Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 18 May 2024

Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story

Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa By Fariha Islam Complete Short Story

Novel Name :Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa 

Writer Name : Fariha Islam

New Upcoming :  Complete 

اسکی آنکھ کھلی تو خودکو اسپتال میں پایا تھا ہر طرف دوائیوں کی اسمیل سے اسکا دل گھبرایا تھا ہاتھ میں ڈرپ لکھ تھی وہ غائب دماغی سے کمرے کی چھت تو گھور رہی تھی دماغ اور دل جیسے خالی تھے کوئی سوچ تک نہیں تھی اسکے دماغ میں اس نے اس خاموشی سے گھبرا کے واپس آنکھیں موند لی تھی۔تبھی اس خاموشی کو دروازے کی آواز نے توڑا تھا لیکن وہ پھر بھی ایسے ہی آنکھیں بند کر کے پڑی رہی جیسے وہ اس کی طرح کر کے چھپ جائے گی

سنو مجھے پتا ہے تم سو نہیں رہی تو آنکھیں کھولو اور بتاؤ اب کیسی ہو؟

وہ جو کوئی بھی تھی جان چکی تھی کہ وہ ہوش میں آ کی ہے جبھی نہایت آرام سے بولی تھی۔

اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو وہ مسکرا کے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

شکر تمہیں ہوش آیا ورنہ تو مجھے لگا آج تو میں گئی ہی سمجھو بھائی تو کبھی معاف نہیں کرنے والے تھے مجھے پکا جیل بھیج دیتے کے چلو بھئی جان چھوڑو وہ اسے بولتے ہوئے خود ہی ہنس پڑی تھی

گلابی کھلتی رنگت بڑی بڑی آنکھیں جن کا رنگ ہلکا براؤن تھا ماتھے پر پڑے بال گلابی رنگ کے سوٹ میں وہ گلاب ہی تو لگ رہی تھی 

ارے کیا ہوا؟؟وہ جو اسے خور سے دیکھنے میں مصروف تھی اس کی آواز پر چونک گئی 

نہیں کچھ نہیں اس نے جھجکتے ہوئے کہا تھا 

ہہم تو بتاؤ طبعیت کیسی ہے؟؟سر میں درد تو نہیں ہے نا؟؟

میں ٹھیک ہوں لیکن مجھے ہوا کیا تھا میں یہاں کیسے آئی؟؟

ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا تمہارا کل رات اس لئے تم یہاں ہوں اور تمہیں یہاں کون لایا تو اس بات کو چھوڑو 

ابھی وہ کچھ اور بھی بولتی کہ دروازہ ایک بار پھر کھلا تھا اور اندر آنے والا ایک ڈاکٹر تھا اور ساتھ میں نرس جو اس کی رپورٹ دیکھنے لگے اور ان کی موجودگی میں کمرہ میں پھر خاموشی ہوگئی تھی۔

     ________________________

کاظم ہاؤس کے ملازموں کا آج پھر برا دن تھا کیونکہ آج پھر ان کے چھوٹے صاحب کا موڈ خراب تھا کمرے سے مسلسل چیزیں توڑنے کی آواز آرہی تھی 

کیا ہورہا ہے یہاں؟ عفت جو ابھی باہر سے آئی تھی ملازموں کو وہاں کھڑے دیکھ اور شور سن کے سمجھ گئی تھی کہ آج پھر انکے نواب کا موڈ خراب ہے

وہ میڈم جی پتا نہیں چھوٹے صاحب جب سے آئے ہیں کمرے میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں

ہہم جاؤ تم سب اس سے پہلے تم لوگوں کا نمبر آئے 

ان کے کہنے کی دیر تھی سبھی ملازم ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

وہ سیڑھیاں چڑھتی اس کے روم تک آئی تھی اور ایک گہرا سانس لیا مشکل تھا اب اسکے غصے کو کنٹرول کرنا 

کمرے میں اندر آتے ہی ان کے پیروں میں کئی چیزیں آئی تھی کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا سیگریٹ کی اسمیل سے انکا دماغ ہی گھوم کے رہ گیا تھا انہوں نے جلدی سے فین اور لائٹ آن کی تھی پورا کمرہ کباڑ خانے میں بدل گیا تھا اور وہ خود بیڈ پر آڑھا ترچھا پڑا تھا

ہنی آر یو اوکے؟؟ واٹ ہیپنڈ ارقم ؟ انہیں نے بیڈ پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھاما جو اسنے بری طرح جھڑک دیا 

موم سے کیوں ناراض ہو؟اٹھو بتاؤ مجھے انہیں پھر اسکا ہاتھ تھاما تھا

اپنے شوہر نامدار سے یہ پوچھے جا کر مجھ سے کیا پوچھنے آئی ہے آپ میں اس بارے میں اب ایک لفظ نہیں کہوں گا اس نے اٹھ کر اپنا ہاتھ کھینچا تھا ان کے ہاتھ سے۔

اب کیا کردیا تمہارے ڈیڈ نے بتاؤ مجھے۔

یہ تو وہ ہی بتائے گے آپ کو اچھے سے کیا کیا ہے انہوں نے ہر وقت کا تماشا تھکتے نہیں ہیں وہ اس سب سے؟غصے کی ذیادتی سے اسکا چہرہ لال سرخ ہو چکا تھا 

عفت بیگم نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا خو کسی ریاست کا شہزادہ لگتا تھا سفید رنگت پر براؤن بال ماتھے پر بکھرے ہوئے کھڑی ستواں ناک ہلکی داڑھی اور مغرور گرے آنکھیں جو اس وقت لال انگارہ ہورہی تھی۔وہ اس رف حلیے میں بھی شھزادہ ہی لگ رہا تھا

اچھا ٹھیک ہے اٹھو فریش ہو بات کرتی ہوں میں ان سے پوچھتی ہوں تم بس غصہ نہیں کرو۔

ہمم آپ جائے اب اکیلا چھوڑ دے مجھے یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا روم کے ساتھ اٹیچڈ روم میں جا کر روم لاک کر چکا تھا اور وہ بس دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔

     _____________________________

ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ پھر اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی اور اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی 

میرا نام رامین سکندر ہے تمہارا نام کیا ہے؟اسکے سوال پر بھی اس نے توجہ نہیں دی تو رامین نے اس کے کندھے ہاتھ رکھا تو وہ ایک دم چونکہ تھی 

آہ ہاں جی وہ بری گھبرائی تھی 

کیا ہوا ا۔۔۔

نہیں کچھ نہیں آپ کچھ بول رہی تھی؟

ہمم بول تو رہی تھی مگر آپ میڈم پتا نہیں کن خیالوں میں گم ہیں

سوری میں نے سنا نہیں آپ کیا بول رہیں تھیں؟ اس نے شرمندگی سے سر جھکایا تو وہ مسکرا دی 

ارے کوئی بات نہیں بس میں تمہارا نام پوچھ رہی تھی اور اپنا نام بھی بتایا تمہیں رامین سکندر اب تم اپنا نام بتاؤ مجھے۔۔۔ 

میرا نام وہ۔۔۔۔۔

ارے نام یاد نہیں کیا اپنا؟؟رامین نے ہنستے ہوئے کہا

نہیں وہ میرا نام مہرماہ ہے مہرماہ سلطان 

ہمم واہ بھئی کیا نام ہے بلکل کہانی کی ہیروئن جیسا 

آپ سے ایک بات پوچھوں؟؟؟مہر نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکرا دی 

آف کورس پوچھو  میں یہاں کیسے آئی؟

ہم لائے ہیں تمہیں یہاں رات تم ہماری گاڑی کے سامنے آگئی تھی تم آلریڈی زخمی تھی تو میں اور بھائی تمہیں یہاں لے آئے 

مہر کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟؟؟بتاؤ مجھے اس نے بہت پیار سے اسکا ہاتھ تھاما تھا

مجھے نہیں یاد کچھ بھی بس اتنا یاد ہے کے جب آنکھ کھلی تو میں یہاں تھی اس نے اپنی بے بسی اسے بتائی کیونکہ ہوش میں آنے کے بعد سے اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا دماغ میں ایک بوجھ سا تھا 

اس سے پہلے رامین کچھ بولتی کوئی روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔

اس نے بیڈ پر بیٹھی مہرماہ کو غور سے دیکھا تھا گندمی رنگت پر گہری کالی آنکھیں اور ان پر گھنی پلکیں وہ عام سی شکل کی تھی لیکن جو چیز اسے خاص بناتی تھی وہ اسکی آنکھیں اور اس کے چہرے کا بھولا پن تھا کالے شلوار سوٹ میں وہ غم اداس سے بیٹھی تھی ماتھے اور پاؤں پر پٹی بندھی تھی 

کیسی ہے اب یہ؟؟؟

ٹھیک ہے بھائی اب

ہمم کچھ بتایا کہاں ہے اسکا گھر؟؟اپنے بارے میں کچھ بتایا اس نے کون ہے کہاں کی ہے؟وہ اب بھی رامین سے ہی مخاطب تھا انداز نہایت روکھا کسی بھی نرمی اور ہمدردی سے پاک..

اسے کچھ بھی یاد نہیں بھائی سوائے نام کے رامین نے ہمدردی سے مہرماہ کی طرف دیکھا تھا اور اسکی بات سن کر اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی جیسے جواب پہلے سے ہی معلوم ہو

ہمم تو اب کیا کرنا ہے؟ڈاکٹر سے بات کیا ہوئی تمہاری؟

وہ بول رہے ہے کچھ دن تک چوٹ ٹھیک ہو جائے گی میڈیسن پراپر لینی ہے باقی تو سب ٹھیک ہے بس دوائیوں کی وجہ سے مائینڈ تھوڑا ڈسٹرب ہے شام تک ڈسچارج کر دے گے

تو پوچھو اس سے کہا ہے اسکا گھر بولو یاد کرے کیا یہی ہاسپٹل میں رہنے کا ارادہ ہے کیا فری میں یہ لوگ بھی نہیں رکھے گے

بھائی پلیز۔۔۔رامین نے اسے ٹوکا تھا 

اس نے سر جھکائے ہونٹ بچاتی مہرماہ پر ایک پر ایک نظر ڈالی اور رامین کو اشارہ کر کے باہر نکل گیا دونوں کے جاتے ہی اس کے روکے آنسو اس کے چہرے کو گیلا کر گئے تھے۔۔۔

بھائی آپ ایسے کیسے بات کر سکتے ہے وہ بچاری کتنی تکلیف میں ہے باہر آتے ہی رامین نے اسے احساس دلایا تھا

بچاری ہونہہ گھر سے بھاگی لڑکیاں بچاری نہیں ہوتی اور تمہیں زیادہ ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسکو بولو اپنا خود دیکھے اور تم چلو گھر بی جان انتظار کر رہی ہونگی آج جانا ہے ہم نے

بھائی وہ کہا جائے گی؟؟اس نے بچاری سے ارمیز کو دیکھا تھا 

یہ اسکا مسئلہ ہے ہم نے جتنا کرنا تھا کرلیا اور اگر اتنی ہی ہمدردی ہے تو یہ لو دے دینا اسے ارمیز نے کچھ پیسے اسے دیئے تو وہ تاسف سے اپنے بھائی کو دیکھے گئی جانتی تھی اب کچھ بھی کہنا بے کار تھا

اندر جاکر مہرماہ کو پیسے دے کر الواع کہہ کر وہ بھی ارمیز کے ساتھ آگئی دل بہت اداس ہوگیا تھا۔

       _________________________

کاظمی ہاؤس میں ہر سال کی طرح آج بھی سب جمع تھے کیونکہ آج اس گھر کے مالک کی دسویں برسی تھی 

جاوید کاظمی اپنے وقت کے بہت بڑے زمیندار تھے پڑھے لکھے نرم دل اللّٰہ نے بیوی بھی انہیں کی طرح نیک دی تھی دو بیٹے اور ایک بیٹی ان کی زندگی مکمل تھی بچوں کے لیے وہ گاؤں چھوڑ کر کراچی آبسے اور یہاں نئے سرے سے اپنا کام جمایا چھوٹے پیمانے پر قالین کا کام شروع کیا جسے ان کے بچوں نے اور آگے پہنچایا

بڑے بیٹے حبیب کاظمی جنہوں نے اپنی پسند سے عفت سے شادی کی اور تین بچوں کے باپ بنے

ثانیہ کاظمی،ارقم حبیب کاظمی اور آنیہ کاظمی

جبکہ چھوٹے بیٹے اویس کاظمی کی شادی اپنی چچازاد رومانہ سے ہوئی جن سے ان کے چار بچے ازمیر،ھادی،دانیہ اور اروش

اور اکلوتی بیٹی ہاجرہ جن کی شادی جاوید صاحب نے اپنی بہن کے بیٹے طارق سے کی تھی اور ان کے دو ہی بچے تھے  ارمیز طارق اور رامین طارق۔۔۔

زندگی بہت خوبصورت تھی انہوں نے سبھی رشتوں کو ایک لڑی میں پرو کے رکھا تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد وہ لڑی کمزور ہوگئی تھی سب اپنی زندگی میں مصروف تھے ایک دوسرے سے غافل لیکن ہر سال ان کی برسی کے موقعے پر سب ضرور جمع ہوتے تھے۔۔۔

     ____________________________

وہ گھر آکر خاموشی سے بی جان کے کمرے میں چلے گئی اور یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا

رامین پانی تو پلا دو۔۔اس نے لاونج میں بیٹھتے ہوئے اسے آواز لگائی 

خود پی لے آپ کام کے وقت میں یاد آتی ہوں اور سنتے میری ایک بھی نہیں ہیں آپ۔۔اس نے وہی کمرے سے جواب دیا تو وہ مسکرا دیا

اوہو مان جاؤ رامو۔۔

کبھی بھی نہیں بھائی آپ کیسے کسی کو ایسے بول سکتے ہیں آپ کو تو سمجھنا چاہیے تھا نا اسکو وہاں چھوڑ کے آگئے اب وہ اکیلی کہا جائے گی اسے مہرماہ کو اس طرح اکیلے چھوڑ کے آنا بلکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا

اف ایک اسکا ہمدرد دل ارمیز نے ماتھا پیٹا تھا 

اچھا باہر تو آؤ بات کرتے ہے اس پر اور یہ سن کے وہ فوراً اس کے پاس آکے بیٹھ گئی تھی 

آپ یہاں نہیں لاتے اسے پر کہیں اسکے لئے ارینج تو کر سکتے تھے نا رہنے کی جگہ لیکن نہیں آپ نے اسے گھر سے بھاگی ہوئی بول دیا بنا اسکی مجبوری جانے

دیکھوں چندا ہم کسی پر ایسے کیسے یقین کرلیں وہ تو بول رہی اسے کچھ یاد ہی نہیں تو کیا مدد کریں 

لیکن بھائی وہ اکیلی ہے اسکی سوئی وہی اٹکی ہوئی تھی

اچھا ٹھیک ہے کرتا ہوں کچھ اب جاؤ جا کر تیار ہوجاو ورنہ بی جان اور مما کی کال آجاۓ گی 

اوہو تھینک یو بھائی بس ابی آئی میں ریڈی ہوکر 

وہ خوشی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی

        _______________________

ڈاکٹر نے اسے ڈسچارج کردیا تھا لیکن وہ ابھی بھی وہی بیٹھی تھی پاؤں پر چوٹ لگی تھی مگر اتنی نہیں کہ وہ چل بھی نا سکے 

کہاں جاؤں میں یا اللّٰہ میری مدد کریں میں تو یہاں جانتی بھی نہیں کسی کو اس نے بےبسی سے خالی ہاتھوں کو دیکھا اور بے اختیار رو پڑی اور کر بھی کیا سکتی تھی ابھی اس سے پہلے وہ کچھ سوچتی واڈ بوائے نے آکر اسے باہر جانے کو بولا کیونکہ اب کمرہ چاہیے تھا انہیں اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے اور باہر آگئی دماغ ہی کام نہیں کر رہا تھا وہ وہی آگے لگی بینچ پر بیٹھ گئی آزان کی آواز پر اسنے آسمان کی طرف دیکھا اور ہاتھوں میں منہ چھپا کر بے اختیار رو دیپےا شکوہ خودبخود زبان پر آگئے

اسے بیٹھے بیٹھے کافی دیر ہوگئی تھی اب تو زخم بھی دکھنے لگے تھے لیکن اس کے پاس کوئی سہارا نہیں تھا

      __________________________

لاونج میں قرآن خوانی کا انتظام کیا گیا تھا سبھی مہمان وہی بیٹھے تھے آدمیوں کے لیے کام میں سیٹنگ کی گئی تھی 

بھابھی ارقم کہا ہے؟گھر کے سبھی موجود ہے اور وہ غائب ہے رومانہ نے عفت سے پوچھا 

مجھے نہیں پتا رومانہ کل ان سے کوئی بات ہوگئی تھی مجھے نہ انہوں نے وجہ بتائی نا ارقم نے صبح سے غائب ہے میں کیا بولوں اب بی جان بھی مجھ سے پوچھ چکی ہے 

ایک تو بی جان کو بھی ہر ایک بات کی ٹینشن ہے خود کے پوتا پوتی نانا کی برسی پر غائب ہیں 

تبھی باہر سے شور کی آواز آنے پر وہ سب ہی لان میں آئے تھے اور سامنے کا منظر دیکھ کر حیران تھے

پھٹی شرٹ ماتھے سے نکلتا خون وہ حال سے بے حال تھا دوستوں کے سہارے پر کھڑا تھا اور مسلسل گالیاں بک رہا تھا

ارقم کیا ہوا ہے بیٹا یہ سب کیسے لگی اتنا سب سے پہلے عفت ہی آگے آئی تھی

کیا ہونا ہے پھر آوارہ گردی کر کے آیا ہے اس کے پاس اور کوئی کام ہی کیا ہے نواب صاحب پھر مار دھاڑ کر کے آئے ہونگے حبیب صاحب نے اسے گھورتے ہوئے عفت کو سنایا

حبیب پلیز انہوں نے مہمانوں کی موجودگی کا احساس دلایا تو وہ بس ہنکار بھر کے رہ گئے

چلو ارقم اندر وہ اسکا ہاتھ تھام کے آگے بڑھی

نو مام میں کیوں جاؤ بلکہ آپ میرا ہاتھ میں بھی تو دیکھوں کتنی ہمت ہے ان لوگوں میں

وہ پھر باہر جانے کو تھا تبھی اسکے دوستوں نے زبردستی اسے پکڑا 

ارقم تماشا نہیں کرو علی فواد پلیز اسے لے کر روم میں جاو میں آتی ہوں 

اسے روم میں بھیج کر سب سے معزرت کرتی اپر گئی تھیں جہاں پہنچ کر انہیں ایک اور جھٹکا لگا تھا 

وہ مزے سے بیڈ پر لیٹا کانوں میں ہیڈ فون لگائے مست مگن تھا نیچے دیکھانے والا غصہ تو بلکل ہی غائب تھا اور خون وہ بھی صاف تھا

یہ سب کیا تماشا تھا ارقم تمہیں تو کہیں چوٹ نہیں لگی؟؟

اسے کہتے ہیں ایکٹنگ مام ایکٹنگ کیسی لگا میرا شاندار کھیل وہ ہنستے ہوئے ان سے پوچھ رہا تھا جو یہ سب دیکھ کر ہی جل گئی تھی ملتا اتنا تماشا اس نے جان کر لگایا تھا۔

اب سب کو پتا چلے گا ارقم کاظمی کتنا پیارا بچہ ہے اپنی بات پر اس نے خود ہی قہقہ لگایا تھا جیسے کوئی بہت اچھی بات کہی ہو ۔

تو یہ تو طے تھا ارقم کاظمی کبھی نہیں سدھرے گا

     ____________________________

اسکا کچھ نہیں ہوسکتا ناٹک باز ارمیز جو رامین کے ساتھ کاظمی ہاؤس آیا تھا سارا تماشا دیکھ رہا تھا اور اب اس کے منہ سے یہی نکلا تھا

بھائی وہ پٹ کر آیا ہے رامین کو برا لگا تھا کہ بھائی فوراً سے جج کرلیتے ہیں 

تمہیں لگتا ہے رامین وہ کسی سے پٹ سکتا ہے ماموں کو ٹارچر کرنے کے بہانے ہے بس 

افف میں جارہی اندر آپ بھی بس پتا نہیں کیا سوچتے ہیں

لیکن اندر آتے ہی اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا اور وجہ تھی دانیہ اویس پتا نہیں کیوں لیکن ان دونوں کی کبھی نہیں بنی دانیہ اسے ہمیشہ ہی نیچا دیکھاتی آئی تھی پتا نہیں کس بات کا غرور تھا وہ جاکر سیدھا اپنی جگہ پر بیٹھی تھی 

تبھی بی جان نے اس سے مہرماہ کے بارے میں پوچھا تھا اور اس نے بھی بہت مزے سے بھائی کی شکایت لگائی تھی کیونکہ بی جان کے آگے تو بھائی ایک لفظ نہیں بولتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہوا سب کے جانے کے بعد ارمیز کی کلاس لی گئی اور مہرماہ کو گھر لانے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ بس صبر ہی کرسکتا تھا اپنی جذباتی فیملی پر

      ____________________________

وہ کب سے ایک ہی جگہ بیٹھی تھی چہرے کو چادر کی مدد سے کور کیا ہوا تھا لیکن ہر آتے جاتے انسان کی نظر خود پر محسوس کر وہ بری طرح گھبرا رہی تھی شام اب رات میں ڈھلنے لگی تھی 

اسنے چادر میں بندھے پیسے دیکھے کتنی عجیب بات تھی پیسے تھے لیکن رہنے کے لیے ٹھکانہ نہیں تھا اس نے چادر کے کونے سے آنکھیں صاف کی اب تو آنکھیں بھی رونے سے انکاری تھیں اسے نہیں یاد پڑتا تھا کے وہ کبھی روئی ہو اور اب ان تین دنوں میں وہ پوری زندگی بھر کا رو لی تھی

ہاسپٹل کا چوکیدار بار بار اسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا یہاں بیٹھے رہنا اسکی مجبوری تھی کیونکہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ رہ سکے 

اجنبی شہر انجانے لوگ وہ اپنے سے دور بھٹک رہی تھی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کیا کرے سارے دروازے ایک ساتھ ہی بند ہوگئے تھے لیکن انسان اس بات سے انجان ہوتا ہے کہ اگر اللّٰہ ایک در بند کرتا ہے تو دوسرا در لازمی کھولتا ہے

ہاں بھئی میڈم جی کس کے ساتھ ہو؟؟چوکیدار کی آواز پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں بولنے کو تھا ہی کیا

میڈم جی ایسے یہاں نہیں رک سکتی گھر جاؤ فضول میں ہمیں بھی ڈانٹ پڑوانی ہے 

وہ میں

کیا میں؟ کوئی اندر ہے کیا رشتےدار 

نہیں ایک لفظی جواب

تو بس جاؤ اور جگہ خالی کرو رش نہیں لگاؤ اب نظر نہیں آنا وہ چوکیدار کچھ زیادہ ہی بے حس تھا شاید جو اسکے آنسوؤں پر بھی رحم نہیں آیا وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ گئی اور دماغ میں اب یہی تھا زندگی اب یہی ختم ہاسپٹل سے نکل کر وہ سیدھ میں ہی چلتی رہی کہ اچانک اسے اپنے پیچھے کچھ لوگوں کے چلنے کی آواز آئی 

وہ چار لوگ تھے جن کے منہ پر نقاب تھے اور آنکھوں میں ہرس یعنی ایک بات پھر زندگی اسے یہ سب دیکھانا چاہتی تھی 

لیکن نہیں اسنے سوچ لیا تھا مر جائے گئی اپنی عصمت پر ایک حرف نہیں آنے دے گی یہ سوچتے ہی اسنے بھا گنا شروع کردیا 

وہ لوگ اس کے پیچھے ہی آرہے تھے اس میں ہمت نہیں تھی کہ بھاگ سکتی جلد ہی ان کی گرفت میں آگئی 

نہیں دیکھوں نہیں نہیں کرو دیکھو ہاتھ جوڑتی ہوں اللّٰہ کا واسطہ نہیں کرو وہ روتے ہوئے گڑگڑا رہی تھی لیکن وہاں سننے والا کوئی نہیں تھا 

اس نے اپنی طرف بڑھتے ایک آدمی کو زور دار تھپڑ مارا تھا

دور رہو مجھ سے بلکل دور وہ خوف سے سفید پڑ گئی تھی اور اس وقت اس نے اللہ کو مدد کے لیے پکارا تھا

تبھی کچھ دور سے پولیس سائیرن کی آواز آئی اور وہ بغیرت بزدل بھاگ گئے

وہ ہمت کر کے اٹھی وہ خوف سے کانپ رہی تھی کیا تھی یہ زلت بھری زندگی وہ بیچ روڈ پر جا کر کھڑی ہوگئی اب ایسے تو بس ایسے ہی سہی تبھی اسپیڈ میں آتی ایک کار اس سے ٹکرائی تھی

کہا جارہے ہو اس وقت ارقم؟ وہ جو مگن سا سیٹی بجاتا ہاتھ میں گاڑی کی چابی گھماتا باہر کی طرف جارہا تھا عفت بیگم کی آواز پر اس کے چہرے پر ناگواری آئی تھی

کیا مطلب کہا جارہا ہوں؟؟مام پہلے کبھی بتا کر گیا ہوں آپ کو؟؟تو اس سوال کا مطلب؟

ارقم تمہارے ڈیڈ جاگ رہے ہیں تمہارا پوچھے گے تو کیا بولوں گی میں آج والی حرکت پر وہ آلریڈی بہت غصہ ہیں تم پر اب پھر تم انہیں موقع دے رہے کہ وہ تم پر غصہ کریں 

انہیں آتا بھی کیا ہے غصے کے علاوہ تمام یتیموں مسکینوں کے لئے ہے ان کا پیار بس خیر مام بول دینا کچھ بھی سچ جھوٹ اور پلیز نو مور ڈسکشن موڈ خراب مت کرو یار میرا بائے یہ کہہ کر روکا نہیں تھا وہ 

عفت جو پانی لینے باہر آئی تھی اسے باہر جاتا دیکھ پوچھ بیٹھی تھی 

اللّٰہ جانے کب ان دونوں کے بیچ سب ٹھیک ہوگا وہ سوچ کر رہ گئی

ارقم بچپن سے ہی اپنی دادو سے زیادہ اٹیچڈ تھا ان کے انتقال کے بعد وہ ایک دم اکیلا ہوگیا تھا حبیب صاحب اپنے کام میں مگن رہتے اور عفت اپنی مصروفیات میں اس کے لیے کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں تھا اس کے لیے ارمیز کی زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی کیونکہ وہ ایک ذہین بچہ تھا جبکہ ارقم کا دل اٹھ گیا تھا پڑھائی سے اسے لگتا کہ اس کے مقابلے میں گھر کا ہر بچہ ہی سب کا پسندیدہ ہے اس لئے وہ اور سب سے دور ہوگیا اور اس اکیلے پن کو دور کونے کے لئے وہ اسکول کے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگا وہ بگڑے بچے اسے بھی بگاڑ رہے تھے آئے دن لڑائی جھگڑے تماشے حبیب صاحب پریشان ہوگئے تھے روز اسکول سے کال روز کی شکایات جاوید صاحب سے مشورہ کر کے اسے بورڈنگ اسکول بھیجنا کا فیصلہ ہوا 

ارقم یہ سن کر بہت چیخا چلایا لیکن اسے زبردستی وہاں بھیج دیا گیا اور وہ دل میں ڈھیروں بدگمانی لے کر چلا گیا جو وقت کے ساتھ اور بڑھتی گئی اور وہ جب واپس آیا تو دل سے ہر احساس ختم کر کے آیا تھا ایک بے حس بن کو آیا تھا وہ۔۔

       ________________________

وہ دونوں اس وقت ہاسپٹل میں تھے لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ مہرماہ ہاسپٹل میں نہیں ہے وہاں باہر ایریا میں بیٹھے لوگوں سے بھی ارمیز نے پوچھا تو انہوں نے یہی بتایا کہ کافی دیر سے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی کچھ وقت پہلے ہی گئی ہے یہاں سے

اللّٰہ بھائی وہ کہاں چلے گئی اکیلے وہ بھی رامین نے پریشانی سے اسے کہا 

میں بھی تو تمہارے ساتھ ہی آیا ہوں نا یہاں مجھے کیا پتا کہا گئی 

تو ڈھونڈتے ہیں نا اسے بھائی 

ہمم تم یہی روکوں میں دیکھتا ہوں یہی کہی ہوگی جائے گی کہا

ہمم جائے۔۔

اور پھر ارمیز نے ہاسپٹل میں ہر جگہ ڈھونڈا اسے لیکن وہ ہوتی تو ملتی نا تبھی وہ دونوں ہاسپٹل سے نکل گئے تھے اب اسے روڈ پر ڈھونڈنا تھا لیکن ہاسپٹل کے باہر بھی وہ کہیں نہیں تھی  

گھر چلتے ہیں رامین ہو سکتا ہے اسے اپنا گھر یاد آگیا ہو اور وہ چلے گئی ہو

نہیں بھائی مجھے لگتا ہے وہ کسی پروبلم میں نا ہو 

ہمم چلو ابھی گھر میں معلوم کرواتا ہوں کچھ تو پتا چل ہی جائے گا

       ______________________

وہ فل اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا فل میوزک آن تھا وہ ساتھ ساتھ کوک بھی پی رہا تھا جیسے بہت خوش ہو کہ اچانک کوئی روڈ کے بیچ کھڑا نظر آیا اسپیڈ کنٹرول کرنے کے چکر میں گاڑی بری طرح ڈسبیلنس ہوئی تھی وہ تو شکر تھا کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا 

وہ بپھرا شیر بنا گاڑی سے اتر کر اس تک آیا تھا جو گاڑی دیکھ کر ایک دم پیچھے ہوئی تھی تو لڑکھڑا کر گری تھی

اوے پاگل واگل ہوکیا دماغ خراب ہے کیا بیچ روڈ پر تفریح کرنے آئی ہو

تم سے بات کر رہا ہوں اوئے اتنا شوق ہے مرنے کا تو زہر کھا کر مرجاؤ دوسروں کو کیوں پریشان کر رہی ہوں 

اوو ہیلو میڈم تم سے بات کررہا ہوں میں وہ جو اسکی ڈانٹ پر مسلسل روڈ کو گھورے جارہی تھی اسے صحیح معنوں میں غصہ دلا گئی تھی تبھی ایک جھٹکے سے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیا تھا  اور وہ جو ماؤف دماغ کے ساتھ سن بیٹھی اس کی بات سن رہی تھی اس کے ہاتھ لگانے پر ایک دم پھڑکی تھی اسے پیچھے دھکا دے کر ہاتھ چھڑایا تھا

دور رہو مجھ سے ہاتھ کیسے لگایا ہاں مفت کا مال سمجھا ہے جینا حرام کر کے رکھ دیا ہے سکون سے مرنے دیتے ہو نا جینے بولو اور اب باپ بن کر آگئے جو سنا رہے مجھے تم سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہوں لڑکی دیکھی نہیں آگئے میں بولتی ہوں میں ہی کیوں کیا بگاڑا ہے میں نے میرے ہی پیچھے پڑ گیا ہے ہر کوئی اتنے دنوں کا لاوا تھا جو الفاظ کی صورت باہر آرہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ بول کیا رہی ہے

وہ جو ہکابکا اس کی بات سن رہا تھا فوراً طیش میں آیا مطلب الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

اووو اووو میڈم آرام سے گاڑی کے آگے تم تھی میرے اور مجھے ہی سنا رہی ہوں اتنا مرنے کا شوق چڑھا ہے تو جاؤ آگے پل ہے اس پر چڑھ کر چھلانگ لگا لو میری گاڑی کیوں خراب کر رہی ہوں مر جاتی تو جیل تو مجھے ہوتی نا خود تو جہنم کی آگ میں سکون سے رہتی

ہیںںںں جہنم میں جاؤ تم مری تو نہیں نا تمہاری گاڑی سے تو اب دفاع ہوجاؤ اور جان چھوڑو میری اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے

ارے ہٹو تم دفاع ہو مرنے کا شوق ہے تو ڈھنگ سے مرو مس مجھے مارو مرتی رہو مجھے کیا 

وہ ویسے ہی تن فن کرتا گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا

اور وہ وہی روڈ پر بیٹھ گئی دل کی بھڑاس نکال کر دل تھوڑا ہلکا ہوا تھا ایک گھٹن تھی جو اب کہیں نہیں تھی 

جاہل انسان بدتمیز ۔۔۔۔۔۔

اس نے اب اسے یہ الفاظ دیے تھے 

تبھی اس کے پاس ایک گاڑی آکر روکی تھی جس میں سے رامین نکل کر اس کی طرف آئی تھی تاکہ اسے گھر لے جا سکے

مہر تم یہاں کیا کر رہی ہو ہم کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے تھے چلو آجاؤ

رامین نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا 

مجھے آپ لوگوں کے ساتھ کہیں نہیں جانا اس نے اپنا ہاتھ رامین کے ہاتھ سے نکالا تھا

ارے مہر کیا ہوگیا پلیز اتنی رات کو تم کہا جاؤ گی گھر چلو

کیوں آپ تو مجھے جانتی تک نہیں ایسے کیسے مجھ پر بھروسہ کر رہی ہیں 

رامین نے حیرت سے اسے دیکھا کہا وہ صبح سے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اور اب

رامین جلدی آجاؤ کب تک یوں روڈ پر کھڑے رہنا ہے ارمیز جو گاڑی میں بیٹھا رامین کو اس سے باتیں کرتے دیکھ بولا 

بھائی وہ نہیں آرہی 

کیا مصیبت ہے اب؟ہٹو میں دیکھتا ہوں 

بھائی پلیز غصہ نہیں کرنا

دیکھوں لڑکی میرے پاس فضول ٹائم نہیں ہے جا کر گاڑی میں بیٹھو گھر چل کر بولنا جتنا بولنا ہے پورا موقع دونگا بولنے کا یہ کہہ کر وہ گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا رامین نے اسکے پیچھلا دروازہ کھولا تو وہ ہچکچاتے ہوئے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی کیونکہ فلحال کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اس کے پاس….

       ________________________

اپیا آج بھائی نے ویسے اچھا تماشا لگایا ڈیڈ کا بس چلتا تو بھائی کو مارنا شروع ہوجاتے تمہیں کیا لگتا ہے بھائی نے جان کر کیا ہے نا یہ آنیہ نے آج ہوئے واقع پر ثانیہ سے رائے مانگی 

آنیہ وہ ارقم ہے اور وہ کوئی چیز بلاوجہ نہیں کرتا ضرور ڈیڈ کو غصہ دلانے کے لیے ہی کیا ہوگا اس نے

ہمم بات تو ٹھیک ہے آپکی ویسے ارمیز بھائی کو دیکھا آپ نے دن بادن ہینڈسم ہوتے جارہے ہیں

مجھے نہیں پتا میں نے نہیں دیکھا 

وہ شروع سے ہی ارمیز کے لیے فیلنگز رکھتی تھی اور یہ بات صرف آنیہ کو ہی پتا تھی 

اپیا تم بتا کیوں نہیں دیتی انہیں یا میں بات کروں

پاگل ہو کیا مما کو پتا چلا تو بہت غصہ ہونگی اور ارقم اسے بھی تو پسند نہیں ارمیز 

ہمم یہ تو ہے لیکن ایسے چپ رہ کر کیا ہوگا؟کبھی نا کبھی تو بتانا پڑے گا نا

نہیں میں نہیں بتاؤنگی کبھی بھی 

اپیا آر یو میڈ؟؟؟ بتاؤ گی نہیں تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟

مجھے نہیں پتا اور پلیز اب سوجاؤ اس ٹاپک کو ختم کرو 

اپیا آپ پانچ سال سے ان کے لیے فیلنگز رکھتی ہو اور اب بول رہی ہو کہ کبھی نہیں بتاؤ گی تو فائدہ کیا ہوا اس سب کا

مجھے نہیں پتا بس اب تنگ نہیں کرو 

آپ ہمیشہ دامن نہیں چھڑا سکتی اپنا ایک نا ایک دن بتانا ہوگا آپ کو 

سوجاؤ آنی پلیز اور لائٹ آف کردو یہ بول کر ثانیہ نے منہ پر چادر بلینکٹ ڈال لیا

اور وہ سب گھور کے ہی رہ گئی لائٹ آف کر کے وہ اپنی جگہ پر آگئی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی 

تبھی اسکا دھیان اپنے موبائل پر گیا شام سے اس نے موبائل دیکھا ہی نہیں تھا اب دیکھا تو ان نان نمبر سے میسجز آئے ہوئے تھے اس نے سارے میسج بنا پڑھے ڈیلیٹ کئے کچھ دنوں سے اسے یہ انسان بہت تنگ کردہا تھا پہلے تو وہ گھبرا گئی تھی لیکن اب وہ اسے رسپانس نہیں دیتی تھی بلاک کرنا بے کار تھا وہ پھر نئے نمبر سے میسج کردیتا تھا 

اللّٰہ جانے کون ہے اس کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ گہری نیند سو گئی۔۔۔

      __________________________

گاڑی روکی تو رامین نے ساتھ وہ باہر آئی گھر باہر سے بہت خوبصورت تھا گیٹ سے اندر آکر چھوٹا سا لان مین گیٹ پر پھیلی بوگن ویلیاں کی بیل چاروں طرف پھیلی رات کی رانی کی خوشبو محسور کن تھی 

آجاؤ مہر رامین نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور اندر کی طرف بڑھی ارمیز تو کب کا اندر جا چکا تھا

وہ اسے لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی تو سامنے ہی صوفہ پر ہاجرہ بیگم بیٹھی تھیں تو جبکہ بی جان کونے پر رکھے تخت پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی جیسے اسی کا انتظار کر ہی ہوں 

انہیں سب سے پہلے ہاجرہ نے دیکھا تھا  

امی یہ ہے مہر 

اور مہر یہ ہیں میری اماں مما امی سب کچھ ہاجرہ بیگم رامین نے ہنستے ہوئے کہا تو ہاجرہ مسکرا دی 

اور یہ ہیں بی جان ہماری دادی 

اسلام وعلیکم

وعلیکم السلام بیٹا آجاؤ بیٹھو ہاجرہ بیگم نے اسے اپنے برابر میں جگہ دی تو وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی

رامین جاؤ بیٹا فرسٹ ایڈ باکس لاؤ اور پانی بھی دیکھو بینڈیج کتنی خراب ہوگئی ہے

اور بیٹا آپ آرام سے ریلیکس ہو کر بیٹھو اب وہ مہر سے مخاطب تھیں 

اور ہاں رامین بچی کے لیے کھانا بھی نکال کے لانا

اوکے باس ابھی لاتی ہوں رامین کچن میں گئی تو وہ مہر سے مخاطب ہوئی تھیں 

بیٹا آجاؤ آپ ہاتھ منہ دھو لو آجاؤ وہ اسے ساتھ لے کر ایک روم میں گئی جہاں وہ فریش ہوئی اور پھر آکر کھانا کھایا دل نہیں کرہا تھا اس کا کچھ بھی کھانے کا لیکن انہیں برا نا لگے اس لئے اسنے زبردستی تھوڑا بہت کھانا کھایا تھا اور اب وہ بی جان کے روم میں بیٹھی تھی 

مہر بیٹا دیکھو میں بات کو گول گول نہیں گھماؤ گئی صاف سیدھی بات کرونگی ارمیز تمہیں یہاں نہیں لانا چاہتا تھا ظاہر ہے ایک انجان لڑکی کو گھر میں لانا اس کے نزدیک بے وقوفی ہے لیکن رامین نے بتایا ہمیں کہ تمہیں نہیں پتا تمہارا گھر کہا ہے تو بیٹا جب تک گھر کا نہیں بتاؤ گی تو ہم کیسے تمہیں تمہارے گھر والوں تک پہنچائے گے؟ جب تک آپ ہمیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاؤ گی تو ہمیں کیسے پتا چلے گا 

بی جان نے اسکا پیار سے ہاتھ تھاما تھا 

اور وہ عجیب کشمکش میں تھی گھر کا بتاتی تو ایک بار پھر وہی سب برداشت کرنا پڑتا نہیں بتاتی تو رہنے کے لیے جو چھت مل رہی تھی وہ چھین جاتی اس نے بے دردی سے اپنے ہونٹ کاٹے تھے

دیکھوں بیٹا میرا پوتا وکیل ہے وہ ہر کسی پر بھروسہ نہیں کرتا اگر وہ یہاں تمہیں لے کر آیا ہے تو رامین کی ضد اور میری ڈانٹ کی وجہ سے کم از کم مجھے تو تم پتا سکتی نا بیٹا 

جی میں وہ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا بولے

اچھا ایک کام کرتے ہیں ابھی آپ آرام کرو ہم اس بارے میں صبح بات کرینگے ٹھیک ہے نا بی جان 

اسے کشمکش میں دیکھ ہاجرہ بیگم بولی تھی اور بی جان کو اشارہ کیا 

ہمم ٹھیک ہے جاؤ بیٹا آپ آرام کرو 

اسے رامین کے کمرے میں چھوڑ کر ہاجرہ بیگم چلی گئی رامین اس وقت سونے کی تیاری کر رہی تھی

لا مجھے تو لگا لمبی میٹنگ ہوگی لیکن تم تو اتنی جلدی آگئی 

جی 

ہمم ایک کام کرو مہر تم چینج کرلو اس سوٹ میں الجھن ہورہی ہوگی اس نے اپنے سوٹ کو دیکھا جو اب میلا ہوگیا تھا 

پھر رامین کے دئیے سوٹ کو پہن کر اب وہ اسکے برابر میں لیٹی تھی رامین تو کب کی سو چکی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا کرے کیا نا کرے 

ان لوگوں سے جھوٹ وہ بولنا نہیں چاہتی تھی اور سچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر ایک کرب سا تھا 

واپس وہ کسی صورت نہیں جا سکتی تھی تبھی  ارمیز کی کہی باتیں یاد آئی جو کچھ دیر قبل اس نے کی تھی 

وہ رامین کے کمرے میں آیا تھا اس سے بات کرنے

اور اب اس کے سامنے بیٹھا اس سے مخاطب تھا 

تو مہرماہ تم نے بی جان کو کچھ نہیں بتایا کیوں؟ وجہ جان سکتا ہوں میں؟؟تمہاری چپ سے کیا مطلب اخذ کروں میں؟ 

دیکھوں مہر ہم سیدھے سادے لوگ ہیں کسی بھی طرح کی چالاکی اور جھوٹ سے پاک ہمیں بی جان اور مما نے سچ بولنا سیکھایا ہے ایک سچ کو چھپانے کے لئے تمہیں کئی جھوٹ بولنے پڑے گے اور پھر سچ سامنے آنے پر تم سب کا بھروسہ کھو دوگی میں حق میں نہیں تھا کہ تم یہاں آؤ کیونکہ تمہاری چپ میں کیا چھپا ہے میں نہیں جانتا میں مجبور تھا کیونکہ میری بہن کو تمہاری پرواہ ہے وہ ایسی ہی ہے فوراً بھروسہ کرلیتی ہے تمہارے ایک جھوٹ سے اسکا بھروسہ لوگوں پر سے اٹھ سکتا ہے اس لیے میں چاہتا ہوں تم ہمیں سچ بتاؤ جو بھی ہے اچھا برا سمجھ رہی ہو نا؟

اس کی اتنی لمبی بات پر اس نے بس ہاں میں سر ہلایا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا 

ٹھیک ہے پھر امید کرتا ہوں تم ہم پر اعتماد کرو گی

جی اس کے جانے کے بعد وہ اپنے اوپر گزرے واقعہ کو سوچنے لگی 

آنکھوں میں گزے وقت کی یادیں ایک فلم کی طرح چل رہی تھی سوچتے سوچتے وہ ماضی میں کہیں کھو گئی تھی جہاں ہر وقت خوشی ہی خوشی تھی

اس نے آنکھیں بند کی تو سامنے اماں کے بھائ کے چہرے سامنے آگئے ایک آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے بالوں میں گم ہوا تھا 

یہ منظر حیدرآباد کے ایک محلے کا تھا جہاں ابرار احمد اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے اللّٰہ نے انہیں ایک ہی اولاد سے نوازہ تھا مزید اولاد کی خواہش چھوڑ کر انہوں نے اللّٰہ کے فیصلے کے آگے سر جھکایا تھا نماز روزے کے پابند وہ ہمیشہ دعا میں اپنی اولاد کی بھلائی ہی مانگتے تھے اسکی کامیابی کی۔۔۔

سلطان احمد اکلوتا تھا خوبصورت تھا اسی بات کا غرور تھا پڑھائی میں دل نہیں لگا تو باپ نے ہنر سیکھانے کے مختلف جگہ کام پر لگایا لیکن سلطان کو یہ گوارا ہی کہا تھا کہ وہ کسی کی چاکری کرے اس لئے ہر جگہ سے لڑ جھگڑ کے نکل جاتے پھر بہت ہی مشکل سے ایک جگہ کام پر ٹک گئے تو اماں کو ان کی شادی کی پڑ گئی اور سلطان کی مرضی کے بغیر اس کی شادی اپنی بھانجی سے طے کردی 

سلطان کو پتا چلا تو واویلا تو خوب مچایا لیکن ماں کے آنسوؤں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور یوں امینہ ان کی شریک حیات بن کر اس گھر میں آئی خوبصورت نقوش سانولی رنگت 

سلطان نے شروع میں بہت ناک منہ چڑھایا لیکن پھر سمجھوتا کر ہی لیا کیونکہ امینہ کو کچھ بولنا اماں کو ناراض کرنا تھا شادی کے بعد ویسے بھی اب وہ ذمہ دار بننے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ اب کچھ ہوتا تو ابا گھر سے نکال دیتے اس لئے خاموشی سے زندگی گزار رہا تھا 

شادی کے تین سال تک اولاد نہیں ہوئی تو وہ دوسری شادی کی خواہش کرنے لگا لیکن صرف دل میں ابا کے ہوتے ہوئے ایسا کوئی قدم وہ اٹھا نہیں سکتا تھا 

کام کرنے کا دل نہیں کرتا تھا لیکن اس وہی ابا کاڈر ابا کی وجہ سے بہت کچھ سیکھ تو گیا تھا جبھی کما بھی رہا تھا ابا کی پینشن آتی تھی ہر مہینے پھر امینہ بھی سلائی کرتی تھی 

شادی کے پانچویں سال اللّٰہ تعالیٰ نے امینہ کی سنی اور اسے اپنی رحمت سے نوازہ

وہ گول مٹول پیاری سی بچی جس نے نین نقش سارے باپ کے چرائے تھے تو رنگت اپنی ماں کی گندمی رنگت معصوم بھولا بھالا چہرہ دل کرتا۔ بس پیار ہی کرتے رہو 

لیکن سلطان نے اسے دیکھا تک ہی کیونکہ اسے تو بیٹا چاہئے تھا گھر میں رہتا تو ابا اماں کو سنتا اس لئے کام کا بہانہ کر کے وہ کچھ دن کے لئے گھر سے ہی چلا گیا

آج وہ پورے ایک مہینے بعد گھر آیا تھا ابھی کمرے کے طرف بڑھا ہی تھا کہ ابرار صاحب کی آواز پر رکا

کہاں گئے تھے سلطان میاں؟ماں باپ کو بھول گئے تھے کیا جو رابطہ تک نہیں کیا

ابا کام کے سلسلے میں گیا تھا پاس کے گاؤں میں زمینوں پر کام تھا

ہمم ٹھیک کام تھا کیا کام اولاد سے زیادہ تھا کہ ایک جھلک تک نہیں دیکھی 

اسی کے لئے تو کما کر لایا ہوں ابا 

اس کی اس بات پر ابرار صاحب چپ ہوگئے تھے کہ چلو کچھ تو زمہ داری کا احساس ہوا 

وہ کمرے میں آیا تو امینہ اسے گود میں لئے بیٹھی تھی اس کو دیکھ کر خوشی سے اس کی طرف بڑھی تھی 

اور اپنی بیٹی کا چہرہ اسے دیکھایا وہ معصوم آنکھیں کھولے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی سلطان نے جھک کر اسے پیار کیا اور سونے کے لئے لیٹ گیا

اس کا نام رکھنے کے لیے بھی اماں اور دادی میں بڑی بحث ہوئی تھی دادی کا کہنا تھا کہ وہ پورے چاند والے دن ہوئی ہے تو نام چاندنی،چندہ یا ماہ کامل رکھو جبکہ اماں کو اسکا نام مہر النساء رکھنا تھا کیونکہ ان کی مرحومہ اماں کا نام زیب۔ النساء تھا دونوں ساس بہو کی یہ تکرار ابرار صاحب نے سنی تو دونوں کو خوش رکھنے کے لئے اسکا نام رکھا

" مہرماہ سلطان"

اسکی پیدائش کے بعد اللّٰہ نے امینہ اور سلطان کو دو اور بیٹوں سے نوازہ تھا۔۔

      ________________________

مہر ارے اوو مہر کہا رہ گئی بچے جلدی سے اجا ناشتہ ٹھنڈا ہورہا ہے سارا امینہ اس وقت کچن میں اس کے لئے ناشتہ بنا رہی تھی 

اہو اماں آرہی ہوں نا تیار تو ہونے دے وہ سیڑھیاں اتر کر جلدی جلدی میں نیچے آئی تھی سفید کالج کے یونیفارم میں بالوں کی چوٹی بنائے آنکھوں میں کاجل۔۔ ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چادر

 آجا نا بچے ٹھنڈا ناشتہ مزہ نہیں دیتا۔۔۔

وہ اپنا سامان وہی رکھ کر تخت پر آکر بیٹھ گئی 

دادی آج ابھی تک سو رہی ہو خیریت تو ہے نا 

اس نے پلنگ پر لیٹی دادی کو ہلایا تو انہوں نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا یعنی ناراضگی کا بھرپور اظہار..

ہائے اماں کیا بولا ہے میری دادی کو آپ نے ہاں دیکھوں کیسے ناراض لیٹی ہیں 

ارے میں کیا بولوں گی اماں کو پتا نہیں صبح سے ایسے ہی لیٹی ہیں میں نے اٹھایا تو منع کر دیا 

دادی اماں کیوں ناراض ہیں بھئی اس نے ان کے اوپر سے چادر اٹھائی تھی

ہٹ جا پرے مہرو تنگ نہیں کر 

اووو بھئی ناراض کیوں ہیں میں نے کیا کیا ہے 

مجھے نہیں پتا تو خود سوچ کیا کیا ہے دادی بڈھی ہوگئی تو پاگل بناتے ہیں سب ہٹ بات نہیں کر

اوو تیری خیر اس نے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا 

اماں نے اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے

اماں دادی نے کل مالش کرنے کا بولا تھا اور میں ابھی آئی کہہ کر گئی تھی اور بھول گئی۔۔

مہرو حد کرتی ہو بیٹا پتا بھی ہے نا اماں کا اب جاؤ مناؤ

مناؤ ھی ابھی نہیں کالج سے آکر کیونکہ ابھی دیر ہورہی ہے ابھی ناراض رہنے دیں منانے میں مزہ آئے گا اپنی زلیخا بی بی کو 

اس نے شرارت سے کہا تو امینہ نے ہنس کر اس کے سر پر بہت لگائی 

گھر سے نکلی تو سامنے والے ابا کو سلام کیا ان کی خیریت پوچھی دونوں چھوٹے بھائیوں کو اسکول چھوڑ کر کالج گئی 

وہ ہر ایک کی لاڈلی تھی ذہین بہت تھی ہر کلاس میں اول آتی تو دادا تو مانو ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے تھے گھر اسکی شرارتوں سے گونج اٹھتا تھا وہ دادا کے ساتھ مل کر دادی کی بہت تنگ کرتی تھی لیکن پھر دادا کا انتقال ہوگیا تو وہ دادی کے قریب ہوگئی دادا کے بعد سے دادی اکثر اداس ہی رہتی تھیں وہ اپنے طریقے سے پوری کوشش کرتی تھی کہ دادی اداس نا ہوں علی اور حارث جڑواں تھے دونوں کی آپس میں ہی کھچڑی پکتی رہتی تھی ان کو کسی سے لینا دینا ہی نہیں تھا اماں تو اسے چڑیا بولتی تھی کیونکہ وہ ہر پل چہچہاتی رہتی تھی۔۔۔ 

     ________________________

آپا سائن کردو۔۔۔علی نے اسکے آگے ایک پیپر رکھا تھا 

کیا ہے یہ؟اس نے علی کو دیکھا تھا

آپا ٹیسٹ پیپر ہے اتنا بھی نہیں پتا 13 سالہ علی نے اپنا سر پیٹا تھا

اوئے بھالو یہ تو مجھے بھی پتا ہے میں پوچھ رہی میں کیا کروں اسکا

اماں آپا کے کان میں میل بھر گیا ہے تھوڑا تیل تو ڈال دو اس بار آواز حارث کی طرف سے آئی تھی

کچھ زیادہ ہی نہیں بول کر تم دونوں آج ہاں اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے تھے

تو بھئی ابھی علی نے بولا تو سائن کردو پھر بھی کیا ہے کیوں ہے بولے جارہی حارث نے منہ بنایا تو اس نے تیوری چڑھائی 

بہت بولنا آگیا ہے تم دونوں کو 

ہاں نا کیا کریں جیسی بہن ویسے بھائی 

علی اس نے علی کو گھورا تو وہ فوراً اس کے پاس آیا تھا دونوں بازو اس کے گلے میں ڈالے تھے 

پیاری آپا یہ ہے ٹیسٹ پیپر اور اس کے نیچے لکھا ہے والد کے دستخط تو ابا تو ہمارے لاپتہ ہیں کب آئے کیا پتا تو تم ہی کردو نا 

ہمم کرتی ہوں ویسے پڑھائی کیسی جارہی ہے 

بہت بہترین ان دونوں کے کورس میں کہا تو وہ ہنس دی

سلطان نے عرصہ ہوا کام چھوڑ دیا تھا ہر وقت دوستوں میں رہتا تو ابا نے گھر سے ہی نکال دیا ان کے انتقال کے بعد اسکا پاؤں پھر کھل گیا اور وہ گھر آنے لگا گھر آکر بچوں سے پیار جتاتا چیزیں دلاتا اور کچھ دن رہ کر پھر غائب اب تو وہ لوگ بھی عادی ہوگئے تھے 

آپا ابا اب جب آئینگے تو کیا لائینگے ہمارے لئے وہ دونوں اب اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے تھے 

میرے لئے تو ابا گاڑی لائینگے میں نے منگوائی ہے اور حارث نے ابا کو بولا ہے ٹرین جو تیمور کے پاس تھی 

ہاں آپا تیمور کے ابا تو کراچی سے بہت سامان لاتے ہیں تم بھی جاؤ نا کراچی پڑھنے آپا پھر وہاں سے ہمارے لئے سامان لانا 

وہ ان دونوں کی باتوں پر ہنس دی 

پاگلوں میں پڑھنے جاؤنگی اور وہ بھی تب جب ہمارے پاس بہت سارے پیسے ہوجائنگے 

لو آپا پھر تو تم یہی رہ کر پڑھ لو اماں کے پاس کبھی زیادہ پیسے ہونگے ہی نہیں 

اوئے اچھا اچھا سوچو اب کے ابا آئینگے نا تو میں انہیں بولوں گی وہ ضرور میری خواہش پوری کرینگے بس اب جلدی سے آجائے ابا اس نے تھوڑی پر اپنا ہاتھ ٹکایا اور اپنی سوچ میں ہی وہ کراچی آگئی تھی

نہیں جانتی تھی یہ خواب اسکا کتنے زخم دینے والا تھا اسے…

        ______________________

وہ کالج جانے کے لئے تیار ہورہی تھی لیکن پتا نہیں کیوں آج دل بہت اداس تھا تیار ہو کر وہ دادی کے پاس آکر بیٹھ گئی تو انہوں نے مہر کا سر اپنی گود میں رکھ لیا 

کیا ہوا دادو ابھی تک ناراض ہیں قسم سے میرے ذہن میں رہا 

ارے نہیں بچی میں کیوں ناراض ہونگی 

تو کل سے اتنی چپ چپ ہو اماں سے لڑ بھی نہیں رہی 

ارے کچھ نہیں لاڈو بس ایسے ہی تیرے دادا یاد آرہیں ہیں بہت 

کو بھئی اس میں ایسی کونسی نئی بات وہ تو روز یاد آتے ہیں نا آپ کو 

ہاں بچے لیکن مسلسل خواب میں آرہے ہیں بہت پریشان دیکھ رہے ہیں 

اہو دادی کچھ نہیں ہے ایسا بس خواب ہے موڈ ٹھیک کریں اور مسکرا کر دیکھائے

انہیں پیار سے اسکا ماتھا چوما تھا 

اللّٰہ تجھے ہر خوشی دے اور غم سے دور رکھے 

لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر دعا پوری ہو…

اس نے دادی کو گلے لگایا اور کالج کے لئے چلی گئی اور شاید یہ وقت اب نہیں آنا تھا واپس

کیا ہوا مہر ایسے چپ کیوں بیٹھی ہے الیشہ نے اسے چپ دیکھا تو پوچھے بغیر نہیں رہ سکی کیونکہ مہر اور چپ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا 

کچھ نہیں یار بس ایسے ہی دل بہت پریشان ہورہا ہے وہ دونوں اس وقت کالج کے کینٹین میں بیٹھی تھی 

اچھا کچھ کھائے گئی لاؤ کچھ ؟؟

نہیں میرے پاس پیسے نہیں ہیں بل باہر گراؤنڈ  میں چلتے ہیں یہاں دل گھبرا رہا ہے میرا 

اور پھر چھٹی تک اسکا دل پریشان ہی رہا 

گلی کے کونے پر پہنچ کر اسے کچھ غیر معمولی پن کا احساس ہوا تھا سبھی لوگ گیٹ پر جمع تھے وہ بھاگتے ہوئے گھر میں گئی تھی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر وہ جہاں تھی وہی رہ گئی تھی سامنے پلنگ پر اسکی دادی سو رہی تھی اور ساری عورتیں جمع تھی ان کے اردگرد اماں دادی کے سرہانے بیٹھے رو رہی تھی

مہر آگئی کسی عورت نے اس دیکھ کر کہا تھا لیکن وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی اسکی دادی چلے گئی تھی انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس کا سائبان چھین گیا تھا وہ بے تحاشا رو دی تھی اماں سے لپٹ کر علی اور حارث بھی ایک طرف کھڑے رو رہے تھے اس نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگایا 

آپا دادی کیوں چلے گئی انہیں بولو نا واپس آجائیں ہم تنگ بھی نہیں کرینگے نہ انکا پاندان چھپائے گے ان سے پیسے بھی نہیں مانگے گے انکی آواز اسکا دل چیر رہی تھی اسے کچھ ہوش نہیں تھا دادی کو لوگ لے گئے تھے اماں کا واحد سہارا بھی چلا گیا تھا ابا کو خبر ہوئی تو وہ اسی وقت آئے اور سوئم کے بعد پھر غائب۔۔۔۔۔۔۔

گھر میں ویرانی کا راج تھا دادی کو گزے پندرہ دن ہوگئے تھے لیکن ان لوگوں کی آنکھیں خشک نہیں ہوئی تھی ہر تھوڑی دیر بعد وہ روتے تھے دادی کو یاد کر کے 

ہوش آنے پر اسنے سب سے پہلے حارث اور علی کو اسکول بھیجا تھا گھر میں۔ رہتے تو اور دکھی ہوتے ایسے دل اور دماغ تو مصروف ہوتے اماں کو بھی الجھا کر رکھتی کیونکہ اب اسے ہی بڑا بنننا تھا الیشہ کے کہنے پر وہ کالج بھی جانے لگی تھی امتحان سر پر تھے تیاری میں مصروف وہ دو مہینے کیسے گزرے پتا ہی نہیں چلا۔۔۔

وہ سب اس وقت صحن میں بیٹھے تھے تبھی دروازے بجا 

آنے والی شخصیت اسکے ابا تھے ایک بار پھر رویا گیا تھا دادی کی یاد میں ابا سب کے لیے سامان لائے 

مہر پتر بتا میں تیرے لئے کیا لایا ہوں انہوں نے مہر کو مخاطب کیا تھا 

کیا لائے ہو ابا اس بار وہ مسکرا کر سلطان کے پاس آبیٹھی 

اس کے ہاتھ میں کوئی پیپر تھا 

کیا ہے یہ ابا اس کاغذ پر ڈگری کالجوں کے نام دیکھ کر وہ حیرت میں تھی 

بتاتا ہوں پہلے یہ بتا کراچی جائے گی پڑھنے؟

ہیں ابا۔۔۔وہ حیران تھی ابا کیا پوچھ رہے تھے 

بتا جائے گی 

ہاں نا ابا جاؤنگی نا لیکن ابا وہاں کی پڑھائی تو بہت مہنگی ہے نا 

کوئی مہنگی نہیں ہے میرا ایک دوست ہے کراچی میں اس سے بات کی ہے تیری میں نے وہ راضی ہے 

ہیں سچ ابا اتنے دنوں بعد وہ پہلی بار دل سے خوش ہوئی تھی 

اماں دیکھو ابا کیا بول رہے میں شہر کا کر پڑھوں گی 

سلطان میری بیٹی کو وہ خواب مت دیکھاؤ جو پورے نہیں ہو سکتے اور مہر اٹھاؤ یہ سامان اور اندر جاؤ 

اماں کا لہجہ اس نے شاید پہلی بار سنا تھا وہ حیران تھی کیونکہ یہ تو اماں کی بھی خواہش تھی 

اماں۔۔۔۔

مہر جاؤ اندر 

وہ سارا سامان اٹھا کر اندر گئی تو علی اور حارث بھی اس کے ساتھ ہی باہر گئے تھے

تو پاگل ہے امینہ بچی کو اداس کردیا 

جھوٹ پر یقین کر رہی تھی وہ میں نہیں چاہتی اسکا دل ٹوٹے 

کیوں ٹوٹے گا دل دوست سے بات ہوگئی ہے میری اپنی مہر وہی کراچی میں ہی رہے گئی اور تو اور وہ لوگ اسے پیسے بھی دینگے 

کیسے پیسے؟؟

ارے وہاں بہت امیر لوگ ہیں وہ پڑھاتے ہیں غریب بچوں کو اور وظیفہ بھی دیتے ہیں میں خود مل کر آیا ہوں وہاں 

جو بھی ہے مجھے نہیں بھیجنا اپنی بچی کو دور 

کیوں اماں کیوں نہیں بھیجنا؟؟؟وہ جو دروازے پر کھڑی سب سن رہی تھی آکر امینہ کے پیروں میں بیٹھی تھی اور دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے تھے

دیکھ اماں یہ میرا شوق ہے میں پڑھ لکھ جاؤ گی نوکری کرونگی تو اپنے علی اور حارث کا مستقبل اچھا ہوگا میرا خواب پورا ہو جائے گا 

امینہ راضی نہیں تھی لیکن اس کے ہونا پڑا ماں تھی بیٹی کی خوشی میں راضی۔۔۔۔۔

       _____________________

ہاں بشیر سب انتظام ہوگئے ہیں نا؟ یہاں سب ٹھیک ہے سلطان اس وقت فون پر اپنے دوست سے بات کر رہا تھا

ہاں ہاں پارٹی کل ٹائم پر پہنچ جائے گی بس تیری طرف سے کوئی مسئلہ نا ہو 

ارے نہیں ہوگا کوئی بھی مسئلہ تو پیسوں کا بتا کب تک دینگے 

کل اسی وقت پیسے مل جائینگے تجھے پورے پانچ لاکھ 

پانچ لاکھ۔۔۔ سلطان کے چہرے پر ایک مکرو مسکراہٹ آئی تھی اٹھارہ سال انتظار کیا تھا اس نے اس دن کا 

اگلے دن وہ مہر جانے کے لیے تیار تھے اماں نے اسے ایک الگ سے بیگ سی کر دیا تھا جس میں اسکے ڈاکومنٹس اور پیسے تھے اسے اس نے قمیض کے اندر کی سائیڈ پر باندھا تھا تاکہ چوری کا ڈر نا رہے مقررہ وقت پر وہ سب سے الواع کہہ کر آئی تھی نہیں جانتی تھی کہ اب یہ شکلیں دیکھنا نصیب ہوگا بھی کہ نہیں بس میں بیٹھنے کے بعد ابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا کہ خیال رکھنا تبھی ایک موٹی عورت اس کے ساتھ آکر بیٹھی تھی اسے اسی عورت کے ساتھ جانا تھا گاڑی چلنے کا اشارہ ہوا تو ابا اتر گئے 

اس نے کھڑکی سے سلطان کو دیکھا تھا جو کسی آدمی سے ایک تھیلا لے رہا تھا اور اب اس میں سے پیسے نکال کر گن رہا تھا اسے حیرت ہوئی تھے کہ ابا کو کون اتنے پیسے دے رہا لیکن پھر سفر کی خوشی میں وہ سب بھول بھال گئی۔۔۔۔

شام کے چھ بجے بس کراچی پہنچی تھی وہ حد سے زیادہ خوش تھی آخرکار خواب پورا ہونے جارہا تھا وہ عورت اسے اشارہ کر کے اتری تو وہ بھی اس نے ہمقدم ہوگئی سامنے ایک کار کھڑی تھی جو انہیں لینے آئی تھی ساتھ آئے آدمی نے اسکا سامان لیا اور اس کے لئے گاڑی کا ڈور کھولا وہ تو حیرت سے بے ہوش ہونے کے قریب تھی ساری خواہشات ایسے پوری ہونگی سوچا نہیں تھا۔۔۔

گاڑی ایک بڑی سی دو منزلہ گھر کے آگے روکی تھی پورا راستہ وہ عورت خاموش رہی تھی تو اسکی ہمت نہیں ہوئی کچھ پوچھنے نہیں۔۔۔

وہ کوئی بہت پرانا سا گھر تھا اندر آتے ہی بڑا سا صحن تھا سامنے دو کمرے تھے اور ایک کونے باتھ روم بائیں طرف ایک زینہ تھا جس کے نیچے چھوٹا سا کچن بنا ہوا تھا اسے لے کر وہ عورت اوپر آئی تھے اوپر بھی تین کمرے لائن سے بنے ہوئے تھے

وہ کمرے میں آکر آرام کرنے کے لئیے لیٹ گئی شام سے رات ہوگئ لیکن کوئی اس کے پاس نہیں آیا تھا پھر تھوڑی دیر بعد وہی عورت کھانا دے کر دروازے سے ہی لوٹ گئی تھی اسے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا دوسرا دن بھی بھی یونہی کمرے میں گزرا باہر جانے کی ایک دو بار کوشش کی لیکن دروازے لاک تھا اسے اب رونا آنے لگا تھا وہ عورت آتی کھانا رکھتی اور چلی جاتی اب تو اس سے کچھ کھایا بھی نہیں جارہا تھا تیسرے دن رات کے وقت دروازے کھلا اور وہ عورت اندر آئی تھی مہر اس عورت کو دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔ 

آجاؤ صاحب یہ ہے وہ لڑکی 

اس عورت کے بولنے پر ایک گندہ سا آدمی اندر آیا تھا   

ہمم مال تو اچھا ہے کتنے کا ملا 

پانچ لاکھ 

ہمم بیچنے والا گدھا تھا وہ ہونقوں کی طرح انہیں بات کرتا دیکھ رہی تھی 

اے لڑکی نام کیا ہے تیرا اب وہ آدمی اس سے مخاطب تھا 

وہ مہرماہ اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا تھا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا 

کیا کیا آتا ہے تجھے؟

جی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا بولے لیکن کچھ تو بولنا ہی تھا ۔

جی وہ جھاڑو برتن کھانا پکانا سب آتا ہے اور اس کی اس بات پر کمرہ ان دونوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا تھا 

کیا بول کر لایا گیا ہے تجھے ایک اور سوال 

پڑھائی کے لئے 

ہمم چل پھر آج میں پڑھاتا ہوں تجھے وہ آدمی ایک قدم آگے آیا تھا مہرماہ کو لگا جیسے اسکا دل بند ہو جائے گا 

اس نے آدمی نے آگے بڑھ کر ایک دم اسکی چادر کھینچی تھی وہ تڑپ کر پیچھے ہوئی تھی 

یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ می میر میرے ساتھ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہورہے تھے 

وہ کر رہا ہوں جس کے لئے تجھے یہاں لایا گیا ہے روشن اسے بتا بھئی 

اے لڑکی خریدہ ہے تجھے ہم نے مالک ہیں ہم تیرے 

ددماغ خراب ہوگیا ہے تم لوگوں کا ابا کو بلاؤ میرے وہ چیخی تھی یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا 

کونسا ابا بی بی؟؟؟کوئی نہیں ہے یہاں تیرا بیچا ہے تیرے ابا نے تجھے 

جھوٹ جھوٹ بول رہے ہو تم دونوں پاگل ہوگئے ہو مجھے ابھی گھر جانا ہے وہ دروازے کی طرف بھاگی تھی تبھی اس عورت نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھاما تھا بہت ہوگیا چل تیرا اسے واپس بیڈ پر پٹخ کر وہ عورت کمرے سے نکل گئی 

وہ منہ کے بل بیڈ پر گری تھی اٹھی تو وہ شیطان اسکے سر پو موجود تھا اس سے پہلے وہ پھر اس پر آتا وہ اسے پوری قوت سے دھکا دے کر الگ ہوئی تھی وہ آدمی ایک ہی جست میں اس تک پہنچا تھا وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی آنکھوں کے آگے ابا کا چہرہ آرہا تھا وہ اسکا مسکرانا پیسے گننا اس نے اس آدمی کو خود سے دور کرنا چاہا لیکن کوئی فائدہ نہیں تھا اس نے اچانک اس کے ہاتھ پر دانت گرائے تھے  وہ ایک دم پیچھے ہٹا تھا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا وہ جو پہلے ہی نڈھال تھے ایک تھپڑ پر زمین بوس ہوچکی تھی 

وہ آدمی غصے میں اسے دیکھ کر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا

        ______________________

اسکی آنکھ کھولی تو کمرے میں گھپ اندھیرہ تھا جسم بخار کی وجہ سے ٹوٹ رہا تھا ساری باتیں یاد آئی تو وہ ایک بار پھر سسک پڑی 

دنیا برا کر لیتی لیکن باپ نے کیا اس کے ساتھ اس بات نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا 

لیکن نہیں وہ یہاں نہیں رہ سکتی تھی ہمت کر کے اٹھی پورے کمرے میں دیکھا کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں تھی دروازہ پھر لاک تھا باتھ روم میں ایک چھوٹی سے کھڑکی تھی جس سے کوئی باہر نہیں جا سکتا تھا 

وہ واپس بستر پر آئی وہ پھوٹ پھوٹ کر وہ دی ایسا تو اسنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا روتے روتے وہ سوگئی تھی

شام کے وقت جب آنکھ کھلی تو وہ عورت اس کے بیگ پر جھکی ہوئی تھی 

اٹھ گئی چل جا تیار ہوجا اس عورت نے اسے کالے رنگ کی فراک دی تھی 

جلدی اٹھ جانا ہے ہمیں اسے ایک کی پوزیشن میں بیٹھا دیکھ اس عورت نے اب اسے آکر اٹھایا تو اسکی چیخ نکل گئی ۔

اس کے ہاتھ میں کپڑے تھما کر اسے باتھ روم میں بھیجا گرم پانی نے اس کو تھوڑا سکون دیا تو وہ یہاں سے بھاگنے کا سوچنے لگی

تھوڑی دیر بعد وہ تیار ہو کر بیٹھی تھی عورت کے جاتے ہی اس نے اپنا چھوٹا بیگ کمر سے باندھا تھا 

گاڑی میں بیٹھنے تک وہ بھاگنے کا سوچ چکی تھی اب ہر حال میں یہاں سے نکلنا تھا گاڑی اپنے راستے پر رواں دواں تھی تبھی اس نے اس عورت کے کان میں کچھ کہا تھا 

صبر کرلو تھوڑی دیر بعد پہنچ جائے گے ہم 

مجھ سے صبر میں ہوگا اس کے اتنا بولنے پر اس عورت نے گاڑی رکوائی اور اسے لے کر ایک کونے میں گئی تھی 

آپ پلیز جائے اس عورت کو سر پر کھڑا دیکھ کر وہ پریشان ہوئی تھی ایک آخری موقع تھا اس کے پاس 

وہ عورت گاڑی کے پاس جاکر گھڑی ہوگئی تھی لیکن دھیان اب بھی اس پر تھا کہ اچانک ایک گاڑی ان کی گاڑی سے ٹکرائی تھی اور اب اس گاڑی کا مالک ان لوگوں پر برس رہا تھا اس کے لئے یہ موقع بہت قیمتی تھا  اس نے پیچھے دیکھا جہاں وہ آدمی ایک ہاتھ سے چابی گھماتا مسلسل ان پر برس رہا تھا وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہوتے ہوتے ان کی نظروں سے اوجھل ہوئی تھی آگے جاتے ہی اس نے بھاگنا شروع کیا تھا جانا کہا تھا نہیں پتا تھا لیکن اس دلدل میں تو کبھی نہیں جانا تھا 

وہ بھاگتے بھاگتے مین روڈ پر آئی تھی کہ اچانک سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکرا کر بے ہوش ہوگئی تھی 

ہوش آنے پر اسنے خود کو ہاسپٹل میں پایا تھا۔۔

صبح اسکی آنکھ کھلی تو وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے وہ ان لوگوں کے لئے مصیبت نہیں بن سکتی تھی اگر وہ لوگ اسے ڈھونڈنے آگئے تو۔۔۔

اٹھ کر وہ فریش ہو کر باہر آئی تو رامین اسکے لئے کپڑے لے کر کھڑی تھی 

یہ لو ڈریس اور ہاں آج تم میرے کپڑوں میں گزارا کرلو مما سے بولا بولا ہے میں نے تمہارے کپڑوں کا اور اب چینج کر کے ناشتے کے لئے چلو 

چینج کر کے وہ رامین کے ہمراہ ہی نیچے آئی تھی  ہاجرہ بیگم نے اسے اپنے پاس بیٹھایا تھا تبھی ارمیز آکر اپنی چئیر پر بیٹھا تھا۔۔۔

ناشتے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اسے مہرماہ کی آواز آئی تھی

مجھے آپ سب کو کچھ بتانا ہے 

ٹھیک ہے مہر تم سب میرے کمرے میں آؤ اسکی بات پر بی جان نے سب کو ان کے کمرے میں آنے کا تھا۔۔۔۔ وہ سب بی جان کہ کمرے میں جمع تھے اس نے پھر ان سے کچھ نہیں چھپایا تھا سبھی خاموشی سے اسے سن رہے تھے جو بولتی جارہی تھی اور روتی بھی جارہی تھی بات کے اختتام پر بی جان نے اسے گلے سے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی پھر اس نے ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ ارمیز کی طرف بڑھایا تھا 

اس میں میرے گھر کا ایڈریس اور برابر والوں کے فون کا نمبر ہے آپ میرے بارے میں پتا کرسکتے ہیں میں خراب لڑکی نہیں ہوں نا میں گھر سے بھاگی ہوں آپ کوئی سی بھی قسم لے لیں میں ڈر گئی تھی بہت وہ لوگ مجھے ڈھونڈ نا رہے ہوں

میں نہیں چاہتی کے میری وجہ سے آپ لوگ پریشان ہوں آپ پلیز مجھے کہیں چھپا دیں گھر گئی تو ابا پھر آجائے گے وہ کیسی لڑکی تھی جو اپنے ہی باپ سے ڈر رہی تھی سبھی کو دکھ ہوا تھا یہ سب سن کر ۔۔۔

تبھی ارمیز اس کے پاس آکر بیٹھا تھا۔۔۔

میں جانتا ہوں تم اس وقت کس حالت میں ہو لیکن صبر کرنا پڑتا ہے رونا ہر مسئلہ کا حل نہیں ہے اگر تم کل ہوش میں آتے ہی مجھے سب بتا دیتی تو میں تمہارے بارے میں غلط نہیں سوچتا خیر میں پتا کرواتا ہوں ہمت سے کام لو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ کہہ کر ارمیز نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور چلے گیا تو بی جان نے اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا رامین تو حیران تھی اور اداس بھی کہ کیا پیسہ اتنا ضروری ہے کہ اولاد کو ہی بیچ دیا جائے۔۔

       _____________________ 

مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

وہ سب اس وقت ڈائیننگ ٹیبل کر موجود تھے تبھی حبیب صاحب نے سب کو مخاطب کیا تھا

کیا بات کرنی ہےبھائی؟

کچھ بہت ضروری بات ہے اور میں یہ بات سب کی موجودگی میں کرنا چاہتا ہوں تو سب شام میں گھر میں رہے اور ہاجرہ اور بی جان کو بھی بلا لو اور عفت اگر آپکا لاڈلا آٹھ جائے تو شوروم بھیج دینا اسے آخر کب تک ہڈحرامی کرے گا وہ کہہ کر اٹھ گئے تو ان کے پیچھے ازمیر اور اویس بھی گھر سے نکل گئے جب کے دانیہ اور دانیہ کالج کے لئے نکل گئی ثانیہ کا گریجویشن ہوچکا تھا تو وہ آج کل گھر ہی ہوتی تھی۔۔۔

بھابھی آپ سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ارقم کو اس طرح کب تک چلے گا 

کیسے سمجھاؤں رومانہ کچھ بولوں تو الٹا مجھ پر ہی شروع ہوجاتے ہے غلطی بھی تو ہماری ہی ہے نا جس عمر میں بچے ماں باپ کے قریب ہوتے ہیں ہم نے اسے خود سے دور کردیا کاش میں ہی اس کے لئے کوشش کرلیتی لیکن میں بھی اپنے آپ میں مگن تھی انہیں رہ رہ کر یہی پچھتاوا ہوتا تھا

اچھا چھوڑیں اداس نہیں ہوں ٹھیک ہو جائے گا جب خود کے بچے ہونگے تب سمجھ جائے گا 

ہمم میں بھی یہی سوچتی ہوں کہ اسکی شادی کردوں پہلی بات تو وہ راضی نہیں ہوگا دوسرا تمہارے بھائی صاحب 

اچھا چھوڑیں آئے میں آپ کو ھادی کی تصویریں دکھاتی ہیں کل رات ہی اسنے بھیجی ہیں ھادی اپنی پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا ازمیر اور ارمیز نے ایک ساتھ لاء کی ڈگری لی تھی اور دونوں بہترین دوست بھی تھے اروش بچپن سے ہی اپنے ننھیال میں رہتی آئی تھی جبکہ دانیہ کا مزاج کافی مغرور تھا وجہ اسکی خوبصورتی تھی 

ہیلو لیڈیز کیا ہورہا ہے وہ دونوں لاونج میں بیٹھی تھی جب وہ ریلنگ سے سلپ ہوکر ان تک آیا تھا

ارقم دھیان سے بیٹا لگ جائے گی 

نہیں لگتی مام ڈونٹ وری چھوٹی مام ناشتہ ملے گا اس نے اس بار رومانہ کو مخاطب کیا تھا 

ارے ہاں کیوں نہیں ابھی لائی رومانہ کی بہت خواہش تھی کہ ارقم اسکا داماد بنے لیکن آرام کی

حرکتیں اسے اس خواہش سے بازرکھتی تھی

ارقم نازیہ کر کے شوروم چلے جانا تمہارے ڈیڈ بلا کر گئے ہیں

کیوں بھئی کس خوشی میں ویسے آپکے شوہر کا دل ہی لگتا کیا میرے بغیر 

بیٹا وہ چاہتے ہیں کہ تم اب زمہ داری بنو کل کو شادی ہوگی تمہاری تو کیا کھلاؤ ھے بیوی بچوں کو جب تک کام نہیں کروگے 

ویٹ ویٹ مام میری شادی کہا سے آگئی؟؟؟؟

کیا مطلب کہا سے آگئی شادی نہیں کروگے کیا؟؟ اب ٹاپک چھڑ ہی گیا تھا تو انہوں نے بھی بات شروع کردی تھی 

کیا چاہتی ہیں آپ میں شادی کروں اور میرے بچے بھی میرے طرح پیار کے لئے ترسے؟

کیوں ترسے گے تم دوگے نا انہیں پیار باپ ہونگے تم اس کے 

ہاں جیسے آپ کے شوہر نے دیا ہے مجھے پیار ہیں نا مام بلکل ویسے ہی نا؟؟؟مام مجھے پیار کرنا نہیں آتا مجھے صرف نفرت کرنی ہی آتی ہے اور پلیز آج کے بعد یہ شادی پیار میرے سامنے نہیں وہ اٹھ کر باہر جانے لگا رومانہ جو اس کے لئے ناشتہ بنوا کے لائی تھی اسے روکا تھا ۔

ارقم ناشتہ تو کرلو 

کر چکا میں ناشتہ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکلتا چلے گیا

اسے کیا ہوا بھابھی اچانک وہ حیرت سے عفت سے مخاطب ہوئی 

جو ہمیشہ ہوتا ہے آخر کب وہ ہمیں معاف کرے گا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے رومانہ بس گہری سانس بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔

       ________________________

ارمیز نے سب سے پہلے اس نمبر پر کال کی تھی لیکن جو خبر اسے سننے کو ملی وہ شاکنگ تھی مہر کے گھر والے اسی دن گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے جس دن وہ کراچی کے لئے نکلی تھی کہا گئے کب گئے کسی کو نہیں پتا بس رات سے ان کے گھر پر تالا لگا ہوا تھا اس نے اپنے ذرائع سے بھی معلوم کروایا تھا مہر کی کہی بات سچ تھی وہ پڑھائی کے سلسلے میں ہی کراچی آئی تھی لیکن اس کے گھر والوں کا یوں غائب ہو جانا سمجھ سے باہر تھا

اس نے گھر فون کر کے مہرماہ سے پوچھا تھا کے گھر والے کہا ہو سکتے ہیں لیکن اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا لیکن وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا 

شام میں گھر آیا تو بی جان اور ہاجرہ کو تیار دیکھا وہ دونوں کاظمی ہاؤس جارہی تھی بلاوا آیا تھا کے کچھ ضروری بات کرنی ہے ارمیز بیٹا فریش ہوکر تم بھی چلو بھائی نے بلایا ہے 

خیریت امی 

پتا میں اب یہ تو وہی جاکر پتا چلے گا 

ہمم مہر ماہ کہا ہے؟

کمرے میں ہیں صبح سے رو رہی ہے پہلے باپ کے لئے اب گھر والوں کے لئے وہ افسردہ ہوگئی تھیں

ہمم میں اس سے بات کر کے آتا ہو 

ٹھیک ہے بیٹا جاؤ

وہ رامین کے کمرے میں آیا تو رامین اسکے سرہانے بیٹھی تھی اور وہ خود منہ کے بل لیٹی رو رہی تھی 

کب تک روگی؟؟رونے سے سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا اگر رونے سے سب ٹھیک ہونا ہوتا تو پوری دنیا ہی رو رہی ہوتی۔۔۔۔

ارمیز کی آواز پر وہ اٹھ کر بیٹھی تھی

وہ اس کے پاس آکر بیٹھا تھا چہرے پر وہی نرمی تھی تو رامین کےلئے تھی بھلے وہ لوگوں پر جلدی ٹرسٹ نہیں کرتا تھا لیکن سچ اور جھوٹ کا فرق اسے پتا تھا جب اس لڑکی نے اس کی بات مان کر سب کچھ اسے بتایا تھا تو وہ پھر کیوں اس سے بیر رکھتا

ادھر دیکھو مہرماہ مجھے بتاؤ کیا رونے سے گزرا وقت تم ٹھیک کرسکتی ہو؟؟

اس نے نفی میں سر ہلایا تھا 

تو پھر رو کیوں رہی ہو؟

مجھے نہیں پتا اسنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سو سو کرتے ہوئےکہا تھا اور اس کی اس حرکت پر وہ مسکرا دیا وہ چھوٹی تھی جذباتی تھی اسکی رامین کی طرح 

ہمم دیکھو رونے سے کچھ نہیں ہوگا تمہیں مضبوط بننا پڑے گا اتنا کہ کوئی تمہیں کچھ نا کہہ سکے تمہیں خود کو سنبھالنا ہوگا اپنے دادا کا خواب پورا کرنا ہوگا کروگی نا 

ہاں لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں 

ارے یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے پھر اب کیا کریں ۔

آپ مجھے کام دلا دیں یہی پاس میں 

اور اسکی اس بات پر رامین اور اس نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا

ٹھیک ہے کل بات کرینگے اس پر فلحال تو اب نہیں رونا ٹھیک ہے نا 

جی میں نہیں روؤں گی 

گڈ چلو رامین کھانا کھلاو اپنی دوست کو اور دل لگاؤ اسکا ہماری دماغ تو بہت کھاتی تھی اب اسکا بھی کھاؤ وہ ہنستے ہوئے بولا تھا 

بھائی۔۔۔۔۔رامین نے چڑ کا کہا پھر خود ہی ہنس دی 

مہر ماہ نے دونوں بھائی بہن کو دیکھا اور کچھ یاد کر کے مسکرادی۔۔۔۔

گھر کے سارے بڑے اس وقت لاونج میں جمع تھے جن میں ارمیز بھی شامل تھا

آج یہاں سب کو بلانے کا مقصد بہت خاص ہے اور بی جان کی مرضی کے بغیر میں کوئی کان نہیں کرنا چاہتا تھا حبیب صاحب نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا تو بی جان مسکرا دی اپنے بھتیجے کی محبت پر

میرے دوست جبران نے اپنے بیٹے کے لئے ثانیہ کا ہاتھ مانگا ہے پہلے تو میں حیران ہوا تھا کہ کیا میری بچی اتنی بڑی ہوگئی ہے لیکن میں خوش بھی ہوں اس بات سے مجھے حسام بہت پسند ہیں اور  بی جان کو بھی۔۔ وہ بی جان کو پہلے ہی تھوڑا بہت اس حوالے سے بتا چکے تھے ۔

حبیب مجھے تو وہ بچہ بہت پسند ہے ایک بار ثانیہ سے پوچھ کر ہاں کردو اور دوسرا اویس نے مجھ سے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ رامین کو اپنے ازمیر کے لئے چاہتا ہے تو اویس رامین کا بھائی اور ماں یہاں موجود ہیں اس بات کا فیصلہ میں ان پر چھوڑتی ہوں

میں کیا بولوں بی جان آپ ہماری بڑی ہیں تم بتاؤ ارمیز 

مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ماموں لیکن رامین ابھی چھوٹی ہے اتنی جلدی میں اس کی شادی نہیں کرنا چاہتا ارمیز نے سادہ لفظوں میں اپنی بات کہی تھی 

ہمم ٹھیک ہے تم سوچ لو ایسی کوئی جلدی نہیں ہے ہمیں 

حبیب صاحب نے ارمیز اتفاق کیا اور پھر باتوں کا رخ دوسری جانب ہوگیا آنیہ جو دروازے کے پاس کھڑے بڑوں کی باتیں سن رہی تھی سکتے میں تھی کہ کیا اسکی بہن کی محبت بس یہی تک تھی وہ بھاگ کر اوپر آئی تھی جہاں ثانیہ کشن گود میں رکھے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی مطلب صاف تھا اسے یہ سب پہلے سے پتا تھا 

اپیا یہ سب کیا ہورہا ہے تم نے بولا کیوں نہیں ڈیڈ کو کہ تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتی کیوں تم بذدلوں کی طرح کر رہی ہو اٹھو اور جا کر منع کرو کہ تمہیں یہاں شادی نہیں کرنی

اس نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تھا لیکن اس نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا

ٹھیک ہے پھر میں خود جا کر سب کو بول دیتی ہوں کہ تم ارمیز بھائی کو پسند کرتی ہو وہ دروازے کی طرف تو ثانیہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا تھا

تم پاگل ہو آنیہ میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی اور نا تمہیں کرنے دونگی اور دوسری بات مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں مما پہلے ہی بات کرچکی ہیں مجھ سے اس لئے تم کچھ نہیں کہو گی آئی سمجھ تمہیں 

کیوں کہ تھی محبت پھر ہاں ایسے ہار ماننے کے لئے دیکھو اپیا نہیں کرو ایسے ایک بار بولو تو سہی مام یا ڈیڈ کو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے اور ارمیز بھائی تو پاپا کے فیورٹ ہیں پھر تم کیوں بات نہیں کررہی 

کیونکہ بابا نہیں چاہتے میری شادی ارمیز سے ہو 

کیا؟؟؟؟ آنیہ کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا یہ کس نے بولا آپ سے

میں نے خود سنا تھا اور بس اب کچھ نہیں پوچھنا قسم ہے تمہیں 

اپیا۔۔۔۔۔۔ وہ آگے کچھ بول ہی نہیں پائی اور کمرے سے ہی چلی گئی

وہ کیا بتاتی اسے کہ اسکے ڈیڈ ارمیز سے اسکی شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے تھے 

کچھ دن پہلے وہ کسی کام سے مام کے روم میں گئی تو اپنا اور ارمیز کا نام سن کر باہر ہی رک گئی مام ڈیڈ سے اسکے اور ارمیز کے رشتے کی بات کرہی تھیں اسکا دل ایک دم کھل اٹھا تھا وہ ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہوسکی تھی کہ حبیب صاحب کی آواز نے اسکا دل توڑا تھا 

پاگل ہو عفت ایسا سوچا بھی کیسے میں اپنی ثانیہ کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے ہی کرونگا مانا ارمیز میرا بھانجا ہے لیکن وہ مجھے کاروبار میں مدد نہیں کرسکتا نا ہی پیسہ لگا سکتا ہے حسیب ہر لحاظ سے اچھا ہے 

لیکن ایک بار ثانیہ سے تو پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے وہ ماں تھی بیٹی کا ان کہا بھی سمجھتی تھیں

اس سے کیا پوچھنا وہ میری بیٹی ہے مجھے کبھی منع نہیں کریگی دیکھنا تم۔۔

آگے وہ کیا سنتی الٹے قدموں وآپس اپنے کمرے میں آگئی آنکھوں میں ٹوٹے خواب کی کرچیاں تھی دل ٹوٹ چکا تھا اس کی محبت ادھوری رہ جائے گی وہ مزید خود پر ضبط نا کر سکی تو تکیہ میں منہ دے کر بے آواز آنسو بہانے لگی کیونکہ جانتی تھی وہ کبھی اپنے ڈیڈ کے فیصلے کے خلاف کبھی نہیں جائے گی۔۔۔۔۔۔۔

        _______________________

اسے یہاں آئے کافی دن ہوگئے تھے اب وہ  کافی حد تک اب سنبھل چکی تھی جس کا کریڈٹ یقیناً ان سب کو ہی جاتا تھا وہ لوگ ہر وقت اسکی دل جوئی کرتے تھے 

وہ حیران تھی کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بنا غرض کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں

وہ جب جب ارمیز کو دیکھتی تو حیران رہ جاتی وہ انسان اتنا پیارا تھا ہر ایک کا خیال رکھنے والا اب تو وہ اسے بھی اکثر سمجھاتا رہتا تھا اسے ہمت دیتا تھا اور وہ خود کو یاد کرتی تھی ہاں وہ بھی سب سے محبت کرتی تھی لیکن ارمیز جیسی نہیں وہ ہر ایک کے لئے کھڑے ہوتا تھا 

آج بھی وہ اور رامین اسے سمجھا رہے تھے کہ آگے بڑھے پڑھے لیکن وہ مسلسل انکاری تھی ان لوگوں نے اسے اعتماد دیا تھا وہ اب بھی اپنے گھر والوں کو بہت یاد کرتی تھی جو ناجانے کہا چھپ گئے تھے لیکن وہ اللّٰہ کا شکر بھی ادا کرتی تھی کہ اس نے اسے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچا لیا تھا 

وہ گھر میں زیادہ تر بی جان کے پاس ہی رہتی تھی اسے اچھا لگتا تھا ان کے پاس رہنا اسنے ارمیز سے ضد کی تھی کہ اسے کوئی تو کام کرنے دے تاکہ یہاں رہتے ہوئے اسے برا نا لگے تو بی جان نے اسے کہا تھا کہ وہ بس ان کا خیال رکھے اور ان کے لیے اس گھر میں رہے ۔۔

ابھی بھی وہ بی جان کے سر کی مالش کر کے باہر نکل ہی رہی تھی کہ دوسری طرف سے بھی دروازہ کھولا گیا تھا اور وہ بری طرح آنے والے سے ٹکرائی تھی ایک سیکنڈ تو اسے ایسا لگا کہ کھوپڑی ہی چٹخ گئی ہے اسکی اپنا سر پکڑ کر وہ دیوار سے لگی تھی

مس روتو تم یہاں۔۔۔۔۔ وہ اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا اسی پل اسنے بھی نظر اٹھائی تھی 

کاجل بھری آنکھوں میں آنسو تھے سامنے والے کو دیکھ کر وہ بھی شاک ہوئی اور پھر وہ چیخی تھی 

چور چور اس سے پہلے کہ وہ مزید چیخ کر سب کو جگاتی ارقم نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا 

پاگل ہوکیا چیخ کیوں رہی ہوں؟؟

اوں اوں اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا تھا 

اوو اچھا ہاتھ ہٹا رہا ہوں اب مت چیخنا اور پھر جیسے ہی اسنے ہاتھ ہٹایا وہ پھر چیخی تھی 

چو۔۔۔۔۔وہ پورا بھی نہیں بول پائی تھی کہ اس نے پھر زور سے اسکا منہ بند کیا تھا 

دماغ کے ساتھ کان بھی خراب ہیں کیا بولا تھا نا چیخنا نہیں اور ایک منٹ تمہیں میں چور دیکھتا ہوں اس نے ہاتھ میں پکڑی چابی زور سے اسکی کمر میں بچھائی تھی 

اااا اوووں وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی 

ارقم بچے یہ تم ہو نا بی جان کی آواز پر وہ مسکرایا تھا اور ایک جتاتی نظر اس پر ڈالی تھی 

جی بی جان میں ہی ہوں اس نے اپنا ہاتھ اسکے منہ سے ہٹایا اور لایٹ آن کی تھی مہر کو پہچاننے میں لمحہ لگا تھا یہ وہی تھا جس نے اسے روڑ پر سنایا تھا 

جنگلی بھینسا جاہل اس نے اپنی کمر سہلائی تھی تبھی رامین ہاجرہ اور ارمیز وہاں آئے تھے وہ دروازے کے باہر کھڑی تھی اسے ساتھ لے کر وہ اندر آئے تو وہ بیڈ پر بیٹھا تھا اور بی جان کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا

کیسی ہیں پھوپھو ہاں بھئی رامین کیا حال ہیں وہ کافی ٹائم بعد آیا تھا اس لئے ہاجرہ بیگم اس سے ناراضگی دیکھا رہی تھی تو وہ مسکرا دیا 

ارقم بھائی یہ ہاتھ پر کیا ہوا وہ جو ارمیز سے ہاتھ ملا رہا تھا رامین کی بات پر اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو لال ہورہا تھا یقیناً یہ کمال اس روتو دیوی کا ہے اس نے دل میں سوچا کیونکہ وہ مسلسل اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ پر مار رہی تھی 

کچھ نہیں بس ایک جنگلی بلی پلے پڑ گئی تھی اسی نے حملہ کردیا اس کی بات پر مہرماہ کی آنکھیں کھلی تھیں مطلب میں نے حملہ کیا جھوٹا کہیں کا ایک اور خطاب واہ ارقم صاحب 😅

مہر بچے یہ میرا بھتیجا ہے ارقم اور ارقم یہ رامین کی دوست ہے مہر ماہ 

ہمم وہ خلاف معمول آج مسکرا رہا تھا وجہ بی جان تھی جو اسے ہمیشہ ہی پیار کرتی تھیں 

وہ کب سے ایک ہی اینگل میں کھڑی تھی ارقم نے اسے دیکھا تو دماغ میں نا جانے کیا آیا کہ ایک شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر آکر غائب ہوئی تھی

ماہ پیکر بیٹھ جاؤ آپ اس کے اس طرح بولنے پر بی جان ہنس دی تھی 

ارقم بچے اسکا نام ماہ پیکر نہیں ہے 

او اچھا سوری ماہ جمیل کلیم سلیم سوری بی جان میں بھول گیا وہ سر کھجاتا ہوا بولا لیکن مہر ماہ اسکی یہ حرکت سمجھ گئی تھی اس لئے وہ وہاں سے اوک آؤٹ کر گئی جانتی تھی اب وہ پھر اسکا مذاق بناتا 

یا اللّٰہ یہ سارے جاہل بدتمیز مجھے ہی کیوں ملتے ہیں

کیا پتا تھا اس جاہل انسان کے لئے ہی وہ یہاں تک آئی تھی 

وہ ابھی سوکر اٹھا تھا رات وہ یہی رک گیا تھا گھر جانے کا موڈ نہیں تھا فریش ہوکر بالکونی میں آیا تو نیچے لان مین بی جان بیٹھی تھی اور مہر ان کے پاس بیٹھی ناجانے کونسی کہانی سنا رہی تھی 

مہر کو دیکھ کر وہ پھر مسکرایا وہ اس سے دو دفعہ ملا تھا اور دونوں ملاقاتوں میں اسے مزہ آیا تھا کیونکہ وہ اس سے مرعوب نہیں ہوئی تھی بلکہ برابر سے لفظی حملے کئے تھے ورنہ زیادہ تر تو لڑکیاں یا تو اس کے آگے پیچھے گھومتی تھیں یا اسے دور رہتی تھیں کیونکہ وہ کافی بدتمیزی کر جاتا تھا جو زرا بھی فری ہونے کی کوشش کرتی اس لئے سب اپنی عزت پیاری تھی لیکن یہ چڑیل تو برابر سے حملہ کرتی تھی اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں اس کے ناخن مارنے کی وجہ سے خراش پڑی ہوئی تھی 

جنگلی چڑیل…….. وہ خود بول کر خودی ہنسا تھا جیسے اپنی بات انجوائے کی ہو

نیچے آیا تو ہاجرہ بیگم کچن میں تھی جبکہ ارمیز اور رامین گھر میں موجود نہیں تھے تبھی ہاجرہ نے اس سے ناشتہ کا بولا 

جی پھپھو آپ کے ہاتھ کا بنا پراٹھا 

ہاں تم لان میں جاکر بیٹھو وہی لاتی ہوں میں موسم بھی بہت پیارا ہے آج تو

جی وہ باہر آیا اور بی جان کو سلام کر کے مہر کے برابر والی چئیر پر بیٹھ گیا 

اور اسکے پاس بیٹھنے پر مہر نے اس طرح منہ بنایا تھا جیسے کریلا چبا لیا ہو

اور اس کے تاثرات ارقم کو مزہ دے گئے تھے پتا نہیں کیوں لیکن عادت کے برخلاف اسے مہر کو تنگ کرنے مزہ آیا تھا پہلی دو ملاقات میں ہوئے واقعات تو اتفاقی طور پر ہوئے تھے لیکن مہر کے ایکسپریشن دیکھ کر وہ خوش ہوا تھا پتا نہیں کیوں  

وہ جو اسے دیکھ کر اندر کی طرف بڑھی تھی بی جان کے روکنے پر پھر انکے پاس بیٹھ گئی تبھی ہاجرہ بیگم بھی وہی آگئی اب وہ آرام سے بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا اور وہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ اگر اس نے بی جان کے سامنے سوسائیڈ والی بات بول دی تو کتنی شرمندگی ہوگی اسے لیکن وہ کچھ نہیں بولا ناشتہ ختم کر کے وہ چلا گیا تو اس نے شکر ادا کیا تھا۔۔

         ____________________

سنئے میں سوچ رہی ہوں کیوں نا ہم ایک چھوٹی سی دعوت رکھیں اور ثانیہ کے رشتے کے بارے میں بھی بتا دے اور منگنی کی ڈیٹ بھی رکھ لینگے 

عفت نے حبیب صاحب کو کہا جو اس وقت ٹی وی پر نیوز دیکھ رہے تھے

ہمم ٹھیک ہے رکھ لو لیکن اگلے ہفتے رکھنا کیونکہ ھادی بھی آجائے گا تب تک 

جی ٹھیک ہے میں رومانہ سے بات کرلونگی پھر ہم مل کر سب دیکھ لینگے 

ہمم ٹھیک اچھا اب لائٹ بند کردیں انہوں نے ٹی وی بند کیا اور سونے کے لئے لیٹ گئے 

عفت نے ان کی پشت کو دیکھا کتنا ٹائم ہوگیا تھا ان کی شادی کو اٹھائیس سال پسند کی شادی تھی لیکن اب لگتا تھا وہ پیار کہیں گم ہوگیا کام کی بات کے علاوہ حبیب کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے گھر سے شوروم پھر وہاں سے گھر تو ٹی وی دیکھنا اپنا کام کرنا پیسوں کے پیچھے وہ اپنی فیملی کو بھول گئے تھے 

ٹھیک ہے وہ اپنی اولاد کے لئے ہی کما رہے تھے لیکن کیا فائدہ ایسے پیسوں کا جو آپکے بچوں کو دور کردے ثانیہ اور آنیہ تو پھر بھی عفت کے قریب تھی اصل خسارہ تو ارقم کے حصے میں آیا تھا انہوں نے لائٹ آف کی اور کمرے سے ہی باہر آگئی عجیب سی بے چینی تھی جو سکون نہیں لینے دے رہی تھی 

وہ جانتی تھیں ثانی ارمیز کو پسند کرتی ہے لیکن وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکی کیونکہ حبیب کے فیصلے کے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی اور پھر دوسرا ارمیز کی طرف سے بھی ایسا کچھ نہیں تھا لیکن انہیں دکھ تھا کیونکہ ان کی بیٹی خوش نہیں تھی بظاہر وہ خوش نظر آتی تھی لیکن وہ ماں تھیں دل کا حال بہت اچھے سے جانتی تھیں 

اپنے کمرے سے نکل کر اب انکا رخ ثانیہ کے کمرے کی طرف تھا کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا 

اللّٰہ پاک بیٹیاں بھی نصیب والو کو دیتا ہے لیکن کئی لوگ قدر نہیں کرتے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی تو کسی عورت کے ہی بیٹے ہیں اس کے اوپر کمفرٹر ٹھیک کر کے وہ وہی بیٹھ گئی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی

        ______________________

یہ کیسا رہے گا اور یہ رامین اس کو مختلف سوٹ دیکھا رہی تھی اور وہ بیزاری سے اسے دیکھ رہی تھی 

رامی آپ یہ کو گیارہ ڈریس مجھے دیکھا رہی ہیں پچھلے ایک گھنٹے سے اور میں جانتی ہوں پہنے گی آپ وہی جو سب سے پہلے دیکھایا تھا 

اور اسکی بات پر رامین ہنس دی 

تم بور ہوگئی کٹو رامین نے اس کے گال پر چٹکی بھری تھی 

کٹو نہیں نا پلیز مہر نے اسکے کٹو بولنے پر برا منایا تھا 🥺🥺

کٹو کا سین کچھ یوں ہوا کہ مہر میڈم رامین کو اپنے بچپن کی باتیں بتا رہی تھیں کہ جب وہ چھوٹی تھی تو گائے کو کٹو بولتی تھی پیار سے تو دادا ابو کبھی کبھی پیار سے کٹو بولتے تو وہ غصہ ہوتی تھی اور اسی دن سے رامین نے اسے کٹو بولنا شروع کردیا تھا جس پر وہ چڑ جاتی تو رامین کو مزہ آتا تھا وہ اسکی پچھلی باتیں بھلانا چاہتی تھی اور وہ سب کامیاب بھی ہورہے تھے

 تین مہینے ہوگئے تھے اسے اس گھر میں اب وہ خوش رہنے لگی تھی ارمیز نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے گھر والوں کا پتا لگاکہ رہے گا ان دنوں بی جان کی طبیعت بھی تھوڑی خراب ہوئی تھی جس کی وجہ سے کاظمی ہاؤس سے سب ملنے آئے تھے ان سے اور مہر سے بھی بہت اچھے سے ملے تھے 

پھر اب ثانیہ کی انگیجمنٹ ڈیٹ رکھی جارہی تھی تو دعوت تھی کاظمی ہاؤس میں اور عفت نے اسے اسپیشلی آنے کو کہا تھا عفت کو وہ بہت پیاری لگی تھی بھولی بھالی سی

اور اب اس وقت وہ رامین کے کمرے میں بیٹھ کر دعوت کے لئے ڈریس سلیکٹ کر رہے تھے

بھئی تمہارے دادا پیار سے بولتے تھے نا تو میں بھی تو تم سے بہت پیار کرتی ہوں اس لئے کچھ بھی بول سکتی ابھی بلی کو 

اور رامین کے اس طرح پکارنے پر وہ ہنس دی ۔

کس بات پر اتنا ہنسا جارہا ہے بھئی 

ارمیز کو رامین کے پاس کام سے آیا تھا اسکی ہنسی سن کر پوچھ بیٹھا 

کچھ نہیں بھائی ہماری کٹو اب میرا مذاق سمجھنے لگی ہے 

اووو ارے واہ مہر یہ تو کمال ہوگیا وہ جانتا تھا رامین اسے گھما گھما کر ایسے بولتی تھی جو اسے سمجھ ہی نہیں آتے تھے وہ سمجھتی سب سیریس ہے

مہر یہ اپنے اس مہربان کو دیکھا تھا جو مسکراتے ہوئے کتنا شاندار لگ رہا تھا اسے ہنستے دیکھ وہ بھی مسکرا دی 

چلو اب بہت ہوگئے مزے ایک بندہ کافی بنائے میری اور ایک شرٹ پریس کرے شام کے لئے 

واہ بھائی ہنستے ہنستے ہمیں راستے پر لگا رہے آپ تو 

چلو کٹو اٹھو پھر اپنا کام یہی سے اسٹارٹ کرینگے اس نے باقی سامان کی طرف دیکھا اور اس کے دیکھنے کے انداز پر کمرہ ایک بار پھر قہقہوں سے گونجا تھا

وہ سب کاظمی ہاؤس جانے کے لئے تیار تھے اور اب ارمیز کا انتظار کر رہے تھے جو ابھی تک نہیں آیا تھا 

رامین نے رائل بلو کلر کا سوٹ پہنا تھا جو اسکی رنگت پر بہت پیارا لگ رہا تھا جبکہ مہر نے بلیک کلر کی فراک پہنی تھی 

آپ کچھ زیادہ ہی خوش نہیں لگ رہی رامی خیریت تو ہے نا؟ مہر نے اسکے چہرے کو دیکھا وہ آج کچھ زیادہ ہی ایکسائٹڈ تھی 

ہاں بھئی کیوں میں خوش نہیں ہوسکتی کیا کٹو😛

رامی۔۔۔۔۔پلیز نا 🥺 اس نے منہ بنایا تھا تبھی ہارن کی آواز آئی مطلب ارمیز آگیا تھا اور اب یقیناً جلدی کا شور کرے گا اس لئے رامین ایک بار پھر اپنا جائزہ لینے لگی 

تھوڑی دیر بعد ہی  وہ لوگ کاظمی ہاؤس پہنچ چکے تھے سلام دعا کرنے کے بعد رامین مہر کو لے کر اوپر ثانیہ کے پاس آگئی تھی جہاں آنیہ بھی موجود تھی مہر کو دیکھ کر آنیہ کو بہت خوشی ہوئی تھی 

مہمان آچکے تھے سبھی بڑے لاؤنج میں موجود تھے جبکہ ارقم آج بھی غائب تھا 

ثانیہ کے سسرال والوں نے انگیجمنٹ کی جگہ شادی پر اصرار کیا تھا وہ تھوڑا سوچنے کے بعد انہوں نے ہاں بول دیا اور یوں اگلے مہینے کی پچس تاریخ کو اسکا نکاح اور رخصتی ہونا تھی  ثانیہ کو اسکی ساس نے اپنے پاس بیٹھا کر اس کے ہاتھ میں اپنی رنگ پہنائی تھی پھر سب کا منہ میٹھا کیا گیا وہاں موجود ہر کوئی خوش تھا 

ثانیہ نے ایک نظر بس ایک نظر ارمیز کو دیکھا تھا جو اس کے ہونے والے سسر سے بات کرنے میں مصروف تھا 

کیا تھا جو یہ شخص میرا ہوتا ایک لمحے میں دل نے دھائی دی تھی لیکن پھر اپنے باپ کا چہرہ دیکھا جہاں خوشی ہی خوشی تھی 

جس باپ نے اسے ہر آسائش دی اسکی بات کا مان رکھنا اس پر فرض تھا وہ اللّٰہ کو راضی کرنا چاہتی تھی اس لئے چپ چاپ سر۔ جھکا گئی

       ______________________

اس نے آہستہ سے کمرے کی کھڑکی کھسکائی تھی اور کمرے میں کودا تھا کمرے میں اندھیرا تھا پلٹ کر کھڑکی بند کی اور جیسے ہی پیچھے مڑا کسی سے بہت بری طرح ٹکرایا تھا 

اوئی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ درد سے دھری زمین پر بیٹھی تھی ارقم نے جلدی سے آگے بڑھ کر لائٹ آن کی تھی سامنے ہی مہر اپنا سر پکڑے بیٹھی تھی اب اسے گھور رہی تھی

اس نے اپنا ماتھا پیٹا تھا اسے دیکھ کر 

کیا ضروری ہے ہر بار تم مجھے ٹکریں مارو آنکھیں بلکل ہی خراب ہوگئی ہیں تمہاری 

وہ جو اپنا سر پکڑے بیٹھی تھی اس کی اس بات کر اسکے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی ایک جھٹکے سے اٹھ کر اسکے سامنے آئی تھی 

کیا بولا مجھے شوق ہے تمہیں ٹکر مارنے کا شکل دیکھی ہے کبھی اپنی؟؟؟ اور مجھے اندھا بول رہے خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے ہاں وہ کمر پر ایک ہاتھ ٹکائے پوری لڑاکا عورت ہی لگ رہی تھی

اپنے ہی گھر میں کوئی کھڑکی سے آتا ہے کیا چوروں کی طرح بندر سمجھتے خود کو۔۔۔۔۔

اووو ہیلو میڈم یہ میرا گھر ہے کھڑکی سے آؤں چھت سے آؤ یا دروازے سے میری مرضی 

ہاں ہاں میری بلا ہے چاہے کچن میں بنے پائپ میں سے آؤ لیکن جیسے بھی آؤ آنکھیں لے کر آنا جو بیچ چکے ہو 

اسنے بھی حساب برابر کیا اور سائیڈ سے بیگ اٹھا کر اسے دیکھا دروازے تک گئی اور 

جنگلی لنگور ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ سمجتا وہ کہہ کر جا چکی تھی 

لامڑی کہی کی اسے صحیح والی تپ چڑھی تھی

لاؤنج میں سب مہمان تھے اس لئے وہ کھڑکی کے راستے آیا تھا 

اور مہر وہ رامین کا بیگ لینے آئی تھی کمرے میں کچھ عجیب سا محسوس ہوا کوئی ہیولہ سا کھڑکی کے پاس نظر آیا جو کھڑکی سے کمرے میں آیا تھا وہ خاموشی سے آگے کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک اس سے ٹکرا گئی تھی 

وہ نیچے آیا تو مہمان جا چکے تھے اور ارمیز لوگ جانے کی تیاری میں تھے

حبیب صاحب نے اسے قہر بار نظروں سے دیکھا تو کھل کے مسکرایا تھا تبھی وہ وہاں سے چلے گئے جبکہ وہ مہر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا جس پر وہ پہلو بدل کے رہ گئی ارقم نے مسکرا کر ایک نظر مہر کو دیکھا جانتا تھا اس وقت کتنا تپ رہی ہوگی 

اسکا مہر کو دیکھ کر مسکرانا عفت بیگم کو ایک امید دلا گیا تھا لیکن وہ کوئی جلدبازی کرکے اس امید کو ختم نہیں کر سکتی تھیں

         ____________________

گھر آکر سبھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے لیکن وہ وہی لاؤنج میں بیٹھا رہا پھر اٹھ کر باہر لان میں آگیا اور سیگریٹ سلگائی دل میں جیسے آگ سی لگی تھی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ انسان کو دوسروں کی خوشی کے لیے ہر وقت تیار رہتا اندر سے کتنا ٹوٹا ہوا ہے 

مہر جو کھڑکی پہ آئی تھی اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی اس نے کھڑکی بند کی اور رامین کے برابر آکر بیٹھ گئی 

رامین ایک بات پوچھوں رامین جو اس وقت ہاتھ کا مساج کر رہی تھی اسکی بات پر اثبات پر سر ہلایا 

آپ ناراض تو نہیں ہونگی نا 

ارے میں کیوں ناراض ہونگی تم پوچھو 

ارمیز کو دیکھا میں نے وہ لان میں اسموکنگ کر رہے ہیں اور مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا انہیں ایسے دیکھ کر اور کچھ دن پہلے بی جان اور امی بھی انکی شادی کو لے کر پریشان تھیں ایسا کیا ہوا ہے جو وہ شادی نہیں کر رہے 

اسکی بات سن کر رامین کے چہرے پر اداسی چھا گئی تھی 

آپ نہیں بتانا چاہتی تو کوئی بات نہیں 

چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے بس بھائی جس لڑکی کسی کو پسند کرتے تھے مما اور بی جان بھی مل چکے تھے لیکن ایک کار ایکسیڈنٹ میں اسکی ڈیتھ ہوگئی وہ خود تو چلی گئی لیکن بھائی بہت مشکل سے سنبھلے تھے اور شادی نہیں کرنا چاہتے 

لیکن ایسا کیوں وہ ایسے اپنی ذندگی برباد نہیں کرسکتے اور نا ہی خوشیوں سے منہ موڑ سکتے 

جانتی ہوں چندا ہم سب نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ کہتے کہہ وقت پر چھوڑ دو جو نصیب میں ہوگا انہیں مل جائے گا اور اس بات کا علم صرف ہمیں اور ارقم کو ہے اور کسی کو نہیں پتا 

ہمم 

چلو سوجاؤ پھر شادی کی تیاریاں بھی کرنی ہیں۔۔

وقت پر لگا کر اڑا تھا شادی کی تیاریاں زوروں پر تھی انہیں مایوں سے ایک دن پہلے کاظمی ہاؤس جانا تھا اور شادی تک وہیں رکنا تھا مہر کو آنیہ نے فون کر کے یاد دلایا تھا لیکن وہاں جانا مطلب اس جنگلی کو برداشت کرنا اور بلاوجہ ہی اسے تنگ کرتا تھا

انہیں کل ہی ارمیز کاظمی ہاؤس چھوڑ کر گیا تھا اور آج وہ مایوں کے لئے تیار ہورہی تھیں مہر کی ساری شاپنگ رامین نے ہی کی تھی پیلے رنگ کی گھٹنوں تک آتی فراک کے ساتھ بلو ٹراؤزر پر ہلکا سا میک اپ اور پھولوں سے بنے بندے اور ٹیکا وہ بلکل الگ ہی مہرماہ لگ رہی تھی جبکہ رامین اور آنیہ نے بھی بلکل ایسی ہی فراک پہنی تھی لیکن کلر الگ تھے 

ثانیہ نے بھی پیلا ہی رنگ پہنا تھا سوگوار ہی وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی 

ارقم نے بھی پیلا کرتا پہنا تھا باقی سب بھی سیم ڈریسنگ میں تھے 

رسم کا آغاز ہوا تو سب نے ہی باری باری ثانیہ کو ابٹن لگایا تھا پھر سارے لڑکوں نے مل کر محفل لگائی تھی 

ارے آج تو پیلی چھپکلی لگ رہی ہو حق مہر😂

وہ ایک طرف بیٹھی یہ سب انجوائے کر رہی تھی تبھی ارقم کی آواز پر اس نے گھور کر اسے دیکھا 

شکر ہے پیلا لنگور تو نہیں لگ رہی نا مسٹر رشوت والی رقم اس نے دانت پیس کر کہا تو ارقم نے بے ساختہ قہقہ لگایا 

آئی لائک اٹ چھپکلی اس سے پہلے وہ اسے جواب دیتی رامین کی آواز پر اسکے پاس چلی گئی

رات گئے فنکشن اپنے اختتام کو پہنچا تھا دوسرے دن کا ریسٹ تھا سب نے مہندی لگوائی تھی اب سب کو کل کا انتظار تھا جو رامین اور آنیہ کے لئے  سرپرائز لانے والا تھا جو ان کے بڑوں نے طے کیا تھا 

سب ہال میں پہنچ چکے تھے اور بارات کا انتظار تھا مہمانوں  آمد کا سلسلہ جاری تھا ارقم بلیک شیروانی میں سب کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا جبکہ ارمیز نے رائل بلو کرتا پہنا تھا 

آج کے دن بھی مہر آنیہ اور رامین کے شرارے ایک جیسے تھے مہر کو تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ اس گھر کا حصہ نہیں ہے ایسا لگتا تھا جیسے وہ شروع سے یہی رہتی ہو سب کا رویہ اسکے ساتھ بہت اچھا تھا سوائے دانیہ کے وہ سب سے الگ ہی رہتی تھی 

تبھی بارات کے آنے کا شور ہوا تو سب بارات کے استقبال کے لئے آگے بڑھے تھے 

تھوڑی دیر بعد ہی نکاح کی رسم ادا ہوئی تو سب کی آنکھیں اشکبار تھی اس لمحے مہر کو اپنی اماں اور دادی یاد آئی تھیں خود پر ضبط لئے وہ کھڑی رہی لیکن جب درد بڑھا تو وہاں سے نکل کر ایک اکیلی جگہ پر آکر بیٹھ گئی دل کا حال ہی عجیب ہورہا تھا تبھی اسے بلکل اپنے پیچھے ارقم کی آواز آئی تھی

ارے چڑیل یا تو لرتی رہتی ہو یا روتی رہتی ہو یا مجھ سے ٹکراتی رہتی ہو اور کوئی کام دھندا نہیں ہے کیا؟؟؟

تم سے مطلب میں کچھ بھی کروں یا کچھ نا بھی کروں اسنے غصے میں کہا اور اٹھ کر جیسے ہی آگے بڑھی بری طرح اپنے شرارے میں الجھی تھی اور منہ کے بل گرتی کہ ارقم نے فوراً سے اسے گرنے بچایا تھا 

لو دیکھ لو ارقم سے اشارہ کیا تو غصے سے شرارہ سنبھال کر وہاں سے واک آؤٹ کرگئی لیکن ارقم کے قہقے نے اسکا پیچھا کیا تھا

وہ رامین کے پاس آئی تھی وہ مسکراتی ہوئی کسی لڑکے سے بات کر رہی تھی مہر یہ ھادی ہے میرا کزن اور کزن یہ میری چھوٹی سی بہن اور دوست مہرماہ 

اس نے ھادی کو سلام کیا تھا جواب میں ھادی نے بھی اسے اسکی خیریت پوچھی تھی ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ بڑے حبیب صاحب کی آواز ہال میں گونجی تھی

اسلام و علیکم سب سے پہلے تو میں آپ سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ سب ہماری خوشی میں شامل ہوئے آج جہاں بیٹی کو رخصت کرنے پر دل بھاری ہے وہی خوشی بھی بہت ہے اور اس خوشی کو مزید بڑھانے کے لئے ایک اور اعلان کرنا چاہتا ہوں 

سب کے چہروں پر تجسس کا جبکہ رامین کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ اور ارمیز تو بہن کی خوشی میں خوش 

میرے چھوٹے بھائی نے مجھ سے اور میری چھوٹی بہن سے کچھ مانگا تھا اور آج اس خوشی کے موقع پر میں اور ہاجرہ اسے وہ دینا چاہتے ہیں۔۔

فضول کا طول دے رہے ہیں یہ مام ان کو بولیں مختصر کریں اپنی تقریر 

ارقم جو نہایت بے زاری سے سن رہا تھا عفت بیگم کے کان میں بولا تو انہوں نے اسے گھور کے دیکھا جس پر وہ کندھے آچکا کر رہ گیا

میں آج اپنی چھوٹی بیٹی آنیہ کا کا رشتہ اپنے بھتیجے ھادی سے طے کرتا ہوں اور ساتھ ہی میں ارمیز کی رضامندی سے میں اپنی بھانجی رامین کا رشتہ بھی ازمیر کے ساتھ پکا کرتا ہوں 

ہر طرف تالیاں بجی تھی رومانہ نے آگے بڑھ کر عفت کو گلے لگایا تھا سب ہی خوش تھے ارقم بھی بہن کے لئے خوش تھا لیکن اس سب کے پیچھے کا مقصد بھی سمجھتا تھا اس سب میں کوئی شاکڈ تھا تو وہ آنیہ تھی جس سے مرضی پوچھنا تو دور اسے بتانا تک گوراہ نہیں کیا گیا تھا آنسوؤں کی گولا حلق میں اٹکا تھا ضبط کرنے کے باوجود ایک آنسو آنکھ سے نکل کر گال پر بہا تھا وہ اٹھ کر خاموشی سے ڈریسنگ روم میں آگی تھی باہر رخصتی کا شور اٹھا تو مہر اسے بلانے آئی تھی 

ثانیہ سبھی سے مل کر بہت روئی خاص کر ارقم سے اور پھر وہ ارمیز کے پاس آئی تھی جس نے مسکرا کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ بہت بری طرح سے رو دی تھی آنیہ نے جلدی سے آکر اسے سنبھالا تھا آسان نہیں ہوتا اپنی محبت چھوڑ کر کسی اور کا ہو جانا خود کو مارنا مرتا ہے ماں باپ کا مان رکھنے کے لئے بیٹیوں کو جھکنا پڑتا ہے بھولنا پڑتا ہے وہ بھی اس انسان کے لئے آخری بار رو رہی تھی کیونکہ اب وہ کسی کی بیوی تھی اسے محبت نہیں وفا نبھانی تھی۔۔۔۔۔۔۔

        _____________________

ہال سے سب سیدھا کاظمی ہاؤس ہی آئے تھے حبیب صاحب اویس اور رومانہ تو اپنے کمروں میں جا چکے تھے جبکہ ارمیز اور ارقم دونوں ہی کہیں گئے ہوئے باقی سب بھی اپنے کمروں میں تھے جبکہ عفت بیگم بی جان اور ہاجرہ کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں اور آج کی تقریب کے حوالے سے بات کررہی تھیں دل تو رومانہ کا بھی تھا لیکن بی جان سے کچھ خاص بنتی نہیں تھی اس لیے وہ رکی نہیں 

بی جان اور ہاجرہ مجھے آپ دونوں سے ایک بہت ضروری بات کرنی تھی اب موقع ملا ہے تو سوچ رہی ہوں کرلوں بات 

تو کریں نا بھابھی اس میں سوچنے والی کا بات ہاجرہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو بی جان نے بھی ہاں میں سر ہلایا جسے بول رہی ہوں کہ کرو بات

مجھے مہر بہت پیاری لگتی ہے بلکل اپنی اپنی سی اسے دیکھ کر بس ایک ہی خواہش دل میں جاگی ہے میرے 

کیسی خواہش بھابھی ہاجرہ بیگم کو ان انجانا سا خوف ہوا تھا 

میں اسے ارقم کی دلہن کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں اور میں نے دیکھا ہے بی جان ارقم کے ساتھ وہ بہت ججتی ہے 

کیا تم نے ارقم سے بات کی ہے عفت؟سوال بی جان کی طرف سے آیا تھا 

وہ شادی نہیں کرنا چاہتا بی جان لیکن میں اسے مناؤں گی مہر ہی مجھے میرا بچہ واپس کر سکتی ہے وہ ماں تھیں اس لئے بی جان سے اس طرح بول رہی تھی کہ ہاجرہ کو بھی ایک لمحے دکھ ہوا تھا 

دیکھو عفت تم اس بچی کے بارے میں بس وہی جانتی ہو جو ہم نے تمہیں بتایا ہے لیکن اسکا ماضی تم نہیں جانتی 

تو آپ بتائے مجھے سب 

اور تب انہوں نے مہر کی ساری بات انہیں بتا دی تو وہ پھر بھی راضی تھیں

ہم دیکھتے ہیں عفت ہم کیا کرسکتے ہیں سب سے پہلے مہر کی مرضی دیکھے گے اور اس سے بڑھ کر ارمیز کی رضامندی کے بغیر جواب نہیں دینگے آپ سوچ لیں بی جان ایسا مسئلہ نہیں ہے جنتا ٹائم لینا ہے لیں لے 

ٹھیک ہےہم دیکھتے ہیں تھوڑی دیر بعد جب عفت گئی تو ہاجرہ بیگم نے ناراضگی سے بی جان کو دیکھا تھا

آپ نے منع کیوں نہیں کیا آپ جانتی ہیں مہر کو میں اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں 

وقت آنے دو ہاجرہ جسکے نصیب میں جو ہوگا اسے مل جائے تمہارے یا میرے چاہنے سے کیا ہوگا یہ کہہ کر بی جان کروٹ لے کر لیٹ گئی جبکہ ہاجرہ سوچ چکی تھیں جلد از جلد وہ ازمیر سے بات کرینگی بہت ہو گیا تھا اب۔۔۔۔۔۔

         ________________

وہ گاڑی سے اترا تو اسکے قدم سامنے والی عمارت کی طرف تھے اس نے اپنے ساتھ آئے دوستوں کو اشارہ کیا اور خود آگے کی طرف بڑھا آج تو مزہ آنے والا تھا باہر ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا 

اس نے گیٹ کے اندر قدم رکھا تو ایک جیسے روشنی کا سیلاب اسکی آنکھوں سے ٹکرایا تھا اس نے آنکھیں چندھیا کر سب کو باری باری دیکھا کوئی شراب کے نشے میں مست تھا تو کوئی جوئے کی بازی لگا رہا تھا وہ مغرور سی چال چلتا کاؤنٹر تک آیا اور اپنے لیے ڈرنک آرڈر کی ساتھ آئے دوست تو اپنی اپنی مستی میں لگ گئے تھے 

تبھی اس نے کوک کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگائی تھی آنکھیں مسلسل کسی کو ڈھونڈ رہی تھی تبھی وہ اسے وہ کونے میں بیٹھا نظر آیا اس کے آگے شراب کی بوتل رکھی تھی اور خود وہ اس وقت شیشہ پینے میں مصروف تھا  وہ جگہ سے اٹھا اور اپنی مخصوص سیٹی بجاتا ہاتھ میں کی چین گھماتا وہ اس انسان کے پاس آیا تھا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھا تھا کونے میں بیٹھا وہ شخص اب غائب تھا ایک پراسرار سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی تھی تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے پلٹ کر دیکھا تو سانس لینا بھول گیا 

گیم اچھا کھیلتے ہوں لیکن میں بھی تمہارہ ہی یار ہوں اب سچ بتانے کے لئے گاڑی میں آجاؤ ورنہ ساری وڈیو میں بنا چکا تمہاری سامنے والا اپنی سنا کر جا چکا تھا 

شٹ یار ارقم نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا۔۔

         ___________________

وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی عجیب سا احساس تھا دل میں ارمیز کو دیکھ کر وہ کیوں سارے غم بھول جاتی تھی کیوں اسے اچھا لگتا تھا اس سے باتیں کرنا کیا اسے محبت ہوگئی تھی اس نے خود سے سوال کیا تھا لیکن جواب نہیں ملا وہ اسک مہربان تھا اس نے چھت دی تھی عزت دی تھی اپنے پن کا احساس دیا تھا وہ اسکی عادتوں سے متاثر ہوتی تھی وہ ہیرو تھا اسکی لائف کا وہ ایک فین مومنٹ سے گزر رہی تھی تبھی اسکی نظر اپنی کلائی پر پڑی تھی جہاں خون جما ہوا تھا ہلکا سا پہلے وہ حیران ہوئی تھی پھر اچانک جیسے اسے یاد آیا تھا 

جب وہ گرنے لگی تھی تو ارقم نے اسے پکڑا تھا تبھی شاید چوڑی ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں لگی تھی

جنگلی مدد کرنے میں بھی چوٹ دیتا ہے بد تمیز اس نے غائبانہ طور پر اسے سنایا اور پھر خود ہی ہنس دی 

کیا تھی اسکی زندگی ایک ساتھ اتنا دکھ آیا لیکن اللّٰہ نے اسے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچا لیا وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا

اسکے کانوں میں رشتہ کی بات پہنچی تھی رامین نے اسے بتایا تھا جب وہ سوچ میں چلی گئی 

شادی وہ کیسے شادی کرسکتی ہے اس انسان سے جس سے ابھی تک بنی ہی نہیں اور اس نے خود کو دیکھا رشتہ کی بات اس نے اسے دکھ نہیں ہوا تھا یا ارمیز کو لے کر جو وہ سوچ رہی تھی کہ اسے شاید محبت ہوگئی ہے لیکن نہیں اسکے دل کو تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا

وہ یہ بھی جانتی تھی ارمیز کی زندگی میں کوئی اور ہے جو اس دنیا میں بھلے نا ہو لیکن اس کے دل میں ہے اور رہے گی

اسے ابھی شادی نہیں کرنی تھی اماں اور بھائیوں کے مل جانے تک تو ہر گز نہیں 

اسنے سوچ لیا تھا اگر اس سے پوچھا گیا تو وہ انکار کردے گی لیکن پھر وہی اپنے محسنوں کو کیسے منع کرے گی عجیب مصیبت ہے وہ جھنجھلائی

تبھی ہاجرہ اس کے کمرے میں آئی تھیں انہیں دیکھ کر وہ جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھی اور ان کے لئے جگہ بنائی

کچھ بات کرنی ہے کرسکتی ہوں؟ان کے اس طرح پوچھنے پر وہ مسکرائی 

آپ ماں ہیں آپ کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے اس نے انکا ہاتھ تھاما تھا 

تمہارے کے لئے رشتہ آیا ہے بیٹے میرے گھر والوں کو بہت اچھے سے جانتی ہو ارقم میرا بھتیجا ہے وہ بنتا بہت کھڑوس ہے لیکن وہ دل کا جتنا پیارا یہ سب وہ لوگ جانتے ہیں جن کے وہ قریب ہے لیکن تمہاری مرضی کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی نا تم کسی مجبوری میں آکر ہاں کروگی کیوں کہ تم ہم پر بوجھ نہیں ہو۔وہ بول کر رکی تھی تھی پھر

میری خواہش تھی تم اس گھر میں رہو ہمیشہ میرے ارمیز کی دلہن بن کر 

اور ان کی بات پر اسنے چونک کر سر اٹھایا تھا

لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں یہ کبھی نہیں ہوگا وہ کبھی راضی نہیں ہوگا شادی کے لئے وجہ یقیناً تمہیں پتا ہوگی 

اس نے اثبات میں سر ہلایا

میں اپنے بچے کو کھونا نہیں چاہتی سوچا تھا زبردستی کرلوں گی لیکن پوری رات میں سوچتی رہی اس لئے سوچا آج اس سے بات کرو میں نہیں جانتی وہ ہاں کرے گا یا نا لیکن تم سے بچے اتنی سی دوخواست ہے اگر وہ مان جائے تو تم اسے قبول کرلینا اور مجھے خود غرض نہیں سمجھنا بچے انہوں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے

امی کیسی باتیں کر رہی ہیں پلیز اس طرح نا کریں آپ میں ہیں میری ایسے کر کے پرایا کردیا آپ نے مجھے وہ بولتے بول خود بھی رونے لگی تو ہاجرہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا

         ____________________

وہ دیر رات اپنے کام کی وجہ سے باہر رہا تھا لیٹ سونے کی وجہ سے آنکھ بھی اسکی لیٹ ہی کھولی تھی ابھی بھی وہ ناشتہ کر کے لیٹا ہوا تھا تبھی رامین نے اسے بی جان کے کمرے میں جانے کو کہا کیونکہ بی جان نے بلایا تھا اسے

وہ اٹھ کر انکے روم میں آیا تو ہاجرہ بھی وہی بیٹھی تھی 

بی جان نے اسے سامنے بیٹھنے کا کہا اور بار شروع کی

مہر کے گھر والوں کا کچھ پتا چلا ان کے سوال پر اس نے نفی میں سر ہلایا 

پھر کیا سوچا ہے اسکے بارے میں وہ کب تک یہاں رہے گی اس بات پر اس نے سر اٹھایا تھا 

مطلب بی جان وہ اس گھر میں آپ لوگوں کی ضد کی وجہ سے آئی تھی ہاں بعد میں بھلے میں نے اسے بلکل رامین کی طرح ہی سمجھا ہے اور جب تک اس کے ماں اور بھائی نہیں مل جاتے وہ یہی رہے گی 

چاہے پھر وہ بڈھی ہوجائے 

ایسا کچھ نہیں ہوگا بی جان

عفت نے رشتہ مانگا ہے ارقم کا مہر کے لئے اب بتاؤ ہم کیا جواب دے اسے 

منع کردیں ہم ابھی کیسے اسکی شادی کردے وہ کیا سوچے گی کہ بوجھ ہے وہ ہم پر نہیں بی جان آپ منع کردیں 

ارمیز سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو اگر اس کے گھر والے نہیں ملے تو کیا اسے ایسے ہی رکھے گے آج میں اور ہاجرہ زندہ ہے کل نہیں ہونگے رامین اپنے گھر کی ہوجائے گی تب وہ کہا جائے گی اگر ارقم سے رشتے پر اعتراض ہے تو تم اس سے نکاح کرلو تاکہ وہ کسی رشتے کے تحت اس گھر میں رہ سکے 

میں میں کیسے کرسکتا ہوں یہ آپ کیا بول رہی ہیں بی جان انکی بات پر وہ فوراً سے بولا تھا 

کیوں؟کیوں نہیں کرسکتے تم کیا برائی ہے اس لڑکی میں

بی جان سب کچھ جان کر بھی یہ بول رہی ہیں آپ 

ہاں سب کچھ جان کر بھی کیونکہ میں دیکھ رہی ہوں تم اب خودغرضی دیکھا رہے ہو اسے دیکھو اپنی ماں کو کیا اس کی خواہش پوری کرنا تمہارا فرض نہیں ہے 

بی جان امی کی میں نے ہر خواہش پوری کی ہے لیکن یہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ میرے بس میں نہیں ہے خدا کے لئے میرے زخم مت ادھیڑے وہ شدت سے خود کو کنٹرول کر رہا تھا

نہیں بولیں اسے کچھ بی جان چھوڑ دیں ماں سے زیادہ وہ مری ہوئی لڑکی اہم ہے

امی۔۔۔۔۔اسے کچھ بھی نہیں بولنا ہاتھ جوڑتا ہوں میں خود پر حرام کر چکا ہوں اسکا نام لینا کہ میری وجہ سے اسے قبر میں آزمائش نا مل جائے میں سب بھولنا چاہتا ہوں لیکن آپ لوگ ہر بار میرے زخم ہرے کرتے رہتے ہیں نہیں کرنی مجھے یہ شادی وادی بخش دے مجھے جیسا ہوں ٹھیک ہوں اور رہی بات مہر کی تو آپ مامی کو ہاں بول دیں کیونکہ میں مہر سے تو کبھی بھی شادی نہیں کرونگا

وہ جو دروازے کے باہر کھڑی سب سن رہی تھی کمرے میں آئی تھی اسکے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی

بہت محبت کرتے ہیں نا اس سے مہر نے اس سے سوال کیا تھا لیکن وہ کچھ نہیں بولا 

میں بھی کرتی تھی اپنے باپ سے کبھی ظاہر نہیں کیا لیکن ہاں بہت کرتی تھی لیکن اس نے مجھے بیچ دیا میرے بھائی جو ہر وقت مجھ سے اپنے کام کرواتے تھے اور میں چڑتی تھی آج ان کے لئے ترس گئی ہوں میری ماں جو میرے لاڈ اٹھاتی تھی اس کی گود میں سر رکھنا چاہتی ہوں لیکن وہ کہیں نہیں ہے مجھ سے زیادہ تو بڑا دکھ نہیں ہے نا آپکا وہ اس دنیا میں نہیں ہے یہ سوچ کر آپ کو صبر آگیا لیکن میں۔۔۔۔وہ ایک سیکنڈ رکی تھی ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کئے

میرے ماں بات بھائی کہاں ہے نہیں جانتی ٹھیک ہونگے یا نہیں کیا ہوا ہوگا کچھ نہیں جانتی رونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تو آپ کو کیوں لگتا ہے کہ آپ کا درد بڑا ہے 

آپ سے زیادہ بڑے غم ہے دنیا میں آپ تو وکیل ہیں نا دیکھتے نہیں ہونگے اپنے لئے نہیں تو اپنے ماں اور دادی کے لئے آگے بڑھے زندگی بہت مختصر ہے غموں کو جگہ نہیں دینی چاہیے یہی کہا تھا نا آپنے مجھے تو خود کیوں نہیں کرتے اس بات کو فولو 

آپ کو شاید ڈر ہے کہ اب آپ نے محبت کی اور وہ بھی چھین گئی تو کیا ہوگا ہیں نا 

اسکی بات پر وہ چونکا تھا جس پر وہ اداسی سے مسکرائی 

میں بھی یہی سوچ رہی تھی لیکن ضروری بھی تو نہیں نا کہ ہر بار غم ملے ہوسکتا ہے اس بار خوشیاں راہ تک رہی ہوں 

امی آپ عفت آنٹی کو ہاں کر دیں اور اور آپ ارمیز وعدہ کرینگے مجھ سے 

وہ واقعی اسکی باتوں سے متاثر ہوا تھا کیا کیا تھا اس نے اپنی زندگی کے ساتھ خود پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا تھا اس کے وعدہ مانگنے پر ہاں میں سر ہلایا تھا

آپ جلد ہی اپنے بارے میں سوچے گے اور لڑکی میں پسند کرونگی اور ہاں جب بھی کچھ مانگوں گی آپ انکار نہیں کرینگے اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا تو ارمیز میں مسکرا کر ہاتھ تھاما تھا 

سب ہی نم آنکھوں سے مسکرائے کہ کچھ تو راضی ہوا وہ جلد وہ وقت بھی آجائے گا جب وہ سارے دکھ بھول جائے گا

جیسے ہی بی جان نے فون کر کے رشتے کی منظوری دی عفت تو جیسے ہواؤں میں اڑنے لگی تھیں اس لیے انہوں نے ڈائریکٹ نکاح کی فرمائش کی تھی بی جان سے ارقم اور مہر کی جبکہ اویس کا کہنا تھا رامین اور ازمیر کا نکاح بھی ساتھ ہی ہوجائے آنیہ کا نکاح دو مہینے بعد یعنی شادی کے دن ہی ہونا تھا

آنے والے جمعہ کو نکاح فکس ہوا تھا عفت بیگم نے سب کو ارقم کو بتانے سے منع کیا تھا اسے سب ازمیر کے نکاح کا پتا تھا اسکی روٹین بھی چینج ہوگئی تھی صبح اٹھ کر شوروم جاتا اور پھر وہاں سے نکل کر رات گئے واپس آتا تھا ہاں البتہ ازمیر بہت خوش تھا 

گھر میں ایک بار پھر ہنگامہ جاگ اٹھا تھا دو دو نکاح تھے عفت بیگم کا بس چلتا تو سارا بازار ہی خرید لیتیں

آنیہ اور رومانہ مل کر انکا مذاق بنا رہی تھی کیونکہ وہ بلکل ہی مست مگن ہوگئی تھیں اپنے لیے بھی وہ سب سے مہنگا سوٹ لائی تھیں 

دوسری طرف بھی حال مختلف نہیں تھا گھر میں گھما گھمی تھی ارمیز بھی بڑھ چڑھ کر ہر چیز کر رہا تھا

ہاجرہ بیگم اس نے ناراض تھی لیکن وہ جانتا تھا وہ سمجھ جائے گی 

رامین بچاری مہر کو پاگل کر رہی تھی کبھی کچھ اپلائے کرتی تو کبھی کچھ وہ بچاری روہانسی ہو جاتی تو اس کی حالت پر رامین ہنس ہنس نے کو ٹ جاتی کیونکہ وہ منہ ہی ایسے بناتی تھی

جمرات والے دن کاظمی ہاؤس سے ان دونوں کا نکاح کا جوڑا آیا تھا 

وہ کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی سوچ کا رخ ارقم کی طرف گیا تھا وہ اتنا خوبصورت تھا تو اس نے منع کیوں نہیں کیا یہ بات وہ دن میں دس بار سوچتی تھا

 وہ شہزادے جیسا ہے اس کو شہزادی ملنی چاہیے لیکن حرکتیں تو بلکل جانور جیسی ہیں بندر لنگور اور اپنی بات پر اسے خود ہی ہنسی آئی تھی ارمیز کو اس نے کبھی غلط نہیں سمجھا تھا بس دکھ تھا 

تبھی دروازہ کھولنے کی آواز پر وہ مڑی تو سامنے رامین مہندی والی کے ساتھ اندر آئی تھی اور پھر اس کے ہاتھ میں ارقم کے نام کی مہندی لگی تھی اس لمحے اسے اپنی ماں شدت سے یاد آئی تھی آنکھوں سے آنسوؤں کو اس نے بہنے دیا تھا تبھی رامین نے پاس آکر اسے گلے لگایا تھا

         _____________________

وہ لوگ سب جانے کے لئے تیار تھے ۔مہمانوں کو بلایا نہیں گیا تھا بس گھر کے ہی لوگ تھے اور ثانیہ آئی تھی اسے خوش دیکھ کر آنیہ کو بہت خوشی ہوئی تھی 

ازمیر نے وائٹ شلوار سوٹ پر بلو واسکٹ پہنی تھی جبکہ ارقم نے کائی کلر کا کرتا پہنچا تھا بالوں کو جیل سے سیٹ کئے وہ سڑے ہوئے منہ کہ ساتھ کھڑا تھا 

عفت نے اسکی نظر اتاری تھی 

سات بجے کے قریب وہ لوگ نکلے تھے ارمیز نے سارا ارینجمنٹ لان میں کیا تھا 

گیٹ پر سجی بوگن ویلیا کی بیل پر لائٹنگ کی گئی تھی سٹیج بھی بہت خوبصورتی سے تیار کیا گیا تھا اور سب سے پیارا اسٹیج کے ایک سائیڈ پر زمین پر نکاح کے لئے جگہ بنائی تھی بیچ میں پھولوں کا پردہ تھا 

وہ دونوں آکر سب کے ساتھ ہی بیٹھے تھے

تھوڑی دیر بعد ہی نکاح کا شور اٹھا تھا سب سے پہلے آنیہ رامین کو لے کر آئی تھی بلو کلر کی فراک پر کوپر ہی کام ہوا تھا 

اسے لا کر جگہ پر بٹھایا گیا تو نکاح کی کارروائی شروع ہوئی تھی ان کا نکاح ہوتے ہی ہر طرف مبارک سلامت کا شور اٹھا تھا 

 تبھی دوسرے نکاح کے لئے دلہن دلہا کو بلایا گیا تو ارقم کو جھٹکا لگا تھا اس کا پلین تو منگنی کر کے بھاگنے کا تھا تو یہ سب

وہ عفت کے پاس آیا تھا لیکن وہ اسکی سن ہی کب رہیں تھیں جاؤ ارقم بیٹھو ازمیر نے اسے لے نا کر بیٹھایا تھا وہ غصے میں کھول کر رہ گیا 

تبھی آنیہ اور ثانیہ اسے لے کر آئیں تھیں 

گولڈن کر کی فراک پر لال دوپٹہ اوڑھے لایٹ میک اپ پر ریڈ لپسٹک ناک میں نتھ ہاتھوں میں گجرے آج تو اسکی چھب ہی نرالی تھی

اسے لے جاکر پھولوں کے دوسری طرف بیٹھایا گیا تھا 

بی جان اور ہاجرہ بیگم اسکے برابر میں آکر بیٹھی تھی اسکا دل پہلے ہی بہت اداس تھا اسے اپنی اماں کی بہت یاد آرہی تھی تھوڑی دیر بعد ہی ایجاب وقبول ہوا اور وہ مہرماہ سلطان سے مہرماہ ارقم کاظمی بن چکی تھی 

عجیب دلہا دلہن تھے ایک اداس اور غصے میں عفت بیگم نے اسے ڈاج دیا تھا اور اسے رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کاش وہ ان کی ایموشنل بلیک میلنگ میں نا آتا 

لیکن اب کیا ہوسکتا تھا تھوڑی دیر بعد ان کو اسٹیج پر بیٹھایا گیا تو سب ایک ایک کر کے تصویریں بنوانے لگے تو وہ اور بےزار ہوا تھا

رخصتی کیونکہ دو مہینے بعد رکھی گئی تھی اس لیے نکاح کے بعد بڑوں کی محفل لگی تھی اور اس طرح یہ خوبصورت شام اختتام پزیر ہوئی۔۔

       ______________________

وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنا میک اپ ریمو کر رہی تھی جبکہ رامین فون پر بات کر رہی تھی اور شرما زیادہ رہی تھی اسے دیکھ کر مہر کو بھی ہنسی آرہی تھی 

وہ چینج کر کے اپنی جگہ پر آکر لیٹی رامین اس وقت کھڑکی میں کھڑی تھی نکاح دونوں کا ہی ہوا تھا لیکن ایک بہت خوش تھی تو دوسری بلکل چپ اس نے یہ نکاح اس لئے کیا کیونکہ وہ کسی کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی وہ اسی وقت انکار کردیا چاہتی تھی لیکن وہ اس سب کے احسانوں کے اور پیار کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی اس لئے اس نے اس شخص سے شادی کی جس کے لئے دل میں کچھ تھا ہی نہیں 

رامین کال بند ہونے پر اس کے پاس آکر لیٹی اور اس کے قریب ہو کر ایک ہاتھ اس کے اوپر رکھا تھا وہ اس کے انداز پر بے ساختہ مسکرا اٹھی تھی 

کٹو میں آج بہت ہوں یقین نہیں آتا دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں جس شخص کو چاہا وہ مل گیا حلانکہ میں نے تو اسے مانگا بھی نہیں تھا

رامی یہی تو ہوتا اللّٰہ ایسے بھی سنتا ہے اور نا ممکن اور ممکن بنا دیتا ہے آپ کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے آپ کو سب کچھ دیا ہے 

ہاں واقعی جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے چلو سوجاؤ رات بہت ہوگئی ہے اس نے آگے بڑھ کر لائٹ بند کردی 

ہم انسان بہت جلدباز ہوتے ہیں ہم اللّٰہ کے فیصلے کو نہیں سمجھتے وہ رحمن ہے رحیم ہے وہ اپنے بندوں کو اس کی برداشت سے زیادہ آزمائش نہیں دیتا  اور جو اسکے نصیب میں ہوتا وقت آنے پر اسے مل جاتا ہے 

نکاح کے بعد سے وہ گھر نہیں گیا تھا رہ رہ کر غصہ آرہا تھا لیکن اب کر بھی کیا کرسکتا تھا اب کچھ ایسا کرنا تھا کہ سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی صبح ہونے پر وہ گھر آیا تھا اور آکر سو گیا تھا اب اٹھا تو عفت بیگم اس کے لئے ناشتہ کے کر آئی تھیں لیکن اس نے منہ پھیر لیا ۔

ارقم مجھ سے کیوں ناراض ہو

ریلی مام آپ کو نہیں پتا یو نو مام آپ اور آپ کے شوہر دونوں ہی خود غرض ہیں اپنی خوشی کے لئے کسی کی بھی زندگی برباد کر دیتے ہیں پہلے آپ کے شوہر نے مجھ سے میرا بچپن چھینا مجھے اپنوں سے دور کر دیا محسوس کر سکتی ہیں میری یہ اذیت آپ نہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا میرا درد میرے باپ کو اولاد سے زیادہ پیسہ کمانا ضروری لگا کھوکھلا کر دیا مجھے کوئی احساس نہیں جاگتا اور اب آپ نے جھوٹ بولا مجھ سے منگنی کا بول کر نکاح ایک بار بتانا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ میں ہوتا کون ہوں آپ دونوں کو سب اپنی خوشی دیکھتی ہے دوسرا جائے بھاڑ میں 

ارقم ایسا۔۔۔۔ 

واٹ مام واٹ ایسا ہی ہے زندگی کو تماشا بنا دیا ہے میری پہلے سب چھین لیا مجھ سے آپ جانتی ہیں گھر والوں کے بغیر کیسے رہتا تھا وہاں میں کیا سلوک ہوتا تھا میرے ساتھ باپ ہوکر بھی یتیم والی زندگی تھی آپ سے محبت کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے کیا کیا میرے ساتھ اس کے غصے میں دیوار پر ہاتھ مارا تھا چھوڑ دونگا میں اسے۔۔۔۔ تبھی کچھ گرنے کی آواز آئی پیچھے دیکھا تو عفت بیگم ہوش و حواس سے بیگانی زمین پر گری ہوئی تھیں وہ جلدی سے ان کے پاس آیا تھا لیکن وہ ہوش میں نہیں تھی انہیں اٹھا کر وہ ہاسپٹل کے لئے نکلا تھا ہاسپیٹل پہنچ کر انہیں ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا تھا تھوڑی ہی دیر بعد حبیب صاحب اویس رومانہ ارمیز ہاجرہ ازمیر سب کی ہاسپیٹل میں موجود تھے انہیں انجائنہ کا اٹیک ہوا تھا 

ارقم کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے اس کی وجہ سے اس کی ماں اسپتال پہنچ گئی تھی 

ڈاکٹر نے ان کے ٹھیک ہونے ہی خبر سنائی تو سب کی جان میں جان آئی تھی سب ان سے ملنے آئے تھے مہر بھی ان سے مل کر گئی تھی دو دن بعد انہیں ڈسچارج کردیا گیا تھا

گھر پہنچ کر انہیں روم میں کے کر گئے تو سبھی ان کے روم میں جمع تھے ارقم نے انہیں سہارا دے کر بیٹھایا تھا جب وہ سب سے مخاطب ہوئی تھیں

مجھے ایسا لگا اس وقت جیسے شاید میں اب میں کبھی واپس نہیں آؤنگی 

ان کی بات پر آنیہ نے تڑپ کر انکا ہاتھ تھاما تھا ارقم نے بھی شاکی نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ مسکرا دی 

میں جانتی ہوں میری بات سے میرے بچوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن اب زندگی پر بھروسہ نہیں ہے مجھے 

عفت بچے کیسی بات کر رہی ہو ابھی میرے جانے کی عمر ہے 

بی جان اب کے مہر نے انہیں ٹوکا تھا اور خفگی سے دیکھا تو وہ ہنس دی

اب پلیز آپ لوگ مرنے کی باتیں نہیں کریں نا وہ روہانس ہوئی تو عفت نے اسے پاس بلایا تھا اور اسکا ہاتھ کر سب سے مخاطب ہوئی 

میں چاہتی ہوں بی جان کے بچوں کی رخصتی اسے مہینے ہوں لیکن۔۔۔

ان کے لیکن بولنے پر سب نے ان کی طرف دیکھا تھا 

یہ ارقم کی زندگی کا فیصلہ ہے ایک فیصلہ میں نے کیا تھا اب تم بتاؤ ارقم رخصتی مانگ لوں میں؟؟؟

اور ارقم کیا بولتا ہاں میں سر ہلا کر کمرے سے نکلتا چلے گیا کچھ دیر بعد باقی سب بھی کمرے سے باہر آگئے تو وہ آنکھیں موندے لیٹ گئی اگر وہ خود غرض تھیں تو تھیں کیونکہ اس طرح ان کے بیٹے کی زندگی میں کچھ تو اچھا ہوتا۔۔۔

         ____________________

وہ ان کے کمرے سے نکل کر سیدھا ساحل پر آیا تھا دماغ سن تھا وہ جانتا تھا وہ کبھی نارمل نہیں ہوسکتا تھا لیکن اگر اسکی ماں کی یہ خواہش تھی تو وہ زندگی میں ایک خوشی انہیں دینا چاہتا تھا کافی دیر وہ وہی بیٹھا رہا تھا تبھی فون رنگ ہونے پر اس نے موبائل دیکھا تو اسکے  دوست کا فون تھا کال سن کر فون کٹ کیا اور ایک سیگریٹ ختم کر کے اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا پھر وہ اپنے دوست کے پاس پہنچا تھا جو اس وقت ڈانس کلب میں تھا 

وہاں پہنچا تو سامنے ہی ارمیز بیٹھا تھا 

تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟ اس کے ارمیز کو دیکھ کر نا گوارہ سے کہا تھا

جو تم کر رہے ہو جواب اسی طرح آیا تھا جس طرح سوال تھا 

ارمیز کی بات پر ناگواری سے اس نے کندھے آچکائے تبھی ارمیز ایک بار پھر اس سے مخاطب ہوا تھا 

بیٹھو کچھ ضروری بات کرنی ہے 

ارقم ا س کے سامنے بیٹھ گیا کلب سے تیز میوزک چل رہا تھا جو اس کے سر میں درد کر رہا تھا لیکن وہ ضبط سے بیٹھا ارمیز کی بات سن رہا تھا اور پھر اس نے جو ارقم کو بتایا اس نے ارقم جا دماغ گھما دیا تھا 

ریلکس کرو ابھی جذبات میں آنا بیکار ہے میں چلتا اب یہ کہہ کر وہ لمبے ڈاگ بھرتا کلب سے نکلتا چلا گیا تھا

        _____________________

گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں تبھی ایک اور خوشی کی خبر جو انہیں ملی وہ ثانیہ کی طرف سے تھی اللّٰہ نے اسے اپنی نعمت سے نوازہ تھا سارے خاندان میں مٹھائی تقسیم کی گئی تھی  مہر اور رامین کی رخصتی تھی  اور ان کے ولیمہ میں آنیہ کا تھا وقت تیزی گزر رہا تھا مایوں مہندی کو سمپل ہی کیا گیا تھا گھر میں کیونکہ یہ بی جان کی طبیعت تھوڑی ناساز تھی البتہ بارات کا انتظام بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا 

ارقم دولہا بنا کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ساری لڑکیاں ہی اسے بار بار دیکھ رہی تھیں بارات ہال میں پہنچی جہاں ان کا شاندار استقبال ہوا تھا دلہنوں کو اسٹیج پر لایا گیا تھا دونوں ہی لاک شرارے میں روایتی انداز میں سجی غضب ڈھا رہی تھیں 

مہر کو لا کر ارقم کے برابر میں بیٹھایا گیا جبکہ رامین اور ازمیر کا فوٹو شوٹ ہورہا تھا۔

ان کی باری آئی تو دونوں نے ہی فوٹوگرافر کو پریشان کیا تھا 

کیا مصیبت ہے تم اسے سنبھال نہیں سکتی چھپکلی وہ بیچاری اپنے شرارے کو سنبھال ہی نہیں پارہی تھی ارقم کی بات پر تپ گئی 

ہاں تو تمہیں کیا تکلیف ہورہی ہے بندر تمہیں تو نہیں کہہ رہی نا کچھ 

اس کے بندر کہنے پر وہ کوئی جواب دیتا لیکن تبھی عفت اسٹیج پر آئی اور اسکا شرارہ سیٹ کیا تھا 

کافی دیر تک فوٹوسیشن چلتا رہا تھا کھانے کے بعد کچھ رسمیں ہوئی تھیں جن میں آنیہ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا ارقم تو پھنس کر رہ گیا تھا دل تو کر رہا تھا بھاگ جائے بڑی مشکلوں سے رسمیں ختم ہوئی تو رخصتی کا شور اٹھا وہ دونوں ہی خوب روئی تھیں 

کاظمی ہاؤس میں انکا استقبال کیا گیا تھا ایک دو رسموں کے بعد انہیں کمروں میں پہنچا دیا گیا تھا

ازمیر بھی تھوڑی دیر بعد کمرے میں چلا گیا تو وہاں آنیہ نے دانیہ کو زبردستی ساتھ لے کر رستہ رکائی کی رسم کی اور پھر اسے جانے دیا البتہ ارقم منظر سے غائب تھا۔۔

وہ کمرے میں بیٹھی تھی کمرہ بہت سادگی سے سنایا گیا تھا بیٹھے بیٹھے کمر دکھ گئی تھی گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی وہ بیڈ سے اٹھی اور چینج کر کے منہ دھو کر وہ آکر جگہ پر لیٹ گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ نیند کی وادی میں اتر گئی

وہ اس وقت گہری نیند میں تھی تبھی اسے لگا کہ کسی نے اسے دھکا دیا تھا ہے اس خواب کے زیر اثر اس کے چہرہ بگڑا تھا تبھی وہ دھڑام سے زمین پر گری تھی 

ہڑبڑا کر اس نے آنکھیں کھولی تھیں وہ کمبل سمیت زمین بوس تھی تبھی اسکی نظر بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹے ارقم پر گئی تھی جو مزے سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا اسے خود کو تکتا پا کر مسکرایا اور تھوڑا آگے ہوا 

جنگلی بلی میری چیزوں سے دور رہا کرو اگر اب تم نے میری چیز استعمال کی تو ابھی بیڈ سے پھیکا ہے انگلی بار بالکونی سے پھینکوں گا 

اور اس کی بات پر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی

ہاں اگر سونا چاہو تو وہ ایک عدد صوفہ رکھا ہے وہاں پر  سو جانا تو اب اپنی یہ شکل گم کرو کیونکہ مجھے سونا ہے یہ کہہ کر وہ سیدھا لیٹا اور آنکھیں بند کرلیں 

جبکہ وہ تو اب تک حیرت زدہ تھی کہ یہ ہوا کیا ہے نئی دلہن کے ساتھ ایسا رویہ اسے جی بھر کر غصہ آیا تھا تبھی اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے پانی کے جگ پر پڑی اس کی آنکھوں میں چمک سی آئی تھی 

سب سے پہلے اٹھ کر وہ فریش ہوئی ہلکا سا میک اپ کیا اور پھر لال لپسٹک سے اپنا کام مکمل کیا اب وہ تیار تھی ٹیبل سے جگ اٹھایا ڈور کھول کر باہر نکلی اور پھر ۔۔۔۔

ہاتھ بڑھا کر سارا پانی اس پر پھینک کر ایسے غائب ہوئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ😂

وہ جو ابھی نیند میں گیا تھا خود پر پڑے پانی کی وجہ سے ایک دم اٹھا تھا پورا بیڈ پانی میں ہوچکا تھا جبکہ وہ خود بھی پورا بھیگا ہوا تھا ۔یہ پانی یہاں کیسے آیا وہ ابھی سوچ رہا تھا کہ اچانک آئینے میں نظر پڑی تھی جہاں لال کلر سے لکھا تھا

بھیگا لنگور 😂

غصہ تو اسے بہت آیا لیکن بدلہ بعد میں آدھار رکھ کر صوفہ پر آکر سوگیا اب بیڈ میں تو سو نہیں سکتا تھا

اب سزا بھگتنا تم بھوتنی چھوڑوں گا نہیں دل میں اس سے مخاطب ہوتا وہ سو گیا 

         _____________________

وہ نیچے آئی تو سب لاؤنج میں ہی جمع تھے سب کو سلام کر کے وہ وہی عفت بیگم کے پاس بیٹھ گئی اور ان سے باتیں کرنے لگی آنیہ ثانیہ کے بیٹے کو لے کر بیٹھی تھی جبکہ رامین اور ازمیر اب تک نہیں اٹھے تھے۔

اس نے ثانیہ کے بیٹے کو آنیہ کی گود سے لیا تھا وہ اتنا پیارہ بچہ تھا اس نے اس کے دونوں گالوں پر پیار کیا تھا 

تھوڑی دیر بعد رامین بھی آگئی تھی تبھی گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا ہاجرہ اور ارمیز ناشتہ کے کر آئے تھے

بیٹا ارقم کو اٹھا کے لے آؤ سب آگئے ہیں بی جان نے کہا تو اس کے طوطے اڑے تھے ظاہر ہے اب بدلہ تو وہ کے گا ہی

لیکن تبھی پیچھے سے اسکی آواز آئی تھی سب سے مل کر وہ مہر ماہ کے برابر میں آکر بیٹھا اور مسکرا کر مہر کو دیکھا جیسے کتنی محبت ہو اس سے 

اس کے دیکھنے کے انداز پر مہر نے پہلو بدلہ تھا کیونکہ شام میں ولیمہ اور آنیہ کی بارات تھی تو ارمیز لوگ جلدی ہی چلے گئے تھے ان کے جاتے ہی وہ واپس کمرے میں چلے گیا جبکہ وہ وہی سب کے ساتھ بیٹھی رہی تبھی عفت نے اسے اپنے کمرے میں بلایا تو وہ اٹھ کر ان کے پاس گئی 

اس کو دیکھ کر انہوں نے اس کے لئے جگہ بنائی آجاؤ مہر ادھر آؤ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بیٹھایا 

جی آنٹی

آنٹی نہیں ہوں میں تم مجھے سب کی طرح مام یا مما بولو 

ان کے ٹوکنے پر وہ جھینپ گئی 

سوری وہ عادت نہیں ہے تو اب سے مما بولونگی 

ہمم ویری گڈ 

یہ لو تمہارے لئے آج پہننا یہ انہوں نے اسے ایک وائٹ گولڈ کا سیٹ دیا تھا اب جا کر آرام کرو اور بیٹا ایک بار آنیہ کو بھی دیکھ لینا 

جی مما 

انکے کمرے سے نکل کر وہ آنیہ کے پاس آئی تھی جو مایوں بیٹھی ہوئی تھی ھادی کو دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں تھا کہ اسکی شادی بھی ہورہی ہے اپنے کام میں لگا رہتا یا باہر دوستوں میں مگن 

وہ آنیہ کے پاس آکر بیٹھی تو آنیہ مسکرا دی 

اداس تو بلکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صرف کمرہ بدلے کا ہیں نا اس نے آنیہ کا ہاتھ تھام کر کہا تو وہ مسکرادی لیکن بھر اچانک ہی وہ رو دی تھی 

کیا ہوا آنیہ اوئے روتے نہیں ہیں ادھر دیکھو کیا ہوا

میرا دل بہت گھبرا رہا ہے مہر بہت زیادہ میں کیا کروں ایسا لگ رہا کچھ برا ہونے والا ہے

اسکے اس طرح رونے پر مہر گھبرا گئی تھی 

شش چپ کچھ نہیں ہوتا کیوں پریشان ہو سب ٹھیک ہوگا انشاء اللہ ایسے فضول بات نہیں سوچو

میں نہیں سوچ رہی خود آرہی ہیں 

اچھا چلو ابھی ریسٹ کرو مما نے کہا ہے پھر شام میں پارلر بھی جانا ہے نا 

ہمم تم یہی رہو نا مہر میرے پاس 

ہاں آنی میں یہی ہوں وہ بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گئی تھی کمرے میں تو وہ ہر گز نہیں جاسکتی تھی۔۔۔

        _____________________

انیہ اور اسے پارلر سے ڈائریکٹ ہال لایا گیا تھا کیونکہ ھادی کی بارات کاظمی ہاؤس سے نکلنی تھی اس لئے بڑی بھابھی ہونے کی وجہ سے رامین وہی تھی 

سارے مہمان آچکے تھے اور اب بارات کا انتظار تھا 

کافی دیر ہونے کے بعد بھی جب بارات نہیں آئی تو حبیب صاحب نے اویس کو کال کی تھی لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ہوا تھا

ارقم بھی اس صورت حال سے پریشان ہوا تھا اس لئے خود کاظمی ہاؤس آیا تھا یہاں آیا تو پتا چلا ھادی باہر گیا تھا اور اب تک نہیں آیا فون بھی بند جارہا تھا اسکا خون کھول اٹھا لیکن پھر خود کو کنٹرول کر کے اسنے انہیں بارات کے ساتھ نکلنے کے لیے کہا جبکہ وہ خود ھادی کو ڈھونڈنے نکلا تھا لیکن وہ تو جیسے غائب ہوگیا تھا 

ہال میں پہنچ کر وہ سب پریشان تھے کہ کیا ہوگا اب تبھی ارقم آیا تھا ھادی کا کچھ پتا نہیں چلا تھا ہال میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں حبیب صاحب کی حالت بہت خراب تھی مہرماہ اور آنیہ کو بھی یہ بات پتا چل گئی تھی تبھی ہاجرہ نے ارمیز کو بلایا تھا 

وہ آیا تو جو بات انہوں نے کی وہ ارمیز کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھی

امی یہ ناممکن ہے میں یہ نہیں کرسکتا پلیز 

تبھی مہر ان سے مخاطب ہوئی تھی

آپ نے کہا تھا نا جو میں مانگوں گی وہ آپ دینگے تو آج میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ آنکہ سے شادی کرلیں 

تمہارا دماغ ہے مہر یہ ناممکن ہے 

کیوں ناممکن ہے ہاں ایک مر چکی ہے اور دوسری آج جیتے جی مر جائے گی یہ دنیا اس پر زندگی تنگ کردے گی اور آپ چاہتے ہیں کیا کہ ایک اور زندگی ختم ہو جائے اور اس کے ماں باپ ٹوٹ جائینگے کیا کسی کی زندگی سے ضد زیادہ ضروری ہے آپ کے لئے وہ ماں باپ ہیں اپنے منہ سے نہیں کہیں گے آپ خود جا کر ان کا مان رکھ لیں پلیز وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی تھی 

وہ باہر آیا تھا دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے اس نے ایک نظر بڑے ماموں اور ممانی کی طرف دیکھا جن کے کندھے جھکے ہوئے تھے سب مہمانوں میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ دولہا غائب ہے 

تبھی وہ دوبارہ اندر آیا اور اپنی منظوری دی یہ سن کر ہاجرہ بیگم نے اسکا ماتھا چوما تھا اور اپنے بھائی کے سامنے جھولی پھیلائی تھی اور انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ بہن کا ماتھا چوما تھا

آنیہ تو شاکڈ تھی جبکہ ثانیہ اس نے ایک بات ہی سوچی تھی کہ وہ اسکی بہن کا نصیب کا تھا جبھی تو اسے نہیں ملا 

تھوڑی دیر بعد نکاح کی رسم ادا ہوئی تھی 

مہر نے آکر آنیہ کو سب کچھ بتایا تھا رخصتی کے وقت آنیہ کا رو رو کر برا حال تھا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا آج وہ اسکا محرم بن گیا تھا۔۔

وہ اس وقت ارمیز کے کمرے میں بیٹھی تھی اسکا دل کیا خود کو ہی ختم کرلے مہر نے جو کچھ بتایا تھا اس کے بعد تو اسکا دل ہی نہیں کیا کہ وہ اس لڑکی کی جگہ لے اپنا بیٹھنا اسے فضول ہی لگ رہا تھا اس لئے اپنی جگہ سے اٹھی اور بیگ سے کمرے نکال کر چینج کیا میک اپ ریموو کیا اور آکر لیٹ گئی 

یہ گلٹ بھی تھا کہ اپنی بہن کی محبت کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزرے گی

اس نے آنکھیں بند کی ذہنی طور پر اور جسمانی طور پر اتنا تھک گئی تھی کہ فوراً ہی نیند کی وادی میں چلی گئی

رات دو بجے کے قریب وہ کمرے میں آیا تھا کافی دیر تک وہ اسموکنگ کرتا رہا تھا زندگی اس طرح بدلے گی وہ سابق بھی نہیں سکتا تھا 

بیڈ پر نظر پڑی تو آنیہ بے خبر سو رہی تھی وہ فریش ہو کر آیا اور اپنی جگہ آکر لیٹ گیا ہاجرہ اور مہر کی باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں وہ آنیہ کو ایکسیپٹ نہیں کرپارہا تھا انہیں باتوں کو سوچتا تھا نیند کافی دیر بعد اس پر مہربان ہوئی تھی

        ___________________

مہر کمرے میں آئی تو کمرہ خالی تھا ارقم کہیں نہیں تھا اس نے شکر ادا کیا تھا اور اب چینج کر کے صوفہ پر سونے لیٹی تھی ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ آگیا تو بدلہ تو ضرور لے گا لیٹے لیٹے اسے ایک بج گیا تھا نیند سے برا حال تھا لیکن ارقم سے ڈر بھی لگ رہا تھا جسکا نام و نشان نہیں تھا وہ دل کڑا کر کے سوگئی۔۔

کسی چیز کے گرنے کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی تھی تھوڑی دیر تک تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا آواز مسلسل آرہی تھی وہ اٹھ کر بالکونی تک آئی تھی سردی آج ضرورت سے زیادہ ہی تھی اس نے بالکونی کا ڈور کھولا تو ایک سرد ہوا کا جھونکا اندر آیا تھا اس نے جھرجھری سی لی تھی ابھی اس نے بالکونی میں قدم رکھا ہی تھا کہ 

آآآآہہہہہہ اسکی چیخ برآمد ہوئی تھی وہ سر سے پاؤں تک بھیگ چکی تھی تبھی سائیڈ سے ارقم نکل کر آیا تھا اس کے ہاتھ میں پانی کی بالٹی تھی جس کا سارا پانی وہ اس پر ڈال چکا تھا 

ویسے میں مہاورہ سنا تھا بھیگی بلی ٹائپ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا

تم تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے غصے سے مٹھیاں بھینچی تھی دانت سردی کی شدت سے بج رہے تھے

کیا میں؟؟؟پیارا ہوں ہیں نا 

جاہل ہو گوار ہو تمہیں اسی بالٹی میں ڈوب مرنا چاہیے اتنی سردی میں کسی پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہوئے شرم آنی چاہیے 

کیوں تمہیں آئی تھی اس کی بات پر وہ سٹپٹائ

شرم کرو تمہارا کزن غائب ہے اتنا کچھ ہوا اور تمہیں بدلے کی پڑی ہے 

اسکی تم ٹینشن نہیں لو وہ مسئلہ میں حل کر چکا اب راستہ دو وہ اسے ہٹا کر بالکونی سے اندر آکر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا 

جبکہ وہ سردی سے بےحال بیگ سے کپڑے لے کر چینج کر کے آئی اور اب خود کو فل بلینکٹ میں کور کر کے ہیٹر کے سامنے بیٹھی تھی تھوڑا سکون محسوس ہوا اور حواس بحال ہوئے تو بیڈ پر لیٹے ارقم کو دیکھا 

میں نے اینٹ ماری تھی جواب پتھر سے دیا منحوس کہیں کا 

چھب تھوڑا سکون ملا تو وہ اٹھ کر صوفے پر آئی اب کبھی اس بلا سے پنگا نہیں لینا تھا یہ تو طے تھا

صبح اسکی آنکھ کھلی تو گھڑی صبح کے نو بجا رہی تھی بیڈ پر وہ ابھی بھی موجود تھا وہ اٹھ کر فریش ہوئی اور اپنے بیگ تک آئی روز روز بیگ سے کمرے نکالنے پڑتے تھے وہ اس چیز سے اکتا گئی تھی لیکن کیا کرسکتی تھی اٹھ کر چینج کیا اور تیار ہوکر نیچے آئی پورے گھر میں سناٹے کا راج تھا تبھی اسے کل رات والا واقعہ یاد آیا تھا 

پتا نہیں کیوں کیا ھادی بھائی سے ایسا 

وہ کچن میں آئی تو وہاں بھی کوئی ملازم نہیں تھا ورنہ بوا تو اس وقت تک آجاتی تھی اس نے سر جھٹک کر اپنے لئے چائے بنائی لان میں جانے کی ہمت ہی نہیں تھی سردی سے برا حال تھا اس لئے واپس کمرے میں آگئی لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اسے نیچے سے آوازیں سنائی دی 

آواز اویس چچا کی تھی وہ کپ وہی رکھ کر باہر سیڑھیوں پر آئی نیچے ھادی کھڑا تھا اور اس کے ساتھ کوئی لڑکی بھی تھی

جبکہ اویس صاحب اس پر چیخ رہے تھے رومانہ اور عفت ایک طرف کھڑی رو رہی تھیں دانیہ بھی ایک طرف کھڑی سارا تماشا دیکھ رہی تھی 

فارگاڈسیک پاپا بیوی ہے یہ میری میں بول چکا تھا آپ سے مجھے شادی نہیں کرنی لیکن آپ نے مجھے مجبور کیا میرا پاسپورٹ چھپا لیا میں شانزے سے محبت کرتا ہوں ہم شادی کرچکے تھے کیا نہیں بتایا تھا میں نے آپ کو 

کل شانزے کی کال آئی کہ وہ پاکستان آگئی ہے میں اسے لینے گیا تھا لیکن اس کی فلائٹ لیٹ تھی اور راستے میں گاڑی خراب ہوگئی اور ایک طرح سے اچھا ہی ہوا 

ابھی وہ کچھ اور بولتا ایک زور کا تھپڑ اس کے منہ پر پڑا تھا 

بیغیرت دفع ہو جاؤ میری نظروں سے اور اس کو بھی لے کر جاؤ کتنے آرام سے بکواس کر رہا 

لے جاؤنگا لیکن اپکی سچائی بتاؤنگا میں 

تایا ابو پاپا کو پہلے سے بتا چکا تھا میں کہ میں شادی کرچکا ہوں لیکن انہوں نے مجھے فورس کیا میرا پاسپورٹ چھین لیا میں تو آنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن میرے  کچھ ڈاکومنٹس یہاں تھے لیکن اب اور نہیں رکوں کا میں 

سب کو شاکڈ لگا تھا سب اپنی جگہ فریز تھے تبھی وہ شانزے کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھا پھر مڑ کر پیچھے دیکھا 

تھینکس ارقم بھائی  پاسپورٹ کے لیے آنیہ کے نکاح کے بعد ارقم کے پاس اسکا فون آیا تھا اس نے ارقم کو سب بتا دیا اسے اپنی بہن کے لئے بہت دکھ تھا لیکن اب اس کے نصیب میں ایک بہترین انسان کا ساتھ تھا اسی لئے ارقم نے اسے پاسپورٹ کے ساتھ کچھ پیسے بھی دئے تھے

وہ حبیب صاحب کے پاس آیا تھا 

میں آنیہ سے شرمندہ ہوں اور آپ سے بھی لیکن اگر میں یہ شادی کرتا تو اسکی زندگی برباد ہوجاتی 

مما امید کرتا ہوں آپ مجھے سمجھے گی میں شانزے سے بہت پہلے ہی نکاح کرچکا تھا مجھے معاف کردیں اس نے رومانہ کے آگے ہاتھ جوڑے تو وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر روتی چلی گئیں

وہ شانزے کا ہاتھ تھام کر کاظمی ہاؤس سے نکلتا چلا گیا 

اکثر ماں باپ ضد میں آکر خود ہی اپنی اولاد کو خود سے دور کر دیتے ہیں

مہر نے مڑ کر دیکھا تو وہ اسکے پیچھے ہی کھڑا تھا  ھادی کے جاتے ہی کمرے میں چلا گیا 

اویس کمرے میں بند ہوگئے تھے رومانہ کا رو رو کر برا حال تھا لیکن کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا 

         ______________________

اسکی آنکھ سورج کی روشنی کی وجہ سے کھلی تھی اس نے بلینکٹ منہ تک اوڑھ کر کروٹ لی تو اسکا ہاتھ کسی سے ٹکرایا فورا ہی چہرہ باہر نکال کر دیکھا تھا 

ارمیز بلکل اس کے برابر میں گہری نیند سو رہا تھا بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ایک لمحے کے لئے تو وہ سٹل ہوگئی تھی کوئی اتنا پیارا انسان اس کے نصیب میں ہوگا اس نے سوچا بھی نہیں تھا وہ بے اختیار ہی اسے دیکھے گئی تھی 

جب میں اٹھ جاؤں تب دیکھ لینا ابھی سونے دو 

ارمیز کی آواز پر وہ بہت بری طرح شرمندہ ہوئی تھی اس لئے فورا سے باتھ روم میں چلی گئی ۔

دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا وہ تو بکل ہی مدہوش تھی اچانک آواز پر ڈر گئی تھی 

کیا سوچ رہے ہونگے کتنی بد تمیز ہوں میں کیا ضرورت تھی ایسے دیکھنے کی وہ دل ہی دل میں پیج وتاب کھا رہی تھی لیکن اب کیا کرتی فریش ہو کر کمرے سے باہر نکل آئی لاؤنج میں بی جان اور ہاجرہ کو دیکھ کر اسنے سلام کیا 

اٹھ گیا بچا آجاؤ ہاجرہ نے اس کو اپنے برابر میں بٹھایا ڈر بھی تھا کہ کہیں ارمیز نے کچھ کہا نا ہوں 

کیا بنا رہی ہیں پھپو۔۔

بریانی بنارہی ہوں تمہیں بھی پسند ہے نا 

جی بہت زیادہ پسند ہے اور کباب بھی اور اسنے ایک انگلی اپنی تھوڑی پر رکھی اور پا سوچ اندازمیں آنکھیں گھمائی 

ارمیز جو کافی کا بولنے آیا تھا اسے اس طرح کرتے دیکھ مسکراہٹ آئی تھی اس کے چہرے پر لیکن صرف ایک سیکنڈ کی

امی کافی بنا دے وہ کہہ کر رکا نہیں اور واپس کمرے میں چلا گیا 

ہاجرہ بیگم نے اس کی کافی بنائی اب وہ دینے جارہی تھیں تبھی بی جان نے اس کی جان مشکل میں ڈالی تھی

جاؤ بچے شوہر کا کافی دے کر آؤ بی جان کے کہنے پر وہ گھبرائی تھی لیکن کام کرنا تو تھا تو اٹھ کر کافی کا مگ اٹھا کر کمرے میں آئی وہ صوفے پر بیٹھا موبائیل چیک کرہا تھا اسے دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھا 

بیٹھو آنیہ کچھ بات کرنی ہے

وہ جو کافی رکھ کر واپسی کے لئے مڑی تھی ارمیز کی آواز پر واپس آکر اس کے برابر میں بیٹھی تھی 

اب شادی ہو ہی گئی تھی تو ہمت تو کرنی تھی ورنہ جو مہر نے سمجھایا تھا ضائع ہوجاتا

جی بولیں 

میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں میرے پاسٹ۔۔۔۔

ایک منٹ وہ جو ابھی کچھ بولتا آنیہ کے بیچ میں بولنے پر رکا تھا

اگر آپ اپنے پاسٹ کے بارے میں مجھے بتانا چاہتے ہیں تو مجھے سب پتا ہے اور وہ لڑکی بہت لکی تھی میں کبھی آپ سے نہیں بولونگی اسے بھول جائے یہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوگی لیکن اگر اب میں آپ کی زندگی میں آہی گئی ہوں تو میرا خیال رکھنا آپ پر فرض ہے اور آپ کا خیال رکھنا مجھ پر اور رہی بات محبت کی تو وہ ہم ساتھ رہے گے تو خود ہی ہو جائے گی اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ جب بھی اپ سیٹ ہوں مجھ سے شئیر کرلینا مجھے بلکل بھی برا نہیں لگے گا وہ جو مزے سے مہر کی سکھائی باتیں اور اپنی طرف سے مزے بول رہی تھی اس کو دیکھ کر چپ ہوئی تھی جو بڑی فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا

اب آپ آرام کرے میں چلتی یہ بول کر وہ کمرے سے غائب ہوئی تھی اور اسکے جاتے ہی ارمیز ہنسا تھا 

وہ وکیل تھا لوگوں کو چپ کرواتا تھا آج وہ اسے چپ کرواگئی تھی

اس نے عفت کے ساتھ مل کر اپنا سارا سامان الماری میں سیٹ کیا تھا سب کام سے فارغ ہو کر وہ نیچے آگئی اب اس بلا کا انتظار تھا جانے کیا ریکشن ہونا تھا اسکا 

کیا کرے گا زیادہ سے زیادہ چیخے چلو سن لونگی

وہ اس وقت عفت کے روم میں بیٹھی تھی کافی دیر ان سے بات کرنے کے بعد وہ روم میں آئی تھی اور سامنے کا منظر دیکھ کر اسے دھچکا لگا تھا 

سامنے ہی اسکے سارے کپڑے زمین پر پڑے تھے اور اسکی بلیک فراک کو کاٹ کر بری طرح قتل کیا گیا تھا اور وہ خود مزے سے بیٹھا آئسکریم کھا رہا تھا 

وہ چل کر اپنے کپڑوں کے پاس آئی اور اٹھا کر اپنی فیورٹ فراک کو دیکھا جس کے گھیر کو لمبائی میں کاٹا گیا تھا صدمے سے اسکا برا حال تھا اور تبھی اٹھی الماری کھول کر اس کے سارے کپڑے باہر پھینکے 

اوئے پاگل ہو کیا کر رہی ہو وہ اسے کپڑے پھینکتا دیکھ آگے بڑھا تھا لیکن اس کے ہاتھ میں قینچی دیکھ اسکے قدم رکے تھے 

کیا ہوا آؤ اب میں بتاتی ہوں کپڑے کیسے کاٹے جاتے ہیں 

اوئے خبردار جو تم نے میرا ڈریس خراب کیا 

ارے کیوں بے بی کو ڈر لگ رہا ہے اب اپنا کیا بھگتنا تو پڑے گا اس نے ارقم کی چار پانچ بلکل نئی شرٹ اور دو اسکی فیورٹ شرٹ اٹھائی تھی اور یہ انفارمیشن اسے عفت نے دی تھی

دیکھوں میری شرٹ رکھ دو ورنہ ۔۔

ورنہ کیا ارقم بےبی کیا کرے گا 

دیکھوں اس نے اسے وارن کیا تھا تبھی مہر نے قینچی اس کی شرٹ پر رکھی تھی

اسٹاپ پلیز ڈونٹ دو دس وہ اسکی بچپن کی شرٹ تھی دادی نے دی تھی اسے 

ٹھیک ہے نہیں کرتی کچھ لیکن میری ایک شرط ہے 

کیا؟؟؟بولو

میرے سارے کپڑے جس طرح رکھے تھے دوبارہ رکھو اونہ انجام کے زمہ دار خود ہونگے 

وہ اس وقت پوری ہٹلر بنی ہوئی تھی 

ارقم کا دل کیا منہ نوچ لے اسکا لیکن کیا کرسکتا تھا پہلی بار کوئی ٹکر کا ملا تھا شکل تو معصوم تھی لیکن حرکتیں توبہ😂😂

اور پھر بیچارے ارقم نے اسکا سارا سامان سیٹ کیا تھا اور اپنا بھی اور وہ ظالم بنی بیٹھی تھی 

ہوگیا گڈ چلو یہ لو اس نے اسکی شرٹس اسے دی تھی 

وہ دو مہر۔۔۔۔

مہر نے اس کی دادی والی شرٹ ابھی بھی اپنے پاس ہی رکھی ہوئی تھی 

نہیں نا مجھے تم پر بلکل بھروسہ نہیں ہے شرٹ ملتے ہی جنگلی پن دیکھا دیا تو نا بابا نا رسک نہیں لینے کا یہ کہہ کر وہ مڑی ہی تھی کہ اچانک ارقم نے اسکا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا اسے 

وہ ڈائریکٹ اس کے کندھے سے ٹکرائی تھی دل کی رفتار بہت تیز ہوئی تھی 

ہاتھ چھوڑو میرا وہ غرائی تھی 

آہاں کیوں چھوڑوں آلے آلے میرا بابو شونا کا سارا بھرم کہا گیا اس نے اسنے اسکا ہاتھ موڑا تھا 

دیکھو میرے ہاتھوں ضائع نہیں ہونا چاہتے تو چھوڑو

ارے ارے کیا ہوا درد ہو رہا ہے اووووو چچ چچ اب پنگا لے ہی لیا ہے تو مزے بھی لونا 

چھوڑو مجھے وہ بھرپور زور آزمائی کر رہی تھی ۔پہلے میری شرٹ واپس کرو شاباش 

نہیں کرونگی یہ میرا بھی کمرہ ہے یہاں کی چیزیں بھی میری ہیں 

اوو اچھاااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب بتاؤ ارقم نے اب کے اس کو ہاتھ پکڑ کے اور زور لگا کے موڑے تھا دوسرے ہاتھ میں مہر نے اسکی شرٹ دبائی ہوئی تھی 

آہہہہہہہ جانور جاہل جنگلی۔۔۔۔وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی

تو دو واپس وہ شرٹ چلو شاباش۔۔۔

دیتی ہوں شرٹ پر ایک شرط پر 

میری گرفت میں ہوں اس پر بھی شرط رکھ رہی واہ کیا بات ہے اسکے شرط والی بات پر وہ عش عش کر اٹھا تھا 

چلو بولو کیا یاد رکھو گی 

تم میرے کپڑے نہیں پھینکو گے پلیز 

ہمم ٹھیک ہے نہیں پھینکتا اب لاؤ شرٹ اسنے اس پر احسان کیا تھا 

یہ لو شرٹ لیتے ہی اسنے مہر کو چھوڑا تھا اور وہ بھاگ کر کمرے سے غائب ہوئی تھی لیکن پیچھے ارقم کے قہقہے نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا

       _____________________

آنیہ نے خود کو پوری طرح سے مصروف کرلیا تھا ارمیز کے سارے کام وہ اپنے ہاتھوں سےہی کرتی تھی اسے کیسے بھی کرکے اس کے دل میں اپنا مقام بنانا تھا 

وہ بی جان اور ہاجرہ بیگم کو بھی فل ٹائم دیتی تھی وہ دونوں تو بہت ہی خوش تھی ارمیز بھی ان دو مہینوں میں کافی حد تک اسے ایکسیٹ کرچکا تھا اسکی ضرورت کا خیال کرتا تھا وہ غیروں کے لئے اتنا کرتا تھا تو وہ تو پھر اسکی بیوی تھی اسکے نام سے نام جڑا تھا اسکا اور سب سے بڑھ کر وہ اسے سمجھتی تھی 

وہ ابھی ابھی گھر آیا تھا سب کو سلام کر کے کمرے میں آیا سر بری طرح سے دکھ رہا تھا اور کافی دیر آنکھیں بند کئے لیٹا رہا تبھی اپنی پیشانی پر ایک نرم سا لمس محسوس ہوا تھا اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں تو آنیہ تھی اسکا سر دبارہی تھی اسے آنکھیں کھولتا دیکھ دوسرا ہاتھ اسکی آنکھوں پر رکھ کر آنکھ بند کی اور خود اسکا سر دباتی رہی پھر سر میں مساج کیا اسے پتا ہی نہیں چلا کب وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا 

آنکھ کھلی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے سر درد بلکل غائب تھا اس نے مسکرا کر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا 

اٹھ کر فریش ہوکر باہر آیا تو وہ اور بی جان پتا نہیں کونسی باتوں میں مصروف تھیں جبکہ ہاجرہ کچن میں تھی اسے دیکھ کر دونوں چپ ہوگئی تھی 

کافی لاؤں آپ کے لئے اسے بیٹھتے دیکھ آنیہ نے پوچھا اور پھر اس کے ہاں کہنے پر کافی بنا کر اسے دی

سب کو باتیں کرتا چھوڑ وہ کچن میں آئی تھی کیونکہ رات کے کھانے کا ٹائم ہوگیا تھا تو اسنے سب سے پہلے ٹیبل سیٹ کیا اب کام سے فری ہوکر وہ روم میں آئی تھی تبھی ارمیز اندر آیا تھا 

وہ مگن ہی اپنے ہاتھ کا مساج کررہی تھی تبھی وہ اسکے پیچھے آکر کھڑا ہوا تھا 

اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ نفی میں سر ہلا کر بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا وہ بھی آکر اسکے برابر میں بیٹھی تھی اپنا ہاتھ اس نے سامنے پھیلایا تھا 

لائے دیں 

کیا دوں؟

وہی جو آپ مجھے دینا چاہ رہے تھے اور آپ کو شرم آئی کہ اس عمر میں بیوی کو گفٹ دیتا کتنا عجیب لگوں گا تو میں نے سوچا میں خود ہی مانگ لوں 

اور اسکے اس انداز میں کہنے پر وہ ہنسا تھا 

آپ ہنستے ہوئے اچھے لگتے ہیں تبھی زیادہ تر کھڑوس بنے رہتے ہیں

بہت نہیں بولنے لگ گئی ہو؟

کیوں نہیں بول سکتی کیا آزاد شہری ہوں بول سکتی ہوں لڑ سکتی ہوں غصہ کرسکتی ہوں اور پتا ہے میں کسی کو مار بھی سکتی 

اووو اچھا کس کو مارنا ہے آپ نے 

مجھے وہ پر سوچ انداز میں بولی شرارت سے اپنا ہونٹ دانتوں میں دبایا 

آپ کو۔۔۔۔۔یہ کہ کر وہ اس پر کشن سے حملہ کر چکی تھی 

آنیہ نہیں اسٹاپ وہ اپنا بچاؤ کر رہا تھا لیکن اس بلا کے آگے کہا چلنی تھی تو خود بھی شروع ہوچکا تھا 

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اتنا میچور بندہ اس طرح پلو فائٹ کر سکتا ہے پورے کمرے میں دونوں کی ہنسی گونج رہی تھی

ہاجرہ بیگم نے ان کی ہنسی کی آواز سنی تو صدق دل سے دعا کی تھی ان کی دائمی خوشیوں کی جس نے قبولیت کا درجہ پایا تھا

          _________________

اس واقع کے بعد بھی کئی بار ارقم اور اسکی لڑائی ہوئی تھی پر وہ بدتمیز اب چھیچھورا بن جاتا تھا 

لیکن کہیں نا کہیں مہر کے دل میں اس کےلئے جذبات نے سر اٹھایا تھا جس پر وہ بوکھلاہٹ کا شکار تھی وہ تو ابھی تک اس انسان کو سمجھ ہی نہیں سکی تھی کہ سب بولتے تھے کہ ایسا ہے ویسا ہے جبکہ اس کے ساتھ تو وہ کبھی سیریس ہوا ہی نہیں 

ہر وقت اسکی بیٹری چارج رہتی تھی رامین اور رامیز بھی تو تھے کتنا پرفیکٹ کپل تھا آنیہ بھی مطمئن تھی جب بھی آتی رامین اسے ارمیز کو قابو میں کرنے کے گن سیکھاتی تھی جبکہ وہ خود ازمیر کے قابو میں تھی😂

گھر پر بی جان اور ہاجرہ بیگم کی کلاس اٹینڈ کرتی تھی 

اب بھی وہ رکنے آنے والی تھی کیونکہ شادی کے ان تین مہینوں میں وہ ایک بار بھی رکنے نہیں آئی تھی اور نا مہر گئی تھی البتہ رامین دو دفع رہنے جا چکی تھی اب مہر کا ارادہ تھا رکنے کا اور واپسی پر آنیہ کو لانے کا عفت سے پوچھ کر ساری پیکنگ وہ کر چکی تھی بس کچھ سامان تھا جو وہ بیگ میں رکھ رہی تھی تبھی ارقم روم میں آیا تھا 

کدھر کی تیاری ہے چھپکلی،؟

بنا نام بگاڑے بھی بات ہو سکتی ہے ۔اس نے منہ پھولا کر کہا تھا

اچھا بتاؤ بیوی کہا کی تیاری ہے

گھر جارہی رہنے 

ارے واہ مطلب اب سکون کی ،زندگی گزرے گی

ہاں اور مجھے بھی سکون ملے گا اس نے سامان پیک کیا اور آکر صوفے پر لیٹ گئی دل پتا نہیں۔ کیوں اداس ہوگیا تھا کیا اس انسان کو زرا بھی فرق نہیں پڑتا میرے ہونے نا ہونے سے آنسوؤں کو پیتی وہ سونے کی کوشش کرنے لگی

نہیں جانتی تھی کہ اسکے جانے کے بعد وہ بھی تڑپے گا

وہ اور رامین ڈرائیور کے ساتھ یہاں آئی تھیں گھر میں رونق سی لگ گئی تھی آنیہ کا ارادہ ساتھ میں جانے کا تھا لیکن عفت کے اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ دو دن بعد جانے کا سوچ رہی تھی تاکہ مہر لوگوں کے ساتھ بھی وقت گزار سکے۔۔۔

ابھی بھی وہ سب لاؤئج میں محفل لگا کر بیٹھے تھے پتا نہیں کون کون سے قصے تھے رامین کے پاس جو ختم ہی نہیں ہورہے تھے وہ لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہی ہوچکی تھیں بڑی مشکل سے رامین کا ریڈیو بند کروا کے وہ لوگ سونے کے لئے اٹھے تھے 

وہ کمرے میں آئی تو اندھیرا تھا چینج کر کے وہ اپنی جگہ پر لیٹ گئی

میں کل مما کے جارہی ہوں رہنے چلی جاؤں؟

امی سے پوچھ لیا؟؟؟ 

جی کب کا…. 

سہی۔۔۔۔ دو لفظی جواب

وہ خاموشی سے آنکھیں موند گئی 

صبح حسب معمول وہ سب کے ساتھ 

مصروف رہی ارمیز سے اسنے جانے کی پرمیشن لے لی تھی اسے لگا تھا کہ وہ شاید روکے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اسکا دل اچانک بہت اداس ہوگیا تھا شام میں ارمیز آیا تھا تو اسنے اپنا سامان اسے دیا اور سب سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی 

آنسو تھے کہ جھلکنے کو بے تاب وہ خود پر ضبط کئے بیٹھی رہی 

کاظمی ہاؤس میں پہنچ کر وہ سب سے ملا پھر رات کو ڈنر کر کے وہ وہاں سے نکلا تھا وہ جو اس سوچ میں تھی کہ وہ کچھ بولے گا اسکے خاموشی سے چلے جانے پر دل ٹوٹا تھا اسکا سب کی موجودگی کی وجہ سے خود کو کمپوز کرتی رہی لیکن کمرے میں آکر وہ بہت روئی تھی 

کیا اتنے مہینے میں انہیں زرا بھی انسیت نہیں ہوئی مجھ سے

دوسری طرف ارقم کمرے میں آیا تو خالی کمرہ منہ چڑا رہا تھا وہ کافی دیر روم میں بیٹھا رہا لیکن دل ہی نہیں لگا پہلے بھی وہ اس کمرے میں اکیلا رہا تھا لیکن اب کمرہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا 

کبھی وہ الماری کھول کر اس نے کپڑے دیکھنے لگ جاتا تو کبھی اس کی اور اپنی شادی کی تصویر دیکھتا رہتا زیادہ یاد آتی تو شادی کی مووی سے کام چلاتا 

چاہے وہ اسے کتنا ہی کیوں نا تنگ کرتا ہے لیکن پھر بھی اس نے اسکے کام ہمیشہ کئے کبھی اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کی

اس کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ اسے یاد آرہا تھا کبھی تو دل کرتا کہ جا کر واپس لے آئے لیکن اپنے کام کی وجہ سے وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا تھا

کیا مصیبت ہے خود ہی آجائے نا وہ جھنجھلا اٹھتا تھا 

اس لئے آدھی رات کو چپ چاپ کھڑکی کے زریعے گھر میں آیا اسے ڈھونڈنا تھا جانتا تھا یا تو رامین کے روم میں ہوگی یا بی جان کے اس لئے 

لیکن پھر خود ہی شرمندہ ہوا اپنی حرکت پر کیونکہ ایسا تو وہ کبھی نہیں رہا تھا اس لئے جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا اب بیڈ پر لیٹا سوچوں میں گم تھا

کیا میں جنگلی بلی کو مس کررہا ہوں اس نے خود سے سوال کیا تھا اور جواب ہاں میں آیا تھا

ان تین مہینوں میں گزرے واقعات اس کے ذہن میں چلنے لگے تھے لیکن نہیں اسکا تعلق صرف تین مہینے کا تو نہیں تھا اس کے دل نے پہلی بار اپنی ہار تسلیم کی تھی لیکن شاید شادی وہ مقدس بندھن ہے جس میں اللہ تعالیٰ دلوں میں محبت ڈال دیتے ہیں لڑائی ہوتی ہے اختلافات ہوتے ہیں لیکن محبت پھر بھی ہو ہی جاتی ہے 

اسنے آج سمجھا تھا جب محبت ہوتی ہے تو دل بھی نرم ہو جاتے ہیں 

یہ زندگی کوئی فیری ٹیل نہیں ہے یہاں آپ کو لڑنا پڑتا ہے اپنے رشتوں کے لئے 

وہ سوچ چکا تھا جب لوگ ایک نامحرم کے آگے محبت کا اظہار کرنے میں نہیں شرماتے وہ تو پھر اسکی محرم تھی یہ سوچ کر وہ آسودہ سا مسکرایا 

واپس گھر آکر اسنے اپنا سامان پیک کیا تھا اور آج پہلی بار اس نے اپنے باپ سے نرمی سے بات کی تھی کیونکہ جہاں وہ جارہا تھا نہیں جانتا تھا واپسی ممکن ہے یا نہیں وہ جاتے ہوئے مہر سے ملنا چاہتا تھا لیکن ابھی وہ اسے امید نہیں دینا چاہتا تھا اس لئے خاموشی سے چلا گیا۔

        _____________________

ارمیز کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ہاں اسے محبت نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے بغیر گھر بھی خالی لگ رہا تھا اسے عادت سی ہوگی تھی وہ بنا کہے اس کی ضرورت کا خیال رکھتی تھی اور موڈ ہوتا تو اس سے بےتکے سوالات کرتی رہتی وہ حیران رہ جاتا وہ لڑکی جس نے کبھی سلام کرنے سے زیادہ بات ہی نہیں کی تھی کیسے پٹر پٹر بولتی تھی رات لازمی وہ اسکا ایک گھنٹہ دماغ کھاتی وہ ہوں ہاں کرتا تو وہ چڑ جاتی وہ وکیل تھا بولنا اسکا کام تھا لیکن یہ  فریضہ وہ ادا کرتی تھی  تو اسے بھی اسکے بےتکے سوالات  کے جواب دینے پڑتا لیکن اسے اچھا بھی لگتا تھا اور اب خالی کمرے میں بیٹھا وہ اسے یاد کر رہا تھا

 اس لئے کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور اب گاڑی سیدھا کاظمی ہاؤس کے سامنے روکی تھی

آنیہ اس کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی وہ کافی دیر تک حبیب صاحب کے ساتھ بیٹھا رہا تھا اور اب عفت نے آکر بتایا کہ وہ اسے لینے آیا ہے وہ حیران پریشان سی سامان پیک کر رہی تھی ابھی تو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا لیکن کچھ بول نہیں سکتی تھی اس لیے چپ چاپ آکر گاڑی میں بیٹھ گئی 

تھوڑی دیر بعد گاڑی سی ویو پر رکی تھی اس نے باہر شور مچاتا سمندر دیکھا تبھی وہ گاڑی سے اتر کر اسکی طرف آیا تھا اسے لے کر وہ وہی ریت پر بیٹھ گیا

کافی دیر تک وہ دونوں سمندر کو دیکھتے رہے

میں اکثر یہاں آتا تھا یہی مجھے وہ دیکھی تھی بہت پیاری  پھر دوسری بار میں نے اسے کالج میں دیکھا تھا ہم دوست بنے اور کب محبت ہوئی ایک ساتھ لاء کا ایکزیم دیا اور پریکٹس اسٹارٹ کی امی کو بھی ملوایا اس سے لیکن وہ چلی گئی میں اس واقعے کا ذکر نہیں کرتا لیکن میں نہیں بھول سکتا کچھ بھی مجھے لگا زندگی رک گئی بہت مشکل سے سنبھلا تھا میں خود کو کام میں مصروف کر لیا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ محبت ایک بار ہی ہوتی ہے جو میں کر چکا تھا میں لوگوں پر بھروسہ کرنے سے ڈرتا تھا لیکن میں دل سے چاہتا تھا میں نارمل لائف گزاروں شادی کروں لیکن پھر سوچتا کیا یہ اس سے بیوفائی نہیں ہوگی 

مہر نے مجھے سمجھایا تھا اور وہ واقعی ٹھیک تھی میں جو بہت سمجھدار بنا پھرتا تھا میں جانے انجانے میں ایک مرے ہوئے انسان کے لئے ژندہ لوگوں کو تکلیف دے رہا تھا میری ماں روتی تھی میرے لئے لیکن میں خود غرض ہو کر اپنا سوچتا تھا کہ میں اسکی یاد میں زندگی گزار دونگا اور جس دن میرا تم سے نکاح ہوا اس دن میں نے اپنی ماں دادی اور بہن کی آنکھوں میں خوشی دیکھی میرے ایک عمل کی وجہ سے وہ اتنا خوش ہونگی سوچا بھی نہیں تھا 

تم سے شادی کی اور میں اسے نبھانا چاہتا تھا مجھے لگا تھا تم نہیں۔ سمجھو گئی میری بات کو لیکن دیکھو تم مجھ سے زیادہ سمجھدار نکلی تم نے بنا مجھے محسوس کروائے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا اگر بیوی اچھی ہو تو انسان کو پھر سے محبت ہو سکتی ہے اور میں پھر سے محبت کرنا چاہتا ہوں لیکن اس میں مجھے تمہارا ساتھ چاہیے 

وہ بہت خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما تھا 

میری بہن کی محبت تھے آپ لیکن اس کے نصیب میں نہیں تھے میں نے سوچ لیا تھا کبھی محبت نہیں کرونگی کہانیوں کی دنیا اور اصل زندگی میں بہت فرق ہے ہم لڑکیاں پاگل ہوتی ہے جو محبت کے پیچھے بھاگتی ہیں کیا ہوتی ہے محبت کچھ نہیں اور شادی سے پہلے ٹھیک ہے آپ کو کوئی پسند آجاتا ہے لیکن اس کے لئے ماں باپ سے لڑنا بےکار ہے اگر اسکی محبت سچی ہے تو ضرور جائز رشتے میں بندھوں گے آپ گھومنا پھرنا یہ غلط ہے بعد میں پچھتاوے آتے ہیں اس لئے میں دور رہی اس سے لیکن جب میرا نکاح آپ سے ہوا اور آپکا نام میرے نام کے ساتھ لیا گیا تب دل نے صرف ایک بات کہی کہ آپ میرے تھے آپ کو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے رکھا تھا جبھی جس سے آپ نے محبت کی وہ آپ کو نہیں ملی اور جس نے آپ سے محبت کی اسے آپ نہیں ملے کیونکہ آپ میرے نصیب میں تھے کسی اور کو کیسے ملتے میری وفائیں آپ کے لئے تھی اس لئے میرے دل نے کبھی کسی کی طرف پیش قدمی نہیں کی

اب میرے پاس آپ سے محبت کرنے کا حق ہے اور یہ حق مجھے اللّٰہ نے دیا ہے کوئی دنیا اسے نہیں چھین سکتی

اس کی بات پر وہ نم آنکھوں سے مسکرایا تھا 

یقیناً آنیہ تم میری کسی نیکی کا انعام ہو میں خوش ہوں اور اللّٰہ کا شکر گزار کے اس نے مجھے ایسی بیوی دی جو بہت سمجھدار ہے 

اور اس کی بات پر اسنے ارمیز کے کندھے پر سر رکھا تھا 

ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کرلیں ہوتا وہی ہے جو اللّٰہ چاہتا ہے اور بے شک اس نے اپنے بندوں کے لئے بہترین ہی رکھا ہے۔۔

اسے یہاں رہتے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا آنیہ بھی آچکی تھی جبکہ رامین بھی گھر چلی گئی تھی وہ وہاں جانا چاہتی تھی لیکن خود سے بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی کیونکہ ارقم کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر گیا تھا تو ہاجرہ بیگم نے اسے روک لیا تھا 

وہ سب کو دیکھتی تھی سب خوش تھے آنیہ اور ارمیز نے اپنی زندگی شروع کی تھی آنیہ نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ کبھی اس نے پاسٹ کو کے کر بات نہیں کرے گی حال میں خوش رہنا سیکھایا تھا اس نے ارمیز کو 

سب ہی آنیہ کے شکر گزار تھے رامین بھی بہت خوش تھی اب کچھ دنوں میں ازمیر کے ساتھ باہر ملک جارہی تھی سب اپنی زندگیوں میں مگن تھے بس ایک وہی تھی جو اداس رہتی تھی اسکا شوہر ایسا لاتعلق ہوکر بیٹھا تھا 

ہاں خوش ہونگے جان چھوٹی ویسے بھی زبردستی مسلط ہوئی ہوں محبت تھوڑی تھی وہ کبھی کبھی حد سے زیادہ جھنجھلا جاتی تھی رہ رہ کر ارقم پر غصہ آتا تھا اسے عادت ہوگئی تھی اسکی وہ ہر وقت لڑتے تھے لیکن اس میں بھی ایک الگ ہی مزہ تھا اور وہ اس مزے کو مس مر رہی تھی ایک ایک بات اس کے دماغ میں فلم کی طرح چل رہی تھی 

گھر میں موجود سبھی اس کی بے چینی کو سمجھ رہے تھے لیکن کچھ بولتے نہیں تھے عجیب کھچڑی پک رہی تھی سب کے بیچ جس سے وہ کا علم تھی

آج بھی وہ حد سے زیادہ اداس تھی فجر پڑھ کر خوب روئی گھر والوں کی یاد شدت سے غالب آئی تھی اس پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو سب کی سلامتی کی دعا کی جائے نماز رکھ کر پھر باہر لان میں آکر گھانس ہر بیٹھ گئی اچھا لگ رہا تھا اسے اس طرح ٹھنڈی گھانس پر بیٹھنا تبھی اسے یاد آیا کہ جب اسی طرح وہ ایک دن کاظمی ہاؤس میں باہر بیٹھی جب وہ اچانک ہی اس کے پاس آکر بیٹھا تھا

آج میں نے پہلی بار ٹڈی دیکھی وہ بھی یہاں لان میں 

اس کی بات پر وہ ہنسی 

کیا ہوا ہنس کیوں رہی ہوں 

ٹڈی دیکھنے پر تو ایسے بتا رہے جیسے ڈائینوسار دیکھا ہو وہ بھی اصل میں کبھی ہمارے ایریا میں آتے بارش کے بعد اتنی ٹڈی آتی ہیں کہ بس 

ہاں دیکھی ہونگی تم نے لیکن وہ اڑنے والی ہوگی میں نے تو دو ہاتھ دو پیر والی ٹڈی دیکھی ہے اور تو اور نیلے کپڑے پہنی ہوئی تھی

اور اس کی بات کا مطلب سمجھ کر اس نے ایک مکا اس کے ہاتھ پر مارا تھا 

ہائے یہ ٹڈی تو مارتی بھی ہے اس کی ایکٹنگ پر وہ عش عش کر اٹھی

جہنم میں جاؤ تم تو اپنے کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھی 

تم پہلے جاوگی یو نو لیڈیز فرسٹ اس نے ایک آنکھ ماری تو وہ تلملاتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی صبح صبح اس کے منہ لگنا مطلب آ بیل مجھے مار والا حساب تھا

خیالوں سے وہ تب چونکی جب بی جان کی آواز آئی وہ اٹھ کر اندر گئی وہ ہی لاونج میں ہی بیٹھی تھی ان کی عادت تھی صبح صبح اٹھنے کی

وہ ان کے لئے جاکر قہوہ بنا کر لائی تھی

کیا ہوا مہر اداس ہے میرا بچہ بی جان کے اس طرح پکارنے پر اسکی آنکھیں پھر آنسوؤں سے بھری تھی اور وہ ان کے گلے لگ کر رو دی

کتنی بری بات ہے بی جان آپ کو خیال رکھنے کا بول کر گیا تھا اور آپ ہیں کہ میری بیوی کو رلا رہی ہیں

مانوس سی آواز پر اسنے پلٹ کر دیکھا تو فریز ہوگئی وہ دشمن جان سامنے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا آگے بڑھ کر بی جان کے گلے لگا تو اسے ہوش آیا تو اٹھ کر کمرے میں چلی گئی اور خود کو بند کرلیا سوچ لیا تھا کچھ بھی ہو جائے بات نہیں کرے گی

لیکن میں کس حق سے ناراض ہوں؟خود سے سوال کیا پھر خود ہی الجھ گئی تبھی تھوڑی دیر بعد نیچے سے سب کی آوازیں آنے لگیں سب سے زیادہ آواز رامین کی تھی وہ حیران ہوئی اتنی صبح صبح رامین یہاں کیسے آگئی کچھ تو عجیب تھا 

آنیہ اس کے پاس آئی تھی اسکا دل نہیں تھا نیچے جانے کا لیکن آنیہ نے بتایا کہ کاظمی ہاؤس سے سب ملنے آئے ہیں تو وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا سب صبح ہی آگئے تھے جن کی خود کی صبح گیارہ کے بعد ہوتی تھی

وہ سیڑھیاں اتر کے نیچے آئی تو سب کو قطار کی صورت کھڑے پایا 

ہو کیا رہا ہے یہاں پر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا تبھی آنیہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا اسنے ہٹانا چاہا لیکن آنیہ نے اسے صبر کا بولا 

سرپرائز تو مل گیا تھا کہ وہ آگیا تھا اب کونسا سرپرائز باقی تھا  

ایک۔۔۔۔

دو۔۔۔۔۔

تین۔۔۔۔۔

آنیہ نے جیسے ہی اپنا ہاتھ ہٹایا دھندلی آنکھوں نے جس شخص کو دیکھا تھا وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی اسے اس وقت سرگوشی میں اس کے منہ سے وہ نام ادا ہوا تھا اور ہوش میں آنے کے بعد وہ بھاگ کر اس انسان کے پاس آئی تھی اور اس کے گلے لگ گئی تھی 

امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رونے کی وجہ سے اس کے منہ سے الفاظ ادا نہیں ہورہے تھے نجانے کتنی دیر وہ یونہی روتی رہتی تبھی کسی نے اس نے سر پر ہاتھ رکھا تھا 

علی میرا بھائی وہ اس کے ماتھے پر پیارکر رہی تھی روتی جارہی تھی حارث اور اسے گلے لگائے وہ روتی رہی آنسوں تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے 

ان کو دیکھ کر سب کی آنکھیں نم ہوئی تھی لیڈیز تو باقاعدہ رو دی تھیں 

کہا چلے گئے تھے آپ لوگ کتنا یاد کیا میں نے 

مہر انہیں آرام تو کرنے دو بتا دونگا سب تمہیں ارقم نے اسے ان کے پاس سے اٹھایا تھا جبکہ رامین ان کو کمرے میں لے کر گئی تھی جہاں وہ فریش ہوئی تھی 

سبھی جاننا چاہتے تھے وہ کہاں تھی ناشتے کہ بعد سبھی لاؤنج میں بیٹھے تھے اور ان کے بولنے کے منتظر تھے تبھی انہوں نے بولنا شروع کیا تھا۔

         ____________________

مہر کے جانے کے بعد وہ تینوں ہی اداس بیٹھے تھے تبھی سلطان گھر آیا تھا 

چلو بھئی اداس کیوں بیٹھے ہو آج تو خوشی کا دن ہے جس دن کا انتظار برسوں سے کیا وہ آگیا 

کونسا دن سلطان اس کے اس طرح خوش ہونے پر امینہ نے اس سے پوچھا تھا 

ارے پاگل اپنی بچی شہر پڑھنے گئی ہے خوشی کا دن تو ہے نا چلو تیار ہوجاؤ آن باہر گھومیں گے کھانا کھائیں گے 

امینہ کا دل نہیں تھا جانے کا دل بہت بری طرح گھبرا رہا تھا لیکن بچوں کی وجہ سے خاموشی سے تیار ہوکر باہر آگئ 

تھوڑی دیر تک وہ میلے میں گھومتے رہے تھے تبھی حارث اور علی دونوں غائب ہوئے امینہ اور سلطان نے پورا میلا چھان مارا لیکن وہ کہیں نہیں ملے امینہ ایک طرف بیٹھی سر پکڑ کر رو رہی تھی تبھی پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھا تھا وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی ہوش آیا تو خود کو ایک کوٹھری میں پایا تھا جہاں ہر عمر کی عورتیں تھی وہاں ان پر ظلم ڈھائے جاتے تھے سارا دن کھیتوں میں کام کروایا جاتا تھا ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا تھا امینہ کو بھی سلطان نے بیچ دیا تھا بچے کہاں تھے وہ نہیں جانتی تھی پل پل ان کی یاد میں تڑپتی رہتی تھی کچھ مہینوں بعد انہیں دوسری جگہ منتقل کیا تھا وہ علاقہ کافی وسیع تھا ایک دن وہ یہاں کھیتوں میں کام کر رہی تھی تبھی جانی پہچانی آواز پر مڑ کر دیکھا تھا جہاں حارث اور علی پھٹے کپڑوں میں تھلے پر مزدوری کر رہے تھے ماں کو بچے تو مل گئے تھے لیکن بیٹی کی یاد میں وہ گھلتی رہتی تھی ایک سال تک وہ اس قید میں رہیں تھیں اور پھر پولیس کا چھاپہ پڑا تھا رہائی ملی تھی سب کو کچھ دن انہیں ہاسپٹل میں رکھا گیا تھا کیونکہ مسلسل محنت اور کم خوارک کی وجہ سے طبیعت مزید بگڑنے کا خدشہ تھا اور آج ارقم انہیں لے کر آیا تھا ان کے سامنے جبکہ سلطان کو تو کب کا موت کے گھاٹ اتارا جا چکا تھا ۔

یہ دنیا صرف دولت کی پجاری ہے اب دولت کے لئے رشتوں کو بیچنا آسان ہوگیا ہے لیکن آخرت کے لئے اپنے لئے جو وہ جمع کر رہے ہیں وہ یقیناً بہت سخت عذاب ہوگا ہم وحشی بن چکے ہیں بیٹیوں کو بھیڑ بکری سمجھ کر فروخت کر رہے ہیں لیکن ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ واحد لاشریک موجود ہے جو ہر پل اپنے بندے کے ساتھ ہے 

سب کو ان کے کئے کی سزا ملنی لازمی ہے جن کو یہاں نہیں ملی انہیں روز محشر اللّٰہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا

         _________________

وہ خاموش ہوئی تھی لیکن مہر کو ہچکیوں سے روتا دیکھ وہ اس کے پاس آیا تھا 

رونا کیسا اب انداز بہت نرم تھا 

آپ نے کیسے کیا یہ وہ جانتا تھا اگلا سوال یہی آئے گا اور اب چھپانے کا فایدہ بھی نہیں تھا تو سنبھل کر بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالج کے بعد اس نے سی ایس ایس کا ایگزام پاس کیا تھا اس کے بعد اس  نے پولیس کے کئے اپلائے کیا کیونکہ گھر جانے کا دل نہیں کرتا تھا اسکا لیکن دوست کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ اسپیشل فورس کے ایگزام کی تیاری کرنے لگا وہاں سے کلئیر ہو کر چھ ماہ اس نے ٹریننگ میں گزارے تھے اسے انڈر کور آفسیر کے طور پر پہلا کیس دیا گیا تھا اسکے بعد دوسرا وہ ہر طرح سے ایک قابل آفیسر تھا اب کے جو کیس اسے ملا تھا وہ لڑکیوں کی خرید وفروخت کرنے والے ایک گینگ کا تھا 

اس کو اپنے بندوں سے ساری انفارمیشن ملتی رہتی تھی تبھی اسے ایک لڑکی کی خریداری کا علم ہوا جسا نام مہرماہ سلطان تھا تعلیم کا بہانہ کر کے اسے کراچی لایا گیا تھا 

وہ ہر وقت اس پر نظر رکھے ہوئے تھا جب مہر کو کراچی لایا گیا اسے ایک گھر میں رکھا گیا ہر خبر اسے ملتی رہتی تھی اور مہر کی حفاظت کے لئے ایک بندہ ان لوگوں کے ساتھ شامل تھا جب اسے پتا چلا کہ مہر کو مین اڈے تک لے جایا جارہا ہے تو اسنے بیچ راستے میں ہی انکی گاڑی سے اپنی گاڑی ٹکرائی تھی تاکہ مہر کو بھاگنے کا موقع مل سکے اور وہ کامیاب بھی ہوا تھا نہیں بھی ہوتا تو پلان بی اس کے پاس موجود تھا 

تبھی اسے اس نے بندے نے مہرماہ کے ایکسیڈنٹ کی خبر دی تھی گاڑی کے نمبر سے پتا چلا کہ وہ ارمیز کی گاڑی تھی مطلب وہ لڑکی محفوظ ہاتھوں میں تھی اگلے دن وہ اس گینگ کے لوگوں کو پکڑنے کے لئے جارہا تھا جب کوئی اچانک گاڑی نے سامنے نظر آیا تھا 

وہ روتی لڑکی اس کے دل میں ہلچل کر گئی تھی خود پر قابو کر کے وہ سنبھلا تھا تبھی ائیر پیس سے اسے ارمیز کے آنے کی اطلاع ملی تھی وہ فوراً وہاں سے نکلا تھا لیکن اسکی نگرانی کے لئے بندہ ضرور چھوڑ گیا تھا لیکن اسے پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی مہر کی پوری فیملی غائب تھی ہر جگہ چھاپے مارے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا حبیب صاحب کو جب اسکے اس فیلڈ میں جانے کا پتا چلا تو وہ بہت گرجے لیکن اسے پرواہ نہیں تھی 

لیکن ارمیز نے اسے دیکھ لیا تو اسے ارمیز کوسب بتانا پڑا اور اب جا کر وہ کامیاب ہوا تھا

سب دن سادھے اس کی بات سن رہے تھے مطلب جسے وہ نکما لاپرواہ سمجھتے رہے کتنی بڑی زمہ داری اپنے اپر لئے گھومتا ہے اس ملک کی حفاظت کرنا 

عفت نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا حبیب صاحب کو فخر سا محسوس ہوا تھا وہ آگے بڑھے تھے اور اپنی غلطیوں پر ہاتھ جوڑے تو وہ فوراً تڑپ اٹھا نو ڈیڈ پلیز یہ نہیں انہوں نے اسے گلے لگایا تھا 

سب سے مل کر وہ مڑا تھا لیکن وہ کہیں نہیں تھی وہ گہرا مسکرایا مطلب اب بس یہ کام رہ گیا ہے کہ روٹھی بیوی کو منایا جائے

     __________________________

وہ لان میں آیا تو ایک کونے میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی اس کی موجودگی محسوس کر کے اس کے رونے میں شدت آئی تھی وہ خاموشی سے اسے روتا دیکھتا رہا لیکن جب برادشت نہیں ہوا تو اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا 

کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو میں مر گیا ہوں اسکے اس طرح کہنے پر اسکا دل دھلا تھا ایک مکا کھینچ کر اسکے بازو پر مارا 

آآآ ظالم آرام سے لگتی ہے 

ہاں بس بس چھوٹے میرا اتنا سا ہاتھ اور اپنا ہاتھ دیکھا ہے ہاتھی جیسا

تمہارا ہاتھ بھلے ہی جھوٹا ہے لیکن ناخن تو بڑے ہیں نا چڑیل کی طرح 

اب کیوں اداس ہو سب ٹھیک ہوگیا فیملی واپس مل گئی 

لیکن اب آپ چھوڑ دو گے مجھے اس لئے میں خود ہی چلی جاؤنگی آپ کی زندگی سے 

اس کی بات پر اسکا دل کیا سر پھوڑ لے کیا فضول دماغ تھا 

کیوں چھوڑوں گا میں تمہیں  فضول بات سوچتی ہے بلکل ہاں۔۔۔۔۔ تم سے میں نے رشتوں کی قدر کرنا سیکھا ہے نبھانا سیکھا ہے تمہارے باپ نے تمہارے ساتھ اتنا برا کیا لیکن تم آج بھی اسکی موت پر رو رہی تھی جبکہ میں بدگمان ہوگیا تھا سب سے۔۔۔ تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو دل کو کچھ ہوا تھا تب نہیں جانتا تھا میری زندگی کا سفر تمہارے ساتھ گزرے گا میں نے دیکھا تمہیں تم مجھ سے بدلے لیتی تھیں برابر سے لڑتی تھی لیکن کبھی مجھ سے نفرت کا اظہار نہیں کیا تمہیں دیکھ کر میں نے سوچا کہ ایک تم ہو جو سب سے محبت کر رہی بنا مفاد کے جبکہ میں نے ماں باپ سے محبت کی لیکن بدلے میں نہیں ملی تو میں بدگمان ہوگیا مجھے لگتا تھا میرا درد بڑا ہے لیکن تمہیں دیکھا تو لگا میں تو فضول کی بات پر لڑتا ہوں

چاچو نے ڈیڈ سے محبت کی لیکن اس میں لالچ شامل تھا اب وہ۔ شرمندہ ہیں سب نئے سرے سے زندگی شروع کرینگے جہاں دلوں میں محبت ہوگی ڈیڈ نے سب کے حصے ان کے حوالے کردیے ہیں اور رہی بات تمہاری تو اب مجھ سے آزادی تمہیں میرے مرنے کے بعد ہی ملے گی اور آئیندہ کبھی دور جانے کی بات مت کرنا

تم بہت خاص ہو میرے لئے تم بیوی ہو میری اور آج یہ کہتے ہوئے مجھے بڑا فخر ہورہا ہے 

کیا؟اسکے چپ ہونے پر وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی

"چاندنی کا حصار کئے میرے گرد 

وہ چاہتا ہے مجھے سنوارنا یارا

عادت سی لگا کر مجھے وہ اپنی 

ہو جانا چاہتا ہے دور یارا 

کیسے کہوں میں اس سے کہ

تو لازم سا ہوگیا ہے میرے لئے یارا

کہ ہاں آج فخر سے کہتا ہوں میں یہ 

تم سے سیکھی محبت جاناں"

اس کے کان کے پاس اس نے سرگوشی کی تھی  ساری زندگی تم سے لڑنا چاہتا ہوں ساتھ چلو گی نا میرے ساری زندگی اس کے سوال پر وہ 

ہاں میں سر ہلایا تھا 

مجھے ساری زندگی ایک لنگور کا ساتھ منظور ہے یہ کہہ کر وہ اندر بھاگی تھی اور وہ اسکے پیچھے

اُنہیں اسی طرح جینا تھا ہنستے مسکراتے 

ہر انسان کو لگتا ہے اسکا غم بڑا ہے لیکن اس سے بڑے بڑے غم ہوتے ہیں جو انسان اپنے اندر دبائے پھرتا ہے ایسے لوگ مثال ہوتے ہیں 

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa written Fariha Islam Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa   by Fariha Islam  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages