Manzil E Ishq By Harram Shah New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 19 July 2024

Manzil E Ishq By Harram Shah New Romantic Complete Novel

Manzil E Ishq By Harram Shah New Romantic Complete  Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Manzil E Ishq By Harram Shaha Complete Romantic Novel 

Novel Name: Manzil E Ishq  

Writer Name: Harram  Shah

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"یہ کیا ہے عثمان ملک جواب چاہیے مجھے اسکا۔۔۔۔"

وجدان خان اس وقت عثمان ملک کے ساتھ اس کے آفس میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب  اچانک عشال نے وہاں آکر ایک کاغذ عثمان کی جانب پھینکا اور غصے سے پھنکاری۔

"کیا ہوا عشال؟"

وجدان نے پریشانی سے پوچھا۔

"یہ تو آپ اس شخص سے پوچھیں بھائی کہ کیوں اس نے ایک مظلوم لڑکی ردا کو تیرہ سال سے قید کر رکھا ہے اور یہی نہیں وہ اتنے سالوں سے اسکی قید میں ٹارچر سہہ رہی ہے ۔۔۔۔"

عشال نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا  اپنی پہلی بیوی کا ذکر سن کر عثمان بہت مشکل سے اپنا غصہ ضبط کئے ہوئے تھا۔

وہ بھلا کیسے بھول سکتا تھا کہ وہ عورت اس کے بچے کی قاتل تھی اور حمنہ کی بھی جان لینے کی پوری کوشش کی تھی اس نے۔اسی لئے تو عثمان نے تیرہ سال سے اسکی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی۔

عثمان اپنی جگہ سے اٹھا اور عشال کے سامنے آیا۔

"میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں وہ عورت میری مجرم ہے جو مرضی کروں میں اس کے ساتھ تم اپنے کام سے کام رکھو۔"

عثمان کے انتہائی زیادہ سفاکی سے کہنے پر عشال نے بغیر سوچے سمجھے اس کا گریبان پکڑا۔

"تمہیں کوئی حق نہیں بنتا کسی پر اس طرح سے ظلم کرنے کا اسے تم میری وارننگ سمجھو اور اسے آزاد کر دو ورنہ تم جانتے نہیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔"

عشال کو غصے میں دیکھ وجدان آگے بڑھا اور اسے عثمان سے دور کیا۔

"مجھ سے تو تم بھی واقف نہیں ہو لڑکی میرے معاملے سے دور رہو ورنہ تمہاری جان لینے سے پہلے تمہیں وارننگ بھی نہیں دوں گا۔۔۔"

"عثمان۔۔۔!!!"

عثمان کی بات پر وجدان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا غصہ دور کرنا چاہا۔

"تم دونوں کو اطمینان سے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔۔"

وجدان نے تاکید کرنا چاہیے جس سے عشال نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ عثمان کے قریب ہوئی تھی۔

"دو دن کا وقت دے رہی ہوں میں تمہیں دو دن میں وہ لڑکی ہوں آزاد ہونی چاہیے ورنہ تمہاری یہ سچائی دنیا کو دیکھا کر تمہارا جو بہترین حکمران والا ایمج ہے نا مٹی میں ملا دوں گی تمہارے خلاف ہر ثبوت ہے میرے پاس یاد رکھنا یہ۔۔۔۔"

عشال اپنی بات کہہ کر وہاں سے جانے لگی۔

"تم چاہے کچھ بھی کر لو اس لڑکی کو نہ میں آزادی دوں گا اور نہ ہی موت اور اگر تم میرے راستے میں آئی تو تمہیں ضرور آزاد کر دوں گا۔۔۔"

عشال ایک پل کو اس کی بات سننے کے لئے رکی اور پھر وہاں سے کوئی جواب دئیے بغیر وہاں سے چلی گئی۔عشال کے جاتے ہی وجدان غصے سے اس کی جانب بڑھا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی ملک میری بہن سے اس طرح سے بات کرنے کی؟ اسے دھمکی دینے کی؟"

عثمان کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی۔

"میں تمہیں بھی یہی دھمکی دوں گا دوست اپنی بہن کو میرے معاملے سے دور رکھو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"

اتنا کہہ کر عثمان وہاں سے جا چکا تھا۔وہ جانتا تھا کے وجدان اس کی دھمکی کو سنجیدگی سے لے گا کیونکہ وہ ملک کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن ان کی زندگیوں میں آنے والے طوفان سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

اس واقعے کو گزرے دو دن ہو گئے تھے۔وجدان نے عشال کو سمجھانا چاہا تھا کہ وہ عثمان کے معاملے سے دور رہے لیکن عشال نے کبھی کسی کی سنی ہی کہاں تھی۔

لیکن وجدان کو عثمان کی کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عثمان نے جو کہا تھا وہ محض ایک دھمکی تھی وہ وجدان کا بہت اچھا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ زرش کی بہن کا شوہر بھی تھا تو بھلا کیسے وہ عشال کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔

"وجدان آپکو پتہ ہے ابھی عشال کا فون آیا وہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے میں پھر سے مامی بننے والی ہوں ۔۔۔"

زرش نے کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشی سے کہا تو وجدان اپنی سوچوں کو جھٹک کر مسکرا دیا۔

"جانتا ہوں نور خان تم سے پہلے سعد مجھے فون کرکے بتا چکا ہے لیکن میں سوچ رہا تھا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں ہمیں بھی تو عشال کو پھر سے پھپھو بنانا چاہیے نا۔"

وجدان کی بات پر زرش سرخ ہو گئی تو وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔وہ صرف اسے ستا رہا تھا حالانکہ خواہش ہونے کے باوجود وہ مزید بچے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی جڑواں بیٹیوں ہانیہ اور وانیہ کے پیدا ہونے پر ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ پھر سے ماں بننا زرش کے لیے خطرناک ہے۔اور اپنی نور کی زندگی خطرے میں ڈالنے سے پہلے وہ مرنا پسند کرتا۔

"آپ ناں بہت برے ہیں شرم کریں اب تو بوڑھے ہو گئے ہیں۔۔۔۔"

زرش نے لاڈ سے کہا اور اسکے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔

"حیرت ہے میں تمہیں اتنی جلدی بوڑھا لگنے لگا جبکہ تم تو آج بھی مجھے ویسی ہی لگتی ہو جب سردی سے بچنے کے لیے میری پناہوں میں۔۔۔۔"

زرش نے فورا اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھا اور اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔ہنستے ہوئے وجدان اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تو کچھ دیر بعد ہی زرش نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔

رات کا تقریباً ایک بج رہا تھا جب وجدان کی آنکھ اپنے موبائل کی آواز پر کھلی۔اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو عشال کا میسج تھا۔

وہ میسج پڑھ کر ساتوں آسمان وجدان پر ایک ساتھ گرے۔

ہمارے گھر کوئی گھس آیا ہے جلدی سے پولیس کو لے کر آ جائیں بھائی۔

عشال کا میسج پڑھ کر وجدان جلدی سے اٹھا اور پولیس کو کال کر کے اپنی بندوق پکڑی اور آ کر گاڑی میں بیٹھا۔

اسکا دل خوف سے دہل رہا تھا۔عشال اور سعد کا گھر انکے گھر سے آدھے گھنٹے کی دوری پر تھا اور وجدان نے وہ مسافت دس منٹ میں پوری کی۔

اس کے وہاں پہنچتے ہی پولیس بھی وہاں پر پہنچ چکی تھی۔وجدان نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ہزاروں موت مرا۔

سامنے ہی سعد کا بے جان وجود فرش پر پڑا تھا ایک گولی انتہائی بے رحمی سے اسکے سر میں ماری گئی تھی۔

وجدان کی نظر مزید آگے بڑھی تو خون میں لت پت عشال کو دیکھ کر وہ بھاگ کر اسکے پاس گیا اور اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔

"وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے ڈھونڈو انہیں۔"

انسپکٹر نے گھر کی حالت دیکھ سپاہیوں کو حکم دیا۔

"عشال۔۔۔"

وجدان نے اسے اپنی باہوں میں دبوچا۔جانا پہچانا لمس محسوس کر ایک پل کو عشال کی آنکھیں کھلیں اور اس نے چند سانس بھرے۔

"مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ہار۔۔۔۔گئی بھائی۔۔۔۔میرے معراج کا۔۔۔۔خخ۔۔۔۔خیال۔۔۔۔"

عشال اتنا ہی بول پائی اور پھر اسکی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اسکی دھڑکنیں بھی رک رہی تھیں۔

"کس نے کیا یہ عشال بولو کس نے کیا؟"

عشال نے چند گہرے سانس بھرے اور پھر ہلکی سی آواز میں بولی۔

"مم۔۔۔ملک۔۔۔"

وہ نام سن کر وجدان ایک پل کو پتھر کا ہو گیا لیکن پھر عشال کی اکھڑتی سانسوں کو دیکھ کر بہت زیادہ بے چین ہوا۔

"عشال۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔۔۔۔"

وجدان نے نم آنکھوں کے ساتھ چلاتے ہوئے عشال کو باہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگنے لگا جب اسکی نظر سعد پر پڑی جسکے بے جان جسم کے گرد خون بکھرا پڑا تھا۔

"آفسر تم۔۔۔۔۔تم سعد کو لاؤ ہم۔۔۔۔ہم انہیں ہاسپٹل لے جائیں گے کچھ نہیں ہو گا انہیں۔۔۔۔"

وجدان بے چینی سے کہہ رہا تھا زندگی میں پہلی بار وہ اس قدر بے چین تھا کہ اپنی بات بھی نہیں کر پا رہا تھا اور ہوتا بھی کیوں نا اسکا آخری رشتہ اس وقت اسکی باہوں میں دم توڑ رہا تھا۔

"سر۔۔۔۔پلیز۔۔۔وہ دونوں مر چکے ہیں۔۔۔"

"نہیں...!!! کچھ نہیں ہوا میری بہن اور دوست کو سنا تم نے کچھ نہیں ہونے دوں گا میں انہیں۔۔۔۔"

وجدان روتے ہوئے چلایا اور پھر عشال کا وجود گاڑی میں ڈال کر وہ سعد کی جانب لپکا۔

ایک پولیس والا زارو قطار روتے ہوئے پانچ سالہ معراج کو باہوں میں اٹھا کر وہاں لایا۔

"یہ بچہ کمرے میں بیڈ کے نیچے چھپا تھا سر وہاں سے ملا مجھے یہ ٹھیک ہے بلکل۔۔۔۔"

انسپکٹر نے ہاں میں سر ہلایا اور وجدان کو  بے چین دیکھ اسکا ساتھ دینے لگا لیکن وہ سب جانتے تھے کہ سب بے سود تھا۔وہ دونوں ہی یہ دنیا چھوڑ کر جا چکے تھے۔

                    ❤️❤️❤️❤️

وجدان خاموشی سے بیٹھا اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔بہت سے آنسو اس کی چوڑی ہتھیلی کو تر کر رہے تھے لیکن وجدان ہر چیز سے بے نیاز تھا۔

دو دن گزر چکے تھے ان دونوں کی موت ہوئے لیکن آج بھی اسکی آنکھوں کے سامنے بس اپنی بہن اور دوست کے خون سے سنے جسم پڑے تھے۔

"وجدان۔۔۔۔"

شایان کی آواز پر وجدان وحشت کے عالم سے باہر آیا۔

"کس نے کیا یہ سب؟"

اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے شایان نے بہت زیادہ سختی سے پوچھا۔

"ملک۔۔۔"

بولتے ہوئے وجدان کی سبز آنکھیں بھی غم اور غصے کی شدت سے نم ہوئی تھیں۔

"نہیں وجدان وہ عثمان نہیں ہو سکتا۔۔۔"

شایان نے بے یقینی کی کیفیت میں کہا۔

"عشال کی زبان پر اس کا نام تھا شایان۔۔۔۔ابھی چند دن پہلے اس نے میری بہن کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا اور اس نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔۔۔۔میں چھوڑوں گا نہیں اسے۔۔۔"

وجدان اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگا تو شایان اس کی جانب لپکا۔

"نہیں وجدان ابھی نہیں پولیس کو تفتیش کر لینے دو ضروری تو نہیں کہ وہ ملک عثمان ہی ہو۔۔۔ہمیں اتنی جلدی کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا۔"

شایان کی بات میں مصلحت دیکھ کر وجدان نے ہاں میں سر ہلایا ۔تبھی پولیس انسپکٹر ان سے ملنے کے لیے آیا۔

"کچھ پتہ چلا؟"

وجدان نے انسپکٹر کو دیکھتے ہی بے چینی سے پوچھا۔

"سر وہاں ہمیں وہ گن ملی جس سے دونوں کو گولی ماری گئی۔اس گن پر قاتل کے انگلیوں کے نشان اور شوز کے پرنٹس ملے۔۔۔"

انسپکٹر نے پوری بات بتائی تو وجدان کے ساتھ ساتھ شایان بھی بے چین ہوا۔

"کس کی گن تھی وہ؟"

انسپکٹر ایک پل کو ہچکچایا۔

"سر وہ گن،اس پر موجود فنگر پرنٹس اور جوتوں کے نشان سب عثمان ملک کے ہیں۔۔۔اس لیے ہم انہیں اریسٹ کرنے آئے ہیں۔"

شایان نے حیرت سے انسپکٹر کو دیکھا جبکہ وجدان یہ سن کر رکا نہیں۔باہر آ کر وہ سیدھا مہمانوں میں کھڑے عثمان کے پاس گیا اور اسکا گریبان ہاتھوں میں دبوچا۔

"قاتل کیوں کیا تم نے ایسا بولو کیوں لی میری بہن اور دوست کی جان بولو۔۔۔۔کیوں؟"

چلاتے ہوئے وجدان نے کئی مکے عثمان کے منہ پر مارے۔

"نہیں وجدان میری بات سنو یہ جھوٹ ہے الزام ہے مجھ پر۔۔۔"

عثمان کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وجدان کچھ بھی سنے بغیر اسے مار رہا تھا۔حمنہ،جانان اور زرش سائیڈ پر کھڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔

تبھی شایان آگے بڑھا اور وجدان کو پکڑ کر عثمان سے دور کیا۔انسپکٹر نے آگے بڑھ کر عثمان کو ہتھکڑی پہنائی۔

"مسٹر عثمان ملک آپکو کیپٹن سعد رفیق اور انکی بیوی کے قتل کے جرم میں اریسٹ کرنے کا وارنٹ ہے میرے پاس۔"

انسپکٹر کی بات سن کر حمنہ بھاگ کر ان کے پاس آئی۔

"نہیں یہ جھوٹ ہے عثمان ایسا نہیں کر سکتے جانتی ہوں میں۔۔۔ آپ کہیں نہیں لے کے جا سکتے میرے شوہر کو"

حمنہ زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور گیارہ سالہ سالار سہم کر ماں کے ساتھ لگا ہوا تھا۔

"میم پلیز کاپریٹ۔۔۔"

اتنا کہہ کر پولیس والے عثمان کو وہاں سے لے گئے جبکہ حمنہ اور سالار روتے ہوئے انکے پیچھے بھاگتے رہ گئے تھے۔

                      ❤️❤️❤️❤️

آج ایک ہفتے کے بعد عثمان کی سنوائی تھی۔عثمان بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا لیکن حمنہ کے علاوہ کسی کو بھی اس کی بات پر یقین نہیں تھا۔

سب ثبوت عثمان کے خلاف تھے۔جس بندوق سے گولی چلائی گئی تھی وہ عثمان کی پرسنل گن تھی،اس پر عثمان کی انگلیوں کے نشان تھے۔عشال اور سعد کے گھر خون میں سنے جوتوں کے نشان بھی عثمان کے ہی تھے۔یہاں تک کہ سی سی ٹی وی میں جو گاڑی انکے گھر کے باہر رکی تھی وہ بھی عثمان کی ہی تھی۔ گاڑی میں سے نکلنے والے آدمیوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے لیکن اس شخص کا حلیہ بلکل عثمان جیسا تھا۔

جج نے اس سنوائی میں کوئی سزا نہیں سنائی کیونکہ عثمان بہت بڑا سیاستدان تھا لیکن ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے جج بھی عثمان پر جرم ثابت کرچکا تھا۔

یہ فیصلہ آنے کے بعد وہ عوام جو عثمان ملک کو سب سے اچھا حکمران ایک مسیحا سمجھتی تھی وہی اس کے خلاف ہو چکی تھی۔

اگر پوری دنیا میں کسی کو عثمان پر یقین تھا کہ وہ بے قصور ہے تو وہ صرف حمنہ تھی جو عثمان کے جیل جاتے ہی مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔

وجدان عدالت جانے کی تیاری کر رہا تھا۔آج عثمان کو جج نے اسکے کیے کی سزا سنانی تھی۔شایان اور جانان بھی انہیں کے گھر آنے والے تھے۔

وجدان پلٹا تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔

"کیا ہوا زرش؟"

وجدان نے نرمی سے پوچھا تو زرش اس کے قدموں میں بیٹھی اور اسکے پاؤں پکڑ لیے۔وجدان نے فوراً جھک کر اسکے ہاتھ اپنے جوتوں سے ہٹائے۔

"یہ کیا کر رہی ہو زرش؟"

وجدان نے بے چینی سے اسے دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی پھر سے اسکے پاؤں تھام رہی تھی۔

"وجدان پلیز۔۔۔عثمان بھائی کو معاف کر دیں۔۔۔انہیں سزا سے بچا لیں وجدان ۔۔۔۔میری بہن مر جائے گی ۔۔۔"

زرش پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔وجدان اس کے ہاتھ چھوڑے اور کھڑا ہوا۔

"اور اس نے جو میری بہن کی جان لے لی اسکا کیا زرش؟ میرا آخری رشتہ تھی وہ اور اس ظالم نے دو نہیں زرش تین زندگیاں لی ہیں۔۔۔"

وجدان نے غصے سے کہا اور زرش اٹھ کر بس سر جھکاتے ہوئے رو رہی تھی۔

"میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا زرش کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

"میری خاطر وجدان۔۔۔اگر آپ مجھ سے تھوڑی سی بھی محبت کرتے ہیں تو اس محبت کا واسطہ ہے آپ کو۔۔۔"

زرش کی بات پر وجدان نے شکوہ گناہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"تمہیں رحم نہیں آتا زرش کیسے تم اس بات کے لئے مجھے اپنی محبت کا واسطہ دے سکتی ہو؟"

زرش نے اپنا سر شرمندگی سے جھکایا لیکن وہ بھی کیا کرتی اپنی بہن کو اس کے شوہر کے بنا پل پل پر مرتے ہوئے بھی تو نہیں دیکھ سکتی تھی۔

"آپ جو کہیں گے وجدان میں وہی کروں گی لیکن پلیز عثمان بھائی کو معاف کر دیں انہیں سزا سے بچا لیں ورنہ میری آپی مر جائیں گی وجدان۔۔۔۔"

وجدان نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔

"آپکو میری قسم وجدان۔۔۔"

زرش کی اس بات پر وجدان رکا اور غصے سے اپنا ہاتھ شیشے کی کھڑکی میں مار کر شایان کو دیکھا جو بے بسی سے کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔وہ وجدان کو کیا کہتا اسکی زبان پر تو جانان پہلے ہی اپنی محبت کے واسطے دے کر تالے لگا چکی تھی۔

"تم نے دیکھا یہ کیا کہہ رہی ہے شایان۔۔۔اسے کہہ دو کہ میں اس کی یہ بات کبھی بھی نہیں مانوں گا۔۔۔"

وجدان نے غصے سے کہا تو شایان نے اپنا سر جھکا لیا۔

"حمنہ کی حالت سچ میں بہت خراب ہے وجدان اگر عثمان کو کچھ ہوا تو وہ مر جائے گی۔۔۔پھر ہم سالار سے بھی اسکے ماں باپ کو چھین کر اسے معراج بنا دیں گے وجدان۔۔۔"

شایان کی بات پر وجدان نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

"اس نے سعد کی جان لی ہے شایان کیا کچھ نہیں کیا سعد نے تمہارے لیے اور آج تم اس کا بدلہ اس طرح سے چکاؤ گے اس کے قاتل کو چھوڑ کر۔۔۔۔؟"

وجدان کے بے یقینی سے پوچھنے پر شایان نے اپنا سر جھکا لیا۔

"اگر میری جگہ سعد ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔۔۔"

شایان کی آواز غم و غصے سے تر تھی۔وجدان نے اب کی بار بے بسی سے پاس پڑی میز کو پٹخ کر توڑ دیا۔

بہت دیر وہ غصے سے چلاتا رہا پھر اس نے مڑ کر زرش کو دیکھا جو سہم کر نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"اسکے لیے تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا نور۔۔۔مجھے اتنا بے بس کرنے کے لئے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔"

وجدان کی بات پر زرش کانپ کر رہ گئی اس نے تڑپ کر وجدان کے قریب ہونا چاہا تو وجدان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے وہیں روک دیا۔

"حمنہ سے کہہ دو کہ میں نے اس کے شوہر کو اپنی بہن کا خون معاف کیا لیکن اس کے بعد تمہارا یا ہمارے گھر سے کسی کا بھی عثمان ملک یا اس سے جڑے کسی شخص سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔۔۔۔اور اگر تم نے ان سے ملنے کی کوشش کی تو جان لے لوں گا اپنی۔۔۔"

اتنا کہہ کر وجدان وہاں سے چلا گیا اور شایان نے بھی ایک نگاہ سر جھکا کر روتی ہوئی جانان کو دیکھا۔

"یہی اصول تم پر بھی لاگو ہوں گے جانان یاد رکھنا۔۔۔"

شایان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور جانان زرش کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

وجدان کے کیس واپس لینے کے بعد عثمان آزاد تو ہو چکا تھا لیکن اس کا پورا کریئر اس کی عزت سب خاک میں مل چکا تھا۔

جو لوگ اسے مسیحا سمجھتے تھے اب وہ ان کے لئے ایک قاتل بن چکا تھا اور اس بات نے عثمان ملک کو مکمل طور پر توڑ دیا تھا۔

"عثمان۔۔۔"

حمنہ نے اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو تڑپ کر اس کے پاس بیٹھی تھی۔عثمان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

"کیا تم بھی باقی سب کی طرح مجھے قاتل سمجھتی ہو حمنہ؟"

حمنہ نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔

"میں جانتی ہوں عثمان کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا ساری دنیا تو کیا اگر آسمان سے فرشتہ اتر کر بھی آپ پر انگلی اٹھائے تو میں اس پر بھی یقین نہیں کروں گی۔۔۔۔آپ فکر مت کریں عثمان برا وقت ہے انشاءاللہ ٹل جائے گا کوئی آپ کے ساتھ ہو نہ ہو میں اور سالار ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔"

اتنا سننا تھا عثمان نے حمنہ کو خود میں بھینچ لیا۔

"میں سچ میں تمہارے قابل نہیں جان جہاں نہ جانے ایسا کون سا میرا عمل تھا جس کے بدلے میرے رب نے تمہیں مجھے دیا۔۔۔۔"

تبھی عثمان کا خاص آدمی خادم اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا جو عثمان کی پارٹی کا خاص نمائندہ بھی تھا۔

"کیا ہوا خادم سب ٹھیک ہے نا؟"

خادم نے انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں سر عوام کے ساتھ ساتھ پارٹی کے نمائندے بھی آپ کے خلاف ہو چکے ہیں وہ تو شائید اب آپ کو پارٹی کا سربراہ بھی نہ رہنے دیں۔۔۔"

اس بات پر حمنہ نے پریشانی سے عثمان کی طرف دیکھا۔

"میں ایسے اس الزام کو اپنی زندگی تباہ نہیں کرنے دوں گا ڈھونڈ لوں گا میں اصلی قاتل کو نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔"

عثمان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"میرے خیال سے یہ وقت کا تقاضہ نہیں سر۔۔۔"

"تو کیا کروں میں خادم؟"

"آپ کسی باہر کے ملک چلے جائیں سر ورنہ یہاں نہ لوگ آپ کو چین سے جینے دیں گے نہ ہی آپ کے گھر والوں کو۔"

عثمان نے انکار میں سر ہلایا۔

"میں ایسے بھاگوں گا نہیں۔۔۔۔خود کو بے قصور ثابت کروں گا میں۔"

عثمان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا تو حمنہ نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"میرے خیال میں سر آپ کو جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔چھوٹا سا بیٹا ہے آپکا آپ کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"

خادم نے سر جھکا کر کہا۔عثمان نے حمنہ کی طرف دیکھا تو اس نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔وہ اپنا کل جہان کھونا نہیں چاہتی تھی۔

"ٹھیک ہے تم ہمارے کینیڈا جانے کے انتظامات پورے کر دو خادم میں سالار کو اس ماحول سے نکالنا چاہتا ہوں۔"

خادم نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔

"سالار کو کیسے مناؤں گی عثمان وہ تو جنت سے اتنی دور جانے کے لیے کبھی نہیں مانے گا۔۔۔۔"

حمنہ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا۔عثمان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے۔

"اس سے کہنا کہ اسکا باپ اب اس ملک کے قابل نہیں رہا۔۔۔وہ میرا بیٹا ہے حمنہ سمجھ جائے گا۔"

عثمان نے تلخی سے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ان سب کی زندگیاں نئے موڑ لے چکی تھیں لیکن ابھی تو منزل پر پہنچنے کا سفر شروع ہوا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

شایان،وجدان اور سعد تینوں آرمی میں تھے اور بہت زیادہ اچھے دوست بھی۔وجدان کی بیوی زرش اور شایان کی بیوی جانان آپس میں بہنیں تھیں جبکہ سعد کی بیوی عشال وجدان کی بہن تھی۔ان سب کے علاؤہ جانان اور زرش کی ایک اور بڑی بہن تھی حمنہ،جسکی شادی ایک سیاستدان عثمان ملک سے ہوئی تھی۔

ظلم کے خلاف لڑنا اور ظالم کو سزا دینا وجدان کی بہن عشال کا جنون تھا اور اسی کے زیر اثر وہ ایک گینگسٹر سکندر کا روپ ڈھال کر بہت سے گنہگاروں کو سزا دے چکی تھی۔

وجدان کی بہادر اور طاقتور بہن اسکا غرور تھی لیکن اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی بہادری کا یہ انجام نکلے گا کہ وہ خود کی اور سعد کی جان کی گنوا دے گی۔

چند سال پہلے تک وجدان،شایان،عثمان اور سعد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس چھوٹے سے خاندان میں بہت خوش تھے لیکن اب انکی زندگیوں میں بہت بڑا طوفان آ چکا تھا۔

"وجدان۔۔۔۔"

شایان نے وجدان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے پکارا۔

"ہوں۔۔۔۔"

وجدان نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

"کیا میں تم سے کچھ مانگ سکتا ہوں؟"

"ہاں کہو۔۔۔"

وجدان نے شایان کو دیکھا جو سر جھکائے تھا لیکن وہ اسکی آواز میں نمی کو محسوس کر سکتا تھا۔

"تم معراج کو مجھے دے دو وجدان پلیز۔۔۔۔"

شایان کی مانگ پر وجدان خاموش ہو گیا۔شایان کی مانگ بھی تو بہت زیادہ تھی معراج وجدان کے پاس عشال کی آخری نشانی تھا۔

"میں جانتا ہوں کہ وہ تمہاری اکلوتی بہن کی آخری نشانی ہے لیکن یار وہ سعد کی تو نشانی بھی ہے نا۔۔۔۔۔۔"

شایان کی آواز آنسوؤں سے رندھ چکی تھی۔

"میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی جنت سے زیادہ میں معراج سے پیار کروں گا جان سے زیادہ اسکا خیال رکھوں گا۔۔۔میری کوئی اور اولاد بھی نہیں ہو گی وجدان وعدہ کرتا ہوں اپنا سارا پیار صرف معراج کے لیے رکھوں گا۔۔۔۔لیکن پلیز یار میرے دوست کی نشانی مجھے سونپ دو۔۔۔۔"

شایان ہاتھ جوڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور اسے اس طرح روتے دیکھ وجدان کی پلکیں کرب سے نم ہوئیں۔

ہر کوئی اس بات سے واقف تھا کہ شایان اور سعد چاہے صرف دوست تھے لیکن ان کے درمیان محبت بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھی۔

"معراج آج سے تمہارا بیٹا ہے شایان۔۔۔۔وہ تمہارے پاس ہی رہے گا۔۔۔۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم اسکا خیال مجھ سے بھی بڑھ کر رکھو گے۔۔"

وجدان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو شایان نے تشکرانہ نگاہوں سے وجدان کو دیکھا۔

"شکریہ دوست"

شایان نم آنکھوں سے مسکرایا۔اب ان کی زندگی کونسے موڑ لے گی یہ بس قسمت کو ہی پتہ تھا۔

(چودہ سال بعد)

"جانے دو مجھے خدا کے لیے جانے دو کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا بولو۔۔۔"

جب سے اسے ہوش آیا تھا اس آدمی کو یہاں باندھا گیا تھا۔اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ اس نے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا تھا اسکے بعد وہ اچانک سڑک پر بے ہوش ہو گیا اور ہوش آیا تو اس سنسان سے کمرے میں بندھا ہوا تھا۔

"کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟"

وہ پھر سے اپنے ہاتھوں کو رسیوں سے کھینچتا چلایا۔تبھی اندھیرے سے کالے کپڑوں میں ایک ہیولا نظر آیا۔

"کک۔۔۔کون ہو تم کیوں لائے مجھے یہاں؟"

اس نے کالے کپڑوں میں ملبوس اس شخص سے پوچھا جس نے اپنا چہرہ تک  ایک کالے رومال سے چھپایا ہوا تھا۔لیکن اس نے کوئی جواب دیے بغیر ایک چاقو نکالا اور اسکی نوک اسکی آنکھ کے پاس لایا۔

"نہیں۔۔۔نہیں کیوں کر رہے ہو ایسا کیوں۔۔۔؟"

جواب میں بس اس شخص نے خطرناک سبز آنکھوں سے اس آدمی کو دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وجہ تم جانتے ہو۔

"ممم۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا وہ۔۔۔وہ لڑکی اپنی مرضی سے میرے قریب۔۔۔۔"

تبھی کالے کپڑوں والے آدمی نے اس چاقو کو اسکے چہرے پر مار کر لمبا سا کٹ لگایا جو شائید یہ بھول چکا تھا کہ وہ ایک تیرہ سال کی بچی کے بارے میں بات کر رہا تھا جسکو اس نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا تھا۔

"مم۔۔۔۔معاف۔۔۔معاف کر دو۔۔۔"

تبھی کچھ بولے بغیر اس سبز آنکھوں والے جلاد نے چاقو اس شخص کی گردن پر رکھا ۔

"کک۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔آخر کون ہو تم؟"

سبز آنکھوں میں مزید وحشت آئی تھی۔

"سکندر ۔۔۔"

اتنا کہہ کر اس نے وہ چاقو اسکی گردن میں گاڑھ دیا اور اسے مرتا ہوا چھوڑ وہاں سے چلا گیا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

"شارٹ سرکٹ۔۔۔۔شارٹ سرکٹ۔۔۔۔۔"

اس وقت اس کے سامنے ایک بہت پیاری سی لڑکی بیٹھی پیار بھری باتیں کر رہی تھی جب اچانک ہی وہ اسے پیار سے شارٹ سرکٹ بلانے لگی تو معراج ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

"کک۔۔۔کیا ہے ۔۔۔بلی"

معراج نے نظر کا چشمہ آنکھوں پر لگاتے ہوئے جنت کو دیکھا جو اسکے بیڈ پر بیٹھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیا مطلب کیا ہے؟لگتا ہے تم بھول گئے لیکن میں تمہیں خوشخبری سناتی ہوں شارٹ سرکٹ آج تمہارا رزلٹ ہے ۔۔۔۔"

"ررر۔۔۔۔رزلٹ۔۔۔۔"

رزلٹ کے نام پر ہی معراج گھبرایا تھا۔اسکے چہرے کا رنگ تک اڑ چکا تھا۔

"جججی۔۔۔۔۔رررر۔۔۔۔۔رزلٹ۔۔۔۔۔"

جنت نے اسکی آنکھوں سے چشمہ اپنی آنکھوں پر لگا کر اسکی نقل اتارتے  ہوئے کہا۔

"یاد ہے مجھے۔۔۔۔۔تتت۔۔۔۔۔تم مت سکھاؤ۔۔۔۔کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔"

معراج نے اس سے چشمہ چھین کر واپس اپنی سبز آنکھوں پر لگایا۔

"ارے میں نہ سکھاؤں تو کون سکھائے اب تم نے تو رکارڈ قائم کرنا ہے فیل ہونے کا مجھ سے ایک سال بڑے ہو تم میں سکول سے کالج میں آئی اور معراج صاحب فسٹ ائیر میں۔۔۔۔میں فسٹ ائیر پاس کر گئی اور معراج صاحب پھر بھی فرسٹ ائیر میں اور اب میں سکینڈ ائیر میں ہوں اور تم دیکھنا تم پھر سے فیل ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔پھر بھی بابا کا فیورٹ کون؟ معراج صاحب۔۔۔۔۔بابا زیادہ پیار کس سے کریں گے؟ معراج صاحب سے اور بات کس کی مانیں گے معرا۔۔۔۔۔"

معراج نے فوراً اپنا ہاتھ جنت کے چلتے منہ پر رکھا۔

"ممم۔۔۔۔۔میں پاس ہو جاؤں گا۔۔۔۔ددد۔۔۔۔دیکھنا تم۔۔۔۔زز۔۔۔۔زیادہ باتیں مت کرو ببب۔۔۔۔بلی"

"ددد۔۔۔۔دیکھ لوں گی ششش۔۔۔۔شارٹ سرکٹ۔۔۔"

جنت نے پھر سے اسکی نقل اتارتے ہوئے کہا اور اٹھ کر باہر بھاگ گئی۔

معراج بھی ہمت کر کے اٹھا اور فریش ہو کر خود کو شیشے میں دیکھنے لگا۔نفرت تھی اسے کمزوری سے لیکن وہ کچھ بھی کر لیتا وہ یہی تو تھا ۔۔۔۔کمزور۔

بچپن سے ہی وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا تھا اور اس کے ہکلانے کی وجہ سے ہی جنت مزاق سے اسے شارٹ سرکٹ کہتی تھی لیکن مجال تھی کہ جنت کے ہوتے ہوئے کوئی اسکے بیسٹ فرینڈ کا مزاق اڑاتا بقول جنت کے یہ حق صرف اسکا تھا۔معراج بھی تو اسکی سنہری آنکھوں کی وجہ سے اسے بلی بلاتا تھا۔

شایان نے دنیا جہان کا علاج کروایا تھا اسکا لیکن معراج کی یہ کمزوری دور نہیں ہوئی اور اب اسکی یہ کمزوری اسکے لیے احساس کمتری کا باعث بن چکی تھی۔

گہرا سانس لے کر معراج نیچے کھانے کی ٹیبل پر آیا اور اسے دیکھتے ہی شایان نے اٹھ کر اسے اپنے سینے سے لگایا معراج کا قد کاٹھ شایان جتنا ہی تھا۔

"کیسے ہو جوان؟"

شایان نے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے معراج سے پوچھا جبکہ جانان اب لاڈ سے معراج کا ناشتہ بنا کر اسکی پلیٹ میں رکھ رہی تھی۔

"ٹھیک۔۔۔۔بڑے۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"

معراج نے ہلکا سا گھبراتے ہوئے کہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس بار بھی فیل ہونے کی وجہ سے شایان کی نظروں میں گرے۔

"تم پریشان مت ہو بیٹا دیکھنا تمہارا رزلٹ بہت اچھا آئے گا مجھے پورا یقین ہے اپنے بیٹے پر۔۔۔۔"

معراج شایان کی بات ہر ہلکا سا مسکرایا۔

"کھانے کے ٹائم پر رزلٹ کی بات مت کریں شایان میرے بچے کو کھانا سکون سے کھانے دیا کریں۔"

جانان نے لاڈ معراج کا سر چومتے ہوئے کہا۔

"مما بابا مجھے بتا دیں میں آپکی ہی اولاد ہوں نا یا ترس کھا کر کہیں سے اٹھایا ہے۔۔۔۔"

جنت کے منہ پھلا کر کہنے پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔

"ہاں ناں مممم۔۔۔۔۔مسجد کے باہر سے ااا۔۔۔۔اٹھایا تھا۔۔۔بلی۔۔۔۔"

آخری لفظ معراج نے بس زیر لب کہا تھا۔

"ہاں اور تمہیں تو گٹر سے اٹھایا تھا نا ش۔۔۔۔شششش۔۔۔۔۔"

شایان کو گھورتا پا کر جنت کی زبان ش پر ہی اٹک چکی تھی جبکہ ان دونوں کی اٹھکیلیاں ہی تو شایان اور جانان کا کل جہان تھیں۔

                     ❤️❤️❤️❤️

"سالار تم ٹھیک تو ہو نا فون کیوں نہیں کیا تھا رات کو تم نے؟"

حمنہ کی پریشان سی آواز پر سالار مسکرا دیا۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں مما آپ فکر مت کریں آپ بتائیں پاپا ٹھیک ہیں؟"

سالار انکی پریشانی سے بخوبی واقف تھا۔ایک مہینہ ہو گیا تھا اسے کینیڈا سے پاکستان آئے ہوئے،وہ ملک جو انکا ہوتے ہوئے ان کے لیے پرایا ہو چکا تھا۔

"وہ ٹھیک ہیں بلکل۔۔۔۔کیا تمہاری جانان اور زرش سے ملاقات ہوئی؟"

حمنہ نے آہستہ سے پوچھا اپنی بہنوں کے بارے میں پوچھا۔

"نہیں لیکن بہت جلد کروں گا آپ فکر مت کریں اور اپنا اور بابا کا بہت خیال رکھیے گا۔۔۔"

سالار نے محبت سے کہا اور پھر اللہ حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔فون بند کرتے ہی اس نے الجھن سے ارد گرد موجود گاڑیوں کو دیکھا 

سالار بہت دیر سے اس ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا۔آج اسکی پہلی میٹنگ تھی اور پہلے دن ہی دیر سے پہنچنا سالار کو غصہ دلارہا تھا۔

"اور کتنا وقت لگے گا؟"

سالار نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے جمال کو دیکھتے ہوئے سختی سے پوچھا۔

"بھائی اگر یہ کار اڑتی ہو تو بس دو منٹ۔۔۔"

سالار کے گھورنے پر جمال ہلکا سا ہنس دیا جمال سالار کا گارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔

"پتہ نہیں بھائی  سامنے پولیس والوں نے روڈ بلاک کیا ہے شاید کسی سیاستدان کا قافلہ گزرنے والا ہے۔"

سالار نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ جن لوگوں کو یہ عوام اپنے فیصلے سے اپنا حکمران مقرر کرتی ہے وہ بعد میں کیوں انہیں ہی کمتر اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ؟

سالار نے ہاتھ میں پکڑا موبائل دیکھا تو سامنے ہی وال پیپر پر جنت کی مسکراتی ہوئی تصویر جگمگا رہی تھی جو اسے چند دن پہلے چپکے سے بنائی تھی۔ اسے دیکھ کر اتنے غصے میں بھی سالار کے ہونٹ مسکرا دیے۔ایک سکون سا اس وجود پر طاری ہونے لگا تھا۔ 

"جلدی سے بڑی ہو جاؤ بےبی گرل بہت انتظار کر لیا تمہارے اس دیوانے نے اب بس پوری دنیا سے چھین کر تمہیں اپنا بنانے آ چکا ہے۔۔۔۔۔"

سالار نے جنت کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ شدت سے کہا۔

"صاحب اور کتنی دیر لگے گی میرے بیٹے کو بہت بخار ہے۔۔۔۔"

ایک روتی ہوئی عورت کی آواز پر سالار نے موبائل بند کرکے ایک عورت کو دیکھا جو پولیس والوں کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔

"جاؤ بی بی چپ کر کے وہاں انتظار کرو دماغ نہ خراب کرو ہمارا۔۔۔"

ایک پولیس والے نے سختی سے کہا اور اس عورت کو ہلکا سا دکھا بھی دیا جبکہ یہ منظر دیکھ سالار کی بس ہوئی تھی۔

"بھائی رکیں آپ۔۔۔۔"

جمال نے کچھ کہنا چاہا لیکن سالار اسکی سنے بغیر غصے میں گاڑی سے باہر  نکلا اور سیدھا پولیس والوں کے سامنے گیا۔

"آدھا گھنٹہ ہو چکا ہے ٹریفک بند کیے مسلہ کیا ہے تم لوگوں کا؟"

سالار نے ان تین پولیس والوں کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

"ایم این اے صاحب نے کراس کرنا ہے یہاں سے اور وہ کبھی بھی آنے والے ہیں آپ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر انتظار۔۔۔۔"

پولیس والے کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سالار آگے بڑا اور سامنے لگائی جانے والی رکاوٹوں کو دھکیل کر راستے سے ہٹانے لگا۔

یہ کام پورا کر سالار نے گاڑیوں کو جانے کا اشارہ کیا تو ساری ٹریفک دوبارہ سے چلنے لگی۔

تب تک ایم این اے کی گاڑیاں بھی آ چکی تھیں لیکن ان کے گزرنے کے لیے  کوئی راستہ نہیں تھا۔

"اے شانے کون ہے تو سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔؟"

ایک پولیس والے نے آگے بڑھ کر سالار کو ہلکا سا دھکا دے کر کہا تو جواب میں سالار نے اسکا گریبان ہاتھ میں دبوچ لیا۔

"تمہیں یہ نوکری عوام کی خدمت کے لیے دی گئی ہے منسٹروں کی آؤ بھگت کے لیے نہیں۔۔۔۔"

سالار نے غصے سے اس انسپکٹر کو گھورتے ہوئے اس کے کام کا احساس دلایا۔

"کچھ زیادہ ہی اچھل رہا ہے تو جانتا بھی ہے پولیس والے پر ہاتھ ڈالنے کی سزا؟"

انسپکٹر نے سالار کے ہاتھوں سے گریبان چھڑانا چاہا لیکن سالار کی پکڑ بہت مظبوط تھی یہ دیکھ باقی پولیس والے آگے بڑھنے لگے۔

"تو ہاتھ ڈالنے کی بات کر رہا میں تو تجھ سے تیری یہ وردی چھین لوں جسکی نہ تو تجھے قدر ہے اور نہ ہی اسکا مقصد پتہ ہے ۔۔۔۔"

سالار نے جھٹکے سے اس انسپکٹر کو چھوڑا اور اپنی جیب سے اپنا کارڈ نکال کر انسپکٹر کے سامنے کیا جسے دیکھ انسپیکٹر کا رنگ اڑ چکا تھا۔

"سسسس۔۔۔۔سوری سر وہ مجھے پتہ نہیں تھا۔۔۔۔"

انسپکٹر نے فوراً سالار کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہا تو باقی کے سپاہی بھی ویسا ہی کرنے لگے۔

"سدھر جاؤ تم لوگ یہی بہتر ہے سب کے حق میں۔۔۔"

سالار انہیں وارن کرتا وہاں سے جا چکا تھا جب کہ یہ منظر دیکھ ایم این اے نے انسپکٹر کو اپنے پاس بلایا۔

"کون تھا یہ لڑکا؟"

"سالار ملک،سیاس پارٹی کے چیر مین ہیں سر۔۔۔۔"

انسپکٹر کی بات پر ایم این کے چہرے پر حقارت کے آثار آئے۔

" اتنا کیوں اچھل رہا ہے جانتا نہیں کیا مجھے۔۔۔؟"

"فکر مت کریں جلد ہی جان جائیں گے آپ ایک دوسرے کو۔"

انسپکٹر نے مسکرا کر کہا تو ایم این اے نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔پارٹی کی میٹنگ تھی اور اسے دیر نہیں کرنی تھی۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"میم میری اسائنمنٹ۔۔۔۔۔۔"

ہلکی سی آواز پر ردا میم نے سر اٹھا کر کانچ سی آنکھوں والی گڑیا کو دیکھا جو معصوم سا چہرہ لیے وہاں کھڑی تھی۔

"وانیا؟"

ردا میم کے پوچھنے پر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ردا میم نے مسکرا کر اس سے فائل لی اور بلکل اس کے جیسی دیکھنے والی اسکی بہن کے پاس چلی گئیں۔

"لائیں ہانیہ آپ بھی اپنی اسائنمنٹ دیں۔"

ردا میم کی بات پر اس لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر میم کو دیکھا۔

"لل۔۔۔۔لیکن میم میں نے تو اسائنمنٹ دے دی۔۔۔"

"نہیں بیٹا یہ وانیا کی اسائنمنٹ ہے آپ بھی دیں۔"

ردا میم کی بات سن کر پہلے والی لڑکی بھی آ کر اپنی بہن کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔ردا میم نے گہرا سانس لیا ان دونوں بہنوں کی پہچان کرنا بہت زیادہ مشکل کام تھا دونوں بلکل ایک جیسی دیکھائی دیتی تھیں اور جب وہ دونوں ایک جیسے کپڑے پہن لیتیں تو یہ مشکل کام ناممکن ہو جاتا۔

"میم میں نے اسائنمنٹ دے دی ہے آپ ہانیہ سے لیں۔"

ایک بہن نے منہ بنا کر کہا۔

"اچھا تو ہانیہ کون ہے دونوں میں سے؟"

دونوں نے ایک ساتھ ایک دوسری کی طرف اشارہ کیا تو پوری کلاس ہنسنے لگی۔

" میں وانیا ہوں یہ ہانیہ ہے۔۔۔"

دونوں کے ایک ساتھ بولنے پر کلاس کے ہنسنے میں مزید اضافہ ہوا جبکہ ردا میم حد سے زیادہ الجھ چکی تھیں۔

"سائیلینس کلاس۔۔۔۔۔سچ سچ بتائیں آپ سے ہانیہ کون ہے اور وانیا کون ہے؟"

ردا میم کی بات پر پھر سے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف اشارہ کیا۔

"یہ ہانیہ ہے۔۔۔"

"تو وانیا کون  ہے؟"

"میں۔۔۔۔"

دونوں نے اپنی طرف اشارہ کیا تو میم ردا کا دل کیا اپنا سر پھاڑ لیں۔

" ہانیہ وانیا میں بتا رہی ہوں آئندہ تم لوگوں نے سیم ڈریسنگ کی نا تو اچھا نہیں ہو گا اور اب شرافت سے بتاؤ کہ ہانیہ کون ہے ورنہ میں پرنسپل کو شکایت لگا دوں گی۔"

پرنسپل کا نام سن کر ہی وانیا رونے لگی اور ہانیہ کو کہاں اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو گوارا تھے اسی لیے کھڑی ہو کر بولی۔

"میں ہانیہ ہوں میم اور یہ اسائنمنٹ وانیا کا ہے۔"

ردا میم نے غصے سے ہانیہ کو دیکھا۔

"ہانیہ پرنسپل کے آفس جائیں اسی وقت۔۔۔۔"

ردا میم کی بات پر ہانیہ منہ بناتی ہوئی پرنسپل میم کے آفس چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد ہی میم ردا بھی وہاں آئیں اور پرنسپل کو ساری بات بتا دی۔

"ہانیہ آپ کی شرارتوں سے تنگ آ چکی ہوں میں۔ایک لیفٹیننٹ کی بیٹی ہوتے ہوئے اور بچپن سے کیڈٹ سکول میں پڑھنے کے باوجود آپ اس قدر ارریسپانسبل ہیں ۔اب اتنا بھی کیا ہوا کہ ہر وقت آپ کسی نہ کسی کو پریشان کرتی رہیں اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو ایک ہفتے کے لیے یونی سے سسپینڈ کر دیا جائے۔۔۔۔"

سزا کا سن کر ہانیہ کی خوبصورت آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"ایک ہفتہ!!! اف میم کوئی اتنی چھوٹی سی شرارت کی اتنی بڑی سزا دیتا ہے؟"

ہانیہ نے خوب ڈرامائی انداز سے کہا۔

"چھوٹی سی شرارت ہانیہ بیٹا یا شرارتیں،شاید آپ بھول رہی ہیں کہ کل آپ نے اپنے میتھ کے پروفیسر کی بورڈ مارکر میں پٹاخہ لگایا تھا اور انکے وہ مارکر بورڈ پر رکھتے ہی مارکر پھٹ کر ساری انک انکے منہ پر گر گئی تھی ۔۔۔۔"

اس سین کو یاد کر کے ہانیہ نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا۔

"شاید آپ یہ بھی بھول رہی ہیں کہ چند دن پہلے آپ نے اپنے کلاس میٹ امان کو  پنچ مارنا سکھاتے ہوئے اسکا ہاتھ ٹوسٹ کر کے اسکی کلائی توڑ دی۔شاید آپ یہ بھی بھول رہی ہیں کہ چوکیدار بابا کو۔۔۔۔"

"بس کریں میم میری تعریفوں کی لسٹ بہت لمبی ہے پوری سنانے بیٹھیں گی تو رات ہو جائے گی۔"

ہانیہ کے شرارت سے کہنے پر ان دونوں نے ہانیہ کو گھورا۔

"بس اب ایک ہفتے کے لیے آپ یونی نہیں آ سکتیں اور یہ مت سوچیے گا کہ آپ وانیا بن کر یہاں آ جائیں ہمیں پتہ لگ جائے گا۔"

پرنسپل میم نے ڈپٹتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے منہ بسور لیا۔

"میم پلیز ایک آخری بار معافی ۔۔۔"

"نو ہانیہ انف از انف اب آپکو سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔یو کین گو ناؤ۔۔۔"

ہانیہ منہ بنا کر آفس سے باہر آئی تو اسکی نظر وانیا پر پڑی جو بھاگ کر اسکے پاس آئی تھی۔

"کیا ہوا ہانی؟کیا کہا پرنسپل میم نے؟"

وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

"زیادہ کچھ نہیں وانی جان بس ایک ہفتے کے لیے یونی سے نکال دیا ہے۔"

سزا سن کر وانیا کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"ہانی یہ سزا تمہیں ملی ہے یا مجھے میں تمہارے بغیر کیسے آؤں گی یہاں؟"

"اپنے پیروں پر چل کر آو گی میرا بچہ میں تمہیں اٹھا کر تو نہیں لاتی۔۔۔"

وانیا کے منہ بنا کر کہنے پر ہانیہ نے اسکے گال کھینچتے ہوئے کہا۔

"مجھے تمہارے بغیر کچھ اچھا نہیں لگے گا ہانی۔۔۔"

اب کی بار تو وانیا کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں۔وہ دونوں بچپن سے ہی دو جسم ایک جان کی طرح رہی تھیں ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی دوست بھی نہیں آئی تھی۔

"ارے فکر ناٹ اسکا تو میں دو دن میں جگاڑ لگا لوں گی۔۔۔۔"

ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

" بابا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے تمہاری تو بہت زیادہ شامت آئے گی۔"

وجدان کے ذکر پر ہی ہانیہ کے چہرے سے مسکان غائب ہو چکی تھی۔

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے غصے سے ۔۔۔۔"

ہانیہ نے انتہائی بے رخی کا مظاہرہ کیا۔

"ہانی وہ بابا ہیں ہمارے ہم سے بہت پیار۔۔۔"

"ہوں پیار۔۔۔۔۔پیار صرف وہ پھپھو کے زندہ ہونے سے پہلے کرتے تھے وانی اس کے بعد نہ تو انہیں ہم دونوں سے پیار رہا نہ مما سے بس پھپھو کے ساتھ اس پیار کو بھی دفنا دیا انہوں نے۔۔۔"

ہانیہ کی بے رخی پر وانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔

"چلو گھر چلیں۔۔۔۔"

ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا اور باہر کھڑی گاڑی کی طرف چل دی جہاں تین آرمی یونیفارم میں ملبوس گارڈ انکا انتظار کر رہے تھے۔

                   ❤️❤️❤️❤️

وہ بہت عرصے سے اس اندھیری کال کوٹھری میں بند تھا۔اسے روز ٹارچر کیا جاتا لیکن پھر بھی غرور تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

"آخری بار تم سے پوچھ رہا ہوں راگا تمہارے ساتھ کون کون شامل ہے۔تمہارے کس ساتھی نے کیا یہ دھماکہ بتا دو ورنہ۔۔۔"

"ورنہ کیا۔۔۔۔کیا کر لے گا تم فوجی مارے گا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔او ماڑا مار لے لیکن راگا کی زبان ایسا بند تالا ہے جسکی کوئی چابی نہیں۔۔۔۔"

راگا کی بات پر جنرل شہیر نے اپنی مٹھیاں ضبط سے کسیں۔

اتنے عرصے سے وہ خطرناک دہشتگرد انکی پکڑ میں تھا لیکن ابھی تک اس نے کسی کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لایا تھا انہیں کوئی چھوٹا سا سراغ بھی نہیں دیا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے ساتھی تمہیں یہ سب کر کے آزاد کروا لیں گے۔۔۔۔نہیں راگا یہ بس تمہارا خواب ہے کہ تم اس قید سے زندہ باہر نکلو گے۔۔۔"

جنرل شہیر نے اسکے کندھوں تک آتے لمبے بالوں سے چھپے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔

"خواب کو سچ کرنا شوق ہے راگا کا فوجی ۔۔۔۔بس تم تیار رہنا کیونکہ یہ چھوٹا موٹا دھماکہ تو بس ٹریلر ہے جو راگا کے قید میں رہنے پر بڑھتا جائے گا۔۔۔۔۔"

جنرل شہیر نے آگے بڑھ کر راگا کے لمبے بال مٹھی میں جکڑے اور اسکا سر اوپر کیا۔

"اتنے معصوم لوگوں کی جان گئی تمہاری وجہ۔۔۔۔"

"تم تو بہت جلدی گھبرا گیا فوجی ابھی تو میرا ساتھی پوری فلم دیکھائے گا تب کیا بنے گا تمہارا۔۔۔۔"

راگا نے خباثت سے ہنستے ہوئے جنرل شہیر کی بات کاٹی جبکہ مغرور سیاہ نگاہوں میں پاگل پن تھا۔

"کیا کریں گے تمہارے آدمی اب۔۔۔؟"

جنرل شہیر نے آخری مرتبہ اس سے پوچھا۔۔۔

"بس دیکھتا جاؤ فوجی تم خود مجھے یہاں سے باہر ان کے پاس چھوڑ کر آئے گا یہ وعدہ ہے راگا کا۔۔۔۔"

راگا نے مسکراتے ہوئے کہا تو جنرل شہیر  نے اسے جھٹکے سے چھوڑا۔

"اور ہم لوگ بھی ملک کے ہر دشمن کے وار کے لیے تیار رہیں گے۔یہ وعدہ ہے ہمارا راگا کہ اس ملک کی جانب اٹھنے والی ہر آنکھ نوچ دی جائے گی۔"

جنرل شہیر اتنا کہہ کر باہر چلے گئے۔ لیکن راگا ابھی بھی سر جھکائے مسکرا رہا تھا۔

"وقت آنے دو فوجی پتہ لگ جائے گا ہار کس کا مقدر ہے۔۔۔۔"

راگا نے خباثت سے کہا اور پھر سے ہنستے ہوئے اپنا سر جھکا گیا۔

میٹنگ میں پہنچ کر ایم این اے نے دیکھا تو سارے نمائندگان پہلے سے اپنی کرسیوں پر موجود تھے۔سب حیران تھے کہ ایسی کونسی بات تھی جس کے لیے چیر مین صاحب نے انہیں یہاں بلایا تھا۔


"کیا کوئی کافی ضروری بات ہے؟"


ایک ایم این اے نے ساتھ بیٹھے نمائندے سے پوچھا۔تبھی ان کے چیر مین محمود قریشی کمرے میں آئے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔


"اسلام و علیکم!"


سب نے ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا اور اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔


"میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے بلایا ہے کہ میں نے اپنی اس پارٹی کا سربراہ کسی اور کو بنا دیا ہے خود میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔"


چیر مین کی بات پر سب حیران ہوئے کہ یوں اچانک انہوں نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے لیا اور سربراہ تو نمائندگان کی ووٹنگ سے بنایا جاتا تھا۔


"اور اب ہماری اس پارٹی کے رہنما کوئی اور نہیں خوشحال پاکستان پارٹی کے کافی بڑے سیاستدان عثمان ملک کے بیٹے سالار ملک ہیں۔"


سب کا منہ اس بات پر حیرت سے کھل گیا۔تبھی جینز کی پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس سالار کمرے میں داخل ہوا جسکا استقبال چیر مین نے کھڑے ہو کر کیا اور پھر اسے اپنی کرسی پر بیٹھایا۔


"آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں محمود صاحب یہ تو ابھی خود بچہ ہے سیاست کو کیا سمجھے گا۔"


ایک نمائندے نے اعتراض اٹھایا تو سب اسکی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔


"آپ فکر مت کریں یہ بچہ اب سے عام عوام پارٹی کا مستقبل ہے اور مجھے یقین ہے کہ سالار صاحب اس پارٹی کو بہت آگے لے کر جائیں گے۔"


محمود صاحب نے وضاحت دینا چاہی۔


"لیکن یہ عثمان ملک کا بیٹا ہے سر اور ان کی بدنامی سے ہر کوئی واقف ہے۔"


ایک آدمی کی بات ہر سالار نے اپنے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔اس سے پہلے کہ محمود صاحب کچھ کہتے سالار نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔


"جی ٹھیک کہا آپ نے میں اسی عثمان ملک کا بیٹا ہوں جسے لوگ اب قاتل کے نام سے جانتے ہیں لیکن کیا ہے نا کہ آپ سب کے ایسے بہت سے کارناموں سے واقف ہوں جو سامنے آئے تو سب کی حالت قابل رحم ہو گی۔۔۔"


سالار نے میز پر اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا تو سب گڑبڑا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔


"رہی بات میری کم عمری کی تو الیکشن کے لیے پچیس سال کا ہونا ضروری ہے جو کہ میں ہوں اور میری ذہانت اس عمر میں بھی آپ لوگوں سے زیادہ ہی ہو گی ۔"


سالار کی بات پر سب کے چہرے ضبط سے سرخ ہو چکے تھے۔


"تم سمجھتے کیا ہو بچے خود کو جانتے ہو اس الیکشن میں ہمارا مقابلہ خوشحال پاکستان پارٹی کے رہنما خادم شفیق سے ہے اور وہ شخص پہلے بھی جیت چکا ہے اور اس بار بھی جیتے گا۔ "


ایک نمائندے نے سالار کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہا۔


"آپ مجھے جناب یا سر کہہ کر بلائیں گے رہی خوشحال پاکستان پارٹی کی بات تو وہ لوگ کیوں جیتے؟کیونکہ وہ عوام کو بہتری کے سنہرے خواب دیکھاتے ہیں،اپنے جلسے میں بلا کر انہیں بریانی کھلاتے ہیں یا پیسے اور لالچ دے کر ووٹ کو خریدا جاتا ہے۔۔۔"


"یہ سب تو ہم بھی کرتے ہیں..."


ایک ایم پی اے کی بات پر سالار مسکرا دیا۔


"لیکن ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ عوام ہماری زمہ داری ہے کوئی ٹشو پیپر نہیں جسے آپ لوگ اپنی جیت کے لیے استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔کیوں انکی یہ حالت ہے کہ انہیں اپنا ووٹ بیچنا پڑتا ہے؟کیوں انہیں اچھا کھانا کھانے کے لیے جلسے میں آنا پڑھتا ہے؟کیوں وہ خود غرض ہو کر غلط حکمران چنتے ہیں کیونکہ ہم لوگ انہیں خود غرض بننے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔۔"


سالار کی بات پر سب کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔


"میری پارٹی کے ہر نمائندے کا مقصد اس عوام کو استعمال کرنا نہیں بلکہ خود کو انکی فلاح پر لگانا ہو گا۔انکی مدد اس لیے نہیں کرنی کہ وہ ہمیں ووٹ دیں بلکہ اس لیے کرنی ہے کہ ہم مدد کرنے کے اہل ہیں اور انہیں اس کی ضرورت ہے۔اصل جیت ہمیں عوام کا حکمران بن کر نہیں بلکہ انکے دل پر حکومت کر کے حاصل ہو گی اس لیے آپکا گول کبھی بھی الیکشن کی جیت نہیں ہو آپکا گول ایک غریب کے چہرے کی مسکان ہو۔۔۔۔"


سب لوگ اب خاموشی سے سالار کی باتیں سن رہے تھے۔سالار کی نظر اس ایم این اے پر پڑی جسے اس نے سڑک پر دیکھا تھا۔


"میں تمہیں پارٹی سے نکال رہا ہوں تم جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔"


سالار کی بات پر سب کا منہ حیرت سے کھل گیا۔


"لیکن سر۔۔۔۔"


" پرائیویٹ پارٹی ہے یہ جو چاہے کر سکتا ہوں میں اور باقی سب بھی میری بات غور سے سن لیں سالار ملک آپکے ذاتی مفاد کے لیے عوام کی بے بسی اور لاچارگی برداشت نہیں کرے گا اس لیے میرے ساتھ سوچ سمجھ کر رہنا اور جسے نہیں رہنا۔۔۔وہ آج ہی پارٹی چھوڑ کر جا سکتا ہے۔۔۔"


اتنا کہہ کر سالار نے گھڑی ہر ٹائم دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا جبکہ ابھی بھی سب لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

❤️❤️❤️

معراج بے چین نگاہوں سے اپنا رزلٹ دیکھ رہا تھا لیکن خود کو پھر سے فیل ہوتا دیکھ وہ بے چینی غم میں بدل گئی اور اسکی سبز آنکھیں نم ہوئی تھیں۔


اسکا مطلب پرنسپل سر پھر سے بڑے پاپا کو باتیں سنائیں گے اور بڑے پاپا میری وجہ سے سر جھکا کر پرنسپل سے مجھے نہ نکالنے کی ریکویسٹ کریں گے۔۔۔۔


یہ سوچتے ہوئے معراج کی پلکیں نم ہو گئی تھیں اور وہ خاموشی سے سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔


"ارے کیا ہو گیا بونگے پھر سے فیل ہو گئے کیا۔۔۔ "


عمیر کی آواز پر معراج گھبرا کر کھڑا ہوا اور عمیر اور اسکے دوستوں کو دیکھنے لگا جن کا شوق تھا معراج کو پریشان کرنا۔


"تتت۔۔۔۔تم سے ۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مطلب تم اپنا کام ۔۔۔۔ککک ۔۔۔۔کرو۔۔۔۔"


معراج گھبرانے کی وجہ سے زیادہ ہکلانے لگا تھا۔


"ارے ہماری چیونٹی نے تو پر نکال لیے ہیں اب یہ مکھی بن کر اڑنے لگے گا۔۔۔۔"


عمیر اتنا کہہ کر آگے بڑھا اور معراج کو گردن کے پیچھے سے پکڑ لیا۔


"تو بس ایک لوزر ہے معراج سعد ہمارا بونگا اپنی اوقات سے باہر نہیں نکلنا کبھی سمجھا۔۔۔۔"


عمیر کے چلانے پر معراج نے اپنے ہاتھ چہرے کے سامنے کر لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ عمیر پھر سے اسے مارے۔


"ارے چھوڑو اسے۔۔۔۔"


جنت کی آواز پر سب لڑکوں نے گھبرا کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا اور فوراً وہاں سے دور ہوئے۔


"سمجھتے کیا ہو تم لوگ خود کو آئندہ میرے کزن کو ہاتھ بھی لگایا نا تو ہاتھ توڑ دوں گی۔۔۔"


جنت نے معراج کے آگے آ کر انہیں گھورتے ہوئے کہا تو وہ سب ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلے گئے۔


"ہاہاہا دیکھا شارٹ سرکٹ یہ تو مجھ جیسی چھوٹی سی لڑکی سے ڈرتے ہیں اور تم ہو کہ ان سے ڈرتے ہو۔۔۔"


جنت نے ہنستے ہوئے کہا۔حالانکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکے جنت سے نہیں ہر وقت اسکے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے سالار ملک سے ڈرتے تھے۔


چند دن پہلے ہی تو انکے ایک دوست نے جنت کو ہاتھ لگایا تھا اور بعد میں سالار ملک نے اسکا ہاتھ توڑ کر سب کو کہا تھا کہ اگلی بار میری جنت کو چھونے والے کا ہاتھ توڑوں گا نہیں اکھاڑ پھینکوں گا۔بس تب سے ہی وہ جنت سے ایسے ڈرتے تھے جیسے کہ وہ کوئی بھوت ہو۔


"تم بھی ان سے ڈرنا چھوڑو تمہیں چاہیے کہ۔۔۔"


جنت بولتے بولتے چپ ہو گئی جب اس نے معراج کو روتے ہوئے دیکھا۔


"کیا ہوا معراج تم رو کیوں رہے ہو؟"


جنت نے پریشانی سے پوچھا۔


"مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔پھر سے فیل ہو گیا۔۔۔جج۔۔۔جنت۔۔۔۔بڑے بابا کو کککک۔۔۔۔کیا کہوں گا؟"


معراج کی بات پر جنت نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"تم فکر مت کرو بابا تمہیں کچھ نہیں کہیں گے وہ تم سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں البتہ تمہیں وجدان ماموں کی فکر کرنی چاہیے۔۔۔"


جنت کی بات پر معراج نے پریشانی سے اسے دیکھا تو جنت کھلکھلا دی۔


"لیکن فکر مت کرو میں ماموں کو تمہیں کچھ نہیں کہنے دوں گی بھئی میرے علاؤہ میرے شارٹ سرکٹ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔"


جنت کی بات پر معراج آنسو صاف کرتا مسکرا دیا۔


"تت۔۔۔تم بہت اچھی ہو جنت ۔۔۔"


" مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔۔۔"


"جنت بیٹا بات سنیں۔۔۔"


پروفیسر کی آواز پر جنت فورا انکے پا آئی۔


"جی سر؟"


"بیٹا مس ثناء کا جرنلزم کا پروجیکٹ ہے کہ کسی سیاست دان کا انٹرویو لیں لیکن ان میں کانفیڈینس اتنا نہیں تو آپ انکے ساتھ جاؤ تو کہ ایک کانفیڈنٹ لڑکی ہو ان کے ساتھ۔۔۔۔"


پروفیسر کی بات پر جنت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"میں کیا کروں گی؟"


"جنت بیٹا میں جانتا ہوں آپ بہت کانفیڈنٹ ہو آپ یہ کر لو گی۔۔۔۔"


جنت نے ہاں میں سر ہلایا اور ثناء کے ساتھ چل دی۔

❤️❤️❤️❤️

وجدان غصے کے عالم میں گھر میں داخل ہوا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یونی کی پرنسپل اسے فون کر کے اس کی بیٹی کے کارنامے سنا چکی تھیں۔


"ہانیہ۔۔۔۔ہانیہ۔۔۔۔"


وجدان نے اپنا آرمی یونیفارم چینج کیے بغیر ہی ہانیہ کو پکارنا شروع کر دیا۔


"وجدان آپ آ گئے؟ کیسا گزرا آپکا دن؟"


زرش نے اسکے پاس آ کر پیار سے پوچھا اسکے اس طرح سے پوچھنے پر وجدان کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بہا تھا لیکن اپنے تاثرات سختی سے چھپا گیا۔


"ہانیہ کو بلاؤ زرش بات کرنی ہے مجھے اس سے۔۔۔۔"


وجدان نے سختی اور بے رخی سے کہا تو زرش کی آنکھیں نم ہو گئیں۔اپنی بہن حمنہ کی زندگی کی خاطر اس نے خود کی دنیا اجاڑ لی تھی۔عثمان کو معافی دلانے میں وہ اپنا پیار لٹانے والے وجدان تو کھو ہی چکی تھی۔اب وہ پھر سے پہلے جیسا وجدان بن چکا تھا سخت مزاج اور بیزار سا۔


"وجدان وہ ۔۔۔۔اس نے سوری بولا ہے مجھے وہ پھر سے شرارت نہیں کرے گی۔"


زرش نے گھبراتے ہوئے کہا۔


"بس زرش ضرورت سے زیادہ ڈھیل دیتی ہو تم اسے اور اب میں یہ برداشت نہیں کرنے والا ۔۔۔"


وجدان زرش کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولتے بولتے رکا۔وہ جتنا مرضی سخت کیوں نا ہو جاتا لیکن زرش آج بھی اسکے اپنی جان سے زیادہ بڑھ کر تھی۔


"ٹھیک ہے لیکن پھر کبھی ایسا نہ ہو۔۔"


وجدان نے زرش کو نرمی سے کہا اور کمرے کی جانب چل دیا۔زرش فوراً اسکے پیچھے آئی اور اسکے کپڑے نکالنے لگی۔


اپنی نور سے یوں سختی سے پیش آنا وجدان کے لیے کتنا اذیت ناک تھا یہ وہی جانتا تھا لیکن وہ کیسے بھول جاتا کہ زرش کی وجہ سے اس نے اپنی بہن کے قاتل کو چھوڑ دیا۔


وجدان کی سبز آنکھیں عشال کو یاد کرتے ہی نم ہو گئی تھیں۔انکی زندگی ان سالوں میں مکمل طور پر بدل چکی تھی۔


پانچ سال پہلے اپنے اسی غصے کے زیر اثر وجدان نے غلط آدمی پر بھروسہ کیا۔جسکی وجہ سے اسکا سیکریٹ ایجنٹ ہونے کا راز باہر آ گیا اس لیے اب وہ آرمی میں تھا اور آئی ایس آئی سے اسکا تعلق مٹ چکا تھا۔


شایان تو اپنی جانان ،جنت اور معراج کے ساتھ بہت خوش تھا لیکن وجدان تو اپنا کل جہان پاس ہوتے ہوئے بھی ان سے دور ہو چکا تھا۔


❤️❤️❤️❤️

جنت اور ثناء اس سیاست دان سالار ملک کے آفس میں بیٹھی یہاں وہاں دیکھ رہی تھیں۔وہ آفس تھا ہی اتنا شاندار۔


"سالار ملک سر ملیں گے اب آپ سے۔۔۔۔"


ایک لڑکی کے کہنے پر جنت ثناء کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں آئی اور بنا پرمیشن لیے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی جیسے اسکے باپ کی جگہ ہو ۔۔۔


"اوپس سوری سر مے آئی کم ان تو پوچھا ہی نہیں۔۔۔"


جنت کی آواز پر سالار نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو سفید یونیفارم میں بالوں کی پونی ٹیل بنائے گلابی گالوں کے ساتھ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔


"اٹس آل رائیٹ ہیو آ سیٹ۔۔۔"


سالار نے اس نے نظریں ہٹا کر کرسی کی جانب اشارہ کیا تو جنت ثناء کو کھینچتی ہوئی کرسی پر بیٹھی۔


"جی کیوں آئی ہیں آپ یہاں؟"


"سر ہم آپکا انٹرویو لینے۔۔۔۔"


"ارے ٹھنڈا گرم نہیں پوچھیں گے آپ ڈراموں میں تو ایسا ہی پوچھتے ہیں۔۔۔۔"


ثناء جو اپنی بات کہنے لگی تھی جنت کی بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگی جبکہ سالار اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔


"نہیں سر ہمیں بس انٹرویو چاہیے آپکا۔۔۔"


ثناء نے گھبراتے ہوئے کہا۔


"ٹھیک ہے میں انٹرویو دوں گا لیکن صرف اس لڑکی کو۔۔۔"


سالار نے جنت کی جانب اشارہ کیا تو جنت کا منہ حیرت سے کھل گیا۔


"لیکن جرنلزم کی سٹوڈنٹ یہ ہے میں نہیں۔۔۔۔"


"یا تو اسے انٹرویو دوں گا یا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔"


سالار نے انہیں باہر کے دروازے کی جانب اشارہ کیا تو ثناء نے بے چارگی سے جنت کو دیکھا اور انٹرویو کا پیپر اسے پکڑا کر باہر چلی گئی۔جنت نے تھوک نگلا اور اپنے سامنے بیٹھے اس شاہانہ سے سیاسی رہنما کو دیکھا۔


"تو سر پہلا سوال یہ ہے کہ آپ نے سیاسی کیریر۔۔۔"


""نام کیا کے تمہارا؟"


اچانک سوال سالار ملک کی جانب سے آیا تو جنت نے سنہری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"انٹرویو آپکا ہے میرا نہیں سالار سر۔۔۔۔"


جنت نے وضاحت کرنا چاہی۔۔۔۔


"ہاں لیکن آفس میرا ہے اور یہاں وہی ہوتا ہے جو میں چاہتا ہوں بے بی گرل اب نام بتاؤ اپنا۔۔۔"


سالار نے ابرو اچکا کر کہا اور یوں بولتے ہوئے وہ اتنا با وقار لگ رہا تھا کہ جنت کی ہتھیلیاں پسینے سے بھگ گئیں۔


"جج۔۔۔۔جنت شایان شاہ۔۔۔"


زندگی میں پہلی بار وہ بوکھلائی تھی۔


"کتنے سال کی ہو جنت؟"


سالار نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔


"سترہ سال کی ہوں،پری میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہوں گھر میں مما ،بابا، میں اور میرا کزن معراج رہتے ہیں میرے بابا آرمی میں تھے سات سال پہلے ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے ریٹائر ہو گئے اور اب سیکیورٹی ایجنسی چلاتے ہیں۔مما بہت پیاری ہیں میری طرح اور ہاوس وائف ہیں اور کچھ؟"


جنت نے ایک ہی سانس میں اپنا سارا بائیو ڈیٹا بتاتے ہوئے آخر میں پوچھا تو اسکی حسین چہرے کو دیکھتا سالار ہوش میں آیا۔


"تم میری دوست بنو گی جنت شایان شاہ۔۔۔"


جنت کی سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی سالار بولا۔


"اگر دوست نہیں بنی تو تمہیں انٹرویو نہیں دوں گا اور تمہاری دوست فیل ہو جائے گی۔۔۔"


سالار نے دھمکایا تو جنت اسے گھورنے لگی۔


"چھچھورا سیاست دان ۔۔۔۔"


جنت بڑبڑائی اور سوچا کہ ابھی کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانے سے کیا جائے گا اس لیے ہاں میں سر ہلا کر اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔اسکے بڑے سے ہاتھ میں وہ نازک سا ہاتھ چھپ گیا تھا۔


"پوچھو جو پوچھنا ہے ۔۔۔۔۔"


سالار نے مسکرا کر کہا تو جنت اس سے لسٹ پر لکھا ہر سوال پوچھنے لگی اس بات سے بے خبر کہ وہ یہاں اتفاق سے نہیں سامنے موجود شخص کی سوچی سمجھی سازش سے تھی۔اس ہی کے کہنے پر تو اس پروفیسر نے انہیں یہاں بھیجا تھا۔


میری جنت کو میرے بارے میں بتایا بھی نہیں نا۔دیکھیں آج میری جنت میرے پاس ہے شایان شاہ صاحب اور آپکو علم بھی نہیں ایک دن اسے چھین کر اپنا بنا لوں گا اور آپ بس دیکھتے رہ جائیں گے۔


سالار نے اس سنہری آنکھوں والی لڑکی کو دیکھتے ہوئے سوچا جو اپنی پہلی سانس سے اسکی ملکیت تھی۔

❤️❤️❤️❤️

"میں یونی نہیں جا رہی بلکل بھی نہیں۔۔۔"


وانیا نے ضدی انداز میں منہ بناتے ہوئے کہا تو زرش نے گہرا سانس لیا۔ہانیہ کی یونیورسٹی نہ جانے کی وجہ سے وہ کل بھی نہیں گئی تھی اور آج بھی نہ جانے کی ضد کر رہی تھی۔


"میری جان اب ہر جگہ ہانی تو آپکے ساتھ نہیں ہو سکتی نا آپکو خود بھی تو ہمت کرنی ہے۔۔۔"


زرش نے اپنی معصوم بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا جو بلکل اسی کی طرح تھی۔ہر دوسری چیز سے ڈرنے والی،معصوم سی گڑیا جسکی ہمت بس اسکی جڑواں بہن ہانیہ تھی۔


"ہائے میرا بچہ تم ایک کام کرو آج نا پرنسپل کے پاس جا کر اپنے اس معصوم سے چہرے سے انہیں منا لینا۔وہ میری سزا ختم کر دیں گیں تو ہنسی خوشی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔"


ہانیہ نے اسے آئیڈیا دیتے ہوئے کہا تو وانیا نے پر شکوہ نگاہوں سے اپنی بہن کو دیکھا۔


"تم مجھے اکیلے بھیجنا چاہتی ہو؟"


وانیا کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں وہ تو ہانیہ کے بغیر سانس بھی نہیں لیتی تھی۔


"صرف ایک دن کی بات ہے وانی پلیز مینج کر لو نا یار کل کسی بھی طرح میں تمہارے ساتھ چلوں گی وعدہ لیکن آج پرنسپل میم مجھے بلکل بھی برداشت نہیں کرنے والی۔۔۔"


وانیا نے کچھ دیر سوچا پھر انکار میں سر ہلا دیا۔


"اور اگر میں آج واپس ہی نہ آئی یونی سے کسی نے مجھے وہیں بند کر دیا تو؟"


وانیا کی بات پر زرش نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا جبکہ ہانیہ نے اسے گھورا۔

"بس وانی اب اتنا بھی نہیں ڈرتے چلو شاباش اچھے بچوں کی طرح یونی جاؤ۔۔۔"

ہانیہ نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تو جب سے پیچھے کھڑا وجدان آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ وانیا کے کندھوں پر رکھے۔

"ایک بات یاد رکھنا میرا بیٹا تم کمزور نہیں ہو بلکہ بہت بہادر ہو تم،چاہے کچھ بھی ہو جائے میری بیٹی کبھی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں چھوڑے گی۔۔۔"

وجدان کی بات پر وانیہ نے پلٹ کر اپنے باپ کو دیکھا جسے زندگی میں کبھی بھی انکار نہیں کر پائی تھی۔

"جی بابا۔۔۔۔"

وجدان نے وانیا کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور اسے اپنے ساتھ لے کر باہر کی طرف چل دیا ۔

"بائے ماما، بائے ہانی۔۔۔"

وانیا نے مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا اور پھر نم آنکھوں کے ساتھ وجدان کے ساتھ چل دی۔

❤️❤️❤️❤️

ہانیہ ہال میں آئی جہاں زرش اسکا فیورٹ پیزا بنانے کے لیے سبزیاں کاٹ رہی تھی۔

"مما میرے ہٹلر پاپا کو پتہ چلا نا کہ آپ میری سزا کے دنوں میں میرے لاڈ اٹھا رہی ہیں تو ہم دونوں کی بہت عزت افزائی ہو گی۔۔۔۔"

ہانیہ نے ناک چڑھا کر کہا۔

"شرم کرو ہانی بابا ہیں تمہارے اور ویسے بھی یہ پیزا تمہارے لیے نہیں میں وانی کے لیے بنا رہی ہوں اسکے آنے سے پہلے بنا دوں گی تو دیکھ کر خوش ہو جائے گی۔۔۔۔"

زرش نے مسکراتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے زرش کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔

"ہائے دنیا کی بیسٹ مما۔۔۔۔کتنا خیال رکھتی ہیں آپ ہم دونوں ک۔۔۔،"

زرش کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔

"تم دونوں ہی تو میرا کل جہان ہو بیٹا۔"

"جی بلکل پاپا نے تو نکال لیا ہے خود کو اس جہان سے"

ہانیہ نے مٹھیاں بھینچ کر کہا تو زرش اسے گھورنے لگی۔

"نہیں ہانی جان سے زیادہ چاہتے ہیں وہ ہمیں ایک پل کے لیے ہٹا کر دیکھو مجھے ان کی آنکھوں کے سامنے سے تب پتہ چلے گا۔ ہم جان ہیں انکی بیٹا ہاں تھوڑے سخت ہیں کیونکہ۔۔۔۔کیونکہ بہت بڑا غم دیا ہے میں نے انہیں۔۔۔"

زرش نے آہستہ سے کہا۔تبھی فون بجنے کی آواز پر ہانیہ نے اپنا موبائل پکڑا اور کان سے لگایا۔

"ہیلو۔۔۔"

ہہ۔۔۔۔ہانی یار وہ۔۔۔۔ تم یونی نہیں گئی کیا؟"

اپنی ایک کلاس میٹ کی آواز پر ہانیہ حیرت زدہ ہوئی۔

"نہیں ماریہ کیوں کیا ہوا؟"

ہانیہ ماریہ کی روتی آواز سن کر پریشان ہو چکی تھی۔

"آآآ۔۔۔۔آج بخار تھا تو میں بھی نہیں گئی یار اور وہ۔۔۔۔تم ٹی وی چلا کر دیکھو۔۔۔۔"

ہانیہ نے فون سائیڈ پر رکھا اور رموٹ پکڑ کر ہال میں لگی ایل سی ڈی چلا دی۔تھوڑا سرچ کرتے ہی اسے نیوز چینل ملا۔

"راولپنڈی کی پرائیویٹ یونیورسٹی پر دہشتگردوں کا حملہ۔یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو یرغمال بنا لیا۔ابھی تک پندرہ طالب علموں کی موت کی خبر موصول ہوئی ہے۔۔۔۔"

خبر سنتے اور سکرین پر اپنی یونیورسٹی کی تصویریں چلتے دیکھ کر ریمورٹ ہانیہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا۔۔۔

"وانی۔۔۔"

بے ساختہ ہانیہ کے ہونٹوں سے نکلا اور پھر اسکا دھیان زرش پر پڑھا جو اب صوفے کی بجائے بے ہوش ہو کر زمین پر پڑی تھی۔

"مما ۔۔۔۔!!!"

ہانیہ پریشانی سے اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی جو ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی۔


"بی پی شوٹ کر گیا ہے انکا بیٹا بہت میں نے دوائی دی ہے امید ہے نارمل ہو جائے گا ۔۔۔"


ڈاکٹر نے ہانیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تبھی ہانیہ کی نظر دروازے میں سے آتے شایان اور جانان پر پڑی،جنت اور معراج بھی پریشانی کے عالم میں انکے ساتھ تھے۔


"خالہ۔۔۔۔"


ہانیہ روتے ہوئے اٹھی اور جانان سے لپٹ گئی۔


"ششش فکر مت کرو ہانی کچھ نہیں ہو گا ہماری وانیا کو پلیز رو مت۔۔۔"


جانان نے نم آنکھوں سے کہا پھر اسکی نظر اپنی چھوٹی بہن پر پڑی تو آنکھیں مزید روانی سے بہنے لگیں۔


" تم فکر مت کرو بس زرش کا خیال رکھو میں وجدان کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔"


شایان نے جانان کو بتایا اور باہر کی طرف چل پڑا۔


"مم۔۔۔۔میں بھی سسس۔۔۔ساتھ چلتا ہوں۔۔۔"


معراج کے ایسا کہنے پر شایان نے اثبات میں سر ہلایا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا۔


"وانیا۔۔۔۔میری وانیا۔۔۔۔"


زرش کو ہوش آیا تو وہ وانیا کو پکارنے لگی۔


"مما۔۔۔"


ہانیہ زرش کی طرف لپکی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔


"ہانی میری وانی وہاں۔۔۔۔اسے بچا لو ہانی۔۔۔۔وہ وہ تو بہت معصوم ہے اتنا ڈر جاتی ہے ۔۔۔۔"


زرش زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔جانان اور ہانیہ اسے سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔


"وو۔۔۔وجدان کہاں ہیں جانان وجدان کو فون کرو ان سے کہو میری وانی کو لے کر آئیں۔۔۔۔۔ اسے کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گی۔۔۔۔"


"نہیں زرش۔۔۔۔"


جانان نے خود بھی روتے ہوئے اپنی چھوٹی بہن کو خود میں بھینچا۔


"تم فکر مت کرو زری وجدان بھائی ضرور وانیا کو بچا لیں گے بھروسہ رکھو۔۔۔۔"


جانان نے روتے ہوئے زرش سے کہا لیکن اس ماں کو کہاں سے حوصلہ آنا تھا جسکی معصوم بچی اس وقت درندوں کے درمیان تھی۔


"پتہ نہیں جانان میری بچی کس حال میں ہو گی۔۔۔۔وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔۔وہ نہیں سہہ پائے گی یہ خوف۔۔۔۔"


زرش نے روتے ہوئے کہا تو جانان نے اسے خود سے لپٹا لیا۔


ہانیہ یہ سارا منظر بے بسی سے کھڑی نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔پھر اسنے غصے سے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مارا اور وہاں سے چلی گئی۔

❤️❤️❤️❤️

وانیا کافی دیر سے اپنے گھٹنوں میں سر دیے روتے جا رہی تھی لیکن روتے ہوئے بھی اسکے حلق سے ایک آواز بھی نہیں نکلی تھی۔


ابھی اس نقاب پوش آدمی نے ان سب کو یہی کہا تھا کہ جسکی ہلکی سی آواز آئی وہ اسکی گولی کا نشانہ ہو گا۔


"بابا۔۔۔۔کہاں ہیں آپ۔۔۔"


وانیا نے بغیر آواز کیے فریاد کی اور پھر سے رونے لگی۔اس وقت یونی کے کچھ سٹوڈینٹ کو مین حال میں بندوقیں تان کر قید کیا گیا تھا جبکہ باقی کے سٹوڈینٹ شاید آڈیٹوریم میں قید تھے۔


دو لڑکوں کو تو وہ نقاب پوش وانیا کے سامنے ہی گولی مار چکے تھے اور وہ منظر یاد کر کے وانیا پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


"کس کی رونے کی آواز نکلی۔۔۔۔؟"


ایک شخص کے دھاڑ کر پوچھنے پر وانیا نے فوراً اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے اور اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹنے لگی لیکن وہ خطرناک شخص اب اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔


"تم کھڑی ہو لڑکی۔۔۔۔"


اس نقاب پوش نے جب وانیا کو کہا تو خوف سے اسکی روح فنا ہو گئی۔وہ کانپتی ٹانگوں پر اٹھی اور سر جھکا کر رونے لگی۔


"نام کیا ہے تمہارا؟"


اس نے وانیا کے قریب آ کر پوچھا۔


"ووو۔۔۔۔ وانیا۔۔۔۔"


"پورا نام بتاؤ۔۔۔"


اسکے غصے سے چلانے پر وانیا بری طرح سے سہم گئی اور خوب سے کانپنے لگی۔اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔


"وانیا۔۔۔۔وجدان خان۔۔۔"


وانیا کے جواب پر اس آدمی کی آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی۔


"بیٹھ اور اب آواز نہ آئے ورنہ۔۔۔۔"


اس آدمی نے اپنی بڑی سی بندوق وانیا کے سر پر رکھی تو وانیا نے فوراً بیٹھ کر اپنا منہ بہت زور سے ہاتھوں سے دبا لیا۔


لیکن دل ہی دل میں وہ پھر سے اپنی اور باقی سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔


"ہمیں بچا لیں یا اللہ پاک میرے بابا کو بھیج دیں۔۔۔۔کسی مسیحا کو بھیج دیں ہمیں بچانے کے لیے۔۔۔"


اس نے روتے ہوئے دعا مانگی اور پھر سے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپا گئی۔

❤️❤️❤️❤️

"اور کتنا وقت ضائع کریں گے ہم لوگ اس یونیورسٹی میں میری بیٹی ہے ابھی تک تو ہمیں وہاں ہونا چاہیے تھا"


وجدان جو غصے اور کرب سے بے قابو ہو رہا تھا جنرل شہیر کو چلا کر کہنے لگا جو خود بھی بہت پریشان نظر آ رہے تھے۔


"لیفٹیننٹ وجدان وہاں صرف آپکی نہیں بہت سے ماں باپ کی اولادیں ہیں اور ہمیں سب کو بچانا ہے۔۔۔"


جنرل شہیر نے وجدان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔


"جنرل شہیر باقی کے جنرل میٹنگ میں آپکا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔"


ایک سپاہی اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا اور سیلیوٹ کرتے ہوئے جنرل شہیر کو بتانے لگا۔


"ہاں میں آ رہا ہوں۔۔۔"


جنرل شہیر کے ایسا کہنے پر وہ وہاں سے چلا گیا تو انہوں نے وجدان کو دیکھا جو بہت زیادہ بے چین تھا۔


"تم فکر مت کرو اس میٹنگ میں فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم اس مسلے کا کیا حل نکالیں۔۔۔"


جنرل شہیر نے اپنی ٹوپی پہنتے ہوئے کہا اور باہر کی طرف چل دیے۔


"رابطہ ہوا آپکا ان سے چاہیے کیا ان دہشتگردوں کو؟"


وجدان نے انکے ساتھ چلتے ہوئے بے چینی سے پوچھا تو جنرل شہیر نے گہرا سانس لیا۔


"راگا۔۔۔۔انہیں راگا چاہیے لیفٹیننٹ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر جنرل شہیر میٹنگ روم میں چلے گئے اور وجدان بے چینی سے ٹہلنے لگا۔


راگا کے بارے میں وہ بھی جانتا تھا۔وہ ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد تھا جسے بہت مشکلوں کے بعد آرمی پکڑنے میں کامیاب ہوئی تھی۔راگا اتنا خفیہ تھا کہ اسکا اصلی نام تک کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ اور اس کے ساتھی ملک میں بہت سے فساد پھیلانے میں ملوث رہے تھے لیکن اب جب وہ ان کی گرفت میں تھا تو اس کی آزادی کے لئے اس کے ساتھی اس قسم کے گھٹیا کاموں پر اتر آئے تھے۔


راگا کو آزاد کرنا آرمی کے لیے اتنا آسان بھی نہیں تھا وہ شخص ملک میں ہونے والے برے کاموں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔اسے آزاد کرنے کا مطلب اس ساری معلومات کو بھی آزاد کرنا تھا جسے ابھی تک راگا نے بہت سا ٹارچر سہنے کے باوجود نہیں بتایا تھا۔


لیکن اب دوسری طرف بھی بہت سے معصوم بچوں کی جانوں کا سوال تھا تھا۔


ابھی وجدان انہیں سوچوں کے زیر اثر تھا جب تمام جنرل کمرے سے باہر آئے۔وجدان بے چینی سے جنرل شہیر کی جانب بڑھا۔


"فیصلہ ہو گیا ہے وجدان ہم اتنے بچوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتے۔۔۔۔ہم راگا کو آزاد کر رہے ہیں۔۔۔"


جنرل صاحب کی بات پر وجدان کو افسوس ہوا لیکن اس وقت حکمت عملی کا مظاہرہ یہی تھا۔


"تم تیار رہو کچھ ہی دیر میں ہم لوگ یونیورسٹی کے لیے نکلیں گے۔۔۔"


وجدان نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔


"کوئی اور راستہ نہیں کیا سر؟ راگا کو پکڑنا بہت بڑی پراگریس تھی ہمارے لیے اور اب۔۔۔۔کیا ہم انکا مقابلہ نہیں کر سکتے؟"


وجدان کے سوال پر جنرل شہیر نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"نہیں وجدان مقابلہ کرنے لگے تو بچوں کی جان پر خطرہ ہے ہمیں یہ نہیں کرنا اسی لیے چیف آف آرمی کا فیصلہ یہی ہے کہ راگا کو آزاد کر دیا جائے۔"


وجدان نے اثبات میں سر ہلا کر انہیں سیلیوٹ کیا اور وہاں سے چلا گیا۔کرنل صاحب اپنے آفس میں آئے اور ٹوپی اتار کر میز پر رکھی۔


کافی سوچنے کے بعد انہوں نے اپنا موبائل پکڑا اور ایک نمبر ملانے لگے۔


"ایجنٹ بی۔۔۔۔۔ پلین بی کے حساب سے چلنا ہو گا۔۔۔۔"


جنرل شہیر نے ماتھا سہلاتے ہوئے آہستہ سے کہا۔


"آل رائٹ سر ۔۔۔"


ایجنٹ بی نے کانفیڈینس سے کہا تو جنرل صاحب نے فون بند کیا اور گہرا سانس لیتے ہوئے پریشانی کے عالم میں آفس سے باہر نکلے۔

❤️❤️❤️❤️

جنرل شہیر اس کال کوٹھڑی میں داخل ہوئے جہاں راگا کو قید کیا گیا تھا۔زخموں سے چور وہ شخص ابھی بھی غرور کے عالم میں فرش پر بیٹھا جنرل شہیر کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔


"کیا ہوا فوجی کوئی نیا طریقہ سوچ کر آیا ہے کیا میری زبان کھلوانے کا۔۔۔؟"


راگا نے ہنستے ہوئے پوچھا تو جنرل صاحب کا دل کیا کہ اسکا منہ توڑ دیں۔


"ہم تمہیں آزاد کر رہے ہیں راگا۔۔۔"


اس بات پر راگا نے چہرے پر آتے لمبے بال ہٹاتے ہوئے جنرل کو حیرت سے دیکھا پھر قہقے لگا کر ہنسنا شروع کر دیا۔


"اوئے لالے کی جان چھا گئے نا میرے

دوست۔۔۔۔میں نے تو کہا تھا جنرل کہ ایک دن تو خود راگا کو یہاں سے نکالے گا اور دیکھ آج وہ دن آ ہی گیا۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔جیت گیا راگا جنرل۔۔۔۔راگا جیت گیا۔۔۔۔"


اچانک راگا اپنی بیڑیوں سمیت اٹھا اور جنرل شہیر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔


"اب یہاں سے باہر جاتے ہی راگا پہلے سے بھی بڑی دہشت بنے گا جنرل دیکھ لینا تم۔۔۔"


راگا نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا اور مڑ کر واپس دیوار کی طرف چل دیا۔


"ہاں راگا تم جیت گئے لیکن تمہاری یہ جیت تمہاری زندگی کی طرح کتنی عارضی ہے اس کا تمہیں بہت جلد اندازہ ہو جائے گا۔ پاک فوج کے جوان سر پر کفن باندھ کر آتے ہیں اپنے گھروں سے راگا پھر وہ تجھ جیسے شیطان یا اس کے چیلوں سے نہیں ڈرتے۔۔۔۔"


راگا نے مڑ کر جنرل شہیر کو دیکھا۔


"کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر ہار گئے نا راگا تو بھی وطن کے جھنڈے میں لپٹ کر دفن ہونا ان کے لیے سب سے بڑی جیت ہوتی ہے۔۔۔۔"


جنرل شہیر کی باتوں پر راگا کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی تھی۔جنرل صاحب ساتھ آئے سپاہیوں کی جانب مڑے۔


"گرفت میں لے لو اسے اور چلو جتنی جلدی ہو سکے ہمیں یونیورسٹی پہنچنا ہے۔۔۔"


سپاہیوں نے راگا کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اسے لے کر باہر آئے جہاں فوج کی گاڑی انکا انتظار کر رہی تھی۔راگا کو اس گاڑی میں بیٹھایا گیا اور بہت سی گاڑیاں اس گاڑی کے آگے پیچھے چلتی ہوئی وہاں سے جانے لگیں۔


"فوج راگا کو لے کر نکل چکی ہے کال کچھ ہی دیر میں وہ

وہاں پر پہنچ جائیں گے۔۔۔"


فوج کی وردی میں چھپے ایک غدار نے اپنے ساتھی کو خبر دی اور پھر وہ بھی اپنے سردار کی آزادی پر خوشی سے مسکرا دیا۔

❤️❤️❤️❤️

"خوشخبری ہے ساتھیو راگا کچھ ہی دیر میں ہمارے پاس ہو گا آزاد۔۔۔۔"


کال نے اپنے نقاب پوش ساتھیوں کو اطلاع دی تو سب خوشی سے مسکرا دیے۔


"لیکن ہمیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی پاک فوج کو ہلکے میں مت لینا کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔"


کال نے سب کو محتاط کرتے ہوئے کہا۔


"لیکن ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے کال فوج بہت زیادہ ہو گی اور ہمیں چاروں طرف سے گھیر لے گی مجھے نہیں لگتا کہ راگا کو یہاں سے نکالنا آسان ہو گا۔۔۔"


ایک نقاب پوش نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تو کال اپنے سیاہ نقاب کے پیچھے مسکرا دیا۔


"فکر مت کر اسکا حل بھی ہے میرے پاس بس ایک بار راگا یہاں پہنچ جائے۔۔۔۔تیاری رکھو تم لوگ اور خاص سپاہیوں کے علاؤہ کوئی بھی اندر داخل نہیں ہو گا۔۔۔۔"


"ٹھیک ہے کال۔۔۔"


ایک آدمی نے کہا اور باقیوں کو اشارہ کرتا پوزیشن سنبھالنے لگا تقریباً ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ لوگ باہر بہت سے گاڑیوں کا شور سن سکتے تھے۔


کال نے اپنے دو ساتھیوں کو انہیں اندر لانے کا کہا اور خود ہاتھ میں پکڑے سیٹلائٹ فون کو منہ کے پاس کرنے لگا۔


"ہم نکلنے کے لیے تیار ہیں ویرہ سب تیار رکھنا تم۔۔۔"


"ٹھیک ہے ۔۔"


ویرہ کے ایسا کہتے ہی کال نے کھڑکی کی جانب دیکھا جہاں اب رات کے سائے لہرا رہے تھے۔


تھوڑی دیر بعد جنرل شہیر اور وجدان کچھ سپاہیوں کے ساتھ راگا کو لے کر اس ہال میں داخل ہوئے جو بلکل خالی تھا ضرور وہ لوگ سٹوڈینٹس کو کہیں اور شفٹ کر چکے تھے۔


"یہ رہا راگا اب سب بچوں کو آزاد کرو۔۔۔"


جنرل شہیر نے راگا کی جانب اشارہ کیا جو بیڑیوں میں جکڑا مسکرا رہا تھا پھر کال کو دیکھتے ہی جنرل کے پاس سے ہٹا اور اسکے پاس آ کھڑا ہوا۔


"آزادی مبارک راگا۔۔۔۔۔"


کال نے ہلکے سے کہا اور پھر ساتھیوں کو اشارہ کرتے ہوئے اپنی بندوقیں اٹھا کر فوجی جوانوں پر تان دیں جو پہلے سے ہی اپنی بندوقوں کا رخ انکی جانب کر کے کھڑے تھے۔


"ٹھیک ہے فوجی تم لوگ جاؤ یہاں سے ہم خود یہاں سے غائب ہو جائیں گے۔۔۔"


کال نے کہا تو جنرل شہیر مسکرا دیے۔


"اتنی آسانی سے نہیں۔۔۔۔"


انہوں نے وجدان کو اشارہ کیا تو وجدان نے اپنے کان سے لگی ڈیوائس میں 'اٹیک' کہہ کر اپنی بندوق اٹھائی اور باقی سپاہیوں کی مدد سے ایک ساتھ ہال میں چھپے چار دہشت گرد مار گرائے۔جبکہ وہ باہر سے بھی بندوقوں کی آواز سن سکتے تھے۔


"بابا۔۔۔۔!!!"

ابھی وجدان کی بندوق کا رخ پانچویں دہشتگرد کی جانب تھا جب اسکے کانوں میں ایک روتی ہوئی آواز پڑی تو وجدان فوراً مڑا اور وانیا کو دیکھا جو ایک نقاب پوش کی گرفت میں سٹپٹا رہی تھی۔

وجدان نے آگے بڑھنا چاہا تو نقاب پوش نے فوراً ایک ریوالور وانیا کی کن پٹی پر رکھا۔

"نہ نہ لیفٹیننٹ تھوڑی سی چالاکی اور اور تمہاری بیٹی کی جگہ اسکی لاش ہو گی زمین پر۔۔۔اب اپنے سپاہیوں کو اندر آنے سے روکو فوراً۔۔۔۔"

کال کے ایسا کہنے پر وجدان فوراً رکا اور بے بسی سے جنرل شہیر کی طرف دیکھا۔جنرل شہیر نے بھی ہاں میں سر ہلایا تو وجدان نے سپاہیوں کو رکنے کا حکم دیا۔

"ہم بھی جانتے تھے کہ اتنی آسانی سے تم ہمیں یہاں سے جانے نہیں دو گے۔۔۔کچھ تو سوچنا تھا نا ہم نے بھی فوجی۔۔۔۔"

کال نے ہنستے ہوئے کہا اور راگا کو دیکھا جو کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر چیز سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔

"چلو اب مڑو اور کوئی بھی ہوشیاری کی تو ایک سیکنڈ لگے گا تمہاری اس بیٹی کی جان لینے میں۔۔۔"

کال نے وانیا کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا جو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وجدان کو دیکھ رہی تھی۔

"بابا۔۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔"

وانیا نے وجدان کی جانب بڑھنا چاہا تو کال نے اسکے بالوں پر اپنی پکڑ مظبوط کی اور اپنی بندوق اسکی کمر پر رکھ دی ۔وجدان بھی نم آنکھوں کے ساتھ بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہا تھا۔

"مڑو تم لوگ اور پانچ منٹ سے پہلے کسی نے پلٹ کر دیکھا تو انجام اس لڑکی کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

کال کے چلانے پر بھی وجدان نہیں مڑا تو جنرل صاحب نے وجدان کا ہاتھ تھام کر اسے مڑنے کا اشارہ کیا۔

"بات مانو لیفٹیننٹ۔۔۔فکر مت کرو یونیورسٹی کی چاروں طرف فوج ہے وہ نکل نہیں پائیں گے۔۔۔۔"

جنرل شہیر نے آہستہ سے کہا اور مڑ کر کھڑے ہو گئے۔انکے مڑتے ہی کال نے اپنا ہاتھ وانیا کے منہ پر رکھا اور گلے کے پاس مخصوص نس دبا کر اسے بے ہوش کر دیا۔

راگا اور باقی ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ زمین میں بنائی گئی جس خفیہ سرنگ سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اسی سے باہر نکلنے لگے جو کہ یونیورسٹی سے کافی فاصلے پر جا کر کھلتی تھی۔

انکے جانے کی آواز سنائی دی تو وجدان اور باقی سپاہی فورا مڑے۔

"اٹیک سولجرز۔۔۔۔"

وجدان نے باقیوں کو آرڈر دیا اور خود بے چینی سے وانیا کی تلاش میں بھاگنے لگا لیکن بہت ڈھونڈنے کے باوجود نہ تو راگا اور اسکے ساتھیوں کا کچھ پتہ چلا تھا نہ ہی وانیا کا۔

وہ لوگ بزدلوں کی طرح اپنے عام سے ساتھیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ کر جا چکے تھے۔

❤️❤️❤️❤️

"دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور اب سب یونیورسٹی کے سٹوڈینٹس کو آزاد کر دیا گیا ہے۔۔۔۔"

شایان جو کچھ دیر پہلے ہی گھر واپس آیا تھا اس نے خود کو ملنے والی خبر سنائی تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔جانان نے مسکرا کر زرش کو دیکھا اور اسکے آنسو پونچھے۔

"سنا تم نے زرش سب ٹھیک ہے اب تم فکر مت کرو دیکھنا وجدان بھائی وانیا کو لے کر آتے ہی ہوں گے۔۔۔۔"

زرش نے بھی نم آنکھوں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا۔ہانیہ جو دروازے میں کھڑی تھی آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔

"بس اب کوئی نہیں روئے گا۔۔۔صبح سے سب رو رو کر مجھے بھی رولا رہے ہیں۔۔۔"

جنت نے روتے ہوئے کہا تو سب اسکی بات پر مسکرا دیے۔ساری رات انتظار کرنے کے بعد تقریباً فجر کے وقت باہر ے گاڑی کی آواز پر سب بے چینی سے دروازے کی طرف بڑھے۔

زرش نے گاڑی میں سے معراج کے ساتھ وجدان کو اترتے دیکھا تو روتے ہوئے اسکی جانب گئی۔

"وانیا کہاں ہے وجدان۔۔۔۔آپ اسے ساتھ لائے ہیں نا کہاں ہے وہ۔۔۔وانیا۔۔۔"

زرش وجدان کو چھوڑ کر گاڑی کی جانب لپکی جس میں ڈرائیونگ سیٹ پر بس ایک ڈرائیور تھا۔

"وانیا کہاں ہے وجدان؟"

زرش نے وجدان سے پوچھا جو سر جھکائے کھڑا تھا جبکہ اپنے باپ کا جھکا سر دیکھ کر ہانیہ کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔

"وہ لے گئے اسے زرش۔۔۔وہ لوگ ہماری وانیا کو لے گئے۔۔۔۔میں انہیں روک نہیں پایا۔۔۔۔میں کچھ نہیں کر پایا۔۔۔۔"

وجدان نے زرش کو کندھوں سے تھام کر روتے ہوئے کہا لیکن زرش میں تو رونے کی ہمت بھی نہیں بچی تھی وہ بس بے جان ہو کر وجدان کی باہوں میں جھول گئی۔

"آزادی مبارک راگا اپنا سردار آزاد کروا ہی لیا نا ہم نے۔۔۔۔"


کال نے مسکرا کر راگا کو دیکھا۔وہ لوگ اس وقت ایک گاڑی میں تھے جو خفیہ پہاڑی راستوں سے ہوتی ہوئی انکی منزل پر گامزن تھی۔راستے میں انہیں کئی جگہ ناقہ بندی ملی تو وہ پولیس والوں کو چکما دے کر گاڑی بدلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔


اب صبح کے دس بجے کا وقت ہو رہا تھا اور وہ اپنی منزل کے بہت قریب تھے۔


"مان گئے تم کو ماڑا آزاد تو کروا لیا لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کوئی چار مہینہ اور مار پڑا لیتا تم مارے کو۔۔

۔ لالے اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔"


راگا نے اپنے گال پر لگے کٹ کو سہلاتے ہوئے طنز کیا۔


"میں اور ویرہ تو کب سے کوشش کر رہے تھے راگا بہت کچھ کیا لیکن فوج تمہیں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھی۔"


کال جو اب چہرے سے نقاب ہٹا چکا تھا گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔


"ارے کوئی بات نہیں لالے کی جان میں تو سسرال میں تھا،مزے سے دم پخت کھا رہا تھا روز خاطر تواضع ہوتی تھی میری میں کونسا کسی جیل میں بند فوجیوں کے ڈنڈے کھا رہا تھا۔"


راگا نے آنکھ دبا کر کہا تو کال قہقہ لگا کر ہنس دیا۔چہرے پر مسکراہٹ سجائے راگا کی نظر پچھلی سیٹ پر بے ہوش پڑی وانیا پر گئی جسکے معصوم چہرے سے اب چادر ہٹ چکی تھی اور وہ کوئی سوتی ہوئ معصوم سی بچی لگ رہی تھی۔


"اسے کیوں لے آیا تم؟"


راگا نے وانیا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔


"لیفٹینٹ کی بیٹی ہے راگا اسی کی وجہ سے ہم وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔۔۔"


راگا کے چہرے پر نا گواریت آئی ۔


"ہاں لیکن بھاگنے کے بعد تو اسے راستے میں ہی کہیں پھینک دیتا اب اسکی وجہ سے فوج ہمیں ہر جگہ ماری ماری تلاش کر رہی ہو گی۔۔۔"


راگا کی بات پر کال ایک پل کے لئے پریشان ہوا۔


"فکر مت کر راگا ایک بار ہم اپنے قبیلے پہنچ گئے تو فوج وہاں کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔"


کال نے بھرپور اعتماد سے کہا۔


"اور اگر پہنچ گئی تو؟اگر اس لڑکی کو ڈھونڈنے کی خاطر فوج نے ہمارے قبیلے کا پتہ لگا لیا تو؟"


راگا نے کال کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی کال ان نگاہوں سے خائف ہو رہا تھا۔


"آج تک تو نہیں پہنچ پائی فوج وہاں راگا ابھی کیسے پہنچے گی۔۔۔"


"اوئے خبیث آج تک فوج راگا کو بھی پکڑ نہیں پایا تھا لیکن پکڑ لیا نا۔۔۔۔۔یہ لڑکی نہیں تو نئی مصیبت اٹھا لایا ہے ساتھ ۔۔۔۔"


راگا نے اپنے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔


"فکر مت کر راگا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔"


راگا نے مزید کچھ کہنا بیکار سمجھا اس لیے خاموش ہو گیا۔


"دیکھ ہم پہنچ گئے۔۔۔"


کال نے وادی کی جانب اشارہ کیا جو قراقرم کے برفیلے پہاڑوں کے دامن میں چھوٹا سا گاؤں چھپا کر رکھے ہوئے تھی۔


پہاڑوں کے دامن میں وہ چھوٹا سا گاؤں دیکھنے میں جنت کا ٹکڑا ہی لگتا جس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھیل بہتی تھی اور چاروں اطراف برفیلے پہاڑ تھے لیکن سب ہی اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ علاقہ گاؤں کی آڑ میں دہشتگردوں کا ٹھکانہ تھا۔


انکی گاڑیاں اوبڑ کھابڑ راستوں سے ہوتی ہوئی گاؤں کی دہلیز تک پہنچی جہاں تقریباً ایک بتیس سالہ رعب دار شخص کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔


"راگا میرے بھائی۔۔۔۔"


راگا مسکرا کر اسکے پاس گیا اور اس کے گلے سے لگ گیا۔


"کیسے ہو ویرہ؟"


راگا کے سوال پر ویرہ مسکرایا۔


"آزادی مبارک ہو راگا جنگل کا شیر لوٹ آیا ہے۔۔۔"


ویرہ نے مسکرا کر کہا اور پیچھے کھڑے کال کو دیکھا جو وانیا کو بازو سے پکڑے اپنے ساتھ لا رہا تھا اور وانیا روتے ہوئے اس سے خود کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔


"نن۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔۔۔بابا۔۔۔۔"


وانیا جھپٹتے ہوئے چلا رہی تھی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھیں۔


"یہ کون ہے کال؟"


ویرہ کے ماتھے پر اس لڑکی کو دیکھ کر بل پڑھ گئے تھے۔


"لیفٹیننٹ وجدان خان کی بیٹی ہے۔وہاں سے بھاگنے کے لیے ہمیں اسکا سہارا لینا پڑا۔۔۔"


کال کے بتانے پر راگا نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔


"تو راستے میں ہی مار کر پھینک آتے اسے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔"


ویرہ نے انتہائی زیادہ سفاکی سے کہا ابھی بھی اسکا ہاتھ اپنی بندوق تک جا چکا تھا جبکہ اسکی بات سن کر وانیا کی روح تک فنا ہو گئی تھی۔


"مجھے اچھی لگی ویرہ۔۔۔اسے میں اپنے لیے لایا ہوں۔۔۔"


کال کی بات پر بے ساختہ راگا کی نگاہیں اس لڑکی کے نازک وجود پر پڑیں۔وہ بلا شبہ بہت زیادہ خوبصورت لڑکی تھی اور سب سے حسین تو اسکی وہ کانچ سی آنکھیں تھیں۔


"اور تیرے اس شوق کی قیمت ہمیں اٹھانی پڑے گی یہ لڑکی ہمارا ٹھکانہ جان چکی ہے کال اب اسکا پچھلی دنیا میں لوٹنا ناممکن ہے۔"


ویرہ نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔


"نہیں ویرہ فکر مت کر کچھ دن میرا شوق پورا ہو لے تو وہی کروں گا جو تو چاہتا ہے۔۔۔مار کر پھینک آؤں گا۔۔۔"


کال نے خباثت سے کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا۔وانیا کا جھٹپٹانا شدت اختیار کر چکا تھا۔


"ٹھیک ہے رکھ لے اسے ۔۔۔۔"


"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو ویرہ؟"


راگا جو اتنی دیر سے خاموش کھڑا انکی باتیں سن رہا تھا بول اٹھا تو دونوں نے حیرت سے راگا کو دیکھا۔


"جہاں تک مجھے یاد ہے ویرہ تم لوگوں کا سردار میں ہوں اور تم دونوں میرے ساتھی اور اس قبیلے میں موجود ہر شے کا فیصلہ سردار کرتا ہے جو راگا ہے ویرہ نہیں۔۔۔۔"


راگا نے ایک ابرو اچکا کر کہا تو ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔


"تمہارے جانے کے بعد سردار رہا نا راگا تو یہ بات بھول گیا۔۔۔"


ویرہ کے مسکرانے پر راگا نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"بہتر ہو گا یاد رکھو کہ اصلی سردار راگا ہی ہے کوئی اور نہیں۔۔۔۔"


راگا اسے وارننگ دیتا کال اور وانیا کی طرف مڑا۔


"اس قبیلے میں آنے والا ہر چیز سردار کا ملکیت ہوتا ہے اسکے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بھی میرا فیصلہ ہو گا کیونکہ ہر دوسری شے کی طرح یہ بھی سردار کا ملکیت ہے۔۔۔"


راگا نے مسکرا کر وانیا کا گال چھوتے ہوئے کہا جو اب اپنی خوف سے بھری نگاہیں اٹھا کر روتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔


"میرے کمرے میں چھوڑ کر آ اس ماہ جبین کو لالے کی جان آج سے یہ راگا کا ہوا۔۔۔۔"


راگا کی بات پر جہاں وانیا سوکھے پتے کی مانند کانپ گئی تھی وہیں کال اپنے ناگواری چھپا نہیں سکا۔


"یہ مجھے پسند آئی تھی راگا۔۔۔"


کال کی بات پر راگا نے اپنی شریر نگاہیں وانیا کے چہرے سے ہٹا کر کال کو دیکھا لیکن اب آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔


"اب مجھے آ گئی بات ختم۔۔۔"


نہ جانے کال نے راگا کی سیاہ آنکھوں میں ایسا کیا دیکھا کہ خوف سے کانپ اٹھا اور جی سردار کہہ کر وانیا کو راگا کے گھر کی جانب لے گیا۔


"اب تو ایک لڑکی کی وجہ سے لڑ رہا ہے۔۔۔۔ہاہاہا فوجیوں نے تجھے منچلا کر دیا راگا۔۔۔"


ویرہ نے ہنستے ہوئے کہا تو راگا بھی مسکرا کر اسکے ساتھ چل دیا۔

❤️❤️❤️❤️

زرش ہاسپٹل میں ایڈمیٹ تھی پریشانی کے باعث اسکا بی پی بہت زیادہ شوٹ کر چکا تھا اور سب لوگوں کی پریشانی وانیا کے ساتھ ساتھ زرش کی وجہ سے مزید بڑھ گئی تھی۔


ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اسکی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اسکی پریشانی دور کی جائے لیکن وجدان یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ زرش کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے وانیا کو کیسے لائے۔


رات بھر آرمی اور پولیس وانیا کی تلاش میں جٹے رہے تھے لیکن اسکے باوجود وہ دہشتگرد نہ جانے وانیا کو کہاں لے کر جا چکے تھے۔


"کچھ پتہ نہیں چلا وجدان وانیا کا؟"


شایان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وجدان نے ضبط سے آنکھیں موند کر انکار میں سر ہلایا۔


"تم پریشان مت ہو وجدان ہم مل کر اسے ڈھونڈیں گے تم دیکھنا دو دن میں وانیا یہاں ہو گی۔۔۔"


شایان نے غصے سے کہا۔


"نہیں شایان تمہاری اپنی فیملی ہے بچے ہیں میں نہیں چاہتا کہ جنت اور معراج مصیبت میں پڑیں اس لیے تمہیں اس سب میں پڑنے کی ضرورت نہیں آرمی وانیا کو تلاش کر رہی ہے وہ کر لے گی۔۔۔"


اس بات پر شایان کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی بے یقینی سے وجدان کو دیکھا۔


"للل۔۔۔۔لیکن ماموں ہم یوں تت۔۔۔۔تو نہیں بیٹھ سکتے ناں ۔۔۔"


"نہیں معراج تم بھی اس معاملے سے دور رہو یہ بہت خطرناک ہے میں نہیں چاہتا کوئی بھی اس معاملے میں پڑے۔۔۔۔وانیا کو آرمی تلاش کر رہی ہے اور یہ اسی کا کام ہے۔۔۔۔کسی اور کا اس میں پڑنا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔"


اس بات پر کب سے سر جھکا کر روتی ہوئی ہانیہ نے نگاہیں اٹھا کر بے یقینی اور نفرت سے اپنے باپ کو دیکھا۔اسکا دل چاہا کہ اپنے باپ سے پوچھے کہ وہ کیوں یہاں خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا اور باقیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا کہہ رہا تھا؟کیوں وہ بے چینی سے اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کے لیے زمین آسمان ایک نہیں کر رہا تھا؟کیا جو اس نے اپنے باپ کی بہادری کے قصے سنے تھے سب جھوٹ تھا؟


"ٹھیک ہے وجدان ویسا ہی ہو گا جیسا تم کہتے ہو۔۔۔"


شایان نے بے بسی سے کہتے ہوئے معراج کو دیکھا جو تب سے سائیڈ پر کھڑا تھا۔


"ہانیہ تم گھر جاؤ میں یہاں زرش کے پاس ہی ہوں۔۔۔"


وجدان نے ہانیہ کو نرمی سے کہا تو ہانیہ نے غصے سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"میں کہیں نہیں جا رہی اور آپ اس میں مجھے مجبور نہیں کر سکتے۔۔۔۔"


ہانیہ نے دو ٹوک جواب دیا اور وہیں بیٹھی رہی۔


"معراج تم جانان اور جنت کے پاس گھر جاؤ بیٹا میں اور وجدان یہیں ہیں۔۔۔"


معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور وجدان کے گھر آیا جہاں جنت اور جانان پریشانی سے لاونج میں بیٹھی تھیں۔


"زرش کی طبیعت کیسی ہے اب؟"


جانان نے بے چینی سے پوچھا تو معراج اسکے پاس آیا۔


"آپ فف۔۔۔فکر مت کریں ۔۔۔۔۔وہ ٹھیک ہیں۔۔۔آآآ۔۔۔۔آپ آرام کریں بڑی مما۔۔۔"


جنت نے بھی آنسو بھری آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا تو معراج نے اسے آنسو پونچھنے کا اشارہ کیا لیکن جنت روتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"تم کیوں رو رہی ہو جنت؟"


ایک آواز پر پہلے تو جنت سہم گئی پھر مڑ کر حیرت سے سالار ملک کو دیکھا جو بالکونی کے دروازے میں کھڑا تھا۔


"آپ لاہور سے یہاں کیسے آئے سالار سر آپ کو کیسے پتہ چلا کہاں ہوں میں؟نہیں۔۔۔بلکہ یہ بتائیں کہ کیوں آئے ہیں آپ یہاں؟"


جنت کے سوال پر سالار مسکرایا اب وہ اسے کیا بتاتا کہ دو ہفتوں سے اسکے موبائل میں ٹریکر لگا ہے جو ہر وقت سالار کو اسکی خبر دیتا ہے۔


"دوست جو ہیں اب ہم تو ایسا ہو سکتا کہ تمہیں اکیلا رونے کے لیے چھوڑ دوں۔۔۔۔تم اسے چھوڑو یہ بتاؤ کہ رو کیوں رہی ہو؟"

پپ

سالار نے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا حالانکہ جواب وہ جانتا تھا اور کزن کی گمشدگی پر بہت زیادہ پریشان بھی تھا۔


"وہ برے لوگ وانیہ آپی کو لے گئے ۔۔۔"


جنت نے سرخ ناک پونچھتے ہوئے معصومیت سے کہا جبکہ اسکے آنسو سالار کو مزید بے چین کر رہے تھے۔


"جنت میں چاہتا ہوں کہ تم مت رو۔۔۔"


سالار نے نرمی سے کہا اور جنت حیرت سے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھ رہی تھی۔


"کیوں ۔۔۔۔کیوں نہ روؤں میں؟"


جنت نے بڑی بڑی آنسوؤں میں ڈوبی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔


کیونکہ تمہارا ہر آنسو میرے دل پر تیزاب کی طرح گرتا ہے جنت میرا بس چلے تو ان آنسوؤں کو تم سے بہت دور لے جاؤں اور ہمیشہ کے لیے ایک مسکان تمہارے ہونٹوں پر سجا دوں۔۔۔۔


سالار نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا لیکن کہہ نہیں پایا۔


"کیونکہ رونا کسی چیز کا حل نہیں۔۔۔"


سالار کی بات پر جنت کا منہ مزید پھول چکا تھا۔


"آپ بہت بڑے سڑو ہو وانیا آپی پتہ نہیں کیسی ہوں گی۔۔۔۔"


اچانک جنت کو ایک خیال آیا۔


"سالار سر کیا آپ میری آپی کو نہیں ڈھونڈ سکتے آپ سیاست میں ہے آپکی بہت پہنچ ہوتی ہے ناں۔۔۔۔لیکن آپ کیسے ڈھونڈیں گے آپ تو جانتے بھی نہیں انہیں۔۔۔"


جنت نے معصومیت سے اپنے ہی سوال کا جواب دیا اور پھر سے آنسو بہانے لگی۔


" کتنا ڈر لگ رہا ہو گا نا وانیا آپی کو وہ لوگ کتنے برے ہوتے ہیں پتہ ہے اتنی بڑی بڑی گنز ہوتی ہیں انکے پاس۔۔۔"


جنت نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے سالار کو بتایا۔


"اگر آپی کی جگہ میں یونی میں ہوتی اور وہ مجھے لے جاتے تو میں۔۔۔"


ابھی جنت کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب اچانک سالار نے اسے اسکے بازوں سے دبوچ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔جنت اسکی غصے اور جنون سے سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر بری طرح سے سہم گئی۔


"ایسا کبھی غلطی سے بھی مت سوچنا جنت کہ تمہیں کوئی لے کر جائے۔۔۔۔میں اس دنیا کو آگ لگا دوں گا۔۔۔۔کوئی نہیں چھین سکتا میری جنت مجھ سے کوئی بھی نہیں۔۔۔"


سالار نے اسے گھورتے ہوئے انتہائی جنونیت سے کہا اس بات سے بے خبر کے جانے انجانے وہ اپنی جنت کو تکلیف پہنچا رہا تھا۔


"چھوڑیں۔۔۔درد ہو رہا ہے"


جنت نے آنکھوں میں آنسو لے کر کہا تو سالار نے اسے چھوڑا اور وہاں سے اٹھ کر بالکونی کی جانب چلا گیا جبکہ جنت اسکے اس رویے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔


"چھچھورا سیاست دان۔۔۔،"

❤️❤️❤️❤️

وانیا کو وہ آدمی ایک پہاڑی پر بنے چھوٹے سے گر کے کمرے میں قید کر کے جا چکا تھا اور اسکے جانے کے بعد سے وانیا بس ایک کونے میں بیٹھ کر روتی جا رہی تھی۔وہ تو اتنی ڈرپوک تھی کہ اس نے یہاں سے بھاگنے تک کی ہمت نہیں کی۔


وہ بچپن سے ہی ایسی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈرنے والی اور ہانیہ ہمیشہ اسکی ڈھال بن کر رہی تھی۔اپنی جڑواں کو یاد کر کے وانیا کے رونے میں مزید روانی آ چکی تھی۔


"ہانی پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"

نہ جانے کتنی دیر وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی تھی۔تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور راگا کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر وانیا خوف سے خود میں سمٹ گئی۔

راگا گہری نگاہوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو ایسا لگ رہا تھا کہ اسکے خوف سے دیوار میں ہی گھس جائے گی پھر راگا کو خیال آیا کہ اس نے کل سے کچھ کھایا نہیں ہو گا اسی لیے گھر کے باہر کھڑے آدمی کو کھانے کا کہہ کر وہ کمرے میں آیا اور اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو ابھی تک زاروقطار رونے کا شغل فرما رہی تھی۔

"اففف ماڑا اتنا روئے گا تم تو یہ وادی تمہارے آنسوؤں سے ہی بہہ جائے گا۔۔۔"

راگا کی آواز پر وانیا نے اپنا چہرہ اٹھایا اور سہم کر اسے دیکھنے لگی۔دوپٹے سے بے نیاز وہ مزید خود میں سمٹتی اسکی نظروں سے چھپنا چاہ رہی تھی۔

"افف یہ شمشیر نگاہیں دل گھائل کر گئیں ہیں ان آنکھوں کو اتنی ازیت دینے کی سزا برداشت نہیں کر پائے گی تمہاری نازک جان ۔۔۔"

راگا نے شرارت سے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وانیا سزا کا سن کر مزید رونے لگی۔تبھی ایک آدمی وہاں کھانا لے کر آیا جسے راگا نے وانیا کے سامنے رکھنے کا اشارہ کیا۔

"چلو کھانا کھاؤ تمہارے آنسوؤں کو اس سے بھرپور طاقت مل جائے گی۔۔۔"

راگا اتنا کہہ کر اپنے گال پر موجود زخم صاف کرنے لگا۔وانیا نے یہاں وہاں دیکھا لیکن بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

"پپپ۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔۔۔"

وانیا کے التجا کرنے پر راگا نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر کندھوں سے گرم چادر ہٹا کر اپنی قمیض اتارنے لگا۔

وانیا نے ہلکا سا چیخ کر اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔

"ارے ارے ڈرو مت ماڑا ایسا ویسا کوئی ارادہ نہیں فلحال میرا میں تو بس اپنے زخم پر مرحم لگانے کا سوچ رہا تھا لیکن اگر تمہیں خاموشی سے کھانا نہیں کھانا تو میں اپنا ارادہ بدل دیتا ہوں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا نے دو قدم آگے بڑھائے تو وانیا نے فوراً ایک نوالا توڑا اور منہ میں ڈال کر روتے ہوئے کھانے لگی۔اسکی معصوم حرکت پر راگا کا دل کیا کہ قہقہ لگا کر ہنسے۔

"یہاں سے جانے کا خیال تو دل سے نکال ہی دو کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔۔۔۔اب شرافت سے کھانا کھاؤ ورنہ اپنی شرافت اتار کر بے شرم ہونے کا شوق مجھے بچپن سے ہے۔۔۔۔"

راگا نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ دباتے ہوئے کہا تو وانیا بغیر کوئی چوں چراں کے کھانا کھانے لگی۔

"نام کیا ہے تمہارا۔۔۔۔ویسے جو بھی ہو دیکھنے میں تو تم۔۔۔بلکل ایک میٹھی مٹھائی لگتا ہے جیسے جلیبی اور وہ بھی کوئی ایسی ویسی جلیبی نہیں افغان جلیبی۔۔۔۔"

وانیا اس شخص کی بے حیا باتیں سن کر مزید رونے والی ہو چکی تھی اور وہ اسکی حالت سے بے نیاز اپنے چوڑے سینے پر موجود گہرے زخم پر مرحم لگاتے ہوئے مسلسل باتیں کر رہا تھا۔

"کیا کھا لیا تم نے کھانا تو۔۔۔۔"

راگا آگے بڑھا تو وانیا چیخ مار مزید دیوار کے ساتھ لگ گئی۔

"ہاہاہا ارے ماڑا کتنا ڈرتا ہے تم میں تو کہہ رہا تھا کہ کھانا کھا لیا ہے تو وہاں جا کر سو جاؤ ویسے بھی رات تو ہو ہی چکا ہے۔۔۔۔"

راگا نے بستر کی جانب اشارہ کیا لیکن وانیا اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔

"مم۔۔۔۔مجھے نہیں سونا۔۔۔۔آپ پلیز۔۔۔۔مجھے جانے دیں۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے کہا تو راگا آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

"یہ سہی کہا تم نے سونا تو مجھے بھی نہیں اور سردی بھی کافی ہے یہاں تو چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کہ سردی بھاگ جائے اور ماحول تھوڑا گرم ہو۔۔۔۔"

راگا نے شریر نگاہوں سے وانیا کو دیکھتے ہوئے کہا تو جلدی سے راگا سے دور ہو کر روتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگی۔

"نہیں دور رہو مجھ سے۔۔۔"

"ارے آگ جلانے کی بات کر رہا تھا افغان جلیبی سوچ صاف کرو اپنا توبہ کتنا گندہ سوچ ہے۔۔۔۔"

راگا نے ہنستے ہوئے کہا اور لکڑیاں آتش دان میں ڈال کر آگ جلانے لگا۔

"چلو اب سو جاؤ ورنہ میری سوچ صاف نہیں رہے گی اور تمہاری سوچ سے زیادہ بے شرم آدمی ہوں میں۔۔۔"

راگا نے اسے جامد کھڑے ہو کر روتے ہوئے دیکھا تو خطرناک نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وانیا خوف سے کانپتے ہوئے بستر میں گھسی اور اپنی آنکھیں بہت زور سے میچ کر کمبل کو مٹھیوں میں بھینچ کر لیٹ گئی۔

راگا اب کی بار اپنے قہقے کو روک نہیں پایا اور پھر مسکرا کر آگ جلانے کا کام کرنے لگا۔

وانیا جو اس خطرناک آدمی کے خوف سے بستر میں گھسی تھی روتے ہوئے تھکن سے چور کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی اسکا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔

اس بات سے بے خبر کہ کوئی بہت دیر تک آگ کی روشنی میں اسکے معصوم چہرے کا دیدار کرتا رہا تھا۔

وانیا کو ان ظالم لوگوں کی قید میں گئے چار دن ہو چکے تھے اور آرمی ابھی تک اسکا پتہ لگانے میں ناکام رہی تھی۔وجدان نے کسی کو معاملے میں شامل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی تھی اسکا بس یہی کہنا تھا کہ یہ کام صرف آرمی کا ہے اور کسی کا اس میں شامل ہونا ہی بے وقوفی ہے۔


اس نے زبردستی سب کو اپنی معمولات زندگی کی جانب واپس جانے کے لیے کہا لیکن شایان اس بات پر آمادہ نہیں تھا۔اسی لیے اس نے کل ہی معراج اور جنت کو جانان کے ساتھ واپس بھیج دیا جبکہ خود وہ وجدان اور زرش کے پاس ہی رکا تھا۔


وجدان خود بھی تو ایک پل کے لیے بھی زرش کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا اتنے دنوں میں وہ بمشکل بس تین مرتبہ جنرل شہیر سے ملنے گیا تھا اور زرش کی طبیعت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید بری ہوتی جا رہی تھی۔جتنی دیر وہ جاگتی رہتی بس روتے ہوئے وانیا کے بارے میں ہی پوچھتی اور سلایا تو بس اسے نیند کی دوائیوں کے زیر اثر ہی جاتا۔


وجدان ابھی ابھی زرش کے روم سے اسکے آنسو اور گڑگڑانا دیکھ کر نکلا تو اسکی نظر اپنی دوسری بیٹی پر پڑی جو باہر موجود کرسیوں میں سے ایک پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔


"ہانیہ بیٹا۔۔۔۔"


وجدان نے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تو ہانیہ نے نم آنکھیں اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا۔


"کچھ پتہ چلا وانی کا۔۔۔؟"


اسکے سوال پر وجدان کا چہرہ مایوسی سے جھک گیا۔


"نہیں بیٹا لیکن میری جنرل شہیر سے بات ہوئی ہے وہ بہت جلد ہی ہماری وانیا کو ڈھونڈ لیں گے۔۔۔۔"


وجدان کی بات پر ہانیہ نے اپنی مٹھیاں اتنی زور سے کس لیں کہ اسکی ہتھیلیوں سے خون کی بوندیں نکلنے لگیں۔


"اور یہی بات جنرل صاحب چار دنوں سے کہہ رہے ہیں بابا۔۔۔۔چار دن۔۔۔۔اتنا عرصہ ہو گیا بابا وانیا کو کھوئے ہوئے اور آپ بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں؟"


ہانیہ کی آواز میں بہت شکوہ بہت درد تھا۔


"ایسا نہیں ہے بیٹا آرمی اسے ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش۔۔۔۔"


"وہ آرمی کی بیٹی نہیں بابا آپکی بیٹی ہے۔۔۔۔مجھے یہ بتائیں آپ کیا کر رہے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔۔ہاں بولیں۔۔۔۔"


ہانیہ نے وجدان کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے کہا اور پھر سے آنسو بہانے لگی۔


"تمہاری ماں کو میری ضرورت ہے ہانیہ۔۔۔"


وجدان نے بہت زیادہ بے بسی سے اپنی سرخ ہوتی سبز آنکھیں بھینچ کر کہا۔


"اور مما کی ضرورت وانیا ہے بابا لیکن آپ اسکے پاس نہیں۔۔۔۔۔آپ وانیا کے ہیرو تھے بابا اور آپ ہی اسکے پاس نہیں۔۔۔"


ہانیہ اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تو وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"ہانیہ بیٹا بھروسہ رکھو مجھے یقین ہے کہ آرمی ہماری وانیا کو ڈھونڈ لے گی ضرور۔۔۔"


وجدان نے اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے کہا جو اب باپ کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔وجدان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اسکے آنسو پونچھے۔


"تم تو میرا بہت بہادر بیٹا ہو نا ہانیہ پلیز تم حوصلہ رکھو اپنی مما کی خاطر وہ ۔۔۔۔۔وہ کسی سے بھی نہیں سنبھل رہی۔۔۔"


وجدان نے بہت بے بسی سے کہا۔


"ہانیہ تم تو وانیا بن کر ہمیشہ سب کو حیرت میں ڈال دیتی ہو نا تو تم وانیا بن کر زرش کو تھوڑی تسلی دلا دو۔۔۔"


وجدان نے بہت امید سے ہانیہ کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"آپ کو کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی؟۔۔۔۔وہ ماں ہیں بابا دیکھتے ہی پہچان جاتی ہیں مجھے اور پھر مجھ سے وانیا کا پوچھتی ہیں۔۔۔۔میں کیا جواب دوں انہیں بابا۔۔۔۔مجھے بتائیں کہ میں کیا جواب دوں۔۔۔؟"


ہانیہ اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر روتے ہوئے سوال کر رہی تھی۔


"ہانیہ مجھے پوری امید ہے کہ آرمی بہت جلد وانیا کو تلاش۔۔۔۔"


"جلد۔۔۔۔؟ بابا شاید آپکو نظر نہیں آ رہا کہ اب یہاں جلد والا کچھ نہیں رہا۔۔۔۔۔دیر تو پہلے ہی ہو چکی ہے۔۔۔چار دن بہت زیادہ ہوتے ہیں بابا پتہ نہیں اتنے وقت میں اس کے ساتھ کیا۔۔۔۔پتہ نہیں وہ زندہ بھی ۔۔۔۔"


ہانیہ نے اپنے دل میں آتے وسوسے ظاہر کیے اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"کچھ نہیں ہو گا اسے ہانیہ بھروسہ رکھو۔۔۔"


وجدان نے بہت زیادہ بے بسی سے کہا لیکن اس وقت ہانیہ کو اسکی بے بسی سے بہت زیادہ نفرت ہو رہی تھی۔


"نہیں رکھنا بھروسہ بابا اب مجھے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا۔۔۔۔آپ پر بھی نہیں۔۔۔"


ہانیہ نے وجدان کا ہاتھ جھٹک کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر باہر موجود گاڑی میں بیٹھے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔اب وہ جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

معراج جو جانان اور جنت کے ساتھ کل ہی لاہور واپس لوٹا تھا آج کالج آیا تو اسے پتہ چلا کہ آج انکی پرائیز ڈیسٹریبیوشن سیریمنی ہے جس کے لیے خوشحال پارٹی کے سربراہ اور انکے وزیر اعلی خادم شفیق انکے کالج آ رہے تھے۔


"ارے واہ کیا بات ہے نا آج ٹاپرز کو پرائز ملے گا میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارے بونگے کو بھی فسٹ پرائز ملتا نا اگر ٹاپرز کو اوپر سے نہیں نیچے سے گننا شروع کر دیں تو۔۔۔۔"


عمیر نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو اس کے دوست بھی قہقہ لگا کر ہنس دیے۔


"چچچ۔۔۔۔چھوڑو مجھے عمیر۔۔۔۔ککک۔۔۔۔۔کیوں پریشان کرتے ہو مم۔۔۔میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔۔"


معراج نے گھبرا کر اس سے خود ہوتے ہوئے کہا اور اپنا چشمہ درست کرنے لگا۔


"ارے بونگے تو تو فلموں کی ہیروئن کی طرح ڈائیلاگ مار رہا ہے دیکھنا ابھی بولے گا چھوڑ دو مجھے مت کرو میرے ساتھ ایسا۔۔۔میں اپنی بات کو کیا منہ دکھاؤں گی نہیں۔۔۔"


امیر نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اوور ایکٹنگ کی۔


"ارے یار یہ تو ہیروئن بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جججج۔۔۔۔۔جب تک ببب۔۔۔بولے گا نا فلم ہی ختم ہو جائے گی۔۔۔"


عمیر کے دوست کی بات پر سب ہنسنے لگے اور معراج سر جھکا کر اپنی تزلیل پر آنسو ضبط کرتا وہاں سے چلا گیا۔کچھ دیر میں ہی فنکشن سٹارٹ ہو چکا تھا اور وزیر خادم شفیق سٹیج پر آ کر اب سٹوڈینٹس کے سامنے کھڑے تھے۔


"اسلام و علیکم میرے ملک کے قابل جوانوں۔۔۔کیسے ہو سب؟"


خادم شفیق کا لہجہ شفقت سے بھرا ہوا تھا۔


"تم سب صرف نوجوان نہیں ہمارے ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہو جس کی بدولت ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور آج جتنے بھی طالب علم مجھ سے انعام حاصل کریں گے وہ ملک کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں میں چاہوں گا کہ اگلی بار سب ہی وہ قیمتی اثاثہ بننے کی کوشش کریں۔"


خادم شفیق کی بات پر سب نے تالیاں بجائیں معراج جو عمیر اور اس کے ساتھیوں سے چھپ کر فرنٹ رو میں بیٹھا تھا اچانک ہی اسکی نظر خادم شفیق کی چھاتی پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا لال روشنی کا نقطہ تھا پہلے تو معراج حیران ہوا پھر اس لال روشنی کا مطلب سمجھ کر جتنی رفتار سے ہو سکتا تھا وہ اٹھا اور اسٹیج پر آکر پوری طاقت سے خادم شفیق کو دھکا دیا تھا۔


جہاں سب معراج کی اس حرکت پر حیران ہوئے تھے وہیں معراج کے بازو سے نکلتا خون دیکھ کر سب کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی تھی۔


خادم شفیق پر اس مجمے میں کسی نے گولی چلانے کی کوشش کی تھی جو اب معراج کے بازو پر لگی تھی۔خادم شفیق کے گارڈ نے فورا آگے ہو کر انکے گرد ایک گھیرا قائم کر لیا۔


"بچے کو دیکھو تم لوگ۔۔۔۔"


خادم نے معراج کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب درد سے بے ہوش ہو چکا تھا جبکہ عمیر اور اس کے دوست ہیں یہ سوچ رہے تھے کہ انکے بزدل سے بونگے نے اتنی بہادری کا کام کیسے کر لیا؟"

❤️❤️❤️❤️

"اب کیسی طبیعت ہے میرے شیر کی۔۔۔"


راگا ایک جگہ کھڑا پہاڑوں کے دامن سے نکلتی جھیل کے نظارے دیکھ رہا تھا جب اسے اپنے قریب سے ویرہ کی آواز سنائی دی۔


"تجھے کیسا لگ رہا ہوں؟"


"بلکل میرے نام جیسا 'ویرہ' ایک دہشت۔۔۔"


ویرہ کے جواب پر راگا کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔


"اور اب دہشت بننے کا وقت آ چکا ہے ویرہ اب اپنے دشمنوں کو بتانے کا وقت آ چکا ہے کہ راگا کیا چیز ہے۔۔۔۔انہیں کیا لگا تھا کہ مجھے قید میں ڈال کر میری دہشت کو ختم کر دیں گے۔۔۔۔۔اب مجھے ان سب کو دہشت لفظ کا مطلب سمجھانا ہے۔۔۔"


راگا نے اپنے مٹھیاں بھیجتے ہوئے کافی جنون سے کہا۔ویرہ نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔


"ایسا ہی ہوگا راگا تو ،میں اور کال مل کر اس پورے ملک میں دہشت پھیلائیں گے۔۔۔۔"


راگا نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ابھی کچھ دن پہلے ہی میری سلطان سے بات ہوئی تھی ایک پارٹی کافی اچھل رہی ہے تو ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کر کے الزام اس پارٹی کے سربراہ پر لگانا ہے بدلے میں سلطان ہمیں بہت سے ہتھیار اور پیسے دے گا۔۔۔"


"سلطان؟"


ویرہ کے بتانے پر راگا نے حیرت سے سوال کیا۔


"ہاں سلطان، تجھے یاد نہیں تو اسی کا کام کر رہا تھا جب فوج نے تجھے پکڑ لیا ۔۔۔"


راگا نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہاں یاد ہے مجھے لیکن سلطان اسکی اصلی پہچان نہیں ویرہ۔۔"


ویرہ راگا کی بات پر مسکرا دیا۔


"بالکل یہ اس کا اصلی نام نہیں ہے بلکہ آج تک کسی نے اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔ملک میں ہونے والا تقریباً ہر غیر قانونی کام وہی تو کرواتا ہے اور بہت عام لوگوں کے ذریعے رابطہ کرتا ہے وہ ہم جیسے لوگوں سے۔۔۔۔۔"


راگا نے کچھ دیر سوچ کر ویرہ کی بات پر غور کیا۔


"تو ٹھیک ہے پھر اس بار اس سے یہ کہتے ہیں کہ آمنے سامنے بیٹھ کر ہم سے بات کرے تب ہی اس کا کام کریں گے

۔۔۔۔راگا کو اس آدمی کے ساتھ کام نہیں کرنا جس کا اصل نام تک نہ جانتا ہو۔۔۔ "


"یہ ناممکن ہے راگا سلطان کبھی بھی کسی سے نہیں ملا اور اسی بات پر تو وہ ہمیں یہ کام دے گا ہی نہیں۔۔۔۔۔اور اصلی نام تو ہم تینوں کا بھی کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔جب سے ملے ہیں تب سے ہم تینوں ایک دوسرے کے لیے صرف کال،راگا اور ویرہ ہیں۔"


ویرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔


"ہماری بات اور ہے ویرہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں ہم۔۔۔۔ ہمارے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ ہم احتیاط سے کام کریں۔۔۔۔"


راگا نے اپنا سردار والا انداز اپنایا تو ویرہ نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔اسے مزید کوئی جواب دیئے بغیر راگا اپنے گھر واپس آیا۔


بند دروازے کا تالا کھولا تو اسکی نگاہ وانیا پر پڑی جو کونے میں موجود گدے پر گلابی رنگ کے ریشمی سے پٹھانی فراک اور پاجامے میں ملبوس اپنا سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی۔دوپٹہ بے نیازی کے عالم میں فرش پر پڑا تھا اور کمر پر بکھرے ملائم بال اسے بہت ہی حسین بنا رہے تھے۔


"آج تو کوئی سچ کا گل لگ رہا ہے ماڑا باغیچے کا سب سے حسین پھول۔۔۔"


راگا کی آواز پر وانیا نے جلدی سے سر اٹھایا اور سہم کر اسے دیکھتے ہوئے دوپٹہ سر پر ڈالا تھا۔


اسے اس کمرے میں قید ہوئے چار دن ہو چکے تھے اور اس عرصے میں راگا نے کبھی اسے ہاتھ تک بھی نہیں لگایا تھا لیکن وہ باتوں کے تیر چلانے سے بعض نہیں آتا تھا۔پھر بھی وانیا اس سے بہت زیادہ ڈرتی تھی اور ڈرتی بھی کیوں نہ وہ شخص دہشت کی جیتی جاگتی مثال تھا۔


"اب پھر سے رونا مت شروع کر دینا افغان جلیبی ہمیشہ کی طرح دوری سے ہی تمہارے حسن کی تعریف کروں گا۔۔۔پاس آنے کا تو حق ہی نہیں مانا اگر ہوتا نا تو جتنا تم حسین لگ رہا ہے نا اس وقت۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ راگا اپنی بات مکمل کرتا وانیا نے منہ بنا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔


"اففف یہ حسن اور اس پر معصوم ادائیں نا جانے زندہ کیسے ہے یہ راگا اتنا سب جھیل کر۔۔۔۔"


راگا نے سر جھٹک کر کہا اور اپنے بیڈ کے ساتھ موجود دراز میں سے سے کچھ نقشے نما کاغذ نکال کر دیکھنے لگا جبکہ وانیا ابھی بھی اسے یوں سہم کر دیکھ رہی تھی جیسے وہ کسی بھی پل اس پر جھپٹ پڑے گا۔


"آآآ۔۔۔۔۔آپ پھر سے لوگوں کی جان لینے لگے ہیں نا۔۔۔۔۔برے ہیں آپ بہت برے ہیں۔۔۔"


وانیا نے ڈرتے ہوئے راگا کو آگاہ کیا تو اس نے اپنی خطرناک سیاہ آنکھوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔


" میں تمہیں کیوں برا لگتا ہوں ابھی تک تو بہت زیادہ شرافت کا مظاہرہ کیا ہے میں نے۔۔۔۔"


درگا کی نگاہوں کی تپش خود پر محسوس کر وانیہ سمٹ سی گئی۔


"کک۔۔۔۔کیونکہ آپ لوگوں کی جان لیتے ہیں۔۔۔"


"وہ تو تمہارا باپ بھی لیتا ہے۔۔۔۔"


راگا نے اپنی نگاہیں ان کاغذات پر جماتے ہوئے کہا۔


"نہیں وہ آپ کی طرح معصوم لوگوں کو نہیں مارتے صرف برے لوگوں کو مارتے ہیں۔۔۔۔"


راگا نے ایک ابرو اچکا کر وانیا کو دیکھا۔


"برائی تو سب میں ہے ماڑا کچھ میں زیادہ کچھ میں کم اور اگر مصومیت کی بات کریں تو معصوم تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"


راگا کی آواز طنز سے بھری ہوئی تھی۔


"کیا ملتا آپکو یہ سب کر کے کبھی سوچا ہے کہ دھماکے میں کتنے معصوم بچے اور عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔کتنے ہی بزرگ اور جوان آدمی جو اپنے گھر والوں کا سہارا ہوتے ہیں اور سب کو ایک ہی جھٹکے میں مار کر آپ اپنا ذاتی مفاد حاصل۔۔۔"


وانیا جو نہ جانے کہاں سے ہمت اکٹھی کرکے بولتی چلی جا رہی تھی راگا کے سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورنے پر خاموش ہوگئی۔


"اس سب سے جتنا دور رہو تمہارے لئے اتنا ہی بہتر ہے زیادہ دماغ چلاؤ گی تو میں تو کیا تمہیں کوئی بھی بچا نہیں سکے گا۔۔۔۔۔اس لیے پھر کبھی اپنی زبان مت کھولنا۔۔۔۔"


ایسا کہتے ہوئے نہ تو راگا کے لہجے میں پٹھانی طرز تھی اور نہ ہی کوئی شرارت بلکہ اس قدر سفاکی تھی کہ وانیا کی روح تک کانپ گئی۔


"ممم۔۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا جانا ہے مجھے۔۔۔۔اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"


وانیا خود کو پھوٹ پھوٹ کر رونے سے نہیں روک پائی تھی۔


"اب تم چاہو یا نہ چاہو تمہیں یہاں رہنا ہوگا یہ بات جتنی جلدی سمجھ لو اتنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر راگا اٹھا اور وہاں سے باہر چلا گیا اور وانیا پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

"کیسی طبیعت ہے اب اس بچے کی؟"


خادم نے اپنے سب سے خاص آدمی سے پوچھا۔


"سر ہسپتال میں داخل ہے وہ تو شکر ہے گولی صرف بازو کو چھو کر نکل گئی اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔"


خادم نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ہسپتال چلو اس بچے سے ملنا ہو گا نہ جس نے میری جان بچائی۔"


خادم کا پی اے اسکی بات مانتا ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا بولنے لگا اور کچھ ہی دیر میں خادم شفیق کی سات سے آٹھ گاڑیاں اور گارڈ ہسپتال کے باہر تھے۔


"سر آپ پر جان لیوا حملہ ہوا آج آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟


خادم کے گاڑی سے باہر نکلتے ہی ایک رپورٹر سامنے آئی اور سوال کرنے لگی۔


"دیکھیں میں یہ تو نہیں جانتا کہ میری جان کون لینا چاہتا ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اندر لیٹا وہ بچہ میرے لیے فرشتہ ثابت ہوا اور ابھی مجھے اسکے پاس ہونا چاہیے۔"


اتنا کہہ کر خادم انکے باقی سوالات کو نظر انداز کرتا اندر گیا تو اسکا پی اے اسے ساتھ لے کر وارڈ میں آیا جہاں جنت پریشانی سے معراج کے سرہانے بیٹھی تھی جبکہ جانان اسکا ہاتھ تھام کر روتی ہی جا رہی تھی۔


"بب ۔۔۔۔بڑی مما کچھ ننن۔۔۔۔ نہیں ہوا مجھے یقین کریں ٹٹٹ۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"


معراج کی بات پر خادم مسکرایا۔


"بلکل محترمہ آپ پریشان مت ہوئے آپ کا بہادر بیٹا شیر ہے۔"


خادم نے آگے ہو کر معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا پھر حیرت سے جانان کو دیکھنے لگا۔


"آپ کو کہیں دیکھا ہے میں نے شائید"


خادم نے خدشہ ظاہر کیا جبکہ جانان جو اس شخص کو پہچان چکی تھی پریشانی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔


خادم شفیق اور کوئی نہیں عثمان ملک کا سب سے خاص ساتھی تھا اور جانان نہیں چاہتی تھی کہ وہ معراج کے سامنے عثمان کا نام بھی لے۔انہوں نے آج تک معراج سے اسکے ماں باپ کی موت کا ہر راز چھپایا تھا۔


"آپ تو عثمان صاحب کی سالی صاحبہ ہیں نا میم حمنہ کی چھوٹی بہن۔۔۔"


خادم کی بات پر جانان کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔گھبرا کر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


"اور یہ آپ کا بیٹا ہے؟"

خادم نے معراج کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جو ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

"جی میرا اپنا بیٹا ہے۔۔۔"

جانان نے معراج کا ہاتھ تھام کر کہا۔

"ماشاءاللہ بہت بہادر بچہ ہے اگر آپ کو کبھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائے گا۔"

جانان نے فوراً مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو خادم وہاں سے چلا گیا اور باہر آ کر اپنے پی اے کی سے متوجہ ہوا۔

"مجھے اس لڑکے کے بارے میں سب جاننا ہے۔"

"جی سر۔"

پی اے نے ہاں میں سر ہلایا اور خادم شفیق کے ساتھ وہاں سے چلا گیا جبکہ معراج اسکی باتیں سن کر حیران ہوا تھا۔

"کک۔۔۔کون عثمان ملک مما؟"

معراج کے سوال پر جانان نے سہم کر اسے دیکھا۔

"کوئی نہیں بیٹا کوئی نہیں۔۔۔"

جانان نے اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر کہا۔معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور اپنی آنکھیں موند گیا۔

❤️❤️❤️❤️

ہانیہ جب سے ہاسپیٹل سے آئی تھی تب سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنی اور وانیا کی تصویر کو دیکھتے ہوئے روتی جا رہی تھی۔

وہ کیسے اپنی بہن کے بغیر رہ سکتی تھی جب کہ وہ جانتی تھی کہ اس کی بہن بہت زیادہ نازک تھی بہت کمزور۔۔۔۔لیکن وہ کمزور نہیں تھی،نہیں وہ بہادر تھی اور اب اس نے بہادر بننے کا فیصلہ کیا۔

ہاں اسے بہادر بننا تھا اب وہ مزید اپنے باپ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنے والی تھی۔

یہ سوچ دماغ میں آتے ہی ہانیہ اٹھی پھر اپنی الماری میں موجود ڈائری میں سے ایک پیچ نکال کر اس پر موجود نمبر کو دیکھنے لگی۔پھر اس نے اپنا موبائل نکالا اور فون ملانے لگی۔

"ارمان مجھے ایک کام ہے تم سے۔۔۔"

اپنے دوست کے فون اٹھاتے ہیں ہانیہ نے سختی سے کہا۔

"ہاں بولو ہانی سب خیریت؟"

"مجھے اس شخص کا پتہ چاہیے اس کا نام انس راجپوت ہے میں نے تمہیں اس کا نمبر بھی سینڈ کیا ہے پانچ منٹ میں تم مجھے اس شخص کا پتہ بتاؤ۔۔۔۔"

ہانیہ نے ارمان کو حکم دیتے ہوئے کہا وہ جانتی تھی کہ ارمان بہت اچھا ہے ہیکر تھا اور وہ اس کا یہ کام ضرورکر لے گا۔

"پانچ منٹ ہانیہ۔۔۔"

اتنا کہہ کر ارمان نے فون بند کر دیا تو اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ہانیہ الماری کی طرف بڑھی اور ایک بیگ نکال کر اس میں اپنی ضرورت کی چیزیں اور کچھ پیسے رکھنے لگی۔

ٹھیک پانچ منٹ کے بعد اس کا موبائل دوبارہ بجنے لگا۔

"ہاں بولو ارمان۔۔۔"

ہانیہ نے فون اپنے کان کے ساتھ لگاتے ہیں بے چینی سے کہا۔

"مری۔۔۔۔اس نمبر کا مالک انس راجپوت اس وقت مری میں ہے مکمل پتہ میں نے تمہارے موبائل پر سینڈ کر دیا ہے۔۔۔"

اتنا سن کر ہانیہ نے کال بند کی اور موبائل پر آئے اس پتے کو دیکھنے لگی۔

میں آپ کی طرح خاموش نہیں بیٹھوں گی بابا میں اپنی بہن کو ڈھونڈ کر رہوں

گی یہ وعدہ ہے میرا کہ اس گھر میں تب ہی واپس آؤں گی ابھی جب وانیا میرے ساتھ ہوگی۔

ہانیہ نے انس راجپوت کے پتے کو دیکھتے ہوئے سوچا اور پھر اس نے اپنے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر کے اسے بیڈ پر پھینکا اور اور سب کی نظروں سے چھپتے چھپاتی گھر سے باہر نکل آئی۔

آج وہ اس شخص کے پاس جا رہی تھی جس کی شکل زندگی بھر نا دیکھنے کی اس نے قسم کھائی تھی۔۔۔۔وہ انس راجپوت کے پاس جا رہی تھی۔

رات کے دس بج رہے تھے اور انس عادت سے مجبور اپنے گھر کے چھوٹے سے کچن میں چائے بنانے میں مصروف تھا۔ اسکی اپنی کوئی فیملی نہیں تھی بس ایک ماں تھی جو ایک سال پہلے وفات پا چکی تھیں اور دو بہنیں جو شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں۔انس اکیلا ہی رہتا تھا اور ایک آدمی کے پاس ریسلر کا کام کرتا تھا۔

اچانک دروازہ کھٹکنے کی آواز پر انس کے چلتے ہاتھ رکے اور اس نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔کبھی کوئی یہاں اس سے نہیں ملنے آیا تھا کیونکہ کوئی اسے جانتا ہی نہیں تھا۔

انس نے ساتھ موجود میز سے اپنی پسٹل پکڑی اور دروازے کی جانب بڑھا ویسے تو وہ اتنا محتاط نہیں ہوتا تھا لیکن جس جگہ وہ کام کرتا تھا وہاں برے سے برے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔

انس نے دروازہ کھولا تو اسے اپنے سامنے جینز پر گھٹنوں تک آتا فراک پہنے ایک لڑکی نظر آئی جو باہر برستی بارش میں پوری طرح سے بھیگ چکی تھی۔

"ہانیہ۔۔۔"

ایک پل لگا تھا انس کو اسے پہچاننے میں لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ رات کے اس پہر ایسی حالت میں وہاں کیا کر رہی تھی۔

"مممم۔۔۔۔مجھے آپکی ہیلپ چاہیے انس۔۔۔"

ہانیہ نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر کہا تو ایک پل کا وقت ضائع کیے بغیر انس اسے گھر کے اندر لے آیا۔

اکتوبر کے شروعاتی دنوں میں مری میں  سردی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔انس نے اس کے گرد ایک گرم چادر پھیلائی اور جلدی سے اسکے لیے کافی بنانے لگا اور یہ سارا وقت ہانیہ بس وہاں گم سم سی بیٹھی تھی۔

نہ چاہتے ہوئے بھی انس کی نظریں بار بار اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں آج پانچ سال کے بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا۔

 اسے پانچ سال پہلے کا وہ دن آج بھی یاد تھا جب وہ وجدان خان کی نظروں میں آیا تھا۔وجدان کا ایک ایجنٹ ہونے کا راز کھلنے پر اسکی دشمنی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔جسکی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کو لے کر بہت زیادہ پریشان رہتا۔

"وجدان میں اپنے بیسٹ سولجرز لگاؤں گا تمہاری فیملی کی حفاظت کے لیے۔"

جنرل شہیر ٹرینگ فیلڈ کی جانب جاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

"اپنی نور کی حفاظت کے لیے میں خود ہی کافی ہوں مجھے بس پروا اپنی بیٹیوں کی ہے خاص طور پر ہانیہ کی جو کسی گارڈ کو ٹکنے ہی نہیں دیتی۔۔۔"

وجدان نے گہرا سانس لیتے ہوئے اپنا مسلہ بیان کیا۔اسکی پندرہ سالہ ہانیہ جو حد سے زیادہ شرارتی تھی اسکی حفاظت ہی تو وجدان کا مسلہ تھی۔

"ہمم فکر مت کرو ہم کچھ نا کچھ کر ہی لیں گے۔۔۔"

جنرل شہیر نے کہا جبکہ وجدان کا دھیان ٹرینگ فیلڈ میں موجود اس چوبیس سالہ لڑکے پر تھا جو اکیلا ہی پانچ سپاہیوں پر بھاری پڑھ رہا تھا۔

"یہ کون ہے؟"

وجدان کے سوال پر جنرل شہیر نے انس کو دیکھا۔

"یہ انس راجپوت ہے ہمارے ایک شہید سپاہی کا بیٹا ہے پہلے تو ایک ریسلر ہوا کرتا تھا لیکن باپ کے شہید ہونے کے بعد انکی خواہش پر عمل کرتے ہوئے آرمی میں آ گیا۔۔"

اسے دیکھ کر ہی وجدان کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔

"اسکی ڈیوٹی آپ میری بیٹیوں کی حفاظت پر لگا دیں سر۔۔۔"

جنرل شہیر نے اثبات میں سر ہلایا اور ساتھ موجود سپاہی کو انس کو انکے آفس میں بھیجنے کا کہا۔

"سر۔۔۔"

کمرے میں داخل ہوتے ہی انس نے جنرل شہیر اور وجدان کو سیلیوٹ کیا اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔

"انس میں نے آپکی ڈیوٹی بدل دی ہے اب آپ کی ڈیوٹی بیٹل فیلڈ پر نہیں بلکہ باقی کے تین سپاہیوں کے ساتھ ہمارے لیفٹیننٹ کرنل وجدان خان کی فیملی کی پروٹیکشن پر ہو گی اور باقی کے سپاہی آپ کے ماتحت کام کریں گے۔۔۔"

جنرل شہیر نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا لیکن پوری بات سن کر انس کے ماتھے پر بل آئے تھے۔

"معاف کریے گا سر لیکن میں آرمی میں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے آیا ہوں تاکہ اپنے بابا کا خواب پورا کر سکوں اس لیے مجھے میری ڈیوٹی سے شفٹ نہ کیا جائے۔۔۔"

انس نے سر اٹھا کر کہا تو وجدان نے اس لڑکے کو گھورا اور اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔اس لڑکے کا قد وجدان سے بھی کوئی تین انچ زیادہ ہی تھا۔

"تم سے پوچھا نہیں گیا تمہیں بتایا جا رہا ہے۔دیٹس این آرڈر سولجر۔۔۔۔"

وجدان نے سختی سے کہا لیکن انس کو اسکی سختی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

"سوری سر آئی کانٹ ڈو دس آپ کسی اور سولجر کی ڈیوٹی لگوا لیں اپنی فیملی کی حفاظت پر۔۔۔"

"انس آپ اس وقت اپنے سینیر سے بات کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ اتھارٹی ہے کہ ہم جہاں چاہیں آپکی ڈیوٹی لگا دیں۔ یہ میرا فیصلہ کہ اب آپکی ڈیوٹی لیفٹیننٹ وجدان کی بیٹیوں کی پروٹیکشن ہے۔۔۔"

جنرل شہیر نے سختی سے انس کو کہا۔

"بٹ سر۔۔۔۔"

"دیٹس این آرڈر انس۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات پر انس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں لیکن پھر 'اوکے سر ' کہتا انہیں سیلیوٹ کر کے وہاں سے نکل گیا۔

                       ❤️❤️❤️❤️

"ہانیہ، وانیا یہ آپکے نئے گارڈ ہیں انس اور اب آپ دونوں انکی ہر بات مانو گے خاص طور پر آپ ہانیہ۔۔۔۔"

وجدان ہانیہ کی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا جو سینے پر ہاتھ باندھے وجدان کے ساتھ کھڑے انس کو گھور رہی تھی۔

"ہم بچے نہیں بابا کہ کوئی ہماری حفاظت کرے آئی کین پروٹیکٹ مائی سیلف اینڈ ہر۔۔۔"

ہانیہ نے منہ بنا کر کہا لیکن وجدان اسکا کوئی بہانا سننے کو تیار نہیں تھا۔

"نو ہانیہ اور آپ شرارتوں سے باز ہی رہنا۔۔۔"

وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو انس نے ان دونوں لڑکیوں کو دیکھا جو ہوبہو ایک دوسرے کا عکس تھیں لیکن ایک اسے سہم کر دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری اسے بری طرح سے گھور رہی تھی۔

"مجھے تمہاری ضرورت نہیں سمجھے اس لیے چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔"

ہانیہ نے انس کے قریب آ کر اپنی ایڑھیاں اونچی کرتے ہوئے کہا۔

"فکر مت کرو میں بھی اس ڈیوٹی سے اتنا ہی خوش ہوں جتنی تم۔اس لیے تم مجھے برداشت کرو بلکل جیسے میں تمہیں کر رہا ہوں۔"

انس نے اسکے ماتھے پر انگلی رکھ کر اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا اور وجدان کے پیچھے چلا گیا۔

ہانیہ غصے سے وانیا کی جانب پلٹی۔

"دو دن ۔۔۔۔۔دیکھنا وانی دو دن نہیں ٹکے گا یہ سڑو سا باڈی گارڈ۔۔۔"

ہانیہ نے مسکرا کر کہا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے بھی انس راجپوت تھا۔

اگلے دن سے انس کی ڈیوٹی سٹارٹ ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ ہانیہ کی شرارتوں کا سلسہ بھی۔کبھی وہ اسکا یونیفارم انک پھینک کر برباد کر دیتی تو کبھی اسکے جوتے،کبھی سکول جاتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پکنچر کر دیتی تو کبھی بلا وجہ کی فرمائشیں کر کے انس کا دماغ خراب کرتی۔

کچھ دن پہلے تو اس نے انس کی گاڑی کی سیٹ پر گلو لگا دیا اور سکول کے باہر پہنچ کر جب وہ گاڑی سے اترنے لگا تو اپنی پینٹ کے پھٹنے کی آواز پر وہیں جم کر واپس بیٹھ گیا۔اس منظر پر ہانیہ اور وانیا کے ساتھ ساتھ باقی کے دو سپاہی بھی قہقہ لگا کر ہنسے۔

تبھی انس کی بس ہوئی تھی اب وہ بھی اسکی ان شرارتوں سے عاجز آ چکا تھا۔

اگلے دن سکول سے واپسی پر جب انس گیٹ پر کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا تو یونیفارم میں معصوم سا چہرہ بنائے آتی بہن کو دیکھا۔انس اسکا معصومیت سے بھرا چہرہ دیکھتے ہی پہچان چکا تھا کہ وہ کون ہے۔

"تمہاری کاربن کاپی کہاں ہے؟"

اس نے گراؤنڈ کی جانب اشارہ کیا جہاں سیم یونیفارم میں پونی ٹیل بنائے دوسری بہن آ رہی تھی لیکن اسکے چہرے پر بھی بلا کی معصومیت تھی۔اب انس کنفیوز ہو چکا تھا۔

"ہانیہ کون ہے تم دونوں میں سے؟"

دونوں نے فورا ایک دوسری کی جانب اشارہ کیا تو انس نے انہیں گہری نگاہوں سے گھورا۔

"اچھا تو پھر وانیا کون ہے؟"

فوراً دونوں نے اپنی جانب اشارہ کیا اور معصومیت سے منہ بسور کر ایک دوسری کو دیکھا۔

اچانک ہی انس نے آگے بڑھ کر ایک بہن کا بازو تھاما اور اسے گاڑی میں ڈالا۔پیچھے کھڑی ہانیہ بے ساختہ مسکرائی۔

"تم گاڑی میں بیٹھو وانیا اسے میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ہانیہ ہوں میرے ایسا کرنے پر تو بابا بھی کنفیوز ہو جاتے ہیں۔"

ہانیہ کے حیرت سے کہنے پر انس مسکرا دیا۔

"کیونکہ یہ دو ہفتے تمہاری شرارتیں دیکھ دیکھ تمہاری رگ رگ سے واقف ہو چکا ہوں۔"

انس کی بات پر ہانیہ کا منہ بن گیا۔

"کوک چاہیے مجھے لا کر دو۔۔۔"

ہانیہ نے اپنا بیگ انس کی جانب پھینکتے ہوئے اسے حکم دیا۔

"باڈی گارڈ ہوں تمہارا،تمہارے باپ کا نوکر نہیں۔۔۔"

انس نے بیگ واپس اسکی طرف پھینک کر کہا جبکہ انس کی بات پر ہانیہ نے غصے سے اپنا بیگ واپس اسکی طرف پھینکا اور سامنے موجود دکان کی جانب چل دی  لیکن ابھی ہانیہ سڑک کے پاس ہی پہنچی تھی جب اچانک ایک گاڑی بہت رفتار سے آئی اور ہانیہ کے قریب رک کر اسے گاڑی کے اندر کھینچ کر چل دی۔

انس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے بیگ نیچے پھینکا اور اپنی پسٹل سے گاڑی کے ٹائر پر فائر کر کے ٹائر پنکچر کر دیا۔

"وانیا کو گھر لے کر جاؤ فوراً اور سر کو خبر کرو۔۔۔"

انس نے جلدی سے باقی سپاہیوں سے کہا اور خود دوسری گاڑی میں بیٹھ کر اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگا جس میں ہانیہ کو وہ لوگ لے گئے تھے۔

چونکہ انکی گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا اس لیے بہت آسانی سے انس اپنی گاڑی انکی گاڑی کے سامنے کھڑی کر چکا تھا۔

اس گاڑی کے رکتے ہی انس گاڑی سے نکل کر اپنی گاڑی کے پیچھے چھپا اور گاڑی میں سے نکلنے والے آدمی کے کندھے پر گولی چلا دی۔

پھر بہت مہارت سے ایک گولی اس نے ڈرائیونگ کے کندھے پر بھی ماری اور گاڑی کے قریب آیا۔

"وہیں رک جا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"

ایک آدمی گاڑی سے باہر نکلا اور ہانیہ کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر کہنے لگا۔ہانیہ کی آنکھیں خوف سے نم ہو چکی تھیں۔

"بندوق پھینک اپنی فوراً۔۔۔۔"

اس شخص کے ایسا کہنے پر انس نے فوراً اپنے ہاتھ اوپر کر لیے اور پھر اسے دیکھتے ہوئے نیچے جھک کر بندوق زمین پر رکھنے لگا۔

ہانیہ نے اسکے ہاتھوں کا رخ اپنے آرمی شوز میں رکھے خنجر کی جانب دیکھا تو ہمت کر کے اپنی کونی کو بہت زور سے اس آدمی کے پیٹ میں مارا اور موقع پا کر اسکے ہاتھ سے بندوق جھٹک کر جھک گئی۔

یہی موقع انس کو چاہیے تھا اس نے فوراً اپنا خنجر جوتے میں سے نکالا اور اسے پھینک کر اس آدمی کی گردن میں گاڑ دیا۔

اس آدمی کے زمین پر گرتے ہی ہانیہ بھاگ کر انس کے پاس آئی اور اس لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

وہ بہت بہادر سہی لیکن آج وہ بہت زیادہ ڈر چکی تھی انس نے بھی اسکا کانپتا وجود خود سے لگاتے ہوئے اسے دلاسہ دیا کہ سب ٹھیک تھا۔

"تھینک یو ہیرو۔۔۔۔"

ہانیہ نے اس کے سینے میں چھپتے ہوئے آہستہ سے کہا تو انس بھی مسکرا دیا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

اتنے سے عرصے میں سب کچھ بہت اچھا ہو چکا تھا۔پہلی مرتبہ ہانیہ کو اپنا کو کوئی گارڈ اچھا لگا تھا اور اب تو اسکی شرارتی باتوں اور اٹھکھیلیوں کی وجہ سے انس کو بھی یہ ڈیوٹی اچھی لگنے لگی تھی۔ 

آج سنڈے تھا اور صبح ہوتے ہی ہانیہ ٹراؤزر پر ایک شرٹ پہنے انس کے کمرے کے باہر کھڑی دروازا کھٹکھٹا رہی تھی۔

"کیا بات ہے مس ہانیہ خان آج سنڈے ہے اور میر آف ہے تو پھر صبح صبح یہاں آنے کا مقصد۔۔۔؟"

انس جو خود ایک بلیک ٹراؤزر اور بلیک ٹی شرٹ میں ملبوس تھا اس سے پوچھنے لگا۔

"افف ہیرو آرمی والے اتنا نہیں سوتے بہت پنکچوئل ہوتے ہیں آپ پتہ نہیں کہاں کے آرمی والے ہو؟"

ہانیہ باقاعدہ اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی پھر اسے بیک لان میں لے کر آئی۔

"ہانیہ کیا بات ہے کیوں لائی ہو مجھے یہاں؟"

انس نے لان میں آ کر پوچھا۔

"کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے فائٹنگ کرنا سکھاؤ تا کہ نیکسٹ ٹائم کوئی مجھے ہاتھ بھی لگائے تو اسکا منہ توڑ دوں میں۔"

ہانیہ نے دانت پیس کر چھوٹے سے ہاتھ کا مکا بنا کر انس کے چہرے کے پاس لاتے ہوئے کہا پھر کچھ یاد کر کے مسکرا دی۔

"پتہ ہے میری عشال پھپھو اتنی بریو تھیں وہ کسی سے نہیں ڈرتی تھیں اور بیسٹ نشانہ تھا انکا مجھے انکے جیسا بننا ہے اور پتہ ہے میں آرمی میں جانا چاہتی ہوں لیکن بابا مانتے ہی نہیں۔۔۔۔"

ہانیہ نے پوری بات بتائی تو انس مسکرا دیا۔

"لیکن تمہیں فائٹنگ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے میں ہوں نا تمہارے پاس تمہاری حفاظت کے لیے۔"

"ہاں بلکل ہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ اپنی اور وانی کی حفاظت آپکی غیر موجودگی میں بھی کر سکوں پلیز آپ مجھے سکھا دیں۔۔۔۔"

انس نے کچھ سوچا پھر اسکے تھوڑا قریب ہوا ۔

"تو پھر پنچ مارنے سے سٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔"

انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تو ہانیہ خوشی سے چہک اٹھی۔

اسکے بعد ہر صبح انس اسے فائٹنگ سیکھاتا تھا اور وجدان کو بھی اس بات سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ایک تو وہ یہ سمجھ چکا تھا کہ انس انتہائی شریف انسان ہے اور دوسرا اس حادثے کے بعد وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ صرف ہانیہ ہی نہیں وانیا بھی خود کی حفاظت کے قابل ہو لیکن وانیا رہی صدا کی ڈرپوک۔

"آج ایک ٹرک سکھاتا ہوں تمہیں  ایسے ہاتھ سے پنچ بنا کر سامنے والے کو مارنے کے لیے اٹھاؤ اسکا سارا دھیان تمہارے ہاتھ کی جانب ہو گا لیکن اٹیک ہاتھ سے نہیں تمہیں ٹانگ سے کرنا ہے بلکل یہاں گھٹنے کے پاس بہت سینسٹو پوائنٹ ہے اگر ٹھیک سے مارا جائے تو چند پل کے لیے انسان اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔"

انس کے سمجھانے پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا لیکن جیسے ہی کوشش کرنے کے لیے آگے بڑھی انس اس کے چھوٹے سے وجود کو اٹھا کر بہت آسانی سے پٹخ کر ہنسنے لگا۔

"میں آپ سے تو نہیں جیت سکتی نا کبھی بھی آپ بہت پاور فل ہو۔۔۔"

ہانیہ نے منہ بنا کر کہا۔

"تو، مرد کی طاقت زیادہ ہی ہوتی ہے محترمہ اب یہ آپ پر ہے کہ کیسے آپ نے اسکی طاقت کو اسکے ہی خلاف استعمال کرنا ہے۔۔۔"

ہانیہ زمین سے اٹھی اور اپنے کپڑے جھاڑنے لگی۔تبھی انس کا موبائل بجنے لگا تو اپنی ماں کا نمبر دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔

"اسلام و علیکم امی کیسی ہیں آپ؟"

انس نے محبت بھری آواز میں کہا تو ہانیہ اسے مسکرا کر دیکھنے لگی۔مسکراتے ہوئے وہ ہینڈسم سا چھوٹے بالوں اور کلین شیو والا فوجی مزید خوبرو لگ کر اسکے معصوم دل پر بجلیاں گرا رہا تھا۔

نہ جانے کتنی دیر وہ ہنستا مسکراتا اپنی ماں اور بہنوں سے باتیں کرتا رہا تھا اور ہانیہ خواب کی سی کیفیت میں اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے امی میں جلد ہی چھٹی لے کر گھر آتا ہوں پھر آپ جو چاہیں کریے گا آپکا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر۔۔۔"

انس نے اتنا کہہ کر موبائل بند کیا اور مسکراتے ہوئے ہانیہ کی جانب پلٹا۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں کیا؟"

"ہاں امی نے میرے لیے کوئی لڑکی دیکھی ہے بس مجھے دکھا کر بات پکی کرنا چاہ رہی ہیں تو چند دن کی چھٹی لے کر گھر جاؤں گا۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ کو ایسا لگا کہ کسی نے اسکا دل مٹھی میں لے کر جکڑ دیا ہو۔

"آپ کی شادی ہو رہی ہے؟آپ اس لڑکی سے شادی کر لیں گے؟"

ہانیہ کی بات پر انس ہلکا سا ہنس دیا۔

"ہاں کر لوں گا کیونکہ وہ میری امی کی پسند ہے اور انکی پسند ہی میری پسند ہے۔۔۔"

انس نے بہت نرمی سے کہا لیکن ہانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔اچانک ہی وہ آگے بڑھی اور اپنے قدم اونچے کر کے انس کو گریبان سے پکڑا تھا۔

"نہیں آپ کسی سے شادی نہیں کریں گے انس راجپوت آپکی شادی صرف ایک لڑکی سے ہو گی ہانیہ وجدان خان سے۔۔۔مجھ سے ہو گی سمجھے آپ کیونکہ آپ صرف میرے ہیرو ہیں۔۔۔۔۔"

ہانیہ اسکا گریبان ہاتھ میں جکڑے بہت شدت سے کہہ رہی تھی جیسے انس اسکی ملکیت ہو۔

"ہانیہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم عمر دیکھو اپنی بس پندرہ سال کی ہو،میرے لیفٹیننٹ کی بیٹی ہو اور میں ایک معمولی سا سپاہی،باڈی گارڈ ہوں تمہارا۔ ایسی بات تمہارے ذہن میں آئی بھی کیسے؟"

انس نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا لیکن ہانیہ بس ہلکا سا مسکرائی تھی۔

"عمر کی کوئی بات نہیں بس تین سال کی بات ہے میں اٹھارہ کی ہو جاؤں گی تو تب ہم شادی کر لیں گے لیکن تب تک کسی اور لڑکی کا خیال بھی اپنے ذہن سے دور رکھیے گا آپ صرف اور صرف ہانیہ وجدان خان کے ہیں۔۔۔"

ہانیہ نے جنون سے کہہ کر انس کو چھوڑا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ اپنی باتوں سے وہ انس کے دل میں ایک خوف برپا کر چکی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

"سر مجے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔"

انس اس وقت آرمی یونیفارم میں ملبوس وجدان کے سامنے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

"ہاں انس کہو سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔"

وجدان نے پریشانی سے پوچھا۔

"سر میں چاہتا ہوں کہ آپ میری ڈیوٹی چینج کر دیں میں اب مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔"

انس کی بات پر وجدان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔

"تین مہینوں سے سب ٹھیک چل رہا تھا انس پھر اچانک اب کیا ہوا؟"

"کچھ نہیں ہوا سر بس آپ میری ڈیوٹی شفٹ کر دیں اٹس آ ریکویسٹ۔۔۔"

انس نے ہانیہ کی باتیں یاد کرتے ہوئے کہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ عمر کے اس نازک موڑ پر ہانیہ اسے لے کر مزید جزباتی ہو اس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اس سے دور چلا جاتا۔

وجدان کافی دیر انس کی بات پر غور کرتا رہا پھر بولا۔

"نہیں انس میں تمہاری ڈیوٹی چینج نہیں ہونے دے سکتا تم میری بیٹیوں کی حفاظت کے لیے بلکل پرفیکٹ ہو اور تم یہیں رہو گے۔۔۔"

انس نے وجدان کے حکم پر اپنی مٹھیاں کس لیں۔

"نہیں سر پہلے میں نے آپکی بات مان لی لیکن اب مزید نہیں۔آرمی میں میں ملک کے لیے کچھ کرنے آیا تھا،اپنے بابا کا خواب پورا کرنے کے لیے،ملک کے لیے جان قربان کرنے آیا تھا میں کسی کی بیٹیاں پالنے کے لیے نہیں۔"

انس نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو وجدان اسے گھورنے لگا۔

"تم کچھ بھی کر لو انس میں تمہاری ڈیوٹی شفٹ نہیں ہونے دوں گا یہ وعدہ ہے وجدان خان کا تم سے۔۔۔۔"

وجدان اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔اگر انس چاہتا تو وہ اسی وقت ہانیہ کی کہی ہر بات وجدان کو بتا کر اپنی ڈیوٹی چینج کرنے کی وجہ بتا دیتا لیکن  وہ ایک باپ کو خود کی ہی نظروں میں گرتے نہیں دیکھ سکتا تھا نہ ہی ہانیہ کے بچپنے میں کہی بات کو اسکے لیے ایک عمر بھر کا المیہ بنا سکتا تھا۔اسی لیے ایک فیصلہ کر کے وہ وجدان کی جانب مڑا۔

"تو ٹھیک ہے سر آپ اپنی طاقت کا استعمال کر کے میری ڈیوٹی شفٹ ہونے نہیں دیں گے لیکن میں اس نوکری کو کبھی بھی چھوڑ  سکتا ہوں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر انس نے اپنی پسٹل نکال کر میز پر رکھی اور پھر اپنے سینے سے اپنے نام کا بیج کھینچ کر وجدان کے سامنے میز پر پھینکا۔

"میں آج ابھی اسی وقت یہ نوکری چھوڑتا ہوں جس میں مجھے اپنے ملک کی نہیں بلکہ ایک خود غرض افسر کی غلامی کرنی پڑے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر انس نے اپنے کندھے سے پاکستان کا جھنڈا اتارا اور عقیدت سے چوم کر  وجدان کے سامنے میز پر رکھا۔

"یہ نوکری آپکو ہی مبارک سر اپنی بیٹیوں کے لیے کوئی نیا غلام ڈھونڈ لیجیے گا۔"

اتنا کہہ کر انس وہاں رہا نہیں تھا اور پھر کسی سے بھی ملے بغیر وہاں سے چلا گیا۔کچھ دن کے بعد بس وجدان کو ہیڈ کواٹر سے خبر ملی کہ انہیں انس کا ریزگنیشن لیٹر ملا تھا۔

وجدان کو اسکے اس طرح سے  نوکری چھوڑنے کا افسوس ہوا تھا لیکن سب سے زیادہ دکھ ہانیہ کو ہوا جو یہ خبر ملتے ہی مکمل طور پر بکھر گئی تھی۔

بس کمرے میں خود کو بند کیے روتی رہی تھی۔وہ بس یہ جانتی تھی کہ انس نے اس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔

"آئی ہیٹ یو ہیرو آئی ہیٹ یو سو مچ۔۔۔بہت برے ہو تم اور میرے ہیرو بھی نہیں۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو۔۔۔۔"

ہانیہ نے روتے ہوئے کہا تھا اور پھر خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پھر کبھی اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھے گی اور نہ ہی اسکے لیے دکھی ہو گی جسکے قریب اسکے جزبات کی اہمیت ہی نہیں تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

(حال)

انس نے کافی لا کر ہانیہ کے سامنے کی جو تب سے وہاں بیٹھی بس رونے کا شغل فرما رہی تھی۔

"ہانیہ پلیز مجھے بتاؤ کہ ہوا کیا ہے تم اس طرح یہاں کیا کر رہی ہو؟"

انس نے اس کے وجود سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ہانیہ اب کوئی پندرہ سال کی بچی نہیں رہی تھی بلکہ ایک خوبصورت لڑکی بن چکی تھی۔

جب ہانیہ رونا بند نہیں ہوئی تو انس نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"پلیز ہانیہ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟"

انس نے بہت زیادہ نرمی سے پوچھا تو ہانیہ نے روتے ہوئے ہر بات اسے بتا دی جسے سن کر انس بھی حد سے زیادہ پریشان ہوا تھا۔

"پتہ نہیں انس وہ وہاں کس حال میں ہو گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنی بہن کی کیسے مدد کروں۔۔۔۔۔"

ہانیہ نے روتے ہوئے کہا تو انس نے اسکے دونوں ٹھنڈے ہاتھ اپنے گرم ہاتھوں میں تھام لیے۔

"سب سے پہلے رونا بند کرو اور مجھے بتاؤ کہ تم چاہتی کیا ہو؟"

انس کی بات پر ہانیہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے۔

"میں وانیا کو ڈھونڈنا چاہتی ہوں اسے اس مصیبت سے نکالنا چاہتی ہوں۔۔۔"

ہانیہ کی بات پر انس حیران ہوا۔

"لیکن یہ آرمی کا کام ہے ہانیہ اور تمہارے بابا اپنی طاقت کا استعمال کر کے اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے تم تھوڑا صبر۔۔۔۔"

"نہیں انس بابا وانیا کو نہیں ڈھونڈ رہے نہ جانے کیوں وہ ایسا کر رہے ہیں جیسے وہ بے بس ہوں اور کچھ کرنا ہی نہ چاہتے ہوں۔۔۔۔۔"

ہانیہ کی بات پر انس مزید حیران ہوا کہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا اس شخص کی بیٹیاں اسکی جان تھیں جن کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔

"لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی میں یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھوں گی انس میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گی۔۔۔اسی لیے میں بابا سے چھپ چھپا کر یہاں آ گئی اب تب ہی گھر واپس جاؤں گی جب وانیا میرے ساتھ ہو گی۔۔۔۔۔"

ہانیہ نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے فیصلہ سنایا پھر انس کی جانب مڑی۔

"اور میں یہاں آپکی مدد مانگنے آئی ہوں انس کیا آپ اسے ڈھونڈنے میں میرا ساتھ دیں گے؟"

ہانیہ کے لہجے میں اس قدر تڑپ اور امید تھی کہ انس سمجھ نہیں پایا کہ اسے کیسے منع کرے کیسے اسے سمجھائے کہ جو وہ کرنا چاہ رہی تھی وہ بہت زیادہ خطرناک تھا۔

"ٹھیک ہے ہانیہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔ لیکن فلحال تم جاؤ اور خشک کپڑے پہن کر آؤ ورنہ تمہیں نمونیہ ہو جائے گا ۔۔۔۔"

انس نے ہلکا سا ہنس کر کہا تو ہانیہ نم آنکھوں سے مسکرائی اور اپنا بیگ لے کر سامنے موجود کمرے میں چلی گئی۔بہت سوچنے کے بعد انس نے اپنا موبائل نکالا اور فون ملانے لگا۔کچھ دیر بعد کی فون اٹھا لیا گیا تھا۔

"ہیلو وجدان سر۔۔۔انس بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ہانیہ اس وقت میرے پاس ہے۔۔۔"

وجدان کو صبح ہوتے ہی خبر ہو چکی تھی کہ ہانیہ گھر چھوڑ کر جا چکی تھی اور تب سے وجدان اسے ڈھونڈ رہا تھا۔

لیکن ہانیہ کا کچھ پتہ نہیں چلا اگلی رات کے دس بجے اپنے موبائل پر انس کا فون آتا دیکھ وجدان حیران ہوا تھا۔

"ہیلو وجدان سر۔۔۔۔انس بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ہانیہ اس وقت میرے پاس ہے۔۔۔"

انس کی بات پر وجدان نے سکون کا سانس لیا۔

"انس فوراً گھر واپس لاؤ اسے وہ پاگل سمجھ ہی نہیں رہی جہاں وانیا جا چکی ہے وہاں سے اسے لانا بہت مشکل ہے اور ایک بیٹی کو ڈھونڈتے ہوئے میں دوسری کو نہیں کھو سکتا۔۔۔"

خود پر بہت ضبط کرنے کے باوجود وجدان کی آواز نم ہو چکی تھی۔

"آپ فکر مت کریں سر ہانیہ میرے ساتھ بلکل محفوظ ہے جب تک میں اسکے ساتھ ہوں کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا۔"

انس نے یقین دلایا۔

"جانتا ہوں بیٹا پورا بھروسہ ہے مجھے تم پر لیکن مجھے ہانیہ پر بھروسہ نہیں تم اسے گھر لے آؤ پھر میں اسے کبھی باہر بھی نہیں نکلنے دوں گا۔"

وجدان نے آخری بات سختی سے کہی۔

"اوکے سر۔۔۔"

انس نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا اور تھوڑی دیر کے بات ہانیہ کپڑے بدل کر کمرے سے باہر آئی۔اس پر نظر پڑتے ہی انس اپنی نظریں چرانے لگا۔

"تمہاری کافی۔۔۔۔"

انس نے کافی کا کپ اسے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ہانیہ نے خاموشی سے وہ کپ اپنے ہاتھ میں تھاما اور سر جھکا کر بیٹھی رہی۔انس کی نظر ہانیہ کی دائیں کلائی میں موجود نیلے رنگ کے دھاگے پر پڑی۔

"یہ دھاگا میرے ہاتھ میں وانیا نے باندھا تھا اور میں نے اسکے ہاتھ میں پنک کلر کا دھاگا باندھا۔۔۔"

ہانیہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔

"کیونکہ وہ مجھے بہن نہیں اپنا محافظ سمجھتی تھی۔۔۔۔"

ہانیہ نے بہت بے دردی سے اپنے آنسو صاف کیے اور انس بے بسی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"دنیا کے لئے ہم صرف بہنیں ہیں لیکن ہم ایک دوسری کی جان ہیں۔۔۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤں گی مر جاؤں گی میں۔۔۔۔"

ہانیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو انس نے بہت بے بسی سے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ہانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بہت امید سے اسکی جانب دیکھا۔

"آپ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے ناں انس۔۔۔۔۔اگر آپ نے مدد نہیں بھی کی تو بھی میں اکیلے ہی اسے ڈھونڈ کر رہوں گی پھر چاہے ایسا کرتے کرتے خود ہی اسکے ساتھ قید کیوں نہ ہو جاؤں۔۔۔"

انس اس کی آنکھوں میں پختہ عزم دیکھ سکتا تھا۔وجدان کچھ بھی کر لیتا وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔

"تم جانتی بھی ہو کتنا بڑا خطرہ ہے یہ کیا کیا ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ؟"

انس نے اسے ڈرانے کی کوشش کی لیکن ہانیہ کہ چہرے پر بس ایک مسکراہٹ آئی تھی۔

"زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا مر جاؤں گی۔۔۔۔مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا آج یا کل تو مرنا ہی ہے۔۔۔"

انس نے گہرا سانس لیا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس لڑکی کو کیسے سمجھائے۔

"کم از کم اپنی ماں کا ہی سوچ لو ہانیہ ایک بیٹی تو پہلے ہی انکے پاس نہیں اگر دوسری کو بھی نہ پائیں گی تو کیا بنے گا انکا؟"

انس کی بات پر ہانیہ نے سر جھکا لیا۔

"آپ میرا ساتھ دیں گے یا نہیں؟"

ہانیہ نے ہٹ دھرمی سے اسکے سوال کا جواب اپنے ہی سوال سے کیا۔انس بہت دیر اس بے وقوف بہادر سی لڑکی کو دیکھتا رہا۔اگر وہ اسے وجدان کے پاس بھیج بھی دیتا تو بھی وہ کسی نہ کسی طرح پھر سے بھاگ جاتی اور پھر اکیلے ہی اپنی جان خطرے میں ڈالے گی۔انس ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔

"ٹھیک ہے ہانیہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔

"تو ہم اسے کیسے ڈھونڈیں گے؟"

ہانیہ نے بے چینی سے پوچھا تو انس گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

"شاید ایک شخص کو جانتا ہوں میں جو ہمیں راگا تک تو نہیں البتہ اسکے کسی آدمی تک یا ایسے شخص تک ضرور پہنچا دے گا جو راگا کو جانتا ہو۔۔۔۔اس لیے ہمیں اسی کے پاس جانا چاہیے۔۔۔"

ہانیہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔

"کہاں ملے گا وہ ہمیں؟"

"حیدر آباد۔۔۔"

                   ❤️❤️❤️ 

معراج آج پھر دوبارہ سے کالج آیا تھا۔شایان جو کہ اس حادثے کی خبر ملتے ہی واپس لاہور آ گیا تھا اس نے معراج کو روکنے کی کافی کوشش کی تھی لیکن معراج کا یہی کہنا تھا کہ وہ اب ٹھیک ہے بس بازو پر چھوٹا سا زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا۔

ابھی وہ کلاس کی جانب ہی جا رہا تھا جب اسے پرنسپل کا بلاوہ آیا۔

"مم۔۔۔۔مے آئی کم ان سر۔۔۔؟"

پرنسپل کے ہاں میں سر ہلاتے ہی معراج کمرے میں داخل ہوا اور پرنسپل کے ساتھ خادم کے پی اے عرفان کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

"یہ خادم شفیق صاحب کے پی اے ہیں عرفان صاحب۔یہ آپ کو خادم صاحب کے کہنے پر ان کے گھر لے جانے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔"

پرنسپل کی بات پر معراج حیران ہوا۔

"لل۔۔۔۔لیکن سر  وہ مجھ سس۔۔۔۔سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"

"اس کا تو آپ کو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا معراج اور فکر مت کریں میں آپ کے گھر انفارم کر دوں گا۔"

کچھ سوچ کر معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور اور پی اے عرفان صاحب کی جانب دیکھا۔

"چچ۔۔۔۔چلیں۔۔۔"

تقریبا بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اسے خادم شفیق کے محل نما گھر میں لے گئے جو بہت بڑا ہر عالیشان تھا۔عرفان نے اسے ایک لاونج میں بیٹھایا اور خادم کو بتانے چلا گیا۔معراج بس حیرت سے آنکھیں کھولے اس بنگلے کو دیکھ رہا تھا جب خادم مہنگی شلوار قمیض پہنے وہاں داخل ہوا اور مسکرا کر معراج کو اپنے گلے لگایا۔

"کیسے ہو برخوردار اب بازو کیسا ہے تمہارا؟"

خادم نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"اااا۔۔۔اب ٹھیک ہے سر۔۔۔"

معراج گھبراہٹ کے مارے اپنے ہاتھ مسلتا یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔

"اچھی بات ہے سچ کہو تو مجھے بہت فکر تھی تمہاری۔"

معراج ہلکا سا مسکرا دیا۔

"کک۔۔۔کیا آپ کو ککک۔۔۔کوئی کام تھا مم۔۔۔مجھ سے سر؟"

معراج نے کب سے دل میں آتی بات پوچھ لی۔پہلے تو خادم کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔

"دراصل تم سے ایک کام تھا مجھے بیٹا۔میں نے دیکھا ہے کہ تم بہت اچھے اور شریف بچے ہو اس لیے تم ہی میرے کام آ سکتے ہو۔"

خادم نے گہرا سانس لیا اور پھر اپنی بات شروع کی۔

"میری ایک بیٹی ہے معراج وہ۔۔۔۔وہ بہت معصوم اور چھوٹی ہے بیمار ہونے کی وجہ سے لوگوں سے گھلتی ملتی نہیں اور بلکل تنہا گھر میں رہتی ہے۔میں چاہتا ہوں تمہاری صورت میں اسے ایک اچھا دوست مل جائے تو شائید وہ تنہائی سے دور ہو کر تھوڑی ٹھیک ہو جائے۔"

معراج حیرت سے خادم کی بات سن رہا تھا۔

"لل۔۔۔لیکن وہ مجھ سے دوستی کک۔۔۔۔کیوں کرے گی کوئی بھی مم۔۔۔ مجھ سے دوستی کیوں کرے گا۔۔۔۔"

معراج کی بات پر خادم ہلکا سا مسکرا دیا۔

"وہ باقی دنیا جیسی نہیں ہے معراج بتایا نا کہ بہت معصوم ہے وہ تمہاری کمزوری کو نہیں دیکھے گی بلکہ تمہاری اچھائی کو دیکھے گی۔"

معراج نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔

"ٹٹٹٹ۔۔۔۔ٹھیک ہے سر جیسا آآآ۔۔۔۔آپ چاہیں۔۔۔۔"

خادم مسکرایا اور پاس کھڑی ملازمہ کو اشارہ کیا جو تھوڑی دیر بعد ہی گلابی ٹروزار شرٹ میں ملبوس ایک سولہ سالہ پیاری سی لڑکی کو وہاں لے کر آئی۔وہ لڑکی پر خوف نگاہوں سے خادم اور معراج کو دیکھ رہی تھی۔

"یہاں آؤ بیٹا۔۔۔۔"

خادم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر قریب کیا تو وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی ایسا لگ رہا تھا کہ اسکی سانسیں ابھی رک جائیں گی۔

"یہ میری پیاری سی بیٹی ہے ایمان اور بیٹا یہ معراج ہے آپ کا نیا دوست۔۔۔۔"

خادم کی بات پر ایمان سہم کر معراج کو دیکھنے لگی۔

"آپ کہتی تھی نا کہ آپکا کوئی دوست نہیں اب معراج آپ کا دوست ہو گا اور آپ اس کے ساتھ جتنی چاہے باتیں کرنا۔"

خادم نے مسکرا کر ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کہ علاؤہ کہیں بھی ہونا چاہتی تھی۔

"ہہ۔۔۔۔ہائے۔۔۔"

معراج نے اپنا ہاتھ آگے کیا جسے ایمان نے مردہ آنکھوں سے صرف گھورا تھا تھاما نہیں تھا۔

"ایمان معراج ہائے بول رہا ہے ہاتھ ملاؤ اس سے۔۔۔"

خادم کی آواز سنتے ہی ایمان نے فوراً معراج سے ہاتھ ملایا اور سہم کر اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔

"گڈ گرل۔۔۔۔اب تم دونوں یہاں بیٹھ کر باتیں کرو میں اپنا کام دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔رضیہ آپ بچوں کی خاطر کریں زرا۔۔۔۔"

خادم ملازمہ کو حکم دیتا وہاں سے چلا گیا لیکن نہ جانے کتنی دیر ایمان معراج کا ہاتھ تھامے وہیں کھڑی رہی تھی۔

"بب۔۔۔بیٹھو ناں۔۔۔"

معراج نے اپنا ہاتھ چھڑوا کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تو ایمان اسکے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔

"تتت۔۔۔۔تم کچھ بولتی نہیں کیا؟"

معراج نے طویل خاموشی کے بعد سوال کیا لیکن ایمان میں اسے کوئی جواب نہیں دیا۔

"کیا تم ممم۔۔۔میری دوست بنو گی؟"

معراج نے دوسرا سوال کیا لیکن ایمان ابھی بھی بس خاموش بت بنے بیٹھی تھی۔

"ارے واہ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔۔"

خادم کے پی اے عرفان کی آواز پر جہاں معراج نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا وہیں ایمان خوف سے کانپنے لگی تھی۔وہ یوں کھینچ کھینچ کر سانس لے رہی تھی جیسے کہ سانس اسکے سینے میں ہی اٹک جائے گا۔

"مجھے شامل نہیں کرو گی اپنی باتوں میں ایمان؟"

عرفان نے پاس موجود صوفے پر بیٹھ کر پوچھا تو ایمان خوف سے اچھل کر معراج کے ساتھ ہوئی تھی۔

"بس معراج صاحب ایسی ہی ہے ہماری یہ رپنزل۔۔۔۔ محل کی وہ شہزادی جو خوبصورت پرندے کی مانند  قید میں ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔۔ہے نا ایمان؟"

عرفان نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ایمان کے سفید ہاتھ پر رکھا تو وہ خوف سے چیخ مار کر وہاں سے اٹھی اور بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

"ہاہاہاہا ڈرپوک رپنزل۔۔۔"

عرفان نے ہنستے ہوئے کہا اور معراج کو دیکھا جو حیرت سے ہر چیز دیکھ رہا تھا۔

"کک ۔۔۔ کیا ہوا انہیں؟"

"ارے کچھ نہیں معراج صاحب وہ ایسی ہی ہیں اب تو آپ ان کے دوست بن گئے ہیں نا آہستہ آہستہ سمجھ جائیں گے۔۔۔"

عرفان نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور معراج کو شش و پنج میں مبتلا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔وہاں ہوا ہر واقع معراج کو خود سے ہزار سوال پوچھنے پر مجبور کر رہا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"یہ شارٹ سرکٹ کہاں چلا گیا؟"

جنت جو کالج ختم ہونے کے بعد سے معراج کا انتظار کر رہی تھی حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔معراج ایسے کبھی کہیں نہیں گیا تھا اور اسی لیے اب وہ پریشان ہو چکی تھی۔اس نے شایان کو کال کرنے کے لیے اپنا موبائل نکالا جب پیون اسکے پاس آیا۔

"میم آپ کو لینے آئے ہیں۔"

جنت نے سوچا کہ معراج ہی ہو گا اس لیے جلدی سے بیگ سنبھالتی باہر نکل گئی لیکن سامنے کالے رنگ کی بڑی سی کال کے ساتھ پینٹ کوٹ میں ملبوس کالی عینک لگا کر شان سے کھڑے سالار ملک کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔ 

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں سر؟"

سالار نے مسکرا کر عینک اتاری اور اپنی گہری نگاہوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔

"تم مجھے سالار بلایا کرو اب دوست ہیں ہم تو سر کہنا عجیب لگتا ہے۔"

سالار نے حکم دیتے ہوئے کہا اور اسکے ہاتھ سے بیگ پکڑ کر پاس کھڑے جمال کو پکڑا دیا۔

"کس نے کہا کہ ہم دوست ہیں دیکھیں سر جی اس دن بس مجبوری میں اس دوستی کو ہاں کہی تھی اب رات گئی بات گئی کریں آپ اور بھول جائیں۔۔۔۔"

جنت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے ہدایت کی۔

"یعنی تم میری دوست نہیں بننا چاہتی۔"

جنت نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"میں صرف معراج کی دوست ہوں اور ہم بچپن سے بیسٹ فرینڈز ہیں اور کسی کی دوست نہیں بنوں گی میں۔۔۔"

جنت فخر سے کہنے لگی جبکہ سالار کی بھینچی ہوئی مٹھیوں کو اس نے نہیں دیکھا تھا۔

"نہیں جنت شایان شاہ تمہاری زندگی میں مجھ سے اونچا مقام کسی اور کا ہو یہ مجھے گوارا نہیں۔۔۔"

اچانک ہی سالار آگے بڑھا اور جنت کو اپنی گہری نگاہوں سے گھورا تھا۔

"آدھا گھنٹہ۔۔۔۔اپنی زندگی کا بس آدھا گھنٹہ دے دو مجھے پھر فیصلہ کرنا کہ تمہیں میری دوست بننا ہے یا نہیں؟"

سالار کے چیلنج پر جنت سوچ میں پڑھ چکی تھی اب بھلا ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ جنت شاہ کوئی چیلنج ٹھکرا دیتی۔

"ڈن صرف آدھا گھنٹہ اور اگر پھر بھی میں نے آپ کو اپنا دوست نہیں مانا تو جان چھوڑ دیں گے میری؟"

"وعدہ۔۔۔"

سالار کے بھرپور کانفیڈنٹ سے کہنے پر جنت کی سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"اوکے سر ٹائم شروع ہو چکا ہے آپکا۔"

جنت نے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی جانب اشارہ کیا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔

"مجھے سے زیادہ کسی اور کو اہمیت دی آج میری جنت نے اسکی سزا شایان شاہ ضرور ملے گی تمہیں۔۔۔"

سالار نے ہاتھ کا مکا بنا کر زور سے گاڑی میں مارا پھر اپنے غصے پر قابو کرتا گاڑی میں بیٹھ گیا اپنی جنت کا دل جیتنے کے لیے اس کے پاس بس آدھا گھنٹہ تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

وانیا روز کی طرح سر جھکائے فرش پر پڑے گدے پر سر جھکائے بیٹھی تھی جب دروازہ کھلا اور مرجان کھانے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑ کر کمرے میں داخل ہوئی۔

مرجان کو دیکھ کر وانیا نے شکر ادا کیا۔اسے تین عورتیں ہی کھانا،کپڑے اور باقی کی ضروری چیزیں دینے آتی تھیں۔ 

مرجان جو ویرہ کی بیوی تھی اور اس کے علاوہ صرف مرجان کی چودہ سالہ بہن گل اور ماں کو یہاں آنے کی اجازت تھی۔ان تینوں میں صرف مرجان ہی تھی جو اردو بول سکتی تھی۔

وانیا کو پشتو آتی تھی لیکن صرف سمجھنے کی حد تک اس لیے وہ بات صرف مرجان سے ہی کر سکتی تھی۔

"اب کیسا ہے تم پیارا لڑکی۔۔۔؟"

مرجان نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھا تو وانیا کی پلکیں بھیگ گئیں۔

"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان مجھے جانا ہے یہاں سے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"

مرجان نے بے چارگی سے وانیا کو روتے ہوئے دیکھا۔

"تم میری مدد کرو مرجان پلیز مجھے یہاں سے نکال دو میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔"

وانیا نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر منت کرتے ہوئے کہا۔

"فکر مت کرو آج میں تمہارا آذادی کا ہی سوچ کر آیا تھا ایک شخص ہماری مدد کرے گا وانیا تم کو یہاں سے بھگانے میں لیکن۔۔۔۔" 

مرجان کی بات پر وانیا کی آنکھیں خوشگوار حیرت سے پھیل چکی تھیں۔

"لیکن کیا؟"

"لیکن اگر میرے شوہر کو پتہ لگ گیا تو جان لے لے گا میرا تم جانتا نہیں اسے وانیا مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے؟"

وانیا نے فوراً اپنے ہاتھ مرجان کے ہاتھوں پر رکھے۔اس کا ڈرنا جائز تھا وہ کوئی بہت بڑی تو نہیں تھی بس سترہ سال کی تھی۔

"مم۔۔۔میں سارا الزام خود پر لے لوں گی مرجان وعدہ کرتی ہوں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی بس تم یہاں سے نکلنے میں میری مدد کر دو۔۔۔"

اتنا کہہ کر وانیا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"لیکن اگر ویرہ کو پتہ چل گیا نا وانیا کہ میں نے تمہارا مدد کیا تو وہ۔۔۔۔مجھے ان سے ڈر لگتا ہے وانیا وہ پہلے ہی مجھ سے کبھی پیار سے بات نہیں کرتا۔۔۔"

مرجان نے افسوس سے کہا تو وانیا نے بے چارگی سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو غضب کا حسن رکھتی تھی۔

"پتہ ہے اسے میرا بابا اپنے ساتھ گھر لایا تھا کوئی نہیں تھا اسکا دنیا میں اور وہ مجھے بچپن سے اچھا لگتا تھا۔ اسکا خاموش رہنا ،صرف کام کی بات کرنا،کبھی عورت کو نگاہ اٹھا کر نہ دیکھنا یہ سب مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔جب مجھے پتہ چلا کہ میرا شادی ویرہ سے ہو رہا ہے تو میں تو ساتویں آسمان پر پہنچ گئی لیکن۔۔۔"

مرجان نے اتنا کہہ کر اپنا سر جھکایا تو وانیہ نے اسکے ہاتھ تھام لیے۔

"لیکن۔۔۔؟"

"لیکن وہ مجھ سے کبھی پیار سے بات ہی نہیں کرتا وانیا اگر کرتا بھی ہے تو ایسے جیسے میں اسکا بیوی نہیں کوئی غلام ہوں جو اسکا ہر بات مانے۔۔۔۔"

یہ سن کر مرجان کے ساتھ ساتھ وانیا کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اس نے بہت بے بسی سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔پھر مرجان نے اپنے آنسو پونچھے اور وانیا کے دنوں ہاتھ تھام لیے۔

"سنو وانیا آج راگا لالہ اور ویرہ یہاں کام سے جا رہا ہے اور یہ موقع ہم کو نہیں چھوڑنا تم رات بارہ بجے تیار رہنا میں تمہیں لینے آؤں گی پھر پہاڑوں کی حدود سے نکلتے ہی ایک آدمی تمہارا انتظار کر رہا ہو گا جو تمہیں فوج کے پاس لے جائے گا ۔۔۔"

"لیکن میری مدد اس قبیلے میں سے کون کر رہا ہے اور کیوں؟"

وانیا نے ذہن میں اٹھتا سوال داغا لیکن تبھی باہر سے آنے والی آوازوں پر دونوں لڑکیاں گھبرائیں اور مرجان جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"آج رات بارہ بجے۔۔۔۔"

مرجان نے آہستہ سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی راگا کمرے میں داخل ہوا اور ہمیشہ کی طرح ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ وانیہ کو دیکھنے لگا۔

"صبح بخیر ماڑا تم شہری لوگوں کی زبان میں کہیں تو گڈ مارننگ۔"

اتنا کہہ کر راگا وانیا کے سامنے بیٹھ گیا تو وہ جلدی سے سہم کر پیچھے ہوئی۔

"ارے ڈر کیوں رہی ہے راگا کی افغان جلیبی میں صرف کھانا کھاؤں گا تمہیں کھانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔۔۔"

راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور پہلا نوالہ توڑ کر وانیا کی جانب سے کیا جس نے ابھی تک کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔

"مم۔۔۔مجھے۔۔۔۔"

"رکو مجھے پتا ہے کہ تم نے کیا کہنا ہے ۔۔۔"

وانیہ نے نے کچھ کہنا چاہا تو راگا اس کی بات کاٹ کر بولا۔

"مم۔۔۔مجھے کھانا نہیں کھانا مجھے جانے دو۔۔۔تم بہت برے ہو۔۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔۔ ماڑا روز ہی ایک بات بول بول کر تھکتا نہیں تم اب تو تمہارے ترلے رٹ گئے ہیں مجھے۔" 

راگا کی بات پر وانیا نے منہ پھلا کر اسے  دیکھا جبکہ راگا مسکراتے ہوئے نوالے بنا کر اسکے منہ میں ڈالنے لگا۔

"کھانا کھاؤ شرافت سے ورنہ ایسے دیکھنے پر میں تمہیں سچ مچ کا افغان جلیبی سمجھ کر کھا جائے گا۔۔۔"

راگا کی بات پر وانیہ کا خوف لوٹ کر واپس آیا اور پھر سے سہم گئی تھی۔

" آپ سچ میں بہت برے ہیں اس دنیا کے سب سے بے شرم انسان جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے کہا تو اچانک راگا اسکے قریب ہوا اور کان میں جان لیوا سرگوشی کی۔

"میری برائی تو تم نے دیکھی ہی کہاں ہے لخت جگر اگر مجھے تم پر حق حاصل ہو گیا نا تو میری برائیوں اور بے شرموں سے پناہ مانگو گی تو بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"

راگا کی سانسوں کی تپش اپنے کان پر محسوس کر وانیا کانپ کر رہ گئی۔

"چلتا ہوں خیال رکھنا اپنا اور کوئی بیوقوفی مت کرنا ورنہ تمہارا انجام تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔"

راگا اسے خطرناک نگاہوں سے گھور کر وارننگ دیتا کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ وانیا بس اپنی دھڑکنیں شمار کرتی رہ گئی۔وہ پھر سے مرجان کی بات پر غور کرنے لگی۔

آخر ایسا کون تھا جو وانیا کی مدد کرنے کے لیے مرجان کا ساتھ دے رہا تھا؟ خیر وہ فرشتہ جو کوئی بھی تھا وانیا کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ آج یہاں سے آزاد ہو جائے گی۔

ہاں کچھ بھی ہو جائے وہ راگا اور اسکی وحشت سے بہت دور بھاگ جائے گی۔وانیا خود سے عہد کر چکی تھی۔

وجدان ہاسپیٹل کے کمرے میں آیا اور زرش کے پاس بیٹھ کر نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔اپنے ہاتھ پر ایک لمس محسوس کر کے زرش نے آہستہ سے اپنی بند آنکھیں کھولیں۔

"وجدان وانیا۔۔۔"

زرش نے نم آنکھوں سے کہا تو وجدان نے فوراً اس کے آنسو اپنے پوروں پر چن لیے۔

"زرش وعدہ کرتا ہوں کہ وہ بہت جلد ہمارے پاس ہو گی۔۔۔۔"

وجدان نے اسکا ہاتھ تھام کر بہت محبت سے کہا۔

"میں ہی کیوں کھو دیتی ہوں سب وجدان۔۔۔۔بچپن میں کتنی خوش رہتی تھی میں اور پھر اس آدمی نے مجھے قید کے کے میری ساری خوشیاں مجھ سے چھین لیں۔۔۔۔میری آواز بھی مجھ سے چھین لی۔۔۔۔"

زرش نے اپنے کندھے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں آج بھی آر بی کا دیا وہ نشان موجود تھا۔

"پھر آپ نے مجھے اس اندھیرے سے نکالا اور اپنی محبت سے میرا ہر درد مٹا دیا۔۔۔۔"

زرش نم آنکھوں سے مسکرائی تھی لیکن پھر وہ مسکان غائب ہو گئی۔

"پھر آپ نے بھی مجھ سے وہ محبت چھین لی وجدان اور بے رخی میرے مقدر میں لکھ دی۔۔۔"

وجدان نے تڑپ کر زرش کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اب تو اسکی سبز آنکھیں بھی نم ہو چکی تھیں۔

"میں نے پھر بھی اپنی بیٹیوں میں اپنا جہان اپنی خوشیاں تلاش کر لیں وجدان اور اب اسے بھی کھو دیا۔۔۔۔میں بہت منہوس ہوں وجدان موت کیوں نہیں آ جاتی مجھے۔۔۔۔"

وجدان نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا۔

"نہیں زرش ایسا مت کہو بہت بڑی غلطی کر دی میں نے تم سے اپنی محبت چھین کر۔۔۔۔۔اور اپنی اس غلطی کا ازالہ ضرور کروں گا۔۔۔۔"

وجدان نے محبت سے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا۔

"میری وانیا وجدان پلیز اسے مجھے لا دیں تو مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ سے آپ کی محبت بھی نہیں مانگوں گی آخری سانس تک آپ کی بے رخی برداشت کروں گی بس میری وانی مجھے لا دیں ۔۔۔۔"

زرش کے رو کر کہنے پر وجدان بے بسی سے اپنی آنکھیں موند گیا۔

"بھروسہ رکھو نور خان بہت جلد ہماری بیٹی ہمارے پاس ہو گی اپنی کسی بھی بیٹی ہو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

وجدان نے اس سے وعدہ کیا اور وہاں سے اٹھ کر باہر آیا۔اسے اس وقت اپنے آپ سے شدید نفرت ہو رہی تھی۔ابھی تو ذرا شی نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنی بے رخی کے وجہ سے دوسری بیٹی کو بھی خود سے دور کر بیٹھا تھا۔

انس نے صبح فون پر جو پتہ وجدان کو دیا تھا اب وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔اس کا مطلب ہانیہ ضرور انس کو ساتھ ملا چکی تھی۔

"نہیں ہانیہ وانیا کو تو مجبوری میں کھویا میں نے بیٹا لیکن تمہیں اس دلدل میں نہیں جانے دوں گا میں۔"

اتنا سوچ کر وجدان نے اپنا موبائل نکالا اور کسی کو فون کرنے لگا۔

"ظہیر کچھ ڈیٹیل سینڈ کر رہا ہوں میں تمہیں میری بیٹی ہانیہ کے بارے میں ہیں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈو لیکن شام تک اس کا پتہ مجھے معلوم ہونا چاہیے۔۔۔۔"

"جی سر جیسا آپ کہیں۔۔۔۔"

ظہیر نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا تو وجدان ضبط سے مٹھیاں واپس زرش کے پاس چلا گیا۔

                    ❤️❤️❤️❤️   

صبح ہوتے ہی وہ لوگ حیدرآباد کے لیے نکل چکے تھے اور اب سفر کرتے انہیں بہت دیر ہو گئی تھی۔کل کے برعکس آج ہانیہ نے ایک سادہ سی شلوار قمیض پہنی تھی اور سر پر چادر روڑے وہ بالکل مختلف لگ رہی تھی۔

"ہمیں فلائٹ کے ذریعے جانا چاہیے تھا اس طرح تو ہمیں دو دن لگ جائیں گے وہاں پہنچتے ہوئے۔۔۔"

ہانیہ نے بے چینی سے کہا تو اس کی بات پر انسس نے گہرا سانس لیا۔ 

"میں تمہارے باپ کو بتا چکا ہوں کہ تم میرے پاس ہو۔۔۔وہ ضرور تمہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور اگر ہم فلائٹ کے ذریعے جاتے تو اس وقت سر جھکا کر تمہارے بابا کے سامنے کھڑے ہوتے۔۔۔"

انس کی بات سمجھ کر ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا وہ صحیح کہہ رہا تھا۔وہ ساتھ موجود  شخص کو مکمل نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جب نہیں رہ پائی تو اسکی جانب مڑی۔

"بیوی کہاں ہوتی ہیں آپ کی مجھے نظر نہیں آئیں وہ گھر میں؟"

انس نے مسکرا کر ہانیہ کو دیکھا۔

"ہوگی تو نظر آئے گی میری کوئی بیوی ہے ہی نہیں۔۔۔"

ہانیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

"لیکن آپ کی تو شادی ہونے والی تھی ناں؟"

"ہاں لیکن ہوئی نہیں میں لڑکی کو پسند نہیں آیا۔"

انس نے سپاٹ سے انداز میں کہا لیکن ہانیہ نے اسے کوئی جواب دیے بغیر پھر سے اپنا رخ باہر کی جانب کر لیا۔

 اچانک گاڑی رکی تو انس سامنے پولیس کو چیکنگ کرتا دیکھ پریشان ہوا وہ ضرور ہانیہ کو ہی ڈھونڈ رہے ہوں گے۔

"ہانیہ اپنا سر میرے کندھے پر رکھو اور سونے کی ایکٹنگ کرو۔۔۔"

انس کی بات ہر ہانیہ حیران ہوئی۔

"میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی موقعے کا فائدہ مت اٹھا۔۔۔"

ہانیہ کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب انس نے اسکا سر پکڑ کر اپنے سینے میں چھپا لیا۔

ہانیہ نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن جب اس کی نظر بس میں داخل ہوتے پولیس والوں پر پڑی تو خود بھی فوراً اپنا چہرہ انس کے سینے میں چھپا گئی۔انس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔

پولیس کانسٹبل نے مسافروں کا جائزہ اور انس کے پاس کھڑا ہو گیا۔

"یہ لڑکی کون ہے تمہارے ساتھ۔۔۔"

"بیوی ہے میری سو چکی ہے ڈسٹرب مت کرو۔۔۔۔"

انس کی بات پر اسکے سینے میں چہرہ چھپائی ہانیہ نے بہت زور سے اپنے دانت اسکے سینے میں گاڑے تھے اور انس بے چارہ بس ہلکا سا سسس کر کے رہ گیا۔

"ثبوت۔۔۔۔"

انس نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر پولیس والے کے ہاتھ میں پکڑایا جسے دیکھ کر پولیس والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔اس سے پہلے کہ وہ انس کو سیلیوٹ کرتا انس نے اسے خاموشی سے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔اس کے جاتے ہی ہانیہ اس سے دور ہوئی اور اسے گھورنے لگی۔

"بہت مجبور ہو کر میں آپ کے پاس مدد مانگنے آئی تھی کیونکہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اس مجبوری کو کچھ اور مت سمجھیے گا۔۔۔۔اگر میرے بس میں ہوتا تو شکل بھی نہیں دیکھتی آپکی۔۔۔"

ہانیہ نے دانت پیس کر کہا اور اپنا رخ کھڑکی کی جانب کر دیا جبکہ انس اس کی اس بے رخی پر بس مسکرایا تھا۔بلکل بھی نہیں بدلی تھی وہ آج بھی تو ویسی ہی تھی اوپر سے جتنی سخت اندر سے اتنی ہی نرم اور معصوم۔

اور انس نے بھی قسم کھائی تھی کہ اس کی بے رخی کے باوجود اپنی آخری سانس تک اس کی حفاظت کرے گا کیونکہ وہ باڈی گارڈ تھا اس کا۔۔۔۔اس کا ہیرو۔۔۔۔

                    ❤️❤️❤️❤️

شام کا وقت ہو رہا تھا اور سب حسب معمول وقت گزاری کے لیے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ اچانک انکے ٹی وی پر چلتی خبریں،فلمیں ڈرامے سب بند ہو گئے اور انکی جگہ رسیوں میں جکڑا ایک زخموں سے چور شخص نظر آنے لگا۔

سب حیرت زدہ ہو چکے تھے کیونکہ وہ کوئی بھی چینل کیوں نہ بدل لیتے ہر جگہ بس وہی منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔جبکہ قانون اور آپریٹنگ سسٹم والے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ ماہر ہیکر کون تھا جو انکا پورا سسٹم ہیک کر کے اپنے کنٹرول میں لے چکا تھا۔

"ننن۔۔۔۔نہیں چھوڑ دو جانے دو۔۔۔۔میں مانتا ہوں اپنا گناہ سب مانتا ہوں۔۔۔۔"

اچانک ہی وہ شخص روتے ہوئے گڑگڑانے لگا اور کالے کپڑوں میں ملبوس شخص اس کے سامنے آیا جس کا چہرہ بھی کالے رومال سے ڈھکا ہوا تھا واضح تھیں تو بس دو خطرناک سبز آنکھیں۔

"میں نے مارا تھا۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ سرکاری ملازم جس نے رشوت لینے سے انکار کیا میں نے مارا تھا اسے اس۔۔۔۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو۔۔۔۔قبول ہے مجھے اپنا گناہ۔۔۔۔"

اب شخص باقاعدہ روتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف سر عام کر رہا تھا اور کالے کپڑوں والا وہ شخص اسکی کوئی بھی بات سنے بغیر اس پر پٹرول ڈال رہا تھا۔

"اور ۔۔۔۔۔اور اسکی آنکھوں کے سامنے میں نے اسکی سترہ سالہ بیٹی کے ساتھ۔۔۔۔مانتا ہوں اپنا گناہ معاف کر دو۔۔۔۔"

وہ شخص تو رہا تھا اور لوگ اب اسے وحشت اور نفرت سے عبرت کا نشان بنتے دیکھ رہے تھے۔

"سکندر کی عدالت میں تجھ جیسے جانور کے لیے کوئی معافی نہیں۔۔۔۔"

کالے کپڑوں والے شخص نے وحشت سے کہا اور پھر لائٹر جلا کر اس شخص کو سب کی آنکھوں کے سامنے جلا دیا۔

جیسے ہی اسکا وجود آگ کی لپٹوں میں آیا ٹی وی سے وہ منظر ہٹ کر پھر سے سب نارمل ہو چکا تھا لیکن وہ منظر دیکھ کر ہر گناہ گار کی روح کانپ چکی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

سلطان اپنے خفیہ اڈے پر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بازو پھیلائے سکون سے آنکھیں موندے ہوئے تھا جب اسکا سب سے خاص آدمی وہاں آیا۔

"سر آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا ہے۔۔۔۔"

"بکو۔۔۔۔"

اس نے آنکھیں کھولے بغیر کہا جبکہ چہرے پر بہت زیادہ اطمینان تھا۔

"کوئی سکندر آیا ہے سر ہمارے تین آدمی مار دیے اس نے اور آج تو ہمارے بہت خاص آدمی بلال کو ٹی وی پر سب کے سامنے زندہ جلا دیا۔

"اپنے آدمی کی بات پر سلطان میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

"سکندر؟مجھے تو چودہ سال پہلے کا بس ایک سکندر یاد ہے اور اس کا انجام تم بھی جانتے ہو۔۔۔۔قبر میں سے اٹھ کر تو نہیں آ سکتا وہ۔۔۔۔"

سلطان نے انتہائی زیادہ اعتماد سے کہا اور وہ پر اعتماد ہوتا بھی کیوں نا سکندر کو اس نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا۔

"نہیں سر یہ کوئی نیا آیا ہے اور ہمارے ہی آدمیوں کو مار رہا ہے۔۔۔"

سلطان کے ماتھے پر بل آئے۔

"دیکھ لوں گا میں اس سکندر کو بھی چند دن کھیلنے دو اسے پھر پرانے سکندر کے پاس پہنچا دیں گے اسے بھی۔"

سلطان نے اطمینان سے کہتے ہوئے پھر سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

"ایک اور بات ہے سر؟"

"ہمممم ۔۔۔۔۔"

"راگا۔۔۔۔وہ یہاں آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے کہتا ہے آپ سے بات کیے بغیر کوئی کام نہیں کرے گا۔۔۔۔"

اب سلطان کے  چہرے پر بے زاری کے اثرات مرتب ہو چکے تھے۔

"ٹھیک ہے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے آؤ اسے یہاں پر۔۔۔۔راگا پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ سلطان سے اپنی پہچان بتا دے۔۔۔۔"

اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا تھوڑی دیر بعد ہی وہ راگا کو باقی آدمیوں کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں لایا تھا۔

"بولو راگا بہت عرصے سے میرا کام کرتے آئے ہو تم تو اس دفعہ ایسا کیا ہوا کے بھروسے کی خاطر تمہیں مجھ سے ملنا پڑا؟"

سلطان نے گہری نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑے جوان مرد کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"اصول بدل لیے اپنے راگا نے یا یوں سمجھ لے ماڑا فوجیوں سے ڈنڈے کھا کر یہ سمجھ آگیا کہ خود کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرو۔۔۔۔اب تو راگا اپنے باپ پر بھی بھروسہ نہ کرے ماڑا۔۔۔۔"

راگا کی بات پر سلطان کے لب مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے۔

"تم باتیں کمال کرتے ہو راگا اسی لیے مجھے پسند ہو۔۔۔بولو کیا چاہیے تمہیں؟"

سلطان کے سوال پر راگا کے لب شان سے مسکرا دیے۔

"زیادہ کچھ نہیں لالے کی جان بس دیدار سلطان کی خواہش تھی لیکن لگتا ہے آواز پر ہی کام چلانا پڑے گا غریب کو۔۔۔۔فکر مت کرو ماڑا تمہارا کام ہو جائے گا لیکن۔۔۔۔"

"لیکن کیا؟"

"لیکن بدلے میں مجھے تم سے ہتھیار اور پیسہ نہیں بلکہ بدلہ چاہیے۔۔۔جنرل شہیر کی موت کی خبر ملنی چاہیے کل مجھے اور ماڑا اپنا اچھا آدمی بھیجنا وہی نہ ہو کہ جنرل کی بجائے تیرا آدمی ہی۔۔۔"

راگا نے اپنی گردن پر انگلی پھیری جبکہ راگا کی ڈیمانڈ پر سلطان مسکرا دیا۔

"جان تو مجھ سے بہتر طریقے سے لے سکتے ہو راگا پھر میری کیا ضرورت پڑھ گئی؟"

"تم میرا کب سے استمعال کر رہا ہے تو سوچا اب کی بار میں تمہارا کر لوں؟"

سلطان مسکرا کر اسکے چہرے پر موجود مسکان کو دیکھتا رہا۔

"ٹھیک ہے راگا کل صبح تک تمہیں جنرل کی موت کی خبر مل جائے گی لیکن کل شام کو ٹی وی پر ریلوے اسٹیشن پر دھماکے کی خبر چلنی چاہیے اور الزام ستارہ پارٹی کے سربراہ پر آئے۔۔۔"

راگا کے ہونٹ اپنے آپ مسکرائے۔

"ایسا ہی ہو گا لالے کی جان۔۔۔"

"الوداع راگا۔۔"

اتنا کہہ کر سلطان نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو وہ راگا کو وہاں سے لے گئے۔

"یہ کام تم ہی کرواو گے AK اپنے سب سے قابل آدمی کو بھیجنا اور رات کو سویا ہوا جنرل شہیر صبح اٹھنا نہیں چاہیے۔۔۔۔"

"ایسا ہی ہو گا سر۔۔۔۔"

اے کے اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو سلطان پھر سے اپنی آنکھیں موند گیا۔

"جیت صرف سلطان کی ہوتی ہے حقیر پیادے اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کل تم برباد ہو گے اور پرسوں تمہاری خودکشی کی خبر منظر عام پر آئے گی۔۔۔۔ہاں یہی ہوتا ہے سلطان کی راہ میں آنے کا انجام۔۔۔۔۔"

سلطان مسکرا کر اپنے ذہن میں ستارہ پارٹی کے رہنما حمزہ جمیل سے مخاطب ہوا جسکا کل کام تمام ہونے والا تھا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

جنت اپنے کمرے میں بیڈ پر الٹا لیٹے ہوئے مسکرا رہی تھی۔دماغ میں اس وقت صرف ایک شخص کا خیال چل رہا تھا۔سالار ملک کا خیال۔

دوپہر کو سالار کالج سے اسے ایک کھلے سے میدان میں لے گیا جنت نے گاڑی ہے شیشے سے باہر دیکھنا چاہا تھا۔

"اپنی آنکھیں بند کرو؟"

سالار کی بات پر جنت اپنی آنکھیں مزید بڑی کر چکی تھی۔

"پاگل ہو جو ایک غیر شخص کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی آنکھیں بند کر لوں مانا میں بیوقوف ہوں لیکن اتنی بڑی بیوقوف بھی نہیں۔۔۔۔"

جنت نے منہ پھلا کر کہا۔

"جنت تم میرا ٹائم ویسٹ کر رہی ہو بس پندرہ منٹ بچے ہیں میری پاس آنکھیں بند کرو اپنی۔۔۔۔"

جنت اس کی بات پر اپنا منہ پھلاتے ہوئے آنکھیں بند کر چکی تھی پھر اسے محسوس ہوا کہ سالار نے اسے گاڑی میں سے نکالا تھا اور کسی کافی اونچی چیز پر چڑھا کر اسے ایک سیٹ پر بیٹھایا۔

"اب آنکھیں کھول لوں؟"

جنت کو بہت زیادہ بے چین ہو رہی تھی اسی لیے پوچھنے لگی۔

"نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر سالار نے اسکے کانوں پر ہیڈ فون جیسا کچھ پہنایا۔اچانک ہی جنت کو بہت تیز ہوا کا جھونکا محسوس ہوا اور ساتھ ہی بہت زیادہ شور بھی۔

فوراً ہی جنت نے اپنی سنہری آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگی۔

اس وقت وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تھے جو زمین سے کافی اوپر اٹھ چکا تھا اور آہستہ آہستہ ہوا میں جا رہا تھا۔

"ہائے سچی ہم اڑ رہے ہیں؟"

ہوا اور شور کے باعث جنت نے چلا کر پوچھا اور دروازے کے قریب ہو کر نیچے کی جانب دیکھنے لگی جہاں سے تقریباً پورا لاہور دیکھائی دے رہا تھا۔

اسکے دروازے کے قریب ہوتے ہی سالار نے احتیاطاً اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اسے اپنے قریب کیا تھا۔جنت تو ہر چیز نظر انداز کیے اس کھلی ہوا اور منظر میں کھو چکی تھی۔

تقریباً دس منٹ تک ان کو ہوا کی سیر کروا کر وہ ہیلی کاپٹر نیچے اترا تو سالار اسے اپنے ساتھ اپنی گاڑی کے پاس لایا۔

"مزہ آیا؟"

سالار کے پوچھنے پر جنت نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

"حد سے زیادہ تمہیں کیسے پتہ کہ مجھے ہوا میں اڑنے کا بہت زیادہ شوق ہے؟"

جنت اپنی آنکھیں بڑی کیے معصومیت سے پوچھ بیٹھی۔

"بلکل ویسے ہی جیسے مجھے یہ پتہ ہے کہ تمہیں نمکین سے زیادہ میٹھا پسند ہے،پیزا سے تمہیں نفرت ہے اور آئیس کریم تمہاری جان ہے۔آسمان کا رنگ تمہیں سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور بس چلے تو دنیا جہان کے پھول اپنے کمرے میں سجا لو۔۔۔ڈراونی فلموں سے نفرت ہے تمہیں اور ابھی تک بابی والے کارٹونز دیکھتی ہو۔۔۔۔"

اپنی پسند اور نہ پسند اس کے منہ سے سن کر جنت بہت زیادہ حیران ہوئی تھی۔

"اب بھی مجھے اپنا دوست مانتی ہو یا نہیں مان لو دنیا کا سب سے اچھا دوست ثابت ہوؤں گا تمہارے لیے۔"

سالار نے گاڑی میں سے ایک ٹوکری نکال کر جنت کے سامنے کی تو جنت نے حیرت سے اس پر موجود کپڑا ہٹایا۔

اس ٹوکری میں موجود سفید رنگ کا چھوٹا سا پپی دیکھ کر جنت کا دل پگھل گیا اور فوراً اس نے اس پیارے سے پپی کو باہوں میں اٹھایا تھا۔

"افف یہ کتنا پیارا ہے سالار۔۔۔"

جنت نے اسکی ملائم فر کو سہلاتے ہوئے پیار سے کہا۔

"بلکل تمہاری طرح۔۔۔"

اچانک ایک خیال آنے پر جنت نے پریشانی سے سالار کو دیکھا۔

"لیکن میں اسے نہیں رکھ سکتی بابا کو یہ پسند نہیں اور وہ نہیں رکھنے دیں گے ۔۔۔۔"

جنت کی پلکیں اس بات پر نم ہو چکی تھیں۔

"تو یہ میرے گھر پر رہے گا اور تم جب چاہو میرے گھر اس سے ملنے آ سکتی ہو لیکن اس کے لیے۔۔۔۔"

سالار کے بات ادھوری چھوڑنے پر جنت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"اس کے لیے تمہیں میری دوست بننا پڑے گا تو بتاؤ اب ہوں میں تمہارا دوست یا نہیں؟"

سالار کے سوال پر جنت اپنا سر جھکا گئی۔وہ کیسے اسے انکار کرتی جس نے صرف آدھے گھنٹے میں اس کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دی تھی جو اسے اس سے بھی زیادہ جانتا تھا۔

"بابا کو پتہ چلا تو بہت ڈانٹیں گے مجھے۔۔۔"

جنت نے منہ پھلا کر کہا۔

"اتنا رسک تو لینا پڑے گا ناں۔"

سالار نے مسکرا کر کہا اور پھر گھڑی کی جانب دیکھا۔

"بس دو منٹ رہ گئے ہیں جنت۔۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت خاموشی سے اپنا سر جھکا گئی وہ کیسے اپنے باپ سے چھپ کر کچھ کرنے کا سوچتی بہت پیار کرتی تھی وہ اپنے بابا سے۔

"ٹھیک ہے مس جنت شاہ جیسی آپ کی مرضی۔۔۔"

سالار نے اتنا کہہ کر وہ پپی اسکے ہاتھ سے لے کر واپس ٹوکری میں رکھا اور گاڑی کی جانب مڑا، بغیر کچھ سوچے سمجھے جنت آگے بڑھی۔

"ہوں میں آپ کی دوست پکا والا وعدہ۔۔۔۔"

سالار کے ہونٹوں پر فاتح مسکان آئی تھی۔

"اور میں بھی اپنی آخری سانس تک دنیا کی ہر خوشی تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا جنت پکا والا وعدہ۔۔۔۔"

سالار کی کہی بات یاد کر کے جنت پھر سے مسکرائی اور اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے نیچے رکھ دیا۔

"چھچھورا سیاست دان۔۔۔"

جنت نے مسکرا کر کہا اور پھر ہنستے ہوئے اپنا دوپٹے سے چہرہ چھپا لیا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

رات کے بارہ بج چکے تھے اور وانیا بے چینی سے گھڑی کی جانب دیکھتی مرجان کا انتظار کر رہی تھی۔ 

اچانک دروازہ کھلنے پر پہلے تو وانیا گھبرائی لیکن پھر دروازے میں کھڑی مرجان کو دیکھ کر اس کے سانس میں سانس آیا۔

"چلو ہمیں دیر نہیں کرنا چاہیے ویرہ اور راگا

ښاغلی کسی کام سے گیا ہے ہمیں پھر دوبارہ ایسا موقع نہیں ملے گا چلو۔۔۔۔"

مرجان نے بے چینی سے کہا تو وانیہ نے اٹھ کر جلدی سے دوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھ لیا اور اس کے ساتھ باہر آگئی۔

رات کے اندھیرے میں گل اسے سب کی نظروں سے چھپ چھاتے ایک سنسان جگہ تک لے آئی جہاں اسے یقین دلایا گیا تھا کہ آج وہاں کوئی بھی نگرانی کے لیے نہیں کھڑا ہو گا اور ایسا ہی تھا۔

"تم اس راستے سے سیدھا بھاگ جاؤ پھر وہاں سے دائیں مڑ جانا سامنے ہی تمہیں کالے کپڑوں میں کھڑا شخص نظر آئے گا وہ تم کو سکردو میں فوج کے پاس لے جائے گا۔۔۔"

مرجان نے اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ پکڑاتے ہوئے کہا ہر اپنی گرم چادر اُتار کر اس کے کندھوں پر پھیلائی۔

"تمہارا بہت شکریہ مرجان مر کر بھی تمہارا احسان نہیں بھولوں گی۔"

وانیا نے اسکے گلے لگتے ہوئے کہا اور آگے بڑھنے لگی۔

"کون ہے وہاں ؟"

ایک آدمی کی آواز پر دونوں نے سہم کر سامنے دیکھا جہاں سے ایک پہرےدار آرہا تھا مرجان کو تو یہی خبر ملی تھی کہ اس وقت یہاں کوئی نہیں ہوگا لیکن اس شخص کو وہاں آتا دیکھ ان دونوں کی روح فنا ہوئی تھی۔

"بھاگو وانیا چھپ جاو فوراً۔۔۔۔جلدی۔۔۔"

مرجان کے ایسا کہنے پر وانیا جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی لیکن وہ آدمی مرجان کو نظر انداز کرتا وانیا کے پیچھے بھاگا۔

وانیہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس مصیبت سے کیسے نکلے خوف کے مارے دل حلق کو آ چکا تھا۔

اچانک وانیا کی نظر پہاڑ کے دامن میں موجود ایک گھر پر پڑی تو جلدی سے وہاں سے بھاگ کر اس گھر میں داخل ہوگئی۔

اپنے پیچھے دروازہ بند کرکے وانیا خوف سے کانپ رہی تھی۔ہمت کر کے وانیہ نے ساتھ موجود کھڑکی سے باہر جھانکا اور اس آدمی کو دور جاتا دیکھ سکھ کا سانس لیا۔

"واہ کیا قسمت ہے جو مجھ سے چھینا تھا آج خود ہی میرے در پر چلا آیا۔۔۔"

ایک آدمی کی آواز پر وانیا فورا پلٹی اور خباثت سے مسکراتے کال کو دیکھ کر اسکی روح فنا ہو گئی۔

کال پر نظر پڑتے ہی وانیہ نے چیخ مار کر وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن اگلے ہی پل کال اس کی کمر کے گرد ہاتھ باندھتا اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

"کہاں جان من لگتا ہے راگا نے ٹھیک سے تمہارے پیروں میں بیڑیاں نہیں ڈالیں جو تم نے اتنی بڑی جرات کر لی لیکن فکر مت کرو میرے پاس سے بھاگنا تو دور بلکہ ایسا سوچنے سے بھی پہلے تمہاری روح کانپ جاے گی۔"

اتنا کہہ کر کال نے اس کے گرد لپٹی چادر کو کھینچ کر اس کے وجود سے جدا کیا۔

"نن ۔۔۔۔۔نہیں چھوڑو بابا۔۔۔۔"

وانیہ نے چلاتے ہوئے اس سے دور ہونے کی کوشش کی لیکن کال نے اسکے بالوں کو اپنے مٹھی میں دبوچ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔ ہانی۔۔۔۔۔"

وانیا اپنی پوری طاقت لگا کر خود کو چھڑاتے ہوئے چلا رہی تھی لیکن اس کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔

"آج میں تجھے بتاؤں گا لڑکی تیری اصلی اوقات کیا ہے ۔۔۔۔"

کال نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا جبکہ وانیا اب سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔کال کو خود کے قریب ہوتا دیکھ اس نے روتے ہوئے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔

لیکن جب اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو آنکھیں کھول کر حیرت سے کال کو دیکھنے لگی جو اب زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔وانیا کی نظر اپنے ساتھ کھڑے راگا پر پڑی۔

اس نے آج تک راگا کو اتنے غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس وقت وہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچتا لال ہوتی انگارہ آنکھوں سے کال کو دیکھ رہا تھا۔رگیں بہت شدت سے تنی ہوئی تھیں ۔

"تیری ہمت کیسے ہوئی کال اسے ہاتھ بھی لگانے کی۔۔۔۔؟"

راگا غصے سے دہاڑتے ہوئے آگے بڑھا اور کال کو گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کیا۔

"راگا آرام سے اسے بولنے کا موقع۔۔۔"

پیچھے کھڑے ویرہ نے راگا کو کچھ کہنا چاہا لیکن راگا سن کہاں رہا تھا وہ تو بس کال کو بری طرح سے مارنے میں مصروف تھا۔ جیسے کہ اسکی جان ہی لے لے گا۔ ویرہ نے آگے ہو کر راگا کو روکنا چاہا لیکن تبھی اس کی نظر اپنی بیوی مرجان پر پڑی جو ایک آدمی کی گرفت میں مچل رہی تھی۔

"ما هغه جهيل ته نږدې وموندله هغې له دې نجلۍ سره مرسته وکړه چې وتښتي (میں نے اسے جھیل کے قریب پایا۔یہ اس لڑکی بھاگنے میں مدد کر رہی تھی۔)"

اس آدمی کے بات سن کر ویرہ کی رگیں بھی غصے سے تن گئی تھیں۔اسی غصے کے عالم میں وہ آگے بڑھا اور مرجان کا بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا جو اب سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔

"زه بخښنه۔۔۔۔"

مرجان نے کچھ کہنا چاہا لیکن ویرہ کی گھوری پر خاموش ہو گئی ویرہ راگا کی جانب مڑا جو اب کال کو چھوڑ کر وانیا کا ہاتھ تھام کر اسے وہاں سے لے جانے لگا۔

"تم اس کو نہیں لے کر جا سکتے راگا۔۔۔"

کال کی بات پر راگا غصے سے مڑا اور کال کو دہکتی سیاہ آنکھوں سے گھورا۔

"کیا کہا تو نے؟"

راگا کا غصہ اس کمرے میں موجود ہر آدمی محسوس کر سکتا تھا لیکن کال بس اپنے گال سے بہتا خون صاف کر کے کھڑا ہو گیا۔

"تم اسے یہاں سے نہیں لے جا سکتے راگا یہ اب میری ہے چاہے تو ویرہ سے پوچھ لو۔۔۔۔"

راگا فوراً ویرہ کی جانب مڑا جو خود حیرت سے کال کی جانب دیکھ رہا تھا۔

"تمہیں یاد نہیں راگا ہمارے قبیلے کا اصول ہے جب کوئی قیدی عورت ایک آدمی کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس آئے تو وہ اس کی ہو جاتی ہے اور تمہاری عورت میرے پاس خود چل کر آئی ہے۔۔۔۔اب یہ میری ہوئی راگا تم اسے نہیں لے جا سکتے۔۔۔۔"

ویرہ کی بات سن کر راگا وانیا کو چھوڑ کر کال کی جانب بڑھا۔

"میں نہیں مانتا اس اصول کو۔۔۔"

کال کے ہونٹوں کو ایک طنزیہ مسکان نے چھوا۔

"مانو یا نہ مانو اصول تو یہی ہے اور سردار ہونے کے ناطے تمہیں اس اصول پر چلنا ہی ہوگا۔"

کال کی بات سن کر راگا اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا اس نے بے بسی سے ویرہ کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا ۔

"کال صحیح کہہ رہا ہے راگا اب اس لڑکی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔"

ویرہ کی بات پر راگا نے ایک نظر اپنے بازو سے چپکی وانیہ کو دیکھا ایسا لگ رہا تھا کہ اپنی حفاظت کے لیے اس میں ہی چھپ جائے گی۔اسے دیکھتے ہوئے راگا نے کچھ دیر سوچا پھر وانیا کو مسکرا کر دیکھتا ہوا بولا۔

"اگر بات حق کی ہی ہے تو پھر اس پر ایسا حق حاصل کروں گا کہ تم تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے مجھ سے دور کر میرے حق پر سوال نہیں اٹھا سکے گی۔۔۔۔"

راگا کی بات پر وانیہ نے بھی اپنی پرخوف نگاہوں سے اس کو دیکھا تھا جیسے کہ اس سے حفاظت کی التجا کر رہی ہو۔

"مولوی کو بلاؤ ویرہ میں ابھی اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔"

راگا کی بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا جبکہ وانیا تو حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔اس کی زندگی کونسا نیا موڑ لینے والی تھی۔

"راگا یہ تم کیا۔۔۔۔؟"

"جیسا کہا ہے ویسا کرو ویرہ"

راگا نے سختی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور پھر وانیا کو دیکھا جو انکار میں سر ہلا رہی تھی۔

"ممم۔۔۔۔۔میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی۔۔۔"

وانیہ کے بات پر جہاں راگا کے ماتھے پر بل آئے تھے وہیں کال کے ہونٹوں کو ایک دلفریب مسکراہٹ نے چھوا۔

"تم سے پوچھا نہیں تمہیں بتایا ہے یہ نکاح ہوگا اور اسی وقت ہو گا۔۔۔۔"

راگا نے اسے سیاہ آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا لیکن تمام خوف کو برطرف کرتے ہوئے وانیہ نے انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں کروں گی میں آپ سے نکاح۔۔۔۔انکار کر دوں گی میں۔۔۔۔"

اس نے بے بسی سے روتے ہوئے کہا اور اس کی بات پر راگا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا اسی لیے اس نے وانیہ کا بازو سختی سے دبوچا۔

"نہیں کرو گی تم یہ نکاح؟"

راگا کی آنکھوں میں بہت زیادہ غصہ اور آگ تھی جس سے وانیہ کو خوف آ رہا تھا پھر بھی بہت ہمت کرکے اس نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

اچانک ہی راگا نے اسے بازو سے کھینچ کر کال کی جانب دھکیلا تو اسکا نازک وجود لڑکھڑاتے ہوئے کال کی آغوش میں چلا گیا۔

"تمہاری ہوئی یہ جو مرضی کرو اس کے ساتھ۔۔۔۔"

راگا اتنا کہہ کر وہاں سے جانے کے لیے مڑا اور اس کے ساتھ ہی باقی سب بھی باہر جانے کے لیے مڑے۔جبکہ راگا کو وہاں سے جاتا دیکھ وانیہ کو لگا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا۔

"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"

وانیہ سسک کر بھاگتے ہوئے آگے بڑھی اور راگا کے بازو سے چپک گئی۔اسکی اس حرکت پر راگا کے چلتے قدم رک گئے۔

"مم۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔مم۔۔۔۔مجھے اس کے پاس نہیں رہنا۔۔۔۔"

وانیہ نے روتے ہوئے کہا تو راگا نے اسے بازوں سے دبوچ کر اپنے مقابل کیا۔

"تمہارے پاس اس وقت دو ہی راستے ہیں یا تو مجھے قبول کر کے ہمیشہ کے لیے میری حفاظت میں آ جاؤ یا کال کے پاس چلی جاؤ فیصلہ تمہارا ہے۔۔۔۔"

راگا کی بات پر وانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔وہ اس وقت بہت زیادہ بے بس محسوس کر رہی تھی۔بھلا وہ کیسے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر اپنے جسم و جاں کا مالک کسی کو بنا دیتی۔۔۔؟لیکن اپنے مان کی حفاظت بھی تو اسی کا فرض تھا نا۔۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ وہ ہار چکی ہے اسی لیے سر جھکا کر آنسو بہانے لگی۔

"مم۔۔۔۔مجھے یہ نکاح منظور ہے۔۔۔۔"

اس نے آہستہ سے کہا اور اسکی بات سن کر راگا کے ہونٹ دلفریب مسکراہٹ سے سج گئے۔ایک فاتح مسکان کال کی جانب اچھالتے ہوئے وہ ویرہ کی جانب مڑا۔

"میں ابھی اور اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔۔۔"

ویرہ نے گہرا سانس لیا اور اپنی گرفت میں موجود مرجان کو دیکھا جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔

"جو مرضی کرو میری بلا سے اس وقت مجھے کسی کو اسکی بے وقوفی کا مزہ چکھانا ہے۔۔۔۔"

ویرہ نے مرجان کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا اور اسے وہاں سے لے گیا۔وانیہ کو اس چھوٹی سی لڑکی پر بہت رحم آیا جو اسکی وجہ سے مصیبت میں پھنس چکی تھی۔

اچانک ہی اسے اپنے کان کی پاس کسی کی سانسوں کی گرمائش محسوس ہوئی تو وانیہ کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔

"مبارک ہو میری افغان جلیبی میرے ماں باپ کا بعد آج تم وہ خوش نصیب ہو جسکو راگا کا اصلی نام پتہ چلے گا ۔۔۔"

راگا نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور پھر اپنے آدمیوں کو ہدایت دیتا وانیہ کو وہاں سے لے گیا کچھ دیر میں ویرہ کی ماں اور بہن نے وانیہ کو سرخ پشتون فراک اور بھاری ماتھا پٹی سے سجا کر دلہن بنایا۔

راگا کے چھوٹے سے گھر کے دوسرے کمرے میں اسے لایا گیا جہاں بس ایک مولوی اور کچھ گواہ موجود تھے جو راگا کے بہت قریبی تھے اور ان پر بھی اپنی اصلیت ظاہر کرنا راگا کی مجبوری تھی۔ وانیا مردہ حالت میں راگا کے سامنے بیٹھا دی گئی تھی۔

"وانیا خان ولد وجدان خان آپکا نکاح عماد بنگش ولد شہریار بنگش حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟"

مولوی صاحب کے سوال پر وانیا نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو نہ جانے کتنے لوگوں کا قاتل تھا۔یہ اسکی قسمت کا کھیل ہی تھا کہ ایک فوجی کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ آج ایک دہشتگرد کی بیوی بننے جا رہی تھی لیکن وہ کیا کرتی وہ مجبور تھی۔۔۔۔۔بہت بہت مجبور۔۔۔۔

"قبول ہے۔

قبول ہے

قبول ہے۔۔"

وانیہ نے ایک ساتھ کہا اور بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلنے جبکہ اپنی جیت پر مقابل کے ہونٹ مسکرائے تھے۔روشنی کی شہزادی آج اندھیرے کی ملکہ بن چکی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

انس نے چلتی بس سے باہر دیکھا جہاں گہری رات کے سائے نمودار ہو چکے تھے پھر کھڑکی کے ساتھ سر رکھ کر سوئی ہانیہ کو دیکھا۔بس کو لگنے والے جھٹکوں کی وجہ سے کئی بار ہانیہ کا سر اس کھڑکی سے ٹکرا چکا تھا اور اب انس کی بس ہو چکی تھی اسی لئے اپنا ہاتھ بڑھا کر کھڑکی اور اس کے سر کے درمیان رکھ دیا۔کچھ دیر بعد گاڑی رکی تو انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کے کندھے پر رکھ کر اسے جگایا۔

"ہانیہ اٹھو ہمیں اترنا ہے اب؟"

ہانیہ نے فورا اپنی آنکھیں کھولیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

"پہنچ گئے کیا؟"

"نہیں محترمہ ابھی تو آدھا راستہ ہوا ہے ابھی یہاں سے کھانا کھائیں گے پھر تھوڑا ریسٹ کر کے دوسری بس سے آگے چلیں گے۔"

ہانیہ نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں ہم ریسٹ نہیں کریں گے یہاں سے اگلی بس پکڑ کر فورا حیدرآباد جائیں گے۔۔۔"

ہانیہ نے جیسے اسے حکم سنایا اور اپنا بیگ پکڑ کر کندھوں پر پہننے لگی۔

"تو پھر حیدرآباد ہم نہیں محترمہ ہمارے ڈھانچے پہنچیں گے۔۔۔"

انس کے طنز پر ہانیہ اپنی مٹھیاں بھینچتی بس سے اتری۔

"غلطی ہو گئی اسکی مدد لینی ہی نہیں چاہیے تھی اس سے اچھا تھا اکیلے آ جاتی۔۔۔"

ہانیہ نے دانت پیس کر سرگوشی کی جسے پیچھے آتا انس سن کر مسکرایا۔

"پٹاخہ گڈی۔۔۔" 

انس نے زیر لب کہا اور اسے لے کر ایک چھوٹے سے ہوٹل آیا جہاں بہت سے ڈرائیور اور لوگ کھانا کھانے بیٹھے تھے۔

"فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے آپ نے بہت کھائے ہوں گے شہزادی صاحبہ آج زرا اس پنجابیوں کے سیون سٹار ہوٹل کا کھانا کھا کر دیکھیں فین ہو جائیں گی۔۔۔"

انس نے شرارت سے کہا لیکن ہانیہ بس وہاں اضطراب سے بیٹھی اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کے ہاتھ پر رکھا۔

"پتہ ہے وانیا اس دن یونی نہیں جانا چاہتی تھی زبردستی بھیجا میں نے اسے لیکن کاش میں نے اسے نہ بھیجا ہوتا۔۔۔تو وہ اتنی بڑی مشکل میں نہ ہوتی۔۔۔"

اتنا کہہ کر ہانیہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔انس بس گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"کاش میں وہاں ہوتی انس تو انہیں اسے لے کر نہیں جانے دیتی۔۔۔۔ہم دو جسم ایک جان ہیں انس اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔تو میں بھی زندہ نہیں رہوں گی۔۔۔۔"

ہانیہ اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی۔

"فکر مت کرو ہانیہ وعدہ کرتا ہوں تب تک تمہارے ساتھ ہوں جب تک وانیا کو ڈھونڈ نہیں لیتے۔"

ہانیہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔

"شکریہ۔۔۔میں آپ کے ہر احسان کا بدلہ ضرور اتار دوں گی۔۔۔"

اتنا کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔

"میں تم پر کوئی احسان نہیں کر رہا ہانیہ۔۔۔"

اس تلخ مسکراہٹ نے ہانیہ کے ہونٹوں کو چھوا۔

"آپ کے لیے یہ جو بھی ہو میرے لئے بس ایک احسان ہے۔۔۔۔اس سے بڑھ کر اسکی میری زندگی میں کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔"

اس کی بات پر انس نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔

"ہانیہ اس وقت تم بہت چھوٹی تھی اور۔۔۔۔"

"اور وہ میرا بچپنا تھا انس لیکن آپ فکر مت کریں اب میں بڑی ہو چکی ہوں اب کسی کے بھی چلے جانے سے ہانیہ خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

ہانیہ نے مسکرا کر کہا لیکن وہ مسکراہٹ اسکے دل تک نہیں پہنچی تھی۔

"اس بیوقوفی کو تو میں تب ہی بھول گئی تھی بلکہ آپ کو بھی بھول جانا چاہیے تھا۔۔۔چلیں کوئی بات نہیں اب بھول جاتے ہیں اور بس دو مسافروں کی طرح اس سفر کا حصہ بنتے ہیں جس میں ہمارے راستے تو ایک ہیں لیکن منزل جدا ہے۔۔۔"

ہانیہ نے مسکرا کر کہا جبکہ انس حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو سچ میں اب بڑی ہو چکی تھی تبھی تو ایسی باتیں کر رہی تھی۔

"پارٹنرز؟"

ہانیہ نے ہاتھ آگے بڑھا کر پوچھا جسے انس کچھ دیر تک دیکھتا رہا پھر اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر مسکرایا۔

"پارٹنرز۔۔۔"

                      ❤️❤️❤️❤️ 

مولوی اور باقی آدمیوں کے جانے کے بعد راگا دوسرے کمرے میں داخل ہوا تو اسکی نظر وانیا پر پڑی جو پہلے دن والی جگہ پر گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔

لیکن آج بہت کچھ بدل چکا تھا بے ساختہ طور پر راگا کے قدم وانیا کی جانب اٹھے اور اسکے پاس بیٹھتے ہوئے راگا نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے اٹھا کر اونچا کیا۔

"اتنا روئے گا نا میری افغان جلیبی تو یہ وادی تمہارے آنسوؤں سے ہی بہہ جائے گا۔۔۔"

راگا نے شرارت سے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا جبکہ اسکے اس عمل سے وانیہ کے رونے میں مزید روانی آئی تھی۔

"مم۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے کہا تو راگا کے لب مسکرائے۔

"اب تو کہیں بھی چلی جاؤ تمہارا ہر راستہ صرف مجھ پر آ کر ختم ہو گا کیونکہ اب میں ہی تمہاری منزل ہوں۔۔۔۔۔"

راگا نے ایسا کہتے اسکا گال نرمی سے سہلایا۔اسکی آنکھوں میں ایک انوکھی تپش محسوس کر کے وانیا گھبرائی تھی۔

"مم۔۔۔۔مجھے سونا ہے۔۔۔"

وانیا کے نظریں جھکا کر کہنے پر راگا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا اسی لیے تو اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں بھرا۔

"اتنی آسانی سے کہاں راگا کی افغان جلیبی ابھی تو اس رشتے کے تقاضے ادا کرنے ہیں تمہیں۔۔۔۔"

راگا کی بات پر وانیا کا سانس اسکے حلق میں اٹک گیا اور وہ اسکی گرفت میں سٹپٹانے لگی۔

"نہیں چھوڑیں مجھے۔۔۔۔"

وانیا فوراً اس سے دور جانے کی کوشش کرنے لگی لیکن راگا نے اسے اتنا قریب کر لیا کہ دونوں کے درمیان ایک انچ کا فیصلہ باقی رہ گیا۔

"اب ملکیت بن گئی ہو تو اپنی افغان جلیبی کو چکھے بغیر کیسے چھوڑوں؟"

اس سے پہلے کہ وانیا اسکی بات کا مطلب سمجھ پاتی راگا بہت نرمی سے اس پر جھکا اور اسکی سانسوں پر دسترس حاصل کر لی۔

وانیا اسکی پناہوں میں کانپ کر رہ گئی شدید مزاحمت کرتے اس نے اپنے ہاتھ راگا کے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلنا چاہا۔

اسکی اس مزاحمت پر راگا کا عمل مزید شدت اختیار کر گیا اور وانیہ کی جان مشکل میں آئی۔

"تم تو میری سوچ سے زیادہ میٹھی نکلی افغان جلیبی اب خود کو بچا کر رکھنا میٹھی چیزیں بہت پسند ہیں تمہارے شوہر کو۔۔۔۔"

راگا نے اسکے ہونٹوں سے ہٹتے ہوئے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تو وانیا نے ایک جھرجھری لی اور اس سے دور ہونا چاہا لیکن اب راگا احساس ملکیت سے مدہوش ہوتا اسکی نازک گردن پر جھکا۔

"عماد۔۔۔۔"

راگا کی مونچھوں کی چبھن محسوس کر وانیہ کی گھبرائی سی آواز نکلی تو اسکے ہونٹوں سے اپنا نام سن کر راگا کے لب مسکرا دیے۔

"جاؤ سو جاؤ عماد کی جان ورنہ آج وہ کر گزروں گا جو تم نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔۔۔۔۔"

راگا نے اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کر اسے چھوڑ دیا تو وانیہ بہت تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اٹھی اور بیڈ پر لیٹ کر فوراً کمبل سے خود کو چھپا لیا۔

"ہائے لخت جگر تیری ہر ادا پر قربان تیرا راگا۔۔۔۔"

راگا نے اس نازک وجود کو دیکھ کر کہا پھر گہرا سانس لے کر اپنے وجود کی تپش کو کم کرنے کے لیے سردی میں باہر آ گیا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

وہ رات کے اندھیرے میں چھپتا چھپاتا اس گھر میں داخل ہوا تھا۔ویسے بھی وہ گھر ڈیفینس ایریا میں تھا اور وہاں کی سیکیورٹی کو توڑ کر گھر میں گھسنا آسان نہیں تھا۔

لیکن ہو صرف اتنا جانتا تھا کہ کسی بھی حال میں اسے جنرل شہیر کی جان لے کر سلطان کا دیا کام پورا کرنا تھا۔

بہت کوشش کے بعد آخر کار اسے جنرل شہیر کا کمرہ ملا جہاں وہ گہری نیند سو رہا تھا۔تھوڑی دیر تک وہ اس ضعیف سے شفیق چہرے کو دیکھتا رہا پھر اپنی سائلینسر لگی پسٹل اٹھا کر جنرل شہیر پر تان دی۔

لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا جنرل شہیر کا ہاتھ کمبل میں سے نکلا اور انہوں نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑ کر اس سے بندوق چھین لی۔

"اگر اتنا آسان ہوتا نا میری جان لینا تو میں کب کا مر چکا ہوتا۔"

جنرل شہیر نے مسکرا کر کہا اور تبھی بہت سے سپاہی بندوقیں تھام کر اس کمرے میں داخل ہوئے۔

اپنے آپ کو اس طرح سے مصیبت میں مبتلا دیکھ وہ شخص پریشان ہوا تھا۔پھر جنرل شہیر نے اسکے چہرے سے نقاب ہٹایا۔

"انٹرسٹنگ تم تو کسی کریمنل ریکارڈ میں بھی شامل نہیں ہو گے لیکن آج یہ مکروہ چہرہ آ گیا سامنے۔۔۔۔۔"

جنرل شہیر نے اسے سپاہیوں کی جانب پھینکا جو اسے اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔

"جیل میں ڈالو اسے اب بہت جلد یہ چیخ چیخ کر اپنے ساتھیوں کا نام بتائے گا۔۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات پر سپاہی اس شخص کو گرفت میں لے کر وہاں سے لے جانے لگے جبکہ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر سلطان کو پتہ لگا کہ وہ پکڑا گیا ہے تو اسکے آزاد ہونے پر وہ اسکی زندگی جہنم بنا دے گا اور اگر آرمی اسے لے جاتی ہے تو سلطان کا سچ جاننے کے لیے وہ بھی اسے بہت ازیت دیں گے اور اس ازیت سے بہتر اسے موت لگی تھی۔

اسی لیے ہاتھ چھڑا کر اس نے جلدی سے اپنی انگوٹھی پر لگا خطرناک زہر چاٹ لیا۔جنرل شہیر اور باقی سپاہی اسکی حرکت پر حیران ہوئے تھے۔

"کبھی نہیں جان پاؤ گے جنرل اس ملک میں رہتے ہوئے بھی یہاں کے دشمن نہیں پکڑ پاؤ گے تم ۔۔۔۔"

اس آدمی نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر فوجیوں کی گرفت میں تڑپنے لگا۔اچانک ہی اسکے منہ اور ناک سے بے تحاشا خون نکلا تھا۔بس چند منٹوں میں ہی وہ مردود خود کو ختم کر چکا تھا۔

صبح وانیا کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کسی کی گرفت میں پایا۔ایک پل میں گھبرا کر وہ پلٹی تو اسے باہوں میں بھر کر سوئے راگا پر نظر پڑتے ہی ایک چیخ وانیا کے ہونٹوں سے نکلی۔

اسکی گرفت سے نکلتے وہ بیڈ سے اتری اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔

"آآآ۔۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"

وانیا نے گھبرا کر پوچھا تو راگا کندھوں تک آتے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ بیٹھا۔

"بستر پر ناچ رہا تھا اور ناچ کر دیکھاؤں کیا؟ ماڑا یہاں سویا جاتا ہے اور وہی کر رہا تھا جو تمہیں گوارا نہیں ہوا۔۔۔۔"

راگا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔

"آپ ۔۔۔آپ میرے پاس کیوں سو رہے تھے کہیں اور سو جاتے۔۔۔"

"اب میں پاگل تو نہیں کہ اتنی سردی میں ایک بیوی ہوتے ہوئے میں تنہا سو جاؤں اور قصور سراسر تمہارا ہے افغان جلیبی  میں تو شرافت سے فاصلے پر لیٹا تھا تم ہی مجھ سے ایسے لپٹ گئی جیسے۔۔۔۔"

راگا جو شرارت سے کہتا اسے تنگ کر رہا تھا اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو اٹھ کر اسکے پاس آیا۔

"کیا ہو گیا؟"

راگا نے اسکا گال  تھام کر بہت نرمی سے پوچھا۔

"پلیز مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔میں اور آپ ایک نہیں ہو سکتے۔۔۔۔پلیز مجھے طلاق دے کر یہاں سے جانے۔۔۔۔"

ابھی وانیا کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب راگا کا اسکے گال پر موجود ہاتھ گردن کے پیچھے گیا اور اس نے سختی سے اسے اپنے بہت قریب کیا اتنا کے بولتے ہوئے بھی راگا کے ہونٹ اسکے ہونٹوں کو چھو رہے تھے۔

"یہ لفظ کبھی غلطی سے بھی تمہاری زبان پر نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔تم جاننا نہیں چاہو گی کہ راگا کو دہشت کیوں کہا جاتا ہے۔۔۔۔"

راگا کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ وانیا کانپ کر رہ گئی۔

"مم۔۔۔۔میں نہیں مانتی اس رشتے کو۔۔۔۔"

ہمت کر کے وانیا نے روتے ہوئے کہا۔

"مانو یا نہ مانو سچ یہی ہے وانیا عماد بنگش کہ تم میری ملکیت ہو۔تم کوئی بھی راستہ اپنا لو تمہاری ہر منزل مجھ پر ہی ختم ہو گی کیونکہ ایک دوسرے کا ہونا ہی ہماری منزل عشق ہے۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور پاس پڑے لکڑی کے صندوق سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔دروازہ کھٹکنے کی آواز پر راگا نے دروازہ کھولا تو سامنے ناشتہ لیے کھڑی مرجان کو دیکھا۔

"لالہ ناشتہ۔۔۔"

مرجان نے ڈرتے ڈرتے کہا تو راگا نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا۔

"کل سے تم ناشتہ نہیں لاؤ گی مرجان اب میرا بیوی ہے وہ خود بنایا کرے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ہر کام سمجھا دینا اب کمرے میں بند رہنے کی بجائے اسے میرا ہر کام سنبھالنا ہے۔"

راگا کی بات سن کر وانیا نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا۔

"آپ مجھے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔۔۔؟"

"بالکل۔۔۔"

راگا نے عام سے انداز میں کہا۔

"آپکو ڈر نہیں لگتا کہ میں بھاگ جاؤں گی؟"

وانیا کی معصومیت پر راگا قہقہ لگا کر ہنس دیا اور مرجان کا دل کیا کہ اپنا ماتھا پیٹ لے۔

"کہا نا کہ اب تمہارا ہر راستہ صرف مجھ تک آتا ہے تو مجھ سے دور جاؤ گی کہاں۔۔۔؟"

راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور پھر اپنے کپڑے لے کر کمرے سے نکل گیا۔وانیا نے نگاہیں اٹھا کر مرجان کو دیکھا جو اسکے سامنے ناشتہ رکھ رہی تھی پھر اسکی نظر مرجان کے گال پر موجود انگلیوں کے نشان پر پڑی تو اسکی پلکیں پھر سے بھیگ گئیں۔

"آئی ایم سوری مرجان مجھے معاف کر دو میری وجہ سے تمہارے شوہر نے تمہیں مارا۔۔۔"

وانیا کی بات پر مرجان نے اپنا گال چھوا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

"نہیں وانی یہ تمہارا غلطی نہیں آج یا کل تو یہ ہونا ہی تھا لیکن میں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی جلدی ہو گا۔۔۔۔وہ بہت برے سہی وانی لیکن انہوں نے کبھی مجھے مارا نہیں لیکن رات یہ بھی کمی پورا کر دیا انہوں نے۔۔۔"

مرجان نے نم آنکھوں سے کہا تو وانیا خود میں ہی سمٹ کر مزید رونے لگی۔

"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے میں کیا کروں ۔۔۔۔"

وانیا کو پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ مرجان نے اسکو اپنے سینے سے لگا لیا۔

"بس اللہ پر بھروسہ رکھو وانی وہ جلد ہی تمہارے لیے وصیلہ پیدا کرے گا۔۔۔"

مرجان نے اسکو دلاسہ دینے کی کوشش کی لیکن وانیا کو دلاسہ دینا آسان نہ تھا اسکی زندگی مکمل طور پر بدل چکی تھی۔

                      ❤️❤️❤️❤️ 

معراج آج پھر سے خادم شفیق کے گھر آیا تھا۔اسے دیکھتے ہی ملازم اسے سیدھا ایمان کے کمرے میں لے گیا۔پہلے تو معراج ہچکچا کر باہر کھڑا رہا پھر گہرا سانس لے کر کمرے میں داخل ہوا۔

ایمان آج گاڑے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنے کھلے بالوں کے ساتھ میز کے پاس بیٹھی کچھ کر رہی تھی۔

"ہہ۔۔۔ہائے۔۔۔"

معراج نے آہستہ سے کہا کہ کہیں آج پھر سے وہ اس سے ڈر نہ جائے لیکن ایمان نے تو اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔

معراج نے میز پر دیکھا جہاں وہ سکیچ بنا رہی تھی اور بہت سے سکیچ بنے اسکے پاس پڑے تھے۔

"ووو ۔۔۔۔واو یہ بہت اچھے ہیں تتت۔۔۔۔تم نے بنائے ہیں سب؟"

ایمان نے پھر سے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنا کام کرنے لگی رہی۔اچانک معراج کی نظر ایک سکیچ پر پڑی جس میں ایک چھوٹی سی لڑکی ایک بھیڑیے کی گرفت میں تھی اور وہ بھیڑیا اس کے گرد لپٹی چادر نوچ رہا تھا۔

وہ سکیچ معراج نے بہت حیرت سے دیکھا کیونکہ وہ دیکھنے میں ہی بہت عبرتناک لگ رہا تھا۔

"یہ۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کون ہے ایمان؟"

معراج نے بھیڑیے کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ایمان نے اسکیچ بنانا چھوڑ کر ایک نظر اس تصویر کو دیکھا۔

"مونسٹر۔۔۔۔"

اس بات پر معراج نے سہم کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔

"ااااا۔۔۔۔اور یہ لڑکی کون ہے؟"

"میں۔۔۔۔"

اسکے عام سے جواب پر معراج کا سانس حلق میں اٹکا تھا۔اگر اس تصویر کے مفہوم کو سمجھتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ایمان کو ہراساں کر رہا تھا کوئی ایسا جسے ایمان جانور سمجھتی تھی۔

"کک۔۔۔۔کون ہے یہ مونسٹر؟"

اس سوال پر ایمان نے اپنی آنکھیں اٹھا کر معراج کو دیکھا جس کی سبز آنکھوں میں خوف تھا۔وہ آہستہ سے معراج کے کان کے قریب ہوئی۔

"تم یہاں سے چلے جاؤ مت آیا کرو یہاں تمہیں نہیں پتہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔۔۔"

"کک۔۔۔۔کیا ہو گا؟"

معراج نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

"وہ مار دے گا تمہیں۔۔۔۔وہ سب کو مار دیتا ہے جو ایمان کا دوست بنتا ہے اس کو مار دیتا ہے۔۔۔۔تمہیں بھی مار دے گا۔۔۔"

ایمان سرگوشی کر رہی تھی اور معراج کی دھڑکنیں بہت بڑھ چکی تھیں۔

"ککک۔۔۔۔کون مار دے گا؟"

پہلے تو ایمان خاموش رہی پھر آہستہ سے بولی۔

"مونسٹر۔۔۔"

معراج نے اپنا چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو بڑی آنکھیں کیے اس سے دور ہو رہی تھی۔

"اا۔۔۔ایمان تم ڈرو مت۔۔۔"

معراج نے اسے دلاسا دینے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا لیکن معراج کے ایسا کرتے ہی ایمان نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس سے دور ہوئی تھی۔

"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔ مونسٹر ہو تم بھی مونسٹر ہو۔۔۔۔سب مونسٹر ہیں۔۔۔۔"

ایمان چیخیں مار کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی ساتھ ہی ساتھ جو کچھ بھی ہاتھ میں آتا اسے اٹھا کر معراج کو مارنے لگی۔معراج اس قدر گھبرا گیا تھا کہ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

"ایمان کیا کر رہی ہو تم سٹاپ۔۔۔۔"

خادم کی بات پر ایمان کا ہوا میں اٹھا ہاتھ وہیں رک گیا جس میں ایک گلدان تھا اور معراج اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے بس اپنے ہاتھ چہرے کے سامنے کیے ہوئے تھا۔

"معراج بیٹا آپ ٹھیک ہو نا؟"

خادم نے نرمی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جبکہ ایمان اب بس خوف سے بھری آنکھوں سے پیچھے کھڑے عرفان کو دیکھ رہی تھی۔

"جج۔۔۔جی انکل ٹھیک ہوں۔۔۔"

خادم نے ایمان کو گھورا جو پر خوف نگاہیں مسلسل عرفان پر جمائے ہوئے تھی۔

"ایمان یہ کیا حرکت تھی میں معراج کو آپ کا دوست بنا کر لایا ہوں تا کہ آپ کی تنہائی دور ہو اور آپ ہو کے۔۔۔۔"

خادم اپنی بیٹی کو ڈانٹنے لگا لیکن وہ سن کہاں رہی تھی بس بت بنے کھڑی تھی۔

"چلو معراج آپ میرے ساتھ اور عرفان تم زرا اس پاگل لڑکی کو سمجھاؤ کہ اپنا رویہ درست رکھے سب کے ساتھ۔۔۔۔"

خادم نے عرفان کی جانب مڑ کر کہا جو خباثت سے مسکرا دیا۔

"شوق سے سر۔۔۔"

اتنا کہہ کر عرفان ایمان کی جانب بڑھا جو بس نم ہوتی نگاہوں سے اسے قریب آتا دیکھ رہی تھی۔اسکی آنکھوں میں انتہا کی بے بسی تھی۔

خادم معراج کو اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے آیا۔

"انکل کک۔۔۔کیا ہو گیا تھا ایمان کو وہ ااا۔۔۔۔اس طرح سے کیوں ۔۔۔"

اس سوال پر خادم نے گہرا سانس لیا۔

"بس بیٹا یہ سمجھو کہ یہ میری بری قسمت ہے کہ اپنی اکلوتی اولاد کو اس حال میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔"

خادم اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھا تھا۔

"ایمان اپنی ماں کے بہت زیادہ قریب تھی اور بس اس کی موت کے بعد سے اس صدمے سے نکل ہی نہیں پا رہی کتنا ہی علاج کروایا میں نے اس کا لیکن اپنی ماں کو کھونے کا غم اسے اندر ہی اندر ختم کر رہا ہے ۔"

خادم پریشانی سے کہہ رہا تھا اور معراج بس اسکی بات سن رہا تھا۔

"کیا ہوا تھا آنٹی کو؟"

"ہارٹ اٹیک بیٹا بس پانچ سال کی تھی تب میری ایمان۔اسی امید سے میں تمہیں آیا تھا یہاں معراج کہ تم دونوں کا غم ایک جیسا ہے دونوں نے بچپن میں ہی اپنے قریبی کھو دیے تو شاید تم دونوں ایک دوسرے کے درد کے ساتھی بن جاؤ لیکن میری ایمان۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر خادم نے افسوس سے اپنا سر جھکا دیا۔

"آآآ۔۔۔آپ فکر مت کریں انکل مم۔۔میں ایمان کے ساتھ ہوں۔۔۔۔کککوشش کروں گا کہ آئندہ وہ ممم۔۔۔مجھ سے نہ ڈرے۔۔۔"

معراج کی بات پر خادم نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما۔

"بہت شکریہ بیٹا میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔کاش تمہارے ساتھ وہ نہ ہوا ہوتا جو کہ ہوا۔۔۔خیر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے مجھے امید ہے کہ اب تم دونوں ایک دوسرے کو سمجھو گے اور ایک دوسرے کا سہارا بنو گے۔۔۔"

"ضرور انکل۔۔۔"

معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو خادم بھی مسکرا دیا اور پھر اپنے کام کی غرض سے وہاں سے چلا گیا لیکن معراج بہت دیر تک وہاں کھڑا ایمان کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

انس اور ہانیہ حیدرآباد پہنچ چکے تھے اور اب اس ہوٹل کے باہر کھڑے تھے جہاں انہیں وہ شخص ملنا تھا جو انہیں آگے کا راستہ دکھاتا۔

"تم باہر ہی انتظار کرو ہانیہ میں اس سے پوچھ تاچھ کر کے آتا ہوں۔۔۔"

"ہرگز نہیں میں بھی آپ کے ساتھ چل رہی ہوں بات ختم۔۔۔"

ہانیہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

"ہانیہ جگہ شریف لوگوں کے جانے کے قابل نہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم باہر رکو۔۔۔"

"انس میں۔۔۔۔"

"پلیز ہانیہ ایک بار میری بات مان لو۔۔۔"

انس کے بات پر ہانیہ خاموشی سے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی جبکہ انس اس کی بھینچی ہوئی مٹھیوں کو دیکھ سکتا تھا۔

وہ ٹیکسی سے نکل کر اس ہوٹل میں آیا جو شروعات سے تو ہوٹل تھا لیکن تیسرے فلور پر ایک کلب تھا جس میں عیاش اور بہت سے برے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔توقع کے عین مطابق انس کو اپنا دوست بشر وہیں ملا تھا۔

"ارے کیا بات ہے آج ہمارے غریب خانے میں عظیم ہستی آئی ہے۔۔۔۔"

بشر کی بات پر انس مسکرا دیا اور اس کے اشارہ کرنے پر اس کے ساتھ ایک میز کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"ضروری کام تھا بشر عشق سے بارے میں معلومات چاہیے تھی تم سے۔۔۔"

"حکم کر یار نا بھی جانتا ہوا نا اسے تو کہیں سے ڈھونڈ لوں گا تیرے لیے۔"

"راگا۔۔۔"

اس نام پر بشر کی آنکھیں حیرت سے کھل چکی تھیں۔

"کہیں فوج کی طرح IB بھی چھوڑ کر نہیں بیٹھ گیا؟"

بشر کے سوال پر انس نے اسے گھورا۔

"جو پوچھا ہے اس کا جواب دے۔"

انس کے دانت پیس کر کہنے پر بشر لگا کر ہنس دیا 

"آئی بی کے سب انسپکٹر انس راجپوت شائید آپ بھول رہے ہیں کہ آپکا مشن سکندر 'دا گرین آئی مونسٹر' کو پکڑنا ہے آپ یہ راگا کے پیچھے کہاں سے پڑھ گئے وہ فوج کے حصے میں آتا ہے۔۔۔۔"

"جانتا ہوں کہ میں کون ہوں اور میرا کیا فرض ہے تجھے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں سکندر آج یا کل میری گرفت میں ہوگا تم اس کی فکر مت کرو مجھے راگا کا پتہ بتاؤ۔"

اس کی بات پر بشر کچھ دیر سوچ میں ڈوب گیا۔

"راگا کون ہے یہ تو اس کے پکڑے جانے کے بعد سے ہر کوئی جانتا ہے اس کا چہرہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے لیکن وہ کہاں رہتا ہے یہ صرف اس کے قریبی ساتھی جانتے ہیں۔میں تو تمہیں اس حوالے سے کوئی ہنٹ بھی نہیں دے سکتا البتہ ایسے شخص کا ضرور بتا سکتا ہوں جو شاید اس کا ٹھکانہ جانتا ہو۔"

"کون ہے وہ؟"

انس نے بے تابی سے پوچھا اس کے لئے ایک اشارہ ہی کافی تھا۔

"وہ سامنے بیٹھا ہے اس وقت جاؤ اور پوچھ لو لیکن بہت الٹی کھوپڑی کا بندہ ہے۔"

انس نے اس چالیس سالہ آدمی کو دیکھا جو ایک میز کے پاس بیٹھا خود جو شراب میں غرق کر رہا تھا۔

"ویسے وہ لڑکی جو پندرہ منٹ سے ہمیں وہاں کھڑی ہو کر دیکھ رہی ہے،تمہارے ساتھ ہے کیا؟"

بشر کی بات پر انس نے فورا پلٹ کر ہانیہ کو دیکھا جو ایک ہڈی پہنے کونے میں کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

"کبھی نہیں سنتی یہ لڑکی۔۔۔۔"

ان فور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا۔

"بولا تھا نا کہ اندر مت آنا تو کیوں آئی؟"

"کچھ پتہ چلا؟"

ہانیہ نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا سوال پوچھا۔

"ہوں وہ سامنے بیٹھا شخص شائید کچھ بتا دے ہمیں اس کے بارے میں۔۔۔"

"تو جائیں جا کر پوچھیں اس سے میرے پاس کھڑے ہو کر وقت ضائع کر رہے ہیں  ۔"

ان سن یہ گھورا جیسے کہ اسے کہنا چاہ رہا ہو کہ تمہیں تو بعد میں دیکھوں گا۔پھر اس شخص کے پاس آیا اور ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔

"سنو ۔۔۔۔"

"ہوں۔۔۔"

آدمی نے شراب کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

"راگا کے بارے میں جانتے ہو؟"

اس سوال پر اس شخص کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکان آئی۔

"جانتا بھی تو تمہیں نہیں بتاتا۔۔۔"

"یہ دیکھنے کے بعد بھی نہیں؟"

انس نے اپنا سب انسپکٹر کا کارڈ اسکے سامنے رکھا۔

"ہاہاہا بہت دیکھے تو جیسے پولیس والے جا نہیں بتاتا تجھے کچھ بھی کر لے جو کر سکتا ہے۔۔۔"

اس کی بہادری پر انس نے اسے ابرو اچکا کر دیکھا۔

"پھر میں یہ کہوں گا کہ قیمت بولو اپنی۔۔۔۔"

"کوئی قیمت نہیں مجھے کچھ بھی نہیں بتانا پھر چاہے کچھ بھی کر لے۔۔۔"

اس کا دل کیا کہ اس کی ہڈی پسلی توڑ کر اس سے پوری بات معلوم کروا لے لیکن اتنے لوگوں کے درمیان ہوں تماشا نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے سوچا کہ اس شخص کے یہاں سے نکلنے کے بعد ہی دیکھے گا۔

"کیا کہا اس نے؟"

انس ہانیہ کے پاس آیا تو ہانیہ نے بے چینی سے سوال  کیا۔

"کچھ نہیں بتایا ۔۔۔"

"ایسے کیسے کچھ نہیں بتایا؟"

اس سے پہلے کہ انس اسے روکتا ہانیہ اپنا ہاتھ چھڑا کر اس شخص کے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔

"راگا کہاں ملے گا؟"

ہانیہ کا لہجہ دھمکی آویز تھا۔

"ہائے جانم پیار کر کے پوچھو تو کچھ بھی بتا دوں راگا کیا چیز ہے۔۔۔۔"

اس آدمی نے ہانیہ کا نازک ہاتھ تھام کر کہا تو انس کا دل کیا کہ اسکا ہاتھ توڑ دے اور ایسا کرنے کے لیے وہ آگے بڑھا لیکن تبھی ہانیہ نے اس کی کلائی پکڑ کر اس کا ہاتھ پیچھے مروڑا اور جھٹکے سے اس کا سر بہت زور سے میز پر مارا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے شیشے کی بوتل اٹھا کر توڑی اور اس شخص کی گردن کے پاس رکھ دی۔وہ جو پہلے ہی شراب کے نشے سے کمزور تھا اپنی گردن پر چبھن محسوس کرکے گڑبڑا گیا۔

"جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔"

ہانیہ کے غرانے پر وہ مزید ڈر گیا۔

"گگ۔۔۔۔گلگت بلتستان  وہیں کہیں رہتا ہے وہ لیکن وہاں کہاں یہ اس کے ساتھیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔"

اس شخص نے گھبرا کر کہا تو ہانیہ نے وہ شیشہ اسکی گردن کے مزید قریب کیا۔

"قققق۔۔۔۔قسم کھاتا ہوں اسکے علاؤہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔"

ہانیہ نے اس شخص کو جھٹکے سے چھوڑا اور بوتل زمین پر پھینک کر انس کے پاس آئی جو وہاں موجود ہر شخص کی طرح اپنی آنکھیں بڑی کیے اس لڑکی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

"اگلی بار ایسے پوچھنا۔۔۔۔"

ہانیہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ انس ابھی بھی منہ کھولے کھڑا تھا۔

"تو یہ ہے راگا کو ڈھونڈنے کی وجہ، واہ عاشق غالب نے صحیح کہا تھا۔

عشق نے نکما کر دیا

ورنہ آدمی میں بھی کام کا تھا۔"

بشر نے انس کے پاس آ کر ہنستے ہوئے کہا تو انس بھی مسکرا دیا۔

"پٹاخہ گڈی۔۔۔"

انس نے ہنستے ہوئے کہا اور اس کے پیچھے چل دیا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"سر خادم شفیق صاحب ملنے آئے ہیں آپ سے۔۔۔۔"

سالار جو آفس میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا ملازم کے بات پر حیران ہوا۔

"بھیجو انہیں اندر۔۔۔۔"

ملازم اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی خادم شفیق کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔

"اسلام و علیکم۔۔۔"

"و علیکم السلام۔۔۔بیٹھیے۔۔۔۔"

سالار نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے سامنے موجود کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

"چند دن پہلے ہی مجھے خبر ملی کی سالار بیٹا یہاں آیا ہوا ہے اور عام عوام پارٹی کا سربراہ بھی بن چکا ہے تو سوچا کہ تم تو مجھ سے ملنے آئے نہیں تو کیوں نہ میں خود ہی آ جاؤں؟"

خادم نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے کہا۔

"اچھا کیا آپ نے انکل بتائے کیسے آنا ہوا آپ کا کوئی کام تھا کیا مجھ سے؟"

سالار نے انٹرکام پکڑ کر ملازم کو کچھ حکم سنائے۔

"ارے نہیں بیٹا کام کیا ہوگا بس سوچا کہ میرے بہت عزیز دوست اور ہماری پارٹی کے پرانے سربراہ عثمان ملک کا بیٹا ہمارے مقابل آیا ہے تو کیوں نہ اس سے مل آؤں۔"

"آپ کے تکلف کا شکریہ۔"

سالار نے مسکرا کر کہا تبھی ملازم چائے لے کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔

"ویسے تم نے اتنی چھوٹی سی پارٹی کیوں جوائن کی جس کا کوئی مستقبل ہی نہیں میری پارٹی میں آ جاتے تو آنے والے الیکشن میں ایم پی اے ضرور بنتے تم۔۔۔۔"

خادم کی بات پر سالار بس ہلکا سا مسکرا دیا۔

"ایک ملک آپ کا ساتھی تھا انکل لیکن اس کے زوال کے بعد بہت جلدی آپ نے اس کی سیٹ سنبھالی۔۔۔۔اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نا دوسرا ملک آپ کے مقابل آ کر دیکھے۔۔۔۔"

سالار کی نظروں میں نا جانے ایسا کیا تھا کہ خادم کی نظریں خود بخود جھک گئی تھیں۔

"اس وقت پارٹی بکھر گئی تھی بیٹا مظبوط سہارا ملنا بہت ضروری تھا مجھے ورنہ عثمان سر کی جگہ لینے کے بارے میں میں سوچ بھی کیسے سکتا تھا۔"

سالار اس وضاحت پر بس مسکرا دیا۔

"ارے آپ فکر مت کریں انکل میں تو بس جنرل سی بات کر رہا تھا رہی بابا کی بات تو انشاءاللہ بہت جلد ان پر لگا ہر الزام ہٹا کر انہیں اس ملک میں واپس لے آؤں گا پھر عثمان ملک اسی مقام پر پہنچے گا جہاں اسے ہونا چاہیے۔۔۔۔"

خادم نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔

"انشاءاللہ مجھے بھی یقین ہے بیٹا کہ تم عثمان سر کو بے گناہ ثابت کر لو گے۔۔۔۔"

کبھی سالار کی نظر گھڑی پر پڑی تو وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

"چلتا ہوں انکل ضروری کام ہے پھر ملاقات ہو گی۔۔۔"

سالار اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل آیا جبکہ خادم وہیں بیٹھا رہا تھا۔آفس سے نکل کر سالار سیدھا فٹ پاتھ پر کھڑی گاڑی نیا بیٹھا جس میں جنت پہلے سے موجود تھی۔

"اففف کب سے ویٹ کر رہے ہیں میں اور جمال بھائی آپ کا اب جلدی سے گھر چلیں مجھے سونو کو بہت سا پیار کرنا ہے۔"

"سونو؟نام بھی رکھ لیا تم نے اس کتے کا؟"

سالار نے ہلکا سا ہنستے ہوئے پوچھا۔

"جی کل رات ہی رکھ لیا تھا اور بس اب جلدی سے چلیں ورنہ ناراض ہو جاؤں گی آپ سے۔۔۔"

جنت نے منہ پھلا کر کہا۔اسکا پھولا منہ دیکھ کر سالار نے فورا جمال کو چلنے کا اشارہ کیا۔

"ویسے میری پرنسپل مجھے آپ کے ساتھ بھیج کر دیا؟ کل بھی بھیج دیا تھا اور آج بھی جب جمال بھائی نے آپ کا نام لیا تو پھر بھیج دیا۔۔۔۔"

جنت حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

"یہ راز ہے بے بی گرل مستقبل میں بتاؤں گا جب تم بہت سے دوسرے رازوں کو جھیلنے کے قابل ہو جاؤ گی۔۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر کہا اور جنت جو اسکے خوبرو چہرے میں کھو چکی تھی گھبرا کر باہر دیکھنے لگی۔

                   ❤️❤️❤️❤️

"کیسے ہوا یہ بتاؤ مجھے؟وہ جنرل کی جان لینے گیا تھا اے کے تو پکڑا کیسے گیا وہ؟"

سلطان غصے سے سامنے کھڑے اے کے پر چلا رہا تھا۔

"نہیں معلوم سر یہ جنرل ضرورت سے زیادہ ہی چالاک نکلا۔"

اے کے نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔

"شکر کرو تم خود وہاں نہیں گئے بلکہ اپنے آدمی کو بھیج دیا ورنہ آج ہمارا راز اس پوری دنیا کے سامنے کھل جاتا اے کے۔۔۔۔"

سلطان بکی بات پر اے کے نے ہامی بھرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

"اور سوچو آگے کیا کرنا ہے راگا کو کیا جواب دیں گے ہم۔۔۔۔اپنا کام ادھورا دیکھ کر وہ ہمارا کام بھی نہیں کرے گا۔"

اے کے بھی اس بات کو سوچ کر پریشان ہوا۔

"فکر مت کریں سلطان سر میں راگا سے خود جا کر بات کروں گا اور اسے بڑے سے بڑا لالچ دوں گا مان جائے گا وہ۔۔۔۔"

سلطان نے گہرا سانس لیتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہاں اے کے کچھ کرو کیونکہ ستارہ پارٹی کے سربراہ کی بدنامی ہی خادم شفیق کی جیت ہے اور کچھ بھی ہو جائے اس بار جیت خادم شفیق کے مقدر میں آئے گی وہی بنے گا اس ملک کا وزیر اعظم۔۔۔۔"

اے کے نے ہاں میں سر ہلایا۔

"ایسا ہی ہو گا سر خادم شفیق کی جیت کے لیے کچھ بھی کروں گا آخر آج میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی وجہ سے ہوں اسی کے لیے ہوں۔۔۔۔۔"

اے کے کی بات پر سلطان بھی مسکرا دیا اور اطمینان سے صوفے پر بیٹھ کر پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں موند گیا۔

"ہاں اے کے خادم کی جیت ہی سلطان کی جیت ہے۔۔۔"

"سلطان سے رابطہ ہوا تمہارا؟"

راگا نے ویرہ سے پوچھا جو اس وقت ان کے کام کی جگہ پر کھڑا نقشے کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہا تھا۔

"ہاں جو آدمی انہوں نے جنرل کو مارنے کے لیے بھیجا تھا وہ پکڑا گیا اسی لیے اس نے زہر لے کر خودکشی کر لی۔۔۔۔"

راگا نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔اسکی آنکھوں میں غصہ تھا۔

"بے وقوف آدمی سارا کھیل بگاڑ دیا۔۔۔۔اب ہم بھی سلطان کا کوئی کام نہیں کرے گا۔"

راگا نے فیصلہ سنایا جو ویرہ کو کچھ خاص پسند نہیں آیا۔

"راگا اگر ہم سلطان کا کام نہیں کریں گے تو ہم کریں گے کیا؟"

"ہم خود سے دہشت بنیں گے ویرہ اب راگا،کال اور ویرہ اتنے کمزور نہیں کہ کسی کا کام کریں دیکھنا بہت جلد یہ سلطان جیسے بھی خود اپنی پہچان کے ساتھ ہمارے سامنے ہوں گے۔۔۔۔"

ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

"مجھے اس سب سے فرق نہیں پڑتا میرے جینے کا مقصد بس تباہی ہے اس نظام کی تباہی یہاں کے بزدل لوگوں کی تباہی۔۔۔۔"

ویرہ کے لفظوں میں بہت زیادہ درد اور تکلیف تھی۔راگا نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"میرے بابا ایک وکیل تھے راگا ایک سیاست دان کے بھائی کے خلاف کیس لڑا تھا انہوں نے اور جانتے ہو نتیجا کیا نکلا؟"

ویرہ نے نفرت سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں جبکہ آنکھیں لال انگارہ ہو چکی تھیں۔

"ہمارے گھر میں گھس کر میری ماں بابا کو مار دیا۔گیارہ سال کی عمر میں میری آنکھوں کے سامنے میری چھوٹی بہن اور ایک سالہ بھائی کو مار دیا انہوں نے۔۔۔۔۔میرا بھی گلا کاٹا لیکن شائید یہ میری قسمت تھی کہ میں بچ گیا۔۔۔۔"

ویرہ نے اپنی گردن سے چادر ہٹا کر اسے دیکھائی تھی جہاں آج بھی کٹ کا نشان تھا۔

"اور جانتے ہو ہمارے محلے والوں نے کیا کیا؟ بزدلوں کی طرح اپنے گھروں میں چھپ کر ہماری چیخیں سنتے رہے۔۔۔۔پولیس اطلاع ملنے کے باوجود نہیں آئی۔۔۔۔اور صبح میرے گھر والوں کی لاشوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ بہت افسوس ہوا۔"

ویرہ کی آنکھیں غم کی شدت سے لال ہو چکی تھیں۔

"سب کو حساب چکانا ہو گا اس  زیادتی کا راگا سب کو۔۔۔سب سے نفرت ہے مجھے۔۔۔"

راگا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔

"فکر مت کر ویرہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔"

ویرہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔راگا کچھ سوچ کر پہلے ہچکچایا پھر آہستہ سے بولا۔

"تو نے کل رات اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا کیا؟"

ویرہ نے اس سوال پر حیرت سے نگاہیں  اٹھا کر اسے دیکھا۔

"یہ میرا ذاتی۔۔۔"

"جانتا ہوں ماڑا کہ یہ تیرا ذاتی معاملہ ہے میں بس ایک دوست ہونے کے ناطے سے پوچھ رہا ہوں۔"

راگا نے عام سے انداز میں کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لیا۔

"عورتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بعض اوقات انہیں انکی حد یاد دلانی پڑتی ہے راگا ورنہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔"

اس بات پر راگا نے مسکراتے ہوئے اپنا سر انکار میں ہلایا۔

"نہیں ویرہ تو غلط ہے۔۔۔عورت ایک ایسے پھول کی مانند ہوتی ہے جسے محبت سے رکھو تو اپنے مالک کی خاطر کھل جاتا ہے اسکے لیے کسی بھی طوفان سے لڑ جاتا ہے لیکن اگر اسے سختی سے پیش آؤ تو بہت آسانی سے مرجھا جاتا ہے وہ۔۔۔۔عورت بہت عظیم ہوتا ہے ماڑا۔۔۔۔لیکن وہ خوف کی وجہ سے صرف تب تک تمہارے ساتھ رہے گا جب تک وہ خوف قائم رہے گا لیکن محبت کی وجہ سے وہ تا قیامت تمہارا ہی ہو کر رہے گا۔"

راگا کی بات پر ویرہ خاموش ہو گیا اور اسے کوئی بھی جواب دیے بغیر اپنا کام کرنے لگا۔

                 ❤️❤️❤️❤️

"تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟"

ہوٹل میں واپس آتے ہی انس نے اسے پوچھا جو جلدی جلدی سامان پیک کر رہی تھی۔

"کیا سب؟"

"وہی جو سب وہاں تم نے اس آدمی کے ساتھ کیا۔"

ہانیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔

"آپ کو کیا لگا کہ آپ کے جانے کے بعد میرا کوئی سہارا ہی نہیں بچے گا؟ہوں۔۔۔۔کیڈٹ سکول میں پڑے ہیں میں اور وانی کراٹے کلاس لیتی تھی میں۔۔۔۔سوچا تھا بڑی ہو کر آرمی میں جاؤں گی لیکن بابا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔"

ہانیہ اتنا کہہ کر واپس اپنا کام کرنے لگی۔

"وہ ڈرتے ہیں ہانیہ نہیں چاہتے تھے کہ تم مصیبت میں پڑو۔۔۔۔"

"مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا چاہتے ہیں کیا نہیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح بزدل بن کر رہوں تو ایسا ناممکن ہے۔"

انس اس کی بے رخی پر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"چلیں اب ہمیں چلنا ہے بائے روڈ بہت ٹائم لگے گا ہمیں گلگت بلتستان پہچنے میں۔۔۔"

انس نے ہاں میں سر ہلایا لیکن تب ہی دروازہ کھٹکھانے کی آواز پر وہ دونوں حیرت زدہ ہو کر دروازے کو دیکھنے لگے۔

"کون کو سکتا ہے؟"

ہانیہ نے ابرو اچکا کر پوچھا جبکہ انس اپنی بندوق پر ہاتھ رکھتا دروازے کی جانب بڑھا لیکن دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے وجدان کو دیکھ کر وہ ٹھٹکا تھا۔

"سر۔۔۔۔"

وجدان نے انس کو بلکل نظر انداز کیا اور غصے سے ہانیہ کی جانب بڑھا جو حیرت سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔

"ہانیہ گھر چلو۔۔۔"

وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا لیکن وہ اپنی جگہ پر قدم جما کر کھڑی تھی۔

"نہیں بابا میں نہیں جا رہی۔۔۔۔"

"ہانیہ تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا؟ابھی کے ابھی گھر چل رہی ہو تم۔۔۔۔"

وجدان نے زرا سختی سے اسے ساتھ کھینچتے ہوئے کہا۔

"وانیا کے بغیر میں گھر نہیں جاؤں گی بابا اگر مجھے گھر لانا ہے تو اسے ڈھونڈیں آپ۔۔۔"

اتنا کہہ کر ہانیہ نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔

"ہانیہ جب میں نے کہا ہے کہ بہت جلد ڈھونڈ لوں گا اسے تو تم سمجھ کیوں نہیں پا رہی اس بات کو؟"

وجدان غصے سے دھاڑا۔

"کیونکہ میں یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ جب آپ میرا پتہ نہ جاننے کے باوجود مجھے دو دن میں ڈھونڈ سکتے ہیں تو وانیا اتنے عرصے سے وہاں کیوں ہے بابا؟"

وجدان نے بے بسی سے ہانیہ کو دیکھا۔

"میں تمہیں کچھ بھی نہیں بتا سکتا ہانیہ بس اتنا جان لو کہ وانیا بلکل ٹھیک ہے قسم کھا کر کہتا ہوں میں۔۔۔"

ہانیہ نے اس سے پوچھنا چاہا کہ وہ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتا تھا پھر ایک خیال کے تحت وہ ٹھٹھک گئی۔

"کہیں آپ نے اسے خود وہاں نہیں بھیجا؟بابا کہیں اس راگا کو پھر سے پکڑنے کے لیے آپ نے اسے زریعہ تو نہیں بنایا؟"

ہانیہ کے سوالوں پر وجدان اپنی نظریں چرانے لگا۔

"ایسا ہی سمجھ لو ہانیہ لیکن وہ بلکل ٹھیک۔۔۔۔"

"ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔ہاؤ ڈئیر یو بابا وہ اتنی معصوم ہے اور آپ نے اس کا اس طرح سے استعمال۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی بابا کہ آپ اس قدر گر سکتے ہیں۔۔۔۔"

"ہانیہ ۔۔۔۔!!!"

وجدان چلایا تھا جبکہ انس بس خاموشی سے کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

"نہیں بابا آج میں خاموش نہیں رہوں گی اور نہ ہی اپنی بہن پر یہ ظلم ہونے دوں گی کچھ بھی ہو جائے اور کوئی نہیں تو وانی کی ہانی اسکے ساتھ کھڑی ہے اسکی آخری سانس تک۔۔۔۔"

وجدان ہانیہ کی آنکھوں میں ایک جنون ایک آگ دیکھ سکتا تھا۔وہ اتنا سمجھ چکا تھا کہ اگر ہانیہ کو لے جا کر وہ ساری سچائی بھی بتاتا تو بھی ہانیہ چپ کر کے بیٹھنے والی نہیں تھی۔وہ اس کی قید سے نکل کر کسی بھی طرح پھر سے وانیہ کو تلاش کرنے نکل جاتی لیکن اگلی بار اپنی اس بے وقوفی میں انس کو بھی شامل نہیں کرتی۔

بے بسی کے عالم میں وجدان اپنی ضدی سی بیٹی کو دیکھتا رہا پھر مٹھیاں بھینچ کر انس کے پاس آیا۔

"میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا نا تو تمہیں نہیں چھوڑوں گا انس۔۔۔۔جان سے زیادہ خیال رکھنا اس کا۔۔۔۔"

انس نے ہاں میں سر ہلا کر اس بے بس باپ کو یقین دلایا تو وجدان آنسوؤں پر ضبط باندھتا وہاں سے چلا گیا۔

"چلیں انس ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"

انس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا بیگ پکڑ کر کندھوں پر پہن لیا۔اب وہ دونوں نئے سفر پر گامزن ہو چکے تھے۔

                     ❤️❤️❤️❤️

وانیا آج ہمت کر کے گھر کی پچھلی جانب لکڑی کی بنی بالکونی میں آئی جہاں سے دور برف سے ڈھکے پہاڑ اور نیچے موجود گاؤں کو دیکھا جا سکتا تھا۔کتنی دیر وہ وہاں کھڑی اس منظر کو دیکھتی رہی  اس کا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔

ہوش تو اسے تب آیا جب شام کے سائے فلک پر لہرانے لگے اور سردی سے اس کا وجود کپکپا اٹھا۔کمرے میں واپس آ کر اچانک سے یاد آیا کہ اسکے نئے نویلے شوہر نیو سے گھر کا ہر کام سنبھالنے کو کہا تھا لیکن کچھ کرنا دور وانیا نے تو ان دونوں کے لیے کھانا تک نہیں بنایا تھا۔

"ہوں میں کیوں کروں کام ان کی نوکرانی تو نہیں ہوں آئیں گے تو بول دوں گی کہ مجھ سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"

وانیا نے منہ بنا کر خود سے کہا لیکن پھر ایک خیال آنے پر پریشان ہوگئی۔  

"لیکن اگر ان کو غصہ آ گیا اور غصے میں آ کر انہوں نے ویرہ بھائی کی طرح مجھے بھی مارا تو۔۔۔۔"

لہذا کے بڑے سے ہاتھ کا اپنے گال پر سوچ کر وانیا نے خوف سے اپنا ہاتھ اپنی گال پر رکھ لیا۔

"للل۔۔۔۔لیکن میں بناؤں گی کیا مجھے تو کچھ بھی بنانا نہیں آتا۔۔۔"

وانیا نے پریشانی سے کہا اور کمرے میں چکر لگانے لگی۔پھر جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنا ہمیشہ والا کام کرنے لگی۔کمرے کے کونے میں بیٹھ کر رونا۔راگا کمرے میں آیا تو وہ اس کو اسی حال میں ملی تھی۔

"اب کیا ہو گیا افغان جلیبی رونا فارغ وقت کا مشغلہ ہے کیا تمہارا؟"

راگا نے شرارت سے پوچھا اور اس کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

"آپ مجھے زیادہ زور سے مت مارنا۔۔۔ہاتھ بہت بڑا ہے آپ کا بہت درد ہو گا۔۔۔"

"میں تمہیں کیوں ماروں گا؟"

 وانیا کی بات پر راگا نے حیرت سے پوچھا۔

"کیونکہ میں نے کوئی کام نہیں کیا۔۔۔۔کھانا بھی نہیں بنایا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔اور آپ نے کہا تھا کہ اب میں سب کام کیا کروں گی۔"

وانیا نے اپنی قمیض کے بازو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔راگا کو اپنی معصوم سی جان پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا لیکن وہ راگا ہی کیا جو اپنی افغان جلیبی کو ستائے نہ۔۔۔

"اب تم کام ہی تھپڑ کھانے والے کرے گا تو تھپڑ تو پڑے گا نا۔۔۔کھانا کیوں نہیں بنایا تم نے؟ شوہر کی بھوک کا بلکل بھی خیال نہیں تمہیں۔۔۔۔"

راگا نے انگوٹھے سے اسکا ہونٹ سہلاتے ہوئے معنی خیزی سے کہا جب کہ آنکھوں میں بے پناہ تپش تھی۔ایک پل میں وانیا گھبرا کر خود میں سمٹ گئی تھی۔

"وہ۔۔۔۔وہ مجھے کچھ پکانا نہیں آتا۔۔۔"

وانیا نے گھبرا کر اس سے دور ہوتے ہوئے کہا لیکن راگا اسکے کھینچ کر اپنی پناہوں میں لے چکا تھا اور خود کے گرد لپٹی گرم چادر وانیا کے گرد لپیٹ دی۔

"تو مجھے خود کو کھانے دو افغان جلیبی یقین جانو کبھی کھانا نہیں بنانا پڑے گا تمہیں،بس تم پر ہی خوشی سے زندہ رہ لوں گا۔۔۔"

راگا کی مونچھوں کی چبھن اور اسکی سانسوں کی تپش اپنے کان پر محسوس کر وانیا کانپ کر رہ گئی تھی۔

"ممم۔۔۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے بہت۔۔۔"

"یہ تو اور اچھی بات ہے۔۔۔"

راگا اسکے ہونٹوں کے قریب ہونے لگا تو وانیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا۔

"کھانے کی بھوک۔۔۔"

اس کی گھبراہٹ پر راگا نے مسکرا کر اسکا ہاتھ چوما اور اپنی گرماہٹ سے آزاد کیا اسے۔

"اچھا پھر کچھ نہ کچھ تو بنانا آتا ہوگا تمہیں، بتاؤ کیا بنانا آتا ہے۔۔۔ "

"کارن فلیکس۔۔۔"

کچھ سوچ کر وانیا نے آہستہ سے کہا جبکہ یہ سن کر راگا کا دل کیا کہ اپنا سرپیٹ لے۔

"ماڑا وہ تو کوئی دو سال کا بچہ بھی بنا لے دودھ میں پاپڑی ڈال کر کھانا تو بہت مشکل ہے نا جیسے ۔۔۔۔"

راگا کے مذاق پر وانیا کا منہ بن گیا۔

"میری مما مجھے کچھ کرنے نہیں دیتی تھیں اس لیے کچھ نہیں کرنا آتا مجھے۔۔۔"

راگا دیں کچھ دیر کے لئے سوچا پھر اپنا ہاتھ وانیا کی طرف بڑھایا۔

"چلو آؤ میرے ساتھ میں کچھ بنا کے کھلاتا ہے تمہیں۔۔۔"

راگا کو کھانا بناتے ہوئے دیکھنے کا خیال ہی اتنا مزے کا تھا کہ وانیا نے فوراً اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔اب راگا سادے سے آلو والے چاول بنانے کے لیے آلو کاٹ رہا تھا اور وانیا ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔

"راگا۔۔۔دہشت کا دوسرا نام ۔۔۔جسے سن کر لوگ خوف سے کانپنے لگ جائیں یہاں دیکھو راگا کو ماڑا بیوی کے لیے کھانا پکا رہا ہے۔۔۔"

راگا نے بھرپور ڈرامہ کرتے ہوئے کہا تو وانیا ہلکا سا ہنس دی۔آج پہلی بار راگا نے اسے یوں ہنستے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔

"افف یہ ادائیں مار ڈالیں گی ایک دن ۔۔۔۔"

اسکے لہجے کی تپش پر وانیا کی نگاہیں جھک گئی تھیں۔تقریبا ایک گھنٹے کے بعد راگا نے کھانا بنایا اور لا کر وانیا کے سامنے رکھا۔

"چلو اب کھاؤ۔۔۔"

وانیا جو صبح سے بھوکی تھی جلدی سے کھانا ڈال کر کھانے لگی۔ویسے بھی چاول اسکی توقع کے برعکس بہت زیادہ مزے کے بنے تھے۔

"آپ نے نہیں کھانا کیا؟"

وانیا نے راگا سے پوچھا جو بس خاموشی سے اسے کھاتے دیکھ رہا تھا۔

"میرا کچھ میٹھا کھانے کا دل کر رہا ہے ماڑا لیکن وہ میٹھا مجھے ترس ترس کر ملتا ہے اس لیے میری فکر مت کرو میں بھوکا ہی سو جاؤں گا۔۔۔"

وانیا پھر سے اسکی معنی خیز باتوں پر خود میں سمٹ گئی تھی۔

"آپ کو شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے۔۔۔"

اسکے سوال پر گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر شریر مسکراہٹ براجمان ہوئی تھی۔

"نہیں ماڑا کیونکہ شرمانا تمہارا کام ہے میرا کام تو بس اپنی بے شرم حرکتوں سے اپنی افغان جلیبی کو شرمانے پر مجبور کرنا ہے۔۔۔"

اسکی بات پر وانیا خود میں سمٹتی کھانا کھانا بھی چھوڑ چکی تھی۔

"آرام سے کھانا کھاؤ افغان جلیبی اور جان بنا لو آگے بہت کچھ جھیلنا ہے ابھی اور اتنی سی جان سے تو تم پہلی بار ہی۔۔۔"

وانیا نے اکتا کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا تو راگا قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"چلو کھاؤ آرام سے اب تنگ نہیں کروں گا اپنی افغان جلیبی کو۔۔۔"

راگا نے بہت محبت سے کہا اور کھانا ڈال کر کھانے لگا جبکہ اسے کھانا کھاتا دیکھ وانیا نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

ایمان اپنے کمرے میں لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی۔دماغ کسی بھی سوچ سے اور دل کسی بھی جذبے سے عاری تھا۔وہ بس ایک زندہ لاشوہ بس ایک زندہ لاش کی مانند تھی جسے اس محل میں قید کیا گیا تھا۔

آہستہ سے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بیڈ پر بیٹھ کر خوف سے کانپنے لگی۔سامنے ہی وہ خباثت سے مسکراتے عرفان ہو دیکھ سکتی تھی۔

"کیسی ہے میری رپنزل یاد کر رہی تھی نا مجھے۔۔۔۔"

عرفان نے اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھا جو پھسلتا ہوا اسکی گردن پر آ چکا تھا۔ایمان کو اس کے اس لمس سے وحشت ہو رہی تھی لیکن پھر بھی وہاں سے منع نہیں کر پائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسے منع کرنے کا انجام بہت برا ہونا تھا۔

"افسوس ہے میری جان کہ تمہیں مکمل طور پر پا نہیں سکتا میں۔۔۔اگر خادم سر کا ڈر نہیں ہوتا نا تو وہ کرتا تمہارے ساتھ جو تم خواب میں بھی سوچ نہیں سکتی۔۔۔۔"

اب اسکا ہاتھ پھسلتا ہوا اسکے بازو پر آ چکا تھا لیکن ایمان بس خاموشی سے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔

ہاں یہی تھی اسکی زندگی اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی وہ درندے سے محفوظ نہیں تھی۔

"لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ایمان خادم کہ تمہیں صرف میرا ہی ہونا ہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔۔اس بوندھو معراج کو بال بھی نہیں چھونے دینا تم نے اپنا سمجھی عرفان کی امانت ہے یہ وجود۔۔۔"

اب کی بار عرفان کا ہاتھ اس کے سینے کی جانب بڑھا تو ایمان کی بس ہوئی تھی۔زور سے جھٹکا دے کر اس نے عرفان کا ہاتھ خود سے دور کیا تھا۔

"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔گندا لگتا ہے تمہارا چھونا بہت زیادہ گندا لگتا ہے۔۔۔۔"

ایمان نے اس سے دور ہو کر چلاتے ہوئے کہا لیکن اگلے ہی لمحے عرفان نے اسے اسکے بالوں سے پکڑ اپنی طرف کھینچا اور زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر مارا تھا۔تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کے ایمان بیڈ پر گر چکی تھی۔

"لگتا ہے میری رپنزل بھول گئی ہے کہ عرفان کیا کچھ کر سکتا ہے۔۔۔تمہیں یاد کروانا ہو گا کہ تمہاری اوقات کیا ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر عرفان نے اپنی بیلٹ اتار کر اسے اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا تھا۔

"آواز نہ نکلے تمہاری ورنہ جو حد آج تک خادم کے خوف سے پار نہیں کی آج کر جاؤں گا۔۔۔پھر کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔۔"

اتنا کہہ کر عرفان نے بہت زور سے اس بیلٹ کو اسکی کمر پر مارا تھا۔ایمان بے چاری بس تکیے میں منہ دے کر سسک سکتی تھی۔

کتنی ہی دیر اسے مار کر وہ بھیڑیا وہاں سے جا چکا اور وہ معصوم سی لڑکی بس کمر سے اٹھتے درد پر روتی ہی جا رہی تھی۔

"اپنے پاس بلا لیں نا مما۔۔۔پلیز اپنے پاس بلا لیں نہیں رہنا مجھے اس مونسٹر کے پاس۔۔۔۔"

ایمان نے روتے ہوئے کہا اور پھر اپنا گال چھو کر سسکتے ہوئے رو دی تھی۔

"مما اللہ تعالیٰ سے کہیں کہ اپنے پاس بلا لیں مجھے بھی۔۔۔۔ان سے کہیں کہ ماں کے بغیر بیٹی روز مرتی ہے۔۔۔۔" 

ایمان اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

"ان سے کہیں یا تو بیٹیوں کی ماؤں کو نہ لے کر جایا کریں۔۔۔۔۔یا ان کے جانے پر بیٹوں کو بھی پاس بلا لیا کریں۔۔۔مجھے بھی پاس بلا لیں مما۔۔۔مجھے بھی پاس بلا لیں۔۔۔۔"

ایمان اپنے کمرے میں روتے ہوئے سسک رہی تھی لیکن اس معصوم کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا کوئی بھی تو نہیں۔

مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ اپنے لیپ ٹاپ پر اسکی آہ و پکار اور یہ منظر دیکھتی دو سبز آنکھیں اب غضب کی شدت سے سرخ ہو چکی تھیں۔

اسے ایمان کے کمرے سے واپس آئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی۔اس معصوم پر کیا وہ ظلم یاد کرکے وہ مسکرا رہا تھا۔وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایمان اس کی ملکیت ہے جو چاہے گا اس کے ساتھ کرے گا۔

وہ آ کر کرسی پر بیٹھا اور سگریٹ ہونٹوں کے درمیان لے کر سلگا لیا۔

"بس کچھ عرصے کا انتظار ہے میری رپنزل پھر تم میری ہو جاؤ گی کھلونا بنا کے رکھوں گا میں تمہیں اپنا۔۔۔"

عرفان نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا اور سگریٹ کا کش لے کر آنکھیں بند کرتے ہوئے دھواں ہوا میں چھوڑا۔لیکن تبھی اچانک کسی نے ایک کالا بڑا سا شاپر اسکے سر پر ڈال کر گردن پر باندھ دیا۔

ہڑبڑا کر اس نے وہ کالا شاپر اتارنا چاہا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اب وہ اس کے ہاتھ بھی کمر کے پیچھے باندھ چکا تھا۔

"کون ہے تو۔۔۔؟"

اس نے شاپر کے اندر سے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز کے ساتھ ساتھ اس کا دم بھی گھٹ رہا تھا۔

تبھی اس شخص نے اپنی بیلٹ اتار کے ہاتھ کے گرد لپیٹی اور پوری طاقت سے عرفان کو اس بیلٹ سے مارنا شروع کر دیا۔

عرفان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے خود کو پڑھنے والی اس مار سے بچائے یا اپنی بند ہوتی سانس کی پرواہ کرے۔

اس کی چیخیں بھی اس شاپر میں دب چکی تھیں۔کچھ دیر تک وہ شخص انتہائی وحشیانہ طریقے سے عرفان کو اپنی بیلٹ سے مارتا رہا اور جب عرفان کا سانس بالکل بند ہونے کے در پر آ گیا تو اس نے عرفان کے ہاتھ کھولے اور وہاں سے چلا گیا۔

افسوس کی بات تو یہ تھی کہ ابھی عرفان کا وقت نہیں آیا تھا ورنہ آج وہ اسے زندہ چھوڑ کر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

اپنے ہاتھ کھلتے ہی عرفان نے وہ شاپر نوچ کر اپنے چہرے سے اتارا اور زور زور سے سانس لینے لگا۔ہڑبڑا کر اس نے اردگرد دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔

"کون تھا۔۔۔کس نے مارا مجھے؟"

اس نے سہم کر اردگرد دیکھا لیکن وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کرنے کی جرآت کون کر سکتا تھا۔

کہیں ایمان تو۔۔۔۔نہیں نہیں ایمان کیسے ہو سکتی تھی اس میں نہ تو اتنی طاقت تھی اور نہ ہی اتنی جرت۔۔۔تو پھر کون تھا جو پل بھر میں عرفان کا برا حال کر چکا تھا؟اس سوال کا عرفان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

جنت جو چھٹی ہوتے ہی کالج سے باہر آئی تھی سامنے ہی اپنی کالی گاڑی کے پاس کھڑے سالار کو دیکھ کر اسکا منہ بن گیا تھا۔

دو دن ہو گئے تھے نہ تو سالار اس سے ملنے آیا تھا اور نہ ہی اس سے کوئی بات کی تھی اور اب جنت سخت ناراض تھی اس سے۔

"اہو اہو۔۔۔۔ہائے۔۔۔"

سالار نے اس کے پاس آ کر کہا لیکن جنت منہ پھلا کر کھڑی تھی۔

"ناراض ہے میری دوست مجھ سے۔۔۔؟"

سالار نے پوچھا لیکن جنت نے ابھی بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

"چلو ایسا ہے تو یہ چاکلیٹ یہاں کھڑی کسی اور لڑکی کو دے دیتا ہوں ٹھیک ہے نا؟"

سالار نے ایک بڑی سی چاکلیٹ سامنے کر کے کہا تو جنت نے جھپٹنے والے انداز سے اس سے وہ چاکلیٹ چھینی اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔

"آج تو لگتا ہے کہ کوئی کافی زیادہ غصے میں ہے۔۔۔"

سالار نے اسکے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ ان دونوں کے گاڑی میں بیٹھتے ہی جمال نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

"سالار ملک بات نہ کریں آپ مجھ سے ایک تو دو دو دن تک آپ چہرہ نہیں دیکھاتے اور پھر جب آئے ہی آئے تو آپ کے ساتھ آنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑا مجھے بابا سے کہ میری ایکسٹرا کلاس ہے پتہ بھی ہے آپ کو کہ کتنا برا لگا مجھے۔۔۔۔"

جنت نے منہ بنا کر کہا تو سالار مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

"اچھا تو اب مجھے میری غلطی کی کیا سزا ملے گی آفٹر آل بیسٹ فرینڈ ناراض ہے میری۔۔۔۔"

"او ہیلو کس نے کہا کہ میں آپ کی بیسٹ فرینڈ ہوں میں صرف فرینڈ ہوں آپ کی بیسٹ فرینڈ میں صرف معراج کی ہوں۔۔۔۔"

جنت نے اترا کر کہا جبکہ اس کے منہ سے ہی معراج کا نام سن کر سالار کے تن بدن میں آگ سی لگی تھی۔اچانک ہی اس نے جنت کا چہرہ تھام کر اپنی طرف کیا۔

"کہا تھا نا جنت کہ میری اہمیت تمہاری زندگی میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن تم۔۔۔۔۔معراج تمہارا کزن ہونے کے سوا کچھ نہیں میں تمہارا سب کچھ ہوں تمہارا بیسٹ فرینڈ،پارٹنر،ساتھی،سب کچھ میں ہوں۔۔۔"

جنت اسکی آنکھوں میں موجود جنون کو دیکھ کر سہم گئی تھی۔

"ڈرائیں گے تو فرینڈ بھی نہیں رہوں گی آپ کی۔۔۔۔"

جنت نے نم آنکھوں سے کہا تو فوراً سالار نے اسے چھوڑا اور غصہ کم کرنے کے لیے اپنے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا۔

"اچھا سوری یار آئندہ ڈراؤں گا بھی نہیں اور تم سے دور بھی نہیں رہوں گا پکا وعدہ۔۔۔"

سالار نے اپنا ہاتھ سامنے کر کے کہا تو کچھ دیر سوچنے کے بعد جنت نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔تبھی وہ لوگ سالار کے گھر پہنچ گئے تو جنت بھاگ کر اپنے سونو کے پاس گئی اور اسے باہوں میں اٹھا لیا۔

سالار جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا موبائل بجنے کی آواز پر ہوش میں آیا۔موبائل پر حمنہ کی کال دیکھ کر اسکی مسکراہٹ گہری ہو چکی تھی۔

"اسلام و علیکم مما کیسی ہیں آپ؟"

ویڈیو کال پک کرتے ہی سالار سامنے بیٹھی حمنہ کو دیکھ کر مسکرایا۔

"میں ٹھیک ہوں میری جان تم کیسے ہو؟"

"میں بلکل بلکہ ابھی تو کچھ زیادہ ہی ٹھیک ہوں۔۔۔کسی سے ملاؤں آپ کو؟"

سالار اتنا کہہ کر جنت کے پاس آیا جو  صوفے پر بیٹھے سونو کو گود میں لیے اس سے لاڈ کر رہی تھی۔

"یہ ہے میری پیاری سی فرینڈ جنت اور جنت یہ ہیں اس دنیا کی سب سے پیاری لیڈی، میری مما۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں اس نے جلدی سے سونو کو چھوڑا اور گڑبڑا کر حمنہ کو دیکھنے لگی۔

"ماشاءاللہ بیٹا بہت پیاری ہو تم بلکل اپنی ماں جیسی معصوم سی گڑیا۔۔۔"

حمنہ نے اسے دیکھ کر نم آنکھوں سے کہا جبکہ جنت کی سنہری آنکھیں اپنی ماں کے ذکر پر بڑی ہو چکی تھیں۔

"آپ جانتی ہیں میری مما کو؟" 

"ہاں ناں وہ میری۔۔۔۔دوست تھی۔۔۔۔"

حمنہ نے کچھ سوچ کر افسردگی سے کہا۔کتنا تڑپتی تھی وہ اپنی بہنوں کی بس ایک جھلک دیکھنے کے لیے۔

"تو پھر آپ اپنا نام بتائیں نا میں بتاؤں گی مما کو وہ بہت خوش ہو جائیں گی۔۔۔"

حمنہ نے آنسو پونچھ کر اس معصوم سی گڑیا کو دیکھا۔

"نہیں میری جان فکر مت کرو اللہ نے چاہا تو بہت جلد آ کر میں خود اس سے ملوں گی ان شاءاللہ۔"

اسکے بات جنت کافی دیر حمنہ سے باتیں کرتی رہی تھی اور سالار مسکرا کر ان دونوں کو دیکھتا رہا تھا۔

"آپ کی مما بہت اچھی اور پیاری ہیں بلکل میری مما کی طرح۔۔۔"

کال بند ہونے پر جنت نے خوشی سے کہا۔

"یہ تو ہے جنت۔۔۔اچھا یہ سب چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ میں تمہارا بیسٹ فرینڈ ہوں نا۔۔۔"

سالا کی بات پر جنت کو شرارت سوجھی اور اس نے پھر سے انکار میں سر ہلایا۔

"نو میرا بیسٹ فرینڈ صرف میرا شارٹ سرکٹ ہے اور کوئی نہیں۔"

اس کی شرارت کو سمجھتا اب کی بار سالار بھی مسکرا دیا ۔

"بس کچھ وقت جنت پھر میں تمہاری زندگی میں وہ مقام حاصل کروں گا کہ مجھ سے بڑھ کر تمہارے لیے اس دنیا میں کوئی نہیں ہو گا کوئی بھی نہیں۔۔۔"

سالار نے اسکا ناک انگلی سے چھو کر کہا اور وہاں سے اٹھ گیا جبکہ جنت اسکی بات کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

مرجان اپنی بہن گل کے ساتھ وانیا کے پاس ملٹی کلر کا ایک انتہائی خوبصورت فراک لے کر آئی تھی۔

"یہ لو وانیا اور یہ پہن کر تیار ہو جاؤ؟"

مرجان نے فراک اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟"

"کیونکہ ہمارے سردار کا نکاح بس یونہی ہو گیا اس لیے سب گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ آج اس نکاح کا جشن ہو یہ سمجھ لو کہ تمہارا ولیمہ ہے آج۔۔۔"

مرجان کی بات پر وانیا مزید دکھی ہو چکی تھی۔

"کیسا جشن مرجان جسکی شادی ہے جب وہی خوش نہیں تو کیسی خوشی۔۔۔"

وانیا نے نم آنکھوں سے کہا تو مرجان اسکے پاس بیٹھ گئی۔

"تمہیں پتہ ہے وانیا ہمارا امی کہتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتا ہے انسان جسکا نصیب ہو اسی کے پاس آ جاتا ہے ہو سکتا ہے لالہ تمہارا  اور تم لالہ کا نصیب ہو ۔۔۔۔"

وانیا نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں مانتی میں نصیب کے اس کھیل کو مرجان مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔میرے بابا فوج میں ہیں مرجان تو میں ایک قاتل کا مقدر کیسے ہو سکتی ہوں"

مرجان نے بے بسی سے وانیا کو دیکھا جو اب رو رہی تھی۔

"اللہ پر تو بھروسہ ہے نا بس اس پر بھروسہ رکھو انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

وانیا نے ہاں میں سر ہلایا۔

"مجھے پورا بھروسہ ہے اپنے اللہ پر وہ مجھے ضرور اس قید سے نکال دیں گے۔"

مرجان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

"تو چلو پھر یہ پہن کر تیار ہو جاؤ نا۔۔۔"

مرجان نے اسکی طرف وہ کھلا سا فراک کیا جسے وانیا نے پکڑ کر خود سے دور پھینک دیا۔

"نہیں پہنوں گی میں یہ نہ ہی یہاں سے باہر جاؤں گی۔۔۔"

مرجان نے گہرا سانس لے کر اس ضدی لڑکی کو دیکھا۔

"ایسا مت کرو وانیا ورنہ لالہ ہم دونوں کا یہاں آنا بند کر دے گا انہوں نے کہا ہے کہ اگر اب تم نے ہماری بات نہیں مانا تو کسی کو بھی یہاں آنے نہیں دے گا۔۔۔"

مرجان کے افسوس سے کہنے پر وانیا بھی دکھی ہو چکی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اپنی انا کی وجہ سے اتنی اچھی دوستیں کھودے۔

اسی لیے اس نے اپنے آنسو پونچھے کر وہ خوبصورت سا فراک مرجان سے لیا اور ساتھ والے کمرے میں جا کر پہن آئی۔۔۔

مرجان اور گل نے دل ہی دل میں اس لڑکی کی نظر اتاری۔پھر مرجان نے ملٹی کلر کی بڑی سی ماتھا پٹی اسکے ماتھے پر سجائی اور چاروں طرف سے بھاری کام سے سجا وہ دوپٹہ اسکے سر پر دے دیا۔

ہونٹوں کو لال رنگ اور آنکھوں کو کاجل سے سجانے کے بعد مرجان نے روایتی پانچ کالے نقطے اسکی ٹھوڈی پر بنائے اور تین تین اسکی آنکھوں کے پاس بنا ڈالے۔

"افف آج تو ہمارے لالہ دل ہی ہار بیٹھیں گے۔۔۔"

مرجان نے شرارت سے وانیا کا سجا سنوار روپ دیکھ کر کہا اور وانیا خود بھی اپنے آپ کو حیرت سے آئنے میں دیکھ رہی تھی جیسے وہاں وہ نہیں کوئی بہت ہی حسین سی پختون شہزادی ہو۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر گل اور مرجان نے دروازے میں سے آتے راگا کو دیکھا تو خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں۔جبکہ راگا اپنی بیوی پر نظر پڑتے ہی پتھر کا ہو چکا تھا۔

"اوئے افغان جلیبی اتنا حسین لگو جتنی شدت بعد میں تم سے سہی جائے یہ نہ ہو کہ اپنی افغان جلیبی کو آج سچ میں کھا جائے یہ جن۔۔۔"

راگا کی پر تپش نگاہوں اور معنی خیز باتوں پر وانیا خود میں ہی سمٹی لیکن جب اسکو خود کے قریب آتے دیکھا تو سہم کر دیوار سے جا لگی۔

"دد۔۔۔۔دور رہیں مجھ سے آپ۔۔۔۔"

آج وانیہ کو اسکی آنکھیں بہت سے پیغام دے رہی تھیں اسی لیے وہ بہت زیادہ گھبرا چکی تھی لیکن راگا نے اسکی گھبراہٹ کی پروا کب کی تھی۔

ابھی بھی اپنے دل کی سنتا اور اسکی نازک کلائی تھام کر اسے اپنے قریب کر چکا تھا۔

"دوری اور اس حسن سے ناممکن بات ہے اب سزا بھگتو اتنا حسین لگنے کا۔۔۔۔"

راگا نے اتنا کہا اور اسے مزید مزاحمت کا موقع دیے بغیر بہت حق سے اس کے نازک ہونٹوں پر جھکا اپنی تشنگی مٹانے لگا۔

جب بہت دیر تک وہ دور نہ ہوا تو وانیا اسکی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی لیکن مقابل کو پروا ہی کہاں تھی وہ تو بس اپنے دل کی سنتا اسے بے بس کر چکا تھا۔

وانیا اب اسکے سینے پر مکے برسا کر اسے خود سے دور کرنا چاہ رہی تھی۔

دور ہو کر راگا نے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے پر آنے جانے والے رنگوں کو دیکھا جو اسے مزید حسین بنا گئے تھے۔

"ته زما مینه یې(تم میری محبت ہو)

تاسو زما جنون یاست(تم میرا جنون ہو)

تاسو زما تیاره نړۍ ځلیږئ(تم میری تاریک زندگی کی روشنی ہو)

تاسو زما یاست(تم میری ہو)

تاسو یوازې زما یاست(تم صرف میری ہو)"

راگا نے اسکے کان میں سرگوشی کی تو وانیا کانپ کر رہ گئی۔اتنی پشتو تو وہ بھی سمجھ سکتی تھی کہ راگا اسے اپنی محبت،اپنا جنون اور ہر لحاظ سے صرف اپنا کہہ چکا تھا۔

دروازہ کھٹکنے کی آواز پر وانیا گھبرا کر اس جنونی سے دور ہوئی تو راگا بھی مسکرا کر دروازے کی جانب گیا اور ان لڑکیوں کو اندر آنے کا کہا جو مسکراتے ہوئے وانیہ کو عورتوں کی محفل میں لے جا چکی تھیں۔

                      ❤️❤️❤️❤️

ان دونوں کو بائے روڈ شگار پہنچتے ہوئے تقریباً دو دن لگ گئے تھے۔انس نے ایک ہوٹل میں ان کے لیے کمرے لیے تھے۔

"اب ہم یہاں آ تو گئے انس لیکن ہم اس راگا کو کہاں ڈھونڈیں گے۔۔۔؟"

"میں بھی یہی سوچ رہا تھا ہانیہ کیونکہ میں یہاں کسی کو جانتا بھی نہیں۔۔۔"

ہانیہ یہ جان کر پریشان ہوئی تھی اور اس کو اس طرح سے اضطراب میں دیکھ کر انس کو کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔انس اسکے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

"فکر مت کرو ہانیہ میں کچھ نہ کچھ ضرور کر لوں گا کوئی نہ کوئی شخص ایسا ضرور ملے گا جو ہمیں راستہ دیکھائے گا۔۔۔"

ہانیہ نے ہلکا سا مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

"اوکے اب تم یہیں رکو میں جاتا ہوں اور جو پتہ لگا سکوں گا لگا لوں گا۔۔۔"

"میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔۔۔"

ہانیہ نے فورا کہا۔

"نہیں ہانیہ تم یہیں رکو گی اور میں کوئی سراغ ڈھونڈنے جاؤں گا پھر جب مجھے کوئی بھی سراغ ملے گا تو تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔"

اسکی بات سمجھ کر ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔انس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور باہر کی جانب چل دیا۔اسکے جاتے ہی ہانیہ کا دھیان اسکے والٹ پر پڑا جو وہ یہیں بھول گیا تھا۔

"انس والٹ۔۔۔"

ہانیہ نے والٹ تھام کر پیچھے جانا چاہا لیکن والٹ کھولتے ہی اسے دو انکشافات کا اندازہ ہوا تھا۔ایک کہ انس آئی بی کا سب انسپکٹر تھا اور دو کہ انس کے والٹ میں ہانیہ کی تصویر تھی وہ بھی تب کی جب وہ صرف پندرہ سال کی تھی۔

ہانیہ اس تصویر کو دیکھ کر جم سی گئی تھی اس سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ تب اس کے جذبات کی دھجیاں اڑانے کے بعد اسکی تصویر اپنے پاس رکھنے کا کیا مقصد تھا۔

"ہاں ہانیہ کیا ہوا؟"

انس کی آواز پر ہانیہ نے فوراً والٹ بند کر کے خود پر قابو کیا تھا۔

"آپ کا والٹ آپ بھول گئے تھے۔۔۔"

ہانیہ نے والٹ سامنے کرتے ہوئے کہا۔

"اوہ تھینکس یار۔۔۔"

انس نے والٹ پکڑ کر مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا لیکن ہانیہ بہت دیر کشمکش میں مبتلا وہیں کھڑی رہی تھی۔

                    ❤️❤️❤️❤️

وانیا کافی دیر سے سب عورتوں کے ساتھ اس کمرے میں موجود تھی جو اس جشن کی وجہ سے سج دھج کر کافی خوش نظر آ رہی تھیں۔

"راشه او وګوره راگا د نورو نارینه وو سره نڅا کوي"(آؤ اور دیکھو راگا باقی آدمیوں کے ساتھ ناچ رہا ہے۔۔)

ایک لڑکی کے ہنس کر آواز لگانے پر باقی سب مسکراتے ہوئے کھڑکی کی جانب گئیں تاکہ سب آدمیوں کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھ سکیں۔وانیہ نے ساتھ موجود کھڑکی میں سے باہر دیکھا جہاں راگا شلوار قمیض پہنے باقی آدمیوں کے ساتھ روایتی میوزک پر ڈانس کر رہا تھا۔

وہ پٹھانوں کا روایتی ڈانس اتن تھا اور وانیا کی نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی صرف راگا پر تھیں۔وہ ہنستے مسکراتے خوبرو ہی اتنا لگ رہا تھا۔

اچانک سے کسی نے وانیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ حیرت سے مرجان کو دیکھنے لگی جو اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کر رہی تھی.

وانیہ بہت خاموشی سے اس کے ساتھ ایک دوسرے کمرے میں آئی جہاں  مرجان کی ماں اور اس کی بہن گل بھی موجود تھیں۔مرجان کی ماں پشتو میں اس سے کچھ کہہ رہی تھیں  جو ان کے تیزی سے بولنے کی وجہ سے وانیہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

"اماں کہہ رہی ہیں کہ ہمارا بھائی باہر وادی کے پاس تمہارا انتظار کر رہا ہے وہ تمہیں سکردو میں موجود فوج کے کیمپ میں چھوڑ آئے گا۔۔۔تم جلدی سے یہ پہنو اور چپکے سے نکل جاؤ وانیا سب آدمی جشن میں مصروف ہیں۔۔۔۔"

مرجان نے جلدی سے کہتے ہوئے ٹوپی برقع وانیا پر ڈالتے ہوئے کہا جس سے وہ مکمل طور پر چھپ گئی تھی۔

"لیکن آپ لوگ میری اتنی مدد کیوں کر رہے ہیں خاص طور پر تم مرجان تم پھر سے خطرے میں ۔۔۔"

"تمہاری مدد ہم نہیں وانیا کوئی اور کر رہا ہے ۔۔۔۔"

"کون؟"

مرجان کی بات پر وانیا نے بے چینی سے پوچھا۔

"وہ ہم تم کو نہیں بتا سکتا جلدی چلو ماڑا وقت ضائع مت کرو۔۔۔۔"

مرجان نے اسے ایک پیچھے کی جانب موجود دروازے کی طرف لے کر جاتے ہوئے کہا۔وانیا چپکے سے وہاں سے باہر نکلی اور خاموشی سے اس طرف چلتی گئی جہاں اسے مرجان نے جانے کا کہا تھا۔

تھوڑی دور جاتے ہی اسے مرجان کا سولہ سالہ بھائی نظر آیا۔

"جلدی چلو باجی ورنہ کوئی آ جائے گا۔۔۔۔"

اس لڑکے نے جلدی سے کہا تو وانیا خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگی حالانکہ اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔وہ بس اتنا جانتی تھی کہ آج وہ یہاں سے آزاد ہو جانے والی تھی۔

"دلاور خان کون ہے یہ عورت اور کہاں لے جا رہا ہے تم اسے؟"

اپنے پیچھے کال کی آواز سن کر وہ دونوں گھبرا کر رکے۔

"لالہ یہ وہ۔۔۔۔"

دلاور نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی وانیا سامنے نظر آنے والے راستے کی طرف دوڑ لگا چکی تھی۔

"پکڑو اسے۔۔۔۔"

کال اپنے ساتھ موجودہ آدمیوں کو کہا اور خود بھی وانیا کی طرف بھاگنے لگا۔وہ جتنی تیز ہو سکتا تھا بھاگ رہی تھی لیکن ان پہاڑوں کے اتر چڑھاؤ پر بھاگنا اس کے لیے بے حد مشکل ثابت ہو رہا تھا۔

اسی مشکل کے باعث اچانک وہ لڑکھڑا کر گری اور اس کے گرتے ہی کال نے اس کے قریب آ کر اسکا برقع کھینچ کر اتار دیا۔

"واہ اتنا سب ہو جانے کے بعد بھی یہ کرنے کی جرآت باقی ہے تجھ میں۔۔۔۔اس کے بعد نہیں رہے گی۔"

کال نے آگے بڑھ کر وانیا کا ہاتھ بہت سختی سے پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے ہم اپنے ساتھ لے جانے لگا۔وانیا اس کی گرفت میں مچلتے ہوئے رو رہی تھی لیکن یہاں پروا کسے تھی۔

"یہ رہا تمہارا کھلونا راگا،جو تمہاری قید سے بھاگ رہا تھا۔۔۔۔فوجی کی اس اولاد کو لگا ہمارا قبیلے سے بھاگنا آسان ہے۔"

راگا کے آدمی کال نے ایک جھٹکے سے وانیا کا نازک وجود راگا کے قدموں میں پھینکا۔

راگا کی نظر آنسوؤں سے بھری کانچ سی آنکھوں سے ہوتی ہوئی اسکی کلائی پر پڑی جہاں اس آدمی کی گرفت کے سرخ نشان تھے۔

"اس کو تم پکڑ کے لایا؟"

راگا نے اسکی کلائی کو نرمی سے سہلاتے ہوئے کال سے پوچھا۔

"ہاں راگا۔۔۔۔"

"او تم تو کمال ہے مانا،تمہیں تو انعام ملنا چاہیے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا وانیا کو چھوڑ کر مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اور کال کا دائیاں ہاتھ تھام لیا لیکن اگلے ہی لمحے کال کی دردناک چیخ اس وادی میں گونجی تھی۔

راگا کے ہاتھ میں خون سے سنا چاقو اور کال کا کٹا ہاتھ زمین پر پڑا دیکھ کر وانیہ نے ایک چیخ کے ساتھ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ 

"کہا تھا نا اسے پھر سے چھوا تو کچھ چھونے کے قابل نہیں رہے گا اب اسکے بارے میں سوچا بھی نا تو اس ہاتھ کی جگہ تیرا دماغ زمین پر ہو گا ۔۔۔۔"

 راگا نے دانت پیس کر وحشت سے کہا اور کراہتے کال کو جھٹکے سے زمین پر پھینک کر باقی آدمیوں کی طرف مڑا۔

"یہ لڑکی راگا کا ملکیت ہے، جنون ہے یہ راگا کا اسکو چھونا تو دور کسی نے اسے نظر بھر دیکھا بھی تو راگا اسکا آنکھیں نوچ لے گا۔۔۔۔۔هغه زما ده۔"(وہ میری ہے)

اتنا چلا کر راگا وانیا کے قریب آیا جو ہاتھوں میں چہرہ چھپائے خوف سے کانپتے وجود کے ساتھ رو رہی تھی۔

"سزا تو تمہارا بھی بنتا ہے میری افغان جلیبی۔۔۔۔تیار رہنا آج رات تمہاری سزا کی ہے۔"

اپنے کان کے قریب راگا کی سانسوں کی گرمائش محسوس کر کے وہ معصوم لڑکی خوف سے کانپ اٹھی۔

"راگا یہ کیا کیا تو نے کال کے ساتھ صرف اس لڑکی کو پکڑ کر لایا ہی تو تھا نا وہ اور تو اسے۔۔۔"

ویرہ پریشانی سے راگا کے پاس آیا اور اس سے سوال کرنے لگا لیکن راگا کی سیاہ آنکھوں کی آگ دیکھ کر خاموش ہو گیا۔

"یہ سزا میں نے اسے وانیا کو پکڑ کر لانے کے لیے نہیں اس پر غلیظ نگاہ رکھنے کی وجہ سے دیا۔مر جائے میری بلا سے اس جیسا گھٹیا کوگ نہیں چاہیے راگا کو۔۔۔"

راگا اتنا کہہ کر چل دیا تو ویرہ اس کے پیچھے آیا۔

"لیکن پھر بھی راگا اتنی سخت سزا۔۔"

"اگر اس نے وانیا کی جگہ مرجان کو چھوا ہوتا تو کیا کرتا تم؟"

راگا کے سوال پر ویرہ کی رگیں غصے سے تن گئی تھیں۔

"زندہ زمین میں گاڑ دیتا اسے۔۔۔"

ویرہ نے دانت پیس کر کہا تو راگا مسکرا دیا۔

"اسی طرح راگا کو بھی نہیں پسند ماڑا کہ اس کی ملکیت کو کوئی ہاتھ بھی لگائے۔۔۔۔کال اسے پکڑ کر ضرور لایا لیکن یہ سزا تو میں اسے اسی دن دینا چاہتا تھا جس دن اس نے اسے غلط نیت سے چھوا تھا۔"

ویرہ نے اسکی جنونیت پر گہرا سانس لیا تھا۔

"راگا اس لڑکی کو اپنا جنون مت بناؤ وہ تمہاری کمزوری بن جائے گی تو ہمارا مقصد۔۔۔"

"فکر مت کر ویرہ ہمارے مقصد کے راستے میں کوئی بھی نہیں آ سکتا ہم اس ملک کی سب سے بڑی دہشت بن کر رہیں گے۔۔"

ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"سلطان کا آدمی آیا تھا اسے میں نے منع کردیا کہ ہم اس کا کام نہیں کریں گے تو اب ہم کیا کریں گے راگا۔۔۔؟"

ویرہ کے سوال پر راگا مسکرا دیا۔

"ہم اس کا الٹ کریں گے ماڑا سلطان کسی اور کے زریعے کل اس سٹیشن پر بم دھماکہ کروائے گا اور ہم وہ دھماکہ ہونے سے روک دے گا۔۔۔"

"اس سے تو سلطان ہمارا دشمن۔۔۔"

"یہی چاہتا ہوں میں کہ وہ ہمارا دشمن ہو جائے ،راگا کو سلطان کے مقام پر پہنچنا ہے ویرہ،سب سے بڑی دہشت بننا ہے اور اس کے لئے سلطان کو راستے سے ہٹانا پڑے گا۔۔۔"

راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو ویرہ اسکا مقصد سمجھ کر مسکرا دیا۔

"بہت کمینی چیز ہو تم یعنی جس سلطان نے ہمیں عام سے غنڈوں سے یہ طاقت بنایا اب اسی کو ہرا کر ہم اسکا مقام حاصل کریں گے۔۔۔۔"

راگا کے چہرے پر مغرور مسکراہٹ آئی تھی۔

"میں اپنے آدمیوں کو بھیجوں گا اس کام کے لیے۔"

"نہیں ویرہ وہاں میں اور تو جائیں گے تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔"

راگا کی بات پر ویرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"لیکن راگا اب آرمی اور لوگ تمہیں پہچانتے ہیں۔"

"فکر مت کر ماڑا وہ راگا ہی کیا جو پکڑا جائے۔۔۔۔ویسے پکڑا تو راگا گیا تھا لیکن ایسا عید بار بار نہیں ہوتا۔۔۔"

راگا نے ہنس کر کہا تو ویرہ بھی مسکرا دیا۔

"تیار رہنا کل۔۔۔"

ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے اپنے گھر کی جانب چل دیا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

ہانیہ انس کے جانے کے بعد سے اپنے کمرے کے باہر بالکنی میں کھڑی خوبصورت پہاڑوں کو دیکھتی جا رہی تھی۔اس کا دماغ ابھی بھی انس کے والٹ میں موجود اس تصویر پر تھا۔

تو کیا تب انس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ ہانیہ کے لئے کوئی جذبات نہیں رکھتا۔کیا وہ بھی اس سے محبت کرتا تھا اگر کرتا تھا تو اسے چھوڑ کر کیوں گیا۔۔۔کیوں توڑا اس نازک عمر میں اسکا معصوم دل؟

"ہانیہ کہاں ہو؟"

انس کی آواز پر ہانیہ جلدی سے کمرے میں واپس آئی۔

"گڈ نیوز ہے ہانیہ ایک آدمی کا پتہ چلا ہے مجھے ویسے تو وہ راگا کا دشمن ہے لیکن دشمن کا دشمن بھی دوست ہی ہوتا ہے ہو سکتا ہے وہ ہمیں راگا تک پہنچا دے۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔

"کون ہے وہ اور کہاں ملے گا ہمیں؟"

"زرخان نام ہے اسکا پہلے تو وہ اسی شہر میں رہتا تھا لیکن پھر راگا نے اس کے گھر میں آگ لگا کر اس کے بیوی بچوں کو جلا کر مار دیا بس تب سے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے اور بس راگا کی جان لینا چاہتا ہے جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے ایک گینگ بھی ہے اس کا۔"

انس کی بات پر ہانیہ کافی پریشان ہوئی تھی۔

"انس اس قدر خطرناک آدمی کے پاس ہے میری معصوم بہن نہ جانے کیا حال کیا ہو گا اس نے وانیا کا۔"

اس کی کانچ سی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر پریشانی دیکھ کر انس اس کے قریب آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"تم فکر مت کرو ہانیہ ہم بہت جلد وانیا کو اسکی قید سے آزاد کروا دیں گے۔میں نے سوچا ہے کہ اس آدمی سے ہم سودا کریں گے کہ وہ وانیا کو بچانے میں ہماری مدد کرے بدلے میں ہم راگا کو پکڑنے میں اسکی مدد کریں گے۔"

ہانیہ نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلا دیا۔

"چلو اب ہمیں اس کے پاس چلنا چاہیے وقت ضائع نہیں  کرنا۔۔۔"

اتنا کہہ کر انس اپنے بیگ کے پاس آیا اور چیزیں سیٹ کرنے لگا جبکہ ہانیہ بس اسے گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"انس آپ سے ایک بات پوچھوں؟"

"ہاں پوچھو۔۔۔"

انس نے مڑے بغیر کہا۔

"آپ میری مدد کیوں کر رہے ہیں؟"

ہانیہ کے سوال پر انس ٹھٹک کر رک گیا اب وہ اسے کیا جواب دیتا کہ وہ اسکی ہر مشکل کو،ہر پریشانی کو اپنی مشکل سمجھتا تھا۔اس کے چہرے پر مسکان لانے کے لیے انس راجپوت کچھ بھی کر سکتا تھا،مر بھی سکتا تھا۔

"کیونکہ وانیا اس درندے کے پاس رہنے کے لیے بہت زیادہ معصوم ہے میں نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کچھ ہو۔۔۔۔"

انس نے مسکرا کر کہا تو ہانیہ بھی ہلکا سا مسکرا دی۔لیکن وہ تو یہ سننا چاہتی تھی کہ سامنے موجود شخص یہ سب صرف اور صرف اس کی محبت میں کر رہا تھا۔

"چلو اب تیار ہو جاؤ زیادہ وقت نہیں ہمارے پاس۔۔۔"

از کی آواز پر ہانیہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور ہاں میں سر ہلا کر جلدی سے پیکنگ کرنے لگی۔اسے یہ بھولنا نہیں تھا کہ اس کی منزل صرف اور صرف وانیا کو ڈھونڈنا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

معراج آج پھر سے خادم شفیق کے گھر آیا تھا۔

"کیسے ہو برخوردار۔۔۔؟"

خادم معراج کو دیکھ کر ہی خوش ہو چکا تھا اور مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔

"مم۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں انکل۔۔۔۔ااا ایمان کہاں ہے؟"

"وہ اپنے کمرے میں ہو گی چلو چلتے ہیں اسی کے پاس میں بھی اسے دیکھ لوں گا کہ کیسی ہے وہ۔۔۔۔"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے ساتھ ایمان کے کمرے میں آ گیا۔ایمان فرش پر بیٹھی شائید کچھ سوچ رہی تھی۔

"ایمان بیٹا دیکھو کون آیا ہے۔۔۔"

خادم کی آواز پر ایمان جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور معراج کو دیکھا۔

"ہہ۔۔۔۔ہائے۔۔۔"

معراج نے مسکرا کر کہا اور پھر اس کی نظر ایمان کے گال پر پڑی جہاں ایک سرخ نشان تھا۔

"تتت۔۔۔۔تمہاری چیک پپپ۔۔۔۔پر کیا ہوا؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے سہم کر اپنے باپ کو دیکھا جو خود بھی اسکے گال پر غور کر رہا تھا۔

"ارے اس کی فکر مت کرو تم معراج جب ایمان کو دورے پڑتے ہیں نا تو سب کو مارتی ہے جیسے اس دن تمہیں مارا تھا اور اگر اسے کوئی نہ ملے تو اپنا چہرہ ہی نوچنے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔"

خادم کا لہجہ کوفت سے بھرا پڑا تھا۔

"یہی ہوا تھا ناں ایمان؟"

خادم کے پوچھنے پر ایمان نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔

"اچھا میں چلتا ہوں تم دونوں باتیں کرو ۔۔۔"

خادم اتنا کہہ کر چلا گیا اور معراج ایمان کے پاس آیا تھا۔

"تم پھر آ گئے۔۔۔؟"

ایمان نے پھر سے زمین پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"دد۔۔۔۔دوست ہوں تمہارا تت۔۔۔تو آونگا ہی نا۔"

معراج نے اس کے پاس بیٹھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔

"میں نے بتایا تھا نا کہ مونسٹر میرے دوستوں کو مار دیتا ہے پھر بھی تم میرے دوست بننا چاہتے ہو۔۔۔"

معراج اسکی بات پر گھبرایا۔

"تت۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔ددد۔۔۔۔دوست بن جائیں گے تو دونوں ممم۔۔۔۔مل کر مونسٹر سے لڑیں گے۔۔۔"

معراج کی عام سی بات پر نہ جانے ایمان کو کیا مزاحیہ لگا کہ وہ قہقے لگا کر ہنسنا شروع ہوگئی۔

"تم لڑ لو گے مونسٹر سے بہت بڑا ہے وہ اور بہت زور سے مارتا ہے جب تمہیں مار پڑے گی تو پتہ چلے گا۔۔۔"

ایمان کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ اب افسردگی آ چکی تھی۔

"جج۔۔۔۔جب میں تمہارا دوست ببب۔۔۔۔بنوں گا نا تو تمہیں کککک۔۔۔۔کوئی نہیں مارے گا دیکھنا تم۔۔۔"

اپنی سبز آنکھوں پر چشمہ درست کرتے ہوئے معراج نے اترا کر کہا۔

"سچ میں؟"

ایمان نے بہت زیادہ امید سے پوچھا تھا۔

"ہاں سچ ممم ۔۔۔۔۔میں وعدہ اب بببب۔۔۔۔بنو گی میری دوست۔۔۔۔"

معراج نے ہاتھ آگے کر کے پوچھا تو ایمان اس کے ہاتھ کو گھورتی رہی۔وہ ایسی لڑکی تھی جو دوسروں کو چھونے سے بھی ڈرتی تھی لیکن نہ جانے معراج میں ایسی کیا بات تھی کے ایمان میں اپنا ہاتھ اسکو پکڑا دیا۔

"ٹھیک ہے اب ہم دوست ہیں۔۔۔۔ملنگ۔۔۔"

ایمان جو محبتوں کی ترسی تھی ایک دوست ملنے پر ہی بہت خوش ہو چکی تھی۔

"اااا۔۔۔۔اگر میں ملنگ ہوں تو تتتت۔۔۔۔تم ملنگی ہو۔۔۔۔"

معراج کی بات پر اس اب ایمان قہقہ لگا کر ہنس دی۔

"ملنگی کیا ہوتا ہے؟"

"تت۔۔۔۔تم۔۔۔"

معراج کے عام سے جواب پر ایمان مزید ہنسنے لگی تھی اور اسے یوں ہنستا دیکھ معراج بھی مسکرا دیا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

رات ہوتے ہی راگا کمرے میں واپس آیا تو وانیہ جو اسکی سزا کے ڈر سے پہلے سے ہی بستر میں گھسی ہوئی تھی اسکے اندر آتے ہی سونے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے لگی۔اسے دیکھ کر راگا کی ہنسی نکلی تھی۔

"فکر مت کرو افغان جلیبی آج تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے۔سزا سے بچ گئی ہو تم ابھی سونے کا اتنا برا ناٹک کرنا بند کرو تمہارے ہاتھ باقاعدہ کانپ رہے ہیں۔"

راگا کے ایسا کہنے پر وانیہ نے فورا اپنے ساتھ کمبل کے اندر چھپا لیے۔

"ہاہاہا۔۔۔۔اف ماہ جبیں تمہاری یہ معصومیت جان لے لے گی اس جن کی۔۔۔۔فکر مت کرو جان وعدہ کرتا ہوں کہ سزا نہیں ملے گی تمہیں۔۔۔"

راگا کے لہجے میں سچائی محسوس کر کے وانیا اٹھ کر بیٹھ گئی۔

"آپ سچ میں مجھے پنش نہیں کریں گے۔۔۔۔؟"

جواب میں اچانک ہی راگا اسکے قریب آیا اور اسے اپنی گرفت میں لے کر بیڈ پر لیٹایا اور اسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر تکیے سے لگا دیے۔

"ابھی تک اپنے شوہر کو سمجھ نہیں پایا ماڑا تم۔۔۔خاموش شکاری ہے وہ کب وار کر جائے پتہ ہی نہیں لگتا۔" 

اتنا کہہ کر راگا نے اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھے تھے۔

"عماد۔۔۔"

وانیا نے گھبرا کر اسے پکارا تھا اور اس کے اس طرح سے پکارنے پر راگا مزید مدہوش ہوا تھا۔

"تو کیا بنا لوں تمہیں اپنا،جان راگا؟دے دوں تمہیں اس دنیا کی سب سے حسین سزا؟"

وانیا کا حلق اسکی بے باک باتوں پر خشک ہو چکا تھا۔

"ننن۔۔۔۔نہیں پلیز نہیں۔۔۔"

وانیا نے رونا شروع کر دیا تو راگا نے اسکی گردن سے اپنا چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔

"کیوں نہیں اپنانا چاہتی تم مجھے ہاں؟"

وانیا اسکو اپنے بہت قریب ہوتا دیکھ آنکھیں زور سے میچ گئی تھی۔

"مم۔۔۔۔میں اور آپ ایک نہیں ہو سکتے عماد۔۔۔میرے بابا آرمی میں ہیں اور آپ۔۔۔"

"اور میں ایک درندہ ،قاتل ہوں۔۔۔۔جہنم کا جن جو جنت کی اس پری کے قابل نہیں۔۔۔"

وانیا کے خوبصورت چہرے کو چھوتے ہوئے راگا نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"لیکن اب یہ پری میری ہے ماڑا اگر کوئی شہزادہ اسے بچانے آئے گا تو پھر سے ان قراقرم کے پہاڑوں میں مارا جائے گا۔۔۔"

راگا نے وحشت سے کہا اور اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنانے لگا۔اس کے لمس میں بہت جنون اور شدت تھی۔وانیا مچل رہی تھی لیکن راگا کو ہوش ہی کہاں تھا۔بس تھوڑی سی دیر میں راگا اسکی نازک جان عذاب میں ڈال چکا تھا۔اسکے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے کاٹ کر اس سے دور ہو کر لیٹ گیا۔

"اتنی سزا کافی ہے اس نازک جان کے لیے۔"

اسکے دور ہوتے ہی وانیا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور گہرے سانس لیتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ بہت دیر اسے دیکھتی رہی تھی۔

راگا سے زیادہ تو اسے اب خود سے ڈر لگتا تھا،اپنے دل سے ڈر لگتا تھا جو اسکی قربت میں مچلنے لگتا تھا،اپنی ان آنکھوں سے ڈر لگتا تھا جو پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھنا چاہتی تھیں۔

"عماد۔۔۔آپ سے کچھ پوچھوں۔۔۔؟"

"ہمم۔۔۔۔"

راگا نے آنکھیں موند کر ہلکے سے جواب دیا۔

"آپ کیوں لیتے ہیں لوگوں کی جان کیا مل جاتا ہے آپ کو معصوموں کو مار کے؟"

راگا نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔

"ایک بات یاد رکھنا افغان جلیبی کوئی بھی برا پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ہر بچہ اس دنیا میں معصوم ہی آتا ہے ایک کورے کاغذ کی مانند جس کورے کاغذ پر یہ دنیا اپنے ظلموں داستان لکھ کر اسے اچھا یا برا بننے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔"

وانیا کو نہ جانے کیوں اس کی آواز میں درد محسوس ہوا تھا۔اسی لیے کچھ دیر ہچکچاتے کے بعد اسکے قریب ہوئی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔

"تو کیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ کاش آپ ایسے نہ ہوتے کاش آپ اچھے ہوتے؟"

عماد اسکی معصومیت پر مسکرا دیا جو شائید اس میں سے اچھائی تلاش کرنا چاہ رہی تھی۔

"کیا چاہتا ہے تم افغان جلیبی؟"

عماد نے ٹھوڈی سے تھام کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا۔

"یہ کہ آپ اچھے ہو جائیں یہ سب چھوڑ دیں میرے ساتھ چلیں عماد میری دنیا میں راگا بن کر نہیں عماد بن کر۔۔۔"

راگا اسکی معصومیت پر مسکراتا اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ٹکا گیا۔

"بہت معصوم ہو جان عماد تم،بہت معصوم اور اس معصومیت کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا میں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

راگا کی بات کی گہرائی سمجھ کر وانیا کی پلکیں بھیگ گئی تھیں۔

"اس کا مطلب آپ مجھے کبھی نہیں جانے دیں گے؟"

وانیا نے بہت امید سے اس کی طرف دیکھا۔

"نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔"

وانیا کے آنسو راگا کی شرٹ میں جذب ہوئے۔بہت دیر تک وہ جاگ کر آنسو بہاتی رہی تھی اور راگا اپنے دل پر اسکے آنسوؤں کی ٹھنڈک محسوس کرتا رہا تھا۔اب یہ بات تو طے تھی وہ جتنا مرضی روتی راگا اسے خود سے دور نہیں کرنے والا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

کال کے ہاتھ پر ڈاکٹر کب سے پٹی کر کے جا چکا تھا۔پہلے تو وہ دوائیوں کے زیر اثر بےہوش رہا تھا لیکن اب جب سے ہوش آیا تھا تب سے اپنے بستر پر پڑا تکلیف سے کراہ رہا تھا۔

"راگا۔۔۔۔یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔"

کال نے تکلیف کی شدت ہر نفرت سے دانت پیستے ہوئے کہا۔

"اس ۔۔۔۔۔(گالی) کی خاطر تو نے اپنے ساتھی پر ظلم کیا۔۔۔تو پہلے والا راگا نہیں رہا اب۔۔۔"

کال نے اپنا ہاتھ دیکھا جس کی جگہ اب بس ایک پٹی تھی۔

"نہیں چھوڑوں گا راگا اب تجھے۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا تجھے بے بس کر کے تیری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی کا روم روم چھوؤں گا میں۔۔۔اور تو بس بے بسی سے دیکھتا رہ جائے گا راگا ۔۔۔۔"

کال نے دانت پیس کر کہا اور بازو میں اٹھنے والے درد پر کراہ کر رہ گیا۔

"نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔۔"

کال اپنے گھر کی تنہائی میں چلایا۔اس نے ٹھان لی تھی اب وہ اس راگا کا زوال بن کر رہے گا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

سکردو تو وہ دونوں تقریبا دو گھنٹے میں پہنچ گئے تھے لیکن زیادہ وقت انہیں زرخان کے گھر پہنچنے میں لگا تھا۔زرخان کا گھر پہاڑوں میں کافی سنسان جگہ پر تھا۔پہلے تو وہ دونوں جہاں تک ہو سکتا تھا گاڑی پر گئے لیکن انہیں وہاں پہنچنے کے لئے کم از کم ایک گھنٹہ پیدل چلنا پڑا تھا۔

"وہ سامنے گھر ہے زرخان کا۔۔۔"

انس نے اشارہ کیا تو ہانیہ نے شکر کا سانس لیا۔اس وقت وہ جینز ٹاپ پر جیکٹ پہنے تھی لیکن اس کے باوجود جسم سردی کی شدت سے سن ہو رہا تھا۔

"چلیں۔۔۔۔"

وہ دونوں اس گھر کی جانب بڑھے جو لکڑی اور ٹن سے بنا ہوا تھا۔انس کے دروازہ کھٹکھانے پر ایک پینتالیس سالہ شخص دروازہ کھول کر سامنے آیا تھا۔

"زرخان؟"

انس کے سوال پر ہر آدمی نے دونوں کو طائرانہ نظروں سے دیکھا۔

"کون ہے تم لوگ؟"

"ہمیں کام ہے آپ سے۔۔۔۔"

زرخان نے ہاں میں سر ہلایا اور دونوں کو گھر کے اندر لے آیا۔

"آپ کے ایک آدمی سے ملا تھا میں اس نے مجھے بتایا کہ آپ راگا کے دشمن ہیں اور راگا کے پاس بھی ہمارا کچھ ہے۔۔۔اس لیے ہم بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ راگا کہ بارے میں کچھ جانتے ہیں؟"

زرخان نے انہیں کرسی پر بیٹھنے کا کہا تو وہاں بیٹھتے ہی انس مدعے کی بات پر آیا۔

"راگا۔۔۔۔ہاں جان لینی ہے اس کی مجھے۔۔۔۔بس ایک ہی مقصد ہے مارا زندگی کا راگا کو مارنا۔۔۔"

زرخان نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔

"تو پھر آپ بس ہمیں اس کا پتہ بتا دیں تو ہم بھی آپ کی مدد کر سکتے ہیں راگا کو ہرانے میں۔۔۔۔"

انس کی بات پر زرخان قہقہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔

"ہاہاہاہا اوئے ماڑا تم لوگ ہارائے گا راگا کو۔۔۔جانتا نہیں لوگ کہ وہ کتنا طاقت ور ہے کھڑا کھڑا غائب کر دے وہ تم دونوں کو۔۔۔۔"

زرخان نے ہنستے ہوئے کہا تو ہانیہ اس شخص کو ناگواری سے دیکھنے لگی۔

"آپ بس ہمیں اس کا پتہ بتا دیں اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے ہمیں۔۔۔اس راگا کی طاقت سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔"

ہانیہ نے مٹھیاں بھینچ کر کہا تو زرخان نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔

"فرق پڑنا چاہیے راگا کی طاقت کا اندازہ ابھی کروا دیتا ہوں تم دونوں کو۔"

اس سے پہلے کہ انس اور ہانیہ کو کچھ سمجھ آتا چھ سے سات آدمی دروازہ کھول کر کمرے میں آئے اور انس کو اپنی پکڑ میں دبوچ لیا۔

"انس ۔۔۔"

ہانیہ فوراً آگے بڑھی تو ایک شخص نے اسے بھی پکڑنا چاہا لیکن ہانیہ نے اسکے ہاتھ کو مڑوڑ کر اپنا گھٹنا اسکے پیٹ میں مارا اور اسے کراہتا ہوا چھوڑ کر انس کی جانب بڑھی جو خود چار آدمیوں کی پکڑ میں پھڑپھڑا رہا تھا۔

"چھوڑو اسے۔۔۔"

ہانیہ نے آگے ہو کر اسے چھڑانا چاہا لیکن وہ آدمی اسے بھی اپنی گرفت میں پکڑ چکے تھے۔

"ہممم تو تم ہمارے سردار کو مارے گا راگا کو مارے گا تم۔۔۔۔"

زرخان آگے بڑھا اور ایک زور دار مکا انس کے منہ پر مارا تھا۔

"تم یہاں خود نہیں آیا میرا آدمی لایا تمہیں یہاں جب تم شگار راگا کا پوچھ رہا تھا۔۔۔۔اب بول کیا چاہیے تجھے مارا سردار سے۔۔۔"

زرخان نے انس کا منہ دبوچ کر پوچھا۔

"بھاڑ میں جاؤ۔۔۔"

اس نے فوراً ایک اور مکا انس کے منہ پر مارا تو ہانیہ ان آدمیوں کی گرفت میں مزید جھٹپٹانے لگی۔

"زرخان یہ لڑکا پولیس والا ہے آئی بی ہے۔۔۔"

ایک شخص نے انس کے والٹ میں موجود کارڈ دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہممم ۔۔۔تو فوجیوں نے بھیجا ہے تم دونوں کو پھر تو تم دونوں کی لاشیں بہت اچھا جواب ہوں گی فوجیوں کے لیے کہ راگا سے ٹکرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔"

زرخان کی بات پر ہانیہ نے پریشانی سے انس کو دیکھا۔

"زرخان میرے خیال سے ہمیں راگا سردار کو اس کی خبر دینی چاہیے۔۔۔"

ایک آدمی نے کہا۔

"نہیں ان کو مار کر یہیں دفنا دیتے ہیں پھر راگا کو بتائیں گے کہ ان کے دشمنوں کا کیا حال کیا ہم نے۔۔۔"

زرخان نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنی بندوق نکال کر ہانیہ کے ماتھے پر رکھ دی۔۔۔

"خدا کو یاد کر لو بچی۔۔۔"

زرخان کی بات پر آج پہلی بار ہانیہ وجدان خان کی خوف سے روح کانپ اٹھی تھی اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔

ہانیہ نے سہم کر اس شخص کو دیکھا جو اس کے ماتھے پر بندوق رکھ کر کھڑا تھا۔

"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تم میرا بہادر بچہ ہو ہانیہ،خوف تمہیں کمزور کرے گا اور بہادری تمہاری طاقت بنے گی۔"

وجدان کی کہی بات یاد کر کے ہانیہ میں ایک مت سی آئی تھی۔زر خان نے جیسے ہی گولی چلانا چاہی ہانیہ نے اپنی پوری طاقت سے گھٹنا زر خان کے پیٹ میں مارا  اور ٹانگ مار کر اس کے ہاتھ سے وہ بندوق بھی گرا دی۔

پھر اس نے پوری طاقت لگا کر اپنے آپ کو ان آدمیوں سے چھڑایا اور جلدی سے فرش پر گری پسٹل پکڑ کر دونوں آدمیوں کی ٹانگ میں گولی مار دی۔

انس کے ساتھ کھڑے آدمی نے اپنی بندوق ہانیہ پر تانی تو انس نے بھی ہمت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان آدمیوں کی گرفت سے چھڑایا اور پاؤں کے پاس سے چاقو نکال کر اس آدمی کی کمر میں گاڑ دیا جو ہانیہ پر بندوق تانے کھڑا تھا۔

"مار دو دونوں کمینوں کو۔۔۔"

زرخان جو زمین پر بیٹھا تھا اپنا پیٹ پکڑ کر چلایا لیکن اس سے پہلے کہ اس کے آدمی کچھ کر پاتے انس نے ایک کی گردن اپنے بازو میں دبوچ کر اسے جھٹکا دیا تو وہ بھی زمین پر ڈھے گیا۔

دوسرے شخص نے انس پر حملہ کرنا چاہا تو ہانیہ نے ایک گولی اسکے کندھے پر ماری۔

زرخان اب حیرت سے اپنے چھ آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جو سب زمین پر ڈھیر ہوئے کراہ رہے تھے۔

انس زرخان کے پاس آیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

"بتا راگا کہاں ہے؟"

انس نے ایک مکا مارتے ہوئے پوچھا تو زرخان گھبرا گیا۔

"نننن۔۔۔۔نہیں جانتا میں نہیں جانتا۔۔۔"

یہ جواب سن کر انس کا پارہ مزید ہائی ہو چکا تھا اسی لیے اس نے دو زور دار گھونسے اس کے منہ پر مارے۔

"قسم کھاتا ہوں مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں بس کام کرتا ہوں اس کے لیے جو بھی وہ کہتا ہے ۔۔۔۔وہ کہاں رہتا ہے یہ بس خاص آدمی جانتے ہیں۔۔۔اور وہ ہمیں بھی راگا کا ٹھکانہ نہیں بتاتے۔۔۔"

زرخان خوف کے مارے بولتا چلا گیا کیونکہ اب ہانیہ نے پسٹل کا رخ اس کی طرف کیا ہوا تھا۔

"تو پھر ہمیں مار کر تم یہ خبر راگا کو کیسے دینے والے تھے؟"ہانیہ نے سوال کیا۔

"اااا۔۔۔اسکا آدمی کال مجھ سے ملنے آتا ہے اسی کے ذریعے بتانا تھا میں نے یہ راگا کو۔۔۔"

ہانیہ نے اس جواب پر انس کی طرف دیکھا جیسے کہ تسلی کرنا چاہ رہی ہو کہ وہ شخص سچ کہہ رہا تھا یا جھوٹ۔

"کہاں ملنا تھا اس کال نے تم سے ؟"

انس نے اسے مزید سختی سے جکڑتے ہوئے پوچھا۔

"وو۔۔۔وہ کال ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں ملے گا ۔۔۔ اور پھر ہمیں پیغام پہنچاتا ہے ۔۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔"

انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کی جانب کیا تو ہانیہ نے ہاتھ میں پکڑا پسٹل اسے پکڑا دیا۔

"سسس۔۔۔سچ کہہ رہا ہوں قسم سے۔۔۔"

ہنس کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر زرخان خوف سے کانپنے لگا تھا۔لیکن انس نے بس اس پسٹل کی پشت اس کے سر میں ماری تو وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔

"چلو۔۔۔"

انس نے ہانیہ سے کہا تو اس نے اپنا بیگ پکڑا اور اس کے ساتھ وہاں سے آ گئی۔

"یہ کس مصیبت میں پھنس گئے تھے ہم ، مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کس قسم کے انسپکٹر ہیں کسی پر بھی بھروسہ کر بیٹھے۔۔۔"

ہانیہ نے منہ بنا کر کہا اور ارد گرد دیکھنے لگی جہاں رات بہت گہری ہو چکی تھی۔

"تمہارے پاس کوئی بہتر آپشن تھا میری جگہ اگر تم ہوتی تو تم بھی یہی کرتی۔۔۔"

اس کی بات پر ہانیہ نے منہ بنایا۔

"ہاں لیکن فائیدہ کیا ہوا راگا کا تو پھر سے کچھ پتہ نہیں لگا۔"ہانیہ نے دانت کچکچا کر کہا۔

"ایک بات کا پتہ چلا کہ زر خان نے ہمیں یہاں سکردو بلایا اور راگا کا آدمی بھی جب چاہتا ہے یہاں اس سے ملنے آ جاتا ہے اس کا مطلب وہ سکردو کے قریب ہی موجود پہاڑوں میں کہیں رہتے ہیں۔"

ہانیہ نے اسکی بات سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

"لیکن اب ہم لوگ واپس کیسے جائیں گے ؟"

"صاف ظاہر ہے پیدل چل کر اور اگر ذرا تیز چلیں گے تو صبح تک یہاں سے نکل ہی جائیں گے۔۔۔۔۔"

انس نے اپنی سمارٹ واچ کی طرف دیکھا جہاں رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

"واہ اب اسی کی کمی تھی اور اگر وہ لوگ ہمارے پیچھے آ گئے تو؟"

"تو گن ہے نا تمہارے پاس۔۔۔"

انس نے ہنس کے ہاتھ کی جانب بھی اشارہ کیا جہاں اس نے زرخان کا پسٹل پکڑا ہوا تھا۔

"بلٹ نہیں ہے اس میں۔۔۔"

"یہ تمہیں پتا ہے کہ اس میں بلٹ نہیں ہے،مجھے پتہ ہے لیکن انہیں تو نہیں پتہ نا۔۔۔"

انس نے آنکھ دبا کر کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر واپس چل پڑا۔کچھ بھی ہو جاتا صبح ہونے سے پہلے انہیں اس پہاڑی سلسے سے نکلنا تھا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

"جلدی سے ساری تیاری مکمل کر لو کل صبح ہی ہمیں ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کرنا ہے۔"

اس نے اپنے آدمیوں کو ہدایت دی تو وہ سب جلدی سے ہاتھ چلانے لگے۔اچانک ہی ان کے لیڈر کے سینے پر کسی نے گولی چلائی جس کی انہیں آواز تک نہیں آئی تھی۔شائید گن پر سائلینسر لگایا گیا تھا۔

ان سب آدمیوں نے اپنی بندوق سنبھالی اور ادھر ادھر دیکھنے لگے لیکن وہاں پر کوئی بھی نہ تھا۔

"اے تو جا کر دیکھ کون ہے۔۔۔"

اس نے اپنے ایک ساتھی کو کہا تو وہ سامنے موجود بوریوں کی جانب بڑھ گیا لیکن اچانک ہی کسی نے مظبوط بازو اسکی گردن کے گرد لپٹایا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کی گردن توڑ دی۔

اپنے سامنے کالے کپڑوں میں موجود چہرہ کالے رومال سے چھپائے اس شخص کو دیکھ کر باقی تین آدمی ہڑبڑا گئے۔

ایک نے اس کو گولی مارنی چاہی لیکن اس سے پہلے ہی کالے کپڑوں والا وہ شخص اس کو گولی مار چکا تھا۔

باقی دونوں جو ہاتھ میں ڈنڈے پکڑ کر کھڑے تھے ان کے ہاتھ اب خوف سے کانپنے لگے۔

"کک ۔۔۔کون ہے تو؟"

ایک شخص نے گھبرا کر پوچھا تو کالے کپڑوں والا شخص اگے آیا اور اسے گردن سے پکڑ لیا۔یہ دیکھ کر دوسرے نے ڈنڈا اسکے سر پر مارا۔

لیکن جواب میں اس نقاب پوش نے اپنی سبز آنکھوں سے اسے گھورا اور ہاتھ میں پکڑی بندوق سے اس کے سر میں گولی ماری۔یہ دیکھ کر وہ آخری شخص بہت زیادہ ڈر گیا۔

"ممم۔۔۔۔معاف کر دو۔۔۔ "

"بہت سے معصوموں کی جان لینے والے تھے تم اور چاہتے ہو کہ میں تمہیں معاف کر دوں۔۔۔۔ہوں۔۔۔جہنم کے شیطان کو سکندر کا سلام کہنا۔۔۔"

اتنا کہہ کر سکندر نے اسکے سر میں بھی گولی مار دی اور بم دھماکے کا وہ سامان اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔

                       ❤️❤️❤️❤️

صبح ہانیہ کی آنکھ کھلی تو پہلی نگاہ راگا پر پڑی جو اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔

"آآآ۔۔۔۔آپ کہیں جا رہے ہیں؟"

وانیہ نے اٹھ کر گھبراتے ہوئے پوچھا تو راگا کی نظر اسکی سوجی ہوئی آنکھوں پر پڑی جو اسکے رات بھر رونے کی عنایت تھی۔

"ہاں جا رہا ہوں..."

"سچی۔۔۔!!! ممم۔۔۔میرا مطلب ہے اس وقت؟"

پہلے وانیا نے بہت زیادہ خوشی سے کہا لیکن پھر اس کے گھورنے پر گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی۔

"ہاں کچھ دن لگ جائیں گے مجھے تم فکر مت کرو مرجان تمہارے پاس رہے گی۔۔۔۔"

وانیا نے ہاں میں سر ہلایا لیکن اندر ہی اندر اس کے جانے پر وہ افسردہ بھی تھی تو خوش بھی۔اچانک ہی راگا نے اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھے اور وانیا کی جانب جھکا۔

"خوش ہو رہی ہوں میرے جانے پر؟"

وانیہ نے سچ کہتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔اس کی معصوم حرکت پر راگا کے لب مسکرا دیے۔

"تو دعا کرنا کہ تمہارے پاس واپس ہی نہ آؤں بلکہ کسی فوجی کی گولی کا نشانہ۔۔۔۔"

وانیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔"

وانیا نے نرمی سے کہا تو راگا نے اسکا ہاتھ چوما اور اس سے دور ہو گیا۔

"پھر سے بھاگنے کی حماقت مت کرنا افغان جلیبی اس بار تمہارا شوہر نہیں آئے گا تمہیں بچانے۔۔۔۔"

وانیہ نے ہاں میں سر ہلایا تو راگا اس سے دور ہوتا اپنی چیزیں سمیٹ کر دروازے کی جانب چل دیا۔اسے جاتا دیکھ وانیا نے سکون کا سانس لیا اور خود کو کمبل میں چھپا لیا۔

                        ❤️❤️❤️❤️

"ارے سالار کہاں ہیں وہ کیوں نہیں آئے مجھے لینے؟"

جنت نے حیرت سے جمال کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسے اس کے کالج سے سالار کے پاس لے جانے آیا تھا۔

"بس گڑیا زرا مصروف تھے تو مجھے بھیج دیا۔۔۔اب وقت ضائع مت کرو لیٹ ہوگئے تو ایک ایک لمحے کا حساب مانگیں گے بھائی مجھ سے۔۔۔"

جنت نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔سالار کے گھر پہنچ کر وہ سیدھا سالار کے کمرے میں اس سے ملنے گئی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر جنت کی سانس تھمنے کو آئی تھی۔

"سالار یہ کیا ہوا آپ کو؟"

جنت نے بے چینی سے اس کے سر پر بندھی پٹی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"کچھ نہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔"

سالار نے مسکرا کر کہا لیکن پٹی پر لگا خون دیکھ کر جنت پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

"جنت میں ٹھیک ہوں کیا ہو گیا ہے یار چپ کر جاؤ۔۔۔"

سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔

"اور اگر زیادہ لگ جاتی تو۔۔۔۔آپ کو کچھ ہو جاتا تو؟"

جنت پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے خدشات ظاہر کرنے لگی اور سالار اپنی اس متاۓ جان کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"اگر میں مر جاتا تو کیا ہو جاتا؟"

سالار کی بات پر جنت نے آنسو پونچھ کر اسے گھورا اور اس کے سینے پر مکے برسانے لگی۔

"بہت برے ہیں آپ سلار ملک بہت زیادہ۔۔۔"

اچانک ہی سالار نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے بہت قریب کر لیا تو جنت رونا بھول کر اپنی نم آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھنے لگی۔

"بتاؤ جنت کیا ہو جاتا اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو؟کیوں ہے تمہیں میری اتنی پرواہ دوستوں کو انسان اس قدر تو نہیں چاہتا۔۔۔"

سالار میں اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اس سے  وہ سوال پوچھا جس کا جنت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

"مجھے نہیں پتہ بس ایسا لگا کہ آپ کو کچھ ہو جاتا تو میری بھی سانسیں رک جاتیں،ایسا لگا کہ آپ کے دور جانے پر کبھی بھی خوش نہیں رہ پاؤں گی میں۔۔۔۔"

جنت کے جواب پر سالار کے ہونٹوں پر ایک عالیشان مسکراہٹ آئی تھی۔

"ایسے جذبات انسان دوستوں کے لئے تو نہیں رکھتا،یہ جذبات صرف اس کے لئے رکھے جاتے ہیں جنت جسے انسان خود سے بھی زیادہ چاہتا ہو تو بتاؤ جنت کیا تم مجھے چاہتی ہو؟"

سالار کی سوال پر جنت کی پلکیں جھک گئیں اور وہ بس خاموشی سے اپنا لب کترنے لگی۔

"جواب دو مجھے جنت کیا تم بھی محبت کی اس آگ میں جل رہی ہو جس میں سالار ملک ہمیشہ سے جلتا آیا ہے۔۔۔"

سالار نے اپنے انگوٹھے سے اس کا ہونٹ دانتوں سے باہر نکالتے ہوئے پوچھا ۔

"مم۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ سالار ۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ بس اتنا پتہ ہے کہ آپ کے بغیر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا،آپ کے دور جانے کا خیال ہی میری ہر خوشی کو ختم کر دیتا ہے،آپ سے دور ہو کر ہر وقت آپ کو یاد کر کے مسکراتی رہتی ہوں ہو سکتا ہے اسے  آپکی زبان میں محبت کہتے ہوں لیکن مجھے اس اس کا نام نہیں پتہ۔۔۔۔"

جنت نے روتے ہوئے کہا اور سالار کا دل کیا کہ خود سے کھائی ہر قسم توڑ کر اسے خود میں چھپا لے لیکن نہیں اسے جنت کی محبت کے ساتھ ساتھ جیت بھی حاصل کرنی تھی۔شایان شاہ کو ہرانا تھا اس نے،انتقام لینا تھا اس سے اور شایان شاہ اس دن ہارے گا جس دن جنت اس کی محبت میں شایان شاہ کو چھوڑ دے گی۔

"یہ محبت نہیں جنت یہ عشق ہے جس کی منزل پر میں پہنچ کر دم لوں گا۔۔۔"

سالار نے اس کی قریب ہوتے ہوئے کہا پھر گھبراہٹ کے مارے اسکی بند آنکھیں دیکھ کر اس سے دور ہو گیا۔

"تم خود مجھ سے آکر کہو گی کہ تمہیں مجھ سے محبّت ہے جنت اور جس دن تم نے مجھے یہ کہا، اس دن کے بعد تم پر صرف میرا حق ہوگا،ہر ایک سے پہلے،ہر ایک سے زیادہ تم مجھے ترجیح دو گی۔یاد رکھنا یہ جنت میری محبت میں تمہیں یہ دنیا بھولنی پڑے گی۔"

سالار نے اس کو گھورتے ہوئے کہا جو آنکھیں بند کیے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔

"جمال۔۔۔"

سالار کے بلانے پر جمال کمرے میں آیا۔

" گھر واپس چھوڑ آؤ جنت کو۔۔۔اب یہ مجھ سے تب ہی ملے گی جب یہ دل میں چھپے جذباتوں کا بہادری سے سامنا کر پائے گی۔۔۔۔اس سے پہلے اسے میرے سامنے کبھی مت لانا۔۔۔"

جنت حیرت سے منہ کھولے سالار کو دیکھ رہی تھی۔

"سالار۔۔۔"

جنت نے کچھ کہنا چاہا۔

"نہیں جنت اب میں یہ کھیل مزید نہیں کھیلوں گا اگر تمہارے دل میں میرے لیے جذبات ہیں تو تمہیں ان جذبات کا اظہار کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کر سکتی تو پھر ہمارے یوں ملنے کا کوئی بھی مقصد نہیں۔"

اتنا کہہ کر سالار نے جمال کوئی اشارہ  کیا تو وہ جنت کا بازو پکڑ کر اسے وہاں سے لے گیا اور جنت بس یہ سوچ رہی تھی کہ اگر کبھی اس نے سالار کو نہیں دیکھا تو کیا وہ زندہ بھی رہ سکے گی۔۔۔

                     ❤️❤️❤️❤️

وانیہ راگا کے جانے پر جتنی خوش تھی اب اتنی ہی افسردہ ہو چکی تھی۔دل تھا کہ گھر سے باہر جائے لیکن اس کی حفاظت کے بغیر ایک قدم اٹھانا بھی وانیا کے لیے محال تھا۔

سارا دن وہ گھر میں بیٹھی اپنے جذبات پر غور کرتی رہی تھی۔وہ پاس تھا تو بھی اس کی جان کا عذاب بنا ہوا تھا اور اب جب اس سے دور چلا گیا تھا تو بھی دل بس اسے ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔

"وانی کہاں کھویا ہے تم کب سے بلا رہا ہے تمہیں۔۔۔"

مرجان کی آواز پر وانیا اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی۔

"تم کب آئی۔۔۔؟"

"جب تم گم سم سا بیٹھا لالہ کو یاد کر رہا تھا۔۔۔"

مرجان نے شرارت سے کہا لیکن وانیا کی پلکیں نم ہو چکی تھی۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہا مرجان میں کیا کروں وہ پاس ہوتے ہیں تو ان کے جذبات سے ڈر لگتا ہے اور اب پاس نہیں ہے تو ان کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔کیوں مرجان کیوں۔۔۔مجھے وہ اچھے نہیں لگنے چاہیں باقی سب کی طرح ،وہ مجھے برے کیوں نہیں لگتے۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے پوچھا تو مرجان نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔

"فکر مت کرو وانیا سب ٹھیک ہو جائے گا تم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنا ہے۔چاہے ایک آسمان ہے تو دوسرا زمین۔۔۔لیکن اگر تم دونوں ایک دوسرے کا مقدر نہ ہوتا تو اللہ تعالی تم دونوں کو کبھی بھی ایک نہیں کرتا۔"

مرجان نے اسے پیار سے سمجھایا تو وانیا ہلکا سا ہنس دی۔

"چھوٹی ہو تم مجھ سے اور بڑی بہنوں کی طرح سمجھانے بیٹھ جاتی ہو۔۔۔پتہ ہے تم مجھے بالکل میری ہانی جیسی لگتی ہو۔"

وانیا نے مرجان کے گال کھینچتے ہوئے کہا تو مرجان ہنس دی۔

"کیا بات ہے مرجان آج تو تم بہت زیادہ خوش ہو خیر تو ہے؟"

وانیا کے سوال پر مرجان کا چہرہ سرخی چھلکا کر گلال ہو چکا تھا۔

"مم ۔۔۔ میں تو روز ہی خوش ہوتا ہے آج کیا ہونا تھا؟"

مرجان نے گھبراتے ہوئے کہا۔

"نہیں کوئی تو خاص بات ہے دیکھو میں تمہاری بڑی بہن ہوں نا بتاؤ مجھے۔۔۔"

وانیا نے حکم دیتے ہوئے کہا تو مرجان مزید شرما گئی۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ کل رات انہوں نے مجھے کہا کہ میں بہت خوبصورت ہوں اور میرا بال بھی بہت پیارا ہے۔۔۔۔"

مرجان اتنا کہہ کر یوں شرمائی جیسے نہ جانے کیا ہو گیا ہو۔

"اس وجہ سے تم اتنا شرما رہی ہو؟"

وانیا نے حیرت سے پوچھا۔

"ارے نہیں وہ میں تو ۔۔۔۔"

مرجان فوراً ہی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی اب وہ وانیا کو کیا بتاتی کہ کل پہلی بار اس نے اپنے شوہر کا پیار بھرا لمس اپنے گالوں پر اور ہونٹوں پر محسوس کیا تھا۔اسکے ہونٹوں پر ابھی بھی ویرہ کے جنون کا احساس موجود تھا۔

"تم کو نہیں پتہ وانی ہمارا شادی ہوئے ایک سال ہو گیا ہے اور کل پہلی بار انہوں نے مجھ سے اتنے پیار سے بات کیا۔"

مرجان کی بات پر وانیا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"تمہاری سولہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی؟"

"ہاں ماڑا ہمارے یہاں شادی جلدی کر دیتا ہے لڑکی کی۔۔۔اسی لیے تو میں انہیں پسند نہیں تھا کیونکہ میں بہت چھوٹا ہے ان سے لیکن۔۔۔کل انہوں نے پہلی بار مجھے چھوا وانی۔۔۔ورنہ وہ تو مجھ سے پیار سے بات بھی نہیں کرتا۔"

یہ بات کہہ کر مرجان پھر سے شرمائی تھی۔

"یعنی ایک سال ہوا ہے تم دونوں کی شادی کو اور تم دونوں کے درمیان کوئی تعلق ۔۔۔۔"

مرجان نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔

"انٹرسٹنگ۔۔ "

وانیا نے آہستہ سے کہا۔

"پتہ ہے وانیا وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے تب سے محبت کیا ہے ان سے جب محبت کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا۔۔۔دنیا کے لیے وہ جیسا بھی ہے میرے لیے جینے کی وجہ ہے وہ وانی۔۔"

مرجان کی بات سن کر وانیا افسردہ ہوئی تھی کیا ہوتا اگر کل کو ویرہ آرمی کے ہاتھ لگ جاتا تو۔۔۔کیا ہونی تھی مرجان کی زندگی ویرہ کے بغیر تو وہ جیتے جی مر جاتی۔

اور اگر ویرہ کے ساتھ راگا بھی پکڑا جاتا تو وانیا کا کیا ہوتا؟کیا وہ جی پاتی اس کے بغیر۔۔۔خود سے یہ سوال کرنے پر ہی وانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔

"کیا ہوا وانی؟"

مرجان نے پریشانی سے پوچھا لیکن وانیا نے بس انکار میں سر ہلایا۔ہو وہاں سے کیا بتاتی کہ ہمیشہ قید میں رہنا وانیا کا مقدر بن چکا تھا اگر وہ راگا کی قید سے آزاد ہو بھی جاتی تو بھی اس کا دل اور اس کی زندگی کی ہر خوشی راگا کی قید میں رہتی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

سلطان مسکراتے ہوئے اپنے آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے خلاف آواز اٹھانے والے پولیس والے کو مار رہے تھے۔وہ بے چارہ انصاف کی راہ پر چلنے کی سزا بھگت رہا تھا۔

"سر۔۔۔"

اے کے کی آواز پر سلطان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔

"سسس۔۔۔۔سر وہ ہمارا پلین فیل ہو گیا جن لوگوں کو ہم نے ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کرنے بھیجا تھا انہیں۔۔۔اس سکندر نے مار دیا۔۔۔"

اے کے کی بات پر سلطان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

"کون ہے یہ سکندر اے کے ابھی تک پکڑ کیوں نہیں پا رہے تم اسے؟"

سلطان غصے سے چلایا اور اپنا ہاتھ بہت زور سے دیوار میں مارا۔

"معلوم نہیں سر وہ شخص کہاں سے سوچتا ہے کب کیا کر گزرے پتہ ہی نہیں چلتا خبر تو تب ہوتی ہے جب وہ سب ختم کر چکا ہوتا ہے۔"

اے کے کی بات پر سلطان نے اسے اپنی خطرناک نگاہوں سے گھورا۔

"تمہیں میں نے یہاں تک بے بس ہونے کے لیے نہیں پہنچایا اے کے جتنی جلدی ہو سکے اس سکندر کو پکڑو ورنہ جس گند سے تم آئے تھے اسی گند میں واپس پھینک آؤں گا ۔"

اتنا کہہ کر سلطان آگے بڑھا اور اپنے آدمی کے ہاتھ سے ڈنڈا پکڑ کر خود اس پولیس والے کو ظالمانہ انداز میں مارنے لگا اور تب تک مارا جب تک وہ بیچارا مر نہیں گیا۔

جنت جب سے وہاں سے آئی تھی اپنے کمرے میں لیٹی روتی جا رہی تھی۔معراج نے بہت مرتبہ اس سے رونے کی وجہ پوچھی لیکن جنت نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔

جنت کے مسلسل رونے پر معراج نے جانان کو بتایا تو وہ اس سے پوچھنے آئی۔

"جنت میری جان کیا ہوا؟"

ماں کا محبت بھرا لمس محسوس کر کے جنت اٹھی اور اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"مما۔۔۔میں کیا کروں وہ ناراض ہو گئے مجھ سے بہت زیادہ ناراض۔۔۔سمجھ نہیں آ رہا کیسے مناؤں ان کو۔۔۔۔"

جنت کی بات پر جانان حیران و پریشان ہو کر رہ گئی۔

"پوری بات بتاؤ مجھے بیٹا ہوا کیا ہے؟"

جانان نے اس کو اپنے ساتھ محبت سے لگاتے ہوئے پوچھا تو جنت نے روتے ہوئے اسے ہر بات بتا دی۔

"اب میں کیا کروں مما۔۔۔۔مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟مجھے سمجھ نہیں آرہا وہ کیوں ناراض ہیں یا کیسے مناؤں انہیں۔۔۔"

اپنی بیٹی کی معصومیت پر جانان مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔جنت بالکل اس کے جیسی ہی تو تھی معصوم اور بدھو اور بالکل جانان کی طرح دو خاندانوں کو پھر سے جوڑنے کی کڑی تھی جنت۔

"تمہیں بھروسہ ہے مجھ پر جنت؟"

جانان کے پوچھنے پر جنت نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

"تو پھر جیسا میں کہتی ہوں بالکل ویسا کرو اور دیکھنا تمہارا دوست تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہو گا۔"

جانان کی بات سن کر جنت جلدی سے سیدھی ہوئی اور اپنے آنسو پونچھ دیے۔

"بتائیں مما میں کیا کروں؟"

جنت کے بے چینی سے پوچھنے پر جانان نے مسکراتے ہوئے اسے سب سمجھایا۔

"لیکن مما اگر بابا کو پتہ لگ گیا کہ میں نے ایک لڑکے سے ایسا کہا ہے تو؟"

جنت نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

"تمہارا دوست صرف کوئی لڑکا نہیں ہے وہ بہت خاص ہے اور جانتی ہو کیوں؟کیونکہ وہ تمہارے دل میں ہے۔۔۔اور اپنے بابا کی فکر مت کرو کچھ زیادہ ہی بگاڑ لیا ہے انہیں میں نے سدھار لوں گی۔"

جانان کی بات پر جنت کھلکھلاتے ہوئے ہنس دی اور اس کے گلے سے لگ گئی۔

"آپ اس دنیا کی سب سے بیسٹ مما ہیں۔۔۔"

جنت نے جانان کا منہ چوم کر کہا اور اسکے گلے سے لگ کر مسکرا دی۔کم از کم اب وہ جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا تھا کچھ بھی ہو جاتا وہ بس اپنے دوست کو منانا چاہتی تھی۔

                       ❤️❤️❤️❤️

تین دن ہو چکے تھے ان دونوں کو سکردو میں خوار ہوتے ہوئے لیکن راگا کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا تھا اور اب ہانیہ کی انتہا ہو چکی تھی۔

"انس مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اب ہم کیا کریں بس ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے یہاں آکر اور کچھ نہیں۔۔۔"

ہانیہ کے غصے سے کہنے پر انس نے گہرا سانس لیا۔

"ہانیہ اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہوتا تو اس وقت آرمی راگا کے پاس ہوتی۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ ہم اردگرد سے راگا کا پوچھ کر پھر سے کسی مصیبت میں پھنس جائیں۔"

انس کے بات میں حکمت عملی تھی لیکن ہانیہ کیا کرتی وہ ہر پل اپنی بہن کی پریشانی میں ہلکان ہو رہی تھی۔

"میں اسے کھو نہیں سکتی انس۔۔۔۔بہت معصوم ہے وہ۔۔۔"

اب کی بار ہانیہ پوری ہمت ہار کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔انس نے لاچارگی سے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو ہانی وہ ضرور ہمارے لئے کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا دیں گے۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے آنسو پونچھ کر اسے دیکھا ۔

"میرا اتنا ساتھ دینے کے لئے شکریہ انس میں حیران ہوں کہ آج کی دنیا میں بھی کوئی ایسا شخص موجود ہے جو بغیر کسی لالچ کے کسی کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگائے ہوا ہے۔"

ہانیہ کی بات پر انس ہلکا سا مسکرا دیا۔

"یہی ہم سپاہیوں کی زندگی ہے ہانیہ ہمیں یونہی بغیر کسی غرض کے اس ملک کی خاطر جینا ہوتا ہے تا کہ اس ملک کا ہر باشندہ آزادی سے سانس لے سکے۔۔۔"

ہانیہ نے مسکرا کر انس کو دیکھا۔

"تو اتنا تو مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے جان چھڑانے کے لیے آپ نے آرمی کی جاب چھوڑدی تھی پھر یہ آئی بی کی طرف کب آئے؟"

انس نے اس ماضی کو یاد کر کے گہرا سانس لیا۔

"میں آرمی نہیں چھوڑ پایا تھا ہانیہ کیونکہ ہم سپاہیوں کی نوکری کا ٹائم پیریڈ ہوتا ہے اس سے پہلے ہم نوکری نہیں چھوڑ سکتے۔میں نے ریزگنیشن بھیجا ضرور تھا لیکن وہ قبول نہیں ہوا۔۔۔۔"

"پھر ۔۔۔۔"

ہانیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔

"جنرل شہیر نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھ سے نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھی اور میرے وجہ بتانے پر انہوں نے ہی مجھے آئی بی میں شفٹ کرو دیا تا کہ میں وہ کر پاؤں جو میں کرنا چاہتا تھا ملک کی خدمت۔۔۔"

"کیا وجہ بتائی تھی آپ نے جنرل کو؟"

ہانیہ کا دل نہ جانے کیوں اس سوال پر بہت زوروں سے دھڑکا تھا۔

"یہی کہ ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں کسی لیفٹیننٹ کرنل کی نہیں۔۔۔"

انس کے آنکھ دبا کر کہنے پر ہانیہ ہلکا سا ہنس دی۔

"آپ کو پتہ ہے میں ہمیشہ سے آرمی میں جانا چاہتی تھی۔ اپنے بابا جیسی بننا چاہتی تھی،ہیرو تھے وہ میرے اور وانی کے پھر۔۔۔۔"

اچانک ہانیہ بولتے بولتے خاموش ہوئی تھی۔

"پھر؟"

"پھر میری پھوپھو کی ڈیتھ ہوگئی،ان کے گھر میں کسی نے گھس کر انہیں اور سعد چاچو کو مار دیا۔اس کے بعد میرے بابا بالکل بدل گئے۔ وہ ہمارا خیال رکھتے تھے،ہماری ہر خواہش ہر ضرورت پوری کرتے تھے،لیکن کبھی بھی ہمیں پہلے جیسا پیار نہیں کرتے تھے۔"

ہانیہ کی پلکیں اب نم ہو چکی تھیں۔

"میں ان کے پاس رہنا چاہتی تھی ان کو بتانا چاہتی تھی کہ ان کے سینے پر سر رکھے بغیر مجھے اور وانی کو نیند نہیں آتی۔۔۔۔۔لیکن وہ تو بس مجھے ڈانٹ کر بھگا دیتے۔۔۔۔"

ہانیہ نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے۔

"میں نے خود سے وعدہ کیا تھا انس کہ میں بڑی ہو کر آرمی میں جاؤں گی۔۔۔ان کے جیسی بہادر بنوں گی ۔۔۔۔تو شائید تب وہ مجھے پہلے جیسے گلے لگا کر کہیں گے کہ میں ان کا غرور ہوں اور وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ بس ہم تینوں کو چاہتے ہیں۔۔۔۔"

ہانیہ کی آواز غم سے بہت زیادہ تر ہو چکی تھی۔

"لیکن انہوں نے مجھے آرمی میں جانے نہیں دیا۔۔۔۔کیونکہ وہ بہادر نہیں انس ایک ڈرپوک انسان ہیں۔۔۔بہت زیادہ ڈرپوک۔۔۔۔"

اب کی بار ہانیہ اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ چکی تھی۔

"ناو آئی ہیٹ ہم انس۔۔۔۔جو انہوں نے وانی کے ساتھ کیا فار دیٹ آئی ہیٹ ہم۔۔۔"

ہانیہ نے دانت کچکچا کر کہا اور انس نے اسے بے بسی سے دیکھا۔

"میں وجدان سر کو بہت زیادہ نہیں جانتا۔۔۔۔لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ شخص بزدل نہیں ہے بس اپنی بیوی اور بیٹیوں کو کھونے سے ڈرتا ہے۔۔۔۔جانتی ہو کیوں؟کیونکہ وہ خود سے اور ہر چیز سے زیادہ تم تینوں کو چاہتا ہے۔۔۔۔اس بات کا اظہار نہیں کرتا لیکن تم تینوں کے لیے وہ مر بھی سکتا ہے۔۔۔۔میں اتنا ہی کہوں گا ہانیہ کبھی بھی اپنے باپ کی محبت پر شک نہ کرنا۔۔۔۔وہ تمہیں تم سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔۔۔"

انس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ ہانیہ بس کھوئے ہوئے اس کی کہی ہر بات پر غور کرتی جا رہی تھی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

ایمان کو آج معراج لان میں لے کر آیا تھا۔ویسے تو ایمان باہر نہیں نکلتی تھی لیکن آج آپ نے دوست کی بات مان کر آ گئی تھی اور اب بہت زیادہ انجوائے کر رہی تھی۔

"تو تم فیل ہو گئے تھے؟"

ایمان نے لان میں موجود جھولے پر بیٹھتے ہوئے ہنس کر پوچھا۔

"ہہہ۔۔۔ہاں ہو گیا تھا۔۔۔۔اا۔۔۔اور ٹیچر نے کہا ککک۔۔۔۔کہ میں ورلڈ ریکارڈ بنا سسس۔۔۔سکتا ہوں فیل ہونے کا۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان قہقہ لگا کر ہنس دی۔

"کوئی بات نہیں میں بہت لائق ہوں تمہیں پڑھاؤں گی نا تو فسٹ آؤ گے تم۔۔۔"

ایمان نے اترا کر کہا۔

"ہاں ۔۔۔ننن۔۔۔۔نیچے سے فرسٹ آؤں گا۔۔۔"

معراج نے منہ بنا کر کہا تو ایمان پھر سے ہنس دی اور اتنے عرصے میں پہلی مرتبہ اسے یوں ہنستا کھلکھلاتا دیکھ کر خادم ان کے پاس آیا۔

"واہ خوب انجوائے ہو رہا ہے ۔۔۔"

خادم کی آواز پر ایمان کی ہنسی گل ہو چکی تھی اور اب وہ بس کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے خادم کو دیکھ رہی تھی۔

"ایمان بیٹا آپ اندر جاؤ مجھے معراج سے بات کرنی ہے۔۔۔"

ایمان نے فورا خادم کا حکم مانا اور گھر کے اندر چلی گئی۔

"تمہارا شکریہ معراج تم میری ایمان کی خوشیاں واپس لے آئے ورنہ میں تو امید ہی ہار چکا تھا۔"

معراج انکی بات پر مسکرایا تھا۔

"ششش۔۔۔۔شکریہ کی ضرورت نہیں انکل۔۔۔اااایمان دوست ہے میری۔۔۔۔ممم۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے اس کو خخخ۔۔۔خوش دیکھ کر ۔۔۔۔"

خادم مسکرا دیا۔

"دراصل میں اسے اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وقت ہی نہیں دے پاتا اس لیے وہ ہچکچاتی ہے مجھ سے لیکن میں حیران ہوں معراج کہ اتنے کم وقت میں تم میری بیٹی کی خوشی بن گئے۔۔۔۔اس لیے میری ایک خواہش ہے معراج ۔۔۔"

"ججج۔۔۔۔جی انکل۔۔۔"

معراج خواہش کی بات سن کر گھبرایا تھا۔

"بیٹا میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کے چہرے پر یہ مسکان ہمیشہ رہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارا اور ایمان کا نکاح کر دوں۔۔۔"

خادم کی بات پر معراج کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

"للل۔۔۔لیکن انکل۔۔۔"

"میں جانتا ہوں بیٹا کہ بیٹی کا باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ بات نہیں کرنی چاہیے لیکن میری بیٹی کی خوشیاں مجھے خود غرض بنا رہی ہیں معراج میں جانتا ہوں کہ تم اسے ہمیشہ خوش رکھو گے کیونکہ تم بہت زیادہ اچھے انسان ہو ۔۔۔۔"

معراج انکی بات پر خاموش ہو گیا۔

"مم ۔۔۔میں بڑے بابا سس۔۔۔سے بات کروں گا انکل ۔۔۔۔ووو وہ ضرور مان جائیں گے ۔۔۔۔"

خادم نے معراج کو اپنے گلے سر لگایا اور کندھوں سے پکڑ کر فخریہ مسکان کے ساتھ اسے دیکھا۔

"شکریہ میرے بیٹے تم مان ہو میرا اور مجھے فخر ہے کہ تم سچ میں میرے بیٹے بننے والے ہو۔۔۔۔"

خادم کا فخر دیکھ کر معراج مسکرا دیا۔

"میں جانتا ہوں کہ تم بھی ایمان کو پسند کرتے ہو ،کرتے ہو ناں۔۔۔؟"

خادم کے سوال پر معراج شرما دیا اور آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہاہاہا۔۔۔ ماشاءاللہ دعا ہے تم دونوں ہمیشہ خوش رہو ان شاءاللہ۔۔۔"

خادم نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو معراج مسکرا دیا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آج جاتے ہی وہ شایان سے اس بارے میں بات کرے گا اور اسے یہ بھی بتائے گا کہ ایمان اسکی بھی خواہش تھی۔

                    ❤️❤️❤️❤️

تین دن ہو گئے تھے راگا کو وہاں سے گئے ہوئے۔پہلے تو وانیا نے سوچا کہ اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے بھاگ جائے۔

لیکن پھر اس کا ہمیشہ والا خوف اس خیال کے آڑے آ چکا تھا اگر پھر سے وہ کال یا کسی اور آدمی کے ہاتھ لگ جاتی تو اس مرتبہ تو اسے بچانے والا بھی وہاں کوئی نہ ہوتا۔

اسے یاد آیا کہ کس طرح راگا نے ہر پل اس کی حفاظت کی تھی۔کس طرح اس پر ہر حق ہوتے ہوئے بھی اس نے وانیہ سے کوئی زور زبردستی نہیں کی تھی۔کس طرح اسکو دیکھتے ہی وانیا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔

لیکن کیا یہ سب اسے اچھا بنانے کے لیے کافی تھا؟کیا وہ بھول جاتی کہ چاہے اس نے وانیا کہ لیے بہت کچھ کیا تھا ہے تو وہ ایک قاتل ہی۔۔۔

اپنے دل و دماغ کے درمیان چلنے والی اس جنگ پر وانیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔بیڈ پر لیٹے لیٹے اس کا دھیان اپنی کلائی پر بندھے گلابی دھاگے پر گیا جو اسے ہانیہ نے باندھا تھا۔

"کاش تم یہاں ہوتی ہانی تو میں اتنی بے بس نہ ہوتی۔تم کتنی بہادر ہو ہانی،کتنی عقل مند۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔ میں بہت بے وقوف اور ڈرپوک ہوں ہانی۔۔۔"

وانیا اپنی بہن کو یاد کرتے ہوئے اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

"میں کیا کروں ہانی مجھے کوئی سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں؟پلیز تم مجھے ڈھونڈ لو نا۔۔۔"

وانیہ نے دھاگے کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا اور رونے لگی۔روتے ہوئے وہ کس وقت سو چکی تھی اس کا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔

راگا جو تقریباً رات کے دس بجے گھر واپس آیا تھا سب سے پہلی نگاہ اس کی اپنی بیوی پر پڑی تھی جو معصومیت سے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھے سو رہی تھی۔

راگا کو موڈ اس وقت سخت قسم کا خراب تھا۔سلطان سے دشمنی مول لینے کے لیے اس نے جس دھماکے کو روکنا تھا اسے پہلے ہی کوئی اور سلطان کے آدمیوں کو مار کر روک چکا تھا۔اس وقت راگا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے وہ اپنا مقصد پورا کرے۔

گہرا سانس لے کر اس نے ہلکا سا کمبل ہٹایا اور وانیا کے ساتھ لیٹ کر اسے خود میں چھپا لیا تھا۔اسے محسوس کرتے ہی سکون کی ایک لہر راگا کے وجود میں دوڑ گئی تھی۔

"تم اس جہنم میں بھی میرا سکون ہو وانیا عماد بنگش،میری پری۔۔۔"

راگا نے اپنے ہونٹ اس کے بالوں پر رکھے اور گہرا سانس لے کر اس کی پرسکون خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔

"آپ واپس آگئے؟"

وانیہ کی نیند میں ڈوبی آواز راگا کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔

"ہاں میری جان۔۔۔۔"

راگا نے اسکا ماتھا چوم کر محبت سے کہا۔

"آپ مجھے جانے دیں نا ورنہ میں خود سے ہی لڑ لڑ کر مر جاؤں گی۔۔۔۔کیا آپ نہیں جانتے جن کی آگ پری کے پر جلا دیتی ہے۔۔۔۔آپ کی آگ نے بھی میرے پر جلا دیے اب یہ مجھے بھی جلا دے گی۔۔۔"

وانیا آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی اور راگا اس کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔اتنا تو وہ اتنے عرصے میں سمجھ چکا تھا کہ وانیا نیند میں باتیں کرتی ہے ۔

"یہ جن بہت زیادہ خود غرض ہے جاناں یہ تمہیں کبھی بھی خود سے دور نہیں جانے دے گا کبھی بھی نہیں۔۔۔اگر تم اس کی آتش میں جل جاؤ گی نا تو بھی تمہاری راکھ کر سینے سے لگا لے گا۔۔۔لیکن تمہیں کبھی نہیں جانے دے گا۔۔۔"

راگا نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھ کر کہا اور سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

سالار کو گھر واپس آتے رات کے دس بج چکے تھے۔اس کی پارٹی کے ممبران اسے عوام کے مسائل سے آگاہ کرتے رہے تھے اور سالار اب خود سے وعدہ کر چکا تھا کہ ان مسائل کو حل کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا۔گھر واپس آتے ہی جمال پریشانی سے اس کے پاس آیا۔

"نمبر کیوں بند تھا آپ کا بھائی اور آپ میرے بغیر کیوں گئے تھے؟"

جمال کی پریشانی پر سالار مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں جمال فکر مت کرو اپنی حفاظت خود کر سکتا ہوں میں۔۔۔اور موبائل تو میں نے میٹنگ کی وجہ سے بند کیا تھا ،کیوں خیریت؟"

سالار نے اسکی پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"بھائی وہ جنت شام سے آئی ہے اور آپ کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔"

جنت کے نام پر ہی سالار ٹھٹکا تھا۔

"جنت کس کے ساتھ آئی۔۔۔۔؟"

"میرے ساتھ۔۔۔"

ایک عورت کی آواز پر سالار نے فوراً پلٹ کر اپنے سامنے کھڑی اس عورت کو دیکھا۔ایک پل لگا تھا سالار کو اسے پہچاننے میں۔

"جانو خالہ۔۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر کہا تو جانان اس کے پاس آئی اور روتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔اج کتنے سالوں کے بعد وہ اپنے لاڈلے بھانجے کو دیکھ رہی تھی جو ماں سے بھی زیادہ اپنی جانو خالہ سے پیار کرتا تھا۔

"کتنے بڑے ہو گئے ہو تم۔۔۔۔"

جانان نے اس سے دور ہو کر نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سالار کو دیکھا۔

"آپی کیسی ہیں سالار؟"

جانان کے پوچھنے پر سالار نے نرمی سے ان کی آنکھوں سے آنسو پونچھ دیے۔

"بلکل ٹھیک ہیں خالہ اور فکر مت کریں بہت جلد میں سب ٹھیک کرکے انہیں یہاں لے کر آؤں گا۔"

جانان نم آنکھوں سے مسکرائی اور ہاں میں سر ہلایا۔سالار کا دھیان جنت پر گیا جو دروازے میں منہ بسورے کھڑی تھی۔

"غصہ ہے تم سے شام سے انتظار کر رہی ہے وہ تمہارا،شایان گھر نہیں تھے تو میں اسے یہاں لے آئی۔۔۔"

سالار انکی بات پر مسکرایا۔

"آئیں خالہ اندر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔"

سالار نے جانان جو کندھے سے پکڑ کر کہا۔

"نہیں بیٹا مجھے گھر جانا ہے معراج اکیلا پریشان ہو رہا ہو گا۔۔۔۔میں بس تم سے ملنے آئی تھی اب چلوں گی۔۔۔"

جانان نے محبت سے اسکا گال تھام کر کہا تو جانے کی بات سن کر جنت آگے بڑھی۔

"تم یہیں رکو جنت سالار تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔"

جانان نے سوالیہ نظروں سے سالار کو دیکھتے ہوئے کہا تو سالار نے ہاں میں سر ہلایا۔

"جمال تم خالہ کو چھوڑ آؤ۔۔۔"

"ارے نہیں ڈرائیور کے ساتھ آئی ہوں میں چلی جاؤں گی لیکن تم جلد ہی جنت کو گھر چھوڑ جانا۔۔۔۔"

جانان نے مسکرا کر کہا اور سالار کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔سالار نے جنت کو دیکھا جو دانت پیس کر سالار کو دیکھ رہی تھی۔

"بہت ناراض ہوں میں آپ سے۔۔۔۔"

اسکی بات پر سالار مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

"جہاں تک مجھے یاد ہے کسی بات کا اقرار کرکے تم نے میری ناراضگی کو مٹانا تھا نہ کہ خود ناراض ہونا تھا۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر اس کو یاد کروایا۔

"کیوں کوئی اقرار کروں میں؟آپ نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے؟کبھی کچھ سپیشل کیا ہے میرے لیے؟"

جنت نے اترا کر پوچھا اور اس کی شرارت کو سمجھتا سالار مسکرا دیا۔

"کیا سپیشل چاہیے تمہیں۔۔۔"

جنت نے ٹھوڈی پر ہاتھ رکھ کر سوچا پھر آسمان پر موجود ستارے دیکھ کر مسکرا دی۔

"اگر دس منٹ میں بارش ہو گئی تو کروں گی اقرار ورنہ بھول جائیں مسٹر۔۔۔۔"

جنت نے اترا کر کہا اور سالار کو ہکا بکا چھوڑ کر اندر اپنے سونو کے پاس چلی گئی۔۔

"جمال جمال ۔۔۔ "

"جی بھائی۔۔۔"

سالار کے بلانے پر جمال جلدی سے وہاں آیا۔

"میرے لان میں بارش ہونی چاہیے جمال۔۔۔۔"

"بارش ۔۔۔!!!"

جمال نے حیرت سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں پر ستارے نکلے ہوئے تھے۔

"ہاں بارش ۔۔۔۔دس منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر حکم اور جمال کو مشکل میں ڈال کر اندر چلا گیا۔

"چلو جنت باہر چلتے ہیں۔۔۔"

تقریبا آٹھ منٹ گزرنے کے بعد سالار نے جنت کو کہا تو وہ سونو کو گود سے اتار کر اس کے ساتھ باہر آ گئی جہاں ابھی بھی ستارے نکلے ہوئے تھے۔

"دو منٹ رہ گئے ہیں آپ کے پاس اور بارش ابھی تک شروع نہیں ہوئی میرے خیال سے مجھے گھر واپس۔۔۔"

ابھی جنت کے الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے جب تیز رفتار سے بارش کا پانی ان دونوں پر گرنا شروع ہو گیا۔پہلے تو اس نے بہت زیادہ حیرت سے ستاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھا پھر اس کی نظر دیواروں پر لگے شاورز پر پڑی تو بے ساختہ طور پر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔

"تو کیا کہہ رہی تھی تم؟"

سالار نے اس کے تھوڑا قریب ہوتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔

"میں کہہ رہی تھی کہ نقلی بارش کی بات نہیں ہوئی تھی۔"

جنت نے ٹھنڈ سے بچنے کے لیے خود کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔

"بات بارش کی ہوئی تھی جواب ہو رہی ہے جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ سالار ملک اپنی جنت کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔

سالار نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا تو جنت اپنی نظریں شرم سے جھکا گئی۔

"مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں پھر میں نے ماما سے پوچھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ سے کہوں کہ۔۔۔۔"

جنت بولتے ہوئے ایک پل کو رکی اور سنہری آنکھیں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔

" میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ آپ میرے لئے بہت خاص ہیں،اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ محبت ہے تو محبت ہی سہی۔"

اتنا کہہ کر جنت اپنی پلکیں پھر سے جھکا چکی تھی۔

"سوچ لو جنت میری محبت میں تمہیں دنیا بھولنی پڑے گی،سب سے زیادہ اہمیت مجھے دینی ہوگی،تمہاری توجہ ،تمہارا وقت ،تمہارا ہر ایک جذبہ صرف میرے لیے ہوگا۔۔۔"

سالار نے اس کا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرتے ہوئے کہا۔پہلے تو جنت خاموش رہی پھر کافی دیر سوچ کر آہستہ سے بولی۔

"سوچ لیا۔۔۔"

سالار جنت سے دور ہوا اور ہاتھ پھیلا کر اونچی سے چلایا۔

"یس ۔۔۔۔ ٹوڈے آئی بیکیم کنگ آف دس ورلڈ۔۔۔۔"

سالار کی اس حرکت پر جنت گھبرا کر اس کے قریب ہوئی۔

"کیا کر رہیں ہیں آپ سالار چپ ہو جائیں ۔۔"

لیکن سالار نے کہاں چپ ہونا تھا آج اس نے پورا جہان پا لیا تھا۔

"تم چپ ہونے کا کہہ رہی ہو میں تو پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتا ہوں کہ تم میری ہو۔۔۔۔یہ جنت صرف اور صرف سالار ملک کی ہے۔"

جنت اسکی بے باقی پر شرمائی تھی پھر ایک خیال کے تحت منہ کھول کر سالار کو دیکھنے لگی۔

"اففف۔۔۔۔میرے کپڑے بھیگ گئے اب گھر کیسے جاؤں گی؟"

جنت کے سوال پر سالار ہلکا سا ہنس دیا۔

"کہو تو پورا مال لا کر تمہارے قدموں میں رکھ دوں..."

اس کی بات پر جنت کا منہ پھول کر مزید خوبصورت ہو گیا تھا۔

"سالار میں سیریس ہوں۔۔۔"

ایسے کہتے ہوئے وہ بہت زیادہ کیوٹ لگی تھی۔

"فکر مت کرو بے بی گرل میری وارڈروب میں تمہیں اپنی ضرورت کی ہر چیز ملے گی۔۔۔ایسا ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جنت کی کسی بھی ضرورت کا خیال نہ رکھوں؟"

سالار کے سوال پر جنت شرمائی اور جلدی سے کمرے کی جانب چلی گئی۔سالار کا اس طرح سے اس کا خیال رکھنا اس کی ہر چھوٹی چھوٹی ضرورت کو مدنظر رکھنا جنت کو بہت زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔

وہ معصوم اسے اور خود کو لے کر بہت سے خواب سجا چکی تھی اس بات سے بے خبر کہ قسمت کو خوشیاں گوارا ہی کہاں تھیں۔

                     ❤️❤️❤️❤️

"قیدی نمبر 255 کو کھانا دے آؤ۔۔۔"

ان کے سینئر نے آ کر انہیں کہا تو سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔

"سر اس قیدی کو کھانا دینے کی ڈیوٹی سرفراز کی ہے اور وہ چھٹی پر گیا ہے۔۔۔"

ایک فوجی نے سینئر کو بتایا کیونکہ اس قیدی کو کھانا صرف سرفراز ہی دے کر آتا تھا اس کے علاوہ کسی اور کو اس قیدی کے پاس جانے کی اجازت تک نہیں تھی۔

"ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے آج کوئی اور اسے کھانا دے آئے۔"

ان کا سینیئر انہیں حکم دے کر وہاں سے چلا گیا۔

"لاؤ میں کھانا دے آتا ہوں اسے  ۔۔۔۔"

ایک سپاہی نے کہا اور کھانے کی ٹرے پکڑ کر سیل نمبر 255 کی جانب چل دیا جو باقی قید خانوں سے علیحدہ تھا۔ابھی وہ جیل کے قریب پہنچا ہی تھا جب دو سپاہیوں نے اس کا راستہ روکا۔

"میں قیدی کو کھانا دینے آیا ہوں جناب سپاہی بلال نام ہے میرا۔"

"لیکن اسے کھانا دینے کی ذمہ داری سپاہی سرفراز کی ہے۔۔۔۔۔"

ایک پہرے دار کے کہنے پر بلال نے ہاں میں سر ہلایا۔

"جانتا ہوں سر لیکن وہ چھٹی پر ہے اسی لیے کپتان صاحب نے مجھے بھیجا ہے۔"

سپاہیوں نے ہاں میں سر ہلا اور اسے آگے جانے دیا۔جیل کے قریب پہنچ کر اس نے دروازے میں لگی چھوٹی سی سلاخوں سے اندر اس آدمی کو دیکھا جو بیڑیوں میں جکڑا سر جھکائے بیٹھا تھا اور پھر دروازے کے نیچے سے کھانا اندر دھکیل دیا۔

"کھانا کھا لو ۔۔۔۔"

اس نے با رعب لہجے میں کہا تو اس قیدی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔اس قیدی کا چہرہ دیکھتے ہی ساتوں آسمان اس سپاہی پر ایک ساتھ گرے۔

ایسا کیسے ممکن تھا؟سپاہی نے خود سے سوال کیا اور کانپتی ٹانگوں سے وہاں سے واپس آ گیا۔جو اس نے دیکھا تھا وہ جلد از جلد اپنے سب ساتھیوں کو بتانا چاہتا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

سالار جنت کو رات کو ہی واپس چھوڑ کر جا چکا تھا اور وہ واپس آتے ہی سو گئی تھی لیکن صبح اٹھ کر رات کا گزرا ہر پل یاد کرکے وہ خود میں ہی مسکرائی تھی۔

"جنت اٹھنا نہیں میری جان کالج سے دیر ہو جائے گی۔۔"

جانان کی آواز پر جنت جلدی سے اٹھی اور خوشی سے چہکتے ہوئے جانان کو اپنے ساتھ پکڑ کر گھمانے لگی۔

"مما مما مما میں بہت زیادہ خوش ہوں۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے وہ اتنے اچھے ہیں کہ کیا کہوں۔۔۔بس دل کرتا ہے کی ہر پل ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرتی رہوں۔۔۔۔۔انہیں ہزار نخرے دکھاؤں اور وہ میرا ہر نخرہ اٹھائیں۔۔۔۔"

جنت نے دوپٹے کا سر پکڑ کر گھومتے ہوئے کہا اور اپنی پاگل بیٹی کو دیکھ کر جانان ہنس دی۔

"کیا اب مان گیا تمہارا دوست؟"

جانان نے شرارت سے پوچھا۔

"ماننا تو تھا ہی نا انہوں نے۔۔۔۔پتہ ہے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انہیں پیار کرتی ہوں میں نے بھی کہا ہاں۔۔۔۔میں سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتی ہوں ۔۔۔۔خود سے بھی زیادہ۔۔۔"

جنت نے پھر سے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔

"اور آپ کو پتہ ہے مما وہ کہتے ہیں کہ جنت صرف ان کی ہے اب میں ان سے ملوں گی نا تو کہوں گی کہ وہ بھی صرف جنت۔۔۔۔۔"

جنت جو خوشی سے چہکتے ہوئے بولتی چلی جا رہی تھی اچانک اس کی نظر سے میں کھڑے شایان پر پڑی تو فوراً خاموش ہو گئی اور سہم کر جانان کو دیکھا۔

"کس کی بات ہو رہی ہے ؟"

شایان نے جنت کے پاس آ کر پوچھا تو جنت نے فوراً اپنا سر جھکا دیا اور اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔

"وو۔۔۔۔۔وہ انکا نام سالار ملک ہے بابا۔۔۔۔وہ بہت اچھے۔۔۔"

"اچھا؟یہ کیا کہہ رہی ہو تم جنت اچھے برے کی پہچان بھی ہے تمہیں۔۔۔؟"

شایان کے چلانے پر جنت بری طرح سے سہم چکی تھی اور اس کا غصہ دیکھ کر جانان فوراً شایان کے پاس آئی۔

"شایان میری بات۔۔۔"

جانان نے کچھ کہنا چاہا لیکن شایان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا۔

"ببب۔۔۔۔بابا وہ۔۔۔۔وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔پلیز آپ ان سے ایک بار ۔۔۔"

"چپ جنت بلکل چپ جس سالار کی بات کر رہی ہو نا تم قاتل کی اولاد ہے وہ۔۔۔معراج کے ماں باپ کو مار دیا تھا اس ظالم نے اور تم چاہتی ہو کہ میں ان لوگوں سے رشتہ جوڑوں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

شایان کے غصے سے کہنے پر جنت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

"اور بتاؤ کیا ایسی تربیت کی تھی میں نے تمہاری کہ تم اپنے ماں باپ سے چھپ چھپا کر ایک لڑکے سے ملتی رہی۔۔۔"

"بس شایان ۔۔۔۔"

جانان جو تب سے خاموش کھڑی تھی اب کی بار اپنی بیٹی کے سامنے آ کر بول اٹھی۔آخر کب تک خاموش رہتی وہ۔

"میری تربیت پر سوال مت اٹھائے گا کبھی بھی۔۔۔۔جنت جس دن پہلی بار سالار سے ملی تھی اسی دن اس نے آ کر مجھے ہر بات بتائی تھی اور میرے اجازت دینے پر ہی وہ سالار سے ملنے جاتی تھی۔۔۔۔"

جانان کی بات پر شایان نے حیرت سے اپنی بیوی کو دیکھا۔

"جانان تم۔۔۔"

"جی شایان شاہ صاحب میں نے ہی جنت کو سالار سے ملنے بھیجا تھا اور وجہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔۔۔"

جانان اتنی سی بات سے اسے بہت کچھ باور کرا چکی تھی۔شایان نے ایک نگاہ جانان پر ڈالی اور پھر جنت کو دیکھا جو سر جھکا کر روتی چلی جارہی تھی۔

"میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا یاد رکھنا تم دونوں۔۔۔۔میرے دوست کی جان لی تھی اس شخص نے اور تمہاری محبت کی خاطر معاف کر دیا اسے جانان لیکن اس کے ساتھ ہمارا کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی میں اس سے کوئی رشتہ جڑنے دوں گا۔۔۔۔"

شایان نے اتنا کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ جانان اب روتی ہوئی جنت کو اپنے سینے سے لگا کر دلاسہ دے رہی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

کالج سے واپس آتے ہی معراج کی نظر شایان پر پڑی جو اپنے گھر کے آفس میں کرسی پر بیٹھا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔معراج مسکرا کر اسکے پاس آیا۔

"ااا۔۔ اسلام و علیکم بب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔۔"

"و علیکم السلام کیسے ہو میرے شیر؟"

معراج کو دیکھتے ہی شایان نے مسکرا کر پوچھا۔

"مممم۔۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں آآآ۔۔۔۔آپ کل گھر کیوں ننن۔۔۔۔نہیں آئے تھے؟"

معراج نے اس کے پاس موجود کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"بس بیٹا کچھ کام تھا۔۔۔"

معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے شایان کو خادم شفیق کے ہاں رشتہ لے جانے کا کہے۔

"بب۔۔۔بڑے بابا وہ۔۔۔۔"

"مجھے تم سے کچھ کہنا ہے معراج۔"

ابھی معراج نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا جب شایان اس کی بات کاٹ کر بولا۔

"جج۔۔۔جی کہیں۔۔۔ "

معراج نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"جب میں نے تمہیں وجدان سے مانگا تھا تو یہی سوچا تھا کہ تم میرے اپنے بیٹے ہو۔ہمیشہ سے میں نے تمہیں اپنی سگی اولاد سمجھا ہے معراج اور تمہارے اس گھر میں آتے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ ایک دن تمہیں صحیح معنوں میں اپنا بیٹا بناؤں گا۔"

معراج شایان کی بات کا مطلب سمجھنا چاہ رہا تھا لیکن شایان کی بات وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا۔

"معراج میں تمہارا اور جنت کا نکاح کرنا چاہتا ہوں بیٹا۔۔۔۔ہمیشہ سے میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کے لیے سوچا ہے۔"

شایان نے اپنے الفاظ سے ساتوں آسمان معراج پر گرائے تھے۔

"بب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔۔"

"میں نے یہ بات اتنے مان سے اس لئے کہی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری خوشی میری خوشی ہے میں ہے۔۔۔۔ایسا ہی ہے نا بیٹا ۔۔۔؟"

جی ان کے سوال پر معراج اپنا سر جھکا گیا۔دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر ہتھیلیوں پر گرے لیکن وہ کیسے منع کرتا شایان کا مان تھا وہ۔بچپن سے ہی جنت سے بھی زیادہ شایان نے اس سے پیار کیا تھا۔ایک پل کو ایمان کا معصوم مسکراتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔

"جج۔۔۔جیسا آپ چاہیں ببببب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔ممم۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"

شایان نے فوراً اٹھ کر معراج کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

"شکریہ بیٹا میں جانتا تھا کہ تم میرا مان ضرور رکھو گے۔۔۔تم غرور ہو میرا بیٹا بلکل اپنے بابا کی طرح۔۔۔"

شایان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا تو معراج ہلکا سا مسکرا دیا۔ہاں وہ شایان شاہ کا مان رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا اپنی زندگی بھر کی چاہ کو بھول سکتا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

کال کا ہاتھ اب کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا اور اس نے راگا سے اس بات کا انتقام لینے کی ٹھان لی تھی۔اسی مقصد کے ماتحت صبح ہوتے ہی وہ اپنے ایک آدمی سے ملنے سکردو آیا تھا۔اس وقت وہ دونوں ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔

"کہو کال کیا چاہیے تمہیں مجھ سے۔۔۔"

کال کے خاص آدمی نے اس سے سوال کیا ۔

"راگا کی بربادی۔۔۔۔دیکھ کیا کیا اس نے میرے ساتھ اب میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ جس جہنم سے اسے نکالا تھا اب سے وہیں واپس بھیج کر رہوں گا۔"

"مطلب تو راگا کو آرمی کے حوالے کرنا چاہتا ہے؟"

کال کا مقصد جان کر وہ آدمی خوف سے کانپ اٹھا کیونکہ وہ راگا سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔

"ہاں میں اسے فوج کے حوالے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے اسے بے بس کر کے اسکی آنکھوں کے سامنے اس دو ٹکے کی لڑکی کی دھجیاں اڑا دوں گا۔"

کال نے دانت کچکچا کر کہا پھر سامنے موجودہ آدمی کو دیکھا جو خوف سے کانپ رہا تھا۔

"اور تو اس میں میرا ساتھ دے گا ورنہ جانتا ہے نا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔"

کال کی بات پر اس شخص نے تھوک نگلا اس کے لئے تو ایک طرف کواں تھا اور ایک طرف کھائی کیونکہ نہ تو وہ کال سے دشمنی مول لے سکتا تھا اور نہ ہی راگا سے۔

"ٹٹ۔۔۔ٹھیک ہے کال میں تیرا ساتھ دوں گا لیکن اگر تیرا یہ منصوبہ فیل ہو گیا نا تو میرا نام نہیں آنا چاہیے۔"

کال نے اس کی بزدلی پر گہرا سانس لیا اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا کال کی نظر کچھ فاصلے پر بیٹھے وجود پر پڑی تو ایک پل کے لیے اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں ہوا۔

وہ لڑکی ہو بہو وانیا کے جیسی تھی وہی آنکھیں،وہی مسکان لیکن وہ وانیا نہیں تھی۔وانیا تو اس وقت راگا کی قید میں تھی اور ویسے بھی حسن لڑکی کی آنکھوں میں وانیا جیسا خوف بھی نہیں تھا۔

کون تھی وہ آخر؟

"اب آگے کیا کرنا ہے انس؟"

ہانیہ اور انس اس وقت ناشتہ کرنے کے لیے ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے لیکن ہانیہ کو بس وانیا کو ڈھونڈنے کی پڑی تھی۔

"میں سوچ رہا تھا کہ راگا تک زرخان یہ خبر پہنچا چکا ہوگا کہ ایک پولیس والا اسے ڈھونڈ رہا اور راگا کسی بھی حال میں مجھے ضرور ڈھونڈے گا اگر ایک دفعہ بس ہمیں اس کے ٹھکانے کا پتہ لگ جائے۔۔۔"

"انس آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟اس سے تو آپ کی جان کو بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔"

 ہانیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

"لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ہانیہ۔۔۔"

اس سے پہلے کہ ہانیہ انس کو کوئی جواب دیتی اس کی نظر سامنے موجود ہے شخص پر پڑی جو بہت عجیب نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔پہلے تو ہانیہ نے ہاتھ سے کوئی لوفر سمجھ کر نظر انداز کرنے کا سوچا لیکن اس کے دیکھنے کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہانیہ کو جانتا ہو۔

"انس۔۔۔۔"

ہانیہ نے تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ انس کو پکارا۔

"وہاں سامنے ایک لڑکا مجھے گھور رہا ہے۔۔۔"

انس نے ہانیہ کی بات پر مڑنا چاہا تو ہانیہ نے فوراً اسکا ہاتھ تھام کر اسے پلٹنے سے منع کیا۔

"تو اس میں کیا عجیب بات ہے ایسی جگہ پر جینز جیکٹ پہنو گی تو یہی ہوں گا ناں۔"

انس نے شرارت سے کہا لیکن وانیا کے چہرے پر اضطراب دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔

"کیا ہوا ہے ہانیہ۔۔۔؟"

"انس وہ مجھے ایسے دیکھ رہا ہے جیسے مجھے جانتا ہو اور یہاں جہاں مجھے کوئی نہیں جانتے اس کے ایسے دیکھنے کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔"

"کہ وہ وانیا کو جانتا ہے۔۔۔"

انس نے اس کی بات ختم کی تو ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔تبھی وہ آدمی اپنے گرد چادر لپیٹتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے جانے لگا۔انس اور ہانیہ بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئے تھے۔

پہلے تو وہ دونوں چپکے چپکے اس کے پیچھے چلتے رہے تھے پھر اچانک انس نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے مزید آگے جانے سے روکا۔

"رکو ہانیہ یہ ایک ٹریپ ہے وہ ہمیں وہاں لے کر جا رہا ہے جہاں وہ چاہتا ہے اسکا مطلب وہ ہمیں پھسانا چاہتا ہے ۔۔۔"

انس نے ہانیہ کو سمجھانا چاہا لیکن ہانیہ مسلسل اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے کھینچتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"مجھے فرق نہیں پڑتا وانیا کو ڈھونڈنے کا یہ موقع میں ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی۔۔۔"

ہانیہ نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا اب وہ آدمی ایک گلی میں غائب ہوچکا تھا۔

"ہانیہ نہیں۔۔۔"

انس نے کہنا چاہا لیکن تبھی ہانیہ تیزی سے پلٹی اور اپنا گھٹنا انس کی ناف پر پوری طاقت سے مارا۔انس تکلیف کے باعث ہلکا سا جھکا لیکن اس نے ہانیہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔

ہانیہ نے ہاتھ کا مکا بنا کر انس کے منہ کی جانب لایا جسے انس نے ہوا میں ہی تھام لیا لیکن اسی وقت ہانیہ پوری طاقت سے اپنا پاؤں انس کے گھٹنے پر مار چکی تھی جسکی وجہ سے انس کراہ کر زمین پر گرا اور موقع دیکھ کر ہانیہ اس شخص کے پیچھے بھاگ گئی۔

انس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔اسی کی سیکھائی ٹرک آج ہانیہ اسی کے خلاف استعمال کر چکی تھی۔

ہانیہ جلدی سے بھاگ کر اس گلی میں آئی لیکن وہاں اب کوئی بھی نہیں تھا بے چینی سے یہاں وہاں اس شخص کو تلاش کرتے ہانیہ نے آگے بڑھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی کوئی اسکے منہ پر ایک رومال رکھ چکا تھا۔

"واہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک جیسی دو ہیں۔۔۔۔وہ راگا کی ہو گئی تو کیا ہوا تو کال کی ہو جائے گی۔۔۔"

اس شخص نے خباثت سے کہا تو وانیہ نے اس سے لڑنا چاہا لیکن رومال پر لگی دوائی اسکی طاقت ختم کر چکی تھی کچھ ہی پل میں وہ ہوش کی دنیا سے بے خبر ہو گئی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

صبح وانیہ اٹھی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی لیکن راگا کے پاس ہونے کا احساس اور اسکی خوشبو ابھی تک وہیں موجود تھی۔

وانیا نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور کپڑے بدلے تو مرجان اس کے لیے کھانا لے کر کمرے میں آئی۔

"کیسا ہے پیاری لڑکی؟"

مرجان نے محبت سے پوچھا تو وانیا نے منہ بنا کر گہرا سانس لیا۔

"دم گھٹنے لگا ہے اپنی اس قید سے۔۔۔"

"ارے اس میں کونسا بڑی بات ہے چلو آج میں تم کو یہاں سے باہر لے کے جاتا ہے زرا تم کو یہ دیکھا دے گا کہ ہمارا گاؤں کتنا پیارا ہے اور ہم جھیل سے انکے کپڑے بھی دھو لے گا۔۔۔"

پہلے تو وانیا نے اسے انکار کرنا چاہا وہ کہیں بھی نہیں جانا چاہتی تھی نہ ہی اس جگہ سے ہلکا سا بھی دل لگانا چاہتی تھی لیکن مرجان کی خوشی کو دیکھتے ہوئے منع نہیں کر پائی۔

پھر کچھ سوچ کر ناشتہ کرنے کے بعد ایک کونے سے اس نے راگا کے کپڑے پکڑے اور مرجان کے ساتھ چل دی۔

وہ جگہ واقعی میں بہت زیادہ خوبصورت تھی۔سر سبز پہاڑ جن کی چوٹیوں پر ابھی بھی برف جمی تھی اور ان پہاڑوں کے دامن سے نکلتی ایک جھیل جو آبشار کے پانی کی طرح گرتی تھی۔جھیل سے کچھ فاصلے پر ہی انکا گاؤں آباد تھا جن میں سے کچھ گھر تو پہاڑ کے دامن میں تھے اور کچھ پہاڑوں پر پھیلے ہوئے تھے۔

آج تو سورج بھی بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھا اور بہت سے بادل پہاڑوں سے ٹکرا کر گزر رہے تھے۔

وانیا کو لگا کہ وہ گھنٹوں اس دلفریب منظر میں کھو سکتی ہے۔

"چلو وانی اب تم بھی لالا کے کپڑے دھو لو ماڑا یا بس نظارے دیکھنے آئی ہو ساتھ۔۔۔"

مرجان نے شرارت سے کہا تو وانیا نے اسکی کی نقل کرتے ہوئے قمیض اٹھا کر پانی میں رکھی لیکن انتہائی زیادہ ٹھنڈے پانی میں ہاتھ پڑتے ہی فوراً اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔

"اففف اتنا ٹھنڈا پانی۔۔۔مم۔۔۔میں نہیں کر رہی یہ گندے کپڑے پہنیں میری بلا سے۔۔۔"

وانیا کی بات پر مرجان قہقہ لگا کر ہنس دی اور راگا کے کپڑے بھی خود ہی پکڑ لیے۔

"تم بس نظارے دیکھو۔۔۔"

مرجان نے شرارت سے کہا۔تبھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تو مرجان کا دوپٹہ سر سے اتر گیا۔وانیا کی نظر اسکی گردن پر موجود لال نشان پر پڑی۔

"یہ تمہاری گردن پر کیا ہوا مرجان۔۔۔۔؟"

وانیا کے سوال پر مرجان ایک دم گھبرائی اور اپنی گردن پر ہاتھ رکھ لیا۔

"کک ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔"

"تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو کسی چیز نے کاٹا ہے کیا؟"

وانیا نے آہستہ سے پوچھا تو اسکے سوال پر مرجان لال ٹماٹر ہو گئی اور اپنا چہرہ فوراً ہاتھوں میں چھپا لیا۔

"ارے مرجان ہوا کیا ہے؟"

وانیا حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

"کک۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ماڑا یہ تو بس۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے وانی میں اتنا خوش کیوں ہے کیونکہ جب کل رات وہ واپس آئے تو انہوں نے۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ میرے بغیر شہر انہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اور انہوں نے مجھے زما مینہ کہا۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر مرجان سرخ چہرے کے ساتھ پھر سے کپڑے دھونے لگی لیکن وانیا بہت الجھ چکی تھی۔

" ویسے اس سب کا تمہاری چوٹ سے کیا تعلق ہے؟"

مرجان کا دل کیا کہ اپنا ماتھا پیٹ لے۔

"یہ چوٹ نہیں ہے ماڑا۔۔۔۔۔یہ تو بس وہ۔۔۔۔انہوں نے"

مرجان مزید شرما گئی جبکہ اسکی بات کا مطلب سمجھ کر پہلے وانیا کی آنکھیں پھیل گئیں پھر اسکا چہرہ بھی مرجان کی طرح ہی سرخی چھلکانے لگا۔

"مم۔۔۔۔میں گھر جا رہی ہوں۔۔۔"

وانیا نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا ابھی وانیا نے ایک قدم ہی بڑھایا تھا جب اچانک اسکا پاؤں بری طرح سے پھسلا اور وہ اپنا توازن قائم نہ رکھتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ وہ سیدھا جھیل میں گر گئی۔

"وانیا۔۔۔۔"

مرجان ایک چیخ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور وانیا کو دیکھنے لگی جو پانی میں ڈوبنے سے خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر چلا رہی تھی لیکن سب بے سود ہی ثابت ہوا۔

"بچاؤ کوئی بچاؤ ۔۔۔۔۔مرسته"

مرجان کے چلانے پر راگا اور ویرہ جو اپنی مخصوص جگہ پر موجود کام کی باتیں کر رہے تھے سیدھا اس آواز کی جانب بھاگے۔

"کیا ہوا ؟"

ویرہ نے مرجان کے پاس جاتے ہوئے گھبرا کر پوچھا۔

"وہ وانیا۔۔۔۔وہ پانی میں گر گیا۔۔۔"

مرجان نے زاروقطار روتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات سن کر راگا نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنی جیکٹ اتاری اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔

"راگا۔۔۔۔"

پانی میں ڈبکی لگانے کے دو منٹ بعد ہی راگا کو اسکا وجود گہرائیوں میں جاتا نظر آیا تو جتنی جلدی ہو سکا وہ آگے بڑھا اور اسے پکڑ میں لے کر باہر نکال لایا۔

"وانیا۔۔۔۔"

راگا نے اسکا گال تھپتھپایا لیکن اسے سانس بلکل بھی نہیں آ رہا تھا۔راگا نے اپنے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسکے سینے پر دباؤ ڈالا پھر کسی کی بھی پروا کیے بغیر اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اسکو اپنی سانسیں دینے لگا۔

تین چار بار یہ عمل دہرانے پر وانیا کھانسنے لگی تو راگا کی سانس میں سانس آئی۔اس نے فوراً اسکا نازک وجود اپنی پناہوں میں لے کر خود میں بھینچ لیا۔

"جان نکال دیا تم نے میرا ماڑا۔۔۔"

راگا نے بہت بے چینی سے اسکے کان میں کہا اور پھر اسکے ٹھنڈے پڑتے وجود کو اٹھا کر اپنے گھر کی جانب چل دیا۔

مرجان اور ویرہ بھی انکے پیچھے آئے تھے۔مرجان نے گھر جا کر وانیا کے گیلے کپڑے تبدیل کروائے جبکہ راگا باہر بے چینی سے کھڑا تھا۔

"راگا اس لڑکی کے لیے تیری اتنی بے چینی اچھی نہیں۔۔۔۔"

ویرہ نے راگا کی بے چینی دیکھ کر کہا۔

"ابھی نہیں ویرہ۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔"

راگا کا لہجہ بہت حکمیہ تھا۔مرجان باہر آئی تو راگا بے چینی سے گھر کے اندر چلا گیا۔

وانیا بیڈ پر لیٹی کانپ رہی تھی۔مرجان نے اسے دو کمبل اوڑھا دیے تھے لیکن پھر بھی سردی کی شدت سے وہ کپکپاتی جا رہی تھی۔

راگا نے اپنے گیلے کپڑے تبدیل کیے اور خود بھی کمبل میں گھس کر اسے اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔کچھ دیر تک تو وانیہ کپکپاتی رہی پھر ایک معصوم سی بلی کی مانند اسکی گرم آغوش میں سمٹتی ہوئی چھپ سی گئی۔

"میرا معصوم سا بچہ۔۔۔"

راگا نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور اسکو خود میں بھینچتے ہوئے سکون سے آنکھیں موند گیا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

رات ہوتے ہی وانیہ کو بہت زیادہ بخار ہو چکا تھا۔انہوں نے اپنے ساتھی ڈاکٹر کو بلایا جو ابھی اسے دوائی دے کر گیا تھا۔

اس نے راگا کو بتایا تھا کہ جو دوائی اس نے وانیہ کو دی ہے اس سے وانیا پر نشا طاری ہو گا لیکن بخار بھی جلد ہی اتر جائے گا۔

راگا نے پریشانی سے وانیا کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھا جو بھٹی کی مانند دہک رہا تھا۔

"مما۔۔۔۔"

وانیا نے راگا کا ہاتھ تھام کر معصومیت سے کہا تو راگا نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔

"مما تو نہیں شوہر موجود ہے یہاں تمہارا ۔۔۔"

راگا نے اسکا ہاتھ نرمی سے سہلاتے ہوئے کہا۔

"مم۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے بہت سردی۔۔۔۔"

وانیا نے کپکپا کر کہا تو راگا نے کمبل ہٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر اسکا تپتا وجود اپنی آغوش میں بھر لیا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔اف ہانی تم کتنی موٹی ہو گئی ہو کم کھانا کھایا کرو نا موٹی۔۔۔۔"

وانیا نے اب کامیابی سے راگا کو اپنی ماں کے بعد بہن سمجھ لیا تھا اور یہ سب راگا کو کہاں گوارا تھا اسی لیے بالوں سے تھام کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔

"افغان جلیبی یہ تمہارا شوہر ہے اور بہتر یہی ہے کہ تم مجھے کوئی اور سمجھ کر میرا امتحان لینا بند کر دو ورنہ وہ سب کر گزروں گا جسکا حق صرف تمہارے شوہر کا ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا نے اسکی گردن پر پھونک ماری تو وانیہ کھلکھلا دی۔

"آپ۔۔۔۔آپ تو ہانی نہیں آپ وہ برے والے جن ہیں جنہوں نے اس پری کو قراقرم کے پہاڑوں میں قید کر لیا۔۔۔"

وانیا نے راگا کو دیکھتے ہوئے اپنی جانب اشارہ کیا تو راگا نے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں موجود خمار کو دیکھا۔

"اور اب یہ پری ہمیشہ ہی اس جن کی قید میں رہی گی جاناں اپنی آخری سانس تک۔۔۔۔"

راگا نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا۔کچھ دیر وانیا خاموش رہی تو راگا کو لگا کہ وہ سو گئی لیکن پھر وہ ہاتھ پیر چلانے لگی اور اپنے اوپر سے کمبل ہٹا دیا۔

"اففف بہت گرمی ہے۔۔۔۔۔ہٹائیں اسے میرے اوپر سے۔۔۔۔"

وانیا نے کمبل کو اتارا اور راگا پر آ کر لیٹ گئی۔

"میں بابا کی جان ہوں ہانی تم نہیں بابا سب سے زیادہ مجھے پیار کرتے ہیں۔۔۔کرتے ہیں نا؟"

وانیا نے نگاہیں اٹھا کر راگا سے پوچھا۔

"لڑکی آج تو تم مجھے اپنی ماں،بہن اور نا جانے کیا کیا بنا کر ہمارا نکاح ہی خطرے میں ڈال دے گا۔۔۔اب خاموش ہو جاؤ ورنہ تمہیں خاموش کروا دوں گا"

راگا نے اسکے ہونٹوں کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے کہا۔

"ارے آپ تو میرے بابا نہیں آپ تو جن ہیں۔۔۔۔وہ برے والے جن۔۔۔۔"

وانیا نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔

"لیکن آپ کتنے پیارے جن ہیں نا بس یہ مونچھیں اچھی نہیں میرے ہونٹوں پر سوئی کی طرح چبھتی ہیں۔۔۔"

وانیا نے اسکی مونچھوں کو چھو کر کہا اور پھر آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ بہت نرمی سے راگا کی آنکھوں پر رکھے۔

"یہ کیا کر رہی ہو وانیا۔۔۔؟"

راگا نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے سختی سے پوچھا۔

"پیار کر رہی ہوں اپنے پیارے سے جن کو۔۔۔۔"

وانیا نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنے ہونٹ اسکے دونوں گالوں پر رکھے اور تبھی راگا کی بس ہوئی تھی اسی لیے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسکے ہونٹوں کو اپنی شدت بھری گرفت میں لے لیا۔

وانیا اسکی شدت محسوس کرتے سٹپٹائی لیکن اب اسکی گرفت سے آزادی ناممکن تھی جب راگا کو لگا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پا رہی تو اس سے دور ہوا اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔

"میری بس ہو رہی ہے وانیا اب خود کو روکنا ناممکن ہو چکا ہے میری افغان جلیبی۔۔۔۔سو جاؤ ورنہ جو ہو گا سہہ نہیں پاؤ گی"

راگا نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے تو وانیا ہنستے ہوئے اس سے دور ہوئی۔

"دور رہو جن۔۔۔۔مت کھاؤ مجھے۔۔۔۔"

وانیا نے اسے دور ہونے کا کہا لیکن اس پر اپنی پکڑ مظبوط کی راگا بھی اسکی کمر پر اپنی گرفت سخت کر چکا تھا۔

"نہیں جانے جہان آج تو  تمہارا یہ جن اپنی افغان جلیبی کو کھا ہی جائے گا۔"

راگا پلٹ کر اس پر حاوی ہوا اور پھر سے اسکے ہونٹوں پر اپنی گرفت مظبوط کر لی۔وانیا اسکی گرفت میں مچل رہی تھی لیکن اب راگا کو ہوش ہی کہاں تھا۔وہ تو اپنی معصوم حرکتوں سے اسکا سارا ہوش ختم کر چکی تھی۔

"سسسس۔۔۔۔"

وانیہ نے اپنی گردن پر راگا کے دانت گڑھتے محسوس کیے تو سسک اٹھی۔پھر اپنے کندھے سے شرٹ بھی سرکتی محسوس کر وہ کپکپا کر رہ گئی۔

"عماد۔۔۔۔"

وانیا کے گھبرانے پر راگا نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو گلابی چہرہ لیے شرمائی شرمائی سی اسکے دل میں اتر رہی تھی۔

"سو جاؤ وانیا۔۔۔۔،"

راگا نے سختی سے کہتے ہوئے اسے خود میں بھینچا جبکہ بہت دیر تک وانیہ یونہی اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہوئی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔اسے سکون سے سوتا دیکھ راگا نے بھی سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں۔

                     ❤️❤️❤️❤️

ہانیہ کی آنکھ کھلی تو پہلے تو اسے کچھ سمجھ کی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔سر بری طرح سے چکرا رہا تھا اور آنکھیں بھی دھندلی ہوئی تھیں۔

تبھی تھوڑی سی ہمت کر کے وہ اٹھی تو اسکی نگاہ سامنے موجود شخص ہر پڑی جو اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بندھی پٹی کو کھول رہا تھا۔اڈے دیکھ کر ہانیہ کی گھبراہٹ کم ہوئی کیونکہ اس کے لیے ایک ہاتھ والے شخص کو ہرانا بہت زیادہ آسان ہو جاتا۔

"اپنی بہن کو ڈھونڈنے آئی ہے نا تو یہاں۔۔۔ہوں راگا کی قید میں ہے وہ۔۔۔۔جانتی ہے اسے چھونے کی وجہ سے راگا نے میرا ہاتھ کاٹ دیا۔۔۔"

کال نے اپنا پٹی میں بندھا بازو ہانیہ کے سامنے کیا لیکن ہانیہ بس خاموشی سے بیٹھی اپنی کمر کے پیچھے بندھے ہاتھ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"لیکن وہ نہ ملی تو کیا ہوا تو بھی تو ویسی ہی ہے نا اتنی ہی حسین۔۔۔اتنی ہی نازک۔۔۔۔"

کال نے آگے ہو کر ہانیہ کا گال چھوا۔

"اتنی ہی معصوم۔۔۔"

کال نے وحشت سے کہا اور اب اسکا ہاتھ ہانیہ کی گردن پر آ چکا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔میں ویسی نہیں ہوں مسٹر وہ زبردستی سے مانتی ہو اور میں۔۔۔۔میں پیار کی پجارن ہوں۔۔۔۔"

ہانیہ نے ادا سے کہا تو کال حیرت زدہ ہو گیا۔

"ہاتھ کھولو نا تا کہ تمہیں ساتھ تو دے سکوں۔۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے چہرے پر پھونک مار کر کہا تو کال نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ کھول دیے اور یہی موقع ہانیہ کو چاہیے تھا فورا اس نے اپنا ہاتھ کال کے گردن میں ڈال کر اسکی گردن کو زرو دار جھٹکا دے کر زمین پر گرایا اور اسکی کمر کے پاس سے چاقو نکال کر اسی کی گردن پر رکھ دیا۔

"تم نے مجھے وانیا جیسا نازک سمجھ کر غلطی کر دی مسٹر۔۔۔۔بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔؟"

ہانیہ نے سختی سے چاقو اسکی گردن پر رکھتے ہوئے کہا لیکن جواب میں کال قہقہ لگا کر ہنسنے لگا۔

"تم تو اس سے بھی زیادہ کمال ہو تمہیں برباد کرنے کا زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔۔۔اندر آؤ۔۔۔"

اس سے پہلے کے ہانیہ کو کچھ سمجھ آتا چار آدمی کمرے میں آئے اور ہانیہ کو دبوچ کر کال سے دور کر کے زمین پر لیٹا دیا۔

"ہاہاہاہا۔۔۔فکر مت کر جانے من ان سب کو بھی موقع دوں گا اپنے بعد۔۔۔آج رات تو کبھی نہیں بھول پائے گی۔"

کال کی بات سن کر ہانیہ جھٹپٹانے لگی لیکن ان چاروں نے اپنے مظبوط ہاتھوں سے اسکے پاؤں اور بازو پکڑ کر اسے بے بس کر دیا۔

کال نے آگے بڑھ کر اسکی جیکٹ کھولی اور شرٹ اٹھا کر اسکے پیٹ کر اپنا ہاتھ رکھا۔بہت سے آنسو ہانیہ کی آنکھوں سے بہہ نکلے نفرت ہو رہی تھی اسے اپنی اس کمزوری اور بے بسی سے۔۔۔

یا اللہ پاک ایسا کچھ ہونے سے پہلے مجھے موت آ جائے۔۔۔

ہانیہ نے دعا کی اور کال کو خود پر جھکتا دیکھ اپنی نم آنکھیں وحشت سے بند کر لیں لیکن اگلے ہی پل کال کا وجود اس پر سے غائب ہوا تھا۔

ہانیہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اسکی نظر انس پر پڑی جو دانت غصے سے تنی رگوں کے ساتھ کال کو وحشیوں کی طرح مار رہا تھا۔

کال کے آدمیوں نے ہڑبڑا کو ہانیہ کو چھوڑا اور انس کی جانب بڑھے لیکن ہانیہ نے آگے بڑھ کر وہ چاقو واپس اٹھایا اور ایک آدمی کی کمر میں گاڑ دیا۔

دوسرا آدمی حیرت سے ہانیہ کی جانب مڑا لیکن تب تک ہانیہ اسکی گردن دبوچ کر مروڑ چکی تھی۔

اب کی بار باقی دونوں آدمی بھی ہانیہ کی جانب آئے تو ہانیہ نے ہاتھ کا مکا بنا کر اس آدمی کی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ وہ کراہ کر اپنے ٹوٹے ناک پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھ گیا۔

"ررر ۔۔۔۔رک جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔۔۔"

چوتھے آدمی نے گھبرا کر انس پر بندوق کو کہا جو ابھی بھی کال کو بری طرح سے مار رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا ہانیہ نے اپنا پاؤں بہت زور سے اسکے بازو پر مارا اور بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

ایک پل کا وقت ضائع کیسے بغیر وہ آدمی وہاں سے بھاگ گیا۔ہانیہ نے انس کو دیکھا جو ابھی بھی ہر چیز سے بے خبر بس کال کو مار رہا تھا۔

"انس بس کریں وہ مر جائے گا۔۔۔"

ہانیہ نے آگے ہو کر انس کو روکا تو انس نے جھٹکے سے نیم مردہ ہوئے کال کو فرش پر پھینکا۔پھر انس کی نگاہ اس ہاتھ پر پڑی جس سے اس نے ہانیہ کو چھوا تھا۔

"کیسے چھوا تو نے میری ہانیہ کو جرات کیسے ہوئی تیری۔۔۔"

انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے توڑ دیا تو اس سنسان جگہ پر کال کی چیخ گونج اٹھی جبکہ ہانیہ تو بس انس کے میری ہانیہ کہنے پر حیرت سے بت بن چکی تھی۔

"بول کہاں ہے راگا ورنہ موت مانگے گا تو موت بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔بول کہاں ہے وہ۔۔۔؟"

انس نے غصے سے پوچھا تو کال نے اپنی جان بچانے کے لیے فوراً انہیں پتہ بتا دیا ویسے بھی کال یہی چاہتا تھا کہ وہ لڑکی جب اسکی نہیں ہوئی تو راگا کی بھی نہ رہے۔۔۔۔

پتہ سن کر انس نے جھٹکے سے کال کو چھوڑا اور ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لا کر ایک گاڑی میں بیٹھایا۔سارا راستہ انس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن ہانیہ ابھی بھی اسکا غصہ محسوس کر سکتی تھی۔

ہوٹل واپس آ کر انس ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لایا اور جھٹکے سے اسے چھوڑا۔

"ہاؤ ڈئیر یو ہانیہ پاگل ہو کیا سوچا ہے کیا ہوتا تمہارے ساتھ اگر میں وہاں نہیں آتا تو۔۔۔۔"

انس غصے سے چلایا اور پاس پڑی کرسی کو زمین پر پٹخا تھا۔

"جو ہوتا سو ہوتا آپ کو اس سے کیا زیادہ سے زیادہ مر ہی جاتی نا میں انس آپ کو فرق پڑتا میرے ہونے یا نہ ہونے سے؟"

ہانیہ کے غصے سے کہنے پر انس کا دل کیا کہ ایک تھپڑ لگا کر اس پاگل لڑکی کا دماغ درست کر دے۔

"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔"

"جی نہیں پڑتا فرق۔۔۔کیونکہ میرا اور آپکا تعلق ہی کیا ہے انس۔۔۔پرواہ ہے آپکو میری؟ بولیں کیوں پڑتا مجھے کچھ ہو جانے سے آپکو فرق۔۔۔۔؟"

ہانیہ نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے غصے سے پوچھا تو انس آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔

"کیونکہ میں تمہارا ہیرو ہوں ہانیہ وجدان خان۔۔۔محبت ہو تم میری آج سے نہیں اسی دن سے جس دن میرا گریبان پکڑ کر تم نے مجھے اپنی ملکیت کہا تھا۔۔۔۔اسی پل سے جب میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تم نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔میں وہاں سے اس لیے بھاگا تھا ہانیہ وجدان خان کیونکہ تم سے نہیں اپنے دل سے ہار بیٹھا تھا میں۔۔۔۔"

انس نے اپنی انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور کر کہا۔بہت دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔زندگی میں پہلی بار ہانیہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

"صبح ہوتے ہی ہم وہاں جا کر وانیا کو وہاں سے لے آئیں گے اور اس کے بعد تم دونوں کو واپس لے جا کر میں وجدان سر سے تمہارا ہاتھ مانگوں گا ہانیہ خان اور تمہارا جواب ہاں ہی ہونا چاہیے ورنہ قسم سے تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا کیونکہ تم صرف انس راجپوت کی ہو ۔۔۔"

اس نے شہادت کی انگلی سے اسکا گال چھو کر کہا اور ہانیہ کو ہکا بکا سا دیوار کے ساتھ لگا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بہت دیر بعد تک ہانیہ حیرت کے زیر اثر وہیں کھڑی رہی تھی۔یہ کس نئی مشکل میں پڑ چکی تھی وہ۔

                   ❤️❤️❤️❤️

 وانیہ کی آنکھ دوپہر کے قریب جا کر کھلی تھی۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا پھر کل اپنا پانی میں گرنا اور راگا کا اسے پانی میں سے نکالنا یاد آیا۔

اسے گزری رات کا کوئی واقعہ تو یاد نہیں تھا لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ راگا ساری رات اس کے پاس اس کا خیال رکھتا رہا تھا۔وانیا گھر کے باہر سے آنے والی ہلکی سی آوازوں پر دروازے کے پاس آ گئی۔

"کچھ پلوں کا کھیل رہ گیا ہے بس ویرہ پھر دیکھنا جو فوجی ہماری راہ کا کانٹا بن رہے ہیں نا وہ ہی میری راہ کے کانٹے ہٹائیں گے۔۔۔۔"

راگا کی آواز پر ہانیہ نے باہر جانے کا ارادہ ترک کیا اور وہیں کھڑی ہو گئی۔

"تمہیں کیا لگتا ہے راگا صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ایسا ہوگا؟"

ویرہ کے سوال پر راگا ہلکا سا ہنس دیا۔

"وہ صرف ایک لڑکی ہی تو نہیں ہے ویرہ وہ ایک بہت خاص فوجی کی لاڈلی بیٹی ہے۔۔۔۔تم شاید جانتے نہیں وجدان خان کو  آئی ایس آئی ایجنٹ رہ چکا ہے وہ۔۔۔ہمارے جیسے کتنے ہی دہشت گردوں کو انجام تک پہنچایا ہے اس نے۔۔۔۔"

راگا کے منہ سے اپنے باپ کا نام سن کر وانیا ٹھٹکی۔

"اور اب جب اسے یہ پتا چلے گا کہ اس کی جان سے پیاری بیٹی ایک دہشت گرد کو اپنا دل دے بیٹھی ہے تو تم یہ سوچو ماڑا کہ وہ بے بس ہو کر کیا کچھ نہیں کرے گا ہمارے لیے۔۔۔۔"

راگا کی بات پر وانیا کا دھڑکتا دل بند ہوا۔

"ہاہاہا۔۔۔۔تم دیکھنا ویرہ مجھ سے اپنی بیٹی کی آزادی کے لیے ملک کے ساتھ بغاوت تک کر جائے گا وہ۔۔۔۔"

راگا نے ہنس کر کہا ہر اندر کھڑی وانیہ کا دل ہزار ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا۔بہت سے آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے۔

" اسی لئے تم اس سے نرمی اور پیار کا کھیل کھیل رہے تھے؟اسے جو لگا کہ تم نے اسے کال سے بچانے کے لئے یہ نکاح کیا تھا وہ سب۔۔۔۔۔"

"ہاں ویرہ اس فوجی کی اولاد سے وہ محبت بس ایک کھیل تھا تاکہ اس لڑکی کے ذریعے میں وجدان خان کو قابو میں لا سکوں۔۔۔۔"

راگا نے مسکرا کر کہا اور یہ سن وانیا کی بس ہوئی تھی اسی لئے دروازہ کھول کر وہ باہر آئی اور ایک زور دار تھپڑ راگا کے منہ پر مارا۔

راگا کے ساتھ ساتھ ویرہ نے بھی حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کی اس حرکت کو دیکھا۔

"مجھے لگا تھا کہ تم اتنے برے انسان نہیں جتنے بنتے ہو۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ تمہارے اندر بھی اچھائی ہے لیکن میں غلط تھی تم برے نہیں انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔۔۔۔جس کے نزدیک کسی کے جذبات بس کھلونا ہیں۔۔۔۔"

وانیا زارو قطار روتے ہوئے اسکے سینے پر مکے برسا رہی تھی۔

"لیکن اب میں تمہارا کھلونا نہیں بنوں گی۔۔۔چلی جاؤں گی میں یہاں سے کچھ بھی ہو جائے چلی جاؤں گی۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر وانیہ وہاں سے جانے لگی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے بال راگا کی مٹھی میں تھے۔

"تم نے کہا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ گی اور ہم تمہیں جانے دیں گے؟ تم تو ضرورت سے زیادہ معصوم ہو جان راگا اچھا ہی ہے تمہیں سب معلوم ہوگیا اب تمہارے بدلے تمہارے باپ سے ایک خودکش دھماکہ کروانے کا زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔۔۔"

راگا کی بات پر جہاں ویرہ مسکرایا وہیں وانیہ کی دھڑکنیں تھم گئی تھیں۔کیا اس کے نصیب میں یہی لکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کی بدنامی اور موت کا باعث بنے۔۔۔۔۔نہیں اس سے پہلے وہ مرنا پسند کرے گی۔۔۔

"تم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوگے دیکھنا تم۔۔۔۔۔"

وانیہ نے روتے ہوئے کہا تو راگا کے ہونٹوں پر ایک دلکش سی مسکان آئی۔

"تم بھی دیکھنا جان راگا میں اپنے ہر ارادے میں کامیاب ہو کر تمہیں اپنی باہوں کا پھول بناؤں گا۔۔۔"

راگا نے اس کے کان میں سرگوشی کی لیکن آج اس سرگوشی سے وانیہ کو بہت زیادہ نفرت ہوئی۔۔۔اسے تو اپنے پورے وجود سے نفرت ہو چکی تھی۔اپنے اس دل سے نفرت ہو چکی تھی جس نے اس شخص سے محبت کی۔

"آئی ہیٹ یو۔۔۔۔"

وانیا کے روتے ہوئے بے بسی سے کہنے پر راگا مسکرایا اور اسے کمرے میں قید کر کے وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد بھی وانیا زمین پر بیٹھ کر روتی رہی تھی۔

صبح ہوتے ہی ہانیہ اور انس وانیا کے پاس جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔

"ہانیہ تم یہ پہن لو ہمیں وہاں اپنی پہچان بدل کر جانا ہوگا اور جتنی خاموشی سے ہو سکے وانیا کو اس گھر سے نکالنا ہے اور اپنے ساتھ لے آنا ہے۔"

انس نے پٹھانی طرز کے کپڑے ہانیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہانیہ نے انہیں پکڑ کر ہاں میں سر ہلایا۔

"لیکن اس شخص نے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں میں بہت زیادہ پہرہ ہوتا ہے ہم اس گاؤں میں داخل کیسے ہوں گے؟"

"اس بات کی تم فکر مت کرو ایک آئیڈیا ہے میرے دماغ میں تم بس وانیا کو وہاں سے نکالنے کے بارے میں سوچو۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کپڑے بدلنے سے چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ جامنی رنگ کا فراک اور کھلی سی شلوار پہن کر کمرے سے باہر آئی تو اس کی نظر انس پر پڑی جو مکمل طور پر بدلا ہوا تھا۔

سفید شلوار قمیض پر براؤن چادر لیے اور سر پر براؤن پٹھانی ٹوپی پہنے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا۔

"چلیں؟"

انس نے اسکی جانب دیکھ کر سوال کیا تو ہانیہ نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لے کر اپنا چہرہ چھپا لیا اور اسکے ساتھ باہر آ کر ایک بس میں بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر کے بعد ہی بس چلنے لگی ہاتھ سے لے کر اب تک کئی بار اپنا پلین ڈسکس کر چکے تھے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ہانیہ کا دل بہت ڈر رہا تھا۔

"آپ سے کچھ پوچھوں؟"

"ہمم۔۔۔"

انس نے آہستہ سے کہا۔

"آپ کو کل پتہ کیسے لگا کہ میں کہاں ہوں؟"

کل کا واقع یاد کر کے انس نے پھر سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

"جو شخص تمہیں لے کر گیا تھا اسکے ساتھ ایک اور آدمی تھا میں نے اسے پکڑا اور اسی سے پتہ معلوم کیا۔۔۔۔یہ تو شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلا کر باہر کی جانب دیکھا جہاں وہ بس پہاڑوں پر سے گزر رہی تھی۔

"انس مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ہم وانی کو بچا تو لیں گے نا؟" 

انس نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔

"ان شاءاللہ۔"

ہانیہ ہلکا سا مسکرائی اور پھر سے باہر دیکھنے لگی۔اگر اللہ نے چاہا تو وہ بہت جلد اپنی بہن کے پاس ہو گی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

راگا کو مرجان نے بتایا تھا کہ وانیا نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور ابھی بھی وہ بس رو رہی تھی۔یہ جان کر راگا خود کھانا لے کر اسکے پاس آیا اور کھانا اسکے سامنے رکھا۔

"کھانا کھاؤ وانیا۔۔۔۔"

راگا نے اسے حکم دیا لیکن وانیہ نے اپنا سر بھی گھٹنوں سے نہیں اٹھایا وہ بس سر جھکائے رونے میں مصروف تھی۔راگا نے گہرا سانس لیا۔

"میری افغان جلیبی کھانا کھا لو نا اپنے پیارے جن کی خاطر ۔۔۔"

راگا نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بہت پیار سے کہا لیکن وانیا نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔

"دور رہیں مجھ سے۔۔۔۔"

وانیا غصے سے چلائی لیکن اب راگا کا ضبط جواب دے چکا تھا اسی لئے آگے بڑھا اور وانیا کے بال اپنی مٹھی میں جکڑ کر اس کا چہرہ اپنے قریب کیا۔

"شرافت سے کھانا کھاؤ ورنہ مجھے اپنے طریقے سے بھی کھلانا آتا ہے ۔۔۔"

راگا کے گھور کر کہنے پر وانیا مزید روانی سے بہنے لگیں۔راگا نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور نوالے توڑ کر اس کے منہ میں ڈالنے لگا جبکہ وانیہ اب اس کے خوف سے چپ چاپ کھانا کھا رہی تھی۔

"یہ ہوئی نا بات جان راگا تمہیں اپنی نازک جان کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے کیونکہ تمہارا شوہر اپنا حق لینے پر آیا نا تم میں اسے جھیلنے کی طاقت ہی نہیں۔۔۔۔"

راگا نے اسکا گال سہلاتے شرارت سے کہا لیکن وانیا بس اسے نفرت اور افسوس سے دیکھ رہی تھی۔

"آپ اتنے برے تو نہیں تھے عماد مجھے لگا کہ آپ کے اندر بھی اچھائی ہے۔۔۔۔"

وانیا کے رو کر کہنے پر راگا بس مسکرایا تھا۔

"اس میں غلطی سراسر تمہاری ہے جان جگر تمہیں مجھ میں اچھائی ڈھونڈتی رہی جو کہ مجھ میں پیدا ہونے پر بھی نہیں تھی۔۔۔۔"

راگا نے زہریلی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ ویسے بھی تو میرے بابا سے سودا کر سکتے تھے نا۔۔۔۔آپ بس میرا نام لیتے ان کے سامنے اور وہ کچھ بھی کر گزرتے۔۔۔۔یہ سارا پیار اور نکاح کا دکھاوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"

"ہوں جان راگا تم نہیں سمجھو گی ویسے تمہارا باپ تم سے مجھے چھین سکتا تھا لیکن تمہارے دل اور وجود پر حکومت کرنے کے بعد وہ کچھ بھی کر لے۔۔۔۔"

اچانک راگا واپس آیا اور وانیا کے گرد ہاتھ رکھ کر اسکے اتنا قریب ہوا کہ وانیا اسکی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگی۔

"وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا تمہارا دل اور وجود صرف راگا کا رہے گا لخت جگر میرے مرنے کے بعد بھی۔۔۔۔"

راگا نے وحشی انداز میں اسکے نازک گال سے اپنی داڑھی رب کی اور اس سے دور ہو گیا۔

"آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔اس دنیا کے سب سے بڑے انسان۔۔۔"

وانیا نے خود میں سمٹ کر روتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر راگا تلخی سے مسکرایا۔

"اب تم نے مجھے ٹھیک سے پہچانا ہے جان راگا میں بہت برا ہوں شاید شیطان سے بھی زیادہ۔۔۔"

راگا اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور وانیا کتنی ہی دیر اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے روتی رہی تھی۔

"مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔۔اللہ پاک میری مدد کریں آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔۔۔میری مدد کریں۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے کہا اور پھر بہت دیر تک وہیں بیٹھ کر روتی رہی۔

                  ❤️❤️❤️❤️

جنت کل سے اپنے کمرے میں بند تھی۔سالار کئی مرتبہ اسے فون کر چکا تھا لیکن جنت نے اس سے کوئی بات نہیں کی وہ اسے کہتی بھی کیا اس کے پاس سے کہنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں تھا۔

"میں اندر آجاؤں؟"

شایان کی آواز پر جنت جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ ٹھیک سے لے کر ہاں میں سر ہلایا۔شایان نے اسکے پاس آ کر پیار سے اسکا چہرہ تھام کر اپنے سینے سے لگایا۔

"میرا بچہ ناراض ہے مجھ سے؟"

جنت نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں پاپا میں آپ سے ناراض ہو سکتی ہوں؟"

جنت نے آنسو پونچھ کر کہا تو شایان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔

"اس سے بھی زیادہ پیار کرتی ہو اپنے بابا سے؟"

شایان کے سوال پر جنت کی نگاہیں جھک گئیں اور بہت سے آنسو ان سنہری آنکھوں سے نکلے تھے۔

"میں نہیں جانتی بابا کہ انکے بابا نے کیا کیا تھا میں بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔مجھے ان کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔"

جنت نے روتے ہوئے کہا۔

"اور اگر مجھے یا اس میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو تم کسے چنو گی؟"

شایان کے سوال پر جنت کا دل بہت زور سے دھڑکا۔ہیں کیسی کشمکش میں ڈال دیا تھا شایان نے اسے ایک طرف وہ تھا جو اس کے معصوم دل پر قابض ہوا بیٹھا تھا اور دوسری طرف اس کا باپ تھا جو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔جس کا وہ غرور اور مان تھی۔تو کس محبت کا پلڑا بھاری تھا؟بہت دیر سوچ کر جنت نے اپنا جواب تلاش کیا۔

"آپ کو بابا۔۔۔۔ میں ہمیشہ آپ کو چنوں گی۔۔۔"

اپنی بیٹی کے جواب پر شایان شان سے مسکرایا۔

"تو پھر ایک بات یاد رکھنا بیٹا کہ ایک باب اپنی بیٹی کیلئے کبھی بھی کچھ غلط نہیں سوچتا اسے اپنی بیٹی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔۔۔"

جنت نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔

"مجھے آپ کو ہر فیصلہ منظور ہے بابا میں وہی کروں گی جو آپ چاہتے ہیں۔"

اپنی بیٹی کے جواب پر شایان نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما۔

"تم میرا غرور ہو جنت اور آج یہ بات کہہ کر تم نے میرا مان مزید بڑھا دیا ہے۔"

شایان اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اگر ایک باپ کے لیے سب سے عزیز چیز اس کی بیٹی کی خوشیاں ہوتی ہیں تو ایک بیٹی بھی اپنے باپ کی ناموس کی خاطر ان خوشیوں کو دہکتی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔

                    ❤️❤️❤️❤️

معراج خادم شفیق سے ملنے اسکے گھر آیا تو اسکی پہلی نگاہ ایمان پر پڑی جو لاونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ایمان نے جیسے ہی معراج کو دیکھا  خوشی سے چہکتے ہوئے اس کے پاس آئی۔

"کیسے ہو تم ملنگ اتنے دنوں کے بعد آئے چلو میرے روم میں میں نے تمہیں اپنا سکیچ دیکھانا ہے جو میں نے ہم دونوں کا بنایا ہے۔"

ایمان نے خوشی سے اسے کھینچتے ہوئے بتایا لیکن معراج اپنی جگہ پر جما رہا تھا۔

"ممم۔۔۔۔میں انکل سے ملنے آیا ہوں۔"

معراج نے سنجیدگی سے کہا تو ایمان کے چہرے کی مسکان غائب ہو گئی۔

"تم مجھ سے ملنے نہیں آئے؟تم مجھ سے ناراض ہو کیا؟"

یہ سوال پوچھتے ہوئے ایمان کا دل خوف سے بند ہوا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا سب سے اچھا اکلوتا دوست اس سے ناراض ہوجائے۔

"ننن۔۔۔۔نہیں ناراض نہیں ہوں ببب۔۔۔۔بس انکل سے ملنے آیا ہوں۔"

ایمان نے ہاں میں سر ہلا کر اسکا ہاتھ چھوڑا اور معراج وہاں سے خادم کے آفس کی طرف چل دیا لیکن ایمان بے چین ہوتے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکے پیچھے گئی تھی۔

"مم ۔۔۔۔میں اندر آ جاؤں انکل؟"

معراج نے دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھا۔

"ہاں آؤ معراج بیٹا۔۔۔"

خادم صاحب کے کہنے پر معراج اندر آیا اور کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر سر جھکاتے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

"ممم ۔۔۔۔مجھے آپ سے ببب۔۔۔۔بات کرنی ہے۔۔۔۔"

"ہاں کہو بیٹا۔۔۔"

معراج کی پریشانی دیکھ کر خادم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

"ببب۔۔۔۔۔بڑے بابا میری شادی ااا۔۔۔۔اپنی بیٹی جنت سے ککک۔۔۔۔کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اس لیے میں ااا۔۔۔۔ایمان سے شادی نہیں کر سکتا انکل۔۔۔۔"

معراج کی بات پر خادم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

"لیکن معراج تم نے خود مجھے بتایا تھا کہ تم ایمان کو پسند کرتے ہو۔"

خادم کے چہرے پر غصے کے آثار واضح تھے۔

"ججج۔۔۔۔جی انکل کرتا ہوں۔۔۔۔لللل۔۔۔۔۔لیکن ممم۔۔۔۔میں بڑے بابا کی بات ننن۔۔۔۔نہیں ٹالوں گا۔۔۔ااا۔۔۔۔اس لیے سوری۔۔۔"

معراج اتنا کہہ کر پلٹا تو اسکی نگاہ دروازے میں کھڑی ایمان پر گئی جس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو چکی تھیں۔وہ آہستہ سے چل کر معراج کے پاس آئی تو معراج اپنی پلکیں جھکا گیا۔

"تمہاری شادی ہو رہی ہے ملنگ؟"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔

"بہت مبارک ہو تمہیں ملنگ بہت خوش قسمت ہے نا وہ تم اب ہمیشہ کے لیے اسکے دوست بن جاؤ گے۔۔۔۔"

ایمان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا پھر ایک خیال کے تحت ان آنکھوں میں خوف اترا تھا۔

"تم مجھے بھولو گے تو نہیں نا ملنگ۔۔۔تم مجھ سے دوستی تو نہیں توڑ دو گے؟"

اس سے پہلے کے معراج کچھ کہتا ایمان اسکے پاس آئی اور اسکے ہاتھ بے چینی سے تھام لیے۔

"پلیز مجھ سے دوستی مت توڑنا میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔پلیز چاہے تو سال میں ایک بار ملنے آ جانا لیکن مجھ سے دوستی نہ توڑنا۔۔۔ "

ایمان کی بات پر کئی آنسو معراج کی سبز آنکھوں سے ٹوٹ کر زمین کر گرے۔

"نہیں توڑوں گا تم سے دوستی وعدہ۔۔۔۔"

معراج نے اسے یقین دلایا تو ایمان نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے۔

"اپنی منگیتر کو کہنا میری دوست کہتی ہے کہ معراج بہت اچھا ہے اسکا بہت زیادہ خیال رکھے۔۔۔وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ اچھا ہے۔"

ایمان نے اتنا ہی کہا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔معراج نے کرب سے اپنی سبز آنکھیں میچ لیں۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی معراج سعد کسی اور سے شادی کا وعدہ کر کے میری بیٹی سے جھوٹے وعدے کرنے کی ہاں بولو ۔۔۔۔"

خادم معراج کے سامنے آیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر گھورتے ہوئے کہا۔ایک پل میں خوف سے معراج کا دل حلق میں آیا تھا۔

"ااا۔۔۔۔انکل۔۔۔۔"

"بہت شوق ہے نہ تمہیں اپنے بڑے پاپا کی بیٹی سے شادی کرنے کا۔۔۔بہت اچھا لگتا ہے نہ تمہیں وہ اور تمہارا وہ ماموں وجدان خان۔۔۔سچ جانو گے نا تو ان کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہیں کروگے۔"

خادم کے غصے سے کہنے پر معراج کی سبز آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

"ییی۔۔۔۔یہ آپ کیا کککک۔۔۔۔کہہ رہے ہیں؟"

"ہاں معراج سعد تمہارے ماں باپ کا قتل ہوا تھا جو تمہاری پیاری ممانی کے بہنوئی نے کیا تھا اور جانتے ہو کیا کیا ان دونوں نے اس کے ساتھ۔۔۔۔معاف کر دیا اسے اور ملک سے باہر بھگا دیا جہاں وہ آج بھی عیاشی کر رہا ہے ۔۔۔۔"

خادم کی بات پر معراج کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"ننن۔۔۔۔نہیں آپ جھوٹ بببب ۔۔۔۔۔بول رہے ہیں۔۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔جھوٹ؟ جا کر آج اپنے بڑے بابا سے پوچھنا معراج تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔۔۔"

اتنا کہہ کر خادم نے معراج کو جھٹکے سے چھوڑا۔

"نکل جاؤ میرے گھر سے اور اب میری بیٹی ہو مزید اذیت دینے مت آنا یہاں پر۔۔۔"

خادم نے غصے سے کہا تو معراج جلدی سے وہاں سے باہر آ گیا لیکن دماغ میں ابھی بھی خادم کی باتوں کا فتور گھوم رہا تھا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شایان سے یہ سوال ضرور کرے گا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

ہانیہ اور انس کال کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچ چکے تھے جو پہاڑوں کے دامن میں بنا چھوٹا سا گاؤں تھا اور اردگرد بس پہاڑ ہی تھے۔

"اس شخص کے بتانے کے متابق اس پہاڑ کے پاس سے ایک خفیہ راستہ غار میں سے گزرتا ہے جس کا علم بس ان خاص لوگوں کو ہے ہمیں اسی راستے سے اندر داخل ہونا ہو گا۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"تمہیں پشتو آتی ہے؟"

ہانیہ نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

"فینٹاسٹک۔۔۔بس ہمیں اگر کوئی روکے گا تو ہم کہیں گے کہ ہم اسی گاؤں میں رہتے ہیں لیکن ہمارا مین ٹارگٹ راگا کا گھر ہے۔۔۔ہمیں جلد از جلد بس وہیں جانا ہے۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"اور اس سے آگے میرا کام ہو گا۔"

انس مسکرایا اور اسکے ہاتھ میں ایک پسٹل پکڑا دی جو ہانیہ نے چھپا لی۔انس اسے اس غار سے لے کر اس گاؤں میں آیا۔تھوڑی ہی دیر میں انہیں وہ گھر مل گیا جس کی نشانیاں انہیں اس آدمی نے بتائیں تھی۔

"جاؤ ہانیہ میں گھر کے پیچھے ہی رہوں گا تم وانیا کو وہاں بھیج دینا۔"

"ٹھیک ہے۔۔۔۔"

ہانیہ اتنا کہہ کر جانے لگی تو انس نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔

"اپنا خیال رکھنا۔۔۔"

ہانیہ نے ہلکا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اس گھر کی جانب چلی گئی۔بایر ہی دو پہرے دار کھڑے تھے۔ہانیہ دروازے کی جانب بڑی تو وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

"آپ تو اندر نہیں تھا؟"

ایک نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔

"میں کب سے باہر ہوں اور پتہ بھی نہیں تم دونوں کا نا جانے دھیان کہاں ہوتا ہے اب اپنے کام پر دھیان دینا۔"

ہانیہ نے سختی سے کہا تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ہانیہ کمرے میں آئی اور بے چینی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔وانیا اسے ایک کونے میں سمٹی روتی ہوئی نظر آئی تھی۔

"وانی۔۔۔"

بلکل اپنے جیسی ہی آواز وانیا کے کانوں میں پڑی تو اس نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر ہانیہ کو دیکھا جو اسکے سامنے کھڑی تھی۔

"ہانی ۔۔۔۔؟"

وانیا نے نم آنکھوں سے کہا تو ہانیہ نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔وانیا جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر ہانیہ سے لپٹ گئی۔

"ہانی کہاں تھی تم۔۔۔۔۔میں اتنا عرصہ یہاں قید رہی ہانی تمہارے بنا۔۔۔۔۔"

وانیا اسکے سینے سے لپٹی روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"شششش۔۔۔۔وانی بس رو مت اب میں آ گئی ہوں نا اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور بے چینی سے دروازے کی طرف دیکھا جہاں باہر ابھی بھی دو پہرے دار کھڑے تھے۔

"وانی میری بات دھیان سے سنو میں تمہیں یہاں سے باہر نکالوں گی تو تم اس گھر کے پیچھے چکی جانا وہاں انس تمہارا انتظار کر رہا ہے وہ تمہیں یہاں سے کے جائے گا۔۔۔"

ہانیہ نے ایک چادر پکڑ کر اس پر ڈالتے ہوئے گھونگھٹ نکال کر کہا جبکہ اسکی بات سن کر وانیا بے چین ہو چکی تھی۔

"لیکن ہانی تم۔۔۔"

"میری فکر مت کرو  ہانیہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی اور تم جانتی ہو کہ میں بھاگ جاؤں گی تم بس جلدی سے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"

ہانیہ باقاعدہ اسے دروازے کی طرف کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی۔وانیہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ اس جگہ کو چھوڑ کر جانا چاہتی تھی اور آج جب یہ ہو رہا تھا تو نہ جانے کیوں راگا سے دور جانے کا خیال ہے وہ اندر ہی اندر ختم کر رہا تھا۔

نہیں وانیہ و ہ بہت برا ہے کسی سے محبت نہیں کرتا بس تمہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔

وانیہ کے دل سے آواز آئی تو اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتے ہوئے اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا گھونگھٹ نکال لیا۔

ہانیہ اسے ہاتھ تھام کر باہر لے کر آئی تو باہر کھڑے پہرےدار حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگے۔

"یہ لڑکی کون ہے؟"

وانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک پہرے دار نے حیرت سے پوچھا۔

"دوست ہے میری اور صبح سے یہیں ہے نا جانے دھیان کہاں ہوتا ہے آپ لوگوں کا۔۔۔۔تم گھر جاؤ۔۔۔"

ہانیہ نے پہرے داروں کو ڈپٹتے ہوئے وانیہ کا ہاتھ دبا کر کہا تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل پڑی۔جب اس نے دیکھا کہ پہلے داروں کا دھیان اس پر نہیں تو جلدی سے گھر کی پچھلی طرف آئی جہاں واقعی میں انس کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

"ہانیہ؟"

انس کی آواز پر وانیہ نے اپنا گھونگھٹ ہٹا دیا۔

"یہ میں ہوں انس بھائی۔۔۔"

انس نے اثبات میں سر ہلایا اور اور اسے پھر سے گھونگھٹ اوڑھنے کا اشارہ کر کے اپنے ساتھ اس خفیہ راستے کی جانب لے جانے لگا جہاں سے وہ لوگ آئے تھے۔

"انس بھائی میری جگہ ہانیہ وہاں پر ہے وہ وہاں سے کیسے آئے گی؟"

"فکر مت کرو گڑیا تمہیں  محفوظ جگہ چھوڑ کر میں خود سے لے کر آؤں گا۔"

وہ لوگ ایک پہاڑ کی جانب گئے جہاں ایک غار میں سے راستہ نکلتا تھا ابھی انہوں نے اس غار کی جانب قدم بڑھایا ہی تھا جب گولیاں چلنے کی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی وانیا خوف سے کانپ اٹھی تھی۔

ایک آدمی کو اس طرف آتا دیکھ کر وہ دونوں فوراً غار کی اوٹ میں چھپ گئے۔اس آدمی کے پیچھے دو فوجی بھی تھے۔

"یہ کیا ہوا انس بھائی۔۔۔؟"

وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

"لگتا ہے ان لوگوں پر فوج نے حملہ کیا ہے؟"

یہ سن کر وانیا کا دل خوف سے بند ہوا۔نا جانے اب وہ راگا کے ساتھ کیا کریں گے۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس بے وفا شخص کے لیے ایک خوف اسکے معصوم دل میں آیا۔

"وانیا میری بات دھیان سے سنو تم یہاں چھپو اور میں ہانیہ کو لے کر آتا ہوں اسے اس خطرے میں نہیں چھوڑ سکتے۔کچھ بھی ہو یہاں سے باہر مت آنا۔۔۔۔اور یہ گن اپنے پاس رکھو"

انس کے سمجھانے پر وانیا نے اثبات میں سر ہلایا اور اسکے ہاتھ سے بندوق پکڑ لی۔ انس وہاں سے چلا گیا اور وانیا گولیوں کی آواز پر خود میں سمٹتی چلی گئی تھی۔

اچانک ہی راگا کی جانی پہچانی آواز وانیا کے کانوں سے ٹکرائی۔وہ شائید پشتو میں کسی کو کچھ کہہ رہا تھا۔اسکی آواز سن کر وانیا دھڑکتے دل کے ساتھ اس غار سے باہر آئی اور ایک درخت کی اوٹ میں چھپ کر اسے دیکھا۔

"عماد۔۔۔۔؟"

وانیا نے بے یقینی سے اسے دیکھتے ہوئے ہلکے سے کہا کیونکہ اس وقت ایک فوجی کی لاش زمین پر پڑی تھی اور دوسرا فوجی بھی زمین پر گرا راگا کو دیکھ رہا تھا جبکہ راگا اس پر بندوق تانے مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔

"زما نیول سخت دي۔(مجھے پکڑنا بہت مشکل ہے)"

راگا نے مسکرا کر کہا اور بندوق کا رخ اس فوجی کے ماتھے کی جانب کیا۔

"نہیں رک جائیں مت کریں ایسا۔۔۔"

وانیہ چلائی اور اسکے پاس آنے لگی لیکن راگا ایسے تھا جیسے سن ہی نہ رہا ہو۔

"جہنم میں جاؤ فوجی۔۔۔۔"

راگا نے ہنس کر کہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا وانیا کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔

"رک جائیں ورنہ گولی مار دوں گی۔۔۔!!!"

راگا نے حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو کانپتے ہاتھوں میں پکڑی پسٹل اس پر تانے روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"تم مجھے مارے گا۔۔۔۔ہاہاہا اچھا مزاق تھا ماڑا۔۔۔"

راگا نے اسکے کانپتے ہاتھوں پر چوٹ کر کے کہا اور پھر سے بندوق اس فوجی کی جانب کر دی جو اپنی ٹانگ میں لگی گولی کی وجہ سے اٹھنے سے قاصر تھا۔

"راگا اپنے دشمن کو کسی چڑیا کے ڈر سے نہیں چھوڑے گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا نے بندوق اسکے ماتھے کے ساتھ ٹکا دی۔

"لاالہ الااللہ۔۔۔"

فوجی نے آنکھیں بند کر کے کہا تبھی فضا میں گولی کی آواز گونجی۔راگا نے فوجی سے نگاہیں ہٹا کر اپنے سینے کو دیکھا جہاں سے خون کی دھار نکل رہی تھی۔

پھر اس نے حیرت سے سامنے کھڑی وانیا کو دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بری طرح سے کانپ رہی تھی۔ایسا لگتا تھا بندوق اسکے ہاتھ سے گر جائے گی۔

راگا نے اپنی بندوق کو فوجی سے ہٹا کر وانیا کی جانب کیا تو وانیا نے کانپتے ہاتھوں سے ایک اور گولی چلا دی جو اب کی بار سیدھا راگا کے دل میں لگی اور ساتھ ہی اسکا وجود زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

اسکو یوں دیکھ کر بندوق وانیا کے ہاتھ سے چھوٹی اور وہ روتے ہوئے راگا کے پاس آئی۔

"عماد؟"

وانیا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا جہاں سے اب خون نکل رہا تھا اور دھڑکتا دل بند ہو چکا تھا۔بہت سے آنسو وانیا کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے وہ اپنی ہی محبت کو اپنے ہاتھوں سے مار چکی تھی۔

وانیا کے جاتے ہی ہانیہ نے اپنے پاس چھپائی پسٹل نکالی اور باہر موجود پہرے داروں کو دیکھا جو ضرور ہانیہ کو وانیا سمجھ کر ہلکے میں لے جاتے۔اسی سوچ کے ساتھ ہانیہ باہر نکلی اور ایک آدمی کے سر پر بہت زور سے پسٹل کی بیک ماری۔

دوسرے آدمی نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا انس وہاں آ کر اسکی ٹانگ پر بہت زور سے پیر مار کر اسے گرایا اور ہانیہ کے ہاتھ سے پسٹل کے کر اسکے سر میں ماری جس سے وہ بھی بے ہوش ہو گیا۔

"انس وانیا کہاں اور آپ یہاں کیوں آئے؟"

ہانیہ نے معاملہ پلین کے برعکس جاتے دیکھ کر پوچھا۔

"ہانیہ ان لوگوں پر آرمی نے اٹیک کیا ہے شائید۔۔۔۔ابھی چلنا ہو گا ورنہ تم پر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔"

ہانیہ نے اسکی بات سمجھ کر ہاں میں سر ہلایا۔انس ہانیہ کو لینے کر واپس اس غار کے پاس آیا لیکن وہاں وانیا کو نہ پا کر وہ دونوں بہت زیادہ پریشان ہوئے تھے۔

"یہیں چھوڑا تھا اسے کہاں چلی گئی وہ؟"

انس نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے  پوچھا۔ہانیہ بھی پریشانی سے ادھر دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر غار سے تھوڑی دور موجود وانیا پر پڑی۔

"انس وہاں...!!!"

ہانیہ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور بھاگ وانیا کے پاس گئی جو راگا کے زخم پر دباؤ ڈالتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

"وانی۔۔۔۔"

"ہہہ۔۔۔۔ہانی دیکھو مم۔۔۔۔میں نے کیا کر دیا۔۔۔یہ کیا کر دیا میں نے۔۔۔"

وانیا بہت زیادہ رو رہی تھی اور خون کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ہانیہ حیرت سے اپنی بہن کو دیکھنے لگی۔انس نے اپنا ہاتھ راگا کی گردن پر رکھا جہاں زندگی کی نشانی اب بند ہو چکی تھی۔

"یہ مر چکا ہے۔۔۔"

انس نے ہانیہ کو بتایا جبکہ اس بات پر وانیا مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔

"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"

ہانیہ نے کھینچ کر وانیا کو خود سے لگایا۔

"نہیں وانی اب وہ زندہ نہیں۔۔۔"

ہانیہ نے افسوس سے کہا اور وانیا اسکے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر  رونے لگی۔

"میں نے مار دیا انہیں ہانی۔۔۔۔قاتل ہوں میں۔۔۔"

وانیا روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ ہاتھ راگا کے خون سے سنے ہوئے تھے۔

"ہمیں چلنا ہو گا ہانیہ اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی یہاں آ جائیں۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا اور وانیا کو خود کے ساتھ لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"نہیں مم۔۔۔میں انہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔ہم انہیں ہاسپٹل لے جائیں گے وہ ٹھیک۔۔۔"

"وانی ہوش کرو وہ مر چکا ہے۔۔۔۔"

ہانیہ نے سختی سے کہا اور اسے زبردستی اپنے ساتھ وہاں سے لے جانے لگی۔انس نے بھی اس فوجی کو سہارا دیا اور اپنے ساتھ لے آیا۔تھوڑی دور پہنچتے ہی انہیں آرمی یونیفارم میں ملبوس ایک سپاہی ملا جس نے پہلے تو ان پر بندوق تانی لیکن پھر ان کو پہچانتے ہی انہیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔

وہ انہیں سڑک پر لے آیا جہاں بہت سی آرمی کی گاڑیاں اور فوجی موجود تھے۔

"بابا۔۔۔۔"

وجدان پر نظر پڑتے ہی ہانیہ نے پکارا تو وجدان پہلے تو حیرت سے پلٹا پھر اپنی دونوں بیٹیوں کو وہاں دیکھ کر بھاگ کر انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔

"بابا کی جان۔۔۔"

وجدان کی آواز محبت کی شدت سے نم ہو چکی تھی۔ اتنے عرصے بعد باپ کا سائباں ملنے پر ہانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی جبکہ وانیا تو یوں تھا جیسے پتھر کی ہوچکی تھی۔

"ہانیہ بیٹا تم وانیہ کو لے کر گاڑی میں  جاؤ اور انس میری بیٹیوں کو باحفاظت گھر پہنچانے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔"

انس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔

"اور بابا آپ؟"

"میں بھی جلدی گھر آ جاؤں گا انشاءاللہ تم بس وانیا کو یہاں سے لے کر جاؤ۔۔۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ان کے گاڑی میں بیٹھتے ہی انس ڈرائیور کے ساتھ انہیں وہاں سے لے کر جا چکا تھا۔

کہنے کو تو وانیا آج آزاد ہو گئی تھی لیکن آزادی حاصل کرتے کرتے وہ لڑکی اپنا سب کچھ ہار چکی تھی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

تین کالی گاڑیاں کالج کے باہر رکی تھیں اور ان گاڑیوں میں سے بندوقیں تھامے گارڈز باہر آئے۔ہر کوئی حیرت سے ان کو دیکھ رہا تھا۔

تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑھے نیلے پینٹ کوٹ میں ملبوس سالار ملک گاڑی سے بے نکلا اور شان سے چلتا ہوا کالج میں داخل ہوا۔

گارڈز بندوقیں پکڑے اس کے پیچھے آ رہے تھے اور ہر کوئی اس کو ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

پروفیسر صاحب لیکچر لے رہے تھے جب سالار اپنے گارڈز کے ساتھ اندر آیا اور سٹوڈینٹس پر نظر دوڑانے لگا۔

"کیا چاہیے آپ کو مسٹر؟"

پروفیسر نے پوچھنا چاہا لیکن سالار انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتا جنت کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے جانے لگا۔

"رکیں مسٹر کہاں لے کر جا رہے ہیں آپ اسے؟"

پروفیسر نے سالار کو روکنا چاہا تو ایک گارڈ نے اپنی بندوق پروفیسر کی کن پٹی پر رکھ دی۔یہ دیکھ کر سب طالب علم سہم گئے تھے۔

"سسس۔۔۔۔سالار۔۔۔۔"

جنت نے سہم کر سالار کو پکارا جو بس اسے غصے سے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ کے جا رہا تھا ایک خالی کلاس روم دیکھ کر سالار وہاں آیا اور جنت کو دیوار کے ساتھ لگا کر اسے گھورنے لگا۔

"صرف ہاں یا نہ میں جواب دینا مجھے کیا تم معراج سے شادی کرنے کے لیے مان گئی؟"

سالار نے اسکے خوف سے سفید پڑے چہرے کو غصے سے دیکھتے ہوئے دانت پیس کر سوال کیا۔

"سس۔۔۔سالار۔۔۔۔۔"

جنت خوف سے کانپتے ہوئے ہکلانے لگی تھی جبکہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔

"ہاں یا نہ؟"

سالار بہت اونچی آواز میں چلایا تو جنت نے خوف سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔سالار تو اسے جان سے ذیادہ چاہتا تھا اسکا یہ روپ جنت کیسے برداشت کرتی؟

"ہہہہ۔۔۔۔ہاں۔۔۔"

ایک خطرناک چیخ کے ساتھ سالار نے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر اسکے سر کے ساتھ موجود دیوار پر مارا ۔

"تم نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہو میرے لیے پوری دنیا سے لڑ سکتی ہو۔۔۔پھر کیوں جنت کیوں؟کیا جھوٹ تھی وہ محبت؟"

سالار کے دھاڑنے پر جنت سہم کر مزید رونے لگی ۔

"نہیں سالار بہت چاہتی ہوں میں آپکو۔۔۔۔لل۔۔۔۔ لیکن میں بابا کو نہیں کھو سکتی ۔۔۔۔ان کو دکھی نہیں کر سکتی وہ آپ میں سے یا خود میں سے ایک کو چننے کا کہہ رہے تھے۔۔۔"

"اور تم نے اپنے باپ کو چن لیا۔۔۔مجھے ٹھکرا دیا تم نے۔۔۔"

سالار کی درد سے بھری آواز پر وہ شرمندگی سے سر جھکا کر رونے لگی تو سالار نے اسکا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچا۔

"کان کھول کر سن لو جنت شایان شاہ تم صرف اور صرف سالار ملک کی ہو تمہیں مجھے چننا ہو گا یاد رکھنا۔۔"

سالار نے اسکے منہ کے گرد اپنی پکڑ مظبوط کر کے کہا جبکہ جنت تو ڈر سے اپنی آنکھیں زور سے میچے کانپ رہی تھی۔

"کیونکہ میں سالار ملک ہوں جنت عثمان ملک کا بیٹا جب کچھ مانگنے سے نہیں ملتا تو اسے چھیننا میرے خون میں شامل ہے۔۔۔۔"

اپنے کان کے پاس سالار کی سرگوشی محسوس کر جنت کانپ اٹھی لیکن آنکھیں کھولنے پر خود کو اکیلا پا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ کیسے باپ یا سالار میں سے کسی ایک کو چنتی وہ دونوں کو ٹوٹ کر چاہتی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

معراج اس دن گھر آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ساری رات اس نے خادم کی باتوں پر غور کرتے گزاری اور اب صبح ہوتے ہی وہ سیدھا شایان کے پاس گیا جو اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا۔

"ارے معراج تم اٹھ گئے میرے پاس تمہارے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ماشاءاللہ کل وانیا اور ہانیہ دونوں خیریت سے وجدان کو مل گئیں اور سکی بھی وقت گھر پہنچتی ہوں گی۔تمہاری بڑی مما اور جنت بھی وہیں گئے ہیں اور میں تمہارا ویٹ کر رہا تھا۔"

شایان نے مسکراتے ہوئے بتایا لیکن معراج بس خاموشی سے اپنے مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔

"کیا ہوا ہے معراج؟"

"ککک۔۔۔۔کیا بڑی مما کے ببب ۔۔۔۔بہنوئی نے میرے مما۔۔۔ببب بابا کو مارا تھا؟"

معراج کے سوال پر شایان نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔آج تک اس نے اور وجدان نے معراج سے یہ سچائی چھپائی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ معراج ان سے بد گمان ہو۔

"معراج میری بات۔۔۔"

"ککک۔۔۔۔کیا آپ نے اور ممم۔۔۔۔ماموں نے انہیں معاف کر دیا تھا؟"

معراج نے شایان کی بات کاٹ کر پوچھا تو شایان اپنا سر شرمندگی سے جھکا گیا۔

"میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا معراج جانان نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اسے معاف نہیں کیا تو وہ اپنی جان لے لے گی مجھے سمجھ۔۔۔۔"

"اا۔۔۔۔اور آپ نے میرے مممم۔۔۔۔مما بابا کے قاتل کو جانے دیا۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کس نے یہ حق دیا تھا آپ کو ۔۔۔۔۔جججج۔۔۔۔جس نے میرا سب ککک۔۔۔۔کچھ چھین لیا آآآ۔۔۔۔آپ نے اسے معاف کر دیا ۔۔۔۔"

معراج نے روتے ہوئے کہا تو شایان آگے بڑھا اور اسے اپنے گلے سے لگا کر دلاسہ دینا چاہا۔

" میری بات سمجھنے کی کوشش کرو معراج میں مجبور تھا بہت مجبور۔۔۔۔"

"مم ۔۔۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں آپ کو اور ماموں ککک۔۔۔۔ کو کبھی معاف نہیں کرو گگگ۔۔۔۔گا کبھی نہیں۔۔۔"

معراج اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور شایان اپنی کرسی پر واپس بیٹھ کر اپنا سر ہاتھوں میں تھام چکا تھا۔اب وہ معراج کو کیسے سمجھاتا کہ سچ کیا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"زرش آنکھیں کھولو دیکھو کون آیا ہے۔۔۔"

جانان کے نرمی سے کہنے پر زرش نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے سامنے اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھ کر وہ زاروقطار روتے ہوئے انھیں اپنے سینے سے لگا چکی تھی۔

"وانی میری جان۔۔۔"

زرش نے بہت محبت سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کر کے چوما لیکن وہ تو ابھی تک بس ایک خاموش بت بنے بیٹھی تھی اور اپنی بیٹی کی یہ حالت زرش بھی محسوس کر چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ پریشان ہو کر کوئی سوال پوچھتی ہانیہ بول اٹھی۔

"یہ کیا مما آپ کو بس وانی کی پرواہ ہے میرے بغیر اداس نہیں ہوئی تھیں آپ؟"

اپنی بیٹی کی بات پر زرش نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اس کا بھی منہ چوما۔

"تم دونوں ہی تو میرا سب کچھ ہو میرے جینے کا سہارا۔۔۔اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتی ہوں میں تم دونوں کو۔۔۔"

زرش نے دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بہت محبت سے کہا تھا۔

"چلو اب تو ہماری وانی واپس آگئی ہے نا اب تم بھی آرام کر کے جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔"

جانان نے زرش کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہدایت دی تو وہ خوشی سے مسکرا دی۔

"ہانیہ تم وانیا کو اس کے کمرے میں لے جاؤ تاکہ وہ آرام کر لے اور زرش تم بس اب بے فکر ہو کر سو جاؤ تمہاری دونوں بیٹیاں تمہارے پاس آ چکی ہیں۔"

زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور ان دونوں کا ماتھا چوم کر انہیں وہاں سے جانے کی اجازت دی۔ہانیہ وانیا کو لے کر اپنے کمرے میں آ چکی تھی لیکن اسے اس کی بہت زیادہ فکر ستا رہی تھی۔

ہانیہ نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔

"وانی میری جان کیا ہوا ہے کچھ تو کہو تم۔۔۔؟"

ہانیہ نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے بہت محبت سے پوچھا لیکن وانیا نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس مردہ آنکھوں سے ہیں وغیرہ نقطے کو گھورتی رہی۔

ہانیہ کو اس کی فکر بہت زیادہ ستا رہی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کس طرح سے اپنی بہن کی کیفیت کو سمجھے۔

"وہ برا تھا وانی تم نے اسے مار کر کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔"

ہانیہ نے اسے سمجھایا تو وانیا نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو جہاں سے خون ہانیہ صاف کر چکی تھی لیکن وانیہ کو ابھی بھی اپنے ہاتھ راگا کے خون سے سنے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

"مار دیا۔۔۔۔میں نے مار دیا اسے ہانی۔۔۔۔جس سے محبت کی میں نے اسے مار دیا ہانی۔۔۔"

ہانیہ نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

"نہیں میری جان ایسا مت کہو وہ شخص بہت برا تھا تمہارے جزبوں کے قابل نہیں تھا اس کے ساتھ وہی ہوا جس کے وہ لائق تھا۔"

ہانیہ نے اسے دلاسہ دیا لیکن وانیہ ابھی بھی سکتے کے عالم میں اپنے آپ کو قاتل کہتی جا رہی تھی۔ ہانیہ کو اس کی حد سے زیادہ پرواہ ہو رہی تھی 

لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جاتا وہ وانیہ کی زندگی کی تمام خوشیاں واپس لا کر رہے گی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

معراج شام ہونے تک سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا تھا۔اسکے زہن میں جو زہر گھل چکا تھا اس نے اپنی جڑیں بہت مظبوطی سے گاڑ لی تھیں۔بچپن سے ہی اسے جان سے زیادہ چاہنے والا شایان آج اسے حد سے زیادہ برا لگ رہا تھا اور اپنے سگے ماموں کا تو وہ چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

اس وقت اس میں اپنے پیاروں کو لے کر بدگمانی عروج پر تھی اور جب انسان اپنوں سے بدگمان ہو جائے تو غیر اسے اپنوں سے بھی بھلے معلوم ہوتے ہیں۔

معراج نے بہت سوچ کر خادم شفیق کے گھر کا رخ کیا اور گارڈ کو بتایا کہ وہ خادم سے ملنا چاہتا ہے۔کچھ دیر کے بعد ہی خادم نے اسے اپنے پاس بلایا۔

"اب کیوں آئے ہو تم؟ کوئی کمی رہتی تھی میری بچی کا دل دکھانے میں۔"

خادم نے معراج کو دیکھتے ہی کہا جو اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔

"مم۔۔۔میں ایمان سے نکاح کرنا چچچ۔۔۔چاہتا ہوں انکل۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اگر آپ کی اجازت ہو تو۔۔۔"

معراج کی بات پر خادم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"لیکن تم تو اپنے تایا کی بیٹی سے شادی۔۔۔"

"اا۔۔۔ان سے اب مم۔۔۔۔میرا کوئی تعلق نہیں میرا ککک۔۔۔۔کسی سے بھی کوئی تتت۔۔۔۔تعلق نہیں۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرا سب کچھ اب ایمان ہی ہے ۔۔۔۔"

معراج کی بات پر خادم مسکرایا اور آگے بڑھ کر معراج کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

"فکر مت کرو بیٹا اب تم میرے بیٹے ہو وعدہ کرتا ہوں تم سے کہ تمہاری ہر مشکل اب سے میری مشکل ہو گی تمہارے باپ کے قاتل کو سزا دلوانے میں تمہاری مدد کروں گا۔"

معراج نے اپنی سبز آنکھوں سے آنسو پونچھ کر چشمہ واپس آنکھوں پر لگایا اور مسکرا دیا۔

"ششش۔۔۔۔شکریہ انکل۔۔۔"

خادم نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"کل صبح ہی میں تمہارا اور ایمان کا نکاح کرواؤں گا اور اس کے بعد تم یہاں میرے پاس رہو گے میرے بیٹے بن کر۔"

معراج نے اس بات پر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا۔

"جج۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی انکل۔۔۔"

خادم نے معراج کا کندھا تھپتھپایا اور شان سے مسکرا دیا۔سب ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا وہ چاہتا تھا۔

ایمان کمرے میں بیٹھی سکیچ بنا رہی تھی جو وہ اکثر ہی بہتر محسوس کرنے کے لئے بنایا کرتی تھی۔تبھی اچانک  خادم ملازمہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔خادم کو دیکھ کر ہی ایمان سہم کر جلدی سے کھڑی ہوئی تھی۔

"ایمان بیٹا یہ کپڑے لو اور چینج کرکے تیار ہو جاؤ آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔"

ایمان نے جلدی سے وہ کپڑے پکڑے اور ہاں میں سر ہلایا کچھ بھی ہو جاتا وہ اپنے باپ کو غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی۔خادم نے ملازمہ سے ایمان کو تیار کرنے کا کہا اور خود باہر چلا گیا۔

"خالہ مجھے یہ کپڑے کیوں دیے ہیں بابا نے؟"

ایمان وہ عروسی جوڑا پہن کر باہر آئی تو خادم کو وہاں نہ پاتے ہوئے ملازمہ سے پوچھنے لگی۔

"پتا نہیں بیٹا بس آپ تیار ہو جاؤ جیسا کہ صاحب نے کہا ہے۔"

ایمان خاموشی سے آکر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی اور ملازمہ کے ساتھ موجود لڑکی اسے تیار کرنے لگی۔ایمان ویسے تو خاموشی سے بیٹھی تھی لیکن اس کا دل بہت زیادہ ڈر رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔

ملازمہ اسے تیار کر کے باہر لائی جہاں بہت کچھ آدمی موجود تھے۔خادم نے ایمان کو دیکھا تو مسکرا کر اسکے پاس آیا۔

"میری جان بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"

خادم نے ایمان کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔

"ببب۔۔۔۔بابا یہ کیا ہو رہا ہے؟"

ایمان نے سہم کر نظریں جھکاتے ہوئے پوچھا۔

"آپکا نکاح۔۔۔"

خادم کے جواب پر ایمان کا دل خوف سے بند ہوا تھا۔

"ننن۔۔۔نکاح۔۔۔؟"

"جی بیٹا نکاح اور وہ بھی آپ کے بیسٹ فرینڈ سے۔"

خادم کی بات پر ایمان  کی آنکھیں مزید حیرت سے پھیل گئیں۔اس نے سامنے دیکھا جہاں پر معراج پینٹ کوٹ پہنے کھڑا تھا۔

"میرا نکاح معراج سے ہو رہا ہے؟"

اس سے پہلے کہ خادم ایمان کو کوئی جواب دیتا معراج آگے بڑھا اور ایمان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔

"تت۔۔۔تم کرو گی کیا ممم۔۔۔۔مجھ سے نکاح؟"

معراج نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔

"لیکن تمہارا نکاح تو تمہاری کزن سے ہونا تھا ناں؟"

"ننن۔۔۔۔نہیں میرا نکاح صرف تتت۔۔۔۔تم سے ہو گا ااا۔۔۔۔اگر تم چاہو تو۔۔۔؟"

معراج کو دیکھ کر ایمان مسکرا دی جو اس سے بھی زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔

"تم کبھی مجھے مارو گے تو نہیں ناں؟"

ایمان کے سوال پر معراج حیران ہوا پھر فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"ککک۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔وعدہ"

ایمان کو شاید یہی جواب چاہیے تھا اس لیے وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

"کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤ گے ہمیشہ میرے پاس رہو گے؟"

معراج نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا۔اگلا سوال پوچھنے سے پہلے ایمان نے خادم کی جانب دیکھا جو ان سے دور کھڑا مولوی سے کوئی بات کر رہا تھا۔

"مما کی طرح مر تو نہیں جاؤ گے ناں ؟"

ایمان کے اس سوال پر معراج ٹھٹھک گیا۔وہ سے کیا جواب دیتا زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں تو نہیں تھی ناں۔

"بولو ملنگ مما کی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس تو نہیں جاؤ گے ناں؟"

ایمان کو جب اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اسے ہلاتے ہوئے پوچھنے لگی۔

"ممم۔۔۔میں نہیں جانتا ایمان۔۔۔"

معراج کے جواب پر ایمان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔

"لیکن یہ وعدہ میں کرتی ہوں معراج کہ اگر تم مر گئے نا تو ایمان بھی مر جائے گی۔۔۔"

ایمان کی بات پر معراج کا دل دہل گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا خادم وہاں آیا اور ایمان کے گرد اپنا ہاتھ رکھا۔

"چلو بچو اب نکاح شروع کرتے ہیں دیر ہو رہی ہے۔"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔معراج صوفے پر بیٹھا تو خادم نے ایمان کو بھی اس کے ساتھ بٹھا دیا۔نکاح خواں پہلے ایمان کی طرف متوجہ ہوا۔

"ایمان خادم ولد خادم شفیق آپ کا نکاح  معراج سعد ولد سعد رفیق کے ساتھ حق مہر دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

نکاح خواں کے سوال پر ایمان نے شرمیلی نگاہیں اٹھا کر معراج کو دیکھا تو معراج بھی شرما کر اپنی نگاہیں جھکا گیا۔

"قبول ہے۔۔۔"

ایمان نے آہستہ سے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا تو اس سے دستخط کے کر  نکاح خواں معراج کی جانب مڑا۔

"معراج سعد ولد سعد رفیق آپ کا نکاح ایمان خادم ولد خادم شفیق کے ساتھ دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔"

"قبول۔۔۔"

"معراج۔۔۔!!!"

ابھی الفاظ معراج کے منہ میں ہی تھے جب شایان کی آواز پر سب نے ٹھٹھک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں شایان اور وجدان موجود تھے۔

"یہ کیا کر رہے ہو تم معراج؟"

وجدان نے سختی سے پوچھا تو ایمان سہم کر معراج ہے پیچھے چھپ گئی۔

"مم۔۔۔۔میں اس سے شادی کر ررر۔۔۔۔رہا ہوں ماموں جسے میں پپپپ۔۔۔۔پسند کرتا ہوں۔۔۔"

معراج کی بات پر وجدان تھوڑا آگے ہوا۔

"اور تم نے مجھ سے یا شایان سے پوچھنا تھا وغیرہ نہیں کیا کیا اتنے ہی غیر ہو گئے ہیں ہم دونوں تمہارے لیے؟"

وجدان کے سوال پر معراج نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا پھر کچھ دیر بعد اُس نے ہاں میں سر ہلایا.

"ججج۔۔۔۔جی غیر ہوگئے ہیں آآآآ۔۔۔۔۔آپ میرے لئے۔۔۔۔تت۔۔۔تب ہی ہو گئے تھے ججج۔۔۔جب آپ نے میرے ماما بابا کک۔۔۔۔کے قاتل کو معاف کیا۔۔۔۔ااا۔۔۔اب میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔۔۔۔جج۔۔۔۔جو چاہے کروں گا۔۔۔"

معراج کی بات سن کر وہ دونوں بہت زیادہ حیرت زدہ ہو گئے۔ان کے سامنے اس طرح کی باتیں کرتا معراج انکا تو نہیں تھا۔

"معراج بیٹا۔۔۔"

"نن۔۔۔نہیں بڑے بابا۔۔۔آآآ۔۔۔آپ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرا اور آپ کا اب سے ککک۔۔۔۔کوئی تعلق نہیں۔۔۔"

اپنی نم ہوئی سبز آنکھوں سے یہ کہہ کر معراج نکاح خواں کی جانب مڑا۔

"ممم۔۔۔۔مجھے یہ نکاح قبول ہے۔۔۔ققق۔۔۔۔قبول ہے ،قبول ہے۔۔۔"

معراج نے ایک بار میں ہی کہا اور اپنے سائن سامنے رکھے نکاح نامے پر کر دیے۔خادم نے ایک فاتح مسکان شایان اور وجدان کی جانب اچھالی۔

"چلو شایان اب ہمارا یہاں کوئی نہیں۔۔۔ہمارے بیٹے کو آج کوئی اور اپنا بیٹا بنا چکا ہے لیکن وہ یہ بات ضرور یاد رکھے کہ اگر اس پر آنچ بھی آئی تو ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

وجدان نے اسے اپنی سبز نگاہوں سے گھورتے ہوئے وارن کیا اور شایان کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

رات کو خادم نے معراج کو ایمان کے کمرے میں بھیجا۔معراج بہت زیادہ ہچکچا رہا تھا۔اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایمان کو کیا کہے گا۔

خیر کافی دیر دروازے کے باہر کھڑے ہونے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو ایمان آئنے کے سامنے کھڑی مسکراتے ہوئے خود کو دیکھ رہی تھی۔

"ارے ملنگ یہاں آؤ دیکھو میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔۔۔"

مراج کو دیکھتے ہی ایمان اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ آئینے کے سامنے لے گئی۔

"دیکھو میں تم سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہوں ناں؟"

معراج نے بھی مسکرا کر ایمان کو دیکھا جو سچ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔

"ہہ۔۔۔۔ہاں تم اس دنیا کی سسس۔۔۔سب سے زیادہ پیاری لڑکی ہو۔"

ایمان کھل کر مسکرائی اور اپنے قدم اونچے کر کے معراج کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے۔ایمان کی اس حرکت پر معراج پہلے تو حیران ہوا پھر شرما کر اپنا چہرہ سائیڈ پر کر گیا۔

"شرما کیوں رہے ہو ملنگ۔۔۔؟"

ایمان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

""ااا۔۔۔۔اب تمہیں تو شرم آتی نننن۔۔۔۔نہیں تو کوئی تو ششش۔۔۔۔شرمانے والا کام کر لے نن۔۔۔نا ہم میں سے۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان ہنسنے لگی پھر ہنستے ہوئے خود کو پھر سے آئنے میں دیکھا۔

"ویسے تم زرا پیارے نہیں میرے چشمو ملنگ لیکن قسمت دیکھو اتنی پیاری لڑکی بیوی بن گئی تمہاری۔"

ایمان نے اترا کر کہا۔پھر موبائل پکڑ کر معراج کو پکڑایا۔

"چلو اب سیلفی بناؤ ہم دونوں کی۔"

معراج نے وہ موبائل پکڑا اور ان دونوں کی تصویریں بنانے لگا۔بہت سی تصویریں بنانے کے باوجود ایمان کا دل نہیں بھر رہا تھا۔

"چچچ۔۔۔چلو اب ہم سوتے ہیں۔۔۔۔ددد۔۔۔۔دیر ہو گئی ہے ایمان۔۔۔"

معراج نے موبائل بند کر کے ساتھ موجود ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تو ایمان مسکرا دی۔

"پتہ ہے ملنگ آج میں کتنی خوش ہوں اتنی خوش ہوں جتنی میں مما کے زندہ ہونے پر ہوا کرتی تھی۔"

اپنی ماں کو یاد کر کے ایمان پھر سے افسردہ ہو گئی آنکھیں آنسوؤں سے اور خوف سے بھر چکی تھیں۔

"کک۔۔۔۔کیا ہوا تھا آنٹی کو؟"

معراج کو اس کے چہرے کی افسردگی ایک پل کے لئے بھی اچھی نہیں لگی تھی جبکہ اس سوال پر ایمان بہت دیر تک چہرہ دیکھتی رہی پھر آگے ہو کر معراج کے کان میں سرگوشی کی۔

"مونسٹر نے مار دیا تھا انہیں۔۔۔۔"

ایمان نے آہستہ سے کہا۔

"کک۔۔۔۔کون مونسٹر؟"

معراج نے گھبرا کر پوچھا۔

"نہیں بتا سکتی۔۔۔"

"کیوں؟"

"کیونکہ پھر وہ مونسٹر تمہیں بھی مار دے گا۔"

ایمان نے اتنا کہا اور اٹھ کر کپڑے بدلنے چلی گئی جبکہ معراج وہیں کھڑا بہت دیر اسکی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

خادم شان سے اپنے کمرے میں بازو پھیلائے صوفے پر بیٹھا آنکھیں موندے مسکرا رہا تھا۔چہرے پر بلا کا سکون تھا۔

"کیا ہوا سر؟ آج بہت خوش نظر آ رہے ہیں آپ؟"

عرفان نے مسکراتے ہوئے پوچھا جو آج تقریباً ایک ہفتے کے بعد خادم کے دیے کام سے واپس آ رہا تھا۔

"خوش تو ہوں گا میں عرفان وہ ہو گیا جو میں نے چاہا تھا۔۔۔"

خادم نے مسکراتے ہوئے کہا جب کہ عرفان اس کی بات پر حیران ہوا۔

"ایسا کیا ہوگیا سر آج؟"

"میں نے ایمان کا نکاح معراج سے کروا دیا۔"

یہ بات کہتے ہوئے جہاں خادم کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی تھی وہیں عرفان کے چہرے کا ہر رنگ اڑ چکا تھا۔

"ارے اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو عرفان تم تو پہلے سے جانتے تھے کہ میں معراج کو اپنے ساتھ کیوں لایا تھا کیونکہ میں اس کا نکاح ہمیشہ سے اپنی اکلوتی بیٹی ایمان سے کرنا چاہتا تھا۔"

خادم نے اتنا کہہ کر شراب کا گلاس اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا۔

"ہاہاہاہا اور وہ معصوم بچہ کتنا خوش ہو رہا ہے جیسے کہ پورا جہان مل گیا ہو اسے۔۔۔۔میری خاطر اپنے تایا اور ماموں کو بھی چھوڑ دیا ہاہاہا۔۔۔"

خادم کے چہرے پر اس وقت سفاکی اور بہت زیادہ چالاکی تھی۔

"بے چارہ نہیں جانتا کہ جس کو بیوی بنا بیٹھا ہے اس کا باپ ہی اس کے ماں باپ کا قاتل ہے۔۔۔۔ہاہاہا بے چارہ نہیں جانتا کہ وہ سلطان کا داماد بن چکا ہے۔۔۔"

خادم پھر سے ہنسا اور شراب کا گلاس ابے ہونٹوں سے لگایا۔

"لیکن سر آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ایمان میری ہو گی۔۔۔"

عرفان نے بہت زیادہ افسردگی سے کہا اسے یہ غم بھول ہی نہیں رہا تھا کہ ایمان آج اس بونگے کی ہو چکی تھی۔

"صبر عرفان صبر ویسے بھی چند دن کا مہمان ہے بیچارا۔۔۔۔۔ایک بار میرا مقصد پورا ہو جائے گا تو اسکے ماں باپ کے پاس پہنچا دوں گا اس سے بھی۔"

خادم نے دانت پیس کر کہا۔

"لیکن سر آپ مجھ پر بھی تو بھروسہ کر سکتے تھے۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔اف میرے عارف خان ارف اے کے تمہیں کیا لگتا ہے دو سو کروڑ کی جائیداد کے لیے میں تم پر بھروسہ کرتا جو دنیا سے اپنا اصلی نام تک چھپا کر عرفان بنا ہوا ہے۔۔۔"

اچانک سے ماضی یاد کر کے خادم کے ہاتھ کی گرفت گلاس کے گرد مضبوط ہوئی تھی۔

"اپنے امیر باپ کی اکلوتی اولاد تھی ایمان کی ماں اور اسی امید سے میں نے اس سے شادی کی کہ یہ ساری جائیداد کل کو میری ہو گی لیکن کمینی کو مجھ پر شک ہوگیا اور ساری کی ساری جائیداد اس نے ایمان کے نام کردی اس شرط سے کہ ایمان بھی وہ جائیداد اپنے شوہر اور اولاد کے علاوہ کسی کے نام نہیں کر سکتی۔۔۔۔لیکن وہ جانتی نہیں تھی میں بھی سلطان ہوں کچی گولیاں نہیں کھیلیں میں نے۔۔۔۔"

خادم نے گلاس اٹھا کر دیوار میں مارا۔

"میں غریب پیدا ہوا تھا اے کے۔۔۔اپنے غریب باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا زندگی کی مار کھانے والا ،لوگوں کے تانے سننے والا اور اس غربت میں میں نے بس ایک خواب دیکھا تھا اس ملک کا بادشاہ بننے کا خواب۔۔۔مجھے اپنے نام جیسا خادم نہیں بننا تھا مجھے سلطان بننا تھا۔۔۔۔سلطان۔۔"

خادم اپنی جگہ سے اٹھا اور میز پر پڑی اپنی اور اپنی بیوی کی تصویر کو اٹھایا۔

"بہت تلوے چاٹنے پڑے تھے مجھے اس عورت کے تاکہ اس کو اپنی محبت کے جال میں پھانس لوں۔۔۔اور ہماری شادی کے بعد جب منزل قریب آئی۔۔۔عثمان ملک کے بعد میں پارٹی کا سربراہ بن گیا وہ بادشاہ بننے کی راہ پر چل پڑا جسکا خواب میں نے بچپن سے دیکھا تھا۔"

خادم شان سے مسکرایا۔

"لیکن اس گھٹیا عورت نے اپنی ساری دولت میرے ہاتھ سے چھین لی وہ بھی تب جب مجھے اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔اور جب مجھے یہ پتہ چلا کہ اس نے سب کچھ ایمان کے نام کردیا ہے۔۔۔۔۔ہاہاہا میں نے مار دیا اے کے میں نے اسکے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے مار دیا۔۔۔۔"

خادم کی آنکھوں میں اب وحشت اتر چکی تھی۔

"لیکن وہ سب ایمان نے دیکھ لیا۔۔۔۔اور اسے تو میں مار بھی نہیں سکتا تھا اگر مار دیتا تو ساری دولت اس کمینی کی وصیت کے مطابق چیرٹی میں چلی جاتی۔۔۔۔"

خادم نے پھر سے دانت کچکچاتے اور عرفان کی جانب مڑا۔

"اسی لیے میں نے سات سال کی عمر سے ایمان کو ڈرا کر رکھا۔۔۔کبھی اسے گھر سے بھی نہیں نکلنے دیا۔۔۔اسے خود سے اتنا ڈرا دیا کہ میرا حکم نہ ماننے کی اس میں جرات ہی باقی نہ رہے۔۔۔۔اسی لیے تو میں نے تمہیں بھی اسے ڈرانے کا کہا تھا۔۔۔۔اور دیکھو آج تک سچ ایمان کی زبان پر نہیں آیا۔۔۔"

عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہاں ڈرتی تو وہ ہم دونوں سے ہے لیکن اب وہ معراج۔۔۔"

"ہاہاہا تم اس کی فکر کر رہے ہو اے کے۔۔۔۔وہ جو کالج کے بچوں سے بھی مار کھاتا ہے اور اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔۔۔۔اسے ایمان کے قریب لانے سے پہلے اس کے بارے میں سب معلوم کیا تھا وہ میری پلین کے لئے بالکل پرفیکٹ ہے۔۔۔۔"

خادم نے عرفان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"فکر مت کرو اے کے۔۔۔اگلے مہینے ایمان 18 سال کی ہو جائے گی تب اس سے یہ ساری دولت میں معراج کے نام کرواؤں گا اور معراج جتنا ڈرپوک ہے نا ایک پل میں وہ ساری دولت میرے نام کر دے گا۔۔۔۔اس کے بعد میں اسے بھی ویسے ہی ماروں گا جیسی اس کی اس کمینی ماں کو مارا تھا۔۔۔۔پھر ایمان تمہاری جو مرضی کرنا اس کے ساتھ میری بلا سے۔۔۔۔" 

خادم کی باتوں سے کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایمان کا سگا باپ تھا اس سے بہتر تو بہت سے سوتیلے باپ ہوتے لیکن وہ بھی تو سلطان تھا درندگی کی جیتی جاگتی مثال۔

"لیکن آپ نے معراج کے ماں باپ کو کیوں مارا اگر آپ کو پارٹی کا سربراہ بننے کے لیے عثمان ملک کو راستے سے ہٹانا تھا تو آپ ایسے بھی تو مار سکتے تھے؟"

عرفان نے کب سے اپنے ذہن میں آتا سوال اس سے پوچھا۔

"کیونکہ معراج کی ماں کوئی اور نہیں سکندر تھی اے کے وہی سکندر جس نے میرے بھائیوں کو مارا۔۔۔۔"

خادم کی بات پر عرفان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"ہاں میرے دو چھوٹے بھائی جن میں سے ایک نے ایک لڑکی کو اس کی اوقات دکھائی اور دوسرے نے اس کی تصویریں لیں تو اس سکندر نے ان کے گھر میں گھس کر دونوں کو مار دیا۔۔۔۔۔چھپ کر دیکھ رہا تھا میں سب لیکن کچھ نہیں کر پایا کیونکہ میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا وہ مجھے بھی مار دیتی۔۔۔۔لیکن قسم کھائی تھی میں نے اپنے بھائیوں کے جنازے پہ کہ اس سکندر کو جس کی سچائی صرف میں جانتا تھا اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

خادم نے دانت پیس کر کہا۔

"بہت دیر میں مناسب موقع کی تلاش میں رہا اور وہ موقع مجھے تب ملا جب اس نے عثمان ملک آفس سے میں نے عثمان کو اسے دھمکی دیتے سنا۔"

خادم کے چہرے پر شیطانی واضح تھی۔

"ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کا فیصلہ کیا میں نے اس سکندر سے اپنا بدلہ بھی لے لیا اور عثمان کو بھی اپنے راستے سے ہٹا دیا۔۔۔۔اور دیکھو آج میں کہاں ہوں اور وہ کہاں۔۔۔"

اتنا کہہ کر خادم قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔

"کیسے مارا تھا آپ نے اسے؟"

عرفان نے دلچسپی سے پوچھا کیونکہ اسے اب اس کہانی سے بہت مزہ آ رہا تھا جبکہ اس سوال پر وہ رات پھر سے یاد کرتے ہوئے خادم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

(چودہ سال پہلے)

سعد بے انتہا خوشی کے عالم میں عشال کا ہاتھ تھامے کمرے میں داخل ہوا جہاں معراج بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا۔

"باپ اتنا خوش ہے اور بیٹا سو رہا ہے زرا خوشی اسے بھی تو ہو نا۔"

سعد مسکرا کر کہتے ہوئے معراج کی جانب بڑھا۔

"نہیں سعد اسے سونے دیں صبح سکول بھی جانا ہے اس نے پلیز اسے نہیں اٹھا۔۔۔۔"

لیکن عشال کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی سعد سات سالہ معراج کو جگا کر اپنی گود میں بیٹھا چکا تھا۔

"معراج بابا کی جان میرے پاس آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔۔۔۔آپکو پتہ ہے آپکو ایک بہن ملنے والی ہے۔۔۔"

سعد کی بات پر معراج کی سبز آنکھیں نیند کی شدت سے بند ہونے لگیں۔

"ججج۔۔۔۔جنت جیسی بہن۔۔۔ککک۔۔۔۔کہاں ہے۔۔۔؟"

معراج نے ہکلاتے ہوئے پوچھا اور اسکی اس عادت کو لے کر عشال بہت زیادہ پریشان تھی اس نے نہ جانے کتنے ہی ڈاکٹروں سے معراج کا علاج کروایا تھا لیکن اسکا ہکلانا ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔

"بلکل جنت جیسی چھوٹی سی پیاری سی ہو گی لیکن ابھی نہیں ابھی کافی مہینوں کا وقت ہے۔"

سعد نے عشال کو دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر کہا جو اسے گھورنے میں مصروف تھی۔

"ایجنٹ جی میرے معصوم بچے کو اپنی ایسی باتوں سے دور ہی رکھا کریں۔"

عشال نے معراج کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ فورا آگے بڑھ کر عشال کے سینے سے لپٹ گیا۔

"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں نے معراج کے سامنے ہی تمہیں۔۔۔"

عشال نے سعد کو گھورتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ معراج کے کانوں پر رکھ دیے تو سعد قہقہ لگا کر ہنسا اور اٹھ کر ان دونوں کے پاس آیا جو اسکا کل جہان تھے۔

"تھینک یو میری جان مجھے خوشیوں اور محبت سے بھری یہ زندگی دینے کے لئے۔"

سعد نے دونوں کو اپنی باہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تو عشال بھی اپنے ہونٹ معراج کے سر پر رکھ کر مسکرا دی۔

تبھی نچلے پورشن سے آنے والی کھٹ پٹ اور انجان لوگوں کی سرگوشیوں نے دونوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔

"سعد آئی تھنک کوئی ہمارے گھر میں ہے۔۔۔"

عشال نے معراج کو خود میں بھینچتے ہوئے پریشانی سے کہا جبکہ سعد اب تک سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھ چکا تھا جہاں  سے اس نے اپنی پسٹل نکالی۔

"میں دیکھتا ہوں تم معراج کے پاس رہو ۔۔۔"

سعد اتنا کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا عشال کچھ دیر معراج کو اپنے ساتھ لگائے پریشانی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی۔

"آآآآہ۔۔۔۔"

سعد کی چیخ سن کر عشال نے فوراً معراج کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور کمرے میں موجود ڈریسنگ روم کی الماری میں اسے چھپانے لگی۔

"معراج میری جان آپ یہیں چھپنا اور جب تک مما یا پاپا نہ بلائیں آپ نے باہر نہیں آنا اوکے۔۔۔۔"

عشال جلدی سے اسے الماری میں چھپاتے ہوئے کہہ رہی تھی نہ جانے کیوں اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔

"ممم۔۔۔۔مما مجھے ڈر لگ۔۔۔۔لگے گا۔۔۔"

معراج نے ڈرتے ہوئے کہا لیکن عشال نے اسکے ہاتھ پکڑ کر اسکے کانوں پر رکھ دیے۔

"ششش مما کی جان بس آپ چپ رہنا بلکل چپ اوکے۔۔۔۔اور یہاں سے باہر نہیں آنا۔"

معراج کے ہاں میں سر ہلاتے ہی عشال الماری بند کر کے کمرے میں آئی اور اپنے موبائل سے وجدان کو میسج کرنے لگی۔

ہمارے گھر کوئی گھس آیا ہے جلدی سے آ جائیں بھائی۔

میسج کر کے اس نے جلدی سے اپنا ریوالور نکالا اور کمرے سے باہر نکل کر ریلنگ کے پاس آئی اور ایک پلر کے پیچھے چھپ کر نیچے موجود ہال میں دیکھنے لگی۔

اس وقت ہال میں تقریباً بیس کے قریب آدمی تھے جن میں سے دو آدمیوں نے زخمی سعد کے ہاتھ جکڑے تھے اور ایک اسکے سر پر بندوق تانے کھڑا تھا۔

"تجھے کیا لگا سعد رفیق کہ تیری بیوی سکندر بن کر میرے بھائیوں کو مارے گی اور میں کچھ نہیں کروں گا؟""

ایک آدمی کی آواز عشال کے کانوں سے ٹکرائی لیکن وہ اس آدمی کو دیکھ نہیں پائی تھی کیونکہ اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا لیکن حلیہ بلکل عثمان جیسا تھا۔

"اب دیکھ نا میں یہاں ہوں تیرے گھر میں اور تو میری گرفت میں ہے لیکن تیری بیوی کہاں ہے؟چھوڑ پہلے تیرا کام تمام کر دیتا ہوں۔"

اس آدمی نے قہقہ لگا کر کہا اور پھر بندوق تھامے آدمی کو اشارہ کیا جس نے وہ بندوق سعد کے سر کے پیچھے رکھی تھی۔تبھی ایک گولی کی آواز آئی اور سعد کے سر پر بندوق تانے کھڑا آدمی زمین پر ڈھیر ہوا۔گولی کا نشان اسکے ماتھے پر موجود تھا۔

سب نے اپنی بندوقوں کا رخ اوپر موجود بالکونی کی طرف کیا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔

"کون ہو تم سامنے آؤ فوراً۔۔۔"

ایک آدمی نے دھمکی دی لیکن جواب میں ایک گولی سیدھا اسکے سینے کو چیر چکی تھی۔

تبھی سلطان خود آگے بڑا اور اپنی بندوق سعد کے ماتھے پر رکھ دی۔

"سامنے آ سکندری ورنہ اس کی کھوپڑی اڑا دوں گا۔۔۔۔"

یہ سن کر عشال نے پہلے بےبسی سے سعد کو دیکھا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر پلر کے پیچھے سے سامنے آئی ۔وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے ان کے باس کو کچھ کیا تو وہ لوگ سعد کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

وجدان کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچتا ہو گا عشال کو بس انکا وقت ضائع کرنا تھا۔

"کیا بات ہے کس نے سوچا تھا کہ خونخوار سکندر اتنی حسین عورت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔"

سلطان نے طنزیہ مسکان کے ساتھ کہا اور پھر عشال کو بندوق گرانے کا اشارہ کیا تو اتنے سارے لوگوں کو دیکھتے ہوئے عشال نے بے بسی سے بندوق نیچے گرا دی۔

"سلطان کے دو بھائیوں کو مارا تو نے تو بول کیا سزا ہو تیری سوچتا ہوں تیرے شوہر  کو ۔۔۔۔۔"

سلطان نے بندوق سعد کے سر کے پیچھے رکھتے ہوئے اپنے سامنے موجود اس عورت کو کہا جس کی سبز آنکھوں میں ابھی بھی خوف نہیں تھا بلکہ بے انتہا بہادری تھی۔ویسے بھی بھائیوں کا ذکر سن کر عشال سمجھ چکی تھی سامنے چہرہ چھپائے موجود انسان اور کوئی نہیں عثمان ملک کا پی اے تھا۔

"اس نے نہیں میں نے مارا تیرے بھائیوں کو تو ہمت ہے تو مجھے مار۔۔۔"

عشال کی بات پر کمرے میں موجود ہر آدمی قہقہ لگا کر ہنسنے لگا۔

"واہ اتنی بہادر عورت آج تک نہیں دیکھی لیکن افسوس ہے کیسی بہادر عورت کو ختم کرنا پڑے گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر سلطان نے اپنی بندوق کا رخ سعد کی طرف کیا تو عشال انتہائی تیزی سے آگے بڑھی اور اپنا پاؤں بہت زور سے سلطان کے گھٹنے پر مارا اور ایک ہاتھ سے جلدی سے اس کی بندوق چھین کر دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن کو دبوچتے ہوئے وہ ریوالور سلطان کی کنپٹی پر رکھ دی۔

"تو جانتا نہیں سکندر کو تجھ جیسوں کے لئے موت ہے وہ۔۔۔۔۔"

عشال نے اپنی آواز ایک مرد کی طرح بھاری کر کے کہا۔اس کی سفاک آواز پر سلطان کی روح تک کانپ گئی تھی۔عشال نے سلطان کے چہرے پر موجود نقاب ہٹانا چاہا لیکن تبھی سلطان کے ایک آدمی نے اپنی بندوق اُٹھائی اور پیچھے سے عشال کی کمر پر گولی چلا دی۔

"عشااال۔۔۔۔"

گولی کی آواز پر خود کو بے چینی سے چھڑواتے ہوئے سعد نے عشال کی طرف جانا چاہا لیکن چار آدمیوں نے آگے بڑھ کر اسے دوبارہ دبوچ لیا۔

"پہلی بار کسی عورت کی بہادری بے انتہا پسند آئی لیکن افسوس۔۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر سلطان نے اپنے ایک آدمی سے  بندوق پکڑی اور سعد کی طرف بندوق کر کے ایک گولی سیدھا اسکے دماغ میں مار دی۔

"آآآہہہہہ۔۔۔۔۔"

عشال ایک بھوکی شیرنی کی طرح چلاتے ہوئے اپنی تکلیف نظر انداز کر سلطان کی جانب بڑی اور اسکا گریبان اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا۔

"نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں گھٹیا انسان۔۔۔۔"

عشال چلائی اور اسکی آنسوؤں سے تر  سبز آنکھوں میں آگ دیکھ کر سلطان خوف سے کانپ اٹھا تبھی اس کے ایک اشارے پر ایک آدمی نے دو گولیاں عشال پر چلائیں جسکے بعد وہ زمین پر ڈھے گئی۔

"چلو اس چالاک عورت نے ضرور کسی کو بلا لیا ہو گا۔۔۔۔"

سلطان نے اپنے آدمیوں سے کہا اور ایک پل کے لیے یہ عشال کے قریب آیا۔

"ویسے تجھے مارا میں نے ہے لیکن مروانے والا عثمان ملک ہے۔۔۔۔تو نے اسے دھمکی دے کر اچھا نہیں کیا اب بھگت۔۔۔"

اتنا کہہ کر سلطان اپنے آدمیوں کے ساتھ  اس گھر سے باہر نکل گیا۔وہ چاہتا تھا کہ اگر کوئی اس عورت کے زندہ ہونے تک آئے تو اس کے سامنے عثمان کا نام لے 

۔

ابھی انہیں گئے کچھ منٹ ہی گزرے تھے جب پریشان حالت میں وجدان کئی پولیس والوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔

"وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے ڈھونڈو انہیں۔"

انسپکٹر نے گھر کی حالت دیکھ سپاہیوں کو حکم دیا لیکن وجدان بے جان ٹانگوں کے ساتھ عشال کے خون میں سنے وجود کی جانب بڑھا۔

"عشال۔۔۔"

وجدان نے اسے اپنی باہوں میں دبوچا۔جانا پہچانا لمس محسوس کر ایک پل کو عشال کی آنکھیں کھلیں اور اس نے چند سانس بھرے۔

"مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ہار۔۔۔۔گئی بھائی۔۔۔۔میرے معراج کا۔۔۔۔خخ۔۔۔۔خیال۔۔۔۔"

عشال اتنا ہی بول پائی اسکی چلتی سانسیں رک رہی تھیں۔

"کس نے کیا یہ عشال؟"

وجدان نے پوچھا تو عشال نے اسے سلطان کو بتانا چاہا لیکن وہ تو بس ایک کٹ پتلی تھا سب کیا دھرا تو عثمان ملک کا تھا۔

"ملک۔۔۔"

عشال نے وجدان کو مزید سلطان کا بھی  بتانا چاہا لیکن بس اس ایک لفظ کے بعد اسکی سانسیں اکھڑنے لگیں اور قدرت نے اسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔پولیس والوں کو معراج منہ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے بیڈ کے نیچے سے ملا تھا۔شائید وہ لوگ معراج کے بارے میں جانتے نہیں تھے یا اسے اہم نہیں سمجھتے تھے جو بھی تھا اس گھر میں بس وہی زندہ تھا۔عشال اور سعد کی نشانی۔

"جانان"

شایان نے جانان کو اپنے پاس بلایا جو کمرے میں ان دونوں کے کپڑے طے کر کے الماری میں رکھ رہی تھی۔جنت والے اس واقعے کیلے بعد جانان نے شایان سے بات بھی نہیں کی تھی اور ابھی بھی اسکی بات کا جواب دیے بغیر ہی جانان باہر جانے کو تھی جب شایان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔

"ناراض ہو مجھ سے جانان شاہ۔۔۔؟"

شایان نے اسکا چہرہ بہت محبت سے ہاتھوں میں تھام کر پوچھا تو جانان پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"آپ اور میں اچھے ماں بات نہیں بن پائے شایان اسی لیے معراج نے ہم دونوں کو چھوڑ کر اتنا بڑا قدم اٹھایا اور جنت کی خوشیاں آپ نے صرف اپنی انا کی وجہ سے اس سے چھین لیں آپ کو نظر نہیں آتا شایان ہماری چلبلی سی بیٹی اب نہ تو کچھ بولتی ہے اور نہ ہی ہنستی ہے۔"

جانان نے روتے ہوئے کہا تو شایان نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

"تم تو خود سے بھی زیادہ مجھ پر بھروسہ کرتی تھی جانان اب کیا ہوا پلیز ابھی بھی یہی کہوں گا کہ مجھ پر بھروسہ رکھو جو کر رہا ہوں اچھے کے لیے کر رہا ہوں۔"

شایان نے اسے یقین دلانا چاہا۔

"شایان آپ پلیز جنت کی شادی سالار سے کر دیں وہ بہت پسند کرتی ہے اسے اور شائید آپ بھول رہے ہیں کہ۔۔۔۔"

جانان ایک پل کو رکی اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ماضی کی وہ بات شایان کو یاد دلاتے اسے ڈر لگ رہا تھا۔

"کہ کبھی آپ نے ہی سالار اور جنت کی منگنی کی تھی۔۔۔وہ تو ہمارے پاس بچپن سے ہی سالار کی امانت تھی شایان۔۔۔۔بہت زیادتی کی آپ نے سالار سے کہ جنت کے کچے زہن سے اسکی ہر یاد مٹا دی۔۔۔"

جانان کی بات پر شایان نے گہرا سانس لیا۔

"اس رشتے کی آج کوئی اہمیت نہیں جانان حالات کیسے بدلے اس سے تم بھی واقف ہو۔"

شایان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

"آپ نے جنت اور سالار کے ساتھ وہی کیا شایان جس سے کبھی ہم گزرے تھے اور اس بات کا مجھے سب سے زیادہ افسوس ہے۔۔۔"

جانان کی نم آواز میں کہی بات شایان کے دل کو چیر گئی تھی وہ کب ایسا ہو گیا کہ اپنی جانان کے آنسوؤں کی وجہ بن گیا۔شایان نے جانان کے پیچھے جانا چاہا جو اب شائید جنت کے پاس چلی گئی تھی۔تبھی ایک ملازم وہاں پر آیا۔

"سر سالار ملک صاحب باہر آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔"

ملازم کی بات پر شایان حیران ہوا پھر ہاں میں سر ہلا کر خود بھی ہال میں آ گیا جہاں سالار شان سے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

"کیا کام ہے تمہیں کیوں آئے ہو یہاں؟"

شایان کے سوال پر سالار اسکی جانب مڑا۔

"اپنی جنت سے ملنے آیا ہوں۔۔۔"

سالار کی بات پر شایان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

"جنت تمہاری کب سے ہو گئی،بچپن کی باتوں کو یوں دل سے لگا کر نہیں رکھتے وہ تمہارا مقدر نہیں سالار ملک بھول جاؤ اسے۔۔۔"

شایان اتنا کہہ کر وہاں سے واپس جانے لگا۔

"جنت سے تو اسکی پیدائش سے محبت کرتا تھا میں شایان شاہ صاحب اب غلطی آپ کی ہے آپ نے ہی ہم میں دوری ڈال کر اسی محبت عشق بنا دیا۔۔۔۔ لازوال عشق اب میں جنت کو حاصل کر کے ہی دم لوں گا وہ کیا ہے نا جو میں چاہتا ہوں اسے پا ہی لیتا ہوں کیونکہ میں سالار ملک ہوں دراب خان نہیں۔"

سالار کے طنز پر شایان نے اسے آنکھیں چھوٹی کر کے گھورا۔

"چاہتا تو کب کا آپ کی ناک کے نیچے جنت کو چرا کر وہاں لے جاتا جہاں آپ تو کیا آپ کا سایہ بھی نہ پہنچ پاتا لیکن جنت کے نام پر ایک حرف بھی برداشت نہیں  کر سکتا میں۔۔۔"

سالار نے شان سے کہا۔

"فکر مت کرو سالار ابھی تمہاری یہ خوش فہمی میں دور کیے دیتا ہوں۔"

اتنا کہہ کر شایان نے پھرملازم کو بلا کر اسے جنت کو بلانے کا کہا۔کچھ دیر بعد ہی جنت اور جانان وہاں آ گئی تھیں۔

"جنت بیٹا یہ جو لڑکا یہاں بہت امید سے کھڑا ہے نا اسے بتا دو کہ آپ اس سے نہیں چاہتی وہ سب اس کے خیال سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔۔۔"

شایان کی بات پر جنت نے پہلے نم آنکھوں سے جانان کو دیکھا پھر سالار کو دیکھا جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔جنت کو کچھ سمجھ نہ آیا تو بے بسی سے اپنا سر جھکا کر آنسو بہانے لگی۔

"جنت بتاؤ بیٹا۔۔۔"

شایان کی آواز پر جنت نے ایک نظر پھر سے سالار کو دیکھا اور پھر گھبراتے ہوئے بولی۔

"میں آپ سے پیار نہیں کرتی جو کچھ بھی ہمارے درمیان تھا وہ سب ایک جھوٹ تھا آپ بھول جائیں وہ سب"

جنت نظریں جھکائے اعتراف کر رہی تھی اور سالار اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

"سن لیا تم نے اپنے کانوں سے میری بیٹی نہیں چاہتی تمہیں اب جا سکتے ہو تم یہاں سے۔۔۔"

شایان نے جنت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور سالار کو باہر کے دروازے کی جانب اشارہ کیا جبکہ اسکے چہرے پر ایک فاتح مسکان تھی۔

"ٹھیک ہے شایان شاہ صاحب ابھی ثابت ہو جائے گا کہ آپ کی بیٹی مجھے چاہتی ہے یا نہیں ؟"

سالار کی بات پر شایان نے اسے نظریں چھوٹی کر کے دیکھا لیکن اسکی اگلی حرکت پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

سالار پاس موجود کھڑکی کی جانب گیا اور اسکا شیشہ اپنا ہاتھ مار کر توڑ دیا جسکے نتیجے میں اسکے ہاتھ سے بری طرح سے خون نکلنے لگا۔

پھر سالار اپنا خون سے سنا ہاتھ اپنے سامنے کر کے مسکرایا اور اس بار اپنا سر اس کھڑکی سے مارا تھا۔

"سالار ۔۔۔۔"

جانان گھبرا کر آگے ہوئی اور سالار کو روکنا چاہا جبکہ جنت تو بند ہوتے دل کے ساتھ حیرت سے اس پاگل کو دیکھ رہی تھی۔

سالار نے روتی ہوئی جانان کا ماتھا چوم کر اسے خود سے دور کیا اور پھر میز سے شیشے کی بوتل اٹھا کر اپنے دوسرے بازو پر مار کر توڑ دی۔تبھی جنت کی بس ہوئی تھی اسی لیے وہ روتے ہوئے سالار کے پاس گئی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنا دوپٹہ سر سے نکلتے خون پر رکھا تھا جسے سالار نے سختی سے ہٹا دیا۔

"تم تو چاہتی نہیں نا مجھے پھر کیا پروا ہے میری جیوں یا مر جاؤں جو چاہے کروں تمہیں اس سے کیا۔۔۔"

سالار نے اسے خود سے دور کرنا چاہا تو جنت روتے ہوئے انکار میں سر ہلانے لگی۔

"نن۔۔۔نہیں سالار جھوٹ تھا وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔۔بہت چاہتی ہوں آپکو۔۔۔جان سے بھی زیادہ۔۔۔نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر پلیز آپ ایسا نہیں کریں۔۔۔"

جنت روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور اپنا دوپٹہ اسکے سر پر رکھ رہی تھی جہاں سے ابھی بھی بہت زیادہ خون نکل رہا تھا۔

سالار نے ایک فاتح مسکان کے ساتھ شایان کو دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ جنت اب اسکی ہوئی۔شایان بس خاموشی سے مڑا اور وہاں سے چلا گیا۔

"غلام چچا گاڑی نکالیں ہم سالار کو ہاسپٹل لے کر جا رہے ہیں ۔۔۔۔"

جانان نے ملازم کو کہا اور جلدی سے جنت کے پاس آئی جو سالار کا ہر زخم دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

"شش میری جان رو مت کچھ نہیں ہو گا اسے ۔۔۔"

جانان نے اسے حوصلہ دیا اور پھر ملازم کی مدد سے اپنے پاگل بھانجے کو ہاسپٹل لے کر گئی۔سچ تو یہ تھا کہ سالار کا جنون اب جانان کو بھی ڈارنے لگا تھا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

انس اپنی جاب پر واپس آ چکا تھا۔اتنا عرصہ غائب رہنے کی وجہ سے وہ سکندر کے جتنے قریب پہنچا تھا اب اس سے اتنا ہی دور جا چکا تھا۔

کمیشنر صاحب نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اب بھی وہ لوگ سکندر کو نہیں پکڑ پائے تو یہ کیس ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اس لیے انس کو کسی بھی طرح سکندر کو پکڑنا تھا۔

دوسری طرف اس نے سوچ لیا تھا کہ اب مناسب موقع دیکھتے ہی وہ اپنی بہنوں کو وجدان کے گھر ہانیہ کو مانگنے کے لیے بھیجے گا لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس سے پہلے وہ ہانیہ سے اس کا جواب مانگے۔پچھلی مرتبہ تو اس نے غصے میں آ کر ہانیہ کو اپنا حکم ہی سنایا تھا۔

اپنی پٹاخہ گڈی کو یاد کر کے انس کے ہونٹ اپنے آپ مسکرا دیے۔وہ چاہتا تھا کہ اسکا ٹرانسفر راولپنڈی ہو جائے تا کہ جتنا ہو سکے وہ ہانیہ کے قریب رہ سکے۔

بہت سوچ کر انس نے فون  ملا کر اپنے کان سے لگایا۔

"ہیلو کون؟"

ہانیہ کی آواز پر انس مسکرا دیا۔

"میں۔۔۔"

"سوری بکری سے بات کرنے کا موڈ نہیں میرا ابھی۔۔۔۔"

ہانیہ کا ٹکا سا جواب سن کر انس ہنس دیا۔

"تم کبھی سیدھا جواب نہیں دے سکتی کیا؟"

"جب آپ جانتے ہیں کہ میں ٹیڑھی لڑکی ہوں تو مجھ سے سیدھا جواب ایکسپیکٹ کرنا بس آپ کی بیوقوفی ہے ۔۔۔"

ہانیہ نے اترا کر کہا۔

"ملنا چاہتا ہوں تم سے کب ملو گی؟"

انس نے ہاتھ میں موجود پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے پوچھا۔

"کوئی خاص وجہ۔۔۔؟"

"سوچا کہ میری مدد کے لیے تم نے شکریہ ادا نہیں کیا تو وہ ہی کر دو گی تم اور میں۔۔۔"

انس کچھ سوچ کر مسکرا دیا۔

"اور آپ؟"

ہانیہ نے آہستہ سے پوچھا۔نہ جانے وہ انس سے کیا پوچھنا چاہتی تھی۔

"یہ ملو گی تو بتاؤں گا اگلے ہفتے ہی آ رہا ہوں تمہارے گھر اپنی بہن کو لے کر ہانیہ وجدان خان مقصد تمہیں ہانیہ انس راجپوت بنانا ہے اور ہاں میں جواب ہونا چاہیے تمہارا ورنہ۔۔۔"

انس جو کہ اسے مناسب طریقے سے پرپوز کرنے کا سوچ رہا تھا پھر سے جذبات میں آکر اپنا فیصلہ سنا چکا تھا۔

"ورنہ۔۔۔؟"

انس اب ہانیہ کی بڑھتی سانسوں کی آواز سن سکتا تھا۔

"ورنہ اٹھا کر لے جاؤں گا تمہیں۔۔۔پولیس والا ہوں میڈم انڈرریسٹیمیٹ نہ کرنا۔"

انس نے مسکرا کر کہا۔

"اب آپ زیادہ نہیں بن رہے۔۔۔"

ہانیہ نے جھنجھلا کر پوچھا کیونکہ انس کا یوں اس پر حق جتانا اسکے دل میں تباہی مچا رہا تھا۔

"پانچ سال بہت ہوتے ہیں انتظار کر لیے مس اب بندے کی بس ہو چکی ہے۔۔۔"

انس نے گہرا سانس لے کر آنکھیں موندتے ہوئے کہا۔

"ایک بات بتاؤں آپ کو آپ فوج میں اچھے تھے پولیس میں آ کر چھچھورے ہو گئے ہیں ویسے بھی ہانیہ وجدان خان کو پولیس والے نہیں پسند اس لیے آپ کا کوئی چانس نہیں۔۔۔"

انس ہانیہ کی آواز میں شرارت محسوس کر سکتا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا ہانیہ فون بند کر چکی تھی۔

"پٹاخہ گڈی جب اختیار میں آؤ گی تب بتاؤں گا کہ چھچھورا پن کسے کہتے ہیں۔"

انس نے خود سے کہا اور پھر اپنا دھیان ہانیہ سے ہٹا کر اپنے مشن پر لگانے لگا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"خطرناک دہشت گرد راگا کی موت آرمی کے ہاتھوں ہو چکی ہے جبکہ اس کے باقی ساتھیوں کو پاک فوج نے اپنی قید میں لے لیا۔کچھ دنوں پہلے ہی پاک فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں خطرناک اور مشہور دہشت گرد راگا مارا گیا۔مزید جانتے ہیں ہمارے نمائندے کی اس رپورٹ سے۔۔۔"

ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی تو دیوار سے لگی ایل سی ڈی پر کوئی نیوز چینل لگا ہوا تھا اور وانیا روز کی طرح بت بنی بیڈ پر بیٹھی تھی۔وانیا کے واپس آنے سے ان کے گھر کی خوشیاں تو لوٹ آئی تھیں لیکن لیکن وانیا بلکل بدل چکی تھی۔

ہانیہ نے ٹی وی بند کیا اور آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔

"ہیے میری بگز بنی کیا سوچ رہی ہو؟"

ہانیہ نے شرارت سے کے گال کھینچ کر کہا لیکن دوسری جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی تاثر نہیں آیا۔

"وانی کچھ تو کہو مجھ سے بات کرو یار لیکن پلیز اس طرح چپ کرکے تو مت بیٹھو۔۔۔"

ہانیہ اس کا چہرہ تھام کر بہت بے بسی سے کہہ رہی تھی۔آج انہیں اس جگہ سے آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن وانیا کی حالت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا اور اب اس کی یہ حالت اس کی جڑواں کو بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی۔

"ہانیہ بیٹا۔۔۔"

وجدان کی آواز پر ہانیہ مڑی اور نم آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھا۔

"کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔؟"

"بابا ہانی کو دیکھیں نہ کچھ بولتی ہے،نہ ہی ہنستی ہے اور نہ ہی روتی ہے نہ جانے کیا ہو گیا ہے اسے بابا۔۔۔"

ہانیہ کے رونے پر وجدان اسکے پاس بیٹھا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔

"میں نے کہا تھا بیٹا کہ اسے کچھ وقت دو۔۔۔۔وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے انشاءاللہ تم دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"

وجدان نے اسکا گال تھپتھپا کر کہا تو ہانیہ اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔

"بس تم ایسے ہی مسکراتے رہو اور دیکھنا وانیہ کی زندگی کی تمام خوشیاں لوٹ آئیں گی۔"

وجدان نے اسے یقین دلایا۔اپنی بیٹی کی حالت کو لے کر وہ بھی بہت زیادہ پریشان تھا لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اسے زرش اور ہانیہ کو سنبھالنا لگ رہا تھا جو وانیہ کی حالت کی وجہ سے خود ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھیں۔

وجدان نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے اپنی اس بیٹی کی خوشیوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

معراج کالج سے واپس گھر آیا اور آتے ہی ایمان کے پاس گیا تھا۔

"ارے آ گئے تم ملنگ؟"

ایمان جلدی سے اسکے پاس آئی۔اسکا مسکراتا چہرہ دیکھ کر معراج کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہو رہا تھا وہ ہمیشہ یونہی اسے مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔

"ممم ۔۔۔۔۔میں نے تمہیں بہت مس کک ۔۔۔کیا ایمان۔۔۔"

معراج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تو ایمان بس اسکا ہاتھ پکڑنے پر ہی شرما کر اپنا سر جھکا گئی۔

"ملنگ ایک بات پوچھوں؟"

"ہہہ ۔۔۔۔ہاں پوچھو؟"

"تمہارا چھونا برا کیوں نہیں لگتا جب وہ چھوتا تھا ناں تو بہت برا لگتا تھا۔۔۔"

ایمان کی بات پر معراج نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیں۔

"ککک۔۔۔۔کون چھوتا ہے تمہیں؟"

ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا بس اپنا سر جھکا گئی تو معراج اسکے قریب ہوا اور چہرہ اپنی انگلیوں میں پکڑ کر اونچا کیا۔

"ببب۔۔۔۔بتاؤ ایمان کس نننن۔۔۔۔نے چھوا تمہیں؟"

معراج کے سوال پر ایمان کی آنکھوں میں خوف اترا۔

"وہ ۔۔۔وہ معراج۔۔۔"

"ارے واہ یہاں تو نئے نویلے جوڑے کا رومینس چل رہا ہے۔۔۔"

عرفان کی آواز پر وہ دونوں گھبرا کر ایک دوسرے سے دور ہوئے اور عرفان کو دیکھنے لگے جو دروازے میں سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

"لگتا ہے نیا شوہر ملتے ہی ہماری رپنزل مجھے بھول گئی۔۔۔"

عرفان تھوڑا قریب ہوا تو ایمان سہم کر معراج کے پیچھے چھپی تھی۔

"میں نے سوچا کہ رپنزل مجھے یاد نہیں کرتی تو کیا ہوا میں خود ہی مل آتا ہوں اسے۔۔۔"

عرفان نے معراج کے پاس سے ہاتھ نکال کر ایمان کا گال چھونا چاہا تو ایمان سہم گئی۔

"مم۔۔۔۔مت چھوؤ مجھے۔۔۔"

ایمان نے روتے ہوئے کہا اور اپنے ناخن بہت زور سے عرفان کے ہاتھ پر مارے جس سے عرفان کے ہاتھ پر خراشیں آ گئیں۔

"ارے لگتا ہے میری رپنزل کو پھر سے پاگل پن کا دورہ پڑھ رہا ہے کوئی بات نہیں علاج ہے ناں میرے پاس۔۔۔"

عرفان نے اپنی بیلٹ نکالتے ہوئے کہا تو معراج نے گھبرا کر اسے دیکھا۔

"دلہے صاحب آپ زرا باہر جائیں تا کہ میں رپنزل کو پھر سے سدھار سکوں۔۔۔"

عرفان نے معراج کو کہا لیکن وہ ایمان کے سامنے سے نہیں ہٹا تھا۔

"نن۔۔۔۔نہیں آپ ایمان کککک۔۔۔۔کو کچھ نہ کہو وو۔۔۔۔وہ اب سے ایسا نہیں کک۔۔۔ کرے گی۔۔۔"

معراج نے گھبراتے ہوئے عرفان کو کہا۔

"سنا نہیں تم نے ٹھیک سے دلہے صاحب باہر جاؤ۔۔۔"

عرفان نے بہت زیادہ سختی سے کہا تو معراج خوف سے کانپ گیا۔

"جاؤ۔۔۔!!"

عرفان کے چلانے پر معراج اپنی جگہ سے اچھلا اور باہر کی جانب چل دیا۔ایک پل کو مڑ کر اس نے ایمان کو دیکھا جس کی آنکھوں میں بہت زیادہ خوف اور بے بسی تھی۔جیسے کہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں معراج سے نہ جانے کی التجا کر رہی ہو۔

"تو رپنزل اپکا سبق شروع کرتے ہیں۔۔۔"

عرفان نے اپنے ہاتھ کے گرد بیلٹ لپیٹ کر کہا اور ہاتھ اٹھا کر پوری طاقت سے اس بیلٹ کو ایمان کو مارنا چاہا تو ایمان چیخ مار کر اپنی آنکھیں موند گئی۔

ایمان بیلٹ پڑنے کی آواز سن سکتی تھی لیکن جب اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو حیرت سے آنکھیں کھول کر معراج کو دیکھا جو اسکے سامنے آ کر اسے پڑنے والی مار خود پر لے چکا تھا۔

"واہ دلہے میاں بچانا چاہتے ہیں اپنی بیوی کو تو ٹھیک ہے ۔۔۔"

اتنا کہہ کر عرفان نے پوری طاقت سے معراج کی کمر پر بیلٹ مارا جس سے معراج کو بس ایک جھٹکا سا لگا تھا لیکن اس کے منہ سے کوئی سسکی بھی نہیں نکلی ۔

ایمان حیرت سے نم آنکھیں کھولے معراج کی سبز آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور معراج بس اسکے معصوم چہرے کو۔

عرفان نے جب معراج کو ایمان سے دور ہوتے نہ دیکھا تو پوری طاقت سے معراج کو مارنے لگا لیکن اب معراج ایمان کی آنکھوں میں اس قدر کھو چکا تھا کہ خود کو دی جانے والی اذیت کی اسے کوئی پروا ہی نہ تھی۔

جب عرفان اسے مار مار کر تھک گیا تو اپنا بیلٹ غصے سے زمین پر پھینکا اور وہاں سے چلا گیا۔

ایمان اور معراج ابھی بھی بس ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے۔ایمان نے معراج کا مظبوط بازو دیکھا جہاں سے شرٹ پھٹ چکی تھی اور جلد نیلی پڑ رہی تھی۔یہ دیکھ کر ایمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"یہ کیا کیا تم نے ملنگ؟"

ایمان نے نرمی سے اسکا بازو چھوتے ہوئے پوچھا اور اسکی تکلیف محسوس کر کے مزید رونے لگی۔

"مم۔۔۔ میاں بیوی ایک ددد۔۔۔دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ایمان۔۔۔۔ووو۔۔۔۔وہ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔۔۔۔مم۔۔۔۔مر جاؤں گا ایمان۔۔۔لللل۔۔۔۔لیکن تمہیں کبھی کچھ ننن۔۔۔نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان نے اپنا سر اسکے چوڑے سینے پر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔آج دس سالوں کے بعد کوئی ایسا آیا تھا جس نے اسے تکلیف سے بچایا تھا کوئی ایسا جسے سہی معنوں میں ایمان اپنا کہہ سکتی تھی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

سالار اپنی محبت کی فتح حاصل کر کے گھر واپس آیا تھا۔چاہتا تو کچھ بھی کر کے اپنی جنت کو سب سے چھین لیتا اور یہاں سے بہت دور لے جاتا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ جنت کے نام پر کوئی انگلی بھی اٹھائے۔وہ جنت پر پوری عزت سے حق حاصل کرنا چاہتا تھا۔

اور آج جنت نے اسے محبت کا مان بخش کر اسکی منزل کو بہت زیادہ آسان کر دیا تھا۔

اچانک سے سالار کا فون بجنے لگا جسے اٹھا کر اس نے کان سے لگایا۔

"ہیلو۔۔۔؟"

"کیسے ہو سالار ملک بہت خوش ہو رہے ہو گے اپنے اس ڈرامے کے بعد؟"

شایان کی آواز پر سالار مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

"اور آپ اپنی جھوٹی انا کو بھینٹ چڑھتا دیکھ بہت افسردہ ہو رہے ہوں گے شایان شاہ صاحب۔۔۔۔اور تو اور آپ کا لاڈلا بھی آپکو ٹھکرا کر کسی اور کا ہو گیا۔۔۔سو سیڈ شایان شاہ جب مصیبتیں آتی ہیں تو چاروں طرف سے آتی ہیں۔۔۔"

سالار نے طنز کیا۔

"ارے میں کیوں افسردہ ہوں گا کل نکاح ہے میری بیٹی کا میں تو بہت خوش ہوں۔۔۔"

شایان کی بات پر سالار ٹھٹھک کر اٹھ بیٹھا۔

"یہ کیا کہہ رہے۔۔۔؟"

"ارے فکر مت کرو تمہیں دعوت دینے کے لیے ہی بلایا ہے میں نے ضرور آنا تم تمہارے بنا سب ادھورہ رہے گا آخر جنت کے کزن ہو تم۔۔۔"

شایان اتنا کہہ کر سالار کو ایک آگ میں جلتا چھوڑ فون بند کر چکا تھا۔

"اب تم نے حد ختم کر دی شایان شاہ۔۔۔مجھے مجبور مت کرو کہ جنت کو تم سے چھین کر لے جاؤں۔۔۔"

سالار نے مٹھیاں بھینچ کر کہا اور اپنا موبائل بہت زور سے دیوار میں مار کر توڑ دیا۔

"نہیں ہو گا یہ نکاح میں نہیں ہونے دوں گا۔۔۔جنت صرف میری ہے شایان شاہ صرف میری۔۔۔"

سالار کی آواز میں بہت زیادہ جنون تھا۔

"جمال جمال ۔۔۔۔"

سالار کے آواز دیتے ہی جمال بھاگ کر کمرے میں آیا۔

"جی بھائی۔۔۔؟"

"تیار رہنا کل جمال کسی دلہے کی شادی کا دن ہی اسکی موت کا دن بنانا ہے۔۔۔دیکھا دوں گا میں شایان شاہ کو کہ کیا ہوتا ہے جب کوئی سالار ملک سے اسکی جان چھیننا چاہتا ہے۔۔۔"

سالار نے غصے اور جنون سے کہا اور اسکا جنون دیکھ کر جمال بھی گھبرا گیا۔

معراج بیڈ پر الٹا لیٹا ہوا تھا۔ایمان اس کے پاس آ کر بیٹھی اور نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر بہت نرمی سے رکھا۔

"درد ہو رہا ہے کیا ملنگ؟"

ایمان کے سوال پر معراج نے اپنے چہرے کا رخ کی جانب کیا اور مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔

"سب میری وجہ سے ہوا اگر میں پاگل نہیں ہوتی تو وہ تمہیں نہیں مارتے۔۔۔"

اتنا کہہ کر ایمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

"نن۔۔۔نہیں ایمان رو مت۔۔۔۔یییی۔۔۔۔یہاں آؤ۔۔۔"

معراج نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے ساتھ لیٹا لیا اور بہت نرمی سے اس کے آنسو پونچھے۔

"تتتت۔۔۔۔تم پاگل نہیں ہو۔۔۔۔ااا۔۔۔اور تمہیں یہ سب بببب۔۔۔۔برداشت نہیں کرنا چاہیے بببب۔۔۔۔بلکہ اس سب کے بارے مممم۔۔۔۔میں اپنے بابا کو بتانا چاہیے۔۔۔۔"

اپنے باپ کے ذکر پر ہی ایمان کا رنگ اڑ گیا۔

"نہیں ملنگ انہیں کچھ مت بتانا تم۔۔"

ایمان کے اس خوف نے معراج کو حیران کیا۔

"کک۔۔۔کیوں؟وہ تمہارے ببب۔۔۔بابا ہیں ووو۔۔۔۔وہ عرفان کو منع ککک۔۔۔۔کریں گے۔"

ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں وہ منع نہیں کریں گے ۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے عرفان مجھے یونہی ہاتھ لگاتا جو مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا تھا اور جب میں اس سے منع کرتی تو وہ مجھے مارتا اور کہتا کہ اگر کسی کو بتایا تو مجھے اور مارے گا۔۔۔"

ایمان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور معراج بس حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"پھر ایک دن میں نے بابا کو بتا دیا۔۔۔اور پتہ ہے کیا ہوا بابا نے مجھے کہا کہ میں پاگل ہوں۔۔۔اس لیے عرفان کو انہوں نے ہی مجھے سدھارنے کو کہا ہے۔۔۔وہ جو چاہے میرے ساتھ کرے۔۔۔۔"

ایمان نے اپنے آنسو پونچھے اور معراج کو دیکھا جو بس خاموشی سے ہوش کی بات سن رہا تھا۔

"جب عرفان کو یہ پتہ چلا کہ میں نے بابا کو بتایا تھا تو اس نے۔۔۔۔اس دن اس نے پہلی بار مجھے بیلٹ سے مارا۔۔۔اور کہا کہ پاگلوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔"

ایمان پھر سے زارو قطار رونے لگی تھی۔معراج ابھی بھی بس خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

"مم ۔۔۔میں پاگل نہیں ہوں ملنگ قسم کھائی ہوں۔۔۔بب۔۔۔بس جب وہ مجھے چھوتا ہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔"

ایمان نے معراج کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا وہ اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ پاگل نہیں تھی۔

"تت۔۔۔تو وہ مونسٹر عرفان ہے؟"

معراج کے سوال پر ایمان اسکے کان کے قریب ہوئی۔

"عرفان چھوٹا مونسٹر ہے۔۔۔"

"تت۔۔۔تو بڑا مونسٹر کون ہے؟"

معراج کے سوال پر ایمان خاموش ہوگئی۔اسے آج سے دس سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آیا جب وہ صرف سات سال کی تھی اور نیند میں اٹھ کر اپنی ماں کو تلاش کرتے ہوئے اس کے کمرے میں گئی تھی۔

جہاں اس نے دیکھا کہ اس کی ماں تڑپ رہی تھی اور اس کے باپ نے بہت زور سے تکیہ اسکی ماں کے منہ پر رکھا ہوا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر وہ چھوٹی سی بچی جی جان سے کانپ گئی تھی۔جب اس کی ماں نے تڑپنا بند کر دیا تو اس کا باپ اس کے پاس آیا اور اسے بہت زور سے کندھوں سے پکڑ لیا۔

"تمہیں یہ دیکھنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔اب یہ بات کبھی بھی تمہاری زبان پر نہیں آنی چاہیے۔ورنہ جسے بتاؤں گی وہ بھی مر جائے گا اور تمہیں بھی یوں ہی مار دوں گا۔۔۔تم جانتی نہیں مونسٹر ہوں میں۔"

ایمان اپنے باپ کا یہ روپ دیکھ کر بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی تھی۔باپ جو ہر بیٹی کا محافظ ہوتا ہے اسکے لیے ایک جلاد تھا۔

"ااا۔۔۔ایمان بتاؤ نا کک۔۔۔۔کون ہے بڑا مونسٹر ؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں ملنگ نہیں بتا سکتی ورنہ وہ تمہیں بھی مار دے گا۔۔۔اور اگر میری وجہ سے تمہیں کچھ ہوگیا تو میں بھی مر جاؤں گی "

یہ بات کہتے ہوئے ایمان کی آنکھوں میں بہت زیادہ خوف تھا۔اس نے قریب ہو کر اپنا سر معراج کے کندھے پر رکھا۔

"مم ۔۔۔۔میری طرف دیکھو ایمان۔۔۔تتت۔۔۔تمہیں میرے ہوتے ہوئے کککک۔۔۔کسی سے نہیں ڈرنا مممم۔۔۔۔میں تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔"

معراج اسے کہہ رہا تھا اور ایمان اس کی سبز آنکھوں کو دیکھ رہی تھی آج پہلی بار اس نے معراج کو بغیر چشمے کے اتنے قریب سے دیکھا تھا اس کی آنکھیں بہت زیادہ خوبصورت تھیں۔نہیں، وہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں تھیں۔

"اا۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"

معراج نے اسکا گال اپنے ہاتھ میں تھام کر پوچھا۔

"تم بہت پیارے ہو ملنگ۔۔۔"

ایمان نے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا اور مسکرا کر اسے دیکھتی رہی۔

"سس۔۔۔سوری ایمان۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"کس لیے؟"

"ااا۔۔۔۔اس لیے۔۔۔"

معراج نے اتنا ہی کہا اور اپنے ہونٹ ایمان کے نازک ہونٹوں پر رکھ دیے۔معراج کے لمس میں بہت نرمی بہت محبت تھی لیکن ایمان اس نئے احساس کے تحت کانپ کر رہ گئی۔

معراج اس سے دور ہوا تو ایمان نے فوراً اپنا گلال چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا۔معراج نے بھی مسکرا کر اسے دیکھا۔

ہم دونوں دو جسم ایک جان ہیں ایمان ہمیں کوئی مونسٹر جدا نہیں کر سکتا۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔

معراج نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا پھر اسے اپنی آغوش میں لے کر سکون سے آنکھیں موند گیا ۔

                    ❤️❤️❤️❤️

وجدان کمرے میں آیا اور زرش کو دیکھا جو شاید سو رہی تھی۔وجدان نے اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھ کر دیکھا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں۔

"آپ آ گئے وجدان؟"

وجدان کے ہاتھ رکھتے ہی زرش نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اٹھ بیٹھی۔

"تم ریسٹ کرو زرش۔۔۔"

وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر واپس لٹانا چاہا۔

"بہت آرام کر لیا میں نے اب جب میری دونوں بچیاں میرے پاس ہیں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں۔۔۔"

زرش نے مسکرا کر کہا پھر کچھ سوچ کر وہ افسردہ ہوگئی۔

"وجدان وانیا کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے وہ کسی سے کوئی بات ہی نہیں کرتی۔۔۔۔وجدان مجھے اسکی بہت فکر ہو رہی ہے۔۔۔"

زرش نے بے چینی سے کہا تو وجدان نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"فکر مت کرو نور خان سب ٹھیک ہو جائے گا بس وقت دو اسے۔۔۔"

وجدان کی بات پر زرش کی آنکھیں نم ہو گئیں تو وجدان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا زرش؟"

"آج چودہ سالوں کے بعد آپ نے مجھے نور خان بلایا ہے وجدان آپ نہیں جانتے آپ کا ایسا کہنا میرے لیے کتنا حسین احساس ہوتا تھا۔۔۔"

زرش کی بات پر وجدان نے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔جانے انجانے وہ انہیں بہت تکلیف دے بیٹھا تھا جو اسے جان سے بھی زیادہ عزیز تھے۔وجدان سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ اسے کیا کہے۔

"تم پریشان مت ہو نور میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ہماری وانیا پھر سے مسکرائے گی دیکھنا تم یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔"

زرش نے ہاں میں سر ہلایا۔

"اچھا تیار رہنا کل ہم سب شایان کے گھر جا رہے ہیں۔۔۔"

زرش نے حیرت سے وجدان کو دیکھا۔

"کیوں۔۔۔"

"یہ ایک سرپرائز ہے کل ہی پتہ چلے گا۔۔۔"

وجدان نے مسکرا کر اسکا گال تھپتھپا کر کہا تو زرش نے ہاں میں سر ہلا دیا اور اٹھ کر ہانیہ کو تیار ہونے کا کہنے چلی گئی جبکہ وجدان چاہ کر بھی اسے نہیں کہہ پایا کہ وہ اسکے پاس سے کہیں نہ جائے۔

                    ❤️❤️❤️❤️ 

تین سے چار گاڑیاں شایان کے گھر کے باہر رکی تھیں۔جن میں سے سالار اپنے گارڈز کے ساتھ باہر نکلا۔شایان کے چوکیدار نے انہیں روکنا چاہا لیکن سالار کے گارڈز نے اسے بے بس کر دیا۔

سالار نے اپنے گارڈز کو باہر رکنے کا کہا اور خود اندر گیا جہاں شایان اور جانان کے ساتھ ساتھ وجدان اور زرش بھی موجود تھے۔سب ہی بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔

وہ سب دیکھنے سے تو یہی لگ رہا تھا کہ لڑکے والے ابھی وہاں نہیں پہنچے تھے۔سالار نے ان سب کو نظر انداز کیا اور سیدھا جنت کے کمرے کی جانب چل دیا۔جہاں پارلر والی جنت کو تیار کرنے کے بعد اب ہانیہ کو تیار کر رہی تھی۔

"سالار۔۔۔"

جنت نے سالار کو دیکھتے ہی حیرت سے کہا تو سالار آگے بڑھا اور جنت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے وہاں سے باہر لے جانے لگا۔

"ہیے مسٹر چھوڑو میری کزن کو۔۔ "

ہانیہ نے آگے ہو کر سالار کو روکنا چاہا لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتا باہر کی جانب چل دیا۔

"یہ کیا کر رہے ہو تم؟"

شایان نے آگے ہو کر سالار کا راستہ روکتے ہوئے پوچھا۔

"لے جا رہا ہوں اپنی جنت کو یہاں سے جب آپ شرافت سے نہیں مانتے تو یوں ہی سہی۔"

سالار نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اور جنت کو وہاں سے لے جانے لگا۔

"نہیں سالار میں اسی سے نکاح کروں گی جس سے میرے بابا میرا نکاح کرنا چاہیں گے۔۔۔"

جنت کی بات پر سالار نے فوراً اسکا ہاتھ چھوڑا اور حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا جو اس لال شرارے میں سجی ہوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔

"سن لیا اب ہو گئی تسلی کہ میری بیٹی میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرے گی۔۔۔"

شایان کی بات پر سالار نے جنت کو سوالیہ نظروں سے دیکھا لیکن وہ بس اپنی نظریں چرا رہی تھی۔

"آج یہ نکاح نہیں ہو گا جو کر سکتے ہیں کر لیں آپ۔۔۔"

"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو مسٹر میرے بیٹے کا نکاح ہے تمہیں کس نے اختیار دیا اسے روکنے کا۔۔۔"

ایک آدمی کی آواز پر سب نے ٹھٹھک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں عثمان اور حمنہ کھڑے تھے۔

"آپی۔۔۔"

جانان حمنہ کو دیکھتے ہی جا کر اسکے گلے لگ کر رونے لگی تھی اور زرش کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کے قدم زمین میں جما دیئے ہوں۔

سالار نے حیرت سے شایان اور وجدان کو دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔حمنہ جانان کو خود سے دور کر کے زرش کے پاس آئی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔اج چودہ سال بعد وہ بہنیں ایک دوسرے سے مل کر بہت روئی تھیں۔

"کیا ہوا میرے شیر تمہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا؟"

عثمان نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔

"بابا یہ سب۔۔۔؟"

"چلو سب اندر جا کر بیٹھتے ہیں اور آرام سے بات کرتے ہیں جانتا ہوں کہ بہت کچھ بتانا ہے مجھے۔"

وجدان نے سب سے کہا تو سب ہال میں آ کر بیٹھ گئے۔حمنہ تو بس اپنی بہنوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے جا رہی تھی۔

"میں اور شایان ہمیشہ سے جانتے تھے کہ عثمان نے عشال اور سعد کو نہیں مارا۔بس اس وقت ہم دونوں جزبات میں بہہ گئے تھے لیکن جب میں نے اس بارے میں سوچا تو یہ اندازہ لگایا کہ اگر یہ کام عثمان جیسے چالاک سیاست دان نے کیا ہوتا تو وہ اپنے خلاف ایک بھی ثبوت نہیں چھوڑتا نہ کہ وہ اپنے خلاف ہی ثبوتوں کا ڈھیر لگا دیتا۔۔۔"

وجدان کی بات پر سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

"میں اور وجدان سمجھ گئے کہ عثمان کے ساتھ وہی ہوا ہے جو کبھی میرے ساتھ ہوا تھا دشمنی کی خاطر اسے صرف اس سب میں پھنسایا گیا تھا۔"

 شایان نے سب کو بتایا۔

"اسی لیے ہم نے ہی عثمان کو یہاں سے دور جانے کا کہا کیونکہ ہم اس دشمن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔اس لیے سوچا کہ اگر اس دشمن جو یہ لگے کہ وہ جیت گیا ہے تو ہی بہتر ہے کہیں وہ اس بار عثمان اور اسکے گھر والوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ہم نے سب سے یہ بات چھپائی کیونکہ جتنے کم لوگ یہ راز جانتے اتنا ہی بہتر تھا۔"

 شایان نے بات کو جاری رکھتے ہوئے انہیں بتایا۔

"لیکن اتنے سال ہر طرح کی کوشش کے باوجود ہم اس کا کچھ پتہ نہیں لگا پائے۔اس کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے نام تک نہیں اور تو اور اس نے کوئی بھی ثبوت نہیں چھوڑا تھا ۔اسی کوشش میں میں نے غلط لوگوں پر بھروسہ کیا اور اُنہوں نے ہی میرے ایجنٹ ہونے کا راز فاش کر دیا لیکن ہماری ہر جدوجہد ناکام گئی۔"

وجدان اپنی بے بسی بتاتے ہوئے اپنی مٹھیاں ضبط سے بھینچ چکا تھا۔سب خاموش تھے جب اچانک سالار بولا۔

"مجھے خادم شفیق پر شک ہے۔۔۔"

عثمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"خادم بہت اچھا انسان تھا سالار مجھے خود سے زیادہ بھروسہ ہے اس پر۔۔۔"

عثمان نے فوراً خادم کی حمایت کی کیونکہ خادم نے اسے کبھی شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں دی تھی۔

"شائید سالار ٹھیک کہہ رہا ہے عثمان کیونکہ دیکھا جائے تو تمہاری بربادی کا سب سے زیادہ فائدہ اسے ہی ہوا ہے۔۔۔"

وجدان نے بھی سالار کی حمایت کی لیکن عثمان مطمئین نہیں تھا۔

"اگر تو خادم ہی وہ دشمن ہے تو اس وقت ہمارا معراج بہت بڑے خطرے میں ہے اور وہ اس سے واقف بھی نہیں۔۔۔"

شایان نے پریشانی سے کہا۔ 

"صرف شک کی بنا پر کچھ نہیں کیا جا سکتا شایان خادم بہت بڑا سیاستدان ہے ہمیں پختہ ثبوت چاہیے ہوں گے اس کے خلاف۔"

وجدان نے اپنا مدعا بیان کیا لیکن زرش اب بہت زیادہ الجھ چکی تھی۔اگر وجدان بھی عثمان کو بے گناہ سمجھتا تھا تو اس بے رخی کی وجہ کیا تھی؟زرش کے صرف دیکھنے سے ہی وجدان اسکی آنکھوں میں موجود سوال پڑھ چکا تھا۔

"کیونکہ میں ڈر گیا تھا نور خان مجھے لگا کہ تم اور ہانی وانی مجھے ضرورت سے زیادہ چاہنے لگی ہو اتنا کہ میرے بغیر تم لوگ جی ہی نہیں پاتی اور میں جس کی زندگی ہر پل ہی نیزے پر رہتی تھی،میں نہیں چاہتا تھا کہ مجھے کچھ ہو جانے پر تمہارا وہ حال ہو جو حمنہ کا ہوا۔۔۔اس لیے سوچا کہ اپنی بے رخی سے اس محبت کی شدت کو کم کر دوں جو تم اور میری بیٹیاں مجھے سے کرتی تھیں۔"

وجدان کی بات پر زرش کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔وہ اسے کیسے بتاتی کہ وجدان کچھ بھی کر لیتا زرش کے دل سے اسکا مقام کبھی بھی کم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

"آپ کو کیا لگا بابا کہ آپ کے ایسا کرنے سے وہ محبت کم ہو گئی؟ نہیں بابا اس بے رخی نے بس وہ بہت آہستہ آہستہ کیا جو آپکے وسوسوں میں ہوا تھا۔"

ہانیہ جو بہت دیر سے سائیڈ پر کھڑی ہر بات خاموشی سے سن رہی تھی بول اٹھی تو وجدان اس کے پاس گیا اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔

"مجھے معاف کر دو میرا بچہ جانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی لیکن جان سے زیادہ چاہتا ہوں تم تینوں کو بس چلے تو کبھی کوئی تکلیف تم لوگوں کے قریب بھی نہ آنے دوں۔۔۔"

وجدان کی آواز میں بہت غم تھا اور ہانیہ تو باپ کی محبت بھری آغوش ملنے پر ہی اپنا ہر غم ہر شکوہ بھلا چکی تھی۔

"لیکن میرے ساتھ یہ سب کرنے کی وجہ ؟اگر آپ بابا کو گنہگار نہیں سمجھتے تھے تو جنت اور میرے درمیان فری کے ولین کیوں بنتے رہے؟"

سالار نے شایان کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ اس کے سوال پر شایان کے ہونٹ مسکرا دیئے۔

"کیونکہ اپنی بیٹی کو لے کر تمہارے جنون سے ڈرتا تھا میں۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ تم اسے بہت چاہتے ہو لیکن ڈرتا تھا کہ کہیں اپنے جنون میں اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا دو۔۔۔اسی لیے تو میں نے جنت اور معراج کی نکاح کے بات کی تھی تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ تم میرے جگر کے ٹکڑے کے قابل بھی ہو یا نہیں۔۔۔؟"

شایان کے بتانے پر سالار نے ہم اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا جیسے کہ اسے سمجھنا چاہ رہا ہو۔

"لیکن کل تم نے یہ ثابت کردیا کہ کچھ بھی ہو جائے تم خود کو تو نقصان پہنچا سکتے ہو لیکن جنت کے نام پر کبھی ایک حرف بھی نہیں آنے دو گے۔۔۔"

شایان نے مسکرا کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 

"تو اب سب ٹھیک ہو گیا ہے تو کیا ہم نکاح شروع کریں؟"

جانان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"بس میرے کچھ مہمان آنے والے تھے نہ جانے کہاں رہ گئے۔۔۔؟"

وجدان نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تبھی دروازے سے جنرل شہیر اور ان کی اہلیہ ہال میں داخل ہوئے تو وجدان مسکراتے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھا۔

"زرش ہانیہ ان سے ملو یہ میرے جنرل ہیں شہیر سر اور یہ انکی بیوی ہیں آئمہ۔۔۔"

وجدان نے مہمانوں کا زرش سے تعارف کروایا تو وہ خوش دلی سے مسکراتے ہوئے ان سے ملی۔

"اور یہ ہیں میری جان سے پیاری زوجہ زرش اور اس سے بھی پیاری بیٹی ہانیہ۔۔۔۔"

وجدان نے آنکھوں میں محبت کا جہاں سمیٹ کر دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"بہت خوشی ہوئی وجدان تمہاری فیملی سے مل کر بلکہ مجھے افسوس ہے کہ اتنا عرصہ ہم نے اپنے گھر والوں کو ہی دوسرے سے نہیں ملوایا ورنہ ہماری دوستی مزید گہری ہو جاتی۔۔۔اچھا کیا تم نے مجھے اپنے اس فیملی فنکشن پر انوائیٹ کر کے۔۔۔"

وجدان نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے ان کی بات میں حامی بھری۔تبھی داخلی دروازے سے ایک لڑکا وہاں آیا تو سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

سٹائلش سے بالوں اور داڑھی سے پاک چہرہ لیے وہ سرخ و سفید رنگت کا مالک لڑکا بہت زیادہ خوبرو تھا۔نیلی جینز کی پینٹ پر سفید ہاینک شرٹ اور براؤن لیدر کی جیکٹ اسکی پرسنیلٹی کو مزید چار چاند لگا رہی تھیں۔

"اور یہ ہے میرا بیٹا۔۔۔"

"میڈی ۔۔۔"

میڈی نے خود اپنا ہاتھ وجدان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو وجدان نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔

"دبئی میں ہوتا ہے وہاں اس کا اپنا گاڑیوں کا شو روم ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے واپس آیا ہے۔"

وجدان کے ساتھ ساتھ زرش نے بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور انہیں لے کر سب کے درمیان آ گئے۔

"چلیں اب نکاح کی تقریب شروع کرتے ہیں جانان ہانیہ بیٹا جاؤ جنت کو لے آؤ۔"

جانان نے ہاں میں سر ہلایا اور جنت کو لے کر باہر آئی جو شرماتے ہوئے ان کے ساتھ آ رہی تھی جبکہ وانیا بس ہانیہ کا ہاتھ تھامے خاموشی سے بت بنے ساتھ چلتی آ رہی تھی۔

جنت کو لا کر سالار کے سامنے موجود صوفے پر بیٹھایا گیا۔سالار پر نظر پڑتے ہی جنت نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا۔

تو اپنے باپ کے ساتھ مل کر میرے خلاف پلیننگ بھاری پڑے گی بے بی گرل اب تو حق میں بھی آ رہی ہو تم۔

سالار نے اسکو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور نکاح خواں نے اپنا رخ جنت کی جانب کیا۔

"جنت شاہ ولد شایان شاہ آپ کا نکاح سالار ملک ولد عثمان ملک کے ساتھ چالیں لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

"قبول ہے۔۔۔"

جنت نے آہستہ سے کہا تو سب کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔

وانیا خان ولد وجدان خان آپکا نکاح عماد بنگش ولد شہریار بنگش حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟

قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔

وہ پل یاد کر کے وانیا کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔اس نے سب کو خوشیوں میں ڈوبا دیکھا اور اپنے آنسو چھپاتی جلدی سے وہاں سے بھاگ کر لان میں آ گئی۔

اس برے شخص کو یاد کر کے وانیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

"سب نکاح کی خوشیوں میں مصروف ہیں اور آپ یہاں آ کر رو رہی ہیں اسکا کیا مطلب سمجھوں؟"

ایک شخص کی آواز پر وانیا گھبرا کر مڑی اور اس انجان شخص کو دیکھا جو اس کے پیچھے اپنی پینٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

"میرے خیال سے آپ اپنی کزن سے جیلس ہو رہی ہیں کہ اسکا اٹھارہ کی عمر میں نکاح ہو گیا اور آپ بیس کی بھی کنواری ہیں۔۔۔"

"کون ہیں آپ تنہا چھوڑ دیں مجھے۔۔"

وانیا نے جھنجھلا کر پلٹتے ہوئے کہا۔

"نام ہے میڈی اور تنہا چھوڑ کر آپکو رونے دوں اس سے بہتر یہ نہیں کہ آپ رونے کی وجہ بتا دیں مجھے۔۔۔چلیں انٹرو سے شروع کرتے ہیں میرا نام میڈی ہے اور آپ کا؟"

میڈی نے وانیا کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے پوچھا لیکن وانیا نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔

"واؤ ینگ لیڈی کمال کا ایٹیٹیوڈ ہے بھئی انٹرو تک نہیں کروانا چاہتیں آپ تو۔۔۔"

میڈی نے اپنا ہاتھ واپس لیتے ہوئے کہا لیکن تبھی ہانیہ وہاں آئی تھی۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"

اس نے میڈی کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ میڈی کھلے منہ کے ساتھ کبھی ہانیہ تو کبھی وانیا کو دیکھ رہا تھا۔

"واؤ یار تم دونوں تو کاربن کاپی ہو ایک دوسرے کی بلکل سیم ٹو سیم ٹونز۔۔۔۔"

"تعریف کا شکریہ اب آپ میری بہن کے پاس سے تشریف لے جا سکتے ہیں۔۔۔"

ہانیہ نے اپنے دونوں ہاتھ واپس اندر کی جانب کرتے ہوئے کہا۔

"ویسے آپ کی اس ٹوین کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیا  یہ بات نہیں کرتیں۔۔۔؟"

میڈی وانیا کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا جو بہت آنکھوں سے سامنے دیکھتی جا رہی تھی۔

"کرتی ہے لیکن صرف مجھ سے ہر ایرے غیرے سے بات نہیں کرتی وہ ۔۔۔"

اس بات پر میڈی کے ہونٹوں پر دلفریب مسکان آئی۔

"پھر تو ان سے بات کرنا بہت زیادہ انٹرسٹنگ ہو گا۔۔۔۔"

میڈی کی آنکھوں میں وانیا کو دیکھتے ہوئے ایک انوکھی چمک تھی جو ہانیہ کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔

"میرے خیال سے اب آپ کو یہاں سے جانا چاہیے۔۔۔۔"

"جی بالکل جا رہا ہوں میں لیکن صرف ابھی کے لیے ۔۔۔"

میڈی اتنا کہہ کر ایک آخری نگاہ وانیا پر  ڈالتا واپس چلا گیا۔

"لوفر کہیں کا۔۔۔"

ہانیہ نے اسے لقب سے نوازا اور وانیا کے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔

"کیا بات ہے وانی یار مجھ سے شئیر کرو نا ہوا کیا ہے؟"

ہانیہ نے التجا کرتے ہوئے پوچھا تو وانیا اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"انہوں نے سب تباہ کر دیا ہانی وہ حال کیا میرا کہ ان سے آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہو پا رہی۔۔۔۔میں کیا کروں ہانی کیا کروں۔۔۔؟"

وانیا کی باتیں ہانیہ کو مزید پریشان کر چکی تھی۔

"پوری بات بتاؤ وانی ہوا کیا تھا؟"

ہانیہ کے پوچھنے پر وانیا نے روتے ہوئے ہر بات بتا دی اور وہ سب ان کر ہانیہ بھی پریشان ہو چکی تھی۔

"ششش۔۔۔۔بگز بنی رو مت پلیز ابھی آنسو پونچھو اور اندر چلو سب کے پاس چلتے ہیں۔۔۔اور بس اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

ہانیہ نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

"ہانی کیسے ٹھیک ہو گا؟ انہیں اپنی یادوں سے نہیں نکال پا رہی۔۔۔"

وانیا اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی۔

"میں کہہ رہی ہوں نا وانی وقت دو اسے وقت سب مٹا دیتا ہے۔۔۔ابھی چلو اپنی چھوٹی بہن کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں۔"

ہانیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وانیا نے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا اور ہانیہ کا ہاتھ تھام کر اندر آ گئی جہاں اب نکاح کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔

                   ❤️❤️❤️❤️

"ہانیہ بیٹا۔۔۔"

وجدان کی آواز پر جنت اور سالار کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہانیہ جلدی سے اٹھ کر وجدان کے پاس آئی۔

" جی بابا؟"

ہانیہ نے وجدان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وجدان نے مسکرا کر ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے سامنے کیا۔

"تمہارے لیے یہ چھوٹا سا گفٹ۔۔۔"

ہانیہ نے حیرت سے اس کاغذ کو دیکھا پھر اسے ہاتھ میں پکڑ کر کھولا تو وہاں لکھے الفاظ دیکھ کر ہانیہ کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے نم ہو گئیں۔وہ کاغذ اس کے آرمی کو جائن کرنے کے آڈرز تھے۔

"بابا۔۔۔"

ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے آج اس کا سب سے بڑا خواب پورا ہوا تھا۔

"تمہارے خواب سے نا واقف نہیں تھا ہانیہ بس ڈرتا تھا کیوں کہ میں تمہیں عشال کی طرح کھونا نہیں چاہتا تھا لیکن آج اس ڈر کو میں نے خود سے کھینچ کر دور کر دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ میری بہادر بیٹی سب سے بہادر مجاہد بن کر میرا نام روشن کرے۔۔۔"

وجدان کی بات سن کر ہانیہ جلدی سے آگے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"تھینک یو بابا تھینک یو سو مچ۔۔۔۔"

وجدان نے ہانیہ کا چہرہ اپنے سینے سے نکالا اور مسکراتے ہوئے اس کے آنسو پونچھ دیئے۔

"اب بہت جلد تمہیں ہانیہ خان سے کیپٹن ہانیہ خان بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"

ہانیہ نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور جلدی سے ایک بار پھر اس کے سینے سے لگ کر جنت اور وانیہ کے پاس بھاگ گئی اب اسے یہ خوشخبری سب کو سنانی تھی۔

                   ❤️❤️❤️❤️

"سر عثمان ملک پاکستان واپس آ چکا ہے میں نے ابھی ٹی وی پر دیکھا اور تو اور عثمان ملک نے اپنے بیٹے کا نکاح بھی اس کی خالہ زاد کے ساتھ کر دیا ہے۔۔۔۔"

عرفان کی بات سن کر خادم کے ماتھے پر بل آتے تھے۔

"ایسا کیسے ہوگیا جہاں تک مجھے یاد ہے بولو تو عثمان ملک کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے پھر اب یہ سب۔۔۔؟"

خادم بات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"سر ہمیں کہیں ان سے کوئی خطرہ تو نہیں۔۔۔"

"ہمیں ان سے کیا خطرہ ہوگا۔سلطان کو کسی سے بھی کیا خطرہ ہوگا؟یہاں تو کوئی سلطان کا نام تک نہیں جانتا۔۔۔کسی کو یہ تک نہیں پتہ کہ راگا اور اس کے جیسے بہت سے دہشت گرد تو صرف  سلطان کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہیں۔۔۔"

خادم نے ہنستے ہوئے شراب کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا۔

"اسے پولیٹکس کہتے ہیں اے کے دنیا کے سامنے میں خادم شفیق ہوں بہت ہی اچھا اور عوام کی فلاح کے بارے میں سوچنے والا حکمران لیکن ان معصوم لوگوں کو تو دیکھو نہیں جانتے کہ میں ہی سلطان بھی ہوں جو اس ملک میں سمگلنگ،دھماکوں اور بہت سی موتوں کی وجہ بھی ہے۔۔۔۔ہاہاہا سلطان کر خود ہی سب کرواتا ہوں اور خادم بن کر ان ہزار لوگوں میں سے ایک کا نقصان کی بھرپائی کر کے انکا ہیرو بن جاتا ہوں۔۔۔"

اپنے شیطانی ارادے بتا کر خادم قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"اب دیکھو نا ستارہ پارٹی کا رہنما میرے مقابلے پر آ رہا تھا لیکن بے چارہ آج زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔بہت جلد ٹی وی پر اس کی موت کی خبر ہمارے لیے خوشی کی خبر بن جائے گی۔۔۔"

خادم کی بات پر عرفان بھی مسکرا دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی ان کہ ایک آدمی نے انہیں ٹی وی چلا کر دیکھنے کا کہا تھا۔

"آ گئی نا خوشخبری۔۔۔"

خادم نے شان سے مسکراتے ہوئے کہا ریموٹ پکڑ کر ٹی وی چلایا لیکن سامنے ہی وہ شخص زخموں سے چور حالت میں پڑا تھا جسے اے کے نے ستارہ پارٹی کے رہنما کی جان لینے بھیجا تھا۔

ایک کالی پینٹ پر کالی ہڈی پہنے اور کالے رومال سے چہرہ چھپائے آدمی نے اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھا تو وہ آدمی درد سے کراہنے لگا۔

"مم ۔۔۔میں نہیں مارنا چاہتا تھا۔۔۔۔ستارہ پارٹی کے رہنما کو مارنے کی کوشش میں نے نہیں کی ۔۔۔وہ سلطان کے کہنے پر کیا میں نے یہ سب۔۔۔۔اور قسم سے میں نہیں جانتا سلطان کون ہے۔۔۔۔"

وہ آدمی زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

"وہ۔۔۔بس انہیں مروانا چاہتا تھا۔۔۔بدلے میں اس کے آدمی نے پیسے دئیے مجھے ۔۔۔۔یہ سب سلطان نے کروایا تاکہ اس الیکشن میں ستارہ پارٹی کا رہنما نہ جیتے ۔۔۔۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔"

اس آدمی نے اپنی بات کہہ دی تو کالے کپڑوں والے آدمی نے اپنے پاؤں کا دباؤ بڑھا کر اس کی گردن کو توڑ دیا۔

"یہ پیغام تمہارے لئے سلطان۔۔۔سکندر سب جانتا ہے کہ تم کون ہو اور کہاں ہو اور سکندر کے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی ناپاک منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔۔۔بہت جلد تمہارا گریبان سکندر کے ہاتھ میں ہوگا سلطان تیار رہنا۔۔۔"

وہ دونوں بس سکندر کی سفاک آواز سن سکتے تھے اور اس کی خطرناک سبز آنکھیں دیکھ سکتے تھے۔اتنا کہہ کر ٹی وی سسٹم کو ہیک کرکے چلائی گئی وہ ٹرانسمیشن بند ہوگئی تھی۔

"آہہہہہہ۔۔۔۔"

خادم غصے سے بھری ایک چیخ کے ساتھ اٹھا اور ٹی وی کو پٹخ کر توڑ دیا۔

"کون ہے یہ سکندر آخر کون ؟؟؟"

خادم اس وقت غصے سے پاگل ہو رہا تھا کیوں کہ سکندر نے نہ صرف پھر سے اس کے راستے میں ٹانگ اڑائی تھی بلکہ سلطان کا نام بھی وہ پوری دنیا کے سامنے لا چکا تھا۔

"کہیں سے ڈھونڈ اس سکندر کو   اے کے ورنہ تجھے نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔۔"

خادم کی بات پر عرفان نے ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔سکندر کو پکڑنا سچ میں بہت ضروری ہو چکا تھا ورنہ وہ سب کچھ برباد کر دیتا۔

فکشن کے بعد جنت اپنے کمرے میں آئی تھی اور مسکراتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھی جا رہی تھی۔اس کی تو خوشی کی انتہا نہیں رہی جب شایان نے اسے یہ بتایا کہ کل اس کا اور سالار کا نکاح ہونے والا ہے۔

جنت خوشی سے گھومنے لگی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے پورا جہان پالیا ہو۔محبت کو پانے کی خوشی سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا تھا؟

اچانک ہی کسی نے اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھے تو جنت سہم کر فورا پلٹی لیکن وہاں سالار کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی۔

"آپ میرے روم میں کیا کر رہے ہیں؟"

 جنت نے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا لیکن سالار بس خاموشی اور استحقاق سے اس حسین چہرے کو دیکھتا جا رہا تھا۔سالار کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر جنت میں شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دیا۔

"کیا ہوگیا ہے آپ کو آج پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کیا؟"

"پورے حق سے پہلی مرتبہ ہی دیکھ رہا ہوں۔۔"

سالار نے اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے کہا اور پھر نرمی سے اپنے ہونٹ اس کے ہاتھ پر رکھے تو جنت شرما کر خود میں ہی سمٹ گئی۔

"آآآ۔۔۔۔آپ کو کچھ چاہیے تھا کیا ہے مجھ سے؟"

جنت کو اسکے ارادے سمجھ نہیں آ رہے تھے اسی لیے گھبرا کر پوچھنے لگی۔

"ہاں چاہیے تو بہت کچھ لیکن ابھی تم وہ سب دینے کے قابل نہیں۔۔۔"

سالار معنی خیزی سے کہتا اسکے قریب ہوا تو جنت گھبراتے ہوئے پیچھے ہونے لگی۔

"سالار۔۔۔"

جنت دیوار کے ساتھ لگ گئی تو سالار نے اسکے گرد اپنے بازو رکھ کر اسے خود میں قید کر لیا۔سالار کے وجود سے اٹھتی مردانا خوشبو جنت کو مزید نروس کر رہی تھی۔

"انتظار۔۔۔جنت جانتی ہو انتظار کسے کہتے ہیں؟انتظار اسے کہتے ہیں جو آج تک میں نے تمہیں پانے کے لیے کیا ہے۔۔۔زندگی کا ایک ایک پل تمہیں دیکھنے کی چاہ کو انتظار کہتے ہیں۔۔تمہیں پورے حق سے چھونے کی جستجو انتظار تھی جنت۔۔ "

سالار اسکے ہونٹوں کے قریب ہو کر سرگوشی کر رہا تھا اور جنت بس آنکھیں موندے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ 

"سالار۔۔۔"

جنت نے پھر سے اسے پکارا تو سالار پورے حق سے ان نازک ہونٹوں پر جھکا اپنی تشنگی مٹانے لگا۔اتنے برسوں کے جنون اور شدت کو آج محبت کی ٹھنڈک نصیب ہوئی تھی۔

اپنی تمام شدت سے جنت کو آگاہ کرتا وہ اسکی سانسیں روک چکا تھا۔جنت نے  اسکا گریبان اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن سالار کا تو ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔

پھر خود ہی اپنی نازک سی جان کا خیال کرتے ہوئے اس سے دور ہوا۔جنت فوراً گھبرا کر اسکے سینے میں چھپی تھی۔

"آپ دوست ہی اچھے تھے۔۔۔"

جنت نے اپنا سانس بحال کر کے کہا تو سالار قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اپنا گھیرا جنت کے گرد تنگ کیا تھا۔

" اتنی سی گستاخی پر جان ہوا ہو گئی تمہاری تب کیا بنے گا جب میں۔۔۔"

جنت نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا جسے سالار نے مسکرا کر چوما اور مزید سختی سے جنت کو خود میں بھینچا تھا۔

"عشق کی اس منزل پر خوش آمدید جنت سالار۔۔۔"

سالار نے اپنے محبتوں کے اس جہان کو آغوش میں بھرتے ہوئے کہا آج ان دونوں نے سب کچھ پا لیا تھا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

"اا۔۔۔انکل کیا مممم۔۔۔میں اندر آ جاؤں؟"

معراج نے دروازے میں کھڑے ہو کر پوچھا۔

"ہاں آؤ معراج۔۔۔"

خادم کے اجازت دینے پر معراج کمرے میں آیا اور اسکے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔

"مم ۔۔۔مجھے آپکو کچھ بب۔۔۔بتانا ہے انکل۔۔۔"

خادم نے آنکھیں چھوٹی کرکے معراج کو دیکھا۔

"ہاں کہو کیا کہنا ہے؟"

"اااا۔۔انکل وہ عرفان ایمان کک ۔۔۔کے ساتھ بلکل اچھا سلوک نہیں کرتا۔۔۔وہ ممم۔۔۔مارتا ہے ایمان کو آآآ۔۔۔آپ اسے۔۔۔"

"معراج وہ جو کرتا ہے میرے کہنے پر ہی کرتا ہے۔شاید تمہیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوا لیکن میری ایمان بیمار ہے پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں اسے ایسی حالت میں اس کا کسی نہ کسی سے ڈر کے رہنا بہت ضروری ہے ورنہ آپے سے باہر ہو سکتی ہے وہ۔۔۔۔"

خادم نے سامنے موجود کاغذات پر لگاتے ہوئے کہا۔

"لل۔۔۔لیکن انکل۔۔۔"

"بس معراج میں نے اپنی بات کہہ دی ہاں مجھے اور کچھ نہیں سننا تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔"

خادم نے سختی سے معراج کی بات کاٹ کر کہا۔معراج نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔معراج کے جاتے ہیں عرفان وہاں پر آیا۔

"کیا کہہ رہا تھا یہ آپ سے؟"

عرفان نے وہاں بیٹھتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔

"تمہاری شکایت لگا رہا تھا ایمان پر ہاتھ اٹھاتے ہو تم۔فکر مت کرو آئندہ نہیں لگائے گا۔"

عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"سر مجھے لگتا ہے سکندر یہی ہے اور ہمیں بے وقوف۔۔۔"

"پاگل مت بنو عرفان صرف اس کی آنکھوں کی رنگت سے تو میں اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔اس کی میڈیکل رپورٹس چیک کی ہیں میں نے وہ سچ میں ٹھیک سے نہیں بول سکتا اور سکندر کی تم نے دیکھا نہیں تھا کیسے زبان چل رہی تھی۔ویسے بھی اگر یہ سیکندر ہے تو کل رات اس آدمی کو مارنے کیسے پہنچ گیا تم اور میں دونوں جانتے ہیں کیا معراج پوری رات یہیں تھا۔"

عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"پھر بھی شک دور کرنے کے لیے تم کل ایمان اور اسے اپنے ساتھ ہمارے فارم ہاؤس کے جاؤ اور جیسے چاہو اپنا شک دور کر لینا۔"

عرفان کے ہونٹوں کو ایک شیطانی مسکراہٹ نے چھوا۔

"ابھی نہیں سر۔۔۔ابھی زرا ان بچوں کو خوش ہو لینے دیں ایک بار یہ دولت کا مسلہ ختم ہو جائے پھر معراج کو میری ملکیت پر نظر رکھنے کی سزا میں خود دوں گا۔۔۔"

خادم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"جیسے تمہاری مرضی۔۔۔بس اس سکندر کا پتہ لگاؤ عرفان ورنہ وہ ہمارے لیے بہت بڑا مسلہ بن سکتا ہے۔"

عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔خادم نے اسے یقین تو دلایا تھا لیکن عرفان کا شک معراج سے ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سائے کی طرح معراج کے ساتھ رہے گا تاکہ اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر نظر رکھ سکے۔

                    ❤️❤️❤️❤️

ہانیہ وانیا کو لے کر گھر کے لان میں آئی تھی اور اب اسکے پاس بیٹھے باتیں کرتی جا رہی تھی اور وانیا بس خاموشی سے وہ باتیں سن رہی تھی۔

"اسلام و علیکم۔۔۔"

انس کی آواز پر ہانیہ ٹھٹھک کر مڑی اور حیرت سے انس کو دیکھنے لگی۔

"آپ یہاں؟"

ہانیہ فوراً اٹھ کر انس کے پاس آئی۔

"ہاں سوچا تمہیں مبارک ہی دے آؤں آخرکار تمہارا بچپن کا خواب جو پورا ہوگیا ہے۔"

انس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ہانیہ سینے پر ہاتھ باندھے اسے طائرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"کیا یہاں آنے کا صرف یہی مقصد ہے ؟"

ہانیہ کے سوال پر انس کے لب شرارت سے مسکرا دیے۔

"میری بہن آئی ہے میرے ساتھ اور اس وقت تمہارے مما بابا کے پاس بیٹھی ہے۔میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں کہوں کہ آ کر ان سے مل لو۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ کا منہ پوری طرح سے کھل گیا۔

"اپنی بہن کو لے آئے آپ اور مجھے بتایا بھی نہیں اف حالت دیکھیں میری کیسے جاؤں گی ان کے سامنے؟ہٹیں جلدی سے مجھے چینج کرنا ہوگا۔ "

ان سب کو مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر ہانیہ بھاگ کر اپنے کمرے میں آگئی اور الماری میں سے ہر جوڑا نکال کر باہر پھینکنے لگی۔

"افف کیا پہنوں آج انس کی بہن نے پہلی بار دیکھنا ہے مجھے اگر میں انہیں اچھی نہیں لگی تو؟"

یہ نیا خدشہ دماغ میں آنے پر ہانیہ کے چہرے کی مسکان غائب ہوئی لیکن اس برے خیال کو دماغ سے جھکتے ہوئے اس نے گلابی رنگ کی شلوار قمیض پہنی اور بال کھلے چھوڑ کر دوپٹہ سلیقہ سے سر پر اوڑھا۔

"ہانیہ۔۔"

"جی مما۔۔۔"

زریش کے بلانے پر ہانیہ ہڑبڑا کر مڑی تو اپنی کانفیڈنٹ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر زرش کی ہنسی چھوٹ گئی۔

"تمہارے بابا بلا رہے ہیں تمہیں۔"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھ کر گھبراتے ہوئے نیچے لاؤنج میں آئی۔جہاں انس کے ساتھ ساتھ اسکی بہن بھی موجود تھی۔

"ماشاءاللہ ہانیہ تم تو بہت پیاری ہو۔۔۔"

انس کی بہن نے ہانیہ کو اپنے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔

"نام پتہ ہے تمہیں میرا؟"

اس سوال پر ہانیہ نے شرمندگی سے انکار میں سر ہلایا اور پھر انس کو بری طرح سے گھورا جس نے اسے اپنی بہن کا نام تک نہیں بتایا تھا۔

"حنہ نام ہے میرا ویسے حیرت ہے بھائی تمہاری ہر بات بتاتے ہیں اور میرا نام تک نہیں بتایا۔۔۔واہ بھائی۔۔۔"

حنہ کی بات پر انس ہلکا سا ہنس دیا۔حنہ بہت دیر تک انکے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہی تھی۔وہ بہت ہی زیادہ ہنس مکھ اور خوش مزاج لڑکی تھی۔ہانیہ بہت آسانی سے اسکے ساتھ اپنی اصلی فارم میں واپس آ چکی تھی۔

شام ہوتے ہی حنہ اور انس واپس جانے کی تیاری کر چکے تھے۔حنہ کو گاڑی میں بیٹھا کر انس ہانیہ کے پاس آیا۔

"تمہارے بابا تم سے کچھ پوچھیں گے مس اور جواب ہاں ہی ہونا چاہیے تمہارا۔۔۔"

انس کی بات پر ہانیہ نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے انس کو گھورا۔

"میرا جواب میری مرضی۔۔۔"

"حق میں تو آ جاؤ پھر اس مرضی کو بھی دیکھ لوں گا میں۔۔۔"

انس جھک کر اسکے کان کے پاس سرگوشی کر کے ہانیہ کی دھڑکنیں بڑھا چکا تھا۔ہانیہ نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا تو انس اسے خدا حافظ کہتا گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ ہانیہ اسکے بارے میں سوچتی مسکراتے ہوئے کمرے میں وانیا کے پاس چلی گئی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

"نور خان تمہیں جنرل شہیر کا بیٹا میڈی یاد ہے؟"

وجدان کے سوال پر زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے پاس بیٹھ کر بیٹھ گئی۔

"کیسا لگا تھا وہ تمہیں؟"

"اچھا تھا بلکہ وہ دونوں بھی بہت اچھے تھے مجھے ان کی پوری فیملی بہت پسند آئی۔۔۔لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں وجدان؟" 

زرش نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔

"کیونکہ کہ جنرل شہیر نے اپنے بیٹے کے لئے وانیا کا رشتہ مانگا ہے۔"

وجدان کی بات پر زریش کافی حیران ہوئی کیونکہ ایک اغوا ہونے والی لڑکی کی کردار کشی دنیا کس طرح سے کرتی تھی وہ اس بات سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔

"کیا وہ لڑکا وانیا کے اغوا ہونے کے بارے۔۔۔۔"

"ہاں نور خان وہ جانتا ہے اور اسے بات سے کوئی اعتراض نہیں۔اسے وانیا پہلی نگاہ میں ہی بہت زیادہ اچھی لگی اسی لئے وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور سچ پوچھو تو میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ وانیا اپنے گھر کی ہو جائے پھر شاید جو غم اسے اندر ہی اندر نگل رہا ہے وہ اس سے چھٹکارا پا لے۔۔۔۔"

زرش نے ہاں میں سر ہلایا۔

"آپ خود وانیا سے بات کر لیجئے گا میرے سے زیادہ تو وہ آپ کے قریب ہے۔۔۔"

کچھ سوچتے ہوئے وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور شرارت سے مسکرا کر زرش کو دیکھنے لگا۔

"وہ تو میرے قریب ہے ہی نور خان بس ایک تم ہی ہو جو میرے قریب نہیں آتی۔۔۔"

وجدان نے اسے کھینچ کر خود سے لگایا تو شرم کی مارے زرش کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔

"وجدان آپ نا کبھی نہیں سدھریں گے۔"

"بلکل ایسا ہی ہے۔۔۔"

وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا تو زرش تمام پریشانیاں بھلا کر اس کی آغوش میں مسکرا دی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

جنت کالج کے بعد سالار کے گھر آئی تو وہ گھر پر نہیں تھا۔انکے نکاح کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور نکاح کے بعد آج جنت پہلی مرتبہ سالار کے گھر آئی تھی۔

پہلے تو وہ حمنہ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی پھر ٹائم پاس کرنے کے لیے وہ سونو کو اٹھا کر سالار کے کمرے میں آ گئی اور ہر چیز کا جائزہ لینے لگی۔

"واہ کمرہ تو بہت کلاسی ہے انکا چوائس اچھی ہے ناں سونو ان کی۔۔"

جنت نے اسکی فر سہلاتے ہوئے کہا۔پھر اسے شرارت سوجھی تو سونو کو فرش پر اتار کر سالار کی الماری کی جانب بڑھی۔

سالار کے کپڑے نکال کر اس نے اسکی پینٹ شرٹ پہنی اور آنکھوں پر سالار کے گاگلز لگا کر اسکی ایکٹنگ کرنے لگی۔

"ہوں نام تو لو بے بی گرل دنیا اٹھا کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا۔۔۔"

جنت آواز بھاری کر کے شان سے کہہ رہی تھی اور دروازے میں کھڑا سالار مسکراتے ہوئے اپنی کیوٹ سی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔

"واہ مجھے کافی اچھی طرح آبزرو کرتی ہو تم۔۔۔"

سالار کی آواز پر جنت ایک ہلکی سی چیخ مار کر مڑی اور ہچکچا کر کہنیوں تک فولڈ کی شرٹ کے بازو ٹھیک کیے۔سالار اسکے قریب آیا اور کمرے سے کھینچ کر اسے اپنے قریب کیا۔

"تمہیں اس حلیے میں دیکھ کر میں خود پر کیسے قابو کر رہا ہوں جان سالار یہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔۔۔بہت چھوٹی ہو تم کچھ تو اپنے اور میرے حال پر رحم کرو۔۔۔"

سالار نے جنت کے ہونٹوں کے قریب ہو کر سرگوشی کی تو جنت نے گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی پھر سے سالار کی شدت سہنا اسکے بس سے باہر تھا۔اس سے پہلے کہ سالار کوئی پیار بھری گستاخی کرتا اسکا موبائل بجنے لگا۔

سالار کا دل کیا کہ فون کرنے والے کا سر پھاڑ دے لیکن پھر نمبر دیکھ کر باہر چلا گیا۔جنت نے جلدی سے اسکی گاگلز اتار کر ڈریسنگ پر رکھی اور واش روم میں جا کر جلدی سے کپڑے بدل آئی اس نے سالار کے کپڑے اسکے کبرڈ میں رکھنا چاہے تو اچانک ہی اسکی نظر ایک لاک پر پڑی جس میں پاسورڈ کا آپشن آ رہا تھا۔

جنت حیران ہوئی کہ سالار نے یہاں کیا چھپایا ہو گا۔جنت نے بس شرارت سے اس میں اپنے برتھ ڈے کا  پاسورڈ ڈالا تو وہ لاک کھل گیا۔

اسکی زندگی میں اپنی اتنی اہمیت دیکھ کر جنت مسکرا دی۔اس نے الماری کا وہ حصہ کھولا تو اس میں بس کالے کپڑے تھے جو کالی پینٹ،ہڈی اور رومال پر مشتمل تھے۔

جنت نے حیرت سے انہیں دیکھا تو اسکی نظر چھوٹی سی ڈبیہ پر پڑی۔جنت نے اس ڈبیہ کو کھولا۔

"جنت کیا کر رہی ہو؟"

سلار کی آواز پر جنت اسکی طرف پلٹی اور وہ ڈبیہ سالار کے سامنے کی۔

"آپ کو بھی معراج جیسی آنکھیں پسند ہیں ناں ؟ اب کیا کریں وہ ہے ہی اتنی پیاری۔۔۔"

جنت نے ہاتھ میں پکڑے سبز رنگ کے لینز کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ سالار کا سانس اسکے حلق میں اٹک چکا تھا۔یہ تو شکر تھا کہ جنت سکندر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی ورنہ سالار اسے کیا جواب دیتا۔

"چھوڑو انہیں جنت اور جاؤ نیچے مما تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔۔"

سالار نے زرا سختی سے کہا تو جنت حیران ہوئی لیکن فوراً ہی وہ لینز کی ڈبیہ اس نے میز پر رکھی اور نیچے چلی گئی۔ان سبز لینز کو دیکھتے ہوئے سالار کے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی تھی۔

"سکندر کا راز کبھی نہیں جان پاؤ گے تم سلطان بہت جلد اپنی زبان سے چیخ چیخ کر سچ بتاؤ گے اس دنیا کو تم اور اس دن میرے بابا کو انصاف ملے گا۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر کہا اور ان چیزوں کو پھر سے لاک میں رکھتا نیچے جنت اور حمنہ کے پاس چلا گیا۔

"ہانیہ بیٹا۔۔۔"

"جی مما۔۔۔"

زرش کے بلانے پر ہانیہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔زرش نے مسکرا کر اپنی پیاری بیٹی کا چہرہ چوما تھا۔

"ہانیہ انس کی بہن نے ہم سے تمہیں انس کے لیے مانگا ہے۔تمہاری کیا مرضی ہے بیٹا؟"

زرش کے سوال پر ہانیہ نے شرما کر سر جھکا لیا۔

"جیسے آپ کی اور بابا کی مرضی مما۔"

زرش نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"تو پھر اگلے مہینے ہی تم دونوں کا نکاح کر دیں؟رخصتی بعد میں ہو جائے گی۔۔"

ہانیہ نے پھر سے ہاں میں سر ہلا کر ہامی بھری جبکہ زرش بھی اپنی بیٹی کے لیے بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ وہ اس کے جذبات سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔

"ویسے مجھے پتا ہے کہ تم اوپر سے ہی شرما شرما کر ہماری ہاں میں ہاں ملا رہی ہو۔۔۔اندر تو تم ابھی بھنگڑے ڈال رہی ہوگی۔۔۔"

زرش کے شرارت سے کہنے پر ہانیہ ہنسنے لگی۔

"میری پیاری مما آپ کہیں تو میں آپ کو لائیو بھنگڑا ڈال کر دیکھا دیتی ہوں۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے کہا۔

"بس میں تو یہی چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ یوں ہی خوش رہو اور میری وانیا بھی پھر سے مسکرانے لگے۔۔۔"

وانیا کے ذکر پر ہی زرش افسردہ ہو چکی تھی۔وہ پھر سے اپنی بیٹی کو ہنستے مسکراتے دیکھنا چاہتی تھی۔

"مما آپ فکر مت کریں بابا نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔"

"ان شاءاللہ۔۔۔"

زرش نے دل سے کہا اور آنکھیں موند کر خدا سے اپنی بیٹی کی خوشیاں مانگی تھیں۔

                    ❤️❤️❤️❤️

وجدان ہانیہ اور وانیہ کے کمرے میں آیا تو اسے بس وہاں وانیا ملی جو بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔

"بابا کی جان۔۔۔"

وجدان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تو وانیہ اسکے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئی۔

"کیا بات ہے میرا بچہ آپ مجھ سے بھی بات نہیں کرو گی؟"

وجدان نے ٹھوڈی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔وانیا کی آنکھیں نم تھیں۔

"وانیا بیٹا ایسی کونسی بات ہے جو آپ مجھ سے بھی نہیں بانٹ رہی مجھے بتاؤ نا میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔"

وجدان نے اس سے ہمیشہ والی بات کہی جو پچھلے ڈیڑھ مہینے سے وہ تقریبا روز ہی کہتا تھا لیکن آج بھی روز کی طرح اسے کوئی جواب نہیں ملا۔

"وانیہ میں نے آپ کا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے میڈی سے طے کیا ہے۔۔۔"

وجدان کے فیصلہ سنانے پر وانیا نے بس اپنی شکوہ کناں نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"وہ بہت اچھا لڑکا ہے وانیہ اور تمہارا بہت زیادہ خیال رکھے گا ۔۔۔۔"

وجدان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا لیکن پھر اس کی مسلسل خاموشی کو دیکھ کر گہرا سانس لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"مجھے یہ شادی نہیں کرنی بابا۔۔۔"

ابھی اس نے نے واپسی کیلئے چند قدم ہی اٹھائے تھے جب اس کے کانوں میں وانیا کی آواز پڑی۔

"مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی کبھی بھی نہیں۔۔۔"

وانیا کی آواز میں بہت زیادہ دکھ اور درد تھا۔وجدان واپس آیا اور اپنی بیٹی کے ہاتھ تھام لیے۔

"اور کیا میں وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔۔؟"

وجدان کے سوال پر وانیا اپنا سر جھکا چکی تھی۔

"ممم۔۔۔۔مجھے بس کسی سے شادی نہیں کرنی بابا کبھی بھی نہیں کرنی۔۔۔۔"

وانیا نے بہت زیادہ روتے ہوئے کہا اور اسے یوں روتا دیکھ پہلے تو وجدان خاموش رہا پھر اس نے گہرا سانس لیا۔

"ٹھیک ہے میں انہیں منع کر دوں گا لیکن اسکے بعد کیا وانیا؟کیا تم یہ گوارا کرو گی کہ جس نے مجھے اپنا سب سے اچھا دوست مان کر مجھ سے یہ مانگ کی اس شخص سامنے تمہارے باپ کا مان چکناچور ہو جائے۔کیونکہ میرے انکار کرنے سے ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔"

وانیہ فوراً انکار میں سر ہلانے لگی۔

"ن۔۔۔نہیں بابا ممم۔۔۔۔میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو شرمندگی ہو۔۔۔"

وانیہ کے بہت زیادہ رونے پر وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کے بالوں کو نرمی سے سہلانے لگا۔

"تو پھر مجھ پر یقین کرو بیٹا میں کبھی بھی تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا۔۔۔میڈی بہت اچھا ہے بہت خیال رکھے گا تمہارا۔۔۔۔"

وجدان نے اسکا چہرہ اٹھا کر اوپر کیا۔

"کرو گی نا مجھ پر بھروسہ؟"

اپنے باپ سے اتنی امید سے پوچھنے پر نہ چاہتے ہوئے بھی وانیہ اسے انکار نہیں کر پائی۔اچھی بیٹیوں کی طرح اس نے خاموشی سے سر جھکا کر اپنی مرضی کا اظہار کیا۔

"آپ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے بابا آپ کی خوشی کے لئے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔۔۔"

وانیا کے ایسا کہنے پر وجدان نے محبت سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔اس کے جاتے ہی وانیا بستر پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"وانی۔۔۔۔؟"

اسے یوں روتا دیکھا ہانیہ کمرے میں آئی اور اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لگا لیا۔

"کیا ہو گیا ہے وانی کچھ تو کہو میری جان۔۔۔"

ہانیہ نے بہت پیار سے کہا تو وانیا اس سے جدا ہوئی۔

"بابا میری شادی کرنا چاہتے ہیں اپنے دوست کے بیٹے سے۔۔۔"

"ہاں تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟"

ہانیہ نے حیرت سے پوچھا ۔

"تتت۔۔۔تم جانتی ہو ہانی میں کیسے شادی کر سکتی ہوں میرا ان کے ساتھ نکاح۔۔۔"

"میری جان جہاں تک تم نے مجھے بتایا ہے نا تمہارے اور اس کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔اس لیے تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہوتی بلکل تم کسی سے بھی نکاح کر سکتی ہو۔"

ہانیہ نے اسے بتایا لیکن وانیا اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔کسی اور سے نکاح کر کے لیے پہلے اسے دل سے نکالنا ہوتا جو وانیا چاہ کر بھی نہیں کر پا رہی تھی۔

"ایک پل کے لئے بھی اس شخص کے بارے میں مت سوچو وہ غدار تمہاری محبتوں کے قابل نہیں۔۔۔۔"

ہانیہ نے اسے کندھوں سے تھام کر سمجھایا۔

"جانتی ہوں ہانی لیکن یہ میرے بس میں نہیں چاہ کر بھی میں اسے اپنے دل سے نہیں نکال پا رہی تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟"

وانیہ کے پھوٹ کر رونے پر ہانیہ کچھ پل بے بسی سے اسے دیکھتی رہی۔

"بس تم بابا پر یقین کرو وانیہ وہ ہم سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں ہم سے وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔۔۔"

ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی لیکن وانیہ اسکے جانے کے بعد بھی روتی رہی تھی۔

                      ❤️❤️❤️❤️

نکاح کی تیاریاں زور و شور ہر تھیں۔اتنی جلدی اتنا انتظام کرنا کہاں آسان تھا۔عثمان بھی حمنہ کے ساتھ وہاں آ چکا تھا۔سالار اور جنت بھی انکے ہمراہ تھے۔

سب لوگ غموں کے بعد آنے والی ان خوشیوں سے بہت خوش تھے لیکن جسکی وہ خوشیاں تھیں اسے تو کسی چیز سے سروکار ہی نہیں تھا۔

آج ہی جنرل شہیر اور انکی اہلیہ نکاح کا جوڑا لے کر انکے گھر آئے تھے۔آئمہ بیگم تو وانیا کے صدقے واری جا رہی تھیں اور دور کھڑا میڈی مسکراتی نگاہوں سے وانیا کو دیکھ رہا تھا۔

وانیا نے نگاہیں اٹھا کر اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھا جو آج بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے اور بازوؤں کو کوہنی تک فولڈ کیے بہت ہی زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔کوئی بھی لڑکی اس عربی شہزادے جیسا حسن رکھنے والے کا مقدر ہونے پر رشک کرتی۔

تم صرف میری ہو افغان جلیبی،یہ پری بس اپنے جن کی ہے۔۔۔ہمیشہ یاد رکھنا یہ بات۔۔۔۔

راگا کے الفاظ وانیا کے کانوں میں پڑے تو اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

"ایکسیوز می۔۔۔"

فون بجنے پر میڈی نے آہستہ سے کہا اور وہاں سے باہر چلا گیا کچھ سوچ کر وانیہ بھی وہاں سے اٹھی اور زرش کو واش روم جانے کا کہہ کر میڈی کے پیچھے آئی تھی۔

"سنیے۔۔۔"

وانیا کی آواز پر میڈی فون بند کر کے مڑا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔

"جی سنائیے میرے تو کان تڑپ رہے ہیں آپ کی سننے کے لیے۔۔۔"

میڈی نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تو وانیہ کنفیوز ہو کر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔

"مم۔۔۔ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔"

وانیا نے سر جھکا کر سہمتے ہوئے کہا لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو اسے کچھ ہمت ملی۔

"آپ۔۔۔۔آپ میرے بابا کو اس رشتے سے منع کر دیں۔۔۔۔آپ ان سے کہیں کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔مم۔۔۔میں اپنے بابا کو منع کر کے ان کا مان نہیں توڑ سکتی۔"

وانیا کی پوری بات سننے کے بعد وہ لب صرف مسکرائے۔

"ٹھیک ہے میں منع کر دیتا ہوں۔۔۔۔"

وانیا نے نگاہیں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا جو اب ایک سگریٹ سلگا کر ہونٹوں کے ساتھ لگا چکا تھا۔

"لیکن ایک شرط پر۔۔۔"

"کیسی شرط؟"

وانیا پل بھر میں گھبرائی۔

"تمہیں مجھے اس انکار کی وجہ بتانی ہو گی وہ بھی بلکل سچ۔۔۔"

اب وانیا کا سر مکمل طور پر جھک چکا تھا اور پلکیں بھی نم تھیں۔

"وو۔۔۔۔وہ میں۔۔۔"

"دیکھو اگر سچ بتاؤ گی تو ہی میں اس رشتے سے انکار کروں گا۔"

وانیا کو ہچکچاتا دیکھ وہ پھر سے بول اٹھا تو وانیا کی بے بسی کی انتہا ہو گئی۔

"مم ۔۔۔۔میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں۔۔۔"

وانیا نے روتے ہوئے اسے بتایا۔

"نام کیا ہے اسکا؟"

ایک اور سوال وانیا کی جان کا وبال بنا۔

"یہ میں نہیں بتاؤں گی بس اتنا ہی کہوں گی کہ میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔صرف وہ ہی میرے جسم و جان کے مالک ہیں۔۔۔۔میرا وجود انکی امانت ہے اور میرے مرنے تک بس انکی امانت رہے گا ۔۔۔۔"

وانیا نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔اسکی آنکھوں میں ایک آگ تھی جسے دیکھ کر میڈی مسکرایا۔

"انٹرسٹنگ۔۔۔!"

میڈی نے ایک ادا سے وہ سگریٹ اپنے ہونٹوں سے ہٹائی اور پیر کے نیچے دے کر کچل دی۔

"اتنی شدت والی محبت ہے آپ کو جس سے وہ تو بہت خوش نصیب ہو گا۔۔۔۔"

اس نے وانیا کے قریب ہوتے ہوئے کہا جبکہ وانیا اس سے دور ہوئی اور اپنا سر پھر سے جھکا گئی۔

"اب آپ اس رشتے سے منع کر دیں گے ناں؟"

وانیا نے بہت امید سے پوچھا تو وہ مغرور حسن کا شہزادہ کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑھ گیا۔

"کر دوں گا۔۔۔"

"شکریہ۔۔۔۔"

وانیا نے بس اتنا ہی کہا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ ان دو آنکھوں نے اسکے نظروں سے اوجھل ہونے تک اسکا پیچھا کیا تھا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

عثمان سالار کے پاس اسکے آفس آیا۔وہ کافی زیادہ پریشان دیکھائی دے رہا تھا۔

"کیا ہوا بابا سب ٹھیک ہے ناں؟"

عثمان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"سب ٹھیک ہے بیٹا بس یہ میڈیا والے اور انکے سوالات۔۔۔اتنے سال گزر گئے سالار لیکن آج بھی وہ ایک واقع میرے سامنے ہزار سوالوں کی شکل میں کھڑا ہوتا ہے۔"

سالار نے عثمان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"فکر مت کریں بابا میں سب ٹھیک کر دوں گا بس کچھ وقت پھر وہ قاتل خود آپکی بے گناہی ثابت کرے گا وعدہ ہے میرا۔۔۔"

عثمان نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا۔

"سالار تم کہتے ہو تمہیں خادم پر شک ہے لیکن اگر یہ سب خادم نے کروایا ہوتا تو وہ عشال اور سعد کو کیوں ٹارگٹ کرتا وہ انکی جگہ مجھے بھی تو مروا سکتا تھا۔"

عثمان نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

"فکر مت کریں بابا بغیر ثبوت کے میں اس شخص پر کوئی سوال نہیں اٹھاؤں گا آجکل عوام کا فیورٹ بنا ہوا ہے اور اس پر کیچڑ اچھال کر میرا اپنا دامن گندا ہو گا۔۔۔"

عثمان نے ہاں میں سر ہلایا۔سالار واقعی میں ایک عقلمند سیاست دان تھا۔

"تم نے کیا سوچ رکھا ہے سالار؟"

عثمان نے اسے طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا کسی مصیبت میں پھنسے۔

"وقت آنے پر بتاؤں گا ڈیڈ ابھی بس اتنا کہوں گا کہ مجھ پر بھروسہ رکھیں اور فلحال گھر چلتے ہیں کیونکہ آپ کی بہو کو تین بجے ہانیہ وانیہ کے نکاح کی شاپنگ کروانی ہے۔اسکا ناراض ہونا افورڈ نہیں کر سکتا۔"

سالار کی بات پر عثمان قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"یہ تو سچ کہا تم نے سالار عورت کا ناراض ہونا بہت ہی مہنگا پڑتا ہے اس لیے اس سے پہلے کہ تمہاری مما ناراض ہو جائیں گھر چلتے ہیں۔"

سالار نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور وہ دونوں اٹھ کر گھر کی جانب چل دیے۔

                     ❤️❤️❤️❤️

"چچچچ۔۔۔چلو ایمان یہ کھانا کھاؤ پپپ۔۔۔پورا۔۔۔"

معراج اپنے ہاتھ سے نوالہ ایمان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا جو برے برے منہ بنا رہی تھی۔

"نہیں بس ملنگ فل ہو گئی ہوں اب۔۔۔"

ایمان نے اسکا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔اج کل وہ بہت خوش رہنے لگی تھی وجہ بس معراج کا اسکے پاس ہونا اور عرفان کا گھر سے باہر ہونا تھا۔نہ جانے عرفان کہاں تھا لیکن جہاں بھی تھا ایمان کے لیے اچھا ہی تھا۔

"ملنگ تمہیں پتہ ہے نیکسٹ ویک میرا برتھ ڈے ہے ۔۔۔ویسے تو مجھے کبھی کسی نے برتھڈے پر گفٹ نہیں دیا لیکن تم مجھے کیا دو گے؟"

ایمان ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔

"کک ۔۔۔کیا چاہیے تمہیں؟"

معراج کے پوچھنے پر ایمان سوچ کے عالم میں ڈوب گئی۔

"ٹیڈی بیئر اتنا بڑا سا کہ میں حیران رہ جاؤں۔۔۔"

معراج نے ہاتھ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔

"پپ ۔۔۔پاگل میں نہیں للل ۔۔۔لا رہا کوئی ٹیڈی بب۔۔۔بئیر۔۔۔"

ایمان نے فوراً ہی اپنا منہ بسورا پچھلے ایک مہینے سے اپنے ملنگ کو لاڈ دیکھا دیکھا کر وہ اسکی محبت اور توجہ کی بہت عادی ہو چکی تھی۔معراج کی محبت نے اس احساس کمتری کی شکار لڑکی کو لاڈلی سی شہزادی بنا دیا تھا۔

"معراج بیٹا آپ کے ماموں آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔"

اس سے پہلے کہ ایمان معراج کو کچھ کہتی وہ دونوں ہی ملازم کی آواز پر چونکے۔

"آآآ۔۔۔آتا ہوں۔۔۔"

معراج اتنا کہہ کر اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا لیکن ایمان بھاگ کر اسکی کمر سے چپک گئی۔معراج ٹھٹھک کر رک گیا۔

"تم مجھے چھوڑ کر تو نہیں جا رہے نا ملنگ پلیز مجھے مت چھوڑ کر جانا۔۔۔اگر ماموں کے ساتھ جانا ہے تو مجھے بھی لے جاؤ لیکن مجھے مت چھوڑنا۔"

خود پر مظبوط ہوتی ایمان کی پکڑ اور اپنی کمر پر اسکے آنسو محسوس کر کے معراج نے اسے اپنے سامنے کیا اور بہت نرمی سے اسکے آنسو پونچھے۔۔

"کک۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔کبھی نہیں چھوڑوں گگ۔۔۔گا تمہیں۔۔۔"

معراج نے نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے اور باہر ہال میں موجود وجدان کے پاس آیا جس نے معراج کے وہاں آتے ہی اسے اپنے گلے سے لگایا۔

"جانتا ہوں کہ تم ناراض ہو مجھ سے بیٹا لیکن یقین کرو تم سچ سے واقف نہیں ہو۔۔۔"

وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر کہا تو معراج نے بے رخی سے اسکے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا دیے۔

"سسس۔۔۔سچ سے ابھی تو ووو۔۔۔واقف ہوا ہوں۔۔۔۔اتنے عرصے سے آآآ۔۔۔آپ نے اور بڑے بابا نے ااا۔۔۔اندھیرے میں رکھا تھا۔۔۔آآآ۔۔۔آپ چلے جائیں یہاں سے ماموں۔۔۔"

معراج کی بات ہر وجدان نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔

"ٹھیک ہے بیٹا چلا جاؤں گا بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی بہنوں کے نکاح میں شرکت کرو معراج۔اگر تمہارے دل میں میرے لیے تھوڑی سی بھی عزت ہے تو تم ضرور آؤ گے۔۔۔"

وجدان کی بات پر معراج کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔

"مم۔۔۔میں نہیں آؤں گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر معراج وہاں سے جا چکا تھا اور وجدان بہت دیر وہیں کھڑا رہا پھر وہ بھی وہاں سے چلا گیا جبکہ سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھتا خادم شان سے مسکرایا۔

"تم نے تو کام آسان کر دیا بچے۔۔۔۔تمہاری اپنوں سے دوری بہت فائدے مند ثابت ہو گی میرے لیے۔بس ایک ہفتہ جی لو کھل کر پھر تمہاری لاش بھی کسی کو نہیں ملے گی۔"

خادم نے خباثت سے کہا پھر مسکراتے ہوئے واپس کمرے میں چلا گیا۔اب اسے اپنی سب سے بڑی رکاوٹ سکندر کے بارے میں سوچنا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

آخر کار نکاح کا دن بھی آن پہنچا تھا لیکن وانیا مطمئن تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ میڈی نے نکاح سے انکار کر دیا ہو گا۔

زرش مسکراتے ہوئے جنت اور پارلر والی کے ساتھ کمرے میں آئی اور اپنی بیٹیوں کے نکاح کے جوڑے نکال کر بیڈ پر رکھے۔

"ہانیہ وانیہ چلو بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ دیر ہو جائے گی۔۔۔"

زرش کے ایسا کہنے پر جب وانیہ کی نگاہ اپنے نکاح کے جوڑے پر پڑی تو وہ گھبرا گئی۔

"مم۔۔۔۔مجھے یہ پہن کر تیار ہونا ہے کیا؟"

زرش نے پاس آ کر اپنی معصوم بیٹی کا ماتھا چوما اور ہاں میں سر ہلایا۔

"اب تمہیں اپنی بہن سے کم تو نہیں لگنا نا ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ وانیا ہانیہ سے کم پیاری لگے۔۔۔"

زرش کی بات پر وانیا نے سکھ کا سانس لیا اور وہ کپڑے پکڑ کر تبدیل کرنے چلی گئی۔

باہر آئی تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو ہانیہ کے لال میکسی نما جوڑے کی کمر سے ڈوریاں بند کر رہی تھی۔

"ارے واہ کر لیا چینج چلو اب آؤ اور تیار ہو جاؤ میں چاہتی ہوں میری دونوں بیٹیاں چاند کا ٹکڑا لگیں۔"

وانیا ایسا نہیں چاہتی تھی لیکن اپنی ماں کی خوشی کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے خاموشی سے تیار ہونے لگی۔

وانیا کا جوڑا سفید کرتی اور شرارے پر مشتمل تھا جبکہ ساتھ موجود سرخ دوپٹہ اس حسین جوڑے کو مزید حسین بنا رہا تھا۔

پالر والی نے مہارت سے اسے میک اپ کیا اور بال اونچے جوڑے میں باندھ کر لال دوپٹہ سر پر ڈال کر کمر پر پھینک دیا۔مناسب سی ڈائمنڈ کی جیولری پہنے وانیا سچ میں کوئی چاند کا ٹکڑا کی لگنے لگی تھی۔

"میری جان اتنی پیاری لگ رہی ہو نا کہ بس۔۔۔"

ہانیہ نے اسے آئنے میں دیکھ کر شرارت سے کہا تو وانیہ سر جھکا گئی اسکا دل بہت زیادہ ڈر رہا تھا کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اس شخص نے وانیا کے ساتھ جھوٹ بولا اور اس نے بابا کو نکاح کے لیے منع نہیں کیا تھا۔

یہ سوچ ذہن میں آتے ہی وانیا رونے والی ہو گئی۔

"ہیے روندو شکل مجھے بھی تو دیکھو نا کیسی لگ رہی ہوں؟"

ہانیہ کی آواز پر اس نے نگاہیں اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گئی۔

لال میکسی میں ملبوس مناسب سے میک اپ اور گڈ کی جیولری پہنے ہانیہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔جبکہ اسکا ہیر سٹائل بھی بلکل وانیا جیسا تھا۔

"بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو ہانی۔۔"

وانیا نے آہستہ سے اسکے گلے لگتے ہوئے کہا تبھی وجدان اور زرش کمرے میں داخل ہوئے تو اپنی بیٹیوں کو دلہن بنا دیکھ زرش کی پلکیں نم ہوئی تھیں۔اسکے آنگن میں کھیلنے والی چھوٹی چھوٹی تتلیاں آج اتنی بڑی ہو چکی تھیں۔

وجدان نے آگے بڑھ کر دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور باری باری دونوں کا ماتھا محبت سے چوما۔

"اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے میری بیٹیو کبھی کوئی بھی غم تمہارے قریب مت آئے آمین۔۔۔"

باپ کی شفقت پر ان دونوں کی پلکیں نم ہو چکی تھیں۔

"اف بابا بس کریں اموشنل کر کے میک اپ خراب کریں گے ویسے بھی نکاح ہے یہ رونے والا کام رخصتی پر کر لیں گے۔۔۔"

ہانیہ کی بات پر وجدان ہنس دیا اور پھر وانیا کو دیکھا جو بہت زیادہ اضطراب میں لگ رہی تھی۔

"زرش تم ہانیہ کو لے جاؤ وانی کو میں کے آؤں گا۔"

زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور ہانیہ کو اپنے ساتھ وہاں سے لے گئی۔وجدان نے وانیہ کا چہرہ تھام کر اوپر کیا۔

"کیا بات ہے بابا کی جان۔۔۔؟"

وجدان کے لہجے میں بہت زیادہ محبت تھی۔

"بابا کیا وہ۔۔۔۔کیا انہوں نے آپ سے بات کی ۔۔۔۔وہ۔۔۔ انہوں نے نکاح کو لے کر کچھ کہا آپ سے۔۔۔۔؟"

وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو وجدان نے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہاں میری بات ہوئی تھی میڈی سے تم فکر مت کرو سب تمہاری خوشی کے حساب سے ہی ہو گا یہ وعدہ ہے تمہارے باپ کا ۔۔"

وانیا نے اپنے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا۔اب وہ اطمینان میں آ چکی تھی۔ وجدان مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے آیا۔

باہر بہت سے مہمان آ چکے تھے۔وانیا کی نظر ہال میں موجود میڈی پر پڑی تو وہ گھبرا گئی لیکن پھر اس نے خود کو تسلی دی کہ وہ ہانیہ کے نکاح کے لیے آئے ہوں گے۔

"ماشاءاللہ میری بیٹی تو بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔۔"

آئمہ بیگم نے وانیا کے پاس آ کر کہا تو وانیا ہچکچاتے ہوئے مسکرا دی۔

"میرے خیال سے ہمیں جلد از جلد نکاح کی تقریب شروع کرنی چاہیے۔۔۔"

شایان کی بات پر سب نے متفق ہو کر ہاں میں سر ہلایا اور وہیں لاونج میں موجود صوفوں پر بیٹھ گئے۔وجدان نے میڈی کو دیکھتے ہوئے بات شروع کی۔

"بات یہ ہے کہ میڈی نے کچھ دن پہلے ہی اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا میرے سامنے اور اب اسکی خواہش کے مطابق پہلے وانیہ اور میڈی کا نکاح ہو گا۔۔۔۔"

وجدان کی بات پر وانیا کو لگا کہ اسکا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔پر شکوہ نم نگاہیں اٹھا کر اس نے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو شان سے مسکرا رہا تھا۔

"بابا۔۔۔۔"

وانیا نے گھبرا کر وجدان کو پکارا اور اسکے ساتھ لگی جیسے کہ اس میں چھپنا چاہ رہی ہو۔

"بھروسہ رکھو میری جان۔۔۔"

وجدان نے نرمی سے کہا اور مولوی صاحب کو اشارہ کیا جو پہلے وانیا کے قریب موجود کرسی پر بیٹھے تھے۔

وہ کیا کہہ رہے تھے کیا کر رہے تھے اس وقت سب کچھ وانیا کی سمجھ سے باہر تھا وہ تو بس بت بنی وہاں بیٹھی تھی۔

ته زما مینه یې 

تاسو زما جنون یاست

تاسو زما تیاره نړۍ ځلیږئ

تاسو زما یاست

تاسو یوازې زما یاست

راگا کی سرگوشی اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔وہ بھلا کیسے کسی اور کی ہو جاتی جب وہ اپنے تن من کا مالک صرف ایک انسان کو سمجھتی تھی۔

"وانیا مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں آپ سے۔۔۔"

وجدان کی آواز پر وانیا اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور روتے ہوئے نگاہیں آ کر اس دغا باز شخص کو دیکھا جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔

"قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔۔"

وانیا نے ایک بار ہی کہا تو وجدان نے اسکے سامنے نکاح نامہ رکھا جسے دھندلیاتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس نے سائین کیے اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔

"وانیا۔۔۔"

وجدان نے اسے پکارا لیکن وہ نہیں رکی بس اپنے کمرے میں آئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ اپنی محبت سے دغا کر چکی تھی کسی اور کی ہو چکی تھی۔

                    ❤️❤️❤️❤️

کمرے میں آتے ہی وانیا زمین پر بیٹھ کر رونے لگی تھی۔رونے کی وجہ سے اسکے وجود میں ہچکیاں بندھ چکی تھیں لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کوئی بھی اسکے پیچھے نہیں آیا تھا یہاں تک کہ ہانیہ بھی نہیں۔

شاید سب خوشیوں میں مصروف تھے۔لیکن اسکو کیا خوشی ہوتی جسکا دل ہی مر چکا تھا۔

"آآ۔۔۔آپ نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی نا۔۔۔۔نہیں معاف کروں گی میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔"

وانیا  زارو قطار رو رہی تھی۔نفرت ہو رہی تھی اسے اپنی سجاوٹ سے اس لیے ااٹھ کر آئنے کے سامنے آئی۔اپنے کانوں کے نازک بندے اور گلے میں موجود نیکلیس اس نے کھینچ کر اتارا۔ابھی اپنا ہاتھ اس نے دوپٹے کی جانب بڑھایا ہی تھا جب اچانک لائٹ چلی گئی اور کمرے میں مکمل اندھیرا ہو گیا۔

جان تو وانیا کی تب ہوا ہوئی جب کسی نے اسکی کمر کے گرد اپنا ہاتھ لپیٹا اور  کھینچ کر اسکی کمر اپنے چوڑے سینے سے لگائی۔

"ککک۔۔۔۔کون؟"

وانیا نے گھبرا کر سوال کیا تو اندھیرے میں سانسوں کی تپش اسے اپنے کان کے پاس محسوس ہوئی۔

"میرے سوا اور کس کی اتنی جرات ہے کہ میری ملکیت کو چھوئے افغان جلیبی ہاتھ نہ کاٹ دوں اس گستاخ کے۔۔۔۔"

وہ آواز اپنے کانوں سے ٹکراتے ہی وانیا کا پورا وجود پتھر کا ہوا۔وانیہ وہ آواز لاکھوں آوازوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔

"رر۔۔۔راگا۔۔۔"

پہلی بار وانیہ نے اسے اس نام سے پکارا۔

"ہاں لخت جگر تمہارا راگا۔۔۔تمہارا کوہ قراقرم کا جن تمہیں واپس لینے آ گیا ہے میری پری اب پھر سے اسکی قید میں جانے کے لیے تیار رہو۔۔۔"

اتنا کہہ کر راگا نے اسکی گردن کے پاس موجود مخصوص نس کو دبایا تو وہ بے ہوش ہو کر اسکی باہوں میں جھول گئی۔اپنی پری ہو پھر سے باہوں میں کے کر راگا کے لب شان سے مسکرائے۔

وانیہ کو ہوش آیا تو گزرا ہر منظر یاد کرکے ڈرتے ہوئے ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ارد گرد کا جائزہ لے کر مزید ڈر گئی۔

وہ شاید کسی پلین میں تھی لیکن یہ پیسنجر نہیں کوئی پرائیویٹ پلین تھا۔ہانیہ نے خوف نگاہوں سے یہ دیکھا لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔

"کیسا محسوس کر رہی ہو اب؟"

دروازے سے آنے والی آواز پر وانیہ نے جلدی سے وہاں پر دیکھا  لیکن وہاں پر میڈی کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ افسردہ ہوئی۔

"آآ۔۔۔۔۔آپ یہاں ۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آئی کیا ہوا تھا؟"

وانیہ کے گھبرا کر پوچھنے پر وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔

"ایک برا سا جن تمہیں اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا اس لئے میں اپنی بیوی کو اس جن سے چھین لایا۔"

"نن۔۔۔نہیں میں آپ کی بیوی نہیں میرا نکاح پہلے ان سے ہوا تھا اور نکاح پر نکاح نہیں ہوتا۔۔۔۔"

وانیہ کی بات پر میڈی کے لب بے ساختہ طور پر مسکرائے ۔

"تو کیا یہ وہی شخص ہے جس سے آپ کو محبت ہے؟"

وانیہ نے فورا ہاں میں سر ہلایا۔ اچانک میڈی اسکے کان کے قریب جھکا تو وانیہ کی جان ہوا ہوئی۔

"تو ٹھیک ہے میری افغان جلیبی میں وہ بن جائے گا جو تجھے پسند ہے۔۔۔۔"

اپنے کان کے قریب راگا کی آواز سن کر وانیہ حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔

یہ کیسا راز تھا کیا آپ کے پاس موجود شخص ہی راگا تھا لیکن اس کا چہرہ۔۔۔۔وانیہ کا سوچ کر دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔

"افسوس تو اس بات کا ہے جان راگا کہ میرے قریب آنے پر بھی تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔اپنی جان تک کو میری امانت سمجھتی ہو تو کیا صرف میری صورت سے محبت تھی تمہیں؟"

عماد نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

"میری آنکھوں میں غور سے دیکھتی تو شائید پہچان جاتی مجھے۔۔۔۔"

وانیہ نے حیرت سے اس شخص کی سیاہ آنکھوں کو دیکھا۔وہ اسی کی آنکھیں تھیں اسکے عماد کی آنکھیں۔لیکن پھر وہ عماد ہوتے ہوئے بھی بلکل مختلف کیوں دکھ رہا تھا وانیہ کسی بھی بات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔

"عماد؟"

عماد کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی۔

"بہت دیر کر دی مہرباں پہچانتے پہچانتے پر شکر ہے جوانی میں ہی پہچان لیا مجھے تو شک تھا بیوی بوڑھا کر کے مانے گی اور میرے غریب بچے بس جنت سے ہمیں دیکھتے بدعائیں دیتے رہ جائیں گے۔۔۔۔"

عماد نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے لیکن وانیا پر طاری غم اور الجھاؤ اس پر حاوی ہوا اور اچانک اسے سامنے بیٹھے شخص پر بے تحاشا غصہ آنے لگا۔بغیر سوچے سمجھے اس نے عماد سے دور ہو کر زور زور سے اسکے سینے پر مکے برسانا شروع کر دیے۔

"اتنے عرصے سے آپ میرے قریب تھے،مجھے روتے تڑپتے ہوئے دیکھتے رہے لیکن ایک بات سامنے آ کر مجھے نہیں بتایا کہ آپ زندہ ہیں کیوں کیا آپ نے ایسا؟"

غصے کی شدت سے وانیہ کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں جبکہ عماد نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ تھامے۔ 

"اب میرا بھی تو حق بنتا تھا نا جان تمہاری محبت کی شدت کو دیکھنے کا جس کا تم نے کبھی اظہار نہیں کیا۔۔۔۔"

عماد نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا لیکن وانیہ ابھی بھی غصے سے منہ بنا کر اسے دیکھ رہی تھی۔

"مجھے ہر بات بتائیں سچ سچ ابھی اور اسی وقت۔۔۔"

وانیہ نے اس سے دور ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔عماد نے گہرا سانس لیا اور پھر بولا۔

"میرا اصلی نام عماد بنگش ہے، شہریار علی بنگش کا بیٹا ہوں،جنرل شہیر کے نام سے فوج میں جانے جاتے ہیں وہ۔ کہنے کو میرا دبئی میں شو روم ہے لیکن آرمی انٹیلیجنس مجھے اور نام سے جانتی ہے۔"

عماد نے مسکرا کر وانیہ کو دیکھا جو ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔

"ایجنٹ بی۔۔۔"

                   ❤️❤️❤️❤️

 (چھے ماہ پہلے)

"تمہیں کیا لگا فوجی کہ تم نے مجھے پکڑ کر بہت بڑا تیر مار لیا۔۔۔ہوں۔۔۔۔دیکھنا بہت جلد آزاد ہو جائے گا راگا اور تو کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔"

جنرل شہیر راگا کی جیل میں کھڑے اسے گھور رہے تھے جو زنجیروں اور زخموں میں جکڑا بھی غرور کی انتہا پر تھا۔ابھی چند دن پہلے ہی آرمی نے اسے پکڑا تھا۔

"یہ تمہارا خواب ہے راگا اور یہ صرف خواب ہی رہے گا۔"

جنرل شہیر کی بات پر راگا قہقہ لگا کر ہنسا۔

"خوابوں میں جینے والے مجھے سچائی دیکھا رہے ہیں۔۔۔دیکھنا فوجی تیری آنکھوں کے سامنے جاؤں گا یہاں سے پھر تیرے اس وطن کی دھجیاں۔۔۔"

ابھی الفاظ راگا کے منہ میں ہی تھے جب جنرل شہیر نے اسکے منہ پر زور دار گھونسا مارا اور سپاہی کو اشارہ کرتے کمرے سے باہر آئے۔وہ سیدھا اپنے آفس میں آئے جب انکی نظر سامنے کرسی پر بیٹھے لڑکے پر پڑی۔

"تم یہاں کیسے آئے؟"

جنرل شہیر نے عماد کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"دروازے سے۔۔۔"

عام سا جواب دیتے عماد نے سامنے موجود کاغذات کو دلچسپی سے دیکھا۔

"دروازے پر تو گارڈز تھے انہوں نے تمہیں اندر کیسے آنے دیا؟"

"آپ کے گارڈز کو تو ابھی تک نہیں پتہ کہ میں یہاں ہوں کافی معصوم ہیں بے چارے نئے نئے بھرتی کیے ہیں کیا؟"

عماد نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے پوچھا اور ان کاغذات کو کافی غور سے دیکھنے لگا۔

"راگا نے زبان نہیں کھولی نا."

جنرل شہیر نے انکار میں سر ہلایا۔

"لیکن اس کے ساتھی خاموش بیٹھے ہیں جیسے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

عماد نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔

"وہ خاموش نہیں بیٹھتے سر ضرور کچھ بڑا سوچ رہے ہوں گے کچھ ایسا جس کے بعد پاک فوج کے پاس راگا کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ بچے۔۔۔"

جنرل شہیر نے عماد کی بات پر غور کیا تو نہیں اس وہ صحیح لگی۔

"تو پھر تمہارے خیال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"

"بیک اپ۔۔۔۔اگر وہ کچھ بڑا سوچ رہے ہیں تو ہم اس سے بھی بڑا سوچیں گے۔میرے پاس ایک پلین ہے۔"

"کیسا پلین؟"

جنرل صاحب نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو اطمینان سے عماد نے انہیں اپنا سارا پلان بتایا۔

"نو عماد اٹس ٹو ڈینجرس۔۔۔تمہارا راگا بن ان کے درمیان رہنا تمہاری جان کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے اگر انہیں پتہ چل گیا تو۔۔۔۔"

جنرل شہیر نے پریشانی سے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

"یہی تو بات ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا۔ٹرسٹ می سر ان کے درمیان رہ کر الو بناؤں گا انہیں اور اتفاق تو دیکھیں راگا اور میری آنکھوں کا رنگ بھی ایک ہی ہے۔۔۔"

عماد نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔

"ویسے بھی آرمی میں آنے کے بعد ایک سپاہی کی جان اس کی جان نہیں رہتی اس کی ہر چلتی سانس اس کے ملک کی امانت ہوتی ہے۔۔۔"

جنرل شہیر عماد کی بات پر خاموش ہوگئے۔

"اور تمہاری ماں کا کیا عماد بنگش اسکی اکلوتی اولاد ہو تم۔۔۔اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو کیا برداشت ہو گا اس سے؟اور یہ بات ایک جنرل نہیں ایک باپ تم سے پوچھ رہا ہے۔"

عماد نے مسکرا کر جنرل شہیر کو دیکھا۔

"آپ اور ماما مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں بابا لیکن کوئی اور ہے جو مجھے آپ دونوں سے بھی زیادہ پیارا ہے۔۔میرا یہ وطن بابا جسے ہر کوئی ڈسنے پر تلا ہوا ہے اور اگر میرے ملک پر اٹھنے والی ایک نگاہ بھی کچل دی نا میں نے تو سمجھوں گا کہ میرے پیدا ہونے کا حق ادا ہو گیا۔"

عماد کو دیکھتے ہوئے جنرل شہیر کی آنکھوں میں ایک خوف تھا۔ہوتا بھی کیوں نہ وہ انکی اکلوتی اولاد تھا لیکن اس خوف کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں بے پناہ فخر بھی تھا۔

"ٹھیک ہے عماد جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہو گا لیکن یہ ہمارا پلین بی ہو گا صرف اسی صورت میں اگر سچویشن ہمارے کنٹرول سے باہر ہوئی تو۔"

انکی بات پر عماد مسکرایا اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں انہیں سیلیوٹ کیا۔

"اوکے سر۔۔۔"

                  ❤️❤️❤️❤️

وہاں سے آتے ہی عماد نے خود کو سب سے علیحدہ کر دیا راگا کے بارے میں جتنی انفارمیشن ہو سکتی تھی اس نے اکٹھا کی۔اسکی آواز کو مکمل طور پر کاپی کیا اور اپنے بال بھی بڑھا لیے۔بس کچھ محنت کرنی پڑی تھی اسے اپنے  نقوش راگا کی طرح کرنے میں۔

راگا کے پکڑے جانے کے تین مہینے بعد تک ایک خاموشی چھائی رہی جیسے کہ واقعی اس کے ساتھیوں کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بس دو چار جگہوں پر ان لوگوں نے دھماکے کروائے۔

لیکن پھر ایک دن وہ خاموشی ٹوٹی جب انہوں نے راولپنڈی کی مشہور یونیورسٹی پر حملہ کیا اور طالب علموں کی جان کے بدلے راگا کی رہائی کا سودا کیا۔

فوج کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ بھی اس بات سے پریشان تھی۔جنرل شہیر جب میٹنگ اٹینڈ کرنے گئے تو سب کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ راگا کو رہا کر دیا جائے۔

"ایک اور راستہ بھی ہے ۔۔۔۔"

جب جنرل شہیر کو کچھ سمجھ نہ آیا تو بول اٹھے۔

"کیا راستہ ہے جنرل شہیر؟"

چیف آف آرمی نے سوال کیا۔

"ہم راگا کو آزاد کریں گے لیکن ان کے پاس اصلی راگا نہیں بلکہ راگا کے بھیس میں ہمارا ایجنٹ جائے گا۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات پر سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

"لیکن یہ بہت زیادہ خطرناک کام ہے جنرل صاحب اور اس کے لیے بہت زیادہ صلاحیت درکار ہے۔۔۔"

"جانتا ہوں اسی لیے ہمارے بہت قابل ایجنٹ بی کافی عرصے سے اس کام کی تیاری میں لگیں ہیں اور ایجنٹ بی کی صلاحیت سے صرف میں ہی نہیں آپ سب بھی اچھی طرح واقف ہیں۔"

جنرل شہیر کی بات پر سب نے متفق ہو کر ہاں میں سر ہلایا۔

"ایجنٹ بی چالاکی،عقلمندی،بہادری اور طاقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔"

ایک اور جنرل نے سب کو بتایا۔

"اور اسکا یہ فائیدہ بھی ہو گا کہ ان کے درمیان ہمارا ایک جاسوس ہو گا جو نہ صرف باقی کے دہشتگردوں کی گرفتاری کا باعث بنے گا بلکہ ان دہشتگردوں کے مددگار غداروں کا بھی پتہ لگا لے گا اور ان چھپے ہوئے غداروں کا پتہ لگانا ہی ایجنٹ بی کا مقصد ہے۔"

اس بات پر چیف آف آرمی نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔

"ٹھیک ہے ایسا ہی ہو گا یہ مشن اب ایجنٹ بی کا ہے وہی راگا کی جگہ ان لوگوں کے پاس جائیں گے اور انکی حفاظت کے لیے اس راز کو بہت زیادہ خفیہ رکھنا ہو گا تا کہ ہم میں چھپا کوئی غدار انکے لیے مشکل کا باعث نہ بنے۔"

باقی کے جنرل بھی چیف آف آرمی کی بات سے متفق تھے۔میٹنگ ختم ہونے کے بعد جنرل شہیر اپنے کمرے میں آئے پر بہت سوچنے کے بعد اپنا موبائل نکال کر انہوں نے عماد کو کال کی۔

"ایجنٹ بی ہمیں پلین بی کے مطابق چلنا ہے۔"

                      ❤️❤️❤️❤️

وہ لوگ جیل سے راگا کو لے کر نکلے تھے اور اپنی آزادی پر کا غرور دیکھنے کے قابل تھا لیکن وہ اس بات سے غافل تھا کہ اس کی خوشی بہت جلد غم میں بدلنے والی تھی۔

راگا کو لے کر جانے والی گاڑی اچانک ہی باقی گاڑیوں سے علیحدہ ہو کر دوسری طرف مڑ گئی اور سیدھا آ کر ایک سنسان سے گیراج میں رکی۔

راگا کو گاڑی سے باہر نکالا گیا تو وہ حیرت سے اردگرد کا منظر دیکھنے لگا۔

"یہ تم لوگ مجھے کہاں لایا ہے فوجی زیادہ چلاکی کی نا تو انجام اچھا نہیں ہوگا یہ جانتے ہو تم لوگ۔۔۔"

راگ اس جنرل شہیر کی طرف مڑتے ہوئے انہیں دھمکانے لگا جبکہ جنرل شہیر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔

"پتہ لگ جائے گا راگا حوصلہ رکھو۔"

جنرل صاحب نے مسکرا کر کہا تبھی وہاں ایک اور گاڑی آئی جس سے نکلنے والے شخص کو دیکھ کر راگا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ بلکل اس کے جیسا ہی تو تھا۔وہی بال،ویسی ہی داڑھی یہاں تک کے نقش بھی ویسے ہی تھے۔

"کیا ہوا ماڑا اتنے میں ہی ڈر گیا تم تو ابھی تو اس راگا نے اپنا جلوہ بھی نہیں دیکھایا۔"

اس شخص کے بولنے پر راگا کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ اس کی آواز بھی بالکل راگا جیسی تھی۔

"کون ہو تم؟"

راگا نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو وہ شخص مسکرا کر اس کے قریب آیا۔

"میں وہ ہوں راگا جو تیری جگہ لے کر تیرے ان گھٹیا کاموں اور ساتھیوں کو جہنم واصل کرے گا۔۔۔۔میں اس ملک کا مجاہد ہوں۔۔۔۔اس سر زمین کا محافظ۔۔۔"

عماد کے ایسا کہنے پر راگا نے ایک زور گھونسہ اس کے منہ پر مارا۔سپاہیوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو عماد نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں قریب آنے سے روک دیا۔

اب راگا اسے مار رہا تھا اور وہ خاموشی سے کھڑا مار کھا رہا تھا۔پھر اچانک کافی مار کھانے کے بعد عماد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہونٹ پر موجود خون کو انگوٹھے سے صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا۔

"اب میری باری۔۔۔"

اتنا کہہ کر عماد نے ایک ہی زور دار مکا راگا کے منہ پر مارا جس کی شدت سے راگا زمین پر گر گیا اور اسکی ناک سے بری طرح خون نکلنے لگا۔

"شکریہ ماڑا کسی زخم کے بغیر تیرے ساتھیوں کے پاس جاتا تو شک کرتے نا مجھ پر اچھا ہے تو نے یہ شبہ بھی مٹا دیا۔۔۔"

عماد نے ہنس کر کہا تو فوجیوں نے واپس راگا کو اپنی حراست میں لے لیا۔

"ویرہ کو پتہ لگ جائے گا وہ تجھے نہیں چھوڑے گا بہروپئے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔"

راگا چلاتا رہا اور وہ سپاہی اسے وہاں سے لے گئے۔عماد اس بات پر مسکرا دیا کہ جانے انجانے وہ اسے اپنے ساتھی کا نام بتا چکا تھا۔

"چلو بیٹا۔۔۔"

جنرل شہیر نے عماد کے پاس آ کر کہا تو عماد نے بیڑیاں پہننے کے لئے اپنے ہاتھ ان کے سامنے کر دیے۔

"میں تیار ہوں بابا۔۔۔"

پھر وہ لوگ عماد کو راگا بنا کر یونیورسٹی لے کر گئے۔جنرل شہیر نے سوچا کہ یہاں آئے دہشتگردوں کو تو پکڑ ہی لیں گے اسی لیے انہوں نے ان دہشتگردوں پر اٹیک کرنے کا کہا لیکن ان بزدلوں نے وانیا کو اپنی ڈھال بنایا اور وہاں سے فرار ہو گئے۔

وجدان نے وانیا کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ایسے راستے سے فرار ہو چکے تھے جو یونیورسٹی سے بہت فاصلے پر تھا اور ہر طرف ناکہ بندی ہونے کے باوجود وہ انہیں نہیں پکڑ پائے۔ 

وانیا کی کوئی خبر نہ ملنے پر وجدان غصے کے عالم میں جنرل شہید کے پاس آیا۔

"ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے سر ہم ان پر حملہ کریں گے کسی بھی حال میں اپنی بیٹی کو واپس لاؤں گا میں۔آپ پرمیشن دیں سر ہم کسی بھی طرح انہیں ٹریک کر لیں گے ۔۔۔۔۔"

وجدان کی پریشانی دیکھ کر جنرل شہیر بھی پریشان ہو چکے تھے۔

"تم فکر مت کرو وجدان پولیس اور فوج انہیں ڈھونڈ رہی ہے تمہاری بیٹی کا پتہ ضرور لگا لیں گے۔۔۔"

"کیسے فکر نہ کرو میں میری بیٹی ہے ان کے پاس ہمیں ان پر حملہ کرنا ہوگا سر جب تک ہم ان تک نہیں پہنچ جاتے کسی بھی دہشت گرد کو نہیں چھوڑیں گے ہم۔۔۔"

وجدان غصے سے کہہ رہا تھا۔

"میں نے کہا ناں وجدان کہ ایک ٹیم اس کو ڈھونڈتی رہے گی لیکن فی الحال ہم کسی بھی دہشتگرد پارٹی پر حملہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔"

"کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا چاہتے ہیں آپ کے بس خاموش تماشائی بنا رہوں نہیں میں اپنی بیٹی کو ڈھونڈ کر رہوں گا اگر آپ اجازت نہیں دیتے تو بھاڑ میں گئی یہ نوکری۔"

وجدان غصے سے کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

"وجدان تم سمجھ کیوں نہیں رہے تمہاری بیٹی ٹھیک ہے اور جلد ہی تمہارے پاس ہو گی لیکن ابھی ہم حملہ نہیں۔۔۔۔"

"آپ کیسے جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہو گی۔۔۔؟سر دہشتگردوں کی پکڑ میں ہے میری بیٹی تو وہ کیسے محفوظ ہو سکتی ہے ۔۔۔؟"

وجدان نے غصے سے میز پر اپنے ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔

"کیونکہ جو راگا انکے ساتھ گیا ہے وہ اصلی راگا نہیں ہے لیفٹیننٹ وہ ہمارا ایجنٹ ہے ۔۔۔۔ایجنٹ بی"

اس بار جنرل شہید کے آہستہ سے کہنے پر وجدان نے حیرت سے انہیں دیکھا۔

"ہاں وجدان وہ راگا نہیں ہمارا مجاہد سپاہی ہے اور ان پر حملہ کرنا اس سپاہی کی جان لینے کے مترادف ہے۔فوج کے وہاں پہنچتے ہی وہ سب سے پہلا شک اسی پر کریں گے کہ یہ فوج سے ہاتھ ملا کر انہیں یہاں لایا ہے اور مار دیں گے اسے۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات سن کر وجدان نے اپنا سر جھکا لیا۔

"لیکن میری بیٹی ہے انکے پاس سر۔۔۔۔وہ بہت معصوم ہے۔۔۔۔بہت نازک دل کی ہے۔۔۔"

نم آواز میں کہتا وجدان اس وقت ایک ہارا ہوا باپ لگ رہا تھا۔جنرل شہیر نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"فکر مت کرو وجدان وہ حفاظت سے رہے گی ایجنٹ بی اپنی جان سے زیادہ خیال رکھے گا اسکا۔"

"یہ بات آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟"

وجدان نے انہیں حیرت سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"کیونکہ ایجنٹ بی کوئی اور نہیں میرا بیٹا عماد ہے اور اپنے بیٹے کو جانتا ہوں میں۔۔۔"

جنرل شہیر نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا جبکہ وجدان حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دشمنوں میں بھیج دیا تھا۔

"تو آپ چاہتے ہیں کہ میں کچھ نہ کروں بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں۔۔؟ "

وجدان کے لہجے میں بہت زیادہ بے بسی تھی۔

"ہمت کرو وجدان بالکل ویسے ہی جیسے میں نے کی ہے۔تم یہ سمجھو کہ تم نے اپنی بیٹی کو اس ملک کی حفاظت پر لگایا ہے۔۔۔سمجھو کے وہ بھی ہماری طرح ایک سپاہی ہے۔۔۔۔کیونکہ وجدان وہ اس بہادر سپاہی کی محافظ ہے اور وہ اسکا محافظ ہو گا۔"

جنرل شہیر کی بات پر وجدان بے انتہا بے بس ہو چکا تھا ہر بس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا لیکن اس کے بعد اس نے وانیا کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی بس اپنی بیٹی کو خود کی طرح مجاہد سمجھ کر اس کی زندگی کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔

اور ویسا ہی ہوا تھا جیسا جنرل شہیر نے کہا عماد نے راگا بن کر وانیہ کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔کال کے پسندگی ظاہر کرنے پر عماد نے سردار ہونے کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے وانیہ کو اس سے چھین لیا لیکن جب بعد میں پھر سے وانیا اس کے چنگل میں بری طرح سے پھنس گئی تو عماد کے پاس اس سے نکاح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

اسی طرح اپنے لیفٹیننٹ کی بیٹی جو عماد کے لیے ایک ذمہ داری تھی اس کی متاع جان،اسکی منزل عشق بن گئی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

ایک مہینے تک سب ٹھیک چلتا رہا۔عماد نے کسی کو بھی خود پر شک ہونے نہیں دیا تھا اور ان ہی کے درمیان رہ کر وہ ان کا ہر راز جانتے ہوئے سلطان کے بھی بہت قریب پہنچ چکا تھا۔

لیکن پھر ایک دن اچانک وہ توازن خراب ہوا جب عماد خبر پہنچانے پہاڑ کے پاس موجود سپاہی کے پاس آیا اور اس نے اسے بتایا کہ راگا قید سے بھاگ چکا ہے اور کسی بھی وقت یہاں پہنچتا ہوگا۔

عماد کو کیسے بھی راگا کو پکڑنا تھا اگر راگا ویرہ یا کال میں سے کسی کے پاس بھی پہنچ جاتا تو عماد کا بچنا ناممکن ہو جانا تھا۔

"یا اللہ میری مدد کرنا۔۔۔"

عماد نے دعا کی اور اپنی بندوق سنبھالتا راگا کو تلاش کرنے لگا۔کچھ ہی دیر بعد گولیوں کی آواز سے اس نے اندازہ لگایا کہ آرمی بھی وہاں پہنچ چکی ہے۔

تبھی عماد کی نظر پہاڑ کی جانب سے آتے ایک آدمی پر پڑی جس کے پیچھے دو فوجی تھے جن میں سے ایک کو اس نے مار دیا تھا جبکہ دوسرے کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے بھی اپنے نشانے پر لے چکا تھا۔

عماد نے غصے سے دانت کچکچا کر آگے بڑھنا چاہا۔

"رک جائیں ایسا مت کریں۔۔۔۔"

وانیا کی آواز پر عماد کی جان ہوا ہوئی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ راگا وانیا کو کوئی نقصان پہنچائے لیکن اس وقت وہ ان سے بہت زیادہ فاصلے پر تھا۔لیکن راگا کے منع نہ ہونے پر وانیا کی اگلی حرکت سے عماد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

"رک جائیں ورنہ گولی مار دوں گی۔۔۔"

عماد نے حیرت سے اپنی معصوم جان کو دیکھا جو کانپتے ہاتھوں میں پسٹل تھامے راگا کو ڈرا رہی تھی۔اپنی بندوق کو سیدھا کرتے ہوئے عماد نے راگا کا نشانہ لیا اگر وہ وانیا یا اس فوجی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تو عماد وہیں اسے مار دیتا۔

"ایک چڑیا کے ڈر سے راگا اپنا شکار نہیں چھوڑے گا۔"

راگا نے شان سے کہتے ہوئے بندوق واپس فوجی پر کی اور عماد نے خود کو گولی چلانے کے لیے تیار کیا لیکن اس سے پہلے ہی وانیہ راگا کو گولی مار چکی تھی۔

عماد نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب راگا کو مارنے کے باد اسکے پاس جا کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اسکا نکلتا خون بند کرنا چاہ رہی تھی۔عماد کچھ دیر کھڑا اپنی محبت کو وہاں روتے ہوئے دیکھتا رہا۔اسکا ایک ایک آنسو اسکی محبت کا گواہ تھا۔

پھر کچھ دیر بعد اسکی بہن اور ایک لڑکا اسے اور فوجی کو وہاں سے لے گئے تو عماد راگا کے جسم کے قریب آیا اور اسکی گردن پر اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھا۔

راگا سچ میں مر چکا تھا۔عماد نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور اس خفیہ غار سے ہوتا ہوا کافی فاصلے پر کھڑی آرمی کی گاڑیوں کے پاس آیا۔

راگا کے ایک جسم کو کندھے پر ڈال کر لاتا دیکھ سب فوجیوں نے اس پر بندوقیں تان دیں۔جنرل شہیر بھی اس کو پریشانی سے دیکھ رہے تھے۔

عماد نے راگا کا جسم لا کر جنرل شہیر کے قدموں میں پھینکا اور مسکرا کر انہیں دیکھا۔جبکہ جنرل شہیر تو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ سامنے موجود شخص راگا تھا یا ان کا بیٹا۔

پھر عماد نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں سیلیوٹ کیا تو جنرل شہیر کی آنکھیں خوشی اور فخر کے آنسوؤں سے نم ہو گئیں۔بے ساختہ طور پر انہوں نے بھی اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جا کر عماد کو سیلیوٹ کیا۔

"تم نے اسے مار دیا ایجنٹ؟"

وجدان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ راگا کا زندہ ہونا مردہ ہونے سے زیادہ قیمتی تھا۔

"نہیں سر آپ کی بیٹی نے مار دیا۔"

"ہانیہ۔۔"

وجدان نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

"نہیں سر میری وانیہ نے۔۔۔"

عماد کی آواز میں موجود غرور اور اس کے میری وانیا کہنے پر وجدان ٹھٹھک گیا لیکن یہ وقت سوال جواب کا نہیں تھا۔

"بس اب ایجنٹ بی بھی ہمارے ساتھ ہے اور میری بیٹی بھی با حفاظت یہاں سے جا چکی ہے سر اب ہم ان لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔حملے کی اجازت دیں سر۔۔۔"

وجدان نے جنون سے گاؤں کی جانب نگاہیں گاڑھ کر کہا۔

"نہیں سر اس گاؤں میں صرف دہشتگرد نہیں بستے بلکہ بہت سے معصوم لوگ بچے اور عورتیں بھی ہیں ہمیں ان کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا ہے۔"

عماد کی بات پر جنرل شہیر اپنے بیٹے کی جانب مڑے۔

"تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ایجنٹ بی۔۔۔۔؟"

"میرے اشارے کا انتظار کریں سر اور اشارہ ملتے ہی حملہ کر دیجیے گا۔۔۔۔۔"

جنرل شہیر نے ہاں میں سر ہلایا اور عماد واپس گاؤں میں آیا جہاں ویرہ سب آدمیوں کے ساتھ ہتھیار سے لیس تیار تھا جبکہ کال تو ایک دن سے غائب تھا۔

"کہاں تھے تم راگا؟ ان آرمی والوں میں اتنی ہمت آ گئی ہے کہ ہم پر یہاں حملہ کردیا لیکن فکر مت کرو یہ غلطی ان کی آخری غلطی بنا دیں گے۔۔۔۔"

ویرہ نے ایک آدمی کو اشارہ کیا۔

"میں بھی انہیں کا جائزہ لینے گیا تھا ویرہ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہے اگر انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔اسی بہتر یہی ہے کہ ہم ان پر پہلے حملہ کریں۔۔۔۔"

عمار کی بات سن کر ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"ہمیں ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ ہمارے جتنے بھی آدمی ہیں سب کو ساتھ لو۔  آدھے آدمی ان پر شمال سے حملہ کرو اور ویرہ تم اور میں جنوب سے ان پر حملہ کریں گے۔"

ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور آدمیوں کو اشارہ کرتا آدھے آدمیوں کے ساتھ عماد کے ساتھ چل دیا۔

"مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ہم میں کون سا ایسا جاسوس ہے جس نے فوج کو  ہمارا ٹھکانہ بتایا ۔۔۔۔اگر پتہ چل گیا نا راگا تو وہ موت مانگے گا اور اسے موت بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"

ویرہ وحشت سے کہتا عماد کے ساتھ چل رہا تھا۔اچانک ایک سنسان جگہ پر آ کر عماد رک گیا۔

"کیا ہوا راگا؟"

ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔

"کچھ نہیں ویرہ تمہیں بس یہ بتانا تھا کہ وہ جاسوس میں ہی ہوں۔۔۔"

اس سے پہلے کہ ویرہ عماد کی بات سمجھتا گھاس اور درختوں کے پیچھے چھپے فوجیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور سب دہشتگردوں کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ سب کو یا تو مار چکے تھے یا حراست میں لے چکے تھے۔

ویرہ نے حیرت سے ارد گرد کا نظر دیکھا اور اپنی بندوق فوراً عماد پر تان دی۔

"غدار۔۔۔۔"

ویرہ نے گولی چلائی لیکن عماد عین وقت پر جھک کر اپنے آپ کو اس گولی سے بچا چکا تھا۔پھر خود فورا آگے بڑا اور ایک ٹانگ ویرہ کے بازو پر مار کر اسکی بندوق کو گرایا۔

ویرہ نے اپنا ہاتھ بہت زور سے عماد کے گال پر مارنا چاہا لیکن عماد اس سے بھی بچتا ویرہ کی ٹانگ پر اپنی ٹانگ مار کر اسے زمین پر گرا گیا اور اسکی گردن کو دبوچ لیا۔

"نہیں ویرہ میں غدار نہیں ہوں بلکہ غدار تو تم ہو جو خود پر ہوئے ظلم کا  بدلہ لینے کے لیے اپنے وطن سے ہی غدار ہو گیا۔۔۔لیکن اس کا غداری کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے ویرہ۔۔۔۔معصوموں کی جان لے کر تمہارے گھر والوں کی روح کو سکون نہیں ملا ویرہ انہیں تکلیف ہوئی ۔۔۔۔"

ویرہ غصے سے چلایا اور عماد کی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ پکڑ بہت مضبوط تھی۔

"ہاں ویرہ اپنے بیٹے کو قاتل بنا دیکھ وہ انصاف پسند آدمی بہت دکھی ہوا ہو گا۔۔۔ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ دوست۔۔۔۔انصاف کی تلاش میں تم نے غلط راہ چنی۔۔۔۔۔"

عماد اسے کہہ رہا تھا اور ویرہ اس کی گرفت میں مچلتا چلا رہا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا کسی کو نہ ان خاموش تماشائی بن کر موت دیکھنے والوں کو اور نہ ہی زندگیوں کا سودا کرنے والوں کو۔۔۔"

ویرہ عماد کی گرفت میں پھڑپھڑاتا غصے سے چلایا۔غم اور غصہ اس پر حاوی ہو چکے تھے۔اس وقت وہ کوئی بے قابو جانور لگ رہا تھا جسے سنبھالنا عماد کے لیے بھی مشکل تھا۔

"عبداللہ۔۔۔"

مرجان کی آواز پر ویرہ کا مزاحمت کرنا بند ہوا اور اس نے آرمی کے ساتھ موجود مرجان کو دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔عماد نے جھک کر ویرہ کے کان کے قریب سرگوشی کی۔

"ابھی بھی وقت ہے سوچ لو عبداللہ۔۔۔۔اور کسی کے لیے نہ سہی مرجان کے لیے۔۔۔مر جائے گی وہ تمہاری لاش دیکھ کر۔۔۔۔"

عماد کی بات پر ویرہ کی ساری مزاحمت ساری لڑائی بند ہوئی۔وہ بس سامنے کھڑی مرجان کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

"جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا اور اس نے ظلم نے تمہیں ظالم بنا دیا دوست۔۔۔ان ظالموں سے بھی زیادہ ظالم تو کیا فرق رہا ان میں اور تم میں۔۔۔۔؟"

عماد کی بات پر ویرہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور پھر چلا چلا کر رویا شاید اسے احساس ہو چکا تھا کہ انتقام کی آگ میں وہ کیا کر گزرا تھا۔

عماد نے فوجی کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر ویرہ کو زنجیر پہنائی اور اس بکھرے شخص کو اپنے ساتھ لے گیا۔

                        ❤️❤️❤️

عماد وہاں سے سیدھا ہیڈکوارٹر آیا جہاں اس نے ساری انفارمیشن آرمی کو دی لیکن ایک بات وہ ان سے چھپا چکا تھا۔جسے اب بتانے کے لئے وہ جنرل شہیر کے پاس آیا لیکن وہاں وجدان کو دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

"کانگریچولیشن ایجنٹ اپنے مشن کی کامیابی پر تم سچ میں بہت بہادر جوان ہو۔"

وجدان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"تھینک یو سر۔۔۔"

عماد نے اسے سیلیوٹ کر کے کیا اور پھر جنرل شہیر کی جانب مڑا۔

"مجھے آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا ہے سر۔۔۔۔"

"تم بتا سکتے ہو وجدان پر پورا بھروسہ ہے مجھے۔۔۔"

عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔

"سر یہ راگا اور اس کے جیسے اور بہت سے دہشت گرد ہیں جو صرف ایک کٹھ پتلی ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔۔۔"

عماد کی بات پر ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ شخص کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ اپنے ہی وطن کا ایک باشندہ ہے جو اپنے مفاد کے لئے نہ صرف معصوموں کی جانوں سے کھیل رہا ہے بلکہ ہر برا کام اسکی کی بدولت ہوتا ہے۔۔۔۔"

عماد کے ایسا کہنے پر وجدان میں ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔

"کون ہے وہ؟"

"سلطان۔۔۔۔لیکن یہ سلطان کون ہے یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا کیونکہ سچ جاننے کے باوجود میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔۔۔اگر راگا بھاگتا نہیں تو ثبوت بھی ہوتا میرے پاس۔۔۔"

عماد کی بات پر جنرل شہیر پریشان ہوئے۔

"لیکن تم جانتے ہو کہ سلطان کون ہے؟"

عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔

"چہرہ نہیں دیکھا تھا اسکا صرف آواز سنی تھی اور آواز بدلنے والا ہی کسی کی آواز نہ پہچانے ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟"

"ٹھیک ہے۔۔۔مجھے بھروسہ ہے تم ہر تم جلد ہی اس سلطان کے خلاف ثبوت بھی ڈھونڈ لو گے۔"

جنرل شہیر نے پاس آ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"اب اس سب کی پریشانیاں چھوڑو اور گھر چلو تمہاری ماں بہت زیادہ پریشان ہے کیونکہ میں ان سے آتے ہوئے کہہ کر آیا تھا کہ اپنے بیٹے کے لیے دعا کریں۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات پر عماد مسکرایا۔

"انہی کی دعائیں میری محافظ ہیں بابا۔۔۔"

جنرل شہیر نے فخر سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا تو عماد مسکراتا ہوا وجدان کی جانب مڑا ۔

"آپ کو کچھ بتانا ہے سر اور شائید وہ سن کر آپ مجھے گولی مار دیں۔۔۔۔"

عماد کی بات پر وجدان بہت حیران ہوا لیکن وانیا کے نکاح کا جان کر سچ میں وجدان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔

"کوئی بات نہیں وہ رشتہ تم نے مجبوری میں باندھا ایجنٹ اسکی کوئی اہمیںت۔۔۔۔"

"نہیں سر اسکی اہمیت پر کبھی بھی سوال نہیں اٹھائیے گا وانیہ میرا سب کچھ ہے وہ میری بیوی ہے اور اس سچائی کو آپ تو کیا کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔۔۔۔"

عماد کے سختی سے کہنے پر وجدان حیران ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہاں سے کچھ کہتا جنرل شہیر سامنے ہوئے۔

"ارے یہ اتنا بڑا مسلہ بھی نہیں لیفٹیننٹ،میرا بیٹا قابل ہے ہر لحاظ سے آپکی بیٹی کے میں باپ ہونے کی حیثیت سے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگتا ہوں اور ویسے بھی جب دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر مسئلہ ہی کیا ہے۔۔۔؟"

جنرل شہیر کی بات  پر وجدان سوچ کے عالم میں ڈوب گیا اور سامنے موجود لڑکے کو دیکھنے لگا جو سچ میں ہر لحاظ سے اس کی بیٹی کے قابل تھا کیوں کہ نا صرف اس نے اس کی بیٹی کی حفاظت کی تھی بلکہ وہ اس کی آنکھوں میں وانیا کے لیے وہی جذبات دیکھ سکتا تھا جو اس کی آنکھوں میں زرش کے لئے تھے۔

"چلیں ٹھیک ہے میں وانیہ سے بات۔۔۔"

"ارے نہیں انکل آپ اس سے ابھی بات مت کیجیے گا بہت ستایا ہے آپکی بیٹی نے مجھے اب زرا اسکی باری ہے۔۔۔۔"

عماد نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو جنرل شہیر ہنس دیے اور وجدان بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

(حال)

وانیہ جو تب سے مسکراتے ہوئے عماد کی بات سن رہی تھی اسکے خاموش ہونے پر منہ بنا کر اسے دیکھنے لگی۔

"اچھا تو آپ نے جان بوجھ کر مجھے ایک مہینہ ستایا؟"

اتنی سب باتوں کے بعد اسکا یہ سوال پوچھنے پر عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"ہاں میری افغان جلیبی جان بوجھ کر ستا رہا تھا تمہیں جس عشق کی آتش میں میں جلتا رہا اس میں تمہیں بھی تو جلتا دیکھنا تھا۔"

عماد وانیا کو کھینچ کر خود کے قریب کر چکا تھا۔

"بہت برے ہیں آپ ساتھ ہی بابا بھی انہوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔۔۔ناراض ہوں میں آپ دونوں سے۔۔۔۔"

وانیا نے اس فاصلہ قائم کرنا چاہا جو اسکے لیے ناممکن تھا۔

"اب یہ دوریاں ناممکن ہیں لخت جگر۔۔۔"

عماد نے اسی سختی سے خود میں بھینچتے ہوئے کہا۔

" اور ویسے بھی میں چاہتا تھا کہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے تمہیں اپناؤں تاکہ کل کو کوئی تمہاری کردار کشی نہ کر سکے۔۔۔"

اس بات پر وانیا نے اسکے سینے پر سر رکھ کر اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا۔پھر ایک خیال آتے ہی اس سے دور ہو کر پھر سے اسے گھورنے لگی۔

"آپ مجھے بھگا بھی تو سکتے تھے نا مجھے سچ بتا دیتے اور اپنے ساتھ لے جا کر مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آتے۔۔۔"

وانیا کی معصومیت پر عماد نے مسکرا کر اسکا سر چوما۔

"اور باقی سب کو کیا جواب دیتا چھوٹی سی لڑکی میری قید سے بھاگ گئی۔۔۔۔اتنا آسان نہیں تھا جان ویرہ میری ہر ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔اسے شک تھا کہ کہیں فوجیوں نے راگا کو اپنے ساتھ تو نہیں ملا لیا اسی لئے تو اس دن میں نے وہ بکواس کی تھی کیوں کہ ویرہ کو لگا تھا کہ تم راگا کی کمزوری بن چکی ہو ۔۔۔"

وانیا نے ہاں میں سر ہلایا اب وہ اسکی ہر بات کا مقصد سمجھ چکی تھی۔

"اگر تمہیں بتاتا تو جتنی تم بہادر ہونا میری جان بندوق دیکھ کر ہی تم نے میرے بارے میں سب سچ سچ بتا دینا تھا۔۔۔۔"

وانیا نے منہ پھلایا۔

"اب اتنی بھی ڈرپوک اور بے وقوف نہیں ہوں میں۔۔۔"

عماد قہقہ لگا کر ہنسا۔

"اچھا اسی لیے میرے دو مرتبہ تمہیں بھاگنے کا موقع دلوانے کے باوجود تم بھاگ نہیں سکی الٹا زیادہ مصیبت میں پھنس گئی۔۔۔"

"وہ آپ تھے جو مرجان کی مدد سے میری بھاگنے میں ہیلپ کر رہے تھے؟"

"جی ہاں میری جان لیکن آپ اتنی چالاک ہیں کہ دونوں مرتبہ کامیابی سے پکڑی گئیں۔"

عماد نے اسکی ناک دبا کر کہا۔وانیا نے مسکراتے ہوئے جھک کر اسکے سینے پر اپنا سر رکھا۔

"عماد اصلی راگا سچ میں مر گیا تھا کیا؟"

"ہاں میری جان وہ سچ میں مر چکا تھا لیکن تم دکھی مت ہو وہ اسی قابل تھا۔۔۔وہ راگا بہت برا تھا میری جان اس کے بارے میں سوچو بھی مت تم بس اپنے اس راگا کے بارے میں سوچو جو ہمیشہ تمہارا راگا رہے گا۔"

عماد نے نرمی سے اسکے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔

"تو کیا ویرہ بھائی ہمیشہ قید رہیں گے یا انہیں موت کی سزا ہو جائے گی۔۔۔۔عماد کیا آپ انکے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟مرجان بہت پیار کرتی ہے ان سے مر جائے گی ان کے بغیر ۔۔۔"

وانیہ کی پلکیں نم ہوتی دیکھ عماد نے انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں میری جان میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ خود کر سکتا ہے اگر اس سب سے توبہ کر وہ ہمیں ہر راز بتا کر ہمارا ساتھ دینا چاہے تو۔۔۔۔ویرہ کا کرائم کی دنیا میں بہت نام ہے میری جان اسکی مدد سے بہت سے دہشتگردوں کو پکڑا جا سکتا ہے۔۔۔اگر وہ مدد کرے تو ہو سکتا ہے کہ اسکی سزا میں کمی ہو۔"

عماد نے گہرا سانس لیا۔

"قصور ویرہ سے زیادہ نا انصافی کے اس دور کا ہے جو نہ جانے کتنے ہی عبداللہ کو دہشت بننے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔۔"

وانیا نے پوری بات سمجھ کر افسردگی سے ہاں میں سر ہلایا۔

"خدا کرے وہ آپ کی بات کو سمجھ جائیں۔۔۔"

پھر اسے ارد گرد کے ماحول کا خیال آیا تو اس پرائیویٹ پلین کو دیکھتے ہوئے عماد سے پوچھنے لگی۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔"

"ابھی پتہ لگ جائے گا افغان جلیبی سرپرائز ہے تمہارے لیے۔۔۔ویسے بھی ہم بس پہنچ چکے ہیں۔۔۔"

عماد نے اسے واپس اسکی سیٹ پر بیٹھا کر سیٹ بیلٹ پہنائی۔پلین کے لینڈ ہونے کے بعد عماد نے اسکو اپنی جیکٹ پہنائی اور اپنے ساتھ لگاتے ہوئے وہاں سے باہر لے آیا۔

اتنے اندھیرے میں وانیا کچھ دیکھ نہیں پا رہی تھی اس لیے جگہ کا اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن وہ ائیر پورٹ کافی کھلی جگہ پر واقع تھا۔وہاں سے آ کر انہوں نے ایک گاڑی لی اور پھر گاڑی کے رکنے پر عماد نے اسے آنکھیں بند کرنے کا کہا۔

"کیوں کروں آنکھیں بند؟"

وانیا نے منہ بنا کر پوچھا تو عماد شرارت سے اسکے کان کے قریب جھکا۔

"کیونکہ کھلی آنکھوں سے میری حرکتیں دیکھو گی نا تو نہ جانے کب تک آئینے میں خود سے نگاہیں نہیں ملا پاؤ گی۔۔۔"

اس بات پر وانیا کا چہرہ گلال ہوا اس نے فورا اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں۔عماد نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور اونچے نیچے راستوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔

"اب اپنی آنکھیں کھول لو جان۔۔۔ "

وانیا نے فوراً اپنی آنکھیں کھول لیں اور حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگی۔اک پل لگا تھا اسے وہ جگہ پہچاننے میں۔وہ ان پہاڑوں میں اسکا اور عماد کا وہی گھر تھا جہاں وہ پہلے رکے تھے۔

"پہلے یہ گاؤں دہشت گردوں کی حکومت میں تھا لیکن اب یا تو وہ مارے جا چکے ہیں یا فوج کی قید میں ہیں۔ اب یہ گاؤں صرف ایک گاؤں ہے اور اس گاؤں میں یہ چھوٹا سا گھر تمہارا اور میرا تھا۔اسی لیے اسے خرید لیا میں نے تاکہ یہ ہمیشہ ہمارا ہی رہے۔"

عماد کی بات پر وانیہ نم آنکھوں سے مڑی اور بھاگ کر عماد کے سینے سے لگ گئی۔

"تھینک یو عماد یہ بہت اچھا گفٹ ہے۔۔۔"

عماد نے ہنستے ہوئے اسکی چھوٹی سی ناک کو چوما۔

"گفٹ یہ نہیں میری جان تمہارا گفٹ تو یہ ہے۔۔۔"

پاس پڑے میز سے ایک ریڈ کور میں لپٹا  باکس اٹھا کر عماد نے وانیا کے ہاتھ پر رکھا۔وانیا نے اسے کھولنا چاہا تو عماد نے اسکے ہاتھ پکڑ لیے۔

"ارے ابھی نہیں میری جان ابھی رک جاؤ پہلے میرے ساتھ چلو تم۔۔۔"

عماد اسے لے کر گھر کی پچھلی جانب آیا جہاں پر ایک بالکونی سی بنی تھی لیکن وہ کافی وصیح تھی اور اس بالکونی سے پورا گاؤں دیکھائی دیتا تھا۔

وانیا وہ خوبصورت منظر دیکھ کر مسکرا دی۔تبھی برفباری شروع ہوئی اور سرد ہوا کی ایک لہر وہاں آئی تو عماد نے اسکا کپکپاتا وجود اپنی آغوش میں بھر لیا۔

"کیسا لگا میرا سرپرائز؟سوچا زندگی کی شروعات اسی جگہ سے کرتے ہیں جس جگہ پر ہم پہلی بار ملے۔۔۔"

وانیا نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔

"نہیں جی آپ کو ٹھیک سے یاد بھی نہیں ہم پہلی مرتبہ میری یونیورسٹی میں ملے تھے چلیں وہاں چل کر زندگی کی شروعات کرتے ہیں۔۔۔"

وانیا نے شرارت سے کہا تو عماد کا قہقہ انکے گھر میں گونجا۔

"جو میں نے کرنا ہے نا جان وہ سب یونیورسٹی میں نہیں کر سکتے۔"

عماد نے ہنس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکی کان کی لو کو دانتوں میں دبایا تو وانیہ کانپ اٹھی۔

"عع۔۔۔۔عماد بابا ماما۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے گھر چلتے ہیں نا۔۔۔"

وانیا اسکی پناہوں سے نکلنے کے لیے بہانے گھڑنے لگی۔

"تمہارے بابا سے پورے ہفتے کی چھٹی لے کر آیا ہوں میں۔اب ایک ہفتے کے بعد تمہاری بہن کی رخصتی کے ساتھ ساتھ ہمارا ولیمہ ہوگا اور یہ عرصہ تم ہر پل میری پناہوں میں گزارو گی میری افغان جلیبی۔۔۔بولا تھا نا کامیاب ہو کر تمہیں اپنی آغوش کا پھول بناؤں گا۔۔۔"

عماد نے اسے پورے ارادے سے باخبر کرتے ہوئے اسکے وجود پر موجود اپنی جیکٹ اتار دی تو سردی کی شدت سے بچنے کے لیے وانیا اسکی پناہوں میں چھپ گئی۔

"عماد۔۔۔"

عماد نے اسکا سر اپنے سینے سے نکال کر اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے تو وانیا نے گھبرا کر اسے پکارا لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھا۔

"عماد پلیز۔۔۔"

اپنی شرٹ کے پیچھے موجود زپ کھلتی محسوس کر وانیا کانپ کر اسکی پناہوں میں چھپی تھی۔عماد نے پیچھے سے اسکی گردن پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا۔

"اپنے ایک ایک پل کی تڑپ کا حساب لوں گا تم سے آج۔۔۔تیار کر لو خود کو بہت لمبی رات ہے یہ۔۔۔"

اتنا کہہ کر عماد نے نازک ہونٹوں کو بہت شدت سے اپنی محبت کا نشانہ بنایا۔

کچھ دیر بعد وہ اس سے دور ہوا تو کپکپاتے وجود کے ساتھ وانیا اس کی باہوں میں چھپ گئی۔

"چلو تمہارا گفٹ کھولتے ہیں۔"

عماد نے اسے اندر لا کر وہ ریڈ باکس اسکے ہاتھ میں پکڑ آیا تو وانیا نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے وہ گفٹ کانپتے ہاتھوں سے کھولنا شروع کر دیا۔

کوور اتار کر اس نے وہ ڈبا کھولا تو اسے اندر کالے رنگ کا کپڑا نظر آیا۔وانیا نے اس کپڑے کو پکڑ کر دیکھا تو اسکا چہرہ چھوڑ کر پورا وجود ہی گلال ہو گیا۔

"یہ گفٹ ہے عماد؟"

وانیہ نے صدمے سے پوچھا۔

"ہاں لخت جگر یہی گفٹ ہے تمہارا شوہر بہت زیادہ کنجوس ہے اس لیے اسی پر گزارا کرو۔۔۔"

وانیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔

"آپ تو سچ میں بھی بہت زیادہ بے شرم ہیں۔۔۔"

عماد نے قہقہ لگا کر اسے اپنی باہوں میں بھر لیا۔

"ہاں میری افغان جلیبی اس میں بے شرمی کی میں نے ایکٹنگ نہیں کی تھی۔یہ تمہاری بری قسمت ہے کہ تمہارا شوہر سچ میں بہت بے شرم ہے۔۔۔۔اف تمہاری آدھی زندگی تو شرمانے میں ہی گزرنے والی ہے۔"

عماد نے اسکے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں لیتے ہوئے کہا تو وانیہ گھبرا کر اپنی آنکھیں میچ گئی۔

"اب شرافت سے جاؤ اور اسے پہن کر آؤ ورنہ خود پہنانا زیادہ اچھا لگے گا مجھے۔۔۔۔"

وانیا نے اسے بے چارگی سے دیکھا لیکن اس ظالم کو کہاں احساس آنا تھا۔

"چلو ٹھیک ہے میں ہی پہنا دیتا ہوں۔۔۔"

عماد نے اسکے کندھے سے شرٹ کو سرکاتے ہوئے کہا تو وانیہ گھبرا کر اس سے دور ہوئی اور بھاگ کر دوسرے کمرے میں بند ہو گئی۔عماد کا قہقہ گونجا۔

"جلدی سے باہر آؤ جان ورنہ میں وہاں آ گیا تو اچھا نہیں ہو گا۔"

پندرہ منٹ بعد بھی جب وانیہ باہر نہیں نکلی تو عماد نے آواز لگائی۔وانیہ جو کب سے گھٹنوں سے بھی اوپر تک آتا وہ سلیو لیس لباس پہنے کھڑی تھی عماد کی بات پر کانپ اٹھی۔

مرتی کیا نہ کرتی وہ آخر کار دروازہ کھول کر باہر آئی تو عماد کی نظریں اس پر پڑتی پلٹنا ہی بھول گئیں۔

اسے سر تا پیر دیکھتا عماد آگے بڑھا اور باہوں میں بھر کر بیڈ پر لے آیا۔

"عماد۔۔۔۔سو جاتے ہیں نا۔۔۔بہت سردی ہے"

وانیہ کی معصوم سی کوشش پر عماد مسکرایا اور ہاتھ میں کب سے پکڑا وہ ڈائمنڈ کا چھوٹا سا نیکلیس اسکی گردن میں پہنا کر اسکی گردن کو چومنے لگا۔

"سونا تو بھول ہی جاؤ نا آج افغان جلیبی اور فکر مت کرو آج آگ کے بغیر سردی مٹائے گا تیرا یہ راگا۔۔۔۔بہت صبر کیا تمہارے اس جن نے پری اب یہ تمہیں قراقرم کے پہاڑوں میں نہیں اپنی محبت میں قید کر لے گا۔"

اتنا کہہ کر عماد نے اپنی شرٹ اتاری اور اسکے کندھوں پر جھکا اپنی شدت اسکے نازک وجود پر بکھیرنے لگا۔

"عماد ۔۔۔۔"

جب اسکی شدتیں وانیہ کی برداشت سے باہر ہو گئیں تو روتے ہوئے اسکی پناہوں میں چھپ کر خود کو اس سے بچانا چاہا۔

"عماد۔۔۔"

"آج مظبوط کرو خود کو لخت جگر کیونکہ تمہارا راگا آج اپنی افغان جلیبی کو کھا کر ہی چھوڑے گا۔۔۔۔"

عماد نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اپنے سینے سے نکالا اور اسکے وجود پر اپنی پکڑ مظبوط کی۔ اسکی گھبراہٹ اور معصوم مزاحمت کو بے بس بناتا اسکا پور پور اپنا بنا گیا۔

نکاح کے بعد ہانیہ کمرے میں واپس آئی تو وہاں وانیا کو نہ پا کر مسکرا دی۔

"یعنی لے اڑے مسٹر عماد میری معصوم بہن کو۔۔۔ایک میرے ہی بورنگ ہزبنڈ ہیں افف میرے جی جو سے ٹریننگ لیں زرا۔۔"

ہانیہ اپنی جیولری اتارتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔وجدان نے وانیا کے واپس آنے پر زرش اور اسے سب سچ سچ بتایا تھا اور سب سن اسے کر عماد وانیا کے لیے بیسٹ آپشن لگا تھا۔

"اتنے گلے ہیں مجھ سے بھئی آمنے سامنے بتا دیتیں بیگم صاحبہ پیچھے کیوں شکوے کر رہی ہیں۔۔"

انس کی آواز پر ہانیہ مڑی اور منہ بنا کر اسے دیکھا۔

"اب آپ میرے روم میں کیوں آئے ہیں؟"

"تمہیں کیا لگتا ہے کیوں آیا ہوں۔۔۔"

انس نے مسکراتے ہوئے قریب آ کر اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر کہا۔

"صاف ظاہر ہے چھچھورا پن کرنے پولیس والوں کو اور آتا ہی کیا ہے۔۔۔لیکن بچ کر رہیں ہونے والی کیپٹن ہانیہ وجدان خان سے۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتے ہوئے کہا لیکن اگلے ہی لمحے انس اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ہونٹوں کے قریب کر گیا۔ہانیہ کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹکا تھا۔

"اب تو یہ غلطی کر لی مسز آئندہ مت کرنا اب تم ہانیہ انس راجپوت ہو اب تم ساتھ کپٹن لگواتی ہو یا میجر یہ تم پر ہے۔۔۔"

انس نے شرارت سے کہتے ہوئے اسکی ناک سے اپنا ناک رگڑا تھا۔

"انس۔۔۔"

ہانیہ جو اسکی قربت پر گھبرائی تھی آنکھیں موند کر بولی تو انس کی نظر بے ساختہ ان ہونٹوں پر پڑی۔

"جانتا ہوں تم ایک خود مختار لڑکی ہو میری پٹاخہ گڈی جو اپنی من مرضی پر چلتی ہے لیکن میرے معاملے میں صرف میری ہی مرضی چلے گی ہمیشہ یاد رکھا پھر چاہے تم مجھے چھچھورا سمجھو یا کچھ بھی مجھے فرق نہیں پڑتا۔"

انس کی بات پر ہانیہ نے گھبرا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔

"انس۔۔۔"

ہانیہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن انس اسکے الفاظ اپنے ہونٹوں سے چن چکا تھا۔انس کے لمس میں بہت شدت تھی جیسے کہ ہانیہ کو خود میں بسانا چاہ رہا ہو۔

ہانیہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا تو انس کا عمل اسکی مزاحمت پر شدت اختیار کر گیا۔

"ہیرو بس۔۔۔"

ہانیہ نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے پھولے سانس کے ساتھ کہا تو انس قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسے ساتھ لگا کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔

"تم نہیں جانتی کہ تمہیں پانے کا احساس کتنا حسین ہے ہانیہ۔۔۔یہ پانچ سال ہر پل میں نے تمہیں یاد کر کے گزارا ہے۔۔۔"

"اسی لیے مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے تب۔۔۔"

ہانیہ نے منہ بنا کر کہا تو انس نے اسکا معصوم چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اپنے قریب کیا۔

"بہت چھوٹی تھی تب تم جان۔۔۔تمہارے بابا سے بات بھی کرتا نا تو سیدھا گولی مار دیتے۔۔۔"

انس نے اس انداز سے کہا کہ ہانیہ ہنسے بغیر نہ رہ سکی۔

"چلیں کیا یاد کریں گے معاف کیا لیکن اگر اب کبھی چھوڑ کر جانے کا سوچا نا تو سیدھا گولی مار دوں گی۔۔۔"

ہانیہ کی دھمکی پر انس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پھر اس نے مسکرا کر پھر سے اپنے ہونٹ ہانیہ کے ہونٹوں پر رکھے۔

"اسکی نوبت نہیں آئے گی ہانیہ کیونکہ اب تمہاری جدائی کی میری موت ہو گی اور مجھے جینا ہے اپنی پٹاخہ گڈی کے ساتھ۔۔۔"

انس نے اسکی ناک دبا کر کہا تو ہانیہ مسکرا کر اسکے سینے سے لگ گئی۔

"میرا گفٹ کہاں ہے؟"

ہانیہ نے اسکی قمیض کے بٹن سے کھیلتے ہوئے پوچھا لیکن انس کی خاموشی پر اسے بری طرح سے گھورنے لگی۔

"کنجوس گفٹ لائیں ہیں ناں میرا؟"

انس نے ہچکچا کر اپنا سر کھجایا تو ہانیہ دانت پیس کر اسے دھکا دیتے ہوئے اپنے کمرے سے نکالنے لگی۔

"ارے۔۔۔"

"اگلی بار گفٹ لے کر آنا ورنہ نہ آنا۔۔۔بڑے ہی کوئی بے شرم آدمی ہیں گفٹ بھی نہیں دیا اور فری میں۔۔۔"

ہانیہ جو بولتی جا رہی تھی جب اپنی بات کا اندازہ ہوا تو دانتوں تلے زبان دبا گئی۔

"فری میں کیا کیا میں نے؟"

انس نے دروازے پر ہاتھ رکھتے شرارت سے پوچھا تو ہانیہ کا چہرہ گلال ہو گیا۔

"چھچھورا پن۔۔۔"

اتنا کہہ کر اس نے انس کے منہ پر ہی دروازہ بند کر دیا اور دروازے کے ساتھ لگ کر شرماتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔

"بس ایک ہفتہ رہ گیا ہے ہیرو کی جان پھر تمہاری ساری بہادری نہ نکال دی نہ تو نام بدل دینا میرا۔۔"

دروازے کے پیچھے سے انس کی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔

"ٹھیک ہے چھچھورا نام رکھوانے کے لیے تیار رہیے گا۔"

ہانیہ کونسا اس سے کم تھی۔

"منہ کالا مقابلہ لیلا او لیلا۔۔۔"

انس نے گنگنایا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ ہانیہ بہت دیر اس دروازے کے پاس کھڑی شرماتے ہوئے اس کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️

اتنے دنوں سے سکندر کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے بعد بھی عرفان کو ناکامی کا سامنہ ہی ہوا تھا اور یہ بات اسے بہت زیادہ بے چین کر رہی تھی ۔اسے کسی بھی حال میں سکندر کو ڈھونڈنا تھا۔

اسی لیے اس نے ایک ہیکر کو سکندر کا پتہ ڈھونڈنے کا کہا تھا۔دو مرتبہ سکندر نے ٹی وی کا سسٹم ہیک کر چکا تھا تو ضرور اس نے کوئی ایسی غلطی کی ہو گی جس سے وہ پکڑا جائے۔

"کچھ پتہ چلا ۔۔۔۔؟"

عرفان نے آج اس کے پاس آکر بہت زیادہ امید سے پوچھا۔

"کچھ زیادہ تو نہیں لیکن اس جگہ کا پتہ معلوم ہوچکا ہے جہاں سے وہ سسٹم ہیک کیا گیا۔"

"واہ فوراً بتاؤ۔۔۔"

اس آدمی کے پتہ بتانے پر عرفان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ پتہ خادم کے گھر کا تھا۔کون تھا ایسا اس گھر میں جو سکندر ہو سکتا تھا۔

"معراج تو ہی ہے ناں سکندر میں جانتا ہوں کہ تو ہی ہے۔۔۔۔"

عرفان غصے سے چلایا اور چیزوں کو تہس نہس کرنے لگا۔جس شخص کو وہ معصوم سمجھتا رہا تھا وہ ان کے درمیان رہ کر ہی انکی جڑیں کاٹ رہ تھا۔ ایک خیال کے تحت اس نے اپنا موبائل نکالا اور اپنے خاص آدمی کو فون کیا۔

"جی باس ۔۔۔"

اسکا آدمی فون اٹھاتے ہی بولا۔

"کل ایمان اور اس معراج کو ہمارے گودام لے آؤ دیکھنا چاہوں گا کہ کیا معراج اتنا ہی شریف ہے جتنا بنتا ہے۔۔۔"

"اوکے باس۔۔۔"

اپنے آدمی کی بات پر عرفان نے فون بند کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔سکندر کا خوف اب سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

"اب پتہ لگ جائے گا معراج کہ تم کتنے پانی میں ہو۔۔۔۔"

عرفان نے خباثت سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار میں مارا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ معراج کا سچ سامنے لا کر ہی رہے گا کیونکہ آج بھی اسے یہی لگتا تھا کہ سکندر کوئی اور نہیں معراج ہی ہے۔

                      ❤️❤️❤️❤️

عماد مسکراتے ہوئے اپنی جان کو دیکھ رہا تھا جو سردی کی شدت سے بچتی اس کی پناہوں میں چھپی ہوئی تھی۔صرف اسکا معصوم سا چہرہ ہی کمبل سے باہر تھا جسے عماد محبت کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو عماد نے اسے اپنے جنون سے آزادی دے کر سونے کی اجازت دی تھی۔نیند میں وانیا اسے محسوس کرتے مسکرائی۔شائید وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔

"نہیں کریں نا عماد۔۔۔"

اس نے نیند میں کہا اور شرم سے چہرہ گلال ہو گیا۔عماد سمجھ گیا کہ وہ اسکے خوابوں میں بھی اپنی افغان جلیبی کی جان کا وبال بنا ہوا ہے۔ اپنی جان پر اسے ٹوٹ کر پیار آنے لگا تو اس نے جھک کر وانیا کے گال پر اپنے دانت گاڑھ دیے۔

"گندا بچہ صبح صبح بہکا رہی ہو ایک شریف انسان کو۔۔۔"

عماد نے اسکی آنکھوں پر پھونک مار کر کہا لیکن وانیہ ابھی بھی گہری نیند سوئی تھی۔اسکی نیند پر بے خود ہوتا عماد جھکا اور نازک گلابی ہونٹوں پر اپنے دانت گاڑھ دیئے۔

وانیہ اسکی ان وحشیوں والی حرکت پر گھبرا کر اٹھی اور اسے دور کرنے لگی لیکن عماد اسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا بے بس کر چکا تھا۔

"عماد۔۔۔پلیز نہیں۔۔۔۔"

وانیا نے گھبرا کر کہا تو عماد نے اسکی گردن سے اپنا چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔

"میرا کوئی قصور نہیں جان بھلا سوتے ہوئے کوئی اتنا پیارا دیکھتا ہے اب بھگتو۔۔۔"

اتنا کہہ کر عماد نے اسکے وجود پر موجود اپنی شرٹ کندھے سے سرکائی اور وانیہ یہ سوچ رہی تھی کہ کیا سونا بھی اب اسکا قصور تھا۔

"عماد میں رونے لگوں گی۔۔۔ابھی تو سوئی تھی میں۔۔"

وانیا کی بات پر عماد نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ سچ میں رونے والی ہوئی تھی۔

"ٹھیک ہے رو لینا لیکن بعد میں ابھی بس چپ چاپ جو رات بھر ہوا وہ پھر سے ہونے دو۔۔۔"

وانیا کی ہر مزاحمت وہ اپنی من مانیوں سے ختم کر چکا تھا۔اتنا تو رات بھر میں وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ اسکا شوہر اسکے لیے بہت زیادہ جنونی ہے اس معاملے میں وہ اپنی مرضی ہی چلائے گا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا وہ وانیا کا تھا اور وانیا اسکی۔۔۔اب وانیا کو اسکی محبت کو ہر حال میں برداشت کرنا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

"جنت کل تمہاری کزن کا نہیں کہا تھا نا کیسا رہا؟"

جنت جو اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ فری پیریڈ میں گروانڈ میں بیٹھی تھی اس عام سے سوال پر شرما دی۔

"بہت اچھا۔۔۔"

"ارے تم کیوں شرما رہی ہو اتنا؟"

ایک دوست کی بات پر جنت کا چہرہ مزید گلال ہو گیا۔رات نکاح کے بعد سالار اسے اپنے ساتھ آئس کریم کھلانے کے کر گیا تھا۔

"سالار آئس کریم پارلر خالی کیوں ہے؟"

جنت کے معصومیت سے پوچھنے پر سالار مسکرا دیا۔

"کیونکہ یہاں سالار ملک کی ملکیت نے آنا تھا جان اور اس کو کوئی دیکھے یہ مجھے گوارا نہیں اس لیے پورا پالر میں نے دو گھنٹوں کے لیے بک کر لیا۔"

اس بات پر جنت کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

"چلو یہ چھوڑو اور بتاؤ کون سی آئس کریم کھاؤ گی؟"

جنت نے فوراً مینیو کو دیکھتے ہوئے سٹرابیری فلیور منگوایا اور سالار کو صرف اسکی آئس کریم کا آرڈر دیتے دیک حیران ہوئی۔

"آپ نے نہیں کھانی کیا آئس کریم؟"

سالار نے انکار میں سر ہلایا۔

"مجھے وہ سٹرابیری فیلور فری میں مل جائے گا۔۔۔"

جنت نے فوراً اپنا منہ پھلایا تھا۔

"میں اپنی آئس کریم نہیں دوں گی سمجھے۔۔۔"

اچانک سے سالار اسکے قریب ہوا تو جنت فوراً گھبرائی۔

"تم بس آئس کریم کھاؤ میری جان میرا میٹھا میرے پاس ہر وقت ہوتا ہے۔۔۔"

سالار نے اسکے ہونٹوں کو سہلا کر کہا تو جنت شرما کر اپنا چہرہ جھکا گئی۔تبھی ویٹر آئس کریم کے کر آیا تو جنت خاموشی سے آئس کریم کھانے لگی لیکن سالار کی نظریں اسے بری طرح سے کنفیوز کر رہی تھیں۔

"پلیز گھوریں تو مت  یہ لیں آپ بھی کھا لیں آئس کریم۔۔۔"

جنت نے آئس کریم کا باؤل اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے سالار نے ہاتھ میں پکڑا اور اٹھ کر جنت کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا۔

"ایسے میٹھی نہیں لگے گی جان تمہیں میٹھا کرنا ہو گا۔۔۔"

اس سے پہلے کہ جنت اسکی بات سمجھتی سالار اپنی انگلی آئس کریم میں ڈپ کر کے اسکے ہونٹوں پر لگا چکا تھا۔

"سالار۔۔۔"

جنت نے گھبرا کر اسے پکارا کیونکہ اب سالار اسکے ہونٹوں پر جھکا اس آئس کریم کو اپنے ہونٹوں پر چن چکا تھا۔

"بہت زیادہ میٹھی ہے یہ جان اب اس سے پہلے کہ میں اپنی سٹرابیری پوری کھا جاؤں جلدی سے ختم کرو اسے اور گھر چھوڑ دوں تمہیں نہیں تو آج بہت بہکا رہی ہو مجھے۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت گھبرا کر اپنی سیٹ پر بیٹھی اور جلدی جلدی سے آئس کریم کھانے لگی۔

"جنت جنت کہاں کھو گئی ہو؟"

اسکی ایک دوست نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر کہا تو جنت خیالوں کی دنیا سے نکل کر شرما دی۔

"لگتا ہے اپنے سالار بھائی کے خیالوں میں کھو گئی تھی ہماری جنت اب کیا کریں میرا ایسا شوہر ہوتا نا تو میں تو ہر وقت اسکے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی۔۔۔"

ایک دوستیں کے کہنے پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیں۔

"یار تم لوگوں کو پتہ ہے کل رات کیا ہوا؟"

انکی ایک اور دوست انکے پاس آ کر بیٹھی اور پریشانی سے کہا۔

"کیا ہوا؟"

"کل رات گینگسٹر سکندر نے ایک اور آدمی کو مار دیا وہ بھی اس مرتبہ اس کو تیزاب پلا کر۔۔۔صبح لاش ملی پولیس والوں کو اس آدمی کی۔۔۔"

اس بات پر سب دوستوں کا منہ برا بنا تھا جبکہ جنت تو ڈر چکی تھی۔بھلا کوئی اتنا سفاک کیسے ہو سکتا تھا۔

" کون ہے یہ سکندر؟"

جنت کے سوال پر سچ نے اپنے ہاتھ ماتھے پر رکھے لیکن جنت وہ انسان تھی جسے نیوز اور اس میں دیکھائے جانے والے واقعات سے سخت نفرت تھی اسی لیے وہ نیوز بلکل بھی نہیں دیکھتی تھی۔

"گینگسٹر ہے ابھی تک بہت سے لوگوں کو مار چکا ہے اور دو مرتبہ تو اس نے ٹی وی سسٹم کو ہیک کر کے لائیو لوگوں کو مارا لیکن پھر بھی پولیس والے نہیں پکڑ پا رہے اسے۔۔۔"

"اگر اس نے ٹی وی پر مارا تو کیوں نہیں پکڑ پا رہے؟"

جنت نے حیرت سے پوچھا۔

"کیونکہ وہ اپنا چہرہ چھپا کر آتا ہے۔پورے کالے کپڑے پہنتا ہے اور اسکی بس سبز آنکھیں ظاہر ہوتی ہیں اسی لیے تو پولیس والے اسے گرین آئی مونسٹر کہتے ہیں۔"

پوری بات سن کر جنت کا سانس اسکے سینے میں اٹک چکا تھا۔اسے سالار کے کمرے میں دیکھے گئے وہ کالے کپڑے اور سبز لینز یاد آئے۔

"کوئی پکچر ہے اسکی سوشل میڈیا پر؟"

جنت نے گھبرا کر پوچھا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اسکا سالار ایسا نہیں ہے لیکن دماغ وسوسوں کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔

"ہاں ہے نا دیکھاتی ہوں میں۔۔۔"

ایک لڑکی نے اپنا موبائل نکال کر سرچ کرتے ہوئے کہا پھر سکندر کی پکچر جنت کے سامنے کی جو ہڈی اور کالے رومال میں چھپا ہوا تھا بس سبز آنکھیں ظاہر ہو رہی تھیں۔

ایک پل لگا تھا جنت کو اسے پہچاننے میں وہ اسکا سالار ہی تو تھا۔

"سچی بہت ہی ظالم بندہ ہے یہ کیسے اتنے لوگوں کو مار دیا ایک پل کے لئے رحم نہ آیا اسے۔۔۔"

ایک لڑکی نے افسوس سے کہا تو جنت جلدی سے وہاں سے اٹھی اور کالج سے باہر آ کر ایک ٹیکسی کے ذریعے سیدھا سالار کے گھر آئی تھی۔

"جنت میرا بچہ اس وقت یہاں سب ٹھیک تو ہے ناں؟"

حمنہ نے اسے دیکھ کر محبت سے پوچھا لیکن جنت اپنے آنسوؤں پر ضبط باندھ کر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے سیدھا سالار کے کمرے میں گئی اور وہ لاک کھولنے لگی۔سالار نے شائید ابھی پاسورڈ نہیں بدلا تھا اسی لیے وہ لاک آسانی سے کھل گیا۔

جنت نے بے چین ہاتھوں سے اس کالے لباس کو نکال کر دیکھا جو ہو بہو سکندر جیسا تھا۔اسکا مطلب اتنے لوگوں کو مارنے والا وہ سفاک قاتل اور کوئی نہیں جنت کا سالار ہی تھا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

معراج کالج گیا تھا اور ایمان بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی نہ جانے کیوں اسکا دل بہت زیادہ گھبرا رہا تھا۔بس وہ چاہتی تھی کہ معراج جلد سے جلد گھر واپس آ جائے۔

کافی دیر کے بعد معراج کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ وہ بے چین ہو کر معراج سے لپٹ گئی۔

"کک ۔۔۔۔کیا ہو گیا؟"

معراج نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

"ڈر لگ رہا ہے ملنگ بہت زیادہ ڈر۔۔۔"

ایمان کا خوف سے روم روم کانپ رہا تھا ۔معراج نے مسکرا کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

"ففف۔۔۔۔فکر مت کرو ممم۔۔۔۔میں ہوں نا۔۔۔"

معراج نے نرمی سے کہا لیکن تبھی انکے کمرے میں کافی سارے آدمی داخل ہوئے جنہوں نے آتے ہی معراج کو دبوچا اور ایک انجیکشن اسکی گردن میں لگا دیا۔

"معراج ۔۔۔"

ایمان نے گھبرا کر چیخ ماری لیکن وہ لوگ اسکی گردن میں انجیکشن لگا کر اسے بھی بے ہوش کر چکے تھے۔کافی دیر کے بعد معراج کی آنکھ کھلی تو پہلی نگاہ ایمان پر پڑی جو ابھی بھی بے ہوش تھی۔

"واہ آ گیا تمہیں ہوش اچھا ہے انتظار نہیں ہو رہا تھا مجھ سے۔۔۔"

عرفان نے مسکرا کر کہا اور آگے بڑھ کر معراج کو بالوں سے پکڑتے ہوئے کھڑا کیا۔

"ککک۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ہہہ۔۔۔۔ہمیں کیوں پکڑا ہے ہم ۔۔۔ "

معراج جو بول رہا تھا عرفان کے اسکے منہ پر زور دار گھونسا مارنے پر خاموش ہو گیا۔

"سکندر کون ہے؟"

عرفان کے سوال پر معراج حیران ہوا اور سہمتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

"نن ۔۔۔۔نہیں جانتا۔۔۔"

یہ سننا تھا کہ عرفان نے پھر سے تین چار زور دار گھونسے معراج کو مارے۔

"جھوٹ تو ہی ہے نا سکندر بول تو ہی ہے سکندر۔۔۔"

معراج متواتر انکار میں سر ہلا رہا تھا۔اسکا ان چار گھونسوں میں ہی برا حال ہو چکا تھا۔

"مم۔۔۔میں۔۔۔نہیں۔۔۔ننن۔۔۔نہیں جانتا کچھ۔۔۔"

معراج کے انکار پر عرفان نے اسے مزید مارا۔پھر خود ہی تھک کر معراج سے دور ہوا اور مسکرا کر ایمان کو دیکھا جو ابھی بھی فرش پر بے ہوش پڑی تھی۔

"تم سب باہر جاؤ یہاں سے۔۔۔"

عرفان کے حکم پر سب آدمی کمرے سے باہر چلے گئے تھے۔عرفان معراج کی جانب مڑا۔

"جانتا ہے میں ایک یتیم تھا بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ عارف خان نام ہے میرا لیکن اسے بدل کر میں عرفان بنا۔۔۔۔اتنے سال تک خادم کی غلامی کی۔۔۔جانتا ہے کیوں؟"

عرفان مسکراتے ہوئے معراج سے پوچھ رہا تھا جو زخموں سے چور بے ادب سا پڑا تھا۔

"صرف اپنی ایمان کے لیے کہ ایک دن یہ میری ہو گی۔۔۔۔اسکا وجود میرا کھلونا ہو گا جس کے ساتھ جو دل میں ائے کروں میں۔۔۔"

عرفان نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا اور جا کر ایمان کے پاس بیٹھ گیا۔

"جانتا ہے کیا کرتا میں ایمان کے ساتھ۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔کر کے ہی بتاتا ہوں۔۔۔۔"

عرفان نے ہاتھ بڑھا کر ایمان کا دوپٹہ اس سے کھینچ کر دور کیا اور شرٹ کندھے سے پھاڑ دی جس کی وجہ سے ایمان ہوش میں آ گئی اور ایک چیخ کے ساتھ عرفان سے دور ہوئی۔

"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔"

ایمان نے دور ہونا چاہا تو عرفان نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسکا منہ سختی سے دبوچ لیا۔

"نہیں جان آج نہیں چھوڑوں گا اج ہر حد پار کروں گا وہ بھی تیرے بے بس شوہر کے سامنے۔۔۔"

عرفان نے خباثت سے کہا اور ایمان کے قریب ہو کر اسکے ہونٹوں کر جھکنے لگا۔یہ منظر دیکھ کر معراج ایک چیخ کے ساتھ اٹھا اور عرفان کو اسکی گردن سے دبوچ کر ایمان سے دور کیا۔

عرفان نے پہلے حیران ہو کر معراج کی خطرناک سبز آنکھوں کو دیکھا جو غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ معراج اسے زندہ درگو کر دے گا۔

"تو ہی سکندر ہے ناں؟"

عرفان کے سوال پر معراج کے ہونٹوں پر بس ایک مسکراہٹ کا احاطہ ہوا۔عرفان نے دانت پیس کر ہاتھ میں پکڑا چاقو معراج کے پیٹ میں مارنا چاہا لیکن معراج اسکا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں جکڑ چکا تھا۔

معراج نے بہت مہارت سے عرفان کو گردن سے پکڑ کر زمین پر گرایا اور وہ چاقو اسکے ہاتھ میں گاڑھ دیا۔عرفان نے چیخنے کے لیے منہ کھولا لیکن معراج اسکا منہ بہت زور سے دبا کر اسکی چیخوں کا گلا گھونٹ چکا تھا۔

"تت۔۔۔تجھے کیا لگا تو سس ۔۔۔سکندر کو یہاں لایا۔۔۔نہیں ججج۔۔۔جان بوجھ کر اپنا آئی پی اے اااا۔۔۔۔اڈریس چھوڑا میں نے تت۔۔۔تا کہ تو مجھ تک پہنچ سکے۔ "

اتنا کہہ کر معراج نے ایمان کو دیکھا جو کونے میں کھڑی سہمی نگاہوں سے معراج کو دیکھ رہی تھی۔معراج نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسکا ایک ہاتھ پکڑا اور موڑ کر اسکا جوڑ توڑ دیا۔

"یہ اا۔۔۔ایمان کو چھونے ککک۔۔۔کی سزا۔۔۔۔" 

عرفان کو لگتا تھا کہ وہ معراج کو اپنے پلان کے تحت یہاں لایا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ معراج چاہتا تھا کہ عرفان اسے وہاں لائے کیونکہ اب خادم نے زوال کا اور عرفان کی موت کا وقت آ چکا تھا۔ایمان بس سہم کر اپنے معصوم سے ملنگ کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت خود ایک مونسٹر لگ رہا تھا۔

"اااا۔۔۔۔۔اور یہ اسے ازیت دددد۔۔۔دینے کی سزا۔۔۔۔"

معراج نے دوسرے ہاتھ دھنسا ہوا چاقو اسکے ہاتھ میں گھمایا تو عرفان درد سے بلبلا اٹھا لیکن اسکی چیخ معراج گلے میں ہی گھونٹ چکا تھا۔

"ممم۔۔۔مار تو میں نے تجھے اااا۔۔۔۔اسی دن دینا تھا ججج۔۔۔۔جس دن پہلی مرتبہ میں نے تجھے مممم۔۔۔۔میری ایمان پر ظلم کرتے دیکھا تھا لللل۔۔۔لیکن تب تیرے کمینے سردار کا وو۔۔۔وقت نہیں آیا تھا۔۔۔۔مبارک ہو اااا۔اب وہ بھی جلد ہی تیرے سسس۔۔۔ساتھ جہنم میں ہو گا۔"

معراج نے اتنا کہہ کر اسے جھٹکے سے چھوڑا اور ایمان کے قریب آ کر اسے اپنے ساتھ لگا کر پیچھے کی جانب موجود دروازے کی جانب چل دیا۔

"تتت۔۔۔جھے اور تیرے آدمیوں ککک۔۔۔۔کو سکندر کا الوداع۔۔۔"

عرفان کے چلانے پر اسکے گارڈز واپس آئے تھے۔

"پکڑو انہیں بھاگنے نہ پائیں وہ۔۔۔۔"

عرفان انہیں دیکھتا ہوا چلایا لیکن معراج جو دروازے ڈے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا اس نے جیب سے ایک ریموٹ نکال کر اس پر موجود بٹن کو دبایا تو عرفان سمیت اس کے سارے ساتھی ایک بم دھماکے سے اڑا گئے۔

ایمان نے چیخ مار کر معراج کو دیکھا۔

"ملنگ۔۔۔"

لیکن وہ اسکا ملنگ تو نہیں تھا وہ تو مونسٹر تھا گرین آئی مونسٹر۔۔۔

سالار گھر واپس آیا تو جنت کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوا جو بس خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

" میری بے بی گرل کب آئی کسی نے بتایا ہی نہیں مجھے۔۔۔"

سالار نے اسکی ٹھوڈی پکڑ کر کہا لیکن ایمان کے آنسو اور اسکے ہاتھ میں وہ کالے کپڑے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔

"کیا آپ سکندر ہیں سالار جس نے بہت سے لوگوں کو مارا ہے؟"

جنت کے سوال پر سالار خاموش ہو گیا اور ڈریسنگ کے سامنے آ کر اپنے کف لنکس کھولنے لگا۔

"ہاں میں ہی ہوں۔۔۔"

جنت جو یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسکی بات کو جھٹلائے گا یا صفائی دے گا اسکے اس طرح سے سچ کہنے پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کیوں سالار کیوں کر رہے ہیں آپ ایسا؟"

جنت کی بات پر سالار مڑ کر اسکے پاس آیا اور اسکے ہاتھ سے سکندر والے کپڑے لے کر لاک میں رکھے۔

"نہیں بتا سکتا جنت بس اتنا سمجھو کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہا۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت غصے سے آگے بڑھی۔

"لوگوں کی جان لینا آپ کو غلط نہیں لگتا؟کیسے بے حس انسان ہیں آپ؟"

جنت نے اسکا گریبان پکڑ کر پوچھا تو سالار نے بس نرمی سے اسکے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا دیے۔

"ایسے لوگ جو معصوموں کو جینے کے قابل نہیں چھوڑتے انکی زندگی ہی ان کے لیے جہنم بنا کر نا انصافی کی وجہ سے آزاد گھومتے ہیں اور مزید لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔۔۔ایسے لوگوں کو مارنا بے حسی ہے نا جنت تو یہ مجھے ہزار مرتبہ قبول ہے۔۔۔۔"

سالار نے اتنا کہہ کر اسے چھوڑا اور اطمینان سے واش روم کی جانب چل دیا۔

"مم۔۔۔میں نہیں کرنے دوں گی ایسا میں ابھی جا کر سب سچ سچ بتا دوں گی بابا کو۔۔۔"

جنت نے دھمکی دی تو سالار بس اطمینان سے مسکرایا۔جنت فوراً دروازے کی جانب گئی لیکن دروازہ لاک تھا اور اسکی ہزار کوشش کے باوجود نہیں کھل رہا تھا۔

"مجھے جانیں دیں یہاں سے سالار۔۔۔"

جنت نے روتے ہوئے کہا تو سالار اسکے پاس آیا اور اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔

"نہیں جان اب اس کمرے سے تب تک نہیں جا سکتی تم جب تک اپنے شوہر پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھ لیتی۔"

سالار نے اطمینان سے اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے کہا جبکہ جنت تو اب اسکی قربت سے بھی خوفزدہ ہو رہی تھی۔

"مجھے میرے بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔"

جنت نے یہ اتنی معصومیت سے کہا تھا کہ سالار کو اس پر ٹوٹ کے پیار آیا۔

"سمجھو کہ اب تم رخصت ہو کر آ چکی ہو جنت کیونکہ تمہیں آزادی دے کر نا غلطی کی ہے میں نے اب ز یہیں رہو گی تم میرے قریب۔۔۔۔"

سالار نے اسے سینے سے لگایا لیکن آج جنت کو ان پناہوں میں تحفظ کی بجائے خوف محسوس ہو رہا تھا۔

"پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔"

"آں ہاں بے بی گرل نکاح زندگی بھر کا ناطہ ہوتا ہے اب جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں بس تمہارا ہوں۔۔۔"

سالار پکوان اسکے گرد اپنی پکڑ مظبوط کی جبکہ جنت بس اسکی پناہوں میں بہت دیر روتی رہی تھی۔

                   ❤️❤️❤️❤️

معراج ایمان کو گھر لے جانے کی بجائے ایک سنسان جگہ پر لے آیا تھا۔اس نے ایمان کا ہاتھ چھوڑا تو ایمان سہم کر اس سے دور ہوئی تھی۔

"ت۔۔۔تم نے مار دیا۔۔۔ان سب کو مار دیا۔۔۔۔"

معراج نے بس ایک گہرا سانس لیا اور موبائل نکال کر کان سے لگایا۔

"سس۔۔۔سالار بھائی میں نے ااا۔۔۔اے کے کو مار دیا ۔۔۔ "

کچھ دیر تک سالار خاموش رہا۔

"تم کہاں ہو اس وقت؟"

"ااا۔۔۔اپنے سیکریٹ کواٹر۔۔۔"

معراج ابھی بھی ایمان کو دیکھ رہا تھا جو اسے پر خوف نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"عرفان کی موت اور تمہاری غیر حاضری سے خادم تم پر ہی شک کرے گا۔۔۔۔ہمیں کچھ سوچنا ہو گا۔۔۔وہیں رہنا آ رہا ہوں میں وہاں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر سالار نے فون بند کر دیا ۔ایمان کا خوف دیکھ کر معراج اسکے پاس آیا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیے۔

"ڈڈ۔۔۔ڈرو مت ایمان۔۔۔مم۔۔۔میں تو فرینڈ ہوں نا تمہارا۔۔۔"

"نہیں ۔۔۔نہیں تم مونسٹر ہو بلکل ان کی طرح۔۔۔"

ایمان اتنا کہہ کر زمین پر بیٹھی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ جو بچپن سے جانوروں میں رہی تھی اسے لگا تھا کہ اسکا معراج اس کے جیسا ہے معصوم تھا لیکن وہ کتنی غلط تھی۔

"صص۔۔۔صحیح کہا تم نے ہوں مم۔۔۔میں مونسٹر۔۔۔اا۔۔۔اور تب تک مونسٹر ہی رہوں گا۔۔۔جج۔۔۔جب تک کوئی ایمان ااا۔۔۔اپنی آنکھوں سے اپنے ببب۔۔۔باپ کو اپنی ماں کی جج۔۔۔جان لیتے دیکھے گی۔۔۔تت۔۔۔تب تک جب تک ااا۔۔۔اپنے ہی گھر میں ااا۔۔۔۔ایک شیطان اس کو کک۔۔۔کھلونا بنا کر رکھے گا۔۔۔۔ہوں میں مونسٹر ایمان۔۔۔۔ااا۔۔۔اور ایسے لوگوں کے لیے ہہ۔۔۔ہمیشہ سکندر مونسٹر رہے گا۔۔۔"

معراج نے اپنی سبز آنکھوں سے ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو آج چشمے کے پیچھے چھپی ہوئی نہیں تھیں۔

"تت۔۔۔تم نے اپنی آنکھوں سے۔۔۔اا۔۔۔اپنی ماں کو مرتے ددد۔۔۔دیکھا تھا۔۔۔ااا۔۔۔اور میں نے اپنی مم۔۔۔ماں اور باپ دونوں کو ۔۔۔جج۔۔۔جانتی ہو کس نے مارا تھا انہیں؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے بس اپنی پر خوف نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تت۔۔۔تمہارے بابا نے۔۔۔"

معراج نے وحشت سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔چودہ سال پہلے کا وہ واقع یاد کر کے معراج کا روم روم کرب میں مبتلا ہو جاتا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️ 

(چودہ سال پہلے)

عشال معراج کو الماری میں چھپا کر گئی تھی جہاں وہ کب سے ڈرا سہما بیٹھا تھا پھر اچانک اپنے باپ کے چلانے پر وہ الماری میں سے نکلا اور بالکونی میں آ کر پلر کے پیچھے چھپ گیا۔وہ اس نقاب پوش اور اپنے ماں باپ کو دیکھ سکتا تھا۔

اس درندے نے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے باپ کو مار دیا لیکن معراج کا جسم خوف سے جم گیا تھا۔اسکے حلق سے کوئی چیخ بھی نہیں نکلی تھی بس خاموشی سے نم سبز آنکھوں سے وہ منظر دیکھتا جا رہا تھا۔

پھر اس نے عشال کو گولی ماری تو معراج اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کو روکتا کمرے میں جا کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا۔

کتنی ہی دیر معراج بیڈ کے نیچے چھپا زارو قطار روتا رہا تھا پھر پولیس والے وہاں پر آئے اور اسے بیڈ کے نیچے سے نکالا۔

معراج نے نہ تو پولیس والوں کو اس واقعے کے بارے میں کچھ بتایا تھا نہ ہی شایان اور وجدان کو۔معراج نے تو اس سفاک شخص کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔

لیکن تین لفظ معراج کے معصوم ذہن پر نقش ہو چکے تھے ملک،سلطان اور سکندر۔معراج نے فیصلہ کیا کہ اسے ان سب میں سے سکندر بننا تھا وہ سکندر جو سلطان اور ملک کو انکے کیے کی سزا دے گا۔

اسی لیے معراج نے وجدان اور شایان سے سب سچ چھپایا کیونکہ وہ اس شخص کو خود مارنا چاہتا تھا۔اسکو اس حد تک بے بس کرنا چاہتا تھا جس حد تک اسکی ماں تھی۔

لیکن معراج کر بھی کیا سکتا تھا وہ تو کمزور تھا بہت زیادہ کمزور۔ایک ہکلانے والا کمزور سا لڑکا جو بڑا ہو کر بھی ویسا ہی رہتا۔

کیا کرتا وہ سکندر بن کر اسکے بولنے پر ہی اسکے دشمن ڈرنے کی بجائے ہنسنے لگتے۔اس دن پہلی مرتبہ معراج کو خود سے اور اپنی کمزوری سے نفرت ہوئی تھی بے تحاشہ نفرت۔

معراج مردہ آنکھوں سے اٹھا اور آئنے کے سامنے کھڑا ہوا۔

"مم۔۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔۔"

ہکلانے پر اس نے معراج کے چھوٹے سے ماتھے پر بل آئے اور اسنے دوبارہ کوشش کی تھی۔

"مم ۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔"

پھر سے ہکلانے پر معراج نے غصے سے ٹشو پیپر پکڑے اور یکے بعد دیگرے اپنے منہ میں ٹھوس کر خود کو سزا دی۔۔

ٹھھ۔۔۔ٹھیک سے بولو۔۔۔

اس نے ٹشوز کو منہ میں رکھ کر کہنا چاہا لیکن پر سے ہکلانے پر معراج نے روتے ہوئے وہ ٹشو اپنے منہ میں سے نکالے اور پھر سے بولنے کی کوشش کی۔

"سس۔۔۔سکندر۔۔۔"

اب کی بار غصے میں آ کر معراج نے اپنے گال پر پوری طاقت سے مکا مارا۔

"ٹٹ۔۔۔ٹھیک سے بولو ۔۔"

معراج مسلسل روتے ہوئے کہہ رہا تھا اور ہر بار ہکلانے پر اپنے منہ پر تھپڑ مارتا۔اس طرح وہ اپنا چہرہ لال کر چکا تھا لیکن اسکا ہکلانا بند نہیں ہوا تھا۔

اسی طرح وہ گھٹنوں میں چہرہ دے کر روتے ہوئے وجدان کو ملا تھا۔

"کیا ہوا معراج؟"

وجدان نے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر محبت سے پوچھا۔

"ددد۔۔۔دیکھیں نا ماموں۔۔۔مم۔۔۔میں کمزور ہوں بہت۔۔۔مم۔۔۔میں ہکلاتا کیوں ہوں۔۔۔ممم۔۔۔میں کمزور ہوں۔۔۔"

معراج اتنا کہہ کر پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔وجدان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

"تم کمزور نہیں ہو معراج جسمانی کمزوری کسی کو کمزور نہیں بناتی۔۔۔ہمیں کمزور ہمارا دل ہمارا جزبہ بناتا ہے۔۔۔"

وجدان کی بات پر معراج نے حیرت سے اپنے جیسی سبز آنکھوں میں دیکھا۔

"تمہاری ماں ایک بہت زیادہ بہادر اور طاقت ور عورت تھی معراج۔۔۔یہ دنیا تو یہ بھی کہتی ہے کہ عورت کمزور ہے لیکن عشال نے اس بات کو جھوٹ ثابت کیا۔۔۔"

اب وجدان نرمی سے اسکے بالوں میں اپنا ہاتھ چلا رہا تھا۔

"وہ طاقت ور مردوں سے بھی زیادہ طاقتور تھی جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ اس نے اپنی کمزوری کو اپنے جذبے کے آڑے نہیں آنے دیا بلکہ اسکی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا۔۔۔"

معراج بس خاموشی سے کھڑا اپنے ماموں کی باتیں سن رہا تھا اور انہیں ذہن نشین کر رہا تھا۔

"یاد رکھنا معراج طاقت ور وہ ہے جو اپنی کمزوری سے نفرت نہیں کرتا بلکہ فخر سے اس کمزوری کو اپنی طاقت بناتا ہے۔۔۔اب یہ تم پر ہے کہ تم کمزور ہو یا نہیں؟"

وجدان نے اسے سمجھا کر اسکا ماتھا چوما اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔معراج بہت دیر خاموشی سے کھڑا رہا پھر شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

"مم ۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔"

اس مرتبہ معراج کو اپنا ہکلانا گراں نہیں گزرا تھا بلکہ وہ ہکلانا اسے اپنی طاقت لگا تھا۔

گزرے وقت کے ساتھ معراج نے اسے اپنی طاقت بنایا۔اپنے دماغ کی طاقت کو کمپیوٹر کے راز سمجھنے پر لگایا۔

ہر کوئی اس بات سے بے خبر تھا کہ فیل ہونے والا اور ہکلانے والا وہ ڈرپوک سا لڑکا ٹاپ کلاس ہیکر سکندر تھا جس نے صرف سترہ سال کی عمر میں بیٹھے بیٹھے دو منی لانڈرنگ کرنے والے سیاستدانوں کے اکاؤنٹ ہیک کر انہیں اجاڑا تھا اور وہ پیسہ حق داروں تک پہنچایا تھا۔

اور اپنی وہ پہلی ہیکنگ ہی معراج نے اتنی آؤٹ کلاس کی تھی کہ کوشش کے باوجود کوئی اس ہیکر کو ٹریک نہیں کر پایا تھا۔

معراج اپنی کلاس میں جان بوجھ کر فیل ہوتا یا کم نمبر لاتا تا کہ لوگ اسے بوندھو سمجھیں اور اسکی اصلی طاقت سے بے خبر رہیں۔

معراج کا اصلی نشانہ دو لوگ تھے ملک اور سلطان۔۔۔ملک تو وہ جانتا تھا کہ کون ہے لیکن وہ کینیڈا رہتا تھا جہاں معراج کا پہنچ پانا مشکل تھا لیکن سلطان معراج کے لیے بس ایک نام اور ایک آواز سے زیادہ کچھ نہ تھا۔

دو سال تک معراج یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ سلطان کون ہے۔پھر ایک دن معراج کو پتہ چلا کہ اسکے پہلے دشمن عثمان ملک کا بیٹا پاکستان آیا تھا اور معراج نے اسے ہی اپنا پہلا شکار بنانے کا سوچا۔

بیٹے سے باپ تک پہنچنا آسان ہوتا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

سالار کو پاکستان آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا تھا اور ابھی بس وہ خاموشی سے ایک پارٹی کو جوائن کرنا چاہ رہا تھا۔سیاستدان بننا تو بس ایک دیکھاوا تھا وہ تو اس شخص تک پہنچنا چاہتا تھا جس نے اپنے گناہ کا الزام اپنے باپ پر لگا کر اسے برباد کیا تھا۔

اس دن سالار اپنے گھر کی جناب واپس جا رہا تھا جب اسکے موبائل پر ایک میسج آیا۔

"نیچے دیے گئے پتے پر آؤ۔۔۔"

وہ میسج پڑھ کر سالار کے ماتھے پر بل آئے تھے۔پھر ایک اور میسج پڑھ کر سالار تھوڑا پریشان ہوا۔ 

"تمہاری گاڑی میں بم ہے اگر شرافت سے جہاں کہا ہے وہاں نہ آئے تو ایک سیکنڈ لگے گا مجھے تجھے اڑانے میں۔۔۔"

سالار پہلے تو پریشانی سے ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہ وہی دشمن ہو جسکی وجہ سے وہ لوگ ملک بدر ہوئے تھے۔

اپنی بندوق کو سنبھالتا وہ اس جگہ پر آیا جو ایک سنسان سا گودام تھا۔سالار نے اپنا موبائل دیکھا جہاں ایک اور میسج تھا۔

"تمہاری پسٹل بے کار ہے شرافت سےا اسے فرش پر رکھ کر اپنے ہاتھ اوپر کرو۔۔۔"

سالار کے بات نہ ماننے پر ایک گولی اسکے کان کے پاس سے گزری تو سالار نے فوراً گن فرش پر رکھ کر ہاتھ اوپر کئے۔

"سامنے آ کر بات کرو مجھ سے تا کہ مجھے بھی پتہ چلے کون ہو تم یا اتنی ہمت نہیں تم میں؟"

سالار نے کھلا چیلنج کیا تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے اپنے سر کے پیچھے بندوق کی نوک محسوس ہوئی۔تبھی سالار تیزی سے مڑا اور اس شخص کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بندوق اسکے ہاتھ سے گرا دی۔

کالے کپڑوں والے اس شخص نے فوراً سالار پر حملہ کر کے ایک گھونسہ اسکے منہ پر مارا۔سالار نے بھی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو دبوچا اور وہ نقاب اسکے چہرے سے ہٹا دیا۔

"معراج۔۔۔"

سالار کے لہجے میں حیرت تھی اور معراج اسکی زبان سے اپنا نام سن کر حیران ہوا۔

"تم مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو؟"

سالار نے حیرت سے پوچھا لیکن معراج نے پھرتی سے اپنا آپ اس سے چھڑایا اور سالار کے گھٹنے پر شور سے پاؤں مار کر اسے فرش پر گرا دیا۔فورا ہی معراج نے اس کے پیچھے آ کر اس کی گردن کو دبوچا۔

"سس۔۔۔سکندر تجھے نہیں تیرے ااا ۔۔۔۔اس باپ کو مارنا چاہتا ہے جس سے وو۔۔۔وہ تیرے بدلے میں یہاں بلائے گا۔۔۔"

معراج کی بات پر سالار کے ماتھے پر بل آئے ضرور باقی سب کی طرح معراج بھی عثمان کو ہی قاتل سمجھتا تھا۔

"نہیں معراج تم غلط ہو میرے بابا نے نہیں مارا تمہارے ماں باپ کو۔۔۔"

سالار کی بات پر معراج نے اسکی گردن پر اپنی پکڑ مظبوط کی تھی۔

"جج۔۔۔جھوٹ مت بولو۔۔۔۔نن۔۔۔نہیں چھوڑوں گا ااا۔۔۔اسے اسکے گناہ کی سزا ضضض۔۔۔ضرور ملے گی۔۔۔"

سالار نے معراج کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے گرایا اور خود اپنا ہاتھ اسکی گردن پر رکھ کر اسے زمین سے لگایا۔

"میری بات سمجھو معراج نہیں مارا میرے بابا نے انہیں اگر وہ مارتے تو کیا اپنے خلاف ایک بھی ثبوت چھوڑتے وہ؟"

معراج ٹھٹک کر رکا اور  اسکی بات پر غور کرنے لگا۔

"جس نے انہیں مارا تھا معراج اس نے جھوٹ بولا اپنے گناہ کا الزام میرے بابا پر لگایا تا کہ خود بچا رہے لیکن اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا وہ جو کوئی بھی ہے میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکتا۔"

معراج نے سالار کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اپنی گردن پر سے ہٹایا اور اٹھ بیٹھا۔

"مم۔۔۔میں تمہارا یقین کیوں کروں؟"

"کیونکہ ہمارا دشمن ایک ہی ہے بھائی جس نے تمہارے ماں باپ کی جان لی اور میرے ماں باپ کی زندگی اجاڑ دی۔۔۔اب وقت ہے معراج کے آنکھیں کھولو اور اس دشمن کو پہچانو کیونکہ وہ یہی چاہتا تھا کہ سب کا دھیان اس سے ہٹ کر میرے بابا پر رہے۔۔ "

معراج سالار کی بات پر خاموش ہو گیا۔سالار کی بات میں حکمت اور سچائی وہ محسوس کر سکتا تھا۔یعنی یہ سب کیا دھرا صرف سلطان کا تھا۔

"سسس۔۔۔سلطان۔۔۔۔سلطان نے مارا تھا انہیں۔۔۔"

معراج کی بات پر سالار نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"اا۔۔۔اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اسے مم۔۔ میرے ماما بابا کی جان لیتے۔۔۔چہرہ نہیں دیکھا تھا ککک۔۔۔کیونکہ سب نے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔۔لل۔۔۔لیکن نام جانتا ہوں اسکا۔۔۔۔"

سالار اس بات پر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

"سلطان ضرور اسکا اصلی نام نہیں ہے معراج وہ ضرور کوئی اور ہے۔۔۔کیا تم کچھ اور نہیں جانتے کچھ بھی؟"

معراج نے یاد کرنے کی کوشش کی اتنے سال پہلے کی باتیں یاد کرنا کہاں آسان تھا۔

"وو۔۔۔وہ کہہ رہا تھا۔۔۔کک۔۔۔کہ مما نے اسکے دو ببب۔۔۔بھائیوں کو مارا تھا۔۔۔۔ااا۔۔۔اسی لیے وہ انہیں مارنا چاہتا تھا۔۔۔"

معراج اپنی بات پر خود ہی مسکرایا اور جلدی سے اس میز کے پاس گیا جہاں اسکا لیپ ٹاپ پڑا تھا۔چودہ سال پہلے کی ہسٹری چیک کر کے اسے ان دو بھائیوں کی لسٹ ملی تھی جن کا انکے گھر میں قتل ہوا ہو۔

"یہی دونوں تھے وہ جن کو تمہاری مما نے مارا۔۔۔۔دیکھو نیوز میں ہے کہ یہ دونوں ریپ کیس سے آزاد ہو گئے تھے اسکے بعد کسی نے انکے گھر جا کر انہیں  مار دیا۔"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔

"لل۔۔۔لیکن ان کی فیملی ڈیٹیل مم۔۔۔ میں کسی بھائی کا۔۔۔۔ذذذ۔۔۔ذکر نہیں۔۔۔"

سالار معراج کی بات پر خاموش ہو گیا۔

"اسکا مطلب ضرور اس نے اپنا تعلق ان دونوں کے ساتھ مٹا دیا تا کہ اسکا نام خراب نہ ہو۔۔۔یعنی اس سلطان کی پہنچ کافی زیادہ ہے۔۔۔ "

سالار نے اپنا خدشہ ظاہر کیا لیکن معراج کے چہرے پر بس ایک مسکان آئی۔

"ہہ۔۔۔ہر جگہ سے نہیں۔۔۔"

معراج نے فوراً نادرا کی ڈیٹیلز ڈھونڈنا چاہیں کیونکہ وہ شخص کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو نادرا کی ہسٹری نہیں بدل سکتا تھا۔

کچھ ہی دیر لگی تھی معراج کو نادرا کا سسٹم ہیک کر کے وہ ڈیٹیل نکالنے میں۔

"ککک۔۔۔کمال شفیق سب سے چھوٹا بھائی۔۔۔۔ااا۔۔۔مان شفیق اس سے بڑا ببب۔۔۔بھائی۔۔۔"

معراج ایک پل کو خاموش ہوا۔

"خخخ۔۔۔خادم شفیق سب سے بڑا بھائی۔۔۔"

خادم شفیق کے نام پر سالار بھی حیران ہوا کیونکہ خادم نہ صرف بہت بڑا سیاستدان تھا بلکہ ماضی میں عثمان کا بہت قریبی اور بھروسے مند ساتھی بھی تھا۔

"اس کا مطلب میرے بابا کو دھوکا دینے والا ان کا سب سے قریبی دوست تھا۔۔۔۔"

سالار نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

"زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔"

"ننن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"

معراج کے منع کرنے پر سالار نے اسے حیرت سے دیکھا۔

"ااا۔۔۔اسے مار کر ہمیں ککک۔۔۔کوئی فائیدہ نہیں ہو گا۔۔۔للل۔۔۔لوگوں کی نظر میں یہ شش۔۔۔شیطان بہت عظیم ہے۔۔۔۔ہہ۔۔۔ہمارے مارنے سے وہ۔۔۔۔ااا۔۔۔ایک ہیرو بنے گا اور سکندر شیطان۔۔۔۔۔ہہہ۔۔۔ہم سب کو اسکا اصلی چہرہ ددد۔۔۔دیکھائیں گے تاکہ لوگ ااا۔۔۔۔اس کا اچھائی کا لبادہ اترے۔۔۔۔"

معراج کی بات پر سالار نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

"اور میں اس میں تمہارا ساتھ دینا چاہوں گا معراج۔"

معراج نے انکار میں سر ہلایا اور لیپ ٹاپ کو بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"مم۔۔۔۔مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔۔۔"

سالار نے آگے بڑھ کر معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"جانتا ہوں میرے بھائی اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں تمہیں کمزور سمجھتا ہوں بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک سے بھلے دو لوگ ہوتے ہیں معراج تمہارا دماغ اور میری آواز مل کر اس سلطان کی بربادی بنے گی۔۔۔۔"

معراج نے سالار کی بات پر غور کیا۔اگر وہ خود سلطان تک پیغام پہنچاتا تو سلطان کو اس کے ہکلانے کی وجہ سے اس پر شک ہو جاتا لیکن کسی اور کا یہ کرنا معراج پر ہلکا سا بھی شک نہ جانے دیتا اور معراج ایک معصوم شکار بن کر اسکا بھروسہ جیت سکتا تھا۔

"سسس۔۔۔۔سکندر کی آنکھیں سبز ہیں۔۔۔"

معراج کی بات پر سالار مسکرا دیا۔

"کانٹیکٹ لینسز بھی کمال کی چیز ہیں نا ویسے۔۔۔لوگ خوبصورت بننے کے لیے استعمال کرتے ہیں میں سکندر بننے کے لیے کر لوں گا۔۔۔"

معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اس خادم کو تباہ کرنے کی شروعات وہ دونوں آپس میں مل کر ہی کر چکے تھے۔

                       ❤️❤️❤️❤️

سالار نے معراج نے مل کر سلطان کے ہر قریبی آدمی کا خاتمہ کیا تھا لیکن معراج کو اسکا بھروسہ جیتنا تھا۔اس لیے جب معراج کو یہ پتہ چلا کہ خادم اسکے کالج میں آ رہا ہے تو معراج نے یہ پلین بنایا۔

سالار نے ہی اپنے ایک آدمی سے خادم پر گولی چلوائی اور معراج نے اسے بچا کر اسکی توجہ حاصل کی۔پھر وہی ہوا جو معراج نے سوچا تھا خادم نے اسے بہت آسان شکار سجھا۔

ایمان سے پہلی ملاقات پر ہی اس کا یہ خوف معراج کو کھٹکا تھا اسی لئے معراج نے سب سے پہلے اس کے کمرے میں کیمرے چھپائے تھے اور اس رات ایمان پر وہ ظلم ہوتا دیکھ معراج کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا۔

بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ وہاں گیا اور عرفان کے سر پر شاپر ڈال کر اسے ویسے ہی مارا جیسے اس نے ایمان کو مارا تھا لیکن خادم کا سچ سامنے لانے میں عرفان کا کردار بہت اہم تھا اس لیے معراج اسے مار نہیں سکتا تھا۔

سالار کو جب معراج کی اس حرکت کی خبر ہوئی تو وہ بہت حیران ہوا کیونکہ معراج اپنے ہی پلین کے برعکس گیا تھا۔

"اگر کچھ گڑبڑ ہو جاتی معراج تو؟"

سالار نے اپنا خدشہ ظاہر کیا یوں عرفان کو جا کر مارنا اپنا پلین آگ میں جھونکنے کے برابر تھا۔

"کک ۔۔۔کچھ نہیں ہوتا بھائی ۔۔۔۔بب۔۔۔بھروسہ رکھیں مجھ پر ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں نے کچھ بولا نہیں تھا۔۔۔"

معراج نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔ابھی بھی اس کا دل کر رہا تھا کہ عرفان کے وہ ہاتھ توڑ دے جنہوں نے اس معصوم پر ظلم کیا تھا۔

"بھروسہ ہے تم پر معراج خود سے بھی زیادہ۔۔۔بس کچھ ثبوت معراج پھر اس خادم کا گھٹیا چہرہ دنیا کے سامنے ہو گا۔۔۔"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔

"وو۔۔۔ویسا ہی ہو گا جیسا ہم نن۔۔۔نے سوچا ہے بھائی۔۔۔۔بہت جلد شیطان اپنے انجام کو ہو گا۔۔۔۔"

معراج نے مسکرا کر کہا۔خادم کو لگتا تھا کہ سب اسکے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے،معراج اسکی مٹھی میں ہے اور وہ اسے اپنا کھلونا بنا کر استعمال کرے گا لیکن وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ خادم وہ کر رہا تھا جو معراج چاہتا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

(حال)

ایمان ابھی بھی سہمے ہوئے کونے میں بیٹھی تھی۔معراج تب سے بس خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

"مجھے لگا تم اچھے ہو۔۔۔مجھے لگا کہ تم میرے بابا جیسے شیطان نہیں۔۔۔لیکن تم بھی ویسے ہی نکلے۔۔۔۔"

ایمان نے روتے ہوئے کہا تو معراج کے ماتھے پر بل آ گئے۔

"خخخ۔۔۔خاموش رہ کر تمہیں کیا مل گگ۔۔۔گیا ایمان بس ظلم؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے اپنا سر جھکا لیا۔

"ااا۔۔۔۔اچھائی اور معصومیت بھی ایک حد تتتت۔۔۔۔تک ہونی چاہیے ایمان خاموش رر۔۔۔۔رہنے سے ظلم بڑھتا ہے۔۔۔تت۔۔۔تم جیتی جاگتی مثال ہو۔۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان شرمندگی سے سر جھکا گئی ہاں کیا صلہ ملا تھا اسے خاموشی سے ظلم سہنے کا مزید ظلم۔۔۔اچانک باہر سے آنے والی آوازوں پر معراج نے اندازہ لگایا کہ سالار وہاں آ چکا ہے اس لیے اس نے ایمان کو کمرے میں بند کیا اور خود باہر آ گیا۔

"معراج کیا ہوا؟"

سالار کے بے چینی سے پوچھنے پر معراج نے اسے پوری بات بتا ی تو سالار مسکرا دیا۔

"فینٹاسٹک۔۔۔ایک شیطان تو پہنچا اپنے انجام کو۔۔۔۔اب دوسرے کی باری۔۔۔"

سالار کی بات پر معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔

"اا۔۔۔۔ایمان کمزوری ہے اس کی۔۔۔۔وہ کچھ بھی کرے گا اس کے لیے۔۔۔۔"

"اور وہ اب ہماری پکڑ میں ہے۔۔۔یہ پیغام خادم تک پہنچانا ہو گا اور پھر خادم خود ہمارے پاس آئے گا۔۔۔۔"

معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔

"لیکن ابھی نہیں معراج زرا دو دن اسے بے چین ہونے دو تب تک تم دونوں یہیں رہنا پھر ہم خادم کو اپنے جالیں پھانس لیں گے۔"

"جج۔۔۔جی بھائی۔۔۔"

سالار نے معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"مجھے فخر ہے تم پر معراج ۔۔۔"

سالار نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔معراج نے کچھ سوچ کر سالار کا لایا کھانا لیا اور ایمان کے پاس کے آیا۔

"کک۔۔۔۔کھانا کھا لو ایمان۔۔۔"

معراج کی آواز پر بھی ایمان بس خاموش رہی تھی اور اسکی اس حالت پر معراج کو اسکی فکر ہونے لگی۔

"سات سال کی تھی میں جب انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری مما کو مار دیا ۔۔۔۔"

ایمان کی آنکھوں سے دو آنسو چھن سے ٹوٹ کر گرے۔

"تم جانتے ہو کہ کیسا لگتا ہے جب کوئی تمہاری کی آنکھوں کے سامنے تمہارے پیارے کو مارے لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ کیسا لگتا ہے جب وہ قاتل تمہارا اپنا باپ ہو۔۔۔۔۔"

ایمان کی آواز میں بہت کرب تھا۔

"میں نے ہمت کی تھی معراج ۔۔۔۔ایک بار دل کیا کہ انہیں مار دوں۔۔۔۔لیکن میں ڈر گئی تھی۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔"

ایمان لے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر معراج نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔

"تت۔۔۔تم بہادر ہو ایمان۔۔۔۔اا۔۔۔اتنا سب برداشت کر کے بھی زندہ ہونا ہہ۔۔۔ہی تمہاری بہادری ہے۔۔۔۔"

ایمان آگے بڑھی اور اسکے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔معراج نے بس اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"انہیں مت چھوڑنا ملنگ وہ برے ہیں بہت برے۔۔۔۔"

ایمان نے رو کر کہا تو معراج نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکے آنسو پونچھ دیے۔

"ببب۔۔۔س دو دن ایمان۔۔۔"

ایمان نے ہاں میں سر ہلایا پھر بس خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔اتنا تو وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ اسکا شوہر شیطان ہے تو بس ان کے لیے جو ظلم کرتے ہیں۔

عماد وانیا کو آج سکردو گھمانے لے کر گیا تھا اور وہ دونوں سارا دن ان خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے بعد ابھی لوٹے تھے۔

"عماد بھوک لگی ہے بہت۔۔۔"

وانیا نے لاڈ سے اسکے پاس آ کر کہا تو عماد مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

"تو بنا لو کچھ دونوں کھاتے ہیں۔۔۔۔"

عماد کی بات پر وانیا نے اسے منہ بنا کر دیکھا۔

"آپ کو پتہ بھی ہے کہ مجھے کچھ پکانا نہیں آتا۔۔۔آپ پھر سے آلو کے چاول بنائیں ناں سچی بہت مزے کے بناتے ہیں۔۔۔"

وانیا نے اسکے گال کھینچ کر کہا۔

"اف ماڑا اس دنیا کا سب سے نکما بیوی تھا میرے نصیب میں۔۔ "

عماد نے راگا کے انداز میں کہا تو وانیا کھلکھلا کر ہنس دی۔اسکی خوبصورت ہنسی کو دیکھ عماد اسکے پاس آیا اور کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا۔

"بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟"

وانیا اچانک ہی اسکی قربت پر گھبرائی۔

"کک۔۔۔کیا چاہیے آپ کو؟"

"کچھ میٹھا۔۔۔۔"

عماد نے اسکے ہونٹ انگوٹھے سے سہلا کر کہا جبکہ اسکی نظروں کی تپش وانیا کو بے چین کر رہی تھی۔

"اگر مجھے چاولوں کا مزہ آیا تو،نہیں تو کچھ نہیں ملے گا۔۔۔"

عماد اسکے کھلے چیلنج پر شان سے مسکرا کر کھانا بنانے لگا اور وانیا نے سوچ لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ کھانے کو برا ہی کہے گی لیکن یہ صرف اسکا خیال تھا کیونکہ جب عماد نے چاول تیار کر کے اسکے سامنے رکھے تو پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اسکی آنکھیں کھانے کی لذت کو محسوس کرتے بند ہو چکی تھیں۔

"کیسا ہے؟"

"اففف۔۔۔بہت اچھا آرمی میں کھانا پکانا بھی سکھاتے ہیں کیا؟"

وانیا نے جلدی جلدی چاول کھاتے ہوئے پوچھا۔

"ٹھیک ہے پھر جلدی سے کھا لو تا کہ میں اپنی جلیبی کھا سکوں۔۔۔۔"

عماد کی شرط یاد کرتے ہی وانیا کا سانس اٹکا اور اس نے بوکھلا کر عماد کو دیکھا۔

"ننن۔۔۔۔نہیں بالکل بھی اچھے نہیں یہ زرا مزا نہیں آیا۔۔۔"

وانیا نے منہ بنا کر چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تو عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"افف ماڑا میری افغان جلیبی کی معصومیت جان لے لے گی اس جن کی۔۔۔"

عماد نے وانیا کے قریب ہونا چاہا۔وانیا نے اسے گھور کر دیکھا۔

"کھانا کھانے دیں۔۔۔"

عماد ہنس دیا اور شرافت سے اسکے کھانا کھانے کا انتظار کرنے لگا۔

"آپ بھی کھا لیں کچھ یا بس کھڑے ہو کر مجھے گھورتے رہیں گے؟"

ہانیہ نے اس کی نظروں کی تپش سے جھنجھلا کر کہا۔

"بتایا تو تھا افغان جلیبی کہ مجھے بس تمہاری طلب ہے ایک بار خود کو کھانے دو گی تو اور کچھ نہیں چاہوں گا میں۔۔۔"

عماد کی بات پر وانیا خود میں سمٹ گئی۔

"بہت بے حیا ہیں آپ۔۔۔"

اس نے کھانے کی پلیٹ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا عماد نے آگے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھرا تھا۔

"بے حیائی تو ابھی شروع بھی نہیں کی ماڑا تم پہلے ہی گھبرا گیا۔کل تو جو تم نے دیکھا تھا وہ میری محبت تھی آج تمہیں پتہ چلے گا کہ میرا جنون کیا ہے۔"

عماد نے اتنا کہہ کر اسکے گال کو کاٹا۔

"عماد باہر چلتے ہیں ناں پلیز ابھی پھر سے سنو فال ہو رہا ہو گا۔۔۔"

وانیا نے نظریں جھکا کر فرمائش کی تو عماد نے اپنی گرم چادر پکڑی اور وانیا کے ساتھ انکی فیورٹ بالکونی میں آ گیا۔

عماد وہاں موجود کرسی پر بیٹھا اور وانیا کو خود پر بیٹھا کر وہ گرم چادر دونوں کے گرد لپیٹ دی۔

"عماد۔۔۔"

"ہممم ۔۔۔۔"

عماد کے سینے سے لگے وانیا نے اسے بہت محبت سے پکارا تو عماد بھی سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا۔

"اگر آپ آرمی میں نہیں ہوتے اور اصلی راگا آپ ہی ہوتے تو کیا آپ سچ میں مجھے کبھی یہاں سے جانے نہیں دیتے؟"

عماد کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔

"نہیں کبھی نہیں وانیا کیونکہ تم صرف میری محبت اور سکون ہی نہیں تم میرا جنون بھی ہو۔۔۔"

عماد نے ہونٹ اسکے بالوں پر رکھ کر کہا۔

"اور کیا اگر اصلی راگا میں ہی ہوتا تو بھی تم مجھے گولی مار دیتی؟"

وانیا نے شرارتی نگاہوں سے عماد کو دیکھا۔

"یہ تو میں نے گولی مار کر ثابت کر دیا تھا کیونکہ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ آپ نہیں ہیں۔۔۔"

"اف ظالم گولی کی کیا ضرورت ہے ماڑا پیار سے دیکھنا بس مجھے تیرا یہ راگا ان نظروں کے تیر سے ہی مر جائے گا۔۔۔"

عماد نے پھر سے راگا کی آواز میں کہا تو ایک خیال کے تحت وانیا نے شرارت سے اسے دیکھا۔

"عماد کیا آپ جس کی چاہیں آواز کاپی کر سکتے ہیں؟"

"بالکل۔۔۔"

عماد نے شان سے اپنا کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔

"چلیں پھر عاطف اسلم کی آواز میں گا کر سنائیں مجھے۔۔۔"

وانیا کی اس عجیب سی فرمائش پر عماد نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"یہ کیا بات ہوئی؟"

"یہی بات ہوئی چلیں اب سنائیں مجھے عاطف اسلم کی آواز میں گانا۔۔۔"

عماد نے عاطف اسلم کی آواز یاد کرنی چاہی لیکن پھر کچھ اور ہی یاد آنے پر مسکرا دیا۔

"مجھے اپنے سرہانے پہ تھوڑی سی جگہ دے دو

مجھے نیند نہ آنے کی کوئی تو وجہ دے دو۔۔۔"

عماد نے بہت پیاری سی آواز میں گنگنایا تھا۔

"یہ عاطف اسلم کی آواز تو نہیں اور نہ ہی اسکا گانا ہے یہ۔ "

وانیا نے منہ بنا کر کہا۔

"مجھے فرق نہیں پڑتا یہ اس کا گانا ہے یا نہیں لیکن اس وقت میرے جزبات یہی ہیں اور اس سے پہلے کے جزبات میں بہہ کر یہیں شروع ہو جاؤں اپنے لاڈ دیکھانا بند کرو مجھے اور کمرے میں چل کر میری منمانیاں سہو اب۔۔۔"

عماد نے یہ کہتے ہوئے اسکا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں لیا تھا۔

"بہت ہی بے شرم ہیں آپ۔۔ "

وانیا نے خود میں سمٹتے ہوئے کہا۔عماد اب اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر کمرے میں لے جانے لگا۔

"اور یہ بے شرمی بہت عزیز ہے مجھے۔۔۔"

عماد نے مسکرا کر کہتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ کوئی بہت دور کھڑا ان کی خوشیوں کو چبھتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"تجھے کیا لگا فوجی راگا بن کر ہمیں برباد کر دے گا اور خود عیاشی کرے گا۔۔۔ہوں تیری یہ خوشیاں بہت جلد ماتم میں بدل دوں گا وعدہ ہے یہ کمار شنکر کا۔۔۔"

کال نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا۔وہ ہمسایہ ملک کا جاسوس تھا جو راگا اور ویرہ کے ساتھ مل کر اس ملک کو برباد کرنے آیا تھا لیکن اب اسکا بس ایک ہی مقصد تھا۔عماد سے اسکی ساری خوشیاں،اسکی وانیا کو چھیننا۔

                        ❤️❤️❤️❤️

جنت کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ایک الگ ہی جگہ پر پایا۔یہ دیکھ کر وہ کافی حیران ہوئی کیونکہ وہ تو سالار کے کمرے میں تھی اور اس نے بس ایک گلاس پانی پیا تھا پھر وہ گہری نیند میں سو گئی۔

جنت نے حیرت سے اس کمرے کو دیکھا جس میں وہ موجود تھی پھر اسکی نظر کمرے میں داخل ہوتے سالار پر پڑی۔

"کہاں لے آئے ہیں آپ مجھے ؟"

سالار بس شان سے مسکرا کر اس کے پاس آیا۔

"باقی سب سے بہت دور جہاں صرف تم ہو اور میں تیسرے کی گنجائش نہیں ہمارے درمیان۔۔ "

اس کے پاس بیٹھ کر سالار نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے لیکن جنت فوراً اس سے دور ہوئی تھی۔

"نہیں رہنا مجھے آپ جیسے شخص کے پاس ۔۔۔بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے آپ پر بھروسہ کر کے آپ مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آئیں۔"

جنت نے روتے ہوئے کہا لیکن سالار نے بس اسکے آنسو پونچھے اور محبت سے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔

"یہ ناممکن ہے بے بی گرل اب تم یہ سمجھو کہ تمہاری رخصتی ہو چکی ہے بلکہ اب تو رخصتی کے بعد والا پروسیس سٹارٹ کرنا چاہیے ہمیں ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ جنت اسکی بات کا مطلب سمجھتی سالار اسکے ہونٹوں پر جھک کر اسے بیڈ پر لیٹا چکا تھا۔جنت نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر مزاحمت کرنا چاہی تو سالار نے اسکے ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے۔

پھر جنت کے آنسو اپنے چہرے پر محسوس کرتا وہ پیچھے ہٹا تھا۔

"کیا بات ہے جنت جس سے تم نے محبت کی آج اسکا ہونا ہی تمہیں گراں گزر رہا ہے۔"

سالار نے اسکا معصوم چہرہ نظروں کے حصار میں لے کر کہا۔وہ جو جنت کی تمام محبت اپنے لیے چاہتا تھا اسکی بے رخی کیسے برداشت کر رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔

"پہلے مجھے لگتا تھا کہ آپ اچھے ہیں اس لیے محبت کی میں نے آپ سے نہیں جانتی تھی کہ آپ ایسے نکلیں گے۔۔۔"

سالار جنت کی بات پر تلخی سے مسکرایا۔

"کردار دیکھ کر محبت کرنا بھی کوئی محبت ہوئی ؟یہ تو سودے بازی ہوئی ناں جاناں جو تم نے دل سے نہیں بلکہ اپنے دماغ سے کی۔۔۔محبت جب دل سے ہوتی ہیں ناں وہ شکل و صورت اور کردار کو نہیں دیکھتی۔۔۔"

سالار نے اتنا کہہ کر اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔جنت کی سنہری آنکھیں بے بسی سے بہہ نکلیں۔

"کچھ بھی ہو جائے میں ایک قاتل کو نہیں چاہ سکتی۔۔۔میرا دل ہی مجھے اسکی اجازت نہیں دیتا۔۔۔پلیز آپ مجھے چھوڑ دیں سالار۔۔۔۔"

اور کچھ تو نہیں لیکن یہ چھوڑنے والی بات پر سالار نے اسکی نازک گردن کو اپنے ہاتھ میں دبوچا۔

"مجھ سے رہائی صرف موت کی صورت میں ممکن ہے اس کے علاوہ کبھی مت سوچنا کہ چھوڑوں گا تمہیں اور یاد رکھنا جنت کہ ہر کوئی جان اپنے مفاد کے لیے نہیں لیتا بلکہ لوگ اس لیے بھی لیتے ہیں کہ اس دنیا سے کچھ شیطانوں کو کم کر سکیں۔۔۔"

سالار اس سے دور ہوا تو جنت بیٹھ کر خود میں ہی سمٹ گئی۔

"اگر برے لوگوں کو مارنے والا برا ہوتا ہے ناں تو ہر سپاہی ہر مجاہد برا ہے۔۔۔"

جنت بس خاموشی سے سالار کی بات سن رہی تھی۔

"جا رہا ہوں میں اور اب تب ہی تمہارے قریب آؤں گا جب میری بات کا مطلب سمجھ کر تم خود مجھے اپنے قریب بلاؤ گی۔۔۔"

سالار اتنا کہہ کر کمرے سے نکل گیا اور جنت خود میں ہی سمٹ کر روتی چلی جا رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسکی باتوں کا یقین کرے جس سے وہ خود سے بھی زیادہ چاہتی ہے یا دنیا کا جو اسے ایک مونسٹر پکارتی ہے۔

                      ❤️❤️❤️❤️

خادم عرفان کو لے کر بہت زیادہ پریشان تھا جو کل سے غائب تھا اور اس سے بھی زیادہ پریشانی اسے ایمان اور معراج کی تھی۔

"کچھ پتہ چلا کہاں ہیں وہ لوگ؟"

خادم صبح سے کوئی 40 مرتبہ اپنے سکیورٹی ہیڈ سے یہ سوال پوچھ چکا تھا۔

"نہیں سر ابھی تک ہمیں ان کی کوئی خبر نہیں ملی جیسے ہی ملے گی سب سے پہلے آپ کو بتائیں گے۔"

اپنے سیکیورٹی ہیڈ کی بات پر خادم نے ہاں میں سر ہلایا اور کرسی پر بیٹھ کر انگلیاں چٹخانے لگا۔

کہیں عرفان نے ہی تو ایمان اور معراج کو کڈنیپ کروا لیا تاکہ ایمان کی دولت پر خود قابض ہو سکے۔۔۔

یہ سوچ دماغ میں آتے ہی خادم نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر یہ سازش عرفان کی ہوئی تو وہ خود اسے  زندہ نہیں چھوڑے گا۔

"سر یہ پارسل کوئی آپ کے لیے چھوڑ کر گیا ہے۔۔۔"

اپنے ایک ملازم کی آواز پر خادم خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور اس کے ہاتھ سے وہ پارسل پکڑا۔اس پارسل میں بس ایک پین ڈرائیو تھی۔خادم نے اسے لیپ ٹاپ کے ساتھ کنیکٹ کیا تو ایک وڈیو میں اسے ایمان اور معراج بے ہوش نظر آئے۔

"کیا ہو گیا خادم اپنی بیٹی اور داماد کو ڈھونڈ کر ہلکان ہو رہے ہو ناں۔۔۔فکر مت کرو دونوں میرے پاس با حفاظت ہیں لیکن کب تک رہیں گے یہ میں بھی نہیں بتا سکتا۔۔۔۔"

خادم اپنی مٹھیاں بھینچے اس سبز آنکھوں والے سکندر کو دیکھ رہا تھا جو شان سے کرسی پر بیٹھا اپنی بات کہہ رہا تھا۔

"اگر چاہتے ہو کہ دونوں تمہیں زندہ ملیں تو کل صبح اپنے چاولوں کے گودام میں آ جانا۔۔۔آمنے سامنے بات کریں گے۔۔۔"

سکندر نے کرسی سے اٹھ کر کیمرے کے پاس آتے ہوئے کہا۔

"اور اگر ہوشیاری کی تو تمہاری بیٹی کو اٹھارہ کے ہونے سے پہلے ہی مار دوں گا اور یہ بات ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا اٹھارہ کا ہونا تمہارے لیے کتنا قیمتی ہے۔۔۔"

خادم سکندر کی آنکھوں میں چھپی مسکراہٹ محسوس کر سکتا تھا۔ویڈیو ختم ہونے کے بعد خادم نے غصے سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور فرش پر پٹخ کر توڑ دیا۔

"نہیں چھوڑوں گا تمہیں سکندر۔۔۔۔۔مجھے پھنسانے کا سوچ رہے ہو نا تم دیکھنا کل کا دن تمہارا زمین پر آخری دن نہ بنا دیا تو میں بھی سلطان نہیں۔۔۔"

خادم نے وحشت سے کہا اور موبائل نکال کر اپنے خاص ادمی جو کال کی۔

"میری چاولوں کی مل میں ریموٹ کنٹرول بم لگا دو اور اس کا ریموٹ مجھے چاہیے۔۔۔"

"جی سر۔۔۔"

اس کے آدمی نے حامی بھری تو خادم نے موبائل بند کیا اور شان سے مسکرا دیا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ کل وہ اس  سکندر کا کام تمام کر دے گا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

صبح انس اپنے آفس داخل ہوا تو سامنے اپنی کرسی پر ہانیہ کو بیٹھا دیکھ حیران ہوا جو شان سے اسکی ٹوپی اپنے سر پر پہنے پاؤں ٹیبل پر رکھے ببل چبا رہی تھی۔

"تم یہاں کب اور کیسے آئی؟"

انس نے حیرت سے پوچھا۔

"میں حنہ آپی کے ساتھ آئی تھی شادی کی شاپنگ کرنے لیکن سوچا کہ میرے ہزبینڈ کو تو میرے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو کیوں نا خود ہی اپنی موجودگی کا احساس دلا دوں۔۔۔۔"

ہانیہ نے مسکرا کر کہا تو انس اسکے پاس آیا اور اپنے دونوں کرسی کے بازوؤں پر رکھ کر ہانیہ کو اپنے گھیرے میں لیا۔

"اور تمہیں ایسا کیوں لگا کہ تمہارا یہ شوہر تم سے غافل بھی ہو سکتا ہے؟"

انس نے محبت سے اسکی ناک کھینچی تھی۔

"دو دن ہوئے ہیں ہمارے نکاح کو اور آپ نے کال تک کرنا گوارہ نہیں کیا اب مجھے تو یہی لگے گا ناں کہ آپ نئی نویلی بیوی سے ہی اکتا گئے ہیں۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے کالے یونیفارم کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے کہا اور انس کو افسوس ہوا کیونکہ سکندر کو پکڑنے کے جنون میں حد سے زیادہ ہی مصروف ہوگیا تھا۔

"کتنا اکتایا ہوں تم سے ابھی بتاتا ہوں۔۔۔"

انس ہانیہ کے ہونٹوں کے قریب ہو گیا تو ہانیہ نے گھبرا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔

"سر ۔۔۔"

اپنے کانسٹیبل کی آواز پر انس ہانیہ سے دور ہوا اور دروازے میں کھڑے کانسٹیبل کو دیکھا جو ان دونوں کو ہڑبڑا کر دیکھ رہا تھا۔

"ہانیہ تم باہر ویٹ کرو میں دس منٹ میں فارغ ہو کر آتا ہوں۔۔۔"

ہانیہ جو مارے شرم کے سرخ ہوتی جا رہی تھی گدھے کے سروں سے سینگ کی طرح وہاں سے غائب ہو گئی۔

"ہاں بولو ہادی۔۔۔"

انس نے کرسی پر بیٹھ کر کانسٹیبل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"سر آپ کے کہنے پر میں نے خادم شفیق پر نظر رکھی تھی۔"

انس نے ہاں میں سر ہلایا کیونکہ اس نے اسے اتنے بڑے سیاستدان کی جاسوسی پر لگایا تھا۔انس کو یہ معلوم ہوا کہ جتنے لوگوں کو بھی سکندر نے مارا تھا ان کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر خادم سے ضرور تھا۔اس لیے ضرور خادم ہی سکندر کا اگلا نشانہ تھا۔

"سر ایک آدمی نے انکی بیٹی کو کڈنیپ کر کے انہیں انکی مل میں بلایا ہے اور وہ آدمی کوئی اور نہیں سکندر ہے۔۔۔"

کانسٹیبل کی بات پر انس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"اگر خادم شفیق کی بیٹی کو کڈنیپ کیا گیا ہے تو وہ پولیس کے پاس کیوں نہیں آئے؟"

انس کے سوال پر کانسٹیبل بھی سوچ میں ڈوب گیا۔

"ہو سکتا ہے سر وہ ڈر گئے ہوں سکندر سے یا اسکا معاملہ خود طے کرنا چاہ رہے ہوں۔۔۔۔"

انس نے ہاں میں سر ہلایا۔

"سر میرے خیال سے ہمیں خادم سر کو وہاں جانے سے روکنا چاہیے اور انہیں پروٹیکشن دینی چاہیے۔۔۔۔"

انس نے کچھ دیر اس بات پر غور کیا پھر انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں ہادی ہم سکندر کی یہ چال الٹا اس پر ہی ڈال دیں گے۔۔۔کل ہم لوگ وہاں چھپ کر انکا انتظار کریں گے اور سکندر کے وہاں آنے پر اسے اریسٹ کر لیں گے۔۔۔۔"

کانسٹیبل نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

"تم میری ٹیم کو تیار رہنے کا کہو ۔۔۔"

انس نے اٹھ کر گاڑی کی چابیاں پکڑتے ہوئے کہا۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں سر؟"

"ہاں یار تمہاری بھابھی کو شادی کی شاپنگ کروانی ہے تم جانتے نہیں اسے اگر آج شاپنگ پر نہ لے کر گیا اسے تو خود سکندر بن کر جان لے لے گی میری۔۔۔۔"

انس کے شرارت سے کہنے پر کانسٹیبل ہنس دیا۔انس بھی مسکراتے ہوئے ہانیہ کے پاس چلا گیا جو باہر اسکا انتظار کر رہی تھی۔انس مطمیئن تھا کیونکہ کچھ بھی ہو جاتا کل سکندر کو اسکی گرفت میں ہونا تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

"عماد۔۔۔۔"

عماد کی آنکھ وانیا کے رونے کی آواز پر کھلی تو اس نے جلدی سے اٹھ کر حیرت سے وانیا کو دیکھا جو ایک آدمی کی گرفت میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی جبکہ چھ سے سات آدمی عماد پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔

"کیسے ہو عماد بنگش یا میں یہ کہوں نقلی راگا۔۔۔"

کال کی آواز پر عماد نے دروازے کے پاس کھڑے کال کو دیکھا جو شان سے مسکرا رہا تھا۔

"کال ۔۔۔۔"

عماد نے گھبرا کر وانیا کو دیکھا جو کال کے آدمی کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے مچل رہی تھی۔عماد نے فوراً بیڈ سے اترنا چاہا۔

"آں ہاں۔۔۔ایسی غلطی مت کرنا فوجی ورنہ تمہاری پیاری سی بیوی کی لاش ہو گی زمین پر سور تم بس دیکھتے رہ جاؤ گے۔۔۔جہاں ہو ناں وہیں رہو۔۔۔"

کال کی دھمکی پر عماد واپس خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"یاد ہے نقلی راگا تو نے ہاتھ کاٹ دیا تھا میرا کیونکہ میں نے اسے چھوا تھا۔۔۔"

کال نے اپنا کٹا ہوا ہاتھ عماد کے سامنے کیا۔

"اب اسے میں چھونے کے قابل تو نہیں رہا لیکن فکر نہ کر میرے یہ آدمی کس دن کام آئیں گے۔۔۔"

کال اتنا کہہ کر ہنسنے لگا اور دروازے سے ہٹ کر وانیا کے قریب آیا جو بس خوف سے کانپتے ہوئے روتی جا رہی تھی۔

"جس وجود پر تجھے میرا لمس گوارا نہیں ہوا تھا نقلی راگا آج اس وجود کو میرے آدمی ادھیڑ کر رکھ دیں گے اور تو بس بے بسی سے وہاں بیٹھا دیکھتا رہ جائے گا ۔۔۔"

کال کے کھلے چیلنج پر وانیا کا سانس اسکے حلق میں اٹک چکا تھا۔وانیا کو پکڑے آدمی نے اپنا ہاتھ اسکے دوپٹے کی جانب کیا تو عماد نے بیڈ سے اٹھنا چاہا لیکن بہت سی بندوقوں کا رخ عماد کی جانب ہوا۔

"ہاہاہاہا اب آئے گا ناں مزہ۔۔۔۔شروع ہو جاؤ۔۔۔"

کال نے اپنے آدمی سے کہا تو وہ اس نے وانیا کا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں پکڑا۔وانیا بس ایک چیخ کے ساتھ اپنی آنکھیں میچ گئی تھی اور عماد بے بسی سے بیڈ پر بیٹھا اپنی مٹھیاں بھینچتا رہ گیا۔

ابھی اس آدمی کا ہاتھ ہانیہ کے دوپٹے تک گیا ہی تھا جب اچانک دروازہ بہت زور سے کھلا،بہت تیزی سے فوجی اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود ہر دہشت گرد کو اپنے نشانے پر لے لیا۔

کال نے حیرت سے اردگرد دیکھتے ہوئے عماد کو دیکھا جو شان سے بستر پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔

"وانیا میرے پاس آؤ۔۔۔"

وانیا نے گھبرا کر اردگرد موجود دہشت گردوں کو دیکھا جن سے اب فوجی بندوقیں لے چکے تھے۔

"ڈرو مت وانیا یہاں آؤ۔۔۔"

عماد کے پکارنے پر وانیا جلدی سے اسکے پاس چلی گئی اور اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"تو کیا کہہ رہا تھا تو؟ کہ ان سب سے کیا کروائے گا؟"

عماد نے وانیا کی کمر سہلا کر اسے دلاسہ دیتے ہوئے کال سے پوچھا جو گھبرا کر یہاں وہاں دیکھتے ہوئے راہ فرار تلاش کر رہا تھا۔

"لگتا ہے اپنا ہاتھ کٹوا کر بھی تجھے سکون نہیں آیا اور یہ دوسرہ ہاتھ کس سے تڑوا لیا ماڑا اب کس کی غیرت پر ہاتھ ڈالا تھا۔۔؟"

عماد نے کال کے ہاتھ کو دیکھ کر طنز کیا جو انس نے ہانیہ کو چھونے کی وجہ سے توڑا تھا۔

"اب بس ٹانگیں رہ گئیں ہیں جو تجھے یہاں چلا کر لائیں بتا دیں مجھے وہ بھی پیاری ہیں تجھے یا نہیں۔۔۔۔؟"

عماد کی بات پر کال کا سانس اس کے سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔

"تجھے کیا لگا کہ میں بھول جاؤں گا کہ راگا اور ویرہ کے ساتھ ایک شیطان اور بھی تھا۔۔۔۔او ماڑا یہ فوجی۔۔۔۔۔ نہیں تیرا نقلی راگا ناں تیرے اصلی والے راگا سے زیادہ سر پھرا ہے کوئی بھی کام بنا مقصد کے نہیں کرتا۔۔۔"

عماد نے شان سے مسکرا کر کہا۔

"اب دیکھ نا یہاں آ کر میں نے اپنا آپ چارہ بنایا اور تو اندھی بکری کی طرح میں میں کرتا شیر کو ہی گھاس سمجھ بیٹھا۔۔۔"

عماد نے مسکرا کر کہا اور وہاں کھڑے فوجیوں کو دیکھا۔

"لے جاؤ انہیں یہاں سے سولجرز ہمارا آخری شکار بھی ہاتھ آ گیا مشن از اکمپلیشڈ۔۔۔"

عماد کی بات پر سب فوجیوں نے ان دہشتگردوں کو گرفتار کر لیا لیکن کال نے جلدی سے ایک فوجی کو دھکا دے کر اسکی پسٹل پکڑی اور اپنے ٹوٹے ہاتھ کو بازو کا سہارا دے کر عماد پر گولی چلانا چاہی لیکن اس سے پہلے ہی عماد اپنی پسٹل تھام کر اسکی ٹانگ میں گولی مار چکا تھا۔

"لے جاؤ اسے ورنہ پورا معزور ہو کر ہی چین آئے گا اسے۔۔۔"

عماد نے زمین پر گرے کال کی کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو سب فوجی ان دہشتگردوں کو وہاں سے لے گئے۔عماد نے مسکرا کر وانیا کو دیکھا جو اسکے سینے میں چہرہ چھپائے ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔

"چلا گیا وہ افغان جلیبی ہمیشہ کے لیے اب کبھی نہیں ستا پائے گا تمہیں۔۔۔"

عماد نے اسکے کان پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہا۔

"عماد یہ سب آپ کا پلین تھا اسے پکڑنے کے لیے؟"

وانیا نے معصومیت سے پوچھا۔

"جان مجھے سمجھنے کی کوشش مت کرنا آج تک خود کو خود بھی سمجھ نہیں پایا میں۔۔۔ اور رہی تمہاری بات تو یاد رکھنا جان سے زیادہ عزیز ہو تم مجھے تمہارے لیے مر بھی سکتا ہوں وانیا۔۔۔۔تمہیں میں کبھی بھی خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔۔۔"

عماد نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر بہت محبت سے اسکا ماتھا چوما۔

"جب سے ہم یہاں ہیں تب سے آرمی چھپ چھپا کر ہماری پروٹیکشن کے لیے ہمارے ساتھ تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ کال ابھی بھی آزاد ہے اور مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا تو سوچا کیوں نا یہاں آ کر اس کے لئے آسانی پیدا کر دوں۔۔۔"

عماد کی بات پر وانیا نے اپنا منہ بسور کر آنسو صاف کیے۔

"آپ سچ میں بہت سر پھرے ہیں۔۔۔"

عماد اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"رات تک تو بے شرم تھا۔۔۔"

عماد نے اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دبا کر کہا تو وانیا خود میں ہی سمٹ گئی۔

"عماد۔۔۔"

"جی عماد کی افغان جلیبی۔۔۔"

عماد بے خود سا ہوتا اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا چکا تھا۔

"گھر واپس چلیں یہاں ڈر لگ رہا ہے اب مجھے۔۔۔"

عماد نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

"ٹھیک ہے میری جان جیسے تمہاری مرضی کیونکہ میرا کام اب ہو گیا ہے۔"

عماد نے اسکی ناک کو چوم کر کہا اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا جبکہ وانیا وہاں پر بیٹھی اپنے شوہر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کچھ دیر بعد کو اتنا سمجھ چکی تھی کہ اس شخص کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔۔۔

                     ❤️❤️❤️❤️

سالار گھر واپس آتے ہی سب سے پہلے جنت کے پاس گیا لیکن جنت ابھی بھی بس خاموشی سے اپنے گھٹنے پر سر رکھیں بیٹھی تھی۔سالار نے اس کے قریب جا کر اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"جنت میری جان ابھی بھی ناراض ہو مجھ سے۔۔۔؟"

سالار کے سوال پر جنت نے نگاہیں اٹھا کر اس کو دیکھا پھر آہستہ سے انکار میں سر ہلا دیا۔

"نہیں سالار میں آپ سے ناراض نہیں۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔۔۔وعدہ کرتی ہوں پھر آپ جو چاہیں گے ویسا ہی کروں گی ۔۔۔۔"

جنت کی بات پر سالار مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیٹھا۔

"تم جانتی ہو بیبی گرل کہ تمہیں بس نام لینا ہے اور میں یہ دنیا بھی تمہارے قدموں میں ڈال دوں۔۔۔۔"

سالار نے محبت سے اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے ہوئے کہا۔جنت نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا۔

"تو پھر میرے سر کی قسم کھا کر وعدہ کریں کیا اب کسی کی بھی جان نہیں لیں گے اور یہ سکندر بننا چھوڑ دیں گے۔۔۔۔اب بس میرے سالار بن کر رہیں گے۔۔۔۔"

جنت کی بات پر سالار کے چہرے کی مسکان غائب ہوچکی تھی اور اس نے خاموشی سے اپنا ہاتھ جنت کے سر سے ہٹا دیا۔

"میں ایسا نہیں کر سکتا جنت کچھ گنہگار ابھی باقی ہیں جنہیں انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے پر انہیں ان کے کئے کی سزا دیے بغیر میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔"

سلار کی آواز پر جنت کو بہت زیادہ غصہ آیا اور وہ روتے ہوئے اٹھ کر اس سے دور ہو گئی۔

"آپ سزا دینے والے کون ہوتے ہیں؟سزا دینا آپ کا نہیں حکومت کا کام ہے آپ کیسے قانون کی خلاف ورزی کر کے خود کو ایک ہیرو سمجھ سکتے ہیں۔۔۔؟"

جنت روتے ہوئے چلائی اور سالار بس خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔

"کون سا قانون جنت؟وہ قانون جو بچوں کے سامنے انکی ماں سے زیادتی کرنے والے کو نہیں پکڑ سکا یا وہ قانون جو گناہ گار کو پکڑتا ہے تو چند سکوں میں بک کر اسے مزید گناہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔۔۔۔یا وہ قانون جنت جو کبھی انصاف کرتا ہے تو میڈیا کے پریشر پر ورنہ انصاف پر چلنے والوں کو ہی مروا دیا جاتا ہے۔۔۔۔"

سالار ابھی بات کہہ کر بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"یہ بہت ضروری ہے جنت کہ جو گناہ گار قانون سے نہیں ڈرتا اسے کسی سکندر کا ڈر ہو، کیونکہ یہ خوف ہی ہے جو اسے مزید گناہ کرنے سے روکے گا۔۔۔۔اور میں یہ خوف فخر سے بننا چاہوں گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر سالار نے الماری سے اپنے وہ کالے کپڑے نکالے اور وہاں سے باہر جانے لگا لیکن جاتے جاتے جنت کو مڑ کر دیکھا۔

"تم آزاد ہو چاہو تو اپنے بابا کے گھر واپس جا سکتی ہو۔۔۔۔میرے واپس آنے پر اگر تم مجھے یہاں ملی تو میں سمجھ جاؤں گا کہ تم نے مجھ پر بھروسہ کیا اور اگر تم یہاں نہ ہوئی ۔۔۔"

اس سے آگے سالار نے کچھ نہیں کہا بس اپنی ادھوری بات سے جنت کو اضطراب آپ میں ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد جنت فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ صحیح کیا تھا اور غلط کیا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

خادم سکندر کے بتائے ہوئے وقت پر اپنے گودام میں آیا تھا لیکن وہاں کسی کو نہ پا کر حیران ہوا۔

"بہت ہوگیا لکا چھپی کا کھیل سکندر آ بھی جاؤ اب سامنے یا اتنی ہمت نہیں تم میں۔۔"

خادم کی آواز سنسان جگہ پر گونجی۔پہلے تو اسکو کوئی جواب نہیں ملا اور اردگرد خاموشی چھائی رہی پھر کسی نے پیچھے سے خادم کو پکڑ کر دبوچا اور ایک کرسی پر بیٹھا کر اسکے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔

اسکے ہاتھ باندھ کر کالے کپڑوں میں ملبوس وہ سکندر خادم کے سامنے آیا۔خادم نے بغیر کسی خوف کے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"اب تو آمنے سامنے آگئے ہیں سکندر پھر اب بھی کیسا پردہ؟چہرہ دکھا بھی دو۔۔۔"

خادم نے طنزیہ انداز میں کہا لیکن سکندر بس سامنے موجود میز کی جانب گیا اور اس پر پڑا لیپ ٹاپ چلانے لگا۔

"ویسے پچھلی سکندری تو بہت بہادر تھی اور چالاک بھی بہت بنتی تھی لیکن کیا انجام نکلا اس کا۔۔۔تمہیں اپنے انجام سے ڈر نہیں لگتا کیا؟"

خادم نے ایک اور طنز کیا لیکن سکندر اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا ۔

"ناطہ کیا ہے تمہارا اس سکندری سے کہیں اس کے بھائی تو نہیں تم؟"

خادم نے ابرو اچکا کر پوچھا لیکن تبھی سکندر لیپ ٹاپ کے سامنے سے ہٹا اور خادم کی نظر لیپ ٹاپ پر چلتی وڈیو پر پڑی۔جس میں وہ اور عرفان موجود تھے۔

"مجھے اپنے نام جیسا خادم نہیں بننا تھا مجھے سلطان بننا تھا۔۔۔۔سلطان۔۔"

خادم اس وڈیو میں ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اور عرفان کو اپنے ہر گھناؤنے کام کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے اس نے عشال اور سعد کو مار کر اس کا الزام عثمان پر لگایا تھا۔کیسے اس نے خود اپنی بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کی جان لی تھی اور کیسے اتنے سال تک اپنی بیٹی کو ڈرا کر اس کا منہ بند رکھا تھا۔

"واہ قابل تعریف ہے تمہاری کوشش۔۔۔تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ میرے قریب رہے تھے۔۔۔۔"

خادم نے دانت پیس کر کہا۔

"لیکن شاید تم جانتے نہیں ان ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بہت آسانی سے تمہاری ان ویڈیوز کو جھوٹا ثابت کر دوں گا عدالت میں۔۔۔"

خادم کی آواز میں ایک غرور تھا جیسے کہ وہ اپنی طاقت اور دولت کے زور کی وجہ سے کبھی بھی پکڑا نہیں جا سکتا۔سکندر نے کچھ کاغذ پکڑے اور اس کے سامنے موجود میز پر پھینک دیے۔

خادم نے حیرت سے ان کاغذات کو دیکھا جس میں اس کی منی لانڈرنگ اور اس کے ہر گناہ کا پختہ ثبوت موجود تھا۔سکندر کی آنکھوں میں جیت کی چمک دیکھ کر خادم گھبرا گیا۔

"کیا ثابت کر لو گے تم اس سب سے ہاں بولو۔۔۔۔مان لیا کہ میں سلطان ہوں جس نے دہشتگردوں کے ذریعے دھماکے کروائے ،سمگلنگ کا سامان منگوایا اس ملک میں اور جس نے بھی میرے خلاف کھڑے ہونے کی جرآت کی اس کی آواز دبا دی۔۔۔"

خادم غصے سے چلاتے ہوئے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا۔

"اعتراف کرتا ہوں کہ تمہاری اس عوام کو بیوقوف بنا کر ان کا پیسہ کھاتا رہا۔۔۔ایک طرف ان کی جان لیتا تو دوسری طرف ہمدردی دیکھا کر ایک مسیحا بن جاتا۔۔۔۔۔اپنے ہر گناہ کا اعتراف کرتا ہوں اور یہ اعتراف چیخ چیخ کر عدالت میں بھی کر دوں ناں تو بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔"

خادم اتنا کہہ کر قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔

"ہاہاہا زیادہ سے زیادہ کیا کرے گی عدالت میرے ساتھ مجھے عمر قید کی سزا دے دے گی اور میری جائیداد ضبط کر لے گی اور میں بہانہ بنا کر ضمانت لوں گا اور اس ملک سے نکل جاؤں گا۔۔۔۔پھر کون پکڑے گا مجھے۔۔۔۔"

سکندر بس خاموشی سے کھڑا اس شخص کو دیکھ رہا تھا جسے یہ لگتا تھا کہ ہر گناہ کر کے بھی کوئی اسکا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔

"ہاہاہا جیسا اس ملک کا انصاف ہے نا ہم جیسے لوگ آزادی سے اپنی من مرضیاں کرتے پھریں گے اور کوئی بھی ہمیں چھو نہیں پائے گا۔۔۔۔بلکہ یہ بے وقوف عوام ہمیں ہی اپنا مسیحا سمجھتی رہے گی۔۔۔۔یہاں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"

خادم غرور سے ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا تبھی سکندر نے وہ لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اپنے چہرے پر موجود نقاب ہٹایا۔اس نقاب کے پیچھے موجود معراج کا چہرہ دیکھ کر خادم کی ہنسی گل ہوئی تھی۔

"شش۔۔۔شائید تو یہ نہیں جانتا خخ۔۔۔خادم کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔وو۔۔۔وہ تجھ جیسے گناہگار کی رر۔۔۔رسی دراز کرتا ہے ککک۔۔۔کہ تیری حد دیکھ سکے۔۔۔۔اور تجھے لگتا ہے کہ تجھے پپ۔۔۔پکڑنے والا کوئی نہیں۔۔۔ببب۔۔۔بے وقوف یہ لوگ نہیں خادم بے وقوف تو تو ہے۔۔۔"

خادم معراج کو دیکھ کر ہی غصے سے آگ بگولہ ہو چکا تھا ہو کرسی سے بندھا جھٹپٹانے لگا۔

"تو سکندر تھا میرے ساتھ رہ کر مجھے بے وقوف بناتا رہا۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔۔"

خادم غصے سے چلایا لیکن معراج کے چہرے پر بس ایک مغرور مسکراہٹ تھی۔

"ففف۔۔۔فی الحال تو اپنی فکر خخخ۔۔۔۔خادم کیونکہ ججج۔۔۔جو ویڈیو میں نے تجھے دکھائیں ووو۔۔۔۔وہ اور تیرے  منہ سے بولا گیا سس۔۔۔سچ میں ابھی لائیو پورے ملک کو دیکھا چکا ہوں۔۔۔ااا۔۔۔۔اب تیرا یہ گھٹیا چہرہ ہر ایک ککک۔۔۔کے سامنے آ چکا ہے۔۔۔۔"

معراج شان سے مسکرایا لیکن یہ سن کر خادم غصے سے جھٹپٹانے لگا پھر اپنے بازو میں چھپائے ریموٹ کو کھینچ کر ہاتھ میں لے لیا۔

"جج۔۔۔جتنا گھٹیا تو انسان ہے ناں خادم۔۔۔ااا۔۔۔اس سے زیادہ گھٹیا باپ جج۔۔ جس نے اپنی ہی بیٹی پر ظلم کیا ۔۔۔اااا۔۔۔۔اس طاقت کے لیے آج کککک۔۔۔کہاں گئی تیری وہ طاقت کک۔۔۔کس کام آئی۔۔۔؟"

معراج کے سوال پر خادم بس اپنے دانت کچکچا کر رہ گیا۔معراج نے مسکرا کر ایک کونے میں دیکھا جہاں ایمان کھڑی رو رہی تھی۔

"آآآ۔۔۔۔آج میں اپنی ایمان کک۔۔کو اسکی سالگرہ کا سب سے بڑا تحفہ دوں گا۔۔۔۔ااا۔۔۔اسکی ماں کو انصاف۔۔۔"

خادم نے بھی معراج کی نظروں کا پیچھا کرتے ایمان کو دیکھا جسکی آنکھوں میں اپنے باپ کے لیے کوئی افسوس نہیں تھا بس نفرت تھی بے تحاشہ نفرت۔

"اس کے لیے زندہ بچو گے تو ناں؟"

خادم نے اتنا کہہ کر ریمورٹ کا بٹن دبا دیا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں ہوا تو خادم بے چینی سے اس بٹن کو بار بار دبانے لگا۔

"کیا ہوا سلطان تمہارے بم نے کام نہیں کیا؟ چچچچ تمہیں کیا لگا کہ ہم جو تمہارا سب سچ جانتے ہیں تمہاری اس گھٹیا سی کوشش سے بے خبر رہیں گے؟"

سالار کی آواز پر خادم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"تم بھی اس میں شامل تھے؟"

خادم کے جواب پر سالار شان سے مسکرا دیا۔

"میرے بابا پر خون کا الزام لگایا تھا تم نے تمہیں کیا لگا میں خاموش تماشائی بن کر ان کی بربادی کا نظارہ دیکھوں گا؟"

سالار نے طنز کیا اور مسکرا کر معراج کے پاس آیا۔

"تو معراج کیا کہتے ہو اسکے ساتھیوں کی طرح کتے کی موت ماریں اسے یا آرام و سکون سے مرنے دیں۔۔۔"

سالار کے پوچھنے پر معراج کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی۔

"اااا۔۔۔۔اتنی آسانی سے نہیں ماریں گگگ۔۔۔گے اسے بھائی اپنے تمام آدمیوں سے زیادہ تڑپے گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر معراج آگے بڑھا اور ایک چاقو خادم کی آنکھ کے پاس رکھا۔خادم کا سانس خوف سے اسکے گلے میں کی اٹک چکا تھا۔

"رک جاؤ سکندر۔۔۔"

ایک آواز پر معراج نے حیران ہو کر انس کو دیکھا جو آئی بی کے کالے یونیفارم میں ملبوس باقی کے سپاہیوں کے ساتھ ان پر بندوق تانے کھڑا تھا۔

"یو آر انڈر اریسٹ۔۔۔۔"

انس کے ایسا کہنے پر خادم قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔

"آ گیا میری آزادی کا پروانہ اب یہ پولیس والے مجھے عدالت جائیں گے اور میرے ساتھ تو وہی ہوگا جو میں نے کہا لیکن تم جو کہ بس ایک غریب کیڑے ہو تم پر بہت سے اور کیس ڈال کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔۔۔۔ہاہاہا یہ قانون صرف امیر کا ہے سکندر۔۔۔"

خادم نے ہنستے ہوئے کہا اور انس کی جانب دیکھا۔

"اریسٹ کر لو اسے آفسر تمہارے سامنے ہے بہت سے لوگوں کو مارنے والا سکندر۔۔۔"

خادم نے دانت پیس کر کہا تو معراج نے غصے سے وہ چاقو اسکی گردن پر رکھا۔

"تتت۔۔۔تجھے مارنے کے بعد مجھے مم۔۔۔موت بھی قبول ہوگی۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ خادم کا گلا کاٹتا ایک سپاہی آگے بڑھا اور معراج کو اپنی گرفت میں لے لیا سالار نے آگے بڑھنا چاہا لیکن وہ سپاہی اسے بھی پکڑ چکے تھے۔

"معراج۔۔۔"

ایمان روتے ہوئے آگے ہوئی لیکن پولیس والوں نے اسکا راستہ روک دیا۔

"ہاہاہا بولا تھا نا کہ تو مجھے چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔اب میں تجھے آزاد ہو کر دیکھاؤں گا آزاد۔۔۔۔"

خادم نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر بہت رعب سے انس کی جانب دیکھا جو معراج اور سالار پر بندوق تانے کھڑا تھا۔

"لے جاؤ انہیں انسپکٹر انکی اصلی اوقات دیکھا دو اور ہاتھ کھولو میرے۔۔۔"

خادم کا لہجہ بہت تحکمانہ تھا۔انس نے ایک نظر سالار اور معراج کو دیکھا تو دوسری نظر خادم کو پھر اس نے اپنی بندوق نیچے کر دی۔

"سولجرز ۔۔۔۔"

"یس سر۔۔۔"

انس کے پکارنے پر سب نے ایک ساتھ کہا۔

"کیا آپ میں سے کسی نے سکندر کو دیکھا ہے؟"

انس نے خادم کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا۔

"نو سر۔۔۔"

ان سب سپاہیوں کے ایک ساتھ کہنے پر خادم گھبرا گیا۔اتنا تو وہ سپاہی بھی سمجھ چکے تھے کہ انکو ذلیل کرنے والا یہ سیاستدان جو کہہ رہا تھا وہ سچ ہونا تھا گناہگار ہونے کے باوجود اس نے بیرون ملک بھاگ جانا تھا۔

"جب ہم یہاں پہنچے تو کیا ہوا؟"

انس نے مسکراتے ہوئے پوچھا جبکہ معراج اور انس بھی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔پہلے تو سب خاموش رہے پھر ایک سپاہی بولا۔

"باقی سب کی طرح ہم بھی ٹی وی پر خادم شفیق اور سکندر کو دیکھ کر انہیں ٹریک کرتے ہوئے یہاں پہنچے۔"

وہ سپاہی خاموش ہو گیا تو دوسرا بولا۔

"لیکن جب ہم انہیں اریسٹ کرنے وہاں پہنچے تو پہلے ہی سکندر خادم کو وہاں سے لے کر جا چکا تھا۔"

اس سپاہی کی بات سن کر خادم نے گھبرا کر انس کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔

"پھر سکندر خادم شفیق کو سڑک پر لے گیا جہاں اس وڈیو میں خادم شفیق کا سچ دیکھنے کے بعد عوام بہت زیادہ غصے میں تھی اور سکندر نے خادم شفیق کو اسی عوام کے حوالے کر دیا جسے وہ اپنا کھلونا سمجھتا تھا۔۔"

انس کی بات پر سب سپاہی مسکرا دیے۔

انس اب معراج کو دیکھ کر اپنی بات کہہ رہا تھا۔

"ہم نے وہاں پہنچ کر عوام کو روکنے کی کوشش کی لیکن عوام بہت زیادہ تھی اور ہم اپنے ہی لوگوں پر ہتھیار نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے عوام نے خادم شفیق کو مار مار کر ختم کر دیا اور ہم کچھ نہیں کر پائے۔۔۔"

یہ بات کہتے ہوئے جہاں انس کے چہرے پر ایک مسکان تھی وہیں خادم کا رنگ خوف سے اڑ چکا تھا۔

"نہیں چھوڑوں گا میں تمہیں پولیس والے یاد رکھنا تم جانتے نہیں مجھے۔۔۔"

خادم چیخنے لگا لیکن سپاہی معراج اور سالار کو چھوڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہو چکے تھے۔

"لے جاؤ اسے سکندر آج ہماری وجہ سے یہ چھوٹ گیا ناں تو دھبہ ہوں گے ہم اپنی اس وردی پر۔۔۔"

انس کی بات کر سالار بھی مسکرا دیا۔معراج نے ایمان کی طرف دیکھا جو بس نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"جاؤ اور ایمان کی پرواہ مت کرو میں لے آؤں گا اسے۔۔"

سالار نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا تو معراج نے اپنا ماسک اوپر کیا اور آگے بڑھ کر خادم کے ہاتھ کھولے بغیر اسے کالر سے پکڑا اور اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔

"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔"

خادم چلا رہا تھا معراج کو مارنے کر خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سب بے کار تھا۔معراج اسے کھینچ کر سڑک پر لے آیا جہاں بہت سے لوگ مٹھیاں بھینچے خادم کو دیکھ رہے تھے۔

"کمینے ہماری وجہ سے جیتتے ہو اور ہمیں ہی اپنا کھلونا سمجھتے ہو آج پتہ چلے گا تمہیں کہ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔"

ایک آدمی نے خادم کو دیکھ کر کہا اور آگے ہو کر ایک مکا اسکے منہ پر مارا۔بس پھر ہر طرف سے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے مارنے لگے۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔"

خادم چلاتا رہ گیا لیکن کوئی اسکی نہیں سن رہا تھا۔تبھی وہاں پر مزید پولیس والے اور رینجرز آ گئی لیکن وہ سب مل کر بھی خادم کو چھڑوا نہیں پائے۔عوام نے خادم کو تب ہی چھوڑا تھا جب اسکے دل کی دھڑکنیں بند ہو گئی تھیں۔

بادشاہ بن کر جینے کے خواب دیکھنے والا آج ذلت کی موت مرا تھا اور یہی قدرت کا انصاف تھا۔

"سکندر کو پکڑو بھاگنے نہ پائے وہ۔۔۔"

ایک پولیس آفسر نے معراج کی طرف اشارہ کر کے کہا جو نم سبز آنکھوں سے خادم کی لاش دیکھ رہا تھا۔آج اس نے سہی معنوں میں اپنے ماں باپ کو انصاف دلوایا تھا۔

"اریسٹ ہم۔۔۔"

ایک آفسر نے کہا تو انس نے گھبرا کر معراج کو دیکھا جو ابھی بھی خاموشی سے وہاں پر کھڑا تھا لیکن پولیس والوں نے جیسے ہی آگے بڑھ کر سکندر کو پکڑنا چاہا سب لوگ ایک ڈھال بن کر اسکے سامنے کھڑے ہو گئے۔

"اس شخص نے گناہگاروں کو مار کر انصاف دلوایا ہمیں۔۔۔وہ کیا جو ہمارے قانون کا کام تھا۔۔۔ہم اسے نہیں پکڑنے دیں گے۔۔۔ "

عوام کے اس اتحاد پر پولیس والوں نے حیرت سے سب کو دیکھا۔

"دیکھیں جو بھی ہے اس نے قانون توڑا ہے اور ہم اس گینگسٹر کو سزا دے کر رہیں گے۔ "

"سکندر گینگسٹر نہیں ہے۔۔۔۔۔"

ایک آدمی چلایا تو معراج نے حیرت سے سب کو دیکھا جو اسکی ڈھال بن کر کھڑے تھے۔

"سکندر ہمارا ہیرو ہے۔۔۔ہاں سکندر ہمارا ہیرو ہے۔۔۔"

سب لوگ ایک ساتھ چلانے لگے۔پولیس والوں نے لوگوں کو مار کر ہٹانا چاہا لیکن وہ معراج کی ڈھال بن کر کھڑے رہے۔

نم آنکھوں سے مسکرا کر معراج نے ان سب کو دیکھا اور وہاں سے بھاگ گیا۔اس نے اپنی ماں کی پہچان کو روشن کیا تھا۔

                  ❤️❤️❤️❤️

پولیس نے معراج کا پیچھا کیا اور ان سے بچتا بچاتا معراج ایک گلی سے نکلا تو سامنے ہی ایک گاڑی رکی اور ڈرائیور نے پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا۔

"بیٹھو جلدی۔۔۔"

وجدان کی آواز پر معراج نے حیرت سے اپنے ماموں کو دیکھا اور فوراً گاڑی میں بیٹھ گیا۔وجدان نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔معراج نے جلدی سے اپنی ہڈی اتار کر اپنے بیگ سے ایک عام سی ٹی شرٹ پہنی اور بلیک پینٹ پر ایک کھلا سا ٹراؤزر پہن لیا۔

"مم ۔۔۔ ماموں آپ یہاں؟"

وجدان معراج کے سوال پر مسکرا دیا۔

"تمہیں کیا لگا مجھے پتہ نہیں ہو گا کہ میری سر پھری بہن کا بیٹا اسی پر جائے گا۔۔۔۔۔"

وجدان نے مسکرا کر کہا اور اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔

"مجھے فخر ہے بیٹا تم پر۔۔۔"

معراج بھی ہلکا سا مسکرایا۔

"آآآ۔۔۔۔آپ کو اس بارے ممم۔۔۔۔میں پتہ کب چلا؟"

"جس دن ٹی وی پر آ کر تم نے سلطان کے نام پیغام چھوڑا تھا وہ بھی سکندر کی طرف سے۔۔۔۔صرف سعد ،میں اور عشال ہی سکندر کا راز جانتے تھے اور ہمارے علاؤہ ایک تم ہی تھے جو یہ نام چنتے۔۔۔۔"

معراج نے اطمینان سے ہاں میں سر ہلایا۔

"ااا۔۔۔۔اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟"

"گھر، جہاں تمہاری ایمان تمہارا انتظار کر رہی ہے۔۔۔"

معراج ایمان کے ذکر پر مسکرا دیا لیکن دل ہی دل میں وہ پریشان بھی تھا کہ ایمان اسے اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس سے نفرت تو نہیں کرنے لگے گی۔

اچانک معراج کی نظر سامنے پڑی جہاں پولیس نے ناقہ بندی کی ہوئی تھی۔ضرور وہ سکندر کو پکڑنا چاہتے تھے۔وجدان نے گاڑی روکی اور اپنی سائیڈ کا شیشہ نیچے کیا۔

"اینی پروبلم آفسر؟"

وجدان کو دیکھ کر پولیس والے نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور وجدان کو سیلیوٹ کر کے جانے کا اشارہ کیا۔وجدان معراج کو سیدھا شایان کے گھر لے کر آیا۔

"واپس آ گئے تم؟"

شایان کی آواز پر معراج رکا اور اپنا سر جھکا لیا۔جو بدتمیزی اس نے شایان سے کی تھی وہ چاہے صرف ایک دیکھاوا تھا لیکن معراج آج بھی اسکے لیے شرمندہ تھا۔شایان مسکرا کر اسکے قریب آیا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

"میرے سعد کا بیٹا کبھی بھی اپنا سر نہیں جھکاتا یاد رکھنا۔۔۔"

معراج نم آنکھوں سے مسکرایا اور شایان کے گلے سے لگ گیا۔

"سس۔۔۔سوری بڑے بابا۔۔۔۔"

شایان نے مسکرا کر اسکا سر چوما۔

"چلو  اپنے روم میں جاؤ تمہاری بیوی ہر ایک سے ایسے ڈر رہی ہے جیسے ہم انسان نہیں بھوت ہوں۔۔"

معراج شایان کی بات پر ہلکا سا ہنسا اور اپنے کمرے میں آگیا وہ ایمان اپنے گھٹنوں پر سر رکھے خاموشی سے بیٹھی تھی۔

"اا۔۔۔ایمان۔۔۔۔"

معراج نے اسکے قریب بیٹھ کر اسے نرمی سے پکارا تو ایمان جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔

"تت۔۔۔۔تم دکھی ہو کیا؟"

ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

"نہیں معراج میں اس شخص کو لے کر دکھی نہیں بلکہ شکر گزار ہوں کہ میری ماما کو انصاف ملا صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔"

ایمان نے معراج کا ہاتھ پکڑا اور عقیدت سے چوما۔

"تم بہت اچھے ہو ملنگ اور میں دعا کروں گی کہ ہم دونوں ہمیشہ یوں ہی ساتھ رہیں۔۔۔۔"

"اا۔۔۔۔ان شاءاللہ۔۔۔"

معراج نے مسکراتے ہوئے اسکے آنسو نرمی سے پونچھے اور اسے اپنی گرفت میں لے کر محبت سے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے تو ایمان سکون سے اپنی آنکھیں موند گئی۔آج وہ اپنے عشق کی منزل پر پہنچ چکی تھی۔

                     ❤️❤️❤️❤️ 

سالار کو گھر واپس آتے ہوئے رات ہو چکی تھی۔گھر میں داخل ہو کر اس نے ہر جگہ اندھیرا دیکھا تو مایوسی سے اپنا سر جھکا کر گیا۔اس کا مطلب جنت نے اس کو نہیں سمجھا تھا اور شاید اسے چھوڑ کر جاچکی تھی۔

یہ خیال دماغ میں آتے ہی سالار غصے سے کمرے کی جانب بڑھا اور لائٹ آن کی۔اس کی توقع کے عین مطابق کمرہ بالکل خالی تھا اور واش روم میں بھی کوئی نہ تھا۔

"یہ تم نے اچھا نہیں کیا جنت شاید تم جانتی نہیں کہ تم اپنے سالار کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر سالار نے جلدی سے گاڑی کی چابیاں پکڑیں اور کمرے سے باہر آ گیا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر سالار کے قدم اپنے آپ رک گئے۔

اسکی جنت سفید فراک میں ملبوس اپنے بال کھلے چھوڑے مناسب سے میک اپ کے ساتھ سجی اسکے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی۔سالار خواب کی سی کیفیت میں چلتا اسکے پاس آیا اور سونو کو اسکی باہوں سے لے کر فرش پر اتارا۔

"تم گئی نہیں؟تم تو چھوڑ کر جانا چاہتی تھی ناں مجھے۔۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت نے اپنی نم سنہری آنکھیں اٹھا کر اسی دیکھا اور اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیے۔

"سوری۔۔۔"

بس جنت کی اس ادا کر سالار کا غصہ جھاگ کی طرح بہہ گیا تھا لیکن پھر بھی وہ غصے سے اپنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔

"اور اس تبدیلی کی وجہ؟"

سالار کے سختی سے پوچھنے پر جنت نے سہم کر اپنی نظریں جھکا لیں۔

"مم ۔۔میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ کیسے سب نے آپ کا ساتھ دیا اس وجہ سے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا۔۔۔ان برے لوگوں کو مار کر کچھ غلط نہیں کیا آپ نے۔۔۔بلکہ مظلوموں کو انصاف دلایا"

جنت کے سر جھکا کر اعتراف کرنے پر سالار کے ماتھے پر بل آ گئے۔

"یعنی اگر دنیا مجھے اچھا سمجھے تو ہی میں تمہاری نظر میں اچھا ہوں اور اگر دنیا برا سمجھے تو میں برا ہوں۔۔۔۔تم خود مجھ پر یقین نہیں کرتی کیا؟"

سالار نے پھر سے سختی سے کہا تو جنت پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"ہو گئی نا غلطی اب سوری بول دیا ہے ناں پلیز معاف کر دیں وعدہ کرتی ہوں اب آپ پر پورا بھروسہ کروں گی۔۔۔"

جنت کو اس طرح سے روتا دیکھ سالار اسکے پاس آیا اور نرمی سے اسکے آنسو پونچھ دیے۔

"جنت یاد رکھنا جس رشتے میں ہم بندھے ہیں نا اس میں محبت سے زیادہ اہمیت بھروسے کی ہے جو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے زیادہ ہونا چاہیے۔۔۔۔"

جنت نے سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا۔

"اوکے سوری بول تو رہی ہوں اب میں آپ بتائیں کیسے مانیں گے؟"

جنت کے سوال پر سالار شان سے مسکرا کر اسکے مزید قریب ہوا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھ دیے۔

"تم کیا کر سکتی ہو مجھے منانے کے لیے؟"

"کچھ بھی۔۔۔"

سالار کے سوال پر جنت نے بے چینی سے کہا۔سرخ بھرے ہوئے گال کپکپاتے سرخ لپ سٹک سے سجے ہونٹ سالار کو بے خود کر رہے تھے۔

"ٹھیک ہے پھر۔۔۔"

 تبھی سالار نے اسے کمر سے تھام کر خود میں بھینچا، اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور بہت شدت سے جنت کے نازک لبوں پر جھک کر اسکی سانسیں اپنی سانسوں سے الجھا لیں۔جنت نے پل بھر میں اپنی آنکھیں کھول دیں اور سالار کی پکڑ میں سٹپٹانے لگی لیکن سالار کی پکڑ میں بہت زیادہ مظبوطی تھی۔

جتنا جنت خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اتنا ہی سالار کا ہر عمل شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔جان تو اسکی تب ہوا ہوئی جب اسنے اپنے نازک لبوں پر سالار کے دانت گڑتے محسوس کیے۔جنت کو پل بھر میں ہی لگنے لگا تھا کہ اسکی سانسیں رک جائیں گی۔

سالار نے اسکے  ہونٹوں کو نرمی سے چھوڑ کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اسے کمرے میں لا کر بیڈ پر لیٹا کر اس پر حاوی ہونے لگا۔

'سسس۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ابھی رخصتی نہیں۔۔۔"

"میری جان بتایا تو تھا کہ رخصتی ہو چکی ہے۔۔۔۔تمہارے بابا کو کہہ آیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو واپس نہیں آنے دینے والا۔اب تو رخصتی کے بعد والا پروسیجر ہے۔۔۔"

اپنی گردن پر سالار کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے جنت نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر خود سے دور کرنا چاہا تو جواب میں سالار نے اسکے دونوں ہاتھوں اپنے ایک ہاتھ میں لے کر تکیے کے ساتھ لگا دیے۔

'نہیں بیبی گرل تم نے کچھ ذیادہ ہی میری چھوٹ کا فائدہ اٹھایا ہے اس لیے اب تمہیں مکمل طور پر خود سے باندھنے کا وقت آ چکا ہے اور یہی تمہاری سزا ہے۔'

سالار نے بہت ذیادہ چاہت سے کہتے ہوئے جنت کے کندھے سے شرٹ سرکا کر وہاں اپنے دہکتے لب رکھ دیے تو جنت کانپ کر رہ گئی۔

'سس۔۔۔۔سالار۔۔۔'

سالار نے اسے مزید کچھ کہنے اور مزاحمت کا موقع دیے بغیر پھر سے اسکی سانسوں پر اپنی حکومت کر لی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سالار کی منمانیوں اور شدتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔جنت کی نازک جان کب تک مزاحمت کرتی۔

تھوڑی دیر بعد ہی محبتوں کے اس موں زور طوفان کے آگے ہار مان کر جنت گھبراتے ہوئے سالار کی پناہوں میں چھپنے لگی۔اسکی اس معصومانا خود سپردگی پر سالار سر شار سا ہو کر اس پر اپنی محبت کی برسات کرنے لگا اور پھر وہ برسات ساری رات ہوتی رہی۔

سالار کی آنکھ کھلی تو اسکی پہلی نگاہ اپنی باہوں میں سوتی ہوئی جنت پر پڑی ۔سالار کے لب بے ساختہ طور پر مسکرائے تھے۔سوتے ہوئے تو اسکی بیبی گرل اور بھی زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔سالار نا جانے کتنی ہی دیر اسکے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا تھا۔

پھر جب اسکا ایمان ڈگمگانے لگا تو سالار نے جھک کر اپنے ہونٹ بہت ہی نرمی سے اسکے ہونٹوں پر رکھے تھے لیکن جنت تو ہر چیز سے فراموش سکون سے سو رہی تھی۔

'تمہاری نیند تو بہت ذیادہ پکی ہے بیبی گرل۔'

سالار نے بہت محبت سے کہہ کر اپنے دہکتے لب جنت کی گردن پر رکھے۔

' مما سونے دیں نا سویاں تو مت لگائیں میرے گلے پہ۔'

جنت نے آنکھیں کھولے بغیر بہت لاڈ سے کہا تو سالار ہنس دیا۔

'نہیں میرا بچہ اٹھنے کا وقت ہو گیا ہے اب اٹھنا تو پڑے گا۔'

سالار نے پیار سے کہتے ہوئے اسکے گال کو ہلکا سا دانتوں سے کاٹا تو جنت ڈر کے جلدی سے بیڈ سے اٹھی۔

'اففف۔۔۔۔کیڑا۔۔۔۔'

جنت نے کھڑے ہو کر آنکھیں کھولے بغیر اپنا گال سہلا کر کہا اور ایسا کرتے ہوئے وہ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔

'نہیں جان میں اب کیڑا تو نہیں۔۔۔'

سالار کی آواز پر جنت نے اپنی سنہری آنکھیں بڑی کر کے سالار کو دیکھا تو رات کا گزرا ہر ایک پل اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔حیا کے مارے گال دہک اٹھے تھے نظریں خود بخود جھک گئی تھیں ۔ وہ خاموشی سے بھاگنے لگی مگر سالار نے عین وقت پر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر خود پر گرا لیا۔

'کہاں بھاگنا ہے بیبی گرل؟'

جنت اپنی آنکھیں بند کیے کانپ رہی تھی اور سالار کی نظر بار بار ان کپکپاتے ہونٹوں پر جا رہی تھی۔

"سالار چھوڑیں ناں پلیز۔۔۔۔"

جنت نے کہا ہی اتنی محبت سے تھا کہ سالار اسکی بات مانیں بغیر نہ رہ سکا اور یہی موقع تو جنت کو چاہیے تھا اس لیے جلدی سے بھاگ کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔

"جنت یہ چیٹنگ ہے یار باہر آؤ۔۔۔"

سالار نے محبت سے پکارا۔

"بلکل نہیں پہلے آپ روم سے باہر جائیں پھر باہر آؤں گی میں۔۔۔"

جنت کی شرط پر سالار نے گہرا سانس لیا اور بیڈ سے اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔

"ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں باہر اب آ جاؤ۔۔۔"

سالار نے دروازے کے پیچھے چھپ کر کہا۔جنت نے ڈریسنگ روم کا دروازہ کھول کر یہاں وہاں دیکھا پھر مسکراتے ہوئے باہر آ گئی لیکن تبھی سالار دروازے کے پیچھے سے نکل کر اسے اپنی پکڑ میں لے چکا تھا۔

"سالار چھوڑیں پلیز۔۔۔"

"اب تو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سانسوں سے زیادہ قریب ہو چکے ہیں اب ہم دونوں۔۔۔"

سالار نے اسکے کھلے بالوں میں چہرہ چھپا کر کہا۔تبھی فون بجنے کی آواز پر سالار نے گہرا سانس لیا اور جنت کو چھوڑے بغیر فون پکڑ کر کان سے لگایا۔

"جی بابا۔۔۔"

سالار نے اتنا کہتے ہوئے ہونٹ نرمی سے جنت کی گردن پر رکھے۔

"سالار بس بہت ہو گیا کیا کہا تم نے شایان سے کہ جنت کو پاس ہی رکھو گے فوراً واپس لے کو آؤ تم اسے۔۔۔"

عثمان کے ڈپٹنے ہر سالار مسکرا دیا۔

"ٹھیک ہے پاپا ہم دونوں تھوڑی دیر تک شایان انکل کے گھر پہنچتے ہیں۔۔۔"

عثمان نے ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا تو سالار نے جنت کو دیکھا جو اپنا سانس روکے کھڑی تھی۔

"لو آ گیا تمہاری آزادی کا پروانہ اب فریش ہو جاؤ پھر چلتے ہیں آپ کے بابا جانی کے پاس کیونکہ وہ میرے بابا جانی کے پاس جا کر ہڑتال کر بیٹھے ہیں ۔۔۔۔"

سالار نے اسے چھوڑا تو جنت جلدی سے بھاگ کر واش روم میں بند ہو گئی جیسے کہ بس کسی طرح بھی اس سے بچنا چاہ رہی ہو۔اسکی اس معصومیت پر سالار کھل کر مسکرا دیا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

عماد وانیا کو لے کر واپس راولپنڈی آ گیا تھا کیونکہ اسے خبر ملی تھی کہ ویرہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔

"عماد تم ویرہ سے نہیں مل سکتے شائید تم بھول رہے ہو کہ تم سیکریٹ ایجنٹ ہو اور تمہاری اصلی پہچان آرمی کے علاؤہ کوئی نہیں جان سکتا۔"

جنرل شہیر نے عماد کو سمجھایا کیونکہ وہ ویرہ سے ملنا چاہ رہا تھا۔

"آئی نو سر لیکن میرا ویرہ سے ملنا ضروری ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو زبان اس نے پچھلے ایک مہینے سے نہیں کھولی وہ اب کھول دے اور رہی بات میری پہچان کی تو وہ میری زمہ داری ہے فکر نہ کریں آپ۔"

عماد کی بات پر جنرل شہیر سوچ کے عالم میں ڈوب گئے پھر ہاں میں سر ہلا کر عماد کو اجازت دے دی۔

"جسٹس بی کئیر فل۔"

عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور ایک سپاہی کے ساتھ ویرہ کی جیل کی جانب چل دیا۔ویرہ کال کوٹھری میں قید زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔

"کہو ویرہ کیا کہنا تھا تمہیں مجھ سے۔۔۔"

راگا کی جانی پہچانی آواز پر ویرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا لیکن اسکا چہرہ مکمل اندھیرے میں تھا۔ویرہ نے بے بسی سے اپنا سر جھکا لیا۔

"مرجان کیسی ہے؟"

عماد کو وہ شخص اپنی آواز سے بہت زیادہ بکھرا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔

"ٹھیک ہے دوست اسکی فکر مت کرو وہ اور اسکے گھر والے با حفاظت میرے پاس ہیں اور میری آخری سانس تک وہ حفظ و امان سے میرے پاس ہی رہیں گے ۔"

عماد کے بتانے پر ویرہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر بولا۔

"تم سے ایک کام تھا فوجی۔۔۔۔"

"ہاں کہو ویرہ۔۔۔"

عماد کی بات پر ویرہ پھر سے کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا اور اپنی مٹھیاں حد سے زیادہ زور سے بھینچ گیا۔

"میں جانتا ہوں کہ اب میرا مقدر ساری زندگی اس کوٹھری میں رہنا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ یہ زندگی مرجان میرے نام سے جڑ کر برباد کرے اس لیے تم مجھے طلاق کے کاغذات بنوا دو تا کہ میں اسے آزاد کر سکوں ۔۔"

یہ بات کہتے ہوئے ویرہ کی آواز میں کتنا کرب تھا عماد اسکا اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا۔

"معاف کرنا دوست لیکن بہت دیر ہو گئی اب ایسا نہیں ہو سکتا چاہ کر بھی تم مرجان کو طلاق نہیں دے سکتے۔۔۔"

عماد کی بات پر ویرہ کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں ہوئے۔

"کیوں۔۔۔؟"

"کیونکہ مرجان تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے ویرہ ۔۔۔۔تم بہت جلد باپ بننے والے ہو۔۔۔۔"

پہلے تو ویرہ حیرت سے بس عماد کے اندھیرے میں چھپے چہرے کو دیکھتا رہا پھر کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔آج اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ غصے میں وہ خود کو کس حد تک برباد کر چکا تھا۔

وہ رات ویرہ کو یاد آنے لگی جب وہ راگا کے ساتھ واپس لوٹا تھا اور اتنے دنوں کے بعد اپنی مرجان کو دیکھ کر بے خود ہوتا اپنے آپ پر ایک سال سے باندھے ہر پہرے توڑ کر اسے اپنا بنا گیا تھا۔کاش کاش وہ ایسا نہ کرتا۔ مرجان کے ساتھ ساتھ وہ اس نھنی جان کی زندگی بھی تباہ کر چکا تھا جو ابھی پیدا  ہی نہیں ہوئی تھی اور اگر اسکی بیٹی پیدا ہوتی تو۔۔۔۔کیا ہوتا اس کا مستقبل وہ تو ساری زندگی ایک دہشتگرد کی اولاد کہلاتی۔

یہ سوچ آتے ہی ویرہ کرب سے چلاتا اپنے بال نوچنے لگا تھا۔عماد نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

"جانتا ہوں ویرہ کہ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا لیکن خود پر ہوا ظلم ہمیں ظالم بننا تو نہیں سیکھاتا ویرہ۔۔۔اگر ظلم کرنا ہی ہے تو ان پر کرو جو اس قابل ہیں۔۔۔"

عماد کی بات پر ویرہ نے اپنے بال چھوڑے اور سر جھکا کر رونے لگا۔

"جانتے ہو کال کون تھا ویرہ ؟اسکا اصلی نام کمار شنکر ہے اور نام سے اندازہ لگا لیا ہو گا تم نے کہ اسکا تعلق کہاں سے ہے اور راگا ارف راگھوو کرشن بھی۔۔۔۔اپنے غصے میں تم اپنے ملک کے خلاف ہی کن کا ساتھ دیتے رہے ویرہ۔۔"

عماد کی بات پر ویرہ کا سر شرمندگی سے مزید جھک گیا تھا۔اسکی مسلسل خاموشی دیکھ کر عماد نے اسے اکیلے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔عماد ابھی جیل کے دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب اسکے کانوں میں ویرہ کی آواز پڑی۔

"مرجان کا بہت خیال رکھنا۔۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔"

عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور اس ہارے ہوئے انسان کو  اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔

                   ❤️❤️❤️❤️

شادی کی تیاریاں زور و شور پر تھیں۔عثمان،شایان اور وجدان نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہانیہ اور ایمان کی رخصتی ایک ہی دن کی جائے اور اس سے اگلے دن سب کا ولیمہ ہونا تھا۔

ابھی بھی سب مہندی کے فنکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے۔سب کے مہندی کے جوڑے ان کے سسرال سے آئے تھے اور ہانیہ کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اس کا اور وانیا کا جوڑا بالکل ایک جیسا ہو۔لیکن وانیا ایسا نہ ہونے پر کافی خوش تھیں کیونکہ وہ اپنی بہن کی شرارتوں سے بخوبی واقف تھی۔

ابھی پالر والی نے سب کو تیار کیا تھا اور جنت،ہانیہ اور وانیا ساتھ سیلفیز لے رہی تھیں جبکہ ایمان بس مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"تم بھی آؤ نا ایمان یار شرما کیوں رہی ہو۔۔"

جنت نے ایمان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا لیکن وہ پھر بھی ہچکچا رہی تھی۔جانان،زرش اور حمنہ کمرے میں آئیں تو اپنی بچیوں کو یوں ہنستا مسکراتا دیکھ کر شکر ادا کرنے لگیں۔جانان نے ایمان کو دیکھا جو بس اوپر سے ہی مسکرا رہی تھی۔

"آپی زرش آپ جنت اور ہانی وانی کو لے جائیں میں ایمان کو لے کر آتی ہوں۔۔۔"

زرش اور حمنہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور ان پریوں کی طرح سجی ہوئی لڑکیوں کو ساتھ لے گئیں۔جانان نے ایمان کے پاس آ کر اسکا چہرہ بہت محبت سے تھاما۔

"کیا بات ہے میری جان تم خوش نہیں ہو کیا؟"

جانان کے سوال پر ایمان کی پلکیں بھیگ گئیں۔

"نہیں آنٹی میں بہت خوش ہوں بس۔۔۔وہ میرا اپنا کوئی بھی نہیں ہے ناں میرے ساتھ تو مما کی یاد آ رہی تھی۔۔۔"

ایمان کا دکھ دیکھ کر جانان کی پلکیں بھی بھیگ گئیں اور اس نے اپنے ہونٹ ایمان کے ماتھے پر رکھے۔

"میری جان افسردہ مت ہو میں تمہاری مما ہی تو ہوں اور سب تم سے بہت پیار کرتے ہیں کیونکہ تم ہمارے معراج کی محبت ہو اس لیے ہمیں دل و جان سے عزیز ہو۔۔۔"

جانان کی محبت دیکھ کر ایمان نے مسکراتے ہوئے اپنے آنسو پونچھے اور ہاں میں سر ہلایا۔جانان اسکا چہرہ چوم کر اسے اپنے ساتھ باہر لائی جہاں سب لڑکے اپنی اپنی متاع جان کا انتظار کر رہے تھے۔

اس سے پہلے کہ وہ زرش ہانیہ اور وانیہ کو آگے لے کر جاتی عماد خود آگے بڑھا اور وانیا کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کر لیا۔

"افف یہ دلربا کے جلوے ماڑا فنکشن کے بعد کمرے میں چلے گا ناں تو فرصت سے بتاؤں گا کہ کیسا لگ رہا ہے۔۔۔"

عماد اسکے کان میں سرگوشی کر کے وانیہ کے گلال کو مزید بڑھا گیا تھا جبکہ انس نے انگوٹھا اور انگلی ساتھ ملا کر ہانیہ کو کمال کا اشارہ کیا تو جواب میں ہانیہ نے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر الٹی والا اشارہ دے کر انس کو آگ لگائی تھی۔

"بس ایک رات رہ گئی ہے میری پٹاخہ گڈی کل ہر شرارت کا حساب بے باک کروں گا میں۔۔۔"

انس نے آہستہ سے خود سے ہی وعدہ کیا ۔

سالار تو بس بنا پلکیں جھپکائے جنت کو دیکھ رہا تھا جیسے کہ وہ کوئی خواب ہو جو پلکے جھپکنے پر غائب ہو جائے گی۔

"میاں اب اپنی دلہن کو سنبھال بھی لو یا بس یہاں کھڑے ہو کر اسے دیکھ دیکھ کے رات گزار دو گے۔۔۔"

عثمان نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو سالار ہلکا سا ہنسا اور آگے بڑھ کر جنت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

"کیسی لگ رہی ہوں؟"

جنت کے پوچھنے پر سالار اسکے کان کے قریب ہوا۔

"رات کو تمہارے روم میں آ کر بتاؤں گا کہ کیسی لگ رہی ہو بس تم جاننے کے لیے تیار رہنا۔"

سالار کے شرارت سے کہنے پر جنت نے اسے گھورا تھا۔اب بس ایمان رہ گئی تھی جو جانان کے ساتھ کھڑی معراج کو ڈھونڈ رہی تھی۔

"مما معراج کہاں ؟"

ابھی الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب اسکی نظر سامنے آتے معراج پر پڑی تو پلٹنا ہی بھول گئی۔ہمیشہ عینک پہن کر خود کو بوندھو دیکھانے والا معراج اس وقت گاڑھی براؤن کلر کی شلور قمیض پہنے،قمیض کے بازوؤں کو کوہنی تک فولڈ کیے اور ایک سکن کلر کی چنری گلے میں ڈالے کہیں کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔

معراج نے قریب آ کر مسکراتے ہوئے ایمان کی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسکا منہ بند کیا۔

"بب۔۔۔بس کر دو لڑکی نظر لل۔۔۔لگاؤ گی کیا؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے پلکیں جھپک کر معراج کے بدلے ہوئے تیور دیکھے۔

"ملنگ تمہیں کیا ہو گیا ایک رات میں ہی اتنے پیارے کیسے ہو گئے؟"

ایمان کی بات پر ساتھ کھڑی جانان بھی ہنس دی۔

"ااا۔۔۔اب اپنی شادی پر تو اچھا دد۔۔۔دیکھنے دو مجھے۔۔۔بب۔۔۔بڑی مما اسے مجھے دیں اور آآا۔۔۔آپ جائیں۔۔۔"

معراج نے جانان کی جانب مڑ کر کہا تو اس نے مسکرا کر ایمان کا ہاتھ معراج کو تھما دیا اور خود شایان کے پاس چلی گئی۔

"تت۔۔۔تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"

معراج کی بات پر ایمان نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا۔معراج اسے لے کر باقی کپلز  کے پاس آیا جو تصویریں بنوا رہے تھے اور اسکے بعد بہت دیر تک رسموں کا سلسلہ چلتا رہا۔

"چلیں بھئی اب زرا رونق لگائیں ہماری مہندی پر اس لیے میں نے ڈیسائیڈ کیا ہے کہ مما پاپا،جانو خالہ شانو خالو اور حمنہ خالہ اور عثمان خالو ہمیں کپل ڈانس کر کے دیکھائیں گے۔۔۔"

اچانک سے ہانیہ نے اٹھ کر فرمائش کی تو سب ہونٹنگ کرنے لگے۔ حمنہ تو فوراً انکار میں سر ہلانے لگی تھی لیکن عثمان اسکا ہاتھ تھام کر سب کے سامنے لے آیا تھا۔

"شرم کریں عثمان اب جوان نہیں ہم کیا کرتے ہیں آپ؟"

عثمان نے حمنہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر موو کرنا شروع کیا تو حمنہ ہچکچا کر بولی۔

"بیٹھے کی شادی ہے آج بیگم آپ کو تو  خوشی سے جوان ہو جانا چاہیے۔۔۔"

عثمان نے سب کو سناتے ہوئے کہا تو سب ہنس دیے لیکن حمنہ شرما کر اس سے دور ہوئی تھی۔پھر شایان جانان کا ہاتھ تھام کر آگے ہوا اور جانان نے تو کبھی بھی ہچکچانا سیکھا ہی کہاں تھا۔سب کو اپنی اچھی خاصی ڈاسنگ دیکھا کر وہ دونوں وجدان اور زرش کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔

"وجدان نہیں کرنا ڈانس بتا رہی ہوں میں۔۔۔"

زرش نے وجدان کو وارن کیا لیکن۔ وجدان اسے نظر انداز کرتا اپنے قریب کر گیا۔

"بچوں کی خوشیوں میں شامل تو ہونا ہی پڑے گا ناں نور خان۔۔۔"

وجدان اسکی مزاحمت کو نظر انداز کرتا اسے اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ڈانس کروانے لگا۔

"میں خدا کا لاکھوں شکر ادا کرتا ہوں زرش محبت کے اس سفر کو عشق کی منزل پر پہنچانے کے لیے ہمارے بچوں کی خوشیوں کے لیے۔۔۔"

زرش وجدان کی بات پر مسکرا دی اور اپنا سر اسکے کندھے پر رکھا۔ان خوشیوں کے لیے وہ جتنی بھی شکر گزار ہوتی وہ کم ہی تھا۔

                    ❤️❤️❤️❤️

آج ایمان اور ہانیہ کی رخصتی تھی۔عماد فنکشن پر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔وانیا اپنی بہنوں کے ساتھ پارلر گئی تھی اور عماد بس اسے دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا۔وہ جو اپنا جی جان اپنے وطن کو ہی سمجھتا تھا اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اسے اس قدر عزیز ہو جائے گا کیونکہ بغیر ایک پل بھی جینا دشوار لگے گا۔

"عماد۔۔۔"

جنرل شہیر کی آواز پر عماد انکی جانب مڑا۔

"جی بابا۔۔۔؟"

جنرل شہیر نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو سادہ سی شیروانی میں بہت زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔

"خوشخبری ہے بیٹا مجھے ابھی ہیڈ کوارٹر سے فون آیا تھا انہوں نے کہا ہے کہ ویرہ اپنا ہر راز آرمی کو بتا کر آرمی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے اور یہی نہیں وہ آرمی کے جاسوس کے طور پر کام کر کے باقی دہشتگردوں کو بھی پکڑوانے میں مدد کرے گا۔۔۔"

جنرل شہیر کی بات پر عماد کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت آئی۔

"اس کے بدلے میں اسے کیا چاہیے؟"

"بدلے میں وہ صرف آزادی چاہتا ہے عماد اپنی غلطیوں کو سدھار کر گناہوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔وہ بس اپنی زندگی جینا چاہتا ہے۔۔۔۔"

عماد مسکرا دیا کیونکہ وہ ویرہ کی خواہش کا مقصد جانتا تھا۔

"کیا لگتا ہے اگر آرمی اس پر بھروسہ کر کے اسے آزاد کرتی ہے تو کب تک کر دے گی؟"

عماد کے سوال پر جنرل شہیر سوچ میں ڈوب گئے۔

"اتنی جلدی تو نہیں بیٹا کم از کم تین چار سال بہت محنت کرنی ہو گی اسے بھروسہ دلانے کے لیے۔"

عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔

"میری گارنٹی پر اگلے سال ہی آزاد کروائیں اسے اور اسکے آزاد ہوتے ہی اسے میری اسسٹینسی میں دے دیجیے گا۔۔۔"

عماد کی بات پر جنرل شہیر حیران ہوئے۔

"لیکن تم اس پر اتنا بھروسہ کیسے کر سکتے ہو عماد؟ہو سکتا ہے یہ اسکی کوئی سازش ہو۔۔"

عماد بس مسکرا دیا اور پرفیوم خود پر سپرے کیا۔

"کر سکتا ہوں میں اس پر بھروسہ۔۔"کیونکہ ایک دیوانہ دیوانے کو پہچان لیتا ہے۔

آخری بات عماد نے دل میں کہی۔ویسے بھی وہ چاہتا تھا کہ جب ویرہ کا بچہ دنیا میں آئے تو ویرہ اسکے پاس ہو۔

"چلیں اب دیر ہو رہی ہے وہی نہ ہو کہ ہم جب پہنچیں تب بس برتن دھونے کا کام بچے وہاں۔۔۔"

جنرل شہیر اپنے بیٹے کی بات پر ہنس دیے اور پھر وہ سب فنکشن میں آئے جہاں دلہا دلہن پہلے سے ہی سٹیج پر بیٹھے تھے۔

دونوں دلہنیں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھیں لیکن عماد کی نظر بس اپنی وانیہ پر تھی۔

رات تو تھکاوٹ کا بہانہ کر کے سو گئی تھی ناں افغان جلیبی آج نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

عماد نے اسکو دیکھتے ہوئے سوچا اور مسکرا کر اسکی جانب چل دیا جہاں ان سب کی خوشیاں منتظر تھیں۔

                     ❤️❤️❤️❤️

 معراج کمرے میں جانے لگا تو سامنے ہی وانیا اور جنت کو کھڑا دیکھ کر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"کک۔۔۔کتنا لوٹنا ہے دونوں نے؟"

معراج نے اکتا کر والٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔

"زیادہ نہیں شارٹ سرکٹ بس پچاس ہزار میرا اور پچاس ہزار وانی آپی کا اور ہاں یاد آیا پچاس ہزار ہانی آپی کا بھی انہوں نے کہا تھا کہ انکے حصے کے سارے نیگ لیں ہم دونوں۔"

جنت کی بات پر معراج کا منہ حیرت سے کھل چکا تھا۔یعنی کھڑے کھڑے ایک لاکھ پچاس ہزار کا خرچہ۔معراج نے مڑ کر بے چارگی سے سالار کو دیکھا جو اسکی حالت پر ہنس رہا تھا۔

"بیبی گرل تم نے اپنے سونو کو دیکھا ہے کیا مجھے لگتا ہے بھیڑ کا فائیدہ اٹھا کر گھر سے نکل گیا وہ۔۔۔"

سالار کی بات پر جنت ایک پل میں گھبرا کر اسکے پاس بھاگ گئی اور اسکا ہاتھ پکڑا۔

"چلیں پھر ڈھونڈیں اسے ہائے میرا بچہ۔۔۔"

اپنے پلین کی کامیابی پر سالار نے معراج کو آنکھ ماری اور وہاں سے چلا گیا۔اب معراج وانیا کی جانب مڑا۔

"ووو۔۔۔وانی آپی عماد بھائی ڈڈ۔۔۔ڈھونڈ رہے تھے آپ کو بب۔۔۔بہت غصے میں تھے۔۔۔"

وانیا کی آنکھیں ایک پل میں پھیل گئیں۔

"افف انہوں نے کہا تھا کہ تیار ہو کر سب سے پہلے انہیں دیکھاؤں اور میں نے سارا دن بات بھی نہیں کی ان سے اب بہت زیادہ والا ناراض ہوں گے۔۔۔"

وانیا بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جا چکی تھی اور معراج اپنی چالاکی پر مسکراتا کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کر کے سکھ کا سانس لیا۔سامنے ہی اس ملنگ کی معصوم سی ملنگی منہ بنائے بیٹھی تھی۔

"کک۔۔۔کیا ہوا ایمان تم دکھی کک۔۔۔کیوں ہو؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"جنت کہتی ہے تم اس کے بیسٹ فرینڈ ہو لیکن تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ میرے بیسٹ فرینڈ ہی رہوگے۔اب تم جنت کو بتا دو کہ تم بس میرے بیسٹ فرینڈ ہو ورنہ ناراض ہو جاؤں گی میں تم سے۔۔۔"

معراج مسکراتا ہوا اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔

"ببب۔۔۔بیٹ فرینڈ تو میں جنت کا ہی ہوں ملنگی تت۔۔۔تمہارا تو ہزبینڈ ہوں ناں ۔۔۔"

"نہیں تم سب کچھ بس میرے ہو میرے ہزبینڈ بیسٹ فرینڈ کزن بھائی سب بس میرے ہو۔۔۔"

ایمان کے چلانے پر معراج نے اپنی سبز آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

"بب۔۔۔بھائی؟"

ایمان کو اپنی کہی بات سمجھ آئی تو دانتوں تلے زبان دبا گئی لیکن پھر معراج کو قہقے لگا کر ہنستے ہوئے دیکھ کر خود بھی ہنس دی۔

"آآآ۔۔۔آنکھیں بند کرو۔۔"

ایمان نے فوراً اپنی آنکھیں میچ لیں۔معراج نے جیب سے ایک خوبصورت سا بریسلٹ نکالا اور ایمان کی نازک کلائی میں پہنا دیا۔

"اف ملنگ بہت پیارا ہے یہ تھینک یو سو مچ ۔۔۔"

ایمان اس خوبصورت بریسلٹ کو دیکھ کر خوشی سے چہکتے ہوئے معراج کے گلے لگ گئی۔معراج جو اس کی خوشی پر مسکرا رہا تھا اپنی گردن پر اس کے آنسو محسوس کر کے ٹھٹھک گیا۔

"کک۔۔۔کیا ہوا ایمان؟"

معراج نے اسکا چہرہ بہت محبت سے تھام کر پوچھا۔

"میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ملنگ کہ میری زندگی میں بھی اتنی خوشی آئے گی مجھے اتنے چاہنے والے ملیں گے مجھے تو لگتا تھا کہ میرے مقدر میں بس دکھ اور تکلیف ہے۔۔۔"

معراج نے اپنی معصوم بیوی کی آنسو بہت نرمی سے صاف کیے۔

"نن۔۔۔نہیں ایمان دکھ کی ایک ہی۔۔۔اا۔۔۔اچھی بات ہے وہ کبھی ہمیشہ نن۔۔۔نہیں رہتا ہم دونوں نے انہیں ککک۔۔۔کھویا جو ہمارے لیے سب سس۔۔۔سے قیمتی تھے اا۔۔۔اسی لیے خدا نے ہمیں مم۔۔۔ملایا ایمان کیونکہ ہم دونوں اا۔۔۔ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔۔۔"

ایمان نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔معراج کتنی ہی دیر اسکا معصوم سا چہرہ دیکھتا رہا پھر آگے ہو کر نرمی سے اسکی بھیگی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔

"معراج۔۔۔"

ایمان اتنے میں ہی بہت زیادہ گھبرا گئی تھی لیکن معراج اب آنکھوں کے بعد اپنے ہونٹ اسکے گال پر پھر ہونٹوں کے کونے پر رکھ چکا تھا۔ 

"بہت محبت کرتا ہوں تم سے ایمان بہت۔۔۔"

ایمان معراج کو بے بتانا چاہ رہی تھی کہ اپنی بات کہتے ہوئے وہ اٹکا نہیں تھا لیکن معراج اسے بولنے کا موقع دیے بغیر ہی اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔

معراج کا لمس محبت اور عقیدت سے بھرا ہوا تھا لیکن یہ نیا احساس ایمان کی سانسیں روک رہا تھا۔اس نے معراج کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا۔

"نہیں ملنگ۔۔۔"

"کک۔۔۔کیوں ڈر لگتا ہے مجھ سے ؟"

معراج کے سوال پر ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا ایک وہی تو تھا اس دنیا میں جس سے وہ بلکل بھی نہیں ڈرتی تھی۔

"خود سے لگ رہا ہے۔۔۔" 

اس معصوم اعتراف پر معراج مسکرایا اور اسے مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اس نازک وجود کو اپنی پناہوں میں چھپا گیا۔

ایمان کا ہر ڈر ہر خوف معراج نے اپنی محبت سے سمیٹا تھا۔گزرتی رات ان دونوں کی محبت کو امر کر چکی تھی۔

                    ❤️❤️❤️❤️

سالار جنت کو لے کر کمرے میں آیا تو وہ سامنے ہی سونو کو دیکھ کر سالار کا پلین سمجھ گئی۔

"چیٹر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر پیسے کھا لیے میری اب آپ دیں گے مجھے پچاس ہزار۔۔۔"

جنت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورتے ہوئے کہا تو سالار نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔

"افف یار ایسے تو مت گھورو عام سا انسان ہوں بہت آسانی سے بہک جاؤں گا اور آج تو تم لگ بھی کمال رہی ہو۔۔۔"

سالار شرارت سے کہتا جنت کا سکون غارت کر چکا تھا۔جنت نے پیر پٹخا اور سونو کے پاس آ کر اسے باہوں میں اٹھا لیا۔

"چلو سونو ہم سو جاتے ہیں یہاں کچھ گندے لوگ ہیں جن سے ہم بات نہیں کریں گے۔۔۔"

جنت سونو کو لے کر بیڈ پر آئی اور اسے اپنے ساتھ لیٹا کر کپڑے بدلے بغیر ہی خود پر کمبل اوڑھ لیا۔سالار مسکرا کر اسکے پاس آیا اور سونو کو اٹھا کر کمرے سے ہی باہر نکال دیا۔

"سالار واپس لائیں میرے سونو کو کہاں جائے گا وہ۔۔۔"

جنت نے منہ بسور کر کہا تو سالار اسکے پاس آیا اور اسے بیڈ پر لیٹا کر اپنی گرفت میں لے لیا۔

"سونو کو چھوڑو بیبی گرل اور شوہر پر دھیان دو روز قیامت میری خدمت کا جواب دینا ہے تم نے۔۔۔"

سالار محبت سے کہتا اسکی گردن پر جھک چکا تھا۔

"جی ور آپ نے تو جیسے جواب ہی نہیں دینا ناں بچو بیوی کے پیسے کھانے والے کو بھی جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔۔۔"

جنت نے اسکا چہرہ گردن سے نکالا اور اس سے دور ہوتے ہوئے کہنے لگی۔

"اچھا کیا کرنا تھا تم نے ان پیسوں کا۔۔۔؟"

"فریم کروا کر دیوار پر لگانے تھے تاکہ کل کو اپنے بچوں کو دیکھا سکتی کہ دیکھو تمہاری کنجوس ماموں سے لوٹے تھے میں نے۔۔۔۔"

جنت کی بات پر سالار قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

"اچھا کتنے بچوں کو دیکھاؤ گی تم وہ؟"

"جتنے ہوں گے۔۔۔۔"

جنت نے کندھے اچکا کر کہا۔اچانک ہی سالار نے کھینچ کر اسے واپس اپنی گرفت میں لے لیا۔

"اتنا دور رہو گی تو ایک بھی نہیں ہو گا۔۔۔"

سالار نے اسکے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبا کر کہا۔

"چھوڑیں سالار سخت موڈ آف ہے میرا ابھی۔۔۔"

جنت نے گھبرا کر کہا لیکن سالار اسے نظر انداز کرتا اپنی گرفت میں کے چکا تھا۔

"موڈ اچھا کرنا میرے سر ہے بس موقع تو دو تم۔۔۔"

اتنا کہہ کر سالار نے اسکا دوپٹہ اس سے دور کیا اور اسکی ہر معصوم مزاحمت کو نظر انداز کرتا اسے اپنی بے تحاشا محبت سے باور کروانے لگا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

انس آخر کار اپنے دوستوں سے جان چھڑوا کر اب اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا لیکن سامنے ہی اپنی تینوں بہنوں کو دیکھ کر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

"بھائی پہلے ہمارا نیگ دیں ہمیں پورے ساٹھ۔۔۔"

اس سے پہلے کہ سب سے بڑی بہن حنہ اپنی بات مکمل کرتی انس نے پورا والٹ اسکے ہاتھ میں پکڑایا اور انہیں سائیڈ پہ کر کے کمرے میں داخل ہو گیا۔

سامنے ہی بیڈ پر لال سوٹ میں بیٹھی ہانیہ اسکے دل میں اتر رہی تھی۔انس مسکراتے ہوئے اسکے پاس آیا اور مسہری کو ہٹا کر اسکے پاس بیٹھنے لگا۔

لیکن انس بیٹھتے ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھ گیا اور بیڈ شیٹ ہٹا کر ان پلاسٹک کے پرتوں کو دیکھا جن کے ٹوٹنے سے آواز آئی تھی۔

"ہاہاہا۔۔۔۔"

ساٹھ بیٹھی ہانیہ قہقے لگا کر ہنسنے لگی اور ساتھ ہی انس کے ایکسپریشن کی موبائل پر تصویر بنا لی۔

"وہ کیا ہے ناں میرے پولیس بابو میں نے سوچا کیوں نہ آپکو بھی شادی کا تحفہ دے دوں۔۔۔"

ہانیہ نے ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا تو انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا اور کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اپنی پناہوں میں لے لیا۔

"پٹاخہ گڈی کیا میری ساری زندگی تمہارے یہ پرینک دیکھ کر ہی گزرے گی؟"

ہانیہ نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔

"بلکل اب میرے جیسی لڑکی پسند کی ہے تو بھگتنا تو پڑے گا ناں۔۔۔"

ہانیہ نے لاڈ سے کہا پھر ایک بات یاد آنے پر انس کو پریشانی سے دیکھا۔

"انس نیکسٹ منتھ سے میری آرمی میں ٹریننگ سٹارٹ ہو رہی ہے تو کیا آپ مجھے اسکے لیے مری جانے کی اجازت دیں گے؟"

ہانیہ جو ایک خود مختار اور آزاد خیال لڑکی تھی اسکا اسطرح سے اجازت مانگنا انس کو بہت اچھا لگا تھا۔

"نہیں۔۔۔"

انس کے جواب پر ہانیہ کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں۔

"میں اپنا ٹرانسفر مری کروا لوں گا میری جان پھر ہم دونوں وہاں ساتھ ساتھ رہیں گے۔۔۔پولیس والے کی پٹاخہ فوجی۔۔۔"

انس نے اسکی ناک دبا کر کہا تو ہانیہ خوشی سے اسکے گلے لگ گئی۔

"تھینک یو سو مچ آئی لو یو ہیرو۔۔۔۔"

ہانیہ نے خوشی کے عالم میں کہا لیکن پھر اپنی بے باکی پر شرما کر انس سے دور ہونا چاہا لیکن اب ایسا کہاں ممکن تھا۔انس اسے واپس کھینچ کر اپنی پناہوں میں لے چکا تھا۔

"یہ پانچ سال تم نے مجھے بہت تڑپایا ہے ہیرو کی جان لیکن اب حساب بے باک کرنے کا وقت ہے آج میں دیکھوں گا کہ میری پٹاخہ گڈی کتنی بولڈ ہے؟"

انس کی بات پر ہانیہ کے گال دہک اٹھے لیکن ایک پل کے لیے وہ اپنی بولڈنیس کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

"ہاں تو بہت بہادر ہوں میں کچھ بھی کر لیں مجھے شرم نہیں آنے والی پیدائشی بے شرم ہوں میں۔۔۔"

ہانیہ نے اسکے گلے میں باہیں ڈال کر کہا اور اس کھلے چیلنج پر انس عش عش کر اٹھا۔اسی لیے اس نے ہانیہ کی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچا اور اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی پر شدت گرفت میں لیا۔

ایک سیکنڈ لگا تھا ہانیہ کی بولڈنیس گل ہوتے۔وہ تو اپنے شوہر کے جنون پر گھبراتی اسکی پناہوں میں سمٹنے لگی تھی لیکن تب بھی انس دور نہ ہوا تو ہانیہ اسکے سینے پر مکے برسانے لگی۔

یونہی اس پر جھکے انس اسکا دوپٹہ پنوں سے آزاد کر کے اس جدا کر چکا تھا اور اب اسکے ہاتھ کرتی کی ڈوریوں میں الجھ چکے تھے۔

"انس؟"

ہانیہ نے گھبرا کر اسے پکارا اور اپنا چہرہ اسکے چوڑے سینے میں چھپا دیا۔

"کیا ہوا ہار گئی چیلنج؟"

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"جی ہار گئی نہیں ہوں میں بولڈ اب پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔"

انس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے ہانیہ کو اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لیٹایا۔

"ابھی کہاں جان ابھی تو مجھے اور بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔۔۔اپنی ملکیت کہا تھا تم نے انس راجپوت کو آج تمہارا انس تمہیں مکمل طور پر اپنا بنا لے گا۔۔۔"

انس نے اسکے کندھے سے کرتی سرکا کر کہا۔ہانیہ کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔انس کی بے باکیوں پر اس نے بند باندھنے کی کوشش کی لیکن اب یہ ناممکن تھا۔پانچ سالوں کی محبت اور جنون تھا جس سے انس نے اسے پوری رات باور کروایا تھا۔

                     ❤️❤️❤️❤️

وانیا جو عماد کے غصے سے ڈرتی کمرے میں داخل ہوئی تھی اسے کمرے میں نہ پا کر سکھ کا سانس لیا اور وہ ہیوی سا ڈریس اتارنے کا سوچا تا کہ عماد کے آنے سے پہلے پہلے خود کو ایزی کر لے۔

اس نے دوپٹہ بیڈ پر رکھا اور ہاتھ کمر پر کے جا کر اپنی ڈوریاں کھول رہی تھی جب اچانک اپنی کمر پر کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس کر کے گھبرا کر پلٹی۔

"آپ کب آئے کمرے میں آئے؟"

وانیا نے اپنے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیونکہ فراک ڈوریاں کھلنے کی وجہ سے ڈھیلا ہو چکا تھا۔

"سارا دن مجھے نظر انداز کرنے کی گستاخی کم تھی کیا جو اب اپنی اس سجاوٹ کو میری محبت سے بچا کر ایک اور گناہ کر رہی ہو ارے یہ تو سوچا ہوتا کہ سزا کیسے سہو گی اتنی۔۔۔"

عماد نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھا اور اسے اپنے قریب کیا۔

"عع۔۔۔عماد چھوڑیں مجھے تھک گئی ہوں ناں میں۔۔۔"

"روز روز ایک ہی بہانا ماڑا افف اس نہیں کا کوئی علاج نہیں روز کہہ دیتے ہو آج نہیں۔۔۔"

عماد نے شعر بولتے ہوئے اسکے کان کی لو کو چوما جو سارا دن بھاری جھمکے سنبھالنے کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے۔

"اف عماد آپ ناں بہت ہی بے شرم ہیں کبھی کبھی سوچتی ہوں راگا بن کر آپ پھر بھی بہتر تھے کم از کم حد میں تو رہتے تھے۔۔ "

وانیا نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا تو عماد نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا پھر وانیا کو بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور ہونٹوں کو بہت وحشت سے اپنی گرفت میں لیا۔

وانیا اسکی اس وحشت پر کانپ کر رہ گئی جس میں وہ وانیا کی پرواہ بھی نہیں کر رہا تھا بس اسے خود میں بھینچتا اپنا جنون بڑھاتا جا رہا تھا۔

"عماد۔۔۔"

وانیا اس سے ڈر کر اسکے سینے میں چھپ گئی۔

"کیا ہوا ماڑا ڈر کیوں گیا تم ابھی تو اس راگا نے بس اپنی جھلک دیکھائی ہے افغان جلیبی کو فلم تو ابھی دیکھانا باقی ہے۔۔۔"

عماد کی بات پر وانیا کانپ کر رہ گئی۔

"نہیں آپ میری عماد ہی ٹھیک ہیں مت بنیں آپ راگا۔۔۔"

وانیا نے اسکے سینے سے چہرہ نکالے بغیر کہا۔عماد نے مسکرا کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔

"دیر ہو گئی افغان جلیبی آج اب تم اپنے جن کو جنون دیکھو جسکو تم نے للکار کر جگایا ہے۔۔۔"

عماد نے اسے بیڈ پر لیٹایا اور دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں تھام کر اسکی گردن پر جھکا۔اب جو جنون وانیا کو سہنا پڑھ رہا تھا وہ اس پر کبھی گھبراتی تو کبھی خود میں ہی سمٹتی لیکن اپنے جس جن کو اس نے جگایا تھا سے سری رات بھگتنا تھا۔

                      ❤️❤️❤️❤️

اگلے دن سب ولیمے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور آج ہانیہ کی دلی خواہش پوری ہوئی تھی۔وجدان نے انکے ولیمے کے کپڑوں کا بندوبست کیا تھا اور اس لیے اس کے اور وانیا کپڑے جیولری جوتے سب کچھ بالکل سیم تھا۔گلابی رنگ کے ایک جیسے جوڑے پہنے وہ ایک دوسرے کا عکس دیکھائی دینے لگی تھیں۔

جنت کی میکسی لائٹ بلو کلر کی تھی اور اس میں سجی جنت چاند کا ٹکڑا ہی تو لگ رہا ہے تھی جبکہ ایمان کا پیروں تک آتا فراک سلور کلر کا تھا جس میں وہ ایک پری ہی لگ رہی تھی۔

جانان،حمنہ اور زرش نے اپنی بیٹیوں کو دیکھو تو انکے صدقے واری جانے لگیں وہ لگ ہی اتنی پیاری رہیں تھیں۔

"چلو لڑکیو سب ہال میں کب سے انتظار کر رہے ہیں ہمارا۔۔۔"

حمنہ نے انکو پکڑتے ہوئے کہا اور انہیں اپنے ساتھ سٹیج کی جانب لیں گئیں جہاں انکے دلہے گاڑھے نیلے تھری پیس میں ملبوس ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے۔

سب سے پہلے حمنہ نے جنت کا ہاتھ سالار کے ہاتھ میں تھاما دیا اور جانان نے ایمان کو معراج کے حوالے کیا تھا لیکن عماد اور انس حیرت سے منہ کھولے ہانیہ اور وانیا کو دیکھ رہے تھے جو بلکل ایک جیسی لگ رہی تھیں۔

"یار ان میں سے میرے والی کون ہے ہو تمہارے والی کون؟"

انس نے عماد کے قریب ہو کر پوچھا جو آنکھیں چھوٹی کر کے دونوں کو گھور رہا تھا۔

"تو میرے بھائیو ٹیسٹ ہے آج آپ کا بتائیں کون کس کی وائف ہے اور اگر غلط گیس کیا ناں تو سزا دینے والی میں کون ہوتی ہوں بیویوں سے ہی مل جائے گی۔۔۔"

جنت نے ہنستے ہوئے کہا تو سب اسکی بات پر ہنس دیے۔عماد جو کب سے ان دونوں کو آنکھیں چھوٹی کیے دیکھ رہا تھا آگے بڑھا اور ہانیہ کا بازو پکڑ لیا۔

وانیا کا منہ فوراً بن گیا کیونکہ اسکے عماد نے اسے نہیں پہچانا تھا۔عماد سٹیج پر گیا اور ہانیہ کا ہاتھ انس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

"یہ رہی بھائی تمہارے والی میرے والی کے اگر ہزار عکس بھی ہوں ناں تو بھی اسے پہچان جاؤں میں کیونکہ مجھے اس کے چہرے سے نہیں اسکی روح سے محبت ہے۔۔۔"

عماد کی بات پر جہاں نیچے کھڑی وانیا شرم سے سرخ ہوئی تھی وہیں سب نے ہوٹنگ کر کے عماد کے ڈائیلاگ کو داد دی تھی۔عماد آگے بڑھا اور وانیا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔

"You can never hide from me love, try if you want to,,, I'll always find you because you are destination of my love."

(تم مجھ سے کبھی نہیں چھپ سکتی چاہے تو کوشش کر لو،،میں تمہیں ہمیشہ ڈھونڈ لوں گا کیونکہ تم میری منزل عشق ہو)

عماد نے اس سے محبت سے کہا اور باقی سب کے ساتھ اسے بھی سٹیج پر لے آیا۔اج وہ سب خوشیوں بھرے موڑ پر پہنچ چکے تھے وہ موڑ جو انکے عشق کے اس سفر کی منزل تھا کیونکہ عاشق کی منزل تو وہیں ہے جہاں اسکا محبوب ہو۔۔۔

                   ❤️❤️❤️❤️

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Manzil E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Manzil E Ishq  written by Harram Shah. Manzil E Ishq  by Harram Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages