Tu Dilnasheen By Sajeela Nisar Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 31 May 2024

Tu Dilnasheen By Sajeela Nisar Complete Urdu Novel Story

Tu Dilnasheen By Sajeela Nisar Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Tu Dilnasheen By Sajeela Nisar Complete Novel Story

Novel Name :Tu Dilnasheen   
 Writer Name : Sajeela Nisar

New Upcoming :  Complete 

رات  کا دوسرا پہر چل رہا تها چاروں سو خاموشی کا راج تها آخر خاموشی کیوں نہ ہوتی رات کے اس دوسرے پہر کون سے دیوانے سیروتفریح کو آتے ہیں اوپر سے سرد رات کی وجہ سے ہوتی دهند خوامخواہ ہی خوف بکهیر رہی تهی بہت سی زی روحیں یہاں ایک سے دوسری جگہ مصروف سی بهٹک رہی ہونگی 

ایک شخص جو شاید دیکهنے میں خود کوئی زی روح لگ رہا تها پر چہرے سے جهلکتا پسینہ کسی تیسری مخلوق کی نشانی نہیں دے رہا تها یا شاید وہ کوئی عام انسان ہی تها پر وہ اس پہر جب کہ ہر جانب سنسانیت تهی یہاں کیوں موجود تها...؟

"میں یہاں کیسے آیا....؟" 

وہ شخص جو لگ بهگ تئیس سال کا ہوگا اردگرد خوف سے دیکهتا ساتھ جگہ کا جائزہ لیتے ہوئے خود سے بڑبڑایا اس قدر ٹهنڈ کے باعث بهی اس کے چہرے پر پسینہ نمایا تها

"مجهے کیوں نہیں یاد میں پہلے کہاں تها اور اب یہاں اچانک کیسے پہنچا...؟"

وہ اپنے زہن پر مکمل زور ڈالتے یاد کرنے کی کوشش کررہا تها لیکن ہر سوچ کو جیسے تالا لگ گیا ہو 

وہ اپنے قدم آگے کی جانب بڑهانے لگا ساتھ اردگرد موجود دور تک پهیلے خوفناک جنگل کو دیکهتا جہاں سے وقفے وقفے سے کسی نہ کسی جانور کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرا کر اس کو کانپنے پر مجبور کر دیتی اوپر سے سنسان سڑک پر چلتے اسکے قدموں کی چاپ سے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسانیت پهیل جاتی

چلتے چلتے اس کو اندازہ نہ ہو سکا وہ کہاں پہنچ گیا ہے سر جهٹکتے ہر خوف بهری سوچ کو پرے دهکیلتے جگہ کو دیکهنے لگا تو نظر سامنے ایک گهر پر پڑی جو کسی حویلی سے کم نہ لگ رہا تها لیکن دور سے ہی وہ کوئی اسیب زدہ لگ رہی تهی پر بہت پرکشش تهی وہ شخص ٹکٹکی باندهے اس گهر کو دیکهنے لگا اپنے خوف کو پرے دهکیلتے وہ بےساختہ اس گهر کی جانب قدم بڑهانے لگا گهر کے دروازے کے پاس رکا اور دیکها کہ دروازے پر قفل لگا ہوا تها اسنے دروازے کو کهٹکهٹانا شروع کیا تو قفل ٹوٹنے کے ساتھ وہ دروازہ کهلا تها اس شخص کے سوچنے سمجهنے کی صلاحیت اس قدر ختم ہوئی تهی کہ اس عمل سے بهی وہ زرا ہوش میں نہ ایا شاید وہ اس گهر کی خوفناک ہر ظاہری جوبصورتی کا اسیر ہو گیا تها

گهر کے اندر داخل ہوا تو وہ پورا اپنی مثال آپ تها ہر قیمتی چیز کالے کپڑے سے ڈهکی ہوئی تهی وہ ہاتھ لگائے ہر چیز کو دیکهنے لگا اس نے اردگرد دیکها کوئی شخص تو کیا کوئی چیونٹی بهی نظر نہ آئی

"کیا اس گهر میں کوئی ہے....؟"

اس شخص نے اردگرد دیکهتے آواز لگائی تهی اسکی اپنی آواز واپس اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تهی پورا گهر خالی ہونے کی وجہ سے آواز دیواروں سے ٹکراتے واپس اسی کی جانب کوٹ رہی تهی

"میں پوچھ رہا ہوں کوئی ہے...؟"

اب کی بار وہ مزید بلند آواز میں بولا تها کہ اس کو کچھ آواز سنائی دینے لگی جو واضع نہ تهی جیسے بہت دور سے آرہی ہو پهر دهیرے دهیرے وہ آواز واضع اور قریب تر سنائی دینے لگی حیرت کا جهٹکا تب لگا جب واضع ہونے پر آواز گهنگهرووں کی محسوس ہوئی

"اور کیا دلکش

اور کیا بدصورت

ہر چہرے پہ نقاب ہے

ہر شخص باحجاب ہے"

خوبصورت نسوانی آواز میں پڑها جانے والا شعر اسکی سماعتوں سے ٹکرایا تو اس نے آواز کی سمت دیکها جو سیڑهیوں کی جانب سے آرہی تهی ایک نقاب پوش لڑکی جو سینج سینج کر ہر قدم سیڑهی پر رکهتی اتر رہی تهی آنکهوں میں تیرتی سرخی اور خوبصورتی اس شخص کو اس گهر کے سحر سے نکالتی اسکے سحر میں ڈبو گئی تهی وہ اسکی آنکهوں میں غوطہ زن ہوتا سب بهول گیا تها ہر چیز جیسے ساکت ہوگئی ہو وہ لڑکی گهنگهرووں کی آواز چاروں سو بکهیرتی اسکے کچھ فاصلے پر کهڑی ہوئی

"کون ہو تم دلنشیں....؟"

وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولا تها

"ﺩﺭد ﮐﺎ ﻋﮑﺲ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ________ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺭﻗﺺ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ..

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺟﮍﺍ ﮨﻮﺍ__ﺷﺨﺺ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ."

وہ دو قدم اسکے مزید قریب ہوتے بولی وہ خاموشی سے نقاب سے جهانکتی ان خوبصورت آنکهوں کو دیکهنے لگا

"یہ گهر میرا ہے تم چاہو تو تمہارا ہو سکتا ہے میں جانتی ہوں تمہیں پسند آیا ہے..."

وہ اپنا ہاتھ لہرائے جس پر کالے رنگ کا گلووز تها بولی تهی 

"یہ گهر بہت خوبصورت ہے میں اسکے سحر میں ڈوب گیا تها لیکن تمہاری ان سحر انگیز آنکهوں نے مجهے تمہارے سحر میں جکڑ دیا ہے اور اوپر سے دلنشیں آواز جو کسی کو بهی دیوانہ بنا دے میں بہت متاثر ہوا ہوں..."

وہ اسکی آنکهوں میں دیوانہ وار دیکهتے ہوئے بولا تو وہ ہنسی تهی اسکی جلترنگ ہنسی پر اس میں مزید خواہش اس کو دیکهنے کی جاگی تهی

"تمہارا چہرہ دیکهنا چاہتا ہوں میں..."

اس نے ہاتھ بڑها کر اسکا نقاب ہٹانا چاہا جسے اس لڑکی نے تهاما تها اسکے ہاتھ کی گرمائش نے اس شخص کے ہاتھ کو جهلسا کر رکھ دیا تها اس نے بےساختہ اپنا ہاتھ کهینچا تها نقاب کے پیچهے چهپے اس سے ہونٹ مسکرائے تهے

"ہٹاو اپنا نقاب..."

وہ بضد ہوا تها تو اس نے مسکراتے آنکهیں جهکائیں اور ہاتھ بڑهائے چہرے سے اپنا نقاب سرکایا تها نقاب کے ہٹتے ہی وہ شخض یک ٹک اسے دیکهنے لگا تها اس شخص کو اپنی پلک چهپکنا بهی اسکے حسن کی توہین لگا

"باخدا قسم آج سے پہلے اس قدر حسین چہرہ نہیں دیکها..."

وہ اسکے سفید چہرے جس پر پرکشش آنکهیں، اور ان پر گهنی پلکوں کا چهایا، خوبصورتی سے تراشے گئے سرخ ہونٹ، پهولے پهولے گال جس میں لہو دوڑ رہا ہو، وہ خوبصورتی میں کسی کو بهی مات دے سکتی تهی

"اور باخدا قسم تمہاری خوبصورت آنکهوں سے ٹپکتی خود کے حسن کی تعریف نے مجهے خود پر غرور کرنے پر مجبور کردیا ہے...."

وہ اس کی آنکهوں دیکهتی اسی کے انداز میں بولی اس بار وہ دلکش سا مسکرایا تها

"اچهی لگی بہت تم مجهے نام کیا ہے تمہارا...؟"

وہ انگلیوں کے پوروں سے اسکے چہرے پر چهولتے سیاہ ریشمی بالوں کو پیچهے کرتے ہوئے بولا

"ماہ فیروز...."

وہ اسکی جانب چہرہ قریب کیے شرگوشانہ انداز میں بولی تهی

"چہرے پر جچتا ہے یہ نام ماہ فیروز اور میرا نام نہیں پوچهو گی..."

اس کو اسکے چہرے سے نظریں ہٹانا دنیا کا سب سے مشکل ترین نام لگ رہا تها ماہ فیروز نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے ناسمجهی سے اسکی جانب دیکها

"میں جانتی ہوں تمہارا نام کیا ہے احمد...."

اپنے نام پر وہ چونکا تها

"تمہیں میرا نام کیسے پتا...؟"

اسنے حیرانگی سے پوچها تو وہ دلکشی سے ہنس

"آوو زرا میرے ساتھ گهر تو دیکھا ہی نہیں تم نے..."

وہ اسکا ہاتھ پکڑتے بولی اور اسکو ساتھ لیے چلنے لگی احمد میں اتنی ہمت نہ تهی وہ مزید کوئی سوال کردے اسکی ہر ادا نے اسکی زبان پر قفل باندھ دیا تها

"کیا تمہارے گهر میں کوئی نہیں...؟یہ اتنا ویرانے میں کیوں ہے...؟خوبصورت ہے لیکن خوفناک ہے بهی ہے اگر تم اکیلی رہتی ہو تو ڈر نہیں لگتا کیا...؟"

وہ جو مسلسل اس کو گهر دیکها رہی تهی وہ ایک دم سے رکا اور اسکا رخ اپنی جانب کیے سوالوں کی بمبار کرنے لگا

"میرے گهر میں ہیں نہ بہت سے لوگ بہت لوگ بہت جلد ملواوں گی ابهی مجھ سے مکمل طور پر ملو..."

وہ ہاتهوں پر چڑهائے گلووز والا ہاتھ اسکے چہرے پر دهیرے سے پهیرتے ہوئے بولی تو اس نے بےساختہ آنکهیں موندیں تهی اور جب کهولیں تو مسکرایا تها وہ بهی مسکراتی واپس اس کا ہاتھ پکڑے ایک کمرے میں لائی جو اندر سے پورا کالا ہر چیز کالی تهی سوائے شیشے کے اور اس کمرے میں ایک نہیں بلکہ تین چار شیشے دیوار میں جڑے ہوئے تهے

"یہ میرا کمرہ ہے بہت جلد ہمارا ہوگا..."

وہ اسکا ہاتھ چهوڑے کمرے کے بیچ و بیچ کهڑے ہوتے ہاتھ پهیلائے بولی

"لیکن اتنی جلد ہم تو ایک دوسرے کو جانتے بهی نہیں..."

وہ کچھ الجها تها

"میں جانتی ہوں نہ تمہیں سب جانتی ہوں احمد بختاور نام ہے پورا ایک بہن اور ایک بهائی ہے بهائی کی شادی ہوئی ہے جس کے دو بچے ہیں تمہاری ماں حیات نہیں اور تمہارا رشتہ تمہاری کزن سے ہوا ہوا ہے...."

آخر میں لہجے سے جهلکتی جلن واضع تهی جو احمد اپنی حیرت میں محسوس نہ کر پایا تها

"کون ہو تم کیسے سب جانتی میرے بارے میں میرے خیال میں ہم پہلی بار ملے ہیں..."

اسکی حیرت کسی صورت کم نہ ہو رہی تهی

"تمہاری خیال میں پہلی بار ملے ہیں لیکن میری نظر میں میرا وجود جسم کا ہر حصہ میرا حسن سب تمہارے لیے ہے میں صرف تمہارے لیے زندہ ہوں..."

وہ اسکے پاس آتی اسکے سینے پر ہاتھ رکهے بولی تهی

"لیکن میں تمہیں نہیں جانتا تم کیسے جانتی ہو...؟"

وہ الجها تها

"ایسے کیسے نہیں جانتے جاننا ہوگا تمہیں جیسے میں جانتی ہوں..."

وہ غصے سے چلاتی گلدان کو اٹهاتی دیوار میں دے مارا تها اس کے برپا ہوتے شور سے احمد نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکها پهر اس کو حیرت سے دیکها جو غصے کی زیادتی سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اسی کی جانب دیکھ رہی تهی

"سس-سوری..."

اس کو حیرت سے تکتا پاکر وہ نم آنکهوں سے بولی تهی اور بیڈ پر بیٹهی پیر اوپر کیے گهٹنوں میں سر دیے رونے لگی تهی

"تت-تم کیوں رو رہی ہو...؟"

وہ اس کے پاس بیٹهتے ہوئے بولا اس کو سمجھ میں نہیں آیا تها وہ کی کہے

"ماہ فیروز رونا بند کرو بتاو مجهے اور اگر میری وجہ سے رو رہی ہو تو میں نہیں خفا..."

وہ اسکو بازو سے ہلاتے بولا تها تو اس نے چہرہ اٹهائے سرخ آنکهوں سے اس کی جانب دیکها چہرے پر کسی آنسووں کا نام و نشان نہیں تها

"تم سچ میں نہیں خفا..."

اس نے آنکهوں میں سوال لیے پوچها تو اس نے نفی میں سر ہلایا تو ماہ فیروز مسکرائی تهی

"❣️ﮐﺎﺵ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﺎ ﻣﺤﻮﺭ

  ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﺮﺍﺷﻮﮞ ___ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ..🥀"

اس نے مسکراتے ہوئے شعر پڑها تها اسکے ہاتهوں کو سختی سے اپنے ہاتهوں میں لیا تها

"کیا تم کو شاعری کرنا پسند ہے...؟"

وہ جهینپتے ہوئے بولا

"عشق ہے مجهے اس قدر تم سے

کہ اب باتیں بهی شاعرانہ کرنی ہیں"

"شاعری کی زبان صرف وہی سمجھ سکتے یا بول سکتے ہیں جو عشق کرتے ہیں اور مجهے میرے حسن کی قسم لازوال عشق ہے تم سے..."

وہ شعر پڑهتے جذبوں میں ڈوبے الفاظوں سے بولی تهی

"تم اچهی ہو بہت..."

وہ ٹهہر ٹهہر کر بولا تها لیکن ناجانے کیوں دل میں خوف سا پیدا ہونے لگا تها

اس سے پہلے ماہ فیروز کچھ بولتی ایک دم سے چہرے پر پریشانی کے اثار نمایا ہوئے تهے اور پسینے سے شرابور ہونے لگی تهی سانس بهی ایک دم سے پهولنے لگی تهی

"کک-کیا ہوا ماہ فیروز...؟"

وہ اسکو اس حالت میں دیکھ کر پریشانی سے بولا

"تم اس کمرے سے مت نکلنا ورنہ تمہیں مجھ سے سب چهین لیں گے میں کچھ دیر میں آتی ہوں..."

وہ اٹهتے ہوئے بول

"کہاں جا رہی ہو میں یہاں کیا کروں گا...؟"

وہ اس ک دروازے کی جانب بڑهتے دیکھ بےچینی سے بولا تها

"ششش..."

وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکهتے بولی اور نظریں اردگرد گهمانے لگی

"خاموش رہو نیچے میری فیملی آئی ہے ان کو تمہارے بارے پتا نہیں چلنا چاہیے ورنہ وہ مجهے ماریں گے..."

پہلے سمجهاتے ہوئے پهر نم آنکهوں سے بولی تو اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا

....................................

ماہ فیروز اپنے ہاتهوں کو آپس میں ملتی چہرہ جهکائے اپنے گهر والوں کی عدالت میں کهڑی تهی

"میں کب سے بلا رہا تها کہاں تهی تم ماہ فیروز...؟"

حاکم اس کے پاس آتا جانچتی نظروں سے دیکهتے ہوئے بولا

"کک-کمرے میں بابا..."

گڑبڑاہٹ سے اس کی زبان لڑکهڑا رہی تهی

"اتنا وقت کیوں لگا آنے میں..."

وہ اس کے پاس سے گزرتے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے بولا اس نے سامنے اپنی ماں کو دیکها جو صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس جس میں مشروب تها اس میں سے پیتی اسی کی جانب توجہ فرما رہی تهی

"مم-معافی چاہوں گی بابا مجهے احساس نہ ہوا اور..."

"کیا مطلب احساس نہ ہوا....؟"

اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے وہ چلایا تها کہ وہاں کی درودیوار کانپ کر رہ گئی تهی ماہ فیروز نے زور سے آنکھیں بند کر کے کهولیں تهی حاکم کے چلانے کی آواز ماہ فیروز کے کمرے میں بیٹهے احمد نے بخوبی سنی

"کیا کہیں ماہ فیروز کسی خطرے میں تو نہیں...؟"

وہ سوچتے ہوئے بیڈ سے اٹها لیکن اس کی آنسووں بهری آنکهوں سے کی جانے والی منت کا سوچتے دوبارہ بیڈ پر بیٹهے اس کا انتظار کرنے لگا

"کہیں کچھ غلط تو نہیں کررہی میری بیٹی..."

وہ اس کے پاس آتے اسکے بالوں کی ایک لٹ اٹهائے بولا تها

"نن-نہیں بابا...."

گهبراہٹ میں اس سے بولنا مشکل ہو رہا تها واحد اس کا باپ تها جس کا خوف اس کے دل میں کسی پہاڑ کی طرح بیٹها ہوا تها

"کرنا بهی مت اس بار غلطی کی سزہ کیا ہوگی تم اچهے سے جانتی ہوگی اور حاکم اپنی بیٹی کو سزہ دینے سے بهی باز نہیں آئے گا تم جانتی ہو ہمارے قانون کو...."

وہ اس کے گلے کو ہاتھ سے پکڑتا تهوڑا دباو ڈالتے بولا تها اور ایک جهٹکے سے چهوڑا وہ گرتے گرتے بچی تهی

"میری نظریں تم پر ہی ہیں ابهی زرا کام ہے ورنہ گهر میں کچھ مشکوک لگ رہا ہے بعد میں حساب کروں گا..."

پیچهے ہو کر ہاتھ جهاڑتے دهیرے دهیرے غائب ہونے لگا تها اور پهر مکمل غائب ہو گیا اس کے جاتے ہی ماہ فیروز کی جان میں جان آئی تهی

"ماہ فیروز تمہارے بابا جان گئے ہیں تم دنیا کے لوگوں کے پیچهے ہو ان کا اشارہ بهی اسی طرف تها اگر جان سے ہاتھ نہیں دهونا چاہتی تو دنیا کے لوگوں سے دور رہو وہ مٹی سے بنے لوگ اور ہم جن زادوں کی دنیا کی ملیکائیں ہیں...."

وہ خون سے بهرا گلاس جو دکهنے میں کسی مشروب کی علامت تها اس کو دیکهتے ہاتھ سے گلاس چهوڑا تها زمین پر گرتے ہی وہ چکنا چور ہوا اور خون فرش پر پهیل گیا تها

"عشق نہ دیکهے دین، عشق نہ دیکهے ذاتاں نوں

عشق نہ دیکهے دنیاداری، عشق نہ دیکهے رسماں رواجاں نوں"

ایک اداد سے شعر پڑهتی نیچے بیٹهی اور ہاتھ سے گلووز اتاری اپنا ہاتھ دیکها سفید ہاتھ جس پر انسانی جسم سے زیادہ رگیں تهی لمبے ناخن جو خوبصورتی سے تراشے گئے تهے 

اپنا ہاتھ خون پر پهیرتے دیکها اور پهر منہ پر لگایا تها اس کی ماں نے یہ دیکها تو حیرت کی زیادتی سے فورا نیچے بیٹهی

"یہ کیا کیا تم نے ماہ فیروز..."

وہ اپنا رومال نکالتی اسکے ہاتھ کو پهر اسکے چہرے کو پریشانی سے جلدی جلدی صاف کرتے بولی اگر یہ بات حاکم کو علم ہو جاتی تو اسکو سولی پر چڑها دیا جاتا

"پہلے دل لگی تهی دیکهنے کی خواہش تهی اب دیکها ہے تو عشق ہو گیا ہے مجهے عشق اور ہمارے رسم و رواج میں ہے جب عشق ہو تو خون سے رنگے ہاتھ منہ پر لگائیں تاکہ سب کو علم ہو اب عشق ہوا ہے...."

وہ جنونی انداز میں اپنی ماں سے بول رہی تهی

"دماغ خراب ہو گیا ہے کیا تمہیں علم ہے ہماری دنیا میں عشق کی سزہ پر سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے اور جب حاکم کی بیٹی یہ کام کرئے تو حاکم کو اس کی حاکمیت سے بهی اتار کر اسکے قبیلے سے نکال دیا جاتا ہے..."

پریسا نے اس کا منہ دبوچا تها اس کے لمبے ناخن اس کو اپنے منہ میں دهنستے ہوئے محسوس ہو رہے تهے اور پهر دیکهتے ہی دیکهتے خون کی بوندیں نکلیں تهی اور پهر غصے سے پیچهے ہوتی اپنا سر تهاما تها

"اب تو عشق کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی ہوں جو بهی بیچ میں آیا ماہ فیروز اپنے قبیلے کی ملکہ جان سے مار دے گی..."

وہ اٹهتے ہوئے بولی 

"کیا کرنے جارہی ہو اپنی طاقت کا غلط استعمال کر لینا زرا سی غلطی پر اپنی طاقت اپنا وقار یہاں تک کہ اپنی جان تک کهو بیٹهو گی..."

وہ اس کو سمجهانا چاہتی تهی وہ جانتی تهی اس کی ضدی بیٹی نے اگر ایک فیصلہ کیا تو مرتے دم تک وہ نہیں بدلے گی

"احمد میرے پاس ہے..."

واپس گلوو اپنے ہاتھ پر چڑها کر بولتی پریسا پر آسمان گرا گئی تهی

"وہ یہاں کیسے پہنچا...؟وہ یہاں کیسے آیا...؟کیوں کسی کی زندگی اجاڑنے لگی ہو..."

"ہمارا قانون اپنا حق دیکهتا ہے چاہے کسی کی زندگی اجڑے یا سنورے احمد میرے پاس ہے وہ خود چل کر آیا ہے میرے پاس اب وہ میرے پاس سے جانا نہیں چاہے گا اور میں جانے بهی نہیں دوں گی آخر اتنے سالوں کی محبت میرے پاس میرا عشق بن کر آئی ہے..."

لہجے سے ٹپکتی جنونیت کسی قیامت کی نشانی تهی اپنی ماں کو پریشان دیکھ کر وہ واپس اپنے کمرے کی جانب چلی گئی تهی

.......................................

ماہ فیروز کمرے میں آئی تو احمد فورا اس کی جانب بڑها تها

"ماہ فیروز تم ٹهیک ہو میں نے کسی کے چلانے کی آواز سنی تهی..."

وہ پریشانی سے اس کو کندهوں سے تهامے بولا تها تو وہ مسکرائی

"تمہیں میری فکر ہو رہی تهی..."

وہ اسکی گال پر ہاتھ رکهے بولی تهی تو وہ ایک دم سے گهبرایا اور نظریں چرائیں

"بتاو نہ فکر ہوئی تهی میری...؟"

وہ بےچینی سے پوچهنے لگی 

"مجهے یہ سب عجیب لگ رہا ہے ماہ فیروز..."

وہ اس کو پیچهے کرتا بولا تها 

"کیا عجیب...؟"

وہ دوبارہ اس کے قریب ہوئی

"میں تمہیں نہیں جانتا میں یہ بهی نہیں جانتا میں یہاں تک کیسے پہنچا اور یہ بهی نہیں جانتا میں تمہارا اسیر کیوں ہوا جا رہا ہوں ابهی چند گهنٹے بهی نہیں گزرے مجهے تمہاری طلب ہونے لگی ہے میں اپنی فیملی سب کو بهول رہا ہوں....."

وہ الجها تها

"اچها ہے نہ سب بهول جاو صرف مجهے یاد رکهو اتنا پیار دونگی سب بهول جاو گے..."

وہ اپنے دل کی غیر ہوتی حالت کے ساتھ بولی تهی

"مم-میں ایسا نہیں چاہتا میں واپس جانا چاہتا ہوں گهر والوں سے تمہارا زکر کروں گا اور..."

"نہیں ایسا ممکن نہیں..."

وہ ایک دم سے اس سے پیچهے ہو کر بولتی دوسری جانب منہ کیا تها دل کی رفتار تیز ہو رہی تهی 

"کیوں ممکن نہیں ماہ فیروز...؟"

وہ اس کا رخ اپنی جانب کرتے الجهتے ہوئے بولا تها

"میں کہ رہی ہوں نہ ایسا ممکن نہیں..."

وہ ایک دم سے چلائی تهی غصے کی زیادتی سے آنکهیں سرخ ہو رہی تهیں

"کیوں مجهے بتاو...؟"

وہ بهی بضد ہوا تها تو ماہ فیروز اپنی قہر برساتی آنکهوں سے اسکی آنکهوں میں دیکهنے لگی اس کی آنکهوں میں ناجانے ایسا کیا تها کہ وہ نظریں جهکانے پر مجبور ہو گیا تها

"کل تک تم اس کمرے سے نہیں نکلو گے کل میری فیملی چلی جائے گی پهر میں تمہیں سب بتاوں گی...."

وہ خود کے غصے کو کنٹرول کرتے بولی تهی

"میں یہاں رہوں گا مطلب ایک کمرے میں ہم دونوں..."

وہ شرمندہ سا بولا تها

"ہاں بالکل فکر نہیں کرو مجهے میری حدود کا پتا ہے..."

وہ مسکرا کر کہتی شیشے کے سامنے گئی اور سرخ لپسٹک اٹها کر اس کے پاس آئی تهی اس لپسٹک کو کهولتے اس نے اس کے منہ پر لگانا چاہی وہ فوراً پیچهے ہوا

"یہ کیا کررہی ہو...؟"

احمد نے اس کا ہاتھ پکڑا تها

"شششش..."

اس کے ہونٹوں پر انگلی رکهتے اس کے منہ پر ایکس کا نشان بنایا تها

"میں اپنی شروع کی جانے والی بربادی میں اکیلی نہیں ڈوبنا چاہتی ہر چیز ہر جگہ یہاں تک کہ موت میں بهی تمہارا ساتھ چاہتی ہوں..."

وہ آہستہ سے بولتی اس کو الجها رہی تهی اس کی ہر بات احمد کے سر سے گزر رہی تهی وہ پیچهے ہوئی تو احمد نے مڑ کر خود کو شیشے میں دیکها

"لیکن ماہ فیروز..."

وہ اس ک پکارتا واپس پلٹا لیکن وہ موجود نہ تهی

"یہ ایک سیکنڈ میں کہاں گئی...؟"

خو سے بڑبڑاتا اپنا چہرہ دیکها اور حیرت سے چہرے کو ہاتھ لگانے لگا کیونکہ لپسٹک کا رنگ سرخ سے کالا ہو گیا تها

"میری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کچھ میں کہیں کوئی غلطی...."

وہ اتنا ہی بولا اور گهومتے سر کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا تها

.......................................

احمد صبح سے ماہ فیروز کا منتظر تها لیکن وہ جب سے اٹها تها اس نے ماہ فیروز کو نہیں دیکها تها تهک ہار کر وہ کمرے سے نکلا اور گهر میں گهومنے لگا اس کے قدم ایک کمرے کے سامنے رکے تهے

"ماہ فیروز نے اس کمرے کے بارے تو کچھ نہیں بتایا...."

وہ متجسس ہوا تها اور کمرے کا دروازہ کهول کر اندر داخل ہوا کمرے میں پورا اندهیرا تها کچھ دیکهائی نہیں دے رہا تها اس سے پہلے وہ سوئچ ڈھونڈتے لائٹ جلاتا کسی کے چلانے کی آوازیں اسکی سماعتوں سے ٹکرائیں تهی سوئچ کی طرف جاتا اس کا ہاتھ رکا تها 

"یی-یہ تو ماہ فیروز کی آواز ہے...."

وہ خود سے بڑبڑایا اور باہر کو بهاگا تها لیکن اچانک سیڑهیوں کے پاس رکنے پر مجبور ہوا اور بےساختہ کانوں پر ہاتھ رکهے تهے اس کے چلانے کی آواز اس قدر تیز تهی کہ دیواریں تک کانپ اٹهی تهیں چلانے کی آواز کبهی کہاں سے آتی تو کبهی کہاں سے آواز پہلے سے کم ہوئی تهی اس نے کانوں سے ہاتھ ہٹائے چلانے کی آواز پر دهیان دیا کہ کہاں سے آرہی ہے

اس کو لگا جیسے آواز سامنے کمرے سے آرہی ہو وہ وہاں بهاگا اور تیزی سے دروازہ کهولا لیکن دروازہ خالی تهی اب آواز دوسری جانب سے آرہی تهی آواز کبهی کسی جانب سے آتی تو کبهی کسی جانب سے

"ماہ فیروز کہاں ہو تم...؟"

وہ اپنی پوری قوت سے چلایا تها کہ اس کے چلانے کی آواز بند ہوئی تهی

"مم-ماہ فیروز کہاں ہو...؟"

اب کہ یہ بهی خوف سے آہستہ بولا تها لیکن پورے گهر میں مکمل سکوت چهایا تها

"روح سے محسوس کریں،لفظوں میں تمہارے کھو جائیں

یہ عشق کا موسم ہے،کہو تو___ تمہارے  ہو جائیں"

خوبصورت آواز میں پڑهے جانے والے شعر پر اس نے سیڑهیوں کی جانب دیکها آواز یقیناً اب اس کے کمرے سے آرہی تهی خوف سے بےقابو ہوتی دهڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے اور دل پر ہاتھ رکهتے اس نے سیڑهیوں کی جانب قدم بڑهائے تهے دهیرے دهیرے زینے چڑهتا وہ کمرے کی جانب جا رہا تها اب کمرے سے گهنگهروں کی آوازیں بہت تیز آرہی تهیں 

"اب قہقہوں کے ساتھ ،،،،،،،کریں گے علاج عشق

ہم مدتوں  اداس،،،،،،،   رہے کچھ بھی نہیں بنا"

شعر پڑهتے ساتھ اس کا قہقہ گونجا تها اور اس کے قہقے احمد کی دهڑکنیں بڑها رہے تهے کمرے کے سامنے کهڑے ہوتے اس نے ہمت کرتے دروازہ کهولا تها اندر داخل ہوا تو کمرہ خالی تها اس نے چاروں سو نظر گهمائی لیکن ماہ فیروز کہیں نظر نہ آئی

"مم-ماہ فیروز..."

اس نے گلا تر کرتے اس کا نام پکارا تها

"تم اس کمرے میں کیوں گئے احمد تم جانتے نہیں وہ کمرہ اس میں موجود ہر چیز میری جان لے سکتا ہے میری اجازت بنا کیوں گئے...."

پہلے آہستہ آواز میں بولتی اخر میں چلائی تهی کہ کمرے میں موجود ایک شیشہ چکنا چور ہو گیا تها احمد خوف سے پیچهے ہوا اور پهٹی پهٹی آنکهوں سے شیشہ دیکهنے لگا تها جو چکنا چور ہوئے زمین بوس تها وہ جو ابهی شیشے کی وجہ سے حیرت میں گم تها کہ ماہ فیروز کے رونے کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تهی اس نے کمرے میں اردگرد نگاہ دوڑائی اور ایسا لگا آواز بیڈ کی دوسری جانب سے آرہی ہو

اس نے دوسری جانب قدم بڑهائے جوتی کی ہوتی آواز اس ماحوک خو مزید خوفناک بنا رہی تهی اور اوپر سے تیز رفتا میں سینے سے باہر نکلنے والی دهڑکنیں پورے کمرے میں گونج رہی تهیں

وہ بیڈ کی دوسری جانب گیا تو ماہ فیروز نیچے گهٹنوں میں سر دیے بیٹهی رو رہی تهی

"تت-تم کیوں رو رہی ہو...؟"

وہ اس کے پاس بیٹهتے گهبراہٹ میں بولا تها لیکن جواب نداد

"پپ-پلیز مم-ماہ فیروز بب-بتاو..."

خوف سے اسکا جسم شرابور ہو رہا تها اس نے اس کے کندهے پر ہاتھ رکها تو اس نے ایک دم سے چہرہ اٹهایا اس کا چہرہ دیکهتے وہ پیچهے کو گرا اور ایک زور دار چینخ احمد کے حلق سے برامد ہوئی تهی

..................................................

"پپ-پلیز مم-ماہ فیروز بب-بتاو..."

خوف سے اسکا جسم شرابور ہو رہا تها اس نے اس کے کندهے پر ہاتھ رکها تو اس نے ایک دم سے چہرہ اٹهایا اس کا چہرہ دیکهتے وہ پیچهے کو گرا اور ایک زور دار چینخ احمد کے حلق سے برامد ہوئی تهی اور وہ خوف سے ڈر سے چینختا ہوا ویسے ہی پیچهے کو جانے لگا اسکی حالت دیکهتے ماہ فیروز زور زور سے ہنسنے لگی وہ پیچهے ہوتا ویسے اٹها اور باہر کو بهاگا تها ہنسنے کی آواز پورے گهر میں گونج رہی تهی

مسلسل ہنسنے کے بعد اس نے خاموش ہوتے دروازے کو دیکها جو کهلا ہوا تها گردن ترچهی کرتی اپنی پوری کالی آنکهیں جن سے لہو پانی کی مانند نکل رہا تها خالی دروازے کو تک رہی تهی اسکی دونوں گال سے بهی قطرہ قطرہ خون بہ رہا تها اس کے لب پهر مسکرائے اور کانوں پر ہاتھ رکهتے آنکهیں بند کیے چینخ ماری تهی اور مسلسل مارنے لگی اسکی چینخیں اس قدر دل خراش تهیں کہ کمرے کے علاوہ پورے گهر میں موجود شیشے چکنا چور ہوگئے تهے 

احمد جو تیزی سے گرتا مرتا سیڑهیاں اترا تها کہ اسکی چینخوں سے اس نے کانوں پر ہاتھ رکها ضبط کی وجہ سے پورا خون چہرے پر نچڑ آیا تها اسکی چینخوں سے اسکے کانوں کے ساتھ اسکا دل بهی پهٹنے کو تها اور سے کهڑکیوں کے شیشے بهی اسکے سامنے چکنا چور ہو رہے تهے 

اس کی چینخوں کی آواز بند ہوئی تو کانوں سے ہاتھ ہٹاتے تیز تیز سانس لینے لگا اور دیکها ہر جگہ شیشہ بکهرا ہوا تها وہ بکهرے کانچ کے ٹکڑوں سے بچتا بچاتا دروازے کی جانب بهاگا اور اس کو کهول کی مکمل کوشش کرنے لگا

"کیوں نہیں کهل رہا یہ..."

وہ لگاتار کهولنے کی کوشش کرتے چلایا تها اور پهر اچانک اس کے سر میں ٹهیس اٹهی اور وہ دروازے کو چهوڑتا اپنے سر کو تهامے نیچے بیٹهتا چلا گیا تها اور پهر دیکهتے ہی دیکهتے وہ اپنے ہوش گنوا بیٹها اور زمین بوس ہوا تها

.......................................

"میرے حاکم مجهے لگتا ہے ہمیں ماہ فیروز کا ساتھ دینا چاہیے..."

پریسا حاکم کے سامنے بیٹهتے ہوئے بولی جو سامنے برستی بارش کو بنا پلک چهپکے دیکھ رہا تها

"ہرگز نہیں میں اس کو اس کی ہر گز اجازت نہیں دوں گا اگر وہ ہماری دنیا میں موجود کسی بهی جن زادے کو ایک آنکھ اٹها کر دیکهے بهی تو اس کے قدموں میں لاکر رکھ دونگا لیکن دنیا کے لوگ وہ عام انسان نہیں ہرگز نہیں یہ ناممکن ہے ہمارے لوگ ہمیں مار دیں گے...."

وہ اسکی بات پر قہر برساتی نگاہوں سے دیکهتے ہوئے بولا

"میں جانتی ہوں آپ بہتر جانتے ہیں لیکن وہ جس حد تک گزر چکی ہے اور اب گزر رہی ہے مجهے نہیں لگتا کہ اب واپسی ہوگی...."

"واپسی انہیں کرنی ہوگی اسلیے آج زرا سی سزہ دی اگر وہ باز نہ آئی اور میری ڈهیل کا ناجائز فائدہ اٹهایا تو یقیناً وہ خسارے میں رہے گی..."

اس نے کرسی پر بیٹهتے ہوئے کہا

"وہ ہماری بیٹی ہے..."

"میں جانتا ہوں میری بیٹی ہے لیکن جو وہ کررہی سوائے موت کے کچھ نہیں اسے سب پتا ہے وہ خود نہیں پیچهے ہٹ رہی مجبوراً مجهے ہٹانا ہوگا بےشک اس کا سامنا موت سے ہی کیوں نہ ہو جائے اور اب مزید کوئی طرف داری نہیں..."

تفصیل سے کہتے آخر میں ہاتھ اٹهائے مزید اس کی طرف داری سے روکا تو وہ خاموش ہوتی اس بارش کو دیکهنے لگی جہاں عنقریب پانی کی جگہ خون بہنے والا تها

.......................................

احمد بیڈ پر لیٹا چهت کو گهور رہا تها کہ چهت کا رنگ تبدیل ہونے لگا تها وہ آنکهوں میں حیرت سموئے چهت کو دیکھ رہا تها اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا جب وہاں خون جمع ہونا شروع ہوا تها اس کو اپنی آنکهوں کا دهوکا لگا لیکن چہرے پر خون کا گرتا قطرہ اس کے وہم کو نفی کر چکا تها اس کا دل برق رفتا سے دوڑنے لگا تها خون کے قطرے تیزی سے اس پر گرنے لگے وہ ہلنا چاہتا تها لیکن حل نہیں پا رہا تها کسی بهی قسم کی حرکت اس سے نہیں کی جارہی تهی وہ چلانا چاہتا تها لیکن اس کی زبان گویا کنگ گئی ہو وہاں ہر چیز خون سے بهر گیا تهی یہاں تک کہ اسکا جسم بهی اور پهر وہ پورا خون میں دب گیا تها اس کا سانس بند ہورہا تها 

خواب میں سانس بند ہونے کے باعث وہ ایک دم سے ہڑبڑا کر اٹها تها اور دل پر ہاتھ رکهے تیز تیز سانس لینے لگا اور سر اٹها کر چهت کو دیکها جو بالکل صاف تهی پهر چہرہ جهکائے تیز سانس لی اور پهر اردگرد دیکهنے لگا کہ نظر سائیڈ پہ پڑی جہاں ماہ فیروز بالوں میں ہاتھ پهیرتی شیشے میں اسکو دیکھ رہی تهی لبوں پر مسکرایا نمایا تهی اور محبت کا جہاں سموئے وہ شیشے سے اس کے یر عمل کو دیکھ رہی تهی

ماہ فیرو کو دیکهتے اس کو سب یاد آیا تو وہ ہڑبڑی میں بیڈ سے اٹها

"تت-تم مم-میں یہاں..."

خوف سے اسکا عکس آئینے میں دیکهتے وہ ہڑبڑا کر بولا اور دروازہ کهولنے کی کوشش کی جو نہیں کهل رہا تها

"تم مجھ سے دور کہیں نہیں جا سکتے..."

وہ سامنے موجود بےشمار لپسٹکس میں سے سرخ لپسٹک اٹهائے بولا

"کک-کون ہو تم بب-بتاو مم-مجهے جانے دو..."

وہ خوف سے دیکهتے ہوئے بولا تو اس نے سرد نظروں سے پلٹ کر اسے دیکها

"میں تمہیں پانے کے لیے کن خطروں سے گزر رہی ہوں تم اس سے واقف نہیں اور کتنی آسانی سے کہ رہے ہو مجهے جانے دو ہاں..."

پہلے سرد لہجے میں کہتی آخر میں چلائی تهی کہ وہ خوف سے پیچهے ہوا تها اس کو یوں خوف میں مبتلا دیکھ کر اس نے دوسری جانب منہ کیے مٹهیاں بند کی اور آنکهیں بند کیے غصہ ضبط کرنے لگی

"کون ہو تم...؟"

وہ ہمت جمع کیے تقریباً چلایا تها تو اس نے پلٹ کر اسکے چہرے کو دیکها تها

"میں جن زادیوں کی ملکہ ماہ فیروز، حاکم کی بیٹی یہ میری دنیا میرا قبیلہ میرے حکم کا پابند ہے تمہیں بهی پابند ہونا چاہیے..."

اس کی باتوں پر وہ پهٹی پهٹی آنکهوں سے اسکو دیکهنے لگا اور دو قدم پیچهے ہوا

"جج-جن زادی....."

گهبراہٹ میں اس سے بولا نہیں جا رہا تها

"مم-مجهے جانے دو پپ-پلیز مم-میں ایک انسان بشر اور تت-تم جن ذادی..."

ناجانے کیوں اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں تها وہ تو صرف قصوں کہانیوں میں ایسا پڑهتا تها لیکن....اس نے اپنا سر تهاما تها

"اچها ایک شرط پر..."

کچھ سوچتے ہوئے وہ بولی

"اگر تم اس گهر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو تم آزاد ہو..."

وہ لپسٹک کو کهولتے ہوئے بولی اور درواہ خودبخود کهلا تها احمد نے کهلے دروازے کو دیکها اور ایک نظر ماہ فیروز کو جو اب شیشے میں دیکهتے خود کے خوبصورت ہونٹوں پر لپسٹک لگا رہی تهی وہ ویسے ہی ماہ فیروز کو دیکهتا باہر بهاگا تها ماہ فیروز نے دروازے کو دیکها اور دلکشی سے مسکراتی دوبارہ خود کو شیشے میں دیکها تها

"میرے جسم بوسیدہ میں ذرا جو جان باقی ہے

کسی کے لوٹ آنے کا کوئی امکان باقی ہے

وہ چاہئے راستہ بدلے یا چاہۓ رابطہ بدلے

اسے مجھ سے محبت ہے میرا ایمان باقی ہے"

خوبصورت انداز میں شعر پڑتی آنکهوں سے بہتا لہو وہ شیشے میں دیکهنے لگی 

"آنکهوں سے ٹپکتا لہو موت ہے..."

ان الفاظوں کو لپسٹک کی مدد سے آئینے کی زینت بنائی تهی اور پهر پیچهے ہوتے منہ میں ان الفاظوں کو دہرانے لگی

احمد دیوانہ وار ہر دروازے ہر چیز کو چیک کر چکا تها اسکو ہر قدم پر حیرت درپیش تهی وہ تو یہ دیکھ کر کچھ پل حیرت سے نہ نکلا کہ سب شیشے کهڑکیاں سلامت ہیں اور فرش 

پر اب کانچ بهی موجود نہ تها تهک ہار کر وہ ایک جگہ زمین پر بیٹھ گیا تها اور سر کو دونوں ہاتهوں میں تهاما تها

"میں کہاں آگیا ہوں ایک جن زادی کی قید میں اب کیا ہوگا زندگی میں یااللہ میں یہاں تک آیا کیسے مجهے تو یہ بهی علم نہیں مجهے نکال دے یہاں سے..."

وہ نم آنکهوں سے ہولے سے بڑبڑایا تها اب آخری حل واپس ماہ فیروز کے پاس جاکر بهیک مانگنا ہی تها کیونکہ وہ یہ جان چکا تها کہ ماہ فیروز کی مرضی کے بنا یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے وہ ہمت کرتا اٹها اور مردہ قدموں سے واپس ماہ فیروز کے کمرے کی جانب ایا اور اندر داخل ہوا کمرہ پورا خالی تها اس نے  چاروں سو نظریں دوڑائیں تهی

"ماہ فیروز..."

وہ کپکپاتے لبوں سے بولا تها لیکن جواب نداد اس نے دوبارہ اردگرد دیکها اور نظر شیشے سے ٹکرائی اور وہاں لکهے الفاظوں کو زیر لب بڑبڑایا تها 

"یااللہ..."

وہ بس اتنا ہی کہ سکا اور بیڈ پر سر تهامے بیٹها تها

.......................................

"آپ نے یاد فرمایا بابا..."

ماہ فیروز اپنے سامنے موجود باپ کو دیکهتے بولی

"خبر اچهی نہیں..."

وہ کهڑے ہوتے بولا تو اس نے ناسمجهی سے اسے دیکها تها

"دوسرے قبیلے جانا ہے مجهے وہاں ہمارے ساتھ غداری کی منصوبہ بندی بن رہی ہے اور تم میرے ساتھ جاو  گی..."

وہ جو غور سے اسکی بات سن رہی تهی آخری بات سن کر اسکی آنکهیں مکمل کالی ہوئیں تهی یقیناً یہ بات پسند نہ آئی تهی

"میں نہیں جانا چاہتی..."

"میں نے مرضی نہیں پوچهی...."

وہ ایک دم سے چلایا تو اس نے ہونٹ بهینچے تهے

"تیاری کرو تم بهی جاو گی اور اس لڑکے کو آزاد کرو ماہ فیروز..."

وہ واپس کرسی پر بیٹهتے بولا تو وہ چونکی یعنی اس کا باپ جان چکا تها

"میں ایسا ہر گز نہیں کرونگی بابا..."

"میرے حکم سے انکاری کروگی...؟"

اس نے سرد مہری سے کہا 

"میں عشق کرتی...."

"ماہ فیروز...."

اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اس کا باپ چلایا تها کہ درودیوار تک کانپ گئے

"میرے غصے کو ہوا مت دو سمجهی..."

اس نے مٹهی بند کرتے کہا تو یک دم وہ پیٹ پر ہاتھ رکهتے کراہی تهی اور اپنے باپ کو دیکها

"میرے عشق کو ہوا مت دیں آپ آہہہہ..."

وہ درد کی شدت سے بولی تهی آنکهوں میں درد سے لاوا ابلنے لگا تها

"آزاد کرنا ہوگا اسے ورنہ میں مار دوں گا اسے..."

وہ تنبیہ انداز میں بولا تو وہ تڑپ اٹهی

"سب تہس نہس کر دوں گی اگر اسے کچھ ہوا..."

وہ تڑپتے ہوئے بولی

"اور تم جانتی ہو میں تمہیں ایسا کرنے سے روک سکتا ہوں..."

وہ دونوں ہاتهوں کی انگلیوں کو آپس میں ملائے دلچسپی سے بولا تها

"لیکن خود کی جان لینے سے نہیں روک سکتے میں خود کو مار دوں گی..."

وہ دهمکی پر اتری اس کی بات پر وہ ہنسا تها

"وہ تمہاری اپنی مرضی بےشک ابهی لے لو..."

وہ یہ کہتے دوبارہ اٹها تها تو وہ غصے سے دیکهنے لگی

"عشق چاہیے یا عشق کی موت...؟ ویسے بهی موت عشق سے بہتر ہے...."

اس کے پاس آتے وہ کرختگی سے بولا اور اس کے پاس سے گزر کر چلا گیا پیچهے وہ غصے کو قابو میں کرنے کے لیے تیز تیز سانس لینے لگی اور پهر اپنے سامنے آئی ہر چیز کو تہس نہس کرنے لگی تهی

................................

رات تقریباً بارہ بج گئے تهے لیکن نیند احمد کی آنکهوں سے کوسوں دور تهی اس کا سر پهٹنے کے قریب تها یہ سب اس کی زندگی میں کیا ہو رہا تها اور وہ یہاں تک پہنچا کیسے یہ سب سوچ سوچ کر اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تها لیکن یہ بات پتا لگانے سے قاصر تها کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچا

"یار..."

غصے سے ہاتهوں سے سر نکالتا سائیڈ پر دیکها کہ اچانک ماہ فیروز کو بےتحاشہ قریب بیٹهے دیکھ اسکی چینخ نکلی اور وہ ڈر کر پیچهے ہوا اسے لگا وہ کمرے میں اکیلا ہے وہ ماہ فیروز کی موجودگی سے بےخبر تها اور اوپر سے وہ چہرہ اس کے چہرے کے بالکل قریب کیے بیٹهی تهی وہ بےاختیار ڈرا تها

"کیا سوچ رہے تهے...؟"

وہ گردن تیڑهی کرتے ہوئے بولی یقیناً وہ اس کی سوچ پڑهنا چاہتی تهی اس نے نفی میں سر ہلایا

"تت-تم کب آئی...؟"

"وہ گڑبڑایا تها

"اپنی سوچوں میں اتنے مگن تهے کہ میری موجودگی کا احساس نہ ہو سکا..."

وہ تڑخ کر بولی تهی یقیناً یہ بات اس کو ناگوار گزری تهی

"اچانک آتی ہو اچانک غائب ہو جاتی سمجھ میں نہیں آتا..."

"سب سمجھ آجائے گا سب سمجھ...."

اس نے اسکے قریب ہوتے انگلی کا لمبا ناخن اسکی گال پر پهیرا تها آج اس کے ہاتھ گلووز سے آزاد تهے

"ماہ فیروز مم-مجهے جانے دو یہاں سے..."

وہ اپنے چہرے پر ہیر پهیر ہوتے ناخن سے جوف کهاتے بولا

"ہاں تو اجازت دی تهی میں کیوں نہیں گئے..."

"تم جانتی تهی میں باہر نہیں نکل سکتا تمہاری اجازت کے بغیر..."

اسکی بات پر اس کے لب مسکرائے تهے

"تمہیں اتنی مشقت کے بعد حاصل کرنے والی ہوں یہ سب تمہیں چهوڑنے کے لیے نہیں کررہی..." 

اس کا دهیما لہجہ بهی احمد کا دل بند کرنے کو کافی تها

"پلیز..."

وہ التجایہ انداز میں بولا تو اس نے غصے سے اس کی جانب دیکها جو اس کا صبر آزما رہا تها

"دلاتے ہو غصہ آزماتے ہو میرے صبر کو اوفف

تم دلنشیں کیوں نہیں سمجهتے میری محبت کو"

وہ چبا کر شعر پڑهتی اس کو سب باور کروا چکی تهی

"تم نہیں سمجھ رہی میں انسان اور تم...."

وہ بات ادهوری چهوڑ گیا تها

"عشق یہ سب چیزیں نہیں دیکهتا مجهے ان سب سے فرق نہیں پڑتا..."

"عشق قربانی مانگتا ہے ماہ فیروز...."

وہ کسی طرح اس کو سمجهانا چاہتا تها جو اس کو بےکار نظر آرہا تها

"میں جانتی ہوں محبت تو پهر رحم کر لے لیکن عشق ترس نہیں کهانا وہ زندگی مانگتا ہے اور میں تیار ہوں..."

وہ ہر چیز پر اٹل تهی

"میں یہ سب چیزیں کہانیوں میں پڑهتا تها آج میری زندگی کہانی بن گئی ہے..."

وہ بےبسی سے بولا

"ہر کہانی امر نہیں ہوا کرتی اور ہماری کہانی صدیوں تک تمہارے لوگوں میں اور ہمارے لوگوں کے دلوں میں نقش رہے گی..."

"بالکل لوگ ہماری مثالیں دے کر ڈرایا کریں گے عشق سے ڈرایا کریں گے بتایا کریں گے کہ وہ بہت ظالم ہوتا ہے کها جاتا ہے ہر چیز..."

اس کا بس نہیں چل رہا تها وہ یہاں سے غائب ہو جائے

"جو ڈرپوک ہونگے وہ ڈر جایا کریں گے اور جو زندگی گوانے کا حوصلہ رکهتے ہونگے وہ ایک بار اس کا مزہ ضرور چکهیں گے اور ویسے بهی...."

وہ اتنا کہ کر رکی اور بیڈ سے اتری اس کو دیکهنے لگی جو اسی کی جانب متوجہ تها

"عشق خود چنتا ہے ہر کسی کو بربادی کے لیے وہ بےبس کر دیتا ہے اور اتنا توڑ دیتا ہے کہ وہ جان سکے عشق کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں......."

وہ یہ کہتے رکی نہیں فورا غائب ہوئی تهی پیچهے اس نے بیڈ پر پڑے سب تکیے اٹها کر غصے سے نیچے پهینکے تهے

.......................................

"تم بهی تنہا تهے ہم بهی تنہا تهے

مل کے رونے لگے

ایک جیسے تهے دونوں کے غم 

دوا ہونے لگے"

ماہ فیروز گهر کے اندر سے پیچهے کو نکلتی سیڑهیا جہاں سے اس کا دوسرا گهر شروع ہوتا تها وہاں بیٹهی سامنے موجود گهنے درخت جس کی شاخیں زمین کی جانب مکمل جهکی ہوئی تهیں اس کو دیکهتی ساتھ بالوں کی لٹ کو انگلی میں لپیٹ رہی تهی اور کبهی کهولتی گانا گنگنا رہی تهی احمد پیچهے کهڑا کب سے اسے گانا گنگناتا دیکھ رہا تها

"تجھ میں مسکراتے ہیں

تجھ میں گنگناتے ہیں

خود کو تیرے پاس ہی

چهوڑ آتے ہیں"

وہ زرا کو ٹهہری تهی آنکهوں سے اس بار خون کی بجائے آنسووں گرئے تهے یقیناً وہ اس وقت بہت قرب سے گزر رہی تهی احمد اس لہجے کی نمی گنگناہٹ میں محسوس کر چکا تها

"تم بهی تنہا تهے ہم بهی تنہا تهے

مل کے رونے لگے

ایک جیسے تهے دونوں کے غم 

دوا ہونے لگے"

اس نے اپنے آنسووں صاف کیے اور گہرہ سانس لیتے درخت کے ساتھ بندهے جهولے کو دیکها جو دهیرے دهیرے جهولنے لگا تها

"آجاو احمد کب تک وہی کهڑے رہو گے..."

اس کی آواز پر وہ چونکا تها وہ تو سمجها تها وہ اس کی موجودگی سے بےخبر ہے

"میں تمہاری موجودگی سے کبهی بےخبر نہیں ہو سکتی کیونکہ تم ماہ فیروز کا عشق ہو اور عشق میلوں دور بهی ہو تو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے..."

تو وہ اس کی سوچیں بهی پڑهنے لگی تهی

"نہیں میں جاتا ہوں..."

وہ یہ کہتے پلٹا لیکن پلٹتے ساتھ ڈر کر پیچهے ہوا اور دل پر ہاتھ رکها کیونکہ ماہ فیروز اس کے پیچهے ہی کهڑی تهی احمد نے جلدی سے سیڑهیوں کی جانب دیکها جہاں ماہ فیروز بیٹهی تهی پهر واپس پلٹ کر اپنے سامنے دیکها جہاں ماہ فیروز نہیں تهی

"تمہیں آنا ہوگا احمد میرا حکم ہر حال میں ماننا ہوگا..."

اس کی آواز پر اس نے سیڑهیوں کی جانب دیکها جو اب سیڑهیوں کی بجائے جهولے پر موجود تهی اور تیز تیز جهول رہی تهی اس نے مردہ قدموں سے نا چاہتے ہوئے بهی اس کی جانب قدم بڑهائے اس کے قریب پہنچتے ہی جهولا رکا تها ماہ فیروز کے اشارے پر وہ اس سے کچھ فاصلے سے جهولے پر بیٹها تها 

"میرا مقصد تمہیں ڈرانے کا یا نقصان پہنچانے کا نہیں..."

زرا سی خاموشی کے بعد ماہ فیروز کی آواز گونجی تو اس نے گردن موڑے اسے دیکها یہ بات تو وہ بهی بخوبی جانتا تها 

"اس دن جو ہوا وہ تمہیں اپنی قید میں رکهنے کی چهوٹی سی سزہ بابا نے دی تهی لیکن وہ چهوٹی سی سزہ بهی مجھ جیسی ملکہ کے لیے بہت درد ناک تهی کیونکہ وہ سزہ ایک حاکم کی طرف سے دی گئی تهی اور ہمارے قانون ہے جو حاکم بنتا ہے اس کی طاقت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے...."

وہ سامنے دیکهتی اس کو تفصیل سے بتا رہی تهی

"یہ سب مجهے کیوں بتا رہی ہو....؟"

"کیونکہ تم مجھ سے دور نہ جاو میں جانتی ہوں میری مرضی کے بنا نہیں جا سکتے لیکن کچھ رضامندی چاہتی ہوں تمہاری لیکن اگر تم نہ مانے میں زبردستی کی بهی قائل ہوں..."

وہ اس کو اپنی جانب سے مطمئن کرنا چاہتی تهی کیونکہ جو بهی ہوتا اگر وہ اس سے نکاح چاہتی ہے تو اس کے لیے احمد کی رضامندی ضروری تهی ورنہ وہ چاہ کر بهی نکاح نہیں کر سکتی تهی یہ ان کا قانون تها

"میری فیملی میرا سب کچھ ہیں میں ان کو نہیں چهوڑ سکتا میں جگہ سے نکلنا چاہتا ہوں..." 

اس کا لہجہ بےبس تها

"میں بابا کے ساتھ جا رہی ہوں وہاں سے آکر نکاح کریں گے خود کو تیار رکهنا ورنہ ہمیشہ کے لیے اس جگہ قید کر لوں گی اگر نکاح کر لو گے تو فیملی سے ملنے کی اجازت دے دوں گی ورنہ وہ تمہارے روگ میں ویسے ہی ختم ہو جائیں گے اس سے زیادہ میں تمہارے لیے اپنا دل نرم نہیں کر سکتی..."

اس کی بات سنتے وہ خاموشی سے سامنے دیکهنے لگا اس کے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہ تها

وہ دونوں جو خاموشی سے سامنے دیکھ رہے تهے کہ ایک دم سے ماہ فیروز کے دل کو مانو کسی نے مٹهی میں جکڑا ہو وہ کراہ اٹهی تهی وہ احمد کے بازو کو زور سے اپنی مٹهی میں جکڑتی کراہنے لگی

"مم-ماہ فیروز کیا ہوا...؟"

وہ اس کی کالی ہوتی آنکهوں اور ان سے نکلتے خون کو دیکھ کر خوف کے ملے جلے تاثرات سے بولا ماہ فیروز پیچهے کو لیٹی اور اقپر اٹهتی درخت کے ساتھ لگ گئی تهی احمد کهڑا ہوا خوف سے اسے دیکهنے لگا جس کے جسم سے خون زمین پر گر رہا تها

"مم-ماہ فیروز..."

اس کی کپکپاتی آواز گونجی ماہ فیروز کو ایک جهٹکا لگا اور ویسے ہی تیزی سے اندر کی جانب گئی احمد اس کے پیچهے بهاگا اور اندر گیا جہاں سیڑهیوں کے سامنے موجود حال میں بہت سے لوگ تهے جنہوں نے سر سے لے کر پیروں تک خود کو سفید لباس سے ڈهکا ہوا تها ان کے صرف ہونٹ نظر آرہے تهے وہ خوف سے ان کو دیکهنے لگا اور پهر ماہ فیروز کو دیکها چهت کی جانب اٹهی ہوئی تهی اور اپنے ہاتھ پیروں کو حرکت دے رہی تهی اور پهر ایک دم سے نیچے گری تهی

"ماہ فیروز..."

احمد نے ایک مردانہ آواز کی جانب دیکها جہاں ایک شخص کالے لباس میں تها اس کی آنکهیں بهی کالی تهیں احمد کو اس سے خوف محسوس ہوا

"بب-بابا..."

وہ درد سے کراہتے ہوئے صرف اتنا ہی بولا سکی احمد ایک سائیڈ پہ کهڑا خوف سے دل کی تیز ہوتی دهڑکنوں کے ساتھ ان سب کو دیکھ رہا تها

"تمہیں اس انسان کو آزاد کرنا ہوگا...."

حاکم احمد کی جانب اشارہ کرتے ماہ فیروز سے بولا جو درد کے باوجود اٹهی تهی

"مم-میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی..."

"تو ٹهیک ہے ملکہ ہر عاشق کی جو سزہ ہوتی ہے وہی سزہ آپ کی ہو گی مجبوراً ہمیں آپ کو سولی پر چڑهانا ہو گا..."

ان میں سے ایک سفید لباس والا بولا تها

"اور یقین جانو ماہ فیروز تمہارے گنوانے کا مجهے زرا دکھ نہیں ہو گا..."

"احمد کو مجھ سے کوئی نہیں چهین سکتا سمجهے سب...."

وہ چلاتے ہوئے بولی

"ملکہ پهر قانون کے مطابق اس انسان کی جان لینی ہو گی اور آپ کو قید کرنا ہوگا...."

ایک اور سفید پوش بولا تها

"دیکهتی ہوں کون ایسا کر سکتا ہے..."

وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے بولی اور کانوں پر ہاتھ رکهے آنکهیں بند کیے زور سے چلانے لگی کہ ایک بار پهر وہاں موجود شیشے کی ہر چیز چکنا چور ہو گئی احمد نے بهی اپنے کانوں پر ہاتھ رکها جب کہ وہاں موجود سب سفید پوش کانوں پر ہاتھ رکهے کراہنے لگے ان کے کانوں اور آنکهوں سے خون بہنے لگا تها سوائے حاکم کے سب کراہ رہے تهے جبکہ حاکم خاموشی سے سب کو دیکھ رہا تها اسے اس سے زرا فرق نہیں پڑنا تها

ماہ فیروز کے پورے جسم سے خون کے لکیریں بہنیں لگی تهیں اس کی آنکهوں سے بهی خون بہ رہا تها جبکہ اس کی دونوں گال پهٹنے لگے تهے وہ اس قدر دل خراش چینخ رہی تهی وہاں موجود سب سفید پوش دهیرے دهیرے غائب ہونے لگے تهے اور پهر دیکهتے ہی دیکهتے حاکم اور احمد کے علاوہ سب غائب ہوئے تهے

ماہ فیروز چینخنا بند کرتے کانوں سے ہاتھ ہٹائے اور ایک نظر احمد کو دیکهنے کے بعد حاکم کو دیکها اور مسکرائی تهی اس کی حالت سے ایسا لگتا جیسے موت کے قریب ہو حاکم سرد مہری سے اسے دیکھ رہا تها

"احمد صرف میرا ہے..."

وہ اپنے سینے پر انگلی ٹکائے بولی تهی اور پهر آنکهوں سامنے اندهیرا چهانے لگا اور پهر زمین بوس ہو گئی تهی احمد اس کی جانب بهاگا تها حاکم نے ایک نظر ان کو دیکها پهر وہاں سے خود بهی غائب ہو گیا تها

.................................

احمد بیڈ پر لیٹی ماہ فیروز کو یک ٹک دیکهے جا رہا تها آنکهوں میں حیرت نے تب ڈیرہ ڈالا جب اس کے زخم خودبخود بهرنے لگے تهے چہرہ پهر سے ہر داغ سے پاک ہو گیا تها اور پهر سے حسن میں اپنی مثال آپ لگنے لگا تها

"میں بس یہاں سے کیسے نکلوں مجهے کچھ سمجھ نہیں آرہا میں کیوں آ گیا یہاں...."

اس کو دیکھ کر سوچتے اس نے سختی سے آنکهیں میچیں اور چہرہ جهکایا کچھ پل چہرہ جهکانے کے بعد اس نے دوبارہ چہرہ اٹهائے بیڈ کو دیکها تو ٹهٹهکا تها کیونکہ بیڈ خالی تها پهر گہری سانس بهری وہ کب آتی کب جاتی اس کا پتا نہیں چلتا تها

.......................................

"بابا نکاح کی تیاری کریں حاکم بابا سے چوری نکاح کرنا ہے مجهے..."

ماہ فیروز کی بات سنتے شمس چونکا اور پهر گڑبڑاہٹ سے اسے دیکها

"کک-کیسی باتیں کر رہی ہو ماہ فیروز حاکم کو پتا چلا تو نہ تو آپ کی سانسیں رہیں گی نہ میری..."

"اگر میرا نکاح احمد سے نہ ہوا تو پهر بهی میری سانسیں باقی نہیں رہیں گی..."

شمس دیکھ سکتا تها وہ کس قدر تڑپ رہی ہے

"تمہاری عشق کی کہانی ہر قبیلے ہر جگہ آگ کی طرح پهیل گئی ہے تمہارا نکاح ہونا ناممکن کام ہے کیونکہ کہ یہ کوئی چهوٹی بات نہیں تمہارے نکاح ہونے سے پہلے ہر جگہ یہ بات پهیل جائے گی کہ تم نکاح وہ بهی ایک انسان سے کرنے جا رہی ہو تم ملکہ ہو سزائے موت ملے گی.."

وہ اس کو سمجهانا چاہتا تها

"میں ملکہ ہوں ملکہ ماہ فیروز جو کہتی ہوں وہی ہوتا ہے اور آپ کو جو بهی کہ رہی ہوں آپ پابند ہیں ماننے کے..."

وہ چباتے ہوئے بولی

"حاکم جان سے مار دیں گے..."

وہ بےبسی سے بولا

"میری بات نہ مانی میں جان سے مار دونگی..."

وہ اگے ہوتی کرخت لہجے میں بولی تو وہ سہما وہ جانتا تها ماہ فیروز کی ضد کے آگے سب بهسم ہو جائے گا

"اس انسان کا راضی ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ نکاح کا کڑہ ملنا مشکل ہے..."

اس نے تهوگ نگلتے کہا

"وہ میں سنبهال لوں گی..."

وہ نیچے سے نقاب منہ پر چڑهاتے بولی

"ٹهیک ہے آج چاند مکمل ہو گا اس کے پورے آب و تاب سے نمودار ہوتے ہی اس کی چاندنی جس جانب زیادہ پڑے گی وہاں تمہارا نکاح ہو گا لیکن ہمارے قانون کی تمام شرائط یاد رکهنا تمہارا نکاح کوئی عام نکاح نہیں ملکہ ہو تم یہ تمہارے عہدے کی طرح خاص ہوگا اور رات تک تمہیں ایک کام مکمل کرنا ہو گا وہ تم بہتر جانتی ہو..."

اس کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور غائب ہوئی تهی

.......................................

احمد سیڑهیوں کے پاس کهڑا کب سے ماہ فیروز کو دیکھ رہا تها جو زمین پر بیٹهی آنکهیں بند کیے کچھ پڑهنے میں مصروف تهی وہ جانتا تها ماہ فیروز اس کی موجودگی سے بےخبر ہے اور اس کو کوئی اچهی علامت نظر نہیں آرہی تهی وہ چونکا تک جب ماہ فیروز نے بند آنکهوں سے ہی ہاتھ اٹهائے پاس آنے کا اشارہ کیا

وہ دهیرے دهیرے قدم لیتا اس کے آیا آیا اور پیروں کے بل نیچے بیٹها تها اور اس کی بند آنکهوں کو دیکهنے لگا ماہ فیروز نے اچانک اپنی آنکهیں کهولیں جو پوری سرخ تهیں احمد کی نظریں جیسے ہی اس سے ٹکرائیں وہ پلک چهپکے اس کی آنکهوں میں دیکهے گیا اس کی آنکهوں میں ایسا ناجانے کیا تها کہ وہ نظریں ہٹانے سے قاصر تها پهر دهیرے سے اس کے ہونٹ مسکرائے تهے تو ماہ فیروز کے ہونٹ بهی مسکرائے تهے

"آج رات ہمارا نکاح ہے...."

وہ اپنی جلترنگ آواز میں بولی جس کو سنتے احمد نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تو یقیناً وہ سب سے خطرناک جادو اس پر چلا چکی تهی جو سوائے حاکم کے کوئی نہیں توڑ سکتا تها اور اب دوسرا جادو ماہ فیروز نے چلانا تها کہ حاکم کو اس کے نکاح سے پہلے کسی چیز کی خبر نہ ہو لیکن یہ کام مشکل تها کیونکہ وہ حاکم تها

"رات کو تیار رہنا جب تک میں نہ آوں کمرے سے مت نکلنا..."

وہ اس کے قریب ہوتی اس کے کان میں سرگوشی کی تهی تو وہ اٹها تها اور کمرے میں چلا گیا 

"بابا بس ایک کام پهر احمد صرف میرا ہو گا..."

خود سے بڑبڑاتی اٹهی اور سامنے آگ کی زد میں لپٹی لکڑیوں کو دیکهنے لگی اس کے قریب جاتی چاقو اٹهایا تها اور ہاتھ آگے کرتی ہاتھ میں موجود حاکم کے دو بال اس نے آگ میں پهینکے تهے پهر چاقو اٹهاتے اس نے اپنی ایک لٹ کاٹی اور آگ میں پهینک دی تهی وہ آگ کوئی عام آگ نہیں تهی ماہ فیروز کے عشق کی آگ تهی جو عنقریب سب کو بهسم کر دینے والی تهی

.......................................

نکاح کی تیاری رات تک مکمل ہو گئی تهی دو تین کے علاوہ کسی کو نکاح کی خبر تک نہ ہو سکی تهی گهر کے پیچهے موجود جگہ جہاں سے اس کا دوسرا گهر شروع ہوتا تها وہاں چاند اپنی چاندنی پورے آب و تاب سے بکهیر رہا تها آگ کے شعلے بهی اپنے زورو شور سے بهڑک رہے تهے ماہ فیروز کی دو سہلیاں وہاں گواہان کی صورت میں موجود تهیں

ماہ فیروز پورے سفید لباس میں ملبوس جالی دار نقاب چہرے پر چڑهائے ہاتهوں کوئلے کی مدد سے سرمے کی طرح آنکهیں میں موجود کالی لکیر جو اس کی آنکهوں کو وحشیانہ بنا رہی تهیں ہاتهوں پر موجود خاص سفید گلووز جو ایک نکاح شدہ جن زادی پہنتی تهی وہ بہت خوش تهی آخر اس کے اتنے سالوں کی مراد پوری ہونے جا رہی تهی

کچھ ہی دیر میں احمد اس کے ساتھ بیٹها تها ان دونوں کی مرضی سے ان کا نکاح پڑوایا تها لیکن ایک خاص کام باقی تها جس کی وجہ سے نکاح ابهی ادهورا تها یعنی یوں کہ لیں نکاح صرف اسی سے ہوگا

"ماہ فیروز یہ کڑہ تمہیں احتیاط سے اس انسان کے ہاتھ میں پہنانا ہوگا..."

اس نے وہ کڑہ ماہ فیروز کی جانب بڑهاتے کہا جس پر کانے نگینے جڑے تهے ماہ فیروز کے چہرے پر مسکراہٹ تهی کیونکہ اگر وہ یہ کڑہ احمد کو پہنا دے گی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے پاس قید ہو جائے گا پهر حاکم کیا دنی کی کوئی طاقت اس کو نہیں چهین سکتی

اس سے پہلے وہ کڑہ احمد کے ہاتھ میں پکڑتی کہ اچانک کڑہ اس کے ہاتھ سے چهوٹتا دور جا گرا تها کڑے کے گرتے ہی احمد پر طاری جادو ٹوٹا تها اور وہ ناسمجهی سے اردگرد دیکهنے لگا

ماہ فیروز کا بهی سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کیونکہ سامنے حاکم قہر برساتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تها

"میری اجازت کے بغیر تم کیا کر رہی تهی....؟"

وہ ایک دم سے چلایا تو وہ سہمی نظروں اور برق رفتار دل سے حاکم کو دیکهنے لگی کیونکہ موت اس کے سامنے تهے

"مم-ماہ فیروز یہ سب کیا...؟"

وہ حاکم سے خوف کهاتا ماہ فیروز سے سہمتے دل کے ساتھ پوچهنے لگا 

"بابا میں احمد کو ہر قیمت پر حاصل کر کے رہوں گی کچھ بهی ہو جائے سمجهے آپ..."

پہلے آہستہ اور پهر آخر میں چلا کر بولی تهی 

"میری طاقت میری حاکمیت میرے فیصلوں سے ٹکرانے کی گستاخی کر رہی ہو سزہ تو جانتی ہو گی..."

وہ اپنے غصے کو قابو میں کرتے ہوئے بولا

"تهک گئی ہوں میں موت کی سزائیں سن سن کر بدلنا ہو گا اس قانون کو بدلنا ہو گا ہر اس قانون کو جو ناحق ہو..."

وہ چلاتے ہوئے بولی اور چہرے پر موجود نقاب غصے سے اتاری نیچے پهینکا تها

"قانون تم سکهاو گی مجهے تم ہوتی کون ہو مجهے مت سکهاو...."

وہ بهی غصے سے بولا

"یہ کڑہ تو احمد کے ہاتھ میں، میں پہناوں گی مجهے کوئی نہیں روک سکتا..."

وہ زمین پر گرا کڑہ اٹهاتے بولی اور احمد کی جانب گئی اس سے پہلے وہ کڑہ احمد کو پہناتی احمد نے اس سے چهینا تها وہ جو سمجھ رہی تهی کہ احمد ابهی بهی جادو کے زیر اثر ہے اس سے چونکی تهی اور پهر مٹهیاں بهینچی 

"یعنی تم پر سے اثر ختم ہو گیا..."

جب تک وہ کڑہ احمد کے ہاتھ میں تها اس کی جان حلق میں تهی

"یہ کیا ہو رہا ہے کیا کر رہی ہو تم میرے ساتھ....."

وہ اس عجیب و غریب کڑے اور اس ماحول سے الجها بولا

"اگر تم آزادی چاہتے ہو اس قید سے یہاں سے تو یہ کڑہ تمہیں توڑنا ہو گا..."

ماہ فیروز کی بجائے حاکم بولا تها

"نن-نہیں نہیں نہیں احمد..."

وہ تڑپ کر کڑہ لینے کے لیے آگے بڑهی لیکن اس نے ہاتھ فورا پیچهے کیا تها 

"نہیں احمد میں مر جاوں گی مت چهوڑ کر جانا میں قید ہو جاونگی میں مر جاوں گی یہ مت کرنا..."

وہ نفی میں سر ہلاتے ہانپتے ہوئے بول رہی تهی

"آزادی اسی میں ہے فیصلہ تمہارا ہے...."

حاکم اپنی بیٹی کی حالت دیکهتے احمد سے بولا

"کیسے باپ ہیں آپ مر جائے گی آپ کی بیٹی..."

حاکم کی بات پر وہ چلائی تهی

"بیٹی نے بات مانی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے..."

وہ سرد مہری سے بولا

"احمد پلیز یہ مجهے دو میں تمہیں جانے دوں گی..."

وہ احمد کو سمجهاتے ہوئے بولی تو اس نے اس کڑے کو دیکها جس کے لیے ماہ فیروز تڑپ رہی تهی شاید وہ یہ نہیں جانتا تها اس کی آزادی زندگی طاقت ہر چیز اس میں قید ہے

"ماہ فیروز...."

احمد نے کڑے پر گرفت سخت کی تهی

"ہاں دو ماہ فیروز کو پلیز میں جانے دوں گی تمہیں..."

وہ منت بهرے انداز میں بےبسی سے بولی

"میں تم پر کیسے یقین کر لوں..." 

"احمد دیکهو کتنا پیار کرتی ہوں تم سے تم یہ پہن لو..."

وہ روتے ہوئے بولی احمد کو اس پر ترس آرہا تها لیکن وہ واپس کبهی اپنی فیملی اپنی جان سے عزیز منگیتر کے پاس نہیں جا سکتا تها

"مجهے معاف کر دو ماہ فیروز..."

"نہیں نہیں نہیں نہیں..."

اس کے "نہیں نہیں" کو کی خاطر میں لائے بغیر اس نے اپنی پوری جان سے کڑہ دیوار میں دے مارا کہ وہ چکنا چور ہو گیا اس کے ٹوٹتے ہی ماہ فیروز کے قدم لڑکهڑائے اور گهٹنوں کے بل نیچے بیٹهی تهی اس کے ہاتهوں اور پاوں کو خودبخود بیڑیوں نے جکڑا تها وہ بےبس سی نیچے بیٹهی احمد کو دیکھ رہی تهی جس کی آنکهیں نم تهیں حاکم کے ہونٹ مسکرائے تهے

"آج سے تم آزاد ہو..."

حاکم احمد سے بولا لیکن احمد کی نظریں صرف ماہ فیروز پر تهیں

"آج سے تم قیامت تک قید رہو گی ماہ فیروز موت سے بدتر سزائیں تمہیں ملیں گی قانون کے مطابق یہی فیصلہ ہے اور حاکم اس فیصلے پر مہر لگاتا ہے..."

اسکی بات سنتے احمد کو اس کی حالت پر ترس آیا تها اور اس کا سر چکرانے لگا وہ بهی گهٹنوں کے بل نیچے بیٹها نظریں خاموشی اور بےبسی سے سر جهکائی بیٹهی ماہ فیروز پر تهیں

"اب قہقہوں کے ساتھ ،،،،،،،کریں گے علاج عشق

ہم مدتوں  اداس،،،،،،،   رہے کچھ بھی نہیں بنا

جس روز   بےادب  ہوئے ،،،،،،،مشہور ہو گئے ہم

جب تک سخن شناس رہے ،،کچھ بھی نہیں بنا°°"

ماہ فیروز کی زبان سے ادا ہونے والا شعر سنتے اس کی آنکهوں سے آنسووں پهسلے اور پهر اس کی آنکهیں بن ہو گئیں تهیں

.......................................

"بابا دیکهیں بهائی کی آنکهوں سے آنسووں نکل رہے ہیں آج پهر شاید وہ ازیت میں ہیں بابا یہ ازیت کب ختم ہوگی..."

مریم بختاور سے بولی 

"چاچو کیا احمد کبهی ٹهیک نہیں ہو گا..."

حصنہ احمد کے بےجان وجود کو دیکھ کر نم آنکهوں سے بولی

"بابا بهائی کی آنکهوں سے جنبش ہو رہی ہے..."

مریم کی بات پر وہ دونوں احمد کی جانب متوجہ ہوئے جس نے دهیرے سے آنکهیں کهولیں تهی اور سامنے چهت سے ٹکرائیں

"احمد کو ہوش آگیا..."

حصنہ خوشی سے مریم کے گلے لگی بولی تو احمد نے ان کی جانب دیکها

"بب-بابا..."

"بیٹا تم ٹهیک ہو گئے یااللہ شکر ہے..."

وہ جهک کر اس کا ماتها چومتے ہوئے بولا

"مجهے کک-کیا ہوا تها...؟"

اس نے حیرت سے پوچها

"بهائی آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تها اور آپ تقریباً ایک سال سے کوما میں تهے...."

وہ آنسووں صاف کرتے بولا

"کوما..."

وہ ہولے سے بڑبڑایا اس نے اپنی فیملی کو دیکها جو بہت خوش تهے اور بار بار اسے پیار کررہے تهے

"تو کیا ماہ فیروز وہ خواب تها....."

اس نے پریشانی سے زہن میں سوچا

"عشق کو خواب سمجهنے والو پوچهو ہم سے

درد سہ رہے ہیں ہم اب آہستہ آہستہ آہستہ"

شعر کی آواز پر اس نے بےاختیار دروازے کی جانب دیکها جہاں ماہ فیروز نم آنکهیں لیے اسی کو دیکھ رہی تهی

"جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی سے دور لیکن میں تمہارے دماغ میں نقش ہو گئی ہو تم تاحیات مجهے بهول نہیں پاو گے..."

وہ نم آنکهوں سے بولتی دهیرے دهیرے غائب ہو گئی تهی وہ مسلسل اس دروازے کو تک رہا تها اور پهر اپنے بابا بہن منگیتر کی باتوں کا جواب زبرستی مسکرا کر دینے لگا

"عشق کی داستانیں دلوں پر اپنی چهاپ چهوڑ جاتی ہیں جو تاحیات ناچاہتے ہوئے بهی روگ بن جاتی ہیں"

....................................


ختم شد

★★★★


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Tu Dilnasheen Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tu Dilnasheen written Sajeela Nisar Tu Dilnasheen by Sajeela Nisar is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages