Teri Ulfat mein Sanam By Meem Ain Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 5 June 2024

Teri Ulfat mein Sanam By Meem Ain Complete Short Story Novel

Teri Ulfat mein Sanam By Meem Ain Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readinga...

Teri Ulfat Mein Sanam By Meem Ain Complete Novel Story

Novel Name: Teri Ulfat Mein Sanam

Writer Name:  Meem Ain

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


"وہ وہاں ہوگی یا نہیں؟" یہ سوال بار بار اس کے دماغ میں آرہا تھا۔ ٹھٹھرا دینے والی سردی میں وہ صرف ایک ٹراؤزر اور ہالف بازو والی سفید ٹی شرٹ میں ساکت و جامد بیٹھا تھا۔چہرے پر نیل واضح تھے۔ہوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے چہرے پر تشدد کیا ہو۔وہ بھول جانا چاہتا تھا جو کچھ بھی کچھ دیر پہلے ہوا پر پتا نہیں ایسی کیا بات تھی کہ اسے اپنے دل میں ٹیسییں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ پھر یکایک اسکے جامد وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔وہ تیزی سے اٹھا،بیڈ کے پاس پڑے اپنے موزے اور جوگرز اٹھا کر پہنے اور دروازے کی طرف لپکا۔اسے دس منٹ لگے تھے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لیے۔اس نے بیس منٹ کا سفر پیدل دس منٹ میں طے کیا۔دروازہ ویسے ہی کھلا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اندر کی طرف لپکا۔وہ وہیں تھی جہاں وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر گیا تھا۔وہ کرسی کے پاس اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی۔وہ اسکے پاس گیا اور اسکا رخ پلٹا۔خون کی ایک لکیر اس کے ماتھے سے ہوتے ہوئے گردن تک آئی ہوئی تھی جو کہ سوکھ چکی تھی۔اس نے پاس پڑی اس کی چادر اٹھائی اور اسے اوڑھا دی۔وہ گھر سے لے کر یہاں آنے تک یہ سوچتا آیا تھا کہ وہ وہاں ہوگی یا نہیں پر یہ خیال اسے ایک دفعہ نہیں آیا تھا کہ اگر وہ وہاں ہوئی تو وہ کیا کرے گا۔اس نے آہستگی سے اسے باہوں میں بھرا اور وہاں سے نکل آیا۔گھر پہنچ کر اسے نرمی سے بستر پر لٹایا اور پھر موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔

°°°°°°°°°°

"یار عاشی اب کیا ہوگا؟ مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے۔امی کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر نے بولا ہے کہ انھیں ہسپتال داخل کروانا پڑے گا۔ میرے پاس پیسے بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ بس دعا کرو جلدی سے کوئی جاب مل جائے۔" وہ اپنے سامنے موجود اپنی دوست عائشہ سے کہہ رہی تھی۔اس وقت وہ عائشہ کے بہت اسرار پر اسے ملنے ریسٹورنٹ آئی ہوئی تھی۔وہ دونوں باتوں میں مگن تھیں، اس بات سے بے خبر کہ ایک اور وجود ان کی باتوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ مستقیم فارس اپنے ایک دوست سے ملنے ریسٹورنٹ آیا تھا۔ان دونوں کی گفتگو اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کی آوازوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔

"عاشی اگر امی کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی؟" لاکھ ضبط کے باوجود اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔اسکی بھرائی آواز پر بے ساختہ مستقیم کی نظریں اس کی جانب اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں۔وہ لڑکی بہت حسین تھی۔ایسا نہیں کہ مستقیم فارس نے حسین لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں پر اس لڑکی کی سنہری آنکھوں میں موجود نمی اور تکلیف نے اسکے دل کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔وہ سفید لباس میں ملبوس تھی اور دوپٹہ سر پہ اوڑھا ہوا تھا۔مستقیم کو وہ لڑکی بہت پاک لگی۔ابھی وہ اسی میں گم تھا جب موبائل کی آواز نے اسے متوجہ کیا۔ اسکے جگری دوست کی کال تھی جو کہ آنے سے معزرت کر رہا تھا اور ایک ایمرجنسی کا بتا کر اسے فوری طور پر بلا رہا تھا۔مستقیم نے نا چاہتے ہوئے بھی اس پر سے نظریں ہٹائیں اور وہاں سے نکل آیا۔

°°°°°°°°°°

وہ دعا حیدر تھی۔ لاکھوں منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔حیدد عباس ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ان کی اہلیہ سارہ بیگم ان کی محبوب بیوی تھیں۔کالج کے زمانے سے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔حیدر صاحب نے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتایا تو وہ بغیر کسی اعتراض کے خوشی خوشی سارہ بیگم کا ہاتھ مانگنے چلے گئے اور وہاں سے بھی مثبت جواب ملا۔یوں بغیر کسی رکاوٹ کے انکی محبت کو منزل مل گئی۔حیدر عباس کے ایک ہی بڑے بھائی تھے کریم عباس۔ ان کی اہلیہ شگفتہ بیگم ایک تلخ مزاج خاتون تھیں اور سارہ بیگم سے شروع سے ہی خار کھاتی تھیں۔دعا کی پیدائش سے ایک سال قبل ہی انہوں نے ایک بچی کو جنم دیا۔ دعا کی پیدائش کے بعد یہ نفرت اور بھی بڑھ گئی کیونکہ ان کی بیٹی سونیا،خوبصورتی میں دعا سے بہت کم تھی۔ دونوں بھائی ایک ہی گھر کے الگ الگ پورشنز میں رہتے تھے۔

                                                   🖤🖤🖤🖤🖤

"خادم حسین فاتح اٹھا نہیں اب تک کیا؟" ابرہیم خان نے اپنے ملازم سے پوچھا۔ وہ جانتے بھی تھے کہ آگے سے کیا جواب ملنے والا ہے پر پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ بیٹھے۔

"ارے ابرہیم! آپ جانتے ہیں نا کہ وہ نہیں آئے گا۔وہ بہت نفرت کرتا ہے مجھ سے۔ ایم سوری ابرہیم! میری وجہ سے آپ کا بیٹا آپ سے دور ہو گیا۔" وہ آنکھوں میں آنسو لیے ان سے کہہ رہی تھیں۔

"پلیز فائقہ! ایسے مت پریشان ہوں آپ، مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا آپ کا ایک بے بنیاد بات پر پریشان ہونا۔ وہ آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ میرے لاپرواہیوں کی وجہ سے دور ہوا ہے مجھ سے۔وہ نادم نظر آتے تھے۔

اتنے میں وہ سیڑھیوں سے اترتا دکھائی دیا۔بلیک پینٹ شرٹ اور بلیک ہی ہڈ والی جیکٹ ،بلیک ہی شوز پہنے، ایک ہاتھ میں سن گلاسز اور گاڑی کی چابی پکڑے، چہرے پر سرد تاثرات سجائے،بغیر ان پر ایک نگاہ ڈالے وہ باہر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے ابرہیم خان ایک سرد آہ بھر کے رہ گئے۔

                                                  🖤🖤🖤🖤🖤

"ماما!ماما! کہاں ہیں اپ؟ وہ سارہ بیگم کو آواز دیتی ہوئی نیچے آرہی تھی۔

"کیا ہوا دعا بیٹا رزلٹ شو ہو گیا کیا؟" وہ دعا سے پوچھنے لگیں۔

"جی ماما اور آپ کو پتا ہے میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ہوں۔" وہ خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ انہیں بتانے لگی۔آج اس کا میٹرک کا رزلٹ تھا جس میں ہمیشہ کی طرح وہ شاندار کامیابی حاصل کر چکی تھی۔

"ماشاءاللہ! مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی ہمیشہ کی طرح شاندار کامیابی حاصل کرے گی."وہ دعا کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں اور اس کو اپنے ساتھ لگائے لاؤنج میں لے آئیں۔تبھی دروازے کی گھنٹی سنائی دی۔ 

"میں دیکھتی ہوں ماما آپ یہاں ہی رکیں." وہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگی۔دروازہ کھولا تو سامنے ہی حیدر صاحب کو دیکھتے وہ خوشی سے چیختی ان کی باہوں میں سما گئی۔ 

"پاپا اپ کو پتا ہے میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ہوں۔" وہ خوشی سے چہچہا رہی تھی۔

"میری گڑیا ہے ہی بہت جینیسٔ، مجھے پہلے ہی پتا تھا میری گڑیا کا رزلٹ بہت اچھا آئے گا۔ چلو اسی خوشی میں آج لنچ باہر کریں گے ہم جلدی سے ریڈی ہو جاؤ آپ۔" وہ پھر سے اس کا ماتھا چوم کر کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

                                               🖤🖤🖤🖤🖤

"آئی چکنی چمبیلی۔۔۔۔۔"منہ میں پان ڈالے اپنی پھٹے سپیکر جیسی آواز میں وہ گانے کا ستیاناس کرنے میں مصروف تھا جب اسکی نظر سامنے سے آتی اس حسینہ پر پڑی۔ وہ پان تھوکتا اسکی جانب بڑھا اور اپنی گندی نظریں اسکے وجود پر ٹکا دیں۔ حریم کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اس نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر لی۔

"ارے میری رانی اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ اپنے اس حسین چہرے کا سہی طرح دیدار تو کرواتی جاؤ۔ ویسے اس گلابی لباس میں تو ستم ڈھا رہی ہو۔"اسکی ساری بکواس سن کر حریم کا چہرہ غصے اور ضبط سے سرخ پڑ گیا۔

"بشیر بھائی پلیز راستہ چھوڑیں میرا!" وہ نظریں نیچی رکھ کر بہت ضبط سے بولی۔

"ارے میری بلبل....." ابھی وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر پایا تھا جب اسکا چھوٹا بیٹا اسے پکارتا اسکی طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ وہ اپنی ماں کا پیغام لے کر آیا تھا۔ بشیر بوکھلا کر تیزی سے اسکے ساتھ اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔

حریم نے انگلیوں کی پوروں سے اپنی سنہری آنکھوں میں موجود نمی کو صاف کیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کیا جس نے اس مصیبت  سے آج پھر اسکی جان چھڑا دی۔اس نے ایک بے بس سانس خارج کی اور گھر میں داخل ہو گئی۔

آج  دعا کا کالج میں پہلا دن تھا اور وہ بہت نروس تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ گرلز اسکول میں پڑھی تھی  میٹرک تک پر اب پری- میڈیکل کے لئے حیدر صاحب کو جو کالج پسند آیا تھا وہاں کو ایجوکیشن سسٹم تھا۔ دعا نے تو انکار کر دیا تھا کہ وہ اس کالج نہیں پڑھے گی بلکہ کسی گرلز کالج میں ہی ایڈمشن لے گی پر اپنے ماں باپ دونوں کے اصرار پر اسے اسی کالج میں ایڈمشن لینا پڑا۔ وو بہت چھوٹے اور نازک دل کی مالک تھی۔ وو بہت معصوم تھی۔بچپن سے صرف ماں باپ کے ساۓ میں ہی رہی تھی۔ نانيال  تھا نہیں اور  دادا دادی کے انتقال کے بعد  دديال میں بھی صرف ایک تایا ہی رہ گئے تھے جن کو نہ تو چھوٹے بھائی سے پیار تھا نہ ہی اسکی اولاد سے۔ باپ کی وراثت سے حصہ لے کر الگ ہو گئے اور اب اپنے حال میں خوش  تھے۔اس لئے دعا نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو ہی دیکھا اور انکا پیار ہی حاصل کیا۔وہ اکلوتی تھی اور بہت لاڈلی بھی۔اسکے لئے اسکے ماں باپ ہی اسکی کل کائنات تھے۔

                                                 🖤🖤🖤🖤🖤

وہ گراؤنڈ میں پریشان سی کھڑی تھی۔حیدر صاحب اسے کالج کے باہر ڈراپ کر کے گئے تھے ور بہت سمجھا کے بھی گئے تھے کہ وہ پریشان نہ ہو۔اگر کوئی مسلہ ہو تو انکو  کال کر دے ۔ یہ موبائل بھی انہوں نے کچھ دن پہلے ہی دلوايا تھا کیوں کے اب اسے پڑھائی کے سلسلے میں اسکی ضرورت پڑنے والی تھی۔ وہ پریشان سی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسکے پاس ایک لڑکی آئی۔

"ہیلو پریٹی گرل کیا ہوا اتنی پریشان کیوں ہو اور یہاں کیوں کھڑی ہو؟" وہ دعا کی ہی ایج فیلو لڑکی تھی۔ اور بہت فرینکلی دعا سے بات کر رہی تھی۔ اسکا پوچھنا ہی تھا کہ دعا نے رونا سٹارٹ کر دیا۔

"ارے ارے کیا ہو گیا یار کیوں رو رہی ہو کسی نے کچھ کہا ہے کیا مجھے کچھ بتاؤ تو سہی۔" دعا کے رونے پہ وہ خود پریشان ہو گئی تھی۔

"نہیں میرا فرسٹ ڈے ہے ۔۔۔۔۔مجھے کلاس بھی نہیں مل رہی "وہ روتے ہوئے ہی اس لڑکی کو بتا رہی تھی۔ 

"اف پاگل لڑکی مجھے بھی ڈرا دیا میں سمجھی پتا نہیں کیا ہو گیا جو یہ پیاری سی لڑکی ایسے رو رہی ہے۔ میرا نام امايا ہے تم مجھے ایمي  بھی بول سکتی ہو۔ چلو اب اپنا نام بتاؤ جلدی سے پھر تمہاری کلاس بھی ڈھونڈھتے ہیں۔" دعا کو بھی وہ لڑکی بہت اچھی لگی۔

"میرا نام دعا حیدر ہے اور میں نے FSc(pre-medical) میں ایڈمشن لیا ہے۔"

"ارے واہ تمہارا نام تو بہت پیارا ہے بالکل تمہاری طرح اور  مزے کی بات بتاؤں میرا بھی یہی سیکشن اور بیج ہے۔ اسکا مطلب یہ کہ ہم دونوں کلاس فیلوز ہیں ۔" دعا کو بہت خوشی ہوئی یہ سن کے کہ وہ اس کی کلاس فیلو ہے۔ کم از کم کوئی تو ایسا ملا جو اس سے اچھے سے بات کر رہا تھا اور وہ بھی اس سے اپنی پرابلمس ڈسکس کر سکتی تھی۔ پھر امايا نے دعا کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے کلاس کی جانب بڑھ گئی۔

                                               🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ابراھیم خاں اپنے روم میں راکنگ  چیئر پر بیٹھے ایک کتاب کا مطالعہ  کر رہے تھے جب انھیں اوپر سے شور سنائی دیا جیسے کوئی چیخ رہا ہو۔ انہوں نے کتاب رکھی اور جلدی سے اوپر کی طرف قدم بڑھاے۔ یہ آوازیں فاتح کے کمرے سے آ رہی تھیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا فائقہ بیگم فاتح کے پاس سر جھکا کر کھڑی تھیں اور وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ۔ فائقہ آپ کیوں رو رہی ہیں اور فاتح تم یہ کیا کر رہے ہو ۔یہ کمرے کا کیا حشر کیا ہے اور ایسے چیخ کیوں رہے ہو؟" وہ پہلے فائقہ بیگم اور پھر فاتح سے استفسار کرنے لگے۔

"میں نے کہا تھا نہ کہ اپنی بیوی سے کہیں ک میرے معاملات سے دور رہیں وہ اور ان کی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آ کر میری ماں کی چیزوں  کو ہاتھ لگانے کی۔ اٹس انف ڈیڈ میں اب ایک سیکنڈ بھی یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنی ماں کی یادوں کو لے کر جا رہا ہوں یہاں سے آپ اور اپ کی مسز یہاں پہ سکون سے رہیں۔" اس نے بیگ اٹھایا اور وہاں سے نکلنے لگا۔

"رک جاؤ فاتح بات تو سنو کہاں جاؤ گے تم کیسے سروائیو کرو گے ۔"

"میں جہاں بھی جاؤں آپکو اس بات سے کوئی کنسرن نہیں ہونا چاہیے اور جیسے تیسے میں اپنا بندوبست کر لوں گا آپکو میرے سامنے یہ فکر کا دکھاوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔" وہ آخری نظر گھر پر ڈال کر اپنی گاڑی لے کر  وہاں سے نکلتا چلا گیا۔  

                                                         🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وہ جیسے ہی شکستہ قدم لئے گھر ہوئی اسے اپنی ماں کے کھانسنے  کی آواز سنائی دی۔ اس نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔اس کی ماں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھی اور یہی بات حریم کی نیندیں اڑاۓ ہوئے تھی کہ اگر اسکی ماں کو کچھ ہو گیا تو ؟ اس تو کے آگے نہ وہ کبھی سوچ پائی اور نہ ہی سوچنا چاہتی تھی۔ اس کی ماں ہی اس کا واحد سہارا تھی اور وہ بھی اپنی ماں کا واحد سہارا تھی۔وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ باپ کی زندگی میں حالات پھر بھی ٹھیک تھے۔ اگر زیادہ اچھے نہیں تو زیادہ برے بھی نہیں تھے۔ باپ کے ساۓ نے زمانے کے سرد و گرم سے پناہ دے رکھی تھی۔ پر باپ کے آنکھیں موند نے کے بعد تو زندگی جسے عذاب بن گئی تھی۔ زمانے کے گد ہر وقت اکیلی جوان اور خوبصورت لڑکی کو نوچنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے۔ باپ کی موت کے بعد ماں کی بیماری نے تو  جیسے حریم کی کمر ہی توڑ دی تھی۔ اوپر سے گھر کے مالی حالات بھی دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے تھے۔ وہ اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ چکی تھی۔ آج کل وہ کسی جاب کی تلاش میں تھی جو کے اتنی تعلیم کے ساتھ ملنا مشکل تھی۔آج بھی وہ ایک اسکول میں ٹیچنگ کے لیے ایپلاۓ کرنے گئی تھی پر وہاں کے پرنسپل کی اپنے وجود پر اٹھتی گندی نظروں سے وہ انجان نہیں تھی۔ وہاں سے بھی اٹھ کے نکل آئ اور واپسی پر بشیر  کی گھٹیا باتوں نے اسے اور بھی دل برداشتہ کر دیا تھا۔ اس نے ساری سوچوں کو دماغ سے جھٹکا اور اپنی بیمار ماں کی جانب متوجہ ہو گئی

                                              🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وہ گھر سے نکل کر سیدھا اپنے فلیٹ پر آ گیا تھا۔اس نے مستقیم کو بھی یہاں ہی بلا لیا تھا۔ وہ اسکا جگری یار تھا۔ اسکا رازدان، اس کے دکھ درد کا ساتھی۔ وہ اسکی زندگی کے ہر پہلو سے واقف  تھا۔وہ دہ جسم،ایک جان تھے۔ اس نے فلیٹ پہ آنے کے بعد سامان باہر لاؤنج میں موجود صوفے پہ رکھا اور فریش ہونے کے لئے بیڈ روم میں چلا گیا۔ فریش ہو کہ باہر آیا اور لاؤنج میں لگی ہوئی ایل-سی-ڈی اون کر لی۔ اس کا سر شدید درد کر رہا تھا اور اس نے اب تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اس کا کھانا بنانے کا فلحال کوئی موڈ نہیں تھا۔ اس نے سوچا کے چاۓ پہ ہی گزارا کر لیا جاۓ۔ کم از کم  سر درد میں تو  آفاقہ ہوگا ۔ ابھی وہ کچن کی طرف بڑھ ہی رہا تھا جب اسے ڈور بیل سنائی دی۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت دروازے پر کون ہوگا۔ اسکی امید کے عین مطابق مستقیم ہی تھا دروازے پر۔  فاتح نے دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا اور خود پھر کچن  کی طرف بڑھ گیا۔ مستقیم بھی دروازہ بند کر کے اسکے پیچھے کچن میں ہی آ گیا۔اسکے ہاتھ میں کھانے والا بیگ تھا جو وہ ابھی آتے ہوئے اپنے ساتھ لایا تھا۔اس نے وہ بیگ شلف پہ رکھا اور برتن میں کھانا نکالنے لگا۔

"لو جی یہی رہ گیا اپنی زندگی میں  اب بس۔ لوگوں کی بیویاں انکے گھر واپس آنے پر ان سے کھانے کا پوچھتی ہیں اور پھر نہایت پیار سے کھانا لگاتی ہیں اپنے شوہر کے لئے پر مجھے لگتا ہے میں ایک کمینے دوست کی بیوی ہی بن کر ہی رہ جاؤں گا بس" مستقیم کے اس طرح دہائی دینے پر فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی جس کو اس نے فورا لب دبا کر چھپا لیا۔

"ہنس لے ہنس لے کمینے مزہ لے لے تو میری اس مسکین حالت کا۔مجھ سے لکھوا لے جتنا میں تیرا خیال رکھتا ہوں نہ تیری فیوچر وائف بھی نہیں رکھے گی۔اب دیکھ میں جانتا تھا میرے جگر نے کھانا نہیں اب تک کھایا ہوگا اس لئے آتے ہوئے کھانا لیتا آیا۔" وہ اپنی ہی ہاناک رہا تھا۔  وہ جانتا تھا ضرور فاتح کے گھر میں کوئی مسلہ ہوا تھا ورنہ وہ اس طرح سامان اٹھا کے یہاں فلیٹ پہ نہ آتا ۔

" تو تجھے کس نے کہا تھا کھانا لانے کے لئے اور میری خدمات کرنے کے لئے۔تجھے خود هی میری بیوی بننے کا شوق  اگر  تو میں کیا کہ سکتا ہوں۔" فاتح نے ناک چڑھا کر کہا پر سچ تھا کہ مستقیم کے آنے سے اسکا ذہن فلحال اپنی پریشانی سے ہٹ چکا تھا۔

"پھر کیا سوچا تو نے اب۔ آفس کب سے ری جوائن کر رہا ہے۔" کھانا کھانے کے بعد اب وہ فاتح سے اسکے نیکسٹ پلان کی بارے میں پوچھ رہا تھا۔

"نہیں فالحال  آفس نہیں جوائن کر رہا نیکسٹ  ویک سے سٹارٹ کروں گا تب تک سمبھال لو تم ہی۔ دانیال انکل کی کال آئ  تھی آج۔ انکے کالج کے ایک ٹیچر کی  ڈیتھ ہو گئی۔ فلحال کسی ٹیچر کی ضرورت ہے انھیں۔ مجھ سے ریکویسٹ کر رہے تھے کے تھوڑا ٹائم دے دوں اور تم جانتے ہو میں انکل کو انکار نہیں کر سکتا اس لئے حامی بھر لی میں نے۔ کالج 3 لیکچر اٹینڈ کر کے وہاں سے ہی آفس آ جایا کروں گا پھر۔" فاتح سے اسے ساری ڈیٹیل بتا دی۔

"چل ٹھیک ہے لالے جیسا تجھے بہتر لگے اور تو ٹینشن نہ لے میں کر لوں گا آفس مینیج۔ چل اٹھ اب کافی بنا کے پلا اچھی سی۔" مستقیم نے فاتح کو حکم سنایا اور خود وہیں صوفے پر لیٹ کر موبائل میں مصروف ہو گیا۔ 

"اوکے لاتا ہوں۔" یہ کہہ کر فاتح کچن کی طرف بڑھ گیا۔

                                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

دعا اور امايا کلاس میں ساتھ ہی داخل ہوئیں۔ لاسٹ  بنچ خالی تھا۔ وہ دونوں جا کر وہاں بیٹھ گئیں۔ تمام سٹوڈنٹس آپس میں باتوں میں مگن تھے۔ دعا اور امايا بھی ایک دوسرے کو اپنی فیملی اور اپنے رزلٹ کے بارے میں بتانے لگیں۔ امايا کو وہ معصوم اور پیاری سی گڑیا جیسی لڑکی بہت پسند آئ تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکی تھیں۔ یہ آغاز تھا دعاحیدر اور امايا حسن کی دوستی کا۔امايا بہت کونفیڈنٹ لڑکی تھی اور دعا اس کے بالکل برعکس۔ دعا بچپن سے بس ماں باپ کی چھاؤں میں رہی تھی۔اس کی اسکول میں بھی کوئی دوست نہیں تھی۔ امايا حسن اسکی پہلی دوست  تھی۔ وہ پہلی لڑکی جسے دعاحیدر نے دوستی کا شرف بخشا تھا۔

ابھی وہ سب باتوں میں مصروف  تھے جب پرنسپل سر فاتح کے ساتھ کلاس میں داخل ہوئے۔انہوں نے سٹوڈنٹس کو کالج میں ویلکم کرنے کے بعد ان سے فاتح کا تعارف کروایا۔ اسکے بعد پرنسپل سر وہاں سے روانہ ہو گئے تو فاتح کلاس کی طرف متوجہ ہوا۔

"السلام علیکم سٹوڈنٹس! ماے نیم از فاتح ابراھیم خان۔آیٔ ڈڈ  ماے MBA تھری ایرز اگو۔ ناؤ آئ ایم ہیر تو ٹیچ یو فزکس۔ ناؤ اسٹینڈ اپ ون باے ون اینڈ انٹروڑیوس  یور سیلف۔"

اس کے چپ ہوتے ہے ایک سحر تھا جو ٹوٹا تھا اسکی  پرسنیلیٹی کے بعد اسکا بولنے کا انداز ساحرانہ تھا۔ اسکے کہنے پر سب سٹوڈنٹس باری بری کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروانے لگے۔

"ارے یار دعا سر کتنے ہینڈسم  ہیں  نا یار۔ بلکل ٹرکش ہیروز کی طرح۔ " وہ دعا کے کان کے قریب جھک کر بولی۔ لیکن دعا نے جواب نہ دیا۔ وہ نوٹ بک پر جھک کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔اتنے میں امايا کی باری آئ تو اس نے بھی کھڑے  ہو کر اپنا انٹروڈکشن کروایا۔ اسکے بعد اب فاتح اگلے سٹوڈنٹ کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا ۔وو لڑکی جھک کر کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ اسکا چہرہ نہیں نظر آرہا تھا اس طرح۔ صرف سفید   مومی ہاتھ ہی نظر آ رہے تھے جوتیزی سے کچھ لکھنے میں مصروف  تھے۔ امايا نے اسکو بازو سے پکڑ کر ہوش دلایا اور اسکا دھیان سر کی طرف کروایا۔اس نے جسے ہی سر اٹھایا اس کی کانچ سی نیلی آنکھیں فاتح کی بھوری آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں۔ اسکے چہرے پر پڑنے والی پہلی نظر ہی فاتح ابراھیم خاں کا چین وین سب لے اڑی تھی۔پل بھر میں ہی فاتح ابراھیم کا دل لٹنے کو تیار ہوا تھا۔وہ معصومیت کا پیکر تھی  اور حسین  تھی۔ بہت حسین۔ بالکل کسی شاعر کی غزل کے جیسی۔ شبنم کے پہلے قطرے کے جیسی۔پاک اور شفاف۔ فاتح ابراھیم کا دل ڈولنے لگا تھا اسے دیکھ کر۔اگر کوئی اس وقت فاتح ابراھیم سے پوچھتا کے دنیا کا سب سے خوبصورت منظر کونسا ہے تو وہ آنکھیں بند کر کے ایک لمحے سے پہلے جواب دے دیتا۔ دعا حیدر کے چہرے پر پڑنے والی پہلی نظر۔ اور یہ پہلی نظر ہی فاتح ابراھیم کو لے ڈوبی تھی۔ دل کو بڑی مشکل سے آمادہ کر پایا تھا وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹانے سے۔ دعا نے جلدی سے اپنا نام  بتایا اور واپس بیٹھ گئی۔

                            🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وہ  آج پھر ایک دفعہ اپنی قسمت آز مانے  نکلی تھی ۔ اس نے ایک کمپنی کا ایڈ دیکھا تھا جہاں اسٹاف کی اشد ضرورت تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی تعلیم ناكافی ہے اس پوسٹ کے لیے لیکن پھر بھی وہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللّه کا نام لے کر گھر سے نکل پڑی تھی ۔ اس کے پرس میں اس وقت صرف دو سو روپے ہی تھے ۔ آفس اس کے گھر سے پیدل پچیس منٹ کی مسافت پر ہی واقع تھا ۔ اس نے سوچا کےکہ پیدل ہی آفس پہنچ جاۓ گی کم از کم آٹو کے پیسے تو بچیں گے ہی نا ۔ اس سوچ کو لے کر وہ جلدی ہی گھر سے نکل آئ تھی کہ وقت سے پہلے ہی وہ آفس پہنچ جاۓ گی ۔ اسے کل رات سے بخار تھا اور اب تو جسم بے جان ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا نقاہت کی وجہ سے سر بار بار چکرا رہا تھا پر وہ ہمت سے کام لیتے ہوئے سڑک پر پاؤں گھسیٹتی چلتی جا رہی تھی ۔ اپنی بے دیهانی میں اسے پتا نہیں چلا تھا کہ وہ سڑک کے درمیان میں آ چکی ہے ۔ گاڑی کے ٹائر چر چرانے کی آواز نے اسے ہوش کی دنیا میں لا پٹخا تھا اس نے بے ساختہ ہی قدم پیچھے لے جانا چاہے پر تب تک وہ گاڑی اسے ٹکر لگا چکی تھی ۔ وہ لہرا کر نیچے گری تھی ۔ مستقیم جو جو اچانک ایک لڑکی کو گاڑی کے سامنے آتا دیکھ کر بریک لگا چکا تھا اسے نیچے گرتا دیکھ کر جلدی سے گاڑی سے نکل کر اسکی طرف لپكا ۔ وہ لڑکی سفید چادر میں ملبوس تھی ۔ مستقیم اسے آواز دینے ہی والا تھا جب اس نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا ۔ مستقیم حریم کو یوں اس طرح اس حالت میں اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو چکا تھا ۔ وہ شکل سے ہی نڈھال لگ رہی تھی چہرے کی شادابی تو جیسے کہیں کھو ہی گئی تھی حریم نے اٹھنا چاہا پر بخار کی نقاہت اور  کہنی پر لگنے والی چوٹ نے جیسے ہمت ہی چھین لی تھی ۔ بے بسی سے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ادھر مستقیم اس کے آنسو دیکھ کر بے چین ہو اٹھا تھا ۔ اس نے بے ساختہ ہی اسے سہارا دے کر اٹھایا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول  کر  اسے اندر بٹھایا ۔ اس نے دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا اور ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل پکڑ کر اسکا ڈھکن کھول کر حریم کو پکڑا دی ۔ وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ مستقیم کو مزید ٹینشن ہونے لگی شاید اس لڑکی کو زیادہ چوٹ لگ گئی ہو۔  یہ سوچ کر اس نے حریم کو مخاطب کیا ۔ 

"ایکسکیوز می مس! آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟ پلیز آپ رونا بند کریں اور مجھے بتائیں کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو." وہ بہت نرمی سے حریم سے پوچھ رہا تھا۔

"یہاں!" حریم نے کہنی سے کپڑا ہٹا کر زخم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ اسے واقعی زیادہ چوٹ آئ تھی۔ کہنی سے جلد پھٹ چکی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ مستقیم نے جلدی سے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا اور اسکے زخم پر رکھ کر ہاتھ پیچھے کر لیا۔

"آپ زخم پر رومال دبا کر رکھیں تا کہ زیادہ بلیڈنگ نہ ہو ہم ابھی کسی کلینک سے پٹی کروا لیتے ہیں۔" مستقیم نے اسکی سائیڈ کا دروازہ بند کر دیا اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس کو منع کرنا چاہتی تھی پر نہ جانے کیوں ایسا نہ کر پائی اور سیٹ کے ساتھ سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔

🖤🖤🖤🖤

رات کے تیسرے پہر جہاں ساری خلقت میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی وہاں ہی ایک وجود ایسا بھی تھا جو کسی محبوب ہستی کی یاد میں غافل تھا۔بلیک ہڈی اور بلیک ہی پینٹ پہنے وہ اس اندھیرے کا ہی ایک حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے عنابی ہونٹوں پر اس وقت دلکش مسکراہٹ تھی۔

تمہیں سوچ کر جو آتی ہے

وہ مسکراہٹ کمال کی ہوتی ہے

اس کے خیالوں پر اس وقت ایک پری پیکر کا بسیرا تھا۔ اسکی یاد ہی باعث سکون تھی۔ وہ اس سے میلوں دور تھی پر ایسا محسوس ہو رہا تھا اسے جیسے وہ یہیں کہیں آس پاس ہی ہو۔ کتنی عجیب بات تھی نا ایک پتھر دل انسان کے اسی پتھر دل کو ایک نازک اور چھوٹی سی لڑکی اپنے بس میں کر چکی تھی۔

عشق عین، عشق شین، عشق قاف کرتا ہے

یہ لاحق جسے ہو جائے اسے برباد کرتا ہے

 ابھی وہ اسی پری پیکر کے خیالات میں گم تھا تھا جب اسکی گھڑی سے مخصوص  الارم کی آواز سنائی دی۔ اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف چل دیا۔

🖤🖤🖤🖤

دعا اور امايا کی ان دو دنوں میں ہی بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی۔ ان کا بیچ بھی سیم تھا اس لئے دونوں  سارا دن ساتھ ہی ہوتی تھیں کالج میں۔ ابھی بھی وہ دونوں کینٹین سے آئ تھیں۔ یہ انکی فزکس کی کلاس تھی۔ دعا شروع سے ہی پڑھائی میں بہت شارپ سٹوڈنٹ تھی پر فزکس اسے تھوڑی سی مشکل لگتی تھی۔اسی لئے وہ پورے  لیکچر میں اپنا سارا فوکس صرف بک پر ہی رکھتی تھی۔ اس کے لئے پلس پوائنٹ یہ تھا کہ سر فاتح بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ پر ان کے چہرے پر سرد مہری دیکھ کر اسے بہت ڈر لگتا تھا ان سے۔ وہ ایک سخت ٹیچر تھے۔ ابھی بھی وہ اپنی نوٹ بک پر ایک نمیریکل حل کرنے میں  مشغول تھی جب فاتح نے اسے پکارا۔"رول نمبر ٹین اسٹینڈ اپ!" فاتح نے دعا کو مخاطب کیا پر وہ ابھی بھی اپنے نمیریکل میں ہی الجھی ہوئی تھی۔ ساری کلاس اسکی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ امايا نے اسے بازو سے پکڑ کر ہلایا اور اسکی توجہ سر کی طرف دلوائی۔ وہ ہربڑا گئی۔

"رول نمبر ٹین آج سے آپ اس کلاس کی سی-آر ہیں۔ سٹوڈنٹس کی اسائنمنٹس جمع کر کے میرے آفس میں پہنچا دیں آپ۔"

"سر میں؟" وہ بوکھلا گئی۔بھلا وہ کیسے اتنی بڑی ذمہ داری لے سکتی تھی۔

"جی آپ! آئ تھنک رول نمبر ٹین آپ ہی ہیں۔"

"جج۔۔۔جی سر اوکے سر!" بول کر وہ جلدی سے سر جھکا گئی۔ جب کہ اسکی ایسی حالت پر کلاس میں سب سٹوڈنٹس کی ہنسی چھوٹ گئی جسکو بریک فاتح سر کی ایک سرد نگاہ نے ہی لگائی تھی۔ لیکچر ختم ہوا تو دعا نے کلاس سے اسائنمنٹس جمع کیں اور مرے مرے قدموں سے فاتح سر کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔

🖤🖤🖤🖤

اسکا موبائل مسلسل بج رہا تھا ۔کال اس کے پرسنل نمبر پر آ رہی تھی نہ جانے کون ڈھیٹ تھا جو مسلسل کال کری جا رہا تھا فون مسلسل بج بج کر اب بند ہو چکا تھا وہ ابھی شاور لے کر باہر آیا تھا اور اب شیشے کے سامنے کھڑا تولیے سے اپنے بال خشک کر رہا تھا اسنے کالا ٹراؤزر اور کالی ہی بنیان پہنی ہوئی تھی ابھی وہ بال خشک کر کے ہیئر برش اٹھا رہا تھا جب فون ایک دفع پھر بجا۔اسنے دور سے ہی ایک اکتایٔ ہوئی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل پر ڈالی اور اسکی طرف بڑھ گیا۔اس نے موبائل اٹھایا تو سامنے ہی اسکے والد محترم کی کال آ رہی تھی اسکے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ چھا گئی وہ کال اٹھانا نہیں چاہتا تھا پر نہ جانے کس جذبے کے تحت اس نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگا لیا پر آگے سے سے اسے جو آواز سننے کو ملی تھی سن کے اسکا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔

"السلام علیکم فاتح بیٹا کیسے ہیں آپ پلیز کال بند نہ کریے گا میری پوری بات سن لیں پہلے" فائقہ بیگم کی نم آواز سن کر وہ اپنے لب بھینچ گیا۔

"جی بولیں کیا بات کرنی ہے آپکو جلدی بولیں میرے پاس وقت نہیں ہے۔" 

"فاتح اپ کے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے وہ آپکو بہت یاد کرتے ہیں پلیز ایک دفع آ کر ان سے مل لیں آپ" وہ التجائیہ لہجے میں بولیں۔

"میں ابھی بزی ہوں فون رکھتا ہوں اللّه حافظ" وہ اپنی بات کہہ کر انکی کوئی بات سنے بغیر کال کاٹ گیا۔ 

وہ اپنے باپ سے نفرت کا دعوے دار تھا پر اسکا دل اپنے باپ کی بیماری کا سن کر بے چین ہو اٹھا تھا لوگوں کی نظر میں ایک کامیاب اور ہینڈسم بزنس مین تھا پر اصل میں اتنا بدنصیب تھا کہ ماں کی محبت کے بعد باپ کی محبت سے بھی محروم تھا۔ اس نے سر جھٹک کر ساری سوچوں کو پیچھے پھینکا ا ور ڈریسنگ  روم میں گھس گیا۔

                🖤🖤🖤🖤🖤

وہ اسے ایک پرائیویٹ کلینک لے آیا تھا اور اسکی پٹی بھی کروا چکا تھا۔ اس نے کلینک سے فری ہو کر اسے پھر سے گاڑی میں  بٹھایا۔ وہ ڈاکٹر سے پٹی کروانے کے دوران اسکا نام جان چکا  تھا۔

"مس حریم آپ ایڈریس بتایں مجھے اپنے گھر کا میں آپکو ڈراپ کر دوں۔ آئ ایم سوری میری وجہ سے آپکا اتنا وقت ضائع ہو گیا۔ "

اسکا یہ کہنا ہی تھا کہ حریم کو یاد آیا کہ وہ تو جاب کے انٹرویو کے لئے نکلی تھی گھر سے اور پھر مستقیم کی گاڑی سے ٹکرا گئ۔ یہ یاد آتے ہی وہ پھر سے رونا شروع ہو گئی۔ مستقیم تو اسے روتے دیکھ کر بوکھلا گیا اسے یہی لگا لگا کہ وہ درد کی وجہ سے رو رہی ہے پر وہ تو اپنی آخری امید کے ٹوٹنے پر رو رہی تھی ۔

"کیا ہوا مس حریم زیادہ درد ہو رہا ہے آپکو کیا ؟" وہ بہت نرمی سے آنکھوں میں پریشانی لئے حریم سے استفسار کر رہا تھا ۔ اسکی نرمی پر حریم  کا دل اور بھی بھر آیا ۔

"نہیں میں۔۔۔ اب درد کی وجہ سے ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔رو رہی ۔۔ بلکہ کسی اور وجہ سے۔۔۔۔ رو رہی ہوں"  وہ اب باقاعدہ سسکیاں لیتے ہوئے اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔  اسکی سرخ ناک اور آنکھیں دیکھ کر مستقیم کا دل پھر سے  ڈولنے لگا۔ کوئی روتے ہوئے اس قدر خوبصورت کس طرح لگ سکتا تھا!

 "تو بتائیں پھر کیوں رو رہی ہیں آپ؟"

"آج مجھے ایک انٹرویو کے لئے جانا تھا ایک کمپنی میں پر ایکسیڈنٹ ہو گیا پھر اور اب تو بہت وقت گزر چکا ہے. یہ میری آخری امید تھی وہ بھی ختم ہو گئی اب میں کیا کروں گی ؟" وہ مستقیم کو اپنا مسلہ بتا کر پھر سے رونا جاری کر چکی تھی۔

"اوہ تو اس وجہ سے رو رہی ہیں آپ یہ تو بہت چھوٹا سا اشو تھا جو کہ آپ سمجھیں حل بھی ہو گیا ایکچولی میری کمپنی کو بھی کیضرورت ہے آپ میری کمپنی جوائن کر سکتی ہیں." وہ چٹکی بجاتے اسکا مسلہ دور کر چکا تھا. 

"نہیں بلکل بھی نہیں مجھے جاب اپنی کابلیت کے بل بوتے پر چاہیے آپ کی ہمدردی کے باعث نہیں"  وہ قطعیت بھرے لہجے میں بولی تھی ۔

"ارے میں کونسا آپکو ایسے ہی جاب دے دوں گا پہلے آپکا انٹرویو ہوگا پھر ہی اپکی سلیکشن ہوگی." وہ اسکی سوچ پڑھ کے اسکے مطابق بولا کیوں کہ وہ جان چکا تھا ک وہ اسکا احسان نہیں لے گی ۔

"اوکے ٹھیک ہے .'وہ اب کے نیم رضا مند ہوتے ہوئے بولی تھی .

"چلیں اپنا ایڈریس بتائیں آپ .میں آپکو اپکے گھر ڈراپ کر دوں .دو دن ریسٹ کر کے پرسوں آپ اس ایڈریس پر آجائیے گا انٹرویو کے لئے .'وہ اپنا کارڈ اسے دیتا ہوا بولا. 

"آپ پلیز یہاں سائیڈ پر ہی اتار دیں مجھے میں خود چلی جاؤں گی  تھنکس آپ نے میری اتنی ہیلپ کی اب میں خود ہی چلی جاؤں گی."  وہ جھجک کر بولی. 

"نہیں اپ اس طرح نہیں خود جا پائیں گی آپ مجھے اپنا ایڈریس بتائیں مجھے اب مزید کوئی بحث نہیں۔" اسنے حریم کو دیکھتے ہوئے قطعیت سے کہا تو وہ ناچار اسے اپنا ایڈریس بتا گئی کیوں کے وہ اسکی بہت مدد کر چکا تھا۔ مستقیم نے ایک نظر اسکے جھکے ہوئے چہرے پر ڈال کر گاڑی آگے بڑھا دی          

                     🖤🖤🖤🖤🖤 

وہ آج بہت تھک چکی تھیں۔ اپنی اسائنمنٹس وہ دونوں جمع کروا کر کلاس سے باہر آ گئیں۔ انکا اگلا لیکچر ایک گھنٹے بعد تھا اس لئے وہ دونوں ریفریش ہونے کے لئے باہر آ گئیں۔ 

چلو یار کینٹین سے کچھ لے کر آتے ہیں۔  آج تو میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئ تھی ٹیسٹ کے چکر میں۔"  امايا دعا سے کہتی ہوئی اسکے ساتھ کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی . 

"ہاں چلو پر کینٹین میں نہیں بیٹھیں گے بلکہ گراؤنڈ میں بیٹھیں گے کتنی پیاری ہوا چل رہی ہے نا!"  دعا اپنی آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہوا اپنے اندر کھینچتی ہوئی بولی. 

وہ دونوں کینٹین سے برگر اور کولڈ ڈرنک لے کر گراؤنڈ میں بیٹھ گئیں. وہ دونوں بیٹھی ابھی باتوں میں مصروف تھیں جب انکا کلاس فیلو کمیل انکے پاس آ کر بیٹھ گیا .

"ہیلو دعا اینڈ امايا کیسی ہیں آپ دونوں؟ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟"  وہ مسکراتا ہوا دونوں سے اجازت مانگ رہا تھ۔ا پر اسکا سارا  دیہان دعا کے چہرے کی طرف ہی تھا۔

"مسٹر کمیل آپ آل ریڈ ی  ہی بیٹھ چکے ہیں ."

امايا اسے چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولی .

وہ کافی دن سے مسلسل کمیل کی نظریں دعا پر محسوس کر رہی تھی.  اسے یہ لڑکا شروع سے ہی نہیں پسند تھا جو عجیب نظروں سے دعا کو گھورتا رہتا تھا .

اسکے جواب پر وہ ڈھیٹ پن سے دانت نکالنے لگا .

"دعا مجھے آپ کی اسائنمنٹ مل سکتی ہے کیا ایکچولی آپ کی اسائنمنٹس بیسٹ ہوتی ہیں تو اگر اپ مجھے ۔۔۔۔۔"وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگا .

"رول نمبر 10 کم ہیئر " اس سے پہلے کہ وہ کمیل کی بات کا جواب دیتی ایک بھاری گھمبیر آواز میں اپنے نام کی پکار سنائی دی اسے .

اس نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو تھوڑی ہی دور سر فاتح اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ سامنے ہی ایستادہ تھے۔  

"رول نمبر 10 آئ ایم کالنگ یو " اس نے دوبارہ آواز دی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی. گود میں پڑا ہوا برگر نیچے گر پڑا .وہ دوپٹے سے الجھتی گرتی پڑتی جلدی سے فاتح کی طرف بڑھی.

"جج ۔۔۔جی سر آپ نے بلایا ."

"میرے آفس میں آئیں آپ  فورا " وہ سنجیدگی سے کہ کر اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا ۔

وہ پہلے تو ہونق بن کی کھڑی رہی پھر یاد آنے پر تیزی سے فاتح سر کے آفس کی طرف بڑھی.

                                       🖤🖤🖤🖤🖤

وہ آج دو دن آرام کرنے کے بعد مستقیم کے دیے گئے ایڈریس پر آئ تھی۔ گلابی رنگ کا لباس پہنے جو کے بار بار دھونے سے اپنی اصلی رنگت  کھو چکا تھا لیکن اسکی شادابی رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔ سوٹ کے ساتھ کا ہی گلابی دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا اور کندھوں کے گرد سفید رنگ کی چادر  پھیلا رکھی تھی۔ لیکن جس چہرے پر مہینوں سے مایوسی طاری تھی آج اس چہرے پر خوشی رکساں تھی۔ وہ آج اپنی ماں کی دعاوں کے حصار میں گھر سے نکلی تھی۔ وہ یہ سوچ کر اندر سے ڈری بھی ہوئی تھی کہ اگر اسکا انٹرویو اچھا نہ ہوا اور اس شخص نے اسے جاب نہ دی تو پھر کیا کرے گی لیکن پھر اس مایوسی پر امید حاوی ہو جاتی تھی کہ اللّه نے اگر کسی کو اسکے لئے وسیلہ بنا کر اسے امید کی کرن دکھائی تھی تو وہ اسکے یقین کو بھی برقرار رکھے گا۔ اسکا حوصلہ پست نہیں کرے گا۔ بیشک وہی تو ہے جو مایوسی کے اندھیرے سے نکال کر اپنے بندے کو امید کی روشنی سے روشناس کرواتا ہے۔ وہ جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اپنے بندے سے وہ کیسے اپنے پیارے بندے کی دعا رد کر سکتا ہے جب اسکا بندا پورے دل اور ایمان کے ساتھ اسے پکارے۔ جب ماں کے دل سے دعا نکلے تو وہ عرش تک جاتی ہے اور عرش والا کس طرح ایک ماں کی دعا رد کر سکتا ہے۔ وہ تو اپنے کسی گنہگار بندے کی بھی دعا رد نہیں کرتا۔ وہ تو کہتا ہے کہ میرے بندو مجھ سے مانگو میں تمهين عطاء کروں گا۔ وہ بھی اپنی ماں کی دعاوں اور اللّه پہ یقین رکھ کر آئ تھی۔ اسنے ریسیپشن پر جا کر مستقیم کا پوچھا تو اسنے بتایا کہ مستقیم ابھی تک نہیں آیا اسکو انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ اسکے انتظار میں ویٹنگ  ایریا میں بیٹھ گئی۔ اسکو انتظار کرتے ہوئے بیس منٹ گزر چکے تھے جب اسے کوریڈور سے مستقیم آتا ہوا  دکھائی دیا۔نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے،سرخ ٹائی لگاے ، دائیں ہاتھ میں قیمتی گھڑی پہنے ، چہرے پر ۔سنجیدگی طاری کئے وہ اسی جانب آتا دکھائی دیا  

وه اتنا دلکش لگ رہا تھا کہ حریم نے بے ساختہ ہی اس سے اپنی نظریں چرا ئیں ۔ وہ اسکے پاس سے گزر کر جانے لگا جب اسکی نظر حریم پر پڑی۔

"مس حریم آپ کب آئیں؟ مس  زارا آپ انہیں میرے آفس میں بٹھا دیتیں۔" وہ پہلے حریم سے اور پھر ریسیپشن پر موجود اپنی ورکر سے بولا۔

"چلیں میرے آفس میں آئیں آپ۔" وہ اسے ساتھ لئے اپنے آفس میں داخل ہوا۔

"آپ بیٹھیں پلیز !" وہ اسے کرسی کی طرف اشارہ کرتا اپنی مخصوص کرسی کی طرف بڑھ گیا۔

وہ گلابی لباس میں شفاف چہرے کے ساتھ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ کو اسکے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل لگ رہا تھا۔ نظریں بھٹک بھٹک کر اسکے شفاف چہرے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔

"اب کیسی طبیعت ہے اپکی اور اپکا زخم کیسا ہے اب۔" وہ حریم سے مخاطب تھا۔ 

"جی سر الحمداللہ ٹھیک ہوں میں اب اور یہ لیں میرے ڈاکومینٹس۔" اسنے مستقیم کے سوال کا جواب دے کر اپنے ڈاکومینٹس والی فائل اسکی جانب بڑھائی جبکہ اسکی نظریں ہنوز  جھکی ہوئی تھیں۔

مستقیم نے اسکی فائل پکڑ کر ریڈ کرنا شروع کر دی۔ وہ گریجویشن کے آخری سال میں تھی۔ اسکی تعلیم واقعی ناكافی تھی۔ 

"مس حریم آپکی  جی- پی- اے  تو اچھی ہے پر ابھی اپکی ڈگری مکمل نہیں ہے۔ آپکو جاب کیوں کرنی ہے ڈگری مکمل کرنے سے پہلے ہی؟"

"کیوں کہ مجھے جاب کی بہت ضرورت ہے ۔ میرے والد حیات نہیں ہیں اور والدہ بہت بیمار ہیں۔ گھر کو چلانے کے لئے مجھے جاب کی ضرورت ہے اور رہی بات تعلیم کی تو میں پہلے بھی پرائیویٹ پڑھ رہی تھی اب بھی ساتھ پڑھ لوں گی۔" وہ بہت دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔

"اوکے مس حریم مجھے سیکرٹری کی ضرورت ہے میں آپکو اس پوسٹ کے لئے اپائنٹ کر رہا ہوں۔تین مہینے اپکی پرفارمنس دیکھ کر پھر اپکی تنخواہ بھی بڑھا دی جاۓ گی۔ آپ  باہر رے سے اپنا جوائننگ لیٹر ریسیو کر لیں۔" وہ اسے پھر تنخواہ اور جاب کے متعلق ضروری باتیں بتانے لگا۔ حریم بہت خوش تھی۔ اسکو اسکی امید سے کہیں بڑھ کر تنخواہ مل رہی تھی۔ تشکر کے آنسو اسکی آنکھوں میں چمکنے لگے۔وہ علودائیہ کلمات  کہہ کر اسکے آفس سے نکل آئ۔ اسکے جانے کے بعد مستقیم آخری لمحات میں اسکے چہرے کی خوشی یاد کرتا مسکرا دیا۔

🖤🖤🖤🖤

"مے آئ کم ان سر؟" وہ آل تو جلال تو کا ورد کرتی اسکے آفس کے سامنے کھڑی اجازت مانگ رہی تھی۔ نہ جانے کیوں پر دعا کو فاتح ابراھیم خان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسکے چہرے پے چھائی  سنجیدگی اور گہری نظریں دعا کا ننھا سا معصوم دل سکیڑے  رکھتی تھیں۔وہ ایک نظر فاتح پر ڈال کر جلدی سے اپنی نگاہیں جھکا گئی۔

"یس کم ان۔" وہ بک شیلف کے سامنے کھڑا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جب اسکی آواز پہ پلٹا۔ اسے اجازت دے کر وہ بک شیلف کے پاس سے ہٹ کر اپنی کرسی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی نظریں  دعا کے صبیح چہرے پرگاڑھ  دیں۔ وہ معصومیت سے نظریں جھکاے کھڑی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ وہ جو کھڑا تفصیل سے اسکا جائزہ لے رہا تھا اسے یوں کنفیوژ دیکھ کر گہرا مسکرایا۔

"رول نمبر ٹین! آپ یہاں پڑھنے آتی ہیں نہ کہ دوسرے  فیلوز کے ساتھ گپیں  هانكنے ۔ تو بہتر ہے کہ جس مقصد کے لئے آتی ہیں اس پے ہی دھیان دیں۔ ڈو یو گوٹ اٹ؟" کمیل کا اسکے پاس بیٹھنا اسے بہت غصہ دلا گیا تھا اور جن نظروں سے وہ دعا کو دیکھ رہا تھا وہ فاتح کا خون کھولا گئی تھیں۔پر وہ کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا۔

"يي ۔۔۔یس  سر ۔" وہ جو پہلے ہی اس سے خوفزدہ رہتی تھی اب اسکے سرد لہجے میں دی گئی وارننگ سے سخت حواس باختہ ہو گئی  اور جواب دے کر بغیر اسکا ایک لفظ بھی مزید سنے ہوا کے جھونکے کی طرح وہاں سے غائب ہو گئی۔ اس کی ایسی حواس باختگی  پر وہ بے ساختہ قہقہہ  لگا اٹھا۔

🖤🖤🖤🖤🖤

وہ دونوں آج کافی دنوں کے بعد فاتح کے فلیٹ پر مل رہے تھے ۔ وہ دونوں ابھی فاتح کے ہاتھ کی بنی کافی پی کر لاؤنج میں بیٹھے تھے۔فاتح کے چہرے پر پھیلا سکون اور ہلکی سی مسکراہٹ  مستقیم کی زبان کو سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔

"کیا بات ہے لالے  بہت خوش لگ رہا ہے۔ تیرے اس منحوس چہرے پر پھیلی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ خیر تو ہے نا۔ کہیں محبت وهبت تو نہیں کر بیٹھے۔۔۔۔ہاں ؟" 

وہ اسے کھوجتی  ہوئی نظروں سے دیکھتا ہوا شرارت سے پوچھ رہا تھا۔

"ہاں ایسا ہی سمجھ  لو" وہ لبوں پر دھیمی  مسکراہٹ سجائے  بولا۔ آنکھوں میں چھن سے اس پری پیکر کا دلربا سراپا  ابھرا تھا۔لبوں پر چھائی دھیمی مسکراہٹ اب گہری مسکان میں ڈھل چکی تھی۔

"کیا سچ میں ؟" مستقیم آنکھوں میں بے یقینی لئے پوچھ رہا تھا۔

اس نے تو بس مذاق  میں بات کی تھی پر وہ نہیں جانتا تھا کے وہ اس قدر سیریس ہے۔

"تو پھر تم نے اسے بتا دیا جس سے تم محبت کرتے ہو آئ مین بھابی کو؟" مستقیم  اب آنکھیں میں شرارت کے ساتھ اشتیاق لئے فاتح سے پوچھ رہا تھا۔ 

"پر کیوں ؟" 

"کیا مطلب کیوں تم اپنی محبت حاصل نہیں کرو گے کیا؟" وہ حیرت سے اپنے دوست کا پاگل پن دیکھ رہا تھا۔

"تم سے کس نے کہا کہ میں اپنی محبت حاصل کرنا چاہتا ہوں؟ تمہیں کس نے کہا کہ میں  نے محبت کسی منزل کی چاہ میں کی ہے۔ میں نے تو محبت بس اس سکون کے لئے کی ہے جو مجھے اسے دیکھ کر ملتا ہے۔ اس ٹھنڈک  کے لئے جو اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں اترتی ہے۔ اس اطمینان کے لئے جو اسکی موجودگی کی وجہ سے میری روح میں سرائیت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں نے محبت کا کھیل کھیلا ہے جس میں ہار جیت سے پرے ہو کر اسے چاہتا رہوں گا بس۔اس سے محبت میرا سکوں ہے  بلکہ وہ خود میرے لئے سراپا سکون ہے! ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ وہ دعا حیدر فاتح ابراھیم خان کا سکون ہے۔" وہ آنکھیں بند کیے لبوں پر مسکان سجا ے ایک جذب سے اپنے جگری یار کے سامنے اپنی محبت کا با ضابطہ اعلان کر رہا تھا۔

اور مستقیم بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی ابھی جو کچھ بھی اسکے کانوں نے سنا وہ فاتح نے ہی کہا ہے یا پھر وہ جاگتی آنکھوں سے ہی خواب دیکھ رہا ہے ۔

🖤🖤🖤🖤🖤

وہ آنکھیں بند کیے نیند کی وادی میں گم تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کا نائٹ سوٹ پہنے جسکی شرٹ پر فروزن کی پرنسیس ایلسا بنی ہوئی تھی، وہ چہرے پر معصومیت  سجائے ، سینے تک کمفرٹر  اوڑھے پرسکون ہو کر سو رہی تھی۔ نیلی کانچ سی آنکھوں پر لامبی  پلکوں کی جھالڑ سایہ فگن  تھی۔ سیاہ کالے بالوں کی پونی  کی گئی تھی جس سے نکلی کچھ لٹیں  گالوں سے ٹکرا کر ایک سہانا منظر پیش کر رہی تھیں۔ چہرے کی گلابی رنگت میں اس وقت زردیاں  گھلی ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے تین دن سے بخار میں مبتلا تھی جس کے باعث وہ کالج بھی نہیں جا رہی تھی۔ بلیک جینز اور بلیک ہے ہوڈی  میں ملبوس ایک شخص کھڑکی کے ذریعے  اسکے کمرے میں داخل ہو کر اسکے سرہانے آ بیٹھا تھا اور اب اسکا تفصیلی جائزہ لینے میں مصروف تھا۔ اسکے حسین چہرے کو دیکھ کر اسکا دل بے اختیار ہوا تھا۔ وہ بے اختیار جھکا اور اسکے ماتھے کو ہونٹوں سے چھو لیا۔ ایک سکون رگ و پے میں  سرایت کرتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ 

کچھ محسوس کرتے دعا نے آنکھیں کھولیں تو سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اسکے سونے سے پہلے۔ اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں موند لیں اور پھر سے نیند کی وادی میں گم ہو گئی۔

"میری معصوم شہزادی!" پردے کے پاس کھڑا وجود اسے پیار بھرا  نام دے کر اسی طرح غائب ہو گیا وہاں سے جس طرح آیا تھا۔

🖤🖤🖤🖤🖤

آج امايا نہیں آئ تھی دعا کافی دیر اسکا انتظار کرتی رہی کہ شاید لیٹ ہو وہ آج پر وہ نہیں آئ تھی اور دعا کا موبائل بھی آج گھر ہی رہ گیا تھا۔ صبح جلدی جلدی میں وہ اپنا موبائل چارجنگ پہ ہی لگا چھوڑ آئ تھی اور کالج آ کر یاد آیا تھا اسے۔ آج کا دن بہت بورنگ گزرا تھا اسکا کیوں کہ امايا بھی نہیں تھی آئ اور فاتح سر سمیت  دو اور ٹیچرز بھی غیر حاضر تھے۔ چھٹی ہوئی تو وہ  اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل آئ اور گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر آٹو کا انتظار کرنے لگی۔ اسنے پیسے نکالنے کے لئے بیگ کھولا تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیوں کہ بیگ میں والٹ  موجود نہیں تھا۔ اس نے پریشانی سے سارا بیگ کھنگال لیا پر والٹ  کا نام و نشاں بھی نہیں تھا۔ پریشانی سے اسکی آنکھوں میں آنسو آ گے۔ اب وہ کیا کرے گی۔ امايا بھی نہیں تھی جو ہیلپ کر دیتی اور اسکی کوئی اور دوست بھی نہیں تھی۔ کالج آہستہ آہستہ خالی ہو رہا تھا۔ اس نے بیگ بند کیا اور کالج کے اندر آ کر گراؤنڈ میں بیٹھ گئی۔ وہ روتی ہوئی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے ۔ وہ اپنی اسی پریشانی میں گم تھی جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسکے نزدیک آ کر کھڑا ہوا ہے۔ اسنے سر اٹھا کر دیکھا تو کمیل اپنے دو دوستوں کے ساتھ اسکے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

"واٹ ہیپنڈ دعا اپ اس طرح اکیلی یہاں کیوں بیٹھی ہیں اور رو کیوں رہی ہیں؟" کمیل کے پوچھنے  پر اسکے آنسوؤں میں تیزی آ گئی ۔

آج فاتح کی ایک ضروری میٹنگ تھی جس کی وجہ سے وہ جلدی کالج نہیں آ پایا تھا اور اسی وجہ سے دعا کی کلاس کا لیکچر بھی اٹینڈ نہیں کر پایا تھا۔ وہ انکل سے ایک بات کر کے ابھی ایڈمن سے نکلا تھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسکی نظر دعا پر پڑی جو رونے میں مصروف تھی اور تین لڑکے اسکے پاس کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر اسکے قدموں میں رفتار آ گئی اور وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں اور رول نمبر ٹین کیا ہوا ہے اپ کیوں اس طرح رو رہیں ہیں؟" اس نے بمشکل خود پہ قابو پاتے ہوئے پوچھا۔

"پتا نہیں سر یہ کیوں رو رہیں ہیں ابھی ہم یہاں سے گزر رہے تھے ان پر نظر پڑی تو ہم یہاں آگنے ہم ان سے پوچھ بھی رہے ہیں پر یہ کچھ بتا نہیں رہیں اور روئی جا رہیں ہیں بس۔" کمیل کا دوست فاتح کو بتانے لگا جب کہ کمیل کی نظریں دعا کے سراپے پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ سفید یونیفارم پسینے سے بھیگ کر جسم سے چپک چکا تھا۔ چادر بے ترتیبی سے ایک کندھے پر پڑی ہوئی تھی۔ اپنی پریشانی اور رونے میں وہ اپنا حلیہ  فراموش کر چکی تھی۔ کمیل کی نظریں دعا کے سراپے پر ٹکی دیکھ کر فاتح کا پارا  ایک دم ہائی ہوا تھا۔

"نکلیں آپ تینوں یہاں سے میں خود پوچھ لیتا ہوں جو بھی مسئلہ ہے انھیں۔" خود پہ ضبط کرتے ہوئے فاتح نے ان تینوں کو وہاں سے بھگایا اور ان کے منظر سے غائب ہونے کے بعد اپنا رخ دعا کی جانب کیا۔

"کیا مسئلہ ہے کیوں رو رہی ہیں اور چھٹی کے بعد اب تک اکیلی بیٹھی کیا کر رہی ہیں آپ۔ کچھ خیال نہیں ہے اپنی عزت کا کیا؟ آپ نہیں جانتی اکیلی لڑکی کے ساتھ آئے دن کیسے واقعات ہوتے ہیں۔ اب چپ کیوں ہیں میرے سوال کا جواب دیں" وہ نہایت غصے سے اسکا بازو دبوچے اس سے استفسار کر کر رہا تھا۔ 

اسکے اتنے غصے سے پوچھنے پر وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"پلیز کچھ تو بتائیں مجھے کہ کیا ہوا ہے۔" اب کہ وہ تھوڑی نرمی سے بولا تھا۔

" وہ  مم۔۔۔میرے ۔۔۔پیسے ۔۔۔کس ۔۔کسی ۔۔نے ۔۔چوری کر ۔۔۔لئے ۔" وہ ہچکیوں سے روتی ہوئی اسے بتا رہی تھی۔

"واٹ ؟ آپ پیسے چوری ہو جانے پر رو رہی ہیں۔آر یو سیریئس؟" اس کی بات سن کر فاتح کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔ کیا وہ صرف پیسے چوری ہو جانے  پر اس وقت یہاں اکیلی کھڑی اس طرح رو رہی تھی۔

" نن ۔۔۔نہیں ۔۔۔مم ۔۔میں ۔۔پیسوں  کی وجہ ۔۔۔سے نن ۔۔نہیں  رو رہی ۔۔۔بلکہ ۔۔اس وجہ  سے  رر ۔۔رو رہی تھی ۔۔کیوں کہ میں ۔۔۔اب گھر کیسے ۔۔۔جج ۔۔جاؤں گی۔ میں آٹو پہ ۔۔جاتی ہوں نا ۔۔اس ۔۔۔اس  لئے۔" 

اسکی بات پر فاتح کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔

"موبائل کہاں ہے اپکا؟ گھر میں کسی کو کال نہیں کر سکتی تھیں کیا آپ ؟"

وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"آج گھر بھول آئ میں۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔ اس سب کے دوران اس کی چادر اتر کر نیچے گر چکی تھی۔ فاتح نے اسکے حسین کمسن سراپے سے نظریں چرائیں  اور جھک کر اسکی چادر اٹھاکر اس کی طرف بڑھائی۔

"کور کریں خود کو اورمیرے پیچھے آئیں جلدی کوئی سوال کیے بغیر۔"

اس نے جلدی سے چادر اوڑهی اور اسکے پیچھے چل دی۔ فاتح نے اسکے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ چپ چاپ اندر بیٹھ گئی کیوں کہ اس وقت وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔ فاتح نے اسکے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کیا اور گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آ گیا۔ایک نظر اسکے جھکے ہوئے چہرے پر ڈال کر ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھا کر دعا کی طرف بڑھائی ۔ اسے سچ میں اس وقت بہت پیاس لگی تھی اس لئے چپ چاپ وہ بوتل تھام گئی۔ فاتح نے اسے پانی پیتا دیکھ گاڑی آگے بڑھا دی۔

🖤🖤🖤🖤🖤

اسے مستقیم کے آفس میں کام کرتے 2 مہینے ہو گنے تھے۔ وہ اپنی جاب سے بہت خوش تھی اسکی تنخواہ سے گھر کے اخراجات بھی بہت اچھے سے پورے ہو جاتے تھے، امی کی دوائیں بھی آ جاتی تھیں۔ ابھی وہ اپنے کیبن میں بیٹھی ایک فائل تیار کر رہی تھی جب انٹرکام بجا۔ مستقیم اسے اپنے آفس میں بلا رہا تھا۔ وہ پچھلے تین دن سے آفس نہیں آ رہا تھا اور آج آتے ہی سب سے پہلے اسکا بلاوا آ گیا تھا۔ 

اس نے دوپٹہ سر پر سہی سے جمايا اور اپنے کیبن سے نکل کر مستقیم کے آفس کی جانب بڑھ گئی۔

"مے آئ کم ان سر؟" حریم نے دروازہ نوک کرنے کے ساتھ اجازت طلب کی ۔

"یس کم ان مس حریم۔" اتنے دن بعد اسکی آواز سن کر اور اسے روبرو پا کر اسکی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑا تھا۔ اجازت ملنے پر وہ اندر آئ اور نظریں جھکا کر سامنے پڑی کرسی کے پاس کھڑی ہو گئی۔

"بیٹھیں مس حریم آپ پلیز!"

مستقیم نے اپنی نظریں اس کے چہرے پے جما دیں۔ ہلکے پیلے رنگ کا کرتا اور سفید شلوار کے ساتھ سفید ہی دوپٹہ سر پر اوڑھے  وہ مستقیم کو ایک کھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔

حریم نے جب اسے مسلسل چپ بیٹھے دیکھا تو اپنا سر اٹھا کر مستقیم کو مخاطب کیا۔

"سر آپ نے کسی کام کے لئے بلایا تھا مجھے؟"

اسکے بلانے پر وہ ہوش میں آیا۔

"جی میں نے آپ سے کچھ پوائنٹس ڈسکس کرنے تھے۔" اسکے بعد وہ اس سے بزنس کے متعلق باتیں  سمجھانے میں مصروف ہو گیا ۔ابھی وہ بات کر رہے تھے جب مستقیم کے پرسنل نمبر پر کال آنے لگی ۔ اس نے حریم سے ایکسکیوز کیا اور کال پک کر لی۔

"السلام علیکم! ! کیسی ہیں آپ ؟ ارے نہیں میری جان آپکو کیسے بھول سکتا ہوں میں ۔ ہاہاہاہا چلیں اپکی یہ شکایت بھی دور کر دیتا ہوں آج۔ میں بس تھوڑی دیر تک نکلتا ہوں آفس سے۔ لنچ اکٹھے ہی کریں گے ہم دونوں آج۔ اوکے اللّه حافظ ۔" 

اسکے منہ سے لفظ میری جان سن کر وہ گڑبڑا گئی۔وہ کال سے فارغ ہو کر اسکی طرف متوجہ ہوا جو پھر سے چہرہ جھکا چکی تھی۔

"مس حریم آپ میری میٹنگ کی ٹائمنگ فائنل کر کہ بتا دیجئے گا پھر۔"

"پر سر آپکو تو اپنی وائف کے پاس نہیں جانا؟" اسکے منہ سے بے ساختہ ہے پھسل گیا۔

"وائف ہاہاہا مس حریم میں آپکو میرڈ لگتا ہوں کیا؟ بائی دا وے میں اپنی دی جان سے بات کر رہا تھا۔" وہ شرارت سے مسکراتا حریم کی آگاہ کر رہا تھا۔

"اوہ اچھا! آئ ایم سوری  سر!" وہ شرمندہ ہو گئی پر نا جانے کیوں اسکی بات سن کر اسکے دل میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔وہ مستقیم سے اجازت لے کر جلدی سے اسکے آفس سے نکل گئی۔

اسکے جانے کے بعد وہ اسکی حالت یاد کر کے بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھا۔

🖤🖤🖤🖤🖤

وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور جلدی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔امی کے کمرے پہ نظر ڈالی تو وہ سو رہی تھیں۔ وہ دوسرے کمرے میں گئی دروازہ بند کیا اور چارپائی پر منہ کے بل گر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ باپ کا سایہ سر پر تھا تو کتنے عزت اور سکون کی زندگی تھی۔ جب سے باپ کا سایہ سر سے اٹھا تھا کتنی انسکیور  ہو گئی تھی وہ۔ جگہ جگہ پر بھوکے بھیڑیے  اکیلی جوان لڑکی کی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ کہاں تک حوصلہ بلند رکھتی۔ آج بھی بشیر نے اسکا راستہ روک لیا تھا کتنی مشکل سے بچ کے نکلی تھی وہ۔ کچھ بھی ہوتا کردار تو اسکا ہی مشکوک ہوتا نا۔ماں پہلے ہی بستر پر پڑی بیماری سے لڑ رہی تھی۔ وہ کیسے اپنی ماں کو کسی پریشانی میں ڈالتی۔ کتنی اکیلی ہو گئی تھی وہ۔ انسان بعض اوقات کتنا اکیلا رہ جاتا ہے ۔ کہنے اور سننے کو بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ ختم ہو جاتے ہیں دنیا میں پر کوئی سمجھنے والا نہیں ہوتا ۔خاموشی ،الجھن ،بیزاری ،اور مایوسی ذات کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ایسا وقت انسان کو بہت تھکا دیتا ہے وہ بھی تھک چکی تھی۔امی کے کھانسنے کی آواز سن کر اسنے اپنے آنسو پونچھے اور انکے پاس کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

حاصل زندگی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں 

یہ کیا نہیں ،وہ ہوا نہیں ،یہ ملا نہیں ،وہ رہا نہیں 

🖤🖤🖤🖤🖤

وہ فاتح سر کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اس دن کی مدد کے لئے پر وہ اس دن اسے کالج سے گھر کر باہر ڈراپ کرنے کے بعد ایسے غائب ہوا تھا کے اسکا کوئی سراغ ہی نہیں مل رہا تھا۔ اس دن وہ اتنی پریشانی میں تھی کہ اسے اندر آنے کا بھی نہ بول سکی ۔ گھر کے باہر جیسے ہی گاڑی رکی وہ بنا اسے دیکھے اندر کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی گاڑی وہاں سے بهگا لے آیا۔ اگلے دن کالج آ کر وہ فاتح سر کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی پر وہ نہ آیا۔ اسے ایک کلاس فیلو سے پتا چلا تھا کہ فاتح سر دو ہفتے کی لیو پر ہیں۔ وہ اس بات کو اگنور کر چکی تھی پر بار بار آج کل فاتح سر کا خیال دماغ میں آ رہا تھا۔ وہ خود سے بھی اس بات کا اعتراف نہیں کر رہی تھی کہ وہ انھیں مس کر رہی تھی۔

"دعا فاتح سر اپنے آفس میں تمہیں بلا رہے ہیں۔" 

وہ اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی جب ایک لڑکی نے آ کر پیغام دیا۔ وہ چونک گئی۔ فاتح سر 2 ہفتے بعد آئے تھے اور آج کلاس بھی اٹینڈ نہیں تھی کی پھر اسکو اپنے آفس کیوں بلا رہے تھے۔

"اوکے میں جاتی ہوں۔"

وہ اپنی چیزیں چیئر پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور سر کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔

سر کے آفس کے باہر کھڑے ہو کر اس نے ایک دفعہ پھر سے کندھے پر پڑا دوپٹہ سہی کیا اور پھر دروازہ نوک کیا۔

"یس ۔"

فاتح کی بھاری گھمبیر آواز آواز سن کر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔ 

وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ پیچھے دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔

فاتح نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو وہ ماہ جبین سفید یونیفارم زیب تن کیے کھڑی انگلیاں چٹخا  رہی تھی۔ کانچ سی نیلی آنکھوں پر اس وقت پلکوں کی جھالڑ گرائے چہرے پر ازلی بھولپن سجائے وہ اسکو پھر سے اپنا دیوانہ کر گئی تھی۔

ایسا نہیں تھا کہ فاتح ابراھیم نے حسن نہیں دیکھا تھا۔ اس نے بے پناہ حسین لڑکیاں دیکھی تھیں پر اسکا دل آج تک کسی کی طرف مائل نہیں ہوا تھا۔ 

فاتح ابراھیم خان کے دل پر چڑھے خول کو دعا حیدر نے چٹخآیا تھا۔ 

"آ۔۔آپ نے بلایا سر ؟"

اس نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھائیں اور اپنا سوال اسکے سامنے پیش کر کے جلدی سے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔

"جی آئیں پلیز بیٹھیں آپ۔" وہ اسے چیئر کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔

اسکے کہنے پر وہ قدم بڑھا کر آگے آئ اور کرسی پر ٹک  گئی۔

"آپکو میں نے کلاس کی سی- آر بنایا تھا اینڈ آئ ہوپ میری غیر موجودگی میں آپ نے سب سہی سے ہینڈل کر لیا ہوگا۔"

"جج ۔۔۔جی سر۔"

اسکے اس طرح گھبرانے اور گڑبڑانے پر وہ گھنی  مونچھوں تلے مسکراہٹ دبا دیا۔

ابھی وہ مزید کوئی بات کرتا کہ دروازہ پھر سے نوک ہوا تھا۔

فاتح نے بدمزہ ہو کر دروازے کی جانب دیکھ کر اجازت دی ۔

آنے والی امايا تھی۔

"دعا جلدی چلو تمھارے گھر سے کال آئ تھی تمھارے پاپا کی  طبیعت بہت خراب ہے ہمیں جلدی تمھارے گھر پہنچنا ہوگا۔" وہ چہرے پر پریشانی سجائے دعا کو بتا رہی تھی۔

اسکی بات سن کر دعا کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی اور باہر نکل گئی۔ امايا بھی اسکے پیچھے بھاگی۔

°°°°°°°°

وہ سرخ آنکھیں لئے کمپیوٹر کے اگے بیٹھی کام کر رہی تھی۔ ساری رات جاگنے اور رونے سے اسکی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں اور سر بھی بری طرح دکھ رہا تھا۔ اسے ایک فائل پر مستقیم سر سے سائن لینے تھے۔ 

اس نے فائل اٹھائی اور سر کے آفس کی جانب قدم بڑھائے۔ بے دھیانی  میں ہی اسکا ہاتھ لگا اور دروازہ کھلتا چلا گیا۔ سامنے صوفے پر لال بالوں والی ایک ماڈرن سی لڑکی مستقیم کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ اسکے نوک کیے بغیر اندر آنے پر اسکے چہرے پر ناگوار تاثرات چھا گے۔

"یہ کون لڑکی ہے مستقیم جسے یہ بھی تمیز نہیں کے نوک کر کے اندر آتے ہیں۔" وہ اپنے لہجے کی نا گواری چھپائے بغیر بولی تھی۔

"بیہیو نینا  یہ میری سیکرٹری ہیں مس حریم اور مس حریم یہ میری کزن ہیں نینا  آپ پلیز آئیں اندر اور بیٹھیں۔"

وہ پہلے نینا کو تنبیہ  کرتا بولا اور پھر حریم کو مخاطب کر کے اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔

" نو سر بس مجھے اس فائل پر آپکے سائن لینے تھے۔ آپ پلیز یہاں سائن کر دیں بس۔" اس نے کہنے کے ساتھ فائل مستقیم کی طرف بڑھائی تو مستقیم نے پڑھے بغیر اسکی نشاندہی پر فائل پر سائن کر دیے۔ 

سائن لینے کے بعد اس نے فائل پکڑی اور وہاں سے نکل کر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔

اس کے جانے کے بعد مستقیم نینا کو اگنور کرتا اپنے لپپ ٹوپ میں بزی ہو گیا اور نینا خود کو اگنور ہوتا دیکھ کر تن فن کرتی وہاں سے نکل گئی۔

°°°°°°

نینا کے جانے کے بعد وہ سامنے پڑے لیپ ٹوپ کی سکرین گرا دی۔

وہ حریم کی سرخ آنکھوں کو یاد کرتا انٹر کوم اٹھا گیا۔

"مس حریم میرے آفس میں آئیں آپ ابھی۔" 

"مے آئ کم ان سر۔"

وہ سرخ  بوجھل آنکھوں کے ساتھ اندر انے آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔

"یس کم مس حریم۔"

"جی سر آپ نے کس لئے بلایا مجھے۔" 

اسکی بوجھل آواز پر وہ ایک گہری نظر اس پہ ڈال گیا۔

"مس حریم آپ یہاں آ کر چیئر پر بیٹھیں پہلے۔" اسکے بیٹھنے کے بعد وہ پھر سے اس سے مخاطب ہوا۔

"مس حریم آپ ٹھیک ہیں ؟ اپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ کیا ہوا ہے؟"

وہ پریشانی سے اس سے استفسار کر رہا تھا۔

"آئ ایم فائن سر بس سر میں تھوڑا درد تھا۔"

" آر یو شیور ؟"

"یس سر۔"

اسکے کہنے پر مستقیم نے انٹر کوم اٹھایا اور دو کپ کافی منگوائی۔

"چلیں میرے ساتھ ایک کپ کافی پئییں  دیکھئے گا آپکا سر درد غائب ہو جائے گا۔"

اسکے کہنے پر وہ چپ چاپ سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ فلحال اسکا کسی سے بھی  بات کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 

جب کہ مستقیم اسکے ستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر گہری سوچ میں گم ہو چکا تھا۔

°°°°°°

وہ گھر آئ تو ایک قیامت اسکی منتظر تھی۔ اس پہ جان لٹانے والا اسکا جان سے پیارا باپ ہارٹ اٹیک کے سبب اس دار فانی سے کوچ کر چکا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر بے حال ہو چکی تھی۔ یہ کیا ہو گیا تھا اچانک۔ ان کے ہنستے بستے گھر کو کس کی نظر  لگ گئی تھی۔ ابھی صبح ہی تو اس نے اپنے باپ سے اتنا پیار بٹورا تھا۔ وہ  صبح گھر سے نکلتے وقت کہاں جانتی تھی کہ گھر واپسی پر اسے اپنے باپ کی ہمیشہ کے لئے بند چہرے کو دیکھنا پڑے گا۔سارا بیگم خود نڈحال  ہونے کی با وجود اسکو سمبھالنے  میں لگی ہوئی تھیں۔ بیٹی کی یہ حالت انھیں ہولہ رہی تھی۔ جنازہ اٹھنے لگا تو روتی كرلاتی کسی کے قابو میں ہی نہیں آ رہی تھی اور پھر اچانک بیہوش ہو کر گر پڑی۔

حیدر عباس کو فوت ہوئے 3 دن گزر چکے تھے۔ وہ اب تک بے یقین تھی کہ اسکا باپ اسکے ساتھ نہیں رہا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یتیم ہو چکی ہے۔

اسکی ماں اسے سمجھاتی رہی تھی آج بھی کہ اسکا باپ اللّه کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی۔ یہ دنیا تو فانی ہے۔ جو آیا ہے اسے واپس بھی جانا ہے۔ سب کو ہی ایک نا ایک دن مرنا  ہے بس فرق یہ ہے کہ سب کا الگ وقت مقرر ہے۔ 

اسے رونا نہیں تھا صبر کرنا تھا۔ اللّه سے دعا کرنی تھی اپنے باپ کی بخشش کے لئے۔ 

وہ اٹھ کے واش روم گئی وضو کر کے باہر آئ جاۓ نماز بچھایا اور عشا کی نماز کے لئے کھڑی ہو گئی۔ نماز پڑھ کے بستر پر لیٹی  تو پھر سے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ باپ کی موت پر صبر کرنا آسان تو نہ تھا۔ یوں ہی روتے روتے اسکی کب آنکھ لگی اسکو پتا نہ چل سکا اور وہ نیند کی وادی میں گم ہو گئی۔

°°°°°°

وہ اسکی نیند کے خیال سے آہستگی سے اسکے کمرے میں داخل ہوا اور اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھاے جہاں وہ سوگوار  حسینہ محو  استراحت تھی۔ کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ اس نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر لائٹ بند کی اور سائیڈ ٹیبل لیمپ جلا دیا۔ وہ سفید ڈوپٹے سے حجاب کیے آڑی ترچھی بیڈ پر لیٹی تھی۔ چہرے پر انسوؤں کے مٹے مٹے نشا نات تھے۔ خم دار گهنی لمبی پلکیں آنسوؤں سے بھیگ کر جڑی ہوئی تھیں۔ چوٹی سی ناک بھی سرخ ہو رہی تھی۔ اس نے دعا کو سیدھا کر کے لٹایا اور اسے كمبل اوڑھا دیا۔ پھر وہ دعا کے سرہانے بیٹھا اور اسکا سر تھوڑا سا اٹھا کے اسے حجاب سے آزاد کر دیا۔ حجاب اترتے ہی اسکے سیاہ بالوں کی لٹیں اسکے چہرے پر جھولنے لگیں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گالوں کو چھوتی ہوئی لٹ اسکے کانوں کے پیچھے اڑسی اور جھک کر اسکی صبیح پیشانی چوم لی۔

دعا نے نیند میں ہے کسمسا کر کروٹ بدل لی۔ اسکے چہرے سے اسکی بے سکونی  واضح ہو رہی تھی۔ وہ اسکے گھنے بالوں میں انگلیاں چلا کر اسے سکون پہنچانے لگا۔ اسکی انگلیاں کافی دیر دعا کے بالوں میں حرکت کرتی رہیں۔ کچھ دیر بعد وہ گھڑی پر ایک نظر ڈال کر اٹھا جھک کر ایک دفعہ پھر اسکی پیشانی چھو لی اور کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔ دو سیکنڈز  میں ہی وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

°°°°°°

حیدر عباس کی وفات کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ وہ ہر وقت گم صم رہنے لگی تھی۔ سارا بیگم تو دوہری پریشانی میں تھی۔ ایک طرف جان سے عزیز شوہر کی موت اور دوسری طرف لاڈلی اکلوتی بیٹی کی ایسی حالت نے تو ان کے حواس ہی سلب کر لئے تھے۔ان کے جس چھوٹے سے آشیانے میں انکی لاڈلی کی ہنسی کی آواز گونجا کرتی تھی اب وہاں موت کے سناٹے پهيلے ہوئے تھے۔ابھی بھی وہ انکی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔

"دعا بیٹا اب مزید کتنی چھٹیاں کریں گی آپ آپکے کالج سے تین دفعہ کال آ چکی ہے۔ آپ کے امتحان شروع ہونے والے ہیں۔ اٹھ کے بیگ تیار کریں اپنا صبح کالج جانا ہے آپکو ۔" وہ آج سوچ چکی تھیں کہ آج ہر حال میں اسکو منائیں گی وہ کالج کے لئے۔

"نہیں ماما پلیز مجھے اب نہیں جانا کالج نہ ہی آپ مجھے بار بار کہئے گا۔" کالج کا نام سن کر وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی۔

"دیکھو دعا تمھارے بابا تمہیں بہت پڑھانا چاھتے تھے اور تمہارا ایڈمشن بھی اپنے پسند کے کالج میں کروایا انہوں نے تو کیا تم اپنے بابا کی خواہش کو پورا نہیں کرو گی ؟" 

وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے بہت نرمی اور پیار سے سمجھا رہی تھیں۔

اور انہوں نے وجہ ہی ایسی بیان کر دی تھی کہ وہ انکار ہ نہ کر پائی اور اپنے باپ کو پھر سے یاد کر کے اپنی ماں کی گود میں منہ چھپا کر رو دی۔ 

سارا بیگم اسکو زندگی کی طرف واپس لانا چاہتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ یہ مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں۔ 

°°°°°°

وہ آج بہت خوش تھی۔ آج اسے تنخواہ ملی تھی اور بونس بھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج امی کو دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے جاۓ گی۔ انکی طبیعت اسے کل رات سے خراب لگ رہی تھی پر اسکے پوچھنے پر وہ ٹال مٹول کر رہی تھیں۔ 

حریم نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور اور آفس سے نکلی۔ وہ سڑک پر کھڑی رکشے کا انتظار کر رہی تھی جب مستقیم سر کی گاڑی اسکے پاس آ رکی۔

"مس حریم آئیں میں آپکو ڈراپ کر دوں۔ اس وقت ویسے بھی آپکو جلدی کوئی کنوینس نہیں ملے گی۔" 

وہ گاڑی کے شیشے سے سر باہر نکال کر اس سے مخاطب ہوا۔

"نہیں سر اٹس اوکے میں چلی جاؤں گی۔" 

وہ جھجک کر بولی۔

"مس حریم بحث نہیں کریں اور آئیں بیٹھیں آپ۔ نو مور آرگیومنٹس!" 

وہ اسکے لئے پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر حتمی لہجے میں بولا تو ناچار اسے بیٹھنا پڑا۔ اسکے بیٹھتے ہی مستقیم نے گاڑی آگے بڑھائی۔

گاڑی میں دو لوگوں کے ہونے کے باوجود خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

"مس حریم آپ کی والدہ کیسی ہیں اب؟ "

وہ اسکی طرف سر گھماتا بولا۔

حریم نے کچھ دن پہلے ہی لیو لی تھی یہ کہہ کر کہ اسکی امی بیمار ہیں۔ وہ اس لئے انکی خیریت دريافت کرنے لگا۔

"جی سر الحمداللہ بہتر ہیں وہ اب۔کل سے طبیت تھوڑی داؤن ہے انکی آج کل پھر ڈاکٹر کی پاس لے کر جاؤں گی اب۔"

"اللّه شفا دے انھیں۔ امین!"

مستقیم نے گاڑی حریم کے گھر کے آگے روکی تو لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر دونوں ہی پریشان ہو گئے۔

"پریشان نہ ہوں حریم آپ سب ٹھیک ہوگا۔" 

وہ اسے دلاسا دلاسہ دیتے ہوئے بولا پر اندر سے وہ خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔

وہ گاڑی سے نکل کر تیزی سے اندر کی طرف بڑھی تو وہ بھی اسکے پیچھے لپکا۔

وہ جیسے ہی اندر آئ اور سامنے کر منظر پر اسکی نظر پڑی تو اسکا دل بند ہونے لگا۔ اندر صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ اسکے سر کا سائیبان چھن چکا تھا۔ اسکی ماں اپنی ساکت سانسوں اور بند آنکھوں کے ساتھ سفید چادر اوڑھے ابدی نیند سو چکی تھی۔

حریم اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی۔ مستقیم نے جیسے ہی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ اسکی باہوں میں جھول گئی۔

°°°°°°°

اسے ہوش آیا تو وہ کچھ دیر پہلے کا منظر یاد کر کے جلدی سے باہر لپکی۔ مستقیم نے سارے انتظامات سمبھالے ہوئے تھے۔اسکی ماں کو غسل دیا جا رہا تھا۔ اسکی ہمسائی اسکو دلاسا دینے اسکے قریب آئ تو حریم اسکے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ 

باپ کے بعد ایک ماں کا ہی تو سہارا تھا اسے۔ ماں کے جانے کے بعد تو اسکی پوری دنیا ہی لٹ چکی تھی۔ 

وہ کیسے نہ روتی۔ کیسے نہ كرلاتی۔ وہ تو سہی معنی میں آج یتیم ہوئی تھی۔

جب اسکی ماں کی میت اٹھی تو وہ چیختی چلاتی اپنی ماں کو واپسی کے واسطے دیتی وہاں موجود ہر آنکھ کو نم کر گئی۔ مستقیم اسکی حالت دیکھتا خود کو سخت بے بس محسوس کر رہا تھا۔

جنازہ اٹھنے کی دیر تھی کہ سب رشتہ دار اور جاننے والے ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے۔

اسکی دور کی خالہ نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی جسے وہ اسی وقت بڑی سہولت سے  ٹھکرا گئی۔ 

سارا گھر خالی ہو چکا تھا۔ مستقیم سارے معملات نمٹا کر گھر کے اندر آیا تو وہ نیچے دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی۔ خشک آنکھوں اور سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ اسے نئے سرے سے دکھی کر گئی۔ وہ اسکے پاس آیا اور ایک گھٹنا زمین پر ٹکا کر اسکے روبرو بیٹھ گیا۔

"حریم!" اسنے اپنی بھاری گھمبیر آواز میں اسے پکارا تو وہ خالی خالی نظروں کے ساتھ اسکی جانب دیکھنے لگی۔

"حریم وہ اللّه کی امانت تھیں نا اسنے واپس لے لی۔ وہ یہاں کتنی تکلیف میں تھیں اب وہ سکوں میں ہوں گی۔ آپ اس طرح رو کر انھیں اور تکلیف دے رہی ہیں۔ آپ رو کر انکی روح کو تکلیف نہ دیں بلکہ انکی بخشش کے لئے دعا کریں۔"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بہت نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔

وہ ایک دم اسکے کندھے پر سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ مستقیم نے اپنا بھاری ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا اور اسکا سر تھپتھپانے لگا۔ اس نے حریم کو چپ نہیں کرایا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ وہ آخری دفعہ جی بھر کر رو لے۔

وہ بہت سا رو چکنے کے بعد پیچھے ہوئی تو اسکی سرخ روئی روئی آنکھیں دیکھ کر مستقیم کا دل پھر سے بے اختیار ہونے لگا۔ اس نے نرمی سے اسکی آنکھیں صاف کیں اور اسے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا۔ وہ نظریں جھکا کر اسکے سامنے کھڑی ہو گئی۔

"حریم آپ اکیلی سروائیو نہیں کر پائیں گی ۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر جا سکتی ہیں۔"

نہیں سر پلیز مجھے یہاں سے کہیں نہیں جانا میرے ماں باپ کی خوشبو ہے یہاں میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔" 

وہ حتمی لہجے میں بولی تو وہ سر ہلا گیا۔

وہ جاتے جاتے اسے تاکید کر گیا تھا کہ کوئی بھی مسئلہ ہو یا کوئی بھی ضرورت ہو تو وہ فوراً اسے کال کرے۔ وہ ضرورت کا سارا سامان بھی گھر میں ركهوا چکا تھا۔ اسکے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کر کے اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دن تو ماں کے بغیر گزر گیا تھا پر رات ابھی باقی تھی۔

°°°°°°°

وہ جسے ہی کالج میں داخل ہوئی تو امايا اسے دیکھتے ہی تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور اسکے گلے لگ گئی۔وہ  اسکے والد کی وفات کے بعد سے کافی دفعہ اسکے گھر بھی جا چکی تھی۔ وہ واقعی دعا کے کے ایک مخلص دوست ثابت ہوئی تھی۔ مخلص اور سچے دوست واقعی اللّه کا خاص تحفہ ہوتے ہیں۔

وہ اسے اپنے ساتھ کلاس روم میں لے گئی۔دعا کا دل کر رہا تھا یہاں سے اس سب سے دور چلی جاۓ پر اسکے باپ کی خواہش اسکے پاؤوں میں زنجیریں ڈال رہی تھی۔ وہ امايا کے ساتھ چپ چاپ جا کر لاسٹ ڈیسک پر بیٹھ گئی۔

سب کلاس فیلوز اور ٹیچر اس سے اسکے والد کی وفات کی تعزیت کر رہے تھے اور وہ بہت مشکل سے اپنے اشکوں پے بند باندھے بیٹھی تھی۔

فاتح نے بھی اس سے افسوس کیا تھا۔ اسے جب سٹوڈنٹس سے اس کے والد کی وفات کا پتا چلا تو اسے بہت دکھ ہوا تھا اسکی تکلیف کا سن کر۔

وہ ننھی سی جان اتنی سی عمر میں کتنے بڑے دکھ سے گزر گئی تھی۔ وہ اپنی طبیعت کے برخلاف بہت نرمی سے بات کر رہا تھا ۔

"رول نمبر ٹین آپ کی اسٹڈیز کا کافی لوس ہو چکا ہے۔ ایگزامز بھی نزدیک ہیں۔ ہم ایسا کرتے ہیں کے چھٹی کے بعد ایک ایکسٹرا کلاس رکھ لیتے ہیں کچھ دن تا کہ آپ پچھلا سلیبس کور کر لیں۔ اوکے ؟"

وہ اس سے پوچھنے لگا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی کہ فزکس اسے واقعی مشکل لگتی تھی۔وہ اسکے جواب پر ایک نرم مسکراہٹ اسکی طرف اچھالتا وائٹ بورڈ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

°°°°°°°°

وہ دو دن سے اکیلی گھر پر تھی۔سنسان گھر اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔مستقیم اسے دن میں تین دفعہ کال کر چکا تھا اسکی خیریت پوچھنے کے لئے۔

ابھی وہ سوچوں میں گم تھی جب باہر کا دروازہ کھٹکا۔ وہ دوپٹہ گلے میں ڈال کر دروازہ کھولنے باہر کی طرف بڑھ گئی۔اسے لگا ساتھ والی خالہ کھانا لے کرآئ ہوں گی۔وہ کچھ دیر پہلے ہی کہہ کر گئی تھیں کہ کچھ دیر میں کھانا لے کر آئیں گی۔

اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بشیر کھڑا دانت نکوس رہا تھا۔ اس نے دروازہ بند کرنا چاہا پر وہ اسے دھکیل کر اندر کرتا اپنے پیچھے دروازہ بند کر گیا اور اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا۔

وہ چیختی چلاتی اسکی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔"

"چھوڑو مجھے کمینے ذلیل انسان۔ اللّه کا  قہر نازل ہو تم پر۔" 

وہ اسے بددعائیں دیتی اسکا ہاتھ نوچ رہی تھی۔

اس نے اسے لا کر بیڈ پر پهينكا تو وہ منہ کے بل بیڈ پر گری ۔ اسکے بال بکھر کر کندھے پر پهيل گئے۔ دوپٹہ باہر ہی کہیں گر چکا تھا۔

وہ حوس بھری نظروں سے اسکے دلکش سراپے کو تاڑ رہا تھا۔

"آج کیسے بچے گی مجھ سے تو میری رانی۔"

وہ اپنے گندے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا مکروہ ہنسی ہنسنے لگا۔حریم بیڈ پر پیچھے ہونے لگی تو ایک ڈیکوریشن پیس اسکے ہاتھ لگا۔ اس نے وہی ڈیکوریشن پیس کھینچ کر اسکے ماتھے پر مارا تو وہ درد سے بلبلاتا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر جھک گیا۔

حریم موقع جان کر جلدی سے باہر دروازے کی طرف لپکی۔

وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر بھاگی تو سامنے سے آتے وجود سے ٹکرا گئی۔

°°°°°°

وہ آج کالج کے بعد فاتح سر کے ساتھ فزکس کی ایکسٹرا  کلاس لینے کے لئے رکی تھی۔ اس نے امايا کو بھی بولا تھا رکنے کو پر وہ کالج سے جانے کے بعد بچوں کو ٹیوشن دیتی تھی۔ اس لئے پھر دعا نے اسے زیادہ زور بھی نہیں دیا۔ 

وہ ابھی فاتح کے آفس کے باہر کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اندر جاۓ یا نہ جاۓ جب اسے فاتح کی آواز سنائی دی۔

"رول نمبر ٹین جسٹ کم ان ناؤ""

اسکی بھاری آواز میں یہ پیغام سن کر وہ سٹپٹا گئی۔ اسے کیسے پتا چلا کہ وہ باہر کھڑی ہے۔اس نے دروازہ نوک کیا۔

"یس !" اجازت ملنے پر وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔

"بیٹھیں آپ پلیز!" 

وہ اسے سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا تو وہ صوفے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر دعا کی طرف بڑھا اور صوفے کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

دعا اس کے یوں نزدیک بیٹھنے پر کنفیوز ہو گئی۔ حالاں کہ وہ اس سے مناسب فاصلے پر بیٹھا تھا۔

فاتح نے بک کھول کر اسے پڑھائی کی طرف متوجہ کیا تو اس نے بھی اپنا دھیان کتاب پر لگا دیا۔

فاتح اسے نمریکل سمجھا چکا تھا اور وہ اب بیٹھ کر ایک دفعہ اسکی پریکٹس کر رہی تھی۔ فاتح اپنا لپپٹوپ سامنے کھولے کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ دعا کے ہوتے ہوئے بلکل بھی ممکن نہیں لگ رہا تھا کیوں کہ وہ لاکھ اسے اگنور کرنے کی کوشش کرتا پر نظریں بار بار بھٹک کر اس معصوم پری کے چہرے پر جا رہی تھیں  اور وہ اس سب سے انجان اپنے کام میں مشغول  تھی۔اسکی بے خبری پر فاتح نے سر جھٹکا اور اپنا دیہان لپپٹوپ کی طرف لگا دیا۔

°°°°°°°

وہ تیزی سے دروازہ کھول کر بھر بھاگی تو سامنے سے آتے وجود سے ٹکرا گئی۔اسنے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں تو سامنے مستقیم کو دیکھ کر اسکے بازو سے چپک کر رو دی۔ اسکی ٹوٹی بکھری حالت دیکھ کر مستقیم کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔

بکھرے بال،روئی روئی سوجی ہوئی لال آنکھیں، جوتے سے بے نیاز پاؤں اور دوپٹے سے بے پرواہ وجود لئے وہ مستقیم کا دل بند کرنے کے در پے تھی۔

مستم  رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا تھا پر طبیعت پر ایک عجیب سا بوجھل پن طاری ہو رہا تھا۔ اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ اس نے حریم کی خیریت جاننے کے لئے اسکا نمبر ملایا تو اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ اس نے سوچا کے شاید سو گئی ہو۔

وہ گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ بے مقصد سڑکیں ناپتا وہ بے خودی میں ہی گاڑی حریم کے گھر کی طرف موڑ گیا۔ وہ گاڑی اسکے گھر کے پاس پارک کرتا حریم کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا جب وہ ایک دم آ کر اس سے ٹکرائی ۔

وہ اسکے بازو سے لگی رونے لگی ۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا بکتا جھکتا بشیر حریم کے پیچھے نکل آیا۔ 

اسے دیکھتے ہی وہ خوفزدہ ہو کر مستقیم کے پیچھے چھپ گئی۔بشیر کو یوں سامنے دیکھ کر اور حریم کی حالت دیکھتا وہ ایک سیکنڈ میں سارا معملہ سمجھا تھا۔ غصے سے اسکی رگیں تن گئیں۔

وہ حریم کے گرفت سے اپنی شرٹ چھڑواتا جنونی انداز میں میں بشیر کی طرف لپكا اور اس پر پل پڑا۔ حریم کی خوف سے چیخ نکل گئی۔مستقیم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بے رحمی سے اس پہ لاتوں اور مکوں کی برسات کر دی۔ پہلے وہ دھمکییاں  دیتا رہا پر اسکی مار سے بے حال ہوتا پھر اسکی منتوں پر اتر آیا کہ ایک آخری دفعہ اسے معاف کر دے۔

"سس۔۔۔سر پلیز ۔۔۔چھ ۔۔چھوڑ دیں اس۔ ۔۔اسے ۔۔وہ مر ۔۔مر جاۓ گا۔" اسکے جنونی روپ سے مار کھا کر ادھ موا ہوتے بشیر کو دیکھ کر وہ ہچکیياں لیتی اسے روک گئی۔ 

مستقیم نے غصے سے  آخری دفعہ پاؤں زور سے اسکے منہ پہ مارا  تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔ مستقیم نے پولیس کو کال کی اور کال ختم ہونے کے بعد اسکی طرف بڑھا۔اپنی جیکٹ اتار کر اسکی طرف بڑھائی  تو وہ روتے ہوئے اسکی جیکٹ تھام کر پہن گئی۔

"اب بھی آپ یہاں اس گھر میں اکیلی رہنا چاہتی ہیں؟ میں کوئی بات نہیں سنوں گا اب ۔ آپ کے پاس صرف دس منٹ ہیں اگر اپنا کوئی ضروری سامان یا اپنے ماں باپ سے وابستہ کوئی یادیں سمیٹنا چاہتی ہیں تو۔"

وہ سخت برہم تھا پر اسکی حالت دیکھتا نرمی برت رہا تھا۔

آج ابھی جو کچھ بھی ہوا تھا اس کے بعد وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اکیلی یہاں نہیں رہ سکتی۔

یہ ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ ہے کہ ایک اکیلی عورت یا لڑکی زندگی سکوں سے بسر نہیں کر سکتی۔ انسان کی چمڑی میں موجود گدھ ہر وقت اکیلی لڑکی کو نوچنے اور نگلنے کو تیار رہتے ہیں۔انسان نما بھیڑیے ہر وقت اکیلی کمزور عورت کی تاک میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی اسکی عزت کو تار تار کرنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

مستقیم اسے بازو سے پکڑ کر اندر لایا کچن میں جا کر پانی کا گلاس لے کر آیا اور حریم کو پکڑا کر باہر بڑھ گیا۔

وہ اسے تھوڑا وقت دے رہا تھا تا کے وہ خود کو ذہنی طور پر آمادہ کر لے اس گھر کو چھوڑ کر جانے کے لئے جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا تھا اور اپنے والدین کے ساتھ یادیں بنائی تھیں۔

کچھ دیر بعد گاڑی حریم کی گلی سے نکلتی چلی گئی تو اس نے مڑ کر ایک اداس الوداعیہ نگاہ اپنے گھر پر ڈالی اور اپنے ہاتھ کے پوروں سے آنکھوں میں موجود نمی سمیٹ کر گاڑی کی سیٹ سے اپنا سر جوڑ کر آنکھیں موند لیں۔

°°°°°°

کالج میں پیپرز شروع ہو رہے تھے۔ کالج کی انتظامیہ نے سٹوڈنٹس کے لئے ایک اکیڈمی بنائی تھی جہاں کالج کے ٹیچرز ہی بچوں کو ان مضامین کی تیاری کرواتے جن میں وہ کمزور تھے۔ اکیڈمی کالج سے تھوڑے فاصلے پہ ہی واقع تھی۔ فاتح نے اسے کہا تھا کہ وہ کالج کے بعد 3 بجے اکیڈمی آ جایا کرے ۔ اس طرح اگر اسے کسی اور مضمون میں مسئلہ ہوگا تو باقی ٹیچرز سے وہ بھی ڈسکس ہو جاۓ گا۔

وہ آج آتے ہوئے کافی کنفیوز تھی اس لئے سارا بیگم خود اسے چھوڑنے آئ تھیں۔

وہ ابھی آٹو سے نکلے ہی تھے جب فاتح کی گاڑی اکیڈمی کے باہر آ رکی۔ 

وہ خلاف معمول ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔ 

اسکی نظر دعا پر پڑی تو اسکے چہرے پر پهيلی پریشانی کو دیکھ کر وہ دعا کی طرف بڑھا۔ 

"اسلام علیکم! کیا ہوا کوئی پروبلم ہے کیا؟"

وہ دعا کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔ اسکی نظر ابھی تک سارا بیگم پر نہیں پڑی تھی جو کہ آٹو کا رینٹ دے رہی تھیں۔

"وو۔۔وعلیکم اسلام سر!" وہ فاتح کو ایک دم اپنے قریب دیکھ کر بوکھلا گئی۔ 

وہ اسکی سلام کا جواب دے رہی تھی جب سارا بیگم ان کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں اور دعا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔

"ماما یہ فاتح سر ہیں۔ میرے فزکس کے ٹیچر!"

وہ انھیں بتا کر سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔

"اسلام علیکم انٹی ! کیسی ہیں آپ؟" 

وہ ان کے سامنے سر جھکاتا ہوا بولا تو وہ اسکے برتاؤ سے متاثر ہوتی بے اختیار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ گئیں۔ 

"وعلیکم اسلام بیٹا جیتے رہو! در اصل آپکو پتا ہی ہے دعا کے بابا کی کچھ وقت پہلے ہی ڈیتھ ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے کافی سٹریس میں رہی ہے اور پڑھائی پر بلکل توجہ نہیں دے سکی پر میری بیٹی بہت عقلمند ہے اگر سہی گائیڈ ملے گی تو بہت جلد کور کر لے گی اور پلیز اگر اکیڈمی سٹوڈنٹس کے لئے ٹرانسپورٹ کا بھی ارینج کر دیتی تو بہت اچھا ہو جاتا آپکو تو پتا ہے ہے آج کل کے حالات کیسے ہیں اور دعا کو ویسے بھی اکیلے سفر کرنے کی عادت نہیں۔ آج تو پہلا دن تھا میں چھوڑنے آ گئی پر روز روز تو نہیں آ سکوں گی میں۔"

وہ ایک ہی سانس میں سارا مسئلہ بیان کر گئیں۔ 

""جی انشاءاللّه یہ بہت جلد کوور کر لیں گی اور ٹرانسپورٹ تو مشکل ہی ہے پر اگر اپ مناسب سمجھیں تو میں خود ارینج کر دو ان کے لئے کنوینس؟" 

وہ اپنا نقطہ نظر انکے سامنے رکھ کر انکی رائے لینے لگا۔

" اگر ایسا کر دیں اپ تو اپکا بہت احسان ہوگا بیٹا!" 

وہ فاتح کی بات سن کر پرسکون ہو گئی تھیں اور اسکی مشکور بھی۔

اسکے بعد سارا بیگم دعا کو تسلی دے کر روانہ ہو گئیں تو فاتح نے دعا کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اکیڈمی کی طرف بڑھ گیا۔

وہ چلتا چلتا ایک دم رکا تو وہ جو نظریں جھکائے اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اس کے رکنے پر اسکی پشت سے ٹکرا گئی۔

"آہ" اسکے منہ سے کراہ نکل گئی۔

"رول نمبر ٹین آپ ٹھیک ہیں؟ دکھایں زیادہ تو نہیں لگی۔" 

وہ اسکی طرف پلٹ کر فکرمندی سے بولا۔

"نن ۔۔۔نو سر آئ ۔۔آئ ایم فائن۔" 

وہ اسے شرمندگی سے جواب دیتی تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی نہ میں سر ہلاتا اندر کی طرف قدم بڑھا گیا۔

°°°°°°°

وہ اسے لے کر اپنے اپارٹمنٹ آیا تھا۔ وہ سارا راستہ آنسو بہاتی ہوئی آئ تھی۔ مستقیم نے بھی اسے آنسو بہانے دیے تا کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔

وہ اسے ساتھ لئے ایک کمرے میں آ گیا اور اسکا سامان بھی وہاں رکھ دیا۔وہ کمرے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔

کالا لباس پہنے سرخ ناک سوجھی ہوئی آنکھیں اور زرد رنگت لئے وہ مستقیم کو دکھی کر گئی۔

اس نے پہلے کہاں دیکھا تھا بھلا اسے ایسی لٹی پٹی حالت میں۔ 

"مس حریم" مستقیم نے اسے پکارا پر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔

"مس حریم ؟؟" اس نے پھر سے پکارا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

"مس حریم!" 

اب کے اس نے بازو سی پکڑ کر اسے ہلایا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔

"مس حریم آر یو اوکے ؟" وہ اسکی حالات دیکھ کر پریشانی سے اس سے پوچھنے لگا ۔

"ی۔۔یس آئ ایم فائن۔"

وہ ہاتھ کی پشت سے اپنے گال پے بہنے والا آنسو پونچھ کر بولی۔

مستقیم نے اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ کے کنارے بٹھایا اور پاس پڑی کرسی کھینچ کر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔

حریم نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا اور نظریں جھکا کر اپنے ہاتھ کی لکیروں کو گھورنے لگی۔

اسکی زندگی کیا ہو گئی تھی۔ ظالم وقت نے کیسا پلٹا کھایا تھا کہ اس سے اس کا سب کچھ ہی چھین کر اسے حالات کے منجھدار میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ 

اس نے کب سوچا تھا کے زندگی اتنی مشکل ہو جاۓ گی کہ اسے ایک اجنبی درندے سے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایک اجنبی کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔شناسا اجنبی!

"مس حریم کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟" 

مستقیم کے سوال پر اسنے اپنا سر جھٹکے سے اٹھایا اور آنکھوں میں حیرت کا سمندر لئے اسکی جانب دیکھا۔

"پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے" 

وہ اب تک بے یقین تھی۔

"کیوں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟" وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا۔

"دیکھیں مس حریم آج جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کے اکیلی عورت کا یہاں جینا محال ہے۔ میں آپ کو وہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا کسی صورت بھی نہیں! پر میں آپ کو بغیر کسی رشتے کے اپنے ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا۔ میں نہیں چاہتا کے کوئی اپ پریا اپکے کردار پر انگلی اٹھاۓ۔میں ایک مرد ہوں مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا پر اپکا جینا مشکل کر دیا جاۓ گا کیوں کہ ہمارے معاشرے کا یہی المیہ ہے۔اور ویسے بھی دو نامحرموں کا ایک ہی گھر میں رہنا غلط ہے۔"

وہ اسے بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا۔ اسکی باتیں سن کر حریم کا دل دھڑک اٹھا۔ اس کا دل اس لمحے خوش فہم ہو اٹھا تھا پر یہ خوش فہمی مستقیم کی اگلی بات نے چٹکییوں میں ختم کر دی تھی۔

"آپکو اس وقت سہارے کی ضرورت ہے اور مجھے بھی ! میری گرینڈ ماں میری شادی کروانا چاہتی ہیں ہر حال میں۔ ہم لوگ شادی کر لیں گے تو میرا مسئلہ بھی حل ہو جاۓ گا اور آپکا بھی۔ پھر جب آپ اسٹینڈ ہو جائیں گی اور میری گرینڈ ماں بھی مطمئن ہو جائیں گی تو ہم اپنے راستے جدا کر لیں گے ۔ یہ صرف ایک پیپر میرج ہوگی۔ آپ چاہیں تو میں کل ہی پیپر تیار کروا لیتا ہوں اپکی تسلی کے لئے اور پھر ہم کل ہی نکاح کر لیں گے۔"

وہ اپنی بات کہہ کر چپ ہو گیا اور اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی بات سن کر حریم کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔

اسنے اپنے آنسو ضبط کیے اور بہت حوصلہ کر کے بولی۔

"ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ میں اپکا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔ آپ جائیں اب پلیز مجھے سونا ہے۔" 

وہ جانتی تھی کہ زیادہ دیر ضبط نہیں کر پاے گی اس لئے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا۔

وہ سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔ جانتا تھا اس نے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔

مستقیم کے جانے کی بعد وہ تکیے میں منہ چھپا کر رو دی۔ نہ جانے زندگی اب کونسا پلٹا کھانے والی تھی!

°°°°°°

وہ حسب معمول آج کالج کے بعد اکیڈمی آئ ہوئی تھی۔ فاتح کا ڈرائیور ہی اسے پک اینڈ ڈراپ دے رہا تھا۔ اس نے اعتراض کیا تھا اس بات پر لیکن سارا بیگم نے اسے چپ کروا دیا تھا۔ 

آج سے ٹھیک دو ہفتے کے بعد ایگزامز شروع ہو رہے تھے۔ آج کل وہ زیادہ وقت پڑھائی کو ہی دے رہی تھی۔

ابھی بھی پوری اکیڈمی تقریباً خالی ہو چکی تھی۔ وہ کیمسٹری اور بائیو کا سمجھ چکی تھی اب فزکس کی بک کھول کر بیٹھی تھی۔

آج فاتح کو دیر ہو گئی تھی آنے  میں۔ وہ کسی ضروری کام سے گیا ہوا تھا۔ورنہ اس وقت تک دعا گھر پہنچ جاتی تھی۔

وہ سارا بیگم کو کال کر کے بتا چکی تھی اپنے دیر سے آنے کا۔ 

ابھی وہ ایک سوال حل کر رہی تھی جب فاتح نے اسے مخاطب کیا۔

"کتنا رہ گیا آپکا اب تو شام  بھی ہو چکی ہے آپ ایسا کریں یہ سب جلدی سے وائنڈ اپ کریں باقی ہم کل کریں گے۔"

وہ اسے کہہ کر اپنے موبائل میں ای میل چیک کرنے لگا۔

"سر آپ بس مجھے یہ والا سوال سمجھا دیں مجھے گھر جا "کر اسکی پریکٹس کرنی ہے باقی پھر کل کر لوں گی۔"

وہ گال کو چھوتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی  جھکی نظروں اور مدھم لہجے میں بولی تو وہ اسکے پاس آ کر اسے سوال سمجھانے لگا۔

دعا کرسی پر بیٹھی تھی ۔ آگے میز پڑا تھا جس پہ دعا کی کتاب کھلی پڑی تھی۔ دعا کتاب پر جھکی ہوئی تھی اور فاتح اسکی کرسی کے بلکل پاس کھڑا نظریں کتاب کی بجاے دعا کے چہرے پر جما کر اسے سوال سمجھا رہا تھا۔ 

دعا کے بالوں سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اسے مدہوش کر رہی تھی ۔ وہ بے اختیاری میں اپنا دایاں ہاتھ دعا کے پیچھے کرسی کی پشت پر ٹکا گیا۔وہ دونوں اس بات کو بلکل فراموش کر چکے تھے کہ ساری اکیڈمی خالی ہو چکی ہے ۔

وہ دعا کی نشاندہی پر ایک پوانٹ کلیر کرنے کے لئے تھوڑا سا جھکا اسی وقت کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھلا تھا۔

دعا ایک دم ڈر کے مارے اپنی جگہ سے اچھلی تو اس کا سر فاتح کے سینے سے ٹکرایا۔ 

اندر آنے والے کریم عباس تھے اور ان کے پیچھے کھڑی ان کی لاڈلی سونیا!

کریم عباس دہشت ناک تیور لئے آگے بڑھے۔

"اوہ تو یہاں یہ پڑھائیاں ہوتی ہیں بند کمرے میں۔بغیرت لڑکی شکل سے کسی معصوم اور پارسا نظر آتی ہے پر باپ کے آنکھیں موندتے ہی اپنی گھٹیا حرکتیں شروع کر دیں اور استاد کے ساتھ ہی منہ کالا کرنا شروع کر دیا۔ خدا جانے بند کمرے میں کون سے گلچھڑے اڑاے جاتے ہوں گے۔"

وہ آنکھوں میں آنسو لئے بے یقین سی کھڑی تھی۔ اسکے نام کے اپنے اس پر کتنی بڑی توہمت لگا رہے تھے۔جس انسان کے نام کو اس کے نام کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا وہ اس انسان کے لئے کتنا مقدس جذبہ رکھتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے حق میں کچھ بولتی کریم عباس کے بھاری ہاتھ کا تھپڑ اس کے گال پر لگا تو اسکا گال سنا اٹھا۔تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ وہ دھان پان سی نازک لڑکی اوندهے منہ زمین پر جا گری۔اس کا ہونٹ پھٹ گیا۔اس کے گرنے پر وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔

"دعا اٹھیں پلیز!"

فاتح نے آگے بڑھتے ہوئے اسے سہارا دینا چاہا۔

کریم عباس فاتح پر جهپٹے اور اس پر تھپڑوں اور مکوں کی برسات کرتے ہوئے گالیاں بکنے لگے۔ وہ مذاحمت کیے بغیر ان کی مار اور لان تن برداشت کرتا رہا۔

"تایا ابا پلیز آپ ان کے ساتھ ایسا نہ کریں انکا کوئی قصور نہیں۔"

وہ بمشکل ہمت کرتی اٹھی اور کریم عباس کی منت کرنے لگی۔

وہ غصے میں اسکی طرف بڑھے تو وہ ان کی ٹھوکروں کی زد میں آ گئی۔

اسکی سر کرسی کے کونے سے تكرايا تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی چلی گئی۔

"عشق و معشوقی کا بہت شوق تھا نا تمھیں اب رہنا ہمیشہ اپنی محبوبہ کے ساتھ۔آج سے یہ ہمارے لئے مر چکی ہے اب ہماری زندگی میں اسکی کوئی جگہ نہیں۔

وہ گسے میں فاتح سے بول کر وہاں سے نکل گئے۔

فاتح شرمندگی اور ذلت کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا۔

اپنی اسی حالت میں گم بغیر اس معصوم وجود پر ایک نگاہ بھی ڈالے وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

°°°°°°°

"وہ وہاں ہوگی یا نہیں؟" یہ سوال بار بار اس کے دماغ میں آرہا تھا۔ ٹھٹھرا دینے والی سردی میں وہ صرف ایک ٹراؤزر اور ہالف بازو والی سفید ٹی شرٹ میں ساکت و جامد بیٹھا تھا۔چہرے پر نیل واضح تھے۔ہوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے چہرے پر تشدد کیا ہو۔وہ بھول جانا چاہتا تھا جو کچھ بھی کچھ دیر پہلے ہوا پر پتا نہیں ایسی کیا بات تھی کہ اسے اپنے دل میں ٹیسییں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ پھر یکایک اسکے جامد وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔وہ تیزی سے اٹھا،بیڈ کے پاس پڑے اپنے موزے اور جوگرز اٹھا کر پہنے اور دروازے کی طرف لپکا۔اسے دس منٹ لگے تھے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لیے۔اس نے بیس منٹ کا سفر پیدل دس منٹ میں طے کیا۔دروازہ ویسے ہی کھلا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اندر کی طرف لپکا۔وہ وہیں تھی جہاں وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر گیا تھا۔وہ کرسی کے پاس اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی۔وہ اسکے پاس گیا اور اسکا رخ پلٹا۔خون کی ایک لکیر اس کے ماتھے سے ہوتے ہوئے گردن تک آئی ہوئی تھی جو کہ سوکھ چکی تھی۔اس نے پاس پڑی اس کی چادر اٹھائی اور اسے اوڑھا دی۔وہ گھر سے لے کر یہاں آنے تک یہ سوچتا آیا تھا کہ وہ وہاں ہوگی یا نہیں پر یہ خیال اسے ایک دفعہ نہیں آیا تھا کہ اگر وہ وہاں ہوئی تو وہ کیا کرے گا۔اس نے آہستگی سے اسے باہوں میں بھرا اور وہاں سے نکل آیا۔گھر پہنچ کر اسے نرمی سے بستر پر لٹایا اور پھر موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔

°°°°°°°°°°

وہ بھیگی سرخ آنکھیں جھکائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ایک دوسرے میں پھنسائے لب بھینچے اسکے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ سفید رنگ کا نفیس اور خوبصورت جوڑا پہنے ور آتشی دوپٹہ سر پر لئے سوگوار سی بیٹھی تھی۔قسمت نے اسے کس مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔ اس نے کب سوچا تھا کہ یہ شاندار شخص اسکا ہو جاۓ گا اور وہ بھی اس طرح ! ہر لڑکی کی طرح اپنی شادی کو لے کر اسکی بھی بہت سی خواہشات تھیں۔ وہ بھی اپنے ہمسفر کے لئے پور پور سج کر اسکی زندگی کو مہکانا چاہتی تھی۔ پر قسمت نے ایسا کھیل كهيلا تھا کے اسکو بلکل بے بس کر چھوڑا تھا۔ اسکے پاس کوئی اور راستہ ہی کہاں بچا تھا۔

اسکے سامنے مستقیم بیٹھا تھا جس نے سفید شلوار قمیض پر آف وائٹ واسکٹ پہن رکھی تھی۔

وہ آج نکاح ک کرنے مسجد میں آئے ہوئے تھے۔ گواہ کے طور پر فاتح اور اسکے تین اور ساتھی دوست موجود تھے۔ 

" حریم فاروق بنت فاروق احمد آپ کو دس لاکھ حق مہر کے عوض مستقیم فارس ولد فارس کمال کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپکو قبول ہے؟ "  

نکاح کے کلمات اسکی سماعت سے ٹکرائے تو اس نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر مستقیم کی آنکھوں میں دیکھا ۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ حریم کے دیکھنے پر اس نے سر اثبات میں ہلا کر اقرار کرنے کا اشارہ کیا۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"

مولانا صاحب کے دوسری دفعہ پوچھنے پر اس نے اپنی نظریں جھکاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور زبان سے بھی مستقیم کو قبول کرنے کی سند بخشی۔

مستقیم سے پوچھا گیا تو اس نے بخوشی تین دفعہ قبول ہے کہہ کر اسے اپنی زوجیت میں لیا۔

نکاح کے بعد اسکے دوستوں نے گلے لگ کر اسکو مبارکباد دی اور اور رخصت ہو گئے۔ 

ان کے جانے کے بعد مستقیم حریم کے پاس آیا اور اسکے کانپتے ہوئے سرد نم ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا اور اسے لئے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

وہ دونوں پورا راستہ خاموش رہے تھے۔ نہ ہی مستقیم نے کوئی بات کی نہ ہی حریم نے۔ گاڑی بلڈنگ کے باہر رکی تو مستقیم باہر نکلا اور حریم کی سائیڈ پر آ کر اس کے لئے دروازہ کھولا۔ اسکے باہر نکلتے مستقیم نے گاڑی لاک کی اور پھر سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے اپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔ 

مستقیم نے اسے لا کر بیڈروم میں کھڑا کیا اور اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔

"حریم آر یو اوکے ؟"

مستقیم نے اسے کانپتے ہونٹ چباتے دیکھا کر پوچھا تو وہ بے ساختہ اسکے کندھے سے سر ٹکائے ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔

اسکی قربت پر مستقیم کا تیز دھڑکتا ہوا دل اچانک ساکت ہوا تھا۔ اسکے یوں قریب آ کر اپنے کندھے سے لگنے سے وہ بھی بے اختیار اپنی باہیں اسکے گرد پھیلا گیا۔ تھوڑی دیر رو چکنے کے بعد وہ شرمندہ ہوتی پیچھے ہوئی تو مستقیم نے بھی اسے اپنے حصار سے آزاد کر دیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھنے لگا۔

"کیوں رو رہی ہیں آپ ؟ اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہی ہیں کیا ؟"

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھنے لگا۔ 

"نن ۔۔۔نہیں ۔۔ایسا نہیں ۔۔بس وو ۔۔وہ مجھے اپنے پپ۔۔پیرنٹس ۔ کک ۔۔کی یاد آ گئی۔" 

اس نے اپنی ہچکی دباتے کہا تو وہ گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔ وہ اس کی فیلنگز سمجھ سکتا تھا۔ اسکی نظر میں چاہے وقتی ہی سہی پر اسکی زندگی کا نیا آغاز تھا۔ ہر لڑکی کی طرح اسے بھی اس موقع پر اپنے ماں باپ کی دعاؤں کی طلب تھی۔پر وہ بیچاری تو ماں اور باپ دونوں کے ہی پر شفقت سائے سے محروم ہو چکی تھی۔

"پریشان نہ ہوں آپ وہ اللّه کی امانت تھے نا تو اس نے لے لی واپس ۔ میں ہوں نا اپ کے ساتھ!" 

اس کے آخری الفاظ پر اس نے مستقیم کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ اسکی نظروں کا مطلب سمجھتا نظریں چرا گیا۔

"آپ چینج کر لیں اور فریش ہو جائیں ۔ میں دوسرے کمرے میں ہوں۔ آپ ایزی ہو کر سو جائیں اور کوئی بھی کام ہوا اگر تو مجھے آواز دے دیجئے گا۔"

اسکے کہنے پر وہ اقرار میں سر ہلا گئی تو وہ کمرے سے نکل کر دروازہ بند کر گیا۔ حریم نے ایک گہری سوگوار نگاہ شیشے میں نظر آتے اپنے دلکش سراپے پر ڈالی اور ایک سادہ سا سوٹ پکڑتی باتھروم میں گھس گئی۔

**********

فاتح نے کال کر کے سارا بیگم کو مختصر کر کے بات بتائی اور انھیں لینے کے لئے ڈرائیور کو بھیج دیا گاڑی دے کر۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پریشان صورت لئے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئیں اور كانپتی آواز میں فاتح کو پکارا۔

"فاتح بیٹا کہاں ہے میری دعا۔ جلدی بتاؤ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔" 

فاتح انہیں لئے چپ چاپ ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں ان کی نظر دعا پر پڑی تو ان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ وہ تیزی سے دعا کی طرف لپکیں اور اسکے سرہانے بیٹھ کر اسکا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ کر اسکا ماتھا چوما۔

ان کی پھولوں جیسی بیٹی جس کو ان دونوں میاں بیوی نے کبھی روئی سے بھی نہیں تھا مارا وہ کس حال میں پڑی تھی۔ گلابی رنگت بدل کر زرد ہو چکی تھی لمبی پلکیں آنسوؤں سے بھیگ کر جڑی ہوئی تھیں اور اسکی نیلی کانچ سی آنکھوں پر پردہ ڈال گئی تھیں۔ ایک گال پر تھپڑ لگنے سے نیل پڑ چکا تھا اور ماتھے پر دائیں طرف سفید پٹی لگی ہوئی تھی۔

"میں اپ کو کیا کہوں کریم بھائی میری پھول جیسی بچی کا کیا حال کر دیا اپ کو ذرا سا بھی خیال نہیں آیا۔ میری معصوم بچی پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔"

وہ روتی ہوئیں کریم عباس پر افسوس کرنے لگیں۔

مستقیم لب بھینچے دروازے میں کھڑا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر آ کر دعا کی مرہم پٹی کر گیا تھا۔ اس کے سوجے گال اور زخمی ماتھے کو دیکھ کر ڈاکٹر نے اس کو بھی پٹی کروانے کا کہا پر وہ انکار کرتا ڈاکٹر کو رخصت کر آیا۔

کچھ سوچتے ہوئے سارا بیگم نے دعا کا سر تکیے پر رکھا اور اٹھ کر فاتح کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔

"فاتح بیٹا میری کتنی عزت ہے تمہاری نظر میں۔"

ان کے پوچھنے پر فاتح نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا اور ان کے دونوں ہاتھ تھام کر احترام سے انکے ہاتھوں پر بوسہ دیا۔

"میری ماں نہیں ہیں اس دنیا میں۔اور میں نے آپ کو اپنی ماں کا ہی مقام دیا ہے اور میرے دل میں آپ کے لئے اتنی ہی عزت ہے جتنی اپنی سگی ماں کے لئے۔ میں نے پہلے دن سے ہی اپ کو اپنی ماں کی جگہ دی ہے۔"

وہ ان کے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگاتا ہوا بولا۔ اس کے لہجے میں ان کے لئے احترام ہی احترام تھا۔

جب سے دعا اکیڈمی جا رہی تھی تب سے ہی فاتح ان سے رابطے میں تھا۔ وہ دعا کی خیریت پوچھنے کے لئے ان سے بات کرتیں تو اسکی فرماںبرداری اور احترام پہ نہال ہو جاتیں۔ انھیں ایسا لگتا جسے وہ ان کا ہی بیٹا ہے۔ 

ان کی طبیت کی خرابی پر وہ خود ان کو دو تین مرتبہ ہسپتال بھی لے کر جا چکا تھا اور ان کے گھر کا چکر بھی لگا چکا تھا کافی مرتبہ۔ پر وہ ہمیشہ دعا کی غیر موجودگی میں آتا اور سارا بیگم نے بھی اس بات کا دعا سے ذکر نہیں کیا تھا کبھی اس لیے وہ اس بات سے ناواقف تھی۔

"اگر مجھے ماں سمجھتے ہو تو میری ایک بات مانو گے؟"

وہ بہت امید سے اسکی طرف دیکھتیں اس سے پوچھ رہی تھیں۔

"آپ حکم کریں!"

وہ انکے سامنے سر جھکا کر بولا۔

"میری دعا سے نکاح کر لو فاتح!"

وہ اس کے سر پر دهماكا کرتی ہوئی بولیں۔

"پر میں کیسے؟ دیکھیں انٹی آپ پلیز جذباتی ہو کر نہ سوچیں آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔وہ بہت چھوٹی اور نہ سمجھ ہے اور عمر میں بھی کافی چوٹی ہے مجھ سے۔ یہ ظلم ہے اس کے ساتھ!" وہ بے چینی سے بولا۔

ہاں یہ سچ تھا کہ اسے دعا سے پہلی نظر کی محبت ہوئی تھی اور محبت کا یہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک تناوار درخت میں تبدیل ہو چکا تھا پر اس نے کبھی اپنی محبت حاصل کرنے کا نہیں سوچا تھا تھا۔ اس نے تو بے غرض ہو کر بے لوث محبت کی تھی دعا سے۔ دل کے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے اسکا دیدار ہی کافی تھا فاتح کے لئے۔

"دیکھو فاتح تم کریم بھائی اور ان کی فیملی کو نہیں جانتے۔ اب تک تو وہ پوری سوسائٹی میں دعا کو بد کردار بنا کر بدنام کر چکے ہوں گے۔ میری دعا بہت معصوم ہے فاتح وہ یہ سب نہیں جھیل پائے گی۔میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میں اکثر ہی بیمار رہتی ہوں اب کسی روز ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر گئی اگر تو میری دعا کا کیا ہوگا؟ میں اسے ایک مضبوط سہارا دینا چاہتی ہوں اور میرے لئے وہ مضبوط سہارا صرف تم ہی ہو! کیا کرو گے میری بیٹی سے شادی ؟"

وہ اسے تمام حقائق سے آگاہ کرتی آنکھوں میں امید کے دیے لئے فاتح سے جواب طلب کر رہی تھیں۔

"ٹھیک ہے میں اس شادی کے لئے تیار ہوں۔ جیسا آپ کہیں گی ویسا ہی ہوگا۔ پر آپ پلیز دعا کی رضامندی معلوم کر لیجئے گاپہلے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ زيادتی ہو کوئی۔" 

وہ اپنی بات مکمل کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا اور نکاح کی ضروری کاروائی کا انتظام کرنے لگا۔ کچھ دیر میں دعا ہوش میں آ گئی اور سارا بیگم نے نہ جانے اسے کیا کہہ کر راضی کیا تھا کہ ٹھیک گھنٹے بعد وہ دعا حیدر عبّاس سے دعا فاتح ابراھیم بن چکی تھی۔

°°°°°°°°°°

اس نے دھیرے سے اپنی دکھتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور ایک اجنبی نظر ارد گرد کے اجنبی ماحول پر ڈالی۔ وہ بیڈ پہ موجود سفید چادر اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ دائیں طرف ایک دروازہ موجود تھا شاید باتھروم کا تھا وہ۔ اور اسکے آگے اسی طرف کونے میں ایک چیئر اور اس کے آگے رائٹنگ ٹیبل تھا جس پر ایک لیپ ٹوپ پڑا ہوا تھا اور ساتھ کچھ کاغذات اور ایک پنسل۔

اتنے سے معائنے کے بعد ہی اسکا سر چکرانا شروع ہو گیا تو اس نے سر واپس بستر پر پھینک کر آنکھیں بند کر لیں۔ ذہن کے پردوں پر آہستہ آہستہ گزرے ہوئے واقعات ایک ایک کر کے ابھرنے لگے تو وہ ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول گئی۔ 

وہ روٹین کے مطابق کالج سے آنے کے بعد اکیڈمی گئی تھی۔ فاتح سر فزکس کا ایک سوال اسے سمجھا رہے تھے اور تب ہی کریم تایا وہاں آ گئے اور انتہائی برے الزامات فاتح سر اور اس پر لگائے ۔ وه فاتح سر پر تشدد کر رہے تھے وہ انکو چھڑوانے کے لئے آگے بڑھی تھی پر خود ہی انکے عتاب کا نشانہ بن کر بیہوش ہو کر گر پڑی۔

اسکے بعد ؟ ہاں اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ اور پھر اس کے دماغ میں اچانک سے کلک ہوا۔ ہاں ! اس کے بعد پتا نہیں کیسے وہ اس جگہ پہنچ گئی اور اس کی ماں کی موجودگی میں اسکا نکاح ہوا تھا۔ 

نکاح ؟؟؟ پر کس کے ساتھ ؟ 

پھر اس کے دماغ میں ایک جملہ گونجا ۔

"دعا حیدر بنت حیدر عبّاس آپکو فاتح ابراھیم ولد ابراھیم خان کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ  نکاح قبول ہے؟"

یہ جملہ ذہن میں گردش کرتے ہی اسکا دماغ سنا اٹھا۔

یہ کیا ہو گیا تھا اس کے ساتھ ؟ اچانک یہ کیسا پلٹا کھایا تھا قسمت نے؟ اس کے مقدر میں یہ رسوائی کیوں آئ تھی؟ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اسے گناہ گار کیوں ٹھہرایا گیا تھا ؟ اسے اس گناہ کی سزا کیوں دی گئی جو اس نے کیا ہی نہ تھا؟ آخر کیوں؟ تکلیف ده سوچوں سے تنگ ہو کر وہ چیخ پڑی۔ اس کی آواز سن کر کچن میں سوپ بناتی سارا بیگم سب چھوڑ چھاڑ تیزی سے اسکے پاس آئیں تو وہ بیڈ پہ بیٹھی اپنے بال نوچتی چیخ رہی تھی۔

"دعا ! میری بچی۔ کیا ہو گیا میری بچی کو۔" وہ اسے اپنے ساتھ لگاتی اسکی پیٹھ سہلاتی ہوئی بولیں.

"ماما ایسا کیوں ہوا ؟ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ میں نے کچھ نہیں کیا ماما کچھ بھی نہیں۔ تایا ابا کو غلط فہمی ہوئی کوئی۔ میں ایسی نہیں ہوں ماما۔ اور فاتح سر نے بھی کچھ نہیں کیا۔ وہ تو بس ایک سوال سمجھا رہے تھے مجھے۔ اوپر سے تایا ابا آ گئے اور میری ایک بات بھی سنے بغیر مارنا شروع کر دیا۔ فاتح سر کو بہت مارا انہوں نے ماما اور بہت گالیاں بھی دی۔ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں تھا کیا۔"

وہ انکے ساتھ لگی روتی  اور کانپتی ہوئی ساری بات بتانے لگی۔

" بس چپ میری جان! میں جانتی ہوں میری دعا بہت معصوم ہے ۔وہ کبھی بھی کچھ غلط نہیں کر سکتی۔"

وہ اسکے بال سلاتے ہوئے اسے حوصلہ دینے لگیں۔

" پر ماما میں تو  تایا ابا سے بہت پیار کرتی ہوں انہوں نے ایسا کیوں کیا؟" 

وہ سسکتی ہوئی سارا بیگم سے استفسار کر رہی تھی۔

"ان کو غلط فہمی ہوئی ہو گی بیٹا کوئی۔" 

وہ تکلیف دہ لہجے میں بولیں۔ کتنی عزت کرتی تھیں وه اپنے جیٹھ کی۔ ہمیشہ بڑا بھائی ہی سمجھا۔ اور انہوں نے آگے سے کیا کیا؟ ان کی بیٹی کی ہی عزت پر حرف اٹھایا۔ اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھی نہ سوچا ایک لمحے کے لئے بھی کہ جس کی عزت پر حرف اٹھا رہے ہیں اور اتنا گھٹیا الزام لگا رہے ہیں وہ ان کے مرحوم بھائی کی اکلوتی بیٹی ہے جسے شہزادی بنا کر رکھا ہمیشہ اور کبھی پھول سے بھی نہ مارا۔ اور انہوں نے کیا حشر کر دیا اس معصوم کا۔

"میری بات اب دیہان سے سنو دعا! جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا بیٹا ۔ قسمت کا لکھا کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ پرانی باتوں کو بھول کر آگے بڑھنا سیکھو ۔ جو لوگ ماضی کے گرداب میں پھنس کر خود کو بے پرواہ کر لیتے ہیں نا وہ لوگ اپنے ہی ہاتھوں اپنے حال اور مستقبل کو تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔اس لئے کہہ رہی ہوں کہ آگے بڑھنا سیکھو  اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتی رہو۔ بیشک وہ پاک پروردگار  شکر کرنے والوں کو اور زیادہ نوازتا ہے۔ تم میری بات سمجھ رہی ہو نہ۔"

انہوں نے ہچکیاں لیتی ہوئی دعا کے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا جس پر وہ اپنا سر ہلا گئی۔

"دیکھو بیٹا جن حالات میں بھی تمہارا اور فاتح کا نکاح ہوا پر وہ تمہارا شوہر ہے اب اور اسکی ہر بات ماننا تمہارا فرض۔وہ ایک بہت سلجھا ہوا اور سمجهدار انسان ہے۔ خود کو  اور تمہیں بہت جلد ان مسئلوں سے نکال لے گا اور مجھے امید ہے کہ اس سب میں میری بیٹی اسکا ساتھ دے گی۔ میں سہی کہ رہی ہوں نا ؟" ان کے پوچھنے پر وہ آنسو ضبط کرتی پھر سے سر ہلا گئی۔

سارا بیگم نے اسکا ماتھا چوما اور کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔

°°°°°°°

وہ پریشان صورت لیے گھٹنوں میں سر دیے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ہی اسکی ماما اسے اکیلے یہاں چھوڑ کر اپنے گھر کو روانہ ہو چکیں تھی فاتح کے ڈرائیور کے ساتھ۔ کتنا بلکی اور تڑپی تھی وہ کہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں پر وہ اسکی ایک بات بھی سنے بغیر ایک اچھی ساس کا کردار ادا کرتی اسے اپنے کھڑوس داماد کے پاس اکیلا چھوڑ گئی تھیں یہ نصیحت کر کے کہ یہ اسکا اصلی گھر ہے۔ اس کے شوہر کا گھر! اور اس کو اب ہمیشہ یہاں ھی رہنا ہے۔

وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ جس انسان کا ایک لیکچر وہ رو دھو کر گزارتی تھی اب اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں رہتے ہوئے اپنا سارا وقت کیسے گزارے گی۔

اسکی شخصیت میں ایسا رعب تھا کہ دعا سے اس کے سامنے نظریں بھی نہیں اٹھائی جاتی تھیں۔ اور جب وہ اپنی گہری آنکھیں دعا کی سبز آنکھوں میں گاڑتا تھا تو دعا کا سانس حلق میں اٹک جاتا تھا۔ابھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب وہ ایک گلاس اسکی آنکھوں کے سامنے کر گیا۔ وہ گڑبڑا کر حوش میں آئ تو وہ گلاس دودھ لئے اسکے سامنے کھڑا تھا۔ 

ایک پل کو دونوں کی نظریں ملیں ۔ اس ایک پل نے ہی فاتح کے دل کو شاد کر دیا تھا۔ دعا نے فوراپنی نظریں جھکا دیں۔

"یہ ہلدی والا دودھ ہے۔ اسے پی کر آپ بہت بہتر محسوس کریں گی۔ جلدی سے اسے ختم کریں شاباش۔" 

وہ اسے پچکارتا ہوا بولا پر چہرے پر ہنوز سپاٹ تاثرات قائم تھے۔

وہ سخت بیماری کی حالت میں بھی کبھی ہلدی والا دودھ نہیں پیتی تھی۔ پر اس کے تاثرات دیکھ کر اسکی ہمت ہی نہ ہوئی انکار کرنے کی۔

اس نے اسکے ہاتھ سے گلاس پکڑا اور ایک ہی سانس میں خالی کر گئی۔وہ خالی گلاس اس کے ہاتھ سے لیتا اپنی مسکراہٹ چھپا گیا۔ جانتا تھا کہ وہ ڈر رہی تھی اس سے اور اسی ڈر سی پورا گلاس خالی کر گئی تھی حالاںکہ سارا بیگم نے اسے بتاتا تھا کہ وہ ہلدی والا دودھ نہیں پیتی چاہے جتنے مرضی جتن کر لو۔

" چلیں آپ اب ریسٹ کریں اور پرانی ساری باتیں اپنے اس ننھے سے دماغ سے نکال کر ایک لمبی اور پر سکون نیند لیں ۔ صبح کالج بھی جانا ہے آپکو۔ پیپر بہت نزدیک آ گئے ہیں آپ کے۔ مزید ایک بھی چھٹی آپ کے لئے نقصان ده ہے۔"

وہ چہرے پر ازلی سنجیدہ تاثرات لئے اس سے مخاطب تھا۔ اس کی بات پر دعا کا رنگ مزید زرد پڑ گیا۔

"مم ۔۔۔میں ۔۔۔میں کیسے جا سکتی ہوں کک . کالج ۔ مجھے نہیں جانا اب ۔۔۔بب ۔۔۔۔بلکل بھی نہیں جانا ۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔"

وہ خوفزدہ ہو کر گھٹنوں میں منہ چھپا گئی۔

"اچھا اور کیوں نہیں جائیں گی آپ؟ یہ بتانا پسند فرمائیں گی مجھے آپ۔"

وہ جانتا تھا کہ وہ کیوں انکار کر رہی ہے پر اس کے منہ سے سن کر اس کا خوف زائل کرنا چاہتا تھا۔

اس کے سوال پر اس نے سر اٹھایا اور نا سمجھی سے فاتح کی جانب دیکھنے لگی۔

"آ ۔۔۔آپ نہیں جانتے کیوں ؟؟ سس ۔۔۔سب میرا مذاق بنائیں گے ۔۔مجھ پر ہنسیں گے۔ . جج ۔۔۔۔جسے تایا ابا نے الزام لگایا وہ بھی الزام لگ۔۔لگایں گے ۔ اور ۔۔۔اور مجھے ایک بری لڑکی سمجھیں گے۔" 

وہ کہتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

وہ گہرا سانس بھرتا اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"دیکھیں دعا یہ زندگی آپ کی اور میری ہے۔ لوگوں کی نہیں۔ ہمارا تعلق پہلے کیسا تھا وہ بھی ہم دونوں ہی جانتے ہیں اور اب کیسا ہے یہ بھی ہم دونوں ہی جانتے ہیں۔ ہم لوگوں کو جوابده نہیں اور نہ ہی ان کی سوچ کے پابند۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ہم غلط نہیں تو ہم کیوں لوگوں کو اپنی ذات کی صفایاں دیتے پھریں۔ یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں بلکہ یہ بات معنی رکھتی ہے کہ ہمارا اپنا کردار کیسا ہے۔ جب میں جانتا ہوں کہ آپ کا کردار پاک ہے اور میرا کردار بھی پاک ہے۔۔۔۔۔اور آپ بھی یہ جانتی ہیں کہ میرا کردار بھی پاک ہے اور آپ کا بھی۔۔۔۔ تو دنیا کی نظر میں اچھا بننے کی امید کیوں؟ ہم جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں یہ بات یا تو ہم جانتے ہیں یا ہمارا اللّه! لوگوں کی نظروں میں نہیں بلکہ اپنے اللّه کی نظر میں معتبر ہونا سب سے اہم ہے! سمجھ رہی ہیں نا آپ ؟" 

وہ بہت نرمی سے اپنے خیالات سے اسکو آگاہ کر کے اس سے جواب طلبی کر رہا تھا۔

وہ جو اسکے میٹھے لہجے کی تاثیر میں گم اس کی نرم گفتگو سے فیض یاب ہو رہی تھی اس کے یوں پوچھنے پر اثبات میں سر ہلا گئی۔

"چلیں اب آنسو صاف کریں اپنے اور سب کچھ اللّه پر چھوڑ کر اپنے ذہن کو پر سکوں رکھ کر سو جائیں۔" 

وہ اسے کندھے سے تھام کر پیچھے بستر پر لٹا کر اس پر لحاف اوڑها کر اس کی پیشانی پر نرم گرم لمس چھوڑتا لائٹ بند کر کے کمرے سے نکل گیا جب کہ وہ اس کے ہونٹوں کا لمس پیشانی پر محسوس کرتی اپنی دھڑکنیں شمار کرتی رہ گئی۔ شاید یہ نکاح کے تین بولوں کا ہی اثر تھا جو اس نازک جان پر اثر انداز ہونا شروع ہو چکا تھا۔وہ زور سرات روتے روتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی گئی۔کئی راتوں کی بے سکونی اور بے آرامی کی وجہ سے وہ کافی گہری نیند میں تھی۔ کسی کے جھنجھوڑنے پر اس نے اپنی أنکھیں کھولیں تو سامنے مستقیم کو پریشان صورت لئے کھڑا دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی ۔

" حریم جلدی اٹھیں پلیز! ہمیں جانا ہے کہیں۔" وہ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر بولا۔

" پپ ۔۔۔۔پر کہاں جانا ہے وہ بھی اتنی صبح۔!" وہ چہرے پر حیرانی لئے بولی۔

"میری گرینڈ ماں کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے ہمیں اسلامآباد جانا ہے. اب پلیز جلدی سے اٹھ کر فریش ہو جائیں اور اپنا کچھ ضروری سامان بھی پیک کر لیں پتا نہیں کتنا وقت لگ جاۓ وہاں ہمیں۔"

وہ جلدی میں اسے بتاتا کوئی اور سوال کا موقع دیے بغیر کمرے سے نکل گیا ۔

اس کے جانے کے بعد حریم بھی جلدی سے اٹھی اور فریش ہونے کی نیت سے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔

 پندرہ منٹ میں فریش ہونے اور اپنا تھوڑا سا ضرورت کا سامان پیک کرنے کے بعد جب وہ باہر لاؤنج میں آئ تو لاؤنج خالی تھا اور کچن سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاید مستقیم تھا کچن میں۔ وہ بیگ صوفے پر رکھ کر کچن کی میں آ گئی۔ 

سامنے ہی مستقیم کالی پینٹ پر سفید رنگ کی شرٹ پہنے ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہا تھا۔

آہٹ پر سامنے دیکھا تو ہ حریم کھڑی انگلیاں مڑوڑ رہی ہے تھی۔

"ہو گئی ہیں ریڈی آپ؟" وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

"جی ۔" وہ جواب دے کر پھر سر جھکا گئی۔

" چلیں جلدی سے آ جائیں پھر ناشتہ کر کے نکلتے ہیں دو گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے ہماری اسلام آباد کی۔" 

وہ کہنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے کرسی نکال گیا تو وہ بھی جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی۔اس کے بیٹھنے کے بعد دونوں نے ناشتہ شروع کیا۔ وہ بریڈ کا ایک سلائس پکرے تب سے چھوٹے چھوٹے نوالے لے رہی تھی۔ جوس کا گلاس بھی جوں کا توں پڑا تھا۔

" آئ ایم سوری آج اپ کا فرسٹ ڈے تھا اور آج ہی یہ سب ہو گیا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ ناشتے میں کیا پسند کرتی ہیں تو جلدی جلدی میں یہی بنا سکا۔ آپ تھوڑا سا ہی کھا لیں پلیز اور یہ جوس کا گلاس ختم کریں جلدی۔"

اسے لگا کہ شاید وہ ناشتے میں یہ سب پسند نہیں کرتی اسی لئے سہی سے نہیں کھا رہی تبھی وضاحت دینے لگا۔

"نہیں ایسا ۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں میں کھا رہی ہوں۔" وہ کہتی جلدی سے ناشتہ ختم کرنے لگی تو وہ بھی اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔

فارغ ہو کر وہ ڈرائیور کے ساتھ ایئرپورٹ روانہ ہو گئے۔ حریم ریليكس نظر آنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی پر اندر سے بہت ڈری ہوئی تھی۔نہ جانے مستقیم کی فیملی کا کیا ری ایکشن ہو۔ ظاہر ہے ان کے بیٹے نے ان کی مرضی اور ان کو بتاۓ بغیر اپنے سے انتہائی نچلے درجے کی لڑکی سے شادی کر لی تھی تو ظاہر ہے اب وہ اس لڑکی کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنایں گے نا۔ شادی جن حالات میں بھی ہوئی اور کس بنیاد پر ہوئی یہ تو بس وہ دونوں ہی جانتے تھے مستقیم کی فیملی نہیں۔

وہ ٹھہری ایک مڈل کلاس لڑکی اور ان امیر لوگوں کے مطابق مڈل کلاس لڑکیاں ہی امیر لڑکوں کو پھنساتی ہیں۔ ان کا اپنا لڑکا تو جیسے کاکا تھا نا۔ لڑکی نے پهنسايا اور وہ پھنس بھی گیا۔ عجیب! 

ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھی جب مستقیم نے اس کا ہاتھ تھاما۔ اس نے چونک کر مستقیم کی جانب دیکھا۔ ان کی فلائٹ کی انائونسمنٹ ہو رہی تھی۔ مستقیم ایک ہاتھ میں سامان اور ایک ہاتھ میں اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا تو وہ بھی ایک گہرا سانس بھر کر اسکے ساتھ چل دی۔

جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اچانک اسکا پاؤں پھسلہ اور وہ پیچھے کی جانب گرنے لگی جب وہ اپنا مضبوط بازو اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے اپنی جانب کھینچ گیا۔ وہ اس کے سینے پر ہاتھ جما کر اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ قائم کر گئی۔

"دیہان سے حریم ۔" 

وہ اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کرتا بازو سے تھام گیا۔

سیٹ بیلٹ باندھنے کی باری آئ تو وہ بے بسی سے مستقیم کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ تو اپنی زندگی میں پہلی دفع جہاز میں سفر کر رہی تھی۔ اسے کیا پتہ ان سب چیزوں کا۔ وہ اس کا مطلب سمجھتا جھک کر بیلٹ باندھنے لگا تو وہ سانس روک کر آنکھیں بند کر گئی۔ اسے یوں دیکھ کر اس پریشانی میں بھی مستقیم کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ چھا گئی۔ جہاز اڑان بھرنے لگا تو مستقیم نے پھر سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسکا مقصد سمجھتی جہاز اڑان بھر گیا تو وہ ڈر کے مارے چیخ کر اس کے بازو کو زور سے دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر اس پہ سر ٹکا گئی۔

حالت نارمل ہوئی تو وہ اپنے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پیچھے ہو گئی۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔پہلے پاؤں پھسلا پھر سیٹ بیلٹ بھی نہ باندهنا آیا اور اس پہ مزید یہ حرکت۔ اف! کیا سوچ رہے ہوں گے وہ کہ ایسی چھیچوری چھچوری لڑکی ہوں میں۔

شرمندگی سے وہ آنکھیں بند کر گئی اور پھر پورے سفر کے دوران ایک بار بھی نظر اٹھا کر مستقیم کی طرف نہ دیکھا۔ مستقیم جانتا تھا کے وہ پریشان ہے بہت ۔ پہلے ماں کی وفات اور پھر اچانک نکاح اور اب ایسے اس کی فیملی میں جانا۔ یہ سب اس کے لئے پریشان کن تھا۔ مستقیم نے کچھ دیر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تا کہ اپنا دماغ پر سکون کر سکے ۔

******

الارم کی آواز پر دعا نے اپنی آنکھیں کھولیں اور نظر گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اتنے میں الارم پھر سے بج اٹھا تو اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی جہاں فاتح کے موبائل کا الارم زور و شور سے بج رہا تھا۔ اس نے گردن گھما کر گھڑی پر نظر ڈالی تو سات بج رہے تھے۔ فاتح نے رات اسے بتایا تھا کہ اسے صبح کالج جانا ہے۔ وہ منہ بنا کر کسلمندی سے دوبارہ بستر میں گھس گئی۔اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نیند کی وادی میں گم ہوتی دروازہ کھلنے کی آواز اور قدموں کی چاپ سے اسے اندازہ ہو گیا کہ ضرور وہ کھڑوس ہی اسے کالج جانے کے لئے اٹھانے آئے ہوں گے۔اس سے پہلے کہ فاتح اسے جگاتا وہ خود ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔

رات ناجانے کب وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر نیند میں چلی گئی۔ فاتح تب تک کمرے میں نہیں آیا تھا۔ اس فلیٹ میں ایک ہی بیڈروم تھا اور اخھا خاصہ بڑا بھی ۔ دوسرا روم ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ فاتح رات کمرے میں آیا تھا کہ نہیں۔ اگر آیا بھی تھا تو کہاں سویا تھا؟ کیا یہیں بیڈ پر؟ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دھڑک اٹھا اور پیشانی نم ہو گئی۔

"گڈ مارننگ!" وہ اسے جاگتا دیکھ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور مارننگ وش کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ بڑھا کر اسکے ماتھے سے اسکا بخار چیک کرنے لگا۔

"گگ۔۔۔گڈ مارننگ۔"

وہ اسکے بھاری ہاتھ کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کرتی كپكپا اٹھی۔

"همم۔ بخار تو نہیں ہے بلکل بھی اب ۔ آپ اٹھ کے فریش ہو جائیں میں ناشتہ ریڈی کر رہا ہوں۔ آپکے کپڑے الماری میں رکھے ہیں اور بیگ سٹڈی ٹیبل پر۔ جلدی سے ریڈی ہو کر آ جائیں پھر میں آفس جاتے وقت آپکو چھوڑ دوں گا کالج۔"

وہ گہری نظر اس پہ ڈالتا ہوا بولا۔ کتنا خوش کن احساس تھا اسے یوں حق سے اپنی ملکیت میں دیکھنا۔ کتنا سکون تھا محرم کی محبت میں۔ اس نے کب سوچا تھا کے وہ کسی قیمتی دعا کی طرح اس کی قسمت میں لکھ دی جاۓ گی۔ اس نے تو کبھی اسے حاصل کرنے کی تمنا ہی نہ کی تھی۔ وہ تو اس کے لئے اس چاند کی طرح تھی جسے دور سے دیکھ کر ہی وہ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور قلب کو سکون پہنچاتا۔ وہ چاند آج اس کی دسترس میں تھا تو وہ کتنا بے یقین تھا۔ وہ کیسے اپنے رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کر پاتا۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔ پر اس نے کبھی ایسی خواہش ہی نہیں کی تھی۔ اس کی نظر میں یہ غلط تھا دعا کے ساتھ کیوں کے وہ اس سے بہت زیادہ چھوٹی تھی۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پر اس سے محبت کرنا بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا کیوں کے یہ اس کے بس میں ہی نہ تھا۔ اور محبت کہاں خود کی جاتی ہے۔ یہ تو بس خود بخود ہو جاتی ہے۔ آپ کو لگ جاتی ہے کسی لا علاج مرض کی طرح۔ اور پھر اپ کو زندہ رہنے کے لئے دوا بھی کرنی پڑتی ہے۔ اور کیا ہوتی ہے محبت کے مریض کی دوا؟ دیدار محبوب! ہاں محبوب کا دیدار ہی فقط اس مرض کی دوا ہے پر پھر بھی یہ مرض بڑھتا ہی چلا جاتا تھا اور ہماری روح سے چپک جاتا ہے عشق پیچا کی بیل کی طرح!۔ اس کا محبوب اس کے سامنے تھا۔ اس کے پاس۔ اور محبوب بھی وہ جسے اس کا محرم بنا دیا گیا تھا۔ بھلا اور کیا چاہیے تھا اسے؟ اور کس چیز کی کمی رہ گئی تھی زندگی میں؟ پر پھر بھی کچھ توتھا جو ادھورا تھا۔ کون سا ادھورا پن رہ گیا تھا زندگی میں؟ ہاں! ماں باپ کی محبت! یہی اس کی زندگی کا وہ خلا تھا جو کبھی پر نہ ہوا تھا اور نہ ہی آگے کوئی امکان تھے اس خلا کے پر ہونے کے۔

نکاح کے وقت وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے باپ کو شامل کر گیا تھا۔ چاہے وہ جتنا مرضی نفرت کا پرچار کرتا پر وہ آس کا باپ تھا جس سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی۔ وہ آئے اس کے نکاح میں شامل ہوئے آور خوشحال زندگی کی دعائیں دیتے رخصت ہو گئے۔ اور جس ایک پل کے لیے اس کے سینے سے لگے کتنا سکون تھا اس ایک پل میں! فاتح نے اپنا سر جھٹکا۔

"آپ کالج نہیں جائیں گے کیا؟" وہ خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی پوچھنے لگی۔

وہ بہت ڈر رہی تھی۔ اگر کالج میں کسی کو پتا چل گیا تو؟

"آپ شاید بھول رہی ہیں تو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ میں پہلے دو لیکچرز کے بعد کالج آتا ہوں!" 

اس کے کہنے پر وہ سر ہلا گئی اور ساتھ تھوڑا حوصلہ بھی ہوا کہ وہ آے گا کالج۔

فاتح نےاسکے حسین چہرے پر نظریں گاڑ لیں۔ وہ اس کی نظروں سے پریشان ہوتی اب تک وہیں بیٹھی تھی۔ فاتح نے تھوڑا جھک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور اس کا رخ باتھ روم کی طرف کیا۔وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی تیزی سے باتھ روم میں داخل ہو کر دروازہ زور سے بند کر گئی تو وہ بھی مسکرا کر سر جھٹکتا کچن کی طرف بڑھ گیا۔

********

وہ اس کے ساتھ جانے پر ڈر رہی تھی کہ کسی نے دیکھ لیا تو شک کرے گا کہ وہ فاتح سر کے ساتھ کیوں آئ۔اس نے سوچا کہ فاتح کو کہہ دے اسے ڈرائیور کے ساتھ بھجوا دے پر اسے مخاطب کرنے کے لئے بھی کافی ہمت درکار تھی جس کا دعا میں فقدان تھا۔ ناشتے کے دوران بھی وہ پریشان سی بار بار اس کی طرف دیکھ رہی تھی پر جب بھی فاتح کی نظر اس پر اٹھتی تو وہ جلدی سے اپنا سر جھکا کر ناشتے میں مگن نظر آنے کی کوشش کرنے لگتی۔ 

اس کی یہ حرکتیں فاتح دیکھ بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا پر چپ رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اسے مخاطب کرے اور اس کی یہ جھجھک ختم ہو۔ پر وہ ایک لفظ بھی نہ بولی۔

فاتح نے اس کے لئے فرنٹ دروازہ کھولا تو وہ جو پیچھے بیٹھنے کا سوچ رہی تھی نا  چار آگے ہی بیٹھ گئی پر اس کی ہمت بس یہاں تک ہی تھی۔ فاتح کی بیٹھتے ہی دعا نے رونا شروع کر دیا۔

وہ اسے یوں ایک دم روتا دیکھ پریشان ہو گیا۔

"واٹ ہیپنڈ دعا؟" 

وہ اسکی طرف رخ کرتا بولا تو وہ اور رونے لگی۔

"سب مجھے آپ کے ساتھ ایسے آتا دیکھیں گے تو ان کو سب کچھ پتا چل جاۓ گا۔" وہ آنکھیں رگڑتی بولی تو فاتح گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔اس کی کانچ سی ہری آنکھوں کو سرخ پڑتا دیکھ  وہ بے چین ہو اٹھا۔ اس کی آنکھوں سے ہی تو شروع ہوئی تھی فاتح ابراھیم کے عشق کی داستان!

"لسن دعا کسی کو کچھ بھی نہیں پتا اور نہ ہی پتا چلے گا۔ اس گاڑی کی کھڑکیاں ایسی ہیں کہ باہر سے کوئی اندر کا منظر نہیں دیکھ سکتا۔ اور دوسری بات! میں آپ کا اور اپنا رشتہ دنیا کی نظر سے چھپا کر نہیں رکھنا چاہتا پر میں چاہتا ہوں کے پہلے آپ سکون سے اپنا یہ سال پورا کر لیں۔ میں نہیں چاہتا پڑھائی کے دوران آپکو کوئی بھی ایسی بات سننے کو ملے جس سے آپ  پریشان ہوں اور اپ کا دیہان پڑھائی سےہٹے۔ سمجھ رہی ہیں آپ ؟" اس کی بات پر وہ مشکور نظروں سے اس کی طرف دیکھتی  سر ہلا گئی تو اس کی آنکھوں کو دیکھ کر فاتح کا دل پھر سے ڈولنے لگا۔ اس نے آنکھوں پر گلاسز چڑھائیں اور گاڑی آگے بڑھا دی۔

********

انھیں ائیرپورٹ سے لینے ڈرائیور کو بھیجا گیا تھا یا شاید مستقیم نے بلوایا تھا۔ وہ خفت کے مارے اب تک اس سے نظریں نہ ملا پائی تھی تو مستقیم نے بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ اسلام آباد کے دلکش نظارے دل موہ لینے کی حد تک حسین تھے۔ کتنی حسین وادی تھی۔ پر اس وقت وہ جس پریشانی میں مبتلا تھی یہ دلکش سماں اور حسین نظارے اس کی طبیعت پر زیادہ خوشگوار اثرات مرتب نہیں کر پا رہے تھے۔ گاڑی ایک گھر کے باہر رکی تو اپنے خیالات کی دنیا سے نکل کر باہر کے منظر کو دیکھنے لگی۔ مستقیم باہر نکل کر اس کی طرف آیا اور اس کے لئے دروازہ کھولا۔ وہ دروازہ کھولے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے اس کا منتظر تھا۔ حریم نے جھجک کر اپنا ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ میں دیا اور گاڑی سے باہر نکل آئ۔ وہ یونہی اس کا سرد پڑتا ہاتھ اپنے بھاری گرم ہاتھوں میں تھامے گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

یہ ایک چھوٹا مگر نہایت ہی خوبصورت گھر تھا جس کی چھت ڈھلوان دار تھی۔ لکڑی اور شیشے کا بنا یہ خوبصورت ترین گھر حریم کو کسی خواب جیسا ہی لگا۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا جا رہا تھا جب کہ وہ ادھر ادھر نظریں گھماتی گھر کی خوبصورتی دیکھنے میں مگن تھی۔ ہوش تو تب آیا جب وہ اسے لئے ایک کمرے کے سامنے رکا۔

حوش قائم ہوئے تو وہ اب حقیقی معنی میں سخت پریشان اور خوفزدہ ہوئی تھی مستقیم کے گھر والوں کے ری ایکشن کا سوچ کر۔مستقیم نے اسکا ہاتھ دبا کر گویا اسے تسلی دی تو وہ نظریں پهير کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا خوف وہ باآسانی دیکھ اور پڑھ سکتا تھا۔

"پریشان مت ہوں آپ اور مجھ پر یقین رکھیں۔"

وہ اسے تسلی دیتا ہوا بولا تو وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ مستقیم نے دروازہ نوک کیا اور اسے لئے کمرے کے اندر داخل ہوا۔

"دی جان" وہ اندر داخل ہوتا ایک دم بولا تو کمرے میں بستر پر پرے وجود کی بند آنکھیں خوشی سے پوری وا ہوئیں ۔

"مستقیم میرا بچہ!" وہ اسے دیکھتیں خوشی سے نم آنکھیں لئے بولیں اور اپنی باہیں اس کے لئے وا کر گئیں۔ وہ آگے بڑھتا ان کی نحیف باہوں میں سما گیا۔ وہ اسے اتنے ہفتوں بعد سامنے دیکھتی آبدیدہ ہو گئیں۔

" اتنے دن بعد کیسے خیال آ گیا تمہیں اس بوڑھی جان کا۔ اب بھی نہ آتے۔" وہ روتی ہوئی بولیں تو وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ اس دفع واقعی بہت لاپرواہی کر گیا تھا وہ۔

"ارے میری پیاری دی جان میں آ گیا ہوں نا اب یہ پورا ہفتہ آپ کے نام ۔" وہ انہیں اپنے ساتھ لگاتا اپنا پروگرام بتانے لگا تو وہ اس کے سر پر تھپڑ لگا گئیں۔ 

"چل ہٹ شریر! دیکھ لیتے ہیں کتنا اپنی بات پر قائم رہتے ہو تم۔ ارے یہ پیاری سی لڑکی کون ہے مستقیم؟" 

مستم کے پیچھے کھڑی گھبرائی بوکھلائی خوبصورت سی لڑکی دیکھ کر دی جان چونک اٹھیں۔

ان کی توجہ خود پر پڑتی دیکھ کر حریم کا رنگ فق ہو گیا۔مستقیم دی جان کے پاس سے اٹھ کر حریم کی طرف بڑھا اور اپنا مضبوط توانا بازو اس کے کندھے کے گرد لپیٹ کر اس کی ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔حریم اپنی جگہ جامد ہو چکی تھی۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ وہ آنکھیں سختی سے میچے اور دوپٹے کا پلو ہاتھوں میں دبوچے متوقع ڈانٹ پھٹکار سنے کے لئے تیار کھڑی تھی جب مستقیم کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

" دی جان یہ محترمہ ہیں وہ شاہکار جن کا تھا آپ کو سالوں سے انتظار! ان محترمہ کو آپ کے اس لاڈلے پوتے کے دل و جان کے ساتھ ساتھ اس گھر کی دوسری مالكن ہونے کا شرف بھی حاصل ہو چکا ہے۔ پہلا حق میرے دل و جان اور اس گھر بار پر چونکہ آپکا ہے اس لئے ان محترمہ کے لئے بقيه خالی حصّہ ہی میسر تھا جہاں پر اب یہ بڑی شان سے براجمان ہو چکی ہیں۔"

اس کی باتوں پر وہ اب آنکھیں پھاڑے اس کی شکل تک رہی تھی۔ کیا یہ مستقیم تھا ؟ کیا سچ میں یہ وہ سنجیدہ سا مستقیم تھا جو بات بھی شاید ناپ تول کر کرتا تھا اور اب اس کی زبان کیسے فراٹے بھر رہی تھی۔ وہ بے یقین سی اس کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ اسے یوں حیرت سے اپنی طرف تکتا پا کر وہ اس کی طرف دیکھتا بائیں آنکھ دبا گیا۔ اس کی اس بے باک حرکت پر وہ سٹپٹا کر آنکھیں پهير گئی۔

"مستقیم جیسا میں سمجھ رہی ہوں کیا واقعی ویسا ۔۔۔۔" فرت جذبات سے ان سے آگے کچھ بولا ہی نہ گیا۔

"جی بلکل میری جان جاں آپ سہی سمجھ رہی ہیں آپ کی بہو ہیں یہ۔"

وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا دی جان کے پاس لایا تو ان کے ہاتھ بڑھانے پر حریم بے ساختہ ان کی طرف جھک گئی اور وہ اسے اپنی کمزور باہوں کے حصار میں لے گئیں۔حریم کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ اس نے کب ایسا مہربان استقبال سوچا تھا۔ وه تو ڈانٹ پھٹکار اور لعنت و ملامت کی منتظر تھی پر یہاں تو سب الٹ ہی ہوا تھا۔وہ آنکھیں موندے ان کا مہربان لمس محسوس کرنے لگی۔

"ماشاءالله میری بہو تو چاند کا ٹکرا ہے! اللّه نظر بد سے بچاے۔ آمیں!"

وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس کا ماتھاچوم گئیں۔ 

مستقیم اب ان کے پاس بیٹھا ان سے خفا ہو رہا تھا جو بیماری کا بہانا کر کے اسے اپنے پاس بلا گئی تھیں پر وہ بھی جانتی تھیں کے ان کے اس طرح بلانے پر ہی وہ ایک ہفتے کا پروگرام بنا کر آیا تھا ورنہ ہر دفع یوں ہی ایک آدھ دن میں فرار ہو جاتا۔ اب وہ الٹا اس سے خفا ہو رہی تھیں کے انہیں بتاۓ اور شامل کے بغیر  ہی شادی رچا بیٹھا پر وہ یہ کہہ کر ان کا غصہ ختم کر گیا کہ حریم کی والدہ کے انتقال کی وجہ سے انھیں اس طرح اچانک شادی کرنی پڑی ورنہ  وہ کبھی ان کی شمولیت کے بغیر شادی نہ کرتا۔ اس کا تھا ہی کون اور ان کے سوا۔

"تم نہیں جانتے مستقیم تم نے میری کتنی بڑی خواہش پوری کر دی ہے۔ کتنا ارمان تھا مجھے تمہاری دلہن دیکھنے کا۔ قیامت کے دن تمھارے مرحوم ماں باپ کے سامنے سرخرو تو ہو سکوں گی نا اب کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اکلوتی اولاد کا حق ادا کر دیا ۔ بس اب تمہاری اولاد دیکھنے کی خواہش باقی ہے۔ اللّه جلد تمہاری جھولی بھرے۔" وہ مستقیم کے مرحوم والدین کو یاد کرتی آبدیدہ ہو کر بولتی آخر میں حریم کا ماتھا چومتی جس دعا سے نواز گئیں حریم سنتی سرخ قندهاری ہو گئی۔ مستقیم دلچسپ نظروں سے اس کے سرخ چہرے پر اٹھتی گرتی پلکوں کا رقص دیکھنے لگا۔

"میں نے تمہارا کمرہ سیٹ کروا دیا ہے تم دونوں جا کر آرام کر لو کچھ دیر سفر کی تھکن اتر جاۓ گی۔"

ان کے کہنے پر مستقیم حریم کو لئے ان کے کمرے سے نکل آیا۔ واقعی آرام کی ضرورت تھی اسے۔ وہ اسے لئے اپنے کمرے میں آیا تو وہ لجائی گھبرائی سی کمرے کے وسط میں کھڑی ہو گئی۔ یہ دی جان کی اس بے باک دعا کا ہی اثر تھا جو اب تک اس کے حواس قائم نہیں ہوئے تھے۔ مستقیم لب دبائے اس کی یہ حالت دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا مسز اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں؟ یقین کریں دی جان کی دعا پر اتنی جلدی عمل کرنا کا ارادہ ہرگز نہیں ابھی میرا جو آپ اس قدر گھبرا رہی ہیں۔" 

وہ ہونٹوں کے گوشوں سے پھوٹتی مسکراہٹ چھپاتا اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا تو وہ مزید بوکھلا گئی۔

 "شش۔۔۔۔شرم کریں آپ ۔" 

وہ بوکھلا کر کہتی جھپاک سے باتھ روم میں گھس کر دروازہ بند کر گئی تو پیچھے وہ اس کی حالت پر قہقہہ لگا اٹھا۔

*****

دعا گھر میں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ رات ہونے کو آئ تھی اور اب تک فاتح کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔ کالج  میں اپنے لیکچرز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ وہاں سے آفس چلا گیا تھا اور چھٹی کے وقت دعا کو گھر چھوڑنے کے لئے ڈرائیور کو بھیج دیا تھا۔ وہ گھر آئ تو سارا بیگم کو پہلے سے ہی وہاں موجود پا کر وو خوشی سے چیخ اٹھی۔ کتنا مس کرتی رہی تھی رات اور صبح وہ اپنی ماں کو۔ اسے کہاں عادت تھی اپنی ماما کے بغیر کہیں رہنے کی۔ پر اب تو مجبوری تھی کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں ۔ فاتح نے انھیں بہت اسرار کیا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی رھیں۔ دعا کی طرح فاتح بھی انکا بیٹا ہے ۔ اس کی بات پر وہ نہال ہو گئیں پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس گھر کو کیسے چھوڑ سکتی ہیں جہاں سے ان کے دلدار شوہر کو خوشبو آتی ہے اور ان کی شادی شدہ زندگی کا ایک ایک حسین پل قید ہے۔ فاتح نے ان کے لئے ایک قل وقتی ملاذمہ رکھ دی تھی ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی۔ آج بھی وہ دعا کی چھٹی سے پہلے ہی ڈرائیور کو سارا بیگم کی طرف بھیج چکا تھا انھیں پک کرنے۔وہ جانتا تھا اچھی طرح کہ دعا کو عادت نہیں اپنی ماما کے بغیر اتنی دیر رہنے کی اسی لئے وہ انھیں بلا گیا تاکہ وہ بہل جاۓ۔

وہ کافی دیر دعا کے پاس رہی تھیں اور اسے پیار سے گھر سمبھالنے اور میاں بیوی کے رشتے کے متعلق دونوں کے حقوق و فرائض سے آگاہ کر کے گئی تھیں اور وہ فرمانبرداری سے سر ہلاتی ان کی گود میں سر چھپا گئی۔ اسے سب بھول کر زندگی میں آگے بڑھنا تھا اور ایک پر سکون اور خوشحال زندگی گزارنی تھی۔ یہ سب تھوڑا مشکل ضرور تھا پر نا ممکن ہرگز نہ تھا۔

وہ اسے بہت سی  نصیحتیں کرتی اور دعائیں  دیتی تھوڑی دیر پہلے ہی رخصت  ہوئی تھیں اور وہ اب اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ پڑھنے کا ذرا بھی دل نہ کر رہا تھا۔ 

تبھی داخلی دروازہ کھلنے کی آواز آئ تو وہ چونک گئی۔ اس وقت کون ہو سکتا تھا کیوں کہ سارا بیگم کے جانے کے بعد اس نے خود دروازہ بند کیا تھا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید فاتح سر کے پاس چابی موجود ہو۔ بھلا ان کے علاوہ کون آ سکتا تھا یہاں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی جب فاتح لاؤنج میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر وہ جلدی سے کھڑی ہوتی سلام جھاڑ گئی۔ 

اسے ایسے ایک گھبراۓ ہوئے طالب علم کی طرح سلام جھاڑتے دیکھ کر فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی جس پر وہ جلد ہی قابو پا گیا۔ اسے سر سے سلام کا جواب دیتا وہ کوٹ اتار کر بازو پر ڈالتا کمرے کی طرف بڑھا تو وہ بھی دھیمے قدموں سے اس کے پیچھے اندر کی طرف بڑھ گئی۔

 وہ کمرے میں آ کر کوٹ ہینگ کرتا الماری کی طرف بڑھ گیا اور ایک آرامده سوٹ لے شوز اتارنے کے بعد فریش ہونے چلا گیا۔وہ اس کے باتھ روم میں بند ہونے کے بعد سوچنے لگی کہ اب کیا کرے ؟ ماما نے اسے کہا تھا کہ اچھی بیویاں شوہر کے گھر آنے کے بعد ان کی ضرورت کی چیزیں انھیں پیش کرتی ہیں اور کھانے پینے کا پوچھتی ہیں۔ وہ یہ سب باتیں پھر سے یاد کرتی سوچ میں پڑ گئی کہ کپڑے تو وہ خود نکل کر لے گئے اپنے اب وہ کیا کرے۔ کھانا اسے تھوڑا بہت بنانا تو آتا تھا پر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بنائے اس لئے کچھ بنایا بھی نہ تھا۔ آخر وہ چاے لانے کا سوچتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ چاۓ بنا کر کمرے میں واپس آئ تو فاتح بھی فریش ہو کر آ چکا تھا اور اب شیشے کے سامنے کھڑا اپنے گیلے بالوں میں برش چلا رہا تھا۔ وہ اسے ایک نظر دیکھ کر اگے بڑھیاور چاۓ کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رخ دیا۔ 

" آپ کی چاۓ!" 

اس کی میٹھی آواز پر وہ پیچھے مڑ کر اس کی جانب دیکھنے لگا جو چاۓ کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھے پاس کھڑی اپنے بالوں کی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔ اس کی اس بیویانہ قسم کی خدمات پر وہ متاثر ہوتا  داد میں ابرو اچکا گیا۔ اسے کہاں اس چوٹی سی گڑیا سے اتنی عقلمندی کی امید تھی۔ وہ اپنے ننگے پاؤں قالین پر دھرتا بیڈ کے پاس آیا اور اس کے قریب جھکتا سائیڈ ٹیبل سے چاۓ کا کپ اٹھا گیا۔ اس کے پیچھے ہونے پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور سائیڈ پر رکھے فاتح کے جوتے کے پاس گئی اور پکڑتے اس کا جوتا صاف کرنے لگی۔ بیڈ پر بیٹھ کر چاۓ پیتے فاتح کی نظر اس پر پڑی تو شدید حیران ہوا۔

"یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟"وہ سخت حیرت زدہ تھا اسکے اس عمل سے۔

"میں آپ کے جوتے صاف کر رہی ہوں"اس نے نظر جھکاتے ہوئے اپنی ازلی معصومیت سے جواب دیا۔

"پر کیوں اور آپ کو کس نے بولا ایسا کرنے کیلئے۔ خبردار آئندہ آپ نے اگر میرے جوتوں کو ہاتھ لگایا"اس نے سختی سے خبردار کیا۔

اس کی اونچی آواز پر اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔وہ ہاتھ دھو کر آئی اور کمرے سے نکلنے لگی۔

"اب کہاں جا رہی ہیں اپ؟" اس نے پیچھے سے آواز دے کر پوچھا۔

"وہ میں کھانا بنانے---" ابھی اس کی بات جاری تھی کہ وہ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ گیا 

"نہیں آپ رہنے دیں آپ آرام سے بیٹھ کر اپنے صبح ہونے والے ٹیسٹ کی تیاری کریں میں کھانا آرڈر کر دیتا ہوں تب تک۔"وہ اب کہ نرمی سے بولا۔

"اوکے سر!" وہ کہتی ہوئی سٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔جب کہ اس کے آخری الفاظ پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا.

********

ے اپنی آنکھیں میچ گئی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اس پر نیند کی دیوی مہربان ہو گئی۔

°°°°°°°°

اس نے دروازہ کھول کر دھیرے سے اپنے قدم باہر رکھے اور ایک چور نظر بیڈ کی طرف ڈالی تو مستقیم کمبل سینے تک اوڑھے آنکھوں پر اپنا داہنا بازو جمائے لیٹا ہوا تھا۔ حریم اندازہ نہ لگا پائی کہ وہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے۔ اس نے اپنا جوتا باتھروم کے باہر ہی اتار دیا تا کہ شور نہ پیدا ہو اور دھیرے دھیرے قدم بیڈ کی طرف بڑھانے لگی۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر اس نے ایک نظر پھر سے پورے کمرے میں دوڑائی ۔ بیڈ کے علاوہ سونے کے لئے اور کچھ بھی میسر نہ تھا۔ دو چوٹھے چھوٹے صوفے اور ان کے آگے ایک میز رکھا تھا آتش دان کے پاس پر وہ صوفے یا میز اس کے سونے کے لئے بلکل بھی کافی نہ تھا۔ 

وہ ابھی تک بیڈ کے پاس کھڑی اسی کشمکش میں تھی کہ کہاں سوۓ جب بیڈ پر پڑے وجود نے اس کی کلای تھام کر اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا۔ اس اچانک سی پیش رفت حرکت پر حریم کے منہ سے بے ساختہ ایک چیخ نما آواز نکلی تھی جو کہ مستقیم اپنا دوسرا ہاتھ اس کے منہ پر جما کر روک گیا۔ اب حالت یوں تھی کہ بیڈ کی دائیں جانب مستقیم لیٹا ہوا تھا اور اس کے اوپر حریم مکمل جھکی ہوئی تھی۔ مستقیم کا دایاں بازو مضبوطی سے حریم کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا اور بایاں ہاتھ حریم کے منہ پر جما ہوا تھا۔ حریم پھٹی پھٹی نظروں سے مستقیم کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی حیرت اور بے یقینی دیکھتے مستیم نے اس کی منہ سے اپنا بھاری ہاتھ ہٹایا اور کروٹ بدلتے اسے نرمی سے بیڈ کی دوری طرف لٹا دیا جب کہ اس کا بازو ابھی بھی اس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔

وہ اس کے کان کے قریب جھکا تو وہ اسے یوں اور بھی اپنے قریب ہوتا دیکھ سختی سے آنکھیںمیچ گئی۔ اب کہ وہ اپنی بھاری آواز میں بولنا شروع ہوا تو اس کے لب حریم کے کان سے مس ہو رہے تھے۔

"کیا ہوا بیوی؟ اس طرح کھڑی کیا دیکھ رہی تھیں اتنی سنجیدگی سے آپ؟ سونا نہیں کیا؟"

اس کے لب حریم کے کان سے مس ہوتے اس کے وجود میں سنسنی خیز لہریں برپا کر رہے تھے۔

"سس ۔۔۔سونے لگی تھی مم ۔۔میں پلیز آ۔۔۔آپ پیچھے ہو جائیں" 

وہ لرزتی ہوئی آواز میں اس سے پیچھے ہونے کی فریاد کر رہی تھی۔

"تو سو جائیں بیوی کس نے منع کیا آپ کو۔"

وہ اب ناک اس کی گردن پر رگڑتا اس کی جان کو اور مشکل میں ڈال رہا تھا۔

" آ۔۔آپ پلیز پیچھے ہو جائیں۔" اب کی بار وہ واقعی پیچھے ہو گیا تو حریم کی جان میں جان آئ پر ہوش تو تب  اڑے جب اسے اپنے چہرے پر جھکتا دیکھا۔ کوئی اور راہ فرار نہ پاتے ہوئے وہ اس سے بچنے کے لئے اسی کے سینے میں چہرہ چھپا گئی تو اس کی یہ حالت دیکھ کر وہ ہولے سے ہنس دیا اور اسے یوں ہی ساتھ لئے پیچھے بستر پر دراز ہو گیا۔ وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس کی شرٹ دونوں مٹھیوں میں جکڑے اسی کے سینے میں منہ دیے سانس روکے پڑی تھی۔اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ سنجیدہ ترین انسان اس قدر رومانٹک بھی ہو سکتا ہے۔

"سو جائیں بیوی اب ورنہ پھر جاگنے پر پچھتائیں گی!"

اس کی گھمبیر آواز حریم کی سماعت سے ٹکڑای تو جھٹ سے آنکھیں بند کر کے اور بھی اس کے سینے میں گھس گئی تو وہ بھی مسکراتا ہوا اپنے دونوں بازوؤں کا حصار اس کرگرد ڈالے آنکھیں موند گیا۔

*****

دعا کے پیپرز شروع ہو چکے تھے۔ گھر کے کاموں اور کوکنگ کے لئے فاتح دو ملازمائیں رکھ چکا تھا۔ وہ بہت چھوٹی سی جان تھی اور فاتح ابراھیم کا دل بھی۔ اس پر کیسے کوئی ذمہ داری ڈال سکتا تھا ابھی وہ ۔ دعا کا بھی حیدر عباس کی وفات اور پھر ان کے نکاح والے واقعہ کی وجہ سے کافی نقصان ہو چکا تھا اس لئے آج کل وہ زور و شور پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس سب میں وہ فاتح سے کافی حد تک فرینک ہو چکی تھی اور اب بلاجھجک کوئی بھی سوال فاتح سے پوچھ لیتی تھی۔ 

آج اس کا کیمسٹری کا پیپر تھا اور وہ جو ناشتے کے بغیر ہی کالج کے لئے نکلنے کا ارادہ رکھتی تھی فاتح کی ایک گھوری پر ہی منہ بسورتی ناشتے کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئی اور وہیں کتاب کھول کر آگے رکھتی فارمولے رٹنے لگی۔ 

صبح ناشتہ فاتح خود ہی بناتا تھا پھر دوپہر اور رات کا کھانا ملازمہ بناتی تھی۔ 

ابھی بھی اس نے ناشتہ لا کر اس کے آگے ٹیبل پر رکھا پر وہ اس پہ دیہان دیے بغیر کانوں میں انگلیاں ٹھونسے آگے پیچھے ہلتی فارمولے رٹنے میں مصروف تھی۔ اسے یوں دیکھ کر بےساختہ فاتح کی ہنسی چھوٹ گئی۔ پر وہ پھر بھی اس سب سے بےنیاز ہو کر اپنے کام میں مشغول تھی۔

فاتح نے اس کے آگے سے کتاب اٹھا کر بند کر کے سائیڈ پر رکھ دی تو اس نے تڑپ کر فاتح کی جانب دیکھا۔

"اف! آپ نے میری بک کیوں بند کر دی ابھی فارمولاز یاد کر رہی تھی میں۔ جلدی سے پکڑائیں واپس مجھے۔"

اس کے تیزی سے بولنے پر فاتح نے افسوس میں سر ہلایا۔

"دعا اگر آپ آج کا پیپر دینا چاہتی ہیں نا تو چپ چاپ جلدی سے یہ ناشتہ ختم کریں ورنہ آج آپ بھی گھر رہیں گی اور میں بھی۔ صحت دیکھیں ذرا اپنی آپ! ایک ہلکی سی پھونک سے ہی اڑ جائیں گی آپ۔"

وہ اسے ناشتہ کرنے کی تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت پر چوٹ کرتا ہوا بولا تو حیرت سے دعا کا منہ کھل گیا۔

"آپ بھی نا عجیب ہی ہیں۔ کتنی آسانی سے کہہ رہے کہ گھر ہی رہئے گا! اور میری صحت بھی اچھی خاصی ہے۔ آپ خود جو موٹے ہیں اس لئے میں آپ کو کمزور لگتی ہوں۔"

اس کی بات پر جوس پیتے فاتح کو زور کا اچھو لگا تھا۔ موٹا! اس کی اتنی فٹ باڈی کو وہ آرام سکون سے موٹا قرار دے گئی تھی۔اپنی معصوم بیوی کی عقل کو وہ سلام ہی کر سکتا تھا جو اپنے ہینڈسم اور ڈیشنگ شوہر کو موٹا سمجھ رہی تھی۔

اچانک گھڑی پر نظر پڑ تے دعا کی سٹی گم ہوئی تھی۔

"اف اللّه بس بیس منٹ رہ گئے۔ فاتح سر لیٹ کروا دیا آپ نے مجھے پہلے ہی پیپر میں۔" 

سارا الزام فاتح پر ڈالتی وہ جلدی سے جوس کا گلاس منہ سے لگا گئی اور سینڈوچ کی پلیٹ  اور بک پکڑ کر گاڑی کی طرف دوڑ لگا گئی تو وہ نفی میں سر ہلاتا خود بھی اس کے پیچھے بڑھ گیا جہاں وہ پہلے سے گاڑی میں بیٹھی بک سامنے ڈیش بورڈ پر رکھے اس سے پڑھتی ساتھ ساتھ سینڈوچ کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھی۔

"جھلی!"  

دل میں کہتا وہ گاڑی آگے بڑھا گیا۔

گاڑی کالج کے باہر رکنے پر وہ تیزی سے نکلنے لگی پر اسے اچانک رکنا پڑا کیوں کہ اس کی كلائی فاتح کے ہاتھ میں تھی۔ وہ جھجک کر سواليه نظروں سے فاتح کو دیکھنے لگی۔

" پیپر بہت دیہان سے کریے گا اور پینک مت ہوئیے گا۔ آپ کو سب آتا بس دماغ کو پر سکون رکھ کر سب سے پہلے ایک دفع کوئیسچن پیپر پڑھنا ہے پھر اس کے بعد پیپر حل کرنا شروع کرنا ہے۔ اب جائیں فی امان اللہ!"

اسے ضروری ہدایات دے کر آخر میں وہ اس کا ماتھا چوم کر بولا تو وہ سکون سے آنکھیں موندتی اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سے نکلتی کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی تو وہ بھی گاڑی آفس کے راستے پر ڈال گیا۔

*******

حریم کی آنکھ کھلی تو خود کو مستقیم کے مضبوط حصار میں پا کر شرما گئی۔ کتنے دن کے بعد اس قدر پرسکون نیند لی تھی اس نے اس کے تحفظ بھرے حصار میں۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو شام کے سات بج رہے تھے۔ وہ دونوں دوپہر سے سوۓ ہوئے تھے اور اب تو کافی وقت ہو گیا تھا۔ وہ مستقیم کا حصار توڑتی  اٹھی اور فریش ہونے کے بعد  دی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازہ  کھلا ہوا تھا۔ وہ جھجکتی ہوئی آگے بڑھی اور دی جان کے سامنے سر جھکا دیا۔

"السلام علیکم دی جان!"

وہ اس کی اس ادا پر واری جانے لگیں۔

"وعلیکم اسلام! صدا خوش رہو جیتی رہو میری بچی! آؤ یہاں میرے پاس بیٹھو۔"

ان کے کہنے پر وہ ان کے پاس ہی بستر میں گھس گئی۔ 

"مستقیم نہیں اٹھا ابھی۔"

ان کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گئی۔

" چلو سونے دو اسے تم تب تک میرے پاس بیٹھو۔ مستقیم اٹھتا ہے تو ملازم کو کھانا لگانے کا بولتی ہوں  تم تب تک یہ کھاؤ۔" وہ اس کے سامنے ڈرائے فروٹس  سے بھرا باول رکھتیہوئی بولیں تو حریم بھی ان کے ساتھ مل کر ڈرائے فروٹس کھانے لگی۔ تھوڑی دیر میں ملاذمہ چاۓ دے گئی تو وہ چاۓ سے لطف اندوز ہونے لگے۔ کچھ دیر میں مستقیم بھی اٹھ کر وہاں آ گیا تو اسے دیکھ کر حریم نظریں جھکا گئی۔

اس کی گہری نظریں خود پر پڑتی دیکھ کر حریم کے گال تپ اٹھے۔

وہ دی جان کی گود میں سر رکھتا لیٹ گیا اور دوپٹے کے نیچے سے حریم کا سرد ہاتھ تھام گیا اور دھیرے دھیرے اپنی انگلیوں سے اسکی انگلیاں سہلانے لگا۔ حریم کی تو جان پر بن آئ۔ اس نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کی پر ایسا کہاں ممکن تھا۔ اوپر سے ستم یہ کہ وہ بیٹھے بھی دی جان کے بلکل پاس تھے۔ وہ زبان سے بھی اس کو کچھ نہیں بول سکتی تھی۔وہ ایک بے بس نگاہ مستقیم کے چہرے پر ڈال کر رہ گئی۔

نہ جانے یہ انسان کیا چاہتا تھا۔ پہلے معاہدے کی شادی کی اور اب اس پر یوں حق جتا رہا تھا۔ اگر یوں حق ہی جتانا تھا تو وہ معاہدہ کیوں؟ اور اگر معاہدہ کر چکا تھا تو اب یوں حق جتانے کا کیا مقصد؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ پہلے پہل اس نے سوچا کے شاید اس سے محبت کرنے لگا ہو اس لئے شادی کی پیشکش کر رہا ہے پر اس کے معاہدے والی بات نے حریم کی یہ غلط فہمی بھی دور کر دی تھی۔

کچھ دیر یونہی بیٹھنے کے بعد وہ اس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے بول گئی کہ اسے بھوک لگی ہے تو دی جان نے کھانا لگوانے کا حکم دیا اور انہیں ساتھ لیے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئیں۔

کھانے سے فارغ ہوئے تو  قہوے کا دور چلا۔ 

وہ تینوں آتش دان کے پاس بیٹھے قہوے سے لطف اندوز ہو رہے تھے  اور دی جان ساتھ ساتھ مستقیم کے بچپن کے واقعات سنا رہی تھیں جنھیں حریم بہت دلچسپی سے سن رہی تھی۔اور مستقیم اس کے چہرے کے دلکش رنگوں میں کھویا ہوا تھا۔ نا جانے وہ سچ میں اتنی حسین تھی یا مستقیم کو ہی اتنی حسین لگتی تھی۔

"مستقیم !"

دی جان کے پکارنے پر وہ ہوش میں آیا۔

"جی دی جان حکم کریں! "

وہ جھکتا سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا تو وہ اس کے سر پر چپت لگا گئیں۔

" اب آہی گئے ہو نا اگر تو ان دنوں میں بچی کو گھما پھرا بھی دو میں جانتی ہوں واپس جا کر تو تمہیں کاموں سے ہی فرست نہیں ملے گی۔"

ان کے کہنے پر وہ حریم کو دیکھنے لگا جو نظریں جھکاکر یوں خود کو لاپرواہ ظاہر کر رہی تھی جسے یہاں اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی بات ہو رہی ہے۔ 

"جی ٹھیک ہے میری پیاری دی جان صبح لے جاؤں گا گھمانے آپ کی بچی کو۔ ابھی تو مجھے اجازت دیں مجھے کچھ کام کرنا ہے آفس کا سونے سے پہلے۔" 

وہ دی جان کا ماتھا چوم کر ایک گہری نظر اس پر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جب کہ وہ وہیں بیٹھی دی جان سے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئی۔

رات گیارہ بجے دی جان کے اسرار پر وہ کمرے میں واپس آئ تو مستقیم سو رہا تھا۔ اس نے شکر کا سانس لیا اور لائٹ بند کر کے بیڈ کے دوسرےکنارے  پر لیٹ گئی۔ ابھی اسے لیٹے تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب مستقیم  نے اسے کمر سے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور اسے اپنے حصار میں لے کرسونے کی تیاری کرنے لگا۔ حریم بھی آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔ جانتی تھی کہ مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں ہونا اس لئے چپ چاپ اس کے حصار میں پڑی سونے کی کوشش کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں ہوش سے بیگانہ ہو چکے تھے۔

*******

مستقیم کی سنگت میں گزرے یہ سات دن حریم کی زندگی کے خوشگوار ترین دن تھے۔ وہ ان سات دنوں میں اسے پورا اسلام  آباد گھما چکا تھا۔ کتنی حسین لگنے لگی تھی زندگی اس کی سنگت میں۔ دن میں اس کی ہمراہی میں  دنیا کی رنگینیوں  کا نظارہ کرتی اور رات کو اس کے محفوظ اور مضبوط حصار میں پر سکون نیند کا لطف لیتی حریم کے لئے یہ زندگی ایک خواب سی تھی۔ ایک ایسا حسین خواب جس کے ٹوٹ جانے کا خوف حریم کو كپكپا دیتا۔ پر وہ اپنی ہر پریشانی بھول کر ان حسین پلوں میں جی رہی تھی۔ کل کس نے دیکھا تھا! پر وہ اپنا آج پورے دل سے جی کر خوشگوار یادیں تو سمیٹ ہی سکتی تھی نا اور وہ یہی کر رہی تھی۔

ان کی تھوڑی دیر بعد کی فلائٹ تھی اسلام آباد کی۔ حریم دی جان کے ساتھ لگی آنسو بہا رہی تھی۔ کتنی انسیت ہو گئی تھی اسے دی جان سے۔ ان کی مہربان اور نرم طبیعت نے حریم کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔ وہ اسے بلکل کسی ماں کی طرف سمجهاتی اور نصیحت کرتی تھیں۔ ان کی محبتوں کیوہ مقروض ہو گئی تھی۔ اس نے بہت کہا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں پر وہ یہ کہ کر ٹال گئیں کہ ضرور آئیں گی۔  

فلائٹ میں کم وقت رہ گیا تو وہ دی جان سے ملتے ان کی دعائیں سمیٹتے ائیرپورٹ روانہ ہوئے۔ واپسی کا سفر حریم نے مستقیم کی کندھے پر سر رکھ کے سو کر گزارا تھا۔

گھر آنے کے بعد فریش ہو کر ڈنر کیے بغیر ہی دونوں سو گئے کہ سفر کی تهكان اتار سکیں۔ مستقیم کو صبح سے آفس بھی جانا تھا۔ 

مستقیم نے سر جھکا کر اسے دیکھا جو اس کے بازو پر سر رکھے بچوں کی طرح منہ کھول کر سو رہی تھی۔ مستقیم نے بے ساختہ جھک کر اس کے ادھ کھلے ہونٹوں کو ذرا سا چھوا اور سکون سے آنکھیں موندھ کر اسے اپنے اور بھی نزدیک کرتا نیند کی وادی میں گم ہو گیا۔

*********

وہ کالج سے آنے کے بعد گھوڑے گدھے بیچ کر سو چکی تھی۔ اس کا پیپر بہت اچھا ہو گیا تھا اس لئے وہ پر سکون نیند سو رہی تھی۔ فاتح شام کو آفس سے گھر آیا تو پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے لاؤنج کی لائٹ آن کی تو لاؤنج خالی پڑا  تھا۔ اسے اچنبا ہوا کیوں کہ اس کے مطابق اس وقت دعا کو پڑھائی میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا ہے تو وہاں بھی اندھیرے نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے آگے بڑھ کر لائٹ جلای تو کمرہ روشنی میں نہا گیا۔ اس کی نظر بیڈ پر گئی تو وہاں وہ محترمہ ایک ہاتھ سینے پر رکھے اور دوسرا بازو بیڈ سے نیچے لٹکائے خواب خرگوش کے مزے لینے میں گم تھیں۔ اسے یوں حق سے اپنے بستر پر لیٹا دیکھ کر ہر دفعہ کی طرح اب بھی فاتح کے ہونٹوں پر ایک جان دار مسکراہٹ چھا گئی۔ دل میں ٹھنڈک اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ 

فاتح نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کوٹ اتار کر صوفے پر اچھالتا بیڈ کی طرف قدم بڑھا گیا۔ وہ اس کے قریب ہی کہنی کے بل دراز ہو گیا۔ 

وه اس وقت ہلکے گلابی رنگ کی سادہ مگر نفیس سی شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ گلابی دوپٹہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ کالے بال جوڑے میں مقید تھے جن سے کچھ آوارہ لٹیں نکل کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ ہری آنکھیں جن سے فاتح ابراھیم کو عشق تھا، اس وقت بند تھیں۔ تیکھی ناک کے نیچے بھرے بھرے گلابی لبوں پر نظر پڑتے فاتح کا دل بے ایمان ہونے لگا ۔فاتح کی نظر اس کی گردن پر پوری شان سے چمکتے تل پر پڑی تو وہ بے ساختہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس تل کی چھو گیا۔ نظریں پھسلتی ہوئی اس کے خوبصورت جسم میں الجھنے لگیں تو فاتح نظریں چرا گیا۔ 

وہ پیچھے ہوتا بیڈ پر دراز ہو گیا اور ہاتھ بڑھا کر دعا کو اپنی طرف کھینچ گیا۔ وہ نیند میں کسمسائی اور خود ہی اس کے مزید قریب ہو کر اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔ فاتح سرشاری سے اس کے چہرے کو تکنے لگا۔ وہ اس کے نقوش کو تکتا اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ یوں ہی نا جانے کتنا وقت بیت گیا۔ ہوش تو اسے تب آیا جب وہ اسی کے حصار میں پڑی بھر پور انگڑائی لیتی نیند سے بیدار ہوئی تھی۔ فاتح کا سانس سینے میں اٹکنے لگا۔ وہ تو پہلے ہی اس کا اسیر تھا۔ اب اسے یوں اپنی قربت میں جان لیوا انگڑائی لیتا دیکھ کر اس کا کمبخت دل پھر سے اس کی قربت پانے کے لئے ہمکنے لگا تھا جسے فاتح بڑی مشکل سے صبر کرنے پر آمادہ کر پایا تھا۔

دعا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے قریب ترین موجود فاتح کو دیکھ رہی تھی۔ وہ بنا دوپٹے کے لیٹی ہوئی تھی اوپر سے اس کے اتنا قریب ہو کر وہ بے دھیانی میں جو حرکت کر گئی تھی اس پر فاتح کی خود پر گڑھی گہری نظریں دیکھ کر وہ مر جانے کو ہوئی تھی۔

فاتح اس کی مشکل سمجھتا اسے خود سے اور بھی قریب کر کے اسکی کمر کی گرد اپنا بازو مضبوطی سے لپیٹ گیا۔

" کیسی ہیں آپ؟ پیپر کیسا ہوا آپ کا؟" 

وہ اس کے چہرے پر موجود لٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑستا نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔

"ٹھ۔۔ٹھیک۔" وہ نظریں جھکاتی ہوئی اس کی قربت سے گھبراتی ہوئی بولی۔

"کیا ٹھیک؟ میں نے دو سوال کیے ہیں آپ سے اب مجھے کیا پتا کہ آپ نے کس سوال کا جواب دیا ہے۔" 

وہ اس کی آنکھوں پہ جھکتا دونوں سبز نگینے چوم گا۔

"فاتح ابراھیم خاں کو عشق ہے ان سبز نگینوں سے۔ یہ ہر دفعہ نئے سرے سے فاتح ابراھیم کو تسخیر کر لیتے ہیں۔" 

وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتا پھر سے اس کی آنکھوں کو اپنے ہونٹوں کے لمس سے معتبر کر گیا۔ وہ بھی اس کے لمس سے سکون محسوس کرتی آنکھیں موندے پڑی تھی۔

"آپ نے جواب نہیں دیا اب تک میرے سوالوں کا۔"

اس کی دوبارہ پوچھنے پر وہ آنکھیں دھیرے سے کھولتی اس کی طرف دیکھنے لگی۔نظروں کے اچانک تصادم پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں جھکاتی اس کے مضبوط سینے پر ٹکا گئی۔

"میں ٹھیک ہوں اور پیپر بھی بہت زیادہ اچھا ہو گیا۔" 

اس کے الفاظ اور قربت پر وہ سرخ پڑ گئی تھی۔

"گڈ! چلیں بہت سو لیا اٹھ کر فریش ہو جائیں آپ میں کھانا گرم کرتا ہوں کچن میں ہی آ جائیے گا آپ۔ "

وہ اس کا ماتھا چومتا اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر اسے بھی اٹھایا۔ وہ فریش ہونے کے لئے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی دھیمی مسکراہٹ لبوں پر سجائے چینج کرنے کے لئے ڈریسنگ روم کی طرح بڑھ گیا۔

********

مستقیم آج میٹنگ کے سلسلے میں دو  ہفتوں کے لئے دبئی جا رہا تھا  اور حریم کل سے یہ سوچ سوچ کر بے حال ہو رہی تھی کہ وہ یہ دو ہفتے مستقیم کے بغیر کیسے گزارے گی۔ ان گزرے دو مہینوں میں وہ اسے اپنی اس قدر عادت  ڈال چکا تھا کہ اس کی بغیر اتنے دن گزارنا بھی حریم کے لئے محال تھا۔ 

عجیب رشتہ تھا ان کا بھی۔ نہ ایک دوسرے کے بغیر رہ پاتے تھے نا ایک دوسرے کی اہمیت کا اقرار کرتے تھے۔ دونوں اپنی اس زندگی سے بہت خوش تھے۔ ایک محبت بھری پر سکون زندگی۔پر کنٹریکٹ نامی کانٹا اس طرح سے ان کے رشتے میں موجود تھا کہ وہ نہ ہی اپنا رشتہ اگے بڑھا پا رہے تھے اور نہ ہی دل میں موجود ایک دوسرے کی محبت کا اظہار کر پا رہے تھے۔

مستقیم  کو حریم سے پہلی نظر کی محبت ہوئی تھی۔ وہ اسے پورے دل سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ حریم کو اسکی ماں کے انتقال کے بعد اپنے اپارٹمنٹ لانے کے بعد جب اس نے حریم کے آگے شادی کی بات رکھی تب اسکا کنٹریکٹ میرج کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس کے خواب و خیال میں بھی پہلے یہ بات نہ تھی۔ وہ اسے اپنی ہمسفر بنانا چاہتا تھا پر اس طرح سے نہیں جس طرح سے بات ہو گئی۔ وه حریم سے نکاح کی بات کر رہا تھا پر اس کے شاک تاثرات دیکھ کر اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچے گی کے وہ موقعے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ایک مجبور اور بےسہارا لڑکی کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی خیال کے باعث وہ حریم کی آگے کنٹریکٹ میرج کی شرط رکھ گیا کہ اس طرح بات بھی رہ جاۓ گی کیوں کہ دی جان کافی دیر سے اس کی شادی کے پیچھے پڑی تھیں۔ 

وہ اس کی محبت تھی اور اب محرم بھی۔ پر وہ مکمل اختیار رکھتے ہوئے بھی اسکی قربت سے کوسوں دور تھا جسے  کنویں کے پاس کھڑا پیاسا!  

اس کے لئے حریم کی قربت پانا مشکل نہ تھا پر اس کی غیرت گوارا نہ کرتی تھی کہ یوں حریم کی نظر میں بنے ایک معاہدے کے رشتے میں اسکی قربت حاصل کر کے حریم کو یہ احساس دلاتا کہ وہ اس سے صرف اپنی ضرورت پوری کر رہا تھا یا وعدہ خلاف تھا۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ دبئی سے آتے  ہی وہ حریم کو ساری سچائی سے آگاہ کر دے گا اور اپنی محبت کا اظہار کر کے اسے ہمیشہ کے لئے خود کی قریب کر لے گا کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ حریم بھی اس سے محبت کرنے لگی ہے۔ اس کی آنکھوں میں موجود چاہت کے رنگوں سے مستقیم لا علم نہ تھا۔

وہ کمرے میں آیا تو حریم اس کی پیکنگ کر رہی تھی۔مستقیم کی طرف اس کو پشت تھی پر پھر بھی مستقیم جانتا تھا کہ اس کی آنکھیں نم ہیں۔

مستقیم حریم کے این پیچھے جا کھڑا ہوا اور اس کی کمر کی گرد اپنے دونوں بازو باندھے اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا گیا۔

"يي۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ مستقیم؟ پیچھے ہٹیں مجھے سکون سے پیکنگ کرنے دیں۔" 

وہ اس کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر وہ اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر گیا۔

"بیوی یار ہر وقت چھوڑنے کا ہی کیوں بولتی رہتی ہیں آپ ۔ مستقیم چھوڑیں۔۔۔۔مستقیم پیچھے ہٹیں! یہ دونوں تو آپ کے پسندیده  ڈائلاگز  بن چکے ہیں۔ کبھی یہ بھی بول دیا کریں کہ مستقیم  ذرا پاس آئیں یا پھر یہ کہ مستقیم مت چھوڑیے گا۔ همم!۔" 

اس کے یوں بے باکی سے بولنے پر وہ سرخ پڑ گئی۔

"شرم کر لیں مستقیم!" 

اس کہ یوں شرم سے سرخ پڑنے اور دھیمی آواز میں بولنے پر مستقیم قہقہہ لگا اٹھا۔

"ارے میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ کا ایک پسندیده ڈائلاگ یہ بھی ہے۔" وہ اس کےقہقہے  پر شرمندہ ہوتی اس کا حصار توڑنے لگی تو وہ بھی اپنی گرفت ڈھیلی کر گیا۔

وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اپنے نزدیک کر گیا۔

"مس کریں گی مجھے آپ؟" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا اس سے سوال کرنے لگا تو وہ نظریں چرا گئی۔

"نہیں تو میں کیوں مس کروں گی آپ کو" 

اس کے کہنے پر وہ ابرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔

"آہاں واقعی؟"

اس کے پوچھنے پر وہ مسکراہٹ دباتی اثبات میں سر ہلا گئی تو مستقیم نے داد میں سر ہلایا۔

"بیوی!" اس کی جذبوں سے بھرپور گھمبیر آواز پر اس کا دل دھڑک اٹھا۔

"جی۔"

وہ ابھی تک اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔

" مجھے آپ کو ایک بہت اہم بات بتانی ہے دبئی سے واپسی پر۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سج سنور کر میرے دل کو بہلانے کا سامان کر کے میرا انتظار کریں۔ کریں گی نا؟" 

وہ جذبات سے بھر پور آواز میں کہتا آخر میں لہجہ سوالیہ بنا گیا تو وہ سرخ ہوتی بے اختیار سر ہلا گئی۔ وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا چینج کرنے کے لئے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا کہ کچھ دیر بعد اسے ایئرپورٹ کے لئے نکلنا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ اس سے ملتا گھر سے روانہ ہو گیا تو حریم ایک اداس نظر اس کی دور جاتی گاڑی پر ڈال کر دروازہ بند کر گئی۔

°°°°°°°°°°°°

وہ چور نظروں سے بار بار فاتح کی طرف دیکھ رہی تھی جو بیڈ پر نیم دراز ہوا موبائل میں مصروف تھا۔ اس کی نظریں محسوس کرتا فاتح سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا تو وہ ایک دم اسے اپنی طرف تكتا پا کر بوکھلا گئی اور جھٹ سے کتاب چہرے کے آگے کر گئی۔ 

وہ موبائل بیڈ پر ہی رکھتا اسٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ بیٹھ کر صبح ہونے والے فزکس کے پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔ فاتح نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ سے کتاب لے لی تو وہ سوالیہ نظروں سے فاتح کی طرف دیکھنے لگی۔ 

"کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کسی سوال کی سمجھ نہیں آ رہی تو مجھ سے بلا جھجک پوچھ سکتی ہیں آپ۔"

اس کے پوچھنے پر وہ جھٹ سے نفی میں سر ہلا گئی۔

"نن۔۔۔نہیں تو کچھ بھی نہیں سمجھنا۔ سب سمجھ تو لیا۔" 

اس کے بولنے پر وہ کتاب واپس دعا کو پکڑا گیا جسے پکڑتے ہی وہ رٹا لگانا شروع ہو چکی تھی۔

فاتح ایک نظر پھر سے اس پر ڈالتا کمرے سے نکل گیا تو اس کے جاتے ہی دعا نے گہرا سانس لیا۔

"اف! شکر بچ گئی ورنہ کھڑوس نے تو پکڑ ہی لیا  تھا بس۔" 

وہ اپنا سانس بحال کرتی کتاب پر نظریں جما چکی تھی۔ پانچ منٹ کے بعد فاتح کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ایک گلاس تھا جسے وہ دعا کی طرف بڑھا گیا۔

"کتاب رکھ کر پہلے یہ جوس ختم کریں شاباش!" 

اسے بولتا وہ خود ہی اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر سامنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے جوس اس کے سامنے کر رکھا تھا جسے اس نے پکڑنے کی زحمت نہ کی تھی اب تک۔

"پر ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو کھانا کھایا! ابھی بلکل بھی دل نہیں کر رہا۔" 

وہ منہ بنا کر بولتی فاتح کو اتنی پیاری لگی کہ وہ اچانک جھکتا اس کی پیشانی پر اپنے پیار کے پھول کھلاتا پیچھے ہٹتے ہی جوس کا گلاس اس کے منہ سے لگا گیا اور تب تک پیچھے نہ کیا جب تک وہ سارا جوس ختم نہ کر گئی۔

"صحت دیکھیں اپنی آپ! پڑھنے کے لئے انرجی چاہیے ہوتی ہے اور انرجی کھانے پینے سے ہی ملتی ہے اور ہمیں ویسے بھی پڑھنے کے دوران کچھ میٹھا ضرور لینا چاہیے۔ اس سے دماغ تیز ہوتا ہے اور دماغ کا گلوکوز لیول بھی کم نہیں ہوتا۔ اب پڑھیں دھیان سے شاباش!" 

وہ خالی گلاس کچن میں رکھ کر واپس آیا اور دوبارہ بیڈ پر بیٹھ کر موبائل میں گم ہو گیا۔

کچھ دیر ہی گزری تھی جب وہ انگلیاں مڑوڑتی ہوئی اس کے نزدیک ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔فاتح نظریں اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

"وہ۔۔۔میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ ہمارا فزکس کا پیپر آپ نے بنایا ہے نا؟" 

وہ یہ سوال پوچھتے ہوئے کافی گھبرا رہی تھی پر ہمت کر کے اگر پوچھ ہی لیا تھا تو اس کا جواب سن کر ہی یہاں سے اٹھ سکتی تھی اب ورنہ دل کر رہا تھا کہ اس کے سامنے سے غا ئب ہو جاۓ۔

اس کے سوال پر وہ اپنی بے ساختہ در آنے والی مسکراہٹ چھپا گا۔ وہ اب سمجھا تھا کہ کیوں وہ کافی دیر سے بار بار چور نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

"جی تو؟"

وہ ابرو ابکا کر اسے دیکھنے لگا۔

" وہ ایکچولی میں یہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔" 

وہ انگلیاں مڑوڑتی ہوئی بات ادھوری چھوڑ گئی۔

"کہ؟"

اس کے پوچھنے پر وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی تھوڑا اور اس کے نزدیک ہو گئی اور بات جاری رکھنے کے لئے اپنا حلق تر کرنے لگی۔

وہ میں کہہ رہی تھی کہ آپ نے پیپر بنایا ہے تو آپ کو تو پتا ہی ہوگا نا کے کل کون کون سے سوالات آنے ہیں۔توآپ ۔۔۔آپ وہ سوالات مجھے بھی بتا دیں۔"

وہ تیزی سے کہتی اپنی آنکھیں زور سے بند کر گئی۔

وہ اسے دیکھتا مسکراہٹ دبانے لگا۔ اب آئ تھی نا بلی تھیلے سے باہر!

وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنی جانب کھینچ گیا تو وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی دونوں کے درمیان فاصلہ قائم کر گئی ۔ وہ اسے خود سے اور نزدیک کر گیا تو دعا کے ہونٹ فاتح کے سینے سے ٹکرانے لگے۔ 

"اچھا تو اگر میں آپ کو بتا دوں تو بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" 

اس کے بولنے پر وہ پر جوش ہوتی اپنا سر اٹھا گئی۔ اس کے چہرے پر موجود خوشی دیدنی تھی۔

"اف! آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ بتا دیں گے؟ آپ جو کہیں گے میں بلکل ویسا ہی کروں گی!" 

لہجے کی خوشی چھپاے نہیں چھپ رہی تھی۔

"آہاں مسز! آر یو شیور ؟" 

اس کے پوچھنے پر وہ تیزی سے سر ہلا گئی۔ ہری آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔

"اوکے ہگ می!" 

وہ جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا تو وہ ہونق بنی اس کا چہرہ تکنے لگی۔

"جج۔۔جی؟" اس کی ہونق شکل پر فاتح سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔

"ہاں جی! کچھ لینے کے بدلے کچھ دینا تو پڑے گا نا۔ ناؤ ہری اپ!" 

وہ اس سے اپنی خواہش بیان کرتا اب اس کی پیش قدمی کے انتظار میں تھا۔ دعا نے اس کے سینے پر موجود اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ اوپر اس کے کندھے کی طرف سرکانے شروع کر ديے۔ اب وہ اس کے کندھوں پر دونوں ہاتھ جما کر سر جھکا کر اس کے سامنے ایستاده تھی۔ اس کی جھجک کو محسوس کرتے فاتح نے خود ہی اسکی کمر کو جھٹکا دیا تو وہ اس کے ساتھ لگ گئی۔ فاتح نے اس کی کمر پر موجود بازوؤں کو اور بھی مضبوطی سے اس کے گرد باندھا تو اس کے تنگ حصار کی قید میں موجود دعا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا جیسے ابھی باہر آ جاۓ گا۔

تھوڑی دیر یوں ہی اس کے حصار میں پڑا رہنے کے بعد وہ ہلکا سا کسمسائی تو ایک دفع اسے زور سے خود میں بھینچ کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا اور اس کے پیچھے ہونے سے پہلے جھک کر اس کی آنکھوں کو چوم گیا۔ اس کے پیچھے ہوتے ہی وہ جھجک کر تھوڑا دور ہو کر بیٹھی اور سرخ رنگت لئے ماتھے پر موجود بالوں کو پیچھے کرنے لگی۔ نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں اور کانچ سی ہری آنکھوں پر لمبی پلکوں کی جھالڑ پردہ کیے ہوئی تھی۔

"بتائیں اب!"

اس کے کہنے پر وہ اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل سے اس کی کتاب اٹھا لایا اور واپس آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ کتاب کا پہلا صفحہ کھول گیا تو وہ پھر سے جوش میں آتی اس کے نزدیک ہو کر بک پر جھک کر دیکھنے لگی۔

وہ پنسل سے کچھ چیپٹرز پر نشان لگا کر اسے دکھانے لگا۔

"یہ جن چیپٹرز پر میں نے نشان لگائے ہیں نا پیپر ان میں سے ہی آے گا۔ اب اتنا بتا دیا اس کے آگے ایک لفظ نہیں بتاؤں گا۔ اگر اور کچھ پوچھنا ہے کہ تو اس کے الگ چارجز لگیں گے۔ '

وہ کتاب واپس اس کے ہاتھ میں پکڑا گیا تو وہ آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

اس کی حالت دیکھ کر فاتح کا دل چاہا کہ زور سے قہقہہ لگاے۔

"آپ بہت بڑے چیٹر ہیں۔ میں آیئندہ آپ سے کچھ بھی نہیں پوچھوں گی!" 

وہ غصے سے لال پیلی ہوتی کتاب پکڑ کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ اسے آوازیں دینے لگا پر وہ اس کی ایک بھی آواز سننے بغیر اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کرتی باہر لاؤنج میں چلی گئی تو فاتح قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

" ہاے میری معصوم محبت!" 

وہ پیار سے بولتا اس کے تاثرات یاد کرتا پھر سے ہنس دیا۔

*******

ڈیڑھ ہفتہ ہو گا تھا مستقیم کو گئے ہوئے پر یہ ڈیڑھ ہفتہ حریم کو ڈیڑھ صدی کے برابر لگ رہا تھا۔ اس کی مستقیم سے بات بھی بہت کم ہو رہی تھی۔ وہ کال کر کے حال وغیرہ پوچھتا  اور پھر مصروفیت کا کہہ کر دوبارہ کال کرنے کا وعدہ کرتا کال بند کر جاتا۔

آج جمعہ تھا اور سوموار کو مستقیم کی واپسی تھی۔ اس نے کچھ سوچ کر مستقیم کو کال ملائی پر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ اس نے غصے سے موبائل بیڈ پر پهينكا اور الماری سے ایک سوٹ نکالتی  فریش ہونے کے لئے باتھروم میں چلی گئی۔ باہر آنے کے بعد اس نے موبائل چیک کیا تو مستقیم کی کوئی کال یا میسج نہیں تھا۔ اس نے مایوسی سے موبائل واپس رکھ دیا اور خود شیشے کے آگے کھڑی ہو کر بال سلجھانے لگی۔ وہ بال سلجھاتے مستقیم کے خیالوں میں گم تھی جب اپنے پیچھے آہٹ ہونے پر چونک ک کر پیچھے مڑی  تو وہیں ساکت ہو گئی۔

نیلی پینٹ پر سفید شرٹ پہنے اور سفید ہی ٹائی لگائے وہ مستقیم ہی تھا۔ اسے دیکھتے مستقیم نے دھیرے سے اپنی باہیں وا کیں تو وہ پلک جھپکتے اس کی باہوں میں سما گئی۔ اس کے سینے سے لگتے ہی وہ سسکنا شروع ہو چکی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔

"بیوی!" 

وہی جذبوں سے پر گھمبیر آواز  حریم کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ آنکھوں موندے اسے محسوس کرنے لگی۔ 

آہ! کتنا مس کیا تھا اس نے اس آواز اور اس لفظ کو۔ مستقیم کو کیا پتا ہو کہ اس کی آواز میں کہا گیا یہ لفظ کیسے حریمکی دھڑکنوں میں تلاطم برپا کر دیا کرتا تھا۔

"بیوی یار بس بھی کر دیں یا پھر ان آنسوؤں کی ندی میں اپنے مظلوم شوہر کو بہانے کا خطرناک ارادہ کر بیٹھی ہیں۔ مجھے پتا ہوتا کہ میری بیوی مجھے  اتنا مس کریں گی تو بخدا کبھی آپکو اس دوری سے نہ گزرنے دیتا۔"

وہ اسے خود سے دور کرتا اس کے آنسو پونچھنے لگا جو مہرون لباس میں دوپٹے کے بغیر اس کی باہوں میں سمٹی ہوئی قندھاری رنگ چہرے پر سجائے  اس کے ہوش اڑا رہی تھی۔ 

اس کی گہری جسم میں اترتی نظریں  خود پر محسوس کرتی وہ اپنا دوپٹہ اٹھانے کے لئے بیڈ کی طرف لپكی تو وہ اس کی كلائی اپنی گرفت میں لیتا اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ ختم کرتا اسے جھک کر باہوں میں لئے بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔

وہ اسے بیڈ پر لٹا کر خود بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حریم نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتا اسے واپس بیڈ پر لٹا گیا اور اسے سر سے پاؤں تک اپنی نظروں کے حصار میں لے گیا۔ 

اس کی ایکسرے کرتی نظریں اپنے جسم پر پڑتی دیکھ کر وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپا گئی تو وہ گہرا مسکرا دیا۔

وہ اس کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹاتا اس کی پیشانی کو اپنے پیار بھرے لمس سے مہکا  گیا۔

"جانتی ہیں حریم میرا سکون ہیں آپ! جب جب آپ کو دیکھتا ہوں تو یہ  دل سجدہ شکر میں جھکنے لگتا ہے۔" 

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ گیا تو وہ اپنی تیزدھڑکنوں سے اس کی دھڑکنیں محسوس کرنے لگی۔

" میں نے جب پہلی دفع ریسٹورنٹ میں آپ کو دیکھا تھا تو میرے دل نے تب ہی مجھے دھوکہ دے دیا اور میرا ہوتے ہوئے بھی یہ صرف اور صرف آپ کے لئے دھڑکنے لگا۔ اس دل کی اول و آخر مکیں ہیں آپ !" 

اس کی بات سنتی حریم کی آنکھیں تحیر  سے پهيلیں   تو وہ جھکا اس کی آنکھوں کو اپنے لمس سے معتبر کر گیا۔

"آپ سے نکاح کی شرط وہ کنٹریکٹ محض ایک کاغز کا ٹکڑا تھا جس کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی اور میں اسی دن ہی وہ غیر ضروری ٹکڑا پھاڑ کر پھینک چکا تھا۔ میں آپ کی پوری رضامندی کے ساتھ آپ کو حاصل کر کے ہمارے خوبصورت رشتے کو اور بھی مضبوط کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو میرا ساتھ زندگی بھر کے لئے قبول ہے؟" 

اس کے پوچھنے پر وہ آنکھیں بند کرتی اثبات میں سر ہلا گئی۔

"میں آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں حریم!"

اس کے کہنے پر وہ اپنی تیز ہوتی سانسوں میں اس کی محبت کو قبولیت کا شرف بخش گئی۔

"ق۔۔۔قبول ہے" 

اس کے اقرار پر وہ سرشار ہوتا اس کے چہرے پر جھک گیا اور اپنی محبت کے پھول کھلانے لگا۔اس کی پیشانی پر مہر چھوڑتا وہ اس کی آنکھوں پر جھک گیا۔ اس کی تیکھی ناک کو ہونٹوں سے چھوتا وہ اسے دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ اس کے گالوں پر بکھری لالی اسے مزید حسین بنا رہی تھی۔وہ جھک کر اس کے دونوں گال چوم گیا۔ نظریں بھٹک کر اس کے سختی سے آپس میں پیوست گلابی لبوں پر پڑیں تو وہ ان پر جھک گیا۔ وہ سختی سے اسکا گریبان اپنے ہاتھوں میں دبوچ گئی۔ محبت کا جام پی کر وہ پیچھے ہٹ کے اس کی جانب محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگاتو وہ شرماتی ہوئی اس کی گردن میں چہرہ چھپا گئی۔ مستقیم نے اسے اپنے حصار میں لیا اور اس پر محبت کی برسات کرنے لگا۔ آسمان پر موجود چاند اور ستارے بھی ان کے ملن پر سرشار  خوب چمک رہے تھے۔

***

مستقیم کی سنگت میں زندگی بہت حسین ہو گئی تھی۔ وہ اپنی پرانی ساری محرومیاں اس کا ساتھ پا کر بھول چکی تھی۔ دی جان سے بھی اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ آج اتوار تھا اور مستقیم گھر ہی تھا۔ 

اسکی باہوں کے حصار میں پڑی حریم نے آنکھیں کھول کر دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف دیکھا جو 9 بجنے کا اعلان کر رہی تھی۔ وہ اس کی باہوں کا حصار توڑ کر اٹھی اور کندھے پر بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑے میں لپیٹا۔ جمای روکتے ایک بھرپور انگرائی لی اور مڑ کر مستقیم کے ماتھے پر بوسہ دے کر اٹھتی فریش ہونے کے لئے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔

وہ فریش ہو کر واپس آئ تو مستقیم اب تک گہری نیند میں سو رہا تھا۔ وہ اس پر ایک مسکراتی ہوئی نظر ڈال کر کچن کی طرف بڑھ گئی تا کہ اسپیشل بریک فاسٹ کا انتظام کر سکے۔ 

وہ توے پر پراٹھا ڈالے کھڑی تھی جب پیچھے سے مستقیم اسے اپنے حصار میں قید کر گیا۔

"گڈ مارننگ میری جان!" 

وہ اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا کر بولا۔

"گڈ مارننگ! اچھا ہوا خود ہی اٹھ گے آپ میں آپ کو ہی اٹھانے جا رہی تھی ناشتے کے لئے۔"

وہ اسے دیکھ کر مسکرا کر کہتی پھر سے توے کی جانب متوجہ ہو گئی۔

"دیکھ لیں بیوی آپ نے یاد کیا اور ہم سر کے بل آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔" 

اس کے کہنے پر وہ کھکھلا کر ہنس دی۔

"بہت نوازش حضور! بندی آپ کی یہ مہربانی ہمیشہ یاد رکھے گی۔" 

وہ بھی شرارت سے بولتی لب دبا گئی۔

"آہاں!" 

اس کی شرارت پر وہ ابرو اچکا گیا۔

"چلیں نا مستقیم بہت بھوک لگی ہے مجھے۔"

 اس کے کہنے پر وہ اب کے شرافت سے پیچھے ہٹ گیا اور برتن ڈائننگ ٹیبل پر لگانے لگا۔

ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے نوک جھوک کرتے وہ اپنی زندگی کے حسین پل سمیٹ رہے تھے۔

ہر ویکینڈ کی طرح یہ ویکینڈ بھی ان دونوں نے خوب موج مستی کرتے ایک دوسرے کی سنگت میں بتایا تھا۔

*********

دعا کے پیپرز بہت اچھے ہو گئے تھے۔ پیپرز کے بعد دس چھٹیاں تھی۔ فاتح نے سوچا تھا کہ یہ چھٹیاں وہ دونوں کسی اچھے سے ٹور پر گزاریں گے۔ وہ اپنی اور دعا کی ٹکٹس بھی کروا چکا تھا پر ایک دن پہلے ہی اسے ایک بہت ضروری میٹنگ کے لئے آوٹ آف سٹی جانا پڑ گیا اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے دعا کو سارا بیگم کی طرف چھوڑ کر میٹنگ کے لئے جانا پڑا۔ 

دعا بھی بہت پرجوش تھی فاتح کے ساتھ پہلی دفعہ ایسے لمبے ٹور کے لئے۔ پر ان کا سارا پلان ہی خراب ہو گیا۔

وہ آج صبح بھی برے موڈ کے ساتھ ہی کالج آئ تھی پر چوتھے لیکچر میں جو خبر اسے ملی وہ خوشی سے چیخ پڑی۔ کالج سٹوڈنٹس کے لئے نوردرن ایریاز کا ٹور پلان کیا تھا۔ 

کالج میں اسے فاتح سے اس موضوع پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ گھر آتے ہی وہ بےصبری سے فاتح کا انتظار کرنے لگی۔ روز فاتح اسی وقت پر آتا تھا پر آج دعا کو یہ وقت کچھ زیادہ ہی لمبا محسوس ہو رہا تھا۔

" السلام علیکم!" 

وه انہی سوچوں میں غرق تھی جب فاتح نے آ کر سلام کیا۔ اسکی آواز ایک دم سن کر وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑی ۔ فاتح نے آگے بڑھ کر حسب معمول اس کی پیشانی چومی۔

"اف ڈرا دیا آپ نے تو مجھے۔" 

وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنا سانس بحال کرتی ہوئی شکوہ کرنے لگی۔

"اچھا تو محترمہ صاحبہ ایسے کن خیالات کی سیر کو نکلی ہوئی تھیں کہ میری آواز سنتے ہی ڈر گئیں؟" 

وہ ابرو اچکا کر سوالیه نظروں سے اسے دیکھنے لگا تو دعا کو اپنی خوشی پھر سے یاد آئ۔

وہ اچھل کر فاتح کی بلکل پاس کھڑی ہو کر دونوں ہاتھ اس کے سینے پر جما گئی۔

"اپ کو پتا ہے میں آج بہت بہت زیادہ خوش ہوں۔ کب سے آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔" 

وہ اپنی اس قدر نزدیکی سے فاتح کے اندر برپا ہونے والے جذبات سے بےخبر اپنی ہی ہانکے جا رہی تھی۔

"آہاں! اور یہ خوشی یقیناً کالج ٹور کی خبر کی وجہ سے ہوگی۔ ایم آئ رائٹ؟" 

اس کے پوچھنے پر وہ تیزی سے اثبات میں سر ہلا گئی۔ 

"اف کتنا مزہ آئے گا نا۔ مجھ سے تو ابھی سے ہی صبر نہیں ہو رہا ۔" 

دعا کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا اسکی آنکھوں پر پیار بھرا لمس چھوڑ گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس کی حرکت پر جھینپ گئی۔

" آپ جانا چاہتی ہیں؟" 

وہ اس کے گالوں کو چھوتی بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹنے لگا۔وہ اس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی محض سر ہلا گئی۔

"اوکے پھر ہم ضرور جائیں گے۔!"

وہ جھک کر اس کے گالوں کو باری باری چھو کر اپنے لمس سے معتبر کرنے لگا۔

"یاہوو ! وہ جوش سے کہتی اس کی گردن کے گرد اپنے بازوؤں کا ہار بناتی اس کے سینے کا حصّہ بن گئی۔ 

فاتح کا تیزی سے دھڑکتا دل ساکت ہونے پر آ گیا۔وہ پیچھے ہٹنے لگی تو فاتح نے اس کی کمر پر ہاتھ جما کر اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔

"اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے؟" 

اس کی گھمبیر آواز بہت نزدیک سے دعا کے کانوں سے ٹکرائی تو کانوں پر پڑتی اس کی سانسوں کی گرمی دعا کو پاگل کرنے لگی۔

"وو۔۔وہ ہمیں شش ۔۔۔شاپنگ بھی کرنی ہو۔۔ہوگی نا؟" 

وہ گهگيا گئی۔

"یس! شاپنگ بھی کریں گے۔ آپ ایک کپ کافی پلا دیں میں فریش ہو کے چینج کر لوں پھر ہم شاپنگ پے چلتے ہیں اور ڈنر بھی باہر ہی کریں گے۔"

وہ اسے پیچھے کرتا اس کا گال تھپتھپا کر اپنے کپڑے لیتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا تو وہ بھی اپنے سرخ گال شیشے میں دیکھتی شرما کر کچن کی طرف رخ کر گئی۔

**********

مستقیم آفس جا چکا تھا۔ اسے کل سے اپنی طبیت گری گری محسوس ہو رہی تھی پر اس نے مستقیم کو محسوس نہ ہونے دیا کیوں کہ جانتی تھی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس بیٹھ جاۓ گا اور ٹینشن الگ لے گا۔

دوپہر کو ایسے ہی اس کے دماغ میں خیال آیا کیوں نا لنچ بنا کر آفس لے جاۓ مستقیم کے لئے پھر اس کے ساتھ ہی واپسی پر ڈاکٹر کو بھی چیک کروا لے۔ 

اس خیال کو عملی جامہ پہناتے جلدی سے اٹھی لنچ تیار ہوا اور خود بھی ہلکا پھلکا تیار ہوتی گھر لاک کر کے مستقیم کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔

وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اندر داخل ہوئی۔ جیسے ہی اسکی نگاہ سامنے اٹھی وہ

 ساکت ہو گئی۔ابھی ہی تو اسکی آنکھوں نے حسین خواب بننے شروع کیے تھے پر خوابوں کا محل بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہو چکا تھا۔ سامنے ہی وہ کرسی پر براجمان تھا اور وہ سرخ بالوں والی چڑیل اس پر مکمل جھکی ہوئی تھی۔ دروازے کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوتے وہ جھٹکے سے اس لڑکی کو خود سے دور کر چکا تھا۔سامنے ہی وہ بے یقینی سے کبھی اسے اور کبھی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کے حلیے سے اسے ایک لڑکی ہوتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی تھی۔

"ہنی پلیز جسٹ لسن ٹو می!"اس نے جیسے ہی اسے باہر کیطرف بڑھتے دیکھا تیزی سے اسکی طرف لپکا۔

"یو ڈونٹ ہیو ٹو سے سوری سر! انفیکٹ سوری مجھے کرنی چاہیے بغیر ناک کیے اندر آنے اور آپ کے پرائویٹ مومنٹ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے۔ آئی ایم ریئلی سوری سر!" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں نمی دیکھتا تکلیف سے دوچار ہوا تھا۔ وہ تیزی سے پلٹتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

وہ غصے سے لیلیٰ کی طرف پلٹا ۔

"تم گھٹیا ترین عورت  تمہارا تو میں بعد میں بندوبست کرتا ہوں." 

وہ غصے سے تن فن کرتا وہاں سے نکلا تو پیچھے وہ قہقہہ  لگا کر مکروہ ہنسی ہنس دی۔

" مجھے ریجیکٹ کیا تھا نا مستقیم فارس اب بھگتو خود بھی۔ لیلیٰ اپنی ریجیکشن معاف کیسے کر دیتی۔ ہنہ!" 

وہ ہنکار بھرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی کیوں کہ اس کا کام یھاں ختم ہو چکا تھا۔

وہ شروع سے مستقیم کو پسند کرتی تھی جس کا اظہار بھی وہ کر چکی تھی پر اس نے یہ کہہ کر اسے ریجیکٹ کر دیا کہ وہ اسے صرف دوست سمجھتا ہے اور کسی اور لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ پچھلے دنوں جب اسے پتا چلا مستقیم کی شادی کا وہ تب سے انگاروں پر جل رہی تھی۔ آج وہ ویسے ہی آئ تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بیوی بھی وہاں آ جاۓ گی اچانک۔ وہ مستقیم کو بہکانے کے لئے اس پر جھکی تھی پر اسی وقت حریم آ گئی۔ خیر لیلیٰ کا کام تو آسان ہی ہوا تھا نا!

 وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف بڑھا پر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ مستقیم نے جلدی سے گاڑی بهگائی۔ ابھی وہ آدھےراستے میں پہنچا تھا جب گاڑی بند ہو گئی۔

"شٹ!" 

اس نے غصے سے ہاتھ سٹیرنگ وہیل پر مارا ۔ اس گاڑی کو بھی ابھی خراب ہونا تھا۔ وہ گاڑی لاک کر کے باہر نکلا اور كيب  کروا کر فلیٹ کی طرف بڑھا۔ وہ گھر داخل ہوتے ہی حریم کو آوازیں دینے لگا پر وه ہوتی تو ملتی نا۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ایک سفید کاغذ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ مستقیم نے کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی تو ساکت ہو گیا اور کاغذ چھوٹ کر اس کے ہاتھوں سے نیچے جا گرا۔

********

وہ لوگ کالج سے نکل چکے تھے۔ سب سے پہلے انہیں  ناران جانا تھا۔ وہ کالج بس میں امايا کے ساتھ  بیٹھی پرجوش نظر آتی تھی جب کہ فاتح دو اور ٹیچرز کے ساتھ بس کے پیچھے ہی اپنی گاڑی میں تھا۔ پر موسم میں کچھ خرابی کی وجہ سے دوسرے ٹیچرز کے اسرار پر اسے گاڑی وہیں چھوڑ کر بس میں سوار ہونا پڑا۔ وہ  دعا کے بلکل ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ دعا کی تو خوشی سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ وہ اسے دیکھتا  منہ نیچے کر کے مسکرا دیا۔جھلی! 

وہ نیلی جینز پر وول کی سفید ہائی نیک پر ہلکا نیلا مفلر اور لائٹ پنک كلر کی اونی  ٹوپی پہنے فاتح کی نظریں بھٹکا رہی تھی۔ فاتح کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسے سب سے دور لے جاۓ اور خود میں چھپا لے۔ جب کہ وہ خود بھی نیلی پینٹ اور سفید ہائی نیک میں ملبوس تھا۔ ان دونوں کی ایک جیسی  ڈریسنگ دیکھ کر امايا نے اسے خوب تنگ کیا تھا  جس کے جواب میں وہ شرما کر سر جھکا جاتی اور امايا قہقہہ لگا دیتی۔

تھوڑا ہلا گلا کرنے کے بعد اب بس میں موجود سب سٹوڈنٹس اور ٹیچرز ہی تقریباً سو رہے تھے۔ کوئی ایک آدھ ہے جاگ رہا تھا۔ بس میں موجود  بتیاں بھی سب کی نیند کے خیال سےبجھا دی گئی تھیں۔ 

ایسے میں فاتح اور دعا تقریباً ساتھ ساتھ بیٹھے ہی ایک دوسرے سے میسج پر بات کر رہے تھے۔

فاتح: "دعا اب سو جائیں کچھ دیر شاباش۔ بہت وقت ہو گیا ہوا۔" 

دعا: "نہیں نا ایسے تو نہیں سو سکتی نا!" 

فاتح: "کیوں جی ایسے کیوں نہیں سو سکتی آپ؟ یا پھر میرے سینے پر سر  رکھ کر سونے کی عادت پختہ ہو چکی ہے اپ کی؟" 

اس کے سوال پر وہ سٹپٹا گئی۔ فاتح اندھیرے میں بھی  موبائل کی روشنی کی وجہ سے  اس کے چہرے پر نظر آتا گلال دیکھ سکتا تھا۔

فاتح: " آہ ! کاش اس وقت ہم دونوں تنہا ہوتے تو میں آپ کے چہرے پر بکھری یہ شفق اپنے ہونٹوں سے چنتا!" 

اس کا بے باک میسج پڑھتی وہ اور بھی سرخ ہوئی تھی۔

دعا: " اوکے گڈ نائٹ! مجھے نیند آئ ہے۔"

 وہ میسج کرتی جلدی سے موبائل اوف کر کے آنکھیں بھی بند کر گئی۔ جب کہ  فاتح کا دل کیا کہ زور سے قہقہہ لگاے۔ دعا نے آنکھیں موندیں تو وہ نظر بچاتا جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر خود بھی سونے کی تیاری کرنے لگا۔

*****

وہ لوگ ہوٹل پہنچ چکے تھے اور اب آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں جا رہے تھے جو ان کے لئے  مختص کیے گئے تھے۔  فاتح دعا کو کہہ چکا تھا کے کمرے سے باہر نہ نکلے خود اکیلے اور اگر کوئی بھی کام ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اسے کال کر لے۔

آدھی رات پیاس کی شدت سے اس کی آنکھ کھلی تو جگ خالی پڑا تھا۔ بوتل بھی خالی تھی۔ اس نے سوچا کے فاتح کی نیند کیا خراب کرنی خود ہی پانی لے آتی ہوں۔ اس نے شال اوڑھی اور بوتل پکڑ کر باہر نکل گئی۔ وہ کوریڈور سے دائیں طرف مڑی  تو کسی نے اس کے چہرے پر سختی سے ہاتھ جمايا اور اندھیرے میں ایک طرف گھسیٹنے لگا۔ نہ یہ لمس فاتح کا تھا اور نہ ہی یہ گرفت۔ وہ وہ وجود اس کو چیخنے یا مزاحمت کرنے کا موقع دیے بغیر اسے اپنے ساتھ گھسیٹ رہا تھا ۔ کاش اس نے فاتح کی بات مانی ہوتی! کاش وہ اس اندھیرے میں اکیلی کمرے سے باہر نہ نکلی ہوتی! کاش اس کا مسیحا بھی یہاں موجود ہوتا! کاش!  

*******

"آئ ایم رئیلی سوری مستقیم  میں نے آپ کی لائف ڈسٹرب کر دی شاید! آپ میرے محسن ہیں۔ میری ماں کی وفات کے  بعد اس کالی رات میں جب اپ نے میری جان بچائی میں  تو اس وقت سے ہی  آپ کی قرض دار ہو گئی تھی۔ آپ نے مجھے سہارا دیا رہنے کے لئے چھت دی اور پھر  نکاح کی پیشکش بھی! ایک معاہدے کا نکاح! کہتے ہیں نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے یہ دو دلوں کو ایک ڈور میں باندھ دیتے ہیں اور میرا دل تو پہلے سے ہی آپکا اسیر تھا تو اس کو کیوں نہ اپ سے محبت ہوتی۔ میں بہت چاہنے لگی آپ کو مستقیم۔ آپ کی قربت میں گزارا ایک ایک پل میرے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ آپ نے اظہار محبت کیا تو میں بھی اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتی آپ کی محبت پر ایمان لے آئ پر آج مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں واقعی آپ کے لئے ایک معاہدہ ہی تھی محض۔ میں یہاں سے جا رہی ہوں ہمیشہ کے لئے۔ کہاں یہ میں بھی نہیں جانتی پر اتنا ضرور جانتی ہوں کے بس آپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں وہ پھر چاہے جس کے ساتھ مرضی رہیں آپ۔ خدا حافظ! "

یہ کیا کیا آپ نے حریم؟ بس اتنا  ہی یقین تھا آپ کو مجھ پر  اور میری محبت پر۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا حریم! 

وہ اپنی آنکھیں رگڑتا اس کو تلاش کرنے نکل پڑا۔

******

وہ لاکھ مزاحمت کرتی پر کب تک؟ آخر تھی تو ایک نازک سی لڑکی ہی نا۔ اس کا دل شدت سے فاتح کو پکار رہا تھا۔ وہ وجود اس کو ہوٹل کے پچھلے حصّے میں لے گیا جو اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کو لے جا کر زمین پر پهينكا ۔ اس کے منہ سے تکلیف کے مارے چیخ نکل گئی کیوں کہ اس کی کہنی بہت زور سے زمین پر لگی تھی۔ وہ وحشت زدہنگاہوں سے اس وجود کو دیکھنے لگی جس کی بڑی بڑی مونچھیں سیاہ رنگت اور پیلے دانت اسے مزید خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اس نے ہمت کر کے اٹھ کے بھاگنا چاہا تو وه اس کی كلائی دبوچ گیا ۔ 

"پپ۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔۔میں نے تمہآرا کّک ۔۔کیا بگاڑا ہے۔" 

وہ روتی تڑپتی اس جانور نما انسان سے فریاد کر رہی تھی جو اس وقت نشے میں دھت اس پر قابض ہونا چاہ رہا تھا۔

"ارے اتنا مست پیس ہاتھ لگا ہے ایسے ہی جانے دوں۔ آج رات تو جشن ہوگا جشن۔ ہاہاہا" 

وہ مکروہ قہقہہ لگاتا اس کی شال کھینچ کر دور پھینک گیا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ اس کے گریبان تک لے جاتا فاتح نے پیچھے سے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور اس کے چہرے پر ایک زوردار مکّا مار کر دعا کو اس سے دور کیا. 

وہ اونچی آواز میں روتی اس کے گلے لگ گئی۔ فاتح نے نرمی سے اسے الگ کیا اور اس سانڈ کی طرف بڑھا۔ وہ جنونی ہو کر اس پر پل پڑا اور اسے لاتوں مکّوں اور ٹھوکروں سے دھنک کر رکھ دیا۔ اتنی دیر میں وہاں سیکورٹی آ گئی اور فاتح کو بہت مشکل سے اس سے الگ کیا جسکی مرنے والی حالت ہو چکی تھی۔ فاتح شرٹ کے كف سے اپنے ہونٹوں سے بہتا خون صاف کر کے دعا کی طرف بڑھا اور اسے چادر اوڑھا کر اپنے حصار میں لیتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اسے کمرے میں کر دروازہ لاک کیا اور اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بالوں میں انگلیاں پهنسا کر کمرے میں چکر لگانے لگا۔ دعا خوفزدہ نظروں سے اس کے غصیلے چہرے کو دیکھنے لگی۔ وہ اب تک ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ فاتح غصے سے اس لی طرف لپكا اور اسے دونوں بازوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔

"کیا کہا تھا میں نے آپ سے؟ کہ کمرے سے باہر نہیں آنا اکیلے۔ کہا تھا کہ نہیں کہا تھا جواب دیں مجھے آپ!"  

اس کے جارحانہ انداز میں پوچھنے پر دعا کے منہ سے چیخ نکل گئی اور مزید رونے لگی۔ فاتح اسکی سرخ پڑتی ہری آنکھوں میں دیکھنے لگا اور اسے ایک دم کھینچ کر اپنے سینے سے لگا گیا۔ وہ بھی روتی اس کی گرد حصار قائم کر گئی۔

جب اسکا رونا کم ہوا تو فاتح نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا اور بیڈ پر بیٹھا کر خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا . اس نے گلاس میں پانی ڈالا اور اس کے منہ سے لگا دیا۔ جب وہ پانی پی چکی تو وہ باقی بچا ہوا پانی خود پی کر گلاس سائیڈ پر رکھ گیا۔ گلاس رکھ کر وہ اٹھ کر اپنے بیگ کی طرف بڑھا اور اس میں سے اپنا ایک ٹرائوزر اور شرٹ نکال لایا۔

"اٹھیں اور چینج کر کے آئیں جلدی۔"

وہ کپڑے اسے تھما کر بولا تو وہ چپ چاپ کپڑے پکڑتی باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے جانے کے بعد فاتح نے شرٹ بدلی اور ہیٹر چلا دیا. 

 وہ کپڑے بدل کر باہر آئ تو اس سیریس حالت میں بھی فاتح سے اسکی حالت دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا محال ہو گیا۔ شرٹ کے بازو بھی فولڈ کیے گئے تھے اور ٹرائوزر کے پوھنچے بھی۔ وہ اس وقت ایک کیوٹ سی بچی لگ رہی تھی۔

وہ دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی تو فاتح نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر بیڈ پر بٹھایا۔ بیڈ پر پڑا تولیہ اٹھایا اور اس کے بال خشک کرنے لگا۔ بال خشک کر کے تولیہ باتھ روم میں رکھ کر آیا اور کمرے کی لائٹ بند کر کے سائیڈ ٹیبل لمپ جلا دیا ۔ دعا ابھی تک ویسے ہی بیٹھی تھی۔ چپ۔ ساکت۔ جامد۔

وہ بیڈ پر آ کر لیٹا اور پیچھے سے اسے بھی کھینچ کر اپنے حصار میں لے گیا۔ فاتح نے اس کا سر اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔

"سنیں!" 

اس کی پکار پر وہ جھک کر اس کے سبز نگینوں میں دیکھنے لگا۔

"سنائیں"

لہجے میں پیار کے علاوہ ہر تاثر مفقود تھا جسے محسوس کرتے پھر سے دعا کی آنکھوں سے سیلاب رواں ہوا تھا ۔

"شاید میں ایک بری لڑکی ہوں اللّه پسند نہیں کرتا مجھے اس لئے سزا دے رہا ہے مجھے." وہ بھیگی آنکھوں اور سرخ ناک کے ساتھ سسکتی ہوئی بول رہی تھی۔

"سزا کیوں؟ہو سکتا ہے کے یہ صرف آزمائش ہو اور آزمائش تو اللّه کے پسندیدہ بندوں پر آتی ہے نا." وہ اسکے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے بہت پیار سے اسے سمجھا رہا تھا ۔

"پر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ پہلے بغیر کسی غلطی ور گناہ کے بدکردار ثابت کیا گیا اور آج اگر آپ وقت پر نہ اتے تو۔" 

وہ اس کے سامنے سسکتی اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی۔ 

"شش چپ! کیوں نہ آتا میں۔ اللّه نے مجھے آپ کی حفاظت کا ذمہ سونپا ہے تو کیسے نہ آپ کی حفاظت کے لئے آتا میں۔" 

وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتا اس کے گال سہلاتا اسے پر سکون کر رہا تھا۔

وہ آنکھیں بند کر گئی تو وہ اس کے چہرے پر جھک گیا۔ وہ اس کے اور اپنے درمیان تمام دوریاں آج مٹا دینا چاہتا تھا۔وہ اس کا خوف اپنی پیار بھری قربت سے دور کر رہا تھا اور وہ بھی مزاحمت کیے بغیر اس کی محبت کو وصول کر رہی تھی۔

صبح فاتح پرنسپل کو بتا کر دعا کو ساتھ لئے وہاں سے گھر کی طرف نکل آیا کیوں کہ وہ خود اب مزید وہاں نہیں رکنا چاہتی تھی اور فاتح بھی اس کی خواہش کا احترم کرتے اسے وہاں سے لے آیا۔

*******

چار مہینے گزر چکے تھے ۔ زندگی کے سفر میں ہر کوئی آگے بڑھ چکا تھا پر مستقیم کے لئے تو جسے وقت تھم چکا تھا۔ وہ دن  اور رات کی تفریق بھول چکا تھا۔ کہاں  کہاں نہ ڈھونڈا تھا اس ظالم لڑکی کو پر وہ ایسی غائب ہوئی تھی کہ  مستقیم ڈھونڈتا  ہی رہ گیا۔ ابھی بھی دی  جان کی اپائنٹمنٹ کے لئے ہسپتال آیا تھا۔ وہ گلاسز  آنکھوں پر چڑھاتا پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر چادر میں لپٹی ایک لڑکی پر پڑی۔ اسے اس لڑکی پر حریم کا گمان ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتی، اپنے وہم کی تصدیق کے لئے وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

"حریم!" 

وہ تڑپ کر اسے پکار اٹھا تو آگے موجود وجود  ایک پل کو  ساکت ہوا  اور اس کے بعد تیزی سے اگے بڑھنے لگا۔  اس کی تیزی دیکھتے مستقیم کو یقین ہو گیا کہ وہ حریم ہی تھی۔ 

وہ اس کے پیچھے لپكا اور اس کی كلائی تھام کر جھٹکے سے اس کا رخ موڑ گیا۔ 

"حریم میری جان!" 

وہ اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر تڑپ کر اسے  اپنے سینے سے لگا گیا۔

"چھ۔۔۔چھوڑیں مجھے! " 

وه مزاحمت کرتی اس سے دور ہونے لگی  پر  مستقیم کی گرفت مضبوط تھی۔ اس کے وجود میں رونما ہوئی واضح تبدیلی کو محسوس کر کے مستقیم کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ وہ اسے خود سے الگ کرتا نرمی سے اس کا بازو اپنی گرفت  میں لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ 

وہ اپنا بازو  چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی پر مستقیم اس کی مزاحمت پر دھیان دیے بغیر اسے گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی لاک کرتا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھا گیا۔ پورے سفر کے دوران دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں تھی ہوئی۔ گھر کے باہر پہنچ کر مستقیم باہر نکلا اور اسے نرمی سے تھام کر باہر نکالا۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ وہ اسے لئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ لاؤنج میں صوفے پر ایک گلاس پانی لیا اور خود ہی اس کے منہ سے لگا گیا ۔ وہ پانی پی چکی تو  مستقیم گلاس سائیڈ پر رکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ  اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا گیا۔ 

"کیوں حریم؟ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ کیا کمی نظر آئ تھی آپ کو میرے پیار میں؟ مجھے ساری زندگی اس بات کا دکھ رہے گا حریم کہ آپ نے مجھ سے پیار تو کیا پر مجھ پر اور  میرے پیار پر اعتبار نہیں کیا۔اور آپ نے اتنی بڑی خبر چھپائی مجھ سے ۔ میں باپ کے رتبہ پر فائز ہونے والا ہوں یہ خبر جاننے کا سب سے پہلا حق تھا میرا پر آپ نے نہ صرف خود کو مجھ سے دور کیا بلکہ میری اولاد کو بھی مجھ سے اوجھل رکھا۔ کیوں حریم؟ جواب دیں مجھے آپ!" 

وہ دکھ سے بولتا  آخرمیں تڑپ کر اس سے سوال کر گیا۔

"مم ۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں مستقیم میں جانتی ہوں کہ میں آپ کی گنہگار ہوں۔ میں محبت تو کر بیٹھی پر اعتبار نہ کر سکی۔ میں بہت ڈر گئی تھی مستقیم۔ مجھے لگا آپ نے مجھ سے سمجھوتے کے تحت شادی کی اور کمپرومیٹز  کر لیا اور اس دن لیلیٰ کو یوں آپ کے ساتھ دیکھ کر میں بہت ہرٹ ہوئی تھی اور جلد بازی میں وہ قدم اٹھا بیٹھی۔ میں جانتی تھی کہ آپ مجھے ڈھونڈ لیں گے اسی لئے ایک ہوسٹل میں آ گئی۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتا چلا کہ میں پریگننٹ  ہوں میں واپس آنا چاہتی تھی پر جو حرکت کر چکی تھی اب کیسے آپ کا سامنا کرتی۔ مجھے معاف کر دیں پلیز" 

وہ سسکتی آخر میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی تو مستقیم نے تڑپ کر اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھے۔

"کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہیں حریم آپ! آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں ۔ آپ کی تو سو خطائیں بھی معاف ہیں!" 

وہ محبت سے بولتا اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔

"بیوی!" 

اس کی جذبات سے بھرپور آواز میں  مہینوں بعد یہ پکار سنتی وہ سکون سے آنکھیں بند کر گئی ۔ 

"جی۔"

"اس خوبصورت تحفے کے لئے بہت شکریہ آپکا! اپ نہیں جانتی آپ نے کتنی بڑی خوشی دی ہے مجھے۔  آئ لو یو مور دن مائی لائف!"

 وہ اسے خوبصورت اظہار سے نوازتا  اس کی  پیشانی پر لب رکھ گیا۔

************

وہ دونوں اس وقت  ہسپتال کے کوریڈور میں بینچ پر بیٹھے تھے ۔ تھوڑے سے فاصلے پر ہاتھ میں تسبیح پکڑے فائقہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ فاتح ہاتھ کی مٹھی بنا کر ہونٹوں پر رکھے بیٹھا تھا۔ آنکھیں ضبط سے سرخ پڑ رہی تھیں۔ 

ابراھیم صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔  فاتح لاکھ ان سے نفرت کا پرچار کرتا پر یہ خبر سن کر ایسے تڑپا تھا گویا کسی نے جسم سے روح الگ کر دی ہو۔ وہ تو ماں کے بعد ساری زندگی باپ کے پیار سے بھی محروم رہا تھا پر دل میں کہیں نہ کہیں یہ امید باقی تھی کہ زندگی میں کبھی کسی موڑ پر ہی ایک دفع تو وہ اسے گلے لگائیں گے۔

وہ دس سال کا تھا جب اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔تب اسے شدت سے باپ کے پیار کی ضرورت تھی ۔ پر ابراھیم خان اپنی محبوب بیوی کی موت کے غم میں اس قدر ڈوب گئے کہ اکلوتے  بیٹے سے ہی غافل ہو گئے ۔ ماں کے دباؤ میں آ کر  فائقہ بیگم سے شادی رچا لی ۔ پر اس سب میں بیٹے سے اس قدر دور ہو گئے کہ وہ شکل دیکھنے کا بھی روادار نہ رہا۔ فائقہ بیگم ایک بہت اچھی اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئی تھیں۔ انہوں نے فاتح کے نزدیک ہونے کی بہت کوشش کی پر یہ فاصلہ کبھی نہ سمٹ سکا ۔

"فاتح !" 

دعا نے اس کے کندھے پر ہاتھ  رکھ کر پکارا تو وہ ہوش میں آیا۔ 

" پریشان نہ ہوں آپ پلیز پاپا کو کچھ نہیں ہو گا انشااللہ " 

وہ اسے حوصلہ دیتی بولی تو وہ نم آنکھیں لئے اس کے کندھے پر سر ٹکا گیا۔

"میں بہت برا ہوں دعا! انہوں نے ہمیشہ میری طرف بڑھنے کی کوشش کی پر میں بچپن کی باتیں دل میں لئے ہمیشہ انھیں نظرانداز کرتا رہا۔ کتنا تڑپے ہیں وہ میرے لئے۔ مجھے ان کی تڑپ کا آج اندازہ ہو رہا ہے ۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا دعا؟ میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔" 

وہ اب اس کے کندھے سے لگا باقاعدہ رو رہا تھا۔ 

"کچھ بھی نہیں ہو گا انھیں آپ بس اللّه سے اچھے کی امید رکھیں۔"

وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی اسے اپنے پیار بھرے لمس اور لفظوں سے پر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی تبھی دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر نکلا۔وہ اٹھ کر تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔  اس کے پیچھے ہے فائقہ بیگم بھی آ گئیں۔ 

"ڈاکٹر میرے فادر کیسے ہیں اب؟" 

وہ بےچینی سے پوچھ رہا تھا۔

"مبارک ہو مسٹر فاتح وہ اب خطرے سے باہر ہیں آپ لوگ کچھ دیر تک ان سے مل سکتے ہیں۔" 

ڈاکٹر نے انھیں زندگی کی نوید  سنائی تھی۔ وہ خوشی کے احساس کے تحت مڑتا بے ساختہ فائقہ بیگم کو اپنے ساتھ لگا گیا۔ 

"ماما سنا آپ نے ڈاکٹر نے کیا کہا؟" 

وہ فائقہ بیگم سے بولا جو اب تک ساکت کھڑی تھیں۔  پھر یکایک ان کے جامد وجود میں جنبش ہوئی اور انہوں نے فاتح کے گرد اپنے دونوں بازو لپیٹے۔

 "ہاں میرے بچے!" 

وہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ بھر کر اس کا ماتھا چومنے لگیں۔ 

"مجھے معاف کر دینا میرے بچے!"  

وہ روتی ہوئیں فاتح سے مخاطب تھیں۔

"نہیں ماما آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں معافی تو مجھے مانگنی چاہیے۔" 

وہ شرمندہ ہوتا اپنی نظریں جھکا کر کھڑا تھا اور دعا کیسے اسے شرمندہ ہوتے دیکھ سکتی تھی۔

"چلیں بھئی یہ معافی نامہ بند کریں دونوں اب ۔ وہ کیا ہے نا آپ لوگوں کا یہ اموشنل سین دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے یہ دیکھیں!" 

وہ شرارت سے بولتی آنکھیں پٹپٹا کر دکھانے لگی۔ جہاں فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی وہیں فائقہ بیگم ہنستی ہوئی اسے پیار سے اپنے ساتھ لگا گئیں۔ فاتح نے ایک گہری پر سکون سانس خارج کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے باپ کو منا لے گا۔

*********

وہ لوگ اس وقت ہسپتال کے کمرے میں جمع تھے ۔ حریم نے آج ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا تھا ۔ دعا اور حریم کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔ جیسے ہی فاتح نے اسے خبر دی کہ حریم اور مستقیم کا بیٹا ہوا ہے وہ اسی وقت بےبی دیکھنے کی خوشی میں تیار ہو کر اس کے پیچھے پڑ گئی کہ ابھی لے کر چلیں۔ ناچار فاتح کو بھی اسکی ماننی ہی پڑی ۔ 

بےبی اس وقت دعا کی گود میں تھا  اور وہ بار بار اشتیاق سے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں چوم رہی تھی۔ حریم اور مستقیم اس کی حرکتوں پر ہنس رہے تھے اور فاتح! وہ اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔

"اف فاتح! دیکھیں نا اس کی سکن کتنی سوفٹ ہے اور کتنا پیارا ہے نا یہ!" 

وہ کہتی پھر سے اسے چوم گئی۔ اب کہ فاتح بھی اس کے بچپنے پر ہنس دیا۔

"ویسے فاتح! اگر بھابھی کو اتنے ہی پسند ہیں بےبیز  تو میرا خیال ہے کہ تجھے اس بارے میں سوچ لینا چاہیے سنجیدگی سے اب۔"  

مستقیم فاتح کو شرارت بھرے انداز میں کہتا لب دبا گیا جب کہ اس کی بات سنتی دعا کان کی لو تک سرخ پڑ گئی۔

"یہ محترمہ ابھی تک خود بے بی ہیں ۔ پہلے یہ خود تو بڑی ہو جائیں ! کیوں سہی کہا نا میں نے؟" 

وہ بھی شرارت سے بولتا آخر میں اس سے سوال داغ گیا۔ 

"بہت فضول بولتے ہیں آپ!" 

وہ اس کے بازو پر پنچ مار کر خفت سے بولتی فاتح کو اتنی پیاری لگی کہ وہ سب کی موجودگی کا لحاظ کیے  بغیر اس کا گال چوم گیا۔ اسے چھوئی موئی ہوتا دیکھ کر ان تینوں کا قہقہہ گونج اٹھا ۔ اسی وقت فاتح کا موبائل بج اٹھا تو اس نے دیکھا جہاں "پاپا کالنگ" لکھا آ رہا تھا۔ یقیناً انہوں نے یہ پوچھنے کے لئے کال کی تھی کہ وہ اب تک گھر کیوں نہیں آئے۔ 

فاتح اور دعا حریم اور مستقیم سے ملتے ان کو الوداع بول کر وہاں سے گھر کی طرف نکل پڑے ۔ 

بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ آزمائشیں بھی اللّه کے پسندیدہ بندوں پر ہہی آتی ہیں پر وہ گھبراتے نہیں بلکہ اللّه پر پختہ یقین  رکھ کر مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں اور اللّه کی بارگاہ میں سرخرو ٹھہرتے ہیں۔

*******

ختم شد

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Teri Ulfat Mein Sanam Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Teri Ulfat Mein Sanam  written by  Meem Ain . Teri Ulfat Mein Sanam  by Meem Ain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages