Ishq Khawab Safar By Hifza Javed Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 4 June 2024

Ishq Khawab Safar By Hifza Javed Complete Short Story Novel

Ishq Khawab Safar By Hifza Javed Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Khawab Safar By Hifza Javed Complete Novel Story 

Novel Name: Ishq Khawab Safar 

Writer Name:  Hifza Javed 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


سرخ گلابوں کی سیج پر بیٹھی آیت کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔اس کی شادی تھی آج مگر اس کے دل میں خوشی نامی کوئی چیز نہیں تھی۔اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یہ آج اپنے خاندان کی روایت کی نظر ہوگئی تھی۔اس کی شادی ایک ایسی شادی تھی جس میں اس کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔خود سے چھوٹے چھ سالہ کزن سے اس کا نکاح کر دیا گیا تھا۔آیت ڈاکٹر بن رہی تھی۔اس نے ہائوس جاب کرنی تھی ابھی جب بابا جانی نے اسے بلایا اور اسے علم ہوا کہ اس کا رشتہ ولید خان سے ہوگیا ہے ۔ولی اس سے چھ سال چھوٹا تھا اور ابھی اس کی عمر 19 برس تھی۔یہ وٹے سٹے میں شادی ہونا ان کے خاندان میں عام بات تھی۔آیت اپنے چچا زاد کے گھر آئی تھی تو اس کے بھائی شاہ بخت کی شادی مہر خان سے ہوئی تھی۔اس کا بھائی مہر خان کو بچپن سے پسند کرتا تھا۔وہ دونوں ہم عمر تھے۔مگر ان کے ہاں رسم تھی کہ وٹے سٹے میں شادی ہوتی جس گھر سے بہن لاتے وہاں بہن دیتے بھی تھے۔ولید بہت زیادہ بگڑا ہوا انسان تھا۔اس کی عمر 19 برس تھی مگر زمانے کی پر برائی اس میں موجود تھی۔چچی کی چلتی نہیں تھی چچا اور بابا جانی کے آگے۔چچا کا اکلوتا بیٹا تھا ولید اور شاہ بخت نے مستقبل میں بابا جانی کی جگہ دستار کی ذمہ داری سے انکار کر دیا تھا اس لیئے دستار کا حقدار بھی ولید ہی تھی۔شاہ بخت تو شادی کے فورا بعد ہی مہر کو شہر لے جانے والا تھا۔مہر بھی آیت کی طرح ہی ڈاکٹر بنی تھی مگر اس کی تعلیم ادھوری جس کی بدولت شاہ بخت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شہر میں ہی اس کو مزید بڑھائے گا۔ شاہ بخت مہر کے معاملے میں بالکل خود غرض نہیں تھا مگر اپنی بہن کے معاملے میں خود غرض ثابت ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ولید مستقبل میں شاید اس کی بہن کے ساتھ اچھا رویہ نہ رکھے مگر اپنی خوشی کی خاطر اس نے اپنی بہن کی خوشیوں کی پرواہ نہیں کی اور اسے قربان کر دیا۔آیت نے بچپن سے بہت خواب سجائے تھے کہ یہ ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرے گی اور اپنے گائوں میں ہی ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کا علاج کرے گی مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ولید نے کمرے کا دروازہ کھولا اور یہ کمرے میں آیا۔ولید کی عمر اس کی ظاہری شخصیت سے ظاہر نہیں ہوتی تھی۔یہ عمر میی 25 سالہ آیت سے بڑا ہی لگتا تھا۔آیت بہت نازک سی خوبصورت سے کانچ کی گڑیا تھی۔ولید نے اپنی دستار اتار کر بیڈ پر رکھی اور آیت کے قریب آیا ۔

"تو کیسا لگ رہا ہے آیت ولید خان اس بیڈ پر بیٹھ کر میری سیج سجا کر۔"

ولید نے آیت کا گھوگھنٹ اس کے چہرے سے ہٹایا ۔اس وقت آیت بلکل ایک شہزادی کی طرح چمک رہی تھی۔سرخ لہنگا اور ہاتھ میں بچتی سرخ چوڑیاں اس پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔آنکھوں میں چمک تھی۔کبھی کبھی اس کی سہلیاں کہا کرتی تھی کہ یہ بلکل مانو بلی جیسی آنکھیں رکھتی ہے۔اس کی آنکھیں بھورے رنگ کی تھی اور بڑی بڑی خوبصورت۔چہرہ مادے کی مانند سفید تھا۔ولید بھی اسی ہی طرح خوبصورت تھا مگر شاید آیت کی زندگی میں وہ خوشی نہیں تھی جس کی وہ حقدار تھی۔

"ولی میں نے کبھی تمہارے ساتھ کی تمنا نہیں کی۔یقین کرو میں نے بابا جانی کو بہت کہا کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گی مگر وہ نہیں مانے ۔ولی تم جانتے ہو نہ ان کے آگے میری کبھی چل نہیں سکتی۔"

"بس آئندہ کے بعد میرے سامنے یہ بہانے مت کرنا آیت ۔تم جانتی ہو مجھے تمہیں دیکھ کر تمہارے بھائی کی شکل یاد آجاتی ہے جس نے میری بہن کو ہم سب کے خلاف کر دیا۔ہماری سالوں کی بنائی ہوئی عزت کا اس نے کوئی خیال نہ کیا۔شاہ بخت نے کیا سوچا تھا کہ میں تمہیں آج کی رات پھولوں کے ہار پہنائوں گا اور تمہارا استقبال کروں گا۔یہ اس کی بھول ہوگی میں ولید خان ہوں جو انسان میرے خاندان کی بیٹی کو ہمارے خلاف کر سکتا ہے میں اس کی بہن کو کیسے خوش رکھ سکتا ہوں ہاں۔"

ولید نے شدت سے آیت کے جبڑے پکڑے ۔آیت ولید کو ہمیشہ سے بچہ سمجھتی آئی تھی مگر آج اسے احساس ہوگیا تھا کہ ولید چاہے اس سے عمر میں  چھوٹا ہے مگر وہ اس سے کئی زیادہ مضبوط ہے ۔

"ولی پلیز چھوڑو تم میرا یقین کرو میں نے کچھ بھی کچھ نہیں کہا۔ میں تو شہر میں رہتی تھی مجھے کچھ نہیں پتا۔"

ولید کی طرف سے پڑنے والے تھپڑ نے اس کی بولتی بند کر دی۔آیت آج کی رات اپنے شوہر سے یوں تھپڑ کھانا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

"آج کے بعد تم نے اگر مجھے آپ نہ کہہ کے بلایا تو زبان کاٹ دوں گا تمہاری۔خان کہا کرو مجھے ۔خبردار جو آج کے کبھی مجھے بچہ سمجھنے کی کوشش بھی کی تو۔میری بیوی ہو تم۔اور وہی مقام ہے تمہارا ۔ساری زندگی تمہیں میری بیوی بن کر ہی رہنا ہے۔میری ایک بات کان کھول کر سن لو ہمارے کمرے کی باتیں کہیں باہر نہیں جائیں گی۔مجھ سے بات کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ میں تمہارا کیا لگتا ہوں۔مجھے میری بیوی صرف اپنے لیئے چاہئے ۔بھول جائو تمہارا کوئی میکہ تھا۔چاہے تمہارے ماں باپ ہمارے گھر کے ساتھ ہی رہتے ہیں مگر تمہارا سب سے آج کے بعد تعلق ختم۔بابا جانی سے بھی تم نہیں ملو گی آج کے بعد۔"

آیت نے روتے ہوئے ولید کو دیکھا جس کی آنکھوں کی وحشت اور سرد مہری نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔

"اٹھو جاکر اپنے کپڑے تبدیل کرو ۔"

آیت ولید کی بات سنتے ہی اٹھا گئی ۔اس کے اٹھتے ہی پیل کی آواز فضا میں گونجی۔آیت فورا سے باتھ روم میں چلی گئی۔شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو نکلے۔اتنے آنسو شاید اس نے زندگی میں کبھی بہائے تھے۔بابا جانی کے ایک غلط فصیلے نے اس کی زندگی برباد کے کے رکھ دی تھی اور شاہ بخت کتنا خود غرض تھا اپنی خوشی کی خاطر اسے ایک ان چاہے رشتے میں قید کرگیا تھا۔اس حویلی میں شاید برسوں سے بیٹیوں کے ساتھ یہی ہوتا آیا تھا تو سب کے لیئے یہ ایک عام سے بات تھی۔کافی دیر تک جب یہ باتھ روم سے نہ نکلی تو ولید نے اسے باہر سے آواز دی۔

"اندر ہی رہنے کا ارداہ ہے یا باہر بھی آنا ہے تم نے۔"

آیت اپنے آنسو صاف کرتی باہر آئی۔اس کے چہرے پر ولید کی انگلیوں کے نشان تھے۔کالے رنگ کے سادے سے لباس میں یہ باہر آئی۔چہرے پر مٹا مٹا میک اپ تھا اور ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں تھی جو اس کے لہنگے کے ساتھ تھی۔یہ اپنا تکیہ اٹھا کر صوفے پر جانے لگی تو لیٹے ہوئے ولید کی آواز اسے آئی۔

"میں نے تمہیں اجازت دی کے تم وہاں جاکر سوجائو۔میں نے تمہیں پہلے ہی باور کروا دیا تھا کہ میں تمہارا شوہر ہوں اور پھر اب یہ سب باتیں تمہیں زیب نہیں دیتی۔چپ چاپ بستر پر آجائو۔"

آیت خاموشی سے بستر پر آئی اور لیٹ گئی۔اس نے اپنے اور ولی کے درمیان میں فاصلہ رکھا تھا۔ولی نے اسے اپنی طرف کھینچا ۔

"میری بیوی ہو تم اور آئندہ کے بعد صرف اپنے اس دماغ میں ایک یہی چیز رکھنا۔"

آیت کو نہیں پتا تھا کہ رات کا اختتام کب ہوا۔رات روتے روتے اس کی آنکھ لگی تھی ۔بقول ولید کے آیت کے قریب آنا ایک شوہر کے ناطے اس کا حق تھا۔اپنا حق لے کر وہ بڑے سکون سے سو رہا تھا جب کہ آیت کے آنسو ولی کے بازو پر ہی گر رہے تھے جس پر اس کا سر تھا۔یہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی کیونکہ ولید نے اسکے فرار کے سارے دروازے بند کر رکھے تھے۔

__________________

دوازہ بجنے کی آواز سے آیت ہی آنکھ کھل گئی تھی . اس کے ساتھ ولید نہیں تھا۔آیت اٹھی تو اسے باتھ روم سے ولی نکلتا ہوا نظر آیا۔ملازمہ انہیں بلانے آئی تھی ناشتے کے لیئے۔

"بات سنو میری ہماری شادی ہوئی ہے تو اس لیئے یہ کالے لباس مت پہنانا۔ابھی زندہ ہوں میں جس دن مر گیا اس دن یہ لباس پہن لینا بے شک ۔اٹھو اور تیار ہو ۔نیچے کسی کو بھی کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

ولید اپنے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے آیت کو بولا۔آیت تیار ہوکر باہر آئی تو ولید اسی کا انتظار کر رہا تھا۔دونوں اکٹھے نیچے گئے تھے۔آج حویلی میں سب ہی آئے ہوئے تھے۔مہر شاہ بخت بہت کے پہلو میں بیٹھی ہوئی کھلکھلا رہی تھی جبکہ شاہ بخت بار بار اسے کچھ نہ کچھ اٹھا کر دے رہا تھا۔ولید بابا جانی کی کرسی کے دائیں طرف بیٹھا ساتھ ہی آیت بھی بیٹھ گئی۔اس لمحے آیت نے سبز رنگ کا خوبصورت شیشوں کے کام والا فراک پہنا رکھا تھا۔ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں تھی۔ولید نے صبح ہی منہ دیکھائی کے لیئے لایا ہوا سونے کا سیٹ اسے دیا تھا جو اس لمحے اس کے گلے کی زینت تھا۔اس کے چہرے پر ایک ویرانی سے چھائی ہوئی تھی جبکہ دوسری طرف مہر بہت خوش تھی ۔اس کے ایک ایک انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ خوش ہے۔شاہ بخت نے ایک بار بھی بہن سے نہیں پوچھا تھا کہ آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔بابا جانی کی نظر آیت پر ہی تھی۔

"ولی بیٹا آج شام تم لوگوں کا ولیمہ ہے تو کچھ دیر کے لیئے آیت کو اپنے تایا کے پورشن میں بھیج دو۔"

"نہیں بابا جانی آیت کہیں نہیں جائے گی۔اب یہی اس کا گھر ہے۔مجھے ہرگز نہیں پسند کہ میں گھر پر موجود ہوں اور میری بیوی مجھے چھوڑ کر کہیں جائے. “

چچی جو آیت کی حالت دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ آیت کے ساتھ ان کے بیٹے کا رویہ اچھا نہیں ہے وہ بیٹے کو ٹوکتے ہوئے بولی۔

"آیت نے ساتھ ہی تو جانا ہے بڑا اس نے کہیں بہت دور جانا ہے۔"

" میں نے ایک بار کہہ دیا نہ مورے کے یہ کہیں نہیں جائے گی۔"

آیت کی والدہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی مگر گھر کے داماد کے سامنے وہ کیا کہہ سکتی تھی ۔شاہ بخت بھی ولید کی حمایت میں بوکا۔

" میرا خیال ہے بابا جانی کہ ولید بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب آیت کا یہی گھر ہے تو اسے یہاں ہی رہنا ہے جب بابا اور ماں کو اس سے ملنا ہوگا تو وہ خود یہاں آجایا کریں گے۔"آیت کو معلوم تھا اس کے بھائی کا یہی جواب ہوگا اس لیئے اس نے کسی سے زیادہ توقع کی ہی نہیں تھی۔ناشتہ ختم ہوا تو آیت کے کمرے میں آئی ۔ملازمہ آیت کے کمرے کو صاف کر گئی تھی۔

"ارے آیت تمہیں پتا ہے مجھے تو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ شاہ بخت اتنے رومینٹک ہوں گے۔انہوں نے مجھے رات اس بات کا احساس دلایا ہے کہ وہ میری ہر خواہش پوری کر سکتے ہیں۔سچ میں میں بہت خوش قسمت ہوں آیت۔تم سنائو رات کیسی گزری۔ولید نے کوئی تحفہ دیا۔"

آیت نے اپنی آنکھوں میں نمی پیچھے دکھیلی ۔

"یہ سیٹ جو میں نے پہنا ہے یہ یہ ولید نے ہی دیا پے۔"

"ارے یعنی ہمارا چھوٹا بڑا ہوگیا ہے۔ویسے ایک بات کیوں آیت مجھے تمہارا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہیے اگر تم نہ ہوتی تو شاید شاہ بخت کے ساتھ میری شادی نہ ہو پاتی۔"

" سب ٹھیک ہے مہر میں کسی بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی امید ہے کہ تم بھی مجھے بار بار کسی چیز کیلئے فورس نہیں کرو گی۔"

" اتنی بھی بے وفا مت بنو تم جانتی ہو نا کہ ہم لوگ بھابھی اور نند بننے سے پہلے آپس میں دوست ہیں۔"

" مخلص دوست کبھی اپنے دوست کی خوشیوں کو برباد کرکے اپنی زندگی کی خوشیوں کا محل اس پر نہیں بناتے۔"

" اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے تمہاری شادی ولید سے ہوئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم بہت زیادہ خوش رہو گی. اس حویلی میں راج کرو گی تم آخر کو دستار بھی ولی کی ہے۔"

" خوشیوں کی بات بعد میں آتی ہے سب سے پہلے تو کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ مجھ سے کتنا چھوٹا ہے۔ چھ برس۔ مستقبل کیا ہوگا ہمارا جب وہ جوان ہو گا تو میں شاید اس کے برابر لگ ہی نہ پاؤں۔ اس کے دل میں اگر کوئی اور آگیا تو۔"

"تمہیں کس نے کہہ دیا آیت ولید خان کے تمہارے بغیر میں کسی لڑکی سے شادی کروں گا۔وہ کیا ہے نہ میرے ساتھ رہ کر مجھے ایک ہی لڑکی برداشت کر سکتی ہے اور وہ تم ہو۔"

مہر نے دروازے میں دیکھا جہاں ولید کھڑا تھا۔

"تم باہر جائو مہر مجھے میری بیوی سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔"

مہر ان دونوں کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔

ولید آیت کے پاس آیا اور اس کے بال زور سے تھامے ۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے بغیر میں کسی لڑکی کو دیکھوں گا۔یہ تمہاری بھول ہے آیت ولید خان۔ساری زندگی تمہیں ٹرپائوں گا میں۔تمہیں خان بیگم بنا دیا تھا میں نے کل ہی۔بابا جانی جانتے ہیں ۔مگر یہ مت سمجھنا کہ میں نے سخت محبت یا عشق میں تمہیں خان بیگم بنایا ہے تمہیں ساری عمر سزا دینے کو میں نے خان بیگم بنایا ہے ۔ساری عمر اس حویلی میں رہو گی تم۔"

ولید نے آیت کے بالوں پر گرفت سخت گی۔آیت کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔

"اپنا یہ رونا دھونا بعد میں کرنا میرے ساتھ تم کل ہی جا رہی ہو گھومنے ۔منع کرنے کی ہمت مت کرنا۔میں چاہتا ہوں تمہیں پل پل کی اذیت دے کر مجھے سکون حاصل ہو۔"

آیت بے آواز روتی رہی مگر بولی کچھ نہیں تھی۔وہ اسے چھوڑ کر باہر چلا گیا جبکہ آیت اپنی خوشیوں کی بربادی پر سوائے آنسو بہانے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی۔

______________________

آیت چچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ولیمے کے بعد یہ اپنے گھر نہیں گئی تھی۔جانا بھی کیا تھا چچا کے پورشن سے ہی دوسرا دروازہ نکلتا تھا۔آیت اپنی ساس کے ساتھ سبزی کاٹ رہی تھی۔ابھی اس کی شادی کو اتنے دن نہیں ہوئے تھے مگر پھر بھی یہ اپنی ساس کے ساتھ کچن کے کام کروانے لگ گئی تھی۔

"ارے بیٹا تم یہ کام کیوں کر رہی ہو۔حویلی میں نوکر بھرے پڑے ہیں ۔میری بچی تمہارے کرنے کے یہ کام نہیں ہیں ۔خیر سے خان بیگم ہو۔"

"چچی میری قسمت میں یہ خطاب محبت کے تحت تو نہیں آیا ۔"

"بیٹا ایسا مت سوچا کرو تم۔ایسا سوچو گی تو مستقبل کی زندگی کیسے گزرے گی۔تم مجھے دیکھو تمہارے چچا نے آج تک مجھ سے پیار کے دو لفظ نہیں بولے۔مگر رہنا تو مجھے ان کے ساتھ ہی ہے نہ اس لیئے ان کی ہر جلی کٹی بات کو برداشت کر لیتی ہوں چپ چاپ میں ۔"

"چچی یہ آپ کی ہمت ہے۔میں ایک عام لڑکی کی طرح خواب دیکھا کرتی تھی کہ ایک دن اس حویلی کی لڑکیوں کے لیئے کچھ کروں گی مگر دیکھیں میں خود ہی قید ہوکر رہ گئی ہوں۔یہ تو بابا جانی کی مہربانی ہے جہنوں نے مجھے تعلیم حاصل کے کی اجازت دے دی ورنہ شاید میری حالت آج بہت بدتر ہوتی۔"

"تیرے دادا نے پھر  تجھ سے تجھے پڑھانے کی بہت بڑی قیمت بھی تو وصول کی ہے نہ۔میرے بچی تجھے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ولید میرے ہاتھوں میں بڑا نہیں ہوا۔اس کی دادی جب تک زندہ رہی ان کے پاس ہی رہتا تھا وہ۔پندرہ برس کا تھا وہ تو تیری دادی اس دنیا سے گئی اور وہ میرے ہاتھ آیا ۔اس کو تو تیری دادی یہ بھی اکثر کہا کرتی تھی کہ میں اس کی ماں نہیں ہوں ۔بچپن سے اسے دستار کا حقدار بنا کر سب فیصلے اس سے کروا کے تیرے دادا نے میرے بیٹے کی زندگی خراب ہی کر دی ہے۔"

"چچی آپ کا دل نہیں کرتا کہ اس حویلی کی جو لڑکی۔ہو اس کو مکمل اختیار حاصل ہو اپنے فیصلے لینے کا۔ہم تو ویسے بھی اپنے ماں باپ کے آگے کچھ نہیں بولتے مگر ایک بار ہم سے پوچھ لیا جائے کہ ہماری بھی کیا مرضی ہے تو کیا ہمارا مان نہیں رہ جائے گا۔"

"ارے میری بچی یہ شکر کر میں تیری ساس ہوں۔اگر تیری دادی جیسی کوئی عورت ہوتی تو پھر تجھے زندگی اور بہت مشکل لگتی۔بس کوشش کر ولید کو اپنی طرف کرنے کی۔میں چاہتی ہوں جلدی جلدی تیری اولاد ہوجائے ۔ولید کا دھیان اولاد کی طرف لگے کا نہ ایک بار تو پھر اسے کچھ یاد نہیں رہے گا۔"

"چچی اولاد ہی تو ہر چیز کا حل نہیں ہوتا نہ۔یہ ہمارا معاشرہ ہے یہاں پانچ پانچ بچوں والی عورتوں کو مرد چھوڑ دیتے ہیں ۔ان کی بھی تو اولاد ہوتی ہے نہ۔ہم غلط کہتے ہیں کہ اولاد پائوں کی زنجیر بنتی ہے ۔"

"بی بی جی آپ کی بڑی بہن آئی ہیں ۔"

ملازمہ نے آکر تارا کے آنے کی اطلاع دی۔تارا آیت کی بڑی بہن تھی۔

"چچی مجھے ولید نے سب سے ملنے سے منع کیا ہے۔"

"اسے کوئی نہیں بتائے گا۔میں کہہ دوں گی تارا مجھ سے ملنے آئی تھی۔تو جا اسے اپنے کمرے میں لے جا۔"

آیت کمرے میں آئی جہاں ملازمہ تارا کو بٹھا گئی تھی۔

"تارا آپا۔۔۔۔۔۔۔"

آیت بہن کا سہارا پاتے ہی شدید روئی۔

"ارے پاگل کیوں تو رہی ہے سب ٹھیک تو ہے نہ۔میری بچی ایسے تو نہ کر نہ۔"

"آپا آپ کہاں تھی۔معلوم ہے آپ کو میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ہمارا بھائی شاہ بخت اتنا خود غرض کیسے ہوسکتا ہے۔اپنی خوشیوں کی خاطر اس نے مجھے قربان کر دیا آپا۔"

"مجھے نہیں بتایا ماں نے۔وہ تو کہہ رہی تھی کہ ولید کو تم پسند ہو باقاعدہ رشتہ مانگا تھا اس نے خود ماں اور ابا سے۔"

"نہیں آپا اسے میں پسند نہیں ہوں۔آپ جانتی ہیں شادی کی پہلی رات اس نے جانوروں جیسا سلوک کیا میرے ساتھ۔میرے چہرے پر تھپڑ مارے جس سے محسوس کی گئی ذلت میں ساری عمر نہیں بھولوں گی۔اس نے مجھے ضد میں خان بیگم بنا دیا ہے۔وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔بات بات پر مارنے لگتا ہے۔میں نہیں جانتی تھی آپا ہمارا چھوٹا ولی بہت بڑا ہوگیا ہے۔مہر کی محبت کی سزا میں کاٹ رہی ہوں۔وہ مجھے کہیں آنے جانے نہیں دیتا ۔ہم نے کل گھومنے جانا ہے پتا نہیں وہاں جاکر میرا کیا حال کرے گا۔"

"ارے مت رو۔مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ اتنا برا کیا ہے بابا جانی نے تیرے ساتھ۔تو ان کی پوتی تھی۔کیا ابا نہیں بولے ۔ان کا تو خون تھی نہ تو۔"

"وہ پہلے کبھی بولتے تھے جو اب بولتے۔آپ کو پتا ہے ولید سے مجھے سخت خوف آتا ہے۔"

"تو کیا کر سکتی ہے ۔ کچھ بھی تو نہیں۔میں بھی تیرے لیئے کیا کرسکتی ہوں۔میری قسمت دیکھ نہ مجھے بڑی عمر کے بندے سے بیاہ دیا گیا۔میرا قصور صرف اتنا تھا نہ کہ میں خوبصورت نہیں تھی۔ رنگ سنوالا تھا میرا۔مگر شکر ہے فراز بہت اچھے ہیں ۔کم کھا لیتی ہوں مگر عزت ہے بہت ان کے نزدیک۔"

"آپا مہر کو اتنا خوش رکھا ہے شاہ بخت نے۔وہ ہائوس جاب کر رہی ہے۔اسے تو پڑھنے کا شوق بھی نہیں تھا مگر میرے سب خواب ریزہ ریزہ کر دیئے بھائی نے۔"

"بس میرا بچہ۔ہم عورتیں ہیں ہماری آواز کوئی سننے والا نہیں ۔ہم  سے اگر ہماری مرضی پوچھی جائے اور ہم انکار کر دیں تو ہمیں ماں باپ کا نافرمان کہا جاتا ہے۔ہمیں باغی بنا دیا جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ اپنے گھر کی چاردیواری سے باہر نکل ۔یہی چار دیواری تو ایک عورت کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔مگر جب کسی عورت کی شادی کرو تو کم از کم اس کی پسند تو پوچھو ۔زندگی تو اس نے بات گزرانی ہے سب کچھ اس نے سہنا ہے۔اب جو ہوچکا ہے وہ ہوچکا ہے۔کوشش کرو کہ ولید کو سمجھو۔اس کی زبان دادی کی زبان ہے جو ہم سب جانتے ہیں ۔جوان خون ہے وہ اپنی طرف مائل کرو اسے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔کچھ دن اس کو خاموشی سے سمجھو۔یہی وقت ہوتا ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کا۔پھر چار پانچ سال بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ابھی شادی کی شروعات ہے تھوڑا برداشت کر لو۔"

"آپا مجھے کبھی کبھی لگتا ہے میری برداشت ختم ہوجائے گی۔ابھی تو شادی کو اتنا عرصہ ہی نہیں ہوا۔"

"کوشش کرو ولید سے بات کرو۔جب آپ آپس میں بات نہیں کرتے نہ تو بہت سی غلط فہمیاں ہوجاتی ہیں جو آپ کو جینے نہیں دیتی۔اس سے باتیں کرو اسے بتائو کہ وہ تمہارا شوہر ہے اور تم۔اس کی بیوی ۔اب کیا اہمیت ہے تمہاری اس کی زندگی میں ۔"

دونوں بہنیں باتیں ہی کر رہی تھی جب چچی جان ان کے کمرے میں آئی۔

"تارا بیٹا تو جلدی سے میرے کمرے میں آجا۔وہ آج ولید جلدی ہی آگیا ہے۔"

تارا فورا سے اٹھی مگر دروازے میں ولید نظر آگیا۔اس وقت تارا کو کچھ سمجھ نہ آیا۔

"کیسے ہو ولی۔"

"میں ٹھیک ہوں آپا آپ کیسی ہو۔"

"میں بھی بلکل ٹھیک۔تم تو یونیورسٹی جاتے ہو نہ ابھی گیارہ بجے ہیں جلدی ہی آگئے ہو تم۔"

"جی وہ کل میں نے نکلنا تھا مری کے لیئے ۔مگر سوچا آج چلے جاتے ہیں۔اس لیئے میں جلدی گھر آگیا۔آپ بیٹھیں نہ۔کھانا کھا کر جائیے گا۔"

"نہیں پھر کبھی آئوں گی تم۔لوگ جانے کی تیاری کرو۔"

آیت کا حلق خشک تھا کہ نجانے اب ولید کیا کرے گا۔مگر حیرت انگیز طور پر ولید نے کچھ بھی نہیں کیا۔تارا چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد ولید آیت کو لے کر مری کے لیئے نکلا۔انہیں ایبٹ آباد سے مری جاتے ہوئے چھ گھنٹے لگ گئے۔مری پہنچ کر بھی ولید نے آیت کو کچھ نہ کہا۔مری آتے ہی ولید کہیں نکل گیا۔آیت نے اس کو کاٹیچ کو دیکھا۔یہ بہت خوبصورت ویران جگہ پر بنا ہوا کاٹیج تھا۔ولید رات کو آٹھ بجے آیا مگر اس وقت مری میں سردی بہت تھی اور اندھیرا ہوچکا تھا۔آیت کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کو کاٹیچ بابا جانی کی ہے کیونکہ بابا جانی انہیں کبھی باہر نہیں لائے تھے نہ انہیں ہوسٹل کے بغیر کہیں جانے کی اجازت تھی۔اس جگہ ایک نوکر تھی جو نزدیک ہی چار گھروں کے فاصلے پر رہتی تھی۔ولید کے آتے ہی وہ بھی چلی گئی۔ولید نے اپنی جیکٹ اتاری۔اس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا جو اس نے سائٹ پر رکھا۔آیت کو حیرت تھی کہ اسے ولید نے تارا کے آنے پر کچھ بھی نہیں کہا ۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ولید اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔باہر برف باری ہورہی تھی۔ولید نے آیت کو کھانے کا کہا اور کمرے میں چلا گیا۔آیت کھانا لا کر ولید کے سامنے رکھتے ہی باہر چلے گئی۔نو بچے کاوقت تھا۔کاٹیج کے اندر والے دروازے کے باہر لان تھا جس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی دیواریں تھی۔ہر طرف درخت تھے اور رات کے اس وقت اگر باہر دیکھا جاتا تو ایک بہت عجیب سا منظر تھا۔آیت آرام سے  صوفے پر بیٹھ کر ٹی وہ لگائے بیٹھی تھی جب ولید کھانے کے برتن لے کر آیا ۔

"خان آپ مجھے کہہ دیتے میں اٹھا لیتی برتن۔"

"چپ مجھے تمہاری آواز بھی نہیں سننی۔میں آکر پوچھتا ہوں تم سے کہ کیا حرکت کی ہے تم۔نے۔میرے کہنے کے باوجود تم نے اپنے گھر والوں سے تعلق رکھا۔"

ولید کچن میں چلا گیا اور واپس آیا ۔آیت جانتی تھی کہ ولید جیسا انسان اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

"تم جانتی ہو آیت مجھے بچپن سے ان لوگوں سے نفرت ہے جو میری بات نہیں مانتے۔آج تم نے نجانے ہماری کتنی ہی باتیں اپنی بہن کے سامنے کی ہوں گی جس کی وجہ سے میری کتنی بے عزتی ہوئی ہوگی تم جانتی ہو۔"

"خان میں نے آپ کی کوئی بات نہیں کی۔"

"کیا کہا تھا میں نے مجھے زبان چلانے والے لوگ ہرگز پسند نہیں ۔"

ولید کے چیخنے ہر آیت کو اچھا خاصا ڈر لگا۔ولید اپنی عمر کے لڑکوں سے اچھا خاصا بڑا تھا۔آیت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔

"تمہیں پتا پے مجھے دھوکا دینے والے کتنے برے لگتے ہیں ۔"

ولید آیت کے نزدیک آنا شروع ہوا۔

"خان یقین کریں میں نے کچھ بھی جان پوچھ کر نہیں کیا۔"

"وہ تو میں جانتا ہوں تم۔کچھ بھی جان پوچھ کر تھوڑی کرتی ہو بھلا۔تم تو بہت سمجھدار ہو نہ مجھ سے بڑی ہو اس لیئے تم میں عقل تھوڑی زیادہ یے۔"

"نہیں خان پلیز ایسا نہیں ہے۔" آیت کو اس وقت ولید سے سخت خوف آرہا تھا۔ولید بے آیت کا بازو دبوچا اور اسے گھسیٹے ہوئے مین دروازے تک لایا۔

"آج کی رات باہر برف باری میں گزار کر تمہیں اب اس بات کا احساس ہوگا کہ تم نے کس کی بات نہیں مانی۔تم پر مجھے جتنا غصہ ہے نہ وہ تمہاری حالت دیکھ کر ہی ختم ہوجائے گا۔"

"نہیں خان نہیں ۔میں کچھ نہیں کروں گی آپ جو کہیں گے میں مانوں گی میرے ساتھ ایسا کچھ بھی مت کریں ۔"

"اب تو بہت دیر ہوگئی ہے نہ بے بی۔مجھے بلکل نہیں پسند کہ میری بیوی مجھے بچہ سمجھے۔اسے بھی تو پتا چلنا چاہیے نہ کہ اس کا شوہر ولید خان کیسا پے"ولید نے دروازہ کھولا اور آیت اور باہر دھکا دیا۔آیت کا روم روم کانپ گیا۔سردی بہت تھی۔اندر سردی نہیں تھی اس لیئے آیت نے پتلی سے سویٹر پہن رکھی تھی۔رات کی خاموشی اور اردگرد درخت۔باہر لگی چھوٹی چھوٹی دیواریں جن سے کوئی بھی اندر آسکتا تھا۔آیت کو لگا اگر ولید نے اسے یہاں چھوڑ دیا تو شاید یہ زندہ نہ رہ پائے۔"

"خان نہیں خان میں کبھی اپنے گھر والوں سے نہیں ملوں گی۔مجھ پر رحم کریں خان۔میں کبھی آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گی۔"

"ارے نہیں میری۔جان تم جیسے لوگ باتوں کی زبان نہیں سمجھتے۔ایک بار تم یہ۔ل سزا پالو گی تو تمہیں احساس ہوجائے گا کہ تم نے اب میرے میرے ساتھ ہی رہنا ہے۔"

ولید نے دروازہ بند کر دیا۔آیت فورا سے دروازے کے پاس آئی اور دروازہ بجانے لگی۔

"خان پلیز مت کریں۔دیکھیں آپ کی بھی تو بہن ہے نہ۔وہ میرے بھائی کے ساتھ رہتی ہے اس کے ساتھ کبھی کسی نے برا نہیں کیا خان۔میرے ساتھ ایسا مت کریں خان۔"

ولید سب کچھ سنے بغیر ہی کمرے میں چلا گیا۔آیت کہنے کو تو 25 برس کی تھی مگر اس کو اندھیرے سے ایک عام سے انسان کی طرح ڈر لگتا تھا۔اپنی دوستوں کو یہ ہوسٹل میں بھی رات کو کمرے کی لائٹ نہیں بند کرنے دیتی تھی۔برف باری تیز ہوگئی تھی۔آیت کے دانت بج رہے تھے مگر اس سے زیادہ اردگرد کا خوف آیت پر بھاری تھا۔ہم افسانوں کی دنیا میں پڑھتے ہیں کہ ایسے حالت میں لوگ اپنا ہوش و حواس گنوا دیتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔آیت اپنی آنکھیں کھولے کھڑی تھی۔اردگرد سے آتی جانوروں کی آوازیں برف سے ڈھکے درخت۔آیت دروازہ بجا بجا کر تھک گئی تھی۔الو کی آواز فضا میں اس وقت انتہائی خوفناک لگ رہی تھی کہیں دور سے غرانے کی آوازیں بھی آرہی تھی جیسے بھیڑیے اکٹھے ہوگئے ہوں۔۔آیت اس لمحے برف سے ڈھکے فرش پر بیٹھ گئی۔اسے جس کی محبت کی خاطر  اس شادی کو قبول کرنا پڑا وہ عیش میں رہ رہی تھی اور یہ کیسے یہاں رہ رہی تھی۔

"تم نے اچھا نہیں کیا بھائی۔کم از کم اتنا تو دیکھ لیتے کہ بے شک تم مجھے بے زبان سمجھتے ہو مگر جانور کو بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔جسے تم۔سب نے میرا محافظ بنایا ہے دیکھو آج وہ کیسے مجھے تکلیف دے رہا ہے۔بھائی اتنے بے حس تو نہیں ہوتے یا شاید یہ میری غلطی فہمی ہے۔"

آیت اپنی آنسو صاف کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ بھی رگڑ رہی تھی۔یہ ایک ڈاکٹر تھی مگر آج سب پڑھائی کسی کام کی نہیں تھی جب یہ اپنے لیئے آواز نہیں اٹھا سکتی تو۔بابا جانی نے اس کی شادی کی اور اس کے بعد اسے بھول ہی گئے۔اس کی ماں کتنی آسانی سے اسے بھول گئی۔کاش وہ دیکھ پاتی ان کی بیٹی کا حال میں ہے۔رات کو بجانے کب آیت کی خوف کے مارے آنکھ لگ گئی۔انسان تو انسان ہے سخت مشکل حالت میں بھی اس کی آنکھیں بند ہو ہی جاتی ہیں اور آیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

صبح بہت خوبصورت تھی۔مہر کی تو ویسے بھی ہر صبح خوبصورت تھی آج کل۔حویلی سے دور یہاں اسلام آباد میں اپنے محبوب شوہر کے گھر میں جو سکون اسے حاصل تھا شاید ہی کوئی اس کا اندازہ کر سکتا ۔یہ اٹھی تو اس کے سراہنے سرخ گلاب کی پتیاں بڑی تھی۔

"ہاں جی تو میری جان کی صبح ہوگئی۔"

شاہ بخت مہر کے پاس آیا اور اس کے سر پر پیار دیا۔شاہ بخت مہر کو بہت پیار سے چھوتا تھا۔

"جی ہاں میری صبح ہوگئی ہے ۔آپ کیوں اتنی جلدی اٹھ گئے شاہ بخت۔"

"میری جان اب شادی کو اتنے دن ہوگئے ہیں مجھے آفس بھی تو جانا ہے نہ بابا جانی کو اگر ابا نے بتا دیا کہ میں آفس پر دھیان نہیں دے رہا تو وہ مجھےآفس سے ہی نکال دیں گے۔تم بھی اب ہسپتال جائو مجھے امید ہے تم ایک بہت اچھی ڈاکٹر بنو گی۔"

"شاہ بخت ایک بات کہوں۔"

"میری جان کو مجھ سے اجازت کی ضرورت کب سے پڑ گئی۔"

"شاہ بخت وہ آیت۔۔۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ لائک تھی۔اس نے میڈیکل بہت اچھے سے پاس کیا ہے۔میرا خیال ہے اسے آگے ہائوس جان کی اجازت دینی چائیے۔"

"میری جان اس کا شوہر نہیں چاہتا کہ وہ گھر آئے تو اس کی بیوی گھر موجود نہ ہو ۔وہ گائوں میں رہتے ہیں اور ان کا رہن سہن ہم سے الگ ہے۔اب دیکھو نہ اگر میں شام کو دیر سے آتا ہوں تو تم گھر ہوتی ہو کیونکہ تم جلدی آجاتی ہو۔نوکر ہیں کھانا بنانے کے لیئے مگر ولید کو شروع سے حویلی کی عورتیں گھر کے کام ہی کرتی ہوئی اچھی لگتی تھی۔"

"شاہ بخت یہ تو اس کے ساتھ زیادتی نہیں ۔"

"کون سے باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو تم یار۔چلو اٹھو ناشتے تیار ہے پھر تیار رہنا ہم تمہارے ہسپتال کے لیئے نکلیں گے۔"

شاہ بخت مہر کی پیشانی پر بوسہ دے کر اٹھ گیا۔مہر کے کانوں میں ابھی بھی آیت کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھی مگر وہ کہتے ہیں کچھ لوگ خود غرض ہوتے ہیں انہیں کسی کی خوشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مہر بھی ایسے ہی کچھ دیر میں سب بھول گئی یہ جانے بغیر کہ اس کی محبت کی کتنی بڑی قیمت جھکا رہی ہے آیت ۔

_________________________________

آیت کی آنکھ کھلی تو اسے احساس ہوا کہ اردگرد بہت گرمی ہے۔اس نے اپنے اوپر سے کمبل ہٹایا تو اسے پتا چلا کہ یہ ولید کے ساتھ سو رہی ہے۔ولید کی بازو اس کے پیٹ پر تھی جبکہ ولید نے اپنا چہرہ اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔اسے بخار محسوس ہورہا تھا۔وجود کے ہر حصے میں درد محسوس کرتے آیت کو یاد آیا کہ یہ تو رات کو باہر ہی سو گئی تھی۔رات کے کسی پہر ولید کو آیت کا خیال آیا تو یہ باہر نکلا۔آیت لان کے پیچ میں برف میں لیٹی ہوئی تھی۔اس کے وجود اس وقت اکڑا ہوا تھا۔ولید نے اسے اٹھایا اور اندر لے آیا ۔اس کے کپڑے تبدیل کیئے اور اسے گرم دودھ دیا ۔ولید کے ہر ایک انداز سے بے حسی ظاہر ہوتی تھی شاہد وہ آیت کو اس لیئے اندر لے آیا کہ ابھی اس نے آیت کو اور بھی اذیت دینی تھی۔آیت کے ہونٹ نیلے پڑے ہوئے تھے ۔ولید نے اس کے پاس ہی ہیٹر آن گیا اور خود بھی آیت کے ساتھ ہی کمبل میں لیٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد آیت کچھ بہتر ہوئی۔اب جب آیت کی آنکھ کھلی تو اسے گرمی لگ رہی تھی اور بخار محسوس ہورہا تھا۔اس کی آنکھوں سے کچھ خاموش 

آنسو گرے جہنیں اس نے صاف نہیں کیا۔ولید کی آنکھ بھی کھل گئی۔

"جاگ گئی تم ۔"

آیت نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا۔

"امید ہے کہ رات کی سزا کافی ہوگی۔ویسے بہت نازک ہو تم آیت اتنی سی سزا برداشت نہیں کر پائی تم۔ہم خود ٹھنڈے علاقے سے ہیں ۔مجھے تو لگا تھا کہ میں نے تمہیں ایک ایسی سزا دی ہے جو تم برداشت کرپائو گی۔خیر امید ہے اب آگے سے تم ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جو میری باتوں کے خلاف ہوگا۔میں اٹھ رہا ہوں۔ابھی فضل کی بیوی آئے گی سارے کاٹیچ کو صاف کر دے گی اور دن کا کھانا بھی بنا دے گی۔تم آرام کر لو۔تمہیں بخار ہورہا ہے۔میں نے دوائی تمہیں رات کو بھی دی تھی ابھی بھی لے لینا ٹھیک ہو جائو گی۔"

"ولی تمہیں اپنا علاج کروانا چاہئیے۔تمہاری جو حرکتیں ہیں وہ ایک نارمل انسان کو ظاہر نہیں کرتی۔"

ولید کو آیت کا لہجہ اپنا مذاق اڑاتا ہوا محسوس ہوا۔

"کیا کہا تھا میں نے تمہیں کہ مجھے یہ تم کی زبان تمہارے منہ سے سخت زہر لگتی ہے ۔کیا رات کو تمہیں سبق حاصل نہیں ہوا تھا آیت۔تم کیا چاہتی ہو میں اور سختی کروں تمہارے ساتھ۔میرا خیال ہے تمہیں عقل نامی چیز کا پتا نہیں ہے۔"

آیت نے اپنی آنکھوں سے نکلا ہوا آنسو صاف کیا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔اس وقت اسے سکون چاہیئے تھا اور یہ ہرگز اس حق میں نہیں تھی کہ ولید سے اور بحث کرتی۔ولید اٹھ گیا۔آیت ولید کے گھر سے جانے کے بعد اٹھی۔فضل کی بیوی بہت اچھی تھی۔

"ہائے بی بی آپ کو تو بخار ہے۔"

"ارے نہیں میں ٹھیک ہوں۔"

"کیسے ٹھیک ہیں آپ دیکھیں تو چہرہ کتنا زیادہ سرخ ہورہا ہے آپ کا۔ "

"ارے نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بس مجھے ناشتہ دے دو۔"

"جی بی میں ابھی لائی۔"

فضل کی بیوی اس کا ناشتہ لائی۔دوائی لینے کے بعد یہ لیٹ گئی۔فضل کی بیوی کھانا بنانے اور صفائی کرنے کے بعد اس کے کمرے میں ہی آگئی ۔

"بی بی جی میں آپ کے پاس بیٹھ جائوں ۔"

"ارے ہاں کیوں نہیں بیٹھ جائو۔"

فضیلہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔

"بی بی لگتا ہے آپ کی پسند کی شادی ہوئی ہے خان جی سے۔"

"ارے نہیں وٹے سٹے کی شادی ہوئی ہے ہماری۔ولید مجھ سے چھ سال چھوٹے ہیں ۔"

"ہائے بی بی ایک بات کہوں اگر برا نہ لگے تو۔"

آیت نے سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ ہاں تم بات کر سکتی ہو۔

"بی بی جی یہ جو وٹے سٹے کی شادیاں ہوتی ہیں نہ جی کہاں چلتی ہیں یہ۔ہمارے اپنے خاندان میں دو گھر ایسے ہی خراب ہوئے۔ایک فریق نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو دوسرے نے بھی طلاق دے دی۔پیچ میں ان کے بچے پس کر رہ گئے۔مگر آپ کو دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ کچھ غلط ہے۔خان تو بڑے اچھے ہیں جی۔"

"اچھا ۔۔۔۔۔میرا بھائی کبھی بھی میری خاطر بھابھی کو کچھ نہیں کہے گا وہ ان سے بہت محبت کرتا پے۔ویسے بھی ہمارے خاندان میں آج تک کسی کو طلاق نہیں ہوئی ۔"

"بی بی جی اب تو زمانہ بدل گیا ہے۔ہم نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تھی نہ تو میرے مرد نے اس کو کہہ کر بھیجا تھا کہ یہ نہ سمجھیں کہ تیری شادی کر دی ہے تو ہمارا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ہمارے گھر کے دروازے تیرے لیئے ہمیشہ ہی کھلے ہیں ۔ہماری بیٹی تو جی بڑی سکھی رہ رہی ہے۔"

آیت کی آنکھوں میں اپنے ماں باپ کا سوچ کر آنسو نکل آئے۔بے شک ولید نے منع کیا تھا سب کو آیت سے ملنے تھے مگر سب ملنے تو آسکتے تھے نہ۔کیا آیت سب کے لیئے اتنی پرائی ہوگئی تھی۔اس سے بہتر تو یہ لوگ تھے کم کھاتے تھے مگر بیٹی کو عزت تو دیتے تھے۔

"اچھا سنو کیا یہ علاقہ خوبصورت ہے۔"

"بہت خوبصورت ہے بی بی جی آپ خان کے ساتھ جانا نہ باہر۔آپ کہیں تو باہر لے جائوں  آپ کو۔دوپہر ہوگئی ہے آپ بہتر محسوس کریں گی۔"

"چلو چلتے ہیں اب تو بخار کم ہے۔"

دن کا کھانا کھا کر آیت نے فضیلہ سے کہا کہ تھوڑی دیر لے لیئے باہر چلتے ہیں اسے آس پاس کا علاقہ ہی دیکھا دے۔دھوپ نکلی ہوئی تھی جو برف پر پھیلی بہت پیاری لگ رہی تھی۔آیت نے لانگ کوٹ پہنا اور اس کے ساتھ باہر آئی۔یہ لان کی کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔سامنے ویرانے کو دیکھ کر دو پل اسے خوف آیا مگر پھر اپنا رات کو اس ویرانے میں ہونا یاد آیا ۔ولید ابھی ابھی واپس آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں پھولوں کے گجرے تھے۔ساتھ اور بھی کافی ساری چیزیں تھی۔

"خان جی ۔۔۔۔۔"

فضیلہ کی آواز پر آیت نے نظر اٹھا کر اوپر دیلھا۔ولید آگیا تھا۔

"تم جائو۔"فضیلہ فورا ہی چلی گئی۔

"اب کیسی طبیعت پے تمہاری۔"

"اب ٹھیک ہوں خان۔"

ولید اس کے سامنے گھٹنوں کے پل بیٹھا اور شاپر سے سفید پھولوں کے گجرے نکالے۔آیت کا ہاتھ تھام کر ولید نے سے گجرے پہنائے۔

"میں نے سوچا میری بیوی بھی کہتی ہوگی ہم یہاں شادی کے بعد آئے ہیں تو میں نے اسے کچھ لے کر ہی نہیں دیا ۔"

آیت کو کوئی خوشی نہیں کررہی تھی ولید کے اس رویے سے کیونکہ وہ ثابت کر چکا تھا کہ آیت کی کیا اہمیت ہے اس کی نظر میں ۔آیت کی چھوٹی پر بھی ولید بھی گجرے لگائے تھے۔

"بہت پیاری ہو تم ۔تیار ہوکر رہا کرو مجھے اچھا لگتا ہے جب تم تیار ہوتی ہو۔ان ہاتھوں پر مہندی اچھی لگتی ہے۔فضیلہ کی بیٹیوں سے کہوں گا تمہیں مہندی لگا جائیں ۔ہم نے یہاں پندرہ دن رہنا ہے۔میں چاہتا ہو تم میری ہر ضرورت کا خیال رکھو۔اس رشتے نے ساری زندگی اب رہنا ہے۔"

"خان رشتے احساس سے بنتے ہیں عزت اور احترام سے بنتے ہیں ۔اگر آپ میری عزت نہیں کریں گے تو میں کیسے اس رشتے کو آگے بڑھا پائوں گی ۔"

"تم میری نیچر سے واقف ہو آیت۔میں غصے کا تیز یوں۔بچپن  میں دادی صاحب میرے سارے لاڈ اٹھاتی تھی۔ان کی وجہ سے میں نے کوئی کام خود کیا ہی نہیں ہے۔اب مجھے عادت بھی نہیں رہی کہ میں کچھ بھی خود کروں۔مجھے بچپن سے ہمیشہ لینا سیکھایا گیا ہے میری فطرت میں کچھ خامیاں ہیں ۔امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ سب بہتر ہوگا۔چلو آئو تمہیں علاقہ دیکھاتا ہوں"

آیت اس لمحے خاموش ہوگئی ۔کبھی کبھی خاموشی بہترین ہوتی ہے اس لیئے آیت نے بھی خاموشی اختیار کر لی کیونکہ ابھی کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔نجانے ولید نے بدلنا تھا یا نہیں اور آیت کی زندگی نے کیا موڑ لانا تھا۔

_____________________________

آیت کی والدہ کمرے میں بیٹھی اپنی بیٹی کو یاد کر رہی تھی۔آیت جو مرضی کہہ دیتی یہ تھی تو یہ ماں ہی نہ۔ان کے دل کو کیا نہیں پتا چلتا تھا جب آیت کو تکلیف ہوتی تھی۔شادی کے اگلے روز اپنی بیٹی کے چہرے پر انگلیوں کے نشان اور کسی نے دیکھے ہوں یا نہ دیکھے ہوں مگر انہوں نے ضرور دیکھے تھے اور اپنی بیٹی کا درد بھی محسوس کیا تھا۔ماں تھی نہ اور ماں تو اپنی اولاد کے لیئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔مگر اس حویلی میں رہتے ہوئے ان کی کبھی نہیں سنی گئی تھی۔چھوٹی سے عمر میں یہ شادی کر کے اس حویلی آئی تھی پھر تین بچوں کے بعد انہیں لگتا تھا کہ سب کچھ بدل جائے گا مگر ان کی ساس کے آگے ان کی کہاں چلتی تھی۔وہ بہت عجیب عورت تھی ساری زندگی تخت پر بیٹھ کر انہوں نے بہوں پر حکم چلایا تھا۔اس حویلی کے مرد ان کے آگے نہیں بولتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد بھی انہیں ایک پل اس حویلی میں چین سکون نصیب نہیں ہوا تھا۔ان کا بیٹا تو مہر کو لے کر چلا گیا۔وہ بہت خوش قسمت تھی کہ اسے ان کا بیٹا ملا تھا مگر ان کی بیٹی کے نصیب اچھے نہیں تھے۔

"کیا ہوا اداس کیوں بیٹھی ہوں خان بیگم۔"

"بڑے خان جی وہ آیت ہم سے ملنے نہیں آئی۔بابا جان نے بھی ولید کو نہیں کہا کہ آیت کو آنے دیں ہم سے ملنے کے لیئے ۔"

"دیکھو خان بیگم اب وہ بیٹی اس گھر کی ہے۔اگر ولید ساری زندگی بھی اسے ہم سے نہ ملنے دے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔وہ اب اس کی بیوی ہے اور بلکل ٹھیک ہے۔اچھا خاصا تو ہے ولید ۔گائوں کا سب کچھ تو اس کا ہے ۔"

مگر خان جی۔"

"بس ہم زیادہ باتیں نہیں سننا چاہتے ۔آپ جائیں اور کھانے کا انتظام کروائیں بابا جان بھی انتظار کر رہے ہیں کھانے کا۔"

آیت کی والدہ خاموشی سے اٹھ گئی انہیں کہاں اجازت تھی شوہر کے سامنے کچھ بولنے کی۔

___________________________

آیت ولید کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی ٹی وی پر چلتے ہوئے پروگرام کو دیکھ رہی تھی۔ہاتھوں میں پہنے ہوئے گجرے ابھی بھی کھلے ہوئے تھے۔ولید نے آیت کی غائب دماغی نوٹ کی۔

"آیت آیت کیا ہوا۔"

"ہاں ہاں ۔۔۔

۔کچھ نہیں وہ بس کالج کی دوستیں یاد آگئی۔وہ شادی پر نہیں نہ آپائیں مجھے یاد ہی رہا انہیں بلانا۔شادی اتنی جلدی ہوئی کہ اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ میں انہیں بلاتی۔

"کبھی بلا لینا تم انہیں حویلی۔پتا ہے میری یونیورسٹی میں بھی دوست کہہ رہے تھے کہ وہ ہماری دعوت کریں میں نے کہا کہ ذرا ٹہر جائو واپس جائیں کہ تو پھر کر لینا۔"

"کتنے دوست ہیں آپ کے خان۔"

"بس ایک ہی دوست ہے اور ایک اور بھی ہے مگر اس سے کم ہی ملاقات ہوتی ہے وہ ہمارے ساتھ نہیں پڑھتا سکول کا دوست ہے۔"

"کیا پڑھ رہے ہو آپ خان۔"

"تمہیں نہیں پتا میں کیا کر رہا ہوں آیت۔"

"نہیں خان۔"

"میں ماسٹرز کے فرسٹ سسٹر میں ہوں۔اکریکلچر میں کر رہا ہوں ماسٹرز میں ۔ہمارے گائوں سے یونیورسٹی جاتے ہوئے مجھے ڈیڑھگھنٹہ لگ جاتا ہے مگر واپسی پر آفس جانا میرے لیئے پھر آسان ہوتا ہے اس لیئے میں شہر نہیں آیا ۔"

"خان ایک بات کہوں کیا میں کبھی ہائوس جاب۔۔۔۔"

"نہیں جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔میں کما رہا ہوں نہ۔میرے بچوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔تمہاری ہر ضرورت میں پوری کر دوں گا مگر تم ہرگز حویلی سے باہر یوں نہیں جائو گی۔اچھا میں روم میں جارہا ہوں تم بھی آجائو۔" ولید اٹھ گیا۔آیت کو معلوم تھا اب یہی اس کی زندگی ہے۔وہ پانچ سال دن رات کی محنت ضائع گئی تھی۔

شاہ بخت اس وقت آفس میں بیٹھا تھا۔اس کا ایک پرانا دوست اس سے ملنے کے لیئے آیا۔

"ارے احمر کیسے ہو تم۔"

"میں بلکل ٹھیک تم سنائو کیسی چل رہی ہے شادی شدہ زندگی۔"

"بہت اچھی۔بس تمہاری بھابھی بہت اچھی ہیں۔تم تو جانتے ہو تمہاری بھابھی کو پانے کے لیئے کتنا کچھ کرنا پڑا مجھے۔"

"مگر جہاں تک میں جانتا ہوں تم لوگوں کے خاندان میں تو شادیاں باہر نہیں ہوتی نہ اور بھابھی کے لیئے تمہارا ہی رشتہ سوٹ کرتا تھا پھر کیوں مشکل ہوئی تمہیں ۔"

"یار ہمارے خاندان میں وٹے سٹے کی شادی ہوتی ہے۔بڑی بہن کا بھی وٹہ سٹا ہی ہوا ہے۔ اس کی نند جو ہے وہ میری پھوپھو کے بیٹے کی بیوی ہے۔میری پھوپھو کا ایک اور بھی بیٹا ہے سب کہتے تھے کہ پھوپھو کی بیٹی سے میری شادی ہوگی اور اس کے بھائی سے آیت کی کیونکہ آیت کا شوہر اس سے چھ سال چھوٹا ہے۔وہ تو شکر ہے مہر نے گھر میں سب کو بہت زیادہ فورس لیا۔مہر نے یہاں تک کہا دیا تھا کہ وہ کچھ کر لیے گی اپنے آپ کو اگر میرے ساتھ شادی نہ ہوئی تو۔مجبورا بابا جانی کو عزت کی خاطر اس کی بات مانی پڑی ۔ولید بھی پھر مان ہی گیا۔"

"یہ تو غلط ہے نہ ہار تمہاری بہن کوئی بیل بکری تو نہیں تھی نہ۔تم نے اور مہر نے اپنی محبت کے لیئے آیت کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔کل کو اس کا شوہر کسی اور میں انٹرسٹ لیتا ہے تو۔"

"یار ایسی کوئی بات نہیں بہت اور سب سے اچھی چیز اس نے میری بہن کو خان بیگم بنایاہے۔ وہ ساری عمر اس کے بغیر کسی سے شادی نہیں کرے گا ۔"

"مگر وہ مرد ہے اگر گھر کے باہر کسی سے چکر چلا لیا تو۔"

"ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔"

"خیر جو بھی ہے تم نے اپنی بہن کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔تم نے خود غرض دیکھائی ہے اور جو رشتے کسی کی خوشی کو ختم کر کے بنائیں جائیں وہ زیادہ چلتے نہیں ہیں ۔"

"احمر تم میرے دوست ہو یا کسی اور کے۔میں سب باتیں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی بھی پتا ہے  میری بیوی مجھ سے بے انتہا محبت کرتی  ہے۔مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ مستقبل ہمارے لئے بہت اچھا ہوگا ۔تم سب باتوں کو چھوڑو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو مانگواتا ہوں بلکہ باہر چلتے ہیں کچھ کھائیں گے واپسی پر مجھے مہر کو اس کے اسپتال سے بھی پک کرنا ہے۔" 

 شاہ بخت  شروع سے ہی بے حس تھا اور آج تو اس نے ظاہر کردیا تھا کہ یہ واقع ہی خود غرض ہے انسان کو جب محبت ہو جاتی ہے تو وہ کسی دوسرے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہی محبت بعد میں جاکر اس کو برباد کر دیتی ہے اور جب وہ واپس اپنے دل کے کسی کونے میں اپنوں کو ڈھونڈتا ہے تو وہ اسے سوائے بنجر زمین کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

____________________

ولید اور آیت مری گھومنے باہر آئے ہوئے تھے ۔آیت کا رویہ ولید سے بہت ٹھنڈا سا تھا۔یہ۔ولید کو ضرورت کے بغیر مخاطب ہی نہیں کرتی تھی اور ولید کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ایسا لگتا تھا وقت کے دو مسافر ہیں جو ایک ہی راہ میں چل رہےہیں ۔دونوں کی منزل ایک ہے مگر شاید دونوں نے اپنے راستے الگ کر لیئے ہیں ۔مال روڈ پر بہت رش تھا۔یہاں گاڑی آگے نہیں جاسکتی تھی اس لیئے ولید اور آیت دونوں گاڑی سے اتر گئے۔مال روڈ پر اس وقت بہت سے لوگ تھے۔آیت نے نیلے رنگ کی چادر سے خود کو چھپا رکھا تھا مگر پھر بھی نجانے کیوں اتنے لوگوں کا رش دیکھ کر ولید آیت کے پاس آیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

"کیا ہو خان۔"

"مجھے تمہارا وہاں باہر آنا پسند نہیں آیا ۔دیکھو تو کتنے لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔"

"ایسا کچھ نہیں ہے خان ۔لوگوں کی فطرت ہے یہ ایسے ہی دیکھتے ہیں ۔"

کوئی لڑکا جو دور کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کے دوست بھی تھے وہ آیت اور ولید کو ساتھ دیکھ کر ہنسنے لگ گیا۔

"یار لگتا ہے دونوں کہیں سے ڈیٹ مارنے آئے ہیں ۔آج کل زمانہ بھی تو یہی ہے نہ ۔ اگر یہ پیش پسند نہ آئے تو ہم ہیں یہاں تم ہمارے ساتھ بھی آسکتی ہو۔"

ولید کے کان میں ان کی یہ گفتگو پڑی تو اس کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔

"پلیز خان کچھ مت کرنا۔اس وقت ہم روڈ پر ہیں ۔سب ہماری طرف دیکھنے لگ جائیں گے۔"

"چلو واپس۔"

ولید کچھ کہے سنے بغیر آیت کو لیئے واپس گاڑی میں آیا ۔گاڑی کے سٹیرنگ پر ہاتھ رکھ کر ولید نے اپنا غصہ کم کرنا چاہا  مگر اس کی آنکھیں لال ہوگئی تھی۔اگر اس بات پر یہ ان لڑکوں سے الجھ پڑتا تو یہ اکیلا نہیں تھا ساتھ میں آیت تھی اور یہ کسی بھی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔آیت کو ولید کی آنکھوں سے خوف آرہا تھا۔

"خان میری بات۔۔۔۔۔۔۔"

"چپ بلکل چپ۔آج تم میرے ساتھ نہ ہوتی تو نجانے میں ان سب کا کیا حشر کرتا۔"

"خان ایسے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں نہ۔"

"آیت مجھے نہیں پسند کہ تم میری باتوں کو کاٹو۔تم جانتی ہو میں ان کا حشر ابھی ہی بگاڑ سکتا تھا مگر تمہاری ذات پر سوال آتا جو مجھے برداشت نہیں ہوتا۔"

ولید اس وقت سخت جنونی ہو رہا تھا۔ولید نے آیت کی بازو کو دبوچ لیا۔

"آئندہ میں تمہیں باہر نہیں لائوں گا اور نہ میرے بغیر تم کہیں باہر جائو گی۔"

آیت نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیئے۔

"اب رونے کی آواز نہ آئے آیت۔"

ولید نے گاڑی سٹارٹ کی۔سارے رستے ولید  اور آیت دونوں کا موٹ  آف تھا۔کاٹیچ آکر ولید نے ہی آیت کی طرف کا دروازہ کھولا اور اسے باہر نکالا ۔آیت نے اس وقت نظریں جھکائی ہوئی تھی۔چادر کا ایک کونہ دوسرے ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا۔ولید نے اس کا ہاتھ چادر سے ہٹایا ۔

"میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔تم جائو اندر آریا ہوں تھوڑی دیر میں ۔"

ولید آیت کو دروازے تک چھوڑ کر چلا گیا  . کافی دیر انتظار کے بعد جب ولید گھر نہ آیا تو آیت کو بہت زیادہ فکر ہونے لگی کہ نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے. فضیلہ جو آیت کی پریشانی دیکھ رہی تھی یہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ نہ جانے اسے ایسا کیوں لگنے لگا تھا کہ اس کی بی بی خوش نہیں ہیں کیونکہ آیت سارا دن زیادہ خاموش رہتی تھی ۔جن لڑکیوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی وہ بہت زیادہ ہنستی تھی مگر آیت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

" معاف کریئے گا بی بی صاحب مگر آپ بہت زیادہ پریشان لگ رہی ہیں کیا کچھ ہوا ہے۔"

" بس فضیلہ راستے میں کچھ لڑکوں نے عجیب باتیں کر دیں تو ولید کو بہت زیادہ غصہ آگیا. ہم سڑک پر تھے تو ولی کچھ کہا تو نہیں پایا مگر غصہ بہت زیادہ آ گیا تھا اسے ۔بہت دیر ہو گئی ہے گھر واپس نہیں آیا وہ اب تک مجھے اس کی بہت فکر ہو رہی ہے۔"

" بی بی جی یہ جوان خون ہوتا ہے نہ  بہت زیادہ جوش مارتا ہے۔ اس عمر میں لڑکے زیادہ تر بہت جذباتی ہوتے ہیں اور اپنے فیصلے بہت جلدی کر دیتے ہیں. شاید خان بھی بہت زیادہ جذباتی ہیں اس لیے وہ بہت ساری چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ آپ تھوڑا تحمل کے ساتھ ان کے پاس رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔"

" تحمل کے علاوہ میرے پاس اب کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے نہ فضیلہ۔ میرے سر کا سائیں ہے وہ اب۔ مجھے کہیں پناہ نہیں ملے گی اس کے گھر کے بغیر ۔ تم جانتی ہو ہمارے خاندان میں جب ماں باپ شادی کردیتے ہیں تو پھر وہ اپنی بیٹی کو کہہ دیتے ہیں تمہارا اب اپنے میکے سے کوئی تعلق نہیں۔ شوہر جیسے مرضی رکھے تمہیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اب تمہارا جنازہ ہیں وہاں سے اٹھے۔"

” ہائے بی بی کتنے برے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو ایسے کہتے ہیں۔ ہم غریب ہیں سہی دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کے معاملے میں ہرگز ایسی باتیں نہیں کرتے۔ ہمارے لئے تو بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ جس گھر میں ہمارے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے اس کا باپ بہت خوش قسمت کہلاتا ہے کہ اس کے لئے کوئی دعا کرنے والی آگئی ہے۔"

" اب ہر انسان اپنی اپنی قسمت لے کر آتا ہےفضیلہ ۔تم نہیں جانتی ہماری حویلی بہت بڑی ہے وہاں زندگی کی ہر چیز میسر ہے مگر ایک چیز ہمیں نہیں دی جاتی عزت اور مان۔ عورت کیا چاہتی ہے سوائے مان کے اسے اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔ جہاں ماں باپ کہتے ہیں خاموشی سے سر جھکا کر شادی کر لیتی ہے۔ مگر وہ صرف اگر اس سے اتنا ہی کہہ دیں کہ تم شادی کرنے کے بعد بھی ہماری ہی بیٹی ہو اس گھر پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے تو شاید بیٹیاں کبھی اپنے ماں باپ سے بد گمان نہ ہوں۔"

" بس بی بی جتنے لوگوں کے بڑے گھر ہوتے ہیں نہ اتنے ہی ان کے دل چھوٹے ہوتے ہیں۔آپ کو شاید برا لگے مگر میں یہی کہوں گی کہ ہم چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ بہت بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ ہم بہتر ہیں ہمارے پاس اگر دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں ہے تو رشتے اور پیار تو ہے نہ۔"

"بس کیا کر سکتے ہیں فضیلہ۔ہماری حویلی کی بند دیواروں میں بہت سے لڑکیوں کی چیخیں دفن ہیں ۔میری اپنی بہن کی شادی خود سے 17 سال بڑے لڑکے سے ہوئی۔وہ تو شکر ہے اس کے میاں کا اتنا ظرف ہے کہ بیوی کی عزت کرتا ہے۔"

"بی بی جی آپ پریشان مت ہوں۔سب ٹھیک ہوگا۔آپ ایسا کرو کہ کچھ کھا پی لو۔"

"نہیں رہنے دو ولید کو آنے دو پتا نہیں کچھ کھایا ہوگا کے نہیں ۔"

_______________________________

ولید کاٹیچ واپس آگیا تھا۔کاٹیچ میں اس وقت خاموشی تھی۔فضیلہ کو آیت نے گھر بھیج دیا تھا۔ولید کاٹیچ کا دروازہ کھول کر اندر آیا ۔آیت اس وقت کمرے میں تھی۔ولید کمرے میں آیا۔آیت کھڑکی کے آگے کھڑی کافی پی رہی تھی۔ولید اس کے پاس گیا اور ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔کافی کا کپ آیت کے ہاتھ سے گر گیا۔ولید نے آیت کو دیوار کے ساتھ لگایا ۔آیت سب کے لیئے تیار نہیں تھی۔ولید آیت کے لبوں پر جھکا۔آیت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ولید یہ سب کیوں کر رہا تھا۔ولید اس وقت سخت جنونی روپ میں تھا۔ولید آیت سے الگ ہوا۔

"خان کیوں کیا آپ نے ایسے۔"

"بیوی ہو تم میری اور میرا حق ہے تم پر۔"

"حق ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میرا ساتھ ایسا سلوک رواں رکھیں ۔"

ولید نے اپنے ہاتھ اوپر کیئے جن پر خون لگا ہوا تھا۔

"کیا کر گے آئے ہیں آپ خان۔"

"میں ان لڑکوں کو سبق سیکھا کر آیا ہوں کہ آئیندہ وہ کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھیں ۔"

"ولی خان آپ نے ایسا کیوں کیا ہے۔کیا آپ نہیں جانتے وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔"

ولید آیت کے قریب آیا اور اس کے بال پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر لیا۔

"دیکھو میری آنکھوں ۔کیا تمہیں میں کوئی ایسا انسان نظر آتا ہوں کہ جس کی بیوی کے بارے میں وہ لوگ اتنی غلیظ باتیں کریں اور وہ چپ رہے۔بہت فکر ہے نہ تمہیں میری میں ہار نہیں سکتا۔بہت مضبوط ہوں میں اور تمہاری حفاظت بھی مجھے خوب کرنا آتی ہے۔آئیندہ تمہیں کہیں لے کر نہیں جائوں گا جہاں ایسا ہو۔"

"تو کیا ساری زندگی گھر میں قید رکھیں گے مجھے ۔"

"ہاں قید کر دوں گا اگر تمہیں اپنے کمرے تک ہی محدود کر دینا پڑا دو۔تم سے میں نے شادی کی ہے تو اب تم صرف میری ہو صرف میری۔"

ولید کی آنکھوں میں سرخی تھی۔

"پلیز خان میں بھی انسان ہوں میرا بھی خیال کریں ۔چھوڑ دیں مجھے۔"

"تم جانتی ہو آیت مجھے تم شروع سے بہت پسند تھی ۔میں نے اپنی بیوی کے بنائے ہوئے خاکے میں تمہاری جیسی ہی لڑکی کو سوچا تھا مگر تمہارے بھائی۔۔۔۔۔۔۔تمہارے بھائی نے میری بہن کو ۔۔۔۔۔۔وہ سب نوکروں کے سامنے اپنے ہاتھ میں چھڑی لے کر کھڑی تھی ایک نام نہاد محبت کی خاطر کہ وہ خود کو ختم کر لے گی اور میرے باپ دادا کی بنائی ہوئی سالوں کی عزت خراب کرے گی۔میرے دل میں آگ لگ گئی تھی اس دن۔اپنے بابا جانی اور ابو کا جھکا ہوا چہرہ دیکھ کر۔میں نے اس دن سوچا تھا کہ ایک بار تم میری دسترس میں آئو گی تو شاہ بخت دیکھے گا جب بہنیں بھائیوں کا مان توڑتی پیں تو کیا ہوتا ہے۔"

"جب بھائی بہنوں کا مان توڑتے ہیں تو ان کی بھی تو سزا ہونی چائیے نہ خان۔میرا بھی مان توڑا تھا شاہ بخت نے۔وہ میرا نام نہاد بھائی ہے۔"

بس۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں سنوں گا میں۔تم اسی کی بہن ہو تمہاری رگوں میں اسی کا خون ہے ایک نہ ایک دن تو تمہاری حالت پر اسے دکھ ہوگا ہی نہ۔"

"میرا کیا قصور ہے سب میں ۔"

ولید نے آیت کے چہرے کو تھاما۔

"تمہارا قصور صرف اتنا ہے کہ تم شاہ بخت کی بہن ہو۔تمہیں شاہ بخت سے ہر رشتہ توڑنا ہے۔تمہیں میرا بننا ہے تم صرف میری ہو۔میری۔۔۔۔۔"

ولید غصے سے دیوار پر ہاتھ مار کر واش روم میں گھس گیا ۔آیت نے اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو صاف کیئے۔اس وقت اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔یہ روتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھے نیچے بیٹھ گئی۔

"میں تمہیں معاف نہیں کروں گی شاہ بخت کبھی نہیں ۔مجھے برباد کیا ہے تم نے اس سے بہتر ساری عمر میں حویلی کی دیواروں میں بند رہتی مگر ولید جیسے انسان کے ساتھ تو نہ رہتی۔میری فرار کا ہر راستہ بند ہے۔اپنے لوگوں کی خان بیگم ہوں میں ۔نہ میں ولید کو چھوڑ سکتی ہوں نہ حویلی کو تم نے بہت برا کیا میرے ساتھ بہت برا۔"

ولید واش روم سے نکلا تو آیت کو روتے ہوئے دیکھا۔

"اٹھو بیڈ پر آئو۔"

آیت کو شاید ولید کی آواز نہیں آئی تھی اس لیئے اس نے اوپر نہیں دیکھا۔

"آیت میں تمہیں بلا رہا ہوں۔"

آیت کو بازو سے اٹھا کر ولید بیڈ پر لایا۔

"سو جائو مجھے اب روتی ہوئی نظر مت آنا ۔"

ولید نے آیت کو لیٹا کر اس پر کمبل دیا۔آیت کی آنکھوں سے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ہاں یہی تھی اس کی زندگی اور اس کے بھائی کی۔۔۔۔۔۔۔شاید خوشیوں سے بھری۔اسے ہی اپنے گھر کو اب جنت بننا تھا کیونکہ یہ ایک عورت تھی جس کا کوئی گھر نہیں تھا۔ماں باپ کے مطابق اس کا گھر اب شوہر کا تھا اور شوہر وہ جو ذرا ذرا سی بات پر اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا۔ہاں اسے ہی اب اس آشیانے کو بچانا تھا ورنہ باہر کی دنیا کیا تھی۔کہنا بہت آسان ہے کہ ہم ایک مضبوط فیصلہ لیتے ہیں مگر پھر دنیا کا کیا۔مضبوط سے مضبوط انسان ٹوٹ جاتا ہے یہ تو پھر ایک عام سی لڑکی تھی۔ہاں اسے اب اپنے ماں باپ کو بھول جانا تھا سب کچھ جو اس کا ماضی تھا۔۔۔۔۔

آیت اور ولید حویلی واپس آگئے تھے اور ولید کی وہی روٹین تھی یونیورسٹی سے آفس پھر زمینوں پر ایک چکر لگانا۔ان کے خاندان کا بزنس بہت زیادہ تھا اور بابا جانی کی خواہش تھی کہ ولید ہر ایک ذمہ داری ابھی سے سنبھال لے۔ولید کے دو ہی دوست تھے جن کو اس نے ساتھ کام پر لگایا ہوا تھا۔دونوں ہی عام سے خاندان کے تھے۔خالد اور عاطف۔ عاطف سے ملاقات کم ہوتی مگر وہ بھی اس کی بہت مدد کرتا تھا۔آیت اس وقت لان میں بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب بابا جانی آئے۔

"میرا بیٹا کیسا ہے۔"

بابا جانی نے بہت پیار سے آیت کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔آیت نے فورا سے سر پر ڈوپٹہ لیا۔

"میں ٹھیک ہوں بابا جانی۔"

آیت فورا سے کتاب بند کر کے اندر جانے لگی۔

"میرا بچہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھ جائو نہ۔"

"نہیں بابا جانی مجھے ولید نے منع کیا ہے۔میں اگر اپنے کسی بھی گھر والے سے ملتی ہوں تو مجھے بہت سخت سزا ملتی ہے اور مجھ میں اب اور سہنے کی ہمت نہیں ۔آپ چچا اور چچی سے مل لیں اور پلیز مجھے ملنا چھوڑ دیں میں جینا چاہتی ہوں میری سانسیں چلتی رہنے دیں۔ روح آپ ختم کر چکے ہیں۔"

آیت اندر کی طرف بھاگ گئی۔پیچھے بابا جانی آوازیں دیتے ہی رہ گئے ۔حویلی میں بہت رونق تھی۔آج پورے ایک ماہ بعد مہر آئی تھی۔آیت کچن میں ہی تھی۔ سارا دن آیت کی چچی نے اسے بہت بار کمرے میں بھیجا۔آیت کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر تنگ آجاتی تھی اس لیئے اس نے خود کو کچن میں مصروف کر لیا۔مہر کی ہنسی اس کے دل کے زخم ہرے کر دیتی تھی۔اس کا بھائی اس کے ساتھ کتنا خوش بیٹھا ہوا تھا۔یہی سوچتے ہوئے یہ چمچا یہ ہانڈی میں ہلا رہی تھی وہ سٹیل کا ہونے کے باعث گرم ہوتے ہی اس کو جلا گیا۔ہاتھ سرخ ہوگیا تھا آیت کا۔اس نے چولہے کے بلکل قریب سے چمچ کا دوسرا سرا پکڑ کر ہانڈی سے باہر نکالا۔

"ارے خان بیگم آپ کا ہاتھ جل گیا ہے۔"

"کچھ نہیں ہوتا رہتا ہے تم کام کرو اپنا۔"

"کچھ لگا تو لیں۔"

"کہا نہ ٹھیک ہوں اپنا کام کرو ۔"

آیت سب کچھ چھوڑ کر باہر چلی گئی۔

"ارے ماں میں کیا بتائوں صبح شاہ بخت ہی مجھے اٹھاتے ہیں زبردستی۔اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں اور پھر مجھے ہسپتال بھی چھوڑ کر آتے ہیں ۔سب اتنے حیران ہوتے ہیں وہاں کہ میرے شوہر میرا کتنا خیال رکھتے ہیں ۔"

"ارے بس ایسے ہی میری بیٹی کا گھر بنا رہے۔بلکل بھی اپنے شوہر کو اپنے قابو سے مت نکلنے دینا۔تھوڑا تیار رہا کرو جتنا اس کے قریب رہو گی اتنا اچھا ہوگا۔"

"ارے مورے آپ پریشان کیوں ہوتی ہیں وہ تو میری مٹھی میں ہیں اور اس مٹھی کو کوئی کھول نہیں سکتا ۔آپ کو پتا پے میں نے کتنا انتظار کیا تھا کہ کب میری شاہ بخت سے شادی ہو۔اب نہ میں نے اس حویلی میں آنا نہ یہاں کے اصول مجھ پر اور میری اولاد پر لاگو ہوں گے۔"

"تیرے بابا جانی تو پوتے سے بہت محبت کرتے ہیں ۔"

"بس وہ محبت کرتے رہیں مگر ان کا پوتا میرا ہے۔ویسے ولید کا رویہ آیت کے ساتھ کیسا ہے۔یقین کریں مورے کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے میری محبت کی خاطر وہ میرے جنونی بھائی کے ساتھ رہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ۔اب اس کی شادی ہو گئی ہے تو برداشت کر لے گی وہ بھائی کو بھی۔"

"ایسے نہ کہہ مجھے یقین ہے ولید اسے بڑی محبت دے گا۔تھوڑی پابندیاں لگاتا ہے آیت پر  مگر خیال بھی اتنا ہی رکھتا ہے۔ہر دن اس کے لیئے کچھ نہ کچھ لاتا ہے اس کی ہر ضرورت بن مانگے پوری کرتا ہے۔"

"ارے مورے جیسے مجھے نہیں نہ پتا۔اس سے تو خاندان کی کوئی لڑکی شادی نہ کرتی یاد نہیں جب ایک بار ولید نے پھوپھی کی بیٹی کو مارا تھا بچپن میں تو کیسا شور مچایا تھا پھوپھو جی نے۔ وہ تو شکر ہے بابا جانی کے سامنے وہ کچھ نہیں بولتے تھے۔دادی خود تو چلی گئی ایک پاگل پیچھے چھوڑ گئی۔"

"چپ کر جا بھائی کے بارے میں ایسی باتیں کرتی ہے۔"

"جیسے میں تو اسے جانتی ہی نہیں نہ مورے۔تمہیں تو ایک گائے مل گئی ہے جو نہ تمہارے آگے کچھ بولتی ہے نہ سنتی ہے۔"

"بس کر مہر وہ بہت اچھی ہے۔تو اس سے بہت مختلف ہے میں نے اسے اپنی بیٹی مانتی ہوں۔"

آیت آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔کیا ان لوگوں کی خوشیاں ساری عمر یوں ہی برقرار رہیں گی۔کسی کا دل توڑنے والے کتنا خوش رہتے ہیں نہ۔آیت کے لیئے مہر کا یہ انداز نیا تو نہ تھا۔بچپن سے ہی تو اسے چھین کر لینے کی عادت تھی ۔اس کے ساتھ اس کی ماں تھی اور ابو تھے جو اس نے اس حویلی کے خلاف جا کر اپنی  پسند سے شادی کی اور آیت کے ساتھ کون تھا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں ایسی بے آسرا لڑکیوں کے ساتھ یہی تو ہوتا آیا ہے آیت جانتی تھی تو پھر رونا کیسا۔آج اس نے سوچا تھا کہ یہ ایک موبائل کا کہے گی ولید سے جس سے یہ اپنی سہیلیوں سے بات کر سکے تاکہ یہ  سانس تو لے سکے اس فضا میں ۔

___________________________

اپنی الماری کو کھولے کھڑی آیت نے سوچا تھا کہ یہ بیٹھ کر کس چیز کا غم منائے۔اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھاتی کہ یہ ناخوش ہے اور ان کی آنا کو تسکین ملے۔یہ حیقیت ہے کبھی کوئی بھابھی یا کزن اپنی ہوئی اور بھائی جو بھابھیوں کے آنے کے بعد ہی بدل جاتے ہیں وہ بھی اپنے نہیں ہوتے۔مگر ماں باپ وہ تو اپنے ہوتے ہیں اور آیت کے ماں باپ۔۔۔۔آیت نے الماری سے پنک رنگ کا خوبصورت سا کام سے بھرا ہوا کرتا نکالا ۔یہ دل کھول کر تیار ہوئی۔ہاتھوں میں اس نے ڈائمنڈ کی جیولری پہنی تھی۔اس نے اپنے پیروں میں وہی پائل پہنی تھی جو شادی والی دن کی تھی۔یہ پیاری تھی مگر آج خود کو سوار کر یہ گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔اسے مہر کو دیکھانا تھا کہ یہ کمزور نہیں ہے ہر وقت روتی دھوتی عورتوں کی طرح ۔یہ مضبوط ہے اور مہر کی آنا کو یہ کبھی تسکین حاصل نہیں کرنے دے گے۔تیار ہوکر یہ باہر آئی۔نیچے اس کے ماں باپ بھی آئے تھے ان کی بھی دعوت تھی۔اس نے ہال میں قدم رکھا تو اسی لمحے ولید بھی آگے سے آیا۔مہر اور سب ان دونوں کی جانب متوجہ ہوگئے۔

"جان دل آج کس کا دل چرانے کا ارادہ ہے ہاں۔"

ولید نے اسے تھام کر پیشانی پر بوسہ دیا۔ولید اکثر ہی آفس سے واپسی پر اسے پیشانی پر بوسہ دیتا مگر آج پہلی بار سب کے سامنے اس نے آیت کو پیار دیا تھا۔

"میں فریش ہو کر آتا ہوں ان لوگوں سے ملنے کی ضرورت نہیں ۔"ولید آیت کے کان میں بھی کہہ گیا۔مہر کو نجانے کیوں ان کا کپل مکمل لگا۔حالانکہ شاہ بخت اس کے پیچھے پاگل تھا مگر آیت آج کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔آیت کچن میں چلی گئی اور ملازمہ سے ٹیبل پر کھانا لگاونے لگی۔

"لگتا ہے ولید تمہیں کچھ زیادہ ہی پیار کرتا ہے۔"

مہر آیت کے ساتھ ہی ٹیبل پر پلیٹیں رکھتے ہوئے بولی۔

"اب میرا شوہر ہے تو ظاہری سے بات ہے مجھے پیار ہی کرے گا نہ اس کی خان بیگم ہوں میں تو۔ مجھے خان بیگم بنانے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔یقین کرو مجھے خوشی ہوتی ہے ولید کی خان بیگم بن کر۔ اس حویلی کا عیش و سکھ سب میرا ہے۔نہ ولید ساری عمر شادی کرے گا نہ اس حویلی کا سکھ میرے پاس سے جائے گا ۔تم خان بیگم بھی نہیں بن سکتی اب لالہ دستار کے حقدار تو ہیں نہیں ۔دھیان رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کوئی اور ہی لالہ کو لے اڑے بڑے دل پھینک ہیں ۔"

"اب تمہاری طرح تو نہیں ہوں میں شکر ہے۔پتا ہے ہسپتال جاتی ہوں وہاں ہائوس جاب اتنی اچھی چل رہی ہے مگر تمہیں دیکھو نہ لالہ کے حکم پر گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے۔"

"میرے لیئے میرا گھر ہی میری جنت ہے تم اپنی فکر کرو ۔سنا ہے جو عورتیں گھر پر دھیان نہیں دیتی شوہر کو کھانا وغیرہ بنا کر نہیں دیتی تو انہیں کسی اور کے ہاتھ کے ذائقے کی عادت پڑ جاتی ہے۔"

"تمہیں زیادہ پتا ہوگا شاید ولید سے بڑی جو ہو۔اسے قابو رکھنے کو تمہیں بہت جتن کرنے پڑتے ہوں گے۔اب ڈھلتی عمر کو بھی تو روکنا ہوگا نہ۔"

"بڑا ہی افسوس ہے مہر تم پر۔میرے پاس سب کچھ ہے مگر تمہارے پاس نہیں ۔کل کو تمہارے اور میرے بچے اسی حویلی میں کھڑے ہوں کے مگر لوگ جس کا نام لیں گے وہ خان ولید کے بچے ہوں گے تمہارے بچے تو شہری ہوں گے۔اپنے باپ دادا کی گدی کو سنبھالنے والے میرے بچے ہوں گے۔خیر تمہارا بہت شکریہ تم نے مجھے ولید دیا۔اس کی قربت بہت سکون بخش ہے۔مجھے اس کے پاس دنیا بھر کا سکون ملتا ہے جو شاید تم کبھی سمجھ پائو۔اپنے ساس سسر کو بلا لو کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا۔"

آیت نے سر پر ڈوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے مہر کو اور آگ لگائی۔یہ۔دونوں بچپن کی سہیلیاں بھی تھی مگر آیت مہر سے زیادہ خوبصورت تھی۔ضد میں کبھی کبھار آیت کی کوئی نہ کوئی چیز توڑ دیتی تھی مہر اور آج اس نے پوری کے پوری آیت کو ہی توڑ دیا تھا۔سانپ تھی یہ دوست کے روپ میں تو آج آیت نے اسے اس کی اصل اوقات دیکھائی تھی۔ ولید بھی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔آیت کی والدہ اور والد بیٹی کو دیکھ رہے تھے جس نے ان کو اور بابا جانی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ٹیبل پر سب کھانا ڈال رہے تھے۔شاہ بخت نے مہر کی پلیٹ  میں کھانا ڈالا۔

"ارے جان دل آپ کا ہاتھ جل ہوا ہے اور آپ کام کر رہی تھی یہ تو غلط بات ہے نہ۔آئندہ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے جو چیز آپ کے لیئے اچھی نہ ہو۔"

"خان بس چھوٹی سے چوٹ لگ گئی تھی۔"

آیت کو ولید کے اس انداز پر حیرت ہورہی تھی جو بہن اور آیت کے گھر والوں کے سامنے بدل گیا تھا۔

" میں تمہیں کھلا دیتا ہوں۔"

"خان سب دیکھ رہے ہیں ۔"

"ارے ان سے لیا شرمانا۔اب وہ زمانے گئے جب ہم کمروں میں چھپ چھپ کر بیوی سے  پیار کا اظہار کرتے تھے۔جب اس گھر کی بیٹیاں آواز اٹھا سکتی ہیں اپنی محبت کی خاطر تو بیٹے اپنی بیوی کو پیار کیوں نہیں جتنا سکتے۔ کیوں بابا جانی کیا کہتے ہیں آپ۔"

بابا جانی آگے سے مدہم سا مسکرائے۔ولید نے آیت کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانا شروع کیا۔شاہ بخت اور اس کے والدین خاموشی سے آیت کے ساتھ ولید کا لاڈ بھرا رویہ دیکھ رہے تھے۔مہر کو تو اندر سے آگ لگی ہوئی تھی شاہ بخت یوں سب کے سامنے اسے نہیں کھلا سکتا تھا ورنہ یہ ولید کو اچھا جواب دیتی۔ولید تمسخر سے ہنستے ہوئے مہر کی طرف دیکھنے لگا جیسے وہ اس کے دل کے جذبات جانتا ہو۔

"ولید بیٹا آیت کو بھیجو نہ کسی دن ہمارے گھر ۔مجھے آیت کی بہت یاد آتی ہے نہ یہ فون کرتی ہے نہ آتی یے۔ایسا لگتا ہے ہم نے بیٹی دی ہے تو اس سے ہمارا اب کوئی تعلق نہیں ۔"

"تعلق تو خیر سے واقع ہی نہیں ہے تائی۔فرصت  ملتے ہی آیت کو لائوں گا میں آپ کی طرف۔"آیت خاموشی سے کھانا ولید کے ہاتھ سے کھا رہی تھی۔مہر جو سب کو دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کی زندگی خوبصورت ہے اب اس کا غصہ آسمان چھو رہا تھا۔

"آیت آپ کمرے میں چلیں میں آرہا ہوں۔"

"بیٹا کچھ دیر اسے میرے پاس بیٹھنے دو نہ۔"

آیت کی والدہ نے بڑی امید سے ولی سے التجا کی ۔

"نہیں تائی وہ دی ہے نہ مہر آپ کو اس سے باتیں کر لیں ۔مجھے نیند آرہی ہے اور آیت کے بغیر میں کمرے میں نہیں جائوں گا اس لیئے سب سے معذرت۔"ولید آیت کو تھامے ٹیبل سے اٹھ گیا۔سب دیکھتے ہی رہ گئے۔آیت کی والدہ نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی۔کمرے میں آتے ہی ولید الماری سے ٹیوب نکال کر لایا۔

"اگر ہاتھ جل گیا تھا تو کھانا بنانے کی کیا ضرورت تھی۔"

معمولی سا ہے کچھ نہیں ہوگا خان۔"

"بیٹھو یہاں میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے۔"

ولید کا رویہ سخت تھا۔آیت نے خاموشی سے ٹیوب لگاوئی۔

"میں چینچ کر لوں ۔"

"نہیں بیٹھو یہاں پر۔اتنے دنوں بعد تیار ہوئی ہو ایسا لگتا ہے کہ ہر وقت ماتم کرتی رہتی یو۔بیٹھی رہو یہاں ۔"

آیت خاموشی سے بیٹھ گئی۔ولید نے کوئی کتاب کھولی اور آیت کا سر اپنے سینے پر رکھوایا۔آیت کو الجھن ہو رہی تھی مگر وہ ولید ہی کیا جو آیت کی بات مان جائے۔

"صبح میرا ٹیسٹ ہے دعا کرنا اچھا ہو۔"

"آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں خان۔"

"جی بلکل کمرے میں کوئی اور نہیں ہے۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم جان بوجھ کر مجھے احساس دلاتی ہو کہ شادی تمہاری مرضی کی نہیں ہوئی۔"

"نہیں خان ایسا نہیں ہے۔"

"ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے جو چیز ایک بار خان ک ہوتی ہے وہ کسی کے پاس نہیں ہوسکتی تم تو پھر میری بیوی ہو۔سو جائو تم میں رات دیر تک پڑھوں گا۔"

ولید نے آیت کے اردگرد ایک بازو رکھا ہوا تھا ۔آیت تھوڑی دیر بعد سو گئی تھی۔جب آیت سو گئی تو ولید نے اس لٹایا ۔آیت اسے بہت پسند تھی اگر مہر وہ سب نہ کرتی تو آیت اس کے پاس ہوتی اسی رشتہ سے مگر مقررہ وقت پر۔مہر اور شاہ بخت نے اس کے دل میں نفرت کی دیوار بنا دی تھی یہ انسان تھا جس کی نیچر ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے اسے صیح اور غلط نظر نہیں آتا ۔ایسے ہی اسے بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ آیت کہیں نہیں جائے گی اور یہ ہمیشہ اسے سب سے دور ہی رکھے گا۔

صبح صبح حویلی میں ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا۔آیت ناشتے کے بعد کمرے میں آئی ۔شیشے کے سامنے کھڑا ولید یونیورسٹی جانے کو تیار ہو رہا تھا۔ولید نے آئینے سے دیکھا کہ آیت اس کے کپڑے سمیت رہی ہے پھر یہ الماری کی طرف گئی ہے اور اس کی چیزیں رکھ رہی ہے۔ آیت اس ایسے ہی پسند تھی اپنے کام کرتے ہوئے پھر بہت جلد اس کے گھر بچے بھی آجاتے جن کے آگے پیچھے گھومتے ہوئے آیت کو شاید یاد بھی نہ رہتا کہ اس نے کیسا کیسا وقت گزرا ہے۔ولید نے آیت کو آواز دی کہ یہ اس کے پاس آئے۔

"آیت تم میری طرف دیکھتی بھی نہیں کیا تمہیں میری شکل سے نفرت ہے۔"

ایسا نہیں ہے خان ۔"

"لگتا تو ایسا ہی ہے۔تم مجھے بار بار اس چیز کا احساس دلاتی ہو کہ میں تمہارے اوپر مسلط کیا گیا ہوں۔بولو نہ آیت مجھے تمہارے منہ سے سننا ہے کہ تم میرے ساتھ خوش ہو۔"

"خان میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی پھر جیسا رویہ آپ نے شادی کی رات سے لے کر اب تک میرے ساتھ رکھا ہے مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی لڑکی ایسے حالات میں اپنے شوہر سے محبت کرسکتی ہے۔"

"آیت آیت تم کیوں چاہتی ہو میں تم پر سختی کروں۔تم مجھے اچھی لگتی ہو مگر مجھے عورتوں کا اپنے سامنے بولنا پسند نہیں ۔"

"خان آپ نے جو کہا ہے میں نے مانا ہے ۔کیا آپ کی طرف سے بھی اس رشتے کو نبھانا نہیں چاہیے ۔میری ہی ذمہ داری کیوں ہے کہ میں آپ کی ہر بات مانوں۔آپ بھی تو میرے کچھ لگتے ہیں اور آپ کا بھی فرض ہے بیوی کی بات کو مننا۔"

"میں نے تمہاری ہر ضرورت پوری کی ہے تمہارا ہر حق پورا کیا ہے۔"

"حقوق کی بات آپ مت کریں خان۔مردوں کو عورت سے اپنا حق تو لینا آتا ہے مگر جب بات فرائض کی آئے تو وہ شاید انہیں بھول ہی جاتے ہیں ۔آپ کو پتا ہے میرے نزدیک آپ کی اہمیت شاہد اتنی بھی نہیں کہ میں اپنی دل کی باتیں آپ کو پتا دوں کیونکہ آپ نے مجھے شاید اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ میں آپ سے اپنے دل کی کوئی بات کروں۔شوہر تو ایسا رشتہ ہے کہ جو ماں باپ کے بعد آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔شادی کی شروعات میں عورت کو جب سب کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کا شوہر اس کا ہاتھ تھام کر اس کی ہر پریشانی دور کرتا ہے۔آپ نے کیا کیا ہے میرے ساتھ خان۔"

"آیت۔۔۔۔۔۔"

ولید نے آیت کو کمر سے تھاما اور اپنے نزدیک کیا۔

"تمہیں پیار چاہیے نہ مجھ سے ،عزت چایئے نہ میں سب دوں گا میں۔ تم صرف میری ہی بن کر رہا گی صرف میری۔"

خان آپ مجھے پاگل لگتے ہیں ۔ایسے مرد کے ساتھ گزارہ بہت مشکل ہوتا ہے جو آپ کا رشتہ ساری دنیا سے توڑ دے۔آپ جانتے ہیں کبھی کبھی مجھے لگتا ہے دادی صاحب آپ کے ساتھ بہت زیادتی کر گئی وہ اپنا سارا زہر آپ میں بھر گئی۔انہوں نے آپ کو یہی سکھایا کہ مرد حاکم ہے حالانکہ آپ جیسے مرد تو عزت کے قابل ہی نہیں ہوتے۔"

ایک زور کا طمانچہ آیت کے منہ پر پڑا تھا۔

"تم مجھے گھٹیا کہو گی اب ولید خان کو گھٹیا کہو گی تم۔میری بیوی ہو کر تم میری تربیت پر سوال اٹھائو گی۔"

آیت نے اپنی آنکھیں صاف کی اور ہنس کر ولید کی آنکھوں میں جھانکا۔

"میں غلط نہیں ہوں غلط آپ ہیں ۔اگر آپ اس رشتے کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج یہ تھپڑ میرے منہ پر نہ لگتا۔آپ میری کہی بات کو اپنی انا پر چوٹ تصور نہ کرتے۔جو محبوب ہوتا ہے نہ وہ تو اپنے محبوب کی خاطر سب قربان کر دیتا ہے اور آپ ایک بات برداشت نہیں کر سکے۔"

ولید نے آیت کی بازو مڑور کے پیچھے کی۔ولید مرد تھا مضبوط چاہے چھوٹا تھا مگر آیت عورت تھی نازک تھی وہ کہاں اس کا مقابلہ کر سکتی تھی۔آیت کی چیخیں نکل گئی تھی۔

"چھوڑیں مجھے درد ہورہا ہے۔"

"آئیندہ تم اگر میرے سامنے بولی نہ تو تمہاری یہ زبان بولنے کے قابل نہیں رہے گی۔یہ بات اپنے دماغ میں ڈال لو یہاں اس حویلی سے لے جائوں گا تمہیں ہمیشہ کے لیئے اور ایک گھر میں رکھوں گا پھر ترس جانا تم اپنوں کی صورت دیکھنے کو۔رہنا تمہیں میرے ساتھ ہی ہے ساری عمر چاہے تم چاہو نہ چاہو"

ولید نے آیت کا بازو چھوڑا ۔

"جنگلی وحشی ۔۔۔۔"

"اپنی زبان کو سنبھال کر استعمال کرو خان بیگم ورنہ پھر میں نے جنگلی بن جانا ہے جو تمہیں اچھا نہیں گا۔جا رہا ہوں میں اور واپس آئوں تو مجھے تیار ملو یہ روتی دھوتی عورتیں مجھے زہر لگتی ہیں ۔"

ولید آیت کا آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہوا بولا۔ولید کے جانے کے بعد آیت باہر آئی۔پھوپھو آئی ہوئی تھی اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ۔یہ وہی شامیر تھا جس کے ساتھ آیت کا رشتہ ہونا تھا اور ساتھ میں وہی اقرا اس کی بہن آئی تھی جو شاہ بخت کے لیئے پسند کی تھی سب نے۔آیت اپنے آنسو چھپاتے ہوئے سب سے ملی۔پھوپھو کو آیت کے چہرے پر انگلیوں کے نشان نظر آگئے۔شامیر کی نظر بھی آیت کے چہرے پر تھی جہاں خشک آنسو اپنے نشان چھوڑ گئے تھے۔آیت کی ساس سمجھ گئی تھی کہ پھر کچھ ہوا ہے۔ 

آیت کی والدہ بھی پھوپھو کے بہانے ان سب کے ساتھ ہی آگئی کہ بیٹی سے ملاقات ہوجائے گی مگر بیٹی کا چہرہ دیکھ کر ان کا دل دکھ گیا۔آیت کچن میں گئی تو آیت کی ساس نے انہیں کہا کہ آیت سے مل لیں کچن میں ۔

"آیت میری بچی۔۔۔۔۔"آیت کی والدہ آیت کو پکارتے ہوئے اسے سینے سے لگا گئی۔آیت کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا اور اس نے اپنے ہاتھ بھی ماں کے اردگرد نہیں پھیلائے ۔

"میری بچی تجھے ولید نے مارا پے۔"

"کیوں آئی ہیں آپ یہاں تاکہ آج کی رات میں پھر اس سے سردی میں باہر گزاروں یا مجھے میرا شوہر اس سے بھی زیادہ بڑی سزا دے۔کیا یہ سزا کم نہیں تھی کہ آپ لوگوں نے میری شادی کر دی اب آپ لوگ کیوں آتے ہیں بار بار میرے پاس ۔یہ دیکھنے کے لیئے کہ جو سانسیں میں لے رہی ہوں وہ کیسے چھین سکیں ۔"

"نہیں میرا بچہ ایسا نہیں ہے۔نہ کر ایسی باتیں ۔"

"بس کر دیں امی آپ کو میرا خیال شروع سے نہیں تھا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔آپ نے ہمیشہ مجھ پر لالہ کو ترجیح دی۔یاد ہے کیا کہتی تھی آپ بہنیں بھائی سے حصے بھی نہیں لیتی بعد میں وہی بھائی ان بہنوں کو گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں ۔ان کا میکہ ختم کر دیتے ہیں ۔ بے وقوف ہوتی ہیں بھائیوں کے نام پر چھپ چھپ کر روتی ہیں میرے والوں سے ملنے کو اپنے بچوں کو نظر آزاد کرتی ہیں ۔ارے ایسے بھائیوں کو تو سخت سزا دینے چایئے مجھے دیکھیں آپ کے بیٹے کی محبت کے پیچھے دن رات ایک پاگل انسان کو سہتی ہوں۔شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک اس نے مجھے صرف اس بات کی سزا دی ہے کہ میرے بھائی کا خون ہے میری رگوں میں ۔میں اس کی بہن ہوں میری تکلیف سے وہ ٹرپے گا مگر میرا بھائی تو میری خیریت پوچھنے کے بجائے شہر میں بیوی سمیت بیٹھا ہے۔پوچھوں کی میں اس سے جب اس کی اولاد کے ساتھ یہ سب ہوا ہوگا۔"

"ہائے نہ کہہ بھائی کو ایسے۔بہنیں بھائیوں کے لیئے بہت کچھ کرتی ہیں ۔اپنی اولاد دوبارہ مل جاتی ہے ویر نہیں ملتے ۔"

"بس کر دیں امی۔یہ آپ کی زبان ہے کہ اولاد کو بھی قربان کر دو بھائیوں کے پیچھے۔مجھے نہیں چاہیے شاہ بخت جیسا بھائی میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر۔میں نے جتنی اذیت سہی ہے نہ اس کی وجہ سے میرے لیئے تو اس کا احترام بھی ختم ہوگیا ہے اس دل میں۔کہنا بڑا آسان ہے کہ بہنیں بھائیوں پر قربان ہوجاتی ہیں جب ایک تھپڑ پڑتا ہے نہ اس گال پر تو جو ذلت کا احساس ہوتا ہے وہ شاید کوئی سمجھ نہ سکے۔جائیں آپ یہاں سے مجھے جینے دیں۔نہیں چاہئے مجھے یہ نام نہاد ہمدردی۔دراصل آپ لوگ اس ہمدردی کو اس حویلی کی عورتوں کو دینے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں نہ کہ اس کے بغیر اب کسی کا گزارہ ہی نہیں ہوتا۔مجھے معاف کردیں ۔"

آیت ماں کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔اس کی ماں کیا کرسکتی تھی بقول ان کے ان کے پڑھاپے کا سہارہ تو بیٹا تھا اس کے خلاف چلی جاتی تو پڑھاپے میں کیا کرتی۔کچھ بھائی ہوتے ہیں جو سچ میں جان قربان کر دیتے ہیں بہنوں کی خاطر۔مگر شاہ بخت خود غرض تھا جس نے کچھ لمحات کے لیئے تو خوشی حاصل کر لی تھی مگر کسی کا دل دکھا کر اپنا مستقبل تاریک کر لیا تھا۔

_______________________

پھوپھو کا کھانا آیت لوگوں کی طرف ہی تھا۔آیت سارا دن ہی کچن میں رہی .

۔آیت جانتی تھی اس نے اگر پھوپھو کے بیٹے سے کچھ بات کر لی اور ولید نے دیکھ لیا تو نیا مسئلہ شروع ہوجائے گا اس کی ذات کے لیئے۔آیت کو بہت غصہ آتا تھا جب ولید اس کے ساتھ سب غلط کرتا تھا مگر یہ کیا کر سکتی تھی۔اس کا ہاتھ روک کر دیکھا تھا اس نے مگر اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ولید نے اسے اور زیادہ ٹارچر کیا تھا۔ویسے بھی آیت کے پاس کیا راستہ تھا۔یہ اپنے گھر نہیں جاسکتی تھی ایک عام لڑکی کی طرح کیونکہ یہ خان بیگم تھی اور اگر یہ چلی بھی جاتی تو کیا ہوجاتا اس کے اپنے اسے اسی وقت ہاتھ پکڑ کر واپس چھوڑ جاتے۔ان کے نزدیک اب بیٹی سے ان کا کوئی تعلق کوئی بھی نہیں تھا۔بابا جانی کو اس بات کی خوشی تھی کہ آیت کی جائیداد تو گھر میں ہی رہے گی ویسے بھی وہ اس حق میں بلکل بھی نہیں تھے کہ بیٹی جائیداد لے جائے ۔بیٹا ہر حق رکھتا تھا ان کے مطابق اور یہی معاشرے کے نجانے کتنے لوگوں کی سوچ تھی۔اگر بیٹی ماں سے بھی اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ مانگے تو اسے جو سننے کو ملتا پے وہ بہت درد ناک ہوتا ہے۔بد دعائیں دی جاتی ہیں اسے نافرمان کہہ دیا جاتا ہے ۔کس لیئے صرف اپنا حق مانگنے پر جو اس کا اپنا حق ہے کسی اور کا نہیں ۔کیوں نہیں سوچتے ماں باپ بیٹی کہ شادی کرنے سے پہلے کہ ان میں اور ان کے بچوں میں کتنا جنریشن گیپ ہے جو لڑکا انہیں اپنی بیٹی کے لیئے ٹھیک لگ رہا ہے وہ ان کی بیٹی کے لیئے شاید اچھا نہ ہو۔ایک بار وہ سوچیں کہ ان کی زندگی کا علم نہیں مگر ان کی بیٹی نے اب اسی گھر میں رہنا ہے ایک عمر گزارنی ہے مگر لڑکی کو سمجھدار نہیں سمجھتا جاتا کہ وہ اپنے لیئے فیصلے بہتر نہیں لے سکتی۔پھر جب وہ شادی کرتی ہے تو اسے سمجھدار کیوں کہتے ہیں کہ یہ ماں باپ کی عزت کو خراب نہیں کرے گی اور سب کچھ سہہ لے گی۔کیا وہ پہلے پاگل تھی ۔جو بچی تھی شادی کے بعد ایک دم وہ کیسے بڑی ہوگئی۔آیت یہی سب سوچ رہی تھی جب پھوپھو اس کے پاس آئی۔

"ارے میری بیٹی جب سے آئی ہوں کچن میں ہے۔لیا بھابھی تجھ سے بہت کام کرواتی ہیں ۔

""ارے نہیں پھوپھو انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا بس میرا اپنا دل نہیں لگتا کسی چیز میں  تو کھانا بنا لیتی ہوں ۔"

"میرا بچہ اداس ہے۔"

"پلیز پھوپھو مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ۔"

"بیٹا تو اپنی پھوپھو کو ایسا سمجھتی ہے جو تیرے زخموں پر نمک چھڑکیں گی۔میں بھی اسی گھر سے گئی ہوں میں جانتی ہوں اس گھر کی سب باتیں ۔تجھے مجھے بتانے کی بلکل ضرورت نہیں ہے۔میں تجھ سے یہی کہوں گی بس کچھ وقت گزار لے پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔"

"بس کر دیں پآپ سب لوگ ہر کوئی مجھے کہتا ہے کہ میں صبر کر جائوں۔کر تو رہی ہوں صبر۔آپ لوگ ولید کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ اپنی عادات کو بدلے۔کیا میں انسان نہیں ہوں ہر بار میں اپنی عزت نفس کو قربان کروں ۔مت آیا کریں میرے زخموں کو دیکھنے کے لیئے آپ سب لوگ ۔" آیت غصے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔آج اس کا موٹ پہلے ہی خراب تھا اب اور خراب ہوگیا تھا۔یہ بہت زیادہ روئی تھی اپنے کمرے میں ۔کھانے کے وقت رات کو اس کی آنکھ کھلی یہ سوئی تھی دوپہر میں ۔ولید اس کے ساتھ ہی بیٹھ کر کتاب پڑھ رہا تھا۔

"اٹھ گئی تم۔جلدی سے تیار ہو جائو سب انتظار کر رہے ہیں کھانے پر۔"

ولید نے آیت کا کندھا تھامنا چاہا جسے آیت نے غصے سے جھٹک دیا۔

"ہاتھ مت لگائیں مجھے۔"

آیت بیڈ سے اٹھ گئی۔تھوڑی دیر میں یہ تیار ہوئی۔ولید کے ساتھ یہ نیچے آئی جہاں سب بیٹھے ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے۔یہ شامیر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔سب باتیں کر رہے تھے جب شامیر نے اسے مخاطب کیا۔

"ویسے ولید تم نے آیت کو اجازت نہ دے کر ہائوس جاب کرنے کی اچھا نہیں کیا۔اگر میرے ساتھ آیت کی شادی ہوجاتی تو یہ آج ڈاکٹر بن چکی ہوتی مکمل دور پر۔تم شاید اس شادی کے لیئے راضی نہیں تھی ۔"

شامیر نے بھی اپنے اندر کا غصہ نکالا جو اس کی شادی نہیں ہوئی تھی آیت سے۔اس کی بھی بہن کا رشتہ ٹوٹا تھا ۔

"تمہیں ہمارے پرسنل معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں۔آیت تم کمرے میں جائو۔"

"ویسے ولید بڑی ہے تم۔سے آپ کہہ کر بلایا کرو۔"

پھوپھی کی بیٹی نے بھی آگ لگانا ضروری سمجھا۔ولید نے غصے سے اسے گھورا۔

"لگتا کے تم نے کچھ ہی عرصے میں عمر کو بڑھا لیا ہے اپنی جو یوں بڈھی عورتوں جیسی باتیں کرتی ہو۔آیت میری بیوی ہے اور میں اسے چاہے جو بھی بلائوں تم جیسوں سے مشورے کی ضرورت نہیں ۔"

ولید اٹھتے ہی آیت کا ہاتھ تھامے اسے لے گیا۔آیت کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کی زندگی اور بھی مشکل ہونے والی ہے۔

ولید آیت کو کمرے میں لایا اور اسے بیڈ پر پھینکا۔

"تم نے ہماری پرسنل باتیں اس شامیر کے ساتھ شئیر کی۔سمجھ لیا رکھا ہے تم نے مجھے دودھ پیتا بچہ ہوں میں ہاں کہ  لوگ کہہ رہے ہیں تم سمجھدار ہو اور میں تم سے عمر میں چھوٹا ہوں ۔"

ولید نے آیت کے بالوں کو زور سے تھاما۔آیت کو آج ولید سے سخت نفرت ہو رہی تھی۔اس نے پورا زور لگایا اور ولید کا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹایا ۔

"شرم آنی چاہیے آپ کو خان۔میں نے تو کبھی اس انسان سے بات بھی نہیں کی۔پورا دن میں کچن میں رہی وہاں اور پہلے بھی میں نے کبھی شامیر سے بات نہیں کی۔آپ کے دماغ میں یہ گند بھرا ہے جس کی وجہ سے آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔یہ آپ کا قصور نہیں ہے آپ نے اپنی بہن کو ہہ سب کرتے دیکھا ہے اس لیئے آپ کے دل میں ہر ایک لڑکی کے لیئے یہی گندگی بھری ہوئی ہے۔"

ولید نے آیت کو مارنے کے لیئے ہاتھ اٹھایا جسے آیت نے روک دیا ۔

"آج ہاتھ مت اٹھانا مجھ پر۔یہ لیمپ دیکھ رہے ہیں نہ یہی سر پر توڑ دوں گی آپ کے۔اگر میں اس رشتے کو نبھا رہی یہاں تو وہ میری مجبوری ہے آپ کی بد کردار بہن کی محبت اور عشق مشعوقی کی بدولت مجھے قربانی دینی پڑی۔یہ تھپڑ مجھے نہیں اسے مارنے تھے نہ بھرے مجمے میں جب وہ اپنی کلائی پر چاقو لیئے کھڑی تھی۔ارے اسے روکتے نہ اس کی پسند سے شادی کرنے سے۔بزدل ہیں آپ خان بہت بزدل روز مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔میرا اور کوئی گھر نہیں ہے آپ یہ بھی جانتے ہیں اسی لیئے سب کچھ کرتے ہیں میرے ساتھ تو میں آپ کو پتا دوں کل کو اپنی بیٹی کو بھی شادی کے بعد کہہ دینا تمہارا شوہر تمہیں مارے جو مرضی کرے اس میں ہمارا عمل دخل نہیں ۔میں کہتی ہوں آپ جیسے مرد اپنی بیٹیوں کو تو سنبھال کر رکھتے ہیں مگر دوسروں کی بیٹی کیا کچرے سے اٹھائی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ یہ سب سلوک کرتے ہیں آپ ۔نفرت ہوتی ہے مجھے آپ سے۔"

"تم مجھے یہ سب باتیں سنائو گی مجھے ولید خان کو۔تم نے مجھے سمجھ کر کیا رکھا ہے ہاں۔"

"بزدل عورت پر ہاتھ اٹھانے والا ہوتا ہی بزدل ہے۔وہ۔کمزور ہے اپنے دفاع کے لیئے کچھ نہیں کرسکتی ۔میرے دل سے اتر چکے ہیں آپ ۔مرد کا ایک تھپڑ عورت کی نظر میں مرد کو اونچائی سے بہت نیچے گرا دیتا ہے۔یہ ہر تھپڑ میرے لیئے ذلت ہے مگر یہ بار یاد رکھیں خان یہ ذلت صرف میری نہیں آپ کی بھی ہے کہ آپ ایک کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔"

آیت ولید کے ہاتھ چھڑا کر باہر بھاگ گئی تھی۔ولید نے پاس پڑے ہوئے ٹیبل سے گلدان اٹھائے اور نیچے پھینک دیئے۔ولید نے اپنا سر پکڑ لیا۔جتنا یہ آیت کو ڈرا دھمکا کر خود کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا اتنی وہ اس سے دور ہورہی تھی۔دادی صاحب جو اس  کی دادا سے 10 سال چھوٹے  تھے انہوں نے ہمیشہ دادا پر روپ ہی جمایا تھا ۔دادی کے سامنے کبھی دادا بولے بھی نہ تھے۔آدھے سے زیادہ جائیداد ان کی تھی اس لیئے ان کا روپ تھا ۔دادی کی وجہ سے اس حویلی میں بہت کچھ خراب ہوا تھا۔جب آیت اور ولید کی شادی ہوئی تو دادا نے اس سے کہا تھا کہ یہ دادا صاحب کی طرح ہرگز آیت کو کھلی چھوٹ نہ دے۔کل کو آیت اسے بچہ سمجھے گی اور ساری زندگی خراب ہوجائے گی اس کی۔بابا جانی کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہ یہ بات کر کے اپنی پوتی کی ہی زندگی خراب کر رہے ہیں ۔ولید نے بچپن سے اپنی ماں کو باپ سے مار کھاتے دیکھا تھا۔وہ کبھی روئی نہیں تھی کسی کے سامنے اپنے میاں کو لے کر۔وہ چاہے انہیں جوتے بھی مار لیں مگر وہ کبھی ناراض نہیں ہوئی تھی۔آیت کے ساتھ سلوک میں زیادہ ہاتھ ولید کی تربیت کا تھا جس میں عورت پر حکمرانی ہی سیکھائی گئی تھی ۔ولید اس وقت سخت غصے میں تھا اس لیئے یہ باہر نکل گیا۔آیت بھی لان میں چلی گئی تھی۔آیت کو ولید پر بہت زیادہ غصہ تھا آخر کو یہ بھی انسان تھی آج کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ کچھ بھی برداشت نہیں کرے گی چاہے رشتے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔مہر بہت خاموشی سے اس حویلی سے چلی گئی اور وہ بہتریں زندگی گزار رہی تھی تو یہ کیوں اس کی خاطر سب سہتی۔اس نے اپنی دوست فاریہ کو کال کی گھر کے نمبر سے کال کی

"بے وفا یاد آگئی تجھے میری۔شادی کیا ہوگی تیری تو غائب ہی ہوگئی ہے۔"

جواب میں آیت نے رونا شروع کر دیا۔

"ارے کیا ہوگیا تجھے کیوں رو رہی ہے۔کیا ہوا ہے بتا نہ۔"

"میری شادی نہیں ہوئی فاریہ میرا سودا ہوا ہے۔میرا سودا کرنے والے اور کوئی نہیں میرے اپنے ہیں ۔تم جانتی ہو میں سخت اذیت میں ہوں میں پل پل مر رہی یہاں میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے خود کو اس اذیت سے باہر نکلنے کا۔"

"کیا ہوا ہے مجھے بتا تو سہی ۔"

آیت اسے سب کچھ بتاتی گئی اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی۔

"تو پریشان مت ہوں کل ہی آتی ہوں میں تیرے پاس۔ویسے بھی بابا نے کہا تھا کہ ہم نے سوات جانا ہی ہے تو تجھ سے ملتے ہوئے جائوں گی ۔میں کل ہی آتی ہوں یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے تیرے خاندان والوں نے ہاں۔جیتی جاگتی انسان ہے تو میں بھی تو دیکھوں ذرا کیا کرتے ہیں سب لوگ۔"

آیت کو بہت حوصلہ ہوا تھا فاریہ سے بات کر کے۔آیت ولید کا انتظار کیئے بغیر ہی کمرے میں چلی گئی اور چپ چاپ بستر پر سو گئی۔اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ یہ ولید کو اب دوبارہ برداشت کرتی۔___________________________

مہر کی نائٹ ٹیوٹی تھی۔یہ ہسپتال سے آئی تو رات کے دو بج رہے تھے۔شاہ بخت ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ملازم سب سونے جا چکے تھے۔ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ شاہ بخت یوں رات گئے گھر سے باہر رہتا۔مہر ساری رات گھر میں پریشان رہی۔پانچ بجے کے قریب شاہ بخت گھر آیا مگر کوئی لڑکی تھی اس کے ساتھ جس نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔لاوئنج میں بیٹھی ہوئی مہر کو تو آگ ہی لگ گئی۔

"کون ہو تم اور شاہ بخت کے ساتھ کیا کر رہی ہو۔"

"میڈیم میں نے انہیں کلب میں دیکھا تو ان سے ان کا پتا پوچھا اور انہیں چھوڑنے آگئی۔آپ کے شوہر نے شراب پی رکھی ہے شاید کلب میں کوئی پارٹی چل رہی تھی تو انہوں نے کچھ زیادہ ہی پی لی۔"

"ٹھیک ہے جائو تم۔"

شاہ بخت کو سہارا دے کر مہر کمرے میں لائی۔یہ حیران ہوگئی کہ شاہ بخت شراب بھی پیتا ہے اس کو تو یہ بات معلوم ہی نہیں تھی۔مہر کو صبح کا بے چینی سے انتظار تھا۔

________________________

صبح شاہ بخت کی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے ہی صوفے پر مہر بیٹھی ہوئی تھی۔

"ارے میری جان نے آج ہسپتال نہیں جانا تھا۔"

"نہیں میری آج ڈیوٹی نہیں ہے۔شاہ بخت آپ نے رات کو شراب پی تھی۔"

شاہ بخت نے مہر کی طرف دیکھا پھر ہنستے ہوئے بولا ۔

"بے بی یہ چیزیں عام سی ہیں تم ان چیزوں کو زیادہ مت دیکھو ۔ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہ سب عام ہے۔"

"مگر شاہ بخت مجھے یہ سب نہیں پسند۔مجھے زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو شراب پیتے ہیں ۔"

"اب کیا کر سکتے ہیں بے بی تمہارے لیئے میں اپنی عادات تو نہیں بدل سکتا نہ۔کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جب کے ساتھ بیٹھ کر ان کی طرف سے کیئے جانے والے تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔"

"مگر میں یہ سب برداشت نہیں کروں گی شاہ بخت۔

"شاہ بخت مہر لے قریب آیا اور اس کی تھوڑی تھامی۔

"میری جان تمہیں یہ سب برداشت کرنا ہے اب کیونکہ تم میری بیوی ہو۔میں نے تم سے شادی تمہاری ہی پسند سے کی ہے تم جانتی تھی کہ حویلی کے باہر میری ایک دنیا ہے۔اب تمہیں ایسے ہی رہنا ہے۔مجھے سوال جواب کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے۔تمہیں میرا پیار مل رہا ہے نہ اس سے زیادہ کی توقع کرنا مجھ سے کہ میں عام مردوں کی طرح تمہاری ہر بات مانوں گا۔مجھے ذرا دیر ہورہی ہے میں آتا ہوں ۔"

مہر کو شاہ بخت پر بے تحاشا غصہ آیا تھا مگر یہ کر بھی کیا سکتی تھی۔اب اس نے خود ہی اپنی پسند سے شادی کی تھی اب یہ اعتراض بھی نہیں کر سکتی تھی۔

__________________  

صبح صبح آیت کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ولید کے بازو کے حلقے میں پایا۔اس لمحے اس کا دل کیا کہ ولید کو اٹھا کر کوئی چیز مارے۔یہ ولید کا بازو ہٹاتے ہوئے اٹھ بھی گئی۔

"آیت۔۔۔۔۔"

ولید نے اسے نیچے اترنے سے روک لیا۔

"چھوڑیں مجھے خان۔"

"سوری۔۔۔۔۔میں تم سے اپنے رویے کی معافی مانگتا وہاں مجھے تمہارے ساتھ اتنا سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔تم میری بیوی ہو تو ۔۔۔۔"

"تو کیا ایک سوری وہ ساری ذلت مٹا دے گا جو میں نے برداشت کی ہے ہرگز نہیں ۔میں آپ کو معاف نہیں کروں گی ۔"

"آیت دیکھو پلیز میرے لیئے معافی مانگنا بہت مشکل کے۔مجھے معافی مانگنا نہیں سیکھایا گیا ۔پلیز میری بات کو سمجھو۔"

"میں کیا سمجھوں کہ اگر آپ کو کچھ نہیں سکھایا گیا تو وہ بھی میری ہی غلطی ہے۔اپنی خامیوں کو چھپانے کا اچھا ذریعہ ہے خان مگر مجھے یہ باتیں اب اٹریکٹ نہیں کرت۔میری طرف سے جو مرضی کریں اب آپ۔"

آیت اس کا ہاتھ چھڑا کر اٹھ گئی۔ولید کے لیئے سچ میں آیت سے معافی مانگنا بہت مشکل تھا مگر اس نے معافی مانگی ۔شاید آیت کے دل کے زخم اب اتنے بڑھ گئے تھے کہ ولید جتنی مرضی کوشش کر لیتا وہ اسے اب معاف نہیں کرنے والی تھی۔_____________

آیت کی دوست فاریہ اس سے ملنے کے لیئے آگئی تھی۔فاریہ کے گلے لگ کر آیت نے اسے اپنے سارے غم بانٹ لیئے۔فاریہ اس چپ کروا رہی تھی۔

"تم نے اسے برداشت ہی کیوں کیا۔دو جوتے لگانے تھے جب پہلی بار اس نے تم کر ہاتھ اٹھایا تھا۔تم بھی گھریلو عورتوں کی طرح چپ چاپ اس کا ظلم سہتی رہی ۔مجھے سمجھ نہیں آتا تم نے اتنی تعلیم کیسے حاصل کی ہے ہاں۔"

"میں کیسے آواز اٹھائیں فاریہ۔یہ تمہارے بابا نہیں ہیں جو تمہاری یر بات مانتے ہیں یہ میرا گھر ہے۔یہاں بیٹی کی کوئی اہمیت نہیں ہے مجھے پڑھایا لکھایا بھی اسی لیئے گیا تھا کہ کل کو اس آنے والے زمانے میں کوئی اس حویلی پر انگلی نہ اتنا پائے کہ یہ لوگ عورتوں کو پڑھنے نہیں دیتے ۔اس حویلی میں، میں کوئی پہلی لڑکی تو نہیں   جس کے ساتھ یہ سب ہوا ہے۔"

"ویسے وہ ہے کہاں تمہارا شوہر ذرا میرے سامنے تو آنے دو۔ دو ہاتھ کروں اس سے۔آخر اس نے سمجھا کیا ہوا ہے خود کو کوئی بہت بڑی چیز ہے وہ۔"

"فاریہ میں نے کل اس کا ہاتھ روکا اور مزے کی بات ہے آج صبح اس نے مجھ سے معافی مانگی۔میں نے تو اس دن سے اس سے نفرت شروع کر دی تھی جب میرے چہرے پر پہلا تھپڑ مارا تھا اس نے۔مجھے سخت برا لگتا ہے وہ اب"

"آیت اگر اس نے معافی مانگی ہے تو اسے ایک اور موقع دے کر دیکھو ۔ہوسکتا ہے وہ سدھر جائے۔"

"وہ سدھرنے والا نہیں ہے ۔"

"میری بات مانوں ایک آخری بار اس رشتے کو دو ۔وہ ابھی چھوٹا ہے تم سے بہت اس میں میچورٹی شاید ویسی نہیں ہے جیسی تم میں ہے ۔عورت کا کام ہی یہی ہوتا ہے سب کچھ بھول کر آگے بڑھانا تمہیں بھی یہی کرنا ہے۔اچھا یہ تمہاری طبیعت مجھے کچھ بدلی ہوئی لگ رہی ہے کہیں کچھ خوش خبری تو نہیں ۔"

"پتا نہیں میں ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی۔"

"تم خود ایک ڈاکٹر ہو  تمہیں پتا چل جانا چاہیے ۔خیر میں بھی تو ڈاکٹر ہوں میں تمہیں چیک کر دیتی ہوں۔مجھے لگتا ہے تم امید سے ہو۔"

فاریہ نے گاڑی میں پڑا ہوا اپنا میڈیکل کا سامان منگوایا جو اس نے اپنے گائوں لے جانا تھا وہاں کے ہسپتال کے لیئے ۔تھوڑی دیر بعد آیت کو فاریہ نے خوش خبری سنا دی تھی ۔

"مبارک ہو امید سے ہو تم۔"

"پتا نہیں فاریہ مجھے خوشی نہیں ہورہی۔"

چھوڑ دو سب کچھ اور خود کا دھیان رکھو اب۔بھول جائو اپنے شوہر کو تم اور اب اس کو اہمیت ہی نہ دو۔تمہارے پاس اتنا پیار تحفہ جو آنے والا ہے۔اسے احساس دلائو کہ اگر وہ تمہارے ساتھ یہ سلوک رکھے گا تو تم بھی اس کو اپنے بچے کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دو گی۔مجھے دیر ہورہی ہے اب میں چلتی ہوں پھر۔دوبارہ آئوں گی سوات سے واپسی پر تم سے ملنے۔"

فاریہ جا چکی تھی ۔آیت کو فاریہ کے ساتھ ہونے سے بہت زیادہ حوصلہ ہوا تھا۔اب  اس کے پاس اس کا بچہ تھا ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ کوئی بات برداشت نہیں کرے گی ولید کی۔

آیت نے اپنی ساس کو اپنے امید سے ہونے کا بتا دیا۔وہ بہت زیادہ خوش تھی ۔یہ بات سب کو پتا چل گئی حویلی میں ۔بابا جانی نے باقاعدہ صدقہ خیرات کی کہ اگلا حویلی کا وارث آنے والا ہے۔ولید جب رات کو حویلی آیا تو اسے سب سے یہ بات پتا چلا۔یہ کمرے میں گیا تو آیت لیٹی ہوئی تھی۔ولید چلتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"اتنی بڑی خوشی پر سب سے پہلے میرا حق تھا وہ تم نے لوگوں کو بتا دی کیوں آیت ۔"

آیت نے ولید کی طرف رخ موڑا۔

"تو ایسا کریں اس بات پر بھی دو چار لگا دیں ۔آپ یہی تو کرتے آئے ہیں اس کے علاوہ آپ کر بھی کیا کرسکتے ہیں ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کو ہر بات میں اعتراض ہے اب اس بات کو لے کر بھی مجھے ماریں گے آپ۔"

"مجھے غلط مت سوچو خان بیگم۔میں اس خوشی کو تمہارے ساتھ ماننا چاہتا تھا۔تمہیں میری ہر بات ہی غلط لگتی ہے کبھی میری باتوں کو سیدھے طریقے سے بھی لے لیا کرو۔"

"آپ نے کوئی راستہ چھوڑا ہے۔خیر میں اس وقت بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔اگر آپ کو بھوک لگی ہے تو باہر جائیں چچی سے کہہ دیں وہ آپ کو کھانا دے دیں گی مجھ سے کچھ نہیں ہوگا آج۔طبیعت ٹھیک نہیں میری۔"

ولید نے آیت کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

"تم نے کھانا کھایا ہے خود۔"

"میرا موٹ نہیں ہے۔"

"یہ کیا بات ہوئی اٹھو کھانا کھائو میرے ساتھ۔تمہیں پتا ہے مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں اور یہ تو میرا بہت پیار بچہ ہوگا ۔"

ولید نے آیت کے پیٹ پر ہاتھ رکھنا چاہا۔

"خبردار جو مجھے چھوا بھی تو۔میرے بچے تک بھی تو وہ احساسات پہنچنے چاہیں نہ جو میں محسوس کرتی ہو۔مجھے ہاتھ بھی مت لگانا اب آپ خان۔"

"کیوں میرا بھی بچہ ہے یہ۔تم اپنے گھر سے لائی تھی اسے۔"

"جیسے میں تو جانتی ہی نہیں نہ یہ سارا پیار محبت بیٹے کے لیئے ہے اگر بیٹی ہوگئی تو اسکا نصیب بھی دوسری آیت کی طرح ہوجائے گا۔"

"فضول باتیں مت کیا کرو آیت۔اٹھو میں تمہیں کھانا کھائے بغیر نہیں سونے دوں گا۔کل ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔"

آیت خاموشی سے اٹھی اور ہلکا پھلکا کھا لیا ۔سونے کے وقت ولید کی عادت تھی یہ آیت کو اپنے ساتھ لگا کر سوتا تھا ۔اس نے آیت کو اپنے قریب کرنا چاہا مگر آیت نے پھر اس کا ہاتھ جھٹکا دیا ۔

"کہا ہے نہ قریب مت آئیں سمجھ نہیں آتی ۔نہیں اچھا لگتا مجھے جب آپ آتے ہیں میرے قریب۔"

"یہ کیا حرکت ہے آیت ایسے کوئی کرتا ہے ۔"

"ایسا ہر اس عورت کو کرنا چاہیے جس کا شوہر بے حس لوگوں کی خاطر اسے بات بات پر مارتا ہے۔"

آیت پلیز میں نے سوری کی ہے نہ۔"

"مجھے فرق بھی نہیں پڑتا ۔"

آیت نے کروٹ بدل لی اور تکیہ بازو میں کھینچ کر تھوڑی ہی دیر میں سو گئی۔ولید نے آیت کے بال پیچھے کیئے پھر اس کی نیند کا فائدہ اٹھا کر اسے اپنے سینے سے لگایا ۔

"بے بی ماما بہت زیادہ غصہ ہیں نہ۔بابا مانا لیں گے آپ جلدی سے آجائو۔آپ تو مجھے جانتے ہو نہ۔ماما آپ کو مجھ سے دور نہیں کر سکتی آپ تو میرے چھوٹے سے چمپ ہوگے نہ۔ آپ چھوٹی سی گڑیا بھی تو ہوسکتے ہو نہ ننھی سے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی ۔"

ولید نے جھک کر آیت کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر سکون سے سو گیا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے اپنے ہی رویے سے آیت کو خود سے بہت دور کر دیا ہے۔ 

_________________________

مہر آج جلدی فارغ ہوگئی تھی ہسپتال سے تو اس نے شاہ بخت کے آفس میں آنے کا سوچا۔یہ آفس آئی تو اسے بہت سے لوگ جانتے تھے۔اسے شاہ بخت کا آفس بھی پتا تھا۔یہ سیدھے آفس میں چلی گئی۔مگر آفس کا دروازہ کھولتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔شاہ بخت کو ایک لڑکی اس پر جھکی ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔شاہ بخت کی ٹائی بھی اس وقت کھلی ہوئی تھی۔

"شاہ بخت۔۔۔۔۔۔۔"

لڑکی پیچھے مڑی تو مہر اسے فورا پہچان گئی۔یہ شاہ بخت کی سیکرٹری تھی۔

"اچھا تو میرے پیچھے یہ سب کام بھی ہوتے ہیں ۔"

"مہر تو غلط سمجھ رہی ہو آئو یہاں پر واپس۔"

شاہ بخت اپنی جگہ سے نہیں اٹھا جبکہ اس نے لڑکی کو اشارہ کیا کہ۔یہ باہر چلی جائے۔مہر اندر آئی اور آتے ہی سب سے پہلے اس نے باہر جاتی لڑکی کے چہرے پر تھپڑ لگائے۔

"شرم نہیں آتی کسی شادی شدہ مرد کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے۔اگر اتنی ہی آگ لگی ہوئی تھی تو کوئی ڈھونڈ لیتی نہ جو تمہاری قیمت اچھی ادا کر دیتا۔"

سیکرٹری بھی کافی ڈھیٹ تھی۔

"ارے جتنی قیمت آپکے شوہر ادا کرتے ہیں اور کوئی کرسکتا ہے کیا میڈیم۔ اب سر اتنے ہینڈسم ہیں تو ان پر صرف آپ کا ہی حق نہیں ہے باقی لڑکیوں کو بھی ان سے فائدہ حاصل کرنے دیں ۔"

"شٹ اب۔"

مہر نے ایک اور تھپڑ اسے مارا۔شاہ بخت کھڑا ہوگیا۔

"مہر یہ کیا حرکت ہے ۔وہ صرف میری جاننے والی ہے سیکرٹری ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔"

"بس کر دیں شاہ بخت نظر آرہا ہے یہ مجھے آپ کی کیا لگتی ہے۔آپ کو ذرا احساس نہیں ہوا کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں۔میں نے آپ کے لیئے سارے خاندان کی مخالفت مول لی اور آپ یہاں یہ سب کرتے پھر رہے ہیں ۔شرم آنی چاہیے آپ کو۔"

"دیکھو مہر ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اس قسم کی دوستیاں عام ہوتی ہیں ۔تمہیں اب ان سب چیزوں کی عادت ڈال لینی چاہیے ۔"

"میں کیوں ڈالوں ان سب چیزوں کی عادت۔آپ یہ مت بھولیں کہ آپ کی بہن  میرے بھائی کی بیوی ہے آپ میرے ساتھ یہ سب کریں گے تو اسے بھی میں حویلی میں راج نہیں کرنے دوں گی۔"

مہر واپس چلی گئی۔شاہ بخت بے شک مہر سے بہت محبت کرتا تھا مگر یہ اپنی ایسی زندگی چھوڑ نہیں سکتا تھا اور اسکو لگتا تھا کہمہر اسے سمجھے گی۔کچھ دنوں سے مہر نے یہ ظاہر کیا تھا کہ یہ بھی حویلی کی عورتوں کی طرح ہے تنگ نظر مگر ایسا نہیں تھا وہ ٹھیک تھی مگر کہتے ہیں جب آپ کسی کو تکلیف دے کر آگے آتے ہیں تو پھر کامیابی کیسی ۔

__________________

آیت چچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔حویلی میں کچھ عورتیں آئی تھی کچھ ہاتھ سے کڑھائی ہوئے کپڑے لے کر ۔ آیت چچی کے ساتھ ان میں سے سوٹ پسند کر رہی تھی۔ویسے بھی اب تو ظاہر ہونے لگا تھا کہ یہ امید سے ہے اور اس کا وجود بھاری ہوگیا تھا۔

"بی بی جی آپ تو بڑی پیاری ہوگئی ہیں ۔بہت خوبصورت ہوتی جارہی ہیں جی دن بدن۔"

"ارے کیوں نہیں ہوگی ولید خان اتنا خیال جو رکھتے ہیں اس کا۔دیکھنا میری بہو بہت پیاری ہے کیسے اس حویلی کو بچوں کی قلقاریوں  سے بھرے گی۔"

چچی نے آیت کے سر پر ہاتھ پھیرا۔آیت سوٹ دیکھ رہی تھی جب مہر حویلی میں آئی ۔اس کے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا۔

"ارے مہر بیٹا ۔"

چچی کھڑیں ہوگئی۔مہر نے انہیں دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا اور ان کے گلے لگ کر ایسے برے طریقے سے روئی کے پاس بیٹھی عورتیں بھی ڈر گئی ۔آیت نے فورا ہی انہیں باہر پیچھا۔

"بتائو تو بیٹا ہوا کیا ہے ۔"

"مورے شاہ بخت کے اور لڑکیوں سے تعلقات ہیں ۔وہ کہتے ہیں وہ ان کی زندگی ہے نہیں بدل سکتے وہ ۔میں نے خود انہیں ایک لڑکی کے ساتھ پکڑا پے۔"

آیت تو اسکی بات سنتے ہی حیران ہوگئی۔کہاں وہ مہر تھی جو شاہ بخت کے پیچھے پاگل تھی اور کہاں یہ مہر تھی۔

"اس نے ہی ضرور شاہ بخت کو ولید کے رویے کے بارے میں کچھ کہا ہوگا۔اس سے تو میری خوشیاں دیکھی نہیں جاتی نہ۔میرا بھائی اسے منہ نہیں لگاتا۔دیکھنا آنے دو میرے بھائی کو اسے بھی گھر سے نکلواتی ہوں ۔"

خیر آیت کو مارنے کے لیئے آگے آئی۔چچی نے فورا اسے پکڑ لیا ۔

"دماغ خراب ہے تمہارا ۔امید سے ہے وہ ولید کو پتا چل گیا تو تمہاری کھال الھاڑ کر رکھ دے گا۔وہ اس کا بہت خیال رکھتا ہے اور تم اسے مارنے چلی ہو۔ تم نے خود ہی شاہ بخت کو پسند کیا تھا۔اس وقت کتنا منع کرتے تھے سب تمہیں تو اب کس بات کا شور ہے۔"

"ارے مورے آپ نہیں جانتی میں اس ڈائین کو اچھے سے جانتی ہوں۔خود کی شادی چھوٹے لڑکے سے ہوگئی نہ جو اس کو اہمیت نہیں دیتا آخر کو بوڑھی جو ہورہی ہے اس لیئے اس نے شاہ بخت کو میرے خلاف لیا ہے۔میں اسے اس گھر میں برداشت نہیں کروں گی۔ کہیں ولید سے اسے گھر سے باہر کرے۔"

"آیت بیٹا تم کمرے میں جائو یہ تو پاگل ہوگئی ہے۔"

آیت جو حیرانی سے اتنی دیر سے سب دیکھ رہی تھی وہ چچی کے کہنے پر فورا کمرے میں چلی گئی۔اس وقت یہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ دو جانیں تھی۔اسے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اس کے دو بچے ہیں جس کی وجہ سے اسے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ۔اس عرصے میں ولید نے اسے اپنا ایک الگ ہی روپ دیکھایا تھا۔وہ سختی کرتا تو اس لیئے کہ یہ اپنا خیال نہیں رکھ رہی تھی۔مگر اب آیت کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا وہ جو مرضی کرے کیونکہ اب اس کے پاس اس کے بچے آنے والے تھے جو اس کی گل کائنات تھی۔مگر مہر کی باتوں نے اسے ڈرا دیا تھا اگر آیت کو مہر کے کہنے پر ولید نے نکال دیا تو جیسے مہر کے کہنے پر ہی ولید نے اس سے شادی کی تھی ۔کمرے میں بیٹھے ہوئے آیت کا سوچ سوچ کر بڑا حال تھا۔اس نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا جو یہ اکثر دو بار کھاتی تھی ایک پہلے اور ایک ولید کے ساتھ ۔

آیت کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا کرے۔آج ولید کا امتحان تھا کہ وہ کیا کرتا بہن کی خاطر بیوی کو میکے چھوڑ آتا یا اس کا مان رکھ لیتا ۔آیت کا مان کسی نے نہیں رکھا تھا مگر اسے ولید سے امید تھی کہ شاید وہ اس کا مان رکھ لے.ولید حویلی آیا تو اسے حویلی میں خاموشی کا احساس ہوا۔یہ ابھی اپنے کمرے کی طرف ہی جارہا تھا کہ اسے اپنی ماں کی آواز آئی۔

"بیٹا کمرے میں آئو تم سے کوئی بات کرنی ہے۔"

ولید اپنی ماں کے کمرے کی طرف چلا گیا۔یہاں آیت کی والدہ اور والد بھی تھی۔ساتھ میں بابا جانی اور مہر کے والدین بھی تھے۔

"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ۔آیت تو ٹھیک ہے۔"

"آیت ٹھیک ہے مگر تمہاری بہن ٹھیک نہیں ولید۔تم جانتے ہو ولید،شاہ بخت نے مجھے دھوکا دیا ہے اس کے اور گئی لڑکیوں سے تعلقات ہیں ۔میں اس کا گھر چھوڑ کر آئی ہوں۔ تم بھی اس کی بہن کو واپس گھر بھیجو تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آئے۔"

ولید پہلے تو مہر کی بات سن کے خاموش رہا۔

"تمہیں کس نے کہا دیا کہ میں اپنی دل جان سے عزیز بیوی کو تماری خاطر چھوڑوں گا وہ بھی اس وقت جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔"

"کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ولید۔بھائی تو بہنوں کی خاطر کچھ بھی کرجاتے ہیں ۔تمہاری بیوی اپنے ماں باپ اور بھائی کو تمہاری باتیں بتاتی ہے جس کی وجہ سے شاہ بخت مجھ سے بدلہ لے رہا ہے۔یہ تائی بھی سب میں شامل ہیں ۔"

بابا جانی اور سب حیران ہو رہے تھے کہ مہر کیسے الزام لگا رہی ہے۔

"اپنی زبان کو قابو میں رکھو مہر ہماری تو بات ہی نہیں ہوئی اپنی بیٹی سے پچھلے چھ سات ماہ سے جب سے اس کی شادی ہوئی ہے۔شاہ بخت سے وہ پہلے بھی بات نہیں کرتی تھی اب کیا کرے گی۔ولید بیٹا ہماری بیٹی کا کوئی قصور نہیں ۔"

آیت کی والدہ نے ولید کو سمجھانا چاہا کہ کہیں ولید غصے میں ان کی بیٹی کو مارنے ہی نہ لگ جائے۔

"تائی آپ آیت کو لے کر آئیں ۔"

آیت کی والدہ فورا اٹھی اور اپنی بیٹی کو لے آئی ۔

"لو آگئی ہے یہ ولید اس سے پوچھو کیا پٹیاں پڑھاتی ہے میرے شوہر کو کہ وہ مجھ سے اس قدر بد گمان ہوگیا ہے۔"

مہر پھر آیت کو مارنے اٹھی اب کی بار ولید نے اسے بازو سے پکڑا اور زوردار طمانچہ مارا۔

"خبردار جو آئیندہ میری بیوی کے بارے میں اپنی غلیظ زبان سے ایک لفظ بھی کہا تو۔تم نے خود اپنی پسند سے اس شخص سے شادی کی ہے۔یاد ہے کتنا سمجھایا تھا تمہیں میں نے کہ وہ بدکردار آدمی ہے تمہارے قابل نہیں مگر تمہارے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا۔اب بھگتو میں آپ سب کو پتا دینا چاہتا ہوں کہ آیت اور میں جیسے مرضی رہیں مگر کسی کو حق نہیں کہ میری خان بیگم کو کچھ کہے یا اس کی طرف قدم بھی بڑھائے۔ میں لحاظ نہیں کروں گا کسی کا بھی اگر کوئی میری دل جان کے خلاف بولا۔آیت آئیندہ مہر تمہیں  کچھ بھی کہے تو میرے کہے بغیر اسے اس حویلی سے باہر پھینک دینا۔شادی اس نے اپنی مرضی سے کی تھی اب ہم ذمہ دار نہیں ہیں اس کے۔چلو آیت میری جان نے اپنا حال خراب کر لیا ہے۔"

ولید آیت کو اپنے حصار میں لے کر اپنے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔مہر نے تو رو رو کر حویلی سر پر اٹھا لی۔بابا جانی یہی کہہ کر گئے تھے کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ جب شادی اپنی پسند کی لی ہے تو نبھائے بھی۔

ولئد آیت کو لے کر جیسے ہی کمرے میں آیا آیت اس کے سینے سے لگ کر بہت سا روئی۔

" مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ  آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔خان میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔"

ولید نے آیت کے آنسو صاف لیئے اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔

"میں تمہیں چھوڑ سکتا ہونا بحالہ ۔مہر نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ جس دن وہ اس حویلی سے گئی تھی تو اسے بہت زیادی غرور اور مان تھا خود پر کہ اس نے ایک بہت اچھے ہمسفر کا انتخاب کیا ہے ۔سب نے اسے سمجھایا تھا اور جب اس کی شادی ہو رہی تھی تو بابا اور میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اب اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ ہمارے خاندان کی ہر روایت کو توڑ کر گئی ہے۔اب کیوں وہ آئی ہے واپس اور میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں گے اس کی باتوں میں آکر تمہیں چھوڑوں گا۔"

ولید آیت کے سامنے گھٹنوں کے پل بیٹھا گیا۔

"تم تو میری جان ہو آیت۔مجھے معاف کر دو آیت میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا ہے۔تم جانتی ہو دادی صاحب کی بہت خواہش تھی کہ ان کے مر جانے کے بعد ان کا تخت کوئی ایسی عورت سنبھالے جو ان کے جیسی ہی ہو اور جب بھی وہ تمہیں  دیکھا کرتی تھی تو وہ مجھے ہمیشہ کہتی کہ میری آیت کی شادی ولید سے ہوگی۔ان کے دماغ میں ایک بات تھی کہ جو عورت مرد سے بڑی ہوتی ہے نہ اسکا پورے گھر پر راج ہوتا ہے ۔وہ مرد کو بچہ ہی سمجھتی ہے اپنے آگے۔وہ بار بار مجھے کہہ کرتی تھی کہ میری آیت میری جگہ آئے گی۔تمہیں شروع سے پسند کرتا ہوں آیت میں مگر میرے دل میں ایک ڈر تھا کہ کہیں دادی صاحب کی طرح تم بھی مجھے بچہ نہ سمجھنے لگ جائو۔میں چاہتا تھا تم مجھے ایک مکمل انسان سمجھو ہمارا رشتہ برابری پر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جانتی ہو سب نوکروں کے سامنے میری بہن نے تمہارے بھائی کے کہنے پر اظہار محبت کیا۔بابا کے وہ ملازم جو کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ بابا جانی نے میری شادی کی رات مجھے کہا تھا کہ تمہیں میں صرف شاہ بخت کی بہن سمجھوں جس کی وجہ سے پوری خاندان میں ان کی بے عزتی ہوئی ہے۔مہر کو تو وہ کچھ نہ کہہ پائے مگر اپنی انا کی تسکین کی خاطر تمہیں دکھ میں دیکھ کر وہ خوش  ہوتے اور شاید میں بھی۔مگر مجھے آہستہ آہستہ احساس ہوگیا ہے کہ جن کی خاطر میں تمہیں سزا دے رہا تھا وہ تو اپنی زندگی میں خوش ہیں آیت۔تمہیں مار کر میں بھی راتوں کو نہیں سوتا تھا۔مجھے معاف کر دو آیت ہمارے بچوں کی خاطر مجھے معاف کر دو۔"

آیت نے اپنا ہاتھ ولید کے ہاتھ سے لیا ۔

"معافی کا لفظ کتنا آسان ہے نہ خان۔مگر وہ ذلت کیا آپ ساری زندگی کی مٹا پائیں گے جو میں نے برداشت کی ہے ۔میری شادی کی پہلی رات آپ  نے کیا سلوک کیا تھا میرے ساتھ۔میرا خواب تھا  میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی وہ خواب میرا ختم ہوگیا ۔میں قید ہوکر رہ گئی کیا میری کوئی زندگی نہیں تھی۔دراصل آپ بھی سب کی طرح ہی خود غرض ہیں۔آپ میں بھی ذرا سی  انسانیت ہوتی تو آپ میری قدر کرتے مجھے محبت دیتے مگر آپ نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔"

"نہیں آیت ایسا مت کرو مجھے جو چاہے سزا دینا چاہو دے دو مگر مجھے معاف کر دو ۔آیت بچوں کی خاطر۔میں نہیں چاہتا میرے بچے میرے جیسے ہوں یا میری بیٹی کا نصیب تم جیسا نکل آئے۔"

آیت ولید کی بات پر ہنسنے لگ گئی۔

"بات اولاد کی آئی ہے نہ اس لیئے آپ کو درد ہورہا ہے۔ایسے ہی آپ نے بھی کسی کی بیٹی کو بہت ستایا ہے خان میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔"

"نہیں آیت پلیز تم کہتی ہو نہ تو میں تمہارے پائوں پکڑ لیتا ہوں ۔"

ولید نے آیت کے پائوں تھام لیئے ۔

"چھوڑیں میرے پائوں ضرورت نہیں اب آپ کو میری طرف لوٹ آنے کی۔"

"پیلز آیت ایک بار ایک موقع دے دو مجھے۔"

"میری کمر میں سخت درد ہورہا ہے خان۔مجھے سونے دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جن بچوں کی خاطر آپ نے اس رشتے کو بہتر بنانے کا سوچا ہے وہ ہی نہ رہیں ۔"

"نہیں آیت ایسی باتیں مت کرو۔ تمہیں سونا ہے نہ سو جائو ہم کل بات کر لیں گے۔" ولید نے آیت پر کمبل ڈال اور اس کے بال سہلانے لگا۔آیت اس سے وقت ہر چیز سے فرار چاہتی تھی اسی لیئے تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہر تو سب کے ساتھ ہی بدتمیزی کر رہی تھی۔اس نے اپنی ساس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔شاہ بخت آخر کار آہی گیا۔

"شاہ بخت تم دونوں نے کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ہمارے خاندان کا نام خراب کر دیا ہے دونوں نے۔"

بابا جانی شاہ بخت کو ڈانٹ رہے تھے۔

"بابا جانی اسے ویسے ہی شک ہوگیا ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا یہ سوچ رہی ہے۔آپ جانتے تو ہیں نہ ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسی دوستیاں عام ہیں ۔میں نے اسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔یہ بہت عیش میں رہ رہی ہے ہمارے گھر میں ۔اس کے پاس ہر چیز پے پوچھیں میں نے کون سی چیز کی کمی رکھی یے۔"

"جھوٹ مت بولیں شاہ بخت میں نے خود اس لڑکی کو بے ہودہ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا آپ کے ساتھ۔آپ مجھے چپ نہیں کروا سکتے۔میں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں خان خاندان کی بیٹی ہوں ۔اگر اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہوں تو آپ کو سیدھا بھی کر سکتی ہوں۔"

"مہر جب ہم نے شادی کی تھی تو ہم میں یہ بات طے ہوئہ تھی کہ نہ میں تمہیں تمہاری زندگی گزارنے سے رکوں گا اور نہ تم مجھے ۔اب تم اپنی بات سے مکر رہی ہو۔میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔  تم گھر چلو یوں سب کے سامنے میری ذات کا تماشہ بنا کر تم نے اچھا نہیں کیا۔"

"میں نہیں جائوں گی انکے ساتھ بابا کہہ دیں اپنے پوتے سے کہ اپنی سیکرٹری کو آفس سے باہر نکال دیں ۔"

"ٹھیک ہے میں اسے نکال دوں گا مگر تم میرے ساتھ چل رہی ہو اب۔بہت ہوگیا تماشا ہر کوئی ہمارے بارے میں ہی بات کر رہا ہے میرے لیئے بہت زیادہ شرم کا مقام ہے۔"

"بابا جانی سمجھا دیں انہیں میں ان کے سامنے کوئی عام لڑکی نہیں ہوں آپ ہر لمحہ میرے ساتھ ہیں ۔"

"مہر ہم تمہیں بیاہ چکے ہیں تو اب یہ مت سمجھنا کہ ہر غلط اور سہی میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔اس حویلی میں اب تم بہو کی حیشیت سے آیا کرو یہاں اب اس حویلی میں کسی بیٹی کی جگہ نہیں کیونکہ ہم تینوں کو رخصت کر چکے ہیں ۔"

مہر کو ابھی بھی شاہ بخت پر بہت غصہ تھا مگر حقیقت میں یہ شاہ بخت کو دیکھانا چاہتی تھی کہ یہ کمزور نہیں ہے۔اسے بہت زیادہ غصہ تھا آیت پر جس کی وجہ سے سب کے سامنے ولید نے اس کی اتنی بےعزتی کر دی تھی اور تھپڑ بھی مارا تھا ۔کوئی کچھ بھی نہیں بولا تھا ۔اس کی نظر میں آیت اپنا ماں بننا کیش کروا رہی تھی اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ یہ بھی جلدی ہی ماں بنے گی تاکہ آیت کے بچوں کو اس حویلی میں تنگ کر پائے۔یہ اس بات کو نہیں سوچتی تھی کہ آیت کے بچے ولید کے بچے بھی تو ہیں نہ۔

_______________

 فاریہ واپسی پر ایت سے ملنے دوبارہ آئی تھی۔اس نے فاریہ کو مہر کے مطلق سب کچھ پتا دیا کہ کیسے مہر چاہتی تھی یہ اس حویلی سے نکل جائے اور ولید سب کے سامنے اسے مارے۔

"یہ تو بہت اچھا ہوا ولید بھائی نے سب کے سامنے اس کو ہی مارا ۔اسے اپنی اوقات پتا چل گئی ہو گی نہ۔تم بتائو ولید بھائی کا رویہ کچھ بہتر ہوا تم سے۔"

"بہت حد تک۔جب سے انہیں بچوں کا پتا چلا ہے سختی کرنا چھوڑ دی ہے انہوں نے۔کل انہیں نے میرے پائوں پکڑ لیئے تھے معافی کی خاطر۔"

"تو تم نے کیا کیا۔"

"میں انہیں معاف نہیں کر پا رہی فاریہ۔مجھے بار بار ان کا رویہ یاد آجاتا ہے جو انہوں نے میرے ساتھ کیا۔"

" میں تمہیں نہیں کہوں گی کہ فورا سے ہی اسے معاف کر دو۔مگر ایک بات کہوں تمہارے ماں باپ بھی نہیں ہیں تمہارے ساتھ تم کیا کرو گی پھر۔اگر فلمی ہیروئن کی طرح یہ سوچو گی کہ اپنے بچوں کو لے کر سب کو چھوڑ کر چلی جائوں گی تو میری بہن باہر بھوکے بھیڑیے بیٹھے ہیں جہنیں کسی انسان سے کوئی غرض سے نہیں ہوتا۔تم اگر خان کو چھوڑ بھی دو تو کوئی تمہاری اولاد کو وہ پیار نہیں دے گا جو خان کر سکتے ہیں۔سب سے بڑی بات تم تو خان بیگم ہو کچھ بھی نہیں چھوڑ سکتی۔گزرا وقت گزر گیا۔ہماری مائوں نے بھی بہت کچھ برداشت کیا مگر ہمارے والد نے تو معافی نہیں مانگی۔مرد کے لیئے معافی مانگنا وہ بھی اپنی بیوی سے پائوں پکڑ کر اس کی آنا کا مسئلہ ہوتا ہے۔سوچ لینا آیت کچھ بھی کرنے سے پہلے تمہارے لیئے ہر طرف کھائی یے۔تمہارے دادا نے تمہیں پوتی نہیں سمجھا۔اگر وہ اتنے اچھے پوتے تو مہر کو سزا دیتے ولید کو نہ کہتے کہ تمہیں سزا دیں ۔مت کرو تم معاف ولید خان بھائی کو مگر میری ایک بات مان سنو۔مرد کو کسی عورت کی طرف جھکنے میں دیر نہیں لگتی۔اپنے بچوں سے اپنے باپ کو مت واپس لینا۔"

فاریہ نے آیت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔یہی ہر تیسرے گھر کی  کہانی تھی اور فاریہ جانتی تھی کہ ولید میں کم از کم بدلنے کی خواہش تو ہے ورنہ شاید آیت سوچ نہیں سکتی تھی کہ جو مہر چاہتی تھی اگر وہ ہوجاتا تو۔

"میری خان کے ساتھ رہنے کے لیئے کچھ شرائط ہوں گی۔"

"رکھ لو شرائط  مگر ایسی رکھنا جو ان کے بس میں ہوں۔میں چلتی ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

فاریہ کے جانے کے بعد آیت بہت دیر ہر پہلو پر غور کرتی رہی۔کہاں جاتی یہ اپنے بچوں کو لے کر کہیں بھی نہیں ۔اس کے لیئے ایک ہی راستہ تھا اب ولید کو اپنا بنا لینا ۔

___________________

ولید کے پیپر چل رہے تھے جو  ختم ہوگئے تھے۔یہ گھر آیا تو  آیت اسے کمرے میں بہت زیادہ اداس نظر آئی۔اس نے لائٹ آن کی۔

"آیت یہ کیا حال بنایا ہوا ہے اپنا۔طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔"

ولید آیت کی گردن پر ہاتھ رکھ کر دیکھ رہا تھا کہ کیا سچ میں یہ ٹھیک ہے کہ نہیں ۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں خان۔مجھے کیا ہونا ہے ۔"

"آیت جانو ایسی باتیں نہیں کیا کرو۔بچوں کا خیال۔کر لیا کرو جو اس وقت ماما کے اداس ہونے سے پریشان ہوگئے ہیں ۔"

"خان ایک بات کہنی تھی آپ سے۔میں آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں مگر ایک شرط ہے میری۔"

"بولو آیت کیا شرط ہے تمہاری۔"

"میں اس حویلی سے چلی جانا چاہتی ہوں۔آپ مجھے جہاں رکھیں گے جیسا رکھیں گے میں رہ لوں گے۔چچی اور چچا بھی ہمارے ساتھ آجائیں مگر میں چاہتی ہوں میں سب چیزوں سے دور چلی جائوں ۔میں جب بھی اپنے ماں باپ کو دیکھتی ہوں تو مجھے بہت کچھ یاد آجاتا ہے جو میں یاد نہیں کرنا چاہتی۔پلیز آپ مجھ پر رحم کریں اور مجھے یہاں سے لے جائیں ۔"

"آیت یہ سب کچھ بہت زیادہ مشکل ہے ۔تم جانتی ہو نہ دستار میرے پاس ہے اور اگر میں نے یہ سب کچھ چھوڑ دیا تو بابا جانی ناراض ہوجائیں گے۔"

"آپ کو میری خوشی عزیز ہے یا نہیں مجھے بتا دیں آپ کیا چاہتے ہیں روز روز میں اس حویلی میں مر کے جیوں۔اب نہیں ہوتا مجھ سے کچھ بھی۔مجھے یہاں نہیں رہنا ۔"

"آیت ایسی باتیں نہیں کرتے۔"

"ولید آپ میرے درد کا انصاف نہیں کر سکتے۔میں عورت ہونا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں اس لیئے میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے مگر آپ کو پھر بھی تکلیف نظر نہیں آتی میری ۔آپ کی نام نہاد محبت کہاں گئی یا وہ بھی ایک فریب تھا۔"

"پلیز آیت ایسا مت کہو۔ٹھیک ہے کرتا ہوں میں بابا جانی سے بات۔ہمارا گھر جو گائوں میں ہی ہے دادی صاحب کو شادی میں تحفہ ملا تھا وہ مجھے دیا تھا میری پیدائش پر دادی نے وہاں جائیں گے ہم لوگ۔مجھے وقت دے کر تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے آیت۔"

"خان یاد رکھیں میں وہ عورت نہیں ہوں جو روتے دھوتے شوہر کی شکایتیں لے کر میکے چلی جائے۔میں نے برف میں گزری ہوئی رات بھی بھلا دی مگر اس کے زخم ہمشیہ باقی رہیں گے ۔یہ سب اس لیئے بھول گئی میں کہ میں اپنے بچوں کو آپ کا پیار لیتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی ۔کوئی لڑکی اگر آپ کی زندگی میں میرے بغیر آئے گی تو اسے اپنے ہاتھوں سے مار دوں گی میں یاد رکھنا۔"

"ویسے ایک لڑکی آ تو چکی ہے ہمارے درمیان۔"

"کون ہے وہ ۔"

ہماری بیٹی ۔مجھے پورا یقین ہے ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہمارا۔میں نے اپنی ڈول کے لیئے بہت سی چیزیں لے رکھی ہیں۔"

"بس اس کے اچھے نصیب کی دعا بھی کر لینا کہیں ایسا نہ ہو اسے بھی کوئی ولید خان مل جائے۔"

"آیت پلیز ایسا مت کہو۔تم سے پھر معافی مانگتا یوں میں مجھے معاف کر دو ۔میں نے جو کیا وہ میرا عمل ہے میری بیٹی کو مت سزا دو۔میں ساری عمر کچھ نہیں کہوں گا تمہیں بس میری بیٹی کو بد دعا مت دینا ۔"

آیت کو احساس ہوا کہ جب تک خود پر نہیں نہ گزرتی تو دوسروں کا خیال نہیں آتا ۔آیت جان گئی تھی کہ بیٹی لوگوں کو اپنی ہی اچھی لگتی ہے حالنکہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے سب کے لیئے ۔

بابا جانی کو کیسے ولید نے منایا تھا اس بات کا علم آیت کو نہیں تھا ۔اسے صرف اتنا پتا تھا کہ بابا جانی نے ولید کو بہت سی باتیں سنائی تھی کہ اسے اپنے باپ دادا کی عزت کا کوئی خیال ہی نہیں ہے مگر اس نے بابا جانی کو یہ کہہ دیا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا اگر یہ آیت کے ساتھ الگ گھر میں رہے گا۔ولید کے ماں باپ نے ساتھ آنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنی حویلی نہیں چھوڑ سکتے مگر جب بھی ولید کو ضرورت ہوگی وہ موجود ہوں گے۔آیت اس وقت اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔آیت کی والدہ اس کے پاس آئی۔وہ شاید روتی رہی تھی۔

"میرا بچہ تم کیوں جا رہی ہو۔کیا کوئی کمی تھی تمہیں یہاں حویلی میں۔میری نظروں کے سامنے رہتی تھی تم ہر پل تو دل ایک سکون حاصل تھا کہ میری بیٹی ٹھیک ہے اب اتنے دور جا رہی ہو تو تمہاری خیریت پتا کیسے چلی گی۔"

"اتنے دور نہیں جا رہی نزدیک ہی تو ہوں امی۔بس آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہے آپ کا جب دل چاہے آپ میرے پاس آسکتی ہیں ۔خیر یہاں اتنے پاس ہو کر بھی آپ نے میری خبر نہیں لی۔کبھی دور جاکر بھلا لیں گی۔"

"تو جا کیوں رہی ہے۔تیرے بچوں کو مستقبل میں ہماری ضرورت ہوگی تو ہم کیا کریں گے۔بچے خاندان میں ہی اچھی پرورش پاتے ہیں ۔"

"نہیں امی میں اپنے بچوں کو اس خاندان میں بڑا نہیں کرنا چاہتی۔میرے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔یقین کریں جب ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا نہ تو کچھ لمحے میں پریشان ہوگئی مگر پھر میں نے فیصلہ لیا کہ جو چاہے مرضی ہوجائے اپنی بیٹی کی خاطر میں یہ حویلی چھوڑ دوں گی۔اس حویلی میں اپنی اولاد کو رکھ کر انہیں دوسری آیت یا دوسرا ولید ہرگز نہیں بنائوں گی۔"

"تو ماں سے ناراض پے بیٹا۔"آیت کی والدہ نے اس کا ہاتھ تھاما ۔

"نہیں امی اولاد کہاں ناراض ہوسکتی ہے۔میں صرف اپنے بہتر مستقبل کے لیئے جا رہی ہوں ۔دعا کریں کہ میرے دل میں لگے زخم جلد ٹھیک ہوجائیں ورنہ شاید میری واپسی ممکن نہیں ۔"

آیت کی والدہ رونے لگ گئی تھی بہت زیادہ ۔

"میں سوچا کرتی تھی کہ اولاد ماں باپ کی نافرمان ہو تو اسے بہت سخت سزا ملتی ہے مگر اگر ماں باپ اولاد کے ساتھ زیادتی کر جائیں تو ان کی کیا سزا ہوگی امی یہ سوچنا ضرور۔میں چلتی یوں ولید میرے منتظر ہیں ۔"

آیت نے سامان کو بیڈ پر ہی رکھا اور باہر چلی گئی۔سب حویلی والے جمع تھے۔بابا جانی نے آیت کو گلے لگانا چاہا ۔

"بابا جانی معاف کیجیئے گا آپ مجھے اسی دن دفنا چکے تھے جس دن مجھے رخصت کیا تھا۔آپ نے اپنے پوتے کو میرے ساتھ جو سلوک کرنے کا کہا اس نے آپ کی عزت اور احترام میرے دل سے ہمیشہ کے لیئے ختم کر دیا ہے۔اب تو راکھ بھی باقی نہیں ۔خیر دعائوں میں یاد رکھیئے گا اپنے پوتے کو۔"

آیت کسی سے بھی ملے بغیر باہر چلی گئی جہاں گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ولید سب سے مل رہا تھا۔سامان ملازم گاڑی میں رکھ رہے تھے۔آیت نے ایک نظر اس حویلی پر ڈالی جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔اس حویلی نے اسے بہت دکھ دیئے تھے۔یہاں اس کا دم گھٹتا تھا یہاں سے جانے کا فیصلہ ہی اس کے لیئے درست تھا اور اسے یقین تھا کہ مستقبل اس کے لیئے بہت اچھا ہوگا اور اس کے بچوں کے لیئے بھی۔

________________________

مہر کی بہت خواہش تھی کہ یہ جلدی جلدی ماں بن جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔اس کی والدہ نے بھی اس سے یہی کہا تھا کہ جتنی جلدی ہوجائے یہ ماں بن جائے تو بہتر ہے ہوگا۔اس کے بچے باپ کے پائوں کی زنجیر بن جائیں ۔ویسے بھی اسے جب سے پتا چل اٹھا کہ آیت ولید کے ساتھ حویلی سے جاچکی ہے اس کے دل میں آگ لگ گئی تھی کہ یہ کایا کیسے پلٹ گئی۔اس کا وہ بھائی جو کبھی آیت کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اب آیت کے ساتھ اتنی نرمی کیوں اختیار کیئے ہوئے تھا۔مہر اس وقت اپنی ایک کولیک کے ساتھ بیٹھی تھی۔اسے اپنی رپورٹس کا انتظار تھا۔رپورٹس آئی تو اسے پتا چلا کہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ڈاکٹر نے اسے شاہ بخت کے ٹیسٹ کروانے کا بھی کہا۔مہر کو اس وقت کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا بس اسے آیت کو نیچا دیکھانا تھا ویسے بھی وہ تو اب حویلی میں تھی نہیں تو مہر کے ہی بچے حویلی میں راج کرتے ۔

____________________________

آیت سو کر اٹھی۔شام کا وقت تھا۔یہ جگہ بہت خوبصورت تھی۔اس کے اردگرد خاموشی کا راج تھا۔فضیلہ کو ولید نے اس کے شوہر اور دو بچوں سمیت یہاں بلا لیا تھا کیونکہ وہ بہت پرانے ملازم تھے اور آیت کے معاملے میں ولید ان پر ہی اعتبار کر سکتا تھا۔آیت کچن میں آئی اور اپنے لیئے پانی کا گلاس لے کر باہر لان میں آگئی۔سردی ختم ہوگئی تھی اور اب گرمی عروج پر تھی۔اس کا وجود بھی اب بہت بھاری ہوگیا تھا۔اس وقت یہ لان کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے اردگرد نکلے ہوئے درخت دیکھ رہی تھی جن کو خوبصورتی کے ساتھ یہاں لگایا گیا گھا۔ولید کے ساتھ رہنے کا فیصلہ اسکے لیئے آسان نہیں تھا مگر یہ جذباتی تو ہرگز نہ تھی کہ کسی فلمی ہیروئین کی طرح ولید کو چھوڑ کر چلی جاتی۔ولید نے اسے کہا تھا کہ اگر یہ دوبارہ ہسپتال جانا چاہے تو یہ جا سکتی ہے۔مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ جب انسان کوئی خواب بہت چاہ سے دیکھتا ہے اور وہ ٹوٹ جائے تو وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔آیت بھی بلکل ایسے ہی ٹوٹ گئی تھی۔اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔اس کو تو شاید اب یاد بھی نہیں رہا تھا کہ اس نے کیا پڑھا تھا۔اب ویسے بھی اس کا دماغ اس ماحول کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔اب اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ یہ اپنے بچوں پر توجہ دے گی انہیں سنوارے گی۔ولید سے سے کوئی دلی لگائو نہیں تھا اب مگر وقت اپنا مرہم خود ہوتا ہے۔وقت شاید کبھی اس کے دل میں ولید کے لیئے محبت ڈال دیتا جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے آیت کے دل سے ختم کر دی تھی۔مگر اس نے کبھی ولید سے اپنی نفرت کا اظہار نہیں لیا تھا کیونکہ یہ جانتی تھی اس کے وجود میں پل رہے بچوں کو باپ کا پیار ولید ہی دے گا۔اگر یہ ولید کے ساتھ ٹھیک رہی گی تو کل کو اس کی بیٹی کو بھی باپ کا بہت سا پیار ملے گا۔ آیت انہیں سوچوں میں گم تھی جب اس کہ پیشانی پر ولید نے پیار دیا۔

"آپ آگئے۔"

"جی ہاں آگیا ہوں میں ۔طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمہاری۔"

"جی بہتر ہے ۔آپ بیٹھیں میں اندر کسی کو کہتی ہوں آپ کے لیئے کھانا لگا دیں ۔"

"تم بیٹھ جائو آیت۔اس حالت میں زیادہ کام مت کیا کرو۔دیکھو ہاتھ پائوں کتنے سوجھ گئے ہیں تمہارے ۔"

"یہ سب تو نارمل ہے نہ خان۔آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے اس گھر میں آکر بہت سکون ملا ہے ۔ایسا لگتا ہے میں ایک بڑے پنجرے سے آزاد ہوگئی ہوں۔آپ نے بابا جانی کو کیسے منایا ۔"

"وہ میرا مسئلہ ہے آیت کہ میں نے ان کو کیسے منایا ۔تمہارا کام صرف ہمارے گھر پر دھیان دینا ہے۔ایسا کرو اندر آجائو آیت اب تم ۔"

"میرا دل نہیں کر رہا اندر جانے گا ۔کچھ دیر یہاں ہی بیٹھ جاتے ہیں نہ۔"

"میں کپڑے بدل آتا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں ۔"

ولید آیت کو باہر ہی چھوڑ کر چلا گیا۔یہ شاور لے کر کمرے میں آیا تو اسے آیت بیڈ پر بیٹھی ہوئی نظر آئی۔آیت اندر آگئی تھی ولید بال خشک کرتے ہوئے آیت کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں نہیں اتار پا رہی تھی کیونکہ اس کے ہاتھ بہت زیادہ موٹے ہوگئے۔ ولید کنگھی رکھ کر آیت کے پاس۔آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔

"خان نہ کرنا پلیز بہت درد ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے ہاتھ اور زخمی ہوجائیں گے ۔"

"کچھ نہیں ہوتا ۔آیت تم یہ مت پہنا کرو دیکھو ہاتھ سوجے ہوئے ہیں ۔"

ولید نے کریم اٹھا کر آیت کے ہاتھوں پر لگا کر چوڑیاں اتار ہی دی۔ولید نے آیت کے سرخ پڑتے ہاتھوں پر پیار دیا ۔آیت نے ولید کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو شادی کی پہلی رات آیت کی طرف دیکھتے ہوئے ولید کو نظر آئی تھی۔ولید نے آیت کی آنکھوں پر انگلیاں پھیری تو  آیت نے ولید کی طرف حیرانی دے دیکھا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔

"تمہاری آنکھوں میں وہ چمک نہیں ہے آیت جو میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔مجھے وہ چمک تمہاری آنکھوں میں اچھی لگتی ہے۔میں چاہتا ہوں میرے چھونے پر تمہاری آنکھوں میں وہ چمک واپس آئے۔"

"آپ وہ چمک تو کب کی ختم کرچکے ہیں خان۔وہ تو میری زندگی تھی جس کو آپ نے ختم کر دیا۔اب تو صرف آیت کا وجود ہی ہے جس نے اس دنیا میں مرنے تک زندہ رہنا ہے۔"

ولید نے آیت کو اپنے سینے سے لایا۔

"ایسا مت کہو۔میں نے تم سے پہلے بھی معافی مانگی تھی آج پھر مانگتا ہوں ۔مجھے معاف کر دو میں تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں میں جان بھی دینے 

کو تیار ہوں۔بس مجھ سے نفرت مت کرو۔"

"وقت بہت بڑا مرہم ہے خان۔ہوسکتا ہے ایک وقت آئے میری آنکھوں کی چمک واپس آجائے مگر آپ کو اس وقت کا انتظار کرنا ہے۔کیا آپ انتظار کر سکتے ہیں۔"

"میں ہر لمحہ منتظر ہو تمہارا۔تم جب کہو میں تمہارے لیئے کچھ بھی قربان کر دوں گا۔تم تو میری آیت ہو بس میری۔"

آیت نے ولید کی پیشانی پر بوسہ دیا۔آیت جانتی تھی مشکل وقت بدل گیا ہے اور پرانے زخم ولید کے رویے سے ختم ہوجائیں گی مگر ایک کسک ہمیشہ باقی رہے گی جو نجانے کب دور ہوتی ۔

 _______________________

مہر شاہ بخت کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی ۔مہر نے شاہ بخت سے بات کرنے تھی کہ یہ اس کے ساتھ ہسپتال جائے۔

"بخت آپ میرے ساتھ ہسپتال جائیں گے۔"

"کیا ہوا سب ٹھیک ہے۔"

:ویسے ہی ہماری سنیئر ڈاکٹر ہیں بہت قابل ۔ان کے پاس بہت علاج ہوتا ہے بہت سے لوگوں کا۔میں نے انہیں بتایا اپنا مسئلہ تو وہ کہہ رہی تھی آپ بھی میرے ساتھ ان کے پاس جائیں ۔"

"مہر میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ میں کہیں آجا سکوں آفس کے علاوہ۔تم خود ہی چلی جانا۔"

"نہیں نہ شاہ بخت آپ کا جانا بہت ضروری ہے میری بات کو سمجھیں۔آپ کل شام میں کوئی وقت نہیں نکال سکتے ۔بہت ضروری نہ ہوتا تو میں آپ کو کبھی نہ کہتی۔"

"اچھا ٹھیک ہے۔ کل مجھے وقت ملا تو آجائوں گا۔امی کی کال آئی تھی کہہ رہی تھی کہ آیت کی ڈلیوری ہونے والی ہے تو ہمیں گائوں میں ہونا چاہیئے ۔پہلا بچا ہے حویلی کا تو ہمیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔"

"بس کر دیں دیں شاہ بخت آپ۔اس کا بچا ہمارے لیئے اہم نہیں ہونا چاہیے۔جب پیدا ہوگا تو دیکھا جائے گا۔آپ چھوڑ دیں یہ سب باتیں ہماری باتیں بہت اہم ہیں۔"

مہر نہیں جانتی تھی کہ کل اس کا غرور خاک میں مل جائے گا کیونکہ جب آپ کسی کو تکلیف دیتے ہیں وہ بھی بلاوجہ تو قسمت آپ کا خوب سارا امتحان لیتی ہے.

___________________

آیت کی آنکھ بمشکل کھلی ۔اس کی نارمل ڈلیوری ہوئی تھی یہ بہت حیران کن بات تھی ڈاکٹر کے لیئے بھی کیونکہ انہیں شروع سے لگتا تھا کہ آیت کا آپریشن کرنا پڑے گا۔آیت کمزوری کے باعث بے ہوش ہوگئی تھی مگر اپنے دونوں بچوں کی آوازیں سن کر۔اس کے لیئے سب سے زیادہ جو چیز اہم تھی وہ ولید کا ساتھ تھا ۔ولید لیبر روم میں بھی اس کے ساتھ تھا۔اس کا ہاتھ تھام کر اس کی تکلیف کو آدھا کر دیا تھا اس نے۔بار بار ولید اس کی پیشانی پر پیار دیتا اسے بتاتا کہ ابھی انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزارنی ہے اور آیت ولید کے لیئے کتنی اہم ہے۔بچے کی رونے کی آواز پر آیت نے گردن موڑ کر دیکھا۔چھوٹے سے بچے کو بمشکل ہاتھوں میں اٹھائے ولید اسے چپ کروا رہا تھا۔نرس اسے کچھ بتا رہی تھی جبکہ بچا تھا کہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

"ارے میڈیم آپ جاگ گئی۔آپ کے بیٹے کو آپ کی ضرورت ہے بہت دیر سے رو رہا ہے یہ۔"

نرس آیت کو جاگا ہوا دیکھ کر اس کے پاس آئی۔ولید نے بچہ نرس کو دیا ۔

"آیت ٹھیک ہیں آپ۔"

ولید نے آیت پر جھک کر اس سے سوال کیا۔

"ہمارا بیٹا بہت رو رہا ہے اسے چپ کروانا ہے آپ نے۔فیڈ کروا لیں گی آپ ۔"

ولید نے آیت سے پوچھا جس نے بس ہاں میں سر ہلایا کیونکہ اس وقت اس کی نظر دھندلائی ہوئی تھی ۔ولید نے ہی اسے اٹھنے میں مدد کی تھی اور اپنا روتا بلکتا بچہ اسے دیا تھا۔آیت بچے کو پکڑ نہیں پا رہی تھی ۔نرس ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔اس ہسپتال میں بہت کم لوگ اپنی بیوی کا اتنا خیال رکھتے تھے اور یہ چھوٹا سا لڑکا تو بیوی کے ساتھ لیبر روم تک بھی کیا تھا۔دونوں بچوں کو فیڈ کرو کر آیت دوبارہ سو گئی تھی کیونکہ اس میں ہمت نہیں تھی آنکھیں کھولنے کی۔جب یہ دوبارہ اٹھی تو کمرہ سجا ہوا تھا۔اس کے بچے کاٹ میں لیٹے ہوئے تھے۔انہیں نرسری میں رکھا گیا تھا مگر پھر یہ صحت مند تھے تو نہیں ماں باپ کو واپس کر دیا گیا۔آیت پورا دن ہوش میں نہیں تھی۔اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی ماں سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہی تھی۔

"امی۔۔۔۔۔۔میرے بچے۔"

"ماں صدقے جائے تجھ پر بچی۔تیرے پاس ہی تو ہیں تیرے بچے۔اتنے پیارے دو بچے ہیں تیرے۔ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔بہت ہمت والی ہے میری بیٹی۔دیکھ تو آج خود ایک ماں بن گئی ہے۔"

آیت کی والدہ نے اس کے سر پر پیار دیا۔

"ولید کہاں ہیں ۔"

"ارے وہ تو کب سے تیرے پاس ہی تھا۔کل سے اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا ہے۔کپڑے بدلنے گیا ہے پھوپھی کے گھر بس آتا ہی ہوگا۔"

" باقی سب۔"

"سب آئے تھے آیت۔تیرے بابا جانی نے تو پوری گائوں میں ان دونوں کے عقیدے کے دعوت رکھ دی ہے۔تیرے ابا بھی بہت خوش تھے ۔تیری ساس ابھی باہر گئی ہیں ولید کے ساتھ آجائیں گی۔"

آیت ابھی ولید کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ آگیا ۔شاہ بخت اور مہر دونوں اس خوشی پر بھی حویلی نہیں آئے تھے۔مہر کے مطابق جب اس کا بچہ پیدا ہوگا تب جو خوشی ہوگی وہ معانی رکھے گی ابھی کون سی خوش ضروری ہے ۔شاہ بخت آنے والا تھا گائوں مگر ضروری کام کی وجہ سے رک گیا۔ویسے بھی آیت کو شہر والے ہسپتال لے کر آئے تھے تو سب کو انہوں نے کہہ دیا تھا کہ گائوں آنے کے بعد ہی ان کی ملاقات سب سے ہوسکتی ہے۔آیت کی ساس اس سے ملی اور پیار دے کر آیت کی والدہ کے ساتھ ہی باہر چلی گئی۔اب کمرے میں آیت اور ولید تھے ۔ولید آیت کے قریب آیا۔آیت کا سوجا ہوا ہاتھ جس پر زخم تھے اسے اٹھا کر چوما۔

"بہت بہت شکریہ مجھے اتنے پیارے دو تحفے دینے کیلئے ۔ہمارا بیٹا بلکل تمہاری طرح ہے بھوری بھوری آنکھوں والا اور بیٹی بلکل میری طرح ہے ۔دیکھو میرا بیٹا بلکل تمہاری طرح ہے سب کو تنگ کر کے رکھ دیا اتھا اس نے۔"

ولید آیت کی پیشانی پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے ہوئے اسے بچوں کا بھی پتا رہا تھا۔

"میں نے بچوں کو غور سے دیکھا ہی نہیں خان۔مجھے دیکھائیں نہ بچے کیسے ہیں ۔"

"رکو میں لاتا ہوں انہیں ۔"

ولید سب سے پہلے اپنی بیٹی کو لایا جو وزن میں بہت کم تھی اور وہ ولید کو اسے اٹھاتے ہی ڈر لگ رہا تھا مگر اس نے اسے اٹھا ہی لیا تھا ۔

"دیکھو آیت یہ بلکل میری طرح ہے میری گڑیا۔"

ولید آیت کو بہت شوق سے اپنی بیٹی دیکھا رہا تھا۔اس کے چہرے پر بیٹی کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی آگئی ۔

"میری گڑیا نے ہمیں ماں بابا بنا دیا آیت۔"

"بیٹے نے نہیں بنایا کیا۔"

نہیں وہ بھی میرا شہزادہ ہے اور شہزادے صاحب اس وقت گہری نیند میں ہیں ۔آپ میری گڑیا کو پکڑیں میں لے کر آتا ہوں اسے بھی۔"

ولید اپنی بیٹی کو آیت کے ساتھ لٹا کر اپنے بیٹے کو لایا جو سچ میں بھوری آنکھوں والا تھا اور اپنی بہن سے زیادہ صحت مند تھا۔بچے نے اپنے اٹھائے جانے پر ماتھے پر پل چڑھا لیئے ۔

"یہ دیکھیں ذرا شہزادے صاحب کو بابا کا اٹھانا پسند نہیں آیا ۔"

"بہت پیارا ہے یہ۔آپ نے اس کا نام جو سوچا تھا کیا وہی رکھیں گے۔"

"جی ہاں عبدالکبیر خان ۔بیٹی کا نام میں عائشہ ولید خان رکھوں گا ۔"

"بہت پیارے نام ہیں ۔ولید میں نے آج آپ کے ساتھ ہونے سے یہ بات سمجھ لی ہے کہ جہاں آپ ہیں میرے دکھ کو بانٹنے والے وہاں اور کوئی نہیں ہے۔"

"میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں اور ہمیشہ ہی تمہارے ساتھ رہوں گا۔تم جانتی ہو آیت آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ اولاد ماں باپ کے لیئے کتنی قیمتی ہے۔یہ آپ کے وجود کو مکمل کردیتی ہے۔"

"خان کیا شاہ بخت نہیں آیا ۔"

"نہیں نہ وہ آیا نہ اسے آنا تھا ۔ہماری خوشی ہیں یہ بچے اور ہمیشہ رہیں گے۔تم آرام کرو میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں تمہارے لیئے"

ولید بیٹے کو کاٹ مین لٹا کر آیت کا کھانا گرم کروانے چلا گیا۔ولید نے جس طرح آیت کا آج خیال رکھا تھا اس بات نے آیت کو سمجھا دیا تھا کہ اس سے زیادہ کوئی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔"

_________________________

مہر ہسپتال آئی ہو تھی ۔ساتھ میں شاہ بخت تھا۔آج کتنی مشکل سے شاہ بخت مانا تھا اسکے ساتھ آنے کو۔دونوں کے ٹیسٹ ہوئے تھے۔ڈاکٹر نے انہیں اندر بلایا۔

"بیٹھیں مسٹر اینڈ مسز بخت۔"

ڈاکٹر نے ان دونوں کو اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا اور رپورٹس ان کے سامنے کی۔

"مجھے بتاتے ہوئے ہوئے افسوس ہورہا ہے آپ کو مس مہر کے آپ کے شوہر باپ نہیں بن سکتے کبھی بھی۔"

یہ خبر مہر سمیت شاہ بخت پر بھی بجلی بن کر گری تھی۔

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ڈاکٹر ضرور آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔"

"نہیں مسٹر شاہ بخت میں نے آپ کی رپورٹس بہت اچھے سے پڑھی ہیں اور اس میں یہ صاف واضح ہے کہ آپ باپ بننے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔"

"ڈاکٹر کوئی تو طریقہ ہوگا نہ اس سب کو حل کرنے کا۔"

"نہیں مس مہر میں کچھ نہیں کر سکتی اس معاملے میں ۔"

ڈاکٹر کے صاف جواب پر مہر اور شاہ بخت دونوں خاموش ہوگئے تھے۔مہر جو بہت زیادی غرور کر رہی تھی اس کا غرور خاک میں مل گیا تھا ۔شاہ بخت جسے خود پر بہت ناز تھا وہ بھی خاموشی سے واپسی پر گاڑی چلاتا رہا ۔اس نے اور بھی گئی ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تھا۔شاہ بخت کو آج پتا چل گیا تھا کہ اس نے جو اپنی بہن کے ساتھ کیا یہ سب اس کی سزا تھی۔کیا اس نے اس کا روتا ہوا چہرہ نہیں دیکھا تھا شادی کے اگلے روز۔پھر وہ کبھی ماں باپ سے نہیں ملی تھی یہ سب بھی اسے پتا تھا مگر اس نے خود غرضی کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور آج اسے معلوم ہوگیا تھا کہ اس نے کیا کیا ہے کسی ایک جیتے جاگتے انسان کے ساتھ۔مہر وہ تو بلکل خاموش ہوگئی تھی۔جس محبت کی خاطر اس نے اپنی روایات توڑ دی ماں باپ کو دکھ دیا ،اپنی دوست کو قربان کیا اس محبت کا کیا انجام ہوا تھا۔ساری زندگی اس کی گود خالی رہنے والی تھی مگر پھر بھی یہ ہار نہیں مان رہی تھی ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر یہ خوش نہیں ہے تو آیت کیسے خوش رہ سکتی ہے یہ اس سے بدلہ لے گی۔ اسی نے اس پر کچھ کروایا ہے جس کے باعث یہ سب ہوا ہے۔شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب تو اس کی سزا ہے۔

_________________________

عقیقہ آگے کر دیا گیا تھا آیت کے بچوں گا۔بچے آج چالیس دن کے ہوگئے تھے۔ولید انہیں حویلی لایا تھا اپنے دادا اور دادی سے ملوانے۔یہاں ہی انہوں نے فنکشن رکھا تھا سب کے لیئے۔ آیت آج بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔اس نے میرون رنگ کا فراک پہنا تھا۔سر پر ڈوپتا لے رکھا تھا اور ولید نے اسے بچوں کی پیدائش پر سونے کا بڑا سا ہار دیا تھا وہ گلے کی زینت تھا ابھی آیت کے۔ہاتھوں میں اس کی ساس نے سونے کی چوڑیاں پہنائی تھی اور آیت کی والدہ نے دوسرے ہاتھ میں اسے سونے کا چوڑا بنوا کر دیا تھا۔آیت اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔بھرا بھرا سا وجود اور چہرے پر چمک تھی اس کے۔ولید اسے زبردستی کھانا کھلاتا تھا چاہے اس کا دل نہ بھی ہو۔ان کے بچوں کے لیئے ولید نے آیا رکھی تھی جس کی وجہ سے آیت کو بہت آسانی تھی ۔بچے رات کو روتے تو ولید اس کے ساتھ ہی جاگ جاتا تھا ۔آج کل ولید گھر جلدی آتا تھا۔ولید کی یونیورسٹی سے بھی بہت سارے دوست اسے دیکھنے آئے تھے۔ولید تو بیٹی کو گود سے نہیں اترنے دیتا تھا جبکہ ان کا بیٹا کبیر باپ کا لاڈلہ تھا اس لیئے ہر وقت اسے بھی گود چاہیے ہوتی تھی۔یہ دونوں بچے ان کی جان تھے۔آیت کی آنکھوں کی چمک اپنے بچوں کو دیکھ کر لوٹ آئی تھی۔جو زندگی آیت کو بے رنگ لگتی تھی وہ اب رنگوں سے بھری تھی آیت نیچے آئی سب کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑی محفل تھی عورتوں کی۔ہر کوئی خان خاندان کی خان بیگم کے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔

مرد مردان خانے میں تھے۔مہر تو آتے ہی چچی کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔نجانے اتنی دیر سے یہ لوگ کیا باتیں کر رہے تھے۔مہر اپنی ماں کے ساتھ باہر آئی۔چچی شاید روتی رہی تھی مگر مہر کے آنسو نقلی تھے۔ولید کو مہر نے بلوایا تھا مردان خانے سے ۔سب گھر کے بڑے اور آیت ولید کے ساتھ بابا جانی کے کمرے میں تھے۔بابا جانی اپنا ایک فیصلہ سنانا چاہتے تھے۔

"ولید تم نے ہمیشہ اس خاندان کی۔بقا کے لیئے بہت کام کیا ہے۔آج ہم تم سے کچھ مانگتے ہیں کیا تم۔ہمیں دو گے۔"

"جی بابا جانی یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے آپ مانگ کر تو دیکھیں ۔"

"ہمیں تمہارا بیٹا چایئے ۔شاہ بخت باپ نہیں بن سکتا تھا کبھی۔وہ تمہارا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ بہنوئی بھی ہے اور مہر تمہاری بہن۔وہ ساری عمر خالی گود کے ساتھ رہے رہے یہ ہمیں برداشت نہیں اس لیئے ہم نے فیصلہ دیا ہے کہ تم اپنا بیٹا مہر کو دے دو۔"

مہر کے چہرے پر چمک آگئی۔آج سب کے سامنے اسے کبیر مل جاتا تو سب اسے ہی بڑا کہتے۔کبیر کو لے کر یہ آیت کو دیکھانا چاہتی تھی کہ تم جیت نہیں سکتی۔آیت کی گرفت ولید کے بازو پر سخت ہوگئی ۔

"معافی چاہتا ہوں بابا جانی کبیر میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔رہی بات اپنی بہن کی گود آباد کرنے کی تو میں اپنی بیوی کی گود اس کی خاطر کیوں اجاڑ دوں۔اس کی اولاد نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔ہماری وٹے سٹے میں شادی ہوئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بیوی کو اتنی بڑی سزا دوں۔معاف کیجیئے گا بابا جانی یہ بچہ یتیم خانے سے لی لیں مگر میں اپنا بچہ نہیں دوں گا۔"

آیت کی والدہ آیت کو دیکھتے ہوئے اسے یاد دلانے لگی کہ یہ ایک بہن ہے قربانی کے لیئے بنی ہوئی۔

"آیت بھائی کی خاطر تو اتنا نہیں کر سکتی۔تیرے پاس تیری بیٹی ہے کل کو اور بھی بچے ہوں گے ۔اپنا ایک بیٹا دے دیا بھائی کو تو کیا ہوگیا ۔بہنیں سب کچھ قربان کرتی ہیں بھائیوں کے لیئے ۔"

"معاف کیجیئے گا تائی جان آپ کے بیٹے نے آیت کی زندگی کے لیئے کبھی اچھا نہیں سوچا۔جو شخص ہماری خوشی میں شریک نہیں ہونے آیا میں اسے اپنی اولاد نہیں دے سکتا۔میری بیوی نے بہت تکلیف جھیلی ہے میرے بچے کی خاطر اسے میں شاہ بخت کو ہرگز نہیں دے سکتا ۔میں خود غرض ہوں اپنی اولاد کے لیئے اور اپنی بیوی کے لیئے جیسے کبھی شاہ بخت اور مہر تھے۔ہمیں معاف کر دیں آپ سب ۔ہم آج ہی واپس اپنے گھر جائیں گے اور شاہ بخت تم میرے بچوں پر ہرگز نظر مت رکھنا وہ میری اولاد ہیں ولید خان کی اولاد ۔"

آیت کو تھامے ولید باہر نکل گیا۔سب گھر والے پریشان ہوگئے۔مہر بہت زیادہ روئی مگر ولید اپنے دونوں بچوں سمیت مہمانوں کے جانے کے بعد واپس چلا گہا۔اولاد اس کے لیئے ایک بہت بڑی نعمت تھی تو یہ کیوں اپنی اولاد کو اپنی بہن کے لیئے قربان کرتا۔یہ گزرا وقت کبھی نہیں دہرانا چاہتا تھا اور اس نے آیت کو بھی یہ باور کروا دیا کہ جہاں اسے اس کی اولاد اور آیت ہیں وہاں کوئی بھی نہیں ۔

13 سال بعد

آیت صبح صبح نھنے ہاتھوں کے جگانے کے باعث اٹھی۔اس کی بیٹی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے چھوٹے ہاتھوں سے ماں کو جاگا رہی تھی کہ اٹھ جائے اسے بھوک لگی ہے۔یہ اس کی دس ماہ کی بیٹی تھی ۔آیت بیڈ سے اٹھی تو وقت دیکھا دس بج رہے تھے۔آج اتوار تھا تو یقینا بچے بابا کے ساتھ کھیل رہے ہوں گے۔آیت اپنی بیٹی فاطمہ کو دودھ پلا کر کھڑکی کے پاس آئی۔باہر لان کے ایک سائڈ پر اسے پول میں اس کا بیٹا کبیر بابا کے ساتھ کھیلتا نظر آیا۔عائشہ پول سائیڈ پر ہی بیٹھی ہوئی بھائی اور بابا کو دیکھ رہی تھی۔اس کے ساتھ ماریہ بیٹھی ہوئی تھی جو شاید کوئی ڈرائنگ کر رہی تھی۔سامنے درختوں کے پاس لگے جھولے پر عبداللہ بیٹھا ہوا تھا اور عمارہ اسے اٹھا رہی تھی کہ اس نے کھیلنا ہے اب۔عبدالرفع بھی باپ اور بھائی کے ساتھ پول میں چلا گیا۔آیت اندر سے یہ منظر دیکھ کر ہسنے لگ گی۔فاطمہ شیشے سے یہ منظر دیکھ کر اپنے بابا کو اپنی زبان میں بولا رہی تھی کہ اسے بھی ساتھ لے جائیں ۔بچے باپ کے دیوانے تھے کچھ بھی ہوجائے انہیں بس ولید چاہیے ہوتا تھا۔آیت اپنا ڈوپتا گلے میں ڈالے باہر آئی۔گرمی بہت تھی اس کے باوجود بچے لان میں ہی کھیل رہے تھے۔

فاطمہ کو اس نے نیچے چھوڑ دیا جو گھاس سے رینگتی ہوئی پول کے پاس آئی۔ولید نے فورا اسے اٹھا لیا۔

"بابا کی گڑیا آئی ہے۔بابا کا راجا بچا جاگ گیا ہے۔"

ولید اسے پانی میں کھڑا کرتے ہوئے اس کے ساتھ مستی بھی کر رہا تھا۔آیت اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔قدرت نے آج سے 14 سال پہلے اسے زندگی کا ایک بہت عجیب سا روپ دیکھایا تھا مگر پھر یہ خوبصورت سا آشیانیہ بھی عطا کیا تھا۔اس کے سات بچے تھے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ۔ولید کو بچے بہت پسند تھے اور آیت کو بھی۔حویلی والے ان بچوں کو دیکھ کر ہی جیتے تجے۔آیت اپنے بچوں کو لے کر حویلی واپس نہیں گئی تھی کیونکہ یہ اپنے بچوں کو پرسکون ماحول دینا چاہتی تھی ۔حویلی میں بابا جانی کا انتقال دس سال پہلے ہوگیا تھا ۔آیت کے ساس سسر اپنی بیٹی کے حالات دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے ۔شاہ بخت اور مہر دونوں حویلی آگئے تھے ۔مہر کو ڈپریشن ہوگیا تھا شدید جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ چڑ چڑی ہوگئی تھی۔اسی وجہ سے سب حویلی سے دور بھاگتے تھے۔تارا نے اپنی ایک بیٹی اپنے بھائی کو دے دی تھی مگر مہر کو پھر بھی سکون نہیں تھا اسے لگتا تھا کہ اس کا بیٹا نہیں ہے تو اس کی حیشیت بہت کم ہے آیت سے۔ آیت کے والد فوت ہوگئے تھے اور والدہ آیت کے ساتھ ہی زیادہ رہنے آجاتی تھی۔آیت کے بچوں کی خاطر وہ بہت زیادہ خوش ہوجاتی تھی۔انہیں بھول جاتا تھا کہ ان کے گھر کے حالات کیسے ہیں ۔ولید پول سے باہر آیا تو اس نے پانی آیت کے اوپر پھینکا ۔

"ولید خان کیا کر رہے ہیں آپ ۔"

"آیت خان آپ بھی تو صبح صبح اٹھ کر آگئی ہیں کمرے سے۔ایک دن آپ کو آرام نہیں لگتا محترمہ۔"

"آپ کے بچے آرام کرنے دیتے ہیں مجھے۔

آپ کی بیٹی نے مجھے سویا ہوا جاگا دیا۔اس سے پوچھیں جو محترمہ ابھی بھائی ساتھ کھیل رہی ہیں ۔"

"آپ کے بچے یعنی وہ تمہارے بچے نہیں ہیں کیا۔بہت غلط بات ہے ویسے ۔تمہیں مزے کی ایک بات کہوں میں سوچ رہا تھا فاطمہ اکیلا محسوس کرتی ہے سارے بچے چلے  جاتے ہیں سکول تو ہماری بیٹی کے لیئے ایک دوست ہونا چاہیئے نہ۔"

ولید کی بات سمجھتے ہی آیت نے اسے ایک مکہ مارا۔

"شرم نہیں آتی آپ کو خان۔ چار بیٹیوں کے باپ ہیں پھر بھی شرم چھو کر نہیں گزری۔جب دیکھو ٹھڑکی پن سوار ہوا ہوتا پے۔کبیر اور عائشہ بڑے ہوگئے ہیں انہیں سمجھ آتا ہے سب کچھ ۔"

"تو میں کیا کروں اب ان کے لیئے اپنی بیوی سے رومانس کرنا چھوڑ دوں۔کبیر کو پتا ہے بابا کتنا پیار کرتے ہیں ماما سے۔ویسے فاطمہ کے لیئے ایک دوست لانے پر ہمیں سوچنا چاہیے سنجیدگی سے۔"

آیت ولید کی بات پر تپ گئی۔

"خبردار جو بچوں کا نام لیا آپ نے۔سب ہنستے ہیں پہلے ہی مجھ پر کہ میرے سات بچے ہیں آپ کیا چاہتے ہیں کہ میرا حال خراب ہو اور۔"

"ارے حال خراب کون چاہتا ہے خان بیگم۔چھوڑیں لوگوں کی باتوں کو اگر ہم نے لوگوں کی باتوں کو دیکھا ہوتا تو ابھی ہم ان بچوں کے ماں باپ نہ ہوتے۔"

"فاریہ نوری کو لائے گی کل آپ ذرا بچوں کو سمجھا دینا وہ ان کی طرح جنگلی نہیں ہے تو ذرا میری بے عزتی کم ہی کروائے لوگوں کے سامنے۔"

"اف بیوی اتنا غصہ مت کیا کریں ۔دیکھو تو بچے ہی ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی خوبصورت ہے اگر اب یہ نہ ہوں تو زندگی بہت بے رنگ ہے۔"

"آپ نے تو یہی کہنا ہے نہ سارا دن تو میں ان کے پیچھے پیچھے پھرتی ہوں۔وہ دیکھیں عمارہ کو۔"

عبداللہ نے عمارہ کے بال تھام رکھے تھے ۔یہ دونوں چھ اور پانچ سال کے تھے۔بہت کم فرق تھا ان میں۔سب سے زیادہ شرارتی تھے یہ دونوں ۔اییک بیٹا 8 برس کا تھا اور ماریہ 10 سال کی تھی۔سب سے چھوٹی فاطمہ تھی جس کی پیدائش پر ولید نے یہ گھر اور بزنس آیت کے نام پر دیا تھا ۔فاطمہ ولید کو بہت عزیز تھی کیونکہ یہ ولید کو اس کے بچپن کا وقت یاد کرواتی تھی۔

"اچھا ناراض تو مت ہو آیت میں آرہا ہوں اندر پھر ملکر ناشتہ کرتے ہیں ۔کبیر دیکھ لے گا فاطمہ کو۔"ولید اندر چلا گیا جب کہ آیت اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی جو کوئی نئی شرارت سوچ رہے تھے.

___________________

شاہ بخت آفس سے تھکا ہوا آیا مگر گھر آکر اسے معلوم تھا کہ اسے سکون نصیب نہیں ہونا۔مہر 10 سالہ حوریہ کو سلا کر آئی تھی۔مہر نے حوریہ کو بھی اپنی ہی طرح کا ذہنی مریض بنا دیا تھا ضدی اور جو چیز چاہیے ہو اسے حاصل کرنا ہے۔

شاہ بخت ہو حوریہ سے بہت محبت تھی۔یہ اسے اپنی جان سے بڑھ کر پیارکرتا۔مہر بھی اس سے محبت کرتی ۔مگر جو خامیاں اس کی شخصیت میں تھی وہیں خامیاں اب وہ حوریہ کی تربیت میں دے رہی تھی ۔

" مہر ایک گلاس پانی لا کر دو مجھے۔"

"آج دیر کیوں لگا دی آپ نے شاہ بخت۔"

"بس وہ آج آفس میں کام زیادہ تھا ۔تم بتائو ہسپتال کیسا رہا تمہارا ۔"

"میرا ہسپتال تو ٹھیک تھا مگر آپ آج کل گھر بہت دیر سے آتے ہیں مجھے بتا دیں کیا کوئی اور لڑکی ہے جس سے آپ کا افئیر چل رہا ہے آج کل۔"

"شرم کر جایا کرو مہر کیا کوشش ہے تمہاری کہ میں و کھڑی سکون بھی نہ لوں اس گھر میں آکر۔تم۔نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔"

"جینا میں نے نہیں حرام کر رکھا آپ کا بلکہ آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے آپ کو آپ کی ہر کمی کے ساتھ اپنایا ہے۔"

"تم کتنی دفعہ مجھے طعنہ دو گی مجھے اس بات کا۔ایسا کرو ایک بار ہی میرا گلا دبا دو۔"

"ہاں ہاں اب تو میں بری ہی لوگوں گی کوئی اور جو آگئی ہے میری جگہ ۔میں تو کہتی ہوں چلے جائیں آپ اسی کے پاس ۔"

شاہ بخت غصے میں باہر چلا گیا۔مہر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا آشیانیہ تباہ کیا تھا۔شاہ بخت اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ان دونوں کی زندگی عذاب تھی اور زیادہ ہاتھ مہر کا ہی تھا۔مہر کی والدہ اس کے پاس آئی اور اسے سمجھانے لگی مگر کوئی حل نہ نکلا آخر میں۔ 

_________________________

فاریہ آیت سے ملنے کے لیئے آئی ہوئی تھی۔نور اس وقت سب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔عائشہ اسے باہر کھیلنے کے لیئے لے کر جانا چاہتی تھی مگر وہ سب سے ڈر رہی تھی ۔یہ بہت زیادہ سنجیدہ بچی تھی ۔فاریہ زیادہ وقت ہسپتال میں رہتی تو نور پر اتنا دھیان نہ دے پاتی جس کی وجہ سے نور کی شخصیت میں دنیا کا ڈر تو نہیں مگر ایک عجیب سے جھجک تھی جس کی وجہ سے یہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔

"نوری ہمارے ساتھ آکر کھیلو نہ۔"

ماریہ نے نور کو اٹھانا چاہا۔

"نہیں نہ ماما میں نے نہیں جانا انہیں کہیں نہ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔"

کبیر فورا سے آیا اور نور کا ہاتھ پکڑ کر اسے فاریہ کے پاس سے اٹھایا۔

"آنٹی آپ ذرا کم پریشان ہوا کریں اس کے لیئے۔ کچھ دن ہمارے پاس رہی گی تو یہ بلکل بدل جائے گی آپ نے اسے بلکل بچی بنا دیا ہے۔"

کبیر نور کا ہاتھ تھام کر باہر لے گیا جسے سب پر بہت غصہ آرہا تھا۔فاریہ آیت کی طرف دیکھنے لگ گئی۔

"میری بات سنو کیسے سنبھالتی ہو تم اتنے بچوں کو۔میں تو حیران ہوتی ہوں میرے دو دو ہی بچے ہیں اور انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔"

"اب تو بڑے ہوگئے ہیں فاریہ۔کبیر اور عائشہ بہت سمجھدار ہیں چھوٹے تین بچے تو میں نے دیکھا بھی نہیں کیسے پل گئے۔یہی ان کا خیال رکھتے ہیں ۔"

"کہاں یاد ہے نہ تم ولید بھائی سے بھاگا کرتی تھی اور کہاں تمہارا دل ہی نہیں لگتا ان کے بغیر اب۔"

"بس زمانہ بدل جاتا ہے فاریہ۔ولید نے مجھے بہت محبت دی ہے اس عرصے میں تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ہر وہ لمحہ جو ان کا میرے ساتھ گزرتا ہے وہ اپنی ماضی کا ہر ایک لمحہ پیار سے مٹا دیتے ہیں ۔وہ سب بھول چکے ہیں تو میں کیوں انہیں یاد کروا کر خود کو برباد کروں۔میرے بچے اپنے باپ کے ساتھ بہت خوش ہیں اور میں بھی۔"

یہ تو بہت اچھا ہے کبھی کبھی دوسرا موقع زندگی میں ضروری ہوتا ہے۔تمہارے گھر کے لیئے میری دعائیں تو ہمیشہ ہی ہیں ۔بچے کہہ رہے تھے مری جائو گے تم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں تو نور اور سلیمان کو بھی لے جانا ۔سب کے ساتھ گھوم پھر لیں گے۔"

"پوچھنے کی بات ہے یہ بھلا میں بچوں کی خالہ ہونا میرے زیادہ حق ہے ان پر۔بھائی خالد نے اجازت دے دی ہے نہ۔"

"ارے وہ تو کہہ رہے تھے کچھ وقت ہم دونوں بھی ساتھ گزاریں تو میں نے کہا بچے تمہارے پاس چلے آئیں اور ہم کہیں گھومنے جائیں گے۔"

"کوئی مسئلہ نہیں ہے فاریہ بچے خوش رہیں گے ہمارے ساتھ ۔تم پریشان مت ہونا۔"

وقت اپنی رفتار کچھ بڑھا دیتا ہے۔کبیر ہاتھ میں کیمرہ لیئے ماں باپ کی شادی کی 20 سالگرہ  پر تصویریں بنا رہا تھا۔آیت نے آج ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔گھر میں صرف بچے تھے اور آیت ولید۔انہیں پسند نہیں تھا کہ یہ اپنی پرسنل لائف میں کسی کو شامل کریں ۔

"بابا آپ سیدھے کھڑے ہوجائیں نہ۔مورے آپ انہیں سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ۔"

کبیر غصہ کر رہا تھا۔

"تمہارے بابا ہیں تم ہی دیکھو میں تو 39 سالوں سے انہیں دیکھتی آرہی ہوں جب سے پیدا ہوئے ہیں ۔"

آیت اپنے مسکراتے چہرے سے ولید کو تنگ کرنا نہیں بھولی تھی۔مہر جو کبھی کہا کرتی تھی کہ آیت کی عمر ڈھل رہی ہے وہ خود بہت جلدی عمر رسیدہ خاتون بن گئی تھی جبکہ آیت خوشی کے ہونے سے آپ بھی زندگی میں ابھی بھی بلکل جوان تھی ولید اس سے آج بھی گئی گنا زیادہ محبت کرتا تھا کل کے مقابلے میں۔

"بیٹا تم ان تصویروں کو چھوڑ دو مجھے کمرے میں جانا ہے نیند آرہی ہے۔"

آیت ولید کے کان کے پاس جھکی۔

"شرم کر جائیں 19 سال کا بیٹا ہے خان کیا سوچ رہا ہوگا آپ کے بارے میں ۔اسے پتا ہے آپ کو نیند نہیں آئی ہوئی ۔"

ولید بھی آیت کے کان کے پاس جھکا۔

"تو اسے بھی سمجھنا چاہیے اب بچے بڑے ہوگئے تو ہمارا اچھا وقت شروع ہوا ہے۔ہمارے درمیان کباب مین ہڈی مت بنیں۔"

کبیر نے کیمرہ رکھ دیا۔فاطمہ ولید کے پاس آئی اور اسے زبردستی ساتھ لے گئی۔آیت جانتی تھی بچے ولید کو بہت تنگ کریں گے ابھی اور ان کی شادی کی کہانی سننے کی ضد کریں گے۔آیت اپنے کمرے کی طرف چلی گئی جب اسے اپنی کمر پر ہاتھ محسوس ہوا پھر ولید نے اس اٹھ لیا۔

"خان، خان کیا کر رہے ہیں ۔"

"بچوں سے بہت مشکل سے پیچھا چھڑوا کر آیا ہوں اب تمہاری تو مجھے بلکل آواز نہ آئے ۔یہ میرا وقت ہے اور مجھے بلکل نہیں پسند اس سے میں کوئی دخل اندازی کرے۔"

ولید اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔مہر اور شاہ بخت مجبوری کی زندگی جی رہے تھے۔ان کے درمیان ان کو جوڑ کر صرف حوریہ ہی رکھتی تھی ۔حویلی ویران ہی ہوگئی تھی بلکل ۔لاوئنج میں آیت اور ولید کے ساتھ بچوں کی بہت تصویریں تھی اور پھر سالوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان تصویروں میں نئے کردار بھی شامل ہوگئے ۔  مگر پرانے کردار اپنی ایک کہانی لیئے ہوئے تھے ایک سبق ۔اس گھر کی بنیاد سمجھوتے پر تھی جو بعد میں پیار میں بدلی اور پھر ایک مشالی خاندان میں ۔کبھی کبھی ایک دوسرا موقع زندگی میں بہت ضروری ہوتا پے۔فضول رسموں سے جب تک ہم خود پیچھا نہیں چھڑوائیں گے وہ ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گی بلکہ ساری زندگی ہمارے ساتھ چپکی رہیں گی اور ہماری نسلوں کو بھی خراب کر دیں۔

_________________

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Khawab Safar Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Khawab Safar written by  Hifza Javed . Ishq Khawab Safar  by Hifza Javed is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages