Zindagi Mukhtasar Ho Ja Paari Season 2 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 13 June 2024

Zindagi Mukhtasar Ho Ja Paari Season 2 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story

Zindagi Mukhtasar Ho Ja Paari Season 2 By Umama Nadeem Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Zindagi Mukhtasar Ho Ja By Umama Nadeem Pari Season 2 Complete Novel 

Novel Name: Zindagi Mukhtasar Ho Ja Paari Season 2

Writer Name: Umama Nadeem 

Category: Complete Novel 


تعارف۔۔

ولی۔۔ 

عمرپچیس سال ۔۔چوہدری حیدر علی جو لندن کی لیڈنگ کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ہیں ۔ان  کا اکلوتا بیٹا ہے ۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔ پرسکون انسان۔لیکن رشتوں کے معاملے میں انتہائی حساس ۔۔

 چوہدری حیدر علی۔۔۔۔ پاکستان کے امیر ترین زمیندار چوہدری دلاور کا چھوٹا بیٹا ۔

 ‏

ڈاکٹرحناء حیدر علی ۔۔۔ولی کی ماں اور چوہدری حیدر علی کی بیوی۔

سدرہ اقبال۔ عمر18سال۔۔۔ ایف ایس سی سٹوڈینٹ۔جس کے  مرحوم والد آرمی آفیسر تھے۔ سب کی لاڈلی۔کیوں کے تین بیٹوں کے بعد منتوں مرادوں سے اللہ سے مانگی۔ انتہائی شرارتی ۔اپنی منوانے والی جو دل اور دماغ میں آتا وہی زبان پر ہوتا۔ہر وقت ہستی مسکراتی۔۔۔

نسیم بیگم۔۔ سدرہ کی ماں اور ایک پڑھی لکھی خاتون۔اتنہائی رحم دل اور پیار کرنے والی خاتون۔

بلال اقبال۔عمر تقریبآ 28 سال۔سدرہ کا بڑا بھائی ۔کپڑے کا کاروبار کرتا ہے۔ اتنہائی نرم دل اور پرسکون انسان۔۔

عالیہ بلال۔۔۔بلال کی بیوی ۔ سدرہ کی بھابی  اور ماموں کی بیٹی جو بس مڈل پاس ہے اور انتہائی بدمزاج بھی۔۔

عمر اقبال۔عمر 25 سال۔۔ سدرہ کا دوسرے نمبر والا بھائی آرکیٹیکٹ پاکستان کی ٹاپ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ سنجیدہ مزاج غصے کا تیز لیکن غصے میں زیادہ تر خاموشی اختیار کرنے والا۔۔

حمزہ اقبال ۔۔عمر 21سال۔۔ سدرہ کا تیسرے نمبر والا بھائی جو بھائی کم دوست زیادہ ۔شرارتوں میں پکے پاٹنر۔ حمزہ ایم اے انگلش سٹوڈینٹ۔۔۔

 باقی کرداروں کا تعارف ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا جن میں کچھ پری ناول کے ہیں۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حیدر نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا ۔دیکھو ولی میں کچھ نہیں جانتا ۔مجھے صرف یہ پتا ہے کے تم بامشکل دو یا تین دن کے تھے جب تم میری گود میں آۓ ۔ 

_____________*****

دیکھیں بابا میں آپ پر اور آپ کی محبت پر شک نہیں کر رہا آپ میرے بابا اور ماما۔ تھے ، ہیں اور رہیں گے۔میں تو بس پوری بات جاننا چاہتا ہوں۔ سب کچھ جاننے کے بعد یقین کریں ہمارے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ولی حیدر کے قدموں میں گھنٹوں کے بل بیٹھتے ہوۓ بولا۔اور حیدر کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا بابا پلیز مجھے سب کچھ شروع سے بتائیں۔۔ 

____________******

حیدر نے  پاس بیٹھی حناء کی طرف دیکھا جو بنا آواز کے رو رہی تھی۔ 

اس نے لمبی سانس لی اور بولا  یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور تمہاری ماما آئرلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔ ہم دونوں اکثر لانگ ڈرائو پر جاتے تھے۔ ہماری عادت تھی کے ہم ہمیشہ سٹی سے باہر نکل جاتے تھے۔ اس دن بھی ہم لانگ ڈرائو پر نکلے تھے۔اوراس دن بھی ایسا ہی ہوا باتوں باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا اور ہم سٹی سے کافی دور نکل آۓ۔ روڈ کے دونوں طرف گھنا جنگل تھا۔میں نے گاڑی سڑک سے نیچے اتار کر درختوں میں کھڑی کی اور ہم دونوں پیدل باتیں کرتے چل پڑے کچھ آگے جا کر ہمیں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی اور ساتھ ہی کچھ لوگوں کی ۔ہم نے ایک درخت کے پیچھے چھپ کر ان کی باتیں سنی .۔

______****

تو ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا اس بچے کو بھی دفن کرو ۔لیکن دوسرا آدمی کچھ گھبرایا سا لگ رہا تھا ۔وہ بولا بچے کو رہنے دو ماں کو کر دیتے ہے دفن اسے ادھر جنگل میں ہی چھوڑ دیتے ہیں جانور کھا جائیں گے۔ پہلے آدمی نے غصے سے گن نکال کر دوسرے آدمی کے سر پر رکھی اور بولا جیسا کہا ہے ویسا کر۔۔ جلدی سے کام پورا کرو  اتنا کہہ کر اس آدمی نے زمین پر پڑے بچے کو بے دردی سے ایک ٹانگ سے اٹھایا اور گڑھے میں گرا دیا ۔اور دوسرے آدمی کو دیکھ کر یہ کہتاہوا چلا گیا مٹی ڈال کر اوپر سے اچھی سی دبا دینا۔ ان کی باتیں سن کر ہم دونوں سکتے میں آگۓ ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کے کیا کریں۔ بس اسی لمہے تمہاری ماما ایک دم سے درخت کے پیچھے سے سامنے آگئی ۔مجھے کچھ سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دی حناء نے ۔

______******

 اس آدمی نے ایک دم سے گن نکال کر ہم پر تان لی ۔ اور بولا کون ہو تم کیا کر رہے ہو یہاں ۔ میں بولا ہم سٹوڈینٹ ہیں گھومتے ہوۓ ادھر نکل آے تھے۔ وہ آدمی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا ۔تم لوگ جانتے ہو کتنی بڑی مصیبت میں پھس گۓ ہو تم۔  پلیز مت مارو انہیں ۔حناء نے روتے ہوے، گھڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔

 ________******

 ‏ وہ آدمی ہماری طرف دیکھ کر بولا  عورت کو تو مرے چھ سات گھنٹے ہو گئے ہیں ہاں مگر بچہ زندہ ہے ۔پر یہ بھی نہیں رہے گا ۔ ۔۔۔۔

 ‏نہیں پلیز پلیز حناء دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ کر بولی۔۔ تو وہ آدمی گڑھے کے پاس پاؤوں کے پنجوں پر بیٹھتے ہوۓ بولا ۔بچے کو مارنے کے حق میں تو میں بھی نہیں۔ لیکن اور کوئی حل بھی تو نہیں اگر دفن نہ بھی کروں تو کہاں کروں اسے۔۔ حناء جلدی سے بولی ۔مارو مت اس بچے کو ہمیں دے دو۔۔۔  وہ آدمی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولاٹھیک ہے تم لوگ لے جاؤ اسے۔۔ مگر ایک شرط پر۔۔ اب وہ اٹھ کر ہمارے پاس آتے ہوے بولا ۔اگر تم لوگ کوئی پولیس کمپلین نہیں کرو گے۔۔۔۔ نہ ہی اس کی۔۔ اور نہ ہی اسکی ماں کی ۔ کیوں کے جیسے ہی پولیس کو پتہ چلا ۔ایک منٹ سے پہلے اس کی اطلاع باس تک پہنچ جاۓ گی اور پھر اس بچے کۓ ساتھ تم دونوں کی اور میری قبر بھی بنے گی۔ وہ آدمی گن ہمارے سامنے لہراتے ہوۓبولا۔۔ 

________******

 ‏

جی وعدہ ہم کسی کو نہیں بتائیں گے ۔ آپ فکر مت کریں۔ حنأ آنسو پونچھتے ہوۓ بولی۔  میں  نے حناء کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو حناء نے میراہاتھ ہلکے سے دبا کر چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔

_______*******

 اس آدمی نے جھک کر بچے کو گڑھے سے نکالا اور مجھے تھماتے ہوۓ بولا جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ ۔اور جو میں نے کہا یاد رکھنا کوئی کمپلین مت کرنا اس بچے کا کوئی نہیں ہے ماں باپ دونوں کو ان لوگوں نے مار دیا ہے۔ اور کوئی نہیں ہے اس کا۔۔۔ اب اسے خود رکھو یا کسی یتیم خانے میں دو تمہاری مرضی بس یہاں سے نکلو۔۔ 

_______******

حیدر  اپنے ہونٹوں کو دبتےہوۓ کچھ دیر کے لیے روکا اورنم آنکھوں سے پہلے ولی کے غم زدہ چہرے کی طرف اور پھر حناء کی طرف دیکھا اور دوبارہ سے بولنا شروع کیا۔۔۔

_______******

اور پھر میں نے اور حناء نے نکاح کا فیصلہ کیا ۔ کیوں کے حناء کسی قیمت پر تمہیں کسی ادارے میں چھوڑنے کو راضی نہ تھی ۔ اور ایسے ہم کیا کہتے سب کو کے بچہ کہاں سے آیا ہے۔اور تمہیں اپنی گود میں لینے کے بعد تمہارا معصوم چہرہ جیسے میرےدل میں اتر گیا۔اور ہمت ہی نہیں ہوئی تمہیں چھوڑنے کی  اور پھر ہم نے سب پے یہ ظاہر کیا کے ہم کافی پہلے کے شادی کر چکے تھے۔ اور حناء پریگنینٹ تھی ۔اور ہم سب کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔اور تم تھے  بھی دو تین دن کے اور حناء اور میری فیملیز پاکستان تھیں۔اس لیے کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہوا۔ ہم نے تمہیں اپنا بیٹا شو کیا ۔ اس بات کا ہم دونوں کے علاوہ  ڈاکٹر خرم کو علم ہے کیوں کے انہی نے حناء کی جعلی میڈیکل رپورٹس بنائی تھیں۔ اور پھر دو ہفتے بعد ہم تمہیں لے کر پاکستان چلے گۓ ۔ 

______********

سالار اس وقت تین سال کا تھا وہ تو تمہیں دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو رہا تھا ۔سب حویلی والوں نے حنأ اور تمہیں کھولے دل سے قبول کیا ۔ اور پھر ہم تمہیں بی جان اور آمنہ بھابی کے پاس چھوڑ آۓ کیوں کے حنأ اور میری سٹڈیز ابھی مکمل نہیں ہوئی تھیں ۔ اور پھر کچھ سال بعد شگفتہ والے معاملے کی وجہ سے میں نے حویلی چھوڑ دی مگر تم گواہ ہو کے حویلی والوں نے پھر بھی تمہیں خود سے الگ نہیں کیا ۔ تم اور سالار ہمیشہ  ایک ساتھ رہے ۔ کوئی فرق نہیں کیا تم دونوں میں کبھی کسی نے ۔ اور میری اور تمہاری ماما کی محبت کا تم خود فیصلہ کر لو کے کبھی کوئی فرق آیا ۔حیدر ولی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا۔۔ یقین مانو ولی ہمیں کبھی ایک پل کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا کے خدا نے ہمیں کوئی اولاد نہیں دی کیوں کے تم ہمارے ہی تو ہو۔ بس اتنی سی کمی ہے کے حناء نے تمہیں پیدا نہیں کیا۔ کاش ولی کوئی ایسا طریقہ ہوتا کے ہم تمہیں بتا سکتے کے تم ہمارے لیے کیا ہو۔۔ 

_________*******

ولی اٹھا اور اٹھ کر حنأ کو گلے لگا کر روتے ہوۓ بولا ماما آپ ہی میری ماں ہیں آپ دونوں میرے جینے کی وجہ ہیں ۔ولی آپ کی وجہ سے ہے۔ تھا اور رہے گا۔ میں ولی حیدر علی ہی ہوں ۔ اور میری ماں کا نام حناء حیدر علی ہے بس۔۔۔۔ ولی آپ کے بغیر کچھ نہیں۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ ولی نے سسک کر روتی حناء کے سر پر پیار کیا۔۔۔

_________******

ولی تمہیں کس نے بتایا ۔کوئی نہیں جانتا اس بارے میں۔حیدر نے الجھے ہوۓ انداز میں پوچھا۔۔۔ تو ولی سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوۓ بولا ۔۔۔بابا دو ہفتے پہلے مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی۔۔ کوئی آدمی تھا ۔۔  وہ آپ کے ماماکے اور میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔۔ ایک ایک بات ۔۔۔

اس آدمی نے کہا کے وہ میرا اصل باپ ہے ۔۔میں نے غصے سے فون بند کر دیا ۔۔

بس اس دن سے ہمت نہیں پڑ رہی تھی کے آپ دونوں سے کیسے پوچھوں۔۔ 

حیدر منہ پر دونوں ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ اس شخص نے ہمیں بتایا تھا کے تمہارے ماں باپ دونوں مر چکے ہیں۔۔ پھر یہ کہاں سے آگیا باپ۔۔۔ولی دوبارہ کوئی کال آئی اس کی۔۔۔

نہیں بابا بس ایک میسج آیا تھا۔۔کے جلد ملیں گے مائی سن۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہاۓ اللہ امی کچھ نہ پوچھیں ۔کتنے ڈرامہ باز لوگ تھے۔ اف سدرہ خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔  ڈیڑھ دو ہفتےسے ایک ہی بات کئے جا رہی ہو۔ میرے تو سن سن کر کان پک گئے ہیں۔۔ نسیم  کھانا پکاتے ہوۓ اکتاہٹ سے بولی ۔ تو سدرہ کچن کی شلف سے نیچے جمپ لگا کر اترتے ہوۓ بولی امی آپ کو میرا بولنا اچھا نہیں لگتا نا۔۔ یاد رکھنا ترسیں گی آپ ایک دن میری باتوں کو۔ دعائیں کریں گی آپ  کے سدرہ بولے اور آپ سنیں اتنا کہہ کر وہ کچن سے نکل گئی اور نسیم نے ایک دم سے اپنے سینے پر دل والی جگہ ہاتھ رکھا اور بولی اللہ نہ کرۓ میری بچی اللہ نہ کرۓ۔۔ 

_________********

سدرہ منہ بنا کر صحن میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ بلال گھر میں داخل ہوا اور سامنے بیٹھی سدرہ کو دیکھا تو انداہ لگا لیا کے کسی نے اس کی چڑیا کو ناراض کر دیا ہے وہ آرام سے چلتا ہوا اس کے پاس آ بیٹھا تو سدرہ نے دوسری طرف منہ کر لیا بلال نے ہاتھ سے فروٹ والے بیگ زمین پر رکھے اور سدرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا کیاہوا میری چڑیا کو کیوں منہ بناۓ بیٹھی ہے ۔ سدرہ ہونٹ بچوں کی طرح لٹکا کر بولی بھائی دیکھیں نا کالج کیا بند ہوۓ میں تو بور ہو کے رہ گئی ہوں۔ امی سے بات کرو تو وہ کہتی ہیں کان پک گۓ بھابی تو خیر رہتی ساتویں آسمان پر ہیں انکے لیول کے تو ہم ہے ہی نہیں۔  عمر بھائی آتےہی رات کو لیٹ ہیں اور حمزہ کے بچے کو دوستوں اور کالج سے فرصت نہیں ۔اب میں کیا کروں۔ 

______*******

بلال مسکرا کر بولا کچھ نہیں بس رزلٹ آنے دو دوبارہ کالج کھل جائیں گے ۔بس کچھ دنوں کی بات ہے۔پھر تم ہو گی کالج ہو گا اور تمہاری دوست ہوں گی۔ اٹھو جاؤ میری جان جاکر فروٹ امی کو دو دھو کر ٹوکریوں میں ڈال دیں ۔سدرہ اٹھ کر فروٹ اٹھاتی کچن میں چلی گئی۔ 

_________*******

بلال یہ کیا خواب دیکھا رہے ہو اپنی بہن کو۔ عالیہ بلال کے سامنے آتے ہوۓ بولی۔ ۔۔۔کیا مطلب کہنا کیا چاہتی ہو۔۔ بلال سر اٹھا کر دیکھتے ہوے بولا۔۔

 کیوں آپ بچے ہیں آپ کو سمجھ نہیں لڑکی  ذات ہے کیا کرے گی آگے پڑھ کر بس بہت ہو گئی پڑھائی ۔ اب اس کی شادی کا سوچیں ۔اور رخصت کریں۔ عالیہ ایک آبرو اٹھاتے ہوے بولی۔ اور بلال کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ‏اور دیکھیں بلال یہ چھوٹی ہے چھوٹی ہے کی رٹ بند کریں ۔پری اور سدرہ ایک ہی عمر کی ہیں پری کی بھی تو شادی ہو رہی ہے وہ کسی کی بیٹی نہیں آپ کی بہن زیادہ بہن اور بیٹی ہے اور ویسے بھی آج کل کا ماحول آپ کو پتہ نہیں ۔کیسے کیسے واقعات ہورہے ہیں ۔پاکستان میں کہاں مخفوط ہیں عزتیں لوگوں کی۔۔۔ میں تو کہتی ہوں جتنا جلدی ہو سکے سدرہ کا فرض ادا کر دیں ۔ 

____________******

 ‏بلال ایک ٹک عالیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ ایک دم سے اٹھا اور بولا میں ابھی ابھی کام سے آیا ہوں ۔کچھ دیر آرام کروں گا ۔بعد میں بات کرتے ہیں ۔اتنا کہہ کر وہ اندر چلا گیا اور عالیہ غصے سے سرخ ہوتے ہوۓ بولی ۔ہاں ں ں بیوی کی بار آرام یاد آگیا اور بہن سے بیٹھ کر باتیں کرتے سکون مل رہا تھا۔ جب دیکھو بہن بہن بہن کی رٹ لگی ہوتی ہے ان تینوں بھائیوں کی زبان پر سدرہ یہ سدرہ وہ ۔۔۔ بہن تو جیسے اللہ نے انہی کو دے دی ہے ۔ اور تو کسی کی ہے نہیں ۔ عالیہ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی۔۔

 ‏دیکھنا تم لوگ اس سدرہ کو تو میں وہاں بھیجوں گی جہاں سے اس کی دوبارہ ہوا بھی نہ آۓ۔ 

 ‏ سدرہ بی بی تم دیکھو میں تمہارے ساتھ کرتی کیا ہوں 

 ‏ اگر خون کے آنسو نہ رولاۓ تو میرا نام بدل دینا۔۔ لے لو مزے جتنے لینے ہیں۔ بس تھوڑا ٹائم ہے۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی مسلہ کیا ہے کچھ تو بتاؤ پچھلے دو ہفتے سے میں دیکھ رہا ہوں کسی الجھن میں ہو ۔سالار سنجیدگی سے بولا۔۔

________*******

 نہیں یار کچھ نہیں بس کاروباری معاملات ہیں اور کچھ نہیں۔ 

 ‏ کسے بیوقوف بنارہے ہو ولی تمہارے کاروباری معاملات مجھ سے بھولے ہیں ۔۔کوئی مسلہ نہیں بزنس میں اگر ہوتا تو مجھے سب سے پہلے پتہ چلتا۔ اب انسانوں کی طرح بولو کیا پریشانی ہے۔سالار نے وارننگ دینے کے انداز میں کہا۔

_______******

 ‏ اففف سالار کچھ نہیں یار بس ایک دو پروجیکٹ ہے اسی میں الجھا ہوں ۔۔

 ‏ سالار ولی کو گھور کر دیکھتے ہوے اٹھا اور اس کے پاس آ کر بولا سچ سچ بتاؤ ولی ۔کوئی عشق وشق کا چکر تو نہیں ۔۔

 ‏ولی سالار کی بات سن کر قہقہ لگا کر ہسا اور بولا پہلی بات ایسا کچھ نہیں اور دوسری بات اگر ہے بھی تو کیا صرف تمہیں حق ہے عشق کرنے کا اس نا چیز کو نہیں ۔

_______،_******* 

 ‏سالار نے ہستے ہوۓ ولی کو گلے سے لگایا اور بولا ۔۔ ہے حق جناب بلکل ہے ۔ بلکہ تمہیں تو زیادہ حق ہے کیوں کے تمہارے بڑے بھائی نے رسم ڈالی ہے ۔ تو چھوٹا ہونے کی حیثیت سے تم دو قدم آگے جا سکتے ہو۔۔ 

_________*****

 ‏ولی نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولا نہیں کوئی ارادہ نہیں فل حال ۔۔

 ‏ ہمم تو پھر بتاؤ  کیا چکر ہے۔ ۔ ولی ناک کھجاتے ہوے بولا ۔ مجھے چھوڑو تم سناؤ پری بھابی کا۔۔

وہ تو ٹھیک ہے پر تم موضوع بدلنے کی کوشش کر رہے ہو۔سالار ولی کو گھورتے ہوۓ بولا۔۔

اف یار سالار کچھ نہیں ہے۔ بس کام کا پریشر ہے۔ دیٹس آل۔۔

 ‏ہممم تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں لیکن مجھے کوئی تسلی نہیں ہوئی ۔۔ سالار نے کافی کا سپ لیتے ہوۓکہا ۔۔ تو ولی خاموش ہو گیا۔ اسے خود بہت برا لگ رہا تھا کے وہ سالار سے جھوٹ بول رہا ہے ۔

 ‏پر وہ ابھی اسے سچ بھی تو نہیں بتا سکتا تھا۔۔جب تک وہ خود ساری سچائی نہ جان لیتاکیسے سالار کو بتا سکتا تھا۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏عمر بھائی پلیز صرف آپ ہی ہیں جو میری بات مانے گے ۔ پلیز لے جائیں نا پری کے گھر ثناء بھی جا رہی ہے۔ 

 ‏عمر کھانا کھاتے ہوۓ بولا چڑیا دیکھو حمزہ سے کہو وہ لے جاۓ گا ۔ مجھے بہت ضروی کام ہے ۔آج بہت اہم میٹنگ ہے ۔ مجھے ہر حال میں وقت پر پہنچنا ہے۔ بہت بڑا پروجیکٹ ہے ۔جسے میں لیڈ کر رہا ہوں میری جان اگر آج یہ پروجیکٹ ہمیں مل گیا تو سمجھو تمہارا بھائی کامیابی کی پہلی سیڑھی چڑھ گیا ۔۔ 

 ‏پھر عمر ہاتھ صاف کرتے اٹھا اور سدرہ کے سر پر پیار کرتے ہوۓ بولا ۔۔

_______*****

 ‏اگر آج میٹنگ کامیاب ہوئی تو میں اپنی چڑیا کو شاپنگ کرواؤں گا ۔

 ‏سدرہ تو خوشی سی اچھلنے لگی اللہ اللہ  بھائی یو آر گریٹ ۔ آئی لو یو۔۔

___________*****

 ‏اووو تو ہمیں بھی کروا دیں شاپنگ بھئی ہم بھی بھائی لگتے ہیں۔۔ حمزہ شرارتی انداز میں بولا

 ‏تو ڈائینگ ٹیبل سے اٹھتی عالیہ طنزیہ بولی نہیں جی ایسی قسمت ہماری کہاں۔۔۔ اس گھر میں ایک ہی تو ہے جس کا حق ہر چیز پر ہے۔

 __________*****

 ‏حمز اور عمر نے ایک دم سے عالیہ کی طرف غصے سے دیکھا تو نسیم بیگم نے دونوں کو آنکھ کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔

 ‏عالیہ جب اپنے کمرے میں چلی گئی تو عمر ماں کو مخاطب کرتے ہوۓ بولا۔۔ امی بھابی سمجھیں گی تو نہیں ۔۔ پھر بھی بھابی کو سمجھا دیں سدرہ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ عمر  عضے میں گاڑی کی چابی اٹھاتا  باہر نکل گیا۔۔ حمزہ بھی سنجیدہ سا کھانا کھانے لگا۔ سدرہ حمزہ کے پاس والی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولی چھوڑو یار حمزہ جانے دو کوئی بات نہیں اتنی سی بات سے کیاموڈ آف کرنا جب پتہ ہے کے وہ ایسے ہی بولتی ہیں۔ چلو میرا بھائی جلدی جلدی موڈ ٹھیک کرو ۔اتنا کہہ کر سدرہ حمزہ کو گدگدی کرنے لگی تو وہ اچھلتے ہوۓ ہسنے لگا ۔

 ‏سدرہ چھوڑو مت گدگدی کرو حمزہ کا ہس ہس کے برا حال ہو رہا تھا۔۔۔

 ‏اچھا ایک شرط پر اگر تم مجھے پری کے گھر لے کر جاؤ گے۔۔

 ‏اچھا ٹھیک کے لے جاؤں گا۔ سدرہ حمزہ کے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ بولی میرا پیارا بھائی۔

 ‏اچھا اب مسکے مت لگاؤ۔ جاؤ تیار ہو جاؤ کالج جاتے ہوۓ اتار جاؤں گا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

مت مارو مجھے مت مارو رحم کرو معاف کر دو مجھے ۔فرینکو کے قدموں میں خون سے لتھ پتھ پڑے آدمی نے درد سے کراہتے ہوۓ کہا۔۔

اچھا معاف کر دوں رحم کروں ۔فینکو اس آدمی کو  زور دار ٹھوکر مارتے ہوۓبولا رحم کون سا رحم ۔۔وہ جو تم نے میری بیوی اور بیٹے پر کیا تھا۔۔اب فرینکو نے اسے جھک کر کالر سے پکڑا اور  آپنے پیچھے کھڑے آدمی کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوے بولا ۔۔اگر  جیک نہ ہوتا تو تم نے تو میرا بیٹا بھی مار دیا تھا۔۔ فرینکو نے اس کا کالر چھوڑا اور اس کے پیٹ میں زور سے لات ماری اور جیک کی طرف دیکھ کر بولا۔۔ 

اسے  زندہ جلاؤ اور اس کی جلی لاش ویڈیو کے ساتھ اس کے بھائی تھامس کو بھیجو ۔

اتنا کہتے ہوۓ وہ غصےمیں  اپنے مینشن کی بیسمینٹ سے باہر نکلا۔۔ اور فون نکال کر کان سے لگاتے ہوۓ بولا۔۔ بولو کیا رپوٹ ہے۔ دوسری طرف سے Alix پرسکون انداز میں بولا ۔ باس مال بغیر کسی مسلئے کے ڈلیور ہو گیا ہے۔۔ اور میں وآپس آرہا ہوں۔(Alix فرینکو کا خاص اور بھروسے کا آدمی جو فرینکو کےلیے بلکل بیٹے کی طرح ہے۔ اور انڈر ورلڈ میں خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔پورے اٹلی میں لوگ اس کے نام سے بھی ڈرتے۔۔ انتہائی بے رحم اور مغرور ۔)۔

اوکے کہہ کر فرینکو نے فون بند کر دیا اور بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ مسکرا کر بولا ۔۔ 

تھامس تمہیں کیا لگا تھا۔ کے فرینکو بھول گیا سب۔۔۔۔ نہیں تھامس ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے ۔ پوری دنیا کا مافیا فرینکو کی مٹھی میں ہے چاہوں تو ایک ہی بار میں جان لے سکتا ہوں لیکن نہیں۔ تم سے بدلہ میرا بیٹا لے گا۔۔ تم صرف میرے بیٹے کے ہاتھوں سے مرو گے۔۔ اور میں وہ منظر آپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

زوہیب خدا کے لیے ہماری جو عزت بچی ہے وہ بچی رہنے دو تمہاری عیاشیوں نے پہلے ہی ہمیں کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔۔اب تم نے یہ کافر لڑکیاں گھر بھی لانی شروع کر دی ہیں۔۔ جوان بہن ہے تمہاری وہ کچھ دنوں تک لندن سے  آ رہی ہےیہاں اٹلی۔۔ کچھ تو شرم کرو ۔ سلمیٰ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولی۔ تو زوہیب جو شراب کے نشےمیں صوفے پر ٹانگیں پھیلاۓ پڑا تھا۔ اٹھا اور ایک دفعہ ماں اور پھر سر جھکاۓ بیٹھے باپ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔ ہاں تو آۓ نا میری پرنسز موسٹ ویلکم میں اپنے پینٹ ہاؤس شفٹ ہو جاؤں گا۔۔ اتنا کہہ کر وہ جانے لگا تو ۔۔وحید غصے سے کھڑا ہوا اور زوہیب کو کالر سے پکڑتے ہوۓ بولا ۔۔ سڑک پر پھینک دوں گا تمہیں میں سمجھے ۔۔ کچھ بھی نہیں دوں گا ایک پیسہ بھی نہیں میرے مال پر کر رہے ہو عیاشی ۔۔ سلمیٰ جلدی سے باپ بیٹے کے درمیان آ کھڑی ہوئی۔۔ پلیز خدا کے لیے اپ ابھی چپ ہو جائیں صبح جب اس کا نشا اترے گا تو بات کریں گے ابھی کوئی فائدہ نہیں اس سے بات کرنے کا۔ سلمیٰ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی زوہیب جا چکا تھا وحید صوفے پر مایوس سا بیٹھ گیا اور بولا کیا سمجھائیں گے اسے سلمیٰ ۔۔ اب یہ ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔۔ سلمیٰ وحید کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی وحید آپ فکر مت کریں ۔۔میرے پاس حل ہے اس کا۔۔ وحید نے سوالیہ نظروں سے سلمیٰ کی طرف دیکھا ۔تو وہ بولی۔۔ دیکھیں۔۔۔ زوہیب آپ کے اور کاروبار کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ سب کچھ آپ کا ہے۔ ہم اسے اسی بات پر بلیک میل کریں گے۔ کے اگر وہ ہماری مرضی کی لڑکی سے شادی کر کے سیٹل نہیں ہو گا تو آپ اسے ایک دھیلا بھی نہیں دیں گے۔۔۔ 

وحید نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولا ۔پاگل ہو تم کون سی شریف لڑکی کرے گی اس لوفر اور اوباش سے شادی ۔۔

اف وحید لڑکی کا مسلہ نہیں ہے ۔۔ کیوں کے لڑکی ہم پاکستان سے پسند کریں گے۔ اور وہاں کی لڑکیاں کافی ایڈجیسٹ کر جاتی ہیں ۔۔ اور وہاں کے لوگ باہر کے چکر میں زیادہ چھان بین بھی نہیں کرتے ۔۔اور پھر یہاں اٹلی کس نے آنا ہے پوچھنے۔۔۔ 

وحید سر دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوۓ بولا ظلم ہو گا سلمیٰ ظلم کسی کی بیٹی پر۔۔۔

کوئی ظلم نہیں ہو گا ۔۔ اور ویسے بھی اکثر لڑکے شادی کے بعد سدھر جاتے ہیں اور ویسے بھی ہم چھوٹی عمر کی لڑکی پسند کریں گے تاکہ اسے جیسے کہیں ویسے ہی کرے۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

زوہیب تم بات سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا۔ورنہ تمہارے پاپا ایک روپیہ نہیں دینے والے تم بس شادی کر لو۔۔ سلمیٰ مِنت کرتے ہوۓ بولی ۔ 

دیکھیں ماما مجھے شادی وادی نہیں کرنی۔اور وہ بھی پاکستانی لڑکی سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ میری لائیف ہے اور میں خود فیصلہ بھی کروں گا کے کب کیا کرنا ہے۔۔آپ پلیز میرے پرسنل معاملات سے دور رہیں۔زوہیب لاپرواہی سے بولا۔۔

اچھا تو ٹھیک ہے ۔جاؤ جا کر کرو فیصلے لیکن ایک بات یاد رکھنا ۔۔سڑک پر ہو گے کچھ دنوں تک کیوں کے تمہارے پاپا سارا کاروبار وائنڈاپ کر کے پاکستان جا رہے ہیں

.what۔

زوہیب جو پہلے ماں کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا اب اچھل کر بیٹھتے ہوۓ بولا۔پاپا ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ وہ بھی مجھ سے مشورہ کئے بغیر۔۔آپ کو پتہ ہے ماما مجھے پاکستان بلکل پسند نہیں میں پاپاکو ہرگز ایسا نہیں کرنے دوں گا ۔۔

 سلمیٰ تنزیہ مسکراتے ہوۓ بولی۔اچھا یہ جو تم پیسہ اُڑاتے ہو وہ ہمارا ہے۔ تمہارا اس کاروبار میں ایک تھوڑا سا بھی حصہ نہیں کبھی گۓ کام پر جا کر پاپا کی ہیلپ کی ۔۔اس لیے یہ ہمارا پرسنل معاملہ ہے کے ہم کیا کریں گے اور کیا نہیں اور جہاں تک تمہارے پاکستان جانے کی بات ہے تو یہ کس نے کہا کے تم ہمارے ساتھ جاؤ گے۔ تم نے یہاں ہماری عزت کا جنازہ نکال دیا ہے اب جو خاندان میں بچی ہے وہ بھی کیا تمہیں ساتھ لے جا کر ختم کرالیں۔۔ اور ویسے بھی ۔ 

 ‏وہاں بھی تمہارا کچھ نہیں ہے ۔وہاں والا گھر بھی تمہارے پاپا کا ہے ۔اب تم سوچ لو کے تمہیں کیا کرنا ہے۔ خاص کر کے اپنے رہنے کا انتظام کرو اور پھر نوکری کا ۔ کیوں کے اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو تم اپنے راستے اور ہم اپنے ۔۔

 ‏پلیز ماما پلیز ایسا مت کریں پاپا کو روکیں ۔ زوہیب سلمیٰ کو گلے لگاتے ہوۓ بولا۔ 

 ‏وہ صرف اسی صورت ہو گا جب تم ہماری بات چپ چاپ مانو گے۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏ مسٹر فرینکو Don't worry میں سب سنبھال لوں گا ۔ ولی تک پہنچنے سے پہلے مجھ سے ٹکرانا پڑے گا انہیں۔آفٹر آل ہی اِز مائی بردر۔۔  Alix کا بھائی ہے وہ آپ بے فکر ہو جائیں میں دو دن میں سب نمٹا کر وآپس آجاؤں گا۔ اتنا کہہ کر Alix نے فون بند کیا اور 

 ‏کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور سیدھا ہسپتال کے مین دروازے کی طرف چل پڑا۔ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی  Alix کو دیکھ کر مسکراتے ہوے بولی میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ۔ Alix نے ڈاکٹر حناء کا کیبن پوچھا ۔اور پھر اس کی بتائی ہوئی سمت چل پڑا۔ابھی وہ کارنر مڑا ہی تھا کے کوئی زور سے آکر اس کے ساتھ ٹکرایا۔ 

 ‏اُلو کا پٹھا اندھا کہتی وہ اپنی کمر ملتی زمین سے اٹھی۔ جو ابھی ابھی اس سے ٹکرا کر ڈھم سے گری تھی۔ Alix جس کے پلے اس کاایک لفظ بھی نہیں پڑا تھا ۔کیوں کے اسے انگلش اور اٹیلین زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ اپنی بھویں جوڑتے ہوۓ بولا ۔ کیا کہا۔۔

 ‏تو اس لڑکی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ تو سامنے کھڑے اونچے لمبے  اور ٹیٹوز سے بھری بازؤں والے آدمی کو دیکھ  گبھرا کر دو قدم پیچھے ہوئی۔ اور سر سے پاؤں تک Alix کا جائزہ لیتے ہوۓ بولی ۔ کچھ نہیں سوری۔

 ‏Alix اپنا سر ترچھا کرتے ہوۓ آنکھیں سکیڑ کربولا مجھے نہیں لگتا  کے کچھ دیر پہلے اتنے لمبے جملے کا مطلب سوری تھا۔۔

 ‏وہ خوف زدہ سی سوری بولتے ہوۓ۔ وہاں سے بھاگ نکلی۔۔ Alix اس کی اس حرکت پر مسکرانے لگا اور سر نفی میں ہلاتا ہوا ڈاکٹر حناء کے کیبن کے اندر داخل ہوا۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

امی آپ نے تو عمر گزار دی ہے آپ کو تو سمجھ ہونی چاہیے ۔ کے سدرہ اب بچی نہیں رہی ۔رزلٹ بھی آگیا ہے اس کااب آگے پڑھا کر کیا کرنا ہےاور ویسے بھی آپ کو تو کوشش کرنی چاہیے کے اپنی زندگی میں ہی سدرہ کا فرض ادا کر دیں ۔اپنے گھر کی ہو جاۓ گی تو خود ہی عقل آ جاۓ گی۔ آج نہیں تو کل کرنی ہی ہے شادی۔۔ کوئی ساری عمر میکے تھوڑی بٹھانا ہے۔ عالیہ جو کافی دنوں سے بات کرنے کے چکر میں تھی آج اپنی ساس نسیم سے کر ہی لی۔ نسیم کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔

دیکھو بیٹا کوئی اچھا رشتہ بھی تو ہو۔ 

عالیہ جلدی سے ساس کے پاس ہوتے ہوۓ بولی امی رشتہ تو ہے۔ اگر آپ کہیں تو بات چلاؤں۔۔ 

نسیم خیرت سے عالیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی کون سا رشتہ۔

امی وہ میری مومانی کے بھائی ہیں۔ اٹلی میں ہوتے ہیں۔ وحید انکل ان کا بیٹا ہے زوہیب ماشاءاللہ کیا خوبصورت اور فرمابردار  لڑکا ہے۔ وہیں پلا بڑھا ہے پر کہتا ہے شادی وہ پاکستانی اور شریف گھرانے کی لڑکی سے ہی کرے گااور فیملی سیٹل ہے وہاں ۔ دو بہن بھائی ہیں ۔ اپنا کاروبار ہے۔ وہاں ہوٹل ہے ان کا بہت بڑا تو نہیں پر اچھا حاصہ ہے۔ عالیہ بڑھا چڑھا کر بتاتے ہوۓ بولی۔۔

نسیم کو سوچ میں پڑے دیکھ کر پھر سے بولی امی پریشان مت ہوں ۔ سدرہ تو قسمت والی ہو گی جو باہر کا رشتہ ہو گیا۔وہ بھی اتنی اچھی فیملی میں لڑکے کی پوری گرنٹی ہے ۔ میری مومانی نے بڑی تسلی دی ہے لڑکے اور اس کی فیملی کی۔ آپ بس حامی بھریں باقی آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ 

نسیم افسردہ سی ہو کر بولی بیٹا اتنی دور کیسے کر دوں شادی سدرہ کی نہیں نہیں ہم یہاں ہی پاکستان میں ہی دیکھ لیں گے کوئی اچھا رشتہ نسیم سر ہلاتے ہوۓ بولی تو عالیہ غصہ دباتے ہوۓ بولی امی ویسے آپ ہیں بڑی ناشکری اللہ نے اتنا اچھا سبب بنایا ہے۔ اور آپ ۔۔۔خیر سوچ لیں وہ فیملی کچھ دنوں تک پاکستان آ رہی ہے۔ انہیں رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ آتے ہی مل جاۓ گا ۔ لوگ تو شکر کرتے ہیں کے باہر کا رشتہ ملے اور ان کی بیٹیوں کا مستقبل بنے۔ اور ایک آپ ہیں جو پیار کے نام پر اپنی ہی بیٹی  کے مستقبل کا نہیں سوچ رہی۔ بات چلاۓ بغیر ہی نہ کہہ رہی ہیں۔ یاد رکھنا آپ کو روز روز ایسا رشتہ نہیں ملے گا۔ 

ویسے میں نے کی تھی بات بلال سے وہ تو رشتہ دیکھنے کے لیے راضی تھے ۔ اب کی بار عالیہ نے جھوٹ بولتے ہوۓ کہا۔پر آپ 

نسیم عالیہ کی بات کاٹتے ہوۓ بولی ۔۔بلال نے کہا رشتہ دیکھنے کا۔ 

عالیہ نظریں چرتے ہوۓ بولی ۔جی۔

تو ٹھیک ہے پھر دیکھ لیتے ہیں ۔۔اور میں عمر اور حمزہ سے بھی بات کر لیتی ہوں۔

عالیہ ایک دم سے بولی نہیں امی ابھی عمر اور حمزہ کو رہنے دیں آپ اور بلال دیکھ لیں جب بات پسند آئی تو کر لینا ان سے بھی بات۔

نسیم نے بس سر ہلا دیا۔۔

بلال گھر آیا تو عالیہ نے نسیم کو بات کرنے کا موقعہ ہی نہ دیا۔۔رات کو کمرے میں گئی اور ساری بات بلال سے یہ کہہ کر کی کے امی چاہتی ہیں کے رشتہ دیکھ لیں۔ بلال نے ماں کی رضامندی کا سن کر حامی بھر لی۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 بات کیا ہے حناء کچھ تو بتاؤ حیدر حناء کو گلے لگاتے ہوۓ بولا۔ 

 ‏حناء آنسو پونچھتے ہوے بولی۔ حیدر آج ہاسپٹل ایک آدمی آیا تھا۔ میں نے سمجھا کوئی مریض ہے لیکن وہ وہ ۔۔حناء آنکھیں بھینچتے ہوے بولی۔وہ  خود کو ولی کا بھائی بتا رہا تھا۔ 

 ‏حیدرحناء کو پریشانی سے دیکھتے ہوۓ بولا ۔پھر

 ‏اُس نے کہا کے وہ اٹلی سے آیا ہے۔ حیدر ۔۔۔۔ولی کی فیملی کرسٹین ہے۔ حناء نے روتے ہوۓ کہا تو حیدر نے اس کے سر پر پیار کیا اور بولا کوئی مسلہ نہیں ولی ایک عقل مند اور بالغ انسان ہے ۔اور وہ مزہب کو لے کر سب سمجھتا ہے تم پریشان مت ہو۔ تم مجھے یہ بتاؤ کے اس نے کیا کہا۔ 

 ‏حیدر اس نے کہا کے جتنا جلدی ہو سکے ہمیں لندن سے چلے جانا چاہیے اور ولی کو اُس کے فادر کے پاس بھیج دینا چاہیے کیوں کے اس کی جان کو خطرہ ہے جو لوگ اسے پیدہ ہونے کے وقت مارنا چاہتے تھے ۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کے ولی مرا نہیں تھا۔ وہ ڈھونڈ رہے ہیں ولی کو اور ہو سکتا ہے جلد ہی ڈھونڈ بھی لیں ۔اگر انہیں پتہ چل گیا تو ہم سب کی زندگی کو خطرہ ہو گا۔اور اس نے بتایا کے ولی اٹلی کے بہت بڑے بزنس مین اور انڈر ورلڈ لیڈر کا بیٹا ہے ۔ولی کی شناخت ظاہر ہونے پر اسے  بہت زیادہ سکیورٹی کی ضرورت ہو گی۔اور اس کی شکل و صورت کی وجہ سے وہ جلد ہی پہچانا جاۓ گا ۔ حناء لمبی سانس لیتے ہوۓ بولی۔ اور حیدر آپ جانتے ہیں اس نے مجھے ولی کے فادر کی تصویر دکھائی جسے دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کے وہ ہی ولی کا باپ ہے۔اور ہاں حیدر وہ جاتے ہوۓ اس آدمی کا فون نمبر دے کر گیا ہے کے ہم اس سے بات کر لیں۔۔

 ‏ہممم حیدر ایک ہاتھ سے اپنا ماتھا دباتے ہوۓ بولا ۔حناء ہم بہت بڑی سچویشن مین پھس گۓ ہیں ۔اگر تو اس کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہے تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پر ولی کو بھی ہم ایسے آدمی کے حوالے نہیں کر سکتے۔۔

 ‏کہاں ہے نمبر دو مجھے میں خود بات کرتا ہوں اس سے۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏ Alix شاپنگ مال کی لفٹ میں داخل ہوا ابھی لفٹ کا دروازہ بند ہی ہونے لگا تھا کے وہ ہی لڑکی بھاگ کر اند آئی اور اپنے بیگ پیک کو دونوں کاندھوں پر سیٹ کیا اور پھر جیسے ہی Alix پر نظر پڑی تو اس کا رنگ ہی اُڑ گیا۔ اور گھبرائی سی لفٹ کے ایک کونے میں کھڑی ہو گئ Alix کو وہ پہلی نظر میں ہی بڑی بہائی تھی۔ اب دوبارہ دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اور اسے سر سے پیر تک دیکھتے ہوۓ اس کے قریب جا کر بولا کیا نام ہے تمہارا وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی دور رہ کر بات کرو۔ 

 ‏اوووو اچھا ۔۔تو اگر نہ دور رہوں تو Alixاس کے اور قریب ہوتے ہوۓ بولا۔ 

 ‏تو تو میں پولیس کو کال کروں گی اور ہیرسمینٹ کے کیس میں اندر کروا دوں گی۔۔

 ‏اب کی بار Alixنے قہقہ لگایا اور ایک سیکنڈ میں اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اس کی کمر کے پیچھے گما کر اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ لیے۔ اور اسے اپنے ساتھ زور سے لگاتے ہوۓاس کے کان کے پاس جا کربولا ۔ہیرسمینٹ جانتی ہو کیا ہوتی ہے۔ ہممم یا بتاؤں۔ وہ اس سے اپنا آپ چھڑوانے کے لیے  زور زور سے پھڑپھڑانے لگی اور روتے ہوۓ بولی چھوڑو۔

 ‏ششش Alix نے اپنی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوۓ اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور پھر اس کے ایک کندھے پر لٹکے پرس جس کی زپ کھولی تھی۔ اس میں ہاتھ ڈال کر ایک آئی ڈی کارڈ نکالا جس پر اینا لکھا تھا۔ Alix اس پر لکھے نام کو پڑھتے ہوۓ بولا ہمم تو مس اینا تم سیلزگرل ہو ۔ ویسے نام مجھے پسند نہیں آیا تمہارا اینا۔۔خیر Alixنے کارڈ واپس پرس میں رکھا اور اب کی بار فون نکلا اور اس میں اپنا نمبر سیف کیا اور  اپنے نمبر پرمس کال دی۔ اسے بھی واپس رکھا اور پھر مسکراتے ہوۓ بولا ۔ ایڈریس میں نے کارڈ کی بیک سے دیکھ لیا ہے۔ آج رات ٹھیک آٹھ بجے میں تمہیں پک کروں گا۔ تیار رہنا اور ہاں کوئی چلاکی نہیں ورنہ تم مجھے جانتی نہیں ہو۔ اتنا کہہ کر اس سے چھوڑا اور دو قدم پیچھے ہوتے ہوۓاپنی انگلی سےاس کے سر سے پاؤں تک اشارہ کرتے  ہوۓ بولا ۔ ڈریسنگ زرا اچھی سی کرنا اس طرح کا ڈریس بلکل  نہیں ۔ 

 ‏لفٹ کا دروازہ کھولا اور وہ مسکراتا ہو باہر نکل گیا اور وہ زمیں پر بے ساختہ گر پڑی اور رونے لگی۔۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

وآووووو عمر بھائی کیا بات ہے ۔مبارک ہو سدرہ عمر کے گلے لگتے ہوۓ بولی۔اور بھائی اب تو ہماری ٹریٹ پکی۔۔ 

ہاں ہاں ٹریٹ تو بنتی ہے۔ عمر نے سدرہ کے ماتھے پر پیار کرتے ہوۓ کہا۔ اور پھر گم سم بیٹھی ماں کی طرف دیکھا اور بولا امی کیا ہوا آپ کو خوشی نہیں ہوئی۔

نسیم عمر کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے بہت خوش ہوں میں بس یہ سوچ کر دل بیٹھ رہا ہے کے اتنی دور پردیس میں کیسے رہو گے اکیلے۔

اللہ امی بچہ ہے کیا یہ جوان آدمی ہے۔ اسے کیا کہے پردیس اور دوسرا اس کافیوچر بن جاۓ گا۔ عالیہ منہ بگاڑتے ہوۓ بولی😏۔۔۔۔۔

 تو عمر غصہ ضبط کرتے ہوۓ اٹھا اور ماں کی گود میں سر رکھ کر صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوۓ بولا امی آپ پریشان مت ہوں ۔نیٹ ہے نا میں روز صبح شام ویڈیو کل کروں گا ۔ یقین مانے امی میں بھی آپ سے دورنہیں رہ سکتا لیکن یہ بہت بڑا موقع ہےمیرے لیے۔۔۔ لندن کی بہترین کمپنی ہےیہ ۔۔اس کمپنی میں جاب کے لیے لوگ کتنے پاپڑ بیلتے ہیں جو آپ کے بیٹے کو  بیٹھے بٹھاۓملی ہے۔ آپ دعا کریں کے میں کامیاب ہو جاؤں۔۔ بس ایک دفع مجھے سیٹل ہو جانے دیں پھر میں آپ کو سب سے پہلے بلاؤں گا۔۔۔ 

 ‏نسیم آبدیدہ سی بولی۔۔بیٹا اللہ کامیاب کرۓتمہیں۔۔

 ‏اچھا اچھا اب یہ ماں بیٹا اپنا ایموشنل سین بند کریں ۔کیوں رولانا ہے سب کو حمزہ آنسو صاف کرنے کی اداکاری کرتے ہوۓ بولا۔

 ‏بھائی بس صبح آپ نے شاپنگ بھی کروانی ہے اور ٹریٹ بھی دینی ہے۔ ہاۓ اللہ کتنا مزہ آۓ گا صبح سدرہ جھومتے ہوۓ بولی۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏Alixنے کار ایک چھوٹے سے گھر کے باہر پارک کی اور کار سے باہر نکلتے ہوۓ فون کان کے ساتھ لگایا۔ دوسری طرف سے ہیلو کی آواز آئی تو بولا۔ میں تمہارے گھر کے باہر ہوں آ جاؤ۔ اتنا کہہ کر اس نے جواب کا انتظار کئے بغیر فون کاٹ دیا۔ کچھ دیر بعد گھر کا دروازہ کھولا اور ایک لڑکی باہر آئی۔ اور سامنے کار سے ٹیک لگاۓ کھڑے Alix کو دیکھ کر اس کے پاس آتے ہوۓ اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کواس کے سامنے ہلاتے ہوۓ بولی ابھی کال تم نے کی تھی ۔ 

 ‏Alix سیدھا ہو کر کھڑا ہوا اور اس لڑکی کے ہاتھ میں اینا کے فون کی طرف دیکھ کر بولا ہمم میں نے کی تھی۔ اینا کہاں ہے۔

 ‏وہ لڑکی آنکھیں سکیڑتے ہوۓ بولی جی بولیں میں ہی اینا ہوں۔ 

 ‏Alix اپنی بھویں اچکاتے ہوۓ بولا۔ دیکھو اینا کو باہر بھیجو میرے پاس فضول باتوں کا ٹائم نہیں ۔۔

 ‏دیکھو مسٹر میرے پاس بھی فالتو ٹائم نہیں ہے۔ کہا نا کے میں اینا ہوں۔ 

 ‏Alix غصے میں اس کے ہاتھ سے فون لیتے ہوۓ بولا یہ فون کس کا ہے 

 ‏وہ لڑکی فون  لینے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی دیکھو مسٹر یہ میرا فون ہےاور میں ہی اینا ہوں۔ 

 ‏او کے تم اینا ہو  تو مجھے یہ بتاؤ کے آج یہ فون اور جس شاپ پر اینا کام کرتی ہے اس کا آئ ڈی بارہ بجے کس کے پاس تھا۔Alix فون پیچھے کرتے ہوے بولا۔

 ‏او مائی گارڈ تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے۔ وہ لڑکی جھنجھلا کر بولی۔

 ‏دیکھو میں جو پوچھ رہا ہوں۔اس کا جواب دو۔ 

 ‏وہ لڑکی تھوڑا پیچھے ہوئی اور بولی۔ دو منٹ اور پھر وہ گھر کے اند گئی اور کچھ منٹ بعد باہر آئی اور اپنے ہاتھ میں پکڑے دو کارڈ Alix کو پکڑاتے ہوۓ بولی غور سے دیکھ لو ایک میرا اورجنل آئ ڈی ہے اور ایک شاپ والا میں ہی اینا ہوں ۔اور باقی بات یہ کے آج میرا پرس شاپنگ مال کے واش روم میں رہ گیا تھا جو میں اپنے بواۓ فرینڈ کے ساتھ جلدی میں نکلتے ہوۓ بھول گئی تھی۔ کسی کو وہ ملا اور آئی ڈی سے پتہ دیکھ کر میرے گھر کے باہر رکھ گیا۔۔اب مجھے تمہاری سمجھ نہیں آ رہی ۔تم کہاں سے ٹپک پڑے ہو اور کس اینا کو ڈھونڈ رہے ہو۔۔۔

 ‏Alix نے غصے سے دونوں کارڈ بار بار پلٹ کر دیکھے ۔آئی ڈی پر سامنے کھڑی لڑکی کی تصویر تھی۔ مگر دوسرے شاپ والے پر کوئی تصویر نہیں تھی مگر نام وغیرہ سب ایک ہی تھا۔۔۔

 ‏فون اور کارڈ واپس دیتے ہوۓ وہ غصےمیں سرخ ہوتا 😠کار میں بیٹھا اور اپنے دونوں ہاتھ زور زور سے سٹیرنگ پر مارے اور سر اس پر ٹکاتے ہوۓ ۔غصے میں بولا کون ہو تم کہاں ہو تم۔ لیکن جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو اپنے لیے دعا کرو کے دوبارہ Alix سے سامنا نہ ہو کیوں کے جس دن تم میرے سامنے آئی وہ حال کروں گا کے تم سوچ بھی نہیں سکتی😠

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ کی نظر مانگنے والے بزرگ پر پڑی۔ تو اسے ترس آیا اور ہاتھ میں پکڑا سینڈوچ اور کوک لیے اس کے پاس گئی اور بزرگ کو تھما دیا۔۔ ابھی وہ واپس مڑنے ہی لگی تھی کے اس بھیکاری بزرگ  نے سدرہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سدرہ خیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ 

____________*****

بزرگ بھیکاری نے سدرہ کا ہاتھ با غور دیکھا اور بولے۔۔ گردش ۔۔۔بہت گردش لڑکی تیرے نصیب میں بہت گردش ہے ۔۔۔۔

سدرہ ہسی دباتے ہوۓ بزرگ کے پاس زمین پر ہی بیٹھ گئی 

_____،،____*****

اور بولی گڈ نیوز بابا جی۔۔۔ اس کا تو مطلب ہوا دنیا گھومنے والی ہوں میں۔۔۔ اتنا کہہ کر سدرہ نے اپنے ہی کندھے کو تھپکا ۔۔۔اور دوبارہ بولی بابا جی کچھ اور بھی بتائیں بزرگ نے سر اٹھا کر سدرہ کا چہرہ دیکھا اور آنکھیں زور سے بند کرتے ہوۓ سر نفی میں ہلا کر بولے۔۔ 

حاسد کا حسد کھا جاۓ گا سب کچھ تباہ کر دے گاسب کچھ ۔پناہ مانگ بچی حاسد کے حسد سے اللہ کی پناہ مانگ ۔۔۔۔بزرگ نے سدرہ کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھ کھڑے ہوۓ۔ تو سدرہ بھی جلدی سے کھڑی ہوتے ہوۓ بولی بابا جی یار اب ایسے تو نہیں ۔ پہلے خوش کر دیا دنیا گھما کر  اور پھر حاسد کا بتا دیا۔آپ میرا ہاتھ دیکھ کر کچھ اور بھی بتائیں نا ۔۔

بزرگ نے اپنا تھیلا کندھے پر رکھا اور بولے گناہ ہے ہاتھ دیکھنا ۔وہ تو غلطی سے دیکھ لیا۔۔ ہاں پر ایک نصیحت کروں گا بیٹی۔۔ کبھی بھی دکھوں اور غموں سے تنگ آ کر زندگی مختصر ہونے کی دعا مت کرنا موت کی دعا کرنا گناہ ہے اور اللہ اپنے پیارے بندوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے ۔اور پھر نکال بھی لیتا ہے ۔۔۔بس صبر اور پھر اس کا اجر۔۔ یہ ہی حکم ہے۔۔۔

_________*****

سدرہ  سدرہ اف یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو۔۔ پریشان کر دیا تم نے مجھے ۔ حمزہ سدرہ کے سر پر تھپڑ مارتے ہوۓ بولا۔۔

سدرہ قہقہ لگا کر ہاتھ لہرتے ہوۓ  بولی بابا جی کی بات سے ایک گانا یاد آگیا حمزہ۔ (زندگی تو ہی مختصر ہوجااااا شبِ غم مختصر نہیں ں ں ہوووتی۔۔۔)

_________*****

اف پاگل لڑکی بیچ راستے میں کیا کر رہی ہو۔ حمزہ سدرہ کو ہاتھ سے کھینچتے ہوۓ بولا۔۔

حمزہ روکو تو سدرہ نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا وہ بزرگ جا چکے تھے ۔۔ او ہو وہ بابا جی کہاں گۓ۔ سدرہ مایوسی سے بولی ۔۔

کون بابا جی حمزہ آگے پیچھے دیکھتے ہوے بولا۔۔

ابھی تو یہاں تھے میں نے سینڈوچ اور کوک دی تھی۔ ابھی تو بہت کچھ پوچھنا تھا۔ 

حمزہ اپنا سر پکڑتے ہوۓ بولا اففف سدرہ اللہ کا واسطہ کبھی تو سیریس ہو جایا کرو۔ چلو عمر بھائی گاڑی میں ویٹ کر رہے ہیں۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

زوہیب کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر سوئی حجاب کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اس کے پاس آیا اور بیٹھتے ہوۓ اس کے گال پر پیار کیا اور بولا wake up princess 

حجاب نے مسکراتے ہوۓ آنکھیں کھولی اور اٹھ کر بیٹھی اور زوہیب کے گلے لگ کر بولی کیسے ہو زوہیب ۔

زبردست تم سناؤ ایسے ایک دم بغیر کسی کو بتاۓ ۔ٹپک پڑی کم از کم مجھے تو کال کرتی میں خود پک کرنے آتا۔ آفٹر آل میری sis اتنے عرصے بعد آئی ہے۔۔

ہممم بڑی بات ہے فون تو کرنے کا ٹائم نہیں ہوتا میرے bro کے پاس پک کرتے۔😏 حجاب منہ بناتے ہوۓ بولی۔

اووو نو نو میری جان تم تو میری پیاری سی پرنسز ہو ۔اور کوئی نارمل sisتھوڑی ہو twin ہو میری اور اسی لیے مجھے بہت بہت پیاری ہو  بس تھوڑی زیادہ کیوٹ ہو مجھ سے زوہیب نے حجاب کے دونوں گال کھینچتے ہوۓ کہا۔چلو فریش ہو کر نیچے آؤ ناشتہ ریڈی ہے۔ اتنا کہہ کر زوہیب چلا گیا۔ 

اور حجاب نے بیڈ سے ٹیک لگا کر دروازے کی طرف دیکھتے ہوۓ آہ بھری اور سرگوشی میں بولی کاش میں تمہاری twinنہ ہوتی تو شاید ماما مجھے اپنے پاس رکھتی حجاب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے کھولی تو باپ کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر جلدی سے آنسو صاف کرنے لگی۔

وحید حجاب کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا ۔ کاش حجاب میں تمہیں بتا سکوں کے تم مجھے کتنی عزیز ہو۔ میں مانتا ہوں کے تمہاری ماما اور میں برابرا کے قصور وار ہیں ۔ میں اسے روک سکتا تھا اس وقت لیکن یقین مانو تمہاری ماما تم دونوں کو ایک ساتھ نہیں سنبھال پا رہی تھی ۔ تم بہت زیادہ بیمار رہنے لگی تھی اس لیے میں نے تمہاری انٹی کو تمہیں لے جانے دیا۔۔وحید افسردہ سا حجاب کو دیکھتے ہوے بولا۔۔ 

کوئی بات نہیں پاپا میں تو بس ماما کے مجھے اگنور کرنے کی وجہ سے اداس ہوں دیکھیں نا میں نے بتایا تھا آنے کاٹائم کے میں کس وقت آ رہی ہوں پھر بھی  ۔۔ خیر چھوڑیں پاپا آپ چلیں میں فریش ہو کر آتی ہوں۔ 

اتنا کہہ کر وہ واش روم میں آئی اور شرٹ کے بازو فولڈ کئے تو نظر دونوں کلائیوں پر پڑے انگلیوں کے نشانوں پر پڑی اور وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئی۔ اور لمبی سانس حارج کرتے ہوۓ بولی  شکر ہے۔ بچ گئی ۔ پھر سوچنے کے انداز میں بولی۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہو گا جب وہ اینا سے ملا ہو گا۔ حجاب نے ہستے ہوۓ منہ پر ہاتھ رکھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی نے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹاتے ہوۓ سالار کی طرف دیکھا جو خوشی میں سارے دانت نکالتا اس کے آفس میں داخل ہوا تھا۔۔

خیریت آج تو جناب بڑے خوش لگ رہے ہیں۔ ولی اپنی کرسی سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولا۔

بات ہی کچھ ایسی ہے تم بھی سنو گے تو خوش ہو جاؤ گےسالار صوفے پربیٹھتے ہوۓ بولا۔تو ولی نے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکائی۔ 

سالار جس کے چہرے سے مسکراھٹ ایک لمہے کے لیے بھی نہیں جا رہی تھی بولا۔۔

دراصل پاکستان سے دادا جی کا فون آیا تھا۔ وہ بتا رہے تھے کے ایمان کی ساس زیادہ بیمار ہیں شاید کوئی کینسر وغیرہ کا مسلہ ہے۔ 

ولی سالار کی بات سن کر ایک جھٹکے سے سیدھا ہوتے ہوۓ خیرت سے بولا تم اس لیے اتنے خوش ہوں۔ 

اففف ولی پہلے بات تو پوری سنو درمیان مین ہی ٹانگ اڑا لی ۔ 

اچھا بولو۔۔

ایمان کی ساس کی بیماری کی وجہ سے وہ لوگ جلد ایمان کی رخصتی مانگ رہے ہیں۔

اوووو تو یہ بات ہے۔ جناب کو اپنی خوشی ہے۔ ولی اٹھتے ہوۓ بولا اور سالار کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اچھا تو کیا پلان ہے ۔

بس پاکستان کی تیاری کرو دادا جی نے کہا ہے جلدی سے پہلے پہنچو۔۔

اوکے ولی نے سر ہلاتے ہوۓ بس اتنا ہی کہا تو سالار نے ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سنجیدگی سے بولا کیا بات ہے ولی تم کچھ بدلے بدلے کیوں لگتے ہو۔ کوئی بات ہے تو بتاؤ یار اور انٹی بھی بتا رہی تھی کے تم دو دن سے گھر نہیں گئے۔

نہیں یار کچھ بھی نہیں بس کام زیادہ تھا۔  تھوڑا تھک گیا ہوں۔نیو امپلائیرز آۓ ہیں آج ہی ان کے ساتھ میٹنگ تھی۔ اور پھر مسکراتے ہوۓ بولا ۔۔۔۔اب اُترے گی ساری تھکاوٹ تمہاری شادی کی خوشی میں بس تم خیرمناؤ ۔

سالار تھوڑا پیچھے ہوتے ہوۓ بولا میں کیوں خیر مناؤں۔

ہاہاہا دولہا جی آپ کی خوب دھرگت بنے والی ہے اپنی سالیوں کے ہاتھوں اور خاص کر وہ لڑکی نہیں وہ پری کی دوست سدرہ وہ تو بہت ہی ۔۔۔ اتنا کہہ کر ولی نے اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا اور مسکراتے ہوۓ اپنے بالوں میں ہاتھ مارا۔

اووو ..کیاہے وہ ...ہممم سالار اپنی دونوں بھویں اٹھاتے ہوۓ بولا ۔۔۔ولی کیا بات ہے۔ سچی سچی بتاؤ کیا چل رہا ہے ۔

ولی نے سر نفی میں ہلایا اور بولا کچھ نہیں ۔

ولی تم جس طرح اس لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے میرے نکاح پر  سمجھ تو میں اسی وقت گیا تھا پر۔۔۔

 ولی اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا ۔اووو ہیلو سالار ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہے ہم میں اتنا بولتی ہے وہ لڑکی توبہ اور اوپر سے جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہے۔ 

_______***

 ‏ولی پری بھی ایسی ہی ہے پر یقین مانو میرے سامنے اس کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ خیر چلو دیکھتے ہیں ۔سالار اپنی مسکراہٹ دبا تے ہوۓ بولا۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏امی مجھے نہیں پتہ میں بتا رہی ہوں میں شادی کے سارے دن پری کے گھر ہی رہوں گی۔ 

_________*****

 ‏سدرہ میں نے  کہہ دیا نا نہیں تو نہیں ۔ تم نہیں رہ سکتی۔ دن کو جایا کرنا اور رات سے پہلے حمزہ لے آیا کرے گا رات شات رہنے کا کوئی چکر نہیں۔ 

 ‏امی یار ان نے شادی حویلی جا کر کرنی ہے اور حویلی جانے میں ہی چار گھنٹے لگتے ہیں اور تین دن میں کیسے جاؤں گی۔۔ 

 ‏نسیم سبزی کاٹتے ہوے بولی اچھا بلال کو آنے دو اس سے پوچھ لینا اگر اس نے اجازت دی ۔تو۔۔۔  ورنہ نہیں۔

 ‏بلال اندر آتے ہوۓ بولا  السلام علیکم اور پہلے ماں اور پھر ان کے پاس ہی بیٹھی سدرہ کے ماتھے پر پیار کرتے ہوۓ بولا ۔ جی کیا پوچھنا ہے۔ 

 ‏سدرہ ابھی کچھ بولنے ہی لگی کے نسیم بول پڑی۔ جاؤ بھائی کو پانی لا کر دو وہ تھکا آیا ہے۔۔ 

 ‏نہیں امی مجھے پیاس نہیں ہے آپ بولنے دیں میری چڑیا کو۔۔ ہاں بولو کیا بات ہے۔بلال سدرہ کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا۔۔۔ 

 ‏بھائی پری کی شادی ہو رہی ہے۔ تو میں امی سے کہہ رہی تھی کے شادی کے تینوں دن مجھے وہی رہنا ہے۔ 

 ‏ہممم تو رہ لو کیا مسلہ ہے۔ بلال ایک دفعہ ماں اور دوسری دفعہ سدرہ کی طرف دیکھتے ہوے بولا۔۔ 

 ‏سدرہ خوشی سے اچھلنے لگی ۔آئی لو یو بھائی یو آر دی بیسٹ۔ 

 ‏نسیم ہاتھ سے چھری اور سبزی ایک طرف رکھتے ہوۓ بولی ۔۔۔لیکن بلال ۔۔۔

 ‏امی آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں ۔شگفتہ انٹی اور احمد انکل کو ہم کتنے عرصے سے جانتے ہیں۔خاندانی اور عزت دار  لوگ ہیں ۔

 ‏آپ تسلی رکھیں میں خود چھوڑ کر آؤں گا۔ 

 ‏اتنا کہہ کر بلال سدرہ سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا۔ اچھا تو کب ہے شادی۔۔

  بھائی کل ڈیٹ فکس کرنی نے۔ باہر والے سب آج آگئے ہیں۔ اور ہاں کل بھی مجھے جانا ہے۔سدرہ ہونٹ لٹکاتے ہے بولی تو بلال ہس پڑا 

  ‏ہاں ہاں چلی جانا حمزہ چھوڑ آۓ گا۔۔۔

  ‏سدرہ خوشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی تو  نسیم بلال سے مخاطب ہوئی۔ بیٹا عالیہ میکے سے کب آ رہی ہے۔

  ‏ امی عالیہ کا فون آیا تھا۔ وہ بتا رہی تھی کے جس لڑکے کی سدرہ سے شادی کی بات چلائی ہے اس لڑکے کی ماں آرہی ہے ۔کل دن کی فلائیٹ سے تو وہ اس سے مل کر پرسوں اسے ساتھ لاۓ گی۔ 

  ‏ہممم سہی ۔نسیم افسردہ سی بولی بلال عالیہ کو کہنا کے ابھی سدرہ کو کچھ بھی نہ بتاۓ لڑکے کی ماں پہلے پسند کر لے سدرہ کو اور پھر سدرہ پری کی شادی سے واپس آۓ گی تو میں خود آرام سے کر لوں گی بات  تمہیں تو پتہ ہے سدرہ کو سمجھانا کتنا مشکل ہے۔۔ 

  ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

  ‏اف بابا میں  شگفتہ پھپھو کی طرف کیوں نہیں جا سکتا کل سے آپ لوگوں نے مجھے باہر نہیں جانے دیا مجھے پری سے ملنا تھا۔ سالار ناراضگی سے بولا۔

  ‏ بیٹا پہلی بات یہ کے پری سے تو اب تم شادی سے پہلے نہیں مل سکتے۔ اور دوسرا آج ہم تمہاری ڈیٹ فکس کرنے جا رہے ہیں تم ساتھ نہیں جا سکتے۔ حیدر مسکراتے ہوۓ بولا ۔

  ‏یہ کیا بات ہوئی۔ نکاح ہوا ہے میرا پری سے بیوی ہے وہ میری مل سکتا ہوں میں اس سے ۔

  ‏سالار اب کی بار تھوڑا ہائیپر ہوتے ہوۓ بولا تو آمنہ آگے بڑھ کر سالار کو گلے لگاتے ہوۓ بولی کیوں پریشان ہوتے ہو ہممم یہ سب تمہیں تنگ کر رہے ہیں ۔ ڈیٹ فکس ہونے کے بعد پری لوگ بھی ہمارے ساتھ ہی حویلی جا رہے ہیں ۔ اپنی کار میں لے کر جانا اسے اور جی بھر کر باتیں بھی کر لینا۔ 

  ‏واقع ہی امی سالار خوشی سے پاگل ہوتے ہوے بولا۔

  ‏ہممم اب ہمیں مجنوں جانے دو گے۔تب نا۔ ولی چھیڑتے ہوۓ بولا۔۔

  ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

  ‏سدرہ آج تو پوری گلابو لگ رہی ہو۔ ثناء سدرہ کے گال کھینچتے ہوے بولی۔ہاں بے بی پنک کلر بہت سوٹ کرتا ہے تمہیں سدرہ شگفتہ مسکراتے ہوۓ بولی۔۔ 

  ‏تھینکیو آنٹی۔۔۔

  ‏اچھا تم دونوں مہمانوں کا خیال رکھنا۔بس کام والی کو بتاتی جانا ۔۔کر وہ خود لے گی سب 

  ‏بیل کی آواز آئی تو شگفتہ دروازہ کھولنے کے لیے چلی گئی۔ سدرہ کچن میں اور ثناء ہال میں ہی کھڑی رہی۔ 

  ‏سب لوگ ملنے کے بعد بیٹھ گۓ۔ تو آمنہ نے ولی کو مٹھائی کچن میں رکھنے کا کہا اور وہ مٹھائی لیے کچن میں داخل ہوا تو سدرہ شلف پر بیٹھی چاۓ پی رہی تھی۔ 

  ‏پنک کلر میں وہ ولی کو بہت ہی پیاری لگی وہ مسکراتے ہوۓ بولا ۔ہیلو پنکی کیسی ہو سدرہ آنکھیں سکیڑتے ہوۓ شلف سے اتری اور آپنی انگلی لہراتے ہوۓ بولی اووو ہیلو یہ پنکی کس کو بولا ہمممم ۔۔

  ‏ولی ناک کھجاتے ہوے بولا سوری مس سدرہ سوری۔ ۔۔۔کیسی ہیں آاآپ ۔

  ‏سدرہ اداکاری کرتے ہوۓ بولی بخار ہے ۔ سر بھی درد کر رہا ہے ۔کمر میں بھی درد ہے۔ اور لگتا ہے کوئی گردہ شردہ بھی جواب دے رہا ہے۔۔ بہت برا حال ہے۔۔

  ‏ولی مسکراہٹ دباتے ہوۓ بولا ہممم ویسے مجھے ایک اور بھی پرابلم لگ رہی ہے۔ اگر برا نہ مانو تو بتاؤ۔ سدرہ بھویں اچکاتے ہوۓ بولی ہممم ۔

  ‏ولی دو قدم پیچھے ہوتے ہوۓ بولا ۔ کوئی دماغ کو بھی فرق ہے تمہارے۔۔۔اتنا کہتے ساتھ ہی وہ کھل کر ہسنے لگا۔۔

  ‏سدرہ چڑ کر بولی پاگل ہو گے تم سمجھے۔ اور نکلو کچن سے دو منٹ سے پہلے اس سے پہلے کے میں تمہارا سرا توڑ دوں۔ سدرہ پاس پڑے ۔جگ کو اٹھاتے ہوۓ بولی۔۔

  ‏جا رہا ہوں جارہا ہوں کہتا وہ مسکراتا کچن سے نکل گیا۔۔

  ‏مجھے پاگل کہتا ہے ۔خود کو دیکھو شکل سے ہی پاگل خانے سے بھاگا ہوا لگتا ہے۔ چول کہیں کا۔۔

  ‏ولی  کچن کے دروازے سے جھانک کر دیکھتے ہوے بولا  ابھی میں اِدھر ہی ہوں۔سن رہا ہومیں۔

  ‏تم جاتے ہو یا نہیں سدرہ غصے سے سرخ ہوتے ہوۓ بولی۔ تو ولی یہ جا وہ جا۔۔

  ________****

  ‏کام والی نے سب کے آگے ڈرنک رکھی تو دوبارہ بیل بجی ۔۔ لگتا ہے ایمان کے سسرال والے بھی آ گۓ۔ شگفتہ اتنا کہتے ہوۓ اُٹھی۔

  ‏سب ایک دوسرے سے ملے اور بیٹھ گۓ۔۔ 

  ‏شگفتہ ثناء کو مخاطب کرتے ہوے بولی۔ بیٹا آپ ولی اور علی (ایمان کا دیور )کو لے کر اوپر ایمان لوگوں کے پاس چلی جائیں ۔ 

  ‏سدرہ دروآزہ کھولتے ہوۓ  اندر آئی اور ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پر رکھی ۔ لیں جی  کہتے ہوۓ صوفے پر بیٹھ گئی۔

  ‏بہت پیاری لگ رہی ہو۔ پنک کلر بہت سوٹ کرتا ہے تمہیں۔ علی مسکراتے ہوۓ بولا۔ 

  ‏ہممم تھینکس وہ بے زاری سے بولی ۔۔جسے علی پہلے دن سے ہی زہر لگتا تھا۔۔ 

  ‏پر ولی کو اس کا سدرہ سے فری ہونا اور تعریف کرنا بلکل پسند نہ آیا۔ اور دل میں سوچنے لگا میں نے تعریف کی تو غصہ اس نے کی تو تھینکس۔ 😐

 علی نے گلاس سے سپ لیا اور سدرہ اور پری کو دیکھتے ہوے بولا مبارک ہو پاس ہو گئی تم دونوں  ‏۔

 ‏پری نے مسکراتے ہوے شکریہ ادا کیا تو علی سدرہ کی طرف دیکھنے لگا جو جواب میں کچھ بھی نہیں بولی تھی۔ 

 ‏سدرہ علی کی سوالیہ نظروں کودیکھتے ہوۓ بولی اب کیا پورا دن شکریہ تھینکس ہی بولتی رہوں ایک ہی دفعہ سب کہہ لو جب جانے لگو گے تو اکٹھا شکریہ ادا کر دوں گی۔۔

 ‏ثناء جو اس کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ اس نے سدرہ کی بازو کو چٹکی کاٹی اور کان کے پاس آکر بولی ۔منہ بند کر لو یہ آپی کا دیور ہے کیوں بات بگاڑنی ہے۔ 

 ‏ولی اب سدرہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا کیوں کے سدرہ نے علی کو بڑے اچھے طریقے سے چپ کرایا تھا۔ 

 ‏سب معاملات طے پا جانے کے بعد ایمان کے سسرال والے چلے گۓ۔ ثناء کے ابو اسے لے گۓ ۔۔

 ‏پری ۔ایمان اور سدرہ سیڑھیاں اترتے ہوۓ ۔ ہال میں آ کر رکی جہاں سب بڑے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ 

 ‏حناء شگفتہ سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولی یہ بچی کون ہے ۔ 

 ‏یہ سدرہ ہے پری کی دوست شگفتہ نے اتنا کہا اور سدرہ کو اشارے سے پاس بلایا اور بولی بیٹا ادھر آؤ ان سے ملو یہ میری بھابی ہیں۔ اور ولی کی امی ہیں ۔ 

 ‏سدرہ مسکراکر ہاتھ ملاتے ہوۓ بولی انٹی آپ بہت کیوٹ ہیں۔ حناء کھل کر ہستے ہوۓ بولی ۔کیوٹ تو آپ ہو ماشاء اللہ۔۔ آؤ بییٹھو میرے پاس حناء صوفے پر جگہ بناتے ہوۓ بولی۔۔ 

تو سدرہ بیٹھ گئی۔ حناء ، سدرہ اور آمنہ باتوں میں مصروف ہو گئیں ۔اور ایمان اور پری حویلی جانے کے لیے اپنا سامان پیک کرنے چلی گئی۔ زریاب اور حیدر کسی کام کا کہہ کر چلے گئے۔ شگفتہ کچن میں مصروف ہو گئی۔اور ولی وہی بیٹھا فون میں مصروف تھا۔ لیکن دھیان عورتوں کی باتوں میں بھی  تھا۔۔

بی جان سدرہ کو مخاطب کرتے ہوۓ بولی بیٹا تم بھی آج ہی چلو ہمارے ساتھ حویلی رونق لگ جاۓ گی تمہاری وجہ سےاور  ڈھولکی رکھیں گے ۔سدرہ اپنے گھر والے انداز میں ہی نیچلا ہونٹ بچوں کی طرح لٹکاتے ہوۓ بولی ۔نہیں بی جان امی اجازت نہیں دیں گی ۔وہ تو شادی پر رہنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے بلال بھائی کی وجہ سے مانی ہیں۔ 

سدرہ بی بی آپ کے بھائی آۓ ہیں  ۔ گارڈ اندر آتے ہوۓ بولا۔ 

بھیجو اس کے بھائی کو اندر زرا مجھے کام ہے اس سے بی جان مڑ کر گاڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔

بلال اندر آیا تو ولی کھڑا ہوگیا اور آگے بڑھ کر بلال سے ہاتھ ملاتے ہوۓ اسے بیٹھنے کا کیا بی جان اور آمنہ کو سلام کرتے ہوۓ وہ ولی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ 

دیکھو بیٹا ہفتے کو مہندی ہے بچیوں کی صرف تین دن رہ گۓ ہیں ۔ تو میں کہہ رہی تھی اگر آپ لوگ سدرہ کو ہمارے ساتھ آج ہی بھیج دو تو کوئی مسلہ تو نہیں ۔

بلال بی جان کی بات سن کر مسکراتے ہوۓ بولا ۔ ماں جی کوئی مسلہ نہیں بس کل کچھ مہمان آ رہے ہیں ہمارے۔۔۔وہ لوگ باہر سے آۓ ہیں ۔۔میری بیوی کے میکے والوں میں سے ہیں ۔اور انھوں نے سپیشل سدرہ سے ملنے کا بھی کہا ہے۔تو اس لیے اسکا بھی گھر ہونا ضروری ہے۔ آج تو نہیں کل شام  میں خود اسے چھوڑ جاؤں گا ۔۔۔ بی جان بات سمجھتے ہوۓ بولی ۔ چلو ٹھیک ہے۔ خوش رہو۔ 

بلال اٹھتے ہوۓ سدرہ کی طرف دیکھ کر بولا چلو چڑیا چلیں۔۔ ولی نے ایک دم سے سدرہ کی طرف دیکھا اور بغیر آواز کے صرف ہونٹ ہلاتے ہوۓ بولا چڑیا۔۔۔۔ سدرہ ولی کی طرف دیکھ کر دانت پیس کر رہ گئی۔۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سلمیٰ آنٹی آپ فکر مت کریں۔ 

دیکھو عالیہ مجھے لڑکی بھولی بھالی چاہے اپنے زوہیب کے لیے ۔ یہ نہ ہو کے وہاں جا کر آزادی مانگنے لگے۔ اور مرضی کرتی پھرے۔ 

اوو ہو آنٹی کہا نا تسلی رکھیں سدرہ تو اکیلی کبھی گلی کی نکر تک نہیں گئی ۔ اور تھوڑا سا غصے سے یا اونچا بول دو تو ہفتہ بخار نہیں جاتا۔ آپ یقین مانے جیسی لڑکی آپ چاہتی ہیں بلکل ویسی ہی ہے۔ 

ہممم کوئی پہلے سے پسند شند کا چکر بھی نہ ہو۔۔ سلمیٰ اب کی بار لفظ چبا کر بولی۔ 

سلمیٰ آنٹی سدرہ ایسی لڑکی نہیں ہے۔ اور ابھی تو وہ اٹھارہ سال کی ہے ان معاملات کی تو اسے ابھی ٹھیک طرح سمجھ بھی نہیں ہے ۔ آپ پریشان مت ہوں۔اور باقی کی تسلی صبح اسے دیکھ کر آپ کو ہو جاۓ گی۔ 

عالیہ دل ہی دل میں سدرہ کو کوسنے  لگی سدرہ تم سے جان چھڑانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے مجھے۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ماما ایسے کیسے کر سکتی ہیں ۔ زبردستی کیوں کر رہی ہیں وہ زوہیب کے ساتھ ۔۔ اور کیا گارنٹی ہے کے وہ شادی کے بعد سدھر جاۓ گا۔ اگر بعد میں بھی وہ نہ بدلہ تو ۔۔حجاب پریشانی میں کمرے کے چکر کاٹتے ہوۓ بولی۔۔تو وحید لمبی سانس خارج کرتے ہوۓ بولا۔ یہ ہی تو میں بھی سوچ سوچ کر پریشان ہوں لیکن تمہاری ماں نے نہ کبھی پہلے میری سنی اور نہ ہی اب اس نے ہمیشہ زوہیب کی غلطیوں پر پردے ڈالے ہیں ۔ زوہیب کے بگڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ سلمیٰ کا ہے ۔ اور اب  کسی کی بیٹی کو برباد کریں گے یہ ماں بیٹا۔ اسی لیے میں نہیں گیا اور نہ ہی اس شادی میں شامل ہوں گا ۔وحید نے دونوں ہاتھوں میں سر پکڑا اور آنکھیں بند کر لیں۔

پاپا ہم واقعہ ہی کچھ نہیں کر سکتے۔بس دعا ہے کے جو لڑکی بھی زوہیب کی زندگی میں آۓ کاش وہ واقعہ ہی اسے بدل دے ورنہ اس کے لیے کافی مشکل ہو گا۔ حجاب باپ کے کندھے پر سر رکھتے ہوۓ بولی۔۔

 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏دیکھو سدرہ زیادہ بولنا مت اور جتنی بات کوئی پوچھے اس کا اتنا ہی جواب دینا جتنا ضروری ہو ورنہ چپ چاپ بیٹھنا۔ چاۓ وغیرہ کا عالیہ آ کر کر لے گی تمہیں جب میں بلاؤں تب باہر آنا سمجھی نسیم سدرہ کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوۓ بولی۔ 

 ‏امی یہ تو چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔پر وہ آ کیوں رہی ہیں۔ اور آپ مجھے اتنا سمجھا کیوں رہی ہیں۔۔ سدرہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

 ‏او ہو کچھ حاص نہیں باہر سے کافی عرصے بعد پاکستان آئی ہیں انہوں نے تمہیں بچپن میں دیکھا تھا۔بس اب آئی ہیں تو تم سے ملنے کا دل کر آیا ان کا۔۔ نسیم بات بناتے ہوۓ بولی اور سدرہ کے کمرے سے جلد سے باہر نکل گئی تاکہ وہ کوئی اور سوال نہ کر لے۔

 ‏سلمیٰ اور عالیہ کی ممانی ملنے کے بعد ہال میں بیٹھ گئیں نسیم بھی پاس ہی بیٹھتے ہوۓ بولی عالیہ جاؤ چاۓ پانی لاؤ۔ 

 ‏سلمیٰ گردن گھما کر آگے پیچھے دیکھتے ہوۓ بولی بچے کہاں ہیں آپ کے۔

 ‏جی وہ بڑا بیٹا کام پر ہے اس سے چھوٹا دو دن پہلے ہی لندن چلا گیا اور اس سے چھوٹا یونیورسٹی گیا ہے۔ اور سدرہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔

 ‏اوو تو سدرہ کو بلائیں نا۔ جی بلاتی ہوں پر کچھ باتیں تھی جو میں آپ سے پہلے کرنا چاہتی ہوں ۔

 ‏سلمیٰ سر ہلاتے ہوۓ بولی جی کریں میں سن رہی ہوں

 ‏وہ دراصل سدرہ کو کچھ حاص کام کاج کرنا نہیں آتا مطلب کے کھانا پکانا وغیرہ۔ دراصل سدرہ پڑھ رہی تھی تو ۔۔

 ‏سلمیٰ بات کاٹتے ہوۓ بولی کوئی مسلہ نہیں  شادی کے بعد سب سیکھ جاۓ گی۔

 ‏نسیم نے سدرہ کو آواز دی تو کچھ ہی دیر بعد وہ ہال میں آئی اور دونوں عورتوں کو سلام کیا۔

 ‏سلمیٰ کو تو سدرہ پہلی نظر میں ہی پسند آگئی ۔ 

 ‏ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ لوگ جانے کے لیے اٹھے تو سلمیٰ سدرہ کو گلے لگاتے ہوۓ بولی جلد ہی پھر ملیں گے۔ 

 ‏دن میں بلال آیا اور سدرہ کو لے کر حویلی کے لیے نکل گیا۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

او میرے خدا کیسے لوگ ہیں یہ سدرہ گاڑی سے نکلتے ساتھ ہی خیرت سے گول گھوم کر حویلی کو دیکھتے ہوۓ بولی۔ کوئی ان سے پوچھے اتنا بڑا گھر کون بناتا ہے۔

چوہدری حیدر جو بلال سے مل کر سدرہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا مسکراتے ہوۓ بولا تو پھر پوچھ لے ہماری بیٹی اند جا کر دادا جی سے۔ سدرہ شرمندہ سی ہو کر سر جھکاتے ہوۓ بولی سوری انکل۔

نہیں بیٹا سوری کی کوئی ضرورت نہیں  آؤ آپ اند چلو۔۔ 

___________****

اچھا کیا انکل نے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ سدرہ پری کی بات سن کر بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ بولی تو پری ناراضگی سے بولی ایک تو ہمیں ملنے نہیں دیا ان سب نے اوپر سے دوسری حویلی بھیج دیا۔ کے شادی تک سالار وہاں رہے گا اور تم کہہ رہی ہو اچھا ہوا جاؤ میں تم سے بات  نہیں کرتی ۔

سدرہ پری کو گلے لگاتے ہوۓ بولی نہیں یار میں سالار بھائی کی وجہ سے نہیں کہہ رہی میں تو اُس علی نہیں۔۔🤔 کیا نام ہے ہاں ولی کی وجہ سے کہہ رہی ہوں ۔یار بڑا ہی اریٹیٹنگ بندہ ہے۔ دو سیکنڈ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ 

اچھا جی تو اپنے بارے میں کیا خیال ہے ہممم  ولی جو دروازے میں کھڑا سن رہا تھا اندر آتے ہوۓ بولا۔

لو جی شیطان کا نام لیا شیطان حاضر 😏سدرہ منہ بناتے ہوے بولی۔۔

ولی نےسدرہ کو گھور کر دیکھا اور پھر  پری سے مخاطب ہوا پری باہر حویلی کے پچھلے باغیچے میں جاؤ سالار انتظار کر رہا ہے ۔ پر زرہ چھوپ کر جانا کسی کو پتہ نہ چلے 

پری خوشی سے بھاگتی ہوئی کمرے سے نکلی۔تو ولی نےمڑکر سدرہ کی طرف دیکھا جو اپنے موبائل پر بزی تھی۔ 

ہممم تو زرہ فرمائیں کے آپ کیا کہہ رہی تھیں۔

سدرہ نے فون سے نظر اُٹھا کر بے زارگی سے ولی کی طرف دیکھا اور ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوۓ بولی جاؤ اپنا کام کرو میرا کوئی موڈ نہیں تم سے بحث کا اور جاتے ہوۓ دروازہ بند کر دینا۔ اور وہ پھر سے فون میں بزی ہو گئی۔ 

ولی مڑا اور دروازے کے پاس جا کر سدرہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ سر نفی میں ہلایا اور بولا کافی بتمیز بھی ہو۔لیکن ایک بات بتا دوں شیطان والی کہاوت مجھے بلکل پسند نہیں آئی۔ اور ہاں کبھی تمیز سے بات کرو تو میں یقین دلاتا ہوں ہماری کافی بن سکتی ہے ۔ اتنا برا انسان نہیں ہوں کے کسی سے برداشت نہ ہوں۔ اور آخری بات میرا نام ولی ہے اسے اچھی طرح یاد کر لو ۔ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔۔سدرہ کچھ دیر ہکی بکی دروازے کی طرف دیکھتی رہی اور پھر سر جھٹک کر دوبارہ فون پر بذی ہو گئی۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سب مہمان آ چکے تھے اور اب دونوں دولہنوں کا انتظار تھا کے آۓ اور مہندی کی رسم شروع ہو۔ 

یار یہ سدرہ نظر نہیں آ رہی۔ علی نے آگے پیچھے دیکھتے ہوۓ  ہلکی سی سرگوشی میں اپنے آپ سے کہا لیکن پاس کھڑے ولی کو سنائی دے گیا اس نے کھا جانے والی نظروں سے علی کو دیکھا جو ابھی بھی آگے پیچھے نظریں گما رہا تھا ۔علی ایک دم سے مسکرایا اور بولا وآآآوووو بیوٹی فُل

ولی نے اُس سمت دیکھا جدھر علی دیکھ رہا تھا۔ تو وہ سدرہ سےکچھ سیکنڈ کے لیے تو نظر ہی نہ ہٹا سکا۔ 

سدرہ ثناء اور کچھ لڑکیاں ایمان اور پری کو لے کر آ رہی تھیں۔ 

مہندی کی ساری رسم کے دوران سدرہ تصویریں بنانے اور ثناء کے ساتھ باتوں میں ہی مصروف رہی۔ ولی کو اس سے بات کا موقع ہی نہ ملا۔ علی نے ایک دو دفعہ بات کرنے کی کوشش کی مگر سدرہ نے کوئی لفٹ ہی نہیں کرائی۔

رسم ہو جانے کے بعد سب مہمان چلے گئے۔ 

حیدر جو پورے فنگشن کے دوران کافی دفعہ ولی کو سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ پکڑ چکا تھا۔ ولی کے پاس آ یا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ولی جو سدرہ کو دیکھ رہا تھا ایک دم سے گھبرا کر باپ کی طرف متوجہ ہوا۔ 

ہممم ولی زرہ ایک طرف تو آؤ بات کرنی ہے مجھے ۔اتنا کہہ کر حیدر ایک طرف چل پڑا اور ولی باپ کے پیچھے اسی سمت چل دیا دونوں باپ بیٹا لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو حیدر ولی سے مخاطب ہوا ۔

ولی پرسوں رات گیارہ بجے کی سیٹ ہے تمہاری تم اٹلی جا رہے ہو ۔

ولی نےخیرت سے باپ کی طرف دیکھا اور بولا پاپا خیریت اٹلی کیا ہے۔

حیدر ولی سے نظریں چراتے ہوۓ بولا 

وہ میرا ایک دوست ہے اس سے میٹنگ ہے ۔کام سے رلیٹ ہے تم جاؤ گے تو ائیر پورٹ سے پک کریں گے اور باقی کے معاملات وہیں جا کر پتہ چل جائیں گے تمہیں۔۔۔

ولی نے جی کہہ کر سر ہلا یا اور بولا کتنے دن کا ٹوئر ہے بابا ۔ 

حیدر سوچتے ہوۓ بولا یہ تو معاملات پر ہے جتنی جلد کام ہو گیا ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عالیہ فون بند کرتے ہوۓ بولی امی مبارک ہو ۔انٹی سلمیٰ کو سدرہ پہلے ہی پسند آ گئی تھی ابھی ان کا فون آیا انہوں نے زوہیب کو سدرہ کی تصویر بھیجی تھی۔ زوہیب کو بھی سدرہ پسند آ ئی ہے۔وہ دن مانگ رہے ہیں کے کب آ کر رسم کریں۔ ہفتے والے دن زوہیب بھی آ رہا ہے ۔

______******

اللہ کا شکر ہے۔ نسیم دونوں ہاتھ آمین کی طرح منہ پرمارتے ہوۓ خوشی سے بولی۔

 اچھا تو امی کیا پروگرام ہے پھر کیا کرنا ہے۔ عالیہ بلال کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی ۔

 ‏جیسا بلال کہے۔ نسیم بلال کی طرف دیکھ کر بولی۔

 ‏امی میرے خیال سے ہمیں ہاں کر دینی چاہیے ۔ کیوں کے عالیہ اور اس کی ممانی نے بہت تسلی دی ہے لڑکے کی۔

 ‏تو ٹھیک ہے بیٹا ۔سلمیٰ بھن کو فون کر کے ہاں کہہ دیتے ہیں اور ایسا کرو پرسوں جا کر سدرہ کو لے آؤ ۔تاکہ وہ لوگ آکر رسم کر لیں۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏آمنہ کمرے میں آئی تو ایمان  پری۔ سدرہ اور ثناء کو باتیں کرتے دیکھ کر سر پکڑ کر بولی اللہ لڑکیو  کون سی باتیں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔جلدی کرو بارہ بج گئے ہیں۔ سالار حویلی آ گیا ہے۔ سالار اور پری کی تو گھر کی بات ہے پر ایمان کو رخصت کرنا ہے۔ دو بجے بارات کا ٹائم ہے اور تم لوگ اپنی طرف دیکھو فکر ہی نہیں جلدی کروسب ۔۔۔پالر والی آگئی ہے ۔ جلدی سے سب تیار ہو جاؤ ۔ 

 ‏پوری حویلی میں چہل پہل تھی۔ چوہدری دلاور کے تو پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے خوشی سےپاگل ہو رہا تھا ہوتا بھی کیوں نہ آخر سالار بڑا پوتا تھا۔اللہ نے دو ہی تو پوتے دئیے تھے۔جن پر وہ جان وارتا تھا۔ چوہدری دلاور حیدر کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے ۔ حیدر اب ولی کے لیے بھی لڑکی ڈھونڈو تم لوگ اور ایک سال سے پہلے پہلے مجھے حویلی میں دوبارہ یہ ہی رونق چاہیے۔

 ‏حیدر نے باپ کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھا اور اس کا دل ڈوب سا گیا ۔ اور سوچنے لگا ۔ کے اگر انہیں ولی کی حقیقت پتہ چلی تو ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ 

 ‏چوہدری دلاور نے حیدر کو سوچ میں پڑے دیکھا تو اس کے کندھے کو ہلاتے ہوۓ بولے ۔کیا ہوا کن سوچوں میں ہو ۔ 

 ‏نہیں بابا جان کچھ نہیں ۔ بس میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کے ولی کے بارے میں بھی سوچوں۔ 

_________****

 سالار یار کتنی جچ رہی ہے شیروانی تم پر شہزادہ لگ رہا ہے میرا بھائی۔ ولی آنکھ مارتے ہوۓ بولا۔ تو سالار ہستے ہوۓ بولا اچھا جی تو اپنے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا آج تو لگتا ہے سب لڑکیاں ہمارے ولی کو دیکھ کر پاگل ہونے والی ہیں۔ 

 ‏ہممم بس ایک ہی پاگل ہے جسے کوئی فرق نہیں پڑے گا ولی آہستہ سے بولا تو سالار جسے سنائی نہیں دیا بولا کیا کہا۔

 ‏ ہمم نہیں کچھ نہیں۔ وہ دراصل مجھے تمہیں بتانا تھا کے کل رات کو میری فلائیٹ ہے۔ تم اور پری کب آؤ گے ۔ 

 ‏پرسوں کی ٹکٹ ہے ہماری پر ہم لوگ تو پیرس جائیں گے ۔ سالار نے ولی کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا ۔ہنی مون۔۔۔

 ‏اووووو گوڈ تو واپسی کب ہو گی ۔ 

 ‏ابھی تو دو ہفتے کا پروگرام ہے ۔بعد میں بدل جاۓ تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏Alixتم اس معاملے کو سنبھالو گے کیوں کے ولی کو لے کر میں اور کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ فرینکو اپنے ماتھے کامساج کرتے ہوۓ بولا ۔

 ‏آپ فکر مت کریں ڈیڈ ولی اگر آپ کا بیٹا ہے تو میرا بھائی ہے ۔ اور میرا وعدہ ہے کے میں اس کے لیے اپنی جان بھی دینی پڑی تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سوچوں گا۔ 

 ‏فرینکو نے آگے بڑھ کر ایلکس کو گلے سے لگایا اور بولا تم بھی مجھے ولی جتنے ہی عزیز ہو۔ میرےلیے تم دونوں ہی برابر ہو۔تمہاری جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی ولی کی۔  

 ‏میں بس چاہتا ہوں کے ولی بھی تمہارے ساتھ مل کر کام سنبھال لے اور میں آرام کروں ۔ 

 ‏ایلکس فرینکو کو تسلی دے کر سیدھا کلب آیا جہاں اس کے دوست انتظار کر رہے تھے۔ 

 ‏ویلکم ایلکس کدھر گم ہو گئے تھے دو دن کے لیے لندن گئے اور  کتنے دن لگا آۓ۔  میکس نے ایلکس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوۓ کہا۔ 

 ‏میکس ۔ایلکس کادوست ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا خاص آدمی بھی تھا جو ایلکس کے پرسنل معاملات کو ہینڈل کرتا تھا۔ 

 ‏ہمم ارادہ تو دو دن کا تھا مگر کسی کام کی وجہ سے روکنا پڑ گیا ۔ تم سناؤ آج رات کیا خاص ہے۔ ایلکس نے بے زارگی سے کلب کے ڈانس فلور کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔

 ‏بہت خاص چیز ہے آج تمہارے لیے۔ میکس نے کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھی لڑکی کی طرف  آنکھ سے اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔

 ‏ایلکس نے مڑ کر دیکھا تو ایک براؤن بالوں والی میکپ میں لدی لڑکی بیٹھی تھی۔ ایلکس نے میکس کی طرف دیکھا اور بولا موڈ نہیں ہے۔ اتنا کہہ کر اس نے سر کرسی کی ٹیک سے لگایا اور اور آنکھیں بند کر لی۔ تو اس کی آنکھوں کے سامنے حجاب کا چہرہ آیا۔ وہ ایک دم سے آنکھیں کھولتا ہوا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ 

 ‏کوئی پریشانی ہے کیا۔ میکس نے ایلکس کو غور سے دیکھتے ہوۓ پوچھا تو ایلکس نے ساری بات بتا دی۔ وآو کیا بات ہے۔ میکس دونوں ہاتوں سے تالی بجاتے ہوۓ بولا۔ تو اس کامطلب ہمارے ایلکس کو ایک معمولی سی لڑکی اتنا بیوقوف بنا گئی۔ ہمم تو بتاؤ اب کیا کرنا ہے ۔کہو تو جاؤں میں جا کر ڈھونڈتا ہوں۔ 

 ‏نہیں کوئی ضرورت نہیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام ہے ۔ پرسوں ائیر پورٹ جا رہے ہیں ہم دونوں ۔

 ‏کیوں کون آرہا ہے میکس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

 ‏وہ تمہیں پرسوں ہی پتہ چلے گا ۔ فل خال میرا موڈ فریش کرنے کا انتظام کرو پر وہ لڑکی نہیں مجھے وہ پسند نہیں آئی۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏سدرہ نےشیشے میں خود کو دیکھا تو منہ کھولے کا کھلا رہ گیا۔ اللہ یہ آپ نے مجھے کیا بنا دیا ۔اس نے مڑ کر پالر والی کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ او مائی گارڈ سدرہ کتنی پیاری لگ رہی ہو۔ ثناء اور پری ایک ساتھ بولی۔اور یہ ڈریس اتنا سوٹ کر رہا ہے تمہیں۔۔ آج تو خیر نہیں کس کو اپنے حسن سے قتل کرنے کا ارادہ ہے۔ ثناء سدرہ کے کندھے سے کندھا مارتے ہوۓ بولی۔

 ‏کہاں پیاری لگ رہی ہوں پوری کی پوری بھوتنی لگ رہی ہوں۔ اور کیوں کرنے لگی قتل میں کسی کا بھلا سدرہ منہ بناتے ہوۓ بولی۔

 ‏افف سدرہ کبھی میک اپ کیا ہو تم نے تو پتہ ہو نا۔ ہر وقت تو تم سر جھاڑ منہ پھاڑ ہی رہتی ہو۔ ثناء نے ہستے ہوۓ کہا۔ اب اتنی اچھی لگ رہی ہو تو بس منہ بند رکھنا۔ 

 ‏افف ایک تو سب میرے پیچھے پڑے ہیں ۔کہاں بولتی ہوں میں زیادہ وہ تو کوئی نہ کوئی چھیڑ دیتا ہے۔ تو جواب تو پھر دینا پڑتا ہے۔

 ‏شگفتہ اندر آئی اور چاروں لڑکیوں کی طرف یکھ کر بولی  ماشاءاللّٰه‎ سب بہت پیاری لگ رہی ہو۔ 

 ‏پھر آگے بڑھ کر آبدیدہ ہوتے ہوۓ پری اور ایمان کو گلے لگا کر بولی۔ آج تم دونوں بھی اپنے گھروں کی ہو جاؤ گی ۔ بس ایک کمی ہے سارہ نہیں ہے۔ 

 ‏امی آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں پتہ تو ہے آپ کو کے وہ پریگنینٹ ہیں اتنے لمبے سفر سے منع کیا ہے آپی کو ڈاکٹر نے۔ 

 ‏کاش تمہارے بابا ہوتے۔ تو آج میں شاید خود کو اتنا کمزور محسوس نہ کرتی۔ 

اللہ میری بیٹیوں کے نصیب روشن کرے۔ اتنا کہہ کر شگفتہ رونے لگی۔ تو ثناء نے سدرہ کو کان میں آمنہ آنٹی کو بلانے کا کہا۔ 

سدرہ کمرے سے باہر آئی اور ایک کام والی کو روک کر آمنہ کا پوچھا تو اس نے سیڑھیوں کے طرف اشارہ کیا اور کہا کے اوپر گئی ہیں سدرہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کے پورشن میں گئی تو کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک کمرے کا دروازہ آدھا کھلا تھا۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا ۔تو کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ مڑنے لگی ۔ تو دروازہ ایک دم سے پورا کھلا ۔ سدرہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو ولی دروازے میں کھڑا تھا۔ سدرہ اسے دیکھ کر دیکھتی ہی رہ گئی۔ ولی لگ ہی اتنا ہینڈسم رہا تھا۔ 

اور ولی سدرہ کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوۓ بولا۔ یہ کیا بنی ہوئی ہو۔ آج تو چڑیل لگ رہی ہو ۔۔

سدرہ جو ولی کو دیکھ کر تھوڑی امپریس ہوئی تھی۔ دو تین دفعہ آنکھیں زور زور سے جھپکی اور سر نفی میں ہلایا جیسے خود کو خوش میں لانے کی کوشش کر رہی ہو۔ پھر ولی کی طرف آنکھیں سکیڑ کر دیکھتے ہوۓ بولی ۔ تم ہو گے جن بلکے دیو بلکے مینڈک ۔خود کو دیکھا ہے کبھی۔ 

ولی نے سدرہ کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کھینچا تو وہ اس کے سینے سے آ کر ٹکرائی۔ ولی اس کے چہرے کے قریب  ہوتے ہوۓ بولا جانتی ہو تمہیں میک اپ کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ پھر وہ کچھ دیر کے لیے روکا اور مسکراتے ہوے بولا۔۔ کیوں کے تم اس کے بغیر بھی۔۔۔۔۔ چڑیل ہی لگتی ہو۔ 😂😂😂😂 ویسے ہی اتنے میک اپ کا نقصان کر دیا۔

اتنا کہہ کر اس نے سدرہ کا بازو چھوڑ دیا۔ 

سدرہ غصے سے سرخ ہوتی وہاں سے پاؤں پٹختی چلی گئی۔ ولی نے لمبی سانس لی اور مسکراتے ہوۓ بولا پاگل لڑکی کیا ضرورت تھی اتنا تیار ہونے کی نظر لگواۓ گی خود کو۔ 

ہیلو سالار ولی کے سر پر ہلکے سے تھپڑ مارتے ہوے بولا کیا ہوا اکیلے باتیں کر رہے ہو ۔دماغ تو ٹھیک ہے۔ 

نہیں کچھ نہیں۔ تم ریڈی ہو تو چلو چلیں دادا جی نے بلایا ہے ہم دونوں کو۔ 

سدرہ آگ بھگولہ ہوتی کمرے میں آئی شگفتہ جا چکی تھی۔ ایمان سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہو۔

میں منہ دھونے لگی ہوں۔ کہا تھا نہیں اچھی لگ رہی۔ تم لوگوں نے سنا ہی نہیں ۔سدرہ مسلسل غصے میں بولی۔

پری نے سدرہ کاہاتھ پکڑا اور بولی کیا ہوا کسی نے کچھ کہا۔ 

ہاں صرف کہا نہیں بہت کچھ کہا ہے۔

کس نے اور کیا کہا ہے۔ ثناء نےاگے ہوتے ہوے پوچھا۔ 

وہ ان لوگوں کا کزن ہے نا۔ چول سا۔ وہ کہتا ہے کے چڑیل لگ رہی ہوں۔ میک اپ کا نقصان کیا ہے ۔ 😞

تینوں سدرہ کی رونی شکل دیکھ کر ہسنے لگی۔ ایمان سدرہ کے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوے بولی ۔مزاق کیا ہو گا ولی بھائی نے قسم لے لو تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

امی اتنی جلدی کیا ہے ۔  سچ پوچھیں تو میرا دل نہیں مان رہا۔ اتنی دور شادی کر کے چلی جاۓ گئی ہماری چڑیا آپ اور بھائی مان کیسے گئے۔اور عمر بھائی کو بھی بتایا۔حمزہ ماں کی طرف دیکھ کرالجھے ہوۓ لہجے میں بولا۔

حمزہ میری جان دیکھو اچھے گھر میں شادی کر کے جاۓ گئی تو زندگی اچھی گزرے گی۔ اور ویسے بھی اچھے لوگ ہیں ۔ ان کے رشتےداروں نے کافی تسلی دی ہےلڑکے اور باقی گھر والوں کی اور جہاں تک دور کی بات ہے تو وہ بھی سلمیٰ بہن نے کہا ہے جب سدرہ چاہے ہم سے ملنے پاکستان آ جایا کرے گی ہر چار چھ ماہ بعد بھیجا کریں گے اسے پاکستان۔ اور کیا چاہیے۔اور جہاں تک بات رہی عمر کی تو اس سے ہوئی ہے بات اس نے کہا ہے کے جیسا ہم لوگ مناسب سمجھیں کر لیں۔ نسیم حمزہ کو تسلی دیتے ہوۓ بولی۔۔تو حمزہ خاموش ہو گیا ۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

دلہنیں سٹیج پر بٹھا دی تو مردو کی طرف سے دونوں دلہے اپنے بھائیوں اور کزنز کے ساتھ عورتوں والی سائیڈ پر لاۓ گۓ۔ سالار تو کافی دیر سے اپنی دلہن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین تھا۔ وہ جلد سے سٹیج پر چڑھنے لگا تو ثناء اور سدرہ آگے آ کھڑی ہوئی اور بولی کدھر جا رہے ہیں۔ آپ  دونوں کو کیا لگا اتنی آسانی سے آپ دلہن تک پہنچ جائیں گے۔ زرہ  جیب ڈھیلی کریں آپ دونوں تب آگے جا سکیں گے۔ سدرہ ہاتھ دونوں کے آگے لہراتے ہوے بولی۔ 

سب بڑے اور چھوٹے دونوں دلہوں کے پاس آ کھڑے ہوۓ اب کچھ سدرہ اور ثناء کی سائیڈ ہو گۓ اور کچھ لڑکوں کی طرف۔ 

علی جلدی سے سدرہ کو مخاطب کرتے ہوۓ بولا کتنے پیسے چاہیں۔ سدرہ علی کو منہ بنا کر دیکھتے ہوۓ بولی تم سے مطلب ہم دلہوں سے بات کر رہے ہیں۔ 

چلیں جلد کریں ۔دیکھتے ہیں کون اپنی دلہن تک پہلے پہنچتا ہے۔ سدرہ مسکراتے ہوۓ بولی۔ 

سالار نے مڑ کر ولی کی طرف دیکھا تو اس نے جیب سے دو پیکٹ نکالے اور سالار کو پکڑا دئیے۔ سالار نے وہ سدرہ اور ثناء کی طرف بڑھاۓ۔ 

 پیکٹ پر اپنےنام لکھے دیکھ کر  ثناء نے پیکٹ کی طرف اشارہ کیااور بولی یہ کیا ہے سالار بھائی۔  

خود ہی دیکھ لو۔ 

دونوں نے اپنا اپنا پیکٹ لیا اور کھولا اس میں ایک ایک ڈبیہ تھی۔ جس میں ان کے نام کے گولڈ کے لاکٹ تھے۔ دونوں نے خوشی سے پاگل ہوتے ہوۓ سالار کو جانے کا راستہ دیا۔

اور پھر فیصل سے نوک جھوک شروع ہو گئی

سالار جلدی سے پری کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اس  ہاتھ  پکڑا اور اس کے ہاتھ کی پشت پر پیار کرتے ہوۓ بولا ہیلو وائف 

پری شرم سے سرخ ہو گئی اور جلدی سے سالار سے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی۔ آپ بہت بے شرم ہیں ۔ 

سالار اس کے کان کے پاس ہوتے ہوے بولا۔ ویری بیڈ اپنے شوہر سے ایسے بات کرتے ہیں۔ ہممم اور اس میں بے شرم والی کون سی بات ہے ہاتھ پر پیار کیا ہے ۔ کوئی۔ اتنا کہہ کر سالار نے نظریں پری کے ہونٹوں کی طرف کرتے ہوۓ۔کہا ۔یہاں تو نہیں۔ 

پری ہاتھ منہ پر رکھتے ہوۓ آنکھیں پھاڑ کر سالار کو دیکھ نے لگی تو سالار قہقہ لگا کر ہسنے لگا۔اور بولا افف پری تم میری جان لوگی قسم سے۔۔ 

ایمان کی رخصتی ہو گئی تو آمنہ سدرہ اور ثناء سے مخاطب ہوتے ہوے بولی۔ بیٹا پری کو سالار کے ساتھ دوسری حویلی رخصت کرنا ہے۔ وہاں سارے انتظامات مکمل ہیں۔ تم دونوں بھی ساتھ چلی جاؤ پری پریشان نہیں ہو گی ۔شام تک ولی وآپس آ جاۓ گا تم ساتھ آجانا۔ 

نہیں آنٹی میرا سر درد کر رہا ہے آپ سدرہ کو بھیج دیں پری کے ساتھ ۔۔۔ثناء سست سی بولی ۔

آمنہ نے سدرہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولی ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں۔ 

پری اور سدرہ بیک سیٹ پر بیٹھ گئی اور سالار فرنٹ پر اور ولی ڈرائوینگ سیٹ پر جب وہ دوسری حویلی پہنچے تو سالار جلدی سے گاڑی سے نکلا اور پری کی سائیڈ سے ڈور کھولتے ہوۓ اپنا ہاتھ اگے بڑھا دیا جسے پری پکڑ کر باہر آئی وہ دونوں اند کی طرف چل پڑے سدرہ گاڑی سے نکل کر حویلی کا باغور جائزہ لیتے ہوۓ بولی۔ کوئی ہال نہیں ان لوگوں کا۔۔۔ اللہ۔۔ کتنا مال ہے ان کے پاس کیسے حساب دیں گے ان سب چیزوں کا۔ ولی گاڑی سے ٹیک لگاۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ سدرہ کی بات سن کر مسکرایا اور بولا تمہیں لے جائیں گے حساب ساتھ ہو کے دے دینا۔ 

سدرہ 😏منہ بنا کر بولی۔ میں کیوں دوں گی حساب وہ بھی تم لوگوں کے ان محلوں کا تم خود دو گے۔ اور یہ بڑے بڑے جوتے کھاؤ گے فرشتوں سے۔یہاں ہماری امی ہمیں کپڑے فالتو بنا لو تو کہتی ہیں حساب دینا پڑے گا اور ایک تم لوگوں کو دیکھو یہ بڑے بڑے گھر الماریاں کپڑوں سے بھری بینکوں میں کروڑوں روپے۔۔ بیٹا جی تیار رہو خیر نہیں تم لوگوں کی ۔ 

ولی نے سر دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور ہستے ہوے بولا اب ادھر ہی کھڑا رہنے کا ارادہ ہے یا اندر چلیں۔

ہاں تو چلو تم ہی نے باتیں لگا لیا تھا۔ سدرہ اندر کی طرف بڑھتے ہوۓ بولی ۔ تو ولی سر پکڑ کر رہ گیا۔ اندر آتے ہی اس نے آگے پیچھے دیکھا اور بولی یہ دونوں کہاں گۓ۔ 

مجھے لگتا ہے اپنے کمرے میں چلے گۓ ہیں۔ ولی صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا ۔

کیا کمرے میں تو مجھے کیا ضرورت تھی بھیجھنے کی ۔ اب میں کیا کروں گی۔ وہ ولی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔ اور اُوپر سے میں نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔ 

ولی سیدھا ہوتے ہوۓ بولا کیوں نہیں کھایا ۔ اتنا کہہ کر ولی اٹھا اور کچن میں چلا گیا کچھ دیر بعد وہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے آیا اور سدرہ کے سامنے رکھتے ہوۓ بولا لو۔ 

سدرہ نے  قمیض کی بازو اُوپر کرتے ہوۓ ٹرے اٹھا کر گود میں رکھی اور کھانا کھانے لگی ولی سارا وقت اسے غور سے دیکھتا رہا۔ سدرہ نے سر اٹھا کر ولی کی طرف دیکھا تو وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ سدرہ نے آنکھوں کا اشارہ کیا اور بولی تمہیں بھی کھانا ہے۔ ولی مسکراتے ہوۓ بولا نہیں تم کھاؤ۔  

اچھا تو پھر بھوکوں کی طرح کیا دیکھ رہے ہو۔ جاؤ جا کر کوئی کام کرو۔ بلکہ اپنے دوست کو نکالو باہر مجھے پری کے پاس جانا ہے۔ سدرہ نوالہ چباتے ہوۓ بولی۔  شادی کیا ہوئی وہ تو چپ ہی گیا ہے پری سے۔مجھے آنٹی آمنہ نے پری کے لیے بھیجا ہے کے شام تک اس کے ساتھ رہوں۔۔

ولی اپنی ہسی دباتے ہوۓ بولا ۔ انہیں چھوڑو تم اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔ اگے کیا کرنے کاارادہ ہے ۔

ہممم واپس حویلی جانا ہے اور کیا۔سدرہ ٹرے واپس ٹیبل پر رکھتے ہوۓ بولی۔ 

اففف میرا مطلب وہ نہیں تھا خیر چھوڑو ۔ہمم تمہاری ہابیز کیا ہیں۔ 

سدرہ سوچتے ہوۓ بولی مجھے پودے لگانے  اور دنیا گھومنے کا شوق ہے ۔سدرہ دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوۓ بولی۔ 

 اور کس کے ساتھ دنیا گھومنی ہے۔ ولی نے تھوڑا تجسس سے پوچھا ۔

 ‏ہمم حمزہ کے ساتھ پتہ ہے ۔ اس کے ساتھ سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔ وہ میری ہر بات سمجھتا ہے اور وہ میرا بیسٹی بھی ہے۔ سدرہ نے کھلکھلا کر ہستے ہوۓ کہا ۔تو ولی نے سنجیدگی سے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا کون ہے حمزہ ۔

 ‏حمزہ میری جان ہے ۔ میرا دوست ہے میرا کرائم پاٹنر ہے اور میرا پیارا سا بھائی ہے ۔

 ‏بھائی ولی نے خیرت سے پوچھا۔ 

 ‏ہممم میرا تیسرے نمبر والابھائی ۔ 

 ‏ولی نے گہری سانس حارج کی اور بولا۔ بھائی اصل بھائی ؟

 ‏ہاں تو کیا نقلی بھائی بھی ہوتے ہیں۔ 

 ‏ولی اپنی جگہ سے اٹھا اور سدرہ کے پاس آ بیٹھا۔ تو سدر تھوڑی پیچھے کو سرک گئی۔ اور منہ بناتے ہوۓ بولی کیا ہے۔ 

 ‏سدرہ میں کل اٹلی جا رہا ہوں۔ کچھ دن وہاں رہوں گا اور پھر سیدھا پاکستان آؤں گا۔ 

 ‏سدرہ انکھیں دو تین دفعہ جھپکنے کے بعد خیرت سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی۔ تو میں کیا کروں اور تم مجھے کیوں بتا رہے ہو جاؤ اپنی امی کو بتاؤ۔ 

 ‏ولی ہلکا سا مسکرایا اور بولا ۔۔مجھے لگا کے تمہیں بتانا چاہیے۔ 

 ‏سدرہ کے تو پلے کچھ نہیں پڑھ رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگی کے سالار سیڑھیاں اُترتے ہوۓ بولا سدرہ اُوپر جاؤ پری بلا رہی ہے سدرہ جلدی سے اٹھی اور اوپر چلی گئی۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 

 ‏ایمان کے ولیمے کے لیے سب شہر آۓ اور ولیمے کے بعد سدرہ کو بلال میرج ہال سے لے گیا۔ ولی سے اس کا سامنا پورا دن نہیں ہوا کیوں کے صبح کے وقت وہ دوسری حویلی تھا اور جب بڑی حویلی آیا تو سب ولیمے کے لیے نکل گئے تھے اس نے پیکنگ کی اور شہر سالار کے اپارٹمنٹ چلا گیا کیوں کے سب نے وہی آنا تھا۔ سب سے ملنے کے بعد وہ ائیر پورٹ کے لیے نکل گیا حیدر اسے چھوڑنے آیا تھا۔ ولی کا دل آج نہ جانے کیوں بیٹھ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کے جیسے کچھ چھوٹ رہا ہو۔ وہ مڑا اور حیدر کے گلے لگ کر بولا بابا اپنا اور ماما کا خیال رکھنا۔  اتنا کہہ کر وہ اندر چلا گیا اور حیدر جو کافی دیر سے ضبط کئے تھا ۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا اور اپنی کار کی طرف ہارے ہوۓ قدموں سے چل دیا۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

ہیلو ۔ایلکس نے ولی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ولی نے مسکراتے ہوۓ اس سے ہاتھ ملایا اور سوالیہ انداز میں بولا ۔ایلکس رائٹ ؟ 

ہمم رائٹ تو چلیں۔ایلکس نے مسکرا کر ولی کو چلنے کا اشارہ کیا اور دونوں ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو میکس نے جلدی سے ولی کے لیے  کار کا دروازہ کھولا۔ 

تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد کار ایک مینشن کے سامنے رکی۔ اور تینوں کار سے باہر نکلے ولی نے گردن گمھا کر عالی شان مینشن کو دیکھا تو سدرہ کی کہی بات دماغ میں آئی اور مسکرانے لگا۔اور زیرِ لب بولا پاگل لڑکی تھوڑا انتظار کرو میں بس ایک دفعہ واپس آ لوں ۔  

ایلکس نے ولی کو ہاتھ سے اندر چلنے کا اشارہ کیا اور دونوں اند چلے گئے۔

_________*****

 ولی پر حیرتوں کے پہاڑ گر پڑے تھے۔۔ اس کے سامنے کھڑا شخص اگر عمر میں زیادہ نہ ہوتا تو ولی کو ایسا ہی لگتا کے کو خود کو دیکھ رہا ہے ۔۔ہوبہو ولی کی فوٹوکاپی تھا یہ شخص۔

ولی نے ٹینشن میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا ۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا

_________****

فرینکو ولی کو الجھاہوا دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ولی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بولا

 ہیلو مائی سن ائی ایم  فرینکو ۔یور فادر۔۔ رئیل فادر۔۔۔اور پھر اس نے سامنے کھڑے ایک گارڈ کو اشارہ کیا تو اس نے آگے بڑھ کر ایک پیکٹ فرینکو کے ہاتھ میں پکڑایا۔ فرینکو نے وہ پیکٹ ولی کا ہاتھ پکڑ کر اس میں تھمایا اور بولا۔۔۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا تمہارے سارے شک دور کر دے گا۔ یہ تمہارا ڈی این اے ٹیسٹ ہے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کے تم میرے بیٹے ہو۔

 ولی نے وہ پیکٹ زمین پر پھینکا اور بولا سوری میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں۔۔

 ‏ اتنا کہہ کر ولی جانے کے لیے مڑا ابھی اس نے دو قدم ہی اٹھاۓ تھے کے دو گارڈ اس کے سامنے کھڑے ہو گۓ۔۔۔ اس نے ایک دفعہ گارڈز کی طرف دیکھا اور پھر مڑ کر فرینکو کی طرف ۔اور بولا مجھے جانا ہے۔ ان سے کہیں کے میرا راستہ چھوڑیں ۔ 

 ‏سوری ولی لیکن اب تمہارے واپسی کے دروازے بند ہو چکے ہیں ۔ فرینکو گارڈ کو آنکھوں سے اشارہ کرتے ہو بولا۔ ولی جس کا دھیان فرینکو کی طرف تھا اس سے پہلے کے کچھ سمجھ پاتا گارڈ نے تیزی سے اگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ 

_________*****

 ‏سوری سن لیکن اب تم یہاں سے نہیں جا سکتے ۔۔فرینکو مسکرایااور دونوں بازو پھیلا کر بولا ویلکم ہوم سن ۔ویلکم ہوم۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔ سدرہ خیرت سے آنکھیں پھاڑ کر ماں کو دیکھتے ہوے بولی۔

ہاں بیٹا ہم نے سلمیٰ بہن کو تمہارے رشتے کی ہاں کر دی ہے ۔تمہارے تینوں بھائی بحی اس رشتے پر راضی ہیں اور لڑکا پڑھا لکھا اور شریف ہونے کے ساتھ ساتھ حوبصورت بھی ہے کوئی کمی نہیں تو بھلا منع کیسے کرتے اور ویسے بھی شادی تو تمہاری کرنی تھی آج کرتے یا کل۔ 

پر امی اتنی دور 😞 میں آپ لوگوں کے بغیر کیسے رہوں گی۔ 

دیکھو سدرہ ایک نہ ایک دن تو تمہیں شادی کر کے جانا ہی تھا۔ سب بیٹیاں چلی جاتی ہیں ۔اب پری کو ہی دیکھ لو ہمم وہ بھی تو اپنے شوہر کے ساتھ لندن رہے گی۔ بیٹا یہ ہی زندگی ہے ۔ اور آج کل تو فون پر ایک دوسرے کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ ہمم چلو میری پیاری بیٹی۔ تیار ہو جاؤ ۔ آج سلمیٰ بہن زوہیب کو ساتھ لا رہی ہیں۔ تاکہ تم دونوں بھی ایک دوسرے کو دیکھ لو۔ اور اج ہی بات پکی بھی ہو جاۓ۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

بہت ہی پرسکون زندگی تھی میری اور کیتھی کی  میں پولیس سارجنٹ تھا۔ایک آئیڈیل زندگی تھی ہماری ۔۔۔تمہاری ماں کی بہت خواہش تھی کے ایک اور بچہ ہونا چاہیے ہمارا ۔ عیشلے کے بعد کتنا علاج کروایا اس نے پر کوئی فائدہ نہ ہوا عیشلے تیرہ برس کی تھی ۔اور اس وقت تو ہم ساری اُمید چھوڑ چکے تھے ۔ کے اب کبھی ہمارے ہاں اور بچہ ہو گا۔ لیکن پھر تمہاری ماں کو ڈاکٹر نے بتایا کے وہ دوبارہ ماں بنے والی ہے۔ ہم بہت خوش تھے۔ اور جب پانچ ماہ کی پریگنینسی میں ڈاکٹر نے بتایا کے اب کی بار بیٹا ہے تو تمہاری ماں اور بہن کے تو پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے ۔

سب ٹھیک جا رہا تھا پر پھر اچانک وہ ہوا جس نے سب برباد کر دیا۔ 

 ہمارا ڈپارٹمنٹ تھامس نامی گینگسٹر کے کیس کو حل کر رہا تھا۔  

میں نے اس کے حلاف ثبوت بھی اکٹھے کر لیے تھے ۔کچھ جگہ ہم نے چھاپے مار کر اس کا کافی مال پکڑا اسی دوران پولیس مقابلے میں اس کا چھوٹا بھائی مارا گیا۔اس بات پر تھامس میرا دشمن بن گیا۔ ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ کا آدمی اس سے ملا ہوا تھا۔اس نے ساری انفارمیشن تھامس کو دے دی۔۔ تھامس نے مجھے فیملی سمیت اٹھا لیا۔ اور میری آنکھوں کے سامنے عیشلے اور تمہاری ماں کے ساتھ اس کے آدمیوں نے۔۔۔فرینکو نے لمبی سانس لی اور آنکھیں بھینچ لی ۔اور پھر ولی کو دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔عیشلے صرف تیرہ سال کی تھی ۔بچی تھی اور جانتے ہو ولی ان نے میرے سامنے میری بیوی اور بیٹی۔۔۔۔۔اب فرینکو اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ جھکا  اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔میں ان لوگوں کے آگے منتیں کرتا رہا رحم کی بھیک مانگتا رہا ۔۔ فرینکودوبارہ سے سیدھا کھڑا ہوا اور دوبارہ سے بولا۔۔۔  تمہاری ماں اور عیشلے میری نظروں کے سامنے ان کی درندگی کا شکار ہوئیں۔عیشلے میرے سامنے مر گئی ۔کیتھی کی حالت بھی بہت نازک تھی ۔تھامس نے مجھے تین گولیاں ماری اور پھر میں نے جبدو ماہ بعد آنکھ کھولی تو پتہ چلا کے مافیا کے بہت بڑے لیڈر شون نے مجھے بچایا۔پر وہ میری بیوی کو نہیں بچا سکا۔   جانتے ہو اس دن دنیا کے لیے پہلے والافرینکو بھی مر گیا ۔ شون نے بتایا کے تھامس نے ہمارے گھر کو بھی جلا دیا اور پھر میں نےشون کے ساتھ اس دنیا میں قدم رکھا۔کیوں کے میں اتنا جان چکا تھا کے اگر مجھے بدلہ لینا ہے تو مضبوط ہونا پڑے گا ۔  ۔ میں چاہتا تو بہت پہلے مار سکتا تھا۔ تھامس کو۔۔۔  مگر جب مجھے پتہ چلا کے میری بیوی نے مرنے سے پہلے میرے بیٹے کو جنم دیا تھا ۔پھر  تمہاری ماں کی قبر کا بھی پتہ چل گیا ۔پر اس قبر میں صرف کیتھی کے دفن ہونے کے ثبوت تھے۔ جس سے یہ توپتہ چل گیا کے انہوں نے تمہیں وہاں دفن نہیں کیا تھا۔لیکن تم گئے کہا یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔۔  اور یہ بات تھامس تک بھی پہنچ گئی کے بچہ دفن نہیں کیاگیا تھا۔ اس کا وہ آدمی جس نے تمہیں حیدر کو دیا تھا وہ ڈر کرمیرے پاس آگیا کے بات کھلنے پر تھامس اسے مار دے گا ۔ اس نے مجھے سب بتایاکے تم  زندہ ہو تو پھر میرا سارا دھیان تمہیں ڈھونڈھنے میں لگ گیا ۔ جیک نے بتایاکے اس نے تمہیں کسی کو دے دیا تھا پر وہ کون تھے یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا  ۔۔۔اور پھر دیکھو بِل آخر ڈھونڈھ ہی لیا تمہیں۔پھر بھی ولی یقین مانو اگر کوئی طریقہ ہوتا تو میں تمہیں کبھی تنگ نہ کرتا۔پر تھامس ابھی تک تمہیں ڈھونڈھ رہاہے ۔ اس نے قسم کھائی تھی کے وہ میرا پورا خاندان ختم کر دے گا ۔ اور اسے جس دن پتہ چلا کے تم زندہ ہو اس نے میسج بھیجا کے وہ تمہیں ڈھونڈھے گا اور مار دے گا۔ اور ان کو بھی جنہوں نے تمہیں پالا ہے۔ 

_______،***

فرینکو کا ہر لفظ ولی کو توڑ رہا تھا وہ غصے اور دکھ کے ملے جلے احساس میں مسلسل  سر نفی میں ہلا رہا تھا۔ فرینکو ولی کے پاس بیٹھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا ۔اب تم سب جان چکے ہو۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کے میں چاہوں بھی تو تم واپس اپنی زندگی کی طرف لوٹ نہیں سکتے ۔  یہ سب جاننے کے بعد ہی حیدر نے تمہیں میرے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر تم نہیں سمجھو گے تو اپنے ساتھ ساتھ ان سب کے لیے بھی مشکلات پیدا کرو گے۔ اب فیصلہ تمہیں کرنا ہے کیوں کے تم میرے بیٹے ہو یہ اٹلی میں کوئی بھی تمہیں دیکھتے ساتھ کہہ سکتا ہے ۔ 

اب تمہیں یہاں نئی شناخت کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ تمہاری پرانی شناخت تم بھول جاؤ۔ کیوں کے ولی پاکستان سے اٹلی آیا ہی نہیں۔ 

فرینکو کی بات سن کر ولی نے ایک دم سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو فرینکو بولا۔ 

ائیرپورٹ ریکارڈ کے مطابق تم پاکستان سے باہر گۓ ہی نہیں ۔ سب ریکارڈز صاف کر دئیے گۓ ہیں۔ اور باقی پاکستان  کے معاملات حیدر نے کہا تھا کے وہ سنبھال لے گا۔

اتنا کہہ کر فرینکو نے ایک پاسپورٹ اور آئی ڈی ولی کے ہاتھ میں پکڑاۓ اور بولا یہ تمہاری نئی شناخت ہے ۔ آج سے تم نوحہ ہو میرے بیٹے اب سے یہی تمہاری پہچان ہے۔ جب تک معاملات ٹھیک نہیں ہو جاتے تمہیں میری بات ماننی پڑے گی ۔اور جب سب ٹھیک ہو جاۓ گا  تو اسکے بعد تم چاہو تو واپس لوٹ سکتے ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں نہیں روکوں گا۔ اور باقی جہاں تک رہی بات انڈر ورلڈ کی تو اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ تم صرف میرے لیگل بزنس سنبھالو گے۔ دوسرے معاملے ایلکس سنبھالے گا۔  اور تم اب ایلکس کے ساتھ رہو گے ۔ یہ تمہیں سب کچھ سکھا دے گا سیلف ڈفینس سے لے کر اپنے دشمنوں کی تمام معلومات تک ہر طرح سے یہ تمہاری مدد کرے گا۔اتنا کہتے ہوۓ فرینکو نے ایلکس کو ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا اس سے تم پہلے ہی مل چکے ہو۔ باقی کا تعارف میں کرواتا ہوں۔ یہ ایلکس ہے تمہارا چھوٹا بھائی ۔ 

اور میرا بیٹا ویساہی جیسے تم حیدر کے بیٹے ہو۔ اسے میں نے پالا ہے اور یہ مجھے بہت پیارا ہے۔ 

ولی نے سر اٹھا کر ایلکس کو دیکھا اور دوبارہ سے سر جھکا دیا۔ ولی کو  سب سمجھ تو آ رہا تھا پر وہ اتنا سب کچھ قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حمزہ مسلسل زوہیب کو گھورے جا رہا تھا ۔ نسیم نے حمزہ کی حرکت کو محسوس کیا تو جلدی سے اٹھی اور یہ کہتی ہوئ حمزہ کا ہاتھ پکڑے ہال سے کچن کی طرف چلی گئی کے آپ لوگ بیٹھیں میں آتی ہوں۔ 

کچن میں داخل ہوتے ہی وہ پھٹ پڑی ۔ تمہیں مسلہ کیا ہے۔ کیوں تم گھور گھور کر دیکھ رہے ہو زوہیب کو۔ 

امی آپ کو کچھ گڑ بڑ نہیں لگتی۔ حمزہ سرگوشی میں بولا۔ 

کیا گڑ بڑ ہے ۔ ماشاءاللّٰه‎ کتنا پیارا اور سلجھا بچہ ہے۔ کتنی تمیز سے بات کرتا ہے اور تو اور کوئی بری عادت نہیں سگرٹ تک نہیں پیتا۔ دیکھو حمزہ میری تو پوری تسلی ہو گئی ہے زوہیب سے ملنے کے بعد اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو۔ اب تمیز کرنا سمجھے وہ سدرہ کا ہونے والا شوہر ہے اور اس گھر کا داماد ہے۔ نسیم برہم ہوتی۔ کچن سے نکلی اور سدرہ کے کمرے کی طرف چل دی ۔ 

سدرہ ماں کے ساتھ ہال میں آئی تو سلمیٰ اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور سدرہ کو پیار کیا۔ 

آؤ بیٹا یہاں بیٹھو اتناکہ کر اسے زوہیب کے پاس بیٹھا دیا زوہیب جو ہر چیز سے 

بے نیاز فون میں بزی تھا ۔سلمیٰ نے اس کے پاؤں پر اپنا پاؤں مارا تو وہ جلدی سے فون ایک طرف رکھتا سب کی طرف مخاطب ہوا تو سلمیٰ نے اسے آنکھوں سے سدرہ کی طرف اشارہ کیا ۔

زوہیب نے ایک دفعہ پاس بیٹھی سدرہ کو دیکھا اور پھر دوبارہ ماں کی طرف۔ 

سلمیٰ نے پرس سے انگوٹھی نکال کر زوہیب کو دی اور پہنانے کا کہا زوہیب ہر احساس سے عاری ۔۔۔ماں کو دل ہی دل میں کوستے ہوۓ بے دلی سے مسکرایا اور سدرہ کو انگوٹھی پہنا دی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ چاۓ پانی کے بعد شادی کے معاملات پر بات چیت ہوئی جس میں یہ فیصلہ ہوا کے ایک ہفتے کے اندر اندر نکاح  ہو گا۔ اور ایک ماہ میں سدرہ کے پیپرز بنوا کر زوہیب اسے اٹلی بلا لے گا۔   سلمیٰ نے صاف کہہ دیا کےوہ لوگ جہیز وغیرہ نہیں لیں گے۔ کیوں کے سدرہ نے کون سا یہاں رہنا ہے ۔ 

سلمیٰ نے زوہیب کی بے زارگی دیکھی تو جلدی سے جانے کی اجازت لی ۔ 

افف زوہیب کیا کر رہے تھے تم تمہیں کہا تھا کے اپنا مزاج ٹھیک رکھنا شادی تک سلمیٰ تپ کر بولی ۔ 

دیکھیں مام آپ کے کہنے پر میں یہ سب ڈرامہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کو یہی لڑکی ملی تھی کتنی چھوٹی لگتی ہے وہ ۔ بلکل بھی میری ٹائپ کی نہیں۔

 زوہیب دیکھو چھوٹی ہے یہ ہی تو فائدہ ہے جیسے کہو گے کرتی چلی جاۓ گی اگر کوئی مچور اکیس بائیس سال کی لڑکی ہو گی تو وہ اپنا دماغ زیادہ استعمال کرے گی۔ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر رکھو گے تو ڈری سہمی رہے گی۔ اور کسی سے شکایت نہیں کرے گی۔ 

 ‏اوکے مام جو مرضی آپ کریں مجھے کون سا اس کے ساتھ رہنا ہے بس ڈیڈ ایک دفعہ سب کچھ میرے حوالے کر دیں پھر اسے اٹھا کر باہر پھینکو گا۔ اور آپ بھی ایک بات سن لیں ڈیڈ کو ایک دو ماہ میں راضی کر لینا۔ کیوں کے ایک دو ماہ سے لمبا یہ شادی والا ڈرامہ میں نہیں کرنے والا۔ زوہیب یہ کہتا کمرے میں چلا گیا۔ 

 ‏سدرہ گم سم سی بیٹھی تھی ۔حمزہ نے اسے ایسے بیٹھا دیکھا تو پاس آ بیٹھا۔

 ‏کیا ہوا ہماری چڑیا کو اتنی اُداس کیوں ہے۔ حمزہ سدرہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوے بولا۔ 

 ‏سدرہ آبدیدہ سی بولی حمزہ میرا دل گھبرا رہا ہے ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ 

 ‏اووو تو تمہیں ڈر لگ رہا ہے ۔تم تو کہتی تھی کسی کی مجال نہیں کے تمہیں ڈرا سکے ۔لو جی مان گئے زوہیب کو جو کام کوئی نہیں کر سکا اُن حضرت نے ایک دفعہ ہی میں کر دیا کیا بات ہے۔  حمزہ سدرہ کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے مستی سے بولا۔

 ‏سدرہ سنجیدگی سے اٹھی اور آنسو بھری آنکھوں سے حمزہ کی طرف دیکھ کر بولی حمزہ مجھے واقعے ہی ڈر لگ رہا ہے۔ حمزہ اٹھا اور سدرہ کو گلے لگا کر بولا ۔ پاگل میں ہوں نا۔ میرے جیتے جی کیوں ڈرنے لگی میری چڑیا ہاں۔ جب کبھی بھی کوئی مسلہ ہو مجھے بس ایک فون کرنا ۔میں تمہارے پاس ہوں گا۔میرے جیتے جی کسی کی مجال نہیں کے میری چڑیا کو ڈرا سکے۔ اور میں روز فون کیا کروں گا۔  زوہیب تھوڑا سا بھی مسلہ کرۓ تو مجھے بتانا پھر دیکھنا۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ سامنے بیٹے زوہیب کو گھور کر دیکھے جا رہی تھی۔ جبکہ زوہیب ہر چیز سے بے نیاز ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے موبائل پر بزی تھا۔جس وقت سے وہ کمرے میں آیا تھا ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے سدرہ وہاں موجود ہی نہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی اسے کے اس کے سامنے اس کی دلہن بیٹھی تھی جس سے ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی اس کا نکاح ہوا تھا۔ کچھ دیر گزی تو زوہیب نےفون سے نظر اٹھا کر سدرہ کی طرف دیکھا تو سدرہ شرم سے نظر جھکا گئی۔ زوہیب طنزیہ انداز میں مسکرایا۔ 😏اور بولا میں چلتا ہوں۔ اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور کمرے سے نکل گیا سدرہ رونی سی شکل۔بناۓ دروازے کو تکتی رہ گئی جس سے ابھی ابھی اس کا دلہا شانے بے نیازی سے باہر گیا تھا۔ 

گھر والوں نے زوہیب اور سدرہ کو نکاح کے بعد کچھ دیر کے لیے اکیل چھوڑا تھا تاکے دونوں آپس میں کچھ بات چیت کر لیں کیوں کے زوہیب اور اس کی ماں اگلے دن ہی واپس جا رہے تھے ۔ لیکن مجال تھی کے ایک لفظ بھی بولا ہو زوہیب نے اپنی نئی نویلی دولہن کی تعریف میں۔ یا کوئی بھی بات کی ہو سواۓ جانے کا کہنے کے۔ 

سب کچھ اتنی تیزی سے ہو رہا تھا کےسدرہ کچھ بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ صرف دل تھا کے بیٹھا جا رہا تھا۔ اج تک اس نے کبھی سوچابھی نہیں تھا کے اس کی بھی شادی ہو گی ۔اور اوپر سے اتنی جلد ۔  اور وہ بھی اتنے مغرور انسان سے جو اس سے بات بھی کرنا پسند نہیں کر رہا تھا سدرہ آپنی سوچوں میں گم بیٹھی تھی اور اسے ایک ہی بات کھاۓ جا رہی تھی اور وہ زوہیب کا رویہ تھا۔ 

ثناء نے آگے بڑھ کر سدرہ کا کندھا ہلایا تو وہ جیسے خوش میں آئی ۔

کیا بات ہے سدرہ ثناء کا بس اتنا پوچھنا تھا کے سدرہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ثناء نے گھبرا کر سدرہ کو گلے لگایا اور اس کی پشت کو اپنے ہاتھ سے تھپکتے ہوے بولی۔ سدرہ میری جان کیا ہوا کچھ تو بتاؤ۔ ثناء جس نے آج تک سدرہ کو صرف مستی اور شرارت کرتے ہی دیکھا تھا۔ اب پریشان تھی کے آخر سدرہ رو کیوں رہی ہے ۔ کچھ دیر سدرہ ثناء کے ساتھ لگ کر رونے کے بعد پیچھے ہٹتے ہوۓ بولی ثنی یار تم مانو یا نا مانو کچھ گڑ بڑ ہے۔

ثناء سدرہ کو خیرت سے دیکھتے ہوۓ بولی کیا ۔۔کیا گڑ بڑ ہے؟

یہ جو بندہ ہے نا۔ وہ روتے ہوۓ ہچکی لے کر روکی تو  ثناء نے آنکھیں سکیڑتے ہوۓ کہا کون زوہیب بھائی۔

ہاں وہی وہی۔۔ مجھے یہ بندہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ مجھے لگتا ہے میں اسے پسند نہیں ہوں۔ سدرہ دوبارہ سے منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔ 

سدرہ کیا اناب شناب بکے جا رہی ہو کتنی دفعہ کہا ہے کے جو منہ میں آۓ بول مت دیا کرو ۔ 

تمہیں لگتا ہے کے میں ایسے ہی بول رہی ہوں۔ 😢امی جب سے اسے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں اس نے ایک دفعہ بھی میری طرف نہیں دیکھا اور تو اور ایک بات تک نہیں کی بس اپنے فون پر لگا رہا ۔ اور پھر اٹھا اور عجیب سے انداز میں مجھے دیکھ کر میں چلتا ہوں کہہ کر یہ جا وہ جا۔  

ثناء خیرت سے سدرہ کو دیکھ کر بولی کیا تم سچ کہہ رہی ہو۔ 

سدرہ غصے میں روتی ہوئی اٹھی اور سر سے دوپٹہ اتار کر دور دے مارا اور روتے ہوۓ واش روم میں چلی گئی۔ 

ثناء پریشان سی اس کے پیچھے ہی گئی اور اس سے پہلے کے سدرہ منہ دھوتی اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ کمرے میں لے ائی اور بیڈ پر بٹھاتے ہوۓ بولی۔ 

سدرہ میری بات غور سے سنو۔ دیکھو تمہاری نا سمجھی تمہارے لیے مسلہ کھڑا کر سکتی ہے۔ دیکھو ہر بات کو نیگیٹو مت لو ۔ تم اسی بات کو ایسے بحی لے سکتی ہو کے ہو سکتا ہے زوہیب تمہیں ٹائم دینا چاہتا ہو کیوں کے تم دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو ابھی نہ تو وہ جانتا ہے تمہیں اور ناہی تم اسے جانتی ہو۔ دیکھو کچھ وقت لگے گا تم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں۔ بس ایک ماہ سے بھی کم کا وقت ہے پھر تم دونوں اکٹھے ہو گے ۔سدرہ تھوڑا سا سنجیدہ ہو کر دیکھو اب تمہیں یہ لا اوبالی پن ختم کرنا پڑۓ  گا ۔ تم اب شادی شدہ ہو اور تمہاری چھوٹی سی بات تمہاری زندگی میں مسلے کھڑے کر دے گی۔ شادی کے بعد عورت کو بہت کچھ اگنور کرنا پڑتا ہے بہت کچھ جانتے سمجھتے ہوۓ بھی خاموش رہنا پڑتا ہے صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔  

سدرہ جو پہلے رو رہی تھی اب ثناء کی باتیں سن کر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوۓ بولی ۔ یہ تم کب سے دادی اماں بن گئی۔ 

ثناء اُداس سی مسکرائی اور بولی سدرہ میری آپی کی شادی کو تین سال ہو گۓ ہیں اور جانتی ہو وہ کتنی مشکل زندگی گزار رہی ہیں ۔لیکن کبھی بھی وہ میکے آ کر نہیں کہتی۔ بس مجھ سے چھپ کر بات کر لیتی ہیں۔ امی ابو کو دکھ نہ ہو ۔اسی ڈر سے وہ ان کو کچھ نہیں بتاتی۔ 

لیکن تم تو خوش قسمت ہو کے اتنی اچھی ساس ہیں ۔اور زوہیب کے بارے میں مین صرف اتنا کہوں گی۔ کے وہ اب تمہارا شوہر ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔ اگر کچھ مسلہ ہو بھی تو ساس ہے سسر ہے اور تو اور تمہاری تو ایک نند بھی ہے  ان سے کہنا۔وہ سب مل کر اسے ٹھیک کر لیں گے۔ دیکھو سدرہ تمہاری امی دل کی مریض ہیں ان کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات مت کرنا تم جانتی ہو وہ تمہارے معاملے میں چھوٹی سی بات بھی برداشت نہیں کر پائیں گی اور اس سے بھی بڑھ کر عالیہ بھابی وہ تو تمہارے لیے کوئی بھی پریشانی کھڑی کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی اس لیے تھوڑا سمجھداری سے کام لو۔  اور سسرال جاتے ہی دوستی کر لینا ان لوگوں سے اور ویسے بھی ہماری سدرہ اتنی اچھی ہے کے ایک دم سے دوست بنا لیتی ہے۔ ثناء سدرہ کا گال کھینچتے ہوۓ بولی۔

تو سدرہ ثناء کو گلے لگا کر مسکرا دی سدرہ مسکرا تو رہی تھی پر دل تھا کے ابھی بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا ۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی کو مہینہ ہونے لگا تھا اٹلی آۓ اور وہ اب تک فرینکو کے تمام کاروباری معاملات کو سمجھ چکا تھا ۔ اور اس کی کافی حد تک ایلکس کے ساتھ دوستی بھی ہو گئی تھی ۔ ولی کا اب بس ایک ہی مشن تھا کے اپنی ماں اور بہن کا بدلہ ۔ کیوں کے جب سے اسے سارے معاملے کا پتہ چلا تھا وہ تکلیف میں تھا اسے اب محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دل سخت ہو رہا ہو۔ کیوں کے جتنی دفعہ بھی اس نے ایلکس کو کسی کو مارتے یا تشدد کرتے دیکھا تھا اسے بلکل بھی برا نہیں لگا تھا کیوں کے اس کے لیے اب کسی کی تکلیف اپنی تکلیف سے زیادہ نہیں تھی۔ اور وہ  فرینکو کو اپنے دل میں باپ والی جگہ بھی دے چکا تھا۔کیوں کے اسے احساس تھا۔ کے فرینکو نے کافی مشکل وقت گزارا تھا۔  

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ڈیڈ پلیز اپ اجازت دے دیں ۔ بہت اچھی جاب ہے ۔ حجاب باپ کی منت کرتے ہوۓ بولی۔ 

کیا ضرورت ہے جاب کی ہممم تم شادی کا سوچو سمجھی ۔ اور ویسے بھی زوہیب کی ٹینشن تھی وہ حل ہو گئی۔ اور نکاح کے بعد تو وہ کام میں بھی دلچسپی لینے لگا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ۔وہ بدل گیا ہے۔ 

ڈیڈ پلیز بس دو سال دو سال بعد آپ جو کہیں گے  میں کروں گی۔اور جس سے کہیں گے میں شادی کر لوں گی۔ پر ابھی مجھے جاب کرنے دیں پلیز۔ 

وحید کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ تم ہوٹل آجاؤ وہیں زوہیب کے ساتھ مل کر کام کر لو ۔

مجھے بھی پریشانی نہیں رہے گی ۔ 

افف ڈیڈ مجھے انڈیپنڈنٹ ہونا ہے۔ خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ پلیز ۔۔۔

اچھا اچھا کر لو اپنی مرضی اتنا کہہ کر وحید نے حجاب کو پیار کیا اور چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ بولے۔۔۔

اور کل کتنے بجے کی فلائٹ ہے ہماری بہو کی۔

ہممم شام سات بجے ادھر ہوں گی بھابی۔ زوہیب نے مجھے کہا ہے کے میں پک کر لوں سدرہ کو ۔ اسے کوئی کام ہے وہ نہیں جا سکے گا۔ 

جانا تو اسے خود چاہیے بیوی آ رہی ہے اس کی۔۔ 🙁 پر یہ لڑکا ۔۔ اوپر سے سدرہ کے ساتھ الگ گھر میں رہنے کا کہہ دیا ہے اس نے۔۔ کچھ وقت تو اسے سب کے ساتھ رہنے دیتا وہ بچی اپنی  فیملی چھوڑ  کرآ رہی ہے اکیلے تو وہ گھبرا جاۓ گی پر نہیں ہماری بیٹے کو تو اپنی مرضی کرنی ہے۔   

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ حمزہ کے ساتھ لگی پچھلے آدھے گھنٹے سے روۓ جا رہی تھی۔ نسیم کا آپنا دل اب بیٹھا جا رہا تھا۔ 

دیکھو چڑیا اب بس کرو دیکھو امی تمہاری وجہ سے کیسے پریشان ہیں ۔ حمزہ نے دھیمے سے کہا تو سدرہ نے سر اٹھا کر ماں کو دیکھا جو چہرے سے برسوں کی بیمار لگ رہی تھی۔ سدرہ جلدی سے اٹھی اور ماں کے گلے لگ گئی۔ اور بولی امی میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔ 

عالیہ اندر آئی اور بولی آپ لوگ کب نکلو گے فلائیٹ کا ٹائم نکل جاۓ گا۔ 

سدرہ اداس سی سب سے ملی اور کار میں بیٹھ گئی۔ بلال اور حمزہ اسے ائیرپورٹ چھوڑنے جا رہے تھے۔ پورے راستے وہ چپ چاپ گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ 

دونوں بھائیوں سے ملنے کے بعد وہ اندر چلی گئی۔ 

تمام فارمیلٹیز پوری ہونے کے بعد وہ باہر نکلی تو سامنے حجاب کھڑی اس کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھی۔ سدرہ نے اب تک حجاب کو صرف تصویر میں ہی دیکھا تھا۔

 سدرہ سے ملنے کے بعد دونوں گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

 ‏سدرہ سلمیٰ سے تو پہلے ہی مل چکی تھی حجاب سے وہ ائیرپورٹ پر ملی اور کیوں کے دونوں ہی خوش مزاج تھی۔ تو زیادہ وقت نہیں لگا اور دونوں کی گھر پہنچتے تک دوستی ہو گئی۔ 

 ‏رات کا کھانا کھانے کے بعد زوہیب اور سدرہ اپنے گھر جانے کے لیے نکلے۔ 

 ‏پورے راستے زوہیب نے سدرہ سے کوئی بات نہیں کی تقریباً چالیس منٹ بعد گاڑی ایک گھر کے باہر رکی زوہیب صرف چلو کہتا گاڑی سے نکلا تو سدرہ بھی گاڑی سے باہر نکل آئی۔ زوہیب نے سدرہ کا سامان ایک طرف رکھا اور اسے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بیٹھنے کا کہا۔ سدرہ چپ چاپ بیٹھ گئی

 ‏دیکھو لڑکی میری بات کان اور دماغ کھول کر سن لو۔ کیوں کے میں دوبارہ نہیں کہوں گا۔ زوہیب سدرہ کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔ پہلی بات یہ کے جو میں کہوں گا تمہیں وہ ماننا پڑے گا۔ دوسرا تمہاری اور میری پرسنل لائف کی کوئی بھی بات اس گھر سے باہر نہیں جاۓ گی۔ نہ تمہارے گھر والوں تک اور نہ ہی میرے۔ اگر غلطی سے بھی تم نے کوئی بات یا کسی قسم کی شکایت کسی سے بھی کی تو اُسی وقت طلاق دے کر باہر پھینک دوں گا سمجھی۔ سامنے والا کمرہ تمہارا ہے۔ تم وہاں رہو گی۔ اور گھر سے باہر ہر گز نہیں جاؤ گی۔  اور اگرمیرے گھر والے میرے بارے میں پوچھیں تو اچھی بیویوں کی طرح میری تعاریفوں کے پل باندھنے ہیں ۔ ورنہ میرا غصہ تم برداشت نہیں کر سکو گی سمجھی۔ اور زبان بند رکھ کر اس گھر میں رہنا پڑے گا کیوں کے مجھے زیادہ بولنے والے لوگ پسند نہیں ہیں۔ 

 ‏اور ابھی میں جا رہا ہوں تم اپنے کمرے میں جاؤ اور جا کر سو جاؤ۔

 ‏اتنا کہ کر زوہیب گاڑی کی چابی اٹھاتا گھر سے باہر نکل گیا۔ 

 ‏سدرہ سم مم بیٹھی رہ گئی۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ سب ایک خوفناک سا خواب لگ رہا تھا۔ اگر وہ کچھ محسوس کر رہی تھی تو خوف تھا۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کے ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا ابھی تو شروعات تھی اس کی بربادی کی ۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ جو دو دن سے چپ چاپ زوہیب کو برداشت کر رہی تھی۔ آج جب زوہیب رات ایک بجے گھر آیا تو اس پر پھٹ پڑی۔ 

بس بہت ہو گیا آج دو دن سے میں اس گھر میں قیدیوں کی طرح پڑی ہوں۔ آپ کل شام کے گۓ آج اس وقت وآپس آۓ ہیں۔ آپ کو کوئی فکر ہی نہیں کے میں ہوں بھی یا نہیں۔ اگر آپ نے یہی کچھ کرنا تھا تو شادی کیوں کی۔ آپ مجھے واپس بھیج دیں پاکستان مجھے نہیں رہنا یہاں آپ نہیں بھیجیں گے تو میں خود فون کر کے بھائی کو کہتی ہوں

مجھے فون چاہیے بات کرنی ہے میں نے اپنی امی اور بھائیوں سے۔ سدرہ زوہیب کے سامنے ہاتھ بڑھاتے ہوۓ بولی۔ 

_______*****

زوہیب جو شراب کے نشے میں دھت تھا۔ سدرہ کی باتوں پر آگ بھگولہ ہوتا آگے بڑھا اور زوردار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا ۔

سدرہ جسے اس بات کی بلکل امید نہیں تھی تھپڑ کی شدت سے لڑکھڑاتی ہوئی زمین پر جا گری ابھی وہ سنبھلی ہی نہیں تھی کے زوہیب نے اس کو بالوں سے پکڑ کر اوپر کھینچا اور وہ درد کی شدت سے چیخ اُٹھی۔ 

خبر دار خبردار جو آئندہ میرے سامنے اس طرح سے بات کی زبان کاٹ دوں گا تمہاری سمجھی۔اتنا کہتے ہوۓ زوہیب سدرہ کو بالوں سے گھسیٹتا بیسمینٹ کی طرف لے گیا اور دروازہ کھول کر اسے اندر دھکا دیتے ہوۓ بولا ۔اب دو دن تک بھوکی پیاسی ادھر رہو تاکے تمہاری عقل ٹھکانے آۓ۔ اور ایک بات کان کھول کر سن لو اگر شور شرابا کیا تو ہاتھ پاؤں اور منہ باندھ دوں گا سمجھی۔ اتنا کہہ کر اس نے باہر سے دروازہ لاک کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ 

اندھیری بیسمینٹ میں سدرہ کی سسکیاں گونجھ رہی تھی۔

_________*****

چھ ماہ اسی طرح گزر گۓ زوہیب کئی کئی دن گھر نہ آتا۔ اور جب آتا تو کسی نہ کسی بات پر سدرہ کو مار پیٹ کرتا۔ کئی کئی دن بیسمینٹ میں بھوکا پیاسا رکھتا۔اور اب تو وہ اپنے ساتھ لڑکیاں بھی گھر لانے لگا۔ سدرہ کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا۔ اور جب پاکستان فون پر بات کرواتا تو اس کے سر پر کھڑا رہتا کے کہیں کوئی بات نہ کر دے۔اسکی  سدرہ سے زیادہ نفرت اس وقت بڑھی تھی جب زوہیب کے باپ نے ہوٹل میں سدرہ کو بھی حصے دار بنا دیا اسی وجہ سے وہ اب سدرہ کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ 

زوہیب کے سدرہ کے ساتھ رویے کے بارے میں سلمیٰ جانتی تھی۔ اور اسی لیے وحید اور حجاب کو ان کی طرف نہیں جانے دیتی تھی۔ بلکے زوہیب کو کہا تھا کے کبھی کبھار اسے خود ہی لے آیا کرے تاکے اس کی بہن اور باپ کو شک نہ ہو۔

________****

 سلمیٰ اور وحید دونوں پاکستان شفٹ ہو رہے تھے۔ جبکہ حجاب نے اٹلی ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پہلے تو وحید نے اکیلے رہنے کی اجازت نہیں دی پر بعد میں جب حجاب نے بتایا کے وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ اپارٹمئنٹ شئیر کرے گی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ 

________*****

 ‏زوہیب سدرہ کو لے کر ماں باپ کو ملنے آیا۔ ان کے جانے کے بعد وحید اپنی بیوی سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا۔۔سلمیٰ تم نے غور کیا کے سدرہ جب شادی کر کے آئی تھی۔ تو کتنی ہس مکھ اور خوش باش تھی۔ اب تو یہ بچی کھوئی سی بے رنگ اور اُداس سی لگتی ہے۔  کوئی بات بھی کرتی ہے تو ڈری سی سہمی سی کرتی ہے۔وحید نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔ ۔

نہیں مجھے تو ایسا کچھ محسوس  نہیں ہوا وہ دونوں تو بہت خوش ہیں ۔ بلکے وہ تو گھومنے پھرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ سلمیٰ وحید سے آنکھیں چراتے ہوۓ بولی۔ 

ویسے امی مجھے بھی پاپا کی بات سے اتفاق ہے۔ سدرہ کمزور بھی بہت ہوتی جا رہی ہے۔پہلے وہ مجھ سے آتے ساتھ فری ہو گئی تھی پر اب تو وہ بس ہاں نہیں کے سوا کچھ بولتی نہیں۔ حجاب ماں کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔ 

______*****

سلمیٰ نے غصے سے حجاب کی طرف دیکھا اور بولی تم اپنے کام سے کام رکھو سمجھی وہ دونوں میاں بیوی ہیں ان کے ذاتی معاملات سے دور رہو تم دونوں باپ بیٹی۔ 

زوہیب گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی سدرہ پر برس پڑا اسے زور سے دھکا دیا تو وہ منہ کے بل گر پڑی۔ 

تم سمجھتی ہو میں بچہ ہوں کچھ سمجھ نہیں آۓ گی مجھے ہاں اتنا کہہ کر اس نے زمین سے اٹھتی سدرہ کے پیٹ میں پاؤں سے زوردار ٹھوکر ماری تو وہ دوبارہ سے سسکتی ہوئی فرش پر گر پڑی ۔۔اور بولا تم میرے باپ اور بہن کے سامنے مظلوم بنے کی کوشش کر رہی ہو ہاں بولو۔ کیسی مسکین بن کر بیٹھی تھی وہاں ۔اور کیا کہا تھا تم نے میرے پاپا سے کے تمہیں بھی جانا ہے ہممم جانا ہے تمہیں بھیجوں میں تمہیں۔ اتنا کہہ کر اس نے دو تین بار  اور ٹھوکر ماری ۔ اور جھک کر اسے بالوں سے پکڑتے ہوۓ بولا۔۔بھول جاؤ انہیں اب تم یہی مرو گی سمجھی۔اور اگر تم نے کوشش بھی کی جانے کی تو طلاق کے ساتھ جاؤ گی اور تم کیا سمجھتی ہو کے وہ لوگ تمہیں قبول کر لیں گے ۔ جانتی ہو طلاق کے بعد تمہارے منہ پر کوئی  تھوکے گا بھی نہیں۔اور میں طلاق کی وجہ لوگوں کو یہ بتاؤں گاکے تم آوارہ اور بدچلن ہو ۔ یہ بات سن کر تمہاے اپنے بھائی اور ماں بھی تمہارا منہ نہیں دیکھنا چاہیں گے۔یقین مانو میں تمہاری زندگی بد سے بد تر بنا دوں گا۔تم دنیا سے منہ چھپاتی پھرو گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کے چپ چاپ ایک کونے میں پڑی رہو۔  اتنا کہہ کر اس نے ایک جھٹکے سے سدرہ کےبال چھوڑے اور کمرے میں چلا گیا۔

_________***** 

سدرہ وہی فرش پر پڑی درد کی شدت سے کراہنے لگی۔ امی حمزہ پلیز پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے پلیز ۔۔۔۔سدرہ سسکتے ہوۓ بولی ۔پلیز اللہ جی مجھے واپس بھیج دیں میں کبھی امی کو تنگ نہیں کروں گی۔ میں زیادہ بولوں گی بھی نہیں۔ وعدہ پکا وعدہ۔۔حمزہ دیکھو نا تمہاری چڑیا بلا رہی ہے ۔تم کیوں نہیں آ رہے۔۔۔

 سدرہ کی دل حراش آہیں حال میں گونج رہی تھیں۔   

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس کلب میں اپنے کیبن میں میکس کے ساتھ  بیٹھا باتوں میں مصروف تھا جب ایک گارڈ اندر آیا اور سر جھکاتے ہوۓ بولا سر نیچے دو آدمیوں کی لڑآئی ہو گئی ہے ۔ ہم نے بیچ بچاؤ تو کروا دیا ہے۔ پر ایک آدمی بہت زیادہ نشے میں ہے۔اس نے کچھ نقصان بھی کیا ہے اور اس کے ساتھ  اس کے دوست بھی ہیں ۔ اور یہ  اس کا فون اور وائلٹ ہے۔ 

ہمم کہاں ہے وہ۔۔۔ اسے میرے پاس لاؤ۔  ایلکس اپنی کرسی پر جھولتے ہوۓ بولا۔ 

گارڈ باہر گیا اور کچھ ہی دیر میں زوہیب کو سہارا دیتا اندر آیا اور صوفے پر بٹھا دیا۔ 

ایلکس نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوۓ گارڈ کو زوہیب کا فون دینے کو کہا تو گارڈ نے جلدی سے فون  ایلکس کو تھما دیا۔ 

ایلکس نے جیسے ہی فون اوپن کیا تو وہ ایک دم سے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور ایک دفعہ فون کی سکرین اور دوسری دفعہ زوہیب کی طرف دیکھا اور جلدی سے فون کی گیلری کھولی جس میں زوہیب کی حجاب کے ساتھ بہت سی تصویریں تھی۔ ایلکس نے جلدی سے فون کے کُنٹیکٹ نمبر کھولے سب نمبرز کے ساتھ تصویریں بھی تھی۔ اس لیے اسے حجاب کا نمبر ڈھونڈھنے میں زیادہ مسلہ نہیں ہوا۔ جس نام سے نمبر سیو تھا اسے پڑھ کر ایلکس  دانت پستے ہوۓ سوگوشی میں بولا کپ کیک ہممم  اور نمبر ملایا۔ 

حجاب بیڈ پر  کمبل لپیٹے بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ جب اس کا فون بولا اس نے فون اٹھایا اور زوہیب کا نمبر دیکھ کر مسکراتے ہوۓ فون کان سے لگاتے ساتھ ہی بولی ۔ ہیلو سویٹ ہارٹ ہاؤ کین آئی ہیلپ یو۔  ۔۔

فون کے دوسری طرف  خاموشی تھی۔  ایلکس غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ 

دوسری طرف خاموشی دیکھ کر حجاب کو پریشان ہوئی اور جلدی سے بولی زوہیب کیا بات ہے بول کیوں نہیں رہے۔ 

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایلکس نے فون بند کر دیا۔ 

اور پلٹ کر گارڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا اسے اور اس کے دوستوں کو جانے دو۔ ہاں مگر اس کا آئی ڈی رکھ لو۔ 

اتنا کہہ کر ایلکس نے میکس کی طرف دیکھا جو پہلے سے ہی اسے آنکھیں سکیڑ کر دیکھ رہا تھا۔ 

ایلکس نے فون کی سکرین میکس کی طرف کر کے اسے حجاب کی تصویر دکھائی اور بولا پتہ لگاؤ یہ لڑکی کون ہے۔ اور اس آدمی سے کیا تعلق ہے اس کا۔۔ 

میکس اپنی کرسی سے تھوڑا آگے جھکا اور تصویر کو باغور دیکھ کر مسکراتے ہوۓ ایلکس کو آنکھ مار کربولا۔کچھ بتانا پسند کرو گے کے کیوں پتہ لگانا ہے اس لڑکی کا۔ 

ایلکس دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا اور بولا لندن والی اینی۔۔۔

اوووووو اییینییی آئی سی۔۔۔ بس سمجھو ہو گیا تمہارا کام۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏زوہیب نے پریشانی سے ہاتھ بالوں میں پھیرۓاور پھر  میز پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوۓ جھکا اور بولا ۔اب کیا حل ہے اس کا۔۔

 ‏اکاؤنٹینٹ نےسر نفی میں ہلایا۔۔ نو سر مجھے لگتا ہے کے ہم بینک کرپٹ ہو جائیں گے ۔کیوں کے اتنی بڑی رقم تو ہے ہی نہیں ہمارے ہوٹل کے اکاؤنٹ میں۔ 

 ‏زوہیب میز پر غصے سے دو تین دفعہ ہاتھ مارتے ہوۓ بولا تم کس لیے بیٹھے ہو اس کرسی پر پہلے کیوں نہیں بولا اب جب سب ختم ہو رہا ہے تب یاد آئی مجھے بتانے کی۔ 

 ‏اکاؤنٹینٹ کرسی سے اٹھا جس کی عمر تقریباً پچاس پچپن برس تھی اور اُداس سا مسکرایا اور بولا زوہیب سر میں آپ کے والد کے ساتھ تقریباً  اس ہوٹل کی شروعات سے کام کر رہا ہوں۔ آج تک انہوں نے مجھ سے ایسے بات نہیں کی دوسرا جہاں تک بتانے کی بات ہے تو اکاؤنٹس کی  فائل روزآپ کے ٹیبل پر ہوتی ہے۔ لیکن آپ کو اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کے آپ دیکھ سکیں۔ اور تیسری بات میں نے خود دو ہفتے پہلے آپ کو بتایا تھا کے آپ کے مسلسل پیسے نکلوانے کی وجہ سے اکاؤنٹ خالی ہو رہا ہے۔اور ورکرز کی تنخواہوں کے پیسے بھی کم پڑ رہے ہیں آپ نے کہا تھا کے ایک ماہ کی تنخواہ روک لوں اگلے ماہ اکٹھی دے دیں گے ۔ اور میرے منع کرنے کے باوجود تنخواہیں روکی گئی ۔۔اب ورکرز کی دو دو ماہ کی سیلریز اور باقی کے اخراجات تو دور کی بات ہم چند بلز بھی نہیں پے کر سکتے کیوں کے آپ نے  بچی کھچی رقم دو دن پہلے نکلوا لی ہے۔  

 ‏زوہیب نے آگے جھک کر اسے کالر سے پکڑا اور غصے سے چیختے ہوۓ بولا ۔ ہوٹل میرے ہاتھ سے گیا تو سمجھو تم بھی گۓ۔ 

 ‏وہ غصے میں پاگل ہوٹل سے نکلا۔ 

 ‏ہوش تو اسے آج اس وقت آیا تھا جب کچھ دیر پہلے اس نے کسی لڑکی کو شاپنگ کروانے کے بعد بل کے لیے اےٹی ایم دیا اور پتہ چلا کے اس کے اکاؤنٹ میں تو پیسے کم ہیں۔ بس اس وقت سے احساسِ ذلت سے تڑپ رہا تھا اور غصہ تھا کے کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اوپر سے یہ باتیں سن کر باقی کی کثر پوری ہو گئی تھی۔ اب وہ یہ سوچ رہا تھا کے اتنے پیسوں کا انتظام کہاں سے کرے۔۔

 ‏

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏حجاب  جس آفس میں کام کرتی تھی وہاں زیادہ تر پاکستانی کام کرتے تھے۔ جن سے اس کی پہلے دن سے ہی خوب بنے لگی تھی۔ اور آفس والے بھی سب حجاب کی خوش اخلاقی کی وجہ سے اسے پسند کرنے لگے تھے ۔

 ‏آفس کا ٹائم ختم ہوا تو وہ کندھے پر پرس سیٹ کرتی باہر نکلی ۔  

 ‏اس کا آفس اس کے اپارٹمنٹ سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اس لیے وہ پیدل ہی آتی اور جاتی تھی۔  لیکن آج اس نے سدرہ کی طرف جانے کا پروگرام بنایا کیوں کے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے وہ سدرہ سے نہیں ملی تھی۔ اور وحید نے فون کر کے حجاب کو خاص ہدایت کی تھی کے سدرہ کی طرف آتی جاتی رہے۔۔

________*****

 ‏جحاب نے بیل بجائی تو سدرہ نے دروازہ کھولا۔ 

 ‏حجاب سامنے کھڑی سدرہ کو دیکھ کر سکتے میں آگئی۔۔جس کر چہرے پر تھپڑ کے نشان واضح تھے۔ سر پر کٹ کا نشان بھی تھا۔  

 ‏جب اس نے سدرہ سے پوچھا تو پہلے تو وہ بتانے پر راضی نہ ہوئی بعد میں حجاب کے بہت اصرار کرنے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ اور اسے ساری بات اس شرط پر بتائی کے وہ زوہیب سے کچھ نہیں کہے گی۔۔

 ‏ پچھلے پورے تین چار منٹ سے وہ صرف سدرہ کو دیکھے جا رہی تھی۔ جب سے سدرہ نے ساری بات بتائی تھی۔ 

 ‏سدرہ شرمندہ سی سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔ 

________*****

 ‏تم یہ کیسے کر سکتی ہو سدرہ ۔ کیسے تم اتنا کچھ برداشت کر سکتی ہو۔ ۔ کیسے ۔۔۔بولو۔کتنی دفعہ میں نے تم سے پوچھا تھا کے کوئی مسلہ تو نہیں تم خوش تو ہو زوہیب کے ساتھ اور ہر دفعہ تم یہ ہی کہتی رہی کے سب ٹھیک ہے ۔ آج بھی اگر میں خود نہ آتی اور تمہاری یہ حالت آپنی آنکھوں سے نہ دیکھتی تو تم نےتو اب بھی نہیں بتانا تھا۔۔ حجاب تقریباً رو دینے والے انداز میں بولی۔ 

 ‏حجاب نے آنسو صاف کۓ اور بولی اٹھو تیار ہو تم میرے ساتھ جا رہی ہو ۔ اورہاں اپنا پاسپورٹ وغیرہ لے لو۔ 

 ‏سدرہ نے سر اٹھا کر حجاب کی طرف دیکھا اور بولی۔ نہیں وہ غصہ کریں گے۔ 

 ‏میں نے کہا اٹھو ۔ چلو میرے ساتھ تمہیں سمجھ نہیں آ رہیاب کی بار حجاب سنجیدگی سے بولی۔ 

 ‏نہیں پلیز حجاب سدرہ خوف اور ڈر بھرے لہجے میں بولی۔

 ‏تو کیا تم یہ سب کچھ اسی طرح برداشت کرو گی۔ حجاب سر پکر کر بیٹھ گئی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔ ٹھیک ہے ایک کام کرتے ہیں ۔ میں روز آفس کے بعد تمہاری طرف آیا کرؤں گی ۔ اور ہم دونوں باہر جایا کریں گے ۔ اس کی اجازت میں خود اپنے طریقے سے زوہیب سے لے لوں گی  ٹھیک ہے ابھی تم تیار ہو ہم باہر جارہے ہیں۔ اور ہاں ایک بات دماغ میں رکھنا جب بھی باہر جاؤ اپنا پاسپورٹ وغیرہ ساتھ رکھنا۔۔۔

 ‏ میں زوہیب کو فون کر کے اجازت لے لیتی ہوں۔ 

 ‏اتنا کہہ کر حجاب نے زوہیب کو کال ملائی دو رنگ کے بعد زوہیب نے کال اُٹھا لی ۔ 

 ‏ہیلو زوہیب کہاں ہو تم ۔ 

 ‏ہممم میں ایک دوست کے ساتھ ہوں کیوں خیریت۔۔ 

 ‏نہیں وہ میں تمہارے گھر آئی تھی ۔اور سدرہ کو ساتھ لے جا رہی ہوں ہم دونوں کچھ گھوم پھر لیں گے اور ڈنر کے بعد میں اسے واپس چھوڑ جاؤں گی۔

 ‏زوہیب کو جیسے کرنٹ لگی تھی یہ سن کر کے حجاب اس کے گھر ہے۔ اب اسے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کے سدرہ اسے کچھ بتا نہ دے ۔ اچھا ٹھیک ہے چلی جاؤ دونوں پر پہلے میری بات کروا دو سدرہ سے ۔ 

 ‏حجاب نے فون سدرہ کی طرف بڑھا دیا ۔ 

 ‏سدرہ نے کانپتے ہاتھوں سے فون کان کے ساتھ لگایا اور ہلکی سی آواز میں ہیلو بولی۔

 ‏زوہیب دانت پیستے ہوۓ بولا ۔ فون لے کر ایک سائیڈ ہو ۔ سدرہ نے حجاب کی طرف دیکھا اور اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔اندر جا کر صرف اتنا بولی ۔جی ۔

 ‏سدرہ تم سے میں جو بات پوچھوں صرف ہاں یا نہ میں جواب دینا ۔۔

 ‏تم  نے حجاب کو کچھ بتایا ہے یا نہیں ۔ سدرہ خوف سے کانپ رہی تھی جب حجاب بھی کمرے میں داخل ہوئی اور فون لے کر سپیکر آن کر دیا اور سدرہ کو بولنے کا اشارہ کیا ۔ 

 ‏سدرہ میں پوچھ رہا ہوں کے تم نے حجاب کو کچھ بتایا تو نہیں ۔اس دفعہ زوہیب گرج کر بولا تھا۔ 

 ‏حجاب نے سدرہ کے پاس بیٹھتے ہوۓ اسے اشارہ کیا کے نہیں بولو۔ 

 ‏نہیں ۔۔۔۔

 ‏گوڈ ایساکرو حجاب کے ساتھ چلی جاؤ لیکن ایک بات یاد رکھنا اسے کسی قسم کی بات پتا نہ چلے سمجھی ورنہ تم جانتی ہو کے کیا ہو گا۔ اتناکہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور سدرہ سسک کر رونے لگی اب حجاب بھی رو رہی تھی اس نے سدرہ کو اپنے ساتھ لگایا اور بولی بس تھوڑا سا اور صبر کر لو ۔ میں وعدہ کرتی ہوں سب ٹھیک کر دوں گی۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹میکس نے مسکراتےہوۓ کافی کا سپ لیا اور ولی کو آنکھ مارتے ہوۓ ایلکس کی طرف اشارہ کیا۔ 

 ‏ولی نے مسکرا کر ایلکس کو دیکھا ۔جو اکیلے ہی کچھ سوچ کر مسکرا رہا تھا۔ 

 ‏کیا بات ہے ایلکس آج تو بڑے خوش لگ رہے ہو۔ ولی کی بات سن کر ایلکس ایک دم سے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔ اور ولی کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ بولا۔

 ‏ ہممم جانتے ہو نوحہ شیر جب شکار کرتا ہے ۔تو وہ بڑے آرام اور سکون سے دبے پاؤں ہرن کی طرف جاتا ہے اور پھر ایک ہی جھپٹے میں اسے چیر پھاڑ دیتا ہے۔ اور مجھے ہمیشہ سے ہی شیر کا طریقہ شکار بہت پسند ہے۔ اور کچھ ایسا ہی اس دفعہ میرے ساتھ ہوا ہے۔ 

 ‏ایک ہرنی مجھ سے بھاگی تھی دھوکے سے۔۔۔ اب وہ دوبارہ میرے سامنے آ گئ ہے اور اسے اندازہ بھی نہیں کے یہ شیر اس کا شکار کرنے والا ہے۔ بس یہ ہی سوچ سوچ کر میرا دل خوشی سے جھوم رہا ہے۔ 

 ‏ولی آنکھیں سکیڑ کر نا سمجھنے والے انداز میں بولا ۔کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں۔۔

 ‏ایلکس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی میکس بول پڑا۔ 

 ‏وہ لندن والی ایییینننیییی۔۔ 

 ‏نہیں وہ ادھر اٹلی میں ولی خیرت سے بولا۔ جس کے جواب میں ایلکس نے مسکراتے ہوۓ سر ہلا دیا۔۔ 

 ‏تو اب کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ ولی نے ایلکس سے سنجیدگی سے پوچھا۔  

 ‏کچھ خاص نہیں جسٹ اسے سبق سکھانا ہے کے جب کوئی پیار سے اور طریقے سے ڈنر کا کہے تو کیسے بی ہیو کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کے ایلکس سےجھوٹ بولنے کی سزا کیا ہے۔ 

 ‏دیکھو ایلکس اگر وہ لڑکی تمہیں اچھی لگتی ہے تو۔۔۔۔

 ‏ایلکس قہقہ لگا کر ولی کی بات کاٹتے ہوۓ بولا وٹ پسند ہااا مائی فُٹ وہ تو جسٹ الگ لگی اس لیے ڈنر کی آفر کی تھی۔ ون نائٹ سٹینڈ ۔۔بٹ اس نے جھوٹ بول کر غصہ دلا دیا۔  اس نے میرا یعنی ایلکس کا ڈنر رجیکٹ کیا تھا اب اسے اس بات کی سزا تو ملنی چاہیے۔۔۔

 ‏ولی اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔ کیوں کے وہ پچھلے ایک سال کے ساتھ کے بعد اتنا تو جان گیا تھا کے  ایلکس انتہائی غصے والا ہے۔۔اور نہ سننے کا عادی نہیں ہے۔ اسے آپنے سامنے ڈرے سہمے لوگ پسند ہیں۔ اگر کوئی اس سے مقابلے میں آۓ تو وہ پلک جھپکنے سے پہلے اسے مار دیتا ہے۔۔۔ ایلکس کو ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق ہی چاہیے ۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏زوہیب کیسے اتنی بڑی رقم دے دوں میں تمہیں ۔۔ کیا گارنٹی ہے کے مجھے رقم واپس ملے گی۔۔ 

 ‏زوہیب کے سامنے بیٹھے آدمی نے طنزیہ مسکراتے ہوۓ کہا۔ اور ساتھ ہی اس کی نظر ہوٹل کے مین ڈور سے اندر آتی  حجاب اور سدرہ پر پڑی تو اس کی نظر سدرہ پر روک سی گئی۔ جو بلیک جینز اور وائیٹ فراک نما ٹاپ پہنے ۔۔۔ حجاب سے بات کر رہی تھی۔ 

 ‏زوہیب نے سامنے بیٹھے دوست رِکی کو بات کرتے کرتے چپ ہو جانے پر سر اٹھا کر دیکھا اور پھر اس کی نظر کی سمت مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ 

 ‏اور دوبارہ سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ گھبرا کر بولا رِکی میری بہن اور وائف آئی ہیں ان کے سامنے یہ بات مت کرنا پلیز۔۔ 

 ‏ابھی زوہیب اتنا کہہ کر مڑا ہی تھا کے حجاب کی نظر زوہیب پر پڑ گئی اور وہ سدرہ کا ہاتھ پکڑے اس کی ٹیبل کی طرف چلی آئی۔ 

 ‏رِکی جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ زوہیب  آنکھیں بھینچ  کر رہ گیا۔۔۔۔

 ‏زوہیب نے ان کا تعارف رِکی سے کروایا ۔چارو نے ڈنر کیا  ۔۔اور پورے ڈنر کے دوران رِکی نظریں چرا چرا کر سدرہ کو دیکھتا رہا۔ 

 ‏سدرہ جو زوہیب کی وجہ سے پہلے ہی خوف زدہ تھی اب رِکی کی نظر کو خود پر محسوس کر کے اور بھی زیادہ گھبرا گئی تھی۔ حجاب سدرہ کی بے چینی کو سمجھ گئی تھی ۔ اسی لیے کھانے کے فوراً بعد ہی وہ اسے لے کر وہاں سے نکل گئی 

 _________*****

 ‏رِکی پلیز میں بہت مشکل میں ہوں اگر ہوٹل ہاتھ سے نکل گیا تو میں سڑک پر آ جاؤں گا زوہیب تقریباً اس کی منت کرتے ہوۓ بولا۔۔۔

 ‏ہممم زوہیب کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ میں ایک شرط پر تمہیں یہ رقم دے سکتا ہوں۔۔۔ اور اگر تم مان جاتے ہو تو یقین مانو میں تم سے ایک روپیہ بھی واپس نہیں لوں گا۔ رِکی شیطانی انداز میں مسکراتے ہوے بولا۔۔۔ 

 ‏ہاں ہاں مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے ۔۔ تم بس بتاؤ تو سہی۔۔۔ 

 ‏رِکی زوہیب کی طرف ہلکا سا جھکا اور بولا سوچ لو۔ 

 ‏سوچ لیا تم بتاؤ تو ۔۔۔

 ‏یور وائف فار ون نائٹ۔۔۔۔

 ‏زوہیب ایک دم سے سکتے میں آگیا اور رِکی کو اس طرح دیکھنے لگا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔۔۔ 

 ‏کیا ہوا زوہیب سوچ لو میری آفر پر اچھی طرح غور کرو ۔۔۔اب تمہاری مرضی تمہیں سڑک پر آنا ہے یا۔۔۔ ؟

 ‏رِکی اتنا کہہ کر اٹھا اور زوہیب کے کندھے کو تھپکا کر چلا گیا۔۔۔

 ‏زوہیب اسی حالت میں کافی دیر وہی بیٹھا رہا۔۔۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹

سالار اور حیدر کافی دیر سے لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھورے جا رہے تھے۔۔ 

چاچو آپ کو کیا لگتا ہے ۔ سالار ہونٹ چباتے ہوۓ بولا۔۔ 

ہممم لگتا تو ولی ہی ہے۔۔ حیدر سیدھا ہو کر بیٹھا اور  سالار کی طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوے بولا ۔  ولی ہی ہے یہ کمپنی فرینکو کی ہے اور یقیناً ولی ہی بزنس کے بہانے ہمیں اٹلی بلانا چا رہا ہے۔۔ 

سالار خوشی سے کرسی سے اٹھا اور دونوں ہاتھ منہ پر مارتے ہوۓ بولا ۔۔ فائنلی اتنے لمبے ٹائم کے بعد میرا بھائی ملے گا۔۔ میں تو خوشی سے پاگل ہو جاؤں گا چاچو آپ کو پتہ نہیں میں اس گدھے کو کتنا مس کر رہا ہوں۔ 

حیدر افسردہ سا اٹھا اور بولا ۔۔سالار تم وہاں جا کر بھی اسے اس طرح سے نہیں مل پاؤ گے کیوں کے ابھی کچھ عرصہ اور اسے ہم سے لاتعلق رہنا ہے یہ تو صرف بہانہ ہے ملنے کا جو اس نے ڈھونڈا ہے۔۔ اور میں نہیں جاؤں گا تم چلے جانا۔میں نہیں کر پاؤں گا یہ ڈرامہ کے میرا بیٹا میرے سامنے ہو اور میں اسے اجنبیوں کی طرح ملوں اور پھر میں ایک بار پھر سے اسے ملنے کے بعد اکیلا واپس نہیں آ پاؤں گا۔۔ ۔اور ہاں رات پارٹی میں پری کو بھی لانا حناء بھی آ رہی ہے چلو دونوں کو ایک دوسرے کی کمپنی مل جاۓ گی ورنہ تمہاری آنٹی واپس جا کر بور ہونے کے تانے مارتی رہیں گی۔۔  اور جہاں تک اٹلی جانے کی بات رہی تو وہ گھر بیٹھ کر ڈسکس کریں گے۔۔۔ 

_______****

اُفف سالار ایک تو اپ جو ہیں۔۔۔ پری دوپٹہ سنبھالتے ہوۓ منہ بنا کر بولی تو سالار جلدی سے گھوم کر کار کے دوسری طرف آیا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولا۔ اوو پرنسز کہا نا نہیں بور ہو گی انٹی ہیں نا۔۔ 

نہیں آپ کی بزنس رلیٹ پارٹی ہے کوئی ضروری تھا مجھے لانا۔ اس سے بہتر تھا کے آنٹی کے گھر چھوڑ دیتے۔۔ 

اب سالار کا صبر ختم ہو گیا تھا کیوں کے کئی گھنٹوں سے پری بس اسی طرح کی باتیں کئے جا رہی تھی۔۔ سالار نے غصے سے آنکھیں نکالی تو پری کو بریک لگی۔ 

پارٹی ہال میں خوب گھما گھمی تھی۔ پری اور حناء کچھ لیڈیز ورکرز سے گپ شپ میں بزی ہو گئی ۔ کچھ دیر بعد پری کی نظر ایک آدمی پر پڑی اور وہ آنکھیں سکیڑکر سرگوشی میں بولی ۔۔ عمر بھائی۔ 

کیا؟ کون ؟حناء نے ایک دفعہ پری کو اور دوسری دفعہ اس نوجوان کو دیکھا اور بولیں کون ہے یہ۔۔۔

عمر بھائی اور کون۔۔۔ 

عمر کون عمر؟۔۔۔

اففف انٹی اپنی وہ ہےنا بے وفا سدرہ اس کے بڑے بھائی

اتنا کہہ کر پری اٹھی اور سیدھی عمر کی طرف چل دی۔۔۔

عمر جو کسی سے بات کر رہا تھا۔ اسے اپنے پیچھے کسی کے کھانسنے کی آواز آئی تو اس نے مڑکر دیکھا اور خیرت سے مسکراتے ہوۓ پری کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا تم یہاں؟

ابھی عمر کچھ اور بولتا اس سے پہلے ہی سالار پری کے پاس آ کر کھڑا ہوتے ہوۓسجیدگی سے عمر کی طرف دیکھ کر بولا یہ میری وائف ہیں۔ انہیں یہاں نہیں تو کہاں ہونا چاہیے مسٹر عمر۔۔۔ 

عمر جو سالار کو دیکھ کر پہلے سے ہی الرٹ ہو چکا تھا۔ ہلکا سا مسکرا کر بولا سوری سر مجھے نہیں پتا تھا کے پری آپ کی وائف ہے۔۔ 

عمرکی زبان سے پری کا نام اتنی بے تکلفی سے سن کر  سالار غصے سے سرخ ہو گیا۔۔۔ 

اُفف سالار اب غصہ مت کرنا پلیز آپ جانتے ہیں یہ عمر بھائی ہیں وہ اپنی سدرہ ہے نا اس کے بڑے بھائی۔۔ بتایا تھا نا میں نے کیسے تنگ کرتی تھی ہم دونوں انہیں ۔۔۔

سالار عمر کا تعارف سن کر کچھ نارمل ہوا اور عمر سے ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا سوری فار مائی بی ہیوئیر ۔۔۔ 

نو نو سر کوئی بات نہیں۔۔۔ 

عمر بھائی پہلے مجھے یہ بتائیں کے یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ایک تو میرے بغیر ہی سدرہ کی شادی کر دی اور دوسرایہ کےسال سے بھی اوپر ہو گیا ہے ایک دفعہ بھی اس نکمی لڑکی نے کال تک نہیں کی۔۔۔  پری ناراض سی ہوتے ہوۓ بولی تھی۔۔۔

ہممم شادی میں تو میں بھی نہیں جا سکا۔۔ کیوں کے مجھے یہاں آۓ ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا۔۔ اور جہاں تک کال کی بات رہی تو یقین مانو اس تمام عرصے میں میری بھی صرف ایک دفعہ بات ہوئی ہے اس سے اور وہ بھی بس دو منٹ کی۔۔۔ اب میں سوچ را تھا کے چھٹی لے کر ہفتے ڈیڑھ کے لیے جاؤں اٹلی کیوں کے حمزہ کافی پریشان ہے سدرہ کو لے کر ۔۔ کہہ رہا تھا کے اس کی پچھلے کئی مہینوں سے بات نہیں ہو پا رہی۔۔ صرف بھابی کی بات ہوتی ہے اور وہ اتنا کہہ دیتی ہیں کے ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔سدرہ کی پریشانی کی وجہ سے امی کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی ہے۔۔ 

پری پریشان سی ہوتے ہوۓ بولی یہ کیا بات ہوئی۔۔۔

ہممم بس سدرہ ہی کی پریشانی ہے سب کو تم دعا کرو کے سب ٹھیک ہو۔ کیوں کے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ کچھ تو مسلہ ہے۔ نا تو سدرہ کے پاس فون ہے اور نہ ہی کسی کی ٹھیک سے اس سے بات ہو پا رہی ہے۔ اور تمہیں تو پتہ ہے وہ بس باتیں ہی کر سکتی ہے ورنہ تو ایک نمبر کی ڈرپوک ہے۔ اللہ ہماری چڑیا کی خفاظت کرے ۔ ۔ عمر بجھی سی آواز میں بولا۔۔۔

سالار نے عمر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اسے تسلی دی کے سب ٹھیک ہو گا۔۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

زوہیب نے مسکرا کر سدرہ کی طرف دیکھا اور کپڑوں والا بیگ اسے دیتے ہوۓ بولا ۔ یہ تمہارے لیے ہے اسے پہن کر تیار ہو جاؤ آج ہم ڈنر باہر کریں گے۔۔۔ حجاب کو میں نے منہ کر دیا ہے آج وہ نہیں آۓ گی۔۔۔

سدرہ خیرت سے زوہیب کو اک ٹک دیکھے چلی گئی اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کے زوہیب اس کے لیے کپڑے لایا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر وہ اسے ڈنر پر لے جا رہا ہے۔۔ 

سدرہ کو ساکت کھڑے دیکھ کر زوہیب نے آنکھیں زور سے بند کرتے ہوۓ اپنےغصے کو پیا اور بولا ۔ آٹھ بجے جانا ہے ساڑھے چھ بج گۓ ہیں۔۔ اور ہاں زرہ میک آپ سے یہ نشان چھپا لینا ۔۔۔ 

سدرہ کا دل عجیب سی پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا۔۔ اسے کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔ 

فریش ہونے کے بعد اس نے کپڑے بیگ سے نکالے تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹئ رہ گئی۔اس کے پسندیدہ پنک کلر کی میکسی ۔۔۔ 

سدرہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔ اس کے دماغ نے  خطرے کی گھنٹی بجائی۔۔ لیکن وہ سارے خیال جھٹک کر تیار ہونے میں لگ گئی۔۔ 

______****

تقریباً چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد زوہیب نے گاڑی ایک چھوٹے سے کاٹج کے باہر روکی اور سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔ چلو

سدرہ نے گاڑی سے باہر نکل کر آگے پیچھے کا جائزہ لیا۔ تو سنسان سی جگہ دیکھ کر ڈر سی گئی کیوں کے وہاں دور دور تک کوئی اور گھر نہیں تھا۔ اور نہ ہی سڑک پر کوئی آمدورفت تھی۔۔ 

یہ کیسی جگہ ہے آپ نے تو ڈنر کا کہا تھا۔۔پر یہ تو کسی کا گھر لگتا ہے۔۔ سدرہ نے آپنے اندر بچی کھچی ہمت اکٹھی کر کے زوہیب سے آخر پوچھ ہی لیا جو دروازے سے اندر جاتے ہوۓ سدرہ کا سوال سن کر  کچھ روکا۔ اور مڑ کر اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ بولا۔ اندر چلو۔۔

سدرہ چپ چاپ صوفے پر بیٹھی آگے پیچھے آنکھیں گھما کر کمرے کو دیکھ رہی تھی جب دروازہ دوبارہ سے کھلا۔ اور رِکی اندر آیا۔۔ 

زوہیب نے جلدی سے فون جیب میں ڈالا اور اُٹھ کر رِکی سے ملا۔۔ 

رِکی سدرہ کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوۓ شیطانی انداز میں مسکرایا اور ہاتھ ہلا کر اسے ہیلو کہا۔۔ 

سدرہ کو اس کی نظر کچھ ٹھیک نہ لگی اور اس نے بس گھبرا کر نظر جھکا لی۔۔

زوہیب رِکی سے ملنے کے بعد سدرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا آل  یورز اور سدرہ کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوے جھکا اور بولا۔ اچھے سے پیش آنا میرے دوست سے اور کوئی گڑ بڑ ہرگز مت کرنا۔ سمجھی ۔۔صبح میں آ کر لے جاؤں گا ۔۔۔ 

سدرہ خیرت اور خوف سے کانپتے ہوۓ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

کیا مطلب۔۔اس نے کانپتی ہوئی آواز میں زوہیب سے پو چھا جو اپنی بات مکمل کر کے جانے کے لیے مڑ چکا تھا۔۔ 

مطلب کیا ہے آپ کا۔۔

زوہیب خون خوار انداز میں مڑا اور اپنی انگلی لہراتے ہوۓ بولا وہی مطلب جو تم سمجھی ہو اور مزید ایک لفظ بھی نہیں چپ چاپ جیسا یہ کہے مان لینا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔ اتنا کہہ کر وہ دوبارہ سے جانے کے لیے  مڑا 

سدرہ نے جلدی سے زوہیب کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ پلیز زوہیب آپ ایسا مت کریں پلیز میں آپ کی بیوی ہوں آپ ایسے کیسے مجھے کسی کے حوالے کر سکتے ہیں سدرہ اب گڑ گڑا کر بولی ۔ تو زوہیب نے اسے زور سے دھکا دے کر صوفے پر گرا دیا اور رِکی کو اشارہ کرتے ہوۓ بولا ۔ سنبھالو اسے ۔۔اور اس سے پہلے کے سدرہ اٹھتی یا کچھ اور کہتی وہ تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔۔ 

سدرہ اٹھ کر اس کے پیچھے روتی ہوئی بھاگی لیکن رِکی نے اس کی کمر میں آپنی بازو گھما کر پکڑ لیا اور اسے کھینچتا ہوا بیڈ روم کی طرف لے جانے لگا۔۔ 

سدرہ چیختی ہوئی اس کی بازوں میں زور زور سے پھڑ پھڑانے لگی ۔

 رِکی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر وہ رو رو کر فریاد کرنے لگی پلیز چھوڑ دو پلیز ۔۔۔۔

 ‏رِکی نے اسے بیڈ پر زور سے پٹخا اور  بولا ششش آپنی انرجی ضائع مت کرو کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔اتنا کہہ کر وہ سدرہ کی طرف جھکا۔ 

 ‏سدرہ کے دماغ میں اپنی ماں کے کہے لفظ گھومنے لگے۔۔۔

 ‏بیٹا ایک عورت کی عزت سب سے بڑی چیز ہوتی ہے اگر عزت چلی گئی تو سب ختم ۔۔

 ‏سدرہ کو خوش تب آیا جب اسے رِکی کے ہونٹ آپنی گردن پر محسوس ہوۓ۔۔

 ‏اس کے پورے جسم میں کرنٹ سی دوڑ گئی۔ اور اپنی پوری طاقت سے اس نے رِکی کو دھکا دیا اور وہ لڑکھڑا کر دوسری طرف گر پڑا سدرہ اٹھ کر بھاگنے لگی تو رِکی نے بازو سے پکڑا لیا۔۔ 

 ‏سدرہ نے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ پڑے لیمپ کو اٹھا کر رِکی کے سر پر دے مارا۔۔۔ اور بھاگ پڑی۔۔ اس کی میکسی کی زپ اب ٹوٹ چکی تھی اور بال بکھرے ہوۓ اور خوف اور شرم سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی گھر سے باہر نکلی اور اندھا دھن جس سمت سے وہ اور زوہیب آۓ تھے اس کی بجاۓ دوسری سمت بھاگ پڑی۔۔ اللہ پلیز پلیز میری مدد کر میرے رب ۔۔ اللہ مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔ اللہ پلیز  مجھے موت دے دے۔۔  وہ جو منہ میں آ رہا تھا بڑ بڑاۓ جا رہی تھی اور بھاگتی جا رہی تھی۔کے اچانک سے وہ کسی چیز سے  زوردار طریقے سےٹکرائی اور کئی فُٹ ہوامیں اُڑی اور پھر زور سے زمین پر جا گری۔ سدرہ کو اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا محسوس ہونے لگا۔ اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کا مسکراتا چہرہ حمزہ ، عمر بلال سبھی اس کو اپنی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوے نظر آۓ۔۔ اور پھر سب گم ہو گئے۔۔ اور ایک ہی چہرہ رہ گیا ۔۔۔ ابو ابو بس اتنے لفظ سدرہ کی لڑکھڑاتی زبان سے نکلے  اور ایک گرم سا آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر جانے کہاں کھو گیا۔۔اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

 ‏سلمیٰ کی بات سن کر نسیم دل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ لمبی لمبی سانس لیتے ہوۓ سر نفی میں ہلا کر بولی۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جھوٹ بول رہی ہیں آپ۔۔ اب نسیم چیختے ہوۓ زمین پر گر پڑی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔۔۔۔ 

 ‏عالیہ آنکھیں پھاڑے کبھی اپنی ساس اور کبھی سلمیٰ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔ 

 ______****

حمزہ کمرے میں سو رہا تھا جب اس کے کانوں میں ماں کے چیخنے کی آواز پڑی ۔۔ 

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بھاگا۔ جب وہ صحن میں پہنچا تو ماں کو زمین پر بیٹھے چلاتے دیکھ کر بھاگ کراس کو اپنے گلے لگاتے ہوۓ بولا امی کیا ہو گیا کیوں اس طرح رو رہی ہیں۔جب نسیم پوچھنے پر بھی نہ بولی تو اس نے عالیہ اور سلمیٰ کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔ کوئی بتاۓ گا کیا ہوا۔ ۔۔

_______****

بھاگ گئی تمہاری بہن آپنے کسی عاشق کے ساتھ میرے بیٹے کو چھوڑ کر ۔۔۔ سلمیٰ بڑی سنگدلی سےبولی تو حمزہ جیسے سکتے میں ہی رہ گیا۔۔۔ 

ہمیں پتہ ہوتا کے تمہاری لڑکی اتنےبرے کردار کی ہے تو ہم تو تم لوگوں کی طرف دیکھتے بھی نہ۔۔۔ اللہ میرے بیٹے کو تو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا تمہاری بدچلن بیٹی نے۔ 

بس اتنا کہنا تھا سلمیٰ کا کے حمزہ بجلی کی تیزی سے اٹھا اور سلمیٰ کو گلے سے پکڑ لیا۔ خبردار خبردار جو سدرہ کے بارے میں کچھ بھی غلط بولا۔ جان لے لوں گا اتنا کہتے ہوۓ حمزہ نے سلمیٰ کو پیچھے کی طرف دھکا دیتے ہوۓ چھوڑا تو وہ زمین پر جا گری اس کا سر زمین پر زور سے لگا۔ اور خون نکلنے لگا عالیہ بھاگ کر سلمیٰ کو اٹھانے آئی۔۔ 

اب یہ حال تھا کےنسیم کے گھر کے شور سے محلے کے لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ کر نسیم کے گھر ہونے والے شور شرابے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

سلمیٰ سر پکڑتی اُٹھ کر کھڑی ہوئی اور آگے پیچھے چھتوں پر لوگوں کو دیکھ کر جان بوجھ کر  اونچی آواز میں غصے سے چلا کر بولی دیکھو تم سب لوگ بھی کیسے بے غیرت ہیں یہ لوگ۔۔ بیٹی آپنی بدکردار ہے۔ کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہےمیرے بیٹے کو چھوڑ کر۔۔ شرمندہ ہونے کی بجاۓ الٹا  ہم پر ہی غصہ کر رہے ہیں۔۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔اور تم تو زرہ ٹھہرو تمہارا علاج بھی کرواتی ہوں میں تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ اور اس بات کا سارا محلہ گواہ ہے۔ اب تمہیں جیل میں نہ سڑوایا تو میرا نام بدل دینا سلمیٰ حمزہ کو کھا جانےوالے انداز میں کہتی وہاں سے نکل گئی۔۔

نسیم دل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ زمین پر ڈھیر ہو گئی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹حجاب نے زوہیب کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا اور دانت پیستے ہوۓ بولی ۔۔ تین دن ہو گئے۔ سدرہ غائب ہے اور تم مجھے آج بتا رہے ہو

زوہیب مجھے سچ سچ بتاؤ ۔۔

زوہیب اپنی بازو چھڑواتے ہوۓ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔ کیا بتاؤں بتا تو دیا جو سچ ہے۔۔۔ 

اووو یہ سچ ہے اچھا ہممم اور تمہیں لگتا ہے کے مجھے تمہاری اس جھوٹی کہانی پر یقین آ جاۓ گا ۔ ہممم حجاب اب غصے میں سرخ ہوتے ہوۓ بولی تھی۔۔

دیکھو زوہیب جلدی سے سچ بتاؤ کہاں ہے سدرہ۔۔۔ کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ ۔

میں جانتی ہوں کے تم اسے مارتے پیٹتے تھے ۔اس کے باوجود میں نے تم سے کوئی بات نہیں کی۔۔ اور جہاں تک سدرہ کی بات رہی تو وہ لڑکی بہت معصوم اور بھولی سی ہے۔وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتی۔۔۔ زوہیب میرا دل کہہ رہا ہے کے کچھ بہت غلط ہو گیا ہے۔۔ تم پلیز مجھے بتاؤ مجھے ملنا ہے سدرہ سے۔۔۔حجاب اب زوہیب کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔

حجاب پلیز تم جاؤ مجھے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی۔بلکہ میں ہی چلا جاتا ہوں۔ زوہیب اتنا کہہ کر کار کی چابیاں اُٹھاتا باہر نکل گیا۔۔۔۔

حجاب منہ پر ہاتھ رکھ کر سسک کر رونے لگی ۔اور سرگوشی میں بولی۔سوری سدرہ سوری میں کچھ نہیں کر سکی تمہارے لیے ۔۔ کہاں ہو تم کیسے ڈھونڈھوں میں تمہیں ۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عمر نے تیسری دفعہ فون کاٹا تو حیدر نے فائل سے نظر اٹھا کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھا۔۔تو عمر شرمندہ ساہو کر بولا سر سوری گھر سے کال ہے۔۔

ہمم تو بات کر لو پہلے  حیدر مسکرا کر بولا ہی تھا کے دوبارہ سے عمر کا فون بجنے لگا۔۔ 

عمر نے کال رسیو کر کے مسکراتے ہوۓ ابھی کان سے ہی لگائی تھی کے دوسری طرف سے  حمزہ صرف اتنا ہی بولا عمر میرے بھائی۔۔۔

عمر ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھبراتے ہوۓ فون ایک کان سے دوسرے پر لگتے ہوۓ بولا حمزہ کیا ہوا کیوں رو رہے ہو ۔۔ خیریت تو ہے۔۔ گھر سب ٹھیک تو ہیں۔۔۔

حیدر فائل بند کر کے عمر کے رنگ بدلتے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ 

عمر امی امی کو ہارٹ اٹیک آیا ہے ان کی حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں وہ ایمرجنسی میں ہیں ۔۔ حمزہ روتے ہوۓ بولا ۔۔۔

کیا؟ کیسے؟ کب؟ کیوں؟ عمر گھبراہٹ اور دکھ میں اپنے لفظوں کو ترتیب نہیں دے پارہا تھا۔

تبھی حمزہ پھٹی سی آواز میں بولا ۔۔عمر سدرہ۔۔ سدرہ کے ساتھ کچھ بہت غلط ہو گیا ہے وہ انٹی سلمیٰ آئی تھیں وہ فضول بکواس کر رہی تھیں سدرہ کے بارے میں۔۔۔

عمر کو لگا جیسے اس کی ٹانگوں میں جان ختم ہو گئی ہو وہ لڑکھڑا تا ہوا کرسی پر گر پڑا ۔ اور بولا مطلب مطلب کیا کیا کہا ان نے میری چڑیا کے بارے میں۔۔۔

عمر وہ کہہ رہی تھیں کے سدرہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔اور اب  انہیں سدرہ کا کچھ پتہ نہیں کے وہ کہاں ہے۔۔

حمزہ کی بات سن کرعمر کے ہاتھ سے فون گرتے گرتے رہا۔۔ عمر کانپتی آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکا ۔ میں آ رہا ہوں ۔۔۔

حیدر اُٹھ کر عمر کے پاس آ کھڑا ہوا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا کیا ہوا۔۔

عمر نے نم آنکھوں سے حیدر کی طرف دیکھا اور آبدیدہ سا بولا سر مجھے پاکستان جانا ہے۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

پلیز سر  بچہ ہے یہ اس نے کچھ نہیں کیا۔اپ مجھے لے جائیں۔ بلال پولیس انسپکٹر کی منت کرتے ہوۓ بولا جو حمزہ کو ہتھکڑی لگاۓ پولیس وین کی طرف جا رہا تھا۔۔ 

دیکھیں جناب ایف آئی آر کٹوائی ہے آپ کے بھائی کے خلاف اپ کی بہن کے سسرال والوں نے۔۔آپ کے بھائی نے زخمی کیا ہے بی بی کو اور اس کے گواہ بھی ہیں۔۔۔اب عدالت ہی فیصلہ کرے گی ۔۔میں کچھ نہیں کر سکتااور باقی آپ تھانے آجائیں وہیں بات ہو گی ۔۔ اتنا کہہ کر پولیس انسپکٹر حمزہ کو لے کر چلا گیا۔

بلال نے حمزہ کا فون عالیہ کو تھمایا اور سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ایمرجنسی روم کے باہر بیٹھ گیا۔۔

دیکھیں جی آپ کیوں اتنے پریشان ہو رہے ہیں ۔ اب حمزہ نے غلطی کی ہے تو سزا تو ملے گی نا کیا ضرورت تھی اسے سلمیٰ انٹی پر ہاتھ اُٹھانے کی اب سچ تو کڑوا ہی ہوتا ہے نا انہوں نے تو سدرہ کی سچائی بتائی تھی۔ بجاۓ شرم سے منہ چھپانے کے اُلٹا انہی کو مارا۔۔۔عالیہ الٹے سیدھے منہ بناتے اپنی زبان کا زہر اگلنے لگی تو بلال نے سر اٹھایا اور اپنے دونوں ہاتھ عالیہ کے آگے جوڑتے ہوۓ بولا خدا کے لیے چپ ہو جاؤ میری ماں اندر زندگی موت کی جنگ لڑ رہی ہے بہن میری کا کچھ پتہ نہیں اور تم ہو کے زرہ خدا کا خوف نہیں تمہیں ڈرو خدا سے تم بھی ماں بنے والی ہو اسی بات کی تھوڑی شرم کر لو۔۔۔

عالیہ غصے میں چلا کر بولی خبردار جو میرے بچے کو بیچ میں لاۓ۔ اور دوسرا شرم آپ کو ہونی چاہیے بہن آپ کی نے گل کھلایا ہے ۔ہم سب کو اور سسرال والوں کو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا اس نے ۔۔ رہیں یہاں اپنی ماں کے پاس آپ۔۔ میں گھر جا رہی ہوں۔ اتنا کہہ کر عالیہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عمر بھائی کیاہوا آنٹی کو مجھے انکل نے بتایا کے وہ ہاسپیٹل میں ہیں۔ پری جو سالار کے ساتھ عمر کے گھر پہنچی تھی اندر آتے ساتھ ہی بےچینی سے بول پڑی۔۔ 

ہارٹ اٹیک آیا ہے امی کو عمر پری کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ افسردہ سا بولا۔۔

کیوں کیا ٹینشن لی آنٹی نے پری صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔ عمر اور سالار بھی صوفے پر بیٹھ گۓ۔۔ 

ہمم وہ سدرہ کی ساس آئی تھیں وہ سدرہ کو لے کر کچھ فضول باتیں کی ان نے تو امی سے برداشت نہیں ہوا۔۔

کیا ؟کیا کہا اُن نے سدرہ کے بارے میں پری آنکھیں سکیڑتے ہوۓ بولی۔۔

عمر سر نفی میں ہلانے لگا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوۓلمبی سانس لے کر بولا ۔۔

میں نے بتایا تھا نا کے سدرہ سے کسی کا رابطہ نہیں ہو پا رہا ۔۔ مجھے تو پہلے ہی کچھ شک تھا ۔۔ اب اُس کی ساس الزام لگا رہی ہیں کے سدرہ گھر سے بھاگ گئی ہے کسی کے ساتھ عمر نے اتنا کہہ کر سر جھکا لیا۔۔۔

 کیا؟ کیا بکواس ہے یہ۔۔۔ سدرہ ؟ سدرہ کے بارے میں ایسی بات کر کیسے دی اس عورت نے ہم جیسے جانتے نہیں سدرہ کو ۔

 ‏کیا بیہودگی ہے یہ ہمت کیسے ہوئی ان کی ایسا الزام لگانے کی۔۔عمر بھائی آپ یقین مانے وہ لوگ کچھ چھپا رہے ہیں ۔بات اصل میں کچھ اور ہی ہو گی۔۔   الزام لگا رہے ہیں وہ ہماری سدرہ پر۔۔۔ وہ تو بہت سیدھی سی ہے۔ پری اب روتے ہوۓ بولی۔۔ پری کو روتے دیکھ کر سالار نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور چپ کروانے لگا۔۔

پری کچھ نہیں ہو گا سدرہ کو تم پریشان مت ہو ۔۔ سالار اسے چپ کرواتے ہوۓ بولا۔۔اور پھر عمر سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا۔۔ عمر سدرہ کے شوہر کا نام اور باقی معلومات جو تمہیں پتہ ہیں وہ مجھے دے دو ہم لوگ دو دن بعد اٹلی جا رہے ہیں وہاں میرے جاننے والے ہیں ان کی کافی پہنچ ہے وہ سدرہ کو ڈھونڈ نکالیں گے اور سارے معاملے کی حقیقت بھی کھل جاۓ گی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ڈیڈ ۔۔۔تھامس اب بہت بری طرح پھس گیا ہے اس کے بہت سے  حاص آدمی مارے جا چکے ہیں اب وہ پاگل ہو رہا ہے۔۔ کیوں کے اس کی طاقت پہلے جیسی نہیں رہی۔۔ بس اب آپ کے ایک اشارےکا انتظار ہے۔۔ اسے کیسی موت دینی ہے۔۔ ایلکس سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوۓ ہلکا سا مسکرا کر بولا۔۔۔

 فرینکو کے بولنے سے پہلے ہی ولی اٹھ کر کھڑا ہوا اور پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ بولا۔۔ ابھی نہیں اسے پہلے سڑک پر لانا ہے۔۔اسے اتنی آسان موت تھوڑی دینی ہے ۔اسے اتنی اذیت دینی ہے کے وہ موت کی بھیک مانگے گا ہم سے اور اسے موت نہیں آۓ گی وہ اپنے کئے کی سزا ضرور بھگتے گا۔۔ 

 ‏فرینکو نے سر اٹھا کر ولی کی طرف دیکھا اور کھڑا ہو گیا اسے گلے سے لگا کر آنکھیں بند کرتے ہوۓ بولا ۔۔دیٹس لائق مائی سن۔۔۔اور پھر مسکراتے ہوۓ بولا اب میں پر سکون ہوں کیوں کے میرے دو بیٹے معاملات سنبھال لیں گے۔۔ ایلکس اب میرے اشارے کی ضرورت نہیں ہے تم دونوں جیسے چاہو کر لو فرینکو یہ کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

 ‏ایلکس ولی کے کندھے سے کندھا ٹکراتے ہوۓ بولا تو پھر آج رات پارٹی ہو جاۓ۔۔ اتنے میں ایلکس کا فون بجا اس نے جیب سے فون نکالا اور فون پر چمکتے نام کو دیکھ کر ایلکس نچلا ہونٹ دانت میں دباتے ہوۓ ولی کو آنکھ مار کر بولا ۔۔ آج تو میری رات اور بھی حسین ہونے والی ہے ۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے فون کان سے لگایا اور  بولا ہمم میکس بولو کام ہوا ۔۔فون کے دوسری طرف سے میکس کھل کر ہستے ہوۓ بولا پہلے کبھی ایسا ہوا کے کام نہ ہوا ہو۔۔۔ کلب میں ملو ۔۔

 ‏اوکے میں اور نوحہ آرہے ہیں ۔۔ ایلکس نے فون بند کیا اور جیب میں ڈالتے ہوۓ بولا ۔۔ فن ٹائم برو۔ ۔۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 رِکی یہ سب تمہاری غلطی ہے ۔۔ میں نے اسے تمہارے حوالے کیا تھا تم ایک چھوٹی سی لڑکی کو سنبھال نہیں پاۓ۔  اگر وہ واپس آگئی تو ۔۔۔

 ‏واپس نہیں آۓ گی میں نے آپنی آنکھوں سے اسے گاڑی سے ٹکراتے دیکھا تھا ۔ممکن ہی نہیں اتنے زور سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ بچ گئی ہو ۔۔ اور جہاں تک پیسوں کی بات رہی تو بھول جاؤ زوہیب کوئی پیسے نہیں دینے میں نے وہ تمہاری بیوی اس نے جو میرے ساتھ کیا یقین مانو اگر میرے ہاتھ لگ جاتی تو وہ حال کرتا کے مرتے دم تک یاد رکھتی۔۔رِکی غصے میں کہہ کر اٹھا تو زوہیب نے اسے کالر سے پکڑ لیا۔۔ 

 ‏رِکی پیسے تو تمہیں دینے پڑیں گے۔ ۔۔

 ‏رِکی نے زوہیب کو زور سے دھکا دے کر پیچھے ہٹایا اور کالر ٹھیک کرتے ہوۓ بولا ۔۔ دوبارہ یہ غلطی مت کرنا ورنہ آپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کے لائق نہیں رہو گے۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹حجاب نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو اس کا سر چکرا گیا۔۔

 ‏آنکھیں زور سے بند کی تو اس کو یاد آیا کے اصل میں اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔

 ‏جب وہ زوہیب کے گھر سے نکل کر ٹیکسی میں بیٹھی تھی تو اچانک سے ٹیکسی کے دوسرے دروازے سے کوئی آدمی اندر آیا تھا اور اس نے حجاب کے منہ پر کپڑا رکھا اور  پھر۔ ؟؟؟؟ 

 ‏حجاب نے ایک دم سے آنکھیں کھول کر بدحواسی میں آگے پیچھے دیکھا۔وہ کسی انجان کمرے میں تھی۔۔ وہ ایک چھوٹا سا قدرِ ماڈرن سٹائیل کمرہ تھا۔۔اب حجاب کو احساس ہو چکا تھا کے کسی نےاسے اغواء کیا ہے۔۔ حجاب جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی لیکن وہ لاک تھا۔۔ وہ زور زور سے دروازے پر ہاتھ مارتے ہوۓ رونے لگی پلیز دروازہ کھولو ۔ کافی دیر بعد وہ تھک کر دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور روتے روتے سر اٹھا کر کمرے کا جائزہ لیا۔۔ کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔  ہاں ایک اور دروازہ تھا ۔ جو یقیناً واش روم کا تھا۔۔ حجاب کی نظر جیسے ہی اس دروازے پر پڑی وہ اٹھ کر اس کی طرف بھاگی کے شاید وہاں سے باہر جانے کا راستہ مل جاۓ ۔۔دروازے کا ہینڈل گھما کر جب اس نے دروازہ کھولا تو واش روم دیکھ کر وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر سر نفی میں ہلاتے ہوۓ  رونے لگی۔۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏حیدر انکل کیا بات ہے آپ بولیں میں سن رہا ہوں۔۔ سالار جو کافی دیر سے سوچ میں پڑے حیدر کو دیکھ کر اب بول ہی پڑا تھا۔۔ 

 ‏سالار مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔۔

 ‏جی انکل بولیں۔۔

 ‏وہ دراصل بات یہ ہے کے ولی نے جاتے وقت مجھے بتایا تھا کے وہ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے۔۔

 ‏کیا؟ ولی کسی کو پسند کرتا ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں۔ اور اس گدھے نے مجھے بتانا ضروری ہی نہیں سمجھا سالار ناراضگی سے بولا۔۔۔ کون ہے وہ انکل۔۔

 ‏حیدر انگلیوں سے ماتھا دباتے ہوۓ بولا۔۔ سدرہ۔۔۔۔پری کی دوست سدرہ

 ‏کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔۔ 

 ‏سالار کو جیسے سکتا ہو گیا تھا اور چاۓ لاتی پری جو تقریباً پوری بات سن چکی تھی  ۔اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی تو حیدر اور سالار دونوں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔ 

 ‏پری نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پر رکھی اوربے جان سی ہوتی سالار کے پاس بیٹھ گئی اور بولی ۔۔انکل آپ نے اُسی وقت کیوں نہیں بتایا۔۔ ہم سدرہ کو مانگ لیتے ولی بھائی کے لیے آپ یقین کریں وہ خوشی خوشی ہمیں رشتہ دے دیتے۔کم از کم وہ اس زوہیب سے تو بچ جاتی۔اب پری سالار کے بازو سے ٹیک لگا کر رونے لگی۔۔

 ‏ہاں میں مانتا ہوں کے مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔پر میں کیسے یہ بات کرتا جب مجھے ولی کی واپسی کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔اور ویسے بھی مجھے اُمید ہی نہیں تھی کے اتنی جلدی سدرہ کی شادی ہو جاۓ گی۔۔

 ‏مجھے اب یہ پریشانی ہے کے جب دو دن بعد تم جا کر سدرہ کی بات کرو گے تو ولی ۔۔ولی کیا ری ایکٹ کرے گا۔۔

 ‏ظاہری سی بات ہے انکل اس کا ری ایکشن کافی زیادہ ہو گا۔۔ کیوں کے غلطی ہماری ہے ۔۔ہم چاہتے تو سدرہ کا رشتہ مانگ سکتے تھے ۔پھر ولی چاہے ایک یا دو سال بعد آتا اسے آخر آنا تو تھا ۔۔ سالار اب بے چین سا ہو گیا تھا کیوں کے اسے پتہ تھا کے ولی بے شک بہت پرسکون انسان ہے پر جب بات اس کے دل کے قریب لوگوں کو لے کر آ جاۓ تو وہ بلکل برداشت نہیں کرتا ۔۔سالار کو آج بھی یاد تھا کے کالج میں جب سالار کی لڑائی ہوئی تھی اور ایک لڑکے نے سالار کو مکا مار کر اس کے ناک کی ہڈی توڑی تھی ۔۔تو ولی نے اس لڑکے کو اتنا مارا تھا کے وہ پورا ایک مہینہ ہسپتال میں ایڈمیٹ رہا تھا۔  

 ‏اور اب تو بات ولی کی پسند کی تھی بات اس لڑکی کی تھی جسے وہ پسند کرتا تھا۔۔اور سدرہ بے شک پہلی لڑکی ہے جس سے پسندیدگی کا اظہار اس نے کیا تھا۔۔ورنہ تو وہ کبھی کسی لڑکی کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

 ‏اب کیا ہو گا آپ بتائیں گے ولی بھائی کو سدرہ کے متعلق۔۔ پری سالار کی طرف مایوسی سے دیکھتے ہوۓ بولی۔۔

 ‏ہمم بتانا تو پڑے گا کیوں کے ان کے علاوہ اور کوئی سدرہ کو ڈھونڈنے کا کام کر ہی نہیں سکتا۔۔۔

 ‏سالار بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ بے چینی سے بولا کاش آپ یا ولی مجھے بتا دیتے تو قسم لے لیں انکل کسی کی مجال نہیں تھی کے سدرہ کو ولی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ رخصت کرتے۔۔۔

 ‏لانت ہے مجھ پر۔۔ اتنا کہتا سالار غصے میں گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔

 ‏

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس اور ولی کلب کی سیڑھیاں چڑھتے آفس میں داخل ہوۓ تو میکس جو ہاتھ میں ڈرِینک پکڑے گلاس کو گول گول گھما رہا تھا۔ قہقہ لگا کر ہسنا اور آنکھ ماری۔۔۔

سٹاپ اِٹ میکس کہاں ہے وہ۔۔ایلکس اس کے قریب آتے ہوۓ بولا۔۔۔۔

ووووو مین ہولڈ اون۔۔۔ میکس دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوۓ مسکرا کر بولا۔۔۔ 

ولی ایلکس اور میکس کو دیکھتے ہوۓ صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔ 

میکس بکواس بند کرو اور جلدی سے بتاؤ۔۔ ایلکس بے صبری سے بولا۔۔۔

میکس ہاتھ کا اشارہ 👎کرتے ہوۓ بولا اِن بیسمینٹ۔۔۔اور ساتھ ہی ایک چابی ایلکس کی طرف اچھال دی۔۔جسے ایلکس نےکیچ کیا۔۔اور

اس سے آگے میکس کچھ بولتا ایلکس تیزی سے آفس سے نکل گیا ۔۔وہ سیدھا بیسمینٹ کی طرف چل دیا۔۔ 

دروازے کے باہر ایلکس کچھ دیر کے لیے ٹھہرا اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے دروازے میں چابی لگا کر گھمائی اور دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔۔۔

_______*****

میکس ولی کے پاس مسکراتا ہوا آ بیٹھا اور بولا ۔۔ نیڈ سم فن؟؟؟  جواب میں ولی کی سوالیہ نظریں دیکھ کر میکس زور سے ہسنے لگا اور بولا ۔۔ مین تم تو بہت معصوم ہو۔۔ چلو آج تمہاری معصومیت ختم کرتے ہیں۔۔ میرے پاس کچھ ایسا ہے کے تمہیں مزہ آجاۓ گااور تم سب کچھ بھول جاؤ گے ۔۔ آج کی رات یاد رہے گا تو ۔۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر میکس نے ولی کا رنگ بدلتا چہرہ دیکھ کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

ولی میکس کی طرف انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ فرسٹ آف آل۔۔ مجھے کسی مزے کی ضرورت نہیں ۔۔سیکنڈ۔۔ میں مسلمان ہوں اور میرا مذہب مجھے اس قسم کے  حرام مزے کی اجازت نہیں دیتا۔۔ 

تھرڈ۔۔۔ یہ کے میں کسی کو پسند کرتا ہوں۔۔ 

میکس آخری بات سن کر اُچھل پڑا اور  خیرت سے بولا۔۔ وہیٹ۔۔ اس کا مطلب میری سسٹر اِن لا ہے۔۔۔مین کون ہے وہ اور کہاں ہے ۔۔ اور نام کیا ہے ۔۔۔اتنا بڑا سرپرائز اور میں معصوم سمجھ رہا تھا تمہیں تم تو پورے بیڈ بوائے نکلے۔۔۔۔

جلدی سے میری سسٹر کا نام بتاؤ۔۔ 

ولی مسکراتے ہو بولا۔۔۔ سدرہ۔۔۔ سدرہ۔۔ ولی نے روانی میں تین چار دفعہ سدرہ کا نام مسکراتے ہوۓ  دوہرایا ۔۔ اسے سدرہ کا نام لیتے ہوۓ اپنے دل میں ایک عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اسے لگا جیسے یہ نام لینے کا حق صرف اسی کا ہے۔۔

میکس ولی کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر اس کی نقل اتارتے ہوۓ مسکرا کر بولا سدرہ۔۔ سدرہ۔۔۔۔ سدرہ۔۔ ابھی وہ چوتھی دفعہ بولنے ہی لگا تھا کے ولی نے اس کے سر پر زور دار تھپڑ مارا اور بولا ۔۔شَٹ اَپ۔۔۔ 

میکس سر ملتا ہوا زور دار قہقہ لگاتے بولا۔۔ کم آن مین۔۔ جیلس تو مت ہو وہ میری سسٹر ہے۔۔۔

ولی ہلکا سا مسکرا دیا۔ کیوں کے اسے اب تک اتنا تو پتہ چل گیا تھا کے میکس اور ایلکس کتنے برے سہی لیکن وفادار ہیں ۔ اور وہ اس کے لیے جان  دے بھی سکتے ہیں۔ اس کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں ۔۔۔  اور اسی وجہ سے ولی کے دل میں ان کے لیے جوجگہ تھی وہ شائد بھائیوں سے بھی زیادہ تھی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب صوفے پر سمٹی بیٹھی رو رہی تھی جب اسے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی ۔۔اور اندر آتے آدمی کو دیکھ کر وہ جلدی سے صوفے سے اٹھی ۔اس نے جب اندر آتے آدمی کو غور سے دیکھا تو اس کا جیسے اُوپر کا سانس اُوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہ گیا۔۔ اس نے اپنی آنکھیں بے یقینی سے زور زور سے تین چار دفعہ جھپکی ۔اور لڑکھراتی زبان سے بولی ۔۔ تم

ایلکس کو حجاب کی اس حرکت پے بہت پیار آیا۔۔ وہ مسکراتے ہوۓ دو قدم آگے بڑھاتا بولا ۔ گڈ چلو یہ اچھا ہوا کے میں تمہیں یاد ہوں ۔

ہمم ۔۔۔۔چلو دوبارہ سے  تعارف کرواتے ہیں۔۔ اتنا کہہ کر ایلکس نے دوقدم لیتے ہوۓ آپنے اور حجاب کے درمیان کا فاصلہ ختم کیا۔۔ 

اور حجاب تیزی سے پیچھے قدم کرتی دیوار سے جا ٹکرائی۔ اس سے پہلے کے وہ سنبھلتی ایلکس اس کے سر کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اسے دیوار اور اپنے درمیان قید کر چکا تھا ۔۔

حجاب روتے ہوۓ کانپتی آواز میں ایک ہی لفظ بولتی چلی گئی۔ پلیز پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایکلس نے اپنا ایک ہاتھ دیوار سے ہٹا کر اپنی انگلی حجاب کےہونٹوں پر رکھی اور بولا ششش پرنسسز۔۔ 

چلو ایسا مان لو آج ہم فرسٹ ٹائم ملے ہیں۔۔ تو بتاؤ اپنا نام۔۔۔۔ایلکس اب قدرے سنجیدگی سے بولا ۔۔تو حجاب جواب میں پھر سے پلیز کے علاوہ کچھ نہ بول پائی۔۔ 

ایلکس جو ابھی تک پرسکون انداز میں تھا ۔۔ دانت پیستے ہوۓ بولا ۔۔یس پرنسسز یو آر گوئینگ ٹو پلیز می۔۔۔ لیکن پہلے اپنا نام بتاؤ اب ایلکس نے حجاب کے چہرے پر آۓ بال پیچھے کرتے ہوۓ آپنی بھنویں اچکا کر کہا۔۔ 

حجاب ایلکس کے جملے  کا مطلب باخوبی سمجھ رہی تھی۔۔ اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کے اس کا بچنا مشکل ہے۔۔ 

________***

حجاب ہمت کرو ڈو آر ڈئیر۔۔ کرو یا مرو حجاب نے آنکھیں بہینچتے ہے سوچا اور ہمت جٹاتے ہوۓ آنکھیں کھولی۔۔ 

اور اپنی آواز کو کانپنے سے روکتے ہوۓقدرے  ہمت سے بولی۔۔۔ حجاب۔۔۔ حجاب نام ہے میرا۔۔۔

ایلکس کو محسوس ہوا تھا کے اس کے سامنے کھڑی لڑکی بہادر بنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور یہ دیکھ کر اسے قدرے مزہ بھی آ رہا تھا۔

ہمممم ۔۔۔حجاب؟🤔۔۔۔۔ ننننووو ۔۔۔مجھے یہ نام بھی پسند نہیں آیا۔۔ایلکس ناک چڑھاتے ہوۓ سر نفی میں ہلا کر بولا۔۔۔اور ساتھ ہی حجاب کے کان کی طرف جھکا اور لمبی سانس لیتے ہوۓ اس کے کان کے پاس سرگوشی میں بولا۔۔

یو سمیل لائق روززز ۔۔  اس لیے میں تو تمہیں روز 🌹کہوں گا۔۔

حجاب کو اپنے کان پر اس کے ہونٹ محسوس ہوۓ تو جیسے اسے بجلی کا جھٹکا لگا ۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایلکس کے سینے پر رکھتے ہوے پوری طاقت سے اسے دھکا دیا ۔۔ایلکس جو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تھا لڑکھڑاتا ہوا چند قدم پیچھے کو گیا۔۔

حجاب موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوۓ دروازے کی طرف بھاگی اس سے پہلے کے اس کا ہاتھ دروازے کے ہینڈل تک پہنچتا۔ ایلکس نے اسے بازو سے پکڑ لیا۔۔ 

حجاب زور زور سے ہاتھوں کے مکے بنا کر اسے مارنے لگی ۔۔چھوڑو مجھےوہ چیخنے اور چلانے لگی تھی۔۔ ایلکس نے اسے زور سے صوفے پر پٹھ دیا اور ریوالور نکالتے ہوۓ غصے سے چلا کر بولا شَٹ اَپ ۔۔۔۔

جسٹ شَٹ اَپ۔۔۔ 

ایک آواز بھی نکالی تو سیدھی گولی دماغ میں ماروں گا سمجھی۔۔

حجاب خوف سے کانپنے لگی ۔

ایلکس دانت پیستا حجاب کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا اور غصے سے اسے گھورتے ہوۓ بولا۔۔

دیکھو میرا تمہیں مارنے کا کوئی پلان نہیں لیکن اگر تم  اس طرح کی مزید کوئی حرکت کرو گی تو یقین مانو ۔۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سوچوں گا۔۔ اور اس ریوالور کی ساری گولیاں تمہارے اس چھوٹے سے سر میں اتاروں گا۔۔۔سمجھی۔۔

اور تمہیں مسلہ کیا ہے جسٹ ایک رات کی بات ہے۔۔ میرے ساتھ گزارو اور صبح آرام سے جاؤ اپنے گھر۔۔۔ایلکس کے منہ سے یہ سب سن کر حجاب کا خون کھول اٹھا۔۔اور اس نے جلدی سے پاس پڑے ٹیبل سے شراب کی بوتل کو اٹھایا  اور زور سے ٹیبل پر مارا وہ آدھی ٹوٹ گئی۔۔

ایلکس اس سے پہلے کے کچھ سمجھ پاتا حجاب وہ توٹی بوتل آپنی گردن پر رکھ چکی تھی۔۔ 

حجاب روتے ہوۓ بولی۔۔ تم جیسے گندے اور بےخودہ انسان کو میں خود کوہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی۔۔ اتنا بڑا گناہ کرنے سے  میں موت کو ترجیح دوں ں ں گی ی ی۔۔۔ حجاب کے آخری الفاظ اس کے گلے میں اٹک سے گۓ جب ایلکس نے تیزی سے اس کا ہاتھ جس میں ٹوٹی بوتل تھی پکڑ کر زور سے گھمایا اور حجاب کی کمر کے پیچھے مروڑ دیا درد سے اس کے ہاتھ سے بوتل چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔۔ اور اس کے منہ سے آہا نکلی

ایلکس کی انکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔ اس نے حجاب کا منہ زور دار طریقے سے اپنے دوسرے ہاتھ سے پکڑا اور بولا۔۔

بس بہت ہو گیا۔۔ اتنا میں کسی کو برداشت نہیں کرتا جتنا میں نے تمہیں کیا ہے۔۔اور کیا ہوں میں گندہ اور بے ہودہ ہوں۔۔۔ہممم بہت جلد تم اپنے الفاظ پر پچھتاؤ گی  ۔اور ایک بات اچھی طرح جان لو جب تک میں نہیں چاہوں گا تم مر بھی نہیں سکتی۔ سمجھی۔۔

ایلکس جو حجاب کی آنکھوں میں غصے سے دیکھتے ہوۓ بولا تھا۔۔ اب نا جانے کیوں اسے اپنا غصہ کم ہوتا محسوس ہوا۔۔۔ اور وہ حجاب کی سیاہ سہمی  آنکھوں میں دیکھتا ہی چلا گیا۔۔ ایلکس کا دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا۔۔۔اس کے ہاتھ کی گرفت حجاب کے منہ اور ہاتھ سے ڈھیلی پڑنے لگی۔۔اور کچھ دیر میں وہ اسے چھوڑتا دو قدم پیچھے کو ہوا اور اسے سر سے پاؤں تک ایک نظر دیکھا  جس کی بہادی کب کی ہوا میں اُڑ چکی تھی اور اب وہ خوف سے کانپ رہی تھی ۔۔۔وہ ہلکا سامسکرا کے بولا۔۔ تم میں کچھ الگ ہے پرنسسز ۔۔۔۔۔ایلکس  اتنا کہہ کر اگے بڑھتے ہوۓ اپنے ہونٹ  حجاب  کے ہونٹوں کے قریب ہی لایا تھا کے حجاب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اس سے پہلے کے وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرتی ایلکس اس کی کمر گے گرد اپنی بازو گھما کر اسے پکڑ چکا تھا۔۔ 

ایلکس نے حجاب کو بیڈ پر لٹایا اور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ بولا تم میرے مرنے کی وجہ بنو گی پرنسسز۔۔۔۔

_______****

ایلکس آفس میں داخل ہوا تو میکس کسی لڑکی کے ساتھ بزی تھا ۔۔اس نے دروازہ زور سے بند کیاتاکہ وہ اس کی طرف مخاطب ہوں۔۔ میکس جلدی سے سیدھا ہوا اور لڑکی کو باہر جانے کا اشارہ کیا ۔۔ جب وہ چلی گئی تو خیرت سے بولا۔۔ تم کیا کر رہے ہو یہاں وہ بھی اتنی جلدی؟؟؟

ایلکس آگے پیچھے دیکھتے ہوۓ بولا نوحہ کہاں ہے۔۔

وہ تو چلا گیا تمہیں پتہ تو ہے وہ کام ہو تو یہاں رکتا ہے ورنہ نہیں۔۔۔

ہممم تم ایسا کرو اس لڑکی کو میرے وئیر ہاؤس شفٹ کر دو آج ہی۔۔ اور ہاں اس کا خیال رکھنا بھاگے نہ اور نہ ہی جود کو نقصان پہنچاۓ۔۔ اب دو تین دن تک اس کی زومیداری تمہاری ہے۔۔ کیوں  کےمیں تھوڑا بزی ہوں اگلے کچھ دن۔۔۔ فارغ ہو کر اس معاملے سے نمٹتا ہوں۔۔

میکس آنکھیں سکیڑ کر بولا۔۔ ہم تو اس لڑکی کو صبح چھوڑنے والے تھے۔۔یہ پلان چینج کیوں ہو گیا۔۔

ایلکس لمبی سانس لے کر بولا ۔فلحال جیسا کہا ہے ویسا کرو۔۔۔  اور ہاں اس کے بھائی پر نظر رکھنا ۔۔ وہ ضرور ڈھونڈھے گا اسے۔۔

اووووکےےے باس میکس سلوٹ مارتے ہوۓ بولا۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

مطلب کیا ہے تمہارا۔۔۔ وحید فون پر چلایا تھا۔۔ اسے جسے ابھی تک کسی بات کا پتہ نہیں تھا کے اس کے بیٹے اور بیوی نے سدرہ کے ساتھ  کیا کیا ہے۔۔ وہ تو صرف اس لیے پریشان تھا کے دو دن سے اس کی حجاب سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔۔ اسی لیے اس نے صبح ہی زوہیب کو فون کیا تھا کے حجاب سے رابطہ کر کے اس کی بات کرواۓ۔۔ مگر اب شام میں زوہیب نے فون پر یہ بتا کر جیسے وحید پر بم پھوڑا تھا کے دو دن سے حجاب اپنے اپارٹمنٹ بھی نہیں گئی۔ اور نہ ہی آفس گئی ہے۔۔ 

ڈیڈ میں نے بہت ڈھونڈھا ہے حجاب کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔ زوہیب بے بسی سے بولا۔۔۔ 

زوہیب کیسا بھی تھا لیکن وہ حجاب کے معاملے میں بہت حساس تھا۔۔ 

تم پولیس کمپلین کرو جلدی سے زوہیب ۔۔

جی ڈیڈ۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

اُس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن  جیسے ہی روشنی اُس کی آنکھوں سے ٹکرائی اس نے زور سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔اُس نے ہلنے کی کوشش کی تو پورے جسم میں درد کی لہر اُٹھی اور اُس کے منہ سے آہ نکلی۔( حمزہ حمزہ  امی مجھے درد ہو رہا ہے۔۔ اُس نے آنکھیں کھولے بغیر درد سے کراہتے ہوۓ کہا۔۔ 

کسی نے اُس کا ہاتھ آپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔۔ اور سدرہ کو اب اس کا احساس ہوا تو سدرہ نے پھر سے آنکھیں کھولنے کی ناکام کوشش کی۔۔ لیکن سواۓ پاس بیٹھے انسان کے دھندلے عکس کے اسے کچھ نہ دکھائی دیا۔۔لیکن اُسے اتنا اندازہ ہو گیا کے اُس کے پاس کوئی آدمی  بیٹھا ہے۔۔ اب اُس کے دل میں خوف بھر گیا اور وہ اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ  نہیں  نہیں چلا تی اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔اسے لگا کے شائد اُس کے پاس بیٹھا شخص  رِکی ہے ۔۔۔

پلیز رلیکس۔۔۔۔

 وہ جو اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھا تھا اب اُٹھ کر کھڑا ہوتے ہوۓ بولا۔۔ پلیز رلیکس۔۔۔  

 ‏سدرہ جو اب اُٹھ کربیڈ کے کونے کی طرف سرک کر بیٹھ چکی تھی۔۔ آنکھیں پھاڑے اپنے سامنے کھڑے لمبے چوڑے آدمی کو خوف سے دیکھتے ہوۓ بولی میں کہاں ہوں ک ک کون ہو ت تم۔۔

 ‏میں بُراق ہوں۔ ڈاکٹر بُراق۔۔ اور تم میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔ اور اِس وقت تم ہسپتال میں ہو۔ بُراق نے دھیمے سے مسکرا کر کہا۔۔۔

اور  پلیز تم رلیکس رہو۔ ابھی تمہاری  طبیعت مکمل ٹھیک نہیں ہوئی۔۔

 اور پلیز سب سے پہلے تم اپنے گھر کا نمبر دو تاکہ میں تمہارے گھر والوں سے رابطہ کر سکو۔۔ وہ لوگ یقیناً پریشان ہوں گے۔۔ 

سدرہ نے نظر اُٹھا کر بُراق کی طرف دیکھا جو اب ہاتھ میں فون لیے اُس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔سدرہ کو  اپنا اپ اِس شخص کی موجودگی میں محفوظ محسوس ہوا۔۔ لیکن اب  سدرہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کے وہ کس سے رابطہ کرے۔۔ کیوں کے اٹلی میں زوہیب اور حجاب ہی تھے ان کے علاوہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ اور اُن دونوں کا ہی نمبر اسے معلوم نہیں تھا۔ اور ویسے بھی اب وہ زوہیب کے پاس جانا تو دور اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ سدرہ کو کچھ سمجھ نہ آئی تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔۔ اور سسکیاں لیتے ہوۓ بولی میں کب سے یہاں۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اُس نے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا جو درد سے چکرا ساگیا تھا۔۔

بُراق نے فون جیب میں رکھا ۔اور بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گیا۔۔ اور سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ چار دن سے تم بے ہوش تھی۔ 

سدرہ نے بُراق کی طرف دیکھتے ہوۓ بے یقینی سے لمبی آہ بھری۔۔ 

 دیکھو اتنا تو مجھے اندازہ ہو گیا ہے کے تم میری گاڑی سے ٹکرانے سے پہلے ہی کسی مشکل میں تھی۔۔ اور بھاگ رہی تھی۔۔  باقی تمہاری  بازوں پر پڑے انگلیوں کے نشانوں سے پتہ چل رہا تھا کے ۔۔اتنا کہہ کر بُراق نے نچلا ہونٹ چباتے ہوۓ سدرہ کی طرف دیکھا اور دوبارہ سے بولا۔۔ تمہارے  ساتھ کسی نے زبردستی کرنےکی کوشش کی ہے۔۔۔ لیکن تمہارے جسم پر بہت سے نشان پُرانے ہیں۔جیسے کوئی تمہیں مارتا پیٹتا رہا ہو۔۔ 

بُراق کی بات سن کر سدرہ سسکیاں لے کر رونے لگی۔۔۔ 

بُراق سدرہ کی ذہنی کیفیت سمجھ رہا تھا کے وہ ابھی شاک میں ہے۔ اور ضرور کوئی بڑا مسلہ ہے جو وہ کسی کا نمبر نہیں دے رہی۔۔

دیکھو اس طرح رونے سے کوئی مسلہ حل نہیں ہوتا۔۔اتنا کہتے ہوۓ بُراق اُٹھا اور بولا ٹھیک ہے اگر تم اپنے گھر اطلاع نہیں کرنا چاہتی تو تمہاری مرضی ۔ لیکن ۔۔۔

سدرہ ایک دم سے بُراق کی بات کاٹتے ہوۓ بولی ۔۔ نہیں مجھے کرنی ہے بات ۔۔۔لیکن پاکستان۔۔۔

پاکستان ؟۔۔ تم اٹلی میں ہو تو پاکستان کیوں ۔۔بُراق آنکھیں سکیڑتے ہوۓ بولا۔۔۔

میری شادی یہاں ہوئی ہے ۔۔پاکستان میں میری فیملی ہے۔۔۔

شادی؟ تم شادی شدہ ہو۔۔ بُراق حیرت سے بولا۔۔ مطلب تم تو ابھی بہت چھوٹی ہو ۔۔اور تمہاری میدیکل رپورٹ میں بھی کچھ ایسا؟؟  

سدرہ سر جھکاتے ہوۓ بولی پاکستان میں ہو جاتی ہیں شادیاں اس عمر میں اور ویسے بھی اسلام میں ۔۔۔۔

بُراق مسکراتے ہوۓ بولا ۔۔مجھے پتہ ہے اسلام کا کیوں کے میں بھی مسلم ہوں۔۔ سدرہ نے ایک نظر اُٹھا کر بُراق کی طرف دیکھا اور پھر سے سر جھکا لیا۔۔ 

تمہارا نام کیا ہے۔ تم آپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔۔بُراق اپنائیت بھرے لہجے میں بولا۔۔

سدرہ اپنی انگلیوں سے کھیلتے ہوۓ بولی۔۔ سدرہ نام ہے میرا۔۔۔ اور ایک سال سے زیادہ ہو گیا ۔ یہاں شادی کر کے آئے۔۔زوہیب نام ہے۔ میرے شوہر کا۔۔۔

بُراق سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا تو اپنے شوہر کو کیوں فون نہیں کر رہی۔۔

 ۔ وہ۔۔۔ اب سدرہ گلے میں آۓ تھوک کو نگلتے ہوۓ بُراق کی طرف دیکھ کر بولی۔۔وہ بہت برے انسان ہیں ۔۔ اب سدرہ دوبارہ سے رونے لگی۔۔اور بولی وہ بہت برے انسان ہیں ۔۔ میں ان کے پاس نہیں جاؤ گی وہ مجھے مار دیں گے۔۔۔

 ‏بُراق نے سدرہ کا ہاتھ آپنے ہاتھ میں لیا اور بولا۔۔ ششش چپ ۔۔۔ مجھے یہ بتاؤ کے تم آپنے شوہر سے بھاگ رہی تھی۔۔ 

 ‏سدرہ نے روتے ہوۓ سر نفی میں ہلایا۔۔ 

 ‏ہممم تو کس سے بھاگ رہی تھی۔۔۔

 ‏سدرہ ہچکی لیتے ہوۓ بولی وہ وہ دوست تھا زوہیب کا زوہیب مجھے اُس کے پاس چھوڑ گئے تھے کے مجھے ا!س کے ساتھ رات۔۔۔۔۔سدرہ نے شرم سے اپناجملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا ۔۔

 ‏اب بُراق کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔۔ اور وہ سرگوشی میں بولا۔۔ اُففف کوئی اتنا بے غیرت کیسے ہو سکتا ہے کے اپنی بیوی کو۔بُراق نے لمبی سانس کھینچی اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا۔۔ یقیناً میں بھی تمہیں اس کے پاس وآپس جانے نہیں دوں گا۔۔ بلکے ایسے شخص کو تو سزا ملنی چاہیے۔۔

 ‏

بُراق نے جیب سے فون نکال کر سدرہ کی طرف بڑھایا۔۔۔ اور بولا لو پاکستان کال کر لو۔۔۔

تو سدرہ نے کانپتے ہاتھوں سے فون پکڑا اور حمزہ کا نمبر ملایا۔۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عالیہ اپنی ماں کے گھر بیٹھی تھی ۔ اورسلمیٰ کو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ ویسے آپ کی بات پر یقین تو مجھے بھی نہیں کیوں کے سدرہ سواۓ زبان ہلانے کے اور تو کچھ نہیں کر سکتی ۔۔اس لیے آپ کی بات مجھے کچھ ہضم نہیں ہوئی۔۔۔

 سلمیٰ گھبرا سی گئی اور بولی ہاں وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔۔ میں قسم لے لو سچ بول رہی ہوں۔۔ سلمیٰ اب نظریں چُراتے ہوۓ اُٹھ کر کھڑی ہوئی اور بولی۔ میں اب چلتی ہوں۔۔ 

 ‏عالیہ ہستے ہوۓ اُٹھی اور بولی آنٹی آپ پریشان مت ہوں ۔۔میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی اور ویسے بھی مجھے کوئی مسلہ نہیں کے سدرہ کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کیا نہیں اور وہ کہاں ہے ۔۔۔مجھے بس اس بات سے غرض ہے کے وہ وآپس نہیں آنی چاہیے۔۔۔ اور آپ نے تو میری جان حمزہ سے بھی چھُڑوا دی اب بس آپ اسے جیل سے مت نکلنے دینا۔۔

 ‏سلمیٰ جیسے ہی وہاں سے گئی۔ ٹیبل پر پڑا فون بجنے لگا۔۔ عالیہ نے بے زارگی سے حمزہ کے فون کی طرف دیکھا اور اسے اُٹھا کر پاور آف کرنے ہی لگی تھی کے اس کا دھیان نمبر پر پڑا ۔۔۔یہ تو باہر کا نمبر ہے۔۔۔ یہ کون ہو سکتا ہے۔۔ عالیہ نے سوچتے ہوۓ کال رسیو کی اور فون کان کے ساتھ لگا لیا۔۔ 

 ‏دوسری طرف سے اسے سسکیوں کی آواز صاف سنائی دی۔۔ ابھی وہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کے سدرہ کی آواز سے ٹھٹھک کر رہ گئی۔۔۔۔

 ‏حمزہ ۔۔۔ حمزہ ہ ہ۔ ۔سدرہ اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔ حمزہ پلیز پلیز مجھے آ کر لے جاؤ۔۔۔۔

 ‏عالیہ کے تو جیسے ہوش ہی اُڑ گئے سدرہ کی آواز سن کر۔۔۔

 ‏حمزہ پلیز مجھے لے جاؤ۔۔ وہ وہ جو زوہیب ہے نا انہوں نے۔۔۔۔میرے ساتھ بہت بُرا کیا ہے۔۔ تم بس آ جاؤ۔۔۔

 ‏عالیہ جو اب پورے طریقے سے سنبھل چکی تھی ۔۔غصے میں بولی۔۔ خبردار جو وآپس آنے کا نام لیا۔۔ جہاں ہو وہی مرو۔۔ جس کے ساتھ بھاگ کر گئی ہو اسی کے پاس رہو۔۔ سمجھی۔۔ تمہارے سارے کرتوت ہمیں پتہ چل گئے ہیں زوہیب اور اُس کی امی نے سب کو بتا دیا ہے کے تم اپنے کسی یار کے ساتھ زوہیب کو چھوڑ کر بھاگ گئی ہو۔۔ ذلیل اور رُسوا کروا دیا ہے تم نے ہمیں ۔۔کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا تم نے ہمیں پورا شہر تمہاری باتیں کر رہا ہے ۔۔ تمہارے بھائی گھر سے باہر جانے کے لائق نہیں رہے۔۔  اور جو چاند تم نے چڑھایا ہے نہ یہ سن کرماں مر گئی ہے تمہاری اور حمزہ جسے بُلا رہی ہو وہ تمہاری وجہ سے کسی کو قتل کرنے کے جُرم میں جیل میں بیٹھا ہے۔۔ اب خدا کے لیے فون مت کرنا جو تم نے ہم پر قیامت ڈھانی تھی ڈھا لی اب جہاں ہو وہی منہ چھپا کر بیٹھی رہو۔۔ مر گئی ہو تم ہمارے لیے۔۔ کوئی تعلق نہیں اب ہمارا تم سے۔۔۔ اتنا کہتے ہوۓ عالیہ نے فون بند کر دیا۔۔اور جلدی سے فون کو پاور آف کر دیا۔۔۔

________****

سدرہ کی آنکھیں جیسے ایک دم سے پتھرا سی گئی۔۔ اُس کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر اُس کی گود میں گر گیا۔۔ اور سانس جیسے ہلک میں اٹک گئی۔۔ بُراق سدرہ کے چہرے کا رنگ پیلا پڑتے دیکھ کر جلدی سے اس کے قریب آیا ۔۔سدرہ اب منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی ۔۔ بُراق نے جلدی سے بیڈ کے ساتھ لگی بیل کو بجایا اور ایک گھٹنا بیڈ پر ٹکاتے ہوۓ سدرہ کی طرف جھکا اور اسے آپنی بازوں میں لیتے ہوۓ سینے سے لگا کر بولا رلیکس ۔۔سانس لو۔ سب ٹھیک ہے۔۔ تم سانس لو۔۔ وہ سدرہ کی پشت کو ہاتھ سے سہلاتے ہوۓ بول رہا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کے سدرہ کو پینک اٹیک آیا ہے۔۔ 

ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی تو بُراق نے اسے اشارے سے بے ہوشی کا انجیکشن لانے کو کہا جو اس نے جلدی سے بھر کر بُراق کو تھمایا۔۔۔ 

بُراق سدرہ کو بیڈ پر لٹاتے ہوۓ فون کو اٹھا کر پاس ہی پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ اور سدرہ کے آنسوں سے بھے چہرے کو دیکھتے ہوۓ نرس سے بولا ۔۔  اس کا چہرہ صاف کر دو۔۔ 

اوکے ڈاکٹر ۔۔کہتی نرس سدرہ کا چہرہ صاف کرنے لگی۔۔

بُراق نے فون سے سدرہ کا ملایا ہوا نمبر دوبارہ  ڈائل کیا تو وہ اب پاور آف تھا۔۔ 

بُراق اُٹھ کر کھڑا ہوا اور سدرہ کے پاس جا کربیٹھ گیا ۔۔ اور اس کے گال کو آپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہوۓ بولا۔۔ میں ہوں نا تمہیں اب مزید پریشان نہیں ہونے دوں گا۔۔ سب ٹھیک کر دوں گا۔۔ وعدہ ہے یہ میرا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب اپنے سامنے پڑی کھا نے کی ٹرے کو پچھلے کئی منٹ سے گھورے جا رہی تھی۔۔ بھوک تو اسے بہت لگی تھی کیوں کے پچھلی رات سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔ 

صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ رات والے کمرے میں نہیں تھی۔۔ یہ کمرہ قدرے بڑا اور کافی قیمتی فرنیچر اور سامان سے سجا ہوا تھا۔۔ کمرے میں موجود کھڑکی اور دروازہ دونوں ہی  لاک تھے ۔۔ اُس نے پورے کمرے اور واش روم کی تلاشی بھی لے لی تھی مگر اسے کچھ بھی نہیں ملا جو بھاگنے میں اُس کے کام آ سکتا۔ ۔

کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک جوان لڑکی اندر داخل ہوئی جس کے یونیفارم سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کے وہ کام کرنے والی ہے۔۔ 

اُس نے ٹرے کی طرف دیکھا اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولی۔۔ ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔۔یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ہے۔۔ 

حجاب تیزی سے اُٹھی اور اس کے پاس جا کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ 

پلیز مجھے جانے دو پلیز۔۔ اب حجاب نے جلدی سے گلے میں پہنے لاکٹ کی طرف اشارہ کیا اور بولی یہ ڈائمنڈ کا ہے تم یہ لے لو اور میری مدد کرو یہاں سے نکلنے میں۔۔ پلیز۔۔

وہ لڑکی ہاتھ چھڑواتے ہوۓ بولی سوری مِس آپ یہاں سے نہیں جا سکتی۔۔ میں چاہوں بھی تو بھی نہیں کیوں کے یہاں کی سیکورٹی بہت زیادہ ہے۔۔ اور دوسرا آپ مسٹر ایلکس کے گھر پر ہیں ۔اور یہ پہلی بار ہے کے وہ کسی  لڑکی کو گھر پر لاۓ ہیں آج تک اس گھر میں کوئی لڑکی نہیں آئی ۔۔ اور اگر آپ آئی ہیں تو یقیناً کچھ خاص وجہ ہے۔۔ اب میں آپ کو بھگا کر آپنی موت کو دعوت نہیں دے سکتی۔۔ اور آپ کو بھی میں مشورہ دوں گی کے ایسی کوشش بھی مت کرنا کیوں کے پہلی بات یہ کے آپ بھاگ نہیں سکیں گی اور دوسرا پکڑی گئی تو زندگی بھر بھاگنا تو دور چلنے کے لائق بھی نہیں رہیں گی۔۔ مسٹر ایلکس بہت سخت مزاج اور غصے والے ہیں۔۔ وہ کسی کو مارتے ہوۓ ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوچتے۔۔۔ اتنا کہتی وہ کھانے کی ٹرے اُٹھاۓ کمرے سے چلی گئی ۔۔اور حجاب خوف سے وہی جمے کی جمی رہ گئی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


ولی نے سالار کو گلے لگایا تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آۓ۔۔

بہت مس کیا یار تم سب کو۔۔ولی نے بھری سی آواز میں کہا تو سالار نے ولی کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا ۔اور بولا اب میں اکیلا واپس نہیں جاؤں گا تم بھی چلو گے بہت ہو گیا یار اتنا کہہ کر سالار دوبارہ سے ولی کے گلے لگ گیا۔۔۔

__________*****

ولی نے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولا بابا کیوں نہیں آۓ ۔۔مجھے تو لگا تھا کے وہ ضرور آئیں گے۔۔اور ماما کیسی ہیں ۔۔باقی سب بھی ٹھیک ہیں ۔ولی نے ایک ہی بار میں سب پوچھا۔ تو سالار ہستے ہوۓ بولا سب ٹھیک ہیں۔۔

اتنے میں آفس کے دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی ایلکس اندر داخل ہوا۔۔۔ہیلو گائیز۔۔کہتا وہ سالار کے قریب آیا اور اس سے ہاتھ ملا کر صوفے پر بیٹھتے ہوۓ ولی سے بولا۔۔ تعارف تو کرواؤ۔ ۔۔

ولی مسکراتے ہوۓ بولا۔۔ سالار یہ ایلکس ہے میرا بھائی۔۔

اور ایلکس سالار کے تعارف کی تو ضرورت نہیں کیوں کے تم جانتے ہو اس کے بارے میں ۔۔

سالار اور ایلکس نے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔ اور سالار بولا۔۔ ویسے مجھے آپنے بھائی کو کسی کے ساتھ شئیر کرنے کی عادت نہیں لیکن چلو ۔۔

ایلکس قہقہ نے لگایا اور بولا ۔۔سیم ہئیر۔۔۔

ولی دونوں کی طرف دیکھ کر بولا۔ لیکن مجھے دونوں ہی بھائی چاہئیں اس لیے عادت ڈال لو ایک دوسرے کی۔۔۔ 

اچھا تو سالار کیوں نہیں آۓ بابا۔۔ ولی نے دوبارہ سے سالار کو مخاطب کیا۔۔

سالار نے لمبی سانس لی اور قدرٍ سنجیدگی سے  ولی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ بتاتا ہوں تم پہلے یہ بتاؤ کے تم نے اتنی بڑی بات مجھے  کیسے نہیں بتائی۔۔ولی کی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر سالار نے بات جاری رکھی اور بولا۔۔ سدرہ ؟ سدرہ والی بات۔۔

سدرہ کا نام سنتے ہی ولی کے چہرے پر مسکراہٹ سی بکھر گئی اور وہ بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ بولا۔۔ ہمم تو بابا نے تمہیں بتا دیا۔۔۔

وہ دراصل تم اپنی شادی کے چکر میں تھے اور بس میں اسی لیے کہہ نہیں سکا۔ میرا پلان تھا کے تم آپنے ہنی مون سے آؤ گے تو بتاؤں گا پر پھر میں یہاں اٹلی آگیااور آگے تم جانتے ہو۔۔

ولی مجھے انکل نے دو دن پہلے ہی بتایا۔ کاش کے وہ یا تم مجھے پہلے بتا دیتے تو۔۔ سالار نے نظر اُٹھا کر ولی کی طرف دیکھا۔۔ تو ولی سالار کی آنکھوں کی اُداسی دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا اور بولا۔۔ 

بات کیا ہے سالار کچھ ہوا ہے؟۔۔ سب ٹھیک تو ہے؟۔ ولی کو اپنا دل بیٹھتا سا محسوس ہوا۔۔ 

سالار ولی کی بے چینی سمجھ رہا تھا۔ 

ایلکس ہلکا سا کھانس کر دونوں کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوۓ بولا۔۔ اب تم دونوں مجھے کچھ بتانا پسند کرو گے ۔یا تم دونوں کے دو دو دانت توڑوں گا تو بتاؤ گے ۔

ولی نے ایلکس کی طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ رہنے کو کہا۔۔ اور دوبارہ سے سالار کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔سالار گھما پھرا کر بات کرنے کی بجاۓ سیدھی سیدھی بات کرو۔۔

سالار لمبی سانس کھینچتے ہوۓ بولا۔۔۔

ولی دراصل وہ۔۔ سدرہ کی شادی ہو گئی ہے۔۔

کیا؟ کیا کہا تم نے ولی دانت پیستے ہوۓ آگے بڑھا اور سالار کا کالر پکڑتے ہوۓ بولا۔۔

ولی ریلیکس یار یقین مانو مجھے پتہ ہوتا تو قسم لے لو میں کبھی یہ نہ ہونے دیتا۔۔

ایلکس جلدی سے اُٹھ کر ولی کے پاس آیا اور سالار کا کالر چھڑواتے ہوۓ بولا۔۔ رلیکس مین ۔۔

ولی جس کا غصے سے چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ سالار کی طرف دیکھتے ہوے بولا ۔۔بابا کو پتہ تھا پھر بھی انہوں نے کچھ نہیں کیا۔۔ اب سمجھا میں وہ اسی لیے آۓ نہیں ۔۔ لیکن کیوں؟     ولی نے پاس پڑے ٹیبل پر غصے سے ہاتھ مارا اور چیختے ہوۓ بولا۔۔ کیوں۔۔۔ 

ولی دیکھو اس سے بھی زیادہ بڑا مسلہ ہے جو مجھے بتانا ہے ۔۔ تم سکون سے بیٹھو تو میں بولوں سالار ولی کے قریب جاتے ہوۓ بولا۔۔ 

لیکن ولی نے  ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے قریب آنے سے روک دیا اور آنکھیں زور سے بھینچتے ہوۓ بولا۔۔ جو بھی بات ہے جلدی سے بتاؤ ۔۔

ولی پلیز تم پہلے بیٹھو۔۔ بات بہت اہم ہے اور ہے بھی سدرہ ہی کے متعلق ہے۔۔

سالار کی بات سن کر ولی نے ایک دم سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا کیا بات ہے۔۔ 

میں نے کہا نا کے پہلے تم بیٹھو۔۔ 

ولی بے چینی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ اور سوالیہ نظروں سے سالار کو دیکھنے لگا۔۔۔

وہ اصل میں بات یہ ہے کے سدرہ کی شادی جس لڑکے سے ہوئی ہے وہ یہاں اٹلی کا ہے۔سدرہ بھی یہی ہے ۔۔ولی مسلسل سالار کو گھور رہا تھا۔ مگر بولا کچھ نہیں ۔۔

سالار نے بات جاری رکھتے ہوۓ کہا۔۔ جب سے سدرہ اٹلی آئی ہے صرف چند دفعہ اس کی اپنے گھر والوں سے بات ہوئی ہے۔ اور وہ بھی بہت مختصر سی۔ اب ایک دم سے اس کے سسرال والوں نے یہ الزام لگایا ہے کے وہ گھر سے بھاگ گئی ہے۔۔ سدرہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا اس کی امی کو ہاٹ اٹیک آیا ہے اور وہ  ایمرجنسی میں ہیں اور اس کا چھوٹا بھائی جیل میں ہے۔۔ ولی ان پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔۔ اور جب سے پری نے سنا ہے وہ الگ پریشان ہے۔۔

ولی بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ اُٹھا اور روکھے سے لہجے میں بولا۔۔ کوئی انفارمیشن اُس کے شوہر کی ؟

ہاں ہے ۔۔ اتنا کہہ کر سالار نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر ولی کی طرف بڑھایا۔۔ تو ولی نے ایلکس کی طرف دیکھا جو ولی کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ گیا تھا اس نے آگے بڑھ کر سالار کے ہاتھ سے وہ پیکٹ لے لیا۔۔ 

سالار اب تم جا سکتے ہو ۔۔ ولی نے انتہائی بےزار سے انداز میں کہا۔۔ 

سالار کو ولی کا انداز دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوۓ بولا سوری ولی ۔۔ لیکن اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں کیوں کے مجھے کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔۔

ولی تیزی سے مڑا اور اسے دیکھتے ہوے بولا۔۔ تمہیں نہیں معلوم تھا پر بابا کو تو تھا پھر انہوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔ کیا اُنہیں یہ لگا کے میں کبھی وآپس نہیں آؤں گا۔۔ اب تم جاؤ اور انہیں میری طرف سےکہہ دینا کے اب ولی کبھی وآپس نہیں آۓ گا۔۔ 

ولی پلیز اتنا غصہ مت کرو۔۔ 

غصہ مجھے غصہ نہیں ہے سالار دکھ ہے۔۔ دکھ ہے کے بابا نے سب کچھ جانتے ہوۓ بھی سدرہ کی شادی ہونے دی۔۔۔پلیز سالار تم جاؤ میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔

ایلکس نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دھیمے سے بولا پریشان مت ہو ٹھیک ہو جاۓ گا ابھی غصے میں ہے۔۔ تم جاؤ میں ہوں نا۔۔

سالار مزید کچھ بولے بغیر چلا گیا۔۔

ایلکس ولی کے قریب آیا اور بولا ۔۔کیا کرنا ہے اب۔۔

ولی ایلکس کی طرف دیکھے بغیر ہی بولا ڈھونڈھنا ہے اسے۔ اس پیکٹ میں جو انفارمیشن ہے۔ دیکھ لو۔۔ 

ایلکس نے پیکٹ کھولا تو سب سے پہلے نظر سدرہ کی تصویر پر پڑی تو مسکراتے ہوے بولا وآآوووو what a beauty ولی نے مڑ کر دیکھا تو ایلکس کے ہاتھ میں سدرہ کی تصویر تھی۔۔ اس نے جلدی سے تصویر کھینچ لی۔۔ اور غصے سے ایلکس کی طرف دیکھا۔۔

ایلکس مسکراتے ہوۓ بولا اب سمجھ آئی اتنے پاگل کیوں ہو رہے ہو۔۔

شَٹ اَپ ایلکس۔۔

ایلکس کی نظر جیسے ہی دوسری تصویر پر پڑی تو وہ ایک دم سے پہچان گیا اور بولا یہ ہے اس کا شوہر اسے تو میں جانتا ہوں۔۔ 

ولی نے ایلکس کے ہاتھ سے زوہیب کی تصویر لی اور دیکھتے ہوۓ بولا کون ہے یہ۔۔

یہ؟ یہ تو روز کا بھائی ہے۔۔

اسے جلدی سے میرے پاس لاؤ۔۔ ولی ایلکس کے کندھے پر زوہیب کی تصویر مارتے ہوۓ بولا۔۔ 

اوووکے ایلکس تصویر ولی کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ بولا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ  تم جہاں ہو وہی منہ چھپا کر بیٹھی رہو کوئی ضرورت نہیں وآپس آنے کی۔۔۔ امی مر گئی ہیں۔۔۔ حمزہ جیل میں ہے ۔۔۔ تم نے ہماری عزت مٹی میں ملا دی ہے تم بد کردار ہو۔۔ تم دھبہ ہو ۔۔۔ تم جیسی لڑکی کو مر جانا چاہیے ۔۔ مر جاؤ ۔۔ سدرہ کی ایک دم سے آنکھ کھل گئی اب وہ لمبی لمبی سانس لے رہی تھی اور یہ الفاظ اس کے دماغ میں مسلسل گونج رہے تھے۔۔ اس نے آپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ آگے پیچھے دیکھا مگر اس کے دماغ میں گونجتی آواز کے علاوہ اور کچھ بھی تو اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ سرگوشی میں بُڑبُڑاتے ہوۓ بیڈ سے اتری۔۔۔ مر جانا چاہیے مجھے۔۔۔۔ مر جانا چاہیے مجھے ۔۔۔میں دھبہ ہوں۔۔ میں ذِلت ہوں ۔حمزہ میری وجہ سے جیل میں ہے۔۔ وہ اسی کیفیت تھی کے اس کی نظر پاس پڑی ٹرے پر پڑی جس میں کچھ پٹیاں اور دوائیاں تھیں اور ساتھ ہی قینچی اور کچھ اور میڈیکل آلات تھے۔۔ سدرہ نے ٹرے سے قینچی اُٹھائی اور کچھ سوچے سمجھے بغیر سیکنڈ سے پہلے اسے کھول کر آپنی شہ رگ کاٹ دی۔۔ اور بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گئی اس کی آنکھیں بلکل خشک تھیں اور اس طرح ویران تھیں جیسے کبھی زندگی سے کوئی تعلق ہی نا رہا ہو۔۔ اس کے دماغ نے جیسے سب کچھ کہیں دور دفن کر دیا تھا اب وہ کچھ محسوس نہیں کر رہی تھی نا کوئی درد نا کوئی احساس جیسے سب کچھ صاف ہوگیا ہو۔۔ ہر بات ہر چیز مٹ گئی ہو۔۔ بلکل سفید صاف صفحہ۔۔ 

بُراق کمرے میں داخل ہوا تو جیسے اس کے تو پاؤں تلے سے زمیں نکل گئی۔۔ 

سدرہ بیڈ پر بے جان سی پڑی تھی اور بیڈ کی چادر خون سے بھری تھی وہ بھاگ کر اندر آیا اور آتے ہی بیڈ کے ساتھ لگی بیل بجائی اور سدرہ کو سیدھا کر کے لٹایا اس کی کٹی کلائی پر نظر پڑی تو اس نے اندر آتی نرس کو جلدی سے آپریشن تھیٹر میں باقی سٹاف کو بھیجنے کا کہتے ہوۓ سدرہ کو آپنی باروں میں اٹھایا اور آپریشن تھیٹر کی طرف بھاگ پڑا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

زوہیب نے گردن گھما کر ایلکس کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔کیا بات ہے مجھے کیوں زبردستی یہاں لاۓ ہو۔۔ 

ایلکس زوہیب کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔۔ میں کچھ سوال کروں گا تم نے ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہے کوئی جھوٹ یا چلاکی نہیں ورنہ جو تمہارے ساتھ ہو گا اُس کے تم خود زومیدار ہو گے۔۔۔

ہمم تو یہ بتاؤ ۔ کے تمہاری بیوی کہاں ہے۔۔۔ 

کیا ؟کیا پوچھا تم نے زوہیب آنکھیں سکیڑتے ہوۓ بولا۔۔ تو پیچھے کھڑے میکس نے زوہیب کی گردن کو آپنی بازو سے پکڑ کر دبایا اور بولا جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو سمجھے ۔۔۔ اتنا کہتے ہوۓ وہ اسے چھوڑ کر دوبارہ پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا زوہیب گلہ دبنے کی وجہ سے زور زور سے کھانسنے لگا۔۔۔ 

ہمم جواب دو۔۔ ایلکس زوہیب کی ٹانگ پر پاؤں مارتے ہوۓ بولا اور اپنی گن نکال کر انگلیوں پر گھمانے لگا۔۔ زوہیب اب ڈر گیا اور بولا۔۔ وہ بھاگ گئی ہے ۔۔ 

ہممم کیوں بھاگی ہے؟

وہ کسی کے ساتھ بھاگی ہے۔۔۔ اب اندر آتے ولی نے اس کی بات سنی اور آگے بڑھ کر اس کی کرسی کو زور دار ٹھوکر ماری تو زوہیب کرسی سمیت زمین پر جا گرا۔۔ 

ولی نے زوہیب کو فٹ بال کی طرح مارنا شروع کر دیا اور بولا بکواس کرتے ہو۔۔ بتاؤ کہاں ہے اورکیا کِیا ہے تم نے اُس کے ساتھ۔۔ اب ولی زوہیب کو پکڑ کر کھڑا کرتے ہوۓ بولا۔۔ اگر ایک منٹ کے اندر اندر نہ بتایا تو وہ ہال کروں گا کے یاد رکھو گے۔۔۔ 

ہیے ویٹ ولی ویٹ۔۔ ایلکس مسکراتا ہوا آگے آیا اور بولا ۔۔ مجھے اسے کچھ اور بھی بتانا ہے۔ تو مسٹر زوہیب ایک بات اور ۔۔اگر تم نے منہ نا کھولا تو یہ یاد رکھنا کے تمہاری بہن میرے پاس ہے ۔۔

زوہیب کی آنکھیں جیسے پھٹ ہی گئی تھیں۔۔ وہ غصے سے ولی کے ہاتھوں میں پھڑپھڑاتے ہوۓ بولا کہاں ہے حجاب۔۔۔

اووو بتاؤں گا ضرور بتاؤں گا پہلے تم ہمیں بتاؤ سدرہ کہاں ہے۔۔۔

زوہیب خوف سے ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ مجھے سچ میں نہیں پتہ کے وہ کہاں ہے۔۔ ولی نے زوردار مُکا زوہیب کے منہ پر دے مارا۔ زوہیب زمین پر جاگرا۔۔۔ 

ولی ابھی آگے بڑھا ہی تھا کے اسے مارتا زوہیب دونوں ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولا پلیز روکو۔ رِکی رِکی کو پتہ ہو گا۔۔ کیوں کے میں سدرہ کو رِکی کے پاس چھوڑ کر آیا تھا۔۔ 

رِکی ؟کون رِکی اور کیوں چھوڑ کر آۓ تھے تم سدرہ کو اس کے پاس۔۔ ولی چلاتے ہوۓبولا۔۔

زوہیب سر جھکا کر بولا وہ میرا ہوٹل بینک کرپٹ ہو گیا اور مجھے پیسوں کی ضرورت تھی ۔ میں نے رِکی سے مانگے تو اس نے سدرہ کے ساتھ رات گزارنے کے بدلے میں دینے کا وعدہ کیا  اس لیے میں سدرہ کو اس کے پاس چھوڑ کر آیا۔۔لیکن رِکی نے اگلے دن مجھے بتایا کے سدرہ اس کے سر میں کچھ مار کر وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔۔ زوہیب کی بات سُن کر ولی نے پاؤں سے زور دار  ٹھوکر ماری اور پھر جھک کر اسے کالر سے پکڑتے ہوۓ کھڑا کیا اور اسکے پیٹ اور منہ پر مُکے مارنے لگا۔۔۔ 

گھٹیا انسان جاہل جانور کوئی آپنی بیوی کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔۔ بولو ۔۔۔ 

ولی جو اب  غصے سےپاگل ہو چکاتھا۔۔ زوہیب کو میکس کی طرف دھکا دیتے ہوۓ بولا اسے لے جاؤ ٹارچر سیل میں۔۔ میں بعد میں دیکھتا ہوں۔۔ اور تم ایلکس جلدی سے پہلے اس رِکی کو لاؤ۔۔ جلدی۔۔۔ سے۔۔۔ پہلے۔۔۔ ولی نے ہر لفظ پر زور دیتے ہوے کہا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی اور ایلکس گاڑی سے اُتر کر سیدھے وئیر ہاؤس کی بیسمینٹ کی طرف چل دئیے ۔۔

ولی پچھلے دو دن سے نا تو کچھ کھا پایا تھا اور نہ ہی سو پایا تھا ۔۔ اِک عجیب سی بے چینی تھی اُسے کیوں کے دو دن سے وہ رِکی کے انتظار میں تھا۔۔جو لندن گیا ہوا تھا اور آج ہی شام کو وآپس آیا تھا ۔۔جسے اس کے آدمیوں نے ائیرپورٹ سےاُٹھا کر کچھ دیر پہلے ہی یہاں لایا تھا۔۔ 

ولی رلیکس مین سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔میں ڈھونڈھ نکالوں گا ۔۔سدرہ کو۔۔ غصے میں پاگل ہوتے ولی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ ایلکس بولا۔۔۔

ولی نے بے چینی سے بالوں میں ہاتھ مارا اور چلتے چلتے روکا ایلکس بھی روک گیا اور ولی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

ایلکس زوہیب کی بہن کہاں ہے۔۔

ایلکس نے ولی کو باغور دیکھا اور بولا۔۔ یہی وئیر ہاؤس میں ہی ہے۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔ ولی اتنا کہہ کر دوبارہ سے چل پڑا ۔۔

ولی نے پاؤں کی ٹھوکر سے تہہ خانے کادروازہ کھولا تو سامنے ہی زوہیب اور رِکی کرسیوں پر بند ہوۓ تھے۔۔ 

ولی سیدھا رِکی کے پاس گیا تو ایک گارڈ نے جلدی سے ولی کے لیے کرسی رکھی۔۔ ولی رِکی کے سامنے بیٹھتے ہوۓبولا ۔۔

صرف سچ سچ بولنا کیوں کے میرا دماغ اس وقت بلکل آپنی جگہ پر نہیں ہے۔۔اور یقین مانو ۔۔میں  ایک منٹ کے لیے سوچوں گا بھی نہیں ۔۔ اور تمہارا بھیجا باہر ہو گا۔۔۔

زوہیب سدرہ کو تمہارے پاس چھوڑ کر آیا تھا؟

رِکی نے گلے میں آۓ تھوک کو نگلا اور سر ہلاتے ہوۓ بولا۔۔ ہاں ۔ہاں

ہممم ۔۔ولی ناک سے سانس حارج کرتے ہوۓ😤 مٹھیا بہینچ کر دوبارہ بولا۔۔

تم نے اِس کے ساتھ کچھ غلط کیا؟

نہیں قسم لے لو بلکل نہیں ۔۔وہ ۔۔وہ۔ تو مجھے لیمپ مار کر بھاگ گئی ۔۔میں بھاگا تھا اُس کے پیچھے اسے پکڑنے کے لیے پرررر۔رِکی جو خوف سے تیزی میں بول رہا تھا ۔۔اب ولی کو غصے سے دانت پیستے دیکھ کر رک گیا۔۔

کیا پر۔۔ ولی نے رِکی کو دونوں ہاتھوں سے کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوۓ پوچھا۔۔۔ 

وہ ہ بھاگ رہی تھی کے سامنے سے آتی  ایک گاڑی سے ٹکرا گئی۔ 

کیا؟ گاڑی سے ٹکرا گئی پھر پھر کیا ہوا کہاں ہے وہ ولی اب چلاتے ہوۓ بولا۔۔۔

وہ اتنی زور کا ایکسیڈینٹ تھا کے میں اس خوف سے وآپس بھاگ گیا کے وہ مر گئی ہو گی۔۔۔۔رِکی خوف سے کانپتے ہوۓ بولا۔۔

ولی نے رِکی کا کالر چھوڑا اور کرسی کی ٹیک سے سر ٹکا لیا ۔۔اور بولا جانور ہو تم جانور کیسے ایک معصوم سی لڑکی کے ساتھ تم لوگ ایسا کر سکتے ہو۔۔۔ وہ تو ۔۔۔ہااااا ولی نے ایک دُکھ بھری آہ بھری اور سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوۓ بولا۔۔ دُعا کرو آپنے لیے۔۔ تم دونوں ۔۔کیوں کے اگر سدرہ کو کچھ بھی ہوا تو تم لوگوں کا وہ حال کروں گا کے موت مانگو گے اور موت آۓ گی نہیں۔۔ ولی یہ کہتا اُٹھا اور زوہیب کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔۔ ایلکس اِس کی بہن ہے نا تمہارے پاس۔۔

ایلکس سر ہلاتے ہوۓ بولا۔ یسس۔۔

تو ایک کام کرتے ہیں تم اُس کے ساتھ رات گزارو۔۔۔ ہم بدلے میں اِس کی جان بخش دیں گے۔۔

ولی کی بات سُن کر زوہیب  کا چہرہ اس طرح ہو گیا جیسے اُس نے موت کافرشتہ دیکھ لیا ہو۔۔۔

ایلکس قہقہ لگاتے ہوۓ بولا ۔۔اوووکےےے ۔۔

نہیں نہیں خدا کے لیے نہیں ایسا مت کرنا میری بہن کا کوئی قصور نہیں وہ وہ تو بہت نرم دل اور اچھی لڑکی ہے ااُس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔۔ پلیز پلیز  مجھے مار لو جتنا مرضی میری بہن نہیں خدا کے لیے نہیں۔۔۔ زوہیب کرسی پر پھڑپھڑاتے ہوۓ مِنت کرنے لگا۔۔ تو ولی کرسی اس کے سامنے  کھینچ کر بیٹھ گیا اور بولا۔۔ اچھا تمہاری بہن بے قصور ہے معصوم ہے۔۔ اچھی ہے اور۔۔اور ولی سوچنے کی اداکاری کرتے ہوۓ بولا۔۔۔اورنرم دل ہے۔۔ہےنا ۔۔ تمہاری بہن کے ساتھ تمہاری زندگی کے بدلے بھی کوئی رات نہیں گزار سکتا۔۔ہممم

تو سدرہ کیا تھی۔۔ ہمم بتانا پسند کرو گے۔۔کیاتھی ۔۔وہ ہ😡ولی غصے سے دھاڑتے ہوۓ بولا۔۔ کیاتھی وہ کے تم نے چند پیسوں کی خاطر اُسے کسی اور کے حوالے کر دیا۔۔بولو۔۔ وہ بھی معصوم تھی ۔۔ اس نے بھی کچھ غلط نہیں کیا تھا۔۔۔

زوہیب اب روتے ہوۓ بولا قسم لے لو مجھ سے میں میں بلکل ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔میں تو شادی ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔وہ تو میرے مام ڈیڈ کی ضد تھی تو کر لی۔۔ بلکے شادی کے بعد میں اور سدرہ ایک سال سے زیادہ رہے ساتھ پھر بھی میں نے کبھی اس کا فائدہ نہیں اُٹھایا۔۔ 

اچھا فائدہ نہیں اُٹھایا۔۔ ولی زوہیب کے پیٹ میں مکا مارتے ہوۓ بولا۔۔ہاں کہتا ہے فائدہ نہیں اُٹھایا۔۔(ایک اور مکا)۔ اور جو اسے کسی غیر کے پاس چھوڑا وہ کیا تھا۔۔ اب کی بار ولی نے اس کی ناک پر مکا مارتے ہوۓ کہا۔۔ 

زوہیب کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔ 

زوہیب درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔۔

ولی نے آپنے خون سے بھرے ہاتھ کی پشت کو ایلکس کے کندھے سے صاف کیا اور بولا ۔۔پتہ کرو آس پاس کے ہسپتالوں میں۔۔اور اگر پھر بھی نہیں پتہ چلتا تو  ۔۔روڈ کیمرہز  چیک کرواؤ گاڑی کا پتہ کرو کس کی تھی ۔۔گاڑی کے ڈرائیور کو ضرور پتہ ہو گا۔۔ اور اِن دونوں کو زندہ رکھو۔۔ ابھی مرنا نہیں چاہیے انہیں۔۔

ایلکس جو اب قدرٍ سنجیدہ تھا ۔۔ سر ہلاتےہوۓبولا۔۔ سمجھو ہو گیا۔۔ اتنا کہہ کر ایلکس نے فون نکال کر نمبر ملایا اور کان کے ساتھ لگا کر باہر جاتے ولی کے پیچھے چل دیا۔۔

گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ولی ایلکس کی طرف مڑا اور بولا۔۔  اُس کی بہن کو کچح مت کہنا۔۔ میں نے بس اُسےڈرانے کے لیے کہا تھا۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب رات کاکھانا کھا رہی تھی جو کام والی کچھ دیر پہلے ہی اسے دے کر گئی تھی۔ وہ کافی حد تک سکون میں تھی کیوں کے آج اسے شائد ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا ۔کےاُس دن کے بعد ایلکس بلکل بھی سامنے نہیں آیا تھا۔۔ ہاں مگر وہ ڈری ضرور تھی کیوں کے آج نہیں تو کل اُسے ایلکس کو فیس تو کرنا ہی تھا ۔۔کیوں کے اتنے دنوں میں اسے اتنا پتہ چل چکا تھا کے وہ بھاگ نہیں سکتی۔۔

وہ اپنی سوچوں میں گم کھانا کھا رہی تھی کے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔ حجاب نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو کانپ سی گئی اور جلدی سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔ 

ایلکس کمرے میں داخل ہوا اور پاؤں سے دروازے کو بند کیا۔۔اور حجاب کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوۓ سنجیدگی سے بولا۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔

اور خود پاس ہی پڑے دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ 

حجاب جو ابھی تک کھڑی ہی تھی۔۔ایلکس نے اس کی طرف بھنویں اچکا کر دیکھا اور بولا ۔اب بیٹھو گی یا کسی اور طریقے سےسمجھاؤں۔۔

حجاب ایلکس کی آنکھوں میں بھری سنجیدگی اور غصے کو سمجھ گئی اور وآپس آپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔

تمہارا بھائی زوہیب ۔۔ایلکس اتنا بولا کر کچھ دیر کے لیے رُکا اور حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔۔

تم سدرہ کے بارے میں کیا جانتی ہو ۔۔ جو کچھ بھی جانتی ہو شروع سے آخر تک بغیر روکے سب ایک دفعہ میں مجھے بتاؤ۔۔

_______***

حجاب نے خیرت سے ایلکس کی طرف دیکھا ۔۔وہ سمجھ نہیں پائی تھی کے ایلکس سدرہ کو کیسے جانتا ہے اور وہ کیوں اُس کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔۔ 

ایلکس نے جب دیکھا کے حجاب کچھ بول نہیں رہی۔۔ تو اسے غصہ آ گیاوہ دانت پیستے ہوۓ بولا ۔۔اب بولنا شروع کرو گی یا نہیں۔۔۔

_____**

حجاب کو کچھ سمجھ میں نا آیا ۔۔ وہ سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولی ۔۔سدرہ میری بھابی ہے ۔۔ اچھی لڑکی ہے ۔۔ اتنا کہہ کر وہ ایلکس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔

ایلکس اُنگلیوں سے ماتھا دباتے ہوۓ بولا۔۔

تم جانتی ہو اُس کے ساتھ تمہارے بھائی نے کیا کیا۔۔۔ اور اب وہ کہاں ہے ؟

حجاب سر ہلاتے ہوۓ بولی ۔۔نہیں مجھے نہیں پتہ کے وہ کہاں ہے۔۔ زوہیب نے بتایا کے وہ کہیں چلی گئی ہے۔۔ 

جھوٹ بولا تمہارے بھائی نے ۔۔ سچ سنا ہے اتنا کہہ کر ایلکس اُٹھا اور حجاب کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتا کمرے سے باہر چل پڑا۔۔ 

تہہ خانے کا دروازہ کھول کر اُس نے حجاب کو اندر کی طرف دھکیلتے ہوۓ اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔ 

حجاب لڑ کھڑاتی زمین پر جا گِری۔۔ 

زوہیب نے خوف سے پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔ حجاب۔۔۔۔

حجاب نے ایک دم سے سر اُٹھا کر دیکھا تو زوہیب کو خون میں لتھ پتھ دیکھ کر اُس کے منہ سے آہ نکل گئی۔۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر اس کے پاس جانے لگی ۔لیکن ایلکس نے آگے بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑ لیا۔۔ 

حجاب کو روتے دیکھ کر زوہیب ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔۔ چھوڑ دو ۔۔۔ چھوڑ دو اسے۔۔۔ زوہیب چیخنے چلانے لگا۔۔۔ 

اچھا چھوڑتا ہوں پہلے تم اسے بتاؤ کے تم نے آپنی بیوی کے ساتھ کیا کِیا ہے۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

آج دو دن ہو گۓ ہیں وہ بلکل چپ ہے ۔۔ کوئی بات نہیں کر رہی۔۔ بُراق سامنے بیٹھی فی میل  سائیکالوجسٹ سے پریشان ہوتے ہوۓ بولا۔۔۔ 

دیکھیں ڈاکٹر بُراق  مریضہ کسی شاک میں ہیں۔ یا آپ اس حالت کو پینِک کی حالت بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ایسی حالت میں مریض شدید صدمے میں چلا جاتا ہے۔۔ اور دماغ مکمل لاک ہو جاتا ہے۔۔ 

 آپ کے مطابق اُن نے آخری دفعہ فون پر بات کی ۔۔۔ جس کا مطلب یہ ہے کے یقیناً دوسری طرف سے ان کو کچھ ایسا کہا گیا ہے جو اُن کے دماغ پر شدید اثر کر گیا ہے۔۔ اور وہ شاک کی کیفیت میں آ گئی ہیں۔۔ اب اُن کادماغ کسی اور بات کو پروسس نہیں کر رہا

اس قسم کے شاک میں مریض یا تو مکمل خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر توڑپھوڑ کرتے ہیں اور خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔۔۔ جیسا کے سدرہ نے خودکشی کی کوشش کی۔۔ 

اب کیا حل ہے اس کا ہم کیسے اِسے اِس حالت سے باہر لا سکتے ہیں ۔۔ 

دیکھیں ڈاکٹر بُراق مجھے جب تک مریضہ کی ہسٹری نہیں پتا چلتی میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔اور میں آپ کو بھی یہی کہوں گی کے جتنا جلدی ہو سکے اِس کی فیملی کو بلائیں ۔۔کیوں کے زیادہ چانس ہیں کے سدرہ آپنی فیملی کو دیکھ کر اِس شاک سے باہر آجاۓ۔۔۔ 

تھینکس ڈاکٹر کہتا بُراق ڈاکٹر کے کیبن سے باہر نکلا۔۔ اب وہ خود بہت کنفیوز تھا کیوں کے سدرہ کی فیملی پاکستان ہے اس سے زیادہ وہ   اور کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔۔ چلتے چلتے اسے دوبارہ سے سدرہ کی کال یاد آئی ۔بُراق نے جلدی سے جیب سے فون نکالا اور دوبارہ وہی نمبر ملایا لیکن اب بھی وہ نمبر آف تھا۔۔ اُس نے۔ مجھ سے جلد رابطہ کریں کا وائیس میسج چھوڑ دیا۔۔۔

اب بُراق نے کچھ سوچنے کے بعد ایک اور نمبر ملایا یہ وہ نمبر تھا جسے وہ شائد کبھی نہ ملاتا لیکن آج مجبوراً اسے اِس نمبر والے انسان کی ضرورت پڑ گئی تھی کیوں کے اٹلی میں ایک واحد یہی تھا جو آسانی سے کسی کو بھی ڈھونڈھ سکتا تھا۔۔ 

ایک رِنگ کے بعد ہی فون رسیو کرتے ہوۓ دوسری جانب والے نے انتہائی خوش مزاجی سے کہا۔۔۔ یس ڈاکٹر۔ 

مجھے ملنا ہے تم سے کام ہے کوئی۔ارجنٹ۔۔ بُراق نے اتنا کہتے ساتھ ہی فون بند کر دیا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب زمین پر بیٹھی سسک کر رو تے ہوۓ بولی۔۔ کیسے کر سکتے ہو تم یہ سب۔۔ کتنا ظلم کیا ہے تم نے ۔۔۔ 

ایلکس جو کافی دیر سے خاموش کھڑا دونوں بہن بھائی کی باتیں سُن رہا تھا اب زوہیب کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔۔

جانتے ہو میں نے تمہاری بہن کو اغواء کیا لیکن یہ جانتے ہوۓ کے یہ مسلم ہے اُس کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کیا۔۔ یا یوں کہہ لو میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔۔ 

جانتے ہو کیوں ۔۔ کیوں کے مجھے لگا کے مسلمان عورت بہت خاص ہوتی ہے ۔ پاک صاف اور مجھے کوئی حق نہیں بنتا کے میں اُس کو ناپاک کروں۔۔مجھے لگتا تھا تم مسلمان مرد آپنی عورت کو بہت سنبھال کر رکھتے ہو۔۔ ان کو عزت سے رکھتے ہو اور میں نے بہت جگہ  دیکھا بھی ۔۔۔

لیکن تم نے ۔۔تم نے کیا کِیا۔۔۔ ہممم ۔۔جانتے ہو تم انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔ تم جیسے انسان کو کسی گٹر میں بھی جگہ نہیں ملنی چاہیے۔۔ 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی نے فون کان کے ساتھ لگایا دو رِنگ کے بعد دوسری طرف سے کال رسیو ہوئی۔۔۔

  وحید نے جب زوہیب کا نمبر دیکھا تو بے چینی سے بولا ہیلو زوہیب کہاں ہو تم کتنے دن ہو گۓ تمہارا فون بند جا رہا تھا ۔۔ اب تو میں خود اٹلی آنے کا پروگرام بنا چکا تھا ۔۔ تم دونوں بہن بھائی کیا ہماری جان لو گے کر کیا رہے ہو تم لوگ اور حجاب کا پتہ چلا۔۔ وحید جو مسلسل بولے جا رہا تھا۔۔۔اب جب اس نے دوسری طرف سے کوئی آواز نہ سنی تو تھوڑا رُکا اور پریشان سا بولا۔۔ زوہیب تم کچھ بول کیوں نہیں رہے۔۔

 ‏ولی نے فون ایک کان سے ہٹا کر دوسرے کان سے لگایا اور بولا۔۔۔ مسٹر وحید کتنی پریشانی ہو رہی ہے نا آپ کو آپنی بیٹی اور بیٹے کی۔۔ہے نا۔۔ کیا آپ کو اتنی ہی فکر اُس لڑکی کی ہے جو بد قسمتی سے آپ کی بہو ہے۔۔

 ‏وحید جو سدرہ کو لے کر ہر بات سے انجان تھا۔۔ پریشانی اور غصے کے ملے جلے انداز میں بولا۔۔ کون ہو تم اور زوہیب کا فون تمہارے پاس کیا کر رہا ہے۔۔ اور تم کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔۔۔ 

 ‏دیکھیں وحید صاحب میں نے فون صرف اس لیے کیا ہے کے آپ آپنی بیگم سے کہیں کے آرام سے حمزہ کے خلاف کی پولیس کمپلین وآپس لے لیں۔۔ اور جتنے بیہودہ الزام انہوں نے سدرہ پر لگاۓ ہیں جا کر سدرہ کے گھر والوں سے معافی مانگیں۔ 

کیا؟  کیا کہا تم نے کون سی پولیس کمپلین اور ۔۔اور کیا کہا تم نے سدرہ کے بارے میں وحید نے خیرت سے سر کو ہاتھ میں پکڑتے ہوۓ پوچھا۔۔۔

حیرت ہے وحید صاحب آپ کے بیٹے اور بیوی کی وجہ سے کتنا کچھ ہو گیا اور ایک آپ ہیں کے ہر بات سے انجان بنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ 

دیکھو تم جو بھی ہو کھل کر بات کرو قسم لے لو میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تم کہہ کیا رہے ہو۔۔۔ وحید لڑکھڑاتا ہوا پاس پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔۔۔

وحید صاحب میں مختصر بات کروں گا باقی آپ آپنی بیگم صاحبہ سے پوچھ لیں۔۔

آپ کے بیٹے نے پیسوں کے لیے آپنی بیوی ایک رات کے لیے آپنے دوست کے حوالے کر دی۔۔۔ 

اور اب وہ کچھ پتہ نہیں کہاں ہے۔۔

اور ایک اور اہم بات مسٹر وحید آپ کابیٹا اور بیٹی دونوں میرے پاس ہیں۔۔ جب تک سدرہ کا کچھ پتہ نہیں چلتا اِن دونوں کو تو آپ بھول ہی جائیں۔۔ اور اگر آج شام تک حمزہ گھر نہ پہنچا تو زوہیب کا ایک ہاتھ کاٹنے کی ویڈیو آپ تک پہنچ جاۓ گی۔۔۔ ولی نے بات ختم کرتے ساتھ ہی فون بند کر دیا۔۔ 

وحید سکتے کی سی حالت میں فون کان کے ساتھ  لگاۓ کتنی ہی دیر بیٹھا رہا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عمر بھائی پلیز مجھے چھوڑیں آپ جتنی جلدی ہو سکتا ہے اٹلی پہنچیں۔ہماری چڑیا کو ڈھونڈھیں۔۔ پلیز عمر بھائی۔۔۔ حمزہ سسک کر رو دیا۔۔۔

حمزہ دیکھو سدرہ کا پتہ چل جاۓ گا سالار اور حیدر سر نے پوری تسلی دی ہے ۔۔میری آج ہی بات ہوئی ہے سالار سے وہ وآپس لندن آ گۓ ہیں انہوں نے بتایا ہے کے جن لوگوں کو انہوں نے سدرہ کو ڈھونڈھنے کا کہا ہے وہ بہت پاور فُل ہیں ان کے لیے اٹلی میں کسی کو ڈھونڈھنا کوئی مشکل نہیں۔۔۔ اور وہ  زوہیب تک  بھی پہنچ گۓ ہیں ۔۔ اب مل جاۓگی سدرہ۔۔۔

اللہ کرے ۔۔۔اللہ کرے ۔۔حمزہ تھوڑا پرسکون ہوتے ہوۓ بولا۔۔۔ اور بھائی امی کی سنائیں ۔۔ 

ہمم بہتر ہیں پہلے سے ۔۔

اچھا حمزہ میں چلتا ہوں۔مجھے وکیل سے ملنا ہے۔۔ اور تم فکر مت کرو کل کی پیشی پر  انشاءاللّٰه‎‎ تمہیں ضمانت مل جاۓ گی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

میکس جلدی میں گاڑی کی چابیاں اُٹھاتا۔باہر نکلا تو ایلکس جو اسی کی طرف آ رہا تھا اسے جلدی میں دیکھ کر سامنے کھڑا ہوتے ہوۓ بولا۔۔ کدھر جا رہے ہو وہ بھی اتنی جلدی میں ۔۔۔

اوو مین ۔۔ پلیز کوئی کام مت کہنا۔۔ کیوں کے مجھے بہت جلدی ہے۔۔ 

کیا ہوا کچھ تو بتاؤ۔۔ ایلکس میکس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا۔۔۔

فارغ ہو تو چلو ساتھ دیکھ لینا۔۔ کیوں کے ابھی تو مجھے خود سمجھ نہیں آئی۔۔ایلکس کچھ بولنے لگا لیکن میکس نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر آپنے ساتھ گاڑی کی طرف لے جاتے ہوۓصرف اتنا ہی کہا ۔۔ نو مور کویسٹن پلیز۔۔۔ 

_____*****

تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد میکس نے گاڑی ایک ہسپتال کے سامنے کھڑی کی اور ایلکس کو آپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔

_______***

دونوں کو نرس نے ڈاکٹر کے کیبن میں بٹھایا اور اتنا کہتی باہر چلی گئی کے ڈاکٹر کچھ دیر میں آ رہے ہیں۔۔

بُراق کمرے میں داخل ہوا تو میکس جلدی سے مسکراتے ہوۓ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔ اور بُراق سے ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا ۔۔ ڈاک کیسے یاد آئی میری۔۔

ایلکس ہستے ہوۓ سر نفی میں ہلاتا اُٹھ کر کھڑا ہوا اور بُراق کو گلے لگاتے ہوۓبولا۔۔ اوو بڈی آفٹرلانگ لانگ ٹائم۔۔۔ 

بُراق نے ایلکس کو پیچھے ہٹایا اور اس کےکندھے پر مکا مارتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔۔

راسکل تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔ ہممم اور تم میکس میں نے تمہیں بُلایا تھا تم اسے کیوں ساتھ لے آۓ۔۔

ہا میں بھی کہوں میکس کچھ بتا کیوں نہیں رہا۔۔۔ ایلکس دوبارہ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔۔۔

(میکس۔۔ایلکس ۔۔ اور بُراق تینوں ہائی سکول فرینڈز تھے۔۔ بُراق کو اِن دونوں کی حرکتیں شروع ہی سے پسند نہیں تھیں۔اور یہ اِن سے دور ہی رہتا تھا۔ لیکن بُراق کو کوئی بھی مسلہ ہوتا تو یہ دونوں ایک دم سے پہلے اِس کی مدد کو پہنچ آتے۔۔ اِن سے دور رہنے کی بڑی وجہ ایلکس کا گارڈین فرینکو تھا ۔۔جس کی شہرت اٹلی میں کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔۔ اور بُراق کے والدین نے اُسے سختی سے اِس سے دور رہنے کا کہا تھا۔۔۔)

ہممم تو کیا ایمرجنسی تھی۔۔میکس نے بُراق کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔

وہ ایک کام تھا۔ جو صرف تم ہی کر سکتے ہو۔ بُراق تھوڑا اُلجھا ہوا بولا۔۔ 

اوووو مین اس کا مطلب کام کوئی ٹیڑھا ہے جو مسٹر سائینٹ 😇 خود نہیں کر سکتے۔۔ میکس قہقہ لگاتے ہوۓ بولا۔۔

نہیں ایسا ویسا کوئی کام نہیں۔۔ دراصل کسی کو ڈھونڈھنا ہے۔۔ بُراق اب اِن دونوں کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔

یہ کسی کون ہے ۔۔سم ون سپیشل۔۔ہاں میکس بُراق کو آنکھ مارتے ہوۓ بولا۔۔

وہ دراصل میری گاڑی سے کسی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ۔۔ 

وہیٹ مین۔۔۔ کیامار دیا ہمارے گُڈ بوآۓ نے کسی کو۔۔ اب کی بار ایلکس خیرت کی ایکٹینگ کرتے ہوۓ بولا۔۔

نہیں زندہ ہے وہ لیکن اُس کی فیملی کا پتہ نہیں چل رہا۔۔ 

تو اُس سے پوچھو نا۔۔ میکس کرسی کی ٹیک لگاتے ہوۓبولا۔۔

دیکھو وہ دراصل لڑکی شاک میں ہے۔ اب وہ کچھ بول نہیں رہی۔۔اُس نے صرف آپنے شوہر کا نام ہی بتایا تھا۔۔اور اُس کا شوہر کوئی اچھا انسان نہیں وہ اِسے مارتا پیٹتا ہے ۔۔اور اُس کا بھی مجھے کوئی پتہ نہیں۔۔ کے وہ کون ہے اور کہاں ہے۔۔ بس اتنا پتہ ہے کے اُس کے شوہر کا نام زوہیب ہے۔۔۔ بُراق کی بات سُن کر ایکس اور میکس نے پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بُراق کی طرف دیکھتے ہوۓ ایک آواز میں بولے ۔۔ زوہیب؟۔۔۔

بُراق اِن دونوں کے چہروں پر آئی خیرت کو دیکھ کر آنکھیں سکیڑ کر بولا۔۔ ہاں زوہیب۔۔۔ لیکن تم دونوں کو کیا ہوا ۔۔ تم جانتے ہو اُسے۔۔۔

ایلکس جلدی سے اُٹھا اور انتہائی سنجیدگی سے بولا ۔۔ کہاں ہے سدرہ۔۔۔

ہئے ہئے ویٹ آ سیکنڈ ۔۔ تمہیں نام کیسے پتہ اِس لڑکی کا۔۔ بُراق ایلکس کے پاس آتے ہوۓ بولا۔۔

تم مجھے پہلے  اُس کے پاس لے کر چلو باقی سب بعد میں بتاتا ہوں۔۔ لمبی کہانی ہے۔۔۔ 

ایلکس دیکھو پہلے مجھے بتاؤ کیوں کے مجھے بلکل نہیں لگتا کے تم لوگوں کا دور دور تک بھی سدرہ سے کوئی تعلق ہو۔۔ 

لُک مین کہا نا کے ہمیں وہ لڑکی دکھاؤ  پہلے ہم کنفرم تو کر لیں ۔ باقی سب بتاتے ہیں تمہیں بعد میں۔۔۔ میکس قدرٍ سکون سے بولا۔۔

اوکے چلو۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

دیکھو سلمیٰ تم یہ سب جھوٹ بول رہی ہو وحید جو کافی دیر سے سلمیٰ کی جھوٹی کہانی سُن رہا تھا اب دانت پیستے ہوۓ آپنی آواز کو دباتے ہوۓ بولا۔۔ 

وحید کیوں جھوٹ بولوں گی میں بھلا۔۔ یہی سچ ہے آپ یقین کریں۔۔ پتہ نہیں آپ کو کسی نے کیا کہہ دیا ہے۔۔ سلمیٰ ڈھیٹائی سے بولی۔۔

_________*****

اچھا تم سدرہ کی امی کے گھر گئی اور وہاں جو ہوا تم نے مجھے بتانا گوارہ ہی نہیں کیا۔۔ کیوں۔۔ 

وہ وہ دراصل میں آپ کو بتانے والی تھی۔۔

 سلمیٰ بس بس کر دو خدا کے لیے بس کر دو۔۔ 

مجھے جلدی سے پہلے سب سچ بتاؤ ۔۔میں سب جانتا ہوں بس تمہارے منہ سے سنا چاہتا ہوں۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا کے ایک لفظ بھی جھوٹ بولا تو یہی کھڑے کھڑے طلاق دو گا تمہیں۔۔ قسم لے لو ۔۔۔ وحید شہادت کی انگلی سلمیٰ کی طرف کرتے ہوۓ بولا۔۔۔

سلمیٰ پر جیسے خیرتوں کے پہاڑ گر پڑے۔۔کیا؟ اپ مجھے۔۔۔۔۔ 

ہاں میں  تمہیں طلاق دے دوں گا سمجھی۔۔ اس لیے بہتر ہے کے سب بول دو۔۔۔ 

سلمیٰ اب بغیر رُکے بولتے گئی۔۔۔ اور وحید بُت بنا سب سنتا چلا گیا۔۔ اب سب بتانے کے بعد سلمیٰ بیٹھی رو رہی تھی۔۔ 

او میرے خدا سلمیٰ تم کتنی سفاک عورت ہو۔۔ کتنا ظلم کیا تم نے تمہیں زرہ ترس نہیں آیا اُس معصوم بچی پر اور مجھے دیکھو مجھ سے بڑھ کر کون بےوقوف ہو گا جسے آپنے ہی بچوں کی زندگیوں میں کیا ہو رہا ہے کچھ پتہ نہیں۔۔ اور تم تم اب یہ رو کیوں رہی ہو۔ ہاں بولو ۔۔ 

جانتی ہو۔۔۔۔تم جیسی عورتیں خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیتی ہیں اور آخر میں خود بھی برباد ہو جاتی ہیں۔۔ اب تیار ہو جاؤ سلمیٰ بیگم مکافاتِ عمل کی چکی چل پڑی ہے۔۔ تم نے جو ظلم کیا ہے ۔اب بھگتو۔۔ تمہارے دونوں بچے لاپتہ ہیں ۔۔ کوئی نہیں جانتا کے وہ کہاں ہیں۔

کیا ؟ کیا کہا آپ نے ۔۔۔ 

ہاں ٹھیک کہا میں نے جانتی ہو جس کے پاس ہیں وہ دونوں اُس نے کہا ہے کے اگر آج شام تک حمزہ رِہا ہو کر گھر نا پونچا تو وہ اُس کا ایک ہاتھ کاٹ دیں گے ۔۔اور اگر سدرہ نہ ملی تو ہم آپنے دونوں بچوں کو بھول جائیں۔۔ جاؤ اب جا کر کرو کیا کر سکتی ہو۔۔۔

نن نہیں میرا بچہ ۔۔۔میں ابھی جاتی ہوں جا کر پولیس سے کمپلین وآپس لیتی ہوں ۔۔ سلمیٰ جلدی سے اُٹھی اور باہر کی طرف بھاگ پڑی۔۔

وحید جاتی سلمیٰ کو دیکھ کر خود سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا۔۔۔

ایک غلط عورت اور سب تباہ۔۔ کاش کاش میں نے آپنی آنکھیں کھلی رکھی ہوتی ۔  مجھ جیسے مرد پوری زندگی بس پیسے کمانے میں لگے رہتے ہیں۔۔ کے بیوی بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔۔اور باقی سب کچھ بھول ہی جاتے ہیں ۔۔میں بھی  اِن  کے لیے بس پیسے ہی کماتا رہ گیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

انکل وہ بہت غصے میں ہے ۔۔جب میں نے سدرہ کے بارے میں بتایا تو وہ تو جیسے پاگل ہی ہو گیا تھا۔۔ اور تو اور اُس دن کے بعد وہ مجھے ملا بھی نہیں اور نہ ہی وآپسی پر ملا۔۔

بلکے اس نے کہا کے وہ اب کبھی وآپس نہیں آۓ گا اور نہ ہی کبھی ہم سے ملے گا۔۔

سالار کی بات سُن کرحیدر نے ٹھنڈی آہ بھری اور نم آنکھوں سے سالار کی طرف دیکھتے ہوے بولا ۔۔ 

کھو دیا میں نے آپنا بیٹا ۔۔ میں نے آپنا ولی کھو دیا۔۔ سالار حناء کو میں یہ سب کیسے بتاؤں گا۔۔ وہ بھی مجھے معاف نہیں کرۓ گی۔۔۔ 

انکل پلیز آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ اور آنٹی کو ابھی کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ۔

اور سدرہ والے معاملے کا کیا بنے گا۔۔

وہ انکل ولی کا بھائی ہے  ایلکس ۔میں اس سے میں رابطے میں ہوں ۔۔اُس نے بتایا کےزوہیب اور اُس کی امی نے جھوٹ بولا تھا۔۔ اصل میں بات ہی کچھ اور ہے۔  اتنا کہ کر سالار نے حیدر کو سارا واقعہ سنایا۔۔۔

او میرے خدا کتنے بُرے لوگ ہیں یہ کتنا غلط کیا انہوں نے سدرہ کے ساتھ حیدر دکھی ہوتے ہوۓ بولا۔۔

اور عمر کو میں نے ساری بات بتا دی ہے۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

بُراق کے پیچھے ہی ایلکس اور میکس کمرے میں داخل ہوۓ۔ جہاں سدرہ سر جھکاۓ کھڑکی کے پاس کرسی پر بیٹھی تھی۔

بُراق آگے بڑھا اور سدرکے سامنے پاؤں کے پنجوں پربیٹھتے ہوۓ بولا۔۔ 

ہیلو سدرہ کیسی ہو ۔سدرہ نے ہلکا سا سر ہلا دیا۔۔بُراق مسکراتے ہوۓ بولاسدرہ دیکھو یہ لوگ تم سے ملنے آۓ ہیں۔۔ سدرہ جو صرف بُراق سے مانوس تھی۔۔اُس نے

بُراق کی بات سن کر  سر اُٹھا کر پہلے بُراق کو دیکھا اور پھر دروآزے کی جانب جہاں ایلکس اور میکس کھڑے تھے۔۔ ایک نظر اجنبی چہروں کودیکھ کر سدرہ نے پھر سے سر جھکا لیا۔۔تم جانتی ہو انہیں سدرہ۔۔ بُراق نے سدرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ پوچھا۔۔تو سدرہ نے جواب میں دوبارہ سر نفی میں ہلا دیا۔۔

ایلکس تیز قدموں سے آگے بڑھا اور سدرہ کے پاس آتے ساتھ بولا یہ ہی ہے۔۔ ۔۔۔میکس یہی ہے ۔۔۔نوحہ گرل۔ 

بُراق خیرت سے ایلکس کی طرف دیکھتے ہوۓ اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔۔ کون نوحہ؟؟

دیکھو بُراق سدرہ ہمارے ساتھ جاۓ گی ۔۔ ابھی اور اسی وقت تمہیں پتہ نہیں ہم اسے کب سے ڈھونڈھ رہے ہیں۔۔۔

بُراق ایلکس کو اپنے ہاتھ سےپیچھے کی طرف دھکیلتے ہوۓ بولا ۔

میں تم لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں کے کس طرح کے انسان ہو تم۔۔  دیکھو تم لوگ مجھے پہلے سب سچ سچ بتاؤ کے کیا تعلق ہے سدرہ کا تم لوگوں سے اور کون ہے یہ نوحہ اور اس سے کیا رشتہ ہے سدرہ کا۔۔

ایلکس دانت پیستے ہوۓ میکس کو دیکھ کر بولا۔۔ تم سنبھالو گے اسے یا ۔۔۔ ایلکس نے اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔۔

ایزی مین ایزی میکس دونوں ہاتھ اُوپر کرتے ہوۓ بولا۔۔بُراق دیکھو نوحہ بھائی ہے ہمارا فرینکو کا بیٹا ۔۔اوریہ لڑکی ہماری سسٹر اِن لا ہے۔۔ مطلب نوحہ کی ہونے والی وائف۔۔

کیا؟ کیاکہا تم نے ۔۔پاگل ہو تم کیا۔۔۔ میں نے بتایا نا کے یہ شادی شُدہ ہے ۔اور  رہا فرینکو کا بیٹا ۔۔تو وہ اس سے شادی کر ہی نہیں سکتا  کیوں کے یہ مسلم لڑکی ہے۔۔ 

ایلکس نے غصے سے آگے بڑھ کر بُراق کو کالر سے پکڑ لیا اور دبی آواز میں بولا۔۔ تم آپنے کام سے کام رکھو اور زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہیں میں صرف دوستی کی وجہ سے اب تک برداشت کر رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرا مشورہ ہے کے آپنا منہ بند رکھو جتنا تمہارے لیے جاننا ضروری تھا اتنا بتا دیا ۔۔سمجھے ۔۔اور ہاں ایک اور بات تم بھی ہمارے ساتھ چل رہے ہو اب کی بار ایلکس نے بُراق کا کالر ٹھیک کرتے ہوۓ کہا۔۔

میں کیوں ۔۔

 نوحہ سے مل بھی لینااور اسے سدرہ کی طبعیت کے بارے میں بتا بھی دینا۔ کیوں کے تم سدرہ کی کنڈیشن اچھے سے جانتے ہو ۔ایلکس بات مکمل کر کے سدرہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ سسٹر اِیٹس ٹائم ٹو گو ہوم۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏دیکھیں بی بی یہ پولیس کچہری کے معاملات اتنے سیدھے نہیں ہوتے کے جب دل کرے آ کر کسی پر  پرچہ کروا جاؤ اور جب دل کرۓ وآپس لے لو۔۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔کل عدالت میں پیشی ہے ۔۔ اب جاؤ اور کل کا انتظار کرو۔۔ اب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل گیۓ ہیں۔۔ اُس وقت کہا تھا تمہیں کے بی بی  گھر کا مسلہ گھر میں ہی حل کر لو ۔۔

 ‏انسپیکٹر خشک لہجے میں آپنی بات مکمل کر کے اُٹھا اور بولا بی بی مجھے اور بھی کام ہیں اب جاؤ ۔۔

 ‏سلمیٰ جو کافی دیر سے مِنتیں کر رہی تھی بے جان سی اُٹھی اور پولیس سٹیشن سے باہر نکل آئی۔۔ ایک رکشے والے نے اس کے پاس رکشہ روکا اور بولا خالہ جی جانا ہے۔۔

 ‏سلمیٰ نے سر ہلایا اور بولی چلو۔۔

 ‏رکشے والا مڑ کر اسے دیکھتے ہوۓ بولا خالہ جانا کہاں ہے۔۔

 ‏ہممم ۔۔۔سلمیٰ نے ایک دم سے اس کی طرف دیکھا۔اور بولی نئی کالونی۔۔

_________******

امی آپ پلیز کچھ تو کھائیں ۔۔عمر ماں کے سر پر پیار کرتے ہوۓ بولا۔۔

ہاں امی آپ کھائیں نا ۔۔بلال افسردہ سا بولا۔۔

نسیم نے آپنے  دآئیں بائیں بیٹھے عمر اور بلال کو دیکھا اور روہانسی آواز میں بولی ۔۔

کیسے کھاؤں  میرے جیسی ماں کیسے کچھ کھا سکتی ہے ۔۔ مجھ جیسی ظالم ماں جس نے آپنی بیٹی آپنے ہاتھوں سے ظالموں کے حوالے کر دی وہ ماں کیسے کچھ کھا سکتی ہے۔۔۔ 

امی پلیز دیکھیں آپ پھر سے بیمار ہو جائیں گی۔۔ اور جہاں تک سدرہ کی بات رہی تو آپ نے کچھ نہیں کیا ۔۔ امی آپ کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔ اگر کسی کی غلطی ہے تو وہ ہماری ہم گھر کے مرد تھے ہمیں اُن لوگوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تھی ۔لیکن ہم صرف عالیہ کی باتوں پر یقین کرتے چلے گئے۔۔ بلال نے سر جھکاتے ہوۓ آپنی بات مکمل کی۔۔

ہاں اب لگا لو الزام مجھ پر ۔۔ کتنا آسان ہے نا۔ اپنی بہن کے گناہ سے منہ موڑنا ۔۔ عالیہ تنز کرتے ہوۓ ۔بولی۔۔

بس بھابی بس اب ایک لفظ بھی نہیں عمر غصے میں بولا۔۔ 

ہاں ں مجھے تو چپ کروا ہی لو گے جاؤ جا کر لوگوں کے منہ بند کرواؤ۔۔ اور آپ آپ کیوں منہ سئے بیٹھے ہیں ۔آپ کے سامنے یہ مجھ سے بدتمیزی کر رہا ہے۔۔ 

خدا کے لیے تم لوگ چُپ ہو جاؤ۔ اب کی بار نسیم سسک کر روتے ہوۓ آپنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولی۔۔۔

بلال مجھے نہیں رہنا اب اس گھر میں سمجھے ۔۔میں امی کے گھر جا رہی ہوں اور اب دوبارہ اس گھر میں کبھی نہیں آؤں گی۔اگر اپ کو میرے اور ہمارے آنے والے بچے کے ساتھ رہنا ہے تو الگ گھر کا بندوبست کریں۔۔ سمجھے ۔۔اتنا کہتی عالیہ کمرے میں گئی اور آپنا سامان پیک کرنے لگی۔۔

جاؤ بلال روکو اسے نسیم بلال کا بازو ہلاتے ہوۓ بولی۔۔

نہیں امی جانے دیں اسے میں نہیں روکوں گا اب کی بار۔۔

بلال پاگل ہو گۓ ہو بیٹا عزت ہے وہ ہمارے گھر کی ۔۔ اور اُوپر سے بیمار بھی ہے۔۔ ایسی حالت میں عورت چڑچڑی ہو ہی جاتی ہے۔ اللہ نہ کرے تھوڑی سی لاپرواہی سے کوئی بڑا مسلہ نہ ہو جاۓ۔۔ پہلے ہی اللہ نے کتنے سال بعد کرم کیا ہے۔۔ تم تھوڑی عقل سے کام لو اور جاؤ جا کر پیار سے سمجھاؤ سمجھ جاے گی۔۔

بلال نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے بولا امی اپ کا دل کتنا بڑا ہے۔

جاؤ بلال جاؤ نسیم اسے کندھے سے پکڑتے ہوۓ بولی۔۔

__________******

نہیں میں نے آپنا فیصلہ آپ کو سنا دیا ہے ۔۔ آپ اب مجھے مت روکیں۔۔ ویسے بھی میں اب تنگ آ گئی ہوں ان لوگوں کے ساتھ رہتے رہتے مجھے الگ گھر چاہیے۔۔ آپ کل ہی گھر لے لیں میں آ جاؤں گی۔۔۔عالیہ سوٹ کیس کھینچتی کمرے سے۔ باہر نکلی اور بغیر کسی کو کچھ کہے گھر سے باہر نکل گئی۔۔

نسیم آواز دیتی رہ گئی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 زوہیب تکلیف سے کراہ رہا تھا۔۔ ولی نے آپنے آدمی کو اشارہ کیا تو وہ فون پر کوئی نمبر ملاتا ولی کے پاس آیا اور فون اسے تھما کر دوبارہ آپنی پہلی جگہ جا کر کھڑا ہو گیا ولی نے بیک کیمرہ آن کیا اور اتنے میں ہی کال دوسری طرف سے رسیو ہو گئی 

 ‏وحید نے گھبراتے ہوۓ ہیلو کہا۔۔ تو ولی نے کیمرہ زوہیب کی طرف کر دیا۔۔

 ‏زوہیب کی حالت دیکھ کر وحید کی منہ سے چیخ نکل گئی ۔۔ 

 ‏سلمیٰ جو دور بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی وحید کی آواز سن کر گھبرا کر اس کی طرف بھاگی وحید نے فون کی سکرین پاس آکر کھڑی ہوتی سلمٰی کی طرف کی تو وہ چیخ نے لگی۔۔۔   خدا کے لیے میرے بیٹے کو چھوڑ دو اللہ کا واسطہ ہے۔۔ 

 ‏ولی نے کیمرہ زوہیب کے ہاتھ کی طرف گھمایا تو زوہیب کا ہاتھ نہ دیکھ کر سلمٰی کی آنکھوں کے آگے اندھیرہ سا چھا گیا اور وہ زمین پر بےہوش ہو کر گر پڑی ۔ وحید اس سے پہلے کے کچھ کہتا کال بند ہو گئی ۔۔ ولی کرسی سے اُٹھا اور تہہ خانے سے نکلتا آپنی گاڑی کی طرف گیا کار میں بیٹھتے ساتھ ڈرائیور کو اتنا کہا گھر چلو۔۔۔

 ‏ ولی شاور لینے کے بعد واش روم سے باہر آیا۔ اور بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کے سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون بجنے لگا۔۔ ایلکس کا نام دیکھ اُس نے کال رسیو کی اس سے پہلے کے وہ ہیلو بولتا ۔ایلکس انتہائی سنجیدگی سے بولا۔ کہاں ہو۔۔

گھر اور کہاں کیوں خیریت ہے۔۔ولی نے  بیڈ کی ٹیک سے سر لگاتے ہوۓ پوچھا۔۔

گھر ہی رہنا ہم آ رہے ہیں۔۔اتنا کہہ کر ایلکس نے فون بند کر دیا۔۔۔

ولی کو ایلکس کے انداز پر خیرت ہوئی کیوں کے ایلکس نے ولی سے کبھی اتنے روکھے انداز میں بات نہیں کی تھی۔۔

______*****

کار ولی کے مینشن کے مین گیٹ سے اندر آئی اور تھوڑی آگے جا کر روکی۔۔ 

ایلکس اور میکس کار سے باہر نکلے ۔تو ولی سامنے مین دروآزے میں کھڑا تھا۔۔ 

ایلکس نے کار کی کھڑکی کے پاس جھکتے ہوۓ کہا ۔باہر آؤ۔۔ 

کار سے بُراق باہر آیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوۓ نرمی سے بولا ۔۔سدرہ باہر آؤ پلیز۔۔۔ سدرہ نے بُراق کو دیکھتے ہوے سر ہاں میں ہلایا اور اس کا ہاتھ تھامتی گاڑی سے باہر ائی۔۔

ولی جو اب چلتا ہوا ایلکس لوگوں کی طرف آ رہا تھا سدرہ کو دیکھ کر اس کے پاؤں جیسے زمین میں ہی گڑھ گۓ ۔۔ 

سدرہ اب بُراق کی کلائی دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر سہمی سی کھڑی ہو گئی۔۔ 

ولی کی نظر جب سدرہ کے ہاتھوں پر پڑی تو اسے جیسے آگ ہی لگ گئی۔۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا سدرہ کے قریب آیا اور آنکھیں زور سے بھینچ کر  بولا۔۔ ہاتھ چھوڑو اس کا۔۔ اتنا کہہ کر اُس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں ۔

اور خیرت میں رہ گیا۔۔ 

________*****

سدرہ نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو اس کو جیسے کچھ یاد آیا اور وہ آپنے  سامنے غصے میں آنکھیں بھینچے کھڑے ولی کو  ایک دم سے پہچان گئی تھی۔۔ سدرہ کے منہ سے آواز نہیں نکلی بس ہونٹوں نے حرکت کی۔۔ ولی۔۔۔اتنا کہتے ساتھ ہی اس نے بُراق کا ہاتھ چھوڑا اور ایک دم سے اپنے پاس چند انچ کے فاصلے پر کھڑے  ولی کی کمر کے گرد آپنے دونوں بازو گھما کر سر اس کے سینے پر رکھ دیا اور سسکنے لگی۔۔

ولی نے سدرہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک بازو اس  کے کندھوں کے گرد گھما کر اسے اپنے اور بھی قریب کرتے ہوے بولا۔۔ کہاں تھی تم پاگل لڑکی جان ہی نکال لی تھی تم نے میری سدرہ اب اور بھی زور سے رونے لگی۔۔

پاس کھڑے ایلکس اور میکس ایک دوسرے کو انکھ مارتے ہوۓ مسکرانے لگے۔۔

ایلکس بُراق کے کان کے قریب ہوتے ہوۓبولا۔۔ اب بھی کوئی شک ہے۔۔ 

سدرہ جو اب رونے کے ساتھ کانپنے بھی لگی تھی۔۔ ایک دم سے بے جان ہوتی زمین پر گرنے ہی لگی تھی کے ولی نے اسے اپنی بازوں میں لے لیا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

بلال گھبرایا ہوا کمرے سے باہر بھاگا۔۔۔ تو عمر جو کچن میں کھڑا پانی پی رہا تھا بلال کے چہرے کے اُڑے رنگ دیکھ کر آواز دیتے ہوۓ بولا۔۔ کیا ہوا حیر تو ہے۔۔ 

نہیں عمر غضب ہو گیا۔۔ بلال روتے ہوے بولا۔۔۔

کیا ہوا کچھ بتائیں بھی تو۔۔

وہ عالیہ کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی ۔۔۔

 سدرہ کو بازؤں میں لیے ہی زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوۓ  ایلکس کی طرف دیکھ کر چلایا۔۔ ڈاکٹر کو بُلاؤ جلدی۔۔

بُراق نیچے بیٹھتے ہوۓ سدرہ کی کلائی پکڑ کر نبز چیک کرنے لگا تو ولی نے اسے آپنے ہاتھ سے زور دار دھکا دیا بُراق پیچھے کو لڑکھڑاتا پشت کے بل زمین پر گر گیا۔

ولی غصے سے بولا۔۔خبردار جو ہاتھ لگایا اسے۔۔۔ ہاتھ توڑ دوں گا میں تمہارے۔۔۔

ایلکس جلد سے آگے آیا اور بولا نوحہ یہ ڈاکٹر ہے ۔چلو سدرہ کو لے کر اندر چلو اور اسے سدرہ کو چیک کرنے دو۔ 

میکس اتنی دیر تک بُراق کو زمین سے اُٹھا چکا تھا اور اب بُراق کپڑے جھاڑتا ہوا ولی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

ولی نے بےزارگی سے بُراق کو دیکھا اور سدرہ کو بازوں میں اُٹھاتے ہوے اندر چلا گیا۔۔ 

_______****

بُراق سدرہ کو چیک کر رہا تھا۔ اور ولی دونوں ہاتھوں کے مُکے بناۓ غصے سے اُسے گھور رہا تھا۔۔

سدرہ کو چیک کرنے کے بعد بُراق اُٹھا اور ایلکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔ میرے خیال سے ہمیں باہر جا کر بات کرنی چاہیے۔۔

_______****

 ولی ہال میں آتے ساتھ تینوں کی طرف بھنویں اُچکا کر دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ہممم اب تم لوگ مجھے کچھ سمجھاؤ گے کے یہ سب ہو کیا رہا ہے اور سدرہ بے ہوش کیوں ہوئی۔۔

ولی یار تم کچھ دیر خود پر کنٹرول رکھو ۔۔اور سکون سے بیٹھو پھر بتاتا ہوں میں سب ۔۔

ولی صوفے پر بیٹھ گیا اور وہ تینوں بھی اُس کے پاس بیٹھ گئے۔۔

ایلکس نے شروع سے آخر تک ساری بات ولی کو بتائی۔۔۔

ولی نے لمبی سانس لی اور بُراق کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔سدرہ نے کس کو کال کی تھی۔۔ میں نمبر دیکھ سکتا ہوں۔۔

حمزہ  نام لے رہی تھی وہ بُراق نے پُر سوچ انداز میں کہا۔۔۔اور فون ہسٹری سے نمبر نکال کر فون ولی کے ہاتھ میں دے دیا۔اور میں نے اس نمبر پر وائس میسج بھی چھوڑا تھا ۔۔لیکن نمبر اُس دن سے بند ہے۔۔

ولی نفی میں سر ہلاتے ہوۓ ایلکس اور میکس کی طرف دیکھتے ہوۓ  بولا ۔۔ حمزہ سے اُس کی بات نہیں ہوئی تھی یہ کنفرم ہے کیوں کے جس تاریخ کی کال ہے اس دن حمزہ توجیل میں تھا۔۔ پھر سدرہ کی کال کس نے رسیو کی۔۔

حمزہ کا فون کس کے پاس ہو سکتا ہے۔۔ ولی نے بُراق کو فون وآپس کیا اور ایلکس سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا۔۔ پاکستان سے پتہ کرواؤ کے حمزہ کا فون کس کے پاس ہے۔۔اتنا کہہ کر ولی نے دوبارہ بُراق کہ طرف دیکھا اور بولا ۔۔اب کیسے ٹھیک ہو گی سدرہ۔۔

_________****

بُراق۔۔۔۔۔

ہممم میں صرف سدرہ کی فزیکل  کنڈیشن کے بارے میں ہی بتا سکتا ہوں جو اس وقت کافی کمزور ہے۔ خوراک کی کمی اور  پہلے اُس کے شوہر کی مار پیٹ بعد میں ایکسیڈینٹ اور آخر میں سوسائیڈ ۔۔ اِن سب کے بعد جسمانی لحاظ سے سدرہ بہت کمزور ہو چکی ہے اور اسے اب پراپر خوراک کی ضرورت ہے لیکن آپنی دماغی حالت کی وجہ سے وہ بہت کم کھا پی رہی ہے۔۔ میں نے اپنے ہسپتال کی سائیکالوجسٹ سے سدرہ کا علاج شروع کروایا ہے۔۔ آج تمہیں دیکھ کر سدرہ نے جو

 ری ایکٹ کیا ہے اس کے بارے میں اب وہ ہی بتا سکتی ہیں ۔صبح بُلا کر ان سے بات کر لو۔۔

________****

ایلکس سدرہ کے اُٹھنے سے پہلے وہ ڈاکٹر یہاں ہو۔۔اتنا کہہ کر ولی تیزی سے اُٹھا اور سدرہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔

ولی بیڈ پر سدرہ کے قریب بیٹھ گیااور اِس کے زرد پڑتے چہرے کو باغور دیکھا۔۔پھر اُس کے چہرے پر آئے کچھ بالوں  کو پیچھے

 کرتے ہوۓ سرگوشی میں بولا۔ جس جس کا تمہاری اس حالت میں ہاتھ ہے قسم لے لو اُن میں سے کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ تمہارے ایک ایک آنسو کا حساب دینا ہو گا سب کو ۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

بلال ایمر جنسی روم کے باہر پریشانی سے کبھی کرسی پر بیٹھتا اور کبھی اُٹھ کر چکر لگانے لگتا۔۔

عالیہ کی ماں اور بہن بیٹھی دعائیں کر رہی تھیں۔۔

بھائی سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔عمر اس سے پہلے کچھ اور بولتا ۔اس کا فون بجنے لگا ۔

عمر نے فون پر نمبر دیکھا اور جلدی سے رسیو کرتے ہوۓ کان سے لگا لیا۔۔

دوسری طرف سے  کچھ پوچھا گیا تو عمر نے دو منٹ میں پوچھتا ہوں کہہ کر سامنے کھڑے بلال کی طرف دیکھ کر کہا۔ حمزہ کا موبائل کہاں ہے؟

بلال۔ کچھ سوچ کر بولا عالیہ کے پاس۔۔۔

میری بھابی کے پاس کیوں کیا ہوا تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو۔۔ عمر کے سوال کے جواب میں جو کچھ کہا گیا اس کا اتنا اثر تھا کے عمر غصے سے سرخ ہو گیا۔۔ وہ دانت پیستے ہوۓ بولا۔۔ زندہ مت چھوڑنا اُس گھٹیا انسان کو۔۔

ایمرجنسی روم سے باہر آتے ڈاکٹر نے بلال کے قریب سے گزرتے ہوۓ اسے اپنے کیبن میں انے کا کہا ۔۔ 

عمر جیب میں فون رکھتا بلال اور ڈاکٹر کے پیچھے چل دیا۔۔۔

________*****

ڈاکٹر صاحب آپ پلیز کچھ تو بتائیں میری  بیوی اور بچہ ٹھیک تو ہیں نا۔۔

دیکھیں بلال صاحب میں گھوما پھرا کر بات نہیں کروں گا ۔۔۔پہلی بات یہ کے ہم بچے کو نہیں بچا سکے کیوں کے بچہ مریضہ کو یہاں لانے سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔۔ 

بلال جو ابھی تک کھڑا تھا اب کرسی کا سہارا لیتا ہوا بیٹھ گیا۔۔

اور دوسری بات آپ کی بیگم اب کبھی ماں نہیں بن سکیں گی کیوں کےان کی یوٹرس پھٹ چکی تھی اس لیے ہمیں وہ نکالنی پڑی۔۔ 

بلال نے آنکھیں بھینچ لی ۔۔

بھائی پلیز حوصلہ کریں عمر نے جھک کر بلال کو گلے لگایا تو بلال پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔

_______*****

مسٹر ولی جیسا کے اپ بتا رہے ہیں کے سدرہ نے آپ کو پہچان لیا ہے ۔۔ اس سے جہاں اس بات کی اُمید تو پیدا ہوئی ہے کے وہ اب بہتر ہو جائیں گی ۔۔ لیکن وہی ایسا بھی ممکن ہے کے وہ دوبارہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس لیے سدرہ کو فِل حال بلکل بھی اکیلا مت چھوڑیں۔۔ بلکے میں تو یہ مشورہ دوں گی کے آپ انہیں ان کی فیملی کے پاس بھیج دیں۔ کیوں کے انہیں آپنے قریبی لوگوں اور ان کی سپورٹ کی ضرورت ہے اس سے یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔ڈاکٹر کی بات سن کر ولی نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ مارا اور بولا۔۔ 

ہمم ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں شکریہ۔

______*****

ولی ابھی بیٹھا کچھ سوچ ہی رہا تھا کے  فرینکو اور ایلکس سٹیڈی روم میں داخل ہوۓ ۔۔ولی جو ٹیبل پر ماتھا ٹکاۓ بیٹھا تھا۔فرینکو اس کے قریب گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولا ۔۔ کیا بات ہے ۔۔

ولی نے سر اُٹھا کر فرینکو کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔  کچھ نہیں بس تھوڑا کنفیوز ہوں۔۔

فرینکو نے ولی کو بازو سے پکڑ کر آپنے سامنے کھڑا کیا اور بولا۔۔تم  فرینکو کے بیٹے ہو فرینکو کے ۔۔۔

سمجھے اور تمہیں کسی بات پر کنفیوز ہونے کی ضرورت نہیں میں ہوں نا ۔۔

یس اور میں بھی تو ہوں۔ایلکس ہستا ہوا آگے بڑھااور ولی اور فرینکو کو گلے لگاتے ہوۓ بولا۔۔

تینوں جب بیٹھ گۓ تو فرینکو نے ولی کو مخاطب کیا اور بولا۔۔ 

میں جانتا ہوں کے تم کیوں پریشان ہو۔۔ دیکھو  ولی ہم فِل حال سدرہ کو یہاں نہیں رکھ سکتے تم جانتے ہو کے تھامس اس وقت زخمی شیر کی طرح ہے۔۔اس کا جتنا نقصان ہم نے کیا ہے وہ پوری کوشش میں ہے کے ہمیں نقصان پہنچاۓ۔۔ ایسی صورت میں ہم آپنی کوئی کمزوری اس پرظاہر نہیں کر سکتے۔۔ 

تم جتنا جلدی ہو سکے سدرہ کو چپ چاپ پوری راز داری سے پاکستان بھیج دو۔۔ جب تھامس والا مسلہ حل ہو گیا تو پھر جیسے تمہاری مرضی کر لینا۔۔ 

نہیں ڈیڈ میں اب سدرہ کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ انتہائی لاپروہ لوگ ہیں وہ سب۔۔۔

تو ٹھیک ہے ہم آپنے کچھ لوگ پاکستان میں سدرہ کی سکیورٹی پر لگا دیں گے۔۔ جو ہر پل تمہیں آگاہ رکھیں گے۔۔

لیکن ڈیڈ ۔۔ولی اب چڑ کر بولا ۔۔ 

دیکھو ولی سدرہ کا یہاں رہنا بہت نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔۔ اور میں ماضی کی غلطی دوہرانا نہیں چاہتا۔۔ اُس وقت میری غلطی نے تمہاری ماں بہن کی جان لے لی۔۔ اب تم وہی غلطی مت کرو۔۔ بس تھامس والا مسلہ حل ہو جانے دو ۔۔ یقین مانو سدرہ یہاں مخفوظ نہیں ہے۔۔

ہممم ٹھیک ہے پر پہلے میں اس کے گھر والوں سے خود بات کروں گا۔۔ اتنا کہہ کر ولی نے ایلکس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔ بات ہوئی عمر سے۔۔

ہاں ہوئی ۔۔۔اس نے کہا کے فون اُس کی بھابی کے پاس ہے۔۔

ہممم تم مجھے عمر کا نمبر دو میں خود بات کروں گا اس سے۔۔۔۔

اتنے میں  دروازے پر دستک ہوئی اور ولی نے اندر آنے کو کہا۔

ایک میڈ اندر داخل ہوئی اور سر جھکا کر بولی سر وہ میڈم جاگ گئی ہیں ۔۔

ولی جلدی سے اُٹھا اور کمرے سے نکل کر سیدھا سدرہ کے کمرے کی طرف تیز قدموں سے چل دیا۔۔

ولی نے دروازہ کھولا تو سدرہ سر جھکاۓ  بیٹھی تھی۔۔ ولی اس کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بولا ۔۔سدرہ کیسی ہو ۔۔

سدرہ نے نظر اُٹھا کر ولی کی طرف دیکھا اور کچھ بولے بغیر ہی دوبارہ سے نظر جھکا لی۔۔

ولی  سدرہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی پشت پر آپنے انگوٹھوں سےدائرے بناتے ہوۓ بولا ۔۔ پتہ ہے سدرہ تم اس طرح خاموش رہ کر میری جان لے رہی ہو پلیز کچھ تو بولو۔۔ کوئی بات تو کرو۔۔ تم اس طرح چپ بلکل اچھی نہیں لگتی۔۔ جانتی ہو مجھے وہ ہی باتونی سی لاپروا سی ۔۔بات بے بات ہستی منہ پھٹ سی سدرہ پسند ہے ۔ 

تم پہلی لڑکی تھی جسے ملتے ساتھ ہی میرے دل نے کہا کے بس ولی تم گھر پہنچ گۓ۔ یہ لڑکی تمہارا گھر ہے ۔۔ 

ولی نے سدرہ کے ہاتھ  چھوڑ کر اس کے چہرے کو آپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور بولا۔۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔جانتی ہو تمہارے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں تم بس ایک دفعہ صرف ایک دفعہ کچھ تو بولو۔۔

سدرہ نے اپنے دونوں ہاتھ ولی کے ہاتھوں پر رکھ دۓ جو اس کے چہرے کو پکڑے ہوۓ تھے۔۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔۔

اور اُس نے سرگوشی میں بس اتنا ہی کہا حمزہ ۔۔امی۔۔۔

ولی جس نے سدرہ کی سرگوشی سن لی تھی

 اب سمجھ چکا تھا کے اسے  کیا کرنا ہے وہ اٹھا اور پاس کھڑی میڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔ میڈم کو ناشتہ کرواؤ۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حمزہ اور عمر عدالت سے گھر پہنچے تو نسیم نے اگے بڑھ کر حمزہ کو گلے لگا لیا اور رونے لگی۔۔

امی آپ روئیں مت دیکھیں میں ٹھیک ہوں ۔۔حمزہ ماں کو گلے لگاتے ہوۓ تسلی دینے لگا۔۔ تبھی اُس نے عمر کو تیزی سے بلال کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو اسے کچھ تشویش سی ہوئی۔۔

 امی میں نے کتنے دنوں سے آپ کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا مجھے بھوک لگی ہے ۔۔ نسیم نے جلدی سے آنسو پونچھے اور حمزہ کو پیار کرتے ہوۓ بولی ۔۔میں کھانا بناتی ہوں ابھی تم جاؤ جا کر نہا لو۔۔ 

________****

عمر سیدھا بلال کے کمرے میں گیا اور حمزہ کا فون ڈھونڈھنے لگا۔۔

کچھ دیر بعد اسے الماری سے فون مل گیا ۔اس نے جلدی سے فون آن کیا۔۔اور جلدی سے فون کی کال ہسٹری چیک کرنے لگا ۔۔ حمزہ اندر آ گیا۔۔ 

تم ۔۔ امی کہاں ہیں؟

امی میرے لیے کھانا بنانے گئی ہیں۔ اتنا کہہ کر حمزہ نے عمر کے ہاتھ میں اپنا فون دیکھا اور سوالیہ نظروں سے عمر کو دیکھنے لگا۔۔

حمزہ میری بات غور سے سنو ۔۔۔ اور امی کو کچھ بھی مت بتانا۔۔ یہ بات صرف ہم تینوں بھائیوں میں رہے۔۔اور بات سنے کے بعد خود پر کنٹرول رکھنا  ۔۔ سمجھے۔۔۔

حمزہ نے صرف ہممم ہی کیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔۔

بات کچھ یوں ہے کے سدرہ کو ڈھونڈنے کے لیے سر حیدر  پری کے چاچو۔۔ نے اٹلی میں اپنے کسی آدمی کو کہا تھا۔اس آدمی کا مجھ سے رابطہ ہے۔اس نے بتایا کے۔۔ انہوں نے زوہیب کو پکڑ لیا ہے اور اس سے سب کچھ اُگلوا لیا ہے۔۔ دراصل سدرہ خود گھر سے نہیں گئی تھی۔۔ زوہیب نے۔۔۔۔ عمر کچھ دیر کے لیے روکا اور گلے میں آۓ تھوک کو نگلتے ہوۓ بولا۔۔زوہیب نے ہماری بہن آپنے کسی دوست کو ایک رات کے لیے دے دی۔۔۔

کیا؟۔۔۔ کیا کہا اپ نے۔۔۔ حمزہ جو ایک دم سے اچھل ہی پڑا تھا یہ بات سن کر۔۔ عمر نے اسے جلدی سے بازو سے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا اور بولا۔۔ حمزہ خدا کے لیے امی دل کی مریض ہیں میں نے پہلے ہی کہا تھا کنٹرول رکھنا۔۔

کہاں ہے اب سدرہ ۔۔ حمزہ منہ پر بے چینی سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا۔۔

سدرہ اس آدمی سے بچ کر بھاگ گئی تھی مگر اس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ۔۔ ہوش میں آنے کے بعد سدرہ نے تمہارے نمبر پر کال کی تھی ۔۔ لیکن فون پر بات کرنے کے بعد سدرہ نے خود کُشی کی کوشش کی ۔۔ اسے بچا تو لیا گیا ہے پر وہ سکتے کی حالت میں ہے وہ کچھ نہیں بول رہی۔۔ 

اُففف اللہ یہ سب کیا ہو گیا ۔۔ حمزہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر رونے لگا۔۔ اور پھر ایک دم سے سر اُٹھا کر عمر کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ فون کس کے پاس تھا میرا۔۔ 

عالیہ بھابی کے پاس۔ اور یقیناً انہی نے سدرہ سے بات کی ہو گی  لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہی کے انہوں نے ایسا کیا کہا کے سدرہ نے خود کشی کی کوشش کی۔۔ 

حمزہ نے عمر کے ہاتھ سے فون لیا اور نمبر ڈھونڈھنے لگا لیکن فون ہسٹری میں کوئی باہر کا نمبر نہیں تھا۔۔ 

ہوتا بھی کیسے عالیہ نے نمبر اور میسج  delete کر دیا تھا۔۔

میں نہیں چھوڑوں گا اس عورت کو جان لے لوں گا اس کی حمزہ غصےسے بولا۔۔

نہیں حمزہ وہ خود ابھی ہسپتال میں پڑی ہیں۔۔ اور سب سے بڑھ کر بلال بھائی ۔۔وہ بہت پریشان ہیں ۔۔ابھی ہم انہیں مزید پریشان نہیں کر سکتے۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


حجاب کھڑکی سے ٹیک لگاۓ باہر دیکھ رہی تھی  ۔

کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایلکس اندر داخل ہوا ۔

حجاب نے مُڑ کر ایلکس کی طرف دیکھا ۔اور دوبارہ سے باہر دیکھنے لگی۔۔ 

ایلکس حجاب کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔۔ 

سدرہ مل گئی ہے۔۔

حجاب نے ایک دم سے اس کی طرف دیکھا اور بولی کہاں ہے سدرہ ؟ کیسی ہے وہ؟ پلیز مجھے ملنا ہے اُس سے۔۔

ایلکس ایک قدم اور آگے بڑھا کر حجاب کے قریب ہوتے ہوۓ بولا۔ میری بات غور سے سنو۔۔ 

سدرہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے ہم اُسے دو تین دن بعد پاکستان بھیج رہے ہیں ۔ وہ اکیلی نہیں جا سکتی اس لیے تم اُس کے ساتھ جاؤ گی۔۔۔۔ 

ایلکس کی بات سن کر حجاب خوش ہوتے ہوۓ بے یقینی سے بولی تم مجھے جانے دو گے۔۔

ہمم میں تمہیں جانے دوں گا۔۔

اب حجاب خوشی سے پاگل ہو رہی تھی کے وہ آزاد ہو جاۓ گی۔۔

حجاب کے چہرے پر خوشی سے پھیلی مسکراہٹ دیکھ کر ایلکس نے چٹکی بجاتے ہوۓ اسے آپنی طرف متوجہ کیا اور بولا ۔۔لیکن ایک صورت میں تم جا سکتی ہو ۔۔ 

حجاب اب تھوڑی کنفیوز ہوتے ہوۓ بولی کیا ؟ کیا مطلب۔۔

ایلکس نے حجاب کا ہاتھ پکڑا اور بولا میرے ساتھ آؤ۔۔ ایلکس حجاب کاہاتھ پکڑے سٹڈی روم میں داخل ہوا ۔ اور اس کاہاتھ چھوڑتے ہوۓ دروازہ بند کیا اور صوفے پر بیٹھ گیا 

اس نے آنکھ کے اشارے سے حجاب کو بیٹھنے کا کہا۔

حجاب چپ چاپ بیٹھ گئی۔۔ 

درمیان میں پڑی ٹیبل پر رکھی فائل ایلکس نے حجاب کی طرف کھسکائی اور بولا اسے پڑھ کر سائن کر دو۔۔ 

حجاب نے ہچکچاتے ہوۓ فائل اُٹھائی اور اسے کھولا۔ لیکن اندر موجود پیپرز پر نظر پڑتے ساتھ ہی جیسے وہ اچھل پڑی۔۔ 

یہ ہ ک کیا۔۔ ہے ۔ وہ  اٹکتے ہوۓ بولی۔۔

جو تمہیں نظر آ رہا ہے یہ وہی ہے۔۔ ایلکس نے بے نیازی سے کہا۔۔ 

لیکن میں ان پیپرز پر سائن نہیں کرو گی۔۔ یہ غلط ہے۔۔ 

ایلکس تھوڑا آگے جھکا اور دانت پیستے ہوۓبولا۔۔ 

اچھا یہ غلط ہے۔ تو جو تمہارے بھائی نے کیا وہ ٹھیک تھا۔۔۔ ہمم۔۔اب  آرام سے سائن کرو ۔۔سمجھی۔۔

____****

نہیں بلکل نہیں ہر گز نہیں کروں گی۔ حجاب نے آپنی ساری ہمت اکٹھی کرتے ہوۓ ایلکس کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔

ایلکس  صوفے کی ٹیک لگا کر ہلکا سا مسکرایا اور ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوۓ بولا۔۔ ٹھیک ہے مت کرو سائن مجھے کوئی مسلہ نہیں۔۔ لیکن اگلے دو دن تم میرے ساتھ بیوی کی حیثیت سے گزارنا چاہتی ہو یا کسی اور حیثیت سے اب یہ تمہاری مرضی ہے۔۔ 

نہیں  پلیز ایلکس سمجھنے کی کوشش کرو یہ نہیں ہو سکتا۔۔ میں ۔۔ میں مسلم ہوں ۔۔میں نہیں کر سکتی تم سے شادی یہ حرام ہے ناجائز ہے۔۔ حجاب اب گِڑگڑاتے ہوے بولی تھی۔۔

اووو آئی سی مسلم نان مسلم اِشو۔۔۔ ایلکس نے آگے جھک کر حجاب کے ہاتھ سے فائل لی اور پین سے فائل پر لکھے آپنے نام Alixenderمیں سے xenderپر لائن لگا کر کاٹ دیا اور حجاب کی طرف دیکھ کر بولا لو اب Ali بچا اب میں مسلم ہو گیا ان پیپرز پر اب  جلدی سے سائن کر دو کیوں کے اب تو تمہاری شادی علی سے ہو رہی ہے۔۔ 

حجاب بے یقینی سے ایک دفعہ پیپرز اور دوسری دفعہ ایلکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی ۔۔ نہیں یہ غلط ہے ایسا نہیں ہوتا ۔۔ایسے تھوڑی کوئی ۔۔۔ حجاب نے ایلکس کے چہرے پر آتے غصے کو دیکھ کر بات ادھوری ہی چھوڑ دی ۔۔۔

اب ایلکس جو کافی دیر سے برداشت کر رہا تھا ۔ غصے سے اُٹھا اور حجاب کے پاس جا کر اس کے سر کے پیچھے کےبالوں کو پکڑ تے ہوۓ کھینچ کر کھڑا کیااور بولا۔۔  ان سب فارمیلٹیز کی مجھے کوئی ضرورت نہیں سمجھی ۔میں تو بس تمہارے اِس حرام ہلال کے مسلہ کی وجہ سے یہ کر رہا تھا۔۔ اب اگر تم نہیں چاہتی کے سب ٹھیک طرح سے ہو تو تمہاری مرضی۔

۔اتنا کہہ کر ایلکس نے حجاب کو کِس کرنے کی کوشش کی تو حجاب نے جلدی سے آپنے ہاتھ جو پہلے ایلکس سے آپنے بال چھڑانے میں لگے تھے ہونٹوں پر رکھ لیے۔اور روتے ہوۓبولی ٹھیک ہے میں کرتی ہوں سائن۔۔ 

ایلکس نے مسکراتے ہوۓ اُس کے بال چھوڑ دیۓ اور اُس کے بال ٹھیک کرتے ہوۓ بولا ۔۔گُڈ گرل۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

نسیم کے کانوں میں عمر اور حمزہ کی باتیں گونج رہی تھیں۔۔ جو اُس نے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر سنی تھیں۔۔

 عمر اور حمزہ انجان تھے کے وہ جو بات ماں سے چھپا رہے تھے وہ سب اُس نے سن لی ہیں۔۔ 

 ‏نسیم کی پوری رات کروٹیں بدلتے گزر گئی۔۔ آنسو تھے کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔

 ‏سدرہ میری بچی یہ سب کیا ہو گیا۔۔ میں نے یہ کیا کر دیا۔۔ اللہ مجھ سے یہ کیا ہو گیا ۔۔ اتنی بڑی غلطی ۔آپنی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کرتے وقت اتنی بڑی لاپرواہی کیسے کر دی میں نے۔ میں نے آپنی بیٹی ایک جانور کے حوالے کر دی کیسی ماں ہوں میں۔ اللہ اللہ ۔۔۔

 ‏نسیم کی آواز دکھ سے بلند ہو گئ اور اب وہ چلا چلا کر رونے لگی۔۔ عمر کو ماں کے رونے کی آواز آئی تو وہ جلدی سے گھڑی پر ٹائم دیکھتا اُٹھا۔۔۔صبح  چاربجے کا ٹائم تھا ۔۔ 

 ‏عمر ماں کے کمرے میں داخل ہوا تو ماں کو روتے دیکھ کر بھاگ کر گلے لگا لیا ۔۔ 

 ‏حمزہ بھی بھاگتا آیا تھا۔۔

 ‏امی کیا ہوا کیوں رو رہی ہیں آپ ۔۔ عمر نے ماں کے سر پر پیار کرتے ہوۓ پوچھا۔۔۔

 ‏نسیم نےنظر اُٹھا کر عمر اور حمزہ کی طرف دیکھا اور بولی میں نے تم لوگوں کی سب باتیں سن لی تھیں ۔۔تم لوگ مجھ سے اتنا کچھ چھپا رہے تھے۔ماں ہوں میں سدرہ کی تم لوگ کیسے مجھے لاعلم رکھ سکتے ہو اِن سب باتوں سے۔۔ وہاں میری بچی پر کیا کیا بیت گئی ۔۔اور یہاں میں کتنی باتوں سے انجان بیٹھی ہوں۔۔ 

 ‏عمر نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولی اور بولا ۔۔امی ہم ڈر رہے تھے کے آپ ۔۔۔

 ‏نسیم نے عمر کی بات کاٹ دی اور بولی کچھ نہیں ہو گا مجھے۔۔ مجھ جیسی ظالم اور بے رحم  ماں کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ کتنا منع کر رہی تھی میری سدرہ اِس شادی سے کتنی دفعہ اُس نے کہا تھا ۔امی مجھے شادی نہیں کرنا ۔۔ اتنا کہہ کر نسیم پھر سے رونے لگی۔۔۔

 ‏امی پلیز آپ چُپ ہو جائیں۔۔ سدرہ  ٹھیک ہے اور دو تین دنوں تک آ رہی ہے ۔۔ 

 ‏نسیم نے نم آنکھوں سے آپنے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔کیسے نظریں ملاؤں گی میں سدرہ سے ۔۔کیسے تسلی دوں گی اُسے اُس کی زندگی اُجاڑ نے کے بعد۔۔۔

 ‏نہیں امی ایسا مت کہیں ۔۔ آپ نے کچھ نہیں کیا ۔۔ 

 ‏حمزہ ماں کے کندھے پر سر رکھتے ہوۓ بولا تھا۔۔

________****

 ‏عمر نے نسیم کا چہرہ آپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور بولا ..امی آپ کو حوصلہ کرنا ہو گا۔۔کیوں کے آپ نے سدرہ کو سنبھالنا ہے۔۔ وہ ٹھیک نہیں ہے ۔اُسے ٹھیک کرنے کے لیے آپ کو ہمت کرنی ہو گی ورنہ آپ کو روتا دیکھ کر وہ اور بھی بیمار ہو جاۓ گی۔۔۔

 ‏اُسے اِس وقت ہماری ضرورت ہے امی۔۔ وہ جن حالات سے گزری ہے اُسے وآپس پہلے والی سدرہ بنے میں کافی ٹائم لگے گا۔۔ اگر ہم اِسی طرح اُس کے سامنے ہمت ہار کراور اُس کے ساتھ ہوئی باتوں کو یاد کر کےروتے رہے تو وہ کبھی اُس سب کو بھول نہیں پاۓ گی۔۔ بلکے ہو سکتا ہے وہ زندگی سے اور بھی مایوس ہو جاۓ۔ پہلے بھی اُس نے آپنی جان لینے کی کوشش کی ہے ۔ایسا نہ ہو کے وہ دوبارہ کچھ ایسا کر بیٹھے۔۔

عمر نے ماں کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب کی آنکھ کھلی تو پچھلی رات  اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گئی۔وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکنے لگی۔۔جب اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو حجاب کو آپنی کمر پر وزن سا محسوس ہوا اُس نے جلدی سے مڑ کر بیڈ کے دوسری طرف دیکھا جہاں ایلکس اوندھے منہ بغیر شرٹ کے سو رہا تھا۔۔ اور اُس کی ایک بازو حجاب کی کمر کے گرد تھی۔۔ 

حجاب کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اُس نے  کانپتے ہاتھوں سے ایلکس کی بازو کو اُٹھا کر ہٹانا چاہا تو ایلکس نے اور بھی زور سے حجاب کی کمر کو پکڑ لیا اور اُس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔ سو جاؤ ابھی صبح ہونے میں کافی ٹائم ہے۔۔ 

حجاب دبی سی آواز میں بولی۔۔ مجھے واش روم جانا ہے۔۔ 

ایلکس نے سیدھا ہو کر لیٹتے ہوۓ حجاب کو چھوڑ دیا۔۔ 

حجاب جلدی سے اُٹھ کر واش روم کی طرف بھاگی اور اند جا کر دروآزہ لاک کرتے ہوۓ دروآزے سے ٹیک لگاۓ زمین پر بیٹھ گئی اور رونے لگی۔۔۔

جب کافی دیر تک حجاب واش روم سے باہر نہ نکلی تو ایلکس اُٹھ کر دروآزے کے پاس گیا۔۔۔ اُسے حجاب کے رونے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔۔ ایلکس نے دروآزہ کھٹکھٹایا اور بولا۔۔ آج کیا پورا دن اندر بیٹھ کر رونے کا ارادہ ہے۔۔ حجاب جواب میں کچھ نہیں بولی۔۔تو ایلکس دوبارہ بولا۔۔ چانچ منٹ میں باہر نکلو اور نیچے ڈائینگ ہال میں پہنچو۔۔  ورنہ یاد رکھو سدرہ اکیلی پاکستان جاۓ گی ۔۔ اتنا کہہ کر ایلکس نے صوفے پر پڑی شرٹ اُٹھائی اور پہنتا باہر نکل گیا۔

حجاب جب واش روم سے نکلی تو ایک میڈ کمرے میں کھڑی تھی۔۔ وہ حجاب کو دیکھ کر بولی ۔۔ میڈم سر آپ کا کھانے پر انتظار کر رہے ہیں۔۔ چلیں۔۔

حجاب اُس کے پیچھے پیچھے حال میں پہنچی تو ایلکس نے جلدی سے اُٹھ کر حجاب کے بیٹھنے کےلیے آپنے ساتھ والی کرسی باہر کو کھینچی اور بولا۔۔ 

کم وآئیفی۔۔۔

ایلکس کے وائیفی کہنے پر حجاب کا دل جیسے کچھ روک کر دھڑکا تھا۔۔وہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئ۔۔ 

ایلکس نے حجاب کو اشارہ کرتے ہوۓ کھانا کھانے کا کہا۔۔ 

اور گلاس میں جوس ڈال کر اُس کے سامنے رکھتے ہوۓ بولا۔۔ آج تم میرے ساتھ آپنے اپارٹمنٹ چل کر  اپنا سامان اور پاسپورٹ وغیرہ لے آنا۔۔ 

حجاب نے ہلکا سا سر ہلایا۔۔ تو ایلکس پلیٹ میں چمچ رکھتے ہوۓ ۔۔ آنکھیں سکیڑ تے ہوے بولا۔۔ زبان میں تکلیف ہے۔۔ جو جواب نہیں دے رہی۔۔

حجاب نے خوف سے اُس کی طرف دیکھا اور گلے میں آیا تھوک نگلتے ہوۓ بولی۔۔ جی۔۔

ایلکس نفی میں سر ہلاتا دوبارہ سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

نسیم ہسپتال پہنچی اور سیدھی عالیہ کے کمرے میں گئی۔۔ وہ دکھ اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں تھی۔۔ کیوں کے وہ سلمیٰ کے گھر سے ہو کر آئی تھی۔۔ اور سلمیٰ نے اسے سب بتا دیا تھا عالیہ کے بارے میں۔۔۔

عالیہ جو اپنے بچے کو کھونے اور دوبارہ کبھی ماں نہ بن سکنے کے دکھ میں رو رو کر پاگل ہو رہی تھی۔ 

نسیم کو دیکھ کر اور بھی زور سے رونے لگی۔۔ 

نسیم جسے خود کم دکھ نہ تھا کے اُس کے بیٹے نے اپنا بچہ کھویا ہے۔ پر عالیہ کے لیے جیسے نسیم کے دل سے ہمدردی ختم سی ہو گئی تھی۔۔ 

نسیم عالیہ کے پاس جا کر کھڑے ہوتے ہوۓ بولی۔۔ 

کتنا دکھ ہو رہا ہے نا عالیہ تمہیں آپنے اُس بچے کے لیے جسے تم نے دیکھا تک نہیں تھا جو تمہارے پیٹ میں صرف پانچ ماہ رہا۔۔ اُسے کھونے پر کتنا پاگل ہو رہی ہو تم۔۔۔ 

لیکن مجھ سے پو چھو مجھ سے۔۔۔ جس نے نو ماہ سدرہ کو پیٹ میں رکھا تکلیف سہہ کر پیدا کیا۔ اور اتنے سال پال پوس کر جوان کیا۔ اور تم نے کتنی بے دردی سے میری محنت خاک میں ملا دی۔۔ مجھ سے پوچھو اولاد کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔ تمہارا بچہ تو مر گیا۔ پر میری سدرہ تو نہ جیتوں میں ہے نہ مروں میں ۔۔

سلمیٰ کے گھر سے ہو کر آ رہی ہوں میں ابھی۔۔ اُس نے بتایا ہے کے تم زوہیب کے بارے میں پہلے دن سے سب جانتی تھی ۔۔ تم نے سلمیٰ سے کہا تھا۔ کے سدرہ کو کبھی پاکستان وآپس مت آنے دیں۔اُسے ڈرا دھمکا کر دبا کر رکھیں وہ کچھ نہیں بولے گی کسی کو کچھ نہیں بتاۓ گی۔۔

عالیہ کیا دشمنی تھی تمہاری سدرہ سے نسیم اب روتے ہوے بولی۔۔یہ ہی نا کے اُس کے بھائی بہت پیار کرتے تھے اُس سے۔۔۔ اور کیوں نہ کرتے آخر بہن تھی وہ اِن کی ۔۔ اور  کیا بگاڑا تھا میری معصوم سی بچی نے تمہارا۔ کے تم حسد اور جلن میں اتنی آگے نکل گئی۔۔۔ کے تم نے اُس کی زندگی ہی برباد کر دی۔۔ 

عالیہ دیکھو آپنی طرف تم نے ایک ماں کو تکلیف دی ۔۔ تو رب نے تمہیں اُسی تکلیف میں مبتلا کیا تا کے تمہیں سمجھ آۓ کے اولاد کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔ 

لیکن جانتی ہو ۔تمہاری تکلیف میں بھی مجھے ہی دکھ ملا کیوں کے جو بچہ تم نے کھویا ہے وہ صرف تمہارا نہیں تھا۔۔ وہ میرے بلال کا بھی تھا۔۔ وہ بھی ہمارا ہی تو تھا۔۔ اب نسیم نے لمبی سانس لی اور بولی۔۔

دیکھو عالیہ تم نے پھر سے اِس ماں کو ایک نیا دکھ دے دیا۔۔۔تمہاری وجہ سے میرے دو بچے تکلیف میں ہیں۔۔۔ خدا کے لیے عالیہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے بس اتنا بتا دو تم نے سدرہ کو فون پر کیا کہا۔۔ بس اتنا سا اس ماں پر احسان کر دو۔۔۔ نسیم ہاتھ جوڑتے ہوۓ رو کر بولی۔۔۔

کمرے میں موجود عالیہ کی ماں بہن ۔۔ بلال حمزہ اور عمر خیرت سے نسیم کو دیکھ رہے تھے۔۔

عالیہ نے آپنے آنسو صاف کئے اور غصے سے چیختے ہوے بولی ہاں کیا ہے سب میں نے کیوں کے نفرت ہے مجھے سدرہ سے۔۔ نفرت۔۔۔ اور فون پر اُسے میں نے بہت کچھ کہا۔۔ میں نے کہا منہ چھپا کر بیٹھی رہو جہاں پر بھی ہو۔کیوں کے  تم بد کردار ہو بد چلن ہو اور  یہ بات پورا شہر کہہ رہا ہے ۔۔ اور تمہارے   بھائی لوگوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور تمہاری  ماں اسی دکھ سےمر گئی ہے ۔حمزہ جیل چلا گیا ہے قتل کے کیس میں۔۔ اور تم جیسی بہن کو مر جانا چاہیے۔۔۔ اب عالیہ زور زور سے پاگلوں کی طرح ہسنے لگی اور بولی۔۔۔ 

دیکھا کیا حال کیا میں نے اُس سدرہ کا اب کسی کو منہ نہیں دکھا پاۓ گی ساری عمر ہس کے تو دکھاۓ وہ ہا ہا ہا ۔۔ آپنے ماتھے پر لگا کلنک اب وہ کبھی نہیں مٹا پاۓ گی۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ بڑا کرتے تھے میری سدرہ میری سدرہ۔۔۔ میری چڑیا میری چڑیا۔ کٹ گئے پَر تم لوگوں کی چڑیا کے۔۔جاؤ جا کر اپنی بہن کے لیے عزت خرید کر لاؤ۔۔۔ عالیہ اب پاگلوں کی طرح بُڑبُڑاۓ جا رہی تھی۔۔۔ 

جب حمزہ تیزی سے اُس کی طرف بڑھا اور اُس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا ابھی وہ دوبارہ مارنے ہی لگا تھا کے عمر نے آگے بڑھ کر اُسے پکڑ لیا۔۔اور حمزہ کو گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے گیا۔۔ 

چھوڑو مجھے نہیں چھوڑوں گا اس عورت کو۔۔ جان لے لوں گا میں اِس کی ۔۔۔حمزہ عمر  سے خود کو چھڑواتے ہوۓ چِلا کربولا۔۔

حمزہ عقل کرو پہلے بھی تمہاری اسی حرکت کی وجہ سے ہمیں عدالت کچہری تک جانا پڑا ۔۔ اب بس کر دو۔۔ 

عمر حمزہ کو کرسی پر دہکا دے کر بٹھاتے ہوۓ غصے سے بولا تھا۔۔ 

دیکھو عمر سکون سے اور سمجھ داری سے کام لو ۔۔ اس طرح غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اب۔۔ 

خود کو سنبھالو۔۔

______*****

عالیہ کی باتیں سن کر بلال زمین پر گھٹنوں کے بل گر پڑا تھا۔۔ نسیم پاس ہی دیوار سے ٹیک لگاتی زمین پر بیٹھ گئ۔۔ اب کمرے میں عالیہ کے ہسنے کی آوازیں گونج رہی تھیں اور ساتھ میں نسیم کی سسکیاں۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی اُس دن کے بعد سدرہ کے کمرے میں نہیں آیا تھا کیوں کے وہ جانتا تھا کے وہ جتنا زیادہ وقت سدرہ کے ساتھ گزارے گا اُس کے لیے سدرہ کو وآپس بھیجنا اُتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا ۔ 

آج جب سدرہ پاکستان جارہی تھی تو بھی وہ اُس سے ملنے نہیں گیا۔۔ 

ایک میڈ نے سدرہ کو تیار کیا اور گاڑی میں بٹھایا۔۔ 

میکس نے ڈرائیور کو کچھ سمجھا یا  ۔اس کے بعد ڈرائیور گاڑی خفیہ راستے سے لے کر مینشن سے نکل گیا۔۔ 

________*****

ایلکس نے گاڑی ائیرپورٹ کے باہر پارک کی اور حجاب گاڑی سےباہر آئی۔۔۔

ایلکس نے سن گلاسسز میں نظر گھما کر پارکینگ میں داخل ہوتی گاڑی کو دیکھا اور حجاب کے کان کے قریب ہو کر بولا وہ گاڑی جو ابھی آئی ہے اُس میں سدرہ ہے ۔۔ ڈرائیور سدرہ کو ائیر پورٹ کے اندر تک چھوڑ کر آۓ گا۔  اُس سے آگے تم نے صرف سدرہ پر نظر رکھنی ہے اُسکے قریب مت جانا اور نہ ہی بات کرنے کی کوشش کرنا  ۔۔سدرہ کے پیپرز کے ساتھ اُس کی میڈیکل رپورٹس بھی ہیں ۔۔ اور اندر مارک نام کا بندہ ہے  وہ جہاز میں بٹھا کر آۓ گا سدرہ کو۔ سدرہ کی سیٹ تمہاری سیٹ کے آگے ہو گی ایک ائیر ہوسٹس سدرہ کو چیک آؤٹ میں مدد کرے گی ۔۔کوئی مسلہ نہیں ہو گا ۔اور 

 ‏پاکستان پہنچ کر ائیر پورٹ پر سدرہ کا بھائی سدرہ کو رسیو کر لے گا۔۔ 

 ‏اتنا کہہ کر ایلکس نے آپنی بازو حجاب کی کمر کے گرد گھما کر حجاب کو گلے لگا لیا اور اُس کے ماتھے پر پیارکرتے ہوۓ بولا ۔۔اور تم جب ائیر پورٹ سے نکلو گی تو ایک ہونڈا سٹی **** نمبر پلیٹ والی کھڑی ہو گی۔۔چپ چاپ اُس میں بیٹھ جانا۔ تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر اُتار دیا جاۓ گا۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا تم میری بیوی ہو ۔ میرا انتظار کرنا  سمجھی۔

 ‏ اتنا کہہ کر ایلکس نے حجاب کے گال پر جھک کر پیار کیا اور اُسے آپنی بازو سے آزاد کرتے ہوۓ بولا جاؤ ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہماری زات      ______آدھی رہ گئی۔۔ 

کسی کا کھیل _______پوراہوگیا۔۔۔

________*** 

حمزہ بے چینی سے کبھی دونوں ہاتھ منہ پر پھیرتا اور کبھی انگلیاں بالوں میں مارتا ہوا  اِک ٹک ائیرپورٹ کے دروازے جس سے اب مسافر باہر آنا شروع ہو گۓ تھے دیکھ رہا تھا۔۔ 

پاس کھڑے عمر کی حالت بھی حمزہ سے مختلف نہ تھی۔۔ اُن دونوں کے چہرے دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کے وہ کس کرب میں ہیں۔۔

حمزہ کی نظر باہر آتی سدرہ پر پڑی ۔پہلے والی اور اب کی سدرہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔کمزور سی پیلی سی رنگت ۔۔آنکھوں کے نیچے پڑے ہلکے۔۔ اور چہرے پے چھائی ویرانی والی یہ سدرہ حمزہ کو اجنبی سی لگی تھی۔۔اُس کا جو ہاتھ ابھی اُس کے چہرے کے قریب ہی آیا تھا۔ پسینہ پونچھنے کے لیے ایک دم سے بے جان ہوتا نیچے کو گر ساگیا۔۔ اور آنکھیں جیسے ساکت ہو گئی۔۔ اور ایک اٹکی سی سانس اندر کو لیتے ہوۓ اس کے ہونٹوں سے ایک ہی لفظ نکلا تھا۔۔ اللہ۔۔۔

______****

عمر  ایک دم سے بھاگا تھا۔ جبکہ حمزہ کے پاؤں جیسے زمین میں گڑھ سے گئے تھے۔۔  

______***

عمر نے بھاگ کر سدرہ کو گلے لگا لیا۔۔

میری جان __میری چڑیا ۔۔۔ 

عمر یہ دو لفظ بول کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔ 

جبکہ سدرہ ایک دم سے کانپنے لگی۔۔۔ اور اُس کے دماغ میں عالیہ کی باتیں جیسے دوبارہ سے گونجنے لگی۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ میں ۔۔میں ۔۔ بدکردار ۔۔۔ میں ۔۔ میں بد چلن۔۔۔۔ نہیں ۔۔ نہیں۔۔۔ سدرہ سرگوشی میں بُڑبُڑانے لگی۔۔۔

عمر نے جلدی سے سدرہ کو تھوڑا سا خود سے ہٹا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔

 تو  سدرہ کو بُڑبُڑاتے اور کانپتے دیکھ کر۔۔دکھ اور غم  سے جیسے اُس کا دل پھٹ سا گیا ۔۔ عمرنے سدرہ کو ماتھے پر پیار کیا اور بولا۔۔ششش چپ میری جان چُپ اتنا کہتا وہ اُسے ساتھ لگاۓ باہر کی طرف چل دیا۔۔۔

 ‏حمزہ  خاموشی سے اُن دونوں کے پیچھے چل دیا۔۔ وہ ابھی بلکل بھی اس حالت میں نہیں تھا کے آگے بڑھ کر سدرہ کو ملتا۔۔  

 ‏عمر اور سدرہ بیک سیٹ پر بیٹھ گئے ۔۔ اور حمزہ خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔

 ‏ اب پورے راستے گاڑی میں سدرہ کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔۔ جبکہ حمزہ ہونٹوں کودباۓ رو رہا تھا ۔اور ہر کچھ سیکنڈ کے بعد آپنی بازو سے آنسو صاف کررہا تھا۔۔  

 ‏عمر سدرہ کو آپنے سینے سے لگاۓ لمبی لمبی سانس لے کر آپنے آپ کو رونے سے روک رہا تھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ولی نے زوہیب کو بالوں سے پکڑ کر اُس کا جھکا سر اُٹھایا ۔۔تو زوہیب درد سے کراہ اُٹھا۔۔ 

ولی نے ایک ہاتھ سے زوہیب کے بال پکڑے تھے ۔۔اور دوسرے ہاتھ میں کچھ پیپرز ۔۔ 

ولی  پیپر زوہیب کے سامنے لہراتے ہوۓ بولا۔۔ 

اِن پیپرز پر سائن کرو ۔۔ 

اتنا کہہ کر اُس نے پیپر اور پین زوہیب کی گود میں گرا دیا۔۔ 

زوہیب نے پیپرز کی طرف دیکھا اور پھر ولی کی طرف دیکھتےہوۓ بولا۔۔ طلاق کے کاغذات ؟؟؟

 ولی نے ہممم کرتے ہوۓ آنکھ کا اشارہ کیا اور بولا۔۔ سائن کرو ان پر۔۔۔

 ‏زوہیب ہلکا سا طنزیہ مسکرایا اور ولی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔ اور اگر نہ کروں تو۔۔

 ‏ولی تھورا جھکا اور زوہیب کے گال کو تھپکتے ہوۓ بولا۔۔ ہممم مت کرو کوئی مسلہ نہیں۔۔ ویسے بھی تم طلاق نامے پر سائن نہ بھی کرو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کے  میں تمہیں زندہ تو چھڑوں گا نہیں۔۔ اور کیا فرق پڑتا ہے سدرہ کو طلاق ہو یا وہ بیوہ ہو۔۔۔ اتنا کہہ کر ولی نے زوہیب کی گود سے پیپر اُٹھانے چاہے۔ تو زوہیب نے جلدی سے پیپر پکڑ لیے اور بولا۔۔ پلیز مجھے مارنا مت میں سائن کر دیتا ہوں۔۔ اتنا کہہ کر جلدی سے پین اُٹھا کر اُس نے سائن کر دئیے۔۔ 

 ‏گُڈ۔ ولی پیپر اُٹھا کر  پاس کھڑے گارڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔تمہیں پتہ ہے کے تم نے کیا کرنا ہے۔۔

 ‏یس باس۔۔

 ‏زوہیب جلدی سے بولا۔۔ اب تو تم مجھے چھوڑ دو ۔۔اور ویسے بھی تمہاری میری کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہے۔

 ‏ولی زوہیب کے قریب ہوا اور بولا ۔۔ تم نے جو کیا ہے وہ معافی کے لائق نہیں ہے۔ اور جہاں تک رہی ذاتی دشمنی تو وہ تو ہے کیوں کے کچھ میرا تھا جو غلطی سے تمہارے ہاتھ لگ گیا اور تم نے اُسے بہت غلط طریقے سے رکھا ۔اور تمہاری اس غلطی کو میں بلکل برداشت نہیں کر سکتا۔۔اتنا کہہ کر ولی باہر جانے کے لیے مڑا

 ‏اور مسکرا کر آخری بار زوہیب کی طرف دیکھا اور بولا۔۔ انسان جو بوتا ہے اُسے وہ کاٹنا پڑتا ہے۔۔ پھر چاہے وہ کچھ بھی کر لے آپنے کئے کی سزا سے وہ بچ نہیں سکتا۔۔ 

 ‏

 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

 ‏گاڑی کی آواز سن کر نسیم نے لمبی سانس لی اور ہلکے قدموں سے صحن کی طرف چل پڑی ۔۔ اُس کا دل ڈوبا جا رہا تھا کے وہ سدرہ کو کیسے دلاسہ دے گی ۔۔وہ آپنی بیٹی کی دل جوئی کیسے کرۓ گی۔  کیسے اُس کے اُجڑ جانے پر اسے صبر کرنے کا کہے گی۔ ہال سے صحن تک جاتے تک کتنے ہی سوال تھے جو نسیم کے دماغ میں گونج رہے تھے۔۔

_________****

 حمزہ نے گاڑی گیرج میں پارک کی اور سٹیرِنگ  سے آپنے بے جان ہوتے  ہاتھ ہٹا کر گود میں رکھ لیے اور سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔

عمر نے سر جھکاۓ خاموش بیٹھی سدرہ کو گاڑی سے باہر آنے کا کہا۔ تو سدرہ نے نظر اُٹھا کر عمر کی طرف دیکھا۔اور سر نفی میں ہلایا اور روتے ہوۓبولی ۔۔بھائی میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ 

عمر نے جھک کر سدرہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور افسردہ سا مسکراتے ہوۓ بولا ۔ہمیں پتہ ہے 

ہماری چڑیا کچھ غلط نہیں کر سکتی۔۔ 

سدرہ روتے ہوۓ عمر کے گلے لگ گئی۔۔

عمر نے سدرہ کو سہارا دے کر گاڑی سے باہر نکالا۔ 

تو سدرہ کی نظر سامنے کھڑی ماں پر پڑی تو جیسے اُس کے صبر کے سارے بند ٹوٹ گۓ۔

سدرہ ماں کے گلے لگ کر چِلا چِلا کر رونے لگی۔۔ 

اب دونوں ماں بیٹی دل کھول کر روئی۔۔

عمر نے حمزہ کی طرف دیکھا جو اب سٹیرنگ پر ماتھا ٹکاۓ رو رہا تھا۔۔

وہ آگے بڑھا اور دروازہ کھول کر حمزہ کو بازو سے پکڑا اور کھینچ کر باہر نکالتے ہوۓ غصے سے بولا ۔۔ 

تم اگر خود اس طرح کرو گے تو سدرہ کا کیا ہو گا۔۔اب یہ سب رونا دھونا بند کرو۔۔ ہمیں آپنی بہن کا حوصلہ بنا ہے۔۔ اُسے مضبوط کرنا ہے اور اگر ہم ہی کمزور پڑگۓ تو ہو چکا سب۔۔

حمزہ نے نظر اُٹھا کر سدرہ کی طرف دیکھا اور عمر کے کندھے سے سر ٹکا کر بولا۔۔ عمر دیکھو نا کیا حال ہو گیا ہے ہماری سدرہ کا۔۔ 

حمزہ یہ ہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کے اُس کی حالت دیکھو ۔ اور خود کو سنبھالو کیوں کے اسے بھی تم ہی نے نارمل کرنا ہے۔۔ تم جانتے ہو کے وہ ہم سب  میں  سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔۔ 

حمزہ  نے سر ہلایا اور ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتا۔روتی ہوئی سدرہ اور ماں کے قریب گیا۔۔ اور سدرہ کو سر پر پیار کرتے ہوۓ بولا ۔۔ 

اے چڑیا مجھ سے نہیں ملو گی۔۔

سدرہ نے ایک دم سے ماں کے سینے سے سر اُٹھایا اور حمزہ کی طرف دیکھ کر  اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر اور بھی زیادہ زور سے رونے لگی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب سدرہ کے پیچھے ہی باہر نکلی تھی۔ حجاب نے سر گھما کر آگے پیچھے دیکھا تو اُس کی نظر ایلکس کی بتائی گاڑی پر پڑی۔۔ وہ آہستہ سے قدم اُٹھاتی گاڑی کے قریب گئی۔۔

 تو ڈرائیور جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا اور بولا۔ حجاب بی بی؟

 ‏حجاب نے سر ہلا دیا۔۔ 

 ‏ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور حجاب کو بیٹھنے کا کہا۔۔تو وہ چُپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئ ۔

 ‏پورے راستے حجاب کا دماغ اسی کشمکش میں رہا کے وہ ماں باپ کو شادی کے بارے میں  کیا بتاۓ گی۔۔ اور کیسے بتاۓ گی کے اُس کی شادی ایک غیر مسلم سے ہوئی ہے اور وہ بھی زبردستی ہوئی ہے۔۔

 ‏

 ‏حجاب نے اب فیصلہ کر لیا کے وہ دوبارہ ایلکس کے پاس کبھی نہیں جاۓ گی بلکہ اُس سے طلاق لے لے گی۔۔

 ‏ اُسے اب دل میں یہ تسلی ہو رہی تھی کے وہ پاکستان آ گئی ہے تو وہ مخفوظ ہے۔۔۔۔

 ‏لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کے ایلکس اُسے اب کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا۔۔بلکہ حجاب ایسا کر کے اُلٹا اُس کو غصہ دلاۓ گی اور اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرۓ گی۔۔۔۔

 ‏ڈرائیور نے گاڑی حجاب کے گھر کے باہر روکی۔۔ اور مڑ کر ایک موبائل باکس حجاب کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولا ۔۔ یہ لیں بی بی یہ موبائل آپ کا ہے ۔

 ‏

 ‏حجاب نے آنکھیں سکیڑتے ہوۓ موبائل کی طرف دیکھا اور بولی۔۔ مجھے یہ نہیں لینا ۔یہ میرا تو نہیں ہے۔ 

ڈرائیور نے نفی میں سر ہلا کر کہا ‏بی بی یہ آپ ہی کے لیے ہے۔ایلکس سر کا حکم تھا کے آپ کو یہ دے دوں۔تاکہ آپ اُن سے رابطے میں رہیں ۔۔

 ‏حجاب نیچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوۓ کچھ دیر سوچنے کے بعد گلا صاف کرتے ہوۓ ہمت کر کے بولی۔

 ‏ نہیں مجھے نہیں چاہیے۔اور تم آپنے ایلکس سر کو کہہ دینا کے میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔اب میں دوبارہ کبھی بھی اُس کی شکل  نہیں دیکھوں گی۔۔ ۔اتنا کہتے ساتھ ہی وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر جلدی سے باہر نکلی ۔۔

 ‏تو ڈرائیور بھی باہر نکل آیا ۔۔سامان نکال کر وہ حجاب کے سامنے کھڑے ہوتے ہوۓ بولا۔ بی بی اپ کو یہ لینا ہی ہو گا سر نے سختی سے کہا تھا ۔اپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور ویسے بھی اس میں سر کا نمبر سیو ہے۔آپ ان سے رابطہ کر کے خود ہی یہ ساری  بات کر لیں ۔ 

 ‏

 ‏ نہیں لینا ایک دفعہ کہہ تو دیا سمجھ نہیں آتی ۔اور نہیں کرنی مجھے اِس سے بات۔۔ جاؤ جا کر آپنے سر سے کہہ دو کے میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی مجھے اُس سے کوئی رابطہ رکھنا ہے۔۔حجاب اب غصے میں دانت پیستے ہوۓبولی اور مڑ کر گھر کی بیل بجائی ۔۔

 ‏بی بی خدا کے لیے اپ لے لیں یہ ورنہ سر ۔۔اب کی بار حجاب نے اُس کو آپنی بات پوری نہ کرنے دی اور 

 ‏ انگلی کا اشارہ کرتے ہوۓ بولی۔  تم یہاں سے جاؤ گے یا نہیں۔۔حجاب اس سے آگے کچھ بولتی اُس سے پہلے ہی وحید نے دروازہ کھول دیا۔

_________*****

 ‏حجاب کوسہی سلامت دیکھ کر وحید خوشی سے پاگل ہی تو ہو گیا تھا۔ 

 ‏حجاب باپ کو دیکھتے ساتھ ہی آبدیدہ سی آگے بڑھ کر وحید کے گلے لگ گئی۔۔

 دونوں باپ بیٹی ملنے کے بعد گھر کےاندر داخل ہوۓ ۔ 

 ‏بابا ماما کہاں ہیں۔حجاب نےصوفے پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

 ‏بیٹا وہ کمرے میں سو رہی ہے اُس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔۔

 ‏ تم سناؤ  تم کیسی ہو اور یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔ سدرہ اور زوہیب والا کیا معاملہ ہے اور زوہیب کہاں ہے۔ تم کہاں تھی۔۔ وحید نےحجاب کی طرف دیکھ کر الجھے سے انداز میں پوچھا۔ 

______*****

 ‏ آپنی شادی والی بات کو چھوڑ کر باقی سب کچھ شروع سے آخر تک سب حجاب نے باپ کو بتا دیا۔۔ 

 ‏وحید سر دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوۓ روتا ہوا بولا۔ حجاب زوہیب کا کچھ پتہ نہیں۔۔۔

_________*****

 ‏بابا پلیز آپ پریشان مت ہوں۔ 

 ‏حجاب باپ کو تسلی تو دے رہی تھی پر اب اُسے احساس ہوا تھا کے وہ اپنے معاملے میں زوہیب کو تو بھول ہی گئی تھی۔۔ 

 ‏حجاب ایک دم سے اُٹھی ۔۔۔ اللہ میں نے یہ کیا کر دیا۔۔ مجھے فون لے لینا چاہیے تھا۔۔ زوہیب تو اُنہی کے پاس ہے۔۔حجاب یہ سوچتے ہوۓ۔

 ‏بابا اپ یہی بیٹھئں ۔۔ کہتی  باہر کو بھاگی ۔۔۔

 ‏دروازہ کھولا تو ڈرائیور ابھی باہر ہی کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔ 

________****

 اوکے سر کہتے ہوۓ اُس نے فون بند کیا۔ اور سامنے کھڑی حجاب کو دیکھ کر بولا بی بی اچھا ہوا آپ باہر آ گئی۔۔یہ لیں پلیز آپ یہ فون رکھ لیں سر بہت غصے میں ہیں۔کے آپ نے فون نہیں لیا۔۔ 

 ‏حجاب نے جلدی سے فون اُس کے ہاتھ سے لے لیا۔۔ اور کچھ مزید کہے بغیر اندر چلی گئی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس نے غصے سے فون سامنے والی دیوار پر دے مارا۔۔اور دانت پیستے ہوۓ بولا۔۔ جَسٹ ویٹ بے بی ۔

میکس جوابھی ابھی اندر آیا تھا ۔ایلکس کو غصے میں بُڑبُڑاتے دیکھ کر ہسی دباتا صوفے پر بیٹھ گیااور ناک کُھجاتے ہوۓ مستی سے بولا۔۔ مین لگتا ہے ابھی سے ہماری سسٹر کو مِس کرنے لگے ہو۔۔

____****

شَٹ اَپ میکس کہتا وہ بھی بیٹھ گیا لیکن اب ایلکس گہری سوچ میں تھا۔۔ اُس کے دماغ میں فون پر سُنے الفاظ گردش کر رہے تھے۔۔ 

ایلکس نے گردن گھما کر میکس کی طرف دیکھا اور بولا۔۔ نوحہ کہاں ہے۔۔ 

میرے پیچھے ہی آرہا تھا کوئی کال آئی تو سنے کے لیے رک گیا۔۔اتنا کہتے ساتھ ہی میکس نے دروازہ کھول کر اندر آتے ولی کو دیکھ کر اُس کی طرف اشارہ کیا اور بولا لو آ گیا۔۔۔

ولی نے ایلکس اور میکس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تو میکس نے آنکھوں سے ایلکس کی طرف اشارہ کیا۔۔

ولی ایلکس کے پاس جا بیٹھا اور بولا ۔۔کیا ہوا۔۔

ایلکس سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا۔۔حجاب اُس نے میرا دیا فون لینے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کے وہ طلاق لے لے گی ۔۔ 

ہممم ایسا تو ہونا ہی تھا میں نے منع بھی کیا تھا۔تمہیں کے ابھی شادی رہنے دو ۔ مجھے بھی تو دیکھو  میں نے بھی تو سدرہ کو بھیج دیا ہے ۔۔تم بھی رُک جاتے تو دونوں اکٹھے پاکستان جا کر حجاب کو تم سے شادی کے لیے منا لیتے اور مذہب والی بات بھی کلیٔر کر لیتےاور پھر دونوں ایک ساتھ  شادی کرتے لیکن نہیں تمہیں تو آپنی مرضی کرنی تھی ۔اور اوپر سے زبردستی ۔۔تمہیں کیا لگتا تھا کے وہ اتنا کچھ ہونے کے بعد جب آزاد ہو گی تو تمہارے پاس وآپس آ جاۓ گی۔۔ دیکھو تم نے اُسے اچھا بھلا ڈرا دیا ہے ۔ اب صبر کرو ۔۔اور مل کر زرہ سکون سے سوچتے ہیں کے کیا کیا جاۓ۔ولی صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوۓ بولا تھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب تم زوہیب کے بغیر وہاں سے آ کیسے گئی ۔۔ تمہیں زرہ بھی خیال نہیں آپنے بھائی کا ۔۔سلمیٰ غصے سے بولی تھی۔۔

ماما وہ لوگ بہت حظرناک ہیں۔۔۔

وحید چلیں ہم واپس چلتے ہیں اٹلی جا کر اُن لوگوں سے بات کرتے ہیں۔۔ کہیں وہ میرے بچے کو کچھ کر ہی نہ دیں۔سلمیٰ روتے ہوۓ بولی ۔۔

وحید سر ہلاتے ہوۓ بولا ہاں میں بھی یہی سوچ رہاہوں۔۔۔

حجاب گھبرا کر سر نفی میں ہلاتے ہوے بولی نہیں  نہیں پاپا میں نہیں جاؤں گی وآپس ۔۔۔

اچھا بیٹا آپ مت جاؤ ۔میں اور سلمیٰ چلے جاتے ہیں آپ آپنے ماموں کے گھر رہ لو جب جی چاہا آ جانا نہیں تو ہمارے وآپس آنے کا انتظار کرنا۔۔ 

حجاب سکون کا سانس لیتے ہوۓ بولی نہیں پاپا میں لندن وآپس جاؤں گی۔۔ 

اوکے بیٹا جیسے تمہاری مرضی ۔اتنا کہتے ہوۓ وحید اُٹھا اور بولا میں ایک دو دن بعد کی ٹکٹ کروا دیتا ہوں سلمیٰ ہماری اور حجاب تمہاری بھی۔۔

حجاب اوکے کہتی آپنے کمرے میں آ گئی اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے فون کو اُٹھا کر آن کیا ۔۔ فون میں صرف ایک نمبر my loveکے نام سےسیو تھا ۔۔ جسے پڑھ کر حجاب کے منہ میں کڑواہٹ سی اُتری تھی۔۔ وہ   غصے سے فون بیڈ پر پٹختے ہوۓ بولی

My love.... My foot۔۔۔۔۔

جانور ۔۔ جانور۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

امی سدرہ کہاں ہے حمزہ نے سیڑھیاں اُترتے ہوۓ پوچھا۔

نسیم جو ہاتھ میں چاۓ پکڑےکچن سے نکل رہی تھی۔۔ باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولی صحن میں ہے۔ جاؤ  اُسے کہو آ کر ناشتہ کرلے۔۔ ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔۔

حمزہ سیدھا صحن میں گیا ۔۔

سدرہ صحن میں لگے جھولے پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔

حمزہ بھی جا کر اُس کے پاس بیٹھ گیا اور آپنی بازو اُس کے کندھے کے گرد گھما کر اُسے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا ۔۔ کیا سوچ رہی ہے میری چڑیا۔۔۔

سدرہ سر حمزہ کے ساتھ ٹکاتے ہوۓ بولی حمزہ کس غلطی کی سزا ملی مجھے۔۔

حمزہ افسردہ سا مسکرایا اور بولا۔۔

سدرہ کبھی کبھی سزاکے لیے غلطی کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔یہ تو بس مقدر کی ستم ظریفی ہے 

اور ہم آپنے مقدر میں لکھا بدل تو نہیں سکتے۔۔ اور نہ ہی خدا سے لڑ سکتے ہیں۔۔صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔۔اور اللہ آپنے پسندیدہ لوگوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔۔ اللہ خود فرماتا ہے ۔ کے ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔۔ ہمیں بس صبر کرنا ہوتا ہے اور جانتی ہو جو صبر والے امتخان میں پاس ہو جاتے ہیں اللہ اُن پر بہت کرم کرتا ہے ۔ان کے سارے دکھ خوشیوں میں بدل دیتا ہے ۔۔اپنے بندے کو وہ اتنا نواز دیتا ہے کے انسان پچھلے سب غم بھول جاتا ہے۔۔ تم دیکھنا سدرہ ایک دن اللہ تمہیں کتنی خوشیاں دے گا۔۔ 

سدرہ حمزہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی سچ میں حمزہ۔۔۔ 

ہاں نا  چڑیا ۔۔۔

چلو اُٹھو اور چل کر ناشتہ کرو حمزہ اتنا کہتا ہوا اٹھا تو سدرہ اُس کے ہاتھ کو پکڑتے ہوۓ اُٹھی اور بولی۔۔ حمزہ مجھے عالیہ بھابی سے ملنا ہے۔۔

حمزہ نے کچھ دیر سدرہ کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھا اور بولا۔۔ سدرہ رہنے دو مت ملو اُس سے وہ اس وقت آپنے ہوش میں نہیں ہے پاگل ہو گئی ہے جو منہ میں آتا ہے بکواس کرتی جاتی ہے۔

نہیں حمزہ پلیز مجھے ملنا ہے ان سے صرف ایک دفعہ۔۔۔ سدرہ اب حمزہ کی منت کرتے ہوۓ بولی۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے پہلے چلو ناشتہ کر لو۔ پھر  دن کے ٹائم لے جاؤں گا ۔۔

دونوں ہال میں پہنچے تو عمر پہلے سے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا تھا اور ماں سے سدرہ کا ہی پوچھ رہا تھا۔ جب اس کی نطر اندر آتے حمزہ اور سدرہ پر پڑی تو مسکراتے ہوۓ بولا ۔جلدی سے آؤ چڑیا مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے۔ 

سدرہ نے عمر اور ماں کے چہرے کی طرف دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔ اور پھر حمزہ کی طرف جو اب جلدی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ رہا تھا ۔۔ سدرہ  آنکھیں جھپلے بغیر سب کو دیکھ رہی تھی اُسے سب خواب لگ رہا تھا وہ آنکھ جھپکنے سے بھی ڈر رہی تھی کے کہیں سب غائب نہ ہو جائیں اور سب سچ میں خواب نہ ہو۔۔ 

عمر نے سدرہ کو اس حالت میں دیکھا تو جلدی سے اُٹھ کر اسے ہاتھ سے پکڑتا ہوا کرسی تک لایا اور بولا بیٹھو جلدی کرو بھوک سے میرے پیٹ کے سب چوہے ہاتھی اب ہسپتال پہنچنے والے ہیں۔۔

سدرہ عمر کی بات سن کر بے ساختہ ہسنے لگی ۔۔ سب سدرہ کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے جو منہ پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کۓ ہسے جا رہی تھی۔۔

لیکن۔

کچھ ہی سیکنڈ میں سدرہ کی ہسی رونے میں بدل گئی اور وہ زور زور سے رونے لگی۔۔ عمر نے جلدی سے اُسے آپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا ۔ششش  چپ۔ چڑیا بس ۔۔ بس 

_____**** 

نسیم سدرہ کو دیکھ کر آپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ 

سدرہ پلیز چُپ ہو جاؤ ۔۔دیکھو امی کو۔۔ اُنہیں پہلے ہی اٹیک آ چکا ہے اب تمہیں اس طرح دیکھ کر کہیں اُن کی طبیعت پھر سے خراب نہ ہو جاۓ۔۔عمر سرگوشی کرتے ہوۓ بولا تھا۔۔ 

تو سدرہ نے جلدی سے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا جو ایک ہاتھ منہ پر اور دوسرا ہاتھ سینے پر رکھے بیٹھی خاموشی سے آنسو بہارہی تھی۔۔ 

وہ ماں کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی اور بولی امی مجھے بھوک لگی ہے ۔اپ اپنے ہاتھ سے کھلائیں نا۔۔ نسیم نے آنسو صاف کۓ اور سدرہ کی طرف دیکھ کر دھیمے سے بولی ہاں کیوں نہیں۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب کی آنکھ فون  بجنے کی آواز سے کھلی تو وہ تکیہ کانوں پر دباتے ہوۓ دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔ کچھ دیر بعد فون کی آواز بند ہو گئی ۔۔لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ سے بجا تو حجاب اُٹھ کر بیٹھی اور فون اُٹھا کر سکرین پر کالر آئ ڈی دیکھی جو اس نے رات کو ہی بدلی تھی۔۔ my loveکی جگہ جانور لکھا تھا۔۔ 

حجاب نے کال رسیو کرتے ہوۓ ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا۔۔ 

تو دوسری طرف سے ایلکس  گرج دار آواز میں بولا۔۔

یقین مانو ہنی اگر تم میری کال رسیو نہ کرتی تو آج ہی میں پاکستان پہنچ کر تمہیں بتاتا۔۔ تم کیا سمجھتی ہو کے پاکستان جا کر تم اپنی من مرضی کرتی پھرو گی۔۔ اور زرہ دوبارہ میرے سامنے بولو جو تم نے ڈرائیور کو بولا تھا۔۔ہممم بولو۔۔

حجاب نے لمبی سانس لی اور آپنی ساری ہمت اکٹھی کرتے ہوۓ بولی۔۔ 

دیکھو ایلکس میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔اور یہ بیوی والی بات تم آپنے دماغ سے نکال دو ۔تم نے پہلے ہی میرے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔۔ میں مسلم ہوں اس لیے اس شادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

_______*****

اووو شَٹ اَپ۔۔۔ ایلکس اب چلاتے ہوۓ بولا تھا ۔۔

لُک بے بی اتنا بولو جتنا بعد میں تم بھگت سکو سمجھی۔۔ 

اور میری ایک بات کان کھول کر سُن لو ۔۔سویٹی۔تم صرف میری ہو اور رہو گی ۔۔مجھے چھوڑنے کا خیال بھی مت لانا اپنے دل یا دماغ میں۔۔ ورنہ نتیجہ ٹھیک نہیں ہو گا۔۔

اور ہاں ایک اور بات اگلی دفعہ میری کال نہ اٹھائی تو میں خود پاکستان پہنچ کر تمہیں سبق سکھاؤں گا۔۔

ایلکس زوہیب کہاں ہے۔۔ حجاب نے ایلکس کی ساری باتیں سنی اَن سنی کر کے پوچھا۔۔

_____****

ہاہاہا ایلکس نے قہقہ لگایا اور بولا۔ اووو بے بی 

دیکھو اُسے تو تم بھول ہی جاؤ۔اُسے اب تم مرا ہی سمجھو۔۔

نہیں پلیز ایلکس نہیں اُسے کچھ مت کہنا چھوڑ دو اُسے پلیز۔۔ اب حجاب منت کرتے ہوۓ بولی۔۔

______****

دیکھو حجاب زوہیب کا فیصلہ ہو چکا ہے اب اُس کے موضوع پر کوئی بات نہیں ہو گی۔۔ سمجھی۔ ایلکس اب قدرے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔

______***

تو ٹھیک ہے اگر زوہیب کے موضوع پر بات نہیں ہو گی تو تم بھی بھول جاؤ مجھے اب میری بھی تم سے کوئی بات نہیں ہو گی سمجھے۔۔حجاب نے اتنا کہتے ساتھ ہی فون بند کر دیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس حجاب کی بات سن کر غصے پر قابو کرتے ہوۓ سامنے بیٹھے ولی اور میکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ مجھے پاکستان جانا ہی پڑے گا ۔۔ یہ لڑکی پاکستان جا کر کچھ زیادہ ہی اُڑ رہی ہے۔۔

اُف ایلکس تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی زرہ صبر کیوں نہیں رکھتے۔اور ایسا کیا کہہ دیا اُس نے کے اتنے نیلے پیلے ہو رہے ہو۔۔ ولی نے ایلکس کو بازو سے پکڑ کر بٹھاتے ہوۓ پوچھا۔۔

وہ زوہیب کا پوچھ رہی تھی ۔ایلکس نے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔۔

ہممم مجھے اندازہ تھا کے تمہارے اور حجاب کے درمیان زوہیب والا مسلہ آئے گا۔۔اور آۓ بھی کیوں نہ جیسا بھی ہے وہ ہے تو حجاب کا بھائی نا۔۔ولی نیچلا ہونٹ دانتوں میں چباتے ہوۓ بولا۔۔

کچھ سوچتے ہوۓ ولی دوبارہ سے بولا۔دیکھو ایلکس ہمیں اب جلدی سے تھامس والا مسلہ حل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان جا سکیں۔۔

نہیں نوحہ تھامس والے معاملے میں ہمیں جلد بازی نہیں کرنی ۔کیوں کے وہ کمزور ضرور ہوا ہے پر ابھی بھی اتنا نہیں ہوا کے آسانی سے ہمارے ہاتھ مارا جا سکے۔۔ اور جہاں تک میری سسٹرز کی بات رہی تو وہ پاکستان میں آپنی فیملیز کے ساتھ ہیں اُن کی فکر کی کوئی ضرورت نہیں اور ویسے بھی ہمارے بندے اُن پر نظر رکھے ہوۓ ہیں اس لیے اُن کی پریشانی مت لو۔۔ میکس نوحہ اور ایلکس کو سمجھاتے ہوۓ بولا تھا۔۔

ہممم یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔ ولی نے سر ہلاتے ہوۓ میکس کی بات کی تائید کی تو ایلکس بس لمبی سانس لیتے ہوۓ بولا ۔۔حجاب کی فکر ہے مجھے وہ چُپ چاپ بیٹھ کر میرا انتظار کرنے والی نہیں۔۔ وہ ضرور مجھ سے جان چھڑانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرے گی۔۔

اُف ایلکس سکون رکھو کہا جو کے نظر رکھی ہے ہمارے آدمیوں نے اُن پر اور پھر بھی اگر کچھ کیا اس نے تو حل ہے اس کا بھی۔۔

اب کی بار میکس کی بات سن کر ایلکس نے صرف ہممم ہی کیا تھا کے اُس کا فون بجنے لگا۔۔

ایلکس نے کالر آئیڈی دیکھ کر فون رسیو کرتے ہوۓ جلدی سے کان سے لگایا ۔۔اور بولا ۔۔کیا رپورٹ ہے۔۔

سر وحید صاحب نے اپنی اور آپنی مسسز کی کل کی  اٹلی کی ٹکٹ بُک کروائی ہے۔۔ اور میڈم کی آج شام کی لندن کی ٹکٹ کروائی ہے۔۔۔

ہممم میرے آڈر کا انتظار کرو ۔۔اتنا کہتے ہوۓ ایلکس نے فون بند کر دیا اور میکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔حجاب آج شام لندن جارہی ہے۔۔۔

ہاں تو جانے دو کوئی مسلہ نہیں میں مِکی کو سسٹر کی نگرانی پر لگا دیتا ہوں اور تم تو جانتے ہو مِکی کو وہ تو ہمارے کام کے انتظار میں ہوتا ہے۔۔میکس نے سگرٹ کا لمبا کش لیتے ہوۓ کہا ۔۔

اوکے لیکن اسے کہہ دینا کوئی لاپرواہی نہیں چلے گی۔۔ ایلکس اب قدرٍ نارمل ہوتے ہوۓ بولا تھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ ایک دفعہ پھر سے سوچ لو دیکھو عالیہ اس وقت اپنے ہواس میں نہیں ہے ۔تمہیں اس سے مل کر تکلیف ہی ہو گی۔ بلال سدرہ کو سمجھاتے ہوے بولا ۔۔

بھائی کچھ نہیں ہو گا آپ فکر مت کریں اتنا کہہ کر سدرہ کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے بستر پر عالیہ لیٹی تھی اس کے ہاتھ پاؤں بندھے تھے۔۔ 

سدرہ بیڈ کے قریب جا کر رُوکی تو عالیہ نے سر گھما کر سدرہ کی طرف دیکھا ۔۔اور آنکھیں سکیڑتے ہوۓ بولی تم تم کہاں سے آ گئی۔۔ تم کیوں آئی ہو۔۔بدکردار منحوس ۔۔تم پھر سے آگئی ہو۔۔ اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی مار دوں گی میں تمہیں مار دوں گی۔۔عالیہ ہاتھ پاؤں زور زور سے مارنے لگی اور چلانے لگی ۔۔سدرہ عالیہ کی دیوانوں جیسی حالت دیکھ کر دو قدم پیچھے ہوئی اور بولی آپنے حسد کی آگ میں آپ خود بھی جل گئی بھابی کیا ملا آپ کو آخر میں اتنا کہتی وہ کمرے سے باہر نکلی اور حمزہ کی طرف دیکھ کر بولی چلو حمزہ واقعے ہی یہاں آنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کے بھابی اب کچھ سمجھنے کے لائق ہی نہیں۔۔

سدرہ کو بلکل خاموش گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر حمزہ نے ایک نظر اسے دیکھا۔ اور دوبارہ روڈ پر نظر جماتے ہوۓ بولا۔ کیا ہوا اتنی گُم سُم کیوں ہو۔۔

سدرہ جو اپنے ہی حیالوں میں گُم تھی حمزہ کی آواز پر چونکتے ہوے بولی ۔۔ہممم کچھ نہیں بس عالیہ بھابی کے بارے میں سوچ رہی تھی کے ہم لوگوں نے کتنا پیار دیا انہیں سب ان کی عزت کرتے تھے بھائی نے بھی کبھی ان سے اُونچی آواز میں بات تک نہیں کی اتنی عزت اور محبت دی سب نے اتنا بھروسہ کیا کے میرا رشتہ تک اُن کے بھروسے دے دیا۔۔ پھر بھی وہ کتنی نفرت کرتی رہی ہم سے۔۔ 

______*****

سدرہ کچھ لوگ محبت اور عزت کے لائق ہی نہیں ہوتے اوپر سے ہم لوگ انہیں ان کی اوقات سے زیادہ سر پر چڑھا لیتے ہیں تو وہ خود کو بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کے مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے ۔۔ اب دیکھ لو جو عالیہ بھائی نے کیا اور اللہ نے ان کے ساتھ کیا کیا یہ مکافات عمل نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ 

سدرہ حمزہ کی بات کے جواب میں بس سر ہلا کے رہ گئی۔۔

_______****

سنا تھا ہم نے بچپن میں

کبھی یوں نہیں ہوگا

کے گندم بو کے جَو کاٹو

مگر ہم پہ جوانی میں 

حقیقت یہ کھلی ہے کے

بھلے جتنی خوشی بولو 

محبت کی زمینوں سے 

دکھوں کی فصل اُگتی ہے

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🌹حجاب نے کافی سوچنے کے بعد فون اُٹھایا اور کال ملائی۔۔ 

 کافی رنگ جانے کے بعد بھی کسی نے فون نہ اُٹھایا ۔۔اب حجاب کی گھبراہٹ اور بھی بڑھ گئی اُس نے دوبارہ سے نمبر ملایا تو اب کی بار ایک رنگ پر ہی کال رسیو ہو گئی۔۔ 

 ‏ہیلو ۔۔۔فون کے دوسری طرف سے بہت ہی نرمی اور خوش مزاجی سے بولا گیا تھا۔۔ 

 ‏حجاب نےہونٹ دباتے ہوۓ آپنی سسکی روکی ۔اور آنسو پونچھتے ہوۓ کانپتی آواز میں بولی ۔۔ ممی میں حجاب۔۔۔ 

 ‏اوو میری جان کہاں ہو تم اللہ حجاب تم جانتی ہو تم نے تو میری جان ہی نکال دی ہے۔۔ میری بچی کہاں ہو تم ۔۔۔وحید بھائی کو کال کیا انہوں نے مجھے جو بتایا وہ سن کر تو میں ڈر ہی گئی تھی ۔۔ 

 _______***** 

 ‏حجاب خود کو سنبھالتے ہوۓ بولی۔۔ ممی پلیز مجھے اپ کی مدد کی ضرورت ہے میں بہت بڑی مشکل میں پھس گئی ہوں۔۔اور یقین مانے آپ ہی میری مدد کر سکتی ہیں۔۔

________*****

حجاب میں ماں ہوں تمہاری مانا کے میں نے پیدا نہیں کیا تمہیں پر پالا تو ہے نا۔۔ تم جلدی سے بتاؤ کیا مسلہ ہے۔۔ ( فریال ۔۔حجاب کی آنٹی جنہوں نے اُسے پالا کیوں کے حجاب اور زوہیب twinتھے سلمیٰ دونوں کو سنبھال نہیں سکتی تھی تو آپنی چھوٹی بہن فریال کو حجاب دے دی۔۔فریال نے حجاب کو آپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور حجاب کو بھی فریال بہت عزیز ہے)

حجاب نے سب کچھ فریال کو بتا دیا یہاں تک کے ایلکس اور آپنی شادی کا بھی۔۔ 

______***

حجاب کی شادی اور وہ بھی جس طرح سے ہوئی یہ سب سن کر فریال پہلے تو کچھ دیر کے لیے جیسے سکتے میں آ گئی ۔۔ کچھ دیر بعد فریال نے صرف اتنا پوچھا۔۔ حجاب میری بچی شادی مطلب صرف پیپرز سائن کی حد تک ہے  یا ۔۔۔ فریال اب کی بار تھوڑی ہچکچاہٹ سے بولی اور آپنا سوال ادھورہ ہی چھوڑ دیا۔۔

حجاب فریال کا سوال سمجھ گئی تھی۔ وہ سنجیدگی سے بولی نہیں ممی صرف سائن کی حد تک نہیں ۔۔۔۔ 

اوو میرے خدا حجاب یہ سب کیا ہو گیا۔۔ 

دیکھیں ممی مجھے اُس کے پاس وآپس نہیں جانا پلیز کچھ کریں ممی۔۔

فریال نے کچھ سوچا اور بولی حجاب بیٹا میں نے سوچ لیا ہے کے کیا کرنا ہے اب تم بس جیسے میں کہوں ویسے کرتی جانا۔۔ سمجھی اور بے فکر ہو جاؤ میں سب ٹھیک کر دوں گی۔۔

حجاب نے لمبی سانس لی اور قدرٍ مطمئن ہوتے ہوۓ بولی ۔۔ممی مجھے پتہ تھا کے آپ ہی مجھے اس مشکل سے نکال سکتی ہیں۔۔ تھینکس ممی۔۔

_______****

وحید نے حجاب کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور اندر آتے ہوۓبولا۔۔ ہو گئی بات فریال سے۔۔ 

جی پاپا ہو گئ یہ لیں آپ کا فون اتنا کہتے ہوۓ حجاب نے فون باپ کی طرف بڑھا دیا۔۔

وحید نے فون پکڑا اور حجاب کے پاس بیٹھتے ہوۓ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور غمگین سے انداز میں بولا۔ سوری بیٹا اپنے باپ کو معاف کر دینا۔۔ میں اچھا باپ ثابت نہیں ہو پایا۔۔

حجاب ایک دم سے باپ کے گلے لگ گئی اور روتے ہوۓ بولی۔ پاپا پلیز ایسے مت کہیں آپ بہت اچھے ہیں۔ 

نہیں حجاب میں اگر اچھا باپ ہوتا تو آج میرے بچے اس حال میں نہ ہوتے۔۔

پاپا پلیز آپ ایسا مت بولیں ۔۔کوئی ماں باپ نہیں چاہتے کے ان کے بچے تکلیف اُٹھائیں یا غلط کاموں میں پڑیں ۔۔یہ سب تو بس مقدر کا کھیل ہے پاپا۔۔ 

آپ میری فکر مت کریں ۔آپ بس جا کر زوہیب کا پتہ لگوائیں۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ میں تو کہتا ہوں تم دوبارہ سے کالج جوائن کر لو۔۔ حمزہ ناشتہ کرتےہوۓ بولا۔۔

ہاں بلکل میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔۔بلال نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔

سدرہ نے نظر گھما کر سب کی طرف دیکھا۔ جو اُسی کی طرف جواب کے لیے دیکھ رہے تھے۔۔ 

حمزہ  سدرہ کو خاموش دیکھ کر دوبارہ سے بولا۔۔

ایڈمیشن کا بھی کوئی مسلہ نہیں۔۔ ہو جاۓ گا  تمہارے پہلے والے کالج میں ہی۔ تمہیں پتہ تو ہے نا کے وہاں کے پرنسپل میرے دوست کے بابا ہیں ۔۔

ہاں اور وہاں ثناء اور تمہاری پہلے والی سہیلیاں بھی ہوں گی۔۔ دل لگ جاۓ گا تمہارا ۔۔

_____***

سدرہ نے گلے میں آیا تھوک نگلا اور نظر نیچے کرتے ہوۓ دھیمے سے بولی۔۔ وہ سب لوگ طرح طرح کے سوال کریں گی ۔۔میں کیا جواب دوں گی۔۔مجحے نہیں کالج جانا۔۔ میں گحر ہی ٹھیک ہوں۔۔

عمر ابھی کچھ بولنے ہی لگا تھا کے حمزہ نے اُسے اشارہ کرتے ہوۓ چپ رہنے کا کہا۔۔ اور خود مسکراتے ہوۓ شرارتی لہجے میں  بولا۔۔ چلو کوئی بات نہیں جیسے تمہاری مرضی ۔۔اور امی اس سے زرہ گھر کے کام دبا کر لیں ۔۔ فارغ بیٹھ بیٹھ کر کہیں بھینس نہ بن جاۓ۔۔۔

عمر ۔۔بلال اور نسیم حمزہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔ تو حمزہ نے چاۓ کا کپ سدرہ کی طرف بڑھایا اور بولا ۔۔چڑیا میری چاۓ ٹھنڈی ہو گئی ہے زرہ گرم تو کر لاؤ۔۔

سدرہ کے جانے کے بعد حمزہ دھیمی آواز میں بولا۔دیکھیں ہمیں سدرہ کو کسی بھی کام پر فورس کرنے کی بجاۓ اس کی مرضی سے کرنا چاہیے اور مجھے پہلے ہی ڈر تھا کے وہ کالج جانے سے منع کرۓ گی اسی لیے میں نے اُس کی دوست ثناء سے بات کر لی ہے آج وہ آۓ گی ہمارے گھر وہ خود سدرہ کو منا لے گی۔۔

________****

سدرہ دیکھو کوئی کچھ نہیں پوچھے گا سمجھی ۔۔ میں ہوں نا۔کوئی کچھ کہے تو سہی ۔۔ تم کوئی فکر مت کرو اور ویسے بھی اب تو میں تمہاری سینئر ہوں میرا بھی روعب ہے۔۔

ثناء نے فخر سے کہا تو سدرہ ہسنے لگی۔۔ 

ہسی تو چھسی بس تمہاری اس ہسی کو ہاں ہی سمجھوں میں ہے نا۔۔ثناء اتنا کہتی اُٹھی اور سدرہ کو آنکھ مارتے ہوۓ بولی اب مزہ آۓ گا کالج میں مستی کا ۔۔

سدرہ نے ثناء کو پرس اُٹھاتے دیکھا تو خود بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔اور ثناء کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولی ۔۔روک جاؤ کچھ دیر اور ۔۔۔

اُف سدرہ رات ہونے والی ہے مغرب سے پہلے امی نے گھر انے کو کہا ہے ۔۔ اور پریشان کیوں ہوتی ہو اب تو روز ملیں گے اور مستی کریں گے ۔۔فکر مت کرو۔۔

اوکے اللہ خافظ کہتی وہ سدرہ سے گلے مل کر چلی گئی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سر رات کو بی بی کے ماموں اور  اُن کی کزن اُن کے پاس رُکے تھے ۔۔اور اب وہ  آپنے ماموں کے ساتھ ائیرپورٹ کے لیے نکل گئی ہیں ۔۔۔

ہمم اوکے ٹھیک ہے تم نظر رکھو جہاز اُڑنے تک ۔۔اور اس بات کی تصدیق کرو کے وہ جہاز میں بیٹھ گئی ہے۔۔۔

اوکے سر۔۔۔

ایلکس نے فون جیب میں رکھا اور سیدھا واش روم کی طرف گیا۔۔ اور منہ دھونے کے بعد باہر آیا تو ولی نے مسکرا کر دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں ۔۔

ایلکس صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوۓ بولا ۔۔نوحہ میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ 

ولی جو لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔سر اُٹھا کر ایلکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ کچھ بھی نہیں ہو گا تم بس کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہے ہو حجاب کے معاملے میں ۔۔ دیکھو سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔ جب ہم اُسے تمہارے بارے میں سب سچ بتائیں گے ۔

ایلکس نے ولی کی بات کے جواب میں کچھ نہ کہا اور آنکھیں بند کر لی۔۔اور حجاب کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ سوگیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ماموں اپ پلیز میری فرینڈ کو ائیرپورٹ سے لے کر ہوٹل میں چھوڑ  دیں گے ۔۔  وہ دراصل پہلی دفعہ پاکستان آئی ہے تو تھوڑی گھبرائی ہوئی ہے ۔آپ عرشی کو بھی ساتھ لے جائیں یہ بھی مل لے گی اور وہ بھی ایزی محسوس کرۓ گی عرشی کے ساتھ ۔۔ حجاب نے اپنے ماموں کو کہا۔

تو وہ مسکراتے ہوۓ بولے ہاں کیوں نہیں میں لے آتا ہوں تم اتنی دیر میں تیاری کرو وآپسی پر میں تمہیں لیتا جاؤں گا۔۔تمہاری مامی بہت خوش ہیں کے تم نے لندن جانے کی بجاۓ ہمارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔ 

اتنا کہتے ہوے وہ آپنی بیٹی عرشی کے ساتھ چلے گئے۔۔

حجاب  جلدی سے اُٹھی اور آپنا بیگ پیک جو وہ پہلے سے تیا کر چکی تھی کندھوں پر پہنتے ہوۓ کچھ دیر رُک کر آپنے ماموں کی گاڑی کے کچھ دور جانے کا انتظار کرنے لگی ۔اور تقریباً دس منٹ بعد گھر کے پچھلے ٹیرس سے باہر کے خالی پلاٹ میں پڑی ریت پر چھلانگ لگائی اور اُٹھ کر بھاگ پڑی ۔۔کچھ دور پبلک واش روم میں جا کر حجاب نے بیگ سے ایک بڑی چادر نکالی اور اُسے اوڑھتے ہوۓ آپنے منہ پر نقاب کیا اور باہر آ گئی کچھ دور ایک پی سی او پر جا کر اُس نے ایک نمبر ملایا۔۔ جو اُسے فریال نے سینڈ کیا تھا ۔۔نمبر ملتے ساتھ ہی رسیو ہو گیا۔۔ 

حجاب ہچکچاتے ہوے بولی ۔۔وہ میری ممی فریال نے اپ کا نمبر دیا تھا۔۔

دوسری طرف سے صرف اتنا کہا گیا۔۔ پتہ لکھ لو ۔

حجاب نے جلدی سے بیگ کی سائیڈ سے پین اور ڈائری نکال کر پتہ لکھا اور فون بند کرتے ہوۓ پی سی او والے کو باہر آ کر پیسے دیۓ اور ٹیکسی سٹینڈ کی طرف چل پڑی۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

تقریباً ایک گھنٹے بعد ایلکس کا فون بجا تو وہ جو حجاب کے بارے میں سوچتا سوچتا سو گیا تھا ایک دم سے اُٹھ بیٹھا اور فون جیب سے نکال کر رسیو کرتے ہوۓکان سے لگا لیا۔۔

دوسری طرف سے پھولی پھولی سانس میں ایک آدمی بولا ۔۔ صاحب بہت بڑی گَڑ بَڑ ہو گئی ہے۔۔

کیا ہوا ایلکس گھبراتے ہوۓ بولا۔تو پاس بیٹھا ولی بھی کام چھوڑ کر ایلکس کی طرف مخاطب ہو گیا۔۔

سر وہ وہ بی بی ۔۔

کیا بی بی جلدی سے بکو ۔۔اب ایلکس غصے سے چلا کر بولا ۔

بی بی ائیر پورٹ آئی ہی نہیں گاڑی میں اُن کی کزن تھی۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے اِس لہے پہنچانے میں غلطی ہو گئی۔۔ 

جب ہم ائیرپورٹ سے گھر وآپس آے تو گھر لاک تھا ۔۔ ہم نے اندر جا کر دیکھا تو  گھر خالی ہے۔۔

گھر سے بی بی کا فون ملا ہے جو آپ نے بھیجا تھا۔۔

______***

ایلکس نے آنکھیں زور سے بھینچ لی اور چلاتے ہوۓ بولا ۔۔ یو باسٹڈ ویٹ فار یور ڈیتھ۔ تم لوگوں کو آپنی اس لاپرواہی کی قیمت ضرور آدا کرنی پڑے گی۔۔ اگر تم لوگوں نے اگلے پانچ گھنٹوں کے اندر اُسے ڈھونڈا نہیں تو تم لوگوں کی لاشیں بھی تمہارے گھر والوں کو نہیں ملیں گی ۔سمجھے ۔۔اتنا کہتے ساتھ ہی ایلکس نے فون بند کیا اور عصے سے  منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ آنکھیں بند کرلی۔ 

_____***

ولی جو اب ایلکس کے پاس ہی کھڑا تھا ۔۔ اُس نے ایلکس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔کیا ہوا ۔۔

ایلکس نے بے چینی سے ہاتھوں کی  انگیاں بالوں میں  ماری اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا۔۔ بھاگ گئی وہ ۔۔ 

کیا ؟کیسے ؟

ولی خیرت سے بولاتھا۔۔

بہت دماغ استعمال کیا ہے نا تم نے حجاب ہممم جسٹ ویٹ سویٹ ہاٹ جسٹ ویٹ۔۔ کیوں کے اب جب تم مجھےملو گی نا تو تمہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ایلکس سے۔۔ ایلکس کا اصل روپ تو اب تم دیکھو گی۔۔ ٹانگیں توڑ کر نا رکھ دی تو میرا نام بدل دینا۔۔وہ حال کروں گا کے مجھ سے دور جانے کی سوچ سے بھی ڈرو گی۔ اور آپنی زبان اور دماغ کو استعمال کرنا بھی بھول جاؤ گی۔۔ ایلکس غصے سے کانپتے ہوۓ بولا تھا۔۔

ایلکس ریلیکس غصہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔۔ تم کُول رہو سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔ولی اب ایلکس کو سمجھاتے ہوۓ بولا۔۔

ایلکس نے نظر اُٹھا کر ولی کی طرف دیکھا اور غصے سے سُرح ہوتے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوۓ بولا۔۔ سب ٹھیک تو میں کر ہی لوں گا پر اس دفعہ آپنے طریقے سے۔ تاکہ دوبارہ کچھ غلط ہونے نا پاۓ۔۔

ولی کو ایلکس کی بات سے اندازہ ہو گیا تھا کے اب وہ بلکل بھی نہیں سمجھے گا  ۔۔کیوں کے جو حجاب نے کیا ہے وہ ایلکس کو غصہ دلانے کے لیے بہت زیادہ تھا۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہفتہ ہونے کو ہے اور تم مجھے صبر کرنے کا کہہ رہے ہو ۔۔ دیکھو دو منٹ لگیں گے مجھے اُس کے ماں باپ سے اُگلوانے میں بس دو منٹ۔۔ ایلکس غصے سے پاگل ہوتے ہوۓ بولا۔۔

دیکھو ایلکس اُس کے ماں باپ کچھ نہیں جانتےاور ایک بات تمہیں سمجھ نہیں آ رہی کے حجاب کی ماں زوہیب کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ یہاں تک کے وہ حجاب کی بھی پرواہ نہیں کرے گی ۔۔ہم نے اُسے زوہیب کا ڈراوا بھی دیا ہے وہ اگر کچھ جانتی ہوتی تو ضرور بتا دیتی۔۔ دیکھو مجھے یقین ہے کے وہ حجاب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔۔ ولی ایلکس کو سمجھاتے ہوۓبولا۔۔

یس مین تم تھوڑا صبر رکھو ابھی ہم پہلے ہی تھامس والے مسلے میں الجھے ہیں تمہاری ایک بے وقوفی سے وہ سارہ کھیل بگاڑ دے گا ۔۔تم جانتے ہو وہ بہت گھٹیا انسان ہے۔۔بس تھامس کا کھیل ختم ہو جانے دو پھر تم جو چاہو کر لینا ہم تمہیں بلکل نہیں روکیں گے ۔۔ میکس  ایلکس کو دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوۓ بولا۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

حجاب کو دوہفتے سے زیادہ ہو گئے تھے قریشی صاحب کے گھر آۓ۔۔یہاں آتے ہوۓ کتنے ہی وسوسے تھے اُس کے دل میں یہاں پونہچنے میں اُسے ساڑھے چار گھنٹے  لگے تھے۔اور پورا سفر وہ ڈری اور سہمی رہی کے کہیں ایلکس کے بندوں کو پتہ نہ چل جاۓ۔۔ جب وہ دئیے گۓ پتے پر پہنچی۔ اور مسسز قریشی اور ان کے شوہر سے ملی تو جیسے اُس کی جان میں جان آگئی کیوں کے وہ انہیں پہلے سے جانتی تھی ۔وہ دونوں میاں بیوی لندن میں تقریباً دس بارہ سال حجاب لوگوں کے ہمساۓ رہے تھے اور حجاب ان سے پہلے سے مانوس تھی۔۔ وہ کچھ سال پہلے ہی پاکستان شفٹ ہوۓ تھے۔۔ان کی اولاد نہیں تھی اس لیے وہ   حجاب کو بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے۔۔  کچھ ہی دیر میں حجاب  کی ساری پریشانی دور ہو گئی۔۔ اور اب وہ اُن کے ساتھ پرسکون تھی اور گُھل مل گئی تھی ۔۔ 

 ‏مسٹر قریشی لوگوں کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔وہ بھی حجاب کے آنے سے کافی خوش تھے ۔۔فریال نے اُنہیں حجاب کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔اور اُنہیں حجاب کو پاس رکھنے کاکہاتھا۔ اس لیے انہیں حجاب سے کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔ 

 ‏مسٹر قریشی اور اُن کی بیوی ایک ٹرسٹ چلا رہے تھے۔۔ جہاں غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی جاتی اور یتیم بچوں کو چھت دی جاتی تھی۔۔

__________*******

 حجاب بیٹا تم گھر میں فارغ بیٹھی بور ہوتی ہو گی اگر چاہو تو ہمارے ساتھ چلا کرو ۔۔ مصروف بھی ہو جاؤ گی اور دماغ میں فالتو کے خیالات بھی نہیں آئیں گے ۔۔ مسٹر قریشی نے ناشتہ ختم کیا اور  سوچ میں ڈوبی حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ تو حجاب جو اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کے اس کے سامنے ابھی تک ناشتہ ویسے کا ویسا ہی پڑا تھا۔ایک دم سے کچھ نا سمجھتے ہوۓ سوالیہ نظروں سے سامنے بیٹھے مسٹر قریشی اور ان کی بیوی کو دیکھنے لگی۔۔

 ‏مسٹر قریسی مسکراتے ہوۓ بولے۔۔ لگتا ہے کے میری بات سنی نہیں تم نے۔۔ اتنا کہ کر انہوں نے دوبارہ سے اپنی بات دوھرائی ۔۔

 ‏حجاب اب کی بار مسکراتے ہوۓ بولی۔ جی انکل کیوں نہیں میں واقعے ہی فارغ بیٹھئ بور ہوتی ہوں۔۔۔

 ‏ہاں تو چلو  پہلے ناشتہ ختم کرو اور پھرجاؤ تیار ہو جاؤ۔مسسز قریشی مسکرا کر بولی۔۔ تو حجاب کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹سدرہ ایک ہفتے سے کالج آ رہی تھی۔۔اُس کے سارے خوف دور ہو چکے تھے کیوں کے کالج میں کسی نے اُس سے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی تھی۔۔

 ‏ہاں مگر سدرہ کے چہرے پر سے وہ شرارتی سی مسکراہٹ اب غائب ہو چکی تھی جو پہلے کبھی اُس کی پہچان ہوا کرتی تھی۔۔ اب وہ زیادہ تر سنجیدہ ہی رہتی تھی۔ اور اگر کوئی بات کرتا تو اُس کا جتنا مختصر ہو سکتا اُتنا جواب دیتی تھی۔۔ 

 ‏ثناء بھی اب الگ کلاس میں تھی اس لیے اُس سے فری ٹائم میں ہی ملاقات ہوتی۔۔لیکن ثناء کو بھی اب سدرہ کی سنجیدگی سے کوفت ہونے لگی تھی۔۔

________****

 ‏سدرہ پلیز یہ تمہاری سڑی سی شکل میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتی خدا کے لیے مجھے دوبارہ سے وہی سدرہ چاہیے ۔۔کھل کر مزاق کرنے والی اور سب کو لے دے جانے والی۔۔ پلیز سدرہ میں جانتی ہوں تم جن حالات سے گزری ہو لیکن یار اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے اب تو تم آپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرو۔۔ جو ہوا سب بھول جاؤ۔۔ سدرہ جو ہوا اُسے کوئی نہیں بدل سکتا ۔لیکن  آنے والے کل کو اچھا بنایا جا سکتا ہے۔۔ کل کے غم میں آپنا آج اور آنے والا کل تو قُربان مت کرو۔۔ ثناء کالج کے کیفے میں سدرہ کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ بولی تھی۔۔

________******

 ‏سدرہ  کرسی کھینچ کر اُس پر بیٹھ گئی اور ثناء کی طرف دیکھتے ہوۓ اُداس سی مسکرائی اور بولی ۔۔ثناء جب میں ویسی تھی تو تم۔۔۔ امی۔۔۔ اور باقی سب مجھے سمجھاتے تھے کے میں کم بولا کروں کم ہسا کروں۔۔ سوچ کر بات کیا کروں۔۔ دیکھو آج ویسی بن گئی ہوں جیسا تم لوگ چاہتے تھے تو پھر کیوں وآپس ویسا ہی بنانا چاہتے ہو تم سب ۔۔

 ‏نہیں سدرہ ایسا نہیں ہے ۔۔ تمہارے کم بولنے کم ہسنے اور سوچ کر بولنے کے پیچھے تمہارا دکھ اور اُداسی ہے۔۔ تم مسکراتی ہو تو تمہاری آنکھوں تک تمہاری مسکراہٹ نہیں پہنچتی ۔۔ کم بولتی ہو تو بات میں اُداسی جھلکتی ہے۔۔ اور یہ سب ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں چاہا تھا۔۔۔ ثناء نے سدرہ کے دونوں ہاتھ آپنے ہاتھوں میں پکڑے اور نم سی آواز میں بولی۔۔ سدرہ سوری ہم اب تمہیں کبھی نہیں منع کریں گے بس ایک دفع دوبارہ سے آپنی زندگی کی طرف لوٹ آؤ۔۔ 

 ‏سدرہ کی آنکھ کے کونے سے ایک آنسو بہہ نکلا۔ زبان نچلے ہونٹ پر پھیرتے ہوۓ سدرہ نے ثناء کی طرف دیکھا اور اور ہلکا سا مسکراتے ہوۓ سر ہلا دیا۔۔

 ‏

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

دیکھیں انٹی آپ پلیز فکر مت کریں سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ سالار پچھلے ایک گھنٹے سے حناء کو سمجھا رہا تھا۔ لیکن حناء کسی صورت حیدر کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔۔

ایک دفع کم از کم ایک دفع مجھے بتاتے تو سہی۔۔  ولی میرا بھی بیٹا ہے ۔پہلے بھی انہوں نے مجھے بتاۓ بغیر  اُسے اٹلی بھیج دیا اور بعد میں مجھے بتایا اب سدرہ والی بات اتنے عرصے بعد بتا رہے ہیں ۔۔ کم از کم پہلے بتاتے تو وہ بچی بھی اتنی مصیبتیں نہ دیکھتی۔۔ 

لیکن نہیں یہ تو چوہدری حیدر علی ٹھرے ان کی شان کے حلاف تھا کے یہ عورت سے مشورہ کرتے یا بتاتے۔۔ حناء نے اب طنز کرتے ہوۓکہا تو حیدر تلملا اُٹھا۔۔ 

دیکھو حناء اب تم زیادہ بول رہی ہو۔۔ اور زرہ بتاؤ مجھے کب میں نے تم سے ایسا رویہ رکھا کے تم مجھ پر ایسے طنز کر رہی ہو۔۔۔ 

سالار ۔۔۔حناء اور حیدر کے بیچ دوبارہ سے نئے موضوع پر بحث شروع ہوتی دیکھ کر سر پکڑتے ہوے بولا ۔۔پلیز چاچو پلیز چاچی خدا کے لیے بس کر دیں۔۔ اپ کی اگر بحث ختم نہ ہوئی تو ایسا نہ ہو کے ایک بار پھر سے ہم سدرہ والے معاملے میں دیر کر دیں۔۔ 

سالار کی بات سن کر حیدر اور حناء ایک دم سے چپ ہو گئے ۔۔

پری جو کافی دیر سے سب کی باتیں سن رہی تھی اٹھی اور سالار کے پاس آتے ہوۓ بولی میری تو سیٹ بُک کروائیں مجھے پاکستان جانا ہے۔ اور سدرہ سے ملنا ہے۔۔ آخر اب میرا اُس سے ایک اور رشتہ بنے والا ہے۔۔ 

نہیں ابھی ہم پاکستان جائیں گے ضرور لیکن سدرہ کے رشتے کی بات نہیں کریں گے۔۔سالار کا جملہ مکمل ہونے تک حیدر ۔۔حنأ اور پری نے گھورتی نظروں سے اُسے دیکھا تو سالار نے دونوں ہاتھ ہوا میں اُٹھاتے ہوۓ کہا۔۔ پہلے بات پوری ہونے دیں گے اپ سب میری۔۔ سب نے اُسے گھورتے ہوے سر ہلا دیا۔۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کے ابھی رشتے کی بات نہیں کریں گے ہم کیوں کے پہلی بات طلاق کے پیپرز ایک دو دن تک سدرہ کو ملیں گے۔۔ دوسرا سدرہ کو ابھی کچھ ٹائم دینا چاہیے ہمیں کے وہ پہلے معاملات سے باہر آ سکے۔۔ اور نئے رشتے کو قبول کر سکے کیوں کے اگر ہم نے جلد بازی کی اور رشتہ مانگ لیا تو بہت حد تک ممکن ہے کے وہ نہ کر دے۔۔ 

تو اگر کسی نے دوبارہ سے ہم سےپہلے رشتہ مانگ لیا تو کیا کریں گے ہم۔۔ حناء نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔

______****

آنٹی آپ اس بات کی فکر مت کریں۔۔ میری عمر سے بات ہو گئی ہے۔وہ کل ہی وآپس آیا ہے۔۔ اُس نے ہی مجھے ابھی ٹھہرنے کا کہا ہے۔۔ اور تسلی بھی دی ہے ۔۔ ہاں لیکن اُس نے یہ کہا ہے کے اگر سدرہ کی رضامندی ہوئی تو۔۔۔ ورنہ نہیں۔۔

سالار کی بات سن کر سب خاموش ہو گئے۔۔ 

تو اگر سدرہ نے ولی کے لیے نہ کر دی تو۔۔ حناء نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا۔۔

اپ فکر مت کریں میں ہوں نا میں سدرہ کو منا لوں گی اور ویسے بھی میں سدرہ کو بتاؤں گی کے وہ میرے ساتھ رہے گی ۔تو دیکھنا وہ کیسے مانتی ہے۔اللہ کتنا مزہ آۓ گا ۔۔ہم دونوں خوب مزے کریں گی۔میں تو یہاں بور ہی ہوتی رہتی ہوں وہ آگئی تو کتنا مزہ آۓ گا۔پری خوابیدہ سے انداز میں بولی۔۔

 سالار جلن سے  چڑ سا گیا اور پری کے سر پر ہلکے سے مارتے ہوۓ بولا ۔۔سدرہ ولی کے ساتھ رہے گی تمہارے ساتھ کیوں رہنے لگی۔۔اور میں نے کون سا تمہیں سولی پر چڑھایا ہوا ہے ۔۔ جو تم ایسے کہہ رہی ہو۔۔۔

 ‏اب کی بار بحث ک باری پری اور سالار کی تھی ۔۔ دونوں کی میٹھی میٹھی نوک جھوک دیکھ کر حناء اور حیدر اب سب کچھ بھول کر مسکرانے لگے۔۔

 ‏حیدر کب وہ وقت آے گا جب میرا بیٹا اور بہو بھی اسی طرح ہمارے سامنے بیٹھے ہوں گے۔۔ حناء سر حیدر کے کندھے پر رکھتے ہوۓ بولی۔۔

 ‏جلد انشاء اللہ۔۔ حیدر نے لمبی سانس لیتے ہوۓ کہا تھا۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اُس کے دل میں عجیب سی اُلجھن تھی جیسے شائد یہ وقت کبھی نہ آۓ۔۔

 ‏

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏یہ شپمینٹ تھامس کے لیے بہت اہم ہے ۔اسی لیے وہ خود سامنے آ رہا ہے۔اگر ہم وہاں پہلے سے پہنچ کر سب کچھ سنبھال لیں تو تھامس ہمارے ہاتھوں میں ہو گا۔۔پھر وہ اور اُس کا گینگ بلکل ختم ۔۔ایلکس نے فرینکو کو سب تفصیل میں بتایا۔۔

 ‏ہممم کتنے آدمی ہو سکتے ہیں وہاں ۔۔فرینکو نے ایلکس کو مخاطب کرتے ہوے پوچھا۔۔

 ‏یہ تو ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں ۔۔ کیوں کے ہمارے زرائعے کے مطابق مینشن کافی بڑا ہے۔۔ ساتھ جوجنگل لگتا ہے وہ بھی تھامس کے انڈر ہے۔۔ مینشن میں کم از کم بئیس سے پچیس سکیورٹی گارڈز ہیں۔۔ لیکن جنگل والی سائیڈ پر کتنے ہیں اور کیا کچھ ہے وہ معلوم نہیں ۔ کیوں کے اس طرف تھامس اور اُس کے کچھ خاص لوگوں کے سوا کسی کو اجازت نہیں جانے کی۔۔ 

 ‏ایلکس کی بات سن کر فرینکو اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔۔۔ اگر ایسا ہے تو رہنے دو ہم ابھی تھامس پر ہاتھ نہیں ڈالتے کیوں کے جو تم بتا رہے ہو اس کے مطابق اطلاع مکمل نہیں ہے۔۔ اگر اس صورت میں ہم تھامس پر حملہ کرتے ہیں تو ہمارا نقصان زیادہ ہو گا۔۔۔ اور کبھی آدھی معلومات پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے

 ‏ایلکس ایک دم سے اُٹھا اور فرینکو کے قریب جاتے ہوے بولا۔۔ ڈیڈ کیوں اپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں۔۔ 

 ‏

 ‏نہیں ایلکس مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے پر معاملات کو دیکھتے ہوۓ میں اجازت نہیں دے سکتا کیوں کے تھامس سے بدلہ لینےسے زیادہ مجھے تمہاری جان عزیز ہے ۔۔ 

 ‏لیکن ڈیڈ پہلے ہی پورے سال بعد تھامس سامنے آیا ہے اب اگر ہم نے موقع جانے دیا تو اگلی دفعہ کب موقع ملے کیا پتہ۔۔

 ‏فرینکو مسکرایا اور ایلکس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولا۔۔فکر مت کرو اب وہ گھبرایا ہوا ہے۔۔ اب ہمیں بہت سے موقعے ملیں گے۔۔۔

 ‏فرینکو کی بات سن کر ایلکس نے صوفے سے آپنی جیکٹ اُٹھا ئی اور باہر کی طرف چل دیا۔۔ اُس کے دماغ میں اب کافی پلان چل رہے تھے فرینکو نے منع تو کیا تھا پر ایلکس بلکل بھی فرینکو کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔ 

 ‏اُس نے فون نکال کر میکس کا نمبر ملایا ۔۔ ہمم کہاں ہو۔۔ ٹھیک ہے میں بھی آ رہا ہوں اتنا کہتا وہ گاڑی میں بیٹھا اور ولی کے آفس کی طرف گاڑی گھما دی جہاں میکس پہلے سے موجود تھا۔۔

________*****

ایلکس اگر ڈیڈ نے منع کیا ہے تو تم منع ہوجاؤ۔۔ولی نےایلکس کو سمجھاتے ہوۓکہا۔۔

لُک نوحہ کوئی مسلہ نہیں ہو گا مجھے %100یقین ہے کے ہم کامیاب ہوں گے۔۔ ڈیڈ بس ہماری سیفٹی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں ۔۔ اور وہ خطرہ تو ہمیشہ رہے گا۔۔ جب کبھی بھی ہم تھامس کو فیس کریں گے ۔۔تو پھر اب کیوں نہیں۔۔ 

یس مین تو پھر کرتے ہیں نا۔۔ مسلہ کیا ہے۔۔ ویسے بھی ہم مرنے سے آج تک ڈرے کب ہیں۔۔ میکس دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوۓبولا۔۔

ولی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا تو ٹھیک ہے ۔میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔۔میں بھی جاؤں گا۔۔

نو مین تم نہیں فرینکو سر نے سختی سے تمہیں ان معاملات سے الگ رکھنے کا کہا ہے ۔۔ میکس ولی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ 

اوو اور تم لوگوں کو لگتا ہے کے میں تم دونوں کو اکیلے جانے دوں گا۔۔ ولی بھویں اچکاتے ہوے بولا۔۔

پلیز نوحہ دیکھو تم نہیں جا سکتے ہم ۔۔ ۔۔۔ ایلکس کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کے ولی بولا پڑا ۔۔ ٹھیک ہے میں ڈیڈ کو بتا دوں گا کے تم لوگ اُن کے منع کرنے کے باوجود یہ سب کرنے جا رہے ہو۔۔

مین اب تم ہمیں بلیک میل کر رہے ہو۔۔ میکس خیرت سے بولا۔۔

ہاں کر رہا ہوں۔۔ ڈیڈ کی کہی یہ بات نہیں مان رہے تو میرے بارے میں کہی بات کو بھی جانے دو۔۔ ولی مسکراتے ہوے بولا۔۔

اُفف نوحہ۔۔ چلو ٹھیک ہے تم چلنا لیکن فرنٹ پر ہم رہیں گے تم خود سے کچھ نہیں کرو گے اور نہ ہی ہماری اجازت کے بغیر اگے پیچھے ہو گے۔۔اور اگر ہم کسی وجہ سے اگے پیچھے ہو بھی گئے۔ یا ہمیں کچھ ہو بھی تو تم گارڈز کے ساتھ ہی رہو گے جو تمہیں کور کریں گے ۔اور آخر تک سیف رکھیں گے۔۔ ایلکس نے ولی کو سمجھاتے ہوۓ کہا ۔۔

لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کے فرینکو نے اگر منع کیا ہے تو کچھ وجہ ہو گی اُس نے پوری زندگی انہی حالات میں گزاری تھی۔۔ لیکن یہ تینوں جوانی کے جوش میں وہ کرنے جا رہے تھے جو شائد انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب آج صبح سے کچھ عجیب سامحسوس کر رہی تھی۔لیکن اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کے مسلہ کیا ہے ۔۔ 

مسسزقریشی کو بھی حجاب کی رنگت پیلی سی لگ رہی تھی ۔ اب جب رات کے کھانے کے وقت انہوں نے حجاب کو آپنے ہی ہاتھ سے آپنا سر دباتے دیکھا تو بولیں۔۔

حجاب بیٹا کیا بات ہے تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔میں صبح سے دیکھ رہی ہوں تم کافی سست سی ہو اور رنگت بھی کھچی کھچی سی ہے اور یہ سر کیوں دبا رہی ہو۔۔

حجاب نے سر اُٹھاکر مسسز قریشی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔ آنٹی پتہ نہیں آج صبح سے کچھ کمزوری سی محسوس ہو رہی ہے لگتا ہے جیسے جسم میں ہمت نہیں۔ایک دفع تو چکر سے آتے محسوس ہوۓ۔اور اب تو سر بھی درد کر رہا ہے۔۔۔

_______****

اوو بیٹا تو صبح کیوں نہیں بتایا۔۔تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی میں۔۔اب تو کافی لیٹ ہو گۓ ہیں کوئی ڈاکٹر نہیں ملے گا چلو تم کھانا کھاؤ  میں پین کلر دیتی ہوں صبح ڈاکٹر کو بھی چیک کروا لیں گے۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ سدرہ بیٹا کدھر ہو۔ نسیم صحن میں دیکھنے کے بعد اب سدرہ کے کمرے کی طرف اُسے آواز دیتی آئی۔۔ 

تو سدرہ جو نہا کر واش روم سے نکلی تھی۔ ماں کو ہاتھ میں فون پکڑے اندر آتے دیکھ کر مسکراتے ہوے بولی امی نہا رہی تھی ۔۔

نسیم نے فون سدرہ کی طرف بڑھایا اور بولی کسی کا فون ہے کہہ رہا ہے کے تم سے بات کرنی ہے۔۔ 

سدرہ نے ایک دفعہ ماں کی طرف دیکھا اور پھر فون کی طرف اور کچھ سوچنے کے بعد فون ماں کے ہاتھ سے لے لیا۔۔

تم بات کر لو  میں نے ہنڈیاں رکھی ہے نیچے نہ لگ جاۓ اتنا کہتی نسیم کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔

سدرہ نے فون کان سے لگایا اور دھیمے سے ہیلو کہا۔۔

ہیلو سدرہ میں ولی۔۔ 

ولی کی آواز سن کر سدرہ خاموش سی ہو گئی۔۔

کچھ دیر تک جب سدرہ کچھ نہ بولی تو ولی بولا۔۔

سدرہ کیسی ہو۔۔

جی ٹھیک وہ ہچکچاتے ہوے دھیمے سے بولی۔۔

سنا ہے دوبارہ سے کالج جوائن کر لیا ہے۔۔

جی۔۔

گُڈ۔۔۔ولی نے سدرہ کو پھر سے خاموش پا یا تو بولا ہممم کوئی بات نہیں کرو گی۔۔

جی۔۔۔ کیا بات کروں۔۔سدرہ نے منہ میں آیا تھوک نگلتے ہوے کہا۔۔

کوئی بھی ۔۔ مثلاً کالج کی۔۔۔ گھر کی ۔۔ دن بھر کیا کرتی ہو۔۔ ۔کوئی بھی بات ۔۔

سدرہ جواب میں خاموش رہی۔۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا بات کرۓ۔۔

سدرہ کی خاموشی پر ولی پھر سے بولا۔۔ سدرہ میرا انتظار کرنا میں بہت جلد واپس آؤں گا۔۔ تمہارے لیے صرف اور ضرف تمہارے لیے۔۔ میرا وعدہ ہے سدرہ کے میں تمہیں اتنی خوشیاں دوں گا کے تم پُرانے سب دکھ بھول جاؤ گی۔۔ 

لیکن ایک وعدہ کرو کے تم میرا انتظار کرو گی۔۔ کرو گی نا سدرہ ولی اب محبت بھرے لہجے میں بولا تھا۔۔۔

ولی کی بات سن کر سدرہ کو جیسے اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی اور اُس کی زبان جیسے خود اپنی ہی مرضی سے بول پڑی تھی۔۔ 

جی۔۔کروں۔۔ گی۔۔

سدرہ کا جواب سن کر ولی کو تو جیسے پر لگ گۓ تھے۔۔ وہ خوشی سے پاگل سا ہونے لگا۔۔ اور بولا۔۔ جلد ملیں گے اللہ خافظ۔۔

فون بند ہو گیا۔ لیکن سدرہ ابھی بھی فون کان سے لگاۓ کھڑی تھی۔ ولی کی صورت میں اُس کے دل میں کچھ اُمید سی ابھری تھی۔لیکن وہ ابھی بھی یقین اور بے یقینی کے عالم میں تھی۔۔

               🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

            مجھے چھوڑ دے میرے حال پر

            ‏

            ‏تیرا  کیا  بھروسہ  اے  چارہ گر

            ‏

            ‏یہ    تیری    نوازشِ    مختصر

            ‏

            ‏میرا   درد   اور   بڑھا۔   نہ دے

              🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

 ‏

سدرہ تمہیں پتہ ہے۔ پری آرہی ہے۔۔ ثناء نے نے کینٹین سے نکلتے ہوۓ کہا۔۔ تو سدرہ چلتے چلتے رُک گئی۔۔

ثناء جو اب سدرہ سے چار پانچ قدم آگے جا چکی تھی۔۔ وہ بھی رُر گئی اور مُڑ کر سدرہ کی طرف دیکھا تو سدرہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔۔

ثناء سدرہ کے پاس آئی اور آپنا ہاتھ اُس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوے بولی۔۔کہاں گُم ہو گئی۔ 

سدرہ نے ثناء کی طرف دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا۔۔

سدرہ کیا مسلہ ہے۔۔ میں نے تمہیں پری کے بارے میں بتایا لیکن تم خوش نہیں ہوئی۔۔ 

سدرہ اور ثناء اب کالج کے گراؤنڈ میں پڑے ایک بینچ پر بیٹھ چکی تھیں۔۔ 

سدرہ نے لمبی سانس لی اور ثناء کی طرف دیکھتے ہوے بولی۔۔ ثناء میں کل سے ایک اُلجھن میں ہوں۔۔

_____*****

ہمم کیا ہے بتاؤ۔۔ تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو آخر ہم پُرانی دوست ہیں۔۔ ثناء نے نرم لہجے میں کہا۔۔

وہ ۔۔۔وہ پری کا کزن ۔۔نہیں وہ سالار بھائی کا کزن تھا نا۔۔ 

ہممم کون وہ ولی جس سے تمہاری لڑائی ہی رہتی تھی کے وہ تمہیں گُھورتا ہے۔۔ثناء نے پُر سوچ انداز میں کہا۔۔

ہاں وہی۔۔

کیا ہوا اُسے؟

نہیں ہوا تو کچھ نہیں۔ کل اُس کا فون آیا تھا۔۔

تمہیں کیوں؟ ثناء نے اب خیرت سے پوچھا تھا۔۔

وہ ۔۔۔اُسی نے مجھے اٹلی میں ڈھونڈھ کر پاکستان بھیجا تھا۔۔ اور کل اُس نے فون پر مجھے کہا کے وہ جلد ہی پاکستان آرہا ہے۔۔ میرے لیے ۔اور اُس نے کہا کے میں اُس کا انتظار کروں اور یہ کے وہ مجھے بہت سی خوشیاں دے گا کے میں پُرانے سب دکھ بھول جاؤں گی۔سدرہ نے یہ کہتے ہوۓ سر اُٹھا کر ثناء کی طرف دیکھا جو پہلے سے ہی سدرہ کو باغور دیکھ رہی تھی۔۔ سدرہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوۓ دوبارہ سے پریشان سی بولی۔۔ ثناء اس کا کیا مطلب ہوا۔۔۔

ثناء نے اپنی آنکھیں دو چار بار زور زور سے جھپکی اور مسکراتے ہوۓ آگے جُھک کر سدرہ کو گلے لگا لیا اور بولی۔۔ پاگل لڑکی اتنی صاف صاف بات بھی نہیں سمجھتی۔۔اتنا کہہ کر ثناء تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوۓ سدرہ کی گال پکڑ کر بولی۔۔ پسند کرتا ہے وہ تمہیں ۔۔

جواب میں سدرہ  نے کچھ نہ کہا اور  سدرہ نے نطر جھکا لی ۔۔کیوں کے وہ پہلے سے ہی ولی کی بات پر کنفیوز تھی۔۔اب ثناء کی بات کے بعد تو اُس کے دل میں عجیب اُتھل پوتھل شروع ہو گئی تھی۔۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سدرہ دوبارہ بولی۔۔وہ ۔پہلے تو نہیں کرتا تھا۔مجھے پسند اب کیوں کرنے لگا۔۔

ثناء قہقہ لگا کر ہستے ہوۓ بولی۔ کرتا تھا پسند پہلے سے مجھے شک ہوا تھا لیکن میں نے شک سمجھ کر جانے دی۔۔ لیکن یقین مانو وہ جیسے تمہیں دیکھتا تھا صاف صاف سب سمجھ آتی تھی۔۔لیکن تم تو ٹھری ہمیشہ کی بُدھو تمہیں کہاں سمجھ آتی تم تو اُس کی آنکھیں نکال کر بنٹے کھیلنے والی تھی۔۔ ہاہاہا اب ثناء مسلسل ہسے جا رہی تھی اور اُسے دیکھ کرسدرہ بھی مسکرانے لگی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب تو جیسے اب پاگل ہو رہی تھی۔۔ اللہ کتنی لاپرواہ ہوں میں ۔۔۔ میں نے پہلے کیوں نہیں غور کیا۔۔ 

حجاب اب ہاتھ میں پکڑے آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ کو بیڈ پر پٹختے ہوۓ آپنے بال دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوۓ خود کو کوستے ہوۓ بولی اور خود بھی بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی۔۔ اٹلی سے پاکستان وہ جن حالات میں آئی اور پھر بعد میں بھی اُسے موقعہ ہی نہیں ملا تھا۔ کے وہ آپنے پاسپورٹ اور آئی ڈی کو دیکھتی۔۔ آج جب دیکھا تو جیسے اُس کے تو پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی تھی۔۔ آپنے نام کے اگے علی دیکھ کر اور پھر ولدیت کی جگہ شوہر کا نام دیکھ کر۔۔

مسسز قریشی حجاب کے کمرے میں داخل ہوئی تو حجاب کو روتے دیکھ کر جلدی سے اُس کے پاس آئی اور اُسے آپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولی کیا ہوا بیٹا کیوں رو رہی ہو۔۔

حجاب نے آنسو پونچھے آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ مسسرز قریشی کی طرف بڑھاتے ہوۓ  دکھی سے انداز میں بولی۔دیکھیں۔۔

مسسز قریشی نے کچھ نا سمجھتے ہوۓ حجاب کے ہاتھ سے دونوں چیزیں لی اور باغور اُنہیں دیکھا ۔۔

اور پھر دوبارہ سر حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ تمہاری ماما تو کہہ رہی تھی کے لڑکا غیر مسلم ہے لیکن تمہارے شوہر کا نام تو علی لکھا ہے یہاں۔۔

حجاب سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولی کچھ بھی ہو نام ۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے صرف یہ پریشانی ہے کے اُس نے مجھے مسسز شو کیا وہ بھی میری مرضی کے بغیر آنٹی اُس نے زبردستی شادی کی تھی۔۔وہ میرا شوہر نہیں ہے۔۔ وہ جانور ہے بلکل جانور۔۔۔

مسسز قریشی نے حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی حجاب فِل حال کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اب جو ہے سو ہے اگر  تو تمہاری شادی رجسٹرڈ ہو گئی ہے ۔۔جو کے یقیناً ہو گئی ہو گی تبھی تو ان پر شوہر کی جگہ اُس کا نام ہے۔۔۔ تو اب  بہت مشکل ہے ۔۔ 

حجاب اب سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بیٹھی تھی۔۔ 

حجاب بیٹا ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کے اُس نے اسلام قبول کر لیا ہو۔۔ دیکھو نا علی لکھا ہے اس کا مطلب تو یہی لگتا ہے۔۔

حجاب نے مسسز قریشی کی طرف دیکھا تو مسسزقریشی نے مسکراتے ہوۓ حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔ دیکھو حجاب اگر تو وہ اسلام قبول کر چکا ہے یا کر لیتا ہے تو کتنا اچھا ہے۔ پھر تو تم اُس کے ساتھ رہ سکتی ہو۔ اور جہاں تک بات رہی زبردستی کی اگر سکون سے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جاۓتو بیٹا وہ غیر مذہب تھا  ۔۔وہ چاہتا تو بغیر شادی کے بھی تمہارے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا پر پھر بھی اُس نے شادی کر کے تم سے تعلق قائم کیا۔۔ اور جانتی ہو اس کا کیا مطلب ہے ۔ 

حجاب جو اب غور سے مسسز قریسی کی بات سن رہی تھی جواب میں سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولی کیا؟

اِس کا مطلب یہ ہے کے وہ تم سے رشتہ بنانا چاہتا تھا وہ تمہیں عزت دینا چاہتا ہے آپنا نام دینا چاہتا ہے۔ ہاں میں مانتی ہوں کے اُس کا طریقہ غلط تھا بلکے انتہائی غلط تھا۔۔ لیکن جس طرح سے اور جو ہوا ۔۔ مجھے تو لگتا ہے کے تمہیں اُسے ایک موقع تو دینا چاہیے۔۔اگر وہ ہمارے مذہب کو قبول کرتا ہے تو۔۔

لیکن آنٹی وہ بہت بُرا انسان ہے۔ اپ نہیں جانتی۔۔حجاب اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوۓ بولی۔۔

ہاں بُرا تو ہے تبھی یہ سب کیا میں اُسے اچھا انسان کہہ بھی نہیں  رہی۔۔ میں تو بس اتنا کہہ رہی ہوں کے ہو سکتا ہے تم اُسے بدل دو آپنے پیار سے۔۔دیکھو حجاب انسان کتنا بھی بُرا کیوں نہ ہو ۔۔ اُس  کے اندر کہیں نہ کہیں  اچھائی  ضرور ہوتی ہے۔  بس  ضرورت ہوتی ہے اُس اچھائی کو ڈھونڈ کر باہر نکالنے کی۔۔

مسسز قریشی بات کرتے ہوۓ رُک گئی اور حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ چلو اُٹھو ابھی تو ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے کیوں کے تمہیں ابھی بھی بخار ہے ۔۔باقی باتیں بعد میں ہو جائیں گی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس وحید کے فون سے حجاب نے آخری کال لندن اپنی آنٹی کو کی تھی ۔۔ یہ رہی اُس کی ریکارڈنگ

میکس نے اتنا کہہ کر فون ایلکس کی طرف بڑھا دیا۔۔

ایلکس نے حجاب اور فریال کی ریکارڈڈ کال سنی اور میکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ اس کا مطلب کے حجاب کا پتہ مسسز فریال سے ملے گا۔۔

یس ۔۔اور اُس کی تم فکر مت کرو۔۔ مِکی کو میں نے اس کام پر لگا دیا ہے۔۔ میکس سگریٹ کا کش لگاتے ہوۓبولا۔۔

ہممم لیکن اُسے اُس کی حد بتا دینی تھی۔ کے وہ حجاب کی آنٹی سے کیسے بات کرے۔۔

اوو مین تمہیں کیا لگتا ہے نہیں بتایا ہو گا۔۔ آفٹر آل وہ ہماری سسٹر اِن لاء کی آنٹی ہیں ۔۔میکس مستی سے بولا ۔تو ایلکس  بھی مسکرا دیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹حجاب کلینک میں بیٹھی مسسز قریشی کے ساتھ آپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔۔ 

کے ڈاکٹر کے کمرے سے باہرآتی نرس نے حجاب کا نام لیا ۔۔ مسسز قریشی حجاب کواُٹھنے کا کہتی اٹھی تو حجاب بھی جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔

دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہوئی۔تو ڈاکٹر نے  مسکراتے ہوۓ اُنہیں بیٹھنے کا کہا۔۔ 

ہمم تو کیا مسلہ ہے۔۔ ڈاکٹر نے دونوں کی طرف دیکھا اور پوچھا۔۔

حجاب گلا صاف کرتے ہوۓ بولی۔۔دراصل  دو دن سے مجھے بہت سُستی محسوس ہو رہی ہے۔۔ساتھ میں ٹمپریچر بھی ہے اور چکر آتے محسوس ہوتے ہیں اور سر بھی درد کرتا ہے۔۔ اور رات  سے کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کر رہا ۔ایسا لگتا ہے جیسے کچھ کھاؤں گی تو اُلٹی ہو جاۓ گی۔۔

ہممم آر یو میرڈ ڈاکٹر نے حجاب کی طرف دیکھے بغیر پیپر پر کچھ لکھتے ہوۓ پوچھاِتو مسسز قریشی کو جیسے ایک دم سے کچھ سمجھ سا آ گیا کےحجاب کے ساتھ کیا مسلہ ہے۔۔ وہ حجاب کو چُپ دیکھ کر بولیں ۔۔جی شادی شدہ ہے۔۔

ڈاکٹر  ہمم کرتے ہوۓ مسکرائی اور بولی آپ پلیز باہر جا کر یہ ٹیسٹ کروا لیں نرس سے ۔پھر ہی کچھ کنفرم کیا جا سکتا ہے۔۔

مسسز قریشی نے ڈاکٹر کے ہاتھ سے پیپر لیا اور حجاب کو کندھے سے ہلاتے ہوۓ بولی ۔۔ چلو۔۔

حجاب  مسسز قریشی کی طرف دیکھتی اُٹھ کر ان کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔مسسز قریشی نے پیپر باہر بیٹھی نرس کو دیا۔

چلیں حجاب اپ میرے ساتھ چلیں مجھے آپ کے خون اور یورن کا سیمپل لینا ہے۔۔ اتنا کہتی نرس سامنے لیبارٹری میں چلی گئی۔۔ 

حجاب آپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی تو مسسز قریشی حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی جاؤ بیٹا۔۔۔

 حجاب اب خود بھی کافی حد تک سمجھ چکی تھی کے یہ سب کچھ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔۔ حجاب نے لمبی سانس لی اور کانپتے قدموں سے لیباٹری کے اندر چلی گئی۔۔

 ‏کچھ دیر بعد حجاب باہر آ کر مسسز قریشی کے پاس پڑی کرسی بر بیٹھ گئی اور بے خیالی کے انداز میں بولی۔۔ آنٹی اگر کچھ ایسا ویسا ہوا تو کیا کروں گی میں۔۔

 ‏مسسز قریشی مسکراتے ہوۓ بولی کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔ جو ہوتا ہے بہتری کے لیےہوتا ہے اللہ کے ہر کام میں بہتری ہی ہوتی ہے۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہمم تو یہ پلان ہے ۔۔میرا خیال ہے کے یہ بیسٹ ہے ۔کمی تو کوئی نہیں لگتی۔۔ وہ تینوں گول میز کے گرد ہاتھوں کے بل جھکے آپنے اپنے خیال ظاہر کر رہے تھے۔۔

ولی سیدھا ہو کر کھڑا ہوا اور میکس کی طرف دیکھتے ہوے بولا۔۔ اگر تو سب ایسا ہی ہو جیسا ہم نے سوچا ہے ۔تو اگلے کچھ دنوں تک ہم پاکستان ہوں گے۔۔

ایسا ہی ہو گا ڈونٹ وری۔۔ایلکس اتنا کہتا پاس ہی پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔

میکس جو اب کسی سوچ میں تھا وہ ولی اور ایلکس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ کل رات۔۔۔ یا آر یا پار ۔۔۔کل بہت اہم دن ہے۔۔۔۔ فرینکو سر کا سالوں پُرانہ بدلہ پورا ہو گا کل۔۔اور پھر ہمارے آگے کھڑا ہونے والا کوئی نہیں رہے گا کل سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ آپنی بات مکمل کر کے میکس دھیمے سے مسکراہا تھا۔۔

ہممم اور پھر ہم تینوں بھائی آپنی آپنی فیملیز بنائیں گے ۔ایلکس حجاب کے بارے میں سوچتے ہوۓ مسکرا کر بولا۔۔

ووووو ہولڈ اون مین۔۔۔ یہ تم دونوں تو سمجھ میں آتا ہے میں نے کب کہا کے میں فیملی بنانا چاہتا ہوں۔میکس خیرت سے بولا تھا۔۔

ہاہاہا اوکے اوکے ایلکس قہقہ لگاتے ہوۓ بولا۔۔

میکس کا فون بجنا شروع ہوا تو میکس نے جلدی سے مِکی کا نمبر دیکھ کر کال رسیو کی کچھ دیر بعد اوکے گُڈ کہہ کر میکس نے فون بند کرتے ہوۓ دوبارہ جیب میں ڈالا اور ایلکس کی طرف دیکھتے ہوے بولا ۔۔ گُڈ نیوز مین ۔۔۔ حجاب کا پتہ چل گیا۔۔

ایلکس جلدی سے اُٹھا اور میکس کے پاس کھڑے ہوتے ہوۓ بولا کہاں ہے۔۔

وہ پاکستان میں مسٹر قریشی نام کے آدمی کے گھر ہے جو لندن میں کافی عرصہ حجاب لوگوں کے ہمساۓمیں رہ چکے ہیں۔۔ 

گُڈ اب پاکستان خبر کر دو اور ہاں اتنا کہہ دینا کے حجاب کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کے ہم نے اُسے ڈھونڈ لیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کے وہ وہاں سے بھی بھاگ نکلے ایلکس نے ماتھا انگلیوں سے ملتے ہوۓ کہا تھا۔۔ 

میکس ایلکس کی بات سن کر فون پر کوئی نمبر ملاتا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

ولی جو اب اُٹھ کر ایلکس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا تھا مسکراتے ہوۓ بولا فکر مت کرو ایلکس بس ایک دو دن کی بات ہے پھر میں خود تمہارا اور حجاب کا مسلہ حل کر دوں گا ۔۔

ایلکس ولی کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور بولا ۔۔تمہیں لگتا ہے کے وہ مجھے قبول کر لے گی۔۔

اچھا تو اگر نہ کرے تو تم کیا کرو گے ۔۔ ولی نے آنکھیں سکیڑتے ہوۓ پوچھا۔۔

تو کیا زبردستی لے آؤں گا اُسے ۔۔مجھے کوئی پروا نہیں کے وہ مانتی ہے یا نہیں۔۔ میں اب اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا پیار کرتا ہوں اس سے۔۔ وہ صرف میری ہے اور ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہے گی چاہے مجھے اُسے پوری زندگی باندھ کر ہی کیوں نہ رکھنا پڑے۔۔

اُففف ایلکس یہی تو مسلہ ہے تمہارا تم پیار بھی کرتے ہو اُس سے اور ایسا سلوک بھی۔۔ دیکھو ابھی تم نارمل رہو ۔بعد میں دیکھتے ہیں کے کیا کرنا ہے ۔ اگر تو میری بات مانو گے تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔ولی ایلکس کے کندھے کو تھپکتے ہوۓ بولا۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب ڈاکٹر کی بات سن کر جیسے سکتے میں آ گئی ۔۔

جی مسسز قریشی آپ کی بیٹی پریگننٹ ہے ۔۔ میں کچھ طاقت کی میڈیسن لکھ کر دے رہی ہوں  ۔۔آپ نے یہ باقاعدگی سے اسےکھلانی ہیں اور اس کی خوراک کا بھی دھیان رکھنا ہے ۔ کیوں کے یہ بہت کمزور ہیں ۔

اور دس بارہ دن بعد دوبارہ چیک اَپ کروانا ہے پھر میں الٹراساؤنڈ بھی کروں گی۔۔

ڈاکٹر کی ہدایات سنے کے بعد حجاب اور مسسز قریشی کلینک سے باہر آ گئی۔۔ گھر وآپسی تک دونوں مکمل خاموش رہی۔۔ 

مسسز قریشی حجاب کو تھوڑا ٹائم دینا چاہتی تھی کے وہ تھورا پرسکون ہو جاۓ۔کیوں کے وہ جانتی تھی کے اس وقت حجاب کافی پریشان ہے۔۔ 

حجاب گھر پہنچ کر سیدھی آپنے کمرے میں چلی گئی۔۔حجاب شام تک جب کمرے سے باہر نہ آئی تو مسسز قریشی اس کے کمرے میں گئی۔۔

حجاب صوفے پر سمٹی سی بیٹھی سو رہی تھی۔۔

مسسز قریشی اُس کے پاس بیٹھ گئی۔۔ حجاب کا چہرہ دیکھ کر ہی وہ سمجھ گئی تھی کے حجاب روتے روتے سوئی ہے۔۔

مسسز قریشی نے حجاب کے ماتھے پر پیار کیا اور بولیں حجاب بیٹا اُٹھ جاؤ۔۔ شام ہو رہی ہے ۔۔

حجاب نے انکھیں کھول کر مسسز قریشی کی طرف دیکھا اور ایک دم سے اُن کے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ 

ششش چُِِپ بس اب اور نہیں رو اُٹھو کھانا کھا لو تم نے رات سے کچھ نہیں کھایا۔۔ 

نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا آنٹی پلیز ۔۔حجاب نے روتے ہوۓ کہا۔۔

اب میں کیا کروں گی ۔۔وہ اب مسلسل رو رہی تھی۔۔

دیکھو حجاب اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔مسسز قریشی اُداس سے انداز میں بولی۔۔

نہیں ۔۔۔ہو سکتا ہے میں اس بچے کو پیدا نہیں کروں گی۔۔ کبھی نہیں یہ یہ بچہ میں نہیں پیدا کر سکتی میں سب کو کیا بتاؤں گی۔۔ 

حجاب دیکھو تم کھانا کھاؤ اور میڈیسن لے کر آرام کرو ابھی تم پریشان ہو ۔۔ اور گھبرا گئی ہو اس لیے جو تمہارے منہ میں آ رہا ہے کہے جا رہی ہو ۔۔دیکھو تم پہلے ریلیکس ہو جاؤ پھر سوچتے ہیں کے کیا کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں ۔۔ اتنا کہتے ہوۓ مسسز قریشی نے حجاب کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اس کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوۓ اُسے سمجھاتے ہوۓ دوبارہ سے بولیں۔۔ دیکھو بیٹا یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اسے ہم جذباتی ہو کر نہیں کر سکتے۔۔ تم ابھی کھانا کھاؤ گی اور دوائی لے کر آرام کرو گی اس موضوع پر ہم صبح بات کریں گے۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

سدرہ اُٹھ جاؤ بیٹا کالج سے لیٹ ہو جاؤ گی۔۔ نسیم نے نیچے ہال سے ہی آواز دی تھی۔۔

حمزہ جو سیڑھیاں اُتر رہا تھا ایک دم سے رُکا اور امی میں جگاتا ہوں آپ ناشتہ رکھیں کہتا وآپس اوپر کی طرف گھوم گیا۔۔

حمزہ نے دروازے پر دو دفعہ دستک دی اور اندر داخل ہوا ۔۔

سدرہ اپنے بیڈ پر نہیں تھی۔۔ واش روم سے پانی کی آواز ا رہی تھی۔۔ 

حمزہ کچھ کہے بغیر واپس چلا گیا۔۔۔

سدرہ تیار ہو کر باہر آئی اور سائیڈ ٹیبل پر  پڑے فون کو ہاتھ میں اُٹھا کر دیکھنے لگی۔۔

وہ رات سے کتنی ہی دفعہ  ولی کا نمبر ملانا چا رہی تھی پر ہر دفعہ اُس کی ہمت جواب دے گئی۔۔

اب بھی وہ اسی کشمش میں تھی کے فون کرۓ یا نہیں۔۔ اُس کا دل رات سے ولی سے بات کرنے کو بے چین سا تھا۔۔ پوری رات بے چینی میں گزری تھی۔۔ جہاں ولی کو لے کر اُس کے دل میں نئی اُمید جاگی تھی وہی نا جانے کیوں دل میں اِک انجانہ سا خوف بھی تھا ۔۔ کسی انہونی کا ۔۔ 

سدرہ جن حالات سے گزری تھی ۔اب اُسے آپنی قسمت پر کچھ زیادہ یقین نہیں تھا۔۔اِسی لیے  ولی کو لے کر اس کے دل میں عجیب وسوسے جنم لے رہے تھے۔۔

سدرہ ۔۔۔سدرہ۔۔ نسیم  جو دو تین دفعہ سدرہ کو اواز دے چکی تھی اب کی بار اس نے سدرہ کو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔ 

سدرہ جو آپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھی فون کو گھور رہی تھی۔ ماں کے کندھا ہلانے پر جیسے ایک دم سے ہوش میں آئی ۔۔

جی ۔جی امی۔۔ 

کہاں گم ہو میں کب سے آوازیں دے رہی ہوں اور تم ہو کے آپنے ہی خیالوں میں گم ہو۔اتنا کہتے ہوے نسیم نے سدرہ کے ہاتھ میں فون دیکھا تو بولیں۔۔ کیا ہوا سدرہ کسی کا فون آیا کیا۔۔ 

ہممم نہیں امی وہ میں نیچے آرہی تھی تو فون بھی اُٹھا لیا ۔۔۔

ہمم چلو ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔نسیم اتنا کہتی چلی گئی۔۔

سدرہ نے لمبی سانس لی اور سر نفی میں ہلاتی ماں کے پیچھے چل دی۔۔۔

آج کالج میں بھی سدرہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔۔

 ثناء سدرہ کو کینٹین میں ڈھونڈھنے کے بعد جب گراؤنڈ کی طرف آئی تو اُس کی نظر سدرہ پر پڑی جو گراؤنڈ کے ایک طرف بینچ پر بیٹھی تھی

سدرہ آپنی سوچوں میں اتنی مگن تھی کے اُسے زرہ بھی احساس نہ ہوا کے ثناء اس کے پاس آکر بیٹھ چکی ہے۔۔۔

ہیلو۔۔کہتے ہوۓثناء نے سدرہ کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلا یا ۔ تو سدرہ نے سر گھما کر ثناء کی طرف دیکھا تو ثناء دونوں بھویں اوپر نیچے ہلاتے ہوے بولی۔۔ کیا سوچا جا رہا ہے ۔۔

کچھ نہیں بس دل کچھ بوجھل سا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے دل کسی نے مُٹھی میں پکڑ لیا ہو۔۔ اور بس کچھ ہی دیر میں دھڑکنا بند ہو جاۓ گا۔۔۔سدرہ نے سر جھکاتے ہوۓ مایوسی سے کہا۔۔

سدرہ کو پریشان دیکھ کر ثناء کو مستی سوجھی کے اس کا دل خوش کیا جاۓ وہ قہقہ لگاتے ہوے بولی۔۔ ہاااں نا دل تو واقعے ہی کسی کی مٹھی میں ہے ہماری چڑیا کا۔۔ اور جانتی ہو کس کی۔ مسٹر ولی کی۔۔ اور بہت جلد میری اس پیاری سی دوست کی دھڑکن واقعے ہی کچھ گڑ بڑ کرنے والی ہے جب ولی آمنے سامنے ہو گا۔۔ 

پر تم فکر مت کرو وہ تمہارے دل کو بہت سنبھال کے رکھے گا۔۔ ہاہاہاہا۔۔

سدرہ نے سر اُٹھا کر ثناء کی طرف دیکھا جو ہس رہی تھی۔

ثناء ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب خواب ہے اور ایک دم سے میری آنکھ کھلے گی اور ولی کہیں نہیں ہو گا۔۔ کہیں بھی نہیں۔۔ سدرہ کی آنکھ سے ایک آنسو بے ساختہ بہہ گیا۔۔

بکواس بند کرو سمجھی ایسا ویسا کچھ نہیں ہو گا۔۔سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔ بس ایک دفعہ ولی بھائی پاکستان آ جائیں۔۔وہ خود تمہیں چٹکی کاٹ کر یقین دلائیں گے کے تم خواب نہیں دیکھ رہی اور بس تمہارا دماغ خراب ہے۔۔ ثناء نے اپنے ہاتھ کی چاروں انگلیوں سے سدرہ کے سر کو ہلاتے ہوے کہا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب بیٹا دیکھو تم یہ غلط کر رہی ہو ۔۔ یہ گناہ ہے ۔تم اتنا بڑا فیصلہ اس طرح جذباتی ہو کر نہیں کر سکتی۔۔ تم ریلیکس کرو ۔۔دیکھو تھوڑا ٹائم لو۔۔ جلد بازی مت کرو۔۔ مسسز قریشی حجاب کو سمجھاتے ہوے بولیں۔۔

نہیں انٹی میں اس بچے کو ہر گز پیدا نہیں کروں گی ۔۔یہ بچہ خود گناہ کی پیداوار ہے۔۔ اسے ختم کرنے میں کونسا گناہ ۔۔ہاں۔۔ حجاب بالوں میں ہاتھ مارتے ہوے بے چینی سے بولی تھی۔۔

حجاب دیکھو جو بھی ہوا علی نے تم سے شادی۔۔۔۔

حجاب نے اب کی بار مسسز قریسی کی بات کاٹی اور انتہائی غصے اور ہکارت سے بولی علی نہیں۔۔ ایلکس ۔۔ایلکس ۔۔ ایک غیر مذہب ۔۔اور  ۔۔اور وہ شادی نہیں تھی زبردستی کچھ پیپرز پر سائن تھے۔۔ کون سی شادی ایسے ہوتی ہے۔۔۔ یہ ریپ تھا ۔۔اُس نے ریپ کیا ہے میرا۔۔۔۔

 اور یہ بچہ ناجائز ہے۔۔ میں ایسے بچے کو پیدا نہیں کروں گی۔ میں دنیا کو اور اس بچے کو کیا بتاؤں گی ۔۔ کسے کسے سمجھاتی پھروں گی۔۔بس ۔۔بس۔۔ جتنا جلدی ہو سکے مجھے اس بچے سے جان چھڑانی ہے۔۔حجاب پاگلوں کی طرح جو منہ میں ا رہا تھا بولے جا رہی تھی ۔۔ وہ کبھی صوفے پر بیٹھتی اور کبھی اُٹھ کر چکر کاٹنے لگتی تھی۔۔

مسسز قریشی حجاب کی حالت دیکھ کر گھبرا سی گئی تھیں۔۔ وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُٹھی اور حجاب کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولیں۔۔ حجاب ٹھیک ہے جیسا تم کہو گی ویسا ہی ہو گا۔۔ لیکن تم خود کو پُر سکون کرو پہلے۔ ریلیکس ہو ۔۔ میں کل ڈاکٹر سے بات کروں گی۔۔ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔

حجاب اب مسسز قریشی کے ساتھ لگ کر رونے لگی۔۔ 

ششش بس اور نہیں چُپ بلکل چُپ۔۔۔مسسز قریشی نے حجاب کو تو مطمئن کر دیا تھا پر ان کا اپنا دل اب نہیں مان رہا تھا ۔ ان کا ضمیر انہیں بار بار یہ احساس دلا رہا تھا کے یہ بہت بڑا گناہ ہے وہ اس گناہ کی حصے دار نہیں بن سکتی۔۔ 

مسسز قریشی نے حجاب کو  بٹھایا اور بولیں۔۔ تم پہلے ناشتہ کر لو اور پھر دوائی کھا کر   آرام کرو۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

میکس ولی اور ایلکس بیسمینٹ میں آپنے ہتھیار سیٹ کر رہے تھے۔۔ جب میکس ایک گن اُٹھاتے ہوۓ گھوما اور ولی کی طرف دیکھ کر انتہائی سنجیدگی سے بولا ۔۔

نوحہ دیکھو میرے اور ایلکس کے لیے یہ کام کوئی نیا نہیں ہم بچپن سے ہی ان کاموں میں لگے ہیں لیکن تمہاری یہ پہلی دفعہ ہے۔۔ اس لیے پلیز ۔۔پلیز نوحہ پہلی بات تو یہ کے بہتر ہے تم مت جاؤ۔۔ 

ولی نے نظر توچھی کرتے ہوۓ میکس کو دیکھا اور اس کی بات کاٹتے ہوۓ اٹل انداز میں بولا۔۔ میں جا رہا ہوں بات ختم۔۔ اب تم دوسری بات کرو۔۔

نوحہ دیکھو یہ یہ مشن ہم فرینکو سر کو بتاۓ بغیر کر رہے ہیں اور میں اتنا تو جانتا ہوں کے اگر انہوں نے منع کیا ہے تو یقیناً یہ مشن خطرناک ہے ۔۔ اس لیے جیسا ہم کہیں ویسا  ہی کرنا پلیز اور سکیورٹی کے بغیر خود سے آگے پیچھے مت ہونا۔۔ میکس اب ولی کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوے بولا تھا۔۔

ولی انکھیں سُکیڑتے ہوۓ بولا۔۔مجھے تم ایسے سمجھا رہے ہو جیسے دو چار سال کا بچہ ہوں میں۔۔ مجھے تو کسی بات کی سمجھ ہی نہیں۔۔ 

اُفففف نوحہ  بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے کے ہمیں تمہاری فکر ہے ۔۔ ایلکس اب کی بار ولی کے سینے پر ہلکا سا پنچ مارتے ہوۓ بولا۔۔

اوکے سمجھ گیا۔۔ اب مزید مت سمجھاؤ۔۔ ولی اب چِڑ کر بولا تو میکس اور ایلکس ولی کے انداز میں چُھپی وارنگ سجھتے ہوۓ خاموش ہو گۓ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ کالج سے گھر  وآپس آئی تو ہال میں داخل ہوتے ساتھ اُس کی نظر سامنے بیٹھے مہمانوں پر پڑی تو وہ جیسے اُچھل ہی پڑی تھی۔۔

پری۔۔۔۔ اس سے پہلے کے سدرہ آگے بڑھتی پری  بھاگ کر سدرہ کے گلے لگ گئی۔۔

دونوں ملنے کے بعد ایک دوسرے سے حال چال پوچھنے میں لگ گئی۔۔

پری سے ملنے کے بعد سدرہ سالار اورحیدرکو سلام کرتی ۔حناء کے گلے لگ کر ملی تو حناء بے ساختہ رو پڑی۔۔

سدرہ سوری بیٹا۔۔حناء اتنا کہتی پیچھے ہٹی۔۔ 

پری نے سدرہ کو بتایا کے وہ رات کو ہی پاکستان آۓ ہیں۔۔کچھ دیر سب میں بیٹھنے کے بعد پری اور سدرہ اوپر سدرہ کے کمرے میں چلی گئی۔۔

ہاں تو بتاؤ کیسی ہو ۔۔پری نے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ پہلا سوال کیا۔۔

ہمم ٹھیک ہوں۔۔۔

ہممم اور زرہ یہ تو بتاؤ مجھے تم اتنی کمزور کب سے ہو گئی ہاں اُس زوہیب نے تمہارے ساتھ اتنا کچھ کیا اور تم چُپ چاپ سب برداشت کرتی رہی۔۔ تم نے ٹانگیں کیوں نہیں توڑ دی اُس کی ۔۔پاگل لڑکی کم از کم کسی کو تو بتاتی۔۔ اور نہیں تو گھر سے باہر نکل کر شور مچاتی آس پڑوس کے لوگوں کی مدد لے لیتی وہ پولیس کو انوالو کر لیتے جان چھوٹ جاتی تمہاری تم اٹلی میں تھی۔ وہاں کا قانون سخت ہے۔۔سیکنڈ سے پہلے وہ اُلو کا پٹھا جیل میں ہوتا ۔پری آپنی ہی روانی میں سب کہتی گئ۔۔ اور جب بات مکمل کر کے سدرہ کا چہرہ دیکھا تو گلے میں آۓ تھوک کو نگلتے ہوۓ بولی۔۔

سوری سدرہ میرا مطلب تمہیں ہرٹ کرنا بلکل بھی نہیں تھا۔۔ میں تو بس ۔۔۔

پری کو شرمندہ دیکھ کر سدرہ ہلکے سے مسکرائی اور پری کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولی ۔۔میں جانتی ہوں ۔۔تمہارا کیا مطلب ہے ۔۔ اور ہاں تمہاری بات بلکل ٹھیک ہے۔۔ میں لے سکتی تھی کسی کی ہیلپ لیکن پری سب کچھ ایک دم سے اور اتنی تیزی سے ہوتا چلا گیا کے مجھے سمجھ ہی نہیں آئی۔۔ ابھی بھی شائد میں پاکستان نہ پہنچ پاتی اگر ولی۔۔۔ اتنی بات کر کے سدرہ رُک گئی۔۔

سدرہ کے منہ سے ولی کا نام سن کر پری کے چہرے پر شرارتی سی مسکراہٹ آئی تھی۔۔وہ مستی بھرے انداز میں بولی اگر ولی۔۔۔کیا؟  ولی۔۔ ہممم

سدرہ نے گھبرا کر کہا کچھ نہیں۔۔

کیا؟ ولی کچھ نہیں۔۔۔۔اللہ لڑکی  ہمارا بھائی تمہارے لیے پاگل ہوا جا رہا ہے اور اس لڑکی کو دیکھو کہتی ہے ولی کچھ بھی نہیں۔پری اب پورہ ڈرامہ کرتے ہوۓ منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔

اُفففف پری میں نے کب ایسا کہا تم بات کو کیا سے کیا بنا رہی ہو ۔۔سدرہ اب چِڑ کے  بولی تو پری قہقہ لگا کر ہسنے لگی اور پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔ 

ہممم تو  کیا خیال ہے ولی بھائی کے بارے میں ۔۔

کیا ؟ کیا مطلب ۔۔۔سدرہ اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلتے ہوۓ نروس سی بولی۔۔

پری نے سدرہ کو ہاتھ سے کھینچ کر پاس بٹھا لیا اور بولی ۔۔سدرہ ولی بھائی سے تمہاری کو ئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔

سدرہ پری سے نظر چُراتے ہوۓ بولی ہاں ہوئی ہے دو دن پہلے ۔۔

کیا ؟ کیا کہا دو دن پہلے اللہ میں تو سمجھی تھی اٹلی ہی ہوئی ہو گی بات لیکن دیکھو تو عاشق صاحب محبوبہ کو کال کر رہے ہیں اور ہم سب سے ناراض بیٹھے ہیں۔۔

ناراض کیوں ہیں تم لوگوں سے۔۔سدرہ نے خیرت سے پوچھا تو پری نے ساری بات سدرہ کو بتا دی ولی کی ساری کہانی بھی ۔۔

کیا وہ حیدر انکل کے بیٹے نہیں ہیں ۔۔

ہاں ۔۔پری نے سر ہلاتے ہوۓ کہا۔۔

اور چھوڑو باقی سب باتیں مجھے یہ بتاؤ کے کیا کہا اُنہوں نے تمہیں۔۔

سدرہ نے مسکراتے ہوۓ سر جھکا لیا اور ولی کی کہی ساری بات پری کو بتائی۔۔

اوووو  گُڈ۔۔۔ تو تم نے کیا کہا۔۔پری نے بھویں اچکاتے ہوۓ پوچھا۔۔

ہمم کچھ نہیں میں نے کیا کہنا تھا۔۔سدرہ اُٹھتے ہوۓ بولی تو پری نے دوبارہ سے  اسے ہاتھ سے پکڑا اور کھینچ کر بٹھا لیا۔۔ اور سنجیدگی سے بولی۔۔ سدرہ ولی بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں یہ تو تمہیں بھی اندازہ ہے۔۔ لیکن تم کیا اُنہیں پسند کرتی ہو ۔۔ دیکھو سدرہ ہم سب کو تم پسند ہو لیکن تمہاری مرضی ذیادہ اہمیت رکھتی ہے۔۔ آخر تم نے ولی بھائی کو کوئی جواب نہیں دیا یا جواب میں کچھ نہیں کہا تو اس کا کیا مطلب لیں ہم۔۔

سدرہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔وہ خود کو کنٹرول کرتے ہوۓ بولی ۔۔ولی اچھے ہیں پر پری مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔ کے کہیں پھر سے کچھ غلط نہ ہو جاۓ۔۔

پری نے سدرہ کو گلے لگا لیا اور مسکراتے ہوۓ بولی کچھ بھی نہیں ہو گا پاگل لڑکی ۔۔ 

_______*****

سب نے کھانا کھایا اور کچھ دیر بعد سب جانے کے لیے اُٹھے۔۔ملنے کے بعد جب سب باہر نکل گۓ تو پری سدرہ کے کان کے قریب منہ کرتے ہوۓ بولی۔۔ آج ہی کال کر لینا اور آپنے دل کی بات کہہ دینا۔۔ اور پھر دیکھنا کل کے آتے آج ہی دوڑے آئیں گے ولی بھائی۔۔

پری کی بات پر سدرہ مسکرا دی۔۔ اور پری بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس آپنے آدمیوں کو سارا پلان سمجھانے کے بعد مُڑا اور میکس اور ولی کی طرف دیکھتے ہوے مسکرا کر بولا۔۔ ہَنٹ ٹائم  مینز۔۔ 

تینوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور آپنی ریوالورز نکال کر آخری دفعہ چیک کی۔

تینوں گاڑیوں کی طرف چل دئیے۔۔

ولی رُکا اور جیب میں سے فون نکال کر سدرہ کے نمبر پر کال ملائی۔۔ تو سدرہ کا فون بند جا رہا تھا۔۔ولی نے سدرہ کو میسج لکھ کر سینڈ کر دیا اور مایوسی سے فون وآپس جیب میں ڈالا۔۔

ایلکس جو گاڑی کے پاس کھڑا ولی کو دیکھ رہا تھا۔۔ جب ولی اس کے قرہب آیا تو بولا۔۔ ڈونٹ وری مین جلد ہی دونوں آپنی آپنی مسسز کے پاس ہوں گے۔۔ 

ولی مسکراتے ہوۓ سر ہلا کر انشاءاللہ کہتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔ لیکن دروازہ بند کرنے سے پہلے اس کے کانوں میں ایلکس کے الفاظ صاف سنائی دئے تھے جس نے ولی کے پیچھے ہی انشاءاللہ کہا تھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ واش روم سے باہر آئی اور چارجنگ لگے موبائل کو پاور آن کرتے ہوۓ۔۔ کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ وہ سیدھی کیچن میں گئی ۔۔جہاں حمزہ پہلے سے کھڑا چاۓ بنا رہا تھا۔۔ سدرہ کو آتے دیکھ کر بولا۔۔ 

چاۓ پیو گی۔۔ 

ہاں  پیوں گی پر پہلے کچھ کھا لوں بھوک لگ رہی ہے۔۔ سدرہ فریج کھولتے ہوۓ بولی۔۔ اور فریج سے چاول نکال کر پلیٹ میں ڈالے اور اوون میں رکھ دئیے۔۔ 

حمزہ ایک بات بتانی تھی۔۔سدرہ کچن کے کاؤنٹر سے ٹیک لگاتے ہوۓ ہچکچاتے ہوۓ بولی۔۔۔

ہمم بولو۔۔ حمزہ چاۓ میں دورھ ڈالتے ہوۓ  سدرہ کی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔

وہ حمزہ دراصل بات یہ ہے کے ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر سدرہ نے لمبی سانس لی اور دوبارہ سے بولی۔۔۔ کے وہ ووولی ہے نا۔۔۔۔

ولی کا نام سن کر حمزہ کے ہاتھ رُک گۓ اُس نے مڑ کر سدرہ کی طرف دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا ساسپین چولہے پر رکھتا سدرہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گا اور بولا ۔۔ ہممم تو۔۔

سدرہ حمزہ کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر مزید کچھ نہ بولی تو حمزہ سدرہ کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولا۔۔

مجھے عمر بھائی نے بتایا ہے کے ولی تمہیں پسند کرتا ہے ۔۔ لیکن سدرہ میری بات دھیان سے سنا۔۔ دیکھو پہلے ہی ہم تمہارے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلد بازی کر چکے ہیں۔۔ اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔۔اب دوبارہ وہی غلطی نہیں دُھرا سکتے ہم۔۔ اس لیے تم پُر سکون ہو کر سوچو اور فیصلہ کرو۔۔تم پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔۔ اگر تم چاہو گی تو ٹھیک ہے لیکن اگر تمہاری مرضی نہ ہوئی تو کوئی بھی زبردستی نہیں کر سکتا۔۔ 

سدرہ سر نفی میں ہلاتے ہوۓ نظر جھکاے بولی نہیں حمزہ ولی اچھے ہیں اور میں بھی انہیں پسند کرتی ہوں۔۔

حمزہ نے سدرہ کو گلے لگا لیا اور ہستے ہوۓ بولا ۔۔ تو ٹھیک ہے ۔۔ 

_________****

سدرہ ایک  ہاتھ میں چاول کی پلیٹ پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں چاۓ کا کپ پکڑے اپنے کمرے میں مسکراتی ہوئی داخل ہوئی۔۔ آج بہت عرصے بعد سدرہ کے چہرے پر وہی پُرانی مسکراہٹ تھی۔۔

اس نے پلیٹ اور کپ ٹیبل پر رکھا اور بیٹھتے ہوے فون اُٹھایا۔۔ وہ مسلسل مسکرا رہی تھی آج وہ ولی کو فون کر کے آپنے دل کی بات جو کہنے والی تھی۔۔

سدرہ نے سکرین پر مِس کال شو ہوتی دیکھی تو اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور بھی بڑھ گئی۔۔ میسج کو اگنور کرتے ہوۓ سدرہ نے کال بیک کا بٹن دبایا۔۔

کافی رنگ جانے کے بعد کال ڈسکنیکٹ ہو گئی ۔۔ سدرہ نے کچھ سوچنے کے بعد دوبارہ کال ملائی اب کی بار دو رنگ کے بعد کال رسیو ہوئی۔۔ تو سدرہ کے کان میں ولی کی دبی سی ہیلو کی آواز پڑی۔۔

ہیلو ولی کیسے ہیں آپ سدرہ نے شرماتے ہوے پوچھا تو۔۔ دوسری طرف سے دوبارہ سے سرگوشی میں ولی بولا ۔ہاں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کہاں تھی کال کی تھی میں نے۔۔ 

وہ فون کی چارجنگ ختم تھی۔۔ 

ہممم ۔۔ اور تم کیسی ہو۔۔ ولی دھیمے سے بولا۔۔۔

جی میں ٹھیک ہوں۔۔ ولی آپ کب آئیں گے سدرہ نے ایک دم سے ہمت کر کے پوچھا۔۔۔سدرہ کو جواب میں ولی کی آہ ہ ہ کی آواز سنائی دی۔۔

اورایک دم سے فون کے دوسری طرف سے چیخنے چلانے اور گولیوں کے چلنے کی آوازیں آنے لگی۔۔ کوئی مسلسل نوحہ  کا نام پکار رہا تھا ۔

سانس لو ۔۔۔۔سانس لو نوحہ۔۔۔او گاڈ  ایلکس نوحہ کو گولی لگی ہے سانس نہیں لے رہا۔ کوئی چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔۔بیک آپ ۔۔۔بیک اَپ۔۔نوحہ کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔

سدرہ کو ساری آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔۔ 

سدرہ کو معلوم تھا کے ولی کو اٹلی میں سب نوحہ کے نام سے پکارتے ہیں۔۔ 

سدرہ کی ٹانگوں میں جیسے جان ختم ہو گئی۔۔ اور وہ زمین پر گر پڑی۔۔ ووولی ۔۔ولی ی۔۔ پلیزززز پلیزززززززز۔  نہیں ں ں

سدرہ پورے زور سے چلائی تھی۔۔۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

       دیکھ  لینا  کسی  دکھ  کی کہانی تو  نہیں۔

       ‏

     یہ جو آنسو ہیں کہیں اُس کی نشانی تو نہیں

     ‏

     یہ  جو ہر موڑ پے مجھ سے آ ملتی ہے فرحت

     ‏

    بدنصیبی  بھی  کہیں  میری  دیوانی تو  نہیں 

    ‏

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

مئین گیٹ پر موجود تمام گارڈز کو بغیر گولی مارے میکس اور اس کے آدمیوں نے گلا دبا کر مار دیا تو ایلکس نے ہاتھ کے اشارے سے میکس کو دوسری طرف جانے کا کہا اور ولی کو گیٹ پر ہی کچھ آدمیوں کے ساتھ رُکنے کا کہتے ہوۓوہ خود آپنے آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔۔ 

تینوں کان میں لگی ڈیوائس کے زریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔۔ 

ایلکس مسلسل آگے بڑھتے ہوۓ سرگوشی میں ولی کو جہاں ہے وہیں رہنے کاکہہ رہا تھا۔۔ 

انہوں نے ایسے ٹائم پر یہ آپریشن کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جب تھامس کے بیشتر گارڈ کھانے کے لیے ریسٹ روم میں موجود ہوتے تھے۔۔

مئین ہال میں چند گارڈز تھے جنہیں آسانی سے مار کر ایلکس اب بیسمینٹ کی طرف بڑھا۔۔۔

میکس مینشن کے دوسری طرف پہنچا تو وہاں گارڈز کا ریسٹ روم تھا جس میں تقریباً  دس پندرہ سےزیادہ گارڈ کھانا کھا رہے تھےاور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔۔ 

میکس نے ایلکس کو رپورٹ کیا تو ایلکس نے اُسے ابھی روکنے کو کہا۔۔کیوں کے وہ بیسمینٹ کے قریب تھا اور اُسے یقین تھا کے تھامس وہیں ہے۔۔

ایلکس کے مقبر نے انہیں پکی رپورٹ دی تھی ۔کے تھامس مینشن کی بیسمینٹ میں موجود ہے۔۔ 

ایلکس نے آپنے آدمیوں کو ریڈی رہنے کا کہتے ہوۓ دروازے کو زور دار ٹھوکر مرتے ہوۓ کھولا تو۔ سامنے ہی تھامس ایک آدمی کو گلے سے پکڑے کھڑا تھا جو اب ایلکس کو دیکھ کر اس آدمی کو چھوڑتا پاس ہی ٹیبل پر پڑی گن اُٹھا نے کے لیے لپکا تو ایلکس نے اگے بڑھ کر زور دار ٹانگ مارتے ہوۓ اُسے زمین پر گرا دیا۔ اور اُس کے سینے پر پاؤں رکھتے ہوۓ آپنی گن اُس پر تان لی۔۔۔جبکے تھامس کے ساتھ موجود  باقی کے آدمی اب ایلکس کے آدمیوں کے گن پوائنٹ پر تھے۔۔

ولی جو گیٹ کے پاس ہی اندھیرےمیں چھپا ہوا تھا۔۔ اُسے اپنی جیکٹ کی جیب سے فون کی وائیبریشن محسوس ہوئی۔۔ تو وہ نظر انداز کر گیا اس کی نظر مینشن پر تھی جہاں سے ابھی تک کسی طرح کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔۔ ولی کا فون ایک دفع پھر سے وائیبریٹ ہونا شروع ہوا تو اُس نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر فون باہر نکالا۔ سدرہ کا نمبر دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ کال رسیو کرتے ہوۓ اُس نے دھیمے سے ہیلو کہا۔۔ تو دوسری طرف سے سدرہ کی آواز جیسے اُس کے کانوں میں رس گھول گئی تھی۔۔

ہیلو ولی کیسے ہیں آپ۔۔ 

 ہاں ٹھیک ہوں کہاں تھی تم کال کی تھی میں نے۔ ولی سدرہ کی بات کے جواب میں بولا تھا۔۔

 ‏جی وہ فون کی چارجنگ ختم تھی۔۔

 ‏ہممم اور تم کیسی ہو۔۔ ولی نے مسکراتے ہوے پوچھا۔۔

 ‏جی میں ٹھیک ہوں۔۔ اس سے پہلے کے ولی کچھ اور بولتا۔۔ سدرہ کی بات ولی کے کانوں میں پڑی تھی ۔۔ولی آپ کب آئیں گے۔۔۔ 

 ‏ولی نے سدرہ کی بات تو سنی تھی پر آپنے پیچھے آ کر رُکتی گاڑی کی آواز بھی سنی تھی ۔۔جو مئین گیٹ کے پاس ہی رکی تھی چار آدمی گاڑی سے نکلے تھے جن کے ہاتھوں میں گنز تھیں۔۔ 

 ‏فون کی سکرین کی روشنی کی وجہ سے ولی پر اُن کی نظر پڑی اس سے پہلے کے ولی سنبھلتا انہوں نے گولیاں چلا دی۔۔ 

 ‏ولی کے آدمیوں نے بھی جوابی فائیرنگ شروع کر دی۔۔ یہ سب چند سیکنڈ میں ہی ہوا تھا ولی ابھی تک فون کان سے لگاۓ ہوۓ تھا جب اُسے آپنے سینے میں زوردار درد اُٹھتا محسوس ہوا اور اُس کے منہ سے ایک بلند آہ ہ نکلی۔۔ ولی کا  ہاتھ اپنے سینے تک گیا۔۔۔دل والی جگہ جہاں سے اُسے اپنا گرم گرم خون نکلتا محسوس ہواتھا۔ وہ  درد کی شدت سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔ اب فون کو ولی نے زور سے مٹھی میں دبوچ لیا تھا۔ ولی کو اب گولیوں کی آواز کے ساتھ اپنے آدمیوں کی چیخو پکار کی آوازیں بھی آنے لگی لیکن سب کچھ دوردور سا سنائی دے رہا تھا ۔۔ ولی کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور چند ہی سیکنڈ میں وہ زمین پر بے جان سا پڑا تھا۔۔ 

_____*****

 ‏میکس اور ایلکس کو گولیاں چلنے کی آواز آئی تو میکس جو ریسٹ روم کے باہر پوزیشن لیے بیٹھا تھا ۔۔ اب ریسٹروم والے گارڈز کو بھاگ کر باہر آتے دیکھ کر اُس نے اور اس کے آدمیوں نے فائیرنگ شروع کر دی ۔۔اور تھامس کے سبھی آدمیوں کو موت کے گھاٹ اُتارتے ہوۓ ۔۔ایلکس کی بات سن کر (میکس نوحہ کے پاس پہنچو)۔ میکس وآپس مئین گیٹ کی طرف بھاگا تھا۔۔

 ‏ایلکس جو تھامس پر گن تانے کھڑا تھا۔۔ جب اُسے گولیوں کی اواز آئی  تو وہ جلدی سےکان میں لگی ڈیوائس کا بٹن دباتے ہوۓ بولا ۔۔میکس تمہاری طرف ہے۔۔ 

 ‏نو ۔۔۔میکس نے کہاتھا۔۔ میکس جلدی سے آپنی سائیڈ کلئیر کر کے نوحہ کے پاس پہنچو۔۔ نوحہ جواب نہیں دے رہا۔۔۔ 

 ‏ایلکس نے اتناکہتے ہوۓ جُھک کر تھامس کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کیا اور گردن سے دبوچ کر گھسیٹتا ہوا باہر نکلا۔۔ جبکہ تھامس کے باقی کے آدمیوں کو ایلکس کے ادمیوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔۔

 ‏اب ایلکس کو آپنے کان میں میکس کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔نوحہ سانس نہیں لے رہا ایلکس۔۔۔

 ‏ سانس لو ۔۔۔۔سانس لو نوحہ۔۔۔او گاڈ  ایلکس نوحہ کو گولی لگی ہے سانس نہیں لے رہا۔  میکس چِلا چِلا کر کہہ رہا تھا۔۔بیک آپ ۔۔۔بیک اَپ۔۔نوحہ کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔

 ‏میکس جب تھامس کو پکڑے گیٹ تک پہنچا تو سامنے کا سین دیکھ کر جیسے اُس کے تو پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی تھی۔۔ 

 ‏میکس ولی کا سر گود میں رکھے چِلا رہا تھا۔ اور ولی بے جان خون میں لتھ پتھ پڑا تھا۔۔

 ‏ایلکس جلدی سے تھامس کو آپنے ایک آدمی کے حوالے کرتے ہوۓ بولا اسے لے چلو۔۔ ہیڈکواٹر ۔۔اور خود بھاگ کر ولی کے پاس آیا اور اُسے اُٹھاتے ہوۓ بھاگا تھا گاڑی لاؤ یو ایڈیٹ۔۔ گاڑی لاؤ۔۔وہ چلا رہا تھا۔۔

 ‏تبھی ایک گاڑی اُس کے پاس آکر رُکی ایلکس نے ولی کو بیک سیٹ پر لٹایا اور اُس کا سر گود میں رکھتے ہوۓ آپنے ہاتھ اُس کے سینے پر دبا کر رکھتے ہوۓ خون روکنے کی کوشش کرنے لگا اور  بولا ہسپتال چلو جلدی۔۔۔ 

 ‏میکس اب فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔ گاڑی تیزی سے ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی۔۔ پورے راستے ایلکس کبھی ولی کے چہرے کی طرف دیکھتا اور کبھی سامنے روڈ کی طرف ۔۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کی آپنی جان ہی نکل رہی تھی۔۔ اُس نے ولی کے سینے پر ہاتھ رکھے ہوۓ تھے وہ ولی کی ڈوبتی دھڑکن محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اور اُسے آپنا دل بھی بند ہوتا محسوس ہو رہاتھا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حمزہ جو حال میں بیٹھا چاۓ پی رہا تھااور ساتھ میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ سدرہ کی چیخ کی آواز سن کر ہڑبڑا کر سدرہ کے کمرے کی طرف بھاگا تھا۔۔ بلال اور نسیم بھی آپنے کمروں سے نکل کر سدرہ کے کمرے کی طرف بھاگے تھے ۔۔حمزہ جب کمرے میں داخل ہوا تو سدرہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی  تھی۔۔وہ سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سانس نہیں لے پا رہی۔۔۔

حمزہ سدرہ کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا اور اسے گلے لگاتے ہوے بولا۔۔۔ سانس لو چڑیا سانس لو۔۔۔۔ 

سدرہ کا سارہ جسم کانپ رہا تھا وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی۔۔ حمزہ جانتا تھا کے سدرہ کو پینک اٹیک آیا ہے۔۔۔سدرہ کے ڈاکٹر نے بتایا تھا کے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے ۔۔

سدرہ ریلیکس۔۔ آرام سے سانس لو۔۔۔ میرے ساتھ لو لمبی لمبی سانس لو۔۔ اب حمزہ سدرہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔ اور خود لمبی لمبی سانس لے کر اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ 

حمزہ کوسدرہ کی سانس کچھ ہی دیر میں نارمل ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔اور سدرہ حمزہ کے بازوں میں بے ہوش ہو  گئی۔۔ 

بلال نے آگے بڑھ کر سدرہ کو اُٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔۔

نسیم جو زمین پر ہی بیٹھی رو رہی  تھی ۔۔ حمزہ نے ماں کو زمین سے اُٹھایا اور گلے لگا کر بولا۔۔ امی کچھ نہیں ہوا آپ پلیز روئیں مت ۔۔ دیکھیں نا۔۔ سدرہ ٹھیک ہے۔۔

ہاں ٹھیک تو تھی پھر آج دوبارہ سے کیوں ۔۔۔۔ نسیم روتے ہوۓ بولی۔۔

امی پلیز  کچھ نہیں ہوا ۔۔ابھی ہم دونوں باتیں کر رہے تھے ٹھیک ٹھاک تھی ۔باقی صبح جب اُٹھے گی تو میں بات کروں گا سدرہ سے کے کیا ہوا۔۔ اپ پلیز روئیں مت۔ حمزہ ماں کو دوبارہ گلے لگاتے ہوۓ بولا۔۔

_______****

صبح سدرہ کی آنکھ کھلی تو  سر میں درد کی شدت سے دوبارہ سے انکھیں بھیچ لیں۔۔ آنکھیں بند کرتے ساتھ ہی سدرہ کو رات والا واقعہ یاد آیا اور وہ ایک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔ وہ جلدی سے بیڈ سے اُتری اور آپنا فون ڈھونڈھنے لگی ۔۔ جو سائیڈ ٹیبل پر نہیں تھا ۔۔ بلکے سنٹر ٹیبل پر تھا سدرہ نے جلدی سے فون اُٹھایا اور ولی کا نمبر ملایا تو ولی کا فون بند جا رہا تھا سدرہ اب پاگل ہی تو ہو رہی تھی وہ بار بار ولی کا فون ملا رہی تھی جو بار بار بند جا رہا تھا۔۔ تھک کر سدرہ صوفے پر بے ہمت سی بیٹھ گئی اب اُس کی آنکھوں سے آنسو کسی ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔۔

اللہ پلیز ۔۔۔ اللہ پلیز ۔۔وہ اس سے اگے کچھ کہہ نہیں پارہی تھی۔۔ 

حمزہ جو سدرہ کے کمرے کے دروازے پر دستک ہی دینے لگا تھا سدرہ کے رونے کی آواز سن کر دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔۔

 تو سدرہ  دونوں  ہاتھوں میں فون دباۓ آنکھیں بند کئے رو رہی تھی۔۔ حمزہ جلدی سے سدرہ کے پاس گیا اور اُس کا چہرہ جو انسوؤں سے تر تھا دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوۓ۔گھبرا کر بولا۔۔کیا ہوا سدرہ کیوں رو رہی ہو۔۔

 ‏سدرہ نے انکھیں کھول کر حمزہ کی طرف دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوۓ بولی ۔۔حمزہ وہ  ولی۔۔۔ ولی کو گولی لگ گئی ۔۔ ہے۔۔۔

 ‏کیا ۔۔۔ کیسے۔ ۔۔۔ککب  اتنا کہتے ہوۓ۔۔حمزہ کے ہاتھ جو سدرہ کے چہرے کو پکڑے ہوۓ تھے ۔۔ بے جان ہو کر نیچے کو گرے تھے۔۔ 

 ‏وہ رات کو میں نے کال کی تھی ولی کو تو ۔۔

 ‏تو۔۔توکیا سدرہ۔۔۔

 ‏ولی مجھ سے بات کر رہا تھا پھر اچانک اس کی آہ کی آواز آئی اور گولیوں کی بھی پھر کوئی کہہ رہا تھا کے ولی کو گولی لگی ہے وہ سانس نہیں لے رہا اور پھر پتہ نہیں۔۔ اور اب ولی کا نمبر بند جا رہا ہے۔۔۔سدرہ بات مکمل کر کے دوبارہ سے رونے لگی۔۔۔

 ‏حمزہ سدرہ کی بات سن کر اُٹھا اتنا کہتا ہوا جلدی سے چلا گیا۔۔۔۔تم چُپ کرو میں پتہ کرتا ہوں۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ایلکس اور میکس آئی سی یو کے باہر پاگلوں کی طرح چکر لگا رہے تھے ۔۔

 ایلکس کبھی دیوار پر مکا مارتا اور کبھی آپنے بال دونوں ہاتھوں سے کھینچتا اور نفی میں سر ہلاتا کچھ بُڑ بُڑاتا جا رہا تھا۔۔

 ‏میکس کے تو آنسو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔

 ‏تبھی فرینکو بھاگتا ہوا آئی سی یو کی طرف آیا۔۔

 ‏اُس نے کھا جانے والی نظروں سے میکس اور ایلکس کو دیکھا۔۔ اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا۔۔ اگر ۔۔۔۔اگر میرے بیٹے کو کچھ بھی ہوا تو آگ لگا دوں گا ۔ سارے اٹلی کو۔۔۔ اتنا کہتے ہوۓ فرینکو نے آگے بڑھ کر ایلکس کو کالر سے پکڑ کر آپنے منہ کے قریب کیا اور غصے سے چلاتے ہوۓ بولا۔۔ منع کیا تھا کے نہیں۔۔۔ بولو۔۔۔اب فرینکو نے ایلکس کا کالر جھٹکے سے چھوڑا اور ایلکس کا بازو پکڑ کر اُسے گلے سے لگاتے ہوۓ نم آواز میں بولا۔۔ ایلکس کیوں نہیں مانی میری بات تم نے۔ بولو ۔۔ منع نہیں کیا تھا میں نے ۔۔

 ‏ایلکس فرینکو کی بات سن کر انکھیں بھینچ گیا۔۔

 ‏اس کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے۔۔

 ‏ایلکس روتے ہوۓ بولا ۔جو چاہے سزا دے دیں ۔۔۔ڈیڈ چاہے تو  آپ میری جان لے لیں۔ کیوں کے اگر نوحہ کو کچھ ہو گیاتو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکو گا۔۔

 ‏۔۔فرینکو ایلکس سے دو قدم پیچھے ہٹا اور بولا۔۔ ایلکس میں جس دن تمہیں اپنے گھر لایا تھا ۔۔ اُس دن میں نے آپنے دل سے تمہیں آپنا بیٹا مانا تھا۔۔ اور تم کبھی بھی نوحہ سے کم نہیں ہو سکتے مجھے۔۔ نوحہ کو تو میں نے کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔۔

 ‏لیکن تم تین سال کے تھے تب سے پالا ہے میں نے ۔چھوٹے سے بچے سے آدمی بنایا ہے۔نوحہ اگر فرینکو کا دل ہے تو ایلکس فرینکو کی دھڑکن ہے ۔۔ تو بتاؤ کیسے سزا دے سکتا ہوں تمہیں۔۔ فرینکو اتنا کہتے ہوۓ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ اِس وقت فرینکو بےبسی اور لاچارگی کی حالت میں تھا۔۔

 ‏ائی سی یو کا دروازہ کھلا اور دو ڈاکٹر باہر آۓ۔۔

 ‏ایلکس اور میکس بھاگ کر ڈاکٹرز کے پاس گئے جبکہ فرینکو اپنی جگہ بر جما بیٹھا تھا ۔۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم میں اُٹھنے کی ہمت باقی نہیں رہی۔۔۔

ایک ‏ڈاکٹر نے ایلکس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سر نفی میں ہلا یا تو ایلکس کی جیسے ٹانگوں میں ہمت ہی تو ختم ہو گئی وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏حجاب  بیٹا تم آرام کرو میں جا کر خود ڈاکٹر سے بات کر لیتی ہوں۔۔ ڈاکٹر نے جو کہا میں بتا دوں گی تمہیں۔۔ مسسز قریشی حجاب کو ساتھ نہیں لے کر جانا چا رہی تھی۔۔ کیوں کے وہ چاہتی تھیں کے ڈاکٹر کو کہیں گی کے حجاب کو سمجھاۓ۔۔ 

 ‏لیکن حجاب تھی کے ساتھ جانے پر باضد تھی۔۔

 ‏بلآخر مسسز قریشی ہار مان گئی اور حجاب کو تیار ہونے کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

 ‏مسسز قریشی اور حجاب کلینک پہنچی تو جلد ہی اُن کا نمبر آ گیا۔۔

 ‏حجاب  کی بات سن کر ڈاکٹر کو جیسے کرنٹ لگی۔۔

 ‏آپ کا دماغ تو ٹھیک مسسز علی  آپ مجھ سے ایسی بات کر بھی کیسے سکتی ہیں۔۔ آپ مسلمان ہوتے ہوۓ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔ قتل ہے یہ۔۔۔۔ اور آپ یہ اُمید کرتی ہیں کے میں آپ کے اس گناہ کا حصہ بنو گی ۔۔ میں ڈاکٹر ہوں میرا کام جان بچانا ہے نہ کے جان لینا۔۔ اپ غلط  جگہ آئی ہیں میں ایسا کام نہیں کرتی۔۔ آپ جا سکتی ہیں۔۔ ڈاکٹر نے نفرت بھرے انداز میں حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔ اور ساتھ بیٹھی مسسز قریشی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ آپ کیسے اپنی بیٹی کو اس کام کے لیے میرے پاس لا سکتی ہیں۔۔ اور کہاں ہے اس کا شوہر اُسے پتہ ہے کے اُس کی بیوی کیا کرتی پھر رہی ہے۔۔ جا سکتی ہیں آپ یہاں سے پلیز ڈاکٹر نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔

 ‏حجاب جو ہکی بکی ڈاکٹر کا منہ دیکھ رہی تھی جس نے خوب کلاس لی تھی حجاب کی۔۔

 ‏مسسز قریشی نے شرمندگی سے اٹھتے ہوۓ حجاب کوہلایا اور چلنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ 

 ‏حجاب ابھی تک آپنی ہونے والی بےعزتی کے احساس سے ہی باہر نہیں نکلی تھی کے گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی مسسز قریشی شروع ہوگئی۔۔

 ‏دیکھا آپنے ساتھ میری بھی اِنسلٹ  کروادی نا۔۔کہا تھا ۔۔مت کرو ایسا کتنا سمجھایا تھا پر نہیں ۔کر لی آپنی مرضی اب بتاؤ کیا کرنا ہے۔۔ بولو۔۔ اور زرہ یہ بھی بتاو مجھے کے اگر تم ابوشن کروا بھی لیتی ہو تو آج نہیں تو کل ۔۔۔کل نہیں تو کبھی نا کبھی تو علی کو اس بات کا پتہ چلے گا ہی تب تم کیا کہو گی اُسے ۔۔

 ‏حجاب نےمسسز قریشی کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔ اُس کا کچھ لینا دینا نہیں مجھ سے اور اس بچے سے میں جو مرضی کروں۔۔اور ویسے بھی کچھ عرصے تک وہ بھول جاے گا مجھے اور میں ویسے بھی اب دوبارہ کبھی اٹلی نہیں جاؤں گی۔۔

 ‏اوو اچھا تو کچھ لینا دینا کیسے نہیں اُس کا اس بچے سے بولو ۔۔اُسی کا تو سب لینا دینا ہے بی بی۔۔ وہ باپ ہے اس بچے کا تم اکیلی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔۔مسسز قریشی آپنے غصے پر قابو پاتے ہوے بولی تھیں۔۔

 ‏حجاب نے سر اُٹھا کر مسسز قریشی کی طرف دیکھا۔ اور سر جھکاتے ہوۓ ہاتھ آپنے پیٹ پر رکھا۔۔ اور گہری سوچ میں ڈوب گئی۔۔ وہ اب کافی حد تک ڈر گئی تھی۔۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏

 ‏ فرینکو اور میکس ڈاکٹر کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے۔۔ 

 ‏ڈاکٹر نے لمبی سانس لی اور فرینکو کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ 

 ‏سر اگر آپ سیدھا سیدھا اور سچ پوچھیں تو  مسٹر نوحہ اس وقت نیچرلی ڈیڈ ہی سمجھیں۔۔

 ‏ ایلکس جو سر جھکاۓ پیچھے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔اُس نے ڈاکٹر کی بات پر ایک جھٹکے  سے سر اُٹھا کر کھا جانے والی نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔۔

______****

 ‏دیکھیں گولی دل کو چُھو کر گزری ہے۔۔ ہم نے مشین اٹیچ کی ہے جو نوحہ کی دھڑکن کو جاری رکھے گی۔۔  جب نوحہ کو ہسپتال لایا گیا تب تک ان کا کافی خون نہہ چکا تھا۔۔ خون زیادہ بہہ جانے سے حالت اور بھی زیادہ کریٹیکل ہو گئی ہے۔۔

 ‏اس وقت مریض وینٹی لیٹر پر ہے ۔۔ہم فِل حال کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔ ایسے کیس میں اکثر مریض کومے میں بھی چلے جاتے ہیں۔اور کومے والے مریض کے بارے میں کوئی بھی ڈاکٹر کچھ بھی نہیں کہہ سکتاکیوں کے کومے کے مریض کب خوش میں آۓ کچھ پتہ نہیں ۔۔ ۔ ڈاکٹر  کچھ دیر رُک کر دوبارہ سے بولا۔۔کبھی تو مریض دنوں میں خوش میں آ جاتے ہیں اور کبھی مہینوں ۔۔سالوں بھی لگ جاتے ہیں ۔۔۔ آپ بس دماغی طور پر ہر طرح کی نیوز کے لیے خود کو تیار رکھیں۔۔ 

 ‏ایلکس غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوۓ اُٹھا اور ڈاکٹر کی  ٹیبل کے دوسری طرف گھوم کر ڈاکٹر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کالر سے پکڑ کر کھینچ کر کھڑا کرتے ہوۓ چلا کر بولا۔۔۔ بکواس بند کرو بہت دیر سے میں تمہاری بَک بَک سن رہا ہوں۔۔ ایلکس نے ڈاکٹر کو جھنجھوڑا اور غُراتے ہوے بولا۔۔۔اگر ۔۔۔۔ا۔۔گر غلطی سے بھی نوحہ کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا۔۔۔ میں دوبارہ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ یاد رکھنا۔۔۔ تمہیں اور تمہارے سارےڈاکٹروں کو اسی ہسپتال سمیت اگ لگا دوں گا۔۔ سمجھے۔۔ اتنا کہتے ہوۓ ایلکس نے ڈاکٹر کو دھکا دیا اور وہ وآپس کرسی پر جا گرا۔۔ایلکس میکس کا ہاتھ اپنے کندھے سے  جھٹکتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ 

 ‏فرینکو بلکل خاموش بیٹھا۔ سب دیکھتا اور سنتا رہا۔۔ میکس نے فرینکو کی طرف دیکھا تو اس نے سر کے اشارے سے اسے ایلکس کے پیچھے جانے کا کہا۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏سالار کو تو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ اُس نے فون کو کان سے ہٹا کر گھورا اور دوبارہ سے کان سے لگاتے ہوۓ خیرت اور سنجیدگی سے بولا۔۔عمر تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔۔ 

 ‏جی سر آپ پلیز کنفرم کریں۔ مجھے خود زیادہ کچھ نہیں پتہ بس حمزہ نے جتنا بتایا میں نے آپ کو بتا دیا۔۔۔ اپ پلیز ولی سے رابطہ کریں میرا رابطہ تو نہیں ہو رہا۔۔۔ 

 ‏سالار نے اوکے کہتے ساتھ ہی فون ڈسکنیکٹ کر دیا اور جلدی سے ولی کا نمبر ملایا جو بند جا رہا تھا۔۔سالار نے  ایلکس کا نمبر ملایا۔۔ کافی رنگ جانے کے بعد فون بند ہو گیا۔۔ سالار نے  کافی دفعہ کوشش کی لیکن ایلکس کی طرف سے فون رسیو نہیں ہوا۔۔ سالار جلدی سے کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا حیدر کے کمرے کی طرف گیا۔۔ حناء کو سامنے سے آتے دیکھ کر سالار نے جلدی سے چہرے پر ہاتھ پھیر کر اپنے اپ کو نارمل کرنے کی ناکام کوشش کی ۔۔ لیکن حناء سالار کی اُڑی اُڑی رنگ دیکھ چکی تھی۔۔ 

 ‏کیا ہو سالار حناء پریشان سی بولی۔۔

 ‏کچھ نہیں آپ یہ بتائیں چاچو کہاں ہیں۔۔ 

 ‏ہمم وہ نیچے حال میں ہیں ۔۔تممم۔۔۔ حناء کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے سالار سیڑھیاں اُتر گیا۔۔

 ‏ ہال میں حیدر ۔۔چوہدری دلاور اور چوہدری زریاب بیٹھے چاے پی رہے تھے اور  باتوں میں مصروف تھے۔۔ 

 ‏سالار کو آتے دیکھ کر چوہدری دلاور کا چہرہ جیسے کھِل گیا اور مسکراتے ہوۓ بولے۔۔لو میرا شیر بھی آگیا ہے۔۔ لیکن سالار کا چہرہ دیکھ کر ایک دم سے چوہدری دلاور کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئ۔۔ 

 ‏سالار تیزی سے حیدر کے پاس آتے ہوے بولا چاچو آپ کے پاس فرینکو کا نمبر ہے۔۔

 ‏حیدر نے سالار کو باغور دیکھا اور آنکھیں سُکیڑتے ہوے بولا۔خیریت تو ہے کیا ہوا۔۔ اور فرینکو کا نمبر کیوں چاہیۓ تمہیں۔۔

 ‏چاچو پلیز آپ کال کریں جلدی سے سالار بالوں میں ہاتھ پھیرتا بے چینی سے بولا۔۔

 ‏حیدر اُٹھ کر سالار کے پاس آیا اور جیب سے فون نکال کر بولا ۔۔ ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ تو۔۔

 ‏اپ پلیز پہلے کال ملا کر مجھے دیں۔۔

 ‏حیدر نے کچھ نا سمجھتے ہوۓ کال ملائی اور فون سالار کی طرف بڑھادیا۔۔

 ‏کافی رِنگ جانے کے بعد  فرینکو نے کال رسیو کی اور بُجھی سی آواز میں بولا

 ‏ہیلو مسٹر حیدر۔۔

 ‏کیسے ہیں مسٹر فرینکو آپ۔۔میں سالار بات کر رہا ہوں۔۔ ولی کیسا ہے۔۔ سالار نے فرینکو سے سیدھا سیدھا پوچھا تھا۔۔

 ‏فرینکو نے لمبی سانس لی اور بولا۔۔نوحہ ہسپتال میں ہے۔۔اور مجھے لگتا ہے آپ لوگوں کو اٹلی آنا چاہیے۔۔

 ‏کیا ؟؟؟ سالار کے گلے میں جیسے آواز پھس کے نکلی تھی۔۔۔ کیا ہوا اُسے ۔۔۔۔

 ‏فون پر میں تم لوگوں کو نہیں سمجھا پاؤ گا۔۔ جتنا جلدی ہو سکے تم لوگ یہاں آ جاؤ۔۔ اتنا کہتے ساتھ فرینکو نے فون بند کر دیا ۔۔ 

 ‏سالار نفی میں سر ہلاتے ہوے بولا ۔۔ نہیں ۔۔نہیں۔۔

 ‏

 ‏کیا ہوا سالار سب ٹھیک تو ہے تم کیا بات کر رہے تھے۔۔ ولی ٹھیک تو ہےحیدر نے سالار کو کندھے سے پکڑتے ہوۓ پوچھا۔۔۔

 ‏اب چوہدری دلاور اور زریاب بھی سوالیہ نظروں سے سالار کو دیکھ رہے تھے۔۔

 ‏چاچو ولی ۔۔۔۔ ولی۔۔ کو ۔۔۔۔ اتنا کہتے ہوۓ سالار نے بات ادھوری چھوڑتے ہوۓ حیدر کی طرف دیکھا اور بولا ہمیں اٹلی جانا ہے جلد از جلد۔۔ 

 ‏ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ گے بھی۔۔ اب حیدد قدرے پریشانی سے بولا تھا۔۔

 ‏چاچو ولی ہسپتال میں ہے۔۔ ہمیں جانا ہے۔۔

 ‏کیا؟ کیا ہوا ولی کو چوہدری دلاور۔زریاب اور حناء ایک اواز میں بولے تھے ۔۔حناءجو سالار کے پیچھے ہی آئی تھی ساری باتیں سنے کے بعد اب پریشانی سے آگے بڑھی تھی 

 ‏آنٹی ریلکس کچھ نہیں ہوا۔۔ وہ ٹھیک ہو گا ۔۔ بس ہم جا کر دیکھتے ہیں ۔۔میں ٹکٹ بُک کرواتا ہوں۔۔ اتنا کہتے ہوۓسالار فون ملاتا باہر نکل گیا۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏ایلکس  پچھلی رات اور پورا دن  ولی کے کمرے کے باہر بیٹھا تھا۔۔

 ‏ایلکس تم جاؤ جا کر کچھ کھا پی لو ۔اور تھورا آرام بھی کر لو میں ہوں یہاں۔۔ میکس نے ایلکس کی پشت کو تھپکتے ہوے کہا۔۔

 ‏ایلکس نے سر اُٹھا کر میکس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچنے کے بعد اُٹھتے ہوے بولا۔۔ تھامس کہاں  ہے۔۔ 

 ‏ہیڈ کواٹر۔۔ 

 ‏ ایلکس ہمم کرتا جانے کے لیے مُڑا لیکن دو قدم جا کر رُکا اور میکس کی طرف مُڑ کر دیکھتے ہوے بولا۔۔نوحہ کی سکیورٹی کا خیال رکھنا۔۔ اتنا کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکلا۔۔ اُس کے دماغ پر اب خون سوار تھا۔۔ غصے کی شدت سے آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں۔۔ اور اب وہ جانتا تھا کے اُسے کیسے سکون ملے گا۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھا اور سیدھی ہیڈ کواٹر کی طرف گاڑی موڑ لی۔۔

 ‏ایلکس کو اندر آتا دیکھ کر سب گارڈز ایک دم سے چوکس ہو گئے۔ ایلکس سیدھا ٹارچر سیل کی طرف بڑھ گیا ۔۔پاؤں کی زور دار ٹھوکر سے سیل کا دروازہ کھولتے ہوۓ وہ اندر داخل ہوا ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر سیل کی لائیٹ آن کی تو سامنے دیوار کے ساتھ بندھے تھامس کو دیکھ کر ایلکس طنزیہ مسکرایا اور جیب سے سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبایا اور اسے سُلگاتے ہوے بولا۔۔ ہممم تو کیسے شروع کریں ۔

 ‏تھامس شیطانی انداز میں مسکرایا اور بولا جیسے دل کرے تمہارا۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ 

______****

 ‏جانتے ہو تھامس میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں۔۔ ہاا۔ نہیں جان سکتے۔۔

 ‏ میں تمہارے جسم سے ایک ایک بوٹی نوچوں گا اور روز وہ بوٹی اپنے کتے کو کھلاؤں گا۔۔ تمہارے سامنے۔۔۔ یہاں تک کے صرف ہڈیاں رہ جائیں گی۔۔ اور جانتے ہو مزے کی بات کیا ہے تم زندہ رہو گے۔۔ ہا ہا ہا۔ ایلکس نے سگریٹ کا لمبا کش لیتے ہوۓ قہقہ لگایا۔۔ اور تھامس کے قریب جاتے ہوۓ بولا۔۔

 ‏پھر میں تمہاری ہڈیاں کاٹوں گا۔۔ پہلے پیر پھر ٹانگیں اور پھر ہاتھ ۔۔بازواور پھر گیم فنیش۔۔

 ‏تھامس ایلکس کی بات سن کر کانپ اُٹھا۔کیوں کے وہ جانتا تھا کے ایلکس جو کہتا ہے وہ ضرور کرتا ہے۔۔۔

 ‏ایلکس نے گارڈ کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سےسر ہلاتا باہر چلا گیا۔۔ ایلکس نے دیوار پر لگے اوزاوں کی طرف دیکھا اور اگے بڑھ کر ایک تیز دھار چاکو اُتارتے ہوۓ بولا۔۔ 

 ‏چلو  میرے کتے کے ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے اتنا کہتے ساتھ ہی ایلکس نے تھامس کی شرٹ جو پہلے ہی پھٹی تھی کھینچ کر مکمل پھاڑ دی اور اس کے پیٹ کی جِلد کو آپنے انگوٹھے اور انگلیوں سے پکڑ کر باہر کی طرف کھینچااور چاکو سے اتنے حصے کو کاٹ ڈالا۔۔ تھامس کی درد سے چیج نکلی تھی۔۔ 

 ‏گارڈ ایک بڑے پِٹ بُل نسل کے کتے کو اندر لے آیا۔۔ 

 ‏ایلکس نے تھامس کے سامنے اسی کے جسم کا گوشت کتے کے اگے پھینکا۔۔ تھامس نے درد اور خوف سے آنکھیں بھینچ لی۔۔

 ‏ایلکس نے تھامس کے کٹے ہوۓ پیٹ کو اپنی انگلیوں سے دبایا اور دانت پیستے ہوۓ بولا۔۔دعا کرو میرا بھائی جلد ٹھیک ہو جاۓ۔۔ ورنہ تمہاری سزہ بھی لمبی ہوتی جاۓ گی۔۔ اور یقین مانو اگر نوحہ کو کچھ ہوا تو۔۔ تمہاری موت بہت مشکل ہو جاۓ گی۔۔۔

 ‏ایلکس اتناکہتا سیل سے باہر نکلا اس کے سارےہاتھ خون سے بھرے تھے۔۔ واشروم جا کر ایلکس نے ہاتھ دھوۓ اور باہر نکلا۔۔ گاڑی میں بیٹھا تو جیسے اسے کچھ یاد آیا۔۔ایلکس نے جلدی سے جیب سے فون نکالا ۔اور جب سکرین پر نظر پڑی۔ تو بہت سی مس کالز تھیں۔۔ کچھ سالار کی کچھ عمر کی اور کچھ پاکستان میں حجاب کی نگرانی کرنے والے گارڈ کی۔۔ لیکن فرینکو کی مِس کال پر وہ الرٹ ہو گیا۔۔

 ‏جلدی سے فرینکو کا نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔۔ 

 ‏ہیلو ایلکس کہاں ہو کب سے کال کر رہا ہوں۔فرینکو غصے سے بولا۔۔

 ‏سوری ڈیڈ فون سائلینٹ پر تھا۔۔ میکس نے شرمندگی سے کہا۔ِ۔

 ‏اچھا وہ حیدر لوگ آ رہے ہیں۔۔کل ۔۔ انہیں رسیو کرنا ہے ۔۔ 

 ‏اوکے ڈیڈ۔۔

 ‏فرینکو سے بات کرنے کے بعد ایلکس ابھی فون جیب میں رکھنے ہی لگا تھا کے فون بجنے لگا۔۔ ایلکس نے ناگواری سے فون کی سکرین کی طرف دیکھا ۔لیکن دوسرے ہی پل اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔۔ فون پاکستان سے حجاب کے گارڈکا تھا۔۔ 

 ‏ہیلو۔۔ ایلکس نے کال رسیو کرتے ہو ۓ کہا۔۔۔

 ‏سر ۔۔

 ‏ہممم کہو۔۔ کیا بات ہے۔۔ایلکس نے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔۔ ایلکس اب گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔

 ‏سر وہ بی بی ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں۔۔ میں نے وہاں کی نرس سے پتہ کروایا ہے۔۔ بی بی  پریگننٹ ہیں۔۔

 ‏ایلکس نے ایک دم سے بریک لگائی تھی۔۔ کیا؟ کیا کہا دوبارہ کہو۔۔۔ 

 ‏سر بی بی پریگننٹ ہیں۔۔ پر۔۔۔۔ 

 ‏ایلکس جو اپنی کیفیت خود نہیں سمجھ پارہاتھا۔۔کے وہ کیا محسوس کر رہا تھا اس خبر کو سن کر۔۔ ایک دم سے ۔۔۔گارڈ کے پر والے لفظ پر الرٹ ہوتے ہوۓ بولا پر؟۔۔۔ پر کیا۔۔۔

 ‏وہ سر کلینک کی نرس نے بتایا کے بی بی ابوشن کروانا چا رہی ہیں۔۔۔ 

 ‏وَٹ ۔۔۔ کیا کروانا چا رہی ہے۔۔ 

 ‏سر وہ ابوشن کروانا۔۔۔۔۔

 ‏ایلکس کا تو جیسے دماغ ہی گھوم گیا تھا۔۔ تم نظر رکھو اُس پر۔۔ اتنا کہتے ہوۓ ایلکس نے فون بند کیا اور ہونٹ چباتے ہوۓ بولا۔۔ اچھا تو چیونٹی کے پر نکل آۓ ہیں تھوڑی ڈھیل کیا دی دماغ استعمال کرنے لگی ہے ۔۔اوکے تو چلو تمہیں تمہاری اصل جگہ دیکھاتا ہوں۔۔ 

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹حجاب کا پورا دن رونے میں گزرا تھا۔۔ 

 ‏مسسز قریشی نے کتنی ہی کوشش کی تھی حجاب کوسمجھانے کی پر حجاب جیسے کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔

 ‏رات کا ایک  بجنے کو تھا پر مجال تھی کے اُس نے آنکھ بھی جھپکی ہو۔۔ وہ گُم سُم بیٹھی تھی جب اس کا فون بجنے لگا حجاب نے مایوسی سے فون کی طرف دیکھا۔ تو حجاب کا چہرہ کِھل اُٹھا۔۔ جلدی سے فون اُٹھا کر وہ پُرجوش ہوتے ہوے بولی ۔۔

 ‏ہیلو پاپا کیسے ہیں۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمہے جیسے حجاب کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگی۔۔

 ‏ہیلو روز ہوؤ آر یو۔۔۔ یہ لفظ اور کہنے والے کی آواز جیسے حجاب کی جان ہی تو نکال گئی تھی۔۔ حجاب کو جیسے چُپ لگ گئی تھی۔۔

 ‏لِسن۔۔۔ اینڈ ۔۔۔لِسن ۔۔کئیر۔۔فُلی۔۔ ایلکس نے غصے سے ہر لفظ چبا چبا کر کہا تھا۔۔

 ‏تم ابھی اور اِسی وقت بلکل خاموشی سے اُٹھو اور اپنا ضروری سامان پیک کرو۔۔ اور چُپ چاپ گھر سے باہر آؤ۔۔وہی گاڑی گھر کے باہر کھڑی ہے جس میں تم ائیرپورٹ سے گھر گئی تھی۔۔خاموشی سے جا کر گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔۔ کل شام کی تمہاری سیٹ بُک کروادی ہے تم کل اٹلی وآپس آؤ گی۔۔ اور ایک اور بات اگر تم نے دوبارہ سے کوئی بھی مسلہ کیا یا میری بات نہ مانی تو مسسز حجاب علی۔۔ تمہارے بھائی ۔۔باپ اور ماں ۔۔۔ اور ہاں وہ لندن میں فریال۔۔سب کے سب آپنی جان سے جائیں گے۔۔ اور یقین مانو۔۔ اتنے نقصان کے باوجود بھی تم مجھ سے بھاگ نہیں پاؤ گی۔۔

 ‏تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں گھر سے باہر انے کے لیے۔۔۔ اگر دس منٹ میں تم باہر نہ آئی تو تمہارے پاپا مرنے والوں میں پہلے نمبر پر ہوں گے اور ٹھیک گیارہویں منٹ پر ان کی ڈیڈ باڈی کی تصویر میں سینڈ کر دوں گا تمہیں۔۔ سو یور ٹائم سٹارٹ ناؤ۔۔۔۔ 

_____****

 ‏حجاب ایلکس کی وارنگ سن کر ہڑبڑا کر اُٹھی اور جلدی سے الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں ڈالنے لگی۔۔ وہ بھاگ بھاگ کر کبھی کوئی چیز اُٹھاتی اور کبھی کوئی۔۔ چیزیں بے ترتیبی سے بیگ میں سامان گھساتے ہوے اُس نے بیگ کی زِپ بند کی اور پرس اُٹھا کر اُس میں پاسپورٹ وغیرہ رکھا اور بھاگتی ہوئی گھر سے باہر نکلی۔۔تو سامنے ہی گاڑی کھڑی تھی ایک ادمی گاڑی سے ٹیک لگاۓ فون پر بات کر رہا تھا۔۔ حجاب کو آتے دیکھ کر وہ جلدی سے سیدھا ہو کر کھڑا ہوا اور فون کان سے لگاے بولا سر آگئی بی بی۔۔ 

 ‏اُس نے آگے بڑھ کر حجاب کا بیگ اس کے ہاتھ سے لیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھنے کا کہا۔۔

 ‏حجاب پھولی سانس اور کانپتے قدموں سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔

 ‏ڈرائیور نے پیچھے مُڑ کر فون حجاب کی طرف بڑھایا اور بولا بی بی سر ۔۔

 ‏حجاب نے کانپتے ہاتھوں سے فون پکڑا اور کان سے لگا کر بولی۔۔۔ ہ ہیل لو۔۔

 ‏گُڈ گرل ۔۔ اگر اسی طرح بات مانو گی تو سب ٹھیک رہے گا۔۔ ورنہ تم بہتر جانتی ہو۔۔۔

تم مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔ تم نے صرف ایک رات کا کہا تھا۔۔  ‏حجاب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے فون کو زور سے پکڑتے ہوۓ پھٹی آواز میں بولی تھی۔۔۔

اوووو بے بی کم آن فون پر یہ بحث نہیں ہو سکتی تم آؤ پھر سکون سے بات کریں گے فیس ٹو فیس۔۔ اب جا کرآرام کرو۔

 ‏ مسسز قریسی لوگ سو چکے تھے۔ اس لیے انہیں حجاب کے جانے کی کوئی خبر نہ ہوئی۔۔

 گاڑی تقریباًآدھے گھنٹے کے بعدایک گھر کے سامنے رُکی اور ڈرائیور نے جلدی سے نکل کر حجاب کی طرف کا دروازہ کھولااورحجاب چُپ چاپ گاڑی سے نکل کر ڈرائیور کے پیچھے چلتے ہوے گھر میں داخل ہوئی۔۔ 

 ‏ڈرائیور ایک کمرے میں داخل ہوا اور حجاب کا  سامان دروازے کے پاس رکھتے ہوے بولا ۔۔ 

 ‏بی بی آپ آپنا موبائل مجھے دے دیں۔۔ حجاب کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا دیکھ کر  وہ مسکراتے ہوۓ بولا۔۔بی بی سر کا حکم ہے۔۔اوراپ پریشان نہ ہوں آرام کریں۔

 ‏حجاب نے چُپ چاپ موبائل ڈرائیور کے ہاتھ میں دیا اور بُجھے قدموں سے چلتی بیڈکی طرف گئی۔۔

 ‏ہونٹوں کو دباۓ وہ خود کو رونے سے روک رہی تھی ۔۔اور اُس کا دماغ بہت سی سوچوں میں اُلجھا ہوا تھا۔۔۔ حجاب بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گئی آنسو تھے کے لاکھ کوشش کے باوجود رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔

 ‏🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

وقت کے سمندر سے

لاکھ خوہشیں چُن لو

بے بسی کی مٹھی میں

 ریت بھی نہیں رہتی۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 

 ‏ایلکس جو غصے میں سیدھا حجاب کے والدین کے گھر آیا تھا۔۔

 ‏وحید کے دروازہ کھولنے پر وہ وحید کو کالر سے پکڑے کھینچتا اندر کو بڑھا۔۔ سلمیٰ جو لیونگ روم میں بیٹھی تھی۔ ایلکس کو وحید کو کالر سے کھینچ کر لاتا دیکھ کر ایک دم سے منہ پر ہاتھ رکھتے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

 ‏ایلکس نے وحید کو صوفے پر دھکا دیا تو وہ لڑ کھڑا تا ہوا صوفے پر جا گرا ۔۔ 

 ‏اب کیا ہوا۔۔ سلمیٰ نے ڈرتے ہوۓ پوچھا تو ایلکس نے کھا جانے والی نظروں سے سلمیٰ کو دیکھا اور بولا۔۔ اُڑ رہی ہے تمہاری بیٹی بہت سبق سکھا نا ہے اُسے اتنا کہتے ہوۓ ایلکس نے وحید کی طرف دیکھتے ہوۓ اُسے حجاب کو فون ملانے کا کہا۔۔ 

 ‏وحید نے جُھک کر پاس ہی دوسرے صوفے سے فون اُٹھا کر حجاب کو کال ملائی تو ایلکس نے جلدی سے وحید کے ہاتھ سے فون چھین کر آپنے کان سے لگا لیا۔۔ 

 ‏کال رسیو ہوئی اور حجاب کی چہکتی آواز ایلکس کے کانوں میں پڑی۔۔

 ‏ہیلو پاپا کیسے ہیں۔۔

 ‏ حجاب کی آواز سن کرایلکس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔لیکن چند ہی سیکنڈ میں وہ غائب بھی ہو گئی جب اُسے حجاب کے ابوش والی بات یاد آئی۔ِ۔

 ‏ہیلو روز ہوؤ آر یو۔۔۔۔فون کے دوسری طرف جیسے خاموشی چھا گئی پر ایلکس حجاب کی بے ترتیب سانسوں کی آواز سُن سکتا تھا۔۔ 

 ‏لِسن۔۔ اینڈ لِسن کئیر فُلی۔۔۔ اتنا کہتے ہوے وہ مُڑ کر چلتا ہوا کھڑکی کے پاس چلا گیا۔۔ 

 ‏سلمیٰ اور وحید دونوں نظریں جماۓ ایلکس کو دیکھ رہے تھے لیکن وہ اب فون پر کیا کہہ رہا تھا انہیں سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔ وحید سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔ جبکہ سلمیٰ ابھی تک ایلکس کو گھورے جا رہی تھی۔۔ اُسے ایلکس ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا کیوں کے وہ جب سے اٹلی آۓ تھے ۔ایلکس ان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوۓ تھا اور سب سے بڑھ کر زوہیب جس کے بارے میں ایلکس کچھ بھی نہیں بتا رہا تھا۔۔ 

 ‏تقریباً پچھلے پندرہ منٹ سے ایلکس فون پر بات کر رہا تھا۔۔ لیکن اب وہ وحید کے فون پر نہیں بلکے آپنے فون پر بات کر رہا تھا۔۔ مزید تین چار منٹ بات کرنے کے بعد ایلکس کھڑکی کے پاس سے ہٹا اور وحید کے قریب آتے ہوۓ 

اُس کے پاس صوفے پر گراتے ہوۓ بولا۔۔ اب میں چلتا ہوں۔۔ ابھی وہ مُڑا ہی تھا کے سلمیٰ بول پڑی۔۔ 

 ‏رُکو ۔۔۔

 ‏ایلکس نے مُڑ کر سلمیٰ کی طرف بھویں اُچکا کر دیکھا۔۔۔

 ‏میرا بیٹا کب وآپس آۓ گا۔۔

 ‏ایلکس اپنی ناک انگلی سے کھجاتے ہوۓ سلمیٰ کے قریب گیا اور بولا۔۔ زوہیب ؟   کون زوہیب؟  

 ‏سلمیٰ آنکھیں پھاڑ کر ایلکس کو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ زوہیب میرا بیٹا وہ تم لوگوں کے پاس ہے۔۔ 

 ‏اووو وہ ہمممم کچھ دن بس انتظار کریں پھر ملواتے ہیں آپ کو اُس سے۔۔۔ 

 ‏پلیز اُسے چھوڑ دو۔۔ تم حجاب کو بے شک اپنے پاس رکھ لو ۔ پر زوہیب کو کچھ مت کہنا۔۔ سلمیٰ ہاتھ جوڑ کر روتے ہوۓ بولی تو وحید غصے سے کھڑا ہو گیا اور سلمیٰ کو ایک طرف دھکا دیتے ہوۓ بولا نہیں حجاب نہیں۔۔۔ پہلے بھی تم میری بچی سے پوری زندگی زیادتی کرتی آئی ہو۔۔ اب نہیں۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ ایلکس کی طرف مُڑا اور بولا۔۔ میری بیٹی کو چھوڑ دو۔۔ وہ معصوم ہے۔۔ 

 ‏ایلکس مسکراتے ہوۓ زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوۓ بولا۔۔ وہ میری بیوی ہے۔۔ اُسے چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اب وہ میرے بچے کی ماں بھی بنے والی ہے۔۔ اس لیے یہ بات تو بھول ہی جائیں کے میں اُسے چھوڑوں گا۔۔۔

 ‏ایلکس کی بات سن کر وحید جیسے سکتے میں آ گیا۔۔۔ 

 ‏ایلکس ہاتھ لہراتے ہوۓ باۓ کہتا گھر سے نکل گیا۔۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حجاب کی جب صبح انکھ کھلی تواُسے سر میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا وہ ہاتھ سے سر دباتی اُٹھ کر بیٹھی اس سے پہلے کے وہ اُٹھ کر واش روم کا روح کرتی کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک چالیس پنتالیس سال کی عمر کی عورت ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی ۔اور مسکراتے ہوے بولی ۔۔

اچھا ہوا بیٹی تم اُٹھ گئی دیکھو میں ناشتہ لائی ہوں جلدی سے ناشتہ کر لو۔۔ اور تیار ہو جاؤ۔۔ گیارہ بج رہے ہیں ۔۔ چھ بجے کی فلائیٹ ہے تمہاری۔۔ اس عورت نے بات مکلمل کر تے ہوۓ ٹرے میز پر رکھی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

حجاب واش روم گئی اور کچھ دیر بعد تولیے سے منہ صاف کرتی آکر صوفے پر بیٹھ گئ۔۔ ایک نظر کھانے کو دیکھا تو جیسے اُسے متلی آ گئی وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ  واش روم کی طرف بھاگی۔۔

اُس نےماتھے پر آۓ ٹھنڈے پسینے کو پونچھتے ہوۓ بیسن سے سر اُٹھا کر شیشے میں آپنا چہرہ دیکھا ۔۔

تو جیسے اُسے کچھ یاد آیا حجاب نے سر جھکا کر آپنے پیٹ کی طرف دیکھا۔۔ اور سوچنے لگی۔۔

ہو سکتا ہے ایلکس خود ہی میرا ابوشن کروا دے ۔۔کیوں کے اُس جیسے جانور کو بچوں سے کیا لینا دینا۔۔ وہ ابھی آپنی ہی سوچوں میں تھی کے واش روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔  حجاب نے مُڑ کر دیکھا تو وہی عورت کھڑی تھی۔۔

بیٹا ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔۔ جلدی کرو تیار بھی ہونا ہے ائیرپورٹ یہاں سے کافی دور ہے ۔۔تین گھنٹے تو جانے میں لگ جائیں گے۔۔ 

حجاب نے منہ دھویا اور باہر آتے ہوۓ بولی آپ کھانا لے جائیں بس چاۓ کا ایک کپ دے یں۔۔ 

چاۓ پینے کے بعد وہ تیار ہوئی اور ایک بجے کے ساتھ اُسی آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ کے لیے نکل گئی جو رات کو اُسے لایا تھا۔۔

وہ حجاب کو ائیر پورٹ کے اندر تک چھوڑ کر آیا ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

پچھلی شام جب سدرہ کو پری کی کال آئی اور اُس نے  بتایا کے ولی ہسپتال میں ہے اس سے زیادہ ابھی کسی کو نہیں پتہ اور صبح کی فلائیٹ سے سالار ۔حیدر اور حناء اٹلی جا رہے ہیں ۔۔وہ وہاں پہنچ کر ہی بتائیں گے کے ولی کو کیا ہوا ہے اور وہ کیوں ہسپتال میں ہے ۔ُ۔۔

سدرہ کا دل جیسے بیٹھ گیا تھا ۔۔ پوری رات کروٹیں بدلنے میں گُزر گئی عجیب عجیب وسوسے دماغ میں آتے رہے ۔۔ 

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

            کبھی  یوں  بھی  آ  میرے  روبرو

            ‏

            کے تجھے پاس پا کے میں رو پڑوں

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

            ‏

  صبح جب وہ اُٹھی تو لیٹے لیٹے چھت کو دیکھے ہی چلی گئی اب اُس کا دماغ جیسے خود ہی ہر بات کے سوال جواب دینے لگا تھا۔۔ بلآخر وہ اس نتیجے پر پہنچی کے شائد وہ ہے ہی منحوس ہے جیسے ہی اُس نے ولی کے بارے میں سوچا اِسے کچھ ہو گیا۔۔ 

  ‏اب وہ کبھی بھی کسی کے لیے آپنا دل نہیں کھولے گی۔۔ بس  ایک دفعہ پتہ چل جاۓ ولی  ٹھیک ٹھاک ہے ۔۔وہ کبھی اُس کے بارے میں دوبارہ نہیں سوچے گی وہ خود کو یہ سمجھا رہی تھی اور چھت کو گھورے جا رہی تھی۔۔ تب ہی اُس نے جلدی سے آنسوؤں سے بھرا چہرہ صاف کیا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی اور لمبی سانس لیتے ہوۓ بولی بس اب بس۔۔۔ سدرہ بہت ہو گیا ۔۔ اب تم آپنی وجہ سے کسی اور کو تکلیف نہیں دو گی۔۔ 

  ‏بلال حمزہ اور نسیم بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب سدرہ سیڑھیاں اُترتی آئی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور ٹیبل پر پڑے کھانے کو دیکھ کرسنجیدگی سے  بولی امی آپ نے میرا آملیٹ نہیں بنایا۔۔ 

  ‏نہیں وہ میں سمجھی تم ابھی اور سو گی تو میں نے نہیں بنایا۔۔نسیم منہ میں ڈالا نوالہ نگلتے ہوۓ بولی۔۔ 

  ‏سدرہ نے خاموشی سے ایک فرائی انڈہ اُٹھایا اور کھانا کھانے لگی۔۔

  ‏ٹیبل پر بیٹھے تینوں ماں بیٹوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا کیوں کے سدرہ نے کبھی بھی فرائی انڈہ نہیں کھایا تھا۔۔

 اس سے پہلے کے سدرہ دوسرا نوالہ منہ میں ڈالتی ‏نسیم نے ہاتھ بڑھا کر سدرہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور سر ہلاتے ہوۓ بولی میں ابھی لاتی ہوں تم ٹھرو یہ مت کھاؤ تمہیں یہ پسند نہیں ہے۔۔

 ‏سدرہ نے نوالہ واپس پلیٹ میں رکھ دیا اور ماں کو دیکھتے ہوۓ بولی امی مجھے یہ سب کچھ بھی پسند نہیں جو کچھ میرے ساتھ ہوا ۔۔تو کیا آپ وہ سب بھی بدل دیں گی۔۔۔

 ‏نسیم نے نم انکھوں سے سدرہ کی طرف دیکھا اور بولی کاش میری جان میں بدل سکتی۔۔

 ‏نہیں امی آپ لوگ بدل سکتے ہیں ۔۔سدرہ اب ماں اور بھائیوں کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔بس آپ لوگ ایک وعدہ کریں مجھ سے ۔۔ 

 ‏بلال اب کی بار سب سے پہلے بولا۔۔ کیا وعدہ میری چڑیا۔۔۔

 ‏سدرہ نے ماں کے دونوں ہاتھ آپنے ہاتھوں میں لیے اور بولی ۔۔۔یہ کے آج کے بعد اس گھر میں آپ لوگ میری شادی کو لے کر کبھی بھی کوئی بات نہیں کریں گے کبھی بھی نہیں۔۔ اتنا کہتے ہوۓ سدرہ نے حمزہ کی طرف دیکھا اور دوبارہ بولی ۔۔۔یہاں تک کے ولی کے ساتھ بھی نہیں ۔۔ کسی کے ساتھ نہیں۔۔ سدرہ کا انداز انتہائی دوٹوک تھا۔۔ 

 ‏نسیم بلال اور حمزہ کو جیسے چُپ لگ گئی۔۔۔

 ‏سدرہ ماں کے ہاتھ چھوڑتے ہوۓ دوبارہ کھانے میں مصروف ہو گئی ۔۔جبکے ساتھ بیٹھے تینوں لوگوں کی بھوک تو جیسے ہوا میں اُڑ گئی تھی۔۔ نسیم اِک ٹک سدرہ کو دیکھے جا رہی تھی۔۔ بلال ہاتھ صاف کرتا اُٹھ کر چلا گیا۔۔۔

 ‏حمزہ کبھی سدرہ کی طرف دیکھتا اور کبھی ماں کی طرف جو ہونٹ دباۓ خود کو رونے سے روک رہی تھی۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 

حناء ولی کا ہاتھ پکڑے رو رہی تھی جبکے حیدر جیسے بُت ہی بن گیا تھا۔۔ وہ  ولی کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جو مکمل مشینوں کے سہارے سانس لے رہا تھا۔۔ 

سالار نے ولی کو بس ایک ہی نظر دیکھا تھا۔۔ اُس کے بعد اُس کی ہمت ہی نہیں پڑی تھی۔ کے نظر اُٹھا کر دیکھتا۔۔وہ کچھ کچھ دیر بعد آنکھ سے نکلتے آنسو پونچھتا سر جھکاۓ کھڑا تھا۔۔۔

ایلکس نے حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ انہیں باہر آنے کا اشارہ کیا۔۔

حیدر نے آگے بڑھ کر حناء کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور باہر لے آیا ۔۔  

حناء بس بھی کر دو تم خود ایک ڈاکٹر ہو ۔۔ ایسے کیسے ہمت ہار سکتی ہو تم۔۔۔ حیدر نے حناء کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔۔

ہاں ہوں میں ڈاکٹر اور کاش میں نہ ہوتی تو کچھ تو اُمید رہتی میرے دل میں کے میرا بیٹا ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔۔ ڈاکٹر ہوں اسی لیے تو سب صاف صاف پتہ ہے کے وہ کس حالت میں ہے۔۔ حناء روتے ہوۓ بولی اور حیدر کے سینے سے لگ  گئی ۔۔حیدر ہمارا بچہ ہمارا ولی دیکھو نا۔۔ 

حیدر جو کب سے خود کو روکے ہوۓ تھا اب جیسے آنسو خود باخود ہی بہنے لگے تھے۔۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹ایک ڈرائیورحجاب کو ائیر پورٹ سے ایلکس کے مینشن لایا۔۔جہاں وہ پہلے رہ کر گئی تھی۔۔ وہاں کے سب ملازموں کو حجاب جانتی تھی۔۔ 

حجاب کو آۓ پورا دن ہونے کو تھا پر ایلکس گھر نہیں آیا۔۔ 

وہ جب سے آئی تھی اپنے کمرے میں ہی تھی ۔۔

____*** 

ایک دن رہنے کے بعد حیدر لوگ وآپس پاکستان چلے گئے۔۔ کیوں کے اٹلی رہنے کا فائدہ ہی نہیں تھا ولی کی ساری حالت اُن کے سامنے تھی۔۔ وہ اِس حالت میں اُسے پاکستان بھی نہیں لا سکتے تھے ۔۔وہ نااُمید سے پاکستان لوٹ گئے۔۔۔

 ایلکس لیٹ رات جب حیدر لوگوں کے جانے کے بعد فارغ ہوا تو آپنے مینشن کی طرف گاڑی گھما دی۔۔ 

 ‏آج حجاب کو آۓ دوسرا دن تھا پر وہ حیدر لوگوں کی وجہ سےگھر نہیں گیا تھا۔۔

 ‏وہ گھر آ کر سیدھا حجاب کے کمرے کی طرف گیا۔۔ دروازے کا ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو حجاب صوفے پر سو رہی تھی۔۔ 

 ‏ایلکس پاؤں کے پنجوں کے بل حجاب کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔ اس کے چہرے پر آۓ بالوں کو اپنی انگلی سے ہٹا کر حجاب کے چہرے کو باغور دیکھتے ہوۓ مسکرا کر بولا۔۔ ہممم میری وائف کمزور ہو گئی ہے چلو کوئی نہیں اب میں ہوں نا پورا دھیان رکھوں گا اپنی پرنسسز کا اتنا کہتے ہوۓ ایلکس نے نظر جھکا کر حجاب کے پیٹ کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور بھی بڑھ گئی۔۔ وہ حجاب کے پیٹ کے قریب منہ لے جاتے ہوۓ شوخ سے انداز میں سرگوشی کرتے ہوۓ بولا ۔۔اور آپنی اس پرنسسز کا بھی۔۔لیکن پہلے تمہاری مما کو کچھ تمیز سکھانی ہے ۔۔ اس کی کچھ سزا باقی ہے۔۔

 ‏وہ اُٹھا اور حجاب کو بازوں میں اُٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا اور کمبل اُس پر دیتے ہوۓ  جھک کر حجاب کے ماتھے پر پیار کیا اور بولا۔۔ صبح ملتے ہیں۔۔ اتنا کہتے ہوۓ ہو کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

 ‏صبح جب حجاب کی انکھ کھلی تو خود کو بیڈ پر دیکھ کر وہ جلدی سے اُٹھ بیٹھی۔۔ سارے کمرے کو نظر گھما کر دیکھا ۔۔ اور حیرت سے بولی۔۔میں تو صوفے پر تھی بیڈ پر کیسے آ گئی۔۔ ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کے دروازہ کھلا اور ایلکس کمرے میں داخل ہوا۔۔

 ‏حجاب جلدی سے کمبل ہٹا کر بیڈ سے لڑکھڑاتے ہوۓ اُٹھی۔۔وہ کیسے ہی گرتے گرتے بچی تھی۔۔

 ‏ایلکس کو حجاب کی یہ بے احتیاطی بلکل پسند نہیں آئی تھی۔ لیکن اُس نے ظاہر نہیں کیا کیوں کے وہ ابھی حجاب پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کے اُسے پریگنینسی کا پتہ ہے ۔ وہ یہ بات حجاب کے منہ سے سنا چاہتا تھا۔۔ 

 ‏ایلکس سنجیدہ سے انداز میں حجاب کو دیکھتے ہوۓ بولا۔۔ ہممم۔۔کئیر ٹو ایکسپلین ۔جو کچھ پاکستان میں تم نے کیا۔۔۔۔ہممم ۔۔ایلکس بات کرتے ہوۓ قدم اُٹھاتا حجاب کی طرف بڑھا ۔۔

 ‏حجاب جو پہلے خوف سے کانپ رہی تھی ایلکس کو قریب آتے دیکھ کر وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ 

 ‏مسسز حجاب علی میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔ایلکس اب کی بار دانت پیستے ہوۓ غصے سے بولا۔۔

 ‏و و ہ م م یں۔۔حجاب اتنا ہی کہہ پائی تھی۔۔

 ‏کیا وہ میں ہاں بولو۔۔ اب حجاب ایک قدم اور پیچھے بڑھانے لگی  تو۔ 

 ‏خبردار جو مزید ایک قدم بھی تمہارا پیچھے گیا تو۔۔ ایلکس نے غصے سے انگلی ہلاتے ہوۓوارننگ دیتے ہوۓ  کہا۔۔ 

 ‏ایلکس نے اگے بڑھ کر ایک ہاتھ سےحجاب کو بازو سے پکڑ لیا ۔۔اور دوسرا بازو اُس کی کمر کے گرد گھما کر اُسے آپنے اور بھی قریب کرتے ہوۓ بولا۔۔  کچھ ایسا جو تمہیں مجھ سے شئیر کرنا چاہیے۔۔ 

 ‏حجاب نے ایک دم سے سر اُٹھا کر ایلکس کو دیکھا تو وہ پہلے سے ہی مسکراتے ہوۓ اُسی کو دیکھ رہا تھا۔۔ 

 ‏حجاب نے گلے میں آۓ تھوک کو نگلا اور نفی میں سر ہلا دیا۔۔ 

 ‏دیکھو حجاب میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کے تم مجھے کچھ ایسا بتانا چاہو گی جو مجھے پتہ ہونا چاہیے۔۔ 

 ‏اب کی بار ایلکس کی اواز میں سختی تھی ۔۔ 

 ‏حجاب نے ہمت کرتے ہوۓ ایلکس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور بولی۔۔ آئی ایم پریگنینٹ۔۔

 ‏ایلکس حجاب کی بات سُن کر سر ہلاتے ہوۓ مسکرا کر بولا ۔۔ہمم اور اور کچھ؟؟؟

 ‏حجاب جو ابھی تک ایلکس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔دوبارہ سے بولی۔۔ اور مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے ۔۔میں ابورشن کروانا چاہتی ہوں۔۔

 ‏ایلکس نے بجلی کی تیزی سےجو ہاتھ حجاب کی بازو پکڑے تھا حجاب کے سر کی طرف لایا اور اُس کے سر کے پیچھے کے بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر زور سے کھینچتے ہوۓ بولا۔۔ ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔ 

 ‏درد سے حجاب کے منہ سے چیخ نکلی۔۔

 ‏اور وہ آپنے دونوں ہاتھوں سے ایلکس سے آپنے بال چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔

 ‏ہاؤ ڈئیر یو حجاب تم نے ایسا سوچا بھی کیسے ۔۔تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو ہمارے بچے کے بارے میں۔۔ایلکس بڑھکتے ہوۓ بولا تھا۔۔

 ‏حجاب نے غصے سےایلکس کی طرف دیکھا اور بولی یہ بچہ تمہاری حیوانیت کا نتیجہ ہے ۔تم غیر مذہب ہو اور میں مسلمان ہوں۔ یہ ناجائز اور حرام ہے۔۔ میں اس گندگی کو آپنے اندر نہیں رکھوں گی۔ حجاب کا جملہ ابھی پورا ہی ہوا تھا کے اُس کے گال پر زور دار تھپڑ پڑا اور وہ چکرا کر ابھی زمین پر گرنے ہی لگی تھی کے ایلکس نے بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے سیدھا کھڑا کیا اور حجاب کے سنبھلنے سے پہلے ہی اُس کی دوسری گال پر بھی زوردار تھپڑ مارا۔۔۔اب حجاب کو جیسے آنکھوں کے اگے اندھیرا ہوتا محسوس ہوا ایلکس نے اُسے دوبارہ سے بالوں سے پکڑا کھینچ کر آپنے چہرے کے قریب اُس کا چہرہ لاتے ہوے بولا۔۔ اچھا تم خود کو  مسلمان کہتی ہو ہممم ۔۔تمہارا اسلام ایک بچے کو مارنے کی اجازت دیتاہے؟ ابورشن کی اجازت دیتا ہے؟۔۔اور کیاکہا یہ میری حیوانیت کا نتیجہ ہے ہممم۔۔ مسسزحجاب علی تم نے ابھی میری حیوانیت دیکھی ہی کب ہے اور جانتی ہو تم مجھ سے بڑی حیوان ہو جو آپنے ہی بچے کو مارنا چاہتی ہو ۔میں نے آج تک کسی بے گناہ کو نہیں مارا لیکن تم تو مجھ سے بھی بد تر ہو ۔جو ایک معصوم بچے کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دینا چاہتی ہو۔اور وہ بچہ اور کوئی نہیں خود ہمارا اپنا ہے۔۔ لیکن کیا ہے نا کے تمہارا بھی کوئی قصور نہیں تم بھی اپنی ماں کی طرح ہو۔نہیں بلکے اُس سے بھی بڑھ کر ہو۔اُس نے تمہیں مارا نہیں تھا صرف پاس نہیں رکھا۔لیکن تم تو  ۔۔۔ایلکس نے جملہ ادھورا چھوڑا۔اور حجاب کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا۔۔یہ ہمارا بچہ ہے اور  اب اگر ایک بھی لفظ ہمارے بچے کے بارے میں کہا یا ہمارے بچے کو کوئی بھی نقصان پہنچا۔۔ تو یاد رکھنا وہ حال کروں گا تمہارا کے آپنے پیدا ہونے پر پچھتاؤ گی۔تم یہ بچہ ہر حال میں پیدا کرو گی۔ اتنا کہتے ہوۓ اس نے حجاب کے بال چھوڑے اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔ کیوں کےوہ جانتا تھا کے اگر وہ ایک منٹ بھی حجاب کے سامنے رہا تو وہ آپنے غصے پر قابو نہیں کر پاۓ گا۔۔ 

 ‏حجاب جس کا سر تھپڑوں کی وجہ سے گھوم گیا تھا وہ روتے ہوۓ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔

 ‏ایلکس نے ایک ملازمہ کو بُلا کر حجاب کا ناشتہ لے جانے کو کہا اور سختی سے ہدایت کی کے حجاب کو ہر حال میں ناشتہ کروانا ہے اگر وہ نہ کرے تو مجھے بتانا ہے۔ ملازمہ کو سمجھانے کے بعد وہ گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔

 ‏حجاب بیڈ کے پاس ہی زمین پر گرپڑی اور چلاچلا کر رونے لگی۔۔ 

 ‏کچھ ہی دیر بعد ایک ملازمہ کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی ۔

 ‏میڈم آپ کا ناشتہ ۔۔

 ‏مجھے نہیں کرنا لے جاؤ یہاں سے حجاب نے روتے ہوۓ کہا۔۔

 ‏نہیں میڈم سر نے سختی سے کہا ہے کے آپ کو ناشتہ لازمی کروانا ہے ۔اگر آپ نہ کیاتو اُنہیں بتانا ہے۔۔ میڈم آپ پلیز ناشتہ کر لیں سر پہلے ہی بہت غصے میں تھے۔۔آپ کا تو مجھے پتہ نہیں پر میری نوکری ضرور جاۓ گی اگر آپ نے نہ کیا تو۔اب ملازمہ پریشانی سے بولی تھی۔۔

 ‏ایلکس کا سن کر حجاب ڈر گئی اور اُٹھ کر واش روم کی طرف جاتے ہوۓ بولی ۔۔تم جاؤ میں کر لیتی ہوں۔۔

 ‏🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

 ‏سدرہ کو پری نے فون پر ولی کی حالت کے بارے میں روتے ہوۓ بتایا۔۔

 ‏تو سدرہ کو  جیسے آپنے دل سے ٹیس سی اُٹھتی محسوس ہوئی۔ سدرہ نے جلدی سے اپنی آنکھوں کے کونوں سے آنسو ٹپکنے سے پہلے ہی صاف کیۓ اور پری کو کوئی جواب دئیے بغیر ہی فون بند کر دیا۔۔اپنی گود میں دونوں ہاتھ رکھے وہ کتنی ہی دیر صحن میں پڑے تخت پر بیٹھی سامنی دیوار کو گھورتی رہی۔۔اُس کے دل اور دماغ کے درمیان جنگ سی لگی تھی۔۔ دل چیخ چیخ کر رونے کو کہہ رہا تھا۔ لیکن دماغ ہر چیز کو بھول کر آگے نکل جانے کا کہہ رہا تھا۔۔ سدرہ نے کافی دیر بعد لمبی سانس لی اور نظر گھما کر پورے صحن کو دیکھارات کے دس بج رہے تھے۔۔ یہ وہی صحن تھا جہاں وہ شام کے بعد اکیلی نہیں آتی تھی کے ڈر لگتا ہے۔ اور آج ۔۔آج جیسے دل میں ڈر نام کی کوئی چیز باقی نہ تھی ۔۔ وہ آپنی ہی سوچوں میں گُم تھی جب بلال نے سدرہ کو صحن میں پڑے تخت پر بیٹھا دیکھا۔وہ اُس کے پاس آ کر  بیٹھ گیا۔۔ 

 ‏اُس نے ہلکے سے گلا صاف کرتے ہوۓ سدرہ کو آپنی طرف مخاطب کیا۔۔ 

 ‏سدرہ نے سر گھما کر پاس بیٹھے بلال کی طرف دیکھا اور سر بلال کی گود میں رکھ کر تخت پر سمٹ کر لیٹ گئی۔۔

 ‏چڑیا ۔۔۔ 

 ‏ہممم بھائی۔۔۔

 ‏بھائی کی جان بتاؤ بھائی آپنی چڑیا کی پہلے والی مسکراہٹ کیسے وآپس لاۓ۔۔ 

 ‏سدرہ اُٹھ کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور بلال کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ بھائی ہم کہیں اور چلتے ہیں اس شہر سے دور بہت دور جہاں ہمیں کوئی نہ جانتا ہو۔۔ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نئی زندگی۔۔۔

 ‏بلال جو خود بھی کافی ٹوٹ چکا تھا اُس نے بھی تو کچھ کم دکھ نہیں دیکھے تھے۔۔آپنا بچہ کھویا تھا۔اُس کا بھی گھر اُجڑ گیا تھا۔۔وہ مسکرایا اور سدرہ کو دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔ تم نے میرے دل کی بات کی ہے۔۔میں بھی یہاں سے دور جانا چاہتا ہوں۔چلو کرتے ہیں کچھ اتنا کہتے ہوۓ بلال اُٹھا اور یہ کہتااندر کی جانب چل پڑا۔۔ رات کافی ہو رہی ہے اندر آؤ اور سو جاؤ ۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

میرے ہاتھ سے تیرے ہاتھ تک

وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ

کئی موسموں میں بدل گیا

اسے  ناپتے  اسے کاٹتے

میرا سارا وقت نکل گیا

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

دو دن ہو چکے تھے ۔حجاب کو ایلکس کا سامنا کئے۔اُس کے چہرے پر پڑے ایلکس کی انگلیوں کے نشان اب کافی حد تک کم ہو چکے تھے۔اور ایلکس دوبارہ ابھی تک حجاب کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔۔وہ حجاب کو ٹائم دینا چاہتا تھا کیوں کے اُسے اندازہ تھا کے وہ اس کی کہی باتوں پر ضرور غور کرے گی۔۔

 پچھلے دو دن سے حجاب کے دماغ میں ایلکس کی کہی باتیں گھوم رہی تھیں۔۔ کتنی ہی کوشش کی تھی اُس نے کے وہ ایلکس کی باتوں پر توجہ نہ دے پر دماغ تھا کے کچھ اور سوچنے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔

 ‏وہ صوفے پر سمٹی بیٹھی تھی۔۔ تبھی اس نے ایک ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا اور دوسرا ہاتھ منہ پر رکھتے ہوۓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔

 ‏سوری ۔۔۔۔پلیز ماما کو معاف کر دینا۔۔ مما بہت کنفیوز تھیں۔۔سوری بے بی مما کو اپنے بے بی کے بارے میں ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا۔۔ حجاب روتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔ کیوں کے اب اُسے احساس ہوا تھا کے وہ کتنی خودغرض ہو گئی تھی کے اُسے ایک دفعہ بھی احساس نہیں ہوا کے وہ کتنا بڑا گناہ کرنے جا رہی تھی۔۔اور وہ ایلکس پر غصے میں اپنے بچے کو بھول گئی تھی۔۔

 ‏ایلکس جو دروازے میں کھڑا حجاب کو روتے ہوۓ دیکھ رہا تھا۔۔ہلکے سے قدم اُٹھاتا اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔

 ‏جبکہ حجاب آپنے ہی غم میں روۓ جا رہی تھی اور جو منہ میں آ رہا تھا بولے جا رہی تھی۔۔ پہلے تو ایلکس حجاب کی بات سن کر ریلیکس ہو گیا پر دوسرے ہی لمہے حجاب کی اگلی بات سن کر جیسے اس کے ناک اور کان سے غصے سے دھواں نکلا تھا۔۔

 ‏اُس نے ایک ہاتھ سےحجاب کو گلے سے پکڑا اور کھینچ کر آپنے سامنےکھڑا کیا اور دانت پیستے ہوۓ بولا۔۔۔ زرہ دوبارہ بولو کیا کہا۔۔

______*****

 ‏حجاب جو روتے ہوۓآپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اس بات سے انجان کے ایلکس اُس کے قریب ہی کھڑا سب سن رہا ہے۔ دوبارہ بولی۔۔مما اپنے بے بی کو کچھ نہیں ہونے دیں گی۔۔ مما آپ کو لے کر بہت بہت دور چلی جائیں گی۔۔اس حیوان کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گی آپنے بے بی پر۔۔۔بس اتنے لفظ حجاب کے منہ سے نکلے تھے کے اُسے لگا جیسے وہ ہوا میں اُڑی تھی۔کسی نے اسے گلے سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا اور وہ کوئی اور نہیں ایلکس تھا۔ اور اس کا سوال سن کرحجاب کی  جیسے ہوائیاں اُڑ گئ ۔۔۔

_______*****

حجاب کو خاموش دیکھ کر ایلکس نے اس کے گلے پر ہاتھ کو اور دباتے ہوۓکہا۔۔ میں نے کہا۔ ۔۔۔دوبارہ بولو جو ابھی کچھ دیر پہلے بولا۔۔۔

حجاب روتے ہوۓ بولی۔۔س سوری۔۔

کیا سوری ہممم ایلکس نے حجاب کا گلہ پھوڑ کر اس کے چہرے کو زوردار طریقے سے پکڑا اور بولا۔۔ایک بات آپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو۔ کے تم میری بیوی ہو اور یہ بچہ میرا ہے۔۔ نہ تو تم کہیں جا سکتی ہو اور نہ ہی یہ بچہ۔۔ صرف موت ہی ہمیں الگ کر سکتی ہے۔ اور یہ بات جتنی جلد ہو سکے قبول کر لو۔۔۔۔

ایلکس نے حجاب کا چہرہ چھوڑا اور لمبی سانس لیتے ہوۓ۔۔۔

 آپنے غصے کو قابو کیا۔اور کچھ دیر آنکھیں بھینچنےکے بعد وہ قدرے نرمی سے بولا۔۔۔حجاب دیکھو ۔۔۔وہ کچھ دیر رُکا اور دوبارہ سے بولا۔۔۔ دیکھو میں جانتا ہوں کے جو کچھ میں نے کیا وہ تمہارے لیے قابلے قبول نہیں تھا۔۔ لیکن ۔۔۔پلیز ۔۔۔بس ایک دفعہ صرف ایک دفعہ تم ہمارے رشتے کو موقعہ دو۔میرے لیے نہ سہی ہمارے بچے کے لیے کیوں کے اسے ہم دونوں کی ضرورت ہے۔اور یہ بات میرا حیال ہے کے تم بھی سمجھتی ہو کے اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو بچہ کس اذیت سے گزرتا ہے۔ اور میں پوری کوشش کروں گا کے تمہیں کوئی شکایت نہ ہو مجھ سے۔۔ 

حجاب نے سر اُٹھا کر ایلکس کی طرف دیکھا۔جو پہلے سے ہی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ ایلکس کے چہرے پر اب غصے کی بجاۓ بَلا کی سنجیدگی تھی۔۔ 

حجاب واقعے ہی سمجھتی تھی۔کے بچے کے لیے  ماں باپ دونوں کا ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے۔۔خود حجاب ساری زندگی آپنی ماں کے ہوتے ہوۓ کیسے اس کی محبت کو ترسی تھی۔۔۔

حجاب اور ایلکس کافی دیر کچھ کہے بغیر ہی ایک دوسرے کو دیکھے گۓ۔۔ایلکس کے لفظ حجاب پر جیسے اثر کر رہے تھے اور اس کا دل ایلکس کی باتوں کو ماننے لگا تھا۔۔وہ چُپ چاپ ایلکس کو دیکھتی چلی گئی۔۔

ایلکس نے ہاتھ بڑھا کر حجاب کے گال پر آۓ آنسواپنی انگلیوں سے صاف کۓ اور اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا۔۔

لُک بے بی میں کوئی پرنس چارمینگ نہیں ہوں جو زیادہ میٹھی میٹھی باتیں کروں گا۔ ۔میں بہت شارٹ ٹیمپر ہوں۔۔ اس لیے کوشش کرنا کے مجھے غصہ نہ آۓ۔۔ اور ہاں۔۔تم اگر میری بیوی ہو اور میرے بچے کی ماں بنے والی ہو تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کے مجھے تم پسند ہو۔۔ پیار کرتا ہوں تم سے میں تمہارے لیے کوئی پریوں کی کہانی جیسی زندگی کا وعدہ نہیں کرتا۔۔پر ہاں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کے ایک اچھی زندگی دینے کی کوشش کروں گا۔۔تم میری زندگی میں آخری عورت ہوگی۔۔ اورمیں کبھی تمہیں دھوکا نہیں دوں گا۔۔تمہارے لیے اور اپنے بچے کے لیے جان دے بھی دوں گا اور لے بھی لوں گا۔۔۔لیکن بدلے میں مجھے صرف اور صرف وفاداری چاہیے۔۔ بھروسہ چاہیے۔۔وہ کبھی مت توڑنا۔۔ایلکس نے جب حجاب کو ایک ٹک آپنی طرف دیکھتے اورجواب میں سر ہلاتے دیکھا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔ایلکس نے بازو سے کھینچ کر حجاب کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کے سر پر پیار کرتے ہوے بولا۔۔۔

اب اتنی بھی کیوٹ نہ دکھو۔۔ کیا جان لو گی آپنے شوہر کی۔۔۔

حجاب نے ایلکس کے سینے سے ہلکا سا سر اُٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور بولی۔۔ تم واقعے ہی مجھے پسند کرتے ہو۔۔۔۔

ایلکس نے سر جھکا کر حجاب کے ماتھے کو چوما اور بولا۔۔۔ تبھی تم سے شادی کی ہےاور تم میری بیوی ہو ورنہ ۔۔۔۔۔

حجاب نے ایلکس کی بات کاٹ دی اور پیچھے ہٹتے ہوۓ بولی۔۔۔ لیکن میں ۔۔۔ مطلب ۔۔تم ۔۔۔ مسلم۔۔۔۔

ایلکس جو ابھی بھی حجاب کو دونوں کندھوں سے پکڑے ہوے تھا۔۔مسکرایا اور دوبارہ حجاب کو بازوں میں لیتے ہوۓ بولا۔۔۔  بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيْم   لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ‎ ۔۔۔

حجاب کو جیسے کرنٹ لگا تھا وہ اُچھل کر ایلکس سے الگ ہوئی تھی۔۔اور آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتے ہوۓ بولی۔۔ کب؟  کب  مسلم ہوۓ۔۔۔

ایلکس مسکرانے لگا اور حجاب کو آنکھ مارتے ہوۓ بولا۔۔ بے بی بس ابھی کے لیے اتنا ہی۔میں جانتا ہوں کے بہت سے سوال ابھی تم نے کرنے ہیں ۔۔فکر مت کرو سب سوالوں کے جواب دوں گا پر۔ابھی نہیں کیوں کے مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ اب میرے ساتھ چلو نیچے اور مجھے آپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے کچھ بنا کر کھلاؤ۔۔تاکے مجھے بھی شادی شدہ ہونے کی فیلنگ آۓ۔۔۔اتنا کہتے ہوۓ ابھی وہ مُڑا ہی تھا کے اُس کا فون بجنے لگا ایلکس نے جیب سے فون نکال کر رسیو کرتے ہوے کان سے لگایا ۔۔اور اوکے ٹھیک ہے کہتے ہوے فون بند کر دیا اور حجاب کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔۔بے بی آج تم آرام کرو مجھے ضروری کام ہے میں چلتا ہوں۔اور ہاں تم ارام سے گھر میں گھوم پھر سکتی ہو ۔۔باہر جاؤ گارڈن میں گھوموں تاکہ تمہارے دماغ کو ہوا لگے اور کچھ تھوڑی سی عقل بھی آۓایلکس نے شرارت کرتے ہوۓ کہا۔تو حجاب ہلکے سے مسکرا دی ۔۔

 ایلکس نے حجاب کے ماتھے پر پیار کیا اور کمرے سےباہر نکل گیا۔۔۔۔

 ‏حجاب کتنی ہی دیر دروازے کی طرف دیکھتی رہی جہاں سے ایلکس باہر گیا تھا۔۔تبھی ایک دم سے اس کے دماغ میں مسسز قریشی کی کہی بات آئی۔۔کے چاہے مرد کتنا بھی ظالم یا سخت مزاج ہو عورت ایک نہ ایک دن اپنی محبت سے اسے بدل ہی لیتی ہے ۔۔۔۔لیکن اس کی یہ شرط ہے کے وہ عورت اس کی محبت ہو۔۔ اور تم ایلکس کی محبت ہو تبھی تو اس نے تمہیں بیوی کی حیثیت دی ورنہ وہ تمہیں اپنے پاس ویسے بھی رکھ سکتا تھا۔۔۔تم اس کی محبت کو استعمال کر کے اسے اچھا انسان بنا سکتی ہو ۔۔

 ‏

_______*****

ایلکس کاپورہ دن ولی کے ڈسچارج ہو کر فرینکو کے مینشن میں شِفٹ ہونے میں گُزر گیا۔۔۔

ولی جو اب جسمانی طور پر تو بہتر تھا پر کومے سے باہر نہیں آیا تھا ۔۔اور نہ ہی پتہ تھا کے وہ کب تک ہوش میں آۓ گا۔اس لیے فرینکو نے ولی کو آپنے مینشن میں شفٹ کروا لیا۔۔ اور اس کے لیے نرس اور ڈاکٹر کا بھی انتطام کر لیا تاکہ ولی اس کی نظروں کے سامنے رہے۔۔

______******

 اگلے دن صبح جب حجاب کی آنکھ کھلی تو  سامنے ہی تکیے پر ایلکس کا چہرہ تھا جو رات دیر سے گھر آیا تھا جب وہ سو چکی تھی۔۔

حجاب کافی دیر ایلکس کو دیکھتی رہی جو سوتے ہوۓ کتنا معصوم لگا تھا اسے۔۔حجاب نے ہاتھ بڑھا کر ایلکس کے ماتھے پر آۓ بال آرام سے پیچھے ہٹاۓ۔ابھی وہ ہاتھ واپس ہٹانے ہی لگی تھی کے ایلکس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آپنے گال پر رکھا اور آنکھیں کھولے بغیر ہی  بولا۔ بے بی نظر لگانے کا ارادہ ہے۔۔

حجاب نے گھبرا کر جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔

ایلکس  بھی مسکراتے ہوۓ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور بیڈ سے اُتر کر واشروم کی طرف چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ بال خشک کرتا باہر آیا اور حجاب کی طرف دیکھ کر بولا فریش ہو کر نیچے آ جاؤ۔۔ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

جب حجاب ڈائینگ ہال میں آئی تو میڈ کھانا ٹیبل پر لگا رہی تھیں اور ایلکس فون پر بزی تھا۔۔ 

دونوں نے ناشتا خاموشی سے کیا۔ناشتے کے بعد۔ ایلکس نے حجاب کو ہاتھ سے پکڑا اور باہر گارڈن میں لے آیا حجاب کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دوسری کرسی کھینچ کو خود حجاب کے بلکل سامنے بیٹھتے ہوۓ اس کے دونوں ہاتھ آپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے بولا۔۔

لُک بے بی۔ آج جتنے سوال تمہارے دماغ میں ہیں سب کر لو میں وعدہ کرتا ہوں کے ہر بات کا جواب سچ ہو گا۔۔۔ کیوں کے میں روز روز سوال جواب کا عادی نہیں ہوں۔۔ اور میں ہم دونوں میں سکون چاہتا ہوں۔۔

حجاب جو اپنے اور ایلکس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے نظر اُٹھا کر ایلکس کی طرف دیکھا اور دھیمے سے بولی۔ تم مسلمان میرے لیے  ہوۓ۔۔

نہیں بلکل نہیں ۔۔میں پہلے سے مسلم لوگوں کی عزت کرتا تھا ۔۔لیکن جب نوحہ اٹلی آیا اور میں نے اسے دیکھا ۔۔کے وہ ہمارے درمیان ہوتے ہوۓ بھی کیسے خود کو روکے ہوۓ تھا۔۔ اس نے کبھی شراب نہیں پی۔۔ کلب بھی وہ صرف کام سے جاتا ۔۔کتنی ہی لڑکیاں اس کے آگے پیچھے رہی لیکن مجال ہے جو کبھی اس نے نظر اُٹھا کر بھی دیکھا ہو۔۔ بس اس کا کریکٹر اور آپنے مذہب کی پابندی میرے دل کو لگی۔۔ اس کا ایک ہی لڑکی سے وفادار ہونا مجھے اچھا لگا۔۔ مجھے سمجھ آئی کے اسلام کتنا پُرسکون اور محبت بانٹنے والا دین ہے۔۔ نوحہ ہی نے میری مدد کی اسلام کو مزید سمجھنے میں اور اُسی نے میرا نام علی سلیکٹ کیا۔۔ کیوں کے بقول اُس کے میں زرہ غصے والا ہوں تو یہی نام مجھے سوٹ کرتا ہے۔۔

حجاب نے  سر ہلایا اور بولی۔۔۔ لیکن تم مافیا سے تعلق رکھتے ہو۔۔  

ایلکس نے حجاب کے ہاتھ زرہ زور سے پکڑے اور بولا۔۔لُک ۔۔ہاں میرا تعلق ہے انڈر ورلڈ سے پر ہم گورنمنٹ کے لیے کام کرتے ہیں ہمیں گورنمنٹ کی سپورٹ ہے۔۔ آسان الفاظ میں تم یہ سمجھ لو کے ہم گندگی صاف کرنے کے لیے گندگی میں اُترے ہیں۔۔ کیوں کے گند صاف کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔۔انڈر سٹینڈ؟ ایلکس نے آنکھیں اُچکاتے ہوۓ پوچھا ۔۔تو حجاب نے سر ہلا دیا۔۔

ہمم اور ۔۔اور کچھ۔۔۔

ز۔زوہیب کہاں ہے۔حجاب نے اٹکتے ہوۓ پوچھا۔۔

وہ زندہ ہے جیل میں ہے ۔۔ اسے ہم نے ڈرگ کیس میں پانچ سال کے لیے اندر کروا دیا ہے ۔کیوں کے اُس نے جو سدرہ کے ساتھ کیا کوئی سزا تو اسے ملنی چاہیے تھی۔۔۔

اور میرے مما پاپا اور فریال ممی؟

وہ سب آپنے آپنے گھروں میں ہیں سب ٹھیک ہیں وہ تو میں نے تمہیں ڈرانے کے لیے سب کیا تھا۔۔

حجاب نے غصیلی نظروں سے ایلکس کو دیکھا تو وہ قہقہ لگا کر ہسنے لگا اور حجاب کے ماتھے پر پیار کرتے ہوے بولا۔ غصے میں کتنی کیوٹ لگتی ہو ۔۔

حجاب نے مسکرا کر ایلکس کی طرف دیکھا اور بولی تو اس کا مطلب میں آپنے ماما پاپا سے مل سکتی ہوں۔۔

ہممم آفکورس بے بی تم جو چاہو کرو باہر جاؤ اپنے مام ڈیڈ سے ملو ۔ لیکن سکیورٹی کے ساتھ ۔۔

حجاب کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔۔ علی ماما پاپا ہمارے بارے میں جانتے ہیں۔۔

یس بے بی تمہارے ڈیڈ کو میں نے سب بتا دیا ہے۔۔ 

تو کیا کہا ان نے ؟

پہلے کچھ پریشان ہوۓ پر جب میں نے آپنے مسلم ہونے کا بتا یا تو نارمل ہو گئے۔۔

چلو ایک کام کرتے ہیں دونوں چلتے ہیں انہیں ملنے ایلکس نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔۔تو حجاب بھی مسکراتی اُٹھی۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

پلیز بھائی اپ تو ہم سب میں بڑے ہیں اپ ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں ۔۔اپ ہمیشہ کہتے تھے کے مشکلات سے بھاگتے نہیں ہیں انہیں فیس کرتے ہیں اور آج دیکھیں آپ خود بھاگ رہے ہیں۔۔حمزہ الجھے سے لہجے میں بولا تھا۔۔۔

ہاں بلال بیٹا حمزہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ہم کیوں جائیں گھر چھوڑ کر۔۔ نئی جگہ نئے لوگ پتہ نہیں کیسا ماحول ہو گا۔۔ نہیں بیٹا میں نے ساری زندگی اسی گلی محلے میں گزاری ہے اب میں کہیں اور نہیں جا سکتی۔۔۔ 

بھائی دیکھیں سدرہ کا کالج ہے پہلے ہی لیٹ ایڈمیشن ہے اس کا اب کیا روز روز کالج چینج کریں گے۔۔

بلال نے نظر اُٹھا کر ماں اور حمزہ کی طرف دیکھا اور بولا۔۔ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی اتنا کہتے ہوۓ بلال اُٹھ کر آپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔

_____*****________🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷

وقت آہستہ اہستہ گزر ہی رہا تھا ۔۔ سدرہ اپنی پڑھائی میں بزی ہو گئی تھی اور کافی حد تک نارمل بھی ہو چکی تھی۔۔ اب تو وہ پہلے کی طرح کُھل کر ہسنے لگی تھی۔۔ 

حجاب اور ایلکس کی زندگی بھی نارمل تھی۔۔ دونوں خوش تھے۔۔اور اب تو اللہ نے انہیں ایک بیٹے سے بھی نوازہ تھا جس کا نام انہوں نے ارحم رکھا تھا۔۔ 

ایک سال ہو گیا تھا لیکن ولی ابھی تک کومے میں تھا۔۔ 

__،___،،********

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

سدرہ اور ثناء کالج سے نکلی بہت گرمی ہے یار سدرہ نے ہاتھ اپنے چہرے کے آگے پنکھی کی طرح ہلاتے ہوے کہا۔۔

ہممم چلو سامنے شاپ سے فریش جوس پیتے ہیں۔۔ وہ دونوں کالج سے کچھ ہی دور فریش جوس والی دکان کہ طرف چل دیں۔۔

دونوں جوس کے گلاس ہاتھ میں پکڑے شاپ سے باہر نکلی تو ثناء اُسے وہی روکنے کا کہتے ہوۓ ساتھ والی شاپ سے چپس لینے چلی گئی۔۔

بیٹا پیاس لگی ہے۔۔سدرہ کے پیچھے سے کسی نے کہا تو سدرہ نے جلدی سے مُڑ کر دیکھا تو ایک بزورگ کندھے پر تھیلہ لٹکاۓ اس سے پانی مانگ رہے تھے۔۔

سدرہ نے اپنا گلاس اگے بڑھا دیا اور بولی میں نے ابھی نہیں پیا اپ پی لیں ۔۔ بزورگ آدمی نے گلاس سدرہ سے لیا اور مسکرا کر  بولے۔۔ پاس ہو گئی ہے تو میری بچی اللہ تجھ پر راضی ہے۔ بس اب سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ بس آپنے دل کا دروازہ کھول دینا ڈرنا مت۔۔ سدرہ جو اب بزورگ آدمی کو پہچان چکی تھی خیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔۔

سدرہ ۔۔۔سدرہ۔۔۔ ثناء نے شاپ سے باہر آتے ہوۓ سدرہ کو آواز دی تو سدرہ نے مُڑ کر ثناء کی طرف دیکھا جو اسے ہاتھ کے اشارے سے چلنے کا کہہ رہی تھی ۔۔سدرہ نے دوبارہ مُڑ کر دیکھا تو بزورگ غائب تھے۔۔ سدرہ نے لمبی سانس لی اور ثناء کی طرف چل دی۔۔۔

_________******

سدرہ جلدی کرو بیٹا پری انتظار کر رہی ہو گی ۔۔نسیم نے چوتھی دفعہ سدرہ کو آواز دی تھی۔۔

اُفف امی اپ بھی نا ۔۔سدرہ نے سیڑھیاں اُتر تے ہوۓ کہا۔۔

اووو اج تو ہماری چڑیا بہت پیاری لگ رہی ہے حمزہ نے پری کا گال کھینچتے ہوۓ کہا۔۔

اُف حمزہ انسان بنو۔۔

اللہ آج اتنی چِڑ کیو رہی ہو ۔۔کیا مسلہ ہے ۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیے پری کو اللہ نے بیٹ دیا ہے اسے پہلی دفعہ دیکھنے جارہی ہو اور وہ بھی ایسے جلے بھُنے انداز میں۔۔۔

حمزہ پلیز۔۔چُپ ہو جاؤ۔۔

مسلہ کیا ہے۔۔ سدرہ۔۔

حمزہ ہم لوگ کسی اور دن چلے جاتے آج ضروری تھا ان لوگوں کا سارا خاندان اکٹھا ہوا ہو گا ۔۔۔ابھی تو اللہ لا شکر ہے کے پری یہی شہر والے گھر ہے حویلی نہیں۔۔ورنہ آدھا گاؤں بھی آیا ہوتا۔۔ 

تو ہونے دو ہمیں کیا ۔۔حمزہ نے کندھے اُچکاتے ہوۓ کہا ۔۔۔

_____****

سدرہ گاڑی سے اُتری اور گول کھوم کر گھر کو دیکھتے ہوۓ بولی ۔۔کوئی حال نہیں یہ لوگ کبھی نہیں بدل سکتے ۔۔ایک بچے کے پیدا ہونے پر کون اتنا گھر کو سجاتا ہے۔۔

سدرہ 🤨نسیم نے سدرہ کو چُپ ہونے کا اشارہ کیا۔۔

سالار نے مسکراتے ہوے سدرہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ انٹی کوئی بات نہیں بولنے دیں۔۔

سدرہ جسے سالار کی موجودگی کا پتہ نہیں تھا شرمندہ سی ہو گئی۔

سدرہ لوگ جب سالار کے ساتھ ہال میں داخل ہوۓ تو سدرہ کے قدم دروازے میں ہی رُک گئے۔۔

ہال میں موجود رش دیکھ کر سدرہ گھبرا سی گئی۔۔تبھی اس کی نظر حجاب پر پڑی جو ایک چند ماہ کا بچہ گود میں لیے بیٹھی شگفتہ سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔

اب ہال میں موجود سبھی لوگ اندر داخل ہوتی نسیم کی فیملی کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔

نسیم نے سدرہ کو کو ہچکچاتے دیکھا تو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ چلنے کا کہا۔۔

سدرہ سب سے ملنے کے بعد جب حجاب سے ملی تو ایلکس بھی پاس ہی تھا۔۔ ایلکس نے مسکراتے ہوۓ سدرہ کے سر پر ہاتھ پھیرا جیسے سب بڑوں نے پھیرا تھا۔۔ سدرہ نے ایلکس کی طرف دیکھا اور دھیمے سے بولی ۔۔۔ ولی کیسا ہے؟

ایلکس نے سنجیدہ سے انداز میں بس سر نفی میں ہلا دیا۔

سدرہ چُپ چاپ افسردہ سی حجاب کے پاس بیٹھ گئی۔۔ 

حجاب نے سدرہ کو اپنی اور ایلکس کی شادی کا بتایا تو سددہ نے حجاب کی گود سے ارحم کو اُٹھایا اور پیار کرتے ہوۓ بولی۔۔ کتناکیوٹ ہے ۔۔

کچھ دیر بعد سالار پری اور بچے کو بھی ہال میں لے آیا۔۔

سدرہ پری کے بچے کو گود میں رکھے اس سے باتیں کر رہی تھی کے ہال میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔۔ سدرہ نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو اُس کے سامنے بس ایک ہی قدم کے فاصلے پر ولی کھڑا تھا۔۔ سدرہ کی جیسے آنکھیں پتھر کی ہو گئی تھیں۔ ولی نے آپنے اور سدرہ کے درمیان کا فاصلہ ختم کیا اور گھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔سدرہ جو شاک میں تھی اور اِک ٹِک ولی کو دیکھے جا رہی تھی۔۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کے ولی واقعہ ہی اُس کے سامنے تھا یا یہ اس کا وہم تھا۔۔

ولی نے مسکراتے ہوۓ سدرہ کا ہاتھ پکڑا۔۔۔تو پری نے جلدی سے سدرہ کی گود سے بچے کو اُٹھا لیا۔۔

سدرہ مجھ سے شادی کرو گی۔۔ ولی نے بُت بنی سدرہ سے پوچھا۔۔۔

سدرہ نے آنسوں سے بھری نظروں سے آپنی ماں کی طرف دیکھا تو نسیم نے آپنی آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف کرتے ہوۓ سر ہلا کر ہاں کا اشارہ کیا ۔۔

سدرہ نے دوبارہ ولی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے پھر سے کچھ غلط ہو گیا تو۔۔۔

ولی نے ہاتھ بڑھا کر سدرہ کے آنسو صاف کئے اور بولا۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔ وعدہ۔۔۔

چلو اب بتا بھی دو شادی کرو گی مجھ سے۔۔

سدرہ نے ولی کے ہاتھ کو دبایا اور  پاس ہی بیٹھی پری کی بازو دوسرے ہاتھ سے کھینچتے ہوۓ سرگوشی میں بولی ۔اسے کہو شرم کرے سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔۔ 

ولی قہقہ لگا کر ہسنے لگا اور بولا۔۔افف سدرہ یہ سب آج تمہارے اور میرے لیے ہی اکٹھے ہوۓ ہیں۔۔اس لیے ہم کو ہی دیکھیں گے۔اب چلو جلدی سے جواب دو۔۔

سدرہ نےمسکراتے ہوے سر ہاں میں ہلایا تو سب خوشی سے ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے ۔۔

فرینکو جو کافی دیر سے مسکراتے ہوۓ سدرہ اور ولی کو دیکھ رہا تھا ۔اگے بڑھ کر ولی کو ایک انگوٹھی پکڑاتے ہوے بولا لو یہ پہنا دو میری بیٹی کو۔۔ ولی نے سدرہ کو انگوٹھی پہنائی اور آگے اس کے کان کے پاس جھکتے ہوۓ بولا۔۔ جسٹ ون ویک ۔۔

سب بہت خوش تھے ۔ولی کو دو مہینے پہلے ہی ہوش آیا تھا ۔۔سدرہ کے گھر والے سب پہلے سے جانتے تھے اور سب نے مل کر سدرہ کو سرپرائیز دیا تھا۔ اور ٹھیک ایک ہفتے بعد ولی اور سدرہ کی شادی ہو گئی۔۔ ولی اور سدرہ اٹلی ہی شفٹ ہو گئے ۔۔کیوں کے ولی فرینکو کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اُسے احساس تھا کے پہلے ہی اس کے باپ نے ساری زندگی اس کے بغیر گزاری تھی۔۔۔

                         ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Zindagi Mukhtasar Ho Ja Paari Season 2 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Paari Season 2 written by  Umama Nadeem. Paari Season 2 by Umama Nadeem is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages