور ایک نظر احمد پہ ڈالی جنہوں نے اسی پل نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

"ریلکس ہو جائیں میم وہ بلکل ٹھیک ہیں۔"نرس نے اسے انجیکشن لگاتے ہوئے کہا۔وہ پھر سے ہوش کھونے لگی۔

"فیض! پتہ کرو چوہدری ثمروز کہاں ہے اور کیسا ہے۔جلدی۔"

احمد نے باہر نکلتے ہی سرگوشی کی وہ سر اثبات میں ہلا کر فون نکالتے ہوئے دائیں جانب بڑھ گیا۔

"ڈیڈ! وہ گھر نہیں ہے۔"

کچھ دیر کے بعد وہ واپس آیا اور جو اس نے کہا احمد صاحب سوچنے پر مجبور ہو گئے۔کچھ آدھے گھنٹے بعد وہ جب ہوش میں آئی تو اس مرتبہ نارمل تھی۔

"آفندی صاحب! اگر برا نہ مانیں تو ہم پہلے مل لیں مریضہ سے؟"

پولیس آفیسر دروازہ دھکیل کر کمرے میں داخل ہوا تو سروش نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا۔

"السلام و علیکم! اب کیسی ہیں آپ؟" پولیس آفیسر مسلم تھا، مسکرا کر اسے سلام کرتے ہوئے بیڈ کے ساتھ پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا۔

"و علیکم السلام! ٹھیک ہوں وہ......ثمروز....ثمروز کہاں ہیں؟ وہ واقع ہی ٹھیک ہیں نا؟" اس کی آنکھوں میں خوف تھا آواز ڈر کے مارے بمشکل نکل رہی تھی.....وہ اس شخص کو کھونے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

"جی وہ زندہ ہیں۔کیا نام ہے آپ کا اور کس نے کیا یہ سب؟"

"میرا نام سروش ہے اور وہ چوہدری ثمروز ہیں۔

ڈاکٹر ثمروز....."اس کی آواز آنسوؤں میں ڈوب چکی تھی۔ساری بات بتا کر اس نے آنکھیں موند لیں۔

"آفیسر....پلیز مجھے ثمروز کے پاس جانا ہے۔"

آفیسر جو نجانے کن خیالوں میں گم تھا بری طرح سے چونکا۔

"ہوں ٹھیک ہے.....اپنا خیال رکھیے گا میں چلتا ہوں۔" وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔وہ دونوں اس کی جانب بڑھے۔

"دیکھیں آفندی صاحب! آپ مسلم فیملی سے تعلق رکھتے ہیں میں جو کہنے جا رہا ہوں امید کرتا ہوں آپ وہ سمجھیں گے۔" وہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بہت سوچ سمجھ کر بول رہا تھا۔

"لڑکی کا نام سروش ہے اور لڑکا اس کا کزن ہے۔ دونوں پاکستان سے بھاگ کر آئے ہوئے ہیں۔ابھی شادی بھی نہیں کی دونوں نے....میں کیا کہہ رہا ہوں آپ سمجھ تو گئے ہوں گے؟" شاطر نگاہیں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا۔

"جزیرے پہ گھومنے پھرنے گئے وہاں غنڈوں نے حملہ کیا اور لڑکی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی مگر لڑکے نے بچانے کی کوشش اور وہ غنڈے غصے میں آ گئے۔

ان میں سے ایک کو تو گولی سے مار دیا اور دوسرا بھاگ نکلا۔ میں تو کہتا ہوں آپ اس کیس میں مت پڑیں۔ریپ کیس ہے......لڑکی کی عزت اچھلے گی جو کہ وہ خود نہیں چاہتی۔" اس آفیسر نے ایسی ایسی کہانیاں سنا دیں کہہ انہوں نے آفیسر کی مرضی یعنی.........کیس بند اور اس کو ایک حادثہ سمجھ کر بھول جائیں۔

"وہ.....وہ جھوٹ بول رہا تھا سر!......مجھے نہیں معلوم کہ کیوں مگر اس نے آپ سے جو بھی کہا وہ سب جھوٹ ہے۔" وہ جو باہر نکلی تھی آفیسر کی باتیں سن دروازے کے پاس ہی ساکت ہو گئی تھی اس کے جاتے ہی وہ پیٹ پکڑے ان کے پاس آتے ہوئے بولی اور سارا سچ بیان کر دیا۔

"اوہ تو میرا شک ٹھیک تھا یہ چوہدری ثمروز ہی ہیں۔ہماری فارما کمپنی میں چالیس پرسنٹ شیئرز ہیں اور اس سے بڑھ کر میرے بیٹے کا بہت اچھا دوست تھا۔"

احمد صاحب ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے گویا ہوئے تھے۔

"آپ فکر نہ کریں بیٹا! اب تم دونوں کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔" انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"کیس تو یہ اوپن ہو کر رہے گا۔"

"نہیں سر! ہمیں کوئی کیس نہیں کرنا بس پلیز آپ ثمروز کو بچا لیں۔" وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑ گئی تھی۔

کتنی ضروری تھی اس کی زندگی یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔

"فکر نہیں کرو بیٹا! وہ ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گا۔"

"م مجھے ثمروز کے پاس جانا ہے۔" وہ آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے بولی۔

جیسے ہی اسے آئی سی یو میں لے جایا گیا وہ ثمروز کے چہرے کو دیکھ کر دل تھامتے ہوئے پاگل ہو کر چنخنے لگی تھی۔

"ث ثمروز....! پلیز اٹھیں۔ م میں آپ کے بغیر نہیں جی سکتی۔" اس کی سانسیں لڑکھڑا رہی تھیں۔

چند پل وہ ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر لکڑی کے صندوق پہ بےاختیار پیشانی ٹکا دی جس میں ثمروز دنیا جہاں سے بےخبر پڑا تھا اس کا چہرہ ہی بس باہر تھا باقی کا وجود اس صندوق کے اندر تھا۔

"نہیں......نہیں ثمروز! پلیز میری طرف دیکھیں.....آپ کیوں نہیں میری جانب دیکھ رہے۔تم میری شادی کرنا چاہتے ہو نا، جس سے بھی کہو گے میں شادی کر لوں گی پلیز اٹھ جاؤ۔" وہ تڑپ تڑپ کر التجاء کر رہی تھی۔

"فیض! بچی کو باہر لے جاؤ۔"

احمد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو فیض آگے بڑھا اور اسے شانوں سے تھامتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ وہ قومے میں چلا گیا ہے۔

اب سب اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ پرودگار چاہیے گا تو آج ہی ہوش میں آ جائے گا نہیں تو شاید ایسے ہی مر جائے......ڈاکٹرز ڈسچارج نہیں دے رہے تھے مگر احمد صاحب نے بھی ان کی ایک نہ سنی اور اچھے ڈاکٹر ہائر کرتے ہوئے اپنے گیسٹ ہاؤس میں لے گئے تھے، ایک نرس ہائیر کر دی گئی تھی......سروش بس سانس لے رہی تھی، زندہ تو وہ بھی نہیں تھی۔دن گزرتے گئے مہینے سال میں بدل گئے تھے ثمروز کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ سن سکتا ہے اس سے باتیں کیا کریں تاکہ وہ ہوش میں آنے کی کوشش کرے مگر وہ کیا جانتے تھے کہ سروش تو بولنا ہی بھول گئی ہے۔


معلوم ہوتا ہے

عشق کی حدیں

پار کر لی ہیں ہم نے

اب رکتے ہی نہیں

آنکھوں سے اشک

دم توڑتی ہی نہیں

یہ آہیں'سسکیاں'اور یادیں

کچھ کہتی ہی نہیں

زباں'خاموشی ' اور یہ راتیں

ہاں یہ عشق کی ہی تو آگ ہے

جلا رہی ہے ہمیں جو رفتہ رفتہ


عشق کی حدیں

پار کر لی ہیں ہم نے


*******

وہ کھانا لگا کر زبیر کو بلانے کمرے میں گئی تو وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے تصویروں سے بھری دیوار کے سامنے کھڑا بےتاثر چہرے اور خاموش نگاہوں سے ثمروز کی قد آدم تصویر کو دیکھ رہا تھا۔

"ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ثمروز کی تصویر کو؟" وہ اس کے مقابل آ کھڑی ہوئی۔

زبیر نے گردن گھما کر اسے دیکھا جو تصویر کو نرمی و محبت بھری نگاہوں سے تک رہی تھی۔

"دیکھ رہا ہوں کہ یہ تصویر تو ہال میں لگی ہوئی تھی۔اور یہاں تو دوسری تصویر تھی۔"وہ تصویر کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔

مادفہ نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور سر جھکا کر مسکرا دی۔

"ویسے ثمروز اتنا ہینڈسم نہیں تھا جتنا ہینڈسم میں ہوں۔ ہاں نا؟"وہ شریر لہجے میں گویا ہوا۔

"نہیں ثمروز تم سے زیادہ ہینڈسم تھا....." مادفہ سروش نے نگاہیں ثمروز کی تصویر پر جمائے کھوئی کھوئی سی مسکراہٹ لیے کہا۔

"چلو ناشتہ لگ گیا ہے۔"وہ کہہ کر پلٹی۔

"مادفہ...!" زبیر نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام کر روک لیا تھا

"نہیں، سروش.....سروش چوہدری۔"

وہ پلٹی اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے غیر معمولی انداز میں نکال کر ایک زخمی سی نگاہ اس پہ ڈالتی ہوئی سر جھکاتی آنسوؤں پہ ضبط کرتی پلٹ گئی۔


سانس بھی رک سی جاتی ہے

شاہ سائیں!

دھیان دیتی ہوں جب

جدائی کی مدت کی جانب


وہ اپنے خالی ہاتھ کو دیکھتے ہوئے نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے ثمروز کی تصویر پر ایک نظر ڈالتا کمرے سے نکل گیا۔

وہ ناشتے کے درمیان بھی خاموش تھی۔

"کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ اتنی خاموش کیوں ہو؟"

وہ ہال میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا جب وہ اس کے سامنے سے گزر کر ثمروز کے بیڈروم کی جانب بڑھی مگر اس نے کتاب میز پر پٹختے ہوئے اسے رکنے پہ مجبور کر دیا۔

"کچھ بھی نہیں، مجھے کیا ہونا؟" شانے آچکاتے ہوئے وہ نارمل انداز میں گویا ہوئی تھی۔

"تم مجھ سے سیدھے منہ بات کیوں نہیں کر رہی؟ آخر کیا پرابلم ہے مجھے بتاؤ گی؟"وہ اس کے بیگانہ سے رؤیہ سے جھنجلا کر رہ گیا تھا۔

"تم ہو کون.....؟کون ہو تم میرے؟ کیوں تم سے سیدھے منہ بات کروں؟"وہ یک دم بھڑک اٹھی تو زبیر بوکھلا کر رہ گیا۔

"سروش...! تم ہوش میں تو ہو؟" وہ اس کی جانب بڑھا۔

"ہوش میں تو ابھی آئی ہوں مسٹر زبیر آفندی....!" وہ استہزائیہ انداز میں ہنستی ہوئی دو قدم پیچھے ہٹی۔

"دِس از ٹو مچ مادفہ سروش!" وہ افسردگی سے نفی میں سر ہلا کر بولا۔

"میرا اور تمہارا رشتہ ہی کیا ہے؟ کوئی بھی نہیں ہے.....اسی لیے نہ مجھے تمہاری ہمدردی چاہیے اور نہ ہی ساتھ پلیز آئندہ یہاں کبھی مت آنا......اب جاؤ تمہاری الفت تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔" رخ پھیر کر سینے پہ ہاتھ باندھے وہ اٹل لہجے میں کہہ رہی تھی۔

آنکھوں میں بےشمار آنسو چمکے تھے جنہیں اس نے رخ پھیر کر زبیر سے چھپا لیا تھا۔چند پل اس کی پشت کو بےیقینی سے دیکھنے کے بعد وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکلتا چلا گیا اور سروش کو لگا جیسے وہ اس کی سانسوں کو بھی چھین کر لے گیا ہو، وہ بےدم سی ہو کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"ثمروز.....! میری قسمت میں ہی محبت نہیں لکھی گئی۔میں کتنی بیوقوف تھی نا.....مجھے لگتا تھا زبیر کے اندر تم زندہ ہو مگر میری غلط فہمی تھی۔غلط فہمی تھی میری.....ت تم تو پانچ سال پہلے ہی مر گئے تھے۔" اس کی سسکیوں کی آواز سن کر چھوٹا سا بنگلہ، جو کبھی گھر ہوا کرتا تھا.....رو پڑا تھا۔اس گھر کی دیواریں گواہ تھیں اس کی محبت کیں۔

"زبیر! تم برے نہیں ہو....مگر مجھے یقین ہو چکا ہے کہ میرا ثمروز مر چکا ہے، اسی دن ہی مر گیا تھا.....اور میں کسی دوسری لڑکی کے منگیتر یا شوہر کو چاہ کر بھی محبت بھری نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتی اسی لیے تمہیں منظرِ عام سے ہٹنا ہی پڑے گا۔" وہ سر صوفے پہ گرا کر چھت کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔کب رات ہوئی اور کب وہ اٹھ کر بےجان سے وجود کو گھسیٹتے ثمروز کے کمرے میں بند ہو کر بیڈ پہ اوندھے منہ گری اسے خبر نہیں تھی۔دن کا سورج طلوع ہوا تو وہ ضروری سامان لینے قریبی سٹور کے لیے نکل گئی۔اس پرائے ملک میں پہلی مرتبہ وہ اکیلی باہر نکلی تھی۔

"میرے ساتھ ثمروز ہے.....میرے دل میں وہ ہے......مجھے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" واپسی پر وہ بس خود کو یہ ہی سمجھاتی فٹ پاتھ پہ چل رہی تھی جب اس کی نظر سگنل پر رکی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی میں بیٹھے زبیر پہ جا ٹھہری۔کہنی کھڑکی پہ ٹکائے انگوٹھے کو ہونٹوں پر رکھے وہ خامشی سے سامنے ونڈ سکرین کے پار دیکھ رہا تھا۔

جبکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پہ الفت تھی جو مسلسل مسکراتے ہوئے اس سے کچھ کہہ رہی تھی جبکہ زبیر کی فیزکل لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ دماغی طور پر وہاں موجود نہیں ہے۔وہ سر جھٹک کر سڑک پار کرنے لگی۔

"سروش.....!"اسی پل سگنل کھلا تھا اور غیرارادی طور پر زبیر کی نظریں سروش پہ جا ٹھہریں جو تیز قدم اٹھاتی فٹ پاتھ پر چل رہی تھی۔

اس نے بےحد تیزی سے کراسنگ سے گاڑی دوسرے روڈ پر ڈالی۔

"زبیر! یہ تم کیا کر رہے ہو؟ وہ چلی جائے گی۔یہ اس کا اپنا فیصلہ......"

"چپ ہو جاؤ الفت پلیز۔"وہ سختی سے بولا تھا۔گاڑی سروش کے پاس جا کر روکج

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" دروازہ دھکیل کر گاڑی سے اترتے ہوئے اس نے سختی سے استفسار کیا تھا۔ایک پل کو تو وہ اس کے یوں اچانک آ جانے پر ڈر گئی تھی ہاتھ میں سے شاپنگ بیگ چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا،مگر دوسرے ہی پل اسے اگنور کرتی آگے بڑھی

"مادفہ.....!" وہ دانتوں پہ دانت جمائے غراتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔

"سروش.....سروش چوہدری..." اس نے پلٹتے ہوئے انگلی اٹھا کر ایک بھنویں کو آچکاتے ہوئے غصے سے کہا۔

"اوکے.....سروش چوہدری! کیا پرابلم ہے یار؟ تمہارے بدلے رویے میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔اچانک ہو کیا گیا ہے تمہیں؟ اچانک سے اس طرح.....؟"

"کچھ نہیں۔ جائیں آپ اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ نہیں کرنی مجھے تم سے بات۔" وہ دبی دبی آواز میں چلائی تھی اور جھک کر شاپنگ بیگ اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔وہ دائیں ہاتھ کو بالوں میں پھیرتے ہوئے حیرتوں میں گھیرے اسے خود سے دور جاتا دیکھتا رہا۔

"چلو زبیر! اسے کچھ دن دو....آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی۔" الفت نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اپنائیت سے کہا تو وہ سر جھٹک واپس پلٹا۔

"اس لڑکی کا کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔میں زبیر کو ہرگز نہیں کھو سکتی مجھے جلد ہی شادی کر لینی چاہیے اس سے۔" وہ حقارت بھری نگاہ سروش پر اچھال کر سوچتے ہوئے واپس پلٹی۔سروش بےدلی سے چلتی جا رہی تھی۔

دروازے کے سامنے پہنچتے ہی اس کی پہلی نظر ثمروز کے نام پہ پڑی تھی۔

"چوہدری ثمروز....! تم جانتے ہی نہیں ہو کہ....." وہ مبہم سا مسکرائی اور لاک کھول کر گھر میں داخل ہوئی۔سامان صوفے پر رکھتے ہوئے اس نے نظریں ہنوز ہال میں لگی اس کی قدآدم تصویر پہ ہی ٹکائے رکھی تھیں۔

"کہ مادفہ....سروش چوہدری تم سے بےپناہ عشق کرتی ہے۔ اور عاشق تو کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچاتے نا.....؟" وہ بڑبڑاتے ہوئے اس کی قدم آدم تصویر کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی۔ہاتھ بڑھا کر اس نے تصویر کو چھوا تھا......جیسے اس کی موجودگی کو محسوس کیا ہو۔

"ثمروز! یاد ہے میں نے تمہیں پہلی ملاقات میں کیسے پہچان لیا تھا۔" وہ فریم سے کچھ فاصلے پر سر دیوار سے ٹکائے گردن گھما کر تصویر کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"کیونکہ میں کبھی تمہیں بھولی ہی نہیں تھی، تم ہمیشہ میرے دل و دماغ میں زندہ رہے ہو، بنا تمہارا نام لیے میں نے بچپن سے آج تک تمہیں یاد رکھا تمہارا نام میرے دماغ میں گونجتا تھا....اور تمہاری پیشانی کا یہ نشان جب تم پف گرا کر اسے چھپاتے تھے۔"بےساختہ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی کو چھوا تھا۔

مگر وہ ہنوز ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا خاموشی سے اسے گھور رہا تھا۔تصویریں اگر بولتی ہوتیں تو کوئی بھی انسان اکیلا نہ ہوتا، کم از کم مادفہ سروش چوہدری تو بکل بھی نہ ہوتی۔

"کتنی مار کھاتے تھے مجھ سے..... ہاہاہا....اگر اس مار کا بدلہ یوں لینا تھا تو کہہ دیتے نا۔مگر تب مجھے کون سا معلوم تھا تم میری زندگی بن جاؤ گے۔میرے دل کی دھڑکنیں بن کر سینے میں دھڑکنے لگو گے۔کاش میں اپنی محبت کا اظہار کر سکتی، کاش کچھ وقت تو تمہاری محبتیں میری جھولی میں بھی گرتیں۔"ساکت پلکوں کی باڑ پھلانگ کر آنسوؤں نے ایک مرتبہ پھر سے اس کی رخساروں کو تر کیا تھا۔

"تم پوچھتے تھے نا کہ مجھے حدثان سے محبت ہے؟ مجھے لگتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے مگر نجانے کیوں ایسا لگنے کے باوجود دل نہیں مانتا تھا......ہاں میں مانتی ہوں کہ مجھے اس سے محبت نہیں تھی۔وہ میرا کزن ، بچپن کا بہترین دوست تھا محض.....ہم نے کتنا اچھا وقت ساتھ گزارا تھا۔مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے اس مصیبت میں دیکھ کر۔ مگر باخدا میں نے صرف تمہیں محبت کی ہے.....بےپناہ چاہا ہے........بےحد چاہا ہے تمہیں۔" وہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھتی چلی گئی۔گھٹنوں میں سر دے کر وہ سسک سسک کر رو دی تھی۔اتنا روئی کہ آنکھیں سوج کر لال ہو گئیں اور سر درد سے پھٹنے لگا۔

کہتے ہیں نا دکھ کا ایک آنسو خون کے ایک قطرے جیسا ہوتا ہے....اور وہ بہت سا خون بہا چکی تھی۔دروازے پہ دستک ہوئی تو اس کے وجود میں جان سی آئی اسے لگا وہ آیا ہے۔بنا کچھ سوچے سمجھے اٹھی اور دروازے کی سمت بھاگی۔ابھی دروازے کی کنڈی کھولی ہی تھی کہ سر بری طرح سے چکرایا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا، لڑکھڑا کر دو قدمے پیچھے ہٹی تھی اور گرنے سے بچنے کے لیے دروازے کے ہینڈل کو تھامے وہ مشکل سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"ح حدثان..!"سامنے والے کو آنکھیں پٹپٹا کر دیکھتے ہوئے وہ بےاختیار ہی زمین بوس ہو چکی تھی۔وہ جو فون پہ کسی سے گفتگو میں اس قدر محو ہو چکا تھا کہ دروازہ کھلنے کا علم ہی نہیں ہوا مگر سروش کی آواز پہ اس نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا اسے زمین پر گرتے دیکھ حدثان کی آنکھیں اچھنبے سے پھیلتی گئیں۔

"سروش...! " وہ تیزی سے فون جینز کی جیب میں ڈال کر بھاگ کے اس کی جانب بڑھا تھا اور اسے سنبھالتے ہوئے نیچے بیٹھ گیا۔

"ڈیڈ...! کیا ہوا آنٹی کو؟" تارز جو باہر دیوار سے ٹیک لگائے پیڈ پر ویڈیو گیم کھیل رہا تھا تیزی سے گھر میں داخل ہوا۔

"لگتا ہے بےہوش ہو گئی ہے تم کیری بیگ دھکیل کر اندر کرو میں انہیں کمرے میں لے جا رہا ہوں۔"اس نے سروش کو باہوں میں اٹھایا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔تازر نے بریف کیس کھینچ کر اندر کیا اور دروازہ بند کر کے بیڈروم کی جانب بڑھا۔حدثان اسے بیڈ پہ لٹا کر اس پہ کمبل اوڑھا کے خود صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔

"سروش آنٹی! اٹھیں پلیز.....آنکھیں کھولیں۔"وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے بولا حدثان اٹھ کر پانی لے آیا تھا جو سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر دوبارہ سے صوفے پر جا بیٹھا تارز نے خفگی سے اسے دیکھا اور پھر پانی کی چھینٹیں ماریں۔کچھ دیر کی جدوجہد کے بعد وہ ہوش میں آ گئی تھی۔چند پل وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے تکتی رہی پر جیسے ہی نظر سامنے صوفے پر شاہانہ انداز میں یٹھے حدثان پہ پڑی تو وہ کرنٹ کھا کر اٹھی۔

"تم......تم یہاں کیا کر رہے ہو میرے گھر میں؟ نکلو یہاں سے۔" وہ کمبل ایک جانب پھینک کر بیڈ سے اتری تھی۔

"یہ کون سا طریقہ ہے محترمہ....مہمانوں کو ویلکم کہنے کا؟"وہ اطمینان سے ہاتھ اٹھا کر بولا۔

"مجھے تم جیسے بن بلائے مہمان اور وہ بھی غنڈے لوفر.....ذرا برابر پسند نہیں نکلو یہاں سے۔"چٹکی بجاتے ہوئے اشارہ دروازے کی جانب کیا گیا۔اس نے مصنوعی خوف سے تازر کو دیکھا۔

"سروش آنٹی! میں چوہدری تازر ہوں۔" اس نے باپ کے بچاؤ کے لیے خود کو ڈرتے ڈرتے پیش کیا۔ وہ جو اس کی موجودگی فراموش کر چکی تھی رخ پھیر کر اسے دیکھنے لگی۔

"یہاں آؤ۔"وہ سخت لہجے میں بولی تو وہ بیڈ سے اتر کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"آپ کو کس نے کہا کہ میں سروش ہوں، آپ کے پاپا نے؟" اس نے استفسار کیا تو تارز نے معصومیت سے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

"بیٹا! تمہارے پاپا ایک نمبر کے جھوٹے اور مکار آدمی ہیں۔ ان کی باتوں میں مت آنا۔اور مجھے مادفہ بولو۔"

اس کی بات پہ حدثان نے خفگی سے اس کی جانب دیکھا۔

"بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ، ڈیڈ ایک نمبر کے جھوٹے ہیں مگر آپ سروش آنٹی ہی ہیں۔ یہ نرم نرم ہاتھ انہیں کے ہیں اور یہ پیاری پیاری آنکھیں بھی ان کی ہیں۔" وہ معصومیت سے اس کی رخسار چھو کر ہاتھوں کو تھامے بول رہا تھا۔

"باپ تو باپ....بیٹا اس کا بھی باپ۔"اس نے ذرا سی گردن گھما کر حدثان کی جانب دیکھتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے بڑبڑائی۔

"سروش آنٹی! آپ ہمیں اپنے گھر میں رکھیں گی نا؟میں آپ کے پاس رکنا چاہتا ہوں۔"

اس نے افسردگی سے پوچھا تو گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اس نے تازر کو سینے سے لگا لیا۔

"مگر مجھے مادفہ کہنا ہے میں سروش نہیں ہوں اوکے بیٹا؟"وہ اس کے ہاتھوں کو تھامے نرمی سے بولی۔

تازر نے ناسمجھی سے اپنے باپ کو دیکھا اس نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بھی سر ہلا گیا۔

"آنٹی! انکل ثمروز کہاں ہیں؟" تازر کی نظر جیسے ہی دیوار پہ پڑی وہ تیزی سے آگے بڑھ کر تصویروں کو دیکھتے ہوئے بولا۔سروش کے لب آپس میں پیوست ہو گئے وہ رخ پھیر گئی۔

"وہ تو یہ گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔"اس نے پلٹ کر شانے آچکا کے لاپرواہی سے کہا۔

"یہ تو میری پھوپھو ہیں نا......؟ پہلے کتنی خوبصورت لگتی تھیں اب تو انہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔" شبانہ کی فوٹو کے سامنے رکتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا تو سروش بری طرح سے چونکی اور حدثان کو دیکھنے لگی۔

"اوکے بیٹا! آپ جا کر ریسٹ کریں۔کافی لمبا سفر تھا تھک گئے ہو گئے۔٫ وہ اٹھ کر اس کو شانوں سے تھامے بولا تھا۔

"میں لے جاتی ہوں تم بھی ریسٹ کر لو۔" سروش دوپٹہ شانوں کے گرد پھیلائے آگے بڑھی۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بیڈ کی جانب بڑھا۔وہ تازر کو لیے بچوں کے کمرے میں آ گئی۔ اسے بیڈ پہ لٹا کر خود کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔

"ایسے ہوتے ہیں بن بلائے مہمان۔اونہہ....."وہ ابھی ابھی لائی گئی سبزیوں کو نکال کر ٹوکریوں میں رکھنے لگی۔

"کیا کرتے آپ نے تو ہمیں آتے وقت بائے بھی نہیں کہا تھا ہم نے سوچا ہم خود جا کر ہائے کہہ آتے ہیں۔"حدثان کی آواز پہ وہ بوکھلا کر پلٹی تھی۔

وہ دروازے کے وسط میں کھڑا مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"تم ہوتے کون ہو......جِسے میں گڈ بائے کہتی۔ اور ہاں مسٹر حدثان!" وہ اس کے سامنے آ رکی۔

"ابھی ناشتہ کر کے یہاں سے چلتے پھرتے نظر آنا اگر زبیر آ گیا تو پھر تمہاری خیر نہیں سمجھے؟"انگلی دکھاتے ہوئے وارننگ جاری کی گئی۔حدثان مسکراتے ہوئے بس اس کی آنکھوں کو دیکھتا رہ گیا جو سرخ ہوئی پڑی تھیں۔ واضح معلوم ہو رہا تھا کہ وہ روتی رہی ہے اور بےتحاشا روئی ہے۔

"تم سروش ہو.....اور تم ہی مادفہ ہو یعنی مادی.... میں جانتا ہوں۔" اس نے ایک قدم سروش کی جانب بڑھایا تھا۔وہ خوف زدہ سی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی تھی۔

"تم نے کیا سمجھا چوہدری حدثان کی آنکھوں میں دھول جھونک لو گی؟ آہاں......"ان دونوں کے درمیان اب دو قدموں کا فاصلہ باقی تھا۔

"دور رہ کر بات کرو مسٹر چوہدری!" وہ بہت مشکل سے ایک قدم پیچھے ہٹی اور دیوار سے جا لگی۔

"تم ہی ہو مادفہ سروش چوہدری۔تمہیں پتہ ہے میں تمہیں کیوں نہیں پہچان سکا تھا کیونکہ تم مجھ سے بہت دور ہو چکی تھی۔وگرنہ بچپن میں تم میرے نزدیک تھی۔"

وہ ایک.......پھر دو....اور تین قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پھر سے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا۔

"اب یہ کون سا نیا ڈرامہ ہے مسٹر حدثان؟ آپ چاہتے کیا ہیں آخر؟"وہ چونک کر سنبھلی اور لاپرواہی سے کہتی رخ پھیر کر سبزیوں کی ٹوکری اٹھا کر سنک کی جانب بڑھ گئی۔

"اگر میں کہوں کہ میں معافی چاہتا ہوں تو یہ بہت چھوٹا لفظ ہے۔

اگر میں کہوں میں تمہیں چاہتا ہوں تو یہ بہت بڑا لفظ ہے۔

اگر میں کہوں تم سے شادی کر کے اپنے گناہوں کا مداوا کرنا چاہتا ہوں تو اس قابل میں ہوں نہیں۔اسی لیے.....فلحال میں صرف تم سے سب کچھ جاننا چاہتا ہوں۔پلیز سروش! اللّٰہ کے واسطے مجھے اس اذیت سے آزاد کر دو سب سچ بتا دو کہ تم دونوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کیوں تم آج یہاں ہو؟" اس کا لہجہ التجاء میں ڈوبا ہوا تھا۔


کبھی جو میری یاد آئے

مجھ سے بات کرنے کو جی چاہے

بس قبر میری پہ آ جانا


"اتنا مت خود کو گراؤ چوہدری حدثان! کہ پھر سوائے شرمندگی کے کچھ بھی نہ رہے باقی۔ثمروز اور مجھے مارنے کے لیے یہاں تک آ گئے آخر بگاڑا کیا تھا ہم دونوں نے؟" وہ آپے سے باہر ہو گئی تھی۔

"میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ مجھ سے تم دونوں کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ کبھی تھا......ارے یار میں تو خود حالات کا مارا ہوا ہوں..... "وہ کہتے کہتے خاموش ہوا تھا۔اس کی آنکھوں میں سچائی تھی۔وہ نگاہیں چرا گئی۔

"ثمروز مر چکا ہے.....وہ بچ نہیں سکا تھا مگر میں بچ گئی۔ڈائری میں سب لکھا ہوا تھا۔" وہ سبزی کاٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں گویا ہوئی تھی۔

"ہاں مگر اس پہ سب سچ لکھا ہوا تھا....."

اس نے کمر کے پیچھے بیلٹ میں چھپائی ڈائری نکال کر جب سروش کے سامنے کھولی تو اس کے ہاتھ سے چھری چھٹ کر گر گئی۔

"تم نے شاید کوئی اور ڈائری دینی تھی مجھے۔ جس پہ اپنی زندگی کی کہانی تم نے اپنی مرضی سے لکھی مگر یہ قسمت میں تھا کہ یہ ڈائری مجھے پڑھنی تھی جس میں سب سچ تھا جو تم نے واقع ہی میں لکھی تھی۔مگر اس میں بھی کچھ مسنگ ہے۔" وہ ڈائری ایک جانب رکھتے ہوئے بولا۔

"ت تم نے سب پڑھ لیا؟" خوف سے استفسار کرتے ہوئے اس نے کانپتے ہاتھوں سے ڈائری اٹھائی۔

"ہوں.....ہاں وہ حصہ نہیں پڑھا جہاں تم نے ثمروز کے لیے اپنی دیوانگی ظاہر کی ہوئی ہے۔وہ گلاب کا پھول نہیں دیکھا جو اب سوکھ چکا ہے مگر اس کی خوشبو باقی ہے اس کے ساتھ لکھے وہ لفظ......'ثمروز مجھے آپ سے بےپناہ عشق ہے'....وہ نہیں پڑھے باقی تو ساری پڑھ لی۔"وہ شرارت سے گویا ہوا تو وہ لب بھینچے کچن سے نکل گئی۔

"تم نےبس جزیرے تک لکھا ہے اس میں.....اور کچھ بھی نہیں لکھا ہوا وہ کیسے مرا تھا؟" حدثان تیزی سے اس کے پیچھے بڑھا۔

"بس وہ مر گیا.....اتنا کافی نہیں ہے تمہارے لیے؟ اس نے مجھے سہارا دے کر بےسہارا کر دیا یہ تمہارے لیے خوشی کی بات نہیں ہے؟ تم تو یہ ہی چاہتے تھے نا کہ میں تنہا ہو جاؤں میرے سر سے شفقت بھرا سایہ چھن جائے اور تم میرا شکار کر لو؟ چوہدری حدثان! تم ایسا کرو۔" وہ ڈائری میز پہ پٹخ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر تیزی سے آگے بڑھ کر فروٹ کی ٹوکری سے چھری اٹھائی اور اس کی جانب بڑھی۔

"مجھے مار دو......ویسے بھی اب جینے کی وجہ ہی باقی نہیں تو جی کر کیا کروں گی۔ تمہاری دلی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اپنی بیوی پر ہوئے جان لیوا حملے کا بدلہ لے لو۔کم آن حدثان! م مارو مجھے....."

اس کے ہاتھ میں چھری تھماتے ہوئے وہ بےدردی سے آنسوؤں کو رگڑ کے اٹل لہجے میں بولی تھی۔

"میں نے کوشش کی تھی جازیہ کو مارنے کی، میں نے اسے وہاں بلایا تھا۔ اب تو مار دو مجھے سچ سننا تھا سن لیا نا؟ پلیز مار دو مجھے پلیز۔ یا اللّٰہ میں کیوں نہیں مر گئی؟ کیوں زندہ ہوں؟"وہ بےدم سی ہو کر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑے بلک بلک کر رو دی تھی حدثان نے خوف بھری نگاہوں سے ہاتھ میں پکڑی چھری دیکھی......آج پہلی مرتبہ اسے ہتھیار سے خوف محسوس ہوا تھا۔بجلی کی پھرتی سے چھری ایک جانب پھینکی اور اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

"میں تمہارا درد سمجھ سکتا ہوں سروش! مگر میں تمہیں مار نہیں سکتا۔ مجھے سب معلوم ہو گیا تھا.....تم یہ تو جان گئی کہ میں غنڈہ ہوں مگر کیوں بنا شاید تم یہ نہیں جانتی۔"وہ اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے بولا۔

"میں نے جازیہ اور اس کے بوائے فرینڈ کو ایک ساتھ دیکھ لیا تھا اور....." سروش نے بےیقینی سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتا تارز سیڑھیاں اترتا دکھائی دیا۔

"اس نے خوشیوں کو محسوس نہیں کیا سروش! میرے بچے کو ماں کی شفقت بھرا سایہ نصیب نہیں ہوا۔میں تمہارے پاس اس لیے لایا ہوں اسے تاکہ وہ بھی میرے علاؤہ کسی کی محبت پا سکے۔ وہ تمہیں بہت چاہتا ہے ،مانتا ہے۔" وہ سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔

"آپ دونوں نیچے کیوں بیٹھے ہیں ڈیڈ؟"

"کچھ نہیں تمہاری آنٹی کو گرنے کی عادت ہے بیٹا! میں سنبھال رہا تھا۔" وہ معنی خیز لہجے میں کہتے ہوئے سروش کو آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"مگر میں نے تمہارے ڈیڈ کو صاف کہہ دیا کہ مجھے سنبھالنے کا حق ان کا نہیں ہے۔ میں بہت بہادر لڑکی ہوں خود سنبھل سکتی ہوں۔" اس کی حاضر جوابی پہ حدثان مجرموں کی مانند سر جھکائے وہاں سے ہٹ گیا تھا۔

"آپ فریش ہو کر آؤ تب تک میں آپ لیے یمی سا بریک فاسٹ بناتی ہوں۔" وہ تارز کے بال بگاڑتے ہوئے مبہم سی مسکراہٹ لیے بولی تو وہ سر ہلا کر واپس پلٹ گیا۔

سروش اپنی بےبسی پہ تلملا کر رہ گئی۔

"میں اب واقع ہی کمزور پڑ گئی ہوں۔پہلے آپی اور ثمروز کو بےگناہ ثابت کرتے کرتے۔پھر حدثان کو ایک دھوکے باز ہمسفر سے بچاتے بچاتے۔پھر چوہدریوں سے بھاگتے بھاگتے اور اب.....اور اب ثمروز کے بنا جیتے جیتے۔"

دل ہی دل میں سوچتے ہوئے وہ کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔ حدثان کو چاہ کر بھی معاف نہیں کر پا رہی تھی۔کیونکہ اس کی زندگی کا ہر جانب سے ولن وہ ہی ثابت ہو رہا تھا۔پر اس بات نے اسے اندر تک سرشاد کر دیا تھا کہ وہ بےگناہ ثابت ہو چکی ہے۔

*****

تیرے عشق میں مبتلا ہوں اس قدر

توں دور ہے مجھ سے جس قدر.....



ثمروز اور مہرماہ (سروش کی بڑی بہن) ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔محبت بھی ایسی کہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔بچپن کی محبت ایسی ہی جنونی ہوتی ہے.....مگر حدثان کی والدہ اور والد کو یہ ہرگز منظور نہیں تھا کہ ان کے خاندان کے سب سے غریب گھر کی لڑکی ان کی بہو بنے اور وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہہ اتنی جائیداد ان کے دور پرے کے نیچلے درجے کے رشتے داروں کی بیٹی کے لیے میسر ہو۔تبھی حدثان کی ماں اور بہن شبانہ نے مل کر پلان بنانے شروع کیے جن کی لپٹ میں حدثان بھی آ گیا تھا۔

اُدھر ان دونوں کے درمیان بھی کھچڑی پک رہی تھی کہ ثمروز اور مہرماہ کی شادی کیسے کروائیں۔وہ دونوں آم کے درخت تلے بیٹھے تھے،حدثان کچے آموں کو چاکو سے کاٹ کاٹ کر سامنے پڑے شتوت کے پتے پہ رکھ رہا تھا اور وہ بڑے مزے سے کالا نمک لگا لگا کر کھا رہی تھی۔

"ویسے تمہیں کیا لگتا ہے ثمروز اور آپی کی شادی ہو جائے گی؟"

ہاتھ رومال سے صاف کر کے پیشانی پہ بکھرے بالوں کو ہاتھ سے سمیٹ کر پیچھے کرتے ہوئے اس نے گردن گھما کر اپنے ساتھ بیٹھی سروش کو دیکھا۔

"لگتا تو ہے.....مگر تمہاری بہن اور والدہ صاحبہ.....تو آپی کو ذرا بھی پسند نہیں کرتیں۔"اس نے منہ بسورے کہا تو حدثان نے خفگی سے اسے دیکھا۔

"تم تو کچھ بھی بولتی ہو......کل مجھے ماں کہہ رہی تھیں کہ وہ آپی اور ثمروز کی بات بابا سے کریں گیں۔" اس نے سروش کی ٹیل پونی کو کھینچتے ہوئے کہا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی تبھی اس کے شانے پہ سروش کا سر بری طرح سے لگا۔

"اوہ مائی گاڈ......ہڈی کہیں کا....."وہ اپنا سر تھامے کراہتے ہوئے سیدھی ہوئی۔حدثان نے اپنے بچاؤ کی خاطر دوڑ لگا دی تھی۔وہ بھی اٹھ کر اس کے پیچھے سرپیٹ بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔دونوں کی بریک سولنگ پہ تب لگی جب ثمروز نے ان کے بلکل سامنے لا کر بائیک کھڑی کی۔

"کہاں منہ اٹھایا دوپہر کے وقت؟"اس نے آنکھوں پر سے گلاسز اتارتے ہوئے سختی سے استفسار کیا۔

"یہ ہی سوال میں پوچھوں تو؟ کہاں منہ اٹھایا دوپہر کے وقت؟"وہ ٹی شرٹ کی مصنوعی آستینوں کو فولڈ کرتے ہوئے اس کی جانب بڑھی۔حدثان سینے پہ ہاتھ لپیٹے اس کی جانب مسکراتے ہونٹوں سے دیکھنے لگا۔

ثمروز نے آنکھیں دکھائیں اور بائیک اسٹینڈ پہ لگا کر اترا اور اس کی جانب بڑھا۔

"میں تم دونوں سے بہت بڑا ہوں تو ذرا تمیز پلیز....."

اس نے اپنی شرٹ کا کالر جھاڑا۔

"ابھی دیکھ لیتے ہیں کون بڑا ہے اور کون بچہ ہے۔" وہ ایک قدم اس کی جانب بڑھی۔

"یہ ذرا اپنا پف پیچھے کرو......"وہ اپنے بالوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔وہ ہڑبڑا کر رخ پھیر گیا جبکہ حدثان کا قہقہہ بلند ہوا۔

"شرافت کا دور ہی چلا گیا ہے۔ بھئی اب تو چھوٹے بھی آنکھیں دکھاتے ہیں۔"اس نے منہ بسورے کہا تو سروش نے ہنستے ہوئے اس کے شانے پہ تھپکی رسید کی اور اس کے ہاتھ سے گلاسز پکڑ کر آنکھوں پہ چڑھاتے ہوئے بائیک کی جانب بڑھی۔

دو انگلیوں کو ملا کر وکٹری بنائی اور پھر وہ بائیک پہ بیٹھ گئی۔

"کون کون فراری کی سواری کرے گا۔"کک مارتے ہوئے ریس دینے کے درمیان اس نے کہا تو حدثان ، ثمروز کو ایک جانب دھکیلتے ہوئے بھاگ کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا تھا اور پھر وہ دونوں بائیک بھاگا لے گئے جبکہ وہ بچارا اپنے ہیرو بننے کی غلطی پہ ہاتھ مسلتا رہ گیا۔اوپر سے ستم یہ کہ اب اسے یہاں ہی انتظار کرنا تھا ان دونوں کے آنے کا.....کیونکہ اگر وہ واپس چلا جاتا تو تایا سائیں سو سوال کرتے کہ بائیک کہاں ہے اور وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس سے دو بچے چھین کر لے گئے ہیں۔

وہ دونوں مغرب کی اذان کے وقت واپس لوٹے تھے۔جیسے ہی بائیک پورچ میں روک کر اس نے حدثان کو چابی تھمائی اور ٹی شرٹ کو کھینچ کر گھٹنوں تک کیا، جینز کو بھی ٹخنوں تک کر کے بالوں میں ہاتھ چلا کر پونی کو درست کیا اور ایک نظر حدثان پہ ڈالی اس نے بھی اپنی حالت درست کی تھی جو دھول مٹی نے خراب کر رکھی تھی۔ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر بتایا کہ حالت بہتر ہے۔

"تم دونوں کہاں گئے تھے؟"چھ سالہ جازیہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آئی تھی۔

حدثان نے جھک کر اس کی موٹی موٹی روئی جیسی رخساروں کو چھوتے ہوئے کہا۔

"ہم لوگ ساتھ والے گاؤں گئے تھے آپ کے لیے چاکلیٹ لائے ہیں کسی کو بتانا نہیں۔"اس نے جینز کی جیب سے چاکلیٹ نکال کر اس کی جانب بڑھائی اور سروش کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

جازیہ نے حسد بھری نگاہوں سے ان دونوں کی جانب دیکھا جو ایک ساتھ چلتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسے تھے۔

اس نے غصے سے چاکلیٹ کو پھینکا تھا اور مٹھیاں بھینچے آنسوؤں کو روکتی رہی۔اسے ان دونوں کا ساتھ پسند نہیں تھا کیونکہ وہ حدثان کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی مگر وہ صرف سروش کے ساتھ ہی کھیلتا تھا۔اور حدثان کی بڑی بہن اس کے دل میں سروش کے لیے نفرت پیدا کرتی رہتی تھی۔

"اری.....موئی کہاں گھسی آ رہی ہے؟"وہ دونوں جیسے ہی حویلی میں داخل ہوئے شبانہ نے نہایت ہی بدتمیزی سے سامنے آ کر اسے روکا۔

"یہ میرے ساتھ آئی ہے آپی! ہم دونوں سٹڈی کرنے لگے ہیں۔"حدثان نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے ٹھیک....جاؤ....."اس نے نخوت سے منہ بسور کر کہا۔وہ حدثان کی کوئی بھی بات رد نہیں کر سکتی تھی اور اب جب وہ اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ مل کر ثمروز اور مہرماہ کو الگ کرنے کا پروگرام بنا چکی تھی ایسے میں حدثان سے لڑائی کرنا عقل مندی نہیں تھی۔

"اوہ شیٹ........"وہ دونوں جیسے ہی سیڑھاں چڑھے سروش کو کچھ یاد آیا تو وہ سر پیٹ کر رک گئی۔

"کیا ہوا مادی؟"

"یار.....حادی! وہ ثمروز......"اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے غیر معمولی انداز میں چھڑایا تھا۔

"وہ وہاں ہی بیٹھا ہو گا۔تم چل کر بیٹھو میں اسے لے کر آتی ہوں۔"وہ واپس پلٹتے ہوئے کہتی سیڑھیاں اتر گئی۔وہ سر اثبات میں ہلاتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔

"اماں....! یہ ہی ٹھیک وقت ہے۔" شبانہ نے کھڑکی سے ایک نظر سروش پہ ڈالی اور پلٹ کر اپنی ماں سے کہا۔

"ہوں....تم جا کر حدثان سے بات کرو۔"

وہ سامنے دیوار کو دیکھتے ہوئے سوچ کر بولیں تو وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

مسز چوہدری نے چوہدری صاحب کو کال کرتے ہوئے کچھ کہا تھا وہ جو زمینوں پر گئے ہوئے تھے بات سمجھتے ہوئے اپنے خاص بندے کے ساتھ وہاں سے گاؤں کی جانب جاتی سولنگ پہ گاڑی لے کر نکلے تھے۔

*******

وہ جیسے ہی اس جگہ جہاں اسے چھوڑ کر گئے تھے پہنچی تو وہاں وہ اسی طرح ہی بیٹھا تھا۔

بائیک کو اپنے سامنے رکتے پا کر اس نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا

"ثمروز....! تمہارا دماغ درست تو ہے؟"وہ بائیک سے اتر کر اس کی جانب بڑھی تھی۔غصے سے اس کے شانے پہ ایک تھپکی رسید کرتے ہوئے اس نے سخت لہجے میں استفسار کیا۔

"بائیک کی چابی دو۔"وہ جو پگڈنڈی پر بیٹھا سفیدے کے پتے کے ٹکڑے کر رہا تھا اٹھ کر اس کے سامنے جا رکا۔

"تم صبح کے یہاں ہی بیٹھے تھے؟" حیرت سے استفسار کرتے ہوئے اس نے چابی ثمروز کے ہاتھ پہ رکھی۔

"میرا دماغ خراب ہے جو میں سہ دوپہر یہاں بیٹھا رہتا....؟" سخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ بائیک پر سوار ہو گیا۔

"میں کمال کے ہاں چلا گیا تھا....." بائیک کو کک مارتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا۔

"چلو یہ تو اچھا کیا۔ ٹھیک ہے میں اب گھر چلتی ہوں حدثان سے کہنا کل ملیں گے....تم بھی حویلی پہنچو۔"

وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بائیک کے سامنے سے گزری۔

"تم پاگل ہو کیا؟ رات ہو رہی ہے ایسے میں تم اکیلی جاؤ گی گھر؟"

اس کے کرخت لہجے نے سروش کے قدم روک دیئے۔

"آؤ بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں۔" نرمی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر پلٹی اور اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔

"چل بھئی۔" سروش نے اس کے شانے پہ زور کی تھپکی رسید کرتے ہوئے کہا۔

"تمہیں نہیں لگتا کہ اب تمہیں لڑکیوں کی طرح جینا سیکھ لینا چاہیے۔"اس نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

"مجھے تو ایسا کچھ بھی نہیں لگتا...... میری زندگی ایک دم پرفیکٹ ہے باس.....اور تم ہو تو سہی لڑکیوں کی طرح جینے کے لیے۔"وہ ہاتھ اٹھا کر بولی اور آخر میں اس کے ڈر پہ چوٹ کر گئی۔وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بائیک پھر سے اسٹارٹ کرنے لگا۔

"تم اپنے تایا،تائی سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟"بائیک جیسے ہی سولنگ پہ بھاگنے لگی مادفہ نے استفسار کیا۔

"میں ڈرتا نہیں ہوں ان کی عزت کرتا ہوں سمجھی تم۔"

"ہا.......عزت نہیں یہ ڈر ہے بیٹا۔ کون بیوقوف صبح سے شام تک گھر سے باہر رہتا ہے کہ اس کے پاس بائیک نہیں تھی۔جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہو شام کو دیر سے گھر جانے پہ اس کی مزید اچھی خاصی چھترول ہو گی۔" وہ عام لہجے میں بولی تھی مگر ثمروز کو اچھا نہیں لگا تھا۔تبھی اس نے غصے سے بائیک کی سپیڈ بڑھا دی۔

"اچھا طریقہ ہے مجھے قتل کرنے کا مگر میں اتنی جلدی مرنے والی نہیں ہوں۔گری تو تمہیں ساتھ لے کر ہی گروں گی۔"اس نے ایک ہاتھ سے اس کا شانا تھامتے ہوئے کہا۔

"ویسے تم جب بڑے ہو جاؤ گے تو آپی سے شادی کے لیے اپنے تایا تائی کو کیسے مناؤ گے مجھے اسبات کی ہی فکر رہتی ہے؟"اس نے خاصی اونچی آواز میں استفسار کیا تھا۔

"اس بات کی فکر تم مت کرو۔اور بڑے ہونے سے تمہارا کیا مطلب ہے ابھی بھی میں اٹھارہ برس کا ہوں چاہوں تو شادی کر سکتا ہوں...."بائیک کی سپیڈ مزید بڑھی۔اونچی نیچی سڑک پہ بائیک کے ساتھ وہ دونوں بھی اوپر اچھل کر سیٹ پہ آئے تھے۔

سروش نے خوشی کا نعرہ لگایا۔ گاؤں کی آخری نکڑ سے دائیں ہاتھ جاتی کچی سڑک پہ بائیک اتری تو سامنے ہی سروش کا گھر نظر آیا تھا۔سامنے سے اس کا بڑا بھائی بھاگ کر آتا ہوا دکھائی دیا۔

ثمروز نے بےاختیار بریک لگائی تو بائیک وہاں ہی رک گئی۔مگر اس اچانک لگی بریک کی بدولت سروش کی پیشانی بری طرح سے اس کے سر میں لگی تھی۔

"دھور فٹے منہ......."وہ اسے شانوں سے تھام کر جھنجھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹ کر بولی۔

"تمہارے گھر خیر نہیں لگ رہی۔" اس کے لہجے میں ہلکی سی لرزش تھی۔کیونکہ وہاں سامنے اونچی جگہ پہ........گھر کے سارے افراد موجود تھے۔ماں زمین پر بیٹھی رو رہی تھی.....

وہ بھی تیزی سے بائیک سے اتری۔اتنے میں اس کا بھائی ان کے سامنے آ رکا۔

"بھیا......بھیا! کیا ہوا؟" اس نے خوف زدہ ہو کر استفسار کیا تھا مگر بھیا کی نظریں ثمروز پر ہی تھیں جو تذبذب سا ہوتا ان کے سامنے آ رکا تھا۔

"کہاں ہے میری بہن؟" انہوں نے اسے گریبان سے تھامتے ہوئے استفسار کیا تھا اور یہ استفسار ہی ان دونوں کے قدموں تلے سے زمین نکالنے کے لیے کافی تھا۔

"ک کیا؟ آپ......آپ کیا پوچھ رہیں ہیں س سرو تو یہ رہی۔"اس نے خوف زدہ سی کیفیت میں سروش کی جانب دیکھا۔

"میں مادی کی بات نہیں کر رہا....مہرماہ کی بات کر رہا ہوں.....کہاں ہے وہ۔ اغواء کر لے گئے نا تم؟"ان کے استفسار پر ثمروز کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا تو وہاں سروش نے خوف سے کانپتے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چنخوں کو دبایا۔

"م میں اسے کیوں......" اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا بھیا نے اسے زمین پر گرا کر مارنا شروع کر دیا تھا۔

"اسے چھوڑیں بھیا......! وہ ہمارے ساتھ تھا صبح سے۔اور ثمروز ایسا کیوں کرے گا....؟ آپی اور یہ دونوں ایسا کیوں کریں گے؟"وہ ہوش میں آتے ہی آگے بڑھی تھی اور بھیا کے بازو کو تھامتے ہوئے چلائی۔

"تم چپ رہو مادی......! اور دفع ہو جاؤ یہاں سے آئندہ مجھے تم کسی لڑکے کے ساتھ کھیلتی نظر آئی تو جان نکال لوں گا۔ جاؤ یہاں سے۔"انہوں نے الٹے ہاتھ کا تمانچہ اس کی رخسار کو پیش کیا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی۔

"بولو کہاں ہے مہر؟"بھیا پھر سے اسے دبوچ کر پیٹنے لگے تھے۔

ثمروز آدھ مویا سا زمین پہ پڑا کراہتے ہوا بس خاموش تھا....اس کا دماغ ایک جگہ پہ ہی اٹکا تھا۔

"مہرماہ غائب ہے۔"

"چھوڑو اسے.......مار دو گے کیا۔ چھوڑو۔"بھیا کے اندر کے انسان نے اسے جھڑکا تھا۔وہ ہاتھ کھینچ کر پیچھے ہٹے اور سروش کا بازو دبوچ کر اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگے۔وہ جو بےدم سی گھٹنوں کے گرد بازو حائل کیے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ثمروز کے جان سے بےجان ہوتے وجود کو دیکھ رہی تھی بےاختیار ہی حلق کے بل چلائی۔

"بھیا وہ مر جائے گا۔اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔آپی.....آپی باغ میں گئی ہوں گیں۔ وہ پہلے بھی تو وہاں چلی جاتی تھیں۔"وہ کہہ رہی تھی مگر بھیا نے اس جھنجھوڑتے ہوئے مزید گھسیٹنا شروع کر دیا۔

"بھیا....! پلیز چھوڑیں مجھے۔ ثمروز..... ثمروز م مر جائے گا۔"اس کی خوف سے پھٹی نگاہیں بار بار پلٹ کر ثمروز کے لاغر وجود کو دیکھ رہی تھیں۔اس نے بھیا کے ہاتھ پہ کاٹتے ہوئے خود کو چھڑایا اور واپس بھاگی۔اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے سروش نے اسے شانوں سے تھام کر جھنجھوڑا۔مگر وہ ہلا نہیں۔ وہ اب کراہا بھی نہیں رہا تھا۔

"ثمروز......!"اس کے حلق سے چنخ بلند ہوئی تھی۔

بھیا نے پھر سے آگے بڑھ کر اسے کھینچا اور اسے اپنے ساتھ لے جا کر کمرے میں بند کر دیا۔

پھر ثمروز کو کس نے کب آ کر اٹھایا اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔مگر اس کے دوست کمال نے آ کر بتایا کہ وہ آئی سی یو میں ہے۔وہ خوف زدہ ہو گئی تھی.....بہت دعائیں مانگیں اس کے لیے....بھائیوں نے اس پہ پابندی لگا دی تھی وہ اسکول بھی نہیں جا سکتی تھی......بلکہ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی۔

اُدھر چوہدریوں نے دوہرا کھیل کھیلا.....اس کے باپ بھائیوں کے خلاف ثمروز پہ تشدد کے جرم میں ایف آئی آر درج کروا دی۔بھائی تو بھاگ گئے البتہ باپ کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔اب وہ دونوں ماں بیٹی اکیلی ہو گئی تھیں۔

اُدھر مسز چوہدری اور شبانہ نے حدثان کو سروش سے بدگماں کر دیا کہ وہ ان کے گھر کو جاتی سڑک سے بھی نفرت کرنے لگا تھا۔ثمروز بھی رفتہ رفتہ صحت یاب ہونے لگا مگر اس کے دل میں کئی سوال تھے پر جواب تو تھے ہی خاموش......اس کی بیماری کے دنوں میں کیا ہوا اسے معلوم ہی نہیں تھا۔مہرماہ کہاں گئی کچھ معلوم نہیں تھا اسے......نہ تو وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ کر سکتا تھا کہ وہ چوہدریوں کا وارث ہونے کے باوجود خالی ہاتھ اور پاورلیس تھا۔

*********

آج ان دونوں کو یہاں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔حدثان نے امریکہ آنے کی کئی من گھڑت کہانیاں سنائی تھیں مگر وہ جانتی تھی کہ وہ صرف اس کے پیچھے آیا ہے۔

"حدثان! تم پلیز کسی ہوٹل میں جا کر رہو۔" دوسرے ہی دن اس نے کہہ دیا تھا۔

"مجھے تو کوئی پرابلم نہیں تازر سے بات کر لو، وہ ہی ضد کر رہا ہے تمہارے پاس رکنے کی۔"وہ خود کو صاف بچا کر نکل گیا اور وہ اس کی شکل دیکھتی رہ گئی۔

ان دنوں میں.....حدثان اپنے کیے کی معافی کئی مرتبہ مانگ چکا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کر دیا....مگر ابھی تک وہ اپنے ساتھ ہوئی ڈھیروں ناانصافیوں کو بھلا نہیں پائی تھی....کہ بیس سال سے جس دوستی کا پاس اس نے رکھا تھا وہ اب زندہ نہیں رہی تھی....اور نہ ہی اسے حدثان سے پانچ سال پہلے جیسی کوئی ہمدردی تھی۔

دوسری جانب چوہدری حدثان کو یہ دکھ جینے نہیں دے رہا تھا کہ اس کی وجہ سے مادفہ آج کس حال میں ہے۔

"کہاں کھوئی ہوئی ہیں آپ؟"

تازر کی آواز پہ وہ چونکی اور ثمروز کی فوٹو پر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھنے لگی۔

"کچھ نہیں بیٹا! بس سوچ رہی ہوں آج اتوار کا دن ہے۔"وہ صوفے پہ سیدھی ہو کر بیٹھی اور ایک افسردہ سی نگاہ ثمروز کی فوٹو پہ ڈالتے ہوئے تھکی تھکی آواز میں بولی۔

"وہ تو ہر ویک اینڈ پر آتا ہے اس میں کون سی نئی بات ہے۔آپ چلیں نا میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا تو وہ مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ اب اسے کیا بتاتی کہ اس دن ہی تو اس کی دنیا ایک مرتبہ پھر سے اجڑ گئی تھی....ہر اتوار وہ کس اذیت میں گزارتی ہے۔

"تمہارے پاپا کہاں ہیں ان کے ساتھ کھیلو نا۔"

"وہ تو ابھی تک سو رہے ہیں.....یہاں آ کر یوں ری ایکٹ کر رہے ہیں جیسے اسکول بوائے ہوں۔ آج دیر تک سوتے رہیں گے اور باقی کے دن صبح گئے اور شام کو واپس آتے ہیں، مجھے تو ٹائم ہی نہیں دے رہے۔"وہ منہ بسورے گلوز پہنتے ہوئے شکائت کر رہا تھا۔وہ مبہم سا مسکرا دی۔

اس نے ہی حدثان کو حکم جاری کیا تھا گھر سے جانے کا اور اپنی شکل نہ دکھانے کا۔کہ صبح جب وہ سو رہی ہو تو وہ گھر سے چلا جائے اور رات کو جب سو گئی ہوتی تب آئے......اور وہ ایسا ہی کرتا تھا نجانے آج کیوں گھر پر تھا۔

"چلو سونے دو۔ ہم دونوں کھیلتے ہیں۔"اس نے زمین پہ پڑی گیند اٹھاتے ہوئے کہہ کر اپنا دوپٹہ اتار کر لون میں پڑے سنگی بینچ پہ رکھ دیا اور تازر کے ہاتھ سے پنک ٹوپی تھام کر سر پہ پہن لی، بکھرے بالوں کو سمیٹ کر کمر پہ ڈالا اور پیروں سے برف کو ہٹا کر لون میں بنی پتھر کی راہداری کو واضح کیا۔وہ دونوں شور مچاتے ہوئے کھیل رہے تھے۔

اُدھر حدثان کانوں پہ تکیہ رکھے بہت مشکل سے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔

پہلے پہل جس کمرے میں سروش ٹھہری تھی اس کے ساتھ والے کمرے میں حدثان کا کمرہ سیٹ کر دیا گیا تھا۔جبکہ وہ نیچے والے فلور پر واقع ثمروز کے کمرے میں اپنی تمام رات گزار دیتی تھی۔سروش نے شاٹ لگائی تو بال اڑتی ہوئی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کروٹ پہ کروٹ بدلتے حدثان کے سر میں جا لگی وہ ہڑبڑا کر اٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔

چند پل سانس بحال کرنے کے بعد وہ اپنے سرہانے گری بال کو اٹھا کر کھڑی پہ گیا اور پردہ ہٹا کر لون میں جھانکا۔

"ڈیڈ....! بال پلیز...." تازر نے معصومیت سے گیند مانگی جبکہ وہ بلا پھینک کر پہلے ہی بینچ پر بیٹھ چکی تھی۔

"ٹھہر جاؤ ابھی بتاتا ہوں تمہیں شیطان کہیں کے۔"وہ دانتوں پہ دانت جمائے مصنوعی غصے سے اسے وارننگ دیتا کرتہ درست کر کے کمرے سے باہر نکلا۔

"ڈیڈ! آنٹی نے بال کو ہٹ کیا تھا.....سچی میں نے کچھ نہیں کیا۔ بچاؤ آنٹی!"

وہ بھاگ کر سروش کے پاس چلا گیا۔

"حدثان! بس کرو مت ڈراؤ بچے کو۔" وہ سنجیدگی سے سخت لہجے میں بولی۔

"اور بچے نے جو میری نیند خراب کر دی اس کا کیا؟"

وہ بھی بچہ بن گیا تھا۔

"تازر! پاپا کو سوری بول دو۔"اس نے تازر کی پیشانی پہ بکھرے بالوں کو سمیٹتے ہوئے مصروف انداز میں کہا۔

"میں کیوں بولوں.....بال کو ہٹ آپ نے کیا تھا نا تو سوری بھی آپ بالیں۔"وہ معصومیت سے بولا تو سروش نے اسے آنکھیں دکھائیں۔حدثان کی پوری توجہ اس کی جانب تھی جو تازر کی کیپ درست کر رہی تھی۔

"اوکے سوری۔آنٹی چلیں اب تو ڈیڈ بھی آ گئے ہیں۔ اب کھلتے ہیں۔ڈیڈ! آنٹی میری ٹیم میں رہیں گیں۔" وہ سروش کا ہاتھ تھامے کھینچتے ہوئے بولا۔

"مگر اپنی آنٹی سے تو پوچھ لو وہ کس کی ٹیم میں رہیں گیں؟"

بال کو ہوا میں اچھال کر کیچ کرتے ہوئے اس نے مسکرا کر سروش کی جانب دیکھا۔

"افکورس میری ٹیم میں۔" تازر اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا۔

وہ پہلے تو جھجکتے ہوئے نفی میں سر ہلاتی رہی مگر تازر کے بھرپور اصرار پر مان گئی۔حدثان ان سے پانچ منٹ لیتا چینج کرنے چلا گیا تھا.....واپس آیا تو نیرو جینز پر ہوڈی پہنے ہوئے تھا۔ان دونوں نے پہلے کھیلنا تھا اور وہ بھرپور چیٹنگ کر رہے تھے۔

حدثان تو چیٹنگ.....چیٹنگ چلا چلا کر تھک چکا تھا۔

"سرو! تم بہت بڑی چیٹر ہو بچپن میں بھی یوں ہی کرتی تھی۔"وہ روانی شکل بنا کر دہائی دیتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔

"ارے رے.... میں نے چیٹنگ کب کی ہم آؤٹ ہی نہیں ہوئے۔ وکٹیں تو سلامت ہیں۔"وہ تازر کی جانب دیکھتے ہوئے مبہم سا مسکرا کر بولی۔

"یس ڈیڈ! ابھی ہم آؤٹ نہیں ہوئے۔ کم آن ڈیڈ ہار گئے کیا؟"تازر نے بھنویں آچکائے۔

"رک آنٹی کا چمچہ کہیں کا۔"وہ اس کی جانب گھوما تو تازر بھاگتے ہوئے سروش کے پیچھے چھپ گیا۔

"مسٹر حادی! آپ کو رونے کی عادت بچپن سے ہی ہے ابھی بھی روتے ہیں۔ بڑے کب ہوں گے؟"وہ بھی اس پہ چوٹ کر گئی۔

"اوہ کم آن......تم روند کھیلتی ہو۔"

"جی نہیں تم...ابھی بھی عجیب باؤلنگ کرواتے ہو۔مگر اب میں آؤٹ ہونے والی نہیں۔"وہ کمر پہ ہاتھ ٹکائے لڑاکا انداز میں بولی۔

"سرو! تم مان کیوں نہیں لیتی کہ تمہیں کرکٹ کھیلنا ہی نہیں آتی۔"وہ دانتوں پہ دانت جمائے سخت لہجے میں بولا۔

"تم تو جیسے بڑے چیمپئن ہو۔اندھیرے میں لڑکیوں سے مار کھانے والے غنڈے۔"اس نے دانت پیستے ہوئے زور سے پاؤں حدثان کے پاؤں پہ دے مارا۔

"اوہ مائی گاڈ.....تو اس شادی والی رات تم نے میرے پاؤں پہ پاؤں مارا تھا؟" ان کی نوک جھوک بڑھی تو تازر مسکراہٹ دباتے ہوئے آرام سے کھسکتا بنا۔

"جی بلکل......میں نے ہی مارا تھا۔"سینے پہ ہاتھ لپیٹے اس نے گردن اکڑائی۔

"یو......."

اس کا غصے سے برا حال ہونے لگا تھا اور سروش کو......اس کا لال ہوتا چہرہ دیکھ بہت مزہ آ رہا تھا۔اس نے جھک کر گھاس پہ پڑی برف کو اٹھا کر سروش کے منہ پہ دے مارا۔

"ہمت.....کیسے ہوئی تمہاری......"وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے چلائی تھی۔

"جیسے تمہاری ہوئی تھی میرا پاؤں زخمی کرنے کی۔"زبان دکھا کر وہ بھاگ کھڑا ہوا مگر آدھے راستے میں پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے سروش نے پکارا۔

"تم نہیں بچو گے میرے ہاتھوں سے حادی! خیر نہیں تمہاری۔"بال کس کر اس کے سر کا نشانہ لیا اور دے ماری۔

مگر وہ پلٹا اور تیزی سے نیچے کو جھک گیا۔

بال دیوار پہ جا لگی۔وہ پھر سے اسے چڑھانے لگا۔

"اب تم نہیں بچو گے حادی.....فادی........"

اس نے بلا اٹھا لیا تھا اور حدثان نے گھر کی اندرونی جانب دوڑ لگا دی۔

"ہائیں فادی؟" تازر نے منہ کے زاویے بناتے ہوئے بڑبڑا کر سروش کی جانب دیکھا۔وہ سر پہ پہنی کیپ اتار کر وہاں ہی پھینکتی بلا سنبھلے اس کے پیچھے بھاگی۔

چند بچپن کی خوشگوار یادوں نے ان دونوں کے درمیان موجود وہ اجنبیت کی دیوار گرا دی تھی۔

"سرو! نہیں.....مجھے لگ گیا تو....تو میرا علاج بھی تم نہیں کرواؤ گی میں جانتا ہوں۔"وہ صوفے کے اردگرد گھوم رہے تھے۔حدثان کشن اٹھا اٹھا کر اسے مار رہا تھا اور وہ بلا مارنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔

"اچھی بات ہے۔"

وہ بھاگ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا وہ بھی میز کے پاس سے گزرنے لگی تو بری طرح سے گھٹنا میز میں لگا اور وہ تڑپ کر رہ گئی۔

بلا ہاتھ سے گر گیا اور ہاتھ گھٹنے پہ آ گیا۔

"مادی.....! تم ٹھیک تو ہو؟"

وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تھا اور اسے تھام کر صوفے پہ بیٹھاتے ہوئے خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"تمہاری وجہ سے اب میں چل نہیں سکوں گی۔"

کشن اٹھا کر اس کے سر پہ برساتے ہوئے وہ منمنائی۔

"اللّٰہ معاف کرے تمہاری ٹانگ نہیں ٹوٹی، گھٹنے پہ معمولی سی لگی ہے پاگل۔ چل نہیں پاؤں گی...... ڈرامہ کوئن۔"سروش کے سر پہ تھپکی رسید کرتے ہوئے وہ نرمی سے بولا۔

"تم جب میرے ساتھ حویلی گئی تھی اس کے بعد یہ بتانا چاہتی تھی نا کہ تم سرو ہو؟ مگر بتایا کیوں نہیں تھا؟ مجھ سے کترانے کیوں لگی تھی؟"وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے استفسار کر رہا تھا۔

"کیونکہ تب بتانے کا کوئی فایدہ نہیں تھا اور کتراتی اس لیے تھی کیونکہ اگر میں تمہارے سامنے آتی تو تمہیں سب کچھ بتا دیتی۔" وہ اپنے گھٹنے کو سہلاتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر بولی۔

"مجھے دکھاؤ۔" وہ چونک کر اس کے چہرے پر سے نگاہیں ہٹا کر اب اس کے گھٹنے کی جانب متوجہ ہوا تھا۔

"ن نہیں رہنے دو۔" وہ جھجکتے ہوئے بولی۔

"ریلیکس یار ہڈیوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے تم میٹرک فیل تکلیف کیوں لے رہی ہو۔"

"تم سپیشلسٹ....؟ پھر وہ سب کیا تھا جو میں نے لاہور میں دیکھا؟" وہ حیران تھی.....حدثان بوجھل سی سانس بھرتے ہوئے سر جھکا گیا۔

روازے پہ بیل ہوئی تھی جس پہ دونوں کا دھیان نہیں گیا تبھی تازر نے دروازہ کھولا تو سامنے زبیر آفندی اور الفت کھڑے تھے۔

"جی کون آپ؟"بچے کو وہاں دیکھ وہ دونوں جہاں حیران ہوئے تھے وہاں ہی اندر صوفے پر بیٹھی سروش اور اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے حدثان کو اس کے گھٹنے کو سہلاتے دیکھ کر چونکے تھے۔البتہ سروش کے چہرے کے سامنے اس کے بال تھے جبکہ وہ حدثان کی دھیمی سی مسکراہٹ دیکھ پا رہا تھا۔

"آئیں اندر....."

اس نے ایک جانب ہوتے ہوئے ان دونوں کو راستہ دیا۔زبیر کے قدم بےدم سے اٹھ رہے تھے۔ سامنے کا منظر اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔وہاں تک پہنچنے کا سفر بہت کٹھن تھا۔


اب جو بڑھے قدم آپ کے ہماری جانب

آپ کی قسم ہم مخالف سمت پلٹ جائیں گے


"تم تو کہہ رہے تھے وہ آج بہت زیادہ پریشان ہو گی مگر وہ تو بہت خوش ہے کسی اور کے ساتھ۔"الفت نے کسی پہ زور دیتے ہوئے سرگوشی کی۔

ادھر سروش نے بےاختیار ہی حدثان کے ہاتھوں کو تھام لیا تھا جس پر حدثان نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

زبیر کی سانسیں اکھڑ گئی تھیں وہ کبھی ایسا منظر تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

"گائز......مہمان آئے ہیں۔"تازر نے گلا کھنکھارتے ہوئے ان دونوں کو مخاطب کرتے کہا۔

جیسے ہی سروش کی نظر زبیر پہ پڑی وہ ہڑبڑا کر صوفے سے کھڑی ہوئی مگر دوسرے ہی پل گھٹنے کے شدید درد سے گرنے ہی والی تھی کہ حدثان نے اس کا ہاتھ تھام کر دوبارہ سے صوفے پر بیٹھایا اور اٹھ کر مسکراتے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھا۔

"ویلکم مسٹر زبیر....!" اس نے آگے بڑھ کر گرم جوشی سے زبیر کو گلے لگایا مگر اس کے بازو اپنے پہلوؤں سے نہیں اٹھے تھے اور آنکھیں سروش پہ ٹکی رہ گئی تھیں۔

"ہائے میں الفت ہوں...... زبیر کی منگیتر۔ہماری جلد ہی شادی ہونے والی ہے۔" الفت نے اپنا تعارف خود کروایا۔

"اوہ بہت بہت مبارک باد.....آئیں بیٹھیں نا......" اس نے ان دونوں کو مشترک مخاطب کیا۔

الفت کے کہنی مارنے پہ زبیر آفندی نے نظریں گھبرائی ہوئی سروش پر سے ہٹائیں۔

"کیسی ہو مادفہ سروش؟" الف کھنکتی ہوئی آواز میں بولی۔

"ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ۔"وہ خود کو نارمل کرتی گویا ہوئی تھی۔

"تمہارے سامنے ہی ہوں۔" باہوں کو پھیلائے اس نے خوشی کا اظہار کیا۔وہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے بس اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔

"تم نے ہمیں ان سے متعارف نہیں کروایا۔کون ہیں یہ؟" الفت نے سنگل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھے شاہانہ انداز میں بیٹھے حدثان کی جانب ستائشی نگاہیں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا تو وہ مسکراتے ہوئے سروش کی جانب دیکھنے لگا۔ زبیر اور الفت ایک ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے.....درمیان میں فاصلہ نہ کے برابر تھا.....سروش کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا وہ نفی میں سر جھٹک کر ان دونوں پر سے نگاہیں ہٹا گئی۔زبیر کی ہیزل براؤن نگاہوں کی سخت تپش کو محسوس کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔

"یہ چوہدری حدثان ہیں، پاکستان سے آئے ہیں۔اور......."

وہ صوفے پر پہلؤں بدل کر نظروں کا رخ حدثان کی جانب کرتے ہوئے بولی۔

"یہ میرے اور ثمروز کے کزن بھی ہیں۔میں نے سوچا اب کب تک تم لوگوں پہ بوجھ بنی رہوں گی....."وہ کچھ سوچتے ہوئے استہزائیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولی۔

"میں نے سوچا ہے کہ ثمروز کا.....بزنس سنبھال لوں۔اسی لیے میں نے حدثان کو یہاں بلایا ہے تاکہ وہ میری مدد کر سکے۔"اس نے اطمینان بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا اور ایک نظر زبیر پہ ڈالی جو خاموش نگاہوں سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔

"آپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں میں ابھی آتی ہوں۔"

وہ زمین پہ پڑے کشن کو اٹھا کر صوفے پہ رکھتی اٹھی تھی۔

"سرو! دھیرے دھیرے چلو۔" حدثان نے اسے سپیڈ مارتے دیکھ ٹوکا۔ وہ لپک کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔

"مسٹر حدثان! آپ کیا کرتے ہیں؟"

وہ جو اس بات پہ حیرتوں میں ڈوب چکا تھا کہ سروش نے جھوٹ کیوں بولا؟الفت کی آواز پہ چونک کر ان دونوں کی جانب متوجہ ہوا۔

"یہ فیصل آباد کا غنڈہ ہے۔ کوئی برا کام نہیں ہے جو اس نے نہ کیا ہوا۔" وہ کچھ کہتا اس سے پہلے ہی زبیر حقارت سے بولا۔

"تعریف کے لیے شکریہ مسٹر شاہ!

جی......میں اپنے علاقے کا ایم این اے ہوں اور غنڈہ بھی ہوں۔"وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ایک بازو کو صوفے کی پشت پہ پھیلا کر اطمینان سے بولا۔

"واؤ......انٹرسٹنگ بٹ آپ کی پرسنیلٹی تو ایسی نہیں ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بولی تو حدثان قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔وہ دونوں باتیں کرنے میں یوں مصروف ہوئے کہ اسے فراموش ہی کر گئے زبیر کو اپنا وہاں بیٹھنا غیر معمولی لگا وہ سرعت سے اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔مگر جاتے ہوئے تولیہ اسٹینڈ پہ پھیلی ہوئی سروش کی گرم شال اٹھا کر لے گیا تھا۔

"امید نہیں تھی کہ تم کچھ ایسا بھی کرو گی۔" وہ اس کے روبرو جا کھڑا ہوا تھا۔

"توڑ دی نا میں نے امید......درد تو نہیں ہوا؟" وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر فلحال خاموشی سے سنیکس بناتی رہی۔

"سروش.....! " اس نے بےبسی سے اسے شانوں سے تھامے اپنے سامنے کیا جبکہ سروش کی ساری جان شانوں میں آن سمائی تھی۔

"کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ میں بہت پریشان ہوں، تمہارے اس رویے کی بدولت میں سکون سے نہیں رہ پا رہا۔پلیز بتاؤ کیا ہوا ہے....تم اس طرح کیوں برتاؤ کر رہی ہو؟" وہ بےبسی سے بولتے ہوئے اس کے گرد چادر اوڑھا رہا تھا۔

"مسٹر زبیر آفندی! آئندہ مجھے چھونے کی کوشش بھی مت کرنا۔ورنہ مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہو گا۔"وہ بھنویں آچکا کر اس کے ہاتھ جھٹکتی سختی سے بولی اور دو قدم پیچھے ہٹی۔

"اور تم کیا چاہتے ہو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں؟ اور لوگ مجھے تمہاری باہر والی کہتے رہیں؟میں تمہاری خریدی ہوئی چیز نہیں ہوں۔میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے تمہارے ساتھ جوڑے......اور تمہاری بیوی مجھے تمہاری گرل فرینڈ کہتی رہے مجھے تمہاری مفت کی رکھیل بنکر ہرگز نہیں رہنا......."اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتی زور کا تمانچہ اس کی رخسار پہ پڑا اور وہ خاموش ہو گئی۔بےحد حیرانگی سے زبیر آفندی کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے اور خون برساتی آنکھوں کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے رخسار پہ ہاتھ رکھا جہاں پانچ انگلیاں چھپ چکی تھیں۔

"آئندہ ایسا لفظ استعمال کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لینا۔اور اگر تم اس حدثان کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھی تو مجھے کہہ دیتی میں خود تمہاری شادی اس سے کروا دیتا۔ پھر یہ اتنا بڑا ڈراما کریٹ کیوں کیا؟ خیر آئندہ سے تم میری شکل کبھی نہیں دیکھو گی۔ مر گیا ہے نا ثمروز....." وہ بولتے بولتے جیسے تھک چکا تھا پسلیوں پہ ہاتھ ٹکائے وہ دو قدم پیچھے ہٹا اور پھر پلٹ گیا۔

"تو آج واقع ہی مر گیا......ثمروز مر گیا ہے سن لیا تم نے مادفہ سروش چوہدری! مر گیا ہے ثمروز اس کی قبر بھی ڈھونڈنے مت نکلنا۔" ذرا سی گردن گھما کر اس کے ساکت وجود کو دیکھتے ہوئے وہ تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی۔

اس شخص کی آنکھوں میں آج وہ ٹوٹے اعتبار کی کرچیاں تھیں جو اس نے کبھی دیکھی نہ تھیں۔مگر اعتبار کے علاؤہ بھی کچھ ٹوٹا تھا وہ تھا زبیر آفندی کا دل۔

"زبیر! کہاں جا رہے ہو؟" اسے تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھتا دیکھ الفت حیرت سے بولی۔مگر وہ بنا جواب دیئے دروازے کی دہلیز عبور کر گیا۔

"اوکے حدثان! میں چلتی ہوں آپ سے مل کر اچھا لگا۔ بہت اچھے شخص ہیں آپ۔" وہ تیزی سے اپنا بیگ اٹھا کر کھڑے ہوتے ہوئے بولی تو حدثان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

اس نے مسکرا کر اپنا سفید نرم و ملائم ہاتھ حدثان کے سامنے پھیلایا تھا جسے اس نے ایک پل کی حیرت کے بعد نرمی سے اور مسکراتے ہوئے تھام لیا تھا۔پہلی ہی ملاقات میں الفت اس سے اچھی خاصی ایمپریس ہو گئی تھی حالانکہ وہ لڑکی کسی لڑکے کو اپنے آس پاس سے یوں اڑاتی تھی جیسے ناک پہ بیٹھی مکھی کو اڑا دیا جاتا ہے.....مگر حدثان سے اس نے گفتگو میں خود پہل کی تھی.....یہ ایک اٹریکشن تھی؟یا پھر اس کی کوئی گھناؤنی چال؟وہ سوچتے ہوئے سر جھٹک گیا۔

"سروش! یار مہمان تو تمہارے چلے گئے اب جو بنایا ہے میرے لیے لے آؤ۔" وہ شوخ لہجے میں بولا۔مگر دوسری جانب مکمل خاموشی تھی۔اسے اتنی لمبی خاموشی نے فکر میں مبتلا کیا تو اٹھ کر کچن کی جانب بڑھا۔

دروازے میں پہنچتے ہی اسے زمین پہ سروش گری نظر آئی۔وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا۔

"سروش.......! آنکھیں کھولو۔اوہ میرے خدایا اس لڑکی نے تو گرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔" وہ خفگی سے اسے اٹھا کر صوفے پر لٹاتے ہوئے بڑبڑایا۔

حدثان نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر میز پہ پڑا پانی کا گلاس جو زبیر آدھا پی کر آدھا چھوڑ گیا تھا.......اٹھایا اور سروش کے منہ پہ پورے کا پورا انڈیل دیا۔وہ کھانستے ہوئے اٹھی تھی وہ اس کی حالت پہ ہنستے ہوئے تب خاموش ہوا جب اس کی نظر سروش کی سرخ رخسار پہ پڑی۔

"اس نے تم پہ ہاتھ اٹھایا؟" وہ دانتوں پہ دانتوں جمائے غرایا۔

"میں کیا پوچھ رہا ہوں؟ اس نے تم پہ ہاتھ اٹھایا؟ بتاؤ مجھے؟ میں اس کی جان لے لوں گا سروش! اس کی اتنی ہمت...."وہ پلٹ کر دروازے کی جانب بڑھا۔

"پہلے تو اپنی جان لو..... چوہدری حدثان! یاد ہے وہ لیبارٹری؟"وہ چنخ کر اٹھی تھی۔حدثان کے قدم وہاں ہی ساکت ہو گئے۔

"اس نے مجھے تھپڑ مارا ہے کیونکہ وہ درست تھا اور میں غلط......مگر تم تو غلط تھے نا؟تم نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا....رسوا کیا.....خود کو پہلے ختم کرو پھر کسی اور کو کرنا۔"وہ رفتہ رفتہ چلتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

"مجھے ایک بات بتاؤ.....تم تو ثمروز سے محبت کرتی ہو نا پھر اس زبیر کی اتنی فکر کیوں ہے؟کیا تم ثمروز کو دھوکہ دے رہی ہو؟کہیں اب تمہیں اس زبیر آفندی سے تو محبت نہیں ہو گی؟بتاؤ نا اتنی جلدی بھول بھی گئی ثمروز کو؟کیا نیا ڈرامہ رچا رہی ہو اب.......بولو جواب دو؟"وہ تیز لہجے میں کہتے ہوئے اس آخر پہ شانوں سے تھام جھنجھوڑنے لگا۔

"تمہیں اب زبیر آفندی سے محبت ہو گئی ہے کیونکہ وہ زیادہ ہینڈسم ہے......ثمروز سے زیادہ پیسے والا ہے۔ تو پھر تم ایسا کیوں نہیں کرتی مجھ سے شادی کر لو میں بھی تو ہینڈسم ہوں....میرے پاس بھی بہت پیسہ ہے.......تمہیں رانی بنا کر....."

"شیٹ اپ......چوہدری حدثان!....جسٹ شیٹ اپ......."

اس کی عجیب وغریب انداز و لہجہ میں کی جانے والی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے وہ جتنی زور سے چلائی تھی اتنا ہی زور کا تمانچہ حدثان کی رخسار پہ مارا تھا۔

"وہ چوہدری ثمروز ہے.......سمجھے تم......مجھے اس شکل سے نہیں اس ثمروز سے محبت ہے.....جو اس شکل کے پیچھے ہے.....جس کا وہ دل ہے.....جس کی وہ روح ہے۔وہ چوہدری ثمروز ہے زبیر آفندی نہیں.....وہ میرا ثمروز ہے۔" بالوں کو ہاتھوں میں جکڑے وہ وحشت سے چلائی۔

"تو وہ زندہ ہے؟"اس نے اچھنبے سے استفسار کیا۔

"ہاں وہ زندہ ہے مگر وہ نہیں ہے....وہ تو زبیر ہے اب۔اور زبیر آفندی سے میرا کوئی واسطہ نہیں یہ مجھے بہت دیر بعد سمجھ میں آیا......مگر شکر ہے مجھے آ گئی سمجھ کہ میں سیراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔" وہ خود پہ ہنستے ہنستے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔حدثان لب بھینچ کر رہ گیا۔

"ایم سوری سرو! میں نے جو بھی کہا وہ تم سے یہ سب اگلوانے کے لیے کہا تھا۔ایم سوری۔"افسردہ لہجے میں کہہ کر وہ سر جھکائے اس کے پاس سے گزرنے لگا تو سروش نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"پلیز چوہدری حدثان! اسے مت مارنا......پلیز.....وعدہ کرو مجھ سے اسے تم نہیں مارو گے۔اگر کسی کو مارنا چاہیے تو وہ میں ہوں۔مجھے مار دو پلیز......م میں تھک چکی ہوں جیتے جیتے۔"

"ریلکس۔ میں کسی کو یہاں مارنے نہیں آیا.....یقین کرو میرا۔"وہ اس کی آنکھوں میں براہِ راست جھانکتے ہوئے بولا تو سروش نے چند پل اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد ہاتھ چھوڑ کر رخ پھیر لیا۔وہ بھی پلٹ کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔زندگی نے عجیب پلٹا کھایا تھا۔

وہ چاہ کر بھی اب زبیر پہ بوجھ نہیں بن سکتی تھی۔

اور نہ ہی اس کی زندگی میں پھر سے کوئی طوفان لانا چاہتی تھی۔وہ حدثان کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتی تھی مگر کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔

وہ ایک عورت تھی اور اسے بھروسہ مند مرد کے پیچھے تحفظ لینا تھا....معاشرے کے کئی بھیڑیوں سے بچنے کے لیے اسے اس وقت کسی محرم کا تحفظ حاصل نہیں تھا مگر وہ خوش نصیب تھی کہ اسے کم از کم تحفظ مل رہا تھا۔

******

آپ ایک کام تو کریں

مصروف زندگی سے

کچھ وقت تو نکالیں

پھر ہم جانے

محبت جانے

زندگانی جانے



"تم اسے وہاں چھوڑ کر کیوں آ گئے ہو؟" وہ جب سے واپس آیا تھا مسز آفندی بس ایک ہی سوال پوچھ رہی تھیں۔

"وہ زمہ داری ہے تمہاری.....جب تک کہ اس کی شادی نہیں ہو جاتی اس کا خیال تم نے رکھنا تھا۔تم جانتے بھی ہو کہ تم جب ہوش کی دنیا سے بیگانے تھے تب وہ....."اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتیں الفت جو زبیر کے چونکنے اور ان کی جانب حیرت سے دیکھ رہی تھی اس کے اشارے پر بھابھی جلدی سے بولیں۔

"ماما! یہ زبیر کا مسئلہ ہے۔ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کیا کرنا ہے یا کیا نہیں۔اور اب جب وہ خود ہی ثمروز کے گھر رہنا چاہتی ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔"بھابھی نے اطمینان کا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے کہا۔

"میں چوہدری ثمروز ہوں......" وہ کھوئے کھوئے لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

پیچھے ایک مکمل خاموشی چھا چکی تھی۔بلاآخر پانچ سال بعد اس نے اپنے منہ سے اپنے ہونے کا اپنے وجود کا اعتراف کیا تھا۔

******

"کھاؤ گی؟"

وہ جو لائیبریری میں بیٹھی فائلوں میں سر کھپا رہی تھی اپنے سامنے پیزے کا ڈبا دیکھ نظریں اٹھا کر حدثان کو دیکھنے لگی۔وہ مسکراتے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

"تم جاؤ یہاں سے۔مجھے بھوک نہیں ہے۔" روکھے پھیکے لہجے میں کہہ کر وہ پھر سے فائلوں میں گھس گئی۔

"تو پھر میں کیا کروں میں تو تمہیں کھلا کر رہوں گا اور تم نے ہی ثمروز سے کہا ہے کہ تم نے مجھے یہاں بلایا ہے مدد کے لیے اب مدد لو بھی۔"وہ میز پہ پڑی فائلیں سمیٹ کر ایک کونے پہ رکھتے ہوئے اطمینان سے بولا۔

"وہ سب جھوٹ تھا اور تم کمال کے ڈھیٹ انسان ہو....اتنا کچھ میرے ساتھ کرنے کے بعد بھی تم سوچتے ہو کہ مجھے تمہاری ضرورت ہو گی۔اونہہ۔"

وہ سخت نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

"ہاں میں سوچتا ہوں.....کیونکہ میں اتنا بھی غلط نہیں تھا۔میں نے عشق کیا تھا جازیہ سے.....سروش! میں اندھا تھا اس کی محبت میں۔"وہ اس کے طنزیہ انداز پہ بھی اطمینان سے بول رہا تھا۔

"تم نے مجھے کئی مرتبہ بتانا چاہا مگر ہر مرتبہ جازیہ بےانتہا چلاکی سے تمہیں غلط ثابت کر دیتی تھی۔اور میں اگر تب اپنی بیوی کا ساتھ چھوڑ کر تمہارا ساتھ دیتا تو یہ غلط تھا حالانکہ تم درست تھی.....مگر میں یہ نہیں جانتا تھا۔پھر کیسے تمہارا ساتھ دیتا؟" وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑے سر جھکائے بولا۔

وہ خاموشی سے سامنے کتابوں کی شلف کو ساکت نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"اگر تم میں انسانیت ہوتی تو مجھے اور ثمروز کو جان سے مارنے کی کوشش نہ کرتے۔وہ الزامات ہم پہ نہ لگتے۔ہم گھر سے بےگھر نہ ہوتے۔در در کی ٹھوکریں نہ کھاتے اور آج ہم یہاں اس مقام پہ نہ کھڑے ہوتے۔ایک جانب میری محبت ہے اور دوسری جانب اس کے وہ رشتے جو اسے اللّٰہ نے دوسری زندگی کے ساتھ ہی دیئے۔بہن، بھائی،ماں باپ.......اور ایک عدد منگیتر....آہ......یہ سب میں اس سے کیسے چھین لوں اسے چھین کر؟چوہدری حدثان!.....بہت مشکل ہو گیا ہے اب تو....کاش تمہارے آدمی مجھے مار جاتے۔"وہ چہرے کو چھو رہی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑھستے ہوئے آنسوؤں سے بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"میں نے....نہیں سرو! میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ تم لوگوں کا پیچھا چھوڑ دیں.....مگر ڈیڈ نے مجھے دھوکا دیا انہوں نے اپنے آدمیوں کو تم دونوں کے پیچھے لگا دیا۔" وہ اپنی صفائی میں بولا۔

"یہ سب بھی ہونا تھا....

یہ سفر ہمارے مقدر میں ہونا تھا

مجھے ثمروز سے عشق ہونا تھا....پھر....پھر اس کی زندگی کے اسٹام پیپر پر دستخط کر کے کسی اور کے نام بھی کرنا تھا۔یہ سب ہونا تھا تو کون روکتا اس سب کو جو پاکستان میں ہوا۔

یا مجھے کون روک سکتا تھا تمہاری مدد کرنے سے؟

کوئی بھی نہیں۔"ہموار لہجہ بھی آنسوؤں کی طرح لڑکھڑایا تھا۔وہ سر جھکائے اب بس سن رہا تھا۔

"میں تمہیں معاف کر کے بھی معاف نہیں کر پا رہی۔"

"پلیز سرو! مجھے معاف کر دو۔ میری سزا منتخب کرو مگر مجھے معاف کر دو۔"وہ ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنےسر جھکا گیا تھا۔

"پیزا کھاؤ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔اور رہی سزا کی بات تو وہ بھی منتخب ہو جائے گی۔" وہ دوپٹہ سنبھالتی آنسوؤں کو رگڑ کر صوفے سے اٹھی تھی اور لائیبریری سے نکل کر بھاگتے ہوئے ثمروز کے کمرے میں بند ہو گئی۔دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھتے ہوئے وہ سر گھٹنوں میں دیئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

"اتنی تکلیف کیوں ہو رہی مجھے......دل کیوں پھٹ رہا ہے میرا؟کاش مجھے عشق نہ ہوتا۔"

بالوں کو سختی سے مٹھیوں میں جکڑے سر زور سے دروازے میں مارتے ہوئے وہ درد کی انتہا کو چھو رہی تھی۔

"ایم سوری ثمروز! میں اب کبھی آپ کی لائف میں واپس نہیں آؤں گی۔

یہ گزرے پانچ سال میری زندگی کے بدترین دن تھے مگر آپ کے مخلص ساتھ نے ان کو بہت حسین کر دیا تھا.....ہاں یقین ہو گیا مجھے کہ عشق درد میں بھی خوشی ڈھونڈ لیتا ہے جو کہ میں نے ڈھونڈ لی تھی مگر میں بھی کتنی ناداں تھی......جانتی بھی تھی کہ خوشی مجھ سے روٹھی ہوئی ہے۔ کبھی میری جھولی میں نہیں گرتیں۔" آنکھیں موندے وہ اس سے مخاطب تھی جو اس کے دل میں رہتا تھا۔

"میرے عشق نے مجھے ہر درد سے نکال کر صرف تمہارے ہی درد میں مبتلا کر دیا ہے ثمروز! اب کیا کروں؟ کہ مجھے اب ہر درد اس تم سے جدائی کے درد سے چھوٹا لگنے لگا ہے۔"

وہ چنخ چنخ کر رونا چاہتی تھی مگر ایسا کر نہیں سکی۔

"یہ تم کیا کر رہی ہو سروش! اپنی محبت کا مذاق کیوں اڑا رہی ہو؟ یوں سب کے سامنے رونے سے وہ لوٹ نہیں آئے گا اور اگر لوٹ بھی آیا تو تم کیا چاہتی ہو اس سے وہ سب کچھ چھن جائے جس کی اسے عادت ہو چکی ہے۔وہ نام......زبیر....وہ مقام.....آفندی۔"

اسے اپنے سامنے اپنا آپ دکھائی دیا تھا جو اسے سختی سے جھڑک رہی تھی۔

"مگر وہ ہے تو ثمروز.....وہ چوہدری ثمروز ہے۔م میرا ثمروز۔" اس نے چنخ کر کہا تھا۔

"نہیں وہ زبیر آفندی ہے......جو تمہارا نہیں الفت کا ہے یہ حقیقت ہے۔ اور اسے جتنی جلدی مانو گی تمہارے لیے بلکہ سب کے لیے بہتر رہے گا۔" وہ خاموش ہو چکی تھی۔

مکمل طور پر خاموشی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا مگر بند آنکھوں سے بھی آنسو گر رہے تھے۔اور اس نے اس حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا کہ وہ اس کا نہیں الفت کا ہے۔اسے انتظار تھا ثمروز کا.....جو کہ بس انتظار ہی رہنا تھا۔


وقت بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے

ہم کرتے ہیں ایسے انتظار تیرا


****

"تم اپنا سارا وقت یہاں گزارتی ہو، رات یہاں گزارتی ہو۔ کیوں بےچینی اور وحشتوں کو پیدا کر رکھا ہے؟"

وہ کرتے کے کف فولڈ کرتا تیز قدم اٹھاتا باہر جا رہا تھا جب اس کی نظر ثمروز کے کمرے کی جانب اٹھی۔

وہ آگے بڑھا تو اس کے اندازے کے مطابق وہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے گھٹنوں کے گرد بازو حائل کیے ہاتھوں پہ تھوڑی ٹکائے سامنے دیوار پہ لگی ثمروز کی تصویروں کو دیکھ رہی تھی۔

"بہت سکون ملتا ہے اسے دیکھنے سے۔ خیر تم بتاؤ کہاں جا رہے ہو؟"وہ گہری سانس بھرتی سیدھی ہو بیٹھی اور حدثان کی تیاری پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے بولی۔

"تم نے ثمروز کا کلون کیوں لگایا ہے؟ تم اس کے چینجنگ روم میں کیا کرنے گئے تھے؟وہ ابھی کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے سخت لہجے میں استفسار کیا۔

"کمال کی بات ہے نا ویسے میری اور اس کی پسند کافی ملتی جلتی تھی۔بڑے ہو کر بھی ایسا ہو گا سوچا نہ تھا۔"وہ نرمی سے مسکرا دیا۔مگر اس کی سخت نگاہوں نے اس کے ہونٹوں کو سکڑنے پر مجبور کر دیا۔

"محترمہ یہ میرا ہی کلون ہے۔ اور دنیا میں صرف ایک ثمروز ہی مرد نہیں بچا اور بھی ہیں جو اس برینڈ کا کلون لگا سکتے ہیں۔ اب آپ کو نظر نہ آئے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔خیر.....میں اب چلتا ہوں کل تک لوٹ آؤں گا۔"وہ کیا کہہ کر پلٹا تھا سروش کے کچھ بھی پلے نہیں پڑا۔

"رات کے گیارہ بجے یہ جا کہاں رہا ہے، تازر کو اکیلا چھوڑ کر؟" وہ بیڈ سے اٹھ کر مین گیٹ تک گئی اور دروازہ لاک کر کے سیڑھاں چڑھتی تازر کے کمرے کی جانب بڑھ گئی وہ سو رہا تھا۔اس نے نیچے جانے کا ارادہ ترک کیا اور تازر کے ساتھ والے کمرے میں جا کر سو گئی۔

کیونکہ اگر وہ نیچے چلی جاتی تو اسے تازر کے لیے ڈر لگا رہتا۔وہ اگلے دن صبح صادق کے وقت ہی لوٹ آیا تھا مگر ابھی تک وہ دونوں سو ہی رہے تھے تبھی وہ فریش ہو کر کچن میں جا گھسا۔ناشتہ تیار کر کے ہاتھ دھو کے سیڑھیاں چڑھ گیا۔

"تازر بیٹا! اٹھ جاؤ صبح ہو چکی ہے۔"وہ دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے بولا اور نیچے والے فلور پر گیا۔

"سرو!......آٹھ جاؤ...." وہ اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر واپس پلٹ گیا...تبھی بیرونی دروازے پر بیل ہوئی تھی وہ دھیرے دھیرے چلتا گیٹ تک پہنچا، سامنے کھڑا زبیر نظر آیا جو اسے دیکھ کر جبڑے بھینچ چکا تھا۔

"ارے آفندی صاحب! آئیں اندر آ جائیں۔" وہ اس کے غصے کو اگنور کرتے ہوئے مسکرا کر اسے آنے کا راستہ دیتے ہوئے ایک جانب ہوا۔

"خیریت تھی آفندی صاحب! آپ یہاں اتنی صبح صبح؟" اس نے لہجے کو عام سا ہی رکھا تھا۔

زبیر کی ہیزل براؤن آنکھوں میں مزید غصہ چمکا۔

"اس کی اتنی ہمت میرے گھر میں کھڑا ہو کر مجھ سے ہی سوال کرے۔" وہ دانت کچکاتے ہوئے صوفے پر بیٹھتے ہی ضبط کی آخری حدوں کو پہنچ کر سوچ رہا تھا۔

"وہ مادفہ سے کچھ کام کے۔ کہاں ہے وہ؟" اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے بےرخی سے استفسار کیا گیا۔

"ابھی سو رہی ہے۔ آپ آئیں نا ناشتہ کریں.....میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔" وہ اپنایت سے مسکراتے ہوئے بولا۔

"نہیں شکریہ...." ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ اور آنکھوں میں سختی لیے وہ اپنے فون میں مصروف ہو گیا تھا۔

"تازر! اٹھ جاؤ بیٹا....." بالوں کو جوڑا کی شکل دیتی وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولی اور ابھی ساتھ والے کمرے میں داخل ہوتے ہوتے رکی۔ ان دونوں نے بیک وقت سر اٹھا کر اوپر دیکھا تھا۔

وہ دروازے میں ہی پہنچی تھی کہ اسے لگا کہ کوئی ہال میں موجود ہے جو بہت اہم ہے۔وہ ٹھٹھک کر رکی اور پلٹی۔وہ ہی تھا سنجیدہ چہرہ ،خاموش ہیزل براؤن آنکھیں اور لب بھینچے اس کو دیکھ رہا تھا وہ بےاختیار ہی وہ کمرے کی جانب بھاگی اور جب واپس آئی تو اس کے شانوں کے گرد گرم شال لپٹی ہوئی تھی۔حدثان کچھ سوچتے ہوئے مسکرایا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔

"تم سے بات کرنا چاہتا ہے......میں تو کہتا ہوں جانے مت دینا۔"وہ دو دو سیڑھیاں چڑھتا جب اس کے مقابل گیا تو رکتے ہوئے سرگوشی کر گیا۔ وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے خود کو کمپوز کرتی سیڑھاں اتر گئی۔

"جیسے یہ میرے روکنے پر ہی تو رک جائیں گے۔"دل مایوسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔اور یہ تو ہونا ہی تھا۔

"اسلام و علیکم!" وہ رسمی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اس کے سامنے رکھے صوفے پہ بیٹھ گئی۔

"و علیکم السلام! کیسی ہو؟"ایک نظر اس پہ ڈالتے ہوئے وہ پھر سے فون پہ مصروف ہو گیا۔

"تمہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مسٹر آفندی!"

اسے زبیر کا یوں اگنور کرنے والا انداز غصے میں مبتلا کر گیا۔

"ہوں......ٹھیک ہی کہہ رہی ہو تم، زبیر کو تم سے کوئی لینا دینا نہیں مگر...." فون سامنے پڑی شیشے کی میز پر رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑے سیدھا ہو بیٹھا۔

اس کی نظریں میز پہ پڑی حدثان کی ریسٹ واچ پہ تھیں۔

"مگر چوہدری ثمروز کو تو صرف تم سے ہی لینا دینا ہے۔"اس نے نظریں اٹھائیں اور سروش کی نگاہوں میں براہِ راست جھانکتے ہوئے بولا۔وہ دھڑکتے دل کو سنبھالتی رخ پھیر گئی۔

"میرا مطلب ہے یہ ثمروز کے ان شیئرز کے پیپرز ہیں جو آفندی گروپ آف کمپنیز میں ہیں۔میں نے تمام شیئرز تمہارے نام کر دیئے ہیں اب ان شیئرز کی تم مالک ہو.....آرام سے تم یہ سنبھال سکتی ہو۔" وہ اٹھ کر کوٹ کی جیب سے پراپرٹی کے کاغذات نکال کر میز پہ رکھتے ہوئے بولا اور پلٹا۔

"اور ہاں.....کل آفندی گروپ آف کمپنیز کے شیئرز ہولڈرکی میٹنگ ہے.....باقی سب تمہیں حدثان بتا دے گا۔ آخر فیصل آباد کا غنڈہ دوست اور کزن ہے تمہارا۔"

آخر میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔

"افکورس.....وہ میرا بچپن کا دوست ہے اور دوست جیسے بھی ہوں بےمثال ہوتے ہیں۔خیر آپ اب جا سکتے ہیں۔کیونکہ ثمروز تو مر چکا ہے نا۔اور ہاں..." وہ اٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور گردن اکڑائے سخت لہجے میں گویا ہوئی۔

"میٹینگ میں ہم دونوں ضرور آئیں گے مسٹر آفندی!"

وہ جھلس کر مٹھیاں بھینچے پلٹا تیز قدم اٹھاتا دروازے کی سمت بڑھا۔

"رکو چوہدری ثمروز...!" اس کے سخت لہجے نے ثمروز کے قدم وہاں ہی روک دیئے تھے۔

وہ تیز قدم اٹھاتی اس کے سامنے گئی۔چند پل اسے تکنے کے بعد وہ اسے گریبان سے پکڑ چکی تھی۔

"تم چاہتے کیا ہو؟ آخر کیوں تمہیں میرا عشق،میری دیوانگی نظر نہیں آتی؟ مجھے لگتا تھا تم جانتے ہو کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔"

وہ رونے لگی تھی۔اس نے سختی سے سروش کے ہاتھ جھٹک دیئے۔

"تم مجھ سے محبت کرتی ہو....اونہہ....نہیں تم میرے اس....." اس نے اپنے چہرے کے گرد انگلی سے دائرہ کھینچا۔

"اس حسین چہرے سے محبت کرتی ہو۔ سروش چوہدری! اگر مجھ سے محبت کرتی تو تب کہتی جب میرے پاس یہ چہرہ نہیں تھا بلکہ....."

"بس کرو ثمروز! تمہارا وہ چہرہ ہی تو میرے دل میں بس چکا ہے۔ جتنا حسین وہ چہرہ تھا یہ نہیں ہے۔ میں زبیر کو نہیں بلکہ ثمروز کو دیکھتی ہوں۔ان ہیزل براؤن آنکھوں کے پیچھے چھپی کالی آنکھوں کو دیکھتی ہوں۔چہرہ بدلنے سے تم تھوڑی نہ بدلو گے مجھے تم سے عشق ہے ثمروز! مت جاؤ مجھے چھوڑ کر۔"وہ پھوٹ پڑی تھی اور پھر سے اس کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے دھاڑیں مار کر رو دی۔

"سروش....سروش! تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا۔"

اسے ایک ہی جگہ ساکت خاموش آنسو بہاتے دیکھ کر حدثان نے تشویش سے پوچھا۔وہ اس کی آواز پہ بری طرح اس خیال سے چونکی۔پھر دروازے کی جانب دیکھا۔ جو کب کا بند ہو چکا تھا اور ثمروز جا چکا تھا۔

"خیال......"

وہ مختصر کہہ کر پلٹی اور میز پہ پڑے کاغذات اٹھا کر حدثان کی جانب اچھالتے ہوئے صوفے پر ڈھے سی گئی۔

"بیٹا! تم چلو ڈائننگ ہال۔ ہم آتے ہیں۔"سیڑھاں اتر کر آتے تازر جو کہتے ہوئے وہ بھی سروش کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔

"کہہ رہا تھا کہ کل کوئی بزنس میٹنگ ہے۔"تازر کے جاتے ہی اس نے بات کا آغاز کیا۔

"تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں یہ سب واپس کر دینا چاہیے۔" وہ جو کاغذات چیک کر رہا تھا اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے بولا۔ پھر سارے پیپر میز پہ اچھال کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"مگر کیوں؟"

اس نے بھنویں آچکا کر استفسار کیا۔

"کیونکہ میں تمہیں اپنی بزنس پارٹنر بنانا چاہتا ہوں۔"

اس کی بات پہ سروش نے آنکھیں سکوڑیں۔

"ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ یار اس کے جتنا تو بزنس نہیں مگر اس کو ٹچ کرنے والا ہوں.....ڈیڈ نے پچاس کروڑ کمایا تھا اور میں ان پانچ سالوں میں......"

وہ سوچنے لگا۔سروش کی نظریں بھٹک کر دیوار پہ لگی ثمروز کی فوٹو میں جا اٹکیں۔مگر توجہ اس کی جانب ہی تھی۔وہ خالی دماغی سے سن اور دیکھ رہی تھی۔

"خیر چھوڑو.....مگر اس سے کہیں زیادہ ہے۔

تو پھر مفت میں میری بزنس پارٹنر بنانا پسند کرو گی؟"وہ چہکا۔

اس نے نظروں کا رخ اس کی جانب کیا اور اطمینان بھری سانس خارج کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تم سے تو اچھی سوچ کی امید رکھی ہی نہیں جا سکتی۔اگر مجھے پیسے کا لالچ ہوتا تو میں ثمروز......میرا مطلب زبیر کو کبھی نہ چھوڑتی کیونکہ اس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ تمہاری آنے والی سات نسلیں بھی کھائیں تو ختم نہ ہو۔"وہ اس کے سر پہ کھڑی گرج رہی تھی۔

"مگر میں تمہاری طرح پیسہ پیسہ نہیں کرتی۔میں ثمروز کے خواب کو پورا کرنا چاہتی ہوں۔اس نے ایک مرتبہ مجھ سے ایک خواہش شیئر کی تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ یہاں مدرسے اور مساجد تعمیر کروانا چاہتا ہے۔اور میں اس کا یہ خواب پورا کرنا چاہتی ہوں۔

خیر......تم تو نکلو یہاں سے اٹھو...."وہ پلٹی میز پہ پڑا گملہ اٹھا کر اس کی جانب بڑھی۔

وہ خوف سے آنکھیں پھیلائے اس کے ہاتھ میں موجود لوہے کے گملے کو دیکھتے ہوئے پیچھے کو دبکا مگر صوفے کی پشت کے باعث مزید پیچھے نہ جا سکا۔

"میں کہہ رہی ہوں میرے گھر سے نکلو حدثان!...."

"ارے.....ارے پاگل ہو گئی ہو کیا.... پہلے پوری بات تو سن لیا کرو یار....." وہ چلایا تھا اور صوفے سے چھلانگ لگا کر کچھ فاصلے پر جا کھڑا ہوا۔

"مجھے تمہاری گھٹیا بکواس سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔نکلو یہاں سے۔" وہ دانت پیس کر گویا ہوئی۔

"سرو! تم ہمیشہ ہی مجھے غلط جج کرتی ہو پہلے میری بات سنو۔"وہ پھرتی سے اس کے قریب آیا اور گملا چھین کر اسے تھام کر قابو کرتے ہوئے نرمی سے بولا۔

"ہا.......تم ہو ہی غلط۔" وہ منہ بسورے اس سے اپنا آپ چھڑوا کر رخ پھیر گئی۔

"اوکے ٹھیک ہے مان لیا۔اب میری بھی سن لو۔"

وہ گملے کو اس کی جگہ پہ واپس رکھتے ہوئے اطمینان سے بولا اور سروش کو اس کا اطمینان زہر جیسا لگا۔

اس کا جی چاہ رہا تھا کہ حدثان کامنہ توڑ موڑ دے مگر مٹھیاں بھینچے اس نے رخ پھیر لیا۔

"میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم اسے یہ دکھانا چاہتی ہو نا کہ اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے؟" اس نے استفسار کیا مگر جواب نہ ملا۔

"تو تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا کل کی میٹنگ میں۔ تاکہ اسے بھی وہ ہی تکلیف کا احساس ہو جو تمہیں ہوتی ہے اسے الفت کے ساتھ دیکھ کر۔تم جب کل میٹنگ میں میری پارٹنر بن کر جاؤ گی تو دیکھنا ثمروز کا چہرہ کیسے سرخ ہو گا۔پھر اسے احساس ہو گا وہ خود ہی قبول کرے گا کہ وہ ثمروز ہے تمہارا ثمروز....."

وہ بول رہا تھا اور سروش سوچ چکی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔

"ایک بات بتاؤ...تم کب سے آفندی گروپ آف کمپنیز کے ممبر ہو؟" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

"کل سے...."

"کیسے؟"

"بتاتا ہوں۔ایک منٹ۔" وہ اٹھ کر دائیں جانب دیوار کے ساتھ پڑے کاؤنٹر کے دراز میں سے فائل نکال کر اس کی جانب بڑھا۔

"کل رات کو میں نے مسٹر ایڈورڈ کے بیس پرسنٹ شیئرز خرید لیے۔تو پھر کیا کہتی ہو؟"اس نے پیپرز اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔

"آفندی گروپ آف کمپنیز کے شیئرز ہولڈرز تو اپنے شیئرز بڑھانے کے چکروں میں رہتے ہیں....ایک ایسی کمپنی جس کے سٹاک مارکیٹ پیچھلے پچیس سالوں سے بڑھے ہیں اس کمپنی کے شیئر ہولڈر نے تمہیں اپنے شیئرز کیوں بیچ دیئے؟" وہ پیپرز دیکھتے ہوئے حیرانگی سے بولی۔

"واؤ تم تو بہت کچھ جانتی ہو آفندی کمپنیز کے متعلق۔ خیر میں نے ایڈورڈ کو بتایا کہ کل پچیس سالوں بعد آفندی گروپ آف کمپنیز کے سٹاک مارکیٹ گرنے والے ہیں اور بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے وہ گھبرا گیا.....اور میں نے ون بلین میں شیئرز خرید لیے۔"

وہ مطمئن سا مسکرایا۔

"واٹ.....تم نے جھوٹ بولا؟" وہ چونک کر سیدھی ہو بیٹھی۔

"ہاں......بھی اور ناں بھی......خیر تم چھوڑو اور سائن کرو۔" اس نے جیب سے پین نکال کر سروش کی جانب بڑھایا۔

"بات سنو مسٹر چوہدری!...." وہ تھوڑی تلے دونوں ہاتھوں کو ٹکائے اس کی جانب جھکی۔

"اپنی پارٹنر شپ نا..... اپنے پاس رکھو۔" وہ اسے شہادت کی انگلی دیکھاتے ہوئے بولی۔

"ٹھیک ہے جی جیسے آپ کی مرضی تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو گن پوائنٹ پر سائن کروا لیتا....خیر چلو اب ناشتہ کرتے ہیں۔" وہ ہار مانتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"رکو۔" کچھ سوچتے ہوئے اس نے اسے روکا وہ پلٹ کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔

"کہاں سائن کرنے ہیں؟" اس کی بات پر حدثان مسکراتے ہوئے اس کی جانب پیپر بڑھا چلا تھا۔

ناشتہ کرنے کے بعد جب وہ برتن سمیٹ رہی تھی حدثان نے کہا۔

"کل کی میٹنگ کے لیے کوئی ڈھنگ کے کپڑے ہیں تمہارے پاس؟" اس کی بات پر سروش کے ہاتھ وہاں ہی تھم گئے۔

"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ " وہ پھر سے لڑنے کے موڈ میں تھی۔

"کچھ مطلب نہیں ہے میری ماں.....ریڈی ہو جاؤ شاپنگ کے لیے جانا ہے.... مجھے اپنے لیے شاپنگ کرنی ہے۔" وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا تو تازر کھلکھلا کر ہنس دیا۔

"کیا ڈینجرس لیڈی ہے یار!...." وہ جب کچن کی جانب بڑھ گئی تو حدثان خفگی سے بڑبڑایا۔

"آپ کنٹرول میں رہیں گے۔ چلیں ریڈی ہو جائیں اگر آنٹی پہلے ریڈی ہو گئیں تو آپ کی پھر خیر نہیں۔"تازر موبائل میز پر رکھتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا۔

حدثان خاک نہیں سمجھا تھا.....سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا۔

*****

وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی.....کبھی بزنس میٹنگز اور یوں کانفرنسوں میں اس کا آنا جانا کبھی نہیں تھا تو گھبراہٹ جائز تھی۔میٹنگ روم میں پہنچتے ہی سروش کی گھبراہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔تمام ممبران کی نگاہیں اس کی جانب اٹھنے کے ساتھ ساتھ حدثان پر تو مرکوز تھیں۔

"ریلکس سرو!..... یونیورسٹی سے زیادہ لوگ نہیں ہیں یہاں۔" حدثان نے اس کے کان میں گھس کر کہا اور ایک نظر اس کے سراپے پر ڈالی۔سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس،میک اپ وہاں کے بہترین پارلر سے کروایا گیا تھا، بہت لائٹ میک اپ اور جیولری کے طور پر ہاتھ میں ریسٹ واچ کانوں میں ہیرے کے ننھے ٹاپس سجائے وہ بہت پُروقار لگ رہی تھی مگر پُراعتماد نہیں۔

ہاتھوں کو آپس میں سختی سے جکڑے گھبرائی ہوئی موٹی موٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھتی وہ ڈری ہوئی ہرنی لگ رہی تھی۔وہ اس کا شانا تھپک کر کرسی کی جانب اشارہ کرتا مدھم سی مسکراہٹ لیے خود بھی اس کے ساتھ والی نشست کی جانب بڑھا۔

"دیکھو سروش! اس طرح نہیں چلے گا.....تمہاری گھبراہٹ وہ واضح محسوس کر لے گا اور پھر جان جائے گا کہ تم اس کے بنا سٹرگل نہیں کر سکتی۔وہ سمجھے گا اس کے بغیر تم چل ہی نہیں سکتی.....میری ساری محنت دھری کی دھری رہ جائے گی۔"حدثان اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا ٹھیک اسی وقت میٹنگ روم کے اونچے اور بھاری دروازے کے دائیں بائیں کھڑے سفید پینٹ کوٹ میں ملبوس گارڈز نے دروازہ کھولا تھا اور تمام ممبران اس جانب متوجہ ہوئے۔نیو بیلو چیک والے پینٹ کوٹ میں ملبوس، بہترین پرسنیلٹی کا مالک زبیر آفندی پُروقار انداز میں قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔

"لیڈیز اینڈ جینٹل مین گڈ ایوننگ۔امید ہے زیادہ انتظار نہیں کروایا ہو گا۔" وہ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سی ای او کی سربراہی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھے شاہانہ انداز میں براجمان ہو گیا تھا جبکہ سروش آنکھیں پھاڑے حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ زبیر نے کبھی ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ آفندی گروپ آف کمپنی کا سی ای او ہے۔

"مسٹر چوہدری! آپ نے جس طرح بھی ہمارے شیئر ہولڈر سے اس کے شیئرز خریدے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔امید کرتے ہیں آپ آفندی گروپ آف کمپنیز کا ساتھ ہمیشہ دیں گے اور ہمیشہ اس کمپنی کی بھلائی کے لیے پہلے سوچیں گے۔" اس نے پروفیشنل انداز میں کہا تھا۔

"آف کورس مسٹر آفندی!" وہ پراعتماد انداز میں گویا ہوا۔

"ہم آپ کو اور آپ کی پارٹنر کو ویلکم کہتے ہیں۔" ایک نگاہ بےحد حیران سروش پر ڈالی۔

"تھینک یو سو مچ۔" حدثان نے کہا۔

اس کے بعد کانفرنس روم میں محض زبیر کی آواز گونج رہی تھی اور اس کو یوں بولتے اور سب کو اسے سنتے دیکھ سروش کا دل بےحد خوش ہوا تھا۔وہ ٹکٹکی باندھے محض اسے دیکھ رہی تھی جس کے سامنے سب خاموش تھے۔

"کتنی تکلیفیں.....کتنی پریشانیوں اور مشکلات کے بعد تم اس مقام پر کھڑے ہو ثمروز! تم جانتے ہو کتنے پیارے لگ رہے ہو۔" دل ہی دل میں وہ اس سے مخاطب تھی۔ ایک دو مرتبہ حدثان نے اسے کہنی ماری مگر وہ بنا اس کی سنے ثمروز کو دیکھتی رہی۔

"تم یہ مقام ڈیزرو کرتے ہو ثمروز۔"

میٹنگ ختم ہو چکی تھی اسے تب معلوم ہوا جب حدثان نے اس کا شانا تھپکا اور وہ دونوں لفٹ میں جیسے ہی داخل ہوئے شاہ زبیر بھی اپنی پیچھے چلتے دو عدد باڈی گارڈز کے ساتھ لفٹ میں داخل ہوا تھا۔

"واؤ....آفندی گروپ آف کمپنی کے سی ای او....اونہہ۔" وہ تالی پیٹتے ہوئے طنزیہ انداز میں گویا ہوئی۔ زبیر نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔

"شیئر ہولڈر سے سیدھا سی ای او بنانا کتنا......" وہ دانتوں پہ دانت جمائے بولی اپنی بات اُدھوری چھوڑ کر اس کی جانب نخوت سے دیکھنے لگی۔

"کتنا اچھا ہوتا ہے نا...... واؤ.....تم واقع ہی انٹیلجنٹ ہو مسٹر آفندی میرا مطلب چوہدری ثمروز۔"وہ طنزیہ ہنسی تھی۔

"تم کتنی گھٹیا سوچ رکھتی ہو نا....اس سب کی زمہ دار تم خود ہو میں نہیں.....میں تو ہوش میں بھی نہیں تھا جب یہ سب میرے نام ہو گیا۔" وہ اس کی جانب پلٹتے ہوئے سختی سے بولا تھا۔

"ہاں ہر چیز کے لیے زمہ دار تو میں ہی ہوں نا۔تم نے تو کچھ نہیں کیا.....مظلوم ہو تم....ظالم تو میں ہی ہوں۔"وہ اس کا گریبان تھام کر جھنجوڑتے ہوئے بولی۔

اچانک لفٹ رکی تھی اور دروازہ کھلا ، زبیر اس کے عقب سے گزرا تو وہ اس خیال سے نکل کر ہوش میں آئی۔

"پھر سے عجیب خیال....." وہ عجیب سے انداز میں بڑبڑا کر زخمی سا مسکرائی اور لفٹ سے نکل گئی۔

"مسٹر آفندی!.....مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" اجنبی سا لہجہ لیے وہ اس سے مخاطب تھی۔زبیر کے اٹھتے قدم رک گئے تھے، وہ پلٹا اور اس کی جانب بڑھا۔

"بولیں؟"

"یہاں نہیں۔ اکیلے میں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا، حدثان نے حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"اوکے، چلو۔" وہ کہہ کر پلٹا اور گلاسز آنکھوں پر لگا کر آگے بڑھ گیا۔

"مادی! تم یہ کیا کر رہی ہو؟"

"اپنے شیئرز اسے بیچنے جا رہی ہوں۔ ان پیسوں سے جگہ خریدوں گی اور مدرسے، مسجد کا کام شروع کرواؤں گی۔ باقی بھی کئی کام ہوں گے ان میں بھی پیسے لگنے ہیں اس لیے...."وہ اسے بتاتی تیزی سے زبیر کے پیچھے بڑھی۔

"تم نے کبھی بتایا نہیں کہ تم سی ای او ہو؟"

زبیر کی لگژری گاڑی کشیدہ روڈ پر دوڑنے لگی تو وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

"زبیر کمپنی کا سی ای او تھا تو مجھے اس کی جگہ کام سنبھالنا پڑا۔"وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے نارمل انداز میں بولا....وہ کس قدر دلکش لگ رہی تھی نا۔ پہلی مرتبہ اس نے یہ آفیس وومین کا لباس زیب تن کیا تھا۔

"کیا بات ہے؟ ایکچلی مجھے ہسپتال جانا ہے تو بہتر ہو گا کہ ہم گاڑی میں ہی بات....."

"ڈونٹ وری مسٹر آفندی! میں آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گی۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوئی۔کل تک جو شخص ضروری میٹنگز اس کے لیے چھوڑ دیتا تھا آج وہ دو پل بھی اسے دینے سے انکاری تھا مادفہ کی آنکھوں میں چبھن ہوئی تھی اس نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو روکا۔

"میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے شیئرز خرید لیں۔ اور ان پیسوں سے....."اس کے حلق میں کانٹا چبھا تھا وہ سر جھکا گئی۔

"ثمروز کا ادھورا خواب پورا کریں۔" اس نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جو بےتاثر نگاہوں سے اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔

"کون سا خواب؟"

وہ شاید اس کے ضبط کا امتحان لے رہا تھا۔

"واؤ......کیا تم واقع ہی بھول گئے ہو ثمروز! کیا سب کچھ بھول گئے ہو؟" اس کے حلق میں کانٹے چبھے تھے۔

"ایکسکیوز می؟ ثمروز مر چکا ہے، میں زبیر آفندی ہوں سو پلیز...." اس کے لہجے کے روکھے پن نے سروش کے دل کو کسی گہری کھائی میں پھینکا تھا.....وہ اس کے اس رویئے پر رو دیتی مگر بہت ضبط کیے بیٹھی تھی

"اوہ.....او اوکے م مسٹر آفندی! ٹھیک ہے۔ کل آپ کو شیئرز کے پیپرز پہنچ جائیں گے۔گ گاڑی رکو ڈرائیور۔"

وہ غیر ہموار آواز میں بولی۔

"اوکے۔" وہ اپنے موبائل کی جانب متوجہ ہو گیا۔ اور وہ سختی سے لب بھینچ کر سر جھکا گئی۔ گاڑی رکتے ہی اس کے لیے دروازہ کھول دیا گیا تھا اور وہ تیزی سے گاڑی میں سے نکلی تھی۔

زبیر نے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالی تھی، دروازہ بند ہوا اور گاڑی اس سے دور ہوتی چلی گئی۔

وہ کئی پل اس راہ کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی یہاں تک کہ گاڑی کہیں مڑ کر نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

"تو تم نے راستہ بدل لیا ثمروز! تم تو کہتے تھے تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو گے؟" وہ برستی نگاہوں سے سوچ رہی تھی۔

اچانک ہی موسم بدلا اور بارش شروع ہو گئی وہ بنا بھیگنے کی پرواہ کیے فٹ پاتھ پر بےدم سے قدموں ساتھ چل رہی تھی۔

"سرو!..... گاڑی میں بیٹھو۔"

حدثان نے اس کے قریب آ کر بریک لگائی تھی۔

وہ از خالی دماغی سے مردہ قدموں کے ساتھ آگے بڑھی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔حدثان نے بیک سیٹ پر پڑی اپنی شال اٹھا کر اس کے گرد اوڑھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔

****

وہ جسے لوگ ہماری زلف کا اسیر کہتے تھے....

بڑی گہری نیند سوتا ہو گا اب کسی غیر کی باہوں میں

دن گزرتے جا رہے تھے مگر مہرو لوٹ کر نہ آئی۔

وہ دس سال کی عمر میں ہی انسانوں کے دوغلے روپ دیکھ چکی تھی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ انسان اصل میں واقع ہی انسان ہوتا ہے فرشتہ نہیں۔اس کی بہن کی اتنی عمر نہیں تھی کہ وہ بھاگ جاتی......مگر دنیا نے اس پہ یہ بہتان لگا دیا تھا کہ مہرو گھر والوں کے منہ پر کالک تھوپ کر بھاگ گئی ہے۔وہ ماں بیٹی گاؤں کی دکان تک جاتیں تو پورا گاؤں انہیں تانے دینے لگتا تبھی دونوں نے باہر نکلنا ہی بند کر دیا ۔وہ کئی مرتبہ آم کے اسی پیڑ تلے بیٹھی حدثان کا انتظار کرتی رہتی کہ وہ آئے اور وہ اس کے سامنے  اپنی بہن کی بےگناہی کو بیان کر سکے، اس سے اپنی باتیں، اپنے دکھڑے کہہ سکے مگر وہ نہیں آتا تھا.......کبھی وہ اس سولنگ کنارے جا بیٹھتی جہاں سے ثمروز کالج روز جاتا تھا پر اس نے بھی شاید راستہ بدل لیا تھا......اور اس کے پاس تو صرف وہ تینوں ہی تھے جن کو وہ اپنا بہترین دوست سمجھتی تھی اور تو کوئی دوست نہ تھا اس کا۔بہن بھی کہیں غائب ہو گئی، جو پتہ نہیں کہاں اور کس حال میں تھی؟

ثمروز بھی راستہ بدل گیا اور حدثان..... سروش کو کبھی اس سے یہ امید نہیں تھی کیونکہ اسے اپنی دوستی پر یقین تھا......مگر پھر بھی اس نے ان دونوں کا انتظار کرنا نہیں چھوڑا تھا یہ الگ بات کہ وہ ہر روز مایوسی سے واپس پلٹ جاتی اور ماں کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتی رہتی کہ اس کی بہن کو کسی نے اغواء کر لیا ہے وہ بھاگی نہیں ہے........نہ ہی ثمروز اسے لے کر گیا ہے۔مگر ماں بھی کیا کرتی بس رو دیتی اور کچھ نہ کہتیں وہ مایوس ہو جاتی۔

"کہاں جا رہی ہو سرو؟"اسے گھر سے نکلتے دیکھ کر ماں نے استفسار کیا۔

"چوہدریوں کی حویلی جا رہی ہوں۔اور آپ مجھ سے کوئی سوال نہیں کریں گیں۔" وہ دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے کمرے میں کھڑی بھائی کی بائیک کی جانب بڑھی۔

"مادی! تو کہیں نہیں جا رہی۔"

"کیوں ماں؟ میں جا رہی ہوں۔مجھے نہیں پتہ کہ میری بہن کہاں گئی ہے مگر میرے والد کا کیا قصور ہے؟چوہدری صاحب کو انہیں چھڑانا ہی ہو گا۔میں ثمروز سے بات کروں گی وہ یقین کرے گا میرا۔"اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔

"وہ کر بھی لے یقین تو کیا ہو جائے گا؟"وہ کھوئے کھوئے انداز میں کہتے ہوئے وہاں ہی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔

"میں حدثان سے بھی بات کروں گی۔وہ چوہدری تایا سے بات ضرور کرے گا۔میرا دوست ہے وہ اور آپ جانتی تو ہیں چوہدری تایا اس کی بات رد نہیں کرتے۔" اس نے مسکراتے ہوئے انہیں یقین دلایا مگر وہ بھڑک اٹھیں۔

"تم پاگل ہو گئی ہو کیا؟ لڑکوں کے ساتھ دوستانہ رکھنا ایک لڑکی کے کردار پہ سب سے بڑا دھبہ ہے۔اب تو بڑی ہو رہی ہے......چھوڑ دے یہ بائیک چلانا.......ان دونوں کے متعلق ایسی بک بک کرنا۔میری ہی غلطی ہے تم دونوں کی ٹانگیں توڑ کر رکھتی تو کیوں آج یہ دن دیکھنے کو ملتا۔"وہ اس کی جانب بڑھی تھیں اور وحشت سے چنخنے لگیں۔

"ماں پلیز......آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں۔میں ہوں نا سب ٹھیک ہو جائے گا۔اور رہی دوستی کی بات تو......اس میں غلط کیا ہے وہ دونوں بہت اچھے ہیں۔لڑکیوں سے زیادہ اچھی دوستی ہے ہماری۔ وگرنہ میں نے جب مصباح کو دوست بنایا تھا وہ تو مجھے دھوکہ دیتی تھی۔ میری چغلیاں بھی کرتی تھی۔" اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

"چلیں آپ آرام کریں میں حویلی ہو کر آتی ہوں۔" وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر بائیک کو اسٹارٹ کرنے لگی تھی۔ماں سر تھام کر ایک نظر ڈوبتے سورج پہ ڈالتی پھر سے چارپائی پر بیٹھ گئیں۔

"یا اللّٰہ کیا غلطی تھی ہماری جو ایسی کڑی سزائیں دے رہا ہے......یہ جھلی ابھی بھی سمجھتی ہے کہ وہ چوہدری اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔رحم کرنا میری بچی پہ خدارا۔بچا لینا ان ظالموں کے ظلم سے میری نادان دھی (بیٹی) کو۔"وہ اللّٰہ کے سامنے ہاتھ جوڑے پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تھیں۔

بائیک حویلی کے سامنے جیسے ہی روک کر اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تھا وہ بالکنی میں  جازیہ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

"حادی.....!" اس نے وہاں سے ہی پکار لگائی۔ حدثان نے ریلنگ پہ ہاتھ ٹکایا اور جھک کر نیچے دیکھا پھر حقارت سے لب بھینچ لیے۔جبکہ وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا رہی تھی۔وہ رخ پھیر کر جازیہ کا ہاتھ تھامے وہاں سے ہٹ گیا تھا کہ اس کے مسکراتے ہونٹ پل بھر میں بھینچ گئے۔اتنے میں چوہدری صاحب کی گاڑی وہاں آ رکی۔وہ سرعت سے ان کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔

"چوہدری تایا...." وہ جیسے ہی گاڑی سے اتر کر حویلی کی جانب بڑھے سروش نے انہیں پکارا۔وہ رکے اور اس کی جانب پلٹے۔

"مجھے آپ سے بات کرنی ہے چوہدری تایا۔"وہ ایک قدم آگے بڑھی۔

انہوں نے تنقیدی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا اور پھر اثبات میں سر ہلا کر اسے بولنے کی اجازت دی۔

"میرے ابا کو جیل سے نکلوا دیں تایا! انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔" وہ التجاء آمیز لہجے میں بولی۔

"اچھا....."انہوں نے استہزائیہ مسکراہٹ لیے ہنکارا بھرا۔

"ہاں تایا.....ثمروز سے پوچھ لیں۔ اس کو بھیا نے مارا تھا۔"

"پھر اپنے بھائی کو لا دو اور باپ کو لے جاؤ۔"وہ جھک کر اس کی رخسار پہ تھپکی دیتے واپس پلٹ گئے۔

"وہ بھاگ گئے ہیں۔"اس نے پھر سے کہا۔

"جیسے تمہاری بہن بھاگ گئی.......جیسے تمہاری ماں بھاگ کر ہمارے دور پرے کے رشتے دار کے ساتھ آئی تھی۔"مسز چوہدری کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ان کی آواز میں سختی تھی۔

"میری بہن بھاگی نہیں ہے اسے اغواء کیا گیا ہے.......سچی۔" اس نے معصومیت سے کہا تھا اور ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔

"تمہیں کس نے کہا؟ وہ بھاگی ہے۔ اب تم یہاں سے چلی جاؤ وگرنہ مار مار کے بندری بنا دوں گی۔" مسز چوہدری نے اس کا کان کھینچتے ہوئے دانتوں پر دانت جمائے کہا۔اور اشارے سے ہی اپنے آدمیوں کو اسے وہاں سے لے جانے کو کہا۔

وہ پیدل ہی وہاں سے نکلی تھی۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سفاک سلوک پہ رو پڑی تھی۔

"چوہدری صاحب....اب کچھ کرنا چاہیے یہ نہ ہو یہ لڑکی کوئی ڈرامہ کھڑا کر دے۔" مسز چوہدری نے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔

کچھ دن مزید سرک گئے...... ایک رات کوئی چپکے سے مہرماہ کو گھر کی دہلیز پر پھینک  گیا تھا۔

گاڑی کی آواز پر سروش کی آنکھ کھلی تھی اور وہ جیسے ہی دروازے تک گئی مہرماہ کو آدھ مویا پا کر بری طرح سے چنخ اٹھی۔

 اس کے ہوش میں آتے ہی ماں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا تھا۔

"بول کرموں جلی کس کے ساتھ منہ کالا کروا کر آئی ہے بول...." وہ رونے کے ساتھ ساتھ اسے ڈنڈے سے پیٹتے ہوئے بولیں۔

"آپ کیا کر رہی ہیں ماں! آپی کی حالت دیکھیں.....کیوں چوہدرئن تائی بن رہی ہیں۔" سروش نے آگے بڑھ کر اسے بچا لیا تھا۔

مہرماک کی طوفانی خاموشی نے اسے ایک دم سے ہلا کر رکھ دیاتھا یہ اس کی بہن نہیں تھی جو ہر وقت چہکتی رہتی تھی، جس کے کومل ہونٹوں سے ہر وقت ہنسی کے پھول برستے رہتے تھے۔

یہ تو کوئی اور ہی تھی.....کوئی زندہ لاش سی۔

"ماہ آپی! آپ کو کس نے اغواء کیا تھا؟"

"مجھے یقین ہے کہ آپ خود کہیں نہیں گئی تھیں۔"

"آپ کے ساتھ کیسا سلوک ہوا؟"

"کیوں اغواء کیا آپ کو؟"

اس نے لاکھ کوشش کی مگر ماہ نے زبان نہیں کھولی۔

وہ کہاں تھی؟

کون لے گیا تھا......کیا ہوا تھا.....؟ کچھ بھی نہیں بتایا۔

مادفہ سروش حویلی سے نکالے جانے کے بعد پلٹ کر کبھی حویلی نہیں گئی تھی۔ اسکول میں بھی جب اس نے دو تین مرتبہ حدثان سے بات کرنے کی کوشش کی اور اس نے بات نہ کی تو سروش نے اسے مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا۔

دن ہفتوں' ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدل گئے۔اس کا باپ بھی جیل سے چھوٹ آیا تھا۔

اُدھر ثمروز کی خاموشی اور سنجیدگی کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔پر وہاں حویلی میں کسی کو اس کی فکر بھی تو نہیں تھی کیونکہ چوہدری صاحب تو یہ ہی چاہتے تھے۔

ان ہی دنوں ثمروز  کا ایڈمیشن امریکہ کی بہترین یونیورسٹی میں کروا دیا کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔

"میں ایک شرط پر جاؤں گا تایا جان!" وہ سر جھکائے ان سے کہہ رہا تھا۔

"وعدہ کریں کہ میں جب واپس آؤں گا تو میری شادی مہرماہ سے کروائیں گے آپ۔"

"ٹھیک ہے۔میں وعدہ کرتا ہوں جب تم اپنی پڑھائی مکمل کر کے لوٹو گے تو تمہاری شادی مہرماہ سے کروائی جائے گی۔" انہوں نے سنجیدگی سے کہا مسز چوہدری نے بےحد چونک کر اپنے شوہر کو دیکھا۔

"اور ایک وعدہ کریں کہ مہرماہ اور اس کی فیملی کو گاؤں میں پوری عزت دی جائے گی۔ ان کا جو مقام پہلے تھا وہ ہی ہو گا۔"

"ٹھیک ہے۔ ایسا ہی ہو گا۔" وہ اس کا شانا تھپک کر مسکراتے ہوئے بولے۔ثمروز بھرپور مسکراہٹ لیے ان کے گلے آ لگا۔

"تھینک یو تایا حکم!.....آپ دنیا کے بہترین تایا ہیں۔" وہ ان کے ہاتھ چوم کر بولا اور پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔

"یہ کیا کیا آپ نے چوہدری صاحب....؟ سارا کھیل بیگاڑ دیا.....مہرماہ کو اٹھوایا اس لیے نہیں تھا کہ ان کی شادی کروا دیں گے۔آپ ٹھیک تو ہیں؟ کروڑوں کی جائیداد اس دو ٹکے کی لڑکی کے قدموں میں ڈال دیں گے؟"اس کے جاتے ہی وہ  تلملاتے ہوئے گویا ہوئیں۔

"تم کیا چاہتی تھی جو مقام میرا اس کی نگاہوں میں ہے، جو عزت اس کے دل میں ہے وہ سب کھو دوں؟....اور شادی کون کروا رہا ہے اس کی۔"آخر پر وہ مسکرائے۔

"مطلب؟" وہ حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگی۔

"اگر میں اس چھوکری کو اغواء کروا سکتا ہوں تو مروا بھی سکتا ہوں۔"وہ سرگوشی کرتے کمینگی سے مسکرائے۔

"اس کی ضرورت ہی نہیں پڑنی چوہدری صاحب! دیکھنا اب وہ چھوکری خود ہی مرے گی۔" چوہدرائن شاطرانہ انداز میں مسکرائیں تو وہ بھی ہنس دیئے۔

*****

جب ثمروز جا رہا تھا تو گاؤں کی آخری نکڑ پہ اسے منڈیر کنارے چلتی لڑکی پہ مہرماہ کا  گمان ہوا تھا۔

"ڈرائیور گاڑی روکو۔"اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

گاڑی  اسی وقت روک دی گئی۔

وہ تیزی سے گاڑی سے اترا تھا اور صاف پانی کے پکے نالے کے کنارے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھا۔

"مہرماہ.....!"

وہ جو نالے کو پھلانگ کر ٹیوب ویل سے نکلتے پانی کو ہاتھوں میں بھر کر منہ پہ ڈالنے کو تھی سرعت سے گردن گھما کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔ہاتھ میں بھرا پانی اس کے خود کے دامن میں گر گیا تھا اور وہ بجلی کی پھرتی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ایک ہی گاؤں میں رہتے ہوئے وہ اسے کئی دنوں....بلکہ کئی مہینوں.....نہیں سالوں بعد.....دیکھ رہی تھی۔

"سروش! تم.......تم....مگر یہ کپڑے تو ماہ کے ہیں مجھے لگا وہ ہے۔" 

 وہ تنقیدی اور کچھ طنزیہ نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہی تھی۔

براؤن پینٹ کوٹ اور سیاہ شرٹ زیب تن کیے ہوا تھا......گلے میں لال چیک والی ٹائی کی نٹ ڈھیلی کر رکھی تھی۔

بےداغ سنہری چہرے پر سجی دو نشیلی آنکھیں بجھی بجھی.....خاموش سی تھیں۔ہلکی ہلکی موچھوں تلے دبے عنابی ہونٹ بھینچے ہوئے وہ اس کے بولنے کا منظر تھا۔وہ استہزائیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پلٹ گئی۔

"سرو.....! رکو۔"وہ تیزی سے بولتے ہوئے دو قدم آگے بڑھا۔

"کیا ہے؟ ہاں......کیا ہے؟"وہ پلٹتے ہوئے حلق کے بل چلائی تھی۔تیزی سے پلٹنے کے سبب سر پہ ٹکایا ریشمی آنچل ڈھلکتے ہوئے گلے میں آ گیا۔ اس کا پاؤں پھسلا تھا مگر ثمروز نے تیزی سے اس کو بازو سے تھام کر گرنے سے بچا لیا۔

"تم تو اپنی زندگی میں خوش ہو......جا رہے ہو نا امریکہ......مگر میری بہن کا کیا ہو گا؟"اس کے جانے کی خوشی میں پورے گاؤں کی دعوت تھی اور ان کے گھر بھی بریانی آئی تھی۔

مہرماہ نے ایک نوالہ لیا تھا کہ دوسرا نوالہ اس کے گلے میں بری طرح سے پھنس گیا وہ کھانستے کھانستے رونے لگی تھی اور وہ جو قسم کھا چکی تھی حویلی نہیں جائے گی وہ بنا کسی کو بتائے

ثمروز سے کہنے کہ "وہ اگر جا رہا ہے تو مہرماہ کو لے کر جائے" حویلی چلی گئی....

مگر حویلی میں اسے داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا اور وہ واپس پلٹ گئی۔

"میں نے تایا حکم سے بات کر لی ہے سروش! میں بہت جلد واپس آؤں گا اور.....مہرماہ کو لے جاؤں گا۔تب تک تم اس کا خیال رکھنا اور اسے میرا پیغام دے دینا کہ مجھے ہمیشہ سے اس پہ یقین تھا۔"

"یقین تھا تو آئے کیوں نہیں؟"وہ دوپٹہ سینے پہ درست کرتے ہوئے چلائی۔

"کیسے آتا؟ مجھے قیدیوں کی مانند رکھا گیا تھا۔دو دو باڈی گارڈز میرے ساتھ ہوتے تھے۔کالج میں ساتھ جاتے تھے۔کمرے کے باہر کھڑے رہتے تھے۔میری ایک ایک سانس پہ ان کی نظر تھی۔مجھے میری فکر نہیں تم سب کی تھی اور تایا حکم کو میری زندگی کی فکر تھی انہیں لگتا تھا کہ تمہارے بھائی مجھے مار ڈالیں گے اسی لیے۔"وہ سچے کھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔

"اب میں نے سوچ لیا ہے....میں وہاں اسٹڈی کروں گا اور ساتھ ساتھ نوکری بھی پھر اپنی ماہ کو یہاں سے لے جاؤں گا۔بس تم اسے یقین دلا دینا  کہ ثمروز اس کو کبھی بھولا نہیں ہے نہ بھولے گا.....وہ مجھ سے بدگماں نہ ہو جائے......اسے کہنا بس تین سال مزید انتظار کرنا ہو گا۔پھر میں کبھی اسے انتظار نہیں کرواؤں گا۔"اپنے آنے والے حسین کل کو سوچتے ہوئے اس کے ہونٹوں پہ ایک مبہم سی مگر مردہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔

"تب تک تم میری ماہ کا خیال رکھو گی نا؟ وعدہ کرو سرو!"وہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اس کی خاموش نگاہوں میں براہِ راست دیکھتے ہوئے بولا۔

"تم جانتے ہو تین سال......کتنے زیادہ دنوں کی بات کر رہے ہو تم؟" 

"مگر میں فلحال بس تم سے اتنا ہی وعدہ کر سکتا ہوں کہ میں وہاں سے لوٹ کر آؤں گا.....محض مہرماہ کے لیے۔"

"ٹھیک ہے.....وعدہ؟"

اس نے ثمروز کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا تو ثمروز نے اثبات میں سر ہلا دیا۔اور پھر وہ چلا گیا۔

وہ کافی حیران ہوا تھا سرو کی آنکھوں کی روشنی کو بجھا ہوا دیکھ کر۔وہ بچی تھی مگر اس کی خاموشی اور سنجیدگی کسی بالغ افراد سے کم نہ تھی۔یہ وہ شوخ و چنچل سی سروش نہیں تھی جو اس کی ناک میں دم کیے رکھتی تھی......بہت بدل گئی تھی وہ اس اتنے سے وقت  میں۔

ثمروز کے جانے کے بعد پھر سے وہ کھیل جو رک چکا تھا شروع ہوا.......مسز چوہدری نے  مہرماہ کو بدنام  کرنا شروع کر دیا۔ان کی حویلی کی ملازمین مسز چوہدری کے کہنے پر گاؤں میں جا کے اس کے متعلق بری افواہیں پھیلانے لگیں اور ایک دن مہرماہ کی برداشت کی حد ختم ہو گئی۔ذہنی توازن اتنا بگڑ گیا کہ وہ نہر میں کود کر اپنی جان دے بیٹھی۔سروش کے والد نے فیصلہ کر لیا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں گے وہ گاؤں میں موجود زمینیں وغیرہ بیچ کر شہر میں جا بسے۔وہ بھی نسبتاً اچھے اسکول میں پڑھنے لگی........بھائی بھی لوٹ آئے تھے.....رفتہ رفتہ زندگی اپنے ٹریک پر لوٹ آئی۔

مگر وہ چاہنے کے باوجود اپنی زندگی کے وہ سال،خود سے جڑے رشتوں کو بھول نہیں سکتی تھی۔اکثر سوچتی کہ کیا ثمروز لوٹا ہو گا؟

اگر لوٹا ہو گا تو کیا اسے معلوم ہوا ہو گا کہ اس کی تائی نے کیا کیا مہرماہ کے ساتھ؟ اس کے دل و دماغ سے ثمروز کا آخری وعدہ اور آنکھوں کی سچائی کبھی نہیں اتری۔اسے انتظار رہتا کہ کب آئے گا ثمروز اور اس سے پوچھے گا کہ مہرماہ کا خیال رکھا۔پر وہ کیا کہہ گی؟ وہ اسے بچا نہ پائی......

اسے حدثان بھی یاد تھا......اسے سب کچھ یوں ہی یاد تھا، جیسے کل کا دن ہو۔وہ صرف ثمروز کے علاؤہ ان سب لوگوں سے دوبارہ ملنے کی طلب گار ہرگز نہ تھی۔مگر قسمت.......قسمت کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔

حدثان، سروش کو حویلی لے گیا اور اس کو تب معلوم ہوا کہ وہ حدثان چوہدری، حادی ہے......اس کے زخم تازہ ہو گئے تھے۔اور جب اس نے اس کی بیوی کو دیکھا تو وہ بری طرح سے ٹھٹھک گئی۔

جازیہ........وہ ہی لڑکی  تھی جسے وہ ایک رات جب وہ اپنی دوست کے گھر سے لوٹ رہی تھی تو جازیہ کو کسی کے ساتھ گاڑی میں دیکھ چکی تھی۔

اور وہ شخص اسے اس لیے یاد تھا کیونکہ وہ بہت شراب پی رہا تھا اور دو مرتبہ ان کی گاڑی سروش کی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔

جب وہ جان گئی کہ یہ حدثان کی بیوی ہے تو اس نے  کئی مرتبہ جا کر بھی جازیہ کو سمجھایا مگر وہ شاطر تھی۔

اور پھر ثمروز آیا.......ایک دم اچانک......... اور اتنی ہی اچانک سے ان کی زندگیاں بدل گئیں۔

آہ......یہ سب ہونا تھا کیونکہ اس کی قسمت نے اسے یہاں اس مقام پر لانا تھا.....ثمروز کے رو برو۔

اور پھر اسے ثمروز سے عشق ہونا تھا ،پھر سروش کو اس سے بچھڑنا تھا......

تنہائی، تنہا ہی جھیلنی تھی......

مگر حدثان کی واپسی اور اپنی غلطیوں کی معافی پر اور شرمندگی دیکھ کر وہ کوشش کرنے لگی تھی کہ اسے معاف کر دے مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا تو دوسری جانب ثمروز کی لاپرواہی اسے کچوکے لگاتی تھی۔

****

وہ گھر پہنچنے تک خاموش رہی تھی۔

"حدثان! آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ میں لاوارث ہوں۔" وہ بےجان سی ہو کر صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔

"ایسا کیوں کہہ رہی ہو پاگل۔ میں ہوں نا......" وہ نرمی سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے گویا ہوا۔

"مجھے مر جانا چاہیے.....اب تو یہ سب ختم ہو ہی جانا چاہیے نا؟ بچپن سے لے کر اب تک.....اب تک ایک پل بھی سکون کا نصیب نہیں ہوا مجھے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے.....کیا فائدہ ایسی زندگی کا؟" وہ نگاہیں اس پر ٹکائے بولی۔ساکت آنکھوں سے بےشمار آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر رخساروں کو تر کر رہے تھے۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللّٰہ پر یقین رکھو.....شکوہ مت کرو اس سے وہ سب بہتر کرنے والا ہے۔" وہ صوفے پر پڑی اپنی سیاہ شال اٹھا کر اس کے شانوں کے گرد پھیلاتے ہوئے اس کے عقب میں بیٹھ گیا تھا۔

"مجھ سے شادی کرو گے حدثان!" وہ چند پل اس کی جانب دیکھتی رہی پھر اپنے کانپتے ہاتھ کو اس کے سامنے پھیلا کر بولی تو حدثان بےحد حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا۔

"ک کیا کہا تم نے؟" وہ اتنا حیران تھا کہ بات کرتے ہوئے ہکلایا۔

"مجھ سے شادی کرو گے؟ جانتی ہوں یہ ٹھیک وقت نہیں تھا مگر یہ ہی ٹھیک وقت ہے.....میں ثمروز کو اب مزید ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی۔ اور تنہا بھی نہیں رہ سکتی عورت ہوں نا نکاح تو ہے نجانے لوگ کیا کیا سوچیں گے میرے بارے میں۔" وہ بےبسی سے مسکرائی تھی۔

"میں مطلبی ہو رہی ہوں مگر....."

"نہیں سرو! تم مطلبی نہیں ہو رہی۔ بلکہ میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے شرمندگی سے بولا۔

"گزرا کل بھول جاؤ میں بھی بھولنا چاہتی ہوں۔" وہ اس سے نگاہیں چرائے بنا بولی تھی۔

حدثان دھیمی سی مسکراہٹ لیے سر جھکاتے ہوئے دو پل کو سوچ میں ڈوبا۔

"محض اسے یہ دیکھانے کے لیے کہ تم موو آن کر چکی ہو اپنی ساری خوشیاں، خواب اپنے ہاتھوں سے توڑ دو گی؟" 

"محبت میں محض محبوب کی خوشیوں اور خوابوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔" وہ سر صوفے کی پشت پر گرا گئی تھی۔

"میرے ساتھ تم خوش رہو گی؟" 

"ہوں۔کب تک در بدر رلتی پھیروں گی بلاآخر ایک ٹھکانہ اور ایک محرم کا سایہ تو چاہیے ہی ہوتا ہے نا۔تو پھر لڑکا ڈھونڈنے کی بجائے چپ چاپ تم سے ہی کر لیتی ہوں۔ کرو گے نا مجھ سے شادی؟" گردن گھما کر اس کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تو حدثان ٹکٹکی باندھے براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے گیا۔وہ عجیب و غریب مایوسی بھری باتیں کر رہی تھی۔

"میں  ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا سرو!"

"تھینک یو مجھے سمجھنے کے لیے۔" وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ حدثان اسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بس خالی خالی نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا۔

****

اگلے ہی دن سروش نے شیئرز کے کاغذات اسے بھیجوا دیئے تھے اور ساتھ میں ایک مختصر سا نوٹ بھی۔

"شیئرز کے جتنے بھی پیسے ہوں وہ سارے مدرسہ ، مسجد کی تعمیر میں لگا دیجیے گا۔میں آج کل کچھ مصروفیات کی وجہ سے خود سے نہیں کر پاؤں گی۔"

زبیر کے ہونٹوں پہ مدھم سی مسکراہٹ بکھری تھی۔وہ پیپرز رکھ کر وہاں ہی صوفے پر لیٹ کر آنکھیں موند گیا۔اسے اپنے وجود پر ایک عجیب سی تھکان اترتی محسوس ہو رہی تھی،دل بےزار سا ہونے لگا۔

"ثمروز! مجھے تو چھوڑ گئے تھے مگر سرو کو تو نہ تنہا چھوڑتے.....اتنے بڑے شہر میں لا کر اسے تنہا کر دیا ہے تم نے۔" مہرماہ بےحد پریشان اور ناراضگی بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

اس نے پٹ سے آنکھیں کھولتے ہوئے جھٹکے سے اٹھ کر چاروں اطراف دیکھا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ 

"مہرماہ.....!" وہ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیسا خواب تھا؟کیوں وہ آئی جو اب تو اس کے خیالوں میں بھی نہ تھی؟

*****

حدثان  اس کا دھیان بھٹکانے کی خاطر لڈو اٹھا لایا تھا اور تازر نے اسے زبردستی اپنے ساتھ کھیلنے پر مجبور کر لیا۔ان دونوں نے تھوڑی سی محنت کرتے ہوئے مشترکہ پلاننگ کے تحت اس کا موڈ درست کر لیا تھا۔وہ قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے جب دروازے پر بیل ہوئی۔

"میں دیکھتا ہوں۔ آنٹی! آپ اپنی باری کھیلیں۔"  تازر اٹھ کر تیزی سے دروازے کی سمت بڑھا۔

"حدثان!...."

وہ جو اس کی گوٹز کی جگہ بدل رہا تھا سروش نے دیکھتے ہی اس کے سر پہ چپت رسید کی تو وہ ڈھٹائی سے ہنس دیا۔

"ابھی تک بھی چٹنگ کرتے ہو شرم کرو شرم۔ایک بچے کے باپ ہو مگر چیٹنگ آج بھی کرتے ہو....."

وہ خفگی سے بولی، وہ ہنستا چلا لگا.

"تم بھی ہر مرتبہ مجھے رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہو۔میری باری ہے اب۔" وہ اطمینان سے گویا ہوا۔

"اسلام و علیکم!"

مسز شاہ کے سلام کرنے پہ وہ دونوں ان کی جانب متوجہ ہوئے۔

"و علیکم السلام! آئیں آنٹی....." وہ فلور کشن سے اٹھ کر ان کی جانب بڑھی۔حدثان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔وہ کچھ دیر بیٹھیں اور اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ پہ مدعو کر کے چلی گئیں۔جاتے ہوئے وہ ایک مسکراتی نگاہ ان دونوں پر اچھال گئیں تھیں۔

"آنٹی چلو شاپنگ کرنے چلتے ہیں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے جو میں فنکشن میں پہنوں۔" تازر نے ایسی معصوم صورت بنائی کہ وہ بےاختیار مسکرا دی۔

"چلو۔" وہ چاہ کر بھی تازر کو منع نہیں کر پائی تھی کہ وہ اس کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔

پھر وہ ریڈی ہو کر کے گاڑی میں آ بیٹھی تھی جبکہ حدثان ،تازر کو ریڈی کرنے کے بعد اسے لیے گھر سے نکلا تھا۔

اسے مجھ سے محبت تھی

مگر مجھے اس سے عشق تھا۔

لوگ کہتے ہیں یہ بھی کیا مختلف تھی بھلا اُس شخص سے کیفیت  تمہاری؟

کوئی فرق نہیں ہوتا عشق اور محبت میں۔

دونوں ایک بلا کے الگ الگ دو نام ہیں۔

مگر نہیں.......!

مختلف تھا....

فرق تھا...

بہت بڑا فرق تھا...

کیونکہ محبت کے بعد تو جمع کی گنجائش بچ جاتی ہے 

 مگر عشق کے بعد تو صرف تفریق ہی بچتی ہے۔

اور کچھ بھی نہیں بچتا۔

ایک خاموش طوفان ہونٹوں پر بچ جاتا ہے۔

اور کچھ نہیں بچتا۔

ایک بےبسی اور سانس لینے کی ضرورت جسے زندگی کہتے ہیں....

وہ بچ جاتی ہے اور کچھ نہیں بچتا۔

"بہت فرق ہے محبت اور عشق میں۔"

اس نے تحریر لکھی اور قلم اسی جگہ رکھ کر ڈائری بند کر کے دراز میں رکھ کے سامنے متوجہ ہوئی جہاں گاڑی کی ہیڈلائنز کی روشنی میں حدثان اور تازر آتے دکھائی دے رہے تھے۔

پیپسی رنگ کا کرتہ پاجامہ زیب تن کیے،شانوں پہ شال ٹکائے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا تازر کے ساتھ چلتے ہوئے کسی بات پر ہنس رہا تھا۔ اتنے دنوں بعد اس نے حدثان کے ہونٹوں پر جان دار مسکراہٹ دیکھی تھی۔

"کہیں میں غلط تو نہیں کر رہی؟ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ میں حدثان اور خود کو دھوکا دے رہی ہوں۔"اس کا ضمیر جاگا تھا۔

"مگر وہ جانتا ہے۔"دماغ نے دلیل پیش کی۔

اس سے پہلے کہ ضمیر کوئی کارروائی کرتا وہ گاڑی کے قریب آ چکا تھا۔

"چلیں؟"

ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے اس نے ذرا سی گردن گھما کر مبہم سی مسکراہٹ لیے استفسار کیا۔تبھی سروش کے فون پہ میسج کی ٹوین بجی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور فون کی جانب متوجہ ہوئی۔

"کیا ہوا سروش! کوئی پریشانی ہے؟"اس نے استفسار کیا تو سروش نے نفی میں سر ہلایا اور پیچھلی سیٹ پر بیٹھے تازر کی جانب متوجہ ہوئی۔

"آنٹی اب تو بہت جلد آپ میری ماما بن جائیں گیں تو کیا میں آپ کو ماما بول سکتا ہوں؟"اس کے مصومانہ سوال پہ جہاں حدثان کے چہرے پر سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی وہاں ہی سروش کا دل بند ہو گیا۔

وہ دونوں بھی تو یہ ہی کہتے تھے۔

توحید اور ماریہ.....

"آنو پلیز آپ ہماری ماما بن جائیں نا....ہمیں الفت آنو ذرا بھی اچھی نہیں لگتیں، وہ ڈیڈ کو ہم سے چھین لیں گیں۔"کتنا معصوم تھا توحید مگر دس سال کی عمر میں اسے یہ ڈر تھا.....کہ اس کے پاپا کو کوئی چھین لے گا، وہ جانتا تھا کہ کون کیسا ہے۔اسے توحید میں اپنا عکس نظر آتا تھا۔

"ہوں سوچنا پڑے گا......ایک شرط پہ بنوں گی ماما!"

وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سوچتے ہوئے چہکتی تھی۔

"آپ دونوں دودھ پیؤ گے اور کھانا بھی ٹھیک سے  کھاؤ گے۔ دل لگا کر پڑھو گے۔"

"یہ ایک شرط نہیں ہے خیر ہم کچھ بھی کریں گے مگر پلیز آپ ہمارے پاپا کو ہمارے پاس لے آئے گا ان سے شادی کر لیں۔" ماریہ کہتی تو وہ اسے زور سے سینے سے لگا لیتی۔

"آنٹی بتائیں نا....؟"

وہ جو خیالات کی ندیاں میں بہہ چکی تھی تازر کے جھنجھوڑنے پر بری طرح بوکھلائی۔

"ہ ہوں بنوں گی۔" وہ مسکرا بھی نہیں سکی تھی۔

حدثان نے واضح محسوس کیا تھا کہ وہ اداس ہے۔

"ہم آج شاپنگ کے بعد زبیر کے گھر جا رہے ہیں۔ سروش! تمہیں ایسی شکل نہیں بنانی۔"

اس نے غیر محسوس انداز میں کہا تو وہ سر اثبات میں ہلا کر رہ گئی۔

"حدثان! ایک بات پوچھوں؟" وہ چونکتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔

تبھی گاڑی مال کے سامنے رکی۔

"جازیہ کو کیا ہوا تھا؟"

اس کے استفسار پر وہ جو رخ پھیرے دروازے کھول رہا تھا ایک پل کو ساکت ہوا پھر گاڑی سے اتر گیا، سروش اسے دیکھ رہی تھی وہ گاڑی کے سامنے سے گھوم کر اس کی جانب والے دروازے کو کھولتے ہوئے اسے دیکھنے لگا صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے نیچے اترنے کو کہہ رہا تھا۔

"پہلے بتاؤ۔"

"ایک ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں وہ اور اس کا عاشق مارے گے۔"اس نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا۔

ایک نظر  تازر پہ ڈالی جو فٹ پاتھ پر پڑے بینچ پر بیٹھا ٹیب پہ گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔

"تم تب کہاں تھے؟ کیا تمہیں ان کے ایکسڈنٹ کے بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں......"

"تم سوال بہت کرتی ہو.....نیچے اترو۔" وہ ٹالنے والے انداز میں گویا ہوا تو وہ محض ایک سنجیدہ سی نگاہ اس پر ڈال کر  ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے گاڑی سے اتر گئی جبکہ حدثان اندر جھکتے ہوئے دراز کھول کر ریوالور نکالنے کے بعد دروازہ بند کر کے اس کی جانب پلٹا۔

"یہ.....یہ کیوں؟" اشارہ ریوالور کی جانب تھا۔

"ضرورت پڑ سکتی ہے، چلو اب۔"

"مگر مال میں لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔"

"مال میں اسے میں نہیں میرا باڈی گارڈ لے کر جائے گا۔"اس نے دائیں جانب چلتے آدمی کی جانب ریوالور اچھالا جسے اس ہٹے کٹے شخص نے کیچ کر لیا۔

"حدثان!.....پلیز یہاں وہ سب مت کرنا جو لاہور زو میں ہوا....جانتے ہو نا یہ پاکستان نہیں ہے..." وہ ڈر کر رک گئی اور بات اُدھوری چھوڑتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"ڈونٹ وری سرو! کچھ بھی شروع نہیں ہو گا۔ تقریباً اب تو سب ختم ہو گیا ہے.....مگر پھر بھی فیملی ساتھ ہوں تھوڑی احتیاط تو برتنی پڑتی ہے نا۔ آفٹر آل غنڈہ ہوں۔" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے اسے سمجھانے والے انداز میں بولتا آخر پر مزاحیہ لہجہ اختیار کر گیا۔

"اب چلیں۔"شال کو تار کر گاڑی میں رکھتے ہوئے وہ آگے بڑھا تھا۔وہ جہاں سے بھی گزر رہا تھا گورے حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔

کچھ لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے ستائش تھی تو ساتھ ساتھ اس کے لباس سے بھی بےحد متاثر ہوئے تھے۔کچھ انگریز اس کے لباس پر ہنسے بھی تھے مگر اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔

 سروش کے قدم ساکت ہوئے تھے۔اس کی اداس نظریں دائیں سمت دور تک فٹ پاتھ پہ گئی تھیں اور کئی یادیں چپکے سے اس کی آنکھوں کو نم کرنے لگیں۔وہ کئی مرتبہ ثمروز کے ساتھ ان راہوں پر چل چکی تھی ابھی بھی اسے وہاں اپنا آپ ثمروز کے پہلوؤں میں دکھائی دیا تھا۔

"سروش! کہاں کھو گئی؟"وہ حدثان کی آواز پہ بری طرح سے چونک کر اچھلی تھی۔

وہ سوالیہ نظروں سے اس کے آنسوؤں کو دیکھنے لگا۔

مگر وہ ابھی بھی خواب کی سی کیفیت میں ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ وہ منظر غائب ہو گیا تھا وہاں اب حدثان تھا۔

اس نے سر جھٹک کر آنسوؤں کو رگڑا اور نفی میں سر جھٹک کر آگے بڑھی۔وہ گردن گھما کر دائیں جانب ناسمجھی سے دیکھ کر  اس کے پیچھے بڑھا۔

***

وہ اور تازر حدثان کے لیے ڈریسک دیکھ رہے تھے۔

"یہ پاپا پر اچھا لگے گا.....یا یہ؟"

"تمہیں کون سا اچھا لگ رہا ہے؟" وہ نرمی سے مسکرا کر بولی۔ 

سروش صرف اور صرف تازر کا دل رکھنے کے لیے اس کے ساتھ شاپنگ کر رہی تھی جبکہ حدثان بس ان کے پیچھے کھڑا مسکراتی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

حدثان اور تازر کے لیے ڈریس سلیکٹ کر کے اب وہ لوگ لیڈیز ویئر کی جانب بڑھ گئے تھے۔مغربی لباس دیکھ کر سروش نے خفگی سے حدثان کی جانب دیکھا۔

"میں یہ سب نہیں پہن سکتی۔ اسی مال میں ایک دو پاکستانی برینڈز بھی ہیں۔آئی تھینک سو وہ سیکنڈ فلور پر ہے وہاں میرے لیے ضرور کچھ ہو گا۔" 

"ہوں چلو۔" حدثان نے کہتے ہوئے شاپنگ بیگ دوسرے ہاتھ میں منتقل کیے تھے۔

سیکنڈ فلور پر پہنچتے ہی سروش اور تازر ایک سٹور سلیکٹ کرتے ہوئے اندر انٹر ہوئے تھے بچارا حدثان ان کے پیچھے پیچھے چلتا بیگز سنبھال رہا تھا۔

وہ دونوں سروش کے لیے لباس دیکھ رہے تھے جبکہ حدثان سینے پر ہاتھ لپیٹے ان کے پیچھے پیچھے چلتا جب وہ رکتے تو رک جاتا۔

"نہیں زبیر! مجھے یہ زرد رنگ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔"

وہ الفت کی آواز پہ بری طرح سے چونکی ضرور تھی،ہاتھ بھی ساکت ہوئے مگر پلٹ کر دیکھنے سے پہلے ہی سنبھل گئی۔اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی تھی اور وہ چہرے پہ شوخ مسکراہٹ سجائے پلٹی۔

"حدثان....! یہاں آئیں نا مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اپنے لیے کون سا ڈریس خریدوں۔" وہ جو فون پہ انگلیاں چلا رہا تھا اسے اپنی جانب پوری طرح اور اتنی محبت سے متوجہ پا کر حیران ہوا۔

اسے ہضم نہیں ہوا تھا یہ میٹھا لہجہ....یہ محبت بھری مسکراہٹ.....تبھی اس کی نظر زبیر آفندی پہ پڑی جو کچھ فاصلے پر ہی غصے کی انتہا کو چھوتے ہوئے مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔وہ سمجھتے ہوئے مسکراہٹ دانتوں تلے دبائے اس کی جانب بڑھا۔

"تم پہ یہ رنگ بہت اچھا لگتا ہے یہ لو۔" حدثان نے ایک بہت ہی نفیس شفون کی ساڑھی کا پلو اس کی جانب بڑھایا، وہ سرمئی رنگ کے ریشمی آنچل کو تھامے اس جگہ اس وقت میں جا اٹکی تھی جب ثمروز نے اس کے سر پہ سرمئی آنچل اوڑھا تھا۔

سرمئی آنچل ویسے تو......خزاں کے موسم میں جھڑے پتوں کی مانند ہوتا ہے بےرنگ،مردہ  سا۔مگر اس کے لیے یہ رنگ کیا وہ ہر رنگ ہی دل کے قریب ترین تھا جو ثمروز نے چھوا تھا....جو اس نے سروش کو پہنے ہوئے دیکھا تھا مگر یہ رنگ........وہ جب جب اس رنگ کو دیکھتی دل بےاختیار ہو کر رو دیتا کہ اس دن جب ان کی زندگی بدل گئی تھی تب بھی وہ اسی رنگ کو زیبِ تن کیے ہوئے تھی۔

"ہ ہاں ٹھیک کہا تم نے۔"وہ اس کے ہاتھ سے ہنگر پکڑ کر چینجگ روم کی جانب بڑھی۔

"سروش! تم پاگل ہو گئی ہو۔ یہاں تم چینج نہیں کرو گی۔واپس جاؤ....." اسے اپنے نزدیک ثمروز کی آواز سنائی دی وہ ہڑبڑا کر رکی جب اس نے گردن گھما کر دیکھا تو وہ اس کے پاس نہیں بلکہ الفت کے ساتھ کھڑا تھا مگر نگاہیں اس پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ 

نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ساڑھی کو مضبوطی سے تھامے لب بھینچے پلٹ آئی۔ 

"بس یہ ٹھیک ہے۔گھر جا کر ٹرائے کروں گی۔"

اس نے حدثان کو ہینگر تھمایا اور تیز قدم اٹھاتی وہاں سے نکل گئی۔

ثمروز کے ہونٹوں کو مردہ سی مسکراہٹ نے چھوا تھا مگر دوسرے ہی پل وہ لب بھینچ کر سر جھکا گیا۔

*****

  "ویسے مادفہ....سروش! جو بھی تم ہو... تمہاری تو موجیں ہیں نا۔" وہ جیولری سلیکٹ کر رہی تھی جب اپنے پیچھے الفت کی تمسخر اڑاتی آواز سن کر وہ حیرانگی سے اس کی جانب پلٹی۔

"کیا کہنا چاہتی ہو تم؟"سروش نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔

"اوہ کم آن ڈارلنگ.....اب تم اتنی بھی بھولی نہیں ہو۔"

وہ طنزیہ انداز میں ہنسی۔

"میں تو کہتی ہوں اب تم شادی کر ہی لو.....کب تک معصوم بن کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی رہو گی اور زنا جیسا اتنا بڑا ناقابلِ معافی گناہ کرتی رہو گی؟" وہ نہایت سفاکانہ انداز میں گویا ہوئی تھی، اس کی بات پر وحشت کے مارے سروش کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں۔

"میں مانتی ہوں کہ تمہارا کوئی گھر نہیں ہے مگر کسی غیر لڑکے کے ساتھ لیونگ میں رہنا......تم جیسی مسلم لڑکی کو زیب نہیں دیتا۔میں تو تمہیں یہ ہی سمجھاؤں گی کہ اب جب تمہارے انگریزوں والے شوق پورے ہو گئے ہوں تو شادی کر لو۔ اور حج پہ چلی جاؤ وہاں اللّٰہ کے گھر جا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا۔"

سروش کا رنگ یکدم سے سفید پڑا تھا اس نے گرنے سے بچنے کی خاطر اس نے ستون کا سہارا لیا۔اگر اس وقت وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتی تو الفت کی اتنی غلط بات پر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارتی مگر اس وقت وہ تو خود کو بھی مجرم سمجھنے لگی تھی۔

اس کے زرد پڑتے رنگ کو دیکھ کر الفت کے چہرے پر سناٹا سا چھا گیا تھا پھر سنبھل کر تیزی سے پلٹی اور وہاں سے ہٹ گئی۔مگر اس کے لفظ ایسے تھے کہ سروش کا سر گھوم گیا۔

"یا اللّٰہ........" بری طرح اس کا سر گھوما تھا اور وہ خود کو سنبھال نہ سکی۔آنسوؤں سے بھری دھندلاتی آنکھوں کے ساتھ اپنی جانب آتے ثمروز کو دیکھتے ہوئے گرنے کو ہی تھی کہ وہ بھاگتے ہوئے اس کی جانب بڑھا تھا۔اس نے بند ہوتی آنکھوں سے جو دیکھا تھا وہ اس کا چہرہ تھا اور جو سوچا تھا وہ یہ تھا کہ۔

"واقع ہی عورت ذات غلط نہ بھی ہو مگر زمانہ اس کو غلط ثابت کر ہی دیتا ہے۔میں نے تو باہر کے درندوں سے خود کو بچانے کی خاطر ثمروز کی چھت تلے پناہ لی تھی۔ مگر اس کی پناہ ہی میرے لیے تمانچہ بن کر میرے منہ پہ آن پڑی۔

حدثان سے تو میرا کوئی ایسا واسطہ نہیں تھا......ہاں مگر......وہ اس چھت تلے رہا تھا جہاں میں تھی.....اور پھر کیوں نہ میں غلط ثابت ہوتی؟میں نے بھروسہ مند مردوں کے پیچھے چھپ کر خود کو دنیا کے سامنے واضح کیا ہے۔ دربدر کی ٹھوکروں سے بچنے اور اپنی عزت بچانے کی خاطر میں نے ان دونوں سے تحفظ لیا تو کیا غلط کیا؟ مگر میں غلط قرار دی گئی۔کیونکہ میں عورت ہوں نا....کسی بھی مرد کے ساتھ کھڑی ہوئی تو یہ معاشرہ سب سے پہلے اس سے مجھے ناجائز تعلق سے جوڑیں گے۔"

وہ سوچتے ہوئے بےآواز آنسو بہاتی دنیا سے بےنیاز ہو چکی تھی۔

اس نے بہت لمبا سفر طے کیا تھا.......

ہر بات برداشت کی تھی

ہر برا بھلا رویہ برداشت کیا تھا....مگر اب کی بار برداشت ختم ہو چکی تھی۔

اس کا دماغ برادشت کرتے کرتے اب تھک چکا تھا۔آخر وہ  کب تک سہہ سکتی تھی؟ زندگی کے چوبیس سال.....چوبیس سال اس نے سکھ کا منہ نہیں دیکھا تھا۔گناہگار نہ ہونے کے باوجود گناہگار کا ٹیگ اسے اپنے کردار پہ محسوس ہو رہا تھا۔

اس نے کوشش کی تھی تنہا رہنے کی مگر ہر عورت کو 

محافظ کی ضرورت ہوتی ہے......ایسا محافظ جو اسے دنیا بھر کی غلیظ ترین نگاہوں والے انسانوں سے محفوظ رکھ سکے۔

اور وہ محافظ باپ اور بھائی ہوتے ہیں......

مگر اس کے پاس نہ باپ تھا نہ ہی بھائی تھا۔

تبھی اس نے ثمروز کا انتخاب کیا.....پر قسمت کی ستم ضرفی ہی تھی کہ وہ اس کے لیے کچھ خاص جذبات اپنے دل میں رکھنے لگی۔

اور حدثان.......وہ تو ہمیشہ سے اس کا بہترین دوست رہا تھا۔

پر آج اس نے جان لیا تھا کہ عورت صرف باپ، بھائی کے پیچھے چھپ کر ہی چھپ سکتی ہے۔

کسی ایسے شخص کے پیچھے چھپنے سے وہ مزید واضح ہو جاتی ہے جو اس کا محرم رشتہ نہیں ہوتا۔خواہ وہ نامحرم محافظ ہی کیوں نہ ہو مگر دنیا کی آنکھیں محض غلط ہی دیکھیں گیں۔

******

کوریڈور میں ٹہلتے ٹہلتے وہ تھک کر جیسے ہی کرسی پر بیٹھا الفت آتی ہوئی دکھائی دی۔

"کیا کہا تھا تم نے اسے؟" وہ سرعت سے مڑ کر اس کی جانب بڑھتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔

وہ جو ہنوز فون پہ مصروف تھی سر اٹھا کر حدثان کو دیکھنے لگی جو آنکھوں میں اشتعال لیے اسے ہی گھور رہا تھا۔

"ایکسکیوز می.....میں نے اسے کیا کہنا تھا؟"وہ انجان بنتی اٹھی تھی اور اس کی آنکھوں میں براہ راست جھانکتے ہوئے بولی۔

"میں نے اسے تمہارے ساتھ دیکھا تھا.....اور تم نجانے اسے کیا کہہ رہی تھی مگر اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ کچھ بہت ہی سخت اور غلط بات کہہ دی تھی تم نے۔بتاؤ مجھے کیا کہا تم نے سرو کو؟" وہ دانتوں پر دانت جمائے سخت لہجے میں گویا ہوا۔اس کی بات پہ وہ استہزائیہ ہنسی۔

"مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اسے کچھ بھی کہنے کی۔ اور بائے دی وے وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے تم نے ہی کچھ کہا یا کیا......"

"اے لڑکی زبان سنبھال کر بات کرو......سرو کے متعلق ایسا سوچنا بھی مت وگرنہ...."اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی حدثان نے دبی دبی آواز میں چلا کر کہا۔وہ ڈر کر لب بھینچ گئی مگر چہرے پہ وہ بےخوفی شو کر رہی تھی۔وہ بنا کچھ مزید بولے سرعت سے پلٹ کر تیز قدم اٹھاتا آئی سی یو کی جانب بڑھا۔ وہاں  زبیر کو بےچینی سے یہاں وہاں ٹہلتا دیکھ ایک پل کو ٹھہرا پھر  اس کی جانب بڑھا۔

"یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے چوہدری ثمروز.....!"

اس کا گریبان پکڑ کر وہ دبی دبی آواز میں چلایا۔وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا بوکھلا کر رہ گیا۔

"ک کیا کر رہے ہو حدثان! چھوڑو مجھے۔" اس نے سنبھل کر اس کے ہاتھ جھٹکے۔

"تم نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے چوہدری ثمروز....!"

"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ صاف صاف کہو۔"وہ اچھنبے سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

ایک لمحے کو اس کا دل چاہا بتا دے کہ سروش کو اس کی ضرورت ہے مگر پھر اسے سروش کی دی ہوئی قسم یاد آئی کہ جو کچھ بھی وہ جانتا ہے ثمروز تک بات نہ پہنچے۔

"کچھ نہیں تم اور تمہاری منگیتر جاؤ یہاں سے۔مجھے تم دونوں کی شکل نظر نہ آئے اب یہاں.....گم کرو اپنی یہ منحوس شکل اور کالا سایہ........میں سرو کو مزید کسی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔" وہ رخ پھیر کر بولا تو ثمروز نے حیرت بھری نگاہ اس پہ ڈالی۔

"سیایہ تو تمہارا بھی سیاہ ہے چوہدری حدثان....! شروعات تم سے ہوئی ہے.....تم اگر اس کے ساتھ اتنا کچھ غلط نہ کرتے تو وہ وہاں نہ ہوتی۔" وہ تیکھے لہجے میں گویا ہوا ۔

"تو تم نے کون سا کچھ ٹھیک کیا ہے؟ ہاں.....کیا ٹھیک کیا تم نے؟ اس کے ساتھ رہنے کی بجائے تم اس زبیر آفندی کی منگیتر کے ساتھ گھوم رہے ہو؟ خیر.....آئی ڈونٹ وانٹ ٹو سی یو اگین۔"وہ غصے سے بولا تو ثمروز خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا کہ بھی ٹھیک رہا تھا......پھر وہ بنا رکے سر جھکائے لب بھینچ کر بےدلی سے مردہ قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔

"اپنی کہانی کے ولن تم خود ہو چوہدری ثمروز....!کوئی اور نہیں ہے۔ پانچ سال کی محبت دل میں یوں قید کر کے بھلا رکھی جاتی ہے؟ہمت کرو اور اسے جا کر سب بتا دو۔ کہہ دو کہ تم اس کی محبت میں مبتلا ہو چکے ہو اس کے بنا زندگی گزرے گی.....زندگی جی نہیں سکوں گا۔کہہ دو کہ تم نے اسے چاہا ہے۔میری زندگی میں دو عورتیں آئی تھیں خواہ وہ تیسری تھی مگر.....مگر نجانے یہ دل اتنی شدت سے کیوں اس کی جانب جھک رہا ہے،کیوں اس کے ساتھ کی خواہش کر رہا ہے؟کہہ دو جا کر سب...." وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے رفتہ رفتہ سیڑھاں اتر رہا تھا اور اس کے اندر چوہدری ثمروز تڑپ تڑپ کر اسے واپس پلٹنے کو کہہ رہا تھا۔

مگر زبیر آفندی نے ایک نہ سنی اس کے قدم نہیں رکے وہ سیڑھاں اترتا گیا۔

****

پانچ سال پہلے جب وہ زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا۔

تکلیف سے تڑپ رہا تھا.....تو سروش نے ایک اجازت نامے پہ سائن کیے تھے جو مسٹر احمد آفندی نے کروائے تھے کہ اگر آپریشن کے درمیان مریض کو کچھ ہو گیا تو ہسپتال والے زمہ دار نہیں ہوں گے۔

اس کے بعد وہ جائے نماز پر جا گری تھی۔

اُدھر ثمروز کی سرجری ہو رہی تھی۔

اس نے رو رو کر دعائیں مانگی تھیں اور پھر اس کی دعائیں قبول ہو گئیں۔جس دن ثمروز کی پٹیاں کھلی تھیں وہ اتنی خوش تھی کہ سارا آفندی ہاؤس ملازموں کے ساتھ مل کر خود سجا ڈالا۔اُدھر احمد صاحب نے جب ثمروز کے سامنے آئینہ کیا تو وہ تو کوئی اور ہی تھا۔

ہیزل براؤن آنکھوں والا حسین شہزادہ....یہ لڑکا جانا پہچانا تھا مگر وہ خود نہیں تھا۔ بےاختیار ہی ثمروز نے مرر پرے پھینکا جو زمین بوس ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا....وہ سرک کر بیڈ کی پشت سے لگ گیا تھا۔احمد صاحب اور بھیا اس کی جانب خوف زدہ ہو کر دیکھنے لگے۔

"ی یہ  زبیر ہے.....م میں نہیں ہوں....."اس کا لہجہ کانپ گیا تھا۔

"ثمروز! ریلکس میں سمجھاتا ہوں تمہیں۔" احمد صاحب نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔

"وہ تمہارا بہترین دوست تھا ثمروز! اس چہرے سے بہتر تمہارے لیے اور کوئی چہرہ نہیں تھا۔تمہارے چہرے کی سرجری ممکن نہیں تھی۔

اور پلیز ایک مرتبہ پھر سے میرا بیٹا مجھ سے مت چھینو.....زبیر آفندی کی لوگوں کو ضرورت ہے لاکھوں لوگوں کے خواب  زبیر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ پاکستان کے ہسپتالوں کے ایمرجنسی میں زبیر آفندی کے ایک سائن کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ کب مفت دوائیں دستیاب کرے گا۔"انہوں نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

"آفندی گروپ آف کمپنیز نیلام ہو جائے گی اور وہ تمام لوگ بھی خود کو ختم کر لیں گے جو اس کمپنی سے جڑے ہوئے ہیں۔لاکھوں لوگوں کو تم بچا سکتے ہو......تین مہینے پہلے زبیر روڈ ایکسیڈنٹ میں مرا نہیں تھا بلکہ مار دیا گیا تھا....." ان کے انکشاف پر ثمروز نے بےحد چونک کر ان کی سمت دیکھا۔

"ہاں بیٹا.....! کسی بہت ہی جاننے والے نے یہ کام کیا تھا......کئی لوگ ہیں جن کی نظر سی ای او کی کرسی پر ہے مگر مجھے کوئی ایک بھی اس کے قابل نہیں لگتا تھا اور اب تم نے ان لوگوں کو بےنقاب کرنا ہے۔"

انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا۔

"تو آپ بھائی کو سی ای او بنا دیں۔" وہ تھوڑا سا سنبھل گیا تھا۔

"اسے ان سب کے متعلق کچھ علم نہیں ہے یہ صرف ہسپتال تک ہی محدود رکھتا ہے خود کو۔ پلیز بیٹا ٹھنڈے دماغ سے سوچو۔سب تمہارے ہاتھ میں ہے۔" وہ ان کی جانب دیکھتے ہوئے کچھ دیر سوچتا رہا پھر لب بھینچ گیا۔

"ٹھیک ہے انکل!...." کچھ سوچتے ہوئے اس نے ہنکارا بھرا۔

"ثمروز مر گیا.....آج سے زبیر آفندی زندہ ہے۔"اس نے اتنا کہا تھا کہ احمد صاحب اس کے سینے سے لگ گئے۔اس کی پیشانی چومنے لگے وہ بھی کھوئے کھوئے انداز میں مسکرا دیا۔

"میں گھر کال کرتا ہوں کہ ہمارا  زبیر لوٹ آیا ہے۔"بھیا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ چونکتے ہوئے لب بھینچ گیا۔

"انہوں نے تجھے زندگی دی ہے ثمروز! کیا ہوا کہ تمہارا نام بدلا، پہچان بدلی مگر جو تمہارے ہیں وہ تو تمہارے ہی ہیں۔

سروش،اور میرے بچے۔ تمہیں ماں باپ بھی مل گئے ہیں۔خدا کا شکر ادا کرو۔"دل ہی دل میں سوچتے ہوئے مگر تذبذب سا تھا۔

دوسری جانب آفندی ہاؤس کے ایک روشن کمرے میں شیشے کے سامنے بیٹھی سروش کے انگ انگ سے خوشیاں عیاں ہو رہی تھیں۔وہ آج لائٹ پنک کام دار ریشمی گھیرے دار فراک زیب تن کیے ہوئے تھی۔

سب خواتین کی طرح اس نے زیادہ میک اپ نہیں کیا تھا مگر لائٹ سا ضرور کیا تھا۔

اس کے ریشمی سلکی بال بھی لمبے ہو گئے تھے، جنہیں کمر پہ کھلا چھوڑے وہ خود پہ ایک تفصیلی نگاہ ڈال کر مسکرا دی۔آج اس کی گہری سیاہ نشیلی آنکھوں میں چمک تھی.....دل کی دھڑکنیں پھر سے تیز ہوئی تھیں۔

وہ ریشمی گلابی آنچل اٹھا کر سینے پہ ڈالے بھاگ کر کمرے سے نکلی تھی اور پیرؤں میں پہنی پائل کی چھن چھن کے ساتھ وہ  دو دو سیڑھاں پھلانگ کر ہال تک پہنچی۔ساری خواتین اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔

"ما شاءاللّٰہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"مسز احمد نے تعریف کی تھی۔مگر بھابھی اور الفت کی مسکراہٹ ہی سمٹ گئی۔اس کا معصوم مگر مکمل حسن واقع ہی اس قابل تھا کہ تعریف کی جاتی پر ان دونوں کو ایک عجیب سے خوف نے گھیر لیا۔

کیونکہ وہ دونوں جانتی تھیں کہ ثمروز اب کون سی زندگی جینے والا ہے جبکہ سروش ان سب معاملات  سے بےخبر تھی۔دروازے پہ گاڑی آ کر رکی تو ملازمین بھاگ کر ہال میں آئیں اور سروش نے اشارہ پھولوں کی ٹوکریوں کی جانب کیا۔

"جلدی چلو......" وہ خود بھی پھولوں کا تھال اٹھاتی ان کے ساتھ بھاگی تھی۔

مسز احمد بھی ہنستے ہوئے ان کے پیچھے بڑھیں۔

"آپی! وہ اب ثمروز نہیں بلکہ زبیر ہے۔یہ لڑکی حد سے بڑھ رہی ہے....روکیں اسے۔" الفت نے جل بھن کر کباب ہوتے ہوئے کہا۔بھابھی نے بنا کوئی جواب دیئے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کھینچ لیا۔

سروش نے دروازے کے دونوں جانب ملازمین قطار میں کھڑی کر دی تھیں۔اس نے ایک نظر دروازے پر ڈالی جس پہ بیل ہو رہی تھی۔دل دھڑکا تھا۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی بکھری تھی....

وہ زبان سے نہیں بلکہ استقبال سے اظہار کرنا چاہتی تھی۔

اس نے پلٹ کر مسز آفندی کو دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔وہ ایک ہاتھ سے ڈھلکتے آنچل کو سینے پر درست کرتی ایک پرسکون سانس فضا کے سپرد کرتی آگے بڑھی اور دروازہ کھول کر نظریں جھکائے ہی پلٹ گئی تھی کہ دل اتنے عرصے بعد دیدارِ یار کی تاب لانے کی ہمت پیدا کر رہا تھا۔دوسرے ہی پل وہ ان کی جانب پلٹی تھی۔

مگر بھیا اور مسٹر احمد کے ساتھ کسی اور کو دیکھ اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔وہ بےاختیار بھاگ کر آگے بڑھی تھی اور اس کے قریب سے گزر کے دروازے کی دہلیز پر رکتے ہوئے باہر جھانکنے لگی۔

"انکل ث ثمروز کہاں ہیں؟" اس نے پلٹ کر استفسار کیا وہ سب خاموش ہو چکے تھے۔

ثمروز نے نوٹ کیا تھا کہ اس نے ایک کے بعد دوسری نظر غیر ارادہ طور پر بھی اس پہ نہیں ڈالی۔

"بیٹا یہ ہی ثمروز ہے۔"انہوں نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

سروش نے چونک کر اس شخص کی جانب دیکھا۔

سفید وی گلے والی شرٹ پر سرمئی چیک والا کوٹ زیبِ تن کیے چیک والی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، اپنے چہرے پہ مسکراہٹ لیے اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔ہیزل براؤن آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔

"ہاہاہا......یہ تو ثمروز نہیں ہے۔اس کی پیشانی پر....."

اس کے ہاتھ سے پھولوں کا تھال گر گیا تھا وہ لرزتی شہادت کی انگلی اپنی پیشانی پر رکھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔

"بیٹا میں آپ کو سب سمجھا دوں گا۔یہ ثمروز ہی ہے۔" احمد صاحب اس کے اڑتے ہوئے رنگ کو دیکھ کر پریشان ہوئے۔

وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے خوف زدہ سی دو قدم پیچھے ہٹی پھر دوپٹہ سنبھال کر اس کے عقب سے  بھاگتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔

اوپر جاتے ہی وہ کمرے میں بند ہو کر  ٹوٹ کر روئی تھی۔چند گھنٹوں بعد سروش کے دروازے پر دستک ہوئی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے دروازہ کھولا۔

سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو کر سفید پڑ گئی تھی۔

" آپ...... آپ ج جائیں یہاں سے۔"وہ دروازہ بند کرنے والی تھی جب ثمروز نے دروازے کے درمیان میں پاؤں اٹکا لیا۔

"میں ثمروز ہوں سروش!" کتنی مدت کے بعد یہ آواز اس نے سنی تھی۔

بےاختیار ہی سکون دل میں اترا تھا وہ رخ پھیر کر آنکھیں موند گئی۔

"سروش! میری طرف دیکھو۔"وہ نرمی سے بولا۔

"نہیں ثمروز! آپ کا چہرہ دیکھ کر مجھے خوف سا محسوس ہوتا ہے۔ بس آپ بولیں میں سن رہی ہوں۔"

"ثمروز......؟" اس کے لہجے میں حیرت تھی شاید وہ اس کی محبت کو بھانپ رہا تھا۔

"م میرا مطلب ہے ثمروز بھائی!....."وہ جلدی سے بولی۔

وہ لمبی سانس بھرتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

وہ انگلیاں پٹختی بار بار پلکیں جھپک جھپک کر آنسوؤں کو روک رہی تھی۔لب کچھ کہنے کے لیے کھلتے اور پھر لرز جاتے۔وہ اسے سمجھا رہا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا کہ چوہدریوں سے بچنے کے لیے بھی یہ بہتر ہے۔اور وہ اس مرتبہ پھر سے اس کی بات مان گئی تھی۔پھر وہ جو زبیر آفندی کی طرح بننے نکلا تو اس سے دور ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ وہ الفت کے قریب ہونے لگا تھا جو کہ زبیر کی منگیتر تھی۔ اور الفت کو خوب ادائیں دکھانی آتی تھیں۔

وہ سوچتی تھی کہ الفت اپنے غیر معمولی حسن سے آخر ثمروز کو زبیر بننے پر مجبور کر ہی گئی۔مگر سروش اکثر یہ بات نہیں سمجھ پائی کہ ثمروز تو کبھی بھی ایسا نہ تھا وہ تو اداؤں کا قائل نہ تھا پھر کیوں کر وہ اس مغربی سراپے والی مشرقی لڑکی سے اتنا متاثر ہوا؟وہ جو سروش کے ساتھ باہر جاتا تو کہیں اس کا دوپٹہ سر سے سرک جاتا وہ اسے نرمی سے کہتا "دوپٹہ سر پہ درست کرو۔"

کبھی کبھی تو وہ خود ہی پکڑ کر درست کر دیتا تو سروش ہنس دیتی۔

پھر اب وہ بنا دوپٹے والی کے ساتھ اتنا اٹیچ کیسے ہو گیا؟

ہر روز وہ لونگ ڈرائیو پہ جاتے ،ہوٹلنگ، لمبے ٹور۔

وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر اکتا گئی تھی۔

پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ محض اس کی خود کی پیدا کردہ غلط سوچیں ہیں۔وہ الفت میں ہرگز دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔یہ تو الفت تھی جو اسے اپنے ساتھ گھسیٹے رکھی تھی......کچھ اس کی بھی مجبوری تھی کہ لوگوں کو شک نہ ہو جائے کہ زبیر تو اپنی منگیتر سے بہت محبت کرتا تھا اب کیا ہوا؟

اس دن وہ دیر رات تک ویٹ کرتی رہی تھی مگر ثمروز اور الفت واپس نہیں لوٹے تھے اور سروش اندر تک سلگ گئی تھی، رو رو کر آنکھیں سرخ کر لیں....آخر ایک عورت تھی.....جیلسی اس کی فطرت ہے۔فجر کے وقت وہ صوفے پر سے جیسے ہی اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھی ثمروز اور الفت ہال میں انٹر ہوئے تھے۔

وہ ذرا سی گردن گھما کر سوجی ہوئی سرخ آنکھوں سے ثمروز کو شاکی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔

"تم ٹھیک ہو؟" نجانے وہ انجان بن گیا تھا یا واقع ہی نہیں سمجھا تھا۔

"کچھ بات کرنی ہے آپ سے اکیلے میں۔" وہ رخ پھیر کر کہتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔

ثمروز کوٹ صوفے پر اچھال کر اس کے پیچھے بڑھ گیا تھا، الفت بےچینی سے ہتھیلیاں مسلنے لگی تھی۔

"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟" کمرے میں انٹر ہوتے ہی گویا ہوا۔

سروش بنا کچھ کہہ ہی بےاختیار ہو کر اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

"آپ کیوں اتنے لاپرواہ ہو گئے ہیں آپ.....میرا اور بچوں کا آپ ہی سہارا ہیں کم از کم کال کر کے بتا دیتے۔پتہ ہے کتنے برے خیالات دل کو بےسکون کر رہے تھے۔" وہ اس کی شرٹ مٹھیوں میں بھینچے کہہ رہی تھی۔

ثمروز نے اس کا سر تھپکا۔

"میں ٹھیک ہوں، بس پارٹی ہی بہت لمبی ہو گئی تھی۔" اس کو نرمی سے خود سے جدا کرتے ہوئے اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے نرمی سے مسکرایا۔

"ہم یہاں سے اپنے گھر چلے کیوں نہیں جاتے؟" وہ تیزی سے گویا ہوئی۔

الفت کے قدم دروازے پر ساکت ہوئے تھے۔

"اب واپس پلٹنا ممکن نہیں۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔

"کیوں؟ کیوں نہیں؟" وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑنے لگی تھی۔

"میں ثمروز نہیں..... زبیر آفندی ہوں اور میرا یہ ہی گھر ہے سروش!" اس کی آنکھوں میں براہِ راست جھانکتے ہوئے وہ نرمی سے ٹھہر ٹھہر کر گویا ہوا تھا۔مادفہ سروش کے ہاتھوں کی گرفت اس کے بازو پر ڈھیلی ہوئی تھی ثمروز نے اس سے نگاہیں چرا لیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اس سے دو قدم دور ہوتی اور پھر پلٹ کر واش روم میں بند ہو گئی تھی۔

وہ پوری طرح سے اندر تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی.....اپنے محبوب کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا بہت کٹھن کام ہوتا ہے۔

ان حالات سے وہ سمجھوتہ نہیں کر سکتی تھی سو اس نے ثمروز سے کہہ دیا کہ وہ پاکستان جانا چاہتی ہے۔اس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جس پر سروش کو مزید برا لگا تھا وہ تو اس سے یہ اکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی۔

وہ جہاں رہتی تھی وہ لوگ بہت اچھے تھے۔

 زبیر نے کافی مدد کی تھی ان لوگوں کی تبھی وہ اس کی مدد کے لیے تیار ہوئے تھے۔وہ مادفہ بن کر واپس لوٹی تھی۔اسے عشق ہو گیا تھا ثمروز سے...........مگر وہ کہاں تھا؟

کہیں بھی تو نہیں.....

اور جو تھا وہ زبیر آفندی تھا........جسے سروش سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

تبھی ساتف کا رشتہ آ گیا اور اس نے یہ سوچ کر ہاں کہہ دی کہ یہ ہی بہتر تھا۔اسے کوئی واسطہ نہیں تھا ساتف سے مگر جب اس نے منگنی توڑی اسی دن ہی الفت کی کال وصول ہوئی۔

وہ اس پہ الزامات لگا رہی تھی کہ زبیر کو اس نے اپنی اداؤں سے لبھا لیا ہے۔

وہ نجانے اور کیا کیا کہہ گئی مگر اس کو بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔وہ جو سوچ رہی تھی ساتف سے شادی کر کے الفت کی ساری سوچ اور باتوں پہ پانی پھیر دے گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور ساتف نے منگنی توڑی دی۔اپنی دوست کے بہکاوے میں آ کر اور ثمروز کو یہ دکھانے کے لیے کہ وہ واقع ہی ساتف سے محبت کرتی ہے وہ  اس کی شادی میں شریک ہوئی۔

حدثان نے نظریں ڈائری سے ہٹا کر کھڑکی پہ پڑتی برف کو دیکھا۔

پھر صفحہ پلٹا تو وہ خالی تھا دو تین صفحات کے بعد سروش نے نظم لکھی تھی۔

یہ خاموش محبت.......

خاموشی سے شروع اور خاموشی پر ختم....

نہ کوئی کہانی

نہ کوئی منزل....

نہ ہمسفر کے کھونے کا ڈر

 نہ اسے پانے کی تمنا

درد بھی ہزار، اور سکون بھی کچھ گہرا

دیدارِ یار کی شدید خواہش 

اور ہونٹوں پر خوفناک سناٹا

کان ترسیں اس کو سننے کو

مگر ایک عجیب سا خوف ستائے دل کو

اس کی سانسیں اتنی ضروری کہ....

جیا نہ جائے اس بن

مگر یہ کہنا بھی ہے کتنا مشکل

بس.......

اچھی ہی ہوتی ہے

یہ خاموش محبت....

ایک ایک لفظ میں سروش نے خود کو چھپایا تھا۔

حدثان نے بوجھل سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے ڈائری بند کی اور سامنے پڑی میز پہ  رکھ دی۔

اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے اس نے دور آسمان پہ نگاہ ڈالی تھی۔

"سروش کی خوشیوں کا قاتل اور کوئی نہیں صرف میں ہوں۔کاش میں اس پہ یقین کرتا وہ کئی مرتبہ ثبوت لے کر آئی تھی مگر میں نے نہ دیکھا نہ یقین کیا۔شاید آج وہ اتنی تکلیف میں نہ ہوتی۔ شاید ہماری شادی ہو جاتی اور میں اسے ہمیشہ خوش رکھتا مگر.......قسمت.....قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے اس کو کون بدل سکتا ہے۔"وہ افسردگی سے لب کچلتا پردے برابر کر کے کمرے سے نکل گیا تھا۔

اس کا رخ ثمروز کے کمرے کی جانب تھا۔اندر سے تازر کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔یقیناً وہ خاموش تھی اور ہر بار.....ہر پل......ہر وقت کی طرح اب بھی بےتاب نگاہیں ثمروز کی فوٹو پر ٹکائے لیٹی ہو گی۔

آج ایک مہینہ ہو گیا تھا اسے ہسپتال سے آئے مگر اس حادثے ے تو جیسے سروش کو بولنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا تھا۔تازر کو پھر بھی ہوں ہاں میں جواب دے دیتی مگر اس کی جانب دیکھتی بھی نہیں تھی۔

"حدثان....!"

وہ جو دروازہ تھامے کھڑا اس کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے ضبط سے لب بھینچے پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے پکارا۔وہ رکا اور اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

"تازر! بیٹا جا کر کھیلو....."اس نے اس کے ہاتھ پہ بوسا دیتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

حدثان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے سامنے رکھے صوفے پر جا بیٹھا۔

"تمہیں معلوم ہے کتنے دنوں کے بعد تم نے کوئی طویل جملہ منہ سے نکالا ہے۔" وہ اس کے بولنے پر دل سے مسکرایا تھا۔

"مجھ سے شادی کر لو حدثان! میں مزید اپنی عزت پہ داغ اور کردار پہ انگلیاں اٹھتی برداشت نہیں کر سکتی۔" وہ سنجیدہ تھی بےحد سنجیدہ.....

اس نے اس کے چہرے پہ کچھ تلاش کرنا چاہا مگر وہاں کوئی تاثر نہ تھا۔

"تم واقع ہی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟" اس کا لہجہ اتنا ہی حیران کن تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔

"ہاں.....میں نے سوچا ہے تمہارے بارے میں۔تم میں کوئی کمی نہیں ہے.....تم ایک اچھے انسان ہو۔جو بھی رشتہ جوڑتے ہو شدت اور وفا سے نبھاتے ہو....خواہ وہ نفرت ہو یا محبت۔اور تم....."وہ ایک پل کو رکی اور سر اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا پھر سر جھکا گئی۔

"اور اگر ثمروز نہ آتا میری زندگی میں اور تم آ جاتے تو آج مجھے تم سے محبت ہوتی۔مجھے ایسا لگا بھی تھا مگر وہ محبت نہیں تھی....." وہ اتنی صاف گو کبھی نہ تھی....ہمیشہ خود کے متعلق ہر بات دل میں ہی رکھتی تھی۔

"مگر ایسا نہیں ہوا۔ تم یہ سب اس لیے کر رہی ہو نا کہ ثمروز کی فیملی اس سے دور نہ ہو؟یا پھر جو الفت کے خیالات ہیں وہ درست نہ ہوں؟ کس چیز کا ڈر ہے تمہیں سروش؟ کیوں اپنے آپ کی دشمن بن گئی ہو؟ سمجھ کیوں نہیں رہی کہ تم ثمروز کے بنا جی نہیں سکتی۔" وہ خفگی سے بولا، وہ خاموش رہی۔

"تم ریسٹ کرو۔ میں ابھی کچھ کام سے باہر جا رہا ہوں واپسی پہ ملاقات ہو گی۔" وہ اٹھ کر کوٹ درست کرتا ابھی جانے ہی لگا تھا کہ وہ بولی۔

"آج تاریخ کیا ہے؟"

"اٹھارہ ستمبر.....مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"

"آج اس کی مہندی ہے.....وہ شادی کر رہا ہے نا۔"

وہ ہاتھوں کی لکیروں میں کھوئی ہوئی بولی تھی۔

"دو مہینے پہلے ہی ڈیٹ فائنل ہو گئی تھی۔"

اس نے مزید کہا اور حدثان اس سے آگے نہ اس کا وہ حال دیکھ سکا نہ اس کا درد سے چور چور پر ہموار لہجہ سن سکا تیز قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔ 

کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھی تھی اور کمرے سے باہر نکل گئی اس کا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔

******

پیلے کرتے پہ سفید دھاگے کی کڑھائی ہوئی تھی،نیچے تنگ پاجامہ اور پیروں میں سفید کھوسہ پہنے وہ خود کو شیشے میں یوں گھور رہا تھا کہ ابھی شوٹ کر لے گا خود کو۔ اسے اپنا آپ بہت ہی کم تر لگ رہا تھا۔

"تو تم آفندی گروپ آف کمپنیز کے سی ای او ہو ثمروز چوہدری! کتنی آسانی سے یہ دولت ،شہرت.....یہ مقام مل گیا نا تمہیں۔" کانوں میں گونجتے سروش کے جملے اسے مزید درد پہنچا رہے تھے۔  

زبیر اور وہ یونیورسٹی لائف سے بہترین دوست تھے..... زبیر اس کے ہر دکھ سکھ میں ساتھ ہوتا تھا......یہاں اسے سیٹل کرنے وا بھی زبیر تھا۔ 

اپوزیشن اور اندر کے کچھ منافقین کے دولت کے لالچ نے اس نیک انسان کی جان لے لی تھی جو اپنے ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی کئی نیک کاروائیاں سر انجام دیتا تھا۔  

"زبیر! یار تم تو مرنے کے بعد بھی ہر جگہ ہو۔ کتنی آسانی سے تمہاری شکل نے مجھے چوہدری ثمروز سے  زبیر آفندی بنا دیا۔میرا الفت سے کوئی بھی ایسا جذبہ نہیں جڑا ہوا باخدا مجھے بھابھی نے کہا تھا کہ میں اس کی ذہنی حالت اور کرخت مزاج کو درست کر سکتا ہوں.....جو تمہارے جانے کے بعد اس کی حالت رہی....اس کی وہ خودکش کی کوششیں جاری رہتی اگر میں اس کا ہاتھ نہ تھامتا....."اس نے لب بھینچ کر دیوار پر لگی زبیر کی قدآدم تصویر پہ نگاہ ڈالتے ہوئے زخمی دل سے سوچا تھا۔

"اسی دوران مجھے یہ اندازہ ہوا کہ مجھے سروش سے بےپناہ محبت ہے۔اب میں کیا کروں یار.....؟ آج تک تم مجھ سے مشورہ کرتے رہے مجھ سے پوچھ کر چلتے آئے مگر آج مجھے تم سے مشورے کی ضرورت ہے......اور جب کہ تم ہو بھی نہیں۔پلیز بتاؤ یار۔" وہ پر امید نگاہوں سے تصویر کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔مگر تصویریں کہاں مشورے دیتی ہیں وہ ٹھنڈی آہ بھر کر سر ہاتھوں میں گراتے ہوئے آنکھیں موند گیا۔

تبھی اسے اپنے شانے پہ کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔

وہ تیزی سے پلٹا اور پھر ساکت ہو گیا۔

وہ زبیر آفندی تھا....

گوچی کی جینز اوپر لیدر کی جیکٹ ،سفید وی گلے والی ٹی شرٹ زیب تن کیے.....گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہ چمکتی ہیزل براؤن آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"کیا بات ہے ثمروز! بہت پریشان دکھائی دے رہے ہو؟" وہ پلٹ کر شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا اور برش اٹھا کر بالوں میں چلانے لگا۔

"پوچھ تو ایسے رہے ہو کہ تم تو جیسے کچھ بھی جانتے نہ ہو۔" وہ منہ بسور کر اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔

 زبیر کے ہاتھ ایک پل کو تھم گئے...پھر مسکراتے ہوئے برش ڈریسنگ پہ رکھ کر اس کی جانب گھوم گیا۔

"یہاں دیکھو......"وہ اس کے شانے پہ بازو پھیلا کر شیشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"تمہاری اور میری شکل ایک دوسرے سے ملتی ہے........باقی تمہارا دل، گردے، پھیپھڑے....تمہارے ہیں، تمہارے احساسات تمہارے ہیں۔شکلیں بدل دینے سے انسان کا اندر نہیں بدلتا۔" وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اور ثمروز شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا.....یہاں اس کی اصل صورت واضح تھی۔

ٹھیک اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی وہ بری طرح سے چونکا اور اپنے دائیں جانب دیکھا.....جہاں اب کوئی نہیں تھا۔اس نے لب بھینچے گہری سانس بھری اور پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھا بھیا نے اندر قدم رکھا تھا۔

"زبیر...! ثمروز کا کزن آیا ہے نیچے۔"انہوں نے کہا۔

مگر آج اس جملے نے اسے دلی تکلیف پہنچائی تھی۔

"وہ میرا کزن ہے۔میں ہوں چوہدری ثمروز یار۔" وہ قدرے تیکھے لہجے میں کہہ کر وہاں سے تیز قدم اٹھاتا نکل گیا۔

ڈرائنگ روم میں پہنچتے ہی اس کی پہلی نظر حدثان پہ پڑی تھی۔

آج اس کا شدت سے دل چاہا رہا تھا کہ وہ حدثان کے گلے لگ کر خوب روئے اور کہہ کہ "میں اب تھک چکا ہوں۔تم اگر چاہو تو مجھے مار دو۔میں مزید فرار نہیں چاہتا۔اس فرار نے میرا چین سکون سب چھین لیا ہے۔

دیا تو صرف عشق.....جو انتہا کو چھو رہا ہے مگر منزل کو نہیں۔اس سے تو بہتر ہی ہے کہ تمہارے ہاتھوں مر جاؤں۔"وہ بس سوچ سکا تھا اور سینے پہ ہاتھ لپیٹے وہ ایک جانب کھڑا ہو گیا۔

نظر میز پہ پڑے چیک پہ ڈال کر سوالیہ نظروں سے احمد صاحب کو دیکھا۔

"تمہیں خریدنے آیا ہے۔ پچاس کروڑ میں۔" احمد صاحب غصے میں تھے۔اس نے حیران کن نگاہوں سے حدثان کو دیکھا جو  مسکرا رہا تھا۔

"ڈیل منظور نہیں ہے کیا؟چلو قیمت بڑھا دیتے ہیں ساٹھ کروڑ......"

اس نے جتاتی نظروں سے انہیں اور زبیر کو دیکھا اور ٹانگ پہ ٹانگ جمائے صوفے کی پشت پہ دائیں بازو پھیلائے اطمینان سے سانس بھری اور آگے بولا۔

"ستر کروڑ۔"

"اسی کروڑ۔"

"بکواس بند کرو اور نکلو یہاں سے۔ میرا بھائی ہے یہ کوئی پراپرٹی نہیں جو تم اس کی بولی لگا رہے ہو۔"بھیا کی برداشت ختم ہو گئی تھی تبھی گرج کر آگے بڑھے۔

"وہ ہی تو میں کہہ رہا ہوں یہ میرا کزن ہے چوہدری ثمروز....کوئی پراپرٹی نہیں......"اس کے لہجے میں سختی در آئی تھی، وہ جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔

"تم لوگوں نے اسے اپنا بیٹا بنایا اور ثمروز سے اس کی زندگی ہی چھین لی۔تم لوگوں نے ثمروز کو مار دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سروش کو بھی......اس لڑکی نے تم لوگوں پہ بھروسہ کیا مگر تم لوگوں نے اس کا بھروسہ توڑ دیا۔ثمروز کی بجائے زبیر آفندی اس کے سامنے لا کھڑا کیا۔چلو یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر کیا ثمروز اب زبیر کی منگیتر سے شادی بھی کرے گا؟تم لوگ بھول کیوں گئے کہ یہ چوہدری ثمروز ہے۔ زبیر نہیں....."

وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اس کی آواز اتنی تو ضرور بارعب تھی کہ وہاں ہر شے پر خاموشی چھا گئی۔

ڈرائنگ روم کے سامنے سے گزرتی مسز آفندی رکیں اور زمین کو چھوتا ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے اندر داخل ہوئیں۔ ثمروز سینے پر ہاتھ لپیٹے، خاموش کھڑا حدثان کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔ آج برسوں بعد اسے حدثان واقع ہی اپنا لگا تھا۔

"اس شخص نے تم لوگوں کی خاطر خود کو چھپا لیا......تم لوگوں نے اس کی زندگی بچائی اس وجہ سے یہ سمجھتا تھا کہ تم لوگوں کے احسانات بہت ہیں اس پہ۔ان احسانات کے تلے دب کر یہ سروش کو فراموش کر گیا جو اس کے دل میں بستی ہے.....وہ دل ثمروز کا ہے زبیر کا نہیں.....صرف صورت زبیر جیسی دی تھی آپ نے مگر نہیں.....آپ نے تو ثمروز کو ہی مار دیا تھا۔اگر دیکھا جائے تو قاتل آپ لوگ ہیں۔" وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا۔

"اور تم چوہدری ثمروز!.....تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔ہم سے بچا کر اسے یہاں لائے تھے نا.....پانچ سال اس کا اتنا خیال رکھا.....اسے اپنی عادت اور محبت میں مبتلا کر کے یوں رخ پھیرو گے مجھے ہرگز تم سے یہ امید نہیں تھی۔" وہ افسردگی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے تمسخر اڑانے والے انداز میں مسکرا کر بولا۔

ثمروز بےاختیار سر جھکا کر لب کچلنے لگا۔

"وہ بھی پاگل ہے......سمجھتی ہے وہ اگر تمہاری زندگی میں آئی تو تم اپنی فیملی سے جدا ہو جاؤ گے مگر وہ جھلی یہ نہیں جانتی کہ فیملی وہ ہے تمہاری یہ.....فیملی ایسی نہیں ہوتی۔مطلبی...."

ایک نخوت بھری نگاہ ان سب پہ ڈالتے ہوئے وہ آخری لفظ دانتوں میں دبائے ادا کرتا اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"یہ ڈائری پڑھنے کی زیادہ ضرورت تمہیں  تھی مجھے نہیں۔"کوٹ کی اندرونی جیب سے ڈائری نکال کر اس کے ہاتھ پہ رکھتے ہوئے وہ نرمی سے بولا اور اپنے پیچھے سناٹا چھوڑ گیا۔

جب وہ ہال سے نکلا تو پیلے، سفید پھولوں سے سجے جھولے پر بیٹھی الفت کی نظر اس پہ پڑی تھی حدثان نے بھی الفت کی جانب مسکراتی نگاہوں سے دیکھا تو اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

"اب یہ افلاطون یہاں کیا کرنے آیا تھا؟"اس کے دل میں وسوسے پیدا ہونے لگے تھے۔

"میرا کیا بگاڑ سکتا ہے یہ۔" وہ سر جھٹک کر اپنی کزنز کی جانب متوجہ ہوئی۔وہ دہلیز عبور کر گیا۔

ثمروز ڈائری کی ورق گردانی بڑی تیزی سے کر رہا تھا۔

اس کے چہرے کے رنگ کھلنے لگے تھے۔ہونٹوں پر جان دار مسکراہٹ سج گئی.....سروش کے تمام جذبات اس پر عیاں ہو گئے تھے۔

بھابھی سے مزید برداشت نہ ہوا تو پریشانی کی کیفیت میں انگلیاں پٹختی وہاں سے ہٹ گئی۔

"ڈیڈ! میں...میں سروش کے پاس جا رہا ہوں۔"وہ بس اتنا کہہ کر بھاگتے ہوئے وہاں سے نکلا تھا۔

"روکیں اسے.....بیگم....! وہ پاگل ہو گیا ہے۔ دماغ ہل گیا ہے اس کا۔ گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے اور وہ سب چھوڑ کر جا رہا ہے۔" احمد صاحب ہوش میں آتے ہی بولے۔

"اب ہی تو اس کا دماغ درست ہوا ہے۔اس نے بہت بہتر فیصلہ کیا ہے۔آپ مجھے بتائیں  ہم اتنے لوگوں کو دکھ دے کر کیسے خوش رہیں گے؟اور آپ کی بھتیجی تو کبھی بھی نہ رہ پائے گی......کیونکہ وہ ثمروز ہے جو صرف سروش سے محبت کرتا ہے۔آپ کا بیٹا زبیر آفندی نہیں۔"انہوں نے نرم آواز مگر کٹھور پن سے کہا تو وہ صوفے پر ڈھے سے گئے۔

"رہی الفت کی بات تو جو اس کے لیے بہتر ہو گا اسے مل جائے گا.....مگر اب تو زبیر بھی سروش کا ہے اور چوہدری ثمروز بھی۔اور یہ قسمت کا بہترین فیصلہ ہے۔"انہوں نے سنجیدگی سے کہا اور باہر نکل گئیں۔پیچھے احمد صاحب سوچ کی دنیا میں گم ہو گئے۔

انہیں اپنے محروم بھائی کی بیٹیاں عزیز تھیں مگر اب وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

اب انہیں پچھتاوا ہو رہا تھا انہوں نے اپنے بیٹے کو پا کر پھر سے کھو دیا۔انہوں نے ایک لڑکی کا سہارا چھین لیا تھا۔وہ سب جان کر بھی انجان بنے رہے تھے۔

مسز احمد کے بار بار باور کروانے پر بھی ان کا دل نہیں مانا تھا۔مگر آج قسمت سب خود ہی منوا گئی تھی۔اور اب انہیں اپنی غلطی ماننی تھی.....

*******

وہ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا اپنے بنگلے تک پہنچا تھا۔

دروازہ چونکہ بند تھا اس نے کرتہ کی جیب ٹٹول کر گھر کی چابی نکالی اور لاک کھولا۔دبے قدموں سے وہ سیڑھاں چڑھا تھا۔

تازر جو کمرے سے نکل رہا تھا وہ بری طرح چونکا۔

"شششش.....آپ کی آنٹی کہاں ہیں؟"اس نے جھک کر سرگوشی میں استفسار کیا تو تازر نے بنا کچھ بولے اشارہ اس کے کمرے کی جانب کیا۔وہ اس کے سر کا بوسا لے کر مسکراتے ہوئے پلٹا پھر رکا اور تازر کی جانب متوجہ ہوا۔

"میں ہی تمہارا انکل ثمروز ہوں۔" خوشی سےاس کو بتاتے ہوئے وہ تیز قدم اٹھاتا بنا آواز کیے سیڑھاں اترا اور اس کمرے کے کھلے دروازے کے وسط میں جا کھڑا ہوا۔وہ جو نک سک سے تیار ہوئی اس کی مہندی میں جا رہی تھی مگر ہمت نہیں ہوئی تو اس کے کمرے میں آ کر بند ہو گئی تھی۔

"ثمروز!.....آپ سے میں کتنی باتیں کرتی ہوں ساری رات آپ کو دیکھتی رہتی ہوں۔ آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے؟" وہ جو دروازہ دھکیل کر آگے بڑھنے لگا تھا اس کی دیوانگی دیکھ کر وہاں ہی ساکت ہو گیا۔گلابی اور گولڈن شرارے میں ملبوس تھی وہ،لمبے بالوں کو پشت پہ گرا رکھا تھا، نشیلی آنکھوں سے ایک ایک کر کے آنسو  موتیوں کی طرح رخساروں پر گرتے ہوئے کرتے میں جذب ہو رہے تھے۔اس کا سوگوار حسن ثمروز کے دل کی دنیا اتھل پتھل کر گیا۔

"آج آپ کو کسی اور کے نام کی مہندی لگ جائے گی کل اس کے ہو جائیں گے....." وہ ہچکیاں بھرتے ہوئے فوٹو پہ پیشانی ٹکائے ایک لمحے کو خاموش ہوئی۔آنکھیں موندے ڈھیر سارے درد کو اپنے اندر ہی اتارا.... آنسو کاجل بہائے جا رہے تھے۔

"کتنا تکلیف دہ احساس ہے نا کہ تم میرے نہیں ہو مگر میرے دل میں تمہارا جو مقام پہلے تھا اب بھی وہی رہے گا، اسی سنگھاسن پر براجمان رہیں گے آپ۔آپ کو معلوم ہے میں نے آپ سے عشق کیا ہے.....کبھی دل چاہتا ہے مر جاؤں مگر میں ایسا نہیں.....نہیں کروں گی آپ کو دیکھنے کی خاطر آنکھیں کھلی رکھوں گی جب تک کہ.....موت خود نہ آ جائے خود کو ختم نہیں ہونے دوں گی ہر روز زندہ رہنے کی کوشش کروں گی۔مجھے نہیں معلوم کہ کب تک جی سکوں گی آپ کے بنا.....مگر میں زندگی کے ساتھ وفا کروں گی۔تاکہ آپ مجھے نظر آئیں۔" اس کی ہچکیوں سے کمرہ گونج اٹھا تھا۔وہ جو دروازے کو تھامے کھڑا وہاں ہی ساکت ہو گیا تھا اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ سروش اسے اس قدر چاہتی تھی۔

"سروش....!"وہ تیزی سے آگے بڑھا تھا اور بےاختیار ہو کر اسے شانوں سے تھام کر سینے سے لگا لیا۔وہ ایک پل کو تو سہم گئی پھر حیران ہوئی اور تیسرے لمحے اسے پیچھے دھکیل کر دو قدم کے فاصلے پر ہوئی۔

"ایم سوری سروش!.....ایم سو سوری.....میں نے تمہیں بہت تکلیفیں دیں نا.....مگر میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا پلیز مجھے معاف کر دو۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ثمروز اس کے ہاتھ تھام کر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔

"پلیز سروش! مجھے اور میرے بچوں کو قبول کر لو....تمہارے بغیر میں جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔" وہ تیزی سے کہتے ہوئے حیران کر گیا اور وہ آنکھیں پھیلائے اسے بغور دیکھنے لگی۔

"اور.....الفت؟" ہوش میں آتے ہوئے اس نے استفسار کیا ۔

"مجھے نہیں معلوم.....وہ زبیر آفندی کی محبت تھی میری محبت تم ہو۔"وہ اٹھتے ہوئے بولا۔

"نہیں زبیر! وہ...."

"چوہدری ثمروز.....میں چوہدری ثمروز ہوں۔ تمہارا ثمروز، پلیز مجھے بننے دو ثمروز اور اظہار کرنے دو کہ مجھے تم سے محبت ہے بےپناہ، بےانتہا......"وہ دیوانہ ہو رہا تھا اور سروش کا دل تیز دھڑکنوں کی زد میں آ کر دھڑکنے لگا، جینے کی وجہ لوٹ آئی تھی۔ اس کا حسین چہرہ شرم و حیا سے گلابی ہو کر مزید حسین ہو چکا تھا۔

"کچھ کہو سروش! یوں خاموش مت رہو۔"وہ گھمبیر مدھم لہجے میں گویا ہوا۔وہ بنا کچھ بھی کہہ اس کے ہاتھوں میں منہ چھپا کر رو دی تھی اور یہ آنسو نہیں وہ تنہائی کی تھکاوٹ تھی جو مادفہ سروش کو اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی۔وہ مبہم سا مسکرا کر سر جھکا گیا کہ وہ اس کا جواب جان چکا تھا۔

بت سارے پل یوں ہی گزر گئے۔ثمروز نے اس کے آنسو بہہ جانے دیئے جب وہ رو رو کر دل کا غبار نکال چکی تو اس نے سر اٹھا کر ثمروز کو دیکھا۔وہ پوری طرح اس کی جانب ہی متوجہ تھا۔

"مجھے معلوم ہے سرو! کہ میری زندگی میں تم تیسری لڑکی ہو...."

"نہیں چوتھی۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے خفگی سے بولی تو وہ مبہم سا مسکرا کر نیچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبائے سر اثبات میں ہلانے لگا۔

"میں نے ماہ سے محبت کی تھی۔تب جب مجھے محبت کے م کا بھی مطلب معلوم نہ تھا بچپن کی محبت.......مگر وہ میری قسمت میں نہیں لکھی گئی تھی۔میں نے بہت عرصہ سوگ منایا تھا اپنی محبت کے جدا ہونے کا......میرا دل بھی ہر شے سے اچٹ ہو گیا تھا۔" وہ اس کے ہاتھ تھامے نگاہیں ہنوز اس کے ہاتھوں پر جمائے بول رہا تھا۔

"پھر میں پاکستان گیا میری شادی شبانہ سے کر دی گئی۔پر میں اس کے لیے اپنے دل میں وہ جگہ نہیں بنا پایا......اس کی بڑی وجہ تو یہ تھی کہ وہ بھی یہ رشتہ جوڑنا نہیں چاہتی تھی حالانکہ اس نے مجھ سے شادی کرنے کے لیے مہرماہ کو بہت تکلیفیں پہنچائی مگر شاید مجھ سے شادی کرنے کے بعد پچھتاوا ہوتا تھا اور تبھی اس نے اس رشتے کو نبھانے کی کوشش تک نہیں کی اگر نبھاتی تو میں اپنے بچوں کی ماں کو کبھی بھی نہ چھوڑتا۔"وہ سر اٹھا کر اس کی جانب نرمی سے دیکھتے ہوئے بولا۔

"میں نے اسے ہر حقوق دیئے جو ایک بیوی کے شوہر کی جانب ہوتے ہیں۔میں گناہ نہیں کمانا چاہتا تھا سرو! حالانکہ میں تایا حکم اور تائی کی ساری چالوں سے واقف ہو گیا تھا کہ انہوں نے کس طرح ماہ کو مرنے پر مجبور کیا تھا مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ واقع ہی اس دنیا سے چلی گئی ہے۔میں ان کے کیے کی سزا شبانہ کو دینے کے متعلق ہرگز نہیں سوچ سکتا تھا....پھر معلوم ہوا کہ اس سب میں وہ بھی شامل تھی میں پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر صبر کر گیا کہ توحید اور ماریہ ماں کے بغیر کیسے رہتے؟" وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سر جھکا گیا تھا۔سروش انہماک سی اسے دیکھتی رہی۔

"اور پھر وہ ایک بےتکا سا بہانا بنا کر چلی گئی۔وہ جیسی بھی تھی مگر تھی تو میرے بچوں کی ماں.....میں اسے منانے بھی گیا تھا......پھر مجھے وہاں تم ملی۔"اس نے سر اٹھا کر پھر سے اس کی جانب دیکھا۔ثمروز کی آنکھوں میں محبت کی تپش تھی وہ جھجک کر نگاہیں جھکا گئی۔

"اس دن ہوٹل میں تم حدثان کا پیچھا کرتی آئی تھی مجھے لگا تھا کہ تم اس سے محبت کرتی ہو۔اور تم نے ملتان میں پھر خود اعتراف کیا......."سروش نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے نفی میں سر ہلایا۔

"مجھے پتہ ہے تم سے کب محبت ہوئی تھی؟"وہ بات بدلتے ہوئے شریر مسکراہٹ لیے گویا ہوا۔

"کب؟" وہ بےتابی سے گویا ہوئی۔

"جب تم  زبیر کو جھٹلاتی تھی، اور دیر رات تک لان میں ٹہلتی ہوئی مجھے ہی یاد کرتی تھی حالانکہ میں تمہارے سامنے ہی تھا مگر تم مجھ سے بات تک نہیں کرنے کو تیار تھی،مجھے دیکھنے پر ہی آمادہ نہ تھی۔" وہ اس کے ہاتھوں کو آزاد کرتے ہوئے بولا۔

"ثمروز!" وہ تڑپ کر اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے خفگی سے اسے دیکھنے لگی تو ثمروز کے ہونٹوں پر بہت خوبصورت مسکراہٹ بکھری۔ 

"ویسے اگر تم اجازت دو تو دو شادیاں مزید بھی کر لوں؟" وہ شرارت بھرپور لہجے میں گویا ہوا تو وہ خفا ہونے لگی۔

"سوچنا بھی مت......اب مزید ایک بھی عورت برداشت نہیں کروں گی میں۔" وہ آنکھیں دکھاتے ہوئے سر کو نفی میں جنبش دیتے سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

"کبھی نہیں سوچوں گا....."ثمروز اس کی رخسار تھپک کر نرمی سے مسکرایا۔

"تمہارا کیا بھروسہ۔" اس نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا تھا ۔

"ایک رشتے میں بھروسہ بہت ضروری ہوتا ہے سرو!.....جو مجھ پہ نہ ماہ نے کیا، بنا میرا انتظار کئے جان دے دی اور نہ ہی شبانہ نے....." وہ ایک پل میں سنجیدہ ہو گیا تھا۔

"ایسا کرتے ہیں...." وہ آنکھوں کو رگڑ کر بالوں کو سمیٹ کے کان کے پیچھے اڑھستے ہوئے اس کی جانب دیکھتے ہوئے نم آنکھوں سے مسکرائی۔

"گزرے کل کو بھول کر آج اور آنے والے کل کے متعلق سوچتے ہیں...بلکہ آنے والے کل کے متعلق بھی نہیں بس حال میں ہی جیتے ہیں۔چلیں آج ہم ایک دوسرے سے ایک وعدہ کرتے ہیں...."اس نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلایا۔ثمروز نے ایک نظر اس کے ہاتھ پہ ڈالی پھر اس کے چہرے پر اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔

"ہم ساری زندگی......ایک دوسرے پر بھروسہ کریں گے.....اپنی زندگی کے ہر اچھے برے.....ہر پل کو ایک ساتھ گزاریں گے،زندگی کتنی لمبی ہوتی ہے ہم نہیں جانتے مگر جتنی بھی ہے اس میں ایک دوسرے سے وفا نبھائیں گے۔" وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھے جا رہا تھا۔

"میں وعدہ کرتا ہوں سروش....!"اس نے سروش کے ہاتھ پہ دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا۔

"میں وعدہ کرتا ہوں کہ آخری سانس تک میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔"

"الفت کے متعلق بھی نہیں سوچیں گے؟" وہ ہاتھ کھینچتے ہوئے نروٹھے پن سے بولی تو کمرے میں ثمروز کا زندگی سے بھرپور قہقہہ گونجا تھا۔

"میں اس کے متعلق نہ پہلے سوچتا تھا نہ اب سوچوں گا۔" وہ اس کی ناک کو شہادت کی انگلی سے دبا کر نرمی سے گویا ہوا۔وہ اس میں کھو سی گئی تھی۔

"اچھا بتاؤ، تمہیں اس ثمروز سے محبت ہے یا اس؟"پہلے اس نے اپنی جانب اشارہ کیا اور پھر دیوار پر لٹکی فوٹو کی جانب۔سروش نے ایک نظر اس کی فوٹو پہ ڈالی اور دوسری اس پر۔

"چہروں سے محبت نہیں ہوتی۔اب اگر تمہارا چہرہ کسی اور کو مل جائے تو کیا میں اس سے محبت کر لوں گی.....نہیں ہرگز نہیں۔ تو سیدھی سی بات ہے مجھے آپ سے محبت ہے.....ہاں مگر۔"اس نے تصویر کی جانب رخ پھیرا۔

"میں جب آنکھیں بند کرتی ہوں تو آپ اس روپ میں میرے سامنے آتے ہیں، کیونکہ میں نے آپ سے محبت اس روپ میں کی تھی۔ پر خیر ہے....." وہ سنجیدگی سے کہتی کہتی آخر میں شوخی سے بولی۔

"دل تو پھر ثمروز کا ہے وہ تو پہلے ہی اچھا ہے....اور ہینڈسم تم بھی کافی ہو۔" آخر پر شریر لہجے میں کہہ کر وہ ہنسی تو ثمروز کا قہقہہ بھی بلند تھا۔

"سچ سروش! تمہارے بغیر میں زندگی گزار کر رہا تھا جینے کی وجہ تو اب ملی ہے۔" وہ محبت بھرے لہجے میں دھیمے سے گویا ہوا۔ لمحے وہاں ہی تھم گئے اور وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو سے گئے، دروازے پہ دستک ہوئی تو وہ دونوں سٹپٹا کر اس جانب دیکھنے لگے۔

"مجھے لگتا ہے تم دونوں کا نکاح ابھی پڑھوا دینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک بار پھر سے اپنی باتوں سے پِھر جائے۔" حدثان ان کے سٹپٹانے پہ محضوظ ہوتا آگے بڑھا۔

"بات تو درست ہے۔ بھئی سروش کے پھرنے میں وقت نہیں لگتا۔مگر پرابلم یہ ہے اس ٹائم مولوی کہاں سے لائیں؟" وہ حدثان کے شانوں پہ بازو پھیلاتے ہوئے سروش کو چھیڑنے والے انداز میں بولا جس پر وہ محض اسے گھور کر رہ گئی۔

"تم فکر نہ کرو میں لے کے آیا ہوں۔" حدثان نے چہک کر کہا۔

"چلو دولہا بھائی....میں انہیں لے آتا ہوں۔ آپ باہر چل کر انتظار کریں....یہ دلہن اب تھوڑا سا ٹائم لگائے گی آنے میں۔"حدثان کے کہنے پر ثمروز نے اثبات میں سر ہلایا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر دروازے کی جانب بڑھا مگر پھر پلٹا اور اسے کھینچ کر گلے لگا لیا۔

"تھینک یو سو مچ حدثان!"

"ایسے نہیں کرو یار....تم دونوں کو اتنی تکلیفیں دی ہیں ان کے  بدلے یہ کچھ بھی نہیں ۔"

اس نے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا تھا تو حدثان مسکرا دیا۔وہ پُراعتماد اور مسرت بھرے قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔

*****

وہ جو سر جھکائے ہوئے تھی اس کو اپنی جانب متوجہ پا کر نظریں اٹھائے مبہم سی مسکرا دی۔

"تو.....کیا اب تم خوش ہو؟"وہ  آگے بڑھا تھا اور ٹھیک اس کے سامنے دو قدم کے فاصلے پر جا رکا۔ 

"ہوں.....بہت خوش ہوں۔" وہ سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھنے لگی  تھی۔ حدثان نے ایک نظر اس کے ہاتھوں پہ ڈالی اور پھر اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پلٹ گیا۔ 

"میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کر سکتا.....مگر وہ جو تمہارے ساتھ غلط کیا تھا اس کے لیے مجھے معاف......" وہ ہاتھ جوڑ کر گویا ہوا۔

"حدثان! سب بھول جاؤ.....اگر گزرے کل کو آج میں شامل رکھا تو ہم میں سے کوئی بھی خوش نہیں رہے گا۔اور تم نے مجھے اتنی تکلیفیں نہیں دی جتنی خوشی دے دی ہے۔تم نے میری زندگی لٹا دی ہے اس کے بدلے میں تمہیں قتل بھی معاف کر دیتی۔" وہ اس کی بات درمیاں میں کاٹتے ہوئے نرمی سے بولی۔

"مجھے معلوم ہے کہ تم نے غلط کیا تھا....پر اپنی بیوی سے وفا نبھا رہے تھے تم، گناہ تو جازیہ نے کیا.....اس نے تمہاری محبت کو کیا تمہیں بھی نہیں سمجھا.....خیر چھوڑو سب اور اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو۔"وہ اپنایت سے بولی۔

حدثان نے گہری سانس بھرتے ہوئے رخ اس کی جانب پھیرا۔

"ٹھیک ہے محترمہ اب تم چلو.....جلدی سے اپنے بکھرے سراپے کو درست کرو ثمروز تمہارا انتظار کر رہا ہے۔"

وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ جان دار مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اثبات میں سر ہلا کر آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

"حادی!....مہندی.....؟" اس نے اپنے خالی ہاتھوں کو پلٹ کر اس کے سامنے پھیلایا۔

"وہ تو تمہیں ثمروز کے نام کی ہی لگے گی۔" وہ جو سینے پر ہاتھ لپیٹے اس کے ریڈی ہونے کا منتظر تھا کچھ یاد آنے پر کرتے کی جیبوں کو ٹٹولنے لگا۔ دائیں جیب میں سے کون مہندی نکال کر اس کی جانب بڑھائی۔

"ہاہاہا واہ.....مگر ایک پرابلم ہے مجھے لگانی نہیں آتی۔" وہ منہ بسورے بولی۔

"کچھ آتا بھی ہے میٹرک فیل لڑکی۔" 

"اے.....تم خود ہو گے میٹرک فیل میں پروفیسر ہوں،سمجھے۔چلو لگاؤ مہندی مجھے۔" اس نے سختی سے حکم جاری کیا۔

"او ہیلو.....ہوش میں تو ہو نا؟" اس کی بات پر حدثان کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔

"بلکل۔ تمہیں کیا میری آنکھیں بند نظر آ رہی ہیں؟ کھلی ہیں نا تو ظاہری سی بات ہے ہوش میں ہی ہوں۔ویسے بھی اتنا بےہوش ہو چکی ہوں کہ مزید گنجائش نہیں۔" 

"مجھے نہیں آتی مہندی وندی لگانی۔" وہ منہ کے زاویے بگاڑے بولا۔

"تو جاؤ جا کر کسی مہندی لگانے والی کو لے کر آؤ، مجھے اپنے نکاح میں خالی بےرنگ ہاتھوں سے شریک نہیں ہونا۔" وہ بھنویں آچکا کر کہتی اب جیولری باکس میں سے مانگ ٹیکا نکال کر پیشانی پر سجا کر دیکھ  رہی تھی۔

"کتنی ضدی ہو تم سرو! اس وقت میں کہاں سے لاؤں تمہارے لیے مہندی والی؟ پاکستان ہوتا تو بھی آسانی سے مل جانی تھی۔" وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں  بولا۔

"تو جا کر پاکستان سے لے آؤ۔"

"اب زیادہ ہو گیا ہے۔"

"اچھا سچ میں؟ چلو خود لگا دو۔"

"ایمرجنسی مہندی ہے دو منٹ میں رنگ بھی نکل آئے گا۔" وہ مہندی دیکھتے ہوئے بولی اور صوفے پر جا بیٹھی۔

"آنٹی! انکل بہت بےصبری سے ویٹ کر رہے ہیں۔" تازر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے افسردہ سے لہجے میں بولا۔

"آنٹی نہیں بڑی ماں کہو مجھے۔ اور اتنے اداس کیوں ہو؟"

"آپ میرے پاپا سے شادی نہیں کر رہیں تو ماں کیسے بن جائیں گیں۔" وہ رو کر اس کے گرد بازو حائل کر گیا۔

اس نے ایک پریشان سی نظر حدثان پر ڈالی جو خود بھی تازر کے رونے پر پریشان سا دکھائی دے رہا تھا۔

"بیٹا! جو ثمروز ہیں نا وہ تمہارے پاپا کے بڑے بھائی ہیں یعنی تمہارے بڑے پاپا اور میری شادی ان سے ہو رہی یعنی میں تمہاری بڑی ماما ہوں گی نا اس طرح سے۔"

"کیا آپ میرے پاس رہیں گیں؟" اس نے روتے ہوئے استفسار کیا۔

"ہاں تو اور کیا.....ہم سب گاؤں جا کر اپنی حویلی میں رہیں گے۔ اور ویسے بھی تمہارے پاپا کی شادی کی عمر ابھی نہیں ہوئی....جب عمر ہو جائے گی تو آپ کو آپ کی چھوٹی ماما بھی لا دیں گے اوکے؟" وہ مسکراتے ہوئے بولی تو حدثان مبہم سی مسکراہٹ لیے تازر کے بال بگاڑنے لگا۔

"بڑی ماما! اپنے جیسی اچھی والی چھوٹی ماں لائیں گی نا؟" وہ بہل گیا تھا اس بات پر کہ سروش اس کے پاس رہے گی۔

"چلو اب اپنے بڑے پاپا کو بتا کر آؤ کہ مجھے ٹین منٹ کا وقت اور چاہیے۔" اس کے کہنے پر وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

"چلو دیور جی مہندی لگاؤ۔" اس نے حدثان کی جانب دیکھتے ہوئے بھنویں آچکا کر حکم جاری کیا تو وہ منہ لٹکا کر رہ گیا۔

"ٹھیک ہے بابا، بیٹھو اب.....مگر ہاں مجھ سے ڈیزائن نہیں بنتے وہ گول گول جو ہتھیلی میں لگاتے وہ لگاؤں گا۔"

"ہاہاہاہا.....گول گول۔ ٹھیک ہے مہندی والی آپاں۔"سروش قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔

"بڑے پاپا....! بڑی ماما کو ٹین منٹ لگیں گے۔"

وہ بتا کر واپس بھاگ آیا۔

"پچن کے وہ دن بہت اچھے تھے سرو! کتنا مزہ آتا تھا نا.....ہم تینوں کتنا انجوائے کرتے تھے۔" وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھا کشن گود میں رکھ کر اس پہ اس کا ہاتھ رکھے اپنی کارکردگی دکھا رہا تھا۔

"تم اور ثمروز جب گاؤں میں نہیں رہے تھے تو میں ہر وقت تم دونوں کو یاد کرتا تھا۔تم دونوں کے علاؤہ میں نے کبھی کسی کو بیسٹ فرینڈ نہیں بنایا۔" 

وہ اس کی بات پر مسکرائی۔

"میں نے اور ثمروز نے بھی کبھی کسی کو دوستی کا وہ مقام نہیں دیا۔اچھا سنو!....ایم سوری میں نے تمہیں شادی کے لیے پرپوزل کیا اور...."

"مجھے معلوم ہے محترمہ کہ تم نے اس سب کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی ایسا کر کے۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

"مگر تم نے تو واقع ہی سب ٹھیک کر دیا، تھینک یو سو مچ حدثان!" وہ ممنونیت سے گویا ہوئی۔

"دوستوں کو تھینک یو سوری نہیں کہتے۔اچھا میں کیا کہہ رہا تھا کہ واپس جا کر ایک مرتبہ پھر سے اپنے بچپن کی یاد میں کچھ دن اس طرح جیئیں گے کیا خیال ہے؟" وہ چہکا۔

"او ہیلو.....اب ثمروز میرا شوہر ہے اب میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکوں گی۔ بلکہ تم ہی پٹ جاؤ گے میرے ہاتھوں۔" 

اس کی بات پر وہ ہنس دیا تھا۔

"پاپا! یہاں پر ٹھیک سے لگائیں۔" تازر نے ہنستے ہوئے اس کی توجہ مہندی کی جانب کی۔

"اتنی دیر لگا دی۔" ثمروز انتظار کر کر کے تھک گیا تو بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کر خود ہی کمرے کی جانب بڑھ آیا۔

"تازر بیٹا! ویسے تو اس مہندی والی نے کسی کام کی مہندی نہیں لگائی مگر نیگ تو بنتا ہے نا جاؤ اپنے بڑے پاپا سے کہو کہ پیسے دیں۔"

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے شوخی سے گویا ہوئی۔

"جی بڑی ماما!....لیں بڑے پاپا خود ہی آ گئے۔ بڑے پاپا پیسے دیں، مہندی والی.....کو نیگ دینا ہے۔"

وہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔

"دیکھا ثمروز! یہ دونوں شیطان مل کر مجھے تنگ کر رہے ہیں ، معصوم ہونا بھی گناہ ہو گیا ہے آج کل۔" وہ معصومیت کی اداکاری کرتے ہوئے بولا تو ثمروز ہنس دیا۔

"کیا بات ہے مہندی والی نے مہندی تو بہت اچھی لگائی ہے۔" وہ بھی اسے چھیڑنے لگا۔

"آپ کا نام بھی لکھا ہے۔" تازر نے اس کی توجہ سرو کی ہتھیلی کی جانب متوجہ کی۔

"اب تو نیگ بنتا ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے جیب میں سے پیسے نکالنے لگا۔

پھر اس نے کافی سارے نوٹ حدثان اور پھر سرو کے سر سے وار کر میز پر رکھے۔ 

"یہ کل ضرورت مندوں میں بانٹ دینا۔" 

سروش مسکرا دی۔

"میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔" وہ اٹھ کر اٹیچ باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

ہاتھ دھو کر واپس لوٹی تو ثمروز لوگ باہر جا چکے تھے وہ دروازے مقفل کرتے ہوئے ریڈی ہونے لگی کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو وہ رخساروں کو بلش آن کا ٹچ دیتے ہوئے دروازے کی سمت بڑھ گئی۔

"میں ٹھیک لگ رہی ہوں نا حدثان؟ آخر کو میں نے اپنی شادی کی تصویریں اپنے بچوں کو بھی دکھانی ہیں۔" 

"ہاں میری ماں.... چلو اب۔" وہ ہاتھ جوڑ کر بولا تو وہ سر ہلاتی مسکرا کر اس کے ساتھ چل دی۔

*****

"مولوی صاحب! شروع کریں۔" اسے شانوں سے تھام کر ثمروز کے ساتھ بیٹھاتے ہوئے وہ نرمی سے بولا اور پلٹا۔

"حدثان!" سروش کے پکارنے پر وہ رکا۔

"یہ کون سا فرض نبھا رہے ہو؟" اس نے استفسار کیا۔

"ایک باپ ،بھائی.....اور بہترین دوست کا فرض نبھا رہا ہوں۔" اس نے نرمی سے مسکرا کر جواب دیا تو وہ بھی نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔ اتنے میں آفندی فیملی گھر میں داخل ہوئی تو ان تینوں نے حیران کن نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا تھا۔

مسز آفندی کے ہاتھ میں بڑا سا تھال تھا وہ مسکراتے ہوئے سب سے آگے تھیں باقی سب بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔حامد اور ماریہ بھاگ کر ان دونوں کے پاس آئے۔

"تھینک یو آنو.....میرا مطلب مما!" حامد اور ماریہ نے اس کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی۔

حامد اور ماریہ اب ثمروز کے گلے لگے ہوئے تھے۔

"ہمارے بیٹے.....ثمروز زبیر کا نکاح ہے اور ہمارا انتظار نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کوئی انصاف ہے۔"

مسز آفندی، سروش کے سر پہ اپنی خاندانی چادر اوڑھتے ہوئے بولیں۔

"ہمیں معاف کر دیجیے گا ثمروز! ہم اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھتے ہی بھول گئے تھے کہ تمہارا بھی کوئی اپنا وجود ہے۔" احمد نے افسردگی سے سر جھکایا۔

"نہیں ڈیڈ! ایسا مت کہیں....آپ سے ہی تو مجھے باپ کا پیار ملا ہے۔ جن ماں باپ کو بچپن میں ہی کھو دیا تھا وہ مجھے مل گئے ہیں۔ پلیز آپ اپنے زبیر کے لیے سروش کو چن لیں۔کیونکہ میں سروش کے بغیر جی نہیں سکتا۔"وہ اٹھ کر ان کے گلے لگتے ہوئے بولا۔

اسی پل اس کی نظر الفت پہ پڑی تھی جو منہ پھلائے کھڑی تھی۔وہ اس کی جانب بڑھا۔

"ایم سوری الفت...! مگر تم ہی سوچو نا کہ میں تمہیں کبھی خوش نہ رکھ پاتا تو کیا فایدہ ہوتا ایسی زندگی کا۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولا۔

"دیکھو مسٹر زبیر.....میرا مطلب ثمروز! پلیز میرے سامنے کبھی مت آنا کیونکہ میں اپنے زبیر کو کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی سو کوشش کرنا کہ ہمارا سامنا کبھی نہ ہو۔" وہ نخوت سے بول رہی تھی پھر خاموش ہوئی ایک اچٹتی سی نظر سروش اور حدثان پر اچھال کر وہاں سے ہٹ گئی۔ 

"وہ ابھی سمجھ نہیں رہی جب بات سمجھے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔" احمد نے کہتے ہوئے اسے شانوں سے تھام کر سروش کے ساتھ بیٹھا دیا تھا۔

"اب شروع کریں مولوی صاحب....فیملی مکمل ہے۔"

بھیا نے ہاتھوں سے ہی کمیرہ بنا کر ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔سب کی مشترکہ مسکراہٹ وہاں بکھری تھی۔

نکاح کے بعد فوٹو سیشن چلا۔

تازر، حامد اور ماریہ ساتھ کھیلنے لگے تھے

مسز احمد سب کا منہ میٹھا کروانے لگیں۔

ہال میں آج واقع ہی خوشیاں تھیں۔

وہ دونوں ایک ساتھ بیٹھے چاند چاندنی کی جوڑی لگ رہے تھے۔ کیونکہ اگر ثمروز تھا تو وہ روشن تھی۔

بےاختیار اس نے نظریں اٹھا کر سامنے لگی ثمروز کی فوٹو کو دیکھا اور پھر گردن گھما کر اسے۔

"اگر تم کہو تو میں دوبارہ سرجری کروا لیتا ہوں۔"

وہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ سرگوشی میں بولا۔

"نہیں بس آپ مجھے وہ کانچ کی پلیٹ پکڑا دیں۔"

وہ روتے ہوئے بولی۔

"ہائیں.....؟ وہ کیوں؟"

وہ حیرت سے گویا ہوا۔

"وہ جو میں نے آپ کو بچپن میں مارا تھا اور آپ کی پیشانی پہ زخم ہو گیا تھا وہ دوبارہ لگاؤں گی۔تاکہ مجھے یقین ہوتا رہے کہ آپ میرے ثمروز ہیں۔"

اس کی معصوم اور بچگانہ بات پہ وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"میں ثمروز ہی ہوں میری ہمسفر....." وہ نرمی سے بولا تو وہ مسکرا کر نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلا گئی۔

سروش نے رخ پھیر کر حدثان کی جانب دیکھا تھا جو فون کان سے لگائے کسی سے محو گفتگو تھا اس کے چہرے پر پریشانی سی تھی۔وہ جب سروش کی جانب متوجہ ہوا تو اس نے اشارے سے ہی پوچھا کہ سب ٹھیک ہے؟ 

تو اس نے آنکھیں سکوڑ کر ہاتھ کے اشارے سے ایک منٹ کہا اور مسکراتے ہوئے مخالف سمت بڑھ گیا۔

"دیکھو ساتف! میں تمہیں سروش کے نکاح کی چند فوٹوز شیئر کر رہا ہوں۔ دیکھو اور حقیقت کو تسلیم کرو.....شگفتہ تمہاری بیوی ہے اور تمہیں اپنی بیوی کو نظر انداز کر کے کسی کی جانب نہیں بڑھنا چاہیے۔" وہ لہجے میں نرمی پیدا کرتے ہوئے ضبط کی انتہا کو چھو رہا تھا۔

"حدثان بھائی! میں بھول چکا ہوں مادفہ کو خدا گواہ ہے اس بات کا.....مگر شگفتہ نہیں بھولنے دے رہی، بار بار ذکر چھیڑتی ہے حالانکہ جب سے مادفہ نے ہم دونوں کو بیٹھ کر مشترکہ سمجھایا تھا میں سمجھ گیا تھا کہ میرے نصیب میں شگفتہ کا ساتھ ہے مگر آپ کی بہن کسی طور نہیں سمجھ رہی.....چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بیٹھ جاتی ہے۔" وہ بےحد پریشان تھا۔

"شگفتہ کو فون دو میں کرتا ہوں بات۔" پیشانی مسلتے ہوئے وہ اضطرابی کیفیت میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔

"بھیا! م مجھے اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا آپ بس مجھے اس سے طلاق لے کر دیں۔"

"شگفتہ! ہم لوگ پاکستان آ رہے ہیں....ثمروز اور سروش کا نکاح ہو چکا ہے مگر باقی کی رسمیں وہاں ہج ہوں گیں۔ بیٹھ کر اس معاملے پر بات کریں گے۔اگر تم چاہو گی تو تمہیں طلاق لے دیں گے مگر طلاق سکون کا حل نہیں ہے میری بہن....غلط فہمیاں دور کرو آپس کیں۔" وہ نرمی سے بولا۔

"کہاں کھوئی ہوئی ہو؟" ثمروز نے اسے ہلکی سی کہنی ماری۔

"کہیں نہیں....مجھے لگتا ہے کوئی پرابلم ہے۔ حدثان پریشان سا فون سنتا یہاں سے گیا ہے۔"

"فکر نہیں کرو وہ سب سنبھال لے گا۔اگر بتانے والی بات ہوئی تو بتائے گا بھی۔" ثمروز نے کہا تو وہ مطمئن ہو گئی۔

"سرو!..."

تبھی حدثان نے ان دونوں کے سامنے رکتے ہوئے اسے پکارا تھا۔

اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ اس کی جانب اپنا فون بڑھا کر پلٹ گیا۔

سروش نے حیرانگی سے پہلے اس کی پشت کو دیکھا اور پھر فون کو دیکھ کر کان سے لگا لیا۔

"ہیلو...."

وہ تذبذب سی بولی۔

"اسلام و علیکم سروش! میں شگفتہ بات کر رہی ہوں۔

کیسی ہیں آپ؟آپ نے بتایا کیوں نہیں تھا کہ آپ میری کزن ہیں۔"

وہ خوشی سے کھنکھتی آواز میں بول رہی تھی۔

سروش نے گہری سانس بھرتے ہوئے ایک نظر ثمروز پہ ڈالی جو بھیا کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھا۔

"شگفتہ! کیا تم خوش ہو؟" وہ اٹھ کر دائیں جانب بڑھ گئی۔

اس کے لہجے میں جہاں فکر تھی وہاں تھوڑی بہت شرمندگی بھی تھی۔

"بہت زیادہ خوش ہوں مادفہ! ویسے جس دن آپ ہمارے گھر آئی تھیں مجھ سے اور ساتف سے بات کرنے مجھے تب ہی لگ رہا تھا کہ آپ اپنی ہیں۔"

وہ چہک رہی تھی تو ضرور خوش ہی ہو گی مگر سروش کے دل میں ڈر سا تھا۔

"اوہ میں تو بھول گئی......نکاح کی بہت بہت مبارکباد۔اچھا شادی پاکستان آ کر کریں گے نا حدثان بھائی بتا رہے تھے۔چلو میں بھی شریک ہو سکوں گی.....ایکچلی میں ٹریول نہیں کر سکتی نا....." آخر پہ وہ شرما گئی تھی۔

"کیوں سب خیریت تو ہے نا ٹریول کیوں نہیں کر سکتی؟" وہ اس کی معنی خیز انداز میں کی گئی بات کو سمجھی نہیں تھی۔

"وہ تم نا.....خالہ بننے والی ہو۔"

اس نے شریر سی مسکراہٹ لیے کہا تو سروش کے ہونٹ کِھل اٹھے۔

"بہت بہت مبارک ہو۔اچھا بتاؤ ساتف تمہارا خیال تو رکھتا ہے نا؟"

اس نے مبارک دیتے ہوئے ساتھ ہی استفسار کیا۔

"ہوں.....بہت۔اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں۔"

اس نے کہا اور کال کٹ گئی تھی سروش نے اطمینان کی سانس بھری اور مسکراتے ہوئے رخ پھیر کے ثمروز کی جانب دیکھنے لگی۔

پھر ایک نظر سب پہ ڈالی۔سب خوش تھے....وہ رفتہ رفتہ چلتی ثمروز کے پہلوؤں میں جا بیٹھی۔ ثمروز نے دھیرے سے اس کا نرم و ملائم ہاتھ اپنی ہاتھ میں لے لیا۔وہ اطمینان کی سانس فضا کے سپرد کرتے ہوئے مسکرا دی۔

*****

پاکستان کی سرزمین نے انہیں پہچان لیا تھا  کہ تبھی موسم بھی بدلنے لگا تھا۔اس گاؤں کو جاتا راستہ آج بھی پہلے جیسا ہی تھا کچھ بدلا تھا تو وہاں کے لوگوں ، حویلی کے مکینوں میں بھی سے کئی اچھے برے لوگ چل بسے تھے اور کئی پنچھی بن کر اڑ گئے.....اب وہاں دو افراد باقی تھے.....حدثان چوہدری اور اس کا بیٹا......سروش کو سائں سائں کرتی حویلی سے وحشت ہونے لگی تھی تو اس نے مردانے سے نوکر کو بھیج کر گاؤں کی چند عورتوں کو بلوا لیا۔ بارش برسنے لگی تو یوں لگا جیسے حویلی کی نحوست دھل گئی ہو ماحول پرسکون سا ہو گیا۔ 

حویلی میں ان دونوں کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔اس وقت وہ سب ٹی وی لاونج میں بیٹھے کارڈز دیکھ رہے تھے۔

"چوہدری سجاد ،چوہدری حیدر ؟" 

نام پڑھتے ہی اس نے حدثان کی جانب اور پھر گردن موڑ کر اپنے قریب بیٹھے ثمروز کی جانب دیکھا تھا ۔

"تمہارے شوہر صاحب سے پوچھو۔ یہ ہی بلا رہا ہے ان لوگوں کو۔" حدثان نے میٹل کے باکس میں مخملی کور والا کارڈ رکھتے ہوئے سارا کچھ ثمروز پر ڈال دیا تھا۔

"زبیر؟.....کیا ہے یہ؟" وہ خفگی سے بولی۔

"دیکھو یار! وہ بھائی ہیں تمہارے اور...."

"مر چکے ہیں میرے لیے وہ لوگ زبیر!.....میرے بھائی نہیں ہیں وہ دونوں اگر ہوتے تو مجھے گھر سے بےگھر نہ کرتے.....سوچو اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں آج سلامت ہوتی؟ میری عزت و آبرو محفوظ ہوتی؟ کبھی بھی نہیں۔آئندہ میں ان لوگوں کا نام بھی نہ سنوں۔" اس نے کارڈ کے ٹکڑے کر کے بکھیر دئیے تھے۔

 وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے تھے۔

ثمروز کو کال موصول ہوئی تھی وہ ایک چور نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا تھا وہ اس کی جانب متوجہ نہیں تھی مگر حدثان نے کچھ نوٹ ضرور کیا تھا۔

"حدثان! شگفتہ کے سسرال کو خالی کارڈ نہیں دینا ساتھ میں فروٹ اور مٹھائیاں بھی بھیجوانا، اور ساس کے لیے سونے کی چین اور اس کے میاں کے لیے سونے کی انگوٹھی۔" وہ پوری طرح لوازمات کی جانب متوجہ ہو گئی۔

"اور ہاں جتنے بھی تمہارے خاص دوست احباب ہیں انہیں ساتھ میں گولڈ کی چین بھیج دینا۔" وہ ساری تفصیل بتا رہی تھی جب شگفتہ وہاں آ کر بیٹھی۔

"کیا لگتا ہے تمہاری بھابھی مزید ایک دو سال چوہدریوں کی جمع پونجی سلامت رہنے دے گی؟" وہ شگفتہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا تو وہ ہنس دی جبکہ سروش نے اسے آنکھیں دکھائیں۔

"غریبوں میں جو تحائف دینے ہیں ان کی لسٹ یہ رہی۔" وہ اسے ایک لسٹ تھما کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

وہ باغیچے میں ٹہلتا سگریٹ پھونک رہا تھا۔سروش نے منڈیر پر جھک کر اسے دیکھا اور پھر ایک نگاہ اس کے ہاتھ میں دبی سگریٹ پر ڈالی، پھر تیزی سے پلٹی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔

"ثمروز! کیا ہوا سب ٹھیک ہے کچھ پریشان لگ رہے ہو؟" وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے اس سے چند قدموں کے فاصلے پر رک گئی۔

"نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔" وہ اس کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ اس کی بات پر وہ ان فاصلوں کو مٹاتے ہوئے مزید قریب آ گئی تھی اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ جھپٹ کر نیچے پھینکتے ہوئے وہ اس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔

"میرے لیے آپ کافی ہو ثمروز! تمہارا ساتھ مجھے بہت عزیز ہے۔" وہ سرگوشی کے انداز میں گویا ہوئی

"سروش! میں عمر میں اور عقل میں تم سے بڑا ہوں، مجھے سمجھ ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ مانا کہ تمہارے بھائیوں نے جو کیا غلط کیا مگر اس طرح رشتے تو ختم نہیں ہو جاتے نا۔"

"ہوں گے آپ سمجھدار مگر یہاں آپ غلطی پر ہیں۔ وہ میرے سگے بھائی تھے ثمروز!  اور انہوں نے مجھے گھر سے بےگھر کر دیا.....ذرا نہ سوچا کہ میں کہاں جاؤں گی۔ حدثان نے تو محض مجھے ذلیل کیا تھا مگر انہوں نے مجھے بے گھر کر دیا تنہا کر دیا...... بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا یہاں تک کہ اپنی عزت کا لحاظ بھی نہیں آیا انہیں۔" وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔

"تم حدثان کو معاف کر سکتی ہو مگر بھائیوں کو نہیں ؟" ثمروز نے تاسف سے استفسار کیا۔

"کیونکہ وہ غلط ضرور تھا مگر اپنی بیوی کے لیے لڑ رہا تھا خواہ وہ جھوٹی اور بےوفا ہی تھی مگر حدثان اس کی محبت میں پاگل ہو چکا تھا اندھا یقین تھا اس پر اسے، مگر میرے بھائیوں نے تو اپنی بہن کا یقین نہیں بلکہ سننا بھی ضروری نہ سمجھا۔" وہ روندے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی۔

"کیا بیکار کی بحث لے کر بیٹھ گئے ہو تم دونوں؟ وہ آئیں یا نہ آئیں کوئی فرق نہیں پڑتا،اب چھوڑو یہ سب چلو چلیں۔" حدثان بھی وہاں آ گیا تھا۔

"کہاں؟" سروش نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"بچپن کو پھر سے جینے....." وہ آنکھ دبا کر چہکا۔

ان دونوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ کے اشارے کی جانب دیکھا۔

"میری بائیک؟" ثمروز نے گردن گھما کر اپنے ساتھ کھڑے حدثان کو دیکھا۔

"ایم سوری یار! بہت غلط کیا میں نے، مگر تم بھی تو چھوڑ کر چلے گئے تھے....." وہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولا۔ 

"تم دونوں نے ایک دوسرے کے علاؤہ بھی کسی کے ساتھ غلط کیا ہے، مانا کہ میں یہاں سے چلی گئی تھی مگر کوئی مجھے ڈھونڈنے ہی نہیں آیا۔" سروش منہ پھلائے گویا ہوئی۔

"اچھا اب لڑائی نہیں کرو۔بری یادوں کی بجائے اچھی یادوں کو یاد کرتے ہیں۔" ثمروز نے ان دونوں کو دائیں بائیں بازو میں بھرتے ہوئے کہا۔

"ہم ان دنوں کو دوبارہ سے جیتے ہیں نا....چلو پھر چلیں......" حدثان نے شوخ لہجے میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔

"اب کی بار پتھر اٹھانے سے پرہیز کرنا۔" ثمروز اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا تو وہ کھنکھناتی ہنسی ہونٹوں پر لیے اس کے شانے میں منہ چھپا گئی۔

اس نے مسکراتے ہوئے اسے باہوں میں چھپا لیا۔

"تیری آغوش میں یہ برسوں بعد سکون ملا ہے۔ مسز ثمروز! یور ہسبینڈ لوز یو سو مچ۔" وہ اس کے بالوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے محبت سے بولا تھا۔

"یور وائف لوز یو ٹو سو مچ مسٹر ثمروز زبیر چوہدری!" وہ اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔

"تم بس ثمروز کہو۔" 

"ہوں ٹھیک ہے۔ پھر تو آپ کی پیشانی پر وہ زخم بھی دینا پڑے گا۔" وہ شوخ لہجے میں کہتے ہوئے سر اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا........

***

آفندی فیملی آئی تھی.....الفت کو بھی آپی ساتھ کھینچ لائی تھیں کہ وہ کب تک سوگ منائے گی......سب سے ملنے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی جبکہ حدثان اسے ہی نوٹ کر رہا تھا اس مرتبہ وہ اسے بہت بجھی بجھی سی لگ رہی تھی۔اور ایسا ہی تھا الفت کا دل ہر شے سے اچٹ ہو چکا تھا، نہ کچھ پانے کی خواہش اور بس کھونے کا غم....مگر یہ غم ثمروز کو کھونے کا نہیں بلکہ زبیر کی یاد اور اسے کھو دینے والوں کے دنوں کی یاد میں کھونے کی وجہ سے تھا۔

"دیکھو تو کون آیا ہے۔" حدثان اس کے ساتھ رکتے ہوئے ہنس کر بولا تھا۔

"میرا گھر توڑ کر تم بہت خوش ہو؟" وہ اس پر جھپٹی تھی۔

"میڈم آپ کا گھر اور دل دونوں بچائے ہیں مجھ غریب نے شکریہ ادا کرنے کی بجائے بلیوں کی مانند ناخنوں سے میرے حسین چہرے کو کھروچ رہی ہیں۔"

وہ اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے غیر سنجیدگی سے بولا۔

"تم حدثان چوہدری! میرے ہاتھوں آج مر جاؤ گے۔" وہ ناگن کی طرح پھنکاری۔

"بندہ حاضر ہے مار سکتی ہیں، مگر ناخنوں سے نہیں...." وہ اس کے ذرا سا قریب ہوتے ہوئے زومعنی انداز میں گویا ہوا تھا۔

"اپنی قاتلانہ آنکھوں سے۔" وہ آنکھ دبا کر کہتا پلٹ گیا۔

"تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟"

"حدثان چوہدری.....! نام تو سنا ہو گا۔"

"تمہارے اندر جو یہ شارح خان کا کیڑا ہے تباہ کر دینا ہے میں نے.....یو ایڈیٹ" وہ چنخ کر کہتی آگے بڑھی ہی تھی کہ پاؤں مڑا اس سے پہلے کہ وہ گرتی حدثان نے سرعت سے پلٹ کر اسے باہوں میں سمیٹ لیا تھا ،اس کی مضبوط پکڑ پر الفت کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ   لہو رنگ چہرے پر اتر آیا،سیٹی بجاتے ہوئے وہ بھنویں آچکا کر سیدھا ہوا۔

"پہلے چلنا سیکھ لو۔" اس کی ناک دبا کر وہ شوخی سے گویا ہوا اور وہاں سے ہٹ گیا۔وہ بکھری دھڑکنیں سنبھالتے ہوئے تلملا کر رہ گئی تھی۔

****

پیاس کی شدت کی بدولت اس کی آنکھ کھلی تھی وہ روم سے نکلی کوئی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اس سے ٹکرایا تھا۔

"ثمروز! دیکھ کر چلیں اتنی جلدی میں کہاں سے آ رہے ہیں؟" وہ اس کی خوشبوئیں پہچانتی تھی۔

"میں.....وہ حدثان کے ساتھ باہر گیا تھا۔" وہ کچھ کھویا کھویا سا تھا۔

"اچھا کہاں گئے تھے تم دونوں رات کے دو بجے؟" نجانے کیوں اسے ثمروز کی بات میں سے جھوٹ کی بو آ رہی تھی۔

"سرو! نیند بہت آ رہی ہے کل بات کریں گے۔" وہ بنا اس کی بات کا جواب دیئے بےحد تیزی سے وہاں سے چلا گیا تھا۔وہ اس کے الجھے اور کھوئے لہجے پر غور کرتی رہ گئی تھی۔

"شادی کے اتنے کام ہیں گئے ہوں گے کہیں۔" سر جھٹک کر خود کو تسلی دیتے ہوئے وہ جیسے ہی سیڑھیاں اترنے لگی اس کے پیرؤں میں کچھ آیا جسے جھک کر اٹھانے پر پتہ چلا تو وہ کوئی لاکٹ تھا،اسے یاد آیا ثمروز سے ٹکراتے ہوئے کچھ گرا تھا۔ وہ لاکٹ ہاتھ میں دبائے واپس پلٹ گئی.....ثمروز کے لہجے اور اس لاکٹ میں الجھ کر اسے پیاس بھول گئی تھی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے ساری لائٹیں جلا دی تھیں۔

لاکٹ آنکھوں کے سامنے کیا تو وہ شاک رہ گئی تھی، ایسا ممکن کیسے تھا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

وہ لڑکھڑا کر بیڈ پر ڈھے سی گئی تھی، لاکٹ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔

"کیا پتہ یہ ثمروز کے پاس ہو ہمیشہ سے؟" اس کے دماغ میں سوچ ابھری پھر نگاہوں کے پردے پر مہرماہ کا سراپا ابھرا اس کی موت سے ایک دن پہلے ہی تو یہ لاکٹ اس نے پہن رکھا تھا پھر سروش کو یہ دوبارہ کبھی نہیں ملا تھا۔

"اس کے جیسا کوئی اور لاکٹ بھی تو ہو سکتا ہے۔"وہ سر جھٹک کر اٹھی تھی اور نم آنکھیں پونچھ کر لاکٹ اٹھایا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔سوچوں کے درمیاں کروٹیں بدلتے نیند نے اسے بہت دیر بعد اپنی آغوش میں لیا تھا دن جب آنکھ کھلی تو اس کا سر بھاری ہو رہا تھا شاور لے کر کچھ فرق پڑا تو وہ ریڈی ہو کر جیسے ہی کمرے میں سے نکلنے لگی تو نگاہ اس لاکٹ پر پڑی تھی اس کے اٹھتے قدم زمین نے جکڑ لیے تھے۔گہری سانس بھرتے ہوئے وہ سر نفی میں جھٹک کر لاکٹ اٹھا کر ٹیبل کے دراز میں رکھ کر  کمرے سے نکل گئی تھی۔مسز آفندی اور بھابھی ناشتہ میز پر لگا رہی تھیں شگفتہ بھی ان کی مدد کر رہی تھی۔

حدثان دوسری جانب سے سیڑھیاں اتر رہا تھا جب اس کی نگاہ گھر میں داخل ہوتی ٹریک سوٹ میں ملبوس الفت پر پڑی اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے سیڑھیاں اترتا اس کے قریب چلا گیا تھا وہ جو ایئربرڈز لگائے مگن سی چلی آ رہی تھی اچانک اس کے سامنے آ جانے پر بےاختیار ہی لڑکھڑا کر رک گئی تھی۔

"تم یہاں یہ ٹریک سوٹ پہن کر نہیں گھوم سکتی۔ میڈم یہ گاؤں ہے۔" وہ اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے قدرِ غصے سے گویا ہوا تھا۔

"دیکھو مسٹر حدثان چوہدری!" وہ دو قدموں کی دوری مٹاتے ہوئے اس کے قریب چلی آئی تھی کہ اس کی خوشبوؤں کو خود پر حاوی ہوتے محسوس کرتے حدثان کی دھڑکنیں رک گئی تھیں۔

" یہ فالتو کے اپنے رولز  مجھ پر تھوپنے کی کوشش بھی مت کرنا، کیونکہ مجھے رولز صرف اپنے بنائے گئے پسند ہیں۔" براہِ راست اس کی نگاہوں میں جھانکتے ہوئے وہ کہہ کر آخر پر مسکرائی اور اس کے عقب سے نکلتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔

"لڑکی اچھی ہے، دل کی بھی سچی ہے......جو دل میں ہے وہ ہی منہ پر۔ ہاں زبیر سے بچھڑنے اور پھر ثمروز کے ساتھ ہونے کے باوجود ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے بہت توڑ پھوڑ کا شکار رہی ہے۔اس کا قصور نہیں ہے زبیر سے محبت بہت کرتی تھی جب ثمروز کو زبیر کا چہرہ ملا تو اسے لگا کہ زبیر لوٹ آیا ہے مگر بچھڑے کبھی کہاں لوٹ کر آتے ہیں۔"  مادفہ اس کے ساتھ آ رکی تھی اور دھیمے لہجے میں نرمی سے گویا ہوئی۔

"تو میں کیا کروں۔" چند پل وہ خاموشی سے کھڑا رہا پھر شانے جھٹک کر کہتے ہوئے پلٹ کر تیز قدم اُٹھاتا ڈائینگ ٹیبل کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ مادفہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

"مادفہ بیٹی! زبیر کو لے آؤ۔"

"اٹھا نہیں ابھی وہ تو تہجّد کے وقت ہی اٹھ جاتا ہے۔" بھیا کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔

"میں دیکھتی ہوں۔" وہ مسکراتے ہوئے پلٹ گئی تھی۔

دروازے پر دستک دی تھی مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا سروش کو فکر ہونے لگی تھی۔

"ثمروز! اٹھ جائیں۔سب ناشتے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔" وہ ایک دفعہ پھر سے دروازے پر دستک دیتے ہوئے گویا ہوئی تھی مگر سامنے سے مکمل خاموشی،وہ مزید کیا کرتی خاموشی سے پلٹ گئی۔

وہ جو اٹھ کر ریڈی بھی ہو چکا تھا بیڈ پر پرسوچ انداز میں بیٹھا دروازے کو گھورتا رہا پھر ایک دم سے فون اٹھا کر کسی کا نمبر ڈائل کیا تھا۔

"میں تم سے ملنے آ رہا ہوں، ناشتہ ساتھ میں ہی کریں گے اور ہاں اکیلی آنا اپنے اس باڈی گارڈ کو ساتھ مت لانا۔" خود پر کلون سپرے کرتے ہوئے وہ تیزی سے اپنا کوٹ اٹھا کر دروازے کی سمت بڑھا۔

"جو بھی ہے مگر مجھے تم سے اکیلے میں ملنا ہے۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے پلٹ کر سائیڈ ٹیبل سے وائلٹ گاڑی کی چابی اور گلاسز اُٹھاتے ہوئے کال کاٹ کر کمرے میں سے نکل گیا تھا۔

"اسلام علیکم! معزرت خواہ ہوں مجھے کچھ دوستوں کے ساتھ بریک فاسٹ کرنے جانا ہے ان شاءاللہ لنچ پر ملاقات ہو گی۔" وہ دروازے پر رکتے ہوئے تیزی سے کہہ کر ایک نگاہ مادفہ کے اداس چہرے پر ڈالتے ہوئے پلٹ گیا کیونکہ وہ اس کی آنکھوں میں چسپاں سوالات کے جواب نہیں دے سکتا تھا۔

"چلیں سب شروع کریں، خیر ہے کرنے دو اسے باہر بریک فاسٹ ایک دن ہی ہے مزید آزادی کا بچارے کے پاس۔" حدثان نے مزاحیہ خیز انداز میں کہتے ہوئے سب کی توجہ کھانے کی جانب کی تھی۔وہ نوٹ کر رہا تھا کہ مادفہ سروش کچھ پریشان اور الجھی ہوئی ہے ناشتہ بھی درمیان میں چھوڑ کر اٹھ گئی کہ تھوڑی ریسٹ کرنی ہے رات کو مہندی کی رسمیں شروع ہو جانی تھیں۔

ریڈی ہو کے زمینوں پر جانے سے پہلے حدثان نے مادفہ کے کمرے کا رخ کیا تھا۔

"جہاں تک مجھے یاد ہے کل شام تک ثمروز اور تمہارے درمیان سب ٹھیک تھا یہ ایک ہی رات میں کیا ہو گیا؟"

دروازہ کھلتے ہی اس نے استفسار کیا تھا۔

"کچھ بھی تو نہیں۔کیوں کیا ہوا؟" وہ انجان بنی۔

"میں نے نیچے دیکھا تھا ثمروز بنا تمہیں خدا حافظ کہہ اور کچھ بھی بتائے چلا گیا اور تم بھی پریشان ہو.....سب ٹھیک تو ہے نا؟" وہ فکرمند تھا۔

"جاسوس  بننے کی کوشش اچھی ہے ویسے تمہاری۔" وہ مسکرانے کی کوشش کے درمیان گویا ہوئی تھی حدثان سینے پر بازو لپیٹے اسے گھورنے لگا جیسے کہہ رہا ہو تم ناکام رہی اس کوشش میں۔

"مہرماہ........" مزید کچھ بھی بولے بنا  وہ اس کی جانب دیکھنے لگی جو چونکا تھا۔

"وہ زندہ ہے۔" گویا اس نے بم پھینک ہی دیا تھا جس سے حدثان کی سماعتوں میں کچھ پل کو تو طوفان سا ہی برپا ہو گیا۔

"کیا تمہیں پتہ چل گیا؟ ثمروز کو بھی علم ہے کیا اس بات کا؟" حدثان کی بات پر اب باری اس کی تھی تباہی کی۔

"تم جانتے تھے یہ بات؟ یعنی تمہیں......" سروش لڑکھڑا کر رہ گئی تھی۔

"تم نے مجھے نہیں بتایا......کیوں حدثان؟" وہ سپید چہرہ لیے سراپا سوال بنی کھڑی تھی۔

"نور سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس راز کو راز ہی رکھوں گا۔تمہیں یاد ہے وہ لڑکی نور.......وہ ہماری مہرماہ ہی ہے۔" اس نے  سانس لیتے ہوئے مبہم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا۔

"ثمروز کو معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے؟"

اس کے استفسار پر سروش نے بنا کچھ کہہ اسے لاکٹ تھما دیا تھا ۔

"کل رات کو وہ اس سے مل کر آیا ہے۔" 

بہن کے زندہ ہونے کی خوشی منائے یا شوہر کو کھونے کا دکھ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

"پاگل ہو کیا؟ مہرماہ شادی شدہ ہےاور اس کے زائر جتنے دو بیٹے ہیں۔" حدثان کی بات پر اس نے اپنے دل میں سکون اترتے محسوس کیا تھا۔

"تم سچ کہہ رہی ہو؟" اس نے تصدیق چاہی۔

"جی ہاں، پاگل لڑکی وہ محض تمہارا تھا اور رہے گا شک مت کرو اس پر۔" وہ اس کا سر تھپک کر کہتے ہوئے بولا تو وہ ہلکی پھلکی ہو کر نم آنکھوں سے مسکرا دی تھی۔

"مہرماہ زندہ ہے۔" رونے کے درمیان وہ اب خوشی سے بولی تھی۔ جو ڈر کے بادل منڈلا رہے تھے برسے نہیں تھے اب تو خوشی کی جھڑی لگ گئی تھی۔

"میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔"

"ریڈی ہو جاؤ وہ بچوں اور اپنے شوہر کے ساتھ واپس آ گئی ہے۔"

"میں بس دو منٹ میں آئی۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے ڈریسنگ روم میں جا گھسی تھی۔

"سروش! اپنے دیور کو سمجھا لو وگرنہ......" الفت تیزی سے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولی تھی مگر سامنے کھڑے حدثان کو اپنی جانب دیکھتے پا کر خاموش ہو گئی۔

"بچوں کی طرح شکائت لگانے آ گئی میری بھابھی کو؟" وہ مسکراتے ہوئے دو قدم آگے بڑھا۔

الفت نے اسے حقارت سے گھورتے ہوئے رخ پھیر لیا تھا۔

"نجھے ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو مشکل ترین بنا لیتے ہیں....ایک ہی تو زندگی ہے اور اس میں دکھ سکھ  سب ہی ملیں گے تو پھر کیوں آپ محض دکھ کو سینے سے لگا لیتے ہیں.....خوش رہیں اور سب کو خوش رہنے دیں۔کیا خیال ہے اس بارے میں؟" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے آخر پر اس کے لیے سوال چھوڑ کر الجھا چھوڑے وہاں سے چلا گیا تھا۔

الفت کئی لمحے اس کے دیکھنے کے انداز میں کھوئی رہی تھی۔

"ارے الفت! وہاں کیوں کھڑی ہو آؤ بیٹھو۔" سروش نے اسے دروازے کے پاس ساکت پایا تو آتے ہی گویا ہوئی مگر وہ بنا کچھ کہہ نگاہیں چراتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔

****

باسم نے اسے نئی زندگی دی تھی........مہرماہ کی تو زندگی ختم ہو گئی تھی اسی دن جب وہ نہر کود گئی تھی اور سب نے اسے مرا ہوا سمجھ لیا تھا اس دن سے نور نے جنم لیا تھا۔

باسم کے والدین کو شہر کے جانے مانے بزنس میں اور وڈیرے نے مروا دیا تھا محض چند ایکڑ زمین کی وجہ سے اور وہ مجرم شخص اور کوئی نہیں چوہدری صاحب ہی تھے۔

باسم خود ایک پیشہ وارانہ ڈیڈیکٹو تھا اسے شک تھا کچھ لوگوں پر کہ وہ بلیک ورلڈ سے تعلق رکھتے ہیں تبھی وہ ان سب کے پیچھے لگا ہوا تھا......راتوں کو لوگوں کی جاسوسی کرتے ہوئے وہ ایک دن چوہدری صاحب تک پہنچا تھا اس سے پہلے کہ وہ مزید ان کا پیچھا کرتا اسے چاند کی روشنی میں ایک وجود دکھائی دیا جو نہر میں کود گیا تھا اس جگہ پانی کا بہاؤ مخالف سمت بہت تیز سے تھا وہ سرعت سے گاڑی موڑ کر اس وجود کے پیچھے ہو لیا نہر میں سے جب اس نے مہرماہ کو نکالا تھا تو پہلی نظر میں ہی وہ اس کے غیر معمولی حسن کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا تھا اور پھر اسے اپنے ساتھ چلتا پایا جب تو باسم دن با دن مزید اس کی محبت میں پڑتا گیا.....نور جاتی تھی کہ باسم اس سے محبت کرتا ہے مگر ڈرتا ہے کہ ایک دن تو وہ ثمروز کی جانب پلٹ جائے گی مگر جب نور نے اسے یقین دلایا کہ اب وہ مہرماہ نہیں بلکہ نور ہے جس کا مقصد مجرموں کو سزا دلوانا ہے تو اس میں کچھ ہمت آئی اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔ پوری دنیا نور کو محض اس کے نام اور کام کی وجہ سے جانتی تھی مگر جب وہ پریگننسی میں تھی تو سب کچھ کرنا مشکل ترین ہوتا جا رہا تھا ان ہی دنوں اس کا سامنا حدثان سے ہوا تھا اس نے اس کے سامنے ہر ایک سچ کو پیش کرتے ہوئے ثمروز اور سروش کو بےگناہ ثابت کر دیا تھا اور اس سے وعدہ بھی لیا کہ یہ راز ہمیشہ راز رہے۔

باسم چاہتا تھا کہ وہ مزید یہ کام نہیں کرے وہ اب خود کو ان سب کا قصوروار سمجھنے لگا تھا کیونکہ اس نے ہی نور کو ڈیڈیکٹو بننے میں مدد کی تھی۔ نور کو لگا کہ وہ اس سب میں اپنی ازدواجی زندگی کو اگنور کر رہی ہے تو اس نے ساری زمہ داری مناہل لوگوں پر چھوڑ دی اور خود باسم کے ساتھ رہنے لگی جو اس کے اس فیصلے سے بہت خوش تھا۔

"تو تمہیں کبھی ہماری یاد نہ آئی ؟" ثمروز اس کے سامنے بیٹھا استفسار کر رہا تھا۔ نور نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

"سچ پوچھو تو یاد بہت آتی تھی سروش کی ماما کی بابا کی مگر پھر زندگی بہت مصروف ہو گئی ماما بابا بھی چل بسے سروش کی زندگی میں تم آ گئے تو اس کی جانب سے بھی دل مطمئن ہو گیا اور زندگی مصروفیات سے نکلی تو میرے سامنے باسم اور بچے تھے جو میری کل کائنات ہیں۔" وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے سامنے دیکھنے لگی جہاں سے باسم آ رہا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

"مجھے خوشی ہے مہرماہ کہ تمہیں اچھا جیون ساتھی مل گیا اور تم خوش ہو۔ مگر سروش تمہیں کبھی نہیں بھولی اسے اچھا لگے گا اگر تم ہماری شادی میں شرکت کرو.....نور بن کر نہیں مہرماہ بن کر سروش کی بڑی بہن بن کر..... کیونکہ تمہیں توسب کچھ معلوم ہے نا کہ اس نے بھائیوں سے بھی رشتہ ختم کر لیا ہے اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ تم مع فیملی ہماری شادی میں شرکت کرو۔"وہ اسے کارڈ تھماتے ہوئے گویا ہوا۔

"اسلام علیکم!" باسم نے قریب پہنچتے ہی سلام کیا تھا وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اس سے مصافحہ لیتے ہوئے ان دونوں کو خدا حافظ کہتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔

باسم نے اپنی شریک حیات کی جانب دیکھا جو اس کی جانب ہی متوجہ تھی۔

"وہ سب تمہارے اپنے ہیں نور! میں تو ہمیشہ سے یہ ہی چاہتا تھا کہ تم اپنی بہن سے ملو مگر تب خیر مجبوری تھی پر اب تو سب ٹھیک ہے۔ہم سروش اور ثمروز کی شادی میں شرکت ضرور کریں گے۔" باسم نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی تھی۔

****

"تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔" ثمروز نے اس کے مہندی سجے ہاتھ تھماتے ہوئے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا۔

وہ نہیں چاہتی تھی کہ ثمروز کا سرپرائز خراب ہو سو انجان بننے کی ایکٹنگ کرتی رہی مگر دل تو اس کا بھی خوشی کے مارے دھڑک رہا تھا۔ تبھی اس نے ثمروز کے ہاتھ کے اشارے کی جانب دیکھا جہاں سے نور اپنے دو بچوں شوہر اور دیور دیورانی (منال اور توحید) کے ساتھ آ رہی تھی۔وہ خوشی کے آنسو آنکھوں میں لیے سٹیچ سے اتر کر اس کی جانب بڑھی تھی۔ وہ دونوں گلے لگ کر جب روئیں تو ہر اشک بہنوں کے ملن پر اشک بار تھی۔

"چلو بس کرو لڑکی میری بیوی کو مزید مت رلاؤ۔" ثمروز نے آگے بڑھتے ہوئے نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس دلاسہ دیا اور سروش کو بازو سے تھام کر جیسے ہی پیچھے ہٹایا وہ بےاختیار ہی ثمروز کے سینے میں منہ چھپا کر رونے لگی۔

"تھینک یو سو مچ ثمروز! تم نے ہمیشہ میری حفاظت کی، مجھے محبت دی میرا ساتھ دیا.....جب ہر ایک نے مجھے ٹھکرا دیا تو تم نے مجھے سنبھالا اور بکھرنے نہ دیا۔ اب مجھے میری بہن سے ملوایا تم بہت اچھے ہو۔" وہ رونے کے درمیان کہہ رہی تھی محفل میں اب شوخ مسکراہٹیں بکھر گئی تھیں۔ساتف نے سر جھکائے قدم وہاں سے موڑ لیے تھے شگفتہ افسردہ سی ہو کر لب بھینچ گئی مگر وہ مطمئن تھی کہ اس نے ساتف کے اندر بدلاؤ محسوس کیا تھا اور یہ بدلاؤ ان کی آنے والی زندگی بہتر بنانے والا تھا۔

"بیگم میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا مگر یہ محبتیں کمرے میں جاکر لٹانا ابھی سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔" اس نے سروش کے کان میں سرگوشی کی تو وہ ہوش میں آتے ہی خجل سی ہو کر الگ ہوئی نور ہنستے ہوئے اسے شانوں سے تھام کر اسٹیج کی جانب بڑھ گئی۔

"تم چاہو تو میرے سینے میں منہ چھپا کر رو سکتی ہو۔" حدثان نے اس کے قریب رکتے ہوئے کہا تھا۔

وہ گردن موڑ کر اس کی جانب کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔

"کہیں تو سکون سے اکیلا بیٹھنے دیا کرو۔" وہ تلملا کر کہتی وہاں سے ہٹ گئی تھی جبکہ وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے سٹیج کی جانب بڑھ گیا۔ مہندی کا فنکشن عروج پر تھا اور وہ آخری ٹیبل پر بیٹھی ان خوشیوں بھرے ماحول میں بھی خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی مگر ایک بات عجیب ہو رہی تھی کہ اس کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر حدثان کے سوہنے مکھڑے کا دیدار کیے جا رہی تھیں اور وہ بےبسی کے آنسو اندر اتارتی رہی۔

****

پوری شادی میں وہ اسے ذلیل کرتا رہا تھا۔اب اس کا سارا دھیان حدثان چوہدری کی جانب بٹ چکا تھا کیا معلوم کسی وقت کیا شرارت کر جائے۔

"الفت! یہاں آؤ۔" وہ جو سیج پر ثمروز کے انتظار میں بیٹھی تھی سب لڑکیاں جانے لگیں تو اسے جاتے دیکھ تیزی سے بولی۔

"الفت! میں نے پانچ سال جو ثمروز سے دور گزارے جب وہ صرف زبیر بن کر جی رہا تھا ان سالوں میں، میں نے ہمیشہ یہ یاد رکھا کہ وہ تمہارا زبیر ہے مگر الفت....! یہ بھی تو سچ ہے نا کہ وہ ثمروز ہے۔"

"سروش! میں غلطی پر تھی بہت وقت سے معافی مانگنا چاہ رہی تھی مگر ہمت نہیں ہوئی.....جس سے میں نے محبت کی وہ زبیر تو مر چکا تھا مگر میں دل کو سمجھاتی رہی کہ یہ میرا زبیر ہے پر چہرہ بدلنے سے تھوڑی نہ تمہارے ثمروز نے میرا زبیر بن جانا تھا، ایم سو سوری۔" وہ تیزی سے اس کے ہاتھ تھام کر شرمندگی سے بولی۔

"میں نے اپنے بچپن سے جوانی تک زبیر کے ساتھ ہر لمحہ جیا ہے، اسے کھونا نہیں چاہتی تھی شاید اسی لیے میں ثمروز میں اسے ڈھونڈتی رہی مگر ناکام ٹھہری۔" وہ سر جھکا گئی۔

"میں اس درد کو سمجھ سکتی ہوں، مگر ہم جینا تو نہیں چھوڑ سکتے.....ہمیں خوشیوں کی تلاش میں رہنا چاہیے۔اور ہمیں خوشیاں تب تک نہیں ملتیں جب تک ہم کسی کی جھولی کو محبتوں سے نہ بھر دیں کسی اور کی زندگی کو خوبصورت نہ بنا دیں.....جب ہم کسی کو خوشیاں دیتے ہیں تو اللّٰہ بدلے میں ہمیں بھی ڈھیروں سکون عطا فرما دیتا ہے۔" وہ اس کے ہاتھ تھامے ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔

"کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ میری معصوم سی بھابھی کو کون سی پٹیاں پڑھا رہی ہو؟" حدثان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شریر لہجے میں بولا۔

"سروش! اپنے دیور کو سمجھا لو، جب سے آئی ہوں جینا حرام کیا ہوا ہے۔جہاں جاتی ہوں وہاں پہنچ جاتا ہے۔شکر ہے سونے دیتا ہے وگرنہ اس کا بس چلے تو....."وہ روہانسی ہوئی کہتی ایک دم سے خاموش ہوئی کیونکہ حدثان کی شوخ نگاہیں بتا رہی تھی کہ وہ تیزی میں کچھ غلط کہہ بیٹھی ہے۔

"اے لڑکی ایسے الزامات مت لگاؤ۔قسم سے سرو! اس کے کمرے میں قدم تک نہیں رکھا۔"

"ہاں ہاں وہاں بھی آ جاؤ تمہیں کون سا کسی کا ڈر ہے۔" وہ آنکھوں میں نمی لیے بولی۔

"حدثان! چلو شاباش باہر جاؤ مجھے الفت سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔" وہ نرمی سے بولی۔

وہ اٹھ کر وہاں سے ہٹ گیا مگر جاتے جاتے بھی الفت کو آنکھ دبا کر چھیڑ گیا تھا۔

"دیکھا سرو! یہ لفنگا ایسے ہی ذلیل کر رہا، کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔" وہ تلملائی۔سروش ہنس دی۔

"حدثان کے متعلق تمہیں کچھ ضروری باتیں بتاتی ہوں الفت! یہ وہ لڑکا ہے جس نے آج تک کسی کو آنکھ مارنا تو دور کی بات ہے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔جازیہ سے پہلے نہ جازیہ کے بعد.....اگر وہ تمہاری جانب جھک رہا ہے تو...." وہ معنی خیز مسکراہٹ لیے بات اُدھوری چھوڑ گئی۔

"تو؟" اس کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں۔

"مگر وہ اب اظہارِ محبت نہیں کرے گا الفت! اس نے جسے چاہا وہ ہی اسے دھوکا دے گئی، ہمارا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا ان حادثوں میں ہاں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے بہت سے اپنوں کے اصلی چہرے دیکھے مگر اس کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے.....اس نے بہت کچھ کھویا ہے جو وہ پا نہیں سکتا......وہ غصے والا ضرور ہے مگر ایک نیک دل انسان ہے.....یہ مت دیکھو کہ اس کے ہاتھ میں رائفل ہے یا وہ غنڈہ ہے.....یہ سب تو محض حفاظت کے ہتھیار ہیں۔ اس کے دل میں جھانکو الفت! وہ جس کا ہاتھ تھام لے کبھی چھوڑتا نہیں۔" وہ اس کے ہاتھ پر دباؤ بڑھاتے ہوئے دل کو چھو لینے والے انداز میں بول رہی تھی۔

"تم دونوں نے اپنی اپنی محبتوں کو کھویا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے جڑ جاؤ گے تو سارے دکھ درد سمیٹ لو گے ایک دوسرے کے۔میری بات پر غور کرنا۔"  وہ بات ختم کر کے اسے کے بولنے کی منتظر تھی مگر الفت خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ٹی وی لاؤنج کے سامنے سے گزرتے وقت اس نے رک کر لڑکوں کے درمیان بیٹھے قہقہے لگاتے حدثان کو ایک نظر دیکھا آج پہلی مرتبہ الفت نے اپنے دل کی دھڑکنوں میں بدلاؤ محسوس کیا تھا وہ سرعت سے رخ پھیر کر آگے بڑھ گئی۔اس کے دماغ میں سروش کی باتیں  اور آنکھوں کے سامنے حدثان کا وجہہ سراپا اور اس کی تمام حرکتیں گردش کر رہی تھیں۔

"بس کرو بچو، اب زبیر.....میرا مطلب ثمروز کو کمرے میں جانے دو، دلہن رانی انتظار کر رہی ہیں۔" سب اسے گھیرے بیٹھے تھے جب مسز آفندی نے آتے ہوئے کہا۔

"شکر ہے مما آپ آ گئیں، انہوں نے تو میرا خون پی لیا تھا۔" وہ کُلہ سنبھالے سرعت سے اٹھا تھا۔

"میں آپ کا زبیر ہوں ماما! اور حدثان لوگوں کے لیے ان کا ثمروز.....آپ میری ماما ہیں اسی لیے آپ مجھے زبیر ہی کہا کریں۔" وہ ان کے ہاتھ چومتے ہوئے محبت سے بولا۔

"میرا چاند.......چلو اب جاؤ کمرے میں۔" انہوں نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔

"ہاں ہاں دوڑ لگاؤ.....نہیں تو پھر پکڑ لیں گے۔" حدثان نے کہا تو وہ اسے گھورتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

"دیکھو کتنا اتاولا ہو رہا ہے۔" پیچھے سے بھیا کی آواز آئی تھی۔وہ دروازہ دھکیل کر دھیرے سے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ مقفل کر کے رفتہ رفتہ چلتا سیج پر دلہن کے سامنے جا بیٹھا۔ثمروز اس کا گھونٹ پلٹ کر چند پل تو ساکت و جامد ہو کر ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہ گیا۔

"اسلام علیکم!" اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے بولا تو سروش نے گھنی پلکوں کی جالیوں کو اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

"و علیکم السلام! " بہت دھیمی آواز میں کہتے ہوئے وہ اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیئے سر جھکا گئی۔

"آپ کی منہ دکھائی۔" وہ اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔

"کہاں ہے؟" 

"آپ کی گود میں۔" وہ شرارت سے مسکرایا تو وہ بھی مسکرا دی۔

"شکرانے کے نوافل ادا کر لیں؟" سروش نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تو وہ اس کے ہاتھوں کو تھام کر ان پر بوسا دیتا سر اثبات میں یلا کر اٹھ بیٹھا۔

*****

"میں نے جازیہ سے محبت کی تھی اور اس نے میری محبت کا مذاق اڑایا، میرے بھرم کو مٹی میں ملا دیا۔ میری عزت کا بھی خیال نہیں رکھا۔مجھے اس کے شفاف چہرے پہ صرف معصومیت ہی نظر آتی تھی۔

مگر جب اس کی اصلیت واضح ہوئی تو وہ چہرہ مجھے بہت بھیانک لگا...." سینے پہ ہاتھ لپیٹے لون میں ٹہلتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا۔ رات کے سناٹے گونج رہے تھے تو ساتھ ہی ساتھ سردی بھی شدید تھی۔

"مجھے ہوش بھی نہیں رہا کہ میں نے اسے مار دیا.....شاید میں ہوش میں نہیں تھا....؟ مگر مجھے کوئی حق نہیں تھا اسے یوں مارنے کا۔ اس کے بعد بھی مجھے سکون نہیں ملا تھا۔حالانکہ میں اپنی مجرم کو سزا دے چکا تھا مگر دل میں کہیں بھی سکون نہیں تھا۔اور وہ سکون آج میرے دل میں اترا ہے۔" ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اس کے وجود سے ٹکرا رہی تھی اور وہ بغیر کسی شال کے یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔

"ہاں.....دو ایماندار اور وفادار انسانوں کو ایک کر کے۔میں چاہتا تو سروش سے نکاح کر سکتا تھا مگر میں اپنی بچپن کی دوست کو اور بھائیوں جیسے کزن کو مزید دکھ نہیں دے سکتا تھا۔میرے باپ نے ثمروز سے ماہ کو چھین لیا تھا مجھے بھی عجیب وغریب پٹیاں پڑھا کر سروش سے الگ کر دیا خیر اب وہ دونوں خوش ہیں....." وہ لب کچلتے ہوئے سنگی بینچ پہ جا بیٹھا۔ ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔سر بینچ کی پشت سے ٹکائے، منہ آسمان کی جانب کر کے وہ اطمینان سے سانس لے رہا تھا۔

"اور میں اب آرام سے خود کو پولیس کے حوالے کر سکتا ہوں۔" وہ بڑبڑایا تھا۔

"نہیں مگر میرے بچے کا کیا ہو گا......؟ نہیں.....میں یہ ہرگز نہیں کروں گا، اگر گناہگار کو سزا دینا قانون میں جرم ہے تو میں پھر مجرم ہی ٹھیک۔"

ٹھیک اسی وقت اسے احساس ہوا کہ اس پر کچھ ڈالا گیا ہے۔آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو الفت سینے پہ ہاتھ لپیٹے کھڑی تھی۔پورے چاند کی روشنی میں وہ اس کے چہرے کے بدلے تیور بغور دیکھ پا رہا تھا۔ اس نے سر جھکا کر خود پہ ڈالی گئی چادر دیکھی۔وہ اس کی نگاہوں میں براہِ راست جھانکتے ہوئے دوسرے ہی پل سٹپٹا کر سر جھکائے خاموشی سے واپس پلٹ گئی۔

الفت کی نگاہوں میں جو کچھ بھی تھا چند منٹوں کے بعد ہی اس کی سمجھ میں آ گیا تھا اور افسردہ مگر خود میں ایک ہلکی سی خوشی سموئے ہوئے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ ٹھہری۔ 

"سنو....!"

بےاختیار ہی اس نے پکارا تو وہ رکی اور پلٹی۔ وہ اٹھ کر اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔

"میں نے اپنی بیوی کا قتل کیا ہے کل خود کو پولیس کے حوالے کر دوں گا کیا تم میرا کیس ہینڈل کرو گی؟" اس کی بات پر الفت کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا آج پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا تھا کہ اسے لاء نہیں کرنا چاہیے تھا۔

"میں اپنے بیٹے کو باپ کے بنا جینے نہیں دے سکتا اسی لیے رہائی چاہتا ہوں۔" وہ تفصیل بتا رہا تھا۔

الفت کی آنکھوں میں ڈھیروں نمی آ ٹھہری۔

"کیا محض بیٹے سے محبت ہے؟" اس کے استفسار پر حدثان نے بہت غور سے اس کے جھکے چہرے کو دیکھا تھا۔

"مجھ سے شادی کرو گی؟"اس کے استفسار پر الفت کی گہری براؤن آنکھوں میں  چمکتے آنسو ٹوٹ کر رخساروں کو تر کرنے لگے تھے۔وہ رفتہ رفتہ چلتی اس کے قریب آئی تھی۔

"مجھے معلوم ہے یہ سوال بہت ہی عجیب ہے مگر......جس طرح تم نے یہ سننے کی خاطر اتنا لمبا سفر طے کیا،اتنا کچھ کیا ویسے ہی.....ویسے ہی میں نے اپنے لیے اس محبت کو کسی کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے بہت سفر طے کیا ہے مگر ایسا نہیں تھا....جازیہ کی آنکھوں میں نہیں تھی یہ محبت....."

وہ شانے اچکاتے ہوئے صاف گوئی سے بولا اس کا خود کا لہجہ بھی نم تھا۔

"مجھے لگتا تھا کہ میں ثمروز کے ساتھ نہیں بلکہ زبیر کے ساتھ ہوں مگر ایسا نہیں تھا.....تمہیں دیکھا تو نجانے دل میں عجیب سی کیفیت نے سر اٹھایا یاد ہے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی.....تمہیں دیکھتے ہی میری پلکیں وہاں ہی ساکت ہو گئیں شاید مجھے تم سے....."

"تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی تھی۔" وہ اس کی جھجھک کو محسوس کرتے ہوئے جھٹ سے بولا۔

"ہاں شاید......مگر مجھے شادی تو زبیر سے ہی کرنی تھی وہ پہلی محبت تھی....." وہ شانے اچکاتے ہوئے گہری سانس بھر کر مدھم آواز میں بولی۔

"تمہاری محبت زبیر تھا چوہدری ثمروز نہیں اور تمہیں ثمروز سے محبت تھی بھی نہیں۔" وہ کتنی سچی باتیں کر رہا تھا۔

"تو کیا اب تم مجھ سے شادی کر کے مجھے ٹارچر کرو گے؟ تمہارے دوستوں کو جو تکلیف پہنچائی۔" وہ ڈری ہوئی تھی۔ حدثان چند پل اس کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"بہت آگے کی سوچ ہے تمہاری......خیر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں بس میں چاہتا ہوں کہ اب مزید کوئی بھی میری وجہ سے فرار کا راستہ اختیار نہ کرے۔" وہ کچھ جتانے والے انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔

"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں......میں اٹلی جا رہی ہوں؟" وہ واقع ہی حیراں ہوئی تھی۔

"اِس وقت میں تمہارے ساتھ فلرٹ نہیں کرنا چاہتا، نہیں تو کہتا کہ.....تمہارے ہر ہر پل کی مجھے خبر ہے تمہارے دل کی دھڑکنوں تک رسائی حاصل ہے۔" وہ شرارت سے بول رہا تھا مگر الفت کا رنگ حیا سے سرخ ہو گیا۔

"میں تمہارے انکل آنٹی سے بات کروں گا۔ اب اگر فرار ہونا ہی ہوا تو میرے ساتھ پاکستان کے کسی شہر میں ہنی مون کے لیے چلنا۔ " وہ اس کی تھوڑی کے تلے انگلی ٹکا کر بولا۔

"حدثان! رکو پہلے میری تو سن لو۔"

وہ اس کے عقب سے نکلنے لگا تو الفت نے اس کا بازو تھام لیا۔

وہ رک گیا۔

"میں نے ثمروز اور سروش کو الگ کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں......"

"گزرے کل کو آج میں شامل مت کرو۔ جو ہو گیا اسے بھول جاؤ۔محبت میں انسان بہت کچھ کر جاتا ہے۔

اور ویسے بھی ہم انسان پرفیکٹ نہیں ہوتے، بہت سارے گناہ بھی کرتے ہیں۔مگر اس کی معافی بھی مانگ لینی چاہیے کیونکہ ہم انسان ہیں۔" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تو وہ اس پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے سر جھکا گئی۔

"میری صرف دو خواہشات ہیں۔" وہ پشت پہ ہاتھ باندھے سنجیدہ لہجے میں بولا پر چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

"تم یہ عجیب و غریب لباس زیب تن نہیں کرو گی.....تاکہ لوگ تمہیں میلی نظروں سے نہ گھوریں۔ اور دوسری میرے بیٹے کو اپنا بیٹا سمجھو گی۔

الفت! اسے ماں کا پیار نہیں ملا اور میں چاہتا ہوں کہ تم اسے وہ پیار دو۔ان دو خواہشات کے بدلے اگر تم دنیا بھی مانگو تو میں پوری دنیا تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا۔" وہ بول کر خاموش ہوا تو الفت نے نظریں اٹھا کر اس کے چہرے پر کچھ تلاشا تھا مگر وہاں سچائی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

"الفت اتنی بھی بری نہیں ہے چوہدری حدثان! محبت جب بھی کرتی ہے شدت سے کرتی ہے۔ نمونہ آپ کے سامنے ہی تھا۔" وہ کہہ کر قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

"میں وعدہ کرتی ہوں....آپ کو کبھی بھی دھوکہ نہیں دوں گی۔ہمیشہ وفادار بیوی بن کر آپ کا ساتھ دوں گی۔ جانتی ہوں آپ مجھ سے اتنی شدید محبت نہیں کرتے مگر امید ہے بہت جلد میں آپ کو اس غلطی پہ مجبور کر دوں گی۔" 

وہ محبت پاش نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کھنکتی آواز میں کہہ کر مسکراتے ہوئے جانے لگی مگر کچھ سوچ کر رک گئی۔

"اور ہاں۔ مجھے دنیا نہیں چاہیے.....صرف تم چاہیے حدثان چوہدری! وہ بھی قدموں میں نہیں  بلکہ میرے ساتھ۔" وہ آنکھ دبا کر بولی تو حدثان  مسکرا کر چادر شانوں کے گرد درست کرتا اس کی جانب بڑھا۔

نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا تھا۔

حدثان نے اگلے ہی دن خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا جس پر وہ سب بوکھلا کر رہ گئے تھے۔

الفت ایک ذہین لڑکی تھی ،ٹھیک دوسرے دن وہ نور سے ملنے والے تمام ثبوت جو کہ جازیہ کے خلاف تھے لیے پولیس اسٹیشن پہنچی اور وہ اسے رہا کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

"مجھے تو لگا کہ تم تین چار سال تو مجھے جیل میں سڑنے دو گی۔" وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مزاحیہ خیز انداز میں کہہ رہا تھا۔

"تم نے کوئی قتل نہیں کیا محض اپنے بچاؤ میں فائرنگ کی تھی اور خیر چھوڑو یہ سب پاسٹ کو فیوچر میں مت لاؤ۔" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تھی حدثان نے اس کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے اس پر اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کر دی جس پر الفت شرما کر سر جھکا گئی تھی۔

ان دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔

اور الفت بلکل حدثان کے رنگ میں رنگ گئی تھی۔

سروش اور ثمروز امریکہ چلے گئے کیونکہ وہاں بزنس بنا زبیر کے ڈوب جانا تھا اور مسز آفندی کو بیٹے کی ضرورت تھی۔

یوں سب کی زندگی اپنے ٹریک پر واپس لوٹ آئی تھی۔

کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔

سب ثواب بھی کماتے ہیں اور گناہ بھی کرتے ہیں......

اور جب انسان خود ہی اپنی حقیقت جانتا ہے تو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو کیوں کر گناہ کرنے پہ بیچ بازار میں بےعزت کرتا ہے؟معاف کیوں نہیں کرتا؟

اپنے گناہوں کی معافی.......اللّٰہ سے  مانگ کر اگر وہ اپنے گناہوں کو معاف کروانے کا خواہش مند رہتا ہے تو پھر.......پھر دوسروں کو معاف کرنے میں اتنے پس و پیش سے کام کیوں لیا جاتا ہے؟

کیونکہ یہ سب انسان کی فطرت میں ہے.....

مگر معاف کرنا بھی انسان کے ظرف کو ظاہر کرتا ہے۔

********

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sulagti Shab Ki Chandni Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Shab Ki Chandni written by Tayyaba Ch. Sulagti Shab Ki Chandni by Tayyaba Ch is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages