Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy By Zainab noor Complete Short Story Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Readinga...
Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy By Zainab Noor Short Story |
Novel Name: Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy
Writer Name: Zainab Noor
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
جسکئ حسرت ھم کرتے تھے صبح شام
وہ یوں مل جائے گا،
کبھی سوچا نہ تھا..
جسے ہم اپنا سمجھتے تھے
وہ یوں بچھڑ جاءے گا
کبھی سوچا نہ تھا..
اب ھم دستور حیات سمجھ گئے ماھم
اس بے ثبات دنیا میں وھی ھوتا ھے
جو کبھی سوچا نہ تھا
رضا علی قتل کرنے کے جرم میں آپ کو یہ عدالت سزاِ موت سناتی ہے ۔۔۔۔۔ماضی میں جکڑ ی تلخ یادیں کے جنہیں جتنا بھولنے کی کوشش ھو انسان اتنا ہی ناکام ھو جائے سوچوں کا ایک طوفان اسکے دماغ میں گردش کر رہا تھا ۔جیسے ہر چیز برباد ہوتی نظر آ رہی تھی اور وہ سوچوں کی ان لہروں میں رواں رواں بہہ رہی تھی ان سب خیالوں کو جھٹک کر اس نے گاڑی کی سیٹ سے اپنی پشت ٹکا لی اور آنکھیں موند لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انمول بیٹا آج تمہارا پہلا پیپر تھا کیسا رہا زیبا نے اس سے
مخاطب ھو کر کہا جی امی اچھا ھو گیا انمول کے بچپن
میں ہی اسکے ابو کی ڈیتھ ھو گئی تھی وہ ہی چھوٹی تھی
تب چیزوں کو سمجھنے سے بلکل قاصر تھی ۔جب اسکے سر
سے باپ کا سایہ اٹھ گیا اور زیبا نے ہی اسے ماں باپ دونوں
بن کر پالا تھا انمول کا کوئی بھائی نہیں تھا لیکن اسکی دو
بہنیں تھی ایک ریدا جو کے اس سے عمر میں کافی چھوٹی
تھی اور ایک ندا جو کے اس سے صرف ایک سال ہی چھوٹی
تھی انمول اس وقت کالج میں پڑھتی تھی اور وہ بی ا یس
سی فائنل year میں تھی اسکی ماں نے دن رات محنت کر
کے اسے پڑھایا تھا اور انمول کو بھی شرو ع سے ہی پڑھنے
میں بہت لگاؤ تھا ۔اور اب اسکے پپرز چل رہے تھے ۔
انمول بیٹا ادھر آؤ میرے پاس آ کر بیٹھو زیبا انمول سے
مخاطب ہوئی بیٹا کچھ دن اور ہیں پھر تمھارے پریکٹیکل
بھی ختم ھو جائے گے بیٹا میں سوچ رہی تھی کے تمہاری
ذمداری سے فارغ ھو جاؤں اور تمہیں تمھارے گھر کا کر دوں
زندگی کا کیا بھروسہ کل سانس آئے گی یا نہیں کیا معلوم
مروں گی تو سکوں سے ۔۔امی کیسے باتیں کر رہی ہیں آپ
انمول کی آنکھوں میں آنسوں امڈ آئے میں آپ کو چھوڑ کر
کہی نہیں جاؤں گی اور نا آپ کو بھی جانے دوں گی آیندہ
ایسی بات کی تو میں ناراض ھو جاؤں گی ۔
بیٹا موت تو پہلے اس حقیقت سے کیا بھاگنا ۔پھر وہی باتیں
انمول غصے میں گویا ہوئی اچھا بابا ٹھیک ہے لیکن شادی تو
تمہاری کرنی ہے نا آج نہیں تو کل ۔جی امی لیکن میں آگے
پڑھنا چاہتی ہوں اپنے لئے اور آپ کے لئے کچھ کرنا چاہتی
ہوں پھر بے شک کر دیجیے گا شادی لیکن ابھی نہیں
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی اچھا تم فریش ھو جاؤ
میں تمھارے لئے خانہ لگاتی ہوں بھوک لگی ہوگی تمہیں ۔
لگی تھی لیکن آپ کی باتیں سن کر اڑ گئی انمول نے خفگی
سے کہا ارے پگلی خانے سے کیا ناراضگی میں ابھی لاتی ہوں 😇
انمول میڈم شادی کے کیا ارادے ہیں ندا اسکے پاس آ گئی
اور مذاق میں اسے چھیڑ تے ہوئے کہا یار ابھی تو بالکل
بھی نہیں سوچو بھی مت ندا نے ابھی تیرھو یں جماعت
میں داخلہ لیا تھا اور وہ پڑھائی میں انمول جتنی قابل اور
زہین نہیں تھی ۔ندا جانتی ھو شروع سے ماں نے ہمارے لئے
کتنی محنت کی ہے ہمیں اس مقام اور پہنچا نے میں انکی
دن رات کو لگن اور محنت ہے اور میں انکے لئے کچھ کرنا
چاہتی ہوں انکا فخر بننا چاہتی ہوں ۔ہاں انمول یہ تو ٹھیک
ہی کہہ رہی ھو تم امی نے ہماری خاطر بہت زیادہ محنت کی
ہے اور اب وقت آ گیا ہے کے ہم انکی اس محنت کا صلہ انھیں آرام کی صورت میں دیں
امی امی انمول چلا تی ہوئی زیبا کو پکار رہی تھی کیا ہوا
بیٹا زیبا اسکی طرف آئی امی میں نے جس سکولرشِپ کے
لئے aply کیا تھا وہ approve ھو گئی ہے میں آگے اپنی
تعلیم اسی پر ہی حاصل کر سکتی ہوں میں بہت خوش ہوں
امی آج میرا خواب پورا ہونے جا رہا ہے ۔ہاں بیٹا تمہاری
محنت اور لگن کا ہی یہ صلہ ہے زیبا اسے حوصلہ دیتی ہوئی بولیں
جانتی ہیں امی لوگ آپ کے رتبے اور آپ کی دولت کو دیکھ
کر ہی آپ کے اخلاق کی قیمت لگاتے ہیں آپکا اخلاق کتنا ہی
خوبصورت کیوں نا ھو لیکن اگر آپ غریب ہیں تو لوگ آپ
کو بد اخلاق ہی سمجھے گے۔انمول تمہاری بات ٹھیک ہے
لیکن پیسہ انسان سے اسکا سکوں بھی چھین لیتا ہے میری
بیٹی یہ بات یاد رکھنا اور میں نے اپنی زندگی میں اپنی
آنکھوں سے یہ سب ہوتے ھوئے دیکھا ہے ۔یہ بولتے ہی زیبا
کی آنکھوں میں نمی تیر گئی جو کے انمول سے چھپی ہوئی نہیں تھی
انمول بیٹا آج تمہارا result آ رہا
ہے نا زیبا نے تصدیق کرنے کے
سے انداز میں پوچھا ۔جی امی آج ہی آ رہا ہے انمول نے جواب دیا
بیٹا پھر تم کالج جا رہی ھو کیا ؟؟؟زیبا نے مزید پوچھا
جی امی بس نکلنے لگی ہوں۔چلو بیٹا میں تمہیں چھوڑ آتی ہوں ۔زیبا اٹھتی ہوئی بولی
آخر کب تک امی آپ یونہی ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں گی
ہم بڑے ھو گئے ہیں اب ہمیں بھی اس دنیا کا سامنا کرنے دیں اسکی گرم ہوا کو محسوس کرنے دیں
آخر کب تک ہمیں یونہی بچوں کی طرح آپ سمبھالتی رہیں گی ایک نا ایک دن تو سامنا کرنا ہے نا پھر اب کیوں نہیں انمول نے جیسے شکوہ سا کیا ھو
بیٹا یہ دنیا بہت ظالم ہے تم لوگ بہت معصوم ھو اس کا سامنا نہیں کر پاؤ گی
امی کر لیں گے اور اس طرح اگر ڈرتے رہیں گے تو سامنا کیسے کریں گے
میں آج اکیلی ہی جاؤں گی کالج اور سمن بھی تو ہوتی ہے نا میرے ساتھ
ٹھیک ہے بابا جاؤ تم اور ہاں خیال سے میری بچی اپنا موبائل پاس ہی رکھنا
ہیلو ہاں سمن کہاں ھو تم انمول نے سمن کو کال کرتے ہوئے پوچھا
ہاں بس یار میں گھر سے نکل گئی ہوں اور کالج پہنچنے والی ہوں تم بھی آ جاؤ ٹھیک ہے خدا حافظ
انمول تھوڑی دیر تک کالج پہنچ گئی اور ساتھ ہی گراؤنڈ میں سمن کو دیکھ کر اسکی طرف لپکی
سمن تم نے رزلٹ دیکھا کیا ؟؟انمول نے پاس آتے ہی پوچھ لیا
نہیں یار تمہارا ہی ویٹ کر رہی ہوں آ جاؤ لسٹ لگ گئی ہے اکھٹے ہی چلتے ہیں ۔ہیلو انمول کیسی ھو اتنے میں ہی رضا آ گیا
ٹھیک تھی آپ کے آنے سے پہلے تک انمول نے قدرے بیزار ھو کر جواب دیا
تو سمن نے غصے سے اسکی طرف دیکھا۔بیسٹ آف لک انمول رضا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو انمول نے رخ دوسری جانب کر لیااور چل پڑی
سمن رضا سے معذرت کے سے انداز میں گویا ھو کر اسکے پیچھے ہی بھاگنے لگ گئی
انمول یارحد کرتی ھو تم بھی بندہ کم از کم بات کا جواب تو سہی سے دے سکتا ہے کے نہیں
کتنے پیار سے وو تم سے بات کر رہا تھا اور ایک تم ھو کے میڈم کے تیور ہی الگ ہیں
یار اس نے تمہیں اتنا عرصہ پہلے کا purpose کیا ہوا ہے وہ کونسا تمھارے ساتھ فلرٹ کر رہا تھا
جو تم اس سے اتنا چڑ جاتی ھو اس نے تمھارے سامنے صاف اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ہے کے وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے
اور اس نے یہ بھی تو بولا ہے کے وہ اپنے پیرنٹس کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہے مگر تم خود ہی ہر بار تم انکار کر دیتی ھو آخر کیوں ؟؟؟؟کوئی تو وجہ ہوگی اسکی
سمن تم میرے حالت اچھے سے جانتی ھو میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی میری ماں نے میری خاطر بہت سی قر بانیاں دی ہیں میں انکی خاطر کچھ کرنا چاہتی ہوں
فلحال میں اس مسلے میں نہیں پڑنا چاہتی لہٰذا تم بھی بحث نا ہی کرو تو بہتر ہوگا ۔اچھا بابا ٹھیک ہے۔
لیکن جب بھی یہ فیصلہ کرو تو پلز رضا کو ہی ترجیح دینا وہ بہت چاہتا ہے تمہیں ۔اچھا میڈم سمن ایک تو آپ اسکی وکیل بن جاتی ہیں 😂😃
یار چلو رزلٹ دیکھ لیں سمن بولی انمول نی ہمیشہ کی طرح لسٹ درمیان سے دیکھنی شروع کی اور اسے اپنا نام نظر نہیں آیا تو وہ پریشان ھو گئی
اچانک اسکی نظر لسٹ میں موجود پہلے نمبر پر اسکی نظر پڑی توحیرانی اور خوشی سے اسکی چیخ نکل گئی اسکی کالج میں فرسٹ پوزیشن آئی تھی اور وہ بہت خوش تھی
وہ خوشی کے عالم میں سمن کے گلے لگ گئی ۔اور جب سمن نے اسے ساتھ ہٹا کر د یکھا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے
یہ کیا انمول خوشی کے موقع پر بھی آنسو کیوں ؟؟؟بس یار بابا یاد آ گیے اچانک ۔
سمن نے اسکے آنسو پونچھے اور بولی انمول تمھارے بابا تم سے بہت راضی ہوں گے
تم نے انکا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔چلو اب گھر چلیں زیبا آنٹی کو بھی تو یہ خوشخبری دینی ہے۔
اور تمہاری وجہ سے ہمیشہ کی طرح میں نے امی سے ڈانٹ بھی تو کھانی ہے
کے انمول کو دیکھ لو کتنی لائک بچی ہے اور تم کتنی نکمی ھو یہ سنتے ہی انمول کی ہنسی چھوٹ گئی
انمول ایسا کرتے ہیں پہلے تمہارے گھر چلی جاتی ہوں میں پھر واپسی پر میں اپنے گھر اتر جاؤں گی
ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی دیر بہت ھو گئی ہے وہ دونوں آہستہ آہستہ چلنے لگ گئی
کالج سے کافی دور جا کر ہی کوئی رکشا ملنا تھا ابھی وہ
راستے میں ہی تھی تو انھیں لگا کے کوئی انکا بائیک پر پیچھا کر رہا ہے
سمن دیکھ کر گھبرا گئی جب کے انمول اسے تھام کر غصے سے پلٹی
کیا تکلیف ہے تم لوگوں کو کیوں ہمارا پیچھا کر رہے ھوانمول غصے میں چلائی
کیا بات ہے میڈم اتنا غصہ بائیک پر موجود دو افراد میں سے ایک بولا بکواس بند کرو اپنی کمینے انسان تم لوگوں کی وجہ سے لڑکیوں کو انکے ماں باپ گھروں میں قید کر دیتے ہیں
تم جیسے کتوں کے ہوتے ہوۓ ہم کیسے باہر نکل سکتے ہیں وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہی تھی
اتنے میں ہی وہ دونوں آدمی بائیک سے اتر آ ئے ۔
آج تک ہم نے کبھی کسی کی بکواس نہیں سنی اتنی لڑکی جتنی تم نے کی ہے اب اپنے انجام کی بھی تم ہی ذمدار ھو گی
یہ بولتے ہی وہ شخص آگے بڑھنے لگ گیا جب کہ انمول اپنی جگہہ پر ڈٹ کر کھڑی رہی وہ شروع سے ہی نڈر تھی
انمول چلو یار چلیں سمن کب سے اسے کھینچ رہی تھی نہیں میں نہیں جاؤں گی ان جیسے لوگوں کو انکی اوقات یاد دلانی چاہئے
آخر کب تک یونہی ڈر ڈر کر زندگی گزرے گے ان جیسے گھٹیا لوگوں کو وجہ سے انمول کے الفاظ سنتے ہی وو آدمی طیش میں آ گیا اور اسکے سر میں پتھر مارنے کے لئے اٹھایا ۔اچانک کار سے نکل کر ایک شخص سامنے آیا
تو وہ دونوں لڑکے اسے دیکھ کر خوف کے مارے زن سے بھاگ گئے ۔
جب کے سمن کی آنکھیں حیرت کی مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہونٹوں سے صرف اتنی سی سر گوشی کر پائی ارمان ملک
ارمان ملک اسے دیکھتے ہی سمن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ۔جیسے وہ یقین ہی نا کر پا رہی ھو کے وہ شخص اسکے سامنے ہے جب کے انمول نے اس شخص کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں لیا ۔
اور وہ تھا ہی ایسی شخصیت کا مالک وجاہت والی شخصیت دراز قد بھوری آنکھیں سیاہ بال چہرہ اتنا دلکش کے جو ایک بار دیکھ لے نظریں ہی ہٹانا بھول جائے ۔
ایک دفع نہیں بار بار نظروں کا محو ر وہی انسان رہے جب تک وہ سامنے ھو ۔سمن اسے دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔
ارمان ملک آپ سمن نے خوشی اور حیرانی کے ملے جلے تاثر میں کہا جب کے انمول خاموش کھڑی رہی جیسے اس شخص کی موجودگی اس پر کوئی اثر ہی نہیں کر رہی تھی۔
آپ اتنی رات کو کہاں جا رہی ہیں اکیلی ارمان انمول سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا اس نے رخ پھیر لیا ۔
سمن نے جلدی سے بات کا جواب دیا نہیں وہ بس تھوڑی دیر ھو گئی تھی آج بس
چلیں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں آپ کہاں اکیلی جائے گی ارمان نے پیشکش کی تو سمن تو حیرانی کے مارے دیکھتی رہ
گئی اس سے پہلے کے انمول انکار کرتی وہ گا ڑی کی جانب بڑھ گئی
انمول بھی مجبوراً بیٹھ گئی ۔سمن نے بتیسی نکال کر اسکی جانب دیکھا مگر انمول نے اسے گھوری سے نواز دیا
تو آپ دونوں کس فیلڈ سے ہیں ؟؟؟ارمان نے مرر انمول کی طرف سیٹ کرتے ہوئے مخاطب ہونے کی کوشش کی جو کے ونڈو سے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی ۔جیسے اسے کوئی بات سنائی ہی نا دی ھو
جی ہم دونوں نے ابھی بی ایس سی کی ہے سمن نے جلدی سے جواب دیا جبکے انمول خاموش رہی ۔
ارمان نے ایک جھلک انمول کی طرف دیکھا اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگ گیا ۔پہلے سمن کو اتارا اور پھر انمول کو وہ اس قدر سنجیدہ تھی کے وہ خاموشی کے طویل وقفے کو توڑ نہیں سکا ۔
اترتے ھوئے بس اتنا بولا کے امید ہے آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی جب کہ انمول بات کا جواب دئیے بغیر اندر چلی گئی ۔
وہ ایک نظر دیکھ کر مسکرایا آنکھوں پر چشمہ چڑھا کر گاڑی ڈرائیو کرنے لگا ۔
انمول بیٹا اتنی دیر کیوں کر دی میں کب سے پریشان ھو رہی رہی تھی زیبا نے انمول کو دیکھتے ہی پوچھا ۔امی بس تھوڑا کام تھا تو دیر ھو گئی ۔اور تمھارے رزلٹ کا کیا بنا ؟؟امی کالج میں میری فرسٹ پوزیشن ہے انمول کے تاثر اچانک خوشی میں بدل گئے جیسے وہ ساری پریشانی بھول گئی ھو
ارے بیٹا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے سمن اسے گلے لگاتی ہوئی بولی اور پیشانی پر بوسہ دیا خدا تمہیں اور زیادہ ترقی دے میری دعا ہمیشہ تمھارے ساتھ ہے ۔
ھو گیا ماں بیٹی کا لاڈ پیار یا ابھی کچھ رہتا ہے ندا اور ریدا اتنے میں آ گئی اور ہنستی ہوئی بولی اور آپی آپ بندہ مٹھائی ہی لے آ ئے اتنی بڑ ی خوشی کی خبر ہے ۔
انمول آج میں تمھارے پاس سو جاؤں ندا نے پوچھا ؟؟؟؟ہاں سو جاؤ کیوں نہیں انمول ایک بات پوچھوں تمہیں کس طرح کا لڑکا پسند ہے مطلب جسے تم اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی ھو
کوئی نا کوئی خوبی تو ہوگی اس میں یاں تمہارا آئیڈیل ؟؟؟؟کوئی اتنا خاص نہیں انمول نے روکھے سے لہجے میں کہا
"محبت کم بھی ھو تو چل جائے گا مگر شادی میں اس سے ہی کروں گی جو میرے معیار کا ہوگا "
سعد یار ابھی ابھی ایک غزل یاد آئی ہے سن کر بتا تو کیسی
ہے ارمان نے سعد کو مخاطب کیا سعد ارمان کا بہت اچھا
اور قریبی دوست تھا دونوں بچپن سے ہی ساتھ پلے بڑھے
تھے اسکول کالج میں بھی ساتھ ہی تھے بعد میں الگ الگ
ھو گئے پھر جب ارمان نے بزنس سٹارٹ کیا تو سعد نے بھی
وہی جوائن کر لیا یوں دونوں کی دوستی کا گاٹھ جوڑ
برقرار ہی رہا۔ارمان اپنے دل کی ہر بات سعد سے ہی کرتا تھا ۔
جی جی بھائی کیوں نہیں سنا دیں آپ سعد بولا اچھا سن پھر :
خود کو برباد کرنے کی یہ عادت چھوڑ دیتا ہوں
سوچتا ہوں بہت کرلی، محبت چھوڑ دیتا ہوں
تنہائی سے کچھ ایسی اُلفت ہو گئی ہے اب
سوچتا ہوں لوگوں کی رفاقت چھوڑ دیتا ہوں
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کس بات کا دکھ ہے
تماشا نہیں لگاتا میں، بات موڑ دیتا ہوں
اب نہیں پوچھتا میں عداوت کا سبب
اب بنا غلطی کے بھی میں ہاتھ جوڑ لیتا ہوں
کبھی جن سے باتیں ساری رات چلتی تھیں
اب انہیں کے نام پہ میں گردن موڑ لیتا ہوں
اگر خود کو کبھی تم نے بند تالوں میں رکھا ہو
تو میرے پاس آجانا میں چابی ڈھونڈ لیتا ہوں
شعر کہنے میں دقّت یوں نہیں ہوتی مجھے
باتیں نہیں بناتا میں، دل کھول دیتا ہوں.
واہ بھائی کیا کمال کی شاعری کی ہے کہیں عشق وشق تو
نہیں کر بیٹھے سعد نے ہنستے ہوئے کہا ۔بس یار آج کوئی
ایسا ملا ہے جو دل کو آر پار کر گیا اسکی یوں بے رخی
جیسے میرا دل مٹھی میں لے گئی ھو بہت نڈر نا آنکھوں
میں کوئی ڈر نا خوف بلا دھڑک لڑنے والی ۔واہ بھائی پھر تو
آپ نے اپنی ٹکر کی ہی ڈھونڈی ہے اب تو اسے دیکھنے کا
تجسس ھو رہا ہے ۔بس کر یار اب بات اتنی بھی آگے نہیں
گئی ارمان نے بات کاٹ کر کہا جب کے سعد اپنی ہنسی کو
روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں ناکام رہا کافی حد تک
انمول بیٹا آج تم نے ایڈمشن کے لئے جانا تھا زیبا اس سے
مخاطب ہوئی جی امی جانا ہے بس تھوڑی دیر تک نکلتی
ہوں ۔امی میرے لئے دعا کریئے گا جیسے ہمیشہ کرتی ہیں
میری زندگی کا نیا سفر شروع ہونے جا رہا ہے اور مجھے آپ
کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ۔ہاں بیٹا کروں گی کیوں
نہیں اور ماؤں کی دعا تو ہمیشہ اسکے بچوں کے لئے ہی ہوتی ہیں ۔
انمول تم رجسٹریشن آفس چلو میں آئی میری کزن کا بھی
ایڈمشن کروانا ہے ۔انمول ایڈمشن آفس چلی گئی ۔سر مجھے
ایڈمشن فائل دے دیں اور ایڈمشن کا پراسیس بھی بتا دیں انمول
ابھی ریسیپشن پر موجود آدمی سے مخاطب ہوئی۔سر آپ
ان کے بعد مجھے بھی گائیڈ کر دیں گے انمول آواز سنتے ہی
مڑ کر دیکھنے لگ گئییہ آواز اسکے لئے ان سنی نا تھی ۔
اس شخص کو دیکھتے ہی اسکے ما تھے پر بل آ گئے جسے
وہ چاہ کر بھی چھپا نا سکی ارے آپ یہاں رضا نے حیرت
انگیز انداز میں کہا جی کیوں میں یہاں نہیں آ سکتی انمول
نے نا گواری والے انداز میں کہا جی کیوں نہیں آپ جہاں
چاہے جا سکتی ہیں۔انمول نے غصے والے انداز میں فائل جھٹک کر لی اور وہاں سے چلی گئی ۔
انمول تمہارا موڈ کیوں اوف ہے سمن نے اسے دیکھ کر پوچھا
یار آخر کب تک اس انسان سے سامنا ہوگا وہ غصے میں
بولی کس کی بات کر رہی ھو سمن نے سوال کرنے کے انداز
میں پوچھا؟؟؟یار رضا کی بات کر رہی ہوں آخر کب تک اس
انسان سے سامنا ہوتا رہے گا مجھے نہیں اچھا لگتا بالکل
بھی وہ اور یار بار بار وہ ایک ہی بات کرتا ہے مجھے ابھی
اپنے لئے کچھ بھی نہیں سوچنا ہے ۔اچھا یار چلو گھر چلیں یہ فائل بھی تیار کرنی ہے ۔
انمول رات میں سونے کے لئے کمرے میں گئی جب ندا پاس آ
کر بیٹھ گئی آپی کیسی تھی یونی میں نے تو اتنا کچھ سنا
ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے ہی بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اس
نے تجسس والے انداز میں پوچھا ارے یار آج تو پہلا دن تھا
ویسے بھی مجھے ایڈمشن کے لئے جانا تھا ان فضول چیزوں
کو دیکھنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا ۔آپی آپ بھی نا
بہت بورنگ ہیں ۔کیا کروں میں ایسی ہی ہوں ویسے آپی
جس سے آپ کی شادی ہوگی نا وہ بھی اپنی قسمت پر روے
گا اتنی بورنگ لڑکی کہاں سے مل گئی یہ کہتے ہی ندا کمرے سے بھاگ گئی 😂
انمول نے موبائل دیکھا تو سمن کا میسج آیا تھا کہ فری ھو
کر مجھ سے بات کرنا ہاں سمن بولو سب ٹھیک تو ہے یار
رضا پھر آج مجھ سے ملا تھا یار وہ بہت چاہتا ہے تمہیں تم
اسکی پیشکش کیوں قبول نہیں کر لیتی ھو آخر اس میں مسلہ ہی کیا ہے ۔
سمن تم نہیں سمجھو گی میں ابھی بہت ڈرتی ہوں ان سب باتوں سے یہ پیار محبت سب انسان کو کمزور بنا دیتے ہیں
انسان کب جڑتا ہے اللہ سے.. اسے اپنی زندگی اپنی آنکھوں
کے سامنے ایک فلم کی طرح دکھائ دینے لگتی ہے جس میں
کئ عارضی کردار تھے.. جنھیں وقت کی لہریں اپنے ساتھ
بہا کر لے گئیں.. جن کے وجود سے اسے مستقل خوشی
محسوس ہوتی تھی.. محض آنکھوں کا دھوکا..جن کے ہونے
کے احساس نے اسے اس ذات سے کتنا دور کر دیا تھا.. جس
نے اس کی زندگی کو رنگوں سے بھر دیا تھا..پھر ٹوٹتا ہے
اانسان اسی کے ہاتھوں جس کا وجود اس کے لیے سکون کا
باعث تھا.. تب جب سب سب بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے..
عزت.. رشتے ناتے دوست.. تب جا کر سمجھ میں آتا ہے کہ
اللہ نے اس سب سے اسے کیوں گزارا.. کیوں اسے بدلتے
ہوئے رویوں کا زہر اتنی بے بسی سے اس مرحلے میں پینا پڑا
جب کسی اجنبی کی ہمدردی بھی غنیمت محسوس ہوتی..
تب وہ آنکھیں بند کرے تو سب دکھائ دیتا ہے اللہ کن کن
راستوں سے گزار کر اسے خود تک لے کر آیا ہے.. باقی ہر
راستہ ہر دروازہ بند کر کے بس خود تک لے آیا.. عارضی
محبتوں کے خوف سے آزاد ایک مستقل سکون.. اور کیسے
ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنھیں اللہ توڑتا ہے ..
خود سے جوڑنے کے لیے.. تب وہ دکھا تا ہے کہ ساری دنیا
میں لوگوں کے دلوں سے اس کی محبت نکال بھی دے تو وہ
خود کبھی اس سے بیزار نہیں ہوتا..اور میں ٹوٹ کر خدا کی
ذات سے جڑنے کی بجائے پہلے ہی اس ذات سے جڑ گئی ہوں
تا کے میری زندگی میں مزید کوئی مشکل نا اے رہی بات
رضا کی تو ابھی میرے دل میں ایسے کسی جذبے کے لئے
کوئی بھی جگہہ نہیں ہے اور نا ہی ضرورت ۔انمول رشتے
ضرورت کے تحت تھوڑی بنائے جاتے ہیں کسی کی محبت کا مان نہیں توڑنا چاہئے کبھی بھی یہ بات یاد رکھنا ۔
یونی جاتے ہوئے کافی عرصہ گزر گیا تھا انمول کا پہلا
سیمسٹر ختم ہونے کے قریب تھا وقت سچ میں بہت تیزی
سے گزرتا ہے لیکن اس گذرتے وقت کے ساتھ کچھ لوگ بالکل
بھی نہیں بدلتے نا انکے احساس نا جذبات سب کچھ یکساں رہتا ہے ۔
کچھ یہی حالت رضا کی بھی تھی نا جانے اسکی محبت
تھی یا ضد کے وہ انمول کو لے کر ایک بات پر ڈٹا ہوا تھا ۔
کہتے ہیں نا محبت کے دعوے وعدے تو ہر کوئی کر لیتے ہے
لیکن بات تو تب ہے جب آپ مشکل میں ہوں پھر بھی آپ
خود کو چھوڑ کر اپنی محبت ہی چنےوہ آپ کی سچی
محبت کی گواہی ہوتی ہے رضا بھی دعوے بہت کرتا تھا
لیکن محبت کا امتیحا ن اس میں کس قدر پورا اترتا یہ تو وقت ہی جانتا تھا ۔
ایک دن حسبِ معمول انمول اور سمن گراؤنڈ میں بیٹھے
تھے جب ایک بلیک پراڈو اور ساتھ میں کافی سیکورٹی کی
گا ڑ یاں تھیں یونی میں داخل ہوئی باہر نکلتے ہوئے اس
شخص کو انمول اور سمن دونوں نہیں پہچان پائی کیوں کے
اسکے باہر نکلتے ہی اسے سیکورٹی نے گھیر لیا اور وہ ایک
بہت بڑے پروٹوکول کے ساتھ وی۔سی آفس چلا گیا جبکے
سیکورٹی باہر انتظار کرنے لگ گئی اس آدمی کے آنے کا انداز ہی بتا تھا تھا کے وہ بہت امیر ہے ۔
یار یہ بندہ تو دیکھنے میں بہت امیر لگتا ہے سمن نے حیرت
والے انداز میں کہا ھو سکتا ہے کے امیر ھو بلکے بہت امیر
ھو انمول نے کندھے اوچکا کر متاثر نا ہونے والے انداز میں
کہا ۔چلو ہمیں لیکچر بھی لینا ہے کلاس کا وقت نکل رہا ہے یہ کہہ کر دونوں ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئی۔
کلاس لے کر وہ دونوں ڈیپارٹمنٹ سے باہر آئی تو سمن کی
تو حیرت کی انتہا نا رہی جب اس نے ارمان ملک کو دیکھ
وہ ایک دم تو پلک جھپکنا بھول گئی جیسے اسکا مطلب ہے
وہ جو شخص اتنے پروٹو کول کے ساتھ آیا تھا وہ اور کوئی
نہیں ارمان ملک تھا اور اب بھی guards اسے گھیرے ہوئے تھے ۔
یار اس بندے کی بھی اپنی الگ ہی شخصیت ہے سمن نے
انجانے سے تاثر میں کہا ہاں بالکل ایسے لوگ یار اس انسان
کے بارے میں اتنا کچھ سنا ہے پھر بھی تجھے یہ شخص
اچھا لگ رہا ہے حیرت ہے انمول نے طنز والے انداز میں کہا
ایسے لوگ نا جانے کتنے قتل کتنے گناہ کر کے بھی خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہے ۔
اپنی شخصیت کو دوہرا روپ دے دیتے ہیں ہزار گناہ کرتے
ہیں پہلے پھیر انھیں چھپانے کے لئے ایک آدھا اچھا کام کر
لیتے ہیں اور لوگ بھی واہ واہ کرنے لگ جاتے ہیں اندھوں کی طرح ۔
انمول ضروری نہیں تمہاری ہر بات سہی ھو نا ہی میں
تمہاری کسی غلط پیشن گوئی میں تمھارے ساتھ ہوں رہی
بات دنیا کی تو یہ اچھے لوگوں کو جینے کہاں دیتی ہے۔اور
ہاں تمہاری ہر عادت اچھی ہے لیکن یوں بغیر جانے جو تم ہر انسان کو جج کرتی ھو بہت غلط ہے ۔
اچھا چھوڑو یہ سب آج مجھے گھر کام ہے ضروری اور میں
جا رہی ہوں اوکے خدا حافظ یہ کہنا ہی تھا کے سمن چلی
گئی انمول نے بھی باہر کا رخ کیا جب بھی باہر جاتے یونی
سے تو انھیں کوئی نا کوئی ٹرانسپورٹ مل ہی جاتی لیکن
آج جمعہ تھا اور وہ اس دن سمن کے پاپا کے ساتھ ہی چلی
جاتی تھی وہ اسے گھر چھوڑ آتے تھے اور آج اسے کوئی بھی
چیز نہیں ملی جس کے زریعے وہ گھر جا سکتی۔انمول نے
سڑک پر آہستہ آہستہ چلنا سٹارٹ کر دیا۔اچانک اسے اپنا
پیچھا کرتے ہوئے کچھ غنڈے معلوم ہوئے وہ تو شروع سے ہی کسی سے نا ڈرتی تھی
پیچھے سے ایک آدمی تیزی سے بڑھا اور اسکا بازو جھنجھو
ڑ کر رخ اپنی طرف کیا ۔ارے میڈم ہمیں بھی تو خدمت کا
موقع دیں کہاں چلی جا رہی ہیں اکیلی اکیلی اس آدمی کے چہرے پر خباثت صاف ظاہر تھی ۔
انمول نے آؤ دیکھا نا تاؤ ایک تھپڑ اسکی گال پر رسید کر دیا
اور انگلیوں کے نشان چھپ گئے خدمت کر اپنی ماں بہن کی
جا کر جو تجھ جیسے کتے کو پیدا کر کے گلیوں میں آوارہ گھومنے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں ۔
یہ سنتے ہی آدمی کا پارہ بڑھ گیا اور وہ شدید غصے کی
حالت میں انمول کی طرف قدم بڑھانے لگا انمول انکا مقابلہ
نہیں کر سکتی تھی کیوں کے وہ چار لوگ تھے اس لئے اس نے بھاگنا شروع کر دیا ۔
راستے میں اچانک ایک گاڑی رکی جسے دیکھ کر انمول
چونک گئی اس میں سے چار gaurd باہر آئے اور وہ غنڈے
انکے ہاتھوں میں بڑی بڑی بندوقیں دیکھ کر بھاگ گئے انمول
نے گاڑی کی جانب غور سے دیکھا فرنٹ سیٹ سے ایک آدمی
نکلا سیاہ شلوار قمیض بازو فولڈ کئے ہوئے کالا چشمہ اسکی شخصیت پر بہت سوٹ کر رہا تھا ۔
انمول اسے دیکھتے ہی پہچان گئی وہ اور کوئی نہیں ارمان
ملک تھا۔عجیب اتفاق ہے نا ویسے آپ جب بھی مشکل میں ہوں میں پہنچ جاتا ہوں ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
میں نہیں مانتی ایسے اتفاق کو انمول نے روکھے لہجے میں
کہا چلیں نا مانے آئے میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ھو اور مجھے آپ سے کچھ ضروری بات بھی کرنی ہے ۔
مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ اور میں آپ پر یقین کیوں
کروں ؟؟ مجھ پر یقین نہیں ہوگا لیکن اس ذات پر تو ہوگا
جو ہر بار مجھے آپ کی حفاظت کے لئے بھیجتی ہے ۔جسے خدا نے آپکی عزت کا محافظ بنایا ھو اس پر تو یقین کر ہی سکتی ہیں ۔
انمول گاڑی کی طرف بڑھی تو ارمان نے جو gaurds اسکے ساتھ تھے انھیں پچھلی گاڑی میں جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلے گئے ۔
پیچھے نہیں آگے بیٹھے انمول بیک سائیڈ سے دروازہ کھول رہی تھی جب ارمان مخاطب ہوا ۔
یہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں۔ارمان نے ایک بہت بڑے ہوٹل کے باہر کار روک دی ۔ایسی شاندار جگہہ تو شاید انمول نے خواب میں بھی نا دیکھی ھو اور خواب دیکھتی بھی کیوں جب اسے ان چیزوں کی کوئی چاہت ہی نہیں تھی ۔ انمول نے کار رکی تو حیران ہوتے ہوئے پوچھا بات کرنے کے لئے لایا ہوں اور کیا ارمان نے تسلی بخش انداز میں کہا بات کرنے کی اجازت دی ہے اسکا یہ مطلب نہیں کے آپ جہاں مرضی لے آئے ۔
مجھے بات کرنی ہے اور سکون سے پھر تمہیں گھر چھوڑ دوں گا فلحال بحث نہیں کرو ۔
ارمان نے اتر کر انمول کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ۔
انمول اسکے پیچھے پیچھے چلتی رہی ہوٹل کے سیکنڈ فلور پر وہ چلے گئے جہاں بس انکے علاوہ چند ایک آدھ ویٹر تھے وہ بھی آرڈر کے منتظر ہوتے تھے آرڈر لیتے ہی چلے جاتے تھے ۔
بالکل پرسکون ماحول دھیمی سی ہوا چل رہی تھی انمول کو ارمان نے اپنے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
اب جو بھی بات کرنی ہے جلدی کریں میں آپ کی کوئی نوکر یا غلام نہیں ہوں جو آپ کی ہر بات مانوں گی لہٰذا اپنی بات جلدی ختم کریں ۔
میں بات کو زیادہ گھومانے کا عادی بالکل نہیں ہوں ارمان بغیر کوئی تمہید بندھے انمول سے مخاطب ہوا ۔
مجھے آپ اچھی لگی ہیں اور میں آپ کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں انمول پہلے تو پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہی رہی یہاں تک کے پلک جھپکنا بھی بھول گئی ۔
لیکن وہ بھی انمول تھی خاموش تو بلکل نہیں رہتی تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے یہ بکواس کرنے کی اور یہ بات تھی جو تمہیں مجھ سے کرنی تھی تو سن لو میرا جواب بالکل نا میں ہے ۔
خیر جو بھی ھو مجھے تمہیں بتانا ہے ویسے بھی محبت پیار ویار ان سب پر یقین کافی ہے میرا جسے چاہتا ہوں آخری سانس تک اسکا ھو جاتا ہوں ۔
ہاں رہی تمہاری بات تو تم جب میرے ساتھ رہو گی تو تمہیں بھی محبت ھو جا ئے گی ۔
انمول غصے سے اپنی کرسی سے اٹھی اور ہوٹل سے باہر کی جانب بڑھنے لگی ۔
ارمان اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا یہ صرف تمہیں با خبر کیا ہے میں نے تا کہ تمہیں کوئی جھٹکا نا لگے شام میں امی کو تمھارے گھر بھیج رہا ہوں تیار رہنا ۔
اور ہاں منع مت کرنا میری ماں کا دل ٹوٹے یہ میں ہرگز برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔
ہاں تو مت بھیجو انھیں کیوں کے میرا جواب نا میں ہی ہے ۔انکا دل ٹوٹ جائے گا ۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گی میں جانتا ہوں ۔اور ہاں انھیں شوگر ہے چینی کم رکھنا چائے میں ارمان نے ہنستے ہوئے کہا انمول نے غصے سے اسکی جانب دیکھا اور چلی گئی ۔
ارمان بھائی اندر آ جاؤں سعد نے ارمان سے پوچھا آجا سعد کتنی بار بولا ہے کے نا پوچھا کر اور میں ہر بار بھائی یہی جواب دیتا ہوں کے آپ کی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ اور میں بہت اچھے دوست بھی تو ہیں
ہاں سعد کیوں نہیں ارمان مسکراتے ہوئے بولا لیا بات ہے بھائی آج تو آپ کے چہرے کی مسکراہٹ ہی کچھ الگ ہے سعد نے شرارتی انداز میں کہا ۔
ہاں یار بس دعا کر زندگی میں پہلی بار کسی کے ساتھ کی اتنی شدت سے خواہش کی ہے ۔بس وہ مل جائے مجھے ہاں بھائی کیوں نہیں وہ کہتے ہیں نا کے کسی کو سچے دل سے چاہو تو پوری کائنات آپ کو اس سے ملانے میں لگ جاتی ہے ۔
ہاں خدا کرے ایسا ہی ھو ارمان نے دبی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے کہا ۔
انمول رات سونے کے کے لئے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔کافی دیر تک کروٹیں لیتی رہی مگر نیند نا آئی آخر کار وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
ہیلو سمن اس نے سمن کو کال ملا کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کیسی ھو میں ٹھیک ہوں انمول تم سناؤ تم ٹھیک ھو سمن نے جواب میں پوچھا ۔
یار وہ ارمان ملک ابھی یہ الفاظ اسکی زبان پر ہی تھے جب دوسری طرف سمن نے حیرانی سے چیخ ماری ارمان ملک کیا جلدی بتاؤ 😍😍😍۔
سمن اب تم اپنی فضول باتیں نا شروع کر دینا پہلے میری بات پوری طرح سے سنو یہ کہنا تھا کے انمول نے سمن کو آن کی آن سارا قصہ سنا ڈالا ۔
یار میں کیا کہہ سکتی ہوں پہلے رضا اور اب ارمان سمن نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں تنگ آ گئی ہوں میں انمول نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا ۔
یار رضا ہے ایک طرف دوسری طرف اارمان ملک دیکھا جائے تو ہے تو دونوں ایک سے بڑھ کر ایک لیکن ارمان ملک کی ٹکر کا تو پھر کوئی بنا ہی نہیں ہے آج تک سمن نے فخر کے سے انداز میں کہا ۔
یار دولت سے سکون نہیں خریدا جاتا ہے اور نا ہی خوشیاں یہ یاد رکھ ارمان ملک ہوگا بہت امیر انسان میں نہیں جانتی لیکن دولت مند لوگ بہت گنہگار ہوتے ہیں انمول نے کہا ۔ضروری نہیں کے ہر دولت مند انسان ایک جیسا ہی ھو سمن نے اسکی بات کی مخا لفت کی ۔
انمول جو بھی ہے اس سے پہلے کے ارمان تمھارے گھر اپنی امی کو بھیجے جو بھی فیصلہ ہے اسکے آنے سے پہلے ہی کر لو اور ہاں آنٹی کو لازمی بتا دینا جو بھی ہوگا بعد میں تم انکے سامنے شرمندہ تو نہیں ہوگی نا ہاں میں امی سے بے کرتی ہوں انمول نے مطمئن ہوتے ہوئے کہا ۔
ارمان آجاؤ بیٹا کھانا لگ گیا ہے۔امی مجھے بھوک نہیں ہے ارے بیٹا یہ کیا بات ہوئی تھوڑا سا تو کھا لو میں تب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں ۔
ارمان میز پر بیٹھتے ہوئے بولا امی کتنی بار بولا ہے آپ کھا لیا کریں مجھے دیر بھی ھو جاتی ہے آپ میری وجہ سے کیوں بھوکی رہتی ہیں
تانیہ مجھے کہہ رہی تھی کے امی کھا لیں بس بیٹا تمھارے بغیر دل ہی نہیں کرتا کھانے کو تانیہ ارمان کی ایک ہی بہن تھی اور لاڈلی بھی ۔لیکن امی بھائی کی بھوک تو اڑ گئی تانیہ نے شرارت والے انداز میں کہا ۔😅
ارمان نے تانیہ کو گھور کر دیکھا امی میں تو کہتی ہوں اب بھائی کی بھی شادی کر ہی دیں ویسے بھی بھائی اب ہم سے کہاں سمبھالے جائے گے ۔
اچھا جی ارمان نے ہنسی دبا کر کہا دیکھے دیکھے امی بھائی کے گال کیسے بلش کر رہے ہیں مجھے تو لگ رہا ہے کے کوئی پسند آ ہی گئی ہے ۔بھائی ویسے جو بھی اپنی ٹکر کی لائے گا جو آپ کو باندھ کر رکھے۔
کوئی آج تک ایسی آئی ہی نہیں جو مجھے باندھ سکے ارمان نے ہنستے ہوئے کہا 😂
بیٹا اگر کوئی ہے تو بتا دو ذکیہ نے ارمان سے سوال کرنے کے انداز میں پوچھا
نہیں امی کوئی بھی نہیں ہے ہاں اگر کوئی ہوئی تو میں ضرور آپ کو بتاؤں گا ۔
انمول نے کافی دیر سوچنے کے بعد ایک نمبر ڈائل کیا اور کافی دیر سوچنے کے بعد فون کان کو لگا لیا دوسری طرف گھنٹی کی آواز جا رہی تھی ۔
یہ صرف گھنٹی کی آواز نہیں تھی بلکے اسکی زندگی کا فیصلہ تھا جو اس نے خود سے کرنے کا عہد کر لیا تھا ۔
وہ خیالوں میں ہی ہی گم تھی جب دوسری طرف سے آواز گونجی:انمول مجھے کیسے یاد کیا ؟؟؟رضا نے جواب دیا
مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے انمول نے کچھ گھبراہٹ والے انداز میں کہا سب خیر تو ہے نا رضا نے سوال کرنے کے سے انداز میں پوچھا
جی آپ اپنی امی کو میرے گھر بھیج دیں میں آپ کے پرپوزل کو accept کر چکی ہوں ۔
یہ سن کر رضا کو اپنے کانوں پر یقین نا ہوا خوشی انتہا پر تھی وہ پوچھنا ہی بھول گیا کے آخر اتنی جلد بازی میں کیوں فیصلہ کیا اس نے اس سے پہلے وہ مزید کچھ پوچھتا انمول نے فون بند کر دیا ۔
بیٹا اتنی رات کو کہاں جا رہے ھو ذکیہ نے ارمان کو سیڑھیا ں چڑھتے دیکھا تو پوچھنے لگ گئی کچھ نہیں امی بس آج کھلی فضا میں سونے کا دل کر رہا ہے لیکن بیٹا تمہیں نیند نہیں آئے گی چھت پر وہاں گرمی ہوگی مچھر بھی تم نہیں سو پاؤ گے ۔
امی ان آسائشوں کی اتنی عادت نہیں ڈالنی چاہئے کہ ان بغیر ہمارا دم گھٹنے لگ جائے یا ہمیں زندگی ہی بے کار لگنے لگ جائے ۔زندگی کی سختی کو بھی برداشت کرنا چاہئے نا جانے ہمارے علاوہ اور کتنے لوگ ہیں اور وہ کس کس حالات میں رہ رہے ہیں ہم ان سے بالکل بے خبر ہیں ۔
اور ظاہری سی بات ہے وہ ہم جیسے امیر لوگوں پر غصہ کرتے ہوں گے کے انکی غربت کی وجہ ہم ہیں۔مجھے بہت خوشی ہوئی بیٹا یہ جان کر کے تمہاری سوچ کتنی اچھی ہے اور تمھارے لہجے میں دولت کا کوئی غرور نہیں ہے ذکیہ نے مسکرا کر کہا ۔
آنکھیں نیند سے بوجھل لیکن پھر بھی نیند اس سے کوسوں دور تھی ایک ان چاہی خواہش کے پورے ہونے کا شدت سے انتظار تھا جو اسے سونے نا دے رہا تھا ۔
ابھی وہ خیالوں میں ہی مگن تھا کے فون کی گھنٹی بجی نمبر unknown تھا لیکن دوسری طرف سے موجود آواز وہ فورا سمجھ گیا ۔انمول بات کر رہی ہوں میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں اس نے جواب دیا۔سوالوں کا ایک سمندر تھا جس نے ارمان کے دماغ پر بسیرا کر لیا
میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں دوسری طرف سے کچھ وقفے کے بعد ایک آواز آئی ۔ارمان کو لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ھو ایسا خواب کے جسے دیکھتے ہوئے آپ کو آنکھ کھلنے کا بھی ڈر ھو ۔
جی جی ضرور کیوں نہیں دوسری طرف سے ارمان بولا اتنے میں ہی انمول نے فون بند کر دیا اس سے پہلے کے وہ اس سے مزید کسی سوال کا اظہار کرتا۔یوں انمول کا اچانک فون کرنا پھر اسے ملنے کا کہنا نا جانے خوش فہمی تھی یا جو بھی بس اسے یہ خیال اچھا لگ رہا ۔
نیند اسکی آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔یا شاید کچھ انجانی سی سوچوں کا محور تھا جو اسے گھیرے ہوئے تھا ۔کل صبح کا سورج نا جانے اسکی زندگی میں کیسا ہوگا یہ سوچتے ہی اس نے آنکھیں موند لیں یوں تاروں بھری رات کا اختتا م ہوا ۔
ارمان صاحب آ جائے ناشتہ لگ گیا ہے گل بابا نے پیغام دیا وہ انکے ہاں شروع سے ہی ملازم تھے اور بہت وفادار بھی تھے انکا کہنا تھا کے ارمان بابا کے پاس جتنی دولت اور شہرت ہے انکے لہجے میں ذرا برابر بھی غرور نہیں ہر وقت انکے لہجے سے مٹھاس جھلکتی ہے ۔یہی وجہ تھی کے گل بابا انکے بہت نزدیک تھے ۔
گل بابا آپ چلیں میں آتا ہوں ارمان نے جواب دیا یہ کہتے ہی ارمان تیار ہونے کے لئے چلا گیا ۔
تانیہ اور ذکیہ پہلے سے ٹیبل پر موجود تھیں ارمان سلام کرنے کے بعد اپنی ھوں نشست پر بیٹھ گیا اور ناشتہ کرنے میں مصروف ھو گیا ۔
بیٹا آج تم کب تک آفس سے آ جاؤ ہے کھانا کھاتے ہوئے ہی ذکیہ نے ارمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
امی آج ذرا جلدی آ جاؤں گا گھر مجھے آپ کو کسی سے ملانا ہے کس سے ذکیہ نے حیران ھو کر پوچھا آپ کی بہو سے ارمان ہنستے ہوئے بولا
سچ میں بیٹا ذکیہ کی تو جیسے خوشی کی انتہا ہی نا رہی تھی اور خوش کیوں نا ہوتی اتنے عرصے سے تو وہ ارمان کو منا رہی تھیں کے اب وہ بھی شادی کر لے ۔
لیکن ارمان ہر بار یہی کہہ کر ٹال دیتا کےامی ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے جب ہوگا تو آپ کی لازمی بتاؤں گا ۔
جی امی میں نے فیصلہ کر لیا ہے شادی کا ارمان نے ذکیہ کو مطمئن کرتے ہوئے کہا ۔اور ہاں امی آپ اچھی سی ڈشز بنوا لیجئے گا چار یا پانچ اور میں سعد کو بھیجو گا گھر اگر کوئی کام ہوا تو اسے بتا دیجئے گا ۔
واہ کیا بات ہے بھائی اتنا اہتمام تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا ابھی تو بھابھی آئی نہیں ہے جب آ گئی تب تو آپ ہمیں بھول ہی جائے ہے نہیں میری جان ہر رشتے کا مقام اپنی جگہہ ہوتا ہے ویسے بھی کسی ایک رشتے کے آ جانے سے باقی رشتے تھوڑی بدلتے ہیں۔
خیر ہے بھائی آج آپ بہت مسکرا رہے ہیں سعد نے ارمان کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ہاں یار بس بات ہی کچھ ایسی کے خوشی بھی بہت ہے اور ڈر بھی ہے
کیوں بھائی ایسا کیا ہے سعد نے حیران ھو کر پوچھا انمول ملنے آ رہی ہے ارے واہ بھائی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے پھر آپ پریشان کیوں ہیں سعد نے حیرت سے پوچھا ۔اسکے جواب سے کے نا جانے اسکا کیا جواب ہوگا وہ مجھے قبول کرے گی یا نہیں ۔
ارے بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ھو ہی نہیں سکتا کے وہ آپ کی اتنی چاہت کو ٹھکرا دیں اچھا ارمان نے حیران ھو کر کہا
لیکن اگر وہ کسی اور کو چاہتی ہوئی تو ارمان نے سوالیہ نظروں سے سعد کو دیکھا
تو کیا ہوا بھائی دنیا میں ایک ہی انسان کے بہت سے چاہنے والے ہوتے ہیں ضروری تو نہیں کے انسان سبکا مقدر ھو مجھے پورا یقین ہے کے آپ سے زیادہ انمول کو کوئی نہیں چاہتا ہوگا یہ سنتے ہی ارمان کے ہونٹوں پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی ۔
سعد تم تھوڑی دیر تک گھر چلے جاؤ گھر میں تھوڑا کام ہے میں نے کیٹرنگ والے کو بلایا ہے تم اسے اچھے سے دیکھ لینا اور ہاں اگر کوئی کام ھو تو امی سے بھی پوچھ لینا جی بھائی ٹھیک ہے یہ بولتے ہی سعد اٹھ کر چلا گیا ۔
گھر کا کام ختم کروا کر سعد آنٹی کے پاس چلا گیا آنٹی کوئی کام ہے تو بتا دیں بھائی نے جو کام بولا تھا وہ تو فائنل ہوگیا ہے ۔نہیں بیٹا کوئی کام نہیں ہے بس تم بیٹھو میں تمھارے لئے چائے بنوا تی ہوں ۔
سعد ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا اور ارمان کو کال کرنے لگ گیا ۔ہیلو ارمان بھائی آپکا سب کام ہوگیا ہے آپ نے کب تک آنا ہے سعد نے پوچھا ؟؟ہاں بس میں دس منٹ تک نکل رہا ہوں تم ایسا کرو آفس آ جاؤ میں پھر گھر آ جاؤں گا ۔
ارمان سعد سے بات کرنے کے بعد ایک اور کال ملانے لگ گیا کافی بل کے بعد فون اٹھا لیا گیا انمول کب تک آؤ گی ارمان نے دھیمے لہجے میں کہا بسس تھوڑی دیر تک انمول نے جواب دیا ۔ٹھیک ہے دس منٹ تک باہر آ جاؤ ۔
یہ کہتے ہی ارمان نے فون رکھ دیا اس سے پہلے کے انمول کوئی سوال کرتی ٹھیک دس منٹ بعد جب وہ باہر آئی تو ایک لمبی بلیک کار اسکی منتظر تھی ۔
جیسے ہی انمول کو گاڑی کے پاس آتے دیکھا تو ڈرائیور فورا باہر نکلا اور پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولنے لگ گیا ۔
تمہیں کس نے بھیجا ہے انمول نے سخت لہجے میں کہا جو میڈم مجھے ارمان سر نے بھیجا ہے ڈرائیور نے جواب دیا ۔
بہت شوق ہے تمھارے صاحب کو اپنی دولت کا روعب جمانے کا مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ میں خود آ جاؤں گی انمول نے بیزاری سے کہا ۔
جی میڈم لیکن سر نے بولا تھا کے آپ میرے ساتھ ہی آ جائے ورنہ وہ خود آپ کو لینے آ جائے گے اب آپ بتا دیں کے آپ کو میرے ساتھ جانا ہے یا میں سر کو کال کر دوں یہ کہہ کر ڈرائیور نے سر جھکا لیا ۔
انمول نے غصے سے پیر زمین پر پٹکے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اس میں بیٹھ گئی ۔
راستے کا سفر بہت خاموشی سے گزرا اسکی نظریں ونڈ اسکرین سے باہر ہی سڑک پر مرکوز رہیں ۔
گاڑی ایک بہت بڑے محل نما گھر کے سامنے رکی جیسا گھر صرف ڈراموں میں دیکھنے کو ہی ملتا ہے پہلے تو اس گھر کو دیکھ کر انمول ایک دم چونک گئی پھر بعد میں نارمل ہوگئی گاڑی ایک بہت بڑے گیراج میں کھڑی کر دی جس میں پہلے سے تین گاڑیاں موجود تھیں ۔
انمول نے گاڑی سے نیچے ہی پاؤں رکھا تھا کے اسے اپنے پیروں تلے کچھ نرماہٹ سی محسوس ہوئی وہ سرخ گلاب کی پتیاں تھیں جو کے تا حدِ نگاہ تک بچھی ہوئی تھیں ۔
اس سے پہلے کے انمول قدم آگے بڑھا تی ایک ملازم سامنے آیا میڈم آپ اس راستے پر چلتی جائے اس نے پھولوں سے سجی ہوئی ایک راہ گزر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
اسکی جگہہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ ان چیزوں سے متاثر ہوئے بنا کبھی بھی نہیں رہ پاتی لیکن وہ ٹھہری انمول بالکل بے تاثر ۔
کافی چلنے کے بعد جب اس نے اچانک نظر اٹھا کر دیکھی تو سامنے ارمان ملک کھڑا تھا سیاہ شلوار قمیض اور گلے میں ایک چادر لپیٹی بازو کہنؤ ں تک فولڈ کئے گئے جو کہ اسکی شخصیت کو بہت دلکش بنا رہے تھے ۔
پھولوں والی اس راہ داری کے بالکل آخر پر وہ کھڑا تھا انمول اس راستے کو دیکھتے ہوئے کہا جس راستے کو تم نے میری منزل بنا کر اختتام کیا ہے ضروری نہیں میں بھی اسی کو ہی اپنی منزل مان لوں انمول نے تیوری چڑھا کر کہا ۔
انمول تمہاری منزل کا تو پتہ نہیں لیکن میں تو تمہیں ہی اپنی منزل سمجھ بیٹھا ہوں جس سے آگے جانے کی نا دل میں خواہش ہے اور ہی حسرت ارمان نے مسکرا کر کہا ۔
اور یہ پھول کتنی بے دردی سے تم نے انہیں توڑ دیا اور وہ بھی پیروں میں روندنے کے لئے تمہیں کس نے کہا کے یہ پیروں تلے روند ہوں گے ۔ویسے بھی پھولوں کے نیچے پھول آ جائے تو وہ روندے نہیں جاتے ارمان نے انمول کے پیروں کی جانب دیکھ کر کہا ۔
میں کیوں ملنے آئی ہوں اسکی وجہ نہیں پوچھو گے انمول نے ارمان سے سوال کرنے کے انداز میں کہا ۔پہلے سوچا رات ہی پوچھ لوں اتنی بے چینی تھی پھر سوچا کے تھوڑی دیر خوش فہمی میں ہی رہ لوں ارمان نے مسکرا کر کہا ۔
بہت انتظار کیا ہے انمول تمہارا میں نے ارمان نے تھوڑا آہ بھر کر کہا یہ جانے بغیر کے میرا کیا جواب ہوگا انمول نے آگے سے اور سوال کر ڈالا ہاں یہ جانے بغیر اور ضروری تو نہیں کے تمھارے فیصلے جان کر تمہیں چاہوں محبت تو بغیر سوچے سمجھے ہی ہوجاتی ہے ۔
میں نہیں جانتا کے تم میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ھو اچھی یہ بری مجھے علم نہیں بالکل ویسی ہی رائے رکھتی ہوں جیسی تمھارے بارے میں لوگ رکھتے ہیں ۔
مطلب تم بھی لوگوں کی طرح ہی میرے بارے میں غلط سوچتی ھو لوگ تمھارے بارے میں ٹھیک ہی کہتے ہیں تمہیں غلط لگتا ہے وہ الگ بات ہے انمول نے کندھے اچکا کر کہا ۔
لیکن مجھے کم از کم یہ بالکل منظور نہیں کے تم مجھے پرکھے بغیر میرے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرو ارمان نے ا حتجاج کرنے کے انداز میں کہا ۔
لیکن یہ موقع تمہیں کبھی نہیں ملے گا اور میں تمہیں یہ بتانے آئی ہوں انمول نے جواب دیا ۔
کیوں ارمان کی آنکھوں میں ذرا سی نمی جھلکی جسے چھپانے میں وہ فورا کامیاب ہوگیا ۔
کیوں کے میرا رشتہ طے ھو چکا اور میں خوش ہوں کس سے ارمان نے سوال کیا ؟؟
رضا سے وہ میرے ساتھ ہی پڑھتا ہے انمول جھوٹ بولنے میں بالکل کامیاب رہی ۔
وہ تم سے پیار کرتا ہے یا تم اس سے پیار کرتی ھو ارمان نے سوال کیا۔
کیا فرق پڑتا ہے کون کس سے پیار کرتا ہے میں اسے اچھے سے جانتی ہوں کافی ہے انمول نے عزر پیش کرتے ہوئے کہا ۔
فرق پڑتا ہے کیوں نہیں پڑتا رشتوں میں محبت کا ہونا لازم ہے تم اسے جانتی ھو صرف اس لئے اسے اپنی زندگی میں شامل کر رہی ھو یہ محبت تو نا ہوئی سمجھوتا ہی ھو گیا ارمان نے کہا ۔
جو بھی ہے لیکن میں اسے ہی اپنی زندگی میں شامل کروں گی اور یہ بھول جاؤ کے میں کبھی تمہاری ہوں گی یہ کبھی بھی نہیں ھو سکتا ہے ۔
یہ کہہ کر انمول اسی راستے سے واپس چلی گئی اور ارمان کی نظریں دور تک اسکا پیچھا کرتی رہیں ۔
بھائی کیسی رہی بھابھی کے ساتھ میٹنگ سعد نے انمول کے جاتے ہی ارمان کو فون کر کے پوچھا ؟؟؟
یار پتہ نہیں میں اسکی اور اپنی گفتگو میں کچھ سمجھ ہی نہیں پایا ۔بس یوں لگ رہا ہے کے جیسے مجھے پانی میں کوئی غوطہ دے رہا ہے اور میری سانس بند ھو رہی ہے میں مسلسل باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ناکام ھو رہا ہوں یہ کہہ کر ارمان نے فون بند کر دیا ۔
یہ پھول تو میں نے اسکے آنے کی خوشی میں بچھا ئے تھے لیکن وہ انہیں میری کی قبر پر ڈالنے کا بندوبست کر کے چلی گئی ارمان نے راہداری میں بچھے پھولوں کو دیکھ کر دل میں سوچا اور وہاں سے چلا گیا
انمول کا فیصلہ ارمان کو حیران نا کر سکا کیوں کے شاید وہ اس بات کے لئے پہلے سے ہی تیار تھا مگر اپنی محبت کو شاید ہارنے کے لئے کسی صورت بھی تیار نا تھا ۔
انمول ایک سزا کی صورت میں اپنا فیصلہ ارمان کو سنا آئی تھی اور بہت مطمئن بھی تھی اس بات سے بے خبر کے ارمان کا اگلا قدم کیا ہوگا ۔
معمول کی طرح وہ یونی جانے کی تیاری میں لگ گئی ۔جب تیار ھو کے آئی تو امی سے سلام دعا کے بعد اس نے ناشتہ کیا اور یونی کے لئے نکل گئی اسکے مطمئن ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے اس نے رضا کے بارے میں امی کو بتا دیا تھا اور اپنا بھی کے وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔
شاید اسکا مطمئن ہونا اس لئے زیادہ تھا کیوں کے اسے لگتا تھا کے وہ ارمان والا معاملہ خود ہی ختم کر آئی ہے لیکن وہ شاید یہ بھول گئی کے وہ بھی ارمان ملک تھا اپنی چیز کبھی کسی کو نا دینے والا یہ تو پھر اسکی محبت تھی وہ کیسے ہار مان جاتا ۔
انمول حسبِ معمول یونی پہنچ گئی تو سمن اسکے انتظار میں پہلے سے ہی بیٹھی تھی ۔ہاں انمول جلدی سے بتا کیا بات ہے سمن نے بے تاب ہوتے ہوئے کہا انمول نے رات میں ہی اسے بتا دیا تھا کے اسے کوئی بات کرنی ہے اس لئے سمن کب سے انتظار میں بیٹھی تھی ۔
انمول نے پہلے کل کی ارمان سے ملاقات کا سارا قصہ سمن کو سنا ڈالا وہ حیران آنکھوں سے انمول کو دیکھ رہی تھی جو بڑی آسانی سے بغیر کوئی تاثر لئے سمن کو ساری ملاقات کا بتا رہی تھی ۔
تو تم نے کیا فیصلہ کیا پھر سمن نے انمول کی بات مکمل ہونے پر اس سے پوچھا میں نے رضا سے شادی کا فیصلہ کیا ہے یوں اچانک سمن اسے حیران پریشان ہوتے ہوئے دیکھنے لگ گئی ۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے جب دل کر تا ہے جو مرضی فیصلہ کر لیتی ھو یار یہ کوئی مذاق تھوڑی ہے تمہاری زندگی ہے اسے یوں جذبات میں آ کر خراب مت کرو سمن نے اسے سمجھایا ۔
خراب کیوں شادی کر رہی ہوں انمول نے مخالفت کرتے ہوئے کہا اور ویسے بھی تم یہی تو چاہتی تھی کے میں رضا سے شادی کر لوں اسکی محبت قبول کر لوں اب اگر یہ سب کر رہی ہوں تو تمہیں خوش ہونا چاہئے انمول نے سوال کیا ۔
ہاں ضرور خوش ہوتی اگر یہ فیصلہ اتنی جلد بازی میں نا کرتی تو لیکن یوں اچانک اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تم تو رضا سے محبت بھی نہیں کرتی اسکا نام سنتے ہی چڑ جاتی تھی تو اب ایسا کیا ہوگیا کے تم نے اچانک فیصلہ کر لیا ۔
جو بھی ہے آج نہیں تو کل فیصلہ تو کرنا تھا نا تو پھر انتظار کس بات کا کروں بس مجھے فلحال یہی ٹھیک لگا ہے میں نے رضا کو میسج کر دیا تھا کے مجھے اسکا پرپوزل قبول ہے ۔
اور رہی بات میری تو میں اس سے محبت نہیں کرتی لیکن وہ تو مجھ سے کرتا ہے نا بس کافی ہے ویسے بھی زندگی گزارنے کے لئے کسی ایک کی محبت ہی کافی ہوتی ہے میں شاید اسے بعد میں چاہنے لگ جاؤں انمول نے ہر بات کو رد کرتے ہوئے کہا ۔
لیکن محبت تو تم سے ارمان ملک بھی کرتا ہے اسکا کیا سمن نے وضاحت طلب انداز میں پوچھا لیکن میں اس سے نفرت کرتی ہوں اگر وہ دنیا کا آخری مرد ہوگا تب بھی میں اس سے شادی نہیں کروں گی انمول نے غصے میں کہا ۔
لیکن ارمان تمہارے لئے فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے انمول جو تمہیں اتنا چاہتا ہے سوچو تم اسکے ساتھ کتنا محفوظ رہو گی ہر دنیا کی گرم سرد ہوا سے محفوظ رکھے گا تمہیں وہ ایک بہت اچھا انسان ہے ۔
میں نہیں جانتی کے تمہارا ایسا کونسا ماضی ہے جس کی وجہ سے تم اس سے اتنی نفرت کرتی ھو لیکن وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے اپنی نفرت کی دیوار کو گرا کر کبھی دیکھنا ضرور سمن نے اسے سمجھایا ۔
یہ دیوار نہیں گر سکتی کبھی بھی نہیں اسی نے اسے قائم کیا ہے انمول کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جسے دیکھ کر سمن کچھ سمجھ ہی نا سکی ۔
ارمان ملک جیسا انسان جو ہر دل کی دھڑکن ھو بھلا کوئی اس سے اتنی نفرت کیسے کر سکتا ہے لیکن وہ انمول کے ماضی سے وابستہ تھا شاید کوئی تلخ حقیقت کی طرح جسے انمول کبھی نا کبھی ظاہر کر ہی دیتی ۔ابھی ان دونوں کی بحث چل ہی رہی تھی کے انمول نے رضا کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔
سمن وہاں سے چلی گئی رضا انمول کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے دونوں ہم آواز بولے رضا ہلکا سا مسکرا یا پہلے آپ بات کر لیں انمول نے رضا سے کہا ۔
آپ کے یوں اچانک فیصلے کی وجہ جان سکتا ہوں رضا نے پوچھا جی بالکل آپ پوچھ سکتے ہیں انمول رضا سے گویا ہوئی ۔جب انسان حالات سے خود کو ہارتا ہوا اور بے بس محسوس کرنے لگے تو اسے سہارے کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے مجھے ضرورت ہے آپ کی اور آپ کی محبت کی بس اور کچھ نہیں انمول نے مختصر مگر مکمل انداز میں کہا ۔
لیکن میں نے تو آج تک آپ کو صرف مظبوط ہی پایا ہے کبھی کمزور ہوتے ہوئے نہیں دیکھا انمول پھر یوں اچانک ایسا کیا ہوگیا کے آپ کمزور پڑ گئی۔
آپ میرا ساتھ دیں گے کیا ؟؟؟انمول نے رضا کی بات کاٹتے ہوئے کہا رضا پہلے تو اسے بنا پلک جھپکے اسے دیکھتا رہا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے انمول کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں جلد ہی گھر بات کر کے امی کو آپ کے گھر بھیجتا ہوں رضا نے انمول کو مطمئن کرنے کے انداز میں کہا اگر آپ دونوں کی میٹنگ ختم ھو گئی ھو تو میڈم چلیں کلاس کا وقت ھو رہا ہے سمن نے کہا ہاں کیوں نہیں اتنے میں وہ کلاس لینے چلی گئی ۔
بالکل مطمئن تھی وہ مگر اس بات سے انجان کے کوئی اسکی ایک ایک سانس پڑ نظر رکھے ہوئے ہے ایک ایک پل سے واقف ہے ۔
ہیلو ہاں کچھ پتہ چلا ایک آدمی مخاطب کرتے ہوئے کہا جی سر میں نے ابھی ابھی اسے ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا ہاتھوں میں ہاتھ لئے بیٹھی تھی ہممممم دوسری طرف سے غصے سے کال کاٹ دی گئی ۔
انمول گھر آ چکی تھی اسکی عادت تھی ہمیشہ کی طرح کھانا کھا کر امی کے پاس بیٹھ جاتی تھی اور آج بھی حسب معمول بیٹھ گئی ۔
امی سے کچھ دیر معمول کی باتیں کیں اور پھر اپنے کمرے میں آ گئی ۔
سونے کی تیاری میں تھی جب ایک unknown نمبر سے میسج آیا ۔
اس نے کچھ ہیچکیچا تے ہوئے میسج اوپن کیا اور ان لفظوں کو وہ کیسے نا سمجھ پاتی ۔
تو میری محبت کو ٹھکرا نے کی وجہ یہ شخص ہے انمول کو اپنی اور رضا کی تصویر ملی جس میں دونوں نے ہاتھ تھام ہوا تھا ۔
غصے سے اسکے ماتھے پر بل آ گئے تمہیں شرم نہیں آتی کسی کی جاسوسی کرتے ہوئے انمول غصے سے بولی
یہ جاسوسی نہیں ہے میں تو بس تمہاری حفاظت کر رہا ہوں بس ہر برے انسان سے رضا نے جواب دیا ۔
اوہ تو اب تم مجھے بتاؤ گے کون اچھا ہے اور کون برا میں آخری بار بتا رہیں ہوں کی دور رہو مجھ سے انمول غصے میں چلا ئی۔
دیکھو انمول آج تک میں نے کسی کا برا نہیں کیا تمہاری نفرت کی وجہ میں نہیں جانتا لیکن اگر کوئی انسان میری محبت کی بیچ میں آئے گا تو میں برداشت نہیں کروں گا میں آخری بار بتا رہا ہوں ۔
بہتر ہوگا کی تم اس سے دور رہو تم صرف و صرف میری ھو خود کو میری امانت سمجھو اور مجھے امید ہے کہ تم اس امانت میں خیا نت نہیں کرو گی ۔
نہیں یہ مرتے دم تک نہیں ہوگا سوچ ہے تمہاری اچھا دیکھتے ہیں ۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے میں صبح کو گاڑی بھیج دوں گا آ جانا ارمان نے کہا
نہیں آؤں گی غصے میں انمول فون رکھنے ہی والی تھی جب دوسری طرف سے آواز آئی ٹھیک ہے پھر میں آ جاؤں گا یہ کہہ کر ارمان نے کال کاٹ دی ۔
یوں ایک خوف زدہ رات اپنے اختتام کو پہنچی ۔
انمول تیار ھو کر باہر نکلی تو ارمان کی کہنے کی مطابق ایک گاڑی باہر کھڑی تھی اور ڈرائیور نے اسے دیکھ کر جھٹ پٹ دروازہ کھولا ۔
انمول تیو ری چڑ ھا کر بیٹھ گئی راستے کا سفر خاموشی سے گزرا ۔
ڈرائیور نے گاڑی ایک ساحل سمندر کی کنارے پر روک دی اس بار ارمان ملک کی گھر نہیں گئی وہ ارمان ملک کو دیکھ چکی تھی ۔
آخر تم چاھتے کیا ھو انمول غصے میں بولی تمہیں اور تمہارا ساتھ ارمان نے جواب دیا ۔
یہ کبھی نہیں ہوگا میں مرتے دم تک یہ نہیں ہونے دوں گی اور یہ تو تم جان ہی چکے ھو کے میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں ۔
بہتر ہوگا کے تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ ہٹ جاتا بلکل اگر واقع ہی تم اس سے پیار کرتی ہوتی تو ارمان نے جواب دیا ۔
کر پاؤ گے اپنے رقیب کا سامنا یاد رکھو تم میرے وجود کو پا لو تب بھی میری روح تک رسائی حاصل نہیں کر سکو گے کبھی بھی نہیں انمول نے غصے میں کہا اور میں یہ کوشش آخری حد تک کروں گا ارمان نے پر امید انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔
انمول نا چاہتے ہوئے بھی اس بار جب ارمان سے مل کر آئی تو بہت پریشان تھی ۔
اسکی باتیں ہی ایسی تھی پریشان کر دینے والی ہوش اڑا دینے والی خیر وہ تمام خیالوں کو جھٹک کر سو گئی ۔
ادھر ارمان ملک بھی خوب واقف تھا انمول کی بے چینی سے کیوں کے وہ جانتا تھا کے اسکی باتیں انمول کو مائل کریں یا نا مگر اس پر اثر ضرور کریں گی ۔
انمول صبح اٹھ کر معمول کے مطابق تیار ہونے لگ گئی ناشتہ کرنے کے بعد امی کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔
انمول بیٹا آج تم نے یونی دیر سے جانا ہے نا مجھے تھوڑا کام ہے بازار تو تم گھر خیال سے رہنا میں آ جاؤں گی زیبا نے کہا نہیں امی مجھے بھی تھوڑا کام ہے میں بھی ساتھ چلوں گی انمول نے بات کاٹ کر کہا ٹھیک ہے زیبا نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔
بازار جا کر انھیں معلوم ہوا کے آج تو strike تھی انمول کو اپنی بے وقوفی پر غصہ آ رہا تھا کل ہی تو نیوز میں اس نے strike کا دیکھا تھا ۔
خیر اب تو وہ آ گئے تھیں گرمی بھی شدید تھی اور اوپر سے کیپ بھی نہیں مل رہی تھی ۔
گرمی سے زیبا کی تو بری حالت ھو رہی تھی جب کہ انمول تو پھر بھی چل ہی رہی تھی ۔
بس بیٹا مجھے بہت چکر آ رہے ہیں یہ کہہ کر زیبا رک گئی پھر اچانک ایک گاڑی سامنے آ رکی ایک شخص نے باہر آتے ہی زیبا سے پوچھا آنٹی آپ ٹھیک تو ہیں ۔
زیبا نیم بے ہوشی کی حالت میں کچھ نہیں بول سکی جب کے انمول کا اس شخص کو دیکھ کر پارا چڑھ گیا وہ ارمان ملک تھا ۔
زیبا نے ہلکے سے ہاں میں سر ہلا دیا اور بے ہوش ھو گئی انمول بھی مخالفت نا کر سکی ۔
ارمان انھیں ہسپتال لے گیا وہاں سے میڈیسن لی اور پھر گھر چھوڑنے آ گیا ۔
بیٹا بیٹھو چائے پی کر جانا زیبا نے کہا انجکشن کے بعد اسکی طبیعت کافی بہتر ھو گئی تھی ۔
ارے آنٹی ابھی نہیں پھر کبھی سہی ارمان نے بات کاٹ کر کہا ۔
ارے نہیں بیٹا اتنی دور گھر تک آئے ھو ایسے نہیں جاؤ اچھا تھوڑی لگتا ہے۔
زیبا نے فورا انمول کو آواز دی بیٹا ان کے لئے چائے بنا دو زیبا انمول کو دیکھتے ہی بولی انمول نے تیوری چڑھا کر ارمان کو دیکھا مگر ماں کے سامنے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔
اس لئے چوپ چاپ کچن میں چائے بنانے چلی گئی ۔
اگر یہ چائے بنائے گی تو میں پی لوں گا ارمان کے الفاظ اسکے دماغ میں گونج رہے تھے ۔
کتنا ڈھیٹ انسان ہے جتنا اس سے دور جانے کی کوشش کرتی ہوں اتنا ہی بار بار میرے قریب آ جاتا ہے انمول غصے میں بڑبڑآئی ۔
میرے ہاتھ کی چائے پئے گا ابھی مزہ چکھآتی ہوں انمول نے غصے میں دانت پیستے ہوئے کہا ۔
چائے میں چینی کی جگہہ نمک ڈال دیا اور جب چائے لے کر گئی تو اسکے چہرے پر ہلکی سی شرارت تھی ۔
ارمان کو چائے پکڑا کر وہ وہی امی کے پاس بیٹھ گئی تا کہ اسکے تاثر دیکھ سکے ۔
ارمان نے چائے کا پہلا ہی گھونٹ پیا تو چونک کر انمول کو دیکھا لیکن اسکے تاثر نہیں بدلے ۔
بہت اچھی چائے ہے ارمان نے مزے سے گھونٹ پر گھونٹ پیتے ہوئے کہا انمول بنا پلک جھپکے اسے دیکھتی رہی عجیب انسان ہے انمول نے دل میں سوچا ۔
ٹھیک ہے آنٹی میں چلتا ہوں ارمان چائے پیتے ہی اٹھ کھڑا ہوا چائے بہت اچھی تھی انمول کی طرف دیکھتے ہوئے ارمان نے کہا ۔
شکریہ آنٹی ارے نہیں بیٹا شکریہ تو مجھے تمہارا ادا کرنا چاہئے تم ہمارے لئے آج مسیحا ہی بن کر آئے ھو زیبا نے کہا ۔
ارے نہیں نہیں آنٹی ہم انسان کہاں اس قابل یہ تو خدا ہی ہمیں چنتا ہے کسی کی مدد کے لئے ارمان نے کہا ۔
بیٹا کبھی چکر ضرور لگانا یہ بھی تمہارا اپنا ہی گھر ہے ضرور آنٹی یہ بھی میرا ہی گھر ہے ارمان نے مسکرا کر انمول کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔انمول نے اسے گھوری سے نوازا ۔
انمول کے فائنلز ھو گئے تھے تو اسے ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں ۔
چھٹیاں اسکی کافی سکون سے گزری نا ہی اسکی ارمان سے کوئی بات ہوئی اور نا ہی رضا سے ۔
آج انمول کا لاسٹ سمیسٹر کا پہلا دن تھا سوچا تو یہ تھا کے بہت اچھا ہوگا لیکن ابھی تو بہت سارے انکشاف ہونے باقی تھے جن سے وہ بالکل لا علم تھی ۔
انمول کون ہے کلاس کے دوران ہی سر نے سوال کیا انمول اٹھ کر سر کے پاس چلی گئی ۔
انمول آپ کو وی سی کے آفس بلایا گیا ہے وہ انسان جس سے کوئی ایک منٹ تک بات نہیں کر سکتا اس نے انمول کو بلایا ہے حیرت کے مارے انمول کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ۔
وی۔سی سر نے مجھے بلایا ہے وہ کچھ اٹک اٹک کر بول رہی تھی جی آپ کو ہی سر نے اسکی خیالوں کی دھار کو توڑ کر کہا ۔
انمول کچھ پریشانی کے عالَم میں آفس چلی گئی باہر کھڑے گارڈ نے اسکا نام پوچھا تو اسے اندر جانے دیا شاید اسے پہلے ہی بتا دیا تھا ۔
آج پہلی بار اس نے وی ۔سی کو سامنے سے دیکھنا تھا کچھ دنوں پہلے ہی پرانے وی ۔سی کی پوسٹنگ ھو گئی تھی اور نئے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔
آفس کے باہر بیٹھے ایک سیکٹری نے سوالیہ انداز میں پوچھا انمول ؟؟انمول نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔
وہ فورا اٹھ کر کھڑا ھو گیا آئے میرے ساتھ چلیں اور انمول کو اشارہ کرتے ہوئے آفس لے گیا ۔
سر انمول here!!! وہ آدمی وی سی سی مخاطب ہوتے ہوئے بولا ۔اس آدمی کا رخ دوسری طرف تھا اس لئے انمول اسے پہچان نہیں سکی ۔
اچانک اس نے رخ انمول کی طرف کیا تو انمول کو تو جیسے لگا کے اسکی جان کسی نے مٹھی میں لے لی ھو پوری دنیا الٹ پلٹ ھو گئی ھو ۔
میں تمھارے لئے دنیا کو الٹ پلٹ کر سکتا ہوں وہاں تک تمھارے لئے پہنچ جاؤں گا کے سوچ ہے تمہاری یقین کرنا مشکل ھو جائے گا تمھارے لئے اور سچ میں آج اسکے لئے یقین کرنا بہت مشکل تھا ارمان ملک اسکے سامنے تھا اور اتنی بڑی پوسٹ پر اور وہ بنا پلک جھپکے اسے بے یقینی کے عالم میں دیکھ رہی تھی
انمول سوچوں میں ڈوبی ہوئی سمن کے پاس جا کر بیٹھ گئی کیا ہوا سمن نے اسے گم سم دیکھا تو پوچھ لیا ۔
تم جانتی ھو ہماری یونی کا وی سی کون ہے انمول نے تپے ہوئے انداز میں کہا نہیں مجھے نہیں پتہ سمن نے جواب دیا ۔
ارمان ملک انمول نے دانت پیس کر کہا کیا سمن کی سنتے ہی چیخ نکل گئی ارمان ملک وہ بے حد حیران ہوئی ۔
انمول تو کیوں پریشان ہے تیرے تو مزے ھو گئے وہ بندہ جو تجھے اتنا چاہتا ہے دیکھ آج وہ کس مقام پر ہے اسکا مطلب ہے کے اسکے لئے دولت کوئی مطلب نہیں رکھتی سمن نے وضاحت طلب انداز میں کہا ۔
ہاں چاہتا ھو گا لیکن میں نہیں چاہتی انمول نے روکھے لہجے میں کہا ۔
اور یہ رضا پتہ نہیں کہاں غائب ہے جب شادی کے لئے نہیں مانتی تھی تو سر پر سوار رہتا تھا اب مان گئی ہوں تو گھر بات نہیں کر رہاانمول نے کہا ۔
انمول کیسی ھو اتنے میں ہی رضا آ گیا اور حال چال پوچھنے لگا ۔
رضا میں نے تم سی کہا تھا کے اپنی امی کو میرے گھر بھیج دو پھر تم اتنی دیر کیوں کر رہے ھو انمول اوکتا کر بولی ۔میں تمہیں صرف اس ہفتے کا وقت دے رہی ہوں بس بعد میں مجھ سی کوئی گلہ نا کرنا انمول نے کہا ۔
لیکن اتنی جلدی رضا نے بات کاٹ کر کہا ٹھیک ہے پھر مجھ سے شکایت نا کرنا یہ کہہ کر انمول وہاں سے چلی گئی ۔
ایک دن اچانک بیٹھے ہوئے خیال آیا کے رضا کو کال کروں اسکا نمبر کبھی بھی اوف نہیں ہوتا تھا لیکن نمبر مسلسل بند جا رہا تھا ۔
انمول نے پریشان ھو کر سمن کو فون کر دیا ہیلو ہاں سمن یار رضا کے فون مسلسل بند جا رہا ہے تجھے کچھ پتہ ہے کیا انمول گھبرا کر بولی
انمول یوں رضا کے فون نا اٹھانے پر کافی پریشان ھو گئی تھی ایسا نہیں تھا کے وہ اسکی محبت میں مرے جا رہی تھی نہیں بلکل بھی نہیں اسے تو ان دعووں سے ڈر لگ رہا تھا جو اس نے ارمان ملک کے سامنے رضا کے بارے میں کئے تھے ۔
کہیں رضا سچ مچ تو میری بات نہیں مان گیا میں نے تو صرف غصے میں بولا تھا کے اسکے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے لیکن وہ سچ ہی سمجھ بیٹھا ۔
بس اتنی سی تھی اسکی محبت وہ اتنی جلدی کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے اسی کے سہارے تو مجھے ارمان ملک سے اتنی بڑی جنگ لڑنی تھی ۔
میں اکیلی تو بہت کمزور پڑ جاؤں گی وہ تو یہی چاہتا تھا کے رضا کسی نا کسی طرح مجھے چھوڑ دے اگر اسے پتہ چل گیا تو وہ تو میری جان نہیں چھوڑنے والا ۔
لیکن ابھی کچھ معلوم بھی تو نہیں رضا کے بارے میں پھر میں یہ سب اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہوں انمول دل ہی دل میں سوچنے لگی میں بھی کتنی پاگل ہوں نا کچھ بھی سوچ لیتی ہوں اس نے سر پڑ تھپکی مار کر خود سے کہا ۔
وہ مجھ سے محبت کرتا ہے یوں تو مجھے نہیں چھوڑے گا انمول نے خود کو تسلی دے کر کہا ۔
لیکن اگر خدا نا کرے ارمان کی محبت جیت گئی تو میں کیا کروں گی انمول نے پریشان ھو کر کہا ۔
ارمان ہی جیتے گا سامنے آئنے میں اسے اپنا عکس بولتا ہوا دکھائی دیا وہ جیت جائے گا انمول تم بھی اپنے اندر جھانک کر دیکھو اپنے دل کی گواہی کو تو سنو۔اسکی محبت میں بہت شدت ہے تمہیں خود احساس ھو جائے گا ۔
انمول کا ضمیر مسلسل اسے جھنجھو ڑ رہا تھا اور وہ باتیں کسی نا کسی حد تک سچی تھیں ۔
انمول پسینے میں شرابور ھو گئی تھی اسکی پیشانی گیلی ھو چکی تھی ۔
وہ جانتی تھی کے یہ سب سچ ہے لیکن اسکا دل کر رہا تھا کے وہ کہیں دور بھاگ جائے بہت دور جہاں اسے اس حقیقت کا سامنا نا کرنا پڑے ۔وہ ارمان کی محبت قبول کر ہی لیتی لیکن اسکے اور ارمان کے درمیان ماضی کی دیوار حائل تھی جو اسکی محبت سے کہیں زیادہ مظبوط تھی۔
بند کمرہ بالکل گھپ اندھیرا تھا اچانک سے روشنی ہوئی اور دو تین لوگ رضا کے سامنے آ کر کھڑے ھو گئے وہ شکل سے ہی بہت بڑے غنڈے لگ رہے تھے ۔
رضا کے انھیں دیکھ کر پسینے چھوٹ گئے کیوں لائے ھو تم لوگ مجھے یہاں رضا اٹک اٹک کر بات کرنے لگا ۔
ہمارے بوس ہی بتائے گے یہ تو وہ غنڈے رضا سے گویا ہوئے کون ہے تم لوگوں کا بوس اور مجھے کیوں لائے ھو یہاں میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے رضا التجا کر رہا تھا ۔
ظفر بوس کی کال آئی ہے ابھی وہ آ رہے ہیں ان میں سے ایک غنڈہ بولا اور تو پھر دیکھ لینا ایک آدمی رضا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی آئی اسکے ساتھ تین سیکورٹی کارز بھی تھیں اس جگہہ پر موجود تمام سیکورٹی الرٹ ھو گئی ۔
وہاں پر موجود تمام آدمی رضا کو چھوڑ کر چلے گئے ایک آدمی وہاں داخل ہوا سیاہ سوٹ میں ملبوس اندر داخل ہوا ۔
کمرے میں بہت اندھیرا تھا تو رضا اسے پہچان نہیں سکا وہ آدمی اسکے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔
میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے سامنے بیٹھا شخص رضا سے مخاطب ہوا بس تم سے چند سوال کرنے ہیں اسکے بعد تمہیں تمہاری جگہہ پر چھوڑ آؤ گا جیسے لایا گیا تھا ۔
پریشانی کے مارے رضا کی سانس بند ھو رہی تھی یوں لگ رہا تھا کے اسے مزید بولا نہیں جائے گا پریشانی کے مارے اسکے ہاتھ پیر پھول رہے تھے ۔
انمول سے کتنی محبت کرتے ھو اس آدمی کے اس سوال پر رضا چونک گیا اسکے دماغ میں بہت سے اندیشوں نے جنم لے لیا لیکن وہ کوئی بھی سوال کرنے کی حالت میں نہیں تھا ۔
کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں رضا صرف اتنا ہی بول پایا اس میں نا سمجھنے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے بہت سادہ سا سوال ہے ۔
انمول کے کہنے کے مطابق تم اسکی محبت کے دعوےدار ھو تو بتاؤ پھر اس کے جواب میں تو تمہیں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے ۔
تم اس سے محبت کرتے ھو کیا اور ہاں سوچ سمجھ کر جواب دیا کرو مجھے جھوٹ بالکل نہیں پسند اس آدمی کی باتیں رضا کے ہوش اڑا رہی تھیں ۔
اور ایک اور بات کیا انمول بھی تم سے محبت کرتی ہے یا نہیں اسکا مجھے سہی سے جواب دینا ۔
ہاں تو بتاؤ کتنی محبت کرتے ھو تم انمول سے ارمان نے رضا کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے یہ کوئی کیسے بتا سکتا ہے رضا اٹک اٹک کر جواب دے رہا تھا ۔
تم انمول کی خاطر جان دے سکتے ھو کیا ارمان رضا کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر بولا رضا کے پسینے چھوٹنے لگ گئے میں جان دے سکتا ہوں ارمان نے بندوق کا رخ اپنی طرف کر کے کہا کچھ دیر وہ خاموش رہا مگر جب رضا کا تھوڑا سانس بحال ہوا تو ارمان نے پھر وہی سوال کیا ۔
محبت اپنی جگہہ لیکن اب اتنی بھی نہیں عزیز کے بندہ محبت کی خاطر اپنی جان ہی دے دے ۔
اب اگر کوئی اچھا لگتا ہے تو اسکا یہ مطلب تھوڑی ہے کے بندہ اسکی خاطر اپنی جان ہی دے دے ۔
محبت تو دوبارہ مل ہی جاتی ہے لیکن زندگی صرف و صرف ایک بار ہی ملتی ہے اور اسے کسی کی خاطر زائع کرنا بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں ۔
رضا ایک جواب اس سامنے بیٹھے آدمی پر ایک سے بڑھ کر ایک بڑا انکشاف کر رہے تھے ۔
اسے تو تمہاری محبت پر بہت ناز تھا سامنے بیٹھا آدمی رضا سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا ۔
اگر تمہیں اس سے محبت نہیں تھی تو تم نے اس سے جھوٹے دعوے کیوں کئے اب کی بار اس آدمی کی آواز میں بہت غصہ اور گرج تھی ۔
تمہیں شرم نہیں آئی تم نے اس سے جھوٹی محبت کا دعوہ کیا اور اسے لگا کے تم اس سے سچ میں محبت کرتے ھو ۔
ہاں وہ تو کرتا ہوں بکواس بند کرو اپنی اور خبردار اگر اپنی گندی زبان سے انمول کا نام بھی لیا تو تمہاری زبان کاٹ دوں گا ۔
ہاں مجھے اس شادی نہیں کرنی ہے رضا نے تلخ لہجے میں کہا میری خواہش تھی کے میں اسے اپنی زندگی میں شامل کروں اور میں پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگا ہوں ۔
پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو اتنے نخرے ہیں اسکے جیسے کوئی حور ھو ہمیشہ اس نے مرے پرپوزل پر انکار ہی کیا ہے کیوں کے اس نے کبھی مجھ سے محبت ہی نہیں کی۔
لیکن اب پتہ نہیں کیوں اچانک اس نے اپنا فیصلہ بدل لیا کے وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔
میرے چھوڑ دینے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا فرق تب پڑتا جب وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہوتی تو ۔
اگر کوئی تیری بہن کو یوں لارا لگا کر چھوڑ دیتا تو تجھے کتنی تکلیف ہوتی سامنے بیٹھا آدمی غصے میں رضا کا کولر پکڑ کر بولا ۔
میری بہن ایسی آوارہ نہیں ہے رضا نے جواب دیا تو اس نے ایک زور دار تھپڑ اسکے ایک گال پر رسید کیا اور پھر دوسرے پر خبردار اگر اسکے بارے میں ایسی بکواس کی تو تجھ جیسے گھٹیا انسان سے یہی توقع کی جا سکتی ہے ۔
وہ ایک بہت ہی شریف لڑکی ہے اور اپنے نام کی طرح وہ انمول ہے جسکا نصیب ایک انمول شخص ہی ہوگا جو اسکی محبت کی قدر کرے گا تجھ جیسا گھٹیا انسان تو کبھی نہیں ۔
جانتا ہے میں تجھے یہاں کیوں لایا تھا اپنے خدشات ختم کرنے لیکن تو نے تو سرے سے ہی سب ختم کر ڈالا کے میرے دل میں کوئی خدشہ نہیں رہا ۔
یہ کہہ کر ارمان نے کمرے میں لائٹ اون کردیارمان ملک اور رضا اسے دیکھ کر صرف اتنا ہی بول پایا ۔
دل تو کرتا ہے تجھے یہیں ختم کردو لیکن ایسا کرنے سے غلط فہمیاں اور بڑھ جائے گی ۔
میں تجھے چھوڑ رہا ہوں اسے اپنی جان کا صدقہ سمجھ یا کچھ بھی لیکن اگر آج کے بعد تو مجھے انمول کے ارد گرد بھی نظر آیا تو یاد رکھنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔
اور خبردار اگر کوئی چالاکی کی تو تمہاری ایک ایک حرکت پر میری نظر ہے بس اتنا یاد رکھنا ۔
رضا نے اس دن کی دھمکی سے ڈر کر انمول سے بات تک کرنا چھوڑ دیا اگر اسے کہیں سامنے دیکھتا تو راستہ بدل لیتا تھا انمول نے بھی یہ تبدیلی نوٹ کی تھی لیکن اسے لگا شاید یہ اسکی غلط فہمی ہے ۔
لیکن رضا مسلسل انمول کو نظرانداز کر رہا تھا نا کال اٹھاتا اور نا ہی اسکے میسج کا جواب دیتا کیوں کے وہ جانتا تھا کے اگر وہ انمول کے سامنے چلا گیا تو اسے بہت سے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا ۔
آخر ایک دن انمول سامنے آ ہی گئی لیکن اس بار وہ بھاگنے میں ناکام رہا تم مجھے کیوں نظر انداز کر رہے ھو وجہ جان سکتی ہوں انمول نے اسکے سامنے کھڑے ہو کر کہا
انمول کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر رضا بہت پریشان ھو گیا کیوں کے وہ جانتا تھا کے اب اسے بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے وہ چاہے بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔
رضا تم مجھے مسلسل نظر انداز کر رہے ھو آخر کیوں ایک وقت تھا جب تم میرے پیچھے پڑے رہتے تھے کے شادی کرنی ہے اب اگر میں تمہیں بول رہی ہوں تو تم راہِ فرار کیوں اختیار کر رہے ھو وجہ بتاؤ مجھے انمول کے لہجے میں موجود تلخی صاف نظر آ رہی تھی ۔
مجھے تم سے شادی نہیں کرنی رضا نے بغیر کسی جھیجھک کے جھٹ سے جواب دے دیا انمول کو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نا آیا ھو پہلے تو وہ یقین کرنے کی کیفیت میں رضا کو گھورتی رہی اور پھر خاموشی کو توڑ کر پوچھا یہ کیا کہہ رہے ھو تم ہوش میں تو ھو انمول نے غصے میں کہا ہاں بس میں تم سے شادی نہیں کر سکتا لیکن کیوں انمول نے بات کاٹ کر کہا اسکی وجہ تم ارمان ملک سے ہی پوچھ لینا اسے تو تم اچھے سے جانتی ھو گی رضا نے طنزیہ انداز میں مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا اس سے پہلے کے انمول کوئی اور سوال کرتی وہ جا چکا تھا انمول کو ارمان پر شدید غصہ آ رہا تھا اس نے غصے میں مٹھیا ں بھینچ لیں ۔
کیوں ملے تم انمول سے میرے منع کرنے کے باوجود رضا کو ایک بار پھر ارمان نے اپنے گارڈ بھیج کر بلا لیا اور رضا بھی آرام سے آ گیا کیوں کے وہ جانتا تھا کے وہ ارمان ملک ہے اگر وہ انکار کرے گا تو بھی وہ اسے اٹھا کر لے جائے گے لہٰذا وہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا ۔
گارڈ اسے ارمان کے فارم ہاؤس لے گئے کیوں کے ارمان زیادہ وقت وہیں رہتا تھا ۔ارمان نے رضا کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ بیٹھ گیا تمہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے یہ وجہ تو تم جان گئے ھوگے ارمان کے سوال پر رضا نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ جب تمہیں منع کیا تھا کے انمول سے دور رہنا ہے تو تم نے اس سے بات بھی کیوں کی ارمان کے لہجے میں صاف للکار تھی میں نہیں ملا انمول خود آئی تھی رضا نے گھبرا کر کہا جو بھی ھی تم اس سے بات نہیں کرو گے ورنہ اگلی بار سمجھاؤں گا نہیں سیدھا اوپر پہنچا دوں گا ۔
ارمان نے اپنے گارڈز کو آرڈر دیا کے اسے اسکی جگہہ پر چھوڑ آؤ اور تم میری بات یاد رکھنا آیندہ اگر انمول کے پاس بھی نظر آئے تو یہ سمجھ لینا کے تمہارا قتل مجھ پر واجب ھو جائے گا ۔رضا نے ہاں میں سر ہلا دیا اسکا پورا جسم پسینے سے شرا بور تھا ۔لے جاؤ اسے اور پھینک آؤ وہی جہاں سے اسے لائے تھے ہے تو یہ اس قابل کے اسے کچرے میں پھینک دیا جائے اپنی گندی سوچ کے ساتھ یہ بھی وہیں رہے اب کی بار بات کرتے ہوئے ارمان کے لہجے میں غصہ صاف جھلک رہا تھا ۔
بس مجھے آپ سے ایک سوال کرنا ہے رضا نے ہمت کرتے ہوئے کہا جب غنڈے اسے لے جانے کے لئے گھسیٹ رہے تھے ارمان نے اسے بولنے کا اشارہ کیا تو وہ اپنے ارد گرد موجود غونڈوں کو دیکھنے لگا جو کے اسے گھیر کر کھڑے ہوئے تھے ۔
ارمان سمجھ گیا کے وہ ان کے سامنے بات نہیں کر سکتا اس لئے اس نے انھیں باہر جانے کا اشارہ کر دیا ۔ہاں بولو کیا پوچھنا ہے ارمان نے غصے میں کہا مجھے یہاں لانے کا کیا مقصد تھا میں سمجھا نہیں رضا تھوڑا ہیچکیچا کر بولا ۔کیا ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔۔انمول ۔۔۔۔۔۔۔سے رضا اپنی بات پوری نہیں کر سکا یا شاید اس میں اتنی ہمت ہی نا تھی کے وہ آگے کچھ بولتا لیکن ارمان اسکا سوال سمجھ گیا ۔
ہاں میں انمول سے محبت کرتا ہوں بے حد اتنی کے اگر کوئی اسکی خاطر مجھے اپنی جان دینے کو بھی کہے تو میں ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنی جان دے دوں ۔اتنی محبت کرتا ہوں کے کوئی اسکے کردار پر انگلی اٹھائے تو میں اسکی پاکدامنی کی قسم تک اٹھا لوں تمہاری طرح نہیں کے اپنی محبت کو اپنے ہی ہاتھوں داغدار کر دوں ۔
میں ارمان ملک ہوں چاہوں تو ایک اشارے پر دنیا کو اپنے قدموں میں ڈھیر کر سکتا ہوں لیکن میں محبت کے معاملے میں زور زبر دستی کا قائل نہیں ہوں یہ فیصلہ دل سے ہوتا ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کے انمول یہ فیصلہ دل سے کرے۔
سمجھ گیا رضا نے ہاں میں سر ہلا دیا لیکن وہ اس بات پر بہت پریشان تھا کے وہ انمول کو ارمان کے بارے میں بتا چکا ہے کے اسکے کہنے پر ہی وہ اپنے قدم پیچھے ہٹا رہا ہے ۔
اگر تم چاہو تو انمول کو سب کچھ بتا سکتے ھو رضا ابھی سوچوں میں ہی گم تھا جب ارمان نے اسکی سوچوں کا دھارا توڑ کر اسے کہا کیوں کے میں پیٹھ پیچھے وار کرنے والوں میں سے نہیں ہوں اور رہی بات انمول کی تو اسے تو میں اپنی محبت سے قائل کر لوں گاہممممم ۔۔۔۔ٹھیک ۔ . ہے اٹک اٹک کر رضا صرف اتنا ہی بول سکا۔اب تم جا سکتے ھو ارمان نے گارڈز کو اشارہ کیا اور رضا انکے ساتھ چل پڑا ۔
اور دوسری طرف انمول غصے کی آگ میں جل رہی تھی اس کے بعد اس نے بھی رضا سے بات کرنا بالکل بند کر دیا تھا ۔سمجھتا کیا ہے خود کو محبت ایسی نہیں ہوتی کے اپنی ملکیت ہی سمجھ لو انمول کو ارمان پر بہت غصہ آ رہا تھا اتنے میں ہی ارمان کا فون آ گیا لیکن شاید اسے سکون پسند نہیں تھا اس لئے انمول کو کال کر لی۔
کیسی ھو انمول دوسری جانب سے آواز آئی جیسی بھی ہوں تم سے مطلب اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی رضا سے یہ سب کہنے کی پتہ نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا ۔وہ تمھارے بارے میں جو سوچ رکھتا ہے نہ انمول اگر تم وہ جان لو تو دوبارہ اسے کبھی پلٹ کر بھی نہ دیکھو ارمان نے جواب دیا میں اسے اچھے سے جانتی ہوں تمہاری طرح دھوکے باز اور جھوٹا نہیں ہے وہ ۔۔۔۔دھوکہ کیسا انمول میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے اور وہ بھی جائز طریقے سے تو اس میں غلط کیا ہے ارمان نے سوال کیا ۔
سب کچھ غلط ہے سب کچھ تم مجھ سے شادی کرنا چاھتے ھو میں نہیں اگر مجھے اپنی زندگی میں شامل کر بھی لو تب بھی یاد رکھو میری نفرت کے سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا کچھ نہیں انمول نے غصے میں کہا چلو اپنے کسی جذبے کے قابل تو سمجھا تم نے مجھے اور رہی بات نفرت کی تو اسے میں خود ہی محبت میں تبدیل کر لوں گا ۔انمول نے غصے میں فون بیڈ پر پھینک دیا اور لیٹ گئی ۔
کیسی ھو زیبا فاطمہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا فاطمہ اور زیبا پچھلے دس سال سے پڑوسن بھی تھیں اور بہت اچھی دوست بھی دونوں ہی ایک دوسرے کی غم اور خوشیوں میں بڑھ کر شریک ہوتیں انمول ندا اور ریدا کہاں ہیں سب نظر نہیں آ رہی ہیں فاطمہ نے ادھر ادھر جھانک کر کہا ہاں وہ انمول یونی گئی ہے ندا کالج میں اور ریدا پاس ہی اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی ہے ۔
اچھا ہوا نہیں ہیں مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی فاطمہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا ہاں ہاں ضرور زیبا نے کہا ۔محلے والے آج کل انمول کے بارے میں بہت الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں فاطمہ نے کہا کیا مطلب فاطمہ میں کچھ سمجھی نہیں زیبا نے پریشان ھو کر پوچھا ۔
انمول ایک دو بار کسی کی گاڑی میں بیٹھ کر گئی ہے بس اسی کو لے کر لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں دیکھو زیبا میں پچھلے دس سالوں سے تمہیں دوست ہوں اور تمہاری بٹیاں بھی میری بیٹیوں کی جگہہ ہیں میں انمول کو بہت اچھے سے جانتی ہوں وہ بہت ہی شریف بچی ھے مگر ہم لوگوں کی زبانوں پر تالا تو نہیں لگا سکتے اس لئے تم انمول کو سمجھاو کے وہ احتیاط کرے زیبا نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔
فاطمہ کے جانے کے بعد زیبا بہت پریشان ہوئی اس نے ہمیشہ اپنی بچیوں کو باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی ہر بری نظر سے بچا کر رکھا تھا ۔انمول مجھے تم سے بات کرنی ہے رات کو زیبا انمول کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی جی جی امی آ جائے انمول اٹھ کر بیٹھ گئی زیبا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیسے بات شروع کرے لیکن آخر کار اسنے تمہید باندھی ۔تم لوگ بہت چھوٹی تھیں جب تمھارے ابو اس دنیا سے رخصت ھو گئے اور میں نے تم لوگوں کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا جہاں تک ھو سکا تم لوگوں کی ہر ضرورت اور خوشی کا خیال رکھا ۔
لوگ کہتے تھے کے بن باپ کے بیٹوں کی پرورش کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں نہیں مانی میں نے تم لوگوں کو زمانے کی ہر بری نظر سے محفوظ رکھا لیکن میری ساری محنت زائع ھو گئی زیبا کی آنکھوں سے آنسو بہے جا رہے تھے اور اسکے اس فقرے نے تو جیسے انمول کی جان ہی مٹھی میں لے لی ھو۔ آج وہی لوگ میری پرورش پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں یہ کہتے ہی زیبا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
امی آخر بات کیا ہوئی ہے انمول نے زیبا کے آنسو پونچھے اور چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا زیبا نے اسے سب بتا دیا ۔اگر بیٹا تم اس انسان سے شادی کرنا چاہتی ھو تو میں نہیں روکو گی تم کر لو انمول نے دل شکستہ ھو کر ہاں میں سر ہلا دیا ۔اسے بلاؤ کل ہی میں تمہارا نکاح اس سے کروا دوں گی انمول کی آنکھیں ایک دم کھلی رہ گئی لیکن ۔۔۔ ۔۔امی ۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔ابھی ۔۔۔۔۔اتنی انمول اٹک اٹک کر بول رہی تھی اتنی دیر میں زیبا نے ہاتھ جوڑ دئے انمول نے کچھ کہے بغیر ہی سر جھکا لیا۔
میں تیار ہوں تم سے شادی کے لئے انمول نے ارمان کو فون کر کے کہا کل آ جانا سادگی سے نکاح ھو گا بس ارمان کے ہونٹوں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
میں حالات سے ضرور ہار گئی ہوں مگر یہ مت سمجھنا کے تمہاری اور میری جنگ ختم ھو گئی یہ جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے یہ کہتے ہی انمول نے فون بند کر دیا
انمول بیٹا تم نے بات کی کیا ہاں امی کر لی ہے وہ شام میں آ رہا ہے نکاح کے لئے زیبا یہ سنتے ہی انمول کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اسکے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی مجھے معاف کر دینا بیٹا میں جانتی ہوں
تمہارا کوئی قصور نہیں ہے لیکن میں کیا کروں میں نہیں چاہتی کے ساری زندگی جو تم لوگوں نے اتنی با حیا ھو کر گزاری ہے اس پر لوگ انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں ۔
اور نہ ہی میں یہ چاہتی ہوں کے لوگ میری پرو رش پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں یا تمھارے مرحوم باپ پر بیٹا اس وقت یہی بہتر ہے میں جانتی ہوں کے تم میرے اس فیصلے سے نہ خوش ہوگی لیکن مجھے امید ہے کے ایک نہ ایک دن میرا یہ جلدی میں کیا ہوا فیصلہ تمہیں اپنے حق میں بہتر لگے گا یہ کہہ کر زیبا نے انمول کو گلے سے لگا لیا ۔
بیٹا تم گھر کا دھیان رکھنا میں شام کے خانے کے لئے کچھ چیزیں لے آؤں اور اگر تمہیں بھی کچھ چاہئے تو بتا دو زیبا نے مزید انمول سے پوچھا انمول نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
انمول اپنے دھیان بیٹھی ہوئی تھی جب اچانک ارمان کی کال آئی کیا ہے اب شام تک کا انتظار نہیں ہوتا تم سے انمول غصے میں بولی ۔
نہیں ہوتا جب اپنی محبت کو پانے کے انسان اتنا قریب ھو تو گھنٹے منٹ سیکنڈ سب بہت طویل ھو جاتے ہیں انمول میں بہت شدت سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں دوسری طرف سے ارمان بولا مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ ہی ایک دن تمہیں بہت مہنگا پڑے گا ارمان ملک تمہاری زندگی میں کبھی سکون نہیں آنے دوں گی جس طرح تم نے میری زندگی سے میرا سکون چھین لیا ہے بالکل اس طرح میں بھی تم سے تمہارا سکون چین سب چھین لوں گی انمول نے دل میں سوچا ۔
کہاں کھو گئی دوسری طرف سے ارمان سوچوں کا دھارا توڑتے ہوئے بولا کہیں نہیں انمول نے جواب دیا اچھا انمول سنو میں نے ڈرائیور کے ہاتھ ڈریس بھیج دیا ہے۔
ضرورت کی کچھ چیزیں ہیں انمول پلز اچھے سے تیار ہونا ویسے تو تم جب بھی مجھے ملی ھو تمہاری سادگی سے ہی میں دل ہارا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں اج تم کچھ الگ لگو۔ہممممم ٹھیک ہے یہ کہہ کر انمول نے فون بند کر دیا ۔
فون بند کرنے کی ہی دیر تھی جب دروازے پر دستک ہوئی ارمان نےجس ڈرائیور کو بھیجا تھا وہ دروازے پر موجود تھا ۔میم یہ سر نے کچھ سامان بھیجا ہے ہممممم ٹھیک ہے اندر رکھ دو یہ کہہ کر انمول نے اسے اندر آنے کے لئے راستہ دیا ۔
جب ڈرائیور سامان رکھ کر گیا تو انمول بغیر کوئی بھی چیز دیکھے اندر چلی گئی ۔انمول بیٹا یہ سب کون لایا زیبا نے آتے ہی پوچھا آپ کے ہونے والے داماد صاحب نے بھیجا ہے انمول تیوری چڑہا تی ہوئی اندر سے ہی بولی ماشاءالله اللّه تمھارے نصیب اچھے کرے زیبا نے انمول کو دعا دی ۔
انمول بیٹا تم تیار ھو گئی زیبا نے اسے آ کر پوچھا نھی امی بس ایسے ہی ٹھیک ہے کیا مطلب اپنے نکاح کے دن سیاہ رنگ کون پہنتا ہے پاگل لڑکی زیبا غصے سے بولی اور تمھارے لئے اس نے جوڑا بھیجا تو ہے اتنا خوبصورت وہ کیوں نہیں پہنتی تم زیبا نے سوال کیا اتنے میں انمول کی آنکھوں میں آنسوں چھلک گئے ۔
مجھے معاف کردو بیٹا زیبا انمول کو سینے سے لگا کر بولی مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔
ایک ماں کا دل اپنی اولاد کے بارے میں کبھی بھی غلط نہیں ھو سکتا۔اور مجھے معاف کردو میری بچی زیبا کی آواز کانپ رہی تھی نہیں امی میں جانتی ہوں آپ کبھی بھی اپنی اولاد کے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کر سکتی کبھی بھی انمول آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
اچھا بیٹا ٹھیک ہے تم تیار نہ ھو ویسے بھی میری بیٹی ہے ہی بہت خوبصورت اسے تیار ہونے کی کیا ضرورت ہے زیبا اسکا ماتھا چومتی ہوئی بولی
تھوڑی دیر تک ارمان آ گیا وہ اکیلا ہی تھا زیبا تو اسے بہت پہلے جانتی تھی جب وہ گھر چھوڑنے آیا تھا ۔
بیٹا تم زیبا نے سوالیہ انداز میں پوچھا جی آنٹی مجھے نہیں پتہ کے انمول نے آپ کو کیا بتایا ہے اور کیا نہیں لیکن میں اس بات کی زمانت دیتا ہوں کے انمول کو کبھی بھی کوئی بھی پریشانی نہیں ھو گی ۔زیبا ارمان سے پہلے ہی بہت متاثر تھی۔
ہاں بیٹا پہلے دل پریشان تھا لیکن تمہیں دیکھ کر میرے دل کو تسلی ھو گئی ہے کہ تم میری بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھو گے زیبا اسے پیار دیتے ہوئے بولی ۔
بیٹا آج سے یہ تمہاری امانت ہے نکاح کے بعد زیبا انمول کا ہاتھ ارمان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولیں ۔بیٹا کچھ سامان تھا میں نے انمول کے لئے اپنی حثیت کے مطابق جتنا ہوسکا میں نے بنا لیا وہ صبح کو بھجوا دوں گی ۔
نہیں آنٹی میں جھیز لینے اور دینے کا قائل ہی نہیں ہوں جس نے اپنی بیٹی دے دی پیچھے کیا رہ جاتا ہے میرے گھر میں انمول کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی ارمان نے زیبا کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔
ارمان نے ذکیہ کو نکاح کے بارے میں نہیں بتایا تھا ۔یہ کون ہے بیٹا ذکیہ نے ارمان کے ساتھ انمول کو دیکھا تو پریشان ھو کر سوال کیا ۔
میری بیوی اور آپ کی بہو ارمان نے انمول کا ہاتھ تھام کے جواب دیا یہ کیا کہہ رہے ھو تم ہوش میں تو ھو پتہ نہیں یہ کون ہے کون نہیں امی مزید مجھ سے کوئی سوال نہیں کرے پلز بس اتنا یقین رکھے کے اب یہ آپ کے بیٹے کی محبت ہے اور عزت بھی یہ کہہ کر انمول کو ارمان ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے گیا ۔
انمول مجھے معاف کر دینا ابھی امی کو نہیں پتہ تھا تو اس لئے یہ سب ھو گیا ۔یہ مت سمجھنا اگر میں خاموش ہوں تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کے تم مجھے قائل کر لو گے انمول نے غصے میں کہا ۔
انمول میں محبت میں قید کرنے کا قائل نہیں ہوں تمہیں بھی تمہارے حال پر چھوڑ رہا ہوں
اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوئی تو تم واپس ضرور آؤ گی اور مجھے یقین ہے کہ تم واپس آؤ گی کیوں کے میری محبت بے اثر نہیں ہےارمان نے جواب دیا تم اور تمہاری محبت انمول نے طنزیہ انداز میں کہا
دیکھو انمول میں رشتوں میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں ارمان نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا ہاں لیکن تم نے مجھ سے زبردستی شادی کی ہے ۔اور میں مرتے دم تک تمہیں قبول نہیں کروں گی۔
نا اس رشتے کو اور نا تمہاری اس جھوٹی محبت کو تمہاری آخری سانس تک تمہیں میری محبت نصیب نہیں ہوگی اسی نفرت کی آگ میں جلو گے تم ساری زندگی جو تم نے میرے دل میں اپنے لئے لگائی ہے انمول چلا ئی ۔
دیکھو انمول ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں جو تم نے دیکھا ہے وہ حقیقت نہیں ہے ۔رخ کو چھوڑو لیکن میں نے تمہارا جو روپ د دیکھا ہے اسکے بعد مجھے تم سے نفرت ھو گئی ہے شدید نفرت ۔مجھ سے اتنی نفرت بھی نا کرو کے حقیقت معلوم ہونے پر تم مجھ سے نظریں ہی نا ملا سکو ۔
تمہاری حقیقت میں جان گئی ہوں جو تمھارے کردار کے بارے میں بتا رہی ہے کے تم کس طرح کے انسان ھو ۔میرے کردار کے بارے تم یہ سب کیسے کہہ سکتی ھو اور یاد رکھو جو خدا میرا ہے وہی تمہارا بھی ہے اور اب وہی تمہارا دل میری طرف سے صاف کرے گا
اگر تم اپنی خیر چاہتے ھو تو مجھ سے فاصلہ رکھنا تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہوگا انمول نے غصے میں لال ہوتے ہوئے ارمان سے کہا ۔
خیر ہی تو نہیں چاہتا اپنی ارمان نے شرارتی انداز میں کہا ۔جو بھی ہے مجھ سے دور رہو سمجھے میرے قریب آنے کا تو سوچنا بھی مت انمول ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہی تھی لیکن میری پیاری بیوی میں نے تو بہت کچھ سوچا ہوا ہے ارمان نے مسکرا کر کہا تو تمہاری غلطی ہے میں کسی کو اب خواب دیکھنے سے تو نہیں روک سکتی ۔
ہاں مگر کیا تم میری خواب پورے نہیں نہیں کر سکتی کیا ارمان نے بات کاٹ کر کہا ۔
نہیں میرے جیتے جی تو یہ کبھی نہیں ہوگا ہاں جب مر گئی تو ۔۔۔۔۔کیسی باتیں کر رہی ھو انمول ابھی تو ساری زندگی مجھے تمھارے ساتھ رہنا ہے اور تم ھو کے مرنے کی باتیں کر رہی ھو پلز ایسی باتیں نہ کیا کرو ارمان اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولا ٹھیک ہے
جب تک تم مجھے دل سے قبول نہیں کر لیتی تب تک میں تم سے دور رہو گا اپنا کوئی بھی حق استمعال نہیں کروں گا ۔سوچ لو میرے دل تک پہنچنے کے لئے تمہیں ساری زندگی بھی لگ سکتی ہے انمول نے مزید کہا ہاں سوچ لیا اب بیگم کو بھی تو ناراض نہیں کر سکتا نہ میں ارمان کے لہجے میں ایک بار پھر سے شرارت جھلکی ۔
اچھا میاں بیوی نہ سہی دوست بن کر تو رہ سکتے ہیں نہ ارمان نے سوال کیا ہممممم انمول جواب دے کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔ہائے بیگم آپ کے انھیں تیور پر تو ہم مر مٹے ہیں ارمان دل میں سوچ کر مسکرایا ۔
شام میں ارمان آفس سے واپس آ کر سیدھا ذکیہ کے کمرے میں چلا گیا امی کیسی ہیں آپ ذکیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے ارمان نے پوچھا میں ٹھیک ہوں بیٹا میری فکر مت کرو تم بس انمول کو وقت دیا کرو مجھے میری بہو کی طرف سے کوئی شکا یت نہ ملے ذکیہ نے ارمان کو ہنستے ہوئے کہا ۔
واہ امی مجھے تو لگا آپ انمول کو لے کر اب بھی مجھ سے ناراض ہوں گی ۔نہیں بیٹا میں نے بہت سوچا ہے لیکن کبھی کبار حالات ایسے ھو جاتے ہیں کہ ہمیں جھکنا پڑ جاتا ہے جو بھی ہے اب وہ تمہاری بیوی اور اس گھر کی عزت ہے اسکا خیال رکھنا ۔
اچھا جاؤ اب ورنہ کیا سوچے گی کے آتے ہی ماں کے پہلو میں بیٹھ گیا ذکیہ نے ہنستے ہوئے کہا کاش کے ماں وہ کچھ سوچتی میرے بارے میں تو اسے سوچنا ہی گوارہ نہیں ہے ارمان بڑبڑا یا کچھ کہا تم نے ذکیہ نے سوال کیا نہیں امی کچھ نہیں ۔
ارمان نے دروازہ کھولا تو اسے یوں لگا جیسے وہ ہوش میں ہی نہیں ہے سامنے مرر پے انمول کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی ریڈ فراک سلور چوڑی دار پاجامہ کھلے بال ارمان کا ہوش اڑا دینے کے لئے بہت تھے ۔
واہ میری جان آج تو بہت خوبصورت لگ رہی ہیں ارمان نے کہا ہم کہیں جا رہے ہیں کیا ارمان نے مزید سوال کیا ہممممم امی کے گھر دعوت ہے آج انمول نے مختصر جواب دیا ۔
لیکن انمول تم نے تو مجھے نہیں بتایا ارمان نے سوال کیا ہاں تو اب بتا دیا نہ انمول نے بات کاٹ کر کہا ٹھیک ہے میں دس منٹ میں تیار ہوجاتا ہوں تب تک تم امی سے مل لو انمول ذکیہ کے پاس چلی گئی اور ارمان فریش ہونے چلا گیا ۔
کیسی ھو میری بیٹی ذکیہ نے انمول کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا جی ٹھیک ہوں انمول نے مختصر جواب دیا ارمان سے چاہے انمول کے جتنے بھی اختلافات تھے اس نے ذکیہ یا کسی اور کو اسکی خبر نہیں ہونے دی حال چال پوچھ ہی رہی تھی کے جب ارمان تیار ھو کر آ گیا چلیں انمول سے پوچھا ہممممم انمول نے ہاں میں سر ہلا کر کہا ۔
یہ لو بیٹا یہ صدقے کے پیسے ہیں دے دینا کسی غریب کو اللّه پاک تم دونوں کو بری نظر سے بچائے ذکیہ نے ارمان کو پیسے دیتے ہوئے کہا جی امی ضرور صدقہ نکالتی رہا کریں
آپ کی بہو ہے ہی اتنی خوبصورت کے کے اسے تو میری نظر بھی لگ سکتی ہے نہیں بیٹا نظر ہمیشہ بری لگتی ہے محبت کرنے والوں کی نہیں ذکیہ نے ارمان کی بات کاٹ کر کہا جی امی محبت تو بہت ہے ارمان نے انمول کو دیکھ کر شرارتی انداز میں کہا ۔
یہ مجھے بری نظر سے بچا رہیں ہیں اتنا نہیں پتہ کے انکا بیٹا ہی میرے لئے بری نظر کی طرح ثابت ہوا ہے انمول دل میں سوچنے لگی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ انمول کے گھر پہنچ گئے بیٹا گھر میں سب کیسے ہیں تم ٹھیک ھو زیبا حال احوال پوچھنے میں مصروف ھو گئی ۔
جی آنٹی سب ٹھیک ہیں اللّه کا شکر ہے آپ سنا ئے آپ کی طبیعت کیسی ہے ارمان نے مزید پوچھا ہاں بیٹا ٹھیک ہے ۔
ارے واہ انمول ارمان بھائی تو ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہیں انکی پرسنلیٹی بات کرنے کا انداز نرم لہجہ انھیں دیکھ کر تو ذرا برابر بھی نہیں لگتا کہ وہ اتنے امیر ہیں کسی بات میں کوئی غرور نہیں تم تو بہت خوش قسمت ھو تمہیں اتنا اچھا شوھر ملا ایسا ہمسفر تو ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے ندا مسلسل بولے جا رہی تھی جب کہ انمول خاموش بیٹھی ہوئی سن رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف ھو گئے تو پیارے جیجا جی انمول آپ کو تنگ تو نہیں کرتی زیادہ کھانا کھاتے ہوئے ندا نے شرارتی انداز میں ارمان سے مخاطب ھو کر کہا نہیں نہیں یہ تنگ کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی ارمان نے ہنسی دبا کر کہا ۔
اور غصہ تو کرتی ہوں گی ندا نے ہنستے ہوئے پوچھا ہاں غصہ تو کرتی ہیں لیکن مجھے تو انمول کے غصے میں بھی پیار نظر آتا ہے کیوں انمول ارمان نے انمول کی طرف دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا انمول نے اسے گھوری سے نوازا ۔
ندا زیادہ نہیں بولتے ذکیہ نے ندا کو ڈانٹ کر کہا کوئی بات نہیں آنٹی یہ بھی تو میری چھوٹی بہن ہے جو چاہے پوچھ سکتی ہے کیوں ندا ارمان نے ندا کی طرف دیکھا تو اس نے فورا ہاں میں سر ہلا دیا ۔
بیٹا بس انمول ذرا غصے کی تیز ہے لیکن دل کی بری نہیں ہے تم اسے جلد ہی سمجھ جاؤ گے جاتے وقت ذکیہ نے ارمان کو ایک طرف لے جا کر نصیحت کے سے انداز میں کہا جی جی آنٹی میں جانتا ہوں یہ کہہ کر اس نے انمول کو آواز دی اور اجازت لے کر رخصت ھو گئے
انمول کیسا لگا امی کو مل کر ارمان نےراستے میں خاموشی توڑ کر کہا ہاں اچھا لگا وہ پریشان تو نہیں ہوئی نہ شادی کے بعد بیٹیوں کے میکے جانے پر کچھ مائیں بہت پریشان ھو جاتی ہیں میں نے اس لئے پوچھا ارمان نے مزید تفصیل دہ انداز میں کہا ۔ہاں لیکن میں اپنی پریشانیؤں سے خود لڑنا جانتی ہوں اتنی کمزور نہیں ہوں کے اب بات بات پر امی کو پریشان کروں ۔
ہاں وہ تو میں جانتا ہوں کے میری انمول کمزور تو بالکل نہیں ہے تب ہی تو ارمان ملک سے بھی ٹکرا گئی ارمان نے ہنستے ہوئے کہا ۔جبکے انمول خاموشی سے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتی رہی جانتی ھو انمول جب پہلی بار تم اور تمہاری دوست کو میں نے غونڈوں سے بچایا تھا تو تمہاری بہادری کا تو میں تب ہی قائل ھو گیا تھا اور وہی دل ہار بیٹھا انمول خاموشی سے سنتی رہی انمول کچھ بولو گی نہیں ارمان نے انمول سے مخاطب ھو کر پوچھا نہیں انمول نے مختصر جواب دیا ۔
یہ کہاں جا رہے ہیں انمول نے ارمان کو گاڑی موڑتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا بس سوچا بیگم کو آئس کریم ہی کھلا لوں اگر اسکا غصہ تھوڑا کم ھو جائے ارمان نے آنکھ دبا کر کہا نہیں مجھے نہیں کھانی انمول نے انکار کردیا تم بیٹھو بس میں ابھی لایا اور ہاں باہر نہیں نکلنا یہ کہہ کر ساتھ ہی موجود آئس کریم پارلر میں ارمان چلا گیا ۔
انمول پہلے تو کار میں بیٹھی رہی پھر نہ جانے کیا سوجی کار سے باہر نکل گئی تھوڑی دیر سڑک پر موجود بینچ پر بیٹھ کر ارمان کا انتظار کرنے لگی ۔
کیا بات ہے میڈم کس کا انتظار کر رہی ھو تین آدمی پاس آ کر بائیک پر رکے اور پوچھنے لگے انمول نے پہلے تو نظر انداز کیا لیکن جب وہ بائیک سے اتر کر اسکی جانب بڑھے تو انمول کار کی جانب بڑھنے لگی تو ایک آدمی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اس سے پہلے کے انمول کچھ کہتی اس آدمی کے ایک زور دار تھپڑ رسید ہوا اسکی گال پر انگلیوں کے نشان چھپ گئے ۔تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی انمول تم گاڑی میں جا کر بیٹھو میں ان نمٹ کر آتا ہوں ۔
نہیں ارمان آپ پلز چلیں انمول ارمان کا بازو پکڑ کر اسے کھینچنے لگ گئی تم بیٹھو میں آتا ہوں ارمان نے بازو چھڑا کر کہا ۔
انمول ایک اوجھل ہونے کی دیر تھی کے ارمان نے ایک ایک کو اچھے سے رگڑا خوب دھلائی کے بعد جب اسکا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو زور سے اس آدمی کے پیٹ پر لات ماری جس نے انمول کا ہاتھ پکڑا تھا ۔
تم ٹھیک ھو گاڑی میں بیٹھ ارمان نے انمول سے پوچھا جی ٹھیک ھو انمول نے جواب دیا کیا ضرورت تھی ان سے لڑنے کی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں آپ کس کس سے لڑے گے انمول نے تائید کرتے ہوئے کہا ۔
میں ہر اس انسان سے لڑوں گا جو میری عزت کی توہین کرے گا تم میری بیوی ھو میری عزت میری ذمداری انمول اور میں بلکل برداشت نہیں کروں گا کے کوئی میری بیوی سے بدتمیزی کرے۔
اوہ آئس کریم تو ساری پگھل گئی ارمان نے انمول کے ہاتھ میں کپ کو دیکھ کر کہا ہممممم آپ کے غصے کی وجہ سے انمول نے قدرے ناراضگی سے کہا اچھا جی ۔۔۔۔۔ارمان نے جواب دیا اور لے لیں ارمان نے پوچھا نہیں پلز مجھے گھر جانا ہے انمول نے گھبرا کر کہا اچھا اچھا جا رہے ہیں ۔
ارمان بھائی آپ کی دو دن بعد لاہور ایک میٹنگ ہے اور اسی سلسلے میں آپ کو وہاں دو دن سٹے بھی کرنا ہوگا ٹھیک ہے سعد رات میں جب ارمان سونے کی تیاری کر رہا تھا تو سعد نے اسے خبر دیتے ہوئے کہا ۔لیکن بھائی آپ ایک مسلہ ہے سعد نے کچھ اٹک اٹک کر کہا کیا ہوا سعد کھل کر بولو بھائی وہ دلاور ہے نہ جو معصوم لوگوں سے نہ جائز طریقے سے گھر ہتھیا لیتا ہے اس بار وہ آ رہا ہے ہمارے راستے میں تو پھر کیا ہوا سعد کسی مظلوم کو اسکا حق دلانا زیادہ ضروری ہے ۔۔۔۔۔لیکن بھائی وہ بہت خطرناک آدمی ہے آپ جانتے ہیں ۔
مجھے اپنا کام کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو راستے سے ہٹانا خوب آتا ہے یہ الفاظ انمول کے کانوں میں گونجے تو وہ اندر داخل ھو گئی اسکی آنکھوں میں کچھ سوال ارمان کے منتظر تھے اور انمول کا یوں آدھی ادھوری بات سن لینا ارمان کو اور مجرم بنا گیا تھا ۔
انمول تم کب آئی ارمان نے انمول کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا بلکل تب جب تم کسی کو مار کر اپنے راستے سے ہٹانے کا ارادہ کر رہے تھے انمول نے غصے سے کہا ۔
لیکن انمول تم پوری بات نہیں جانتی ھو پلز خود سے اندازہ نہ لگاؤ پوری بات کیا ؟؟؟؟یہ جانوں اب کے تم اسے کیسے مارو گے انمول ایسی بات نہیں ہے بس مجھے کچھ نہیں سننا تمھارے انھیں کاموں کی وجہ سے مجھے تم سے اتنی نفرت ہے ۔
لیکن انمول میں نے آج تک کبھی کسی بے قصور کو سزا نہیں ہونے دی حقدار کو ہمیشہ اسکا حق دلوا یا ہے یوں خون خرابہ کر کے انمول نے بات کاٹ کر کہا نہیں انمول تم ۔۔۔۔میری ۔۔۔۔۔بات ۔ ۔۔۔تو قتل ہمیشہ قتل ہی ہوتا ہے ارمان ملک یہ یاد رکھو اور خدا قاتل کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔ٹھیک ہے جب تم نے ٹھان ہی لی ہے مجھے غلط ثابت کرنے کی تو میں بھی تمہیں کوئی دلیل نہیں دوں گا ۔
ہم دو دن بعد لاہور جا رہے ہیں کچھ دن کے لئے تم جو ضروری سامان ہے اپنے ساتھ رکھ لو ارمان نے مختصر انداز میں کہا لیکن میں تمھارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی انمول نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔ارمان کچھ کہے بغیر باہر چلا گیا ۔
انمول بیٹا جب سے شادی ہوئی ہے تم اور ارمان کہیں گھومنے کے لئے نہیں گئے ارمان لاہور جا رہا ہے تم بھی ساتھ چلی جاؤ تھوڑا ایک دوسرے کو بھی وقت دو اور سمجھو میں تم دونوں کی ٹکٹس کروا رہی ہوں اور کوئی بہانہ نہیں انمول ذکیہ کے اصرار پر انکار نہ کر سکی اور ہاں میں سر ہلا دیا ۔
کیا ہوا بیگم مجھ سے ڈر لگ رہا ہے ارمان نے ایئر پورٹ پر انمول کو یوں حواس باختہ دیکھ تو پوچھ لیا ۔
تم سے کیوں ڈرو گی میں انمول نے دو ٹوک جواب دیا ۔ہم بس پر بھی تو جا سکتے تھے پلین میں جانے کی کیا ضرورت تھی آخر انمول نے دل کی بات زبان پے لاتے ہوئے کہا ہاں جا سکتے تھے۔
لیکن انمول میرا تو یہ روز کا معمول ہے آنا جانا اور بس میں تو میں بالکل سفر نہیں کر سکتا اتنا لمبا اس لئے پلین ہی بیسٹ ہے انمول دل میں ہی گھبرا رہی تھی اس نے پلین کا کبھی سفر نہیں کیا تھا ۔
پلین میں بیٹھ کر انمول نے ارمان کا بازو زور سے پکڑ لیا ارمان نے بھی اس موقعے کو غنیمت جانا اور اپنا دوسرا بازو آگے کرتے ہوئے انمول کو سینے سے لگا لیا کیوں کو وہ جانتا تھا کے انمول ڈرتی ہے اب اسکی مزاحمت نہیں کرے گی ۔
تھوڑی دیر میں وہ لاہور پہنچ گئے مجھے الگ کمرہ چاہئے ہوٹل کے روم میں آتے ہی انمول نے کہا تم پاگل تو نہیں ھو گئی ھو ہم یہاں ایک ساتھ وقت گزارنے کے لئے آئے ہیں الگ الگ رہنے کو نہیں لیکن مجھے ۔۔۔۔بس انمول میں تمہاری ہر بات نہیں مانو گا ارمان کے لہجے میں غصہ صاف جھلک رہا تھا ۔میں چائے آرڈر کرتا ہوں تم تب تک فریش ھو جاؤ یہ کہہ کر ارمان باہر چلا گیا ۔
انمول میری رات میں میٹنگ ہے تم تیار ھو جانا ہم شام میں کہیں باہر چلیں گے ارمان نے چائے پیتے ہوئے انمول سے کہا ہممممم انمول نے مختصر جواب دیا ۔
یہ کیا ہے انمول نے پیکنگ باکس کو دیکھ کر کہا دیکھ لو بیگم جب تمھارے پاس ہے تو تمہارا ہی ہوگا ارمان نے نرم لہجے میں کہا ۔
انمول پیک کو کھول کر دیکھنے لگ گئی بیچ میں ایک بہت ہی خوبصورت بلیک ڈریس تھی اور ساتھ میںچنگ شوز jewellery اور سب کچھ تھا ۔
اس کی کیا ضرورت تھی پتہ ہے آپ کے پاس پیسہ ہے تھوڑا کم فضول خرچ کر لیا کریں ویسے بھی میرے پاس پہلے ہی اتنے کپڑے پڑے ہیں جو کے میں نے ابھی تک پہنے بھی نہیں ہیں انمول نے قدرے ناراضگی سے کہا ۔
فضول خرچی تو نہیں ہے یہ تو میں اپنی پیاری سی بیوی کے لئے لایا ہوں ارمان انمول کو دونوں کندھوں سے تھام کر پاس کرتے ہوئے بولا انمول نے اس بار مزاحمت نہ کی ۔
انمول محبت کی قدر ہمیشہ مرنے کے بعد ہی کیوں ہوتی ہے کیوں چلتی سانسوں میں ہی لوگ کیوں محبت کی قدر نہیں کرتے کروں۔جب ہم محبت انسانوں سے کرتے ہیں تو اسکا صلہ خدا سے کیوں ؟؟؟؟کیوں آخرت تک ہم کسی کی محبت کا انتظار کریں ارمان کا ایک ایک لفظ انمول کے دل پر لگ رہا تھا مگر وہ خاموشی سے ہر بات سنتی رہی شاید اس بار اسکے پاس الفاظ نہیں تھے۔
انمول تمہاری اور میری محبت کرنے کے انداز میں زیادہ فرق نہیں ہے جانتی ھو کیوں ؟؟؟؟اس لئے کے ہم دونوں شدت کی انتہا پر ہے میرا عشق اور تمہاری نفرت لیکن مجھے تمہاری نفرت سے ڈر نہیں لگتا جانتی ھو کیوں اس لئے کے تمہاری یہ نفرت ایک دن شدتِ عشق میں بدل جائے گی اور میں تب تک تم سے یونہی لڑتا رہوں گا ۔
اور شدت بھی ایسی کے اگر مجھے کچھ ھو گیا تو سب سے زیادہ تم رو گی اور تکلیف میں بھی سب سے زیادہ تم ہی ہوگی یہ جان کر کے تم نے مجھ سے جو نفرت کی وہ بے وجہ تھی ۔
ارمان یہ کہہ کر نکل گیا۔ رات میں جب کمرے میں داخل ہوا تو اسکی حیرت کی انتہا نہیں رہی انمول سامنے اسکی لائی ہوئی ڈریس پہن کر بیٹھی تھی اور بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی ارمان ایک لمحے کو تو پلک جھپکنا ہی بھول گیا ۔
انمول کے لمبے بال اسکی کمر کو ڈھانپ رہے تھے بلیک ڈریس اوپر سے ڈارک ریڈ لپسٹک ارمان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھی ۔
نظر لگا نے کا ارادہ ہے کیا انمول نے ارمان کو واپس ہوش میں لاتے ہوئے کہا نہیں تو ماں کہتی ہے کہ جو محبت کرتے ہیں انکی نظر نہیں لگتی کبھی بھی ہاں لیکن آپ کی مجھے لگ سکتی ہے انمول نے بات کاٹ کر کہا کیوں ارمان نے مزید سوال کیا کیوں کے میں آپ سے محبت نہیں کرتی ۔انمول نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔
کوئی بات نہیں کرنے لگ جاؤ گی تمہاری نفرت اتنی مظبوط نہیں ہے کے میری محبت اسکے سامنے ہار جائے ارمان نے پر امید انداز میں کہا ۔
باہر چلیں ارمان نے انمول کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا نہیں میری کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور باہر سردی بھی ہے پلز تھوڑی دیر کے لئے ارمان کے اتنے اصرار پر انمول منع نہیں کر سکی اور ہاتھ تھام کر باہر آ گئی ۔
باہر کچھ دیر کی واک کے بعد دونوں واپس ہوٹل میں آ گئے انمول تم کچھ کھاؤ گی ؟؟ارمان نے آتے ہی انمول سے سوال کیا نہیں میں سونے لگی ہوں اچھا ٹھیک ہے یہ کہہ کر ارمان بھی لیٹ گیا ۔
آدھی رات ارمان نے کروٹ بدلی تو اسے انمول کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دے رہی تھی وہ کانپ رہی تھی ارمان نے فورا اٹھ کر اسکے ماتھے کو ہاتھ لگا کر دیکھا ارے تمہیں تو بہت تیز بخار ہے اس وقت تو کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ہوگا ۔
میں بھی کتنا پاگل ہوں رات تمہیں منع کرنے کے باوجود باہر لے گیا ارمان جلدی سے ایک باوُل میں ٹھنڈا پانی اور bandage لے آیا اور ساری رات پٹیاں کرتا رہا اور انمول بے سودھ پڑی رہی ۔
اچانک ارمان کی بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی جب صبح انمول کو ذرا ہوش آئی تو ارمان کو اپنے بہت قریب محسوس کیا اسکا ایک ہاتھ انمول کے سر پر تھا اور دوسرے میں انمول کا ہاتھ تھاما ہوا تھا جسے وہ اپنے سینے پر سکون سے رکھ کر سو رہا تھا اور انمول کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ کیسے وہ ساری رات اسکے لئے جاگتا رہا ۔
انمول نے اپنا ہاتھ ہٹا نے کے لئے ہلکی سی حرکت کی تو ارمان کی آنکھ کھل گئی انمول کیسی طبیت ہے اب تمہاری ڈاکٹر کو فون کروں ارمان نے انمول سے تصدیق طلب انداز میں پوچھا ہاں اب ٹھیک ہے انمول نے مختصر جواب دیا ۔
میری اج میٹنگ تھی لیکن میں نے تمہاری طبیت کی وجہ سے cansel کر دی ارمان انمول سے مخاطب ہوا ۔
لیکن میں ٹھیک ھو اب نہیں میں کوئی بہانہ نہیں سنو گا بس اج میں یہی رہو گا تمھارے پاس انمول نے دھیرے سے آنکھیں بند کر لیں۔
انمول آج رات میں ہم لوگ واپس جا رہے ہیں لیکن اس سے پہلے میں تمہیں تھوڑی دیر کے لئے کہیں لے جانا چاہتا ہوں چلو گی میرے ساتھ ارمان انمول کے جواب کا منتظر تھا ۔
جی انمول نے جواب دیا ۔واپسی پر کار ایک دربار پر رکی لیکن انمول سمجھ نہیں پائی یہ ہم کہاں آ گئے ہیں انمول نے ارمان سے سوال کیا ۔
داتا دربار کہتے ہیں کہ یہاں دل کی ہر مراد پوری ہوتی ہے ارمان نے انمول کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں لیکن آپ کی تو ہر مراد پوری ھو گئی انمول نے ارمان کی طرف دیکھ کر کہا ۔
ہاں کوئی شک نہیں کے میری ہر مراد پوری ھو گئی تمہیں پا کر یہاں تو میں تمھارے لئے آیا ہوں تم بھی کچھ مانگ لو ارمان نے انمول کی طرف دیکھ کر کہا اور دونوں گاڑی سے نکل کر دربار میں داخل ہو گئے ۔
اِے خدا میں جانتا ہوں کے میرا انمول کو حاصل کرنے کا طریقہ غلط تھا لیکن تو تو میرے دل کی پاکیزگی اور میری محبت سے خوب واقف ہے انمول کے دل میں میرے لئے جو بھی غلط فہمی ہے اسے دور کردے اسکی نفرت کو محبت میں بدل دے بےشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔
آے میرے رب میں بہت ڈرتی ہوں اس انسان سے اسکی محبت مجھے بہت خطرناک لگتی ہے میں نے ہمیشہ ایسے لوگوں سے نفرت کی جو بلا وجہ کسی کی جان لے لیتے ہیں مجھے صبر دے اتنا کے میں اس شخص کے ساتھ رہ سکوں اپنی ساری رنجش اور ناراضگی کو بھلا کر انمول نے آنکھیں کھول کر ایک نظر ارمان کی طرف دیکھا اور دونوں گاڑی کی جانب چلے گئے
بھائی آپ کیسے ہیں گاڑی میں بیٹھتے ہی سعد کی کال آ گئی ہاں سعد میں ٹھیک ہوں تم سناؤ سب ٹھیک تو ہے نہیں بھائی دلاور نے دھمکی دی ہے آپ اپنی سیکورٹی کا خاص خیال رکھیے گا ایسا نہ ھو کے وہ آپ پر کوئی حملہ کر دے نہیں سعد اس بار سیکورٹی نہیں مجھے اپنی قسمت آزما نے دو دیکھتا ہوں کے اس نفرت اور محبت کی جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے ارمان نے انمول کی طرف دیکھ کر کہا ۔
ایئر پورٹ تک کا سفر ارمان اور انمول کے درمیان خاموشی میں ہی گزرا ۔
سر پلین میں کچھ ٹیکنیکل ایشوز ھو گئے ہیں اس لئے آج کی فلائٹ سب کینسل کر دی گئی ہیں جب ارمان اور انمول گاڑی سے باہر آ کر کھڑے ہوئے تو مینیجر نے انھیں اطلاع دے کر کہا ۔
کینسل ھو گئی کیا مطلب اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں اتنی گھٹیا سروس ہے آپ کی مجھے پہلے انفارم نہیں کر سکتے ارمان اب غصے میں چلا رہا تھا ۔
سر ہمیں بھی ابھی معلوم ہوا ہے مینیجر نے کچھ ہیچکچا کر کہا ہاں یہ میرا مسلہ نہیں ہے ۔
تم لوگوں کی وجہ سے میری میٹنگ الگ رہ جائے گی ارمان کا غصہ اب آسمان کو چھو رہا تھا ۔
Sr i am extremely sorry for that i'll manage private plain for you plzz calm down .......
نہیں ضرورت میں خود چلا جاؤں گا ارمان نے غصے میں کہا اوکے سر یہ کہہ کر مینیجر وہاں سے چلا گیا ۔
انمول تم ڈرائیور کے ساتھ ہوٹل واپس چلو میں اپنی واپسی کا ارینج کر کے آتا ہوں ۔ارمان نے انمول کے پاس جا کر کہا ۔
جلدی آ جائے گا جب ارمان انمول کو چھوڑ کر جا رہا تھا تو انمول اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی ۔
کیا بات ہے بیگم اتنی محبت ارمان انمول کا ہاتھ تھام کر بولا لگتا ہے کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے ارمان مسکرا کر بولا ۔
اگر تو یہ محبت مجھے یوں غصے میں دیکھ کر آئی ہے تو بیگم ایک بات جان لو یہ غصہ تمھارے لئے نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگا تم صرف میری محبت کی حقدار ھو ارمان نے انمول کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔
ایک لمحے کو تو انمول کو اپنی محبت پر رشک آیا وہ ارمان سے نظریں ہی نہ ہٹا پائی ۔
کیا تھا وہ انسان فرشتہ جسے انمول ہمیشہ ایک شیطان سمجھ کر نفرت کرتی رہی ۔وہ نفرت جس کا کوئی وجود ہونا چاہئے تھا یا جو بالکل بے معا نی تھی ارمان کے سامنے کیوں کہ اسکی محبت چٹان کی طرح تھی ۔
باز اوقات ہم اسکی چیز کی خواہش کر بیٹھتے ہیں جو ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی اور اسے پانے کے لئے ہم ہزار جتن بھی کرتے ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کے ہمیں اس انسان سے بہت محبت ہوتی ہے نہیں بس ہم اسے حاصل کرنا اپنی ضد کا حصہ بنا لیتے ہیں کون کہتا ہے کے اگر آپ محبت کرتے ہیں تو اسے حاصل بھی لازمی کریں ۔
جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی خوشی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے کیوں کہ محبت میں خود غرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اگر مجھے اتنے پیار سے دیکھتی رہو گی تو میں کیسے جاؤں گا انمول ارمان نے انمول کی سوچوں کی تار کو توڑ کر کہا ۔آپ جائے انمول نے کچھ گھبرا کر کہا ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا خدا حافظ انمول ارمان کو یوں دور جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔
ڈرائیور نے انمول کو ہوٹل چھوڑ دیا اور ارمان کو واپس لینے چلا گیا ۔
ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھی انمول اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا تو اس نے امی کو فون کر لیا ۔
ہیلو امی کیسی ہیں کال کرتے ہی انمول مخاطب ہوئی میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناؤ ارمان کیسا ہے اور تم لوگ انجوائے تو کر رہے ھو نہ ؟؟؟؟زیبا سوال پر سوال کرتی گئی ۔
جی امی میں ٹھیک ہوں بس آپ سے بات کرنے کا دل کر رہا تھا تو اس لئے بس ۔۔۔۔بیٹا سب ٹھیک تو ہے زیبا نے انمول کی آواز آہستگی میں سنی تو اس سے تصدیق کرنے لگی ۔
جی امی سب ٹھیک ہے ہم کل تک آ جائے گے ارمان ٹکٹ کروانے گئے ہیں ۔
اور امی ندا اور ریدا کیسی ہیں دونوں ٹھیک ہے انمول نے پوچھا ہاں بیٹا دونوں ٹھیک نہیں بس تمہاری واپسی کا بہت شدت سے انتظار کر رہی ہیں ۔
ندا تو ہر وقت ارمان بھائی کے راگ الاپتی رہتی ہے اور انمول بیٹا اس دن میں بھی ارمان سے مل کر بہت خوش ہوئی آج تک یہی سنا تھا کے امیر لوگ دولت کے نشے میں بہت مغرور ھو جاتے ہیں مگر اس میں تو کوئی بات ایسی نہیں دیکھی میں نے بہت ہی اچھا اور سلجھا ہوا ہے خدا تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے جی امی انمول نے جواب دیا ۔
انمول کافی دیر سوچوں میں گھری رہی خیالوں کا محور مسلسل اسے گھیرے ہوئے تھا ۔
خیالوں کے سمندر کو توڑتے ہوئے فون کی گھنٹی بجی ہیلو بھابی انمول کو آواز پہچاننے میں مشکل نہ ہوئی کیوں کے وہ سعد سے پہلے بھی بہت بار مل چکی تھی ۔
ہاں سعد بولو بھابھی کیسی ہیں آپ سعد نے مختصر پوچھا ہاں میں ٹھیک ہوں انمول نے جواب دیا ۔
بھابی وہ ارمان بھائی کو ذرا کام آ گیا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کو واپس لے آئے میں ارمان بھائی کے پرسنل سیکرٹری کو بھیج رہا ہوں ہوٹل ہی وہ گھنٹے تک پہنچ جائے گا۔
لیکن ارمان نے مجھے تو کچھ نہیں بتایا اس بارے میں انمول نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ۔
جی وہ بھائی ذرا جلدی میں تھے تو بھائی نے مجھے بول دیا آپ جب وہ آدمی آئے تو مجھے کال کر دیجئے گا ٹھیک ہے انمول نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا ۔
ایک گھنٹے بعد سروینٹ انمول کو لینے آ گیا میڈم آپ آ جائے میں آپ کو باہر تک چھوڑ آؤں یہ سب لوگ یہ پروٹو کول صرف ارمان کی وجہ سے ہی تو وہ انمول کا بہت خیال رکھتا تھا ۔
اور اس سے جڑا ہر شخص انمول کا بہت خیال رکھتا تھا ارمان کے نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اس کا احساس انمول کے ساتھ رہتا ایک سائے کی طرح ۔
واپسی پر انمول نے سارا سفر خاموشی سے طے کیا وہ اس بات کو تسلیم نہ کرتی شاید لیکن کہیں نہ کہیں وہ ارمان کی کمی کو بہت زیادہ محسوس کر رہی تھی ۔
اچانک گاڑی میں چلتی ہوئی LCD میں ایک خبر اسکے کانوں میں گونجی وہ اسکے لئے بالکل قابل قبول نہیں تھی ۔
رضا کو عدالت قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سناتی ہے اتنے میں ہی ڈرائیور نے LCD اوف کر دی جلدی چلاؤ انمول اسکے بند کرتے ہی چلا اٹھی ۔
رضا کو پھانسی پر کیوں انمول خود سے ہی گفتگو کر رہی تھی کے ڈرائیور نے اس کی سرگوشی سن لی ۔
میڈم آپ نہیں جانتی کیا رضا کو انمول نے اسے چونک کر دیکھا یہ سمگلر ہے کافی عرصے سے ایک گینگ کے ساتھ شامل ہے ۔
پہلے لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنساتا ہے اور پھر انھیں دبئی کے ایک مافیا کو سمگل کر دیتا ہے ۔
مگر اس بیچاری لڑکی کا صرف اتنا قصور تھا کے اسے رضا کی حقیقت وقت سے پہلے ہی معلوم ہوگئی۔
اور اسکی سزا اسکی موت کے نتیجے میں ہوئی انمول کو ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسکے سر پر بھاری پتھر مار رہا ہے اور بار بار وہ زخمی ھو رہی ہے ۔
باز اوقات زندگی میں ہم بہت سے فیصلے ایسے کر لیتے ہیں جو کہ ہمیں وقتی طور پر غلط لگتے ہیں مگر خدا ہہمارے لئے کوئی بھی فیصلہ غلط نہیں کرتا ۔
انمول کہیں نہ کہیں خود کو خوش نصیب سمجھ رہی تھی کے اسے ارمان ملا جو کے اس سے کتنی محبت کرتا ہے اور رضا کی حقیقت جان کر تو انمول کے دل میں ارمان کے لئے پیار اور بھی بڑھ گیا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد انمول گھر پہنچ گئی ذکیہ پہلے ہی سے انمول کا انتظار کر رہی تھی ۔
بیٹا تمہارا صرف کیسا رہا ذکیہ نے انمول کو گلے ملتے ہوئے کہا مجھے سعد نے پہلے ہی بتا دیا تھا کے ارمان کو کوئی کام تھا اس لئے تم اکیلی ہی آ رہی ھو ۔
جی امی ٹھیک تھا بیٹھو بیٹا نسرین جاؤ بیٹی کے لئے پانی لاؤ ذکیہ نے کام والی سے کہا ۔
کھانا کھاتے ہوئے کافی خاموشی تھی ارمان ارمان ہی زیادہ تر میز کی رونق ہوتا تھا اسکی غیر موجود گی میں سب لوگ کافی خاموش تھے اور تانیہ بھی کچھ نہیں بولی اور انمول تو ارمان کی کمی کچھ زیادہ ہی محسوس کر رہی تھی ۔
امی اندر آ جاؤں انمول نے ذکیہ کا دروازہ بجا کر اجازت لی ہاں ہاں بیٹا آ جاؤ ذکیہ اندر سے بولی ۔
امی یہ کچھ تحفے میں نے اور ارمان نے مل کر آپ کے لئے خریدے تھے اب وہ تو نہیں آئے تو میں نے سوچا میں دے دوں ہاں ہاں بیٹا کوئی بات نہیں ۔
بھابھی میرے لئے بھی ہیں تانیہ جو کچھ فاصلے پر بیٹھی تھی فورا بھاگ کر انمول کی طرف آ گئی ۔
ہاں نہ تانیہ تمھارے لئے تو میں نے اور ارمان بہت ساری چیزیں لی ہیں انمول نے مسکرا کر کہا ۔
اچھا شکریہ بھابھی تانیہ نے گلے لگ کر شکریہ ادا کیا کوئی بات نہیں تانیہ شکریہ کیسا انمول نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
اور تھوڑی دیر بعد وہ سونے کے لئے چلی گئی ۔چھوڑ دیں ارمان کو پلز چھوڑ دیں انہیں انمول چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ۔
نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارمان۔۔۔۔۔۔۔ارمان ۔۔۔۔۔۔انمول چیخ مار کر فورا بیدار ھو گئی ۔
اسکا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا وہ خوف کے مارے کانپ رہی تھی۔پریشانی کے عالَم میں انمول نے فون اٹھایا اور کال ملا دی ۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔ہیلو ۔۔۔۔۔کیا ہوا بھابی سب ٹھیک تو ہیں آپ نے یوں رات کے دو بجے کال کی سب ٹھیک تو ہے دوسری طرف سے سعد بولا ۔
سعد ارمان مشکل میں ہیں ۔۔۔۔میں بہت پریشان ہوں نہیں بھابھی ایسی کوئی بات نہیں سعد مجھے سچ بتاؤ کیا ہے ۔
میرا دل یوں جھوٹی گواہی نہیں دے گا سہی سے بتاؤ ارمان کہاں ہیں جلدی دوسری طرف سے انمول پریشانی کے عالَم میں بولے جا رہی تھی ۔
ٹھیک ہے بھابھی ابھی آپ سو جائے بہت رات ھو گئی ہے میں صبح آپ کی طرف آؤں گا سعد نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا ۔
انمول نے صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے سعد کو فون کیا ۔جی بھابی میں آپ کی طرف ہی آ رہا ہوں ۔
تھوڑی دیر بعد ہی سعد آ گیا اور انمول اسے اپنے ساتھ ہی ڈرائنگ روم میں لے آئی ۔
سعد جو بھی بات ہے مجھے اب سچ سچ بتا دو پلز اب مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا انمول نے فورا سعد سے کہا ۔
بیٹھے بھابی بتاتا ہوں۔۔۔۔۔جس دن ارمان بھائی آپ کو ایئر پورٹ لے کر گئے تھے اور آپ واپس آ گئی ۔
اس کے بعد میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ھو سکا مجھے اتنا علم تھا کہ آپ ہوٹل میں ہی ہیں اس لئے میں نے سیکٹری کو بھیج دیا تھا ۔
رابطہ نہ ہونے پر میں بہت پریشان ھو گیا تھا میں نے ایئر پورٹ کی تمام cctv فوٹیج چیک کی کچھ لوگ آئے اور ارمان بھائی کو ساتھ لے گئے ۔
میں نے تب سے سیکورٹی ہائر کی ہوئی ہے لیکن ارمان بھائی کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا ۔
اور مجھے ارمان بھائی پر حیرت ھو رہی ہے میں نے اس دن انھیں بتایا بھی تھا کہ دلاور خان نے دھمکی دی ہے
لیکن ارمان بھائی نے فضول سا جواز دے دیا کے دیکھتا ہوں نفرت کی جیت ہوگی یا محبت کی میں نے انھیں اس لئے ہی باخبر کیا تھا کہ آپ اپنی حفاظت کریں لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں خود بہت پریشان ہوں بھابھی ۔
آپ پریشان نہ ہوں میں پوری کوشش کر رہا ہوں انشاءلله جلد ہی مل جائے گے ۔ہممممم انمول کچھ بول ہی نہیں پائی ۔
اس دن ارمان نے انمول کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا کہ اسے جب کچھ ہوگا تو سب سے زیادہ پریشان انمول ہی ہوگی ۔
اور تھا بھی ایسا ہی انمول کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اتنی بڑی نعمت تھی اسکے پاس لیکن وہ مسلسل اسے دھتکار رہی تھی اس بات کا احساس اسے اب ہوا ۔
انمول نے نماز ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے اے میرے مالک تو تو میرے دل کا حال خوب جانتا ہے کیسے تو نے میری نفرت کو محبت میں بدل دیا ۔
اتنا کچھ بدلنے کے بعد میرے رب مجھے اس سے دور مت کرنا میں بھی اس سے عشق کرنے لگ گئی ہوں بالکل اسی شدت سے جیسے وہ کرتا تھا اسکے بغیر نہیں رہ سکتی اب میں بالکل بھی نہیں ۔
انمول رو رو کر خدا سے فریاد کر رہی تھی اور آنسو مسلسل اسکے گالوں کو بھگو رہے تھے ۔
بی بی جی ندا باجی آپ سے ملنے آئی ہیں ملازمہ نے انمول کو پیغام دے دیا اسے اندر ہی بھیج دو انمول نے بغیر مڑے کہا۔
انمول کیسی ھو تم تو لاہور سے آ کر ہمیں بھول ہی گئی اور ارمان بھائی کہاں ہیں اور کیسے ہیں ندا یکے دیگرے سوال کرتی رہی ۔
ہاں میں ٹھیک ہوں اور ارمان ۔۔۔۔۔ارمان بھائی تو بس ہیرو بن گئے ہیں قسم سے اب بھی میں اپنے بھائی سے ہی ملنے آئی تھی ندا نے بات کاٹ کر کہا ۔
مطلب میں ۔۔۔۔۔۔سمجھی ۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔انمول نے اٹک اٹک کر کہا انمول تم جانتی ھو ایک بار میں رات میں اکیلی آ رہی تھی تو کچھ غونڈوں نے مجھے گھیر لیا ۔
اور اتنے میں ہی ارمان بھائی آ گئے اور وہ انھیں دیکھ کر فورا بھاگ گئے اور پھر وہ مجھے گھر بھی چھوڑ کر گئے ۔
انمول ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے اگر ہوتا نہ تو میرے لئے اسکا روپ بالکل ارمان بھائی جیسا ہی ہونا تھا ندا کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چھلکی ۔
دلاور خان کا نام تو سنا ہوگا ندا کے انکشاف پر انمول نے اسے چونک کر دیکھا کیوں کہ ابھی ابھی اس نے یہ نام سعد سے سنا تھا تو وہ کیسے بھول سکتی تھی ۔
ہاں جانتی ہوں کیوں کیا ہوا ہمارے گھر پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتا تھا وہ اور ارمان بھائی نے بہت مدد کی ہماری بلکے اس غنڈے کی وجہ سے تو انکی جان کو بھی خطرہ تھا وہ بہت ہی خطرناک ہے لیکن انہوں نے ہمیں چھڑا لیا ۔
ہم جتنا بھی چاہیں انمول کبھی بھی انکا یہ قرض نہیں اتار پائیں گے تم بہت خوش قسمت ھو انمول وہ نہ صرف تم سے بلکے تم سے جڑے ہر رشتے سے دل سے محبت کرتے ہیں ۔انکی محبت پر کبھی بھی شک مت کرنا ۔
وہ اتنی فرشتہ صفت انسان اور انمول اسے کس قدر غلط سمجھتی رہی ندا کے جانے کے بعد انمول سوچوں میں گم ھو گئی ۔میں کتنی پاگل ہوں اسکی محبت تو شیشے کی طرح شفاف تھی پھر بھی میں اس سے لڑ پڑی ۔
بھابی بھائی کو گولی لگ گئی ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں آپ جلدی آ جائے سعد نے پریشانی کے عالَم میں فون کرتے ہوئے کہا ۔
لیکن ایسا کیسے ھو سکتا ہے اسکے عشق کی شدت میری نفرت کے سامنے کیسے ہار سکتی ہے آخر خدا میری دعا کیوں قبول کی وہ بھی تو مجھے مانگ رہا تھا پھر اسکی دعا رد کیوں کر دی انمول سیسکیاں لے لے کر رو رہی تھی تھوڑی دیر میں ہی وہ ہسپتال پہنچ گئی ۔
ارمان کو یوں مشینوں میں جکڑا دیکھ کر وہ گھبرا گئی اور آہستہ آہستہ اسکی جانب قدم بڑھانے لگ گئی ۔
آنکھیں کھولو ارمان اس سے پہلے کے تمہاری خاموشی مجھے مار ڈالے انمول نے درد بھرے لہجے میں کہا اور اسکے سینے پر سر رکھ دیا ۔
ارمان آپ ہمیشہ سننا چاھتے تھے نہ میرے منہ سے محبت کا اقرار تو سنیں میں آپ سے بے حد محبت کرتی ہوں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر پلز ارمان واپس آ جائے ٹوٹ گئی میری نفرت کی دیوار آپ کے عشق کے سامنے انمول ارمان کے سینے پر سر رکھ کر مسلسل رو رہی تھی
اچانک اسے اپنے بالوں میں ہلکی سی جنمبش محسوس ہوئی تو اس نے چونک کر اوپر دیکھا ارمان ہلکے سے اپنا ماسک ہٹا رہا تھا ۔
اگر اقرار کر ہی لیا ہے تو کیوں رو رہی ھو انمول اگر میں مر بھی جاتا تو تمھارے منہ سے یہ اقرار سن کر زندہ ھو جاتا ارمان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چھلکی ۔
خبردار اگر یہ مرنے کی بات دوبارہ کی تو انمول نے غصے میں ارمان کے سینے میں تھپکی ماری افففف یار درد ھو رہا ہے ارمان نے کہا ۔ہوا نہ مجھے بھی ابھی ایسے ہی ہوا انمول نے منہ بنا کر کہا ۔
ارمان نے مسکرا کر انمول کی طرف دیکھا اور انمول نے اسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں اور ارمان کی دھڑ کنوں کو محسوس کرنے لگی ایک عجیب سی سکونت اسے اپنے اندر محسوس ہوئی اج اسے یوں لگا جیسے ہر پریشانی ہر غم سے نجات مل گئی ۔
ایک چھوٹا سا سبق ۔۔۔۔۔۔۔
بہترین کی خواہش تو سبھی کرتے ہیں مگر بہترین پانے کے لئے بہترین بنانا پڑتا ہے کیوں کہ
پاکیزہ تو پاکیزہ کو ہی ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!! اور نکاح میں خدا نے بہت طاقت رکھی ہے ایک اجنبی شخص ہمیں جان سے بھی پیارا ہوجاتا ہے
ختم شد
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy written by Zainab Noor . Siddat E Ishq Aesi K Dil Har Bethy by Zainab Noor is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment