Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 1 Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 27 May 2024

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 1 Complete Urdu Novel Story

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 1 Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 1 Complete Novel Story

Novel Name :Mera Sodagar Mera Dildar Season 1 
 Writer Name : Aiman Raza 

New Upcoming :  Complete 

سلمان آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔۔۔

عفاف نے اپنے منکوح سے تیسری دفعہ پوچھا جو اسکے سوال پر شاطرانہ انداز میں مسکرا دیا۔۔۔

آج ہی انکا نکاح ہوا تھا اور وہ شام میں اسے کہیں گھمانے کا کہ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔

گاڑی ایک عالیشان سیون سٹار ہوٹل کے سامنے رکی تھی۔۔۔

وہ اسے اپنے ساتھ لیے اندر بڑھا۔۔۔

پانچ منٹ میں وہ ایک کمرے میں موجود تھے۔

جہاں صوفے پر ایک اٹھائیس سالہ نوجوان ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔۔۔

اسکی نظر بلکل ایسی تھی جیسے چیتا اپنے شکار کو دیکھ رہا ہو۔۔۔۔

عفاف کو یکدم ہی گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔

"سلمان چلو یہاں سے"

اسنے سلمان کا بازو کھینچتے کہا..

 جسے اسنے سرے سے نظر انداز کرتے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھتے بولنا شروع کیا۔۔۔

"مسٹر سردار میں اپنی منکوحہ کو لے آیا ہوں ڈیل کے مطابق آپ اسکے ساتھ جو مرضی کر سکتے ہیں بدلے میں مجھے وہ ڈیل دے دیں"

اسکی بات پر عفاف کا دل بند ہوا تھا۔۔۔۔

"سلمان"

وہ رو دینے کو ہوئی اتنا بڑا دھوکا۔۔۔

"میں کیسے مان لوں کہ یہ ان چھوئی ہے۔ تمہیں تو پتہ ہے مجھے کچی کلیاں پسند ہیں"

اسنے ایک نظر عفاف پر اوپر سے نیچے تک ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔

"سردار میرا اس سے آج ہی نکاح ہوا ہے اور اسے میں یہاں لے آیا...

نہیں یقین تو آپ اسکے ساتھ خود رات گزار کر دیکھ سکتے ہیں یہ بلکل انٹچ ہے"

اسنے عفاف کو سرادر کی گود میں پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔

"تم تو کافی خوبصورت ہو اور ملائم بھی مائے لٹل تھنگ"

اسنے عفاف کے چہرے پر اپنی انگلی پھیرتے کہا جس پر اسکے اوسان ٹھکانے آئے جو اتنے پڑے حادثے پر منجمد ہو گئے تھے۔۔۔

"چھوڑو مجھے جانے دو رحم کرو مجھ پر "

اسنے سردار کو دھکیلتے ہوئے کہا اور فوراً سلمان کے پاس گئی۔۔۔

"سلمان تم ایسا کیسے کر سکتے ہو بیوی ہوں میں تمہاری۔ تم اپنی ہی بیوی کو کیسے بیچ سکتے ہو یہ گناہ ہے حرام ہے یہ میں تمہارے نکاح میں ہوں سلمان پلیز ایسا مت کرو میرے ساتھ"

روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں جبکہ سردار اس لڑکی کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔

 جہاں لڑکیاں اسکی قربت کے لیے مرتی تھیں یہ لڑکی اس سے دوری بنانا چاہتی تھی کچھ تو بات تھی اس میں۔۔۔

"گناہ کی ہی بات ہے تو میں نے تمہیں طلاق دی,طلاق دی, طلاق دی...

اب خوش اب تم میرے نکاح میں نہیں جاؤ سردار کو خوش کرو"

اسنے عفاف کا منہ دبوچتے دوبارہ اسے سردار کے قدموں میں پھینکا اور باہر نکل گیا۔۔۔

"پلیز مجھے جانے دو میرے ساتھ کچھ مت کرنا۔۔۔

 اسنے فوراً سردار کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا اور پیچھے کھسکنے لگی۔۔۔۔

"اگر تم اس بلڈنگ سے پانچ منٹ میں نکل گئی تو میرے آدمی تمہیں جانے دیں گے۔۔۔ لیکن اگر تم یہاں سے نہ نکل پائی تو آج رات میرے بستر پر مجھے خوش کرنے کی زمہداری تمہاری ہے لٹل تھنگ"

اسکے الفاظ تھے یا آب حیات وہ فوراً اثبات میں سر ہلاتی تیزی سے باہر بھاگی تھی۔۔۔

 لفٹ سے وہ جلدی نیچے پہنچ جاتی تبھی اسی طرف بھاگی ۔۔۔

جہاں سلمان اسکی دوست کے ساتھ باہوں میں باہیں ڈالے برے فعل انجام دے رہا تھا۔۔۔

آج تو پوری طرح اسکے قدموں تلے زمین کھینچ لی گئی تھی کہاں جاتی وہ۔۔۔

"تم ذلیل انسان میری ہی دوست کے ساتھ مجھے دھوکا دیتے رہے"

اسنے ایک دم سلمان کا کالر کھینچتے کہا تو وہ دونوں ہڑبڑا گئے۔۔۔

سلمان اسے واپس بھیجو یہ بھاگ گئی تو ڈیل کینسل ہو جائے گی۔۔۔

 صبا نے سلمان کے گلے کا ہار بنتے کہا تو اسنے فوراً عفاف کو دبوچا اور ایک زور کا تھپڑ مارا کہ اسکے اعصاب جھنجنا اٹھے اور لمحہ لگا تھا اسے دنیا جہاں سے غافل ہونے میں۔۔۔۔

جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک عالیشان بیڈ پر تھی اسکے کپڑے بدل دیے گئے تھے۔ 

جبکہ خود کو ان کپڑوں میں دیکھ اسکا دل کیا اسکی روح فنا ہو جائے۔۔۔

"تو تم نہیں جا پائی لٹل تھنگ اب وعدے کے مطابق مجھے خوش کرنے کی باری تمہاری ہے"

سرادر نے ایک دم اسکی گردن پر جھک کر اپنے سلگتے لبوں سے جگہ جگہ معطر کرتے کہا۔۔۔

 تو عفاف کو لگا اسکی گردن پر کسی نے تیزاب ڈال دیا ہو حرام لمس اسکی جان نکال دینے کے در پر تھا۔۔۔

"پلیز رک جاؤ مت کرو ایسا میں جیتے جی مر جاؤں گی"

"نو بیبی یہ کہنے کے لیے تم نے دیر کر دی"

وہ دوبارہ اسکے ہاتھ اپنے قابو میں کرتے بولا۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اس پر جھکتا وہ فوراً آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے بولی۔۔۔

"تو پھر مجھ سے نکاح کر لیں"

اسکی بات سن کر وہ دو پل کو رکا اور پھر قہقہ لگا کر ہنسا۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہاہا"

                       *********

تمہیں کیونکر لگا کہ میں تمہاری بات مان لوں گا لٹل تھنگ اور ویسے بھی جب کام نکاح کے بغیر ہو رہا ہو تو پھر اس کھڑاک کو پالنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔

اسنے عفاف پر جھکتے اسکی خوشبو اپنے اندر اتارتے کہا۔۔۔

"پلیز پلیز پلیز خدارا مجھ پر رحم کریں آپ ایک دفعہ بس ایک دفعہ مجھ سے نکاح کر لیں پھر میں آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی"

روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں جو سردار کو سراسر ناگوار لگ رہی تھیں۔۔۔

"اور اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا"

اسنے ایک کہنی کے بل کروٹ لیتے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے کہا۔۔۔

اسے نیم رضامند ہوتے دیکھ عفاف میں جان آئی تھی۔۔۔

"آپ جب چاہے میرے قریب آ سکتے ہیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا"

اسنے نظریں نیچے کرتے کہا۔۔۔

"اور اگر تم اپنی بات سے مکری تو یاد رکھنا تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی"

 سرادر نے عفاف پر جھک کر اسکے لبوں کے قریب سرگوشی کرتے سرد لہجے میں کہا تو اسکی جان لبوں کو آئی تھی۔۔۔

"ڈرو مت اپنے وعدے کا پکا ہوں میں تب تک تمہیں نہیں چھوؤں گا۔۔۔

مگر بعد میں کوئی جگہ ایسی نہیں رہے گی جہاں میں نے نہ چھوا ہو"

اسنے آنکھ مار کر کہتے بےباکی کی ہر حد پار کر دی تھی۔۔۔

اسکا دل کیا شرم سے ڈوب مرے پتہ نہیں کہاں پھنس گئی تھی وہ۔۔۔

پھر کیا تھا سردار نے آناً فاناً نکاح کے انتظامات کیے تھے۔۔۔

"عفاف بنتِ سیال کیا آپ کو سردار ولد خان سے پچاس لاکھ کے عوض نکاح قبول ہے"

تیسری دفعہ پوچھنے پر بھی جب وہ کچھ نہ بولی تو سردار نے گردن اور نظریں دونوں ترچھی کرتے اسے دیکھا تھا اور ایک ہاتھ اسکی تھائی پر رکھا تھا۔۔۔

                       *******

اسکے لمس سے عفاف کے جسم میں برکی دوڑ گئی تھی۔

اسنے بمشکل تھوک نگلا وہ اسکی سرکتی انگلیوں میں چھپی وارننگ وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی تبھی فوراً نکاح کے لیے قبول ہے کہا تھا۔۔۔

نکاح کے بعد وہ فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا جو پریشانی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔۔

"تو میڈم آپ خود یہاں آئیں گی یا میں وہاں تشریف لاؤں"

اسنے زیرِ لب مسکراتے کہا تو وہ کپکپاتے ہوئے بولی۔۔۔

"ک کیا م مطلب"

"مطلب یہ کہ میں نے اپنا کہا پورا کیا اب تم اپنا کہا پورا کرو مجھے خوش کرو"

اسنے ایک جھٹکے میں کہتے اسے لا کر بیڈ پر پٹخا کہ اسکی چیخ نکل گئی۔۔۔

"آہہہ"

"پلیز مجھے جانے دیں "

"نو مائے ڈیئر لٹل تھنگ اب تم اپنے کہے سے مکر نہیں سکتی۔۔۔

 آج تم میں سمانے کا میں پورا ارادہ رکھتا ہوں اور اب تو ہمارے درمیان کوئی دیوار بھی نہیں رہی"

اسنے عفاف کی ٹانگ کھینچ کر اسے قریب کرتے کہا تو وہ جھٹپٹانے لگی۔۔۔

"نہیں آپ میرے قریب نہیں آ سکتے پہلے آپ کو سلمان کے ساتھ ڈیل کینسل کرنی ہو گی"

اسنے بمشکل سانس لیتے کہا تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگا ایک اور فرمائش۔۔۔

"اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو تو اسکے بارے میں سوچا جا سکتا ہے"

سردار نے عفاف کے لبوں کو پیار ست چھوتے کہا۔۔۔

 یہاں تک کہ اسکی سانس تک اٹک گئی۔۔۔

جبکہ سردار کا حال تو ایسا تھا جو آج بن پیے ہی بہک رہا تھا۔ 

ایسے لگ رہا تھا جیسے پیاسے کو پیاس بجھانے کا ظریہ مل گیا ہو۔۔۔۔۔

آج تک اسنے بہت سی لڑکیوں سے تعلقات بنائے تھے مگر ایسی بات کسی میں نہیں تھی۔۔۔

سچ کہتے ہیں حلال میں بہت طاقت ہوتی ہے جو خودبخد ہی دو دلوں کو ملا دیتی ہے۔۔۔

"یہ تم نے بہت اچھا کیا سیال عفاف کا نکاح سلمان سے کر کے کتنا اچھا ہے وہ اسنے ہماری بزنس میں کتنی مدد بھی کی"

روبینہ( عفاف کی سوتیلی ماں) نے سیال(عفاف کے باپ) سے کہا جو اسکی بات پر اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔

"اب ہمارے پاس اتنے پیسے ہیں کہ ہم کوئی کاروبار شروع کر سکیں ورنہ تو کب سے ہمیں نقصان ہو رہا تھا"

سیال نے بھی اسکی پسِ پشت چال سے انجان کہا۔۔

 وہ یہ تک نہ سمجھ سکا کہ روبینہ اپنی بیٹی فریال سے بھی تو سلمان کا نکاح کر سکتی تھی۔۔۔

 پھر عفاف سے ہی کیوں۔۔۔

 مگر وہ شخص اس بات سے انجان تھا کہ اسکے ایک فیصلے نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔۔۔

جس پر روبینہ شاطرانہ انداز میں مسکرا دی۔۔۔

یہ سب اسہی کی پلیننگ تھی۔

 اسے عفاف کی خوبصورتی سے شروع سے ہی حسد تھا۔

تبھی لاکھوں میں اسنے عفاف کو بغیر علم میں لائے اسے بیچ دیا تھا۔۔۔

اپنی بیٹی فریال کو وہ ایک اچھی زندگی دینا چاہتی تھی۔۔

اس بات سے انجان کے کسی کا برا چاہنے والے خود بھی مکافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔

                           ****

جب عفاف کا دم گھٹنے لگا تو اسنے سردار کے سینے پر مکے برسائے۔۔۔

 سرادر کا ارادہ تو نہیں تھا مگر عفاف کے بار بار پیچھے کرنے پر اسے عفاف کو چھوڑنا پڑا۔۔۔۔

 جس پر وہ گہرے سانس بھرنے لگی۔۔۔۔

اسکی آنسو بھری آنکھیں دیکھ وہ اسے ایک آنکھ ونک کر کے رہ گیا۔۔۔۔

اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ اسے گردن پر جھکا تھا اور جگہ جگہ معطر کرنے لگا تھا۔۔

کہ ہر جگہ اسکے تشدد کے نشان اسکی سفید گردن پر نمایاں ہونے لگے تھے اور کچھ ہی دیر میں وہ درد کی سکت برداشت نہ کرتے دنیا جہاں سے غافل ہوئی تھی۔۔۔

سرداد نے اسکے جسم میں حرکت نہ ہوتے دیکھ اوپر اٹھ کر اسے دیکھا۔۔۔

 تو اسے بےہوش دیکھ اسکی تیوری چڑھی تھی۔۔۔

"ہے ہے لٹل تھنگ اوپن یور آئیز اتنے precious moments پر تم یوں بےہوش نہیں ہو سکتی"

اس لڑکی کی اتنی ہمت کہ تم میرے بستر پر میرے لطف اندوز ہونے سے پہلے بےہوش ہو گئی۔۔۔

 اسکی سزا میں تمہیں اچھے سے ہوش میں دوں گا مائے ڈیئر یقیناً تب تم پچھتاؤ گی اپنے بےہوش ہونے پر ۔۔۔۔

                           ****

صبح جب وہ  اٹھی تو اسنے فوراً اپنا حلیہ دیکھا جو کل والے حال میں ہی تھا مطلب کل رات کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اسنے شکر کا سانس لیا۔۔۔

"کیا دیکھ رہی ہو لڑکی ایسی کوئی خوشفہمی نہ پالو کچھ نہیں ہوا کل اور فوراً نیچے کا رخ کرو سردار صاحب کو انتظار پسند نہیں"

اس میڈ نے حقارت سے عفاف کو کہتے معنی خیزی سے کہا۔۔۔

 جبکہ وہ اسکے اس طرح دیکھنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگی تھی اور فوراً فریش ہونے واشروم چلی گئی۔۔۔

تیار ہو کر حال میں آئی تو سردار نے کھینچ کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔۔

سلمان اور صبا اسے یوں دیکھ کر کافی حیران ہوئے تھے ۔۔۔

اتنی اہمیت کی حامل کب سے ہو گئی عفاف سردار کے لیے۔۔۔

"تم نے تو کہا تھا تم انکے ساتھ ڈیل نہیں کرو گے پھر یہ سب کیا ہے"

عفاف نے اسکے کان میں گھستے کہا تو وہ زیرِ لب مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔

"وعدے سے مکرنے والوں کو خواہشیں کرنے کا کوئی حق نہیں"

سردار نے عفاف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو وہ فوراً نظریں چرا گئی۔۔۔۔

"سردار اب پلیز اسے سائن کی جیے اور یہ ڈیل میرے نام کی جیے"

سلمان نے اپنی شرٹ کا بٹن بند کرتے گردن اکڑاتے فوراً فائل آگے کرتے کہا ۔

ساتھ ایک اور کمپیٹیٹر اپنی فائل لیے کھڑا تھا۔۔۔

"سلمان میری گرلفرنڈ نہیں چاہتی کہ یہ ڈیل تمہیں ملے اب کیا کیا جا سکتا ہے"

سردار نے عفاف کو اپنے نزدیک کھسکاتے کہا تو وہ کسمسا کر رہ گئی۔۔۔

سردار نے وہ فائل پکڑ کر دیکھی اور اسکے کمپیٹیٹر کو پکڑا دی۔۔۔

"کیا مطلب سردار میں کچھ سمجھا نہیں"

وہ بوکھلا سا گیا تھا۔۔

بنی بنائی کھیر ہاتھوں سے جانے کا ڈر تھا۔۔۔

"مطلب صاف ہے سر یہ ڈیل میرے نام کر چکے ہیں"

اسکا کمپیٹیٹر بولا تو اسکے ہاتھوں سے طوطے کیا سب کچھ اڑ چکا تھا۔۔۔

"ایسا نہیں ہو سکتا سر آپ ایسا نہیں کر سکتے عفاف تم کہو نہ سردار سے یہ تمہاری بات مانیں گے"

وہ رو دینے کو ہوا۔۔۔۔

"ہنہ مجھ سے یہ کہنے سے پہلے تمہیں مر جانا چاہیے تھا ذلیل انسان تمہاری سزا اس سے بھی بد تر ہونی چاہیے"۔۔۔۔

اسکے اس طرح کہنے پر سردار نے دلچسپی سے اسکے تاثرات دیکھے۔۔۔

"سردار سب کو باہر نکال دی جیے میں اور آپ اکیلے کمرے میں چل کر ڈیل کی بات کرتے ہیں"

عفاف کی دوست فوراً آگے آتی واہیات انداز میں بولی تو عفاف نے ایک دم منہ موڑ لیا۔۔۔۔

سردار عفاف کو لیتا کھڑا ہوا۔۔۔

"مینیجر تم نے سنا نہ فالتو چیزوں کو کمرے سے باہر پھینک دو"

اسکے کہنے کی دیر تھی کہ منیجر نے فوراً سلمان اور عفاف کی دوست کو دھکے دے کر باہر پھینکا ...

اور انکے جاتے ہی سردار عفاف کو کندھے پر لاد کر کمرے میں لے آیا اور بیڈ پر پٹخا۔۔۔

"اب تمہاری باری ہے لٹل تھنگ جو کل نہ ہو سکا اسکی سزا میں آج تمہیں ہوش کے عالم میں دوں گا "

اسنے اہنی شرٹ کے بٹن کھولتے دانتوں تلے لب دباتے اسے آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔۔

"نہیں پلیز نہیں مجھے جانے دو دور رہو مجھ سے"

                             ***

اس سے پہلے کہ وہ اس پر جھکتا اسے باہر سے سےکسی کا بلاوا آ گیا۔۔۔

جس پر اسے جانا پڑا۔۔۔

"تم سے میں آ کر نمٹتا ہوں"۔۔۔

جیسے ہی وہ وہاں سے گیا عفاف وہاں سے بھاگ چکی تھی۔۔

پہلے وہ اپنے ہاسٹل آئی تھی۔۔۔

پھر یونی میں جہاں کوئی فنکشن جاری تھا۔۔۔

                          ****

سردار جب واپس لوٹا تو عفاف وہاں موجود نہ تھی۔۔۔

"مجھے فوراً اسکا پتہ ڈھونڈ کر دو"

اسنے غصے سے لب بھینچتے اپنے گارڈ سے کہا۔۔۔۔

یہ تم نے اچھا نہیں کیا لٹل تھنگ۔۔۔

   ویٹ اینڈ واچ۔۔۔

                      ******

یونی میں اسے فنکشن کے انتظامات دیکھتے دیکھتے کافی وقت گزر گیا اور جیسے ہی مہمانِ خصوصی کے استقبال کا وقت آیا تو اسکا سانس سوکھ گیا کیونکہ سامنے کوئی اور نہیں بلکہ سردار کھڑا تھا۔۔۔

جسکی چہرے کی مسکراہٹ صاف جتلاتی ہوئی تھی کہ آخر مجھ سے بچ کر جاؤ گی کہاں۔۔۔

وہ پلٹ کر اپنی ٹیچر کے پاس گئی۔۔۔

"میم کیا میں باہر جا سکتی ہوں میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی"

اسنے سر تھامتے کہا تو مس پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں۔۔

"جائیں بیٹا ٹیک یور ٹائم"

وہ فوراً کہیں بھی دیکھے نظریں نیچے کیے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

جیسے ہی وہ باہر لان سے خاموش حصے میں آئی کسی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اور اسے کھنچنے لگا تھا۔۔۔

کہ وہ چلا بھی نہ سکی۔۔۔۔

جیسے ہی وہ گراؤنڈ سے جانے لگی کسی نے اسے منہ پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کھینچ لیا۔۔

کوئی باقاعدہ اسے مسلسل کھینچ رہا تھا اور کھینچ کر گراؤنڈ کے پیچھلے حصے میں لے گیا جہاں درخت ہی درخت تھے۔۔۔

"اممم اممم"

اسنے مرادنہ ہاتھ کو منہ سے ہٹانا چاہا۔۔

 جب اس شخص نے کھینچ کر اسے درخت سے پن کیا اور اسکے دونوں ہاتھ اوپر درخت سے لگا کر جکڑ لیے اور اپنا وزن اس پر منتقل کر دیا۔۔۔۔

سردار کو یہاں دیکھ کر وہ دنگ ہوئی اور بمشکل تھوک نگلا۔۔۔

"تممم"

"کیوں میں یہاں نہیں آ سکتا"

سردار نے اسکی لٹ کو اپنی ایک انگلی پر لپیٹتے کہا تو وہ ہاتھ چھڑانے کے لیے جھٹپٹائی۔۔۔

"چھوڑو مجھے جانے دو"

"آہاں اپنا کیا وعدہ تو یاد ہو گا تمہیں"

اسنے اسکے چہرے ہر پھونک مارتے کہا تو عفاف نے فوراً آنکھیں بند کیں۔۔۔

"کونسا وعدہ میں کسی وعدے کو نہیں جانتی"

اسنے اپنی بات سے مکرتے کہا۔۔۔

"اگر میں چاہوں تو چٹکیوں میں تمہیں غائب کر دوں مگر ابھی میرا دل نہیں بھرا تم سے"

سردار نے اسکی بےبسی سے لطف اندوز ہوتے کہا تو عفاف کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے جو سردار کو چبھے تھے۔۔۔

"اس بورنگ دنیا میں ایک تم ہی تو مزے کی چیز ہو لٹل تھنگ تمہیں کیسے اپنے سے دور جانے دوں۔

اگر تم دور چلی گئی تو میری دنیا میں مزہ نہیں رہے گا"

اسنے دل میں سوچا اور اسکی گال کو نرمی سے لبوں سے چھوا جبکہ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"دیکھ لو اگر تم میرے ساتھ کاپریٹ کرو تو میں تمہيں سکالرشپ دلوا سکتا ہوں تمہاری اسائنمنٹ میں بھی اچھے مارکس آ جائیں گے کیا کہتی ہو"

اسنے ایک آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔

تو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی۔۔

 گھر میں تو اسکی کوئی اہمیت نہیں تھی پھر یہ آفر اسکے لیے کافی فائدہ مند بھی تھی۔۔۔۔

"لیکن نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔

 کبھی نہیں تمہارا خواب ہی رہے گا"

وہ اس پر چیختے ہوئے بولی۔۔۔

تو اسنے کان میں انگلی پھیری جیسے بدمزہ ہوا ہو۔۔۔

"Let see babes"

اسنے اسکے قریب ہوتے کہا تو۔۔۔۔

وہ اسے دھکا دیتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔۔

                      *******

ابھی وہ کلاس میں آئی ہی تھی کہ ڈین کا بلوا آ گیا۔۔۔

"عفاف آپ جانتی ہیں نہ کہ یہ پراجیکٹ اس یونیورسٹی کے لیے جتنا ضروری ہے۔۔

 اسکے لیے ہمیں سپورٹ کی ضرورت ہے۔

 جو ہمیں سر ہی دے سکتے ہیں تمہیں ہر حال میں انہیں کنونس کرنا ہوگا"

"جی سر مجھے یقین ہے وہ مان جائیں گے"

چلو وہ اندر ہی ہیں۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر آئی بزنس کے مالک کو دیکھ کر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔۔۔ کیونکہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ سردار تھا۔۔۔۔

اسکی حیرت بھانپ کر وہ مسکرایا تھا۔۔۔

"اگر آپ برا نہ مانیں تو ہمیں اکیلا چھوڑ دیں کیونکہ میں انسے پراجیکٹ ڈسکس کرنا چاہتا ہوں"

اسکی بات سننے کی دیر تھی کہ ڈین گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہوا تھا۔۔۔

عفاف نے زہر کا گھونٹ بھرا اور اپنی فائل اسے دیتی کلاز سمجھانے لگی۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں سردار نے باریکی سے اسکی کئی غلطیاں نکال دی تھیں۔۔۔

"ہممم تو یہ سردار بزنس میں بھی سب کا کنگ ہے تبھی میری غلطیاں اتنی جلدی نوٹ کر لیں"

"باقی کے پراسس کے لیے تمہیں میرے آفس آنا پڑے گا اور مجھے یقین ہے تم آؤ گی"

اسنے سپاٹ لہجے میں کہا تو عفاف ہنہہ کر کے رہ گئی۔۔۔

"مجھے نہیں لگتا اسکی ضرورت پڑے گی آپ یقیناً ضرورت سے زیادہ سوچ رہے ہیں"

اسنے کھڑے ہوتے کہا۔۔۔

"اچھا ایسی بات ہے"

پلک جھپکتے اسنے عفاف کا ہاتھ کھینچتے پیٹ کے بل اپنی گود میں گرایا تھا۔۔۔

                        ****

"چھوڑو مجھے یو چیپسٹر یہ کیسی حرکت ہے یہ یونی ہے یہاں کوئی بھی آ سکتا ہے"

عفاف نے ہاتھ پاؤں مارتے کہا۔۔۔

"تو تمہارا مطلب یہاں نہیں مگر گھر چل کر تم مجھے یہ سب کرنے کی اجازت دو گی"

اسنے محضوظ ہوتے کہا تو وہ دانت پیس کر رہ گئی۔۔۔

"پلیز مسٹر سردار مجھے اٹھنے دیں مجھے vomit فیل ہو رہی ہے۔۔۔

اگر میں کچھ دیر ایسے رہی تو آپ کا ڈریس خراب ہونے کا خدشہ ہے"

اسنے اپنی طرف سے چال چلتے کہا تو وہ اسکی چلاکی سمجھ کر مسکرا دیا۔۔۔۔

"ایسا ہے تو میں تمہاری کمر مل دیتا ہوں اسنے عفاف کی شرٹ کھسکاتے کہا تو وہ چیخ اٹھی۔۔۔

"پلیز یہاں نہیں کوئی آ جائے گا آپ کو نہیں مگر مجھے میری عزت بہت عزیز ہے"

اسکی آنکھیں اپنی بےبسی پر نم ہوئی تھیں۔۔۔۔۔

"اگر کوئی ہمیں اس حال میں اتنے نزدیک دیکھ لے تو کیا سوچے گا۔۔

 زرا سوچو تم لڑکی ہو کیچڑ تو تمہارے کردار پر اچھالا جائے گا۔۔

 اس لیے بولو آو گی میرے آفس یا نہیں صحیح ہے"

اسکی دھمکی سے وہ بری طرح ڈر گئی تھی۔۔۔

"پلیز کوئی آ رہا ہے چھوڑو مجھے"

اسکی آنکھ سے ایک آنسو بہ نکلا تھا۔۔۔

اسنے قدموں کی آواز پر آخری التجا کی۔۔۔

"بولو ہاں یا نہ"

"مسٹر سردار کیا بات چیت ہو گئی  solve ہوئی problem۔۔۔

 ڈین نے ان دونوں کو دیکھتے اندر داخل ہوتے پوچھا۔۔۔۔

جہاں وہ دونوں الگ الگ صوفے پر بیٹھے نہایت سنجیدہ لگ رہے تھے۔۔

عفاف کو ابھی تک پسینہ آ رہا تھا۔۔

 یہ سوچ کر کہ ایک سیکنڈ کی بھی دیر ہو جاتی تو اسکی عزت دو ٹکے کی رہ جاتی۔۔۔

"مسٹر اطہر انسے میری بات ہو گئی ہے ڈیل فائنل کرنے کے لیے انہیں میرے آفس بھیج دی جیے گا باقی کام وہیں ہوں گے"

اسنے جھٹکے سے کھڑے ہوتے اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا اور ایک گہری نظر عفاف پر ڈال کر باہر چلا گیا۔۔۔۔

جسکے بعد ڈین عفاف کو وہاں جانے کے لیے منانے لگا تھا۔۔۔

                         *****

بہت ضبط کے باوجود وہ وہاں موجود تھی۔۔۔

"یہ رہی فائل سائن کی جیے مجھے جلدی جانا ہے"

عفاف نے اسکے آفس آتے فوراً کام نمٹانا چاہا تھا۔۔۔

سردار نے ریوالونگ چیڑ پر بیٹھے آئبرو اچکا کر اسکا ایٹیٹیوڈ دیکھا تھا۔۔۔

"اس سے پہلے کے ہم یہ بات کریں کچھ اور باتیں ہو جائیں"

اسنے شریر لہجے میں کہا تو عفاف کو ٹھیک ٹھاک تپ چڑھی۔۔۔

"مسٹر سردار پلیز کام کی بات کریں مجھے کسی اور چیز میں انٹرسٹ نہیں"

عفاف نے دانت پیستے کہا۔۔۔

"کیا واقعی ان میں بھی نہیں"

سردار نے تصویروں کا پیکٹ اسکی طرف پھینکتے کہا..

 جس میں اسکی بہن کی دوسرے مردوں کے ساتھ نہایت قابلِ اعتراض تصاویر تھیں۔۔۔۔

"یہ یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہو سکتا آپ یوں میری بہن کو بلیک میل کر کے اسکی ایسی شرمناک فوٹو نہیں کھینچ سکتے کسنے حق دیا آپ کو"

وہ بےیقینی سے تصاویر دیکھتی اس پر دھاڑی تھی۔۔۔

"لٹل تھنگ غور سے دیکھو تصویروں کو کیا کسی بھی اینگل سے لگ رہا ہے کہ یہ کسی نے لی ہیں۔۔

بلکہ یہ بزاتِ خود تمہاری بہن نے بنائی ہیں"

اسنے تمسخرانہ انداز میں کہا۔۔۔

 تو وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔۔

کیونکہ سچائی یہی تھی۔۔۔

"پلیز مسٹر سردار میری بہن نادان ہے پلیز یہ تصاویر ڈیل کر دیں"

اسنے گڑگڑاتے ہوئے کہا تو وہ عجیب انداز میں مسکرایا۔۔۔

"ہر ایک چیز کی قیمت ہوتی ہے جیسے کچھ لوگوں نے مجھے یہ تصویریں بھیج کر پیسے مانگے اور میں نے انہیں دے دیے مگر اب وہ قیمت تم مجھے ادا کرو گی۔۔۔

  اسکی بھی ایک قیمت ہے کہ تم آج رات میرے گھر آؤ گی کیا تمہیں منظور ہے"

اسنے دلچسپی سے کہا۔۔۔

"کبھی نہیں"

وہ زور سے چیخی تھی۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر کل صبح ہیڈلائنز میں اپنے خاندان کی بدنامی کے لیے تیار ہو جانا۔۔۔مجھے یقین ہے اسے دیکھ کر تمہارے باپ کو اوپر پہنچنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا"

اسنے شاطرانہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔۔۔

"اللہ کا قہر نازل ہو تم پر سرادر۔۔

تم ایک شیطان سے بھی بدتر ہو۔۔۔

اسنے سسکتے ہوئے کہا اور وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔۔۔

 اسکے جانے کے بعد سردار کی ساری شوخی غائب ہو چکی تھی اور وہ پہلے کی طرح ظالم اور سفاک سردار بن چکا تھا۔۔۔

                       *********

بہت گھنٹے رونے کے بعد اپنی قسمت کو کوسنے کے بعد وہ پھر سردار کے گھر میں اسکے دراوازے کے باہر موجود تھی۔۔۔

وہ کچھ بھی کر کے اپنے باپ کو مرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔

 سگی ماں تو تھی نہیں جو آسرا تھا اسے وہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

اسنے دل مضبوط کرتے دروازہ کھولا اور سوچنے لگی کہ اندر جائے یا نہ۔

"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی میں اپنی عزت خراب نہیں کر سکتی"

اس سے پہلے کے وہ پلٹتی سرادر باتھروب پہنے واشروم سے باہر آیا۔۔۔

"ایک قدم تم نے اندر رکھا تو تمہارے باہر جانے کے تمام راستے بند ہو جائیں گے یہ یاد رکھنا سویٹی"

اسنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا اور اسے سامنے لیپٹاپ کی طرف اشارہ کیا۔۔ جہاں اسکی بہن کی تصاویر نظر آ رہی تھیں۔۔۔

اسنے جی کڑا کرتے اندر قدم رکھا اور فوراً بھاگ کر وہ تصاویر ڈیل کر دیں اور واپس جانے کے لے مڑی۔۔

 جب سرادر نے اسے کمر سے اٹھا کر بیڈ پر پٹخا۔۔۔

"کہاں کی جلدی ہے لٹل تھنگ یہ مت بھولو کہ میرے پاس اسکی کئی کاپیز موجود ہیں۔ اس لیے میں تمہیں جو کہوں گا وہ تمہیں کرنا پڑے گا"

سردار نے شراب گلاس میں ڈالتے کہا تو وہ پیچھے کھسکنے لگی۔۔۔

"یہ حرام ہے میں نہیں پیتی گناہ ہوتا ہے پلیز مجھے جانے دو"

سرادر نے زبردستی گلاس اسکے منہ سے لگایا اور پوری اسے پلا دی۔۔۔

"امم امم اممم پلی پلیز م م مج مجھے جا جانے د دو"

اسنے گھومتے سر کے ساتھ اٹکتے ہوئے کہا تو سردار نے اسے پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔

"آج تمہیں میں احساس دلاؤں گا کہ تمہاری ہر ایک دھڑکن ہر ایک سانس ہر ایک حصے پر صرف سردار کا حق ہے۔ 

تم میں ایسا حائل ہوں گا کہ تمہاری روح میں سما جاؤں گا اور تمہیں چھوڑنے کا تصور میں نے کب کا چھوڑ دیا۔۔۔

 خود کو ہمیشہ کے لیے میری دسترس میں آنے کے لیے تیار ہو جاؤ"

اسنے عفاف کے سفید کندھے کو اپنے دانتوں اور شدت بھرے لمس کا نشانہ بناتے کہا۔۔۔۔

جگہ جگہ اپنا لمس چھوڑتے وہ عفاف کو یہ احساس دلا رہا تھا کہ وہ اسکی ملکیت ہے۔۔۔

جب کے بےہوشی کے عالم میں بھی عفاف کی آنکھوں میں سے آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔۔

وہ بہت جلد اس تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔

جبکہ سرادر پہلی بار آج ایک عجیب سی کیفیت سے گزر رہا تھا۔ 

ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اب عفاف سے کبھی جدا نہیں ہو پائے گا۔ بہت سی لڑکیاں آئیں تھیں اسکی زندگی میں مگر عفاف اسے سب سے الگ لگی تھی اور اب وہ اسے کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔

                         *****

صبح جب وہ اٹھی تو اسکا روم روم دکھ رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کوئی ٹرک اسے کچل گیا ہو۔ کمر الگ درد کر رہی تھی۔

 صد شکر کے سردار وہاں نہیں تھا ورنہ وہ اس سے کبھی نظریں نہ ملا پاتی اسنے شیٹ کس کر اپنے گرد لپیٹی اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"لڑکی جلدی اٹھو سر تمہارا ویٹ کر رہے ہیں انہیں انتظار پسند نہیں اور تم ہو کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی"

ملازمہ نے سرزنش کرتے کہا تو وہ خود کو بمشکل کھڑا کرتی واشروم میں چلی گئی اور شاور کھول کر اپنے آپ کو کس کس کر رگڑنے لگی۔۔۔

"یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا میں ناپاک ہو گئی میں نے اس شخص کو اپنا آپ سونپ دیا جسنے میرا سودا کیا۔ 

سوداگر ہے وہ۔ 

بےشک میں اسکے نکاح میں ہوں پر میری رضا شامل نہیں تھی اس میں۔۔۔۔"

وہ اپنے آپ کو رگڑ رگڑ کر صاف کرتی کوئی پاگل لگ رہی تھی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد جب وہ فریش ہو کر نیچے آئی تو سردار اخبار پڑھ رہا تھا۔۔

ملازمہ اسکے آگے ناشتہ سرو کرنے لگی۔۔۔

"تم کھانا کیوں نہیں کھا رہی کیا کل رات سے تمہارا پیٹ نہیں بھرا "

سردار نے معنی خیزی سے کہا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔۔

بہت ضدی لڑکی ہے سرادر نے دل میں سوچا۔۔۔۔

"اگر تم یہاں ناشتہ نہیں کرنا چاہتی تو ہم دونوں اوپر بیڈروم میں جا کر بھی کر سکتے ہیں"

سردار نے وارننگ دیتے کہا تو اسنے فوراً کھانا شروع کیا۔۔۔

"میں کھا رہی ہوں"

اسنے فوراً سے تیز تیز نوالے لیتے کہا۔۔۔

"مسٹر سردار آپ جو چاہتے تھے وہ ہو چکا ہے اب مجھے جانے دیں اور وعدے کے مطابق میری بہن کی ساری تصاویر ڈیل کر دیں۔۔۔۔"

"میں نے ایسا کچھ کہا تھا مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں"

اسنے شریر لہجے میں کہا تو عفاف کا دل کیا اسکا حسین چہرہ نوچ لے۔۔۔

"آپ مرد ہو کر اپنے کہے سے کیسے مکر سکتے ہیں مرد تو اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں تو کیا آپ مرد نہیں"

عفاف نے طنزیہ لہجے میں اسے آگ لگانی چاہی۔۔۔

"یقیناً تمہیں رات اچھے سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں مرد ہوں یا نہیں۔۔

کیوں مس عفاف صحیح کہا نہ میں نے۔۔

 اور ویسے بھی میں نے کہا تھا کہ اگر تم خود کو میرے نام کرو گی تو ہی میں تمہاری بہن کی تصاویر ڈیل کر دوں گا بلکہ ہر جگہ سے کروا دوں گا"

عفاف کے گال شرمندگی سے اسکی اتنی بےباک بات پر تپ اٹھے تھے۔۔۔

"کر تو چکی ہوں خود کو آپ کے نام آپ اور کیا چاہتے ہیں"

وہ پھٹ ہی پڑی تھی۔۔۔

"کس نے کہا کہ میں نے ایک رات کا کہا تھا لٹل تھنگ یہ قیمت تم ہر رات میرے ساتھ گزار کر چکاؤ گی"

"میں میں اپنی بہن کو سمجھاؤں گی وہ نادان ہے اسے اپنا برا بھلا نہیں پتہ وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی آپ پلیز ایسا مت کریں"

اسنے نم آنکھوں سے کہا۔۔۔

"نادان وہ ہے یہ تم جو اسکی چالاکی نہیں سمجھ پا رہی"

سردار نے اخبار پھینک کر لمحے میں اسے اپنی دسترس میں کرتے اسکے لبوں کو نشانہ بناتے کہا۔۔۔

جبکے اسکے لیے سانس لینا دو بھر ہو گیا تھا۔۔

وہ اسکے سینے ہر مکے برسانے لگی۔۔۔

اسکی حالت کا خیال کرتے سرادر نے اسے چھوڑا تو وہ فوراً پیچھے کو ہوتی اپنا سانس بہال کرنے لگی۔۔۔۔

"کبھی نہیں تمہارے جیسے شخص کے ساتھ تو میں اپنی زندگی کبھی نہیں گزاروں گی"

اسنے چیختے ہوئے کہا اسکے لب اور گردن سرخ پڑ چکی تھی۔۔۔۔

"اچھا واقعی"

سردار نے دلچسپی سے کہا۔۔۔

"سوچ لو ایک کلک اور تمہاری بہن کی تصاویر سوشل میڈیہ پر ٹوپ رینک پر ہو گی۔۔

 اور یقین نہیں تو لگاؤ شرط میرے سے آدھے گھنٹے میں میلین لوگ اسے ڈائونلوڈ کریں گے کیا کہتی ہو پھر"

اسکی بات سنتے عفاف گھٹنے کے بل گری تھی اور سسک سسک کر رونے لگی تھی۔۔

 اسے اس حال میں دیکھ نجانے کیوں سردار کے دل میں درد کی لہر اٹھی تھی اور یہ پہلی بار تھا جسے اسنے نظرانداز کر دیا تھا۔۔۔

"کیا تمہارے سینے میں دل نہیں ہے یا پھر وہ دھڑکتا نہیں جو تم ہمارے ساتھ ایسا کر رہے ہو"

روتے روتے اسکی ہچکی بندھ چکی تھی۔۔۔

"ہے نہ دل میرے سینے میں لٹل تھنگ لیکن بس وہ تمہارے لیے دھڑکتا ہے یقین کرو"

اسنے ایک گھٹنے کے بل اسکے سامنے بیٹھتے اسکی لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑیستے اسے جان نثار نظروں سے دیکھتے کہا ۔۔۔

جسکی خبر اسے خود بھی نہیں ہوئی۔۔

"اب کیا قیمت چکانی ہو گی مجھے"

اسنے سر نیچے کرتے پوچھا۔۔۔

"زیادہ نہیں بس دو سو billion "

"کیا مگر ۔۔۔ٹھیک ہے میں اپکے پیسے لوٹا دوں گی مجھے وقت دیں"

اسنے اپنی ہمت اکھٹے کرتے کہا

اسنے عفاف کا چہرہ اوپر کیا اور اسکے قریب ہوا اور ہوش میں آتے بولا۔۔۔

"خود کو میرے نام کر دو لڑکی تب تک جب تک میں تم سے بور نہیں ہو جاتا"

اسکی بات سنتے عفاف کا ہاتھ اٹھا تھا جسے سردار نے بیچ میں ہی روک لیا تھا۔۔۔

"غور سے کانٹریکٹ پڑھ لوں کہیں مجھے تھپڑ مارنے کی سزا تمہارے گھر والوں کو نہ بھگتنی پڑے"

اسنے عفاف کی گود میں کانٹریکٹ پھینکتے کہا۔۔۔

"ویسے ہم میاں بیوی ہیں ہم میں سب جائز ہے"

اسنے ایک آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔

عفاف نے کانٹریکٹ دیکھا جہاں ایک رات کی قیمت دس million تھی۔۔۔

"اسکو کیا لگتا ہے کہ میں اس قیمت پر اسکا شکریہ ادا کروں گی"۔۔۔۔

"سوچ لو تمہارے پاس بس یہی دو راستے ہیں یا یوں کہیں آگے کنواں پیچھے کھائی ہے".

پوری رات اسنے یہ سوچنے میں لگا دی تھی اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ اپنے آپ کو سردار کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔ 

بس کچھ وقت کی بات تھی یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

 اسنے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی تھی اور ویسے بھی وہ اسکا شوہر تھا۔ 

اپنے پاس آنے سے تو وہ اسے چاہ کر بھی نہیں روک سکتی تھی۔

مگر اسے گناہوں کی دلدل سے نکالنے کی کوشش ضرور کر سکتی تھی اور وہ یہ کرنے کا پختہ ارادہ کر چکی تھی۔۔۔

                         ******

آج صبح سے سردار اسے جو کام کہتا وہ چپ کر کے خاموشی سے بغیر کسی ہاں نہ کے کر دیتی۔

اسکی خاموشی اور فرمابرداری کا قائل ہوا تھا سردار۔ 

آج ہم کروز پر جا رہے ہیں سمندر میں۔۔۔

"ہنہ مگر کہاں اور کس لیے"

سردار نے آئیبرو اچکا کر دیکھا تو وہ پھر خاموشی سے اپنا کام کرنے لگی۔۔۔۔

آج موسم بہت سہانا تھا وہ دونوں شپ کے کنارے پر بیٹھے فشنگ کر رہے تھے۔

 مگر سردار کے ہاتھ ایک بھی مچھلی نہیں لگی تھی۔

 جبکہ عفاف صرف اسکا منہ تک رہی تھی۔

وہ بچپن میں اپنے بابا کے ساتھ آیا کرتی تھی۔ 

اسے فشنگ آتی تھی مگر اسنے سردار کو بتانا ضروری نہ سمجھا۔۔۔

"جلدی کرو مچھلیاں پکڑو۔ 

یاد رہے ایک مچھلی کے تمہیں ایک لاکھ ملیں گے۔ 

جتنی زیادہ تم مچھلی پکڑو گی اتنی کم راتیں تمہیں میرے ساتھ گزارنی پڑیں گی"

سرادر کی بات سنتے وہ اچھنبے سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"کیا آپ سچ کہ رہے ہیں "

اسنے چمکتی آنکھوں سے پوچھا۔۔۔

"سردار کو جھوٹ سے سخت نفرت ہے کیا تمہیں کہیں سے بھی شبہ ہوا کہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں"

اسکی بات سن کر عفاف نے جھٹ سر نہ میں ہلایا اور اس سے فشنگ سٹک لی۔۔

 جس نے ابھی تک اس میں چارا ہی نہیں ڈالا تھا تو بھلا مچھلیاں کیسے پکڑی جاتیں۔۔۔

کچھ ہی لمحوں میں اسنے ایک مچھلی پکڑ لی تھی۔۔۔

"یےےےے یےےےے میں نے پکڑ لی"

اسکی خوشی دیکھ سردار کے دل میں بھی انوکھی خوشی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے آدھے گھنٹے میں وہ چھ مچھلیاں پکڑ چکی تھی۔۔۔

"منیجر یہ مچھلیاں دیہان سے رکھنا اس ایک مچھلی کی قیمت ایک لاکھ ہے"

عفاف نے خوشی سے کہتے منیجر کو وہ بالٹی سمبھالنے کے لیے دی۔۔۔

"بھلا کون پاگل یہ ایک مچھلی ایک لاکھ میں خریدے گا"

وہ ہلکے سے بڑبڑایا تو سردار نے اسے تیوری چڑھا کر دیکھا۔۔۔

"کیا تمہیں میری قابلیت پر کوئی شک ہے خرم کیونکہ یہ مچھلیاں اس لڑکی سے میں نے ہی خریدی ہے سات لاکھ میں"

اسکی سرد آواز میں وارننگ محسوس کرتے اسنے بمشکل تھوک نگلا۔۔۔

"نہیں سر جب آپ نے کہا ہے تو واقعی ایسا ہی ہوگا"

وہ مچھلیاں لے کر وہاں سے رفوچکر ہوا تھا۔۔

تاکہ سردار کے ہاتھوں اسکی درگت نہ بن جائے۔۔۔

کچھ دیر بعد جب عفاف کو اپنے کندھے پر بھار محسوس ہوا تو اسنے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں سردار اسکے کندھے پر سر رکھے سو رہا تھا۔۔۔

"کیا میں اسے اٹھا دوں مگر میں نے کبھی اسے اتنا تھکن زدہ نہیں دیکھا رہنے دیتی ہوں پر میرا کندھا ۔۔۔ 

چلو خیر ہے"

اسنے سردار کا سر صحیح سے اپنے کندھے پر رکھتے کہا۔۔۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد جب سردار کی آنکھ کھلی تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔

"میں سو گیا اور تم نے مجھے جگایا بھی نہیں"

سردار نے اپنے بال سہلاتے کہا۔۔۔

"مجھے آپ کی نیند خراب کرنا اچھا نہیں لگا بس اس لیے ہی"

اسنے خوامخواہ شرمندہ ہوتے کہا۔۔۔

تو سردار اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اندر لے گیا جہاں فرائڈ مچھلی کی خوشبو چاروں طرف پھیلی تھی۔۔۔

"کچھ ہی دیر میں وہ فریش ہو کر اس مچھلی سے لطف اندوز ہو رہے تھے"

"میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک لاکھ کی ایک مچھلی بھی اتنی لزیز اور عمدہ ہو گی"

اسنے مچھلی کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے عفاف کو معنی خیزی سے کہا۔۔۔

 تو وہ شرمندگی سے سرخ ہو گئی۔ 

دل میں یہ خیال بھی تھا کہ چلو کچھ راتیں تو اس عزیت سے نہیں گزرنا پڑے گا۔۔۔

                        ******

دو دن وہاں گزار کر وہ گھر آ چکے تھے۔۔۔

عفاف ناشتہ کر رہی تھی۔

جبکہ سردار نظریں جھپکائے بغیر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔

عفاف دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ اب وہ یونی کا حرج کیسے پورا کرے گی کیونکہ سردار نے اسکے یونی جانے پر بھی پابندی لگا رکھی تھی۔۔۔

"اسی کچھوے کی سپیڈ سے ناشتہ کرنے کا ارادہ ہے یا یونی جانے کا بھی ارادہ ہے"

سردار نے عفاف کی خواہش کو زبان دیتے کہا۔۔۔

"جانا ہے جانا ہے "

اسنے فوراً کھڑے ہوتے کہا اور سردار کے پیچھے لپکی جو باہر پہنچ چکا تھا۔۔۔

"مہنگی ترین گاڑی دیکھ کر وہ ان سوچوں میں گم تھی کہ وہ اب اس گاڑی میں کیسے جائے۔۔

 کیونکہ اگر وہ اس گاڑی میں جاتی تو آسانی سے لوگوں کی متوجہ کا مرکز بنتی"

"ڈرائيور دوسری گاڑی لاؤ"

سردار نے دوسری بار اسکی دل کی بات پڑھ لی تھی اور کچھ دیر میں وہ اب ایک سادہ سی گاڑی میں عفاف کی یونی جا رہے تھے۔۔۔

"آفس میں ملاقات ہوتی ہے"

یہ کہتے ہی اسنے ڈرائيور کو اشارہ کیا جو گاڑی بھگا لے گیا تھا۔۔۔

"کہاں تھی تم عافی میں نے تمہیں بہت مس کیا"

اسکے اندر آتے ہی اسکی بیسٹی حریم اسکے گلے کا ہار بنی۔۔۔

وہ چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔

اسلیے وہ دونوں کچھ بات چیت کرتے ہوئے اندر چلے گئے۔۔۔

اسکا کام جلد ہی ختم ہو گیا تھبی وہ سردار کی کمپنی میں چلی گئی۔ 

سردار کے ساتھ اسکی یونی کی ڈیل تھی۔

 وہ اسہی کے مطعلق بات کرنے گئی تھی۔

 وہ جوں ہی اندر پہنچ کر ریسیشنسٹ کے پاس پہنچی تو اسنے گھور کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔۔۔۔

"پلیز مسٹر سردار کو بتا دیں عفاف آئی ہے"

"ہنہ لڑکی تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو۔۔

 تمہیں کیا لگتا ہے تم سر کو بلاؤ گی وہ بھاگے بھاگے چلے آئیں گے۔

 بہت دیکھی ہیں تم جیسی بہت آئی اور بہت گئیں اہنا وقت برباد مت کرو کہیں اور جا کر ٹرائے کرو"

رسیپشنسٹ اور اسکی ساتھی نے مل کر اسکی طرف دیکھتے کراہت آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔

                      ********

"تمہیں کل سے کام پر آنے کی ضرورت نہیں ہے اور تم آئندہ اگر مس عفاف آئیں تو ڈائریکٹلی انہیں باس کے روم میں پہنچا دینا ورنہ اگلی کوتاہی کرنے کے لیے تم یہاں موجود نہیں رہو گی"

سردار کے پرسنل منیجر کی آواز پر دونوں کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔۔۔

"آپ چلیں مس باس چاہتے ہیں اگلی دفعہ آپ جب بھی آئیں تو ڈاریکٹلی لفٹ سے 15 فلور پر باس کے کمرے میں آ جایا کریے گا آپ پر کوئی پابندی نہیں"

منیجر نے عفاف کو وہاں لے جاتے کہا جبکہ اسکی بات پر عفاف کا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔۔۔۔

"کیا سردار کے نزدیک وہ اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ جہاں کسی لڑکی کی پہنچ نہیں تھی۔ 

وہ اسے سب سے اوپر درجہ دے رہا تھا"

جیسے ہی وہ اسکے روم میں پہنچی سردار نے اسے پیچھے سے باہوں میں بھرا تھا۔۔۔

"مجھے مس کیا"

"سر سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں"

عفاف نے اسے آفس میں ہی یوں بہکتے دیکھ پیچھے کرنا چاہا ۔۔۔

"ڈونٹ بی سو فارمل کیا تم میری بیوی نہیں میں جب چاہے تمہارے پاس آ سکتا ہوں لٹل تنگ۔۔۔

مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں"

سردار نے پیچھے ہٹتے اس پر واضح کرتے اہنی کرسی ہر بیٹھتے کہا تو وہ تھوک نگل کر رہ گئی۔۔۔

"اب بتاؤ کیا کام ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کام نہ ہوتا تو تم کبھی میری شکل نہ دیکھتی"

اسنے شریر لہجے میں طنز کیا تو وہ خوامخواہ شرمندہ ہو گئی۔۔۔

"سر وہ مجھے کہنا تھا کہ فائنینس ڈیپارٹمنٹ سے بجٹ ڈسکس کرنا ہے اسکے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا"

سردار کا دل کر رہا تھا کہ ابھی اسکی قربت سے لطف اندوز ہو۔۔

مگر یہ وقت نہ تھا نہ ماحول یہ لڑکی دن بدن اسکے اعصابوں پر سوار ہوتی جا رہی تھی اور وہ کچھ بھی نہ کر پا رہا تھا۔۔۔

اسنے گلا کھنکارا اور اپنا بینک کارڈ اسکی طرف کھسکایا۔۔۔

"اسے اپنے پاس رکھو اور فائنینس ڈیپارٹمنٹ میں جا کر دکھا دینا وہ اس میں سے سب بجٹ پورے کر لیں گے"

مگر  سر یہ تو آپ کا بلیک کارڈ ہے آپ مجھے کیسے دے سکتے ہیں"

اسکے بات پر وہ سر نیچے کیے مسکرا دیا۔۔۔

"اور تم میری بیوی ہو جسکی زمہداری پوری کرنا میرا فرض ہے۔۔

 اسلیے اسے رکھو اور جو کچھ بھی چاہیے ہو اس سے لینا میں نہیں چاہتا میری بیوی کسی بھی چیز کے لیے ترسے"

سردار نے اسکے ہاتھ میں کارڈ دیتے کہا تو عفاف کا دل نرم پڑنے لگا۔۔۔

اسنے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہوگا جو اسے اپنی زمہداری سمجھے گا۔ 

کتنی بڑی بات کر دی تھی سرادر نے۔۔۔

"فائنینس ڈیپارٹمینٹ میں ذیشان ہوگا اسے یہ کارڈ دکھانا آگے کا کام ہو جائے گا"

اسکی بات پر عمل کرتے وہ ذیشان کے پاس گئی جو کہ سردار کا بزنس پارٹنر اور کزن تھا۔۔۔

اسکے ہاتھ میں سردار کا بلیک کارڈ دیکھ اسنے عفاف کو جانچتی نظروں سے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔۔۔

"تمہارے پاس سردار کا کارڈ کہاں سے آیا"

اسنے شدید حیرت کے زیرِ اثر پوچھا۔۔۔

"انہوں نے خود مجھے دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ میرا کام کر دیں گے"

اسنے معصومیت سے کہا۔۔۔

ضرور یہ لڑکی سردار کے زندگی میں خاص مقام رکھتی ہے تبھی سردار نے اس پر یہ عنایت کی جس سے آج تک کوئی مصتفید نہیں ہوا ۔ جو کبھی نہ ہوا وہ اب ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

تو کیا یہ لڑکی بھی سردار کے پیسوں کے پیچھے ہے

اسنے دل میں سوچا تو یہ سوچ کر ہی اسکے دل میں ابال اٹھا۔۔۔

"آپ اندر جائیں میری سیکرٹری آپ کو انسٹرکشنز دے دے گی"

اسکو وہاں بھیج کر وہ سردار کے آفس گیا۔۔۔

                     *******

"سنا ہے کہ ہوائیں رخ بدل رہی ہیں"

ذیشان نے اندر آتے کہا تو سردار اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگا۔۔۔

"یہاں کیسے آنا ہوا"

اسنے ذیشان کی بات کو سرے سے نظرانداز کرتے کہا۔۔۔

"سب چھوڑو مجھے یہ بتاؤ تمہارا اس لڑکی سے کیا رشتہ ہے۔

 جہاں لڑکیاں تمہارے ساتھ ایک رات گزارتی ہیں وہاں وہ لڑکی ڈیڈھ ماہ سے تمہارے ساتھ ہے اور اب تک تم اس سے بور نہیں ہوئے۔

 یہ کہانی تو سنہرے لفظوں میں لکھی جانی چاہیے"

اسنے سردار پر طنز کرتے کہا۔۔۔

ذیشان سردار کا بہت اچھا دوست تھا۔۔۔۔

 تبھی یہ بات وہ انتہائی تحمل کے ساتھ سن رہا تھا۔۔

 ورنہ پتہ نہیں اگلے بندے کا کیا حال کرتا۔۔۔

"تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے اب تم یہاں سے جا سکتے ہو"

سردار نے سیدھے لفظوں میں اسے باہر جانے کا کہا۔۔۔

"مجھے تم سے کہنا تھا کہ ایک رات کے لیے مجھے وہ لڑکی چاہیے میں بھی تو دیکھوں اس میں ایسی کیا خاص بات ہے۔۔۔

 جو سردار گروپ آف انڈسٹریز کا بیلینیئر مالک اس لڑکی پر فدا ہو گیا ہے"

ذیشان نے دلچسپی سے کہا تو سردار نے دانت پر دانت جمائے کہا۔۔۔

"ایسی کوئی بات نہیں وہ لڑکی بھی پچھلی تمام لڑکیوں کی طرح ہی ہے اس میں کوئی خاص بات نہیں"

اسنے اپنے ٹائی ڈھیلی کرتے کہا۔۔۔۔

"تو پھر دے دو نہ اسے مجھے ایک رات کے لیے"

وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔۔۔

"نہیں میں نہیں دے سکتا کیونکہ تم اچھی طرح جانتے ہو سردار اپنی چیز پر کسی کی پرچھائی بھی پسند نہیں کرتا اور وہ تو ایک جیتا جاگتا وجود ہے"

سردار نے بلا تکلف صاف انکار کیا تھا۔۔۔

"تو بات تو وہی ہے نہ کہ تم اسے کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے۔

 بات ٹال دینے سے حقیقت نہیں بدلے گی سردار تم نے اس لڑکی کو اپنا بینک کارڈ دیا 

 جو آج تک تم نے اپنی منگیتر ماریا کو بھی نہیں دیا۔۔۔ 

کس کو پاگل بنا رہے ہو سردار۔۔۔۔

 ذیشان نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا تو سردار سر جھٹک کر رہ گیا اور بولا۔۔

"شاید تم بھول رہے ہو ذیشان کے ماریا سے میری منگنی صرف بزنس ڈیل کے تحت ہوئی تھی ۔۔

اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کو تم اس معاملے میں مت ہی گھسیٹو تو اچھا ہے"

 اس میں سرد لہجے میں کہا تھا جیسے آگے کوئی اور بات نہ سننا چاہتا ہوں۔۔۔

" سردار تو مطلب تم اس کے بارے میں اور کوئی بات نہیں کرنا چاہتے میں بھی نہیں کروں گا۔۔۔

 لیکن بس چند دن چند میں,میں تم پر ثابت کر دوں گا کہ تم اس لڑکی کے لیے کتنے پوسیسیو ہو۔۔

 اور تم دیکھتے رہ جاؤ گے۔۔۔

ویسے آپس کی بات ہے میں ابھی عفاف کے ساتھ ڈنر پر جا رہا ہوں۔۔

 سوچا تمہیں بتاتا چلوں۔۔۔

اسنے دانتوں تلے لب دباتے شرارت سے ایک آنکھ میچتے کہا۔۔۔

" کیوں سردار تم مائنڈ تو نہیں کرو گے نہ"

 اس نے سردار کو چڑاتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔۔

 اس کا یوں جلن سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر ذیشان کو زندگی میں پہلی دفعہ مزا آ گیا تھا۔۔۔

 کیونکہ اس نے آج تک سردار کو پہلے اس حالت میں نہیں دیکھا تھا اور اب تو ایک بڑی کمزوری اس کے ہاتھ لگ چکی تھی۔۔

 جس سے وہ مستقبل میں فائدہ اٹھانے والا تھا۔۔۔۔

                *******

عفاف صبح سے آفس میں کام کر رہی تھی جب وہ تھوڑی دیر کے لئے آرام کرنے بیٹھی تو ذیشان اس کے کیبن میں داخل ہوا۔۔۔

" عفاف اگر تمہارا کام ہو گیا ہے تو جلدی سے آؤ ریسٹورنٹ چلیں وہاں بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیں گے اور بزنس کے بارے میں بات بھی کر لیں گے"

 ذیشان نے دونوں ہاتھ سے تالی بجاتے اسے جلدی کرنے کا اشارہ کیا جو اس کا منہ دیکھ رہی تھی۔۔۔

" سر معاف کیجئے گا میں نہیں جا سکتی ابھی تو میں نے مسٹر سردار سے بھی نہیں پوچھا"

 عفاف کو اس کے ساتھ جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا تبھی جواز پیش کیا۔۔۔

" اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں میں اس سے پہلے ہی پوچھ چکا ہوں۔۔

 اور یہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ بزنس ڈنر ہے جو ہماری کل کی ڈیل کے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔

جس سے تم بھی واقف ہو گی اس لیے ٹائم ویسٹ مت کرو اور چلو میرے ساتھ"

 اس کے سنجیدہ انداز میں کہنے پر عفاف بادل نخواستہ اس کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو گئی تھی اور اب کچھ ہی دیر میں وہ ایک اعلٰی ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔۔۔۔

 عفاف کا بھوک کے مارے برا حال تھا اس لیے جیسے ہی کھانا رکھا گیا وہ فٹافٹ کھانے لگی۔۔۔۔

 کچھ دیر بعد جب اسے احساس ہوا تو اس نے زیشان کی طرف دیکھا جو اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اس کے یوں دیکھنے پر وہ شرمندہ ہوئی۔۔۔

اور بال کان کے پیچھے اڑیستے ہوئے بولی۔۔۔

" آئی ایم سوری میں نے دوپہر کا کھانا کام کے چکر میں سکپ کر دیا تھا اس لیے مجھے بہت بھوک لگی تھی

 اس کی معصومیت نے ذیشان کو بھی قائل کیا تھا ابھی وہ باتیں کر رہے تھے کہ عفاف کے فون پر سردار کی کال آنے لگی۔۔۔۔

" "کیا بات ہے لڑکی ابھی مجھے تمہیں کھلا چھوڑے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی ہے اور تم دوسرے آدمی کے ساتھ ڈیٹنگ پر جانے لگی کیا کہنے ہیں تمہارے"۔۔۔

جیسے ہی اس نے فون اٹھایا سردار کا دل دکھا دینے والا جملہ اس کا دل چیر کے رکھ گیا تھا۔۔۔۔۔

 کیا وہ اس کو ایسی لڑکی سمجھتا تھا۔۔۔

"نہیں یہ سچ نہیں ہے میں زیشان سر کے ساتھ صرف بزنس ڈنر کے لیے آئی تھی میرا یقین کریں"

 اس نے فوراً اس کی بات پر نفی کی اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

"کسے پاگل بنا رہی ہو لڑکی زیشان آج تک کسی لڑکی کے ساتھ بزنس ڈنر پر نہیں گیا پھر تم میں ایسی کیا بات تھی بتاؤ گی مجھے"

اسکا چہرہ سفید پڑ رہا تھا۔۔۔

"میرا یقین کریں"

 جسے دیکھ کر ذیشان معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا تھا اس سنکی بندے سے کوئی بھی امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ کس جگہ کیا کر جائے کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔۔۔

" اچھا ایسی بات نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے میں تمہارا آفس میں انتظار کر رہا ہوں جتنی جلدی ہو سکے یہاں پہنچ جاؤ..

یہاں پر سرپرائز تمہارا منتظر ہے"

 اس کے لہجے میں کچھ تو تھا جو عفاف کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی لگی۔۔۔

 ذیشان نے جیسے ہی اس کا تاریک پڑتا چہرہ دیکھا تو اسے اس پر ترس بھی آیا اور وہ فورا اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔

"چلو عفاف نکلتے ہیں"

 وہ دونوں فوری طور پر وہاں سے آفس جانے کے لیے نکلے تھے جہاں سردار کا اگلا لائحہ عمل ان کا منتظر تھا۔۔۔۔

عفاف جلدی میں آفس کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی تھی جہاں سردار کی ٹانگ پر نہایت واحیات ڈریس پہنے ایک عورت اسے رجھانے کی کوشش کر رہی تھی جسے دیکھ کر عفاف کے قدم زنجیر ہوئے تھے۔۔۔

 تو کیا یہاں اس کی ذات کا تماشا بنانے کے لئے سردار نے اسے واپس بلایا تھا۔۔۔

 عفاف کے پیچھے ہی ذیشان بھی اندر داخل ہوا تھا اور اندر کا ماحول دیکھ کر دل چسپی سے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔

"بڑی جلدی نہیں آ گئی تم دیکھو تمہارے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لڑکیاں اگلے سیکنڈ میری باہوں میں گرنے کو تیار رہتی ہیں"

سردار نے اپنی گود میں بیٹھی شیلا کی لٹ کو انگلی پر لپیٹتے عفاف کو دیکھ کر کہا۔۔۔

جس پر وہ اپنے ہونٹ کچل کر رہ گئی۔۔۔

"ڈارلنگ جب تم نے مجھے یہاں بلایا ہے تو اسکی یہاں کیا ضرورت کیا یہ کوئی خاص ہے"

شیلا کے دلربا انداز میں پوچھنے پر سردار مسکرایا اور بولا۔۔۔

"نہیں یہ بھی تم جیسی ہے"

 جو بھی تھا وہ اس کا شوہر تھا اور اپنے شوہر سے ایسی نیچ حرکت کی امید وہ نہیں کرتی تھی جو اس کے ہوتے ہوئے باہر منہ ماری کر رہا تھا۔۔۔

"لگتا ہے سردار اب بھی نہیں بدلہ شاید میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہا تھا "

زیشان اپنے دل میں بولا۔۔۔

" سر اگر آپ کے پاس پہلے سے ہی لڑکی موجود تھی تو آپ نے مجھے کیوں بلایا۔۔۔ میرے خیال میں اب مجھے جانا چاہیے"۔۔۔۔

عفاف اس کے منہ پر غصے سے جواب پٹکتے واپس جانے کو مڑی تھی جب سردار نے اسے روکا۔۔۔۔

" یہاں آؤ میرے پاس اس نے شیلا کو سائیڈ ہٹاتے ہوئے اسے اپنی پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ جس پر وہ ضبط کے گھونٹ بھرتی اس کے قریب گئی۔۔۔

 جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچی سردار نے جھٹکے سے اسے اپنی ٹانگ پر بٹھا لیا۔۔۔

ان دو لوگوں کی موجودگی میں سردار کی اس حرکت پر اس کا دل وہ شرم سے زمین میں گڑ جائے۔۔۔

" چھوڑیں مجھے یہاں سے جانے دیں"

 عفاف نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا جب کہ سردار اس کے قریب ہوا تھا۔۔۔۔

 "تم یہاں سے جانے کا کیا لوگے یا تم بھی یہاں رک کر آگے کا کلائمکس دیکھنا چاہتے ہو کہ میں کیا کروں گا"

 سردار نے ذیشان پر طنز کرتے کہا تو وہ کھل کھلا کر ہنس دیا۔۔

" میں یہی رکوں گا اور دیکھوں گا کہ تم آگے کیا کرتے ہو۔۔

 مجھے دیکھنے میں اور بھی مزہ آئے گا "

اس نے بے باکی سے کہا تو سردار نے کندھے اچکا دیے جیسے کہہ رہا ہوں تمہاری مرضی...

 اتنی ذلت پر وہ رونے لگی تھی۔۔۔

 یہاں تک کہ اس کی ھچکیاں بندھ چکی تھیں۔

 وہ مسلسل سردار کو پیش قدمی سے روک رہی تھی جو اس کے ہاتھوں کو قابو کرتے اس کے قریب آنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔

"چاہے کچھ بھی ہو جائے اتنے لوگوں کے سامنے بےلباس ہونے سے بہتر میں باخوشی موت قبول کروں گی"

اسنے پیچھے نوکدار شیشے کی میز کو دیکھتے دل میں پختہ ارادہ کرتے خود سے کہا۔۔۔

 جیسے ہی سردار کے ہونٹ عفاف کو چھوتے عفاف نے اس کو پیچھے دھکا دیتے اپنا سر شیشے کے ٹیبل پر مارا تھا۔۔

 جس سے پل بھر میں اس کی پیشانی خون سے رنگتی چلی گئی تھی اور وہ ہوش کھونے لگی تھی۔۔۔

" عفاف عفاف آنکھیں کھولو یہ تم نے کیا کیا سردار نے اس کا منہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔۔

 اس کی تو جان جیسے لبوں پر آ گئی تھی۔۔۔

" میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو ایمبولینس کو کال کرو"

 وہ ذیشان کو دیکھتے ہوئے دھاڑا تھا جس پر ذیشان نے فورا ایمبولینس کو کال کی تھی لیکن سردار کی ابتر حالت دیکھ اسے معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔

اس نے تو بس مذاق میں کہہ دیا تھا کہ وہ یہاں رکنے والا ہے اور اس کی ایک بات نے اس لڑکی کو اپنی جان لینے پر مجبور کردیا تھا اسے اس کا اندازہ نہ تھا۔۔۔

" عفاف میری جان"

 سردار نے اس کے خون پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جبکہ وہ نیم بے ہوشی میں جاتے ہوئے صرف یہ کہہ رہی تھی...

"مجھے بے لباس مت کرو۔۔۔۔۔

میں اپنے عزت نہیں گنوانا چاہتی۔۔۔

 پلیز میرے ساتھ یہ مت کرو۔۔۔ وہ سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔"

 وہ روتے ہوئے بےہوشی کے عالم میں بھی ایک ہی بات بڑبڑا رہی تھی۔۔۔

جسے سن کر سردار کے دل کو ٹھیس پہنچی تھی۔۔۔

                          *****

اس وقت وہ عفاف کے سٹریچر کے قریب کھڑا تھا۔عفاف کے ماتھے پر پٹی بندھی تھی۔۔۔

"میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ تم کچھ ایسا کر گزرو گی"

سردار نے تاسف سے اسے دیکھتے سوچا۔۔۔

"پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ"

اسنے بےہوشی کے عالم میں سردار کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔

وہ جو وہاں سے جانے کا ارادہ رکھتا تھا وہیں کھڑا کشمکش میں اسے دیکھنے لگا آیا کہ وہیں رکے یا چلا جائے۔۔۔

ڈیڈھ گھنٹے بعد جب اسکی آنکھ کھلی تو سردار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دیکھ وہ چونک اٹھی۔۔۔

"سوری سر آج مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا"

جوں ہی اسے یاد آیا کے اسکے کیے کی سزا اسکے گھر والوں کو مل سکتی ہے اسنے فوراً معافی مانگنا مناسب سمجھا۔۔۔۔

"اگر آئندہ تم نے اس طرح کی کوئی بھی حرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا"

اسنے سرد لہجے میں کہتے اسکے پاس جگہ بنا کر بیٹھتے کہا تو اسنے فرمابربدار بچوں کی طرح سر ہلا دیا۔۔۔

"سر کیا میں آج ہوسٹل جا سکتی ہوں"

اسنے معصومیت سے کہا تو سردار نے انکار کرنا مناسب نہ سمجھا اور فقت سر ہلاتے اجازت دے دی۔۔۔

                        *******

جب وہ ہوسٹل گئی تو اسے پتا چلا کے اس کی یونیورسٹی ایک پارٹی میں خود کو ریپریزنٹ کر رہی ہے جس کی وجہ سے اسے بھی حریم کے ساتھ اس پارٹی میں جانا پڑا۔۔۔

 ایکوا بلیو کلر کی میکسی پہنے ہوئے وہ سمندر سے نکلی کوئی جل پری لگ رہی تھی۔۔۔۔

 جبکہ بال کمر پر کھلے چھوڑے تھے۔۔۔

"عفاف تم بہت پیاری لگ رہی بلکہ یہاں سبکی نظریں تم پر ٹک گئی ہیں دیکھو تو صحیح"

حریم نے اس پر فریختہ ہوتے کہا تو وہ شرما گئی۔۔۔

"تم بھی کسی سے کم نہیں لگ رہی باربی ڈال"

اسنے حریم کے گال کھنچتے کہا تو وہ گردن اکڑا کر بولی۔۔۔

"وہ تو ہے"

"اگر یہ دو پیاری دوشیزائیں برا نہ مانیں تو کیا میں آپ کو جوائن کر سکتا ہوں"

انکے پیچھے سے ایک اونچے لمبے خوبصورت نوجوان نے نکلتے پوچھا تو وہ ہڑبڑا گئیں۔۔۔

"بندہ ناچیز کو یلدرم کہتے ہیں"

اسنے ایک ہاتھ پیٹ پر رکھ کر نیم جھکتے اپنا تعارف کروایا۔۔۔

"کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھا"....

"نہیں ہم چلتے ہیں"

عفاف نے وہاں سے نکلنا چاہا تو وہ اسکے رستے میں حائل ہوا۔۔۔

"ارے ایسا تو مت کہو میں اکیلا بور ہو جاؤں گا"

اسنے منہ بصورتے کہا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔۔۔

"بھائی ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ابھی ہمیں بہرام شاہ کو بھی ڈھونڈنا ہے"

عفاف نے معازرت خوانہ انداز میں کہا۔۔۔

بھائی کہنے پر تو وہ جیسے تڑپ گیا تھا۔۔۔

"دل پر لگی ہے یہ بات"

اسنے دل پر ہاتھ رکھتے کراہنے کی ایکٹنگ کرتے کہا۔۔۔

"لیکن چلو اب تم نے مجھے بھائی بنا ہی لیا ہے تو میں تمہاری بہرام شاہ سے ملاقات کروا دوں گا کیونکہ وہ میرا دوست ہے"

اسنے بالوں میں ہاتھ پھر کہا تو وہ دونوں حیرت سے چونک گئیں۔۔۔

" کیا واقعی میں"

 عفاف نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

" چلو لڑکی وقت ضائع مت کرو ہمیں چلنا ہے"

 اس نے تیزی سے آگے بڑھتے کہا تو  دونوں اس کے پیچھے لپکی تھیں۔۔۔

 کچھ ہی دیر میں وہ دونوں بہرام شاہ کے سامنے بیٹھی تھیں۔۔۔

" آپ جانتے ہی ہونگے کہ سردار انڈسٹریز کے ساتھ ہماری ڈیل ہو چکی ہے۔

 انکے ساتھ کام کرنا ہمارے لیے بہت اچھا رہا اور اب ہم آپ کے ساتھ کام کرکے ایکسپیرینس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ ہماری یونیورسٹی کو ایک موقع دیں گے"

 عفاف نے نہایت عمدہ انداز میں اس کے آگے اپنی بات رکھی جس پر وہ اسے دیکھتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں مسکرایا اور بولا۔۔۔

" لڑکی تمہیں کیا لگتا ہے تم بولو گی کہ تم سردار کے ساتھ کام کر چکی ہو تو کیا میں مان لوں گا سردار وہ بھی ایک یونیورسٹی کے ساتھ کام کرے گا ایسا ناممکن ہے"

 اس نے سرد لہجے میں کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی جس پر عفاف کو بہت غصہ آیا۔۔۔

" سر اپنی بات کر چکے ہیں اگر آپ کو نہیں یقین تو ہم اس میں زیادہ انٹر فیر کرنا پسند نہیں کریں گے یہ آپ کی کوتاہی ہے کہ آپ نیو ٹیلنٹ سے محروم رہ جائیں گے "

اس نے بھی دو ٹوک الفاظ میں بات کی تھی جس پر اس کے پیچھے کھڑا بہرام شاہ کا بھائی عالیان شاہ اسے ایک آئی برو اچکا کر دیکھنے لگا جیسے اس کی ہمت کو داد دے رہا ہو۔۔۔

 اپنے تیسرے بھائی زیشان سے وہ اس لڑکی کے کارنامے تو سن ہی چکا تھا اور اب اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا تھا۔۔۔۔

 مگر اسے ابھی بھی یقین تھا کہ یہ لڑکی سردار کے ساتھ صرف پیسوں کے لئے ہے اور اس سے جانچنے کا وہ آج ایک عمدہ پلین بنا چکا تھا۔۔۔۔

 دیکھتے ہی دیکھتے وہاں افراتفری مچی تھی جہاں کیمرہ مین کے جھرمٹ میں سردار اپنی فیانسی ماریہ کے ساتھ بڑی شان سے چلتا ہوا آ رہا تھا دونوں ہی ایک دوسرے کو وہاں دیکھ کر ٹھٹکے تھے۔۔۔۔

" اب ہمیں چلنا چاہیے "

سردار کو دیکھتے وہ وہاں سے ایکسکیوز کرتی اٹھی تھی۔۔۔

کیونکہ سردار اپنے دوستوں کے پاس ہی بیٹھنے آ رہا تھا۔۔۔

جیسے ہی وہ وہاں سے گزرنے لگی۔۔۔

سردار فوراً اسکے آگے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔

"تم یہاں آنا چاہتی ہو کیا تم مجھے بتا نہیں سکتی تھی ویسے تمہیں یہاں دیکھ کر اچھا لگا"

سردار کے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کے کہنے پر اسنے ایک نظر اسکی طرف دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

"مسٹر سردار اچھا ہو گا کہ آپ اپنی فیانسی کو ٹائم دیں اور ویسے بھی میں یہاں کام کے سلسلے میں آئی ہوں اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم اپنا ریلیشن پرائویٹ رکھیں گے میں نہیں چاہتی ہمارا کاغزی رشتہ کسی کے سامنے عیاں ہو"

اسکے لہجے میں کانچ سے چبھن تھی۔۔۔

"ڈیئر سسٹر تم یہاں سے نہیں جا سکتی اب بہن کہا ہے تو تم یہیں بیٹھو ہمارے ساتھ"

یلدرم نے اسے وہاں ہی صوفے پر بٹھاتے کہا ۔۔۔۔

سردار جو کچھ کہنے کا ارادہ رکھتا تھا بس اسے ایک گھوری سے نواز کر واپس ماریہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔

"میں نے سنا ہے تم نے اسکی یونیورسٹی کے ساتھ کام شروع کیا ہے کیا یہ سچ ہے اور اگر ہے تو تم ایسے کسی کے بھی ساتھ کام کیسے کر سکتے ہو"

بہرام نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔

دکھنے دکھنے میں دونوں ایک دوسرے کے دشمن لگتے تھے مگر وہاں کھڑے وہ چار لوگ جگری دوست تھے جن سے کسی کا بھی کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا۔۔۔

"ہاں میں نے کام شروع کیا ہے اور مجھے میرے کام کے لیے کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو"

اسنے اپنے ازلی اکھڑ انداز میں کہا...

تو بہرام لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔

یہ رہا بہرام سر کا کارڈ میڈم جب ہمیں ضرورت ہوگی ہم ضرور آپ کو کانٹیکٹ کریں گے"

عالیان کے اشارہ کرنے پر سیکٹری نے بہرام انڈسٹریز کا کارڈ عفاف کو پکڑایا۔۔

ماریہ کب سے گھور گھور کر عفاف کو ہی دیکھ رہی تھی جسکی وجہ سے سردار اسے نظرانداز کیے صرف عفاف کو ہی دیکھتا جا رہا تھا۔۔۔

جو وہاں سب نوٹ کر رہے تھے۔۔۔۔

"عفاف مجھے ان سب کے درمیان اچھا نہیں لگ رہا کیا کریں ہم اب"

حریم نے عفاف کے کان پھسپھساتے کہا۔۔۔۔

"مجھے بھی اچھا نہیں لگ رہا"

عفاف نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔۔"آپ سب سے مل کر بہت اچھا لگا مگر اب ہمیں چلنا چاہیے"

عفاف جلدی جلدی میں کہتی حریم کا پکڑتے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

حریم چلو اب ہمیں واپس ہوسٹل چلنا چاہیے۔۔۔

ان دونوں نے باہر روڈ پر آتے ٹیکسی ڈھونڈتے کہا۔۔۔

"اہم اہم مجھے بھی آپ سے مل کر اچھا لگا عفاف میڈم مگر میں آپ سے کہنا چاہوں گا کہ میں آپ کو سردار سے زیادہ پیسے آفر کر سکتا ہوں کیا خیال ہے اسے چھوڑ دو اور میرے پاس آ جاؤ"

پیچھے سے عالیان شاہ نے آتے ہوئے کہا تو عفاف غصے سے اسکی بات ہر پلٹی اور اسے تھپڑ جھڑ دیا ۔۔۔

"چٹاخ"

"ہمت بھی کیسے کی مجھ سے اتنی گھٹیا بات کرنے کی میں کوئی بکاؤ مال نہیں جسے کوئی جب چاہے آ کر خرید لے مائنڈ اٹ مسٹر"

اسنے ایک ایک لفظ چباتے کہا تو وہ اسے دیکھ طنزیہ مسکرا دیا۔۔۔

تم نے مجھے تھپڑ مار کر بہت بڑی غلطی کر دی لڑکی اپنا مقصد تو میں حاصل کر کے رہوں گا By hook or crook..."

 اس نے گھبرا کر کہا تو عفاف سر جھٹک کر رہ گئی اور حریم کا ہاتھ پکڑتے تیزی سے کیب میں بیٹھ گئی...

" ہیلو ہاں ایک لڑکی کو کڈنیپ کرنا ہے جو یہاں ایکوا بلیو ڈریس میں تھی اور سر پر پٹی بندھی ہے۔ یہ لڑکی آج رات مجھے کروز پر چاہیے"

 اس نے سرد لہجے میں کہتے ہیی دوسری طرف کی بات سنے بغیر فون کاٹ دیا اور جاتی ہوئی کیب کو سلگتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔

                ********

 سردار جو اپنے گھر کے لئے نکل رہا تھا راستے میں حریم کو پریشان کھڑا دیکھ اسنے فوراً گاڑی رکوائی اور اتر کر اس کے پاس گیا۔۔۔

" تمہاری دوست کہاں ہے تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو"

 اس نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔

 سر مجھے یہاں اس مارکیٹ میں جانا تھا لیکن جیسے ہی میں واپس آئی تو عفاف یہاں نہیں تھی میں نے لوگوں سے بھی پوچھا مگر سب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کو یہاں نہیں دیکھا"۔۔

 اس نے پریشانی سے بے حال ہوتے کہا۔۔۔۔

  "کیا یہاں آنے سے پہلے تمہارا کسی نے راستہ روکا تھا"

 سردار نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔۔۔

" ہاں سر مجھے یاد آیا جب ہم واپس آ رہے تھے تو عالیان شاہ نے عفاف کو راستے میں روک کر نہایت برے القابات سے نوازا تھا۔۔۔۔

 جس پر عفاف نے اسے تھپڑ جھڑ دیا تھا میرا خیال ہے اس سب کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے وہی عفاف سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔۔۔

 اس نے اپنے آنسو صاف کرتے فورا سردار کو بتایا تھا جس نے لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر اپنے سیکریٹری کو فون کیا۔۔۔

" پانچ منٹ کے اندر میری بوٹ تیار کرو ہم عالیان شاہ کی کروز (شپ) پر جا رہے ہیں"

                *******

"آہہہ"

 عفاف کو جب ہوش آیا تو اس نے آپ کو اپنے آپ کو ایک عالیشان بیڈ پر پایا۔۔۔

جس کے چاروں اطراف لڑکے کھڑے ہوئے تھے۔۔

 جبکہ عالیان شاہ سامنے کروفر سے صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔

 اس کے انسٹرکشنز پر لڑکے کیمرا عفاف کی طرف کئے اس کی ویڈیو بنانے والے تھے۔۔۔

 عفاف کو لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اور عالیان شاہ اس سے کیسا کام لینا چاہتا ہے۔۔۔

" خبردار میرے قریب مت آنا ورنہ میں مار دوں گی"

 اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے شوپیس کو اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔

 اس کا دماغ تیزی سے کام کیا تھا اور اس نے سائیڈ سے شوپیس اٹھا کر سامنے سے اپنی طرف آتے ہوئے لڑکے کی طرف مارنے کا اشارہ کرتے کہا جو اسے دیکھ بے دھڑک آگے چلتا آ رہا تھا۔۔۔

""ہنہ لڑکی تمہارا کیا خیال ہے ہم تمہارے اس ایکٹنگ کے جال میں پھنس جائیں گے تو تمہاری خام خیالی ہے یہ۔۔۔۔

 کیونکہ پہلے سب ہی لڑکیاں ایسے کہتی ہیں اپنی بات سے مکرتی ہیں پھر مردوں کی دولت کے لالچ میں آکر ان سے جنسی تعلق بناتی ہیں۔۔۔۔

جیسا کہ تم نے سردار کے ساتھ کیا۔۔۔

 جب تم اس کے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتی ہو تو یہاں بھی کر سکتی ہو میری جان "

اس نے ترچھی نظروں سے عفاف کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

 جس کو اس کی یہ بات سنتے شدت سے غصہ چڑھا تھا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے قریب سرکتے ہوئے لڑکے کو سر میں شوپیس دے مارا تھا اور اسے دھکا دیتی باہر کو فرار ہو گئی تھی۔۔۔

" تف ہے تم سب پر ایک لڑکی نہ سنبھال سکے تم لوگ"

 عالیان نے عفاف کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہا۔۔۔

 عفاف جب باہر آئی تو خود کو ایک بڑی شپ میں دیکھ کر حیران ہوئی۔۔۔

 جس کے چاروں طرف گہرا نیلا سمندر تھا۔۔

 جس کی لہروں پر چاند کی روشنی نہایت پرسوز لگ رہی تھی۔۔۔

وہاں کی خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔۔۔

" کہاں جاؤں گی بچ کر ڈیئر اب تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ تم میری بات مان لو"

 عالیان نے اس کے پیچھے اتے کروفر سے کہا...

"نہیں نہیں میرے قریب مت آؤ ورنہ میں یہاں سے کود جاؤں گی"

 تمہارا کیا خیال ہے لڑکی تمہاری بات کو میں سج مان لوں گا بہت دیکھی ہیں تم جیسی۔۔۔

جو شروع میں تو اپنی بات پر اڑی رہتی ہیں مگر آخر میں ہاتھ پر مکھن کی طرح پھسل کر آتی ہیں"

 اس نے طنزیہ لہجے میں کہا کیونکہ اسے ابھی تک عفاف بری لڑکی ہی لگتی تھی۔۔۔

"تو پھر ایک بھی پیسہ لیے بغیر میری سردار سے جان چھڑا دو"

وہ چیخ کر بولی۔۔۔

تو عالیان اسے ایسی نظروں سے دیکھنا لگا جیسے کہ رہا ہو کسے پاگل بنا رہی ہو۔۔

" چاہے تم جو مرضی کہہ لو میں سردار کی تھی اور سردار کی ہی رہوں گی...

٠ تمہیں مرتے دم تک اپنے قریب نہیں آنے دوں گی چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جان سے ہی کیوں نہ جانا پڑے"

 عفاف نے شپ کی ریلنگ پر چڑھتے ہوئے کہا جہاں پر سمندر کی ٹھٹھرتی لہروں کے چھینٹے پڑ رہے تھے۔۔۔

 جنہوں نے عفاف کے جسم میں کپکپی طاری کر دی۔۔۔۔

 عفاف کی روتے ہوئے ہچکی بندھ گئی تھی۔۔۔

 عالیان قہقہ لگاتے ہوئے اس کے قریب آ رہا تھا۔۔۔

"میں نے کہا نہ دور رہو مجھ سے تم میری بات کیوں نہیں سنتے"

 اس نے روتے ہوئے چیخ کر کہا۔۔۔

کچھ بھی ہو جائے میں سردار کی عزت پر داغ نہیں لگنے دوں گی۔۔۔

 کیونکہ چاہے جیسے بھی حالات ہیں وہ ہے تو میرا شوہر ہی اور میں مرتے دم تک اس سے وفادار رہوں گی۔۔۔

اس نے دل میں خود سے کہا لیکن جب ان دونوں کے درمیان دو قدم کا فاصلہ رہ گیا تو عفاف نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔

 اس کے ذہن پر سردار کا چہرہ لہرایا تھا۔۔

اس نے فضا میں اپنے دونوں بازو وا کرتے لمحے میں پیچھے کو سمندر میں چھلانگ لگادی تھی ۔۔۔۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم ٹھنڈے یخ سمندر کی بے رحم لہروں میں تحلیل ہوتا چلا گیا۔۔۔

"عفاف"

عالیان چیخ کر کہتا ہوا فٹافٹ ریلنگ کے قریب آیا تھا۔۔

 جہاں سے اس نے اپنی آنکھوں سے عفاف کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔

اور اسے اب شدت سے اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ وہ عفاف کو غلط سمجھا تھا۔۔۔

وہ ایسی لڑکی تھی ہی نہیں مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔۔

"عفاف"

 وہ دوبارہ زور سے چلایا تھا مگر اب اس کا جواب دینے کو وہ ہی نہ بچی تھی۔۔۔

                         *****

اگلے منٹ ہی تیزی سے سردار کی بوٹ وہاں آ کر رکی تھی۔۔۔

"کہاں ہے وہ"

اسنے عالیان کو ریلنگ سے نیچے جھکے دیکھ سرد لہجے میں غرا کر پوچھا تھا۔۔۔

"وہ نیچے چھلانگ لگا چکی ہے"

سرادر کے چہرے پر ایسے تاثرات لگتا ہے وہ لڑکی اسکے لیے بہت اہم تھی یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ لڑکی کم از کم سردار کے ساتھ پیسوں کے لیے نہیں تھی"

اسنے دل میں سوچا۔۔۔

اسکے کہنے کی دیر تھی کہ سردار نے کوٹ اتار کر ہوا میں اچھالتے ٹھنڈے یخ سمندر میں چھلانگ لگائی تھی۔۔۔

"سرداااار"

عالیان اسے سمندر میں کودتے دیکھ چیخا۔۔۔۔

سردار کے پیچھے ہی اسکے سیکٹری حازم اور عالیان نے بھی چھلانگ لگائی تھی۔۔۔

پانی نہایت ٹھٹھرتا ہوا اور تاریک تھا جسمیں دیکھنا انتہائی مشکل تھا۔۔۔

جیسے ہی عفاف نے بند ہوتی آنکھوں سے سردار کو اپنی طرف تیر کر آتے دیکھا تھا تو اسنے اپنے ہاتھ اسکی طرف بڑھائے تھے۔۔۔

مگر وہ گہرائی میں ڈوبتی چلی گئی۔۔۔

عفاف کو گہرائی میں جاتے دیکھ سردار کے تیرنے میں تیزی آئی تھی اور وہ تیزی سے اس تک پہنچتے اسے اپنی باہوں میں بھرے جھٹکے سے باہر نکلا تھا اور اسے شپ پر لے جاتے لٹایا۔۔۔۔

اسنے اسکی کمر پر دباؤ ڈال پھر پیٹ پر لیکن اسکے منہ سے پانی نکلنے کے سوا کچھ نہیں ہوا یہاں تک کے سردار نے اسے ماوتھ ٹو ماوتھ رسپاریشن بھی دے ڈالی مگر عفاف ہوش آنا تھا نہ آیا۔۔۔

"اٹھو عفاف ابھی کے ابھی اٹھو"

اسنے عفاف کے بےجان وجود کو 

جھنجھوڑ تے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔

 کے شاید وہ اس کے غصے سے ڈر کر ہی اٹھ جائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔۔۔۔

" پلیز مرنا مت عفاف کیا تم مجھے سن سکتی ہو"

 سردار نے اس کے کان میں جھکتے ہوئے کہا۔۔۔

" جلدی سے شپ کو کنارے کی طرف لے کر چلو اور ایمبولینس کو کال کرو"

 سردار غصے سے حازم پر دھاڑا جو فوراً سے بیشتر وہاں سے غائب ہوا تھا۔۔۔

"مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا کہ میں اتنی بڑی غلطی کر سکتا ہوں۔ یہ لڑکی سردار کے کتنے قریب ہے یہ تو سرادر کی ابتر حالت سے ہی معلوم ہو رہا ہے۔۔۔

اور اگر اب یہ ہوش میں نہ آئی تو سردار یقیناً مجھے۔۔۔۔"

اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔۔

"میرا یقین کرو میں تمہیں زندگی کی طرف واپس لے آوں گا"

اسنے نم آنکھوں سے اسکے چہرے پر سے گیلے بال ہٹاتے کہا۔۔۔

"اور اگر میں ایسا کرنے میں ناکام رہا تو تمہارے ساتھ ساتھ ان سب کو بھی زندہ زمین میں گاڑ دوں گا"

اسنے اتنی شدت سے کہا کہ اسکی گردن کی شریانیں ابھرنے لگیں۔۔۔

اسکی بات کی سچائی سے وہاں کھڑا ہر شخص واقف تھا۔۔۔

"آہہہو آہہہو آہہہہو"

 عفاف ایک دم کھانسی تھی۔۔۔

 اسے یہ ہوش میں آتا دیکھ کر سردار فورا چونک اٹھا۔۔۔

" شکر ہے یہ بچ گئی"

 عالیان نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کے خدا کا شکر ادا کیا تھا...

 سردار نے فوراً اسے باہوں میں بھرتے گلے سے لگایا تھا اور عفاف اسکے گلے سے لگی یہ سوچ رہی تھی کہ۔۔۔

" کبھی سوچا نہیں تھا کہ اس شخص کا چہرہ دیکھ کر کبھی میں اتنا خوش محسوس کروں گی"

 یہ آخری سوچ تھی جو اس کے ذہن میں آئی اور اس کا سر سردار کے کندھے پر ڈھلک گیا۔۔

                           *****

" آپ کی رپورٹس نارمل ہیں کچھ فارمیلیٹیز کے بعد آپ گھر جا سکتی ہیں"

 ڈاکٹر نے سے چند ضروری نصیحت کرتے ہوئے کہا...

 کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر میں موجود تھی اس نے اس عرصے میں اپنے باپ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔

 مگر وہ ہمیشہ اسے ضروری کام کا کہ کر ٹال دیتے۔۔۔

 آج وہ ان سے مل کر انہیں اپنے تمام حالات سے واقف کرنا چاہتی تھی۔۔

 جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی اس کی سوتیلی بہن  اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔

" عفاف میں نے تمہیں بتایا تھا نہ میرا فون چوری ہو چکا ہے۔۔۔

تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے نیا فون لے کر دوں گی۔۔۔

 کیا تم لے آئی ہو اسکی بہن فوراً مطلب کی بات پر آئی۔۔۔

تو وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔

" نہیں میں نہیں لے پائی کام کی مصروفیت کی وجہ سے لیکن اگلی بار لے آؤں گی"

 اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

 اس وقت اس کا ذرا بھی دل نہیں تھا اپنی بہن کی شکل دیکھنے کا کیونکہ جو کام اس نے کیا تھا اس کے بعد وہ عفاف کے دل سے اتر کر رہ گئی تھی۔۔۔

جیسے ہی وہ کمرے میں آئی اس نے سردار کے پاس سے ملا ہوا اپنی بہن کا فون نکالا اور دراز میں رکھنے لگی جب اس کی بہن اندر آئی۔۔۔

" میرا فون تمہارے پاس کیا کر رہا ہے تمہاری اتنی ہمت کے تم نے میرا فون چوری کیا تم بالکل اپنی ماں کی طرح بد ذات ہو"

 اس کی بہن فریال نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔

" یہاں سے دفع ہو جاؤ میں تمہارا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی نکل جاؤ یہاں سے"

 وہ ایک دم غصے سے دھاڑی تھی۔۔۔

جبکہ فریال دانت پیستی رہ گئی تھی۔۔

" تم نے پہلے میرے باپ کا پیار مجھ سے چرایا اور اب میرا فون چوری کرکے تم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم ایک نہایت گری ہوئی لڑکی ہو"

اسکے دل میں بھرا زہر دھیرے دھیرے زبان پر آ رہا تھا جو عفاف کے دل کو بری طرح چیر رہا تھا۔۔۔

 وہ یہ کہتے ہوئے زور سے دروازہ بند کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

جب کہ وہ پیچھے بیڈ پر گرتی سوچ رہی تھی کہ اس نے فریال کو زیادہ پیار دے کر بگاڑ دیا ہے۔۔۔۔

 کچھ دیر بعد وہ نہا کر فریش ہوئی۔۔۔

جیسے ہی وہ واشروم سے باہر آکر بال سکھانے لگی۔ فون پر سردار کی کال نے اسے فون اٹاھنے پر مجبور کر دیا۔۔

" ہیلو"

" دو منٹ میں تم نیچے آ رہی ہو اگر تم دو منٹ میں نیچے نہیں آئی تو میں تیسرے منٹ میں تمہارے دروازے پر موجود ہوں گا۔۔۔

 اور پھر اپنے پاپا کو میرے بارے میں کیا کہنا ہے یہ تم خود بہتر جانتی ہو گی"

 اس کے کہنے کی دیر تھی کہ عفاف لمحے کی بھی تاخیر کے بغیر بھاگتے ہوئے گھر سے نکلی اور گاڑی میں جا کر بیٹھتے ہی دم لیا۔۔۔

" سر آپ یہاں"

 اس نے سانس بہال کرتے ہوئے کہا۔۔۔

" اگر میں کہوں کہ میں یہاں صرف تم سے ملنے آیا ہوں تو کیا تم میرا یقین کرو گی"

 اس نے عفاف کے قریب ہوتے اس کی ٹھوڑی کو اونچا کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔

 تو اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا بھلا وہ کہاں امید کرتی تھی کہ سردار گروپ آف انڈسٹریز کا مالک صرف اس سے ملنے کے گھر پر آئے گا۔۔۔

"آہہہ"

 سردار نے اسے اپنے پاس کھینچا تو اس کی ایک دم چیخ نکل گئی۔۔۔

" لگتا ہے تم ابھی ابھی شاور لے کر آئی ہو"

 سردار نے اس کی گردن میں منہ گھساتے اس کے نم بالوں کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا۔۔۔

 اس نے گہرا سانس بھرا اور پیچھے ہوئی

اس سے پہلے کہ عفاف کچھ بولتی سردار نے اس کے لبوں کو قفل لگایا تھا اور اس پر جھکتا ہی چلا گیا تھا۔۔۔

کچھ پر لطف اور حسین لمحے گزارنے کے بعد جب وہ پیچھے ہٹا تو وہ اس کے سینے سے سر ٹکا گئی۔۔۔

جہاں اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

عفاف نے دل میں سوچا کہ اگر وہ سردار کی تیز دھڑکن نہ سنتی تو جو اب یہ سب ہوا اسے وہ صرف وقت کی ضرورت سمجھتی جبکہ یہ خالص احساسات تھے۔۔۔

 "سر کل میری جان بچانے کے لئے شکریہ"

 عفاف نے وہیں سر رکھے کہا مگر جب کوئی جواب نہ ملا تو سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔

جہاں سردار سیٹ سے آنکھیں بند کرکے سر ٹکائے ہوئے بیٹھا تھا۔۔۔

 اسے لگا کے وہ سو گیا ہے لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کہ جب عفاف اس کے پاس ہو تو سر دار کا سونا ناممکن ہے۔۔۔

 اس کے بابا کی کال آنے لگی تو اس نے فورا کال پک کی۔۔۔

" جی بابا میں حریم کی طرف ہوں بس تھوڑی دیر تک گھر آ رہی ہوں"

 یہ کہتے ہی اس نے کال کاٹی اور سردار کی طرف دیکھتے ہوئے بولی...

"سر آپ پلیز مجھے اس سٹریٹ کے سائیڈ پر ہی اتار دیں اس سے آگے میں خود ہی چلی جاؤنگی۔۔۔۔

 اس نے اپنے گیلے بالوں کو سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔

"لڑکی کیا تم لوگوں پر ہمارا رشتہ واضح نہیں کرنا چاہتی۔۔۔

اس میں چھپانے والی کوئی چیز تو ہے نہیں..

ہم میاں بیوی ہیں۔۔۔

 ہم نے نکاح کیا ہے کوئی چوری نہیں۔۔۔

 تو پھر ڈرنا کیسا کیوں کیا کہتی ہو کیا آج رات میرے ساتھ گزارو گی"۔۔۔

 اس نے پھر سے عفاف کے قریب کھسکتے ہوئے۔۔۔

اس کے چہرے کو پیار سے چھوتے کہا تو وہ منہ بسورنے لگی۔۔۔

 سردار کا کوئی بھروسا نہیں تھا کہ کب کہاں کسی بھی وقت شروع ہو جائے۔۔

 اس کو منہ بسورتے دیکھ وہ پیچھے ہوا اور اپنے فون کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔

 مگر دل میں سوچا کہ۔۔۔

 جب بھی وہ اسے تنگ کرتا تھا اور اس کے تنگ کرنے پر جو عفاف کے چہرے پر چڑنے کے تیکھے سے مزے کے تاثرات آتے تھے۔۔۔۔

 وہ ایک دم پرائس لیس ہوتے تھے۔۔۔

جس کے لیے سردار ساری زندگی ایسا کرنے کو تیار تھا۔۔۔

"اللہ حافظ سر"

اسنے گاڑی سے باہر نکلتے کہا اور اسے جانے کا اشارہ کیا جسکا بلکل بھی دل نہیں تھا جانے کو۔۔۔

جب تک وہ چلا نہیں گیا عفاف وہیں کھڑی رہی۔۔

 اسے جاتا دیکھ وہ سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کب تک وہ سردار کے ساتھ زبردستی کے رشتے میں بندھی رہے گی۔۔۔

 اور کب وہ اپنی اصل زندگی کی طرف واپس آئے گی۔۔۔

 ایسا لگتا تھا تھوڑے سے وقت میں کتنا کچھ سہ لیا ہو اس نے۔۔۔

 ایسے جیسے کئی سال بیت گئے ہوں۔۔

 اس نے گہرا سانس بھرا اور پیچھے ہوئی

اور فروٹس سٹور سے اپنے بابا کے لیے کچھ فریش فروٹس خریدے۔۔۔

جیسے ہی وہ جانے کو پلٹی تو عالیان کو اپنے پیچھے دیکھ اسکے اوسان خطا ہوئے تھے۔۔۔

                   ***********

اور وہ ہڑبڑاہٹ کے مارے پیچھے ہوئی تھی جب ایک تیز رفتار گاڑی اس کے قریب آئی تو عالیان نے فوراً اسے کس کر پکڑتے سائڈ پر کھینچا۔۔۔۔

" اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کہیں اور جا کر مرو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کیوں مروانا چاہتی ہو"

 عالیان کے طنز کرنے پر عفاف نے اسے زور کا یچھے دھکا دیا۔۔

" جو تم نے کل میرے ساتھ کیا وہ کافی نہیں تھا جو یہاں بھی آ گئے ہو مجھے تنگ کرنے۔۔۔

 اب کیا چاہتے ہو تم مجھ سے"

 عفاف نے غصے سے کہا۔۔۔

" گھبراؤ مت بس میں یہ دیکھنے آیا تھا کہ تم ٹھیک ہو یا نہیں"

 اس نے نظریں دوسری طرف کرتے کہا

"میں ٹھیک ہوں اور مجھے تمہاری پرواہ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔

کوشش کرنا کہ میرے سامنے بھی مت آنا کیونکہ جو تم نے کل میرے ساتھ کیا ہے میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی"

 عفاف نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

 تو عالیان اس کے ہاتھ سے فروٹس کے شاپر لیتا آگے آگے چلنے لگا۔۔۔

" اگر تم چاہتے ہو کہ میں سردار کو چھوڑ دوں تو تمہیں اس کے لئے خود اس سے بات کرنی پڑے گی۔۔۔

میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی"

 عفاف نے اپنا دامن بچانا چاہا۔۔۔

" اور اگر تم سردار کو مجھ سے دور کر دو گے تو میں اس کے لیے تمہیں پیسے دینے کے لیے بھی تیار ہوں"

 جو بھی تھا وہ سردار کے ساتھ تذلیل بھری زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔

" کتنے پیسے دے سکتی ہو تم مجھے"

 عالیان نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا جیسے کہنا چاہ رہا ہو۔۔۔

 کیا واقعی مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔

" تم میری مدد کرنے کے لئے تیار ہو مگر کیوں تم تو سردار کے دوست ہو پھر میری مدد کیوں کرو گے "۔۔۔

عفاف نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

 کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ اور تم ایک ساتھ رہو۔۔۔

 بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ میں کسی بھی لڑکی کو سردار کے ساتھ نہیں رہنے دینا چاہتا۔۔۔

اور یہاں تو وہ تمہارے لیے حساس ہو رہا ہے جو نہایت ناقابلِ قبول ہے"

 اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

" یہ سردار کے لیے نہایت فکرمند ہے ۔۔۔

مگر ایسی فکر کے لڑکیوں کا دور کر دینا بھلا یہ کیسا پیار ہوا۔۔۔ کہیں یہ وہ تو نہیں"۔۔۔

 اس سے آگے عفاف سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔

اس نے جلدی سے اپنا سر جھٹکا۔۔۔

 اس کے گھر کے آگے پہنچ کر عالیان نے اسے فروٹس کے شاپر پکڑائے۔۔۔۔

یہ تو میرے گھر کا رستہ بھی جانتا ہے۔۔۔

عفاف نے دل میں سوچا۔۔۔۔

" جب تمہارا ذہن بنے تو مجھے بتانا میں تمھاری مدد کے لیے تیار رہوں گا یہ کہتے ہی وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔

                        *******

صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لیے باہر نکلی تو تھوڑی دور عالیان اپنی گاڑی میں بیٹھا اسکا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔

"آؤ بیٹھو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں"

اسنے عفاف کو یونی چھوڑنے کی افر کی۔۔۔

"نہیں شکریہ میں خود جا سکتی ہوں"

جیسے ہی وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوئی وہ بھی اسکے پیچھے وہیں چلا آیا۔۔۔

"کہاں تھی تم عفاف پتہ ہے میں کتنی پریشان ہو گئی تھی"

حریم نے یونی کے باہر عفاف کو جا گھیرا تھا۔۔۔

"سانس لو حریم میں ٹھیک ہوں "

اسنے حریم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔

"واہ یار اتنا چارمنگ لڑکا ہماری یونی میں کیا کر رہا ہے"

ایک لڑکی کی آواز پر حریم اس طرف متوجہ ہوئی۔۔۔

"تم تو اس دن والے عالیان شاہ ہو جسنے عفاف سے بدتمیزی کی تھی تم یہاں کیا کر رہے ہو"

حریم نے عفاف کے پیچھے عالیان کو آتے دیکھا تو کڑے تیوروں سے پوچھا۔۔۔

"اس پر مت برسو یہ اس دن میرے ساتھ تھی اور اسکے فون کی چارجنگ ڈیڈ تھی اس لیے تمہیں کال نہیں کر پائی۔۔۔

عالیان نے عفاف کی سائڈ لی۔۔۔

"کیا یہ شخص نہیں چاہتا تھا کہ عفاف اور سردار الگ ہو جائیں تو پھر یہ خود عفاف کے ساتھ کیوں ہے"

حریم نے دل میں سوچا۔۔۔

"اس دن مجھے لگا تھا کہ سردار اور عفاف ریلیشن شپ میں ہیں اس لیے میں تھوڑا پاگل ہو گیا تھا کیونکہ میں عفاف سے پیار کرتا ہوں تو مجھے برا لگا تھا"

عالیان نے سر کھجاتے کہا تو ان دونوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔

"کیا کہا تم نے"

حریم نے چیخ کر کہا۔۔۔

"مزاق کر رہا ہے وہ حریم"

عفاف نے عالیان کو گھوریوں سے نوازتے کہا۔۔۔

"اب تم جاؤ عالیان میرا پیچھا مت کرنا اب"

عفاف نے دانت پیستے کہا۔۔۔

"کیا تم میرے ساتھ ناشتہ نہیں کرو گی میں نے کل رات کا کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔

کیا تم جلدی میں۔۔۔

یا تم سردار کا انتظار کر رہی ہو۔۔۔"

عالیان نے معصومیت کی حدیں پھلانگتے کہا۔۔

"آو میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ "

عفاف نے دانت کچکچاتے کہا۔۔۔

"حریم کیا تب تک تم میری بکس لے آو گی"

"کیوں نہیں تم اس ہینڈسم لڑکے کے کو بھوکا مت رکھنا یار"

اسنے وہاں سے بھاگتے کہا تو وہ اسکو گھور کر رہ گئی۔۔۔

ناشتے سے واپسی پر عفاف سوچ رہی تھی کہ عالیان باقی امیروں جیسا نہیں ڈھابت کا کھانا بھی کتنے مزے سے کھا رہا تھا یہ۔۔۔

"میں تمہیں غلط سمجھا تھا پہلے اسلیے تمہارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا بدتمیزی کی میں تم سے دل سے معافی مانگتا ہوں پلیز مجھے معاف کر دو"

عالیان نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے اسکے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔

"اگر تمہیں لگے کہ سردار تمہیں تنگ کر رہا ہے تو میرے پاس آنا میں تمہاری مدد کروں گا"

اسنے خلوص سے کہا تو وہ اسے دیکھتے سوچنے لگی۔۔۔

"جب سردار اسے ٹارچر کرتا تھا تو کون تھا اسکے پاس جس سے وہ مدد مانگتی رونے کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

مگر اب عالیان اسے مدد کا کہ رہا تھا۔۔۔

کیا کرنا چاہیے تھا اسے۔۔۔

"تم میری مدد نہیں کر سکتے۔۔۔ویسے میں نے تمہیں دل سے معاف کیا لیکن اب میرے پیچھے مت آنا"

یہ کہتے وہ وہاں سے جا چکی تھی۔۔۔

"لیکن مجھے لگتا ہے ہم دوبارہ ضرور ملیں گے"

اسنے عفاف کی پشت کو دیکھتے سوچا۔۔۔

                     ********

جیسے ہی وہ یونی واپس آئی کسی نے اسے پکارا۔۔۔

عفاف تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔

اسنے پلٹ کر دیکھا تو شیلا نہایت چست پینٹ شرٹ میں وہاں کھڑی تھی جو اسکے جسم کو بلکل نمایاں کر رہی تھی۔۔۔

"او شٹ یہ بھی یہیں پڑھتی ہے کیا دنیا اتنی چھوٹی ہے"

 اسنے دل میں سوچا۔۔۔

"کیا ہوا"

اسنے پلٹ کر پوچھا۔۔۔

"کیا سردار سے تمہاری ناراضگی چل رہی ہے کیونکہ وہ آج کل صرف مجھے ہی اپنے گھر میں بلا رہا ہے۔۔۔

اگر تم کہتی ہو تو میں اسے تمہارے لیے کنونس کروں گی۔۔۔

کتنی بری بات ہے نہ وہ تمہیں اگنور کر رہا ہے۔۔۔

چچ چچ چچ چچ۔۔۔

اسنے اپنی لٹ کو انگلی پر لپیٹتے طنز کیا۔۔۔

"کوئی بات نہیں تم اسکی خدمت کر رہی ہو میرے لیے یہی کافی ہے"

یہ کہتے ہی وہ وہاں سے جانے کو پلٹی۔۔۔

مگر دل میں یہ بات سن کر کہیں اندر بہت درد ہوا تھا کہ اسکا شوہر غیر لڑکی کے ساتھ اپنی راتیں رنگین کرتا ہے۔۔۔

"یہ لڑکی ہے کیا چیز جو سر کہ اتنے قریب ہے ورنہ مجھے تو وہاں کی ملازمين کے ساتھ کام بھی کرنا پڑتا ہے"

اسکو یوں بےزار انداز میں وہاں سے جاتا دیکھ شیلا نے کڑھ کر سوچا۔۔۔

                          ******

آج وہ سردار کے آفس آئی تھی اور سیدھا فائنینس ڈیپارٹمینٹ گئی تھی۔۔۔

اب ذیشان اور عفاف آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔

حریم نے اسے بتایا تھا کہ ڈین کافی دفعہ ذیشان سے کام کے سلسلے میں ملنے آیا تھا مگر ذیشان نے اس سے ملنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔

صاف ظاہر تھا کہ وہ اسکی بجائے عفاف سے ملنا چاہتا تھا تبھی آج عفاف ڈین کے کہنے پر یہاں موجود تھی۔۔۔

"تو مسٹر ذیشان شاہ آج میں یہاں آپ سے ڈرافٹ پلین ڈسکس کرنے آئی ہوں "

عفاف نے اسکے آگے پیپرز رکھتے کہا۔۔۔

"تم مجھے مسٹر کی جگہ بھائی بھی کہ سکتی ہو بہنا"

ذیشان نے پیار سے کہا تو وہ چونک گئی۔۔

"ذیشان بھائی"۔۔۔

"ہمم ڈیٹس لائک آ گڈ گرل اب بتاؤ کیا تم میری سیکریٹری بننا چاہو گی میں تمہیں دو لاکھ سیلری آفر کر رہا ہوں اور یہ پارٹ ٹائم جاب ہو گی"

اسنے اطمنان سے کہا۔۔

"دو لاکھ "

عفاف کے منہ سے حیرت سے بس یہی نکلا۔۔۔

"مگر میں ہی کیوں"

اسنے حیرت پر قابو پاتے کہا۔۔۔

"کیونکہ تم ایماندار ہو اور باقی لڑکیوں کی طرح ڈیمانڈنگ نہیں اتنی تفصيلات کافی ہوں گی میرا خیال ہے۔۔۔۔

چلو چل کر چائے پیتے ہی"

اسنے عفاف کے سر پیار سے تھپکتے کہا تو وہ دونوں روم سے چائے پینے کے لیے باہر نکلے۔۔۔۔۔۔

جہاں ماریا سردار کے بازو میں بازو ڈالے آ رہی تھی۔۔۔

"تم کہاں جا رہے ہو ذیشان وہ بھی آفس آورز میں"

ماریا نے آئیبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔

"میں اپنی بہن کے ساتھ چائے پینے جا رہاں ہوں اور تم لوگ۔۔۔؟

"اوہ مجھے آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ سردار آ گیا

 اور پورا دن مجھے اپنے ساتھ ہی

 گھمانے لگا ایک منٹ کے لیے بھی نہیں چھوڑا اسنے مجھے۔

 اب ہمیں اجازت دو ہمیں ایک اور جگہ جانا ہے چلیں بےبی"

ماریا نے سردار کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لیجاتے کہا جبکہ سردار کے نظریں اتنی دیر عفاف کا ہی طواف کرتی رہیں۔۔۔

"کیا یہ لڑکی زرا بھی جیلس نہیں ہوئی سردار کو ماریا کے ساتھ دیکھ کر۔ بلکہ یہ تو خوش لگ رہی ہے۔

شاید یہ سردار کو پسند نہیں کرتی نہ ہی اسکے ساتھ رہنا چاہتی ہے"

اسنے عفاف کو دیکھتے ہوئے سوچا۔۔

جبکہ دوسری طرف عفاف یہ سوچ کے خوش تھی کہ سردار کو اب اسکی ضرورت نہیں اسکا دل دوسری لڑکیوں کی طرف لگ چکا تھا۔۔۔

کم از کم وہ اس کے بہانے زہنی اور جسمانی عزیت سے تو بچ گئی تھی نہ۔۔۔

"میں نے سوچ لیا ہے ذیشان بھائی کہ میں آپ کی ایسسٹنٹ کے طور پر کام کروں گی"

اسنے ذیشان سے جاتے ہوئے کہا۔۔۔

جیسے ہی وہ واپس جانے لگی اسکا فون رنگ ہوا۔۔۔

"ابھی کہ ابھی آفس آو"

سردار کی سردار آواز سپیکر سے ابھری۔۔۔

"کیا آپ ماریا کے ساتھ باہر نہیں گئے"

اسنے پریشانی سے کہا۔۔۔

"میں واپس آ گیا ہوں اگر اگلے دو منٹ میں تم یہاں نہیں پہنچی تو میں تمہاری یونی پہنچ جاؤں گا"

سردار نے کہتے کال کاٹی۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ اسکے سامنے موجود تھی۔۔۔

"ادھر آو"

سردار نے گلاس وال کے پاس کھڑے ہوتے کہا جہاں سے سمندر صاف دکھ رہا تھا۔۔۔

وہ جب اسکے پاس آئی تو سردار نے اسکے گرد بازوؤں کا گھیرا باندھا۔۔۔

"کیا تم وہاں جانا چاہو گی"....

                            ****

"کتنا خوبصورت آئےلینڈ ہے کاش میں وہاں جا سکتی"

عفاف نے دل میں سوچا۔۔۔

ہاں میں وہاں جانا چاہوں گی۔۔۔

"ٹھیک ہے ہم وہاں ضرور چلیں گے جہاں ہمیں کوئی ڈسٹرب نہیں کر پائے گا۔۔۔۔"

اسنے عفاف کے گال کو پیار سے چھو کر کہا۔۔۔

"سر آپ واپس کیوں آ گئے "

اس نے مڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔

" کیونکہ میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا اس لئے میں واپس آگیا"

" کیوں کیا ہوا کیا تم مجھے دیکھنا نہیں چاہتی تھی"

 سردار نے ایک ہاتھ گلاس وال پر رکھے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔۔

" ایسی بات نہیں ہے سر ۔۔۔آپ کو یاد ہے نا اس دن  بہرام شاہ نے ڈیل کینسل کر دی تھی"

 عفاف نے بات بدلتے ہوئے کہا تو سردار کرسی کھسکا کر اس پر بیٹھا اور اس کا ہاتھ جھٹکے سے کھینچتے ہوئے اسے اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔

" سر پلیز ایسا مت کریں"

 عفاف نے اس کی منت کی۔۔۔

" میں کام سے ہو کر آیا ہوں اور بہت تھک گیا ہوں میرے گندھے دبا دو"

 سردار نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔۔۔

 "سر وہ بہرام شاہ"

 اس نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

" اس لڑکی کے دل کا حال بہت جلد اس کے چہرے پر عیاں ہوجاتا ہے "

                         *****

 تم جو بھی سوچ رہی ہو وہ چھوڑو بس اتنا یاد رکھو کہ جب تک تم میری بات مانتی رہو گی تو میں تمہیں بری طرح ٹریٹ نہیں کروں گا"

 سردار نے اسے اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا۔۔

" آپ فکر مت کریں سر میں آپ کی کوئی بات نہیں ٹالوں گی"۔۔۔۔

" تو پھر مجھے خوش کرو"

اسنے بےباک لہجے میں کہا۔۔۔

 اتنا کہتے ہی وہ اس پر جھک گیا اور اپنی من مانی کرنے لگا عفاف نے اسے لاکھ روکنا چاہا پر وہ نہ روکا۔۔۔

 تھوڑی ہی دیر میں اس نے عفاف کی کافی بری حالت کر دی تھی۔۔۔

" سر اب کیا میں جاؤں"

 اس نے دروازے کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا جو کہ بند تھا...

 اس سے پہلے کے وہ باہر نکلتی دروازہ ایک دم اچانک کھلا تھا اور ثمرین اور ماریا اندر آئی تھیں۔۔۔

 دروازہ کھل کر  عفاف کے ماتھے پر جا لگا تھا اور اسے بری طرح چوٹ آئی تھی۔۔

 اسے چوٹ لگتے دیکھ سردار اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس کے پاس پہنچا۔۔۔۔

وہ اس کے پاس پہنچا اور اس کا چہرہ پکڑ کر دیکھا۔۔

"  ہلو مت"

سردار نے اسے ہلتے دیکھ کہا۔۔۔

"آؤچ درد ہو رہا ہے"

 حیرت کی بات ہے کہ سردار ایک لڑکی پر ترس کھا رہا ہے ثمرین نے دل میں سوچا۔۔۔

" باس یہ لڑکی کون ہے۔ 

ایسی لڑکیاں فلرٹنگ کے لیے تو ٹھیک رہتی ہیں مگر انہیں آفس لانا ٹھیک نہیں۔

ماریا کب سے آپ کا باہر انتظار کر رہی تھی آپ نے اسے اندر بھی نہیں آنے دیا۔۔"

 ثمرین نے غصے سے کہا۔۔۔

" یہ تمہارا مسئلہ نہیں کیا چاہیے تمہیں"

" آفکورس میں یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ ماریہ سے شادی کر لیں آخر وہ پچیس کی ہو گئی ہے"

 ثمرین نے جتاتے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔

"میں نے آخر کب کہا کہ میں اس سے شادی کروں گا"

 سردار نے انجان لہجے میں کہا "وہ اتنے سالوں سے آپ کے ساتھ ہے۔ آپ اس کے ساتھ اتنا سرد رویہ کیسے رکھ سکتے ہیں آخر۔۔۔

ثمرین غصے سے چلائی۔۔۔

" ثمرین زیادہ مت بولو ابھی تو میرے کیریئر کا سٹارٹ ہے آخر میں اتنی جلدی شادی کیسے کر سکتی ہوں ماریا نے اپنی شرمندگی مٹاتے ہوئے کہا۔۔۔

 اگر تم شادی کرنا بھی چاہتی ہو تو مجھے شک ہے کیا تمہیں میرے جیسا ہی لڑکا چاہیے"

 سردار نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

" ماریا پھر تم ڈر کیوں رہی ہو بس آپ مجھے ایک بات بتائیں کیا آپ اپنے باپ سے ڈر رہے ہیں"

 ثمرین نے پوچھا۔۔

 "شٹ آپ اپنی بکواس بند کرو ورنہ میں گارڈ کو کہہ کے تمہیں دھکے مار کر نکلوا دوں گا"

 سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔

"او نو یہ تو بہت غصے میں لگ رہے ہیں"

  عفاف نے دل میں سوچا۔۔۔

" کیا تم میری بیوی بننا چاہتی ہو...

 کیا تم جانتی ہو میری بیوی بننے کے لیے تمہیں کیسا بننا پڑے گا"۔۔۔

 سردار نے ماریہ کو دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔

" چلو لڑکی انہیں دکھائیں سردار"

نے عفاف کو اپنی گود میں اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔

" نہیں مجھے کچھ نہیں دکھانا چھوڑا مجھے یہاں سے جانے دو"

 عفاف نے چیختے ہوئے اس کے کندھے پر مکے برساتے ہوئے کہا مگر سردار کو کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔

 عفاف کو اٹھاتے آفس سے ملحقہ  کمرے میں لے کے آیا اور بیڈ پر جا کر پٹخا۔۔۔

" یہ مسئلہ تو ان دونوں کے درمیان ہے بھلا اس کا مجھ سے کیا لینا دینا۔۔۔

 میں نے تو کچھ غلط بھی نہیں کیا تو پھر میں کیوں یہ سب برداشت کروں عفاف نے اپنے دل میں کہا۔۔۔

 سردار نے جب اس کے کپڑے پھاڑ دیئے تو وہ چیخ اٹھی تھی کیونکہ سردار درندہ بن اٹھا تھا۔۔۔۔۔

"آہہہ ذلیل انسان دور ہٹو مجھ سے"

                     ****

"پلیز نہیں ایسا مت کرو"

"آہہہہ آہہہہ"

عفاف کے رونے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھیں۔۔۔

"خدارا رحم کرو مجھ پر بہ بہت د د درد ہ ہو رہ رہا ہے مجھےےےے"

ہچکیوں کے درمیان بولتی وہ اس ظالم کے رحم و کرم پر تھی جو شاید رحم لفظ تک سے واقف نہ تھا۔۔

"مجھے چھ چھوڑ دو پلیز آہہہ آہہ آاااا"

اسکا رونا اور دلخراش چیخیں باہر کھڑی ماریہ اور ثمرین کا دل چیر رہی تھیں۔۔۔

"سردار تمہیں اس لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا"

اسنے بےجان ٹانگوں سے فرش پر بیٹھتے کہا کتنا سفاک تھا وہ۔۔۔

کچھ دیر بعد آوازیں آنا بند ہو گئیں تھیں جیسے گہرا سکوت چھا گیا ہو یا شاید کوئی انہونی ہونے کو ہو۔۔۔

عفاف بےہوش ہو چکی تھی جبکہ سردار اپنے کپڑے پہنا باہر آیا اور ماریہ کو فرش پر بیٹھے دیکھ اس طرف آیا۔۔۔

"فرش ٹھنڈا ہے تم نیچے کیوں بیٹھی ہو اٹھ جاؤ"

سردار نے اسے نرمی سے کہا۔۔۔

"میں نے سردار کو کبھی ایسا نہیں دیکھا"

اسنے دل میں سوچا۔۔۔

"کیا وہ لڑکی ٹھیک ہے "

ماریہ نے فکرمندی سے کہا۔۔۔

"تم اسے چھوڑو ماریا اور سردار کے ساتھ جاؤ ان جیسی لڑکیوں کا تو کام ہی یہی ہوتا ہے"

ثمرین نے بےرحمی سے کہا۔۔۔

"سردار ہمیں بھوک لگی ہے کیا تم ہمارے ساتھ ڈنر کرو گے"

ثمرین نے پوچھا۔۔۔

"ہاں"

                           *****

جب اسے ہوش آیا تو شام کے سات بج گئے تھے۔وہ تقریباً چار گھنٹوں سے بےہوش تھی۔۔۔

وہ شکستہ قدموں وہاں سے نکل آئی تھی اور اب فوٹ پاتھ پر چلتی سوچ رہی تھی۔۔۔

"آخر یہ دوسو راتیں کب ختم ہوں گی مجھ میں اس سوادگر اس جیسے سنگدل اور سفاک شخص کو برداشت کرنے کی زرا بھی سکت نہیں اور نہ ہی میں اب ایک لمحی بھی اسکا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔"

اسنے خود سے کہا ابھی وہ انہیں خیالوں 

میں تھی کہ عالیان نے اس کے پاس گاڑی روکتے ہارن دیا تو وہ چونک گئی۔۔۔

" تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔

 کس نے تمہیں تنگ کیا ہے کیا ہوا ہے"

 عالیان نے اس کی گردن پر نشان دیکھتے پریشانی سے پوچھا اور باہر آیا۔۔۔

" کیا یہ سردار نے کیا ہے تمہارے ساتھ"

 اس نے غصے سے کہا۔۔۔

" نہیں. مجھے اپنے ہوسٹل واپس جانا ہے میں چلتی ہوں"

اسکو یہ سب بتانا ٹھیک نہیں عفاف نے دل میں سوچا۔۔۔

 عفاف نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور ناک کی سیدھ میں چلنے لگی۔۔۔

" سردار نے میرا کردار میری شخصیت مکمل طور پر مسخ کر کے رکھ دی ہے ۔۔۔

یہاں تک کہ جو شخص کل تک میری جان لینے کے در پر تھا وہ بھی آج مجھے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے"

 اس نے خون کے آنسو روتے ہوئے سوچا۔۔۔

" تم بہت اداس لگ رہی ہو چلو میں تمہیں ایک جگہ پر لے کر چلتا ہوں وہاں تم اچھا محسوس کرو گی"

 اس نے نرمی سے کہا تو عفاف اس کے خلوص کو رد نہیں کر پائی تھی۔۔۔

" اسے اچھے سے ریسٹورینٹ میں لے کر آیا تھا جہاں انہوں نے سیکھ کباب کھائے تھے۔۔۔

"سسسس آہہہ"

مرچی سے عالیاں کے گال اور ناک لال ہو گئی تھی جبکہ آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔

" جب تم سے کھایا نہیں جا رہا تو کیوں کھا رہے ہو تم"

عفاف نے نا سمجھی سے پوچھا جس پر وہ ہنس دیا تھا۔۔۔

جیسے کی وہ شکلیں بنا رہا تھا عفاف کو اسے دیکھ دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔۔۔

کچھ دیر کے لیے ہی صحیح وہ سردار کو بھول گئی تھی۔۔۔

" تم مجھے ایسے کیا دیکھ رہی ہوں لڑکی کیا اب تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ میں سردار سے زیادہ ہینڈسم ہوں"

 اس نے ہنستے ہوئے کہا تو عفاف کی ہنسی اڑن چھو ہوئی۔۔۔

"سردار کے اتنے کراہیت آمیز رویے کے بعد عالیان کی ہمدردی اسکے دل پر مرہم کی طرح لگ رہی تھی"

وہ نہایت اچھا دوست ثابت ہوا تھا۔۔۔

 اس کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی تھی یہاں تک کہ اسے بری طرح کھانسی شروع ہو گئی تو عفاف اسے لئے ہوٹل سے باہر نکلی۔۔۔

وہ ہاسپٹل اور اپنے گھر دونوں جگہ جانے پر ہی رضہ مند نہ تھا۔۔

آخر کار ڈرائيور نے انہیں عالیان کے عالیشان آپارٹمینٹ میں پہنچا دیا۔۔۔

اسنے ڈرائيور کے ساتھ مل کر اسے لٹایا جو تھوڑی ہی دیر میں بخار سے تپ رہا تھا۔۔

اسنے فوراً ڈرائيور کو میڈیسن لینے بھیجا اور اسکے بھائی بہرام شاہ کو کال ملا کر صورتِ حال سے آگاہ کیا۔۔۔

"فلحال تم اسکے ساتھ رہو جب تک ہم نہیں آ جاتے۔۔۔

ویسے میں نہیں جانتا تھا کہ عالیان کسی لڑکی کے ساتھ آپارٹمنٹ جانے پر رضہ مند ہو سکتا ہے"

بہرام شاہ نے ناسمجھی سے کہا۔۔۔"

آپ ہمارے رشتے کو غلط سمجھ رہے ہیں ۔ آپ پلیز یہاں آ جائیں تاکہ میں یہاں سے جا سکوں"

اسنے دو ٹوک لہجے میں کہتے کال کاٹی۔۔۔

وہ اسکے سرہانے بیٹھے یہ سوچ رہی تھی کہ اگر سردار کو ماریہ کی اتنی ہی فکر ہے تو اسے دکھ پہنچانے کے لیے وہ مجھ سے کیوں کھیل رہا ہے آخر کیوں"

اسنے مٹھیاں بھینچتے سوچا۔۔۔

                            ****

وہ عالیان کے لیے پانی لینے گئی تھی۔۔

جب وہ واپس آئی تو وہ کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

"یہ تم کیا کر رہے ہو"

عفاف نے اسکے پاس بھاگ کر آتے ہوئے کہا۔۔۔

لیکن اسکے پاس آنے سے پہلے ہی وہ بےہوش ہو کر نیچے گر پڑا تھا۔۔۔

عفاف بغیر تاخیر کیے اسے ہاسپٹل لے گئی تھی۔۔۔

عالیان کے پیرینٹس بھی وہاں آ چکے تھے۔۔۔

"کیسے ہے میرا بھائی"

بہرام شاہ نے اندر آتے کہا۔۔۔

"اب ٹھیک ہے بس فوڈ پوائزننگ ہو گئی تھی"

عفاف نے جواب دیا تھا۔۔۔

"تو تم ہو وہ لڑکی جو عالیان کے ساتھ تھی کل"

بہرام نے اسکی گردن پر نشان دیکھتے کہا تو عفاف نے فوراً دپٹے سے کور کی تھی گردن۔۔۔

"نہیں آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں وہ بس میرا دوست ہے اسکے پاس کوئی تھا نہیں اسلیے میں رک گئی اب آپ آ گئے ہیں تو میں چلتی ہوں"

عفاف نے وہاں سے دامن بچا کر نکلنا چاہا۔۔۔

                         ******

"تم یہیں رک جاؤ صبح تک پلیز۔ وہ اٹھے گا تو اسے اچھا لگے گا"

بہرام شاہ نے پہلی دفعہ اس سے نرمی سے بات کی تھی۔۔

"ہاں بیٹا پلیز رک جاؤ مجھے اور بہرام کو کہیں جانا ہے اس طرح تمہاری آنٹی اکیلی رہ جائیں گی"

عالیان کے بابا نے پیار سے کہا تو وہ رد نہ کر پائی۔۔۔

"ٹھیک ہے"

اسہی طرح وہ فجر تک جاگتی رہی اور نماز ادا کرنے کے بعد عالیان کی والدہ کے اسرار پر کچھ دیر کی لیے وہیں بیٹھی بیٹھی سو گئی۔۔۔۔

                       *******

"مجھے گھر جانا ہے آپ سمجھ کیوں نہیں رہے"

عالیان بےزارگی سے بولا۔۔۔

تو اس کی آواز پر عفاف کی آنکھ کھلی۔۔۔

" عفاف تم ہی سمجھاو نہ اسے یہ جانے کی ضد کر رہا ہے"

 عالیان کی ماں نے عفاف کو کہا۔۔۔

" عفاف تم ابھی تک یہاں ہو علیان نے خوشی سے کہا۔۔۔

" ہاں بیٹا عفاف کل رات کی یہاں ہی ہے میرے ساتھ میرے ہی اصرار کرنے پر تھوڑی دیر پہلے ہی وہ سوئی تھی"

 عالیان کی ماں نے عالیان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

" عالیان تمہاری ماما صحیح کہہ رہی ہیں تمہارا ابھی گھر جانا ٹھیک نہیں ہے"

عفاف نے عالیان کی ماں کی اسرار بھری نظریں دیکھتے اسے قائل کرنا چاہا۔۔۔

" ٹھیک ہے مگر کیا تم بھی میرے ساتھ دو دن یہاں رکو گی"

 عالیان نے دلچسپی سے پوچھا۔۔۔

"ٹھک"

 اس سے پہلے کہ وہ اسے منع کرتی کسی نے ٹیبل پر زور سے گلاس پٹخا۔

 جب اس نے پیچھے دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ سردار, یلدرم اور ذیشان, وہاں پیچھے کرسیوں پر پتہ نہیں کب سے موجود تھے۔۔۔

" او نو یہ یہاں کیا کر رہا ہے"

 عفاف نے سردار کو دیکھتے ہوئے دل میں کہا۔۔۔

عالیان کی والدہ باہر چلی گئی تھیں۔۔۔

" بتاؤ نہ عفاف۔۔۔

 تم پیچھے کیا دیکھ رہی ہو کیا سردار کو دیکھ کر تم مجھے بھول گئی ہو"۔

 عالیان نے سردار کو چڑاتے ہوئے عفاف سے کہا۔۔۔

" تم بتاؤ سردار کتنے پیسے دینے ہیں عفاف نے تمہارے وہ میں تمہیں دے دوں گا مگر عفاف کا پیچھا چھوڑ دو"۔۔۔۔

 عالیان کے سنجیدہ لہجے میں کہنے پر سردار تمسخرانہ انداز میں مسکرایا اور بولا۔۔۔

" کیا واقعی لٹل تھنگ تم بتانا پسند کرو گی کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہوں یا عالیان کے"

 سردار نے شدت پسند لہجے میں کہا۔۔

جیسے جانتا ہو کہ عفاف اسے انکار کر ہی نہیں سکتی۔۔۔

 مگر عفاف نے سرے سے ہی اس کی بات کو اگنور کر دیا اور عالیان کے پاس کھڑی رہی۔۔۔

کل کے ہتک آمیز لہجے کے بعد سے تو وہ سردار کی شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں تھی کجا کہ اسکی بات مانتی۔۔۔

"یہ تو سردار کی پسند ہے پھر تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہے"

یلدرم نے کنفیوز ہوتے کہا۔۔۔

"میرا بھی یہی سوال ہے"

ذیشان نے بھی بیچ میں حصہ ڈالا۔۔۔

اور سردار کا چہرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرخ پڑتا جا رہا تھا۔۔۔

"عفاف شاید تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا۔۔۔"

سردار کے سرد لہجے میں کہنے پر وہاں موجود ہر شخص کے جسم میں سرد کپکپی بھری لہر دوڑ پڑی۔۔۔

کیونکہ جتنا سردار کا لہجہ سفاک تھا اس سے سبھی واقف تھے کیونکہ جب بھی وہ ایسے بولتا آگے والے کی خیر نہیں ہوتی تھی۔۔۔

"میں تمہیں پانی ڈال کر دیتی ہوں عالیان"

 اس نے ایک دفعہ پھر سردار کی بات کو نظر انداز کیا تھا اور یہاں سردار سے برداشت نہ ہوا.....

 وہ اٹھا تھا اور دروازہ دھڑام سے بند کرتے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔

" واقعی لڑکی تم میں کچھ تو بات ہے ماننا پڑے گا جس نے سردار کو ناکوں چنے چبوا دیے"

 ذیشان نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" بالکل آج تک جو سردار کے ساتھ کوئی نہیں کر سکا وہ تم نے کر دیا۔۔۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ سردار نے برداشت بھی کر لیا ورنہ اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا۔۔۔۔

 تو وہ اس وقت زمین کے اوپر نہ ہوتا بلکہ کئی فٹ نیچے ہوتا"

 یلدرم نے ایک آئی برو اچکا کر عفاف کو قابلِ تحسین لہجے میں کہا۔۔۔

 جبکہ عفاف یہ سوچ رہی تھی کہ اب سردار اس پر غصہ کس انداز میں نکالے گا۔۔۔۔

               ********

اسکے جاتے ہی عفاف کے فون پر اسکی کال آئی تھی مگر اسنے پھر ہمت کا مظاہرہ کرتے اسکی کال نہیں سنی تھی۔۔۔

دوسری طرف کافی دن گزر جانے کے بعد عالیان اسکے سامنے شادی کا پرپوزل رکھ چکا تھا۔۔۔۔

جسکا جواب اسنے کچھ یوں دیا تھا۔۔۔

"عالیان میرے لیے ایک تجربہ کافی ہے میں اب کسی سے بھی کوئی ایسا رشتہ نہیں بنانا چاہتی نہ ابھی نہ کبھی اور آئندہ ایسی بات مت کرنا ورنہ مجھے لگے گا کہ میں نے اپنا دوست بھی کھو دیا"

عفاف نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔۔

"اہہم ٹھیک ہے عفاف میں تمہارے جواب کی قدر کرتا ہوں اب میں تم سے اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن جب زندگی کے کسی موڑ پر ایسا لگے کہ تم تنہا ہو تو میرا ہاتھ تھام لینا۔۔۔۔

کیونکہ میں یہیں رہوں گا ہمیشہ تمہارے پاس ,تمہارے ساتھ ,تمہارے لیے۔۔۔

جب تم کہو۔۔۔

اس ناچیز کو یاد کر لینا۔۔۔

لیکن ایک اور بات بےشک تم مجھے ریجیکٹ کر چکی ہو لیکن سردار کو میں تمہارے پیسے لوٹا دوں گا تم اسکے لیے منع نہیں کرو گی وعدہ کرو"

اسنے لاکھ منع کرنا چاہا مگر عالیان نہیں مانا۔۔۔

                      ********

وہ اسے ہوسٹل کے اندر جاتا دیکھ رہا تھا جیسے ہی وہ ہوسٹل سے باہر نکلا سردار گاڑی سے ٹیک لگائے اسے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

"کیا میں سمجھوں کہ تمہارا دل اپنے بھائی جیسے دوست کی لڑکی پر آ گیا ہے"

عالیان سردار کی بات سنتا وہیں آ کر رک گیا۔۔۔

"سردار جلد یا بدیر وہ لڑکی تمہیں چھوڑ دے گی اسکے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں"

عالیان نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔

"ہنہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اب مجھے اپنے فیصلے دوسروں کی مرضی سے کرنے ہوں گے"

اسنے تمسخرانہ انداز میں کہا۔۔۔

"وہ بھی یہی چاہتی ہے اور زیادہ دیر میں اسے تمہارے ساتھ رہنے نہیں دوں گا"

عالیان کے ٹیڑھے انداز میں کہنے پر وہ مسکرایا۔۔۔

جیسے گیم جیت لینے کے بعد کی مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔

"اور ایسا کیوں کرو گے تم"

اسنے آئیبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔

"اس سے پہلے کے تمہارے انکل عفاف سے چھٹکارا حاصل کریں میں تمہیں اس سے چھٹکارا دلوانا چاہتا ہوں تا کہ تمہیں وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔۔

لڑکیاں تو تمہاری زندگی میں اور بھی آ جائیں گی مگر تم انکل سے اپنا رشتہ مت خراب کرو عفاف کے لیے اسے میں سمبھال لوں گا"

اس کی بات پر سردار کا گاڑی پر پڑا فون بلنک ہوا۔ 

جیسے ہی عالیان نے فون کی سکرین دیکھی تو عفاف کی کال ملی ہوئی تھی۔۔۔

 ٹائم ڈیوریشن سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ عفاف ان کی سب باتیں سن چکی ہے۔۔۔

 اس نے ایک نظر سردار کو دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ سردار کی ہی چال تھی۔۔۔

" پانچ منٹ میں نیچے آ جاؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں"

 سردار نے عفاف سے کہا جو گم سی ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔

 ہاں کہہ کے اس نے کال کاٹ دی۔۔۔

 اس دنیا میں تو سارے مفاد پرست ہیں تو پھر میں نے عالیان پر کیسے یقین کر لیا۔۔۔

 وہ بھی تو سردار کا ہی دوست ہے نا کتنی بڑی پاگل ہوں میں۔۔۔

جو اسکے فریب میں آ گئی۔۔۔

"حریم مجھے جانا ہو گا"

"مگر کہاں وہ بھی اس وقت"

حریم نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

"اپنے شوہر کے پاس"

یہ کہتے ہی وہ وہاں سے جا چکی تھی جبکہ حریم جو صدمے میں گھری کھڑی تھی فوراً بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئی جہاں سردار اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

"کیا سردار عفاف کا شوہر ہے"

اسنے حیرت انگیز لہجے میں خود سے سرگوشی کی۔۔۔

وہ بغیر عالیان کی طرف دیکھے گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"عفاف نے تو مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا یقیناً وہ اب مجھے برا سمجھ رہی ہوگی"

عالیان نے دکھ سے سوچا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔

"اب کچھ نہیں بولو گے عالیان "

اسبے عالیان کو چڑانا چاہا مگر وہ وہاں سے اسکی سنی بغیر جا چکا تھا۔۔۔

اسکے جانے کے بعد سردار بھی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔

"کیا ہوا اس کے جانے کا غم لگ گیا۔

 کہیں تم اسکو دل تو نہیں دے بیٹھی تھی"

اسکی بات کے جواب میں بھی وہ کچھ نہ بولی۔۔۔

جب وہ گھر پہنچے تو ماریا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی۔

وہ دونوں بھی وہیں آ گئے۔۔۔

"عفاف نے جب دیکھا کہ ماریہ اسکی جگہ پر بیٹھی ہے تو وہ اسکے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔

یہ دیکھ کر سردار کی تیوری چڑھی تھی۔۔۔

"یہ لڑکی خود کی جگہ بھی نہیں جانتی کیا کتنے آرام سے اپنی جگہ اسکو دے دی"

سردار نے غصے سے دل میں سوچا۔۔۔

اسکو تو ابھی بتاتا ہوں میں۔۔۔

"سردار یہ کھاؤ نہ تمہارا فیوریٹ ہے یہ"

ماریہ نے سردار کی پلیٹ میں فرائڈ چکن ڈالا۔۔۔

"او نو سردار تو میرے علاوہ کسی کے ہاتھ سے بھی کھانا سرو نہیں کرواتے "

عفاف نے سردار کے سرد تاثرات دیکھتے دل میں کہا۔۔۔

"کیا اب مجھے تمہیں بتانا بڑے گا لڑکی کہ تمہاری کیا زمہ داری ہے یہاں آؤ اور مجھے کھانا سرو کرو اور تم یہ پلیٹ لے جاؤ"

اسنے پہلی بات عفاف سے کرتے بعد میں ملازمہ سے وہ پلیٹ اسکے آگے سے اٹھانے کو کہا۔۔۔۔

جس میں ماریا نے اسکے لیے کھانا ڈالا تھا۔۔

ماریہ کا چہرہ توہین سے سرخ ہوا تھا۔۔۔

عفاف نے سردار کو کھانا ڈال کر دیا اور پھر اسکے کھانا ختم کرنے تک وہیں رکی رہی۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر آئی سردار نے اسے اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔

جو بغیر کسی ضد کے اسکے پاس آرام سے آ گئی تھی۔۔۔

"کیا ہوا کیا عالیان کی بےوفائی سے تمہیں اتنا دلی دکھ پہنچا ہے کہ تم میرے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہو گئی ہو"

سردار نے طنزیہ کہا تو اسنے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔

"شاید اگر آپ کو یاد ہو تو آپ نے کہا تھا کہ اگر تم میرے ساتھ وفادار رہو گی تو آپ بھی مجھ سے صحیح سے بات کریں گے۔

 اب جب میں آپ کی ذمہ داری بغیر کسی مشکل کے نبھا رہی ہوں تو پلیز آپ بھی میرے ساتھ آرام سے پیش آئیے گا۔۔۔

مجھے اور کچھ نہیں چاہئے"

 یہ کہتے ہی اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا تھا...

                 *******

 دن بدن سردار عفاف کے نزدیک تر ہوتا جا رہا تھا یہاں تک کہ عفاف نے اس کے دل میں پوری طرح اپنی جگہ بنا لی تھی۔

 بلکہ اب تو سردار عفاف کو خود ہی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔

 اس کے اچھے رویے نے بھی عفاف کو اس سے کافی حد تک مانوس کر لیا تھا کہ اب عفاف سردار کے بارے میں اچھا سوچنے لگی تھی۔۔۔

 آج وہ یونیورسٹی سے حریم کے ساتھ باہر نکل رہی تھی تو اسے زور کا چکر آیا۔۔

 جیسے ہی وہ بے ہوش ہونے لگی حریم نے فوراً سے پکڑا اور جلدی سے ہوسپٹل لے کر گئی۔۔۔

 وہاں اس کے کچھ ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ وہ پریگنینٹ ہے...

" کیا میں ماں بننے والی ہوں"

اسنے حیرت سے خود سے کہا۔۔

" ماں بننے کا احساس کتنا خوبصورت ہوتا ہے حریم"

حریم بھی اسکی خوشی میں خوش تھی۔۔۔

 "میں بھی بہت خوش ہوں تمہارے لیے عفاف لیکن تمہیں یہ بات سب سے پہلے سے سردار کو بتانی چاہیے"

 حریم نے عفاف کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔

                 ******

"کیسی ہو !

سردار نے اسے گلے لگاتے پوچھا۔۔۔

 "بالکل ٹھیک آپ کیسے ہیں"

 تمہیں پتہ تو ہے تمہیں دیکھ کر نہ بھی ٹھیک ہوں تو بالکل ٹھیک ہو جاتا ہوں"

سردار نے عفاف کا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔

 "سردار مجھے کچھ بتانا ہے"

"ہاں بولو"

جیسے ہی عفاف اسے رپورٹس کے بارے میں بتانے لگی تو سردار کی کال آگئی...

 وہ اسے ایک منٹ کا اشارہ کرتا ہوا کال کو سننے لگا۔۔

 وہ بھی نہانے چلی گئی۔۔

جیسے ہی وہ واپس آئی تو سردار کے ہاتھ میں رپورٹ دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رکی۔۔۔

"یہ کیا ہے"

 سردار نے سیدھے الفاظ پوچھا جبکہ لہجہ بالکل کسی احساس سے عاری تھا۔۔

"آپ نے پڑھ لی رپورٹس سردار میں پریگننٹ ہوں"

 عفاف نے خوشی سے کہا۔۔۔

"یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ بچہ کس کا ہے"

 سردار کے لفظ تھے یا بم جو اس پر گرا تھا اور اس کی پوری ہستی کو تہس نہس کر کے رکھ گیا تھا۔۔۔

 "آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے سردار آپ مجھ پر اتنا گھٹیا الزام کیسے لگا سکتے ہیں ۔۔۔

یہ بچہ آپ کا ہے اور کس کا ہوگا۔۔۔"

عفاف غصے سے دھاری تھی۔۔۔

" میں نے کہا مجھے سچ سچ بتا دو یہ بچہ کس کا ہے ورنہ تمہیں جان سے مار دوں گا"

 وہ اس کے قریب آتے ہوئے خطرناک لہجے میں بولا تو عفاف اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔۔۔

 یہ تو وہ سردار تھا ہی نہیں جس سے اتنے دن سے جانتی تھی۔۔

کون تھا یہ۔۔۔

" سردار میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں یہ بچہ آپ کا اور میرا ہی ہے میرا آپ کے علاوہ کسی سے کوئی تعلق نہیں"

 اس کی آنکھوں سے اپنی بے گناہی ثابت کرتے ہوئے آنسو ٹپک پڑے تھے۔۔۔

 مگر سردار کو اس پر یقین نہ آیا تھا اس نے ایک دم عفاف کا گلا دبوچا اور اسے بیڈ پر پھینکا۔۔۔۔

" بولو یہ کس کی حرام کی اولاد ہے ورنہ تمہاری جان نکال لوں گا میں"

 وہ مسلسل عفاف کا گلا دبا رہا تھا۔۔۔

 میں اب بھی یہی کہہ رہی ہوں اور بعد میں بھی یہی کہتی رہوں گی کہ یہ سردار کا بچہ ہے۔۔۔

 تمہارا ہے اگر تم اس بچے کو دنیا میں لانا نہیں چاہتے تو مجھ پر اتنا کراہیت آمیز الزام تو مت لگاؤ۔۔۔۔

 مجھے بدکردار ہونے کی گالی تو مت دو "

وہ روتے ہوئے چیخ کر بولی۔۔۔

 سردار کے گلا دبانے سے اس کا گلا سرخ پڑ چکا تھا۔۔۔

جب کہ سانس آنا بالکل بند ہو گئی تھی اور پھر ایک جھٹکے میں وہ دنیا جہاں سے بیگانہ ہوتی چلی گئی تھی۔۔

جب اس کے جسم میں کوئی جنبش نہ ہوئی تو سردار نے حیرت سے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

 اور جھٹکے سے عفاف سے دور ہوا جو اب سانس نہیں لے رہی تھی بلکہ ساکت پڑی تھی۔۔۔

"عفاف عفاف اٹھو"۔۔۔

وہ عفاف کا منہ تھپتھپانے لگا تھا۔ 

اسکو یوں دیکھ سردار کی جان لبوں پر آئی تھی وہ یہ تو جان گیا تھا کہ عفاف چاہے اس سے کتنی ہی بےوفائی کیوں نہ کر لے۔۔۔

مگر اب وہ اس کے بغیر سانس تک نہیں لے سکتا تھا۔۔۔۔

 جان بن گئی تھی وہ اس کی اس کے بغیر تو جینا بھی اب محال لگتا تھا۔۔۔

 جیسے ہی سردار نے اس کی سانس محسوس کی تو اس کی جان میں جان آئی تھی اور وہ شکستہ قدموں سے دور ہوتا صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔

 کچھ دیر بعد عفاف کراہتے ہوئے اٹھی۔۔۔

 اپنے آپ کو زندہ دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی ۔۔

کیا سردار نے اس کی جان نہیں لی تھی۔۔

 وہ تو یہ سمجھی تھی کہ اب وہ کبھی اپنے بچے کو نہیں دیکھ پائے گی اور نہ ہی سردار کو۔۔۔

" کیا ہوا مجھے مارا کیوں نہیں تم نے کیا تمہیں اب مجھ پر یقین آ گیا کہ یہ تمہارا ہی بچہ ہے"

عفاف نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔

" نہیں مجھے اب بھی یقین نہیں ہے اس لیے کل صبح ہی تم جا کر اپنا ایبارشن کرواؤ گی"

 سردار نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

" کیسے باپ ہو تم اپنے ہی بچے کو مارنے کا کہہ رہے ہو۔۔

کیوں نہیں آتا تمہیں مجھ پر یقین کہ میرا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں تھا"

 وہ اپنی بے گناہی ثابت کرتے کرتے تھک گئی تھی...

 مگر سردار اس کی ایک بھی سنے بغیر وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔

                    ****

 جب وہ صبح ناشتہ کر رہے تھے تو عفاف کو متلی محسوس ہوئی اور وہ واشروم بھاگ گئی۔۔۔۔

 ماریہ نے اسے حیرت سے جاتے دیکھا اور پھر ایک ناقابل یقین نظر سردار کو دیکھا۔۔

جو اسکی نظر کو اگنور کر گیا تھا۔۔۔

 جو وہ دیکھ رہی تھی وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

" سردار کس کا بچہ ہے یہ"۔۔۔

ماریہ نے شاک سے پوچھا۔۔۔

" کیونکہ تم نے تو۔۔۔"

 اس نے حیرت سے اپنی بات ادھوری چھوڑی...

 میں تمہیں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا یہ کہتے ہی وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔

 پیچھے ماریہ پیچ و تاب کھا کے رہ گئی۔۔

                ******

 جیسے ہی عفاف یونیورسٹی پہنچی حریم نے اسے جا لیا....

" عفاف تم نے بات کی سردار سے کیا کہتا ہے وہ کیا خوش ہوا حریم نے خوشی سے پوچھا۔۔

 مگر عفاف کے جواب نے اسے بھی گہرا صدمہ دیا تھا۔۔۔

" وہ کہتا ہے یہ میرا بچہ نہیں ہے اس لیے میں ابارشن کروا دوں" عفاف نے دکھی لہجے میں کہا...

" اتنا کم ظرف انسان ہیں یہ سردار وہ اتنا پر یقین ہو کر کیسے کہہ سکتا ہے بھلا۔۔

 میرا دل کر رہا ہے اس وقت وہ میرے سامنے ہو اور میں اسے گولی سے اڑا دوں۔۔۔

اس نے سوچا بھی کیسے ایسا۔۔۔

 حریم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

 "میری جان صبر کرو اللہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا"

 حریم نے روتی ہوئی عفاف کو گلے لگایا۔۔۔

 جیسے ہی وہ دونوں یونیورسٹی  سے باہر نکل رہے تھے گاڑی آئی تھی اور عفاف کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔۔۔

حریم چیختی رہ گئی تھی مگر وہ اسے دھکا دے کر جا چکے تھے۔۔۔

 اس نے فوراً عالیان کے نمبر پر کال کی تھی۔۔

 عالیان جو اس وقت دار کے ساتھ میٹنگ میں موجود تھا حریم کی کال آتے دیکھ فوراً پک کی۔۔

" عالیان تم کہاں ہو جلدی سے یہاں آجاؤ عفاف کو کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔۔

 اس کی بات سن کر عالیان جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

" کیا کون لوگ تھے ؟کیا وہ عفاف کو لے گئے "

اس کی بات سن کر سردار کے کان کھڑے ہوئے اور سردار اس کے پاس آیا اور فون کھینچ کر اپنے کان سے لگایا۔۔

" کہاں ہے عفاف "

سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔

بدلے میں حریم نے اسے ساری بات بتا دی تھی۔۔۔

وہ فون عالیان کی طرف پھینکتے باہر کو بھاگا تھا اور عالیان بھی اس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔

" عفاف کو جب ہوش آیا تو وہ ایک عالیشان کمرے میں موجود تھی کمرہ خالی دیکھ کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر دروازہ کھول کر وہ شخص اندر آیا تھا جس نے نقاب پہن رکھا تھا۔۔۔

" اوہ تو تم ہو سردار کی منظورِ نظر میں بھی کہوں سردار ایک ہی لڑکی کے ساتھ کیسے اپنا وقت گزار سکتا ہے۔۔۔

مگر تمہیں دیکھ کر یقین آگیا وہ اس کی طرف ایک ایک قدم بڑھاتا جا رہا تھا۔۔

 جب کہ عفاف پیچھے کھڑکی سے لگ گئی۔۔ جب اس نے پیچھے دیکھا تو اپنے آپ کو ایک بہت اونچی جگہ پر پایا یقیناً یہ کمرہ بارہویں فلور پر تھا۔۔

" فکر مت کرو بس مجھے کچھ پاسورڈ بتا دو سردار کے پھر میں تمہیں جانے دوں گا "

"کیسے پاسورڈ کون سے پاسورڈ میں کوئی پاسورڈ کے بارے میں نہیں جانتی"

 حالانکہ عفاف سردار کی ہر ایک چیز سے واقف تھی 

لیکن پھر بھی وہ سردار کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔۔

"اممم او تو تم سردار کو اس طرح ڈیفینڈ کرنا چاہتی ہو تو پھر مجھ سے بھی رحم کی امید مت رکھنا "

اس نے عفاف کو بیڈ پر دھکیلتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" نہیں میں سردار کی کچھ نہیں لگتی بلکہ وہ تو مجھے پسند بھی نہیں کرتا پلیز مجھ سے دور ہٹ جاؤ"

 اس نے کسی طرح اس شخص کو دور ہٹانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔

" تمہیں مجھ سے کچھ نہیں ملے گا سردار کی نظروں میں میری کوئی اہمیت نہیں"

 اس نے اس شخص کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہا جو اس کی ایک بھی سننے پر رضامند نہیں تھا۔۔

"سردار پلیز مجھے بچا لو دیکھو تمہاری بیوی کی عزت خطرے میں ہے"

اسنے دل میں سردار کو پکارا وہ جو بھی کہ لیتی وہ سردار سے شدید محبت کر بیٹھی تھی۔۔۔

                       *******

 نیچے سے فائرنگ کی آواز پر اس شخص کو لمحے میں پتہ چل گیا تھا کہ سردار آگیا ہے۔۔۔

" تم غلط تھی لڑکی اگر تم سردار کی نظروں میں اہمیت نہ رکھتی ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنی جان پر کھیل کر میرے اڈے پر تمہیں بچانے نہ آتا۔۔۔

 مگر اس بار وہ بازی ہار گیا ہے۔۔۔۔"

 اس نے فوراً اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ایک بم نکالا اور عفاف کو کرسی پر بیٹھاتے اس پر بم لاگتے اس کے گرد باندھ دیا تھا اور خود کھڑکی کے پاس چلا گیا تھا ۔۔۔

جہاں سے ہیلی کاپٹر اسے پک کرنے والا تھا۔۔

 جیسے ہی قدموں کی آواز آئی اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی تھی۔۔۔

دروازہ توڑ کر سردار اندر آ گیا تھا۔۔پیچھے عالیان بھی تھا۔۔

" سردار میرے قریب مت آنا یہاں بم ہیں یہ سب تمہیں مارنے کی سازش تھی تم لوگ جاؤ یہاں سے"

عفاف نے نم آنکھوں سے چیخ کر کہا۔۔۔

سردار نے فوراً عفاف کے پاس آتے بم کو ڈیفیوز کرنا چاہا مگر کوئی طریقہ سمجھ میں نہ آیا۔۔۔

"شٹ اسنے ہمیں دھوکا دیا ہے" 

عالیان اس کے پیچھے ہی آیا تھا۔۔۔۔

" عالیان تم جاؤ یہاں سے"

 اس نے ان کو بھیجنا چاہا مگر وہ کسی طور جانے پر تیار نہیں تھا..

" نہیں میں بھی نہیں رہا ہوں میں تم دونوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا "

اس نے ضدی لہجے میں کہا سردار سوچ میں پڑ گیا۔۔

"کیا عالیان اس بچے کا باپ ہے کیوں کہ یہ یہاں سے جانے کا روادار نہیں ہے"

 یہ سوچ کر ہی سردار کے ماتھے پر تیوری آئی تھی مگر جو بھی ہے میں عفاف کو کبھی نہیں چھوڑوں گا وہ صرف میری ہے"۔۔۔

 اس نے دل میں سوچا ...

سردار آپ یہاں سے جائیں مجھے کچھ ہوگیا تو کوئی رونے والا نہیں ہوگا۔۔

کیوں کہ میری کسی کو ضرورت نہیں مگر آپ کی بہت سے لوگوں کو ضرورت ہے جائیں یہاں سے"

 سردار کو کھو دینے کا خیال اس کا دل چیر رہا تھا۔۔۔

"  تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا تم بے شک کسی کیلئے ضروری نہ ہو مگر میرے لئے دنیا کی سب سے انمول ہستی ہو۔۔۔ جس کے بغیر جینے کا اب میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔

 ساتھ جی نہیں سکتے تو کیا ہوا مگر ساتھ مر تو سکتے ہیں نا ۔۔۔اس نے عفاف کا ماتھا چوم کر کہا۔۔۔

اتنی محبت پر عفاف کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔۔

 کیا اسے اس حد تک بھی کوئی چاہ سکتا تھا کہ اس کے لیے جان تک دے دے۔۔۔

اسے اپنی قسمت پر رشک آیا تھا۔۔۔

"کچھ شرم کر لو میں بھی یہیں موجود ہوں"

عالیان نے انہیں احساس دلانا چاہا۔۔۔

"تو تجھے کس نے کہا ہے کہ ہم میاں بیوی کے مومینٹس سپوائل کر"

سردار نے بھی فوراً جواب منہ پر مارا تھا۔۔۔

 سردار ایک بار پھر بم کو ڈفیوز کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا دس سیکنڈ رہ گئے تھے۔۔

اس نے آخری وائر کاٹی اسی لمحے بم فریز ہو گیا تھا اور ان کی سانسوں میں سانس آئی تھی۔۔۔

 وہ عفاف کو لے کر باہر نکلا اور گاڑی میں جاکر بیٹھایا اور عالیان کے ساتھ کچھ ضروری باتیں کرنے لگا ۔۔۔

جب عالیان نے اسے بیچ میں ٹوکا۔۔۔

" سردار مجھے حریم سے پتہ چلا کہ تم عفاف پر شک کر رہے ہو مگر میرا یقین کرو یہ بچہ میرا نہیں ہے۔۔۔

اگر تمہیں ذرا سا بھی شک ہے تو میں تمہیں پہلے ہی کلیئر کر دوں وہ تمہاری امانت تھی۔۔۔

 میں نے اسے آج تک ہاتھ نہیں لگایا جبکہ کہ حقیقت میں عفاف نے میرا پرپوزل ریجیکٹ کر دیا۔۔۔۔۔

 وہ تمہیں سے پیار کرتی ہے شاید ایسا ہو سکتا ہے کہ جب اس کے شوہر نے اسے زبردستی اس کا ریپ کیا ہو اور وہ شرم کے مارے تمہیں بتانا نہ چاہ رہی ہو۔

 تو تمہیں بھی اس بات کا پردہ رکھنا چاہیے اس کی بات سمجھ کر سردار کو اپنی عقل پر افسوس ہوا تھا۔۔

وہ یہ کیوں نہ سمجھ سکا کہ کوئی عفاف سے زبردستی بھی تو کر سکتا ہے کیونہ اسکے لاکھوں دشمن تھے جو عفاف کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔۔۔

" جو بھی ہے اس بچے کو میں اپنا نام دوں گا "

اس نے دل میں پختہ ارادہ کیا اور عفاف کے ساتھ گھر چلا گیا۔۔۔۔

                          ***

سردار اب اسکا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگا تھا۔

انکی محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ جو ماریا کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔

رات کو وہ دونوں والک کر رہے تھے جب سردار بولا۔۔

"تم زیادہ کھایا پیا کرو دیکھو تو اب بھی ویسے ہی پتلی ہو اب تو دو ماہ ہو گئے مگر تم میں زرا بھی فرق نہیں آیا۔۔۔

اسکی بات سر کر عفاف کے گال شرم سے لال ہوئے تھے مگر حقیقت بھی یہی تھی اسکے فگر میں زرا بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ابھی وہ ٹہل ہی رہے تھے جب عفاف کا فون بجنے لگا۔۔۔

جو آگے سے اطلاع ملی وہ اسکے اوسان خطا کر گئی تھی۔۔

"سردار بابا میرے بابا وہ سیڑھیوں سے گر گئے ہیں"

وہ تو پاگل ہو اٹھی تھی۔۔۔

سردار فوراً ہسپتال پہنچا تھا اسے لے کر۔۔۔

جہاں اسے بابا کو ایمرجنسی میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔۔۔

"اسنے اپنی بہن کو کال کرنی چاہی مگر نہ وہ فون اٹھا رہی تھی نہ اسکی سوتیلی ماں"

سمجھ سے بالاتر تھا کہ وہ دونوں گئیں کہاں۔۔۔

ڈاکٹر نے جیسے ہی اطلاع دی کہ انکا انتقال ہو گیا ہے وہ یہ سن کر وہیں بےہوش ہو گئی تھی۔۔۔

سردار نے ہی انکے کفن دفن کا انتظام کیا تھا۔۔

عفاف کو چپی لگ گئی تھی اب وہ زیادہ بولتی تھی نہ ہی زیادہ بات کرتی تھی۔۔۔

اسکی بہن اور ماں لاپتہ تھیں۔پولیس کا کہنا تھا ان سب کے پیچھے انہیں کا ہاتھ ہے۔۔۔

آج وہ بہت دیر بعد لان میں چہل قدمی کرنے کو آئی تھی جب اسنے ماریہ کو سردار سے بدزبانی کرتے دیکھا۔۔۔

"سردار تم کسی دوسرے کی اولاد کو کیسے اپنا سکتے ہو جبکہ وہ تمہارا خون ہی نہیں یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔۔۔"

ماریہ غصے سے چیخی۔۔۔

"تو کیا ہوا میں اسے اپنا نام دوں گا کہلائے گا تو وہ سردار کا بیٹا ہی"

سردار نے سرد لہجے میں اسے وارن کرنا چاہا۔۔۔۔

"کیا تمہیں وہ اتنی پسند آ گئی ہے کہ کسی کی اترن تم استعمال کر رہے ہو"

اسنے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔

"کیا بکواس ہے یہ تم ہوتی کون ہو مجھ پر یوں الزام لگانے والی۔ یہ بچہ سردار کا ہے"

عفاف کا ضبط جواب دے گیا تھا۔۔۔

"کسے پاگل بنا رہی ہو لڑکی ہم سب جانتے ہیں یہ سردار کا بچہ نہیں"

وہ اسے کھا جانے والہ نظروں اسے دیکھتی بولی۔۔

"سردار تم اسے کچھ بولتے کیوں نہیں کہ دو کہ یہ جھوٹ بول رہی ہے یہ بچہ تمہارا ہے"

عفاف نے سردار کا بازو تھامتے کہا مگر وہ خاموش رہا جسنے عفاف کو بہت دکھ دیا تھا۔۔۔

"چچ چچ چچ منہ کالا کر کہ بھی تمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی لڑکی ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سردار کا بچہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ"

شٹ آپ ماریہ اپنی بکواس بند کرو۔۔

سردار نے اسے وارن کرنا چاہا۔۔

"نہیں تم بولو آخر تم سب اتنے پریقین کیوں ہو کہ یہ سردار کا بچہ نہیں مجھے سچ بتاؤ ورنہ میرا سر پھٹ جائے گا"

عفاف نیچے بیٹھتی چیخ کر بولی۔۔۔

"تو سنو سردار نے سرجری کروائی ہوئی ہے اسکا تم سے تو کیا کسی سے بھی بچہ نہیں ہو سکتا"

ماریہ کی بات نے اسکے سارے احساسات منجمد کر دیے تھے اسکے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔۔۔

"یہ کیا کہ رہی تھی وہ اگر یہ سچ تھا تو یہ بچہ کس کا تھا مگر وہ تو سردار کے علاوہ کسی کے پاس تک نہیں گئی تھی"

اسے یوں گم سم دیکھ سردار نے ماریہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔

اور عفاف کو اٹھاتا وہاں سے لے گیا۔۔۔

"تم فکر مت کرو عفاف میں اس بچے کو اپنا نام دوں گا"

اسنے عفاف کو پیار کرتے کہا۔۔

"تو تم شروع سے جانتے تھے کہ یہ بچہ تمہارا نہیں پھر بھی تم نے اسے اپنانا چاہا"

عفاف نے صدمے سے کہا اسے سردار کا پہلا ری۔ایکشن یاد آیا کہ کیسے اسنے عفاف کے ساتھ برتاؤ کیا تھا جب اسے یہ پتہ چلا تھا۔۔۔۔۔

"مجھے ابارشن کروانا ہے ابھی"

اسنے کانپتے ہوئے کہا۔۔۔

"عفاف تم پاگل ہو گئی ہو"

اسنے عفاف کو جھنجھوڑا۔۔۔

"ہاں ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں میں نہیں پال سکتی کسی کا گندہ خون مجھے مار دو یا اس بچے سے میری جان چھڑوا دو"

اسنے سردار کا ہاتھ اپنے گلے پر رکھ کر کہا۔۔۔۔۔

"تو پھر بتاؤ کون ہے اسکا اصلی باپ"

سردار نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو عفاف نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔۔

"تمہیں اب بھی مجھ پر یقین نہیں تو میرا یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں!

عفاف نے وہاں سے جانے کی کوشش کی۔۔

"تم یہاں سے جواب دیے بغیر کہیں نہیں جا سکتی"

سردار نے اسکا بازو دبوچتے کہا۔۔۔

"چھوڑو مجھے"

عفاف نے اس سے بازو چھڑوانے کی کوشش کی۔۔۔

اسکی کھینچا تانی میں عفاف کو دھکا لگا اور وہ شیشے کے ٹیبل پر جا کر گری۔۔۔

خون تیزی سے اسکے اطراف میں پھیلنے لگا تھا۔۔۔

وہ درد سے چلائی ۔۔۔

"سردار میرا بچہ"

"عفاف عفاف تمہیں کچھ نہیں ہوگا"

سردار فوراً اسے باہوں میں بھرتا ہاسپتال لے جانے کو بھاگا تھا۔۔

اسے ایمرجینسی وارڈ میں فوراً داخل کیا گیا۔۔۔

جیسے ہی ڈاکٹر باہر آئی اسنے ڈاکٹر کو جا لیا۔۔۔

ڈاکٹر عفاف کیسی ہے اور ہمارا بچہ وہ تو ٹھیک ہے"

ڈاکٹر کے پیچھے عفاف کو آتا دیکھ وہ دنگ رہ گیا جو شرمندہ شرمندہ لگ رہی تھی۔۔۔

"اور یہ یہاں کیوں کھڑی ہے اسے تو ایمرجنسی میں ہونا چاہیے تھا۔۔

 بچے کا کیا ہوا یہ باہر کیا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر آپ میری بات سن رہی ہیں یا نہیں"

 سردار پہ در پر سوالات کرتا چلا گیا تھا۔۔۔

" مسٹر سردار میری بات تحمل سے سنئیے کوئی بچہ نہیں ہے بچہ کیسے ہوگا جب وہ پریگنینٹ ہی نہیں ہیں۔۔۔۔"

 ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

" ڈاکٹر شاید آپ کا دماغ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے میں نے خود اس کا خون نکلتے ہوئے دیکھا ہے اس کے کپڑوں خون پر لگا ہوا ہے"

 وہ تو جیسے پاگل ہو اٹھا تھا کچھ سمجھ ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔

                        ******

" مسٹر سردار صبر سے کام لیں ان کے منسٹیورل سائیکل ڈیلے ہو گیا تھا اور نرس نے بھی عفاف کو غلط رپورٹ چینج کر کے دے دی تھی۔۔

جس کی وجہ سے آپ لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی"

 جیسے ہی سردار کو ڈاکٹر کی بات سمجھ میں آئی اس نے عفاف کا چہرہ دیکھا جو شرمندگی سے سرخ پڑ رہا تھا اور اب یہی حال سردار کا بھی تھا۔۔۔

 وہ دونوں جیسے ہی گھر پہنچے ایک دوسرے سے نظریں ملانا ممکن نہیں ہو رہا تھا دونوں ہی اپنی جگہ شرمندہ تھے۔۔۔

" آئی ایم سوری مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا"

 سردار نے اس سے اپنے کیے کی معافی مانگی۔۔

"کوئی بات نہیں اگر آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی سمجھتا اس نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔۔

کیونکہ غلطی تو اس کی بھی تھی۔۔۔

" مگر سردار آپ برا نہ مانیں تو ایک بات بولنا چاہوں گی آپ سے"

 اس کے التجائیہ انداز میں کہنے پر سردار نے اسے اجازت دی۔۔

" میں ماں بننا چاہتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کے آپ اپنا آپریشن کروا لیں"

 اس کی بات نے سردار کو گہری سوچ میں ڈال دیا تھا۔۔۔

کہ تو وہ ٹھیک رہی تھی آخر کونسی ماں ہوگی جو بچے کے بغیر رہنا چاہے گی۔۔۔

اسنے عفاف کی بات پر عمل کرنے کا سوچا۔۔۔

"عفاف کیا تم مجھ سے شادی کرو گی"

اسنے اپنے گھٹنے کے بل بیٹھتے عفاف سے پوچھا۔۔۔

جو اسے بےیقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو میں تمہیں اگریمینٹ سے ْآزاد کرتا ہوں اور سب کے سامنے دھوم دھام سے تمہیں اپنی دلہن بنانا چاہتا ہوں بولو کیا اجازت ہے کہ تمہیں تم سے چرا لوں"

اسنے اتنے دل موہ لینے والے انداز میں کہا کہ وہ چاہ کر بھی اپنی آنکھیں نم ہونے سے نہ روک سکی۔۔۔

اور بھاگ کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔

"ہاں مجھے منظور ہے"

                         *****

آج سردار عفاف کو پھر آئی لینڈ پر لایا تھا۔۔۔

اس سے ملو عفاف یہ شہریار ہے میرا چھوٹا بھائی۔۔۔

اس سے بڑے روکھے انداز میں ملا تھا شہریار۔۔۔

"برا مت ماننا یہ ایسا ہی ہے تم آو میرے ساتھ"

ہر کوئی سردار کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جو آج وہاں پہلی بار لڑکی کے ساتھ ٹریننگ سیشن میں موجود تھا۔۔۔

رنگ میں اس وقت دو لڑکیاں لڑ رہی تھیں۔۔۔

جن کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی عفاف جبکہ سردار عفاف کو۔۔۔

"تو تم یہاں بھی آ گئی"

ثمیرین نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔

ثمرین کو دیکھ کر اسکو کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ یہاں رسلنگ کی بیسٹ ٹرینی تھی۔۔۔

کیونکہ اسکی مضبوط جسامت سے یہ چیز واضح ہو رہی تھی۔۔۔

"چلو تم بھی آ جاؤ تمہارا بھی میچ ہو جائے "

اسنے عفاف کو اسکی جگہ سے اٹھاتے کہا۔۔۔

"نہیں نہیں میں کیسے سردار دیکھو نہ"

اسنے سردار کو بلایا تاکہ وہ اسکی مدد کرے مگر اسنے صاف ہری جھنڈی دکھائی۔۔۔

"ایک میچ سے کچھ نہیں ہو گا عفاف ۔۔۔سردار کی بیوی کو مضبوط ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنا ڈیفینس خود کر سکے"

اس بات پر عفاف نہ چاہتے ہوئے بھی رنگ میں چلی گئی تھی۔۔۔

اس لڑکی نے پہلا داؤ چلتے عفاف کو کس کر پٹخا تھا کہ اسکی آہیں نکل گئی تھیں۔۔۔

حالانکہ اس لڑکی نے سردار کے اشارے پر اپنی آدھی قوت لگائی تھی۔

اگرچہ پوری لگا دیتی تو پتہ نہیں عفاف کا کیا حال ہوتا۔۔۔

عفاف نے اٹھتے اسکا ہی داؤ اس پر چلا تھا جسے اس لڑکی نے حیرت سے دیکھا۔۔۔

اس لڑکی نے دوبارہ عفاف کو گھما کر کمر کے بل گرایا تھا۔۔۔

جس سے عفاف کی کمر میں ٹیسیں اٹھیں تھیں مگر اسنے بنا دیر کرتے

 اس لڑکی کی ٹانگوں میں سے ہاتھ ڈالتے ٹھیک اسہی طرح

 اسکو کمر کے بل پٹخا اور تب تک اس پر چڑھی رہی جب تک کاؤنٹ ڈاؤن بند نہ ہو گیا۔۔۔

"یس میں جیت گئی "

اسنے کمر پر ہاتھ رکھ کر کراہتے ہوئے کہا تو سب ہنس دیے۔۔۔

سردار کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی دیکھ جائے گی۔۔۔

تھوڑی دیر میں وہ وہاں آئیلینڈ پر بنے سردار کے پرائویٹ روم میں چلی گئی تھی۔۔۔۔

اور اب ٹی چرٹ پہنے دیکھ رہی تھی کہ خود کو دوائی کیسے لگائے۔۔۔

"لاؤ میں لگا دوں سردار نے اسکے ہاتھ سے دوائی لینی چاہی۔۔

"خبردار جو مجھے ہاتھ بھی لگایا میں ناراض ہوں تم سے۔

تمہاری وجہ سے مجھے اتنی چوٹیں آئیں اور تم بیٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔

اسکی بات پر سردار نے اپنی ہنسی ضبط کی۔۔۔

"میری جان اپنے دار کی بات نہیں مانو گی"

"بلکل نہیں"

اس سے پہلے کہ وہ اسکو مناتا ایک ضروری کال کی وجہ سے اسے جانا پڑ گیا۔۔۔

جب رات تک وہ کمرے میں نہ آیا تو عفاف نے اسے کال کی جس پر پتہ چلا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے اسے شہریار کے پاس ٹریننگ کے لیے چھوڑتا چا چکا ہے۔۔۔

جس پر وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔۔۔

                         ******

آج اسکی ٹریننگ کا پہلا دن تھا۔۔۔

"لڑکی تم پانچ منٹ لیٹ ہو"

شہریار نے اسے گراؤنڈ میں آتا دیکھ سختی سے کہا۔۔۔

"پانچ منٹ ہی لیٹ ہوں نہ بات تو تم ایسے کر رہے ہو جیسے ایک گھنٹا لیٹ ہوں"

اسکی زبان پر وہ عش عش کر اٹھا۔۔۔

جلدی پانچ منٹ میں یہ گراؤنڈ کا چکر لگا کر آو۔۔۔

اسکے کہنے پر اسنے بھاگنا شروع کیا مگر پانچ منٹ کی بجائے آدھے گھنٹے میں ہورا کیا تھا اسنے راؤنڈ۔۔۔

"اففف باس نے کیسے اسے بیوی بنا لیا اس سے تو ایک راؤنڈ بھی بمشکل پورا ہو رہا ہے"

اسنے کوفت سے سوچا۔۔۔

لڑکی کچوے کی طرح رینگتی رہو گی تو دس راؤنڈ کیسے پورے کرو گی۔۔۔

"کیااااا دس راؤنڈ میں کبھی نہیں کروں گی"

اسکی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔۔۔

"اگر تم دس تک گننے پر بھی نہ بھاگی تو اس لڑکے کو پوری اجازت ہوگی تمہیں گلے لگانے کی"

اسنے اپنے ساتھ کھڑے ٹرینی کو دیکھتے کہا جسکی اس آفر پر بتیسی نکل آئی تھی۔۔۔

"جلو جوان بھاگنا شروع کرو اسکے پیچھے"

اسکو پیچھے آتا دیکھ عفاف دم دبا کر بھاگی تھی۔۔۔

"کمینے انسان میں بھابھی ہوں تمہاری بھابھی کے ساتھ ایسا سلوک کون کرتا ہے"

عفاف بھاگتے ہوئے چیخی اسے ڈر تھا وہ لڑکا اصل میں نہ اسے گلے لگا لے۔۔۔

"اور جسنے تمہیں میرے پاس سیکھنے بھیجا ہے وہ بھائی ہے میرا"

اسنے بھی دوبدو جواب دیا تھا۔۔۔

بمشکل ہی صحیح اسنے دس راؤنڈ لگا لیے تھے مگر اس میں بھی اسے پانچ گھنٹے لگے تھے۔۔۔

اسکی ہڈیاں درد سے چور ہو گئیں تھیں۔۔۔

وہ منہ بھر بھر کر اسے بد دعائيں دے رہی تھی۔۔۔

"باس کیا میں اسے گلے لگا لوں"

اس لڑکے نے اسے دانت دکھاتے کہا۔۔۔

"اوہ میں تمہیں بتانا بھول گیا یہ سرادر باس کی بیوی ہے"

شہریار نے انجان بنتے کہا۔۔۔

"کیا سردار باس سر اپنے پہلے کیوں نہیں بتایا میں بھری جوانی میں مرنا نہیں چاہتا"

وہ سردار کا نام سنتے ہی وہاں سے رفوچکر ہوا تھا۔۔۔

"چلو بھی کھانا نہیں کھانا کیا"

شہریار کے بچے ایک دفعہ سرادر کو آنے دو وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔۔

"اسکو بھی دیکھ لیں گے ابھی کھانا کھا لو اور پریکٹس بھی رہتی ہے۔۔۔

اسکی بات سنتے وہ پھر سے ڈھے گئی تھی۔۔۔

سردار آج رات پھر نہیں آیا تھا۔۔۔

" دار تم آج بھی نہیں آئے میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔۔ تم مجھے پتا نہیں کس عذاب میں ڈال گئے ہو اور ایک تمہارا وہ بھائی چنگیز خان کی اولاد۔۔۔۔۔

 میرا یہاں جینا مشکل کر رہا ہے اس نے اپنے نتھنے پھلاتے ہوئے کہا تو سردار اس کا غصے والا چہرہ تصور کرکے ہنس دیا۔۔۔

" اگر میری بیوی مضبوط نہیں بنے گی تو میرے شانہ بشانہ کیسے چل سکے گی عفاف اس لیے تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا"

 سردار کی بات پر وہ خاموش ہوگئی تھی۔۔۔

 جیسے سردار کی خطرناک زندگی تھی عفاف کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ کچھ حد تک سیلف ڈیفینس سیکھ کر رکھے۔۔۔۔۔

                      *******

ایک نیا سورج طلوع ہوا تھا اور عفاف نے ایک نیا عزم لیا تھا کہ وہ پوری محنت اور لگن سے اپنے ٹاسک کو پورا کرے گی۔۔

اسکا آج کا ٹاسک ہایکنگ تھا۔۔۔

 سب کافی اوپر تک پہاڑ کے پہنچ چکے تھے مگر عفاف ابھی چند ہی قدم چڑھی تھی اور اس کا سانس بری طرح بھول گیا تھا۔۔۔۔۔۔

 جبکہ نیچے کھڑا شہریار اسے تاسف سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

" چل بھی چکو یہ رینگ کیا رہی ہو" شہریار نے اپنے ہاتھ میں پکڑی سٹک سے اس کی کمر کو دھکا دیتے کہ جو عفاف کو کچھ زور سے ہی لگ گئی تھی۔۔۔

 پھر بھی جیسے تیسے کر کے سب سے آخر پر عفاف نے وہ چوٹی پار کر ہی لی تھی۔۔

 جس سے اس کا جسم بری طرح چھل گیا تھا کہ اس سے ایک قدم رکھنا محال تھا۔۔۔

اب وہاں شہریار اور عفاف ہی باقی بچے تھے۔۔

" اب چلو بھی ہمیں واپس بھی جانا ہے شہریار نے اسے دیکھ کر کہا جو زمین پر بیٹھی تھی۔۔

 "نہیں میں نہیں چل سکتی میرے پاؤں میں بہت درد ہے"

" بہانے مت بناؤ جلدی کرو" 

شہریار نے اسے گرکھتے ہوئے کہا تو اس نے اپنی ٹانگ سے ذرا سی جینس اوپر کر کے دیکھا۔۔۔

 جس سے خون نکل رہا تھا شہریار کو اس کا زخم دیکھ کر اس کے درد کا اندازہ ہوا تو اس کے پاس جھکا۔۔۔

" تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہیں اتنا درد ہے "

تو میں اتنی دیر سے کیا بکواس کر رہی تھی کہ مجھ سے نہیں ہوگا مجھے درد ہو رہا ہے۔۔

مگر تم نے میری ایک نہ سنی بلکہ مجھے پوری چوٹی پار کروا کر ہی چھوڑی "

اس نے شہریار پر پھٹتے ہوئے کہا...

" وہ تو تم ہر دوسرے قدم چلنے کے بعد کہہ رہی تھی تو کیا میں تمہیں ایسے ہی جانے دیتا" 

اس کے انوکھے لوجک پر عفاف کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔۔

 بہرحال اس نے عفاف کو اپنے پیچھے کمر پر چڑھایا اور اسے لے کر چوٹی پار کرنے لگا۔۔۔

 جیسے ہی شہریار نے اسے اٹھایا تھا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔۔

 پہلی بار کسی لڑکی کا لمس محسوس کیا تھا جو اس کے اندر جذبات جگا گیا تھا۔۔

 مگر اس نے اپنا سر جھٹک دیا تھا۔۔

             ********

 آج عفاف پیٹ کے بل سو رہی تھی۔ جب سردار کمرے کا دروازہ کھولتا اندر آیا اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔

 کتنی کمزور ہو گئی تھی وہ پہلے سے۔۔۔

 اس نے عفاف کی شرٹ کھسکا کر دیکھی جہاں نت نئے زخموں کے نشان تھے۔۔

 وہ مرہم لایا اور چپ چاپ اس کے زخموں پر لگانے لگا اور بعد میں اپنے لبوں کا مرہم رکھا تھا اس کے زخموں پر جس سے عفاف جاگ گئی تھی۔۔

 اور اس کی آغوش میں چھپ کر سو گئی تھی۔۔۔

                           ****

دو ہفتے بعد..

 آج سردار اور عفاف کی شادی دھوم دھام سے منائی جارہی تھی...

 جہاں اس کے سارے دوستوں نے شرکت کی تھی جبکہ یلدرم نے عفاف کا بھائی بن کر اس کی طرف سے شرکت کی تھی...

 آج صحیح معنوں میں سب نے اس کو سردار کی بیوی تسلیم کر لیا تھا اور اس کی وہ حقدار بھی تھی۔۔۔

 اس کے کہنے پر ہی سردار نے اپنے سرجری بھی کروا لی تھی اب وہ ایک خوشحال زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔

شہریار کے دل میں ایک کسک بھی تھی عفاف کے ساتھ وقت گزارنے سے۔۔۔

اس کے دل میں بھی اس کی جگہ بن گئی تھی۔

 جیسے وہ اس کا خیال رکھتی تھی شہریار کو اس کی عادت ہو گئی تھی۔

مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ وہ بھائیوں کی طرح اسے پیار کرتی ہے۔۔۔

 کیونکہ وہ سردار کا چھوٹا بھائی تھا اس لیے وہ اسے بھی اپنا بھائی مانتی تھی۔۔۔

 مگر وہ اپنے بھائی کی خوشی میں خوش تھا۔۔

 دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال کا وقت گزر گیا تھا عفاف کو اللہ نے آج پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا۔۔۔۔

 اس کا نام ان دونوں نے یارم رکھا تھا۔۔۔

                    ***

یارم کی پہلی سالگرہ تھی جب سردار عفاف کے سامنے آیا اور کہنے لگا۔۔

"عفاف میں تمہیں اپنی امی سے ملوانا چاہتا ہوں میں نے کہا تھا نہ جب وقت صحیح ہو گا میں تمہیں ان سے ملنے آؤں گا۔۔

 تو آجال تیار ہو جاؤ تاکہ ہم امی کے ساتھ جا کر رہ سکیں۔۔

 چلو میرے ساتھ آج سے ہم قصرِ سردار میں رہیں گے"

 اس نے عفاف کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا جسے سن کر عفاف خوشی سے سرشار ہوئی تھی۔۔۔

 تو اس کی فیملی کمپلیٹ ہونے والی تھی مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ اصل مشکلات تو اسکی اب شروع ہوئی تھیں۔۔۔

 جیسے ہی وہ اسے اپنی ماں کے سامنے لے کر آیا تو سردار کی ماں سردار کے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھ کر دنگ رہ گئی تھیں۔۔۔ 

جس کے ہاتھ میں ایک سال کا بچہ بھی تھا۔۔

" سردار تم کسے لے آئے ہو اپنے ساتھ ہر دفعہ تو تم اکیلے آتے ہو"

 سردار کی ماں نے ذرا ناخوش لہجے میں کہا۔۔۔

" ماں یہ بہو ہے آپ کی اور یہ آپ کا پوتا اس نے یارم کو اپنی ماں کی گود میں دیا"

 جسے انہوں نے چٹاچٹ چوم لیا تھا مگر عفاف ان کو ایک آنکھ نہ بھائی تھیں۔۔۔

 وہ سردار کے لیے اونچے خاندان کی بہو لانا چاہتی تھیں۔۔۔

 مگر عفاف کو دیکھ کر ان کا یہ خواب ان کو چکنا چور ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔

                *******

 وقت کا پہیہ چلتا رہا اور وہ عفاف کی گہری سے گہری دشمن بنتی چلی گئیں۔۔۔

 اسے بات بات پر ٹوکتی طعنے دیتی طنز کرتیں۔ 

ایک طرح سے انہوں نے عفاف کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔۔۔

سردار کے کان وہ الگ بھرتی تھیں۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ سردار عفاف کو چھوڑ دے۔۔۔۔۔۔

 مگر وہ بھی اپنی بات کا ایک تھا ان کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔۔۔۔۔۔۔

                   ****

 سردار یہ دیکھو آج تمہاری بیوی نے میرا ہاتھ جلا دیا۔

 اس کی ماں نکلی آنسو بہاتے سردار کے گلے لگی جو عفاف کو گھور رہا تھا۔۔۔

" تم اس کو کچھ کہہ کیوں نہیں رہے ایسے کیوں کھڑے ہو"

 اپنی ماں کے رو کر کہنے پر اس نے ان کی خوشی کے لئے عفاف کو تھوڑا سا ڈانٹ دیا۔۔۔

جو اس کی بات سن کر ڈس ہارٹ ہوئی تھی۔۔۔

"عفاف آئندہ میں تمہیں اپنی ماں سے بدتمیزی کرتا ہوا نہ دیکھوں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اب اندر جاؤ "

اس نے اپنی آواز میں غصہ لاتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ اپنی ماں کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا مگر وہ عفاف کو ایسا بھی نہیں کہنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

 وہ جانتا تھا کہ اس کی ماں سچ نہیں کہہ رہیں مگر وہ اپنی ماں کو اس کے منہ پر جھوٹا بھی نہیں کہنا چاہتا تھا۔۔۔

تبھی وہ عفاف کو گرکھتا گھر سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔

پیچھے عفاف نم آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہی تھی۔۔۔

                    ****

 اب تو ایسا ہر روز ہونے لگا تھا سردار روز کی جھک جھک سے تنگ آ گیا تھا۔۔۔

تو ریفریشمینٹ کے لیے آج وہ عفاف کے ساتھ باہر کروز پر آیا تھا۔۔۔

 اپنے سب دوستوں کے درمیان جہاں ان کی شرط لگی تھی کہ کون پانی میں سب سے زیادہ دیر ٹھہر جاتا ہے۔۔۔

 ہر ایک لڑکی کو فشنگ کے لیے کہا گیا تھا جو سب سے پہلے ٹاسک جیتتی اس کا پارٹنر پانی سے باہر آ جاتا ۔۔۔

ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر عفاف ایک بھی مچھلی نہیں پکڑ پائی تھی۔۔۔ 

اور وجہ اس کے ذہنی دباؤ تھا جو اس کی ساس کی طرف سے وقتن فوقتن اسے ملتا رہتا تھا۔۔۔

 اور ایک گھنٹے سے سردار پانی میں تھا ۔۔۔

پلیز آپ لوگ اسے باہر آنے دیں پانی کتنا ٹھنڈا ہے گیم کو ختم کریں۔۔

 مگر عفاف کی صدا کسی نے نہیں سنی تھی۔۔۔

" سنا تم نے سردار تمہاری بیوی تمہارے لئے پریشان ہو رہی ہے۔۔۔

 وہ سمجھ رہی ہے کہ تم ایک گھنٹے سے زیادہ بھی پانی میں نہیں ٹک سکتے۔۔۔

یلدرم نے سردار کو طنز کرتے کہا تو وہ مسکرا دیا۔۔

" فکر مت کرو عفاف کوئی بات نہیں میں اس سے زیادہ دیر پانی میں رک سکتا ہوں۔۔۔

 اس کی بات سنتی وہ غصے سے اس کے پاس سیڑھیاں اترتی نیچے گئی تھی اور پانی میں ہاتھ کیا تھا تاکہ وہ اوپر آجائے مگر سردار نے اسے بھی پانی میں کھینچ لیا تھا۔۔۔

جو چھڑاپ سے پانی میں گری تھی۔۔۔

سردار اسے اپنے ساتھ بھگوتا چلا گیا

 انہیں دیکھ کے سب نے منہ اِدھر اُدھر کر لیے تھے۔۔۔۔۔

رات کو وہ سردار کے کندھے پر سر رکھے لیٹی تھی۔۔۔

"دار"

 عفاف نے اسے پیار سے پکارا جب بھی عفاف کو سردار پر پیار آتا تھا۔۔

 تو وہ اسے دار کہہ کر پکارتی تھی۔۔

 سردار جان نثار کر دینے والی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔

"جی میری جند جان"

" آپ میرا ساتھ تو نہیں چھوڑیں گے نہ" اس نے اپنے لہجے میں آس لئے پوچھا۔

" نہیں میری جان تمہیں ایسا کیوں کر لگا کہ میں تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا وہ تو اس جہان میں ممکن نہیں"

 سردار نے اس کا سر چومتے ہوئے کہا اس بات سے انجان کہ وہ اپنے ان لفظوں پر کھرا نہیں اتر پائے گا۔۔۔

 بس تم پرسوں کی پارٹی کے بارے میں سوچو ہماری ویڈینگ  اینی ورسری بہت خوبصورت  اور گرینڈ ہونے والی ہے"

 سردار نے اس کا دھیان دوسری بات کی طرف لگا دیا۔۔۔۔

 مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ خوبصورت رات اس کے لیے کتنی سیاہ رات بننے والی ہے۔۔۔

                   *****

" میڈم سردار صاحب آپ کی باتوں میں ہی نہیں آتے اب ایسا کیا ہوگا کہ وہ عفاف کو چھوڑ دیں اور پھر سے آپ کی بات ماننے لگیں"

 سردار کی والدہ کی ملازمہ نے انہیں عفاف کے خلاف بھڑکانا چاہا۔۔۔

فکر مت کرو سکینہ تم بس دیکھتی جاؤ کہ میں پرسوں کتنا بڑا دھماکہ کرنے والی ہوں۔۔۔

 سردار چاہے اپنی بیوی سے کتنا ہی پیار کرتا ہو مگر ماں اسے سب سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔

 جب وہ اپنی ماں کو اپنی بیوی کی وجہ سے مرتا ہوا دیکھے گا تو یقیناً وہ عفاف کو گھر سے نکال باہر کرے گا۔۔۔

                     ****

 دو دن بھی پر لگا کر اڑ گئے تھے۔۔۔

آج قصرِ سردار کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ آج عفاف, سردار اور یارم تینوں نے ہی وائیٹ ڈریسنگ کی تھی۔۔۔

 تینوں ہی نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے ۔۔۔پارٹی میں ہر طرف انہی کے چرچے تھے۔۔۔

 سردار عفاف کو جتنا دیکھتا اتنا کم تھا اس کی بے چین نظریں ہر وقت عفاف کا ہی طواف کر رہی تھیں۔۔

 جو آج ہر طریقے سے اس کا دل موہ رہی تھی۔۔

                ********

 عفاف سب مہمانوں سے مل رہی تھی جب ملازمہ اس کے پاس بھاگتی ہوئی آئی اور اسے بتایا کہ سردار کی والدہ کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔۔۔

 وہ اس کی بات سنتے ہی فوراً وہاں سے نکلتی اندر بنے حال کی طرف گئی۔۔

یہاں کسی قسم کا کوئی کیمرہ موجود نہ تھا۔۔

وہ سردار کے ماما کو زمین پر پڑے تڑپتا دیکھ حقیقتاً گھبرا گئی تھی۔۔۔

" آنٹی آنٹی کیا ہو آپ کو سانس لیں"

انکا گلا سرخ پڑ رہا تھا۔۔۔

 وہ ہاتھ سے اسے اشارہ کرتیں اپنا گلا دبانے کو کہہ رہی تھیں۔۔۔ 

جو انہے نہ سمجھی سے دیکھ رہی تھی۔۔

 بھلا گلا دبانے سے کیا ہوگا۔۔

 مگر ان کے پرزور اصرار پر اس نے ان کا گلا ملنا چاہا۔۔

 جس پر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اسکے ہاتھوں پر رکھے تھے اور یہی لمحہ تھا۔۔

 جب سب نے اندر آتے ہی عفاف کو ان کا گلا دباتے ہوئے دیکھا تھا جو اس سے اچانک ہی کہنے لگی تھیں۔

"چھوڑ دو مجھے مت مارو پلیز چھوڑو مجھے"

 ان کے ایک دم چلانے پر عفاف کے اوسان خطا ہوگئے تھے اور وہ پل میں پسینے میں نہا گئی تھی۔۔۔

 "عفاف"

 سردار کی آواز پر وہ چونک کر پلٹی تھی۔۔۔

جو سب کے ساتھ دروازے میں ششدر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جیسے کوئی انہونی دیکھ لی ہو۔۔۔۔

جوں ہی وہ سب اندر آئے تو اندر کا ماحول دیکھ کر دنگ رہ گئے جہاں عفاف بشرہ بیگم کا گلا دبا رہی تھی۔۔۔

"عفاف"

سردار کی دھاڑ پر وہ سہم کر اٹھی۔۔۔

"سردار وہ آنٹی اٹھ نہیں پا رہیں انکی طبيعت ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات پوری کرتی سردار کے ہاتھ سے پڑنے والے بھاری تھپڑ نے اسکی آواز سلب کر لی تھی اور وہ بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"دار"

"شٹ آپ جو آئندہ مجھے اس نام سے پکارا۔۔۔

 میری ماں کہتی رہیں

 کہ تم ایک اچھے بیوی نہیں بلکہ ڈائین ہو پر میں ہی نہ سمجھ سکا۔۔

میری آنکھوں پر تو تمہاری محبت کی پٹی بندھی تھی بھلا میں کیسے دیکھ پاتا تمہارا یہ مکروہ چہرہ"۔۔۔

سردار کے الفاظ تھے یا نشتر جسنے اسکی روح تک کو گھائل کر دیا تھا۔۔۔

"دار میری بات تو سنو"

اسنے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی مگر وہ ہرجائی کچھ بھی سننے سے قاصر تھا آج۔۔۔

"کہنے سننے کے لیے کچھ نہیں بچا اب دفعہ ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور آئندہ کبھی مت آنا سامنے"

اسنے عفاف کو بازو سے دبوچتے دروازے کے پاس لے جا کر اتنی شدت سے پھینکا کہ اسکی ہتھلیاں اور گھٹنے بری طرح چھل گئے جس سے خون بہنے لگا تھا اور سر الگ دروازے سے ٹکرایا۔۔

جس سے خون کی لکیر ٹپک پڑی تھی۔۔۔

"ٹھیک ہے میں اب کوئی صفائی نہیں دوں گی۔۔

 تم جیسے پتھر دل کو مگر اپنا بچہ میں ساتھ لے کر جاؤں گی"

وہ روتے ہوئے اندر آئی اور اپنا بچہ لینا چاہا مگر سردار آگے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔

"ڈونٹ یو ڈیئر ہاتھ بھی مت لگانا۔۔۔

میں اپنے بچے پر تمہاری پرچھائی بھی نہیں پڑنے دوں گا ابھی کے ابھی نکلو یہاں سے اور دوبارہ پلٹ کے بھی مت آنا یہاں"

اسکی باتیں اندر ہی اندر عفاف کو مار رہی تھیں۔۔

کیسے چاہ سکتی تھی وہ اس سنگدل شخص کو۔۔۔

مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔۔

"نہیں جاؤں گی میں آپ کیا سمجھتے ہیں ہر بار آپ کی مرضی نہیں چلے گی۔

 وہ میں نہیں تھی جو آپ کی زندگی میں آئی تھی وہ آپ تھے جو زبردستی میری زندگی میں شامل ہوئے۔۔۔

 زبردستی مجھ سے نکاح کیا۔۔

میں نے آپ کی منتیں نہیں کی تھیں۔ 

ارے میں تو آپ سے نفرت کرتی تھی نفرت۔۔۔

مگر وہ آپ تھے جس نے نہ صرف میری زندگی کو زبردستی اپنے قابو میں کیا۔۔

 بلکہ مجھے اپنے آپ سے پیار کرنے پر مجبور کیا۔۔

 اور اب جب میں آپ کے پیار میں ڈوب چکی ہوں تو آپ مجھے اپنی زندگی سے بے دخل کر رہے ہیں۔۔۔

 کیسے کٹھور دل آدمی ہیں آپ"

 وہ اس کا کالر تھام کر غصے سے روتے ہوئے بولی۔۔۔

 تو سردار نے اس کا منہ دبوچ لیا۔۔۔

 عالیان اور شہریار دونوں آگے ہوئے تھے مگر سردار کی ایک سرد ٹھٹھرتی نظر نے انہیں اپنی جگہ رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔

" لڑکی کیا تم اپنی اوقات بھول گئی ہو اور یہ بھی کہ میں اصل میں کیا چیز ہوں۔۔۔۔۔۔

 جو تمہاری بولنے کی اتنی جرات ہوگئی ہے۔۔۔

 تو سنو تمہاری بکواس کا مجھ پر اتنا سا بھی اثر نہیں ہوا۔۔۔

 اس لیے بہتر ہے کہ ہماری زندگیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی۔۔

جاؤ ورنہ تم پر قہر بن کر برسوں گا کہ کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی منہ چھپانے کو "۔۔۔۔

اس نے عفاف کو پکڑ کر گھر سے باہر نکالتے ہوئے کہا اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔

 سب نے اسے روکا تھا مگر سردار نے کسی ایک کی بھی بات نہیں سنی۔۔۔

 "اگر کسی نے بھی باہر جانے کی کوشش کی تو اس سے سردار کے سارے رشتے ناطے ختم ہو جائیں گے"

اس بات نے سب کے قدموں کو زنجیر کیا تھا اور وہ چاہتے ہوئے بھی عفاف کے پاس نہ جا سکے تھے....

" دروازہ کھولو مجھے اپنا بچہ لے لینے دو ظالم انسان میں اپنے بچے کے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔ 

پلیز مجھے میرا بچہ لوٹا دو۔۔۔ "

وہ دروازہ پیٹتے باہر رو رہی تھی۔۔۔

 یہاں تک کہ اسکے ہاتھ زخمی ہو گئے مگر کوئی باہر نہ آیا۔۔۔

 مسلسل دو گھنٹے بعد بھی جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو وہ گھومتے سر کے ساتھ اٹھی تھی۔۔

" یا اللہ میں کس سے مدد مانگو کون کرے گا میری مدد ہاں پولیس سٹیشن جاتی ہوں وہ ضرور مدد کریں گے میری"

 وہ اپنا بچہ چھن جانے پر ایک دم پاگل ہو گئی تھی کہ بغیر سوچے سمجھے روڈ کراس کرنے لگی۔۔۔

اور دائیں طرف سے آتی تیز رفتار گاڑی کو نہ دیکھ سکی جو اچانک اس سے آ کر ٹکرائی تھی۔۔۔۔

 گاڑی لگنے کی وجہ سے اس کا وجود تیزی سے اوپر ہوا میں لہرایا تھا اور ایک دم سے زمین پر آ گرا۔۔۔

اسکا خون چاروں طرف پھیلتا چلا گیا تھا۔۔۔

آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس نے ایک جانا پہچانا چہرہ دیکھا ہے اور اس کے منہ سے کانپتی آواز سے نکلا۔۔۔

" تم"

 اور پھر کچھ بھی کہنے سننے کے لیے وہ ہوش میں نہ رہی تھی۔۔۔

                 *******

سردار نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا اور رہی بات باقی سب کی تو وہ سب باری باری جانے لگے تھے۔

سردار کے جاتے ہی شہریار اور ذیشان اور عالیان باہر کو بھاگے تھے۔

 عفاف کے پاس جانے کے لیے مگر وہاں دور دور تک عفاف کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔۔

"شٹ شٹ شٹ آخر کہاں گئی عفاف اسکو یہیں ہونا چاہیے تھا نہ۔ 

اسکو تو یہاں کے رستوں کا بھی نہیں پتہ"

عالیان نے سر پکڑتے پریشانی سے کہا۔۔۔

"کیا پتہ وہ اپنے بابا کے پاس گئی ہو"

ذیشان نے چونک کر کہا۔۔۔

"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اسکے بابا تو کوما میں ہیں وہ انکے پاس جا کر کیا کرے گی۔ وہ تو یہاں کسی کی مدد بھی نہیں لے سکتی تھی۔

وہ سب اس بات سے انجان تھے کہ عفاف کے والد تو کب کے انتقال کر چکے تھے۔۔۔

لیکن ہاں شاید وہ پولیس سٹیشن گئی ہو اس لڑکی سے کسی چیز کی بھی امید کی جا سکتی ہے چلو وہاں دیکھتے ہیں"

وہ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بغیر دیر کیے نکلے تھے۔۔۔

                      *********

سردار کمرے کے دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جو اسنے عفاف پر اٹھایا تھا۔۔۔

وہ ایک دم اٹھا اور اپنا ہاتھ شیشہ توڑ کر زخمی کر لیا۔۔۔

"کیوں کیوں آخر کیوں عفاف تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ 

تم نے تو میری دولت چھوڑ میری سب سے بڑی کمزوری میری ماں پر ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ میں کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

میں نے تمہیں یہاں سے تمہارے بھلے کے لیے بھیجا ہے ورنہ تم شاید نہیں جانتی کہ میں اپنے ہاتھوں تمہاری جان لے لیتا۔۔۔

سب سے بڑا دھوکا دیا ہے تم نے سردار کو سردار کے دل پر وار کیا ہے۔ جسکی کوئی معافی نہیں"

وہ اپنے آنسو صاف کرتا اٹھا اور واشروم میں میں بند ہو گیا۔۔۔۔

                         ******

وہ سب اسکو پوری رات ڈھونڈتے رہے تھے۔ مگر عفاف نہ انکو ملی تھی اور نہ ہی اسے ملنا تھا۔۔۔

وہ سب صبح شکستہ حال سردار مینشن پہنچے تھے۔

 جہاں سردار کی والدہ شگفتہ اپنے گلے پر پٹی باندھے اپنی ملازمہ کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھیں۔۔۔

سردار بھی وہیں میز پر براجمان ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔

وہ سب اسکو یوں آرام سے بیٹھے ناشتہ کرتے دیکھ حیرت کا شکار ہوئے تھے۔۔۔

"سردار تم یہاں بیٹھے ہو"

شہریار نے حیرت سے کہا۔۔۔

"ہاں تو مجھے اور کہاں ہونا چاہیے تھے"

اسنے منہ اٹھاتے سنجیدگی سے کہا تو عالیان نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں۔۔۔۔

"تمہاری بیوی کل رات سے غائب ہے اور تم یہاں ناشتے سے لطف اندوز ہو رہے ہو ڈیم اٹ"

عالیان نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر مارتے

 کہا تو سردار نے اسے شرر بار آنکھوں سے دیکھا۔۔۔

"عالیان بیٹا اس لڑکی نے میرے ساتھ اتنا کچھ کیا اور تم ابھی تک اسکی سائڈ لے رہے ہو کیا تمہیں مجھ پر یقین نہیں"

سائرہ بیگم نے آنسو سے لبریز آنکھوں سے کہا تو عالیان کو ایک دم پشیمانی ہوئی۔۔۔

"سوری آنٹی میرا یہ مطلب نہیں تھا"

"مام آپ چل کر کمرے میں آرام کریں یہاں میں سمبھال لوں گا۔

 احساس ہمیشہ اپنوں کو ہوتا ہے پرایوں کو نہیں"

سردار نے انہیں اٹھاتے ملازمہ کو اشارہ کیا جو اسے اندر لے گئی۔۔۔

"سردار تم ایسا مت کرو عفاف کے ساتھ وہ ایسی نہیں ہے"

شہریار نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تو سردار نے پلٹ کر اسے زور کا مکا مارا۔۔۔

یہاں تک کہ اسکے منہ سے خون نکلنے لگا۔۔۔

"سردار "

وہ سب اسے روکنے آگت بڑھے تھے۔۔۔۔

 "تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اس کا نام لینے کی جسنے ہماری ماں کو جان سے مارنا چاہا۔۔۔

 جب میں ایک دفعہ کل بکواس کر چکا ہوں کہ اس کا نام اس گھر میں کوئی نہیں لے گا تو مطلب کوئی نہیں لے گا۔۔۔

 اگر آئندہ میں نے تم سب کے منہ سے اس کا نام ایک بار بھی سنا تو اس کا اس گھر میں آنا بند کر دوں گا میں یہ میری آخری وارننگ ہے"

 اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

" تو کیا تمہارے اس طرح کہنے سے تمہارا پیار ختم ہو جائے گا عفاف کے لئے"

 شہریار نے اپنے منہ سے خون صاف کرتے ہوئے کہا...

" وہ کل ہی میرے دل سے اتر گئی تھی جب اس نے میری ماں پر حملہ کیا۔۔

 اب میرے دل میں اس کے لئے کوئی جذبہ باقی نہیں رہا۔۔۔

وہ بس ایک قاتل ہے اور کچھ نہیں۔۔۔

 وہ میرے لیے مر چکی ہے اور بہتر ہے کہ تم لوگ بھی اسے اپنی زندگی سے نکال دو"

 سردار کے سخت الفاظ وہاں کھڑے ان سب کو ہلا گئے تھے۔۔۔

" اچھا ایسی بات ہے۔۔۔

ہم تو اسے اپنی زندگی سے نکال دیں گے ۔۔

مگر یارم اس کا کیا اس کی تو ماں ہے نہ وہ تم ایک بچے کو اس کی ماں سے الگ کیسے کر سکتے ہو"

 عالیان نے طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

                        ****

" جیسے اس نے مجھے میری ماں سے الگ کرنا چاہا ویسے میں نے اسے اس کے بیٹے سے الگ کر دیا بات ختم"

 اس وقت سردار کا لہجہ ظالم حد تک سفاک تھا۔۔۔

" ہممم صحیح کہا تم نے اگر وہ مر بھی جائے تو تمہیں اتنا فرق نہ پڑے صحیح کہا نہ میں نے سردار"

 یلدرم نے دروازے میں کھڑے ہوئے اپنے بازو سینے پر لپیٹتے ہوئے دلچسپی سے کہا۔۔۔

 تو سردار کے دل کو کچھ ہوا تھا اس کی بات سن کر۔۔

" کیا ہوا تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑ گیا اچھا نہیں لگا کہ میری بات سن کر"

 اس کی بات سن کر سردار نے اپنی ٹائی ڈھیلی کی تھی۔۔۔

" اپنی بکواس بند کرو "

سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا...

" کیوں برا لگ رہا ہے کیا میری بات سن کر۔۔

 ابھی خود ہی تو تم نے کہا کہ وہ تمہارے لیے مر گئی ہے۔۔

 اور اگر وہ اصل میں بھی مر بھی گئی تو تمہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ 

یتیم تو یارم ہو گا نہ تم نہیں کیونکہ یارم صرف اسکا بیٹا ہے۔۔۔

یہی کہا تھا نہ تم نے کل۔۔۔

وہ مل نہیں رہی کیا پتہ وہ پہلے ہی مر گئی ہو۔۔۔

کوئی درندے اس انجان شہر میں اسے نوچ کھسوٹ کر کھا گئے ہوں..

 یا پھر وہ کسی کھائی میں گر گئی ہو۔۔۔

اور ویسے بھی تم بھی تو یہی چاہتے ہو نہ کہ وہ مرجائے تو اس سے اچھا ہے کہ اسے مر جانا چاہیے"

 اس کی بات پر وہاں کھڑے ہر ایک شخص کی روح تک لرز گئی تھی...

 جبکہ سردار اپنا آپا کھوتے ہوئے اس کے پاس آیا تھا اور اسے پے در پے مکے مارتا چلا گیا تھا۔۔۔

" یلدرم تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو ہم سب اسے ڈھونڈ تو رہے ہیں مل جائے گی وہ پلیز ایسی بات مت کرو"

 عالیان نے اسے سردار سے چھڑاتے غصے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

 سردار کو سانس چڑھ چکا تھا۔۔۔

 وہ واپس جانے کو پلٹا تھا..

 جب یلدرم کی بات پر اس کے قدم زنجیر ہوئے تھے۔۔۔

" جانتے ہو سردار میں دعا کرتا ہوں کہ عفاف مر جائے کیونکہ اگر وہ بچ بھی گئی تو اسے یارم کی جدائی مار ڈالے گی"

 یلدرم یہ کہتے وہاں سے جا چکا تھا جب کہ اپنی بات سے وہ سردار کے دل کو بری طرح کچل کر لہولہان کر چکا تھا۔۔۔

                   ******

اس بات کو تین ماہ گزر چکے تھے۔ 

ان میں سے کوئی بھی اب تک عفاف کو ڈھونڈ نہیں پایا تھا۔۔۔

سردار بظاہر عام انداز میں سب کے ساتھ رہتا تھا۔

دوستوں سے ملنا جلنا بھی جاری تھا اور لوگوں کو دکھانے کے لیے لڑکیوں سے میل ملاقات بھی تاکہ لوگ یہ نا سمجھیں کہ بیوی کا روگ دل سے لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔

لڑکیاں اسکے کمرے میں جاتی ضرور تھیں۔۔

مگر اندر جا کر ایک کونے میں بیٹھی رہتیں تھیں کیونکہ سردار کسی کو اپنے پاس تک نہیں آنے دیتا تھا۔۔۔۔

اسکی زندگی پوری بدل کر رہ گئی تھی۔۔۔

سب اسے ڈھونڈنے میں جب ناکام ٹہرے تھے تو سردار نے بغير کسی کے علم میں لائے اسے ڈھونڈنا شروع کیا تھا اور وہ بھی ناکام ٹہرا تھا۔۔۔

اور یہی بات اسکے اعصاب جھنجھوڑنے کا باعث بن رہی تھی۔۔۔۔

اسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔۔۔۔

اسنے مہنگے سے مہنگا انویسٹیگیٹر ہائر کیا تھا۔۔۔۔

مگر کوئی اسکی چھوٹی سی خبر میں نہ لا پایا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکے طیش میں اضافے کا باعث بن رہی تھی۔۔۔

                         ******

آج صبح وہ سب پھر اکٹھے ہو کر ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔

ان دنوں یہ ہوا تھا کہ یلدرم کی شادی ہو گئی تھی۔ 

وہ لڑکی نہ صرف پیاری اور نہایت اچھی اخلاق کی مالک تھی۔۔۔

سب کے لیے شاک کی بات تھی کہ دل پھینک یلدرم اتنی اچانک کیسے بدل گیا تھا۔۔۔۔

"اور سناؤ بھئی کیسی جا رہی ہے تمہاری شادی"

زیشان نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔

"ہائے فائے برو اب میرے پاس بھی کوئی ہے جو رات کو میرا انتظار کرتی ہے..

اپنے ہاتھوں سے میرے لیے کھانا بناتی ہے اور سچ پوچھو ایسی اچھی بیوی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ہے نہ سردار"

زیشان نے شروع میں سب کو جواب دیتے آخر میں سردار پر گہرا طنز کیا تھا...

 جو اسنے بمشکل مٹھیاں بھینچ کر برداشت کیا تھا۔۔۔

ورنہ اسکی بات پر اسے عفاف کی یاد شدت سے آئی تھی جو اپنے ہاتھوں سے اسکے لیے کھانا بناتی تھی۔۔۔

اور یہاں تک کہ رات دیر تک اسکا انتظار کرتی تھی۔۔۔

اسے یاد کرتے اسکی آنکھ ہلکی سی نم ہوئی تھی۔۔۔

"عفاف کا کچھ پتہ چلا "

شہریار نے پوچھا تو سب عفاف کے زکر پر سنجیدہ ہوئے تھے۔۔۔

سب نے نفی میں سر ہلایا تھا کیونکہ کوئی اس تک نہ پہنچ پایا تھا۔۔۔

بظاہر تو سردار خود کو لاپرواہ ظاہر کر رہا تھا مگر درحقيقت اسکے کان وہیں ٹکے تھے۔۔۔

یلدرم اپنا فون وہیں چھوڑ انسے ایکسکیوز کرتا اٹھا تھا اور واشروم چلا گیا۔۔۔

جیسے ہی وہ وہاں سے گیا..

 اسکے فون پر کال آنے لگی جہاں وائفی کالنگ لکھا تھا۔۔۔

سب نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔۔۔

"ارے وہ دیکھو یار وہ تو باہر گلاب کے پھول خرید رہا ہے"

عالیان نے سبکی توجہ باہر کی جانب کروائی۔۔۔

جہاں یلدرم خوشی خوشی گلاب کے پھول خرید رہا تھا ۔۔۔

"جلدی کال پک کرو بھابھی کو بتاتے ہیں"

شہریار نے فوراً کال پک کرتے سپیکر پر ڈالی تھی۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ اسے کچھ کہتے وہ آگے سے پہلے ہی بول پڑی۔۔۔

"یلدرم کہاں ہو تم کیا عفاف کے پاس نہیں جانا۔۔۔

تم جانتے ہو نہ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔وہاں سے جلدی نکلو پھر ہم عفاف سے ملنے کے لیے چلیں گے میں تیار ہوں بس تم گھر آ جاؤ...

اور تم نے پھول لے لیے نہ اسکے لیے یاد سے لیتے آنا"۔۔۔۔

یہ کہتے ہی کال کٹ چکی تھی۔۔۔

جبکہ اب وہاں موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔

سبکے ہی زہن میں یہ سوال تھا کہ یلدرم جانتا تھا عفاف کہاں ہے مگر اسنے کسی کو کیوں نہیں بتایا چھپایا کیوں۔۔۔۔

                       *******

اچھا گائز اب میں چلتا ہوں اپنی بیوی کو پھول بھی تو دینے ہیں۔۔۔

اسنے اندر آتے اپنی چیزیں اٹھائیں مگر ان سب کے تاثرات نہ نوٹ کر سکا۔۔۔

جیسے ہی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اسکے جاتے ہی سب ایک گاڑی میں اسکے پیچھے نکلے تھے۔۔۔

گاڑی سردار ڈرائيو کر رہا تھا۔ جسکی سپیڈ وہ لمحہ با لمحہ بڑھاتا جا رہا تھا۔۔۔

سب خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھ رہے تھے جو خطرناک حد تک غصے سے لال ہو چکا تھا۔۔۔

کسی میں کچھ بھی کہنے کی ہمت باقی نہ تھی۔۔۔

وہ یلدرم کی گاڑی کا پیچھا کر رہے تھے۔۔۔

پہلے یلدرم نے اپنی بیوی کو گھر سے 

پک کیا اور پھر آہستہ آہستہ گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔۔

سردار کی گاڑی بھی ٹھیک بلکل اس کے پیچھے تھی۔۔

 جیسے ہی یلدرم کی گاڑی اپنی منزل کو پہنچی تو سردار کے ساتھ ساتھ باقی سب بیٹھے بھی حیرت سے دنگ ہوئے تھے۔۔۔

 منہ میں کہنے کے لیے کوئی الفاظ نہ بچا تھا۔۔

جو وہ دیکھ رہے تھے۔۔

 وہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔۔

 انہیں لگا یہ سب جھوٹ ہے مگر یلدرم کی یہاں موجودگی کسی انہونی کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔۔۔

 جیسے ہی یلدرم قبرستان کے اندر گیا سردار بھی کانپتے قدموں سے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔

جیسے ہی یلدرم نے ایک قبر کے سامنے پہنچ کر اس کی قبر پر گلاب کے پھول رکھے اور قبر پر کندہ نام پڑھ کر سردار کے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی۔

 اپنے جسم سے جان نکلنا کسے کہتے ہیں سردار کو یہ آج معلوم ہوا تھا۔۔۔

اس کی ہستی صحیح معنوں میں ہل کے رہ گئی تھی۔۔۔۔

عفاف بنت سیال نام کی قبر دیکھ کر عالیان کے دل میں درد اٹھا تھا اور اس نے بے یقینی سے سردار کو دیکھا۔۔

 جو خود پھٹی آنکھوں سے قبر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

                       *****" یلدرم یہ سب کیا ہے تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور اس قبر پر عفاف کا نام کیوں لکھا ہے" ذیشان چیخ کر بولا۔۔

 ذیشان کی آواز سن کر یلدرم اٹھا اور پیچھے پلٹا حیرت سے تو اس کی بیوی بھی دیکھنے لگی تھی سب کو۔۔۔

" تو آخر تم سب کو پتہ چل ہی گیا ویسے میں کبھی بھی نہیں چاہتا تھا کہ تم لوگوں کو پتہ چلے۔۔۔

 مگر خیر اب تم لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہے تو چھپانے کا اور کوئی فائدہ نہیں"

 یلدرم نے صاف سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔

" مطلب کیا ہے تمہارا اور صاف صاف بتاؤ تم کب سے جانتے ہو کہ عفاف مر چکی ہے اور ہمیں کیوں نہیں بتایا"

 اس کے کالر کو مٹھیوں میں دبوچتے شہر یار نے بپھرتے ہوئے کہا۔۔۔

عین ممکن تھا کہ وہ اسے ایک مکا ضرور جھڑ دیتا۔۔۔۔

" جاننا چاہتے ہو میں نے تم میں سے کسی کو بھی کیوں نہیں بتایا تو سنو۔۔۔

 میں اسی دن جان گیا تھا جس دن تم نے عفاف کو گھر سے باہر نکالا تھا۔۔

میری آنکھوں کے سامنے اسے میں نے اپنی زندگی ہارتے دیکھا تھا۔۔۔

 اپنی ان آنکھوں سے اسے میں نے  خون میں رنگتے اور اپنے بچے کو صدائیں لگاتے دیکھا تھا۔۔۔

 اس دن میرے ہاتھ اسکی دم توڑتی سانسوں اور لمحہ بلمحہ تیزی سے بہتے خون سے رنگے ہوئے تھے۔۔

 اور اس دن میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اس کی موجودگی کا علم تم میں سے کسی ایک کو بھی نہیں ہونے دوں گا۔

کیونکہ تم سب کے سب اس کی موت کے ذمہ دار ہو۔۔

کیوں کہ تم میں سے کسی ایک نے بھی اس کا یقین نہیں کیا تھا نہ اس کے پیچھے آیا۔۔

 اگر تم لوگ اس کو روک لیتے تو حالات ایسے نہ ہوتے".

 یلدرم نے بھی غصے سے سرخ ہوتے شہریار کو پیچھے دھکا دیا تھا۔۔

جو عالیان پر جا کر گرا تھا۔۔

" مگر سردار تو اس کا شوہر تھا کم از کم عفاف کی آخری رسومات کا حق ادا تو کرنے دیتے اسے "

عالیان نے سردار کی سرخ بہتی آنکھوں اور شکستہ قدموں سے زمیں پر بیٹھتے دیکھ یلدرم سے کہا ۔۔۔۔

" ہا ہا ہا ہا ہا ہا آخری رسومات وٹ آ جوک یہ ادا کرے گا اسکا حق اسے پتہ بھی ہے آخری رسومات ہوتی کیا ہیں۔۔۔

 کیا یہ حقدار تھا اس کا۔۔

 نہیں بالکل نہیں تم ایک قاتل کو کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ مقتول کا حق ادا کرے۔۔

 اتنا ہی آسان ہے یہ سب۔۔۔

 اصل میں تو یہی مجرم ہے اس کی موت کا۔۔

 کیسے وہ اس سے اپنے بچے سے ملنے کی بھیک مانگتی رہی اور اس نے کیسے بے دردی سے اسے گھسیٹتے ہوئے چوکھٹ سے باہر نکال دیا تھا۔۔۔

یہ کہتے ہوئے کہ اس کے گھر میں اور اس کی زندگی میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔۔۔

 وہ مر چکی ہے اس کے لئے۔۔۔۔

یہی کہا تھا نہ تم نے سردار۔۔۔

 اور اب اگر وہ مر ہی گئی ہے تو پھر یہ دکھ کا دکھاوا کیوں کم از کم اسے سکون سے مرنے تو دو۔۔۔

 تم جانتے ہو اس کی آنکھوں میں میں نے تمہارے لئے سچا پیار دیکھا تھا وفا دیکھی تھی۔۔۔۔۔

 مگر تم تو اس لائق ہی نہیں تھے اس لئے خدا نے اسے تم سے چھین لیا اور یقین مانو سب سے زیادہ خوشی میں  اس وقت میں ہوں۔۔۔

 میرے دل کی حالت اس وقت تمہیں دیکھ کر کتنی اچھی ہو رہی ہے۔۔

پوچھو مت کیونکہ تم یہی ڈیزرو کرتے ہو۔۔۔۔

اور تم دونوں ۔۔۔

اسنے عالیان اور شہریار کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔۔

"بڑی محبت کا دم بھرتے تھے میری بہن سے اب پتہ چلا کہ وہ تم دونوں کے مقدر میں کیوں نہیں لکھی گئی"

یلدرم نے سرخ آنکھوں سے زبردستی آنسو پونچھتے کہا۔۔

"کیونکہ تم لوگ اس پر یقین نہ کر پائے تم لوگوں کو بھی کیا کہنا یہ جب شوہر ہو کر اس پر اعتبار نہیں کر پایا تم لوگ تو پھر پرائے تھے"

اسکی بات پر دونوں کی آنکھیں شرمندگی سے جھک گئیں۔

"سچی محبت وہ نہیں جو بیچ منجھدار میں ساتھ چھوڑ دے۔

 سچی محبت تو وہ ہے جو مرتے دم تک ساتھ نبھائے جیسے عفاف نے تم سے کی سردار۔۔۔

اور بدلے میں تم نے اسے کیا دیا سردار۔۔۔۔۔۔۔۔ بے اعتابری ہنہہہ۔۔۔

 تم ہو ہی اس قابل کہ تنہائی تمہارا مقدر بنے اور تمہیں کوئی چاہنے والا نہ ہو۔

 اب بیٹھ کر غم مناؤ جو اصل میں تمہارے ساتھ تھی تم سے محبت کرتی تھی اسکو تو مار دیا تم نے اب بھگتو"

وہ طنزیہ انداز میں سردار کو جتاتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔

جبکہ یلدرم کی سچی اور تلخ باتیں سردار کا دل چیر کر لہو لہان کر گئیں تھیں۔

کان کچھ بھی سننے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے۔۔۔

وہ بس بکھرے ہلیے میں اہنی دنیا جہاں کی دولت اپنی محبت کھو دینے پر ماتم کناں تھا۔۔۔

اور بس یک ٹک عفاف کی  قبر کو دیکھ رہا تھا۔اسے لگ رہا تھا وہ اب بھی وہاں موجود ہے اور کہ رہی ہے کہ دیکھو 

"مجھے پا کر کھو دیا تم نے اے سوداگر کتنے گھاٹے کا سودا کیا تم نے"

تڑ تڑ برستی تیز برسات شروع ہو چکی تھی مگر وہ دنیا جہاں بھلائے قبر کو پیار سے چھوتا منہ میں اس سے واپس آنے کی التجا کر رہا تھا جو اس سے کیا بلکہ زندگی سے ہی روٹھ گئی تھی۔۔۔

"سردار اٹھو چلو یہاں سے تم بھیگ رہے ہو"

شہریار نے اسکا کندھا ہلایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔

"سردار تم سن رہے ہو"

عالیان نے اسے گرکھا مگر وہ کندھا جھٹک گیا۔۔۔

"تم لوگ جاؤ یہاں سے مجھے تنہا رہنے دو عفاف کے پاس تم دیکھ نہیں رہے وہ سو رہی ہے تم اس طرح بولو گے تو وہ اسکی نیند خراب ہو گی"

وہ ایک ایک لفظ چباتے بولا۔۔۔

"سردار"

زیشان کی زہنی کیفیت دیکھ حیرت سے دنگ لہجے میں بولا۔۔

"میں نے کہا دفعہ ہو جائے سب"

وہ ایک دم دھاڑا تو ناچار انکوں اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑے۔۔

"عفاف عفاف اٹھ جاؤ دیکھو میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں اٹھ بھی جاؤ تمہیں پتہ ہے نہ مجھے ایسے مزاق نہیں پسند"۔۔۔۔

"دیکھو بس ایک بار آ جاؤ بس ایک بار پھر کبھی تم پر غصہ نہیں کروں گا آئی سویئر اور دیکھو یارم بھی تمہیں یاد کر کے روتا ہے۔۔۔

 میرے لیے نہ صحیح اسکے لیے ہی آ جاؤ"

روتے ہوئے اس مضبوط مرد کی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔۔۔۔

"کیا کرو گے میرے واپس آنے پر"

سامنے عفاف کو بلکل سفید لباس میں دیکھ وہ چونکا تھا۔۔۔

نہایت سفید اجلا لباس تھا۔۔۔

مگر ماتھے اور ہتھلیوں سے خون ٹپک رہا تھا بلکل اس دن کی طرح جب سردار نے اسے دھکے دے کر نکالا تھا۔۔۔

"عفاف تم آ گئی میری جان پلیز اب مجھے چھوڑ کر مت جانا۔۔

 یہ سب کہتے ہیں کہ تم مر گئی ہو مگر میں جانتا تھا تم زندہ ہو۔۔۔

ہمیں کوئی الگ نہیں کر سکتا ہے نہ"

اسنے معصوم بچے کی طرح پوچھا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی ۔۔۔

تو وہ بھی مسکرا دیا۔۔۔

وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم پیچھے لینے لگی تو سردار کی جان لبوں پر آئی۔۔۔

"کہاں جا رہی ہو پلیز مت جاؤ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا"

وہ بےچین ہوا۔

"جھوٹ انتظار تو میں نے کیا تھا تمہارے آنے کا میں وہیں تمہارے در کی چوکھٹ پر بیٹھی رہی تمہیں بلاتی رہی مگر تم نہیں آئے۔۔۔

ہاں لیکن موت آ گئی"

اسنے عجیب لہجے میں کہا تو سردار نے اسے گرکھا۔۔۔

"کیسی باتیں کرتی ہو خبردار جو ایسی باتیں کیں"

اب میں کسی کو کبھی تمہیں دکھ پہنچانے نہیں دوں گا ۔میں تمہیں خود میں چھپا کر رکھ لوں گا پھر کوئی تمہیں مار نہیں پائے گا"

سردار نے جنونی انداز میں کہا تو وہ قہقہ لگا اٹھی مگر پھر بولی تو لہجہ دکھ درد سے لبریز تھا۔۔۔

"مجھے بھلا کون مارے گا۔۔

مجھے تو تم خود اپنے ہاتھوں مار چکے ہو اب تو مجھ میں کچھ بچا ہی نہیں"

"نہیں ایسا نہیں ہے تم زندہ ہو تم میری عفاف ہو مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جا سکتی"

وہ تو اسکی بات ہر پاگل ہو اٹھا تھا۔۔۔

"عجیب ستم ہیں تمہارے اے سوداگر سانسیں چھین کر کہتے ہو جینا ہو گا مجھے یہ کیسی خودغرضی ہے سردار"

وہ نم آنکھوں سے بولی تو وہ درد سے چلا اٹھا

" نہیں نہیں ہوں میں سوداگر نہیں ہوں سنا تم نے نہیں ہوں میں سوداگر۔

دلدار ہوں میں تمہارا"۔۔۔

جیسے ہی اسنے یہ کہا عفاف کا وجود ہوا میں حائل ہوتا غائب ہو چکا تھا۔۔۔

اور وہ پاگلوں کی طرح اسے پکارتا رہ گیا تھا۔۔۔

عفاف

عفاف 

عفاف 

مجھے چھوڑ کر مت جاؤووووو مر جاؤں گا میں "

وہ اسکی قبر پر سر رکھتے دکھتے جسم سے بولا۔۔۔

بارش اسے بھگوتی چلی گئی تھی مگر اسکے لبوں پر ایک ہی صدا تھی۔۔۔

" سوداگر نہیں میں دلدار ہوں تمہارا"۔۔۔

                    ********

"بیپ بیپ بیپ"

اس کمرے میں موجود مریض کی ہارٹ بیٹ تیز ہونا شروع ہوئی تو ڈاکٹرز میں افرا تفری مچ گئی تھی۔۔۔

"فوراً سر کو کال کرو مریضہ کو ہوش آ رہا ہے"

ڈاکٹر کے کہنے پر نرس بھاگ کر کسی کو کال کرنے بھاگی۔۔۔

"آہہہ یہ میں کہاں ہوں کونسی جگہ ہے یہ کون ہو تم لوگ"

اس لڑکی نے سر تھامتے ہوئے کہا۔۔۔

سر میں ٹیسوں کی شدید لہر اٹھ رہی تھی۔۔

"مجھے مجھے میرے بچے کے پاس جانا ہے کہاں ہے وہ میرا بچہ"

                           *****

سیزن 1 ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Mera Sodagar Mera Dildar Season1 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mera Sodagar Mera Dildar Season 1  written Aiman Raza Mera Sodagar Mera Dildar Season 1 by Aiman Raza is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages