Tum Aur Main By Rimsha Hussain Complete Love base Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 14 June 2024

Tum Aur Main By Rimsha Hussain Complete Love base Romantic Novel Story

Tum Aur Main By Rimsha Hussain Complete Love Base Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Tum Aur Main By Rimsha Hussain Complete Laove Base Romantic Novel 


Novel Name: Tum Aur Main 

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


کٹ

کٹ۔

عنزہ یہ کیا کررہی ہے آپ کجھ وقت کا بریک لے پھر ہم شوٹ کریں گے۔ڈائریکٹر جبار نے عنزہ خان سے کہا جس نے کجھ ہی وقت میں شوبز کی دنیا میں بہت نام کمایا تھا عنزہ خان جو اپنے ماں باپ کے اختلاف جاکر شوبز کی دنیا میں قدم رکھا تھا وہ اب آسمان کا چمکتا ستارہ تھی جو ہر رات اور گہرہ چمکتا تھا عنزہ خان جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خود اعتماد بھی تھی اس کو اپنے حُسن پہ بہت ناز تھا اور ہوتا بھی کیوں نہ وہ تھی بھی جو اتنی پیاری براٶن سلکی بال جو اس کے کندھے تک آتے تھے دودہ جیسی سفید رنگت کالی گہری آنکھیں ستوان چھوٹی سی ناک بھرے ہوۓ گلابی گال اورخوبصورت سے گلابی ہونٹ ٹھوری پہ پڑتا ڈمپل جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا مغرور تو وہ پہلے بھی تھی مگر جب کامیابی نے اس کے در پہ دستخط دیا تو کجھ اور اضافہ ہوا۔

ڈائریکٹر کی بات سن کر عنزہ نے کوفت سے ان کی طرف دیکھا وہ اس وقت پیروں تک آتی ریڈ میکسی میں تھی جس کا گلا گول تھا اور سلیولیس تھی جس سے اس کے گورے بازوں ظاہر تھے چہرے پہ ڈیپ میک کیے وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی وہ اِس وقت اپنی نیو فلم کے گانے کے شوٹ پہ تھی مگر کجھ اسٹیپس تھے جو آج اُس سے ٹھیک نہیں ہورہے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

اوکے دین کل کریں گے شوٹ۔عنزہ اپنے ہیلز سینڈل کی اسٹریپ کھولتی ڈاٸریکٹر کے سامنے والی چیٸر پہ بیٹھی جب کی اس کے ساتھ فلم میں جو ہیرو کا رول پلے کررہا تھا وہ بھی ساتھ آگیا عنزہ کے بیٹھنے کے بعد فورن سے ملازم اُرینج کا جوس لے آیا تھا جو عنزہ نے اپنی ہاتھ میں پکڑلیا تھا۔

یہ گانا ہم نے فلم کے ٹیلر کے رلیز ہوتے ہی رلیز کرنا تھا بٹ آپ کی وجہ سے نہیں ہوپایا۔ڈائریکٹر جبار نے افسوس سے کہا وہ عنزہ کی کسی بات پہ اختلاف بھی نہیں کرسکتے تھے اگر ان کی کسی بات پہ عنزہ فلم چھوڑ دیتی یا پھر کام نہ کرتی تو ان کا بہت لوس ہونا تھا اس لیے وہ عنزہ کی یہ بات بھی مان گٸے تھے جب رائٹر نے کاسٹ چوز کرنا چاہا تھا تو عنزہ نے اپنی پسند کی کاسٹ کرلی کے وہ اپنی فلم میں اپنے معیار اور اپنی پسند کے لوگ سے کام کریں گی ورنہ وہ ان کا پروجیکٹ سائن نہیں کریں گی ڈائریکٹر جبار جس نے انٹر ویو پہ بتادیا تھا کے ان کی فلم میں عنزہ بطور ہیرو ہوگی اس لیے وہ خاموش رہے تھے عنزہ کے مزاج سے واقف جو تھے۔

میں بزی تھی۔عنزہ نے شانِ بے نیازی سے کہہ کر جوس ہونٹوں کے پاس کیا اور گھونٹ بھرنے لگی۔

جانتا ہوں۔ڈائریکٹر بس یہی بول پایا۔عنزہ گلاس ٹیبل پہ رکھ کر ہاتھ میں پہنی ریڈ واچ میں وقت دیکھا تو اپنی جگہ سے اٹھی۔

پیک اپ ہوگیا ہے میں چلتی ہوں پھر۔عنزہ نے کہہ کر اپنا پرس اٹھایا اور ٹک ٹک کرتی چلی گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہم بہت دور چلے جاۓ گے جہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہوگا۔فرزان نے اپنے کاندھے پہ سررکھے انایا سے کہا۔

مجھے بھی اُس دن کا شدت سے انتظار ہے جب میں اپنی زندگی تمہارے ساتھ گُزاروں گی اِس بے رحم دنیا سے دور ہوگیں ہم وہاں بس ہم ہوگیں اور ہمارا پیار ۔انایا نے اپنا سر اٹھا کر محبت سے فرزان کی طرف دیکھا۔

ٹی وی لاٶنج میں بیٹھا شخص یہ سین بہت ضبط سے دیکھ رہا تھا اس کی گندمی رنگت پہ سرخی چھاگئ تھی جب کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا یہ فلم کا سین تھا جس کی ہیروٸن عنزہ خان تھی اور ہیرو روحان علی عنزہ کی یہ پہلی فلم تھی جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔

کیوں خود کو تکلیف دیتے ہو؟آمنہ بیگم جو اس کی ماں تھی اس کے ہاتھ سے گلاس لیکر بولی جس پہ اس کی 

گرفت سخت ہوتی جارہی تھی

اپنی ماں کی آواز سن کر طلحہ نے جلدی سے خود کو کمپوز کیا وہ ایسا ہی تھا اپنے دل کی حالت کسی پہ بھی آشکار نہ کرنے والا پر سامنے والی ہستی بھی اس کی ماں تھیں جو اس سے بہتر اس کو جانتی تھی وہ کجھ کہے یا نہ کہے تب بھی۔

امی آپ کب آئی؟طلحہ نے ان کی بات نظرانداز کی اور ساتھ کی ریموٹ اٹھاکر چلتی فلم کو بند کیا۔

ابھی تم سوۓ نہیں تھے مجھے بھی نیند نہیں آٸی سوچا ساتھ بیٹھ جاتی ہوں تمہارے۔آمنہ بیگم گہری 

سانس لیتی بولی۔

میری نائٹ ڈیوٹی ہے آج دس بجے ہوسپٹل جاٶں گا۔طلحہ نے مسکراکر کہا۔

اچھا اچھا چاۓ لاٶں تمہارے لیے؟آمنہ بیگم نے پوچھا۔

ابھی تو میں فریش ہونے جارہا ہوں چاۓ ہوسپٹل میں پیئی لوں گا۔طلحہ نے جواب دیا۔

اچھا سہی۔آمنہ بیگم مسکراکر بولی تو طلحہ بھی جوابً مسکراکر وہاں سے اٹھا اپنے کمرے میں آکر طلحہ وارڈروب کی جانب آیا اپنا ایک ڈریس نکال کر وہ واشروم کی جانب گیا فریش ہونے کے بعد وہ گیلے بالوں کو تولیہ سے خشک کرتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آیا جہاں مردانہ پرفیومز اور لیٹسٹ واچز کی کلیکشن تھی طلحہ نے تولیہ بیڈ پہ پھینکا پھر مرر میں اپنا عکس دیکھا چھ فٹ چار انچ کا قد گندمی رنگت سیاہ ٹی شرٹ اور سیاہ جینز پینٹ پہنے وہ بہت ہینڈسم تھا اگر کجھ تھا تو بس رنگت کا جو گوری تو نہ تھی پر اس کی شخصیت بہت پرکشش تھی جو دیکھتا تعریف کیے بنا نہ رہ سکتا کیوں کی اس کے نین نقش بہت پیارے تھے اور اس سے زیادہ اس کا دل خوبصورت تھا جس سے اس کے چہرے پہ ہمیشہ چمک ہوتی تھی آنکھوں کا رنگ براٶن تھا عنابی لب اِس وقت آپس میں پیوست تھے کشادہ چوڑا سینہ مضبوط مسلز جو اس کے روز جم جانے کی عکاسی کرتے ہیں طلحہ نے گہری سانس لی اور ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھایا اور اپنے بالوں میں پھیرنے لگا ان پہ برش کرنے کے بعد طلحہ نے ماتھے پہ بکھرے چھوڑ دیا اور گھڑی اٹھا کر اپنی مضبوط کلائی میں پہنی پرفیوم چھڑک نے کے بعد طلحہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ آیا ڈرار کھول کر گاڑی کی چابی اٹھاٸی اپنا فون جو چارجنگ پہ تھا وہ بھی اٹھاکر کمرے سے نکل گیا ہوسپٹل جانے کے لیے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ کونسا وقت ہے عنزہ لڑکی ذات ہو وقت پہ آیا کرو رات کو دیر گھر آنا کم کرو۔عنزہ جیسے ہی اپنے گھر آٸی تو اس کی ماں سمیہ بیگم نے ٹوکا جو لاٶنج میں اس کے انتظار میں بیٹھی تھی وہ خود بھی ابھی اپنے کسی جاننے والے کے ہاں پارٹی میں گٸ تھی ان کی واپسی بھی ابھی ہوٸی تھی عنزہ کو آتا دیکھا تو سمجھانا ضروری سمجھا۔

موم پلیز۔عنزہ بیزار ہوئی۔

کیا موم پلیز ایک تو حرام کا کمانے لگی ہو اُپر سے تمہاری روٹین جو دن بدن بدلتی جارہی ہے۔سمیہ بیگم نے غصے سے کہا تو عنزہ کی کالی گہری آنکھیں سرخ ہوئی تھی۔

موم میں آپ کی عزت کرتی ہو اس لیے میں کجھ کہتی نہیں مگر آج جو کہا دوبارہ مت کہٸیے گا میں اپنی محنت کا کماتی ہوں ناکہ حرام کا بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں کے کس سے اور کیا بات کررہی ہیں۔عنزہ سخت لہجے میں کہتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ سمیہ بیگم بس اس کو جاتا دیکھتی رہ گٸ کمرے میں آکر عنزہ نے دروازہ زور سے بند کیا اپنے کاندھے پہ لٹکایا پرس بیڈ پہ پھینک کر وہ بیڈ کے پاس رکھے صوفے پہ سر ہاتھوں میں گِراۓ بیٹھ گٸ عنزہ کا پورا کمرہ پنک تھیم سے ڈیکوریٹ تھا کمرے کے وسط میں جہازی سائیز بیڈ جس کے ایک طرف واشروم کا دروازہ تھا اور ساتھ میں ڈریسنگ ٹیبل تھا جس میں عنزہ کے میک اپ کا سامان تھا اور پاس میں اسٹول تھا جب کی دوسرے طرف بالکنی تھی جہاں کھڑے ہوتو گھر کے لان کا منظر صاف نظر آتا تھا جب کی سامنے والی دیوار پہ بڑی ایل ای ڈی چسپا تھی یہ عنزہ نے بہت سال پہلے کمرے کی سیٹنگ کروائی تھی اس کے بعد زندگی میں بہت بدلاٶ آیا تھا پر وہ جو مہینے میں اپنے کمرے کا فرنیچر بدلتی تھی اب کٸ سال سے یہی ایک تھا۔موبائل فون کی رنگ ٹون بجنے پہ عنزہ اٹھ کر پرس سے اپنا فون نکالا جس میں روحان کالنگ لکھا آرہا تھا۔

ہیلو ۔عنزہ نے کال اٹھاکر کہا۔

ہیلو میری جان کیسی ہو؟روحان نے مسکراۓ لہجے میں پوچھا۔

فائن تم بتاٶ کیا چل رہا ہے؟عنزہ نے جواب دیں کر پوچھا جب کی دوسرا ہاتھ سینڈل کی اسٹریپ کھولنے میں تھا۔

کجھ خاص نہیں لنچ کا پروگرام کریں بہت ٹائم سے اکٹھا نہیں بیٹھے کل تم میں اور رانیہ اینڈ آریز کیسا لگا پلین۔روحان نے سب طی کرکے راۓ لینی چاہی۔

کل ممکن نہیں میری فلم کی شوٹنگ کمپلیٹ ہوگئ ہے بس ایک لاسٹ سونگ رہتا ہے کل کا ڈے بزی ہے پھر کبھی۔عنزہ نے بیڈ پہ لیٹ کر کہا

اوکے نو ایشو میں کل اپنا گانا رکارڈ کروں گا پھر کیوں کی کینسل کردیا تھا۔روحان نے کہا

کل بات کریں گے ناٶ آٸ ونٹ ٹو سلیپ۔عنزہ کہتی کال کاٹ گئ اور بنا چینج کیے سوگئ تھی

صبح اس کی آنکھ بارہ کی قریب کُھلی تھی بے ترتیب سونے کی وجہ سے پہلے اس کو اپنی کمر میں درد محسوس ہوا جس کو نظرانداز کرتی وہ واشروم میں گھسی نہاکر آٸی تو وہ وائٹ سلیولیس شرٹ اور ٹراٶز میں تھی بال گیلے شرٹ پہ چسپا تھے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ہوتی اس نے اپنا خوبصورت چہرہ دیکھا جس پہ پانی کی بوندیں تھی جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کررہے تھے میک اپ سے پاک چہرہ دیکھ کر اس کے کانوں میں کسی کا جملا گوُنجا تھا۔

میرا دل چاہتا ہے تمہیں اپنے سینے میں چُھپالوں میں نہیں چاہتا یہ چاند جیسا چہرہ میرے علاوہ کوئی اور دیکھے تم اپنے چہرے پہ کجھ لگایا مت کرو ایسے ہی بہت خوبصورت لگتی ہو

ایک کے بعد ایک جُملا اس کو وحشت میں مبتلا کررہے تھےعنزہ نے اپنا سر جھٹکا کندھے تک آتے اسٹریٹ بالوں میں برش پھیر کر اپنا چہرہ صاف کرکے میک اپ کرنے لگی آنکھوں میں آٸ لاٸنر لگانے کے بعد اپنی آنکھوں کو دیکھا جو انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی عنزہ کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آٸی ڈارک براٶن لپ اسٹک کا شیڈ اٹھا کر اپنے گلابی ہونٹوں کو چھپادیا اپنی تیاری سے فارغ ہوتی وہ وارڈروب کے ریک سے اپنا وائٹ رنگ کا جوتا نکال کر پہنا باہر آئی تو کسی ملازم کو صفاٸی کرتا دیکھا تو کسی کو اور کوئی اور کام عنزہ صوفے پہ بیٹھی تو ملازمہ نے ناشتہ سامنے کیا۔

موم ڈیڈ کہاں ہیں؟عنزہ نے ملازمہ سے پوچھا۔

سر تو آفس چلے گٸے تھے جب کی میم کجھ ٹائم پہلے باہر نکلی ہیں۔ملازمہ میں نے بتایا تو عنزہ نے اشارے سے جانے کا کہا۔

عنزہ میم آپ کا فون بج رہا تھا جب میں آپ کے کمرے کی صفاٸی کرنے گٸ تو۔عنزہ ایپل جوس پی رہی تھی جب رانی ملازمہ نے بتایا۔

تم جاٶ۔عنزہ نے فون لیکر کہا۔

کیا ہے؟عنزہ نے کال بیک کرکے پوچھا۔

کیا مطلب کیا ہے عنزہ گیارہ بجے شوٹ تھا ہمارا اور ابھی تک تمہارا کوٸی اتا پتا نہیں۔دوسری طرف ریحان جس کے ساتھ بطور ہیروئن کا کام کررہی تھی اس نے کہا۔

تو ابھی ایک بج رہا ہے نہ میں آتی ہوں ناٹ بِگ ایشو۔عنزہ لاپروائی سے بولی۔

مس عنزہ خان ہر کام میں وقت کا پابند ہونا لازم ہوتا ہے وقت کی جو قدر نہیں کرتا پھر وقت اس کی قدر نہیں کرتا۔ریحان کی بات پہ کجھ پل وہ خاموش رہی۔

مجھے یہ بات خوشی کی انتہا پہ پہچاتی ہے کے ایک لاپرواہ لڑکی جس کو کبھی وقت کا یا کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا وہ میری سالگراہ کے دن وقت پہ آکر سب سے پہلے وش کرتی ہے۔

آیم کمنگ۔اپنے آس پاس ہوتی آواز کو نظرانداز کرتی وہ بس اتنا بول پائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

بھائی رات آپ گھر نہیں آۓ تھے؟طلحہ اپنے کمرے سے آیا تو اس کی بہن مرحا نے سوال کیا

نہیں کل رات ہوسپٹل میں بزی رہا تھا صبح فجر کے وقت واپسی ہوٸی۔طلحہ نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

ڈاکٹر ہونا اتنا آسان نہیں خیر آپ بتائیں ناشتہ کریں گے یا لنچ؟مرحا نے پوچھا۔

ناشتے کا وقت تو گزر گیا لنچ تیار کرواٶ۔طلحہ نے ہاتھ میں بندھی گھڑی پہ وقت دیکھ کر کہا تو مرحا سر اثبات میں ہلاتی وہاں سے چلی گٸ۔

طلحہ نے ٹیبل سے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کی۔

آپ کو پتا ہے اِتوار کو اِس شو میں عنزہ آپی آٸیں گی۔مرحا ملازم سے کھانا کا کہتی واپس آٸی تو چینل سرچ کرتے طلحہ سے کہا جس کا ہاتھ ایک چینل پہ رُک گیا تھا۔

توں۔طلحہ لاپروائی سے بولا۔

توں کجھ نہیں مجھے بس انتظار ہے پہلے بھی ٹاک شو میں آئی تھیں وہ اتنا زبردست شو تھا کے کیا بتاٶں۔مرحا اشتیاق لہجے میں بتانے لگی

ٹی وی کم دیکھا کرو اپنی پڑھاٸی پہ فوکس کرو۔طلحہ نے اپنے سے پانچ سال چھوٹی بہن کو کہا۔

وہ تو کرتی ہوں نہ آپ میری بات تو سنے عنزہ آپی سے شو کی ہوسٹ نے سوال کیا آپ نیچرل خوبصورت ہیں یا انجیکشن کا کمال ہے تو آپی نے اتنے کانفڈنٹ سے کہا میں نیچرل بیوٹی ہوں بخار سے مرنے کی حالت ہوجاتی ہے تب بھی انجیکشن نہیں لگاتی اور یہاں تو بات ہی کجھ الگ ہے سچی تب ہوسٹ کی شکل دیکھنے والی تھی۔مرحا نے مزے سے بتایا۔

اچھا۔طلحہ نے خاص رسپونس نہیں دیا۔

پھر ہوسٹ نے کہا آپ کی اسکن بہت اچھی اور صاف ہے آپ کی رنگت اپنی بھی بہت گوری ہے کیا کریم یوز کرتی ہیں؟تو آپی نے کہا میری ماں پٹھان خاندان سے ہے میرا گورا ہونا عام بات ہے اگر یقین نہیں تو ایک مہینہ میرے ساتھ رہ کر دیکھ لیں ہوسٹ تو لاجواب ہوگٸ تھی ان کے جواب پہ پھر انہوں نے بس پراجیکٹس کے بارے میں باتیں کی۔مرحا ہاتھوں کے اشارے سے طلحہ کو بتاتی جارہی تھی۔

کیا ہورہا ہے بھٸ؟آمنہ بیگم لاٶنج میں آتی طلحہ کا سرخ چہرہ دیکھتی ہوئی بولی۔

کجھ نہیں امی بس ایسے ہی آپ بیٹھے۔مرحا جلدی سے بولی۔

کجھ کھایا تم نے؟ آمنہ بیگم نے طلحہ سے پوچھا۔

میں نے افروز سے کہا ہے بھائی کا کھانا تیار کریں۔طلحہ سے پہلے ہی مرحا نے جواب دیا۔

آپ کہی جارہی ہیں کیا جو بس میرے لیے کھانا بن رہا ہے؟طلحہ نے آمنہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر کہا۔

ماموں کی طرف جارہے ہیں۔مرحا نے پرجوش ہو کر بتایا۔

خیریت؟طلحہ نے کہا

ہاں بھاٸی کا گھر ہے سوچا مل آٶں اتنا وقت ہوگیا ہے ملے نہیں تو۔آمنہ بیگم طلحہ کی بات پہ مسکراکر بولی۔

کھانا ٹیبل پہ لگادیا ہے۔افروز ملازمہ نے آکر بتایا۔

میں کھانا کھاٶ بھوک سے بُرا حال ہے۔طلحہ فورن سے اپنی جگہ سے اٹھا تو آمنہ بیگم اور مرحا مسکرادی جانتی تھیں طلحہ بھوک کے معاملے میں بہت کچا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم جو اتنا اٹیٹیوڈ دیکھاتی ہو نہ اگر ایسا رہا نہ تو جو تم آج آسمان کا چمکتا ستارہ ہو کل کو ٹوٹتا تارہ بن جاٶں گی۔عنزہ اپنے شوٹ سے فارغ ہوکر اپنی دوست رانیہ کے پاس آئی تھی جو دیکھتے ہی شروع ہوگٸ تھی۔

میں عنزہ خان ہوں اپنی اہمیت برقرار رکھنا مجھے آتا ہے۔عنزہ مغرور لہجے میں بولی۔

ہزاوں دل کی دھڑکن بن گٸ ہوتم کجھ ہی عرصے میں ان کو لاکھوں میں کرنے کے لیے تم نے کجھ خود میں تبدیلیاں کرنی ہے۔رانیہ اس کے پاس بیٹھ کر بولی۔

میرے سوشل میڈیا کے اکائونٹس چیک کرنا جہاں 10ملین فالورز ہوۓ ہیں میرے وہ بھی بس چار سالوں میں اور تین فلم بنائی ہیں میں نے۔عنزہ نے رانیہ کی بات ہوا میں اڑائی۔

ماشااللہ اللہ تمہیں اور کامیابی دیں پر خیر چھوڑو ڈنر کرنے فائیو اسٹار ہوٹل چلیں؟رانیہ کہتے کہتے خاموش ہوکر بات بدل گٸ جانتی تھی عنزہ سمجھنے والوں میں سے نہ تھی۔

روحان اینڈ آریز کو بھی بتادو وہ بھی آٸیں۔عنزہ نے کہا تو رانیہ نے مسکراکر اثبات میں سرہلایا۔

تم اپنا چہرہ کور کرنا سچی کوفت ہوتی ہے اتنے لوگ آجاتے ہیں میم آٹوگراف دیں میم ایک پکچر یہ وہ سن کر۔رانیہ نے بیزار شکل بناۓ کہا تو عنزہ کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

کوفت یا جیلسی؟عنزہ نے اپنی آٸبروز کو اُپر نیچے کرکے سوال کیا۔

کوفت۔رانیہ نے ہنس کےکہا

روم پرائیویٹ بُک کرنا۔عنزہ نے کہا۔

نوپ۔رانیہ نے زبان چڑھائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ڈاکٹر فلزہ میرے کیبن میں آٸیے گا۔طلحہ ہوسپٹل آکر اپنی کولیگ سے بولا جو اس کی دوست بھی تھی۔

یس ڈاکٹر طلحہ مقصود آپ نے بولایا؟فلزہ کیبن میں آتی خوشگوار لہجے میں بولی۔

جی ایک پیشنٹ کی فاٸل ڈسکس کرنی ہے آپ سے۔طلحہ نے وجہ بتاٸی تو فلزہ چیٸر گھسیٹ کر بیٹھ گٸ۔

باہر ڈنر پر چلیں؟فلزہ نے فاٸل ڈسکس کرنے کے بعد طلحہ سے کہا جو موباٸل میں کجھ ٹاٸپ کررہا تھا۔

ہاں میرا تو آف ہوگیا ہے چلتے ہیں۔طلحہ نے رضامندی دیتے ہوۓ کہا۔

اوکے میں تمہارا انتظار کررہی ہوں باہر۔فلزہ مسکراکر کہتی باہر چلی گٸ طلحہ بھی اپنا فون ہاتھ میں لیتا کیبن سے نکلا جہاں پورچ کے پاس فلزہ اس کا انتظار کررہی تھی۔

گاڑی میں بیٹھو۔فلزہ کو ایک جگہ کھڑا ہوتا دیکھ کر طلحہ نے کہا تو فلزہ فرنٹ پہ بیٹھی۔

کس ریسٹورینٹ جانا ہے؟طلحہ نے گاڑی ڈراٸیو کرتے ہوۓ پوچھا۔

ہوسپٹل کے پاس ہی فاٸیو اسٹار ہے وہاں چلتے ہیں۔فلزہ نے بتایا تو طلحہ نے گاڑی وہاں موڑ دی

ہوٹل میں پہنچ کر طلحہ نے عجیب نظروں سے باہر کھڑے ہجوم کو دیکھا جو آہستہ آہستہ ہٹ رہے تھے۔

دوسری ڈور سے جاتے ہیں یہاں تو جانے کا رستہ ہی نہیں۔فلزہ نے کہا

واپس چلتے ہیں یہاں بھیڑ ہے تو اندر بھی ہوگی۔طلحہ کی بات پہ فلزہ نے طلحہ کو گھورا

فاٸیو اسٹار ہوٹل ہے مچھی مارکیٹ نہیں اتنے ایکپینسو ہوٹل میں ہرکوٸی نہیں آتا۔فلزہ کی بات پہ طلحہ کھیسانا ہوا اور ہوٹل کے اندر جانے لگا جہاں لذیذ کھانوں کی خوشبوں نے ان کا استقبال کیا فلزہ کی تو بھوک جاگ اٹھی تھی

طلحہ فلزہ کو لیے آخری ٹیبل کی طرف جارہا تھا جہاں گلاس ڈور کی وجہ سے ہوٹل کا باہر کا منظر نظر آتا تھا جہاں پول تھا مگر کس کے قہقہقہ کی آواز پہ اس کے قدم رُکے تھے طلحہ نے چہرہ اُپر کرکے آس پاس دیکھا تو اس کی نظر ایک کونے میں بیٹھے لوگوں پہ پڑی جو آپس میں ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے طلحہ کے چہرے پہ ناگوار تاثرات چھاۓ گٸے جب عنزہ خان کو مسکراتا دیکھا جس کے کان کے پاس جھکا روحان جانے کیا بات کررہا تھا طلحہ فراموش کرگیا تھا کے وہ یہاں اکیلا نہیں آیا بلکہ ایک ہستی موجود ہے اس کے ساتھ ایک غصے کی لہر طلحہ کو اپنے وجود میں ڈورتی محسوس ہوٸی آس پاس لوگوں کے قہقہقہ خوش گپوں میں مصروف لوگ کجھ بھی اس کو دیکھاٸی نہیں دیں رہا تھا جو دیکھاٸی دیں رہا تھا وہ ناقابلِ برداشت تھا۔

عنزہ مسکراتی روحان کی بات سن رہی تھی جو اس کو اپنے نیو سونگ کے بارے میں بتارہا تھا تبھی ہی اس کو اپنے چہرے پہ کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوٸی وہ جانتی تھی یہاں بیٹھے سب لوگوں کی توجہ کا مرکز وہی ہے پر اپنا چہرہ کسی کی نظروں سے جلتا محسوس کیا تو اس نے اپنی نظر اٹھاٸی تو سامنے کھڑا شخص اس کو تیکھی نظروں سے دیکھ رہا تھا عنزہ کی مسکراہٹ پل بھر میں غاٸب ہوٸی تھی

طلحہ کیا ہوا آٶ بیٹھتے ہیں سچی کھانوں کی بھینی بھینی خوشبوں سے میری بھوک بڑھ گٸ ہے۔فلزہ نے طلحہ کا بازوں پکڑتے ہوۓ اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجاکر کہا تو طلحہ فلزہ کی طرف دیکھا جو اس کو ہی دیکھ رہی تھی۔

آٶ وہاں چلتے ہیں۔طلحہ خود کو کمپوز کرتا سامنے کی طرف اشارہ کیا جو عنزہ کی ٹیبل کے کجھ ہی دور تھی عنزہ کی نظریں فلزہ کے ہاتھ پہ تھی جس اس نے طلحہ کا بازوں تھامے رکھا تھا عنزہ نے سر جھٹک کر اپنا دھیان ان تینوں کی جانب کیا۔

اب میں سمجھی باہر رش کیوں تھی۔فلزہ نے مینیو کارڈ دیکھتے طلحہ سے کہا جس نے کوٸی جواب نہیں دیا تھا۔

میری بہن بہت بڑی فین ہے عنزہ خان کی۔فلزہ نے اپنا سلسلا کلام جوڑا۔

میرے لیے بریانی کی پلیٹ دوسری تلی ہوٸی مچھلی برگر فراٸز اینڈ ایک کولڈ ڈرنک۔طلحہ فلزہ کی باتیں نظرانداز کرتا ویٹر سے اپنا آرڈر بتانے لگا فلزہ منہ کُھلے طلحہ کو دیکھنے لگی جو اور بھی بہت کجھ ویٹر سے کہہ رہا تھا۔

تم اپنا آرڈر بتاٶ۔طلحہ نے فلزہ سے کہا تو وہ حیرت کی دُنیا سے باہر آٸی۔

بن کباب ایک چکن رول اور مینگو شیک۔فلزہ نے بتایا تو ویٹر وہاں سے چلاگیا۔

تم نے کتنے ٹاٸم سے کھانا نہیں کھایا؟فلزہ نے شرارت سے طلحہ کی طرف دیکھ کر پوچھا جو خود کو غافل ظاہر کررہا تھا۔

پانچ گھنٹوں سے۔طلحہ نے آرام سے جواب دیا۔

ہوتم فٹ ویسے جتنا بھی کھاٶ۔فلزہ نے تعریف کی طلحہ کو اپنے اُپر کسی کی نظریں محسوس ہوٸی پر وہ لاپرواہ بنا رہا۔

عنزہ ڈونٹ ٹیل می کے تم ڈاٸیٹ پہ ہو؟رانیہ نے عنزہ کو رشٸین سیلڈ بس کھاتا دیکھا تو کہا

میں ڈاٸیٹ پہ ہی ہوں۔عنزہ نے مسکراکر کہا۔

اففف کانٹا بن جاٶں گی ایک دن دیکھنا۔آریز نے کہا تو عنزہ نے آنکھیں گھماٸی۔

عنزہ اچھا کرتی ہے جو اپنی ڈاٸیٹ کا خیال کرتی ہے اینڈ ویسے بھی عنزہ کا جتنا ویٹ ہے وہ ٹھیک ہے۔روحان نے عنزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہا تو عنزہ مسکراٸی۔

تم تو بلاوجہ ہی سپورٹ کرنا اِس کو۔رانیہ نے روحان سے کہا جو آرام سے اپنا کھانا کھارہا تھا۔

میم ون سیلفی پلیز۔ان کی ٹیبل کے پاس ایک گروپ عنزہ کے پاس آکر بولا تو رانیہ نے کوفت سے سرجھٹکا عنزہ کو بیزاری ہوٸی ابھی کجھ ٹاٸم پہلے ہی تو وہ اس کام سے فارغ ہوٸی تھی اور اب پھر سے۔

موباٸل دیں۔عنزہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ان کے ساتھ کھڑی ہوکر بولی تو لڑکی نے فورن سے اپنا فون دیا عنزہ نے سب کے ساتھ ایک سیلفی لیکر اپنی جگہ سنبھالی تو وہ سب شکریہ کہہ کر جانے لگیں۔

سوچ رہی ہوں میں آٹوگراف لے آٶں اپنی بہن کے لیے۔فلزہ نے کھانے سے انصاف کرتے طلحہ سے کہا۔

شوق سے پر جب میں نہ ہوں تو۔طلحہ نے سنجیدگی سے کہا۔

کتنی خوبصورت ہے نہ ویسے۔فلزہ عنزہ سے ایمپریس ہوتی ہوٸی بولی جو بلیک سلیولیسں فراق اور جینز پینٹ میں تھی بال کھلے ہوۓ تھے چہرے پہ نفاست سے کیے گٸے میک اپ وہ غضب دھار رہی تھی۔

کیا ہم کوٸی اور بات کرسکتے ہیں جب سے یہاں آٸیں ہیں تم نے ایک ہی ٹاپک کو پکڑ رکھا ہے۔طلحہ نے چڑ کر کہا تو فلزہ کھسیانی ہوٸی۔

سوری ڈاکٹر۔فلزہ نے معذرت کی طلحہ نے ایک ٹیڑھی نظر عنزہ کی ٹیبل پہ ڈالی جس کا سر روحان کے کندھے پہ تھا طلحہ کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا اس نے ہاتھ میں ہکڑا کانٹا ٹیبل پہ رکھا اور پانی کا گلاس پینے لگا۔

کھایا تو کجھ بھی نہیں۔فلزہ نے کہا

بس میرا ہوگیا تم انجوۓ کرو گاڑی میں بیٹھتا ہوں۔طلحہ چیٸر سے اٹھتا ہوا بولا۔

ایسے کیسے ساتھ آٸیں ہیں تو ساتھ جاٸیں گے نہ مجھے اگر اکیلے ہی کھانا ہوتا تو تمہیں کیوں ساتھ لاتی۔فلزہ نے طلحہ سے کہا جس کے چہرے پہ بے چینی پھیلی ہوٸی تھی۔

اچھا تم اپنا کھانا فنش کرو میں کھانے کا بل پے کر آٶں۔طلحہ نے کہا تو فلزہ نے سرہلایا۔

آٶ۔طلحہ نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتی فلزہ سے کہا تو فلزہ اپنا بیگ لیتی طلحہ کے ساتھ چلنے لگی عنزہ کی نظریں تب تک ان کی پشت پہ ٹکی رہی جب تک وہ ہوٹل سے باہر نکل نہ گٸے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

عنزہ گھر آٸی تو روز معمول کی طرح لیٹ ہوگٸ تھی پر آج کوٸی بھی لاٶنج میں نہ تھا جس کو اس کا انتظار ہو اور نہ ہی وہ ایسی خوشفہمیا پالتی تھی عنزہ نے چاروں طرف کا جاٸزہ لیا پھر تلخی سے مسکراتی اپنے کمرے کی طرف گٸ وہاں آکر وارڈروب سے اپنا ناٸٹ سوٹ نکالا واشروم سے باہر آٸی تو وہ براٶن کلر کی ناٸٹی میں تھی جو پیروں تک تھی چہرہ اب میک اپ سے پاک تھا عنزہ تولیہ صوفے کی جانب اچھالتی بیڈ پہ بیٹھ کر فون میں بزی ہوگٸ وہ اپنی صبح کی گٸ اپلوڈ فوٹو پہ لاتعداد لاٸیکس اور کمینٹس دیکھنے لگی جبھی کمرے کا دروازہ کھول کر سمیہ بیگم آٸی ان کو دیکھ کر عنزہ کو اندازہ ہوگیا وہ ابھی کسی پارٹی سے ہوکر آرہی ہے۔

میں جوان لڑکی ہوں موم اس لیے پلیز دروازہ نوک کیا کریں آنے سے پہلے۔عنزہ کی بات پہ سمیہ بیگم طنزیہ مسکراٸی۔

ماں ہوں تمہاری خیر میں دیکھنے آٸی تھی کے تم آٸی ہو یا نہیں۔سمیہ بیگم نے کہا۔

آگٸ تھی آپ سے پہلے ہی۔عنزہ نے جتاتے ہوۓ لہجے میں کہا۔

میں ڈنر پہ انواٸٹڈ تھی وہی سے آرہی ہوں۔سمیہ بیگم نے بتایا۔

جانتی ہوں آۓ دن پارٹیز اور ڈنر کے بارے میں۔عنزہ نے کہہ کر فون کو ساٸیڈ ٹیبل پہ رکھا

اچھا سوجاٶ میں بھی تھک گٸ ہوں ریسٹ کروں گی۔سمیہ بیگم کہتی کمرے سے نکل گٸ عنزہ نے لحاف اپنے اُپر ڈالا اور سیدھی لیٹ گٸ۔

وہ مجھے دیکھ رہا تھا پر اتنے غصے سے کیوں؟عنزہ نے جیسے ہی سونے کے لیے آنکھیں بند کی تو سامنے طلحہ کا غصے بھرا چہرہ آیا تو الجھ کر خود سے پوچھا۔

مجھے کیا غصے سے دیکھے یا پیار سے یا دیکھے ہی نہ۔اپنی بات کو خود ہی رد کرتی وہ طلحہ کے بارے میں سوچنے کے لیے خود کو باز رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ لو تمہاری کافی۔طلحہ ٹیرس پہ کھڑا سامنے والے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا جب آمنہ بیگم آکر کافی کا کپ پکڑایا۔

امی اِس کی کیا ضرورت تھی مجھے چاہیے ہوتی تومیں بنالیتا خوامخواہ آپ نے تکلف کیا اتنی رات کو۔طلحہ نے آمنہ بیگم سے کپ لیکر کہا۔

تکلف کیسا مجھے آج کتاب پڑھنی تھی اپنے لیے چاۓ بناٸی تو سوچا اپنے بیٹے کے لیے بھی کافی بنادو۔آمنہ بیگم نے مسکراکر کہا۔

مرحا سوگٸ ہے کیا؟طلحہ سے کافی کا گھونٹ بھر کر پوچھا

ہاں کھانے کے بعد سوگٸ تھی۔آمنہ بیگم اتنا کہہ کر خاموش ہوٸی۔

کجھ کہنا چاہتی ہیں؟طلحہ نے اندازہ لگایا

ہاں تمہاری شادی ہوجانی چاہیے اب تمہاری پڑھاٸی کو پورا ہوۓ بھی ایک سال ہوگیا ہے۔آمنہ بیگم کی بات پہ طلحہ چپ ہوگیا۔

امی ابھی دو تین سال دیں اس کے بعد انشااللہ جس سے آپ کہے گی کرلوں گا شادی۔طلحہ نے مسکراکر کہا۔

پراٸیوٹ ہوسپٹل بھی تم نے کُھول لیا ہے طلحہ اب دو تین سال کیوں چاہیے؟آمنہ بیگم کی بات پہ طلحہ نے گہری سانس لی۔

کیوں کی ان سالوں میں خود کی زندگی انجوۓ کرنا چاہتا ہوں اکیلے جینا چاہتا ہوں تاکہ شادی کے بات یہ افسوس تو نہ ہو کے میرے گھومنے پِھرنے کی عمر میں شادی ہوگٸ۔طلحہ نے مزاخیہ انداز میں کہا تو آمنہ بیگم نے اس کے بازوں پہ چپت لگاٸی۔

دو سال بعد میں نے تمہاری ایک نہیں سننی۔آمنہ بیگم رعب سے بولی تو طلحہ نے سر کو خم دیا۔

میں تو اب سونے جارہا ہوں آپ بھی جاکر اپنی کتاب پڑھے۔کافی پینے کے بعد طلحہ نے کہا آمنہ بیگم سر کو جنبش دیتی وہاں سے نیچے آٸی۔طلحہ کمرے میں آکر اپنے گھڑی اُتاری اس کو ساٸیڈ ٹیبل پہ کرتا ڈرار کُھولنے لگا وہاں سے ایک لاکیٹ نکال کر پہلے دیکھتا رہا پھر اپنی مٹھی میں قید کیے وہ ایسے ہی بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹ گیا تو نیند بھی اس پہ مہربان ہوتی اپنے آغوش میں لینے لگی۔

بھاٸی اٹھے۔

بھاٸی۔

مرحان نے اب کی طلحہ کے کان میں چیخ کے کہا تو طلحہ ہڑبڑاکر اٹھا مگر جب سامنے ہنستی مرحا پہ نظر پڑی تو وہ گہری سانس بھر کر وال کلاک پہ دیکھا جو صبح کے سات بجارہی تھی۔

بیس سال کی ہونے والی ہوں پر جگانہ ابھی تک نہ آیا۔طلحہ بیڈ سے اٹھتا مرحا سے بولنے لگا۔

اتنا اچھا تو جگایا ہے۔مرحا نے منہ بسورا۔

تم امی سے میرے لیے آلو کا پراٹھا بنوانے کا کہا میں تب تک تیار ہوتا آرہا ہوں۔طلحہ وارڈروب کے سامنے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

آلو کھاٸیں گے تو آلو کی طرح ہوجاٸیں گے۔مرحا نے مسکراہٹ کنٹرول کیے کہا۔

مرحا۔طلحہ نے تنبیہ انداز میں اس کا نام لیا تو وہ جلدی سے باہر کو بھاگی طلحہ نے اس کو دیکھا تو نفی میں سرہلاتا واشروم کی جانب گیا

💕💕💕💕💕💕💕💕

گڈ مارننگ کیسی ہے میری بچی؟عنزہ نیند سے اٹھ کر نیچے آٸی تو مقصوم صاحب نے محبت سے پوچھنے لگے تو عنزہ مسکراکر ان کے پاس آٸی۔

میں ٹھیک ڈیڈ آپ کیسے؟عنزہ ان کے گال پیار کرتی پوچھنے لگی۔

میں بھی فٹ اینڈ فاٸن آج میں نے ہر کام سے آف لیا ہے سوچا آج کا دن اپنی بیٹی کے ساتھ گُزاروں گا۔مقصوم صاحب کی بات پہ عنزہ افسردگی سے مسکراٸی۔

اچھا سوچا موم بھی گھر پہ ہیں؟عنزہ نے لاٶنج میں نظر گھماکر پوچھا۔

ماں کو چھوڑو اپنی وہ نہیں گھر پہ۔مقصوم صاحب نے کہا تو عنزہ زبردستی چہرے پہ مسکان سجانے لگی۔

میری نیو فلم کی شوٹنگ پوری ہوگٸ کجھ ماہ پہلے ٹیلر رلیز ہوگیا تھا اب جلد ہی فلم رلیز ہوگی۔عنزہ نے خود ہی اپنے بارے میں بتایا۔

میں تو کہتا ہوں چھوڑدو اس شوبز کی دنیا کو اپنا بزنس دیکھو جتنا کام کیا وہی کافی ہے نام بھی مل گیا پہچان بھی تو بس اور کیا چاہیے۔مقصوم صاحب نے سمجھانا چاہا۔

نو ڈیڈ یہ کافی نہیں۔عنزہ بولی۔

شوق پورا ہوگیا نہ تو اب بس۔مقصوم صاحب دوبارہ بولے۔

شوق نہیں ڈیڈ میرا جنون ہے اب یہ میں اِس کو اب نہیں چھوڑسکتی۔عنزہ کی آواز کجھ تیز ہوٸی مقصوم صاحب کجھ کہتے پر ان کا فون رنگ ہوا تو خاموش ہوتے کال اٹھانے لگے۔

کیا ہوا ڈیڈ؟عنزہ نے پوچھا جو کال پہ بات کرگٸے تھے۔

لاہور سے کجھ کلاٸنٹس ملنے آٸیں ہیں مجھے جانا ہوگا ضروری پراجیکٹ ڈسکس ہونا ہم پھر کبھی ساتھ بیٹھے گے۔مقصوم صاحب نے اس کا گال تھپتھپاکر کہا تو عنزہ طنزیہ مسکراٸی۔

ہمیشہ ضروری پراجیکٹ اور میٹینگز ہی تو ہوتی ہیں ان سب پہ عنزہ تو کہی نہیں۔اپنے باپ کو جاتا دیکھ کر وہ اداسی سے خود سے بولی۔

آپ کے لیے ناشتہ لگاٶں؟ملازمہ نے آکر عنزہ سے پوچھا۔

نہیں۔عنزہ نے انکار کیا اور خود جم جانے کا سوچ کر باہر کی طرف گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کہاں ہوتم؟طلحہ سے اس کے دوست سعد نے پوچھا۔

میں ہوسپٹل جارہا ہوں خیریت؟طلحہ نے گاڑی ڈراٸیو کرتے بتایا۔

ہاں خیریت مجھے ملنا تھا تم سے۔سعد نے بتایا۔

سات بجے ہوسپٹل سے میرا آف ہوگا پھر ملتے ہیں۔طلحہ نے وقت بتایا۔

نہیں تم ایسا کرو ابھی ملو میں ایڈریس میسج کررہا ہوں اس کے بعد ہوسپٹل جانا۔سعد نے پلین ترتیب دیا۔

اوکے میں آتا ہوں۔طلحہ نے کہہ کر فون ڈیش بورڈ پہ رکھا۔

💕💕💕💕💕💕

تم اب فری ہوگی تو کیوں نہ باہر جانے کا پلین کریں۔رانیہ نے عنزہ سے کہا جس نے اس کو بھی جم آنے کا کہا تھا اب دونوں ہی وہاں موجود تھی۔

ہاں سوچ تو میں بھی یہی رہی ہوں۔عنزہ نے رومال سے اپنا چہرہ صاف کیا جو پسینے سے بھیگ گیا تھا۔

اممم نے تو جگہ بھی ڈساٸیڈ کرلی ہے کہاں کہاں جانا ہے ان سب کی اور کتنے وقت اسٹے کرنا ہے۔رانیہ نے پرجوش ہوکر کہا۔

ایک دو ماہ بعد چلیں گے ابھی میں ریسٹ پہ ہوں۔عنزہ نے اس کا جوش ٹھنڈا کیا۔

اففف عنزہ خود تو دنیا جہاں کی سیر کرتی ہو پر میرے ساتھ چلنے میں جانے کیا مسٸلا ہے تمہیں جو میں اتنا ویٹ کرو۔رانیہ منہ کے زاویے بگاڑ کر بولی۔

بکوز ڈارلنگ رانیہ میں پہلے ہی فلم کی شوٹنگ کے لیے دبٸی اس کے بعد آسٹریلیا جا چُکی تو اب میرا ریسٹ کرنا بنتا ہے۔عنزہ نے مسکراکر کہا۔

اچھا یہ بتاٶ اگلی فلم کب ساٸن کرو گی؟رانیہ پوچھا۔

نو آٸیڈیا۔عنزہ نے کندھے اُچکاکر کہا اور اپنا پرس کندھے پہ ڈال کر ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل لی اور دوسرے ہاتھ میں موباٸل پکڑا۔

تم چل رہی ہو ساتھ یا میں جاٶ؟عنزہ نے رانیہ سے کہا۔

تم جاٶ میں ذرہ ویٹ لوز کرو۔رانیہ نے آنکھ ونک کرکے کہا تو عنزہ اس کے گلے ملتی باہر کی طرف جانے لگی وہ موباٸل میں دیکھ کر گزر رہی تھی جب باہر کا دروازہ کھولتے اس کا کسی کے ساتھ زبردست قسم کا تصادم ہوا پانی کی بوتل اور موباٸل ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گِرا اس کا پاٶں بھی پھسلا ہی ساتھ پر سامنے والا نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر گِرنے سے بچایا عنزہ نے گرنے کے ڈر سے آنکھ بند کرلی تھی پر جب خود کو کسی کے حصار میں پایا تو جھٹ سے آنکھیں کُھولی پر سامنے والا کا چہرہ دیکھ کر اس کا دل ڈوب کے اُبھرا عنزہ کے دونوں ہاتھ سامنے والے کے کندھوں پہ تھے دونوں کو احساس ہی نہیں ہوا تھا وہ کتنے قریب کھڑے تھے۔طلحہ جو جلدی سے آرہا تھا سامنے والے سے ٹکر لگنے پہ جب اس کو گرتا دیکھا تو فورن سے تھاما تھا عنزہ کو دیکھ کر وہ سب کجھ بھول گیا تھا وہ بس اس کا چہرہ کا دیکھ رہا تھا جو میک اپ سے پاک تھا ریڈ کلر کی شارٹ سلیولیس شرٹ اور ریڈ ہی پینٹ پہنے وہ انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی طلحہ بے چینی سے اس کی آنکھیں دیکھ رہا تھا جو بند تھی پر جب عنزہ نے اپنی گہری کالی آنکھوں کو کھولا تو طلحہ ان میں کھوگیا تھا ایسا ہی حال عنزہ کا بھی تھا۔

میم سر آپ دونوں ٹھیک ہے؟ہیلپر جلدی سے وہاں آکر بولا تو طلحہ فورن سے عنزہ سے دور ہوا اور بنا اس کی طرف دیکھے اندر کی طرف چلاگیا عنزہ مڑکر اس کی طرف دیکھا جو دور جاچُکا تھا۔

ہزاروں لوگ ہیں

جو

مجھ کو چاہتے ہیں

مگر

تو وہ پہلا شخص ہے

جس

سے مجھے محبت ہے

میم؟ہیلپر نے طلحہ کے جانے کے بعد دوبارا عنزہ کو مخاطب کیا وہ جو طلحہ کی پشت دیکھ رہی تھی جس کا اب نام ونشان نہیں تھا ہیلپر کے مخاطب ہونے پہ اس نے تیز نظروں اس کی جانب دیکھا تھا۔

کونسا چھت گِر پڑی تھی میرے اُپر یا اس کے اُپر جو پوچھنے کے لیے بھاگ آٸیں۔عنزہ نے سخت لہجے میں کہا جس نے ان دونوں کے درمیان خلل ڈالا تھا۔

سوری میم۔ہیلپر نے سر جھکاکر معذرت کی۔

میرا موباٸل اٹھا کر دو بوتل کو کسی ڈسٹ بین میں پھینک دینا۔عنزہ نے کہا تو ہیلپر نے فورن سے اس کا موباٸل اٹھاکر دیا جس کی اسکرین ڈیمیج ہوگٸ تھی عنزہ نے موباٸل کی طرف دیکھ کر باہر چلی گٸ باہر پورچ میں آٸی تو اس کی نظر اپنی گاڑی سے پہلے BMW پہ پڑی جس کا کلر سیاح تھا عنزہ نے پرس اپنی گاڑی میں رکھا خود BMW کے پاس آکر وہاں اپنا ہاتھ پھیرنے لگی۔

میں خود تو بہت امیر ہوں پر چاہتی ہوں کے جب میں اکیس سال کی ہوجاٶں نہ تو تم مجھے BWM IXلیکر دینا گفٹ پہ میرے برتھ ڈے کے دن اینڈ تب میں پہلی سواری تمہیں ہی کرواٶ گی۔

اپنا لاڈ سے کہا جُملا اس کی کانوں میں گونجا تو آنکھوں میں نمی کا احساس ہوا عنزہ اپنے ہاتھ پیچے کیے اور اپنی ازلی چال چلتی وہاں سے ہٹ گٸ۔

کیا بات ہے ایوری تھنگ از اوکے؟طلحہ پش اپ کرتے سعد کو کھڑا کیے بولا۔

ہاں سب ٹھیک ہے ایسے ہی بس۔سعد نے اتنا کہا

کوٸی بات تو ہوگی نہ جو تم شام تک کا ویٹ نہ کرپاٸیں۔طلحہ نے گھورا۔

تمہارا فیس کیوں لال ہے؟سعد نے پوچھا تو طلحہ کو اُلجھن ہونے لگی۔

اگر کوٸی بات نہیں تو میں جارہا ہوں۔طلحہ سپاٹ انداز میں بولا۔

مزاق کررہا تھا وہ دراصل بات یہ ہے کے میں تمہارے ہوسپٹل میں جاب کرنا چاہتا ہوں.سعد نے آخر وجہ بتا ہی دی۔

تو تم ہوسپٹل آکر بھی کہہ سکتے تھے۔طلحہ نے گھور کر کہا تو سعد خجل ہوتا کان کی لو مسلنے لگا۔

بس سوچا اتنی زحمت کیوں کرو۔سعد نے کہا

اوکے تم آجانا مجھے کوٸی پروبلم نہیں تمہارا اپنا ہی ہوسپٹل ہے۔طلحہ نے خوشدلی سے کہا تو سعد مطمٸن ہوا۔

شکر جاب کا مسٸلا ختم ہوا۔سعد نے آسمان کی طرف ہاتھ کھڑے کیے بولا تو طلحہ نے اس کے کندھے پہ تھپڑ رسید کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان تمہارا کنسرٹ کب ہے؟عنزہ نے پاس بیٹھے روحان سے کہا۔

اگلے ماہ کی پانچ تاریخ کو۔روحان نے بتایا۔

میں آٶں گی۔عنزہ نے مسکراکر کہا تو روحان اس کی طرف دیکھا۔

تمہیں تو آنا ہے۔روحان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہا۔

تم نے فون چینج کردیا کیا؟روحان کی نظر ٹیبل پہ عنزہ کی فون پہ پڑی تو کہا۔

ہاں گِرگٸ تھی وہ تو بس اس لیے۔عنزہ نے جواب دیا۔

حفاظت نہیں کرتی تو اپنی چیزوں کی۔روحان نے تاسف سے کہا۔

ہاں واقع۔عنزہ کھوۓ ہوۓ انداز میں بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میں اندر آسکتی ہوں؟فلزہ نے طلحہ کے کیبن کا دروازہ کھول کر اجازت لیتے کہا۔

ہاں آجاٶ۔طلحہ جو فاٸل ریڈ کررہا تھا فلزہ کو دیکھ کر اجازت دی۔

تم گھر نہیں گٸے ابھی تک۔فلزہ نے وجہ پوچھنی چاہی۔

ڈاکٹر سمیر آج نہیں آۓ تھے تو میں ان کے وارڈز میں مریضوں کا چیک اپ کررہا تھا تووقت گزرنے کا پتا نہیں لگا۔طلحہ نے کہا

اچھا جب گھر جاٶ تو مجھے ڈراپ کردینا صبح آتے وقت خراب ہوگٸ تھی ابھی ورکشاپ پہ ہے۔فلزہ نے کہا۔

شیور میں آدھے گھنٹے میں نکلوں گا۔طلحہ نے ہاتھ میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا

آج بیس مارچ ہے ڈاکٹر سمیر نے اس لیے آف کیا ہے نہ؟فلزہ جاتے وقت اچانک سے پلٹ کر طلحہ سے کہا تو طلحہ کے چہرے پہ سایہ لہرایا۔

آج بیس مارچ ہے؟طلحہ نے پوچھا۔

ہاں آپ کیلینڈر نہیں دیکھتے کیا اپنے فون میں تو آپ کا کیلینڈر سیٹ ہی نہیں ٹھیک سے۔فلزہ نے بتاکر آخر میں جیسے افسوس کیا۔

آپ تیار کریں میں آتا ہوں۔طلحہ بات بدل کر بولا تو فلزہ کندھے اُچکاکر وہاں سے چلی گٸ طلحہ نے اپنا سر چیٸر پہ ٹکاکر آنکھیں بند کرکے کھولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان سے ملنے کے بعد عنزہ لاٶنج میں بیٹھی ٹی وی پہ گیم شو دیکھ رہی تھی جب سمیہ بیگم اس کے پاس آکر بیٹھی۔

کوٸی ڈرامہ لگادو۔سمیہ بیگم نے کہتے ملازمہ کو دو کپ کافی لانے کا کہا۔

پکڑے ریموٹ۔عنزہ ریموٹ ان کی طرف بڑھاکر جانے لگی جب سمیہ بیگم نے آواز دیں کر روکا

بیٹھو ساتھ میں کافی پیتے ہیں۔سمیہ بیگم کی بات پہ وہ دوبارہ صوفے پہ بیٹھی۔

کل میرے ساتھ ڈنر پہ چلنا راٸمہ کی طرف سے ہے اس نے کہا تھا تمہیں ساتھ لاٶ۔سمیہ بیگم نے عنزہ سے کہا ملازمہ کافی کے کپ رکھ کر جاچکی تھی۔

میرا اپنا پروگرام ہے کل میری طرف سے معذرت۔عنزہ لاپرواٸی سے کہتی اپنا کافی کا کپ اٹھانے لگی۔

کینسل کردو وہ میں ہاں کرچکی ہوں اور سب فیملیز انواٸٹڈ ہیں تمہاری باقی کزنز بھی ہوگے۔سمیہ بیگم سخت ہوٸی۔

کون سے کزن ہوگے؟عنزہ نے کافی کا گھونٹ بھر کر اپنے لہجے کو سرسری کرکے پوچھا۔

چلو گی تو پتا لگے گا نہ۔سمیہ بیگم کہتی ذرا سا جھک کر ٹیبل سے اپنا فون اٹھانے لگی تو ان کا بازوں عنزہ کے کافی والے ہاتھ سے ٹکڑایا تو گرم کافی کا کپ عنزہ کے دوسرے ہاتھ کی اسکن کو جلادیا۔

آآآ۔عنزہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ہاتھ دیکھنے لگی جو لال ہوگیا تھا۔

اتنا ڈھیلا کیوں پکڑا تھا جل گیا نہ ہاتھ۔سمیہ بیگم تیز آواز میں کہتی ملازمہ کو مرہم لانے کا کہا عنزہ کی آنکھیں بھیگنے لگ گٸ تھی پر اس نے رونے سے خود کو باز رکھا آنسو ہاتھ جلنے کی وجہ سے نہ تھے اپنی ماں کے رویے کی وجہ سے آرہے تھے جس نے ایک دفع بھی نہیں کہا کے ہاتھ دیکھاٶ زیادہ جلا تو نہیں۔

تمہیں کس نے کہا تھا کچن میں آنے کو کٹ گٸ نہ انگلی خون بہہ رہا ہے اففف خدایا میں کیا کروں تمہارا جانے کیا سکون ملتا ہے تمہیں مجھے پریشان کرنے میں۔

گزرا ہوا وقت یاد آتے آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح بہنے لگے تھے۔

بچی نہیں ہو رونا بند کرو۔سمیہ بیگم نے اس کو روتا دیکھا تو کہا۔

میم آۓ میں لگادوں۔ملازمہ نے عنزہ سے کہا۔عنزہ نے امید بھری نظر سے سامنے اپنی ماں کو دیکھا۔

بیٹھو میں لگاتی ہوں۔سمیہ بیگم نے بیٹھنے کا کہا تو عنزہ فورن سے بیٹھ گٸ سمیہ بیگم آہستہ آہستہ سے اس کی جلی ہوٸی جِلد پہ مرہم لگانے لگی۔

کمرے میں جاکر سوجاٶ صبح تک درد کم ہوجاۓ گا کمرے میں پین کلر ہوگی وہ کھالینا یاد سے۔مرہم لگانے کے بعد سمیہ بیگم عنزہ سے بولی تو وہ لاٶنج سے اٹھتی کمرے میں جانے لگی ۔کمرے میں آکر اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی مرہم لگنے کے بعد اور جلن کا احساس ہورہا تھا وہ سرجھٹکتی بیڈ کے پاس آٸی اور بنا کوٸی میڈیسن لیے سونے کے لیے لیٹ گٸ۔

صبح آنکھ کھلنے پہ اس نے اپنا ہاتھ دیکھا جہاں چھالے پڑے ہوۓ تھے عنزہ شد سی اپنے خوبصورت کی حالت دیکھ رہی تھی وہ لحاف خود سے دور کرتی فورن سے نیچے کی طرف بھاگی۔

موم

ڈیڈ۔

لاٶنج میں آتی وہ زور سے آوازیں دینے لگی۔

کجھ چاہیے آپ کو؟ملازمہ سرجھکاکر بولی عنزہ نے تیز نظر اس پہ ڈالی۔

موم ڈیڈ کہاں ہیں؟عنزہ نے تکلیف برداشت کرتے پوچھا۔

وہ باہر لان میں ہیں۔ملازمہ نے جیسے ہی بتایا وہ لان کی طرف آٸی جہاں مقصوم صاحب اور سمیہ بیگم ناشتہ کررہے تھے۔

میرا ہاتھ دیکھے موم بلکل موو نہیں کررہا اکڑ گیا ہے۔عنزہ اپنا ہاتھ سمیہ بیگم کے سامنے کیے رونے والے انداز میں کہا۔

او ماۓ گوڈ یہ کیا ہوا ؟مقصوم صاحب فورن سے اپنی جگہ سے اٹھ کر عنزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے کہا جو جس پہ چھالے پڑنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی ایک ساٸیڈ پوری لال ہوگٸ تھی۔

کجھ نہیں مقصوم کل بس کافی گِرگٸ تھی شاید اس کا ری ایکشن ہے میں نے مرہم تو لگاٸی تھی پر افاقہ نہیں ہوا جانے کیوں۔سمیہ بیگم ان کو رلیکس کرنے کی خاطر بولی۔

رات کو بتانا تھا نہ مجھے یا خود ہوسپٹل لیکر جاتی پتا نہیں کیا عنزہ کی اسکن کتنی نرم ہے۔مقصوم صاحب بھرم ہوۓ۔

تو اب آپ لے جاۓ یا کسی ڈاکٹر کو بولاۓ۔سمیہ بیگم چاۓ کا سپ لیتی ہوٸی بولی۔

کسی اور کو کیوں طلحہ سے کہتا ہوں ہوسپٹل جانے سے پہلے یہاں آۓ وہ اچھے سے چیک اپ کرلیں گا۔مقصوم صاحب ٹیبل سے اپنا فون اٹھاکر بولے۔

طلحہ کو کیوں تکلف دیں رہے ہو اس کا اپنا دن بزی ہوتا ہے۔سمیہ بیگم کو اختلاف ہوا۔

تم خاموش رہو سامنے ہی تو گھر ہے۔مقصوم صاحب سخت نظروں سے سمیہ بیگم کو دیکھا۔

طلحہ سویا ہوا تھا جب اس کا فون رنگ ٹون کرنے لگا طلحہ نے مندی مندی آنکھیں کھول کر ہاتھ یہاں وہاں کرکے موباٸل کو تلاش کرنے لگا جو ساٸیڈ ٹیبل پہ تھا سیل فون اٹھا کر اسکرین پہ جگمگاتا نمبر دیکھ کر اس کی نیند بھک سے اُڑ گٸ۔

اسلام علیکم چچا جان خیریت۔طلحہ نے کال اٹھا کر پوچھا۔

وعلیکم اسلام طلحہ بیٹے معذرت چاہتا ہوں اتنی صبح کال کی ایک درخواست تھی۔مقصوم صاحب خاموش بیٹھی عنزہ کی طرف دیکھ کر بولیں۔

آپ حکم کریں۔طلحہ فورن سے بولا۔

ہوسپٹل کس ٹاٸم جاٶ گے؟مقصوم صاحب نے پوچھا۔

نو بجے۔طلحہ نے وال کلاک پہ وقت دیکھ کر بتایا۔

اچھا ایسا کرنا پہلے یہاں آنا عنزہ کے ہاتھ میں کل گرم کافی گِرگٸ تھی اس کا ری ایکشن ہوا ہے تو اس کو بہت تکلیف ہورہی ہے بات تو تھوڑی ہے پر عنزہ کی اسکن بہت سوفٹ ہے جس سے جلدی ری ایکشن ہوجاتا ہے۔مقصوم صاحب کی بات پہ طلحہ فورن سے بیڈ سے اٹھا

کل کجھ کیا نہیں تھا کیا مطلب لگایا نہیں اس پہ یا کوٸی میڈیسن؟طلحہ سلپر پہنتا پوچھنے لگا۔

تمہاری چچی نے مرہم لگاٸی تھی عنزہ کے ہاتھ میں تو چھالے پڑگٸے ہیں۔مقصوم صاحب پریشانی سے بولے۔

میں آتا ہوں۔طلحہ اتنا کہہ کر کال کاٹ گیا۔

کہاں جارہے ہیں بھاٸی ناٸٹ سوٹ میں؟طلحہ کو جلدی سے سیڑھیاں اُترتا دیکھ کر مرحا بولی

ایک کام ہے آتا ہوں۔اپنے حُلیے سے لاپرواہ طلحہ اتنا کہہ کر باہر کی طرف گیا مرحا تعجب سے اپنے بھاٸی کو دیکھا۔

آرہا ہے وہ۔مقصوم صاحب نے عنزہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا تو عنزہ نے باہر گیٹ کی جانب دیکھا دو منٹ بعد اس کو طلحہ گیٹ کھول کر اندر آتا دیکھا جو بلیک گول گلے والی شرٹ اور بلیک ٹراٶز پہنے رف حلیے میں تھا بال ماتھے پہ بکھرے ہوۓ تھے ایسا لگتا تھا عجلت میں آیا ہو

بیٹا آرام سے آتے عنزہ کونسی بچی ہے خوامخواہ تم نے اپنی نیند خراب کی۔سمیہ بیگم کو طلحہ کی دیکھ کر افسوس ہوا۔

کوٸی بات نہیں چچی۔طلحہ ہلکی سی مسکراہٹ سے بولا پھر عنزہ کے پاس آیا جو اب اپنے ہاتھ پہ نظر ٹکاۓ بیٹھی ہوٸی تھی طلحہ اس کی چیٸر کے پاس گھٹنے کے بل بیٹھ کر اس کے ہاتھ کا جاٸزہ لینے لگا۔

چچی کونسی مرہم لگاٸی تھی آپ نے اس کو؟طلحہ سنجیدگی سے سمیہ بیگم سے پوچھا۔

نام نہیں دیکھا تھا۔سمیہ بیگم کی بات پہ طلحہ نے اپنے لب زور سے بھینچ لیے۔

کافی کا ری ایکشن نہیں مرہم کا ری ایکشن ہے آپ کو پہلے دیکھنا چاہیے تھا کونسی مرہم ہے اور کس چیز کے لیے ہے ساری رات جلے ہوۓ ہاتھ میں لگانے پہ ایسا حال تو ہوگا نہ اور سب سے پہلے آپ کو عنزہ کا ہاتھ ٹھنڈے پانی میں رکھنا چاہیے تھا مجھ سے بہتر آپ جانتی ہے عنزہ کی اسکن کے بارے میں۔طلحہ سنجیدگی سے سمیہ بیگم کو ان کی غلطی بتانے لگا مقصوم صاحب غصے بھری نظروں سے سمیہ بیگم کو دیکھا جو اپنا سر جھکاگٸ تھی۔

فرسٹ ایڈ بوکس منگواٸیے گا۔طلحہ نے مقصوم صاحب سے کہا تو انہوں نے فورن سے ملازم کو آواز دیں کر فرسٹ ایڈ بوکس لانے کا کہا۔

یہ میڈیسن ناشتہ کرنے کے بعد کھانا اور اپنا ہاتھ فلحال کے لیے اب پانی سے دور رکھنا شام تک ہاتھ ٹھیک ہوجاۓ جلن محسوس نہیں ہوگی۔طلحہ نے ملازم سے بوکس لیکر سپاٹ انداز میں عنزہ سے کہا جو بُت بنی بیٹھی ہوٸی تھی۔

میں اپنے کمرے میں جاٶں گی۔عنزہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوٸی۔

طلحہ سے شکریہ تو کرو۔سمیہ بیگم نے ٹوکا

اس کی کوٸی ضرورت نہیں چچی چچا جان پریشان تھے میرا آنا بنتا تھا اور سب سے اہم بات کے میں ہوں بھی تو ڈاکٹر۔طلحہ نرمی سے بولا تو عنزہ بس اس کو دیکھتی رہ گٸ۔

تھیک یو اگر آپ نہ آتے تو میرا ہاتھ جل کے راکھ ہوجاتا وہ تو اچھا ہوا آپ اپنے چچا کی بات پہ بنا خود پہ دھیان دیٸے یہاں آگٸے۔عنزہ بدتمیزی سے کہتی اندر کی طرف بڑھ گٸ طلحہ نے تو دھیان نہیں دیا پر مقصوم صاحب اور سمیہ بیگم ضرور شرمندہ ہوگٸے تھے۔

میں چلتا ہوں اب۔طلحہ نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔

اللہ نے ایک اولاد دی وہ بھی نافرمان۔طلحہ کے جاتے ہی سمیہ بیگم غصے سے بولی۔

ناشتہ کرو تم بس۔مقصوم صاحب کہتے اندر کی طرف گٸے۔

طلحہ اتنی افراتفری میں کہاں گٸے تھے؟طلحہ گھر آیا تو آمنہ بیگم نے پوچھا۔

چچا جان کافون آیا تھا ان کی بیٹی کا ہاتھ تھوڑا جل گیا تو پریشان تھے میں نے سوچا دیکھ آٶ۔طلحہ صوفے پہ بیٹھتا بتانے لگا۔

عنزہ کا ہاتھ کیسے جلا؟آمنہ بیگم فکرمند ہوٸی۔

ڈونٹ نو امی آپ ناشتہ تیار کرواۓ میں فریش ہوکر آیا۔طلحہ کہتے ہی سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔


💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہاتھ میں کافی گِری کیسے تھی؟رانیہ اِس وقت عنزہ کے کمرے میں موجود تھی جب اس کا ہاتھ دیکھا تو عنزہ سے پوچھا۔

موم کا بازوں میرے ہاتھ سے ٹچ ہوا تھا بے خیالی میں میرے ہاتھ سے کپ چھوٹا اور ہاتھ میں بھی کافی گِری۔عنزہ نے اپنا ہاتھ دیکھ کر کہا جو اب قدرے بہتر تھا۔

دو دن بعد تمہارا لائیو شو ہے۔رانیہ نے یاد کروایا

ہاں صبح نو بجے ٹاک شو میں جانا تھا سوچا معذرت کرلوں پھر سوچا زبان نے مکر نہ ٹھیک نہیں۔عنزہ نے جوابً کہا۔

معذرت کیوں ہاتھ تو بہتر ہے اب تمہارا دو دن بعد مزید ٹھیک ہوجاۓ اگر نشان کی وجہ سے کہہ رہی ہو تو فکر نہیں کرو میک اپ سے چھپ جاۓ گا۔رانیہ نے اندازہ لگاکر کہا۔

نہیں نہیں طلحہ نے جو کل میڈیسن دی تھی کھانے کو اس پہ درد بلکل ختم ہوگیا تھا اب تو ایسے ہی ہے شو پہ انکار تو اس لیے کہا کیوں کی جلدی اٹھنا پڑے گا۔عنزہ نے فورن سے کہا

طلحہ آیا تھا تمہارا ہاتھ دیکھنے؟رانیہ حیرت سے بولی۔

ڈیڈ نے اس کو بولایا تھا تمہیں تو پتا ہے اپنے چچا کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے آگیا تھا۔عنزہ طنزیہ مسکراہٹ سے بولی عنزہ کی بات پہ رانیہ نے پھر اور کجھ نہ کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

Episode 2

مس عنزہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ٹاک شو کی ہوسٹ نے عنزہ سے سوال کیا جو آج ان کے شو کی گیسٹ تھی۔

وارڈروب سے شرٹ تلاش کرتے طلحہ کے ہاتھ ٹی وی کی آواز پہ تھمے تھے اس نے وارڈروب بند کرکے اپنی نظر ٹی وی کی جانب کی جہاں بلیو فراق کے ساتھ بلیو ٹراٶز پہنے عنزہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی بال کھول رکھے تھے جن میں بلیو ہی کلر کا ہیٸر بینڈ لگایا ہوا تھا ٹانگ کہ اُپر ٹانگ چرھاۓ وہ پُراعتماد سے بیٹھی تھی طلحہ چلتا ہوا بیڈ پہ بیٹھا اور اپنی نظر ٹی وی پہ مرکوز کی۔

میری کامیابی کا راز تو کوٸی نہیں پر میں اس کا کریڈیٹ خود کو دوں گی۔عنزہ مسکراکر جواب دیا۔

کسی نے سپورٹ تو کیا ہوگا فیملی میں سے فرینڈس یا پھر کزنز وغیرہ نے؟ہوسٹ نے نیا سوال کیا۔

نو میں نے جب یہ فیلڈ جواٸن کرنا چاہا تو میرے ساتھ کوٸی نہیں تھا بس ایک کزن کے بارے میں بتاٶں گی جو میرا ایک اچھا دوست بھی ہے جب میرے ساتھ کوٸی نہیں تھا تو وہ ساتھ تھا اس نے ہر لحاظ سے میری حوصلہ افزاٸی کی اور آج میں اپنی محنت سے اس مقام پہ ہوں۔عنزہ نے جواب دیا طلحہ کے چہرے کے تاثرات عجیب ہوۓ تھے۔

ماشااللہ سے آپ نے تین سالوں میں تین فلمز کی ہیں اور ایک جلد ہی رلیز ہوگی اس کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہے گی؟

تین سالوں میں جس طرح میں نے تین فلمز ساٸن کی تھی اور میں اِس فلم میں بھی پُرامید ہوں کے وہ لوگوں کو پسند آۓ گی۔عنزہ نے جواب دیا۔

آپ سنگل یا ریلشن میں ہیں؟ہوسٹ کے اِس سوال پہ عنزہ کا چہرہ تاریک ہوا تھا جو کسی نے تو نہیں پر اسکرین پہ طلحہ نے بہت غور سے دیکھا تھا۔

الحمداللہ میں سنگل ہوں۔عنزہ خود کو کمپوز کیے بولی طلحہ کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آٸی تھی۔

شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

نیک خیالات ہے۔عنزہ کی بات پہ شو میں بیٹھے لوگ ہنسنے لگے۔

ہمسفر کے لیے آپ کیا آٸیڈلاٸیز کرتی ہیں مطلب کے وہ کیسے ہوا صورت میں بھی اور سیرت میں بھی؟ہوسٹ نے نیا سوال کیا۔

آٸیڈلاٸیز کجھ خاص نہیں بس اتنا چاہوں گی

ساتھ نبھانے والا ہو میں جو ہوں جیسی ہوں مجھے ایسے ہی قبول کریں اور کسی بات پہ روک ٹوک نہ کریں ورنہ رشتا کتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو ان میں درار آجاتی ہے میرا اس کے وقت ساتھ دیں جب مجھے سب سے زیادہ اس کے ساتھ کی ضرورت ہو رہی بات سیرت اور صورت کی تو آج ہرکوٸی صورت دیکھتا ہے سیرت اور دل کا کس نے کیا کرنا اور دیکھنا اس لیے میں اپنا ہمسفرخوبصورت چاہوں گی اور ساتھ دینے والا جو ضرورت پڑنے پہ ہاتھ نہ چھوڑے بلکہ ہاتھ پکڑ کر کہے میں ساتھ چلوں گا تمہارا مسٸلا ہماری مسٸلا تمہاری خوشی ہماری خوشی۔عنزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا

ماشااللہ آپ باتیں بہت اچھی کرتیں ہے اور یہاں شو میں جتنے بھی لوگ موجود ہے ان سب کی دعا ہے کے آپ جو چاہتی ہیں آپ کو ویسا لاٸف پارٹنر ملے میں اب ایک لاسٹ سوال پوچھنا چاہوں گی؟ہوسٹ نے کہہ کر آخر میں پوچھا

جی پوچھیں۔عنزہ نے اجازت دی۔

آپ کی فلمز کی اینڈنگ ہمیشہ سیڈ کیوں ہوتی ہے آپ کی پہلی فلم میں لڑکا مرجاتا ہے دوسری فلم میں آپ اس کو چھوڑ جاتی ہے تیسری میں گھروالے دونوں کو مار دیتے ہیں ایسا کیوں؟ہوسٹ کی بات پہ عنزہ نے گہری سانس بھری۔

بعض دفع کہانیوں کی احتتام سیڈ ہونا ہی ہوتا ہے اور میرا ماننا %100 میں سے %10ہوگے جن کی لو اسٹوری کی اینڈنگ ہیپی ہوگی کیوں کی ہر کہانی میں ایسا ہوتا ہے اگر لڑکا لڑکی کو چاہے تو لڑکی اس کو نہیں چاہتی لڑکی لڑکے کو چاہے تو لڑکا اس لڑکی کو نہیں چاہتا اگر دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو تو گھروالوں کو اعتراض ہوتا ہے وجہ کوٸی بھی بن جاتی ہے اور دو پیار کرنے والے لوگ الگ ہوجاتے ہیں میں حقیقت پسند ہوں اس لیے ساٸن کرنے وقت پہلے اینڈنگ پڑھتی ہوں۔عنزہ کی بات پہ شو میں بیٹھے ہر شخص نے تالیا بجاٸی تھی طلحہ اپنی جگہ دم بخود سا ٹی وی اسکرین پہ عنزہ کو دیکھ رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج کے ٹاک شو میں تو تم چھاگٸ۔رانیہ نے خوش ہوکر عنزہ سے کہا جو برگر کھا رہی تھی۔

تمہیں میرا بتانا چاہیے تھا۔روحان جو خاموش تھا عنزہ سے بولا۔

میں ابھی کوٸی اسکینڈل افورڈ نہیں کرسکتی۔عنزہ نے روحان سے کہا۔

اسکینڈل کیسا تم نامور اداکارہ ہو میں بھی نامور اداکار اور سنگر ہوں اِس میں اسکینڈل کیسا۔روحان کو عنزہ کی بات پسند نہیں آٸی۔

یہی بات تو پھر میڈیا میں ہوگی ہر جگہ۔عنزہ کو روحان عقل سے پیدل لگا۔

ہم انگیجمنٹ اناٶس کرتے ہیں میں ویسے بھی اب شادی کرنا چاہتا ہوں دو سال سے ہم ساتھ ہیں اس لیے اور رشتہ کو گھسیٹ نے سے بہتر ہے شادی ہوجاۓ۔روحان کی بات پہ عنزہ کے چہرے کا رنگ اُڑا۔

شادی کا میرا ابھی کوٸی خیال نہیں۔عنزہ فورن بولی۔

تو کب ہوگا۔اِس بار رانیہ نے کہا

اگلے سال۔عنزہ نے مسکراکر کہا تو روحان مطمٸن ہوا۔

انگیجمنٹ کرنے میں کوٸی حرج نہیں۔روحان نے پھر کہا

دیکھتے ہیں کجھ۔عنزہ نے بس یہی کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میم ون سیلفی پلیز۔عنزہ اکیلی شاپنگ مال کے لیے نکلی تھی جب لوگ اپنے موباٸل لیکر اس کے پاس آکر بولے عنزہ کو افسوس ہوا اس نے ماسک کیوں نہیں پہنا۔

میم آٹوگراف پلیز میں آپ کی سب سے بڑی فین ہوں۔عنزہ ان سب کے سیلفی لے رہی تھی جب ایک لڑکی پین اس کے سامنے کیے بولی عنزہ اس کے ہاتھ سے پین لیکر پیپر مانگا تو لڑکی نے اپنی ہتیھلی اس کے سامنے کی۔

میں جب مشہور اداکارہ بن جاٶں گا نہ تو سب سے پہلے آٹوگراف تمہیں دوں گی وہ بھی ہاتھ پہ اور ڈھیر ساری تصویریں ساتھ میں لیں گے۔

آج بھی آوازوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا عنزہ جلدی سے آٹوگراف دیتی وہاں سے ہٹ گٸ آنکھوں میں نمی کا احساس ہوا تو ان کو چھپانے کے لیے سن گلاسس پہن لیے

جنون ہے میرا بنوں میں تیرے قابل

تیرے بنا گُزارہ اۓ دل ہے مشکل

💕💕💕💕💕💕💕💕

طلحہ کیبن میں بیٹھا پیپر ویٹ گُھمارہا تھا جب ایک نرس بھاگ کر اس کے کیبن میں آیا۔

کیا ہوا؟طلحہ نے تعجب سے پوچھا۔

ڈاکٹر طلحہ نیچے وارڈ میں ١٢ نمبر والا پیشنٹ جو ہے اس کو پاگل پن کا دورہ پڑا ہے کسی کے کنٹرول میں نہیں آرہا۔نرس نے ہڑبڑی میں بتایا۔

آرام کا انجیکشن لگانا تھا نہ۔طلحہ فورن سے اپنی جگہ سے اٹھا۔

ڈاکٹر وہ ہاتھ ہی نہیں آرہا۔نرس نے وضاحت کی طلحہ فورن سے ہوسپٹل میں بنے نیچے فلور پہ آیا۔

افتخار کا ہوا آپ تو اچھے بچے ہیں اِدھر آرام سے لیٹے۔طلحہ نے مریض سے کہا جس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی پر اس کا دماغی حالت ٹھیک نہیں تھا اس لیے وہ ایسی حرکت کرتا رہتا تھا۔

میرے پاس کوٸی نہ آۓ میں ماردوں گا۔افتخار پھلوں کی درمیان میں سے ناٸیف کو پکڑ کر بولا تو طلحہ نے پیچے مڑکر غصے بھری نظروں سے پورے اسٹاف پہ ڈالی جو یہاں افتخار کو کنٹرول کیے ہوۓ تھے جب کی باقی کے مریض اپنے اپنے پلنگ کے نیچے چُھپ کے بیٹے تھے افتخار کا پاگل پن دیکھ کر۔

یہ ایسی چیزیں میں نے رکھنے کو منع کیا تھا نہ؟طلحہ ان سب کو دیکھ کر تیز آواز میں بولا جو سرجھکا گٸے تھے۔

ڈاکٹر طلحہ۔

ایک نرس نے پیچے کی طرف اشارہ کرکے طلحہ کا نام زور سے لیا تو طلحہ فورن سے چہرہ موڑ کر دیکھا جہاں افتخار اس کی پیٹھ پہ ناٸیف مارنے والا تھا طلحہ نے اس کا ہاتھ روکا تو افتخار غصے میں اپنا ہاتھ چھڑوانے لگا ایسے کرنے پہ ناٸیف طلحہ کی کلاٸی کی نبض کے کجھ دور گھونپ گٸ تھی خون کا ایک فوارہ طلحہ کی کلاٸی سے اُبل پڑا تھا پورے وارڈ میں سناٹا چھاگیا تھا طلحہ اپنا درد برداشت کرتے نرس سے بیھوشی کا انجیکشن کھینچ کر افتخار کے بازوں میں لگادیا جس سے وہ کجھ ہر منٹ میں پرسکون ہوکر آنکھیں بند کرگیا طلحہ خون نکلنے کی جگہ پہ اپنا ہاتھ رکھا جب کی دو نرسس نے افتخار کو اس کے بیڈ پہ لیٹایا

ڈاکٹر طلحہ آپ کو ٹریٹ منٹ کی ضرورت ہے۔طلحہ کا کولیگ سلمان اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو طلحہ سر اثبات میں ہلاتا وہاں سے نکل گیا اس کے پیچے ایک نرس بھی نکل کر طلحہ کے ساتھ جانے لگی تاکہ پٹی کرسکے۔

💕💕💕💕💕

رات کے بارہ کا وقت تھا وہ اپنی نظریں موباٸل پہ ٹکاۓ بیٹھی ہوٸی تھی جہاں نوٹیفیکیشن کا انبار تھا اس کے سارے فینز سالگرہ کی مبارکباد دیں رہے تھے میسج پہ دعاٸیں لکھ کر بھیج رہے مگر اس کو لاشعوری طور پہ کسی اور کے میسج کا انتظار تھا وہ جانتی تھی وش کرنے کے میسج نہیں آٸیں گا پر ہرسال وہ انتظار کرتی تھی کے شاید اِس دفع سالگرہ کی مبارک دیں بارہ سے رات کے تین بج گٸے تھے مگر اس کا شاید اِس بار بھی شاید ہی رہا انتظار کرکے اس کی آنکھیں پتھرا گٸ تھی پر جس کا اس کو انتظار تھا وہاں خاموشی تھی جس سے اس کی آنکھیں بھیگ گٸ تھی۔

آپ لوگ کہی جارہے میری سالگرہ ہے آج کے دن تو میرے ساتھ گُزارے۔عنزہ سیڑھیوں کے زینے عبور کرتی باہر آٸی تو اپنے والدین کو باہر جاتا دیکھ کر کہا جس پہ مقصوم صاحب اور سمیہ بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا وہ اپنی بیٹی کی پیداٸش کا دن بھول گٸے تھے۔

ہیپی برتھ ڈے بیٹا ہم رات میں پارٹی آرگناٸیز کریں گے ابھی ہمارا باہر جانا ضروری ہے۔مقصوم صاحب اس کا ماتھا چومتے ہوۓ بولے۔

رات میں پارٹی آرگناٸیز کرنے کی ضرورت نہیں۔ان کی بات پہ عنزہ غصے سے کہتی واپس اُپر کی جانب گٸ۔

بڑی صاحبہ یہ سامان ہم کہاں رکھے؟چوکیدار اور ملازم تحفوں اور پھولوں کا ڈھیر لاکر سمیہ بیگم سے بولے۔

غیروں کو یاد تھا پر ہمیں نہیں تھا۔مقصوم صاحب بُکے سے ایک چٹ پڑھ کر بولیں جس میں عنزہ کو سالگرہ کے دن بیسٹ وشیز دیٸے گٸے تھے۔

یہ سب عنزہ کے پاس والے کمرے میں رکھ آٶ۔سمیہ بیگم مقصوم صاحب کی بات نظرانداز کرتی ملازموں کو حکم دینے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج ہم چچا کے گھر جاٸیں گے نہ آپی کی سالگرہ ہے؟مرحا نے ڈاٸینگ ٹیبل پہ ناشتہ کرتی آمنہ بیگم سے کہا۔

ہاں جانا تو ہے۔آمنہ بیگم نے کہا

اسلام علیکم۔طلحہ ایک ہاتھ سے اپنے لیے کرسی کھسکا کر ان کے ساتھ آکر بولا۔

وعلیکم اسلام کیسا ہے ہاتھ اب تمہارا؟آمنہ بیگم نے فکرمندی سے اس کی کلاٸی پہ بندھی پٹی کو دیکھ کر پوچھا۔

بہتر ہے ۔طلحہ نرمی سے مسکراکر بولا

اچھا ہوا نبض سے کجھ دور کٹ لگا۔مرحا شکر ادا کرنے والے انداز میں بولی۔

ہاں اللہ کا شکر طلحہ تم اگر ہوسپٹل نہیں جارہے تو ساتھ چلنا مقصوم بھاٸی کے گھر جانا ہے۔آمنہ بیگم کی بات طلحہ نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو مرحا بولی۔

عنزہ آپی کی سالگرہ ہے اس لیے وہاں جاٸیں گے۔

میرا کیا کام امی مجھے ہوسپٹل جانا ہے پہلے ہی دو سے تین ڈاکٹرز کا آف اِس میں اگر میں گھر بیٹھ جاٶں تو مریضوں کو کون دیکھتےگا۔طلحہ نے سہولت سے انکار کیا۔

کزن ہے تمہاری اس کو اچھا لگیں گا۔آمنہ بیگم کو افسوس ہوا۔

میرے آنے یا نہ آنے سے اس کو کوٸی فرق کیوں پڑۓ گا آپ یہ سب نہ سوچے۔طلحہ آرام سے بولا

آپ نے ان کے لیے گفٹ تو لیا ہوگا نہ؟مرحا نے پوچھا۔

نہیں مجھے یاد نہیں رہا تھا۔طلحہ نے آملیٹ کی باٸیٹ لیکر کہا تو مرحا مایوس ہوٸی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میم آپ کی چچی آٸیں ہیں۔عنزہ کمرے میں تھی جب ملازمہ نے آکر بتایا تو وہ فورن نیچے کی طرف آٸیں۔

اسلام علیکم چچی جان۔عنزہ ڈراٸینگ روم میں آکر مسکراکر بولی۔

وعلیکم اسلام سالگرہ کی بہت بہت مبارک ہو۔آمنہ بیگم اس کے گلے ملتی ہوٸی بولی تو عنزہ مسکراکر مرحا سے ملی۔

میری طرف سے آپ کو بہت مبارک ہو۔مرحا نے کہا۔

آپ لوگ بیٹھے۔عنزہ نے بیٹھنے کا کہا۔

مقصوم بھاٸی اور بھابھی کہا ہیں؟آمنہ بیگم نے پوچھا تو عنزہ کی مسکراہٹ غاٸب ہوٸی۔

ان کو کام تھا اس لیے گھر پہ نہیں۔عنزہ بے تاثر انداز میں بولی۔

کوٸی بات نہیں ہم سیلیبریٹ کرتے ہیں کیک وغیرہ ہم لاۓ ہیں۔آمنہ بیگم نے اس کو اُداس ہوتا دیکھا تو کہا۔

میں ٹیبل سیٹ کرتی ہوں مرحا اپنی جگہ سے اٹھ کر بولی۔

کسی کی چیز کی مدد چاہیے تو ملازموں سے کہنا۔عنزہ نے کہا۔

ٹھیک ہے۔مرحا کہتی وہاں سے شاپر لیتی باہر گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کزن ہے تمہاری اس کو اچھا لگیں گا۔

آپ نے ان کے لیے گفٹ تو لیا ہوگا نہ؟

طلحہ کیبن میں بیٹھا صبح کے بارے میں سوچ رہا تھا جب وارڈ بواۓ ڈور نوک کیے اندر آیا۔

کہو؟طلحہ نے اس کو دیکھ کر پوچھا۔

ڈاکٹر فلزہ کے ڈراٸیور آٸیں تھے کہہ رہے تھے کے فلزہ میم نے پیغام بھیجوایا ہے کے وہ آج بھی نہیں آ نہیں پاۓ گی ڈیوٹی پہ۔وارڈ بواۓ نے بتایا۔

ٹھیک ہے تم جاٶ۔طلحہ نے اس کو جانا کے کہا تو اس کی موباٸل پہ میسج بپ ہوٸی دیکھا تو مرحا کی تھی طلحہ نے اُپن کی تو دیکھا عنزہ کی سالگرہ کا دن منایا جارہا تھا طلحہ نے عنزہ کو دیکھا اس کو ایسے لگا جیسے وہ زبردستی مسکرارہی ہو پر اپنا وہم سمجھتا اس نے موباٸل ٹیبل پہ رکھ کر اٹھا اس کے بعد اپنا سفید کوٹ پہن کر کیبن سے باہر گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

گفٹ کھول کر تو دیکھو کیسا ہے؟روحان نے عنزہ سے کہا وہ اِس وقت فاٸیو اسٹار ہوٹل کے پراٸیویٹ روم میں تھے ساتھ میں رانیہ آریز بھی وہاں تھے۔

شیور۔عنزہ مسکراکر کہتی روحان کا دیا ہوا مخملی کیس کھولنے لگی جس میں گولڈن کی خوبصورت رِنگ تھی۔

واٶ۔عنزہ تعریفی انداز میں بولی۔

پسند آیا؟روحان نے مسکراکر پوچھا۔

ہاں بہت زیادہ پر میں ابھی نہیں لیں سکتی۔عنزہ نے واپس کی۔

کیوں ابھی کیوں نہیں برتھ ڈے گفٹ ہے تمہارا۔روحان بھنوٸیں اُچکار کر بولا۔

بہت ایکپینسو ہے۔عنزہ نے کہا۔

تم کب سے چیزوں کی قیمت دیکھنے لگی۔رانیہ نے حیرت سے کہا۔

مجھے عجیب لگ رہا ہے تم یہ ہماری انگیجمنٹ والے دن دینا۔عنزہ نے روحان کی طرف دیکھ کر کہا۔

مجھے اب تمہاری باتیں عجیب لگنے لگی ہے۔روحان ہنکارہ بھر کر بولا

اب موڈ ٹھیک کرو تم سب اپنا۔آریز نے کہا تو سب مسکرادیٸے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

مجھے آج پتا چلا ورنہ میں پہلے تم سے ملنے آتی۔فلزہ نے طلحہ سے کہا۔

کوٸی بات نہیں اتنا بڑا حادثہ تھا بھی نہیں بس ہلکہ سا کٹ تھا۔طلحہ سادہ لہجے میں بولا۔

معلوم ہوا تھا اِس ہلکے سے کٹ پہ کتنا خون نکلا تھا۔فلزہ نے گھور کر کہا جبھی مرحا چاۓ کے ساتھ کباب کی ٹرے لیکر ان کے سامنے کی۔

اِس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔فلزہ کو عجیب لگا۔

تکلف کیسا آپ مہمان ہیں ہماری ہم آپ کے لیے اتنا بھی نہ کریں۔مرحا کپ میں چاۓ نکالتی فلزہ کو جواب دینے لگی۔

آنٹی نہیں ہے کیا؟فلزہ نے پوچھا۔

امی اپنے بھاٸی یعنی ہمارے ماموں کی طرف گٸیں ہیں۔مرحا نے بتایا۔

تم ڈریسنگ چینج کرتے رہتے ہو نہ؟فلزہ نے طلحہ کے ہاتھ کی جانب اشارہ کیے پوچھا۔

ہاں کرتا ہوں۔طلحہ نے جواب دیا۔

میں اب چلوں گی۔چاۓ اور تھوڑا کباب ختم کرکے فلزہ اٹھتے ہوۓ بولی۔

میں چھوڑ آتا ہوں۔طلحہ بھی اٹھتا بولا۔

ہاں دیر ہوگٸ ہے تم چلو تو اچھا ہے۔فلزہ خوشدلی سے بولی پھر دونوں ڈراٸینگ روم سے نکلے۔

عنزہ اپنے گیٹ کے پار ہارن بجا رہی تھی جب اس کی نظر بیک ویو مرر سے طلحہ کے ساتھ ہوٹل والی لڑکی کو دیکھ کر وہ گاڑی سے نیچے اُتری تھی اور ان کو دیکھنے لگی جو ہنس کر طلحہ سے کوٸی بات کررہی تھی طلحہ کی نظر بھی عنزہ پہ پڑی تھی دونوں کی نظریں ملی تھیں پر طلحہ نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا تھا گیٹ کُھل گیا تھا عنزہ فلزہ کو طلحہ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتا دیکھا تو آنکھوں میں جلن کا احساس ہوا طلحہ اپنی BMW کو باہر زن سے بھگا گیا تو عنزہ بھی اپنے گھر کی طرف آکر چوکیدار کو گاڑی ساٸیڈ پہ کرنے کا کہا۔

عنزہ ہم نے تمہاری برتھ ڈے کی پارٹی ارینج کی ہے۔عنزہ سیڑھیوں کی طرف جارہی تھی جب مقصوم صاحب کی آواز پہ رُکی تھی۔

میرا برتھ ڈے گزر گیا آپ تکلف نہ کرٸیے گا میرے پاس ویسے بھی اب ٹاٸم نہیں۔عنزہ سپاٹ انداز میں کہتی اُپر کی جانب بڑھی اس کو جاتا دیکھ کر مقصوم صاحب نے افسردہ سانس خارج کی۔

کیا ہوا مقصوم؟مقصوم صاحب اپنے کمرے میں آۓ تو مرر کے سامنے اپنا میک اپ صاف کرتی سمیہ بیگم نے پوچھا۔

کجھ نہیں ہوا۔مقصوم صاحب ٹالنے والے انداز میں بولے۔

بیوی ہوں آپ کی پر مجال ہے جو آپ نے کبھی مجھے اپنی بات بتانے کے قابل سمجھا ہو۔سمیہ بیگم سیخ پا ہوکر بولی۔

بیگم میں اِس وقت لڑاٸی نہیں چاہتا۔مقصوم صاحب ان کا لڑنے والا انداز دیکھ کر کوفت سے بولے۔

جی جی لڑاٸیاں تو میں کرتی ہوں آپ تو مقصوم نہیں معصوم ہے۔سمیہ بیگم طنزیہ بولی

مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔مقصوم صاحب کوفت سے کہتے کمرے سے باہر نکل گٸے سمیہ بیگم بس ہونہہ کرکے رہ گٸ۔

💕💕💕💕💕💕

ایک سونگ میں آپ کو ماڈلنگ کرنی ہے آپ کو کوٸی پروبلم تو نہیں نہ اماٶنٹ آپ کی مرضی کا ہوگا۔بڑے سے ڈراٸینگ روم میں چار افراد موجود تھے ایک عنزہ اور اس کا اسسٹنٹ دانیش دوسرا پرڈیوسر نعمان عدنان اور اس کا اسسٹنٹ غفار آج عنزہ خان کا ان سے ملنے کا پروگرام تھا تبھی وہ ان کے گھر میں موجود تھی۔

میرے ساتھ کون ہوگا اور سونگ کس بیس پہ ہے؟عنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا وہ اس وقت اسکن کلر کے گھٹنوں سے اُپر سلیولیس فراق میں تھی جس کے اُپر اس نے بلیک لونگ جیکٹ پہنی ہوٸی تھی اور بلیک ہی جینز ٹراٶزر پہنا ہوا تھا بال کُھلے ہوۓ تھے چہرے پہ ہلکہ سا میک اپ کیے وہ بہت دلکش لگ رہی تھی۔

ایکشن بیس ہے سونگ شوٹنگ کنٹریکٹ ساٸن ہونے کے دوسرے دن شروع ہوگی۔نعمان عدنان نے بتایا۔

ایکشن سونگ میں میرا کیا کام؟عنزہ نے پوچھا

وہ آپ کے ساتھ جو ہیرو ہوگا اس کا کام ہے آپ بس اس کے ساتھ ہوگی آپ کو گن بھی چلانی ہوگی جو کی نکلی ہوگی پر اس کی گونج اصلی فاٸر کی طرح ہوگی پھر ملاقات آپ کی ہیرو سے تب ہوگی جب آپ اپنی گاڑی میں ہوگی اور دونوں کی گاڑی کا ٹکراٶ ہوگا آپ سمجھ رہی ہے نہ؟نعمان عدنان بتاتے بتاتے آخر میں تاٸید لینی چاہی۔

شوٹنگ کی لوکیشن خوبصورت ہونی چاہیے۔عنزہ نے ہاتھ میں پہنی انگھوٹی کو گھماکر بس اتنا کہا۔

خوبصورت ہے بس ایک سین جو ہے وہ کچی آبادی پہ ہے باقی سب ٹھیک ہے۔نعمان عدنان نے بتایا تو عنزہ نے سراثبات ہلایا۔

پھر ملاقات ہوگی۔عنزہ نے پیپر ساٸن کیے کہا

ضرور اُمید ہے آپ کل وقت پہ سیٹ پر آٸیں گی۔نعمان عدنان نے کہا تو عنزہ مسکراکر سرہلایا اور اپنے اسسٹنٹ کو چلنے کا اشارہ کرتی وہاں سے باہر جانے لگی۔

میم آپ نے تو پہلے کبھی کسی سونگ پہ کام نہیں کیا پھر اِس دفع کیوں؟اسسٹنٹ نے مغرور انداز میں چلتی عنزہ سے کہا۔

چینجنگ اچھی چیز ہے۔عنزہ نے بس اتنا کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم سے بچے بہت اچھے سے ہینڈل ہوتے ہیں۔فلزہ سعد سے بولی جو ابھی بچوں والے وارڈ سے نکلا تھا۔

ہاں مجھے بچے پسند بھی بہت ہیں۔سعد ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔

بچے کس کو نہیں پسند ہوتے۔فلزہ ہنس کے بولی

ہاں یہ بھی ہے۔سعد نے اتفاق کرتے کہا۔

تم کہی جارہے ہو؟فلزہ نے اس کو باہر کے راستے جاتے دیکھا تو پوچھا۔

طلحہ کے کیبن جارہا ہوں۔سعد نے بتایا تو فلزہ اپنا سفید کوٹ جہاڑتی دوسری طرف گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

رول

کیمرا

ایکشن

ٹھاہ

ڈاٸریکٹر کے ایکشن بولتے ہی عنزہ نے فاٸر کیا تھا۔

ویل ڈن مس عنزہ خان۔نعمان عدنان نے تھنب کا نشان دیا تھا جب کی عنزہ اپنا میک اپ ٹھیک کروانے لگی۔

پانی لانا۔عنزہ نعمان عدنان کے پاس والی کرسی پہ بیٹھ کر سامنے والے لڑکے سے بولی۔

دوسرا سین کب کرنا ہے؟عنزہ نے پوچھا۔

آپ کو بتایا جو تھا کل۔نعمان عدنان مسکراکر بولے۔

میرے دماغ سے نکل گیا۔عنزہ اپنے ماتھے پہ چپت لگاکر بولی وہ اِس وقت فل بلیک ڈریس میں تھی ہاتھوں میں سونگ کے رول کے حساب سے بلیک کلر کی بہت سارے بینڈز پہنے ہوۓ تھے اور گلے میں بلیک موتیوں کی خوبصورت مالا تھی۔

کل آپ تیار رہیے گا اسلام آباد کے سنسان علاٸقے میں شوٹ ہے جس کی سڑک بھی کافی کچی ہے۔نعمان عدنان نے کہا۔

میں تیار ہوں۔عنزہ بالوں کی لٹ کان کے پیچے کرتی ہوٸی بولی۔

پانی تو لیں۔نعمان عدنان نے اس کا دھیان پانی کی طرف کروایا تو عنزہ نے گلاس پکڑا۔

میم آپ کو کیٸر فل رہنا ہے کل کے لیے کیوں وہاں فاسٹ ڈراٸیو کرنا خطرے سے خالی نہیں۔عنزہ کام ہونے کے بعد واپسی کے لیے جارہی تھی جب اس کا اسسٹنٹ اس کے ساتھ آتا ہوا بولا۔

سب جانتے ہیں ڈراٸیونگ تو آہستہ ہی ہوگی بس کمیرا میں یہ دیکھایا جاۓ گا کے تیز ہے۔عنزہ نے آرام سے جواب دیا تو اسسٹنٹ نے اس کی گاڑی کا ڈور اُپن کیا تو عنزہ گاڑی میں بیٹھ گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕

کام کیسا جارہا ہے تمہارا؟ سمیہ بیگم نے عنزہ کو ناخنوں پہ نیل پینٹ لگاتا دیکھا تو پوچھا۔

فرسٹ کلاس۔عنزہ نے جواب دیا۔

اب یہ کام چھوڑدوں۔سمیہ بیگم نے کہا۔

اِس کام کے لیے میں نے بہت کجھ چھوڑا ہے پر اب یہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔عنزہ کا لہجہ افسردہ ہوگیا تھا۔

بہت کجھ مطلب کیا چھوڑا ہے تم؟سمیہ بیگم کو عنزہ کی بات سمجھ نہیں آٸی۔

میں نے سب کجھ تو چھوڑ دیا موم جس کا احساس مجھے اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کس لیے چھوڑا اِس کام کے لیے جو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہے میں نے بہت کجھ گنودیا ہے مگر اب یہ چھوڑنا ممکن نہیں۔عنزہ چیخ کر بولی تو سمیہ بیگم حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی جو بلاوجہ غصہ ہوگٸ تھی۔

شوبز انڈسٹری تمہارا شوق تھا جو پورا ہوگیا نام بھی بہت کام لیا اب بس کردو میں شادی کا سوچ رہی ہوں تمہارا وہ کرو اپنا گھر سنبھالوں۔سمیہ بیگم نے سارا معاملہ ترتیب دیا عنزہ حیرت سے گنگ ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

شوبز انڈسٹری میرا جنون تھا موم جس کے لیے میں نے اپنا دل مارا اُس انسان کو چھوڑا جس کو چھوڑنے کے خیال سے ہی میرے جسم سے جان جاتی محسوس ہوتی تھی۔عنزہ ہذیاتی انداز میں چیخ کے بولی۔

تمہاری اپنی غلطی ہے خیر میں اب سنجیدگی سے تمہاری شادی کا سوچ رہی ہو۔سمیہ بیگم آرام سے بولی۔

اچھی بات ہے ویسے بھی میں نے کرنی اپنی پسند سے ہے شادی۔عنزہ بھی اٹل انداز میں بولی

کس سے؟سمیہ بیگم نے پوچھا۔

روحان علی۔عنزہ نے چہرے پہ مسکراہٹ سجاکر بتایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

طلحہ اپنے کمرے میں یہاں وہاں چکر کاٹ رہا تھا آج اس کو اپنے اندر عجیب سی بے چینی محسوس ہورہی تھی جس کو وہ کوٸی نام نہیں دیں پارہا تھا دل میں دھڑکا لگا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کجھ بُرا ہوگا ہا ہوگیا ہے پر کیا؟طلحہ نے پریشانی سے اپنی پیشانی دو انگلیوں سے مسلی عجیب اضـطراب جیسی کیفیت تھی۔

بھاٸی آپ جاگ گٸے ہیں تو آجاۓ ناشتے کی ٹیبل پہ۔مرحا طلحہ کے کمرے میں آکر بولی۔

آتا ہوں۔طلحہ رک کر مرحا کو جواب دینے لگا۔

میرے ساتھ چلیں ورنہ پھر آپ نے کہنا ہے کے ہوسپٹل کے لیے دیر ہورہی ہے۔مرحا طلحہ کو بازوں سے پکڑتی ہوٸی بولی جس پہ طلحہ ناچاہتے ہوۓ بھی باہر ڈاٸینگ ٹیبل کی طرف آیا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کار تو زبردست ہے۔عنزہ اسپورٹس کار پہ ہاتھ پھیرتی ہوٸی بولی۔

جی آپ چلا تو لیں گی نہ اِس سڑک پہ؟فیاص نے پوچھا جس کے ساتھ وہ سونگ پہ کام کررہی تھی۔

افکورس۔عنزہ پُراعتماد ہوکر بولی۔

پھر بھی خیال سے ایک تو یہ اسپورٹس کار دوسرا یہ کے سڑک بھی کچی ہے۔فیاض اس کو ہدایت کرتا وہاں سے دور گیا جب کی عنزہ کار کو دیکھ کر جانے کہاں پہنچ گٸ تھی۔

میم شوٹنگ اسٹارٹ کرنے کا وقت آگیا ہے۔اسسٹنٹ نے عنزہ سے کہا تو وہ سرہلاتی کار کا ڈور اپن کر کے بیٹھی۔

جب تک ایکشن نہ کہا جاۓ اپنے کار اسٹارٹ نہیں کرنی اور کار چلاتے ہوۓ آپ نے ٹرن نہیں لینا کار کی اسپیڈ بھی بہت آہستہ کرنی ہے تیز دیکھانا ہمارا کام ہے۔عنزہ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی تو ڈاٸریکٹر ہدایت دینے لگا جو عنزہ بے خیالی میں سن رہی تھی۔

رول

کمیرا

ایکشن

عنزہ نے اپنے پاٶں بریک پہ رکھ کر ہلکہ سا دباٶ بڑھایا جب کی ایک ہاتھ اسٹٸرنگ پہ تو دوسرا اسکلیٹر پہ تھا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ کار کو ڈراٸیو کرنے لگی اس کا رخ سیدھے طرف تھا جب کی فیاض کی کار کو ساٸیڈ سے آنا تھا۔

عنزہ نے بریک کجھ تیز کرکے باٸیں طرف کار کو کیا تو کار چر چر کرنے لگی۔

کٹ

کٹ

ڈاٸریکٹر نے زور آواز میں عنزہ سے کہا کیوں کی عنزہ غلط راستے آچکی تھی۔

فورن سے جاٶ وہاں کی سڑک صاف نہیں۔نعمان عدنان سخت لہجے میں پاس کھڑے لڑکوں سے بولیں جو ان کی بات پہ سرہلانے لگے۔

یہاں کنکر ہیں۔عنزہ پریشانی سے بڑبڑاٸی اس نے کار کو روکنا چاہا پر بریک کام ہی نہیں کررہا تھا عنزہ پریشانی سے سر گھماکر پیچے دیکھنا چاہا ساٸیڈ سے آتی گاڑیاں دیکھ کر اس نے شکر کا سانس لیکر چہرہ سیدھا کیا تو اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گٸ سامنے ٹرک کھڑا دیکھ کر اس نے ٹرن لینا چایا مگر تب تک دیر ہوچکی تھی ایک دھماکے کا شور اٹھا تھا پھر ہر سوں خاموشی کا راج ہوگیا۔

او ماٸی گوڈ۔نعمان عدنان کی چیخ نکل گٸ۔

بچنا مشکل ہے۔سب آپس میں باتیں کرنے لگے نعمان عدنان اور ان کی ساری ٹیم سب وہاں گٸے جہاں دُھواں پھیلا ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم ٹھیک ہو نہ؟سعد نے فکرمندی سے طلحہ کو دیکھ کر پوچھا جو بار بار پانی کا گلاس پی رہا تھا۔

ٹھیک ہوں میں۔طلحہ بے تاثر لہجے میں بولا

اۓ سی کو کولینگ تیز کرو۔طلحہ پریشانی سے اپنی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی شرٹ کا اُپر والا بٹن کھولنے لگا۔

طبیعت نہیں سہی تو گھر جاٶ۔سعد نے اۓ سی کی فل کولینگ میں بھی طلحہ کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا تو کہا۔

میں ٹھیک ہوں۔طلحہ اپنی بات پہ زور دیتا بولا۔

سعد۔فلزہ تیزی سے طلحہ کے کیبن کا دروازہ کھول کر سعد کو بلانے لگی۔

کیا ہوا؟طلحہ اس کے چہرے کی ہواٸیاں اُڑتا دیکھ کر پوچھا۔

عنزہ خان دی فیمس ایکٹریس کا بہت برا ایکسڈنٹ ہوا ہے اس کو یہاں لیکر آٸیں ہیں ہوسپٹل کے باہر ابھی سے میڈیا کا ہجوم اکٹھا ہوا ہے۔فلزہ بے ترتیب ہوتی سانسوں کے درمیان ان کو اِطلاع دی طلحہ کا رنگ لٹھ مانند ہوگیا تھا اس کا لگا وہ ابھی دوسرا سانس نہیں لیں پاۓ گا۔

کہاں ہے وہ؟طلحہ سوکھے لبوں پہ زبان پھیرتا بولا۔

اس کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گٸے ہیں حالت بہت بُری ہے اس کی۔فلزہ کی بات سنے طلحہ جلدی سے کیبن سے نکلا اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا طلحہ نے زور سے دروازہ کھول کر ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا تھا اس کے اچانک آنے پہ وہاں باقی ڈاکٹرز جو ابھی عنزہ کا علاج کرنے ہی والے تھے اپنا کام چھوڑ کر طلحہ کو دیکھنے لگے طلحہ ان کی نظروں سے لاپرواہ یک ٹک عنزہ کا زخمی وجود دیکھ رہا تھا جس کے ماتھے سے خون بہہ رہا پورے چہرے پہ چوٹوں کے نشان تھے جب کی ہاتھ سفید چادر کے اندر تھا۔

ان کی سانس بہت آہستہ چل رہی ہے باہر میڈیا والوں نے پریشان کیا ہے۔ڈاکٹر سلمان نے طلحہ سے کہا۔

ٹریٹمنٹ شروع کریں ان کا کجھ ہونا نہیں چاہیے۔طلحہ بہت دیر بعد بولا۔

ان کی

میں سینٸرز ڈاکٹرز کو بھی بُلاتا ہوں آپ اپنا کام شروع کریں۔نرس کو بیچ میں ٹوک کر طلحہ اتنا کہتا باہر نکل گیا۔

مشھور اداکارہ ہیں شاید اس لیے ڈاکٹر طلحہ پریشان ہیں۔نرس نے اندازہ لگاکر کہا۔

تم آکسیجن ماسک ان کے چہرے پہ لگاٶ۔ڈاکٹر سلمان کی بات پہ سب اپنے کاموں میں لگے۔

سب سے بات کرکے طلحہ اپنے کیبن آگیا تھا وہ شکستہ چال چلتا صوفے پہ ڈھے گیا۔

کیوں ہوا ایسا۔طحہ اپنا سر ہاتھوں میں گِراے تھکن زدہ آواز میں بولا۔

تم نے خود کو بدل گیا پر آج بھی میری جان نکالنے کی عادت نہیں بدلی۔طلحہ طنزیہ مسکراہٹ سے بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ سال قبل :

یاہوں۔

طلحہ اسپیڈ اور تیز۔عنزہ نے نعرہ لگاکر طلحہ سے کہا آج ان کی ریس تھی مخالف ٹیم تھی روحان علی جس سے طلحہ کی بیٹ لگی تھی اور ہمیشہ کی طرح طلحہ اپنی جیت کے قریب تھا کیوں کی اس کے ساتھ اس کی زندگی ساتھ بیٹھی تھی طلحہ نے عنزہ کی چہچہاٹ سن کر مسکراکر چہرہ موڑ کر دیکھا جو کھڑی ہوکر مخالف ٹیم کو ٹھینگا دیکھا رہی تھی طلحہ ہنس کر سر نفی میں ہلانے لگا۔

اس طلحہ کو تو میں چھوڑو گا نہیں۔روحان طلحہ کو جیتتا دیکھ کر اپنا ہاتھ زور سے اسٹٸرنگ پہ مار کر بولا۔

رلیکس بڈی ٹیمپریچر لوز نہیں کرو۔آریز نے اس کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔

کیا آپ بتاسکتے ہیں کے ریس ہارنے کے بعد کیسا محسوس ہورہا ہے؟کار کا شیشہ نوک ہونے پہ اس نے شیشہ نیچے کیا تو عنزہ نے ماہرِ رپورٹ کی طرح سوال کیا جس پہ آریز نے اپنی مسکراہٹ چھپاٸی مگر روحان نے گھور کر عنزہ کے چمکتے چہرے کو دیکھا۔

شرم کرو عنزہ طلحہ تمہارا کزن ہے تو میں بھی تمہارا کزن ہوں میری ساٸیڈ بھی لیں لیا کرو۔روحان نے گاڑی سے نکل کر دانت پیس کر عنزہ سے کہا جو مسکراۓ جارہی تھی۔

غلط تم عنزہ کے کزن ہوں جب کی ہماری بات ہی الگ ہے۔عنزہ سے پہلے ہی طلحہ وہاں آکر روحان سے بولا طلحہ کے آتے ہی عنزہ نے اس کے بازوں پہ سرٹکادیا روحان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھی۔

میں سب کجھ برداشت کرلوں گا پر آٸیندہ کے بعد عنزہ سے یہ کبھی نہ کہنا کے تمہاری ساٸیڈ لیا کریں۔طلحہ آگے بڑھ کر روحان کے کان کے پاس وارن کرنے والے انداز میں کہا جس پہ روحان کے چہرے پہ پُراسرار مسکراہٹ آٸی تھی جس سے لاپرواہ طلحہ عنزہ کا ہاتھ اپنی آہنی گرفت میں لیے گاڑی کی طرف آیا تھا عنزہ کو گاڑی میں بیٹھانے کے بعد وہ خود ڈراٸیونگ سیٹ پہ آیا۔

ابھی مجھے کرنی تھی ڈراٸیونگ۔عنزہ نے منہ بسور کر کہا تو طلحہ نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا جو چہرے کے کیوٹ ایکسپریشن بناۓ ناراض ہوکر بیٹھی تھی۔

میں جو ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ڈراٸیونگ کرنے کی میں ساری زندگی تمہارا ڈراٸیور بننے کے لیے تیار ہوں پر تم اپنے نازک ہاتھوں کو تکلف دینے کا نہ سوچو۔طلحہ نے محبت پاش نظروں سے عنزہ کو دیکھ کر کہا جس کے چہرے پہ مسکراٸٹ آگٸ تھی۔

بس باتوں سے مجھے ایمپریس کرتے رہنا۔عنزہ نے ہاتھ کی مٹھی بناۓ ہلکہ سا اس کے بازوں پہ مُکہ مارا۔

کہاں چلنا ہے؟طلحہ نے پوچھا۔

سات سمندر پار یا چاند پہ یا جہاں تم لیکر چلو میں تیار ہوں۔عنزہ نے ڈرماٸی انداز میں کہا۔

پوری فلم ہو۔طلحہ نے سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوۓ کہا۔

درست فرمایا اور اب میں تو میں سوچتی ہوں کسی فلم میں کام کرکے اردگرد دھوم مچادوں پھر میں جب مشہور اداکارہ بن جاٶں گا نہ تو سب سے پہلے آٹوگراف تمہیں دوں گی وہ بھی ہاتھ پہ اور ڈھیر ساری تصویریں ساتھ میں لیں گے۔عنزہ نے مستقبل کا نقشہ کھینچ کر طلحہ کو دیکھایا۔

تم خود کافی ہو یہی بہتر ہے تصویریں بھی لیں لیتے ہیں تم ہاتھ میں آٹوگراف ابھی دیں دو اس کے لیے تمہیں مشھور یا اداکارہ بننے کی ضرورت نہیں۔طلحہ نے نرمی سے اس کے گال کھینچ کر کہا۔

اچھا باتیں کم کرو ریسٹورنٹ لیں چلو بھوک لگ رہی ہے۔عنزہ نے معصوم شکل بناۓ کہا تو طلحہ نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کرکے ریسٹورنٹ کی طرف بڑھاٸی۔

💕💕💕💕💕

ریاض صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی بیٹےکا ایک کا نام مقصود خان تھا تو دوسرے کا مقصوم خان تھا جب کی بیٹی کا نام گل ناز تھا ریاض صاحب کی شادی افسانہ بیگم سے ہوٸی تھی جو ایک سوبر سی خاتون تھی جو اپنے بچوں اور گھر کو ٹھیک سے سنبھالتی تھی ریاض صاحب نے مقصود خان کی شادی اپنے کزن کی بیٹی آمنہ سے کرواٸی تھی جو ایک نیک اور صالح عورت تھی شادی کے ایک سال بعد ہی ان کے گھر بیٹے کی پیداٸش ہوٸی تھی جس کا نام انہوں نے طلحہ رکھا تھا پھر پانچ سال بعد بیٹی کی پیداٸش نے ان کی زندگی کو مکمل کرلیا تھا اس کے بعد ریاض صاحب نے مقصوم خان کی شادی انہوں نے اپنے دوست کی بیٹی سے کرواٸی تھی جو ایک پٹھان ذات ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کُھلے خیالات کی تھی جن کا اندازہ ان کو جلد ہی ہوگیا تھا آۓ دن کی لڑاٸیاں اور چک چک مقصوم خان اور ان کے درمیان ہوتی رہتی تھی شادی کے دو سال بعد ان کے گھر میں پریوں جیسی بچی کی پیداٸش ہوٸ تھی جس کا نام عنزہ رکھا گیا تھا ریاض صاحب کو لگا شاید اب ان کے بیچ کوٸی سُدھار آجاۓ پر ایسا نہ ہوا ان کی لڑاٸیوں میں کوٸی کمی تو نہیں آٸی پر ایک معصوم بچی ضرور نظرانداز ہوتی تھی ان سے، جس کا خیال اپنی طرف سے تین سالہ طلحہ کرتا تھا اس کو اپنی یہ کزن بہت عزیز ہوگٸ تھی معصوم اور پیاری سی جس کو دیکھ کر تین سالہ طلحہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آتی تھی مقصوم خان کی شادی سے فارغ ہوتے ہی ریاض صاحب نے پھر اپنی بیٹی گل ناز کی شادی اپنے کزن کے بیٹے جعفر علی سے کرواٸی تھی گل ناز کی شادی کے پانچ ماہ بعد بیٹے کی پیداٸش ہوٸی تھی جن کا نام انہوں نے روحان رکھا تھا دوسال بعد پھر ان کے ہاں بیٹے کی پیداٸش ہوٸی جس کا نام رویان رکھا تھا طلحہ دس سال کا تھا جب پلین کرش میں مقصود صاحب اس فانی دنیا سے گزر گٸے تھے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ریاض صاحب نے دل پہ لیں لیا تھا تبھی مقصود صاحب کی وفات کے ایک ہفتے بعد وہ بھی اس دنیا سے چل بسے دو سال بعد افسانہ بیگم بھی اپنے بیٹے اور بیٹی کو چھوڑ خالق حقیقی کے پاس پہنچی یہ وقت ان سب کے لیے تکلیف دہ تھا پر گزر گیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

نرگس میرے لیے جوس لانا۔عنزہ گھر آتے ہی ملازمہ کو آواز دینے لگی۔

آپ کا جوس۔نرگس نے ٹرے جس میں جوس کا گلاس تھا وہ عنزہ کے سامنے کی تو عنزہ نے جوس کا گلاس پکڑا۔

ویٸر از موم ڈیڈ؟عنزہ نے جوس پیتے ہوۓ پوچھا۔

صاحب جی آفس سے نہیں آۓ ابھی تک اور بیگم صاحبہ کسی تقریب میں گٸ ہیں۔نرگس نے بتایا تو عنزہ کے چہرے پہ بیزاری کے تاثرات نمودار ہوۓ۔

اچھا تم جاٶ۔عنزہ نے اس کو جانے کا کہا تو وہ سرہلاتی وہاں سے چلی گٸ عنزہ نے موباٸل اٹھاکر طلحہ کا نمبر ملایا۔

ابھی تو گھر چھوڑ آیا ہوں اور پھر سے کال۔طلحہ نے کال اٹھا کر شریر انداز میں کہا تو عنزہ کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے بسیرا کیا

بس کیا کریں تمہارے بنا دل نہیں لگتا۔عنزہ نے بھی اس کے انداز میں کہا۔

لگنا چاہیے بھی نہیں۔طلحہ شدتپسندی سے بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

طلحہ ناشتہ کرکے جاٶ۔آمنہ بیگم نے طلحہ کو بنا ناشتہ کیے بیگ اٹھاۓ کالج کے لیے جاتا دیکھا تو فورن سے کہا۔

امی کیفیٹریا سے کھالوں گا ابھی مجھے عنزہ کو بھی اٹھانا ہے پتا تو ہے آپ کو اُس کا۔طلحہ عجلت میں کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا آمنہ بیگم بس دیکھتی رہ گٸ۔

عنزہ اپنے کمرے میں ہیں؟طلحہ مقصوم پلس آکر ملازمہ سے پوچھنے لگا۔

جی اپنے میں ہیں۔ملازمہ نے بتایا تو طلحہ اپنا بیگ صوفے پہ رکھ کر اُپر کی جانب آیا عنزہ کے کمرے کا ڈور کھول کر اندر آیا تو بیڈ پہ عنزہ کو بچوں کے انداز میں سوتا دیکھ کر مسکرایا۔

عنزہ اٹھ جاٶ۔طلحہ عنزہ کے سرہانے بیٹھ کر جگانے کی کوشش کرنے لگا۔

عنزہ۔طلحہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو عنزہ نیند میں بھی مسکراٸی طلحہ کی نظر عنزہ کی ٹھوری پہ پڑتے گڑھے پہ ٹھیرگٸ تھی طلحہ اس پہ سے اپنی نظریں ہٹاتا جیب سے اپنی گاڑی کی کیز نکالی اور اس پہ لگے چھلے کی نب عنزہ کے کان کے اندر پھیری تو عنزہ اچھل کر بیڈ سے اٹھی اس کے اِس طرح اٹھنے پہ طلحہ کا قہقہقہ بے ساختہ تھا عنزہ جو پریشانی سے اپنے کان میں ہاتھ لگاکر چیک کررہی تھی کے کہیں کوٸی کیڑا تو نہیں گیا پر جب سامنے طلحہ کو ہنستا دیکھا تو اس کو ساری بات سمجھ میں آگٸ عنزہ نے نہ آٶ دیکھا نہ تاٶ طلحہ کے اُپر تکیوں کی برسات کرڈالی اِس اچانک افتاد پہ طلحہ ہربڑا گیا۔

عنزہ اسٹاپ یار مزاق تھا بس

عنزہ دوبارہ نہیں کروں گا سچی

بخش دو تم اٹھ جو نہیں رہی تھی میں کیا کرتا۔طلحہ ہاتھ آگے کیا عنزہ کو منت کرنے لگا بیڈ پہ تکیوں کی روٸی نکل پڑی تھی مگر عنزہ باز نہ آٸی اس نے بس تب کی جب تھک گٸ اور گہرے سانس بھرنے لگی۔

افففف اللہ حد کرتی ہو تم۔طلحہ بیڈ پہ لیٹ کر ہنس کے بولا تو عنزہ نے اس کے بال کھینچے۔

آآآآ۔طلحہ کی چیخ نکل پڑی۔

کاٹن تھا۔عنزہ معصوم شکل بناۓ روٸی کی طرف اشارہ کیے بتایا۔

اچھا اٹھ اب تیار ہوکر آٶ میں باہر انتظار کرتا ہوں۔طلحہ اپنے کپڑے ٹھیک کرتا ہوا بولا۔

نرگس کو کہنا میرا روم صاف کردیں۔عنزہ بیڈ سے اٹھ کر بولی۔

جلدی آنا۔طلحہ کمرےسے نکلتا ہوا بولا۔

چلیں میں ریڈی ہوں۔بیس منٹ بعد عنزہ اپنے کمرے سے لاٶنج کی طرف آٸی طلحہ نے عنزہ کو دیکھا جو لاٸٹ پنک کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے اور واٸٹ جینز میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی بالوں کو کُھلا چھوڑا ہوا تھا بنا کسی میک اپ کے وہ طلحہ کو دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگی۔

خوبصورت لگ رہی ہوں نہ؟خود پہ طلحہ کی نظریں محسوس کیے عنزہ طلحہ کے ساتھ بیٹھ کر مسکراہٹ ضبط کیے پوچھنے لگی۔

بہت زیادہ۔طلحہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا تو عنزہ کِھل کِھلا اُٹھی طلحہ یکدم ہوش میں آکر عنزہ کو گھورنے لگا۔

اب چلیں پہلے ہی دیر ہوگٸ ہے۔طلحہ خفت مٹانے کے غرض سے بولا۔

نرگس میرا بیگ لاۓ پھر چلتے ہیں۔عنزہ نے کہا جبھی نرگس نے عنزہ کا کالج بیگ اس کو دیا جس کو پکڑ کر وہ طلحہ کے ہمراہ کالج کے لیے نکل پڑی۔

💕💕💕💕💕💕

عنزہ کہاں رہ گٸ یار ابھی تک نہیں آٸی۔رانیہ نے کوفت سے آریز سے کہا۔

آتی ہوگی تم بتاٶ روحان کدھر ہے؟آریز نے بتاکر پوچھا۔

روحان تو آج نہیں آیا شاید۔رانیہ نے کندھے اُچکاکر بتایا تبھی عنزہ کو آتا دیکھ کر وہ دونوں اس کی جانب آۓ۔

دیر کردی بڑی۔رانیہ کے گلے ملتے ہوۓ پوچھا

بس ہوگٸ۔عنزہ نے نارملی بولی۔

روحان نہیں آیا کیا؟عنزہ کلاس میں آکر پوچھنے لگی۔

نہیں وہ اپنے سونگ کی تیاری کررہا ہے روحان شیور ہے کے اِس دفع فلم گانے کا موقع مل جاۓ گا۔رانیہ نے تفصیلی جواب دیا۔

کتنا اچھا ہو اگر طلحہ میڈیکل کی پڑھاٸی چھوڑ کر سنگنگ کرنا چھوڑو کریں۔عنزہ حسرت بھرے لہجے میں رانیہ سے بولی۔

تم کہو نہ پھر ابھی تو اس کا ویسے بھی دوسرا سال ہے تمہاری بات اس کے لیے پتھر پہ لکیر کی مانند ہے۔رانیہ نے مشورہ دیا۔

ہے تو سہی پر وہ بہت سیریس ہے اپنے پروفیشن کے معاملے میں ایک دفع کہا تھا میں نے تو اس نے کہا نیوروسرجن بننا اس کا ڈریم تو ہے پر اس کے فادر یعنی چچا جان کی بھی خواہش تھی۔عنزہ نے بتایا۔

چلو خیر ہے آواز تو ویسے بھی طلحہ کی بہت اچھی ہے تمہارے لیے بس گاۓ گا۔رانیہ نے اس کے کندھے سے کندھا ٹکراکر شوخ لہجے میں کہا تو عنزہ مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕

طلحہ۔عنزہ دھڑام سے طلحہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوٸی۔

کیا ہوا اتنی زور سے کیوں چلا رہی ہو؟طلحہ جو پڑھنے میں مگن تھا عنزہ کے اِس طرح آنے پہ پوچھنے لگا۔

تمہیں پتا ہے سنگنگ میں روحان کی سلیکشن ہوگٸ لسٹ میں اس کا نام آیا ہے۔عنزہ نے پرجوش آواز میں کہا تو طلحہ کے چہرے کے زاویے بگڑ گٸے۔

اس کے لیے تم کیوں اتنا خوش ہو؟طلحہ اپنی جلن پہ قابو کیے سرسری سا پوچھنے لگا۔

تم نہیں ہو کیا کزن ہے وہ ہمارا اور تمہیں پتا ہے اس نے ہم سب کو پارٹی دی ہے۔عنزہ نے طلحہ کو بتایا۔

اچھا میں تو نہیں جاسکتا اِس لیے تم بھی مت جانا۔طلحہ نے آرام سے اس کے جوش پہ پانی گِرایا۔

یہ کیا بات ہوٸی تم آرہے ہو بس میں اور کجھ نہیں سن رہی۔عنزہ منہ بسور کر بولی۔

عنزہ تم جانتی ہو میری اور روحان کی کبھی نہیں بنی۔طلحہ نے سمجھانا چاہا۔

پر تم تو میری خاطر چلو گے نہ۔عنزہ نے منت کی

اچھا دیکھتے ہیں۔طلحہ نیم رضامند ہوا تو عنزہ کے چہرے چمک اٹھا۔

ہم سیم ڈریسنگ کریں گے۔عنزہ نے حکیمہ انداز میں کہا۔

جو آپ کا حکم۔طلحہ ادب سے کہا۔

طلحہ۔کجھ منٹ کی خاموشی کے بعد عنزہ نے دھیمی لہجے میں اس کا نام لیا تو طلحہ نے اس کی طرف دیکھا جو اب کجھ چپ سی ہوگٸ تھی۔

کیا بات ہے اُداس کیوں ہوگٸ ہو اچانک سے؟طلحہ فکرمند ہوا۔

تم ہمیشہ میرے ہی رہنا۔عنزہ نے طلحہ کا گندمی مضبوط ہاتھ اپنے سرخ سفید ہاتھوں میں لیکر جیسے التجا کی۔

میں ہمیشہ سے ہی تمہارا ہوں۔طلحہ نے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر پُریقین لہجے میں کہا تو عنزہ مطمٸن سی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان نے فارم ہاٶس میں سب کو انواٸٹ کیا تھا اپنی خوشی وہ سب کے ساتھ سیلیبریٹ کرنا چاہتا تھا عنزہ وہاں جانے کے لیے تیار ہورہی تھی اس کو پتا تھا طلحہ لینے آیا تو جلدی کا شور مچاۓ گا جس سے وہ پھر آرام سے تیار نہیں پاۓ گی اور نہ ہی طلحہ نے ہونے دینا ہے اس نے پارٹی کے لیے بلیو کلر کا لونگ فراق پہنا تھا جس کے بازوں نیٹ کے تھے چہرے پہ پارٹی میک اپ کیے وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی کمر کو چھوتے بال اس نے اسٹریٹ کرکے کمرے پہ چھوڑے تھے جب کی بالوں میں بیلو کلر کا ہیٸر بینڈ لگایا تھا سیم ہی کلر کی اس نے بلیو واچ اپنی نازک کلاٸی میں پہنی ہوٸی تھی گلے میں طلحہ کا دیا گفٹ یعنی لاکیٹ پہنا ہوا تھا جو ہارٹ شیپ پہ تھا اور اس میں ایک عنزہ کی تصویر تھی تو دوسری طلحہ کی۔عنزہ اپنے تیاری مکمل دیکھتی وارڈروب کے ریک سے اپنا ہیل والا بلیو سینڈل نکال کر پہنے لگی جبھی ملازمہ نے آکر طلحہ کے آنے کی اِطلاع دی تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸ

یہ سوچ کرکے طلحہ کی کیا حالت ہوگی اُس کو اتنا تیار دیکھ کر سینڈل کی اسٹریپ بند کرکے عنزہ کھڑی ہوکر مرر میں اپنا جاٸزہ لیا پھر مطمٸن ہوتی باہر آٸی جہاں بلیو شرٹ کے ساتھ واٸٹ کلر کی جینز پہنے بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے طلحہ بہت ڈیسنٹ اور پیارا لگ رہا تھا

طلحہ کی نظر جب سیڑھیاں اُترتی عنزہ پہ پڑی تو وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا تھا وہ تو سادگی میں ہی اس کا دل دھڑکا دیتی پر آج ہتھیار لیس ہوکر اس کو مارنے کے در پہ تھی عنزہ طلحہ کو دیکھ کر گہری مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر اس کے سامنے آکر چٹکی بجاٸی تو طلحہ ہوش میں آتا سر کو داٸیں باٸیں گھمانے لگا۔

کیسی لگ رہی ہو؟عنزہ اپنے پیروں تک آتے فراق سمیت گول گول گھوم کر طلحہ سے پوچھنے لگی۔

میری جان لینے کا ارداہ ہے کیا؟طلحہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو عنزہ نے جوابً گھورا۔

فضول مت بولا کرو۔عنزہ نے کہا۔

وہاں سب ہوگیں روحان رویان آریز سعد تم کیوں اتنا تیار ہوٸی ہو تمہارا یہ روپ دیکھنے کا حق تو صرف مجھے ہے نہ میرا دل چاہتا ہے تمہیں اپنے سینے میں چُھپالوں میں نہیں چاہتا یہ چاند جیسا چہرہ میرے علاوہ کوٸی اور دیکھے تم اپنے چہرے پہ کجھ لگایا مت کرو ایسے ہی بہت خوبصورت لگتی ہو۔

طلحہ عنزہ کے چہرے پہ اپنے ہاتھ رکھ کر جنون بھرے لہجے میں بولا تو عنزہ ڈرنے کے بجاۓ مسکرادی وہ جانتی اپنی اہمیت طلحہ کی زندگی میں کتنی ہے ایسے ہی تو وہ بھی اس کی دیوانی نہیں تھی۔

تو میں یہ سمجھو کے تم کہہ رہے ہو میں اپنے گھنٹوں بھر کی محنت پانی سے صاف کروں۔عنزہ ایک قدم آگے بڑھاکر آنکھیں پٹپٹاکر طلحہ سے بولی۔

بلکل اپنا چہرہ دھو آٶ پھر چلتے ہیں۔طلحہ نے مسکراکر کہا اس کو خوشی ہوتی تھی جب عنزہ بنا بحث کیے اس کی بات مان جایا کرتی تھی اپنی پسند سے پہلے وہ اُس کی پسند دیکھتی تھی۔

پانچ منٹ میں آٸی۔عنزہ کہہ کر اُپر کی جانب گٸ اس کو اپنی تیاری ضاٸع ہونے کا بلکل افسوس نہ تھا جس کے لیے وہ تیار ہوٸی تھی اُس نے تو دیکھ لیا تھا ساتھ میں اپنے انداز میں تعریف بھی کرلی تھی عنزہ کے لیے یہ کافی تھا وہ مسکراکر اپنے کمرے کی جانب چلی گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕

لاٸٹ میک اپ تو کرتی۔رانیہ نے سرتاپا عنزہ کو گھور کر کہا جو اب بنا میک اپ کے تھی وہ اور طلحہ فارم ہاٶس پہنچ گٸے تھے جہاں بیک گراٶنڈ میں ہلکہ سا میوزک بج رہا تھا وہاں ان کے علاوہ کالج فیلوز میں تھے جو کپل ڈانس کررہے تھے۔

مجھے کیا ضرورت ہے میک اپ کی وہ نیچرل بیوٹی ہوں۔عنزہ نے اِتراکر کہا۔

وہ تو ہو پر پھر بھی تھوڑا تو کر آتی۔رانیہ نے کہا۔

مجھے ایسے اچھا لگا۔عنزہ نے کہا

میں آریز کے ساتھ ڈانس کروں گی تم طلحہ کو ڈانس کے لیے راضی کرو۔رانیہ نے عنزہ سے کہا۔

ڈانس کیا میں تو طلحہ کے ساتھ گانا بھی گاٸوں گی تم بس اسٹیج پہ جاکر سب کو بتاٶ۔عنزہ نے مسکراکر کہا تو رانیہ بھی مسکراتی فارم ہاٶس کے ہال میں جہاں سامنے والی جگہ کو اسٹیج کا لُک دیا تھا اور درمیاں بھی کرسیاں لگاٸیں گٸ تھی۔

طلحہ بي ریڈی۔عنزہ طلحہ کے پاس آکر بولی جو سعد کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا عنزہ کی بات پہ ناسمجھی سے دیکھنے لگا۔

سامنے دیکھو۔عنزہ نے اسٹیج کی جانب اشارہ کرتے کہا جہاں رانیہ ہاتھوں میں ماٸیک لیے کہہ رہی تھی۔

لیڈیز اینڈ جینٹل مین

اپس میرا مطلب گرلز اینڈ بواٸز۔رانیہ کہتے کہتے رُک کر سر پہ ہاتھ مار کر بولی تو سب ہنس پڑے

جیسا کے آپ سب جانتے ہیں ہم یہاں روحان کی کامیابی کی طرف سے پہلا قدم بڑھانے کی خوشی میں اکٹھا ہوۓ ہیں۔رانیہ نے ساٸیڈ پہ پڑے روحان کی طرف اشارہ کیا جس پہ سب کی نظریں اس پہ گٸ جس پہ روحان نے ہاتھ میں پکڑا مشروب کا گلاس اُپر کر مسکراکر شکریہ کیا۔

تو میں سب کو بتانا چاہوں گی کے طلحہ سب کو گانا گاکر سناۓ گا۔رانیہ کی بات پہ طلحہ کو شاک لگا جب کی روحان کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات نمایاں ہوۓ وہاں بیٹھے سب لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کردی۔

عنزہ یہ کیا مزاق ہے۔طلحہ دھیمی آواز میں عنزہ سے بولا۔

میرے لیے گانا گاٶ گے اور کیا میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔عنزہ آرام سے بولی۔

مجھے یہ سب نہیں پسند۔طلحہ نے انکار کیا۔

مجھے تو پسند ہے نہ۔عنزہ نے آنکھ ونک کیے کہا

میں نہیں گاسکتا۔طلحہ اپنی بات پہ قاٸم رہا۔

میری بات مان نہیں سکتے۔عنزہ کا لہجہ پل بھر میں نم ہوا تھا طلحہ پریشانی سے عنزہ کو دیکھا۔

اِس کے علاوہ ہر بات پہ سر جھکا دوں گا۔طلحہ نے محبت سے کہا۔

ٹھیک ہے پھر بات نہ کرنا مجھ سے میں جارہی ہوں گھر۔عنزہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لاۓ بول کر باہر کی طرف قدم بڑھانے لگی طلحہ بس دیکھتا رہ گیا۔

عنزہ ابھی ہال کا دروازہ پار کرنے ہی والی تھی جب گٹار کے بجنے کی آواز پہ اس کے قدم تھم سے گٸے چہرے پہ فخریہ مسکراہٹ آگٸ اس نے پلٹ کر دیکھا جہاں ساری لاٸٹس آف تھی بس اسٹیج کی لاٸٹ آن تھی جس کا فوکس گٹار تھامے طلحہ کی طرف تھا اور طلحہ کی نظریں عنزہ کی طرف تھا۔

Bula ve tujhay yaari ach

Meri galiyan basao teray sang

Mai alag dunia

طلحہ گانا اسٹارٹ کرکے اپنے قدم آہستہ آہستہ عنزہ کی طرف بڑھانے لگا جو چمکتے چہرے کے ساتھ کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔

Bula ve tujhay yaari ach

Meri galiyan basao teray sang

Mai alag dunia

Na aae kabhi duno mai

Zara bhi faslay bas

Ek tou ho ek mai ho aur koi na

Hai mera sab kuch

Tera tou samjh le

Tou chahe meray haq

Ki zameen rakh le

Tou sanso p bhi naam

Tera lkh le mai jio jab

Jab tera dil dhardhay ,♡,eeeee

طلحہ گانا گاتا عنزہ کے روبرو کھڑا ہوا اپنے ہاتھوں میں لیا گٹار اس نے پاس کھڑے لڑکے کو دیں کر اپنا ہاتھ عنزہ کی طرف بڑھایا جس نے مسکراکر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں میں دیں دیا سب کی ستاٸش بھری نظریں ان دونوں پہ تھی جب کی روحان آگ برساتی ان دونوں کو دیکھ رہا تھا سب کی نظروں سے لاپرواہ طلحہ عنزہ کا ہاتھ پکڑے اُلٹے قدم لیتا اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا۔

Tujh say mera ye jee nh bhrta

Kuch bhi nh assar ab karta

Meri raah tujhi say meri chah

Tujhi say mojhay bas yahee

Rah jana

Laghi hai Teri aadatin mojhay

Jab say hai teray bin pal

Bhi baras laghtay

Bula ve tujhay yaari ach

Meri galiyan basao teray sang

Mai alag dunia

Jo howe to uddas

Mojhay dekhay hans de

Tou chahe meray haq

Ki zameen rakh le

Tou sanso p bhi naam

Tera lkh le mai jio jab

Jab tera dil dhardhay♡,eeeee

طلحہ عنزہ کے ساتھ ڈانس کے اسٹیپ کرتا ساتھ میں گانے بھی گارہا تھا اس بیچ میں عنزہ کے ہیل والا پیر اپنی فراق میں اٹکا بھی تھا اس سے پہلے گِرجاتی مگر طلحہ نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر اس کو اپنے ساتھ لگایا تو عنزہ مسکراکر اپنا ایک ہاتھ طلحہ کے کندھے پہ تو دوسرا طلحہ کے ہاتھ میں رکھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل لگ رہے تھے۔

Tujh say mili to seekha

Mainay hasna aaya mojhay

Safar mai thaherna

Mai to bhool gae

Dunia ka pata jab say hai

Tujhay jana ,

Hai to he dil jan meri ab

Say hai zikar tera na jae

Meray lab say

Bula ve tujhay yaari ach

Meri galiyan basao teray sang

Mai alag dunia

Jo howe to uddas

Mojhay dekhay hans de

Tou chahe meray haq

Ki zameen rakh le

Tou sanso p bhi naam

Tera lkh le mai jio jab

Jab tera dil dhardhay

عنزہ نے گانا گاکر آخر میں طلحہ کے سینے پہ انگلی رکھی تو طلحہ نے مسکراکر اپنی ناک عنزہ کی ناک سے رگڑی تو عنزہ ہنس پڑی۔

Nal jeena wa to uthay yaar to

Le aaya menu jeenay da

Matlb aaj samjh aaya

paraya na karna na tou

Suneyha

Channa mai to rul jana

طحہ نے گانا ختم کرکے اپنا سر عنزہ کے سر سے جوڑ دیا تو سب لوگوں نے تالیاں بجاکر ان کو داد دی اور کجھ نے ہوٹنگ کی روحان ان دونوں پہ نفرت بھری نگاہ ڈالتا وہاں سے چلاگیا آریز نے اس کو جاتا دیکھا تو سب سے نظر بجاتا روحان کے پیچے گیا۔

شکریہ۔عنزہ نے طلحہ کے بال ماتھے سے پیچے کیے محبت سے کہا۔

کس لیے؟طلحہ نے پوچھا۔

میری بات کا مان رکھنے کے لیے مجھے بتانے کے لیے کے میں کیا اہمیت رکھتی ہوں۔عنزہ نے ٹرانس کی کیفیت میں کہا تو طلحہ مسکرادیا۔

تم میرے لیے کیا ہو یہ میں خود نہیں جانتا میری تو آتی جاتی سانسیں تمہارے نام کا ورد کرتی ہیں میرا دل تمہاری سلطنت ہے جس پہ تم بہت حق سے حکمرانی کرتی ہو اور میں کجھ اپنی مرضی سے کر بھی نہیں سکتا۔طلحہ نے کم لفظوں میں عنزہ کو اس کی اہمیت بتاٸی جسے سن کر عنزہ کا چہرہ بلش کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان تم کالج کیوں نہیں آتے؟آریز نے ریسٹورنٹ میں بیٹھے روحان کے پاس آکر کہا

ابھی بزی ہوتا ہوں کالج کو وقت نہیں دیں سکتا۔روحان نے وجہ بتاٸی۔

پڑھاٸی کے بعد بھی تم یہ سب کرسکتے ہو۔آریز نے ویٹر کو اپنے لیے کافی کا کہہ کر روحان سے کہا۔

مجھے بس طلحہ سے آگے جانا ہے اس کو بتانا ہے میرے سامنے وہ کجھ بھی نہیں۔روحان حسد بھرے لہجے میں کہا۔

تمہارے سنگر بننے سے اس کو کوٸی فرق نہیں پڑتا۔آریز نے حقیقت بتاٸی۔

کبھی نہ کبھی تو پڑے گا نہ۔روحان نے جوابً کہا۔

طلحہ کو بس ایک چیز سے فرق پڑتا ہے اور وہ ہے عنزہ جو طلحہ کی جیت ہے تو ہار بھی ہے۔آریز نے عام لہجے میں بتایا۔

صاف صاف بات کرو۔روحان اپنا سارا دھیان آریز کی طرف کیے بولا۔

مطلب صاف ہے تم عنزہ کو اپنے پاس کرلوں۔آریز ٹیبل پہ ہاتھ مارتا آرام سے مشورہ دینے لگا جس پہ روحان نے اس کو ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پہ شک ہو۔

میرا ایک لفظ وہ طلحہ کے خلاف نہیں سنتی اس کے سامنے میں طلحہ کو ایک لفظ کہوں تو وہ جواب میں دس باتیں سناتی ہے۔روحان دانت پیس کر بولا۔

تجھے یاد ہے عنزہ نے ایک دفع کہا تھا پاکستان کی مشھور ایکٹر بننا اس کے خوابوں میں سب سے اول خواب ہے۔آریز نے روحان سے کہا

ہاں یاد ہے طلحہ کو اس کی یہ بات مزاق لگی تھی اس نے تو یہ سوچنے سے بھی منع کیا تھا۔روحان بیزاری سے بولا۔

یہی تو تم عنزہ کو سپورٹ کرو اس کو آڈیشن میں لیجاٶ ہیروٸن کے لیے کیا چیز اہم ہوتی اچھی اداکاری کرنا خوبصورت ہونا اور کانفڈنٹ ہونا یہ سب عنزہ میں ہے۔آریز نے روحان کے دماغ میں نٸی بات ڈالی۔

اِس سب سے کیا ہوگا؟روحان ابھی بھی نہیں سمجھا تھا۔

طلحہ اور عنزہ الگ۔آریز نے پرجوش ہوکر کہا

مجھے کیا ضرورت ہے دو پیار کرنے والوں کو الگ کرنے کی جان دینے کی حدتک ایک دوسرے کے قریب ہیں وہ اتنی آسانی سے الگ ہوگے بھی نہیں۔روحان نے انکار کیا۔

تمہیں کوشش کرنی چاہیے طلحہ تمہارے رستے سے خودبخود دور ہوجاۓ گا اس کی ہار پکی اور تمہاری جیت پکی تم خود سوچو کیا حالت ہوگی طلحہ کی جب وہ عنزہ کو تمہارے ساتھ دیکھے گا تو۔آریز نے پھر کہا۔

اگر یہ بات ہے تو کیا پتا طلحہ اس کو اجازت دیں ڈالے شوبز انڈسٹری میں آنے کی اِتنی سی بات پہ وہ علیحدہ کیوں ہوگیں۔روحان اب بھی مطمٸن نہیں ہورہا تھا۔

میرے یار عقل کا استعمال کرو جو انسان ہماری نظریں عنزہ پہ برداشت نہیں کرتا تمہیں لگتا ہے وہ سیٸنما میں جہاں ہر قسم کے مرد ہوتے ہیں وہاں عنزہ کی چلتی فلم برداشت کریں گا طلحہ برداشت کریں گا کے اس کی ہونے والی ہمسفر غیرمردوں کے ساتھ فلموں کا کام کریں پوری دنیا میں مشہور ہوجاۓ۔آریز نے ایک اور پتہ پھینکا جس میں روحان سوچنے پہ مجبور ہوگیا

عنزہ اٹھارہ کی ہے ابھی ہیروٸن کا رول کرنے کے لیے اس کی عمر بیس سال تک کی تو ہونی چاہیے دوسرا یہ کے عنزہ ڈاٸریکٹ ہیروٸن کے طور پہ فلم میں آنا چاہتی ہے ناکہ سپورٹنگ رول۔روحان پرسوچ انداز میں بولا۔

دوسال بھی گزر جاۓ گے بس تم ابھی سے عنزہ کے کان میں یہ بات ڈال دو کے وہ فلموں میں آسکتی ہے لوگ اس کو پسند کرسکتے ہیں طلحہ کے لیے وہ اپنا کٸریر برباد نہ کریں۔آریز کی یہ بات آخری کیل کی طرح ثابت ہوٸی تھی روحان سمجھ گیا تھا کے اس کو کیا کرنا ہے اب یکایک اس کے چہرے پہ زہریلی مسکراہٹ آگٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

عنزہ طلحہ اور مرحا یہ تینوں ٹیرس پہ تھے مرحا اپنا ہوم ورک کررہی تھی تو طلحہ اپنا کل کا ٹیسٹ یاد کررہا تھا جب کی عنزہ چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ اپنی اور طلحہ کی تصویریں دیکھ رہی تھی جو ڈانس کرتے وقت رانیہ نے کھینچی تھیں۔

طلحہ یہ پکس کتنی پیاری ہے نہ؟عنزہ طلحہ کے پاس بیٹھ کر اس کو موباٸل کی جانب اشارہ کیے کہا تو طلحہ نے اسکرین کی طرف دیکھا جہاں تصویر میں وہ ایک دوسرے کے سر سے سر ٹکاۓ کھڑے تھے۔

اچھی ہے بہت۔طلحہ نے مسکراکر کہا۔

اس کو ہم فریم کرواٸیں گے۔عنزہ نے اپنی آنکھیں بڑی کیے کہا تو طلحہ ہنس کر سراثبات میں ہلانے لگا۔

یہ کتابیں تو چھوڑو۔عنزہ نے طلحہ کی کتابیں بند کی۔

ایسا تو نہ کرو میں جب ڈاکٹر بن کر اپنا ہوسپٹل کھولوں گا نہ تو اس کا افتتاح تم سے کرواٶ گا۔طلحہ نے اپنی کے کتاب کھول کر عنزہ سے کہا۔

واقع؟عنزہ شاک کی کیفیت میں بولی۔

ہاں اتنا شاک نہ ہو اب تم۔طلحہ نے ہنس کے کہا

اچھا پھر میری فرماٸش سنو۔عنزہ نے شانِ بے نیازی سے کہا تو طلحہ بغور عنزہ کو دیکھنے لگا میں خود تو بہت امیر ہوں پر چاہتی ہوں کے جب میں اکیس سال کی ہوجاٶں نہ تو تم مجھے BWM IXلیکر دینا گفٹ پہ میرے برتھ ڈے کے دن تب میں پہلی سواری تمہیں ہی کرواٶ گی۔عنزہ نے مزے سے بتایا۔

ٹھیک ہے پر کیا فاٸدہ چلانی تو وہ بھی میں نے۔طلحہ مسکراہٹ دانتو تلے دباۓ بولا۔

میں بھی کبھی کبھی۔عنزہ نے طلحہ کے بازوں پہ تھپڑ رسید کیے کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

تمہارا اور طلحہ کا کپل بہت پیارا شادی کب کروگے تم دونوں؟عنزہ کی کلاس فیلو نے عنزہ سے پوچھا۔

جب طلحہ کی میڈیکل پڑھاٸی پوری ہوجاۓ گی تب۔عنزہ مسکراکر بتانے لگی۔

تمہارے چہرے کا رنگ اتنا فیٸر ہے جب کی طلحہ کا نہیں تمہیں اس سے بہتر بھی مل سکتا ہے تمہاری ہر چیز خوبصورت ہوتی ہے تو کیا تم ہمسفر کم شکل والے کے ساتھ گُزارا کرلوں گی۔دوسری کلاس فیلو کی بات پہ عنزہ کے تن بدن میں آگ لگ گٸ تھی۔

زبان سنبھال کے بات کرو اگر دوبارہ میرے طلحہ کے بارے میں ایسا کجھ کہا تو زبان گَدی سے کھینچ لوں گی۔عنزہ غصے سے اس کی طرف بڑھتے ہوۓ بولی لڑکی ڈر کر کجھ قدم دور ہوٸی۔

میں نے جسٹ بات کہی۔اس نے منمناکر کہا عنزہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کھڑے کھڑے سامنے والی لڑکی کو شوٹ کردیتی۔

صرف رنگ ہی گندمی ہے وہ بھی اٹریکٹو پورے کالج میں تم مجھے طلحہ سے زیادہ پیارا نین نقوش والا لڑکا تلاش کرکے دیکھا دو تو مانوں۔عنزہ ویسے ہی غصے سے بولی۔

ہاں عنزہ ٹھیک ہے فیس کلر واٸٹ ہونے سے کون خوبصورت ہوتا ہے اصل خوبصورت تو انسان کے اندر ہوتی ہے اور سچ میں طلحہ کے جتنا خوبصورت نین نقوش والا یہاں کوٸی نہیں۔پہلی لڑکی نے کہا جب کی عنزہ کا موڈ فل خراب ہوگیا تھا۔

میرے نزدیک طلحہ کے علاوہ کوٸی بھی حسین مرد نہیں ایک طرف سے یہ سچ بھی ہے پر تم لوگ کیا جانوں۔عنزہ ان سب پہ طنزیہ نظر ڈالتی کلاس سے باہر آٸی وہ طلحہ کو کال کرنے والی تھی پر سامنے روحان آیا تو اس کی طرف متوجہ ہوٸی۔

کیسے ہو۔عنزہ نے پوچھا۔

میں ٹھیک تمہیں ایک بات بتانی تھی۔روحان نے کہا۔

کونسی بات؟عنزہ سوالیہ انداز میں بولی۔

کینٹین چلو بتاتا ہوں۔روحان اس کا ہاتھ پکڑتا بولا پر عنزہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ دور کیا۔

میں ایسے ہی چلتی ہوں۔عنزہ کی حرکت اور بات پہ روحان کو غصہ تو آیا پر وہ ضبط کرگیا

اب بتاٶ بات۔وہ دونوں کینٹین آۓ تو عنزہ نے کہا

تم فلموں میں کام کرنا چاہتی ہونہ؟روحان نے پوچھا۔

افکورس۔عنزہ پرجوش ہوکر بولی۔

تو اپنا آڈیشن دو۔روحان نے کہا۔

ابھی کیسے موم ڈیڈ تو کیا طلحہ بھی نہیں مانیں گا میں نے تو B.Aبھی نہیں کیا۔عنزہ نے پریشانی سے کہا۔

تم ماموں جان کو مناٶ طلحہ تو ویسے بھی تمہیں قید کرنا چاہتا ہے۔روحان نے کوفت سے کہا۔

ایسا نہیں میں بات کروں گی طلحہ سے میری بات مان لیں گا وہ۔عنزہ پُریقین لہجے میں بولی

کب کرو گی؟روحان نے جاننا چاہا۔

کل برتھ ڈے ہے طلحہ کا اس کے دو دن بعد۔عنزہ نے کہا۔

وہ نہ مانا تو۔روحان نے پھر کہا۔

مان جاۓ گا اس کے لیے میری اور میرے لیے اس کی بات ضروری ہے میں راضی کرلوں گی طلحہ کو۔عنزہ نے یقین دلایا تو ایک پل کو روحان کو لگا کے سچ میں طلحہ مان جاۓ گا پر اصل بات تو تب پتا لگے گی جب طلحہ سے بات ہوگی۔

💕💕💕💕💕

موم آپ آج گھر پہ رُک جاتی۔عنزہ نے سمیہ بیگم کو تیار ہوتا باہر جاتے دیکھا تو کہا۔

میری جان ضروری ہے ایگزبیشن ہے وہاں جارہی ہوں تم بھی چلو اگر گھر نہیں رہنا تو۔سمیہ بیگم نے پچکارتے ہوۓ کہا

آپ جاٶ میں یہی ہوں آپ کو آتے ہوۓ دیر ہوجاتی ہے مجھے رات کو طلحہ کو وِش کرنا ہے اس کی سالگرا ہے۔عنزہ نے سہولت سے انکار کیا

طلحہ کا برتھ ڈے ہے میں تو بھول گٸ تھی۔سمیہ بیگم نے جیسے افسوس سے کہا۔

آپ کو میرا یاد نہیں رہتا تو اس کا کہاں یاد رہے گا۔عنزہ بڑبڑاٸی۔

کجھ کہا؟سمیہ بیگم سن نہ پاٸی۔

میں نے کجھ نہیں کہا آپ جاۓ لیٹ ہورہا ہوگا۔عنزہ نے کہا تو وہ جلدی سے باہر کی طرف گٸ۔

💕💕💕💕💕💕💕

چنگاڑی چھوڑ آیا ہوں بس آگ کا انتظار ہے۔روحان نے واٸن کا گلاس پیتے آریز سے کہا۔

ڈونٹ وری آگ بھی لگ جاۓ گی اور ایسے لگے گی کے طلحہ کا پورا وجود خاک ہوجاۓ گا وہ زندہ تو رہے گا پر اپنی زندگی جی نہیں پاٸیں گا کیوں کی اس کی زندگی تو تمہارے پہلوں میں ہوگی۔آریز کمینگی سے قہقہقہ لگاکر بولا تو روحان بھی ہنس دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

رات کے بارہ بجنے میں بس ایک منٹ باقی تھا عنزہ نے جلدی سے اپنا سیل فون لیکر طلحہ کا نمبر ڈاٸل کیا جو پہلی ہی بیل پہ اٹھالیا گیا تھا

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

ہیپی برتھ ڈے ڈیٸر طلحہ

طلحہ کو کجھ کہنے کا موقع دیٸے بنا عنزہ نے خوبصورت آواز میں برتھ سونگ گایا تو طلحہ نے فون کان سے لگاٸیں مسکراکر آنکھیں بند کرکے کُھولی۔

میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا جانتا تھا تم فون کرو گی اور سب سے پہلے مجھے برتھ ڈے وش کرو گی۔طلحہ کی بات پہ عنزہ کے چہرے پہ تبسم کِھلا۔

جیسے مجھے انتظار ہوتا ہے میرے برتھ ڈے پہ۔عنزہ نے بھی مسکراکر کہا۔

مجھے یہ بات خوشی کی انتہا پہ پہچاتی ہے کے ایک لاپرواہ لڑکی جس کو کبھی وقت کا یا کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا وہ میری سالگراہ کے دن وقت پہ آکر سب سے پہلے وش کرتی ہے۔طلحہ کھوۓ ہوۓ لہجے میں کہا۔

لاپرواہ کہاں تم نے اچھا خاصا زمیدار بنا ڈالا ہے۔عنزہ نے ناک سیکوڑ کر کہا۔

ہاہاہاہا ریٸلی میں نہیں مانتا۔عنزہ کی بات پہ طلحہ کا قہقہقہ چھوٹ گیا اس کو ہنستا دیکھ کر عنزہ بھی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕💕

دروازہ نوک ہونے پہ وہ حال میں لوٹا اس نے اپنا ہاتھ چہرے پہ رکھا تو پتا لگا پورا آنسوٶ سے بھیگا ہوا تھا طلحہ زخمی سا مسکرایا اپنا چہرہ صاف کیے اس نے ڈور اُپن کیا پھر اپنی جگہ پہ بیٹھا سعد نے طلحہ کی حالت دیکھی اور گہری سانس بھرتا اندر آیا۔

تمہیں دیکھ کر اِس بات پہ یقین آیا کے محبت واقع نہیں مرتی کجھ بھی ہوجاۓ دل کے کسی کونے میں ہمیشہ آباد رہتی ہے۔سعد نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔

کیسی ہے وہ؟طلحہ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں تھی۔

سارا دن رات بھی گزر گٸ تمہیں اب خیال آیا اس کی کنڈیشن پوچھنے کا۔سعد کا لہجہ طنزیہ ہوگیا تھا۔

مجھ میں اتنی ہمت ابھی پیدا نہیں ہوٸی جو اس کا خون میں لت پت وجود دیکھ پاٶں۔طلحہ ٹوٹیں لہجے میں بولا۔

ٹھیک نہیں ہے وہ تم نے جن ڈاکٹرز کو بُلایا ہے پوری کوشش کررہے ہیں پر عنزہ کو ہوش نہیں آرہا۔سعد نے بتایا تو طلحہ نے درد سے اپنی آنکھیں میچ لی۔

میں اتنا لاپرواہ کیسے ہوگیا اس کے معاملے میں محبت محبت کرتا پھرتا تھا اور میری محبت آج اِس حالت میں ہے میں کجھ کر بھی نہیں سکتا۔طلحہ بے بسی کی انتہا پہ کھڑا تھا۔

دعا کرو اللہ اس کو صحتمند زندگی دیں تم نے تو نہیں پر میں نے گھر میں اِطلاع دیں رکھی ہے میڈیا کو بھی سنبھال لیا ہے یہ سب عنزہ کے کسی شوٹ میں حادثہ ہوا ہے ساری ٹیم یہی موجود ہے۔سعد کی آخری بات پہ طلحہ غصے سے اٹھا اور کوریڈور کی طرف آیا جہاں سب لوگ پریشان کھڑے تھے۔

تم سب کو اجازت کس نے دی تھی ڈینجر جگہ پر شوٹ کرنے کی۔طلحہ بنا ہسپتال ہونے کا دھیان دیٸے دھاڑ کر بولا۔

عنزہ خان کی غلطی تھی ہم نے کہا تھا ان کو ٹرن نہیں لینا۔نعمان عدنان دھیمی آواز میں بولے

بکواس بند کرو اپنی۔طلحہ غصے سے پاگل ہوتا بولا۔

ڈاکٹر طلحہ پلیز کام ڈاٶن پیشنٹس پریشان ہورہے ہیں۔ڈاکٹر سلمان جلدی سے آکر طلحہ کے پاس آیا۔

ابھی کے ابھی ان سب کو باہر کا رستہ دیکھاٶ۔طلحہ سلمان کو دور کرتا ہوا بولا۔

ہم ایسے کیسے جاسکتے ہیں۔ڈاٸریکٹر نے اعتراز اٹھایا۔

جاتے ہو یا پہنچاٶ تم سب کو بھی ایمرجنسی روم میں۔طلحہ مارنے کے لیے ان کی طرف بڑھنے لگا پر بیچ میں سعد اور سلمان نے روک لیا۔

کنٹرول طلحہ ہوش سے کام لو نہ کے جوش سے کام بگاڑو۔سعد نے اس کو رلیکس کرنا چاہا طلحہ ان دونوں کو خود سے الگ کرتا ICU کی جانب گیا جہاں عنزہ کو رکھا گیا تھا طلحہ اندر آیا تو عنزہ کو مختلف مشینوں میں جکڑا پایا اس کو اپنا دل درد سے پھٹتا محسوس ہورہا تھا

طلحہ نے پاس کھڑی نرسس کو باہر جانے کا اشارہ کیا خود چلتے ہوۓ عنزہ کے پاس آیا طلحہ کی آنکھ سے آنسو گِر کر فرش پہ بے مول ہوا طلحہ نے عنزہ کا مشین میں جکڑا ہاتھ پکڑا اور وہی اسٹول قریب کھسکا کر وہاں بیٹھ گیا

آنکھیں کھول دو اپنی پلیز عنزہ جانتا ہوں تمہارے نزدیک اب میری یا میری کسی بات کی اہمیت نہیں پر میرے دل میں مقام تمہارا ویسا ہی ہے جیسا چھ سال پہلے تھا شاید ان اختلافات کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے میں روز مرتا ہوں روز جیتا ہوں تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔طلحہ بچوں کے انداز سے عنزہ سے باتیں کررہا تھا تو کبھی شکوہ کرجاتا پر سننے والا وجود ابھی ہوش میں کہا تھا جو اُس کی تڑپ دیکھتا۔

رابطے ختم بھی ہوجاٸیں

رشتے ٹوٹ بھی جاٸیں تو محبتیں ختم نہیں ہوتی

جس طرح یادیں حافظے پہ قابض رہتی ہیں بلکل اِسی طرح

محبت دل سے دستبردار نہیں ہوتی.....!

💕💕💕💕💕💕💕

بات ہوٸی تمہاری طلحہ سے؟عنزہ لاٶنج میں بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی جب روحان پاس بیٹھ کر بولا۔

تم کب آٸیں؟عنزہ نے اُلٹا سوال پوچھا۔

میرا جواب تو دیتی۔روحان نے دانت پیسے۔

ایک تو اچانک سے آۓ بنا سلام کیے ڈاٸریکٹ اپنے مطلب کی بات کہی۔عنزہ نے لاپرواٸی سے کہا۔

ہاۓ کیسی ہو؟روحان نے اب کی سلام کے ساتھ حال چال بھی پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں۔عنزہ نے اِتراکر کہا۔

اب بتادو۔روحان نے گھور کر کہا۔

ابھی نہیں کی طلحہ کے پیپرز ہورہے ہیں مصروف ہے بہت۔عنزہ نے بتایا۔

وہ جتنا بھی مصروف کیوں نہ ہو تمہارے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے۔روحان نے جوابً کہا

وہ تو ہے پر میں خود طلحہ کو ابھی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی اس کا ماٸینڈ اُلجھا ہوا ہوگا تو پڑھاٸی پہ فوکس نہیں کرپاۓ گا۔عنزہ آرام سے بولی۔

ایک تو تمہاری سمجھ نہیں آتی۔روحان عنزہ کی بات پہ بدمزہ ہوکر بولا جس پہ عنزہ نے کوٸی دھیان نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕💕

کیا کررہی ہیں آپ چچی جان؟عنزہ مقصود پلس آکر کچن میں آمنہ بیگم کے پاس آٸی جو کجھ بنانے میں مصروف تھیں۔

کھیر بنارہی ہوں طلحہ کو پسند ہے اس کا آج آخری پیپر تھا تو سوچا بنالوں۔آمنہ بیگم نے مسکراکر بتایا۔

میں کوٸی مدد کروں؟عمزہ نے پوچھا۔

تم ایسا کرو سلاد کاٹ لو ملازمہ چھٹی پہ ہے آج۔آمنہ بیگم نے بتایا تو عنزہ سلاد کی پلیٹ اٹھاتی کچن میں موجود کرسی پہ بیٹھ گٸ۔

میں آتی ہوں کجھ کام ہے۔آمنہ بیگم عنزہ سے کہتی کچن سے باہر گٸ۔

تم یہاں کچن میں؟طلحہ جو پانی پینے کے لیے کچن میں آیا تو عنزہ کو دیکھ کر کجھ حیران ہوا عنزہ جو سلاد کاٹنے میں مگن تھی طلحہ کے اچانک آنے پہ وہ ہربڑاٸی جس سے انگلی میں ہلکہ سا کٹ لگ گیا۔

آآآ۔عنزہ نے چیخ کر وہ انگلی منہ میں ڈالی طلحہ تیر کی تیزی سے عنزہ کے پاس آیا اور اس کی انگلی دیکھنے لگا

تمہیں کس نے کہا تھا کچن میں آنے کو کٹ گٸ نہ انگلی خون بہہ رہا ہے اففف خدایا میں کیا کروں تمہارا جانے کیا سکون ملتا ہے تمہیں مجھے پریشان کرنے میں۔طلحہ عنزہ کی انگلی پہ خون کی بوند دیکھ کر پریشانی سے بولا

اتنا بھی نہیں ہے۔عنزہ نے جلدی سے کہا۔

تھوڑا بھی کیوں لگا آٸیندہ اِن چیزوں سے دور رہنا مجھ سے نہیں ہوتی تمہاری تکلیف برداشت۔طلحہ شدت بھرے لہجے میں بولا۔

آۓ لو یو طلحہ ہمیشہ ایسے ہی رہنا کبھی بدل نہ جانا میں سب کجھ سہہ لوں گی پر تمہیں کھونے کا تصور بھی میرے لیے ازیت ناک ہے۔عنزہ نم لہجے میں طلحہ سے التجا کرنے لگی۔

میں ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا تمہارا بن کر۔طلحہ نے نرمی سے کہا تو عنزہ بھیگی آنکھوں سے مسکرادی۔.

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

Episode 4

طلحہ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔عنزہ روحان کے بار بار اصرار کرنے پہ طلحہ سے بات کرنے کا سوچا اس لیے اس نے طلحہ کو کال کرکے کہا۔

ہاں کہو۔طلحہ نے اجازت دی۔

میں شوبز انڈسٹری میں جانا چاہتی ہوں تم آڈیشن پہ میرے ساتھ چلنا۔عنزہ نے لہجے کو نارملی کرتے ہوۓ کہا ورنہ دل زور سے دھڑک رہا تھا۔

تم شوبز انڈسٹری میں کام نہیں کرو گی میں نے پہلے بھی کہا تھا۔طلحہ نے سخت لہجے میں کہا

تم جانتے ہو فلموں میں کام کرنا میرا سب سے بڑا خواب ہے۔عنزہ نے پریشانی سے کہا۔

عنزہ فضول کی ضد مت کرو۔طلحہ نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوۓ کہا۔

ضد نہیں خواب ہے میرا پاکستان کی مشہور اداکارہ بننے کا جس میں تم رکاوٹ بن رہے ہو۔عنزہ تلخی سے بولی طلحہ عنزہ کی بات پہ شد سا رہ گیا تھا جب کی عنزہ کو بھی بعد میں احساس ہوا کے وہ کیا کہہ گٸ ہے۔

طلحہ وہ سوری۔عنزہ فورن سے بولی۔

کجھ کام ہے فون رکھتا ہوں۔طلحہ سنجیدگی سے کہتا کال کٹ کرگیا عنزہ بے بسی سے فون کو بس دیکھتی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

عنزہ کے جسم کو جھٹکا لگتے دیکھ کر طلحہ کا وجود ساکت ہوگیا تھا خود ڈاکٹر ہوکر بھی اس کو سمجھ نہ آیا کے وہ کیا کریں اِس لیے وہ زور سے باقی ڈاکٹرز کو بلانے لگا۔

کیا ہوا ڈاکٹر طلحہ؟فلزہ جلدی سے سلمان اور سعد کے ساتھ آتی ہوٸی بولی۔

عنزہ کو دیکھے۔طلحہ سرخ آنکھوں سے کہتا ICU روم سے نکل گیا۔

ڈاکٹر طلحہ ویٹنگ روم میں عنزہ خان کی فیملی آئی ہے اور بار بار ان سے ملنے کا کہہ رہے ہیں۔طلحہ مسجد جانے کے لیے نکل رہا تھا جب نرس نے بتایا نرس کی بات پہ طلحہ نے اپنے قدم ویٹنگ کی طرف بڑھاۓ۔

طلحہ کیسی ہے میری بچی؟سمیہ بیگم کی نظر جیسے ہی طلحہ پہ نظر پڑی وہ فورن سے بولی

ماں ہیں آپ دعا کریں۔طلحہ نے ان کی حالت دیکھ کر کہا جنہوں نے رو رو کر اپنی حالت بگاڑ لی تھی۔

خطرے سے تو باہر ہے نہ؟مقصوم صاحب رنجیدہ آواز میں پوچھنے لگے۔

جب تک ہوش نہیں آتا کجھ کہنا ناممکن ہے۔طلحہ نے گہری سانس بھر کے کہا۔

سمیہ دعا کرو اللہ عنزہ کو اچھی صحت والی زندگی عطا کریں۔آمنہ بیگم نے کہا۔

آپ بھی دعا کریں میری ایک ہی بچی ہے مانا میں نے اس کے معاملے میں کوتاہیاں کی ہیں پر ہے تو میری اولاد ہے نہ پیار تو میں بہت کرتی ہوں اس سے۔سمیہ بیگم روتے ہوۓ بولی تو آمنہ بیگم اٹھ کر ان کو اپنے ساتھ لگاکر تسلی کروانے لگی ان سب کو دیکھ کر طلحہ باہر چلاگیا۔

طلحہ عنزہ خان کے لیے اتنا پریشان کیوں ہیں؟فلزہ اور سعد ڈیوٹی سے فارغ ہوکر کیبن میں آۓ تھے جب فلزہ نے اپنے اندر کی اُلجھن کو سُلجھانے کے لیے سعد سے پوچھا۔

کزن ہے اس کی۔سعد نے مختصر بتایا۔

واٹ کزن؟فلزہ بے یقین ہوئی۔

ہاں۔سعد نے کہا۔

میں تین سال سے طلحہ کے ساتھ ہوں اُس نے کبھی بتایا نہیں۔فلزہ شاک میں بولی۔

تمہیں کیوں بتاتا؟سعد نے اُلٹا اس سے سوال کیا

ایسے ہی میں جب عنزہ خان کا ذکر کرتی تھی تو ہی بتادیتا۔فلزہ نے جوابً کہا۔

بتانا ضروری نہیں سمجھا ہوگا۔سعد نے سادہ لہجے میں کہا تو فلزہ نے ہنکارہ بھرا۔

💕💕💕💕💕

طلحہ نے کیا کہا؟رانیہ نے کالج میں عنزہ سے پوچھا جو کجھ کھوٸی کھوٸی سی تھی۔

میں نے اس کو ناراض کرلیا۔عنزہ نے افسوس سے کہا۔

تمہاری وہ بات نہیں مان رہا تو چھوڑ دو اس کو ویسے بھی کزن ہے تمہارا حد میں رکھو جتنی اہمیت دو گی اتنا بھاٶ کھائیں گا۔روحان اچانک ان کے ساتھ گراٶنڈ میں بیٹھ کر بولا۔

اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔عنزہ نے گھور کر کہا۔

میں تو تمہارا کئریر بنانا چاہتا ہوں تمہارا اپنا نام ہوگا لوگ تمہیں جانے گے پہچانے گے طلحہ تو اس لیے راضی نہیں ہورہا کیوں کی اُس کو اِس بات کا ڈر ہے کے کہیں تم مشہور ایکٹریس بن گئ تو اس کو چھوڑ نہ دو۔روحان نے عنزہ کو بدگمان کرنا چاہا رانیہ خاموش بیٹھی ان کو بات کرتا سن رہی تھی۔

طلحہ ایسا کجھ نہیں سوچ سکتا بھلا میں کیوں اس کو چھوڑو گی۔عنزہ نے کہا

تم خوبصورتی میں اس سے آگیں ہو اور شوبز میں کام کرنے والے لوگوں کا اندازہ لگاسکتی ہو کتنی مصروف ہوتی ہے ان کی زندگی ایسے میں طلحہ تھوڑئی چاہے گا کے اتنی خوبصورت لگی اس کے ہاتھ سے نکلے۔روحان ہاتھ جہاڑ کر بولا

ہم محبت کرتے ہیں ایک دوسرے سے طلحہ ایسا نہیں چاہتا ہوگا وہ بس مجھے کھونے سے ڈرتا ہے۔عنزہ نے دلیل دی۔

جن سے پیار کرتے ہیں ان کی ہر بات مان جایا کرتے ہیں ناکہ ضد کرکے اپنی منمانی کرتے ہیں۔روحان ناک سکوڑ کر بولا۔

طلحہ سے میں پھر بات کرو گی اگر جو تم بات کررہے ہو وہ بات ہے تو میں شوبز میں جانے سے پہلے نکاح کرلوں گی طلحہ سے ایسے میں طلحہ کا ڈر بھی دور ہوجاۓ گا۔عنزہ کی بات پہ روحان کی زبان تالو سے چپک گٸ جب کی رانیہ مسکرادی۔

ہاں تم ایسا کرنا اور کجھ سال کام کرکے اپنا شوق خواب پورا کرنا اس کے بعد الوعداع کرنا شوبز انڈسٹری کو۔رانیہ نے کہاتو عنزہ مطمئن سی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ناراض ہو؟عنزہ نے طلحہ سے پوچھا جو خاموشی سے ڈرائیونگ کررہا تھا۔

نہیں۔یک لفظی جواب

بات کیوں نہیں کررہے پھر؟عنزہ نے پھر پوچھا

کوٸی بات کرنے کی نہیں ہے۔طلحہ نے وجہ بتائی۔

میرے منہ سے نکل گیا ورنہ میں ایسا کبھی نہ کہتی۔عنزہ نے افسوس سے کہا

زبان سے وہی نکلتا ہے جو دماغ میں ہو۔طلحہ نے سنجیدگی سے کہا۔

ایسا نہیں ہے طلحہ۔عنزہ نے طلحہ کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر یقین دلانا چاہا۔

میں فلحال کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔طلحہ نے اپنا ہاتھ عنزہ کے ہاتھ سے ہٹاکر سنجیدگی سے کہا طلحہ کی بات اور حرکت پہ عنزہ بہت ہرٹ ہوٸی تھی زندگی میں پہلی بار طلحہ نے ایسے لہجے میں بات کی تھی عنزہ کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی جس کو چھپانے کے لیے اس نے اپنا رخ ونڈو کی جانب کیا دوسری طرف طلحہ خود اُداس تھا اس نے جان بوجھ کر اپنا رویہ عنزہ سے روڈلی رکھا تھا تاکہ وہ اپنی ضد سے پیچے ہٹ جاۓ اس کو امید اور یقین دونوں تھا عنزہ کے لیے سب سے پہلے وہ ہوگا اِس لیے وہ کجھ مطمئن تھا۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمین تو کہیں آسمان نہیں ملتا

بجھا سکا نہ کوئی وقت کے شعلے

یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا

تیرے جہاں میں ایسا نہیں کے پیار نہ ہو

جس کی امید ہو وہاں نہیں ملتا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

پڑھائی کسی چل رہی ہے تمہاری؟آج اِتوار ہونے کی وجہ سے مقصوم صاحب گھر پہ تھے جب کی سمیہ بیگم اپنے کمرے میں سوئی ہوٸی تھیں۔

اچھی جارہی ہے۔عنزہ نے بتایا۔

پڑھاٸی تمہاری پوری ہوجاۓ تو اپنے باپ کے آفس آکر کام میں مدد کرو۔مقصوم صاحب نے عنزہ سے کہا۔

نو ڈیڈ میں بزنس وومن نہیں بلکہ ایکٹریس بننا چاہتی ہوں۔عنزہ نے بتانا ضروری سمجھا۔

یہ بات تمہارے دماغ میں کہاں سے آگئ ایسا کجھ نہیں بنوں گی تم۔مقصوم صاحب بھڑک کر بولے۔

کیوں ڈیڈ؟عنزہ نے وجہ جاننی چاہی۔

ہمارے سرکس میں عزت ہے اور تم یہ کام کرو گی ایسی لڑکیوں کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔مقصوم صاحب کی بات پہ عنزہ نے افسوس سے ان کی جانب دیکھا۔

معاشرے کے لوگ ان لڑکیوں کی فلمیں ڈرامے تو دلچسپی سے دیکھتے ہیں پر عزت کیوں کوئی نہیں کریں گا۔عنزہ کی آواز تیز ہوگٸ تھی۔

باپ کے سامنے تہمیز کے داٸرے میں بات کیا کرو میں نے جو کہہ دیا اس کو اپنے دماغ میں بیٹھالوں۔مقصوم صاحب کڑک آواز میں کہتے اُپر کی جانب بڑھے ان کو جاتا دیکھ کر عنزہ نے عہد کرلیا تھا کے وہ اب شوبز میں جاکر رہے گی نام اور عزت دونوں کمائیں گی۔

💕💕💕💕💕💕💕

وجہ جان سکتی ہوں تمہارے نظرانداز کرنے کی؟عنزہ نے طلحہ سے سوال کیا جس نے تین بیلز کے بعد کال اٹھائی تھی۔

جان کر کیا کرو گی؟طلحہ نے بھی سوال کیا۔

سوال پہ جواب دیا کرو سوال نہیں کیا کرو۔عنزہ جھنجھلاہٹ سے بولی۔

بزی تھا کجھ۔طلحہ نے کہا

ہم مل سکتے ہیں؟عنزہ نے پوچھا۔

باہر لنچ کریں گیں تیار رہنا۔طلحہ نے نرمی سے کہا وہ تھک گیا تھا عنزہ کو بے رخی دیکھاتے دیکھاتے۔

سچ اوکے میں تیار ہوجاٶں گی وقت پہ۔عنزہ طلحہ کی بات پہ خوش ہوکر بولی عنزہ کو خوش محسوس کرتا طلحہ بھی پرسکون ہوتا مسکرادیا۔

دو ٹوک بات کرنا طلحہ سے۔روحان نے عنزہ سے کہا جو تیار ہوکر طلحہ کا انتظار کررہی تھی۔

ڈونٹ وری آج اِس چیپٹر کو کلوز کرلوں گی طلحہ مان جاۓ گا تو موم ڈیڈ کو بھی راضی کرلیں گا۔عنزہ نے مسکراکر کہا وہ پنک کلر کے گھیردار فراق میں ملبوس تھی چہرے پہ لپ گلوس لگاۓ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کمر کو چھوتے بالوں کا اس نے جوڑا بنایا ہوا تھا

نہ مانیں تو بس تم نے کہنا ہے کے وہ تمہارے معاملے میں نہ بولیں۔روحان کی بات پہ وہ کجھ کہنے والی تھی جب ملازمہ نے بتایا کے وہ طلحہ آگیا ہے۔

میں چلتی ہوں دعا کرنا سب ٹھیک ہو۔عنزہ ٹیبل سے اپنا پاٶچ اٹھا کر روحان سے بولی۔

ماشااللہ آج جلدی آگئ۔طلحہ نے عنزہ کے فرنٹ پہ بیٹھتے ہی شرارت سے بولا۔

ایک مہینے بعد تم نے باہر جانے کا کہا جلدی تو کرنی ہی تھی۔عنزہ نے وجہ بتاٸی۔

کہاں چلیں؟طلحہ نے مسکراکر پوچھا۔

ہم لنچ کے لیے نکلیں ہیں بھول گئے کیا؟عنزہ نے ہنس کر کہا تو طلحہ بھی مسکراتا گاڑی کو ریسٹورنٹ کے راستے بڑھادی۔

میرے لیے چکن کورمہ اینڈ بریانی۔ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر عنزہ نے اپنا آرڈر بتایا۔

سر آپ کا؟ویٹر نے طلحہ سے پوچھا کو عنزہ کو دیکھ رہا تھا۔

وہی جو میڈم نے بتایا۔طلحہ نے عنزہ کی جانب اشارہ کیے بتایا تو ویٹر سرہلاتا چلاگیا۔

طلحہ پھر کیا سوچا تم نے؟عنزہ نے پوچھا

کس بارے میں؟طلحہ سمجھ نہیں پایا۔

میرے شوبز جانے کے بارے میں۔عنزہ نے یاد کروایہ۔

موڈ اسپوئل نہ کرو۔طلحہ کوفت سے بولا

طلحہ پلیز میری بات کو سمجھو۔عنزہ نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوۓ کہا۔

میں کیا سمجھوں عنزہ مجھ سے نہیں ہوگا برداشت تمہیں یوں غیرمردوں کے ساتھ فلموں میں کام کرتا دیکھنا۔طلحہ سخت لہجے میں بولا تبھی ویٹر نے آکر ان کی ٹیبل پہ کھانا سرو کیا۔

تمہاری سوچ جان کر افسوس ہوا۔ویٹر کے جانے کے بعد عنزہ تاسف سے بولی۔

غلط نہیں سمجھو عنزہ پر میں تم پہ کسی اور کی نگاہ برداشت نہیں کرسکتا شوبز انڈسٹری میں کام کرنا تو بہت دور کی بات پہ ہے۔طلحہ عنزہ کے سامنے والی پلیٹ میں کھانا ڈالتا ہوا بولا۔

میں کام کرکے رہوں گی۔عنزہ اٹل لہجے میں بولی عنزہ کی بات پہ طلحہ کے حرکت کرتے ہاتھ رک گٸے۔

چوز ون۔طلحہ نے ہاتھ کھڑے کیے کرسی سے ٹیک لگاکر کہا تو عنزہ ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔

میں یا شوبز انڈسٹری میں کام کرنا اگر میں تو یقین مانو تمہارا ہر کہا تمہاری زبان سے نکلنے سے پہلے پورا کردوں گا سواۓ فلموں میں کام کرنے کے اگر تم شوبز انڈسٹری کو چوز کرتی ہو تو آج سے تمہارا اور میرا راستہ الگ ہوجاۓ گا ہمارے بیچ جو ہے سب ختم ہوجاۓ گا میں کبھی تمہارے راستے میں نہیں آٶں گا نہ ہی کجھ کہوں گا ہم ایک دوسرے کے لیے بلکل اجنبی بن جاۓ گیں۔طلحہ کی بات پہ عنزہ شاک کی کیفیت میں اس کا چہرہ تکنے لگی جہاں سنجیدگی قائم تھی اس کو یقین نہیں آرہا تھا طلحہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ سکتا ہے کیا اُن کا رشتہ اتنا کمزور تھا جو طلحہ ختم کرنے کی بات کررہا تھا جب کی دوسری طرف طلحہ کا دل زور سے دھڑک رہا تھا وہ جانتا تو تھا عنزہ بھی اس کو چاہتی ہے پر ڈر بھی تھا کے کہیں وہ اس کو چھوڑ نہ دیں۔

تم اتنی بڑی بات کیسے کرسکتے ہو؟بہت دیر بعد عنزہ کے منہ سے بس یہی الفاظ ادا ہوسکے۔

چوائز از یوئرز۔طلحہ نگاہیں دوسری طرف کیے بولا۔

یہ اہمیت ہے میری تمہاری زندگی میں جو اپنی بات منوانے کے لیے ہمارا رشتہ داٶ پہ لگارہے ہو۔عنزہ کی بات پہ طلحہ نے مٹھیاں زور سے بند کی۔

میرے لیے تم آتی جاتی سانسوں کی طرح ہو۔طلحہ شدت سے بولا عنزہ کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آٸی۔

تو میرے بنا رہ لوں گے؟عنزہ کی بات پہ طلحہ بے یقین نظروں سے عنزہ کو دیکھا جو بے تاثر نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

تم شوبز انڈسٹری جانے میں دلچسپ ہو مجھے چھوڑ کر تم خوش رہ لوں گی تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔طلحہ سخت لہجے میں بولا جب کی دل تو ہزاروں ٹکروں میں تقسیم ہوا عنزہ کی بات پہ۔

میں نہیں تم چھوڑ رہے ہو مجھے۔عنزہ نے تصدیق کرنی چاہی۔

سوچ لو آج اگر اپنی بات پہ قائم رہی تو ہمیشہ مجھے کھودو گی کبھی میرے دل کے دروازے تمہارے لیے نہیں کھولے گیں۔طلحہ نے کہا

تم میری بات مان لو۔عنزہ نے ایک کوشش کرنی چاہی۔

میری غیرت یہ گوارا نہیں کریں گی کے میری ہمسفر فلموں میں کام کریں۔طلحہ نے صاف بات کی عنزہ کا ہاتھ اپنے گلے میں پہنے لاکیٹ میں گیا جو طلحہ نے دیا تھا یہ کہہ کر کے ہماری محبت کی شروعات کی نشانی ہے ہمیشہ پہن کے رکھنا۔

ٹھیک ہے پھر۔عنزہ نے لاکیٹ اُتار کر ٹیبل کے درمیان رکھا جہاں رکھا گیا کھانا ٹھنڈا ہوگیا تھا طلحہ کا چہرہ فق ہوا تھا عنزہ کی حرکت پہ

شوبز انڈسٹر میں جانا میرا جنون ہے جس کے لیے میں تمہیں بھی چھوڑسکتی ہوں۔عنزہ نے کہہ کر اپنا پاٶچ مٹھی میں جکڑا اور وہاں سے اٹھ گٸ جب کی طلحہ جہاں تھا وہی کا وہی رہ گیا عنزہ اس کی زندگی تھی جو چھوٹی سی بات پہ اس کو چھوڑ کر جاچکی تھی طلحہ کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا تھا جو گرنے سے پہلے ہی طلحہ نے ہاتھ سے پرے کیا تھا۔.

آنکھوں کا رنگ____بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک شام میں___کتنا بدل گیا

اٹھ کر چلاگیا_____ کوٸی وقفے کے درمیان

پردہ اٹھا تو سارا__________تماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ ____اسے کو دیکھتے رہے

باتوں میں اپنی بات کو_______کیسا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے_جگنوں سے بن گٸے

وہ مسکرایا______اور میری دنیا بدل گیا

شاید وفا کے کھیل______سے اکتاگیا تھا وہ

منزل کے پاس آکے________جو راستہ بدل گیا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میری بیٹی کسی ہے اب؟مقصوم صاحب فلزہ کو دیکھا تو پوچھا۔

مسٹر مقصوم صاحب میں بھی آپ کے پاس آنے والی تھی مبارک ہو عنزہ خان خطرے سے باہر ہے۔فلزہ نے مسکراکر بتایا تو مقصوم صاحب نے شکر کا سانس لیا۔

میں اپنی بیٹی سے مل سکتی ہوں؟سمیہ بیگم بے قراری سے بولی۔

ابھی نہیں وہ مکمل طور پہ ہوش میں نہیں ہم ان کو روم میں شفٹ کریں گے تب آپ مل سکتے ہیں۔فلزہ بتاکر وہاں چلی گٸ۔

یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر۔آمنہ بیگم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر کہا۔

ڈاکٹر سلمان باہر صبح سے پھر میڈیا کا ہجوم اکٹھا ہوا ہے ان کو اطلاع کردیں کے عنزہ خان آٶٹ آف ڈینجر میں ہے۔فلزہ سلمان کے کیبن میں آکر بولی۔

یہ کام سعد پہلے ہی کرچُکا ہے۔سلمان نے کہا تو فلزہ نے سرہلایا۔

طلحہ جانتا ہے؟فلزہ جانے والی تھی جب اچانک خیال آنے پہ پلٹ کر بولی۔

وہ باہر ہے ہوسپٹل آئے تو پتا ہو نہ۔سلمان۔نے کہا

اچھا ہم فون کرتے ہیں۔فلزہ ہہ کہتی کیبن سے باہر گئ۔

طلحہ مسجد آکر نماز سے فارغ ہوا تو اس کو پورے وجود میں سکون محسوس ہوا نماز پڑھنے کے بعد وہ اٹھا اور ہوسپٹل کی جانب گیا۔

مبارک ہو ٹھیک ہے وہ اب ایک دو گھنٹے تک ہوش بھی آجائے گا۔طلحہ جیسے پہ پہنچا سعد نے گلے مل کر اس کو زندگی کی نوید سنائی

یااللہ تیرا شکر۔طلحہ کے منہ سے بے ساختہ یہ لفظ ادا ہوئے۔

پر وہ کل سے ہوش میں کیوں نہیں آئی؟طلحہ پریشان ہوا

تمہیں بھی پتا ہے اس کی حالت کا بہت خراب تھی ڈاکٹر نعمیر نے تو کہا تھا ہوش ہی نہیں آئے گا پر دوپہر کو عنزہ کی طبعیت کجھ بہتر ہوئی۔سعد نے بتایا۔

روم میں شفٹ کردیا ہے اس کو؟طلحہ نے پوچھا

ہاں کجھ ٹائم پہلے ہی۔سعد نے کہا تو طلحہ روم کی طرف بڑھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

میری جان اب کیسا فیل ہورہا ہے؟عنزہ کو جیسے ہی ہوش آیا سب روم میں آکر اس کو دیکھنے آئے تھے مگر عنزہ ابھی خاموش تھی سب کو دیکھ جارہی تھی پر جس کو وہ دیکھنا چاہتی تھی وہ نہیں تھا

پیشنٹ کو آرام کی ضرورت ہے۔نرس نے آکر ان سے کہا تو وہ بوجھل دل کے ساتھ باہر گئے جب کی رانیہ جو روحان کے ساتھ آئی تھی وہ وہی پہ رکی۔

کیا وہ میرے مرنے کی حالت جان کر بھی نہیں آیا؟عنزہ نے آنکھیں بند کیے سوال کیا۔

یہ طلحہ کا ہوسپٹل ہے۔رانیہ نے بتایا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولی۔

جب ڈاکٹر بن کر اپنا ہوسپٹل کھولوں گا نہ تو اس کا افتتاح تم سے کرواٶ گا۔

آج پھر کانوں میں آوازیں گونجنے لگی جسے سن کر سوائے تکلیف محسوس ہونے پہ اور کجھ نہیں ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کتنی چوٹیں آئی ہیں۔روحان نے عنزہ کا چہرہ دیکھ کر کہا۔

باقی سب کہاں ہیں ؟عنزہ اس کی بات نظرانداز کرتی ہوئی بولی۔

ماموں مامی یہاں ہیں باقی سب فلحال لوٹ گئے ہیں زیادہ لوگوں کو رکنے کی اجازت نہیں۔روحان نے بتایا۔

باقی سب کون؟عنزہ نے پوچھا

آمنہ مامی مرحا تمہارے نیو سونگ کے ڈائریکٹر اور پرڈیوسر وغیرہ وہ تم سے ملنا چاہتے تھے پر تم غنودگی میں تھی اس لیے وہ چلے گئے ۔روحان نے بتایا۔

اچھا۔عنزہ نے بس اتنا کہا۔

ایک مہینہ تو لگے گا تمہیں ڈسچارج ہونے میں تمہارے سر پہ بھی چوٹ گہری جس کے لیے ابھی تمہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔روحان نے بتانا ضروری سمجھا پر عنزہ نے کوئی رسپانس نہیں دیا ابھی اس کو اپنے سر پہ ٹیسیں اٹھتی محسوس ہورہی تھی۔

میں باہر جارہا ہوں تمہیں شاید آرام کرنا ہے۔روحان اس کے چہرے پہ تکلیف کے تاثرات دیکھ کر بولا تو عنزہ نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

روحان کوریڈور سے گزر رہا تھا جب اس کی نظر سفید کوٹ پہنے طلحہ پہ پڑی جو مضبوط قدموں سے کسی وارڈ کی طرف جارہا تھا روحان اس کے وارڈ میں جانے سے پہلے سامنے کھڑا ہوا طلحہ جو اپنے دھیان میں اچانک روحان کے سامنے آنے پہ اس کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات آئے۔

کہاں غائب ہوتے ہو کزن نظر ہی نہیں آتے؟روحان نے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔

کوئی کام تھا؟طلحہ نے سامنے آنے کی وجہ جاننی چاہی۔

اففف کیا کام کے بنا بات نہیں ہوسکتی۔روحان نے جیسے شکوہ کیا۔

نہیں۔طلحہ دو ٹوک بولا روحان تو بس اس کو دیکھتا رہ گیا جس کی اکڑ ابھی تک برقرار تھی۔

تمہارے ہوسپٹل میں تمہاری کزن بھی ایڈمٹ ہے اگر اس کی عیادت کروگے تو ثواب ملے گا۔روحان نے اس کے چہرے کہ ایکسپریشن جاننے چاہے جو نارمل تھے۔

شکریہ۔طلحہ سنجیدگی سے کہتا سائیڈ سے گزرگیا روحان کا خون کھول اٹھا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ کب آئیں؟مرحا نے آمنہ بیگم سے پوچھا جو ہسپتال گئ تھی عنزہ سے ملنے۔

ابھی آئی ہوں۔آمنہ بیگم نے جواب دیا۔

کیسی طبیعت ہے آپی عنزہ کی؟مرحا نے پوچھا

پہلے سے کجھ بہتر۔آمنہ بیگم بولی۔

بھائی کے ساتھ آجاتی آپ۔مرحا نے کہا

طلحہ آگیا ہے کیا؟آمنہ بیگم تعجب سے بولی۔

ہاں آج ہفتے بعد ان کو گھر کا رستہ یاد آگیا۔مرحا مزاقً کہا۔

اچھا افروز سے کہو کھانا لگائیں میں طلحہ کو کھانے پہ لیں آٶں گی۔آمنہ بیگم کہتی اپر کی جانب بڑھی وہ کمرے میں آئی تو طلحہ کو بیڈ پہ لیٹا پایا آمنہ بیگم چلتی اس کے پاس آئی

طلحہ کھانا تیار ہے آکر کھالوں۔آمنہ بیگم کی بات پہ طلحہ جو ماتھے پہ بازوں ٹکائے لیٹا تھا سیدھا ہوکر بیٹھا۔

بھوک نہیں امی۔ طلحہ نے انکار کیا۔

ایک تو اتنے دن گھر نہیں آئے اور اب کھانے سے بھی انکار۔ آمنہ بیگم نے خفگی سے کہا۔

ہوسپٹل میں کام تھا اس لیے نائٹ شفٹ پہ وہی رہنا پڑتا تھا۔طلحہ نے وضاحت کی۔

جانتی ہوں ایک دفع مل لیتے تو اچھا ہوتا اور رشتے کی خاطر نہیں تو کزن کی حیثیت سے۔ آمنہ بیگم کی بات پہ طلحہ خاموش رہا۔

کھانا کھانے آجانا۔ آمنہ بیگم طلحہ کو جواب نہ دیتا دیکھ کر بولی اور کمرے سے نکل گئ ان کے جانے کے بعد طلحہ نے افسردہ سانس خارج کی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

موم مجھے آپ کا اتنا کیئرنگ ہونا ہضم نہیں ہورہا۔عنزہ نے سمیہ بیگم کو کہا جو اس کی خدمت کرنے میں ہلکان ہہورہی تھی

بکو مت عنزہ ایک لوطی اولاد ہو ہماری اگر تمہیں کجھ ہوتا تو ہم کیا کرتے۔ سمیہ بیگم دھیمے لہجے میں بولی جو ان کی تربیت کے برخلاف تھا۔

بڑا جلدی خیال آگیا کے ایک لوطی اولاد ہوں اب تو میں چوبیس سال کی ہوں آپ کا یہ بہیویر مجھے پہلے چاہیے تھا اب نہیں۔عنزہ سپاٹ لہجے میں بولی جسے سن کر سمیہ بیگم کے ساتھ مقصوم صاحب بھی شرمندہ ہوگئے

پُرانی باتیں بھول جاٶ۔مقصوم صاحب نے اس کو اپنے ساتھ لگاکر کہا

ڈسچارچ کب ہوگی میں ؟عنزہ نے پوچھا

ابھی تو ایک اور ہفتہ لگیں گا۔ سمیہ بیگم نے کہا تو عنزہ کے چہرے پہ بیزاری کے تاثرات آئے

تین ہفتوں سے یہاں سڑ رہی ہوں مجھے اب بس گھر جانا ہے۔ عنزہ ضدی لہجے میں بولی۔

جہاں تین ہفتے رہ لیا ہے تو وہاں ایک ہفتہ مزید رہ لو۔ مقصوم صاحب نے پیار سے سمجھایا

میں ٹھیک ہوں اب۔ عنزہ نے کہا۔

نظر آرہا ہے۔ سمیہ بیگم نے طنزیہ نظروں سے اس کے ماتھے پہ پٹی اور چھوٹے چھوٹے زخموں کے نشان دیکھ کر کہا جس پہ عنزہ کھسیانی سی ہوگئ۔

اچھا چھوڑو ان باتوں کو تم آرام کرو تب تک میں ڈسچارج پیپرز بنواتا ہوں۔ مقصوم صاحب کی بات پہ عنزہ نے شکر کا سانس لیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ابھی اس کا یہاں رہنا بہتر تھا۔ طلحہ نے مقصوم صاحب سے کہا جو عنزہ کو گھر لیکر جانا چاہتے تھے۔

بور ہوگئ ہے بہت دفع کہہ چکی ہے اب اگر بات نہ مانی تو غصہ ہوگی دوائیں بھی نہیں لیں گی۔ مقصوم صاحب نے وجہ بتائی

جیسے آپ کی مرضی آپ بس بہت خیال رکھیے گا اس کو زیادہ زور سے بات کرنے نہ دیجئے گا اس کے ماتھے پہ گہری چوٹ ہے اگر وہ چیخے گی یا زور سے بات کریں گی تو سر میں درد ہوگا۔ طلحہ نے ان کو ہدایت دی جس پہ وہ بس سرہلاگئے۔

💕💕💕💕💕💕

دو دن ہوگئے تھے اس نے خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا سمیہ بیگم یا مقصوم صاحب نے بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کیونکہ کے ان کے اپنے پاس ہی بہت سے کام تھے جس وجہ سے وہ عنزہ کو وقت نہیں دیں پاتے تھے عنزہ کے ایکسڈنٹ کے بعد کجھ وقت تک تو وہ بہت پیار سے رہے پھر دوبارہ سے لاپرواہ ہوگئے جس کی پرواہ عنزہ کو بھی نہیں تھی اس کو بس اب طلحہ کی معافی اور اس کا ساتھ چاہیے تھا جانتی تھی اب ایسا اتنا آسان نہیں پر اس نے سوچ لیا تھا وہ طلحہ کو منالیگی کیونکہ اس کو پتا تھا طلحہ آج بھی اس کو چاہتا ہے بس ناراض ہے اس سے جس کو وہ ختم کردے گی عنزہ ایک عزم کے ساتھ بیڈ سے اٹھی واشروم کی طرف بڑھ گئ دس پندرہ منٹ بعد واشروم سے نکلی تو ہلکے اورنج کلر کی سلیولیس شرٹ پہنی تھی جو گھٹنوں سے اُپر تھی اور ساتھ میں وائیٹ ٹائیٹ پاجاما تھا عنزہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوتی ہیئر ڈرائیر سے اپنے بال سوکھائے بالوں میں کیچر لگانے کے بعد اس نے چہرے پہ ہلکہ سا میک اپ کیا جو ان دو دنوں میں مرجھایا گیا تھا تیاری مکمل ہونے کے بعد اچھے سے خود کا جائزہ لیتی اپنا سیل فون اٹھاتی اس میں ایک میسج ٹائپ کرکے موبائل کو پرس میں ڈالا پھر ریک سے اپنی ہیل والی سینڈل پہنتی وہ باہر جانے کے لیے نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کہاں کھوئے ہوئے ہو بہت دنوں سے نوٹ کررہا ہوں کافی اُلجھے ہوئے لگ رہے ہو۔ سعد نے طلحہ سے پوچھا جو پیشنٹ کی کوئی فائل ریڈ کررہا تھا مگر دھیان کہیں اور تھا۔

کہیں نہیں بس سر میں درد ہے کجھ۔ طلحہ نے بہانا بنایا۔

آنٹی نے بتایا تمہارے رشتے کا۔ سعد نے سرسری انداز میں کہا۔

ہاں بہت جلدی ہے ان کو میری شادی کی۔ طلحہ طنزیہ مسکراہٹ سے بولا۔

ظاہر ہے ماں ہے تمہاری ان کو جلدی نہیں ہوگی تو کس کو ہوگی ویسے بھی ماں باپ کو بہت ارمان ہوتا ہے اپنی اولاد کی شادی کے حساب سے۔ سعد آرام سے بولا۔

جانتا ہوں۔ طلحہ گہری سانس لیتا ہوا بولا

مجھ سے تو انہوں نے فلزہ کا ذکر کیا تھا پر پھر یہ خالہ کی بیٹی سنایا کہاں سے آگئ۔ سعد کو اچانک خیال آیا تو کہا۔

ان کو پتا نہیں تھا نہ کہ فلزہ کا نکاح ہوچکا ہے آلریڈی اس لیے جب بھی ان کو دیکھتی اپنی بہو نظر آتی پر جب مجھے ان کی سوچ کا اندازہ ہوا تو میں نے عام انداز میں بتادیا ڈر تھا کہ کہیں امی فلزہ سے ہی بات نہ کہہ دیں۔ طلحہ نفی میں سرہلاتا ہوا بولا

اوو تو ڈاکٹر فلزہ کا نکاح ہوچکا ہے مجھے نہیں تھا پتا۔ سعد خوشگوار حیرت سے بولا۔

تین سال پہلے ہی ہوچکا تھا شادی بھی ہوجائے گی اب تو۔ طلحہ نے مزید بتایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اتنی ایمرجنسی میں بلایا مجھے سب تو ٹھیک تو ہے نہ میرے سونگ کی رکارڈنگ تھی آج جس کو سٹاپ کرتا میں یہاں آگیا ہوں۔ عنزہ جیسے ہی ریسٹورنٹ آئی روحان نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی جس کو عنزہ نے بہت کوفت سے سنا تھا ساری سچائی جاننے کے بعد وہ روحان کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی کیونکہ اس کو ساری غلطی بس روحان کی لگ رہی تھی اور اب وہ بس باقاعدہ اور فائنل بات کرنے کے لیے روحان کو میسج کر کے یہاں آنے کا کہا تھا۔

بہت ضروری بات تھی اس لیے ملنے چلی آئی۔ عنزہ سرد لہجے میں بولی روحان نے غور سے عنزہ کی جانب دیکھا جو بہت بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔

کیا بات ہے؟ روحان نے جاننا چاہا۔

یہ دینے آئی تھی۔ عنزہ نے اپنی پرس سے ایک چیز نکال کر روحان کے سامنے کرکے کہا۔

مجھے کیوں دینی ہے یہ تو تمہاری ہے۔روحان کی بات پہ عنزہ نے تاسف سے اس کے دوغلے روپ کو دیکھا تھا جو کسی سانپ کی طرح اپنوں کو بھی ڈس رہا تھا۔

میں تم سے سارے رشتے ختم کرتی ہوں۔ عنزہ نے بم پھوڑا۔

ہوش میں ہوتم۔ سامنے انگیجمنٹ رنگ دیکھ کر اُپر سے عنزہ کی یہ بات سن کر روحان نے بہت مشکل سے اپنے لہجے کو دھیما رکھا تھا۔

ہوش میں تو میں اب آئی ہوں مجھے شرم آرہی ہے کہ میں نے چھ سال سے تم پہ یقین کیا تمہاری بات مانی تمہیں اچھا انسان سمجھا جب کی حقیقت اس کے برعکس تھی تم بس طلحہ سے جیت نے کے لیے مجھے نشانہ بنایا۔ عنزہ کاٹ دار لہجے میں بولی اس کی بات پہ روحان کجھ گڑبڑایا تھا۔

کیا بول رہی ہو ایسا کجھ نہیں میں کیوں اور کس لیے طلحہ سے جیتنا چاہوں گا اس کے پاس ہے یہی کیا۔ روحان نے ناسمجھی کی اداکاری کرکے کہا۔

اس کے پاس دماغ ہے ہر بار تم سے جیت جاتا تھا وہ تم سے کیونکہ طلحہ مقصود نے ہارنا کبھی سیکھا ہی نہیں تھا اس لیے تمہارے شیطانی دماغ نے ہم دونوں کو الگ کرنے کا سوچا دوسرا یہ کہ تم نے کہا نہ کے طلحہ کے پاس کیا ہے تو بتاتی چلی طلحہ کے پاس خوبصورت دل جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔ عنزہ مضبوط لہجے میں بولی۔

تمہیں کسی نے پٹی پڑھاکر بھیجا ہے ورنہ ایسا کجھ نہیں۔روحان نے ایک اور کوشش کی عنزہ کو اپنی طرف کرنے کی۔

اوہ پلیز روحان۔ عنزہ کے ہاتھ کے اشارے سے اس کو خاموش کروایا۔

میں اب سترہ اٹھارہ سال کی ٹین ایجر لڑکی نہیں جس کو تم اپنی باتوں میں مطمئن کرلوں گے۔عنزہ نے دوبارہ اپنی بات شروع کی۔

اچھا ٹھیک ہے پھر ختم کرو منگنی میں کونسا مرے جارہا ہوں تمہارے لیے ویسے بھی اب اگر تمہیں کوئی خوشفہمی ہے نہ کے طلحہ سے اپنے رابطے بحال کروگی تو یہ نہ سوچو کیونکہ طلحہ کبھی یوزلیس چیز استعمال نہیں کرتا تو پھر تمہیں کیسے قبول کریں گا۔ روحان کمینگی سے مسکراکر بولا عنزہ کا دل کیا اس کے چہرے سے مسکراہٹ نوچ لیں۔

بہت ہی کمینے انسان ہو شرم نہیں آئی تمہیں اپنی لڑائی میں ایک لڑکی کو ہتھیار بنایا۔ عنزہ تاسف سے اس کی طرف دیکھ کر کہا جس پہ روحان ہنس پڑا۔

باتیں تو مجھے ایسے سنارہی ہو جیسے خود بہت انوسینٹ ہو دیکھو مس عنزہ تم آج جس مقام ہو میری بدولت سے ہو اور اگر اپنی محبت سے محروم ہو تو اپنی وجہ سے کیونکہ چھ سال پہلے تمہارے ہی سر پہ پاکستان کی فیمس ایکٹریس بننے کا جنون سوار تھا میں نے تو بس اس جنون ہو ہوا دی جانتا جو تھا طلحہ کو یہ نہیں پسند اور جیسا میں نے چاہا ویسا ہی ہوا تم نے ایکٹریس بننے کے لیے طلحہ کو فراموش کردیا اس کی محبت گنوادی۔ روحان نے اس کے زخموں پہ نمک چھڑکا جس پہ عنزہ تڑپ اٹھی اس لیے بنا لحاظ کیے سامنے پڑا فریش جوس کا گلاس اٹھا کر روحان کے اُپر انڈیل ڈالا تھا روحان نے غصے عنزہ کو دیکھا جوس سارا اس کے بالوں سے ہوتا اس کی شرٹ خراب کرگیا تھا وہ تو اچھا تھا بکنگ پرائیویٹ ایریا میں تھی ورنہ اچھا خاصا اسکینڈل بن جاتا دونوں کا۔

یہ بلڈی۔ روحان نے گالی بکی۔ جب کی عنزہ نظرانداز کرتی ریسٹورنٹ نے باہر نکل گئ روحان نے طیش کی حالت میں ہاتھ زور سے ٹیبل پہ مارا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان نے تو تمہیں بس شوبز جانے کے لیے آسانیاں پیش کی تھی جب کی طلحہ کو تو تم نے خود چھوڑا تھا اس لیے سارا قصوروار روحان کو نہ دو۔ عنزہ رانیہ کی طرف آئی جب اس نے ساری بات بتائی تو رانیہ نے کہا جس پہ آنسو بہاتی عنزہ ساکت نظروں رانیہ کو دیکھنے لگی۔

عنزہ یہ جو محبت ہوتی ہے نہ یہ قربانیاں مانگتی ہے اس میں جب آزماشیں آتی ہیں تو دونوں کو ساتھ آزمائشوں کو پورا کرنا ہوتا ہے جب تم لوگوں کی لائیف میں یہ وقت آیا تو تم نے محبت کے بجائے اپنی بات کو فوقیت دی دیکھا جائے تو طلحہ غلط نہیں تھا تمہیں ضد ہوگئ تھی اپنی بات منوانے کی پر ہمیشہ ایسے تو نہیں ہوتا نہ محبت میں ایک سے اپنی بات منواتی ہوتی ہے تو اس کی ماننی بھی پڑتی ہے۔رانیہ نے اس کو خاموش دیکھا تو پھر اپنی بات جاری کی۔

میں گئ تھی اس کے پاس وہ ایک دن بھی میرا انتظار نہ کرپایا اور چلاگیا۔ عنزہ نے صفائی دی۔

وہ کیا انتظار کرتا تمہارا واپس آنے جانے کا رستہ تم نے خود بند کیا تھا جلدبازی کے فیصلوں سے ہمارا اپنا ہی خسارہ ہوتا ہے تم نے اپنے لیے یہ خسارہ خود تجویز کیا ہے۔رانیہ نے کہا۔

میں سب کجھ ٹھیک کردوں گی طلحہ مجھے معاف کردیں گا کیونکہ وہ پیار کرتا ہے مجھ سے ویسے بھی پہلی محبت کوئی انسان نہیں بھول سکتا۔ عنزہ اپنا چہرہ صاف کیے کہا۔

تم بھی تو بھول کر روحان سے آگ

روحان کا نام نہ لو۔ عنزہ نے چیخ کر بیچ میں ہی رانیہ کی بات کو ٹوکا۔

اچھا تو اب کیا کروگی تم؟ رانیہ نے بات بدلی۔

میں نے اپنے اسنسسٹ سے دو دن بعد کی کا۔ کانفرنس رکھنے کا کہا ہے وہ ارینج کردیں گا سب کجھ۔ عنزہ کی بات پہ رانیہ نے سوالیہ نظروں سے عنزہ کو دیکھا۔

کانفرنس کس چیز کی؟

دو دن بعد پتا چل جائے گا۔ عنزہ نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میم کوئی خاص وجہ شوبز انڈسٹری چھوڑنے کی؟ آج عنزہ نے کانفرنس میں شوبز انڈسٹری کو خیرباد کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے سب کو زور سے حیرت کا جھٹکا لگا تھا رپورٹر دھڑ دھڑ تصویریں ویڈیو لیکر سوالوں کی بوچھاڑ کردی تھی جس کے جواب عنزہ بہت تحمل سے جواب دیں رہی تھی۔

طلحہ سنجیدہ چہرہ لیے اپنے فون میں لائیو عنزہ کو میڈیا کے سامنے بولتا دیکھ رہا تھا وہ خود اپنی جگہ حیرانی کا شکار تھا۔

کوئی خاص وجہ تو نہیں بس میں نے اللہ کے کرم سے کم عرصے میں بہت نام کمایا پر اب میں مزید فلموں میں کام نہیں کرسکتی۔ عنزہ نے آرام سے بتایا۔

میم کجھ دن پہلے ہی آپ کی منگنی ہوئی تو کیا روحان علی نے آپ کو فورس کیا ہے کہ یہ کام چھوڑ دیں۔ ایک رپورٹر نے پوچھا۔

نہیں یہ میرا خود کا ذاتی فیصلہ ہے رہی بات منگنی کی تو میں نے کجھ وجوہات کی وجہ سے روحان علی سے منگنی ختم کرلی ہے۔ جہاں عنزہ اس بات پہ کھلبلی مچ گئ تھی وہی طلحہ کے چہرے پہ حیرت کی جگہ ناگوری نے لے لیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہماری عزت تو پہلے ہی خراب کردی تھی فلموں میں کرتے وقت اور اب رہی سہی کثر تم نے یہ اعلان کرنے میں ختم کردی میں پوچھتی ہوں تمہیں ضرورت کیا تھی پوری کانفرنس کے سامنے یہ اعلان کرنے کی کہ تم نے روحان سے منگنی ختم کی۔ عنزہ کانفرنس سے جان چھڑواکر آئی تو گھر میں ایک اور کانفرنس اس کی منتظر تھی جو مقصوم صاحب اور سمیہ بیگم نے لگائی تھی۔

آپ لوگ ہی تو چاہتے تھے کہ میں شوبز انڈسٹری میں کام کرنا چھوڑو تو اب جب چھوڑا ہے تو بھی آپ کو مسئلہ ہے۔ عنزہ بیزار لہجے میں بولی۔

روحان سے شادی کرنے کا فیصلہ تمہارا اپنا تھا تو یہ کیا تماشا کیا تم نے کانفرنس میں کے منگنی ختم کی۔ مقصوم صاحب نے سخت لہجے میں پوچھا۔

بس نہیں کرنی اب مجھے آب سب بھی یہ ٹاپک بند کریں۔ عنزہ نے سنجیدگی سے کہا۔

اچانک شوبز کو خیرباد کہنا پھر روحان سے منگنی ختم آخر تمہارے دماغ میں چل کیا رہا ہے؟ سمیہ بیگم کڑوے چتون سے اس کو گھور کر بولی۔

ارادے بدلنے میں دیر نہیں لگتی ویسے بھی اب یہ میرا فائنل ڈیسیشن ہے۔عنزہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

جو بھی پر ہمیں بتانے سے پہلے تمہیں میڈیا کے سامنے ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ سمیہ بیگم بولی۔

روحان کو بتادیا تھا اس نے اپنے گھر میں سب بتادیا ہوگا رہی بات آپ کو بتانے کی تو آپ گھر میں رہے تو بندہ کوئی بات بھی کریں۔ عنزہ ان کو شرمندہ کرتی کمرے میں جانب بڑھ گئ جب کی سمیہ بیگم اور مقصوم صاحب ایک دوسرے سے نظریں چُرانے لگے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اسلام علیکم، چچی جان طلحہ ہے گھر پہ؟ اتوار کا دن تھا عنزہ کو پتا تھا طلحہ گھر ہوگا اس لیے وہ صبح ہوتے ہی ان کے گھر آئی تھی تاکہ طلحہ سے بات کرسکیں وہ سیدھا طلحہ کے کمرشل میں جاتی مگر ہال میں مرحا اور آمنہ بیگم کو بیٹھا دیکھا تو ان کے پاس آئی۔

وعلیکم اسلام علیکم ماشااللہ آج کتنے وقت بعد یہاں آئی ہوں۔ آمنہ بیگم خوشگوار لہجے میں بولی۔

بس فری تھی تو سوچا آپ لوگوں کے پاس آجاٶ۔عنزہ نے بتایا۔

سچ میں یہی بات ہے یا آپ راستہ بھول گئ تھی؟ مرحا نے شرارت سے پوچھا۔

سچ میں میں یہی بات ہے۔ عنزہ نے مسکراکر کہا

اچھا کیا۔ آمنہ بیگم مرحا کو گھور کر عنزہ سے بولی۔

طلحہ گھر پہ ہے؟ عنزہ نے دوبارہ سے پوچھا

ہاں کمرے میں ہے اپنے۔ آمنہ بیگم نے بتایا۔

میں مل لوں اس سے؟ عنزہ نے اجازت چاہی۔

ہاں کیوں ہم کونسا آپ کو منع کریں گے۔ آمنہ بیگم سے پہلے مرحا نے جواب دیا تو عنزہ بنا دیر کی وہاں سے چلتی سیڑھیوں کی جانب آئی۔

یہ کیا بدتمیزی ہے؟ طلحہ جو کمرے میں شرٹ لیس کھڑا تھا اچانک عنزہ کے دروازہ کھولنے پہ وہ غصے سے بولا اور جلدی سے وارڈروب سے اپنی شرٹ نکالی دوسرے طرف عنزہ جو پہلے بھی بنا نوک کیے بڑے حق سے طلحہ کے کمرے میں آتی تھی آج بھی ویسا ہی کیا تھا مگر طلحہ کو ود آوٴٹ شرٹ میں دیکھ کر وہ سٹپٹاکر اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑی ہوگئ۔

مجھے کیا پتا تھا تم سلمان خان بنے بیٹھے ہو اپنے کمرے میں۔عنزہ نے چہرہ اس کی جانب کیے معصومیت سے کہا جب کی طلحہ شرٹ کے بٹن بند کرنے کے ساتھ ساتھ عنزہ کو سخت نظروں سے گھور کر بھی دیکھ رہا تھا جو اب بڑی ڈھٹائی سے مسکرارہی تھی اس کی ٹھوری پہ پڑتے گڑھے سے طلحہ نے نظریں چُرائی جو ہمیشہ سے اس کو اٹریکٹ کرتا تھا۔

سلمان خان بنو یا شارخ خان تم میں مینرز ہونا چاہیے کسی لڑکے کے کمرے میں آنا کا دروازہ نوک کرنا چاہیے تھا۔ طلحہ نے لفظ چبا چبا کر ادا کیے۔

میں کسی لڑکے کے کمرے میں نہیں آئی تمہارے کمرے میں آئی ہوں اور تم کسی نہیں ہو۔ عنزہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

میں بھی لڑکا ہوں۔ طلحہ نے دانت پیس کر کہا۔

ہاں پر تم میرے لڑکے ہو میرے بندے ہو میں جب چاہوں جیسے چاہوں تمہارے کمرے میں آسکتی ہوں اور ایسا کرنے سے مجھے تم روک بھی نہیں سکتے۔ عنزہ نے اپنے دونوں بازوں طلحہ کے کندھوں پہ حائل کرتے چیلنج کرتی نظروں سے دیکھ کر کہا طلحہ اس کی حرکت اور مضبوط لہجے میں کہی بات پہ عش عش کر اٹھا تھا۔

فاصلہ رکھ کر بات کرو۔ طلحہ نے اپنے گرد اس کے بازوں ہٹاکر کہا۔

ناراض ہو میں جانتی ہوں پر پلیز اب یہ ناراضی ختم کرو۔ عنزہ نے سنجیدگی سے کہا اس کو طلحہ کا روڈلی بات کرنا تکلیف پہنچا رہا تھا۔

ناراض میں کوئی تم سے ناراض واراض نہیں کیونکہ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں اس لیے اب مجھ دور رہا کرو۔ طلحہ سرد لہجے میں بولا

مجھے اپنی غلطیوں کا اندازہ ہے۔ عنزہ نے سرجھکا کر کہا جس پہ طلحہ طنزیہ مسکرایا۔

محبت میں چھوڑنے والے کو بے وفا کہتے ہیں جو محبت کو چھوڑ کر دوسری غیرضروری چیزوں کو ترجیح دیں پھر وہ گہنگار بن جاتا ہے اور تم عنزہ خان میری گھنگار ہو۔ طلحہ چیخ کے بولا عنزہ ڈر کر کجھ قدم دور ہوئی۔

میں سب ٹھیک کردوں گی بس مجھے ایک موقع تو دو۔ عنزہ نے روتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا پر طلحہ نے اپنے ہاتھ کھڑے کرلیے۔

نہیں عنزہ نہیں میں نے کیا کہا تھا یاد کرو میں نے کہا تھا نہ کہ ہم عجنبی بن جائے گے تو پھر بھی تم میرے فرسٹ تحفے کو میرے منہ پہ مارکر چلی گئ تھی بکوز تمہیں پاکستان کی فیمس ایکٹریس بننا تھا۔ طلحہ کے لہجے میں دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔

میں لوٹ آئی تھی پر تم چلے گئے تھے میں نے بہت بار رابطہ کرنا چاہا تم سے پر تم نے سارے راستے بند کرلیے تھے۔ عنزہ نے اپنی طرف صفائی دینی چاہی۔

مجھے ایسا کرنے پہ مجبور کرنے والی بھی تم تھی۔ طلحہ تیز آواز میں بولا۔

تم نے ایک دن بھی میرا ویٹ نہیں کیا میں تو دوسرے دن ہی یہاں واپس آئی تھی مجھے معلوم ہوگیا تھا میں تمہاری ناراضگی ایک دن برداشت نہیں کرسکتی تو پوری زندگی کے لیے جدائی کیسے برداشت کرپاٶں گی پر جب میں یہاں واپس آئی تو پتا چلا تم تو لاہور کے لیے روانہ ہوگیا ہو ایک دفع نہ مجھ سے ملے نہ بات کی ایسے ہی چلے گئے تھے غلطی اگر میری ہے تو تمہاری بھی ہے۔ عنزہ طلحہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے بہتے آنسوٶ کے ساتھ بول رہی تھی عنزہ کی بات پہ طلحہ ایک پل کو ٹھٹکا تھا۔

جب سارے رشتے ختم کرلیے تھے تو واپس کیوں آئی تھی تمہیں کیا لگا تھا میں تمہارے بعد مجنوں بنا سڑکوں اور گلیوں کی خاک چھانتا پھروں گا۔ طلحہ کی بات پہ عنزہ نے شکوہ کرتی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

اب تو میں آگئ ہوں نہ اور تمہیں پتا ہے خوبصورت رشتہ وہی ہوتا ہے جس میں ایک سوری کریں تو دوسرے کو مسکراکر اس کی بات مان لینی چاہیے۔ عنزہ نے لاڈ سے کہا طلحہ نے اپنی ایک آئبرو اُپر کر عنزہ کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو واقع؟

ہمارے درمیان جب رشتہ تھا تب سوری کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی پر بات یہ ہے کہ اب ہمارے درمیان بس کزن ہونے کا رشتہ ہی ہے اگر میرے بس میں ہوتا تو یہ بھی ختم کردیتا پر کیا کروں خون کا رشتہ ہے اور خون کے رشتے اتنی جلدی ختم نہیں ہوتے۔ طلحہ نے جیسے عنزہ کے سینے پہ خنجر گھونپ دیا ہو۔

میں پیار کرتی ہوں تم سے پلیز ایسے نہ کہو مجھے تکلیف ہورہی ہے۔ عنزہ نے التجا کی۔

میری تکلیف کا اندازہ لگا سکتی ہوں جب میں ٹی وی پہ تمہیں غیر مردوں کے ساتھ کام کرتا دیکھتا تھا تمہیں نہیں معلوم جب تم ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی تو میرا دل کتنا تڑپتا تھا چھ سال تمہیں نہیں پتا میں نے کیسے خود پہ جبر کیا تھا کیسے تمہارا ہاتھ روحان کے ہاتھوں میں دیکھا۔طلحہ سختی سے اس کے بازوں دبوچتا ہوا بولا عنزہ کو اپنے بازوں ٹوٹتے محسوس ہوئے۔

طلحہ لیو یو ہرٹ می۔ عنزہ بے بسی سے بولی تو طلحہ نے فورن سے اپنے ہاتھ ہٹائے

میں اندازہ لگا سکتی ہوں پر اب وہ سب وجوہات تو ختم ہوئی نہ تو تم کیوں میرے ساتھ ساتھ خود کو بھی تکلیف دیں رہے ہو؟ عنزہ نے نم لہجے میں کہا۔

عنزہ پلیز لیو۔ طلحہ چہرہ موڑ کر بولا۔

طلحہ اللہ بھی اپنے بندوں کو معاف کردیتا ہے تو تم کیوں نہیں ۔

عنزہ پلیز۔ عنزہ کی بات پہ طلحہ نے اپنی آنکھیں زور سے میچ کر بولا۔

میں جارہی ہوں پر ایک بات یاد رکھنا طلحہ میں آج بھی پاک ہوں میری زندگی میں نہ تم سے پہلے نہ تمہارے بعد کوئی تھا اور نہ ہوگا۔ عنزہ اپنی بات کہتی وہاں سے چلی گئ طلحہ بیڈ پہ پاس بیٹھ کر اپنا سر ہاتھوں میں گرالیا۔

میں چاہ کر بھی تمہارے پاس لوٹ نہیں سکتا کیونکہ چھ سالوں کی تکلیف مجھے آج بھی محسوس ہوتی ہے تمہارا نہیں پتا پر میرے دل میں تمہارے پہلے نہ تمہارے بعد کوئی آیا اور نہ کبھی میں کسی کو اجازت دوں گا کیونکہ میری محبت سچی تھی اور محبت تو ہوتی ہے جو اگر ایک بار ہو تو دوبارہ کسی اور سے نہیں ہوتی۔ طلحہ خود سے بڑبڑانے لگا جب کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہورہی تھی۔

ؓمحبت پہلی دوسری یا تیسری نہیں ہوتی

محبت وہ ہوتی ہے جس کے بعد محبت نہیں ہوتی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

روحان تمہیں اللہ پوچھے۔ عنزہ سوں سوں کرتی ہوئی روحان کو بددعائیں دینے لگی پاس بیٹھی رانیہ کوفت سے اس کو روتا دیکھ رہی تھی۔

سٹاپ عنزہ یار کب سے ندیاں بہائے جارہی ہوں اب تو ٹیشو بوکس سے ٹیشو بھی ختم ہوگئے ہیں۔رانیہ نے بیزاری سے ٹیشو بوکس اس کے سامنے کیا جو خالی ہوگیا تھا۔

یہاں میری زندگی کا سوال ہے اور تمہیں ٹیشو کی پڑی ہے۔ عنزہ جیسے افسوس کیا۔

تم بھی تو دیکھو روحان کو ایسے گالیاں دے رہی ہو جیسے اس نے زبردستی شوبز انڈسٹری میں کام کرنے کا کہا تھا یا گن ہوائنٹ پہ فلموں کے ڈائیلاگز کہلائے تھے۔ رانیہ نے کہا۔

ہاں تو آڈیشن پہ تو وہ لیکر گیا تھا نہ دوسرا یہ مجھے اٹھارہ سال کی عمر میں ہیروئن کا رول نہیں مل رہا تھا تو کمینے نے بیس سال کی عمر کے بطور میرا تعارف کروایا۔ عنزہ نے پھر سے سارا الزام روحان کے سر ڈالا۔

اچھا تم معصوم پر اب روحان کو چھوڑو وہ تو کب کا آسٹریلیا چلاگیا ہے۔ رانیہ نے اس کو بتایا۔

آسٹریلیا جائے یا جہنم میں۔عنزہ نے دانت پیستے ہوئے کہا تو رانیہ نے اپنا سر پکڑا۔

تم جانتی ہوں نہ میں طلحہ کے پاس گئ تھی پر وہ نہیں تھا میں نے شوبز کو طلحہ پہ ترجیح نہیں دی تھی وہ تو بس جلدبازی میں کہہ دیا تھا جس کا احساس مجھے ہوگیا تھا پر جب طلحہ نے مجھ سے منہ موڑ لیا تھا شوبز میں جانا میری ضد بن گیا۔ عنزہ نے رانیہ کی طرف چہرہ کرتے ہوئے کہا۔

ہاں مجھے پتا ہے سب۔ رانیہ نے کہا تو عنزہ ماضی کی یادوں میں کھوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ سال قبل

کیا بات ہوئی تھی تمہاری کل طلحہ سے؟ دوسرے دن روحان عنزہ کے گھر آکر بے چینی سے پوچھنے لگا۔

ابھی نہیں روحان مجھے کام سے جانا ہے پھر بات ہوگی۔ عنزہ عجلت میں کہتی بیڈ سے اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر اپنے کمرے سے نکل گئ روحان نے غصے سے ہاتھ کی مٹھی دوسرے ہاتھ پہ ماری۔

ہیلو آپی عنزہ کیسی ہیں ؟عنزہ سیدھا طلحہ سے ملنی آئی تھی جب اسکول جاتی مرحا نے سوال کیا۔

میں ٹھیک طلحہ سے ملنا ہے۔ عنزہ نے جلدی سے کہا۔

بھائی سے؟ مرحا نے حیرت سے کہا عنزہ کو اس کا اتنا حیران ہونا سمجھ نہیں آیا۔

ہاں کیوں کونسا پہلی بار آئی ہوں۔ عنزہ نے جواب دیا۔

میرا مطلب وہ نہیں تھا کیا بھائی نے آپ کو نہیں بتایا؟ مرحا نے پوچھا۔

کیا نہیں بتایا صاف صاف طریقے سے بات کرو کیا کہنا چاہتی ہو۔ عنزہ جھنجھلا کر بولی۔

طلحہ بھائی تو کل لاہور چلے گئے اپنی میڈیکل کی پڑھائی کے تین سال وہ لاہور میں کرنا چاہتے تھے آپ کو نہیں بتایا کیا؟ مرحا نے بتانے کے بعد پوچھا جب کی عنزہ جھٹکوں کی زد میں تھی طلحہ ایک دن میں اتنا فیصلہ کردیں گا اس نے سوچا نہیں تھا وہ تو کل سے بے چین تھی کہ جلدبازی میں اس کو طلحہ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جبھی وہ یہاں آگئ تھی مگر یہاں تو بات ہی کجھ اور تھی۔

میں چچی جان سے بات کروں۔ مرحا خود کو کمپوز کرتی اندر کی طرف جانے لگی تو مرحا بھی کندھے اُچکاتی اسکول جانے کے لیے نکل پڑی۔

چچی جان طلحہ نے تو کبھی لاہور جانے کا ذکر نہیں کیا تھا؟ عنزہ آمنہ بیگم کے کمرے میں آکر بولی۔

پتا نہیں کل سے پریشان تھا کافی اُداس بھی معلوم ہورہا تھا پھر شام کو اپنے لاہور جانے کا بتایا۔ آمنہ بیگم گہری سانس لیکر بولی۔

ایڈریس بتائے آپ میں اس سے ملوں تو یوں اچانک لاہور کیوں گیا ویسے بھی یہاں کی یونیورسٹی میں اس کا ایڈمیشن تھا تو لاہور میں اپنی ایڈمیشن ٹرانسفر کرنے میں کجھ وقت تو لگتا ہے ایک دن میں تو کجھ نہیں ہوتا۔ عنزہ نے پریشانی سے اپنا ماتھا سہلایا۔

کیا پتا اس نے بات کرلی ہو اور اب لاہور کسی اور کام سے گیا ہو جو بھی پر ایڈریس تو نہیں بتایا مجھے اور نہ اس کے اچانک لاہور جانے پہ مجھے خیال آیا پوچھنے کا پر خیر جب کال کریں گا تو میں پوچھ لوں گی۔ آمنہ بیگم نے کہا

مجھ سے ناراض ہے وہ۔ عنزہ کی آنکھیں بھیگ گئ تھی۔

ارے نہیں بیٹا وہ تم سے کیسے ناراض ہوسکتا ہے۔ آمنہ بیگم اس کی بات پہ مسکراپڑی مگر عنزہ نے ان کو اصل بات بتانے سے اجتناب برتا اور مزید بات کیے بنا اپنے گھر لوٹ آئی گھر آکر اس نے بہت بار طلحہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی پر اس کا نام بند جارہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کب تک طلحہ کے انتظار میں رہوگی ہفتہ ہوگیا ہے اگر اس نے لاتعلقی کرلی ہے تو تم بھی بھول جاٶ۔عنزہ روحان رانیہ اس وقت کالج اسمبلی ہال میں تھے عنزہ نے جیسے ہی ان دونوں کو اپنے اور طلحہ کے درمیان ہوئی تلخ کلامی بتائی تھی تب سے روحان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جب کی رانیہ نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا تھا اور اب روحان موقع کا فائدہ اٹھا کر عنزہ کو شوبز انڈسٹری میں متعارف کروانا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا یہ بات پھر آخری کیلی کی طرح ثابت ہوگی۔

میں لاہور جانا چاہتی ہوں۔عنزہ نے بس اتنا کہا۔

لاہور کوئی چھوٹا شہر نہیں جہاں تم آسانی سے طلحہ سے مل لوں گی ایڈریس نہیں پتا تمہیں اس کا اور نہ یونیورسٹی کا پتا ہے طلحہ نے اپنے گھروالوں کو نہیں بتایا تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ لاہور ہی گیا ہوگا کہیں اور نہیں۔روحان نے عنزہ کی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے کہا۔

میں جانتی ہوں عنزہ تم بہت پیار کرتی ہو طلحہ سے پر جب طلحہ کو تمہاری فکر نہیں تو تم بھی فکر کرنا چھوڑ دو اگر طلحہ کو واقع تمہاری پرواہ ہوتی تو تمہیں ایک بار تو رُکتا یہ کہتا نہ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا یا وہ تمہاری بات مان جاتا تمہارے شوبز میں کام کرنے دیتا پر اس نے تو تمہاری آدھی بات سن کر اپنا فیصلہ سنایا ورنہ تم تو نکاح کی بات بھی کرنے والی تھی۔ رانیہ جو اب تک خاموش تھی اس نے سنجیدگی سے کہا۔

رانیہ سہی کہہ رہی ہے بس تم کل تیار رہنا آڈیشن دینے چلوں گی میرے ساتھ۔روحان نے رانیہ کی بات پہ تائید کرتے ہوئے کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ کی عمر کیا ہے؟ فلم کے پرڈیوسر نے عنزہ سے سوال کیا جو آسمانی کلر کے گھٹنوں تک آتے فراق کے ساتھ پاجامہ پہنے بہت خوبصورت اور اپنی عمر سے زیادہ چھوٹی لگ رہی تھی اس نے بالوں کو کھولا چھوڑا ہوا تھا جو پیچھے کمر پہ جھول رہے تھے اور ایک شانے پہ وائٹ کلر کا ڈوپٹہ سیٹ کیا تھا جس کا ایک سِرا ماربل کہ فرش کو سلامی پیش کررہا تھا۔

بیس سال۔عنزہ کے بتانے سے پہلے ہی روحان نے جھٹ سے بتایا عنزہ بنا کوئی تاثر لیے وہاں بیٹھی ہوئی تھی وہاں کام کرنے والے سب کی نظریں اس پہ ٹکی ہوئی تھی۔

ہممم کافی کم سن اور خوبصورت ہیں۔ پرڈیوسر نے سرتا پیر عنزہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا اس کی بات پہ عنزہ نے اپنی مٹھیاں زور سے بند کی۔

میں خوبصورت ہوں یہ بات میں جانتی ہوں آپ کام کی بات پہ آئیں کے مجھے ہیروئن کا رول مل سکتا ہے یا نہیں ایسے فضول کی باتیں کرکے اپنا اور میرا ٹائم ویسٹ نہ کریں۔عنزہ نے سرد لہجے میں کہا روحان نے اپنا سرپکڑ لیا جب کی پرڈیوسر اپنی گردن جھکاکر ہنس پڑا اس کو عنزہ کا اٹیٹیوڈ پسند آیا تھا۔

کنٹریکٹ سائن کرنے سے پہلے آپ اسکرپٹ پڑھ لیں۔ پرڈیوسر نے سامنے کھڑے لڑکے کے ہاتھ میں پکڑی فائل عنزہ کی جانب بڑھا کر کہا۔

مجھے اینڈنگ میں چینجنگ کرنی ہے۔ عنزہ نے ساری اسکرپٹ پہ نظر پھیرکر ٹیبل پہ رکھ کر کہا پرڈیوسر نے آئبرو اُپر کی۔

رائٹر چینجینگ نہیں کرسکتا ویسے بھی ہم جیسی چاہتے ہیں بلکل ویسی فلم انہوں نے لکھی ہے۔ پرڈیوسر نے اب کی سنجیدگی سے کہا

رائٹر کا نام؟ عنزہ نے سوال کیا۔

جبرار قریشی۔پرڈیوسر نے نام بتایا۔

ہممم تو آپ انہیں کہیں کے بس آخر میں جب ہیروئن ہیرو کے پاس آتی ہے نہ جب اس کے خاندان والے اجازت دیتے ہیں تو ہیرو کھائی کے پاس کھڑا ہوتا اپنی محبت یعنی ہیروئن کو یاد کرتا ہے۔ عنزہ کہتے رکی تو دیکھا پرڈیوسر بہت دلچسپی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

تو سب ویسے ہی ہو بس جب ہیروئن آئے تو ہیرو سے گلے ملتی ہے تو ہیپی اینڈنگ ہوجاتی ہے تو میں یہ چاہتی ہوں جب ہیروئن آئے تو ہیرو اس کے سامنے ہی کھائی میں گِرکر خودکشی کرلیں اینڈنگ سیڈ ہو ہیپی نہیں۔عنزہ نے اپنی بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا۔

ہمم یہ بھی سہی کہا آپ کو رائٹر ہونا چاہیے تھا۔ پرڈیوسر متاثر ہوتا ہوا بولا روحان سمجھ نہیں پایا کہ اتنا بڑا پرڈیوسر عنزہ کی ساری ڈیمانڈز پوری کیوں کررہا ہے نہ تو وہ پرانی اداکارہ تھی اور نہ ہی فیمس جو اس کی بات کو ترجیح دیتے۔

تو میں ڈن سمجھوں؟ عنزہ نے کہا۔

بلکل میں رائٹر سے بات کرتا ہوں ویسے بھی جتنی آپ خوبصورت ہیں فلم کا ٹیلر دیکھ کر ہی لوگوں نے آپ کا دیوانہ ہوجانا ہے۔ پرڈیوسر مسکراتا ہوا بولا جس پہ عنزہ کی آنکھوں میں مغروریت کا تاثر نمایاں ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

عنزہ کی پہلی فلم کی شوٹنگ سٹارٹ ہوچکی تھی ان دنوں میں عنزہ نے خود کو کافی حدتک بدل ڈالا تھا اس نے اپنے ڈریسنگ سینس کا انداز بدل دیا تھا بال جو کمرتک کو آتے تھے اب بامشکل کندھوں تک آتے تھے اس نے طلحہ کو دو ماہ مسلسل کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس سے اس نے بھی رابطہ کرنا ختم کیا اور خود پہ سردمہری کا خول چڑھالیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

گھر میں فارغ ہوتو میرے ساتھ آفس میں مدد کرلیا کرو۔ مقصوم صاحب نے موبائل یوز کرتی عنزہ سے کہا۔

ڈیڈ آپ کو نہیں لگتا آپ کو میری شادی کی فکر کرنی چاہیے۔ عنزہ نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھ کر کہا۔

منگنی خود ختم کرلی اب جب مجھے کوئی مناسب لڑکا مل جائے گا تو ہوجائے گی شادی پر یہ اچانک تمہیں تمہاری شادی کا خیال کیسے آیا۔ مقصوم صاحب نے مشکوک نظروں سے عنزہ کی جانب دیکھ کر کہا۔

خیال کیسے آیا یہ چھوڑے آپ کو لڑکا ڈھونڈنے کی کیا ضرورت جب پاس میں ہی ہے۔ عنزہ نے پُراسرار لہجے میں کہا تو مقصوم صاحب کی آنکھوں میں ناسمجھی کے بل نمایاں ہوئے۔

کس کی بات کررہی ہو؟ مقصوم صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا عنزہ اپنے لب کاٹنے شروع کیے۔

میں طلحہ کی بات کررہی ہوں۔ عنزہ نے کسی مجرم کی طرح اعتراف کیا۔

طلحہ؟ مقصوم صاحب کو لگا شاید ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔

یس ڈیڈ طلحہ۔ عنزہ نے زور سے گردن ہلاکر کہا

بھابھی آمنہ نے اپنی بھانجی کا رشتہ اس سے طے کرلیا ہے اب تو منگنی کی تاریخ طے ہوگی تم طلحہ کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو۔ مقصون صاحب آرام سے اس کے سر پہ بم گِراتے ہوئے آفس کے لیے نکل گئے جب کی عنزہ سن ہوتے وجود کے ساتھ وہاں کھڑی کی کھڑی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

طلحہ اپنے کیبن میں بیٹھا ہوا عنزہ کے بارے میں سوچ رہا تھا سٹاف کو اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کے کوئی اس کو ڈسٹرب نہ کریں وہ فلحال کسی بھی پیشنٹ کے علاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب کوئی کیبن کا دروازہ دھاڑ کی آواز میں کھولتا اندر آیا طلحہ نے آنے والی ہستی کو دیکھا تو عنزہ بکھرے بالوں اور سرخ سوجھی آنکھیں سمیت اس کو شکوہ کرتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ طلحہ نے عنزہ کی ایسی حالت دیکھی تو پریشانی سے اپنی جگہ اٹھ کر اس کے پاس جانے لگا مگر اس سے پہلے عنزہ اس پہ جھنپٹ پڑی۔

کیوں

کیوں

کیوں

عنزہ اس کے سینے پہ مکوں کی برسات کرتی زور سے بولنے لگی طلحہ اچانک افتاد پہ شاک میں چلاگیا تھا اس نے جلدی سے عنزہ کے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیے۔

کیا کیوں کیوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور یہ میرا ہوسپٹل ہے تمہارا گھر نہیں۔طلحہ نے سخت لہجے میں کہا۔

طلحہ پہلے تو تم مجھ سے ایسے انداز میں بات کرنا ختم کرو۔ عنزہ نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔

تو اور کیسے بات کروں۔ طلحہ نے دانت پہ دانت جمائے پوچھا۔

پیار سے جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ عنزہ نے قدرے شرماکر کہا اس کو شرماتا دیکھ کر طلحہ نے بامشکل اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔

جو چیز کرنی نہ آتی ہو اس کو کرنا نہیں چاہیے۔ طلحہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

کیا مطلب؟ عنزہ اپنا ایک ہاتھ آزاد کرواتی اس کے سینے پہ تھپڑ مارتی ہوئی بولی۔

پہلے تم یہ بیویوں کی طرح مارنا بند کرو۔ طلحہ نے آنکھیں دیکھا کر کہا۔

کیوں بند کروں میں جو چاہے کرسکتی ہوں حق ہے میرا۔ عنزہ نے ڈھٹائی کے تمام رکارڈ توڑ کرکہا

کوئی حق نہیں تمہارا مجھ پہ۔ طلحہ کو اچانک سب کجھ یاد آیا تو دور ہوتا ہوا بولا۔

حق ہے طلحہ تم میرے علاوہ کسی چڑیل سے منگنی یا شادی نہیں کرسکتے۔ عنزہ جلدی سے بولی۔

تو کیا میں یہ سمجھو کہ تم خود کو چڑیل بول رہی ہو۔ طلحہ نے اس کی جانب دیکھ کر کہا تو اپنے بارے میں چڑیل کا لفظ سنتی عنزہ غش کھانے کے در پہ تھی۔

تم مجھے چڑیل بول رہے ہو ؟عنزہ نے اپنی شرٹ کے بازوں فولڈ کرتے طلحہ سے پوچھا طلحہ تو اس کا انداز دیکھ کر سہی معنوں میں گھبراگیا تھا۔

میں نے کب کہا تم ہی بول رہی تھی میرے علاوہ کسی چڑیل سے شادی نہیں کرسکتا تو مطلب تو یہی ہوا نہ کہ تم خود ہی اپنے آپ کو چڑیل سمجھ رہی ہو۔ طلحہ نے وضاحت دی۔

میں ایسا کجھ نہیں سمجھتی میں بس تمہیں وارن کرنے آئی ہوں کہ اگر تم نے اپنی کزن سے یا کسی سے بھی شادی کرنے کا سوچا نہ تو میں نے تمہارا خون پی جانا ہے۔ عنزہ نے ایک ہی جھٹکے میں طلحہ کے گریبان پکڑ کر کہا طلحہ نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا جو غصے کی وجہ سے لال بنا ہوا تھا پھر دوسری نظر اس کے ہاتھوں میں ڈالی جو اس کے گریبان تک پہنچ گئے تھے۔

تمہیں کیا لگتا ہے ہربار تمہاری مرضی چلے گی تم جب چاہے میرے پاس آٶں گی اور جب دل چاہے گا میری محبت کو ٹھکر مار کر چلی جاوٴ گی۔ طلحہ عنزہ کو کمر سے پکڑتا اپنے قریب کیے بولا۔

مانتی ہوں میں نے غلط کیا تھا پر میں شرمندہ بھی تو ہوں تم مجھے معاف کردو کیوں بلاوجہ کا غصہ جہاڑ رہے ہو مجھ معصوم پہ عنزہ اس کا گریبان چھوڑتی اس کے گرد اپنے بازوں کا حصار بناتی ہوئی معصومیت سے بولی۔

اتنی تم معصوم۔ عنزہ کا خود کو معصوم کہنا طلحہ کو ایک آنکھ نہ بھایا۔

ہاں تو کیا نہیں میں معصوم؟عنزہ نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے سے اس کو بالوں میں ڈال کر آنکھیں دیکھا کر پوچھا۔

میں نے ایسا کب کہا۔ طلحہ اپنے بال اس کے ہاتھ کی مٹھی میں جکڑتا محسوس کرتا فورن سے کہا۔

تو اور کیا کہنا چاہتے تھے۔ عنزہ نے ویسے ہی پوچھا۔

میں تو یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم معصوم سے زیادہ معصوم ہوں تم نے تو ابھی بات کرنا سیکھا ہے کل تک چلنا بھی سیکھ جاوٴ گی۔ روانگی میں طلحہ کیا کجھ کہہ گیا اس کو خود معلوم نہیں ہوا جب کی عنزہ ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ ہوگئ طلحہ کھسیانا ہوتا اس سے دور ہوتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

اب ختم کرو ناراضگی۔طلحہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا تو عنزہ سنجیدہ ہوکر پاس کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

میرا دل کبھی تم سے ناراض ہوا ہی نہیں میرے دل نے کبھی اجازت ہی نہیں دی کے میں کجھ اپنی مرضی سے کرتا چھ سال میں نے کیسے گُزارے ہیں تم سے بات کیے بنا یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا میری تکلیف اس وقت حد سے زیادہ ہوجاتی جب تمہاری سالگرہ کا دن آتا۔ طلحہ کھڑکی سے باہر آسمان کی جانب دیکھ کر بولا جہاں شام کے سائے گہرے ہورہے تھے عنزہ بہت غور سے طلحہ کو دیکھنے لگی اس کو محسوس ہوا جیسے طلحہ کی آنکھوں میں ہلکی نمی ہو۔

جب تم ریسٹورنٹ میں مجھے تنہا چھوڑ کر چلی گئ تھی نہ تو میں سوچ رہا تھا میری محبت میں کہاں کمی رہ گئ تھی جو تمہارا مجھے چھوڑنا اتنا آسان تھا پھر سوچا تم مجھ سے زیادہ بہتر ڈیزرو کرتی ہوں میں تمہارے قابل نہیں۔طلحہ کی بات پہ عنزہ نے جلدی سے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر نفی میں سرہلایا جس سے طلحہ مسکرادیا۔

میں تمہیں شروع سے ہی بہت چاہتا تھا۔ طلحہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

اگر ایسا ہے تو مجھے اتنے وقت سے خوار کیوں کیا اپنے پیچھے اور سخت لہجے میں بات کیوں کرتے تھے۔ عنزہ نے اس کے بازوں پہ سرٹکاکر کہا

تم نے جو میرے ساتھ کیا اس کے سامنے تو یہ کجھ نہیں تھا۔ طلحہ نے آرام سے جواب دیا۔

ڈیڈ نے بتایا کہ چچی جان نے اپنی کسی بھانجی کا رشتہ تمہارے ساتھ طے کیا ہے۔ عنزہ نے پوچھا۔

ہمم کرنا چاہتی تھی بات ہوئی بھی تھی پر سنایا کو ابھی شادی میں دلچسپی نہیں تھی دوسرا یہ جب میں نے مرحا سے پوچھا تھا کے میرے لاہور جانے کے بعد تم آئی تھی تو جب اس نے سارا کجھ بتایا تو میں نے امی جان کو منع کردیا کوئی بھی رشتہ تلاش کرنے کو۔ طلحہ نے بتایا۔

اچھا کیوں ؟عنزہ نے جان کر بھی انجان بن کر پوچھا۔

کیونکہ مجھے چڑیل پسند آگئ تھی۔ طلحہ نے ہنس کر کہا تو عنزہ نے منہ بسورا۔

یہ غلط ہے اتنی پیار ہونے والی بیوی کو تم چڑیل کا خطاب دیں رہے ہو۔ عنزہ نے برا مان کر کہا۔

تو میری پیاری ہونے والی بیوی کو چاہیے کے کجھ فاصلہ رکھ کر بات کریں ابھی ہمارا نکاح نہیں ہوا۔ طلحہ نے بہت دیر بعد عقل کی بات کی۔

تو میں کونسا تمہاری گود میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ عنزہ ناسمجھی سے بولی۔

اففف اللہ تمہیں عقل دیں۔ طلحہ نفی میں سر کو جنبش دیتا صوفے کی جانب آکر بیٹھ گیا تو عنزہ بھی صوفے کی جانب آئی پر اب فاصلہ کیے بیٹھی۔

اچھا اب اگر سب ٹھیک ہوگیا ہے تو وہ لاکیٹ پہنانے میں دیر کیوں کررہے ہو جو ٹیبل کے ڈرار میں پڑا ہے۔ عنزہ نے شراتی نظروں سے طلحہ سے کہا تو طلحہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

تمہیں کیسے پتا وہاں لاکیٹ ہے؟ طلحہ نے پوچھنا ضروری سنجھا۔

بس عقل،عقل کی بات ہے۔ عنزہ کندھے اُچکاتی شانِ بے نیازی سے بولی۔ طلحہ اپنی جگہ سے اٹھتا ٹیبل کے ڈراز سے لاکیٹ نکال کر عنزہ کی طرف آیا تو عنزہ نے بال ایک سائیڈ پہ کیے تو طلحہ نے لاکیٹ اس کے گلے کی زینت بناگیا۔

بیوٹیفل۔ طلحہ نے لاکیٹ پہنانے کے بعد کہا۔

میں نے جو پہنا ہے۔ عنزہ نے اِتراکر کہا۔

انسان اب اتنا خوشفہم بھی نہ ہو۔ طلحہ نے کہا

تمہیں پتا ہے میں کیا سوچ رہی ہوں۔ کافی دیر بعد عنزہ بولی۔

کیا سوچ رہی ہو؟طلحہ نے پوچھا

میں نے چار فلموں میں کام کیا ہے اور ان چاروں میں کسی کی بھی اینڈنگ ہیپی نہیں تھی تو کیوں نہ ایک آخری فلم میں ہم دونوں ساتھ فلم میں کام کریں اس کی اینڈنگ ہیپی کریں گے۔عنزہ نے مگن انداز میں کہتے طلحہ کی طرف دیکھا جو آنکھیں منہ کُھلے اس کی جانب دیکھ رہا تھا طلحہ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر عنزہ کی ہنسی نکل گئ۔

ابھی تک فلموں میں کام کرنے کا شوق پورہ نہیں ہوا۔ طلحہ نے تاسف سے کہا۔

میں نے تو خیرباد کہہ دیا شوبز انڈسٹری کو یہ تو بس تمہیں آزمانے کی خاطر کہا۔ عنزہ نے مزے سے بتایا تو طلحہ نے اس کے ماتھے پہ چپت لگائی جس سے عنزہ کِھل کِھلا اٹھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ختم شد 


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tum Aur Mian Love Base Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tum Aur Main  written by  Rimsha Hussain . Tum Aur Main  by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages