Chunri Yaar Di By Gul Writes Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 9 June 2024

Chunri Yaar Di By Gul Writes Complete Short Story Novel

Chunri Yaar Di By Gul Writes Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readin...

Chunri Yaar Di By Gul Writes Complete Novel Short Story

Novel Name:Chunri Yaar Di

Writer Name:  Gul Writes

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


لالہ ۔.ہمھیں پکڑو۔۔۔کالی شلوار کمیض پر گولڈن ڈوبٹہ کندھوں سے گزار کر ہاتھوں میں پکڑے وہ اس باغ میں لٹکی پھولوں کی ڈالیوں کو پیچھے کرتے اگے بھاگ رہی تھی اسکے پیچھے ہی وائٹ شلوار کمیض پر کالی شال کندھوں پر ڈالے اسکا مغرور بھائی دھمیے سے بھاگ رہا تھا وہ چاہتا تو اسے سیکنڈ میں پکڑ لیتا مگر ظاہر ایسا کررہا تھا کہ وہ اسے پکڑ نہیں پارہا کیونکہ اپنی اکلوتی جان کی خوشی اسکی چہچہاٹیں اسے بہت عزیز تھی

ہاہاہاہا ۔۔.لالہ تم ہار گیی ۔۔۔۔ ہم پھر جیت گیا۔۔۔ وہ قہقہہ لگاتے بولی کمر پر ہاتھ رکھے وہ اپنے بھائی یمان کو دیکھ رہی تھی جو اب اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھآ

میری خانی کے لئے تو میں زندگی ہار جاؤ یہ کھیل کیا چیز ہے ۔۔۔اسے اپنے ساتھ لگا کر مان بھرا لمس اسکے بالوں میں چھوڑتے وہ اسے اپنے ساتھ لگائے ہی حویلی کی جانب بڑھا

دن ڈھل رہا تھا اور وہ رات تک خانی کو باہر نہیں روک سکتا تھا کیونکہ اس علاقے میں انکے ہزار دشمن تھے

مردان علاقے میں موجود ایک چھوٹا سا گاؤں جسکا نام خان پور تھا وہاں کی گلی گلی میں محبت تھی گھر گھر میں سکون تھا ہر طرف ہریالی رنگ برنگے پھول اس گاؤں کو مزید خوبصورت بناتے تھے وہاں سب سے خوبصورت جو تھی وہ تھی خان حویلی جس میں مکین تبریز خان جنکی شادی اپنی ہی ماموں زات سے ہوئی انکے دو بچے تھے شمشیر خان اور شاداب خان۔۔۔۔ شمشیر خان جنکی شادی انکی ہی کزن ثانیہ بیگم سے ہوئی اور شاداب خان کی شادی ثانیہ کی چھوٹی بہن حرا بیگم سے ہوئی

تبریز خان کے انتقال کے بعد جائیداد کے لیے وہ دونوں بھائی ایکدوسرے کے دشمن بن گئے مگر تبریز خان کی وصیت ملتے ہی ان دونوں کو آدھی ادھی جائیداد مل گئی مگر انکے بیچ بدگمانیوں نے ڈھیرہ ڈال لیا تھا شمشیر خان خان حویلی ہی رہے مگر شاداب خان مرادن میں ہی موجود اپنی دوسری حویلی چلے گئے اس حویلی کا نام انہوں چھوٹے خان کی حویلی رکھا تھا

شمشیر خان کے تین بچے تھے یمان خان ، دامل خان اور چھوٹی مدشاء خان.. یمان خان غصے کا بےحد تیز تھا مگر اسکا ًًًًًًًً غصہ اپنی بہن کے اگے جھاگ کی طرح بہہ جاتا تھا اور شاداب خان کے بھی دو ہی بچے تھے روشیل اور رانیہ ۔۔۔۔ گہری کالی انکھوں والا روشیل خان غصے ازحد تیز اور مغرور انسان تھا اسکے الٹ رانیہ نرم دل حساس تھی اور تھوڑی بہت شرارتی بھی

❤❤❤❤❤❤❤

لالہ ہم نہیں جائیں گے ادھر وہ لوگ عجیب جانوروں کی کھال اوڑھ کر اجاتے ہیں ۔۔۔ پٹھانی فراک پر ڈوبٹہ کو ویل کرکے ایک خوبصورت سی محرون شال کو کندھوں کے گرد اوڑھے وہ غصے سے منہ پھلائے کہہ رہی تھی

بچے ادھر رانیہ اپکا انتظار کررہی ہے اسے انتظار کروانا اچھا نہیں ہے نا۔۔۔.یمان نے کہا اسکا زکر کرتے ہی ایک نازک سراپا لیے خوبصورت حیسنہ اسکی آنکھوں کے پردے پر لہرائی لب گہری مسکراہٹ میں ڈھلے

لالہ آج میں خود گاڑی چلا کر جاونگی ۔۔۔۔ پلیززززز.... اسکے ہاتھ پکڑ کر منت کرنے پر وہ ہوش میں اتے اسے دیکھنے لگا جو معصوم چہرہ بنائے کھڑی تھی

لیکن ۔خانی ۔۔۔۔

لالہ پلیززز۔۔۔۔ وہ آنکھوں میں التجا لیے بولی تو وہ منع نا کرسکا اپنی بہن کی تو ہر خواہش وہ سر آنکھوں پر رکھتا تھا شمشیر خان ہال میں ائے تو ان دونوں کو باتیں کرتے پایا

اجکل تو سب ہمھیں بھول ہی گئے ہیں ۔۔۔کمر پر ہاتھ باندھتے وہ مدشاء کو دیکھتے بولے جو انکی بات سن مسکراتی انکے ساتھ لگی

اپکو کون بھول سکتا ہے ۔۔۔ بابا جان اپ بھولنے والی چیز ہیں کیا ؟؟؟؟؟ یمان نے صوفے پر بیٹھتے پوچھا نظریں کچن سے غصے میں نکلتی ثانیہ بیگم پر تھی

ہمھارا خون ہی ایسا ہے کہ جہاں جائیں وہاں اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔کبھی محبت کی صورت تو کبھی دشمنی کی صورت ۔۔۔۔خانی نے شال سہی کرکے سر بلند کرتے کہا تو ثانیہ بیگم کے ساتھ ان دونوں نے بھی اسکی نظر اتاری

چلو ہم نکلتے ہیں ۔۔۔ ثانیہ بیگم کے گلے ملتے وہ سب سبکو ایک نظر دیکھتی بولی سب کے سر ہلانے پر وہ باہر کو بڑھی جلدی سے گاڑی میں بیٹھتے وہ گاڑی بھگا لے گئی

❤❤❤

سنو رانی یہ خان کہاں ہیں ۔۔۔۔ ماہنور بی بی سرکار کی بھتیجی جو اا حویلی میں ہی قیام پزیر تھی وہ کچن میں کام کرتی رانی (ملازمہ) سے پوچھنے لگی

بی بی جی چھوٹے خان کو کسی کا فون ایا تو وہ حویلی سے چلے گئے ۔۔۔۔ سر جھکا کر موادب سے انداز میں جواب دیتے وہ ہاتھ باندھ گئی کیونکہ ماہنور کا حکم تھا کہ نوکر نوکری کرتے اچھے لگتے وہ انکی مالکن تھی تو انکے سامنے وہ سر جھکا کر بات کیا کریں

اچھا ۔چلو تم کام کرو ۔۔۔۔ اسے کہتی وہ ڈوبٹہ ہوا میں اڑاتی سیڑھیوں کی طرف جانے لگی مگر سامنے بی بی سرکار کو اپنی طرف گھورتا پاکر جلدی سے ڈوبٹہ سر پر لیا

ماہنور ۔۔۔ جن راستوں کی منزلیں نا ہوں ان پر چل کر کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ وہ سخت نظروں سے اسے دیکھتے بہت کچھ باور کروا گئی ماہنور کی بھوری انکھوں میں نمی ابھری کیونکہ بی بی سرکار نے روشیل سے ماہنور اور روشیل کی شادی کی بات کی تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا

ماں جان۔۔اپ مجھے بہت عزیز ہیں ۔۔ اس لڑکی کی وجہ سے اپنا اور میرا رشتہ خراب مت کریں. ۔۔۔۔انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے وہ صرف اتنا کہتے وہاں سے چلا گیا جبکہ بی بی سرکار تو سن ہوکر رہ گئی ۔۔۔ انکی ایک بات پر ہی انکا لخت جگر ان سے خفا ہوگیا تھا کافی مشکلوں کے بعد بی بی سرکار نے اسے منا ہی لیا جبکہ ماہنور ابھی بھی اسے پسند کرتی تھی جس بات بی بی سرکار کو غصہ دلا جاتی

بی بی سرکار جنکی چاہت سچی ہو خدا انہیں ناامید نہیں کرتا ۔۔ایک دن میری قسمت بھی چمکے گی ضرور ۔۔۔۔ وہ انکے سامنے بیٹھتے بولی مسکراتا لہجہ بی بی سرکار نے سر جھٹکا انہین وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہی کچھ سوچنا تھا

❤❤❤❤

اپنی حیثیت کے حساب سے بات کر منشی ۔۔.کہیں ایسا نا ہو کہ تیرا ایک لفظ تیری جان لے لے۔۔۔۔ دامل خان دشمنوں کے منشی کو اپنے علاقے میں انے سے روک چکا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنے انکی سائیڈ انا چاہ رہا تھا

تم میری کیا جان لوگے دامل خان اپنی بہن کو تو بچا نہیں سکتے ۔۔چلے ہو جان لینے ۔۔۔۔ منشی نے شاطرانہ انداز میں کہا دامل کے ہاتھ میں موجود گن پر گرفت ڈھیلی پڑی اسکی خانی کا نام کوئی یوں لے رہا تھا وہ خان تھا اسکی غیرت کہاں گوارہ کرتی تھی

اسے تو کچھ نہیں ہونے دونگا مگر اج تیری سانسیں بند ضرور کردونگا۔۔۔ ایک فائر اسکے دماغ میں مارتے وہ اسے ٹانگ پر مار جلدی سے جیپ میں بیٹھتے کالج کی طرف بھاگا

غصہ والا سہی مگر خانی میں اسکی جان تھی اسکے غصے کا توڑ کوئی پوچھتا تو وہ کہتا خانی... کیونکہ خانی ہی تو تھی جو اسکے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھی

❤❤❤❤

اہہہ ۔۔۔۔ اللہ جی یہ کیا ہوگیا اففف لالہ ۔۔کو ککال کرتی ہوں ۔۔۔وہ اہستہ سے گاڑی چلائے کالج سے واپس ارہی تھی کہ پیچھے سے اسکی گاڑی کو کسی نے ٹکر ماری اسکی گاڑی جھٹکا کھاتے رکی اس سے پہلے وہ یمان کو کال کرتی کہ کسی نے دروازہ کھول کر بازو سے پکڑتے اسے باہر کھینچا اور باہر نکالتے ہی اسکے سر پر بندوق تان دی ۔۔۔

آہہہ ۔۔۔۔سانس روکے پھٹی آنکھوں سے وہ سامنے موجود آدمی کو دیکھ رہی تھی جو اسے اپنی ڈراونی شکل دکھا کر ہی مارنا چاہ رہا تھا سنہری انکھیں نم ہوئی ۔۔انسو ٹپ ٹپ کرتے اسکا نقاب بھگونے لگے سنہری انکھوں میں ڈر ہلکورے لے رہا تھا

لڑکی چل گاڑی میں بیٹھ ۔۔۔ اس سے پہلے وہ اسکا بازو پکڑتا کہ کسی کا زرودار مکہ اسکا جبڑا ہلا گیا پیچھے ہو ہوتے اس ادمی نے خونخوار نظریں اٹھائی مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ اسکا سانس سوکھا

چ۔چھو۔چھوٹے۔۔۔خخ۔خان۔۔۔۔ خوف سے کپکپاتے وہ وہاں سے بھاگنے لگا مگر شیر کے کھار میں اکر کون زندہ بچ پایا ہے آج تک ؟؟؟ ایک پنجا اسکے گدی پر رکھتے وہ اسکو گردن سے پکڑ کر اوپر اٹھا چکا تھا

ہمت بھی کیسے ہوئی خانوں کی عزت کو دیکھنے کی بھی ۔۔۔ تو نے اسے چھوا ۔۔۔۔ میری خانی کو چھوا ۔۔۔ زخمی شیر کی طرح غرارتے وہ اس پر جھپٹ پڑا در پر در اسکے آنکھوں پہ مکے برساتے وہ بھول ہی گیا تھا کہ پیچھے موجود وہ نازک سا وجود اپنے نام کی طرح ہے بےحد نازک اس شخص کی چیخیں سن مدشاء حواس کھوتے زمین پر گری

اسی ہاتھ سے چھوا نا تو نے خانی کو ہاں۔۔۔ اسکا بایاں ہاتھ پکڑے وہ سلگتی نگاہوں سے اسے گھورتے پوچھنے لگا پھر اسکے کندھے پر پیشاوری چپل میں مقید پاؤں رکھتے وہ اسکے اسی بازو سے زور سے کھینچنے لگا کہ وہ ادمی درد سے تڑپنے لگا آنکھوں سے تو وہ محروم کر ہی چکا تھا اب اس ہاتھ کی تکلیف وہ کیسے برداشت کرتا ایک دلخراش چیخ اور وہ وہی ڈھیر ہوگیا اسکی رکی سانس محسوس کر وہ اپنے ہاتھ جھاڑتے پیچھے مڑا مگر سامنے کا منظر اسکا دل چیر گیا اسکی خانی گرم تپتی مٹی پر گری ہوئی تھی جلدی سے اسکی طرف بڑھتے وہ اسے اپنی مضبوط بازؤوں کے حصار میں لیتے اپنے گاڑی کی طرف چل پڑا

خانی اٹھیں ۔۔۔ خانی ۔۔۔اسکا اصل نام تو وہ جاننے سے محروم تھا مگر شرور سے سنتا خانی نام تو اسکی نس نس میں بسس چکا تھا کوئی اس سے پوچھتا کہ زندگی کیا ہے تو وہ بسس ایک ہی لفظ ""خانی"" کہہ کر ہر چیز بیان کردیتا

.

ابا۔۔ گاڑی روکو ۔۔۔رانیہ جو اسی راستے سے جارہی تھی مدشاء پھر روشیل کی گاڑی دیکھ ڈرائیور کو بولی گاڑی رکتے وہ باہر ائی

لالہ کیا ہوا اور یہ مدشاء ۔۔۔اوو اللہ اسے کیا ہوا ۔۔۔۔ رانیہ روشیل کی طرف ائی مگر مدشاء کو بےہوش پڑا دیکھ وہ چونکی

رانو انکی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا تو یہ بےہوش ہوگئی۔۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو کمر پر باندھتے اطمینان سے بولا جبکہ رانیہ سر ہلاتے اسے ہوش میں لانے لگی اسکا نقاب کھولتے وہ پانی کی بوتل اسکے گلابی ہونٹوں سے لگا چکی تھی جبکہ روشیل رخ موڑے کھڑا تھا

ایسا نہین تھا کہ وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتا ۔۔وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا مگر جب وہ اسکی بنے ۔۔۔ پور پور اسکے لیے سجے ۔۔تب وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا اسے اسکی خوبصورتی کو سراہنا چاہتا تھا مگر اس سب کو وقت درکار تھا تھا

مدشاء ۔۔ بہت خوبصورت ۔۔۔۔اسکا نام دوہراتے وہ مسکرایا

❤❤❤❤❤❤

ماں جان اج میری دوست بےہوش ہوگئی تھی راستے میں پھر لالہ نے انکی مدد کی ۔۔۔ رانیہ نے بی بی سرکار کے تخت پر بیٹھتے بتایا تو ماہنور کی نظریں رانیہ سے ہوتے چھوٹے خان پر گئی اس نے شدت سے لب بھینچے

کیوں اسکی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھی کیا ۔۔۔۔؟؟ مٹھیاں بھینچتے اس نے سلگتی نگاہوں سے رانیہ کو دیکھا جو چہک چہک کر بتا رہی تھی اور بی بی سرکار اپنی بیٹی کی خوشی دیکھ رہی تھی اوپر سے اترتی خان بی بی نے اسے سخت نظروں سے گھورا

سے لڑکی زبان سنبھال کے بات کر میری پوتی سے ۔۔۔۔ بہو تو نے سر چڑھا رکھا ہے اسے دیکھ کیسے بنا ڈوبٹے کے خان کے سامنے دندناتی پھر رہی ہے ۔۔۔۔ خان بی بی نے سختی سے کہا تو بی بی سرکار نے ماہنور کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا کیونکہ جو انسان خان بی بی کے ہتھے چڑھتا وہ اسے کسی قابل نا چھوڑتی

اے کلموہی ۔۔۔ادھر ا ۔۔۔ ماہنور کو جاتے دیکھ وہ اسے سخت تیوروں سے گھورنے لگی تو وہ جلدی سے سر ہلاتی خان بی بی کے پاس ائی انکا خوف ہی اتنا تھا کہ ماہنور کی زبوں تالو سے جا چپکی تھی

بی جان۔۔۔ اپکو پتہ ہے وہ بہت پیاری ہے ۔۔۔ میرا دل کرتا ہے کہ اسے دوست سے بھابی کے رشتے میں تبدیل کر دوں ۔۔۔ انکے کان میں پھسپھساتے وہ انکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی انکی خانی بھی تو ایسی ہی تھی

کیا نام ہے اسکا ۔۔۔ خان بی بی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تختے پر بیٹھتے اس نے اسے اپنے پاس ہی بیٹھا لیا جبکہ بی بی سرکار تو ماہنور کو وہاں سے غائب کرتی دادی پوتی کی محبت دیکھنے لگی

مدشاء شمشیر خان۔۔۔ویسے بی جان کتنی عجیب بات ہے کہ بھی خان ہم بھی خان مگر ہمارا کوئی رشتہ ہی نہیں ۔۔۔۔ رانیہ نے منہ بناتے کہا تو خان بی بی نے گہری سانس بھری `شاید وقت اگیا تھا`

وہ تیری چاچی کی بیٹی ہے ۔۔۔ خان بی بی نے اسکی سماعت میں بم پھوڑا رانیہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا پھر ہنسنے لگی خان بی بی نے ناگواری سے اسے ہنستے دیکھا وہ اتنی سیریس بات بتا رہی تھی اور وہ ہنس رہی تھی

مزاق اچھا ہے بی جان ۔۔۔۔ وہ انکے گلے لگتے اہستہ سے بولی مگر خام بی بی نے اسکے ہاتھ پر ہلکا سا تھپڑ مارا

میں کل جارہی ہوں خان حویلی اپنے بڑے بیٹے شمشیر خان کی طرف ۔۔۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا شوہر کی وفات کے بعد وہ بیٹوں میں بٹ کر رہ گئی تھی پانچ ماہ ایک گھر تو پانچ ماہ ایک کے گھر رانیہ سنجیدہ ہوئی

بی جان اگر وہ میری ہی کزن ہے تو میں اپنی خواہش کو حسرت تو نا بناو نا ۔۔۔۔ رانیہ نے سوالیہ نظروں سے خان بی بی کو دیکھا جو خود سوچ میں مبتلا تھی

اسلام وعلیکم اماں جان۔۔ انکے ہاتھ پر بوسہ دیتے شاداب خان نے سلام کیا تو خان بی بی نے انکے سر پر پیار کرتے جواب دیا

شاداب ۔۔.کل میں خان حویلی جارہی ہوں اور رانیہ بھی میرے ساتھ جائے گی ۔۔۔ انہوں نے حکمیہ لہجے میں کہا تو شاداب خان نے چونک کر انہیں دیکھا

ماں جان وہ۔۔۔ خان ۔۔۔۔

کوئی کچھ کہے شاداب میرے جگر کے ٹکڑے ہو تم دونوں ۔۔۔ تمھاری اولادوں کو بھی تو معلوم ہو کہ تمھارا ایک بڑا بھائی بھی ہے ۔۔۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا رانیہ اور بی بی سرکار نے انہیں دیکھا وہ اج پہلی بار یہ بات کررہی تھی

دشمن کے گھر ۔۔۔

یہ میرآ حکم ہے ۔۔۔۔ اسے گھورتے وہ اونچی اواز میں بولی تو وہ دونوں چپ کرکے رہ گئے جبکہ روشیل تو کچھ اور ہی سوچنے لگا تھا

❤❤❤❤❤❤

ماں جان خان بی بی ارہی ہیں نا ۔۔کب ائنگی وہ ۔۔۔ خانی کبھی یہاں کبھی وہاں ٹہلتی بےچینی سے انکا انتظار کررہی تھی کہ پورچ میں گاڑی کہ اواز سن وہ خوشی سے اچھلی اور دروازے کی اوٹ میں چھپی

ٹھااااا ۔۔۔۔ وہ اندر انے والی ہستی کو ڈرانے کی کوشش کرتے اسکی اچانک اسکے سامنے ہوتی بازو وا کرتی اسکے گرد لیپیٹنے لگی مگر سامنے موجود لمبے چوڑے وجود کو دیکھ اسکی سنہری آنکھیں کھلی ۔۔۔

اور سامنے والا وجود تو حیران رہ گیا وہ پری یا وہ اپسرا اس دنیا کی نا لگتی تھی وہ کاجل سے سجی سنہری آنکھیں وہ گلابی ناک میں پہنی سونے کی بالی اسکی پھولوں سے گلابی ہونٹ ہونٹوں کے نیچے موجود تل ۔۔۔وہ کیسے نا فدا ہوتا ایسا حسن اس نے پہلی بار دیکھا تھا خان بہت خوبصورت ہوتے ہیں یہأ سے معلوم تھا کیونکہ وہ خود بھی خان تھا مگر سامنے اس پری پیکر کو دیکھ اسے اپنا حسن پھیکا لگا

❤❤❤❤❤

اپکو کیا لگتا ہے خان سائیں خان بی بی پرانی باتوں کو سچ کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟ بی بی سرکار انکے سامنے تختے پر بیٹھی جو گہری سوچوں میں گم تھے

ہممم۔۔اثار تو ایسے ہی نظر آرہیں ہیں بیگم سائیں ۔۔۔اگر ایسا ہوا تو خانی کو اپنے میکے سے تعلقات ختم کرنے پڑے گے ۔۔۔۔۔ شاداب خان کی سنجیدہ اواز ابھری کچن میں جاتی ماہنور کے قدم تھمے ۔۔. حیرانی سے انکی باتوں کا مطلب سمجھتے اس نے ایک نظر بی بی سرکار کو دیکھا جو خانی کت نام پر ہی کھل سی گئی تھی

خان سائیں ۔۔۔ خان حویلی والے یہ ممکن ہونے ہی نہیں دینگے ۔ اور ویسے بھی چھوٹے خان تو میری منگ ہیں ۔۔.بی بی سرکار سے میرے ابا حضور شادی طے کرچکے تھے اگر چھوٹے خان منع نا کرتے تو اج میں انکی بیوی ہوتی ۔۔۔ ماہنور کی دخل اندازی ان دونوں کو ہی ناگوار گزری شاداب خان نے سرد نظریں اسکی طرف اٹھائی تو ماہنور کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا

بیوی ہوتی لڑکی ۔۔تم بیوی ہو نہیں ۔۔۔اگر میرا شیر مان بھی جاتا تو یہ کبھی ممکن میں نا ہونے دیتا کیونکہ میرے بھائی کی بیٹی کی میرے یمان کی منگ ہے شروع سے ۔۔۔۔ تختے سے کھڑے ہوتے وہ سرد لہجے میں بولے اس سب میں وہ اپنے جانی دشمن کو اپنا بھائی مان گئے تھے ماہنور نے سانس روکے انہیں دیکھا

جاؤ یہاں سے ماہ۔۔۔۔ بی بی سرکار نے زور دار اواز میں کہا تو وہ جلدی سے وہاں سے بھاگی اسکی دن بدن کی حرکتیں بی بی سرکار کو کچھ سنگین سوچنے پر مجبور کررہی تھی

❤❤❤

بی جان یہ حویلی تو بہت خوبصورت ہے ۔۔۔ ہم کتنے دن ٹھہرے گے یہاں۔۔۔ حویلی دیکھ کر ہی رانیہ کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی خوشی سے چہکتے وہ بی جان کا بازو پکڑ گئی جو اسکی خوشی دیکھ کر ہی کسی سوچ میں ڈوبی تھی

جب تک تیرا دل چاہے ۔۔۔ تو یہاں رہ سکتی ہے ۔۔.تیری ماسی کا گھر ہے یہ ۔۔۔۔ بی جان نے روشیل کے دروازہ کھولنے پر چھڑی آٹھاتے بایر نکلی مگر سامنے جوانوں کو روشیل پر بندوق تانے دیکھ وہ غصے سے اگ بگولہ ہوئی جبکہ گاڑی سے خان بی بی کو نکلتے دیکھ سب بندوقوں کے ساتھ اپنا سر بھی جھکا گئے

بی جان اپ جلدی ہی واپس ائے گا ۔۔۔۔ انکا ماتھا چوم کر وہ انکے سامنے جھکتے گویا ہوا تو بی جان نے اسکی کشادہ پیشانی پہ لب رکھے پھر جب وہ بولی تو روشیل خان نے چونک کر انہیں دیکھا

اب میں چاہتی ہوں۔۔۔خان کہ اس خاندان اور انکے لوگوں کے بیچ کی ہر دراڑ مٹ جائے. ۔۔۔۔ رانیہ ہو حویلی کو تکتا پاکر وہ سنجیدگی سے بولی نظریں اسکے پراعتماد پرسکون چہرے پر تھی

ان دونون کی محبت مثالی ہے مگر اپنی انا اور محبت میں ان دونوں نے ہی انا کو عزیز رکھا ہے ۔۔۔ میں نہیں کرپائی ۔۔مگر مجھے یقین ہے کہ تم یہ کرلو گے ۔۔۔۔۔ اسکا شانہ تھپتھپاتے وہ بہت ہی پراعتماد انداز میں گویا ہوئی وہ جانتی تھی ان بھائیوں کی صرف انکے سپوت ہی اجاگر کرسکتے تھے کیونکہ سنا تو ہوگا نا اپ نے کہ سانپ سے زیادہ زہریلا سپولہ ہوتا ہے.....

بےفکر رہیں بی جان ۔۔۔ اپکی امید پر پورا اتروں گا ۔۔۔۔۔ نرم مسکراہٹ اور مظبوط لہجے میں کہتے وہ انہیں مان بخش گیا خان بی بی صدقے واری جاتی اسے اندر چلنے کا کہنے لگی جس پر وہ رانیہ کو اپنے ساتھ لگائے اندر بڑھا کیونکہ رانیہ شہزادی کبھی یہاں تو کبھی وہاں ٹہلنے لگ جاتی تھی

انکی حویلی خوبصورت تھی بہت خوبصورت تھی مگر اس حویلی کی بات ہی کچھ اور تھی ایک عجب سا احساس اسکی روح میں گھل رہا تھا

❤❤❤❤

ماں جان خان بی بی ارہی ہیں نا ۔۔کب ائنگی وہ ۔۔۔ خانی کبھی یہاں کبھی وہاں ٹہلتی بےچینی سے انکا انتظار کررہی تھی کہ پورچ میں گاڑی کہ اواز سن وہ خوشی سے اچھلی اور دروازے کی اوٹ میں چھپی

ٹھااااا ۔۔۔۔ وہ اندر انے والی ہستی کو ڈرانے کی کوشش کرتے اسکی اچانک اسکے سامنے ہوتی بازو وا کرتی اسکے گرد لیپیٹنے لگی مگر سامنے موجود لمبے چوڑے وجود کو دیکھ اسکی سنہری آنکھیں کھلی ۔۔۔

اور سامنے والا وجود تو حیران رہ گیا وہ پری یا وہ اپسرا اس دنیا کی نا لگتی تھی وہ کاجل سے سجی سنہری آنکھیں وہ گلابی ناک میں پہنی سونے کی بالی اسکی پھولوں سے گلابی ہونٹ ہونٹوں کے نیچے موجود تل ۔۔۔وہ کیسے نا فدا ہوتا ایسا حسن اس نے پہلی بار دیکھا تھا خان بہت خوبصورت ہوتے ہیں یہأ سے معلوم تھا کیونکہ وہ خود بھی خان تھا مگر سامنے اس پری پیکر کو دیکھ اسے اپنا حسن پھیکا لگا

تم۔ .... اس حویلی میں داخل ہونے کی جرات بھی کیسے کی تم نے ۔۔۔دامل خان سیڑھیوں سے اترتے ڈھاڑا اسے تو وہ منشی ہی نہیں بھول رہا تھا کہ سامنے روشیل خان کو دہکھ اسے اپنا وجود سلگتا ہوا محسوس ہوا

میں یہاں تم سے لڑنے نہیں ایا دامل ۔۔۔تو بہتر ہوگا اپنے ہاتھ سنبھالوں ۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو جھٹکتے وہ سکون سے سینے پر بازو باندھتے اسے دیکھنے لگا جو سرخ ہورہا تھا انکھوں میں عجیب سا طیش روشیل نے نظریں پھیری تو اس دشمنِ جاں سے ٹکرائے جو اپنے بھائی کی غصے بھری اواز سن کر ہی بےہوش ہونے کے در پر تھی

تم جیسوں۔۔۔۔۔

دامل خان پیچھے ہٹو ۔۔یہ ہماری حویلی ہے ۔۔۔۔ جسکو تم اکھاڑہ سمجھ کر لڑنے میدان میں اتر ائے ہو ۔۔۔۔ خان بی بی کی کرخت اواز پر دامل نے مٹھیاں بھینچتے روشیل کو گھورا جو تمسخرانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھآ دامل کے دیکھنے پر روشیل کے ہونٹوں پر دل جلاتی مسکان بکھری

مہمان ائے ہیں شیر ۔۔۔۔صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے شمشیر خان کو دیکھ خان بی بی نے رانیہ کے ساتھ انکے پاس اتے کہا تو وہ سر کو خم دیتے اٹھے اور خوش دلی سے روشیل سے بغلگیر ہوئے

کیسی ہے ہماری بیٹی ۔۔.رانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ نرم لہجے میں بولے تو خوفزدہ سی رانیہ کی سانس میں سانس آئی اسکی نظریں ابھی مدشاء سے نہیں ٹکرائی تھی اور یمان کی نظریں تو رانیہ پر تھی

ہم ٹھیک ہیں تایا جان ۔۔وہ اہستہ سی اواز میں بولی جانی پہنچانی اواز سنتے مدشاء کے کان کھڑے ہوئے یمان کے پیچھے سے بلی جتنا سر نکالتے اس نے سامنے دیکھا تو سامنے کھڑی رانیہ کو دیکھا اسے دیکھتے اسکی سنہری انکھوں میں چمک سی ابھری

رانی ۔۔۔۔ خوشی سے اچھلتی وہ گرم جوشی سے اسکے گلے لگی خان بی بی تو وہی پڑے تختے پر بیٹھ گئی تھی تھی ثانیہ بیگم نے حیرانی سے انہیں دیکھا پھر نظریں پھیر گئی

خانی پیچھے ہٹیں ۔۔۔۔ دامل نے اسے جلدی سے رانیہ سے دور کیا اسے ڈر تھا کہ کچھ ہو نا جائے وہ سب دشمنوں سے محبت نا کرنے لگ جائے....

اسلام وعلیکم لالہ ۔۔۔۔ روشیل کو دیکھ وہ ہلکا سا مسکرائی تو روشیل کا حلق تک کڑوا ہوگیا جن نظروں میں تھوڑی دیر پہلے چاہیت تھی وہی اب بیزاری چھا گئی

اس کا کچھ کرنا پڑے گا ۔۔.منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے وہ جلدی سے خدا حافظ کرتے وہاں سے نکلا اسے جلد ہی کچھ سوچنا تھا ایسے تو وہ لوگ اسکے ہتھے ہی نہیں چڑھنے تھے

منشی ۔۔۔. دور پڑے بےجان وجود کو دیکھ وہ بڑبڑایا گاڑی روک وہ جلدی سے اترتے بھاگا بھاگا وہاں گیا منشی اسکے چاچو جیسا ہی تو تھا ہر ناز نخرے اٹھاتا تھا انکے لیکن اسکا یہاں ہونا ؟؟؟؟وہ بھی اس حالت میں ؟؟؟؟؟

یمان ایسا نہیں کرسکتا مگر دامل ۔۔.اسی نے کیا ہے ہے ۔۔۔۔ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتے اس نے موبائل نکالا اور کسی کو کال کرنے لگا

شیراز پنچائیت میں اکھٹا کرو سب ۔۔۔۔۔۔ حکمیہ انداز میں کہتے اس نے کال ہی کٹ کردی منشی کی فیملی کوئی نہیں تھی کہ تو انکے ہی گھر کا ایک فرد تھا اسکی حالت دیکھ روشیل کا دل کیا دامل کو جان سے مار ڈالے ۔۔۔۔مگر اسے اس چیز کا فائدہ اٹھانا تھا شمشیر خان جو اس گاوں کے سردار تھے یقیناً وہ مثبت فیصلہ ہی کرتے

❤❤❤❤❤

ایم سوری ۔۔۔ پانی کی غرض سے وہ کچن میں گئی جہاں ملازمین اپنے روئ روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے اور ثانیہ بیگم ان سبکو دیکھ رہی تھی

اسلام وعلیکم خالہ جان۔۔۔۔ وہ انکے پاس جاتے مسکرا کر انکے گلے لگی ایک پل تو وہ حیران رہ گئی انہیں لگا جیسے انکی چھوٹی بہن ان کے ساتھ ہو ہوش میں اتے وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیر گئی وہ اتنی کمزور نا تھی کہ رو پڑتی

کیسی ہو۔۔۔۔ اسے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھنے کا کہہ کر وہ ملازمہ سے کچھ کھانے کو نکلانے کا کہنے لگی کہ سارے ملازمین ایکدم سائیڈ پر ہوتے ہاتھ باندھ کر سر جھکا گئے

فریج سے پانی کی بوٹل نکال کر ڈائینگ ٹیبل پر رکھی کہ اسکی طرف پیٹ کی بیٹھی رانیہ نے پانی کو اپنے سامنے پڑا دیکھ جلدی سے پانی اٹھائے لبوں سے لگا لی پیچھے کھڑے یمان نے گھور کر اسکی کالی شال میں لپٹے وجود کو گھورا

خالہ جان شکر ہے پانی تو نصیب ہوا ورنہ مجھے لگا ادھر... پیاسا ہی مر جانا ہے میں نے ۔۔۔۔ بوٹل خالی کرکے ٹیبل پر رکھتے وہ مڑی کہ سامنے یمان کو دیکھ ڈر ہی گئی جو آنکھیں نکالے کھڑا تھا

خالہ جان کے بیٹے کا شکر کریں ۔۔۔۔ سنجیدہ بارعب اواز میں کہتے وہ رانیہ کا دل دھڑکا گیا ارے پاگل لو شو نہیں ُُُُُُُُخوف سے

سوری لال۔۔..۔

یہاں رہنا ہے تو یہاں کے اصول بھی جان لو۔۔۔اصول توڑو گی تو تمھاری خالہ جان بھی تمںیں بچا نہیں پائینگی ۔۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ وہ اسکی بات بیچ میں ہی اچک گیا اتنی تزلیل پر رانیہ کی جھکی آنکھیں نم ہوئی

ج۔ججی۔۔۔ سر ہلاتی وہ جلدی سے وہاں سے جانے کی کرنے لگی مگر اس ظالم کی اواز پر پھر سے رکی

پانی کی بوٹل اٹھا کر دو ۔۔۔۔۔ سرد لہجے میں کہتے وہ بنا اسے دیکھے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اتنی دیر سے دیکھتی ثانیہ بیگم جلدی سے اگے بڑھی رانیہ کو جانے کا کہتے وہ ملازمہ کو پانی اٹھا لانے کا کہتی باہر نکل گئی

❤❤❤❤❤

میں تمھیں اتنا مس کررہی تھی.... اب ہم اکھٹے ہی رہیں گے واو ۔۔۔۔۔ رانیہ مدشاء کے روم میں اتے بولی جو اسکو دیکھ کر ہی مسکرا رہی تھی سنہری کاجل سے لبریز آنکھیں مسکرا رہی تھی

کاش میں لڑکا ہوتا.... تو تو تم سے شادی کرلیتا......دل پر ہاتھ رکھتے وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تو مدشاء کی ہنسی نکلی اسکی ڈرامے بازیاں بسس ....افففف

اگر تم لڑکا ہوتی.... تو میری جان تم میرے ساتھ یا میرے پاس نا ہوتی....... اسکی چھوٹی سی ناک کر کھینچتے وہ مسکرا کر بولی جو رانیہ بھی ہنسنے لگی اسے فریش ہونے کا کہہ کر وہ خان بی بی سے ملنے چلی گئی جو اسی کے انتظار میں تھی

❤❤❤❤❤

اہ۔۔۔س۔سوری لالہ۔۔۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھتے سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ سامنے اتے وجود کے ساتھ ٹکڑائی جلدی سے سوری کرتے وہ واپس بھاگنے لگی کہ نرم لہجے پر رکی مڑ کر دیکھا

کوئی بات نہیں بچے ۔۔۔۔۔ دامل نے سائیڈ مسکراہٹٹ سے کہا وہ سب غصے والے ضرور تھے مگر بدلحاظ ہرگز نہیں تھے گھر ائے مہمان کی مہمان نوازی کرنا انہیں اچھے سے آتا تھا

شکر ہے یہاں سب اچھے ہیں ۔۔سوائے ایک کہ ۔۔۔۔وہ بڑبڑائی جو دامل کے تیز کانوں نے سن لی

کون اچھا نہیں ہے ۔۔۔۔۔ دامل نے نرمی سے مسکرا کر پوچھا تو رانیہ نے کچھ دیر سوچنے کے انداز میں اسے دیکھا

اسکے اس طرح دیکھنے کا دامل کو ہنسی تو بہت ائی مگر وہ ضبط کرگیا کیونکہ پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا وجود بھی اپنی تعریفیں سننا چاہ رہا تھا

اپکا وہ کھڑوس بھائی مگرمچھ جیسی آنکھیں ایسے کھولتا ہے کہ بندہ خوف سے ہی مر جائے ۔۔۔۔۔۔منہ بنا کر کہتے وہ اپنی شال سہی کرنے لگی اسکی بات سن جہاں یمان کے وجیہ ماتھے پر بل ائے وہی دامل کا ریلنگ کے ساتھ لگتے ہنسنے لگا کیونکہ یمان کا سرخ منہ اسے مزہ دے رہا تھا

رانی۔۔۔ مدشاء کی اواز پر وہ مڑی مگر سامنے کھڑے سات فٹ لمبے وجود کو دیکھ اسکی انکھیں کھلی مدشاء نے ہنستے ہوئے دامل کو گھورا پھر جلدی سے اگے ائی کیونکہ یقیناً اب وہاں اسکی ضرورت پڑنی تھی

لڑکی ہمارے گھر اکر ہمھیں ہی برا کہہ رہی ہو ۔۔۔ کہتے ہی اسکی اواز کافی اونچی ہوئی کہ مدشاء نے اسکا بازو اپکڑا یمان نے مدشاء کو دیکھتے لمبی سانس لی جبکہ رانیہ تو اب رونے ہی لگی تھی

لالہ ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔ اسکو روتے دیکھ وہ نم انکھوں سے بولی تو وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے بنا رانیہ کو دیکھے وہاں سے چلا گیا مدشاء اسکے پاس ائی جو رو رہی تھی

رانی سوری ۔.پلیز رو تو مت نا... لالہ مزاق کررہے تھے تم رو نہیں۔۔۔ دامل لالہ ۔۔۔اپ جاو ادھر سے ورنہ میں بابا کو کہہ دونگی ۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی تو دامل نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔ کیونکہ مدشاء کا غصہ ان بھائیوں سے بھی زیادہ خطرناک تھا

تم رونے کیوں لگی ہاں۔۔۔؟؟؟ تم آج چپ کروگی نا تو یہ لوگ تمھیں مزید ڈی گریڈ کرینگے ۔۔۔ حویلی میں رہتے ہیں ہم... مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جھک کر رہیں ۔۔اجکل کی لڑکیاں وہ کر جاتی جو لڑکے بھی نہیں کرسکتے سمجھی ۔۔۔ اسے چپ دیکھ وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتی اسے پانی پکڑا گئی اور خود اٹھ کر یمان کے روم میں چل دی 

❤❤❤❤

دامل یمان چلؤ ۔۔۔۔ شمشیر خان کی اواز پر مدشاء کو مناتے یمان نے ناسمجھی سے نیچے کی طرف دیکھا جہاں شمشیر خان سردار کے روپ میں کھڑے تھے 

خانی میری جان لالہ ابھی جارہیں ہیں میں بعد میں اکر اپنی گڑیا سے بات  کرو نگا اچھا۔۔۔۔ آب مسکرا دو۔۔۔۔ وہ منت بھرے لہجے میں کہتے وہ اسکی طرف طرف دیکھنے لگا جو منہ بناتی مسکرا دی ...اگر جو اسے معلوم ہوتا اسکی بہن کی یہ اخری مسکراہٹ دیکھنا اسکے نصیب میں ہے تو وہ اسے کبھی نا مسکرانے دیتا 

چلیں جائیں اب جلدی ائیے گا ۔۔۔۔۔ اسکو دیکھتے وہ مسکرا کر بولی اتنے میں دامل بھی اسکے پاس ایا اسکے سر پر پیار کرتے وہ دونوں وہآں سے نکل گئے........... 

یہ اپ واپس کیسے آگئے... ابھی تو گیے تھے ؟؟؟ دامل کو اپنے کمرے میں اتے دیکھ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا تو دامل نے پھیکی مسکراہٹ سے اسے دیکھا

بابا جان بلا رہیں ہیں تمھیں ۔۔۔۔ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا تو مدشاء نے کیس اٹھا کر جاتی رانیہ کو دیکھا پھر دامل کو اسکے اشارہ کرنے پر وہ جلدی سے شال لیتے باہر گاڑی میں بیٹھی

دامل لالہ ہم کدھر جارہے ہیں ۔۔۔۔ اور کیوں ایسے تو کبھی نہیں لے کر گئے اپ ہمھیں... آج اپکو یاد اگیا ہمھیں گھمانا ۔۔۔سنہری انکھوں میں چمکتے کاجل کی مسکراہٹیں عروج پر تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ کچھ ہی دیر میں وہ مسکراتی آنکھیں بے جان ہوجائے گی ان انکھوں میں چمکتے وہ خوشی کے دیپ بجھ جانے تھے

دامل نے سنجیدگی سے اسکی مسکراتی انکھوں کو دیکھا جلدی سے سامنے دیکھتے وہ اگے انے والے وقت کے لئے خود کو تیار کرنے لگا تھا بےشک وہ مشکل تھا مگر ناممکن تو ہرگز نہیں تھا پھر ہر گاؤں کی ریت تھی ونی یہ کوئی نئی بات تو نا تھی جو وہ روگ لگا لیتا

مدشاء۔۔۔۔ غم سے بھاری ہوتی اواز گاڑی سے باہر دیکھ رہی مدشاء کے کانوں میں گونجی تو اس کی سنہری انکھوں میں بےچینی در ائی پہلے تو کبھی اس نے مدشاء نا بلایا تھا پھر اب ۔۔۔۔ اسکی طرف دیکھا جو سامنے دیکھ رہا تھا اسٹیرنگ پر اسکے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوئی

تم جانتی ہو نا میں بہت محبت کرتا ہو تم سے ۔یمان لالہ بابا جان ماں سائیں ہم سبکی جان ہو تم ۔۔ اس نے پرامید نظروں سے اسے دیکھا جو مدشاء نے ناسمجھی والے تاثرات آنکھوں میں سجائے سر ہلایا دامل کی سرخ انکھوں میں چھپی وہ نمی اسے کچھ کھٹک رہی تھی دل ہی دل میں کلمے کا ورد کرتے اس نے دامل کو دیکھا تاکہ وہ اگے بولے

بابا جان نے تمھاری شادی کا فیصلہ کیا ہے اور اج ہی تمھارا نکاح ہے ۔۔۔۔ وہ اسے شاید اصل بات بتانا نہیں چاہ رہا تھا لیکن کیا اسے واقع پتہ نا چلتا ؟؟؟ مدشاء نے پہلے تو سر ہلایا مگر پھر جھٹکے سے اسکی جانب دیکھا

لالہ ۔۔.ایسے کیسے ۔۔میں بوجھ بن گئی ہو اپ لوگوں پر جو اپ لوگ اتنی جلدی مجھے ایسے اتار کر پھیکنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ بولتے بولتے ہی اسکی اواز گلوگیر ہوگئی انکھوں سے انسو چھلکے کہ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی گاڑی سے اترتے دامل اسکی جانب کا دروازہ کھولتے اسے اترنے کا کہنے لگا

اپ لوگ اچھا نہیں کررہے ۔۔۔۔ میں بابا کو بولونگی ۔۔۔. شال سے خود کو اچھی طرح ڈھانپتے وہ گاڑی سے اتری کہ خود پر سخت نظروں کی تپش محسوس کر اس نے سر اٹھائے اپنی بائیں طرف دیکھا مگر یہ کیا وہاں تو کوئی لڑکی جھاڑیوں میں کھڑی اسے. نفرت امیز نظروں سے گھور رہی تھی

خانی ۔۔۔۔ اپنے نام کی پکار پر اس نے سامنے لگی پنچائیت کو دیکھا جانے کس احساس کے تحت اسکا دل گھبرا گیا دامل کا بازو پکڑتے اسکے پیچھے چھپی

چلو میری جان۔۔۔اسکا نازک سا ہاتھ پکڑتے وہ اب اپنے احساسات پر قابو کرتے اگے بڑھا اسکا بڑھتا ہر قدم مدشاء کے جسم سے جان نکال رہا تھا بھلا کیوں وہ اسے وہاں لایا تھا وہاں تو صرف ونی کی جانے والی لڑکیوں کو لایا جاتا تھا ۔۔۔ کیا وہ ونی کردی جائے گی ؟؟؟ کیا اسکے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی ؟؟؟ کیا وہ بھی گھٹ گھٹ کر جئے گی... ؟ شاید ہوں مگر قسمت کا لکھا کون جان سکتا ہے وقت سے پہلے .....

❤❤

بی بی سرکار ۔۔۔۔ اپ اچھا نہیں کررہی میرے ساتھ ۔۔.اپکو پتہ ہے اس لڑکی کا یہاں انا مجھے کتنا ناگوار گزرے گا پھر بھی اپ اس ڈائن کو یہاں بلا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ ماہنور نے شال اتار کر پھینکتے غصے سے تختے پر بیٹھی بی بی سرکار کو دیکھا جو اسے ہی غور سے دیکھ رہی تھی

دیکھو ماہ۔۔۔ وہ ونی کی جائے گی یعنی اسکی کوئی عزت نہیں ۔۔۔نا ہی وہ روشیل کی بیوی ہوگی ۔۔۔اگر تم اپنا لہجہ اپنے انداز قابو میں رکھو تو ہوسکتا ہے ہم خان کو منا لیں تمھاری اور چھوٹے خان کی شادی کے لئے ۔۔.بی بی سرکار نے کچھ سوچتے جواب دیا ماہنور نے مٹھیاں بھینچتے انہیں دیکھا مگر بات تو ٹھیک تھی ونی ونی ہی ہوتی ہے گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے

لیکن بی بی سرکار پھر اس ونی کا کیا کرینگے ۔۔۔۔۔ ماہنور نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا پھر کسی خیال کے تحت اسکی انکھیں جگمگا اٹھی خان کے قریب تو وہ اسے جانے ہی نہیں دےگء یہ پکا تھا مگر اسکے بعد وہ اسکا جینا محال کریگی

ہم اسے مار ڈالے گے ۔۔۔ اسے مرنا ہوگا نا بی بی سرکار ۔۔۔ میں کسی کی مداخلت کیسے برداشت کرونگی ۔۔۔ پاگلوں کی طرح ہنستے اس نے بی بی سرکار کو دیکھا جو اسکا ہی جائزہ لے رہی تھی

بی بی سرکار ہم تیاریاں کرتے ہیں اسکے استقبال کی..... شال سنبھالتے وہ جلدی سے وہاں سے بھاگی اب کچھ خاص کرنا تھا اس نے اپنی سوتن کے لئے

❤❤❤

دامل خان نے ہمارے بھائی جیسے فیروز (منشی) کا قتل کیا ہے سردار سائیں ۔۔.یہان تک کہ وہ اپنا گناہ قبول بھی کرچکا ہے ۔۔۔ آب فیصلہ اپکا ہے کہ خون کے بدلے خون یا خون کے بدلے ونی ۔۔۔۔۔ شاداب خان کی سخت آواز پر مدشاء کے چلتے قدم لڑکھڑائے اس سے پہلے وہ گرتی کہ یمان نے اسے کندھوں سے تھاما دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے نم نظروں سے یمان کو دیکھا جو سامنے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا

بیٹوں کے بدلے یہ حویلی کے والے اپنی بیٹیاں قربان کردیتے ہیں خانی۔۔۔۔ کسی کی پرنم اواز اسکی سماعتوں میں گونجی جس بات کو وہ ہوا میں اڑارتی تھی اج وہی بات اسکے ساتھ ہورہی تھی بیٹے کے لئے اسے ونی کیا جارہا تھا

تایا جان خون کے بدلے ہم اپکو منہ مانگی رقم دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ یمان خان کی تیز سرد اواز ادھر گونجی تو روشیل باپ کے ساتھ اکھڑا ہوا

پیسے کی بات نا کرو یمان خان ۔۔.پیسہ ہمارے پاس بھی بہت ہے ۔۔۔ہم بےغیرت نہیں ہیں کہ چند پیسوں کی خاطر اپنے جان سے عزیز منشی کا قتل معاف کردیں ۔۔۔.۔روشیل خان نے کہا تو یمان نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا مدشاء تو ان سبکے بیچ خود کا تماشا بنتے دیکھ رہی تھی روشیل کی نظریں یمان کے ساتھ کھڑی حسینہ پر گئی تو ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ در ائی جو چند لمحوں کا کھیل تھی

ہم۔۔۔۔

سردار سائیں ۔۔۔۔ فیصلہ سنائیں ورنہ قسم خدا کی ابھی اسی وقت میں دامل خان کے وجود کو گولیوں سے بھون ڈالونگا ۔۔.۔ شاداب خان کے اشارے پر روشیل نے اپنی پستول کا رخ دامل کی طرف کیا جو اسے گھور رہا تھا

سب کچھ جاننے اور سننے کے بعد پنچائیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ مدشاء شمشیر خان کو خون کے بدلے ونی کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ابھی سبکی سامنے روشیل خان اور مدشاء شمشیر خان کا نکاح ہوگا ۔۔۔۔۔ سخت لہجے اور ضبط سے سرخ ہوتی رنگت کے ساتھ وہ اونچی اور بارعب اواز میں بولے تو شاداب خان کے ساتھ روشیل خان کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ دوڑ گئی مدشاء کی بےیقین نظریں اپنے سنگدل بنے باپ پر گئی مونچھوں کو تاؤ دیتے شاداب خان بت بنی مدشاء کی طرف بڑھے ہاتھ میں پکڑی روشیل کی شال کو اسکے اردگرد پھیلا دیا کہ اسکا نازک سا وجود اس شال میں گم ہوگیا

گڑیا ادھر بیٹھو ۔۔۔۔۔ اسے روشیل کے ساتھ زرا فاصلے پر بیٹھانے لگا کہ وہ اسکے ہاتھ جھٹک گئی یمان نے لب بھینچتے اسے دیکھا اور ہاتھ واپس کھینچتے وہ رخ موڑ گیا

مدشاء خان ولد شمشیر خان سکہ رائج لوقت اپکو روشیل خان کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے.... ؟؟؟ مولوی صاحب کی آواز اسکے کانوں میں گونجی سنہری آنکھیں بند ہوئی لرزتے وجود کے ساتھ اس نے نم انکھیں کھول کر اپنے باپ اور بھائیوں کو دیکھا جو منہ موڑے کھڑے تھے

ق۔قبول ہے ۔۔۔۔۔ لرزتے سرخ لب ہلے کسی کے دل میں ہلچل مچا گئے سنہری انکھوں میں سجی سرخ لکیریں کسی کو اپنا دیوانہ بنا رہی تھی انکھوں میں چاہت لیے وہ اسے خود پر حلال کرچکا تھا اسکو پورا کا پورا اپنا کر چکا تھا

چلو لڑکی ۔۔.۔اسکا بازو پکڑتے شاداب خان نے اسے لے جانا چاہا جو ڈر کر بازو چھڑواتے ہمان کی طرف بڑھی

ل۔لالہ مم۔مجھے نن۔نہیں جج۔جانا۔۔۔۔۔ روشیل خان کی شال میں لپٹی وہ یمان کا بازو پکڑ گئی۔۔۔ایک آس ابھی بھی باقی تھی کہ شاید ان لوگوں کے دلوں میں رحم اجائے.... مگر صد افسوس کہ ان ظالموں کے دل موم نا ہوئے..... یمان سرخ نظروں سے ظالم بنے اپنے باپ کو دیکھتے اسکا ہاتھ اپنے بازو سے جھٹک گیا اسکے جھٹکنے پر وہ پیچھے کی طرف گرنے لگی کہ روشیل نے اسکے کندھے کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے سنبھالا اسے دیکھا جو بےیقینی سے یمان اور دامل کو دیکھ رہی تھی ....بےیقینی ہی بےیقینی تھی اسکے اپنے اسے تنہا کرگئے ان سبکی بےرخی دیکھ وہ نازک سی دھان پان سی لڑکی ہواس کھوتے روشیل کی بانہوں میں جھول گئی

❤❤❤❤❤❤❤

دامل ۔۔۔۔خانی کہاں ہیں ۔۔۔انکی پسندیدہ بریانی بنائی ہے اج ہم نے اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔ ٹیبل پر بریانی رکھتی وہ پلیٹیں سیدھی کرتے دامل سے پوچھنے لگی جواب نا پا کر ان تینوں باپ بیٹوں کو دیکھا مگر انہیں اکیلے ذیکھ انہوں نے سوالیہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا مگر مدشاء تو کہیں نہیں تھی

مدشاء کہاں ہے خان۔۔۔کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی تو انہوں نے سوالیہ نظروں سے ان سبکو دیکھا

اپکا بیٹے نے فیروز کا قتل کردیا تھا محترمہ..... شمشیر خان کی چنگاڑتی اواز پر ثانیہ بیگم نے حیرانی سے ان دونوں کو دیکھا پھر جو سمجھ ایا وہ ناقابلِ یقین تھا

م۔میری۔۔بی۔بیٹی کک۔کہاں ہے ۔۔۔۔۔ لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھتے وہ کرسی کا سہارا لیے کھڑی تھی جیسے انہوں نے کچھ غلط کہا تو انکا دل بند ہوجائے گا

ونی کر ائے ہیں ماں۔۔۔دامل نے مضبوط لہجے میں کہا جو ثانیہ بیگم اسکے پاس ائی

کیا کہا۔۔۔؟؟؟ انہیں لگا جیسے انکے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے

صدیوں سے روایت ہے ماں ونی کرنا ۔۔۔ تو کردیا ۔۔۔

تڑاخخخخخخخخخخخخخخّخخّ۔۔۔۔۔۔۔ ایک زور دار تھپڑ اسکے گال پر پڑا کہ مضبوط مرد ہونے کے باووجود وہ ایک قدم پیچھے ہوا بےیقینی سے سامنے کھڑی اپنی ماں کو دیکھا

گناہ تم نے کیا ۔۔سزا میری خانی بھگتے ۔۔۔؟؟؟ .. ۔۔۔وہ غصے سے اسے دیکھنے لگی جو سر جھکائے اب کھڑا اپنے غصے پر قابو پانے کہ کوشش کررہا تھا

بسسس جو ہونا تھا ہوگیا اب کوئی بحث نا سنو ۔۔۔۔ شمشیر خان نے ہاتھ اٹھاتے کہا اور شال صحیح کرتے اپنے کمرے کی طرف چل دیے

ماں۔۔۔۔ یمان نے انکے پاس انا چاہا مگر وہ ہاتھ اٹھاتے اسے روک گئی

مر گئی تمھاری ماں۔۔۔ یمان خان تمھاری غیرت زرا نا جاگی اپنی بہن کو ونی کردیا ۔۔.تم جیسے بیٹوں سے اچھا خدا مجھے بیٹیاں ہی نواز دیتا کم از کم یہ ظلم تو نا ہوتا میری پھول سی ُُُُ.خانی پر۔۔۔۔ گلوگیر لہجے میں کہتے ساتھ وہ مدشاء کے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔پیچھے وہ دونوں اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیے

❤❤❤❤

چھوٹے خان ۔.۔خانی بی بی کو ہوش اچکا ہے اور وہ بہت رو رہی ہیں ۔۔۔۔ نور نے درازے کھٹکھٹاتے کہا تو روشیل کندھوں سے شال اتار کر رکھتے اسکے کمرے کی طرف بڑھا جہاں وہ نازک سی حسینہ رو رو کر خود کو ہلکان کررہی تھی

کیوں رو رہی ہیں اپ ؟؟؟کون سے ظلم ڈھا دیے اپ پر؟؟ دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر سینے پر ہاتھ باندھتے وہ اس پری پیکر کو دیکھتے پوچھنے لگا جو گھنٹوں میں سر دیے رو رہی تھی

اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ مجھے میرے ہی اپنوں نے تنہا کردیا ۔۔۔۔ سر اٹھاتے وہ بھیگے لہجے میں بولی سرخ سفید چہرے کے بکھرے بال سرخ ہوتی ناک میں موجود وہ لونگ ہائے وہ ہر بار اس پری پر دل ہار جاتا تھا

کوئی تنہا نہیں ہوتا خدا ہر پل ہمارے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔بس ہم اسے یاد نہیں کرتے... وہ ہر مسئلے کا حل ہے خانی ۔۔۔۔۔ رونے سے بہتر تھا اپ اس سے مدد مانگ لیتی وہ اپکو کبھی خالی ہاتھ نا لوٹاتا ۔۔۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ سنجیدگی سے اسکی طرف بڑھا تو مدشاء نے چونک کر اسکے بڑھتے قدموں کو دیکھا

خدا کے علاوہ اس دنیا میں میں بھی اپکے پاس ہوں خانی ۔۔۔۔ بس اپکؤ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔سکے سر پر شال صحیح کرتے وہ آہستہ سے بولا تو مدشاء نے ناراضگی سے اسے دیکھا جو بھی تھا جیسا بھی تھا وہ اسکا شوہر تھا اسکے باپ کا فیصلہ تھا وہ کیسے جھٹلا دیتی.......

اپ مجھے اپنی بیوی مانتے ہیں ؟؟؟؟ سوالیہ نظروں سے اس خوبرو انسان کو دیکھتے وہ پوچھنے لگی روشیل نے لب دبائے اسے دیکھا وہ کیا بتاتا اسے حاصل کرنے کے لئے ہی تو یہ ونی کا کھیل رچایا گیا تھا

بیوی کو بیوی ہی مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اسکی سنہری انکھوں میں اترتے سکون کو دیکھ مسکرا کر بولا تو مدشاء نے نظریں چرائی انسو تو رک چکے تھے مگر درد تو تھا نا اس پر جان چھڑکنے والے بھائی اسکا باپ اس سے منہ موڑ گئے

چلیں اپکو اپکی خالہ ساس سے ملاتا ہوں۔۔۔ اسکی کلائی پکڑتے اسے اپنے ساتھ کھینچتے باہر لے ایا جہاں وہ سب ہی اکھٹا تھے ماہنور نے جلتی نظروں سے انکے ہاتھوں کو دیکھا

ماں اپکی بہو ۔۔۔۔۔ ملازموں کی وجہ سے خانی کے چپھے چہرے پر نظر پڑتے وہ مسکرا دیا بی بی سرکار نے بظاہری نخوت سے سر جھٹکا ورنہ من تو کررہا تھا اسے سینے سے لگا لیتی وہ انکی بہن کا خون تھی.....

رانیہ کو خان بی بی پہلے ہی حویلی بھیج چکی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی انے والے حالات...

خان ًًًً ڈیرے پر کرم داد ملنے ایا ہے اپ سے ۔۔۔۔ ملازم کے اکر بتانے پر شاداب خان اور روشیل دونوں ہی وہاں سے نکل گئے

لڑکی کام کاج اتے ہیں ؟؟؟ بی بی سرکار نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جسکے چہرے سے اب شال ہٹ چکی تھی سنہری بڑی بڑی رونے سے سرخ آنکھیں سرخ چھوٹی سی ناک میں پہنی لونگ سرخ بھینچے ہونٹ وہ خوبصورتی کی مثال تھی یا اسمان سے اتری کوئی حور

نہیں ۔۔۔ میری ماں جان نے مجھ سے کبھی کام نہیں کروائے ... وہ مضبوط لہجے میں بولی اسکے صاف اور سیدھے جواب پر ماہنور کو اگ لگی

لیکن یہاں تو تمھارے یہ شہزادیوں والے نخرے نہیں أٹھائے جائینگے ۔۔بی بی ونی ہو کر ائی ہو خوشی سے بیاہ کر نہیں لائے تمھیں۔۔ دل جلاتی مسکراہٹٹ سے وہ اسے جلانے لگی بی بی سرکار نے مدشاء کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا

شہزادیوں والے نخرے میں اسی حویلی میں چھوڑ ائی ہوں۔۔۔یہاں تو میں ملکہ کی طرح راج کرنے ائی ہوں... رہی بات بات ونی کی تو میری جان ۔..بےشک میں ونی میں بیاہ کر لائی گئی ہوں۔۔۔ مگر ہوں تو اسی کی بیوی ۔۔۔زبردستی کا ہی صحیح مگر ہے تو میرا شوہر ہی نا .۔۔۔ اسکے دل کی پہلی اور اخری حکمران ہونگی میں۔۔۔۔۔۔ مدشاء کے پرسکون لہجے میں دیا گیا جواب ماہنور کو انگاروں پر لوٹا گیا بی بی سرکار نے سر جھٹکتے اپنی امڈتی مسکراہٹ کو روکا خود پر قابو نا کرتے وہ اگے بڑھتے اس پر ہاتھ اٹھا گئی .....

غلطی سے بھی غلطی مت کرنا محترمہ ۔۔۔ورنہ تمھارا غصہ غصہ ہے مگر میرا غصہ قہر... تم پر برسا تو فنا ہوجاؤگی..... اسکے ہاتھ کو سخت گرفت میں لیتے وہ دھیمی اواز میں غررائی تو ایک پل کے لئے ماہنور کا دل خوف سے بند ہوا آنکھیں کی پتلیاں پھیل کر ساکت ہوئی

بس کرو تم دونوں ۔۔۔۔ ماہنور جا اور جاکر ارام کر ۔۔۔ بی بی سرکار نے سخت نظروں سے ان دونوں کو دیکھتے کہا تو مدشاء نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا سرخ کلائی سہلاتے وہ اسے گھورتے وہاں سے چلی گئی

نور ۔۔۔بی بی سرکار نے زور سے پکارا جبکہ نظریں مدشاء کے حسین سراپے پر ہی تھی نور بھاگتی وہاں ائی

اسے لے جا کر سب سمجھا دو ۔۔۔ انہوں نے حکم صادر کیا تو نور نے مدشاء کا بازو پکڑنا چاہا جسے وہ جھٹک گئی اور خود ہی اگے جانے لگی کہ بی بی سرکار کی اواز پر رکی

لڑکی ۔۔۔ مدشاء پلٹی اور بی بی سرکار چلتی اسکے سامنے ائی اسکے کندھے پر رکھے ڈوبٹے کو اچھالا اور وہ سیاہ ڈوبٹہ اس خوبصورت دوشیزہ کے حسین مھکڑے کو چھپا گیا

یہ باغی نہیں اسکا حسن باغی ہے میں نہیں چاہتی چھوٹے خان تمھیں دیکھیں اور وہ بھی باغی ہوجائیں.... انہوں نے اسکے نازک سے ہاتھوں کو دیکھتے کہا مگر وہ شاید جانتی نا تھی کہ وہ حسینہ خان کے دل پر پہلے ہی جادو چلا چکی ہیں ایسی گہری دراڑ ائی ہے کہ پتھر نما دل بھی اسکے اگے جھکنے کو تیار ہوچکا ہے

❤❤❤❤

ماں خانی کو کہیں میری کافی لادیں کب سے انتظار کررہا ہوں۔۔۔۔ ڈائینگ ٹیبل پر وہ سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے کہ دامل کی اواز پر منہ تک جاتے انکے ہاتھ رکے سبکی نظریں اس کی طرف اٹھی جو سفید شلوار قمیض میں پیشانی سہلاتے وہاں ارہا تھا

فیا۔۔۔ جا چھوٹے خان کے لیے کافی بنا لا۔۔۔ ملازمہ کو اواز دیتے انہوں نے سرخ انکھوں سے اپنے سپوت کو گھورا وہ شاید بھول چکا تھا اسکی کرنی اسکی بہن بھگت رہی تھی

کیوں خانی کدھر ہے اپ جانتی ہیں نا مجھے اسکے ہاتھ کی کافی پینے کی عادت ہ۔۔۔۔۔ سرد لہجے میں کہتے اس نے نظر گھما کر ان سبکو دیکھا مگر کچھ یاد انے پر لب بھینچ گیا اسے خاموش دیکھ ثانیہ بیگم نے فیا کو اشارہ کیا تو وہ کچن کی طرف چلی گئی

ان سبکا ناشتہ تو صبح ہی صبح خانی کے زکر پر ہوچکا تھا سبکے دل بھر چکے تھے کچھ دیر بعد فیا نے اسکے سامنے کافی رکھی جسے ناچاہتے ہوئے بھی وہ لبوں سے لگا گیا مگر ایک گھونٹ بھر نا سکا شدت سے کپ کو زمین پر مارتے وہ باہر نکل گیا خانی کے وہاں نا ہونے کی وجہ بھی تو وہ خود تھا

اگئی اپنی اصلی حالت پر ۔۔۔ چیچ چچچچچ۔۔۔ افسوس کہ خود کو ملکہ بولنے یا ماننے سے ملکہ بن نہیں جاتے ۔۔یہی ہے تمھاری اوقات۔۔ اسے کچن پلیٹس دھوتے دیکھ ماہنور نے کچن میں جاتے طنزیہ انداز میں اسے دیکھا پلیٹس صاف کرکے رکھتے اس نے مڑ کر مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا

اوقات کی بات تو مت ہی کرو ۔۔۔۔۔ دوسری بات یہ میری جان کہ کچھ بننے کے لئے کچھ کرنا بھی پڑتا ہے.... یا یوں کہہ لو کہ ریاست کی ملکہ بننے سے پہلے ریاست کا دل جیتنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ ملازمہ کو کھانا نکالنے کا کہتے وہ مسکرا کر بولی ماہنور نے گھور رہی تھی

باتیں بہت بڑی بڑی کرتی ہو تم ۔۔۔کسی دن منہ کے بل گرو گی ۔۔۔۔ اسے دیکھتے وہ دانت پیس کر بولی ٹیبل پر بیٹھی رانیہ نے اسے گھورا

ماہ۔۔۔ تمیز سے بات کرو۔۔۔۔ وہ رشتے میں بڑی ہیں ہم سے۔۔۔ انکا رتبہ ہم سے بڑا ہے ۔۔۔۔ رانیہ کی سرد اواز پر ماہنور نے مٹھیاں بھینچتے منہ بگاڑا

بڑی ہوگی وہ اپنے گھر کو۔۔۔ ماہنور نے اپنے بال جھٹکتے کہا مدشاء جو ٹرے میں کھانا اٹھا کر جارہی تھی رکی

یہ حویلی میری ہی ہے ۔۔۔۔ تمسخرانہ نظروں سے اسے دیکھتے وہ ٹرے آٹھاتے باہر نکل گئی صبح سے کام سیکھنے کے چکروں میں وہ گھن چکر بنی ہوئی تھی پہلے کبھی اتنا کام اس نے کیا ہی کب تھا ؟؟؟ پہلی بار کسی کچھ کرنے کی ٹھانی تھی مگر اسکا نازک وجود یہ تبدیلی برداشت نہیں کرپا رہا تھا

❤❤

محترمہ اپ اندھی ہیں ۔۔۔ گاڑی کو ہوائی جہاز سمجھ کر وہ اسے اڑاتے جارہا کہ کسی لڑکی کے سامنے انے پر جھٹکے سے بریک لگاتے وہ باہر اتے غصے سے سرخ ہوا

محترم آنکھیں تو اپکے پاس بھی ہیں اپ ہہ زرا دیکھ کر چلا لیں اپکو بل تو نہیں اجائے گا ۔۔۔۔ سبز نین مٹکاتے وہ اسے گھورتے بولی ایک تو اسکی وجہ سے اسکا پانی کا مٹکا زمین بوس ہوچکا تھا

تم۔۔۔۔ دامل نے اسکی طرف بڑھنا چاہا مگر کہ ٹھاہ کی اواز پر وہ مڑا سامنے چوھدری کے بیٹے روحیل چوھدری کو دہکھ اس نے ائبرو اچکایا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو تم یہاں کس خوشی میں ۔۔۔۔

لالہ اس لڑکے کی وجہ سے ہمارا مٹکی ٹوٹ گئی ۔۔۔ وہ روحیل کے ساتھ لگتے روندے لہجے میں بولی معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ دامل کی نظریں بےساختہ اس پر جمی پھر سر جھٹکتے روحیل کو دیکھا

لالہ تم تو ہمھیں بھول ہی گئے ہو۔۔۔ روحیل کے خفگی سے دیکھنے پر اسکے لب دھیمی مسکراہٹ میں ڈھلے

ہمارے علاقے میں اکر فائر مت کیا کر۔۔روحیل تمھیں لاکھ بار سمجھانا پڑتا ہے ۔۔۔ اگلی بار ایسا کیا نا تو تمھیں دور پھینک او گا ۔۔۔۔ اسکے گلے لگنے پر وہ اسے پیچھے کرتے وارن کرنے والے انداز میں بولا آویزہ نے حیرانی سے ان دونوں کو دیکھا

لالہ اس نے ہمارا مٹکی توڑا ہمھیں معاوضہ چاہیے ۔۔۔۔۔ اویزہ کی اواز پر روحیل کے ساتھ دامل نے بھی اسے دیکھا پہلی نظر اور ابکی نظر میں فرق تھا

یہ اویز تو نہیں ہے نا ؟؟؟دامل نے سوالیہ نظروں سے روحیل کو دیکھا جو ہونٹ بھینچ کر مسکراہٹ روکتے سر اثبات میں ہلا رہا تھآ دامل نے مسکراتی نظروں سے اویزہ کو دیکھا

لڑکی چھوٹے سے مٹکے کے بدلے تمھیں معاوضہ چاہیے ۔۔۔۔؟؟؟ اسکی بات پر وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگاتے بولا

وہ ہمارا چیز تھا چھوٹا مٹکی ہو یا بڑا اس سے تمھیں کیا ۔۔۔ تم ہمھیں ہمارا مٹکی کا پیسہ دو۔۔.یا نئی مٹکی لادو۔۔۔۔۔ تیکھے چتنوں سے اسے گھورتی وہ ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر دوسرا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایی کھڑی تھی اسکا انداز دامل کا دل دھڑکا گیا بچپن میں بھی تو وہ ویسے ہی دھڑلے سے اس سے کچھ بھی مانگ لیتی تھی

اویزہ یہ دامل ہے... جسے تم بچپن میں دا بولتی تھی۔۔.اور اب یہی کھڑے رکھنا ہے یا حویلی بھی لے چلو گے ... روحیل نے اویزہ سے کہتے دامل سے کہا تو وہ اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا

دا۔۔کا کیا مطلب اس سے اچھا تو دادا کہہ لیتی۔۔۔۔۔۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ لٹھ مار انداز میں اسے دیکھتی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھی روحیل کے بیٹھنے پر دامل نے سر جھٹکتے گاڑی سڑک پر دہرا دی

❤❤

لڑکی کدھر جارہی ہو۔۔۔۔ اسے اوپر جاتے دیکھ بی بی سرکار نے اسے گھورتے پوچھا مدشاء گہری سانس بھرتے انکے سامنے ائی

ماں جان۔۔۔

یہاں سب ہمھیں بی بی سرکار کہتے ہیں لڑکی ۔۔۔۔۔ بی بی سرکار نے اسے گھورا تو مدشاء نے نظریں زرا سا اٹھائے انہیں دیکھا

خالہ بھی ماں جیسی ہی ہوتی ہے ۔۔۔.وہ چاہ کر بھی کوئی الٹا جواب نا دے سکی اسکی عادت ہی کہاں تھی بدتمیزی کرنے کی یہ تو کل ماہنور کی حرکت پر وہ غصہ ہوگئی تھی ۔۔۔۔

ہممم... کدھر جارہی ہے ۔۔۔۔ سر جھٹکتے وہ ابکی بار زرا نرمی سے پوچھنے لگی نظریں جھکا کر بات کرنے کا انداز انہیں بہت بھایا تھا

۔ میں اپنے شوہر کے لیے کھانا لے کر جارہی ہوں ۔۔۔۔۔ اپکی اجازت ہو تو میں اپنے کمرے میں چلی جاؤ ۔۔۔۔۔ سنہری آنکھیں جھکا کر وہ اتنے معصومیت بھرے لہجے میں پوچھنے لگی کہ بی بی سرکار منع نا کرسکی ہنکار بھرتے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ شکر کا کلمہ پڑھ کر زینے چڑھنے لگی پیچھے سے اتی ماہنور کے اندر تو جیسے آگ بھڑک گئی

❤❤

بابا ۔۔.میری بہن وہاں گئی ہے ۔۔اپ ایسے اتنے بےفکر کیوں ہیں ؟؟؟ اپکو زرا سی یاد نہیں ارہی اسکی ۔۔۔بکھرے بالوں کے ساتھ سرخ آنکھیں لیے وہ شمشیر خان کے سامنے تھا جو ڈیرے کا کام دیکھ رہے تھے یمان کے سوال پر وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرگیے. ۔۔۔

تمھیں کیا لگتا ہے میں اپنے دل کے ٹکڑے کو ایسے ہی کسی کو دے دونگا... ؟؟؟؟ اسکے بیٹھنے پر شمشیر خان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ہمان کی الجھن بھرے تاثرات دیکھ وہ گہری سانس بھرتے صوفے پر بیٹھے

ہمارے خاندان کی روایت ہے ۔۔۔۔ کہ یہاں کی ہر لڑکی ہمارے خاندان میں ہی بیاہی جاتی ہے ۔۔اور یمان سے اسکا نکاح بچپن میں ہی تمھارے دا جی کرچکے تھے جیسے تمھارا اور رانیہ کا. ..ایک نا ایک دن خانی کو وہاں جانا ہی تھا.... بسس ان لوگوں نے راستہ غلط چنا۔۔۔۔۔ شمشیر خان لی بات سن یمان نے حیرت سے انہیں دیکھا اسے کیوں نہیں معلوم تھا یہ سب ۔۔۔

تو ٹھیک ہے اگر انہوں نے ہماری خانی کو ہم سے چھین لیا تو اب باری انکی ہے ۔۔۔۔ یمان نے طیش بھرے انداز میں کہتے اٹھنے لگا کہ شمشیر خان کی سرد اواز پر وہ وہی رک سا گیا

یمان۔۔۔ وہ ہمارے گھر کی عزت ہے اور اگر میری عزتوں پر زرا سی انچ ائی تو میں بھول جاو گا کہ تم میرے بیٹے ہو۔۔۔۔

بابا۔۔۔اپ انکے لیے ۔۔۔.مجھے۔۔۔۔ یمان نے حیرانی سے أنکھیں کھولے پوچھا آنکھوں میں سرخیاں اتر رہی تھی

اگر وہ دشمن ہیں تو دشمن سمجھیں نا ۔۔۔ اپکو اب اپنے بھائی سے پیار امڈ رہا ہے ۔۔۔۔۔

اپنی حد میں رہو. .۔۔۔ہم تمھارے باپ ہیں تم بننے کی کوشش نا کرو ۔۔۔۔۔ شمشیر خان اسے گھورتے غرارئے تو وہ ناراض نظروں سے انہیں دیکھتے وہاں سے چل دیا

یہ تو پکا تھا کہ اب اس حویلی والوں کا سکون وہ برباد کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا

❤❤❤

بابا سائیں یہ بےعزتی میں چاہ کربھی بھول نہیں سکتا ۔۔اگر وہ شاداب خان ہے تو ہم بھی شاہ ہیں ۔۔۔ روشیل خان کی بہن کو اپنا بنا کر ہی رہیں گے ۔۔۔ دامیر شاہ نے اپنے باپ حبیب شاہ کو دیکھتے کہا تو وہ سر ہلا گئے

کل ہم لوگ یہی کام سر انجام دینگے ۔۔۔۔ انشاءاللہ ۔۔۔۔۔ سردار سائیں نے اونچی اواز میں کہتے وہاں موجود ملازمہ کو دیکھا

بیٹا دو کمرے صاف کروا دو۔۔۔۔۔ کل مہمان انے ہیں ۔۔۔۔۔ حبیب شاہ نے کہا تو ملازمہ سر ہلاتی زینے چڑھتے اوپر کے کمروں کی طرف چلے گئی

ہم ناز بیگم سے کرتے ہیں بات ۔۔۔۔ انشاءاللہ ۔۔۔۔ کل ہم رشتہ لے کر جائیں گے ۔۔۔تحفے تحائف کا انتظام تم کرلینا۔۔۔۔ وہ اسے کہتے اپنے کمرے کی اور چل دئے انکے جاتے ہی کچن میں چھپا وجود نم انکھیں لیے باہر ایا

شاہ جی ۔۔۔ اپ نے تو ہم سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا نا۔۔۔؟؟؟ وہ گلوگیر لہجے میں پوچھنے لگی آنکھیں تھی کہ برسنے کو تیار تھی دامیر نے بنا اسے دیکھے وہاں سے جانا چاہا مگر وہ آگے بڑھتی اسکا ہاتھ تھام گئی

کیا اب اپکو محبت نہیں ہے ہم سے ۔۔۔ کیا آب اپکو زرا رحم نہیں اتا ہماری حالت پر۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کی پشت پر سر ٹکا کر انسو بہاتی وہ اسے تڑپا گئی دامیر نے ملازمین کو نظرانداز کرتے اسے خود میں بھینچ لیا

جانم سائیں اپ کیوں روتی ہیں ۔۔۔۔ میں اپنی شادی کی بات کب کررہا ہوں۔۔۔ میری شادی تو میری جانم سائیں سے ہوئی ہے ۔۔۔ میرے پہلے اور اخری عشق سے ۔۔۔۔ اسکی پیشانی کو لبوں کے پرتپش لمس سے مہکاتے وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا انہیں اس حالت میں دیکھ ملازمہ تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے تھی انکے سردار بہت بےشرم تھے

❤❤

وہ کمرے میں ناک کرکے گئی تو وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے سورہا تھا.. کچھ ہچکچا کر وہ اگے بڑھتی ایک انگلی سے اسکے بازو کو چھوتے اسے ہلانے کی کوشش کرنے لگی

روشیل۔۔۔۔آٹھیں کھانا کھالیں ۔۔۔۔۔ ٹرے کو ٹیبل پر رکھتے وہ اب اسکے بازو کو ہلکا سا جھنجھوڑ کر بولی تو روشیل نے بازو ہٹائے اسے دیکھا کالی شلوار کمیض میں اسکی شال پہنے وہ کل والے کپڑوں میں ہی تھی

کھانا کھالیں ۔۔۔۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ کھانے کی طرف اشارہ کرکے بولی تو وہ سر ہلاتے آٹھ بیٹھا ارداہ وہی بیٹھ کر کھانے کا تھا مگر اسے صوفے پر بیٹھتے دیکھ وہ خوشگوار حیرت سے اٹھتے صوفے پر ان بیٹھا..

مجھے اپ سے بات کرنی تھی ۔۔۔۔ چھوٹا سا نوالہ لیتے وہ انگلیاں الجھاتے کہنے لگی تو روشیل نے ہنکار بھرتے اسے دیکھا

کیا میں کالج چلی جاو ؟؟؟میرے پیپر ہونے والے ہیں.... وہ ہچکچا کر بولی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھآ اسے لگا وہ منع کردیگا

کل رانیہ اور اپ تیار ہوجانا.. میں لے جاؤ گا ۔۔۔۔۔اسکی بات سن مدشاء کی سانس میں سانس ائی ایک تو اس شخص کے ساتھ اکیلے کمرے میں ڈر بھی لگ رہا تھا سائیڈ ٹیبل پر پڑی تصویر میں اسے گن اٹھائے دیکھ وہ منظر یاد ایا جب وہ اس ادمی کو مار رہا تھا

کھانا کھاؤ ۔۔۔ اسے کانپتے دیکھ وہ ایک نوالہ اسکی طرف بڑھا گیا مدشاء نے حیرت اور خوف سے اسے دیکھا اگے ہوتے وہ نوالہ بامشکل ہی مگر حلق میں اتار کر گئی منع کرنے پر ہوسکتا تھا وہ انسان اسکی جان لے لیتا 😲

تم کھانا کھاؤ ۔۔۔ میں شہر ہوکر اتا ہوں۔۔۔۔ اسے منہ سی کر بیٹھے دیکھ وہ مسکراتے لہجے میں کہتے ساتھ گاڑی کی چابی لیتے باہر نکل گیا

❤❤❤❤

اسلام وعلیکم..! انٹی ۔۔۔ ثانیہ بیگم کے گلے لگتے وہ اونچی اور پرجوش لہجے میں بولی ثانیہ بیگم کے ساتھ سبکی نظریں اس پر گئی جو بلیک جینز کے ساتھ گھٹنوں تک اتی شرٹ میں بلیک ہی سٹولر گلے میں لپیٹے بالوں کو ٹیل پونی میں باندھے لہرا رہی تھی

اویز۔۔۔کچھ دیر کے بعد ہی سہی مگر وہ اسے پہنچان گئی تھی ۔۔۔۔ اسکا ماتھا چومتے وہ اسے سینے سے لگا گئی انکی بچپن کی دوست کی وہ چھوٹی سی گڑیا تھی اسکا یہاں انا نئی بات تھی کیونکہ وہ بچپن میں انکے پاس ہی رہ جایا کرتی تھی مگر بڑے ہونے کے ساتھ اسکی پڑھائی کی وجہ سے اسکا یہان انا کم ہوگیا تھا مگر دس سال بعد اسے یہاں دیکھ انکی خوشی کا کوئی ٹھکانا نا رہا

کیسی ہے میری بچی۔۔۔

بسسس اپکی دعائیں ہیں جان۔۔۔ انکھ ونک کرتے وہ ثانیہ بیگم کے شرمانے پر قہقہہ لگا گئی کمرے میں بیٹھے شمشیر خان قہقہوں کی اواز پر شال اوڑھے باہر ائے سامنے کسی ولایتی لڑکی اور لڑکے کو دہکھ وہ وہاں ائے

ہماری بیگم کو ہمارے سامنے چھیڑ رہی ہیں اپ ۔۔.اویز۔۔۔ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے وہ وہی انکے ساتھ ہی براجمان ہوگئے

اپکی بیگم اتنی خوبصورت ہیں کہ ہمارا اپنے دل پر قابو نہیں رہتا ۔۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھتے وہ قہقہ لگاتے بولی تو دامل نے چور نظروں سے اسے دیکھا کہ اب زیادہ پیاری ہوگئی تھی

ہاہاہا ۔.۔بابا یہ مشو جانم کہاں ہیں ؟؟؟ نظر نہیں ارہی ؟؟؟ شمشیر خان کے ساتھ بیٹھتے وہ سوالیہ نظروں سے ان سبکو دیکھنے لگی اسکے سوال پر سبکے چہرے کا رنگ اڑآ جسے ان دونوں نے خوب محسوس کیا

بچے تھک گئے ہوگے منہ ہاتھ دھو او پھر میں کھانا لگواتی ہوں۔۔۔ ثانیہ بیگم نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا تو وہ دونوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے سر ہلاتے اوپر کو بڑھے

❤❤❤❤

یہ سامان کس کا ہے اور کون لایا ہے ؟؟؟؟ نور کو بیگوں سے لدا اوپر جاتے دیکھ وہ اسکے سامنے ائی مگر پیچھے سے اتے روشیل کو وہ نا دیکھ سکی

جی وہ خانی سرکار کے لئ ۔۔۔۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ماہنور نے اسکے پاس سے پہنچتے وہ بیگز کھینچے

کیا ہورہا ہے یہ ۔۔۔۔ روشیل کی سرد اواز پر ماہنور کے ہاتھ سے بیگ چھوٹتے زمین پر گرے روشیل نے نخوت بھری نظروں سے اسے دیکھا اس لڑکی کو وہ اپنی ماں کی وجہ سے برداشت کررہا تھا ورنہ وہ کب کا اسے وہاں سے نکال چکا ہوتا

و۔وہ۔۔۔۔ وہ اسکی طرف مڑتی ہکلانے لگی اسے لگا جیسے ابھی وہ اسے مار ڈالے گا

رہنے دو ۔۔۔.یہ بیگز لے جاو میرے کمرے میں ۔۔۔۔۔ نور کو نیچے سے بیگ اٹھاتے دیکھ وہ اسے روک گیا ماہنور نے مٹھیاں بھینچی یعنی وہ اسکے لیے خریداری کرکے لایا تھا اسکے لیے تو کبھی ایک انگھوٹی تک نا خریدی تھی اس ظالم نے اسکی آنکھیں نم ہوئی

یہ بیگز اٹھا لو ماہنور ۔۔۔۔ وہ زینے چڑھتے نرمی سے ادھوری بات کہتے رکا ماہنور نے نم انکھوں سے مسکراتے اسے دیکھا اسکو رکتے دیکھ اسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا بیگز اٹھاتے اس نے خان کو دیکھا جو عجیب سی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا

کیونکہ یہ سب اب میری خانی کے قابل نہیں رہے ۔۔۔۔۔ کہتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ماہنور کے ہاتھ سے بیگ گرے خوشی سے جھومتے دل کے ہزار ٹکڑے ہوئے انسو لڑیوں کے مانند آنکھوں سے نکلتے گالوں پر پھسلنے لگے گلابی ہونٹوں پر ازیت بھری مسکراہٹٹ ائی ۔۔۔وہ اسے گری پڑی چیز سمجھتا تھا کیا واقع وہ کل کی ائی لڑکی اسکے لیے اتنی اہم ہوگئی تھی اسے مدشاء کی کل کی گفتگو یاد ائی اسکے لہجے میں اتنا سکون اتنا اطمینان اسی لیے ہی تو تھا وہ لڑکی تھی وہ جان سکتی تھی روشیل کی آنکھوں میں چھپے جزبات ۔۔۔کاش وہ بھی جان پاتی مگر وہ ستمگر تو اسے ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا.........

بات سنو مجھے سچ سچ بتاؤ ۔۔۔۔ یہ کیا چکر ہے کہاں ہے مشو۔۔۔۔اگلے دن دامل کو باہر جاتے دیکھ وہ اسکے سامنے ائی سرخ گھٹنوں تک اتی شرٹ پر وائٹ چینز پہنے بالوں کو کھولے وہ اسکا دل دھڑکا گئی

لو جی کالی بلی راستہ کاٹ گئی ۔۔۔۔ اسکے سامنے ائی اسکے یوں اچانک انے پر دامل بڑبڑایا تو آویزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

بکواس نا کرو ۔۔۔جو پوچھا ہے وہ بتاو۔۔۔۔ فالتو کی بک بک سن میرا دمآغ پک گیا ہے ۔۔۔۔۔ ۔ اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہتے اس نے آنکھیں گھمائی

اسکی شادی کردی ہے ۔۔۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھتے بولا آویزہ پر تو جیسے حیرانی کے سارے پتھر ٹوٹ گئے آنکھیں بڑی کرتے اسے گھورا

شادی کب... کیسے اور کیوں... بلانا تو دور تم لوگوں نے بتایا تک نہیں ۔۔۔ حیرت سے انکھیں وا کیے وہ صدمے بھری آؤاز میں بولی

بس حیسے بھی ہوئی ہوگئی ۔۔۔.سنجیدگی سے کہتے وہاں سے جانا چاہا مگر وہ اسکا ہاتھ پکڑ گئی

مجھے گاؤں کی ٹیپکل لڑکی مت سمجھنا جو بنا اصل وجہ جانے ایویں ہی ان فالتو کی چیزوں پہ یقین کرلے۔.۔اصل وجہ بتاو ورنہ میں دوسروں سے بھی جان سکتی ہوں۔۔۔ غصے سے اسکے ہاتھ کو جھٹکے سے چھوڑتے وہ غصے سے سوال گو ہوئی دامل نے ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا

اویز۔۔۔ وارن کرنے والے انداز میں اسکا نام لیتے وہ اسےڈرانا چاہ رہا تھا لیکن شاید وہ اسے جانتا نہیں تھا وہ اویزہ تھی خوبصورتی کی ملکہ شیرنی

اویزہ نام ہے میرا۔۔۔۔ غصے سے اسے گھورتے وہ وہاں سے نکل گئی وہ جانتا تھا اب اس نے کوئی نا کوئی پنگا لازمی لینا ہے.... سر جھٹک کر وہ باہر چل دیا

❤❤❤❤❤❤

نفاست سے سیٹ کیے کمرے میں وہ کھڑکی سے اتی روشنی میں اپنے اپ کو شیشے میں گھور رہی تھی کس چیز کی کمی تھی اس میں وہ حسین و جوان تھی اوپر سے اس سے محبت کرتی تھی مگر شاید وہ اسکی قدر نہین کررہا تھا اسے معلوم تھا وہ اسے ایسے نہیں ملنا

خان صاحب تمھیں اپنے نام نا کیا تو میرا نام بھی ماہنور شاہ نہیں۔۔۔۔۔ جگماتی آنکھوں سے شیشے میں دیکھتے وہ کچھ بہت گہری سوچ میں ڈوبی تھی کچھ لمحے سوچتے وہ مسکراتے موبائل کسی کو کال کرنے لگی

اسلام وعلیکم ۔۔.دوسری طرف سے کال اٹھانے پر اس نے سلام کیا

بابا ۔۔۔۔۔ کیا اپکا کہنا انکے لیے کافی نا تھا ؟؟؟؟ جو میری چیزوں کو کسی اور کو خیرات میں دے دیا. ۔۔۔ مگرمچھ کے انسو بہاتی وہ سامنے والے کو کمزور کر گئی

نن۔نہیں نہیں بابا جانی ۔۔۔۔ خان خوش نہیں ہیں اس شادی سے... وہ تو مجھ سے محبت کرتے ہیں بابا۔۔۔بسس ونی کے چکروں میں سردار سائیں نے انکا نکاح کردیا۔۔۔۔۔ روہانسنے لہجے میں کہتے وہ اپنے باپ دبیر شاہ کو طیش دلا گئی انہوں نے کچھ کہتے کال کٹ کی انکی بات پر ماہنور کے چہرے پر ڈھیروں سکون اترا بس انتظار تھا تو کل کا

ظفر شاہ انکی زوجہ ۔۔ کے چار بچے تھے حبیب شاہ ۔۔۔منیب شاہ ثانیہ شاہ ۔۔۔ حرا شاہ ۔۔۔۔ حبیب شاہ کا ایک بیٹا دامیر شاہ اور ایک بیٹی ماہنور شاہ تھی (جس سے اپ مل ہی چکے ہیں) جبکہ منیب شاہ کے دو بچے تھے جنید شاہ اور ایک بیٹی دلنشیں ۔۔۔۔ جو کہ دامیر شاہ کی منکوحہ تھی ثانیہ اور حرا شاہ کی شادی ظفر شاہ کے دوست کے بیٹوں سے ہوئی تھی

حرا بیگم کی شادی کے بعد روشیل کے بعد انہیں بیٹی کی خواہش تھی ۔۔۔ بیٹی نا ہونے پر انہوں نے ماہنور کو اپنے بھائی سے لے لیا تھا مگر اسکے کچھ دن بعد ہی وہ امید سے ہوگئی اور رانیہ کی پیدائش پر وہ سب خوش تھے

خان سرکار نے بچپن میں ہی یمان اور رانیہ کے ساتھ روشیل اور مدشاء کا نکاح کردیا تھا مگر انکی موت کے بعد اس ہنستے بستے گھر میں دڑار اگئی جانے کسکی کالی نظر انکی خوشیاں کھا گئی

❤❤❤❤❤❤

جانم سائیں۔۔۔۔ وہ سر پکڑے صوفے پر بیٹھی تھی کہ دامیر کی اواز پر سر پر ڈوبٹہ لیتی کھڑی ہوئی خوبصورت سے چہرے پر تھکن کے اثرات واضح تھے..

کتنی بار کہا ہے کام مت کیا کریں۔۔۔۔۔ ملازم کس لیے رکھے ہیں ہم نے؟؟؟ ائندہ اپکو کام کرتے نا دیکھو ۔۔۔ اسکو گھورتے وہ بیڈ پر جا بیٹھا اسے لگا وہ اسکی بات سمجھ گئی ہے مگر اسے پھر سے باہر جاتے دیکھ اسکے ماتھے پر بل پڑے

دل۔۔۔۔غصے بھری اواز پر جہاں دلنشیں کے بڑھتے قدم تھمے وہی دامیر اسکے رکنے پر ہونٹ دانتوں تلے دبا گیا

ارام کرو۔۔۔ اپکے بغیر بھی کام ہوجانے ہیں ۔۔۔۔ اسے بیڈ پر انے کا کہتے وہ اپنے کپڑے لیتے واشروم میں گھسا تھکن زدہ وجود لیے وہ بیڈ پر لیٹی لیٹتے ہی اسے نیند آگئی تھی صبح سے کام کرتی وہ ابھی فارغ ہوئی تھی

وہ فریش سا باہر ایا تو اسے سوئے دیکھ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ اسکے ساتھ جا لیٹا

سوجی ہوئی سرخ آنکھیں بند تھی جیسے کئی دیر تک روتی رہی ہوں۔۔سرخ ہونٹوں پر کٹ لگے دیکھ اسکی آنکھوں میں سرخی اتری وہ جانتا تھا دلنشیں جب بھی پریشان ہوتی وہ اپنے ہونٹوں کی دشمن بن جاتی تھی اسکے کئی بار روکنے پر بھی وہ اپنی عادت نہیں چھوڑ پارہی تھی

اس خطا کی سزا ضرور ملے گی جانم۔۔۔اسکے بالوں کی چھٹیا کھولتے وہ اسکے بال سہلاتے بولنے لگا اسکی نظروں کی تپش تھی یا اسکی چاہت کہ دلنشیں اگے ہوتی اسکے سینے میں منہ چھپاتی پرسکون سی سوگئی۔۔۔اسکی اس حرکت پر دامیر کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے وہ اسکی کمر پر ہاتھ لپیٹتے اسے خود میں بھینچ گیا

❤❤

دا۔۔۔سائیں ... صبح سے اسے خود سے لاپرواہ دیکھ وہ بولایی بولائی پھر رہی تضی اب جب برداشت نا ہوا تو روم میں اتے اس سے پوچھنے لگی جو جانے کہاں کی تیاری میں مصروف تھا

ہمممم۔۔۔۔ ہاتھ میں گھڑی پہنتے اس نے مصروف لہجے میں ہممم کیا تو دلنشین کی آنکھیں بےساختہ ہی بھر ایی من چاہے شخص کا نظرانداز کرنا عزاب سے کم نہیں ہوتا....

ا۔آپ نن۔ناراض ہیں ہم سے۔۔۔۔ اسکو جاتے دیکھ وہ اسکا مضبوط ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بھیگی اواز میں سوال گو ہوئی تکلیف تو دامیر کو بھی ہوئی تھی جب اسے یوں تھکن سے چور ہوتے دیکھا تھا مگر وہ اسکی تکلیف کہاں سمجھتی تھی

دل ہم ناراض نہیں ہیں ۔۔۔ بسس افسوس ہے ہمھیں کہ اپ ہماری باتیں نہیں مانتی ۔۔۔ جب بات ماننی ہی نہیں ہے تو ناراض ہوکر کیا فائدہ... خیر ہٹیے مجھے زمینوں پر جانا ہے ۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑواتے وہ کہنے لگا تو دلنشیں نے حیرانی سے بھیگی آنکھیں وا کیے اسے دیکھا

میں سس۔سب کچھ تو مانتی ہو۔۔۔ مم۔میں نے ۔۔۔۔ کہتے کہتے وہ رکی

دل میری جان اپ کام نا کیا کریں ۔۔گھر میں ملازم ہیں کام کرنے کے لیے ۔۔.کھانا اپ بنا رہی ہوتی ہیں اور جان ہماری سولی پر لٹکی ہوتی ہے... کچھ دن پہلے کے اسکے الفاظ یاد آئے تو اسکی انکھیں مزید بھیگی وہ چاہے منع کرتا تھا مگر اسکی ماں جان وہی تو اسے کھانا بنانے کا کہتی تھی کام نا کرتی تو اسکی ساس ناراض کام کرے تو اسکا شوہر ناراض وہ کرتی ہی کیا آخر

دا۔۔۔سائیں ہم اا۔اپکی بات مانتے ہیں ۔۔۔لیکن کبھی کبھار انسان کی مجبوری ہوا کرتی ہے... ہم اپکی بات نہیں مان رہے تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپکی عزت نہیں کرتے یا ہم اپکی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے..... یہ بھی تو ہوسکتا ہے نا کہ اسکے پیچھے کوئی وجہ ہو ۔۔۔ لیکن آئیندہ کے بعد اپکو مجھ سے شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔.... سر جھکا کر سنجیدہ لہجے میں کہتی وہ وہاں سے جانے لگی لیکن کیا دامیر اسے ناراض کرکے جانے دیتا... ہرگز نہیں

میرا دل ۔۔۔ ناراض مت ہوا کریں اپ ۔۔۔کیونکہ ۔اپکی ناک پھول جاتی ہے ۔۔۔جو ہمھیں بےحد پسند ہے ۔۔۔ اور ہماری زرا سی جسارت پر اپ نے بےہوش ہوجانا ہے ۔۔۔۔ اسی لیے زرا احتیاط برتے ۔۔۔کیونکہ یہ سادہ سا بندہ بشر بھی عشق جیسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے.... ہر وقت اپنے جزبات پر بندھ باندھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔اسکے پیٹ پر دونوں ہاتھ باندھتے وہ اسکی گردن میں منہ چھپاتے کہنے لگا تو دلنشیں کی جیسی سانس رک سی گئی ساری سنجیدگی ہوا ہوئی بچی ت

💗💖❤ھی

خا۔۔۔۔ وہ کچن میں ایا جہاں وہ صبح کی چیزیں سمیٹ کر اب چئیر پر درد سے پھٹتے سر کو پکڑے بیٹھی تھی اسے دیکھ وہ بولتے بولتے رکا غور سے دیکھا تو اسکی سنہری انکھوں میں نمی تھی چہرہ حد سے زیادہ سرخ ہورہا تھا اور اسکے سنہرے لمبے بال جوڑے سے کھل کر اسکے کندھوں پر ان گرے تھے اس حالت میں بھی وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ روشیل کا دل یہ لمحہ رک جانے کی تمنا کررہا تھا اسکی نظریں اہٹ پر کھڑکی میں کھڑے دین چچا(جو انکا ملازم تھا اس پر گئی) جو مدشاء کے کمر پر جھولتے بالوں کو دہکھ رہا تھا روشیل کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ وہاں سے بھاگا

چنری کہاں ہے تمھاری۔۔۔۔ مٹھیاں بھینچتے وہ اسکے پاس ایا جو سر پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی اسکی سخت تیش بھری اواز سن جھٹکے سے اٹھی کھڑی ہوتی اسے دیکھنے لگی جو اسے گھور رہا تھآ

و۔ووہ۔۔۔۔ جلدی سے اسی کی شال کو خود پر لپیٹ گئی سنہری انکھوں میں چھایا سرخ پن اسکے ضبط کا گواہ تھا کمزوری کے باعث اسکے چکر آرہے تھے

وہ وہ کیا ہوتا ہے آیندہ یہ شال میں تمھارے سر سے اتری نا دیکھو ۔۔.اسکے بازوں کو سخت گرفت میں جکڑتے وہ اسکے منہ پر غررایا خوف سے کانپتے وہ سر اثبات میں ہلا گئی آنکھیں تھی کہ بہنے کو تیار تھی

زبان نہیں ہے منہ میں ۔۔۔اسکے جبڑے کو پنجے کی سخت گرفت میں لیتے وہ دھیمی اواز میں دھاڑا تو مدشاء نے خوف سے آنکھیں کھولے اسے دیکھا

ج۔ججی۔۔۔ بازوں اور چہرے پر موجود گرفت اسے مزید نڈھال کررہی تھی اسکا شدت سے کانپنا بھی وہ ظالم نظرانداز کرچکا تھا

ائندہ یہ من بھر کا سر ہلانے سے بہتر ہے دو گز کی زبان کو ہلا لینا۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کو پیچھے کرتے وہ غصے سے بولا ۔۔دن بھر کی تھکاوٹ بخار سے کانپتا وہ نازک وجود ۔۔اوپر سے ظلم یہ کہ وہ ستمگر بنا ہوا تھا ایک دم نڈھال ہوتے وہ اسکے کندھے پر ڈھلکی

خانی ۔۔۔. اسکو یوں بےہوش ہوتے دیکھ وہ چونکا اسکے گال تھتھپائے تو اندازہ ہوا کہ وہ اسے بہت تیز بخار ہے اپنی لاپرواہی پر اسے جی بھر کر غصہ ایا جلدی سے اسکے بخار سے تپتے وجود کو لیتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا

❤❤❤❤

ہاتھ چھوڑو میرا یمان ۔۔۔ وہ اج یونی ائی تھی مگر سامنے یمان کو دیکھ وہ جلدی سے اندر جانے لگی مگر وہ اگے بڑھتے اسکی کلائی جکڑ گیا رانیہ اردگرد دیکھتی غررائی مگر وہاں فرق کسے پڑتا تھا

یہ ہاتھ تو اب تمہارے مرنے پر ہی چھوٹے

گا ۔۔۔اسے اپنے ساتھ کھینچتے وہ اسے گاڑی میں پھٹکتے بولا رانیہ نے ایکدم خوف سے اسے دیکھا جو بکھرے بکھرے حلیے میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ رہا تھا

یما۔۔۔۔

شششششششش۔۔۔یمان مت کہو میری جان۔۔۔ اگے ہوکر اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے وہ مدھم لہجے میں بولا رانیہ نے چونک کر اسکے اس انداز کو دیکھا

وہ تیرا شوہر ہے رانی۔۔۔ کچھ دن پہلے خان بی بی کی بات سماعت میں گونجی مگر وہ سر جھٹکتے اسکا ہاتھ پیچھے جھٹک گئی

اپنی حدود میں رہیں خان صاحب۔۔۔ ورنہ اپکے لیے اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ منہ بگاڑ کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی بولی یمان جو اسکے ہاتھ جھٹکنے پر کچھ کہتا اسکا پرسکون انداز دیکھ اسے اندازہ ہوا کہ رانیہ کو بھی معلوم ہے اس نکاح کا شاید بی جان نے بتایا تھا

میری کوئی حد نہیں ۔۔۔ میری جان ۔۔اسکے بازو کو جھٹکے سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے وہ اسکی پیشانی پر لب رکھ گیا جانے کس احساس کے تحت مگر ان دونون کے دل ڈھڑک اٹھے ۔۔۔۔ ایسے جیسے اس لمس پر ان دونوں کا دل جھوم رہا تھا رانیہ چاہ کر بھی اسے پیچھے نا کرسکی ۔۔۔ زرا سا ہونٹ کھولتے وہ گہری سانس بھرتے اپنے ڈھڑ ڈھڑ کرتے دل پر ہاتھ رکھ گئی اسکی کلون کی خوشبو نتھوں کے زریعے اسکے حواسوں پر سوار ہورہی تھی جبکہ دوسری طرف وہ اسے محسوس کرتے جیسے دنیا جہاں سے بیگانہ ہوا تھا

کچھ لمحے یوں ہی سرک گئے ُُُُ نرمی سے پیچھے ہوتے وہ اسکے سرخ تمتماتے چہرے کو نہارنے لگا جو آنکھیں میچے بیٹھی گہری سانس بھر رہی تھی اسکے چہرے پر جھکتے وہ اسکی گال پر شدت سے لب رکھ گیا

مونچھوں کی چبھن اور ہونٹوں کا نرم گرم سا لمس اپنی گال پر محسوس کر وہ کسمساتی اسکے سینے پر ہاتھ رکھ گئی ۔۔۔ سانس جیسے سینے میں ہی اٹک گیی تھی ہونٹ دانتوں سے کترتے وہ جیسے اپنی اندرونی حالت پر قابو پانے لگی

یم۔یمان ی۔یونی۔۔۔سہمی سی کانپتی اواز سن وہ نرمی سے پیچھے ہوا مسکراتی نظروں سے اسے وہاں سے بھاگتے دیکھنے لگا

💖💖💖💖💖

ہم چاہتے ہیں کہ اب ماہنور اور روشیل کی شادی کردی جائے ۔۔۔۔منیبشاہ نے بارعب لہجے میں کہا تو شاداب خان نے مٹھیاں بھینچتے انکے اس انداز کو ضبط کیا

ہم ماہنور کو آپنی بیٹی بنا کر لائے تھے ۔۔.بہو نہیں۔۔۔۔ شاداب خان نے سنجیدگی سے سبکو دیکھا انکی بات پر منیب شاہ کو ماہنور کی بات سچ لگی

شاداب خان۔۔.۔ بیٹی وہ ہماری ہے.. یوں سمجھو کہ ہم رشتہ لائے ہیں اپنی بیٹی کا۔۔۔ دامیر کے ہاتھ دبانے پر وہ کچھ سوچتے بولے شاداب خان نے تیوری چڑھائی اسے دیکھا

ہمارے بیٹے کی شادی ہوچکی ہے منیب ۔۔۔. بی بی سرکار نے جیسے کچھ سمجھانے کی کوشش کی

ونی ہو کر ائی ہے وہ لڑکی ۔۔۔ میری بیٹی تو عزت سے بیاہی جائے گی ۔۔۔۔. منیب شاہ کی بیوی نے فخر سے گردن اکڑا کر کہا تو مدشاء کو کچن سے لے کر اتا روشیل سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے رکا

ماموں جان.... بدنام وہ ہوتے ہیں جنکی عزت ہو ۔۔!اور الحمدللہ میری بیوی کی عزت اپکی بیٹی سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔۔۔۔۔ اور رہی بات عزت سے بیاہنے کی ۔.۔تو ماموں جان ہم خوشی سے نہیں مانگ رہے اپکی بیٹی کو ۔۔۔بلکہ اپ ہی اسے ہمارے سر پر مسلط کرنے پر تلے ہیں ۔۔۔۔۔ شعلہ بار نگاہوں سے ماہنور کو گھورتے اس نے سرد لہجے میں کہا وہ تو کچھ کھانے کو لایا تھا کیونکہ اسکی خانی کی طبعیت خراب تھی مگر انکی باتیں اسے اگ لگا گیی تھی

حد میں رہو لڑکے ۔۔۔۔ تم ہماری بیٹی کے بارے میں بات کررہے ہو۔۔۔منیب شاہ نے اونچی اواز میں دھاڑے منہ پر ہاتھ رکھتے وہ روشیل کی نفرت محسوس کرتی اوپر کی طرف بھاگی اسکے ارادے خطرناک تھے جن سے وہ لوگ ناواقف تھے

اگر اتنی ہی عزیز ہے اپنی بیٹی تو ماموں جان اسے یہاں سے لے کیوں نہیں جاتے اپ ۔۔۔

ہم اج ہی اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جائیں گے مگر اسکے بعد شاداب خان ہم تمھیں خوش نہیں رہنے دینگے اس دو ٹکے کی لڑکی کے ۔۔۔۔

ماموں جان اپنی حد میں نہیں ورنہ میں اپنی حد بھول جاؤ گا... اور خوش رکھنے والی خدا کی زات ہے مٹی کے انسان تو بسس باتیں ہی کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ نور۔۔۔جاؤ ماہنور بی بی کا سامان لے او۔۔۔ اس نے ملازمہ کو اواز دی

لال۔۔۔

بسسس حرا ۔۔آج کے بعد تم مر گئی ہمارے لیے ۔۔۔منیب شاہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا جو شاداب خان نے حرا بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے دبایا جو رونے لگی تھی ۔۔۔

ٹھاااااہ.... گو.لی کی اواز سن وہ سب ہی چونکے اپنے کمرے سے اواز سنائی دی تو وہ جلدی سے اوپر کو بھاگا ہاتھ میں تھامے دوائیوں کے پیکٹ زمین پر گرے وہ سب ہی اوپر کو بڑھے جہاں کسی کے قہقے تو کسی کی سسکیاں گونج رہی تھی

💖💖💖💖💖

جو میرا ہے ۔۔۔۔ وہ صرف میرا ہے ۔۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں تم کیسے میرے شوہر کو مجھ سے چھینتی ہو۔۔۔۔۔ مدشاء کی غرراہٹ سن وہ کمرے میں ایا اسے ماہنور کا گلا پکڑے دیکھ ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھنے لگا

میرا تھا وہ جسے تم نے مجھ سے چھین لیا ہے ۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو پیچھے جھٹکتے وہ اسے دھکا دیتے دھیمی اواز میں چیخی

اسے چھیننا چاہتا ہی کون ہے ۔۔۔تمھاری نظروں کے سامنے اسے حاصل کرونگی اور تم کچھ بھی نہیں کر پاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہنور تنفر سے اسے دیکھتے پھنکاری مدشاء کے سرخ ہونٹوں پر قاتل سی مسکراہٹ نے بسیرا کیا ہاتھ میں موجود چیز پر گرفت مضبوط ہوئی

اس سبکے تم زندہ بچو گی تب نا ۔۔۔ جھٹکے میں اٹھتے وہ اس بند'دوق تان گئی نفرت بھری نظروں سے اسکے وجود کو دیکھ وہ تمسخر سے ائبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی وہ جو مزے سے ان دونوں کو الجھتے دیکھ رہا تھا مدشاء کے سرخ ہاتھ میں بند'وق دیکھ وہ چونکا۔۔۔ جبکہ ماہنور کی آنکھیں ایک بار پھر پھیل چکی تھی

ٹھااااااااااہ۔۔۔۔۔۔۔ 

خانی۔۔۔۔۔۔ گو'لی اسکے جسم میں پپوست ہوئی سرخ لہ'و اسکے سفید فراک کو داغ دار کرگیا کندھے پر پھیلی شال سمیت وہ زمین پر......

سوچا تھا خان سے شادی کرکے تمھیں زلیل کرونگی اور روشیل خان کو اتنا مجبور کردونگی کہ وہ تمھیں طلاق دے دے لیکن شاید قسمت کو تمھاری بہتری منظور نہیں ہے۔۔۔۔۔گن کا رخ اسکی جانب کرتے وہ لہو رنگ نظروں سے اسے گھور رہی تھی

نم آنکھوں میں عجیب سی وحشت ناچ رہی تھی بید پر سوئی خانی نے پہلے تو حیرانی سے اسے دیکھا اسکی بات اور ہاتھ میں موجود گن کو دیکھ اسے سارا معاملہ سمجھ آگیا نرم سے کارپٹ پر سرخ نازک سے پاؤں رکھتی وہ بیڈ سے اتری

ضروری نہیں جو تم کہو جو سوچو وہی ہو۔۔۔ کچھ چیزوں پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا کچھ چیزیں ہماری سوچ کے برعکس ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔ ہلکی پھلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے اس نے روشیل کی ہی شال اٹھا کر کندھوں پر پھیلا لی اسکے براؤن خوبصورت بال کسی آبشار کی طرح اسکی کمر کو ڈھانپے ہوئے تھے

تم۔۔۔جتنا بولنا ہے بول لو۔۔۔کوئی آخری خواہش ہو تو وہ بھی بتا دو۔۔۔ہوسکتا ہے میں تم پر ترس کھا کر وہ خواہش پوری کردوں۔۔۔۔ کچھ سخت بولنے سے گریز کرتے وہ شیطانی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے بولی بخار سے تپتی خانی نے اسے اپنے قریب آتے دیکھا

میری آخری یہی خواہش ہے کہ ۔۔۔تم لاکھ جتن کرلو لیکن تمھیں وہ میسر نا ہو ۔۔۔جو میرا ہے وہ تمھیں مرتے دم تک حاصل نا ہو۔۔۔۔ سرخ ہونٹوں کو بھینچتے اس نے جیسے دعا کی وہ دعا جو ماہنور کے تن بدن میں آگ لگا گئی

کم بخت۔۔تیری اتنی مجال تو مجھے بدعا دے گی۔۔۔۔۔ گن کی بیک سائیڈ آسکے سر پر مارتے وہ غررائی اچانک وار پر خانی سر پر ہاتھ رکھتے لڑکھڑائی خون کی چند ایک بوندیں اسکی پریشانی پر ابھری لہو رنگ نظروں میں درد کا تاثر ابھر کر مدھم ہوا

میرے سامنے تمھاری اوقات ایک چیونٹی کی مانند ہے۔۔۔ میں چاہوں تو تمھیں مسل کے رکھ دوں۔۔۔۔۔ مغرور انداز میں کہتے اس نے ایک ادا سے کھلے بالوں کو جھٹکا غرور تو اسکی ہر ادا میں چھلک رہا تھا

چٹاخخخخخخخخ۔۔۔۔۔ خانی کے ہاتھ سے پڑنے والے تھپڑ نے جیسے اسکے سارے طبق روشن کر دیئے گن ہاتھ سے چھوٹتے مدشاء کے قدموں میں گری

چیونٹی 🐜 کو بھی کبھی ہلکے میں مت لینا ماہنور کیونکہ یہی چیونٹی ہاتھی 🐘 کو بھی تگنی کا ناچ نچانے کی سکت رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ رہی بات مسلنے کی تو میں لاوارث نہیں ہوں میرا باپ میرے بھائی اور میرا شوہر سلامت ہے تم کوشش کرکے دیکھو تمھارا حال نا بگاڑ دیں تو کہنا۔۔۔۔۔۔ اسے پیچھے کو دھکیلتے وہ بیڈ کی پایینی سے سہارا لیے کھڑی ہوئی

وہی باپ بھائی جنہوں نے تمھیں بھوج کی طرح سر سے اتار پھینکا۔۔۔۔اور شوہر ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ شوہر کہتے وہ پاگلوں کی طرح قہقہ لگانے لگی جبکہ اسکے قدم پیچھے سنگھار میز کی طرح بڑھ رہے تھے

\_\_\_\_\_\_\_\_

تمھارے شوہر کو جلد ہی اپنے نام کرلونگی اسے اپنا بنا لونگی۔۔۔۔۔۔

جو میرا ہے ۔۔۔۔ وہ صرف میرا ہے ۔۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں تم کیسے میرے شوہر کو مجھ سے چھینتی ہو۔۔۔۔۔ مدشاء کی غراہٹ پر ماہنور کا قہقہ گونجا ایک دم اسکے قریب ہوتے وہ چیخی

میرا تھا وہ جسے تم نے مجھ سے چھین لیا ہے ۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو پیچھے جھٹکتے وہ اسے دھکا دیتے دھیمی اواز میں چیخی

اسے چھیننا چاہتا ہی کون ہے ۔۔۔تمھاری نظروں کے سامنے اسے حاصل کرونگی اور تم کچھ بھی نہیں کر پاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہنور تنفر سے اسے دیکھتے پھنکاری مدشاء کے سرخ ہونٹوں پر قاتل سی مسکراہٹ نے بسیرا کیا ہاتھ میں موجود چیز پر گرفت مضبوط ہوئی

اس سبکے تم زندہ بچو گی تب نا ۔۔۔ جھٹکے میں اٹھتے وہ اس بند'دوق تان گئی نفرت بھری نظروں سے اسکے وجود کو دیکھ وہ تمسخر سے ائبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی سر میں اٹھتی درد کی لہریں نظرانداز کرتے اس نے ٹریگر پر انگلی رکھی۔۔۔ ماہنور کی آنکھیں ایک بار پھر پھیل چکی تھی

ٹھااااااااااہ۔۔۔۔۔۔۔ آس سے پہلے خانی ٹریگر دباتی کہ روشیل کی بند۔وق دراز سے نکالتے ماہنور نے ایک فائ۔ر مدشاء پر کیا بندو۔ق سے نکلا شعلہ خانی کے دل کے قریب پپوست ہوا۔۔۔ خو

سرخ لہ'و اسکے سفید فراک کو داغ دار کرگیا کندھے پر پھیلی شال سمیت وہ زمین پر گری ماہنور نے حیرانی سے اپنے ہاتھوں میں موجود گن پھر مدشاء کو دیکھا جو لہولہان پڑی تھی

❤❤❤❤❤❤❤

بابا پتہ نہیں کیوں میرا دل خانی کی طرف سے بہت پریشان ہے۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ کیسی ہوگی۔۔بابا چلیں مل کر آتے ہیں ۔۔۔ دامل آج شمشیر خان کے پاس ایا تھا اسکا دل بہت بےچین تھا جیسے کچھ سخت غلط ہو رہا ہو اسے ہر طرف گھٹن محسوس ہورہی تھی

پاگل مت بنو دامل۔۔۔ ابھی میری رانیہ بیٹی سے بات ہوئی ہے خانی ٹھیک ہے۔۔ تم جاؤ زمینوں پر۔۔۔ کام دیکھو ہم آج زرا آرام کرینگے۔۔۔ شمشیر خان نے اسے دلاسہ دینے کو کہا جبکہ انکا اپنا دل بھی ڈوبا جارہا تھا سردار بعد میں تھے مگر ایک بیٹی کے باپ پہلے تھے وہ بیٹی جس میں انکی جان بستی تھی

دروازے کے باہر کھڑی اویزہ نے یمان کو تیزی سے حویلی سے باہر جاتے دیکھا اسے پہلے سے شک تھا مگر اسکا شک اب یقیں میں بدل رہا تھا روحیل کے ساتھ کل اس نے چلے جانا تھا مگر جانے سے پہلے وہ یہ گھتی سلجھانا چاہتی تھی گاڑی کی چابی پکڑتے وہ یمان کے پیچھے نکلی تھی جو اب ہوسپیٹل کی طرف ریش ڈرائیونگ کرتا جارہا تھا

ہوسپیٹل میں کون ہوسکتا ہے۔۔۔۔تو کیا یمان لالہ حویلی میں کسی سے رابطے میں ہے۔۔۔ اگر ہاں تو میرے پوچھنے پر بتایا کیوں نہیں۔۔۔انہیں لگا ہوگا شاید میں اس سے ملنے چلی جاؤں گی۔۔۔۔ خود سے ہی باتیں کرتے وہ یمان کی گاڑی کے پیچھے جارہی تھی دماغ مختلف سوچوں میں الجھا تھا جانے کون تھا ہوسپیٹل میں

\_\_\_\_\_\_\_\_\_\_

ٹھاااااااااہ ۔۔۔۔کی آواز پر جہاں وہ سب ساکت ہوئے وہی روشیل جھٹکے سے اوپر بھاگا اسکا دل انجانے خوف سے ڈھڑکنے لگا تھا اپنے کمرے میں پہنچتے جو منظر آس نے دیکھا وہ سوہان روح تھا اسکی خانی خون سے لت پت زمین پر پڑی کراہ رہی تھی جلدی سے اسکے پاس پہنچتے وہ اسکا سر اپنی گود میں رکھ گیا

مدشاء میری جان آنکھیں کھولو ی\_یہ سب کیسے ہوا۔۔۔۔۔۔ اسکی سفید پڑتی گال تھپتھاتے وہ دیوانہ وار پوچھنے لگا باقی سب بھی اسکے پیچھے ائے سامنے کا منظر دیکھ وہ سب ساکت و جامد یوئے خانی کے بعد ان سبکی نظروں کا رخ میز کے پاس گن پکڑ کر کھڑی ماہنور پر گیا منیب شاہ نے جلدی سے اگے بڑھتے ماہنور کو گلے سے لگایا جو سہارا ملتے ہی گن پھینکتے چھپ ہی گئی کچھ گرنے کی اواز وہاں پھیلے سناٹے میں خلل پیدا کرگیا روشیل نے خونخوار نظروں سے مڑ کر اسے دیکھا جو چور نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی اسکی سرخ رنگ آنکھیں دیکھ اسکا دل بند ہونے لگا

اگر میری خانی کو کچھ ہوا نا تو تمھاری جان میں اپنے ہاتھوں سے نکالوں گا۔۔۔۔ خانی کو گود میں اٹھائے وہ باہر جانے سے پہلے ماہنور کو گھورتے وحشت بھرے لہجے میں بولا تھا

منیب تم اپنی بیٹی کو لے جاؤ اس سے پہلے ہم کچھ سنگین کر بیٹھے ۔۔۔۔ شاداب خان نے غصہ ضبط کرتے کہا اور روشیل کے پیچھے نکے انہیں اپنی بہو کی فکر تھی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

لالہ۔۔۔ ماہنور نے دامیر کو بلایا جو سنجیدگی سے شاہ حویلی کے زینے چڑھتے اپنے کمرے میں جارہا تھا کہ اسکی پکار پر رکا

لالہ میں نے جان کر۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولنے لگی کہ دامیر نے ہاتھ اٹھائے اسے روکا

ہم لوگ تمھیں یہاں لائے ضرور ہیں مگر اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہم لوگ اج والا واقع بھول گئے ہیں۔۔۔ ہماری مجبوری نا ہوتی تو میں ہم کبھی ایک قاتل کو اپنی حویلی نا لاتے۔۔۔۔بابا جان بس جلدی سے اسکے لیے لڑکا ڈھونڈے اور بیاہ دیں اسے مجھے یہ لڑکی اب اس حویلی میں نہیں چاہئے۔۔۔۔ منیب شاہ کو دیکھتے وہ سنجیدگی سے بولا نظریں گھمائیں تو کچن سے جوس کے ساتھ لوازمات لے کر اتے دلنشیں دیکھائی دی

دل۔۔ یہاں کوئی مہمان نہیں آیا جو مہمان نوازی کا سامان ارہا ہے؟۔۔۔۔ابھی اسی وقت کمرے میں چلو۔۔۔۔ توپوں کا رخ اب دلنشین کی طرف ہوا جو اسکے کہنے پر سر جھکا چکی تھی

دامیر بچے ابھی باورچی خانے میں بہت کام پڑے ہیں۔۔۔۔ تم جاکر منہ ہاتھ دھو یہ تب تک آجاتی ہے۔۔۔ دامیر کی والدہ نے چنری سہی کرتے کہا مگر دامیر کے تاثر دیکھ چپ ہوئی

میری ایک بات کان کھول کر سن لے سب۔۔۔۔ آج کے بعد میری بیوی کسی کی خدمت نہیں کرے گی اپنے کام نوکروں سے کروائیں۔۔۔۔ وہ سب کو تنبیہہ نظروں سے دیکھتے سنجیدگی سے بولا اور دلنشیں کو اوپر انے کا کہتے لمبے لمبے ڈگ بھرتے اوپر چلا گیا

اپی اپ جوس لیں میں انہیں دیکھتی ہوں۔۔۔۔ ماہنور کو جوس دیتے وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے بولی دامیر کی والدہ نے خفگی سے دلنشیں کی پشت کو دیکھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💞💕💕💕💕

تم نے وعدہ کیا تھا کہ میری خانی کی حفاظت کروگے۔۔۔۔یہ سنبھال کر رکھا تم نے۔۔۔کہ کچھ دنوں بعد ہی میری بہن میری خانی ہوسپیٹل میں بےسدھ پڑی ہے۔۔۔۔۔۔ ہوسپیٹل پہنچ کر وہ جلدی سے اندر بھاگا آپریشن تھیٹر کے باہر ہی اسے روشیل اور شاداب خان نظر آگئے اسکے پاس پہنچتے وہ اسکا گریباں پکڑتے غرایا

یمان ہوش کے ناخن لو یہ سب اچانک ہوا ۔۔۔۔ شاداب خان نے اسے پیچھے کیا جو غصے سے بھپرا شیر بنا ہوا تھا

کس کی اتنی مجال ہوئی کہ میری خانی کو گو۔لی مار دی اور آپ لوگ کہاں تھے۔۔۔ کیا میری بہن کی یہی عزت ہے اس دن تو آپ لوگ بہت یقین دلا رہے تھے مجھے۔۔۔کہ خانی آپکی بھی بیٹی ہے۔۔۔۔۔ یمان کا غصہ کسی طور پر کم ہونے کو نہیں آرہا تھا آنکھیں سرخ لہو ٹھپکا رہی تھی بھینچے ہونٹ کچھ سخت بولنے پر خود کو روکے ہوئی تھی

یمان خان وہ اج بھی ہماری بیٹی ہے۔۔۔۔ ہماری عزت ہماری خانی۔۔۔۔ جتنی وہ تمھیں عزیز ہے اتنی ہی ہمھیں بھی ہے۔۔۔۔ شاداب خان کچھ برہمی سے بولے ۔اتنے میں ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر نکلا وہ سب اسکی جانب متوجہ ہوئے

میری بیوی۔۔۔۔

دیکھیں پیشنٹ کی حالت کافی خراب ہے انکا خون کافی مقدار میں ضائع ہوچکا ہے۔۔۔۔ اور گولی دل کے کافی قریب لگی ہے ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ انکی حالت میں سدھار اجائے مگر انکی حالت بگڑتی ہی جارہی ہے اپ لوگ دعا کریں اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہوش اجائے ورنہ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے ایک ہی سانس میں کہتے وہاں سے جانا مناسب سمجھا ورنہ ان تینوں کے تاثرات دیکھ انہیں ڈر لگ رہا تھا۔

کیا مدشاء ۔۔۔۔ مدشاء کو گولی لگی ہے۔۔۔۔ اویزہ کا منہ حیرت سے کھلا آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اس نے تو شروع سے ہی مدشاء کو اپنے باپ بھائی کے ہاتھوں کا چھالا بنا دیکھا تھا پھر ایسے کیسے یہ لوگ اتنے لاپرواہی برت گئے کہ انکی نازک سی خانی اب زندگی اور موت کے بیچ جھول رہی تھی

غصے اور غم کے ملے جلے تاثرات لیے وہ وہاں سے نکلی اسکا پورا ارادہ دامل کے پاس جاکر اسکی اچھی خاصی کرنے کا تھا

💕💞💕💞💕💞💕💞💞💞💕💞💞💕💞💕

کیا ہوا آپ کو۔۔۔ناراض کیوں ہورہیں ہیں اپ سب سے۔۔ وہ کمرے میں ائی تو وہ بیڈ پر بازو آنکھوں پر رکھے لیٹا ہوا تھا اسے دیکھ دلنشیں پریشان ہوتی اسکے پاس آئی

دامیر سائیں۔۔۔ اسے خاموش دیکھ وہ اسکے بازو کو پکڑ کر آنکھوں سے ہٹا گئی اسکے اس عمل پر دامیر نے سرخ آنکھوں کو کھول کر اسے دیکھا اسکے یوں دیکھنے پر ہی دلنشیں گھبرا کر پیچھے ہوئی

مجھے سکون چاہیے۔۔۔۔۔۔ دل ۔۔ اسکو یوں پیچھے ہٹتے دیکھ وہ اسکی کلائی پکڑتے اسے اپنے اوپر گرا گیا نظروں کا مرکز اسکا پریشان سا سہما چہرہ تھا شاک سے کھلی آنکھیں تھی

د\_دا س۔سس۔سائیں ۔۔۔۔ ووو۔وہ ۔۔۔ لزرتی پلکیں جھکی سرخ گالوں پر سایا فگن ہوئی ۔۔ پریشانی میں بھی دامیر کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی ۔۔

کیسا گزرا دن۔۔۔؟؟ اسے اپنے اوپر لیٹاتے وہ اسکے کالی چنری کو ہٹاتے اسکے ریشمی بال سہلا رہا تھا دلنشیں نے اسکے سینے پر سر رکھے اسکے دل کی دھڑکن سن رہی تھی جو کافی تیز تھی

کوئی حویلی میں تھا نہیں ۔۔ ماں جان کام میں مصروف تھی۔۔۔ اداسی بھرا دن تھا جیسے تیسے گزر ہی گیا۔۔۔ وہ منہ اسکے سینے میں چھپاتے بولی

اوہ تو میرے دل کا دن میرے بغیر اداس گزرتا ہے۔۔۔ ؟؟؟چلیں کل کا پورا دن ہماری دل کے نام۔۔ن اسکے بیڈ پر لیٹاتے وہ اسکے اوپر اتے بولا تو دلنشیں نے آنکھیں میچی

دا۔۔وہ۔۔۔کھانا۔۔۔؟؟؟ منمنا کر کہتے وہ میچی آنکھیں وا کرتے اسے دیکھنے لگے نظروں کا نظروں سے ملنا تھا کہ قیامت وہ جیسے ان خوبصورت سی آنکھوں میں کھو ہی گیا تھا۔۔۔

کمبخت اب کھانا کون کھانا چاہے گا۔۔۔ہمھیں تو اپکی دید کی بھوک ہے۔۔۔ اسکے گال پر لب رکھتے وہ خمار بھری اواز میں بولا دلنشیں نے سانس روکے اسے دیکھا

میں مدد کرو۔۔۔ دامیر نے سوالیہ نظروں سے دلنشیں کو دیکھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی

سانس روکنے میں۔۔۔ نظریں اسکے ہونٹوں پر جمائے وہ معنی خیز لہجے میں بولا گہری نظریں سرخ ہونٹوں پر تھی دلنشیں نے کچھ کہنے کو لب وا کیے ہی تھے کہ وہ اسکے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔۔۔


ویسے کتںے خوش ہوگے نا تم کہ تمھاری سر سے بوجھ اتر رہا ہے ۔۔۔ وہ ڈیرے سے گھر کے لیے ہی نکل رہا تھا کہ سامنے سے اویزہ اکر بولی دامل نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

کونسا بوجھ۔۔؟ آنکھوں پر سے گلاسس اتارتے اس نے ناسمجھی والے سے پوچھا اویزہ کا دل کیا اسکا منہ توڑ دے

خانی۔۔بوجھ ہی تھی نا۔۔۔خوش ہوجاو تم بوجھ اتر رہا ہے تم لوگوں کے سر سے۔۔۔ ہوسپیٹل میں زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے۔۔۔۔ غصے سے تپتے چہرے سمیت سرخ نظریں اسکے چہرے پر جمائے وہ اگ بگولہ ہورہی تھی آنکھیں تھی کہ بہنیں کو تیار تھی

کیا بکواس کررہی ہو۔۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے کیا تمھارا؟؟صبح تک تو وہ ٹھیک تھی ۔۔۔۔ تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ اسکی بات جیسے دامل کو اگ ہی لگا گئی غصے سے اسے دیکھتے وہ بے ساختہ دھاڑا

یمان لالہ ہوسپیٹل ہیں۔۔۔اور تم؟؟ تم ایسے بیہیو کررہے ہو جیسے تمھیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔۔۔ دامل کا غصہ جانے کیوں مگر اسے جھوٹ لگا اسے دنیا میں سب سے زیادہ دامل خان سے نفرت محسوس ہوئی

کک۔کیا ہوا اسے۔ م۔م۔مجھے معلوم نن۔نہیں ۔۔۔۔اسکی بات سن اسکے سر پر جیسے اسمان اگر پیروں تلے زمین کھسک گئی اسے مکمل طور پر نظرانداز کرتے وہ جیپ کی چابی لیے وہاں سے بھاگا۔۔۔

شکر ہے کہ میں حویلی کی بیٹی نہیں ہوں۔۔۔ یہاں کے لوگ تو ظالموں سے بھی بڑھ کر ہیں۔۔۔ ایک غلط فہمی اسے خان سے نفرت کرنے پر مجبور کر رہی تھی اسے جلد از جلد وہاں سے جاناں م تھا وہ کیسے ان ظالموں کے بیچ رہ سکتی تھی۔۔۔

اس ظالموں کے شہر میں ظالم ہی رہ سکتے ہیں۔۔۔ آہستہ سے بڑبڑاتے وہ گلے میں سٹالر سہی کرتی گاڑی میں بیٹھی اسے دور جانا تھا وہاں سے بہت دور

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

رات کی تاریکی کسی کے لیے سکون کا باعث تھی تو کسی کو بےسکون کیے ہوئے تھی رات کا اندھیرا اسے ڈرا رہا تھا

ماں کیا خانی ہمھیں چھوڑ جائے گی۔۔۔؟؟ ماں لالہ مار ڈالے گے ماہنور کو۔۔۔ ماں سرکار ہم کیا کریں ۔۔۔ان لوگوں کے دلوں میں پہلے ہی ہمارے لیے کتنی بدگمانیاں ہیں ۔۔۔۔ ماں ہم کیا کرینگے۔۔۔ بی بی سرکار کی گود میں سر رکھے وہ بےدھیانی میں بڑںڑا رہی تھی آنکھیں ضبط سے سرخ ہورہی تھی بی بی سرکار نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا

دعا کرو میری جان۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کہہ ہی نا سکی۔۔۔ وہ خود بھی پریشان تھی وہ انکی بھانجی ہونے کے ساتھ انکے لختِ جگر کی بیوی بھی تھی کتنے سالوں بعد انہیں اپنی بہن کو دیکھنے کی چاہ ہوئی تھی دل میں ایک امید سی جاگی تھی کہ شاید اج وہ اپنی دل عزیز بہن کو مل سکیں گی

اللہ کرے مدشاء ٹھیک ہوجائے ۔۔۔۔خدا کرے وہ ہم دو خاندانوں کو ایک کرنے کی وجہ بنے۔۔۔ خانی کرے وہ خانی جیسے کام کر دیکھائے۔۔ انکے دل سے بےساختہ دعا نکلی اس بار شاید انکے درمیان سب ٹھیک ہوجاتا۔۔۔

💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞

ہماری بیٹی۔۔۔ ہماری خانی۔۔۔۔ کس نے ہماری بیٹی کو نقصان پہنچانے کی جرت کی۔۔۔ شمشیر خان کی چنگاڑتی آواز پر جہاں بےسدھ بیٹھا روشیل انکی طرف بڑھا وہی شاداب خان نے ایک نظر اپنے بھائی کے غصے سے سرخ چہرے کو دیکھا

بابا جان ۔۔۔ روشیل بےساختہ ہی ان سے لگا اسکا یہ انداز شمشیر خان کو کسی انہونی کا احساس دلا گیا

روشی کیا ہوا ہے۔۔۔۔ انہیں چھوٹا سا روشیل یاد ایا وہ جب بھی بہت زیادہ درد میں ہوتا تو ایسے ہی انکے گلے سے لگ جاتا تھا اسکا کندھا تھپتھاتے انہوں نے اسے ہمت دی شاداب خان نے چور نگاہوں سے سسر داماد کو دیکھا جو شاید اسے بھول گئے تھے تو کیا انہیں امید تھی کہ انکا بھائی ان سے ملے گا۔۔۔

ابھی وہ کچھ کہتا کہ ڈاکٹر باہر نکلی۔۔انداز میں ندامت تھی جھکی نظروں سنی

سوری شی از نو مور۔۔۔ ۔۔وہ ایکسپیٹ کررہی تھی ایسے میں انکو بچانا بہت مشکل تھا۔۔۔وہ پیشہ ورانہ انداز میں بولی روشیل کو لگا جیسے کسی نے ایک پل میں اسے عرش سے فرش پر لا پٹکا ہو ۔ابھی تو خوشیاں اس نے سہی سے محسوس بھی نہیں کی تھی کہ پہلے ہی خوشیاں اس سے روٹھ گئی تھی

اسے لگا اسکی زندگی وہی تھم گئی ہے ۔۔ اسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی بے اختیار ہی وہ لڑکھڑا کر ایک قدم پیچھے ہوا

ڈاکٹر ابھی مڑی ہی تھی جب یمان کے پیچھے کھڑا لڑکا اگے ایا

ڈڈاکٹر می۔میری۔۔وا۔وائف۔۔وہ۔۔۔کیسی۔۔ہ۔ہیں؟؟؟ وہ لڑکا کافی گھبرایا ہوا تھا ڈاکٹر اسکی بات پر پلٹی ایک پل کو انکی آنکھوں میں الجھن پیدا ہوئی

اپ دونوں میں سے ولید کون ہے ۔۔؟؟؟ ڈاکٹر کے پوچھنے پر وہ لڑکا اگے ایا سب انکی جانب متوجہ ہوئے انکا پورا وجود تو جیسے کان بن گیا تھا

میں ۔۔۔۔ وہ لڑکا گھبراتے ہوئے بولا

ائی ایم سوری مسٹر روشیل نیم سے کچھ مس انڈرسٹینڈنگ ہوگئی اپکی وائف ابھی انڈر اوبزورشن ہیں ۔۔۔ انکو ہوش آچکا ہے کچھ ہی دیر میں اپ ان سے مل سکتے ہیں ۔۔۔۔

اینڈ مسٹر ولید ۔۔۔سوری ٹو سے ۔یور وائف از نو مور ۔۔۔روشیل سے کہہ کر وہ اس لڑکے کی طرف مڑی ۔۔۔ان سبکو تو ایک پل کے لیے یقین ہی نا ایا ایک لمحے میں ڈاکٹر نے انکی جان نکال دی تھی ۔۔وہ کئی وقت تک وہاں ساکت کھڑا رہا ۔۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کدھر ہے وہ کلموہی ۔۔۔ جس نے ہماری پوتی کو چوٹ پہنچانے کی جرت کی ۔۔۔ خان بی بی چھڑی اٹھائے ڈھاڑتی شاہ حویلی پہنچی تھی ماہنور جو ابھی صوفے پر اداس سی بیٹھی تھی گھبراتے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔

تم نے ہماری پوتی کو چوٹ پہنچائی ۔۔۔اسکے بالوں کو کھینچتے خان بی بی بہت غصے میں لگ رہی تھی شور سن سبھی باہر ائے تھے نیچے خان بی بی کو ماہنور کا منہ اور بال دبوچے دیکھ وہ سب نیچے ائے

کلموہی ہمھیں پہلے ہی معلوم تھا کہ تیری نیت میں کھوٹ ہے ہمارے پوتے پر قبضہ جمانا چاہتی تھی ڈائن ۔۔۔ ارے تیری کیا اوقات ہے میرے پوتے کے سامنے نا تو پڑھی لکھی نا تو خوبصورت ۔۔۔ کدھر سے جوڑ بنتا تھا تم لوگوں کا ۔۔۔جو تو نے اتنے خواب سجا لیے ۔۔۔ ہیں ۔۔۔ اسکے بالوں کو جھٹکا دے کر اسے صوفے پر پھینکتے خان بی بی نے چھڑی اسکی کمر پر ماری

سب ہی مرد کام پر نکلے تھے جبکہ خواتین تماشا دیکھ رہی تھی وہ چاہتی تو روک سکتی تھی مگر انکی بیٹی کی حرکت کی وجہ سے وہ سبھی شرمندہ تھے اسی لئے کوئی اگے نا ایا

خخان۔ب۔بی بی ہہ۔ہم۔۔۔ ماہنور نے کچھ کہنا چاہا جب سامنے سے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے تھپڑ نے اسکے حواس گھما دئے سب نے منہ پر ہاتھ رکھا ثانیہ بیگم کو وہاں دیکھ سبھی حیران تھے کیونکہ بی بی سرکار سے علیحدگی کے بعد انہوں نے ہر جگہ انا جانا بند کردیا تھا لیکن اج ماہنور کی حرکت نے انہیں یہاں انے پر مجبور کردیا تھا

اگر تمھیں روشیل چاہئے تھا تو ایک بار بس ایک بار ہم سے کہتی ماہنور ۔۔۔ ہم دنیا کی ہر خوشی تمھارے قدموں میں ڈھیر کردیتے لیکن اج جو تم نے کیا ۔۔ وہ ناقابلِ قبول ہے ۔۔۔ ہماری بیٹی ہماری جان ہے ۔۔۔ تمھاری بھی تو بہن تھی محبت میں اتنا اندھی ہوگئی کہ رشتوں کا لحاظ بھول گئی تم ۔۔۔۔ بھائی جان سے میں تمھارا ہاتھ مانگنے انے والی تھی لیکن مجھے افسوس ہورہا ہے کہ میں نے ایسا سوچا ہی کیوں ۔۔۔ غصے کی شدت سے انکا پورا جسم کانپ رہا تھا انکی اواز آہستہ مگر بےحد سرد تھی کہ ماہنور نے حلق تر کرتے انسو صاف کیے وہ واقع سب کچھ بھول چکی تھی اسے تو بس اپنی محبت حاصل کرنی تھی

انی م۔مجھے معاف کردیں ۔۔۔۔ ثانیہ بیگم کے ہاتھ پکڑتے وہ گڑگڑائی

اگر خانی نے تمھیں معاف کردیا تو ہم تمھیں معاف کردیں گے ماہ۔۔۔مگر اس سے پہلے اپنی شکل ہمھیں مت دیکھانا کیونکہ جب جب تم سامنے اؤ گی ہمھیں ہماری بیٹی کی دشمن لگو گی ۔۔۔۔انہون نے اہستہ سے اسکے ہاتھ پیچھے کرتے اسے صاف لفظوں میں بتایا

بی بی آپ جارہی ہیں ۔۔۔ ماہنور کے اوپر جاتے ہی صوفیہ شاہ (ماہنور کی ماں) نے پوچھا تو ثانیہ بیگم نے سر نفی میں ہلایا اور شال سہی کرتی صوفے پر بیٹھی خان بی بی کے برابر جا بیٹھی

ہمھیں آپ لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں بھابی نا ہی ہم بچوں کے لیے بڑوں سے لڑائی کرنا پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔ ثانیہ بیگم نے نہایت ہی سادہ لہجے میں انہیں بتایا وہ سبھی ہنستے مسکراتے انکی خدمت میں لگ گئی جبکہ دلنشیں وہی انکے پاس بیٹھی تھی ہوسپیٹل سے فون اچکا تھا کہ خانی ٹھیک ہے اسی لیے وہ سب پرسکون تھے

یہ ہماری گڑیا ہے نا ماں جان ۔۔۔ دلنشیں کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ثانیہ بیگم نے خان بی بی سے پوچھا جو سر اثبات میں ہلا رہی تھی

اپکو پتہ ہے دلنشیں ۔۔۔ جب اپ چھوٹی تھی تو دامیر سے بہت جگڑتی تھی خاص کر اسکے بال نوچا کرتی تھی جو انہیں بہت عزیز تھے ۔۔ اسی لیے وہ اپکو جنگلی بلی کہتا تھا ۔۔۔۔ ثانیہ بیگم نے مسکراتے لہجے میں بچپن کی بات چھیڑی تو دلنشیں نے منہ بگاڑا

کیا پھپھو اگر میں جنگلی تھی تو وہ بھی باگڑ بلا تھا ۔۔۔۔ کیسے میرے پیچھے پڑا رہتا تھا ۔۔۔۔ ہر وقت بسس میرے سر ہوتے تھا ۔۔۔ دل یہ کردو ۔دل وہ کردو ۔۔۔ وہ اردگرد کا ہوش بھلائے بولی جارہی تھی کہ سائیڈ سے اتی اواز پر اسکی چلتی زبان رکی اس نے چور نگاہوں سے دامیر کو دیکھا جو اسے گھوری سے نوازتے پھپھو سے مل رہا تھا

وہ تو میں اج بھی کرتا ہوں دل ۔۔۔۔۔

ہاں بھئی اب تو آپکا حق ہے ہماری بھتیجی کو تنگ کرنے کا ۔۔۔۔ ثانیہ بیگم نے ان دونوں کو شریر نظروں سے دیکھا دامیر سر پر ہاتھ پھیرتے وہاں سے چل دیا

جاو بچے اسے پانی وانی کا پوچھ آؤ بیچارہ تھک کر ایا ہے ۔۔۔ خان بی ںی نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا تو وہ مسکراتی کچن سے پانی لیے زینے چھڑنے لگی

سنا ہے محبوب بیوی کی ایک مسکراہٹ ساری تھکن دور کردیتی ہے ۔۔ ثانیہ بیگم اسے پیچھے سے چھیڑنا نا بھولی دلنشیں شرمگیں مسکراہٹ سے انہیں دیکھتی اوپر کو بھاگی

ارے ارے دھیان سے ہاہا۔۔۔۔ اسے بھاگتے دیکھ وہ ہنسنے لگی انہیں وہ پیاری سی بچی بہت پیاری لگی تھی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میری بہن کے قریب مت جانا ۔۔۔۔ وہ غصے سے دندناتے سیدھا مدشاء کے روم میں گھسا جہاں ابھی ابھی روشیل انٹر ہوا تھا اسکی اواز پر سخت تاثرات سے اسے گھورنے لگا

تیری بہن میری بیوی ہے سمجھا تو ۔۔

ہاں جسکا تو خیال نہیں رکھ سکا ۔۔۔۔ دامل نے خانی کے سر پر لب رکھتے گہرا طنز مارا مدشاء نے سر پیچھے کرتے منہ موڑ لیا اسے ابھی فل حال کسی سے نہیں ملنا تھا ۔۔۔

ہممم وہی بہن جسے ۔۔۔۔

پلیز ۔۔۔۔۔ روشیل کو دیکھ وہ منت بھرے لہجے میں بولی اسکو خود سے منہ موڑتا دیکھ اسکے دل میں کیلیں سی چبھی ۔۔۔وہ اتنی ناراض تھی کہ اسے دیکھنا تک گواراہ نہیں کررہی تھی ؟؟ اسکی ناراضگی جائز بھی تھی ۔۔وہ بھائی ہوکر اسکے ساتھ غلط کرچکے تھے ۔۔۔۔۔

سہی ۔۔۔ غصے سے ان دونوں کو دیکھتے وہ الٹے قدموں وہاں سے پلٹا کہ خانی کی اواز پر اسکے ہونٹ مسکرائے

خخخ۔خان پلیز رک جائیں ۔۔۔ مجھ۔مجھے سونا ہے ۔۔۔ دامل کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے وہ اس سے مخاطب ہوا روشیل نے مڑ کر جتاتی نظروں سے دامل کو دیکھا جو شاید بہن کی بےرخی سے ہی نڈھال ہوچکا تھا

میری بہن کا خیال رکھنا ۔۔۔۔روشیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ اہستہ سے بولا اور وہاں سے چلا گیا

کونسی فلم بنائی ہے ۔۔۔۔؟؟ روشیل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی

بندو۔قیں اٹھا کر کیا ثابت کرنا چاہتی تھی تم لوگ ۔۔۔ تم لوگ ہی تیس مار خان ہو ؟؟؟ ہم مرگئے ہیں ؟؟؟ روشیل نے سنجیدگی سے پوچھا مدشاء نے دکھ سے اسے دیکھا

لگتا ہے میرے زندہ بچنے پر اپکو خوشی نہیں ہوئی اسی لیے ایسی بات کررہے ہیں ۔۔۔ وہ خفا ہوتی بولی روشیل نے لب دبائے اسے دیکھا وہ لمحے یاد کرتے اسکا دل پھٹتا تھا اور جناب کہہ رہی ہیں کہ اسکے درد سے اسے فرق نہیں پڑتا ۔۔

خوشی تو ہوئی ہے جسکا اظہار کرنا ابھی تمھاری ننھی سی جان کو تکلیف میں ڈال دیگا ۔۔۔اس لیے ابھی تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ لیٹی رہو ۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ اسکے گرد جماتے وہ اس پر جھکتے دانت پیس کر بولا مدشاء نے منہ بناتے آنکھیں میچی

💕💕💕💕💕💕💕🙈🙈💕💕💕💕💕💕💕

لالہ ۔۔۔ یہ اواز کہاں سے ائی تھی انہوں نے غور کیا تو شاداب خان کی اواز تھی جو انکے ساتھ ہی ااا بیٹھے تھے شمشیر خان کو لگا انہیں غلط فہمی ہوئی ہے

ہمھیں معاف کردیں۔۔۔ دور تھے تو بات الگ تھی لیکن جب وہ سامنے ائے تو انکا یوں اجنبی بن جانا ان سے برداشت نا ہوا تھا اخر کار انہوں نے انا کی دیوار کو گرا دیا تھا شمشیر خان نے بنا کچھ کہے انکے گلے لگے سالوں سے تڑپتے دل کو چین ایا تھا

کہیں نا کہیں انہیں اپنے چھوٹے بھائی کی ضرورت تھی جو ان سے خار کھائے بیٹھا تھا غلط فہمی نے انہیں ایک دوسرے سے اتنا دور کردیا تھا کہ چاہ کر بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے تھے

ہمھیں بھی معاف کردو چھوٹے ۔۔۔ انکی پیشانی پر لب رکھتے وہ نم آنکھوں سے بولے یمان نے یہ منظر دیکھ وہاں سے چل دیا

نہیں بھائی جان ہماری غلطی ہے ۔۔۔ شاداب خان نے عقیدت سے انکے ہاتھ چومتے کہا شمشیر خان نے مسکراتے انکے بالوں میں ہاتھ پھیرا

میرا بھائی میری جان ہے ۔۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولے پھر دونوں ہی ہنس دیئے شروع سے ہی انکی باتیں ایک دوسرے سے ملتی تھی ایک وقت پہ وہ دونوں ہی ایک ہی بات بولتے تھے

اکیلے اکیلے محبتیں بانٹی جارہی ہیں ۔۔۔روم سے نکلتے دامل نے یہ سب دیکھا تو انکے قریب اتے بولا

آجاؤ تم بھی ۔۔۔ شاداب خان نے اسکے گلے میں ہاتھ ڈال کر اسے گلے سے لگایا خوشیاں دستک دے رہی تھی تو کیا کہانی اختتام کی طرف جارہی تھی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕🙈💕🙈💕💕💕

خ۔خان۔۔۔ کچھ یاد آنے پر وہ اہستہ سے اسے پکار گئی

ہمممم۔۔۔۔ اسکے بالوں کو سہلاتے وہ نرمی سے پوچھنے لگا مگر اسکی بات سن کر اسکا دماغ گھوما

میں خان حویلی کے لوگوں سے نہیں ملنا چاہتی ۔۔۔۔ اس نے نم اواز میں کہتے سرخ انسو سے لبریز نگاہوں سے اسے دیکھا

کیوں ۔۔۔ کیا شادی کے بعد بیٹیاں اپنے گھر والوں سے نہیں ملتی ؟؟؟ اسکی سنہری آنکھوں پر لب رکھتے وہ نرمی سے پوچھنے لگا وہ غصہ کرنا نہیں چاہتا تھا

وہ شادی ہوتی ہے نا ۔۔میں تو ونی کی گئی تھی ۔۔۔ وہ کرب بھرے لہجے میں بولی تو روشیل کا دل پسیجا

میری جان ۔۔ تم ایسا کچھ مت سوچو یہ سب ایک کھیل تھا کہ شاید ہمارا خاندان ایک ہوجائے ۔۔۔۔ یمان نے ہی راضی کیا تھا بابا جان کو ۔۔۔ کہ تمھیں ونی کردیں کیونکہ وہ بھی چاہتا تھا کہ ہمارا خاندان ایک ہوجائے ۔۔۔۔۔ اس نے کمزور سی دلائل دی مدشاء نے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھا

تو کیا مجھ پر ونی کا دھبہ لگانا ضروری تھا ؟؟؟ انسو آنکھوں سے بہتے تکیہ بگونے لگے اسے وہ پل نہیں بھولے تھے جب اسکے اپنے پل میں غیر ہوگئے تھے

مدشاء ۔۔۔رو مت ۔۔۔میرے دل دکھتا ہے ۔۔۔۔ اسکے انسو لبوں سے چنتے وہ بھاری اواز میں بولا مدشاء نے آنکھیں بند کرکے اسے جیسے وہاں سے جانے کا کہا یہ اشارہ تھا کہ وہ اس وقت اکیلی رہنا چاہتی ہے

💕💕💕💕💕

باگڑ بلا ہاں۔۔۔؟ وہ ابھی دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی کہ دامیر نے اسے جھٹکے سے دیوار سے لگاتے اس پر بادل کی طرح چھایا دلنشیں نے حیرانی سے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھا

و۔وہ تت۔تو ایسے ہی۔۔۔منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔ وہ شرمندہ ہوتی بولی جبکہ دل تو بلکل بھی شرمندہ نا تھا

کوئی بات نہیں ۔۔۔ دامیر نے اسکے سرخ ہونٹوں کو دیکھتے مسکرا کر کہا دلنشیں کو حیرت ہوئی بھلا ایسے کیسے وہ شخص کسی کی جان بخشی کردے

لیکن اب انہیں یونٹوں سے میرے لیے پیارے سے الفاظ نکلنے چاہیے ۔۔۔ اوکے۔۔۔ اسکے سرخ ہونٹوں کو انگلی سے چھوتے بولا نظریں اسکی کھلی آنکھوں پر تھی

مم۔میں ۔

بکری نہیں میری جان۔۔۔ پیارے الفاظ کہو جیسے کہ جان جند ۔۔جانی اور بھی بہت سے الفاظ ہیں ۔۔۔۔ اسے میں میں پر اٹکتے دیکھ وہ مزاحیہ انداز میں بولا ان لفظوں پر دلنشیں نے انگلیاں چٹکاتے اسے دیکھا دل ہی دل میں اسے کوستی وہ سر ہلا گئی

سر تاج۔۔۔ اسے دیکھتے وہ شیریں لہجے میں بولی کہ دامیر کو وہ سادہ سا لفظ بھی دل کے بےحد قریب لگا اسکے مزید قریب ہوتے وہ اسکی گال پر جھکا

جی سرتاج کی ملکہ ۔۔۔وہ اس قدر دل لبھانے والے انداز میں بولا کہ دلنشیں نے مسکراتے اسے دیکھا۔(۔ ہائے کیا انداز تھا میرا اپنا دل اس پر فدا ہونے کو چاہ رہا)🙈🙈🙈🙈💕

اپ کبھی بدل تو نہیں جائے گے نا ؟؟؟ دلنشیں نے دل میں موجود خدشہ ظاہر کیا دامیر نے کچھ پل اسے دیکھا

بدل جاؤں گا ۔۔۔۔ اسکا جواب سن دلنشیں کی سانس اٹکی

ابھی اتنی محبت ہے بعد میں اس سے بھی زیادہ ہوجائے گی ۔۔۔ وہ اسکے ماتھے پر لب رکھتے محبت سے بولا دلنشیں نے سکھ کا سانس لیا ایک گہری مسکان نے اسکے ہونٹوں پر احاطہ کیا

کہ اپنا عشق تم پر تمام کردیا ہے

کہ اب جو بھی ہو تم ہو ۔۔۔۔

بقلم ۔۔۔۔۔گل

۔۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💞💕💞💕💕💞💕💞💕💞💕💞💕

مدشاء۔۔۔ وہ اسکے پاس ایا ۔۔۔ جو ناراض ناراض سی لیٹی تھی کتنے دنوں سے وہ سب اسکی بےرخی دیکھ رہے تھے ہوسپیٹل سے اسے خان حویلی لایا گیا تھا جس پر اس نے بہت واویلا مچایا تھا مگر شاداب خان بھی اپنی فیملی کے ساتھ وہی اچکے تھے

اتنی ناراضگی اچھی نہیں ہوتی میری جان۔۔۔ بھلا ہم کبھی تمھارا برا چاہ سکتے ہیں ۔۔۔۔اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھتے وہ اسے دیکھنے لگا جو نم آنکھوں کو میچے ہوئی تھی لیکن بند آنکھوں سے بھی انسو ٹپک رہے تھے

برا چاہا ہو یا نا چاہا ہو لیکن برا تو ہوگیا نا لالہ ۔۔۔ہمھارا مان تو ٹوٹ گیا نا ۔۔۔ ہمھیں وہ دن نہیں بھولتا جب آپ نے ہمھارا ہاتھ جھٹکا تھا ۔۔۔۔ زخم بھرنے لگے تھے سبکی توجہ سے وہ ٹھیک ہورہی تھی مگر اسکے اور خان حویلی والوں کے درمیان ایک اندیکھی سی دیوار اچکی تھی جسے وہ گرانا نہیں چاہ رہی تھی

کیا میرا بچہ اپنے باپ کو معاف نہیں کرسکتا ۔۔۔؟؟؟ شمشیر خان نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا تو وہ جو کب سے دل میں درد چھپائے ہوئے تھی باپ کا سہارا ملتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی

بابا جانی۔۔۔ ہم۔۔ہمھیں شرمندہ نا کریں ۔۔۔۔ بےتحاشا روتے جانے اسے کس بات کا دکھ تھا وہ سب سمجھنے سے قاصر تھے یمان نے اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگایا بھلا کب ان لوگوں نے اسے اتنا روتے دیکھا تھا ۔۔۔۔

میرا بچہ جلدی سے ٹھیک ہوجائے ۔۔۔۔ شمشیر خان نے جھک کر اسکے ماتھے پر لب رکھتے وہاں سے چل دیئے انکے جاتے ہی دامل اندر ایا اور یمان کے ساتھ وہی اسکے پاس ٹک گیا

خانی جلدی سے ٹھیک ہوجاو پھر تم نے گھڑولی نہیں اٹھانی ؟؟؟ دامل نے یمان کو اشارہ کرتے مدشاء کو دیکھا جو منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی

گھڑولی ۔۔۔کک۔کیا مطلب اپ لوگوں نے شادی کرلی ۔۔۔ میرے بغیر ۔۔۔۔اسکی حیرانی کسی طور پر کم نہیں ہورہی تھی منہ تھا کہ بند ہونے کو نہیں ارہا تھا

نہیں میری جان۔۔۔ ابھی کرینگے نا ۔۔۔۔ابھی فل حال میری شادی پھر چاہے دامل کرلیگا ۔۔۔ یمان نے مدشاء کے نازک ہاتھوں کو دیکھا اسکی بات سن دامل کا منہ بنا

زلیل بھائی جان ۔۔۔ اپ ۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکا دماغ میں تیزی سے کچھ کلک ہوا اویزہ ہاں اس نے اس دن کے بعد اویزہ کو نہیں دیکھا تھا کہاں تھی وہ ؟؟؟ خانی کی ٹینشن کی میں تو وہ اویزہ کو بھول ہی چکا تھا

شرم کرو میں بڑا ہوں تم سے ۔۔۔۔ یمان نے اسے مصنوعی گھورا جو سوچوں میں مگن تھا یمان کی بات پر اس نے مدشاء کو دیکھا اور وہ دونوں ہی قہقہ لگا کر ہنس پڑے

بھائی شرم کیا ہوتی ہے ؟؟؟ ہنستے ہنستے مدشاء نے آنکھیں صاف کرتے پوچھا

وہی جو تم دونوں کو ابھی نہیں آرہی ۔۔۔۔ یمان نے منہ بناتے کہا اور اسکے سر پر پیار کرتے وہاں سے چل دیا

💞💕💞💕💞💕💞💕💞

لالہ خانی کو اپ نے کیا کہا ہے وہ تو مجھ بھی بات نہیں کررہی ۔۔۔۔ رانیہ روشیل کے پاس ائی مگر وہاں روشیل نہیں یمان کو دیکھ واپس جانے لگیں

رکو ۔۔ کیا ہم نے تمھیں جانے کا کہا ؟؟؟ اسکی کلائی پکڑتے وہ روعب دار لہجے میں بولا تو رانیہ نے مڑ کر اسکے سامنے سر جھکائے کھڑی ہوگئی اسکے انداز پر یمان نے لب بھینچتے مسکراہٹ روکی

مبارک ہو ۔۔۔ کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد وہ بولا

خیر مبارک لیکن کس خوشی میں ۔۔۔۔ سر اٹھاتے وہ سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی یمان نے ایک قدم اسکی جانب بڑھاتے ان دونوں میں موجود فاصلے کو سمیٹنا چاہا

اپ میری ہوجائنگی اس خوشی میں ۔۔۔۔ ۔۔ اسکے سر پر چنری کو برابر کرتے وہ مسکراتے لہجے میں بولا آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے وہ رانیہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا رانیہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا

میں تو شروع سے اپنی تھی ۔۔۔اب بھی اپنی ہوں اور ہمیشہ اپنی ہی رہوں گی ۔۔۔۔ رانیہ نے منہ بناتے کہا شاید وہ اسکی بات سمجھنا نہیں چاہتی تھی

پھر میں اپکا ہوجاؤںگا۔۔۔ وہ اسکی گال پر انگلی مسس کرتے بولا جو اب مزید سرخ ہورہی تھی گلابی لب ہلکے سے لرزے ۔۔۔ رانیہ نے سرخ چہرے سمیت نظریں ہی جھکا لی

پہلے کس کے تھے ؟؟؟ ہائے وہ اتنی معصومیت سے پوچھ رہی تھی کہ یمان کو لگا وہ ابھی کوئی نادانی کر بیٹھے گا

پہلے بھی اپکا تھا جند ۔۔۔ اسکی جھکی آنکھوں پر لب رکھتے وہ بھاری سرگوشی میں بولا

ویسے کچھ دنوں بعد اپکی شادی شروع ہے نا ۔۔۔۔ پھر شرم نہیں اتی یوں نین مٹکا کرتے ہوئے ۔۔۔۔ مدشاء کے کافی انسسٹ کرنے کے بعد وہ گاؤں ائی تھی 🔥🔥🔥مگر دامل کو دیکھنے کا اسکا کوئی موڈ نا تھا وہ سیڑھیوں کو کراس کرتے اوپر اریی تھی کہ انکی اوازیں سن وہ وہی ائی ۔۔۔۔

تمھیں شرم نہیں اتی یوں میاں بیوی کے بیچ میں خلل ڈالنے میں ؟؟؟ یمان نے دوبدو جواب دیا جںکہ رانیہ تو اس سے دور ہوئی گے ۔۔۔

نیک کاموں میں شرم کیسی لالہ جان۔۔۔۔ ایک آنکھ ونک کرتے وہ انکو چھیڑنے لگی رانیہ تو شرم سے نظر تک نہیں اٹھا پارہی تھی جبکہ یمان ڈھیٹوں کی طرح ہنس رہا تھا

چلیں بھابھی جان کمرے میں ورنہ ابھی سپریم کورٹ کو بلا لینگے ہم۔۔۔۔ وہ دھمکانے والے انداز میں بولی کہ رانیہ تو جھٹ سے وہاں سے غایب ہوئی جبکہ یمان اسے ہی گھورے جارہا تھا

اپنی باری انے دو ۔۔۔پھر بتاؤ گا ۔۔۔۔ یمان نے اسے وارن کیا جو کندھے اچکاتے اسکی بات ہوا میں اڑا گئی

💞💕💞💕💞💕💞💕💞

شاہ سائیں خان حویلی سے بلاوا ایا ہے ۔۔۔ خانی اور یمان کی شادی ہورہی ہے اور بی بی نے کہا ہے کہ ہم سب وہاں لازمی ائیں۔۔۔۔ دامیر کی والدہ نے منیب شاہ سے کہا جو صوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھ رہے تھے انکی بات پر سیڑھیوں اترتی ماہنور کو دیکھنے لگے

بابا جان ۔۔ہ۔ہم خانی سے م۔ملنے جانا چاہتے ہیں ۔۔۔

کیوں ۔۔۔اب کیا باقی رہ گیا ہے ؟؟؟؟ منیب شاہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ماہنور کی آنکھیں بےساختہ نم ہوئی

بابا جان ہم ان سے معافی مانگے گے ۔۔۔۔ہمھیں سکون نہیں مل رہا بابا جان ۔۔۔اسکے بعد بےشک اپ لوگ ہمھیں جان سے مار دینا ۔۔۔۔ بابا جان ۔۔۔ انکے پاؤں کو ہاتھ لگا کر کہتے وہ رونے لگی وہ باپ تھے کتنا روتا دیکھتے اپنی اولاد کو اسے اپنے پاس بیٹھاتے اسکا سر چوما

ماہ۔۔۔ اپ روئیں مت ہم اپکو ضرور لے جائینگے ۔۔۔۔۔منیب شاہ نے اسکے سر کو تھپتھاتے کہا تو ماہنور نے بےساختہ گہری سانس بھری اسے یقین تھا خانی اسے سمجھے گی

💕💞💕💞💕💞💕

کتنے دن گزر گئے تھے مگر خانی روشیل سے بات کرنے کو آمادہ نا تھی اسکے ٹھیک ہوتے ہی سب شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے تھے وہ ابھی کچن سے گزر رہی تھی کہ اندر سے انے والی آوازوں پر وہ چونکی

مدشاء بی بی کتنی خوش نصیب ہیں نا ۔۔وںی ہونے کے باوجود وہ دوبارہ شادی کررہی ہیں ۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار یہ چیز دیکھی ہے ہم نے ۔۔۔۔ ایک ملازمہ برتن سمیٹتے بولی تو سامنے والی ملازمہ نے مسکرا کر اسے دیکھا جبکہ مدشاء کے رنگ اڑے

ماں جان۔۔۔۔ مدشاء ثانیہ بیگم کے کمرے میں ائی جہاں بی بی سرکار بھی موجود تھی خان حویلی انے کے بعد وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے سے دور نہیں ہوتی تھی ہر جگہ ایک ساتھ پائی جاتی تھی

او خانی۔۔۔۔ بی بی سرکار نے اسے اپنے پاس بلایا انکے سامنے بہت سے کپڑے اور سونے کے سیٹ پڑے تھے مدشاء انکو دیکھتے چپ کرگئی

یہ دیکھو میرا۔۔بچے کو جو پسند ہے وہ اٹھا لے۔۔۔۔ ثانیہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا تو مدشاء نے بےبسی سے گہری سانس بھری

ارے ماں جان ۔۔۔۔ یہ تو لالہ کے پسند کا جوڑا پہنے گی نا رانیہ نے آنکھیں مٹکاتے شرارت سے کہا تو وہ دونوں ہنسنے لگی

نا کرو ہماری بیٹی کو تنگ ۔۔۔مدشاء کا سرخ چہرہ دیکھ بی بی سرکار نے مدشاء کو اپنے ساتھ لگایا وہ جو پہلے ہی بےزار سی بیٹھی تھی سبکو وہی چھوڑتے باہر نکل گئی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہر طرف اندھیرا پھیلا تھا اہستہ سے دروازہ کھولتے وہ تاریک کمرے میں گھسا مڑ کر پورے کمرے میں نظریں دوڑائیں تو نظر ایک جگہ جم سی گئی وہ چاند سی ملکہ اردگرد بھلائے سونے میں مصروف تھی

قدم با قدم چلتے وہ اسکے پاس ایا اسکے ساتھ ہی جگہ بنا کر بیٹھتے وہ ہلکا سا اس پر جھکا

تیار ہوجائیں خانی ایک بار پھر سے میری ہونے کے لیے اپکے سارے شکوے اس بار دور کردونگا ۔۔۔ ہم نئے سرے سے زندگی شروع کرینگے جس میں بسس محبت ہو ۔۔۔ اسکی بند آنکھوں پر لب رکھتے وہ سرگوشی نما اواز میں بولا بےتاب نظریں اسکے حسین چہرے کا طواف کررہی تھی

میں جانتا ہوں جو کچھ اپکے ساتھ ہوا اپ اس سے کافی اداس ہوئی ہیں لیکن اب وعدہ ہے یہ خان اپنی خانی کو کبھی اداس نہیں ہونے دے گا ۔۔۔۔۔ اسکے گلابی گال کو ہاتھ کی پشت سے سہلاتے وہ اہستہ اہستہ بولے جارہا تھا کتنے دنوں بعد اسے دیکھنے کا موقع ملا تھا کتنے دن اسکی بےرخی برداشت کی تھی وہ تو بات کرنا چاہتا تھا مگر خانی کی طبیعت اور اسکی حالت نے اسے رکنے پر مجبور کردیا تھا

ان دنوں جتنا میں بےچین رہا ہوں کیا اپ بھی بےسکون تھی ۔۔۔۔؟؟؟ یا میرا ہونے نا ہونے سے اپکو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔؟کہیں میرا عشق یک طرفہ تو نہیں ۔۔۔۔ اسکی مہکتی خوشبو میں سانس بھرتے وہ سرخ رنگ آنکھیں اس پر ٹکائے پوچھنے لگا مگر وہ تو سو رہی تھی وہ کیسے جواب دیتی ۔۔۔گہری سانسیں بھرتے اسے سکون سے سوتے دیکھ وہ مسکرایا ہلکا سا جھکتے اسکے گلابی گالوں کو لبوں سے چھوتے وہ اسے اپنے حصار میں قید کرتے وہ اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا

💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞

خانی۔۔۔۔۔ شاہ فیملی کے خان حویلی میں جاتے ہی وہ سب سے چھپ چھپا کر لان میں چائے پیتی مدشاء کے پاس ائی جو اسے دیکھ رہی تھی کچھ پل کے لیے حیران ہوئی پھر ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا

م۔۔میں شرمندہ ہوں اپنے کیے پر۔۔۔ میری محبت نے ہی مجھے نقصان میں رکھا ہے ۔۔۔۔خانی میں خان کی پہنائی گئی چنری کی دیوانی تھی جو چنری تمھارے نام کردی گئی تھی ۔۔۔۔۔ مج۔مجھے معاف کردو خانی۔۔۔۔ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے وہ شرمندگی بھرے لہجے میں بولی مدشاء نے سادہ سی نظروں سے اسے دیکھا جو پہلے سے کافی کمزور معلوم ہورہی تھی سوجی آنکھوں کے گرد حلقے گہرے تھے جیسے وہ دن رات روئی ہوئی ۔۔۔

اگر تمھیں روشیل چاہئے تھا تو اس سے پہلے شادی کیوں نا کرلی ۔۔۔ پہلے تو وہ تمھارے پاس تھا ۔۔۔۔ مجھے اپنا دشمن کیوں بنا لیا ۔۔۔اگر اتنی محبت تھی تو پہلے حاصل کرلیتی۔ چائے کا سپ لیتے وہ نہایت ہی سادہ سے لہجے میں پوچھنے لگی ماہنور نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا

میں نے خان سے محبت نہیں کی تھی شروع سے ہی انکا نام اپنے نام کے ساتھ جڑا سنا تھا ۔۔ بی بی سرکار کی تسلیاں سن مجھے خان سے محبت ہوگئی یا بسس انہیں حاصل کرنے کی چاہ ۔۔۔۔ شادی سے پہلے بھی خان مجھے دیکھنا تک گواراہ نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔ مجھے ایسے نظرانداز کرتے کہ مجھے اپنا آپ بے مول سا لگنے لگتا تھا ۔۔۔۔لیکن کیا کرتی دل تھا ۔۔۔اور دل کب کسی کی سنتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر قسمت نے بھی انہیں اپکا کردیا جو پہلے سے اپکے تھے۔۔۔ اور دیکھیں اسی بےنام محبت نے مجھے ایسے برباد کیا ہے کہ اب مجھے سنبھلنے میں کافی وقت درکار ہے۔۔۔۔اس دن اگر اپکو کچھ ہوجاتا تو میں ایک قاتل بھی بن جاتی۔۔۔ پتہ نہیں کیا سے کیا کروا دیتی ہے یہ نامحرم کی محبت اپنا اپ ہی بھولا دیتی ہے یہ بےنام محبت۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ نم لہجے میں کہتے وہ رونے لگی اپنے محبوب کا نام کسی اور کے ساتھ جوڑنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے مدشاء نے چائے کا کپ میز پر رکھتے اسے دیکھا

مدشاء یہ ویرانی ۔۔۔۔ اتنی خاموشی۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ تم تو خوش نصیب ہو خانی جو ۔۔۔۔ ونی ہونے کے باوجود اپنے گھر والوں سے مل سکی ہے ۔۔۔۔ اسکی ویران سی سہری آنکھیں دیکھ وہ چونکی تھی بےساختہ ہی مگر وہ بول گئی

ماہنور مجھے تم سے یا کسی سے کوئی گلا نہیں بسسس اس چیز کا افسوس ہے کہ میں ان چاہی بیوی ہو اسکی ۔۔۔۔ ونی کے نام پر زبردستی اسکے گلے باندھ دیا گیا مجھے ۔۔۔۔۔ خاموش نہیں ہوں بسس ایک ڈر اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے کہ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے ۔۔۔جس چیز کے لیے اس نے مجھ سے شادی کی تھی وہ مقصد پورا ہوگیا ہے ۔۔۔کہیں وہ اب مجھے چھوڑ نا دے۔۔۔۔ اسمان پھیلتے اندھیرے کو دیکھ وہ مسکراتے لہجے میں بولی ماہنور نے افسوس سے اسے دیکھا اگر وہ خان کی اپنے لیے محبت جانتی تو کبھی یہ بات نا کہتی۔۔۔کہتی کا سوچنا بھی نا چاہتی

خانی اپکو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔ انہیں دنیا میں سب سے زیادہ پسند جو نام تھا وہ نام تھا خانی انکی خانی ۔۔۔۔ پہلے ان خاندانوں میں دشمنی تھی اسکے باوجود وہاں کا ہر ملازمہ یہاں تک کہ بی بی سرکار تک تمھارا نام عزت سے لیتی تھی کیونکہ خان کا حکم تھا کہ انکی خانی کو جو سوچے بھی اسکے سوچنے کے انداز میں بھی آداب ہو ۔۔۔۔ ماہنور نے بہتی آنکھوں کو صاف کرتے مسکرا کر کہا مدشاء نے اسمان کو دیکھتے ہی آنکھیں بند کرلی شاید وہ تھک گئی تھی

خانی ۔۔۔۔ میں بسا یہی کہنا چاہوں گی ۔۔۔کہ اکثر جو ہم سوچتے ہیں ۔۔۔ سچائی اسکے برعکس ہوتی ہے ۔۔۔۔ آپ کچھ بھی غلط سوچ کر خود کو یا خان کو تکلیف مت دیں ۔۔۔ خان بہت اچھے ہیں ۔۔۔ مجھے پتہ ہے اپکو ونی ۔۔۔۔ لیکن کیا ونی کی ہوئی لڑکی زندگی نہیں جیتی ۔۔۔کئی ایسی کہانیاں دیکھیں ہیں میں نے جن میں ونی کی ہوئی لڑکی ہی اس حویلی کی جان بن جاتی ہے ۔۔۔ونی ہونا کوئی داغ نہیں ہے خانی۔۔۔ بسا لوگوں نے اسے ایوں اچھال کر گناہ بنا دیا ہے ۔۔۔۔ اس ونی کو سوچتے آپ اپنی زندگی مت روکیں ۔۔۔۔ کیونکہ محبت جتنی مرضی گہری ہو خانی۔۔۔مگر عزت نفس سے بڑھ کر نہیں ہوتی ۔۔۔ وہ اپکے سامنے جھک جاتے ہیں تو انکی قدر کریں ۔۔۔۔ ابھی وقت ہے وقت کو تھام لے پیاری ۔۔۔ اسکی ہاتھ کی پشت پر لب رکھتے وہ وہاں سے چل دی مدشاء نے آنکھیں کھول کر دور جاتی اسکی پشت کو دیکھا

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞

محبت جیت ہوتی ہے

مگر یہ ہار جاتی ہے

کبھی دلسوز لمحوں سے

کبھی بے کار رسموں سے

کبھی تقدیر والوں سے

کبھی مجبور قسموں سے

مگر یہ ہار جاتی ہے۔۔۔۔

کبھی یہ پھول جیسی ہے

کبھی یہ دھول جیسی ہے

کبھی یہ چاند جیسی ہے

کبھی یہ دھوپ جیسی ہے

کبھی مسرور کرتی ہے

کبھی یہ روگ دیتی ہے

کسی کا چین بنتی ہے

کسی کو رول دیتی ہے

کبھی لے پار جاتی ہے

کبھی یہ مار جاتی ہے

محبت جیت ہوتی ہے

مگر یہ ہار جاتی ہے۔۔۔۔

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

اویز۔۔۔۔ وہ اوپر ہی جا رہی تھی کہ اسے دامل نے پکارا ہر وقت وہ کسی ںا کسی کے ساتھ پائی جاتی تھی اب اکیلی ملی تھی تو وہ کیسے اسے جانے دیتا

اویزہ نام ہے میرا دامل خان ۔۔۔۔ وہ پیچھے مڑتے چٹخ کر بولی تو دامل نے لب دبائے اسے دیکھا وہ غصے میں اور زیادہ حسین لگتی تھی

اویزہ تم مجھ سے خفا ہو کیا ؟؟؟ اس دن تم اچانک کہاں غائب ہوگئی تھی ۔۔۔۔ دامل نے سیدھا سیدھا پوچھا تو اویزہ نے گھور کر اسے دیکھا

میں کیوں خفا ہونگی دامل ۔۔۔ جو ہوا خانی نے بتایا مجھے ۔۔۔ رہی اس دن کی بات تو میں خانی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی اسی لیے گھر گئی تھی ۔۔۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتی جانے لگی

تو کیا میں ۔۔۔ گھر والوں کو بھیجو روحیل کے پاس؟؟؟ کیا تم مجھ سے شادی کروگی۔۔۔۔ اویزہ کو لگا جیسے کسی نے اسکے پاوں میں زنجیر باندھ دی ہو اسکا دماغ ایک دم سن ہوگیا

اگر یہ سوال تم اس دن پوچھتے تو میں تمھارا وہ حال کرتی کہ تم کبھی اپنی بیوی سے بھی شادی کی بات نا کرتے ۔۔۔۔ لیکن ابھی میرا موڈ اچھا ہے اسی لیے ۔۔۔۔ جب گھر اوگے تب بات ہوگی ابھی اپنے کام پر دھیان دو اور میری مگز ماری نا کرو ۔۔۔۔۔ کندھے اچکا کر کہتی وہ وہاں سے نکل گئی دل تھا مانو ریل کی طرح ڈھرکے جارہا تھا دھک دھک دھک دھک لیکن شرما کر وہ اسے یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ عام لڑکیوں جیسی ہے ۔۔۔۔۔ وہ اویزہ تھی

عجیب لڑکی ہے ۔۔۔ دامل نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا اور منہ بناتے اپنے کمرے میں چل دیا اب اور کر بھی کیا سکتا تھا سوائے انتظار کے ۔۔۔۔

💕💞💕💞💕💞💕💞💕

پتا ہے جب دل دُکھتا ہے...

چہرے کی رنگت خود ہی بدل جاتی ہے...

آنسوؤں کو جتنا مرضی حلق میں اُتارنے کی کوشش کرو...

مگر آنکھیں نم ہو ہی جاتی ہیں...

ہنسنے کی جتنی مرضی کوشش کر لو...

دل میں جو ٹھیس اُٹھتی ہے...

اُس سے تکلیف تو ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

کیسے ہیں اپ خان۔۔۔۔۔۔ سبکے بیچ میں بیٹھی ماہنور نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا روشیل نے ایک نظر اسے دیکھ نظریں ہی پھیر لی جو ماہنور کے دل کو تڑپا گئی

ٹھیک ۔۔۔۔ یک لفظی جواب سن اسکی آنکھیں برسنے کو تیار تھی پھر بھی ہونٹوں پر سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی وہ خوش ہونے کی کوشش کررہی تھی مگر اسکا پھوٹ پھوٹ کر روئے جارہا تھا جیسا بھی تھا وہ محبت تھا اسکی وہ محبت جسے بچپن سے چاہا تھا اس نے صبح شام اسے سوچنا اسکی عادت تھی

اور کہتے ہیں نا محبت چھوٹ جاتی ہے مگر عادت وہ کبھی نہیں بدلتی لاکھ جتن کرلو مگر یہ نہیں پیچھا چھوڑتی سب کا لہجے بظاہر تو ماہنور سے ٹھیک تھا مگر دلوں کے حال تو خدا جانتا ہے ۔۔۔۔

وہ سبھی باتوں میں مصروف تھے مدشاء نے کان سے اتے ان سبکو دیکھا روشیل کو الگ کھڑا دیکھ وہ اسکے پاس ہی ان کھڑی ہوئی شاید ماہنور کی باتوں کا آثر تھا جو اسے یہاں کھڑے ہونے پر مجبور کرگیا تھا روشیل نے چونک کر گہری نظروں سے اسے دیکھا

خیریت ۔۔۔۔ روشیل کو مسلسل خود کو دیکھتا پاکر وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو ابھی بھی اسے نہار رہا تھا جیسے سالوں کی پیاس بجھا رہا ہو

روشیل ۔۔۔۔ جانے اسے کیا ہوا تھا کہ وہ اسکا نام ہی بلانے لگی تھی اسے گم دیکھ مدشاء نے اسکے سامنے چھٹکی بجائی انداز قاتلانہ تھا کہ روشیل کا دل کیا اسے خود میں چھپا لے

میری آنکھیں ہیں میری مرضی جسکو مرضی دیکھو ۔۔۔۔ روشیل نے ماہنور کو دیکھتے کہا تو مدشاء نے گھور کر اسے دیکھا انداز ایسا تھا جیسے کچا چبا جائے گی ۔۔۔۔

یہ آنکھیں میرے علاوہ کسی اور کی طرف اٹھی تو ان آنکھوں کو نکال کر گوٹیاں کھیلنی ہے میں نے سمجھے ۔۔۔۔۔۔۔ انگلی اٹھا کر وارن کرتے وہ بول رہی تھی مگر وہاں کسے پرواہ تھے اسکی انگلی میں انگلی الجھا کر اسے اپنے قریب کھینچا مدشاء نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا دل کی دھڑکن بےترتیب ہوئی۔۔۔۔ ایک ہاتھ اسکے ہاتھ میں جبکہ دوسرا ہاتھ اسکے کندھے کو دبوچے وہ شرمندہ شرمندہ سی سرخ گلنار بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔سبھی خود میں مصروف تھے مگر ماہنور کا دھیان انہی کی طرف تھا

مجھے اپنے قریب دیکھ تمھاری جان نکلتی ہے ۔۔۔اور آنکھیں نکالنے کی بات کرتی ہو جان۔۔۔۔ اہستہ سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ اسکی سرخ ہوتی گال کو ہاتھ کی پشت سے چھونے لگا مدشاء نے لرزتی پلکیں اٹھائے اسے دیکھا اسے اپنی جانب گہری نظروں سے تکتا پاکر وہ نظریں پھر سے جھکا گئی

اس اچانک تبدیلی کی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔۔۔یہ خوشگوار تبدیلی کیسے رونما ہوئی ۔۔۔۔۔ اسے یاد تھا صبح مدشاء کا خود سے نظریں پھیر لینا یاد تھا اور ابھی اسکا دلکش انداز وہ شرمانا اسے سرشار کررہا تھا آنکھیں تھی کہ اس گلابی گڑیا پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی

ہممم تبدیلیاں تو اچانک ہی رونما ہوتی ہیں خان صاحب ۔۔۔ اسکا ہاتھ اپنی تپتی گال پر سے ہٹاتے وہ سبکو دیکھنے لگی جو خود میں مصروف تھے مگر اویزہ کو شرارتی نظروں سے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ سٹپٹائی

اہم اہم گلے شکوے ختم ہوگئے ہو تو اپنے قیمتی وقت سے تھوڑا سا بلکل اتو سا وقت نکال کر ہمھاری بات سن لیں ورنہ اب میں نے ادھر اکر بیٹھ جانا ۔۔۔۔۔۔۔ اویزہ نے مدشاء کو آنکھ مارتے کہا مدشاء نے سر جھکائے اسے دل ہی دل میں سو سو گالیاں دی تھی

میاں بیوی میں تم کیوں تیسری ٹانگ بن رہی ہو ۔۔۔۔ خان بی بی نے اسکی کمر پر چھڑی مارتے کہا تو وہ کراہ کر وہاں سے اٹھی

یار یہ عورت ظالم ہے جب دیکھو چھڑی چلاتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔ کمر مسلتے وہ منہ پھلائے بولی چور نظروں سے خود کو گھورتی خان بی بی کو دیکھا سب نے ہنسی دبائے اسے دیکھا دامل نے لب دبائے ڈراما کیوئن کو دیکھا

تم ایسی حرکتیں ہی نا کرو کہ تمھیں کوئی کچھ کہے ۔۔۔ کب سے خاموش بیٹھی رانیہ نے خاموشی توڑی

میری بیٹی میرے پاس بیٹھے ۔۔۔شمشیر خان نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا جو منہ پھلا کر ہاتھ باندھے کھڑی تھی جھٹ سے وہاں بیٹھی داںت دیکھانے لگی سب اسکی حرکتوں پر ہنسنے لگی وہ تھی ہی ایسی پاگل سی سبکو ہنسانے والی ۔۔

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

خوبصورتی سے سجی خان میں صبح سے ہلچل مچی ہوئی تھی ہر طرف مہمان چہل قدمی کررہے تھے خان حویلی کی عورتیں گھن چکر بنی ہوئی تھی کبھی یہاں تو کبھی وہاں ۔۔۔ آج روشیل ۔اور یمان کی مہندی تھی وہ سبھی تو کمرے میں گھسے تیار ہورہے تھے جبکہ خواتین تو رسم کا سامان لیتے ڈھولکی بجا رہی تھی ہر طرف خوبصورت پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی مدشاء تو اپنے روم میں چھپی بیٹھی تھی جسکا سر اویزہ جان تھی رانیہ کے روم کی طرف چلیں تو ۔۔۔۔۔۔۔

یلو کُرتی کے ساتھ گرین شرارہ پہنے وہ نکھری نکھری سی ابھی واشروم سے نہا کر نکلی تھی شیشے کے سامنے کھڑی وہ نازک گردن سے چپکے گیلے بالوں کو ہاتھوں سے سائیڈ پر کررہی تھی کہ دروازہ کھل کر بند ہونے کی اواز پر پلٹی

یی۔یمان۔۔اا۔آپ۔۔۔یی۔یہاں۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑے دیکھ رہی تھی جو بس اسکی خوبصورتی میں کھویا تھا ہوش میں ایا

میری جان یہاں ہے تو میں نے بھی یہی ہی انا تھا نہ ۔۔۔۔ بنا ڈوبٹے کے نازک سے وجود کو گہری دلچسپ نظروں سے دیکھتے وہ گویا ہوا اسکی نظریں خود پر محسوس کرتے اس نے جھٹ سے یکو چنری سر پر اوڑھی ۔۔۔۔

کیا فائدہ ایسی چنری کا جو تمھیں ڈھانپ ہی نا سکے ۔۔۔قدم اسکی جانب بڑھاتے وہ اسکے خوبصورت سے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو شرم اور گھبراہٹ سے سرخ ہوچکا تھا ناسمجھی سے رانیہ نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا مگر اسکو اپنے اتنے قریب دیکھ وہ نظریں پھر سے جھکا گئی

اب سے یہ اوڑھا کرو۔۔۔ کندھوں سے شال اتار کر اسکے گرد لپیٹتے وہ نرمی سے مسکراتے لہجے میں بولا رانیہ نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا

اسکا کیا فائدہ ؟؟؟ وہ ناسمجھی سے پوچھنے لگی تو یمان نے اسکے قریب ہوتے آہستہ سے اسکے ماتھے پر لب رکھے رانیہ کی دھڑکنیں بےساختہ بڑھی ۔۔۔ اسکا نرم گرم سا لمس محسوس کرتے اسے اپنا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہوا

اسکا فائدہ یہ ہے کہ ۔۔ جب بھی یہ شال تم اوڑھو گی مجھے اپنے قریب تر محسوس کروگی ۔۔۔۔ تمھارے گرد میرا ایک حصار سا بنا رہے گا ۔۔۔۔۔ اسکے گرد بازو لپی کر وہ اسے اپنے نرم گرم سے حصار میں لیتے بھاری مدھم سے لہجے میں بولا رانیہ جو کہ اب تک ساکن کھڑی تھی اسکی سرگوشیوں پر ہوش میں ائی

سس۔سب بب۔باہر ہہ۔ہیں۔۔۔جاو اپ۔۔۔ اسے پیچھے کرتے وہ منمنائی تو یمان نے گھور کر اسے دیکھا اتنی مشکل سے سب سے بچ بچا کر وہ اسکے پاس اسے ملنے ایا تھا

یہ تم اٹک اٹک کر کیوں بول رہی ہو کیا میں جن ہوں۔۔۔ اسے گھورتے وہ سوالیہ نظروں سے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں جھکائے بسسس کانپے جارہی تھی ۔۔۔

جن سے کم بھی نہیں ہو ۔۔۔ ہولے سے بڑبڑاتے وہ تھوڑا پیچھے کو کھسکی یمان نے صدمے سے اسے دیکھا اسے نرمی سے چھوڑتے وہ منہ بناتے وہاں سے نکلا رانیہ نے پریشانی سے اسکی پشت کو دیکھا اسے لگا شاید یمان کو اسکی بات کا برا لگا ہے لیکن اب کیا کرسکتے ہیں ۔۔۔

۔💞💕💞💕💞💕

ماں خانی کو کہیں مجھے چائے بنا کر دے جائے ۔۔۔۔۔ ابھی میرے سر میں شدید درد ہے ۔۔۔اور کوئی بہانہ نا سننے کو ملے کہ اسکی مایوں ہے یا کچھ اور ۔۔۔ مجھے چائے چاہیے وہ بھی خانی کے ہاتھ کی ۔۔۔۔ جلدی سے روم میں بھیجے اسے ۔۔۔۔۔۔۔ سنجیدگی سے کہتے وہ واپس جانے کو پلٹا بی بی سرکار نے گہری سانس بھرتے اپنے سپوت کو دیکھا لیکن اب وہ کر ہی کیا سکتی تھی

پتہ نہیں کیسی اولاد دی ہے خدا نے مجھے ۔۔۔۔ خانی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی جو تھوڑی ہی دیر میں کھل گیا خانی کو روشیل کا حکم سناتے وہ وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔

وہ چائے بنا کر روم میں ائی تو روشیل چینج کرکے اب صوفے پر ان بیٹھا تھا چائے رکھتی وہ جانے لگی کہ روشیل نے اسکی چوڑیوں سے بھری نازک کلائی کو اپنی گرفت میں لیا

کہاں جارہیں ہیں اپ ؟؟؟ ۔۔۔ سرخ نظروں سے اسے دیکھتے وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگا

وہ ماں جان کے پاس۔۔۔۔۔۔ اسکی نظریں خود پر محسوس کرتے وہ کانپتی ہوئی بولی

اتنا تیار ماں کے لیے ہوئی ہو ۔۔۔ اسے سر تا پیر غور سے دیکھتے بولا تو مدشاء نے گھبرا کر سر نفی میں ہلایا

پھر کس کے لیے ہوئی ہو ۔۔۔۔؟؟؟

اسے گہری نظروں سے دیکھتے وہ سوال گو ہوا مدشاء کو جانے کیوں شرم سی ارہی تھی پہلے وہ اسے ہر سوال کا جواب دے دیا کرتی تھی آج پتہ نہیں کیا ہوا تھا اسے ۔۔۔۔۔

اسے سوچوں میں گم دیکھ روشیل نے اسکی کلائی ہو اپنی طرف کھینچا وہ جو اپنی سوچ میں مگن تھی ایک دم اسکے اوپر اگری گھبراہٹ سے سرخ چہرے سے اسے دیکھا

پیلے شرارے میں کھلے بالوں سمیت وہ اسکے بےحد قریب تھی ۔۔اسکی محرم اسکی ہمسفر۔۔۔ وہ کیسے فدا ہوتا

جسکے لیے تیار ہوئی ہو اسے تو دیکھنے تو ۔۔۔۔۔۔ ڈوبٹے سے جھانکتے سنہرے بالوں کو ہاتھ سے چھوتے وہ بھاری اواز میں بولا تو مدشاء جھجھک کر پیچھے ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے زرا سے ہلنے پر ہی چوڑیوں کی کھنک کمرے میں گونجی

روشیل کی نظریں اسکے مہندی لگے نازک ہاتھوں پر گئی جن میں بھر بھر کر چوڑیاں ڈالی گئی تھی مہندی کیا کم تھی جو ظالم نے چوڑیاں بھی پہن لی تھی گہری سانس بھرتے اس نے بےساختہ مدشاء کی ہتھیلی پر لب رکھے جسے محسوس کر مدشاء کے رہے سہے اوسان خطا ہوئے چہرہ جیسے جلنے لگا تھا آنکھیں میچتے اس نے لزرتے لبوں کو بھینچا

مدشاء سے اٹھتی دلفریب خوشبو اسکے حواس معطل کررہی تھی سادگی میں ہی وہ اسکے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ۔تیار ہوکر تو یقیناً اس نے روشیل خان جو چاروں شانے چت کردینا تھا

مم۔میں۔۔۔جج۔جاو۔۔۔۔ اسکی خمار سے سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ مدشاء نے نظریں جھکاتے شرم سے سرخ ہوتے بامشکل کہا جبکہ وہ مزید اسے اپنے نزدیک کرچکا تھا

نہیں میرے پاس رہو ۔۔۔۔بھاری مدھم سرگوشی کرتے وہ اسکے گرد بازوں کا حصار تنگ کرتے اسے خود میں بھینچ گیا مدشاء کو لگا اسکا سانس رک سا گیا ہے آنکھیں حیرت سے پھیلی

اسکے بال گردن سے ہٹاتے وہ اسکی گردن میں چہرے چھپاتے گہرے سانس بھرنے لگا اسکی خوشبو اسے مدہوش کررہی تھی مدشاء کام شرم اور گھبراہٹ سے برا حال تھا اب تو اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے رہی سہی کثر نازک سی گردن کو سرخ کرتی اسکی سانسوں نے پوری کردی تھی ۔۔۔۔

وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی مگر اس دیو نما شخص کی قید سے جانا بھی مشکل تھا اسی لیے اس نے چپ رہنا بہتر سمجھا۔۔۔۔۔

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

ہائے یہ بےترتیب سانسیں ۔۔۔یہ بکھرے بال ۔۔ یہ سرخ چہرہ ۔۔۔یہ شرمیگی مسکراہٹ ۔۔۔۔ یہ سرخ آنکھیں ۔۔۔۔کچھ مشکوک سی نہیں لگ رہی رانیہ بھابھی۔۔۔۔۔ مدشاء تیزی سے کمرے میں آتے ساتھ دروازہ بند کرتے دل پر ہاتھ رکھ کر بکھری سانسوں کو سنبھالنے لگی معنی خیز سے لہجے پر سنہری آنکھیں پیھیلائے چور نظروں سے بیڈ پر بیٹھی اویزہ کو دیکھا جو شرارتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی خود کو آخری بار دیکھتی رانیہ نے لب دبائے مسکراہٹ روکی

مشکوک تو لگ رہا ۔۔۔۔وجہ تم اگلوا لو۔۔۔۔ رانی نے سارا کام اسکے سر ڈالا اور خود کو آخری بار شیشے میں دیکھا پھولوں سے سجی وہ نازک سی حسینہ بلکل تیار تھی یمان خان کے ہوش اڑانے کو ۔۔۔۔

ہممم جی تو محترمہ کہاں سے ارہی ہیں اپ ۔۔۔۔۔ ہممم ۔۔۔

کمر پر ہاتھ ٹکا کر اویزہ نے معنی خیز گہری نظروں سے دیکھا جو ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اویزہ نے رانیہ کو دیکھ آنکھ دبائی

کہیں ایسا تو ہو نہیں کہ تم اپنے شوہر نامدار سے اس حالت میں ملنے گئی اور انہوں نے تمھیں اپنی پیار کی برسات میں پور پور بھگو دیا۔۔۔۔۔ اہ۔۔۔ظالم۔۔۔۔ وہ اپنی ہی رو میں شرارت سے بول رہی تھی کہ مدشاء نے ایک تھپڑ اسکے بازو پر رسید کیا جس وہ کراہ کر ہنسنے لگی

شرم نہیں آتی تمھیں اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔۔۔۔ شرم سے سرخ ہوتی وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے خفگی سے اسے گھورنے لگی تو اویزہ نے نفی میں سر ہلایا اسکی اس حرکت پر ابکی بار مدشاء کے ساتھ رانیہ بھی ہنسنے لگی

بے شرم ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔ وہ منہ بناتے بولی

چلو بسسس اب زیادہ باتیں نہیں کرو کام چور عورت ۔۔۔ آجاؤ تمھیں تیار کردو ورنہ تمھاری ظالم خان بی بی نے میرا جینا محال کردینا ہے ۔۔۔۔وہ اپنا بازو سہلاتے معصومیت بھرے لہجے میں بولی تو مدشاء نے چنری سائیڈ پر رکھتے کرسی پر بیٹھی

۔۔۔۔۔۔۔۔

💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞

ہوگئی رسم بی جان اب تو میری بیوی کو آنے میرے پاس ۔۔۔۔ مدشاء کو روم میں واپس جاتے دیکھ روشیل نے خان بی بی سے احتجاج کیا آخر کب تک وہ اس سے دور رہتا اب تو اس سے دور رہنا اسکی جان کا عزاب بن گیا تھا اوپر سے آج رسم کے دوران بھی وہ اسے دیکھنے سے قاصر تھا کیونکہ خان بی بی نے اسے گھونگھٹ اوڑھا دیا تھا انکا کہنا تھا کہ دلہن کا گھونگھٹ اب رخصتی کے بعد ہی اٹھے گا

کیوں برخوردار ۔۔۔۔۔ بیگم سے دوری برداشت نہیں ہورہی ۔۔۔۔۔ شاداب خان نے سوالیہ نظروں سے اپنے سپوت کو دیکھا جو اجکل بہت بدلا بدلا سا لگ رہا تھا مگر یہ بدلاؤ بہت اچھا تھا

نہیں بابا جان اس معاملے پر آپ پر گیا ہوں ۔۔ روشیل نے ہددرمی سے کہا جس پر بی بی سرکار کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا وہی شاداب خان ایک پل کو سٹپٹا گئے۔۔ انہیں امید نہیں تھی کہ انکا سپوت کوئی چول مارے گا ۔۔۔۔ اسکی بات پر جہاں شمشیر خان کا قہقہ گونجا وہی بی بی سرکار وہاں سے اٹھ کر اندر کو چل دی

ہائے کیا رومینٹک بات کی ہے روشیل لالہ۔۔۔۔ اویزہ صوفے پر دھپ کرکے بیٹھتے چھٹکارے کے کر بولی صوفے پر بیٹھا دامل اسکے اچانک بیٹھنے پر اچھلا پھر اسے گھورنے لگا

ہمارے یہاں لڑکیاں یوں بےباک نہیں ہوتی ۔۔۔۔ خان بی بی نے اویزہ کو گھور کر کہا جو دانت دکھا رہی تھی ایک دم چپ ہوئی

اوووہ اولڈ لیڈی ۔۔۔ آج سے عادت ڈال لیں پھر کچھ سال بعد اپکے یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرینگی ۔۔۔۔ آنکھ دباتے وہ شریر ہوئی سب نے ہنسی دبائے اسے دیکھا

انسانوں کی طرح بیٹھا کرو ہر وقت بندریا بنی رہتی ہو ۔۔۔ دامل نے اسے گھورا جو ہنسے جارہی تھی اسکی طرف دیکھنے لگی

میں جیسی ہوں مجھے ویسے جھیلو ورنہ بھول جاؤ کہ یہ اویزہ چوھدری تم سے شادی کرے گی ۔۔۔۔۔ ایک ائی تو اٹھا کر سرگوشی میں بولتی وہ سامنے دیکھنے لگی جہاں اب روشیل اور شاداب خان باتوں میں لگے تھے

💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

گھنی شب میں سپنا ترا دیکھتی ہوں

ہوں نادان کتنی میں کیا دیکھتی ہوں

ہوا کل جہاں عنبریں عنبریں سا

جو پہلو میں تجھ کو کھڑا دیکھتی ہوں

میں کہتی ہوں یہ چاند کچھ بھی نہیں ہے

میں جب تجھ کو ہنستا ہوا دیکھتی ہوں

چھڑا جب کہیں دور ساز محبت

میں شرما کے چہرہ ترا دیکھتی ہوں

وہ کہنے لگا ہیں حسیں میری نظریں

کہا میں نے چہرہ ترا دیکھتی ہوں

فضائیں بھی سرشار سی جھومتی ہیں

ہیں مسحور آب وہوا دیکھتی ہوں

اچانک چھپا چاند بدلی کے پیچھے

یا زلفوں کو رخ پہ گرا دیکھتی ہوں

اٹھے تم مڑے اور کہا الوداع جاں

میں اب بھی ترا نقش پا دیکھتی ہوں

کھلی آنکھ میری ہوا ختم قصہ

میں اٹھ کے تجھے جابجا دیکھتی ہوں

💞😂💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞

کالی شلوار کمیض میں کریم کلر کی شال اوڑھے وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا خان بی بی نے اسے شہر سے شیروانی لانے کا کہا تھا مگر اسے سادہ رہنا زیادہ پسند تھا کیونکہ سادگی میں بھی وہ شہزادہ بہت حسین لگتا تھا تیار ہوکر وہ کمرے سے نکلا تو راہداری میں ہی اسے ماہنور مل گئی

وہ جو اپنے دھیان میں ارہی تھی سامنے روشیل کو دیکھ رہی بےساختہ رکی اسے تیار دیکھ جانے کیوں مگر اسکے دل میں درد سا اٹھا کبھی ایسے خواب اس نے اپنے لیے سجائے تھے وہ خواب جن خوابوں کا پورا ہونا کبھی لکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔

ماہ۔۔۔۔ آنکھوں میں ائی نمی کو روکتے وہ نظریں جھکائے وہاں سے جانے لگی مگر شاید روشیل کو اس پر ترس اگیا یا پتہ نہیں کیا کہ وہ اسے پکار گیا ۔۔۔ماہنور کو لگا جیسے دنیا رک سی گئی ہو سانس روکے اس نے مڑ کر روشیل کو دیکھا

اپنی زندگی یوں ہی برباد مت کرو ۔۔۔۔ وہ سب بھول جاؤ اور نئی زندگی کی شروعات کرو ۔۔۔۔ میرے لیے اگر تمھارے دل میں زرا سی بھی عزت ہے تو اس بارے میں لازمی سوچنا ۔۔۔۔ سرد نہیں تھا اسکی لہجہ مگر نرم بھی نہیں تھا وہ ایسے انجان بن رہا تھا جیسے اسے کبھی جانتا ہی نا ہو ۔۔۔۔کیا وہ انجان تھا اسکے جزبوں سے۔۔ کیا وہ انجاں تھا اس چیز کے کہ ماہنور کے دل میں اسکے لیے کتنی عزت ہے ۔۔۔

جی۔۔۔۔ وہ فقط اتنا ہی کہہ سکی آنکھوں سے آنسو بہتے اب گالوں پر لڑھک رہے تھے وہ حسین تھی بہت حسین تھی مگر اسکی محبت اسکی قسمت نہیں تھی ۔۔۔ انسو صاف کرتے آس نے مڑ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ تو کب کا جاچکا تھا ۔۔۔۔ اسے چھوڑ کر۔۔۔چھوڑ تو وہ پہلے ہی چکا تھا ۔۔۔

💞💞💞🤣💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕💞💕

میں چاہتی ہوں میں تم سے نفرت کرو مدشاء۔۔۔ مگر اب اپنے احساسات پر میرا کوئی اختیار ہی نہیں ۔۔میں چاہتی تھی میں تمھیں تکلیف دو۔۔۔ تمھیں ہر وقت رولاو۔۔۔ مگر دیکھو اس بار بھی قسمت نے مجھے بےبس کردیا ہے ۔۔۔۔ میں اتنی اچھی نہیں تھی کہ میں تمھیں اپنی محبت سونپ دیتی۔۔۔ مگر ہائے اس بار بھی میری ہی محبت کی خوشی نے مجھے بےبس کردیا ۔۔۔۔۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔کہ مجھے کس حد تک روشیل خان سے محبت ہے ۔۔۔۔۔ شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتے وہ خود ہی بڑبڑا رہی تھی اسے بلانے اتی دلنشیں نے افسوس سے اسکی اس اجڑی حالت کو دیکھا

اگر صبر کر ہی لیا ہے تو رو کیوں رہی ہو۔۔۔ میں نے کبھی سنا تھا ماہنور۔۔۔۔۔ اگر ہمھیں ہماری محبت نا ملے نا ۔۔۔ تو ہمھیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں ان کو اپنا لینا چاہیے ۔۔۔۔ سنا ہے کہ چاہنے سے زیادہ چاہے جانے میں مزہ ہے ۔۔۔۔ دلنشیں نے اسکا رخ اپنی جانب موڑتے اسکے انسو پہنچے جسکے انسو تھے کہ بہتے جارہے تھے۔۔۔ ماہنور نے سرخ نظروں سے اسے دیکھا

صبر ہی تو کررہی ہوں ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ ہونٹ بھینچ کر اس نے خود کو کچھ بھی غلط کہنے سے روکا ۔۔۔ دلنشیں نے گہری سانس لیتے اسے دیکھا

چلو ماہنور مدشاء اور رانیہ بھابھی دونوں ہی نیچے اچکی ہیں ۔۔۔۔ اسے ڈوبٹہ پکڑتے وہ نیچے کو بڑھی جانتی تھی اسے کچھ وقت درکار ہے۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔

نکاح مبارک ہو رانیہ ںیگم۔۔۔۔ نکاح کے ہوتے ہی رانیہ اور مدشاء کو انکے کمروں میں بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔۔ سب سے جان چھڑاتے یمان اپنے کمرے میں داخل ہوتے بولا مگر یہ کیا دلہن تو کمرے میں تھی ہی نہیں ۔۔۔۔

اہہہہہہہہ۔۔۔۔۔ وہ ابھی ساکت جامد کھڑا تھا کہ زوردار چیخ کی آواز پر ڈر کر اچھلا اور حیرت سے رانیہ کو دیکھنے لگا جو قہقہ پر قہقہ لگا رہی تھی گھونگھٹ سے اتی کھنکتی اواز پر یمان کو ہوش کی دنیا میں لا پٹکا۔۔۔۔

تمھیں شرم نہیں اتی ۔۔۔۔ وہ غصے اور خفگی سے اسے ہنستے ہوئے دیکھنے لگا جسکی ہنسی ابھی تک نہیں رکی تھی اتنا کہ ہنستے ہنستے اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھی پھر اچانک ہی وہ رکی اور سرخ منہ کو ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔ وہ جو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسکے رونے پر ایکدم سٹپٹا گیا

کیے بیگم۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ر۔رو کیوں رہی ۔۔۔۔۔" اسکا گھونگھٹ اٹھائے وہ اسکے ہاتھوں میں چھپے چہرے کو اپنے سامنے کرتے پوچھنے لگا مگر اسکا چاند سا چہرہ دیکھ اسکی بات اُدھوری رہ گئی

سرخ جوڑا زیب تن کیے ۔۔۔۔میک اپ سے حسن کو دو آتشہ کیے وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی بڑی بڑی آنکھیں سرخ ہوئی جارہی تھی

ماشاءاللہ ۔۔۔ اسکی پیشانی کو لبوں سے موٹر کرتے وہ دھیمے انچ دیتے لہجے میں بولا رانیہ نے رونا بھول کر اسے دیکھا جو گہری نظریں اس پر ٹکائے ہوئے تھا وہ جھجھک کر پیچھے ہونے لگی

ڈونٹ وری ۔۔۔۔ میں کچھ نہیں کررہا بس خود کو محسوس کرنے دیں ۔۔۔یہ حسین لمحات میں جینا چاہتا ہوں ۔۔۔ اسکی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر اسے اپنے قریب کرکے وہ اسے خود میں بھینچ چکا تھا

اسے لگا جیسے اسکی ساری دنیا ساری خوشی اسکے بانہوں میں اسمائی ہو ۔۔۔ رگ و جاں میں جیسے سکون سا اترتا محسوس ہوا اسکی خوشبو اسے مدہوش کررہی تھی

میں بہت خوش قسمت ہوں رانی ۔۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپ جیسی ہمسفر عطا کی۔۔۔۔ اسکی سرخ گال پر ہلکے سے لب مس کرتے وہ بولا تو رانیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی پیدا ہوئی

آپ کچھ نہیں بولی۔۔۔۔۔۔!!" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ رروازہ ناک ہوا رانیہ کے ساتھ یمان نے بھی حیرت سے دروازے کو دیکھا جو زور زور سے بج رہا تھا

💕💞💕💞💞💕💞💞💞💕💞💞💕💞💞💕

اسلام وعلیکم۔۔۔!! اس نے کمرے میں انٹر ہوتے ہی سلام کیا دیکھا تو وہ بیڈ کے بیچ بیچ اپنے نوخیز حسن لیے بیٹھی ہوئی تھی گھونگھٹ تو شاید وہ پہلے ہی اتار چکی تھی مدشاء نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا

کیسی ہیں اپ۔۔۔۔ اسکے نازک سے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے وہ نہایت نرمی سے پوچھنے لگا تھا

پہلے جیسی ۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ مسکرا کر بولی اسکی مسکراہٹ بھی کیا قہر تھی کہ روشیل کو لگا وہ اسکی مسکراہٹ پر ہی دل ہار جائے گا

نہیں ۔۔۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تو مدشاء نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

اس سے بھی زیادہ خوبصورت ۔۔۔۔ اسکی گال کو انگلی سے چھوتے وہ خمار بھرے لہجے میں بولا آنکھیں تھی کہ اس حسن کی ملکہ پر ٹکی تھی جو اسکے جذباتوں سے بےنیاز اپنی قاتلانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھے جارہی تھی

تو آپ تعریف کررہین میں ہیں میری ؟؟؟ مدشاء نے آنکھیں بند کرکے کھولتے پوچھا انداز سوالیہ تھآ روشیل نے گہری سانس بھرتے اسے دیکھا وہ لڑکی اسکے جزبوں سے انجان بننے کی کوشش میں تھی

میں تو ہر وقت اپکی تعریف۔کرتا۔ہوں ایک آپ ہی ہیں جو ۔۔۔۔ بسسس ہنستی رہتی ہیں ۔۔۔۔ بھاری لہجے میں کہتے اس نے خفگی سے اسے دیکھا جو اب بھی مسکراہٹ دبائے بیٹھی تھی

تو آپ چاہتے ہیں میں آپکی تعریف کرو۔۔۔ہمممم۔۔۔تھوڑی تلے ہاتھ رکھتے اس نے سر سوچتے سر ہلایا ایسے جیسے کسی گہری سوچ میں ہو

بس ٹھیک ٹھاک ہی ہیں لیکن رانیہ ہی ہر وقت اپکی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف رہتی ہے ۔۔۔۔ وہ منہ بنا کر بولی تو روشیل نے مسکراہٹ دبائی

نند کے خلاف پہلی شکایت درج ہورہی ہے ؟؟؟ وہ زیر لب مسکرایا

جی نہیں ۔۔۔۔وہ میری نند نہیں ۔۔۔وہ تو میری جان ہے ۔۔۔۔ نفی میں سر ہلاتے اس نے جلدی سے جواب دیا

وہ بھی یہی کہہ رہی تھی جب آپ چلی گئی تھی ۔۔۔۔مگر اب۔۔۔ اپکو اپنی پرائرٹیز بدلنی ہوگی ۔۔۔۔ یو آر آ میرڈ گرل ناؤ۔۔۔بہت ہی خوبصورت انداز میں وہ اسے کسی اور کو اپنی جان کہنے سے منع کررہا تھا مدشاء نے ناک سکوڑے اسے دیکھا

جی جان جی۔۔۔ہاہہاہا اسے جان پکارے وہ بیڈ پر سے اتری بھاگنے کے انداز میں واشروم گھسنے لگی کہ وہ بجلی کی رفتار سے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لے چکا تھا مگر یہ کیا اچانک دروازہ بجنے لگا اتنی زور سے وہ پریشان ہوئے ایکدم ساری ہنسی غائب ہوئی جلدی سے دونوں آگے بڑھے

💕💞💕💞💕💕💞💕💞💕💞💕💞🤷💞💕

کیا ہوا ۔۔۔ دروازے کے باہر کھڑے دامل کو دیکھ وہ پریشانی سے پوچھنے لگا جو خود پریشان سا کھڑا تھا اسکو نیچے جانے کا اشارہ کرتے وہ روشیل کے روم کی طرف بڑھا انہیں بھی نیچے کو جانے کا کہتے وہ انکے ساتھ ہی نیچے آیا جہاں سبھی گھر کے افراد موجود تھے کچھ نئے چہرے تھے جو جس میں روحیل ۔۔۔ اور ایک مولوی صاحب تھے

یہ کیا ہورہا ہے کوئی کچھ بتائے گا ۔۔۔۔یمان نے سوالیہ نظروں سے دامل کو دیکھا پھر نظر اسکی شیروانی پر پڑی ۔۔۔ مدشاء اور روشیل بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے

بھئی اب سبھی نے شادی کر لی تو میں کیا کنوارہ رہتا اسی لیے سوچا بھائی کے ساتھ ہی اپنا ٹانک فٹ کرلیتا ہوں حویلی تو ویسے ہی دلہن بنی ہوئی ۔۔۔ کل تینوں کا ولیمہ اکھٹا کرلینگے پیسوں کی بھی بچت اور میرا بھی بھلا ہو جائے گا ۔۔۔۔کیوں خانی۔۔۔۔ دامل نے سنجیدگی سے کہتے مدشاء کے گرد ہاتھ لپیٹا جو سرخ چہرے سے سر اثبات میں ہلا گئی

جبکہ روشیل اور یمان کا غصہ سوا نیزے پر تھا اتنی مشکل سے تو وہ لوگ روم میں پہنچے تھے اور ابھی اسے شادی کی سوجھی تھی ۔۔۔۔ دونوں کے چہرے سرخ ہوئے جارہے تھے

بھابی آجائیں ۔۔۔ ایک ہاتھ سے رانیہ کے ہاتھ کو پکڑتے دامل نے دل جلاتی مسکان سے اپنے بھائی اور جیجا جی کو دیکھا پھر انکی بیویوں کو اپنے ساتھ لے جاتے سٹیج پر بیٹھی اویزہ کے ساتھ بیٹھ گیا

کمینہ انسان۔۔۔۔ ہاتھ لگے یہ میرے۔۔۔۔۔ یمان نے ہاتھ کی ہتھیلی پر مکہ مارا ۔۔۔

زلیل انسان نا ہو تو ۔۔۔۔ روشیل نے خونخوار نظروں سے دامل کو دیکھا جیسے آنکھوں سے ہی کچا چبا جائے گا ۔۔۔۔ مگر اب ہو ہی کیا سکتا ہے جانی ۔۔۔۔۔ لو جی چلتے ہیں اب انہیں ڈسٹرب کرنا بھی غلط بات ہے ۔۔۔۔

💞💕💞💕💕💕💞💕💞💕💞💞💕💕💞💕💞

سات سال بعد۔۔۔۔۔۔۔

اسکی گاڑی جیسے ہی گیٹ کے اندر داخل ہوئی تو ایک نازک سی چڑیا گلابی فراک پہنے چہکتے ہوئے وہاں ایی۔۔۔وہ تیزی سے گاڑی سے نکلا اور نیچے بیٹھتے دونوں بازو وا کردیے ۔۔۔۔اور وہ نازک سی گڑیا اسکے بازوؤں میں جاسمائی

کیسی ہیں میری پرنسس۔۔۔ بہت دیر تک اسکو پیار کرنے کے بعد اس نے اسکی ناک دباتے پیار سے پوچھا

میں ٹھیک ہوں بابا جانی۔۔۔ آپ کیسے ہیں ۔۔۔۔ اسی کے انداز میں جواب دیتے بچی نے بھی اسکا ناک دبایا تو وہ ہنستے اسے کھڑا ہوا اور ساتھ ہی اسکو اٹھا لیا اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا کہ کسی کی اواز ب قریب سے سنائی دی

امایہ کہاں ہیں اپ۔۔۔یہ کوئی وقت ہے کھیل۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکی نظریں جب روشیل خان پر گئی ایک گہری مسکراہٹ نے ہونٹوں پر بسیرا کیا

اگئے اپ۔۔۔۔۔ انکے قریب اتے مدشاء نے مسکرا کر پوچھا تو روشیل نے سر ہلاتے اسکی پیشانی پر لب رکھے ۔۔۔ ان سات سالوں میں اللہ تعالیٰ نے انکو ایک چھوٹی سی گڑیا سے نوازہ تھا جسکا نام خان بی بی نے امایہ رکھا تھا ۔۔۔۔یمان اور رانیہ کا ایک بیٹا تھا جسکا نام رانیہ نے ہی دلدار رکھا تھا۔۔۔۔دامل اور اویزہ کی بھی ایک بیٹی تھی جسکا نام چاندنی تھا۔۔۔۔ اس نام پر خان بی بی نے بیت واویلا کی اتھا مگر سامنے بھی آوازہ تھی سبکو منا کر ہی دم لیا تھا اس نے ۔۔۔

میں دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کو محبت پاش نظروں سے نہارتے دیکھ امایہ نے ایک آنکھ کا کونا کھولتے آنہیں دیکھا تو روشیل نے قہقہہ لگایا جبکہ مدشاء اسے گھورتے اندر کی جانب چل دی

💕💕

ارے رکیں رکیں ایک اور آفت آرہی ہیں مل لیں اس سے بھی۔۔۔۔ 😂😜

ٹیچر ٹیچر۔۔۔۔ بچاؤ ہمھیں ۔۔۔۔ جی یہ تھی چھوٹی پٹاخہ چاندنی جو پوری حویلی میں کو سر پر اٹھاتی سیڑھیوں سے بھاگتے نیچے آرہی تھی کہ امایہ کے سامنے رکتی گھنٹوں پر ہاتھ رکھتے سانسیں بھرنے لگی اسکا سانس پھول چکا تھا زیادہ دوڑنے سے

کیا کرتی ہو چاند ۔۔۔۔مت بھاگا کرو اتنا ۔۔۔۔ پیچھے سے آویزہ کی پریشان سی اواز ائی جو اسکے پیچھے ہی ائی تھی

کیا ہوا چاند ۔۔۔۔ امایہ پوچھنے لگی کہ پیچھے سے آتا دلدار پریشانی سے پوچھنے لگا اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا جو شاید وہ اسی کے لیے لایا تھا اسکے آنے ہی چاندنی نے ناک بھونیں چڑھائی

چاندنی نام ہے میرا اور بڑی یوں میں تم سے دلدارے۔۔۔۔ وہ نتھے پھلائے منہ پھلا کر بولی چھوٹی سی ناک پر غصہ بہت جچتا تھا ۔۔۔۔ دلدار نے اسکے ہاتھ میں پانی پکڑایا اور رانیہ کے پاس جا بیٹھا جو شاید انکے لیے جوس لائی تھی

کیا ہوا دل۔۔۔۔ امایہ نے اسکے پاس بیٹھتے پوچھا جو جوس کا گلاس ہاتھوں میں تھامے اسے گھورے جارہا تھا سب ہی اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے وہ تینوں صوفوں پر بیٹھے اہستہ سے ںاتیں کررہے تھے

ٹیچر۔۔۔ اسے بولیں میں اس سے بڑی ہوں مجھے باجی بولا کرے۔۔۔۔ چاندنی نے ناک سکوڑے کیا اور پانی کا گلاس ختم کرتے جوس پینے لگی جانے کیوں وہ پانی کا گلاس واپس نا رکھ سکی تھی

باجی کیوں بولو ۔۔۔بابا بھی تو ماما کو بیگم کہتے ہیں میں بھی تمھیں چاند بیگم کہا کرونگا ۔۔۔ دلدار تو بڑا دلدار نکلا تھا امایہ اور چاندنی دونوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر وہ تینوں ہی پاگلوں کی طرح ہنس دیے

دلدارے تجھ سے نہیں ہونی دلداری ۔۔۔۔ چاندنی نے ہنستے ہوئے مزاق میں کہا تو وہ ایکدم سنجیدہ ہوا

دلدار دلداری بھی کرلے گا بسسس تم ایک بار اس دلدار سے دل لگا کر دیکھنا اسے دل میں بسا کر دیکھنا۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ٹھیر ٹھہر کر بولا تو وہ دونوں لڑکیاں پھر سے ہنسنے لگی جبکہ وہ منہ بنائے وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔۔۔

ماہنور کی شادی بھی اکی شادی کے بعد ہوچکی تھی آللہ تعالیٰ نے اسے دو بیٹیوں سے نوازہ تھا ۔۔۔ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھی ۔۔۔۔۔۔

💕💕💞💕💕💕💕

کچھ سال بعد۔۔۔۔۔

راستہ چھوڑو ہمارا ۔۔ارہان۔۔۔ حجاب سر پر لپیٹے وہ اپنی مومی ہاتھ کو ماتھے پر رکھے خود کو دھوپ سے بچانے کی کوشش کررہی تھی جبکہ سامنے کھڑا وہ چوڑی جسامت والا شخص اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا

چھوڑنے کے لیے راستے میں نہیں آیا تھا میں۔۔۔۔ خانی۔۔۔۔نہایت ہی ادب اور جنونیت بھری نظروں سے اسے دیکھتے وہ اہستہ اواز میں بولا۔۔۔۔ اسے اسکا نام لینا مناسب نا لگا تو خانی بلانا بہتر سمجھا

ہم اپنے بابا جانی سے کہیں گے کہ ماہنور پھوپھو کے بیٹے نے ہمھارا راستہ روکا ۔۔۔۔ وہ غصے سے ناک چڑھائے بولی سورج کی حرارت سے اسکی سفید رنگت سرخ ہورہی تھی اسکی دھمکی پر وہ زیر لب مسکرایا

ہم بھی آپکے بابا جانی سے کہیں گے کہ ہمھیں انکی بیٹی کی سانسیں تک اپنی پابند چاہیے ۔۔۔۔۔ اہستہ سے اسکے قریب ہوتے وہ اس پر جھکا جیسے کسی گھنے درخت کا سایہ اسے دھوپ سے محفوظ کررہا ہو امایہ نے گھبرا کر اسے دیکھا ڈھرکتے دل سے پیچھے ہوئی ۔۔۔۔ مگر سورج کی تپش سے اسکی جلد جل رہی تھی

مر۔جاو۔۔۔ اسے پیچھے ہوتے دیکھ وہ حویلی کے اندر جاتے اونچی اواز میں بولی تو ارہان سے سر گرائے قہقہہ لگایا

مر ہی تو گیا ہوں ۔۔۔ آپ کی اداؤں پر ۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھتے وہ اپنی تیز ڈھرکنیں محسوس کرتے دلفریب سے لہجے میں بولا نظریں اسکی پشت پر تھی جو تیزی سثاندر جارہی تھی جیسے وہ اسے پکڑ لے گا ایک بار پھر اسکا قہقہہ گونجا تو امایہ نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا

💞💕💞💕💞💕💞💕💞

چاند ۔۔۔۔۔ وہ اسکے کمرے میں چائے رکھتی جاہی رہی تھی کہ دلدار کی اواز پر رکی ناک چڑھائے مڑی اسے دیکھا جو سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہا تھا

تمیز نہیں ہے میں بڑی ہوں تم سے ۔۔۔۔ چاندنی نے غصے سے ناک پھلائے اسے خفگی سے دیکھا اسے غصہ دیکھ وہ قدم با قدم چلتے اسکے قریب ایا۔۔۔۔

کدھر سے بڑی لگتی ہیں اپ۔۔۔۔ دل تو بامشکل پہنچتی ہیں ۔۔۔۔۔ اسکے قد کو دیکھ وہ ہنسی دباتے بولا تو چاندنی نے گھور کر اسے دیکھا

بکواس نہیں کرو ۔۔۔اگر تمھارا قد بڑا ہوگیا تو میں کیا کرو۔۔۔۔ وہ کندھے اچکاتے جانے لگی ۔۔۔ اسکے یوں بدتمیزی سے بولنے پر دلدار سلنے اسے بازو سے پکڑتے دیوار سے لگایا

تمیز سے بات کیا کریں چاند۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھی اپ ۔۔۔۔ اسکے بازوؤں پر گرفت سخت کرتے وہ دھیمی اواز میں دھاڑا تو چاندنی نے خوف بھری نظروں سے اسے دیکھا اسکی زرا سی سختی پر ہی سنہری آنکھیں آنسووں سے بھر چکی تھی ۔۔۔گلاںی چہرہ درد کی شدت سے سرخ ہوچکا تھا اسکے انسو دیکھ اس نے گرفت ایکدم ہلکی کردی مگر چھوڑا بلکل بھی نہیں ۔۔۔۔

مجھ سے شادی کرلیں ۔۔۔ اسکے انسو پونچھتے وہ نہایت ہی نرمی سے بولنے لگا چاندنی نے نفی میں سر ہلایا تو اسکے ماتھے پر بل پڑے

شادی نا کرنے کی وجہ۔۔۔۔ سوالیہ نگاہیں اسکے چہرے پر ٹکائے وہ سنجیدگی سے استفار کررہا تھا

تم اچھے نہیں لگتے ۔۔۔۔۔وہ سوں سوں کرتے بولی انداز ناراض بچوں جیسا تھا دلدار نے فدا ہوتی نظروں سے اسے دیکھا

ہممم مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہیں ۔۔۔اگے بولو۔۔۔۔ اسے اپنی طرف حیرانی سے تکتے پاکر وہ اسکی سرخ ناک دباتے بولا تو چاندنی نے منہ بناتے اسے دیکھا

تمھارا قد مجھ سے بہت بڑا ہے ۔۔۔۔ اپنے پاؤں کو دیکھتے وہ اپنی گردن۔ پر ہاتھ رکھتے بولی جو سر اٹھا کر اسے دیکھنے سے ہی درد ہونے لگی تھی

پیار بھی زیادہ کرلونگا ۔۔۔۔۔ ہونٹوں کو دانتوں تلے دبائے وہ شرارت بھری نظروں کے حصار میں اسے لیے ہوئے تھا تو چاندنی سے نظریں اٹھا کر اس بےشرم انسان کو دیکھا اسکے سینے پر دونوں ہاتھ دھرتے اسے پیچھے کو دھکا دیا

تمھیں شرم نہیں اتی ۔۔۔۔ شرم و حیا سے سرخ ہوتے چہرے سمیت غصے سے چیخی

وہ آپ ہی کرلینا ۔۔۔مجھے بےشرم ہی رہنے دو۔۔۔۔ وہ بے باکی سے اسکے گال کو چوم کر بولا تو چاندنی شرم سے سرخ چہرے سمیت اسے گالیوں سے نوازتے وہاں سے بھاگ گئی ۔۔۔۔ایک کہانی اختتام تک پہنچی تھی تو وہی دوسری کہانی شروع ہوچکی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔


💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Chunri Yaar Di  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Chunri Yaar Di written by  Gul Writes . Chunri Yaar Di by Gul Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages