Kabhi Tu Pass Mery Aao By Aymen Nauman New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 17 July 2024

Kabhi Tu Pass Mery Aao By Aymen Nauman New Complete Romantic Novel

Kabhi Tu Pass Mery Aao By Aymen Nauman New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Kabhi Tu Pass Mery Aao By Aymen Nauman Complete Romantic Novel 


Novel Name: kabhi tu pass mery aao

Writer Name: Aymen Nauman

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

خود کو کالی چادر میں اچھی طرح سے ڈھانپے ایک ہیولا سہ برگت کے درخت کی اوڑھ سے نمودار ہوا تھا۔

ہاتھ میں ٹارچ مضبوطی سے تھام کر وہ بہت محتاط انداز میں اپنی مطلوبہ قبر کی نشاندہی کر نےلگا۔ ٹارچ کی مدہم دودھیا روشنی میں دو چار قبروں کی خاک چھاننے کے بعد آخر کار اس کو اپنی مطلوبہ قبر مل ہی گئی تھی ۔۔


"ہاں یہی ہے "

"اسی کی تو مجھے تلاش تھی بالکل"

"ہاں ہاں آج میری تلاش پوری ہوئی "

"ہاں یہی ہے وہ ۔۔"


قبر کا خطبہ ہٹانے کی مسلسل کوشش میں رات کے دوسرے پہر سے اب رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا ۔۔۔


"وقت بہت مختصر بچا ہے اب میرے پاس صبح کی پہلی کرن پھوٹنے سے پہلے پہلے مجھے اپنا کام مکمل کرنا ہے"

" ہر صورت آج یہ کام ہو جانا چاہیےلازمی"


ادھر سے ادھر نظر دوڑانے کے بعد آخر کار اس کو تھوڑا فاصلے پر رکھا ایک بیلچا نظر آیا۔ وہ وجود بھاگتا ہوا اس کی طرف لپکا تھا۔ آدھے گھنٹے کی انتھک کوشش کے بعد وہ ہیولہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو ہی گیا۔اسنے بہت تیزی سے آگے بڑھ کر قبرکاخطبہ اپنی جگہ سے اکھاڑ کے دور پھینکا ۔


خطبہ رکھنے کے چند لمحوں بعد ہی یکدم قبر میں سے ایک روشنی پھوٹی تھی اور وہ قبر چاک ہوتی چلی گئی۔ چادر میں لپٹے وجود کے چہرے پر ایک دم ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔۔


🌹🌹🌹🌹


"جاؤ جا کر دیکھو دلہن کی تیاری کہاں تک پہنچی ہے۔۔۔۔۔"

دادی بیگم نے بڑی بہو مزنا کو حکم صادر کیا ۔۔۔۔۔

جی اماں بیگم مزنا نے فوری ساس کے حکم کی بجا آوری کی تھی بھلا ساس کے صادر کردہ حکم کی تعمیل میں دیر کر کے وہ اپنی شامت بلانے سے تو رہی تھیں۔ ۔۔۔


آج حویلی کو کسی دلہن کی طرح سجایا سنوارا گیا تھا آخر کو "خان "گھرانے کی شادی تھی پورا علاقہ روشنیوں سے سجنے کی وجہ سے جگمگ کر رہا تھا ۔برات کی تقریب کا انتظام حویلی کے بڑے سارے لان میں ہی منعقد کیا گیا تھا یہ خان خاندان کی روایت تھی آج تک جتنی بھی شادیاں انجام پائی تھیں اس گھرانے کی وہ سب حویلی کی چار دیواری کے اندر ہی منعقد کی گئی تھیں ۔۔۔


اسٹیج پہ دلہن دولہا کے لئے خان خاندان کا اس اہم موقع پہ نسل در نسل استعمال ہونے والا روایتی جھولہا دلہن دلہا کیلئے گلاب اور گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا جبکہ جھولے کے دونوں طرف اردگرد تخت رکھے گئے تھے جن پہ دبیز لال اور ہرےرہگ کےکارپٹ بچھا کر گاؤتکھیے لگائے گئے تھے۔


دلہن دلہا کے استقبال کیلئے گلاب کی پتیاں اسٹیج کے فرش پہ بچھانے سے اس کی زینت میں مزیدچار چاند لگ گئے تھے۔ ایک تخت پہ دادی بیگم سفید رنگ کا گوٹا اور کرن لگاغرارہ پہنے اور اسکےکرتے کے گلے پہ پانچ تولے کے سونے کے بٹن لگائے چاندی کے پاندان کو کھولے تنفر سے برجمان تھیں غرور حاکمیت انکے ہرہر انداز سے جھلک رہا تھا ۔ جبکہ دوسرے تخت پہ گھر کے خاص مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا بڑی تائ بیگم ثروت فلحال اسکرین سے غائب تھیں حیرت انگیز طور پر ۔۔۔۔!!


"اماں بیگم"

"اا۔۔اماں بیگم "

مزنا کے چہرے کی ہوایاں اڑی ہوئی تھیں وہ ہانپتی کانپتی ساس تک پہنچی تھیں ۔۔


"اے بہوکیا ہوا تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟"

" خدا کا واسطہ ہے بہو کوئی اچھی خبر ہی سنانامنحوس پیغام نہ سنانا ام کو تم ۔"

۔

بہوکے لٹھے کی مانند سفید پڑاچہرہ دیکھ نفیسہ بیگم ٹھٹکی تھیں۔ دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی تھی آخر کو جہاندیدہ عورت تھیں ۔


" اماں بیگم دلہن کمرے میں نہیں ہے ام(ہم) نے ہر اک جگا دیکھ لیا حویلی کا اک اک چپا گھنگال آئ ام۔۔۔۔"

"تو پھر کہا ہے؟"

" جانتی بھی ہو کیا خرافات تم ام سے بکتا ہے؟؟؟؟"

" یا پھر تم شاید یہ بھول بیٹھا ہے کہ کس سے مخاطب ہے تم اس وقت ۔۔"

اماں بیگم نے اپنے خاص پختون والے انداز میں بپھر کے استفسار کیابہو سے۔۔۔

"اگر یہ مذاق ہے تو یہ سمجھ لو کہ تم ۔۔۔"

"اماں بیگم میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کیجئیے میری کیا مجال کہ میں آپ سے غلط بیانی کروں ۔۔۔"

"کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اور اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو جانتی ہو نا تمہاری سزا کیا ہوگی؟؟۔۔"

نفیسہ بیگم نے کرختگی سے کہتے ہوئے اپنی لاٹھی کو پکڑا اور اشتعال میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ چہرے پہ ناقابل بیان تاثرات رقم تھے جو وہاں موجود سب ہی نفوسوں کو تنبیہی کرنے کے لئے کافی تھےکہ اگر یہ حقیقت ہوئی تو قیامت آجائے گی سر قلم کردئے جائینگے ۔۔۔


"آپ کے ہر سوال کا جواب اس خط میں ہی ہے"

مزہ نے جلدی سے دلہن کے کمرے سے ملنے والا خط ساس کو تھمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹


"امی پلیز ابا کو سمجھآئیں کہ وہ مجھے آگے بھی پڑھنے دیں۔"

مہمل باپ کے سامنے منمنائ اور ماں کو گھٹی گھٹی آواز میں اپنا وکیل بنانا چاہا جیسے ماں کے سامنے اپنی دلی خواہش ظاہر کی تھی معصوم سی ۔۔۔


"سمجھا دو اس منہوس کو کہ بس اب بہت پڑھ لیا بارہویں جماعت تک پڑھا دیا اس کو مزید آگے میں پڑھنے کی قطعی اجازت نہیں دوں گا "


"میں کیا سمجھاوں تعلیم تو عورت کا زیور ہے جی اور پھر جس طرح اب تک ہماری بیٹی نے پڑھا ہے ویسے ہی اگلی دو جماعتوں کو اور پڑھلے گی ۔۔"


مفیدہ سے بیٹی کے چہرے کا پھیکا پڑتا رنگ دیکھا نہ گیا ہمت کرکے آخر کو شوہر کے سامنے جی کڑا کر کہ بول ہی گئی تھی ۔۔


"اؤ کرم جلی تو تو اپنی زبان بند رکھ "

" زیادہ نہ بول میرے سامنے پہلے بھی کامل آغا کے کہنے پر 12 جماعت پڑھائی ہے اس کلموہی کومگر اب نہیں "

کرختگی سے کہتا سلیمان(مہمل کا باپ) چارپائی کے ساتھ رکھے حکے کو قریب کرکہ لمبا سہ کش لیا اورسر پہ بندھا پیلا سافہ چارپائی پہ دور فاصلے پر پھیکنے کے انداز میں اچھالا ۔۔۔


سلیمان ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر لوٹا تھا ۔۔۔محمل کو اپنے کورس کی کتابیں تھامے دیکھ اس کا پارہ آسمان کو چھو گیا تھا ۔۔


"مگر ابو میری بات تو سن لیں میں تو پرائیویٹ پیپر دونگی جس طرح پہلے دیتی رہیں ہو اسطرح مشکل نہیں ہوگی کوئی"

وہ بہت ہمت کر کے گویا ہوئی۔


" زبان چلائے گی تو مجھ سے؟؟

اپنے باپ سے تن کر مقابلہ کرنا چاہتی ہے ؟؟

"تو بول بےغیرت!! تیرےتو دیدو کی شرم خاک ہو گئی ہے آج تو دیکھنا میں تیری سدھ بدھ واپس ٹھکانے کیسے لگاتا ہوں کملی ۔۔"


سلیمان جارحانہ انداز میں مہمل کی طرف بڑھا تھا اور گھماکہ زوردار پوری قوت سے تھپڑ اس کے چہرے پرجڑ ڈالا تھا۔

دھان پان سی نازک سراپہ کی مالک مہمل باپ کے بھاری ہاتھ سے پڑنے والے تھپڑ کی تاب نہ لاسکی اور چکراتی ہوئی فرش پہ گرنے کو تھی جب کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اس کو شانےسے تھاما تھا۔


مہمل کویکدم احساس ہوا تھا جیسے وہ کسی کی مضبوط پناہوں میں آ گئی تھی۔ نظر اٹھا کہ دیکھنا چاہا تھا مگر جیسے ہی نظر کامل پہ پڑی وہ شرمندگی کے احساس تلے دوبارہ سے نظر نہ اٹھا سکی ۔

"بعض اوقات اپنے ہی ہماری ڈھال بنتے ہیں اور ہمارا سر فخر سے بلند کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ہی ہمیں شرمندگی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں وہ بھی بڑے فخر سے ۔"

وہ شرمندگی سے چور فرش پہ نظریں گاڑھے سوچ کہ رہ گئ۔۔

"عورت پہ ہاتھ اٹھانے والا مرد نہیں کہلاتا سلیمان۔۔۔"

"کک۔۔کا۔۔۔ کامل آغا آپ ؟؟"

سلیمان کا کچھ دیر قبل والا غصہ کامل کو دیکھ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا حد یہ تھی کہ وہ کامل کے سامنے گھگھیا کر بات کر رہا تھا ۔


"عورت کی عزت کرنا ایک نیک اورعزت دار مرد کی نشانی ہے اور پھر مہمل تو آپ کی سگی بیٹی ہے نہ؟؟

کامل نے اسکو شرم دلانی چاہی۔


" افسوس کی بات ہے بہت یہ تم کیسے باپ ہوجو نا حق اپنی بیٹی پہ ہاتھ اٹھارہے ہو کاکا۔"


"آغا یہ لڑکی مجھ سے بدزبانی کر رہی تھی اور باپ ہونے کے حساب سے مجھے اس کا دماغ درست کرنا ہی پڑا"

سلیمان نے بیوی کو اشارہ کیا آنکھوں سے کہ مہمل کو منظر سے غائب کرے مگر کامل کی زیرک نگاہ سے اسکا یہ اشارہ مخفی نہ رہ سکا ۔سلیمان کی ڈھٹائی دیکھ کر اس کا خون اندر تک کھول اٹھا تھا ۔۔


"کون بدزبانی کر رہا تھا اور کون بدسلوکی میں سب جانتا ہوں !!میرے سامنےکسی بھی قسم کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کسی کو بھی ۔۔"


وہ اپنی تین سالا بیٹی جاناں کو تلاش کرتا ہوا آیا تھا کیونکہ وہ اکثر اور بیشتر مہمل کے ساتھ ہی اٹھکیلیاں کرتی ہوئی نظر آتی تھی ۔


سلیمان کی غصے میں باہر تک آتی چیخ و پکار کو سن کر وہ خود کو روک نہ سکا اور کوارٹر کے پہلے سے کھلے دروازے کو دیکھ بغیر اجازت اندر بڑھایا تھا۔ سلیمان کا اپنی بیٹی پہ ہاتھ اٹھانا کا مل کے صبرکے پیمانے کو لبریز کر گیا تھا وہ عورت پر جبر کا قائل ہرگز نہ تھا ۔


"ایک لڑکی جب تک کمزور ہوتی ہے تب ہی تک وہ روتی ہے ۔جس دن وہ رونا ترک کر دیتی ہے سلمان کاکا یاد رکھنا اس دن ان کو رونا پڑتا ہے جنہوں نے اس کو رلایا تھا"


" چلو مہمل اب تم یہاں نہیں رہوگی حویلی میں تم جاناں کے ساتھ رہا کرو گی اور ہاں آخری بات سلیمان کاکا تعلیم حاصل کرنا اس کا حق ہے اور یہ حق میں اس کو دلواؤں گا ۔۔"


یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا سراسیمہ سی مہمل کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں جکڑے وہ کوارٹر کا داخلی دروازہ عبور کرباہر نکلتا چلا گیا سلیمان اور اس کی بیوی دم بخود رہ گئے تھے اس ناگہانی افتاد پہ ۔۔۔۔۔۔۔

"لگتا ہے بزرگوار کو اپنی جان پیاری نہیں ہے جبھی اتنی دیدہ دلیری سے سڑک پہ مٹر گشت کر رہا ہے"


پپو کے ساتھ فٹ پاتھ پہ بیٹھے سنی نے کہا اور سگریٹ میں چرس بھر کے سٹہ لگانے کی تیاری کرنے لگا ۔

دونوں ہی تقریباً ایک جیسے ہی تھے عادات میں چرس پینا ،جوا کھیلنا، چوری چکاری میں پیش پیش رہنا دونوں کے پسندیدہ مشاغل تھے ۔۔

حال و ہولیا دونوں کا ہی ابتر چرسی اور موالیوں سے بھی بدترین تھا ۔

سڑک پہ سے گزرتی ہر ایک لڑکی کو دیکھ کے سیٹیاں مارنا، آہیں بھرنا ،جملے کسنا اور زور زور سے گانے گا گا ادھم دھاڑی کرکہ تنگ کرنا پپو کے لیے خوراک کا باعث تھا وہ بھوکا رہ سکتا تھا مگر اپنی یہ اوچھی چھچوری حرکات اور سکنات ہرگز نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔۔۔


یہ سب کچھ ان دونوں کے لیے ایک عام سی بات تھی ۔حد یہ تھی کہ اس سڑک کو دونوں نے اپنی جاگیر بنا ڈالا تھا ۔پچھلے کچھ عرصے سے یہاں مستقل ڈیرا ڈال بہٹھے تھے۔

ابھی دونوں نے چوری چکاری کے علاوہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس علاقے کے حاکموں کی نظر میں آتے مگر دونوں ہی سے علاقہ کے آس پاس کے لوگ شدید پریشان تھے سنی تو پھر لحاظ کر جاتا تھا مگر پپو تو گویا آنکھوں میں ایکسرے فٹ کروا چکا تھا ہرگزرتی لڑکی کا جب تک مکمل ہر طرح سےاوپر سے نیچے تک ایکسرے نہ کر لیتا تب تک مانو اس کی آنکھوں اور کلیجے کو ٹھنڈ نہ پڑتی ۔۔۔


"ابے چھوڑ اپنی یہ اونگیاں بونگیاں مارنا جانتا ہوں تو میرے حصے کی بھی سگریٹ سٹکنا چاہتا ہے"

پپو نے چرس سے بھری بتی بنی سلگتی ہوئی سگریٹ کو جھپٹنے کے انداز میں لیاسنی سے ۔۔۔


"او تیرے دماغ پہ کیا پئے بغیر ہی چڑھ گئی ہے دیکھ تو ذرا سامنے وہ بوڑھا اندھا ہے یا پھر لنگڑا شاید تبھی تو اسکو سامنے چلتا ٹریکٹر نظر نہیں آ رہا ۔۔۔۔"

پپو نے آنکھیں مسل کر سامنے دیکھا جہاں ایک بزرگ ہاتھ میں راشن کا بڑا سارا تھیلا لیے گرتے پڑتے لنگڑاتے ہوئے کُرتےکے نیچے دھوتی پہنے جبکہ سر پہ چیک کا سفید اور گلابی رنگ کا صافہ باندھے پتھریلی سڑک پہ لنگٰڑا لنگڑا کے چلتے چلے جا رہے تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ سامنے سے ٹریکٹر گزر رہا ہے سڑک کی دوسری طرف پڑا ملبہ اٹھانے کے لئے۔ مگر یہ کیا تھا وہ دونوں سمجھ رہےتھےکہ وہ شخص نابینا ہے جبکہ سامنے سے آتا شخص لنگڑا تھا ۔ایک ٹانگ سے چل نہیں سکتا تھا ۔دائیں ہاتھ میں چھڑی تھامےاور دوسرے ہاتھ میں راشن کا بھرا تھیلا لئے وہ خود کو بڑی مشکل سے سڑک پہ دھکیل رہا تھا شاید اسکو ٹریکٹر سے پہلے سڑک کو کراس کرنے کی جلدی تھی۔


وہ شخص اب ٹریکٹر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا جبکہ ٹریکٹر چلانے والا ڈرائیور شاید نشے میں دھت ہوکر ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔جو بزرگ کو دیکھ کر بھی ٹریکٹر روکنے کے بجائے چلائے ہی چلا جا رہا تھا اوپر کو ۔۔۔

پپو سے آخری کار رہا نہ گیا اور وہ بزرگ کی جان بچانے کی غرض سے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس شخص تک پہنچا تھا ۔اس دوران وہ ان صاحب کو تو بچا گیا تھا مگر خود کی جان کے ساتھ کھیل گیا ۔

پپو سڑک پہ ہوش و خرد سے بے گانا بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ میلی کچیلی کمیز پہ اب جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔پیشانی سےبھی خاصہ خون رس رہا تھا اسکی۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹


"ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ ایک مشہور مزارکے پیر کا دیا ہوا لڈو کھانے سےدلہا شادی والی رات ہی اپنی جان گنوا ۔ وجہ دولہے کی ماں نے کچھ یہ بیان کی ہے کہ"

" پیر سائیں نے کہا تھا کہ اگر دلہا کو شادی کی پہلی رات یہ دم کئے لڈو کھلاؤ نگی تو وہ جلدی صاحب اولاد ہو جائے۔۔"

"یہی نہیں بقول دلہا کی ماں کہ دلہا کی یہ دوسری شادی تھی جوکہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے نبھا نہ ہو سکا اور شادی 6 سال چلنے کے بعد ختم ہوگئی "


"اوئی تیرے کی مل گیا مجھے ٹاپک"

" یہی پرفیکٹ رہے گا میری تھیسز کے لئے"

"زوئی یہ تو گڈ ہوگیا یار بس میں اسی پر اپنی تھیسز تیار کرو گی"۔۔

وہ چہکتی ہوئی زہرا کے گال پر جارحانہ انداز میں بوسہ دیتی گویا ہوئی۔


" دماغ کا علاج کرواؤ اپنے پتہ بھی ہے کہ یہ کس قدر خطرناک کام ہے ڈھنگ کا ٹاپک لو تھیسز کے لئے بے وقوفی مت کرو "


زہرا اس کے بچپن کی دوست تھی دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہ رہتیں ۔ کبھی وہ زہرا کے گھر پائی جاتی تو کبھی زہرا اس کے گھر دھاوا بول دیتی اور آج بھی یہی ہوا تھا ایک ہفتہ زہرہ کی شکل نہ دیکھی تو وفا بلبلا کر اس کے گھر دندناتی ہوئی جا پہنچی تھی اور اب دونوں زہرا کی امی کے ہاتھ کی بنی مرغ کڑاہی سے مکمل انصاف کرنے کے ساتھ ساتھ ڈسکس بھی کر رہی تھیں۔


"چپ کر جاؤ تم زہرا میری مما کافی ہے روک ٹوک کرنے کے لئے سمجھی تم اب میری دادی اماں تو مت بنو"

وفا نے منہ بسور کے زہرا کو جھنجلا ئے لہجے میں کہا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوئی۔


" مگر ایسے کیسے لڈو تھے کہ جس کے کھانے کی وجہ سے کوئی مر سکتا ہے ؟؟؟"


وہ ابھی تک اس خبر میں ہی الجھی ہوئی تھی ۔۔


"وفا میں اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ تمہارے بس کا کام نہیں ہےیہ"

ذہرہ نے نرمی سے سمجھایا۔

" بہتر ہوگا زوئی کہ ہم کسی اور ٹاپک پر بات کریں"

وہ کہاں کان دھنے والی تھی۔

" تم براہ کرم اس کے بجائے کسی اور موضوع کو سلیکٹ کر کہ تھیسز پر کام شروع کرو!! دور رہو ان چکروں سے بلکہ ایک کام کرو اس خرافات کو ہی اپنے ذہن سے چھٹک کر دماغ کو اچھی طرح تیزاب سے واش کر لو خوامخواہ میں میرا بھی بھیجا خشک کروں گی اور اپنا بھی اور اب میرا سر مت دکھانا ۔۔۔"


" بالکل نہیں وفا کبھی بھی خود سے کیے عہد سے بے وفائی نہیں کرسکتی جب میرا نام وفا ہے تو میں کیسے خود سےکئے گئے وعدے سے بے وفائ کر بیٹھوں ؟؟؟"

وفا نہیں کہتے ہوئے بالکل فلاسفر والا لہجہ اختیار کیا اس کے اس اندازے گفتگو پہ زہرا بے ساختہ ہنسی تھی جبکہ وفا دوبارہ سے وہی نیو چینل جس کا نام حق انٹرٹینمنٹ تھا کو لگائے خبر کو غور سے سن اور دیکھ رہی تھی ۔۔


"وفا میں کہتی ہو بند کرو یہ مذاق کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے جو ایک دفعہ کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی کرنا ضروری نہ ہو جانتی ہو کس قدر خطرہ ہے اور پھر طرح طرح کے لوگ بھی "

"تم کیسے کسی کے دل کا حال جان سکوگی اور پھرتم بھی اچھی طرح جانتی ہو کہ میری امی اس کام میں کبھی تمہارا ساتھ دینے کی اجازت نہیں دینگی اور میں اپنی امی کو اندھیرے میں رکھ کے کوئی بھی کام نہیں کرتی تمہیں پتا ہے بہت اچھی طرح ۔۔۔۔۔"

زہرانے وفا کو ہر ہر پہلو پر روشنی ڈال کے سمجھانا چاہا مگر جانتی تھی کہ وفا اپنے ارادوں کی کس قدر پکی ہے ۔


"او یار تم تو ایسی بات نہ کرو جب کہ تم یہ بہت بہتر جانتی ہوں کہ وہ وفا خطروں کی کھلاڑی ہے اور پھر جانی وہ مثال تو تم نے سنی ہی ہوگی کہ ڈر کے آگے جیت ہے "


"بند کرو یہ اپنے گھسے پٹے ڈائیلاگ میرے سامنے مارنا"

" تو تم اپنی بے جا ضد سے دستبردار نہیں ہو گی"


" نہیں ایک قدم بھی نہیں اس کے باوجود کے راستے خاردار ملینگےتمہیں وفا"

" راستوں کو گلاب کرنا بھی ایک فن ہے جو کسی کسی کو آتا ہے اور یہ فن میں ضرور سیکھنا چاہوں گی "

ترکی با ترکی جواب دیا ۔


🌹🌹🌹🌹


"کامل آغا مجھے واپس گھر جانا ہوگا ابو غصے میں ہے بہت"۔

"اور پھر وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں بہت ہے میرے لئے اتنی تعلیم"

مہمل کی مرمری کلائی اب بھی کامل کے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں تھی جب بنی۔ وہ تیزی سے اسکولئے حویلی کی داخلی سمت بڑھ رہا تھا۔چہرے پہ حد درجہ سنجیدگی رقم تھی جیسے خود کے غصے پہ قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔

مہمل کے ہاتھ میں پہنی کالی چوڑیاں کامل کے مضبوط ہاتھ کی قید میں ٹوٹ چکی تھی۔ ۔


جب اچانک مہمل کی پرنم آواز سن کروہ تھما تھا اور ادھر قریب ہی نیم کے درخت کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں رک گیا ۔وہ اب بہت غور سے محمل کو دیکھ رہاتھا۔ نہ جانےاسکے صبیح چہرے پہ کیا تلاش کر رہا تھا ۔۔


"کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے خوف سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں مہمل"

"میں کمزور نہیں ہوں آغامگر وقت شاید میرا سارھ دینے سے انکاری ہے"

وہ نڈھال سی ہوکہ فرش پہ بیٹھتی چلی گئی اور نیم کے پیڑھ سے افسردگی سے اپنے سر کیپشت ٹکادی آنکھوں کئے موتی ٹوٹ کے بکھرے تھے۔


"وقت کا کام ہے چلتے رہنا اچھا یا برا گزر ہی جاتا ہے اور پھر وقت تمہارے ساتھ نہیں مگر میں تمہارے ساتھ ہوں "

وہ اس نازک سی لڑکی کو بکھرنے نہیں دینا چاہتا۔

"آپکا شکریہ مگر ابو" ۔۔۔۔

"تم بس اپنی اسٹڈیز پہ دیہان دو بلکہ تمہاری ٹیوشن میں خود دونگا تمہیں"

وہ اسکے سر پہ ہلکی سی چپت رسید کرتے ہوئے گویآ ہوا۔

"سچ کامل آغا؟ ؟؟"

وہ ہاتھ بڑھاکہ اپنی ہتھیلی پھیلائے کامل سے وعدہ لینا چاہتی تھی۔ ۔


ایکدم پکا وعدہ اور جس مہمل کو میں جانتا ہوں وہ بزدل ہرگز نہیں ہوسکتی"۔۔


" میں بزدل نہیں ہوں بس مجھ سے منسلک رشتوں کی ناراضگی مجھے اور میرے فیصلوں کوکمزور کر رہی ہے "۔

وہ چہرا ہاتھوں میں چھپائےپھوٹ پھوٹ کے رودی۔ ۔

"مہمل ان آنسوئوں کو میری قبر پہ بہالینا مجھے عورت مضبوط اچھی لگتی ہیں۔ "

"خبردار جو آئندہ یہ بن موسم برسات کی تو ۔۔"

وہ کچھ اس انداز سے بولا تھا کہ مہمل یکدم ہنسی تھی جبکہ کامل نے اس کے سرخ گلابی گالوں پہ بہتے موتیوں کو اپنے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا ابھی وہ پیچھے ہٹ ابھی نہیں تھا کہ جب یکدم گرجدار آواز گونجی تھی ۔


"یہ کیا ہورہاہے ادھر؟ ؟؟؟"

ساری تیاری مکمل ہے نا ؟؟

بس اس لڑکی کے ہوش میں آتے تم لوگ اپنا کام شروع کردینا آج ہر حال میں مال سیٹھ تک پہچنا ہے۔۔۔

تبریز نے مکاری سے کہا اور کمرے پہ ایک طائرانہ نظر ڈالی تیاری ساری مکمل تھی بیڈ کے قریب کیمرا مین اور دو اور آدمی اسکے موجود تھے اس کام میں ماہر۔

آہستہ آہستہ اس لڑکی کو ہوش آنا شروع ہوا تھا وہاں موجود افراد کے چہروں پہ اک شاطرانہ شیطانی چمک ابھری تبریز نے جانی کو کیمرا اسٹارٹ کرنے کا اشارہ کیا اور خود بیڈ پہ کودنے کے انداز میں بیٹھ کر اسپہ جھکا اور اپنا غلیظ کام شروع کیا۔

وہ لڑکی اپنے چہرے کے قریب تیز ترین فلیش لائٹ کو جلتا محسوس کر ہوش میں آئی۔۔۔

"ہٹو مجھےجھوڑ دو"

"کک۔۔۔کون ہو تم لوگ ؟؟؟ اور ۔۔۔اور امی کہاں ہیں میں توانکے ساتھ تھی ۔۔۔"

"ہاہاہا مگر اب تو تو ہمارے ساتھ ہے اور آجکے بعد ساری دنیا تجھے چاہے گی"

ان میں سے وہاں موجود ایک آدمی خباثت سے بولا۔۔۔۔۔

"ؓمم۔۔مم۔۔ مجھے جانے دیں رحم کریں"۔۔۔

وہ اپنا آپ بری طرح سے اس سے چھڑانے کی کوشش کررہی تھی آنکھوں سے خوف کے مارے بھل بھل عشک رواں تھے۔۔

اگر تجھ پہ رحم کھایا تو میری اندھیری رات کو چاندی کون کرے گا؟؟؟؟

وہ اسکے لبوں پہ انگشت شہادت پھیررہاتھا۔

"میں بھی کسی بیٹی کسی کی بہن ہوں خدارا یہ غضب نہ کریں"۔۔

"بہن، بیٹی ہا ہاہا سب معلوم ہے مجھے چل اب وقت برباد مت کر مجھے خوش کرنے کی تیاری پکڑ شاباش "۔۔

"یہاں آئی توتم اپنی مرضی سے ہو مگر اب جاوگی میری مرضی سے"۔۔

وہ اپنی آنکھیں اس کے مرمری سراپہ پہ جمائےایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹے جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسکےبالوں کو بےرحمی سے جکڑے تمام حدود اور قیود پھلانگنے کو تھا۔۔


"تیری اس خوبصورتی کو خراج بخشنا میرا فرض بھی ہے اور حق بھی۔۔۔۔"

یکایک نہ جانے کیسے امید کے جسم میں پھرتی سی سماگئ اسنے پوری قوت سے تبریز کو پرے دھکیلا تھا مگر دوسرے پل ہی دو آدمی استک پہچے تھے اور اسکو بری طرح جکڑا تھا۔۔

زبردست اب تو دیکھ ہم کیسے کیسے سارے ملکر تیری بلیو فلم بنائینگے !!!

اور پھر وہ ہوا جو امید کی سوچ میں بھی نہی تھا وہ تو ماں کے ساتھ ڈیرے پہ خود پہ ہوئےکالے جادو کا اتار کروانےآئ تھی۔

اور ادھر تو اسکی دھجیاادھیر دی گئی تھیں۔۔


💞💞💞💞💞💞


کوئی جانتا ہے یہ کون ہے؟؟

" یہ بدقسمت میری جگہ خود آج اس حال میں پہنچ گیا ۔۔"

"کوئی تو مدد کرو اس بیچارے کی مرجائیگا یہ"

بزرگ نے تماشہ دیکھتے ارد گرد کھڑے لوگوں سے دریافت کیا ۔یہ سوچ کر کہ شاید کوئی اس کے گھر کا پتا جانتا ہو۔۔۔


" نہیں ہم نہیں جانتے شکل سے تو بھکاری لگ رہا ہے پکا "

"اچھا ہوا ایسوں کے ساتھ یہی انجام ہوتا ہے اور ہونا بھی کیا تھااس جیسے سڑک چھاپ غنڈا گردی کرنے والوں کا ۔"

ایک درمیانی عمر کے آدمی نے نخوت سے کہا۔۔


" ارے میرے پپو تو کہاں چلا گیا مجھے اس بھری جوانی میں اکیلا چھوڑ کر؟؟"

"بتا اب کون بجائے گا میرے ساتھ بانسریا ؟؟؟"

" بول میرے جگرے! بتا نہ کچھ تو بول میرے گھی کے پکوڑے"

سنی البتہ پپو پہ جھکا گلا پھاڑ پھاڑ کر بین کر رہا تھا ۔۔

"اے بیٹا اس لڑکےکو کیا تم جانتے ہو؟"

" یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے یا اس کا گھر باہر کہاں ہے؟؟"۔

بزرگ کو لگا شاید اب کوئی حل نکل آئے اس مسئلے کا۔

" یہ میرا پپو ہے اور ہم دونوں کا گھر یہی تو ہے یہ سڑک"

" ہم یہیں تو سوتے ہیں اور ادھر ہی رہتے ہیں کھاتے پیتے ہیں عیش کرتے اور ساتھ میں لڑکیاں بھی۔ ۔۔۔۔۔"

سنی اپنے بہکے بہکے انداز میں گویا ہوا نشے کی وجہ سے وہ اپنے آپ میں ہی نہیں رہا تھاجو سمجھ آرہاتھا وہی ہانکے چلا جارہاتھا ۔

یہ سب باتیں سنی سےسننے کے بعد وہ بہت کچھ اندازہ لگا چکے تھے اور کچھ سوچتے ہوئے انہونے وہاں سے گزرتے ایک رکشے کو ہاتھ دیکر روکا۔

اب مزید ان سے لمحہ بہ لمحہ پپو کی ابتر ہوتی حالت دیکھی نہ گئی اور وہ رکشے میں اس کو لوگوں کی مدد سے بٹھا کر مرہم پٹی کروانے کی غرض سے اپنے محلے کے قریبی ڈاکٹرکے کلینک کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞


"ارے میری بچی تم پریشان کیوں ہوتی ہو میں تمہیں بھائی صاحب کے پاس کوئٹہ ہمارے آبائی علاقہ بھیج دیتا ہوں وہاں پہ کئی مزارات اور ڈیرے وغیرہ ہیں اور پھر سنا ہے کہ ایک بہت مشہور کراماتی بابا کا مزار بھی ہےوہاں جن کے دم درود سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سب اچھا ہو جاتا ہے "


منصور صاحب نے بیٹی کے گرد بازو حمائل کرکہ گویا اسکی حمایت میں بولنا شروع کیا جبکہ وفابڑے مزے سے باپ سے لاڈ اٹھوانے میں مصروف تھی۔


"اب بتاؤ بھلا خدا کے حکم کے بغیر کبھی پتہ بھی ہلا ہے کیا؟؟یہ سب لوگوں کے کچے ایمان اور عقیدے ہیں استغفراللہ "

"اب تو ہر گلی نکڑ پہ کوئی نہ کوئی پیر فقیر بابا نظر آ جاتا ہے اپنےڈراموں کا پوٹلا کھولے "

محوش بیگم بھڑک اٹھیں شوہر کے بیٹی کو اسقدر شہہ دینے پہ۔

"اور نہیں تو کیایہ صرف اور صرف ہم جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی تو اپنےاس فریب کے کام میں پروان چڑھ رہے ہیں ۔۔۔"

"مما آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی کا تو اوپر کا حصہ بلکل ہی خالی ہے !!اچھا مما میں ابھی معاز کی طرف جارہاہوں کم بائن اسٹڈیز کیلئے"

وہاں سے گزرتے بابر نے ہانک لگائی مانو جلتی پہ تیل کا کام کرڈالا اور زبان چڑھاتا یہ جا وہ جا ۔۔۔


"دیکھ لیں میرے بیٹے کو مجال ہے کبھی میری بات سے انکار کرےکسی اور اک یہ ہے آپکی چہیتی"

بابر کی لگائی آگ اب مکمل طرح بھڑک اٹھی تھی وفا دانت پیس کے رہے گئی چھوڑنا تو اسنے بھی نہیں تھا اسکو۔۔۔


"ارے بیگم میں یہ کب کہہ رہا ہوں کہ پیروں کی پھونکوں سے سب ٹھیک ہو جاتا ہے مگر کچھ اللہ کے نیکوکار بندے بھی تو ہوتے ہیں جن کی دعاؤں سے ہمارے بگڑے کاموں میں بہتری آتی ہے وہ بھی صرف خدا تعالیٰ کے حکم سے "

"اور پھر کیا آپ نہیں جانتی کہ میرے خود کے دادا بھی تو لوگوں کو پڑھا ہوا پانی دم کرکے دیا کرتے تھے ؟؟؟

"جی جانتی ہوں مگر آپ کے دادا کا ایمان خدا پہ تھا وہ اللہ کا کلام لوگوں کو ان کے مسائل کے لئے پڑھنے کی تاکید کرتے تھے خدا کے کلام کو پڑھ کے بیماروں کو دم کیا کرتے اور اللہ کے فضل سے وہ دیندار تھے تب ھی ان کی دعاؤں میں بھی برکت اور تاثیر تھی آج کل کے جعلی پیر کیا آپ نہیں جانتے ان کو ؟؟"


"ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بجا فرمایا بالکل محوش بیگم !! میں آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں چلئے آپ کی پریشانی بھی ا بھی دور کیے دیتے ہیں "

وہ اطمینان سے گویا ہوئے۔


"کیا مطلب وفاکہیں آپ کو جانے کی اجازت تو نہیں دے رہے نا" ۔

وہ مشکوک ہوئیں ۔


"پریشان مت ہو ہماری بیٹی بھائی صاحب کے گھر جائے گی وہیں قیام پذیر رہے گی جب تک اسکا کام مکمل نہیں ہو جاتا "


"بھائی صاحب رہنے دیں بس "

مجھے ایک نظر نہیں بھاتے آپ کے وہ مغرور چچا زاد بھائی اور ان کی بیگم صاحبہ مجال ہے جو دونوں میاں بیوی اپنے آگے کسی کو خاطر میں لائے ہوں کبھی "

ارے بیگم آپ تو خاصی ہلکان ہو رہی ہو خوامخواں میں ۔سوچئے ذرا ایک دفعہ پھر سے وہ اس علاقہ میں رہائش پذیر ہے اور سب سے فائدہ مند بات یہ ہے کہ وہ ہمارے علاقے کے حاکم میں ہیں۔ دور دور تک ان کے فیصلوں کی بجا آوری کی جاتی ہے ۔تو اب یہ غرور اور تکبر تو ان پر اور ان کی زوجہ محترمہ پہ ججتا ہی ہے ۔۔"

منصور صاحب ڈٹ گئے وہ مطمعین تھے کیونکہ انکے چچا زاد بھائی خاصے اسر و رسوق والے تھے اور وفا کو وہ کبھی بھی تھیسس کیلئے مزاروں کی خاک نہ چھان دیتے اور یوں وفا کا دل اچاٹ ہوجانا تھا اور انکے رہن سے گھبراکر اسنے واپس آجانا تھا ۔


"تو ہم کون سے کوئی کمایا ہے ان کے مقابلے میں؟؟ خیر سے اچھا کھاتے کماتے ہیں حلال رزق خدا کے فضل و کرم سے میسر ہے ہمیں اور خیر سے الحمدللہ

ہزار گز کا ہمارا گھر ہے ۔اسپئر پارٹس کی کئی فیکٹریاں ہیں ہماری تو پھر ہم اور ہماری سر پھری صاحبزادی میں تو نخرے نام کو نہیں بلکہ بٹیا رانی تو ہماری خیر سے انسانیت کی علمبردار شدید محبت کرنے والوں میں سے ہے"


محوش بیگم نے شوہر منصور احمد کو اچھی طرح سے لیکچر دے ڈالا۔


" ارے بھئی آپ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ہمارا تعلق پڑھے لکھے معاشرے سے ہے اور وہ ٹھہرے غیر تعلیم یافتہ لوگ مگر یقین مانو ہماری اکلوتی بیٹی کا بخوبی خیال رکھیں گے"


وفا اپنے اماں اور ابا کو الجھتا دیکھ وہاں سے خاموشی سے رخصت ہو چکی تھی جانتی تھی اب مقدمہ اس کے بابا لڑ رہے تھے اس کے لئے ۔بس پھر کامیابی تو پکی تھی۔

وہ مسرور سی ہوئی زہرا کو بریکنگ نیوز دینے چل پڑی ۔۔۔

💞💞💞💞💞

"واہ یہاں تو عشق معاشقے چل رہے ہیں۔"

جابر آنکھوں میں عجیب سی چبھن لئے گویا ہوا لہجہ آگ برسارہا تھا۔

کیا ہورہا ہے یہ سب؟؟؟؟وہ مہمل کو تمسخر اڑاتی نظروں سے گھور رہا تھا

جابر اپنی حدود مت پھلانگو

نن ۔۔۔۔ نہیں جابر آغا ایسا کچھ نہی ہے۔۔۔

مہمل سراسیما سی اٹھ کھڑی ہوئ بوکھلاہٹ میں سر پہ اوڑھا دوپٹہ فرش پہ ہی گر گیا۔۔

آئندہ یہ مجھے تمہارے سر سے ڈھلکا ہوا نہ دکھے مہمل یاد رکھنا اور ا ب جائو تم جاناں کے پاس میں آرہا ہوں وہاں۔

آخری جملہ کامل نے جابر کو شعلے برساتی نظروں سے دیکھتے ہوئے چبا چبا کر کہا جبکہ مہمل منہ پہ ہاتھ رکھے روتی ہوئی حویلی کی داخلی روش پہ بھاگی تھی۔

"کیا بات ہے اتنی جی حضوری مجھے بھی سکھادو یہ ہنر "

"ویسے بری نہیں ہے میں سوچ سکتا ہو کچھ کیو سہی کہہ رہا ہوں کہو گے تو پریکٹیکل کر کے دکھا سکتا ہوں"

وہ گھنی مونچھوں کو تائودینے لگا

"اپنی اوقات میں رہو جابر اور مہمل سے جتناہوسکے دور رہو"

کامل کا خون کھول اٹھا ۔

"کام ڈاون تم تو شادی شدا ہو میرے پاس خیر سے آپشن باقی ہے"

جابر نے کامل کی آنکھوں میں دیکھ کہ جتایا۔

اور اسکا شانا تھپتپا کہ آگے بڑھ گیا۔۔۔

کامل محمل سے پورے آٹھ سال بڑا تھا محمل کے ماں باپ حویلی کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھے ان کا شمار گھر کے ملازمین میں نہ تھا مگر حیثیت ملازمین کی ہی جیسی دی جاتی تھی۔

جب تک کامل کا باپ ذیشان حیدر خان حیات تھا تب تک وہ لوگ حویلی کے اندر ہی رہائش پذیر رہےتھے ۔

ایک روز ذیشان خان ہی ان لوگوں کو اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئےحویلی لے کر آیا تھاوہ احسان فراموش ہر گز نہ تھا یہی وجہ تھی وہ خود پہ کیا ان میاں بیوی کا احسان اتارنے کی غرض سے ساتھ حویلی ہی لےکرآگیا تھا ۔

سلیمان اوراس کی بیگم نے ذیشان حیدر کی اس وقت مدد کی تھی جب وہ شکار سے واپس آتےوقت میں شدید زخمی ہو گیا تھا علاقہ غیر کے کچھ دشمنوں نے اس کی یہ حالت کر ڈالی تھی ۔

ذیشان کی قسمت اچھی ہونے کی وجہ سے وہ بچ گیا کیونکہ سلیمان اور اس کی بیوی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے ٹھیلے پہ بھر رہے تھے ۔بس اب ان کا کام مکمل ہوچکا تھا اور وہ لوگ گھر کے لیے روانہ ہونے کو تھےجب جنگل میں ایک شخص ان کو انتہائی زخمی حالت میں خون میں لت پت اوندھا پڑا ملا ۔ زخمی ملنے والے شخص کو وہ نہیں جانتے تھے کیونکہ وہ زیشان حیدر خان کے علاقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔ان دونوں کا گھر ذیشان خان کے قبائلی علاقے سے میلوں دور ایک چھوٹے سے قصبے میں تھا ۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے تھے اپنے ایک بیٹے بلال کے ساتھ ۔

ذیشان خان کو زخمی حالت میں تڑ پتہ دیکھ سلیمان کی بیوی سے رہا نہ گیا اور وہ شوہر کی ناراضگی مول لینے کے باوجود اس کو سلیمان کی مدد سے زبردستی تھیلے پر لٹا کر اپنے قصبے میں لے آئی ۔کئی دن اس کی تیمارداری کی اور جب وہ ذرا بہتر ہوا تو ذیشان خان کو بخوبی اپنے محسنوں کی معاشی حالت کا اندازہ ہو چلا تھا وہ ان کو بغیر احساس دلائے اس بات کا اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئے وہ قصبہ چھڑوا کر حویلی لے کر آگیا تھا۔

کامل آٹھ برس کا تھا اس وقت جب وہ لوگ ایک دن ذیشان حیدر خان کے ساتھ حویلی آئےجبکہ اس سےسال بھرچھوٹی ایک بہن مریم تھی۔ کامل اور مریم ذیشان حیدر کے بد دو ہی بچے تھے ۔

حویلی آنے کے کچھ مہینے بعد سلیمان کو اللہ نے شادی کے کئی سال بعد بلال کے بعد مہمل سے نوازا ۔ سلیمان بیٹی کی ولادت پہ خاموش تھا۔ خوشی اس کے چہرے پہ نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ سلیمان کی بیوی اور بیٹا بلال تو مانو جیسے کھل اٹھے تھے ۔حویلی میں جب چھوٹی محمل کو خورشید گاؤں کے چھوٹے سے کلینک نما ہسپتال سے گھر لے کر آئیں تو گھر کے سبھی بچے خوشی سے محمل کی طرف بڑھے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا ما سوائے ایک کے اور وہ تھا ذیشان خان کے بڑے بھائی فرقان حیدر خان کا بیٹا راغب خان جبکہ اس سے پانچ برس چھوٹی بہن کشمالہ جو کہ اس وقت پانچ سال کی تھی محمل کو گود میں اٹھائے اٹھائے گھوم رہی تھیں ۔

راغب خان اپنی ماں کی پرچھائی تھا دولت کی چکا چوند نے اس کو مغروراور خود سربنا ڈالا تھا ۔اسکا مزاج ہر وقت آسمانوں سے باتیں کرتا ۔فرقان خان اور اس کی بیوی قرۃ العین فرقان خان ۔۔،سلیمان اور اس کے گھرانے کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے وہ تو ذیشان خان اور اس کی بیوی کی وجہ سے لحاظ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ورنہ حویلی میں سلیمان کو جگہ کسی صورت نہ دی جاتی ۔

محمل چونکہ حویلی میں سب سے چھوٹی ہونے کے سبب سب کی لاڈلی بن بیٹھی تھی ۔

کامل بہت خیال رکھتا اس کا۔ مہمل کی ہر خواہش پوری کرنے کی زمیداری گویا اسنے اپنے زمے لے ڈالی تھی ۔جس اسکول میں خود پڑھتا تھا وہیں ماں سے کہہ کر مہمل کا بھی ایڈ میشن کروا ڈالا ۔حدیہ تھی کہ وہ اپنی کلاس میں بیٹھا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا کہ مہمل چھوٹی ہے اس کو کوئی پریشان تو نہیں کر رہا کوئی بچہ اس کو تنگ تو نہیں کر رہایا پھرکہیں کلاس کی ٹیچر اس کو کٹ تو نہیں لگا رہیں!! بس اسی پریشانی میں وہ ہر تھوڑی دیر بعد اس کو بار بار دیکھنے کلاس میں آتا کہ کہیں وہ رو تو نہیں رہی ہے اور مہمل کا یہ حال تھا جیسے ہی کامل کو دیکھا کلاس روم کے باہر اس کو دیکھ کے زور و شور سے گلا پھاڑ پھاڑ کررونا شروع کر دیتی ۔کامل ہوتا اسکو روتا دیکھ کر اپنے ساتھ ہی اپنی کلاس میں لے کر آ جایا کرتا تھا جبکہ مہمل کلاس میں اسکی گود میں ایسے بیٹھا کرتی تھی جیسے یہ کلاس روم نہیں ان کے گھر کا ڈرائنگ روم ہو ۔

کامل علاقے کے حاکم کا پوتا تھا تھا اس لئے کسی کی مجال نہیں تھی کامل کو کچھ کہنے کی اور مہمل کے معاملے میں تو ہر ایک کو اندازہ تھا کہ وہ کیسااور کس قدر حساس بھی ہے ۔

وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو کھانا کھلاتا یہاں تک کہ گھر میں بھی مہمل صاحبہ اسی کی گود میں بیٹھی بڑے مزے سے کھانا پینا کرتی نظر آتیں ۔

16سال کا ہوتے ہی ذیشان خان نے کامل کو پڑھائی کے لیے ابروڈ بھیج دیا جس دن کامل گیا محمل اس دن سے بہت اداس رہنے لگی وہی تو تھا جو اس کو راغب کی ڈانٹوں سے بچاتا اور تائی کی خشمگین نظروں سے دور چھپاکررکھتا تھا ۔

مہمل کی خوشگوار زندگی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی تھی پہلے کامل ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں چلا گیا اور پھر ایک دن ذیشان حیدر !!


سبھی بہت خوش تھے خاص کر مہمل کو تو گویا جیسے خوشی سے پر لگ گئے تھے ۔کامل ابراڈ سے ٠١ سال بعد واپس آنے والا تھا اس کے آنے میں صرف ایک ہفتہ ہی بچا تھا وہ لوگ کامل کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے ۔مہمل اس وقت سترہ سال کی ہوچکی تھی کامل کو لیکر وہ خود بھی اپنے احساسات سمجھنے سے قاصر تھی۔ بس کامل کا نام سنتے ہی اسکا دل۔ اک بیٹ مس کرجاتا اور وہ خوامخواں میں خودہی سے نظریں چراجاتی ۔


اک روز جب کامل کے آنےمیں محض دودن۔ رہے گئے تھے تب اچانک ذیشان خان کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا اور وہ دنیا فانی سے کوچ کر گیا ۔


مہمل کی خوشگوار زندگی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ باپ کی موت سے کامل کو بہت شدید جھٹکا لگاتھا ۔ غم کی شدت ہی ایسی تھی کہ وہ مہمل پہ زیادہ دھیان نہ دے سکا اور پھر وہ جس طرح واپس آیا تھا اسی طرح چند گزار کے خاموشی سے واپس چلا گیا ۔

مہمل سمجھ نہ سکی کامل کی یہ اجنبیت۔ دل بہت دکھی ہوا مگر اپنے آپ کو تعلیم دلوانے کے لیے جت گئی یا پھر بہلا نا سیکھ گئی تھی خود کو ۔۔


تائی بیگم کے ہاتھ میں گھر کا سب نظام آتے ہی انہونے سب سے پہلے سلیمان کے گھرانے کو حویلی کے اندر سے نکال سرونٹ کواٹر میں شفٹ کرڈالا۔


ایک سال بعد اچانک ہی کامل واپس آیا تھا مگر وہ۔ اکیلا واپس نہیں لوٹاتھا ہاتھ میں اپنے ساتھ ایک ٢ سالہ معصوم ننہی کلی کو بھی لایا تھا ۔وہاں اسنے اپنی اک فرنگی دوست سے شادی کرلی تھی جوکہ زیادہ عرصہ نبھ نہ سکی اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔

🌹🌹🌹🌹🌹


"تم اگر چاہو تو یہاں میرے ساتھ رہے سکتے ہو میرا کوئی نہیں ہے میں بھی تمہاری طرح اکیلا ہوں کوئی نہیں ہے میرا بھی۔ "

پپو اب ٹھیک ہوچکا تھا اور جانے کیلئے پر تولنے لگا جب انہی بزرگ (شاہد صاحب)نے کہا۔

مگر میں کیسے رہے سکتا ہوں یہاں؟ ؟

پپو کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی سڑک پہ گزر بسر کرنے والے کو گھر میں جگا دیتا۔

تھوڑی دیر تک وہ سوچتا رہا اور گھر مل رہا تھا مفت میں رہنے کو کھانے کو کھانا اسکو اور کیا چاہئے تھا سوچ بچار کرکے پپو نے ہاں کردی۔

"تم ٹھیک ہو اب میرے ساتھ کل سے کام پہ چلنا۔ "

شاہد صاحب نے روٹی کو سالن میں ڈبو کر منہ میں رکھااور بہت غور سے پپو کو دیکھنے لگےجیسے جواب اسکے چہرے پہ کھوج رہے تھے۔

"کیسا کام کیا نوکری کرنی ہوگی مجھے؟ ؟؟"

وہ لاپروائی سے بولا شاہد صاحب خوب سمجھ رہے تھے کہ وہ اس وقت انکے گھر میں موجود آسائشات میں کھویا ہوا تھا۔

"تم جب ساتھ چلوگے تو سمجھ جائوگے اچھے سے۔"

وہ بہت گہرے لہجے میں گویا یوئے آنکھوں میں اجیب سی چمک تھی۔


🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


مسلسل چار گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی ایک جھٹکے سے پتھریلی سڑک پر رکی تھی بابا نے کراچی سے اس کو بائی ایئر کوئٹہ بھیجا تھا ۔

ایئرپورٹ پہ پہلے ہی اس کے انتظار میں ڈرائیور ہاتھ میں تختی لیے اس کا منتظر تھا۔

ایئرپورٹ سے جو سفر شروع ہوا تو گاڑی چار گھنٹے مسلسل پتھریلے اونچے نیچے راستوں سے گزرتی رہی وفا آنکھوں میں اشتیاق لئے کوئٹہ کے خوبصورت پہاڑوں میں سے بنائے گئے راستوں کو دیکھتی رہی۔ وہ اونچی نیچی پہاڑوں کی چوٹیوں میں ایسے کھوئی ہوئی تھی جیسے قدرت کا سارا حسن اس کے لیے یہاں سمٹ آیا تھا ۔جب اچانک گاڑی ایک زوردار جھٹکا کھا کر رکھی تھی ۔۔


کیا ہوا خان بابا کیا ہماری منزل ا گئی ہے ؟؟

وہ چونکی تھی ۔

"نہیں بی بی ابھی تمہارا منزل نہیں آیا ہے بلکہ یہ سمجھو کہ کچھ دیر کو انتظار کرنا ہوگا ۔۔"

ادھیر عمر ڈرائیور کچھ پریشانی سے گویا ہوا۔


"سب خیر تو ہے نا بابا مجھے بتائیں ہو سکتا ہے میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں "

وفاکو لگا شاید ہلکا پھلکا ٹائر پنکچر ہو ا ہوگا دوسرا لگانے کی ضرورت ہوگی تو وہ بابا کے ساتھ مل کر بڑے آرام سے لگا دے گی ڈرائیونگ تو وہ خود بھی جانتی تھی اور اپنی گاڑی کے چھوٹے موٹے کام خودہی سرانجام دیا کرتی تھی ماما تو اس کو غصے میں ٹام بوائے کہا کرتی تھیں ۔

"نہیں بی بی تم ہماری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا اور پھر تم ہمارا مہمان ہے ہم کیسے تم سے کوئی مدد لے سکتا؟؟؟"

" مسئلہ تو سارایہ ہے کہ ہم تم کو اس علاقے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا یہ علاقہ غیر ہے ابھی ہمارا قبائلی علاقہ آنے میں دو گھنٹے کا سفر مزید باقی بچتا ہے "

وہ پریشان تھا کیسے جوان جہان لڑکی کو تن تنہا چھوڑ کے پٹرول کی تلاش میں نکل پڑتا ۔

عصر کا وقت ہو چلا تھا اور پھر تھا بھں یہ علاقہ دشمن کے علاقے سے جڑتا ہوا ۔

"بابا اگر آپ مجھے مسئلہ بتائیں گے تو ہو سکتا ہے آپ کی مشکل حل ہو سکے۔"

وہ بضد تھی اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے ۔

"بیٹا ہم جب حویلی سے نکلا تھا اس وقت گاڑی میں مکمل پیٹرول بھروایا تھا مگر اب ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے راستے میں پیٹرول گاڑی سے رستے رہنے کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے "۔۔

ڈرائیور خاص اپنے پشتو لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے ہوئے اس کو سمجھانے لگا ۔

"اوہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں کے راستےکافی پتھریلے ہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے سفر میں تو!! آپ پریشان نہ ہوں اور اس میں کون سی بڑی بات ہے آپ جائیں میں گاڑی ہی کے اندر بیٹھی رہوں گی آپ کے آنے تک "۔

"ٹھیک ہے بچے جانا تو مجھے ہوگا !!نہیں تو تم حویلی کیسے پہنچے گا اور پھر اس جگہ موبائل کا سگنل بھی تو نہیں آتا ہے مجبوری ہے ہم کو جانا ہی ہوگا کیونکہ رات گہری ہو نے سے پہلے ہم کو تمہارے کو حویلی بھی تو پہنچانا ہے ہر صورت ورنہ بڑا آغا ہماری جان لے لے گا اور پھر ہم سمیت ہماری نوکری بھی خطرے میں پڑ جائے گا"

وہ مجبور تھا جبکہ وفا اس کی بات کو چٹکیوں میں اڑا گئی اس کی نظر میں یہ محاورہ تھا مگر حقیقت یہی تھی اگر وہ اسکے کہے جملے پہ غور کرتی یا سوچتی تو یہ بہت گہری بات تھی جو ڈرائیور نے اس سے کہی تھی "

"اچھابی بی تم ایک کام کرو یہ کالی چادر اوڑھ لو اچھے سے تاکہ تمہارا چہرہ کسی کو نہ دکھے اور کوشش کرنا کہ اگر تم کو لگے بی بی کہ کوئی تم تک پہنچ رہا ہے تو گاڑی کے اندر چھپے رہنا نکلنا نہیں کچھ ہی فاصلے پہ دشمن کا علاقہ ہے ۔۔"

"ٹھیک ہے بابا !! آپ جائیں میں سمجھ گئی آپ کی بات کو"

وہ لاپروائی سے بولی اور خود کو اچھی طرح کالی جادر میں ڈھانپ لیا۔

سفر کی تھکان ایسی تھی کہ وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لگائے لگائے نہ جانے کب سو گئی کافی دیر سے وہ سو رہی تھی ۔

چہرہ پہ سے کالی چادر سرکنے کی وجہ سے واضح ہورہاتھا۔

دودھیا چہرہ اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا ناک میں پہنی ڈائمنڈ کی ذرا برابر نوزرنگ اسکے نوخیز حسن کو مزید چار چاند لگانے کے لیے کافی تھی سنہری بالوں کی آوارہ لیٹیں کے چہرے سے اٹکھیلیاں کرنے میں مصروف ہوئی اس پر تضاد جلتا ہوا سورج وفا کے چہرے پہ اپنی شعائیں بکھیرتا مزید سنہری گلنار کر رہا تھا۔

یہ حسین منظر کوئی بہت غور سے ملاحظہ فرما رہا تھا ۔وفا کی معصومیت ملی خوبصورتی کسی کے دل میں تلاطم سا برپا کر گئی تھی ۔

اس اجنبی سے مزید خود پہ جبر نہ ہوا تو وہ خود پہ اچھی طرح مردانہ شال اچھی طرح لپیٹ کر مونچھوں کو تاؤ دیتا گاڑی کے بالکل قریب آن پہنچا وفا کا سر نیند کے باعث چھلک کر گاڑی کے شیشے سے آلگ تھا۔ آنے والے شخص نے اپنی انگشت شہادت سے شیشے پہ انگلی پھیرتے ہوئے وفا کے نقوش کو چھوا تھا ۔

گہری نظریں خود پہ محسوس کر وفا کی نیند یکدم ٹوٹی تھی۔ پلکوں کی چلمن جیسے ہی اٹھی اپنے سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وفاء کے چہرے کی ہوائیاں اڑھ سی گئی تھی آنکھوں میں خوف کی تحریریں رقم تھیں۔

اے لڑکی ادھر تو آزرا"

تائی بیگم نے محمل کو آواز دی جو جانا کے لئے نوڈلز بنانے کچن میں جارہی تھی ۔


'"جی تائی بیگم میں بس ابھی آتی ہو جاناں بھوکی ہے اس کے لئے نوڈلز بنا کہ۔ ۔۔۔۔"

وہ جلدی سے بولی کیونکہ جاناں نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا تھا مگر ابھی اسکی بات مکمل بھی نہ ہونے پقئی تھی کہ تائی بیگم کی غصے میں چنگھاڑتی آواز حویلی کے حال کمرے میں گونجی تھی۔ مہمل سہم سی گئی۔


" لڑکی تم ایک بات کان کھول کر سن لے ہماری اگر تم نے آئندہ میری بات کو نظر انداز کیا تو میں تمہارا وہ حل کرے گی جو تم سوچ بھی نہیں سکتی اور جانا ں کو چھوڑو ہر وقت اس کا منہ بکری کی طرح چلتا ہی رہتا ہے ۔ماں تو اس کو چھوڑ کر چلی گئی ہمارے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ۔وبال جان بن کے رہ گئی ہے یہ بچی تو "

جاناں کے لیے ایسے الفاظ وہ اکثر و بیشتر سنتی رہا کرتی تھی مگر نہ جانے کیوں جب جب جاناں کے لیے کوئی اس طرح کے الفاظ استعمال کرتا مہمل کا دل خون کے آنسو روتا ۔کبھی کبھار تو محمل کا دل چاہتا کہ وہ بولنے والے کو منہ توڑ جواب دے مگر ایسا کرنا اس کے بس میں نہ تھا !!اس سب میں جاناں معصوم کا بھی کیا قصور تھا آخر بھلا جو ہر وقت اس کے لئے اس طرح کے الفاظ تائی بیگم بولا کرتیں ۔


"اب تم کس سوچ میں پڑ گیاہے؟؟ جاؤ اور جا کر یہ سب چیزیں کشمالہ کے کمرے میں رکھ کر آو اور اس سے کہدو ام کو جلدی سے سائز وغیرا بتائے شام سے پہلے سمجھ گیا تم کشمالہ سے کیا کہنانہ؟ ؟؟ اور چار دن بعد اس کی رخصتی ہے عید کے پانچویں دن یاد رکھنا حویلی میں بہت کام ہے سمجھلو یہ بات اور ہر وقت کام چوری مت کرتی رہنا جاناں کی آڑ میں"۔

"نکمی جئی نہ ہووے تو ۔"

تائی بیگم نےاپنے خاص پشتو زبان میں بولتے ہوئے منہ میں نسوار دبایا ۔ لہجہ حد درجہ کرختگی۔ لئے ہوئے تھا۔

انہوں نے ہمیشہ کی طرح کڑوی کسیلی سنا ڈالی تھی مہمل کو۔ اتنی بےعزتی سہنے کے بعد وہ بہت دلبرداشتہ سی ہوگئی ۔اندر ہی اندر آنسو پیتے ہوئے اس نے کشمالہ کے کمرے میں لے جانے والا سامان اٹھایا ۔

کشمالہ کے لیے تائی بیگم نے بارات کے دن پہننے والا سرخ رنگ کا خاص پٹھانی طرزکا بنا نفیس سے کام والے شرارہ کے ساتھ خان گھرانے کے روایتی وزیرات بھی بھیجے تھے ۔


ایک دو دفعہ کھٹکا کرنے کے بعد اجازت ملتے ہی محمل نے دروازہ وا کیاتھا۔ سامنے کشمالہ بیڈ کے سرہانےسے ٹیک لگائے حسب حال موبائل ہاتھ میں لیے پکڑے خوامخواہ مسکرائے چلی جارہی تھی ۔کشمالہ کی شادی اس کے سگے ماموں ذاد سے طے پائی تھی وہ اس کی بچپن کی مانگ تھی ۔۔


"میں نے تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ دروازے کو ناک مے کیا کرو مہمل مگر تم ہو کہ ہمیشہ یہی کرتی ہو"


وہ بیڈ کے سرہانےسے ٹیک لگائے موبائل ہاتھ میں لئے بیٹھی کسی سے باتوں میں مصروف تھی مہمل اسکو دیکھ کر بےساختہ مسکرائی تھی ۔اسکے خیال میں کشمالہ اپنے ہونے والے شوہر سے بات کر رہی تھی اور پھر اس میں کوئی شک کی گنجائش بھی نہ تھی کیونکہ ۴ دن میں اس کی شادی بھی ہو جانی تھی اگرچہ خان گھرانے میں لڑکیوں کو موبائل رکھنے کی اجازت نہ تھی مگر یہ بات سے مہمل جانتی تھی کہ کشمالہ کے پاس فون ہے ۔کشمالہ نے اس کو یہ راز راز رکھنے کے لئے کہا تھا ۔وہ کیا کہہ سکتی تھی کہنے کی اس کی اوقات ہی کیو تھی آخر!! اس لئے بس خاموش ہوگئی تائی بیگم کے موازنہ میں کشمالہ کا رویہ محمل کے ساتھ بہت ہی اچھااور پر خلوص تھا۔ کشمالہ محمل کو بہت محبت سے رکھاکرتی بالکل چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کرتی تھی وہ اس کو ۔


"مالا آپی یہ تائی بیگم نے آپ کے شادی والے دن پہننے والا لباس اور زیورات بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ آپ اس کو پہن کر دیکھ لیں اور جو بھی کمی بیشی ہو بتا دیں "۔

کشمالہ کے میسج ٹائپ کرتے ہاتھ لمحے بھر کو تھم سے گئے تھے چہرے پر موجود کچھ پل والی شوخی کی جگہ اب ویرانی نے ڈالی تھی۔ تاریخ سایہ اس کے چہرے پہ۔یکایک منڈلایاتھا ۔


"پلیز مالا آپی تم جلدی سے پہن کے دیکھ لو ورنہ تائی بیگم کا غصہ مجھ پہ ہی نکلے گا اگر دیر کرو گی تم" ۔

وہ تائی بیگم کے عتاب کا نشانہ ایک دفعہ پھر سے بننے کی ہرگز بھی روادارنہ تھی اسلئے پریشانی سے گویا ہوئی۔


"یار میرا بھی موڈ نہیں ہے ایک کام کرو تم پہن کر دیکھ لو اور ویسے بھی تمہارا اور میرا ناپ بالکل ایک جیسا ہے بلکہ چلو ایک کام کرتے ہیں تم جلدی سے چینج تو کرکے آؤ ذرا "

کشمالہ نے اسکے آگے اپنا عروسی جوڑا کرا۔ وہ نہ سمجھی سے کشمالہ کو دیکھتی رہی مگر جیسے ہی کشمالہ کہ کہنےکامطلب اسکے پلے پڑا وہ تو جیسے سرد پڑ گئ بوکھلاہٹ اسکے ہر ہر انداز سے نمایا تھی۔ مگر کشمالہ نے اس کے نانا کرنے کے باوجود اسکی ایک نہ سنی اور اسکو ڈریسنگ روم میں دھکیل کر ہی دم لیا۔کچھ ہی دیر میں کشمالہ نے محمل کو دلہن کی طرح سے سجا ڈالا تھا۔


" مالا آپی یہ کیا ہے آپ نے تو مجھے دلہن ہی بنا ڈالا" ۔

محمل اپنا سجا سنوراسراپہ شیشے میں دیکھ کہ جھینپ سی گئی ۔چہرے پہ بہت انوکھا سا روپ آیا تھا اس کے کشمالہ کا ارادہ اس کی تصاویر لینے کا تھا مگر جاناں روتی ہوئی اس کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی کشمالہ کے کمرے میں آن پہنچی تھی کیونکہ مہمل کے بعد کشمالہ ہی تھی جو اس کا خیال رکھا کر تی تھی ۔۔

"ارے جانا ں گڑیا میں بس آہی رہی تھی آپ کا کھانا لے کر"

مہمل نے جاناں کو خفا دیکھ کر پوکھلا کر کہا۔


" نہیں آپ بہت گندی ہو!! جاناں کو بھوک لگی تھی اور مہمی نے اس کو کھانا نہیں دیا ہےمیں بابا جانی کو شکایت کروں گی کہ مہمی گندی فرینڈ ہے جاناں کی بہت ۔"

وہ پھولے پھلے گالوں کو مزید پھلا کر نروٹھے پن سےگویا ہوئی۔


"' مالا آپی دیکھا میں نے کہا تھا نہ کہ جاناں بھو کی ہے مگر آپ نے میری اک نہ۔ سنی"

وہ مالا سے خفا ہو ئی ۔جاناں پہ ترس بھی آیا اگر اسکے پاس ماں ہوتی اسکی تو کیا جاناں اب تک بھوکی رہے سکتی تھی؟ ؟ یہ خیال آتے ہی اسکو خود پہ شدید غصہ عود کر آیا تھا۔


وہ پریشان ہوئی کیونکہ اتنا سج سنور کر کچن میں کیسے جاسکتی تھی اور پھر تائی بیگم یا پھر کوئی ملازم وغیرہ اس کو مالا کے نکاح کے جوڑے اور زیورات پہنے دیکھ لیتا تو قیامت برپا ہو جانی تھی پوری حویلی میں ۔


کشمالہ نے مہمل کی روتی بسورتی شکل دیکھ کر جلدی جلدی لپسٹک کو آخری ٹچ دیا اور خود جاناں کے لیے نوڈلز بنانے کے لئے کچن میں جانے سے پہلے ہار اس کے ہاتھ میں تھمایا بس یہی پہنانا باقی تھا اور سر پہ دوپٹہ پن کرکہ سیٹ کرنا تھا ۔دوپٹہ پہ رکھا ہوا تھا ۔

'یہ پکڑو بس یہ گلے میں پہنانا باقی ہے اور دوپٹہ سرپہ سیٹ کرنا رہ گیا ہے پھر خوبصورت تصاویر لونگی تمہاری مزہ آئے گا دیکھنا پھر کیسی ماڈل لگوگی"


کشمالہ کو ہمیشہ سے بیوٹیشن بننے کا شوق تھا مگر حویلی کی روایات کی وجہ سے اپنا یہ شوق مہمل پہ ہی پورا کر لیتی تھی بس !!

وہ گلے میں پہننے والا سچے موتیوں کا ہار اس کے ہاتھ میں تھما کر چلی گئی تھی کہنے کو تو وہ نوکرانی سے بھی کہہ سکتی تھی مگر پھر بات تائی بیگم تک پہنچ جانی تھی۔ اسی لئے مہمل کو جاناں کے پاس بٹھا کر خود ہی اس کے لیے کچن کی طرف بڑھ گئ۔


" اچھا بس اب تو آپ کا کھانا آرہا ہے نہ گڑیا پھر آپکی مہمی آپ کو اپنے ہاتھ سے کھلائے گی"


مہمل۔ نے دو زانو بیٹھ کے جاناں سے کہا مگر جاناں خاصی خفا تھی یکدم غصے میں آکہ ادنے مہمل کے ہاتھ میں پکڑا ہار اپنے ہاتھ میں چھین کر پکڑا تھا اور کشمالہ کے کمرے سے باہر کو بھا گ گئی تھی۔۔


" نہیں ایسا مت کرو جاناں پلیز واپس آجائو گڑیا میری"

مہمل خوفزدہ ہو کر جاناں کے پیچھے بھاگی اس کو اپنا دوپٹہ تک اٹھانے کی مہلت نہ مل سکی تھی بس دل میں یہ خوف تھا کہ کہیں جانا انجانے میں تائی بیگم کو ہی نہ پکڑا دے ہار ۔

جاناں کوریڈور تیزی سےعبور کرتی پرلی برف موجود کامل کے کمرےکا دروازہ کھلا دیکھ کہ اس کے کمرے میں جا گھسی تھی۔ محمل تیزی سے اس کے پیچھے بھاگی ۔


"جاناں بس گڑیا آپ اب تو ناراضگی ختم کرو میری جان یہ مجھے دے دو ہار میں تمہیں چوکلیٹ دونگی ڈھیرساری"

کامل کا کمرہ خالی تھا وہ کا کم ہی گھر میں نظر آتا تھا ۔کامل کو اسکے کمرے مءں نہ پاکر مہمل نے سکون کا سانس بھرا تھا کہ وہ اس وقت حویلی میں موجود نہ تھا ورنہ اسکو دلہن کے روپ۔ میں دیکھ لیتا تو کتنی سبکی ہونی تھی۔


مہمل۔ ابھی ٹھیک سے اطمینان کا سانس فضا میں خارج بھی نہ کر پائی تھی تھی کہ جاناں کو شرارت سوجی اور وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر کو نکلی تھی ہار اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا مگر جانے سے پہلے وہ مہمل کو کامل کے کمرے میں بند کر گئی تھی۔ حویلی کے دروازوں میں باہر بھی دروازے کے بیچ و بیج کنڈی نصب تھی وہ کمرے سے باہر لگا کر جانا مہفل کو اندر بند کیے باہر کو بھاگ چکی تھی ۔

کھٹ سے کمرے سے ملحق اسٹڈی روم کا دروازہ کھلا تھا اور کامل کو اسٹڈی روم سے نکلتا دیکھ محمل کے سینے میں مقید ننھا سادل یک دم بہت تیز رفتاری سے دھڑکنے لگا تھا ۔

دھڑکنوں نے ملکہ ایک نہ تھمنے والا شور سا برپا کر ڈالا تھامہمل کےپورے وجود کےاندر ۔محمل کو لگا تھا جیسے آج اس کے اندر چھپا محبت کا بھید عیاں ہو جانا ہے ۔اس سوچ کے آتے ہی وہ کانپ اٹھی تھی ۔یہ تو وہ راز تھا جو وہ اپنے سے بھی شیئر کرنے سے گریزاں تھی ۔اس نے بہت ڈرتے ڈرتے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا مگر سامنے کھڑا شخص شاید کسی سحر میں جکڑ چکا تھا آنکھوں سے پھوٹتی روشنی محمل کے پورے وجود کو جیسے گلنار کر رہی تھی ۔

کامل کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اپنے مضبوط قدم اٹھاتا عین گھبرائی بوکھلائی سی مہمل کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔اس کے لئے مہمل کا یہ روپ بہت نیا اور انوکھا سا تھا ۔

تو گویا اس کی ننھی مہمی آج اتنی بڑی ہوگی کہ دلہن کے روپ میں پریوں کا سا حسین چرائے اس کے سامنے کھڑی مارے حیا اور خفت کے زیر اثر پوری طرح سے دلہن بنی لرز رہی تھی ۔چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہاتھا۔ کامل کو لگا جیسے قدرت کا سارا حسن اس وقت محمل کے معصوم چہرے پہ سمٹ آیا ہو۔

"کک۔ ۔۔۔کا۔ ۔۔کامل آغا !"

وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی۔مگر نہ جانے کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی ساری صورت حال اس کے خلاف ہو بیٹھی تھی یا پھر شاید وقت نے اس سے بغاوت کر ڈالی تھی جو بھی تھا بہت خاص تھا ان پلوں میں۔

"کہو کیا کہنا چاہتی ہو؟؟؟"

کامل اس کی آواز کی لڑکھڑاہٹ کو واضح محسوس کر رہا تھا ۔نظرہنواز اس کے دلکش چہرے پہ جمائےوہ خواب کی سی کیفیت میں استفسار کر رہا تھا۔ ۔۔

دوسری طرف مہمل اپنے سامنے کھڑے اس مکمل۔وجاہت کے حامل شخص کی آنکھوں میں خود کے لئے ایک نا سمجھنے والی چمک دیکھ کر الٹے قدموں کمرے کے بند ہوئے داخلی دروازے سے جا لگی تھی ۔ جانے کیوں کامل کی بولتی آنکھیں اس کو سہما سی گئی تھیں کوئی بہت بڑا بھید تھا چھپا اس پل کامل کی بولتی آنکھوں میں۔ ۔

"کہیں وہ اس بھیدسے آگاہ تو نہیں ہوگیا تھا ؟؟جو وہ پنے اندر ایک عرصے سے چھپائے بیٹھی !"

اس سوچ کے ساتھ ہی مہمل کا سارا وجود پسینے میں شرابور ہو گیا۔

"مم ۔۔۔میں وہ آپ کے پاس کک۔۔۔کام سے آئی تھی" ۔

وہ بوکھلا ہٹ میں جو منہ میں آیا بو لے گئی مگر پھر جیسے ہی اس کو اپنے کہے کا اندازہ ہوا ۔اس کے دونوں ہاتھ یکایک اپنے لبوں پر جاٹھرے تھے کچھ اس انداز میں کہ اب مہمل کے ہاتھوں کے پیچھے لب بے بس سہ تھے ۔سونے کی چوڑیوں نے چھن چھن ایک خوبصورت سا ارتعاش پیداکرکے کمرے میں تاری معنی خیز سناٹے کو توڈاتھا۔


بے بسی بے سبب نہیں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


"کام کی نوعیت جان سکتا ہوں ؟"

وہ بہت گہرے تولتے لہجے میں گویا ہوا محمل کو لگا جیسے یہ لہجہ اس کیلئے نیا تھا وہ انجان تھی کامل کے اس سنجیدہ لہجے اور بولتی آنکھوں سے! مگر آج اس کے لہجے میں نہ جانے کیا تھا جو محمل کواس سےنظریں ملانے سے روک رہا تھا !!

"چچ۔ ۔چائے کا پوچھنے آئی تھی"

محمل کو لگا آج اس کی زبان جیسے اس کے قابو میں نہ تھی بس خود سے ہی راگ الاپنے پر تلی ہوئی تھی۔

"کیا تم میرے لیے اتنی سج سنور کر چائے بناؤ گی ؟؟اگر ہاں تو میں ایسی چائے ہر روز پینا چاہونگا۔"

وہ سوال کے بدلے میں سوال کر گیا نظرہنوز مہمل کے حسین چہرے کا طواف کرنے میں مصروف تھی

گویا جیسے پلٹنے سے انکاری ہو ۔وہ بے خود سا ہو کہ کسی سحر میں جکڑا محل کے بہت قریب جا کر کھڑا ہوا تھا اتنا کہ بآسانی مہمل کی شوریدہ دھڑکنوں کی آواز اس کے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔

"میں تمہیں چھونا چاہتا ہوں مگر ڈرتا ہوں ہوں کہ کہیں میرے چھونے سے تم ٹوٹ نہ جاؤ"

'میری شدتوں کوبرداشت کر سکتی ہو مہمل کیا تم؟؟"

وہ مہکتے ،بہکےلہجے میں بے بسی بولا تھا اور ساتھ ہی بے خودی کے عالم میں محمل کی کمر میں بازو حائل کر اسکو خود سے بے حد قریب کر ڈالا ۔

"کامل ۔۔۔۔آغا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟"

محمل کو اپنی آواز کھائی میں سے آتی محسوس ہوئی کامل کا یہ انداز اس کے لیے نیا اور بہت اجیب تھا مہمل اس سے کم از کم اس طرح کی امید ہرگز نہیں کر رہی تھی ۔کامل کا مقام اس کے دل میں بہت اونچا درجہ رکھتا تھا مگر یہ کیا تھا یہ کیا کہہ رہا تھا وہ اس سے؟ ؟

کیوں کیاکہیں وہ بھی حویلی کے باقی مردوں کی طرح ہوس پرست تھا ؟؟؟کئی اندیشوں نے اک ساتھ اسکے دل و دماغ میں گھر کر ڈالا تھا۔

مہمل کے وجود سے وقت گزاری کرنا چاہتا تھا یا پھر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مہمل تم نے آج مجھے بے بس کردیا ہے "

کامل اس وقت شاید کسی پرفسوں لمحے کی گرفتار تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے بس مہمل اس کو خود میں جکڑ رہی تھی اور وہ مہمل۔کو ساتھ لگائے ہر حد پار کردینا چاہتا تھا آج ۔

وہ ایسا ہرگز نہ تھا مگر محمل سے دلی تعلق کچھ ایسا تھاکہ نہ جانے کیوں اس کیلئے روزے اول سے وہ ایسے ہی تھا حد درجہ حساس ۔ اس کے نزدیک بس مہمل اس کی تھی صرف اور صرف کامل کی مہمل!!!۔

"کامل۔ آغا مجھے چھوڑ دیجیے جانے دیں مجھے "

وہ التجا کر رہی تھی ۔

"مجھے جانے دیں "

"بٹ آئ ڈونٹ وانٹ ٹو لیو یو رائٹ ناؤ ڈیئر مہمی"

یو آر اونلی جسٹ مائن مہمی "

"یہی نہیں میرے لیے یہ بات نہ قابل برداشت ہے کہ تمہارا یہ روپ کوئی اور دیکھے یا پھر تمہیں سراہے "

کامل آج جیسے اپنے جذبات کو بے قابو ہونے سے نہ روک سکا تھا ۔

"میں آپ سے ہرگز بھی اس طرح کی امید نہیں کر سکتی تھی کبھی کامل آغا!"

"آپ ۔۔۔۔آپ ایسے بھی ہو سکتے ہیں "محمل کو یک لخت ہی لگا تھا کہ اس کی محبت نے اسی کو دھوکا دے ڈالا تھا ۔

ایک ایسے شخص سے محبت کی تھی اس نے جو اپنے نفس پہ ہی قابو نہیں رکھ سکتا تھا اتنا دکھ تکلیف تو اس کو اس روز بھی نہ ہوئی تھی جس روز کامل شادی کے بعداک بیٹی کو حویلی لئے چلا آیا تھا۔

اور دوسری طرف نہ کامل تھا جس کے جذبات اور احساسات بالکل ہی الگ تھے ۔وہ محمل کے لئے بہت پاکیزہ محبت رکھتا تھا اپنے دل میں ۔بس محمل پہلے بھی اس کی تھی آج بھی اس کی ہے اور ہمیشہ اس کی رہے گی !! وہ بس یہ جانتا تھا ۔۔۔۔

یکدم وہ اسپر جھک چکا تھا اور ہاتھ بڑھا کراس کے بالوں میں لگاننھا سہ کیچر نکال کر اس کے بال پشت پہ بکھیراڈالے اور اس کو تھام کے اس کی گردن پر اپنے دہکتے ہوئے لب رکھنے کو تھا جب مہمل کے وجود میں اچانک سے بجلی سی کوند گئی تھی جتنی طاقت اس میں تھی اس نے تمام تر کااستعمال کرکے کامل کو خود دھکا دینے کے انداز میں دور کیا تھا ۔

"آپ!! خان آپ بھی؟؟؟ ایسے ہی ہیں جیسے باقی کے لوگ ہیں جابر آغا جیسے"

" میں نفرت کرتی ہوں آپ سے !!بہت شدید نفرت کرتی ہوں میں آپ سے"

آج سے پہلے اتنی ہی شدید محبت کرتی تھی مگر آج آج آپ کا یہ روپ مجھے آپ سے محبت کرنے کے بجائے نفرت کروا گیا ہے ۔"

"یا یہ سمجھلیں کہ آپ سےمحبت کا بھوت میرے سر سے اتر گیاہے اور یہ سب آپکے ہی کرم کی وجہ سے ہواہے بہت شکریہ آپکامیری آنکھیں کھول دیں ہیں آج آپ نے"


وہ روتے ہوئے بے دھیانی میں اپنے دل کا بھید آج بیان کر گئی تھی یہ وہ راز تھا جو وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سےخود سے بھی چھپائے چھپائے پھرتی تھی مگر افسوس!! آج وہ ہوگیا تھا جو وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتی تھی ۔

محمل کے اس طرح چٹخنے سے کامل ہوش و حواس کی دنیا میں واپس لوٹا تھا

"محمل میری بات سنو دیکھو تم غلط سمجھ رہی ہو مجھے "۔

نہیں کامل آغا!! میں آج ہی تو آپ کو صحیح سمجھی ہو ۔آج ہی تو مجھے پتہ چلا ہے آپ کتنے بلند ہیں اور آپ کی خواہشات بھی کتنی عظیم ہے "


١٩ سالہ محمل کو وقت نے بہت بڑا کر ڈالا تھا اپنی عمر سے ۔وہ روتے ہوئے چلائی تھی جب کامل نے اک قدم آگے بڑھ کر اس کے لبوں پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھ دیا تھا ۔

""کیا ہو گیا ہے تمہیں کیوں فضول میں اپنی عزت کا جنازہ نکال رہی ہو؟؟؟ میرا کچھ نہیں جائے گا میں مرد ہوں مگرتم بد نام ہو جاؤ گی"

مت کرو اپنے ساتھ ایسا میں مانتا ہوں مجھ سے جذبات میں بہت غلط ہوگیا ہے مگر میرا یقین کرو میں ایسا ہرگز بھی نہیں چاہتا تھا "


جذبات میں آ کر آپ یہ سب کر گئے ہیں اپنی حود پار کرنے کے درپہ ہوگئے ہیں آپ!"

اگر آپ کے جذبات مزید بہک گئے تو آپ کیا کیا نہیں کر سکتے میرے ساتھ۔"

" مجھے جانے دے مجھے جانا ہے اور آئندہ پلیز کوشش کیجئے گا کہ میرا اور آپ کا آمنا سامنا نہ ہو سکے ۔۔۔"

"محمل جو ہوا اس کو بھول جاؤں یہ سمجھ لو کہ وہ خواب تھا ۔"

وہ اب بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اندر سے جتنا تاسف اس کے دل میں تھا اس وقت بیان نہیں کر سکتا تھا مگر جو ہو گیا اب اس میں ماتم کرنے کے بجائے اس کو آگے کی صورتحال سال کی فکر تھی کیونکہ اگر محمل کی چیخ و پکار سن کے کوئی باہر سے آ جاتا تو اس کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا وہ تو مرد تھا مگر محمل کی عزت کا جنازہ نکل جانا تھا اور گھر کے افراد میں جو تماشہ برپا کر کے مہمل کی عزت کو داغدار کیا جاتا وہ الگ تھا ۔

وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا حویلی کے اصول و قوانین کو اور مہمل اس وقت جیسے اپنے آپ میں نہ رہی تھی ۔

وہ اب اسے اپنا آپ چھڑا نے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

"میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں مگر تم شور نہیں کروں گی خبردار اگر تم نے شورشرابہ مچایا تو ۔"

اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے وارننگ دیتے انداز میں گویا ہوا ۔

میں دروازہ کھول رہا ہوں تم خاموشی سے باھر چلی جانا اور یاد رکھنا آئندہ اس روپ میں کبھی بھی کسی کے سامنے مت آنا ۔بہت جلد میں تمہیں خود اپنے بیڈ روم میں اس روپ میں لے کر آنے والا ہوں "

"اور آخری بات تم میری ہوں اب سے نہیں جس دن تم اس دنیا میں آئی تھی اس دن سے تم میری ہو "

تمہیں دیکھنے تمہیں چھونے اور سرہانے کا حق بس مجھے ہے صرف مجھے"

انگشت شہادت بلند کرکہ اک اک لفظ چبا چبا کے اداکیا گیا۔۔

"آپ کو شرم آنی چاہیے آپ شادی شدہ مرد ہوکر اس قسم کی بات کر رہے ہیں "

"میرا شادی شدہ ہونا یا نہ ہونا یہ بات میٹر نہیں کرتی یہ میرا مسئلہ ہے اور پھر مرد پی چار شادیاں جائز ہیں ۔"

وہ سختی سے گویا ہوا ۔

"بس انہیں معاملوں میں آپ کو اسلام اور جائز اور ناجائز کیوں یاد آ جاتا ہے اسلام نے تو بہت ساری چیزیں بتائیں ہیں بہت کچھ سمجھایا ہے مگر اپنی جہاں پہ بات آتی ہے وہاں اسلام کو بہج میں لانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔"

بس محمل میری برداشت کا امتحان مت لو اگر زیادہ بحث کروگی تو یہ تمہارے لیے نقصان دہ ہوگا میں نکاح پڑھوانے میں دیر نہیں کروں گا ۔بہتری اسی میں ہے کہ ابھی خاموشی سے اپنی راھ لو "

اس نے آج سے پہلے کبھی بھی مہمل پہ غصہ نہیں کیا تو مگر اس وقت صورتحال کو قابو کرنا اس کے لئے تھوڑا مشکل ہو رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے لہجے کو سخت کرکے بولا تھا جانتا تھا محمل ہمیشہ سے اس کے اس لہجے سے خوفزدہ رہا کرتی تھی ۔

محمل کو سائڈ میں کرکے کامل نے دروازہ کھولنا چاہا مگر یہ کیا دروازہ تو باہر سے لاک تھا ۔

تو گویا ابھی مزید امتحان باقی تھے ۔۔۔ ۔!!!

"یہ دروازہ باہر سے کسی نےباہر لاک کرا ہوا ہے"۔۔


کئی دفعہ کوشش کرنے کے بعد مہمل کے کانوں میں کامل کی پریشانی سے پراور قدرے جھنجلائی ہوئی آواز گونجی ۔


"مجھے پتا ہے دروازہ باہر سے بند ہے"

تو پھر اتنی دیر سے مجھے دروازہ توڑتا دیکھ تم بتا نہیں سکتی تھی کیا؟ ؟؟؟

کامل غرایا۔

کس نے بند کیا ہے دروازہ ؟؟؟؟؟

وہ اب لب بھینچے اسکو نظروں کے حصار میں لئے پوچھ رہا تھا۔


"جاناں نے بند کیا تھا "

محمل کو اپنی آواز گہری کھائی میں سے آتی محسوس ہوئی تھی حیرت سے کامل نے محمل کو دیکھا تھا مگر مہمل کا لٹھے کی مانند سفید پڑا چہرہ دیکھ کر وہ مزید کچھ پوچھ نہ سکا۔ کیونکہ مہمل نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ چائے کا پوچھنے آئی تھی مگر یہاں تو ماجرہ کچھ اور ہی معلوم ہو رہا تھا کامل کو۔

"تم پریشان مت ہو میں کچھ کرتا ہوں "

کامل اسکو تسلی دیتا اب دروازے کو کھولنے کی ایک دفعہ پھر سے کوشش کرنے میں مصروف ہو چکا تھا ۔


"یا اللہ میری مدد فرما یہ سب کیا ھو رہا ھے میرےمالک! میری تو خیر ہے مگر محمل کی عزت پہ کوئی حرف نہ آنے دینا میرے خدا"

شام کے سائے گہرے ہوتے دیکھ کر کامل نے دل میں دعا کی جبکہ مہمل اب آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔

کامل کے کمرے میں اس کی موجودگی اور پھر تنہائی اس کو مارے دے رہی تھی بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح کامل کے سامنے سے غائب ہو جائے یا اس کمرے سے بھاگ جائے مگر اب یہ خواب ہی لگ رہا تھا اسکو۔

کچھ دیر قبل والے غصے نے اب کمرے میں سکوت اور معنی خیز سی خاموشی پیدا کر ڈالی تھی کیا ۔


"کیاکروں یار ؟؟یہ تو کسی طور بھی کھلنے کو نہیں ہے ۔لگتا ہے کسی کو آواز دیکر بلانا پڑے گا مگر یہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہوگا "۔


وہ پلٹ کے محمل کے خوفزدہ چہرے کو دیکھتا صوفے پر بیٹھ کراب سگریٹ سلگا رہا تھا۔


" مجھے نہیں پتہ کچھ کامل آغا!! مجھے یہاں سے باہر جانا ہے بس "۔

وہ ایسے ضدی لہجے میں گویا ہوئی جیسے سب کچھ کیادھرا کا مل کا ہی تو تھا ۔


"جانتا ہوں میں بہت اچھی طرح تمہارے خدشات کو فکر مت کرو تم!! جب تک میں تمہیں آفیشلی اپنے نام نہیں کروالونگا تب تک تمہیں چھونے کی جسارت نہیں کرونگا"

وہ سگریٹ کی مانند خود بھی سلگ اٹھا تھا مہمل کی بے اعتباری دیکھ کر کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث مہمل نے اپنے سینے سے تکیہ چپکایا ہوا تھا۔

جبکہ کامل کے اسطرح بے جھجک کہنے پہ وہ شرم سے پانی پانی ہوئی نظریں مزید جھکا گئی۔


" تمہیں مجھ سے فرار چاہیےنہ؟ ؟

میرا وجود میرا کمرہ تمہیں کاٹنے کوجو دوڑرہا ہے بہت"

کامل نے غصے میں ہاتھ ٹیبل پہ دے مارا مہمل اسکے اتنے شدید ردعمل پہ وہشت زدہ سی اسکو فیکھے گئی

"ہاں ہورہی ہے گھٹن مجھے آپکی موجودگی سے!!دل بند ہورہا ہے میرا اس کمرے میں سمجھے آپ؟"

"سمجھ تو میں واقعی بہت سی باتوں کو آج رہا ہو مہمی ڈیئر !"

"آپ اور آپکی آلودہ سوچ !! آغا صاحب انسان خود ہی اپنے آپ کو بلندی پہ چڑھاتا اور خود ہی ڈھڑام سے گرابھی دیتا ہے اور آپ آج خود کو میری نظروں سے گراچکے ہیں ہمیشہ کیلئے"

"مہمی اتنا ہی بولو جتنا بعد میں برداشت کرسکوسمجھ آرہی ہے میری بات؟ ؟"


وہ اشتعال آمیز لہجے میں گویا ہوا پچھلے دو گھنٹے سے وہ پاگلوں کی طرح سرتوڑ کوشش کر رہا تھا دروازہ توڑنے کی۔ تو کبھی کھولنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا۔ تھک ہار کر وہ ابھی سگریٹ کے چندہی کش لگا سکا تھا مگر مہمل کی چلتی زبان نے گویا جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام سر انجام دے ڈالا تھا۔ وہ مزید بھڑک اٹھا۔

مہمل نے شکوہ کناں نظر کا مل پہ ڈالی تھی اس سے پہلے وہ کامل سے شدید محبت کرتی تھی مگر آج کامل کی جذباتیت نے اس کو نفرت کرنے پر مجبور کر ڈالا تھا۔


"_اب مجھے اس طرح مت گھورو میں تمہیں شکار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا مگر لگتا ہے تم مجھے اپنی انہی ہرنی جیسی قاتل آنکھوں سے گھائل کرنے کا پکا ارادہ رکھتی ہے ۔"

وہ مہمل کی سوجی آنکھوں میں نمی دیکھ کریکدم نرم پڑاتھا اور نرمی سے اسکو مخاطب کرنے لگا۔

مہمل کا اک اک آنسو اسکو اپنے دل پہ گرتا محسوس ہورہاتھا۔


"کتنا اختیار ہے آپ کو اپنے نفس پہ اور خود پہ!! یہ میں اچھی طرح دیکھ چکی ہوں اور جان بھی چکی ہو ۔"

مہمل کا لہجہ تنز سے خالی نہ تھا ۔

"مجھے آج آپ سے اتنی نفرت محسوس نہیں ہورہی جتنی میں خود سے آج شدید ترین نفرت محسوس کر رہی ہوں خان !!" ۔


"شدید محبت کرنے والوں سے محمل ہم چاہ کر بھی نفرت نہیں کرسکتے ۔اپنے دل کو جھوٹی تسلیاں دے کر مت پچکارو گڑیا"۔

وہ اس کی ناسمجھی پہ ہنستے ہوئے کہتا اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا ۔


" دور رہیے مجھسے خبر دار میرے قریب مت آئیے گا"

وہ دونوں ہاتھوں میں تکیے کو مضبوطی سے پکڑے پیچھے کی طرف کھسکتے ہوئے لڑکھڑاہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔ کامل کو ایک دفعہ پھر سے اپنے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود پا کر محمل کا بچا کچھا اطمینان بھی رخصت ہو گیا تھا۔ وہ آنکھوں میں خوف لیے سہمے لہجے میں گویا ہوئی ۔


"خوب کہی مہمی تم نے بھی یارا !! میں تم سے اس وقت دور نہ رہ سکا تھا جب تم محض دو گھنٹے کی کی بھی نہ تھی تو پھر اب کیسے ؟؟ناممکن سی بات ہے یہ تو "۔۔

وہ طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے مہمی کے چہرے پر آئی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھےاڑستے ہوئے بولا ۔جبکہ وہ اسکی بولتی آنکھوں سےدیکھنے اور گہرے لہجے میں کہی بات سن کے سٹپٹا سی گئی کچھ اور بھی بوکھلاہٹ اس پہ طاری ہو چکی تھی ۔


"میں تمہاری آنکھوں میں رقم تحریریں پڑھ سکتا ہوں میری گڑیا"۔


کامل نے بالکل اس کے چہرے پر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے خزبات سے چور لہجے میں اس سے گویا ہوا ۔کچھ پل بہت ہی خاموشی سے سرک گئے تھے ان دونوں کے درمیان سے۔


" آپ کا دعویٰ جھوٹا ہے میری آنکھیں نہیں پڑھ سکتے آپ!! سنا آپ نے؟"۔

وہ جھٹلا رہی تھی بار بار اس کو مگر اندر سے اس کا دل چیخ چیخ کے اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ کامل سچ کہہ رہا ہے اور تم چھوٹی ہو ۔

اک شور سا برپا تھا اس کے اندر۔


"غلط !!میں تمہیں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں اور یہ محض کھوکھلے دعوے مت سمجھنامیرے "


وہ سیگریٹ کے دھوئیں سے بری طرح کھانستی مہمل کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں کہتا اس پر جھکا تھا فاصلہ کچھ اور بھی مٹ گیا تھا دونون کےدرمیان سے۔

"خان آپ اپنی حد میں رہئے"

"ابھی تک تو میں نے اپنی حدود نہیں پھلانگیں ہے مگر یہ دل بے ایمانی پہ اکسارا رہا ہے مجھے محمی"

کامل کی آنکھوں سے شرارت واضح ظاہر تھی وہ اب مہمل کو تنگ کرنے پر آمادہ تھا یا شاید اسکا دماغ کچھ دیر کیلِے ہی سہی ٹینشن فری کر نا چاہتا تھا ۔

وہ آج مہمل کا یہ مرنےمارنے والا انداز پہلی دفع دیکھ کر اسکو مزید تپانے پہ امادہ ہوا ۔آج ہی تو اس پر یہ آشکار ہوا تھا کہ اس کی منی سی مہمی کتنی بڑی ہو چکی ہے ۔

وہ ابھی مزید کوئی شرارت پہ مائل ہوتا جب مہمل نے بہت پھرتی سے اسکا حصار توڑا اور وہاں سے جانے کو تھی مگر اسی افتاد میں بوکلاہٹ اور جلد بازی کی وجہ سے اس کا پیر مڑہ تھا اور وہ کرسی کا سہارا لے کراس پہ پیٹھتی چلی گئی۔


کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو نا مہمی ؟؟؟؟

💞💞💞💞💞


یہ کیا حرکت ہے کون ہے یہ شخص؟


وہ آنکھوں میں سراسیمگی لیے گاڑی کے شیشے پر ہاتھ پھیرتے عجیب و غریب سے شخص کو دیکھ کر خود سے گویا ہوئی تھی ۔

وفا ہرگز کبھی کسی سے خوفزدہ ہونے والوں میں سے نہ تھی مگر ڈرائیور کی زبانی اس علاقہ غیر کے بارے میں سن کر وہ گھبرا گئی تھی ۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو مزید بوکلاہٹ نے آن گھیرا وجہ تیزی سے پھیلتا اندھیرا تھا اور ڈرائیور ابھی تک نہ پہنچا تھا واپس۔

آنے والے اجنبی نے اشارے سے وفا کو شیشہ نیچے کرنے کو کہا اس شخص کو اشرق کرتا دیکھ وفانے بہت تیزی سے اپنے چہرے کو چادر کے اندر چھپایا تھا ۔صحیح معنوں میں اس وقت وہ خوفزدہ تھی دل اندر سے بیٹھا چلا جا رہا تھا ۔

انجان علاقہ سنسان سڑک اور پھر نقاب میں چہرہ چھپایا وہ شخص!!

وفا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔


" میں تمہیں لینے آیا ہوں "

اب وہ بہت زور سے چیخا تھا ۔


"کون ہو تم اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری گاڑی تک آنےکی؟" ۔

اس نے خود میں ہمت پیدا کرکہ آخر کو ہلکا سہ شیشہ کھولا گاڑی کا اور دھاڑنے کے انداز میں گویا ہوئی۔

"یہ علاقہ سمجھ لو کہ میرا ہے۔"

مقابل نے بڑے اطمینان سے وفا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جتایا۔


"واٹ دی ہیل۔ ۔"

"یہ علاقہ کسی کا بھی ہو میں تو اس وقت اپنے اللہ کی زمین پہ موجود ہوں۔ "


وفاکا اب جاکہ کچھ اعتماد بہال ہوا اور وہ اپنی ٹون میں واپس آکرمقابل پہ غرائی تھی۔


"محترمہ شاید تم نے وقت نہیں دیکھاشام ڈھل چکی ہےتم مجھے بتائو تمہاری منزل کہاں ہے۔ ؟؟؟"


وہ اب وفا کو رات ہونے کا احساس دلارہاتھا۔ سردی سے وہ خود بھی مردانہ برائون رنگ کی شال اوڑھنے کے باوجود ٹھٹر رہاتھامگر وہ وفا کو اسطرح بے یار ومددگار چھوڑنے پہ بھی امادہ نہ تھایا شاید اسکا ضمیر اسکو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دےرہاتھا۔


"او مسٹر ایکس وائی زیڈ اپنا راستہ ناپو نہیں تو میں تمہیں تمہاری منزل کا پتا بتا کر نودو گیارہ کردونگی۔"

"لگتاہے تم یہاں نئ ہو اس لیے تمہیں یہاں کا علم نہیں ہے کہ تم اس وقت کس قدر خطرے میں پڑ سکتی ہو "

وہ اسکو سمجھانا چاہ رہا تھا مگر وہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی تھی۔


"او یو!! مجھے سب پتا ہے مجھے سکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے اور تم ہو کون ؟؟"

"میں ایک دفعہ کہہ چکا ہوں کہ یہ علاقہ میرا ہے اور میرا نام شاہ زمان ہے۔"

"تم مجھے اپنا پتہ بتاؤ میں تمہیں با حفاظت وہاں تک پہنچا دوں جہاں تمہیں جانا ہے اس طرح تو میں تمہیں یہاں تنہا نہیں چھوڑ و نگا ۔"


شاہ زمان کا لہجہ حد درجہ سنجیدگی لیے ہوئے تھا ۔وہ آج شکار کیلئے نکلا تھا مگر راستے میں سنسان سڑک پر کھڑی گاڑی کو دیکھ کے وہ رکا تھا اندر بیٹھی نازک سی لڑکی کو دیکھ وہ تھم گیاتھا یکدم ہی اسنے شکار پہ جانے کا ارادہ تک کرڈالا تھا۔


بس بہت ہوا تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھ سے خوامخواں میں فری ہونے کی کوشش کررہے ہو ۔بہت دیکھے ہیں تم جیسے مجھ پہ تم اپنا یہ چوّنی برابر روب ڈالنے کی کوشش مت کرنا سمجھ گئے ؟؟؟"


وہ شال میں چھپی چمکیلی آنکھوں میں بے خوفی سےاسکو دیکھتے ہوئے کہتی ہینڈ بیگ میں سے موبائل نکال کر اپنے بابا جانی کو کال ملانے لگی مگر سگنل نہ ہونے کی وجہ کال ہی نہیں لگ رہی تھی۔


"میری ہمت اور جرعت کو پرکھنے کی کبھی کوشش مت کرنا میں بڑے بڑے طوفانوں کا رخ موڑ چکاہوں تم تو پھر میرے لئے بے ضرر سی آندھی ہو اور ہاں جس پتھریلے سرد علاقے میں اس وقت تم موجود ہو یہاں سے کئی میل دور تک بھی موبائل کے سگنلز نا پید ہیں۔ "

وہ حددرجہ تیکھے لہجے میں کہتا اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا اور پھر چند ہی منٹ میں اسنے کمال مہارت سے وفا کی گاڑی سے کچھ ہی فاصلے پہ لکڑیوں سے آگ جلائی تھی چونکہ وہ شکار کیلئے نکلا تھا اسلئے خرد و نوش کی اشیاء سے لیکر اسکی چیپ میں ہر اک ضرورت کی چیز موجود تھی۔


"تو گویا یہ سر پھرا ننجا ٹرٹل میری جان نہیں چھوڑنے والا!! اف میرے خدا جلدی سے ڈرائیور بابا کو واپس بھیجدے تاکہ میں اس مصیبت سے تو باہر نکل سکوں۔ "

رات کے ٧ بج چکے تھے مگر ایسامحسوس ہورہا تھا وفا کو جیسے آدھی رات ہوگئ ہو مگر نجانے کچھ تو ایسا تھا جو شاہ زمان کی موجودگی کے باعث اسکو کسی بھی ڈر و خوف سے دور رکھے یوئے تھا ۔وہ اسکی موجودگی میں ایک عجیب سہ اطمینان و تحفظ محسوس کر رہی تھی۔

ایک وہ تھا جو اسکا کچھ بھی نہ ہوکہ محض صرف اسکیلئے اتنی ٹھنڈ ہونے کے باوجود بھی آسمان تلے سرد پتھریلی زمین پہ بیٹھا تھا ۔

وفا کو اب اپنے پیٹ میں چوہے سے دوڑتےمحسوس ہونے لگے تھے بھوک سے اب دوہری ہورہی تھی۔

کھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ خود کو اچھے سے شال میں ڈھانپ کہ چلتی شاہ زمان سے قدرے فاصلہ قائم کرتی جلتی ہوئی لکڑیوں کے سامنے جا بیٹھی اور بھر بہت دھیمے سے گویا ہوئی۔


"مجھے بہت شدید بھوک لگی ہے" ۔

یہ وفا کی شان کے خلاف تھا مگر اس وقت اسکو لگا شاید شاہ زمان کے پاس کچھ ہو کھانے کیلئےجیپ میں۔


"یہ لو "

شاہ زمان نے بغیرکچھ کہے چیپ میں سے اک۔ لنچ باکس نکال کر اسکے سامنے کیا انداز نپا تلا سہ تھا۔


"بہت شکریہ میں یہ احسان آپکا لوٹا دونگی جلد ہی مجھے اپنا پتا دیدئے گا۔ "

"اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر میرا احسان اتارنا چاہتی ہو تو آگے سے محتاط رہنا بعض اوقات ہماری زرا سی لا پروائی ہمیں بہت بڑے نقصان سے آشنا کرادیتی ہے۔"

شاہ زمان نے بہت گہرے و سنجیدہ لہجے میں کہا مگر وفا نے لاپروائی سے کھانا کھاتے ہوئے شانےجھٹکے۔


" آپ پیدائشی اتنے کھڑوس ہیں یا یہ کوالٹی آپ نے ریسنٹلی کہیں سے پرچیس کی ہے؟؟؟؟"

وفا کھانے سے بھرپور انصاف کرنے کے بعد اب مکمل طورپہ شاہ زمان کی طرف متوجہ ہو چکی تھی ۔


"اپنا چہرہ اچھی طرح سے ڈھانپو فوری "


وہ سامنے سے آتے ٢ منچلوں کو وفا کوخباثت سےتکتے دیکھ برہمی سے ٹوک گیا اور پھر خاص اپنی بروہی زبان کا استعمال کرتے ہوئے منچلوں کو نہ جانے کیا کہہ رہاتھا کہ وہ وہاں سے لمحوں میں ہی غائب ہوگئے تھے ۔


"آپ نے ابھی کیا کہا ہے ان لوگوں سے عجیب و غریب زبان میں ؟؟؟"

وہ حیرت سے گویا ہوئی کیونکہ شاہ زمان کے عجیب کرخت انداز میں کچھ کہنے کے بعد وہ لوگ بغیر کچھ کہے وہاں سے روانہ ہوچکے تھے۔


"کہا ہے کہ میرے پاس اک سر پھری لڑکی بیٹھی ہے جو عقل۔سے بلکل پیدل ہے بس یا اور کچھ؟؟؟؟

وہ اب مکمل وفا کو اپنی نظروں کےحصار میں لئے ہوئے تھا۔

"اونہہ ۔۔۔۔۔آپ ابھی وفا کو جانتے ہی کہاں ہے ؟؟

مجھے سر پھری کہنے کے بجائے اب آپ اپنا انٹرو ہی دے دیں ۔"

وہ اب شاہ زمان کی موجودگی میں کافی حدتک ریلیکس ہوچکی تھی۔


"تم یہاں کیوں آئی ہو؟؟؟"

وہ وفا کی بات کو اگنور کرتا سخت لہجے میں استفسار کرہاتھا۔

"میں یہاں اپنے تھیسس کے کام سے آئی ہوں "


"تھیسس کے کام سے ؟؟"

اسکو حیرت کا شدید جھٹکا لگاوہ تعجب سے اسکو گردن موڑ کے دیکھ رہاتھا۔بھوری آنکھوں میں حیرت تھی۔

"ہاں مجھے اپنا تھیسس مکمل کرنا تھا اسلئے یہاں پہ موجود مزار اور پیر فکیروں کے کچھے چھٹے کھولنے کیلئےآئی ہو اسی پہ ورکنگ کرنا ہے ۔"


"آگ سے مت کھیلو اور بہتر ہوگا کہ تم اس معملے سے دور رہو "

وہ چونکا تھا۔ وفا خود کو جانتے بوجھتے کنویں دھکیلنے کوتیار تھی۔


"ناممکن میں پوری گھر سے ورکنگ مکمل کرکہ نکلی ہوں اور میرا پہلا ٹارگٹ ہی یہاں کا مشہور مزار ہے جہاں کے پیر صاحب کے پڑھے ہوئے لڈو بڑے بڑے معجزات دکھاتے ہیں "

وہ ابھی شرو ع ہی ہوئی جب جھاڑیوں میں سے ڈرائیور کو ہاتھ میں دو ڈیڑھ ڈیڑھ لیٹر کی بوتلوں میں پیٹرول تھاما دیکھ وہ خوشی سےکھل اٹھی اور تیزی اٹھ کھڑی ہوئی


"شکر بانا آپ آگئے میرا تو ٹھنڈ نے سہی معنوں میں بھرکس نکال دیا ہے ۔"


"وہ چہکتی ہوئی ڈرائیور سے بولی اور کھٹ سے گاڑی میں جاکر بیٹھنے کو تھی جب شاہ زمان کا ہاتھ بڑھا تھا اور وفا کے ہاتھ کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ چکا تھا۔

"واپس لوٹ جائو اور کسی اور ٹاپک پہ اپنا تھیسس مکمل کرلو "

شاہ زمان کا لہجہ سخت ہوا یا پھر شاید وفا کو ہی ایسا محسوس ہوا مگر وفا اسکی جرت پہ تلملا اٹھی تھی اور اک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پہ جڑ ڈالا کچھ دیر قبل والی ہلکی پھلکی دوستی اب دوبارہ سے تلخی میں بدل چکی تھی۔


"شاہ زمان صاحب اپنی اوقات مت بھولنا آئندہ تم سے کچھ دیر نرمی سےکیا بات کرلی تم تو فری ہوگئے ۔"

"وفا کو آج تک کسی غیر مرد نے نہیں چھوا اور تم!!! تم نے مجھے ہاتھ لگایا مجھے ٹچ کیا۔"

وہ ڈرائیور کا لحاظ کئے بغیر بھپری ہوئی شیرنی کی طرح اس پہ چڑھ دوڑی جبکہ اسکے انتظار میں کھڑا ڈرائیور ہونقوں کی طرح کبھی وفا کو تو کبھی آنکھوں پتھریلے تاثرات لئے شاہ زمان کو دیکھ رہا تھا ۔

"بہت جلد تمہیں میری ضرورت پڑنے والی ہے اور ہاں اس تھپڑ کا حصاب تمہیں سوت سمیت اتارنا ہوگا"


اسکے بعد شاہ زمان رکا نہیں تھا اپنی شال کو گھما کہ شانے پہ ڈالتا وہ پلٹ کے اپنی چیپ میں اک ہی جست میں جڑھ بیٹھا تھا۔

ہونہہ۔۔۔

"بڑا آیا کمینہ خبیث انسان "۔

وہ اپنی کلائی کو گھورتے ہوئے اسکی گاڑی کو دھول اڑاتا دیکھ تنفر کرتی گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔

💞💞💞💞💞


"اے اسکو ہوش آجائے تو دوسری ریکارڈنگ بھی کرنی ہےتیاری پکڑ اور ہاں اب تو یہ اسٹیپ اور ٹھیک سے کرنا بے شک لڑکی ادھ موہی ہی کیوں نہ ہوجائے یہ دیکھ اس اسٹیپ کو کرتے ہوئے کچھ خاص مزا نہیں آرہا "۔

"جی پیرشاہ صاحب آپ فکر ہی نہ کریں ۔"

وہ آنکھوں میں ہوس لئے بڑی سی ایل ای ڈی میں چلتی امید اور اسکی بلیو فلم دیکھتے ہوئے گویا ہوا جو پیرشاہ سائیں کے کہنے پہ اسنے بڑی پھرتی سے لگائی تھی۔

چل اوئے اس لڑکی کو ہوش آرہا ہے پلا اسکو کچی شراب اور تم سب اپنے اپنے کاموں میں لگ جائو

پیر صاحب نے باقی کی پوری ٹیم کو آرڈر دیا اور ساتھ ہی اشارہ کرکہ کسی کو باہر سے لانے کا کہا۔

کچھ ہی دیر بعد ایک انتہائی بےہودی لباس پہنی مکروہ چہرے والی عورت اپنےساتھ زبردستی روتی بلکتی ١٣ سالہ بچی کو اندر لیکر آئی۔

"مجھے واپس جانا ہے میری بہن مجھے بلارہی ہوگی"

وہ بچی روتی ہوئی بولی۔ '

"تیری بہن ہی تو تجھے پیر سائیں سے دم درود کروانے کیلئے لائی تھی اب پیر سائیں ہی تجھ پہ دم درود کرکہ میرے ساتھ بھیجدینگے ۔"

وہ عورت اسکو پیر کے قدموں میں دھکا دیکر اب معودب کھڑی پیر کے اگلےحکم کی منتظر تھی۔

"اسکی بہن کو شک تو نہیں ہوا نہ؟ "

پیر سائیں نے بچی پہ اپنی غلیظ نظریں جماتے ہوئے دریافت کیا۔

"نہیں پیر سائیں میں نے اسکو کہہ دیا ہے کہ جنات اسکی بہن کو اپنے ساتھ لےگئےہیں اور تمہاری بچیوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ اب تم اسکو انہی کے حوالے کردو۔ "

"شاباش تمہارا انعام تمہیں مل جائے گا ۔"

"شیر دل جائو اسکو تیار کرنے کا سامان لاکر دو۔ "

پیر نے اپنے کارندے کو حکم صادر کیا ۔

"چھوڑدو مجھے جانے دو "

امید کو برہنہ حالت میں دیکھ اور اسکے ساتھ ہوتی کاروائی ملاحظہ کرتے یوئے بچی بری طرح چیخی تھی۔

مگر وہاں اس معصوم ننہی کلی کی سن نے والا ہی کوں تھا ؟؟

"چل آجا تجھے تیار کروں "

شیر دل نےایک ہاتھ سے بے دردی سے اس بچی کے ہاتھ پیچھے مڑوڑے اور دانتوں سے اسکے کپڑے پھاڑتا چلا گیا کسی وحشی درندے کی طرح !!

بجی نے بلکتے ہوئے امید کی طرف دیکھا جس کو اب زنجیروں سے باندھ کر اسکے وجود پہ جا بجا موم ٹپکاتے ہوئے ایک آدمی بد فعلی کر رہا تھا۔

شیر دل نے بچی کا چہرہ اپنی طرف کرکے اسکو باتھ گائون پہناکر پیر کے آگے پیش کیا۔

"سرجی مال تیار ہے" ۔۔۔

"دکھنے میں تو توچھٹانک بھر کی ہے مگر ہے پوری چل یہ تولیہ کھول کر میرے سامنے ناچ کر دکھا"

پیر سائیں نے معصوم سی بچی مینا کو بالوں سے جکڑ کر جارہیت کی تمام حدود پار کرتے ہوِے کمینگی سے کہا ۔

"میں نہیں کرونگی ڈانس اور پلیز ان پہ رحم کرو وہ تڑپ رہی ہیں"

مینا نے امید کو دیکھ کہ روتے ہوئے فریاد کی تھی جسکی ویڈیو بن جانے کے بعد اب بھی اس کے ساتھ بد فعلی جاری تھی۔ کچے زہن نے محض چند ہی منٹوں میں وہ سب دیکھ اور سمجھ لیا تھا جو اس عمر کی بچیوں سے لازماً پوشیدہ رکھا جاتا ہے ۔امید کی چیخیں سسکیاں اور اسکے وجودکےساتھ مستقل ہوتا ظلم !!

"چل ٹھیک ہے اس لڑکی پہ رحم کردونگا مگر پھر تو اسکی کمی پوری کریگی کیا ؟"

پیر شاہ سائیں نے اپنی غلیض نظریں ہنوز مینا کے جسم پہ جمائی ہوئی تھیں۔

"مم۔۔۔۔ مجھےاور انکو ہم دونوں کو چھوڑدو پلیز "

مینا نے خوفزدہ لہجے میں کہاتھا۔

"اے چھوڑدو اس کو "

پءر شاہ نے کچھ سوچتے ہوئےشیر دل کو کہاجو کہ پاگلوں کی طرح امید پہ کسی بھوکے شیر کی طرح پلا ہوا تھا اسکے وجود کو نوچ کھسوٹ کہ وہ اپنی ہوس مٹاتا کچھ بدمزا سا ہوکر امید کو پٹختے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

امید اب اک دفع پھر سے اپنے ساتھ ہوئی اجتمائی زیادتی کی تاب نہ لاکر ہوش و خرد سے بیگانہ ہوچکی تھی۔

"اگر تو آج رات میں ہمارے کچھ مہمانوں کے سامنے خوب ناچ کہ انکو خوش کردیگی تو ہم تمہیں اور اسکو آزاد کردینگے۔ "

مینا نے اک دفع سوچا اور فیصلہ کرڈالا۔ امید اسکی کچھ نہیں لگتی تھی مگر انسانیت کی خاطر اسکو یہ کڑوا گھونٹ پینا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے ساتھ امید سے بھی بدترین کام ہونے والا تھا۔

"جی ٹھیک ہے میں تیار ہوں" ۔۔۔۔

"یہ دیکھو اب لگ گئی نہ !! تم ازل سے ہی جلدباز ہو"

کامل نے دوزانوں بیٹھ کے مہمل کے پیر کا جائزہ لیا ہلکی سی موچ آنے کے باعث اسکو تکلیف کا سامنا تھا۔


"میں جلد باز ہوں؟؟؟"

مہمل نےجھجکتے ہوئے اپنا پیر کامل کی گرفت سے آزاد کرانا چاہا اور نہ چاہتےہوئے بھی اسکا نم لہجہ شکوہ کناہ ہوا تھا۔


"ہاں تم جلد باز ہی نہیں بےوقوف بھی ہو اور اب بس کرو اپنی یہ بچکانہ حرکتیں تمہیں آدھی رات میرے ساتھ اسی بیڈرم میں گزارنی ہوگی"

وہ اسکا دیھان بٹاچکا تھا اور لمحے میں مہمل کو پتا بھی نہ لگا اور اسکے پیر کی موچ ٹھیک ہوگئی دوسری طرف مہمل پہ تو گیا کوئی ایٹم بم گرا تھا وہ دہل کہ رہ گئی تھی۔


"ک۔۔۔کیااااااا؟؟؟؟؟؟"

آپ ہوش میں تو ہیں ؟؟؟؟

"میں آپکے ساتھ اک پل نہیں گزارسکتی کجاکہ پوری رات"

مہمل ہونقوں کی طرح کبھی بےبسی سے کمرےکے دروازہ کو تو کبھی کامل کو دیکھ رہی تھی۔


"مہمی گڑیا میں نے تو آدھی رات تک کیلئے کہا تھا لیکن اگر تم پوری رات بھی رکو تو نو اشو ڈیئر"

وہ اک دفع پھر سے شوخ ہوامگر پھر مہمل کی من موہنی صورت پہ رقم خوف کی تحریریں پڑھ کہ اسکو بےساختہ مہمل پہ ٹوٹ کر پیارآیا۔


"بات یہ ہے مہمی ڈیئر کہ آدھی رات تو اب از بھی اور بس تمہیں میرے ساتھ گزارنی ہوگی اک بیڈروم میں ہی"

وہ چہرے پہ حددرجہ بے چارگی سمو کہ گویا ہوا۔


"خ۔۔۔۔۔۔خا۔ ۔۔۔ خان آ۔۔۔آپ۔۔۔۔!"

"آپ اتنے گھٹیا بھی ہوسکتے ہیں یہ مجھے آج معلوم ہوا ہے "


"اف مہمی اب مزید کوئی سین کریٹ مت کرنا پلیز!!

وہ جھنجلایا۔

اک تو تمہاری یہ بغیر پوری بات سنے قیاص آرائیاں کرنے کی عادت نہیں بدلیگی کبھی"

کامل اب اٹھ کھڑا ہوا تھا کمرے میں ٹہلتے ہوئے وہ مہمل کو اپنے بیڈروم میں آدھی رات تک روکنے کی وجہ بیاں کرنے لگا جوکہ مہمل بڑے ضبط و صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سننے پر مجبور تھی۔


"میں آدھی رات ہونے سے پہلے کمرے کے دروازے کے اوپر بناروشن دان کا شیشہ نہیں توڑ سکتا وجہ حویلی کے سب ہی افراد کی بیداری ہے آدھی رات ہوتے ہی میں یہ توڑ دونگا اور باہر کود کہ کنڈی کھول کر تمہیں کسی کی نظر میں آئے بغیر بہ حفاظت تمہارے روم تک پہنچادونگا ۔ "

کہہ کر وہ رکا نہیں تھا وارڈروب میں سے ہلکی سی سفید ٹی شرٹ اور شارٹ نکال کے واشروم میں جاکھسا۔پیچھے مہمل مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق بادل نہ خواستہ اٹھی تھی اور بیڈ پہ رکھی رضائی اٹھا کہ سنگ مرر کے فرش پہ بچھا کر بیٹھ گئی گویا اب اسکا ارادہ منہ سر لپیٹ کے کامل کے سامنے خود کو سوتا ظاہر کرنے کاتھا۔


وہ شاور لیکر تازہ دم ہوکہ واشروم سے باہر نکلا ہی تھا جب نظر سکڑی سمٹی خود کو سوتا ظاہر کرتی مہمل پہ پڑی تھی۔وہ مسکراکہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا عین اسکے چہرے کے پاس جاکہ جھک کھڑا ہوا

انکھوں میں شرارت لئے وہ مہمل کی اضطرابی پلکوں کو دیکھ رہاتھا یکدم اس نے اپنے نم بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بالوں کو جھٹکا تھا۔


مہمل اپنے چہرے پہ پانی کے ٹھنڈے چھینٹے پڑنے کے باعث مزید خود کو سوتا ظاہر نہ کرسکی تھی ابھی اسکے پنکھڑی جیسے لب بوکھلاہٹ میں پھڑ پھڑائے ہی تھے جب کامل اس سے فاصلے پہ ہوکہ اسکو نظروں کے حصار میں لئے اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے گویا ہوا۔


"یہاں مت سئو!! اٹھو جاکہ بیڈ پہ سو جاکر "

آپ کو شرم نہیں آتی بغیر شرٹ کے میرے سامنے گھومتے ہوئے؟؟؟؟'

انکھوں پہ یکدم ہارھ رکھ کے وہ دھاڑی۔ کامل نے ٹاول ڈریسر پہ اچھال کہ شرٹ چڑھائی تھی مگر مہمل کو لگا کہ وہ جان بوجھ کے بغیر شرٹ کے اسکے سامنے اتنی دیر سے موجودہے وہ اس سے پوری طرح بدگمان ہوچکی ۔افسوس ہورہاتھا اسکو خود پہ کہ اتنے عرصہ وہ کامل کو کیا سمجھتی رہی اور وہ کیا نکلا ۔

دوسری طرف کامل تھا جو مہمل کے شدید برہم رویے کو وقتی ریکشن سمجھ ریا تھا اس بات سے بے خبر کہ مہمل اس کو ایک انتہائی نفس پرست انسان سمجھ رہی ہے۔

"تمنے سنا نہیں شاید میں نے کچھ ارشاد فرمایا ہے ابھی غالباً تم سے ہی"

"اٹھو فوری تمہاری جگہ یہ نہیں وہ ہے"

کامل نے بھنویں اچکا کہ مہمل کو بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔

"جی نہیں میں یہاں بلکل ٹھیک ہوں"

"جانتا ہوں تم بہت پرسکون ہومگر میں تو بے سکون ہوں ۔"

"میری بلا سے آپ خان ساری عمر بے سکوں رہیں "

" میں اگر بے سکون رہا تو پرسکون تم بھی نہیں رہوگی ڈئیر مہمی"

وہ اسکی ننہی سی ناک کو پنچ کرکہ اسکو مزید تنگ کرنے کے موڈ میں تھا اسکے نز دیق اسکی مہمل آج بھی ویسےہی تھی جیسے بچپن میں کچھ دیر کیلئے روٹھا کرتی تھی۔

"چلو شاباش تم بیڈ پہ سوجائو۔ "

جی نہیں میں یہاں ٹھیک ہو مجھ پہ احسان کریں مجھے میرے ہال پہ چھوڑدیں آپ !!خان عین نوازش ہوگی آپکی "۔

آوہ تلخ ہوئی۔

تو تم بعض نہیں آوگی؟ ؟؟؟

وہ اب تنک کر استفسار کررہا تھا مہمل منہ موڑگئی بغیر کوئی رد عمل دئیے ۔

"ٹھیک ہے تو پھر ایسے ہے سہی ۔"

کامل اشتعال میں آگے بڑھا تھا اور لمحوں میں ہی مہمل کو اپنے بازوُوں میں بھر کہ بیڈ کی طرف بڑھنے لگا۔

"چھوڑیں مجھے"

مہمل نے مکوں کی برسات ادکے چوڑے سینےپہ کرڈالی۔

"آپ۔۔۔ مجھے نیچے اتاریں ابھی اور اسی وقت نہیں تو میں شور مچاردوگی"

مہمل اپنے مخروطی ہاتھوں کی چھوٹی چھوٹی مٹھیاں بنائے مستقل اسکے سینے پہ مکوں کی برسات کررہی تھی ۔بدگمانی نے مزید مہمل کے دل میں گھیرا تنگ کر ڈالا۔ وہ کامل کی اس حرکت پہ سرتاپا سلگ اٹھی تھی مگر کامل کو کوئی نوٹس نہ لیتے دیکھ وہ مزاحمت پہ اتر آئ تھی۔


"اگر تم ایسا کرنا چاہتی ہو تو بخوشی کرسکتی ہو اسطرح میرا کام مزید آسان ہوجائیگا"

کامل کو اگر مہمل کی عزت کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ ابتک دروازہ توڑ بھی چکا ہوتا مگر سوال اسوقت اسکی محبت کی عزت کا تھا مگر مہمل بجائے سمجھنے کے کچھ بھی تباہی لانے کے درپہ ہورہی تھی۔


"آپ بہت ہی گھٹیا تریں انسان ہے میری دعا ہےآج کے بعد کبھی میرا اور آپکا سامنا نہ ہو"

"میں آپکو کیا سمجھتی رہی اور آپ کیا نکلے"

"انسان نہیں ہیں آپ بلکہ انسانی بھیس میں درندے ہیں"

وہ چنگھاڑی


"مہمل۔۔۔۔جسٹ شٹ اپ نائو۔!"

"اٹس ٹومچ"

کامل کے بیڈ پہ بٹخنے کے بعد وہ سراسیمہ سی ہوکہ بیڈ کرائون سے جالگی تھی مگر اپنے ترش جملوں کے باعث وہ کامل کو آگ کے شعلوں کی زد میں دکھیل گئی تھی۔ جبکہ اسطرح سے بیڈ پہ پٹخا جانےکے باعث مہمل کے ہاتھوں میں موجود سونے کی چوڑیوں نےپورے بیڈروم میں ارتعاش سہ برپا کرڈالا تھا۔ جو کامل کے حواسوں کو جھنجوڑنے کیلئے کافی تھا۔


"میں نے پچھلے ۵ گھنٹوں میں کتنی بار تم سے بےہودگی کی ہے؟ ؟؟؟"

بولو؟ ؟؟

"یا میں ان چند گھنٹوں میں تمہاری عزت کو تار تار کرچکاہوں؟ ؟؟"

"کون سا درندے کا چوغہ پہنا ہے جو میں نےان تنہائی کے پلوں میں تمہارے سامنے اتار پھینکا ہے؟ ؟؟؟"

"تمہارا یہ انوکھاروپ دیکھ کہ میں چند لمحوں کیلئے بے خود ضرور ہوا تھا مگر جب تمہیں دل سے اپنا مان چکاہوں تو اپنی ہی امانت میں خیانت نہ ممکن۔ ۔۔۔۔۔۔"

وہ اسکے نازک شانوں میں اپنی مضبوط انگلیاں پیوست کرکہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سنگین لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔ آخر کو رگوں میں خان گھرانے کا خون ڈور رہا تھا کیسے خود پہ اس قدر بدترین الزام برداشت کرلیتا۔۔۔۔!!


کامل کے قرب نے اور اسکی آنکھوں سے نکلتے جلا کر خاکستر کردینے والےشعلوں نے یکایک ہی مہمل کی بولتی بند کردی تھی ۔مہمل کو کامل کی اپنے شانوں میں پیوست ہوئی انگلیاں شدید تکلیف سے دوچار کر رہی تھیں۔


"خان پلیز۔ ۔۔۔۔!!"

"مجھے جھوڑیئےمیرے شانے مزید آپکا بوجھ نہیں سہار سکتے"

وہ اب بےبسی سے چور لہجے میں کہتی جیسے ہار مانگئی تھی ۔مزید مزاحمت کرنی کی اب اس میں ہمت نہ رہی تھی۔


"تم اتنی سی میری قربت برداشت نہیں کرسکتیں ؟ ؟؟تمہارا دم نکلنے کو ہے !! میرے نکاح میں آنے کے بعد میری میری جسارتوں اور شدتوں کو کیسے جھیل سکوگی؟؟؟"

وہ گہرے لہجے میں گویا تھا جبکہ مہمل خفت و حیاء سے سرخ ہوئی۔ اپنی نظریں جھکاگئی تھی ۔کامل کے مہکتے لہجے اور اسکو تکتی گہری آنکھیں جیسے مہمل کی سدھ بدھ ہی چراگئی تھیں۔


"بہتر ہے کہ اب خود کو تیار کرلو دلہن بن کے اس بیڈروم میں آنے کیلئے اور میری چاہتیں اور شدتیں جو صرف تم ہی سے وابستہ ہیں انکو تم ہی نے قرار دینا ہے"


کچھ لمحوں والی شوخی نے اب سنجیدگی اور غصے کی جگہ لے لی تھی۔ مگر وہ یہ۔ بھی جابتا تھا کہ مہمل۔ سے یہ اسکی وقتی ناراضگی ہے وہ زیادہ دیر تک اس سے خفا رہے ہی نہیں سکتا تھا ۔

"تم اب سوجائو فوری ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے اندر کا سویا ہوا بھیڑیا جاگ جائے ۔"

وہ طنز کے تیر برساتا ٹیبل پر رکھی اپنی سگریٹ کا ڈبا اور لائٹر اٹھا کہ اسٹڈی روم کے اندر جاگھسا تھا۔

محمل روتے روتے نہ جانے کب سوئی تھی اس کو پتہ ہی نہ چلا۔ آنکھ تو اسکی تب کھلی تھی جب کامل نے زور سے اپنی ایش ٹرے اٹھا کے روشندان پر دے ماری تھی ۔

وہ شور سے بوکھلا کر اٹھ بیٹھی رات کے تین بجے کا وقت تھا گھڑی پہ نظر پڑتے ہی اس کو جھٹکا سا لگا۔

" تو گویا میں اتنی دیر تک سوئی پڑی رہی انکی موجودگی میں وہ بھی"

اس سوچ کے آتے ہیں مہمل کی سرخ ہتھیلیوں میں پسینہ پھوٹ پڑا تھا ۔

کامل بغیر اس کی طرف دیکھے اب روشن دان میں سے باہر کمرے کی طرف کود چکا تھا اور چند ہی لمحوں میں وہ کنڈی باہر سے کھول کر واپس دروازے سے اندر آیا ۔

"میں دیکھ چکا ہوں سب لوگ اپنی اپنی آرام گاہوں میں محوِ خواب ہیں تم اب فوری اٹھو اور خاموشی سے اپنی کمرے کی راہ لو ۔"

مہمل کو کامل کا لہجہ حددرجہ سرد اور تلخی کی آمیزش لئے لگا تھا یا پھر واقعاتاً وہ سرد مہری سے گویا ہوا تھا اس سے۔ وہ سمجھ نہ سکی تھی

اور پھر چند ہی منٹوں میں محمل ،کامل کے کمرے سے اپنے روم میں آ چکی تھی ۔

🌹🌹🌹🌹🌹

رات کے گیارہ بجے کے قریب وفا حویلی پہنچی تھی

مگر حویلی میں ایسا لگ رہا تھا جیسے آدھی رات ہو چکی تھی اس کے استقبال کے لیے اس وقت حویلی کا کوئی بھی فرد موجود نہ تھا ایک ملازمہ نے اس کو کمرے تک پہنچایا اور پھر وہی اس کو رات کا کھانا دے کر برتن سمیٹ کے چلی گئی ۔

وفا کو بڑی حیرت ہوئی اس قدر روکھے پھیکے استقبال پہ۔

وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ حویلی کے لوگ خاص کر بابا کے کزن اس کا انتظار کر رہے ہوں گے مگر یہاں پر تو معاملہ ہی الٹا تھا ۔

وفا کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی وہ رات میں دیر سے سونے کی عادی تھی اور پھر نئی جگہ ہونے کے باعث نیند کا نام و نشان تک اس کی آنکھوں میں باقی نہ رہا تھا ۔

وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولے اس میں اپنے تھیسس کے متعلق انفارمیشن مزید اکھٹی کرنے بیٹھی ہوئی تھی جب ٹھک سے کوئی چیز ٹوٹنے کی آواز پہ وہ بے ساختہ کرسی دھلکیل کراٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اپنے بیڈ روم سے باہر کوریڈور میں آکر دیکھا تھا مگر باہر کا منظر دیکھ کے وہ جیسے گویا سکتے میں آگئ تھی۔

کوریڈور کے کونے پہ ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور پھر واپس اس کے اندر ایک شخص گیا تھا وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکی تھی اس شخص کی اسکی طرف پشت ہونے کی وجہ سے مگر تجسس کے مارے دیوار کے پیچھے چھپ کر وہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے خاموشی سے چپ چاپ دیکھنے پہ مجبور تھی کیونکہ روشندان کا شیشہ چکنا چور ہوا کوریڈور میں پڑا ہوا تھا اور پھر چند ہی لمحوں بعد اس شخص نے اپنے کمرے سے ایک حسین لڑکی جو کہ دلہن کے لباس میں تھی اس کو کمرے کے باہر نکالا تھا لڑکی روتے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھے کوریڈور کی دوسری طرف جا چکی تھی اور پھر اس شخص نے ایک دفعہ پھر کوریڈور میں آکر باہر کا جائزہ لیا گویا اطمینان کرنا چاہ رہا تھا کہ کسی نے اس کی کاروائی کو ملاحظہ تو نہیں فرمایا ۔

وفا یہ سب دیکھ کہ دھک سی رہ گئی مگر وہ چاہ کر بھی فل وقت کچھ کرنے سے قاصر تھی ۔

"تو گویا مزار پہ جانے سے پہلے اب مجھے حویلی کے اندر کے رازوں کو کھولنا ہے"

اس نے دل ہی دل میں تہیہ کیا تھا کہ وہ دن میں مزارات پہ جائے گی اور رات میں یہ گتھی سلجھائے گی ۔

اپنے کمرے میں آ کر اس نے کمرے کا لاک چیک کیا اور جب مطمئن ہو گئی کہ دروازہ واقعی لاک ہو چکا ہے تب وہ پرسکون ہو کر آپنے بیڈ پہ آلیٹی تھی اور باقی کا لاحہ عمل تیار کرنے میں مشغول ہو چکی تھی۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

"دیکھو پپو میں کوئی عام آدمی نہیں ہوں اگر تم میرے ساتھ رہو گے تو میں تمہیں مالا مال کر دوں گا ۔"

"یہ ہمارا اڈہ ہے تم ہوشیار ہو جلد ہی کام سمجھ جاؤ گے بس تمہیں ھوشیاری برتنی ہوگی تھوڑی سی اور جتنے تم شکار کرو گے اتنا ہی تمہیں معاوضہ بھی ملے گا اور شاہ سائیں کے دلعزیز بھی ہو جاؤ گے ۔۔"

شاہد اس کو ابھی ابھی پیر شاہ سائیں سے ملوا کے لایا تھا اور اب اس کو کام سمجھا رہا تھا ۔

پپو خاموشی سے اس کو سنتا رہا یہ کام تو اس کے لیے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا آخر کو وہ شروع سے ہی غنڈہ گردی و چوری چکاری میں ماہر جو ٹھہرا ۔

"ٹھیک ہے مگر میں معاوضہ اپنی من مرضی سے لو نگا اور اب تم دیکھنا کہ میں کس طرح سے اپنا شکار پکڑ کہ لاتا ہوں اور شاہ سائیں کے قدموں میں ڈھیر کرتا ہوں مگر میری شرط ہے ایک جو میں کہوں گا وہ تم نے ماننا ہوگا "۔

ٹھیک ہے اگر تو کام ٹھیک سے برابر کرے گا تو میں تو کیا شاہ سائیں بھی تجھے اہمیت دیں گے بس مزار پہ آنے والے لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ اندر بیٹھا پیر بہت بڑا پہنچا ہوا بزرگ ہے جس کے پاس جانے سے لوگوں کے ہر مسئلے حل ہو جاتے ہیں اس کام کو کرنے میں تمہاری مدد میں بھی کروگا اور ساتھ میں ایک عورت ہے چمیلی وہ بھار مزار کے صحن میں بیٹھ کے دوسری عورتوں کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اس کا بچہ ادھر آنے سے ٹھیک ہو گیا تھا جو کہ معذور تھا اور اس کی بچی جس کو پاگل پن کے دورے پڑتے تھے وہ بھی پیر صاحب کے کرامات سے بھلی چنگی ہوکے اب خفیہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہے ۔ "

چمیلی یہ کام اتنی چلا کی سے کرتی ہے کہ بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوبارہ سے کسی مسئلے کے لئے کی پیر سائیں کے پاس آئی ہے جب کہ وہ تو خود ہماری ہی ایک مہرہ ہے۔

تم دیکھتے جاؤ تمہیں مجھ سے بالکل بھی کسی قسم کی شکایت نہیں ملے گی "

پپو نے ہاتھ بڑھا کے ایک ادا سے کہا اور سگریٹ کالگانے میں مشغول ہو گیا اب وہ وہاں آی جاتی عورتوں اور لڑکیوں کو تاڑنے کا شغل بھی فرما رہا تھا ۔

اگلے دن صبح کے وقت وفاء کی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی دوپہر کے ١٢ بجے کا وقت ہو چلا تھا.

وہ فریش ہوکہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں جکڑے حویلی کی بھول بھولئے سے ناواقف مردان خانے کی طرف نکل آئی تھی جہاں حویلی کی عورتوں کا آنا سختی سے ممنوع تھا اور اگر کبھی کوئی عورت غلطی سے اسطرف نکل آتی تو اس کی۔سزا ٢ دن تہہ خانےمیں مکرر تھی ۔

خآن حویلی کے قوانین حد درجہ سخت تھے اور وفا ان سب اصولوں سے ناواق۔۔۔۔!!

وہ اپنی دھن میں بس چلتی چلتی کسی سے بے حد زور سے ٹکرا چکی تھی۔


کیاہے دیکھ کے نہیں چل سکتے؟؟؟

آنکھیں کیا ادھار دیکر آیئے ہو کسی کو؟؟؟؟؟


وہ بری طرح سے جابر سے ٹکرائی تھی دوسری طرف جابر تھا جسکی نظریں وفا کہ سراپہ کے نشیب و فراز میں بری طرح سے الجھ کہ رہ گئی تھیں ۔

وفا اس وقت ہاف سلیو ٹی شرٹ اور کمفرٹیبل ٹراوزر میں ملبوس جابر کی آنکھوں میں عجب ہی روشنیاں بھر گئی تھی ۔جابر اپنی مکروہ ہنسی کو یکدم سنجیدگی اور شرافت کا چوغہ پہناگیا تھا۔


"سوری مس میں تو دیکھ کے ہی چل رہاتھا مگر شاید آپکی صبح ابھی ہوئی ہے اسلئے آنکھوں میں نیند کے باعث آپ مجھے دیکھ نہ سکیں۔"

وہ لہجہ میں حددرجہ شائستگی سمو کر گویا ہوا تھا جوکہ ہرگز بھی اسکی شخصیت کا خاصہ نہ تھی۔


"ہوسکتا ہے "۔۔

"خیر میں وفا ہوں!! رات کو ہی حویلی پہنچی ہوں کراچی سے "


وہ جابر کے دوستانہ انداز میں ہمکلام ہونے سے کافی حد تک ریلیکس یوئی تھی ورنہ کل رات سے تو اسکو ابھی تک حویلی کے مکین کی بےرخی ہی بھلائے نہیں بھول رہی تھی ۔ وفاء نے بےتقلفی سے مصافہ کے لئے ہاتھ بڑھایا جابر کی طرف۔


"میں جابر ہوں فرقان خان کا بیٹاآپ سے ملکر بہت خوشی ہوئی مس وفا"

جابر نے جھٹ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وفا کے ہاتھ کو تھاما تھا بڑی پھرتی سے۔


"او یعنی آپ بابا جان کے کزن کے بیٹے ہیں !! مجھے بھی آپ سے ملکر اچھا لگا"


"شکریہ آپکا نہ چیز سے ملکر آپکو خوشی ہوئ" ۔۔

وہ اک اک لفظ کو چبا چبا کہتا وفاء کے چہرے کو مستقل اپنی نظروں کے حصار میں لئے ہوئے تھا۔ کچھ ایسا ضرور تھا وفا کی شخصیت میں جو اس جیسا شخص آوارہ اور قدرے حاکم مزاج شخص اک لڑکی سے نرمی سے پیش آرہا تھا وہ خود بھی حیران تھا اپنی اس تبدیلی پہ۔


"وفا آپ زنان خانے کے بجائے مردان خانے میں نکل آئی ہیں پلیز کوشش کیجئے جلد اذ جلد کسی کی نظروں میں آئے بغیر یہاں سے واپس زنان خانے کی طرف بڑھ جائیں نہیں تو" ۔۔۔۔

جابر نے جان کہ جملہ ادھورا چھوڑا۔


نہیں تو کیا ؟؟؟

یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ ؟؟؟

وہ الجھی تھی اور بغیر جابر کی آنکھوں میں ناچتی مکاری دیکھے گویا ہوئی۔


"اس حویلی کے اصول بہت سخت ہیں آپ نہیں جانتی مس وفا!! یہ حویلی قبروں کے اوپر بنی ہے جس میں آدھی سے زیادہ عورتیں اس حویلی کی ہیں جن کو زندہ درگور کردیا گیا ہے محض زرا سی کوتاہی یا نافرمانی کی وجہ سے"


"واٹ نانسیس کس قسم کے قوانین ہیں یہ میں نہیں مانتی ایسے کسی بھی اصولوں کو "

وہ جھنجلا ہی تو گئی تھی اس نے بھلا کبھی ایسا نظام بھی تو نہ دیکھا تھا ۔


"آپ نہ مانیں مگر یہ حویلی ہی ایسی ہے جہاں یا تو حکم کے غلام بنجائو یا پھر زندہ درگورہوجائو ۔۔۔!!!!"

وہ اک سفاک حقیقت ہی بیان کر رہا تھا یہی حویلی کے قوانین تھے مگر وفا سے مخلص ہرگزنہ تھا ۔جابراس کو اپنے تئیں شیشے میں اتارنے کی کوشش کر رہا تھا اس کا اعتماد جیتنا چاہ رہا تھا ۔


"مگر آپ تو مجھے ایسے نہیں لگ رہے ہیں !!کیا آپ بھی اس حویلی کے باقی لوگوں کی طرح ہی ہیں؟؟؟"

وفا کوخاصہ براڈ مائنڈڈ لگا اس لیے پوچھے بغیر نہ رہ سکتی ۔


"نہیں۔ ۔۔ نہیں میں بالکل بھی ایسا نہیں ہوں "

"میں تو خود حویلی کی روایات سے پریشان ہوں میرا بس چلے تو میں سب کو تہس نہس کر کے دوبارہ سے نئے اصول بناؤ جو کہ یہاں پر بسنے والے مکین کو سکون کا سانس اور آزادی کی نوید دے سکیں مگر میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں ۔"

وہ سرد آہ ہوا خارج کرکے ایسے بولا جیسے بے بسی کی انتہا پہ ہوں ۔


"وہ کیوں؟؟؟؟ آپ ایسا کرنے سے کیوں اس قدر خوف زدہ ہیں"

اسکو تجسس ہوا ۔


"کیونکہ یہاں پہ بنائے گئے تمام اصول و قانین اس قبیلے کے نئے سردار اور میرے تایا زاد کامل آغا کہ ہیں اور وہ اس قدر خطرناک شخص ہے یہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا مگر آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت یا پریشانی ہو تو مجھ سے ڈسکس کر لیجئے گا میں آپ کا دوست بن سکتا ہوں ۔۔"


کیا واقعی آپ میری مدد کریں گے ؟؟؟؟؟


"ہاں بالکل آپ مجھ پہ بھروسہ کر سکتی ہیں "

وہ بے حد انکساری سے گویا ہوا ۔


" چلے پھر آپ سے ملاقات ہوگی اب ذرا مجھے زنان خانے کا راستہ بتا دیں مجھے بھوک لگ رہی ہے اس کے بعد مجھے اپنے تھیسس کے کام کیلئے یہاں کے مشہور مزار جانا ہے کیا آپ وہاں تک مجھے ڈراپ کر دیں گے ؟؟؟"

وہ اس کی بات پر چونکا تھا مگر اپنی حیرانی ظاہر نہ کری۔

"ہاں بالکل آئیے میں آپ کو کچن تک لے چلتا ہوں۔ وہاں آپ کو ملازمہ ناشتہ بنا کر دیدے گی اور اس کے بعد ہم دونوں پہلے گاؤں کی سیر کریں گے اور پھر میں آپ کو شاہ سائیں کے آستانے پہ چھوڑ دوں گا اور جب آپ کہیں تو میں اس وقت آپ کو لینے کیلئے بھی آجائوں گا ۔۔۔۔'

وہ کافی حد تک وفا کا اعتماد جیت چکا تھا ۔مگر کامل کے لیے وفا کا دل خراب کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹


جا بر اور وفا کے درمیان دوستی کی ٹھیک ٹھاک فضا قائم ہوچکی تھی ۔

جابر نے اس کو آج بہت خوبصورت اپنے علاقے مقامات کی سیر کرائی اور حسین نظارے دکھائے تھے اور پھر وہ اس کو پیر سائیں کے آستانے پر چھوڑگیا تھا ۔

جابر نے اسکو بارہا کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں مگر وفا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ یہ کام خود سے کرنا چاہتی ہے بغیر کسی کی مدد لئے۔

جابر کو چند لمحوں کے لئے وفا کی دیدہ دلیری پہ غصہ ضرور آیا مگر وہ لب بھینچ گیا کیونکہ وہ وفا کے سامنے اپنا ٹھیک ٹھاک اچھا بنا ہوا امیج کو برباد نہیں کرنا چاہتا تھا فلوقت۔

وہ بظاہر اس سےخوشدلی دلی سے مصافحہ کرکہ واپس چلا گیا مگر دل ہی دل میں وہ بری طرح سے پیچ و تاب کھا رہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ کل کی ایک چھوکری نے اس کا حکم ماننے سے انکار جو کر دیا تھا ۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹


"اوئے ہوئے کیا مال ہے یہ تو "

"اگر اس کو پٹا لوں گا تو لائف جھینگا لالا ہو جائے گی اپنی" ۔۔

پپو نے سیٹی کی طرح ہونٹوں کو گول کر کہ خود سے کہا وہ وہاں پھول والے کے ساتھ بیٹھا گپے ہانک رہا تھا۔ جب سامنے سے اس کو پونی ٹیل بنائے شارٹ کرتی اور بوٹ کٹ ٹراؤزر کے ساتھ گلے میں اسکارف ڈالے ہاتھ میں ایک رجسٹر تھا مے چئیونگم چباتی مزارکے دروازے سے اندر داخل ہوتی وفا دکھی تھی ۔

پپو نے دکان کی منڈیر سے جمپ لگائی اور دوڑتا ہوا اس کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا ۔

"او میری چھمووووو۔۔۔۔"

رکو۔۔۔۔۔!!!

"میری نہیں تو قاعدہ اعظم ہی کی بات کا بھرم رکھلو انہوں نے عظیم ارشاد فرمایا تھا کہ ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔۔۔۔"

آنکھ مارکہ قاعدہ اعظم کا پیغام وفا تک پہنچایا گیا۔

"اپنآ منہ دیکھا ھے کبھی شیشے میں تمہاری اوقات ہے مجھ سے بات کرنے کی چلو جاؤ اپنا راستہ ناپو

نہ جانے کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں دماغ کی دہی بنانے ۔۔"

وہ اسکےسیٹی بجا کے راستہ روکنے پہ بری طرح سے برہم ہو ئی۔

" میرے جیسا پپودی پوپٹ کہیں فوکٹ میں بھی نہیں ملے گا میری بلبل کو ۔۔۔"

پپو نے اپنے پیلی بتیسی کی نمائش کی ا داِے لوفرانہ کے ساتھ۔


بلبل؟ ؟؟یہ بلبل کس کو کہا ؟؟؟؟

یخ۔۔۔۔۔۔کتنے گندے ہو تم اپنے دانت دیکھےہیں کبھی شیشے میں یخخخخ۔۔۔!!

وہ اپنے سامنے کھڑے اس موالی اور چرسی کو بلاوجہ اس سے فری ہوتادیکھ بڑھلک اٹھی ۔


"پپو دی پوپٹ کے علاوہ یہ کمینہ پن اور کر بھی کون سلتا ہےیا کسی کی اتنی مجال ہے پپو کی ٹکر پہ آسکے ؟ ؟"

اسنے دل پہ ہاتھ رکھ کے کچھ اس انداز میں کہا کہ وفاء سلگ کہ رہ گئ دل تو کیا کہ اس پپو نامی لوفر کے منہ پہ بھی اک جڑڈالے ۔


"میں تمہارے یہ لال دانت پنچ مارکے توڑ دوں گی اب اگر میرے منہ لگے تو ۔۔۔"

وفا نے دودو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا


"ہا۔۔۔۔۔ابھی میرے اتنے خوبصورت دن کہاں آِے ہیں کہ میں تمہارے منہ لگوں یا لبوں سے لبوں تک کا سفر طے کروں۔۔۔۔!"ڈھنڈی آہ بھری گئ۔


"منہوس خبیث تاڑو انسان تمہیں تو میں اندر کروادونگی جانتے نہیں میں کس کی مہمان ہوں۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔"

ٹھنڈ کے باوجود وہ پسینہ پسینہ ہوگئ تھی پپو کے اپنا بےباک جملے کسنے پہ ۔۔اپنی خفت مٹانے کو وہ تڑخ کر بولی جبکہ پپو ہنوز مسکرائے جارہاتھا ۔


چلو اپنا راستہ ناپو مزید میرا بھیجا مت کھاؤ!! نہ جانے کہاں کہاں سے چلے آتے ہیں ٹپوری چرسی پنواڑی نہ ہوتو۔ ۔۔"

وہ بے حد جھلائی ہوئی تھی کیونکہ اس ناگہانی آفت کی وجہ سے وہ اپنی منزل پہ وقت سے پہنچنے سےرہ گئی تھی کیونکہ شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور آستانہ بھی بند ہونے میں بس کچھ ہی دیر باقی بچی تھی۔وفا کواپنا آج کا دن برباد ہوتا لگا بلکہ ہو چکا تھا ۔۔

"سوہنی بلبل چل تو اپنے چرسی کو چرس کے لیے ٹکانہ دے کر جا کوئی دکھ نہی پر اک چمی تو ادھار دیجا۔ ۔۔۔۔"

"آج تو جمعہ ہے تو کیوں نہ چما بھی مل جائے ۔۔۔"

آنکھ ماتے ہوئےکہا گیا ۔۔

"اگر ایک اور ب**** کی تو چما نہی بلکہ چمبا دونگی زور سے چہرے پہ زندگی بھر نہیں بھولوگے یہ چمی۔۔۔"

"دل کرتا ہے دنیا کو تیرے واسطے میری بلبل بس تیری ہاں کی دیر ہے "

"میرے لئے دنیا چھوڑ نے چلے ہو پہلے اپنے لئے چرس تو چھوڑ ۔۔ بڑا آیا دنیا چھوڑنے والا بیہودہ چرسی نہ ہوتو۔ ۔۔۔۔"

"تمہاری وجہ سے میرا ایک دن برباد ہو گیا آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا بے شرم انسان! "

وفا نے اپنا موبائل پرس سے نکالا اور کال اٹھائی جس پہ جابر کی مسلسل کال ہورہی تھی۔

اس کا مطلب اور آستانہ بند ہونے کا وقت رہا تھا وہ پپو کو لعن طعن کرتی ہوں وہاں سے چلی آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

کشمالہ کے سسرال والوں نے آج کی رات ہی نکاح کرنے کا پیغام دے ڈالا تھا۔کیونکہ کشمالہ کے ہونے والے دیور کو کوئی ضروری کام آ گیا تھا جس کی وجہ سے دو دن بعد ہونے والی نکاح کی تقریب میں وہ شامل نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ تھی جو کشمالہ کی ساس نے آج رات نکاح کے لیے زور دیاتھا

۔.حویلی میں رات میں ہونے والے نکاح کی تیاری خوب زور وشور سے کی جارہی تھیں۔

مہمل کو تو جیسے تائی بیگم نے مشین ہی سمجھ لیا تھا۔کولہو کے بیل کی طرح وہ ادھر سے ادھر کاموں میں مشغول تھی۔تھکن سے اسکا پور پور دکھ رہا تھآ آس پہ تضاد ہر ہر پل کامل کی خود پہ جمی نظریں وہ زچ ہوکہ رہے گئ۔

ابھی وہ کچن میں چند لمحوں کیلئے پانی پینے کے بعد سکون کا سانس لینے کیغرض سے بیٹھی ہی تھی کہ مزنہ نے آکے مصروف سے انداز میں کامل کیلئے چائے پہنچانے کا حکم صادر کیا۔وہ مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق اٹھی اور چائے بنانے میں لگ گئی۔

ادھر ادھر نظر دوڑائی شاید کوئی ملازمہ کہ کام سر انجام دےسکے مگر اس وقت تمام ملامائیں لان کی طرف تھی وہاں کی سجاوٹ میں مصروف۔

ناک۔۔ناک ۔۔۔۔۔۔چائے۔۔۔

یہاں رکھ دو۔۔

ابھی وہ چائے دیکر پلٹ ہی رہی تھی جب کامل نے اسکی کلائی کو جکڑا تھا۔۔۔

تم کہاں چلیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟

یہاں رکھ دو۔۔

ابھی وہ چائے دیکر پلٹ ہی رہی تھی جب کامل نے اسکی کلائی کو جکڑا تھا۔۔۔


تم کہاں چلیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟

"میں یہاں جس کام سے آئی تھی وہ کام مکمل ہوگیا ہے"

وہ کامل کے ہاتھ کو گرفت میں جکڑنے پہہ تڑخ کے گویا ہوئی۔


کس نے کہا کہ تمہارا کام پورا ہوگیا ہے؟ ؟؟؟؟

وہ بھنویں اچکاتا اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات کو گہری نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔


"میں آپکی پابند نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی اب دوسرا جواز باقی ہے میرا آپکے روم میں ٹھہرے رہنے کا۔ "

مہمل اس کی نظریں مسلسل خود پہ محسوس کرکہ بری طرح پزل ہورہی تھی۔


"کوئی جواز نہیں ہے تو کیا ہوا ابھی بن جائے گاجواز بھی ۔۔!"

کامل نے جیسے ناک پہ بیٹھی مکھی اڑائی۔


"مجھے جانا ہے میں مزید آپکی کسی بھی بات کا جواب دینے کی متمنی نہیں ہوسکتی "

وہ جھنجلاکر گویا ہوئی کامل اسکا وقت خوامخواں میں برباد کر رہاتھا۔


"ؓمجھے تو لگ رہاہے جیسے تم بہانے کی تلاش میں تھیں میرے روم میں آکہ مجھسے ملنے کی؟؟؟"

کلائی پہ گرفت مزید کچھ اور بھی گہری ہوئی۔

اتنی کہ مہمل کی ہاتھ چڑوانے کی تمام کوششیں دم توڑ بیٹھی تھی اور پھر کمرے میں مدھم آواز میں چلتا گانا اسکو مزید کامل کے سامنے بوکھلائے دے رہاتھا۔


کیا یہی پیار ہے

ہاں یہی پیار ہے

پہلے میں سمجھا کچھ اور وجہ ان باتوں کی

لیکن اب جانا کہاں نیند گئ میری راتوں کی

جاگتی رہتی ہوں میں بھی چاند نکلتا نہیں

بن تیرے دل کہیں لگتا نہیں وقت گزرتا نہیں

کیا یہی پیار ہے

ہاں یہی پیار ہے

اک اک بول اس وقت کمرے میں گونجتا جیسے ان دونوں کے جزبات کی وکاسی کرہاتھا۔


آپ کن خوش فہمیوں میں ہیں خان؟ ؟؟؟

مہمل نے ماحول میں رچی فسوں خیزی کا اثر زائل کرنا چاہا۔


"اچھا واقعی؟ ؟؟؟؟"

وہ ایسے استفسار کر رہا تھا جیسے اسکی کہی بات پہ خط اٹھارہا ہو۔


"میری مجبوری تھی کہ اس وقت کوئی ملازمہ موجود نہیں تھی سب کو تائی بیگم نے باغ کی سجاوٹ کیلئے معمور کردیا ہے "

وہ صاف گوئی سے بولی۔


"اورتمہیں میرے لئے"

تھوڑا سہ کان کے نزدیق جاکہ سرگوشی کی گئی مہمل ہقدق رہ گئی۔


"چلو یقین کرلیتا ہوں"

"مجھے آپکو یقین یا بے یقین کرنے کا کوئی شوق نہی ہے ہاتھ چھوڑیئے میرا مجھے جانا ہے باہر"

اگر نہ چھوڑوں تو؟ ؟؟؟؟؟

"آپ یہ ٹھیک نہیں کرہے خان "

خان ہوں کبھی غلط کرسکتا ہوں بھلا؟ ؟؟؟؟

"اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے سوائے تمہارا ہاتھ پکڑنے کے علاوہ ابھی تک کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی"


سہی کہہ رہا ہوں نا؟ ؟؟؟؟

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے معنی خیزی سے کہہ رہا تھا۔ لہجہ نہ جانے کیا کچھ جتانا چاہتا تھا۔


کیا چاہتے ہیں آپ کیوں مجھے روکے رکھا ہے آپنے؟ ؟؟

وہ بےبس تھی ہاتھ جو اس ستگر کے ہاتھ میں جکڑا تھا۔


"تم یہاں آئی اپنی مرضی سے تھیں مگر اب جاوگی میری مرضی"

عبپ تحکمانہ انداز اپنائے ہوئے تھا وہ۔


"چائے بعد میں سرو کرنا پہلے مجھےکھاناکھلائواپنے ہاتھوں سے تم"

وہ کافی دیر سےمیز پہ ٹھنڈا ہوتا کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا ۔


مم۔ ۔میں ؟؟؟؟؟

آ۔ ۔۔۔۔آپکو کھانا کھلاوں؟ ؟؟؟

مہمل کی تو جیسے جان پہ بن گئی تھی بھلا کبھی پہلے کامل نے ایسا کوئی حکم بھی تو صادر نہ کیا تھا۔


"اگر تمہارے علاوہ کمرے میں کوئی موجود ہے تو مجھسے بھی سلام دعا کروادو "

کامل نے جتایا۔


"معزرت مگر یہ میرا کام نہیں آپ کی اس خواہش کا احترام کرنا میرےلئے ناممکن ہے "

وہ چڑھ کر قطعیت سے بولی۔


آج نکاح میں شریک ہونا چاہتی ہو یا اسی کمرے میں میرے ساتھ بندھ رہنے کا ارادہ ہے؟ ؟؟؟

وہ اب دھمکیوں پہ اتر آیا تھا لہجہ اسقدر سخت تھا کہ مہمل سن سی رہ گئی۔


"ٹھیک ہےمیں کھانا گرم کرکہ لاتی ہوں اک دفع پھر سے"

مہمل نے راہ فرار تلاشی۔


"یہ زہمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کھانا نکالو تم۔"

کامل نے نرمی سے اسکی کلائی کو چھوڑا اور اٹھ کے بیڈروم کا داخلی دروازہ لاک کردیا۔


کامل کی تمام کاروائی دیکھ کہ مہمل کی تو جیسے روح فنا ہونے کوتھی ۔

ڈش سے سالن نکالتے مہمل کے ہاتھ لرز اٹھے تھے شدید ٹھنڈ میں بھی پیشانی پہ ننھے ننھے موتی چمک اٹھے ۔ کامل بڑی فرصت سے دروازہ سے ٹیک لگائے ململ کے سفید کرتے کی آسینیں کونہیوں تک فولڈ کئے سینے پہ ہاتھ باندھے مہمل کی بوکھلاہٹ کو دیکھ کے زیر لب مسکرایا تھا۔


"ظالم لڑکی"

دل نے بے ساختہ کہا۔


"آجائیں کھانا چن دیا ہے ٹیبل پہ"

وہ اپنی بوکھلاہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کرہی تھی مگر ہاتھوں کی لرزش تھی کہ تمام تر پوشیدہ بھید چیخ چیخ کے عیاں کرنے کے درپہ تھی۔

وہ ٹیک کی لکڑی سے بنی کرسی گھسیٹ کے عین اسکے سامنے آ بیٹھا تھا۔


مہمل نے جلدی سے اپنے لرزتے ہاتھوں سے بمشکل نوالا نوالا بنا کہ اسکی طرف بڑھایا نظریں ہنوز ک

جھکی ہوئی تھیں۔

نوالا منہ میں کھلاتے ہوئے مہمل کی مخروطی انگلیوں نےکامل کے لبوں کو انجانے میں چھوا تھا۔

مہمل کو تو گویا جیسے کرنٹ ہی چھوگیا تھا ۔ بوکھلاہٹ میں نوالا ہونٹوں چھتا ناک کو بوسہ دے گیا۔

"یار یہ کیا تم تو مجھے ناک سے کھنا کھلانے کے درپہ ہو "

'میں بتاتا ہوں کھانا کیسے کھلاگے ہیں "

وہ نوالا بنا کہ مہمل کی طرف بڑھاگیا۔

"مم۔ ۔۔۔مجھے بھوک نہیں ہے۔ ۔"

یہ وہ الفاظ تھے جو مہمل نے بڑی مشکل سے ادا کئے تھے ورنہ بھوک سے تو اب اسکا دم ہی نکلنے والا تھا۔ صبح کو بھی اسنے کچھ نہ کھایا اور دوپہر میں تو تائی بیگم نے موقع ہی نہ دیا تھا کچھ حلق میں اتارنے کا کئ دفع مہمل کی ماں کام کاج چھوڑکر کھانا کھانے کا بولتی رہی مگر مہمل تائی کے ڈر سے کام کرنے پہ بضد ہی رہی اور اب کچھ دیر اور نہ کچھ کھاتی تو بیہوشی لازمی تھی۔

باہر جانا ہے نا؟ ؟؟

ا"گر ہاں تو چپ چاپ کھانا کھائو"

مہمل نے بغیر چوں چراں کئے نوالا کامل کے ہاتھ سے کھا یا۔

"گڈ گرل "

وہ مسکرادیا مہمل کی اسقدر فرمابرداری کا عظیم ملاحظہ دیکھ کر۔

اور اک نوالا خود کھاتا اور اک مہمل کو کھلاتا چائے بھی آدھی خود پی کہ مہمل کو آدھی زبردستی پلائی۔

عجیب ہی انداز تھا اسکی کئیر کا ۔ظاہر نہ کرتے ہوئے بھی وہ مہمل کی حد درجہ کئیر کرتا تھا اور یہ سب بھی اسنے اسی کیلئے تو کیا تھا جانتا تھا کہ وہ کس قدر خود سے لاپرواہ اور ہر اک سے خوفزدہ رہنے والی تھی۔

"اب تم جاسکتی ہو آج کھانا اکیلے کھا نے کا موڈ نہیں تھاتو سوچا تمہیں اپنے ساتھ لنچ کا چرف بخش دیا جائے"

انداز ایسا تھا جیسے محمل کی ساتھ پشتو پہ احسان کیا گیا ہوں ۔وہ صاف چھپاگیا تھا یہ بات کہ وہ اسکی وجہ سے ہی تو شام کے پانچ بجے تک بھوکا رہا تھا۔

مہمل کا اسکے سامنے زچ ہونا تڑخ کر جواب دینا ہی تو کامل اچھا لگتاتھا۔

مہمل نے اک بھی لمحہ زایا کئے بغیر جلدی جلدی برتن سمیٹے اور ایسے بھاگی جیسے روم میں کامل نہیں کوئی خوفناک جن موجود تھا۔

مہمل کی اسقدر گڑبڑاہٹ دیکھ کہ مہمل کا زور دار کہکہ فضا میں بلند ہوا تھا۔

رات ہوتے ہی حویلی کی تمان لائٹیں جگ مگ کر اٹھی تھیں نکاح کی تمام تر تیاریا بہت اچھے سے مکمل ہو چکی تھی بہت شان سے کشمالہ کے سسرالیوں کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا گیا تھا۔

بس اب دولہا دولہن کا قبول و ایجاب کا مرحلہ باقی تھا۔


"جاؤ جا کر دیکھو دلہن کی تیاری کہاں تک پہنچی ہے۔۔۔۔۔"

دادی بیگم نے بڑی بہو مزنا کو حکم صادر کیا ۔۔۔۔۔

جی اماں بیگم مزنا نے فوری ساس کے حکم کی بجا آوری کی تھی بھلا ساس کے صادر کردہ حکم کی تعمیل میں دیر کر کے وہ اپنی شامت بلانے سے تو رہی تھیں۔ ۔۔۔


آج حویلی کو کسی دلہن کی طرح سجایا سنوارا گیا تھا آخر کو "خان "گھرانے کی شادی تھی پورا علاقہ روشنیوں سے سجنے کی وجہ سے جگمگ کر رہا تھا ۔برات کی تقریب کا انتظام حویلی کے بڑے سارے لان میں ہی منعقد کیا گیا تھا یہ خان خاندان کی روایت تھی آج تک جتنی بھی شادیاں انجام پائی تھیں اس گھرانے کی وہ سب حویلی کی چار دیواری کے اندر ہی منعقد کی گئی تھیں ۔۔۔


اسٹیج پہ دلہن دولہا کے لئے خان خاندان کا اس اہم موقع پہ نسل در نسل استعمال ہونے والا روایتی جھولہا دلہن دلہا کیلئے گلاب اور گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا جبکہ جھولے کے دونوں طرف اردگرد تخت رکھے گئے تھے جن پہ دبیز لال اور ہرےرہگ کےکارپٹ بچھا کر گاؤتکھیے لگائے گئے تھے۔


دلہن دلہا کے استقبال کیلئے گلاب کی پتیاں اسٹیج کے فرش پہ بچھانے سے اس کی زینت میں مزیدچار چاند لگ گئے تھے۔ ایک تخت پہ دادی بیگم سفید رنگ کا گوٹا اور کرن لگاغرارہ پہنے اور اسکےکرتے کے گلے پہ پانچ تولے کے سونے کے بٹن لگائے چاندی کے پاندان کو کھولے تنفر سے برجمان تھیں غرور حاکمیت انکے ہرہر انداز سے جھلک رہا تھا ۔ جبکہ دوسرے تخت پہ گھر کے خاص مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا بڑی تائ بیگم ثروت فلحال اسکرین سے غائب تھیں حیرت انگیز طور پر ۔۔۔۔!!


"اماں بیگم"

"اا۔۔اماں بیگم "

مزنا کے چہرے کی ہوایاں اڑی ہوئی تھیں وہ ہانپتی کانپتی ساس تک پہنچی تھیں ۔۔


"اے بہوکیا ہوا تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟"

" خدا کا واسطہ ہے بہو کوئی اچھی خبر ہی سنانامنحوس پیغام نہ سنانا ام کو تم ۔"

۔

بہوکے لٹھے کی مانند سفید پڑاچہرہ دیکھ نفیسہ بیگم ٹھٹکی تھیں۔ دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی تھی آخر کو جہاندیدہ عورت تھیں ۔


" اماں بیگم دلہن کمرے میں نہیں ہے ام(ہم) نے ہر اک جگا دیکھ لیا حویلی کا اک اک چپا گھنگال آئ ام۔۔۔۔"

"تو پھر کہا ہے؟"

" جانتی بھی ہو کیا خرافات تم ام سے بکتا ہے؟؟؟؟"

" یا پھر تم شاید یہ بھول بیٹھا ہے کہ کس سے مخاطب ہے تم اس وقت ۔۔"

اماں بیگم نے اپنے خاص پختون والے انداز میں بپھر کے استفسار کیابہو سے۔۔۔

"اگر یہ مذاق ہے تو یہ سمجھ لو کہ تم ۔۔۔"

"اماں بیگم میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کیجئیے میری کیا مجال کہ میں آپ سے غلط بیانی کروں ۔۔۔"

"کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اور اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو جانتی ہو نا تمہاری سزا کیا ہوگی؟؟۔۔"

نفیسہ بیگم نے کرختگی سے کہتے ہوئے اپنی لاٹھی کو پکڑا اور اشتعال میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ چہرے پہ ناقابل بیان تاثرات رقم تھے جو وہاں موجود سب ہی نفوسوں کو تنبیہی کرنے کے لئے کافی تھےکہ اگر یہ حقیقت ہوئی تو قیامت آجائے گی سر قلم کردئے جائینگے ۔۔۔


"آپ کے ہر سوال کا جواب اس خط میں ہی ہے"

مزہ نے جلدی سے دلہن کے کمرے سے ملنے والا خط ساس کو تھمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ کیسے ممکن ہے؟

نفیسہ بیگم کی آواز میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔


"یہی سچ ہے اماں بیگم کشمالہ نے جو اس میں لکھا ہے"

مزنا نے سسکی بھرتے ہوئے کہا جبکہ اتنا بڑا تماشا لگتا دیکھ کشمالا کے سسرال والے غصے میں واپس روانہ ہوگئے تھے۔

نفیسہ بیگم اور انکی دونوں ںبہووں نے بہت کوشش کی کہ معملے کو سمبھال لیں مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔

سب مہمان اک اک کرکہ حویلی سے جاتے رہے ۔

اب باری تھی ادالت لگنے کی کسی کی بلی چھانے کی یا شاید کسی کی کھودی ہوئی قبر کو بھرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔

🌹

رات ٩ بجے کے آس پاس سب لوگوں اب بھی لان میں خوف زدہ سے موجود تھے۔


سلیمان بتائو کہاں لیکر بھاگا ہے تمہارا بیٹا ہماری پوتی کو ؟؟؟؟؟؟

سلیمان اور سلیمان کی بیوی کٹھہرے میں کھڑے تھے نفیسہ بیگم کی ادالت کے۔

آغا بیگم ہم بلکل نہیں جانتے کہ ہمارا بیٹا بلال کشمالا بی بی کو کہاں کیکر گیا ہے

ہاں ہاں آغا بیگم ہمیں تو خود اس خط سے پتا چلا ہے ہم کچھ نہیں جانتے مہمل کی ماں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ لوگ نلکل نہیں جانتے تھے کہ کشمالہ امکے بیٹے کے ساتھ فرار ہوئی ہے۔یہ تو کشمالا کے خط سے پتا چلا تھا کے وہ دونوں اک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے اوراپنی محبت کو امر کرنے کیلئے ان دونوں کو یہ قدم اٹھاناپڑا۔ نیچے کشمالااور بلال دونوں کے دستخت موجود تھے تو گویا اب کوئی شک و شبہات باقی نہ رہاتھا۔بلال کی گم شدگی کال نہ اٹھانا اس بات کی دلیل تھا کہ وہ یہ سنگین گناھ کر بیٹھا ہے۔


"میں میں نہیں چھوڑونگا ان دونوں کو اب اس گھر کشمالہ کی ڈولی کے بجائے جنازہ اٹھے "

جابر نے اپنی پسٹل اٹھاٙئی اور حویلی سے جاتے ہوِئے انتہا سے زیادہ اشتعال آمیز لہجے میں گویا ہوا۔


"پاگل مت بنو جابر یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے ہوش سے کام لو میں ساتھ چلونگا تمہارے "

کیسے خود پہ کنٹرول کروں کامل!! ہماری عزت کا بھرے بازار میں جنازہ نکلا ہے اور تم کہتے ہو صبر کروں ؟؟

بڑے آغا اور چھوٹے آغا جیپ۔تیار ہے۔

ملازم نے آکہ دونوں کو کہا۔

چلو جابر ۔۔۔

کامل نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھا جسے جابر نے بری طرح جھٹک دیا اور کامل کو دیکھے بغیر جیپ کی طرف بڑھ گیا۔

کامل نے اسکو اسلئے تنہا جانے سے روکا وہ نہیں چاہ رھا تھا کہ جابر کوئی غلط قدم اٹھائے وہ اسکو اپنے بھائیوں کی طرح ہی عزیز تھا ۔جابر اس کوجتنی دھمکیاں دیتا تھا مگر کبھی اس نے کسی اک پی بھی عمل نہ کیا تھا کامل کے خلاف ۔دونوں کی حویلی کے اندر ٹھیک ٹھاک دشمنی چلتی مگر حویلی کے باہر کسی میں ہمت نہ تھی ان دونوں میں سے کسی اک کو چھونے کی کیونکہ دوسرا مرنے مارنے کے در پہ ہوجاتا تھا۔

مہمل تو جیسے موت کے دہانے پہ آکھڑی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ کچھ غلط نہ ہو مگر اب ٹھیک کچھ بھی نہ ہونا تھا یہ وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی اگر کشمالا اور بلال نے ملتے تو ان کی جگہ مہمل کو اپنے سینے پہ گولی کھا کہ حساب برابر کرنا پڑتا اور دوسر طرف اگر وہ دونوں ملجاتے تو پورے قبیلے کے سامنے ان دونوں کو انکی پہلے سے کھودی گئی قبروں زندہ دفن کردیاجانا تھا۔دونسں صورتوں میں نقصان اسی کا تھا ۔وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بلال اسکا سگہ بھائی ان کو اس مقام پہ لا کھڑا کرکہ فرار ہوجائے گا۔۔۔۔!!!

وفا بس حیران پریشان سی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جابر کا اتنا سخت ردعمل اسکو برا بھی نہ لگا آخر کو غیرت کا معملہ تھا مگر وہ سکتے میں آگئی تھی یہ سن کہ اب خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔

"یاد رکھا سلیمان تم اور تمہارے پورے خاندان کو اس نمک حرامی کا کفارہ ادا کرنا ہوگا"

تائی بیگم نے آگے بڑھ کر مہمل کو بالوں سے بکڑ کر بری طرح سے مانا پیٹنا شروع کردیا تھا۔

"چھوڑدیں بھابی بیگم اد میں اس معصوم کا تو کوئی قصور نہیں"

"کیوں قصور نہیں ہے؟؟؟ اس سب میں یہ پوری پوری شامل ہے"

تائی کے بجائے دادی بیگم نے ترخ کے مزنا کو بعض رکھا۔مزنا نے بے بسی سے درواہ کو دیکھا تھا جہاں سے ابھی ابھی کامل باہر گیا تھا وہ وہاں موجود ہوتا تو مہمل کو اک کھرونچ تک نہ آنے دیتا مہمل کیا وہ کسی بھی جاندار پہ ظلم کا کائل نہ تھا آخر کو انکا اور زیشان حیدر خان کا خوں اسکی رگوں میں گردش کرہا تھا۔

$آپ کیسے اک بے قصور کو اسطرح سزا دیسکتی ہے آنٹی یہتو گنہگار نہیں نہ ہی اسکے ماں باپ!! مجرم اگر انکا بیٹا ہے تو آپکی بیٹی بھی اتنی ہی اس جرم میں شراکت دار ہے تو پھر آپ کیسے اسکو ؟؟؟ "

وفا سے مہمل پہ ہوتا ظلم مزید برداشت نہ ہوسکا وہ مہمل کے سامنے ڈھال بن کے کھڑی ہوگئی تھی۔

بی بی تم تو اپنا راستہ ناپو یہاں ہمارے اصول ہیں۔۔۔

تائی بیگم نے اک ہاتھ سے ہی وفا کو دھکا دیکر پرے کر ڈالا

🌹

14 سالہ مینا کو آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اک فارم ہائوس لایا گیا تھا۔ ساتھ میں امید بھی تھی بلکل خاموش لبوں پہ جیسے کفل لگ گیا تھا ۔اس کے آنسوں بلکہ خشک ہوچکے تھے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اسنے جہنم کا نظارہ دیکھا اوف جھیلا تھا۔جسم کو بھیڑیوں نے نوچ ڈالا تھا ۔کھانے کا اک نوالا تک ادکے منہ میں نہ دیا گیا تھا۔بس ہوس اور بربریت کا نشانہ بنائے چلے جارہے تھے۔

وہ پورے راستے اپنے موت کی دعائیں مانگتی رہی تھی۔

پچھلی سیٹ پہ بیٹھی مینا کو کسی طرح بھی ان درندوں دو بچاکر نکالنا چاہتی تھی ۔وہ دل ہی دل میں عہد کر بیٹھی تھی کہ مینا کہ ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیگی۔

کامل آغا آپ ہی مددکریں ہماری ۔

کشمالہ اور بلال نے کامل کو مدد کے لیے پکارا جو کہ ڈرائیور کررہا تھا۔


جابر چھوڑدو ان دونوں مل گئے ہیں اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔

کامل نے ساتھ بیٹھے جابر کو سمجھانا چاہا جس کے چہرےکے تاثرات غصے اور غضب کے مارے شدید نافہم ہورہے تھے۔


یہ میری بہن کا معملہ ہے بہتر ہوگا کہ مجھے خود نمٹنےدو۔!!

جابر تو گویا جیسے اپنےتعیں فیصلہ کرچکا تھا۔


"میں تمہیں کچھ بھی غلط نہیں کرنے دونگاجابر"

"تم مجھے روک بھی نہیں سکتے کامل !!ابھی اس قبیلے کہ آغا(سردار) بابا ہیں اور جب تک وہ گدی نشین ہے تمہارے فیصلوں کی میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں ہے۔"''

"تمہاری سوچ ہے یہ جابر خان افسوس میں تمہاری سوچ بدلنے سے قاصر ہوں "

کامل نے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے جابر کو جتایا اور گاڑی کا سٹیرنگ کماتے ہوئے مزید گویا ہوا ۔

"تایا جان کے بعد زیشان خان کا بیٹا ہونے کے باعث میں بھی اس قبیلے کا آغا ہوں اور تم جب تک مکمل اختیارات کے حامل نہیں ہوسکتے جب تک تایا تمہیں اپنی گدی پہ نہ بٹھادیں سمجھے۔"

"تو بس پھر ہوگیا فیصلہ !!بابا جان کے ہاتھ میں تڑپ کا اکا ہے اور وہ بے غیرت ہر گز نہیں۔"

وہ اب مزید کامل سے الجھنا نہیں چاہتاتھا حویلی آتے ہی وہ کشمالہ کو بازو سے پکڑ کر جارحانہ انداز میں اسکو گھسیٹتا گاڑی سے اتر گیا جبکہ بلال کو گارڈز نے جکڑا ہوا تھا۔۔


"چلو تم لوگ اب پتا چلیگا تم دونوں کہ گھر سے بھاگنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔"

جابر کے سر پہ تو بس جیسے خون سوار تھا ۔


" معاف کردیں جابر آغا ہمیں"

بلال نے مزاہمت کی۔

"میرا قصور ہے مجھے سزا دیں بلال کا کچھ قصور نہیں۔"

کشمالہ بھلا کیسے اپنے محبوب کو تڑپتہ ہوادیکھ سکتی تھی جھٹ سارا الزام خود پہ لے ڈالا۔ اب اس کی متلاشی نظریں ماں کو تلاش کر رہی تھی مگر اس کو کیا پتا تھا کہ اس کی ماں اس کے غم میں اپنے کمرے میں بے ہوش پڑی ہے ۔


سزا کس کو دینی ہے یہ بہت جلد معلوم ہو جائیگا تم اور تمہارے اس ناکام عاشق کو ۔

جابر نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا۔جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں جہاں رہا تھا کامل کہ اس کی غیرت ابھی زندہ ہے ۔


"میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا کشمالہ تم ڈرو نہیں محبت کی ہے ہم نےکوئی جرم نہیں کیا"

بلال حویلی کے گارڈز کی گرفت میں بری طرح پوری قوت سے خود کو چھڑوا کر کشمالا کو جابر کی گرفت سے نکالنے کیلئے تگ و دو کررہا تھا۔


"یہ لیں بابا جان سر قلم کردیں ان دونوں کا یہ ہمیں جھیل کے پاس قبیلے کی حدود سے نکلتے ہوئے ملے ہیں۔"

جابر نے کشمالہ کو باپ کے سامنے دھکیلا۔


"آغا سائیں کشمالہ بے قصور ہے !!میں اسکو اغوار کرکہ لے گیا تھا۔"

بلال کے کہنے کی دیر تھی بس قرقان خان نے زور دار تھپڑ اس کے چہرے پہ رسید کرڈالا تھا۔

بلال نے جیسے اپنی محبت پہ جان قربان کرنے کا فیصلہ کرڈالا تھا۔


مہمل اور اسکے ماں باپ بے بس اپنے جگر کے ٹکڑے کو بس چند ہی لمحوں بعد خون میں لت پت تصور کررہے تھے۔جبکہ وفاء کو رات کے اک بجنے کے باعث جان کر کسی نے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور پھر نفیسہ بیگم کا حکم تھا کہ وفا کو جتنا ہوسکے اس معاملے سے دور رکھا جائے ۔

سلیمان کی بیوی کی تو جیسے روح فناء ہوچکی تھی وہ بس خاموشی سے عشک برسارہی ۔


"نہیں بلال!! یہ سب لوگ فرعون بن چکے ہیں ۔ تم کیوں میرے لئے خود کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہو؟؟؟"

کشمالہ نے باپ اور بھائی سمیت دادی کی طرف تمسخراڑاتی نظروں سے دیکھ کے کہا تھا بلال کو ۔


"ذبان چلائیگی تو اپنے باپ سےتیری اتنی مجال"

دادی بیگم نے آگے بڑھ کہ کئی دھموکے اسکی پشت پہ جڑڈالے۔

"بس اب اک اور بات نہیں بہت ہوگیا ۔۔۔"

جابر نے آگے بڑھ کے اپنی جیبوں میں سے دو پسٹلز۔نکالیں اور بلال اور کشمالہ جن کو پہلے ہی کسی مجرم کی طرح گھٹنوں کے بل بٹھادیا گیا تھاسہن میں۔ان دونوں کے سروں پہ تان لی ۔


"بھائی کو جھوڑدو رحم کرو میرے بھائی پہ خدارا۔"

مہمل روتے ہوئے کامل کی طرف بھاگی تھی۔


"جابر صبر کرجائو ابھی دادی جان نے فیصلہ نہیں دیا ۔

کامل نے آگے بڑھ بڑھ جابر روکا اور فریاد کرتی نظروں سے دادی کو دیکھا۔


"ٹھہر جائو کامل ادھر ہی!! امارا قانون سب کیلئے برابر ہے"

نفیسہ بیگم نےخود کی طرف بڑھتے اپنے لاڈلے پوتے کےقدموں وہیں روک دیا ۔

کامل کے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے تھے دادی کے حکم نے اسکو بےبس کرڈالا تھا مگر وہ دل ہی دل عہد کر بیٹھا تھا کہ اگر بلال کی سینے پر گولی چلے گی تو وہ اس سے پہلے خود پہ گولی کھا لے گا ۔

رحم بڑا بی بی رحم امارے بچے پہ حم کرو ۔مت مارو ان کو ایسا مت کرو۔


سلیمان کی بیوی نے ڈوڑ کہ نفیسہ بیگم کے پیروں میں بیٹھ کے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔


"آغا سائیں آپ جو سزا چاہیں انکو دے دیں مگر انکی جان بخش دیں سائیں کرم سائیں ۔۔۔"

سلیمان نےفرقان خان کے آگے ہاتھ جوڑے۔


"یہ دونوں مرجائینگے پھر اس کے بعد کیا تایا جان ؟؟"

"اسطرح تو آپ انہیں اور خود کو سزا دے رہے ہیں

خدا کا واسطہ تایاجان ایسا نہ کریں ۔"

کامل سے اب مزید اپنا غصہ ضپط نہ ہوسکا وہ بری طرح اشتعال آمیز لہجے میں فرقان خان سے مخاطب تھا۔

"تم ہمیں مت سکھائواگر آج ان پر رحم کھایا تو ایسا نہ ہو کہ ہمارے آگے والی نسلیں یہ دونوں کی پیروکار ٹھریں" ۔

آجب ھی اصول تھے اس حویلی کے کامل پیچ و تاب کھا کے رہ گیا ۔


"مت کریں بڑی بیگم اپنےاور ہمارے ساتھ ظلم۔۔"

سلیمان اب نفیسہ بیگم سے فریاد کرنے جا پہنچا۔

مگر وہاں بھی اسکو سفاک رویہ کا ہی سامنا کرنا پڑا تھا۔ مہمل کو لگ رہا تھا جیسے وہ میدان حشر میں موجود ہو۔


"اماں بیگم کامل ٹھیک کہہ رہا ہے ہم کیسے جوان جہان موت کا دکھ برداشت کرینگے ۔"

مزنا جو کہ ایک سائیڈ پہ خاموش کھڑی تھی آج پہلی دفعہ اس نےساس کے سامنے سب کی موجودگی زبان کو لگا تالا توڑ ڈالا تھا ۔اس حویلی کے مظالم سے بھلا مزنا کے علاوہ اور کون واقف ہوسکتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہاں پہ سفاکیت کی انتہا ہے ۔بے رحمی کی حدود اس حویلی سے شروع اور اس حویلی پہ ہی آکے ختم ہوتی ہیں ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب مزید یہ روایت چلے اور کامل کو جس طرح اس نے پال پوس کر بڑا کیا تھا وہ آج محسوس کر رہی تھی کہ اس کی محنت وصول ہوگئی کامل کا حق کے لیے بولنا اور لڑنا اس کو اندر تک پرسکون کرگیا تھا ۔ذیشان حیدر خان سے کیا وعدہ مزنا کو آج اپنا پورا ہوتا نظر آرہا تھا ۔


"اب کچھ نہیں ہوسکتا فیصلہ ہو چکا ہے!!"

نفیسہ بیگم نے سفاکیت کی انتہا کرڈالی ۔


"کلمہ پڑھ لو تم دونوں "

جابر نے ٹریگر پہ انگلی رکھتے ہئے کہا۔

"جابر بھائی مت مارو مجھے اور بلال کو"

کشمالہ نے بھائی سے فریاد کی مگر وہاں اس کی اور بلال کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا کوئی رحم کھانے کو تیار نہ تھا ۔


"سمجھ نہیں آئی میں نے کیا کہا آخری دفعہ کلمہ پڑھ لو ورنہ اس کا بھی موقع نہیں مل سکے گا ۔۔"


"بابا جان رحم کرو بابا جان مت مارو ہمیں ۔"

کشمالہ نے ڈباڈبائی آنکھوں سے باپ کی طرف دیکھا اس سے پہلے اس کی سانسوں کی ڈور ٹوڑ دی جاتی وہ ایک دفعہ اپنے باپ سے اپنے لیے اور اپنی محبت کے لیے ضرور زندگی کی بھیک مانگنا چاہتی تھی ۔


"جابر آغا ام کہتا ہوں پہلے تم مجھے مارو اس کے بعد تم کشمالہ کی طرف دیکھنا پہلی گولی میرے سینے میں گھپنی چاہیے ۔"


بلال نے ڈھاڑتے ہوئے کہا اس کی دھاڑ اتنی بلند ضرورتھی کہ حویلی کے در و دیوار کو ہلانے کے لئے کافی تھی ۔


"بھائی نہیں کرو اپنے ساتھ ظلم۔ ۔۔۔"

محمل تڑپ اٹھی تھی جبکہ اس کی ماں بے دم سی پلر کا سہارا لے کر فرش پہ بیٹھتی چلی گئی ۔


"جابر بس کرو خدا کے قہر سے ڈرو اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی زندگی دینے اور چھین نے والا نہیں ہے۔"

مرت دخل اندازی کرو قدرت کے کاموں میں ۔خدا کے کاموں کو اپنے اختیار مت لو ۔ایسا نہ ہو کہ جب اس کا کہر اور عذاب تم پر نازل ہو تو تم ان دونوں سے کئی زیادہ بے بس اور بے اختیار ہو اس و قت"

یاد رکھنا ہر وقت انسان کی حاکمیت سلامت نہیں رہ سکتی آج تمہاری حکومت ہے کل کسی اور کی حکومت ہوگی"

"جابر پھر کیا کرو گے تم اس وقت؟؟ بے شک خدا کا عذاب بہت خطرناک ہے ۔"

کامل نے بھاگ کر جابر کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا ۔

"میں کہتی ہوں پیچھے ہٹ جاؤ کامل یہ اس حویلی کے اصول ہیں اور اصول سب کے لئے یکساں ہیں ۔"

نفیسہ بیگم نے پوتے کو بازو سے پکڑ کے سائڈ پہ کیا اور جابر کو ان دونوں کو ختم کرنے کا اشاکیا۔

کامل نے ایک دفعہ پھر آگے بڑھ کر جابر کے ہاتھوں کو سختی سے تھامنا چاہا مگر فرقان خان کے بندوں نے آکر کامل کو مضبوطی سے پکڑ کے پیچھے کھڑا کر لیا اور اس کو جکڑ کر کھڑے ہو گئے ۔۔

بس اب جابر کے گولی چلانے کی دیر رہ گئی تھی ۔

🌹🌹🌹🌹🌹

ان دونوں کو اچھی طرح سے تیار کرکے باہر لیکر آئو چمیلی ۔

شیر دل نے چمیلی کو اپنی بانہوں میں سے آزاد کرتے ہوئے کہا ۔

"اور یاد رکھنا ان کو اچھی طرح سے سمجھا دینا کہ یہ دونوں کوئی گڑبڑ نہ کریں اگر ان دونوں نے زرا سی بھی کوئی غلطی کی تو یاد رکھنا شاہ پیر سائیں ہم سب کی دھجیاں اڑادینگے ۔"

شیر دل نے چمیلی کو یاد دہانی کروائی ۔

"فکر نہیں نہ کر شیر دل بس تو دیکھتا جا اب چمیلی ان کو کیسے شو پیس بنا کہ باہر پیش کرتی ہے ۔اس دفعہ تو پیر سے میں اونچا دا م لونگی کیونکہ خاصی محنت کی ہے میں نے ان دونوں پہ۔ "

چمیلی نے ایک ادا سے کہا وہ اردو اس کی میں بہت آگے تک پہنچ چکی تھی اس کو اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ کون سہ د او کس وقت کھیلنا ہے ۔

مینا کو چھوٹا سا بلاؤز اور غرارہ پہنا کر شیر دل کے ساتھ روانہ کیا تھا چمیلی نے اور اس بات کی یاد دہانی کروائ تھی کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی تو وہ آج امید کے ساتھ وہ کریں گے کہ اس کی جان تک باقی نہ بچے گی ۔دوسری طرف امید تھی جس کو دوسرے کمرے میں مینا سے بالکل الگ کرکے رکھا گیا تھا ۔

"'واہ واہ کیا گوہر نایاب ہے اس کا تو بڑا مال ملے گا ہمارے اڈے پہ۔ "

اہک ٦٠ سالہ بڈھے نے میناکو ہوس بھری نظروں سے دیکھ کر کہا اور اس کے ساتھ عجیب بے ہنگم قسم کے گانے کی دھن پہ زبردستی رقص کرنا شروع کردیا۔۔۔۔

مینا خاموش تھی اس کو امید کی وجہ سے یہ کڑوا گھونٹ پینا تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی یہ کہ اس کے لئے ایک جال بچھایا گیا تھا ۔آج اس کے خریدار فارم ہاؤس پہ خاص طور پر ااس کی بولی لگانے کے لیے وہاں موجود تھے کیونکہ مینا ایک انتہائی خوبصورت تھی اور وہ لوگ جانتے تھے کہ اس کی منہ مانگی قیمت ملمی تھی اس لیے آج کی خاص تقریب مینا کی وجہ سے منعقد کی گئی تھی ۔

مینا کو درندگی کا نشانہ بنایا جارہا تھا وہ بندہ کسی کا بھی لحاظ کئے بغیر اس کو اپنے ساتھ اٹھا کہ لانچ میں لے گیا تھا اور وہاں پہ اس کو بری طرح سے تکلیف پہنچاتا اس کے وجود سے اپنے وجود کو تسکین پہنچانے میں مصروف ہو چکا تھا ۔مینا کی پوری طرح سے چیخیں بلند ہورہی تھی کیونکہ اب وہ درندہ مینہ کے گلے کو سختی سے پکڑے اپنی پیاس بجھانےکی کوشش کر رہاتھا۔ اور باہر کھڑی بلو فلم بنانے کا عملہ ایک دم ایکٹیو ہوا کچھ اس طرح سے فلم کی ریکارڈنگ کر رہا تھا کہ اس بڈھے کا چہرہ فلم میں آنے کے بجائے بس مینا کا پورا وجود فلمی ریکارڈ ہو رہا تھا ۔ کیونکہ وہ بڈھا ملک کی جانی مانی نامور ہستیوں میں سے ایک تھا جس پورے معشرے میں "عزت" تھی۔

مینا کی بولی لگ چکی تھی اور اس کو اب یہاں سے لاس اینجلس روانہ کر دیا جانا تھا اک دلال کے ساتھ اور امید وہ ابھی باقی تھی ایک بہت بڑا بزنس مین ابھی آیا نہیں تھا امید کو اس کے سامنے پیش کرنا تھا ان لوگوں نے ۔

بس اب جابر کے گولی چلانے کی دیر رہ گئی تھی ۔


دونوں نےایک ساتھ کلمہ پڑھ کہ اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔بلال اورکشمالہ جانتے تھے کہ بس اب موت کے اور انکے درمیان جابر کی بندوقوں سے چلنے والی ایک گولی کا فاصلہ ہے۔


"ٹھہر جائو جابر ۔۔۔۔"

تائی بیگم کی آواز پورے سہن میں گونجی تھی۔


جابر بس گولی چلانے ہی والا تھا جب اپنی ماں کی آواز سن کر اس سمیت سب ہی نے چونک کر دیکھا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت ان سب کو وہاں انکے ساتھ موجود وفا پہ ہوئی تھی جو حسب حال اپنے ٹراوزر ٹی شرٹ میں ملبوس ہری اونی شال شانوں کے اردگرد لپیٹے وہاں انکو لئے آن پہنچی تھی۔ اسکو ویسے ہی رات دیر تک جاگنے کی عادت تھی اور ساتھ ہی وہ بھوک کی بھی بہت کچی تھی آدھی رات کو بھی اگر بھوک لگ جاتی تو جب تک وہ کچھ کھا نہ لیتی اسکو نیند نہیں آتی بس آج بھی یہی ہوا تھا ۔لیپ ٹاپ پہ رات دیر تک نان اسٹاپ کام کرنے کے باعث اسکی نیند اڑھ چکی تھی اور پیٹ میں چوہے دوڈ رہے تھے۔بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکہ وہ دبے قدموں کچن کی تلاش میں نکلی تھی جب بیٹھک سے گزرتے ہوئے اسکو باہر سہن میں کھلنے والی کھڑکی سے عجیب سہ شور آتا سنائی دیا تھا۔وہ اپنی جاسوسانہ فطرت کے ہاتھوں مجبور کے کھلی کھڑکی کے سامنے آکر باہر جھانک کر صورتحال کو سمجھنے کی کسشش کر رہی تھی ۔اور کچھ ہی پل لگے تھے اسکو صورتحال سمجھنے میں پھر کیا تھا ۔اسنے آو دیکھا نہ تائو اور بیٹھک میں گہری نیند سوئی ملازمہ کو جھنجوڑ کر اٹھا دیا۔ملازمہ کے اٹھتے ہی اسنے پہلا سوال کشمالہ کی ماں کا کیا اور جیسے اسکو ملازمہ سے پتہ چلاکہ وہ کشمالہ کی وجہ سے بیہوش ہوگئی ںتھیں انکے ہوش آنے کے بعد سے وہ اپنے کمرے میں ہی خرابی طبعیت کے باعث آغا سائیں کا حکم تھا یہ کہ کچھ بھی ہوجائے بی بی سائیں کو نہ اٹھایا جائے۔بس پھر لمحوں کا کھیل تھا وفا کشمالہ کی ماں کو لیکر سہن میں پہنچ چکی تھی۔


"امی جان آپ بیج میں مت آئے فیصلہ ہوچکا ہے"

جابر نے لہجے کو بڑی مشکل سے دھیما کیا تھا وفا کی موجودگی کے باعث۔


"میری بیٹی کی قسمت کا فیصلہ میں خود کرونگی جابر " ۔

بہو تم کیا چاہتی ہو ؟؟؟

"پلیز بھابھی بچالیں ان دونوں پہ۔ظلم ہونے سے" مزنا نے روتے ہوئےجٹھانی کو سمجھایا جانتی تھی کہ انکا بھی فیصلہ۔سنا جانا تھا کیونکہ وہ فرقان خان کی تایازاد تھیں قبیلے کے جدی پشتی سردار کی بیٹی تھیں۔ کئی ایکڑ کی اکلوتی مالک بھلا انکی کیسے نہ سنی جاتی۔


میری نزدیک یہ ٹھیک نہیں کہ ان دونوں کو موت دی جائے ۔کشمالہ کی شادی بلال سے کردی جائے ۔۔

تائی بیگم کا لہجہ قطیعت لئے ہوئے تھا ۔


بہو تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو ؟!

ہم کیسے مجرموں کو چھوڑ دیں ناممکن۔ ۔۔۔

فرقان خان بھی غصے سے بپھر اٹھے۔


"کشمالہ کی سزا ہے کہ وہ بلال کے ساتھ اب نوکروں کے کوارٹر میں رہے گی اور مہمل کی شادی جابر کے ساتھ کردی جائے۔ "


ناممکن ایسا کیسے کہہ سکتی ہے آپ تائی جان؟ ؟؟

کامل کا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی گستاخیا نہ ہوا ۔۔

مزنا نے جھٹ بیٹے کا بازو تھاما جیسے التجا کرہی ہو کہ ابھی مت کچھ بولوں ۔


"اس میں ناممکن تو کچھ نہیں اگر اس حویلی کی بیٹی ان کمی کمین کے حوالےکی جائیگی تو انکی بیٹی بھی اس حویلی میں آئیگی اور تم کیوں اتنا آپے سے باہر ہو رہے ہو میں نے تم سے تو اس ملازمہ کی شادی کرنے کو نہیں کہا ۔میں نے تواپنے بیٹے کی شادی کا کہا ہے اس سے ۔"


تائی نے بہت ٹھہر ٹھہر کے کہا اور شوہر اور ساس کی طرف فیصلہ کن نظروں سے دیکھا وہاں موجود سب ہی افراد کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا سب آنے والے فیصلے کے منتظر تھے۔ وفا فلحال خاموش تھی ۔اسکو لگ رہا تھا کشمالہ کی ماں ہی کافی فلحال مگر زبان میں مستقل خاموش رہنے کے باعث کھجلی ہورہی تھی۔ مہمل نے خدا سے اپنی موت کی دعا مانگی تھی وہ جانتی تھی کہ بھائی خوشیوں بدکے۔ میں اسنے خلتے انگاروں پہ اپنے قدم دھرنے تھے۔


تمہاری تجویز بری نہیں یے سوچا جاسکتا ہے اس پر بہو۔

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں اماں جاں نا ممکن یہ ہماری روایات نہیں ہے۔

فرقان خاں بھپر اٹھے۔

"میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی فرقان خان "

"بہرحال فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے"


جابر کی شادی مہمل سے ہوگی ضرور مگر جابر کو پورا حق حاصل ہوگا کہ وہ اسکے ساتھ جیسا بھی سلوک کرے اچھا یا برا اسکو کوِئی قید نہیں ہوگی۔


بولو جابر کیا تمہیں منظور ہے؟ ؟؟

فرقان خان نے بیٹے سے پوچھا۔


🌹🌹🌹🌹


اگلے دن وفا پھر سے شاہ سائیں کے آستانے پہ موجود تھی۔ وہ آج استانے کے اندر آخر کار پہنچ ہی گئی تھی ۔

پیر سائیں بند کمرے میں کسی کے اوپر سے جن نکالنے میں مصروف تھے۔ وہ بہت دیر سے ایک کمرہ دیکھ رہی تھی جو کہ بند تھا اس میں کنڈی لگی ہوئی تھی ۔

اس سے آگے ایک عورت بیٹھی تھی جو مستقل اسکول پیر صاحب کے کرامات بتائےچلی جا رہی تھی اور وفا منہ پہ ہاتھ رکھے جمائیاں لیتی بس ہوں ہاں میں جواب دینے پر مجبور تھی ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ جس کام سے وہ آئی تھی اس میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو ۔اس لئے بس اچھا ،واقعی اس طرح کے داد دیتے جملوں سے مستقل اس عورت کو نواز تی جا رہی تھی پیر صاحب کے حوالے سے ۔


عورت کو اچانک کوئی کام یاد آگیا اور وہ اٹھ کے آستینے سے چلی گئی تھی ۔پیر صاحب کا دروازہ ہنوز بند تھا جہاں پر وہ شاید اپنے "خاص "دم درود میں مصروف تھے ۔

وفا کو یہ اچھا موقع لگا تھا اس کمرے میں جانے کا جس پہ کنڈا لگا تھا وہ خاموشی سے دبے پاؤں چلتی ہوئی کمرے کے دروازے کے سامنے آن کھڑی ہوئی کچھ دیر تک تو وہ سوچتی رہی کہ آیا کمرے میں جایا جائےیا پھر نہ جائے ۔چند لمحوں تک وہ سوچتی رہی اور پھر بس اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ کنڈا کھول کر کمرے کا دروازے پورا ہوا کرتی اندر داخل ہو گئی ۔لوہے کے زنگآلود دروازہ کو وہ واپس بند کر چکی تھی اس طرح کے کسی کو پتہ نہ چلے کہ کوئی اندر ہے ۔


کمرے کے اندر داخل ہونے کے بعد کچھ لمحوں تک تو اس کو کچھ سجھائی نہ دیا پھر جب اندھیرا ہونے کے باعث وفا نے اپنے بیگ میں سے ٹٹول کہ موبائل نکال کر ٹارچ جلائی۔ ٹارچ کی روشنی پھیلتے ہی کمرے کا منظر کچھ واضح ہوا تھا ۔


کمرے میں بڑے بڑے کینز میں پانی بھرا رکھا تھا ایک طرف اور دوسری طرف بہت سارے کثیر مقدار میں ڈبے رکھے تھے جن کو کھولنے کی غرض سے وفا آحے بڑی تھی اوراک ڈبہ کھولتے ہی اس میں لڈو موجود تھے جو غالباً موتی چور کے لڈو کہلاتے ہیں عام طور پر ۔

وفا نے اس میں سے ایک ڈبہ اٹھا کے خاموشی سے اپنے بیک میں چھپا لیا اور اب وہ اپنی پانی کی بوتل میں بھرا پانی جلدی سے گٹاگٹ پی گئی۔

بوتل خالی ہونے کے بعد اسی بوتل میں بڑی مشکل سے ایک کین کو کھول کے اس نے پانی بھرا تھا ۔اس کاروائی کو کرنے میں کافی مشکل۔ درپیش آئی تھی کچھ پانی فرش پہ بھی گرا تھا مگر وہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کر کے اس کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی ۔

کام مکمل ہو چکا تھا اور وہ پاس واپس جانے کے لیے پلٹ ہی رہی تھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور کسی نے اندر آکہ واپس اندر سے کمرے کے دروازے کو کنڈی لگائی تھی ۔


تم۔۔۔۔!

تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟؟

میرا پیچھا کرتے کرتے تم یہاں بھی پہنچ گئے ؟؟؟؟


سامنے موجود پپو کو دیکھ کے وفا کی جان میں جان آئی وفا کے نزدیک پپو اس کے ایک دو تھپڑ میں ہی میدان چھوڑ کے بھاگ جانے والوں میں سے تھا ۔


"یہ میری جگہ ہے میں یہی رہتا ہوں"

کہیں تم مجھے تلاش کرتے کرتے تو یہاں نہیں پہنچ گئی میری پوپٹ رانی؟؟؟


"تمہارا دماغ کا لگتا ہے کوئی اسکرو ڈھیلا ہے میں تمہیں ڈھونڈتی ڈھونڈتی تم تک کیوں پہنچونگی؟ تم لکھتے کون ہو میرے ؟؟؟؟"

"ارےاو میری چھمو جانیمن تونے چھیڑے میرے دل کے تار !! مجھے اپنے سر کا تاج بنا کہ تو دیکھ پھرروز چلینگے نو سے بارہ ۔۔۔۔۔۔"

پپو نےمنہ میں راجگرو کھول کے بھرتے ہوئے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے ہوئے اک آنکھ مارکر کہا۔

کمرے میں سوائے ٹارچ کی روشنی کے کوئی اور روشنی نہ تھی اس پہ تنہائی اور مدھم روشنی ماحول کو کچھ اور ہی فسوں بخش رہی تھی۔ وفا کو اب کمرے کی پرسراریت سے تھوڑی تھوڑی گھبراھٹ نے آن گھیرا تھا مگر وہ پھر بھی خود کو پر اعتماد۔ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے پپو کا دماغ درست کرنے کی تگ ودو کر رہی تھی ۔

"خبیث چرسی ہو تم !! شادی وہ بھی تم جیسے ٹپوری سے ناممکن۔ تم دنیا کے آخری مرد بھی ہوئے تب بھی میں تم جیسے کو منہ نہ لگائوں کجاکہ شادی نو نیور ۔۔۔۔۔"

وفاء آگ بگولا ہو اٹھی۔دل شاہ ایک تھپڑ موقع پر سید کردے اس کے مگر اس وقت وہ اس کے رحم و کرم پر دی تھی اسی کی جگہ پر موجود تھی۔اسکو تو آج ہی پتہ چلا تھا کہ پپو یہی رہتا ہے اس کا مطلب وہ بھی اس پیر کا ایک مہرا تھا ۔کہیں نہ کہیں پپو ہر اس راز سے واقفیت ضرور رکھتا تھا جس کو وہ تلاش کرنے آئی تھی۔

"غصے میں تو تم اور بھی مست پپو کی پوپٹ لگتی ہو بلکل شولا جوالہ!! راز کی بات بتاوں اپنے کو بھی شادی کا کوئی شوق نہیں ہے یہ تو تیرے میرے آنے والے بچوں کی زد ہے انہی کو امی چاہئے۔۔۔"

اسنےاپنےکان کے پیچھے اڑسا ہواگلاب نکال کے عاشقانہ انداز میں وفاء کی کرتی کی فرنٹ پاکٹ میں سجایا۔

"شکل سے جتنے مسکین لگتے اندر اور باہر سے اتنے ہی بیہودہ ہو۔تم اور کر بھی کیا سکتے ہو سوائے آوارگی کے۔۔۔۔۔"و

ہ اسکے اسقدر دیدہ دلیری پہ شرم وغصے سے پھٹ پڑی۔

"آوارگی اور آواراپن ابھی تم نے دیکھا ہی کہاں ہے میرا ؟؟کبھی تو پاس میرے آو دلہن کے روپ میں اور میری سیج سجائو اک بار تو سہی قسم کھا کے کہتا ہوں تمہارا محبوب ہوں منہ دکھائی میں گھونگھٹ الٹتے ہی جان دے دونگا۔۔۔۔۔۔"

وفاء کو دیوار سے لگاکہ اپنے دونوں بازو دیوار پہ جمائے وہ اسکی آنکھوں میں نہ جانے کیا کھوج رہاتھا۔

"سہی کہا ہے کسی نے بلکل محبت حرام نہیں ہے مگر محبوب کمینے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔"

وہ غرائی۔

وہ اسکے سینے پہ اپنے مخروطی ہاتھوں کو رکھ کہ اسے پرےدکھلنے کی کوشش کرنے لگی ۔ اسکےمنہ سے آتی گٹکے کی بدبو اب وفاء کی برداشت سے باہر تھی۔

'چہرے مجھے کبھی نہیں بھولتے میری بلبل ۔۔۔!! بس ابھی حساب لینے کا وقت نہیں آیا"

وہ سنجیدگی سے کہتا وفا کے مقعے برساتے ہاتھوں کو کلائیوں سے جکڑتے ہوئے گہرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔

"کون سےحساب کی بات کررہے ہو تم ؟؟؟ میں تم جیسے سڑک چھاپ لوگوں سے کسی قسم کا حساب نہیں رکھتی۔ "

تو پھر یہ کیا ہے پوپٹ؟ ؟؟

وہ اپنے سینے کا گریبان ایک ہاتھ سے پھاڑتا ہوا بولتا وفا کو وہشت کر گیا۔

یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ؟؟

کہاں لیجارہے ہو تم مجھے ؟؟؟


وفا مسلسل اپنی کلائ شاہ زمان کی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکی ان ہلکی پھلکی مزاہمتوں کا بھلا شاہ زمان پہ کہاں اثر ہونا تھا ۔

وہ تو بس لب بھینچے ناک کی سیدھ میں ڈرائیونگ کرنے میں مصروف تھا جیسے گاڑی میں صرف تنہا وہی تو بیٹھا تھا اس پہ تضاد کہ وہ وفا کی کسی بات کا بھی جواب نہیں دے رہاتھا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی اک جھٹکے سے رکی تھی اک بہت ہی خوبصورت پہاڑوں و بڑے بڑے پتھروں کے درمیان قدرت کی حسین شاہکار جھیل کے سامنے۔


شاہ زمان نے بغیر اک لفظ بھی کہے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا اور گاڑی سے اتر کر گھوم کہ وفا کی سائیڈ کا دروازہ کھولے وہ منتظر تھا اسکے اترنے کا۔

مجھے نہیں اترنا ۔

کیوں؟ ؟

میری مرضی ۔۔۔۔۔!!!


'یہ میرا علاقہ ہے یہاں صرف میری ہی مانی اور سنی جاتی ہے اور تم جیسے عقل سے پیدل لوگوں کا دماغ درست کرنا مجھے بہت اچھی طرح آتا ہے ۔"


"ہاں میں پاگل ہی نہیں بلکہ میرے دماغ کے تمام ہی اسکریو ڈھیلے ہیں!! آپکو ستنا ہی مسئلہ ہے تو مجھے میرے رہم و کرم پہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ؟"


"تمہیں اور تمہاری اس سو گز کی زبان کو برداشت کرنا میری مجبوری نہیں بلکہ میری مرضی ہے اسلئے جو دل میں آئےہانکتی رہو مجھے یا میری زات پہ رتی برابر بھی فرق نہیں پڑنا۔"


تم ۔۔۔ !

تم ہوتے کون ہو؟

"اور تم ہو کیا اک معمولی سے انسان تمہیں بھی اسی خدا نے بنایا ہے جس نے مجھے اسلئے خود کو کوئی توپ شہ مت سمجھنا میرے سامنے انڈراسٹڈ!!!"


"تم نہیں آپ "

وہ بھاری لہجے میں سختی سے انگشت شہادت بلند کرکہ بولا۔ وفا دانت پیس کہ رہے گئی بھلا کبھی پہلے کسے نے جرت بھی تو نہ کی تھی ایسا کرنے کی اسکے سامنے مگر فلحال وہ اسکے ربم و جرم پر تھی راستے بھی تو نہ جانتی تھی واپسی کے ۔ جبکہ وہ مزید اسکو دیکھ کر گویا ہوا ۔


" اور ہاں بے شک مگر یہاں تمہاری ٹھوڑی سی کریکشن ضرور کرونگا وہ یہ کہ میں کچھ تو ہوں کیونکہ میرا رب کچھ بھی بیکا نہیں بناتا اس بات کا یقین میں تمہیں دلانا بھی نہیں چاہتا کہ میں کیا ہوں!!! ہاں مگروقت بہت بڑا کھلاڑی ہے ڈئیر وفا۔ ۔"


"اپنا اور میرا وقت زایا کرنے کہ بجائے اس پوائنٹ پہ آو جس کی وجہ سے مجھے یہاں لا پٹخا ہے؟ ؟؟"


وہ اب کچھ نرم پڑی کہیں نہ کہیں شاہ زمان کا بھاری لہجہ اور روب دار پرسنیلٹی وفا کے غصے کو ٹھنڈا کر گئی تھی۔


"بے فکر رہو چوری چھپے نکاح پڑھوانے نہیں لایا ہوں یہ ٹرینڈ خاصا سولڈ فیشن ہو چکا میں نئے زمانے کا نایا بندہ ہو زرا۔"


وہ چبا چبا کے گویا جبکہ رخ اب جھیل کی طرف تھا دوپہر کے تین بجنے کو تھے مگر موسم بلا کا دلفریب ہورہا تھا اس پہ تضاد قدرت کا بنایاحسین منظر۔ ۔۔۔!!


"او ہیلو مسٹر کسی خوش فہمی میں مت رہنا میں بھی کوئی آپ سے شادی کیلئے مری نہیں جارہی۔ ۔ ۔ "

وہ تلملائی اسکے رخ موڑ کہ مغرورانہ انداز میں بات کر نے پر اور اب کی دفع


میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔

انگشت شہادت بلند کرکہ وہ وفا کو بولتا دیکھ ٹوک گیا اور پھر اپنی بات جاری کی دوبارا سے۔ انداز اسقدر سخت تھا کہ وفا کو خاموش ہونا پڑا۔


"شاہوں کے گھرانے سے ہو ڈنکے کی چوٙٹ پہ پورے زمانے کے سامنے اپنا بنانا جانتا ہوں۔ "

"تم آج کے بعد اس پیر سائیں کے آستانے پہ نہیں جاوگی یہ بات اپنے زہن میں بٹھالو۔جو جیسا ہے وہ ویسا ہی رہے گا پوشیدہ رازوں کی قرید مت کرو نقصان اٹھاوگی۔"


"بہت شکریہ مگر میں اپنے اچھے برے سے اچھی طرح سے واقف ہوں یہ بات آپ بھی اپنے دماغ میں بٹھالیں آج تو آپ نے میرا راستہ روک کہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لیکر آگئے ہیں مگر یاد رکھئے آئندہ اگر ایسا کچھ بھی کیا تو اغواع کا پرچہ کٹوادونگی سیدھا آپکہ نام کا۔"


"اگر فطرت میں میری برداشت نہ ہوتی تو آج تمہاری کچھ کہنے کی ہمت تک نہ ہوتی!! امید ہے میری بات کا مطلب بہت اچھی طرح سمجھ آگیا ہوگا مزید کچھ بھی سمجھانے کی۔اب ضرورت تو نہیں رہی ہوگی؟؟؟"

وہ غرایا۔

"آپ جیسے بہت دیکھے ہیں یہ اپنی فضول لولی لنگڑی دھونس گھرجاکر اپنی بیوی پہ جمائیے گا مجھے پتا ہے میرے لئے کیااچھا ہے اور کیا برا آپکی طرح اک عدد دماغ میرے پاس بھی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ میرا دماغ آپکے دماغ کی طرح فارغ نہیں۔

ہونہہ وفا نے تڑخ کر کہتے ہوئے ہنکارا بھرا۔


"بہت غرور ہے تمہیں اپنے دماغ پہ ہے نا؟؟؟مگر جتنا تمہارے پاس ہے اتنا ہی میرا دماغ خراب ہے سمجھ آئی؟؟؟"

وہ وفا کا بازو پکڑ کے اسکو خود سے نزدیک کرکہ انتہائ سرد لہجے میں گویا ہوا تھا۔


"لیو می نائو!! "

وہ گڑبڑائی۔


اور اگر نہ جانے دوں تو؟؟؟؟؟

وہ گہرے لہجے میں پوچھ بیٹھا۔


"تو میں شور مچادونگی کہ تم اک کڈنیپر ہو "

وفا کا انداز دھمکی آمیز ہوا۔


"یہ بھی شوق تم بہ خوشی پورا کرکہ دیکھ سکتی ہو میری طرف سے اجازت ہے ۔"


"اجازت مائی فٹ !! اب تم دیکھو وفا کیا چیز ہے۔"


"بچاو۔۔۔۔۔۔۔!!

بچائو یہ شخص مجھے اغواء کر رہا ہے مدد کرو میری پلیز ہیلپ ۔۔۔۔"


کئی لوگ وفا کی شیخ و پکار سن کہ اپنے اپنے مشاغل ترک کر جھیل کے قدرے سنسان گوشے کی طرف دوڑے چلے آئے تھے۔جب شاہ زمان نے بغیر گھبرائے و جھجکے وفا کی پشت سے اسکو اپنے حصار میں لیا تھا اور اسکی گردن پہ اپنی تھوڑی جماکر ہاتھ میں پہلے سے موجود لائٹر کو وفا کے ہاتھ میں زبر دستی تھاماڈالا ۔


"چھوڑو اسکو بیوقوف لڑکی کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑی ہو ۔ڈاکٹر نے کہا تو ہے کہ تم جلد ہی ٹھیک ہوجائوگی ۔۔۔"


وفاکی طرف دفاع میں بڑھتے لوگوں کے قدم یکایک وہیں تھمے تھے شاہ زمان کی بھاری و کرخت آواز سن کہ۔


کیا ہوا ینگ میں ؟؟!

ایک ٹئورسٹ نے شستہ انگریزی میں استفسار کیا ۔

"نوتھنگ سر مائے وائف از مینٹلی سک "

وہ سنجیرہ شکل بنا کہ گویا ہوا۔


"نو نو سر آئی ایم پرفیکٹلی فائن اینڈ ایم ناٹ ہز وائف "

وہ بے بسی سے اسکی بات کہ نفی کرنے لگی۔


شاہ زمان نے ادھیڑ عمر شخص کی طرف دیکھ کہ افسردگی سے شانے اچکائے جیسے کہہ رہا ہتھا

" دیکھ لیں کیا حالت ہے اسکی دماغی۔"

وہاں موجود سب لوگ اک اک کرکہ وہاں سے وفا کو بیمار سمجھ کہ روانہ ہوتے چلے گئے۔


"تممم۔ ۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے میں تمہارا خون پی جاونگی جنگلی جاہل گنوار انسان۔ "


پہلے مجھ سے آپنا آپ تو چھڑوالوں اسکے بعد یہ شوق بھی پورا کرلینا ویسے اب تو تمہیں میری جراتوں کا اندازہ باخوبی ہوگیا ہوگا ؟؟؟"


یو ۔۔۔۔۔۔۔!!!

وہ بھی مزید خرافات بولنے کو تھی جب وہ وفا کو خطر ناک گھوری سے نوازتا اس کے لبوں پہ انگشت شہادت رکھے خاموش کرا گیا ۔


"ششش۔ ۔۔۔۔۔"

"اب مزید اک لفظ نہیں سنونگا"

"جب میرے ساتھ ہوا کرو توصرف میری سنا کرو "


"ابھی تو میں تمہیں گھر چھوڑ ہا ہوں واپس مگر اگر اب تم اس مزار پہ دوبارہ گئیں تو اگلی ملاقات میری تمہارے بیڈروم میں ہوگی۔ "


شاہ زمان کا انداز ایسا برہمی لئے ہوئے تھا کہ وفا چند لمحوں کیلئے ساکت سی رہے گئ اس پہ تضاد اسکا حد درجہ بھاری اور گھہرا بولتا ہوا لہجہ وفا کچھ لمحوں کیلئے شاہ زمان سےسہم سی گِئ۔


💞💞💞💞💞


"تم تو اندر آنے کا نہیں کہوگی مگر میں تو آونگا کیونکہ یہ میری بیٹی اور اسکی مما کے ساتھ ساتھ عنقریب ہی میری ہونے والی بیوی کا کمرا ہے۔ "


کامل نے کہتے ہوئےمہمل کو شانوں سے تھام کہ سائیڈ پہ کیا تھا اور پلٹ کے اندر سے دروازہ کا لاک لگایا۔


وہ اک دفع پھر مہمل کی طرف آیا تھا گہری نیند سوئی ہوئی جاناں کے ماتھے پہ بوسہ دیکر اور اسکے اوپر کمفرٹر اچھے سے ڈھانپ کہ مہمل خاموش تماشائی بنی کامل کی تمام کاروائی ملائحظہ کر رہی تھی۔ آج زہنی تنائو اتنا بڑھ چکا تھا کہ کامل سے کسی قسم می بحس میں پڑنے تک کی اس میں سکت نہ رہی تھی ۔ کل کے دن ویسے بھی اسکو کسی بھیڑ بکری کی طرح قربان کردینا تھا ۔ شادی کتنا خوبصورت رشتہ ہوتا ہے دو روہوں کا ملن ہوتا ہے مگر مہمل کیلئے سوائے زہنی تشنگی کے کچھ بھی نہ تھا ۔آج آخری رات تھی اسکی تنہائی کل تو اسکی شادی تھی کامل کے ساتھ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن تھی جب اسکو اپنے شانوں پہ دبائو سہ محسوس ہوا وہ یکدم چونکی تھی کامل کو خود کو بغور تکتا پاکر وہ گڑبڑائی تھی۔ رشتہ بدلنے کو تھا احساسات نے نئی روش اختیار کی تھی مگر پھر پھی نہ جانے کیوں اسکی آنکھوں میں ویرانی تھی سکوت تھا۔ کامل کو اسکی آنکھوں جھلکتے سناٹے دیکھ دل ڈوب سا گیا تھا۔ وہ اسکی محبت تھی مگر آج وہ اسی کی وجہ سے اس قدر تکلیف میں تھی بہت ہی تویل سفر کیا تھا اسنے تپتی ریت میں تن تنہا مگر کامل اسکی تمام طویل مسافتوں کی تھکن خود میں سمیٹنے کیلئے تیار تھا ۔


کامل نے اپنے سے ہاتھ بھر کے فاصلہ پہ موجود اس اداس اداس سی آنکھوں والی لڑکی کو خود میں سمو لیا تھا وہ بس اسکے دل میں موجود سکوت کو توڑنا چاہتا تھا مہمل کے تمام غموں کو سمیٹنا مقصد تھا اسکا واحد۔۔۔!!!!!!


مہمل اسکی آغوش میں آکہ کچھ اس طرح سے بکھری تھی کہ جتنے دکھ تھے آنسئوں کے ذریعہ کہہ ڈالے کامل کا چوڑا سینا اسکے اشک سے بھیگ چکا تھا دونوں طرف بس خاموشی تھی کامل بغیر کچھ کہے بس اسکی پشت کو تھپتھپا رہا تھا جیسے اپنے ساتھ کا یقین دلا نے کی کوشش کر رہا تھا۔

رات گہری ہوچلی تھی سرد موسم کمرے کی ٹھٹرا دینے والی فضا اور خود میں جکڑ لینے والی خاموشی ماھول میں جیسے محبت کا سحر پھونک رہی تھی لمحوں کا کھیل تھا بس ۔۔۔۔!!

وہ بڑی مشکل سے ہوش میں آتے ہوئے کامل سے فاصلہ پہ ہوئ تھی۔

وہ اس اک لمحے کی حادثاتی کیفیت پہ بھونچکا رہ گئ تھی۔سارے حواس اک لمحے میں معوف ہوئے تھے اور وہ بے اختیاری میں کامل کے سینے سے آلگی تھی ۔سوچنے سمجھنے کا وقت ہی کہاں ملا تھا۔۔!!

مہمل نے اپنی بے ساختگی پہ کچھ شرمندہ سی ہوکہ اٹھتی گرتی پلکوں کی جھالر میں سے کا مل کو دیکھا اور نظر جھکا گئ مزید کامل کی آنکھوں میں جھانکنا مہمل کہ بس کی بات نہ رہی تھی۔

_ڈرو نہیں تمہیں کبھی تنہا نہیں ہونے دونگا جب جب تمہیں میرے سینے پہ رکھنے کی ضرورت پڑے گی مجھے لمحوں میں اپنے پاس پائوگی۔ ۔۔۔!!!"

کتنا خوبصورت لہجا تھا اسکا اعتماد بخشتا یقین دلاتا! !! قربت کی مانوس مہک اجنبی نہ تھی اس دلفریب خوشبو سے تو وہ تب سے واقف تھی جب سے خود کو بھی نہیں جاناں تھا مگر اب۔ ۔۔۔۔۔۔

"مجھ سے خوفزدہ مت ہو مہمل میں آج بھی وہی ہوں بلکہ اب تو اک مقدس رشتہ بھی ہم دونوں کہ درمیان بندھنے جا رہا ہے۔ بس مجھے تمہاری ان آنکھوں میں غم نہیں جچتا "۔

"اور مجھے آپ اور آپکی قربت پسند نہیں جس کا آپ مجھے بار بار نہ جانے کیوں احساس دلابے چلے آتے ہیں "

وہ تلخی سے گویا ہوئی ایسے جیسے باقی کہ کامل کے کہے الفاظ کانوں میں پڑے ہی نہ تھے۔

" عادت ڈال لو کیونکہ اب ان دونوں کے ساتھ باقی کی زندگی بسر کرنی ہے میری مہمی کو"

وہ اسکی ناک کو پیار سے دباتے ہوئے بولا اور جھٹ مہمل کے رخسار پہ بوسہ دے ڈالا۔

"بابا آپ نے مہمل کو کس کیا اب مجھے بھی کرو "

مہمل نے سٹپٹاکہ پیچھے مڑکر ننھی جاناں کو دیکھا جو باپ سے آنکھوں کو ملتے ہوئے نیند بھگانے کی کوشش کررہی تھی۔ جاناں نے اتنی مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔

"'نہیں بیٹا میں نے آپکی مہمی کو کس تھوڑی کی ہے میں تو بس مہمی کے گال پہ موجود تل دیکھ رہا تھا کہ کہیں غائب تو نہیں ہوگیا"

کامل نے مہمل کے خفت کے سرخ پڑے چہرے کو معنی خیز نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔

"نہیں بابا جان آپ مزاق کر رہے آپ نے مہمی کو کسی دی ہے "

جاناں کہ منہ بسور کہ کہنے اور مہمل کے چہرے پہ موجود جھنجلاہٙٹ دیکھ کامل کا فلک شگاف کہکا فضا میں بلند ہوا تھا وہ جاناں کوپیار کرکہ اٹھ کھڑا ہوا اور مہمل کے پاس سے گزرتے ہوئے بہت دھیمی سی سرگوشی کی تھی۔

"کل کی رات بس!!چند گھنٹے رہتے ہیں "

مہمل بے دردی سے لب کاٹتی رہے گئی اور وہ ہوا کے جھونکے کی مانند جا چکا تھا ۔

"ھممممم مال تو اچھا ہے اسکو ٹرانسفر کردو مگر اس دفع یاد رہے کوئی غلطی نہ ہو"

ملک کا نامور بزنس مین اور سیاست دان سیٹھ جیلانی نے امید کی منہ مانگی قیمت ادا کی تھی اور ا ب اسکو مالدیو کے اک مشہور جسم فروشی کے اڈہ (بار) میں سپلائے کیا جارہا تھا جہاں وہ پہلے بھی لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں سپلائے کرتا آیا تھا وہاں پہ پاکستانی اور انڈین لڑکیوں کی خاصی ڈیمانڈ تھی اور اچھے منہ مانگے داموں وہاں معصوم اور کمسن لڑکیوں کو فروخت کیا جاتا ۔مالدیو ہی نہیں لاس انجلس میں بھی یہی حال تھا وہاں پہ بھی کئی درندے کثیر تعداد میں یہی کاروبار کرہے تھے ۔خدا کو بھول بیٹھے تھے انسانیت کا گلا گھونٹ اپنی بہن بیٹیوں کو سات پردوں میں رکھ دوسروں کی عورتوں کی عزتوں کو نیلام کرنے میں مگن یہ جسم کہ بیوپاری بہت کامیابی سے اپنے اس غلیظ دھندے میں مست ہیں۔

"جی جی صاحب آپ بے فکر ہوجائیں اس دفع ایسا کچھ نہیں ہوگا مال ٹھکانے پہ پہنچ جائیگا "

"تو پھر زرا ہم بھی تھوڑا دل بہلالیں زرا"

سیٹھ جیلانی نے مکاری سے کہا۔

"ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں صاحب "

شیر دل نے فوری سیٹھ کو امید کے کمرے کی طرف روانہ کیا۔

اور پھر اک دفع وہی ہوا جس کے بعد امید کی ازیت ناک چیخیں بند کمرے کے باہر تک گونج رہی تھیں ۔

دوسری طرف مینا تھی جو خود کے ساتھ ہوئی درندگی کی تاب نہ لاتی موت کو گلے لگا بیٹھی تھی ۔اسکی سانسیں بند ہوئے ٢ گھنٹے بھی ہوچکے تھے مگر ظالموں مزید ایک گھنٹے سے زائد اسکے انتقال کرنے کے باوجود اس سے کھیلا اور پھر فارم ہائوس سے دور جھا ڑیوں میں اسکو آگ لگادی۔

🌹🌹🌹🌹

لاس انجلس جیسے بڑے شہر میں امید کو دوسری اور ١٩ لڑکیوں کے ساتھ پہنچادیا گیا تھا۔ ساتھ ہی اسکو خاص مشرقی لباس زیب تن کروایا گیا ہجاب کے ساتھ تاکہ وہ وہاں آنے والے افراد کو پاکستانی ہونے کا پتہ دے سکے اور امید کے زریعے اسکا بیوپاری گاہک سے منہ مانگی قیمت وصولے۔

روشنیوں اور فہاشی کے شہر لاس انجلس میں جگہ جگہ اڈے کثیر مقدار میں کھلے ہوئے ہیں ۔

یہاں آکر امید کو سہی معنوں میں اندازہ ہوا کہ زندگی میں ازیت ملنا کسے کہتے ہیں ۔ہر رات اسکے ساتھ کئی خریدار آتے کھیلتے اور چلے جاتے وہ جیسے بس اب اک زندہ لاش بنکہ رہے گئی تھی ایسے میں کچھ عرصے بعد اسکی خوبصورتی انگلینڈ کے مشہور بار میں بطور بار ڈانسر بھیج دیا گیا ۔

امید کے بجائے اب اسکا نام مرینہ ہوچکا تھا اسکے بیوپاری اسکو اک مکمل کال گرل بنا چھوڑا تھا ۔

اور وہ تھی کہ بس چپ۔

موت کی دعائیں کرتی کئی دفع بھاگنے کی بھی کوشش کر ڈالی مگر وہ بھی بے سود رہی ۔

ایسے میں اک دن وہ ہوگیا جسکی وہ امید ہو کہ امید چھوڑ چکی تھی۔

مہمل نے دزدیدہ نظروں سے اپنی بڑی امی کو دیکھا تھا۔

نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!!!

اسکا دل چیخ چیخ کے گواہی دےرہاتھا۔

"مہمل بیٹے سائن کرو "

فرقان خان کی آواز بلال اور کشمالہ کے درمیان سے گونجی تھی۔مہمل نے بھائی کی خوشیوں کیلئے لزرتے ہاتھوں سےقلم تھاما۔دل میں دھکم پیل ہورہی تھی۔مہمل کے سینے میں حشر برپا تھا۔اسے نہیں معلوم کہ اس نے کس طرح سائن کِئے تھے نکاح نامہ پر ۔بس یاد تھا تو اتنا کہ سائن کرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی آج وہ کامل کے نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لکھ دی گئ تھی۔مگر دل تھا کہ کسی طور پرسکون ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ڈھیر ساری رسموں کے بعد اسکو کامل کے روم میں پہنچا دیا گیا تھا آخر کو دنیا دکھاوا بھی تو کوئی چیز تھی حویلی والوں کیلئے ۔دنیا کے سامنے حویلی کی واہ واہ ہوگئی تھی کہ حویلی کے آغا (سردار) کی بیوی ایک کمی کمین میں سے تھی۔

مزنا کے جاتے ہی وہ بیڈ سے اتری تھی اور جلدی ڈریسر کے سامنے جاکہ جیولری نوچنے کے انداز میں اتار کہ دراز میں پھیکتی چلی گئی۔ سامنے وارڈروب میں سے اپنے کپڑے تلاش کرکہ ایک کاٹن کا جوڑا لیکر وہ واشروم میں جا گھسی تھی اس بات کی۔پرواہ کئے کہ کامل کے جزبات اور احساس کا وہ اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ رہی ہے۔کچھ دیر بعد وہ واشروم سے فریش ہوکہ باہر نکلی تھی کالے رنگ کے لباس کو زیب تن کئے وہ اس وقت ملکمل سوگ کا سا سماء پیش کر رہی تھی۔

دروازہ کھول کر وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا مہمل کو سادہ سے کپڑوں میں دیکھ دم بھونچکا رہ گیا اس سے پہلے مہمل اسکے کمرے میں آنے کے بعد اسٹڈی روم میں روانہ ہوتی وہ تیزی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس تک جا پہنچا تھا۔ وہ کترا کہ نکلنا چاہتی تھی مگر کامل اسکے سامنے کسی مضبوط چٹان کی مانند آ کھڑا ہوا تھا ۔


"راستہ چھوڑی میرا"

اسکی سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر کوشش بے سود رہی۔


"تمہارےتمام راستے مجھ ہی شروع اور مجھ پہ ہی آکر ختم ہوتے ہیں مہمل"

وہ مسکرایا اپنی نِئی نویلی دلہن کے تپے تپے چہرے کو دیکھ کر۔

"آپ نے زبردستی میری منزل کا رخ اپنی طرف موڑا ہے اب میں اک بھٹکی ہو ئی مسافر ہوں "

اک دفع پھر سے فرار کی کوشش کی گئی مگر اب کی بار کامل نے اسکے اور اپنے درمیاں ہاتھ بھر کا فاصلہ بھی ختم کردیا تھا۔

"اب کہو کیا کہہ رہی تھیں ویسے سنا ہے کہ تم آج مارے خوشی کے نکاح کے وقت بے ہوش ہونے والی تھیں؟؟؟؟"

وہ اسکی کمر کے گرد بازو حمائل کرکہ شریر لہجے میں گویا تھا۔مہمل کی پیشانی پہ سلوٹیں نمودار ہوئیں مگر پرواہ کس کو تھی بھلا وہ تو بس گہری نگاہوں سے اسکو دیکھنے میں مصروف تھا۔

"ویسے تو تمہیں اصولاً آج کے دن میرے انتظار میں نظریں بچھائے سرخ جوڑا زیب تن کئےمیری سیج سجانی چاہئے تھی مگر تم یہ سوگ کی علامت بڈھی روح کیوں بنی پھر رہی ہو؟؟؟؟؟"

کالے کپڑوں پہچوٹ کی گئی ۔وہ اب کڑے تیور لئے مہمل سے استفسار کررہا تھا۔وہ فی الوقت اسکے کسی بھی سواک کا جواب دینے کے موڈ میں نہیں تھی اسکو بس کامل کی بڑھتی ہوئی قربت سے رہائی منصوب تھی۔

"میرا تو خیال تھا کہ آج خاصی گرج چمک کے ساتھ برسات کا امکان ہے مگر یہاں تو بوندا باندی کے بھی آثار نہیں"

کامل نے اسکے کان بے حد قریب جاکہ سر گوشی کی تھی ۔مہمل کا دل اچھل کہ حلق میں آگیا کامل پہ تو آج جیسے مہمل کی کسی بات کا اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔

"آج تو ایمانداری سے بے ایمانی کرنے کاحق بنتا ہے یار میرا"

وہ اسکی چپ توڑنے پہ بضد تھا مگر دوسری طرف تو جیسے گہرا سکوت طاری تھا۔ کامل نے اک گہری سانس لی اور کرتے کی جیب سے کچھ نکالنے لگا ۔مہمل نے اب اک دفع پھر سے مزاہمت کرنے کی اپنی۔سی کوشش کی تھی مگر اک ہاتھ سے کامل نے گرفت اور بھی مضبوط کر ڈالی تھی اور ہنس دیا یوں جیسے وئی کسی کک نادانی پہ ہنستا ہے۔

"تم بھول رہی ہو کہ میں اب تم پہ ہر قسم کا حق رکھتا ہوں"

سرخ ملی باکس میں سے کامل نے اک نگینوں جڑا بریسلٹ نکال کہ مہمل کے الٹے ہاتھ کی کلائی میں پہنایا جسے مہمل بغیر کسی مزاہمت کے پہن لیا۔

"یہ تمہیں اچھا لگا ہو یا نہیں مگر جب تک میری سانسیں چل رہی ہیں تب تک یہ تمہارے ہاتھ میں رہنا چائئے "

عجب دھونس بھرا لہجہ تھا۔یہ دھمکی تھی یا خواہش وہ سمجھ نہ سکی ۔

کامل اسکو اک جھٹکے سے چھوڑ کے وارڈروب کی طرف بڑھا تھا مگر پھر یکدم کچھ یاد آنے پہ واپس پلٹا ۔

"میرا خیال ہے کہ آج کی رات کے تمام تقاضے تم بخوبی جانتی ہوگی اگر نہیں بھی علم ہوگا تو میں زرا فرءش ہوں لوں پھر ڈیٹیل میں سمجھاونگا اس سے پہلے زرا تم یہ اپنا حولیہ درست کرلو "

وہ۔اسکے سراپہ پہ اک۔بھرپور نگاہ ڈالتا واپس وارڈروب کی طرف بڑھ گیا۔

جبکہ مہمل اسکے واشروم جاتے ہی ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں بڑی پھرتی سے نہ جانے کیا تلاش کر ریی تھی۔

وہ ڈراز میں کوئی ڈینجرس چیز ڈھونڈ رہی تھی اپنی حفاظت کیلئے مگر سوائے نیل کٹر کے علاوہ کچھ بھی ہتھے نہ لگ سکا۔


ہوگئ تلاشی؟؟؟

ویسے راز کی بات بتائوں قسم سے میرا کسی کے ساتھ افیئر نہیں ہے تمہیں میری وارڈروب اور ڈرورز میں بس تمہیں یہی مل سکتا ہے۔

کامل نے اسکی پشت پہ تھوڑی تکاکہ اک ہاتھ سے اسکو حصار میں لیا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے نیل کٹر لیکر دور اچھالا تھا۔

وہ ٹاول لینے واپس پلٹا تھا جب مہمل کو کچھ ڈھونڈنے میؑ مصروف پاکہ وہ بغیر اسکے کام میں رکاوٹ ڈالے سینے پہ ہاتھ باندھے تمام تر کاروائی ملاحظہ فرمارہاتھا۔ سلیپنگ پل وہ لیتا نہیں تھا غلطی۔سے بھی اور جاناں کی وجہ سے کوئی بھی خطرناک چیز میں نیچی چگا پہ نہ رکھتا ۔


"چھوڑے مجھے یہ کیا بچوں جیسی حرکت ہے"

"بڑوں جیسے ہی کام کر رہاہوں میرے خیال۔سے تم اب بچی بن رہی ہو"

وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اسکی سراحی دار گردن پہ اپنے دہکتے ہوئے لب رکھ چکا تھا۔

فضا ء میں محبت گنگنارہی تھی ۔اک عجب سہ جادو چار سو پھیل رہا تھا۔


کیسی مشکل میں پھنس گئی تھی جان ؟؟کیسا بھونچال تھا آگیا تھاجذبات کے تلاطم میں وہ سمجھ نہ سکی اپنی خود کی کیفیات کو ۔

تیز ہوتی دھڑکنوں نے شور مچا دیا تھا ۔اسکا نازک سراپہ کامل۔ کی والہانہ گرفت میں مچل رہا تھا ۔نرم گرم سانسوں کی تپش نے جیسے مہمل کو جھلسا ڈالا تھا۔ اسکی جان فنا ہونے کو تھی ۔اس لمحے مزاہمت کیسی بے معنی لگ رہی تھی وہ جنوں حشر اٹھادینے کو تھا۔


"کامل آغا جاناں مم ۔۔۔مجھے جاناں بلارہی ہوگی وہ سوئے گی نہیں"

اسکی جسارتوں سے بوکھلاکر وہ بول پڑی تھی۔اسکو اب رہائی ممکن نہ لگ رہی تھی اپنی کامل اسکو بے بس کرنے کہ درپہ تھا ۔


"میں بھی تو اب تمہارے بن ادھورا ہوں!! جاناں کا باپ بھی تو تمہارے بغیر نہیں سوسکتا ڈیئر مہمی"

وہ اسکا رخ اپنی طرف موڑ گیا تھا۔ مہمل کی اٹھتی گرتی لرزتی پلکیں اسکے صبیح چہرے کو حیاء کے خوبصورت رنگوں میں ڈھال رہی تھیں وہ مبہوت سہ رہ گیا ۔مہمل کی جان ہوا ہونے لگی تھی کامل کی جسارتیں لمحہ بہ لمحہ محسوس کرکہ کتنا خوف اتر آیا تھا اسکے چہرےپہ !!

وہ اس کے چہرے کے ہر ایک زاویہ کو پڑھ سکتا تھا مگر اس وقت وہ محمل کے ہوش ربا حسن کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا ۔یا پھر شاید آج کی رات وہ اس کو اپنی محبتوں کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔۔پیشانی سے گدازلبوں تک شہادت کی انگلی سے ایک صراط بنائی تھی۔،

وہ اس کے قریب تھا بے حد قریب !!!

کامل کی قربت اس کے وجود کو جیسے جھلسا دینے پر آمادہ تھی ۔سارا وجود جیسے مہمل کی گرفت میں قید ہواشل ہونے کو تھا ۔۔۔


"محبت زندگی ہے اور بےشک زندگی بہت مختصر ہے مہمی۔۔۔۔"

وہ اس کو سمجھا رہا تھا جانتا تھا کہ وہ اس سے خفا ہے ۔

"مجھے کچھ وقت چاہیے میں ابھی خود کو اس رشتے کےحقوق کی ادائیگی لیے تیار نہیں کر پا رہی! ! مجھے خود کو آمادہ کرنے دیں سمجھنے دیں کہ وقت بدل چکا ہے۔ احساسات کو تبدیل ہونے میں وقت لگے گا کچھ ۔۔۔"

"میں سمجھوتا کرنے کے لئے خود کو تیار کر رہیں ہوں لیکن فوری طور پہ میں آپ کے قربت اور لمس کی متمنی نہیں ہوسکتی۔۔"

مہمل کا لہجہ قطعی تھا ہر قسم کے جذبات و احساسات سے عاری وہ کامل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی یا پھر سرے سے سمجھنا ہی نہیں چا ہ رہی تھی۔وہ نادانی نہیں یہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ ایک ایسے بندے کو کاٹ کر رہی ہے جو کہ اس کے لئے جیتا تھا اور اس کے لیے ہی اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔


میری قربت تمہیں تکلیف دے رہی ہے مہمی ؟؟؟؟

کیا تم مجھ سے رہائی چاہتی ہوں ؟؟؟!

کامل کا لہجہ چاہتے ہوئے بھی سخت ہوا مہمل نے جس طرح سے اس سے اپنا آپ چھوڑ آیا تھا وہ اس قسم کی امید نہیں کر سکتا تھایک طرح سے محمل نے اس کو رد کیا تھا اس کے جذبات کی توہین کی تھی۔سیدھے سیدھے وہ کامل کی آنا کو مجروح کر گئی تھی مگر سامنے بھی کامل تھا جس کی برداشت حد سے سوا تھی اگر کامل کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کا حشر بگاڑ دیتا مگر کامل تو سرے سے تھا ہی اسی کا اس کے لیے اس ریلیشن سے زیادہ اسکی خوشی عزیز تھی مگر محمل کو احساس دلانا بھی اس کے لئے ضروری تھا ۔


"زندگی محبت سے گزرتی ہے محمل یاد رکھنا اور دوریاں اور بدگمانیوں کو خواہ مخواہ دل میں جگہ مت دو "

"میں بدگمان نہیں ہوں!! میں جو بھی سوچ وہ سمجھ رہی ہو وہ سب سوچنے کے لئے مجھے آپ ہی نے مجبور کیا ہے۔ اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتی مجھے کچھ لمحوں کے لیے سکون چاہیے "


"بدگمانی اتنی ہی رکھنا جتنی کے رشتوں کو کمزور کرکے توڑنا سکیں"

" تمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس کو میری طرف سے ایک چھوٹی سی مہلت سمجھلو اور جتنی جلدی خود کو آس رشتے کے لئے تیار کرو تمہارے لیے بہتری ہے ۔۔"

میں بندہ بشر ہوں کسی وقت بھی بہکھ سکتا ہوں اور پھر تم مجھ سمیت میرے وجود کو راحت پہنچانےکا باعث ہو خدا کی طرف سے ۔۔۔

وہ کہہ کے روکا نہیں تھا اور اپنے ڈی روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔


💞💞💞💞💞💞


میں ساتھ چلوں تمہارے اندر آستانے میں؟


وہ اتر رہی تھی جب جابر نے کچھ محتاط سے لہجے میں گاڑی کا انجن بند کرتے ہوئے کہا۔ وہ ہر گز قبل ازوقت اپنے اندرپیدا ہوتے نئے احساسات وفا کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا کیونکہ اس سے پہلے بھی جابرکی زندگی میں کائی لڑکیاں آئی اور گئیں تھی مگر وفا کو لے کر وہ شاید مختلف پہلوئوں پہ سوچ رہا تھا وہ اس کو اچھی لگنے لگی تھی مگر ابھی وہ اپنے آپ کو ٹٹولنا چاہتا تھا کہ آیا یہ محبت ہے یا پھر یہ بھی کچھ دن کی دل لگی تھی اس کے لیے ۔وفا جیسی جی دار لڑکی اس کے دل کو بری طرح سے بھا گئی تھی ۔


"نہیں میں چلی جاؤں گی اور پھر مجھے پتا نہیں ہے کتنی دیر لگ جائے آپ خوامخواں میری وجہ سے پریشان ہوں گے ۔"

وہ جلدی سے گاڑی سے اتری اور چہرے کو ایک دفعہ پھیر سے نقاب میں اچھی طرح لپیٹا۔


'یار پریشانی کیسی تم میری دوست ہو اور پھر ہماری مہمان ہو اتنا تو میرا حق بنتا ہی ہے "

وہ وفا کے چہرے کو چور نظروں سے دیکھ کر مسکرایا ۔اس لڑکی نے اس جیسے سنگ دل کو سرتاپہ تبدیل کردیا تھا۔ وہ اب وہ نہیں رہا تھا پتھر دل آہستہ آہستہ موم ہورہا تھا۔


"جابر میں آپ کو ایک بات کہوں آپ مجھے یہاں پر رہنے والے تمام مردوں سے بہت مختلف لگے ہیں وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ ہر کسی نے مجھے یہاں مزار پہ آنے سے روکا لیکن آپ میرا ساتھ دے رہے ہیں میں جانتی ہوں کہ آپ کہیں نہ کہیں مجھے پروٹکشن بھی فراہم کر رہے ہوں گے جو میرے علم میں لائے بغیر آپ نے اپنے کچھ ملازمین کو مزار کے ارد گرد میری حفاظت کے لیے کھڑا کر رکھا ہے "

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اب ہلکا سا شوخ ہوئی تھی جیسے جابر کی پیاری سی چوری بکڑ جانے پہ خط اٹھا رہی ہو۔


تمہیں کیسے پتا ؟؟؟

وہ حیران ہی تو رہ گیا تھا کہ وفا یہ بات جانتی تھی کہ وہ اس کو تنہا چھوڑ کر نہیں جاتا اس نے مزار کے ارد گرد اپنے چند ملازم کھڑھے کر رکھے ہیں جو مستقل وفا کی حفاظت کے لیے تعینات کر دیے تھے اس نے مگر یہ بہت رازداری سے کیا تھا اس کے باوجود بھی وفا اس بات سے باخبر تھی ۔


"وہ کیا ہے نا کہ شریف تو میں بچپن ہی سے ہوں مگر اپنے ساتھ شرارت تو میں چیتے کو بھی نہیں کرنے دیتی"

وفا نے فخریہ انداز میں فرضی کالر جھاڑے۔۔


"ہاہاہا ۔۔۔۔

وہ کیا یے نہ اب میں دلوں پہ حکومت کرنا چاہتا ہوں بہت کرلی جاگیرداری"

وہ کھسیاہٹ چھپاتا گہری نظروں سے وفا کو دیکھتا گاڑی اڑا لےگیا۔۔


"سچ آ نائس میں "۔۔۔۔

وفا بڑ بڑائی تھی اور پھر جابر کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد وہ لمحہ زایا بغیر اندر کی طرف بڑھ گئی آج ہر صورت میں اسکو پیر صاحب کا رخ روشن کا دیدار کرنا مطلوب تھا۔

💞💞💞💞


اس نے شکر کا سانس لیا کیونکہ آج اسکو پپو کہیں بھی نہیں دکھا تھا اسی کی وجہ سے آج وہ کشمالہ کا عبایہ پہن کر آئی تھی تاکہ اسکی یا پھر کسی کی بھی نظروں میں نہ آسکے ۔

وفا چالیس کے قریب تیزی سے سڑھیاں چڑھتی اندر بنے بڑے سے کمرے میں جاکہ قطار میں ٹھوس ٹھسا کہ بڑی نشکل سے جگہ بنا کہ آخر بیٹھ گئی جہاں پہلے ہی زمیں پہ لاتعداد عورتیں بیٹھی اپنی اپنی باری کا آنے کا انتظار کر رہی تھیں ۔وفا نے بے چینی سے پہلو بدلہ وہاں موجود عورتوں میں ہر طبقے کی عورت موجود تھی امیر ، غریب ،ان پڑھ و تعلیم یافتہ ۔۔۔

وہ اک ایسا کمرہ تھا جس کی چھت پہ ٹین کی چادریں پڑی ہوئی تھیں اور چاروں طرف بڑی بڑی دیواریں کھڑی کی گئی تھیں ۔ان بڑی بڑی دیواروں میں بڑے بڑے در بنے ہوئے تھے جو رنگ برنگی جھنڈیوں اور پھٹے پرانے دوپٹوں سے سجے تھے ۔اک طرف قطار میں چھوٹے جھوٹے ڈربہ نما کمرے بنائے گئے تھےجہاں غالباً قبریں موجود تھیں کیونکہ ادھران کمروں میں بھیڑ اتنی تھی کہ وفا کو اندر کا منظر صاف ظاہر نہیں ہورہا تھا۔ سستے ترین عطر اور گلاب کی انتہا سے زیادہ تیز خوشبو وفا کے سر میں درد پیدا کر رہی تھی۔


"استغفراللہ میرے رب تو میرا خاتمہ ایمان کی حالت میں فرمانا اور میرے لبوں پہ جان کنی کے وقت میرے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کانام اور کلمہ شہادت ہو" ۔۔۔

"میرے مالک تو مجھے شرک سے بچانا اور شرک کرنے والوں کا پرچھاواں تک مجھ پہ نہ پڑنے دینا میرے اللہ رب العزت بے شک تیرے سوا کسی کو اختیار نہیں بگڑے کام سنوارنےکا "


بے ساختہ اسکے لبوں سے استغفار ادا ہوا۔اسکو افسوس نے آنگھیرا تھا لوگوں کے اس قدر کچے عقیدوں کو دیکھ کہ ۔


"یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے خدا کی طرف سے بڑی بڑی آفتیں نازل ہوتی ہیں کیونکہ ہم شرک جیسا گناھ بڑے دھڑلے سے کھلے عام کرتے پھرتے ہیں!!"

"نعوذ باللہ "

وہ آستانے کا جائزہ لیتی یکدم اک کونے سے اٹھٹے شور کی طرف متوجہ ہوئی ۔ ایک آٹھ سے دس سالہ عمر کی بچی پہ حال آرہے تھے اسکو زنجیروں سے باندھنے کے باوجود دو عورتیں نے جکڑا ہوا تھا ۔اس معصوم بچی کو شاید کوئی نفسیاتی دورہ پڑ رہا تھا جس کو وہ دونوں عورتیں ہال کا نام دے رہی تھیں اور زور زور سے چیخنے میں مصروف تھیں آئو آئو موکل کی سواری آگئی ہے سب بی بیاں اس اللہ لوگ بی بی کا جھوٹا اپنی اپنی بوتلوں میں بھرلو ۔

وہ مریدنیاں جلدی زبردستی اس بچی کے لبوں سے پہلے سے پانی سے بھری پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی بوتلوں کو اسکے لبوں سے لگا کہ پانی کو جھوٹا کرتیں اور بوتل بچی کی جھولی میں پیسے ڈال کہ جانے والی عورت کو پکڑا کہ چلتا کردیتی یہ کہہ کر کہ۔ بی بی دعا دے گی ۔


"کیا یہ لوگ پاگل ہیں یا بیوقوف جو اس بچی کی حالت کو سمجھ نہیں پارہے کہ وہ بیمار ہےنری جاہلیت ہے یہ تو" ۔

وفا سکتے کے عالم میں بڑ بڑائی مگر اسکی بڑ بڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ وہاں موجوں اسکے بازو سے چپکی اک عورت نے اسکو ٹہکادیاجو بظاہر تعلیم یافتہ معلوم ہورہی تھی


"جی فرمائیں"

وفاء نے سوالیہ نظروں سے اس عورت کو بے رخی سےگھورا وہ ہر ایرے غیرے کو منہ لگانے کی قائل ہر گز نہ تھی چہرے پہ اس پل اسکے واضح ناگواری رقم تھی ۔۔


"یہ لوگ پاگل نہیں ہے اس بچی سے گھبراہٹ بلکل محسوس مت کرو بیٹا ۔اس بچی کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماں چل بسی پھر اک دن باپ نے دوسری شادی کرلی اور اسکی سوتیلی ماں اسکو نو چندی جمعیرات کی رات اک دن اس درگاں کے دوسرے حصے میں بنے قبرستاں میں آدھی رات کو چھوڑگئی بس اس رات سے آچ تک ہر نو چندی جمعیرات کو اس بچی پہ جنات کی سواری آتی ہے"


ہونہہ۔ ۔۔۔۔!!

وفا محض ہنکارا بھرمگراس کا دل چاہا کے اس عورت کی سواری لیجاکر پاگل خانے پہنچادے مگر وقت کا تقاضہ تھا کہ اسکو اس وقت بہت تہمل کا مظاہرہ کرنا تھا ناجانے کیوں وہ عورت اسکو مشکوک لگی ۔

تم بتائو بیٹا تم یہاں کیوں آئی ہو؟ ؟؟

اب وہ عورت چہرے پہ ہمدردی سجائے وفا سے کسی محسن کی طرح دریافت کر رہی تھی۔


"بس کیا بتائو میں آپکو آنٹی میرا شوہر بہت ظالم ہے مجھ پہ بے تہاشہ ظلم کرتا ہے"

وفا نے بلا کی مظلومیت چہرے پہ طاری کرکہ اس عورت کے سامنے اپنا دوکھڑا رویا جیسے اور عورتیں وہاں موجود یہی کرہی تھی۔


"چچ۔۔۔۔ چچ پھر تو ساس نندیں بھی ہونگی ؟؟؟؟"

اب وہ عورت باقائدہ وفا سے ہر اک بات ہمدردی کی لپیٹ میں پوچھ رہی تھی ۔اس عورت کے ہر سوال کا جواب وفا عام ساہی دے رہی تھی مگر اسکے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں اک اک سوال فیڈ ہورہا تھا جواب کے ساتھ۔۔۔۔


وفا کو بہت حیرے ہوئی اس عورت پہ جو اب وفا کوچپیر صاحب کے معجزات بیان کرتے نہیں تھک رہی تھی ۔تعجب تو وفا کو اس بات پہ بھی ہوا کہ ادھر تمام عورتیں تقریباً وہاں کی علاقائی زبان بولنے والی تھیں یا پھر وہاں چند عورتیں خاص ایسی تھی جو بھات بھات کی زبان جانتی تھیں۔ وفا کو کافی حد تک تمام کھیل سمجھ آچا تھا اب بس اس نے چال چلنی تھی۔


"لگتا مجھے اب چلنا چاہئے کیونکہ مجھے آج زیارت کیلئے نکلنا ہے دیر نہ ہو جائے ۔"

وہ ایسے بولی جیسے اب جانےاٹھ کھڑی ہوگی۔


"اچھا تم آئو میں تمہیں جلدی سے کسی طرح پیر صاحب تک پہنچائو۔ ۔ "

عورت نے جلدی سے اپنی خدمات پیش کیں۔


"ہیں واقعی آنٹی مگر آپ کیسے؟"

وفا کی زبان قلبلائی۔


"ارے بیٹا بچپن سے ادھر اپنے باپ کے ساتھ کراچی سے آتی رہی ہو پیر صاحب کے پاس مسائلوں کی پوٹلی لئے اب تو کافی حد تک جان پہچان ہوگئی ہے"

وہ عورت گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کہ۔ اٹھ کھڑی ہوئی۔


"ارے رہنے دیں آنٹی آپکا وقت برباد ہوگا آپکو بھی تو پیر صاحب سے دم درود کروانا ہوگا نا"

'نہیں نہیں بیٹا میں تو پہلے ہی دم کروا آئی اب تو کچھ دیر یہاں بیٹھونگی بڑا سکوں ہے ادھر دل کو"

"چلیں پھر بہتر ہے"

اور پھر کچھ ہی منٹوں کے بعد وہ پیر سائیں کے سامنے تھی اس عورت کی مہربانی سے۔

💞💞💞💞💞


وہ اک درمیانے سائز کا کمرہ تھا اگربتی اور عطر کی تیز خوچبو سے مہکتا۔وفا کو لگا جیسے اسکے اعصاب کچھ پرسکون ہوئے ورنہ باہر تو پسینوں کے بھبکوں سے اٹھتی بو اور شور شرابے نے اسکے اعصاب شل کر ڈالے تھے وہ چند لمحے کیلئے گہرا سانس لیتی اپنا دماغ واپس ٹھکانے پہ لانے کی کوشش کرنے لگی جب جالی کا سفید پردہ سائیڈ پہ ہونے کی ریلنگ کی چررر سے اس نے پیچھے پلٹ کے دیکھا جہاں تخت پہ پیر صاحب سفید کلف دار لٹھے کے کے کپڑوں میں ملبوس سر پہ ہرا صافہ پہنے ہاتھوں میں بڑی بڑی تسبیاں لئے لبوں سے کچھ پڑھتے ہوئے وفا کو بیٹھنے کا اشارہ کر نے لگے سامنے ایک ٹرے میں وضائف کی کتابیں پانی اور چھوٹے پائو والے وہی ڈبے موجود تھے جو اس وفا کے ہاتھ لگے تھے اور وہ لڈو تھوڑا سہ کھاتے رات کو وفا ٩ بجے ایسے سوئی کے دن کے ٢ بجے اٹھی ۔لڈو کا بھید تو کھل چکا تھا بس اب پانی باقی تھا۔


وفا آلتی پاکتی مار کر معدب سی ہوکہ بیٹھ گئی۔ جیسے اس سے زیادہ پیر صاحب کا کوئی مرید نہ ہو۔

"پیر صاحب میں بہت پریشان ہوں "

وہ نظریں جھکائے غمگین لہجے میؑ گویا ہوئی۔


"جانتا ہوں ہمیں سب معلوم ہے "

پیر صاحب نے اسکی بات کاٹی اور کچھ اس انداز میں گویا ہوئے جیسے غیب کا علم رکھتے ہوں اور تیری سے چھوٹی چھوٹی پرچیوں پہ کچھ لکھنے لگے۔


"یہ لو یہ تعویز ہے اور یہ پانی اور لڈو "

انکو کس طرح استعمال کروں پیر صاحب؟ ؟؟؟

وہ بلا کی معصومیت تاری کرکہ بولی۔

"تعویز روزانہ رات میں آدھی رات کو جلا کہ اسکی خاک اپنے شوہر کی چائے میں ڈال دینا اور یہ جو پڑیا نما تعویز ہیں انکو شوہر کے جوتے سے ہر جمعیرات والے دن عصر اور مغرب کے درمیاں سات جوتے مارکہ کہنا کہ میرے شوہر پہ جادو ختم ہوا اور اب بس اسکا دل و دماغ میرا ہوا۔ اور پھر جمعیرات کی آدھی رات کو ہر صورت تم وہ تعویز ادھر ہی آکر درگاہ کی پچھلی طرف موجود کنویں کے بانی سے ٹھنڈا کرکہ دفنا دینا ادھر ہی۔ یاد ریے پیچھے مڑکہ مت دیکھنا ورنہ پڑھائی جو میں کرونگا تمہارے شوہر اور تمہارے مابین محبت پیدا کرنے کیلئے سب الٹا ہوجائیگا اور ہاں یہ پانی اور لڈو تم اپنے شوہر کو ہر جمعیرات پلانا اور اسکا جھوٹا پانی اور لڈو گھر سے کھائے بغیر مت نکلنا۔ "

تو کیا میرے شوہر پہ جادو ہوا ہے؟ ؟؟؟

وفا اپنی ایکٹنگ پہ خود کو داد دئے بغیر نہ رہے سکی۔

'ایسا ویسا کالا جادو ہے بچی تمہارے کنگھی سے بال نکال کر کسی ہندو کی قبر میں دفن کئے گئے ہیں تاکہ تم کبھی اپنے شوہر کی نہ ہو سکو۔ "

پیر صاحب بھاری لہجے میں سرما لگی آنکھوں کو مزید بڑا کر کہ کہہ رہے تھے ۔

کس نے کیا ہے پیر صاحب یہ جادو؟ ؟؟؟

وہ روہانسی آواز میں بولی اندر سے تو اسکا دل ٹھٹہ مار کہ ہنسنے کس تھا۔

"بس یہ ہم نہیں بتائینگے مگر بہت قریب کا ہے کروانے والا اور اب زرا اپنا نقاب کھولو ہمیں دم کرنا تمہارے چہرے پہ تاکہ تم جب شوہر کے سامنے جاو تو وہ دیوانہ ہوجائے۔ "

اب وفا سہی معنوں میں بوکھلائی تھی اس منہوس فراڈیا کے سامنے وہ اپنا چہرا کسی پل بھی کھولنے کو تیار نہ تھی۔ ابھی وہ الجھن میں ہی تھی کہ کسی کوئی پیغام پیر کہ کان میں آکہ دیا اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

تم جائو بس جو کہا ہے ویسے کرنا۔

وہ جلد باشی میں بولے۔

"جی بہتر مگر آپنے دم کرنا تھا "

وفا کا اعتماد بہال ہوا انکو ہبڑ تبڑ میں جاتا دیکھ۔

"ہاں ہاں آئو "

انہوںے نقاب پہ پھونک مردی اور اندر بنے کفیہ کمرے میں روانہ ہوگئے۔

💞💞💞💞💞💞

وہ باہر جیسے نکلی پیرصاحب کی درگاہ سے اسکو لگا کہ جیسے پیر صاحب کالی چادر میں قبرستان کے اندر بڑھے ہیں ۔وہ بغیر آہٹ کئے قبرستاں کے باہر بیٹھےگل فروش سے کچھ پھول لیکہ قبرستاں کے اندر داخل ہوگئ عصر کا وقت ختم ہونے والا تھا اور پھر سرد شامیں تو ویسے ہی جلدی رات کو گلے سے لگالیتی ہیں لیکن وہ اس وقت کسی کی پرواہ کئے یہ ظاہر کرتی جیسے کو ئی قبر تلاش کر رہی ہے پیر کے پیچھے پیچھے ہولی ۔

پیر صاحب اک قبر کے پاس جاکہ رکے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ قبر چاک ہوئ اور پیر صاحب اسکے اندر تھے ۔ابھی وہ حیرت اور بے یقینی سے خوف کے مارے چیخنے کو تھی جب کسی نے اسکی آنکھوں اور لبوں پہ ہاتھ رکھ کہ اسکو دبوچا۔

صبح مہمل کی آنکھ اپنے وجود پہ دبائو سہ محسوس کرکہ کھلی ۔ اسنے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔کامل اسکو کسی گائو تکیہ کی طرح دبوچے سویا ہوا تھا ابھی یہ جھٹکا ہی کافی زور سے لگا تھا کہ وہ کامل کی آغوش میں تھی مگر اسکے بعد تو حیسے ہی اسکی بظر کامل کے چوڑے سینے پہ پڑی اس لمحے تو جیسے اسکی روح ہی فنا ہوگئ یہ دیکھ کر کہ کامل بغیر شرٹ زیب تن۔کئے بڑے مزے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔مہمل نے بغیر آہٹ کئے اسکے پاس سے چپ چاپ۔اٹھنا چاہا جب کامل نے کسمساکر مزید اسکو خود میں جکڑا اور اپنا سر اسکے بالوں میں چھپا گیا گہری نیند میں میں سویا وہ کسی کی سانسوں کو بری طرح سے اتھل پتھل کرچکا تھا مہمل کا تمفس اسکی انتہاہ سے بڑی قربت کو محسوس کرکے لمحوں میں بگڑا تھا اور وی بغیر نیند کی۔وادی میں مدہوش شاید خواب میں اپنی زوجہ محترمہ سے اٹھکیلیاں کرنے میں مگن تھا کیونکہ جاگتے میں رومینس تو دور کی بات مہمل کسی چیل کی طرح خود کی حفاظت کررہی تھی۔

جہازی سائیز بیڈ برائیڈل ڈیپ مہرون بیڈ شیٹ شکن آلود بیڈ شیٹ ، گلاب موتئے اور نیٹ سے سجی سیج ، کارپٹ پہ بچھی گلاب کی پتیاں اور ہارٹ شیپ کے گیس بلونز کو رنگ برنگے ربنز لگاکہ سے چھت کو آرٹسٹک انداز میں سجایا گیا تھا۔ بیڈ پہ بکھری گلاب کی پتیاں اور کرسٹلز میں جلتی موم۔بتیاں اس پہ تضاد دبیز پردے جو روشنی کی اک کرن کو بھی کمرے میں جھاکنے نہیں دے ریاتھا ۔

بھینی خوشبو بیڈروم کی فضا میں رچی ہوئی ماحول کو کچھ اور بھی فسوں خیز اور رومانوی بنانے میں پیش پیش تھیں ۔صبح کے آٹھ بج رہے تھے مگر کمرہ ایسا منظر پیش کر رہا تھا جیسے آدھی رات ہی بیتی تھی صبح ہونے میں کئی گھنٹے باقی رہتے ہوں۔

مہمل سے اب مزید کامل کی جھلسادینے والی قربت کو برداشت کرنا دوبھر یورہا تھا۔وہ تو رات میں یہی امجھی تھی کہ کامل اسٹڈی روم میں چلا گیا ہے سونے اور وہ اطمینان سے یہی سوچ کہ سوگئی تھی کہ اب خطرہ ٹل چکا ہے تھکن کے باعث رات اک دفع بھی اسکی آنکھ نہ کھلی اور اب جب وہ بیدار ہوئی رو صورتحال کو بلکل الٹ دیکھ کر جیسے بُھونچکا ہی تو رہے گئ تھی ۔

مہمل نے ہمت کرکہ اک دفع پھر کوشش کی خود کو اس ستمگر کی گرفت سے رہائی دلوانے کی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر کوشش بے سود بلکہ اب تو وہ زور آزمائی کرکر کہ بھی نڈھال سی ہوئی اسکے حصار میں دم سی لیٹ چکی تھی مزید سکت ہی نہ رہی تھی اس مضبوط توانا مرد سے خود کو چھروانے کی اپنی بے بسی پہ مہمل کی آنکھوں سے دوموتی لڑھک کہ کامل کے کشادہ سینے میں کہیں جزب ہوچکے تھے۔


"بس اتنی سی ہمت تھی؟؟؟"

وہ نازک سی لڑکی ہار کر چب چاپ سی سکڑ سمٹ کہ اسکی آنچ دیتی قربت کو برداشت کرنے پہ مجبور تھی کمرہ شدید ڈھنڈ ہونے کے باعث انتہائی سرد ہورہا تھا اور وہ تھی کہ اتنی ٹھٹرادینے والی سردی کے باوجوف پسینے میں شرابور۔۔۔۔!!!!


"آ۔۔۔۔آپ اٹھے ہوئے تھے کک۔۔۔کامل آغا؟؟؟؟"

اس وقت مہمل کی جیسے سدھ بدھ ہی جواب دے چکی تھی ورنہ کوئی اور وقت یوتا تو وہ اس قدر پزل نہ ہورہی ہوتی مگر اسوقت تو جیسے اس پہ شرم و حیاء کے باعث خفت اور بوکھلاہٹ سوار تھی تنفس کچھ اور بھی بگڑا تھا جبکہ کامل اسکی غیر ہوتی کیفیات محسوس کرکہ خاصا محضوض ہورہا تھا ۔


"میں تو تب سےاٹھا ہوا ہوں جب سے تم گھہری نیند سورہی تھیں!! تمہاری مسحورکن قربت میں بھلا کوئی بیوقوف ہی ہوگا نیند کو گلے لگائے لگائے اور پھر تم تو ویسے بھی کل مجھ پہ اور میں تم پہ حلال ہوگئے ہیں"

کیا خیال ہےموقع بھی ہے دستور بھی گرادیں پردیں اور مٹ جائیں دورائیاں؟؟

"تم بوند بوند مجھ پہ اپنی محبت کی بھونچھاڑ کردو!! تم جو بکھروگی تو میں تم پہ اپنی شدتوں کی برسات کردوں کہو اجازت ہے؟ ؟؟؟؟"

کامل نے اسکی پیشانی کو اپنے لبوں سے چومتا اسکی تھوڑی کو زرا اونچا کرکہ مخمور لہجے میں گویا تھا۔


"کیا میں ایک بے جان گڑیا ہوں؟؟؟"

"نہیں تم میری گڑیا ہو جو مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے"

" تو اسکا مطلبہ میں واقعی اک گڑیا ہوں جسے آپ کھیل کر توڑدینے کا عزم کئے بیٹھے ہیں وقتی جزبات کے ریلے کی زد میں آکہ میں آپکو خود سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتی"

وہ اسکے سینے پہ ہاتھ جماکر اسکو پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی مگر کامل نے اسکی اس کوشش کو بھی ناکام بناتے ہوئے اسکی مخروطی انگلیوں میں اپنی مضبوط انگلیاں پھنسائیں تھیں اور اسکا سر تکھیہ پہ ڑکاکہ وہ اس پہ جھکا تھا۔اسکے گالوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے کان کے بے حد نزدیق سرگوشی کی۔ مہمل سہم گئی تھی پلکوں بےساختہ عارض کو گلے لگا گئیں ۔


"یہ تو تب ہی تمہیں معلوم ہوسکے گا جب تم میری شدتوں اور جسارتوں کو محسوس کروگی کہ میرے چھونے سے تمہارا وجود سندل ہوا ہے یا بکھرا ہے"


کیا نہیں ہوں میں گڑیامیں آپ کے لئے آغا ؟؟

اچھی لگی کھیلناچاہا مجھسے!

"قریب آنےکے بہانے ڈھونڈنے لگےاور جب قریب آئے تو حصول کے لئے بے قرار ہوں بیٹھے "

"جائز اور ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے!!نہیں کچھ ہاتھ میں تو توڑنے کی طرف سے ہو گئے"

"بچپن سے مجھے گڑیا سمجھ کے کھیلا اور جب وہ گڑیا شعور کی بلندیوں کو چھونے لگی تو اس کو توڑنے کے درپہ ہوگئے واہ!!"

" یہ محبت نہیں ہے یہ لسٹ ہے اس کو ہوس کہتے ہیں کامل آغا صاحب "

"آپ نے دیکھا تو اپنے آپ کو دیکھا!! اپنی خواہشات کو اہم جانا اوراپنی مرضی کو اولین کی سند دی۔ "

"کہاں سے پھر ہوں میں کوئی جاندار وجود ؟؟؟"

"گڑیا جیسا سیٹ کرنے سے مجھے ہمیشہ میں کانچ کی گڑیا نہیں بن جاؤں گی میں جیتی جاگتی انسان ہوں"

وہ اسکی گرفت میں آنکھیں بند کئے بس کہے جارہی تھی کامل نے اس کو کہنے دہا وہ یہی چاہتا تھا کہ اسکا دل ہلکا ہوجائے آج وہ ساری بدگمانیاں دھودینا چاہتا تھا اسکی ۔ ۔


"کتنا اچھا بول لیتی ہو نا تم؟ ؟؟

"واہ واہ دل باغ باغ ہو گیا آج تو!! میری ہر صبح ایسی ہی ہونی چاہئے مہمی گڑیا یار مگر ایک ریکویسٹ ہے بس زرا یہ ناولز کم پڑھاکرو گڑیا لفظ پہ خاصی ریسرچ کر رکھی ہے تم "

کامل کونسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتا تھا مہمل کو تپا کر کوئلہ کرنے کا اب بھی یہی تو ہوا مہمل اپنی اتنی دیر سے کہی کو مزاق میں اڑاتہ دیکھ چڑھ گئی اور اسکی انگلیوں میں پھنسی اپنی انگلیاں نکلوانے میں جت گئی زبان کو البتہ بریک لگ چکا تھا مگر کامل کی زبان کو اب بریک لگانا ناممکنات میں سے تھا۔ اسکے لبوں پہ اپنی محبت کی مہر زبردستی صبط کرنے کے ۔ بعد وہ اک دفع پھر شروع ہوچکا تھا۔

"دراصل تم جانتی ہو کہ شوہر کو کس طرح خوش رکھا جاتا ہے تھوڑا سا لڑائی جھگڑا پھر پیار محبت ،

صحیح تو یہ ہے آغاز ؟؟؟تھوڑی تکرار تھوڑا انکار اور اس انکار میں کہیں چھپا اقرار؟ ؟؟"

کامل بالکل بھی سنجیدہ نہ تھا وہ تو بس مہمل کےگھبرانے اور شرما نے پہ ہی خط اٹھارہاتھا۔

آخر کو کل تک جو اس کی گڑیا تھی آج وہی گڑیا اس کی بیوی بنی اس کی پناہوں میں بے قرار مچل رہی تھی ۔مہمل کے تمام الزامات کو بھی وہ اس کی نادانی اور ناسمجھی سمجھ کہ برداشت کر گیا تھا خامخواں میں انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے وہ محمل کو سمودلی ڈیل کرنا چاہتا تھا ۔جانتا تھا کہ مہمل بہت جزباتی ہےاسکو وقت چاہئے اور وہ بھی بےشک اس کو وقت دینے پر آمادہ بھی تھا مگر محمل کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اس کے خود سے کیے گئے تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے ۔

اور وہ بے خودی میں اپنا جائز حق استعمال کرتے ہوئے کئی جسارتیں کر بیٹھتاجو محمل کو فی الحال نہ گوار گزر رہی تھی ۔


"بند کریں اپنا یہ ڈراما بس!! بہت ہوگئی مجھے چھوڑے مجھے فریش ہونا ہے "

وہ زچ ہوگئ۔

کیسا پرسکون تھا وہ بالکل جیسے کوئی سمندر ۔

اس کے لبوں سے کھیلتی مسکراہٹ مہمل کو مزید چڑاگئی۔

لڑائی تو ہوگئی۔

تکرار بھی ۔

اب کیا پیار کی باری ہے ؟؟؟؟

نگاہوں میں شرارت لئے معنی خیز لہجے میں کہتا وہ اس کے گلے میں موجود پینڈنٹ سے کھیلنے لگا جو کہ وہ کل رات ہی اس نے محمل کو پہنایا تھا جب وہ مدہوش سو رہی تھی یہ وہ پینڈنٹ تھا جو کبھی اس نے بہت پہلے جب وہ ابروڈ میں تھا مہمل کے لیے لیا تھا ۔کل کی رات یہ اسکو دکھائیں کے طور پر پینڈنٹ گفٹ کرنا چاہ رہا تھا مگر کمرے میں آنے کے بعد جو ماحول محمل نے بنایا ہوا تھا اس کے پیش نظر وہ ایسا نہ کر سکا۔۔۔


کہاں سے شروع کروں ؟؟؟

کیسے شروع کروں؟؟؟

نہ تجربہ کار ہوں !!!

"ہیلپ ہی کرد تھوڑی سی میری پیار محبت کرنے میں مسززززز "۔۔۔

وہ حددرجہ بے باقی سے کہتا تھا اب اس کی آنکھوں میں نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا لبوں اور آنکھوں میں ایک خاص چمک لیے وہ ہونٹوں پے مسکراہٹ سجائے بڑا ہی کوئی ڈیشنگ لگا مہمل کو اس وقت وہ یکدم نظریں چرا گئی۔ ۔

"جملے کی تصیح کیجئے یہ تجربہ آپ کا نیا نہیں ہے ایک بیٹی کے باپ ہیں آپ "

وہ بے ساختہ چوٹ کر گئی ۔۔۔۔

"ہا ہا ہا" ۔۔۔۔۔

کامل کا جاندار کہ کمرے میں گونجاتھا جس کی وجہ سے مہمل کھسیا کر ایک دفعہ پھر زبان دانتوں تلے داب گئی۔

چار پہلے تم خود اقساطی ہو مجھے قریب آنے کے لیے اور پھر جب میں تمہاری طرف مائل ہو جاتا ہوں تو خود دور کر دیتی اور پھر شکوہ بھی کرتی ہو چاہتی کیا ہوم ہمیں ڈیر تم آخر بتاہی دو آج موقع بھی ہے دستور بھی اور فلحال جانا بھی نہیں ہے تو کیا خیال ہے آپ بات کھل کی ہوئی نہ جائے ؟!؟؟؟

"میں نہیں مانتی اس رشتے کو یہ صرف آپ نے اس وقت فائدہ اٹھایا ہے اور کچھ نہیں مجھ سے یا میرے گھروالوں سے آپ کو کوئی ہمدردی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے !!"

"ماننے یا نہ ماننے کا تو سوال ہی نہیں ہے اب تو جو خود چکا ہے وہی مقدر کا لکھا ہے جتنی جلدی اس کو سمجھ لو تمہارے لیے بہتر ہے"

"شکوے شکایت کرنا تم اپنا فرض سمجھتی ہو "

"تو میں بھی تم پے حق رکھتا ہوں "

ظلم تم کرتی ہو مجھ پہ اور ظالم بھی مجھے ہی ٹھہراتی ہو ایک تو تم میری نئی نویلی دلہن ہو نور کی وحی قدرتی طور پر چہرے پر لکھی ہے اب اس پر پڑھنے کی اگر غستاخی ہوجائے تو اعتراض بھی ضروری ہے تمہارا ۔

ویسے شوہر کے تمام حقوق تو تم جانتی ہو نا یا تمہیں بتاؤ ؟؟؟اگر نہیں جانتے تو میں ابھی بتا دیتا ہوں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔

"نن۔ ۔۔۔۔۔نہیں مجھے کوئی حکوک نہیں جان نے"

وہ سراسیمہ ہوئی مبادا کہیں وہ واقعی اس کو حقوق گنوانا ہی نہ شروع کر دیتا ۔

تو اس کا مطلب تم شوہر کے تمام حقوق جانتی ہو ؟؟؟؟وہ شریر ہوا ۔۔

"چلو تم میرے حقوق کی ادائیگی مت کرو لیکن مجھے تو تم اپنے حقوق کی ادائیگی کرنے دو تاکہ مجھ سے کوئی کوتاہی نہ ہو جائے ورنہ پھر قصوروار تو تم مجھے ہی ٹھہراؤ گی کہ میں نے تمہارے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتی"۔۔

وہ بےخودی سےکہتے کہ ساتھ ہی اپنا حق وصول نے کو تھا جب دھڑادھڑ زور زور سے کسی نے باہر سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا ۔۔۔

"چھوڑو مجھے "

وفا کے چہرے پہ رکھا ہاتھ جیسے ہی ہٹا وہ وہ اک دفع پھر سے چیخ مارنے والی تھی جب پپو نے اسکے لبوں پہ اک دفع پھر سے تالا لگایا۔


"اگر اپنی عزت پیاری ہے میری بلبل تو اپنی زبان بند رکھنا ورنہ بلبل کی بچی کو اک دن میں ایسا اڑاونگا کہ واپس نہیں آئےگی ہمیشہ کیلئے دانا ہی دھونڈتی رہے جائے گی اپنے لئے۔ "

پپو اک ہاتھ اسکے منہ پہ جمائے دوسرے ہاتھ سے اسکو بازو سے جکڑے قبرستان کے دوسرے دروازہ سے باہر لے آیا تھا۔


"تم مجھے دھمکارہے ہو تمہاری اتنی مجال "

قبرستان سے کچھ قدم کے فاصلے پہ موجود پارک میں وہ اسکوجیسے تیسے گھسیٹتا گھساٹتا آخر کار لے ہی آیا تھا قدرے سنسان گوشہ ڈھونڈ کر اسنے وفا کو وہاں لیجاکر پٹخنے کے انداز میں بٹھا سنگی پینچ پہ نیم کے درخت کے نیچے۔ ۔


"میں تجھے دھمکانہیں رہا بلکہ یہ بتارہاہوں کےاب دھمکیوں کا ٹائم گیا میری پوپٹ اسلئے جتنا تو جان چکی ہے اس سے زیادہ میں تجھے بھلادونگا"

خلاف توقع پپو آج سنجیدگی اور کرختگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

"تو میرا شک سو فیصد درست تھا تم بھی انہیں لوگوں کے پوشیدہ کارندے ہو میں تم اور تمہارے اس چارسو بیس پیر کو بےنقاب کرکے ہی رہونگی"

وہ پوری قوت سے چلائی اردگرد کے کئی لوگ متوجہ بھی ہوچکے تھے مگر دونوں میں سے پرواہ کس کو تھی بھلا۔

"غائب ہوجاوگی"

وہ سگریٹ جلا کر لائٹر کی آنچ اسکو دھکا رہا تھا۔

"ڈر نہیں مجھے!! وفا کسی کے باپ سے نہیں تو پھر تم کون اور تمہارے کالے کرتوت تو اب ساری دنیا کے سامنے لیکر میں آئونگی "

"تو بتائے گی اب ہمیں واہ میری کٹونی پہلے خود کی حفاظت سو سیکھ لو "

وہ اسکے پاس ہی بے تکے انداز میں بیٹھ چکا تھا۔

" اب تم ّلوگ الٹی گنتی گن نا شروع کردو سمجھے"

وہ ابھی اٹھ ہی رہی تھی کہ پپو نے اسکو دوبارہ سے بیٹھانے کیلئے اسکی کلائی کو اپنے ہاتھ میں جکڑا۔

وفاابھی۔اشتعال میں آکے اسکے تھپڑ رسید کرنے ہی والی تھی کہ سامنے سے آتے جابر اور اسکی پوری باوردی گارڈز کی فوج کو دیکھ کر وفا کا چہرہ۔جھلملا اٹھا اک تحفظ سہ۔اسکو جابر کی موجودگی کے باعث محسوس ہوا تھا وہ پپو سے ہاتھ چھڑواکہ جابر کی طرف بھاگنا چاہ رہی تھی۔مگر پپو نے اسکا ہاتھ اتنی سختی سے تھاما ہوا تھا کہ ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے زنجیروں میں جکڑا ہو۔۔

"جابر شکر ہے آپ آگئے یہ شخص مجھے زبر دستی یہاں لاکر کہہ رہا ہے کہ مجھسے شادی کرلو"

وہ اصل بات گول کرگئی۔

"اسکی اتنی مجال "

"اے چھوڑ اسکا ہاتھ نہیں تو تیرے یہ ہاتھ سلامت نہیں چھوڑونگا"

جابر کے گارڈز آگے بڑھے تھے پپو کی درگت بنانے کیلئے جب جابر نے اشارہ سے روک دیا انکو درمیان می آنے سے۔

"اگر اس نے دوبارہ ہمارے مرشد کی جاسوسی کی تو میں اسکو نہیں چھوڑونگا نمک حلال ہوں میں اپنے پیر شاہ کا سمجھے"

جابر ٹھٹک گیا تھا معملہ اسکو سنگین نظر آرہا تھا ویسا تھا نہیں جیسا وفا اسکو ظاہر کر رہی تھی۔

وہ چاہتا تو اک منٹ میں پپو کو زندہ قبر میں اتار سکتا تھا مگر وفا کیلئے وہ خود سے عہد کرچکا تھا کہ اب وہ خود نیک سیرت و نیک فطرت کا مالک بنائے گا مٹھیاں بھینچے وہ بڑی مشکل سے خود پہ ضپط کے پہرے باندھے ہوئے تھا ورنہ اسوقت بس نہیں چل رہا تھا کہ پپو جیسے ٹپوری کو ٹپکاہی دے۔

مگر یائے یہ محبت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی جابر کا بھی ایساہی کچھ ہال تھا۔

"ٹھیک ہے تمہیں آئندہ انکی طرف سے کوئی شکایت نہیں ہوگی چلو وفا "

جابرنے ماتھے پہ تیوری چڑھا کہ کچھ اس طرح کہا کہ وفا کو چلتے ہی بنی ۔

" ارے او بلبل تجھے اڑان بھرنے کا اگر دوبارہ شوق چڑھا تو میں تجھے اس سے اڑادونگا"

پپو اب اپنی پھٹی فیشن کے مطابق کٹی پٹی جینز کی پشت میں سے پسٹل نکال کر وفاء کو ڈرانے کی غرض سے ہوائی فائر کرنے کی بھرپور اداکاری کرتا فرضی پسٹل سے نکلتے دھنوے کو پھوک مار رہاتھا ۔

اک تو بولتا اس قدرباریک آواز مہں تھا کہ سنے والے کو اسکا لہجہ شدید ناگوار گزرتا اور پھر اوپر سے اسکاکمال جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچ کرکہ منہ سے گٹکے کی پیک مٹی پہ ماری اور اپنے لوفرانہ۔ انداز میں ہتھیلی پہ زبان سے تھوک پھیکہ کہ بال سنوارے ایسے جیسے عمدہ ترین جیل بالوں میں پوتا ہو۔

"بس بہت ہوا اب نہیں بچے گا تو مجھ سے میں خاموش تھا اتنی دیر سے اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں"۔

جابر نے اپنی گن لوڈ کی اس کو ایکشن میں آتا دیکھ اسکے باقی کے بھی گارڈز اپنی اپنی جگا سنبھال چکے تھے اب پپو ان سب کے گھیرے میں تھا۔لیکن فرق اسکو رتی برابر بھی نہ پڑا تھا اسکے نزدیق یہ سب کھیل تماشا تھا۔

"چھوڑیں جابر آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں آپ اس سڑک چھاپ سے کیوں منہ لگ رہے ہیں؟؟یہ کیا اور آپ کے آگے یہ کیا اوراسکی اوقات کیا ہونہہ۔۔"

وفا کو پپو سے شدید کراہیت محسوس ہورہی تھی اسکے اس اعتراف کے بعد سے کہ وہ پیر کا خاص بندہ ہے خیر چڑھ تو اسکو پپو سے روز اول سے ہی تھی مگر آج تو وہ اس سے شدید نفرت محسوس کر رہی تھی اور پھر اپنی وجہ سے وہ جابر کو بھی کسی طرح کی پریشانی نہیں دینا چاہتی تھی ۔اس نے تو حویلی میں یہ کہا ہی نہیں تھا کہ وہ پیر کی جاسوسی کرنے یہاں آئی تھی اسنے تو حویلی والوں کو بس اتنا ہی بتایا تھا کہ وہ آستانے مزار وغیرا کے اندر لے ماحول کو سمجھ کے لکھ کر اپنا تھیسس مکمل کرنے کی غرض سے آئی ہے یہ تو کسی کو علم ہی نہ تھا کہ وہ کر کیا رہی تھی خطروں سے کتنی تیز رفتاری سے وہ کھیل کھیلنا شروع ہوچکی تھی۔

"میری سوچ اور میری پہچان تم سمیت اس سردار کے! دونوں ہی تم لوگوں کی اوقات سے باہر ہیں "

وہ اپنی ٹی شرٹ کے کالروں کو اونچا کرکہ گردن اچکا کہ اپنے خاص غنڈوں والے انداز میں گویا ہوا ۔

"ابے او دوٹکے کا چرسی یہ تو بھرم کس کو دکھا رہا ہے ابھی نکال دیتا ہوں تیرے کس بل"

جابر نے اپنے ملازمین کو اشارہ سے کہے کر پپو کو جیپ میں زبردستی ڈالا۔

"اسکو حویلی کے اس تہہ خانے میں بند کرنا جہاں اسکی کسی قسم کی حاجت بھی پوری نہ ہوسکے اب آئینگے تیرے ہوش ٹھکانے بہت چربی چڑھی ہے نہ تجھے۔ "

جابر پہ تو جیسے خون سوار ہو چکا تھا۔

"بلکل سہی کر رہے ہیں آپ یہ جابر اس سے ہم۔ دونوں تہی خانے میں باقی کے راز بھی فاش کروائینگے کل آج تو ولیمے کی تقریب ہےورنہ آج ہی میں اسکے چودہ طباق روشن کردیتی۔ "

وفا کوغصےمیں یقدم ہاد آیا کہ آج کی رات تو ولیمہ تھا اب اس پہ حویلی پہچنے کی جلدی سوار ہوچکی تھی۔ ۔

" کبھی تو پاس میرے آو گی میری کٹونی خود چل کہ"۔۔۔۔۔

وہ عجیب ہنستا ہوا لوفرانہ انداز میں سیٹی بجاتا آخر میں وفا کو دیکھ کہ بھی اپنی زبان میں ہوتی کھجلی کو برداشت نہ کرسکا جبکہ بابر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔۔

ولیمہ کی تقریب اپنے عروج پہ تھی سب خوش گپیوں میں مصروف تھے نفیسہ بیگم نےاپنی شایان شان نگرانی میں تمام انتظامات کروائے تھے۔

کشمالہ اور بلال اسٹیج پہ بیٹھے آنے جانے والے مہمانوں سے خوش گپیوں میں مصروف بے حد خوش تھے۔

دوسری کرف مہمل اور کامل تھے مہمل آج پوری کوشش کررہی تھی اپنے ماں باپ کے سامنے خود کو خوش و مطمئن ظاہر کرنے کی جبکہ کامل سنجیدہ لیکن مسرور دکھائی دے رہا تھا۔

آج اس نے مہمل کی تمام کدورتیں دھونے کا فیصلہ جو کر ڈالہ تھا وہ بہت اچھی طرح یہ بات جان چکا تھا کہ مہمل اس کو نفس کا غلام اور اک دل پھینک مرد تصور کر بیٹھی ہے صرف اور صرف اسکی اس دن ہونےوالے بےساختہ جزباتی امر کی وجہ سےآخر کو بچپن سے اسکے دل کی کہی ہر اک بات سمجھنے کا عادی تھا۔ بھلا کیسے اب اسکے دل و ماغ میں چلتی جنگ کو نہ محسوس کرتا۔

وفا نک سک سے تیار ٹی پنک کلر کی آرگنزہ کی پرل کے کام والی کرتی اور رائو سلک کا ٹراوزر اور کرنکل کا بلکل سادہ ٣ گز دوپٹہ لاپروائی سے شانے پہ اوڑھے غضب ڈھارہی تھی ہلکے پھلکے ٹی پنک ہی پنک نے تو جیسے وفا کے حسن کو کچھ اور بھی چار چاند لگادئیے تھے اس پہ تضاد شہری کڑی۔ ۔۔۔۔!!

جابر تو جیسے آج ہی نکاح پڑوانے جے موڈ میں تھا وفا کا بجلیاں گراتا سراپہ اس کو بےخود سہ کر رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں یہ بات تہہ کرلی تھی کہ وہ اک دو دن میں اپنے ماں باپ سے وفا کے گھر رشتہ ڈالنے کی بات کریگا اور اب وفا کو ہر گز بھی مزار پہ نہیں جانے دیگا کسی صورت بھی۔

وفا مسلسل کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرکے شدید بیزاریت محسوس کر رہی تھی پہلے تو وہ سمجھی کہ شاید جابر اسکو نظروں کے حصار میں لئے ہوا ہے ۔ایسا نہی تھا کہ وہ جابر سے کوئی طوفانی محبت کرنے لگی تھی مگر جابر اسکو ایز آ لائف پارٹنر برا بھی نہیں لگ رہا تھا۔ جابر کی نظروں پیام وہ بخوبی سمجھ رہی تھی مگر فلحال اس سے محبت نہیں کر پارہی تھی ۔وفا کو اب یہ پتا چا تھا کہ محبت اور پسندیدگی میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔

وہ ابھی اسی الجھن کاشکار تھی کہ کوئی پہلے اسکے پاس سے گزرا اور پھر وہی شخص وفا کے بے حد قریب آکر رک کے کسی خاتون سے بے تکلفی سے ہمکلام ہوا۔

وفا کو لہجے کا بھاری پن بڑی شدت سے محسوس ہوا ۔حویلی میں پردے کا خاص انتظام تھا مرد اور عورتوں کیلئے بیچ لان میں پارٹیشن کر رکھا تھا دونوں دلہا اک طرف بیٹھے تھے جبکہ دونوں۔ دلہنیں اک طرف اسٹیج کے اسطرح کہ دوسری طرف بیٹھے دلہا حضرات کو عورتیں تودیکھ سکتی تھی لیکن دلہنوں کو غیر مرد نہیں۔

زنانے کی طرف بس وہی آسکتا تھا جوکہ حویلی کے خاص گھر کے افراد میں سے اک ہو جبکہ وہ جانے پہچانے لہجے والا شخص کاہ زنانے میں پایا جانا اس بات کی دلیل تھا کہ شاہ زمان بہت قریبی ہے حویلی والوں کا۔

"اپنا ڈوپٹہ ٹھیک سے لو اور ہاں آج میں اپنا وعدہ پورا کرونگا انتظار کرنا رات ٹھیک اک بجے تمہارے بیڈروم میں"

کوئی بہت زور سے اس سے ٹکرایا تھا وفا نے جیسے اس بھاری اور گھمبیر لہجے کو سنا وہ چونک اٹھی تیزی سے خود سے ٹکرانے والے کو دیکھا جسکی اب پشت تھی وفا کی طرف اور وہ بڑے مزے سے گہک گہک کے جابر اور کامل سے ہنسی مزاق کر رہا تھا مگر وفا کے پورے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی کیونکہ وہ لہجہ اور باڈی لینگویج ہوباہو شاہ زمان ہی کی تھی ۔

وہ بھونچکا رہے گئی کیونکہ اب تک وہ خود کو بہت بڑی کوئی ماسٹر مائنڈ سمجھتی آرہی تھی وجہ اسکا پپو کو شاہ زمان سمجھنا تھا کیونکہ کئی کڑیاں اس نے ایسی ملائی تھیں شروع سے لیکر اب تک کی کہ پپو اسکو پکا شاہ زمان لگ چکا تھا پپو اور شاہ کے ہاتھ میں بلکل ایک جیسی انگھوٹی کا ہونا اور شاہ زمان کا چہرہ چھپانا ۔افففف وہ۔چکراکہ ہی تو رہے گئی جابر کے ساتھ اس نے خود پپو کو تہہ خانے میں بند کیا تھا وہ تیزی سے حویلی کے اندر بھاگی تاکہ تہہ خانے میں جاکہ دیکھ سکے کہ آخر حقیقت کیا تھی۔

تہہ خانے کے باہر پہرہ دیتے گارڈز ہنوز اپنی زمیداری

سر انجام دے رہے تھے وفا کو دیکھ کہ اسکے اشارہ کرتے ہی ان میں سے اک گارڈ نے تہہ خانے کا دروازہ کھولا تھا وفاء تھوڑا آگے بڑھی تہہ خانے میں کسی بھی قسم کی سہولیات موجود نہ تھی بس دیواروں میں نصب کینڈل اسٹینڈز میں موم بتیاں روشن تھیں۔

ٹم ٹماتی موم بتی کی روشنی میں پپو وفا کو دیکھ کے اٹھ کھڑا ہو۔

"مجھے یہاں سے نکال میری بلبل نہیں تو میں ٹن ہوکہ مر جاونگا"

پپو کو چرس نہ ملنے کے باعث اسکا نشا ٹوٹ رہاتھا وہ بری طرح لڑکھڑاہٹ کا شکار تھا ۔حال سے بدحال ہورہا تھا۔

"بس تھوڑی ہی سے پلادے میری کٹونی مجھ کو بتی بناکہ سگریٹ میں بھرکے میں سچ کہتا ہوں تیری۔ قسم تجھ سے کل کے بجائے آج ہی شادی رچالونگا"

وفا۔ اسکی فضول ہانکنے کا کوئی نوٹس لئے بغیر بہت تیز اسپیڈ میڈ میں باہر کی طرف بھاگی وہ زندگی میں پہلی دفع خود ہی کے ہاتھوں بہت بری طرح سے بیوقوف بن بیٹھی تھی۔ اب اسکا رخ سیدھا اپنے کمرے کی طرف تھا۔

کمرے۔ میں پہنچ کہ جیسے ہی اسنے دروازہ کو لاک لگایا اور پلٹی تو جیسے آنکھوں میں تارے ناچ گئے اوپر کا سانس اوپر اور نیچےکا نیچے رہ۔

تت۔۔۔۔تم۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟

آج وہ اسکو زندگی میں پہلی دفع بغیر منہ پہ چادر ڈھانپے دیکھ رہی تھی ۔ وہ اک مکمل مردانہ وجاہت کا ہامل بھرپور مرد تھا ہیزل گرین آنکھوں سے وہ اسکو اسکی پہچانتی تھی بہت اچھی طرح۔لائٹ براون سلکی ماتھے پہ بکھرے نفاست سے تراشے بال، اسٹالش انداز میں رکھی گئی شہد رنگ داڑھی اور اس پہ تضاد تراشی ہوئی مونچھے وہ اپنے نقوش سے مکمل افغانی و پشتو مکس لگ رہا تھا کتنی بڑی بھول کر بیٹھی تھی وہ پپو اور شاہ کو اک سمجھ کہ پپو کے باہ تو اسکے شانوں کو چھوتے اور کلین شیو ہی رہتا وہ ہر وقت ساتھ کالی جٹ آنکھوں میں سرمے کی پوری بوتل انڈیلی جاتی تھی ،گلے میں ڈھیر ساری چینیں پہنے وہ حقیقتاً اک لوفر ہی تھا اور وہ کیسے اتنی بڑی غلطی کر گئی تھی دونوں کو پہچان نے میں۔


"تم نہیں آپ جانیمن"

وہ کرسی پہ بیٹھا پیر کے اوپر پیر جمائے دونوں پیروں کو کمال اطمینان سے سینٹر ٹیبل پہ رکھے ہوئے تھا ایسے جیسے یہ بیڈروم وفا کے بجائے اسی کی تو ملکیت تھا۔وفا کی تو اسکو دیکھ کر جیسے سدھ بدھ ہی کھو گئی تھی وہ کہاں اسکو اپنے بیڈروم میں تصور کرسکتی مگر شاہ زمان بلکل اپنی بات کا پکا صابت ہوا تھا جو کہا کر کہ دکھایا ۔


"آ۔۔آپ پلیز میرے بیڈروم سے اس وقت چلے جائیں مم میں کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں "

وہ بڑی مشکل سے اٹک اٹک کے کہتی دروازہ کھول کے کمرے سے فرار ہونے کو تھی جب وہ اسکا ارادہ بھانپ کہ جلدی سے ایک ہی جست میں اس تک پہنچا تھا۔

"تم کیا سمجھی اس دن کے بعد تم نے مجھے اپنی زندگی سے بلاک ڈلیٹ کر دیا ہے اور انباکس پہ پرائےویسی لگادی؟؟؟؟"

تو تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں وہ ہیکر ہوں جو بڑے بڑے آکاونٹس کو لمحوں میں ہیک کر سکتا ہوں"

وہ اسکے کان کے قریب آکہ بہت دھیمے لہجے میں دریافت کر رہا تھا وفا کے مزید اوسان خطا ہوئے اسنے کبوتر کی طرح خطرے کو بھانپ کہ آنکھیں بند کرلیں۔


" مم میں ہر ایرے غیرے سے بات نہیں کرتی آپ پلیز چلے جائیں یہاں سے"۔

"خوب کہی تم نے مگر وہ کیا ہے نہ میں کسی کا حساب نہیں رکھتا اور پھر جب تم نے میری دوستی سے فائدہ اٹھانے کے بعد مجھ سے دشمنی مول لےہی لی ہے تو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کتنی میری دشمنی سے نکلتے حساب کتاب برابر کر پاوگی"

وہ اب اسکے ارد گرد چکر کاٹ رہا تھا وہا کو جیسے مزیدسہمانا چاہتا تھا۔


"مجھے معاف کریں۔بھائی صاحب آپکا بہت شکریہ آپنے۔میری اس دن مدد کی اور میں نے آپکو تھپڑ مارا اسکے لئے تہے دل سے شرمندہ ہوں براہ مہربانی آپ ابھی چلیں جائیں"

وہ اب عادت کے بر خلاف منت سماجت پہ اتری ۔


"بھائی تو صرف میں اپنی اکلوتی بہن کا ہی ہوں ہاں شوہر بن سکتا ہوں کیونکہ بیوی کا خانہ ابھی پر نہیں ہو اور ویسے بھی اب تو تم میرے دل کو بری طرح بھا گئی ہو تم سے اظہار کروں یا تمہاری امی سے ڈائریکٹ رخستی کی تاریخ لے لوں؟؟؟"

شاہ نے گہری نظروں سے اسکو دیکھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بات کا رخ اپنے مطابق کہیں کا کہیں موڑا ۔


"آپ خاموش نہیں ہوسکتے ؟؟براہ کرم فضول گوئی سے پر ہیز کیجئے اور اپنےآنے کا مقصد بیان کریں میں آپکی موجودگی زیادہ دیر افورڈ نہیں کرسکتی"

تیکھے لب و لہجے میں بولی۔وہ جب کمرے میں داخل ہوا تو آج کی صورت حال کل کی صورت حال سے تھوڑی مختلف تھی کل محترمہ اپنے ہوش و ہواس میں چپ کا روزہ رکھ کر ملی تھیں اور آج محترمہ نے عروسی لباس تو دور کی بات جیولری تک اتارنےکی زہمت نہ کی تھی اور آج کی رات محترمہ اسطرح گدھے گھوڑے پیچ کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھیں جیسے سدیوں سے سوئی ہی نہ ہوں اور اسکے روم میں رخصت ہوکہ اسی لئے تو آئی تھی کہ نیندیں پوری کر سکے اپنی ۔


"واہ میرے خدا کیا بہترین استقبال ہورہا ہے تیرے بندے کا دودن سے"

تھوڑا سا کھسیا گیا فریش ہوکہ سفید ململ کا کرتا شلوار زیب تن کئے وہ سائیٹی پہ بے آرام سی سوئی مہمل کی طرف بڑھا تھا۔

مہرون اور مسٹرڈ رنگ کے امتزاج کے عروسی لباس میں وہ ا تمام حشر سمانیاں سمیٹے بے خبر سوئی کامل کا دل بے ایماں کر امتحان لینے پہ امادہ تھی شاید۔

تیکھے نقوش ستواں ناک میں لبوں کو چھوتی نتھ وہ مبہوت سہ اسکو دیکھے گیا۔ گلاب کی پنکھڑی جیسے سرخ گداز لب اور ان پہ سجی ڈیپ ریڈ لپسٹک اسکے دل کی دنیا اتھل پتھل کرنے کیلئے کافی تھی۔آج پہلی دفع اسنے مہمل کو اتنے پیارے سجے سجائے روپ میں دیکھا تھا دل تھا اسکے وجود سے اپنے وجود کی تھکن اتارنے کو بےتاب ہو چلا تھا اسکے ہنائی ہاتھ و پیر نے تو جیسے کامل کا بچا کچھا اطمینان بھی رخصت کرڈالا تھا ۔


"خدا کا بہت پیارا تحفہ ہو تم میرے لئے مہمل!بس تم ہی پہ ختم ہوجاتا ہے میرا غصہ بھی اور میری تم ہی پہ ختم ہوتی ہے میری محبت،بے شک اس دل کی دھڑکن تم ہو میرے "


وہ دوزانوں بیٹھ گیا سائیٹی کے ساتھ ٹیک لگا کر دل نے عجب فرمائش کر ڈالی تھی اسکو تکتے رہنے کی۔

کامل نے ہاتھ بڑھا کہ اسکے گالوں کو چھوا تھا اسکی نظروں کی تپش تھی یا سرگوشی کا اثر وہ کسمساکہ اٹھ چکی تھی گھنیری کاجل اور میک اپ سے سجی پلکوں میں لمحوں میں ہی حیرت و حیاء سمٹی تھی جبکہ نقوشوں میں بوکھلاہٹ گھلی۔


" مت دیکھوں مجھے یوں تم اتنی نفرت سے یہ وہی چہرہ ہے مہمل جس کو تم نے کبھی ٹوٹ کے چاہا تھا"

وہ اسکے ہنائی ہاتھ کو اپنی ہتھیلیوں میں لیکر نرمی سے گویا ہوا۔

"میں نفرت آج بھی آپ سے نہیں کرسکتی چاہنے کے باوجود بس شاید آپکو اور خود کو آزمانا چاہتی ہوں"

مہمل کا لہجہ نم ہوا تھا کامل سے اسکی محبت لفظوں میں بیاں ہونے والا قصہ نہ تھی۔


"تم میری دھڑکن ہو اور میں تمہاری روح مہمی!! تم اگر ہو تو میں ہوں "

کامل نے بہت محبت سے اسکی ڈھلکی ہوئی بندیا کو اسکی پیشانی پہ ٹھیک سے سجایا تھامہمل آج اسکو بہت بکھری بکھری اور بے سکون سی محسوس ہوئی ۔وہ سوچ چکا تھا کہ اسکے سارے الزام وہ خندہ پیشانی سے خود پہ قبول کرلے گا اور ہر صورت آج وہ اسکے زہنی تنائو کو ختم کرکہ ہی دم لے گا ۔مہمل اسکی بیوی تھی اسکی شریک حیات اس کی زات سے ملی زرہ برابر تکلیف کا بھی جواب کامل کو اپنے رب کو دینا تھا تو پھر وہ کیسے اپنی کل متاع حیات کو تکلیف و بے کل تنہا چھوڑ سکتا تھا۔


" آغا رشتے وہی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں جو دل سے جوڑے جائیں لیکن ضرورت سے نہیں "۔

وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھنا چاہتی تھی لیکن کامل نے تھوڑا دباو اک شانے پہ ڈال کہ اسکو آرام سے پرسکوں رہنے کو کہا۔


"'اگر نبھانے کی چاہت دونوں کی طرف سے ہو تو بھی مہمی رشتے خاک نہیں ہوتے! بگاڑنا۔اور سنوارنا رشتوں کو ہمارے اختار میں ہوتا"

وہ ٹھہر ٹھہر کے بولا۔


"تمہیں پانا ہی میری محبت نہیں بلکہ تمہارا احساس بھی میرے جینے کی وجہ ہے!!ضرورت تو کسی کے بھی وجود سے پوری کی جا سکتی ہے"


کامل اسکو بازووں میں بھر کہ پھولوں سے سجی سیج تک لے آیا اور بہت احتیاط سے اسکو بیڈ کرائون سے ٹیک لگاکہ بٹھایا مہمل کے انداز میں پہلے سی مزاہمت نہیں رہی تھی یا شاید کامل کے پاکیزہ جزبوں پہ اسکو یقین آنے لگا تھا جو بھی تھا خوش آئندہ تھا بہت پیارہ اور اچھوتا احساس تھا دھڑکنوں کو اتھل پتھل کردینے والا۔


"تو پھر اس سے رشتہ کیوں خوڑا جب مجھ سے محبت کے دعوادار ہیں تو؟؟؟ کیا وہ آپکی پہلی چاہت آپکی بیوی نہیں تھی؟؟؟"

وہ گھٹنوں پہ تھوڑی جمائے قرب سے پوچھ رہی تھی آنکھوں عارض نم ہوئے۔کامل بخوبی سمجھ رہا تھا اسکی تکلیف کو جانتا تھا کہ وہ اسکی دوسری بیوی ہونے کے باعث تکلیف میں ہے۔


"بس یہ سمجھلو میں کسی کو بہت کڑے وقت میں سہارا دینے کاباعث بنا ہوں مہمل اس سے زیادہ کچھ نہیں"

وہ صاف گوئی سے بولاوہ موضوع پہ مزید بات نہیں کرنا چاہتااسلئے مختصراً بات کو سمیٹا ۔


"تم میری ضرورت ہر گز نہیں ہو مہمل!!تم میری زندگی ہو "

وہ یہ سن کہ پھوٹ پھوٹ کہ رودی کامل نے اسکو اپنےسینے سے لگاِئےرونے دیا بس اسکی پشت کو تھپکی دیتا رہا جیسے اپنے ہونے ک احسادس بخشن رہا تھا


"ہوجاوگی میری محبت میں مضبوط اس طرح رانحھے کی محبت میں لیلیٰ تھی جس طرح۔"

کامل نے لنگڑا لولہ شعر کہہ سنایا۔


"مظبوط نہیں مجبور اور لیلی نہیں ہیر آغا "

وہ یقدم سر اٹھا کہ گویا ہوئی اتنے پیارے شعر کا کریا کرم اسے سہہ نہ گیامگر کامل۔کی آنکھوں میں لکھی تحریر وہ پڑھ کہ اسکی نظریں یکدم جھکی تھی وہ مزید اسکی بولتی نگاہوں سے نگاہیں ملا نا سکی تھی۔

نازک نازک سی پیاری پیاری سی میرے جینے کی آس ہو تم اتنا تو بتادو اب بھی ناراض ہو؟؟؟؟

وہ اسکی تھوڑی اپنی انگشت شہادت سے اونچی کرکہ استفسار کر رہاتھا۔۔

" نن نہیں بس مجھے نیند آرہی ہے میں سوجاوں اب؟؟؟؟"

وہ گڑبڑائی ۔

"ہاں ہاں میری گود میں سر رکھے سوجائو تب ہی سونے دونگا "

وہ بھر پور انداز میں اسکے سٹپٹانے پہ مسکرادیا اور اسکو اپنے حصار میں لیتا اسکے لبوں پہ جھکتا چلا گیا۔

❤❤❤

تم میرے۔نئے خریدار ہو ؟؟

نہیں میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔

"مجھ سے اک کال گرل سے شادی اچھا مزاق ہے "

"میں مزاق نہیں کر رہا مجھے تم اچھی لگنے لگی ہو"

میں تمہیں اچھی لگنے لگی ہوں ؟؟؟؟

میں کیسے اچھی لگ سکتی ہوں کسی کو ؟؟؟

"جو تمہاری اب تک کی زندگی تھی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا"

"اپنے فیصلے پہ ایک۔اور دفع نظر ثانی کرلو اور جس کے۔انڈر میں کام کرتی ہوں وہ۔مجھے اتنی آسانی۔سے نہیں نہیں دیگا وہ میرا دودا کریگا تم سے"

امید نے ایک دفع پھر سے شہباز سمجھانا چاہا مگر دل گھر گہرستی کا سن کہ ہی بہت خو ش ہوگیا تھا ڈھیر سارے تانے بانے دل نے بن ڈالے تھے انسان تھی عزت کی زندگی جینا آسکا بھی حق تھا۔

شہباز اکثر بار میں آتا رہتا تھا اک دن اسکو امید بری طرح بھاگئی پھر وہ اسکیلئے وہاں روز روز آنے لگا ۔شہباز کی ماں ہندوستانی تھی جبکہ باپ پاکستانی مگر شہباز مغرب میں پلا بڑھا تھا اسکے خیالات خاصے کھلے ڈلے تھے مگر کون جانتا تھا کہ امید کی زندگی میں اب آرام آئیگا یا نہیں۔۔۔۔!!!

"اب تک اگر میں خاموش ہوں تو میری اس خاموشی کو غنیمت جانو جانیمن! لیکن جس دن میں برس جاونگا اس دن ترس بھی نہیں کھاونگا"

وہ اسکی آنکھوں میں اپنی نگاہیں ڈالے وارننگ دیتے انداز میں کہتا اسکے ماتھے پہ آئے پسینے کی ننھی ننھی بوندوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں میں جزب کر چکا تھا۔

"مجھے ہاتھ مت لگائیں میں نے کہا نا کہ میں ایسی ویسی "

وفا کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی مگر پہلے والی غلطی( شاہ زمان پہ ہاتھ اٹھانے کی) دہرانے سے گریز کیا ورنہ اس وقت وفا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا سے کیا کردے۔

" تم ایسی ویسی نہیں بلکہ بہت ہی تیڑھی کھیر ہو جسکو سیدھی انگلی سے صرف میں ہی کھا سکتا ہوں"

شاہ زمان کے جملے اور اسکی حاضر جوابی وفا کا دماغ چکراٙے دے رہی تھی اس پہ۔تضاد وہ اسکو اسٹڈی ٹیبل کی کر سی گھسیٹ کہ اس کو شانوں سے تھام کر بٹھا چکا تھا اور خود اسکے عین سامنے ٹیبل پہ بیٹھا اسکو وفا کے مطابق دھمکا رہاتھا۔

"میں اب مجبور ہوں ایسا کرنے کیلئے کیونکہ اب بہت ہوگئی آپکی بدتمیزی مگر اب اور نہیں"

وفا نے تیزی سے آو دیکھا نہ تائو اور ٹیبل پہ رکھا اسٹیل کا گلدان اٹھا کر شاہ کے سر پہ وار کرنا چاہا مگر شاہ زمان نے مسکراکہ بہت آرام سے اس کے ہاتھ سے گلدان لیکر بیڈ پہ اچھا دیا۔

"دہشت آنکھوں میں ہونی چائیے وفا ڈیئر !!ہتھار تو گلی کے چوکی دار کے پاس بھی اچھا لگتا ہے"

وہ اب محظوض ہوا جبکہ وفا کو اپنی عزت خطرے میں محسوس ہوئی حویلی میں موجود کوئی بھی اگر اس سنکی انسان کو اسکے کمرے میں سے نکلتا دیکھ لیتا تا نیا فسانہ بن جانا تھا اور جابر وہ اسکو کن نظروں سے دیکھتا افففف ۔۔۔۔!!

اس سے آگے وہ سوچ کہ ہی کانپ اٹھی تھی چہرے پہ خوف کے آثار واضح تھے رات کے اس پہر اسکے روم میں ایک غیر مرد کی موجودگی اسکی عزت کو خاک میں کردینے کیلئے کافی تھی اسی لئے اس نے شاہ زمان کے آگے ہتھیار ڈالنے میں ہی بہتری جانی۔

"ٹھیک ہے آئندہ میں کبھی مزار پہ نہیں جاونگی اب تو آپ چلے جائیں "

"ہاہاہا!!! اچھا مزاق ہے ویسے کل پھر تم۔اسی جگہ پائی جاوگی مگر یاد رکھنا میں یہاں تک پہنچ سکتا ہوں تو میں کیا کچھ نہیں کرسکتا"

"امید ہے اب تم سدھر جاونگی کیونکہ میں اب کافی بگڑ چکا ہو اپنی خاص چیز میں نے بیچ دی ہے تمہاری خاطر اور وہ تھی میری شرافت"

"شریف اگر آپ جیسے ہوتے ہیں تو پھر بے غیرے ہی اچھے"

اسکے صبر کا پیمانہ ابریز ہوا مزید شاہ زمان کی دھونس وہ اب برداشت کرنے سے انکاری تھی۔

ششش۔۔۔۔۔۔!!!

اسکےگلاپ کی پنکھڑی جیسے لبوں پہ اسنے انگشت شہادت رکھ کے مزید بولنے سے روکا۔

"ٹھیک دو ماھ بعد پوچھونگا اپنے بیڈروم میں کہ کون ہوں میں؟؟؟؟"

وہ یہ جملہ کہے کہ رکا نہیں تھا چپ چاپ کھڑکی سے کود کر کمرے سے جاچکاتھا پیچھے وفا اسکے نا سمجھ میں آنے والے آخری جملے میں ہی اٹک کر رہ گئی۔

"میں کسی سے ڈرنے والوں میں سے نہیں شاہ زمان تم دیکھنا جو میرا مقصد ہے وہ میں پورا کر کے ہی رہونگی آج کی رات اور اب یہ کام مجھے جلد از جلد کرنا ہوگا "


وہ فیصلہ کرچکی تھی بس آج رات عمل کرنے کی باری تھی شاہ زمان ولیمہ کا فنکشن اٹینڈ کرکہ واشس روانہ ہوچکا تھا بس اب اسکو اپنا راستہ بلکل صاف نظر آرہا تھا اب بس اسکو رات کا انتظار تھا جب اسنے اس قبر کے اندر کا راز معلوم کرنا تھا۔


اسنے ابھی اپنی امی اور ابو کو اپنے اگلے ہفتے آنے کا کہا تھا وجہ اسکو اس بات کی پوری امید تھی کہ بس اب وہ اپنے مقصد و منزل سے بہت قریب آچکی ہے۔

رات ١٢:٣٠ بجے۔۔۔


جیسے تیسے وقت گرزا وہ کسی نہ کسی طرح باہر موجود پہرے داروں سے چھپ چھپا کہ نکل ہی گئی تھی حویلی سارا انتظام اس نے پلاننگ کے تحت شام میں ہی کرلیا اور اب بڑی کامیابی سے وہ حویلی سے باہر تھی۔ ایک گھنٹا مسلسل بغیر رکے چلتے رہنے سے اس کے پیر شل ہوچکے تھے مگر بس اس پہ تو جیسے پیر کی اصلیت سامنے لانے کا جنون سوار تھا۔کچھ دیر رک کہ سانس بہال کی اور پھر چلنا شروع ہوگئی ٹانگہ ،رکشہ وغیرہ دور دور تک کوئی اس پتھریلی سڑک پہ ناپید لگ رہا تھا اسکو آخر کار وہ قبرستان کے پچھلے دروازہ سے اندر داخل ہوئی تھی ۔


خود کو کالی چادر میں اچھی طرح سے ڈھانپے وفابرگت کے درخت کی اوڑھ سے دبے پائوں ہاتھ میں ٹارچ مضبوطی سے تھام کر وہ بہت محتاط انداز میں اپنی مطلوبہ قبر کی نشاندہی کر نےلگی۔ ٹارچ کی مدہم دودھیا روشنی میں دو چار قبروں کی خاک چھاننے کے بعد آخر کار اس کو اپنی مطلوبہ قبر مل ہی گئی تھی ۔۔


"ہاں یہی ہے "

"اسی کی تو مجھے تلاش تھی بالکل"

"ہاں ہاں آج میری تلاش پوری ہوئی "

"ہاں یہی ہے وہ ۔۔"


قبر کا قطبہ ہٹانے کی مسلسل کوشش میں رات کے دوسرے پہر سے اب رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا ۔۔۔


"وقت بہت مختصر بچا ہے اب میرے پاس صبح کی پہلی کرن پھوٹنے سے پہلے پہلے مجھے اپنا کام مکمل کرنا ہے"

" ہر صورت آج یہ کام ہو جانا چاہیےلازمی"


ادھر سے ادھر نظر دوڑانے کے بعد آخر کار اس کو تھوڑا فاصلے پر رکھا ایک بیلچا نظر آیا۔ وفا بھاگتی ہوئی اس کی طرف لپکی تھی۔

آدھے گھنٹے کی انتھک کوشش کے بعد وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو ہی گئی آخر کار۔اسنے بہت تیزی سے آگے بڑھ کر قبرکاقطبہ اپنی جگہ سے اکھاڑ کے دور پھینکا ۔


قطبہ رکھنے کے چند لمحوں بعد ہی یکدم قبر میں سے ایک روشنی پھوٹی تھی اور وہ قبر چاک ہوتی چلی گئی۔ چادر میں لپٹی وفا کے چہرے پر ایک دم ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔۔


تیزی سے وہ قبر کے اندر سے جھانکتی سڑھیوں کی طرف بڑھی اک اک کرکہ وہ پورا زینا تہہ کرنے لگی ٣٢ سیڑھیاں اترنے کے بعد اسکو بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے۔ وہ کجھ اور بھی آگے بڑھی مگر اندر کا منظر دیکھ کے وہ دنگ رہ گئی وہ کوئی جھوٹا سہ تہہ خانہ نہیں تھا بلکہ اندر تو پورا گبت محل موجود تھا ۔ وفا نے جلدی سے اپنے پرس میں موجود موبائل کے کمرے کو آن کیا اور اسکو پرس کی سائیڈ پاکٹ میں اسطرح پھنسایا کہ کمرہ با آسانی اندر کے تمام مناظر کی ریکارڈنگ کر سکتا تھا۔

اس وقت تقریباً سبھی لوگ نشے میں دھت پڑے تھے کوئی صوفہ پہ تو کوئی کہیں آڑاترچا پڑا تھا وہ سب کی ریکارڈنگ کرتی آگےبڑھی مزید ایک لمبی سی راہ داری کو عبور کرتی وہ اک جانب کی طرف مڑی تھی دل تھوڑا خوف زدہ ہورہا تھا جیسے وہ اندر قدم ب بڑھاتی جارہی تھی یقدم وہ سامنے کا منظر دیکھ کہ ساکت سی رہے گِئی اک کمرے کے دروازہ. کے بجائے اسکے داخلی حصے پہ جیل کی طرح کی سلاخوں کی طرح کا دروازہ بنایا ہوا تھا جسکی پہرے داری وہی عورت دے رہی تھی جس نے اس دن وفا پہ احسان۔عظیم کرکہ اسکو بڑی جلدی پیر تک پہنچایا تھا وہ عورت بھی اس وقت شدید نازیبا لباس میں نشے میں دھت بڑی کرسی پہ بیٹھی تھی۔


" تو اسکا مطلب بہت واضح تھا کہ وہ عورت اور اس جیسی کئی عورتیں مظلومیٹ کا رونا روکہ دوسری مصیبت کی ماری عورتوں سے انکی تکلیفیں اگلوایا کرتیں اور وہ بڑے ہی خفیہ طریقے سے پیر تک ساری معلومات پہنچاتی جاتی اس عورت کے پہنچنے تک جو بچاری اپنا دکھڑا لے کے پیر سے دم درود کروانے آئی ہوتی تھی۔ "


مگر اس کمرے میں نظر آنے والے مناظر نے تو جیسے وفا کے رونگٹے کھڑے کرڈالے تھے جسکی پہرے دار وہ عورت تھی یہی نہیں قطار در قطار ایسے ہی کئی کمرے موجود تھے جسکی پہرے داری ہر زبان کی۔ عورے دے رہی تھی مگر ان کمروں سے جھانکتے روح فرزا مناظر کو دیکھنے کے بعد وفا جیسی لڑکی بھی لمحے بھر کیلئے خوف کا شکار ہوئی تھی۔


کمروں میں موجود لڑکیاں کچھ تو برہنہ تھیں اور انکے جسم پہ نیل پڑے تھے کافی دردناک اور ان میں سے کچھ وہ تھیں جن کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور انکو شاید حکم کی بجا آوری نہ کرنے کے زمین پہ۔ اوندھا لیٹا کہ ہاتھ اور پیروں کو پشت پہ لاکہ رسیوں سے باندھا گیا تھا۔ اسکے بعد ایک کمرہ ایسا تھا جہاں ١٠سے١٢ ۔ سال کی بچیاں موجود تھی انکی حالت بھی کچھ کم افسوسناک نہ تھی۔ آخری کمرے میں پہنچ کہ تو جیسے وفا کا دل ہی پھٹ گیا وہاں نومود سے لیکر ایسی بچیاں موجود تھیں جو مشلل سے پانچ سال کی بھی نہ تھیں وفا تو جیسے یہ سب دیکھ کہ بلکل سرد پڑھ گئی سب سے زیادہ ہولناک بات یہ تھی کہ وہ معصوم بچیاں روئے چلائیں نہ اس لئے انکو ایسا انجکشن لگایا گیا تھا جسکے باعث وہ کسی زندہ لاشوں کی طرح زمین پہ ادھ موئی پڑی تھیں اور زمیں پہ وہ انجکشن ڈھیروں کی تعداد میں خالی پڑے تھے جوکہ ان معصوموں کے خون میں شامل کئے گئے تھے ۔سراسیمگی و وہشت کے باعث وفا سے اپنی ٹانگوں پہ کھڑے رہنا دشوار ہورہا وہ اب جلد از جلد اس جگہ سے فرار ہونا چاہتی تھی تمام ثبوت ادکے موبائل میں ریکارڈ ہو چکے تھے۔

خوف اسقدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ اس غلیظ جگہ سے اب نکلنا وفا کیلئے زندگی اور موت کا فاصلہ تہہ کرنے کے مترادف ہوگیا تھا وہ وہشت سے چل نہیں پارہی مگر اپنے آپ کو بس زبردستی گھسیٹ رہی تھی۔ ابھی اسنے اس گپت محل کا آدھا حصہ بھی نہیں دیکھا تھامگر شاید اس سے زیادہ اس میں اب کچھ دیکھنے کی ہمت بھی نہ تھی۔

وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑتی واپس قبر کے باہر کی جانب لیجانے والے راستے کو تہہ کر رہی تھی چند سیڑھیوں رہے گئی تھی جب وفا کو کھلی ہوئی قبر کا قطبہ واپس لگاتا پیر شاہ سائیں اندر آتا دکھا جسکی آنکھوں عجب زہریلی سی چمک تھی وہ چلتے ہوئے بے تہاشہ ہنستے ہنستے وفا کے سر پہ آن پہنچا تھا ۔

وفا کے سر کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑے وہ پیر اسکوواپس سیڈھیوں پہ گھیسٹتا نیچے جاتی سیڑھیاں عبور کرتا چلاگیا۔

جوف کے مارے وفا کی چیخیں تک حلق سے نہ نل پارہی تھیں۔


🌹🌹🌹🌹


شہباز آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرے اندر سانسیں لیتی اولاد آپکی نہیں ہے؟ ؟


" کیسے نہیں کہہ سکتاامید یہ میں ؟؟؟"

کیا میں تمہاری پچھلی زندگی کا علم نہیں رکھتا؟ ؟؟"

"مگر شہباز میں نے آپکے ساتھ کو پانے کے بعد اس زندگی کو لعنت بھیجدی ہے وہ سب میرے لئے جتنا ازیت ناک تھا یہ آپ بھی بہتر جانتے ہیں پھر مجھ پہ بدچلنی کا الزام کیوں ؟؟؟؟"

"تم جو بھی کہو یہ بچہ میرا نہیں بلکہ تم جائو اسی کے پاس جسکی یہ اولاد ہے "

"کس کی اولاد ہے یہ شہباز مجھے بتاو؟ ؟؟؟؟"

وہ اسکے کالروں کو اپنی مٹھیوں میں جکڑے ہزیانی انداز میں چیخی ۔

"اوہو میں تو یہ بھول ہی گیا کہ یہ کسی اک کی تھوڑی ہوسکتی ہے نا جانے کتنوں کا گندہ ۔۔۔۔"

اسی وقت کامل جوکہ شہباز کا اوکسفرڈ یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے کے باعث بہت بہترین دوست اور اسکے بلکل ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر اسکا پڑوسی بھی تھا شہباز اور امید کے درمیان ہوتی تلخ کلامی کو سن کے چلا آیا دو تین بیل کے بعد شہبازصبح 6:00 بجےکے وقت دروازہ زور سے پیٹا جانے لگا بیڑروم کا ۔مہمل تھوڑا سہ کسمسائی اور پھر دوبارہ سےسو گئی ۔


کامل نے بہت احتیاط سے محمل کا سر اپنے شانے سے ہٹایا اور بغیر آہٹ پیدا کئے دروازے کی طرف بڑھنے سے پہلے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی بنیان اٹھا کہ پہنی اور تیزی دروزہ کھولا ورنہ عنقریب باہر موجود شخص دروازہ توڑ کہ اندر گھسنے سے دریغ نہ کرتا۔


"بڑا دیر نہیں لگ گیا تم کو دروازہ کھولتے کھولتے کامل ؟؟؟؟"


دروازہ کھولتے ہی اسکے سامنے موجود باہر کھڑی تائی بیگم نے بڑی شان سے چہرے پہ کرختگی کے ساتھ آنکھوں میں جبھتی ہوئی معنی خیزی سجائے کسی تفشیشی آفیسر کی طرح کامل سے پوچھ گچھ شروع کی ۔


"مگر تائی جان ابھی تو صبح کا چھ ہی بجا ہےابھی دیر کہاں ہوئی ہے؟ "


کامل نے جمائی روکتے ہوئے نیند سے بوجھل لہجے میں رچی ناگواری کو چھپایا ۔


"کامل شاید تم بھول رہا ہے کہ محمل اب اس گھر کا بڑی بہو ہے اور اس کو اب سے بہت پہلے فجر ہوتے ہی نیند کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے تھا ۔"""


تائی بیگم کی بھرپور کوشش تھی کہ اندر کمرے کے حالات کی چھان بین کر سکے مگر کامل کسی دیوار کی طرح دروازے کو آدھا سے زیادہ بھیڑے اور بیچ میں اس طرح سے استدعا تھا کہ دروازے کے اندر جھانکنے کے باوجود بھی وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکتی تھیں ۔


"او تائی جان فجر میں توہم سویا ہے اور پھر ابھی دو دن ہی تو ہوا ہے ہماری شادی کو اب بھلا نایا نویلا دلہن دلہا تو اتنی جلدی اٹھنے سے رہا آپ کو نہیں لگتا تائی جان کہ یہ کچھ نہ مناسب سا ہے امارے کوجگانا اور پھر کیا کشمالا اٹھ گئی ہے ؟؟"

"کیا اس کو بھی آپ نے فجر کے ہوتے ہی اٹھا دیا ۔؟؟؟"


کامل نے تائی بیگم کی سوال کے بدلے میں سوال داغا اس کو تپ ہی تو چڑھ گئی تھی تائی بیگم کے اس انداز اور تانک جھانک کرنے پہ بڑی مشکل سے وہ لہجے کو پرسکون بنائے تائی بیگم کے تفشیشی سوالات کا جواب دے رہا تھا ۔


"ہٹو راستے سے تم یہ کیوں بار بار بھول رہا ہے کہ یہ لڑکی ایک نوکرانی کی بیٹی ہے اور تمہارا شادی اس سے انتقام لینے کی غرض سے کیا گیا ہے تو پھر تم کیسے اس کو اپنا سر کا تاج بنا سکتا ہے ؟؟؟؟"


پہلے تو تائی بیگم سٹپٹائیں کامل کے اتنے بے باک جواب دینے سے لیکن جلد ہی دوبارہ اپنی خفت مٹاتے ہوئے شروع ہوچکی تھیں۔


"ہٹؤ امارا راستے سے ہم اس کو لے کر ہی جائے گا باہر کپڑوں کا ڈھیر لگا ہے وہ اس کو دھونا ہوگا "۔


وہ بضد تھیں کہ مہمل کو لیکر ہی واپس روانہ ہونگی مگر کامل ہر گز بھی مائنس ٹیمپریچر کے ہوتے اسکو کھلے حویلی کے ایک کونے میں بنے لانڈری ایریا میں بیجھنے کا روادار نہ تھا۔


"گھر میں بہت درجنوں کی تعداد میں ملازمین موجود ہیں کسی سے بھی آپ یہ کام لیلو "۔


"محمل اب کامل حیدر خان کی بیوی ہے اس حویلی کی عزت اور میری آنے والی نسلوں کی آمین !!میں کامل ہوں جس کی پرورش مزنہ نے کی ہے میں عورت کو پیر کی جوتی نہیں بنا سکتا اماری بیوی اماری ملکہ ہےتا ئی جان "


" اور بدلہ کیسا اور کونسا انتقام کی بات آپ ام سے کرتا ہے؟ ؟؟ گناہگار تو کشمالہ ہے جاؤ جاکر تائی جان اس کو جگائو ہم ابھی اپنی دلہن کے ساتھ سوئے گا اور اب دوبارہ ام کو جگا کر پریشان مت کرنا "۔


"ام علاقے کا ہونے والا آغا ہے یہ تو تم جانتا ہے نہ؟ "

اب چلو جائو تائی جان ام کو سونے دو شاباش"


کامل نہ اپنی خاص زبان میں کہتے کے ساتھ ہی دروازہ تائی جان کے منہ بند کر دیا ۔ انکوان ہی کے انداز میں ڈیل کرنا اس کی مجبوری تھی۔

آج پہلی دفعہ اس نے اس طرح سے تائی سے بات کی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ تائی بیگم باہر جاکے شدید قسم کا واویلا مچائیں گی مگر اس کو کسی کی پروا نہ پہلے تھی اور آج تھی۔

اس کو صرف اپنی ماں اور بیوی کے لئے آسانیاں پیدا کرنی تھی اور اپنے علاقے کے لاگوں کیلئے ڈھیر سارے کام سر انجام دینے تھے۔

حویلی کے اصولوں کو بدلنا تھا باقی رہی حویلی کی بات تو اس کے مکین جس قدر خود پرست تھے وہ بچپن سے دیکھتا آرہا تھا حیرت تو اس بات کی تھی کہ اس گھرانے کا تعلق خان ذات سے تھا اور خان ذات کے لوگ اپنوں کے اوپر مر مٹنے والے، جان نچھاور کرنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔

اپنی عزتوں کی حفاظت کرنا اور اپنی عورتوں کو اعلیٰ مقام دینے کے ساتھ ساتھ غیر کی عورت کو بھی بری نظر اٹھا کے دیکھنا ان کے لیے اپنی توہین ہوتا ہے۔

پٹھان ذات ایسی ذات ہے جو بے حد خوددار اور دل میں خوف خدا رکھتی ہے مگر اس کی تائی صاحبہ کے حالات ایسے تھے کہ نہ خوش رہتی تھیں اور نہ دوسرے کو خوش رہنے دیتی تھیں مزنہ آکہ جگاتی تو سمجھ بھی آتا لیکن تائی کا کمرے میں آکہ جرح کرنا کامل کو کھولا گیا تھا۔


تائی بیگم کامل کو جوروکاغلام اور بے حیا کہتی اپنے گال پیٹتے روانہ ہوچکی تھیں مگر کامل کو انکی رتی برابر بھی پروا نہ تھی ۔

🌹

مہمل کی آنکھ کسی کی تیز طرار آواز سے کھلی تھی اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں پہلے پہل تو وہ صورتحال کو سمجھ ہی نہ سکی تھی مگر جیسے ہی کامل کو دروازے میں رکاوٹ بنے دیکھ کر تائی بیگم کے ساتھ ہم کلام پایا ۔وہ دوبارہ سے آنکھیں سختی سے میچ گئی دل میں ایک دھڑکا سا لگا تھا کہ کہیں ۔۔

"کامل ابھی پلٹے گا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اٹھائے گا اور بیگم کے سامنے کھڑا کرکے کہے گا کہ جاؤ اور جا کر میری تائی جان کا حکم مانو "۔


وہ یہی سمجھ رہی تھی کامل کا مقصد گزری شب پورا ہوچکا ہے اس نے اس کو تسخیر کرلیا تھا اس کے وجود پر اپنی حکمرانی جمالی تھی اور اب جب اس کا مقصد پورا ہو چکا ہے تو وہ اس کو کسی ٹشوپیپر کی طرح حویلی کے باقی مردوں کے جیسا ہی ڈیل کرے گا مگر اس کی سوچوں کے برعکس وہ اس کے لیے تائی بیگم سے ٹکر مول لیے ہوئے کھڑا تھا۔

کامل کے دروازہ بند کرتے ہی وہ ایک دفعہ پھر سے ایسی سوتی بن گئی جیسے کسی بات کاعلم ہی نہ ہو اسکو ۔


وہ لیمپ کی ہلکی روشنی جلا کہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور مہمل کے سر میں بے خیالی میں کچھ سوچتے ہوئے انگلیاں چلانے لگا کچھ پل ہی سر کے تھے جب محمل کو دوبارہ نیندکی آغوش نے آن گھیرا۔

کامل کی انگلیوں کے نرم پوروں نے اس کے دکھتے سر درد کو ایسا سکون بخشا کہ وہ مکمل پرسکون ہوگئی۔

وہ ایک دفعہ پھر سے غافل ہوچکی تھی جبکہ کامل لیمپ کی لائٹ آف کرتا شاور لینے کے بعد اپنے سٹڈی روم میں چلا گیا تھا ۔مہمل کی نیند خراب ہونے کے خیال سے ۔

🌹🌹


وہ ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے نم بالوں کو سلجھا رہی تھی۔ اسکے ہر ہر انداز سے بوکھلاہٹ ظاہر تھی دن چڑھ آیا ١١ بجے کے بعد وہ اٹھی تھی کامل کو بیڈروم میں نا پاکہ کچھ پرسکون ہوئی ورنہ رات کے بعد کامل کا سامنا کرنے سے شدید ہچکچارہی تھی اور دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ یا تو آج خوف جاناں کے روم جا سوئے گی یا جاناں کو اپنے روم میں لیکر آجائے گی۔

شیشے میں اپنے اپنے سراپہ پہ اک نظر ڈالنے کے بعد دوبارہ نگاہیں اٹھانے کی خود میں ہمت ہی نہ کر پارہی تھی کامل کی بے پناہ محبتوں نےاسکو ایک رات میں ہی انوکھا سا پیاء ملن کا روپ بخش ڈالا تھا ۔

کمرے سے باہر جانے کی خود میں چاہ کر بھی ہمت پیدا نہیں کر سک رہی تھی ۔خوف تھا کہ تائی بیگم اور باقی کے گھروالوں کے سوالات کا کیا جواب دیگی اچانک ہی اسکو کامل کی غیر موجودگی کا شدت سے احساس ہوا اگر اس وقت وہ اسکے آس پاس ہوتا تو شاید موجودہ صورتحال مختلف ہوتی ۔


'افف بری پھنسی ہوں کیا کروں کیا نہ کروں!"

کچھ سجھائی بھی نہیں دے رہا تھا ۔


وہ رودینے کو تھی جب بیڈروم کا دروازہ کھول کہ کامل جاناں کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔


لائٹ پنک کلر کے مقامی لباس میں مقامی ہی جیولری پہنے پشت پہ بال بکھرائے وہ چہرے پہ بارہ بجائے رونی صورت بنائے کھڑی تھی۔


"لگتا ہے جاناں آپکی ماما جان ہمیں بہت مس کر رہی تھیں تبھی تو دیکھو آپکی ماما جان کے چہرے پہ اندھیری رات کے آثار موجود ہیں"


وہ بات بظاہر مہمل کی مہندی اور جیولری کو پر اشتیاق انداز میں چھوتی جاناں سے بات کر رہا تھا مگر لہجے کی معنی خیزی اور آنکھوں میں ناچتی شرارت کو مہمل۔ باخوبی سمجھ رہی تھی ۔کامل کی گہری نگاہوں سے سٹپٹا کہ وہ گلنار ہوئی مزید جاناں سے اوٹ پٹانگ باتوں میں لگ چکی تھی۔


"نہیں ایسا تو کچھ نہیں کامل آغا"

خود کو پر اعتماد ظاہر کرنا چاہا مگر اسکے لہجے کی لڑکھڑاہٹ اتنی واضح تھی کہ کامل کا بے ساختہ کہکہ فضا میں بلند ہوا۔


"تمہارے ان حسین لبوں پہ میرا نام!!

واہ میرے اللہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے "

وہ ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوا بیڈ پہ سیدھا کر چکا تھا جہا ابھی ابھی مہمل جاناں کو لیکر بڑے مزے سے بیٹھی تھی۔


"کیا آچکی ہے بابا جان؟ ؟؟"

جاناں نے مہمل کی چوڑیوں سے۔ کھیلتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔

"کچھ نہیں بیٹا آپکے بابا جانی کو عقل آنے کے بجائے ۔۔۔۔ "

مہمل نے حصاب برابر کرنا چاہا مگر کامل نے اسکی بات مکمل سے پہلے بیچ میں۔ سے ہی اچک لی۔

" بجائےعقل آنے کےجاناں بچےکسی پہ دل آگیاہے"

وہ اب مہمل کی گھوریوں کی پرواہ کئے بغیر پٹھری۔ سے اتر رہا تھا۔

"ماناکہ محبت اندھی ہوتی ہے مگر بجے بہت ہوشیار!!

کامل آغا احتیاط کی جئے۔"

وہ چبا چبا کہ بولی جاناں کی موجودگی میں کامل مزید پھیل رہاتھا۔

"بابا جانی آپکو پتا ہے آج جاناں مہمی کے ساتھ ہی سوئیگی کل رات کو جاناں ڈر گئی تھی نا"

جاناں نے مہمل کی طرف دیکھ کہ ایسے معصومیت سے کہا جیسے کامل کی معلومات میں اضافہ کر رہی ہو۔

"ہیں۔۔۔۔۔۔۔!؟؟"کامل کی آنکھیں حیرت کے باعث پوری پوری وا ہوئیں۔جبکہ مہمل اب کی بار اپنی فاتح پہ۔دل کھول کہ مسکرادی۔

"سہی کہا نا میں نے مہمی ایسا ہی کہنا تھا نا؟؟؟؟"

جاناں کا کہا اگلا جملہ سن کے نام کی تو گویا اسٹیج ہوگی اس نے پوری پول ہی کھول ڈالی تھی

"کامل روک اور مہمل شاک" تنفر کرتے ہوئے دروازہ کھولا تھا ۔

وہ کامل کو دیکھ کے بری طرح رودی کہ اب اسکے سامنے بھی وہ کال گرل کے نام سے مشہور کردی جائیگی ۔

"کیا ہوگیا یار کیوں امیدکے اوپر گرج رہا ہے؟ ؟؟؟"

وہ نرمی سے معملے کو سلجھانا چاہ رہا تھا۔

"تم نہیں جانتے کامل کہ یہ عورت کس قماش کی ہے"

شہباز نے جہالت کا مظاہرہ کیا جبکہ امیدروتی ہوئی اپنے کمرے میں بھاگی تھی۔

"کیا فضول بک رہے ہو میں بہت دیر سے سن رہاہوں تمہاری خرافات امید کی پازکیزگی تم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے؟ ؟؟"

امید سے اسکی کافی اچھی دوستی ہوچکی تھی شہباز کے باعث وہ شروع سے ہی اسکا نام لیا کرتاتھا۔

شادی کو چھ ماہ کامختصر عرصہ ہی گزرا تھا چند دن پہلے تک وہ کتنی خوش تھی اور آج اسکیلئے بہت بڑا دن تھا جب وہ ہسپتال سے اپنی پریگنینسی کی پوزیٹو ریپورٹس لیکر آئی تھی امید کو لگا تھا کہ آج وہ مکمل ہوگئی تھی۔ شہباز کے سارھ گزرنے والے پل اسکیلئے اک خواب تھے جو اس جیسی لڑکی دیکھنا تو دور کی بعد سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔مگر شہباز نے اسکواپنا نام دیا تھا اسکو زندگی ہر اک خوشی میسر کی تھی لیکن آج جب وہ شہباز کو اتنی بڑی خوشی دینے جارہی تھی کہ وہ ۴ماہ کی حاملہ ہے تب شہباز کا جو چہرہ اسکے سامنے آیا وہ بہت بھیانک تھا۔

وہ اسکے وجود میں سانس لینے والے ننھے فرشتے کو اپنی اولاد مان نے سے انکاری تھا۔

"تو بڑا اسکا ہمایتی بن رہا ہے نہ تو ادکا مطلب تیری بھی رنگینی کا باعث بنی ہے یہ"

شہباز نے نایا الزام داغا ۔

مگر کامل۔ کیلئے اسکی کہی بات جیسے دل چیرنے کیلئے کافی تھی وہ روتی ہوئی امید کو بے سہارہ چھوڑنے کے بجائے شہباش بری طرح گھونسے اور اتوں سے تواضح کرنے کے بعد امید کو اپنے ساتھ لیکر آگیا اور ساتھ یہ بھی کہنا نہ بھولا کہ۔

"میں جارہا ہوں ہولیس اسٹیشن اب تو دیکھ اپنے بچے اور بیوی پہ الزام اور تشدد کا کیا انعام تجھے ملتا ہے اور ہاں اب امید کی طرف آنکھ اٹھا کہ مت دیکھنا"

"ہم اتنے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ چھٹانک بھر کی چھوکری کے ہاتھوں برباد ہوجائیں "

پیر نے اس کو ایک جھٹکے سے دھکا دیا جس کے باعث وفا بری طرح سے دیوار سے جا ٹکرائی ۔


"تم لوگ کافر ہو یزید بنے ہوئے ہو"

" سنا تم نے!!"

" تم انسان نہیں حیوان ہو جو عزت سے اپنے گھروں کا چولہا نہیں جلا سکتے حلال کی روٹی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نہیں کھلا سکتے ہو"

" تم لوگ یہ حرام کاموں کو کرکے اپنی قبروں کے لئے آگ دہکا رہے ہو"

"اسی گپت تہہ خانے میں تمہاری قبریں میں اپنے ہاتھوں سے بنائونگی "

" تم لوگ برباد ہو گے بلکل اسی طرح جیسے تم معصوم لوگوں کی عزت کا جنازہ نکال کے حرام کما کے خود بھی کھاتے اور اپنے سے منسلک عزیزوں کو بھی وہی ناجائز کہلاتے ہو"

" تم کیا سمجھتے ہو کہ تم لوگ عیش کروگی ہمیشہ؟ ؟؟"

" نہیں تم لوگ برباد ہو "

میرا خدا تم لوگوں کی رسی بہت جلد کھینچے گا اس دن تم لوگ سب نیست و نابود ہو جاؤ گے ۔"

"انشاءاللہ تعالیٰ"


وہ ہذیانی انداز میں چلائی جب کہ اس کا سردرد سے بری طرح سے چکرا رہا تھا دیوار سے چوٹ لگنے کے باعث سر پھٹاتو نہ تھا مگر سر میں درد کے باعث ٹیسیں اٹھ رہی تھی ۔


"میں اگر کافر ہو تو کیا بہت زیادہ عقل والے ہو تم لوگ ؟؟؟"

"کیوں اپنی جوان جہان بیٹیوں اور عورتوں کو میرے حوالے کر تنہا چھوڑ جاتے ہو ؟"۔

"میں اگر حرام کھاتا اور کھلاتا ہوں تو تم لوگ کون سے سے بہت پاک باز غیرت بند ہو؟؟"

" کیوں غیر مردوں کے پاس اپنی عزتوں کو نیلام کروانے کے لیے سرعام بھیج دیتے ہو آنکھوں پہ پٹی باندھ کہ؟ ؟؟؟۔۔۔"


پیر نے وفا کے تمام سوالوں کا خوب دیکر پیر سفاکی سے کہکہ لکاگہ ہنسا ۔


"پپو او میرے پوپٹ ذرا اپنا دیدار تو کرواؤ مجھے کہاں تھا تو اتنے دنوں سے ؟؟؟؟؟"

پیر نے زور سے آواز دی۔


"سائیں آپ نے یاد کیا اور میں حاضر "

"کہاں جاؤں گا سائیں میں تو آپ کے ٹکڑوں پہ پلنے والا غلام ہو"

" بس دو دن سے بخار میں پڑھا ہوا تھا اس لئے حاضری نہ دے سکا "۔

پپو نے گہری نظروں سے پان سے پیلے ہوئے دانتوں کی نمائش کی وفا کو دیکھتے ہوئے۔


"چلو اچھی بات ہے آج تم کام کے وقت موجود ہوں ورنہ یہ سارے ناکارہ تو بس پی پی کے پڑے رہتے ہیں ۔۔"

پیر نے پپو کو کہا جو کہ دو دن سے غائب تھا اور اب بھی پیر کے ایمرجنسی میں فون کرنے پہ وہ جیسے چراغ کی جن کی طرح دوڑتا چلایا ۔


پیر نے ایک کونے میں مرا تڑا پڑھا شیردل کو دیکھ کہ زور سے پیٹ پر لات ماری ۔شیردل ٹناری میں ہی بلبلا کر دوبارہ ٹن ہوگیا۔


دوسری طرف وفآ تھی جس کی آنکھوں میں حیرت کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن تھا پپو کو آزاد اپنے سامنے کھڑا دیکھ کے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔


"اس کاطلب پیر نے اس کو بھی آزاد کروا لیا تھا اپنے ذرائع استعمال کرکہ کسی نہ کسی طریقے سے" وہ سہم کہ سوچ کے رہ گئی تھی جبکہ پیر اب بھی پپو سے مخاطب تھا۔


"ہاں ہمیں پتہ ہے تم ہمارے وفادار ہو یہ سب نمک حرام اس وقت پڑے سورہےہیں رات بھر پہلے اپنی جسموں کی پیاس کو بھجاتے ہیں اور اس کے بعد پھر سینوں کو ٹھنڈا کرکے پڑے رہتے ہیں ناکارہ ہیں سارے کے سارے"

" ان کا تو کچھ نہ کچھ اب کرنا ہی پڑے گا ۔"


"آہو سائیں"

"فکر ہی نہیں کرو جب پپو دی۔ پوپٹ موجود ہے تو آپ کو کسی بات کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے"

"جب ہم ہے تو پھر غم نہیں سائیں ۔"

وہ عاجزی سے بولا۔


"ہاں ہاں ٹھیک ہے جاؤ"

" اس کو سب سے پیچھے والے کمرے میں بند کر دو جدھر کوئی بھی نہیں ہے اس کی عقل کو ٹھکانے لگائو اور پھر اس کے بعد ہم اس سے ملتے ہیں تفصیلی ملاقات کرنے کے لئے ۔۔۔"

"اس کنچے سے سب سے پہلے ہم کھیلینگے"


پیر نے وفا پہ اپنی غلیظ نظریں جمائی اور وفا کے گال کو چھونے کے لیے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا ہی تھا وفا نے جلدی سے پیچھے ہٹ کے حقارت سے پیر کو دیکھا اور اس کے اسی ھاتھ کو کھینچ کر اس پہ تھوک دیا ۔۔


"یہ ہے تمھاری اوقات مجھے چھونا نہیں تم جیسے غلیظ انسان کو میں اپنا وجود تھالی میں سجا کہ پیش نہیں کروں گی سمجھے" ۔

" مر جاؤں گی مگر تمہارے غلیظ ارادوں کو اپنے وجود سے پورا نہیں ہونے چاہیے ۔"


وہ اب اپنی جان سے کھیلجانے کہ در پہ تھی۔پرس میں رکھی چھری اٹھا کہ اپنی شہہ رگ کت قریب رکھی تھی جھٹ سے۔


'ارے او کٹونییییییی"

"تیری اتنی مجال کے تو نے پیر سائیں کے سامنے اتنی بڑی گستاخی کی!! چل اٹھ بلبل میں تجھے مزا چکھاؤں گا اب ۔۔"


پپو نے پیر کے آگے بڑھنے سے پہلے ہی وفا کے ہاتھ سے چھری جھپٹی تھی اور اسکو سنبھلنے کا موقع دئے بغیر اسکا پرس اپنے قبضے میں کیا اور مچھلی کی طرح غصے میں بے قابو پھڑ پھڑاتی ہوئی وفا کو اپنے شانے پر اوندھا ڈالا ۔

وفا کو اندر قطار میں بنے کمروں کی طرف شانے پہ ڈال کہ بڑھتے ہوئے مخاطب ابھی بھی وہ اپنے پیر سے ہی تھا ۔

وفا کی کسی قسم کی مزاحمت پپو کے حوصلوں کو پست نہ کر پا رہی تھی وہ بس پیر کے حکم کی تعمیل کرنے میں مگن تھا وفا کو لگا جیسے اب قیامت آنے کو۔


"ہاں اس کو لے جاؤ اور اس کی عقل ٹھکانے لاؤ ایسا نہ ہو کہ اس کو ہمیں دوسرے کام پہ لگانا پڑ جائے ۔"

۔۔

"پیر سائیں آپ بے فکر ہو جائیں یہ میری ذمہ داری ہے اب "

"میں اس کو بتاؤں گا کہ میں چیز کیا ہوں!!"

" آپ بالکل پریشان نہ ہو اس کو میں ٹھیک کردوں گا سارے قص بل اسکے میں نکال کے ہی دم لونگا ۔۔"


پپو خباثت سے ہنسا تھا پیر کو دیکھ کر۔

🌹

"کامل راک ، مہمل شاک"


'اووووووو۔ ۔۔۔۔۔"

"اس کا مطلب آپ رات میں بلکل نہیں ڈرتی ہو میری بہادر بیٹی ہونا؟ ؟؟؟"


"جی بابا جانی جاناں بہت بہادر ہے اور مہمی بہت ڈرتی ہےنا"

جاناں کی گوہر افشانی پہ مہمل کی تو سہی معائنوں میں عزت افزائی ہو رہی تھی جبکہ کامل تو جیسے آج جاناں کے ذریعے تمام رازوں کو جاننے پر تلا ہوا تھا چہرے پہ شریف سی مسکراہٹ رقصاں تھی ۔

"چلو جاناں ہم دونوں جو ہے نہ دادو جانی کے پاس چلتے ہیں آپ کے پھر وہاں جاکے ہم پھیلیں گے "


گھبراہٹ میں وہ کھیلنے کے بجاۓ" پھیلیں" بول گئی مگر ہم نے اس کا یہ جملہ بھی فوراً اچک لیا ۔۔


"نہیں جاناں بچے آج آپ لوگ نہیں پھیلینگے بلکہ جاناں آج آپ کھیلینگی دادو کے ساتھ اور میں پھیلونگا مہمی کو پھر محنت سے مجھے سمیٹنا ہوگا"

کامل نے مہمل کی طرف ایک دفعہ پھر زومعنی جملہ اچھالا۔وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہاں سے اب مکمل فرار ہونے کے طریقے سوچ رہی تھی پہلا پلان تو جانا نے بڑے مزے سے فلاپ کردیا تھا اب دوسرے پر اس نے بڑی ہوشیاری سے عمل پیرا ہونا تھا ۔


"کیا کہا جا رہا ہے ؟؟؟ کیوں بھائی دادی جان کی کیوں یاد آگئی ؟؟""

مزنابیگم تھال میں ناشتہ سجائے ملازمہ کے ساتھ دروازہ کھلا دیکھ کے پھر بھی ہلکا سا نوک کر کے اندر داخل ہوتے ہوئے مسکراہوئے پوچھنے لگی تے۔

مہمل نے ساس کو سامنے دیکھ کے جھٹ سر پہ ترتیب سے دوپٹہ اوڑھا اور ادب سے سلام کیا۔


"جیتی رہو ،خوش رہواور سدا سہاگن رہو اللہ تمہاری گود جلدی ہری کرے بچے"


مزنانے آگے بڑھ کے اس کو گلے سے لگایا اور ماتھے کو بوسا دیا۔


"آمین یا رب العالمین "

"آنین" جاناں نے بھی باپ کی ہاتھ اٹھا کے نقل اتاری ۔۔۔۔

کامل نے ہانک لگائی بہت زور سے آمین کہا تھا ۔جس پر مزنا اس کے شانے پہ چپت رسید کی اور محمل کو محبت پاش نظروں سے دیکھا جو بری طرح حیاء و خفت سے بلش کر رہی تھی ۔


"خبردار جو میری بیٹی کو پریشان کیا تو یاد رکھنا یہ پہلے میرے لیے اہم ہے اب! تم بعد میں دوسرے نمبر پہ آ گئے ہو بچے جی "


"یہ تو فاعول ہوگیا امی جان "

"یہ تو بہوووووت نہ انصافی اپنے کلوتر جگر گوشے کے ساتھ ہاااااااےےےےے"


"کامل یہ ٹھنڈی آہیں بھرنا بند کرو خبردار اب جو اول جلول کوئی بھی بات کی ہو تو "

"کان سے پکڑ کے کمرے سے باہر نکال دوں گی "


مزنا نے بیٹے کو گھوی سے نوازا جبکہ پوتی گود میں چڑھ چکی تھی اور اب اپنے گالوں پہ دادی سے چٹاچٹ تیار کروا رہی تھی ۔۔


"دادو آج آپ بھی مہمی اور میرے ساتھ ہی سووگی نا؟ ؟؟"


جاناں ایک دفعہ پھر شروع ہو چکی تھی مہمل تو جاناں کی بات سن کے اب مارے خفے کہ بے ہوش ہونے کو تھی۔

مطلب کامل کے بعد اب جاناں اس کو ساس سے بھی ہار پھول پہنانے کی تیاری میں تھی۔

جبکہ جاناں کی بات پر کامل نے پہلو بدلا خوشی سے اسکا دل بھنگڑا ڈالنے کو تھا اب اس سے اپنی ہنسی ضبط کرنا محال ہو رہا تھا ۔


"جیو میری دل گردی جگر پھیپڑی جانا بچے ۔"

وہ ہلکے سے بڑبڑایا مگر بڑبڑاہٹ اتنی اونچی درود تھی کہ مہمل بآسانی سن چکی تھی ۔جب کہ مزنا اگنور گئیں جانا کی باتوں کو اور مہمل کی طرف متوجہ ہوئی ۔


"او مہمل بچے تم اتنی سرد کیوں ہو رہی ہو طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری بچے ؟؟؟؟"


"مجھے دیکھ کر تو محترمہ ویسے ہی آپے سے باہر ہو کر سدھ بدھ کھو بیٹھتی ہیں اور آپ طبیعت کی بات کر رہی ہے؟؟ ۔۔۔۔"


کامل دل میں سوچتا مہمل کے قریب ہی بیڈ پہ جگا بنا کر بیٹھ گیا ۔۔


"تم دنیا کی سب سے حسین ترین بیوی ہو میری تمہارے حسن کوخراج تحسین بخشنا مجھ پہ فرض ہے ۔۔۔"

ماں سائیں کو دیکھ کے کامل نے موقع سے فائدہ اٹھا کہ بہت دھیمے لہجے میں سرگوشی کی تھی مگر اتنی بلند ضرور تھی کہ مہمل بآسانی سن سکتی تھی مہمل کا چہرہ یکایک گلاب کی پنکھڑی کی مانند سرخ ہو اٹھا وہ بے دردی سے اپنے لبوں کو دانتوں تلے کچلنے لگی جیسے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہی ہو مگر ماں سائیں کے سامنے یہ ناممکن تھا ۔۔۔۔


"مجھے لگتا ہے بلڈ پریشر لو ہے ۔۔۔۔۔"

کامل کسی ماہر طبیب کی طرح مہمل کا یخبستہ ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں قید کرتا اس کے بوکھلائے اور سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولا ۔۔۔


نن۔۔۔نئ ماں سائیں میں بالکل ٹھیک ہوں بس صبح کا ناشتہ نہیں کیا تھا اس لیے شاید طبیعت کچھ نڈھال ہے۔ ۔۔"

وہ سٹپٹا کہ جلدی سے گویا ہوئی ہتھلیوں میں پسینہ پھوٹ پڑا تھا۔ کامل کی بڑھتی ہوئی شوخیاں اس کا دل بند کرنے کو تھیں۔


"اے بیٹا تجھے کیسے پتا کہ دھی رانی کا بی پی لوہے؟؟؟ "

ماں سائیں حیرانی سے گویا ہوئیں جبکہ محمل کا دل چاہا کہ وہ کسی طرح کامل کی بولتی نظروں سے اوجھل ہو جائے ۔۔


"وہ کیا ہے نا کہ میری موجودگی میں میری زوجہ محترمہ کا بی پی ھمیشہ لو ہی رہتا ہے ۔۔۔۔۔"

ابھی کمرے میں ہنسی مزاح کا ماحول پیدا ہوا وا تھا جب ملازمہ نے آکے روح فرزا خبر سنائی وہاں موجود سب نفوس کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

حویلی میں شور مچ چکا تھا کہ وفا غائب ہے ۔

کامل اور جابر پاگلوں کی طرح وفا کی تلاش میں ادھر سے ادھر نکلے ہوئے تھے۔

تائی اور دادی بیگم۔ نے الگ ہی واویلامچا رکھا تھاجبکہ مزنا جائےنماز بچھائے بس وفا کی عصمت اور عزت کی بقاء کیلئے دعائیں کر رہی تھیں ۔

مہمل بھی پریشان سی مزنا کے پاس بیٹھی تھی ۔

وفا کی گمشدگی کا بھی الزام دادی اور تائی بیگم نے اسکو ٹہرادیا تھا ۔

مزنا کے کمرے میں جاناں کو ساتھ لگائے وہ وفا کی خیریت کی دعا کرنے میں مشغول تھی اپنے رب کے حضور جانتی تھی ابکی بار اسکی سزا زندہ درگور ہونا ہوگی تائی بیگم نے تو حویلی کی پچھلی طرف موجود قبرستان میں اسکیلئے قبر تک کھدوادی تھی۔

مزنہ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وفا کے گھر والوں کو ابھی تک وفا کی گمشدگی کی خبر نہ دی گئی تھی ۔اسکے ماں باپ کو انہی کی بیٹی کی بابت بتایا نہیں گیا تھا ۔

🌹🌹🌹🌹

"امید بھابی آپ یہاں رہیے میرے پاس میں آپ کا بھائی ہوں میں آپ کا خیال رکھوں گا آپ فکر نہیں کریں میں آپ کا ہمیشہ ساتھ دوں گا ۔"

امید کو اللہ تعالی نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا مگر اس کی پیدائش کے بعد وہ بیمار رہنے لگی ٹیسٹ کروانے کے بعد رپورٹس میں پتہ چلا کہ اس کو ایڈزہو چکا ہےاور یہ کافی عرصے سے ہے جس کی پکڑ ڈاکٹرز نے اب کی تھی وجہ امید کی لاپروائی تھی وہ اپنی خرابی طبیعت کے باوجود بھی پوری پریگنینسی میں ایک دفعہ بھی ڈاکٹر کے پاس نہ گئی بس ڈیلیوری کے ٹائم کامل اس کو لے کر گیا تھا اور جاناں کو لیکر کر وہ دونوں واپس آ گئے تھے امید نے اس وقت بھی اپنا کوئی ٹیسٹ نہ کروایا بس جو ضروری ٹیسٹ تھے اسکے وقت وہی ہوئے ۔

جاناں کا خیال بھی کامل نے رکھا تھا اور امید اب بھی زندہ تھی مگر وہ ابراڈ میں ہی ہسپتال میں زیر علاج تھی۔

جس کا خرچہ کامل پابندی سے ہرماہ بھرپور بھیجتا رہتا تھا اور اب اس کا ارادہ تھا جانا اور محمل کو ساتھ لے جا کے امید سے ملوانے کا مگر۔۔۔

"وہ یہ راز ہمیشہ راز رکھے گا کہ جاناں اس کی بیٹی نہیں ہے امید کا تعارف وہ مہمل۔ سے ایک دوست کی حیثیت سے کروائے گا وہ یہ سوچے بیٹھا تھا ۔"

کیونکہ یہ وعدہ اس نے امید سے لیا تھا کہ وہ اس بات کو تاعمر نبھائے گا اور جب تک جانا کو اس کا ہمسفر نہیں مل جاتا تب تک چاہے تو وہ یہ راز راز رکھے ورنہ شادی کے بعد اس کی بتا دیں مگر کامل کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹

یار شاہ زمان بہت بڑی بڑ ہوگئی ہے وفا گمشدہ ہے صبح ہمیں پتہ چلا ہے اور اس کا اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا صبح سے شام ہو چکی ہیں ۔۔

جابر نے شازمان کو فون ملایا ۔

اس کو نکلنا بھی خود ہوگا ۔

شازمان نے جابد کو کہہ کے فون بند کیا کیونکہ دوسری طرف ایک اور کال آرہی تھی اسی سلسلے میں۔ 

"چھوڑو مجھے درندے ،ذلیل انسان"

وفا بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس کے اوپر جھپٹی تھی خود کو چھڑانے کے لیے ۔بس نہیں چل رہاتھا کہ پپو کا منہ نوچ لے۔


اوہو اک تو تم مجھے اتنے پوپٹ قسم کے ناموں سے پکاروگی تو میں پیر سے پہلے ہی تمہارا شکار کرلونگا"

وہ بے ہنگم کہکہ لگاکہ زور سے ہنس دیا ۔وفا کو جھر جھر ی سی چھو گئی دل میں وہم و وسوسوں نے یکدم ڈیرہ جمایا لیکن پھر یکدم کہیں دور سے اسکے باپ کی بھلی سی آواز گونجی تھی اسکے کانوں میں۔


"عزت اور زلت دیناصرف اللہ رب العزت کا کام ہے!

کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے ہم برباد یا پھر آباد نہیں ہوسکتے" ۔


" میری بلبل تم خود پنجرے میں قید ہونے رات اندھیرے میں آسمان سے اترتی چلی آئی ہو زمین تک تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟؟؟؟"


"میری جھولی میں تو خود کسی پکے ہوئے پھل کی طرح تم آکے گری ہو" ۔

"اب بس مجھے اس پھل کے کھٹا میٹھا ہونے سے لطف اندوز ہونا ہے"


پپو نے وفا کو سامنے رکھے سنگل بیڈ پر زور دے پٹخا تھا اور خباثت سےمسکرانے لگا اوراس کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ واقعی کوئی پھل ہو اور اب پپو کو اس سے بھرپور انصاف کرنے کے لئے دے دیا گیا تھا ۔


"تمہارے پروں کو کاٹنے وقت بہت وریب آچکا اور کیا ہے نہ کٹونی!! اب ایسا کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے "


وہ ایک قدم بڑھاتا اس کی طرف بڑھا مگر وفا اس قدر بے خوف ہو چکی تھی کہ اب اس کو پپو کی جان لینے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔۔۔


"تم میرے پروں کو کیا کاٹو گے؟؟"

" میں تم سب کو جیل کی سلاخوں میں پہنچ واکر ہی سکون کا سانس لونگی "

"میری موت سے پہلے تم سب کو مروا کہ ہی موت کو گلے لگائونگی"

" اور وہ ایسی دردناک موت ایسی موت دلوانگی کہ تم جیسوں کی روح تک کانپ جائے گی سن کہ"


وہ انگشت شہادت بلند کرکے بولی آنکھوں سے اسکی غصے کے شرارے پھٹ رہے تھے ۔

خیال تھا تو بس باقی کمروں میں قید معصوم زندگیوں کو بچانے کا مگر تمام تر بند ہوچکے تھے لیکن اس کے پاس ایک سہارا موجود تھا وہ تھا خدا کا جس پر اس کو مکمل یقین تھا کہ وہ کبھی اس کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا اپنی عزت و عصمت کی حفاظت اس نے یہاں آنے سے پہلے ہی اپنے رب کی سپرد کر ڈالی تھی۔

تو بھلا وہ کیسے اس کی حفاظت نہ کرتا ۔۔۔!!


"پہلے خود تو بچ کے نکل جاؤ میری بلبل میرے پنجرے سے"

وہ اس کے اوپر جھکا ۔


"تم دعا کرو کہ میں بچ کے نہ نکل سکوں ورنہ تم سب رات دن مروگے "

"بھیک منگواکہ ر ہوگی میں تم لوگوں سے تمہاری موت کے لیے ۔"


وفا کی اس قدر بے خوفی سے بات کرنے سے پپو نے ایک ہی جست میں اپنے ایک ہاتھ سے وفا کے جبڑے کو دبوچا تھا اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں اس کے بالوں کو ۔


"لڑکیوں کو ایک حد تک بہادر ہونا چاہیے ورنہ اس سے آگے پپو دی پٹ کا کام شروع ہوتا ہے ۔"

وہ مکمل پپو کے حصار میں تھی ۔


وفا یکدم بے طرح کھانسی اٹھی تھی۔

ایک تو پپو کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ تکلیف سے دوری ہوگئی تھی جبکہ اس کے منہ سے اٹھتی ناگوار بدبو وفا کے نتھنوں سے ٹکراتے ہی وفا کو ایسا لگا تھا جیسے کہ وہ بے ہوش ہو جائے گی ۔پپو اس ناقابل فہم تاثرات چہرے پہ سجائے اس کے اس قدر قریب ہو چکا تھا کے اس کے وجود اور منہ سے آتی بدبو وفا کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی ۔


"دور ہٹو مجھ سے خبیث انسان تمہارے جسم سے اٹھتی غلیض بدبو اس بات کی گواہ ہے کہ تمہارا پسینہ بھی تمہیں قبول کرنے سے انکاری ہے"


وہ چہرے کو پیچھے کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پپو کے ہاتھوں میں بال بری طرح سےجکڑے ہونے کے باعث یہ ناممکن تھا ۔۔


ہاہاہا۔۔۔۔۔!

" آب اپنی تعریف کیا ہی کروں میں میری چھمو جانیمن!! ابھی جس سے تم ملی ہونا باہر ،اس پیر سے بھی دس گناہ زیادہ حرامی ہو میں "

"یہ سمجھ لوتمہاری سوچ سے کہیں زیادہ ۔"

" کمہنے مرے تھے تب میں ایک پیدا ہوا تھا ۔"


پپو کی آنکھیں شدید سرخی مائل ہورہی تھیں جبکہ بھینچے ہوئے لب مزید جامنی رنگت اختیار کر گئے تھے۔


"تم سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے میری عزت کا جنازہ نکالنا چاہتے ہو نہ؟؟؟ پہنچو تو ذرامجھ تک پہلے"۔

"تم سمیت تمہارے اس پیر کا ٹیٹواں نہ مروڑ دیا تو میرا نام بھی وفا نہیں ۔"


وہ کسی قسم کے بھی دبائو میں آئےبغیر بس آر یا پارکرنے کے موڈ میں تھی ۔۔


"آج وقت تمہارے ہاتھ میں ہے نا؟؟؟؟"

"وقت ہی تو ہے بدل جائے گا!!"

"بہت جلد۔۔۔۔۔۔۔۔!"

"آج تمہارا ہے کل میرا ہو گا "

"انشاءاللہ ۔۔"

"پھر پوچھوں گی تم سے تمہاری اوقات !!یہ وفا کا وعدہ ہے اور میری جو قسمت میں لکھا ہے نہ وہ میرے ساتھ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ میرے خدا کا وعدہ ہے ۔۔۔"

"اگر میری موت آچکی ہے تو مجھے آ جائے گی میرے ساتھ کچھ بھی برا ہونا ہے تو وہ ہوکر رہے گا"

" کوئی بھی مجھے چاہ کر بھی بچا نہیں سکتا اور اگر میرے ساتھ کوئی بھی برا نہیں ہونا تو ۔۔۔۔۔۔۔"

"تم جیسے اگر سینکڑوں بھی آ کر کھڑے ہو جائے نہ تو میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔۔"


"پھر میں پوچھوں گی تم سے تمہاری اوقات ۔"


وہ جنونی انداز میں چیخنے چلانے پہ آ چکی تھی اور اتنی زور سے دھاڑرہی تھی کہ پپو کو پورا یقین تھا کہ اس کی چیخ چلانے کی آوازیں کمرے سے باہر تک جا رہی ہونگی اور وہ یہی چاہتا تھا ۔۔


"رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے ۔"

"میری بلبل آپس کی بات ہے اوقات تو کتوں کی بھی ہوتی ہے وہ پپو کی تو عزت ہے عزت ۔!!!"

"درد تو نصیب سے ملتا ہے جان من !!

"اوقات تو فلحال تمہاری بھی مجھے تڑپانے والی نہیں ہے"

"ہاہاہ"


وفا کی بیوقوفی اور جنونی انداز پپو کو بہت کھلا تھا وہ باہر جانے کے بجائے اندر ہی زمین پر چوڑا ہو کے لیٹ گیا اب صرف اسکی نگاہیں وفا کا ایکسرے کرنے میں مصروف تھیں جب کہ وفا اپنی فرار کے راستے تلاش کر نے میں مصروف ۔

پر س بھی پپو نے اپنےسر کے نیچے تکیے کی طرح استعمال کیا ہوا تھا جس میں وہ اپنے تمام حفاظتی اوزار حویلی سے لے کر نکلی تھی ۔

❤❤❤


کیا کر رہے ہیں یہ آپ لوگ ؟؟۔

کیو میری بیوی کو اپنی عدالت کے لٹھہرے میں کھڑا کر رکھاہے؟؟؟؟؟


وہ مہمل کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے چابک سے مار کھاتادیکھ کہ بھاگتا ہوا حویلی کے پچھلی طرف بنے قبرستان کے سامنے بنے بڑے سے باغیچے میں ڈوڑتے ہوئے آیا آنکھیں حیرت و ازیت کے باعث سرخ ہوئیں سامنے وفا کہ نام کہ کھودی قبر دیکھ کر۔


"اسنے بھگایا ہے اس شہری کڑی کو "

دادی سائیں تنفر سے گویا ہوئیں


"یہ کیوں ایسا کریگی اسکو کو کتنی رکعت کا ثواب ملے گا ایسا کرکہ"

کامل کے بجائے جابر دھاڑا۔

"اس بے زرر سی لڑکی کو بربریت کا نشانہ بناکہ کیا حاصل ہوگا آخر بابا سائیں۔ ۔۔؟؟؟؟"


جابر شور سن کے بھاگتا ہوا آیا تھا گیراج کی طرف سے اپنی گاڑی پارک کرکہ اور اب عالم اشتعال میں باپ سے مخاطب تھا۔جبکہ کامل نے مہمل کو اپنی پشت کے پیچھے پناہ دی ۔


"ایسےجیسے مہمل سے پہلے اس کی لاش پہ سے سب کو گزنا پڑے گاتب جاکہ کہیں مہمل کی زات تک پہنچ سکتا تھا کوئی بھی۔ "


"کامل آغا مجھے بچالیں میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے"

وہ اسکا کوٹ اپنی مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے گویا ہوئی حیسےاس کی پناہ میں چھپنا رہی تھی ۔۔


"کامل تم بیچ میں مت آئو۔ ۔"

دادی بیگم نے تنبیہی انداز میں کرختگی سے کہا۔


"میں بیچ میں کیسے نہ آؤں ؟؟؟میری بیوی ہے یہ اس حویلی عزت ہے "

وہ غصے سے پھٹ پڑا ۔


"تو کچھ بولتی کیوں نہیں بتا کہاں چلے گئی وہ لڑکی ۔؟ "

"تونے ہی مددکی ہوگی مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہے۔ ۔"

تائی بیگم نے مہمل کو حقارت سے دیکھ کہ کچھ اس طرح سے پیچھے سے وار کیا نا محسود انداز میں کہ مہمل کو بالوں سے پکڑ کہ اسکا سر دیوار پہ دے مارا۔

بتا نہیں تو تجھ سمیت تیری ماں کا بھی سر قلم کروادینگے۔ ۔۔۔۔"

تایاسائیں بے رحم ہوئے۔


" بس کریں آپ لوگ انتہا ہوگئی ہے ظلم کی بخش۔دیں اس معصوم کو ۔۔۔"


کامل کا جیسے ضبط جواب دے گیا تھا ۔مہمل کی پیشانی سے اب باقاعدہ خون رس رہا تھاوہ محمل کو اپنے بازو میں اٹھائے اندر کی طرف بڑھتے ہوئے چلایا ۔


"مم۔ ۔۔مجھے نہیں پتہ میں ک۔۔کک۔۔۔کچھ نہیں جانتی۔ ۔"

میں نے کامل کے کوٹ کو سختی سے پکڑا ہوا تھا جب سامنے سے دادی بیگم آکر راستہ روک کے دونوں ہاتھ ہوا میں معلق کیے کھڑی ہوگی ۔


"کوئلہ لائو اچھے سے دہکا کر ۔جب اس لڑکی کی زبان تلے سلگتا ہوا کوئلہ رکھا جائیگا یہ تب ہی بولے گی۔ ۔۔"""

۔دادی بیگم نے فرمان جاری کیا۔ ۔۔


"رحم کریں اس پہ یہ مرجائیگی۔ ۔۔"

"میری بیوی پہ ابھی کوئی جرم عائد نہیں ہوا ہے اور جب تک میری بیوی کے اوپرکوئی جرم عائد نہیں ہوجاتا میں کسی کو بھی اس کے قریب آنے نہیں دوں گا اور میں جانتا ہوں یہ مجرم نہیں ہے اور جس دن یہ پتہ چلا کہ مجرم یہ نہیں ہے اس دن پھر جو سزا میں دوں گا اس کے مستحق آپ سب لوگوں ہونگے "


کامل نے غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے بے لچک لہجے میں کہاں ۔


بہتر ہے کامل تم اس وقت تم وفا کو تلاش کرو۔ ۔"

تائی بیگم نے ارشاد فرمایا جو کامل کو مزید آپ کے شعلوں کی لپیٹ میں لے گیا ۔

"وفا کو تلاش کرنےکیلئے میں نے پورا ملازم لگا دیا ہے اور جابر نے اپنے چینل سے منسلک کافی لوگوں کو اس کام پے لگا چھوڑا "

"ابھی میری بیوی کو میری ضرورت ہے اس کو آپ لوگوں نے جتنا زخمی کرنا تھا کر چکے اب مرہم لگانے دے مجھے "

وہ ر کا نہیں تھا ممل کو کمرے کی طرف لے کر تنفر کرتا بڑھ چکا تھا ۔

"افسوس ہوتا ہے مجھے آپ سب لوگوں کی ذہنیت پہ"

جابر نے تاسف بھری نظر وہاں موجود سبھی نفوس پر ڈالیں اور اپنی جیپ کی طرف واپس بڑ گیا اب اس کو شاہ زمان سے ملنا تھا ۔

❤❤❤

" یار جابر میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ وہاں موجود تیری کزن اور باقی لوگوں کو بھی با حفاظت نکال سکنے کی مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اگر صرف وہاں سے وفا کو نکالتے ہیں تو باقی لوگوں کو پھر ہم آزادی نہیں دلوا سکتے اور یہ لوگ مزید شیر ہو جائیں گے ۔"

"جانتا ہوں وفا نے بہت بڑی غلطی کی ہے مگر میں نے تو اس کی حفاظت کے لیے مزار کے گرد اپنے بندے تک کھڑے کئے تھے"

"وہ تیری بات درست ہےجابر مگر اس کی ایک بیوقوفی ہم سب کو سمیت وہاں موجود لڑکیوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے ۔"

"وہ بیوقوف لڑکی اپنے آپ کو نجانے اتنا اونچا کیوں سمجھ نہ لگی کہ پیر کے آستانے رات کو نکل گئی جابر رہنے دو بہت جرت مند لڑکی ہےوہ روز اول۔ سے میں اسکو وارن کر رہا ہوں ۔"

"وفا سےاس دن پتہ چلا کہ وہ تیرے علاقے کی ہی لڑکی ہے اور پھر تیرے ڈرائیور سے تمہارا لوگوں کا نام جان کر مطمئن ہو گیا لیکن جب اس کو دوبارہ آستانے پر دیکھا تو میرا دماغ گھوم گیا کیونکہ یہ باز نہیں آرہی تھی یہ نقصان اس نے اپنی قسمت میں خود لکھا ہے"۔

حد یہ کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے مکمل رابطے میں رہے اس پورے مشن کو لے کے مگرسارا کام خراب کردیا صرف وفا کے ایک چھوٹے سے غلط قدم نے"

"یار تو تو ایسا نہ کہو "

"تو تو میڈیا کا خوف یہ بندہ ہے وہاں پر موجود تیرے 7 تیری پوری ٹیم ہے پھر تو کیوں ایسا کہہ رہا ہے تیرا تو کام ہی اس طرح کے کاموں میں ٹانگ اڑا کے خفیہ اڈوں تک پہنچنا اور راز فاش کرنا ہے ۔"

"تو میرے چینل" آگہی "کا ہیرو ہے جس کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا نہ کوئی تیرا چہرہ پہچانتا ہے۔"

"جابر تو ٹھیک کہہ رہا ہے مگر پوری پلاننگ کے تحت اب آگے کا لائحہ عمل طہ کرنا ہے ہوسکتا ہے کئی جانیں بھی جائیں پہلے کبھی کسی نے اتنی دیدہ دلیری سے میرے کاموں میں ٹانگیں تو نہیں اڑائی ہے اس لیے آپ کا کیا میرے مشن سارے کامیاب رہے مگر اس دفعہ تیری کزن نےسارا کچھ ستیاناس مار دیا میری پوری پلاننگ کوتبہا کر چھوڑا ہے اس نے "

❤❤❤❤

"میرے اللہ مجھے آخری دفعہ میری بیٹی کو دکھا دے میں اس کو دیکھنے کے بعد سکون سے سو جانا چاہتی ہوں ہمیشہ کیلئے مگر میری آنکھ بند ہونے سے پہلے صرف ایک دفعہ تو مجھے میری بیٹی سے ملا دے "

امید کی آخری سانس لک چل رہی تھی وہ وینٹی تھی مگر بس اپنی بیٹی کا دیدار کرنے کے باعث موت اور اس کے درمیان صرف خواہش اک اٹکی ہوئی تھی

وفا کا دم گھٹ رہا تھا مگر پپو کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ خود کو چاہ کر بھی آزاد نہیں کر پا رہی تھی ۔

اب ایک ہی حل باقی بچا تھا اپنی عزت کو بچانے کے لیئے و فا کے پاس اسکے علاوہ اسکے پاس دوسرا کوئی آپشن ہی نہ رہا تھا۔


"میں کہتی ہوں مجھے چھوڑ دو ۔"

وہ اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی سر توڑ کوشش کررہی تھی۔


"چھوڑنے کے لئے تو اتنے پاپڑ نہیں بیلے میری بلبل "

"آج تو میری رات چاندنی ہےسوہنیووووووو"۔۔۔۔

پپو کی ڈھٹائی عروج پہ تھی۔


" آخری دفعہ کہہ رہی ہوں چھوڑ دو مجھے نہیں تو آگے کے لیے تم خود ذمہ دار ہو گے"

وفا کا لہجہ تمبیہی ہوا۔


"آج نہ چھوڑیں گے تجھ کو دھن دھنا دن۔"

وہ بلبلا کے پیچھے ہٹا اور منہ پہ ہاتھ رکھے وہ بری طرح کراہتے ہوئے اپنی چیخ روکنے کی ناکام کوشش کر نے لگا۔


وفا نے وار ہی ایسی جگہ کیا تھا کہ وہ زبط کے کڑے مراحل تے کرنے پہ مجبور تھا۔


"ہائےےےےےےےبڑا ظلم ہوگیا یہ توتم پہ پپو دی پوپٹ"

وہ چیرے پہ مصنوئی فکرمندی سجائے پپو کےزخموں پہ نمک چھک رہی تھی۔


"چچ۔ ۔۔۔۔چچچ نہ کسی کوبتا سکتے ہو اور نہ دکھا سکتاہو اور تو اوربے بسی کی بھی انتہا یہ ہے کہ کھل کے چیخ چلا بھی نہیں پا سکتے ہائے ویری سیڈ۔ ۔۔۔۔۔۔"

"ویسے درد زیادہ تو نہیں ہو رہا نہ؟ ؟؟؟؟؟"

وفا کہتےکے ساتھ ہی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ ہونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ لیے کھڑی تھی ۔


"نہیں بلکل نہیں تمہارے چھکا لگانے کے بعد تو میرا اپنی عظیم کامیابی پہ لڈیاں ڈالنےکو دل چاہ رہا ہے"۔

وہ دانت پیس کے بولا


"میں نے کہا تھا نہ کہ مجھے چھوڑ دو مگر تم نے شاید مجھے بہت حلقہ لے لیا تھا "


"چچچچچچ۔ ۔۔چچچچچچ"

وہ درد سے بلبلاتے گھٹنوں کے بل بیٹھے پپو کے ارد گرد چکر کاٹتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے فرضی ریت جھاڑتے ہو ئے بولتی پپو کو مزید سلگا گئی لیکن پپو اسکو مزید سخت سست سنانے کے بجائے لب بھینچے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔

۔

"وفا سے پنگا از ناٹ چنگا پپو دی چرسی "

وفا کا خود پہ اعتماد اور اطمینان قابل دید تھا۔


" تم سے میں ایک ہی دفعہ نمٹونگا،

سارے حساب برابر ایک ہی دفعہ ہوں گے تم سےتھوڑا انتظار کرو بس"


وہ غصے کے مارےتکلیف سے کراہنے کے باوجود اس چلتی پھرتی آفت کی پرکالا کو خونخوار نظروں سے گھورنا نہیں بھولاتھا ۔لہجے میں حد درجہ سنگینی لیے وہ اس نا جانے کیا جتا رہا تھا ۔


"ٹائم پاس ہی کرنا تھا تو کوئی گیم کھیل سکتے ہو مگر میں نہیں !!"

" ہوا کی بیٹی ہوں کھلو نانہیں تمہارا ۔"

"ہاتھ لگاؤ گے تو توڑ دوں گی "

"قریب آؤ گے تو ٹھوک دوں گی ۔۔"

" عملی مظاہرہ تو ابھی تم میری جرت کا دیکھ ہی چکے ہو!! کہو تو ایک دفعہ پھر سے ہو جائے ۔"


وفا کا اتنا کہنا تھا اور پپو یکدم تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔


" مہربانی تمہاری بہت مت کرو میری فکر"

وہ تیش میں آ کر بولا ۔اب خود کو کافی حد تک سنبھال چکا تھا اور وفا سے ہوشیار بھی ہو گیا تھا ۔تب ہی کمرے کا دروازہ بجا تھا۔


پپو نے بازو سے چہرے پہ آیا پسینہ صاف کیا اور وفا کو سختی سے چپ رہنے کا اشارہ کرکے دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا ۔


"کیا ہے کیوں آئے ہو "

سامنے شیردل کو دیکھ کہ پپو کا حلو تک کروا ہوگیا۔


" سب ٹھیک سے چل رہا ہے نہ ہے؟ ؟؟ اپنی کوئی مدد چاہیے تو گجر حاضر ہے تیرا"

بتیسی کی نمائش کی گئی جبکہ چہرے پر خباثت ٹپک رہی تھی ۔


"اپنی راہ لے اور اب اگر آیا تو تیری یہ بتیسی میرے ہاتھ میں ہوگی"

پپو نے ایک نظر کوریڈور میں ڈالی اور شیردل کے منہ پر زور سے دروازہ بند کردیا ۔


"روکا کیوں اس کو بھی آنے دیتے ایسی تواضع کرتی کے ساتھ پشتیں نہیں بھولتیں اسکی بھی تمہاری طرح"

وفا نے کافی زور سے کہا لیکن پپو تیزی سے اس تک پہنچا تھا اور اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ کے مزید بولنے سے روکنا چاہا مگر اس دفعہ وہ کافی حد تک محتاط تھا ایک دفعہ تو سنبھل گیا دوسری دفعہ کا کاری وار سہنے کی اس میں فلحال ہمت نہ تھی ۔


"اب کچھ مت بولنا بس خاموش رہو "

وفا کی پھٹی آنکھ کی پرواہ کیے بغیر دروازے کے نیچے سے جھانکتی جھری میں سے وہ کسی کا عکس دیکھ چکا تھادروازہ کے باہر۔۔۔


"پپو نے اپنی جیب میں سے جلدی سے موبائل نکال کے فل والیم کھولی تھی ۔

وفا منہ پہ پپو کا ہاتھ ہونے کے باعث کچھ بھی پوچھنے سے قاصر تھی مگر پپو کی ساری کاروائی کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔


فل والیوم میں چلتی آڈیو کلپ میں سے کسی لڑکی کی بری طرح ریپ ہونے کے باعث چیخیں گونج رہی تھی پورے کمرے میں وہ اتنی نہ سمجھ تو نہ تھی کہ پپو کے اس عمل کو سمجھ نہیں سکتی۔


" یعنی یہ شخص باہر یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ میرا ریپ ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!"

"افففففف"


وہ اس سوچ کے زہن میں آتے ہی سن سی رہ گئی پپو اس کی آنکھوں میں کئی سوالات پڑھ چکا تھا

"میں تمہارے چہرے سے ہاتھ ہٹا رہا ہوں مگر تم چلاوگی نہیں "

'

پپو نے تنبیہی انداز میں کہتے ہوئے اس کے لبوں سے اپنا ہاتھ ہٹایا ۔


"کون ہو تم؟؟؟ "

وفا کے لہجے میں تجسس تھا۔


"تمہارا محافظ "

وہ کمال اتمینان سے گویا تھا۔


"کیوں بچانا چاہتے ہو"۔

حیرت و بے یقینی سے استفسار ہوا اسکے اندر چھناکے سے کئی یادیں تازہ ہوئیں پپو سے اب تک کی جن میں یہ مناظر بہت واضح تھے کہ پپو نے ہر دفع اس کو کسی نہ کسی طرح باتوں میں الجھائے رکھا پیر سے ملنے نہ دیا تھا"


" یہ سمجھ لو کہ میں اپنی زندگی کو بچا رہا ہوں تم پر کوئی احسان نہیں کر رہا''

" تو کیا میں یہاں سے آزاد ہو جاونگی؟ ؟"

" میں تمہیں یہاں سے باحفاظت نکال دوں گا ۔۔"

'کیا یہ اتنا آسان ہوگا کہ تم مجھے یہاں سے باہر نکال سکو؟""

"اللہ نے چاہا تو ضرور"

" کچھ ہی دیر میں یہاں موجود سب ھی لوگ نشے کے باعث دھت ہو کہ پڑ جائیں گے اس وقت میں تمہیں یہاں سے آزادی دلوا دوں گا باہر کا سارا انتظام کر رکھا ہے ۔"

"تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے ۔؟؟؟"

"یہ سب جاننے کا تمہارا ابھی وقت نہیں آیا ۔"

"یہ لو تمہاری چادر "۔

وہ اس کے تن کو اچھی طرح چادر سے ڈھانپتے ہوئے مزید گویا ہوا ۔

"خطروں سے کھیلنا دلیری کی علامت ہے مگر جب تک خطروں کا خود کو عادی نہ بنا لو تب تک خطروں سے کھیلنا بیوقوفی ہے ۔۔۔"

"یہ تو میری چادر پیر نے اپنے پاس دن رکھی تھی ۔۔۔"

وفا نے جیسے پپو کی باقی کہی بات کو ان سنی کر کے اپنی چادر کی بابت استفسار کیا ۔۔

"تمہاری کوئی بھی چیز میں نےادھر سے ادھر نہیں ہونے دی ہے یہ تمہارا موبائل اور بیگ ہے ۔۔"

"اور اس میں موجود ویڈیو میں نے اپنے پاس بھی محفوظ کردی ہے"۔

وہ چونکی تھی۔جس لہجے میں وہ اس سے اس وقت ہم کلام تھا ۔وفا کو لگا جیسے وہ اس لہجے کو پہلے بھی سن چکی ہے ۔

وہ اب بھی کافی حد تک محتاط اور اتنا آزاد نہ تھا کہ وفا بالکل ٹھیک ٹھیک سے اس لہجے کو پہچان سکتی مگر پھر بھی اس کو چونکا گئی تھی پپو کی آواز ۔


وہ اب مسلسل موبائل پہ کسی سے ہلکی آواز میں بات کر رہا تھا ۔


"سب تیاری مکمل ہے ؟؟؟"

"سہی بس 15 منٹ کے اندر اندر باہرملاقات ہوگی لیکن اگر پندرہ منٹ سے ایک لمحہ بھی گزرے تو انتظار مت کرنا اور کود پڑنا ۔


وہ کسی کو ہدایت دے رہا تھا ۔


"چلو "

وہ اپنی ہتھیلی پھیلائے اس کا منتظر کھڑا تھا۔


" میں تمہارا اعتبار کیسے کر لو "

وہ ششوپنج کا شکار ہوئی۔


"جب یہاں تک کا سفر بے خوف و خطر پورا کر ہی لیا ہے تو ایک رسک تو اور لےہی سکتی ہو ۔۔"


"میرا اللہ نگہبان ۔"

وفا نے کہہ کر اوپر دیکھا اور گہرا سانس لے کر اپنا مرمری ہاتھ پپو کے ہاتھ میں دے دیا ۔


" اور اب آواز مت نکالنا سانس بھی ایسے لینا کہ تمہارا دھڑکنوں تک کو خبر نہ ہو سکے ۔"


پپو نے ایک ہاتھ سےجیب میں رکھی گن نکال کے لوڈ کی اور کمرے کا دروازہ کھول کے وفا کے وفا کےساتھ دبے پیر باہر نکلا ۔

باہر کی صورتحال حسب توقع تھی۔


"مجھے ان معصوم لوگوں کو بھی تو آزاد کروانا ہے" وہ بہت دھیمی آواز میں بولی۔


وہ ان بند کمروں کی طرف سے گزرتے ہوئے بولی جہاں آج بھی معصوم جانے قید میں تھیں ۔۔


"تمہاری رہائی ان سب کی رہائی کی ضامن ہے"۔۔۔

وہ گھمبیر میں بولا ۔


ابھی وہ لوگ لانچ میں آئے تھے کہ نہ جانے کہاں سے تبریز نےوفا کا پیر پکڑ لیا۔

وفااس افتاد کے لئے تیار نہ تھی یکدم گرنے ہی والی تھی جب پپو نے اس کو یکدم بازو سے تھاما ۔۔۔


"آستین کا سانپ ہے تو اچھا ہواشیر دل نے مجھے اور پیر صاحب کو محتاط کردیا تھا پہلے ہی ۔۔"


وہ ابھی بول ہی رہا تھا جب پپو نے گولی چلائی تھی جو کہ تبریز کے ٹھیک گھٹنےپہ جا کے لگی ۔


"اسی پیر کوچھوا تھا نہ تو نےوفا کے؟؟؟ اب اس کو پکڑ کے بیٹھا رہے ساری زندگی ''


وہ اب پسٹل تانےآگے بڑھ رہا تھا وفا کا ہاتھ اب بھی اس کی گرفت میں تھا ۔۔


گولی کی آواز سن کر بہت سارے پیر کے کارندے جو کہ کچھ نشے میں دھت تھے اور کچھ ہلکے پھلکے نشے کے باعث ہوش و حواس میں تھے۔

ان دونوں کی طرف بڑھ رہے تھے شیر دل بھی ان میں شامل تھا۔

شیر دل نے وفا کی طرف گن لوڈ کی ہی تھی جب پپو نے ایک فائر کیا جوکہ تبریز کے شانے کو چھو کے نکل گیا ۔


"اب پپو کی نظر گھڑی کی طرف اٹھی تھی ان کو پندرہ منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا اس کا مطلب اب ایکشن کا ری ایکشن آنے والا تھا ۔"


اسی وقت جابر اپنی پوری ٹیم کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری بھی ساتھ لیے تہہ خانے کے اندر پہنچ چکا تھا ۔

اندھادھند مقابلہ شروع ہوگیا تھا ۔۔۔۔


"جابر آپ کے پیچھے ۔۔۔۔۔"

وفا جابر کو اندھا دھند فائرنگ کرتا دیکھ زور سے چیخی تھیں کیونکہ شیردل اس کے بالکل پیچھے تھا اور دوسری طرف پپو کی کنپٹی پ پیر کی پستل تن چکی تھی ۔


اور وہ بیچ میں کھڑی بے بس سی روتے ہوئےکبھی اپنے دوست جابرکو دیکھتی تو کبھی اپنے محافظ پپو کو!! دونوں کی ہی جانیں سولی پہ تھیں ۔


یکدم گولی چلی تھی ۔۔


اور پھر۔ ۔۔۔۔۔۔

سامنے ہی خون میں لت پت پڑے وجود کو دیکھ کے وفا کی چیخیں بلند ہو گی فضا میں ۔۔۔۔۔۔

❤❤❤


رات کا ناجانے کون سا پہر تھا جب مہمل کی آنکھ کامل کے موبائل پہ ہوتی بیل سے کھلی تھی ۔۔


نیند میں اس نے بیچ میں پڑا کامل کا موبائل اٹھا کہ بغیر دیکھے کہ کس کا فون ہے کال رسیو کی ۔


"السلام علیکم ۔"

فون اٹھا کہ خمار آلود لہجے میں پوچھا۔


"وعلیکم السلام "

دوسری طرف سے کسی لڑکی کی آواز سن کہ مہمل کی نیند بھک سے اڑھ گئی تھی۔


"مجھے کامل سے بات کرنی ہے ۔"

دوسری طرف سے بے صبری سے کہا گیا۔


"آپ کون ہیں ؟؟؟؟؟"

مہمل نے بڑی مشکل سے اپنے لہجے میں گھلتی ناگوارہ کو کنٹرول کیا تھا۔

ابھی وہ مزید کچھ بولتی یا پوچھتی کہ کامل نے جھٹ سےفون چھپٹ کے اس سے لیکر اپنےکان سے لگایا

"ہاں بولو سب ٹھیک ہے نا؟؟؟"

طبیعت ٹھیک ہے ؟؟؟

دوسری طرف امید کیبکیئر ٹیکر تھی جوکہ وہاں مقیم اک پاکستانی لڑکی ہی تھی۔

"تم پریشان نہیں ہو سب سہی ہو جائے گا "

نہیں میں صبح ہی انتظام کر دوں گااوکے۔

" بہت جلد آ رہا ہوں میں ۔۔۔"

اور پھر چند ایک باتوں کے بعد کامل نے فون رکھ دیا ۔۔۔۔

"کہاں جا رہے ہیں آپ اور کس کا فون تھا ۔؟؟؟؟"

"جانا ں کی ماں کے پاس اس کو میری ضرورت ہے ۔۔"

وہ پریشان کن لہجے میں گویا ہوا۔

یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟

' آپ نے تو کہا تھا آپ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اورآپ کی علیحدگی ہوچکی ہے اس سے ۔۔"

مہمل کا لہجہ۔ کچھ اور بھی خستاخانہ ہوا ۔۔

"میری الحیدگی بھلے سے ہوجائے مگر جاناں کا رشتہ اپنی ماں سے نہیں توڑ سکتا مہمل میں !!تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔"

وہ کہہ کے اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے وارڈروب سےاپنے کپڑے نکالنے لگا ۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟؟؟؟؟؟؟

مہمل۔ کو۔ لگا اسکو اور اسکی خوشیوں کو یکسم جیسے کسی کی بری نظر لگی تھی اس کے اردگرد دھماکے سے ہورہے تھے۔

"تم بھی اپنی پیکنگ کرو جلدی سے اور جاناں کی بھی ساتھ پیکنگ کر لو ہمیں کل ہی ملنے والی پہلی فلائٹ سے نکلنا ہوگا وقت نہیں ہے میرے پاس زیادہ ۔۔۔۔

گولی جابر کے سینے میں جاکے لگی تھی ۔پیر اور اس کے تمام اہلکاروں کو قابو کرکے پولیس اور رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا اور تمام معصوموں کو قید سے رہا کرکے فلحال شاہ زمان کے کہنے پر جابر کے فارم ہاؤس کے پہنچا دیا گیا تھا ۔ایسا کرنے کا اسکا مقصدصرف اور صرف اتنا سا تھا کہ بازیاب ہوئی لڑکیوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر رکھنا تاکہ ان کو مزید کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔


جو کوئی بچہ یا لڑکی اپنے گھر جانا چاہتی تھی وہ اسکو کو خود باحفاظت چھوڑ کے آنے کے لیے تیار تھا اور جس کو اس کے گھر والے قبول کرنے سے انکاری تھے وہ ان تمام کو ہمیشہ کے لئے فارم ہاؤس میں شیلٹر دینے کے لئے راضی تھا ۔اس نے تمام اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی ان سب کے ۔


اب صرف تہہ خانے میں تین لوگ موجود تھے درد کی شدت سے تڑپتا ہوا جابر!!

پپو کی گود میں دم توڑنے کو تھا تیسری تھی وفا جس کو لگا تھا کہ جابر کی اس حالت کی ذمہ دار صرف اور صرف وہ ہے ۔

وفا دل ہی دل میں خود کو مجرم قرار دے چکی تھی ۔۔


وہ دوزانوں بیٹھی سسکتے ہوئے جابر کے سرد ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر حد ت پہنچاتے کی کوشش کر رہی تھی مگر موت سے بھی بھلا کوئی جیت سکا ہے کبھی؟؟


"جابر میرے جگرے!! "

" تجھے کچھ نہیں ہوسکتا میں تجھے کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا بچپن کا ساتھ ہے یار ہمارا تو اکیلا چھوڑ کے مجھے کیسے جا سکتا ہے ۔۔۔؟؟"

پپو اسکا سر گود میں رکھے اپنے بازو سے نا محسوس انداز میں آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے گویا ہوا ۔خود پہ قابو پانا اب اسکیلئے ناممکن تھا۔


"ت۔۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔تم مجھ سے ایک وعدہ کرو گے؟"۔

وہ بہت مشکل سے یہ چند الفاظ ادا کر سکا تھا۔


" ہاں بول میرے یار تجھ پر سو وعدے قربان"۔

پپو نے یقین دلایا۔


"تت۔۔۔ تو میری پیاری دوست کا ہمیشہ خیال رکھیے گا اس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دے گا ۔"

وہ اپنے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ لیکر بڑی مشکل سے خود میں سکت پیدا کرتے ہوئے وفا کے ہاتھ پر رکھ کر گویا ہوا تھا۔


" وا۔۔۔۔۔۔۔وفا میرے یار کی محبت و خلوص پہ کبھی شک مت کرنا۔"


"ہاں جابر آپ ٹھیک ہوجائیں بس "۔

وہ اب بھی اسکی زندگی کیلئے پر امید تھی۔مگر ناممکن بھی کبھی ممکن ہوسکا ہے بھلا۔۔۔۔۔!!!


"یار تو فکر نہیں کر تیری دوست میری محبت ہے" "وعدہ رہا تجھ سے کہ اس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا ۔۔۔"

وفا اگر اپنے مکمل ہوش و حواس میں ہوتی تو اسکو اندازہ ہوتا کہ پپو کتنا بڑا راز عیاں کرگیا ہے اس سے بڑی بات وہ وعدی تھا جو وہ مکمل ایمانداری کے ساتھ سچے دل سے جابر سے کر چکا تھا۔۔


پپو کا اتنا کہنا تھا تڑپتے ہوئے جابر نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند کرلی تھی۔ روح پر سکون ہو کے اس کے تڑپتے وجود سے پرواز کر چکی تھی کیسی محبت تھی جابر کی وفا سے کہ وہ آخری دم تک بھی صرف اس کے فکر میں تھا اپنی محبت کوکتنی صفائی سے وہ دوستی جیسےخوبصورت رشتے میں چھپا گیا تھا اور پر سکون سا ہوکے ہمیشہ کے لئے جا سویا تھا ۔۔۔

💔💔💔


"ایسا نہیں ہو سکتا !!"

"نہیں۔۔۔۔۔۔۔"

" کہہ دوں کہ یہ سب خواب ہے "


وہ اپنے بھائی کا ہاتھ تھامے جنازے کے پاس بیٹھ گئی جہاں پہلے ہی سے باقی خواتین بیٹھی اشک بہا رہی تھی ۔


"سنبھالو خود کو آپی "

وفاکا بھائی اس کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے بولا جابر کی موت کی خبر سن کے وفا کے گھر والے بھی آچکے تھے ۔


" نہیں ایسا ناممکن ہے "

"جابر کی جان میری وجہ سے گئی ہے مجھے بھی جینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔۔"


وہ ہذیانی انداز میں چیخی تھی رو رو کے اس کا برا حال تھا وہ اب بھی اس کے جنازے کے پاس ہی بیٹھی تھی اس کو کسی طور صبر نہیں آرہا تھا تڑپتے ہوئے جابر کو اس نے اپنے ہاتھوں میں دم توڑتا دیکھا تھا۔

کس طرح خود کو سنبھالتی بہت کڑا امتحان اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔۔


"بیٹا دعا کرو میرے بیٹے کے لئے اس وقت "

چند ہی گھنٹوں میں تائی بیگم کی ساری ہستی ہی مٹ گئی تھی جیسے۔ سب غرور اکڑ جوان جہان بیٹے کی ناگہانی موت پہ کہیں دور جا سوئے تھے وہ بس مسلسل بیٹے کیلئے سکیاں بھر رہی تھیں مزنا کا بھی یہی حال تھا ۔فرقان خان تو جیسے بے جان ہوچکے تھے ۔


میت اٹھانے کا وقت آن پہنچا تھا کتنا سخت وقت ثابت ہوا تھا وہاں موجود سبھی افراد کیلئے۔۔۔۔

پپو اور کامل نے جابرکے جنازے کو کاندھا دیا تھا اور پچھلی طرف تایا اور بلال تھے ۔۔

پیچھے محمل نے وفا اور اپنی تائی بیگم کو مزنا کے ساتھ مل کے سنبھالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔


💔💔💔


"شاہ زمان صاحب آپ کے مجرم آپ کے سامنے ہیں سب"۔۔

انسپکٹر نے تمام مجرموں کو شازمان کے سامنے لا کھڑا کیا تھا جس میں پیر کا کسمانی ریمانڈ کے باعث ایسا حال ہوگیا تھا کہ وہ اپنے پیروں پر بمشکل کھڑا تھا ۔


"یہ میرے مجرم نہیں ہیں یہ انسانیت کے دشمن ہیں ان کو سزائے موت نہیں ہونی چاہیے کسی صورت بھی انسپکٹر۔۔۔"


"مگر شاہ صاحب قانون ان کو سزائے موت ہی سنائے گا ۔۔۔۔"


"اگر مگر نہیں اس پیر کو تو میری تجویز کردہ ایسی عبرتناک سزا ملے گی کہ دنیا یاد رکھے گی اس کا انجام ۔"

شاہ زمان نے پیر کو اوندھا زمین پہ لٹا کہ دھون ڈالا ۔۔۔


"ان سب کو سزائے عمری میں کروا کے رہوں گا وہ بھی سارے میڈیا کی موجودگی میں تاکہ سب کو علم ہو سکے کہ خدا کے علاوہ کسی کے پاس جا کے ہاتھ پھیلانا کتنا بڑا بڑا شرک ہے اور اس کا انجام کس صورت میں نکلتا ہے ۔۔۔"


💔💔💔💔


وہ دونوں افسردہ تھے جابر کی موت نے سب کو ہلا کے رکھ دیا تھا مگر زندگی کا کام ہے وقت کے ساتھ بہجانا۔

زندگی اپنی ڈگر پر آہستہ آہستہ واپس آ ہی جانی تھی مگر کامل کے لئے تو جیسے ابھی ایک امتہان اور بھی بہت بڑا باقی رہ چکا تھا ۔


جابر کی تدفین کے کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ تینوں تکلیف سے چور اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے امید کے پاس پہنچنے کیلئے روانا ہوچکے تھے۔


محمل کیلئے بھی یہ صدمہ اتنا بڑا تھا کہ بچپن کا ساتھ رہا تھا۔کھیل کود کے ساتھ بڑے ہوئے تھے دونوں کی بچپن کی کچھ خاص یادیں تو وابستہ نہ تھی مگر محمل نے اس کو ہمیشہ بلال کی طرح اپنے بھائی کا رتبہ دیا تھا ۔

تویل سفر کے بعد وہ لوگ اپنی منزل کو پہنچ چکے تھے اور ہوٹل جانے کے بجائے کامل سیدھا ان دونوں کو ہسپتال ہی لیکر آگیا تھا۔مہمل حیرت سے ہسپتال کو دیکھ رہی تھی اسنے تو تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کامل ائیرپورٹ سے سیدھا اسکو ہاسپتال ہی لیکر آجائیگا مگر کیوں؟؟؟؟؟؟

کئی سوالات اسکے دماغ میں گردش کر رہے تھے مگر جواب اک کا بھی میسر نہیں تھا وہ بری طرح چکرا کہ رہ گئی مگر قبل۔از وقت کامل سے کچھ نہ پوچھ سکی۔


"جانا کو لے کر اندر آ جاؤ محمل ۔"


وہ ہسپتال کے کوریڈور میں موجود تھے جب کامل نے ایک پرائیویٹ روم کا دروازہ کھولنے کے بعد گم سم سی فاصلے پر کھڑی تزبزب کا شکار مہمل اور جاناں کو گھمبیر لہجے میں اندر آنے کو کہا ۔


کامل کی آنکھیں اندر اٹھتی شدید ٹیسوں کے باعث سرخ ہورہیں تھی۔ محمل بہت مشکل سے خود کو گھسیٹتے ہوئےچپ چاپ اللہ کا نام لے کر جانا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اندر بڑی تھی ۔


پیر من من بھر کے ہو رہے تھے اس کے اس وقت ۔وہ جیسےتیسے اپنی سوکن کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

آج عجب دوہرائے پہ آج وہ تینوں آکہ کھڑے ہوئے تھے ۔قسمتی بھی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے انسان سے۔۔


"امید بھابھی دیکھیں آپ سے ملنے کون آیا ہے "


وہ محبت سے بولا تھا لہجے میں چھوٹے بھائی کا سا مان رقصاں تھا۔ محمل کچھ تذبذب کا شکار ہوئی بے دردی سے ہونٹوں کو کچلتے ان دونوں کو دیکھے گئی۔

بے بس سی وہ کبھی کامل کو تو کبھی بستر مرگ پر لیٹے اس کملائے نہیف سے وجود کو دیکھ رہی تھی جس کی شکل ہو بہو جاناں کی جیسی تھی لیکن کامل کے لبوں سے ادا ہوا "بھابی "کا لفظ اس کو مزید الجھا گیا تھا ۔


گرہیں سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی چلی جا رہی تھی جبکہ ننھی جاناں اپنے کھیل میں مست ہاتھ میں پکڑی گڑیاسے صوفے پر بیٹھی کھیلنے میں مصروف ہو چکی تھی۔


مہمل پیچھے مڑکر جاناں کو لے کر گڑیا صوفہ پر رکھ کے گود میں اٹھا کر اسکو کامل کے پاس بڑی تھی ۔


"امید بھابی جاناں آئی ہے آپ سے ملنے آپ کی بیٹی آنکھیں کھولیں ۔"


"امید کے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔ آنکھیں ہلکی سی وا ہوئی تھیں۔

محمل مکمل طور پہ سن ہی تو ہوگئی تھی اس کے اردگرد جیسے دھماکے ہو رہے تھے ساری گرہیں اک اک کرکے کھلتی چلی جا رہی تھی ۔۔


محمل نے خود کو بمشکل سے سنبھالا تھا اور خود میں ہمت پیدا کرکے وہ آنکھوں میں آنسو لیے جاناں کو امید کے پہلو میں لٹا چکی تھی۔


" یہ آپ کی گڑیا ہے بھابھی "

کامل نے چونک کے محمل کو دیکھا اس کے لہجے میں آنسوؤں کا گولا اٹکا ہوا تھا اس کو دیکھ کے پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجا گیا مگر اس مسکراہٹ میں کتنا قرب تھا محمل کو اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی ۔۔


تبھی دروازے ناک کر کے ایک نرس جوکہ دیکھنے سے ہی مشرقی لگ رہی تھی اندر داخل ہوئی۔


" السلام علیکم!"

نرس نے باآواز بلند سلام کیا ۔


"وعلیکم اسلام"

فاطمہ کیسی ہیں آپ؟؟؟؟

کامل اب امید کی رپورٹ پڑھ رہا تھا مصروف سے انداز میں جواب دے کے اب اسکی خیر خیرہت رسمی سے انداز میں استفسار کر رہاتھا۔


محمل نے ایک بات بڑی شدت سے نوٹس کی تھی اور وہ یہ تھی کہ کامل نے اک نظر غلط تک فاطمہ پہ نہ ڈالی تھی اور وہ تھی کہ نہ جانے کامل کے بارے میں کیا کیا سوچ رہی تھی۔

وہ تصور میں سوچ کہ خود کو شرمندہ ہوئی ۔


جاناں امید کے پہلو میں چند منٹ ہی رہی تھی اور پھر لپک کے مہمل کے بازو میں کودی تھی جیسے امید اس کے لئے اجنبی ہو۔

مہمل جاناں کہ اس انداز سے تھم سی گئی ۔۔۔

تو گویا جاناں کے نزدیک اس کی ماں صرف مہمل۔ہی تھی۔

دل میں جیسے ایک سکون سا اترا تھا مگر پھر امید کو دیکھ کہ تکلیف نے ایک دفعہ پھر اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔


"کامل بھائی امید میم نے ایک خط آپ کو اور جاناں کو دینے کے لیے کہا تھا "

فاطمہ کچھ دیر مزید امید کے بارے میں بتانے کے بعد وہاں سے جا چکی تھی کامل نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے خط کھول کے پڑھنا شروع ہوا ۔۔۔


"میرے پیارے بھائی"


" میرے حسن کامل تمہارا بہت شکریہ!!تم نے مجھے اس وقت سہارا دیا جب میں بے کس و مجبور تھی میری بیٹی کو اپنا نام دیا مجھ پہ تمہارا یہ بہت بڑا احسان ہے میں چاہ کر بھی تمہارا یہ احسان نہیں اتار سکتی مگر میرا خدا تمہیں اتنا ضرور نوازے گا کہ تم سنبھالتے سنبھالتے تھک جاؤ گے مگر تم سے سنبھالا نہیں جائے گا انشاءاللہ ۔

یہ میری دعا ہے اسکے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے تمہیں دینے کو مجھے معاف کردو میرے بھائی۔

مجھ پہ آخری احسان اور کر دینا کہ میری بیٹی کو اچھے گھر میں بیھا دینا اور ایسے گھرانے میں اسکی شادی کرنا جن کو میری زندگی کے بارے میں علم ہو مطلب میرا ماضی اور میرا پیشہ کیا رہا تھا جاناں کے شوہر کو اس کی ماں کی حقیقت کا علم ہونا چاہئے لازمی۔

شادی سے پہلے اس کو بتا دینا سب۔ تمام حقائق اس کی علم میں لا کر ہی تم میری بیٹی کو رخصت کرنا ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ وہ میری وجہ سے بعد میں کوئی نقصان اٹھائے۔


میرے بھائی دوسرے خط کو جاناں کو اس روز دینا جب وہ اٹھارہ برس کی ہو جائے چاہو تو تم اس خط کو پڑھ لینا کہ میں نے جاناں کے لیے کیا پیغام لکھ چھوڑا ہے ۔

ہو سکتا ہے جب تم یہ خط پڑھو تو تب میں دنیا میں نہ رہو۔

اس لئے میرے بھائی خدا حافظ میری بیٹی تمہارے سپرد ۔ ۔۔۔۔۔"

وہ خط کو پڑھنے کے بعد غم کی شدت سے بیٹھتا چلا گیا مہمل نے بڑی مشکل سے اس کو سہارا دیا تھا ۔

وہ خود بھی اس پوزیشن میں نہ تھی کہ کامل کو سنبھال پاتی اور پھر ان کے ہسپتال سے چند گھنٹے بعد آنے کے امید کے انتقال کی خبر آ گئی تھی۔

تو گویا امید کا سانس بس اس کی بچی میں اٹکا ہوا تھا اپنی بچی کو ہنستا کھیلتا دیکھ وہ خوشی خوشی خالق حقیقی سے جا ملی تھی ایک طویل تکلیف بھری مسافت طے کرکہ۔۔

❤❤❤

وفا کراچی واپس آچکی تھی مگر پہلے جیسی ہر گز نہ رہی تھی۔

بہت گم سم سی خاموش سی رہا کرتی ۔بابا جان اور ماماجان سے بیٹی کی ایسی حالت دیکھی نہ جارہی تھی ۔چھوٹا بھائی ہر وقت اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں لگا رہتا مگر وہ تھی کہ بس چپ۔

اکثر اسکو پپو بڑی شدت سے یاد آنے لگا وجہ پپو پہ جابر کا اعتماد اور پپوکو جان کی بازی لگاکہ وفا کو باحفاظت تہہ خانے سے آزادی دلوانے کے ساتھ ساتھ ہر اس پل اسکی حفاظت کرنا تھا جب وہ تن تنہا آستانے پہ نکلپڑتی تھی۔

ایسے میں وہ شاہ زمان کو یکسر فراموش کر چکی تھی۔ چونکی تو وہ اس وقت تھی جب اک نیوز چینل جس کا نام۔آگاہی تھا اس پہ وہ پریس کانفرنس کرتا نظر آیا۔

وفا نے بھائی کو چینل تبدیل کر تا دیکھ کہ جھٹ سے ریموٹ لیا تھا۔

شاہ زمان نےوہی ویڈیو پریس کانفرنس سے پہلے چلوائی تھی جو کہ وفا کے موبائل میں فیڈ تھی اس نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔

"اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔"

وفا کے لبوں سے بے اختیار پھسلا۔

❤❤❤

آج شاہ زمان نے پریس کانفرنس دکھی تھی ان سب لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لئے جو جو اس کالے دھندے میں شامل تھے ۔۔

"خدا سے مانگو وہ عطا کرے گا وہ سب جانتا ہے کس کو کب اور کیا دینا ہے"

" میں یہ نہیں کہتا کہ اس دنیا میں خدا کے نیک بندے غیب کا علم نہیں رکھتے بلکہ میرا کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اللہ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو غیب کا علم رکھنے کے باوجود ڈھنڈورا نہیں پیٹتے پھرتے اور وہ بزرگ کبھی بھی آپ کو سرعام آستانے کھولے نہیں ملیں گے وہ خود کو ظاہر ہی نہیں کرتے "

خدا کی خود پہ رحمت کو کیش نہیں کراتے ہیں ایسے نیکو کار ان نام نہاد پیروں مریدوں کی طرح ۔۔۔"

اسنے اشارہ سے پیر کی طرف کمرہ کروایا جسکے کپڑے تک تن پہ جگا جگا سے پھٹ چکے تھےدن رات کے جسمانی ریمانڈ کی وجہ سے۔

"اور میرا اللہ فرماتا ہے کہ۔۔۔۔۔"

"اور میرا خدا فرماتا ہے کہ۔۔"


" تو میرا ہو کر تو دیکھ ہر کسی کو تیرا نہ بنا دوں تو کہنا "

" کتنی بڑی بات ہےیہ صرف ایک دفعہ میرے رب کے ہو کہ تو دیکھو بس پھر دنیا جنت اور آخرت خوبصورت ہوجائے گی "

شاہ۔ زمان نے گہری سانس فزا میں خارج کی اور اک دفاع پھر سے اپنی بات کا سلسلہ جاری کیا۔


"آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ خدارا اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت کریں ان کو پال پوس کر صرف کسی پریشانی کے باعث پیروں فقیروں کے آستانے پہ نہ لے کر جائیں" ۔

"قرآن پاک میں خدا تعالی نے ہر ایک پریشانی کا حل بتا دیا ہے صرف ہمارے تھوڑے سے دل سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔"


"میرا ایمان تو بس اللہ رب العزت سے ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہے"

" ان جعلی پیروں فقیروں سے کیا دم درود کروانا جب ہمارے پاس نماز ہے اور بے شک نماز اللہ سے ملاقات کا بہترین ذریعہ ہے ۔"


"سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرا ماننا ہے مصیبت اور پریشانی بھی میرا رب انہیں کو دیتا ہے جس کی دعائیں اورآنسوئوں اللہ کو بے پناہ پسند ہوتے ہیں خوش قسمت وہ ہرگز نہیں جس کی دعا فوری پوری ہوجائے ۔"

"Dua has the power to turn your dreams into reality "


"اور جو فیصلہ میرا رب کرتا ہے یقین جانیے عرش سے فرش تک وہی بہترین ہوتا ہے ہمارے لئے "


"مسائل سے نہ گھبرائیے اللہ اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پہ یقین رکھیں زنگی خود بخود حسین ہو جائے گی "


"مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار بندہ اللہ پاک سے رجوع کرتا ہے پھر تقدیر سے کیوں شکوہ کرنا "


" سب کچھ بہت واضح الفاظ میں کہہ کر میں نے ان تمام کمزور عقائد والے لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کی اپنی سی کوشش کی ہے اب اس کو سمجھنا اور عمل کرنا آپ لوگوں کے خود کے اوپر ہے ۔"


"اس سے آگے سمجھ بوجھ والے آپ لوگ مجھ سے بہتر ہے شکریہ ۔"


پریس کانفرنس کا اختتام ہو چکا تھا ۔

اور آج اس پریس کانفرنس کے ہونے کے بعد شاہ زمان کے دل میں گہرا سکون اترا تھا ۔

یہ۔ جابر اور اسکا اولین مقصد حیات تھا جو آج پورا ہوگیا تھا ۔


پیر اور اس کے تمام کارندوں کو سزائے عمری سنادی گئی تھی قید بامشقت اور روزانہ کا دشمن جسمانی ریمانڈ کے ساتھ۔


یہ بھی شاہ زمان کا ہی فیصلہ تھا وہ جانتا تھا کہ اب ان تمام درندوں کو پتہ چلے کہ کس طرح معصوم لڑکیاں تڑپا کرتی ہیں اپنی آبو جاتے وقت۔


وہ کسی صورت بھی ان تمام مجرموں کو سزائے موت دلوانے کا روادار نہ تھا۔

اسنے ٹھان لی تھی کہ ایسے لوگوں کو تڑپ تڑپ کے موت کے دہانے پر لاکھڑاکر کہ زندگی کو ان کی کتے سے بھی بدتر جینے پر مجبور کردے گا مگر موت ہرگز نہیں ۔۔۔۔


ساتھ ہی وہ اب پیر سے اس غلیظ کام میں ملوس باقی بڑے بڑے مشہور بظاہر نام نہاد شریف لوگوں مگر اندر سے بھیڑیے کی فطرت رکھنے والے افراد کے متعلق سب انکوائری کر رہا تھا۔۔


چند ایک کو وہ پکڑ بھی چکا تھا مگر ابھی بھی کافی لوگ پیر کے حراست میں جانے کے بعد ہوشیار ہوگئے تھے ۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹


"او تو یہ شخص بھی اس مہم پہ تھا.. "


"اگر کاش یہ مجھے بھی بتا دیتا تو میں اس کے ساتھ مل کے کام کر تی تو آج شاید جابر کو کچھ نہ ہوا ہوتا ۔۔۔"


وفا نے افسردگی سے سوچا اور ٹی وی کا ریموٹ دوبارہ سے بھائی کی طرف اچھال کے وہ اپنے بھاری قدم لئے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوگئی۔


اب اس کا ارادہ پھوٹ پھوٹ کے رونے کا تھا وہ اور اس کی تنہائی آج کل ایک دوسرے کے بہترین ساتھی بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹

٣ ماہ بعد ۔


آج وہ پیا دیس سدھاری تھی ماں باپ کے خوش کی خاطر وفا کو یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا ۔


ور نہ اس کے دل سے تمام تر خواہشات اسی دن میں مٹ گئی تھیں جس دن جابر نے اس کے ہاتھ کو پپو کے ہاتھ میں دیکر اسے وعدہ لیا تھا۔


ان تین ماہ میں اس نے پپو کا انتظار بہت کیا تھا کہ شاید وہ جابر سے کیا وعدہ پورا کرنے کے لیے آ جائے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا شاید اور آج وہ کسی اور کے نام ہمیشہ کے لئے لکھ دی گئی تھی ۔


وفا کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ اس کی شادی کس سے ہوئی ہے بس وہ کسی بے جان مورت کی طرح ماں باپ کی عزت اور ان کی محبت کی خاطر آج کے دن کسی کے نام کی سیج سجائے موجود تھی۔


کب نکاح ہوا کب وہ رخصت ہوئی وفا کو کچھ بھی علم نہ رہا تھا ۔بس کسی بے کٹ پتلی مانند وہ ہو چکی تھی ۔


"ٹھک۔۔ٹھک"

دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر کوئی اندر آیا تھا وفا کےوجود میں اب بھی کوئی جنبش نہ ہوئی وہ اب بھی ساکت تھی خاموش سمندر کی مانند۔


" اسلام علیکم ۔"


آنے والے نے اندرا آکہ با آواز بلند سلام کیا مگر جواب ندارد پا کہ وہ مغرور انا چال چلتا ہوا بیڈ پر وفا سے ہاتھ بھر کے فاصلے پہ بیٹھ چکا تھا ۔


آنکھوں میں شوخی لیے لبوں پہ شریر مسکراہٹ سجائے اس نے وفا کی تھوڑی کو اپنی انلشت شہادت سے اونچا کیا ۔


وفا جانا پہچانا سا لمس محسوس کرتے ہی یکدم اپنی پلکوں کی گھنی جھالروں کو اٹھا کے اپنے محرم کو دیکھنے پر مجبور ہوئی تھی۔


لمحوں کا کھیل تھا اور تیزی سے وفا کے آنکھوں کے سامنے زمین آسمان گھوماتھا۔


سامنے موجود شخص کی غضب آنکھوں میں ناچتی شوخی و شرارت دیکھ وہ عالم میں وحشت سے اس کے ہاتھ پیر سرد پڑھتے تھے ۔۔


"ظاہر سی بات ہے میری دلہن بنی ہو تو مجھے اپنے بیڈروم میں آنا تھا ۔"


وہ محضوظ ہوا اس کے حیران کن تاثرات کو ملاحظہ کرکے وہ کچھ ایسی ہی صورتحال کی توقع کر رہا تھا وفا سے ۔


"مجھے جانا ہے اپنے گھر واپس ابھی اور اسی وقت"


وفا تیزی سے بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوئی ۔ آج صحیح معنوں میں اس کی ہوائیاں اڑ رہی تھی ۔


"تم اپنے گھر میں ہی ہو!!"

اپنی عقل کو ٹھکانے پہ لانے میں اگر میری کچھ مدد درکار ہے تو ناچیز خدمت کیلئے حاضر ہے ۔"

وہ چبا چبا کے بولا۔


"مجھے آپ کی کچھ بھی مدد نہیں چاہیے مجھے بس ماما کے پاس جانا ہے ۔۔"


شاہ زمان کو اپنے ہمسفر کے روپ میں دیکھ زندگی میں پہلی دفعہ اس کے اوسان خطا ہوئے تھے اتنی خوفزدہ اور بوکھلائی ہوئی تو وہ اس دن بھی نہیں تھی جب پیر نے اس کوقید کر دیا تھا ۔


"کاش ایک دفعہ پہلے میں دیکھ لیتی کہ میری شادی کس عظیم شخصیت سے طے پائی ہے تو آج ایسی نوبت نہ آتی"

وہ دل ہی دل میں خود کو لعنت ملامت کر رہی تھی ۔۔


"پہلے تو تم میرے نام نہیں لکھی گئیں تھی لیکن تب بھی میں نے تم پر پورا فوکس کر رکھا تھا اور اب تو تم میری ہمسفر کے روپ میں میری سیج پہ موجود ہو میری بلبل!! تمہارے کل اختیارات کا مالک ہوں اب میں ۔۔۔"


"بلبل ؟!!!!"


وفا کے لبوں سے بے اختیار نکلا تھا یہ وہ لفظ تھا جو اس کو پپو کہا کرتا تھا اور یہ لہجہ بھی یکدم پپو جیسا ہی تھا مگر سامنے شاہ زمان بیٹھا تھا تو اس کا مطلب وہ جو پہلے سوچ رہی تھی وہ سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"کہا تھا نہ تم سے کہ سیج تو تمہی میری سجاؤ گی میری کٹونی۔۔۔۔. !!"


" ویسے آپس کی بات ہے ایک بات تو بتاؤ بغیر شرمآئے میری بلبل!!مجھے آن لائن دیکھ کے تمہارا آف لائن ہو جانا ہر دفعہ کیا یہ تمہاری ڈیجیٹل نفرت کا اظہار ہے مجھ سے ؟؟؟؟؟"


شاہ زمان وفا کو زچ کرنے کی شاید قسم کھا کے ہی بیڈروم میں داخل ہوا تھا تاثرات ایسے تھے اس وقت اس کے کہ وفا کا دل جلانے کی بھرپور کوشش کرنے کے بجائےوہ اس کام پہ عمل پیرا تھا ۔۔


"کک۔ ۔۔کٹون ی تت۔ ۔۔۔تم نہیں۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔ شاہ زمان یا پپو؟ ؟؟؟؟؟"

وہ چکرا کے رہ گئی پہلا صدمہ کیا ام تھا اسکے لئے شوہر کے روپ نے شاہ زمان کو دیکھ کے ۔جو اب دوسرا پپو کی صورت میں بھی اس کو تارے دکھا رہا تھا ۔


"یار وفا اپنے دماغ کا ذرا پاسورڈ تو دینا عقل انسٹال کرنی ہے مجھے دوبارہ سے پیر وائرس نے تمہارا مدر بورڈ کو مکمل اڑا دیا ہے" ۔


اب کی دفعہ شازمان بجائے پپو کے لہجے کو اختیار کرنے کے اپنے اصل لہجے میں گویا ہوا اور سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک باکس نکال کے کھولنے لگا ایک ہاتھ اس کا وفا کی آنکھوں پہ رکھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ڈبہ کھول کر اس میں سے سیلیکون سے بنا انسانی کھال جیسا دکھتا ماسک۔ سر سے لیکر سینے تک پہن چکا تھا ۔


"ارے او میری جانے من دلہن بن کر تو تم پپو کی بالکل پوپٹ لگ رہی ہو"


"یار بلبل ایک بات تو بتاؤ تمہیں لپ سٹک لگانے کی کیا ضرورت ہے ان گداز ہونٹوں پہ میری جانو جرمن ؟؟؟؟"

وہ اس کے لبوں پہ لگی بلڈریڈ لپ اسٹ کو اپنے انگوٹھے کی مدد سے سے صاف کرتے ہوئے وفا کی لبوں پہ مکمل فوکس کئے گہرے لہجے میں مزید گویا ہوا ۔


جبکہ وفا نے تیزی سے پپو کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے ہٹایا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ کے ایک دفعہ پھر وہ سراسیمہ ہو ئی۔


"تمہارا شاہ زمان عرف پپودی پوپٹ بہت رومنٹک ہے خود میں تمہارے ہونٹوں کو چمیاں دے دے کر لال کر دینے کا ہنر کوٹ کوٹ کے رکھتا ہے۔"

" تو پھر میرے ہوتےتمہیں اپنے حسن کو مزید نکھارنے کے لئے زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟"؟


"دل کی خواہش تو یہ ہے میرے کہ ہونٹوں سے چوم لو اپنے تیری آنکھوں کو ،یہی نہیں بے چین کر دینا چاہتا ہوں تمہاری آنےوالی سب ہی راتوں کو میری جان! خواہش تو یہ بھی ہے کہ لہو بن کے تمہاری جسم میں سما جاؤ اور تم تڑپ تڑپ کے محسوس کرو سانسیں میری"


وہ شاہ زمان کو بہکتا دیکھ اسکے گھمبیر لہجے کی تاب نہ لاکہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی اب کی دفعہ اس کا ارادہ الٹے قدموں فرارکا تھا بیڈ روم سے مگر ہائے رے قسمت ہر دفعہ وفا کا ساتھ دیتی ضرور تھی مگر تگنی کا ناچ نچانے کے بعد ۔۔۔!!!!


"مجھے پوری امید تھی کہ تم عام لڑکیوں کی طرح بےہوش ہرگز نہیں ہوگی بلکہ میری گولڈن نائٹ کو رات گرہن بنانے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پیر ضرور ماروں گی اپنے آپ کو شیرنی ثابت کرنے کے لئے میری ۔۔۔"


شاہ زمان نے اپنے چہرے پہ پہنا پپو کے چہرے کاماسک اتار کے بیڈ پر دور اچھال دیا۔۔


" دھوکا بہت بڑا دھوکا ہوا ہے میرے ساتھ!! فریب دیا ہے آپ نے مجھے ۔"


حقیقت سامنے آنے کے بعد وفا کے گلے میں آنسوؤں کا گولا سا پھنسا تھا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شاہ زمان کے سامنے رودی تھی ۔

لال رنگ کے فرشی شرارہ اور لانگ شرٹ پہنے سر پر نفیس بھاری کام کا دوپٹہ سجائے وہ شازمان کے دل کا قرار لوٹ رہی تھی اس پر تضاد اس کے آنسو ۔۔۔۔


شاہ زمان نے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ہاتھ بڑھا کہ اس کو خود پہ گرالیا تھا ۔۔


"چھوڑو مجھے "

"مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا !"

"نہیں رہ سکتی میں آپ کے ساتھ ۔۔۔"


"اور مجھے تو بس تمہارے ہی ساتھ اپنی زندگی بسر کرنی ہے جان من آخر کو میرے ہونے والے بچوں کی فرمائش ہے یہ اپنے بابا سے چھوٹی سی ۔۔۔"

شاہ زمان نے آنکھوں میں محبت کا خوبصورت جہان آباد کر رکھا تھا وفا کا دوپٹہ چند پنوں کی قید سے وہ آزاد کروانے کے بعد سائیڈ پے رکھ چکا تھا اور اب اس کا ہاتھ وفا کی پشت پہ بندی شرٹ کی ڈوریاں کھولنے میں مصروف ہو چکا تھا ۔

"آپ آج کی رات میرے وجود کو تو حاصل کرلیں گے لیکن میرے دل تک رسائی ہرگز بھی ایک فریبی حاصل نہیں کر سکتا یہ یاد رکھیے گا"

آنکھوں سے اشک رواں تھے جبکہ لہجہ اس قدر تلخی لئے ہوئے تھا کہ شاہ زمان نے ایک جھٹکے سے وفا کو سیدھے ہاتھ سے خود پر سے ہٹایا اور خود سیدھا ہو کر بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔

وفا نہ سنبھل کے بیٹھنے کے بعد ایک نظر اپنے آپ پہ ڈالی ۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا شاہ زمان نے تقریبا تمام کی تمام ڈوریاں کھول دی تھی شرٹ کی جس کے باعث وفا کے سراپے کے دلکش نشیب و فراز کافی حد تک پوری آب و تاب سے جھلک رہی تھے ۔۔

وفا نے گھبرا کے جلدی سے خود پہ تھوڑا سا فاصلے پر رکھا ہو ا دوپٹہ ڈھانپا تھا اچھی طرح ۔

عشک اب بھی آنکھوں سے مستقل رواں تھے ۔آپنے بیوقوف بن جانے پر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے یا سامنے موجود شخص کا سائیڈ ٹیبل پر رکھی گلدان سے سر پھاڑ دے ۔۔۔

آخر تمہارے اس طرح سے رونے کا مطلب کیا ہے ؟؟؟کیا باور کرانا چاہتی ہو تم مجھے کہ میں جلاد ہوں؟ ؟

تمہارے ساتھ ناجائز کر رہا ہوں ؟؟؟

یا پھر میں نے تم پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے !!یہی جتانا چاہتی ہوں نا مجھے بولو؟؟؟"

"ظلم۔۔۔۔!!!

ہاہاہا ستم نہیں ڈھائےتم نے مجھ پہ مگر مجھے فریب ضرور دیا ہے بہت بڑا جال بنا ہے تم نے میرے لئے میری زات سے نہ جانے کن ناپاک عزائم کو پورا کرنا چاہتے ہو تم اپنے اور رہی بات یہ کہ تم کون ہو کیا ہو یا پھر تمہاری پہچان !!کوئی ایک چیز بھی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ ایک ایک لفظ چباچبا کہ کہتی مزید بہت کچھ سخت سست سنانا چاہتی تھی مگر اس کی طرف بڑھتے لمبے چوڑے مضبوط شخص کے برہمی لیے تیور دیکھ کے یکایک چپ کر گئی ۔۔۔

"میں اور میری پہچان اتنی اسٹرانگ ضرور ہے کہ تمہیں میرا نام تمہارے نام کے ساتھ جڑ جانے سے بہت عظیم فائدے پہنچنے ہیں ۔۔"

وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگا تا جیسے خود بھی اندر ہی اندر سلگ رہا تھا درمیانی فاصلہ مٹاتے ہوئے وہ اب اس کے سر پہ جا پہنچا ۔

"میں لعنت بھیجتی ہوں ایسی پہچان پہ !!تم جیسا شخص میرے لئے میری جوتے کی نوک کے برابر بھی نہیں ہے۔ کجا کہ میں تمہیں جوتے کی نوک پہ رکھوں ۔"

ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے آنسوؤں کو رخسار سے صاف کیا گیا لہجے میں سوائے نفرت کے اور کچھ نہ تھا ۔۔۔

" تم جیسی ہی لڑکیاں اپنی ہنستی بستی زندگی کو گھر سے داؤ پر لگا نے کے لیے نکل پڑتی ہیں میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جسم فروشی کیا ہوتی ہے؟؟

جانتی ہو یہ گورکھ دھندہ کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔؟؟؟

تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہیے خدا کامگر نہیں تم تو۔۔۔"

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود پہ کنٹرول کھو بیٹھا اور ایک جھٹکے سے اسکے شانوں کو تھام کے حددرجہ تلخی آمیز لہجے میں استفسار کرنے لگا آنکھوں میں آگ کے شرارے پھوٹے پڑ رہےتھے غصے کی شدت سے۔

جانتی ہو یہ گورکھ دھندا کسے کہتے ہیں؟؟!

غصے پہ قابو پانے کی کوشش کے باوجود شاہ زمان کی آواز میں تلخی رچی ہوئی تھی۔


" میں سب جانتی ہوں"

" بس میرا دل آپ سے اس لئے خفاء ہے کیونکہ آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا مجھے بے وقوف بنایا ۔"


اپنے شانوں میں پیوست ہوتی شاہ زمان کی سخت انگلیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے آنکھوں میں تکلیف سے آنسو بھر آئے تھے جبکہ لہجہ حددرجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ۔۔


"میں نے تمہیں بیوقوف نہیں بنایا ہے وفا ڈیر "۔۔۔۔۔ "بےوقوف تم خود بنی ہو میری بلبل! !"

"تمہارا اوور کانفسیڈنس تمہیں لے ڈوبا ہے ۔۔"


شاہ زمان نے اس کے نازک شانے سے اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت کچھ کم کی تھی ۔

وفا کی آنکھوں میں ناچتے درد کو دیکھ شاہ زمان کا کچھ پل قبل والا غصہ لمحوں میں دھنواں دھنواں ہوا تھا ۔۔


"کیا تھا اگر آپ مجھے بھی اپنے ساتھ اپنے مشن میں شامل کر لیتے تو" ۔۔


وہ خفگی سے بولی لہجے میں شکوہ عیا ں تھا جبکہ نظریں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شاہ زمان کی نظروں میں اپنے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں وہ اسکی۔اس ادا پہ عش عش کر اٹھآ ۔۔


"یار نہیں کر سکتا تھا نا ایسا کیونکہ میں تمہارے لئے دوسرا مشن اپنے ساتھ بہت پہلے طے کر چکا ہوں "۔

"کب اور کیسے؟؟؟؟"

کن آنکھیوں سے دیکھا گیا

"اسی دن جب میں تم سے پہلی دفعہ ملا تھا ۔۔"


شاہ زمان نے تیزی سے لہجے کو سنجیدہ بنانے کی کوشش کی ۔۔


"کیا واقعی آپ نے میرے لئے بھی مشن سوچ رکھا ہے ۔؟؟؟"


وہ خوشی سے چیخ اٹھی۔


ہمممممم ۔۔!!!

"بالکل"

" تمہاری قسم"

وہ اس کو خود سے حددرجہ قریب کرتا وفا کی کمر کے گرد حصار تنگ کر چکا تھا۔


وہ چاہ کر بھی وفا کو سب کچھ سچ بتانے سے اس وقت تک قاصر تھا وجہ " پپو کا بھیس " تھا ۔

پیر کے کارندوں نے پپو کے اوپر مکمل نظر رکھی ہوئی تھی لیکن شاہ زمان کی مجبوری تھی کہ اس کو یہ اعتماد دلانا تھا ان سب لوگوں کو کہ وہ پیر شاہ سائیں کا وفادار ہے ۔

اگر وہ ذرا سا بھی وفا کو بتا دیتا اور اس کی نادانی میں ہی کوئی ایسی بات جو ان لوگوں کی نظر میں آ جاتی تو شاید آج معصوم لڑکیاں اسی خطرناک کھیل میں ملوث ہوتی ۔

وفا کی جزباتی نیچر کا تو وہ بخوبی اندازہ اپنے چہرے پہ پہلی ملاقات میں ہی پڑنے والا تھپڑ سے ہی لگا چکا تھا۔


"اچھا تو پہلے مجھے بتائیں نہ کہ وہ مشن کیا ہے ؟؟؟"

"کیا کرنا پڑے گا اس میشن مجھے ؟؟"

آپ یہی آنکھیں ہوئی تھی آنکھوں میں اشتیاق لیے وہ شخص مسلمان صرف الجوش میں استحصال کر رہی تھی ۔


"آکرونگا تو سب کچھ میں بس تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا"

شاہ زمان شرارت سے کہتامسکرا دیا اس کے لبوں کی مسکراہٹ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وفا نے اب کی بار شاہ زمان کے اس کو گرفت میں لینے کے باوجود کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کی تھی جیسے اپنے دل سے جازت دیدی تھی اس کو اپنا آپ معتبر کنے کی ۔۔


"یا ر پھر وہ مشن کی بات کو لے کر خاصی جذباتی ہو رہی تھی اس لئے کچھ بھی محسوس نہیں کر رہی تھی شاہ زمان کو شبہ سا ہوا ۔۔"


"سوچ لو اک دفع اچھی طرح سے کا بہت مشکل ہے ہوسکتا ہے تم کرنے سے پہلے ہی ہار مان جاؤ ۔۔۔"


ومخمور لہجے میں کہتے ہوئے وفا کی شرٹ کی آخری بندھی ڈوری بھی کھو چکا تھا اور بغیر اس کو سمجھنے کا موقع دیئے اپنے بازوں میں بھر کے بیڈ تک لایا۔


"میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں پوپٹ صاحب کہ میں خطروں کی کھلاڑی ہوں"

منہ بسور کر یاد دہانی کروائی گئی۔۔


" اچھا بتاؤ نا کیا تم مجھ سے اب بھی ناراض ہو؟؟؟؟؟"

وہ بے قرار سا اضطرابی لہجے میں دریافت کر رہا تھا ۔


"میں آپ سے ناراض نہیں ہوں "

"نا پہلے تھی"

"مگر میرا ریکشن آپ کو دیکھ کہ فطری تھا یہ آپکو مان نا ہی پڑے گا میرے یہ سب شاکڈ کا باعث تھا"


" میں دن رات پپو کو سوچتی تھی جس نے مجھے پیر کے شکنجے سے نکالا تھا ۔"


"مگر دل کو بہت تکلیف ہوئی تھی جب جابر کے وعدہ لینے کے بعد آپ کی طرف سے خاموشی رہی"


" میری طرف آپکی لاپرواہی مجھے خاصےدکھ سے دوچار کر گئی تھی ۔۔"


"آپ کو پتہ ہےپپو وہ شخص تھا جس نے میری جان بچائی میری عزت کا رکھوالا بنارہا دو راتوں اور تین دن !!یہی نہیں میرے لیے پپو جابر سے کیا وعدہ تھا اور پھر اس وعدے کی میں پابند ہوں ۔لیکن میں نہیں جانتی کہ کب میں پپو جیسےٹپوری پرسنلٹی کے مالک شخص سے دل لگا بیٹھی ۔۔۔"


"کیا تم اس وقت بھی نہیں پہچانی تھی کہ میں شاہ ہوں جب جابرنے مرتے وقت میرا نام پکارا تھا؟؟؟؟؟!"


وفا کی خاموشی سے پوری بات سن لینے کے بعد اس کو تعجب ہوا۔


" نہیں بالکل نہیں میں اس وقت جابد کو موت کے بلکل قریب جاتا دیکھ کر شاید اپنے ہواسوں میں نہ رھی تھی۔ بس یاد تھا تو جابر اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا مان ۔۔"


وہ پوری ایمانداری سے آج اپنے دل حال بیان کر رہی تھی۔


"یار مگر میں کئی دفعہ نیوز چینلز پہ بھی آیا ہوں تم تب بھی نہیں پہچانی ؟؟!!" ۔۔

وہ اسکے جھومر سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں مصروف نرمی سے کہہ رہا تھا۔


"بس مجھے یہ پتہ تھا کہ شاہ زمان اور جابر نے مل کر اس ذلیل جھوٹے پیرکو سزا دل وائی ہے۔ بہت بڑا سبق سکھایا ہے میں آپکی ٹیم نے انکے پورے گروہ کو "

"میں بس اسی مغالطے میں رہی کہ پپو بھی آپ کے اس مشکل ترین مشن کا ایک وفادار و خفیا بندہ تھا ۔"

اپنی بات کہہ کر وہ خاموش ہوئی تھی مانو جیسے بہت بڑی سل اتاردی تھی اس نے اپنے دل سے آج کی رات ۔۔


"ایک بات تو یار ماننی پڑے گی کہ خاصی عقلبند ثابت ہوئی ہم تو یار "۔۔

وہ ہنسی بمشکل دبا کے بولا۔۔


" وہ تو میں ہوں ازل سے ۔۔"

وہ بڑے مزے سے بولی بغیر اس کے جملے پر غور کیے ۔۔۔


"چلیے اب مشن بتائیں جو میں نے اور آپ نے مکمل کرنا ہےایک ساتھ؟ ؟؟ ۔۔"


وفا کی ٹانگ ایک دفعہ پھر اسی مشن پر ٹوٹی شاہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔


" میرے بتانےسے کیا تم سمجھ جاؤ گی یا کسی اور طریقے سے بتاؤں؟ ؟؟؟؟؟۔"


"اچھا چلو چھوڑو پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے اب مجھ سے دوستی کرلی ہے نہ میرییییییی بلبلللللل!"


شاہ زمان اسکی ناک کو ہلکا سا دباتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہتا گردن پہ جھک چکا تھا ۔

وہ اب پپو کے لب و لہجے میں واپس آ چکا تھا ۔۔۔


"ایک دم پکی پکی اب میشن ۔۔؟؟؟؟"

لیکن اسی وقت شاہ کے مزید جسارتیں کرنے سےاسکی گردن پہ گدگدی ہوئی تھی وہ دھپ سے یکدم سے فاصلہ قائم کرتی شاہ زمان سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔


کیا ہوا میں نے ا تمہیں مارا تو نہیں ؟؟

وہ اسکے کود کہ دور ہونے پہ کچھ اچھنبےسے بولا ۔۔


"گد گدی"

جواب حاضر ہوا۔

"ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔کیا کہا تم نے ابھی؟؟؟؟؟"

"ارے گدگدی ہو رہی ہے مجھے ۔۔"

وفااپنی گردن کےاوپر دونوں ہاتھ جمائےاب بھی گدگدی محسوس کرکے کھل کھل کر رہی تھی ۔۔۔۔


ہے چارے شاہ کی حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ نہیں ۔۔


"چلو کوئی بات نہیں پہلی دفعہ ہے نہ تم کھلا تی رہو ایسے پی میں گد گداتا ہوں . ۔"


مخمور لہجے میں کہھا ایک دفعہ پھروہ وفا کو خود سے قریب کرنے کے لیے اسکا ہاتھ پکڑگیا ۔۔۔


"ننھہییں مم مجھے گدگدی ہوتی ہے ۔۔۔۔"

وہ زورو شور سے کھی کھی کرتے ہوئے شاہ سے آج پچھلے تمام حساب کتاب برابر کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔


"یار تم تو مشن میں کامیابی کی باتیں کر رہی تھی بڑی بڑی اور اتنی جلدی سرینڈر کر دیا "

"مم میں نے مشن سے تھوڑی سرینڈر کیا ہے لیکن آپ جو یہ کر ر ہے ہیں نا اس سے مجھے بہت گدگدی ہو رہی ہے "

وفا کے چہرے کی معصومیت قابل دید تھی وہ اپنی گردن پہ ہاتھ جمائے ابھی بھی کھل کھلا رہی تھی ۔

"ہاہاہا "۔۔

شاہ کا جاندار کہکہ کا فضا میں بلند ہوا ۔۔

"ارے عقلبند لڑکی یہی تو میرا وہ مشن ہے جس کے لئے تم نے زور و شور سے حامی بھری ہے کچھ دیر پہلے"۔۔۔

وہ معنی خیزی سے بولا

ہمممممم۔ ۔۔!!

" مشکل ہے پپو دی پوپٹ یہ تو"

معزرت میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی اس اہم مشن میں "۔۔۔

وہ فرار ہونے کو تھی جب یکدم شاہ نے اس کی فرار کے تمام راستے بند کرتے ہوئے اس قدر مضبوطی سے اس کے دونوں ہاتھوں کو جکڑاتھا کہ۔ وہ ہینڈز اپ کے انداز میں مکمل طور پر اس کی گرفت میں آ چکی تھی ۔۔

"تو پھر میرییییی کٹونییییکی تم ذرا اپنےمکمل ہوش و حواس میں آجائو کیونکہ میں اب اپنا مکمل مشن پورا کرکے ہی دم لونگا ۔۔!!"

"میرا مشن شروع ہو رہا ہے اب ۔۔۔"

لبوں پی دلفریب مسکراہٹ سجائے محبت سے کہتے ہوئے ایک دفعہ پھر اس کی تھوڑی پہ لبوں کو ٹھہرا گیا تھا۔۔

"یہ فروڈ ہے "

"یار تم یہ منہ بند کرو ایسا نہ ہو باہر اماں میری یہ سمجھیں کہ ہم کارٹون چینل دیکھ رہے اپنی شادی کی رات " ۔۔

وہ اس کی جسارتوں پر زور سے ٹھٹے مار کے ہنسے جارہی جب شاہ مے تلملا کہ اسکو وارن کیا

"ہاں تو آپ کے کام ہی ایسے نرالے ہیں کہ میری ہنسی ہی نہیں رک رہی "

"افففف اتنی معصوم تم ہو یہ ہو نہی۔ سکتا !!! آور اگر واقعی ایسا ہےتو ٹھیک ہے اب مجھے تمہاری ہنسی کو اپنے طریقے سے بریک لگانا پڑے گا۔۔۔۔" شاہ زماب نے وفا کے لب پہ لب رکھ کہ جیسے اسکی ہنسی کو بریک لگائیں ۔۔۔

خوبصورت رات اور چھم چھم برسات ان دونوں کے حسین ملن پہ خود بھی گدگدی محسوس کرکے جھوم رہی تھی کھلکھلا رہی تھی ۔۔۔۔

امید کے انتقال کے کچھ دن بعد وہ تینوں پاکستان آ گئے تھے ۔حویلی کی فضا میں سناٹا اور افسردگی رچی ہوئی تھی۔ جو کہ مہمل۔ اور کامل کو بڑی شدت سے محسوس ہوئی ۔۔۔

غمگین اور جان لیوہ سناٹے کو جاناں کی کوئل جیسی آواز نے ایک دفعہ پھر سے رونق نہیں بدلتا تھا ۔۔


تایا تائی سمیت دادی کا بھی رویہ محمل کے ساتھ خاصہ بہتر اور کافی حد تک خوشگوار ہو چلا تھا ۔

سفر کے بعد جب وہ اپنی تھکان اتار کےجب دونوں بیڈروم سے نکلے اس وقت شام کی چائے کے لئے سب لوگ لان میں موجود تھے ۔

اس وقت تآیا اور تائی نے شرمندہ اور نڈھال سے انداز میں تمام تر افراد کے سامنے مہمل اور کامل سے اپنے کیے کی تلافی کی تھی ۔تائی بار بار محمل سے معافی مانگتے ہوئے رورہی ہو رہی تھیں اور ایک ہی بات کو دوہرا رہی تھیں کہ ۔۔


"مجھے معاف کر دو مہمل!! تمہاری معافی مجھے پرسکون کر سکتی ہے ۔میں اور میرا دل کسی طرح بھی جابر کے بعد پرسجون نہیں ہورہے ۔ سکون نہیں مل پارہا ۔ہر پل دل بے چین اور وہم و وساوسکا شکار رہنے لگا ہے میرا۔ میں بہت شرمندہ ہوں تم سے مہمل۔ تم مجھے معاف کردو خدارا"


وہ مہمل کے آگے دونوں ہاتھ جوڑے اشک بہا رہی تھیں۔

ان کے ہر جملے میں صداقت کی خوشبو بسی ہوئی تھی وہ دل سے پشیمان تھیں اپنی تمام تر پچھلی باتوں پہ ۔۔


"مم۔۔۔۔۔میں نے آپکو معاف کیا !! میرے خدا نے آپکو معاف کیا۔کیونکہ میں نے اپنا معملہ اس لمحے اپنے اللہ پہ چھوڑا تھا اور میں جانتی ہوں وہ ہر چیز پہ قادر ہے"


وہ بھیگے لہجے میں بہت دھیمی آواز میں بولی جانتی تھی کہ اسکا رب کتنا مہربان ہے تو بھلا پھر وہ کون ہوتی تھی دل میں نفرت پالنے والی۔ ۔۔


"مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا جابر بہت پریشان ہے۔ وہ مجھے پکارتا ہے ۔مجھے اس کی دوری نہیں سونے دیتی ہے اور نہ ہی جینے دے رہی ہے ۔۔۔۔"

"تم دعا کرو کہ میری روح جلد ہی کامل سے مل جائے مہمل"


محمل نے بہت تیزی سے ان کے جڑے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیا اور اپنے آنکھوں سے لگا کے خود بھی رونے لگی۔

وہاں موجود سب ہی افراد اس منظر پہ آپدیدہ ہو گئے اور

وہ۔ ۔۔۔۔۔!!!!

وہ تو تھی ہی محبت سے گندھی نرم دل و احساسات کی مالک سب کچھ بھلائے خوشیاں باٹنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ۔

۔

لیکن ابھی ایک اور مشکل ترین مرحلہ اس کے لیے باقی تھااور وہ تھا کامل سے اپنی کوتاہیوں کے لئے ایکسکیوز کرنے کا ۔

کامل جبکہ جابر اور امید کے انتقال کے باوجودویساہی تھا محمل سے اس کی محبت و وارفتگیوں میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی تھی مگر محمل ہر وقت اپنی منفی سوچ پشیمان ہوتی رہتی ۔۔۔

اپنی یہ سوچ کہ اس نے خوامخواہ کامل کے کردار پے شک کیا تھا ۔

اسکو مارے دے رہی تھی ۔ایک دفعہ اپنی سوچ کے لئے کامل کے سامنے تمہید بھی باندھی معافی کیلئے مگر پھر وہی ہوتا ہر دفعہ ہمت ہار جاتی ۔خود میں اس بات کو لے کے کامل سے ہم کلام ہونے میں کترارہی تھی ۔۔۔


ایسے میں جاناں وہ واحد ہستی تھی جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی لیکن پرسکون ہو جایا کرتی ۔


وہ خود سے شرمسار تھی کنہگار سمجھ بیٹھی تھی خود کوکامل کا۔ مہمل کو اسکی پاکیزی و مقدس محبت بے چین اور بے قرار رکھتی ۔ہر ہخپل۔ اسکا اک۔ عجب اضطراب بھری کیفیت میں گزرنے لگا تھا اس ۔۔۔


❤❤❤❤❤❤


بکرا عید میں صرف دو دن باقی بچے تھے مگر کامل اس قدر مصروف تھا کہ اس کو سر کھجانے تک کی فرصت نہ مل رہی تھی کاموں سے ۔


ایک وجہ تو بکرہ عید کی طرف نکلتی اس کی ذمہ داریوں کی تھی تو دوسری طرف عید کے پہلے دن نماز فجر کے بعد اس کو اپنے علاقے کا سردار کی کرسی سنبھالنی تھی باقاعدہ پورے علاقے کی موجودگی میں رسم ہونی تھی۔


وہ اپنے علاقے کا(آغا) سردار بننے والا تھا اور اس دن کو لے کر کئی خاص خواب اد کے دل میں تھے ۔


کئی نئی اور دور جدید کے مطابق روایات اس نے قائم کرنی تھی۔ تو کئی پرانی ،بوسیدہ اور جدی پشتی چلتی آرہی فرسودہ روایات کا اب چیپٹر کلوز کرنے کا وقت آ چکا تھا ۔


رات رات بھر وہ اکثر و بیشتر کافی دیر سے گھر آتا تھا مہمل اسکا انتظار کرتی آخر کار تھک ہار کے سو جایا کرتی اور اب تو جاناں کابھی ایڈمیشن بہت اچھے اسکول میں کروا دیا تھا کامل اور محمل نے ملکر ۔


وہ جو فجر سے اٹھا کرتی تو پھر پورا دن چھوٹے بڑے کام کرنے کے بعد رات کو ہی سونے کو لیٹتی ۔


اس نے بغیر کسی کہ کہے خود بخود اپنےناتواں شانوں سے حویلی کی کافی حد تک ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں جو کہ پہلے مزنا (ساس) کے واحد اوپر ہوا کرتی تھی ۔مزنا حج کی ادائیگی کرنے کیلئے خدا اور اسکے رسول ؐ کے گھر گئی ہوئی تھیں اپنے پھائی کے ساتھ ۔


چاند رات والے دن مہمل جلدی سارے کام نبٹا رہی تھی۔

شاور لےکر فریش ہونے کے بعد کاٹن کا سنہری سوٹ نکال کے پہنا۔ ابھی وہ جیولری پہن نےکے بعد ہلکا پھلکا میک اپ کر رہی تھی جب جاناں کی من موہنی سی آواز کانوں میں گونجی اسکے ۔


"مہمی کیا آج آپ کہیں جارہی ہو اپنی جاناں کو چھوڑکہ؟ "


جاناں جوکہ بڑی دیر سے اسکو تیاری میں مگن دیجھ رہی تھی اپنی گول گول آنکھوں میں حیرت لئے پوچھ نے لگی تھی۔


رات کو نو بجے کا وقت ہو رہا تھا اور جاناں اسکول جانے کے باعث جلدی سو جایا کرتی تھی۔وہ اس کو رات 8 بجے کھانا کھلانے کے بعد سلا دیا کرتی۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر شاید جاناں اپنے اسکول کےروٹین کی عادی ہونے کی وجہ سے اسکول کی عید کیلئے دی گئیں چھٹیوں کے باوجود ااپنے روٹین پہ ہی تھی۔


اور دوسرا یہ بھی ممکن تھا کہ مہمل کی تیاری اور لائٹ جلنے کی وجہ سے اسکی آنکھ کھل گئی تھی اور نیند خراب ہونے سے وہ اٹھ گئی تھی ۔


" نہیں مہمی کہا جا سکتی ہے جاناں کو چھوڑ کے بھلا ؟؟؟آپ تو میری زندگی کی امید میری روح کی مکین ہو آپ کے بغیر میں کچھ بھی نہیں میری چندہ "


وہ جاناں کہ یوں کہنے پر یکدم حساس ہوکے پلٹی اور اس کو اپنی گود میں اٹھا کے گالوں کو چوم ڈالا ۔وہ اپنی تمام تر تیاریاں ایک طرف کر چکی تھی اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے ۔

"

"تو پھر تم اتنا تیار کیوں ہو رہی تھی دلہن کی طرح ؟؟"

جانا کہ سوالات کئی دفا مہمل کی بولتی بند کردیا کرتے تھے وہ گڑبڑ آ جایا کرتی ا سکے معصومانہ سوال پی ۔۔


"کیونکہ آپ کی مہمی کو آج آپ کے پاپا کا خیال آگیا ہے آخرکار جانا بچے"۔


مہمل کے بجائے کمرے میں داخل ہوتے کامل نے جواب دیتے ہوئے پہلے جاناں کو اس کی گود سے لیا اور پھر مہمل کے گال پے پیار سے بوسہ دیتے ہوئے پیچھے ہوا کچھ فاصلے پہ ۔۔


"بابا جانی یہ فائول ہے آپ ہمیشہ پہلے مہمی کو کس کرتے ہیں"۔۔


جاناں کی ناراضگیاں نرا لی تھیں وہ دونوں جھینپ کہ مسکرانے پر مجبور ہوگئے ۔۔


"چلے اب آپ دیجیے اپنی لاڈلی کو جواب جب تک میں کھانا لاتی ہوں گرم کر کے "۔


وہ دونوں باپ بیٹی کو محبت بھری گھوری سے نواز تی کامل کا جواب سنے بغیر کمرے سے نکلتی چلے گئی۔

جانتی تھی کہ وہ اس کو اس وقت کچن میں جانے نہیں دے گا ۔

کامل کو اس کے ہر وقت کاموں میں گھرے رہنے سے خاصی ہوتی تھی وہ رات کے وقت اس کو کبھی بھی جب گھر میں ہوتا تو کچن تو دور کی بات اک کام کرنے نہیں دیتا ۔


کچھ دیر بعد وہ کھانا گرم کر کے لے آئی تینوں نے ہی مل کر ایک ساتھ کافی دن بعد انتہائی پرسکون اور خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا تھا ۔مہمل سارےبرتن سمیٹ کر جیسے ہی روم میں واپس آئی تھوڑا سہ ٹھٹکی کامل ،جاناں کے کان میں کچھ کھسر پھسر کر رہا تھا اس کو کمرے میں آتا دیکھ کر دونوں باپ بیٹی کی مسکراہٹ پر پل بھر میں غائب تھی لیکن باوجود کوشش کہ جاناں کی مسکراہٹ میں شرارت تھی جو اس بات کی نشاندہی کررہی تھی کہ کوئی بہت بڑا ٹاپ سیکریٹ میشن کامل نے اس کو سونپا تھا ۔

جبکہ کا مل بھی اب بہت دلفریب انداز میں مسکرا رہا تھا ۔

سائیڈ ٹیبل پر رکھا شاپنگ بیگ جلدی سے کامل نے اپنے پیچھے چھپانا چاہا اور جاناں کی شرارتیں تو جیسے عروج پر تھی وہ تیزی سے باپ کی پشت پہ تنگئی ۔۔


"مہمی ہم تم سے کچھ نہیں چھپا رہے بابا تمہارے اور میرے لیے کوئی سرپرائز نہیں لائے ہیں پکا وعدہ"۔۔۔


جاناں نے معصومیت سے کہتے ہوئے اپنی گردن گردن نفی میں ہلائی اور کامل کو دیکھا جو تھوڑا کھسیآگیا تھاجانا کہ ادھاراز سفارش کر دینے پہ ۔۔

"کیا ہے مجھے بھی دکھاؤ اس شاپنگ بیگ میں پلیز جاناں"

مہمی کو تجسس ہوا دونوں کی معنی خیز ہنسیں پے وہ آگے بڑھ کے اب کامل سے وہ شاپر چھیننے کی کوشش کررہی تھی جبکہ جاناں اورکامل کی پوری کوشش تھی کہ وہ شاپنگ بیگ کی پہنچ سے دور رہ سکے ۔

"اوکے میں دکھاتا ہوں "۔۔۔۔

تینوں تھک ہار کے اب آلتی پالتی مار کے کارپٹ پہ بیٹھ گئے تھے ۔

"مہمی تم کیا سوچتی ہو گی کہ میں کتنا مصروف رہا ہوں کہ تم کو بھول ہی گیا اس لیے آج میں تمہارے لیے عید کا جوڑا اور جیولی وغیرہ لے کر آیا ہوں ۔۔"

جاناں کا گفٹ بیگ وہ پہلے ہی اس کو دے چکا تھا جو جانا۔ بڑی مزے سے کھول کے دیکھنے میں مصروف تھی ۔

"اور بابا جانی ساتھ میں پھول کلیوں والے ہار بھی تو لائے ہیں آپ کے لئے ہیں نا بابا؟؟؟؟؟"

ہاں ہاں میری گڑیا وہ بھی ہیں کامل نے سوچا تھا وہ رات میں جاناں کہ سجانے کے بعد رومینٹک انداز میں اسکو پیش کرے گا پھول گا مگر فی الحال جاناں سارے رومینس کی ایسی کم تیسی کرنے پر اپنی کمر کس چکی تھی وہ پھول گجرے اسکو پہنانے لگا۔

"مجھ سے کسی قسم کا گلا تو نہیں تم دونوں ماں بیٹی کو؟؟؟"

"آ۔ ۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔"

مہمل کی آواز بھرا گئی یکدم زمیر نے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا اسکو پل میں ۔۔۔۔

"کہ یہ وہی کامل ہے جس کو تم کردار کی کمزوری کے طعنے دیا کرتی تھی ماضی میں "۔۔۔

بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے اس سے۔۔۔

" جی ہاں میں ہوں تمہارا عاشق تمہارا معصوم شوہر " ۔۔

" میں معافی مانگنے کے قابل تو نہیں سمجھتی خود کو مگر پھر بھی آپ بہت اعلی ظرف ہے مجھے معاف کر دیں میں آپ کی گنہگار ہوں میں نے آپ کی ذات پہ کیچڑ اچھالی میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے پلیز مجھے معاف کر دیں ۔۔"۔۔۔۔۔۔

وی یکایک پھوٹ کے روئی تھی جبکہ جاناں اپنی عید کقا جوڑا اور چوڑیاں وغیرہ دکھانے اپنی "پر" دادی کے کمرے میں بھاگ گئی تھی ۔۔

"ارے ارے یہ دن موسم برسات کیوں گڑیا؟؟؟"

وہ اسکے آنسووں سے بوکھلاگیا۔ ۔

" بس آپ مجھے معاف کر دیں"۔

"اوہو بھئی میں غلطی پر تھا جذباتی ہو گیا تھا اس دن !! تم ایک کردار کی پاکیزہ عورت ہو تمہارے ہر الزام چائز تھے اس وقت ۔۔۔"

وہ آج بھی اسی کو معتبر کر گیا تھا سب کچھ بڑی صفائی سے اپنے اوپر لے گیا ۔۔۔


محمل اس کے چوڑے سینے سےآل گئی تھی جیسے اس کی آغوش میں پناہ ڈھونڈ رہی ہوں ۔


"خاموش ھوجاؤ مہمی تم!! نہیں تو میں واقعی تم سے خفا ہو جاؤں گا اور پوری عید پر تم جو ہے نا میری ناراضگی کے ساتھ گزارا کر لینا ۔۔"

"بولو منظور ہے کیا؟ ؟؟؟"


کامک کا لہجہ کچھ ایسا خفا سا ہوا کہ مہمل نے جھٹ اپنے آنسوں پوچنھ ڈالے وہ اس کی ناراضگی افورڈ کر سکتی تھی بھلا ۔۔۔۔۔۔

"مہمل یہ حقیقت ہے کہ میری اس رات کی جذباتیت سے میں بہت نادم رہا کئی دن مگر تم سے دستبردار نہیں ہو سکتا تھا" ۔

"میرے لئے یہ ممکن نہ تھا پہلے اور نہ آج ہے ۔۔۔۔۔"

وہ گھمبیر لہجےمیں کہتا اسکی کلائی تھام کے اسکو قریب کر اپنا سر اسکی گود میں رکھے مہمل کی نشیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔

"اور میرے لئے آپکا ساتھ اور آپکی محبت ہی سب کچھ ہے بس مجھے آپکا ساتھ چاہئے ہمیشہ"

"اور مجھے تم "

وہ مخمور لہجے میں کہتا جسارتوں پہ امادہ ہوا,۔

مہمی بابا کو کیوں پٹائی کر رہی ہو؟؟؟؟؟

یکدم جاناں جن کی طرح حاضر ہوئی۔۔۔

وہ سٹپٹاکہ سیدھی ہو بیٹھی جبکہ کامل اب بھی ڈھیٹ بنا اسکی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔

"میری یہ بچی دوسرا بہن بھائی نہیں آنے دیگی اپنا"

وہ دانت پیس کہ بول رہا تھا جبکہ مہمل نے اسکا سر آرام سے کارپٹ پہ رکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی مگر کامل کے ہاتھ میں اسکی کلائی آچکی تھی۔۔

سنو !!

میں پاگل ہوں ۔۔۔

اور ۔۔

میرا پاگل تم ہو مہمی۔۔۔۔

"چاند رات مبارک آغا "

وہ سرگوشی میں کہہ رہا تھا لیکن جاناں بھاگتی ہوئی آئی اور. اسکے سینے پہ بیٹھ گئی مہمل نے یہ موقع غنیمت جانا اور چاند رات مبارک کہہ کر. اسکو ٹھینگا دکھا کہ بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Kabhi Tu Pass Mery Aao Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Kabhi Tu Pass Mery Aao written by Aymen Nauman. Kabhi Tu Pass Mery Aao by Aymen Nauman is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages