Ishq Gaiz By Amrah Sheikh New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 4 July 2024

Ishq Gaiz By Amrah Sheikh New Romantic Complete Novel

Ishq Gaiz  By Amrah Sheikh New Romantic Complete  Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Gaiz By Amrah Sheikh New Romantic Novel


Novel Name: Ishq Gaiz 

Writer Name: Amrah Sheikh

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وہ ٹریڈمل پے دوڑتا ساتھ ساتھ ماتھے پر آئے پسینے کو گلے میں لٹکے تولیے سے پونچھتا گھڑی کو ایک نظر دیکھتا۔۔پھر ٹریڈمل کو بند کرتا نیچے اترا۔ ۔۔۔۔


شیشے کے بنے سلائیڈ ڈور کو کھولتا باہر نکلتا اپنے بیڈروم کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔۔


بیڈروم کا ڈور کھولتا اندر گیا۔ ۔۔۔۔ ڈریسنگ روم سے استری شدہ کپڑے لے کر واشروم چلا گیا۔۔۔ دس پندرہ منٹ بعد گیلے بال تولیے سے رگڑتا باہر نکلا ۔۔۔


صوفے پر تولیہ اچھالتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بالوں کو بررش سے سیٹ کرنے لگا۔۔۔ جب دروازہ نوک ہوا۔۔۔۔


کم ان۔۔۔۔ بھاری رعب دار آواز یکدم پورے کمرے میں گونجی۔۔۔ باہر کھڑا ملازم جھرجھری لے کر اندر آیا۔۔۔


السلام عليكم صاحب آپ کا ناشتے پر انتظار ہو رہا ہے۔۔۔۔ملازم سر جھکا کر بولا۔۔۔۔ ٹھیک ہے آرہا ہوں۔.


چند سیکنڈ کے لئے رک کر اسے جواب دیتا وہ واپس اپنے کام میں لگ گیا۔۔


جب کے ملازم کشمکش میں ہاتھ باندھے کھڑا رہا کے جائے یا اس سے اجازت مانگے۔۔۔


جاؤ۔۔۔۔ایک بار پھر کمرے میں اسکی آواز گھونجی۔۔۔ ملازم شکر کرتا جلدی سے باہر نکلا۔.


یہ ہے۔۔۔۔۔رزم ارمغان مرزا۔۔۔۔۔۔ارمغان مرزا کا بڑا بیٹا۔۔۔

ارمغان مرزا شہر کے مشہور بزنس ٹیکون ہیں


جسے مل کر ان کا بڑا بیٹا چلا رہا تھا۔۔۔۔


رزم ارمغان مرزا جس کی شخصیت میں ایک رعب تھا جو سنجیدہ غصے کا تیز۔۔۔ جس سے ہر کوئی بات کرتے وقت گھبراتا تھا


سوائے اسکے ماں باپ کے۔۔۔ رزم جتنا بھی غصے کا تیز سہی مگر اپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا یہی وجہ تھی وہ انکے ساتھ بلکل چھوٹے بچے کی طرح تھا۔۔۔۔


اپنے بہن بھائیوں سے بھی اسکا رویہ زیادہ فریندلی نہیں تھا مگر اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتا تھا۔۔


دیکھنے میں شہزادہ لگتا تھا۔۔۔۔۔۔لڑکیاں مرتی تھیں اس پر مگر کسی کی ہمت نا ہوتی تھی اس سے بات کرنے کی ۔۔


وہ تھا ہی ایسا۔۔۔۔ گورا رنگ۔۔۔۔مضبوط کسرتی جسم۔۔۔چوڑے شانے۔۔۔۔ چھ فٹ سے نکلتا قد۔۔۔۔ گہری کالی آنکھیں جن میں ذہانت کی چمک کے ساتھ ایک سرد پن بھی تھا۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


اسلام آباد کے پوش علاقے میں افنان ملک کا چھوٹا مگر خوبصورت سا بنگلہ تھا۔۔۔۔


افنان ملک کا اپنا امپورٹ اور ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔۔۔۔


نورین افنان جن سے انکی پسند کی شادی ہوئی تھی۔۔۔۔وہ ہاؤس وائف تھیں۔۔۔۔ انکے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک ہی بیٹی۔۔۔۔۔


ایک نائن میں اور دوسرا پانچوی جماعت کا طالب علم تھا۔۔۔۔۔جب کے سب سے بڑی بیٹی وشہ افنان فرسٹ ایئر میں تھی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ افنان جو کے ایک خوبصورت نازک سی لڑکی تھی۔بیس سال عمر۔۔،۔ درمیانہ قد ۔۔۔ گوری رنگت۔۔۔۔۔۔ قدرتی سرخ ہونٹ۔۔۔گہری کالی آنکھیں اور کمر تک آتے گھنے بال


جنہیں وہ ہمیشہ اونچی پونی ٹیل بنا کر رکھتی تھی۔۔۔


میک اپ سے پاک چہرہ اسے دوسری لڑکیوں سے بہت خاص بناتا تھا


وشہ افنان ایک نرم دل کی لڑکی ہے۔۔۔۔ ہر کسی کی مدد کو ہر وقت تیار ریتی تھی۔۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتی۔۔


بچوں کی طرح بھائیوں سے لڑتی بعد میں افنان صاحب سے ڈانت بھی ان دونوں کو ہی پڑتی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ لاڈلی بیٹی جو تھی۔۔۔۔


یہی کہ کر دونوں بھائیوں کو چڑاتی تھی اور وہ چڑ بھی جاتے تھے


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ آپی چلیں کونے والا جو بنگلہ ہے نہ میں ابھی دیکھ کر آرہا ہوں ۔۔۔ سب شاید کہیں گئے ہیں چوکیدار بھی ابھی گیٹ پر نہیں ہے . جلدی اٹھیں ہم امرود توڑ کر لاتے ہیںوشہ جو لیپ ٹاپ پر ہارر مووی دیکھ رہی تھی حنّان کے دھاڑ سے دروزہ کھول کر آنے سے ڈر کر اچھل گئی۔۔۔

افففف!!! اللہ خیر۔۔۔‎ کیا بدتمیزی ہے کبھی تو انسانوں کی طرح نوک کر کے آیا کرو ہر وقت جنگلی حرکتیں کرتے ہو۔۔۔

وشہ اسکی بات کو نظر انداز کرتی تپ کر بولی جو اپنی ہی ہانک رہا تھا۔۔۔

بعد میں ڈانٹ لیجئے گا ابھی چلیں۔۔۔ حنان نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا ور باہر لیجانے لگا۔۔۔


روک جاؤ مجھے چپپل تو پہننے دو جذباتی۔۔۔ جب تک تم چھوٹے بلے کو بلا کر لاؤ ۔۔۔وشہ ہاتھ چھڑوا کر حکم صادر کرتی چلی گئی۔۔۔۔


پیچھے وہ بھی ضامن کو بلانے بھاگا۔۔۔۔


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

تینوں گیٹ سے قدرے دور کھڑے تھے۔۔۔۔۔یہ بنگلہ کم محل زیادہ لگتا تھا۔۔،۔سوسائیٹی کا سب سے بڑا بنگلہ ہی یہی تھا۔ ۔۔۔


جہاں کوئی نہیں رہتا تھا سوائے گارڈ اور اسکی فیملی کے ۔۔۔۔۔مگر کچھ دن پہلے ہی یہاں نئی فیملی آئی تھی کافی امیر فیملی تھی۔


اتنی معلومات بھی اسے حنان سے ہی پتہ چلی تھیں۔۔۔۔


کئی دفع وہ تینوں بہن بھائی خاموشی سے امرود توڑنےیہاں آچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔دونوں بھائی اندر کود جاتے تھے


جب کے وشہ باہر کھڑی اپنے بھائیوں کا پہرا دیتی تھی۔ ۔۔۔۔


دوپہر کا وقت تھا اس لئے جگہ بلکل سنسان تھی ورنہ اکا دکا لوگ چلتے پھرتے نظر آجاتے تھے۔۔۔۔۔


تینوں دبے قدموں کھلے گیٹ سے اندر گئے۔دائیں بائیں لان تھا بائیں جانب لان کے بیچ وبیچ بڑا سا فوارا بنایا گیا تھا


جس میں آبشار کی طرح پانی گر رہا تھا۔۔۔ دائیں جانب دیکھیں تو بہت خوبصورت سا باغیچہ بنایا گیا تھا


جہاں پھول ہی پھول تھے وشہ ویسے ہی پھولوں کی دیوانی تھی خاص کر گلاب اور موتیے کی۔۔۔۔


وہ وہیں کھڑی بس باغیچے کو دیکھنے میں محو ہو گئی تھی۔ جیسے قدرت کی ہر چیز کو آنکھوں میں قید کر لے گی۔۔۔۔


آپی چلیں کہیں چوکیدار نہ آجائے۔۔۔ حنان اسکا ہاتھ کھچتا ہوا بولا۔،وشہ کا دل کیا وہ وہیں رہ جائے یا سب ساتھ لے جائے


حنّان میرے بھائی ایک کام کرو تم دونوں امرود توڑو۔۔


جب تک میں باغیچہ دیکھ کر آتی ہوں پلیز ۔۔۔۔۔وشہ مسکین شکل بنا کر بولی ۔


حنان اوکے کہتا ضامن کو لے کر دوسری طرف چلا گیا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ چلتی ہوئی پھولوں کے قریب پوھنچ گئی ۔۔ نرمی سے اپنی گلابی مخروطی انگلیوں سے پھولوں کو چھونے لگی


یہ جانے بغیر کے کوئی اسے نظروں کے زریے دل میں اتار رہا تھا۔۔۔۔۔۔اس کی نظروں میں ایک جنونیت سی چھانے لگی تھی۔


وشہ کو اپنی پشت پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔ پلٹنے ہی لگی تھی جب اسے اپنی پشت سے بھاری سرد آواز سنائی دی


کون ہو تم ؟؟

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کون ہو تم؟


بھاری سرد آواز اسکے کانوں میں پڑی تو وہ وہیں ٹہر گئی۔۔۔


"اففف وشہ لگتا ہے آج تو تم گئی.. کہیں یہ مجھے جیل نہ بھجوا دیں اور اگر میں جیل چلی گئی تو؟؟


گھر والے تو رو رو کر ہی ختم جائیں گے۔۔۔۔ ہلکی آواز میں بڑبڑاتی وہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بہانے کن اکھیوں سے گیٹ کی طرف دیکھنے لگی


جہاں کوئی گارڈ نہیں تھا۔۔۔


یا اللہ‎ میرے بھائی جانے کہاں لٹکے ہوں گے۔۔۔۔ہوسکتا ہے بھاگ گئے ہوں؟ اسکا مطلب غددار بھائی مجھے چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ منہ میں انگلی دبائے وہ خود سے ہی سوال جواب کرنے لگی۔۔


رزم ہونٹ بھنچے اسکی پشت کو گھور رہا تھا جو جانے خود کو کونسی کہانیاں سنا رہی تھی۔۔


کیا تمہے سنائی نہیں دے رہا لڑکی۔۔۔ رزم چبا چبا کر بولتا اسے غصہ دلا گیا جو اب بھاگنے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔


مجھے تو سنائی دے رہا ہے اور میں کیا کوئی چور ہوں جو آپ یوں مجھ سے سوال جواب کرنے لگ گئے


دوسرا یہ میرا نام وشہ افنان ہے آپ اس طرح کیسے مخاطب ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔جھٹکے سے مڑ کر غصے سے تیز تیز بولتی وہ اپنا نام بھی بتا چکی تھی۔۔۔


ٹھیک ہے مس وشہ افنان تو بتائیے آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟ رزم نے چبا چبا کر سرد لہجے میں دوبارہ اپنا سوال دوہرایا۔۔


ہاں تو میں مہمان ہوں اپنی دوست سے ملنے آئی ہوں اسکے گھر۔۔ وشہ نے گڑبڑا کر جو سمجھ آیا کہ دیا۔۔


اوہ آئی سی۔۔۔۔ تو آپ ربیکا کی دوست ہیں رزم ایک آئی برو اچکا کر پوچھنے لگا


جب کے وشہ کا دل کیا کوئی چیز اٹھا کر سامنے کھڑے ہینڈسم کمینے کے سر پر مار کر رفو چکّر ہو جائے۔۔۔


خود پر کچھ بھی کرنے سے روکتی وہ ضبط سے گویا ہوئی جی بلکل۔۔۔۔۔وہ آرہی ہے ابھی میسج کیا ہے میں نے۔۔۔


رزم نے اسکی بات پر صرف سر ہلانے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ بھی بہت تھا وہ اتنی بات کر گیا وہ بھی ایک لڑکی سے۔۔۔


رزم ایک نظر اسے دیکھتا کچھ بھی کہے بغیر کار پورج کی طرف بڑھ گیا


اسکے جاتے ہی وشہ شکر کا کلمہ پڑھی باہر کی جانب دوڑ لگا چکی تھی۔۔


رزم کار کا دروازہ کھولتے کھولتے روکا گردن موڑ کر اسے دیکھا جو دوڑتی باہر نکل گئی تھی۔۔۔


چورنی۔۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتا وہ کار میں بیٹھ گیا..


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

افف گھر جاتے ہی شکرانے کے نفل پڑھونگی


وشہ گھر کی جانب پیدل ہی جاتی خود سے کہ رہی تھی (گھر قریب ہی تھا)


یکدم اسے اپنے غدار بھائی یاد آئے تو تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی ساتھ ہی بڑبڑہٹ بھی جاری تھی۔


دونوں کو تو جا کر بتاتی ہوں۔۔۔۔۔ اکیلی جوان بہن کو انجان جگہ۔۔۔انجان گھر چھوڑ کر بھاگ گئے وہ بھی ایک مرد کے سامنے


اگر وہ مجھے چھیڑنے کی کوشش کرتا تو کون بچاتا مجھے۔۔۔ بلکے نہیں ہاتھ تو لگا کر دکھاتا پھر بتاتی ہنہ


خود سے باتیں کرتی وہ گھر کا داخلی دروازہ کھول کر لان اور پورچ عبور کرتی گھر کے اندر آئی


حنان اور ارمغان دونوں صوفے پر بیٹھے مووی کے ساتھ پوپ کورن کھانے میں مگن تھے۔ وشہ سلگ کر ہی تو رہ گئی۔۔۔۔


ضبط کرتی آگے بڑھی جھک کر ٹیبل پے رکھے ریموٹ کو اٹھا کر نیوز چینل لگا کر ریموٹ لے کر اپنے روم کی جانب بھاگی۔۔۔


دونوں جو ایکشن مووی بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے یکدم چنبیل چینج ہونے پر ہوش میں آئے۔


آپی!!!! دونوں ساتھ چیخے۔۔۔۔۔وشہ جب تک اپنے روم کے سامنے پوھنچ چکی تھی۔۔ ۔میرے ساتھ غدداری کرنے کی پہلی قسط ہے یہ۔ ۔


شام کو آنے دو ابو کو دونوں کو ڈانٹ پڑواونگی ۔۔ وشہ زبان چڑاتی روم می چلی گئی


پیچھے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سوری آپی کرتے منانے دوڑے۔ ۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کیا چل رہا ہے اینگری بوائے۔۔۔ ارمغان صاحب آفس کا ڈور کھول کر اندر آتے بولے۔۔۔۔ جو اپنی سیٹ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا۔۔


رزم نے باپ کی آواز سن کر ہاتھ روکا پھر گردن موڑ کر انہیں دیکھا جو مسکراتے سائیڈ پر پڑے صوفے پر بیٹھ گئے۔۔۔۔


ای میلز چیک کر رہا تھا۔۔رزم ہلکا سا مسکرا کر گویا ہوا۔۔۔

کیا ابھی تک کمپلیٹ نہیں ہوا کام؟۔۔۔ "نہیں لگ بھگ کام کمپلیٹ ہوچکا ہے


جب تک آپ کوفی پیجیے پھر ساتھ ہی چلتے ہیں گھر

"رزم ہاتھ بڑھا کر ٹیبل کے سائیڈ پر رکھے انٹرکام کا ریسیور اٹھا کر کان سے لگا کر بولا۔


ہمم۔۔۔۔۔۔اوکے منگواؤ جب تک تمہاری ماں کو کال کر کے بتا دوں کھانا تیار رکھے ۔۔۔ارمغان صاحب نمبر ملاتے بولے۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

شام کا وقت تھا جب وشہ اپنے روم میں بیٹھی دونوں بھائیوں کو پڑھا رہی تھی


(یہ نہیں تھا کے وہ ٹیچر افورڈ نہیں کر سکتے تھے وجہ یہ تھی کے حنان اور ضامن اس سے شوق سے پڑھتے تھے)


وشہ نے رشوت( گول گپپے) انکی پاکٹ منی سے منگوائے تھے پھر جا کر دونوں کو معاف کیا تھا۔۔۔۔


کتنے کوئی کوڑھ مگز ہو تم کتنی بار سمجھا رہی ہوں ایک ہی سوال لیکن تمھارے اس خالی ڈبے میں کچھ بیٹھ ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔


وشہ پندرہ منٹ سے ضامن کو سوال سمجھا رہی تھی جو سن کر سمجھداری سے سر ہلاتا مگر جب پوچھو تو معصومیت سے کہ دیتا۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آیا آپی۔۔۔۔


وشہ کے صبر کا پیمانہ بھی اب لبریز ہوچکا تھا۔۔۔۔۔ وہ ویسے ہی بہت ڈسٹرب تھی۔ صبح جو ہوا اسے لے کر۔۔


جب بھی آنکھیں بند کرتی ہینڈسم کھڑوس نظروں کے سامنے کھڑا گھورتا نظر آتا


اسکے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ نہ جانے کیوں دماغ پر سوار ہو رہا تھا۔۔۔


حنان نے اپنی کتاب سے سر اٹھا کر ضامن کو دیکھا جو رو دینے کو تھا۔۔۔یکدم بھائی کے لیے جذبات امڈ کر آئے


چھوڑو ضامن میں تمہے سمجھا دیتا ہوں چلو میرے ساتھ اپنے روم میں۔۔۔۔۔


حنان اپنی کتابیں سمیٹتا اسکا ہاتھ پکڑتا روم سے لے گیا۔۔ وشہ دروازے کی آواز پر ہوش میں آئی۔


ہیں یہ دونوں کہاں چلے گئے ؟ پورے کمرے میں نظر دوڑاتی خود سے بولی۔۔ پھر کندھے اچکا کر موبائیل یوز کرنے لگی۔ ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


شام کا وقت تھا وہ لوگ اس پاس کے گھروں میں تقریبن خود جا کے دعوت دے آئے تھے۔۔۔۔ بس کچھ اور گھر رہتے تھے۔


جہاں جانا باقی تھا اسی لئے دونوں میاں بیوی جلدی جلدی تیار ہوتے باہر کی جانب بڑھنے لگے


تاکے آس پڑوس کے باقی گھروں میں بھی دعوت دے دیں۔۔وہ لوگ نئے آئے تھے اسلئے یہ سب ایک دوسرے کو جاننے کے لئے یہ موقع اچھا تھا۔۔۔۔۔


موم ڈیڈ روکیں میں بھی چلتی ہوں ویسے بھی گھر پر بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔ زیاف بھائی بھی گھر پر نہیں اور رزم بھائی اپنے روم میں ہیں۔


کیا پتہ کوئی دوست ہی بن جائے یہاں۔۔۔۔۔۔ربیکا بولتی ان تک آئی جو گیٹ سے باہر نکل رہے تھے۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وہ تینوں ابھی باہر نکلے تھے جب ربیکا نے چلتے چلتے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔موم وہاں چلتے ہیں پہلے۔۔


چلو بھئی جہاں ہماری پرنسس کہ رہی ہے وہی چلتے ہیں۔۔

وہ تینوں گھر کے باہر کھڑے تھے جب چوکیدار نے پوچھا۔۔۔


جی کس سے ملنا ہے آپ کو ؟


جی ہم یہاں نئے آئے ہیں اور ایک دعوت دینی تھی آس پڑوس والوں کو اسی سلسلے میں ہے ہیں۔۔


اوہ آپ باہر والی بیٹھک میں بیٹھیں میں سر کو بتاتا ہوں۔


ان لوگوں کو گھر کے باہر بنی بیٹھک جو کے حنان اور ضامن کے دوستوں کے لئے تھی وہاں بیٹھا کر خود اندر اطلاع دینے چلا گیا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

حنان اور ضامن جو ٹیرس پر تھے گیٹ سے اندر آتی فیملی کو دیکھ کر نیچے آئے۔ ۔۔


السلام عليكم۔۔۔۔۔ دونوں نے قریب آکر ساتھ سلام کیا۔۔ازمغان

صاحب جو مسکراتے ہوۓ ربیکا کو کچھ کہ رہے تھے


دونوں کی آواز پر تینوں نے ساتھ گردن موڑ کر انھیں دیکھا


جہاں دو پیارے سے بچے کھڑے تھے۔۔۔۔


وعلیکم اسلام بھئی یہ پیارے پیارے بچے کس کے ہیں ا

ازمغان صاحب نے ضامن کے سے پر ہاتھ رکھتے پوچھا جو شرماتا اپنے بھائی کو دیکھنے لگا تھا۔۔


انکل ہم یہیں رہتے ہیں۔ حنان نے معصومیت سے جواب دیا

جیسے اس سے زیادہ معصوم اور کوئی نہیں۔۔۔


اچھا اچھا۔


ہائے۔۔ میں ربیکا ہم یہاں نئے آئے ہیں۔۔ ربیکا جو اتنی دیر سے چپ تھی ہاتھ آگے بڑھاتی بول پڑی ۔۔۔


ہیلو۔۔ دونوں نے باری باری ہاتھ ملایا۔۔اتنے میں چوکیدار بھی آگیا۔۔۔۔ انھیں لے کر ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔۔


ربیکا باجی چلیں گارڈن میں آپ کو اپنی بلی دکھاتا ہوں۔


ضامن ربیکا کے قریب آ کر دھیمی آواز میں بولا۔۔۔۔ ہاں چلو۔۔۔


موم ڈیڈ میں جاؤں ربیکا جھٹ کھڑی ہوتی اجازت لینے لگی۔۔۔ ہاں جاؤ۔۔ ازمغان صاحب نے مسکرا کر اجازت دی۔۔۔


دونوں آگے پیچھے باہر نکل گئے۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

افنان صاحب اور نورین بیگم اندر آئے۔۔۔۔

السلام عليكم۔۔۔۔


وعلیکم اسلام۔۔۔ تشریف رکھیں افنان صاحب مسکرا کر مصافہ کر کے بیٹھے۔۔۔


ہمارے چوکیدار بے بتایا آپ لوگ یہاں نئے آئے ہیں۔۔۔ جی


سہی سنا۔۔ دراصل یہاں کسی کو جانتے نہیں اسلئے میری بیٹی کی برتھڈے پارٹی پر دعوت دینے اے ہیں تاکے کچھ جان پھچان بن سکے۔۔


یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔افنان صاحب مسکرا کر گویا ہوۓ


آپ سب لازمی آئیے گا۔۔افشاں بیگم نے مسکرا کر iانویٹیشن کارڈ نورین بیگم کو دیا۔۔۔ جی انشاءلله


چلیں پھر کل ملاقات ہوتی ہے۔۔۔


ارے ایسے کیسے چائے پی کر جائیں۔۔


پھر سہی ابھی اور بھی جگہ جانا ہے۔۔ دونوں اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔۔


چلیں پھر دوبارہ ضرور آئے گا۔۔۔ انشاءلله۔


وہ لوگ ڈرائنگ روم سے نکل کر باہر آئے جہاں تینوں گھاس پر بیٹھے بلی کے ساتھ کھیل رہے تھے۔۔۔ ربیکا چلو بیٹا۔۔


افشاں بیگم کی آواز پر تینوں جلدی سے انکی جانب آئے


السلام عليكم۔۔ ربیکا نے جھٹ دونوں کو مشترکہ سلام کیا۔


وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔یہ آپ کی بیٹی ہے؟ نورین بیگم نے آگے بڑھ کر ربیکا کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا


جس پر سب مسکرا دئے۔۔جی۔۔۔۔۔ماشاءالله بہت پیاری ہے


ہماری بھی ایک بیٹی ہے مگر اس وقت گھر پر نہیں ہے قریب ہی اپنی فرینڈ کے گھر گئی ہے ورنہ مل لیتے اسے بھی۔۔


نورین بیگم مسکرا کر گویا ہوئیں


کوئی بات نہیں کل مل لیں گے آپ سب نے ضرور آنا ہے آپ کی بیٹی سے بھی کل ہی ملاقات ہو جائے گی


جی ضرور۔۔۔۔۔۔۔ اللہ‎ حافظ۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

آپی کیا آپ ہمارے ساتھ چل رہی ہیں؟ ضامن روم میں آکر جوش سے گویا ہوا۔۔۔۔۔۔


جو سڑے سڑے منہ بناتی اپنے الماری میں ہینگ کیے کپڑے نکل نکل کر دیکھتی اور واپس تانگ دیتی۔۔.


(وہ جب گھر آئی تب حنان اور ضامن نے بتایا تھا انویٹیشن کا )


مجھے ابھی تنگ مت کرو بہت گھمبیر مسلئہ ہے جو اسی وقت حل کرنا ہے۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا افف !! میرے پاس کوئی برتھڈے پارٹی ڈریس کیوں نہیں ہے ؟


وشہ کی بات پر ضامن نے الماری میں ٹنگے کپڑوں کو دیکھا

جہاں کپڑوں سے الماری لدی ہوئی تھی۔۔۔


کچھ سوچتا وہ آگے بڑھا۔ ۔ ایک منٹ روکیں۔۔۔ میں آپ کی ہیلپ کرتا ہوں۔۔۔ ہٹیں زرا۔۔


ضامن اپنے گال پر انگلی رکھ کر سوچتا سائیڈ پر ہونے کا کہ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑی چیئر اٹھا کر اس نے الماری کے سامنے رکھی


اور چڑھ کر ہینگ کئے سارے کپڑے اتر اتر کر اسے پکڑنے لگا۔


جو بیزار ہو کر خاموش کھڑی اسکی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔ ۔۔


ضامن اسٹاپ۔۔۔۔۔ تم نے میری ساری الماری خالی کردی۔۔ وشہ نے سارے ڈریس بیڈ پر پھینک کر اسے گھورا


جو چئیر سے اتر کر سکون سے چلتا وشہ کو اگنور کرتا بیڈ کے قریب آ کر ایک بار پھر ڈریس سلیکٹ کرنے لگا۔۔


یہ کام تم ویسے بھی کر سکتے تھے۔۔


جی لیکن آپ بار بار نکال رہی تھیں اس لیے میں نے سوچا ایک بار ہی نکال کر دیکھ لیتے ہیں


ضامن مصروف سا بول کر ایک ایک ڈریس کو ہاتھ میں لے کر غور کرتا پھر دوبارہ رکھ دیتا۔۔۔۔


بیس پچیس منٹ بعد جا کر ضامن کو پرپل اینڈ بلیک کنٹراسٹ کا اسٹئیلش سا شلوار قمیض پسند آیا۔۔۔


زبردست !! میں بھی پہلے یہی پہننے کا سوچ رہی تھی ۔ وشہ نے اسکے ہاتھ سے ڈریس جھپٹے کے انداز میں لیا


اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے ساتھ لگا کر ہر زاویے سے دیکھنے لگی۔۔


جب کے ضامن صدمے میں چلا گیا۔۔۔ اتنی خواری کے بعد یہ صلا ملا تھا ایک تھنک یو تک نہیں۔۔۔


ضامن اسے اپنے آپ میں مصروف دیکھتا باہر نکل گیا۔۔۔(دل ہی ٹوٹ گیا تھا)


ویسے تھنکس بلے۔۔۔ وشہ مسکرا کر پیچھے مڑی مگر یہ کیا روم تو پورا خالی تھا۔۔۔


یہ کہاں چلا گیا۔۔ بڑبڑا کر کہتی وہ دوبارہ شیشے میں ڈریس لگا کر دیکھنے لگی۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~وشہ تیار ہوگئی بیٹا؟۔۔۔ نورین بیگم دروازے پر کھڑی اپنا دوپٹہ سہی کرتیں پوچھنے لگیں۔۔۔۔۔ جو اپنے بالوں میں بینڈ باندھ رہی تھی۔۔۔۔


جی ہوگئی چلیں۔۔۔۔۔۔۔ وشہ نے جلدی سے دوپٹہ لیا


پھر نورین بیگم کے ساتھ لاؤنج میں آئی جہاں پہلے سے ہی ابّو اور دونوں تیار بیٹھے انکا ہی انتظات کر رہے تھے


ماشاءالله میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔۔ افنان

صاحب نے مسکرا کر اسکے سر پر پیار کیا۔۔تھنک یو ابّو ۔۔۔۔


بس آپ کو تو صرف اپی ہی پیاری لگتی ہیں۔۔۔ ہم تو جیسے جمعدار دیکھتے ہیں۔۔۔ حنان ناک چڑھا کر بولا۔۔۔۔


بیچارہ کب سے انتظار میں تھا کب کوئی تعریف کرے۔۔۔۔ مگر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔۔۔


کیا واقعی حنان تم جمعدار ہو ؟ وشہ اسے چڑھانے کو ہنسی ضبط کرتی پوچھنے لگی۔۔۔


ہاں تو آپ کا ہی بھائی ہوں نہ میں جمعدار تو آپ جمعدار کی بہن جمعدارنی۔۔۔۔۔ حنان نے زبان چڑھا کر کہا۔۔


ضامن زور سے ہنسا۔۔۔۔۔۔جب کے دونوں اپنے بچوں کی نوک جھونک سے محضوظ ہورہے تھے۔۔


بہت زبان لمبی ہوتی جا رہی ہے تمہاری۔۔ وشہ نے مصنوئی غصے میں کہا۔۔


اس سے پہلے جنگ شروع ہوتی۔۔۔ نورین بیگم نے بیچ میں جھڑک دیا۔۔۔ بس کرو تم لوگ چلو ویسے ہی اتنی دیر ہوگئی ہے۔۔۔۔


سب آپی کی وجہ سے دیر ہوئی۔۔۔۔


ہاں تم تو جیسے رات کو ہی تیار ہو کر سوئے تھے۔۔۔


یونہی نوک جھونک کرتے سب کار میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


سوا آٹھ بجے وہ لوگ ازمغان ولا پوھنچے۔۔ کار سے اتر کر سب اندر بڑھنے لگے


جب کے وشہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔ کن اکھیوں سے باغیچے کو دیکھا۔۔۔ ہر طرف لائٹننگ تھی۔۔۔۔۔ ہر چیز روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ظاہر ہے اکلوتی بیٹی کی سالگرہ تھی۔۔۔


سب اندر بڑھے۔۔۔ وشہ سب سے پیچھے تھی۔۔۔ بنگلہ جتنا باہر سے خوبصورت تھا اس سے کہیں زیادہ اندر سے شاندار تھا۔۔۔


وشہ ادھر ادھر دیکھتی اندر بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔سفید اور گلابی غباروں کے امتزاج سے سارا حال سجایا گیا تھا


ایک جانب میوزک سسٹم کے ساتھ ڈی جے بیٹھا تھا۔۔۔ جو برتھڈے سونگز چلانے میں مصروف تھا۔۔


ملازم مستعدی سے مہمانوں کو جوس اور ڈرنکس سرو کررہے تھے۔


سارا حال مہمانوں سے بھرا تھا۔۔۔۔ وشہ دیکھنے میں اتنی مگن تھی کے اسے پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔۔ سب رزم کی فیملی سے مل ملا کر ٹیبل کی جانب بڑھ گئے


جہاں کیک کاٹنے کے لئے صرف رزم کا ہی انتظار تھا۔۔۔۔ جو صوفے پر اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔۔


میں بلا کر لاتی ہوں بھائی کو۔۔۔۔۔۔ ربیکا چھری واپس رکھتی تیزی سے اسے بلانے بھاگی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

آگئے بھائی !! ربیکا رزم کا ہاتھ پکڑتی مسکرا کر قریب آئی۔۔۔۔


"رزم پہلے ان سے ملو۔۔۔۔ افنان ملک یہیں قریب میں ہی انکا گھر ہے۔۔۔۔۔۔ ازمغان صاحب نے رزم سے ان کا تعارف کروایا۔۔


السلام عليكم انکل۔۔۔۔۔ وعلیکم اسلام بیٹا۔۔۔۔ رزم کے سلام کرنے پر افنان صاحب نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔


افنان صاحب یہ میرا بڑا بیٹا ہے رزم ازمغان مرزا۔۔۔۔۔


ماشاءالله۔۔۔۔۔


ڈیڈ کم۔۔ ربیکا ضامن کو دیکھتی مسکراہٹ دباتی زور سے بولی۔۔۔۔۔۔جو کیک کو دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔۔۔۔


کمینگ بیٹا۔۔ آجائیں افنان صاحب۔۔، آجاؤ رزم تم بھی۔۔۔


ازمغان صاحب رزم کو کہتے افنان صاحب کو لیتے آگے بڑھ گئے۔۔۔۔


رزم نے آگے بڑھنے سے پہلے پورے حال میں نظریں دوڑائیں مگر اسے وہ کہیں نہیں دیکھی۔۔۔،۔سر جھٹکتا وہ ربیکا کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کیک کتنے کہ بعد سب کو سرو کیا جانے لگا۔۔۔ حنان تم لوگوں کی آپی نہیں آئیں؟ ربیکا چیئر پر بیٹھتی پوچھنے لگی۔۔۔


جو کیک کھا رہے تھے۔۔ کیا تم نہیں ملی؟ ابھی یہیں تو تھیں تمھارے پرنٹس سے مل رہی تھیں۔۔ حنان نے کیک کھاتے ہوئے بتاہا۔۔

ہیں۔۔۔۔! مجھے تو نہیں ملیں۔۔،۔چلو مل کر آتے ہیں۔۔۔ ربیکا کہتے ساتھ ہی چیئر پیچھے کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔


یار تم چلی جاؤ وہ یہاں نہیں تو ضرور باہر باغیچے کے پاس ہونگی ویسے بھی انہیں پھول بہت پسند ہیں تبھی۔۔۔۔ میں کیک کھا رہا ہوں


حنان نے دوبارہ چمچ بھر کر منہ میں ڈالا۔۔


بھوکے نیتتے بعد میں کھانا ابھی شرافت سے اٹھ جاؤ۔۔ ربیکا گھور کر بولو۔۔۔۔۔۔ضامن جو اسکی پلیٹ سے کیک اٹھانے لگا تھا۔۔۔۔ ربیکا کی تیوریاں دیکھ کر شرافت سے کھڑا ہوگیا۔۔۔


چلیں ربیکا باجی میں چلتا ہوں۔۔۔


ٹھیک ہے چلو۔۔۔۔۔۔۔ اور تم کیک ہی کھانا صرف یہ نہ ہو پلیٹ بھی نگل گئے


ربیکا جل کر کہتی ضامن کا ہاتھ پکڑتی چلی گئی۔۔۔


پیچھے حنان نے اسکی پلیٹ کا کیک بھی اپنی پلیٹ میں رکھا اور اٹھ کر انکے پیچھے بھاگا۔۔ ویٹ گائیز میں بھی آرہا ہوں


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


السلام عليكم۔۔۔میرا نام ربیکا ہے۔۔"آپ حنان اور ضامن کی سسٹر ہیں نہ؟؟ سب سے مل ملا کر وہ ان دونوں کے ساتھ وشہ سے ملنے آئی۔۔


وشہ اپنے سامنے پندرہ سولہ سال کی لڑکی کو دیکھ کر مسکرا بھی نہ سکی۔۔۔


وشہ کی نظر ان سے کچھ فاصلے پر کھڑے رزم پر گئی۔۔۔


جو اپنے بھائی سے کچھ بات کر رہا تھا۔۔۔۔


یکدم رزم نے اسے دیکھا اس کے دیکھنے پر وشہ گڑبڑا کر نظر جھکا گئی


”مطلب یہ ربیکا ہے افففف !! وشہ اس دن کی کہی باتوں کو

یادکرکے شرمندہ ہونے لگی۔۔۔۔


وعلیکم اسلام۔۔۔ تم ربیکا ہو ؟ وشہ نے زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجا کر پوچھا


(کہیں کھڑوس یہاں نہ آجائے ورنہ اجھی خاصی بے عزتی ہوجائے گی)


جی میں ہی ربیکا ہوں۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ ۔۔


کیا میں آپ کو ان دونوں کی طرح آپی کہ سکتی ہوں۔۔ ربیکا خوش ہوتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔۔ وشہ کو وہ اچھی لگی


خوش مزاج اور گھل ملنے والی۔۔۔۔ مگر اسکا بھائی اف! وشہ سوچتی ایک بار پھر رزم کو دیکھنے لگی۔۔۔جو ایسے کھڑا تھا جیسے سب پر احسان کر ررہا ہے ہنہ


منہ بناتی وہ دوبارہ انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔

ہاں ضرور بول سکتی ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک شرط پر


اگر منظور ہے تو۔۔۔ کیا ؟؟ وشہ کی بات پر تینوں نے ساتھ کہا۔۔۔


وشہ کو ہنس آگئی۔۔۔ ہاہاہا !! یہی تمہے مجھ سے دوستی کرنی پڑے گی۔۔۔۔ بولو منظور ؟ وشہ نے ہاتھ ملانے کے لئے بڑھایا۔۔۔۔۔۔نڈریڈ پرسینٹ چہک کر کہتی اس نے وشہ سے ہاتھ ملایا۔ ۔


رزم جو کچھ فاصلے پر کھڑا سرسری سا انہیں دیکھ اور ساتھ سن بھی رہا تھا۔۔۔ ہاتھ ملانے پر انکی طرف

دیکھنے لگا۔۔۔۔


پھر ایکسیوز کرتا انکی جانب بڑھا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


ربیکا !! وہ جو باتِں کرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔ رزم کی آواز پر خاموش ہوتے گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگے


وشہ اسے دیکھ کر فرار ہونے کا بہانہ سوچنے لگی۔۔۔۔۔جی بھائی۔۔۔ تمہے اندر زیاف بلا رہا ہے روم میں۔۔۔۔جاؤ۔۔


رزم ایک نظر اسے دیکھتا سنجیدہ سا بولا۔۔۔ اچھا۔۔ میں آتی ہوں وشہ آپی۔۔۔ ربیکا اسے کہتی اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔


رزم نے حنان اور ضامن کو دیکھا۔۔۔ جاؤ تم دونوں بھی اندر ڈنر لگ رہا ہے۔۔۔


کھانے کا سن کر دونوں اندر کی جانب بھاگے۔۔۔ وشہ بھی پیچھے جانے لگی جب رزم نے اسکا راستہ روکا۔


یہ یہ کیا بدتمیزی راستہ کیوں روکا۔۔۔ وشہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔۔ جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔


میں تو صرف یہ جاننا چاہ رہا ہوں یہ چوری کرنے کا شوق کب سے ہے؟


رزم کے سوال پر وشہ غصے میں ایک قدم اسکی جانب بڑھی ۔۔ میں کوئی چور نہیں ہوں۔۔


نہ ہی میں پھول توڑنے کے ارادے سے آئی تھی اور میں کیوں بتاؤں کے کیوں آئی تھی ہنہ۔۔۔۔۔۔


وشہ تیز تیز کہتی اسکی سائیڈ سے نکل کا بھاگی۔۔۔۔ رزم نے اسے دیکھا۔۔۔


چپڑ چپڑ کروالو بس اس لڑکی سے۔۔۔۔ آہستہ سے کہتا وہ خود بھی اندر کی جانب بڑھ گیا۔ ۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ آپی آپ نے کھانا کھایا؟ ۔۔۔ ہاں بہت مزے کا تھا۔۔۔ ربیکا اسکے ساتھ آ کر بیٹھتی مسکرا کر پوچھنے لگی


جس کا جواب اسنے بھی مسکرا کر دیا۔۔۔۔۔۔ اتنے میں زیاف اپنے دوست کے ساتھ انکی طرف آتا دکھا۔۔۔۔


ہیلو پریٹی گرلز ۔۔۔زیاف نے قریب آکر دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔السلام عليكم۔۔۔۔ اوہ وعلیکم اسلام۔۔۔سلام کا جواب دیتا وہیں ان دونوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔۔


وشہ کو اسکے ساتھ بیٹھے شخص کی نظروں سے الجھن ہونے لگی۔۔


جو کب سے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے سالم ہی نگل جائے گا۔۔۔۔


یہ بات زیاف نے بھی محسوس کی تو جھٹ بہانہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔


اوکے گرلز پھر ملیں گے۔۔۔ زیاف مسکرا کر کہتا باہر کی جانب بڑھنے لگا۔۔جاتے جاتے پھر اس لڑکے نے گردن گھما کر اسے دیکھا


زیاف نے روک کر سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔۔ وہ انکے باپ کے دوست کا بیٹا تھا۔۔۔۔۔کافی رنگین مزاج کا۔۔۔


زیاف نے اسکے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھا۔۔۔ چلو۔۔۔زیاف نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔اسے خالد کا وشہ کو یوں دیکھنا کافی ناگوار گزرا تھا۔ ۔۔


خالد جیسے ہوش میں آیا۔۔ ہاں ہاں چلو۔۔

ان کے جاتے ہی واشہ نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔ہنہ گھٹیا شخص ۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ !! ربیکا ملنے آئی ہے۔۔۔۔ نورین بیگم نے وشہ کو آواز دی جو گھاس پر بیٹھی ہاتھ اٹھائے دعا کرنے میں مشغول تھی۔۔۔


یا اللہ‎ بادل آگئے ہیں تو برسا بھی دیں۔۔ آپ تو جانتے ہیں بارش مجھے کتنی پسند ہے بس جلدی سے برسا دیں


تاکے میں پکوڑے اور چٹنی کھا سکوں۔۔۔۔


"ربیکا وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہ ایسے سنیں گیں نہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں کونسا چلہ کاٹ رہی ہیں اس وقت۔۔۔حنان کہتا آگے بڑھا


ربیکا ہنستی ہوئی اسکے پیچھے گئی۔۔۔


پلیز پلیز بس گرج چمک کے ساتھ شروع ہوجاؤ پیاری بارش۔۔۔ وشہ آنکھیں میںچیں ہاتھ اٹھائے دعا کرنے میں مشغول تھی۔۔


آج موسم کافی حسین تھا۔۔۔۔۔۔ دونوں اسکے پیچھے ہنسی ضبط کیے کھڑے رہے۔۔۔۔ ربیکا نے موبائل نکال کر


اس میں بادل گرجنے کی آواز سرچ کر کے اسکے کان کے قریب کی۔۔۔


بادل گرجنے کی آواز پر وشہ جھٹ آنکھیں کھولتی اچھل کر کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ یاہوووو۔ ۔۔۔


وشہ کے یوں کرنے کی دیر تھی ربیکا حنان کے ساتھ پیچھے سے آتے ضامن اور زیاف کے قہقہے ابل پڑے۔۔۔


وشہ روک کر انہیں پہلے نا سمجھی سے دیکھنے لگی جب ربیکا کے ہاتھ میں پکڑے موبائل سے دوبارہ آواز آئی


ساتھ ہی انکے پاگلوں کی طرح قہقے لگانے کا سمجھ آیا۔۔


مجھے بیوقوف بنایا۔۔۔۔رک جاؤ زرا۔ ۔ وشہ ربیکا کو مارنے بھاگی۔۔دونوں بھاگ بھاگ کر تھک گئیں تو وہی گھاس پر گر نے کے انداز میں بیٹھ گئیں۔۔


تینوں بھی ہنستے ہوئے ساتھ آکر بیٹھے۔۔۔۔


ارے تم کب آئے۔۔۔ وشہ کی نظر زیاف پر پڑی تو ہنسی ضبط کرتی پوچھنے لگی۔۔۔۔۔


نظر آگیا میں؟ زیاف آنکھیں دکھاتا بولا۔۔۔


ہاہاہا!! سوری میں نے ابھی دیکھا تمہے۔۔۔ ہمم تو چلو مہمانوں کے لئے کچھ کھانے پینے کو منگواؤ۔۔


بڑے کوئی مہمان۔۔۔وشہ منہ چڑھا کر بولی۔۔۔


"نہیں زیاف بھائی آپ نے ابھی مجھے باہر کہا تھا کے امرود توڑنے جائیں گے ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے زیاف کوئی جواب دیتا


حنان اور ضامن دونوں پاس کھڑے بولے۔۔۔ افف اچھا چلو۔


"آجاؤ تم دونوں بھی۔۔۔۔۔ زیاف بیزارہت سے کھڑا ہوا پھر دونوں کو بھی ساتھ چلنے کی پیشکش کی۔۔۔۔


ہاں چلو۔۔۔۔۔ میں امی کو بتا کر ابھی آئی۔ ۔۔وشہ جلدی سے کھڑی ہوتی اندر کی جانب بھاگی ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

تم لوگوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔حنان تم چڑھو۔۔۔ وشہ نے حنان کو کہا۔۔۔


میں نہیں چڑھ رہا۔۔۔۔۔ میں ابھی نہا کر آیا ہوں کپڑے گندے ہوگئے تو امی ڈانٹیں گی۔۔۔


حنان کی بات پر اسنے صرف گھورا۔۔۔۔۔۔ اگر کچھ کہتی تو

وہ لازمی ناراض ہو کر چلا جاتا۔۔۔


اچھا ہٹو تم سب میں چڑھتی ہوں۔۔ وشہ سب کو پیچھے کرتی درخت کی موٹی شاخ کو پکڑ کر چڑھنے لگی۔۔۔


زیاف تھوڑی دیر کے لیے اندر گیا تھا آتے ہوئے بولا


وشہ یہ کیا کر رہی ہو اترو میں دیتا ہوں اتار کر۔۔۔۔ زیاف پریشانی سے کہتا آگے آیا


مگر جب تک وہ اوپر چڑھ کر موتی سی شاخ پر بیٹھ کر ایک ہاتھ سے ٹہنی کو پکڑے دوسرے ہاتھ سے امرود توڑنے لگی۔۔۔۔


یکدم بادل جو صبح سے برسنے کو تیار تھے۔۔۔۔۔جس کے لئے وشہ صبح سے گھاس پر بیٹھی بقول حنان کے چلہ کاٹ رہی تھی


زور و شور سے گرجے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے وشہ میڈم

چیخ مارتی درخت پے لٹک کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔


نیچھے کھڑے جو اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ ان سب کی بھی چیخیں بلند ہوئیں۔۔۔۔۔۔ آپی! !! وشہ!! ۔۔۔۔آآآ۔۔۔۔


کوئی بچاؤ میری آپی کو ورنہ نیچے گر کر سر پھٹ گیا تو ٹانکے لگنے کے لئے بال کاٹنے پڑیں گے۔۔۔۔۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔۔۔۔


حنان کی بات پر یکدم سنناٹا ہوا۔۔۔۔ وشہ نے نیچے اپنے بھائی کو دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔۔


تم بیوقوف میرے گرنے کا انتظار کر رہے ہو ایک بار مجھے اتر جانے دو میں تمہے گنجا کر دونگی۔۔۔۔ وشہ صدمے سے باہر نکل کر یکدم پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی۔۔۔


بیوقوف!! زیاف نے اسکے سر پر چپت لگائی اور سیڑی لینے بھاگا۔۔۔۔۔۔اتنے میں موٹی موٹی بوندیں گرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیز بارش میں تبدیل ہوگئی۔۔۔


وشہ آپی سمبھل کر۔۔۔۔۔،ربیکا گھبرا کر بولی بارش تیز ہونے کی وجہ سے وہ لوگ چہرہ اٹھا کر نہیں دیکھ پا رہے تھے. ۔۔


یا اللہ‎ یہ کیا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ بارش مانگی تھی یہ تو لگ رہا ہے جیسے مجھے موت کا فرشتہ لینے آ رہا ہے۔۔۔ پلیز مجھے بچا لیں ۔۔۔


کوئی بچاؤ میرے ہاتھ چھوٹ رہے ہیں۔۔۔ وشہ چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔۔۔۔۔ جب گیٹ سے بلیک مرسیڈیز اندر آئی۔۔۔۔


رزم کار سے نکل کر اندر جانے لگا۔۔۔۔ جب نظر زیاف پر گئی جو دونوں ہاتھوں سے سیڑی کو تھامے بھاگنے کے انداز میں لان کے کونے پر جا رہا تھا


رزم نے دیکھا اسکی بہن نیچے کھڑی چہرہ اوپر کی جانب کیے کچھ کہ رہی تھی


رزم نے جب غور کیا تو کوئی لٹکا ہوا نظر آیا۔۔۔۔ تجسس کے ہاتوں بارش کی پرواہ کیے بغیر وہ وہاں پونھچا۔۔


وشہ کو لٹکے دیکھ اسکا قہقہہ چھوٹنے لگا۔ ۔ جو بہت مشکل سے ضبط کیے وہ آگے بڑھا۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔


رزم کی آواز پر سب نے گردن گھوما کر اسے دیکھا جو پورا بھیگ چکا تھا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم کی آواز پر سب نے گردن گھوما کر اسے دیکھا... جو پورا بھیگ چکا تھا۔۔۔۔


وشہ تو اسے سامنے دیکھتے ہی رو دینے والی ہو گئی...اتنی شرمندگی پتہ نہیں کیا سوچ رہا ہو گا۔۔۔


وشہ سوچتی ہوئی آنکھیں بند کے نیچے رکھی سیڑی پر پیر رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔


اسلام علیکم رزم بھائی.... سب نے یک زبان ہو کر سلام کیا

جس نے صرف سر ہلا اور سب کو اندر جانے کا حکم دیا۔۔۔


بارش کی وجہ سے سب بری طرح بھیگ چکے تھے۔۔۔ بھیگ تو وہ بھی رہا تھا۔۔۔۔ مگر اسے اپنی کوئی پرواہ نہیں تھی


سب نے وشہ کو دیکھا جو آنکھیں پٹ سے کھولتی انھیں جانے سے منا کر رہی تھی۔۔۔


سنا نہیں تم سب نے۔۔۔۔ جاؤ اندر اور زیاف لے کر جاؤ واپس سیڑی۔۔۔،۔ مجھے دوبارہ بات دوہرانی نہ پڑے ۔۔


رزم نے اپنی رعب دار آواز میں سب کو حکم صادر کیا۔۔۔


سب نے ترحم بھری نظروں سے وشہ کو دیکھا جو ہلکے ہلکے نفی سے سر ہلا رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر رزم کو دیکھ کر سب ایک ایک کر کے جانے لگے۔۔۔۔


میں کیسے اترونگی۔۔۔ہاں۔۔۔ پلیز روکو سب۔۔۔۔وشہ غصے سے چیخی۔۔


وشہ کی آواز پر سب نے ایک بار پھر اسے دیکھا۔۔۔میری آپی کا اب اللہ‎ ہی حافظ ہے حنان بڑبڑاتا افسوس سے سر جھٹکتا چلا گیا۔۔۔۔


اف اللہ‎ میرے ہاتھ پھسل رہے ہیں۔۔۔۔ بچاؤ مجھے پلیز۔۔ وشہ چیخ رہی تھی۔۔۔ جب کے رزم سکون سے کھڑا رہا۔۔۔


چلاؤ مت اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔۔۔ رزم نے سکون سے کہاں۔۔۔۔۔زیاف سیڑی رکھ کر بھاگتا ہوا آرہا تھا۔۔۔۔


جب رزم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے پلت جانے کو کہا۔۔۔۔

وشہ بےبسی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جو بھائی کے اشارے سے چپ چاپ مڑ کر چلا گیا۔۔۔


یا اللہ‎ موت کا فرشتہ ہی بھیج دیں۔۔۔ یہ تو جللاد ہوگئے ہیں۔

وشہ روہانسی ہو رہی تھی۔۔۔۔ جب رزم کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔


باتیں کرتی تھکتی نہیں ہو۔۔۔ جو خود سے بھی باتیں کرتی رہتی ہو۔۔۔۔اس کی بات سن کر وشہ نے تپ کر جھٹکے سے پنیچے اسے دیکھنا چاہا۔۔۔ مگر برا ہوا ۔۔۔،۔۔۔ ہاتھ پھسل گیا۔۔۔


وشہ کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔۔اس سے پہلے وہ زمین پر گر کر ہڈی تڑوا لیتی۔۔۔ رزم جو قریب ہی نیچے کھڑا تھا جلدی سے آگے بڑھ کر اسے گرنے سے بچایا۔۔۔


وشہ نے زور سے آنکھیں میچیں ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے بند کیے چیخنے مارنے لگی۔۔۔


رزم اسے دیکھنے لگا جو بلکل معصوم بیچی لگ رہی تھی۔۔۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔


وشہ نے اسکا کورٹ اپنے ہاتھوں سے جکڑا۔۔۔۔ رزم یکدم ہوش میں آیا۔۔۔ وشہ کو جب لگا وہ بچ گئی ہے تو دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔


رزم کو اتنے قریب دیکھ کر سٹپٹا گئی۔۔۔ اتت اتریں نیچے مجھے۔۔ گرنے دیتے۔۔،۔۔وشہ جانے کیوں اس سے روٹھتی ہوئی دوسری جانب دیکھنے لگی



رزم نے اسے آہستہ سے اسے نیچے اتارہ اور جانے لگا۔۔۔


"افف بچ گئی نہ جانے کونسا عذاب نازل ہوگیا تھا مجھ پر۔۔ وشہ پھر بڑ بڑبڑاتی رزم کے پیچے چلنے لگی....


رزم ایک دم رک کر پلٹا۔۔ وہ جو ابھی تک بڑبڑاتی اپنا دوپٹہ سہی سے اوڑھتی تیزی سے آرہی تھی۔۔۔ رزم سے ٹکّر ہوتے ہوتے بچی۔۔۔


شکر ہے تم نے بروقت بریک لگائی ورنہ ایکسیڈنٹ میں تمہارا خاصا نقصان ہوجاتا۔۔۔۔ویسے ہی اتنی سے ہو تم۔۔۔رزم سنجیدگی سے بولا۔۔۔


یہ آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں؟ وشہ نے تیوری چرھائے دونوں ہاتھ کمر پر دائیں بائیں ٹیکا کر پوچھا۔۔۔


تم جو سمجھو۔۔۔خیر میں یہ کہنے کے لہے روکا ہوں۔۔۔کے تم درخت پر لٹکی ہوئی بلکل بھیگی بندریا لگ رہی تھی۔۔


رزم کہتا تیزی سے پلٹ کر چل دیا۔۔۔وشہ نے غصے سے اسکی پشت کو گھورا ۔۔


آپ خود کیا ہیں بھیگے ہوۓ کھڑوس ہنہ۔۔۔۔۔ وشہ گھاس پر زور سے پیر پٹختی اسکے پیچھے گئی۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

دیکھو ذرا یہ سب ہی بھیگتے ہوۓ آرہے ہیں۔۔۔ افشاں بیگم صوفے پر بیٹھی سب کی کلاس لے رہی تھیں۔۔۔جو لائن سے سر جھکے کھڑے کب سے ڈانٹ سن رہے تھے


جب رزم اور وشہ اندر آئے۔۔۔


آنٹی یہ سب آپ کے بڑے بیٹے کی وجہ سے ہوا ہے اگر یہ نہ آتے تو ہم سب ہلکے پھلکے گیلے ہوتے۔۔۔


وشہ کی بات سن کر سب کو ہنسی آگئی۔۔ افشاں بیگم کے بھی چہرے پر مسکراہٹ آ گئی


ہنسو مت تم سب غدار ہو۔۔۔۔ میں جارہی ہوں گھر۔۔۔ اچھا آنٹی اللہ‎ حافظ۔۔۔۔وشہ آگے بڑھ کر جھٹ پٹ افشاں بیگم کے گل پر پیار کرتی باہر نکل گئی۔۔


یہ لڑکی بھی نہ گھوڑے پر سوار ہے دیکھو ذرا اکیلے نکل گئی.۔۔۔۔۔جاؤ زیاف کار لیکر بارش دوبارہ تیز نا ہوجائے


انکے کہنے کی دکر تھی سب ہی باہرجانے لگے۔۔۔


زیاف نے کار کا دروازہ کھولا ہی تھا۔ ۔۔ جب اسکا موبائل بجنے لگا


زیاف نے روک کر موبائل نکال کر یس کا بٹن دبایا اور کان سے موبائل لگا لیا۔۔۔۔ ہمم۔۔۔۔ اوکے میں آ رہا ہوں۔۔۔


دوسرے طرف کی بات سن کر اسنے کال کٹ کی پھر اندر بڑھ گیا۔۔۔ "ہیں یہ واپس کیوں جا رہے ہیں۔۔۔


تینوں پیچھے سیٹ ہو کر بیٹھ چکے تھے۔۔،۔جب زیاف کو واپس جاتے دیکھا۔۔


کچھ دیر ہی گزری تھی جب زیاف رزم کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔رزم آتے ہی ڈرائیون سیٹ پر بیٹھا. ۔۔۔


زیاف نے پیچھے انکو بتایا"مجھے کہیں جانا ہے رزم بھائی لیجائیں گے۔۔۔۔۔ اوکے۔۔۔۔۔ زیاف کہتا کار سے پیچھے ہٹا۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم سڑک پر دیکھتے ہوئے آہستہ کار چلا رہا تھا شاید وہ کہیں مل جائے۔۔۔


یکدم ضامن کی نظر روڈ کنارے کھڑی وشہ پر پڑی جو ابھی تک وہیں تھی۔۔۔۔ رزم بھائی وہ رہیں آپی۔۔۔


ضامن جوش میں زور سے بولا۔۔۔۔ رزم پہلے ہی اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔قریب جا کر کار روکی۔


تینوں کو "سب کار می رہنا۔۔۔ کہتا خود اتر کر اسکے قریب گیا۔۔۔۔ جو اسے دیکھ کر منہ بنا رہی تھی۔۔۔


چلو۔۔۔وہ جو سمجھ رہی تھی پہلے منائے گا۔۔۔ چلو۔۔۔۔سن کر ساری خوش فہمیاں ہوا ہوگئیں۔۔۔ ہنہ میں نہیں جا رہی۔


رزم جو کہ کر واپس جا رہا تھا۔۔۔ اسکی بات پر واپس اسکے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔ کیوں ؟ دوبارہ ایک لفظ۔۔۔۔۔


کیوں کا کیا مطلب مجھے نہیں بیٹھنا آپ کی کار میں۔۔۔ وشہ ناک چڑھا کر بولی۔۔


ٹھیک ہے گاڑی کے ساتھ باندھ دیتا ہوں۔۔۔ مسلئہ حل


کیاااا!! آپ ایک لڑکی کو گاڑی کے ساتھ باندھیں گے ترس نہیں اے گا آپ کو۔۔


رزم کی بات سن کر وشہ حیرت سے آنکھیں پھلائے بولی۔۔"


تم نے خود منا کیا ہے کے نہیں بیٹھنا۔۔۔


ہیں تو وہ میں ناراض ہوں اسلئے۔۔۔۔۔ خیر اگر آپ اتنا ہی انسس کر رہے ہیں تو بیٹھ جاتی ہوں۔۔ وشہ کہتی فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھی


پیچھے رزم کا دل کیا زور زور سے قہقہے لگائے۔ اسنے پہلی لڑکی ایسی دیکھتی تھی۔۔۔۔ بھیگی بندریا۔۔۔۔ہلکے سے بڑبڑاتا وہ کار میں بیٹھا


اور گھر کی طرف جانے لگا۔۔۔ یکدم وشہ چیخی۔۔گھر نہیں پہلے آئی کریم کھلانے لے کر چلیں پلیز۔۔۔ وشہ معصوم شکل بنا کر بولی۔۔۔


پیچھے سے تینوں نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔


کس خوشی میں اور ٹھنڈ میں آیسکریم بیمار پڑنا ہے تم سب نے۔۔۔۔۔۔رزم نے بولتے آخر میں ڈانٹا۔۔۔


ہم پہلی بار اپ کی کار میں بیٹھے ہیں اور دوسری بات آپ کے پڑوسی ہیں۔۔ وشہ کی بات پر اسنے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا


وشہ اسکے یوں دیکھنے پر گڑبڑا گئی۔۔۔ مم میرا مطلب تھوڑے سے دور کے مگر رہتے تو ہیں نہ۔۔۔۔


پھر بھی میں نہیں لے کر جا رہا۔۔۔ پلیز رزم بھائی۔۔۔ ضامن نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔اف کہاں پھس گیا۔۔۔۔ اوکے۔۔۔۔۔۔


خود سے بڑابڑاتے اسنے حامی بھری ۔۔۔۔۔۔یاہووووو۔۔۔۔۔رزم نے ایک نظر اسے دیکھا جو سب کے ساتھ بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی ۔۔ پاگل۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم نے آیسکریم بارلر کے سامنے کار روکی۔۔۔حنّان میرے ساتھ اؤ۔۔۔سب سے پوچھ لو کون سا فلیور چاہیے۔۔


رزم اسے آرڈر دیتا اترا۔۔۔۔۔پھر کاؤنٹر پر جا کر انتظر کرنے لگا۔۔۔۔ہنہ خود نہیں پوچھ سکتے تھے۔۔ وشہ بڑبڑاتی حنان کی جانب متوجہ ہوئی


جو سب سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں آیسکریم بھی آگئی۔۔۔ رزم گاڑی میں آکر بیٹھا۔۔۔ اپ نے نہیں لی۔۔۔


وشہ آیسکریم کھاتے ہوۓ اس سے پوچھنے لگی جو بیٹھا موبائل پر انگلیاں چلا رہا تھا۔۔۔


نہیں۔۔۔ٹائپنگ کرتے ہوۓ اسنے جواب دیا پھر اچانک روک کر اسے دیکھا


وشہ کو لگا وہ اس سے مانگ لے گا۔۔۔ "میری خود ختم ہوگئی ہے کھانی ہے تو منگوالیں ۔۔ کپ کو مضبوطی سے پکڑے وہ ایسے بولی جیسے سچ میں وہ اس کے آیسکریم کا کپ چھین لے گا۔۔۔


نہیں چاہیے۔۔۔ ہونٹ کو دباتا وہ واپس موبائل کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وہ لوگ گھر جا رہے تھے جب یکدم رزم نے اسکی جانب دیکھ کر کہا جیسے جوش میں ہوش نہیں تھا بار بار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتی۔۔۔۔


اگر چپ نہیں ہوئی تو گاڑی سے باہر ہوگی۔۔۔۔۔۔رزم نے تپ کر کہا جو کب سے سیٹ سے مڑ مڑ کر ان تینوں کے ساتھ زور و شور سے باتیں کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ ۔۔۔۔


وشہ نے اسکی بات سن کر اسے دیکھا جس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔ہیں!! آپ کو اب میرے بولنے سے کیا پرابلم ہے... میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں.... میرا گلہ میری آواز۔۔۔


وشہ ناک چڑھا کر سیٹ پر سیدھی ہوئی وہ تو اس سے تھوڑی بات کر رہی تھی۔۔۔یکدم کچھ سوچتی وہ اسکی جانب دیکھنے لگی


پھر آنکھوں کو چھوٹا کرتی بولی ۔۔۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ آپ جیلس ہو رہے ہیں میری آواز سے؟ ہاہ۔۔۔۔ ویسے ہونا بھی چاہیے اتنی میٹھی آواز جو ہے میری۔۔۔۔۔ کیوں گائیز۔۔۔


وشہ کہتی کہتی دوبارہ گھومی جو رزم کی جانب دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے رزم بھائی اسے اب نکالیں گے یا پھیکیں گے۔۔۔۔۔۔


رزم نے جھٹکے سے کار روکی۔۔۔۔۔وشہ کا سر ڈیش بورڈ سے لگتے لگتے بچا۔۔۔۔تم اترو ابھی ۔۔۔


اف اللہ کون روکتا ہے ایسے گاڑی۔۔۔جھٹکے سے میرا سارا اسٹرکچر حل گیا


وشہ اسکی بات ان سُنی کرتی تپ کر بولی۔۔۔ جو اسے کھا جانے والی نظروں سے گهور رہا تھا....ڈھیٹ لڑکی۔۔بڑبڑا کر جھٹکے سے دوبارہ کار اسٹارٹ کرتا


اب کی بار وہ وشہ کو نظر انداز کرتا گھر کی جانب بڑھ گیا.۔۔۔وشہ نے گھورا۔۔۔۔


جب کے ربیکا نے شکر کیا۔۔۔۔۔ کے بھائی نے غصہ کنٹرول کرلیا ورنہ ضرور کچھ غلط ہوجاتا۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ کہاں رہ گئی ہو ؟ میں نے کہا تھا تمہے مغرب سے پہلے گھر آنا ۔۔۔۔۔امی پریشان نہ ہوں آ رہی ہوں بس۔۔۔


وشہ اپنی فرینڈ کے گھر سے باہر نکلتی۔۔ نورین بیگم سے بات کر رہی تھی۔۔۔جو دیر ہونے پر اسے ڈانٹ رہی تھیں


اوکے۔۔۔میں بند کر رہی ہوں۔۔۔۔آکر اپکا سارا غصہ چٹکیوں

میں ختم کردونگی۔۔۔اللہ‎ حافظ۔۔۔۔


وشہ نے مسکرا کر کال ڈسکنیکٹ کر کے موبائل پرس میں رکھا۔۔۔اچھی طرح دوپٹہ سر پر جماتی واک کرتی گھر کی جانب جانے لگی۔


تھوڑی دور ہی گئی ہوگی۔۔۔ جب کسی نے گاڑی اسکے نزدیک

لاکر روکی۔۔۔ وشہ ڈر کر دو چار قدم پیچھے ہوئی۔۔۔


ہیڈلائنس کی روشنی کی وجہ سے وہ چہرہ نہیں دیکھ سکی.. کوئی کار سے اتر کر اسکے قریب آرہا تھا۔۔۔چہرہ ابھی بھی واضع نہیں تھا۔۔۔


کون بدتمیز ہے؟ وہ اسکے قریب آیا۔۔۔۔تو چہرہ واضع ہوا۔۔


خالد کو سامنے دیکھ کر وہ تھوڑی گھبرا گئی۔۔جو کمینگی سے مسکراتا نزیک آ کر کھڑا ہوگیا تھا۔


"ہائے بیوٹیفل۔۔۔ اس وقت یوں اکیلی کہاں جا رہی ہو؟ خالد کی نظریں اپنے جسم کے آرپار محسوس ہوئی تو دوپٹہ پر گرفت سخت ہوگئی۔۔۔۔


پھر ہمّت کرتی وہ مظبوط لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔ظاہر سی بات ہے گھر جا رہی ہوں اور آپ کو کیا تکلیف ہے ؟


اوہ تو چلیں میں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔۔اسے اوپر سے نیچے دیکھتے بولا


جی نہیں شکریہ میں چلی جاؤںنگی۔۔۔ وشہ تڑک کر بولتی جانے لگی۔۔۔۔ جب خالد تیزی سے سامنے آیا۔۔۔۔


کم اون سویٹی میں ہوں نہ اپنے نازک پیروں کو کیوں تھکا رہی ہو۔۔۔میں کھا تھوڑی جاونگا۔۔۔


چلو ساتھ تھوڑا انجوائے کرتے ہیں صرف تم اور میں۔۔۔۔۔۔بعد میں گھر چھوڑ دونگا۔۔۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔


خالد آنکھ دبا کر قریب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے اکیلے دیکھ کر وو شیر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔وشہ تو سلگ کر رہ گئی اس کی بات سن کر۔۔۔۔۔


شٹ اپ۔۔۔۔۔ اپنی حد میں رہو سمجھے منہ توڑدونگی میں تمہارا گھٹیا انسان۔۔وشہ آگ بگولہ ہوتی جانے لگی۔۔۔۔


جب اسنے آگے بڑھ کر جارہانہ طریقے سے اسکا بازو پکڑ کر کھنچھا


وشہ کی درد سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔۔ خالد نے اسے اپنی گرفت میں لے کر سختی سے اسکا منہ بند کیا


بہت نخرے ہیں سالی آج کی رات تیری ساری اکڑ نکالتا ہوں۔۔کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے گی۔۔۔۔خالد اسے کھینچتا گاڑی کے پاس لیجانے لگا۔


وشہ تڑپ رہی تھی۔۔۔۔ اس سے اپنا آپ چھوڑوانے کےچکر میں اس کے سر سے دوپٹہ ڈھلک کر کندھے پر آگیا۔۔۔


ہاتھ میں پکڑا پرس چھوٹ کر زمین پر گرگیا۔۔۔۔ خالد ایک مضبوط مرد تھا۔۔۔۔ وشہ نازک سی اپنے آپ کو چھوڑوانے کے چکر میں پسینے سے شربور ہو چکی تھی۔۔۔


دل میں شدت سے دعا کر رہی تھی کوئی آجائے بے شک کھڑوس ہی آجائے۔۔۔اسکی سانس اکھڑنے لگی۔۔۔ آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے۔۔۔


خالد نے ابھی تک اسکا منہ دبایا ہوا تھا۔ ۔۔۔۔اور گھسیٹ رہا تھا۔ ۔۔


وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر وشہ کو اندر دکھیلنے لگا۔۔۔ جو بار بار اسے پیچھے کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔


چھ چھوڑدو۔۔۔۔ یکدم زور زبردستی میں وشہ کے سر پر کھلے دروازے کا کونہ بہت زور سے لگا۔۔۔۔۔وشہ چکرا کر رہ گئی۔ ۔۔


زور سے کنارہ لگنے کی وجہ سے اس کے سر سے خون بہنے لگا۔،۔مگر وہ انسان کے روپ میں درندا پرواہ کیے بغیر


بے دردی اسے زور سے اند دھکا دے کر دروازہ بند کر چکا تھا


وشہ کا سر بہت زور سے سیٹ پر لگا۔۔۔ تکلیف بڑھنے لگی۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی


مگر درد کے ساتھ۔۔ زیادہ خون بہنے کی وجہ سے آنکھوں کے آگے اندھیرہ چھانے لگا۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوش و حواس سے غافل ہوگئی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ کو ہوش آیا۔۔۔۔۔۔ سر میں شدید درد کی ٹیسیں اٹھیں آہستہ سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی


مگر تیز روشنی کی وجہ سے آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں ۔۔۔۔وشہ۔۔ ماں کی آواز سنتے ہی اسنے دوبارہ آہستہ سے آنکھیں کھولیں


مگر نظر سیدھا۔۔۔۔ رزم پر گئی جو صوفے پر تانگ پے تانگ رکھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ یَکدم اسے سب یاد آنے لگا


تو جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔ آرام سے وشہ۔۔۔۔ نورین بیگم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔۔وشہ نے دیکھا وہ اپنے روم میں ہے


اسکی اور رزم کی فیملی سب اسکے گرد جما تھے ۔وشہ اپنی ماں کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔


چپ ہوجاؤ وشہ تم ٹھیک ہو ۔۔۔.اللہ‎ کا شکر ہے۔۔رزم اور زیاف دونوں وہیں تھے۔۔۔۔ ورنہ جانے کون دیکھتا۔۔۔


وشہ ان سے الگ ہوتی سب کو دیکھنے لگی اسے سمجھ نہیں آیا۔۔۔ امی کیا کہ رہی ہیں۔۔۔۔ وہ تو اکیلی تھی


اور۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ "بیٹا پریشان مت ہو تم ٹھیک ہوجاؤ گی۔۔۔۔


بس خون زیادہ بہنے کی وجہ سے کمزوری ہوگئی ہے۔۔افشاں بیگم اسکے پاس بیٹھتی پیار سے اسکے گال کو سہلاتی بولیں۔۔۔۔


وشہ نے کن اکھیوں سے رزم کو دیکھا جو ابھی تک اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کتنا غصہ بھرا تھا اسکی آنکھوں میں


وشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔۔ تیزی سے نظروں کا زاویہ بدل کر اس نے ربیکا کو دیکھا۔۔۔


جو مسکرا کر قریب بیٹھ گئی۔۔۔

وشہ آپی گیٹ ویل سون۔۔ربیکا کہتی اسکے گلے لگ گئی۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


افنان صاحب نے وشہ کو آرام کرنے کا کہ کر سب کو روم سے باہر جانے کو کہا۔۔۔۔"تم آرام کرو میں تمھارے لئے کچھ اچھا سا بناتی ہوں۔۔۔۔۔ ماں کی بات سن کر وہ مسکرا دی۔۔


سب اس سے مل کر روم سے جانے لگے. سب سے آخر میں رزم اٹھا۔۔۔۔جب پیچھے سے وشہ کی آواز پر روکا۔۔۔


ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔ وشہ کچھ کہتے کہتے روک گئی۔۔۔

اسے ڈر تھا۔۔۔۔ رزم اسکی اچھی خاصی کلاس نہ لے لے


"میں کب آیا۔۔۔۔۔ کیسے وہاں پونھنچا۔ ۔۔۔ تمہے جاننا ضروری نہیں۔۔۔۔۔ تمھارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔۔۔۔۔


کچھ غلط ہونے سے پہلے ہی تم سہی سلامت اپنے گھر پر ہو۔۔۔۔ رزم سرد لہجے میں بولتا۔۔۔۔۔۔قدم قدم چلتا اس تک آیا


پھر جھک کر اسکی آنکھوں میں جھانکتا کہنے لگا۔۔۔۔


آیئندہ اگر اکیلی کہیں گئی۔۔۔۔ اسکی زمیدار تم خود ہوگی۔۔۔۔


اب کی بار اسکا لہجہ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔۔۔۔۔ وشہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔عجیب خوف تھا۔۔۔۔۔وشہ کو پہلی بار خوف آیا اس سے۔۔۔


رزم کہ کر سیدھا کھڑا ہوا اور تیزی سے باہر چلا گیا۔۔۔


پیچھے وشہ اپنے ساتھ ہوۓ حادثے کو بھول کر رزم کی باتیں سوچنے لگی۔ ۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رات کے تین بج رہے تھے۔۔ گہری پراسرار سرد رات ۔۔۔۔۔جہاں سے وہ گزر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔جگہ کافی سنسان تھی۔۔۔۔


اپنی گرل فرینڈ کو اسکے گھر ڈراپ کرتا وہ جھومتے جھوماتے اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا۔۔۔۔


ماتھے پر سفید پٹی اس کے زخمی ہونے کا پتہ دے رہی تھی


تیز گانے لگائے ساتھ خود بھی گنگناتا۔۔۔۔بہت خوش لگ رہا تھا۔۔ سگرٹ کے کش لگتا۔۔۔۔۔مست تھا۔۔۔۔۔


جب یکدم اسکی گاڑی جھٹکا کھا کر بند ہوئی۔۔۔۔۔۔ گاڑی بند ہوتے ہی گھپ اندھرا ہوگیا۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا۔۔۔۔۔


صرف جھینگر۔۔۔۔۔کیڑے مکوڑوں کی آواز سنناٹے کو چیرتی اسکے کانوں میں پڑھ رہی تھی....


تھوڑی گھبراہٹ ہونے لگی مگر گہری سانس لیتا دوبارہ سے کار سٹارٹ کرنے لگا۔۔۔ گڑگڑ کی عجیب آواز آتی۔۔۔۔۔


مگر اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔۔ دس منٹ تک یہی عمل دوہرایہ۔۔۔۔شٹ۔۔۔۔تنگ آکر اسٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مارتا سر سیٹ پر رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔۔۔


یکدم پھر کار کی ہیڈلایٹس روشن ہوئیں۔۔۔۔ مگر گاڑی بند تھی۔۔۔۔خوف سے آنکھیں پھلائے وہ سامنے دیکھنے لگا


جہاں لال آنکھوں والا کالا کتا اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔

اسکے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔کانپتے ہاتھوں سے گاڑی کی چابی پر ہاتھ رکھ کر گھومانے لگا۔۔۔۔


مگر سب بے سدھ۔۔۔ایک بار پھر ہیڈلائٹس بند ہوئیں۔۔۔مگر اب کی بار وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔۔۔باہر نکلنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔۔


کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔۔۔۔۔ جب گاڑی میں دل فریب سے خوشبو انے لگی۔۔۔۔


اسنے ہاتھ روک کر ڈرتے ڈرتے اپنے برابر والی سیٹ پر سر گھوما کر دیکھا۔۔۔اور وہیں پتھرا گیا۔۔۔۔۔


ساتھ بیٹھی لڑکی نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سینے پر۔دل کی جگا پر اپنا ہاتھ لیجا کر دباؤ دیا۔۔۔


دیکھتے ہی دیکھتے اسکا جسم سرد پڑھ گیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


ٹھک ٹھک ٹھک۔۔کیا میں اندر آسکتی ہوں۔۔۔ وشہ بیڈ کراؤں

سے ٹیک لگائے ناول پڑھ رہی تھی۔۔۔۔جب دروازہ نوک کرتی ربیکا نے مسکرا کر اندر انے کی اجازت مانگی. .


وشہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔دروازے پر ربیکا کو دیکھ کر مسکرائی۔۔۔۔۔۔"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔ تمہاری آپی کا روم ہے۔۔۔۔۔جب مرضی آؤ۔۔۔


وشہ اسے دیکھ کر مسکراتی۔۔۔۔۔ ناول بند کرتی سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔۔ جو مسکرا کر اندر آرہی تھی...وہ تو ہے۔۔ ربیکا نے گردن اکڑا کر کہتی دونوں۔ہنس دیں۔۔۔۔۔


ؓہممم۔ ۔۔۔اب کیسا ہے زخم آپ کا۔۔۔۔"بہتر ہے۔..درد تو نہیں ہوتا۔۔۔ نہیں سر میں درد تھا لیکن اب ٹھیک ہوں


وشہ نے مسکرا کر ٹانگیں سمیٹ کر اسے اپنے قریب بیٹھنے کی جگہ دی۔۔۔۔ربیکا تم سے ایک بات پوچھوں؟


وشہ کچھ سوچتی سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔۔پھر اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی گویا ہوئی۔۔۔


جی پوچھیں۔۔۔ربیکا نظریں چرا کر بولی۔۔۔وہ جانتی تھی وشہ آپی کیا جاننا چاہتی تھیں۔۔۔


کل جو ہوا۔۔۔۔میرا مطلب رزم نے کیا بتایا گھر پر


وشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے پوچھے۔۔،مگر وہ پھر بھی لازمی جاننا چاہتی تھی۔۔۔


ہاہ۔۔۔۔رزم بھائی نے بس یہ بتایا کے آپ کتے سے ڈر کر بھاگ رہی تھی۔۔اپکا شاید پیر مڑا تھا کوئی پتھر لگا تھا۔۔۔۔۔۔


آپ کو بھاگتے اور پھر گرتے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔ ہسپتال جانے تک آپ بیہوش ہوچکی تھیں۔۔۔ سمپل۔۔۔اور اتنا مت سوچیں۔۔۔


ربیکا کے چپ ہوتے ہی وشہ نے لمبی سانس لی۔۔۔ہوسکتا ہے گھر پر چھپانے کے لئے فرضی کہانی بنائی ہو۔۔۔


ویسے اچھا ہی ہے خوامخہ سب پریشان ہوجاتے۔۔۔۔۔امی سے کلاس بھی اچھی خاصی لگ جاتی۔۔وشہ سوچتی ریلیکس ہوگئی۔۔


یہی اللہ‎ کا بہت کرم تھا کے وہ عزت سے اپنے گھر پونھنچ گئی تھی


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


السلام عليكم آنٹی۔۔۔۔ وشہ اندر آتی افشاں بیگم کو سلام کرتی

ملی۔۔۔ وعلیکم اسلام۔۔۔کیسی ہو بیٹا۔۔۔۔اب زخم تو ٹھیک ہو رہا ہے۔۔۔


"افشنا بیگم نے اسکا ماتھا چھو کر پوچھا۔ ۔۔۔۔"ٹھیک ہے اب کافی دن ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ہائے میں تو آرام کر کر کے تھک گئی ۔۔


اس لیے سوچا کیوں نہ آج آپ کے گھر کو رونق بخشی جائے۔۔۔۔


وشہ شرارت سے آنکھیں مٹکا کر بولی۔۔۔۔۔ہمم۔۔۔بہت اچھا کیا او بیٹھو میں جب تک ربیکا کو بھجتی ہوں۔۔۔۔


افشاں بیگم کہ کر جانے لگیں۔۔۔ جب پیچھے سے وشہ نے روکا۔۔۔۔ آنٹی کیا میں چلی جاؤں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں اپنا ہی گھر ہے۔۔۔


تھنک یو وشہ مسکرا کر کہتی سیڑیاں چڑھ گئی

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ نے اوپر پونھنچ کر نوک کیا۔۔۔اجازت ملتے پر وہ مسکراتی دروازہ کھول کر اندر بڑھی۔۔۔


مگر اندر جاتے ہی وہ جو زور سے سلام کرنے والی تھی ربیکا کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ کر چپ ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔ کافی خوبصورت لڑکی اسکے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔


ربیکا اسے دیکھتے ہی اٹھ کر اسے گلے لگایا۔۔۔۔۔کیسی ہیں وشہ آپی ؟۔۔۔۔مم میں ٹھیک ہوں تم سناؤ۔۔۔ جلدی سے سر جھٹکتی اسکی جانب متوجہ ہوئی۔ ۔۔


میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ وشہ اپی یہ ہماری کزن ہے آرا معقوف ۔۔۔ اور آرا آپی یہ ہماری دوست ہیں وشہ افنان۔۔۔۔۔ ربیکا نے دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔


وشہ دوبارہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔لمبا قد۔۔۔۔۔(رزم سے تھوڑا کم) گورا رنگ۔۔۔۔ کرل ڈارک براؤن بال جو کندھے سے تھوڑے لمبے تھے۔۔۔ گرین آنکھیں۔۔ چست جینس اور ٹاپ پہنے ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


وشہ کو جلن ہونے لگی مگر زبردستی مسکراہٹ کے ساتھ وہ اس سے ملی۔۔۔


خوشی ہوئی تم سے مل کر راستے میں بتایا تھا رزم نے ربیکا کی دوست کے بارے میں۔۔۔ آرا مسکرا کر بتا رہی تھی


جب لے وشہ تو جل بھن ہی گئی۔۔۔۔۔ اچھا ربیکا میں چلتی ہوں۔۔۔ وشہ خود پے ضبط کرتی


اسکی بات کا جواب دیے بغیر یکدم بولی۔ ۔۔۔ جانے کیوں اسے جیلسی ہو رہی تھی۔۔۔۔


کمینی کی آواز بھی اتنی پیاری ہے ضرور اپنے جال میں پھنسانے آئی ہوگی۔۔۔۔ ہنہ خیر میری بلا سے بھاڑ میں جائیں۔۔۔


وشہ دل ہہ دل میں جل کر بولی۔۔۔۔۔۔پھر ربیکا کو اللہ‎ حفظ کہ کر جانے لگی۔۔۔۔۔۔ جب آرا کی آواز پر رکی۔۔۔۔


وشہ کیا تم نہیں چلوگی ہمارے ساتھ رزم زیاف تمھارے دونوں بھائی ہم سب گھومنے جا رہے ہیں....


آرا جوش سے بتا رہی تھی مگر دوسری طرف تو مانو آگ ہی لگ ہے۔۔۔نو تھنکس۔۔ تڑخ کر کہتی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے ہی نکل گئی۔۔۔۔۔


پیچھے ربیکا شرمندگی سے اسے دیکھنے لگی ۔ آرا آپی شاید ان کا موڈ نہ ہو۔۔۔۔۔


اٹس اوکے۔۔۔۔آرا مسکرا کر کہتی دروازے کے سمت دیکھنے لگی۔۔۔۔۔پھر سر جھٹک کر واش روم چلی گئی۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


ہنہ اس دن کتنا بولا تھا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میری تو بات نہیں مانی۔۔،۔ وہ تو ضامن نے کہا تو لے کر گئے۔۔۔


اور پھر وہاں حنان کو آرڈر دے کر خود گاڑی سے ہی اتر گئے تھے۔۔۔


اب اپنی کزن کو گھومنانے لیکر جا رہے ہیں خوبصورت جو ہے ۔۔مگر میں کونسی بدصورت ہوں۔ ۔۔۔۔


میں کزن نہ سہی دور کی پڑوسن تو ہوں اور بہن کی آپی۔۔۔۔ وشہ خود سے بڑبًاتی الٹا سیدھا سوچتی پورج تک آئی


جہاں رزم کے ساتھ زیاف حنان اور ضامن کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔ وشہ ناک چڑھاتی انہیں نظر انداز کرتی پاس سے گزری۔۔۔


رزم نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔ حنّان کو اندر سے بلالنے کو بھیجا اور خود وشہ کے پیچھے گیا جس کی بڑنڑاہٹ دوبارہ جاری تھی۔۔۔


کہاں جا رہی ہوں۔۔۔ رزم کی آواز پر خود بہ خود اسکے قدم روکے۔۔۔


آپ سے مطلب۔۔۔۔وشہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولتی گیٹ سے باہر نکل گئی۔۔۔۔


رزم نے غصے میں لب بھنج لئے۔۔۔۔ زیاف۔۔


رزم کی دھاڑ پر گیٹ کے پاس کھڑی وشہ اچھل گئی وہ سمجھی تھی رزم پیچھے آئے گا مگر سب الٹا ہوگیا


غصے سے پیر پٹختی گھر کی جانب جانے لگی


زیاف تیزی سے پاس آیا۔۔کیا ہوا بھائی۔۔۔۔

وشہ اکیلے جا رہی ہہے چھوڑ کر او اسے۔


رزم غصہ ضبط کرتا۔۔۔۔ گاڑی کی جانب بڑھا جب کے زیاف گیٹ سے باہر۔

۔~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ اپنی امی کے ساتھ ازمغان ولا آئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔آرا گھر پر نہیں تھی۔۔۔۔۔چاروں لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔


ربیکا بیٹا واشروم جانا ہے میرے ساتھ چلو۔۔۔۔۔کمرے تک۔۔۔۔۔نورین بیگم ربیکا کو ہلکی آواز میں بولیں۔۔۔۔اچھا آنٹی چلیں۔۔۔


ربیکا فورن کھڑی ہوئی اپنی ماں کو مخاطب کر کے "ہم آتے ہیں ۔۔۔۔ کہتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔


لاؤنج میں اب صرف افشاں بیگم اور وشہ تھیں جب رزم آیا السلام عليكم۔۔۔۔ رزم۔ نے ایک نظر اسے دیکھا جو ابھی تک


ناراض تھی . ( خود ہی میں) وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ہوگئیتدفین ۔۔۔۔


جی۔۔۔۔۔اچھا جاؤ نہا لو۔۔۔۔ رزم نے دوبارہ اسے دیکھا جو دوری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔پھر سر جھٹکتا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔


رزم کے جانے کے بعد وشہ افشاں بیگم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ آنٹی کس کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔ وشہ نے ناسمجھی سے انھے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔


رات کو خالد کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔۔نشہ بھی بہت کیا ہوا تھا۔۔۔۔اتنی عمر نہیں تھی پر خیر موت کا کیا بھروسہ کب آجائے۔۔۔۔۔


افشاں بیگم افسوس سے بتا رہی تھیں۔۔ جب کے وشہ بلکل چپ ہوگئی تھی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کیا بات ہے وشہ......جب سے آئی ہو خاموش ہو۔۔۔۔کسی نے کچھ کہا ہے؟


وہ جو ابھی تک خالد کا سن کر چپ تھی۔۔۔۔۔ لان میں گھاس پر بیٹھی تھوڑی گٹھنے پر ٹکاِئے


ایک ہاتھ سے گھاس کو نوچتی کسی غیر مرئی نکتے پر سوچتی ارد گرد سے گافل بیٹھی تھی۔۔۔


جب نورین بیگم نے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ دے کر پوچھا۔۔۔


وشہ بری طرح چونکی۔۔۔۔ اپنی ماں کو دیکھ کر اسنے لمبی سانس لی۔۔۔ نورین بیگم کو تشویش ہوئی


وہ کبھی اس طرح چپ نہیں رہتی تھی۔۔۔ وشہ کیا ہوا گڑیا؟


نورین بیگم اسکے ساتھ ہی گھاس پر بیٹھیں۔۔۔


وشہ نے ایک خاموش نظر اپنی ماں پر ڈالی۔۔۔۔ ہلکا سا مسکرا کر انکا ہاتھ تھاما۔۔۔پھر نظریں گھاس پر مرکوز کر دیں ۔


کچھ نہیں ہوا.۔۔۔۔ بس سوچ رہی تھی انسان کی کیا اوقات ہے۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔


کسی کو نہیں پتہ وہ کب مٹی ہو جائے گا


پھر بھی اسے گھمنڈ ہے کے وہ کسی کو بےبس کر کے اذیت دینا چاہتا ہے


کیوں امی ایسے لوگوں کو آخرت کا خوف نہیں؟


وہ بھی ایک انسان ہی ہیں۔۔۔۔ اسے بھی تو مٹی ہوجانا ہے۔۔۔


وشہ گھاس پر نظریں مرکوز کیے آہستہ آہستہ بول رہی تھی

جب کے نورین بیگم اپنی بیٹی کا یہ روپ دیکھ کر حیرت کے ساتھ فکرمند ہو رہی تھیں۔۔


وشہ تم مجھے ڈرا رہی ہو. ۔۔۔۔کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو ۔۔۔

وشہ نے دوبارہ انہں دیکھا۔۔


پھر گہری سانس لیکر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ کچھ نہیں بس دل کیا تھوڑا ایموشنل ہونے کا۔۔۔


وشہ انکے فکرمند چہرے کو دیکھ کر سر جھٹک کر مطمئین کر رہی تھی۔۔۔


نورین بیگم نے کھڑی ہوکر اسکے سر پر پیار سے چپت لگائی جھلی بیٹی میری۔۔۔ مسکرا کر کہتی وہ جانے لگیں۔۔۔۔


پیچھے ہی رزم سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے جانے کب سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ افنان صاحب سے ملنے کسی کام سے آیا تھا۔۔۔۔


السلام عليكم آنٹی۔۔ وعلیکم اسلام بیٹا


وشہ رزم کی آواز پر جھٹکے سے گھومی۔۔جو نورین بیگم سے بات کر رہا تھا۔۔۔


کیا انہونے ہماری بات سن لی۔۔۔ وشہ کو سوچ کر عجب لگا جانے وہ کیا سوچے۔۔۔۔


نورین بیگم بات کرنے کے بعد اندر جانے لگیں۔۔۔


وشہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے قریب گئی۔۔۔۔ رزم کو سامنے دیکھ کر اسے اچھا لگتا تھا۔۔۔


حادثے کے بعد سے وہ اور اچھا بھی اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔۔۔ایک لڑکی کو عزت سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ہوتا ہے۔۔۔۔رزم نے اس غزت ہی تو بچائی تھی۔۔۔


اسلام علیکم سرگوشی میں بولتی وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


وعلیکم اسلام کیا تم اداس ہو ؟ رزم نے اسکے چہرے کو بغور دیکھتے استفسار کیا۔


نہیں۔۔میں اداس کیوں ہونے لگی۔۔۔ وشہ گڑبڑا کر بولی۔۔۔رزم اسکی بات سن کر ایک قدم آگے بڑھا۔۔۔


تم اچھی لڑکی ہو۔۔۔۔۔ مگر بولتی بہت ہو۔۔۔ وشہ جو اسکی پہلی بات سن کر سرخ ہو گئی تھی۔۔۔


آخری بات سن کر گھورنے لگی (کھڑوس ہی رہیں گے ہنہ) دل میں کہتی وہ بنا کچھ بولے گھر کے اندر چلی گئی ۔


پیچھے رزم مسکراتا گیٹ سے باہر نکل گیا


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


آپی مجھے فرینچ فرائز بنا دیں بہت دل کر رہا ہے. ضامن وشہ کے پاس آکر منت کے سے انداز میں بولتا


اسکے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔ جو صوفے پر بیٹھی سیلفی لینے میں مصروف تھی۔۔۔


ضامن کی بات سن کر وہ جھٹ اٹھی۔۔۔" اچھا چلو۔۔۔۔


ہیں اتنی جلدی مان گئیں۔۔۔۔ ضامن حیرت سے بڑبڑاتا


اسکے پیچھے گیا۔۔۔ جو باسکٹ سے الو نکال کر سلیپ پر رکھ رہی تھی۔۔۔۔


ضامن کچن میں رکھی ٹیبل کرسی کے پاس جا کر ایک کرسی کھنچ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔


وشہ نے الو چھیل کر کٹینگ کی۔ چولے پر کڑائی رکھ کر تیل ڈالا۔۔۔۔ تلنے سے پہلے یکدم وشہ نے اسے پاس بلایا۔۔۔۔ جی۔۔۔۔


ایک کام کرو یہ میرا موبائل لو اور ویڈیو بناؤ۔۔۔ مگر بنانا اس طرح جیسے مجھے پتہ نہیں ہو رینڈم لگے۔۔۔۔اوکے۔۔۔


چلو سٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔اور ہاں تم دروازے سے بناتے ہوۓ آؤ۔۔۔


وشہ کہ کر اپنے کام میں لگ گئی۔۔۔۔ جب کے ضامن کو سمجھ نہ آیا ہنسے یا روئے۔۔۔


چپس بنانا کونسا اتنا بڑا کام تھا ضامن کو وشہ اپی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔


کیا ہوگیا چلو۔۔۔۔"وہ وشہ اپی میں آیا ابھی میرے پیٹ میں بہت زور کا درد ہونے لگا۔۔


ضامن نے موبائل سلیپ پر رکھا۔۔۔پیٹ کو دونوں ہاتھوں سے دباتا تیزی سے بھاگ گیا۔۔۔ وشہ روکو روکو ہی کرتی رہ گئی۔۔۔۔


افففف!! جیلس لوگ۔۔۔۔ خیر میں خود بنا لیتی ہوں۔۔۔وشہ نے موبائل اٹھا کر ویڈیو سٹارٹ کی اور دیوار کے ساتھ کھڑا کرنے لگی۔۔۔


ہممم۔۔۔ یہ سہی ہے۔۔۔ اپنے کارنامے پے خوش ہوتی وہ چپس تلنے لگی۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رات کے پہر آرا روم میں۔۔۔۔۔ کھڑکی کے پاس کھڑی باہر اندھیرے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔کمرے میں بھی اندھیرا کیا ہوا تھا۔۔۔


جب کوئی دروازہ نوک کر کے اندر آیا۔۔۔کیا کر رہی ہو۔۔۔ زیاف اندر اتے پوچھنے لگا۔۔۔


آرا نے اسکی آواز پر چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔ اندھیرے میں آرا کی گرین آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔۔۔


کچھ خاص نہیں آؤ بیٹھو۔۔۔زیاف اسے دیکھتا قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا۔۔۔میں تمہے شاباشی دینے آیا تھا۔۔۔


زیاف کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ پھلی ۔۔۔۔ آرا اسکی بات پر قریب ہوئی۔۔


تم بھی یہ کام بہت اچھے سے کر سکتے تھے۔۔۔ آرا آنکھ دبا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔یکدم اندھیرے کمرے میں دونوں کے قہقے گونجے۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

موسم صبح سے ہی بہت حسین ہو رہا تھا وقفے وقفے سے بوندا باندی بھی جاری تھی۔۔۔۔ ساتھ ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا۔۔


اسکا موڈ کافی خوش گوار کر چکی تھی... ایسے میں اپنا درخت پر لٹکنا یاد آیا تو ہنستی چلی گئی۔۔۔۔


انہیں کیا ہوا ہے اکیلے اکیلے ہنس رہی ہیں۔۔۔حنّان نے ہلکی آواز میں ضامن کے کان میں جھک کر کہا۔۔۔


ضامن بیچارہ تو کل سے ہی وشہ اپی کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔۔۔


ضامن نے حنان کا بازو ہلایا۔۔۔حنان کے دیکھنے پر اسنے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھ کر گھومائی جیسے کہ رہا ہو دماغ کا سکروو ڈھیلا ہوگیا ہے۔۔ حنان یکدم ہنسا پڑا۔۔۔


وشہ نے جو گھاس پر کھڑی اپنا دوپٹہ ہاتھوں سے لہراتی گھومنے والی تھی۔۔۔ ہسنے کی آواز پر یکدم سیدھی ہوتی


دیکھنے لگی جہاں حنان اور ضامن کھڑے ہنس رہے تھے۔۔۔۔


وشہ تپ کر انکی جانب بڑھی۔۔۔ بھنوے اچکا کر دونوں کو گھور کر دیکھا جو اسے سامنے دیکھ کر ہنسی ضبط کرنے لگے۔۔۔


نہیں نہیں ہنسو۔۔۔یہاں تو سرکس چل رہا ہے نہ۔۔۔ "نہیں وشہ اپی وہ۔۔۔۔


بس بس سب سمجھتی ہوں۔۔۔۔ شرم تو آتی نہیں بڑی بہن پر ہنستے ہوۓ۔۔۔اور تم دونوں جاؤ اپنی آرا اپی کے پاس ہنہ


وشہ نے دونوں کو کچھ بھی بولنے کا موقعہ دیے بنا ہاتھ اٹھا کر چپ رہنے کا اشارہ کرتی۔۔۔


بھڑاس نکال کر تیز تیز قدم اٹھاتی چپل پہنی جو کچھ فاصلے پر خود اتاری تھی۔۔۔۔۔


گیٹ کے پاس پونھنچ کر گارڈ کو یہ کہ دیا امی کو بتا دو میں قریب ہی پارک جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ کہی باہر نکل گئی۔۔۔۔


میں کیوں مانوں کھڑوس کی بات۔۔۔۔۔ اپنی اس گرین آنکھوں والی کزن کو منہ کریں جسے گھومانے لیکر گئے تھے۔۔۔۔


وشہ اونچِی آواز میں بڑبڑاتی تیز تیز قدم اٹھائے چل رہی تھی یکدم موسم نے کروٹ بدلی۔۔۔۔۔ آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔۔۔


وشہ چلتے چلتے رکی آسمان کی جانب دیکھا جہاں کالے بادلوں کی وجہ سے رات کا گمان ہونے لگا اس پر بادلوں کی گرج چمک۔ ۔۔


یکدم۔ ہی بوندا باندی تیز بارش میں تبدیلی ہوئی۔۔۔وشہ بری طرح بھیگ گئی۔۔۔ صبح کا وقت اوپر سے یہ موسم وشہ کو خود پر غصہ انے لگا


کیا ضرورت تھی باہر نکلنے کی۔۔۔ روڈ بھی سنسان تھی۔۔۔کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو ایسے خطرناک موسم میں اکیلے باہر نکلے گا۔۔۔۔


(فلحال تو سب سے بڑی بیوقوف وشہ تم ہی ہو ) خود سے کہتے دونوں ہاتھ اپنے گرد لپٹے وہ گھر کی جانب بڑھنے لگی


کے اچانک ہی بہت زور سے بجلی کڑکی وشہ کی چیخ نکل گئی۔۔۔


لگاتار موسلادھار بارش میں بھیگنے کی وجہ سے وہ کانپنے لگی۔۔۔


وشہ نے شلوار قمیض پہنا ہوا تھا. بارش کی وجہ سے کپڑے چپک گئے تھے یہ شکر تھا اس نے ڈارک پرپل سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔


وشہ نے بھاگنے کے انداز میں چلنا شروع کر دیا


جب پیچھے سے گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔۔ وشہ کو وہی سب یاد آنے لگا جو اس رات ہوا تھا۔۔۔۔


پیچھے دیکھے بنا اسنے بھاگنا شروع کردیا۔۔۔۔جب پانی کی وجہ سے پھسل کر منہ کے بل گری۔۔۔۔۔۔


رزم جو ہونٹ بھیجے اس کے پیچھے ہی آرہا تھا


جو آج پھر اکیلے بیوقوفوں کی طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ گھر سے نکلی ہوئی تھی۔۔۔ رزم کو غصہ دلا گیا۔۔۔


آگ بگولہ تب ہوا جو پیچھے دیکھنے کے بجائے محترمہ نے بھاگنا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔


وشہ کو گرتے دیکھا تو جھٹکے سے گاڑی کو بریک لگاتا تیزی سے باہر نکلا۔۔۔


وشہ کا سر زمین پر لگتے لگتے بچا مگر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں چھل گئیں۔۔


رزم نے جھک کر اسے بازو سے دبوچ کر اٹھایا۔۔وشہ لڑکھڑاتی اسکے چوڑے سینے سے جا لگی


آہ۔ ۔۔ تڑپ کر اس سے پیچھے ہوتی اپنے سر کو پکڑ کر چیخی۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے کسی پتھر سے سر جا لگا ہو۔۔


رزم نے پرواہ کیے بغیر دونوں ہاتھوں سے اسکے بازو دبوچ کر جھٹکے سے اپنے قریب کیا۔۔ کیا جہالت۔۔۔۔اس سے پہلے وہ اپنا جملہ مکمل کرتی


اسکی نظر رزم کے چہرے کی جانب اٹھی تو باقی کے الفاظ جیسے منہ میں ہی رہ گئے۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

دونوں بارش میں بھیگتے ایک دوسرے کے بہت نزدیک کھڑے تھے۔۔۔۔


اتنا کے وشہ کو اسکی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی.۔۔۔ یکدم رزم کی پکڑ سخت ہوئی۔۔۔


وشہ کو تکلیف ہوئی۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔۔ وشہ کانپتے ہونٹوں کے ساتھ سرگوشی میں بولی


اور جو تم دے رہی ہو۔۔۔۔۔۔ میری بات نہ مان کر اسکا کیا؟

رزم سرد لہجے میں بولتا اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ اسے وشہ کی فکر ہونے لگی تھی۔۔۔۔


پپ پلیز مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔۔وشہ اسکی بات کو نظر انداز کرتی ایک بار پھر اپنی بات کو دوہرانے لگی۔۔۔


رزم نے دیکھا اسکی آنکھوں میں آنسو جما ہوگئے۔۔۔ یہ کیا وہ اسے رولانا تو نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔


رزم نے ہاتھ ہٹا کر ایک قدم پیچھے لیا۔۔۔


وشہ نے اپنے دونوں بازوں کو سہلایا۔۔ پھر اسے دیکھ کر ناراضگی سے بولی۔۔۔


۔میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔۔ نہ چاھتے ہوۓ بھی اسے اپنے دل کی بات بتانی پڑی۔۔۔۔


جو جینس اور ٹی شرٹ پہنے اوپر بلیک جیکٹ پہنے وشہ کو اپنے دل کے قریب لگا۔۔


اچھا پھر ؟ وشہ نے اسکے جواب پرحیرت سے دیکھا۔۔کیا مطلب ہے اس تو پھر کا؟


آپ کو پوچھنا چاہیے میں کیوں ناراض ہوں۔۔۔۔


اچھا بتاؤ کیوں ناراض ہو ؟ رزم ادھر ادھر دیکھ کر بولا


خود کو ہوش ہی نہیں ہے کپڑے بھیگنے سے چپک گئے ہیں۔ دیکھو نگا تو محترمہ کا ریڈیو بج جائے گا۔۔ رزم نے تپ کر سوچا۔ ۔۔


میں کیوں بتاؤں۔وشہ اترا کر کہتی فاصلے پر کھڑی اسکی کار میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔


اچھی ملی ہے رزم تجھے بھی۔۔۔ہلکے سے کہتا خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


واہ آرا اپی آپ کے نیلز کتنے لمبے ہیں۔۔۔۔حنّان اسکا ہاتھ دیکھ کر بولا۔۔۔ تھنک یو۔۔۔۔ آرا نے اسکے گال پر چٹکی کاٹی۔۔۔


وشہ اپی کے اتنے لمبے نیلز نہیں ہیں۔۔۔ضامن نے وشہ کے بارے میں بتانا ضروری سمجھا۔۔۔ ہاہاہا۔۔ چلو میرے تو ہیں نہ


اور کیا میں تمہاری آپی نہیں ہوں۔۔۔آرا کی بات پر ضامن نے جھٹ سر اثباب میں ہلایا۔۔


آرا نے اسکے یوں کرنے پر ضامن کے گال پر پیار کیا۔۔۔ آپ کے نیلز بہت شارپ ہیں نہ؟


حنان ابھی تک اسکا ہاتھ دیکھ رہا تھا۔۔ ہاں بہت شارپ ہیں یہ انسان کے جسم کو چیر بھی سکتے ہیں


آرا مسکرا کر بتانے لگی۔۔۔۔اسکی بات پر دونوں کی آنکھیں اور منہ کھول گیا۔۔ کک کیا سچ میں؟ حنّان نے اسی حالت میں استفسار کیا ۔۔


نہیں یہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔لڑکی سدھر جاؤ ورنہ تمہاری شکایات لگانی پڑے گی۔۔۔ زیاف جانے کہاں سے آیا تھا۔ ۔۔


اتے ساتھ ہی اسے گھور کر دونوں سے بولا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔میں تو مذاق کر رہی تھی وہ خود ہی سیریس ہو گئے۔۔ آرا ہنستی ہوئی بولی۔۔۔۔۔زیاف اسی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جہاں ابھی تک بارش کا سلسلہ جاری تھا۔۔ کبھی کبھی بادل بھی گرج جاتے۔۔۔۔

باہر اندھیرا بھی ویسے ہی پھلا ہوا تھا


وشہ کو احساس ہوا۔۔۔وہ گھر جانے والی روڈ پر نہیں جا رہے۔۔۔ یہ یہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟


وشہ رزم کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔


تمہاری ناراضگی ختم کرنے۔۔۔۔۔۔ گاڑی چلاتے رزم نے آرام سے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔جب کے وشہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔


اتنی آنکھیں مت کھولو کہیں نکل کر باہر ہی نہ گر جائیں۔۔۔رزم ہونٹ دبا کر بولا۔۔۔ اسے مزہ انے لگا تھا۔۔۔۔وشہ کو تنگ کرنے میں


وشہ اسکی بات پر ہوش میں آئی۔۔۔آپ۔۔۔۔بہت ہینڈسم ہوں جانتا ہوں.


اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی رزم بیچ میں ہی بول پڑا۔۔۔ اپنے بارے میں بڑی خوش فہمی نہیں پال رکھی آپ نے۔۔


وشہ ناک چڑھا کر کہتی باہر بھیگی سڑک پر دیکھنے لگی.


نہ مانو۔۔۔۔لیکن یہ سچ ہے۔۔۔ بہت لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر۔۔۔

رزم کن اکھیوں سے اسکے غصے سے سرخ چہرے کو دیکھ کر بولا


آپ پر تو بہت مرتی ہونگی مگر مجھ پر تو بہت سے بھی زیادہ مرتے ہیں۔۔۔۔۔


بلکے کل ہی کالج میں ایک لڑکے نے مجھے کہا کے وہ مجھے پسند کرتا ہے اور تو اور شادی بھی کرنا چاہتا ہے۔۔۔


وشہ مرچ مسالا لگا کر جھوٹ بولتی رہی۔۔۔رزم نے جھٹکے سے کار روکی جس کی وجہ سے وشہ کا سر سامنے بونٹ پے جاکر لاگا۔۔۔


اففف ماں میرا سر.......وشہ سر سہلاتی اسکی جانب مڑی اور جہاں تھی وہیں سن ہوگئی۔۔۔


رزم کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں ایسی جیسی خون ٹپکا رہی ہوں ۔۔


رزم کو وشہ کی بات بہت ناگوار گزری جس سے وہ اپنا ضبط کھونے لگا۔۔۔ رزم اسی طرح دیکھتا اسکے چہرے کے بہت قریب آگیا


وشہ کو اپنی سانس روکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

کہ دو یہ مذاق تھا وشہ افنان۔۔۔۔ وشہ کانپ گئی اسکے لہجے پر۔۔۔


کہو وشہ۔۔ پھر وہی برف کی طرح ٹھنڈا لہجہ۔۔۔


وشہ پیچھے ہوئی۔۔۔گلہ خشک ہوگیا تھا۔۔۔ جواب کیا خاک دیتی۔۔۔


تم مجھے اور غصہ دلا رہی ہو وشہ افنان۔۔۔


ہاہ۔۔ہاں مم میں مذاق کر رر رہی تھی۔۔ وشہ ہمّت مجتمہ کرتی ہکلا کر بولی


رزم نے اسکی بات سنی تو اپنا ہاتھ اٹھا کر اسکے گال پر رکھ کر انگوٹھے سے سہلانے لگا۔۔۔


دونوں ابھی تک ایک دوسرے کو بینا پلک جھپکائے دیکھ رہے تھے۔۔۔ ریلیکس کچھ نہیں ہوا۔۔۔


سرگوشی میں بولتا وہ اسے ریلیکس کرنے لگا جو اس سے خوفزادہ ہونے لگی تھی۔۔۔۔اور رزم یہ کبھی نہیں چاہتا تھا۔۔۔


رزم کی بات سن کر اسکا خوف جاتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پرسکون ہوگئی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

سوری مجھے غصّہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔دونوں آیسکریم پارلر میں کونے کی ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے تھے


جب رزم گلا کھنکھار کر معذرت خواہانہ لہجے میں بولا۔۔۔۔جو خاموش نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔


رزم کی بات سن کر وشہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ جس کے چہرے پر شرمندگی تھی ۔۔


اپ نے میری جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔ میرا دل بند ہوجاتا پھر۔۔۔وشہ ناک چڑھا کر بولتی دوسری طرف دیکھنے لگی رزم کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑگئی۔۔۔


بہت بولتی ہو تم.۔۔۔۔میں تو چپ ہی بیٹھی تھی خود ہی معافی مانگ رہے تھے۔۔۔۔وشہ نے دوبارہ اسکی جانب دیکھ کر کہا۔۔


اور تم نے مجھے معاف بھی نہیں کیا۔۔۔ میں نے یہ کب کہا وشہ آنکھیں پھلا کر بولی۔۔۔۔رزم بے ساختہ مسکرا دیا۔۔۔۔


تو پھر تم نے معاف کیا۔۔۔۔رزم ٹیبل پر آگے ہو کر بیٹھتا وشہ کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔


معافی کے بدلے آپ کو دو کپ آیسکریم منگوانی ہوگی بولیں منظور؟ وشہ نے اپنا ہاتھ ملانے کے لئے بڑھایا۔۔


رزم کی نظر اچانک اسکی ہتھیلی پر پڑی جو سرخ ہو رہی تھی اور جگہ جگہ سے چھیلی ہوئی تھی ۔۔۔


رزم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ہتھیلی دیکھی۔۔۔۔وشہ جو کب سے جلن برداشت کر رہی تھی کے گھر جا کر دوائی لگا لےگی


رزم کے تیزی سے پکڑنے پر منہ سے کراہ نکل گئی۔۔۔


سوری چلو ڈاکٹر کے پاس۔۔ رزم ہاتھ چھوڑتا کھڑا ہوا۔۔۔ نن نہیں کچھ نہیں ہوا ایسا اور ہم آیسکریم کھانے آئے ہیں


میں کھائے بغیر نہیں جاؤں گی. رزم نے اسے دیکھا جو اٹھنے کے موڈ میں نہیں تھی پھر لمبی سانس لے کر واپس بیٹھ گیا.


ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں پارسل کروا لیتے ہیں گاڑی میں کھا لینا۔۔۔۔۔وشہ نے کچھ کہنے لے لئے منہ کھولا ہی تھا


جب رزم نے ہاتھ اٹھا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی ہے۔۔۔ اب اٹھو کوئی بحث نہیں چاہیے۔۔۔۔


رزم سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتا کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا پیچھے وشہ برے برے منہ بناتی اٹھ کر اسکے پیچھے گی۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


انجکشن !! وشہ تیز آواز میں بولی ۔۔۔۔۔نن نہیں ڈاکٹر اتنی سی چوٹ پر کون انجکشن لگواتا ہے۔۔۔۔


گھبرائیں مت کچھ نہیں ہوگا اور اتنی کہاں ہے آپ کی دونوں ہتھیلیاں کافی چھلی ہوئی ہیں۔


ارے ڈاکٹر صاحب سہی ہوجائے گا دوائی سے مجھے یقین ہے آپ کافی اچھے ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔ وشہ کی بات پر رزم اور ڈاکٹر مسکرا دیے۔۔۔


بہت ہوگئے ڈرامے جلدی سے انجکشن لگواؤ روڈ پر گری ہو ۔۔۔رزم آگے بڑھ کر کلائی پکڑ کر بولا۔۔


رزم پلیز مجھے ڈر لگتا ہے اللہ‎ نہ کرے اندر جا کر ٹوٹ جائے میں تو مر ہی جاؤنگی


اف لڑکی کتنا بولتی ہو۔۔۔تھکتی نہیں ہو کیا۔۔۔ رزم نے اسکا دیھان بٹانے کو جان کر یہ بات کی۔۔۔


جانتا تھا چپ ہونے کے بجائے پوری کہانی شروع کر دے گی اور ہوا بھی وہی۔۔۔۔


کب بولتی ہوں اتنا اور آپ تو جیسے بولتے ہی نہیں ہیں کبھی غصہ کبھی سوری کر رہے تھے اس وقت بھی میں چپ تھی


وشہ شروع ہو چکی تھی رزم نے جلدی سے آنکھ سے اشارہ کر دیا تھا ڈاکٹر کو جو مسکرا کر جلدی سے اسکے بازو پر انجکشن لگانے لگے۔ ۔۔


وشہ بولتے بولتے یکدم چپ ہوئی۔۔۔ اپنے بازو کو دیکھا جہاں روئی رکھی تھی۔۔ بازو پر ہاتھ رکھ کر سی کرتی دبانے لگی ۔۔۔


افف بہت غلط بات ہے کسی کو بنا اجازت انجکشن لگانا۔۔ وشہ انھ کر منہ پھولا کر روم سے نکل گئی ۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم نے گیٹ کے سامنے کار روکی ایک نظر اسے دیکھا جو دوبارہ سے ناراض ہو چکی تھی۔۔


گھر پونھنچ گئے رزم کی بھاری آواز کار میں گونجی۔۔ وشہ نے کوئی جواب نہیں دیا ویسے ہی دوسری طرف چہرہ کیے بیٹھی رہی۔


رزم گہری سانس لے کر سر سیٹ کی بیک سے ٹیکا کر بیٹھ گیا۔۔۔


کہیں تم میرے ساتھ میرے گھر جانے کا ارادہ تو نہیں رکھتی۔۔


وشہ نے رزم کی بات سن کر گردن گھما کر اسے دیکھا۔۔۔وشہ کے دیکھنے پر رزم نے ویسے ہی بیٹھے صرف گردن گھمائی


اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔۔ وشہ نظر نہ جھکا سکی۔۔۔


مم میں چلتی ہوں اللہ‎ حافظ۔۔وشہ سٹپٹا کر جلدی سے باہر نکل کر گیٹ سے اندر جانے لگی۔۔۔۔


جب پیچھے سے رزم نے اسے آواز دی۔۔۔۔ وشہ نے روک کر اسے دیکھا۔۔۔۔ جو گاڑی سے باہر نکل کر ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔


اپنا خیال رکھنا۔۔ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ وشہ کی ساری ناراضگی ختم کر گیا۔۔۔۔ 

یہ اتنا سج دھج کر کہاں جانے کی تیاری ہے ؟


زیاف یکدم اسکے پیچھے آکر بولا۔۔۔وہ جو شیشے میں اپنے آپ کو دیکھتی لییسٹک لگا رہی تھی۔۔۔۔۔


زیاف کی آواز پر اسکے عکس کو دیکھا۔۔۔ پارٹی میں۔۔۔کہ کر آرا نے لیپسٹک کا کیپ لگا کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا پھر

اسکی جانب پلٹی۔ ۔۔


ویسے ہی اتنی قیامت ہو یہ لال کلر لگا کر کس کی جان نکالنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔


زیاف اسکی آنکھوں میں دیکھتا قریب ہونے لگا جب آرا نے اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر وہیں روک دیا۔۔۔


"Don't t cross ur limit Mr Ziyaf Azmagan Mirza


سرگوشی میں کہتی اپنا ناخن اسکے سینے پر زور سے چبھایا۔۔ آہ چڑیل۔۔۔۔۔۔زیاف تڑپ کر پیچھے ہوا۔۔۔


جان سے مار دونگی مجھے چڑیل کہا تو۔۔۔ آرا غصے سے اسے گھور کر بولی۔۔۔ہاہ اتنا آسان ہے کیا۔۔۔


نہ میں خالد ہوں اور نہ ہی۔۔۔۔۔زیاف روک کر۔۔۔۔۔۔ پھر قریب ہوا اسکے کان کے قریب جھک کر ہلکی آواز میں بولا۔۔۔


نہ انسان۔۔۔۔


کہتے ساتھ ہی زیاف نے اسکے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوا۔۔۔۔آرا نے زور سے اسے ڈھکا دیا۔۔۔


ڈونٹ ٹچ می زیاف۔۔۔۔ ورنہ رزم سے تمہاری شکایات لگا دونگی۔۔۔


انگلی اٹھا کر آرا اسے دھمکا رہی تھی۔۔۔ زیاف گرا نہیں کیوں کے وہ بھی کافی مضبوط جسم کا مالک تھا۔۔۔


مجھ سے چھوٹی ہو پھر بھی میرے بھائی کا نام لیتی ہو۔۔۔۔چاچی کو بتادیا تو سوچو تمھارے یہ پیارے ناخن سزا کے طور پر کاٹ دیے جاینگے


اینڈ بیلیو می مجھے بہت دکھ ہوگا۔۔۔۔۔زیاف اسے چڑاتا بھاگ گیا۔۔۔ تم بچ جاؤ ذرا مجھ سے۔۔۔۔۔ پیچھے آرا غصے سے کھول کر رہ گئی۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کہاں جا رہی ہو تم دونوں؟ رزم کی آواز پر دونوں نے ساتھ گردن موڑ کر رزم کو دیکھا۔۔۔۔ جو سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتا انکے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔


آرا اور ربیکا دونوں چلتی اسکے سامنے آئیں۔۔۔ وہ ہم پارٹی میں جا رہے ہیں۔۔۔ مارلین نے سب دوستوں کو بلایا ہے۔۔۔۔

آرا نے ہچکچا کر بتایا۔۔۔ساتھ ہی کن اکھیوں سے گھور کر زیاف کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔۔۔۔ضرور اس نے بتایا ہوگا رزم کو۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے مگر کوئی حرکت نہ سنو میں۔۔۔رزم نے وارن کرنے والے انداز میں کہا پھر جانے کی اجازت دیتا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

تمہے تو آ کر بتاتی ہوں۔۔۔۔آرا نے زیاف کو کہا۔۔۔۔زیاف تو منہ بنا کر رہ گیا جس کے بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا.۔۔

مجھے دھمکیاں کم دو اور چلتی بنو۔۔ زیاف جل کر کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال سلجھا رہی تھی۔۔۔۔ ساتھ ساتھ رزم کے ساتھ گزارا وقت یاد کر کے شرما کر سرخ ہو رہی تھی۔۔۔


اچانک شیشے میں رزم کا عکس نظر آیا۔۔۔اففف !! وشہ اتنا سر پے سوار کر لیا کے اب تمہے وہ نظر بھی آنے لگے۔۔


آنکھوں کو سختی سے بند کرنے کے بعد کھول کر دیکھا جہاں اب کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔


خود ہی اپنے سر پر چپت لگاتی مسکرا کر کمرے کی لائیٹ بند کرتی بیڈ پر جا لیٹی۔۔۔


وشہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی کچھ دیر بعد کوئی ہیولہ کمرے سے بالکنی کی طرف جاتا غایب ہوگیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم بیڈ پر چت لیٹا وشہ کے بارے میں سوچتا مسکرا رہا تھا یکدم وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔رزم کا دل اسے دیکھنے کو مچلنے لگا۔۔۔۔


ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اسکے ساتھ وہ تو لڑکیوں سے دور بھاگتا تھا۔ ۔۔۔۔۔پر اب یہ کیا ہو رہا تھا اسے۔۔۔۔کیا وہ بدل رہا تھا۔۔۔۔


اسے کبھی محبت جیسی خرافت میں نہیں پڑنا تھا کیوں کے اسے ڈر تھا اپنے آپ سے....... جو ایک بار اسکا ہوجاتا وہ اسے کسی قیمت پر خود سے الگ نہیں ہونے دیتا تھا۔۔۔۔ رزم جتنا سنجیدہ تھا اندر سے اتنا ہی خطرناک بھی۔۔

کچھ دیر میں جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا پھر کھڑا ہو کر سائیڈ ٹیبل سے سیگرٹ کا پیکٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکنی میں چلا گیا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ آپی آپ کو امی بولا رہی ہوں ربیکا اپی اور آرا اپی آئی ہیں۔۔۔


شام کا وقت تھا وشہ لان میں ہی جانے کے لئے نیچے آرہی تھی جب ضامن تیزی سے اوپر آکر بولا۔۔۔


اچھا کہاں ہیں۔۔۔لان میں ہی ہیں چلیں۔۔۔۔ضامن نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔اچھا چلو بے صبر۔۔۔۔۔


دونوں لان میں آئے تو وہاں صرف آرا کھڑی تھی۔۔۔


اسلام علیکم۔۔ آرا پرجوش انداز میں آگے بڑھ کر وشہ کے گلے ملی۔۔۔

وعلیکم اسلام ربیکا کہاں ہے۔۔۔وشہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔ پتہ نہیں یہ یہاں سے کب جائے گی۔۔۔ وشہ بس سوچ کر رہ گئی۔۔

یہ نہیں تھا کے وہ پسند نہیں تھی جلنے کی وجہ تو صرف رزم تھا۔۔۔۔ مگر وہ جو سوچ رہی تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔

آرا زیادہ تر وقت زیاف اور ربیکا کے ساتھ ہی ہوتی تھی اس لئے وشہ نے بھی اپنا رویہ تھوڑا بدلہ تھا۔۔۔۔

ربیکا اندر پانی پینے گئی ہے۔۔۔ آرا نے مسکرا کر بتایا۔۔۔ اچھا چلو ہم جب تک بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔۔۔

پھر ہمارے ساتھ چلنا شاپنگ پر۔۔۔آرا نے مسکرا کر آنے کی وجہ بتائی۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

تم لوگ اندر نہیں آوگی ؟ وشہ کار سے اتر کر ان دونوں سے بولی جو اترنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔۔۔۔


رات کے آٹھ بج رہے تھے تینوں ابھی شاپنگ کر کے ہی گھر لوٹیں تھیں۔۔۔۔


وشہ آپی اب گھر جائیں گے امی بھی انتظر کر رہی ہونگی۔۔۔ کل ملتے ہیں آپ گھر آئیے گا امی بھی یاد کر رہی تھیں


اوکے۔۔۔۔ربیکا کی بات پر یکدم اسے رزم یاد آیا۔۔۔۔


وہ بھی تو کل گھر پر ہونگے سنڈے جو ہے کل ورنہ تو آفس گئے ہوۓ ہوتے ہیں۔۔۔


کہاں کھو گئیں۔۔ربیکا بے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی۔۔۔ وشہ ایک دم ہوش میں آئی۔۔۔۔۔


ہا۔ہاں ٹھیک ہے کل ملتے ہیں اللہ حافظ۔۔۔۔


اوکے۔۔۔اللہ‎ حافظ۔۔۔۔


وشہ مسکرا کر گیٹ سے اندر چلی گئی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ اندر آئی تو جانے کس کی کار پورج میں کھڑی تھی۔۔۔


کون آگیا اس وقت۔۔۔۔ یہی سوچی وشہ اندر گئی


لاؤنج میں ہی اسکی فیملی کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا


جس کی عمر تیس بتیس ہوگی۔۔ دیکھنے میں کافی لمبا چوڑا تھا۔۔۔ اچانک ہی اسنے وشہ کی طرف دیکھا۔۔وشہ گڑبڑا گئی۔۔۔


حنّان کی بھی نظر اس پر پڑی تو اٹھ کر اسکے پاس آیا۔۔۔ آپی یہ ابو کے نئے بزنس پارٹنر ہیں۔۔ابو نے دعوت دی ہے۔۔


حنّان نے قریب آکر ہلکی آواز میں اسے بتایا۔۔۔ وشہ نے حنان کی بات سن کر دوبارہ اسے دیکھا۔۔


دیکھنے کا انداز ہی بہت پراسرار تھا وشہ کو وہ پسند نہیں آیا۔۔۔اسلئے ناک چڑھا کر واپس باہر نکل گئی۔۔۔


وہ شخص جائے تو پھر اپنے کمرے میں چلی جائے گی۔۔۔


وشہ کے ناک چڑھا کر باہر نکلنے پر صوفے پر بیٹھےشخص کی آنکھوں کا رنگ بدل کر دوبارہ پہلے کی طرح ہو گیا۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ لان میں آکر ٹہلنے لگی۔۔۔ افف کیا مصیبت ہے ایک تو ابو بھی نہ کیا ضرورت تھی گھر بلانے کی۔۔


وشہ اچانک ہی چڑچڑی ہوگئی تھی اسے دیکھ کر۔۔۔۔جب اسکا موبائل بجا۔۔۔


وشہ چلتے چلتے رکی پھر ہاتھ میں پکڑا موبائل دیکھا جہاں سکرین پر ربیکا کالنگ نام جگمگا رہا تھا۔۔۔


وشہ نے مسکرا کر یس کا بٹن دبایا۔۔۔ پھر کان سے لگا کر دوسرے کو بولنے کا موقع دیے بغیر ہی شروع ہو چکی تھی۔۔


شکر ہے تم نے کال کر دی ورنہ میں خود کرنے کا سوچ رہی تھی۔۔۔اففف میں نے سوچا تھا گھر پونھنچ کر سب سے پہلے اپنی شاپنگ تسلی سے دکھوں گی۔۔۔۔ مگر یہاں تو۔۔۔۔۔


بریک پر پاؤں رکھو لڑکی دوسرے کی بھی سن لو۔۔۔۔۔رزم کی آواز سنتے ہی اسکی بولتی خود بہ خود بند ہوگئی۔۔۔


ایک دم ہی ساری تھکن اور بیزاری اڑن چھو ہوگئی۔۔


ایک بار کان سے ہٹا کر موبائل کی سکرین کو دیکھا دوبارہ کان سے لگا کر حیرت سے گویا ہوئی۔۔


کیا آپ ہیں ؟ وشہ کی بات سن کر رزم۔ کو ہنسی انے لگی

میں ہی ہوں۔۔۔۔ کیوں میں نہیں ہوسکتا۔۔۔


نن نہیں میں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔ مگر یہ تو ربیکا کا نمبر ہے۔۔۔ وشہ ابھی تک حیران ہو کر پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔بھلا رزم نے کیا بات کرنی تھی اس سے۔۔۔


ہاں پتہ ہے اسکا ہے۔۔ تم سے کچھ بات کرنی تھی اسلئے بہانہ کر کے لے لیا۔۔


اوہ۔۔ مجھ سے کیا بات کرنی ہے؟ وشہ بالوں کی لٹ ہاتھ سے کان کے پیچھے کرتی دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھنے لگی


(اف رزم کو اس وقت کونسی بات کرنی ہے) سوچتی ہوئی بولی۔۔۔ اچھا تو بتائیں کیا بات ہے۔۔۔


یہی کے اب تمہارا ہاتھ کیسا ہے؟ پوچھنا تو کچھ اور چاہتا تھا مگر کچھ اور کہ گیا۔۔۔۔


وشہ تو رو دینے کو ہوگئی۔ ۔۔۔ بیچاری پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی رزم نے اس کی سوچ پر ٹھنڈا پانی ہی ڈال دیا۔۔۔


یہ بات کرنی تھی آپ کو ؟ وشہ ہر لفظ چبا کر بولی۔۔۔رزم نے اپنی پیشانی دو انگلیوں سے مسلی۔۔۔۔ا


ب تو محترمہ کا میٹر گھما دیا ہے اب رزم سنتے رہو۔۔۔ رزم سوچتا کچھ کہنے ہی لگا تھا۔۔۔۔۔


جب وشہ نے غصے میں بائے کہ کر کال ڈسکنیکٹ کر دی۔۔ رزم نے کان سے موبائل ہٹا کر گھورا۔۔۔۔ شٹ۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

ہنہ یہ بات کرنی تھی اور میں سٹوپڈ پتہ نہیں کیا کیا سوچ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وشہ غصے میں اندر جانے لگی


جب کسی سے بہت زور سے ٹکر ہوئی۔۔ اس سے پہلے وہ گرتی کسی نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ سے پکڑ کر جھٹکے سے اپنے قریب کیا۔۔۔۔۔


آہ۔۔۔وہ جو بھی تھا بہت سخت گرفت تھی اسکی اسے لگ رہا تھا ہاتھ کمر میں دھنس گیا ہو۔۔۔۔


وشہ نے کراہ کر ٹکرانے والے کو دیکھا تو سانس ہی روک لی۔۔


غصے میں وہ بھول ہی گئی تھی کوئی انجان شخص گھر پر ہے


بیوٹیفل۔۔۔ سرسراتی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔۔ "کاھل اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔


بہت حسین ہو تم۔۔۔اسکی بات پر وشہ نے غصے سے پیچھے ہٹنا چاہا مگر چھڑوا نہ سکی۔۔۔۔صرف تڑپ کر رہ گئی۔۔۔


چھ چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔۔۔ وشہ نے غصے سے غرا کر کہا۔۔۔۔کیسا بیہودہ انسان تھا جو پہلی بار آیا اور اپنی اوقات دکھانے لگا۔۔۔


شش۔۔۔بدتمیزی مت کرو۔۔۔میرا غصہ سہ نہیں پاؤ گی۔۔۔۔جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ آگے بڑھ گیا۔۔


وشہ بہت زور سے زمین پر گری۔۔۔آہ۔۔۔ شدید کمر میں درد کی ٹیس اٹھی۔۔۔ ہونٹ بھنج کر اسنے پیچھے دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔


ابھی ابو کو بتاتی ہوں کس جانور کو گھر پر بولا لیا ہے۔۔۔


وشہ کمر پر ہاتھ رکھتی لاؤنج میں گئی اور وہیں ساکت رہ گئی۔۔۔۔


لاؤنج میں ابھی بھی سب بیٹھے باتھوں میں مشغول تھے۔ وشہ کی نظر اس شخص پر ٹہر گئی جو ابھی کچھ وقت پہلے اس سے بیہودہ باتیں کر رہا تھا


بار بار پلکیں جھپک کر دیکھا مگر وہ شخص وہیں بیٹھا تھا۔۔۔


ارے وشہ او۔۔۔ نورین۔ بیگم اسے دیکھتے ہی قریب بلانے لگیں۔۔۔۔۔۔۔ "نن۔۔۔۔ نہیں امی بہت نیند آرہی ہے سوری گڈ نائیٹ وشہ ہمت متمجہ کرتی بول کر تیزی سے اپنے روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔


تھک گئی ہے بچی ورنہ ایسے نہیں کرتی ہے۔۔۔ نورین بیگم مسکرا کر کاھل سے بولیں۔۔ جو کوئی بات نہیں کہتا کن اکھیوں سے اسے جاتا دیکھ کر دھیرے سے بولا "بیوٹیفل۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

روم میں اتے ہی اسنے اپنی کمر کو دونوں ہاتھوں سے دبایا۔۔۔


یہ یہ کیا تھا وہ وہ تو گیٹ کی جانب گیا تھا۔۔۔ ہوسکتا ہے واپس اندر چلا گیا ہو۔۔۔ وشہ سوچتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔


ہاں یہی ہوا ہوگا۔۔۔ اف میری کمر کل ضرور بتاونگی ابو کو پتہ نہیں کہاں سے نازل ہوگیا ہے۔۔۔


وشہ خود سے عہد کرتی واشروم چلی گئی۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

دوپہر کا وقت تھا۔۔۔۔مگر آج بھی موسم برسنے کے موڈ میں لگ رہا تھا۔ ۔۔۔۔ ٹھنڈی سرد ہوا جو کپکپانے پر مجبور کر رہی تھی


ایسے میں وشہ نے دو دو سوئیٹر پہنے ہوئے تھے ساتھ بڑی سی شال لپیٹے سرخ گال اور ناک کے ساتھ حنّان اور ضامن کے ساتھ ازمغان ولا آئی۔۔۔۔


حنّان اور ضامن دونوں ہی اسے بار بار دیکھ کر کھی کھی کر رہے۔ تھے۔۔۔۔ زیادہ ہی ہنسی آرہی ہے بتاؤں دونوں کو۔۔۔


وشہ کپکاتے ہونٹوں کے ساتھ بولی آج سردی کچھ زیادہ تھی یا شاید اسکی طبیت سہی نہیں تھی۔


دونوں کو ڈپٹ کر وہ لاؤنج میں آئی جہاں صوفے پر رزم بیٹھا گود میں لیپ ٹاپ رکھے کوئی کام کر رہا تھا۔۔۔۔


احساس تو اسے پہلے ہی ہوگیا تھا وشہ کے انے کا پھر بھی انجان بنا لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔۔۔


دوسری طرح وشہ اسے دیکھتے ہی کھل اٹھی مگر حنّان اور ضامن جو اسی کو وقفے وقفے سے دیکھ کر اپنی بتیسی کی نمائش کر رہے تھے


انکی وجہ سے مسکراہٹ کو ضبط کرتی دونوں کو گھورنے لگی ۔۔۔ بس کر دو تم دونوں مجھے نظر لگوانا چاہتے ہو۔۔۔


وشہ اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتی مصنوئی غصے سے ڈانٹنے لگی۔۔۔


رزم نے اسکی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہا۔۔۔ ہوش میں تب آیا جب اسکے چلنے میں لڑکھڑاہٹ محسوس کی (بیچاری نازک سے گری ہی اتنی زور سے تھی )

رزم نے لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پر رکھا پھر اٹھ کر انکے قریب آگیا


جو ربیکا اور آرا سے مل رہی تھی۔۔۔۔


السلام عليكم۔۔۔ لگتا ہے آج ساری سردی مس وشہ افنان پر اکر گری ہے۔۔رزم سنجیدہ سا بولا مگر آنکھوں میں شرارت واضع تھی۔۔۔۔۔۔


ہاہاہا۔۔۔بلکل سہی کہا آپ نے ۔۔زیاف بھی انکے پاس آتے ہنستے ہوۓ بولا


وشہ جو رزم کو گھور رہی تھی اب زیاف کو گھورنے لگی

تم مجھے ڈرا رہی ہو ایسے مت گھورو۔۔۔۔ زیاف ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔۔۔


تم ڈرنے والے ہو بھی نہیں خود ہی جن ہو۔۔۔۔وشہ تپ کر بولی۔۔۔۔جس پر سب نےایک ساتھ اسے سپاٹ چہرے کے ساتھ دیکھا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کیا ہوا سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ وشہ سب کو دیکھ کر سٹپٹا گئی۔۔


کچھ نہیں چلو۔۔ آرا نے جلدی سے کہا۔۔۔۔جب کے رزم ابھی تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔


پھر گہری سانس لیتا ان کے پیچھے ہی سیڑیاں چڑھنے لگا۔۔۔ وشہ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر دبایا


اور دیکھے بنا پاس سے گزر گیا۔۔۔ وشہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔۔۔


جسم میں یکدم سردی کا احساس کم ہوا۔۔۔


ہتھیلیوں میں رزم کے چھونے سے عجیب سا سکون اترا۔۔۔۔

"ہائے ظالم نے ایک بار بھی مڑکر نہیں دیکھا۔۔۔وشہ بڑبڑا کے رہ گئی۔۔۔۔۔


وشہ اپی چلیں۔۔۔"ہا۔۔ہاں۔ چلو۔۔۔ ضامن کے کہنے پر وہ ہوش میں آتی جانے لگی۔۔۔۔۔


وشہ کے دوسری جانب رخ موڑنے پر رزم نے اپنے کمرے کے دروازے سے جھانک کر جاتے ہوئے اسکی پشت کو دیکھ کر ہلکا سا مسکراتا دوبارہ اندر چلا گیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ اپنے روم میں آئی۔۔۔لائیٹ اون کرتی الماری سے کپڑے نکال کر واش روم چلی گئی۔۔۔۔۔


کچھ دیر بعد واشروم سے نکل کر بیٹھ پر جا کر الٹا لیٹ کر موبائل پر گیم کھیلنے لگی۔۔۔


کمر کا درد اب کافی بہتر تھا۔۔۔۔ بیک کی وجہ سے اپنی کمر پر دیکھ نہ سکی۔۔۔۔ ورنہ کمر پر جلن ہو رہی تھی


ہاتھ سے چیک کیا مگر ایسا کوئی زخم نہیں تھا۔۔۔


تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی جب کوئی عجیب سی آواز آنے لگی۔۔۔ گیم کو روک کر اسنے غور کیا۔۔۔۔۔یہ کیسی آواز ہے


خود سے کہتی اسنے جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا اور بجلی کی سی تیزی سے چیخ مارتی ہوئی لیٹے لیٹے ہی گھومتی بیڈ سے نیچے گری


شکر تھا سر پر کچھ نہیں لگا تھا۔۔۔۔ وشہ کے گرتے ہی پنکھا دھڑم سے نیچے گرا . وشہ کانپ گئی اگر وہ نہ ہٹتی تو جانے کیا ہوجاتا اسکے ساتھ ۔۔۔


یَکدم روم کا دروازہ زور زور سے بجا۔۔۔ وشہ آپی کیا ہوا دروازہ کھولی۔۔۔ حنّان کی آواز پر وشہ ہمت کرتی اٹھنے لگی


مگر پیر ہلایا نہیں جا رہا تھا شاید مڑ گیا تھا۔۔۔ وشہ ہمت کرتی کھڑی ہوتی پیر گھسیٹتی دروازہ تک پونھچی


جو ابھی تک بج رہا تھا۔۔۔ باہر کھڑا حنان بھی اسے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔۔وشہ نے دروازہ کھولا حنان جلدی سے اندر آیا۔ ۔


کیا ہوا آپی آپ کیوں چیخیں ؟ حنان فکرمندی سے اسے دیکھ کر بولا۔۔۔


وشہ نے کچھ بھی بولے بغیر ہاتھ سے بیڈ کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔حنان نے اسکے بتانے پر بیڈ کی جانب دیکھا جہاں بیڈ پر پنکھا گرا ہوا تھا۔۔۔۔


یہ کیسے گر گیا۔۔۔۔۔آپی آپ کو لگی تو نہیں حنان نے حیرت سے پہلے بیڈ کی طرف دیکھا پھر اسے دیکھنے لگا۔۔۔


میں ٹھیک ہوں پتہ نہیں کیسے گر گیا۔۔۔


میں ابو کو بتا کر آتا ہوں۔۔۔ حنان کہ کر جانے لگا وشہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا۔۔۔


نہیں رہنے دو وہ سوگئے ہونگے ۔۔۔۔۔ تم ایسا کرو پنکھے کو نہچے رکھنے میں میری مدد کرو۔۔۔۔ اے سی تو ہے۔۔۔وشہ کے کہنے پر دونوں آگے بڑھ گئے


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


صبح ہی حنان نے سب کو پنکھا گرنے کا بتا دیا۔۔۔ گھر والوں کو کیا اسنے ربیکا کو بھی کال پر اطلاح دے دی۔۔۔


رزم بھی سب کے ساتھ ہی آگیا تھا۔۔۔۔وہ جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتا کے وہ خیریت سے ہے تب تک اسے سکون نہیں ملنا تھا۔۔۔۔


وشہ کو تب پتہ چلا۔۔۔۔۔جب وہ لاؤنج میں آئی سب ہی بیٹھے اسی کے نیچے آنے کا انتظار اکر رہے تھے۔۔۔


رزم اسے ریلنگ پکڑ کر لڑکھڑا کر نیچے آتا دیکھ کر بے چین ہوگیا۔۔۔۔


وشہ نے نیچے لاؤنج میں آکر سب کو سلام کیا۔۔۔


وعلیکم اسلام۔۔وشہ سب سے مل کر صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔


وشہ کے سامنے ہی رزم بیٹھا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔وشہ اسکے دیکھنے سے کنفیوسڈ ہورہی تھی۔۔۔


وشہ آپی آپ کا پیر کتنا سوج گیا ہے کیا آپ کو چوٹ لگی ہے اور حنان کے بچے تم نے یہ کیوں نہیں بتایا۔۔۔


ربیکا کی نظر اسکے پیر پر گئی تو فکر مند سی ہوگئی۔۔۔


ربیکا کے کہنے پر سب کی نظر اسکے پیر کی جانب گئی


جو کافی سوجا ہوا تھا۔۔۔ رزم بس ہونٹ بھنج کر رہ گیا سب کے سامنے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔


ہاں وہ میں بیڈ سے تیزی سے نیچے اتری تو پیر مڑ گیا۔۔وشہ منمنا کر بولی جیسے گناہ کر دیا ہو۔۔۔۔


کچھ لگایا۔۔۔افشاں بیگم کے پوچھنے پر اسنے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔لیکن میں نے پین کیلر لے لی تھی۔۔۔۔


وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ لگاو گی نہیں تو سوجن نہیں جائے گی۔۔۔۔


جی لگا لونگی۔۔۔وشہ نے مسکرا کر جواب دے کر رزم کی جانب دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔۔


افف گھور ایسے رہے ہیں۔ جیسے میں۔ نے خود یہ سب کیا ہو خود سے کہتی وہ ربیکا کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔


ربیکا چلو باہر لان میں چلتے ہیں۔۔۔۔۔ وشہ رزم سے نظر چرا کر ربیکا کو ہلکی آواز میں بولی۔۔۔۔ "مگر اپکا پیر۔۔۔


ٹھیک ہے اب چلو۔۔۔ ربیکا کی بات کو نظر انداز کرتی وشہ کھڑی ہوگئی۔۔۔ آرا تم بھی آجاؤ۔۔۔


تم کہاں جا رہی ہو پیر دیکھو اپنا۔۔۔ نورین بیگم اسے دیکھ کر بولیں جو باہر کی جانب جانے لگی تھی ۔۔۔۔


مڑ کر اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔لان میں ہی جا رہی ہوں۔۔۔اور ٹھیک ہوں ابھی درد کم ہے ۔۔۔


وشہ کہ کر دونوں کے ساتھ لان کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


تینوں گھاس پر بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔کیوں کے وشہ کو شام ٹھنڈے موسم میں گھاس پر بیٹھنا بہت پسند تھا۔۔۔


آپ دونوں کو آنٹی اندر بلا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ضامن بھاگتا ہوا انکے قریب اکر پھولی سانس کے ساتھ بولا۔۔۔۔


اچھا چلو۔۔۔ آتی ہیں۔۔۔ آرا نے جواب دیا جس پر ضامن سر ہلاتا واپس بھاگ گیا۔۔۔


آرا آپی چلیں ورنہ کہیں خود ہی نہ اجائیں ربیکا ہنستی ہوئی اٹھ کھڑی ہوں۔۔۔۔آرا نے بھی ہنستی ساتھ ہی کھڑی ہوئی۔۔۔۔


آپ یہیں انتظار کریں ابھی آتی ہیں ہم۔۔۔۔


ربیکا وشہ کو کہتی اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔وشہ جو اٹھنے لگی تھی کندھے اچکا کر واپس بیٹھ گئی۔۔۔


دو منٹ ہی گزرے تھے جب پیچھے سے رزم کی آواز آئی


وشہ نےمڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔جو دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔


وشہ جلدی سے کھڑی ہوئی مگر برا ہوا پیر دوبارہ مڑ گیا۔۔۔آہ۔!! اس سے پہلے وہ منہ کے بل گرتی رزم نے جلدی سے کمر سے پکڑ کر اسے تھاما۔۔۔


وشہ نے تکلیف سے ہونٹ بھنج کر اسے دیکھا جو بہت نزدیک کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


وشہ کی آنکھوں میں تکلیف سے آنکھوں میں آنسوں جھلملا گئے۔۔۔۔


رزم کو دکھ ہوا اسے تکلیف میں دیکھ کر۔۔۔۔ دونوں خاموش کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔


وشہ کو احساس ہوا رزم کی پکڑ مضبوط ضرور تھی مگر سخت نہیں۔۔۔۔


رزم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گال پر نرمی سے چھو کر سہلانے لگا۔۔۔۔ وشہ اسکے لمس سے یَکدم جھجھک کر پیچھے ہونے لگی۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں کوئی آجائے گا۔۔۔۔


وشہ کانپتے لہجے میں بولتی پیچھے ہونے لگی۔۔۔رزم نے بھی فورن اسے چھوڑا۔۔۔۔


ؓسوری۔۔۔ رزم نے آہستہ سے کہا۔۔۔ وہ میں بس تمہارا پیر دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔


وشہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتی اپنی سانس کو درست کر رہی تھی جو یکدم اسکے اتنے قریب آنے سے تیز ہو گئی تھی۔۔۔۔


وشہ نے اسکی بات سن کر خاموشی سے اپنا پیر آگے کیا۔۔۔۔


رزم نے ایک نظر اسکے پیر کو دیکھا پھر بولا۔۔ اگر سہی نہ ہو تو مجھے کال کر لینا۔۔رزم نے کہ کر اسکے ہاتھ میں دبا موبائل لیا


پھر اس پر نمبر لکھ کر سیوکرتا واپس جانے لگا۔۔۔ وشہ تو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔


رزم جاتے جاتے مڑا۔۔۔۔ کیا میں آج انتظار کروں تمہاری کال کا۔۔رزم نے مسکرا کر پوچھا


جس پر وشہ نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ گردن جھکا دی۔۔۔۔رزم کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم مسکرا کر اندر بڑھنے لگا جب پیچھے وشہ کے درد سے کراہنے کی آواز سنتا تیزی سے اسکے قریب آیا۔۔۔


کیا ہوا تم ٹھیک ہو ؟


تھوڑا درد ہو رہا ہے۔۔۔رزم کے پوچھنے پر وشہ منہ بنا کر بتانے لگی جیسے اس میں رزم کی غلطی ہو۔۔۔


رزم نے مسکرا کر دھیرے سے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔ تمہارا علاج ابھی کر دیتا ہوں


رزم نے کہتے ساتھ لان میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھایا۔۔۔ خود اسکے پاس دوزانوں بیٹھ کر پیر پکڑ کر زور سے موڑا ۔۔۔


وشہ جو ڈر کر آنکھیں میچیے ہوئے تھی یکدم سارا درد ختم ہونے پر پٹ سے آنکھیں کھولیں


وشہ نے حیرت سے آنکھیں کھول کر پہلے اسے پھر اپنے پیر کو دیکھا جہاں درد تھا ہی نہیں۔۔۔


یہ یہ کیسے کیا۔۔۔۔وشہ ابھی تک حیران تھی۔۔۔۔رزم نے اسے دیکھا۔۔


جادو سے۔۔۔رزم مذاق سے کہتا مسکرا کر کھڑا ہو گیا


وشہ بھی جھٹ کھڑی ہوئی۔۔۔حیرت تھی درد غائب وشہ ابھی تک حیران تھی۔۔۔


رزم گہری سانس لے کر اسکے قریب ہوا۔۔۔۔پھر اسکے گال کو اپنے انگوٹھے سے سہلانے لگا۔۔۔اتنا مت سوچا کرو۔۔


وشہ کو اسکی آنکھوں کا رنگ بدلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔


آپی!! اس سے پہلے وشہ کچھ کہتی ضامن پھر بھاگتا ہوا انکے قریب آیا۔۔۔رزم تیزی سے پیچھے ہوا.


وشہ سر جھٹک کر اپنے بھائی کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔ جو بلانے آیا تھا۔۔۔ضامن پیغام دے کر واپس چلا گیا۔۔۔۔۔


وشہ نے جاتے جاتے پلٹ کر اسے دیکھا۔۔۔۔ چلیں

رزم مسکرا کر اسکے قریب آیا پھر ہاتھ تھام کر اندر جانے لگا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رات کے وقت ان کی واپسی ہوئی۔۔۔۔ کھانا بھی آج افنان ہاؤس پر ہی کھایا گیا تھا۔۔۔۔


رزم اتے ساتھ ہی روم میں گیا۔۔۔۔جب دروازہ نوک کر کے آرا اور زیاف دونوں اندر آئے۔۔۔


کیا بات ہے۔۔۔ "کچھ بتانا ہے آپ کو۔۔ زیاف سنجیدگی سے بولتا قریب آیا ۔۔۔


وشہ کے روم میں کل کوئی تھا زیاف کی بات پر رزم چونکا۔۔۔ کیا مطلب؟


مطلب یہ کسی نے وشہ کو نقصان پوھنچانے کے لئے پنکھا گرایا۔۔۔۔مگر وشہ کی پھرتی نے اسے بچا لیا۔۔۔


رزم کی آنکھوں نے یکدم رنگ بدلہ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کوئی ہمارا دشمن ہی آیا ہے اور آپ تو بہت اچھے سے جانتے ہیں ہمارا ایک ہی دشمن ہے۔۔


زیاف کے کہنے پر رزم کی آنکھیں لہو رنگ ہوگئیں۔۔۔ کاھل ۔۔۔۔ سرسراتی آواز روم میں گونجی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ بال بنا کر بیڈ پر لیٹی۔۔۔۔ جب یکدوں لائیٹ چلی گئی وشہ اٹھ بیٹھی۔۔۔ اففف کیا مصیبت ہے۔۔۔۔ بڑبڑا کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا۔۔۔۔


جنریٹر ابھی چل جائے گا یہ سوچ کر موبائل لیکر دوبارہ لیٹ گئی۔۔۔۔ واٹس ایپ اوپن کر کے رزم کو میسج کرنے کا سوچ ہی رہی تھی جب موبائل اوف ہوگیا۔۔۔


اسے کیا ہوگیا اب۔۔۔ جھنجھلا کر موبائل کے سائیڈ کے بٹن پریس کرنے لگی۔۔۔


جب زور سے کسی نے اسکے بال مٹھی میں لے کر پیچھے کی جانب کھنچے۔۔ وشہ چیخیتی اس سے پہلے ہی


کسی نے وشہ کو بیڈ پر گرا کر تکیہ منہ پر رکھ دیا۔۔۔۔۔


اسکی چیخیں اندر ہی دب کر رہ گئیں۔۔۔وشہ کی سانس اکھڑنے لگی ہاتھ پاؤں مار رہی تھی


لیکن چھڑوا نہیں پارہی تھی ۔۔۔ یکدم اسکا موبائل روشن ہوکر رزم کے نمبر پر کال جانے لگی۔۔۔


رزم جو روم میں غصے سے ٹہل رہا تھا کال انے پر تیزی سے موبائیل اٹھایا۔۔۔


سکرین پر انجان نمبر اتا دیکھا تو سمجھ گیا وشہ ہوگی


مگر اسے محسوس ہو رہا تھا کچھ غلط ہو رہا ہے ۔۔


تیزی سے کال پک کی دوسری جانب وشہ کے خوف سے کانپتی آواز اور تیز سانسوں کی آواز آئی۔۔۔


رزم نے موبائیل پھنکا اور تیزی سے باہر نکلا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم کے موبائل پک کرنے پر دوسری طرف وشہ کے چہرے سے تکیہ اسکے منہ سے ہٹ گیا.۔۔۔


کمرہ بھی روشن ہوگیا۔۔۔


وشہ پسینے سے شرابور تیز تیز سانس لے رہی تھی جب بالکنی کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔۔۔


وشہ کو لگا کوئی بالکنی سے اسکے روم میں آیا تھا۔۔۔


وشہ رونے لگی پتہ نہیں کون تھا کس نیت سے آیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ آتے ہی وہ لرز گئی۔۔۔ تیزی سے دوپٹہ اوڑھتی باہر نکلی۔۔۔


اس وقت تو سب سو گئے ہونگے۔۔۔۔ وشہ کو گھبراہٹ ہونے لگی تو لان میں آ گئی۔۔۔۔ لان کی ایک ہی لائیٹ اون کی ہوئی تھی


باقی چاند کی چاندنی ہر سو پھلی ہوئی تھی۔۔۔۔ وشہ کو تھوڑا سکون ملا

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ اندر جانے لگی جب کوئی کار گیٹ سے اندر آئی۔۔۔۔

وشہ کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ دوڑگئی۔۔۔۔


رزم کار روک کر اسے دیکھ کر تیزی سے اسکے قریب آیا خود پر کنٹرول کر کے سلام کیا۔۔


وعلیکم اسلام آپ اس وقت خیریت؟ ہاں وہ میں۔۔۔رزم اپنی گردن سہلاتا کوئی بہانا ڈھونڈ رہا تھا


جب وشہ ہنس دی۔۔ ہاہاہا. جب آرہے تھے تو کوئی بہانہ سوچ کر آتے۔۔ وشہ کی بات سن کر رزم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔۔


ہمم اوکے میں تم سے ملنے آیا تھا۔۔۔رزم نے لمبی سانس لیکر اسے سچ کہ ہی دیا۔۔۔


وشہ شرم سے سرخ پڑھ گئی۔۔۔ کھڑوس کو میری یاد آرہی تھی۔۔ وشہ کے منہ سے بےساختہ نکلا رزم کے گھور کر دیکھنے پر وشہ نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔۔۔


رزم ایک دم قریب آیا۔۔۔ جھک کے اسکے کان کے پاس ہلکی آواز میں بولا۔۔۔ اگر میں کہوں ہاں پھر۔۔۔۔ وشہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔۔


رزم نے اسکے گرد ہاتھ لیجا کر تھوڑا اور قریب کیا۔۔۔یکدم اسکی آنکھوں لال انگارہ ہوگئیں۔۔۔۔۔ کوئی آیا تھا جس نے اسے ہرٹ کرنے کی کوشش کی۔۔۔


رزم نے خود پر ضبط کیا پھر پیچھے ہوکر سرگوشی میں بولا۔۔وشہ ادھر دیکھو۔۔۔ عجب لہجہ تھا اسکا۔۔۔


وشہ جیسے کسی ٹرانس میں چلی گئی سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ کچھ ہوا ہے۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے اسکے گال کو سہلا کر بولا۔۔وشہ نے صرف اثباب میں سر ہلایا۔۔۔


رزم کو یقین ہوگیا کوئی آیا ہے جو وشہ کو نقصان پوچھنا کر اسے تکلیف دینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر وہ بھول گیا ہے


رزم ازمغان مرزا سے پنگا لینا اپنی موت کو دعوت دینے کے متعارف تھا

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم وشہ سے مل کر گھر آیا لاؤنج میں ہی زیاف اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔رزم کو آتا دیکھ تیزی سے اسکے قریب پونھچا۔۔


تمہارا شک سہی ہے۔۔۔اچھا کیا جو کل تم روم دیکھ آئے۔۔۔

رزم سپاٹ چہرے کے ساتھ بولا۔۔۔


مگر وہ یہاں کیا کرنے آگیا ؟ زیاف پریشانی سے پوچھنے لگا

جیسے بھی آیا بچ کر واپس نہیں جائے گا۔۔


اور جس کی شہ پر وہ اتنی دیدہ دلیری سے وشہ کے روم میں آکر اسے ہرٹ کر رہا ہے انکو چیر کے رکھ دونگا۔۔۔۔۔


رزم سخت لہجے میں بول رہا تھا۔۔ زیاف تھوڑا گھبرا گیا۔۔۔


ایک اور بات آرا کو بولو کاھل کو ملنے کے لئے بلاہے۔۔۔۔ رزم حکم صادر کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔


مجھے افسوس ہوگا کاھل تم نے اب کی بار بھائی کے دل پر وار کیا ہے


اب تو تمہارا بچنہ ناممکن ہے۔۔۔زیاف خود کلامی کرتا آرا کے روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز۔۔۔!! آآج اس خوبصورت جنی نے کیسے مجھے یاد کرلیا۔۔۔۔آرا کو دیکھتے ہی کاھل صوفے سے اٹھتا قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا


پھر آرا کے چہرے پر آئی لٹ کو پکڑتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔آرا نے اسکا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے کیا۔۔


اپنی حد میں رہو ورنہ تم تو جانتے ہی ہو رزم کو ایک سیکنڈ نہیں لگے گا تم جیسے کمزور اور بزدل جن کو ختم کرنے میں


آرا کے چہرے پر تمسخرانہ مسکراہٹ آئی۔۔ کاھل نے غصے میں اسکی گردن دبوچی پھر چہرہ قریب کر کے غرایا ۔۔۔


تم لوگ کیا سمجھتے ہو بہت طاقت ہے۔۔۔۔۔ کمزور تو رزم ہے جو ایک انسان سے محبت کی پتنگے لڑا رہا ہے۔۔۔


پورے خاندان کو ختم کروا دونگا۔۔۔۔ آج ہی سردار کو بتا کر آیا ہوں۔۔۔ ایک انسان سے عشق کیا جا رہا ہے۔۔۔۔


کہتے ہی اسنے آرا کو زور سے پیچھے کی طرح پھینکا۔۔۔۔مگر وہ کوئی کمزور نہیں تھی۔۔۔۔


اٹھ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔آرا کا بس نہیں چل۔ رہا تھا اسے چیر کر رکھ دے۔۔۔


میں تم سے لڑنے نہیں آئی ہوں رزم نے بلایا ہے تمہے۔۔۔ آجانا رات تک ورنہ وہ خود آئے گا تو تمھارے لئے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔


آرا اسے وارن کرتی چلی گئی پیچھے کاھل کھول کر رہ گیا۔ ۔۔ بچ!!

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ آپی تیز تیز چلیں۔۔۔۔اوفو اور کتنا تیز چلوں بھاگنا شروع کردوں۔۔ وشہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ ازمغان ولا جا رہی تھی۔۔۔


کل ضامن کی برتھڈے ہے اس لئے خود جا رہا تھا انوائٹ کرنے۔۔۔۔جوش و خروش میں باتیں کرتا۔۔۔۔جلدی پہنھچنے کے چکر میں بھاگنے لگا۔۔۔۔


جب جانے کہاں سے گلی سے تیز رفتار میں گاڑی آرہی تھی وشہ جو مسکراتی ہوئی اسے تو کبھی حنان کر کچھ کہ رہی تھی


اچانک اسنے یونہی پیچھے دیکھا تو اوشہ کی سانس روک گئی۔۔۔۔ گاڑی بہت سپیڈ میں آرہی تھی۔۔۔۔


ضامن روکو ۔۔۔۔۔۔وشہ زور سے چیخی مگر ضامن بھاگے جا رہا تھا۔۔۔گاڑی قریب آنے لگی وشہ گھبرا کر بھاگنے ہی والی تھی


مگر تب تک گاڑی ہٹ کرتی ہوئی بنا رکے چلی گئی۔۔۔ضامن اچھل کر روڈ کی سائیڈ پر گرا۔۔وشہ ساکت سی اپنے چھوٹے بھائی کو خون میں لت پت دیکھتی رہی۔۔۔۔


ضامن !! حنّان کے چیخنے کی آواز پر جیسے وہ ہوش میں آتے ہی پاگلوں کی طرح بھاگی۔۔۔۔


زمین پر نیچے بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے اسکا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔۔چھوٹا سا بھائی جس کا چہرہ خون سے بھر گیا گیا تھا


وشہ کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔ ضامن!! ضامن مم میرا بھائی کوئی ہے ہیلپ می۔۔۔۔۔حا حنّان کسی کو بلاو۔۔۔


وشہ ہچکیوں سے روتی ضامن کا سر دبائے زور زور سے چیخ رہی تھی۔۔۔ حنان ساتھ بیٹھا رو رہا تھا


وشہ کی بات پر کھڑا ہوکر ازمغان ولا کی جانب بھاگنے لگا کے وہ زہادہ دور نہیں تھا۔۔۔


ضامن اٹھو چچ چلو کتنی تیاریاں کرنی ہیں اٹھو بلے۔۔ وشہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔


جب سپیڈ میں کار قریب آکر رکی۔۔۔۔ رزم زیاف دونوں تیزی سے گاڑی سے نکلے۔۔حنان بھی ساتھ ہی تھا۔۔۔


چھوڑو وشہ۔۔،۔" زیاف جلدی گاڑی میں ڈالو ہری اپ۔۔۔ رزم وشہ کے ہاتھ پکڑتا زیاف کو جلدی سے بولا۔۔۔۔


جیسے کوئی ہوش ہی نہیں تھا۔۔۔ میرا بھائی۔۔۔۔ وشہ رزم کو دیکھ کر زور زور سے رونے لگی


رزم کو تکلیف ہوئی اسے یوں دیکھ کر۔۔۔ وشہ وہ ٹھیک ہے سمبھالو خود کو چلو اٹھو۔۔۔ رزم نے زبردستی اسے گاڑی کے قریب لایا۔


وشہ زیاف کو سائیڈ پر کرتی خود پیچھے اسکے ساتھ بیٹھتی دوبارہ اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔۔


بب بلے اٹھو نہ۔۔۔۔دد دیکھو۔۔۔تم تمھارے۔۔ دد دونوں۔۔ بب بھائی آ آگئے۔۔۔ "مم میرا بب بھائی اٹھ نہیں رہا۔۔۔ وشہ نے روتے ہوۓ معصومیت سے دونوں کو کہا۔۔۔۔۔


رزم اور زیاف دونوں ضبط کے بیٹھے رہے۔۔۔ کیسے تسّلی دیتے۔۔۔رزم کی گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی


دس منٹ ہی لگے تھے ہسپتال پوھنچنے میں۔۔۔۔تیزی سے ضامن کو گود میں اٹھا کر اندر بھاگے۔۔۔


ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے اسکا ٹریٹمنٹ شروع کردیا۔۔۔۔ سر پھٹا تھا یہ شکر تھا کے کوئی پتھر نہیں لگ گیا۔۔۔


مگر خون بہت بہنے اور خوف سے بیہوش ہوچکا تھا۔۔۔


رزم زیاف اور حنان کو وہیں چھوڑ کر وشہ کے پاس آیا

جو رویے جا رہی تھی۔۔۔ رزم نے اسے کندھوں سے تھام کر بینچ پر بٹھایا


خود اسکے سامنے دوزانوں بیٹھا۔۔۔۔وشہ کے کپڑے اور ہاتھ خون سے بھرے تھے۔۔۔۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر اسے ہول اٹھ رہے تھے۔۔۔


رزم نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے۔۔۔۔"ٹھیک ہے وہ اب خوف کی وجہ سے بیہوش ہوگیا ہے۔۔۔۔ وشہ نے رزم کی بات پر اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔رو رو کر اسنے اپنا حشر کرلیا تھا


رزم کے دل میں ٹیس اٹھی۔۔۔ کک کیا آپ سہی کہ رہے ہیں مم۔۔میرا بھائی ٹھیک ہے نہ۔۔۔ "ہاں وہ ٹھیک ہے مجھ پر بھروسہ ہے نہ۔۔۔۔


رزم کی بات پر اسنے اثباب میں سر ہلایا۔۔۔مم مگر میری

نظروں سے چچ چھوٹا سا میرا بھائی اچھل کر گرا کک کتنا درد ہوا ہوگا اسے


شششش !! بس چپ اب ایک آنسوں نا نکلے ورنہ مار پڑے گی۔۔۔ رزم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسوں صاف کیے۔۔۔تم روتے ہوۓ بلکل اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔


جانتی ہوں۔۔۔وشہ گہری سانس لیکر بولی۔۔رزم اٹھ کر اسکے ساتھ بیٹھا۔۔۔ کیا جانتی ہو ۔۔۔۔۔ رزم تھوڑا سا اسکی جانب جھک کر پوچھنے لگا


وہ اسے باتوں میں لگانا چاہ رہا تھا تاکے پھر نہ رونا شروع کردے۔۔۔۔


یہی کے میں اچھی نہیں لگتی۔۔۔ وشہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔۔اچھا مگر تم تو مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔۔


رزم نے ایک جذب سے کہا وشہ نے گردن موڑ کر آنکھیں پھلا کر اسے دیکھا


جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ "کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو کیا میں تمہے پسند نہیں کر سکتا۔۔۔ اسکی بات پر وشہ نے گڑبڑا کر نظریں جھکا لیں ۔۔۔۔


رزم نے مسکرا کر بینچ پر رکھےاسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔وشہ نے چونک کر ہاتھ کو پھر اسے دیکھا۔۔۔۔


یکدم وشہ نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگایا۔۔۔۔"شکریہ اپکا اگر آپ نہ آتے تو۔۔۔


ایک منٹ!!! اس سے پہلے وہ آگے کچھ کہتی رزم نے بیچ میں ہی ٹوکا۔۔۔۔ "میں نے ابھی کچھ کہا ہے تم سے۔۔۔۔رزم نے مصنوئی گھوری کے ساتھ کہا۔۔۔۔


جانتی ہوں۔۔۔ وشہ سر جھکا کر بولی۔۔۔ "اور ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کہا وہ کیا تھا ؟ رزم حیرت سے دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔


اف تنگ مت کریں وہ ایسے ہی کہ دیا تھا۔۔۔۔ وشہ جھنجھلا کر بولتی دروازے کو دیکھنے لگی


اسے رزم سے شرم آرہی تھی۔۔۔۔

رزم نے مسکرا کر اب کی بار اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


سب کو ہسپتال آنے سے رزم نے منع کر دیا تھا۔۔۔۔ کیوں کے گھر ہی جا رہے تھے۔۔۔۔۔ سر میں ٹانکے آئے تھے اور بازو کی ہڈی تھوڑی متاثر ہوئی تھی۔۔۔ باقی گرنے سے جسم میں درد۔ تھا۔۔۔۔ ابھی بھی غنودگی میں ہی تھا۔۔۔۔۔۔


گھر پہنچ کر ضامن کو روم میں جاکر لیٹایا۔۔۔ رزم سب کو تسلی دے کر روم سے نکل کر لان میں چلا گیا۔۔۔۔۔


جب پیچھے ہی آرا اور زیاف اسکے پاس آئے۔۔۔


کیا ہوا؟


کاھل منع کر رہا ہے ملنے سے۔۔۔۔ اور دھمکی دے رہا ہے قبیلے کے سردار کو سب بتا چکا ہے۔۔۔۔۔ آرا نے بتایا رزم کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔۔۔۔


ایک اور بات یہ اسی کا کام ہے ضامن کا ایکسیڈنٹ اسنے کیا ہے


تم اتنے یقین سے کیسے کہ سکتی ہو۔۔۔۔زیاف نے اچانک پوچھا۔۔۔


کیوں کے اسنے خود بتایا ہے۔


مجھے خود جانا پڑے گا۔۔رزم غصے سے بولتا اندر چلا گیا۔۔۔اسے وشہ کو دیکھنا تھا۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کاھل اپنے فارم ہاؤس پر کسی لڑکی کے ساتھ حال میں صوفے پر اسکے نزدیک بیٹھا کان میں سرگوشیاں کر رہا تھا۔۔۔

رات کے دو بج رہے تھے۔۔۔۔ لڑکی(انسان) نشے کی حالت میں تھی۔۔۔کاھل ہر دو دن بعد رات میں ایک نئی لڑکی لاتا۔۔۔ اور صبح ہوتے ہی انھیں مار دیتا۔۔۔۔


اب اسکی نظر وشہ پر تھی وہ اسے یہاں تک تو لے آتا مگر سب سے بڑی رکاوٹ رزم تھا.۔۔۔۔ جو ایک طاقتور جن تھا


جسکا غصہ دشمن جنوں پر قہر بن کر گرتا تھا۔۔۔۔


فارم ہاؤس کی پچھلی سائیڈ پر دھم کی آواز آئی ساتھ ہی دو تین ہیولے اندر آنے لگے۔۔۔ کاھل کو پتہ ہی نہ لگا۔۔۔


جب وہ تینوں ہیولے اس کے سامنے آکر کھڑے ہوئے۔ ۔۔۔

ٹائمز اپ کاھل!!! رزم کی بھاری آواز پورے حال میں گونجی۔۔۔۔


کاھل نے گردن موڑ کر سامنے دیکھا جہاں زیاف آرا کے ساتھ رزم کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ کاھل تیزی سے کھڑا ہوا۔۔۔۔


تم۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری جگہ پر قدم رکھنے کی ۔۔۔۔ کاھل اسکے قریب آتا دھاڑا مگر اندر سے ڈر بھی رہا تھا۔۔۔۔


رزم اسکی بات سنتا ایک قدم نزدیک آیا ۔۔۔۔

میری ہمت کی بات چھوڑو۔۔۔۔۔اپنی ہمت کی فکر کرو۔۔۔ میں نے موقع دیا تھا تمہے مگر افسسسوس۔۔۔۔ رزم کی آواز بھاری اور سرد تھی۔۔۔۔۔


"کاھل بیچ میں بول پڑا۔ ۔۔۔ اور مجھے افسوس ہوگا جب تم اور تمہاری فیملی کے ساتھ وہ انسان بھی مرے گی۔۔۔


کاھل اسے زچ کرنے کے لئے بولا۔۔۔۔۔رزم نے زور سے اسے پنچ مارا۔۔۔ کاھل دیوار سے جا کر ٹکراتا نیچے گرا۔۔۔۔


رزم روک جاؤ یہ جان کر تمہے غصہ دلا رہا ہے ۔۔۔۔

آرا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔اگر رزم نے اسے مار دیا تو


سردار نے خود آجانا تھا۔۔۔ پھر شاید جانے کیا ہوجاتا۔۔۔۔

کاھل اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔چہرے پر وہی زچ کرنے والی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔


سنا تھا انسان عشق میں کہیں کا نہیں رہتا مگر ایک جن ہاہاہا۔۔۔۔ایک جن عشق میں بزدل ہوگیا۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔ویسے ہے بھی تو کمال کی چیز۔۔۔۔ کاھل اسے غصہ دلانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔


جب کے رزم کی آنکھوں کا رنگ بدلنے لگا۔۔ہاتھ کی مٹھیوں کو سختی سے بھنچے وہ ضبط کر رہا تھا۔۔


ہا۔۔۔اس لڑکی نے بھی کس سے دل لگا لیا۔۔۔۔ بیچاری مرے گی۔۔۔۔کاھل کے کہنے کی دیر تھی ۔۔رزم بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹا۔ ۔۔۔


دونوں ایک دوسرے کو مار رہے تھے زیاف اور آرا دونوں آگے بڑھ کر چھڑوانے لگے جب رزم نے دونوں کو دور اچھال دیا۔۔


ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان آ گیا ہو۔۔۔ کاھل اپنے اصل روپ میں آنے لگا ۔


زیاف روکو انہیں۔۔۔ "میں نہیں روک سکتا۔۔۔ زیاف دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کاھل اپنے روپ میں آتے ہی لمبا ہونے لگا ۔ ۔۔۔


اگر کوئی انسان اس وقت دیکھ لیتا تو یقیناً اگلی سانس نہیں لے پاتا. . جب کے صوفے پر نشے میں پڑی لڑکی مدہوش سی کب نیند میں چلی گئی کسی کو خبر نہ ہوئی۔۔۔۔


مگر اس سے پہلے وہ مکمل روپ بدلتا رزم نے تیزی سے اسکی گردن پر وار کیا۔۔۔۔ جس سے کاھل زمین بوس ہوکر دوبارہ سے انسانی روپ میں آکر لڑکھڑ کر بھاگنے لگا


رزم نے دھاڑ کر اسکی گردن پکڑ کر گھمادی...رزم نے اسکے وجود پر زور سے پیر مارا۔۔۔۔پھر زیاف کو دیکھا۔ ۔


زیاف جلادو اسے یہیں ۔۔۔۔۔میں انتظار کر رہا ہو باہر۔۔۔۔رزم حکم دیتا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

دونوں کاھل کو ختم کر کے رزم کے پاس آئے جو موبائل پر وشہ کو ٹیکسٹ کر رہا تھا۔۔۔


مجھے وشہ کی فکر ہو رہی ہے کاھل کا باپ اور سردار ضرور وشہ کو کچھ کر نہ دیں کیوں کے اسی کی وجہ سے آپ نے اسے ختم کردیا۔۔ ورنہ آپ کی کوئی ایسی دشمنی نہیں تھی


آرا اپنا خدشہ ظاہر کر رہی تھی۔۔۔ جو سہی بھی تھا۔۔۔


میں اسے کچھ نہیں ہونے دونگا۔۔۔۔اور اب مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔چلو۔۔۔۔رزم سپاٹ چہرے کے ساتھ بولتا گیٹ سے نکل گیا جہاں گارڈز (انسان) بیہوش تھے


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


یہ لو تمھارے لئے جوس میں نے صرف تمھارے لئے بنایا ہے۔۔۔وشہ روم میں آتی ہی بولی۔۔۔ ضامن بیڈ پر لیٹا اپنی آپی کو دیکھ کر مسکرایا۔۔۔۔ تھینک یو وشہ آپی۔۔۔


وشہ نے مسکرا کے سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر گلاس اٹھا کر اسے دیا۔۔۔۔


وشہ آپی رزم بھائی اچھے ہیں نہ ضامن نے ایک سپ لیکر اچانک اس سے پوچھا۔۔۔۔وشہ کا رزم کے نام پر دل دھڑکا۔۔


ہمم۔۔۔ہاں۔۔۔سب ہی اچھے ہیں۔۔ ضامن کچھ کہتا اس سے پہلے ہی ربیکا اندر آئی۔۔۔


واہ بھئی اکیلے اکیلے جوس ہاں ربیکا بولتی ہوں بیڈ پر بیٹھی۔ ۔۔


میں تمھارے لئے بھی لے آتی ہوں۔۔۔وشہ فورن کھڑی ہوئی۔۔

ارے نہیں میں تو یونہی کہ رہی تھی۔۔۔


ہاں تو یونہی پی بھی لینا۔۔۔میں آتی ہوں۔۔۔وشہ مسکرا کر روم سے باہر نکل گئی۔۔۔ کچن میں آکر جوس ملازمہ کے ہاتھ بھجوایا اور خود اپنے روم میں آگئی۔۔۔۔


دروازہ لاک کرتے ہی اسے محسوس ہوا کوئی اور بھی روم میں ہے۔۔۔گھبرا کر اسنے لاک کھولنا چاہا


جب کان کے پاس رزم کی آواز سنائی دی وشہ تیزی سے پلٹی اور سیدھا اسکے سینے سے ٹکرائی۔۔۔۔۔


آپ !! وشہ کی آنکھیں حیرت سے پوری کھول گئیں۔۔۔ رزم مسکراتا اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔۔۔


کیوں میں نہیں آسکتا؟ رزم نے اسکی آنکھوں میں ہی جھانک کر پوچھا۔۔۔


آسکتے ہیں۔۔۔مگر ایک لڑکی کے روم میں یوں چوروں کی طرح آنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔۔۔ وشہ نے ناک چڑھا کر کہا۔۔۔


رزم نے گھورا۔۔۔ تم مجھے چور کہ رہی ہو؟

نہی میں تو آپ کو ہی چور کہ رہی ہوں.... وشہ نے آنکھیں پٹ پٹا کر کہا۔۔۔


رزم نے اسکی کمر کے گرد بازو حائل کر کر اسے قریب کیا۔۔۔۔

یہ چور تمہے چورا کر لیجانا چاہتا ہے جہاں تم اور میں ہوں


رزم سرگوشی میں بول رہا تھا وشہ کی سانس تیز ہونے لگی۔۔۔۔


رزم مسکرا کر اپنی پیشانی اسکی پیشانی سے ٹیکا کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔


وشہ مجھ سے شادی کروگی؟ رزم نے دوبارہ سرگوشی کی۔۔


وشہ نے اسکے سوال پر مسکرا کر نظریں جھکالیں۔۔۔۔رزم کو اسکا جواب مل گیا تھا۔۔۔۔۔ تھینکس۔۔۔


رزم کی آواز خاموشی میں گونجی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

کہاں جا رہے ہو تم؟ سردار نے کاھل کے باپ سے کہا جو غصے میں پاگل ہورہا تھا۔۔۔


رزم نے اسکے بیٹے کو مار کر جلادیا یہ پتہ چلتے ہی وہ اسے مارنے جانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔


تم بھول رہے ہو اس سب کی وجہ وہ لڑکی ہے۔۔۔۔اسے ختم کردو۔۔۔۔۔تمہارا بدلہ پورا ہوجائے گا۔۔۔ رزم کو بھی پتہ چل جائے گا کسی اپنے کو کھونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے


سردار کی بات پر لہو ٹپکاتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اثباب میں سر ہلایا۔۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

آپ کب آئے رزم بھائی؟

رزم وشہ کے ساتھ لان میں آیا جہاں ربیکا اور نورین بیگم کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔


ربیکا نے رزم کو دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔ وشہ کو ہنسی آنے لگی جب کے رزم نے اپنی بہن کو گھورا۔۔۔


ضامن کو دیکھنے آیا تھا تم کیا گھر جا رہی ہو۔۔۔ رزم نے ایسے کہا جیسے واقعی وہ ضامن سے ہی ملنے آیا تھا۔۔۔۔


جب کے وشہ سے ملنے کے بعد ضامن سے ملا وہیں نورین بیگم سے بھی ملاقات ہوگئی.


جی گھر ہی جا رہی ہوں۔۔۔لیکن آنٹی آپ نے بھی نہیں بتایا رزم بھائی کا۔۔۔ربیکا رزم کو جواب دیتی نورین بیگم سے پوچھنے لگی۔۔۔


وشہ بہت ضبط سے اپنا قہقہ روک رہی تھی۔۔۔

تمہے کیا کرنا تھا جان کر اتنی تفتیش کیوں کر رہی ہو۔


نورین بیگم کے بولنے سے پہلے ہی رزم نے سخت لہجہ میں کہا۔۔۔ربیکا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔ سوری بھائی۔۔۔


ارے کوئی بات نہیں رزم بیٹا چھوٹی بہن ہے پوچھ ہی رہی ہے بس۔۔۔

نورین بیگم ربیکا کو ساتھ لگا کر رزم کو بولیں۔۔۔


ربیکا تم کار میں بیٹھو ساتھ چلتے ہیں۔۔ اب کی بار رزم سے نرمی سے کہا ربیکا وشہ سے مل کر کار میں جا کر بیٹھ گئی


اونٹی وہ کل میں اپنے والدین کو لانا چاہتا ہوں رزم ہچکچا کر بولا۔۔۔ نورین بیگم نے پہلے وشہ کی طرح دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔۔ پھر رزم کو دیکھا۔۔۔


وہ سب سمجھ رہی تھیں۔۔اس لیے مسکرا کر بولیں۔۔ کیوں نہیں اپنا ہی گھر ہے جب دل چاہے سب کو لیکر او۔


ویسے بھی افشاں سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔

جی ٹھیک ہے پھر چلتا ہوں انشاءلله کل ملاقات ہوتی ہے۔


رزم نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا جو کھل اٹھی تھی۔۔۔ پھر مسکرا کر اجازت لیتا چلا گیا۔ ۔۔۔


نورین بیگم نے آگے بڑھ کر وشہ کے سر پر پیار کیا ۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


اگلے دن افشاں بیگم کی کال آئی نورین بیگم نے انہیں رات کے کھانے پر دعوت دے دی۔۔۔۔


وشہ بہت خوش تھی۔۔۔۔۔۔ رزم اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اور آج وہ اسکے ماں باپ سے اسے ہمیشہ کے لئے اپنا بنانے کے لئے آرہا تھا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔ بالوں کو بال پن سے سیٹ کر کے باقی کھولے چھوڑ دیے۔۔۔ آنکھوں میں کاجل لگا کر شیشے میں خود کو دیکھ کر شرمانے لگی۔۔۔


جب حنان نے آکر بتایا کے رزم کی فیملی آگئی ہے۔۔۔ وشہ ڈوپٹہ جلدی سے سیٹ کرتی نیچےآئی۔۔۔۔


سب ڈرائنگ روم میں تھے۔۔۔۔ وشہ دھڑکتے دل کے ساتھ شیشے کا دوڑ سلائڈ کرتی اندر گئی۔۔۔۔سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔


وشہ نے سب کو سلام کیا۔۔۔ وشہ کو دیکھ کر سب مسکرا رہے تھے۔۔۔


افشاں بیگم نے اسے ساتھ بیٹھایا۔۔۔رزم اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وشہ پزل ہونے لگی۔۔۔


اف بہت بےشرم ہیں کیسے دیکھ رہے ہیں مجھے۔۔۔۔ خود سے کہتی رزم کو نظر اٹھا کر آنکھیں دکھائیں۔۔۔۔


مگر کوئی اثر ہی نہیں ہوا الٹا اسکے دیکھنے پر اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

رزم نے اپنے ماں باپ کو اشارہ کیا۔۔۔ جو بات کرنے آئے ہیں وہ تو کریں ۔۔۔


رزم کے اشارے پر ہنسی ضبط کرتے بات شروع کی وشہ اٹھ

کر بھاگنے کے چکّر میں تھی۔۔۔


مگر افشاں بیگم نے پیار سے اسکا ہاتھ پکڑے رکھا۔۔۔۔ حنان ضامن سب خوش تھے رزم اور اسکی فیملی تو سب کو ہی پسند تھی۔۔۔


افنان صاحب نے سوچنے کا وقت مانگا مگر وہ تو رشتہ پکا کرنے ہی آئے تھے۔۔۔ رزم نے پہلے ہی ماں باپ کو بول دیا تھا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کچھ ہی دیر میں رشتہ پکا کر کے۔۔۔۔سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔۔۔وشہ موقع ملتے ہی اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔۔


سب بھی وشہ کے روم میں اسے چھیڑنے کے لئے ڈرائنگ روم سے چلے گئے۔۔۔ پیچھے رزم اور وشہ کے پیرنٹس کے ساتھ رزم ہی بیٹھا رہ گیا۔۔۔۔۔


یہ کیا ظلم ہے رشتہ میرا ہوا ہے مجھے جاکر اپنی ہونے والی بیوی سے ملنا چاہیے مگر مجھے یہاں بیٹھا کر سب فرار


ملنے دو زرا سب کو بتاؤنگا۔۔۔۔رزم جل کر بڑبڑانے لگا۔۔۔ جب ازمغان صاحب کی آواز پر انکی جانب متوجہ ہوا جو کہ رہے تھے.


جانتا ہوں بیٹی کے باپ ہو ہر طرح کی فکر ہوگی۔۔۔۔۔ میری بھی بیٹی ہے سب سمجھتا ہوں۔۔۔۔ابھی صرف نکاح ہوجاے رخصتی جب تم کرنا چاہو۔۔۔


ٹھیک ہے ذرا میں مشورہ کرلوں کیوں کے اتنی جلدی سب۔۔خیر ذرا آتے ہیں۔ افنان صاحب کہ کر کھڑے ہو کر نورین بیگم کو لئے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔۔۔


پیچھے ازمغان صاحب نے رزم کو مسکرا کر دیکھا۔۔۔ فکر مت کرو رشتہ پکا ہوگیا ہے نکاح کے لئے بھی مان جائیں گے۔۔


رزم انکی بات پر صرف مسکرا دیا ۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


آپ دلہن بن کر چلی جائیں گی؟ ضامن وشہ کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔اچانک ہی وشہ کا ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔


وشہ کو رونا آنے لگا۔۔۔۔۔پھر بھی خود پر ضبط کرتی۔۔۔ہاں کہا۔۔۔۔


تو پھر آپ کا روم خالی ہوجائے گا۔۔۔ضامن کے دوبارہ پوچھنے پر سب کو دکھ ہونے لگا۔۔۔ ہاں۔۔۔۔وشہ نے آنکھ کا کونہ صاف کر کے کہا۔۔۔


اسکا مطلب میں اپکا روم لے لوں۔۔۔۔ضامن کے ایک دم چہک کر بولنے پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔


وشہ جو ایموشنل ہورہی تھی ضامن کی بات پر سارا ایموشن جھاگ کی طرح بیٹھ گیا.


ضامن نے وشہ کو دیکھا جو اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔

وشا اپی پلیز میں اب اکیلے روم میں رہ سکتا ہوں۔۔ حنان تو خراٹے لیتا ہے بھوتوں کی طرح۔۔


ضامن نے ماتھے پر بال ڈال کر منہ پھولا کر کہا سب کو ہنسی آگئی۔۔۔۔۔جب کے حنان غصے سے اسے دیکھ رہا تھا.


وشہ آپی ابھی نہیں جا رہیں تم اب یہیں رہو۔۔۔حنان ناراض ہوتے باہر نکل گیا۔۔۔


ضامن یہ کیا حرکت تھی ایسے کہتے ہیں۔۔۔۔ وشہ نے گھورا ضامن بیڈ سے نیچے اترا۔۔۔۔ سوری میں ابھی منا کر آتا ہوں ۔۔


ضامن منمنا کر کہتا باہر نکل گیا۔۔۔


ہاہاہا۔۔۔۔۔ربیکا جاؤ ذرا صلح کروادو دونوں کی زیاف ہنس کر ربیکا کو بول کر خود بھی جانے لگا۔۔۔


جب روم میں وشہ کے امی ابو آئے آرا بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ دونوں کے باہر نکلتے ہی افنان صاحب نے شفقت سے وشہ کے سر پے ہاتھ رکھا۔۔۔۔


پھر جو پوچھنے آئے تھے پوچھ کر وشہ کے سر پر پیار اور دعائیں دے کر چلے گئے۔۔۔۔


جب کے وشہ سوچ رہی تھی اتنی جلدی نکاح بھی۔۔۔مگر وہ خوش تھی اور دکھی بھی۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


نکاح گھر پر ہی سادگی سے ہونا تھا۔۔۔ دو دن بعد۔۔۔۔

نکاح کا جوڑا رزم اپنی پسند سے لایا تھا۔۔۔۔سب خوش تھے


مگر رزم کو بہت دکھ تھا۔۔۔۔ اسے ازمغان صاحب نے ملنے سے سختی سے منع کیا تھا ورنہ اسکے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔۔۔۔


یہ تم دونوں ایسے شاپنگ کر رہی ہو جیسے تم لوگوں کا نکاح ہے ۔۔۔


زیاف لاؤنج میں اتے ہی بولا جہاں آرا۔۔۔۔ربیکا اپنی شوپنگ افشاں بیگم اور آمنہ بیگم (آرا کی ماں ) کو دکھا رہی تھی۔۔۔


رزم کے نکاح کے لئے آئے تھے ۔۔۔۔


( آرا بھی اب واپس ساتھ ہی جائے گی کیوں کے وہ رزم کے بلانے پر یی تھی۔۔۔۔۔خالد کو مروانے۔۔۔۔ کیوں کے جو اسنے کیا تھا رزم نے اس رات خالد کا سر پھاڑ کر اسے وہیں پھینک دیا تھا)


زیاف کی بات پر آرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔

لگتا ہے کوئی آج بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہے چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔زیاف زور سے بولتا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔


پاگل۔۔۔۔۔زیاف کے جاتے ہی آرا ہلکے سے بولی۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔وشہ آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔


جب روم میں اسکے دونوں بھائی آئے۔۔۔ وشہ کو عجیب سا احساس ہونے لگا۔۔۔۔جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔۔۔۔


وشہ آپی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔۔۔ضامن اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔


تم بھی بہت پیارے لگ رہے ہو بلے۔۔۔۔وشہ نے اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا۔۔


جب دروازے پر نورین بیگم آئیں۔۔۔ ماشاءالله بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔مولوی صاحب آرہے ہیں وشہ گھنگٹ کرلو۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


نکاح ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔سب مبارکباد دے کر روم سے چلے گئے لان میں ہی سب کے بیٹھنے کا انتظام کیا ہوا تھا۔۔۔


سب کے جانے کے بعد وشہ حنان اور ضامن کے ساتھ بیٹھی سو سو کر رہی تھی۔۔۔


جب ربیکا نے حنان کو میسج کر کے بلایا۔۔۔۔

وشہ آپی ہم آتے ہیں روئے گا مت ۔۔۔۔حنان اپنے موبائل پر میسج پڑھ کر وشہ سے بولا۔۔۔


ہمم۔۔وشہ سر جھکائے بولی ۔۔


حنان اور ضامن دونوں ہی روم سے چلے گئے۔۔۔۔


وشہ انکے جانے کے بعد کھڑی ہوئی جب کسی نے پیچھے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔وشہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا


جب کسی نے زور سے سر پر کچھ مارا۔۔۔۔وشہ زور سے چیخ مارتی دھڑام سے نیچے گری۔۔۔۔۔سر سے خون پانی کی طرح بہنے لگا۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~`


رزم بھائی کہاں جا رہے ہیں؟زیاف نے اسے اوپر جاتے دیکھا تو پوچھنے لگا۔۔۔


وشہ سے ملنے اور ہاں میں پوچھ چکا ہوں سب سے۔۔۔رزم کہ کر وشہ کے روم کے سامنے کھڑا نوک کر کے اندر گیا


سامنے ہی وشہ نکاح کے جوڑے میں خون سے لت پت کارپٹ پر پڑی تھی


پتہ نہیں کتنا وقت اسے یونہی پڑے گزرا تھا۔۔۔ رزم ایک دم چیخا۔۔۔۔ رزم کی چیخ اتنی بلند ضرور تھی کے زیاف جو باہر نکل رہا تھا تیزی سے آیا۔۔۔۔


وشہ کو خون میں دیکھ کر ساکت رہ گیا۔۔۔۔۔۔ رزم نے قریب جا کر اسے دیکھا جسکا صرف سر نہیں پھٹا تھا


اسے کافی زخمی کیا گیا تھا گردن پر ناخن سے کٹ لگے ہوۓ تھے جس سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔


مہندی لگے ہاتھوں میں شیشے کے ٹکڑے گھوپے یوئے تھے رزم نے تکلیف سے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔ زیاف ہھی تیزی سے قریب آیا . ۔۔۔


روم میں یکدم کوئی قہقے لگانے لگا۔۔۔۔۔دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھے سامنے ہی کاھل کا باپ کھڑا تھا۔۔۔


کیسا محسوس کر رہے ہو ؟ رزم اسکی بات کو نظر انداز کرتا زیاف سے بولا۔ ۔۔۔۔۔ زیاف وشہ کو ہوسپیٹل لے کر جاؤ۔۔


رزم اسے کہتا آگے بڑھ کر اسے زور سے پنج مارا۔۔۔ رزم شدید تحش میں اسے مارنے لگا جو اپنے اصل روپ میں آکر رزم پر حاوی ہورہا تھاا

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


زیاف جیسے ہی اسے لیکر گیٹ کی طرف گیا (تاکے آرا کو رزم کے پاس مدد کے لئے بھج سکے)


وشہ کو دیکھتے ہی لان میں چیخ و پکار شروع ہوگئی۔۔۔


زیاف نے آزمغان صاحب کو دیکھا پھر آرا کو۔۔۔۔۔۔آزمغا صاحب اندر جانے لگے جب زیاف نے انہیں روک دیا۔۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ۔ چلیں۔۔۔۔۔


آرا ہوا کی طرح روم میں پوھنچی جہاں رزم اپنے روپ میں آکر اسے ادھ موا کر چکا تھا۔۔۔


رزم اصل روپ میں کافی لمبا چوڑا اور کافی خطرناک ہوجاتا تھا۔۔۔۔۔ قبیلے کے سردار کا لاڈلا تھا مگر وہ اپنے اصولوں کا پکا تھا۔ ۔~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ کو آئی۔سی۔ یو میں لیجایا گیا ۔۔ سب باہر ہی بینچ پر بیٹھے رو رہے تھے جب افنان صاحب زیاف کے پاس آئے۔ ۔۔۔


وشہ کے روم میں کون تھا۔۔۔۔ضبط سے انکا لہجا بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ کوئی چور تھا رزم بھائی وہیں ہیں۔۔۔زیاف نے کہانی گڑی۔ ۔۔۔


افنان صاحب ہونٹ بھنج گئے۔۔۔کس بے دردی سے مارا تھا انکی پھولوں سے نازک بیٹی کو۔۔۔۔


انکل وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔سمبھالیں خود کو۔۔۔۔ زیاف نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی ۔۔۔


ہممم۔۔انشاللہ بیٹا۔۔۔افنان صاحب کہتے ہوۓ بینچ پر جا کر بیٹھ گئے۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم نے کاھل کے باپ کو آرا کے ساتھ مل کر جلا دیا اور پھر دونوں ہسپتال آگئے۔۔۔رزم نے پہلے زیاف کو دیکھا۔۔۔۔۔


سب ہی ہسپتال میں تھے۔۔۔۔ رزم نے افنان صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو اسے دیکھتے ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے۔ ۔۔۔


رزم بیٹا کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔"میں نے سب سمبھال لیا ہے آپ فکر نہ کریں۔۔


رزم اور بھی کچھ کہتا۔۔۔۔ جب آئی سی یو کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر آئے۔ ۔۔۔


رزم تیزی سے ڈاکڑ کی طرح بڑھا۔۔۔


کیا ہوا ڈاکٹر؟ وشہ کیسی ہے؟ رزم نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔۔


ڈاکٹر نے سب کو دیکھا۔۔۔۔ پھر سنجیدگی سے ہلکی آواز میں بولے۔۔۔ آئی ایم سوری پیشنٹ کی حالت بہت نازک تھی


اور خون بھی بہت بہ چکا تھا۔۔۔۔سوری ہم پیشنٹ کو بچا نہیں سکے ۔۔۔۔ڈاکٹر کی بات سن کر رزم سکتے کی حالت میں چلا گیا۔۔۔۔۔


جب کے نورین بیگم پر غشی تاری ہوگئی ۔۔۔۔حنان ضامن الگ دھاڑے مار رہے تھے۔۔۔۔سب جیسے وشہ کی موت کے ساتھ ختم ہوگیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


آئی سی یو سے اسٹریچر باہر لائے۔۔۔۔جس پر وشہ کی ڈیڈ باڈی کو سفید چادر میں ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔


نورین بیگم تڑپ کر اسکے چہرے سے چادر ہٹا کر چیخ رہی تھی کبھی اسکا چہرہ چوم رہی تھیں۔۔۔۔ ہر وقت کھل کہلاتا چہرہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرچکا تھا۔ ۔۔


رزم ساپٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ کسے اتنے آرام سے اسے چھوڑ کر جا سکتی تھی۔۔۔ کاش اسکے بس میں ہوتا۔۔۔


وہ اسے چھو کر اسکا درد ختم کر سکتا تھا مگر موت۔۔۔۔ وہ اس کے بس میں نہیں تھا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


ضامن کو تیز بخار چڑھ گیا تھا۔۔۔۔سب کی حالت خراب تھی۔۔۔ڈیڈ باڈی کو گھر لے آیا گیا تھا۔۔۔


ہر ایک کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔۔۔خوشی کے گھر کو جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ۔۔۔رزم بلکل چپ تھا کیا کہتا


سننے والی اسے تنہا چھوڑ گئی اب اسکا یہاں کچھ نہیں رہا تھا۔۔۔۔


تھوڑی دیر بعد جنازہ لے جایا گیا۔۔۔۔۔ کسے پتہ تھا وشہ ہمیشہ کے لئے یوں رخصت ہو کر چلی جائے گی۔۔


وقت جیسے تھم گیا تھا ۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کہتے ہیں وقت جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے وہ کسی کے لیے نہیں رکتا۔۔۔۔کبھی وقت بے رحم تو بہت مہربان ہوتا ہے۔۔۔۔


افنان ہاؤس کے مکینوں نے بھی وقت کے بے رحم وقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔۔۔مگر اکلوتی لاڈلی بیٹی جو ماں باپ کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی بھی جان تھی۔۔۔۔


اسکی جدائی کا غم دل کو اب بھی تڑپہ دیتا تھا۔۔۔۔


اولاد کی تکلیف بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔۔۔ جو وقت سے پہلے ہی ماں باپ کو بوڑھا اور کمزور کر دیتا ہے۔۔۔۔


اللہ‎ کبھی کسی کو اولاد کا دکھ نہ دیکھائے امین۔ ۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ کے روم کا دروازہ کھول کر حنان اندر آیا۔۔۔جہاں ضامن اپنی کتابیں پھلائے وشہ کے بیڈ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔


حنان چلتا ہوا اسکے ساتھ آکر بیٹھا۔۔۔۔ حنان بڑا تھا اسلئے بہت حد تک خود کو سمبھال چکا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن سب سے بڑی تبدیلی جو آئی۔۔۔ وہ انکے چہروں کی سنجیدگی تھی۔۔۔


وہ اپنی وشہ آپی کے ساتھ ہنستے شرارتیں کرتے تھے۔۔۔۔

حنان نے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔۔۔


حنان بھائی دیکھیں وشہ آپی دلہن بنی میرے سر پر پیار کر رہی ہیں۔۔۔ یہ کمرہ بھی وشہ آپی نے مجھے دے دیا۔۔


ضامن سامنے نظریں جمائے بول رہا تھا۔۔۔۔حنان کی ضبط سے آنکھیں سرخ ہو گئیں۔۔۔


انکا چھوٹا بھائی اب بھی کمرے میں آکر یونہی ہر چیز دیکھتا۔۔۔۔ وہ تو اب اسکا کمرہ تھا۔۔۔ پڑھتا بھی وہ کمرے میں تھا۔۔۔


زیاف بھائی نے کہا وہ وقت کے ساتھ خود نارمل ہو جائے گا۔۔۔ اور یہ تو سچ ہی ہے وقت زخم دے کر خود اس پے مرہم رکھ دیتا ہے۔۔


اچھا تم نے یاد کر لیا ٹیسٹ ۔۔۔حنان نے اس کی بعد کو نظر انداز کر کے پوچھا۔۔۔


ضامن نے آنکھیں مسل کر حنان کو دیکھا پھر اپنی کاپی اٹھا کر اسے دکھانے لگا۔۔۔ یہ مجھ سے یاد نہیں ہو رہا آپ میری ہیلپ کردیں گے۔۔۔


ضامن کے معصومیت سے کہنے پر حنان نے آگے بڑھ کر اسے زور سے گلے لگایا۔۔۔


میں ہمیشہ تمہاری ہیلپ کرونگآ ضامن۔۔۔ تم اپنے بھائی کو ہمیشہ اپنے ساتھ پاؤگے۔۔۔ جو دل کی بات ہو مجھ سے کرو۔۔۔۔۔


حنان کہتے ساتھ بے آواز رو دیا۔۔۔۔ بہت مشکل تھا سب مگر جینا تو ہے ہی۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


افشاں بیگم رزم کے روم میں آئیں جو اندھیرا کیے کھڑکی کے پاس کھڑا اندھیرے میں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


افشاں بیگم کو دکھ ہوا وشہ کی موت کے بعد سے وہ بلکل چپ ہو گیا تھا۔۔۔۔گھر میں ہوتا تو یونہی چپ چپ رہتا۔۔


آفس کے بعد تیں چار گھنٹے باہر گزر کر دیر سے گھر آتا۔۔۔۔


رزم بیٹا۔۔افشاں بیگم نے قریب آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔


رزم نے گردن موڑ کر اپنی ماں کو دیکھا جو اسکے لئے پریشان تھیں۔۔۔۔


کب تک ایسا چلے گا میں یہ نہیں کہونگی کے بھول جاؤ۔۔۔ مگر تم بدلہ لے چکے ہو۔۔۔ مجھے سب بتایا زیاف نے قبیلے کا سردار۔۔۔۔۔۔اور کوئی نہیں چاہتا تھا


کے تم ایک انسان سے رشتہ رکھو کیوں کے انہیں اپنی بیٹی کے لئے پسند کیا تھا۔۔۔۔ ہمیں بھی یہ بات بعد میں بتائ ور ۔۔۔۔


پلیز موم میں اس بارے میں کوئی بات نہیں سننا چاہتا ۔۔۔

وہ کون ہوتا ہے فیصلے کرنے والا؟


ایک اور بات اگر اسکی بیٹی یہاں آئی تو اسکی موت کا زمیدار خود اسکا باپ ہوگا۔۔۔۔


وشہ میری تھی اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا سن لیں آپ اور بتا دیں سارے قبیلے کو رزم ازمغان مرزا وشہ سے عشق کرتا ہے


اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔۔ رزم آگ بگولہ ہہوتا دھاڑ رہا تھا۔۔۔۔۔

رزم۔۔۔


پلیز موم میں ابھی تنہائی چاہتا ہوں۔۔۔۔ رزم ہونٹ بھیج کر دوبارہ کھڑکی کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔


افشاں بیگم گہری سانس کھینچ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔


انکے جاتے ہی رزم نے پاکٹ سے موبائل نکالا نمبر ملا کر کان سے لگایا۔۔۔تھوڑی دیر میں روم میں رزم کی بھاری آواز گونجی۔۔۔۔


ہاں میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔۔۔ ہمم اوکے۔۔۔ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کال ڈسکنیکٹ کر کے واپس موبائل پاکٹ میں رکھا


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


آدھی رات کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔سنسان سڑک پر بلیک مرسیڈیز فراٹے بھرتی جارہی تھی رزم ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا زیاف سے باتیں کر رہا تھا


دونوں اس وقت سنجیدہ تھے۔

کچھ ہی دیر میں کار اندھیرے میں ڈوبی پراسرار حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔۔


یہ جگہ کافی دور اور سنسان ایریا میں تھی جہاں زیادہ آبادی نہیں تھی۔۔۔۔ دونوں بھائی کار سے نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھے۔ ۔۔۔


اندر سے حوہلی بہت روشن اور دیکھنے والے کی انکھوں کو خیرہ کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔۔۔


لیکن باہر سے جو بھی دیکھتا ایسا لگتا جیسے بہت سالوں سے یہ پراسرار حویلی میں ضرور جن بھوتوں کا بسیرا ہوگا ۔۔۔


رزم زیاف اوپر جانے والی سیڑیوں کی جانب بڑھے۔ ۔۔

اوپر پونھنچ کر ایک دروازے کے سامنے روک کر نوک کیا۔۔۔۔


اجازت ملتے ہی دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے ۔۔۔

کمرہ کافی بڑھا اور بہت خوبصورت تھا۔۔۔


السلام عليكم رزم ۔۔۔شکر ہے آپ آگئے اب سنبھالیں اپنی وائف کو کب سے کہ رہی ہوں سوپ پی لیں مگر نہیں شوہر کی یاد ستا رہی ہے کب سے۔۔۔۔


آرا نے اسے اندر اتے دیکھ کر بولنا شروع کردیا جب کے رزم کی نظر وشہ پر تھی جو بیڈ کراؤں سے ٹیک لگائے رزم کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔


کتنا بولتی ہو چپ ہو جاؤ اور اب میں آگیا ہوں تو سب یہاں سے نو دو گیارہ ہوجائیں۔۔۔


رزم نے آرا زیاف کے ساتھ بداح (آرا کا بڑا بھاِئی) کو کہا تینوں اسکی بات پر مسکرا کر باہر نکل گئے۔۔۔۔


انکے نکلتے ہی رزم نے روم کا دروازہ لاک کیا پھر قدم قدم چلتا اسکے نزدیک بیٹھا پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر ہونتھوں سے لگایا۔۔


وشہ خود میں سمٹ گئی۔۔۔۔ کچھ زیادہ ہی رومانٹک نہیں ہوگے ہیں۔۔۔


وشہ مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھ کر بولی جو اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبا کر اسکے اور قریب آیا۔۔۔


تم مجھے رومانٹک ہونے ہی کب ہونے دیتی ہو بلکے اور لڑاکا ہوگئی ہو۔۔۔


رزم نے اسے زچ کرنا چاہا۔۔وشہ نے اسے گھور کر ہاتھ سے پیچھے دکھیلا۔۔۔۔جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ ۔۔


اف ظالم۔۔۔ رزم نے منہ بنا کر کہا۔۔۔۔وشہ کی آنکھوں میں یکدم آنسوں آگئے۔۔۔


رزم اسے دیکھتا فورن سہی ہوا پھر دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھام کر باری باری آنکھوں کو چوما۔


وہ جانتا تھا وشہ کو پھر اپنے گھر والے یاد آرہے ہیں . مگر وہ وشہ کو اب نہ چھوڑ سکتا ہے نہ اسکی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔۔۔


کاھل کا خاندان اور سردار وشہ کے پیچھے پڑھ گئے تھے کیوں کے انکی نظر میں ساری فساد کی جڑ وشہ ہے۔۔۔


انھیں صرف وشہ چاہیے تھی۔۔~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ اگر رونا بند نہیں کیا تو۔۔۔۔۔۔ رزم تو کو لمبا کھینچتا اس پر جھکنے لگا وشہ نے تیزی سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور کیا۔۔


فری ہونے کی کوشش مت کریں۔۔۔ ورنہ چلی جاؤنگی۔۔۔ وشہ ناک چڑھا کر بولتی اپنے ہاتھ کا زخم دیکھنے لگی جو اب کافی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا۔۔


(وشہ کو رزم نے بتایا تھا جس نے اسے مارنے کی کوشش کی ہے وہ سمجھ رہے ہیں کے وشہ مر گئی ہے اگر وہ دوبارہ گئی تو شاید اسکی فیملی کو بھی جان کا خطرہ ہو)۔۔۔۔۔


رزم اسے دیکھنے لگا۔۔۔ پھر اسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی میں بولا۔۔۔ میں کل آونگا تمہے لینے...تیار رہنا۔۔۔


وشہ کی نظر ہاتھ سے ہوتے رذم کے چہرے کی جانب اٹھی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کیا ہم رہ لیں گے سب سے علیدہ ہو کر؟


وشہ کی بات پر رزم نے اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھا پھر انگوٹھے سے سہلانے لگا۔۔۔۔


اور کیا ہم ایک دوسرے سے الگ ہو کر خوش رہینگے؟ اب تو ویسے بھی تم میرے نکاح میں ہو میں تم سے کبھی الگ ہونا نہیں چاہونگا۔۔۔


رزم کی بات پر وشہ مسکرا کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


یہ کیا بول رہے ہو تم ؟ کہاں جا رہے ہو ؟

لاؤنج میں اس وقت سب تھے جب رزم نے ان سے جانے کا کہا۔۔


میں اکیلے رہنا چاہتا ہوں فلحال۔۔۔آپ مجھے جانے دیں۔۔

رزم تم۔۔۔افشاں بیگم کچھ کہتیں جب ازمغان صاحب نے ہاتھ اٹھا کر خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔۔۔


ٹھیک ہے۔۔۔ مگر اپنا خیال رکھنا۔۔ ایک اور بات تم جب آنا چاہو آ سکتے ہو۔۔۔


ازمغان صاحب نے بول کر اسے گلے لگایا۔۔۔۔رزم سب سے مل کر باہر جاتے جاتے روک کر ایک نظر سب کو دیکھتا رہا پھر باہر نکل گیا۔۔۔


رزم کے جاتے ہی افشاں بیگم نے اپنے شوہر کو دیکھا جنہوں نے سکون کی سانس لی۔۔۔


آپ اسکے جانے پر اتنے سکون میں کیوں آگئے۔۔۔


افشاں بیگم کی بات پر ازمغان صاحب نے انہیں دیکھا پھر بولے۔۔۔ میں نہیں چاہتا دشمن اسے ختم کر دیں


میں اسکی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔۔ نظروں سے دور سہی مگر دل کو تسلی رہے گی کہ وہ جہاں ہے سہی سلامت ہے مگر دنیا سے رخصت ہونے والی اذیت میں وہ برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔


ازمغان صاحب اپنی بیوی کو لاجواب کر کے باہر نکل گئے۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم گاڑی سے اترا وشہ کو لان میں دیکھ کر وہیں آگیا


وشہ نے وائٹ کلر کا گھیردار فراک پہنا ہوا تھا۔۔۔ بال کھولے ہوۓ تھے جو اب کمر تک آتے تھے۔۔۔رزم مسکراتا قریب گیا۔۔۔


پھر پیچھے سے اپنے حصار میں لیکر اسکے سر پر پیار کیا۔۔۔ میڈم چلنے کے لئے تیار ہیں آپ ؟ رزم سرگوشی کر رہا تھا۔۔۔


وشہ اسکے بازؤں میں ہی گھومی۔۔۔ کہاں رہ گئے تھے۔۔۔ وشہ نے ناراضگی سے کہا


رزم نے اپنی پکڑ سخت کی۔۔۔ اب آگیا ہوں نہ کبھی نہ جانے کے لئے.۔۔۔۔۔رزم کی بات پر وشہ مسکرا کر اسکے سینے سے لپٹ گئی۔۔۔


یکدم اسے اپنے پیروں سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔وشہ نے گہرا سانس لیکر اپنی گرفت مضبوط کردی۔۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


کچھ منٹ بعد رزم نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی اوپن یور آئیز۔۔۔۔۔۔ رزم کے کہنے ہر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔۔۔


وشہ نے دیکھا وہ لوگ کسی جنگل کے درمیان کھڑے تھے یہ حصّہ بلکل خالی تھا۔۔۔۔۔۔وہ اس سے الگ ہو کر خوشی سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔۔۔ جب کے رزم اسے۔۔۔


بہت بڑے رقبے ہر پھلے پھول سبزہ ۔۔۔وہیں پھولوں کے بیچ خوبصورت سا گھر بنایا گیا تھا۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی الگ دنیا میں آگئے ہوں۔۔۔۔


رزم نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔وشہ نے اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔یہ سب؟ وشہ اتنا بول کر چپ ہو کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔


ہمارا گھر جہاں ہم رہیں گے۔۔۔ رزم ہاتھ کے انگوٹھے سے اسکے گال کو سہلا کر بولتے اسے محبت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔


چلیں۔۔۔رزم نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کیا جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


دونوں اندر آئے........وشہ گھر کو دیکھتی ہی رہ گئی۔۔۔ باہر کے ملکوں کے گھر کیا ہونگے جو وہ تھا۔۔۔۔


لکڑی کا گھر جس کے دروازے شیشے کے تھے۔۔۔۔


سفید اور گرے کلر کا کومبینیشن تھا۔۔۔۔۔ ہر چیز کی سہولت تھی۔۔۔۔ وشہ تو آنکھیں جھپکائے بنا ہر چیز کو دیکھ رہی تھی


اسے یقین نہیں آرہا تھا اتنا خوبصورت گھر اسکا اپنا ہے۔۔۔


رزم نے ٹیک لگا کر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر اسکی پشت کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جب یکدم اسکے ذہن کے پردوں پر آوازیں گڈمڈھ ہونے لگیں


رزم نے آنکھیں بند کردی جب آوازوں کے ساتھ کچھ منظر گھومنے لگے۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


حنان اور ضامن دونوں ہی روم سے چلے گئے۔۔۔۔


وشہ انکے جانے کے بعد کھڑی ہوئی جب کسی نے پیچھے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔وشہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا


جب کسی نے زور سے سر پر کچھ مارا۔۔۔۔وشہ زور سے چیخ مارتی دھڑام سے نیچے گری۔۔۔۔۔سر سے خون پانی کی طرح بہنے لگا۔۔۔۔۔


رزم بھائی کہاں جا رہے ہیں؟زیاف نے اسے اوپر جاتے دیکھا تو پوچھنے لگا۔۔۔


وشہ سے ملنے اور ہاں میں پوچھ چکا ہوں سب سے۔۔۔رزم کہ کر وشہ کے روم کے سامنے کھڑا نوک کر کے اندر گیا


سامنے ہی وشہ نکاح کے جوڑے میں خون سے لت پت کارپٹ پر پڑی تھی


پتہ نہیں کتنا وقت اسے یونہی پڑے گزرا تھا۔۔۔ رزم ایک دم چیخا۔۔۔۔ رزم کی چیخ اتنی بلند ضرور تھی کے زیاف جو باہر نکل رہا تھا تیزی سے آیا۔۔۔۔


وشہ کو خون میں دیکھ کر ساکت رہ گیا۔۔۔۔۔۔ رزم نے قریب جا کر اسے دیکھا جسکا صرف سر نہیں پھٹا تھا


اسے کافی زخمی کیا گیا تھا گردن پر ناخن سے کٹ لگے ہوۓ تھے جس سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔


مہندی لگے ہاتھوں میں شیشے کے ٹکڑے گھوپے یوئے تھے رزم نے تکلیف سے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔ زیاف ہھی تیزی سے قریب آیا . ۔۔۔


روم میں یکدم کوئی قہقے لگانے لگا۔۔۔۔۔دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھے سامنے ہی کاھل کا باپ کھڑا تھا۔۔۔


کیسا محسوس کر رہے ہو ؟ رزم اسکی بات کو نظر انداز کرتا زیاف سے بولا۔ ۔۔۔۔۔ زیاف وشہ کو ہوسپیٹل لے کر جاؤ۔۔


رزم اسے کہتا آگے بڑھ کر اسے زور سے پنج مارا۔۔۔ رزم شدید تحش میں اسے مارنے لگا جو اپنے اصل روپ میں آکر رزم پر حاوی ہورہا تھا

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم کاھل کے باپ کو ختم کر کے ہوسپٹل آیا ۔۔۔ جب زیاف تیزی سے اسکی جانب آیا۔۔۔۔ کیا ہوا تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔


رزم اسے دیکھتا پریشانی سے گویا ہوا۔۔۔۔میں اپکا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ قبیلے کے سردار کو پتہ چل گیا ہے


وہ اپنا کوئی ساتھی بھیج رہے ہیں تاکے دیکھ سکیں لڑکی زندہ ہے یا نہیں۔۔۔۔


کھاہل کی موت کا سن کر وہ پاگل ہو رہے ہیں۔.۔۔۔ زیاف تیز تیز بول رہا تھا۔۔۔ جب کے رزم کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔۔۔۔۔


رزم کو دیکھ کر زیاف نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔


ریلیکس یہ وقت ابھی لڑنے کا نہیں ہے وشہ بھابھی کو بچانے کا ہے۔۔۔


ہمیں وشہ بھابھی کو یہاں سے لے کر جانا ہے وہ بھی چھپا کر ۔۔۔


ٹھیک ہے۔۔۔رزم خود پر ضبط کر کے ماتھا مسلنے لگا۔۔۔جب آرا بولی


جو کب سے دونوں کی بات چپ ہو کر سن رہی تھی۔۔۔۔


میرے پاس ایک پلان ہے۔۔۔۔۔۔ اگر سہی لگے تو۔۔۔ ارا کی بات سن کر دونوں نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


زیاف نے نظر بچا کر آئی سی یو کا ڈور آسانی سے کھولا سب اتنے اپ سیٹ تھے کے کسی نے اسے نہیں دیکھا۔۔۔۔


زیاف نے اندر جا کر ڈاکڑ کو بولایا۔۔۔سب حیرت سے اسے دیکھنے لگے وہ کیسے اندر آیا۔۔۔


آپ۔۔۔آپ کیسے اندر آگئے۔۔۔۔ڈاکٹر نے حیرت سے زیاف کو دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔۔


جی وہ ڈور کھولا ہوا تھا۔۔۔۔ شاید لاک خراب ہوگیا۔۔۔ زیاف نے جھوٹ بول کر ڈاکٹر کو بتا کر وشہ کی کنڈیشن پوچھی۔۔


جو ٹھیک تھی۔۔۔۔ زیاف نے ڈاکٹر کو کونے میں لے جا کر ساری بات بتادی۔۔۔۔۔۔۔کے لڑکی کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔


ڈاکٹر اس کی بات مان گئے۔۔۔۔وشہ ویسے بھی اتنی جلدی ہوش میں نہیں آنے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔ شاید پانچ چھ گھنٹے لگ جاتے۔ ۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


سب پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔۔۔رزم کو شدید تکلیف ہوئی وشہ کے گھر والوں کو دیکھ کر۔۔۔۔ کاش ایسا کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔لیکن کیا کر سکتے ہیں۔۔۔


وشہ کو گھر لایا گیا۔۔۔۔ مگر قبرستان جانے سے پہلے ہی رزم نے سب سے کہا۔۔۔۔۔وہ وشہ کے پاس اکیلا بیٹھنا چاہتا ہے


اس لئے سب اٹھ کر لان میں چلے گئے کے اب جنازہ ہی لےکر جانا ہے۔۔۔۔رزم نے سب کے جانے کے بعد زیاف کو کال ملائی۔۔۔۔


جو فورن ہی آرا کے بھائی کے ساتھ ایک ڈیڈ باڈی لے کر آگیا ۔۔۔۔۔


رزم بھائی آرا اور بدح بھائی وشہ بھابھی کو لے کر جا رہے ہیں۔۔۔۔


رزم نے وشہ کو دیکھا جو بیہوش تھی سر پر سفید پٹی۔۔ دونوں ہاتھوں میں بھی سفید پٹی تھی۔۔۔۔


رزم نے جانے کی اجازت دی تو اسکی جگہ ڈیڈ باڈی رکھ دی گئی۔۔


وہ جانتے تھے اب کوئی چہرہ نہیں دیکھے گا۔۔۔۔


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ کا اب حویلی میں ہی علاج ہورہا تھا۔۔۔۔۔ رزم کو اسکے پاس جانے کی جلدی تھی۔۔۔ اگر وہ ہوش میں آگئی تو کیسے سمبھالیں گے اسے۔۔۔۔


سب سے فارغ ہو کر رزم حویلی آیا۔۔۔۔ وشہ ہوش میں تھی

اور آرا کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔


السلام عليكم۔۔۔۔۔ رزم سے زور سے سلام کیا۔۔۔۔ وشہ نے اسے دیکھا تو مسکرا دی۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔


رزم کو تھوڑا جھٹکا لگا۔۔۔ پتہ نہیں آرا نے کیا کہا ہوگا اس سے جو وہ یوں مسکرا رہی ہے۔۔۔۔


آرا رزم کے چہرے کو دیکھ کر اپنی ہنسی دبانے لگی۔۔۔

رزم چلتا ہوا بیڈ پر اسکے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔ اب کسی طبیت ہے تمہاری۔۔۔رزم نے بیڈ پر رکھے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔


اب ٹھیک ہوں۔۔۔ وشہ ہلکی آواز میں بولی۔۔۔۔ بہت کمزور سی لگ رہی تھی اسے۔۔۔۔


اہمم۔۔۔آپ دونوں بات کریں میں چلی ہوں۔۔آرا اٹھ کر وشہ سے ملی۔۔۔رزم نے اسکا شکریہ ادا کیا کیوں کے۔۔۔ سارا پلان اس ہی کا تھا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


آرا کے جاتے ہی وشہ کی آواز اسکے کانوں میں پڑی جو کہ رہی تھی.


آرا نے مجھے سب بتا دیا ۔۔۔ آپ کے دشمن مجھے مارنا چاہتے تھے تاکے آپ کو تکلیف پوھنچا سکیں۔۔۔


تبھی آپ مجھے یہاں لائے میری جھوٹی موت بنا کر۔۔۔ لیکن اس سے میرے گھر والے؟ آپ کو انھیں بتا دینا چاہیے تھا۔۔۔۔۔


میرے امی ابّو میرے دونوں بھائی وہ۔۔اس سے آگے جیسے سارے الفاظ کھو گئے۔۔۔۔وشہ یکدم سسک اٹھی۔۔۔۔ کیا حال کرلیا ہوگا سب نے۔۔۔


وشہ پلیز سمبھالو خود کو۔۔۔۔یہ ضروری تھا وہ فیملی کو بھی نقصان پوھنچا سکتے ہیں۔۔۔


اس لئے یہ سب کیا پلیز ادھر دیکھو میری طرف۔۔ رزم نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ قریب کر کے


بےبسی سے کہا وہ اس سے اب دسترس نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ وشہ روتی ہوئی۔۔۔۔اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وقت یونہی گزرتا گیا رزم اسکے پاس آتا جاتا رہتا۔ ۔۔۔۔ وشہ کے زخم ٹھیک ہو رہے تھے۔۔۔


رزم آج کل بہت کچھ سوچ رہا تھا وہ اپنا اور اپنی فیملی کا سچ بتانا چاہتا تھا مگر ڈر رہا تھا کہیں وہ اس سے دور نہ چلی جائے۔۔۔۔


لیکن آخر کب تک۔۔۔۔ اسے انتظار تھا اسکے ٹھیک ہونے کا۔۔۔کئیں بار وشہ کو اپنی فیملی کے لئے روتا دیکھتا تھا


مگر وہ جانتا تھا کسی کو بھی پتہ چلا تو اسکی جان کے پیچھے پڑھ جائیں گے۔۔۔۔


اگر لڑ بھی لیتا تو کب تک۔۔۔ ایک کو مارا تو دوسرا آجائے گا۔ ۔۔۔۔۔اسے اپنی نہیں اپنے سے جڑے رشتوں کی پرواہ تھی۔۔۔۔


کسی بھی اپنے کا دکھ وہ برداشت نہیں کر سکے گا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


رزم آج میں ٹھیک ہوں اس لیے چلیں مجھے حویلی دیکھنی ہے۔۔۔


اف میں اکتا گئی ہوں روم میں۔۔ صرف گیلری میں جانے دیتی ہے وہ آپ کی کزن ۔۔۔


وشہ ناک چڑھا کر بیڈ سے اتر کر دوپٹہ سہی کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہوئے ظام کا بتانے لگی


رزم اسکی بات پر مسکرا کر قریب آیا۔۔۔


پھر ماتھے پر پیار کر کے اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔ جب کے وشہ اپنی پیشانی جلتی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔شرم سے وہ لال ہوگئی۔ ۔۔


دونوں ساتھ نیچے آئی۔۔وشہ اشتیاق سے اتنے بڑے رقبے پر پھلی حویلی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


وشہ نے اب دیکھا تھا ورنہ تو روم میں ہی رہتی تھی۔۔۔


رزم مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ جب اچانک وشہ کو اپنی طرح متوجہ کیا۔۔۔


وشہ سنو۔۔۔۔۔۔وہ دو قدم اسکی جانب بڑھا


وشہ آواز پر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔جی بولیں۔ ۔۔۔


مجھے تمہے کچھ بتانا ہے وہ نہ محسوس انداز میں اسکے نزدیک اتا ہے اتنا نزدیک کے اگر ہوا بھی اسے چھوتی تو رزم سے ٹکرا کے وزشہ تک گزر کر پونھنچنا پڑھتا۔ ۔۔۔


میری طرف دیکھو وشہ۔۔۔۔۔ رزم اسکے قریب اپنا چہرہ کیے اسک آنکھوں میں انکھیں گاڑھتا بولا ۔۔۔


وشہ جو پہلے ہی اتنی نزدیکی پر بوکھلائی ہوئی تھی اسکے

آنکھیں ملانے پر سٹپٹا گئی۔۔۔


پر یہ کیا رزم کی آنکھیں لال کیوں ہو رہی تھیں یہ کوئی عام لال رنگ تو نہیں تھا ان آنکھوں میں تپیش تھی کسی کو بھی جھلسا دینے والی۔۔۔


رزم۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ آ۔۔۔۔ آپ۔۔کی آنکھوں کو کیا ہو رہا ہے کیا آپ ٹھیک ہیں ؟ وشہ گھبرا گئی تھی رزم کی آنکھیں کبھی اس طرح لال انگارہ نہیں ہوئی تھیں۔۔۔۔


وشہ تم جو دیکھ رہی ہو یہی میرا سچ ہے ۔میں نے کوشش کی تھی تم سے دور رہنے کی پر میری ہر کوشش تمہاری معصومیت تمہاری شرارتوں نے ناکام بنا دی۔۔۔


میں دور بھاگتا تھا انسانوں سے خاص کر لڑکیوں سے پر تم نے میری زندگی میں آکر وہ سب بھی ختم کر دیا۔۔۔


وشہ تم نے مجھے سر تا پیر بدل دیا۔۔۔۔۔۔رزم گھمبھیر لہجے میں بولتا وہ وشہ کو الجھا گیا۔۔۔


یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ سب کیا ہے وہ اٹک اٹک کر بولتی چند قدم پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ پر رزم اسی تیزی سے اس تک پوھنچا تھا


وشہ میں تمہے سب بتا دینا چاہتا تھا پر تمہے کھونے کے ڈر سے کبھی بول ہی نہیں پایا


لیکن اگر اب بھی نہیں بولتا تو شاید کبھی نہیں بول پاتا۔۔۔


میں۔۔۔۔میں انسان نہیں ہوں اشرافل مخلوقات میں سے نہیں ہوں بلکے ایک انسان نہیں ہوں

مگر اسی کی بنی ہوئی مخلوق میں سے ایک ہوں


ایک ایسا جن جو لوگوں کی بھلائی کے لئے انسانوں کا ساتھ دیتا ہوں۔۔۔


میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پونھنچایا


ہا۔آ ۔۔۔آپ ہاہاہا۔۔۔۔آپ کیا بولنے میں لگے ہیں اپریل تو نہیں ہے ہاہاہا۔۔۔ اچھا مذاق کر لیتے ہیں۔


وشہ اسکی باتوں کو مذاق سمجھ کر ہنسنے لگی۔۔۔میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔ اور خاص کر تب بلکل نہیں جب یہ ہم دونوں کی زندگیوں سے جڑا ہو۔۔۔


وشہ اسکی بات سن کر چپ ہوکر اسے دیکھنے لگی جو اسکے متوجہ ہونے پر دوبارہ بولا۔۔۔۔


میں ایک جن ہوں پر اسی اللہ‎ کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم لوگ کرتے ہو۔۔۔


وشہ یکدم اسکے بازوں کو جھٹکتے ہوئے ڈر کر پیچھے ہوئی۔۔۔۔ 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ اب ڈر محسوس کر رہی تھی رزم کو اسکا ڈر صاف نظر آرہا تھا۔۔اسی چیز کا تو ڈر تھا کے کہیں وہ کچھ غلط نہ سمجھ ہبیٹھے


وشہ میری بات سنو پلیز۔۔۔وہ جتنا آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا وہ اتنا ہی اس سے دور ہو رہی تھی۔۔۔۔۔


مطلب۔۔مطلب آپ کی فیملی سب ایک دھوکہ تھا۔۔اٹک اٹک کر بولتی وہ کپکپانے لگی تھی۔۔۔۔۔۔


تم ریلیکس ہو جاؤ پھر بات کریں گے ہم۔۔۔۔رزم اسے یوں دیکھ کر اسے ریلیکس کرنے لگا۔۔۔۔اسے خود پر غصہ آنے لگا


کیوں اس نے جذبات میں آکر اسے سب بتانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ۔۔اگر وہ اس سے دور ہوگئی تو؟ نہیں وہ ایسے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


وشہ بلکل چپ ہوگئی تھی۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔کیا جو رزم نے کہا وہ سب سچ تھا۔۔۔۔


وشہ خاموش کھڑی اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔اس نے کہا تھا وہ ہم

انسانوں کی طرح اللہ‎ کی عبادت کرتا ہے۔۔۔۔وہ اچھا ہے۔۔۔۔۔


ہاں سچ کہا تھا اسنے کے وہ اچھا ہے۔۔۔۔۔اس نے پہلے وشہ کے چھوٹے بھائی کی جان بچائی تھی۔۔۔


اب بھی وہ اور اسکا بھائی اسے اور اسکے گھر والوں کو محفوظ کر رہے ہیں۔۔۔۔


رزم اسے بلکل چپ دیکھ کر اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے مسلنے لگا تھا۔ ۔۔۔


وشہ جب کافی دیر چپ رہی تو رزم سر جھکائے چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اسکے پاس سے گزرنے لگا۔۔۔


وہ اب کیا فیصلہ کرتی ہے۔۔۔۔کیا وہ اسے چھوڑ دے گی۔۔۔ رزم کے دماغ میں یہی سوال گردش کر رہے تھے۔۔۔


جب وشہ نے اپنے کانپتے ڈھنڈے ہاتھوں سے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔۔۔۔


رزم کو شدید حیرت ہوئی اتنا کچھ سننے کے بعد وشہ نے خود سے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔ ۔۔۔


رزم اسکے سامنے آتا اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


کک کیا وجہ تھی ایسی جج۔۔۔ جو۔۔ آپ لوگ انسانوں کے درمیان انہی کی طرح رہتے تھے؟


وشہ کی بات پر رزم کو ہنسی آنے لگی۔۔۔۔ وشہ افنان سے ایسے سوالوں کی توقع کی جا سکتی تھی۔۔۔۔


تمہے کیا لگتا ہے صرف ہم ہی ایسے جن ہیں جو انسانوں کے درمیان رہتے ہیں؟ بہت سے ایسے جن ہیں جو ہر روپ میں انسانوں کے ہی درمیان ہیں۔۔۔۔۔


یہاں تک کے جانوروں کیڑے مکوروں کے روپ میں بھی اور جہاں تک ہماری بات ہے۔۔۔۔۔تو ہم لوگ انسانوں کی مدد کرتے ہیں


اور ہمارے قبیلے والے اور سردار کو یہ بات نہیں پسند تھی وہ انسانوں کو ستاتے اور مشکلیں بڑھانے میں خود پر فخر کرتے ہیں۔۔۔


انسان کو جان سے مارنا بھی انکے لئے کبھی مشکل نہیں ہوا۔۔۔۔۔


تبھی ہمیں قبیلے سے بے دخل کردیا اور پھر ہم تم لوگوں کے ایریا میں آگئے۔۔۔رزم نے بات مکمل کر کے ایک قدم آگے بڑھایا۔۔۔


میں تمہے نہ بتا کر بھی تمھارے ساتھ رہ سکتا تھا لیکن میں نے یہ نہیں کیا۔۔۔کیوں کے میں تمہے کوئی دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔


وشہ کے ہاتھ ابھی تک ٹھنڈے تھے۔۔۔۔رزم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر قریب کرتے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے ہونٹوں سے چھوا۔۔۔۔


میں تمہے تکلیف نہیں دے سکتا۔۔۔کیا تم سب بھول کر میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔۔۔۔ رزم کی آواز ضبط سے بھاری ہو رہی تھی۔۔۔


وشہ کو تکلیف ہوئی اسے یوں دیکھ کر اسے کچھ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے۔۔۔۔


وشہ کو حیرت ہو رہی تھی سامنے کھڑا اسکا کھڑوس شخص اانسان نہیں ہے۔۔۔


کیا ہم اب خوش رہ سکتے ہیں رزم ؟ میرے گھر والے سب؟مجھے آپ سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی


حالانکے مجھے یہ سن کر آپ کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہیے۔۔۔وشہ اپنی بے بسی پر رو دی۔۔۔۔


اسے خود پر حیرت تھی ایک ایسا مذاق ہوا تھا اسکی زندگی کے ساتھ وہ ہنسے رویے یا اپنا مذاق اڑائے۔ ۔۔


رزم وشہ کو یوں دیکھ کر فاصلہ مٹا کر زور سے اپنے سینے میں بھیج لیا وشہ آواز کے ساتھ رونے لگی۔۔۔۔


اگرحقیقت پہلے پتہ چلتی تو کبھی دوستی کیا رخ نہ کرتی۔ ۔۔


پر اب دل نے اسکے ساتھ دھوکا کر دیا۔ ۔۔۔اسکے نکاح میں بھی تھی ۔۔۔ وشہ کو لگا اب رزم سے الگ ہوئی تو مر جائے گی۔۔۔۔

ایک جن سے عشق کر بیٹھی تھی وہ جو ہر طرح سے وشہ کے لیے پرفیکٹ تھا۔۔۔۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وشہ پلیز رونا بند کرو۔۔۔۔رزم اسکی کمر سہلانے لگا۔۔۔ششش ریلیکس۔ ۔۔

کچھ ہی دیر بعد وشہ کا رونا بند ہوا۔۔۔۔

وہ اسے کچھ کہ رہی تھی اپنی سو سو کرتی لال ناک کو رگڑتی بلکی چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔۔۔۔

رزم نے مسکرا کر اسکے سر پر پیار کیا۔۔۔۔

آپ۔۔آپ وعدہ کریں کبھی مجھے ڈرائیں گے نہیں۔۔۔


وشہ کی بات پر رزم کو خوش گوار حیرت ہوئی۔۔۔۔


وشہ تم تم مطلب۔۔۔میرا مطلب۔۔۔ رزم خوشی میں بوکھلا گیا تھا۔۔۔

وشہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔

جی میں نے وہی کہا جو آپ نے سنا ہے۔۔۔


اب اگر میری قسمت میں جن ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔۔۔


وشہ ناک چڑھا کر وعدے لینے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ اسکے سامنے پھلا کر انتظار کرنے لگی۔ ۔۔


رزم نے ہنس کر اسکا ہاتھ تھاما پھرکھنچ کر اسے اپنے قریب کھنچا۔۔۔۔۔


یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔وشہ آنکھیں پھلا کر پوچھنے لگی رزم نے جواب دیے بغیر اسے اٹھایا۔۔۔۔۔


اور روم میں لے جانے لگا۔۔۔۔۔ کک کیا۔۔۔۔آپ آپ مجھے کھا جاہیں گے؟


ہاں بلکل۔۔۔۔اسکے بعد تمہاری ہڈیاں کی دعوت کرونگا۔۔۔رزم اپنا قہقہ ہونٹ بھنچ کر سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔۔

وشہ کا ہلک سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔ ۔۔

رزم نے اسے روم میں لاکر بیڈ پر لٹایا۔۔۔جو جھٹ بیٹھ گئی۔ ۔۔ظاہر ہے اگر لیٹا کر اس نے حملہ کردیا تو وہ تو گئی۔۔۔ ہڈیوں کی دعوت ہائے۔۔۔۔

وشہ سوچ کر جھرجھری لے کر رہ گئی۔۔۔ رزم نے پاس بیٹھ کر ہاتھ تھاما وشہ کچھ کہٹی۔۔۔۔ جب رزم کے اشارے پر چپ ہوگئی۔۔۔۔

تمہے لگتا ہے میں انسانوں کو کھا جاتا ہوں ؟ رزم کے پوچھنے پر وشہ نے کندھے اچکائے۔ ۔۔


اف۔۔ تم کبھی نہیں سدھر سکتی خیر میں انسان کا گوشت نہیں کھاتا سمجھی۔۔۔


اچھا۔۔۔وشہ نے سر جھکا کر کہا۔۔۔۔۔رزم نے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔۔


وشہ مسکرا کر اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔۔۔


حال :

رزم!!۔۔۔۔رزم کہاں کھوگئے؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں چلیں اندر دروازے پر کیا کر رہے ہیں۔۔۔

وشہ کی آواز پر رزم جیسے نیند سے جاگا۔۔۔۔

سارے خیال جھٹک کر وہ اندر بڑھ گیا۔۔۔۔۔ جہاں اب صرف وہ دونوں تھے اور انکی محبت۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد!!

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Ishq Gaiz Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Gaiz written by Amrah Sheikh. Ishq Gaiz by Amrah Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages