Ashiq Hoya Tere Te By Sajeela Nisar Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 30 May 2024

Ashiq Hoya Tere Te By Sajeela Nisar Complete Urdu Novel Story

Ashiq Hoya Tere Te  By Sajeela Nisar  Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Ashiq Hoya Tere Te By Sajeela Nisar Complete Novel Story

Novel Name :Ashiq Hoya Tere Te   
 Writer Name : Sajeela Nisar

New Upcoming :  Complete 

"مارو ماروش بیٹا جلدی کرو یونیورسٹی سے دیر ہورہی ہے ابھی تم نے کھانا بھی کھانا ہے"

اسکی امی ٹیبک پر کھانا لگاتی اسکو آوازیں دے رہی تھی جو ناجانے کمرے میں کیا کررہی تھی

"امی جان بس ایک منٹ آرہی ہوں بیگ میں بکس ڈال رہی ہوں"

اسنے کمرے سے ہی ہانک لگاتے ہوۓ کہا اور جلدی جلدی بیگ سمیٹ کر موباٸل اٹھاتی باہر آٸ

"السلام و علیکم! گڈ مارننگ بابا"

اسنے اپنے والد احسن صاحب کو پیچھے سے گلے ملتے ہوۓ کہا

"گڈ مارننگ بیٹا آو کھانا کھاو اور میرے ساتھ جانا ہے بیٹا آج یونیورسٹی؟"

انہوں نے اسکو پیار کرتے پوچھا

"نہیں بابا شاوی کا بچہ لینے آۓ گا"

اپنی ہی مستی میں بولی اسکو لگا اسکی امی کچن میں ہیں

"مارو کتنی بار کہا ہے انسانوں کی طرح بولا کرو"

انہوں نے اسکو آنکھیں دیکھاتے ہوۓ کہا

"اوکے بابا ڈاکٹر شاہ ویز صاحب مجھے آج یونیورسٹی کیلیے پک کریں گے ٹھیک ہے امی جان"

اپنے والد کو کہتی اپنی امی سے بھی مخاطب ہوٸ جسنے اسکی بات پر دوبارہ اسکو آنکھیں دیکھاٸیں تھی اور احسن صاحب اپنی لاڈلی کی بات پر ہنس دیے تھے

"السلام و علیکم! ایوری ون"

شاہ ویز اندر داخل ہوتے ہوۓ بولا

"وعلیکم السلام بیٹا"

ماریہ(ماروش کی امی) اور احسن صاحب نے یک زبان جواب دیا

شاہ ویز نے ماروش کی طرف دیکھا جواباً اسنے اسکو آنکھ ماری تو وہ ہنستا ہوا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا

"بیٹا ناشتا کرو گے؟"

"اوفف خالہ جان دے دیں میں ناشتا نہیں کرکے آیا امی تو کہ رہی تھیں بٹ مجھے لگا یہ ماروش میم صاحبہ کو دیر ہوجاۓ گی پر یہ تو خود ابھی کررہی ہیں"

اتنی لمبی چوڑی وضاحت پر وہ ہنس دیں

"توبہ شاوی کبھی تو گھر سے کھالیا کر"

اسنے اگے کو ہوتے زبان چڑھاتے ہوۓ کہا لیکن اگلے ہی لمحے اپنی امی کی زبردست گھوری سے واستہ پڑا جس پر وہ زبان دانتوں تلے دبا گی

"ارے یار چڑیل تیرا تھوڑی کھاتا ہوں یا تیرے کھانے میں کمی تو نہیں نہ آتی"

وہ بھی آگے ڈاکٹر شاہ ویز تھا 

"ڈاکٹر شاہ ویز ناشتا کرلیا ہو تو چلیں"

اسنے اپنا بیگ اٹھاتے ہوۓ کہا

"تابعدار جناب چلیں"

اسکو ہنس کر کہتا ماری بیگم اور احسن صاحب سے ملتا باہر چلا گیا

"مارو یار سب کے سامنے ایسی حرکتیں مت کیا کر ورنہ میں اپے سے باہر ہوا نہ پھر نہ کہیں"

گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ کہا

"کیسی حرکتیں؟"

وہ معصومیت سے کہتی انجان بنی تھی 

اسکی انجانیت پر اسنے اپنے گردن ترچھی کرکے اسکی طرف دیکھا

"چڑیل باز آیار"

"ہاہاہاہاہاہا۔اوفف ڈاکٹر شاہ ویز اپکے ساتھ نہیں یہ کرنا تو کس کیساتھ یہ سب کرنا ہے؟"

اسنے اسکے بازو پر چٹکی کاٹتے ہوۓ کہا تو وہ ہنس دیا

"پاگل ویسے میں چاہتا ہوں اب ہم شادی بھی جلدی کرلیں"

اسنے اپنی ڈاڑھی کھجا کرکہا

"باز رہو شاوی منگنی تمہاری فرماٸش پر کرلی سٹڈی سے پہلے شادی کا سوچنا بھی مت"

اسنے انگلی اٹھا کر کہا تو وہ قہقہ لگا اٹھا

"اوکے شاوی کی جان"

اسنے تابعداری سے کہا جس پر وہ بھی ہنس دی پھر ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان راستہ کٹا اسکو یونیورسٹی چھوڑتا خود بھی ہاسپٹل کی راہ لی

.......................................

ماروش اپنی مستی میں اپنے بالوں کو لہراتی ہوٸ جارہی تھی یہ غور کیے بغیر کے دو آنکھیں اسکو بہت انہماک سے دیکھ رہی ہیں ان دو آنکھوں نے اسکو پوری کو دیکھا اور پھر نظر اسکے بالوں پر ٹھر گی جو ہوا سے اڑ بھی رہے تھے

ماروش اپنے دھیان میں جارہی تھی کہ اسکو محسوس ہوا کہ کوٸ اسکے پیچھے ہے اسنے روک کر پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن پیچھے کوٸ نہ تھا پھر اپنا وہم سمجھتی ہنستی دوبارہ چلنے لگی لیکن اس دفعہ اسکو واضع محسوس ہوا کہ کسی نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا ہے ڈر کر دوبارہ پیچھے دیکھا لیکن پھر بھی کوٸ نہ تھا اسکے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو اتنی تیز رفتار سے چل رہا تھا کہ جیسے ابھی باہر آجاۓ گا اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرتی دوبارہ سیدھا طلنے لگای ابھی پڑی ہی تھی کہ کسی فولادی جسم سے ٹکرا گی گرنے ہی لگی تھی کے آگے والے نے اسکی لینڈنگ ہونے سے پہلے انی باہوں میں قید کرلیا

وہ سختی سے آنکھیں میچی اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑے اسکی باہوں میں جھول رہی تھی ڈر صاف اسکے چہرے پر تھا

ماروش کو جب محسوس ہوا کہ وہ نہیں گری تو اسنے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولیں اور سیدھی نظر ہوتے ہوۓ اس شخص کے چہرے پر گی اور ٹھہر گی گورا رنگ براٶن ڈاڑھی براٶن بکھرے بال بلاشبہ وہ خوبصورتی کا شاہکار تھا ماروش نے اسکی آنکھوں میں دیکھا وہ الجھی کیوں کہ وہ اسکی آنکھوں کا رنگ نہیں سمجھ پارہی تھی

"آپ بچ گی ہیں?

اسکے چہرے کی طرح اسکی آواز بھی سحر انگیز تھی

"ہاں۔ہاں شکریہ"

پہلے اسکی بات سمجھتی پھر فوراً اس سے پیچھے ہوٸ پیچھے ہوکر اپنے آپ کو سنبھالنے لگی

"ایم نیو پلیز ٹیل می وٸیر اس فزکس ڈیپارٹمنٹ؟"

اسنے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا بیشک اسکی اس ادا سے بہت قربان ہوۓ ہونگے

"آیہ سیدھا جاکر راٸیٹ ساٸڈ پہ"

اسنے اسکے چہرے کو بغور دیکھتے ہوۓ کہا

"شکریہ"

یہ کہ کر دو قدم ہی چلا تھا کہ رک کر پھر مڑا اسکے ایسا کرنے سے ماروش نے اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھا

"باۓ دا وے ایم ابتسام۔۔ابتسام ملک"

۔اسنے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ کہا ماروش نے پہلے اسکے ہاتھ اور پھر اسکو دیکھا بے شک وہ بولڈ لڑکی تھی لیکن صرف شاہ ویز کیلیے

"اینڈ ایم ماروش احسن"

اسنے اپنا نام بتایا اور جھجھکتے ہوۓ اپنا ہاتھ اس سے ملایا پر فوراً کھینچنے پر مجبور ہوگی اسنے حیرت سے اپنے ہاتھ کو پھر اسکے ہاتھ کو اور پھر ابتسام کو دیکھا اسکی حیرت دیکھتا وہ مسکراتا ہوا یہ جا وہ جا پیچھے وہ شاک نظروں سے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی

"یہ کیسا انسان تھا؟مطلب اتنے ٹھنڈے ہاتھ کہ کوٸ ٹچ نہیں کر سکتا اتنے ٹھنڈے بھی کسی کے ہوسکتے ہیں ہالنکہ اتنی ٹھنڈ نہیں ہے" 

خود سے بڑبڑاتی اس راستے کو دیکھنے لگی جہاں سے وہ گیا تھا وہ پھر یاد آنے پر جلدی سے کلاس کی طرف بھاگی وہ الریڈی بہت لیٹ ہوگی تھی

اسکے جاتے ہی وہ درخت کے پیچھے سے نکلا اور درخت سے ٹیک لگا کر سینے پر ہاتھ باندھے اسکو بھاگتا ہوا دیکھنے پھر اسکے اوجھل ہوتے اسنے لمبی سانس خارج کی پھر ہاتھ کو دیکھا جہاں اسکا لمس ابھی بھی باقی تھا اپنا ہاتھ ناک کے پاس لیجا کر اسکی خشبو اپنے اندر اتارنے لگا

.......................................

?کیا ہوا مس پٹاخہ آج کہاں گم ہو؟"

ماروش کو یوں خاموش بیٹھا دیکھ جوکہ پہلی دفعہ ہوا ھا شاہ ویز نے حیرت سے پوچھا

"کہیں نہیں شاوی بس ویسے ہی"

اسنے باہر کے نظارے دیکھتے ہوۓ کہا

"کچھ تو ہے جو اپنے شاوی سے چھپارہی ہو کوٸ پریشانی ہے مارو تو بتاو مجھے؟"

اسنے پریشانی سے اس سے پوچھا

"نہیں شاہ ویز کچھ بھی نہیں ہوا"

اسنے ہلکے سے مسکرا کر اسکو تسلی دیتے ہوۓ کہا

"اچھا تو نہیں بتانا چاہتی تو ٹھیک جب دل کرۓ بتا دینا ڈاکٹر شاہ ویز حاضر ہے"

اسنے پیار سے اسکا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا تو وہ مسکرا دی

"اچھا تو آٸسکریم کھاو گی؟"

اسنے اسکا موڈ بدلنا چاہا

"یس واۓ ناٹ"۔۔۔۔

وہ پرجوش انداز میں بولی آٸسکریم کی تو دیوانی تھی

"اوکے تو چلو کھاتے ہیں"

اسکا مقصد اسکا دھیان بھٹکانا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا پھر باتوں کے دوران آٸسکریم کھاٸ اور اسکو گھر چھوڑ کر خود بھی گھر چلاگیا

.......................................

"بگ برو سنیں"

جازبہ نے ہاتھ ملتے ہوۓ کہا

"ہوں بولو"

ابتسام جو صوفے کی پشت کے ساتھ سر ٹکاۓ بیٹھا تھا آنکھیں موندے کی بولا

"میں باہر چلی جاوں"

بظاہر اس نے نہایت کانفیڈنس سے کہا پر جانتی تھی کیا ہونے والا ہے اسکی بات پر ابتسام نے اپنی چھٹ آنکھیں کھولیں اور اسکی طرف دیکھا

"شاید میں نے سننے میں غلطی کردی ہے دوبارہ کہنا"

اسنے آنکھوں میں وارننگ لیے پوچھا اسنے اسکی آنکھوں سے نظریں چراٸیں

"و۔وہ با۔۔۔۔۔۔آہہہ

ابھی وہ بولی ہی تھی کہ پلک چھپکنے سے پہلے ابتسام اسکے پاس پہنچتا اسکے بازو کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے کے دبوچا

"دوبارہ تمہارے منہ سے باہر جانے کا نہ سنو میں یہ بھول جاو کے پانچ دن سے پہلے تم اکیلی باہر نکلو گی سمجھی"

اسنے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوۓ کہا

"ب۔بگ ب۔برو ک۔کب اس ق۔قید سے رہاٸ مم۔ملے گی؟"

اسنے اپنا بازو آزاد کرواتے ہوۓ کہا کیونکہ گرفت بہت سخت تھی

"صرف پانچ دن صبر کرو"

اسکا ہاتھ چھوڑتا اپنی پانچ انگلیاں اسکے سامنے لہراتے ہوۓ کہا تو اسنے اپنا بازو سہلایا

"بگ برو میں تنگ آگی ہوں جب سے یہاں آۓ ہیں ایک دفعہ آپ لے کر گۓ تھے اسکے بعد نکل کر نہیں دیکھا اس قید سے تنگ آگی ہوں"

اسنے آواز آہستہ رکھتے ہوۓ کہا جانتی تھی زرا سی آواز اونچی اسکی پھر شامت

"ٹھیک ہے جاو باہر جاو پھر۔۔پھر جب وہ لوگ تمہیں لے جاٸیں گے۔۔پھر خوش رہنا وہ قید اس قید سے بدتر ہوگی ۔مرو گی بھی انکی مرضی سے جیو گی بھی انکی مرضی سے پھر تمہارا نام و نشان بھی نہ ملے گا غلام بنا لیں گے تمہیں"

اپنے غصے پر قابو پاتا اسکو بتا رہا تھا

"لیکن بگ برو اپ تو بادشاہ ہیں پھر وہ ہمیں کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں؟"

اسنے الجھے ہوۓ کہا

"سمجھ جاو گی"

اسنے اسکے ہاتھ کی انگلی کے ساتھ اپنی انگلی میچ کرتے ہوۓ کہا

"اب باہر جانے کا نام تو نہیں لوگی اور نہ مجھے غصہ دلاو گی؟"

اسنے اپنے بازو پر اپنی انگلی کے نشان دیکھتے ہوۓ کہا

"ن۔نہیں بگ برو"

"گڈگرل مجھے غصہ مت دلایا کرو تماری غصہ دلانے سے کسی معصوم کی جان جاتی ہیں کیوں ان معصوموں کی جان لینے پر تلی ہوٸ ہو آج بہت مشکل سے قابو پایا ہے ورنہ پتا نہیں کس کی شامت تھی آج"

اسکی گال پر انگلی پھیرتے اسنے ہمیشہ اسکے غصہ دلانے کا نتیجہ بیان کیا جس پر اسنے اپنی آنکھیں چھوٹی کیں کیونکہ اسکو معلوم تھا کہ کوٸ معصوم مرتا ضرور ہے

.......................................

ماروش عصر کی نماز پڑھ کر لاونچ میں آبیٹھی تھی اور ٹی وی لگا لیا لیکن اسکا وہاں بھی دل نہ لگا اسکے زہن میں ابھی تک یونیورسٹی والا واقع گھوم رہا تھا اسکا چہرہ اسکے ٹھنڈے ہاتھ بار بار زہن میں آجاتا

"اففف کیا ہوگیا ہے یار ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ شاہ ویز آجاتا تو کچھ دھیان بٹ جاتا میرا"

خود سے بڑبڑاتی ٹاٸم دیکھا جہاں ساڑھے چار ہوگے تھے

"اوفف میرا فون بھی اوپر ہے"

خود سے بڑبڑاتی صوفے کی پشت کے ساتھ ٹیک لگاکر آنکھیں موند لی آنکھیں موندتے ہی اسکی آنکھوں کے سامنے صبح والا منظر لہراگیا کچھ دیر سوچنے کے بعد چھٹ سے اسنے آنکھیں کھولی اور سامنے ریموٹ اٹھانے لگی کہ ساتھ اسکو اپنا فون پڑا نظر ایا اسنے حیرت سے اپنا فون اٹھایا

"فون تو کمرے میں تھا۔۔۔ماما امی جان۔"

خود سے کہتی اپنی امی کو آوازیں دیتی کچن میں گی

"کیا ہوا بیٹا؟"

"مم۔ماما کیا آپ نے فون ٹیبل پر میرے سامنے رکھا تھا؟"

"نہیں بیٹا میں تو کچن میں تھی"

"تو پھر ماما میرا فون کمرے میں تھا نیچے لاونچ میں کیسے آیا مطلب۔۔۔۔۔

"صبر صبر۔۔صبر کیا بولی جارہی ہو؟ تم اپنا فون خود ہی لاٸ ہوگی چلو چھوڑو آو میری مدد کر کھانا بنانے میں"

اسکی امی اسکو کہتی دوبارہ کام میں چڑ گی

"لیکن ایسا کیسے ہوسکتا خیر کیا پتا میرا وہم ہو میں خود ہی لاٸ ہوں فون"

سر جھٹکتی وہ بھی اپنی امی کی مدد کرنے لگی

اور باہر درخت پر کوٸ بیٹھا کچن کی کھڑکی سے یہ سب منظر دیکھ رہا تھا اور لطف اندوز ہورہا تھا

"اک دن تیری راہوں میں باہوں میں پناہوں میں اوں گا او جاناں اک دن تیرا ہوجاوں گا"

اپنے ہاتھ سے اسکی طرف اشارہ کرکے اپنی مٹھی بند کی اور اتنا سا گنگناتا قہقہ لگا اٹھا اور اسکے قہقے سے پاس بیٹھے پرندے بھی اڑ گے تھے یقینً وہ اسکی دیوانگی سے ڈر گے تھے

.......................................

    سو گیا یہ جہاں۔۔۔۔۔

    سو گیا آسماں۔۔۔۔۔۔

    سو گیا یہ جہاں۔۔۔۔۔۔

    سو گیا آسماں۔۔۔۔۔۔۔

    سوگی ہیں ساری منزلیں ہو ساری منزلیں۔۔۔

    سوگیا ہے راستہ۔۔۔۔۔

ماروش جو سورہی تھی اسکے کان میں اس گانے کی آواز پڑی جیسے کوٸ بہت پیار سے گنگنا رہا ہو اسے اپنے پاس سے نہایت خوبصورت خشبو آرہی تھی اپنے چہرے پر کسی کا لمس محسوس کرتے اسنے اپنی آنکھیں کھولنا چاہی پر کھول نہ سکی جیسے کسی نے اسکی آنکھیں پر ہاتھ رکھا ہو اور اسکو آنکھیں کھولنے سے پاز رکھا ہو وہ آہستہ آہستہ اس خشبو میں رچ رہی تھی اسکے چاروں سو مہک بکھر گی تھی

"تم۔۔۔۔ایک۔۔۔دن میری۔۔۔۔۔۔۔۔پناہوں میں ہوگی"

پھر اسکے کان میں کسی کی آواز پڑی اس آواز میں جنونیت تھی پھر قہقہ لگا اور اور پھر ہر طرف سرناٹا چھاگیا اب نہ ہی کسی کے گانے کی آواز تھی نہ وہ خشبو نہ وہ مہک صرف خاموشی تھی اور خوف تھا اس نے اپنی پوری طاقت لگاکر آنکھیں کھولیں اور پسینے سے شرابور اٹھ بیٹھی اپنے کانپتے ہاتھوں سے لاٸٹ جلاٸ اور اردگرد دیکھا لیکن کوٸ نہ تھا اپنے بیڈ کی بیڈ شیٹ تک اتار دی تکیے نیچے بکھرے پڑے تھے بیڈ کے نیچے دیکھا لیکن اسکو کوٸ دیکھاٸ نہ دیا ہانپتے ہوۓ بیڈ پر بیٹھی اور پانی کا جگ اٹھایا جس میں پانی نہ تھا

اٹھتی ڈرتی ڈرتی نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دروازہ کھولا اور چھوٹے چھوٹے قدم بڑھانے لگی آہستہ آہستہ زینے اتر رہی تھی اور کانپ رہی تھی اردگرد بھی دیکھ رہی پسینہ ایسے تھا جیسے کڑکتی دھوپ میں سورج کے سامنے کھڑی ہو

کچن میں داخل ہوتی جلدی سے فریج کھولی لیکن فریج کھولتے ہی لاٸٹ چلی گی پانی کی بوتل کی طرف بڑھایا ہاتھ اسکا ویسے ہی رک گیا اور ہلکے سے اٹھایا تو فوراً لاٸٹ آگی اسنے اپنا خشک گلا تر کیا اسنے فریج سے بوتل نکال کر شیلف پر رکھی کہ پھر سے لاٸٹ گی پھر آٸ پھر گی کچھ دیر یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر لاٸٹ گی اور دوبارہ نہ آٸ

"دھک دھک دھک دھک دھک دھک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دھک دھک دھک"

اسے اپنے گرد کسی کے دھک دھک بولنے کی آواز آٸ 

"ک۔کون ہ۔ہو تت۔تم"

اسنے ڈرتے ہوۓ اٹک کر بولا اسکے بولتے ہی وہ آواز ختم ہوگی تھی

اسنے جلدی سے بوتل کھولنا چاہی لیکن وہ اسکےہاتھ سے نیچے گرگی جلدی سے نیچے جھک کر اٹھاٸ تو کسی کا ہاتھ اسکی کمر سے ہوتا پیٹ تک آیا ماروش کے ہاتھ وہی منجمد ہوگے اسکا دل جیسے رک گیا تھا اب تو اسکو اپنے دل کی دھڑکن بھی سناٸ نہیں دے رہی تھی پوری ساکت ہوگی تھی

پھر آہستہ سے کسی نے اسکے کندھے سے اسکے بال ہٹاۓ اسکو اپنے چہرے پر اور گردن پر بال ہٹاتے وقت کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا اسنے سختی سے اپنی آنکھیں میچیں ہونٹوں کو سختی سے پیوست کیا پھر آہستہ سے اسکی گردن کو کسی کے ہونٹوں نے چھوا اور پھر اسنے اپنے دانت نکال کر اسکی گرد پر دانتوں سے دباو ڈالا اسکے ایسا کرنے سے اسکے حلق سے دل خراش چینخ نکلی اور اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وہ اسکی باہوں میں جھول گی 

اسکی باہوں میں گرتے ہی اسنے اسکے چہرے پر آۓ بال ہٹاۓ اور اسکی گال پر اپنا لمس چھوڑتا چہرہ اٹھا کر اسکو دیکھنے لگا جسکے بے ہوشی کے باوجود چہرے پر حیا کی سرخی پھیل گی تھی

.......................................

"مارو۔۔ماروش بیٹا اٹھو"

اسکی امی کے اسکے ہلا کر اٹھانے سے اسنے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں

"ماما آپ۔۔۔اور میں۔۔۔۔"

اسنے اپنی امی کو دیکھتے اٹھ کر کمرے کو دیکھا پھر رات کا سارا واقعہ اسکے زہن میں کسی فلم کی طرح دھوڑنے لگا

"اسنے جلدی سے اپنی گردن پر ہاتھ لگایا۔۔"

"کیا ہوا بیٹا؟"

"ماما میں یہاں کیسے؟"

"کیا مطلب یہاں کیسے تم اپنے کمرے میں ہی ہو اور کمرے کا حشر کیا کیا ہوا تھا؟ میں نے ابھی آکردیکھا اور تمہیں جگایا"

"کیا لیکن میں تو کچن میں۔۔۔"

خود سے بڑبڑاٸ تو اسکی امی نے حیرت سے دیکھا

"کیا ہوا بیٹا؟ خود سے کیا بڑبڑا رہی ہو؟"

"و۔وہ مم۔ماما میں یہاں ک۔کیسے کچن مم۔میں وہ کمرے مم۔میں د۔دانت اسکی اسنے۔۔۔۔۔۔

"اوف کیا بول رہی ہو بیٹا کچھ سمجھ نہیں آرہی تم اپنے کمرے میں ہی تھی"

اسکی امی نے الجھتے ہوۓ کہا

"کوٸ پریشانی ہے بیٹا"

اسکے ابو نے پریشانی سے پوچھا

"نن۔نہیں بابا"

انکو پریشان ہوتا دیکھ اپنے چہرے سے پسینہ صاف کرتی زبردستی مسکرا کر بولی

"اچھا بیٹا میں ناشتہ لگاتی ہوں آجانا نیچے"

اسکی امی نے پیار کرتے ہوۓ کہا

"ج۔جی ٹھیک ہے میں آدھے گھنٹے تک آتی ہوں"

"اوکے"

اسکی امی اور ابو اسکو پیار کرتے نیچے چلے گے انکے جاتے ہی رات کا واقع دوبارہ زہن میں آتا گھٹنو میں سر دے کر رو دی اتنا زیادہ روٸ کی روتے روتے بےہوش ہوکر بیڈ پر اوندھے منہ گر گی

"دیکھو ماروش بیٹا ابھی تک کیوں نہیں آٸ"

ماروش کا انتظار کرتے احسن صاحب نے ماریہ بیگم سے کہا

"جی میں دیکھتی ہوں"

مسکرا کر کہتی ماروش کے کمرے میں آٸ تو اسکو اوندھے منہ بیڈ پر گرا دیکھ وہ جلدی سے اسکے باس بھاگیں

"ماروش ماروش ماروش بیٹا اٹھو کیا ہوا ہے"

اسکی امی نے اسکو سیدھا کرکے اسکے چہرے سے بال ہٹاکر کہا

"احسن احسن صاحب جلدی آٸیں دیکھیں ماروش کو کیا ہوگیا ہے؟"

ماریہ بیگم نے روتے ہوۓ گھبرا کر احسن صاحب کو آواز دی

"کیا ہوا؟"

احسن صاحب نے کہا لیکن اندر ماروش کو بےہوش اور ماریہ بیگم کو روتا دیکھ فوراً ماروش پاس آۓ

"ماروش ماروش بیٹا اٹھو کیا ہوا ہے میرے بچے"

انہوں نے اسکو ہلاتے ہوۓ کہا اور فوراً زہن میں اتے اپنا فون اٹھاتے شاہ ویز کو کیا

شاہ ویز جو پیشنٹ کو چیک کررہا تھا فون کی بیل پر فون دیکھا تو احسن صاحب کا نام اپنے فون پر جگمگاتا دیکھ اسکو حیرت ہوٸ اور اسنے فون اٹھایا

"ہیلو انکل۔۔۔۔

"شاہ ویز بیٹا جلدی آو ماروش کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے جلدی آو"

اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی احسن صاحب بولے

"کک۔کیا ہوا ہے؟ مم۔میں آرہا ہوں"

یہ کہ کر اسنے جلدی سے فون کاٹا اور عبید کو پیشنٹ چیک کرنے کا کہ کر خود بھاگتا ہوا ہاسپٹل سے باہر نکلا اور رش ڈراٸیونگ کرتا احسن صاحب کے گھر پہچا تقریباً بھاگتا ہوا ماروش کے کمرے میں داخل ہوا

"کک۔کیا ہوا ماروش کو؟ مجھے دیکھنے دیں"

اسکو ایسے بےحس و حرکت بیڈ پر دیکھ اسکی زبان لڑکھڑاٸ تھی اور وہ فوراً آگے بڑھا

"اوہ شٹ اسکا تو بی پی مکمل طور پر لو ہے"

اسنے کہتے ساتھ جلدی سے بیگ سے بی پی کی میڈیسن نکال کر اسکے منہ میں رکھی اور اسکا بی پی نارم رکھنے کی کوشش کی اسکے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے اسکا بار بار بی پی طیک کررہا تھا اور بلآخر نارم ہوگیا تھا لیکن وہ ابھی بھی بےہوش تھی

"اوہ تھینک گاڈ اسکا بی پی نارمل ہوا"

اسنے اسکے سر پر ہاتھ پھرتے احسن صاحب اور ماریہ بیگم سے کہا جس پر انہوں نے شکر کا سانس لیا

"اسکو کوٸ پریشانی تھی جو اسکی یہ حالت ہوٸ"

اب وہ ان دونوں سے استفارہ کررہا تھا

"بیٹا صبح میں آٸ تو کمرہ بکھرا ہوا تھا اٹھا کر پوچھا تو بہکی بہکی باتیں کرنے لگی پھر کہتی کچھ نہیں ہوا"

ماریہ بیگم نے سارا واقعہ اسکے گوشگوار کیا

"اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا انکل پریشانی کی بات نہیں آپ آفس جاٸیں اور انٹی اپ اسکے لیے سوپ بناٸیں اسکو تھوڑی دیر تک ہوش آجاتا ہے"

اسنے کچھ سوچتے ہوۓ پھر انکو اسکی بہتری کی تسلی تھی

"اوکے بیٹا"

وہ دونوں یہ کہ کر چلے گے

"ماروش تمہیں کیا ٹینشن ہے تم کل بھی ٹینس میں تھی"

اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچنے لگا کہ ہلکی سی اسکی آنکھیں کھلی

ہلکی ہلکی آنکھیں کھولتی اسکو شاہ ویز کی شکل دیکھاٸ تھی

"ش۔شاہ ویز"

ہلکے سے پکارا کی یقین کررہی ہوکہ وہ ہے

"بولو شاہ ویز کی جان"

اسنے اسکی پکار پر جلدی سے اسکی طرف دیکھ کر کہا

اسکا یقین کرتے وہ جلدی سے اٹھتی اسکے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگی رات کا واقعہ کسی طرح اسکے زہن سے نہیں جارہا تھا

"شش کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟"

اسکا سر سہلاتے اسنے پیار سے کہا

لیکن اسکے رونے میں کوٸ کمی نہ آٸ تو اسنے بھی نہ روکا کہ دل کا بوجھ ہلکا کرلے جب رو کر فارغ ہوٸ تو پیچھے ہوتی اپنے آنسو صاف کرنے لگی

"اب بتاو کیا ہوا ہے؟"

اسکو اب چپ دیکھ اس سے سوال کیا اسکے سوال پر اسنے نفی میں سر ہلایا اب وہ کیا بتاتی اسکو

"چھپا رہی ہو؟"

اسکے بالوں میں اپنی انگلی چلاتے ہوۓ اسنے کہا

"ن۔نہیں شاہ ویز"

اسنے آنکھیں صاف کرتے ہوۓ کہا

"ٹھیک ہے مت بتاو جب دل کرے بتا دینا"

اسنے مسکرا کر اسکا سر سہلاتے کہا تو اسنے اپنا سر شاہ ویز کے سینے سے ٹکایا شاہ ویز نے بھی اسکے گرد اپنا حصار باندھا تھا

اور کوٸ یہ حرکت دیکھ رہا تھا غصے سے اسکے دماغ اور ہاتھوں کی نسیں پھول رہی تھیں

وہ چاہتا تو ابھی سب کچھ تہس نہس کردیتا اور اسکو لے لیتا پر اسکو کسی سے اسکی بہت پیاری چیز چھیننے میں زیادہ مزہ آتا ہے ورنہ اسکے لیے ماروش کو حاصل کرنا کچھ مشکل کام نہ تھا

ہوا کی سے تیزی سے وہاں سے غاٸب ہوا تھا جانتا تھا کچھ سیکنڈ اگر وہاں اور رکتا تو ضرور کچھ نہ کچھ اسکے ہاتھوں سے ہوجاتا

.......................................

             "کچھ دن بعد"

"ماما بابا کہاں ہیں؟"

اسنے کچن سے جھانکتے ہوۓ پوچھا

"بیٹا کچھ کام تھا انکو تو وہ باہر گے ہیں"

انہوں نے کھانا بناتے مصروف انداز میں کہا

"بیٹا جلدی سے فریش ہوجاو پھر دونوں ساتھ کھانا کھاتے ہیں"

ماروش جو واپس پلٹنے لگی تھی انکی بات پر رکی

"کیوں ماما بابا نہیں ہونگے ساتھ؟"

اسنے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا

"بیٹا نہیں وہ دیر سے آٸیں گے"

انہوں نے مسکرا کر جواب دیا تو وہ بھی مسکراتی ہوٸ اوپر کمرے میں چلی گی اپنا ڈریس نکالتی نہانے کیلیے واشروم میں گھس گی

نہانے کے بعد گانا گنگناتی تولیے سے بالوں کو رگڑتی باہر نکلی شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوٸ تو شیشے کو دیکھ کر اسکے ہوش اڑ گے ہارھ سے تولیہ گر گیا اور ایک دل خراش چینخ اسکے حلق سے برامد ہوٸ لیکن جلدی اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی اسنے اپنی چینخ کا گلہ گھونٹا تھا

اسنے دوبارہ سے پلک چھپک کر شیشے کو دیکھا جیسے یقین کررہی ہو وہم ہو لیکن وہ لفظ نہ مٹے تھے 

"اک دن تم میری پناہوں میں ہوگی"

اسنے دوبارہ وہ خون سے لکھے لفظ دہراۓ خون سے لکھے الٹے سیدھے لفظ اور خوف پیدہ کررہے تھے 

شیشے کو دیکھتی قدم قدم پیچھے لیتی چینخے مارتی باہر بھاگی

"ک۔کیا ہوا بیٹا؟"

اسکو ایسے چینخے مارتے اور روتے اسکی امی نے اس سے پریشانی سے پوچھا

"مم۔مماما و۔وہ کک۔کمرے مم۔میں مم۔میرے س۔ساتھ چلیں"

اسنے اٹکتے ہوۓ کہا اور اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کمرے میں لےگی

"یہ دیکھیں شیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے باقی کے لفظ شیشے کو دیکھ کر منہ میں ہی رہ گے

"کیا بیٹا؟"

انکو اپنی بیٹی کی حالت پر شک ہوا

اسنے اگے جاکر شیشے کو کانپتے ہارھوں سے چھوا

"ماروش ماروش بیٹا کیا ہوا بولو کچھ؟"

اسکی امی نے اسکا رخ اپنی طرف کرتے اسکو جھنجھوڑتے ہوۓ کہا

"مم۔ماما یہا۔ں لکھا ت۔تھا ک۔کہ"

اتنا کہ کر خاموش ہوگی اور دوبارہ شیشے کودیکھا

کوٸ انسے فاصلے پر یہ سب دیکھ رہا تھا اور اسنے اپنا ہاتھ اٹھا کر انگلیوں پر لگے خون کو اپنی زبان کی مدد سے چاٹا اپنی انگلی ہونٹ پر پھیری اور پھر زبان اپنے ہونٹ پر پھیری یقین آج پھر کسی معصوم کے خون سے جشن منایا جارہا تھا آج پھر کسی معصوم کی جان گی تھی

"کیا بیٹا؟پاگل ہوگی ہو؟"

اسکی امی نے اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے کہا

"جاٸیں چ۔چلی جاٸیں ی۔یہاں س۔سے"

اسنے اسکی امی کا ہاتھ ہٹاتے ہوۓ کہا

"بیٹا کیا ہوا ہے ک۔۔۔

"جاٸیں امی خدا کیلیے جاٸیں یہاں سے"

انکی بات مکمل ہونے سے پہلے وہ چلاکر بولی تھی اور اپنے ہاتھ جوڑنے لگی

"لیکن میں تمہیں اس حال میں کیسے چھوڑ کر چلی جاوں؟"

"مم۔میں ٹھیک ہوں ماما بس تھوڑا ڈر گی تھی پلیز جاٸیں مم۔میں آرہی ہوں"

اسنے اپنے آنسوں صاف کرتے مسکرانے کوشش کرتے ہوۓ کہا

"اوکے آجاو"

اسکی امی نے پریشانی سے اسکو دیکھا اور باہر چلی گی انکے جاتے ہیں دروازہ دھڑم سے بند ہوا اور اردگرد دیکھنے لگی

"کیا ڈھونڈھ رہی ہو؟"

اسکو اپنے پیچھے سے آواز آٸ اسکے ہاتھ وہی منجمد ہوگے اور پیچھے پلٹ کر دیکھا تو کوٸ کافی بڑی بلیک ہڈی جس سے خود کو ڈھکے کھڑا تھا صرف اسکے ہونٹ نظر آرہے تھے یہاں تک کے اسکے ہاتھ بھی کوور تھے

"ککک۔کون ہ۔ہو تت۔تم"

اسنے ہکلاتے ہوۓ کہا

"بہت بکواس سوال تھا"

مزے سے کہتا بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اور ماروش ایسے تھی جیسے ابھی جان نہ ہو

"ککک۔کیوں مم۔میرے پیچھے پپ پڑے ہ۔ہو؟"

اسنے اسکی ڈھٹاٸ پر کانپتے دل کے ساتھ کہا

"دلچسپ سوال پر پھر بھی اسکا جواب نہیں دینا"

اسکو اسکے ہونٹو سے لگا جیسے وہ مسکرایا ہو لیکن صرف ایک پل کی مسراہٹ تھی

"کون ہو تم؟ کیوں میرا جینا حرام کررکھا ہے؟"

اب حوصلہ لاتی قدرے چلاکر بولی تھی اور اس شخص نے اپنے امڈتے غصے کو روکا تھا وہ تو ماروش تھی جو یہ برداشت کرگیا ورنہ ایسے اونچی بولنے والے کو چاہے وہ اسکی برادری کا کیوں نہ ہواگلی دفعہ بولنے کے لاٸق نہیں چھوڑتا اسنے اسکے ایسا بولنے سے سختی سے آنکھیں میچیں تھی

       "سو گیا یہ جہاں

        سو گیا آسماں

        سو گی ہیں ساری منزلیں ہو ساری منزلیں

        سو گیا ہے راستہ"

اسکے یہ گنگنانے سے ماروش کو وہ رات یاد آٸ

یہ گنگناتا ساتھ اسکے اردگرد چکر بھی کاٹ رہا تھا اور گنگنانے کے بعد ایک زبردست قہقہ لگایا جس پر اسنے اپنے کانوں کے گرد ہاتھ رکھے تھے

"عاشق ہویا تیرے تے" 

سرگوشی کرتا وہ لاٸٹ کی بھی تیزی سے وہاں سے غاٸب ہوا تھا اور ماروش اسکے لفظوں کو سنتی نیچے بیٹھی چلی گی تھی

اور گھٹنوں میں ر دے کر رونے لگی روتے روتے اسکی آواز بلند ہوگی تھی

"کون ہو تم؟ کیوں میری جان کے دشمن بنے پھرتے ہو؟ کیا بیگاڑا ہے میں نے تمہارا"

اونچی اونچی چلاتی دوبارہ سے گھٹنوں میں سر دے کررونے لگ گی تھی

ماروش اوپن دا ڈور۔۔۔ماروش لسن ٹو می آٸ سیڈ اوپن دا ڈور"

باہر سے شاہ ویز نے زور زور سے دروازہ بجاتے کہا اب اسکو بھی کافی پریشانی ہورہی تھی

"مم۔ماروش ڈ۔ڈونٹ اینگری می میں دروازہ توڑ دوں گا اگر تم نے نہ کھولا تو"

اسنے باہر سے غصے سے چلاتے کہا اسکی آواز بھی لڑکھڑاٸ تھی اور ساتھ میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا پانچ منٹ کی جدوجہد کے بعد دروازہ کھل گیا تو شاہ ویز بھاگتا ہوا اسکے پاس گیا جو بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاۓ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی

"ماروش کیا ہوا ہے تمہیں؟"

اسنے اسکا چہرہ اپنی طرف کرکے کہاتو شاک رہ گیا سوجی سرخ آنکھیں کچھ رونے سے لال تو کچھ نیند کا خمار

"مم۔ماروش کیا ہوا ہے تمہیں تم کچھ بول کیوں نہیں رہی؟"

اسنے پریشانی سے اسکا چہرہ تھام کرکہا لیکن وہ بس اسکو دیکھ رہی تھی تو کبھی اپنی امی کو

شا ویز نے اسکی نظروں سے سے کچھ ہچکچاہٹ کا مفہوم محسوس کیا

"خالہ جان آپ جاٸیں میں بات کرلیتا ہوں"

اسنے ماریہ بیگم سے کہا اور ساتھ میں آنکھوں سے اشارہ بھی کیا اور تسلی بھی دی تو وہ چلی گٸیں

"اب بتاو کیا بات ہے کیوں خود کو ہلکان کررہی ہو مجھے بتاو"

ش۔شاہ ویز۔۔ و۔وہ مم۔میں مم۔میرا مم۔مطلب وہ مم۔مجھے پپ۔پریشان ۔ککرتا ہے۔۔۔۔۔وہ تت۔تم سمجھ رہے ہ۔ہو نہ؟"

اسنے اسکے دونوں بازوں سے پکڑ کر ہچکیوں کے درمیان کہا

"کیا ہوا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی تم کیا بول رہی ہوں آرام نے بتاو"

اسنے اسکے چہرے کو تھامتے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوۓ کہا

"آ۔آپ بب۔بھی نہیں سمجھ ر۔رہے"

اسنے روتے ہوۓ اسکے بازو کے ساتھ سر ٹکاتے کہا

"میں سن رہا ہوں مجھے بتاو آرام سے"

اسنے اسے گرد حصار باندھتے اسکے سر پر بوسہ دیا

"وہ میرے پیچھے پڑا ہے مجھے نہیں چھوڑے گا"

اسنے سنبھلتے ہوۓ کچھ دیر بعد اسکے سینےسے لگے ہی بولی

"کون پیچھے پڑا ہے بتاو مجھے؟"

اسنے اسکا چہرہ اٹھا کر الجھ کرکہا

"پپ۔پتا نہیں وہ کون لڑکا ہے مجھے خ۔خوف دلاتا ہے آ۔آج بھی آیا ت۔تھا اور آہستہ آستہ اسکو سب بتانے لگی"

اسکی بات سنتے غصے سے اسکی رگیں تن گی تھیں غصے کی ایک شدید لہر اسکے اندر دوڑ گی پر پھر خود کو قابو کیا اور اسکو دوبارہ سینے سے لگا کر سر سہلانے لگا

"میرے ہوتے وہ تمہیں کچھ نہیں کرسکتا تم پریشان نہیں ہو"

اسکی بات پر وہ پرسکون ہوتی اسکے سینے سے لگی جلد ہی نیند کی وادیوں میں چلی گی اسکو ایسے پرسکون سوتا دیکھ شاہ ویز اسکو گود میں اٹھاتا آرام سے بیڈ پر لیٹایا اور اسکے اوپر لحاف اوڑھ دیا اور پاس بیٹھ کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا

.......................................

"بگ برو آہنم آیا تھا آج"

اسکی بات پر ابتسام نے ہلکے سے گردن ترچھی کرکے دیکھا اور پھر پوری طرح اسکی طرف گھوما

"کیا کہ رہا تھا؟ اور کیوں آیا تھا؟ کہا آیا تھا؟ اور کب آیا تھا؟"

اتنے سارے سوالات پر وہ بوکھلا گی

"و۔وہ مجھے لینے آیا تھا کہتا کہ میں اسکے ساتھ چلوں آپ کو چھوڑنے کے لیے کہ رہا تھا مجھے"

اتنا کہ کررک گی اور ابتسام نے اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھا

"یہ میرے سارے سوالوں کے جواب نہیں ہیں"

اسنےسینے پر ہاتھ باندھتے کہا جس پر اسنے آنکھیں گھماٸیں

"بگ برو میں جنگل گھوم رہی تھی تو میں ایک درخت سے پھل توڑ رہی تھی تو وہ آیا تھا اور صبح آیا تھا"

اسنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوۓ کہا جس پر وہ مسکرا دیا

"تو تم ساتھ کیوں نہیں گی"

نارمل انداز میں کہتا اسکو حیران کرگیا تھا

"آ۔آپ کیا کہ رہے ہیں بگ برو؟"

اسنے حیرانگی سے پوچھا

"شاید تمہارے کان ٹھیک ہیں یا تمہارے دوبارہ پوچھنے پر میں نے اپنا بیان بدل لینا ہے"

"میں کیسے جاسکتی تھی آپ نے خود ہی تو ہر چیز سے منع کیا تھا"

"چلو شکر ہے میری باتیں تمہاری کچھ عقل میں پڑیں"

اسکی بات پر وہ محض اسکو گھور ہی سکی

"ویسے اب تو تم آزاد ہو کیا کرتی ہو پھر اس آزادی کا مطلب آزادی ہی کبھی سب کچھ نہیں ہوتی"

"بگ برو کچھ نہیں وہ مزہ یہاں کہاں جو وہاں ہوتا تھا۔۔۔ہاۓ ہم کب جاٸیں گے وہاں؟"

اسکو واقع ہی یہاں بوریت ہورہی تھی

"ابھی نہیں جانا ابھی بہت کام باقی ہیں"

اسنے بیٹھتے ہوۓ کہا

"یہاں بہت بوریت ہے"

اسنے منہ بناتے کہا جس پر وہ ہنسا تھا

"بوریت۔۔۔یار گھومو پھرو اور عیش کرو میرے ہوتے"

اسکی بات پر اسنے آنکھیں گھماٸیں جانتی تھی وہ کونسی عیش کا کہ رہا تھا

" مجھے نہیں کرنی ایسی عیش جیسی آپ کرنے کو کہ رہے ہیں"

"ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔"

اسکی بات پر وہ بہت زور سے ہنسا تھا

"کیوں نہ آج پارٹی ہوجاۓ"

اسنے آنکھ دباتے کہا جس پر اسنے ابتسام کو گھورا

"بلکل بھی نہیں کوٸ پارٹی نہیں خبردار جو کسی کو کچھ کہا تو معصوم لوگ ہیں وہ"

اسنے منہ بناتے کہا

"یہ معصوم ہی ہماری پیاس بھجاسکتے ہیں ورنہ ہماری قوم کے لوگ خود کو ہی کاٹ کھاتے ہیں"

اسنے سیریس انداز میں وجہ بتاٸ

"لیکن بگ برو کیا اسکے علاوہ ہماری کوٸ اور خوراک نہیں ہو سکتی؟"

"بالکل بھی نہیں یہ سب سے مزے کی خوراک ہے تو پھر رات کو آہمم"

یہ کہ کر اسنے آنکھ دباٸ اور قہقہ لگا ڈوڑا اور جازبہ بھی اسکی ہنسی میں شامل ہوگی بےشک آج رات بہت مزے کی رات گزرنے والی تھی

.......................................

"مجھے مصیبت میں ڈال کر دو چیزوں کے درمیان پھنسا کر کتنے مزے سے سورہی ہو ماروش"

کوٸ اس سوٸ ہوٸ ماروش کے پاس بیٹھا بالوں میں انگلیاں چلاتا ایک جزب سے بول رہا تھا

"تم میری دنیا کی نہیں پھر بھی تمہیں حاصل کرنا ہے تمہارا خون ہی میری صدیوں کی پیاس بھجا سکتا ہے تمہارا گوشت۔۔ گوشت ہی میری بھوک مٹا سکتا ہے"

یہ کہ کر اسنے اپنے دانت نکالے اور اسکے اوپر جھک گیا شاید اپنی پیاس اپنی بھوک مٹانے کیلیے۔۔۔۔

....................................

دراصل میرا فون ٹھیک نہیں تھا اور اب میں روز دوں گی  ان شاء اللہ قسط اور سرپراٸزز بھی کہ اپ لوگوں کی ناراضگی ختم ہوجاۓ

اپنے دانتوں سے اسکی گردن کو چھوتا پیچھے ہوا اور فوراً وہاں سے غاٸب ہوگیا کیونکہ جانتا تھا دو منٹ بھی وہاں رکتا اس سے برداشت کرنا مشکل ہوجانا تھا

.......................................

"بیٹا پر ماروش کو ہوا کیا ہے؟"

ماریہ بیگم نے شاہ ویز سے پوچھا 

"کچھ نہیں بس ڈر جاتی ہے۔۔۔"

اسنے جھوٹ بولا کیونکہ سچ بتانا مناسب نہ تھا

"بہکی بہکی باتیں کرتی ہے پتاۓ تو سہی ہوتا۔۔۔"

خالہ جان بس چھوڑیں اسکا موڈ فریش ہے اب اپ کسی قسم کی بات نہیں کریں گے اس سے"

اسنے انکی بات کے بیچ میں بول کر احسن صاحب اور ماریہ بیگم سے کہا

"ٹھیک ہے بیٹا بس وہ خوش رہے ہمیں کیا چاہیے"

احسن صاحب نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوۓ کہا

"السلام و علیکم گڈ مارننگ واہ آج تو ڈاکٹر شاہ ویز صاحب تو پہلے بیٹھے کھانے نے انصاف کررہے ہیں"

ماروش نے سلام کرتے احسن صاحب سے گلے ملتے شاہ ویز سے کہا

"تو تمہیں کیا ہے تم تو ہمیشہ میرے کھانے پر ہی نظر رکھنا"

اسنے زبان چڑھا کر اسکو چڑھاتے ہوۓ کہا 

"مجھے کیا بڑی ہے تمہارے کھانے پر نظر رکھنے کی"

اسنے بھی جواباً زبان چڑھاٸ ماریہ بیگم بہت خوش تھی کہ اسکا دھیان ان باتوں سے ہٹ گیا ہے

"چڑیل ہو پوری ایک نمبر کی"

شاہ ویز نے ہنستے ہوۓ کہا

"اور تم جن بابا ہاہہاہاہا"

ماروش نے قہقہ لگاتے کہا تو سب بھی ہنس دیے

"ڈاکٹر شاہ ویز"

اسنے پورے نام سے پکارا ضرور کوٸ کام تھا 

"ہممم بولو"

اسنے ہنستے ہوۓ کہا جانتا تھا کوٸ کام ہے جو پیار سے پکارا گیا ہے

"کیا آج میں گاڑی چلالوں"

"نو نیور بالکل بھی نہیں"

اسنے انکار کیا

"پلیز نا شاہ ویز ماما بابا اپ کہیے نہ اس سے"

اسنے ان دونوں کو بھی بیچ میں گھسیٹا

"بالکل بھی نہیں ہمیں مت گھسیٹو"

انہوں نے صاف ہاتھ کھڑے کیے تو ماروش نے منہ بنایا

"پلیز پلیز شاہ ویز پلیزززززززز"

اسن اسکے ہاتھ پکڑتے منت بھرے انداز میں کہا تو ناچارجی اسکو ہاں کرنی پڑھی جس پر اسنے یاہو کا نعرہ لگایا

"ماروش یار پلیز تھوڑا آہستہ چلاو گاڑی مجھے ڈر لگ رہا ہے یار"

شاہ ویز نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ کہا

"شاوی ٹونٹ مار رہے ہو"

اسنے اپنی نظریں سامنے مرکوز کرتے کہا

"بالکل بھی نہیں میں تو صرف کہ رہا ہوں اتنی تیز گاڑی چلاو گی تو ہم بہت جلدی پہنچ جاٸیں گے ہےنا"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔"

اسکی بات پر ماروش نے قہقہ لگایا

"یار مارو اگر ایسے گاڑی چلاو گی تو رات تک ہم پہنچ ہی جاٸیں گے تمہاری یونیورسٹی اور میں کل تک اپنے ہاسپٹل"

اسنے پیچھے ٹیک لگاتے کہا وہ اس لیے اسکو گاڑی نہیں دیتا تھا کہ یہ بہت سلو چلاتی ہے نیو نیو سیکھی تھی اس لے ڈرتی تھی اور اتی سلو چلاتی تھی کہ ساٸیکل بھی آگے گزر جاتا

"ماروش میں لاسٹ ٹاٸم کہ رہا ہوں جلدی کرو ورنہ مجھے چلانے دو یار مجھے دیر ہورہی ہے"

اسنے ٹاٸم دیکھتے کہا

"اوکے ہم ابھی پہنچ جاتے ہیں"

اسنے گاڑی کی سپیڈ بڑھاتے دانت دیکھاتے کہا

.......................................

"بس مجھے اپنی پیاس اپنی بھوک مٹانی ہے پھر میں کیوں نہیں ایسا کرپارہا"

وہ ہر چیز کو تباہ کرتا خود سے اونچی اونچی کہ رہا تھا

"دن با دن میری طلب بڑتی جارہی ہے اگر۔اگر وہ نہ ملی تو میں۔میں سب تباہ کردوں گا آآآآ"

اونچی چلاکرکہتا اپنا چہرہ اوپر اٹھاکر اپی مٹھیوں کو بند کیا کہ اسکے ہاتھوں کی نسیں ظاہر ہونے لگیں اسکی آنکھیں کالی پوری کالی ہوگیں تھی اسنے منہ کھولا جس میں سے دانت باہر نکلے تھے ہاتھوں پر بال آگے تھے اسنے آنکھیں بند کرکے خود کو پرسکون کرنا چاہا اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا جو نہیں ہورہا تھا اب ایک ہی حل تھا اور پھر سے آنکھیں کھولتا وہاں سے غاٸب ہوگیا تھا شاید کسی کی جان لینے وقتی طور پر خود کی پیاس بھجانے

.......................................

"ہمیں ہر حال میں ابتسام کو ختم کرنا ہوگا اور جازبہ کو لانا ہوگا اگر ابتسام مرا تو کاوش بھی مرے گا ورنہ ہماری بربادی ہے"

کوٸ اپنے ہاتھ پیچھے باندھے اپنے پیچھے کھڑے بلیک ہڈی والوں کو کہ رہا تھا

لیکن حکم آقا(ابتسام) کو مارنا بہت مشکل ہے وہ ہماری برادری میں اور یہ اسانوں میں سے سب سے طاقتور ہے اسکو ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے یہ اپنی آدھی طاقت سے پوری برادری تباہ کرسکتا ہے"

ان میں سے کوٸ ایک بولا

"مجھے نہیں پتا مجھے یہ حکومت چاہیے ابتسام کو مرنا ہوگا ورنہ وہ ہمیں ماردے گا"

اسنے خطرہ ظاہر کیا

"اگر اسنے ہمیں مارنا ہی ہوتا اب تک ہمیں مارچکا ہوتا اسکے لیے یہ باٸیں ہاتھ کا کام ہے"

ایک اور نے کہا اور اسکے سامنے ابتسام کا چہرہ لہرایا

"کچھ تو کرنا ہوگا اگر ابتسام نہ مرا تو کاوش کیسے مرے گا؟۔۔۔۔۔اب ایک ہی حل ہے جازبہ کو اپنے ساتھ لے جاٸیں کسی طرح جازبہ کی رضامندی مل جاۓ تو سب ہماری مٹھی میں ہوگا"

اسکی آواز میں سب حاصل کرنے کی چاہ تھی لیکن اسکو معلوم تھا ایسا ناممکن ہے

.......................................

"شاہ ویز کہا ہو؟"

ماروش یونیورسٹی کے یٹ کے باہر کھڑی ہوکر شاہ ویز کو فون کیا

"ایک ارجنٹ کیس ہے مینز ایکسیڈنٹ کیس میں اپریش ٹھیٹھر میں جارہا ہوں تمہیں کام ہے کوٸ؟"

اسنے جلدی جلدی قدم بڑھاتے کہا

"نہیں ویسے ہی کیا تم جاو اور اپنا خیال رکھنا"

یہ کہ کر فون رکھ دیا

"بابا بھی فری نہیں شاہ ویز بھی نہیں اب کیا کروں؟ ایسا  کرتی ہوں پیدل جاتی ہوں اور راستے میں کوٸ کیب لےلوں گی"

خود سے کہتی چلنے لگی

"واو کتنا پیارا ہے نہ یہ سب"

سڑک پر چلتی ادگرد درخت دیکھ کر مبہوث رہ گی سڑک پر ایکا دوکا گاڑیاں ہی تھی

ماروش اپنے دھیان میں اردگرد دیکھتی ہر چیز سے بے خبرجارہی تھی کہ ایک پیچھے سے آتی تیز رفتار گاڑی کا بھی اسکو علم نہ ہوا ہارن کی آواز سے ییچھے دیکھا تو وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر تھی اسکو دیکھ اسکے طوطے آڑ گے اور ایک دل خراش چینخ وہاں گونجی

اسکی دل خراش چینخ وہاں گونجی اور اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا بند ہوتی آنکھوں سے اسنے دیکھا گاڑی اس سے چار فٹ کے فاصلے پر ہے

اور کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا اسکے بعد اسکو کچھ ہوش نہ تھی

وہ ہوش وبیگانہ اسکی باہوس میں جھول رہی تھی اور وہ اپنی پوری کالی آنکھوں سے اسکی چہرے کو دیکھ رہا تھا 

اسنے اسکے چہرے پر آۓ بال اپنی شہادت کی انگلی سے پیچھے کیے

"میں نے۔۔۔کہا تھا نہ۔۔۔۔کہ اک دن تم۔۔۔۔میری پناہوں میں ہوگی"

اپنی آنگلیاں اسکے چہرے پر پھیرتا اسنے سرگوشی کی

"اب تمہیں مجھ۔۔سے کوٸ نہیں چھین سکتا"

فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسنے کہا اور اسکو لیتا وہاں سے غاٸب ہوگیا

.......................................

"بہت بہت مبارک ہو ڈاکٹر شاہ ویز کے اتنا کریٹیکل کیس آپ نے بہت مہارت سے حل کیا مطلب پیشنٹ کی حالت اتنی خراب تھی کہ پچنے کے چانسس نہیں تھے"

ڈاکٹر نبیل نے شاہ ویز کے ساتھ مصافحہ کرتے کہا

"یہ تو اللہ کی کرم نوازی ہے ہمارا کیا کمال ہے اگر وہ نہ چاہتا تو کچھ نہ ہوتا ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے"

اسے نہایت مہارت سے جواب دیا اسکے جواب سے ڈاکٹر نبیل بہت متاثر ہوا

"جی یہ تو بجا فرمایا آپ نے اللہ کی ذات ہے ہی نرالی چلیں میں چلتا ہوں اللہ حامی و ناصر"

"خدا حافظ۔۔"

شاہ ویز نے بھی کہاتو وہ بھی خدا حافظ کہتا چلا گیا

"یہ خوشخبری مارو کو تو دوں وہ پریشان ہورہی ہوگی میری حساس دل لڑکی"

خود سے بڑبڑاتا مسکرا کر ماروش کو فون کیا جو کہ بند تھا اسکو حیرت ہوٸ بار بار ٹراۓ کیا پر نورسپانس اسنے ماریہ بیگم کو فون ملایا

"ہیلو خالہ جان ماروش کدھر ہے؟"

اسنے اپنے کیبن کی طرف قدم بڑھاتے کہا

"کیا مطلب۔۔۔؟ وہ تو تمہارے ساتھ نہیں؟"

انہوں نے پریشانی سے کہا تو احسن صاحب نے بھی ٹی وی نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا

"مم۔مطلب وہ تو میرے ساتھ نہیں مطلب میں تو اپریشن میں مصروف تھا میں نے اسکو کہا تھا میں لینے نہیں آوں گا"

ماریہ بیگم کی با سنکر اسکے قدم وہی رک گے اور ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا

"لیکن بیٹا وہ پھر کہا ہے مم۔میرا دل بیٹھا جارہا ہے شاہ ویز جلدی آو"

انہوں نے صوفے پر بیٹھتے بیٹھے دل کے ساتھ کہا

"آ۔آرہا ہوں"

یہ کہ کر فون کٹ کردیا اور وہاں سے بھاگا ساتھ ماروش کا نمبر ٹراۓ کیا جو بند تھا

"ماریہ بیگم حوصلہ رکھیں اور ساتھ ماروش کا نمبر احسن صاحب بھی ٹراۓ کررہے تھے جو بند تھا

"نجانے میری بیٹی کہاں ہے سات بج گے ہیں"

انہوں نے روتے ہوۓ کہا

"یااللہ میری بچی کی حفاظت کرنا"

انہوں نے روتے ہوۓ ہاتھ جوڑ کرکہا

"پریشان نہیں ہوں"

احسن صاحب نے اسکے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا کچھ دیر بعد شاہ ویز بھی اندر داخل ہوا

"ش۔شاہ ویز میری کو ڈھونڈو ناجانے کہاں ہے وہ تو اکیلی ایسے باہر نہیں جاتی"

انہوں نے شاہ ویز کے بازوں سے پکڑ کرکہا

"آپ۔آپ فکر نہیں کریں میں ڈھونڈھتا ہوں روٸیں نہیں آپ"

اسنے نے انکا سر اپنے سینے سے لگاتے تسلی دی

"شاہ ویز میں ہمیں پولیس کو انفارم کرنا چاہیے"

"نہیں انکل چوبیس گھنٹے سے پہلے رپورٹ درج نہیں ہوگی اور میں اپنے قریبی دوست کمال کو بولاتا ہوں وہ مدد کرے گا کچھ"

اسنے فون پر کمال کا نمبر ملاتے ہوۓ کہا

.......................................

"تم اب میرے پاس ہو تمہیں۔۔میں کہیں جانے نہیں دوں گا"

اسنے ماروش کے گرد آہستہ آہستہ رسی لپیٹتے ہوۓ کہا

"اب میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا"

اسنے اپنی پوری کالی آنکھوں سے اسکے سراپے پر نظر ڈالتے کہا اور دوبارہ باندھنے لگا

"اب میں تمہیں اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا اپنی دنیا میں لے جاوں گا جہاں تم ملکہ بن کررہو گی میری ملکہ"

اسنے اپنی طرف اشارہ کرتے کہا جیسے وہ اسکو سن رہی ہو

"اب میں تمہیں اپنی مرضی سے جب چاہوں گا چھووں گا"

اسکے ہاتھوں کو دیکھتا کہا اور ہاتھ باندھنے لگا باندھ کر پیچھے ہوکر جاٸزہ لینے لگا جو کرسی ساتھ بندھی تھی سر گرسی کی پست سے ٹکا ہوا تھا اور کچھ بال چہرے پر کچھ نیچے ڈھلک رہے تھے

"تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں کیوں باندھا ہے"

اسکے سامنے بیٹھتے اسنے تھوڑی کے نیچے ہاتھ ٹکاتے کہا

"کیونکہ میں جانتا ہوں تم اٹھ کرشور کرو گی  ھاگنے کی کوشش کرو گی اور مجھے غصہ دلاو گی ہے نہ ایسا ہی ہے نہ ہاہاہاہاہاہاہا"

اسکو ایسا پاگلوں کی طرح کہتا زور سے ہنسنے لگا

.......................................

"حضور خبر ملی ہے کہ کچھ دوسری برادری کے آقا ابتسام کو مارنا چاہتے ہیں"

"کیا یہ کون کررہا ہے؟"

کاوش نے تخت سے اٹھتے ہوۓ کہا

"حضور علم نہیں اور خبر پکی ہے تصدیق کے بعد آپکو بتانا ضروری سمجھا"

"اووو یعنی ابتسام کو مارنے کی شازشیں چل رہی ہیں"

اسنے واپس پلٹ کر تخت پر بیٹھتے ہوۓ کہا

"جی حضور ایسا ہی ہے"

وزیر نے تابعداری سے کہا

"تو تمہیں کیا لگتا ہے وہ ابتسام کو ماردیں گے؟"

اسنے سوال چڑا

"حضور مجھے پورا یقین ہے وہ آقا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہماری برادری یا انسانوں میں کوٸ بھی آقا کی برابری کا پیدا نہیں ہوا کوٸ ایسا نہیں جو آقا کو نقصان پہنچا سکے"

اسنے ابتسام کی تعریف میں پل باندھ دیے

"ہاہا تو بے فکر رہو یار ہمیں ابتسام کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے"

اسنے ہنستے ہوۓ کہا

"حضور آقا کب آٸیں گے؟"

"پتا نہیں جب بھی آۓ مجھے اسکے تخت کی حفاظت کرنی ہے"

"آقا کو آپ پر یقین ہے"

"ہاں یقین ہے تو اپنی سلطنت مجھے دی اور ہم جچپن سے ساتھ ہیں ایک ہزار سال ہوگے ہیں ساتھ"

اسنے اپنی انگلی یں موجوں ابتسام کی نشانی دیکھتے کہا

"حضور بڑے آقا بھی تو بہت طاقتور تھے وہ کیسے مرے پھر"

"جوزف ایک بات یاد رکھنا جب اپنے ہی غداری کریں تو طاقتور سے طاقتور شخص کا تختہ الٹ جاتا ہے"

"واہ حضور کیا بات کہی"

اسنے ہاتھ اٹھاتے کہا

"جانتے ہو میرے اور شہزادی جازبہ کے علاوہ ابتسام کو کسی پر یقین ہیں"

ابتسام کا زکر کرنا اسکو ہمیشہ سے ہی پسند تھا

"جی وہ آپ سے پیار بھی بہت کرتے ہیں"

"تو کیا میں نہیں کرتا"

کاوش نے گھورتے ہوۓ کہا جس پر جوزف نے قہقہ لگایا تو کاوش بھی ہنسنے لگا

.......................................

ماروش آہستہ آہستہ آنکھہں کھول رہی تھی 

"مم۔میں کہا ہوں شاہ ویز"

اسنے مندی مندی آنکھوں سے کہا

      "سو گیا یہ جہاں

       سو گیا آسماں

       سو گی ہیں ساری منزلیں ہو ساری منزلیں

       سو گیا ہے راستہ"

وہ سامنے زمین پر الٹا لیٹا بنا ہڈی کہ آج وہ اسکے سامنے آپنا آپ دیکھانا چاہتا تھا ایک ہاتھ زمین پر رکھے دوسرا تھوڑی کے نیچے ٹکاۓ کبھی ٹانگے اوپر کرتا کبھی نیچے کرتا گنگنا رہا تھا

اس آواز پر اسکی آنکھیں پوری کھول گی تھی اور سامنے اسکو دیکھتی اسکے بیس تبک روش ہوگے تھے اسکی ہارٹ بیٹ اسکو دیکھ کر بہت فاسٹ ہوگی تھی

......................................

"مم۔مم۔میں ککک۔کہاں ہ۔ہوں؟"

اسنے ہکلاتے ہوۓ سامنے لیٹے شخص سے سوال کیا

"میری پناہوں میں"

اسنے گردن کو تھوڑا ترچھا کرتے مزے سے کہا اور اسکے جواب پر وہ دل سے کانپ گی تھی

"ممم۔مجھے جج۔جانے دد۔دیں کک۔کون ہو تت۔تم؟"

اسنے روتے ہوۓ خود کو آزاد کروانے کی سعی کرتے ہوۓ کہا

"کہاں جانا ہے تم نے؟ ہاں میری بات سنو اب تم کہی نہیں جاو گی میرے پاس رہو گی یار"

اسنے آنکھیں مٹکاتے ہوۓ کہا

"شش۔شاہ و۔ویز بب۔بچاووو"

یہ اونچی سا چلاٸ اور اسنے اپنی گردن تھوڑی ترچھی کرکے ماروش کی طرف دیکھا تھا

"تمہاری۔۔زبان۔۔سے کسی کا۔۔۔نام نہ سنو میں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم یمی تو بہت ہوگی"

آنکھوں میں وارننگ لیے کہا تو وہ سہمی نظروں سے اسکو دیکھنے لگی اور بے آواز رونے لگی

وہ شخص اب سیدھا لیٹ گیا تھا اور دوموں ہاتھ سر کے نیچے رکھے تھے اب ماروش کی کرسی اسکے سر کے پیچھے تھی

"اللہ میاں یہ کون ہے؟ کیوں میرے پیچھے بڑا ہے سب پریشان ہورہے ہوں گے میں تو جانتی بھی نہیں اسکو میں نے اسکا کیا بیگاڑا ہے"

وہ خود سے دماغ میں سوچتی چہرہ جھکالیا تھا جب چہرہ اٹھا کردیکھا تو وہ اب سامنے نہ تھا اسکے اسنے اردگرد دیکھنا شروع کیا کہ۔۔۔

"کیا ڈھونڈھ رہی ہو؟"

خوفناک آواز اسکو اسکے کان کے پاس سے آٸ تو وہ پھر سے چلااٹھی لیکن اس شخص کے ہاتھ نے اسکی چیخوں کا گلا گھونٹا تھا

"کیا تم ہر وقت چلاتی رہتی ہو نہایت ڈرپوک ہو میری ملکہ"

مسکرا کر اسکے تاثرات دیکھنے لگا جو کہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھنے سے لال ہوگی تھی کیونکہ اسکو سانس بہت مشکل سے آرہا تھا اور وہ مزحمت کررہی تھی

اسکو بہت مزہ آرہا تھا اسکو ایسے مزحمت کرتے دیکھ لیکن پھر ترس کھاتے اسنے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا تو وہ کمبے لمبے سانس لینے لگی

"تمہیں پتا ہے میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟"

اسنے اسکے اردگرد چکر کاٹتے ہوۓ کہا

"تم مجھے جانتی ہو کہ میں کون ہوں"

اب ایک جگہ رک کربتایا گیا

لیکن اسکا چہرہ لال پیلا ہورہا تھا کیونکہ اسکے ہاتھ نے اسکے چہرے کو کسی کوٸلے کی طرح جھلسایا تھا 

"سن رہی ہو مجھے؟"

اسنے ہونٹ پر انگلی رکھتے ہوۓ کہا

تو اسنے زخمی نظروں سے اسکی طرف دیکھا

"اچھا مطلب سن رہی ہو۔۔۔۔۔"

اسکے ایسے دیکھنے سے اسنے دل چلانے والی مسکراہٹ پیش کرتے ہوۓ کہا اسکے چہرے پر خوف عیاں تھا

"اگر اسکو معلوم ہوا میں کون ہوں تو یہ تو مر ہی جاۓ گی خوف سے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسنے سوچا

"کیا تمہارے زہن میں نہیں آتا کہ تم نے مجھے کہی دیکھا ہوا ہے؟"

تو اسنے نفی میں سر ہلایا

تیزی سے اسکے پاس پہنچ کر کرسی کی دونوں باہنوں پر اپنے ہاتھ ٹکاۓ اسکی طرف جھکا

"بہت معصوم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت پر۔۔۔۔۔۔"

یہ کہ کر اسنے اپنی آنکھیں بند کرکے کھولیں تو آنکھیں پوری کالی ہوگٸیں تھی

ماروش نے آنکھیں پھاڑے اسکو دیکھا اور تیز ڈھڑکن کے ساتھ اسکی آنکھوں کو دیکھا اور پھر خود کی آنکھیں بھی دھندلی ہوگٸیں تھی اور وہی اسکا سر کرسی کے ساتھ ڈھلک گیا تھا

اسنے اپنی گردن ہلکی سے ٹیڑھی کرکے اسکو دیکھا

"اب میں نے تو اسکو کچھ نہیں کہا"

"معصومیت سے کہتا پیچھے ہوا 

"اسکو بس ایک چلانا آتا ہے ایک بےہوش ہونا۔۔۔۔۔۔۔یہ مجھ سے انسانوں والے نخرے اٹھوا رہی ہے"

یہ کہ کررکا

"پر میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔او یار حد ہے مجھے یہ انسان بنا کر چھوڑے گی"

جھنجھلایا سا خود سے بڑبڑاتا وہاں سے غاٸب ہوا تھا

.......................................

"جیسا کہ تم نے ساری بات بتاٸ ہممم کیا پتا یار وہ کسی دوست طرف گی چلی ہو"

ایس پی کمال نے کہا

"بیٹا وہ جہاں بھی جاۓ اکیلی نہیں جاتی یا انفارم ضرور کرتی ہے"

ماریہ بیگم نم آواز میں بولیں

"یہ بات بھی درست ہے"

کمال نے پرسوچ انداز میں کہا

"اب تیرا کیا خیال ہے؟"

شاہ ویز نے پوچھا

"فکر نہیں کر اسکو فون کو ٹریس پر لگادیا ہے"

"لیکن فون بند ہے"

"شاہ ویز فون کے اندر ایک ایسی چیپ ہوتی ہے جس سے ٹریس بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بہت مشکل کام ہے پر ڈونٹ وری جسکو کام پر لگایا ہے وہ ایسا کرسکتا ہے"

"ٹھیک ہے کمال"

"خالہ جی آپ ٹینشن نہ لیں"

کمال نے ماریہ بیگم کو تسلی دی

.......................................

ماروش آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھول رہی تھی اور اردگرد دیکھنے لگی سارا واقع کسی فلم کی طرح اسکے زہن میں چل رہا تھا اور پھر سے بےآواز رونے لگی

"ماروش۔۔۔۔رونے کا کوٸ فاٸدہ نہیں"

وہ چاہ رہا تھا کہ ماروش اسکو غصہ مت دلاۓ پر وہ کام ہی ایسے کررہی تھی

"کک۔کون ہو تم؟ خ۔خدا کک۔کے لیے جج۔جاے دو"

اسنے ہچکیوں کےدرمیان کہا

"تت۔تم جانتی ہو میری پیاس صرف تم مٹا سکتی ہو میری بھوک میں صرف یہاں تمہارے لیے آیا ہوں تمہیں پاکر کر اپنی طلب مٹانا چاہتا تھا"

وہ پاگلوں کی طرح بول رہا تھا اور ماروش غلط سمجھ گی تھی اسکی بات

"مم۔مجھے جانے دو مم۔مجھے کک۔کچھ مت کرنا مم۔میری عزت"

یہ کہتی پھر سے زاروقطار رونے لگی اور اسکی بات سمجھتا اسکا دل کیا اپنا سر ہی پیٹ لے دوسروں کو نچوانے والا آج خود کسی کے ہاتھوں ناچ رہا تھا

اسنے اپنی آنکھیں بندکرکے کھولی تو آنکھیں کالی تھیں 

"میرا۔۔۔۔۔صبر۔۔۔۔۔۔مت۔۔۔۔۔۔آزماو۔۔۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔میں تمہیں کھانے میں ایک پل کی بھی دیری نہ لگاوں"

غصے سے چلایا تھا اور توڑ پھوڑ کرنے لگاتھا اور وہ بس روتی کبھی زور کی آواز پر چلادیتی

ہر چیز تہس نہس کرتا اب ہر چیز کا ہونٹ پر انگلی رکھے جاٸزہ لےرہا تھا اور پھر خونخوار نظروں سے اسکی طرف دیکھا اور اب وقت آگیا تھا اسکو بتانے کا کہ یہ کون ہے

"میں یعنی ابتسام بھیڑیوں کی دنیا کا بادشاہ جسکے آگے میری پوری دنیا جھکتی ہے جسکے حکم پر میری دنیا والے لبیک کہتے ہیں جسکے سامنے کوٸ انچی آواز میں بات کرۓ اسکو اگلا سانس نصیب نہیں ہوتا اور ایک تم اگر یہ تم نہ ہوتی تو ابھی دوسرا سانس تمہیں نصیب نہ ہوتا خوش قسمت ہو تم جو میرے ہاتھوں یعنی ابتسام کے ہاتھوں بچی ہوٸ ہو"

یہ کہتا وہاں سے غاٸب ہوگیا تھا

اور وہ پیچھے ابتسام کے نام پر ہی اڑی ہوٸ تھی شاید اسنے کچھ اور سنا ہی نہ تھا اسکا دماغ سن ہوگیا تھا

...................................

"اا۔اب۔ابتسام ی۔یہ تت۔تو۔۔۔۔"

چہرہ جھکاۓ بے آواز رونے لگی ناجانے اسکے ساتھ کیا ہورہا تھا

"یہ چاہتی کیا ہے؟ بس کچھ دن ہیں اسکے بھی اگر اسنے ایسے ہی میرا دماغ خراب کیا تو۔۔۔۔۔"

ابتسام کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ماروش کی جان لے لے

"ارے بگ برو ابھی تو اسکو ایک دن نہیں ہوا اپکا یہ حال ہے"

اسکو بہت مزہ آرہا تھا ابتسام کی یہ حالت دیکھ کر

"ہاں تمہیں تو بہت مزہ آرہا ہوگا نہ"

اسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ اسنے چباتے ہوۓ کہا تو جازبہ نے فوراً سے اپنی مسکراہٹ غاٸب کی

"تو چھوڑ آٸیں واپس اسکو بگ برو اور ہم واپس اپنی دنیا میں چلتے ہیں کتنا مزہ آۓ گا نا"

اسنے خوش ہوتے کہا پر ابتسام کو خوخوار نظروں سے گھورتا پا فوراً خوشی غاٸب ہوٸ

"ہاں بڑا مزہ آۓ گا"

اسنے اسکی نقل اتارتے ہوۓ کہا تو جازبہ کہ ہنسی نکل گی اپنی حرکت پر ابتسام بھی ہنس دیا اور جازبہ کے پاس درخت کے نیچے بیٹھ گیا

"بگ برو ابھی سے اپکا یہ حال ہے آپ کیا کریں گے؟"

اسکی بات پر اسنے گردن گھماکر دیکھا اور ٹھنڈھی آہ بھری

"بہت بہت نازک دل لڑکی ہے وہ انسان ہے بگ برو اپکی صرف آنکھیں دیکھ کر وہ بےہوش ہوگی ابھی تو اسنے کچھ دیکھا ہی نہیں"

اسنے خطرہ ظاہر کیا

"تو کیا کروں؟"

"واپس چھوڑ دیں"

"نہایت بکواس مشورہ"

اسنے منہ بناتے ہوۓ کہا

"وہ اڈجسٹ نہیں ہوپاۓ گی اور ہماری دنیا کے بھیڑیے اسکو نہیں چھوڑیں گے"

"میں ہوں حفاظت کروں گا "

اسنے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا

"کب تک؟"

اسکی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا

"ماما بابا والا واقع دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں آپ"

اسنے نہایت کرب سے کہا

"وہ جن زادی تھیں"

اسنے آواز آہستہ رکھتے ہوۓ کہا

"اور یہ انسان جو کہ ایک جن زادی سے زیادہ نازک ہوتی ہے"

اسنے پورا اسکی طرف مڑکر کہا

"بابا کمزور تھے میں ان جیسا نہیں"

اسکی بات پر جازبہ تنزیہ مسکراٸ

"شاید ان جیسا طاقتور کوٸ نہیں آپ بھی نہیں"

اسنے شاید یاددہانی کرواٸ

"طاقت ہی سب کچھ نہیں ہوتا کبھی جازبہ اور چھوڑو تم دماغ مزید خراب نہیں کرو ابھی اس انسان کی بچی نے بھی دماغ خراب کرنا ہے میرا"

اسنے پیچھے درخت کے ساتھ ٹیک لگاتے آنکھ موند کرکہا

"کس سے بھاگ رہے ہیں بگ برو خود سے یا اپنی ایک انسان سے محبت سے یا اپنی بادشاہت سے۔۔۔۔؟"

جازبہ نے ابتسام کو دیکھ کردل میں سوچا اور ٹھنڈی آہ بھرتی خود بھی پیچھے ٹیک لگالی

.......................................

"بیٹا میرے جیسا کمزور مت بننا"

"لیکن بابا آپ تو بہت بہت بہت طاقتور ہیں"

"ابتسام کبھی طاقت ہی سب کچھ نہیں ہوتی"

ماضی کو سوچ کر ابتسام نے کرب سے آنکھیں بند کرکے کھولیں اور اسکی آنکھیں بھی نم تھیں وہ بھیڑیہ ہوکر رو رہا تھا

"بابا آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ آپ کس کمزوری کی بات کررہے تھے کاش میں یہاں آتا ہی نہ کاش"

خود سے سوچتا جنگل میں چلنے لگاتھا

کہ اسکو درخت کے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہواا اسنے پلٹ کر دیکھا تو سمجھ گیا تھا کون ہے

"جوزف یہاں کیا کررہے ہو؟"

اسنے پیچھے ہاتھ باندھتے ہوۓ کہا

"آقا حضور نے بھیجا ہے؟"

اسنے سرجھکا کرکہا

"کاوش نے خیریت کوٸ پرابلم ہے؟"

"آقا اپکو قتل کے کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں تو حضور نے کہا آپکو اطلاع دوں

"ہممم اچھا"

"آقا کچھ ہوا ہے؟"

اسنے جھجھکتے ہوۓ کہا

"نہیں ٹھیک ہوں"

"آقا حضور پوچھ رہے تھے آپ کب واپس آٸیں گے؟"

"ہمممم اچھا"

بےتکا سا جواب جس پر جوزف کی ہمت نہیں ہورہی تھی اسکا مطلب پوچھنے کی

"جاو جوزف کاوش سے کہنا میں آجاوں گا"

یہ کہ کر وہاں سے غاٸب ہوگیا اور وہ پیچھے سوچ میں پڑھ گیا

.......................................

"ماروش بھوک لگی ہے۔؟"

اسنے ناسمجھی۔سے پوچھا کیونکہ اسکو کیا پتا تھا کہ یہ کیا کرتی ہے بھوک لگے تو

"نن۔نہیں"

اسنے ڈرتے ہوۓ کہا گویا کھاہی نہ جاۓ

ابتسام نے آگے بڑھ کراسکے ہاتھ کھولے اور پھر اسکو بھی کھولا وہ آزاد تھی اسکے آزاد ہوتے ہی وہ فوراً اٹھی

"آو کچھ کھالو"

اسنے سر کھجاتے ہوۓ اسکو کرسی پر بیٹھاتے ڈبہ آگے رکھا کہ ناجانے پسند بھی آۓ کے نہیں

اسنے ڈرتے ڈرتے ڈبہ کھولا تو اس میں بریانی تھی(یممیی دل کرپڑا میرا بھی😉)

اور چپ چاپ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کھانے لگی

کھانے کے بعد وہ اسکو دیکھنے لگی

"کیا ہے۔۔۔۔۔؟"

اسنے اسکو ایسا دیکھتے پاکرکہا

"مم۔مجھے جج۔جانا ہے"

اسنے نم آواز میں کھڑی ہوتے ہوۓ کہا

"آہ جاو شوق پورا کرلو اور چلی جاو"

صوفے پر سیدھا ہوتے ہوۓ کہا

اسکے ایسے مان جانے پر وہ آنکھیں پھاڑے اسکو دیکھنے لگی

"اب کیا ہے؟جاو۔۔۔"

اسنے سر کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا

تو وہ قدم قدم پیچھے لیتی ساتھ اسکی طرف بھی دیکھ رہی تھی کہ گویا وہ اسکو پکڑ ہی نہ لے اور وہ دروازہ کھولتی وہاں سے بھاگ گی تھی

"ہٹ پاگل لڑکی۔۔۔"

اسکو ایسے بھاگتا دیکھ اسنے ہاتھ اٹھا کرکہا خود سے کہا اور سکون سے آنکھیں موند لیں

وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے پاگلوں کی طرح جنگل میں بھاگ رہی تھی تھک ہار کر درخت کے ساتھ ایک ہاتھ ٹکاتے اور دوسرا ہاتھ اپنے گھٹنے پر رکھے جھک کر اپنی سانس ہموار کرنے لگی لیکن سامنے والا منظر دیکھ وہی ٹھٹھک گی

کیونکہ سامنے وہی گھر تھا جہاں سے وہ بھاگی تھی 

"مم۔مں دوبارہ یہاں کیسے؟"

یہ خود سے کہتی دوبارہ قدم قدم پجچھے لیتی بھاگ گی لیکن پھر گھومتے گھماتے وہی آکھڑی ہوٸ تھی

"اللہ میاں میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟ مم۔میں کیوں نہیں نکل پارہی مم۔میں کک۔کیا کروں؟"

خود سے کہتی ساتھ رونے لگی شاہد واپس جانا ہی مناسب تھا شاید اسکو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ یہاں سے اسکی مرضی کے بغیر نہیں نکل سکتی اسی لیے اپنے مردہ قدم دوبارہ اس گھر کی طرف بڑھادیے تھے

دروازہ کھلنے کی آواز پر سامنے لیٹے وجود جسکی آنکھیں بند تھی لب مسکراۓ تھے لیکن پھر مسکراہٹ غاٸب ہوٸ تھی

"کیا ہوا گی نہیں؟"

انجان بنا تھا

"مم۔میں نہیں نکل پاٸ مجھے جانے دو پلیز"

اسنے روتے ہوۓ کہا

"تو میں نے کہا تھا جاو گی تو تھی اب اپنی مرضی سے واپس آٸ ہو ورنہ میں نے آزاد کردیا تھا تمہیں"

چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی کبھی نہ جدا ہونے والی

"مجھے نہیں پتا پر میں۔۔۔میں نہیں نکل پاٸ مجھے جانے دو پلیز۔۔۔۔۔"

اسنے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتے ہاتھ چوڑتے ہوۓ کہا تو اسنے سختی سے آنکھیں میچ کر کھولیں جو کہ کالی ہو ہوچکیں تھی اسنے اپنی مٹھیاں زور سے بند کی اور اسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ جازبہ فوراً وہاں حاضر ہوٸ اور ابتسام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسکو پیچھ دھکیلا

ماروش فوراً کھصی ہوٸ وہ مکمل طور پر سہم چکی تھی جازبہ نے ماروش کے بازو کو پکڑ کر پیچھے کو اپنے ساتھ کیا

ماروش کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا کیونکہ جازبہ کی بھی کالی آنکبں تھی اوپر سے اسکے ہاتھ ک وجہ سے اسکا بازو آہستہ آہستہ جھلس رہا تھا اسنے آزاد کروانا چاہا تو جازبہ نے اپنا ہاتھ ہٹایا

ابتسام کو شدید غصہ آرہا تھا اسکے ہاتھوں کی نسیں نظر آنا شروع ہوگیں تھی اور ہاتھوں پر بال نکل رہے تھے کہ ماروش کی نظر پڑنے سے پہلے جازبہ نے آگے ہوکر اسکے ہاتھوں کو پکڑا ناجانے کیا کیا کہ آہستہ آہستہ اسکا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا تھا

غصہ کچھ ٹھنڈا ہوتے وہ صوفے پر بیٹھا تھا

"بگ برو آپ کیا کررہے تھے؟"

اب وہ اس سے استفارہ کررہی تھی

"یار اسکا مسلہ کیا ہے کہتی جانا ہے میں نے کہا جاو اب خود واپس آٸ ہے اور۔۔۔"

کہتے کہتے رک گیا اور قہر زدہ نظروں سے ماروش کی طرف دیکھا

جازبہ نے آنکیں دیکھاٸ کیونکہ وہ ابتسام کی مرضی کے بنا یہاں سے نکل ہی نہیں سکتی

"مم۔مجھے جانا ہے گھر مم۔میں ن۔نکل ہی نن۔نہیں پاٸ پلیز آ۔آپ مم۔مدد کریں"

اب اسکا رخ جازبہ کی طرف تھا

"آپ کو یہاں کوٸ مسلہ نہیں ہوگا آپ ہمارے ساتھ رہ سکتی ہیں"

اسنے سمجھانا چاہا

"نن۔نہیں مجھے نہیں رہنا میرے ماما بابا اور ش۔شاہ ویز پریشان ہورہے ہوں گے اور یہ بہت برے ہیں"

"بتاتا ہوں تمہیں میں کتنا برا ہوں میں"

اسنے اٹھتے ہوۓ کہا(بلاوجہ کا غصہ تھا وہ صرف اسکو مضبوط بنانا چاہتا تھا) اسکے بات پر وہ سہمی تھی اور جازبہ نے گھورا تھا

"نہیں برے بگ برو ماروش اور میں بھی آپ کے ساتھ ہوں"

اسنے مسکراتے ہوۓ کہا

تو وہ رونے لگی

"اب رو کیوں رہی ہو؟"

ابتسام نے چباتے ہوۓ کہا تو اسکے آنسوں وہی تھمے

"جازبہ جاو میں دیکھ لوں گا اسکو"

اسنے حکم صادر کیا جسکی تابعداری ضروری تھی

"آپ مت جاٸیں"

ماروش نے منت کی

"تم سے نہیں پوچھا خاموش رہو تم"

اسنے گھورتے ہوۓ کہا

"چلیں باہر میرے ساتھ۔۔۔۔"

اسکے بازو سے کھینچتی جازبہ اسکو باہر لے گی

"کیوں آپ کررہے ہیں اسکے ساتھ ایسا؟ وہ آپکو کچھ کہ بھی نہیں رہی"

باہر لاتے ساتھ اس سے استفارہ کیا

"کیونکہ میں اسکو مضبوط بنانا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا میری ملکہ کمزور بنے میں چاہتا ہوں وہ میری طاقت بنے نکہ کمزوری ہماری دنیا میں کمزور سے کمزور بھی اسے زیادہ طاقتور ہوگا کیا میں یعنی ابتسام بادشاہ اسکو کمزور کو ان بھیڑیوں کے آگے نوچنے کیلیے ڈال دوں"

غصے سے بولا تھا

"لیکن یہ کوٸ طریقہ نہیں ہے آپ ڈراتے ہیں نکہ مضبوط بناتے"

یہ بھی دوبدو ہوٸ

"میں کچھ نہیں جانتا بس میں ماما بابا والا واقع نہیں دہرانا چاہتا ماما کمزوری تھیں بابا کی پر ماروش نہیں بنے گی بابا ہار گے تھے ماما کیلیے میں نہیں ہاروں گا مجھے اپنے عشق سے اس دنیا میں اور اپنی دنیا میں آگ لگانی ہے"

اسنے ایک ضبط سے کہا

"ماما بابا کی یاد ایک تلخ حقیقت ہے جسکو یاد کرکے ایک سینے میں ٹھیس اٹھتی ہے میرا دل جلتا ہے"

وہ ایک کرب سے بول رہا تھا

"بگ برو آپ تو کبھی کمزور نہیں پڑے اور نہ ہی پڑٸیے گا"

جازبہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرا کرکہا 

"چلیں غصہ کم کریں اور جاٸیں بھی جارہی ہوں اب غصہ مت کرٸیے گا وہ انسان ہے سہم جاتی ہے چھوٹا سا تو اسکا دل ہے"

اسنے مسکرا کرکہا

"ہاں بڑا چھوٹا دل ہے زبان تو بڑی لمبی ہے جس پر ہر وقت چھوڑ دیں چھوڑ دیں کی رٹ لگی رہتی ہے"

اسکی بات پر جنگل میں جازبہ کا قہقہ گونجا تھا

"افف بگ برو وہ تو بچاری سی ہے"

"بچاری نہیں ہے وہ ہے تو انسان کی بچی پر دماغ پورا جانوروں والا کھاتی ہے اور اسکو تین کام آتے ہیں بےہوش ہونا چلانا اور بولنا"

اسنے منہ ٹیڑھا کرتے ہوۓ کہا اور جازبہ کا ہنس ہنس کر برا حال تھا

"چلیں بس کریں ہماری ملکہ کی تعریفیں"

اسنے شرارت سے کہا تو وہ بھی ہنس دیا

اور جازبہ بھی آنکھ مارتی وہاں سے غاٸب ہوٸ تھی اور ابتسام بھی

ابتسام جب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ماروش اسکو دیکھ کر ڈر گی اور پیچھے ہوٸ لیکن قسمت کے اسکا ہاتھ ایک کیل تے لگا اور ہاتھ سے پانی کی فوار کی طرح خون نکلا

ابتسام نے نیچے رے خون کو دیکھا اور پھر اسکو کیونکہ وہ بہک رہا تھا اسکی آنکھیں بند ہوتیں کھل رہیں تھی دیوانہ وار خون کو دہکھ رہا تو اور سختی سے آنکھیں میچ کر کھولیں

قدم قدم لیتا آگے بڑھا اور ماروش دو قدم ہی پیچھے ہوٸ تی اور دیوار آگی

ابتسام نے اسکے پاس پہنچ کر نیچے بیٹھا اور بلڈ کو دیکھنے لگا جو اسکی طلب بڑھا رہا تھا یہ تو اس پر کچھ کنٹرول تھا ورنہ ابھی ماروش زندہ نہ ہوتی

ابتسام نے کھڑے ہوکر ماروش کو دیکھا جو آنکھیں سختی سے میچی کھڑی تھی اسنے اپنے ہاتھ کو پیچھے چھپارکھا تھا آنکھوں سے آسوں نکل رہے تھے کچھ درد کی وجہ سے تو کچھ خوف کی وجہ سے۔ ابتسام نے مکمل طور پر اسکا جاٸزہ لیا

اسنے آگے کو ہوکر اسکی گردن سے بال ہٹاۓ اور اپنے دانت نکالے ماروش اسکی ہر حرکت محسوس کررہی تھی اور دل سے کانپ گی تھی الفاظ نا نکل رہے تھے

ابتسام نے جھک کر اسکی گردن پر اپنے دانت رکھے ماروش نے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسکی شرٹ کو سختی سے پکڑا تھا اسکے ایسا کرنے سے ابتسام نے اپنے دانت اٹھاۓ

"بے فکر رہو کچھ نہیں کروں گا"

سرگوشی ہوٸ اور اسکی گردن پر دانت پھیرنے لگا آہستہ آہستہ مارو نیند کی وادیوں میں جارہی تھی اور مکمل طور پر اسکے سحر میں گم ہوتی اسکے اوپر گر گی تھی ابتسام نے اسکا سر سہلایا اور پھر اسکو گود میں اٹھاتا صوفے پر لیٹا دیا

اور خود صوفے پر بیٹھا سامنے خود کو تکنے لگا اسنے گردن ٹیڑھی کرکے اسکو دیکھا اور پھر مسکرا دیا

اسنے آنکھیں بند کرکے کھولیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے سے نیچے گرا ہوا بلڈ غاٸب تھا اور ابتسام نے انگوٹھے کی مدد سے اپنے ہونٹ پر لگا خود صاف کیا

.......................................

"تم جانتے ہو ابتسام ایک لڑکی ایک انسان لڑکی کو اپنے پاس لایا ہے"

غصے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتے ہوۓ کہا

"حکم وہ بادشاہ ہے ہم بے بس ہیں"

کسی غلام نے تابعداری سے کہا تو آہنم نے اسکو گھورا

"وہ بڑے سرکار کی طرح کررہا ہے بڑے سرکار جن زادی لاۓ تے اور یہ۔۔۔۔۔۔یہ سب اصولوں کے خلاف ہے"

"اصول بھی بادشاہ نے بناۓ تھے وہ جب چاہے توڑ سکتا ہے"

تم میری طرف ہو یا ابتسام کی طرف؟"

غصے سے سوال ہوا

"ح۔حکم آپی کی طرف۔۔۔"

اسکے جواب پر آہنم مسکرایا تھا

"بہت خوب۔۔۔۔۔"

.......................................

"کیا خوب منظر ہے نہ بےبی۔۔؟"

"ہاں بہت خوبصورت۔۔"

وہ جو کوٸ بھی تجی ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوۓ تھے اور کسی نے دور سے دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیری تھی

"جازبہ آج تو تیری دعوت ہوگی کاش بگ برو بھی ہوتے"

اسنے ان دونوں کو دیکھ کر سوچا

"بندہ حاضر ہے۔۔۔"

اس آواز پر جازبہ ایک دم سے اچھل پڑی

"شش کیا یار تم نے بھی اب ماروش کی طرح چینخنا ہے"

اسنے گھورتے ہوۓ کہا

"ارے بگ برو ڈرا دیا کب آۓ اور آپ یہاں؟"

"جب یاد کیا تب ہی۔۔۔۔۔"

اسنے سامنے موجود شکار کر دیکھتے ہوۓ کہا تو جازبہ مکرو ہنسی ہنسی

"کیا خیال ہے۔۔۔۔؟"

"ہمیشہ کی طرح نیک۔۔۔"

ابتسام نے بھی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوۓ کہا

.........................

"جازبہ۔۔۔۔۔۔۔رکو"

جازبہ جو آگے بڑھنے لگی تھی ابتسام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیا

تو اسنے سوالیہ ظروں سے دیکھا

"یو نو مجھے آسان مار دینے کا مزہ نہیں آتا اور یار اس میں وہ خون کی لزت نہیں ہوتی"

اسکے آنکھوں شرارت واضع تھی

"ہاہاہاہا۔۔۔۔۔اہممم جو حکم بادشاہ سلامت ہم تو اپکے حکم کے تابع ہیں"

اسنے جواباً آنکھ مارتے ہوۓ کہا

اسکو مسکرا کر دیکھا اور پھر سامنے ان لوبرڈز کو جو۔۔(جو نہیں بتانا کیا کررہے تھے😉) اسکے اوپر لاٸٹ کو دیکھا تو وہ بھی بجھنے لھی کبھی جلنے ان لوبرڈز نے ایک دوسرے سے دھیان ہٹا کر اوپر لاٸٹ کی طرف دیکھا

"اس لاٸٹ کو کیا ہوا۔۔؟"

اس لڑکی نے لاٸٹ کی طرف دیکھتے ہوۓ اس لڑکے سے کہا

"مجھے کیا پتا میں تھوڑی ایسے کررہا ہوں"

اس لڑکے نے ہنستے ہوۓ کہا جیسے ابھی بھی نشے میں ہو

"بڑی مسکریاں کررہا ہے یہ۔۔۔"

ابتسام نے ایک ہاتھ دیوار پر ٹکاۓ اور دوسرا پاکٹ میں ڈالے کالی آنکھوں سے انکو دیکھتے ہو جازبہ سے کہا جو اسکے بازو کے ساتھ لگی منظر سے لطف اندوز ہورہی تھی

"بگ برو انکو دیکھ کر بھوک شدید ہورہی ہے یمییی"

اسنے بھی کالی آنکھیں انکی طرف گاڑتے ہوۓ کہا

"اوہوں۔۔۔۔شکار کو زیادہ تڑپانا نہیں چاہیے۔۔۔"

اسنے ڈاڑھی کھجاتے آنکھ دباتے ہوۓ کہا

اور ساری لاٸٹ چلی گی اب بالکل اندھیرا تھا

"افف کیا کررہے ہو اندھیرے میں جانووو"

اس لڑکی نے لڑکے سے شرماتے ہوۓ کہا

"بےبی میں تو کچھ نہیں کررہا"

اسنے اندھیرے میں ہی دیکھتے ہوۓ کہا

"تت۔تو پھر گردن پر دانت۔۔آآآآآ"

ابھی اتنا ہی بولی تھی کہ دونوں کی چینخ بیکوقت نکلی اور دونوں نیچے گرگے

اور لٸٹ بھی آگی ابھی منظر دیکھنے والا تھا وہ دونوں کھلی آنکھوں سے نیچے پڑے تھے اور گردن سے خون کی فوار نکلی تھی

"نہایت بکواس مجھے تو زرا مزہ نہیں آیا"

ابتسام نے نیچے انکے پاس آلٹی پالٹی مار کر بیٹھتے ہوۓ جازبہ سے کہا

"ہاہاہا مفت کا کام سارو اسی سے ہی۔۔۔"

وہ بھی قہقہ لگاتی پاس بیٹھی اور اسنے جھک کر لڑکی کی گردن پر دانت رکھ کر ایک جھٹکے سے کھینچ کر اسکا گوشت نکالا اب وہ دونوں ان دونوں کو کھانے میں مصروف تھے چہرہ خون سے رنگا ہوا تھا کپڑے بھی لت پت تھے

  یہ درد کے لمحے      یہ سرد ہواٸیں

  زندگی سہمی        سانس کیسے آۓ

  یہ خوف ہے دل میں   کہ دھیرے دھیرے

      تیری خاموشی جان لے نا جاۓ

     کس موڑ پہ یہ زندگی لےآٸ بےوجہ

  سو گیا یہ جہاں      سو گیا آسماں

  سو گیا یہ جہاں      سو گیا آسماں 

   سو گی ہیں ساری منزلیں ہو ساری منزلیں  

         سو گیا ہے راستہ

ابتسام نے گوشت کھاتے ہوۓ ہوۓ بہکے انداز میں گنگنایا بےشک اسکو اس گانے کے بنا مزہ نہیں آتا تھا اب وہ دونں مکمل طور پر ایک بھیڑیے لگ رہے تھے جو بنا کسی فکر سے انکا گوشت نوچ رہے تھے 

.......................................

"حضور آقا ایک لڑکی ایک انسان لڑکی کو اپنے پاس لاۓ ہیں"

جوزف نے ادب سے جھک کرکہا تو کاوش جو خون سے بھرے گلاس کو لبوں سے لگانے لگا تھا اسکی بات پررکا

"معلوم ہے مجھے۔۔"

اسنے گلاس کو لبوں سے لگاتے ہوۓ جھوٹ بولا حلانکہ اسکو اس بات کا علم نہ تھا

"شہزادی بھی یہ بات جانتی ہیں۔۔۔"

"ہمممم اچھا سہی۔۔۔اور ابتسام پاس گے تھے؟"

"جی میں گیا تھا حضور اور پیغام پہنچایا تھا آپکا"

"کیا کہا اس نے۔۔۔۔؟"

"آقا کہ رہے تھے وہ جلد واپس آٸیں گے اور وہ اپنا خیال رکھیں گے"

"ہممم سہی۔۔۔۔اوکے جاو جوزف اکیلا چھوڑ دو مجھے"

اسنے ہاتھ کے اشارے سے ساتھ جانے کو کہا

تو وہ جھکتا ہوا وہاں سے چلا گیا

"ابتسام کیا کررہے ہو یار؟ جانتے ہو انجام برا ہے کیوں حضور اول کی طرح کررہے ہو؟ وہ جن زادی لاۓ تھے اور تم مجھے بھی نہیں بتایا آلے کلاس لوں گا تیری۔۔۔۔۔۔"

اسنے سوچتے ہوۓ اپنا سر ہاتھوں میں تھاما

.......................................

ماروش دھیرے دھیرے سے آنکھیں کھول رہی تھی مکمل آنکھیں کھولنے پر اسکی نظر چھت پر گی سارا واقع اسکے زہن میں گھوم رہا تھا آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کرگرے جو گردن سے ہوتے اسکے بالوں میں جزب ہوگے تھے آنکھیں صاف کرتی اٹھی تو سامنے دروازے پر نظرگی جو کہ کھلا تھا 

قدم قدم لیتی اسکے پاس جاکر دروازے کو ہاتھ لگایا تو واقع ہی کھلا تھا

وہاں سے باہر نکلتی اردگرد نظر ڈوڑانے لگی اور ایک اور کوشش کے تحت وہاں سے بھاگی تھی بھاگتے بھاگتے نجانے اسکے پیر پر کیا لگا کہ خون رسنے لگا لیکن بھاگتی رہی درد تھا کہ بڑھ رہا تھا لیکن وہ درد کو ہونٹ بھینچے پی گی

بھاگتے ہوۓ درخت کا سہارا لیتی رکی اور سانس ہموار کرنے لگی کہ اسکو عجیب و غریب آوازیں آنے لگی تیز سانس سے اسنے اردگرد دیکھا تو کچھ آنکھوں کی روشنی اسکو دیکھاٸ دی فل سپیڈ سے بھاگتے دل پر ہاتھ رکھتی پیچھے مڑ کر بھاگنے لگی لیکن وہاں بھی وہیں آنکھیں تھی اب چاروں طرف آنکھوں کی روشنی تھی 

ایک روشنی اسکو آگے آتے دیکھاٸ دی نظر آنے پر وہ۔۔۔۔

بھیڑیا تھا اسکے دونوں ہاتھ دل پر تھے وہ بھیڑیا قدم قدم لیتا اسکے طرف آرہا تھا

اور وہ قدم قدم پیچھے لےرہی تھی اور اس بھیڑیے نے پھرتی سے اسکی طرف چھلانگ لگاٸ ماروش نے چینخ مار کر چہرے پر بازو کیا

وہ بھیڑیا خونخوار دانت نکالے ماروش کی طرف چھبٹنے لگا کہ کسی نے اس بھیڑیے کا کام تمام کردیا

جب ماروش کو لگا کہ وہ بچ گی ہے تو اسنے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو کوٸ اسکے سامنے دیوار بن کر کھڑا تھا

"ا۔اب۔ابتسام مم۔مجھے بب۔بجا لیں پ۔پلیزز"

اسنے ابتسام کی پشت سے اسکے شرٹ کو کس کر پکڑتے ہوۓ کہا تو ابتسام کی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ماروش نے اس سے مدد طلب کی وہ اس سے ڈری نہیں بلکہ اسکو اپنا محافظ پارہی ہے

"میری ملکہ ڈرو نہیں میں ہوں"

اسنے چاروں طروف موجود بھیڑیوں کی طرف دیکھتے ہو مسکرا کر تسلی دی بےشک آج اسکا دن نہایت خوشگوار گزر رہا تھا

"تم لوگوں کی ہمت بھی کیسے ہوٸ میری ملکہ کو مارنے کے بارے میں سوچنے کی کیا جان پیاری نہیں۔۔۔؟"

ابتسام نے چباتے ہوۓ کہا

"یہ تم سب کی ہونے والی ملکہ ہے اک خروش بھی آتی اسکو تو تم سب یہاں زندہ نہ ہوتے"

اسنے غصے سے کہا

"حوصلہ رکھیے جاپنہاں۔۔"

آہنم شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ نمودار ہوا

"آہنم۔۔۔۔۔ تم باز کیوں نہیں آجاتے کیا یہ کافی نہیں تم زندہ ہو"

اسنے وارن نظروں سے کہا

"ابتسام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے نام پکارنے پر ابتسام نے اسکو دیکھا کسی میں ہمت نہ تھی اسکا نام پکارنے کی

"شاید جان عزیز نہیں جو میرا نام پکارا ہے بادشاہ ہوں میں تمہارا خیر موت کو دعوت دی ہے آج تو بہت مزے ہوگے تمہاری تو لزت ہی اور ہوگی۔۔۔"

اسنے زبان ہونٹ پر پھیرتے ہوۓ کہا ایک منٹ کیلیے خوف آہنم کے جسم میں ڈوڑا تھا پر خود کو سنبھالا جانتا تھا موت کی طرف آیا ہے

"بادشاہت کا حق دار میں ہوں۔۔۔"

اسنے کانفیڈنس سے کہا تو ابتسام کا قہقہ گونجا

"سیریسلی کیا تم میرے بابا کے بیٹے ہو تو پھر میں کون ہوں؟ ہاہاہاہاہا"

اس تمام گفتگو میں ماروش نا سمجھی سے ابتسام کے پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی

"آج تمہیں مار کر ہم شہزادی جازبہ کو لے جاٸیں گے۔۔"

اسکی بات پر ابتسام نے ڈاڑھی کھجاتے اردگرد نظر دوڑاٸ

"یار اگر مجھے مارنے کیلیے لانے ہی تھے تھوڑے زیادہ لاتا کھانے میں مزہ تو آتا اور جازبہ کو کبھی نہیں لیجاسکتے تم لوگ"

"موت تمہارے سامنے کھڑی ہے ابتسام اور تم زرا نہیں ڈر رہے ڈرو تم"

شاید خود کو حوصلہ دے رہا تھا

"وہی تو کہ رہا ہوں موت تمہارے سامنے ہے ڈرو"

یہ کہ کر اسنے آپنی مٹھیں بھینچی اور اپنے روپ میں آرہا تھا ماروش نے اسکی طرف دیکھا تو ڈر گی

اب وہ چاروں طرف موجود آنکھوں کی روشنی سے نہیں بلکہ اپنے سامنے کھڑے وجود جسکی پشت اسکی طرف اور وہ اسکی پشت کے ساتھ لگے کھڑی تھی اب وہ اس سے ڈر رہی تھی وہ اسکی پشت سے اپنے ہاتھ ہٹاتے پیچھے ہوٸ ابتسام نے اپنی گردن گھماکر اسکی طرف دیکھا پوری کالی آنکھیں لمبے دانت جسم پر اور گردن پر بال اسکا اتنا ادھورا روپ ہی اسکے اوسان خطاکرنے کیلیے کافی تھا

"مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں"۔۔۔۔۔۔۔

اسنے ہلکی آواز سے کہا کہ وہ مزید نہ سہم جاۓ لیکن وہ اسکو سن کہا رہی تھی وہ تو بس اسکے روپ کو دیکھ رہی تھی اور دو قدم پیچھے ہوٸ اسکی اس حرکت نے اسکو غصہ دلایا تھا

"تمہیں سمجھ نہیں آٸ کہا نہ پیچھے نہیں ہٹو"۔۔۔

اسنے غصے سے غراتے ہوۓ کہا تو وہ ڈر کے مارے فوراً آگے ہوٸ اسکے ایسا کرنے سے مسکرایا اور شکرادا کر رہا تھا کہ بےہوش نہیں ہوٸ اور اب اسکا رخ سامنے کہ طرف تھا

آہنم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ ابتسام کا کچھ نہیں بیگاڑ سکتا پھر بھی اسکو مارنے کیلیے آگیا اور اسنے ایک بھیڑیے کی طرف اشارہ کیا تو وہ قدم قدم لیتا ابتسام کی طرف آنے لگا

ابتسام نے گردن گھماکر اسکی طرف دیکھا اس بھیڑیے نے ابتسما پر جھپٹنے کیلیے اس پر چھلانگ لگاٸ کہ

کہ ابتسام نے اسکے چھلانگ لگاتے اسکے چہرے سے پکڑ کر موڑا اور گردن پر چھپٹ کر وہاں سے گوشت کا ٹکڑا نکال لیا وہ بھیڑیا وہی گرگیا ماروش کی چینخ جنگل میں گونجی اور وہ وہی گرگی 

"ہاہاہاہاہاہاہہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزے کا۔۔"

ابتسام چہرہ اوپر اٹھاۓ پورے زور شور سے ہنسا اور پھر پیچھ پڑی اپنے بےہوش حسینہ کو دیکھا اسکو سہی سے لٹایا اور اسکا سر پتھر پر رکھا اور دوبارہ اپنا رخ انکی جانب کیا

"آووو آجاو سب بہت مزہ آیا۔۔۔"

اسکے چہرے پر خون لگا ہوا تھا اور ہاتھ بھی خون نے لت پت تھے آہنم اتنی درد ناک پر کانپ گیا تھا اور ابتسام کو دیکھا جو نیچے بیٹھا منہ اس مردہ بھیڑیے کی گردن میں دیے اسکو کھانے میں مصروف تھا وہاں سے اپنی پیاس بھجاتے منہ اٹھایا تو آہنم کانپ کر دو قدم پیچھے ہوا اسنے سب بھیڑیوں کی طرف دیکھا تو وہ نیچے بیٹھ کر اسکی طرف جھک گے تھے

"دیکھ رہے ہو آہنم یہ ہے میری بادشاہت۔۔۔ہاہاہاہاہاہا اور جو میری مخلفت کرۓ گا موت اسکو اس سے بدتر موت دوں گا تو کسی کو میرے خلاف نہیں کرسکتا"

اسکو آج خود پر نہایت غرور تھا اب اسکا رخ آہنم کی طرف تھا

"مم۔میرے حضور مجھے معاف کردیں خطا ہوگی۔۔"

وہ نیچے بیٹھا گڑگڑایا تھا جو بےکار تھا 

"ہاہاہاہاا مجھے کسی کو تڑپانے میں بہت مزہ آتا ہے بہت۔۔اور تمہارا وقت پورا ہوا۔"

یہ کہ اسنے بھیڑیوں کی طرف دیکھا اور وہ سب اس پر چھپٹ پڑے اور اسکو چیڑ ہھاڑ دیا بےشک وہ بھی ایک بھیڑیا تھا لیکن  اتنی طاقت نہ رکھتا تھا کہ ان سب سے نمٹ سکتا

ابتسام بھی مکمل بھیڑیے کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اب پورے جنگل میں ابتسام کی آواز گونج رہی تھی وہ بہت عرصے بعد اپنے اصل روپ یعنی بھیڑیا بنا تھا

.......................................

"وہ سمجھتے کیا ہیں خود کو آپ پر حملہ کرنے کی ہمت کیس ہوٸ انکی؟"

جازبہ غصے سے چلاٸ تھی

"جازبہ آواز نیچی رکھو۔۔"

اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا تو جازبہ نے اپنے ہونٹ بھینچے

"جو گزر گیا چھوڑو وہ اب زندہ نہیں ہے"

"بگ برو بادشاہ پر حملہ ہوا تھا عبرت کا نشان بنانا چاہیے تھا سب کو معلوم ہونا چاہیے تھا غداری کی سزا"

اسکو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا

"چھوڑو اب دماغ خراب نہیں کرو۔"

"کاوش کو معلوم ہے؟"

"شاید ہوچکا ہو"

اسنے ماروش کو دیکھتے ہوۓ کہا جو بےہوش پڑی تھی

"ہم واپس کوں نہیں جاسکتے بگ برو؟"

"میں ماروش کو چھوڑ کر نہیں جاوں گا"

اسنے صاف گوٸ سے کہا ماروش جو بےہوشی کا ناٹک کررہی تھی اسکی بات پر ٹھٹھکی

"ہم اسکو لے کر جاٸیں گے۔۔"

"وہ وہاں بھی نہیں رہ پاۓ گی"

اسکی بات پر جزابہ پاس رکھی کرسی پر بیٹھی

"بگ برو شکر ہے آپکو کچھ نہیں ہوا میرا کوٸ نہیں آپکے سوا"

اسنے چہرہ اٹھا کر بھیگی آنکھوں سے کہا

اسکے ایسا کرنے سے وہ سکرایا جانتا تھا وہ کتنا پیار کرتی ہے اس سے

"کاوش تو ہے نہ۔۔"

اسکی بات پر اسنے ٹیڑھا منہ بنایا تھا اسکا منہ دیکھ ابتسام کھل کر ہنسا تھا جانتا تھا دونوں کی نہیں بنتی

"چلو چھوڑو جوزف کو بلاو بات کرنی ہے کچھ"

اسکے آرڈر پر وہ وہاں سے غاٸب ہوٸ

......................................

"ادھر آو میرے پاس۔۔۔"

ابتسام نے سامنے بیٹھی ماروش کو انگی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا

"نن۔نہیں مم۔میں نن۔نہیں آوں گی"

اسنے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا

"کھا نہیں جاوں گا ادھر آو۔۔"

اسنے مصنوٸی خفگی سے کہا

"مم۔مجھے ڈر لگتا ہے"

اسنے نم آواز سے کہا

"نہیں کچھ کہتا آو میرے پاس شاباش"

اسنے پچکارتے ہوۓ پیار سے کہا تو اسکی آواز میں پیار سموٶا دیکھ آہستہ آہستہ چلتی اسکے پاس آٸ اور کچھ فاصلے پر بیٹھ گی

"اتنا کیوں ڈرتی ہو؟"

فصول سوال تھا

"آ۔آپ انسان نہیں ہو"

اسنے سہمی سہمی نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر کہا

"ہاہاہاہاہا تو پھر میں کیا ہوں؟"

اسنے ہنس کر معصومیت سے پوچھاتو وہ نظریں جھکا گی

"مجھے گھر جانا ہے"

کچھ توقف کے بعد بولی تو اسنے ٹھنڈی آہ بھری

"یار ایک بات بتاو تمہیں بولنا آتا ہے؟"

اسکی بات پر اسنے ناسمجھی سے دیکھا

"ارے بتاو تو سہی"

تو اسنے اثبات میں سر ہلایا

"تو پھر یہ ایک لفظ مطلب مجھے چھوڑ دیں اسکے علاوہ کچھ اور کیوں نہیں بولتی"

اسکی بات پر اسنے ٹیڑھا منہ بنایا تو وہ ہنس دیا اسکی اس حرکت پر

"آپ ایک نہایت برے انسان۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں جانور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھی نہیں ایک بیسٹ ہیں"

اسنے ہمت کرتے آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا تو اسکی بات پر ابتسام کا قہقہ گونجا

"ہاہاہہاہاہہا اوففف میری خدا میری شیرنی بولتی بھی ہے ہاہاہاہا چلو بیسٹ ہی سہی"

اسنے آنکھ مارتے ہوۓ کہا تو اسنے منہ بنایا

"مجھے چھوڑ دیں نہ"

اسنے سوں سوں کرتے نہایت معصومیت سے کہا تو ابتسام کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تو اسنے اسکو ہاتھ سے پکڑ کر زور سے کھینچا تو وہ سیدھا اسکے سینے سے آلگی

"بہت معصوم ہو کیسے رہو گی ہمارے ساتھ؟"

اسنے اسکا چہرہ اٹھاتے بال کان کے پیچھے کرتے ہوۓ کہا

"مجھے رہنا ہی نہیں آپکے ساتھ۔۔۔۔"

اسنے دوبدو جواب دیا

"زبان زیادہ تیز نہیں ہوگی تمہاری۔۔"

اسنے اسکے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوۓ کہا تو اسکے منہ سے کراہ نکلی

"جب بولتی نہیں تھی تت۔تب بھی کہتے اب بب۔بھی گلہ ہے"

اسنے بالوں کو آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا

"گڈ یہ زبان چلنی چاہیے پر میرے سامنے نہیں اور دوسروں کے سامنے"

اسنے اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسکی گال سے گال مس کی اسکی بھڑکتی گال نے اسکی گال کو جھلسا کر رکھ دیا تھا اسنے فوراً چہرہ پیچھے کیا

"آپ ایک نہایت برے انسان ہیں"

"ہیں میں انسان۔۔۔۔۔۔تمہارے خیال میں تو میں ایک بیسسسسسٹ ہوں نہ"

اسنے بیسٹ کو لمبا کھنچا تو وہ ماروش کو بہت کیوٹ لگا اسکی ایک بیٹ مس ہوٸ اور اسنے اس سے نظریں چراٸیں (ہاۓ قسمے وہ مجھے بھی بہت کیوٹ لگا تھا لکھتے ہوۓ🙈)

"تمہیں میں کبھی اپنی ماما جیسی نہیں بننے دوں گا"

اسنے ضبط سے کہا تو اسنے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا

"میری ماما جن زادی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ماروش میرے بابا بادشاہ تھے دنیا کے طاقتور مجھے سے بھی پھر بھی ہار گے"

اسنے بےبسی سے کہا

"ہم بےشک انسان نہیں پر۔۔۔۔پر ہم انسانوں سے زیادہ جزبات رکھتے ہیں دوسروں کے جزبات سمجھے ہیں اور یہ انسان منافق لوگ ہیں اپنوں کو ڈسنے سے باز نہیں اتے اگر ایسے ہوتے انسان تو ہم جانور ہی بہتر ہیں"

اسنے ایک سوچ سے کہا تو ماروش اسکو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگی

"تم چلو میرے ساتھ میں تمہاری حفاظت کروں گا ان منافق لوگوں کے پاس کچھ نہیں یہ صرف تکلیف دینا جانتے ہیں"

اسنے اسکے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا

"اپنوں کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا"

اسنے آہستہ سے کہا

"سہی کہا مجھ سے بہتر کون اس درد سے گزرا ہوگا جانور بھی تکلیف سہتے ہیں"

"میری ماما مجھے چھوڑ گٸیں میں ۔۔۔۔۔۔میں ابھی بچہ تھا بابا ہمیشہ کہتے تھے کہ ابتسام میرے جیسے کمزور مت بننا۔۔۔۔اور اور میں بن رہا ہوں تمہاری وجہ سے"

اسنے اسکے ہاتھوں کو مزید کس کر پکڑتے ہوۓ کہا

"تمہیں پتا ہے میرے بابا بےانتہا عشق کرتے تھے کہ اپنی سلطنت چھوڑنے کو تیار تھے انکی وجہ سے وہ وہ ہار گے تھے میری ماما کی وجہ سے میں ہمیشہ یہ سوچ کر اپنے دل ک نچڑتا ہوا محسوس کرتا ہوں"

اسکی آواز میں واضع نمی تھی اور وہ دم سادھے اسکو سن رہی تھی

"میں بھی تم سے بےانتہا عشق کرتا ہوں خود کو۔۔۔۔خود کو بہت روکا کہ اس کھاٸ کی طرف مت جاوں خود کے بناۓ گے رولز توڑ دیے مت بننا میری کزوری اپنے بابا کو اپنی ماما کی وجہ سے پل پل مرتے دیکھا تم مت کرنا میں پل پل نہیں مرنا چاہتا"

آواز میں اب منت تھی ماروش کی زبان جیسے مقفل ہوگی تھی

"دوگی میرا ساتھ؟"

اسکی باتیں سحر پھونک رہی تھیں وہ ساحر تھا ایک اسکے اس سوال پر وہ گڑبڑا گی اور نظریں جھکا گی وہ کس کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی شاہ ویز ماما بابا کسی کو نہیں پر وہ ابتسام کا دل بھی توڑنا نہیں چاہتی تھی سو خاموش رہی

اسکے نداد جواب پر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا وہ ضبط کی انتہا پر تھا شاید اسکو یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا

اور اندر وہ بیٹھی اسنے اپنا سر ہاتھوں میں گرایا تھا

"یااللہ میں کہاں پھنس گی ہوں پلیز میری مدد کریں میں اپنی فیملی نہیں چھوڑ سکتی شاہ ویز۔۔۔۔۔شاہ ویز سے میں بہت پیار کرتی ہوں اس سے آ۔آپ جانتے ہیں نہ لل۔لیکن اب۔ابتسام اسکی باتیں۔۔۔۔۔اسکی باتیں سحر پھونکتی ہیں سحر میں جکڑ لیتی ہیں میرا دل نہیں مانتا اسکا دل توڑنے کو"

اوپر کی طرف دیکھتی اپنا چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور پیچھے صوفے کی پشت کی ساتھ اپنا سر ٹکالیا

....................................

آج وہ پھر جنگل میں تنہا چل رہا تھا تھک ہار کر گھٹنوں کے بل نیچے پیٹھا تھا اور گود میں رکھے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا

"بابا میں۔۔۔۔۔۔میں ہار رہا ہوں کمزور ہورہا ہوں میں نہیں پڑنا چاہتا کمزور پر میں اندر سے ختم ہوجاوں گا"

یہ کہ کر اسنے چہرہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا

"کیوں چھوڑ گے مجھے آپ۔۔۔۔۔۔آپ جانتے تھے میں آپ کے بنا کچھ نہیں کیوں چھوڑ گے بابا"

اسکی آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے نظریں ہنوز آسمان کی طرف ہی تھیں

"بابا میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوجاتا ہے مجھے۔۔۔۔مجھے نہیں چاہیے کچھ یہ سلطنت یہ۔۔۔۔۔یہ طاقت کچھ نہیں صرف اور صرف آپ چاہیے ابتسام کو اللہ آپ آپ سن رہے ہیں نہ سب چھین لے میری اصل طاقت مجھے دے دیں"

وہ بچوں کی طرح روتا ہوا اپنا ماتھا زمین پر رکھا اور اپنا باٸیں ہاتھ کی مٹھی بناۓ زور زور سے زمین پر مارنے لگا داٸیاں ہاتھ اب اسکے ماتھے اور زمین کے درمیان حاٸل تھا اسکے آنسوں زمین میں جزب ہورہے تھے وہ ایک دو سال کا بچہ لگ رہا تھا جس سے اسکی ماں بچھڑ جاۓ اور وہ بلک بلک کر رو رہا ہو

"ماضی کی ایک تلخ حقیقت میرے سینے کو چیر کررکھ دیتی ہے

کہ میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں اسکو سوچ کر میرے دل میں ٹھیس اٹھتی ہے"

"بگ برو آپکو کیا ہوگیا ہے؟"

جازبہ نے اسکے پاس بیٹھے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا وہ جو پورا جنگل گھوم کر آٸ تھی اسکو ڈھونڈھنیں میں تو اسکو یہاں بیٹھا دیکھ اسکو حیرت ہوٸ

"کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے"

اسنے بند آنکھوں سے ہی مسکرا کرجواب دیا

"آپ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔"

اسنے پریشانی سے کہا

"نہیں ایسی بات نہیں ہے میں تو ٹھیک ہوں"

اسنے اپنے چہرے پر رکھے اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوۓ کہا

"کیا سوچا ہے آپ نے اب؟"

"کس بارے میں؟"

وہ جان کر بھی انجان بنا

"ماروش کی بات کررہی ہوں"

"ہممم اچھا جلد ہی فیصلہ ہوگا اس بارے میں یا تو وہ میرے ساتھ جاۓ گی یا پھر ہم دونوں یہی گرک ہوجاٸیں گے"

اسکی بات پر جازبہ کہ دل باہر آنے کو تھا

"کیسی باتیں کررہیں ہیں آپ۔۔۔۔؟"

اسنے گھورتے ہوۓ کہا

"فکر نہیں کرو بچے سب دیکھ لوں گا میں"

اسنے پرسوچ انداز میں کہا

"مم۔مطلب۔۔۔۔۔۔؟"

"جلد پتا چل جاۓ گا اسکا مطلب"

اسنے مسکراتے ہوۓ اسکا چہرہ تھپتھپا کر کہا اور اٹھ کھڑا ہوا

"کاوش کا پیغام آیا تھا جوزف آیا تھا لےکر"

اسنے موضوع بدلا

"ہممم جانتا ہوں اسکو بھی اعتراز ہے اور کہ رہا تھا کہ میں واپس جالوں پھر میری خبر لےگا"

اسنے مسکراتے ہوۓ اسکے ساتھ چلتے ہوۓ کہا تو جازبہ بھی افسردگی سے مسکرا دی

کبھی کبھی زندگی انسان کو اس موڑ پر لے آتی ہے کہ وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ آگے اسکو غم نصیب ہونگے یا خوشیاں اور کبھی کبھی تو خود کے کیے فیصلے پر بھی ڈول جاتا ہے

....................................

"ماروش کیا تم میرے ساتھ جاو گی؟"

بنا تمہید کے سوال ہوا وہ جو سامنے کرسی پر بیٹھی تھی گڑبڑا گی اور نظریں جھکا کر اپنے ہاتھ ملنے لگی ابتسام ٹھنڈی آہ بھرتا اٹھا اور کرسی کی دونوں باہنوں پر ہاتھ رکھتا اسکی طرف جھکا

"تمہارا جوال ہاں میں ہو یا نا میں۔۔۔۔ہوگا وہی جو میں چاہتا ہوں"

اسکی بات پر اسنے چہرہ اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا جو نارمل تھی لیکن پھر بھی انکا رنگ سمجھنے سے قاصر تھیں اسکو یوں یک ٹک دیکھتا پااسکی طرف جھکا لیکن پھر پیچھے ہوکر اسکو بازوں سے پکڑ کر اٹھایا اور صوفے پر بیٹھایا اور خود بھی کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا

"سنو تمہیں مجھ سے ڈرنے کی یا کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ٹھیک ہے"

اسنے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ کہا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا

"شاباش۔۔۔۔۔۔"

اسنے مسکرا کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا

"میرا سوال وہی ہے چلو گی میرے ساتھ؟"

"مم۔میں اپنوں کو نہیں چھوڑ سکتی"

اسنے سہمی سہمی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ کہا

"اب کوٸ تمہارا اپنا نہیں ہے صرف میں تمہارا اپنا ہوں"

اسنے چباتے ہوۓ کہا تو اسکی آنکھیں نم ہوٸیں اسکو رونے کی تیاری پکڑتے دیکھ خود کو ملامت کی

"معاف کردو میں۔۔۔۔میں واقع میں ہی بہت برا ہوں"

اسنے شرمندہ ہونے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا

"نن۔نہیں آ۔آپ اچھے ہیں"

اسنے فوراً سے کہا تو اسنے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"نہیں یار تم صرف دل رکھنے کیلیے کہ رہی ہو"

اسنے افسوس سے کہا ہلانکہ وہ صرف دیکھنا چاہتا تھا اسکو کہ وہ کیا کہتی ہے ورنہ ابتسام اور شرمندہ ابتسام کو اور افسوس امپوسیبل

"نہیں آپ واقع میں اچھے ہیں"

اسنے اسکے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا تو دل فریب مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھوٸ

اور وہی ہاتھ پکڑ کر اسکو کھینچ کر گلے لگایا اور وہ تڑپ کر رہ گی اسکی گرفت میں اور ابتسام اسکو انکھیں بند کیے محسوس کررہا تھا

"چھو۔ڑیں مم۔میرا دم گھٹ ر۔رہا ہے ا۔اب۔ابتسام"

اسکے نام پکارنے پر اسنے فوراً سے آنکھیں کھولیں اور اسکو اسکے بازوں سے تھام کر خود سے الگ کیا تو وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی

"کک۔کیا کہا تم نے۔۔۔تم نے میرا نام لیا دوبارہ لو"

وہ دیوانہ وار بولا

لیکن وہ خاموش رہی اور اسکو دیکھنے لگی

"کیا سناٸ نہیں دیا کہا نہ دوبارہ لونام"

اسکو خاموش پاکر اسکے بازوں پر گرفت سخت کرتے ہوۓ چلا کر کہا تو وہ کراہ اٹھی

"ا۔اب۔ابتسام۔۔۔"

اسنے بازوں کو آزاد کرنے کی سعی کرتے ہوۓ کہا تو وہ کھل کر مسکرایا

"بہت خوبصورت لگا۔۔۔۔۔۔اب فیصلہ میں اپنے حق میں ہی کروں گا"

یہ کہ کر اسنے بال اسکے کان کے پیچھے کیے اور اضھ کر چلاگیا

اور اسنے اپنے سر کو دو انگلیوں دبایا تھا 

"عجیب ساٸیکو انسان ہے۔۔۔مطلب جانور"

خود سے بڑبڑاتی اسنے اپنے کپڑوں کو دیکھا جو بہت میلے ہوچکے تھے اور نفی میں سر ہلایا اگر وہ جان لیتی ابتسام کیا کرنے والا ہے تو ضرور بےہوش ہوجاتی

...................................

"بگ برو یہ۔۔۔۔۔۔۔یہ آپ نے کیا کیا؟ کچھ۔۔۔کچھ اندازہ بھی ہے آپ چاہتے کیا ہیں؟"

اسنے چلاتے ہوۓ کہا

"جازبہ کتنی بار کہا ہے آواز نیچی رکھ کر بات کیا کرو"

اسنے اسکی بات کو اگنور کرتے غراتے ہوۓ کہا تو اسکو اپنی غلطی کا احساس ہوا

"تو پھر مجھے بتاٸیں یہ کیا ہے؟"

اس بار آواز قدرے نیچی رکھتے ہوۓ کہا

"تمہارے سامنے ہی ہے سب"

اسنے ہاتھ اٹھاتے دل جلانے والی مسکراہٹ پیش کرتے ہوۓ کہاتو وہ بس دانت پیس کررہ گی

آپ کے پلینز سمجھ سے باہر ہیں۔۔۔مجھے تو آپ کی زرا سمجھ نہیں آتی"

اسنے ٹہلٹے ہوۓ کہا

"وہ ابتسام ہی کیا جو کسی کی سمجھ میں آجاۓ"

اسنے مزے سے کہا تو وہ گھورنے لگی کیونکہ اسکے ہر سوال کر برعکس الٹا جواب مل رہا تھا

"میرا دماغ خراب ہورہا ہے مطلب اگر یہی سب کرنا تھا تو اسکو لانے کی کیا ضرورت تھی"

"سمجھ جاو گی جلدی"

اسنے آنکھ دباتے ہوۓ کہا تو وہ کمر پر ہاتھ ٹکاٹی اسکو دیکھنے لگی(وہ اگلی قسط میں بتاوں گی کہ اسنے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے😉😉)

"سہی کہتا ہے کاوش کے تمہارے بھاٸ کا کچھ نہیں ہوسکتا"

اسنے اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا

"اووو تو کاوش کا بچہ یہ سب کہتا ہے وہ اور کیا کہتا ہے؟"

اسنے مصنوعی خفگی سے کہا تو وہ کھلکھلا کرہنسی اسکی ہنسی میں ابتسام نے بھی اسکا ساتھ دیا

..................................

"کمال کیا ہوا خریت ایمرجنسی میں بلایا کچھ معلوم ہوا؟"

شاہ ویز نے بیٹھتے ساتھ سوال دھرا

"ہممم خبر تو ہے پر سڑینج ہے"

اسنے فاٸل کو بند کرتے ہوۓ الجھن میں کہا

"مطلب سمجھا نہیں میں کچھ کیا کہنا چاہ رہے ہو؟"

"ٹھیک ہے سنو تحمل سے سننا"

اسنے اسکو کہا کیونکہ جانتا تھا بات سن کر اسکا ریکٹ کیا ہوگا

"ہمم بولو۔۔۔"

اسکو خطرہ لاحق ہوا

"کل ای شخص میرے پاس آیا تھا اسنے خود کو مکمل طور پر ہڈی سے ڈھکا ہوا رھا صرف ہونٹ نظر آرہے تھے یہاں تک کے ہاتھ بھی کور تھے"

یہ کہ کر وہ شاہ ویز کے تاثرات دیکھنے لگا جو کچھ اچھے نہ لگ رہے تھے ٹھنڈی آہ بھرتا دوبارہ بولا

"وہ شخص ماروش سسٹر کے بارے میں بتا رہا تھا کہ۔۔"

"واٹ ماروش کے بارے میں۔۔"

اسکی بات کو بیچ میں ٹوک کر بولا

"ہمم ابھی اس بات پہ ریکٹ ایسا ہے تو نیکسٹ کیا ہوگا"

"مطلب کچھ گڑبڑ ہے۔۔۔۔۔"

"آہہ دراصل وہ کہ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔ماروش جنگل کے بیچو بیچ ایک گھر میں قید ہے"

یہ کہ اسنے اسکو بولنے کا موقع دیا

"مم۔مطلب قید کسی نے پکڑا ہوا ہے؟"

اسنے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا

"تو کارواٸ کیوں نہیں کررہے کچھ اگر معلوم ہوگیا ہے تو"

اسنے حیرت سے کہا

"یہ نہیں پوچھو گے کے اس آدمی نے یہ نہیں بتایا کہ کسی قید میں ہے؟"

"کس کی قید میں ہے میں اسکی جان لے لوں گا"

اسنے غصے سے کہا

"نہیں لے سکتے وہ انسانوں ک قید میں نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔ایک بھیڑیے کی قید میں ہے اسنے اسکو اپنے پاس رکھا ہوا ہے"

"واٹ آر یو میڈ کمال بھیڑیا امپوسیبل دماغ تو ٹھیک ہے تیرا"

اسنے استہزایہ ہنسی ہنستے ہوۓ کہا

"میں بالکل ٹھیک ہوں اور سیریس ماحول میں میرا مزاک کا کوٸ ارادہ نہیں اور میں بھی ایسے ہی حیران ہوا تھا اس سے اس سے پہلے کچھ پوچھتا میرے آنکھ چھپکنے سے پہلے وہ جاچکا تھا پیچھا کیا نہیں ملا۔۔۔اسی لیے کہ رہا تھا سڑینج لگا سب"

اسکے چہرے پر سنجیدگی چھاٸ ہوٸ تھی

"ضرور کسی نے مزاک کیا ہے بھیڑیے یہاں اسنے لاۓ ہیں دماغ ہوگا اس شخص کا اور یار تو اسکی باتوں میں آگیا"

اسنے اسکو گھورتے ہوۓ کہا

"اسنے صرف اپنی سناٸ میرے سنانے سے پلے جاچکا تھا خیر ہمیں بھابھی کو ڈھونڈنے کیلیے ہر جھوٹ سچ پر یقین کرنا ہے"

اسنے اسکی عقل پر ماتم کرتے ہوۓ کہا

"واٹ۔۔۔؟"

"بھابھی کو ڈھونڈھنا ہے تو یقین کر شاویز"

اسنے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تو ماروش کیلیے اسنے ہاں کردی

"کیا کرنا ہے اب۔۔۔؟"

"وہ بھیڑیے ہیں آگ سے ڈرتے ہونگے"

اسکی بات پر وہ سیریس ماحول پر بھی ہنسا تو کمال نے اسکو گھورا 

"یار ایسے نا دیکھ مطلب یقین نہیں ہورہا مجھے خیر ٹھیک ہے میں بھی جاوں گا کب جانا ہے۔۔۔؟

اسنے نارم انداز میں کہا تو اسکو حیرت ہوٸ

"تجھے کوٸ خوشی نہیں ہوٸ؟"

"مجھ سے زیادہ کسکو ہوگی اگر مل گی تو"

"خیر کل شام میں جاٸیں گے کچھ انتظامات کرنے ہیں مجھے وہ کرکے"

اسکی بات پر اسنے اثبات میں سرہلایا اور کچھ اہم پوٸنٹس ڈسکس کرنے کے بعد وہ چلاگیا

(جی تو یہ تھا ابتسام کا کارنامہ جس پر جازبہ اس پر غصہ ہورہی تھی😂😂)

....................................

   رات بنجر سی ہے    کالے خنجر سے ہے

     تیرے سینے کی لو میرے اندر بھی ہے

      تو جلا دے اسے یا بجھا دے اسے

ابتسام خون سے بھرا گلاس لیے اپنوں لبوں سے لگاتا اسکو نشیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور ماروش کا جی الٹا ہورہاتھا اسکو ایسے پیتا دیکھ

"پلیز یہ مت پٸیں۔۔۔"

اسنے گندی سی شکل بناتے ہوۓ کہا تو اسکی آنکھوں میں اور مدہوشی چھاٸ

"کیوں کیا ہوا۔۔۔؟"

"یہ آپ کیسے پی رہے ہو یکککک"

"مزے کا ہے پی کر تو دیکھو"

اسنے کلاس اسکے سامنے کرتے ہوۓ مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا

"یککک گندہ ہم انسان نہیں پیتے"

اسنے منہ ٹیڑھا کرتے ہوۓ کہا

"اووو اچھااااا انسان انسان کا خون چوس لیتا ہے اور ابھی کہتی پیتے نہیں"

اسنے اسکو چڑاتے ہوۓ اچھااا کو لمبا کھینچتے ہوۓ کہا تو اسنے منہ بنایا

"آپ ایک نہایت گندے بچوں والے انسا۔۔۔۔۔میرا مطلب جانور ہیں"

اسکے ایسا کہنے سے ابتسام کا قہقہ گونجا اور ہنستا چلا گیا یہاں تک کہ اسنے گلاس نیچے رکھا اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنس ہنس کر دھرا ہوگیا اسکو ہنستا دیکھ وہ یک ٹک اسکو دیکھنے لگی اور خود بھی ہنس دی اسکے ایسے ہنسنے پر ابتسام نے پانی سے پھری آنکھوں جو کہ ہنسے سے بھر گی تھیں اسکی طرف دیکھا تو اسکے دیکھنے پر وہ مسکرا کر چہرہ جھکا گی

"پی لو آج کا پیا کام آۓ گا وہاں جاکر ایسا ہی پینے کو ملے گا"

اسکی بات پر اسنے آنکھیں اٹھا کردیکھا

"مم۔مجھے نہیں جانا آپکے ساتھ مجھے چھوڑ دیں"

اسکی بات سن ابتسام کا لبوں کی طرف جاتا ہاتھ رکا اور تنبیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا

"بری بات سویٹ ہارٹ ضد نہیں کرتے اور کیا یار اچھے بھلے موڈ کا سیاناس کردیتی ہو"

"آپکو مجھ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بے فضول ہے سب"

"کیا فضول ہے کیا نہیں مشورہ نہیں مانگا"

اسنے چباتے ہوۓ کہا

"چھوڑ کیوں نہیں دیتے آپ مجھے"

اسنے نم آواز سے کہا

"جب میری تم سے ابتداۓ محبت تھی تب نہ چھوڑا اب تو آتش عشق میں وجود میں بھڑک اٹھا ہے اور میرے وجود کو اپنی لپیٹ میں لےکر تیرے نام کی تسبیح کرتا ہے تو اب کیسے چھوڑ دوں"

اسنے ایک جنونیت سے کہا ایسی جنونیت جو بھی اسکی لپیٹ میں آۓ کا خاک زر ہوجاۓ گا

"اچھا نہیں کررہے۔۔"

اسنے التجایا کہا

"اور تم تو جیسے بہت اچھا کررہی ہو مجھے تنہا چھوڑ رہی ہو میں نے بہت رشتوں کو کھویا ہے صرف چند لوگ ہیں اب کھونا نہیں چاہتا جازبہ کاوش اورر تم۔۔۔۔۔ کیا تم بھی مجھے چھوڑ جاو گی ماما بابا کی طرح"

اسکا ہر لفظ کرب میں ڈوبا تھا اور وہ صرف سرجھکا گی تو ابتسام نے اسکو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے گلاس لبوں سے لگایا

"کیا میے لیے آسان ہوگا اپنے پیاروں کو کھونا؟"

سوال میں دم تھا

"تمہارا پیارا صرف اور صرف میں ہوں۔۔۔ہاں اسکے علاوہ جازبہ بھی ہوسکتی کاوش سے ملے نہیں باحیثیت بھاٸ وہ بھی اچھا دوست اور بھاٸ ہوگا"

مزے سے کہ کر اسکو سلگاگیا تھا

"کہ دینے سے ہونہیں جاتا پیارے جو ہیں وہ جو مرضی ہوجاٸ نہیں بھولتے"

"سہی کہا پیارے نہیں بھولتے"

سوچ میں ڈوبی آواز آٸ

"خیر جلد ملو گی پیاروں سے اپنے"

اسنے مسکراہٹ پیش کرتے ہوۓ کہا تو وہ حیران ہوٸ اور پھر اسکی بات کو اگنور کردیا

"اوفف بگ برو آپ چاہتے کیا ہو؟"

"کچھ خاص نہیں"

اسنے درخت پر الٹے لٹکتے ہوۓ کہا

"پتا نہیں آپکو بادشاہ کس نے بنایا ہے"

اسنے اپنے بھاٸ کو افسوس سے دیکھتے ہوۓ کہا

"پتا نہیں کس بنایا ہے میں بھی اسی کو ڈھونڈھ رہا ہوں"

ڈھٹاٸ کی حد ہی ہوگی وہ محض گھور ہی سکی اسکو غصہ چڑرہا تھا

"ہاں اب اگر میں غصے سے بولو تو آپ فوراً بولیں گے جازبہ کتنی بار کہا ہے آواز نیچی رکھ کر بات کیا کرو"

اسنے اسکی نقل اتارتے ہوۓ کہا تو پورے جنگل میں ابتسام کا فلگ شفاف قہقہ گونجا اور قہقے ساتھ ہی وہ نیچے گرا پڑا تھا کیونکہ پیروں کی گرفت ڈھیلی ہوٸ تو نیچے گرگیا

"آہہہ میرا سر اوفف گھوم گیا"

اسنے سر دباتے ہوۓ کہا اور ساتھ ہنسا

"اوفف نقل تو دیکھو اتاری"

اسنے اٹھ کر اسکے گرد حصار باندھتے ہوۓ اسکی گال کھینچ کر کہا تو اسنے ٹیڑھا منہ بنایا

"کیا ہوا ہے موٹو؟"

"کاکا ہوا ہے"

اسنے اسکے ایسے جپوچھنے پر جل کرکہا تو پھر ابتسام کا زبردست قہقہ گونجا

"کس کا۔۔۔۔۔۔۔؟"

وہ بھی شرارت کے پورے موڈ میں تھا

"آپکا۔۔۔۔"

اسنے مزید غصے سے کہا

"یقین جانو میری جان یرا اور ماروش کا کوٸ ایسا تعلق نہیں جس سے بےبی ہو"

اسنے آنکھ مار کر کہا اور فوراً وہاں سے بھاگا

"بگ بروووووووووو۔۔۔۔۔"

اسکو سمجھ آنے پر وہ زور سے چلاٸ اور اسکے پیچھے بھاگی

"رُک جاٸیں میں کہ رہی ہوں آپ سے۔۔"

اسنے اسکے پیچھے بھاگتے ہوۓ کہا

"ایسے کیسے روکوں۔۔۔یہ تو وہ حساب ہوگا نہ کہ۔۔۔کہ شیر خود تیار ہے شکار ہونے کیلیے"

اسنے بھاگتے ہوۓ ہی کہا پورے جنگل میں وہ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے

"بگ برو رک جاٸیں اور عزت سے مار کھا لیں"

"ہاہاہاہاہا واہ موٹو واہ مطلب آبیل مجھے مار ہاہاہہا"

اسنے ہنستے ہوۓ اسکو مزید چڑھایا

"اپکی کہاوتیں گی بھاڑ میں رک جاٸیں ورنہ چھوڑوں گی نہیں"

"پہلے پکڑ تو لو پھر چھوڑنا"

پورے جنگل میں ابتسام کی ہنسی گونج رہی تھی شاید وہ بہت عرصے بعد ایسے ہنسا تھا اسکو بچپن یاد آگیا وہ دونوں ہمیشہ ایسے ہی کھیلتے تھے

"بگ بروووو آپ بہت برے ہو۔۔"

یہ کہ کر وہ رک گی اور ناراضگی سے دیکھنے لگی تو ابتسام بھی اسکو رکتا دکھ رکا

"کیا ہوا میرا بچے مجھے برا کہنے سے دکھی ہو یا ہاتھ نہ آنے پر ہاہہاہا"

اسنے قہقہ لگاتے ہونٹ پر انگلی رکھتے اسکو مزید چڑھایا

"بات مت کریں۔۔۔"

چباتے ہوۓ کہا تو وہ ہنستہ ہوا اسکے پاس پہنچا 

"کیا ہوا۔۔۔۔ماۓ بےبی۔۔"

آج وہ۔اسکو بڑے عرصے بعد ویسے ٹریٹ کررہا تھا جیسے وہاں اپنے علاقے میں کرتا تھا

"مجھے اپکو مارنا ہے"

اسنے بچوں کی طرح کہا

"جی نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔"

اسنے اس سے دور کھڑے ہوتے ہوۓ کہا

"پلیزززززززز مار لینے دو نہ پیارے بھاٸ نہیں۔۔"

اسنے لاڈ سے کہا

"لیکن میں تو تمہارا بھاٸ ہو ہی نہیں۔۔"

اسنے شرارت سے کہا لیکن یہ بات اسکے دل کو لگی تھی سہی ہی تو کہ رہا ہے وہ اسکی بہن کب تھی

"سہی ہی تو کہا۔۔۔"

افسردہ ہوتی چلنے لگی تو ابتسام کو غلطی کا احساس ہوا 

"ارے موٹو میں نے تو مزاک سے کہا تھا۔۔"

اسنے اسکے ساتھ چلتے ہوۓ کہا

"کچھ غلط بھی تو نہیں کہا نہ میں کونسا واقع میں آپکی بہن ہوں"

اسنے زبردستی ہنستے ہوۓ کہا تو ابتسام نے اسکو بازو سے پکڑ کر رخ اپنی طرف موڑا

"تم میری بہن ہی ہو ہمیشہ تمہیں بہنوں جیسا ہی ٹریٹ کیا ہے میں نے اور ویسے ہی ناک کھینچتا ہوں اپنی موٹو بوٹو کی"

اسنے اسکی ناک کھینچتے ہوۓ آخر میں شرارت سے کہا تو وہ کھلکھلا کرہنسی

"اچھااا تو اب میں مار لوں۔۔؟"

ابھی بھی وہی سوال

"مجھے لگا چڑیل بھول گی ہوگی لے مار لے"

اسنے منہ ٹیڑھاکرتے اپنا کندھا اسکے اگے کرتے ہوۓ کہا تو وہ اسکو پیار سے مارنے لگی اور ساتھ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی اور ابتسام نے بھی شکر کا سانس لیا کہ ماروش والے ٹاپک سے اسکا دھیان ہٹا

....................................

"ماروش سنو۔۔۔۔۔۔"

اسکے بلانے پر اسنے گھٹنوں سے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"باہر چلو گی میرے ساتھ۔۔۔۔؟"

اسنے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلاتے ہوۓ کہا تو اسنے منہ دوسری طرف کرلیا

"بہت بری بات ماروش میرا ہاتھ کیوں نہیں تھاما؟ ہوں ایسے نہیں کرتے۔۔"

یہ کہ اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر ایک چھٹکے سے اٹھایا تو وہ جو اس حملے کیلیے تیار نہ تھی سیدھا اسکے سینے سے آلگی

"میرے ساتھ ایسے مت کیا کرو یار مجھے غصہ آتا۔۔"

اسنے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا تو اسنے خفا خفا سا اسکی طرف دیکھا

ابتسام نے اسکی خفا خفا آنکھوں میں دیکھا تو ان پر جھکا لیکن فوراً پیچھے ہوگیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا

"کبھی اس جنگل میں پھرو تو یہ بہت خوبصورت ہے اسکی فضا خشبو بکھیرتی ہے جو خشبو سبکو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔۔"

وہ اسکے ساتھ چلتا اسکو بتا رہا تھا اور وہ نہایت انہماک سے اسکو سن رہی تھی 

"یقینً تمہیں مزہ آرہا ہوگا یہاں اور اوپر سے مجھ جیسے کا ساتھ۔۔"

اسنے اسکا ہاتھ دباتے ہوۓ شرارت سے کہا تو وہ ہلکہ سا مسکراٸ لیکن فوراً مسکراہٹ غاٸب کی کہیں وہ دیکھ مزہ لے لیکن وہ دیکھ چکا تھا اور اس رد عمل نے اسکو مزہ دیا تھا

جانوروں کی آواز ماروش کو قریب سے آتی سناٸ دی تو وہ ابتسام کے اسکی بازو کے ساتھ چپک گی جو اسنے پکڑا ہوا تھا اسکے ایسا کرنے سے ابتسام کے چلتے قدم رکے

"کیا ہوا۔۔۔۔۔؟"

انجان بنا تھا

"ی۔یہ جان۔جانوروں کی آوازیں۔۔۔۔"

اسنے سہمی سی نے اردگرد دیکھتے ہوۓ کہا

"کچھ نہیں ہوتا میں ہوں پاس ماروش۔۔"

اسنے اسکے چہرے پر ڈر واضع دیکھتے ہوۓ کہا

"پر مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"

اسنے ابتسام کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا وہ بالکل اسکے قریب کھڑی تھی

"میں ہوں نہ کسی میں ہمت نہیں تمہں چھونا تو دود کی بات دیکھ بھی سکے۔۔"

اسکی بات پر اسنے اسکی آنکھوں میں دیکھا

"پکا اب۔ابتسام۔۔۔"

"پکے سے بھی پکااا ابتسام کی جان۔۔۔"

وہ پورا اسکی طرف گھوم کر اسکے بازوں سے پکڑتے ہوۓ کہا 

"کیا تمہیں مجھے پر یقین نہیں ہے کیا۔۔۔۔"

اسنے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہوۓ کہا

تو اسنے بےاختیار اثبات میں سر ہلایا بےشک وہ ایک ماہ میں اسکی عادی ہوگی تھی اور اب اسکو اس سے ڈر نہیں لگتا تھا اتنا تو اسکو معلوم ہوگیا تھا کہ وہ اسکی حفاظت کرۓ گا

"پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں میں ہمشہ تمہارے ساتھ ہوں"

اسنے محبت پاش لہجے سے کہا تو وہ چہرہ جھکا گی

"ماروش۔۔۔۔۔۔"

اسنے جزبے سے چور لہجے میں کہا اور اسنے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا جسکی آنکھیں محبت برسا رہی تھیں

"کچھ دیر صرف چند لمحے دے دو مجھے کہ میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"

التجایا الفاظ تھے وہ اسکی بات پر گھبرا گی تھی

"صرف چند لمحے کے میرے بےقرار دل کو سکون آجاۓ"

تیز ہوا اسکے الفاظوں میں ارتاش پیدہ کررہی تھیں ہواٸیں بھی بےقرار ہورہیں تھیں اسکے جزباتوں کی طرح وہ بھی اسکو چھونے کیلیے تڑپ رہی تھیں

"ناجانے کونسا خوف ہے ہروقت جو میرے دل کو لگارہتا ہے کہ تم مجھ سے دور ہوجاو گی۔۔۔ناجانے کونسا خوف ہے کہ میں تمہیں کھو دوں گا۔۔"

اسنے اسکے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے ہوۓ بے بسی سے کہا

"مجھے محسوس کرنے دو کہ تم صرف میری ہو کچھ دیر میرا ڈر ختم کردو"

اسنے دو قدم آگے لیتے بالکل اسکے قریب کھڑے ہوتے ہوۓ کہا وہ سانس روکے اسکو سن رہی تھی اب تو یہ حالت تھی کے سانس لے اور وہ ٹکڑا جاۓ گی اس سے

وہ اب اسکو اسکی اس بات کا کیا جواب دیتی اسکو تو خود ڈر لگ رہاتھا اب

"مجھے چوم کر مجھے تھام کر میری شدتوں میں قیام کر

   اے دل ربا ، نازک ادا ، کچھ پل تو میرے نام کر"

اسنے جزبوں سے چور لہجے میں یہ شعر پڑھا جو اسکے شعلوں کی طرح بھڑکتے جزباتوں کی گواہی دے رہا تھا

اور ماروش کا دل بند ہونے کو تھا بھلا وہ اس شعر کا مطلب کیسے نہ سمجھتی تھی اور اسکو کسی چیز کا موقع دیے بغیر پر اس پر جھکا تھا شاید ماروش بھی بہ رہی تھی اور ہواٸیں انکی کیفیت کو سراہ رہی تھیں 

"ہواٸیں بھی کسی خانہ بدوش مسافر کی طرح ہیں جیسے وہ کھانے کیلیے سربازار پھٹکتا ہے ویسے ہواٸیں بھی حسین منظروں کو سراہنے اور انکے جزباتوں کو بھڑکانے کیلیے پھٹکتی ہیں اور ہواٸیں ہمیشہ خوشخبری کا پیغام ہوتی ہیں"(سجیلہ نثار)

....................................

"دیکھو دھیان سے ٹھیک ہے انکو خبر نہ ہوکہ ہم ان پر حملہ آور ہونے لگے ہیں"

کمال آہستہ آہستہ قدم اس گھر کی طرف بڑھاتے ہوۓ اپنے ساتھیوں سے کہ رہا تھا بےشک ابتسام انکو لوکیشن بھی دے آیا تھا (ہاۓ سسپنسسسسسس😂)

"کمال اس بیغرت کو چھوڑنا نہیں جسکے پاس ماروش ہے"

شاہ ویز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکا تہس نہس کردے

"ہمم تو باراتی آرہے ہیں میرے۔۔۔"

ابتسام نے انکی خشبو سونگھتے ہوۓ سوچا اور ہولے سے مسکرا دیا

کہ ایک دم سے کسی نے دروازہ کھولا ماروش اور جازبہ جو بیٹھی ہوٸیں تھیں اور جازبہ ناجانے کونسے قصے سنا رہی تھی دونوں حیران ہوٸیں انکے برعکس ابتسام پرسکون تھا

ماروش نے ابھی شاہ ویز کو نہیں دیکھا تھا سو سمجھنے سے قاصر تھی

"کون ہو تم لوگ۔۔۔؟"

جازبہ ماروش کے آگے ہوکر چلاٸ 

"تمہاری موت ہیں ہم۔۔۔"

شاہ ویز نے اندر قدم رکھتے ہوۓ کہا شاہ ویز کو دیکھ ماروش کو یقین نا ہوا

"شش۔شاہ ویز۔۔۔۔"

اسکی آواز گونجی تو شاہ ویز نے جازبہ کے پیچھے کھڑی لڑکی کو دیکھا تو خوش بھی ہوا لیکن غصہ بھی آیا انکے پاس دیکھ کر

جازبہ آگے بڑھی لیکن آگ کو دیکھ کر فوراً پیچھے ہوٸ اور ابتسام کی طرف دیکھا جو صوفے ہر بیٹھا ٹانگ پر ٹانگ جماۓ اس منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا

ماروش فوراً شاہ ویز کے پاس بھاگی جازبہ روک نہ سکی کیونکہ آگے آگ تھی لیکن ابتسام کو آگ سے بھی فرق نہ پڑنا تھا 

"ابتسام بھاٸ آپ دیکھ کیا رہے ہیں کچھ کریں۔۔۔"

شاید زندگی میں پہلی بار اسنے اسکا نام پکارا تھا شاید غصے میں اور غصہ ابتسام کی ڈھٹاٸ پر تھا تو ابتسام جماٸ لیتا سر کھجاتا اٹھا

"ہاں یار چھوڑ دو ماروش کو۔۔۔"

اسن نہایت سستی سے نارمل انداز میں کہا تو جازبہ کا دل کیا ابتسام کو کچھ کردے

اور وہ سب بھی حیران ہوٸ پانچ سو بیس کا جھٹکا ماروش کو بھی لگا ابتسام کو ایسے دیکھ کر ان سب کے ریکشن سے مجبوراً ابتسام آگے بڑھا لیکن انہوں نے آگ آگے کردی تو ابتسام وہی رک گیا

"آگے مت آنا ورنہ یہی جلا دوں گا۔۔۔"

شاہ ویز نے آگ والی لکڑی آگے کرتے ہوۓ کہا

تو ابتسام نے ہونٹوں کو گول شیپ دے کو گردن تھوڑی ٹیڑھی کرکے شاہ ویز کے پیچھے چھپی ماروش کو دیکھا

"امپریسو۔۔۔۔۔اوہ میں تو آگ سے ڈر گیا یار۔۔۔"

اسنے ایک قدم پیچھے لیتے ہوۓ کہا اور مسکرادیا سب کو اسکی دماغی حالت پر شک ہوا تو جازبہ کے غصے کو مزید ہوا مل رہی تھی

"پاس مت آنا ورنہ ہم یہ آگ پھینک دیں گے۔۔"

"اوہہ اوکے اوکے نہیں آتا جاو لےجاوں۔۔۔"

اسنے پیچھے ہوتے کہا سب کو تشویش ہوٸ لیکن موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا

"شاہ ویز بھابھی سسٹر کو لے کر جاوں میں دیکھ لیتا ہوں۔۔"

کمال نے کہا تو وہ ابتسام کو قہر بھری نظروں سے دیکھا جسنے ماروش کو آنکھ ماری تھی اور ماروش کا ہاتھ پکڑتا اسکو باہر لےگیا باقی سب بھی آگ کا ڈراواۓ دیتے باہر نکل گے انکے نکلتے ہیں گھر کو آگ لگنا شروع ہوگی اس آگ سے ابتسام کو تو کوٸ فرک نہ پڑنا تھا البتا جازبہ کے لیے نقصان دہ تھی سو وہ دونوں وہاں سے غاٸب ہوگے

اور دیکھتے دیکھتے ہورا گھر آگ کی لپیٹ میں آگیا اور انکو لگا کہ وہ دونوں مرگے ہیں

"بگ برو آپ چاہتے کیا ہے وہ لے گے اپکی نظروں کے سامنے کاش آگ سے مجھے کچھ نہ ہوتا تو کبھی نہ لیجانے دیتی لیکن آگ آگ اپکو تو کچھ نہیں ہونا تھا۔۔"

ہمیشہ کی طرح وہ پھر اس ہر چلا رہی تھی اسکے برعکس وہ درخت کے ساتھ لیٹا ہوا تھا اور کان صاف کیے

"یار آہستہ بولا کرو۔۔۔"

اسنے خفگی سے کہا

"کام تو ایسے نہیں آپکو آہستہ بات کرکے سمجھایا جاۓ"

آواز اب بھی اونچی تھی تو اسنے مسکراہٹ چھپاٸ اسکو مزہ آرہا تھا

"جازبہ ایسے کھیل میں ہی مزہ آتا ہے میری بہن تم جانتی ہو مجھے چھیننے میں مزہ آتا ہے خیر جانے دو اسکو ہمیں کیا۔۔۔"

اسنے لاپرواہی سے کہا

"بھاڑ میں جاٸیں میں جارہی اسکو لینے۔۔"

"ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو سب سے پہلے تمہاری جان لوں گا۔۔"

اسنے ابھی دوقدم ہی بڑھاۓ تھے کہ غصے سے بھری آواز نے اسکے پیروں کو باندھ دیا تھا سو وہی رک گی اور ویسے ہی پیچھے مڑکر دیکھا

"پریشان کیوں ہورہی چھوڑو یہ سب۔۔"

اسنے اسکو پیار سے کہا اور آنکھیں موند لیں اور وہ بھی خاموش ہوگی

"ماروش تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔"

شاہ ویز تیزی سے گاڑی چلاتا ساتھ ساتھ مرر سے اپنی کے پیچھے دیکھ رہا تھا کہ کوٸ پیچھا تو نہیں کر رہا اور ساتھ ماروش سے پوچھا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا 

اسکی آنکھوں کے سامنے بار بار ابتسام کا چہرہ لہرارہا تھا اسکا ہنسنا غصہ کرنا پیار کرنا اسکا خیال رکھنا اس ایک مہینے میں بہت کچھ بدل گیا تھا ماروش اسکی عادی ہوگی تھی اور اوپر سے شاہ ویز سے محبت اسنے سوچ کر شاہ ویز کی طرف دیکھا تو اسنے مسکرا کر اسکے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا

اسنے اپنے چہرے کو ہاتھ لگایا جہاں اسنے اپنا لمس چھوڑا تھا اس نے بےدردی سے آنکھیں بند کیں

"آریو اوکے ماروش۔۔۔؟"

"یس ایم فاٸن شاہ ویز۔۔"

اسنے زبردستی مسکراکر کہا

"یو نو میں بہت خوش ہوں کہ تمیں ڈھونڈھ لیا خالہ جان خالو جان بہت پریشان تھے خالہ جان تمہارے غم میں بہت روٸیں اور میں۔۔۔میں تو تمہیں ڈھونڈھنے میں دن رات ایک کردیا۔۔۔۔"

اسنے مین روڈ پر گاڑی لاتے ہوۓ کہا تو وہ ہولے سے مسکراٸ لیکن بولی کچھ نہ

"تم۔۔۔تم خوش نہیں۔۔۔"

اسکو خاموش پاکر اسنے سامنے دیکھتے ہوۓ کہا

"ہاں۔۔۔ہاں ہوں نہ۔۔"

اسنے یہ کہ کر نظر باہر سے گزرتے رستے پر ڈالی

شاہ ویز بھی خوش تھا اسکو لگ رہا تھا سب ٹھیک ہوگیا زندگی میں پر ابھی ایسا نہ تھا

....................................

"ماما بابا۔۔۔۔"

ماروش گاڑی سے نکلتی باہر دروازے کے پاس کھڑی خوشی سے اونچی سے چلاٸ تو اسکے امی ابو فوراً کمرے سے نکلے سامنے اپنی بیٹی کو پاکر خوشی کی انتہا نہ تھی 

"ماروش بیٹاا میری جان۔۔۔۔"

اسنے امی نے اسکو دیکھ کر پکارا تو ماروش انکی طرف بھاگنے لگی لیکن راستے میں آنے والے شخص سے بری ٹکر ہوتی اگر وہ اسکو نہ روکتا

اس شخص کو دیکھ ماروش کا ایک رنگ آرہا تھا ایک جارہا تھا وہ فوراً پیچھے ہوٸ اور شاہ ویز کا ہاتھ پکڑا

اب شاہ ویز احسن صاحب اور ماریہ بیگم حیرت بھری نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جس نے بلیک گاون ٹاٸپ چیز پہنی ہوٸ تھی اور آنکھیں کالی تھیں

"اب۔ابتسام۔۔۔"

ماروش کی آواز گونجی تو سب نے اسی طرف دیکھا

ابتسام نے گردن ترچھی کرکے اسکو دیکھا اور پھر ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیرے سے وہی کھڑا کھڑا مڑ کر اسکی امی ابو کو دیکھا

"اوو تو یہاں ایموشنل سین چلنے والا تھا واہ مطلب تھوڑا جلدی آگیا۔۔۔"

ہونٹ پر انگلی رکھے اسنے آنکھیں مٹکاتے مسکرا کرکہا

"آہہ اچھا گاٸز کیری اون میں زرا ساٸڈ پہ ہوجاتا ہوں۔۔"

اسنے پیچھے ہوتے ہوۓ کہا اور کرسی پر بیٹھنے لگا کہ شاہ ویز بولا

"تم تم زندہ ہو۔۔۔"

اسکی بات پر اسنے کوفت سے دیکھا

"یار کم از کم بیٹھنے تو دیتا اتنا لمبا سفر کرکے آیا ہوں تو تو گاڑی میں آیا ہے۔۔"

اسنے انگڑاٸ لیتے مزے سے کہا تو وہ آنکھیں پھاڑے اسکے دیکھنے لگے

"ماروش اگر تم چاہتی ہو کسی کو کچھ نقصان نہ ہو تو میرے ساتھ چلو۔۔۔"

اسنے سیریس ہوتے ہوۓ کہا

"یہ تمہارے ساتھ نہیں جاۓ گی۔۔۔۔"

ماروش کی بجاۓ شاہ ویز بولا

"یار تو ماروش ہے نہیں نہ تو پھر چپ رہ خومخواہ ہی مجھے وہ لوگ زہر لگتے جو ایویں ٹانگ اڑاتے۔۔"

اسنے ہاتھ اٹھاتے ایسے کہا جیسے انکی بچپن سے دوستی ہو  اسکی بات پر اسنے گھورا

"چلو ماروش یار ٹاٸم نہیں میرے پاس جلدی کرو جانتی ہونہ بات نہ ماننے پر سب کا انجام۔۔"

اسنے تنبیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا تو ماروش کا دل باہر آنے کو تھا

"ماروش نہیں جاۓ گی سنا نہیں۔۔۔"

شاہ ویز نے چلاتے ہوۓ کہا تو ابتسام نے غصے سے ماروش کی طرف دیکھا جیسے وہ بولی ہو

"ماروش ایک تو یہ بیچ میں ٹانگ اڑا رہا ہے دوسرا یہ چلارہا ہے روک لے اسکو ورنہ میرا انداز کسی کو پسند نہیں آۓ گا اور میں نہیں چاہتا کسی کو بھی نقصان ہو"

اسنے شکایت نظروں سے ماروش کی طرف دیکھ کر کہا

"اب۔ابتسام پلیز مجھے چھوڑ دیں میں میں ہاتھ چوڑتی ہوں کیا بیگاڑا ہے میں نے اپکا۔۔"

اسنے ہاتھ جوڑتے روتے ہوۓ کہا

"ماروش غصہ نہیں دلاو مجھے ورنہ۔۔۔"

اسنے غراتے ہوۓ کہا

"ورنہ کیا ہاں ورنہ کیا بولو۔۔۔"

شاہ ویز نے اسکو کندھے سے پیچھے دھکا دیتے ہوۓ کہا تو اسنے پہلے اپنے کندھے پھر اسکے ہاتھ کو اور پھر ماروش کو اور ماروش منہ پر ہاتھ رکھے دیکھ رہی تھی وہ شاہ ویز کو کیسے سمجھاتی

"شاید ایسے باز نہیں آووو گے۔۔۔۔۔۔انکل انٹی تسی زرا پیچھے ہونا۔۔"

یہ شاید بھی مزاک میں موڈ میں تھا

"تمہیں تمہیں سمجھ نہیں آتی جاو یہاں سے ت۔۔۔"

ابھی اتنا ہے بولا تھا کہ اگلے لمحے زمین پر گرا پڑا تھا "شاہ ویزززززز۔۔"

ان تینوں کی آواز بیک وقت گونجی اور ماروش فوراً شاہ ویز کے پاس بھاگی جو نیچے لیٹا کراہ رہا تھا اسکے ناک سے خون رسنے لگاتھا

"گھوم جا۔۔۔۔میری بلبل۔۔۔۔ٹہر جا۔۔۔۔۔میری بلبل۔۔۔"

وہ گنگناتا انکے گرد چکر کاٹ رہا تھا اور غاٸب ہوگیا احسن صاحب اور ماریہ بیگم بھی انے پاس آۓ

"شش۔شاہ ویز اٹھو پلیز۔۔۔"

شاہ ویز اٹھا احسن صاحب اور ماریہ بیگم سے بولا

"انکل انٹی یہ چ۔چابی لیں اس۔کے آنے سے پہلے ہم۔ہمارے گھر جاٸیں و۔وہ وہا۔ں نہیں آۓ گا"

"نہیں بیٹا ہم تم دونوں کو چھوڑ کر نہیں جاٸیں گے"

ماریہ بیگم روتے ہوۓ بولی

"امم۔امی شاہ ویز سہی کہ رہا ہے جاٸیں وہ اپکو نقصان نہیں پہنچاۓ گا پلیز جاٸیں۔۔۔۔"

اسنے منتیں کرتے ہوۓ کہا تو وہ ناچاہتے ہوۓ بھی انکو موت کہ منہ میں جھورنے پر مجبور ہوگے

ماروش نے شاہ ویز کو اٹھا کر مشکل سے صوفے پر بیٹھایا ہی تھا کہ لاٸٹ گی چلی دونوں نے اوپر کی طرف دیکھا

"اب۔ابتسام جان چھوڑ دیں میری جج۔جاٸیں چلے کیوں نہیں جاتے۔۔"

اسنے روتے ہوۓ چلا کر کہا

"ایسے کیسے میری جان وہاں سے معلوم ہے میں نے تمہیں اتنی آسانی سے کیوں آنے دیا ورنہ وہ آگ میرا کچھ نہیں بیگاڑ سکتی تھی۔۔۔ویسے جانتی ہو۔۔۔۔؟ اوہ ہو کیسے جانتی ہوگی چلو میں ہی بتاتا"

خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا

"ایک بات تو تم جانتی ہوگی کہ جو چیز آسانی سے مل جاۓ اسکی قدر ابتسام نہیں کرتا دوسرا تم اپنی فیملی سے اداس ہوگی تھی تو سوچا آخری بار مل لو اور تیسرا مجھے کسی سے اسکی سب سے پیاری چیز چھیننے میں بہت مزہ آتا ہے۔۔۔"

اسکی آواز تو گونج رہی تھی پر وہ دیکھاٸ نہیں دے رہا تھا

"ابتسام تم مجھ کیوں نہیں رہے دیکھو ہم دونوں ایک الگ دنیا کے ہیں۔۔۔کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے"

اسنے سمجھانا چاہا

"وہ تم مت بتاو کیا کرنا ہے کیا نہیں۔۔"

"اچھا سنو کہاں ہو تم سامنے آو میرے ابتسام"

اسنے پیار سے ہینڈل کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا

"یہاں تمہارے پیچھے۔۔۔"

اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پیچھے ہی کھڑا تھا

"ماروش کسی چیز کی توقع مت رکھنا سمجھی کہ تمہیں چھوڑ دوں گا ہمم چپ۔۔"

اسنے انگلی اٹھا کرکہا اور اسکو کچھ بھی بولنے سے باز رکھا

"پلیززز ابتسام ہماری زندگیاں بخش دیں پلیززز"

اسنے باقاٸدہ ہاتھ جوڑے تو اسنے پوری آنکھیں گھما کردیکھا

"یہ یہ سب تم اس اسکی وجہ سے کررہی ہو نہ میں میں اس وجہ کو ہی ختم کردوں گا۔۔"

اسنے شاہ ویز کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا تو وہ ڈر گی 

"نہیں ابتسام۔۔۔"

اسکے کچھ کہنے سے پہلے ابتسام شاہ ویز کو اسکے منہ سے دبوچ چکا تھا

"ابتسا۔۔۔۔آآآآ۔۔۔"

اسکے بولنے سے پہلے وہ نیچے تھی اور کراہنے لگی کیونکہ اسکو گھٹنے پر بہت زور کے چوٹ لگی تھی

"میں میں ماروش سے عشق کرتا ہوں تم ہمارے بیچ کا کانٹا بن رہے ہو میں یہ کانٹا ختم ہی کردیتا ہوں"

اسنے یہ کہ کراسکا بازو مڑوڑا اور نیچے جھٹکا دیا کہ وہ کراہ کر زمین پر گرا اور ابتسام اسکو اسکے ہاتھ سے پکڑے گھسیٹنے لگا

"نہیں ابتسام چھوڑ دو اسکو جان چھوڑ دو۔۔"

ماروش مشکل سے اٹھی  اور چلاٸ

"کیسے چھوڑ دوں ماروش یہ ہم دونوں کو الگ کررہا ہے"

ابتسام جنونی ہوا تھا شاہ ویز پر بےہوشی کی حالت طاری ہورہی تھی

"تم ہم دونوں کو الگ کررہے ہو۔۔"

اسکی بات پر وہ رکا اور اسکو دیکھنے لگا

"اب تو یہ زندہ بالکل بھی نہیں بچے گا"

اسنے غصے سے کہ کر شاہ ویز کو ہاتھ سے اٹھا کر ایک جھٹکے سے نیچے کو کیا کہ اسکا سر زمین پر زور سے لگا اور ہلکا ہلکا خون رسنے لگا

"چھوڑ دو ابتسام ورنہ میں خود کو ختم کرلوں گی۔۔"

ماروش اونچی سا چلاٸ وہ جو شاہ ویز کے اور بیٹھا اسکی گردن پر جھکنے لگا تھا اسکی ضواز پر گردن موڑ کردیکھا جو کہ پوری گیلی ہوٸ پڑی تھی اور ہاتھ میں لاٸٹر تھا اسنے حیرت زدہ آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا

"مم۔میں نے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک لیا ہے اگر تم نے اسکو نہ چھوڑا تو میں خود کو آگ لگا لوں گی سمجھے"

آخر میں چلاٸ تو ابتسام اسکے اوپر سے اٹھا اور حیران ہوکردیکھنے لگا

"ما۔ماروش کیا کہ رہی ہو؟"

اسکی آواز ڈولی تھی

"وہی جو تم دیکھ رہے ہو میں خود کو مار لوں گی ابتسام تم تم میرے اپنوں کو مار کر مجھے کبھی نہیں پا سکو گے۔"

اسنے روتے ہوۓ کہا

"نہیں ماروش میں سب تہس نہس کردوں گا سمجھی۔۔"

"جو کرنا ہے کرو پر میرے مرنے کے بعد۔۔"

"مم۔مت کرو میں مرجاوں گا تمہارے بنا۔۔"

اسنے دو قدم آگے بڑہاتے ہوۓ کہا

"فرک نہیں پڑتا دور رہو ورنہ ایک سیکنڈ نہیں لگے گا مجھے آگ لگانے میں۔۔"

"ٹھیک۔۔ٹھیک ہے پر پلیز اسکو خود سے دور رکھو یہ حماقت مت کرو"

اسنے ہاتھ اٹھاتے سمجھایا

"چلے جاو۔۔"

اسکی بات پر وہ گٹنوں کے بل بیٹھا

"مت کرو ایسا میں میں خود کو بھی ختم کرلوں گا میں تنہا ہوجاوں گا میں بہت کچھ کھوچکا ہوں تم خود کو دور مت کرو"

اب وہ ایک بےبس لاچار لگ رہا تھا اسکی بات پر وہ کمزور ہوٸ لیکن پھر اپنے ارادے پر قاٸم رہی کیونکہ اگر وہ۔کمزور ہوتی تو وہ اپنے پیاروں کو کھو دیتی

"چلے جاو میں آخری بار کہ رہی ہوں"

"ٹٹ۔ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں پر پر ایک بار صرف ایک بار میری جنونیت میرے عشق کو دیکھو۔۔"

اسنے بےبسی سے کہا

"میں بے انتہا عشق کرتا ہوں مجھے آخری بار دیدار کرنے دو اپنا بس"

وہ کبھی نہ ہارنے والا آج ہار گیاتھا

"دیکھو میں ہار گیا کہاتھا کمزوری بن بننا پر بن گی اور مجھے خود سے ہی چلتی جنگ میں ہرا دیا تم نے میں بھی ہار گیا اپنے بابا کی طرح۔۔"

اب اسکی آنکھوں میں نمی تھی

"چلے جاووو ابتسام خدا کیلیے۔۔"

اسنے روتے ہوۓ انچی چلاکر کہا کیونکہ وہ کمزور پڑ رہی تھی دو منٹ بھی اور رکتا اسکے پاس تو یقینً وہ اسکی اسیر ہوجاتی اور اسکے ساتھ چلی جاتی

"میں تین تک گنوں گی ابتسام تھری ٹو و۔۔۔"

"رکو جارہا ہوں۔۔۔"

اسکو لاٸٹر جلاتا دیکھ وہ اٹھا اور بےبسی سے دیکھنا لگا

"آٸ لویو سو مچ یو آر ماۓ لاٸف جارہا ہوں ہمشہ کیلیے خوش رہنا۔۔"

وہ ضبط سے بولا تھا اور آخر بار دیکھتا وہاں سے غاٸب ہوا تھا اسکے غاٸب ہوتے ہی اسنے لاٸٹر نیچے پھینکا اور شاہ ویز کی طرف بھاگی 

"شاہ ویز اٹھو۔۔۔"

پٹرول کی خشبو ہر طرف پھیلی ہوٸ تھی

"ہم آ۔آزا۔اد ہیں "

اسنے اٹکتے ہوۓ کہا

"ہاں شاہ ویز اب وہ کبھی نہیں آۓ گا۔۔۔۔مجھے پورا یقین ہے اسکی کہی بات پر وہ اصولوں کا پکا ہے"

اسنے شاہ وویز کو سے کہا اور اسکو گلے لگا لیا 

اب یہ شاہ ویز کی ہوگی تھی اب ہر مصیبت دور ہوگی تھی وہ ابتسام کی محبت سے کبھی آزاد تو نہیں ہوسکتی تھی پر اس سے دوری اثر دیکھا دے گی

ناجانے وہ اب کہاں چلا گیا تھا  شاید اپنی دنیا میں واپس ہمیشہ کیلیے

....................................

"ارے واہ مزہ آگیا کیا کمال سٹوری تھی یار"

حجاب نے کتاب کو بند کرتے ہوۓ کہا

"واقع میں ہی کیا کمال تھایار ہر سین۔۔"

احمد نے اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوۓ کہا

"اوففف ابتسام ماروش تو اسیر ہوٸ ہے یا نہیں میں ضرور ہوگی ہوں کاش وہ میرے ساتھ ایسا کرتا ہاۓ"

اسنے اپنی ہی دھن میں کہا نہ ہی احمد کی گھورتی نظریں دیکھیں جب دیکھیں تو زبان دانتوں تلے دباٸ

"ابتسام نظر آگیا اور جو یہ ایک عدد منگیتر ہے اسکا کیا"

اسنے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا

"ہاہاہہہا ویسے احمد ماروش کا بھی منگیتر تھا اور ابتسام ہاہااہا"

یہ کہتی وہاں سے فوراً بھاگی تھی اور احمد بھی اسکے پیچھے جانتی تھی وہ اس بات سے ضرور جیلس ہوگا

"بہت بری ہو تم اس منگیتر پر دھیان دو۔۔"

اسنے اسکے پیچھے بھاگتے ہوۓ کہا تو حجاب کا قہقہ گونجا اور پھر احمد نے بھی اسکی ہنسی میں اسکا ساتھ دیا پورے گھر میں انکی کلکاریاں گونج رہی تھیں اور وہ تیار تھے ایک اور کہانی وہ بھی ایسی ہی محبت کی کہانی پڑھنے کیلیے تیار تھے وہ ہمیشہ سے ہی

ختم شد

★★★★


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Ashiq Hoya Tere Te Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ashiq Hoya Tere te written Sajeela Nisar Ashiq Hoya Tere Te by Sajeela Nisar is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages