Chori Jo Khanki hatho me By Pari Chehra Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 15 May 2024

Chori Jo Khanki hatho me By Pari Chehra Complete Short Story Novel

Chori Jo Khanki hatho me By Pari Chehra Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Chori Jo Khanki Hatho Me By Pari Chehra Complete Short Story Novel 


Novel Name: Chori Jo Khanki Hatho Me 

Writer Name:  Pari Chehra 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

مہندی کی تقریب پورے عروج پر تھی-پورا لان برقی قمقموں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا-چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنے لہنگے سنبھالتی ہاتھوں میں مہندی کی تھالیاں لیے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں-مدھم سی آواز میں بجتا میوزک ہر طرف ایک فسوں بکھیر رہا تھا-لڑکے والے مہندی لے کر آچکے تھے اور اِس وقت مہندی کی رسم ہو رہی تھی- ایک طرف بنے اسٹیج پر ہرے اور پیلے غرارے میں ملبوس گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی ماریہ کو چاروں طرف سے عورتوں اور لڑکیوں نے گھیر رکھا تھا-ہانیہ نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن نظر آرہا تھا-وہ بے دلی سے اپنی چوڑیوں سے کھیلنے لگی-چوڑیوں کی کھنک اُس کی پسندیدہ آوازوں میں سے ایک تھی-اُسے چوڑیوں سے عشق تھا-عید ہو یا شادی ہر فنکشن میں وہ چوڑیوں سے اپنی کلایاں بھرتی-عام روٹین میں بھی اُس نے کانچ کی کالی اور سفید چوڑیاں پہنی ہوتیں-فارغ وقت میں وہ اُن سے کھیلتی اور اِس وقت بھی وہ یہی کر رہی تھی-تبھی اُس نے عائشہ کو اپنی طرف آتے دیکھا-

"ہانی کی بچی تم یہاں بیٹھی ہو میں تمہیں ہر جگہ تلاش کر کے آئی ہوں"-عائشہ نے اُس کے سامنے والی چئیر پہ تقریباً گرتے ہوئے کہا-

"ہر جگہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی تم یہاں تلاش کر لیتی تو میں تمہیں پہلے ہی مل جاتی"- وہ شرارت سے بولی تو عائشہ کا دل چاہا کوئی چیز اُٹھا کہ اُس کے سر پہ دے مارے-

"تم کبھی نہیں سدھرو گی ہانی"-عائشہ نے ایک تاسف بھری نگاہ اُس پہ ڈالتے ہوئے کہا-

"تو تم سدھار دو"- وہ اُس کو تنگ کرنے والے انداز میں بولی-عائشہ کا پارہ بہت جلد ہائی ہو جاتا تھا اور ہانیہ اُسے جان بوجھ کہ تنگ کرتی تھی-

"میں پاگل تھوڑی ہوں جو یہ ذمہ داری لوں تم تو پتہ نہیں سدھرو گی کہ نہیں مگر تمہیں سدھارنے کے چکروں میں میرا دماغ ضرور خراب ہو جائے گا"-اُس کی بات پر عائشہ تڑخ کر بولی تو ہانیہ نے چھت پھاڑ قہقہ لگایا جس پر عائشہ اُسے گھور کر رہ گئی-

"عاشی تجھے ایک بات بتاؤں؟ "- ہانیہ کو کچھ یاد آیا تو فورا پوچھنے لگی-

"کونسی بات؟ "-وہ متجسس ہوئی تھی-بے تابی سے ہانیہ کو دیکھنے لگی جس کا انداز بتا رہا تھا کہ کوئی خاص بات ہے-

"مجھے محبت ہو گئی ہے"-اُس نے اپنی طرف سے دھماکہ کیا تھا-

"تمہیں کتنی محبتیں ہونی ہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے ایک ہی بار بتا دو"-عائشہ اُس کی بات پر سخت بدمزہ ہوئی تھی-وہ سمجھ رہی تھی کہ ناجانے کونسی اہم بات بتانے لگی ہے-مگر اتنی فضول بات کی امید نہیں تھی اُسے ہانیہ سے

"یہ سچ والی ہے عاشی میرا یقین کرو"- اُس نے عائشہ کو یقین دلانا چاہا-

"تجھے تو روز سچی محبت ہوتی ہے"-عائشہ نے طنز کیا-

"جیسے کہ تمہیں ماریہ کی بلی سے محبت ہوئی حارث کے طوطے سے ہوئی، کرن کے سرخ سوٹ سے اور بھی پتہ نہیں کس کس چیز سے ہوئی"-وہ انگلیوں پہ گنتے ہوئے بتانے لگی-

"اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے"- عائشہ نے اُس کی پوری بات سنے بغیر اپنی سوچ کہ مطابق مطلب نکالا تھا-وہ ہانی کی ہر خوبصورت چیز پہ فدا ہونے والی عادت سے اچھی طرح واقف تھی-اب بھی وہ یہی سمجھی تھی کہ اُسے کسی کی چیز سے پھر محبت ہو گئی ہے-

"نہیں یار اِس بار مجھے کسی چیز سے نہیں بلکہ ایک انسان سے محبت ہوئی ہے"- اُس نے فورا مطلب کی بات بتا دی کہ اس سے پہلے وہ کوئی اور مطلب نکالتی-

"ہانی۔۔۔۔۔"- عائشہ تو جیسے اُس کی بات پر سپرنگ کی طرح اچھلی تھی-حیرت اور صدمے سے اُس کو دیکھا-

"ہاں عاشی اب مجھے سچی والی محبت ہوئی ہے"-

"کون ہے وہ؟ "-عائشہ نے فورا پوچھا-

"ماریہ کے سسرال سے آیا ہے طلحہ بھائی کا کزن ہے میران شاہ"-وہ مزے سے بولی-

"تو نے اتنی جلدی نام بھی پتہ کر لیا"-عائشہ مشکوک ہوئی تھی-

"ہاں اُس کا کوئی کزن اُس سے باتیں کر رہا تھا تو وہ بار بار اُس کا نام لے رہا تھا تو میں نے سن لیا"-

"ہر وقت جاسوس بنی رہتی ہو مگر ایک بات دیہان سے سن لو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرنے والی اِس معاملے میں"- عائشہ جانتی تھی اب وہ اُسے بھی گھسیٹے گی اس لئے وہ فورا لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے بولی-

"عاشی کی بچی"- ہانیہ چلائی تھی-اُسے عائشہ سے اس قدر طوطا چشمی کی اُمید نہیں تھی-

"ہاں جی مجھ سے واقعی کوئی امید مت رکھنا تمہاری محبت کا تو پتہ نہیں کیا بننا مگر مجھے بہت جوتے پڑنے ہیں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو"-عائشہ نے صاف صاف انکار کر دیا تھا-وہ اپنی بات کہہ کہ وہاں سے چلی گئی-

"اس کو تو میں بتاؤں گی''- وہ دانت پیستے ہوئی بولی-

اُس نے اپنے سامنے رکھا اپنا کلچ اُٹھایا اور اسٹیج پر جانے کے ارادے سے اُٹھی-مگر جونہی مڑی تو ساکت رہ گئی- اُس سے چند قدم دور پڑے ٹیبل کے گرد رکھی کرسی پر بیٹھا میران شاہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا-اُس کا رنگ فق ہوا-اب پتہ نہیں اُس نے کیا کیا سنا تھا دیکھنے کے انداز سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ سب سن چکا ہے-ہانیہ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی-مگر پوری مہندی کی تقریب میں اُس کا ذہن الجھا ہی رہا تھا اور اس کے بعد اس نے میران شاہ کا سامنا کرنے کی غلطی نہیں کی تھی-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

رات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی-ہر سو ہو کا عالم تھا-رات کا تیسرا پہر تھا-مہندی کی تقریب رات کے دو بجے ختم ہوئی تھی-اِس وقت ہر کوئی نیند کے نشے میں اپنے ہواس سے بیگانہ سو رہا تھا مگر اُس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی-اُس نے کئی بار آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہو جاتی-اُس نے بے بسی سے اپنے سے کچھ فاصلے پر سکون سے سوتی عائشہ کو دیکھا-

"عاشی اُٹھو۔۔۔"- ہانیہ نے اُسے ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی-

"کک کیا ہو گیا؟ "-اُس نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے ہانیہ سے پوچھا-

"مجھے نیند نہیں آرہی"- وہ منہ بناتے ہوئے بولی-

"ہائیں ۔۔۔۔اتنی رات کو بھی نہیں آرہی"- وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی-

"نہیں ۔۔۔"-اُس نے بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے-

"وجہ بھی تو بتاؤ نہ"- عائشہ کو کوفت ہوئی-

"میران شاہ مجھے سونے ہی نہیں دے رہا کیا کروں"- اُس نے معصومیت سے جواب دیا-

"ہانی کی بچی۔۔۔۔"-عائشہ نے پاس پڑا تکیہ اُٹھا کر اُس کی دھلائی شروع کر دی-وہ اُس سے بچنے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگی مگر عائشہ اندھا دھند اُس پر تکیے برسا رہی تھی-

"تو نے آدھی رات کو مجھے یہ بتانے کے لیے جگایا ہے"-عائشہ کا بس نہیں چل رہا تھا اُس کو کچا چبا جاتی-ہانیہ نے بمشکل تکیہ اُس کے ہاتھ سے چھینا-

"قسمے عاشی بہت یاد آرہا ہے -بتاؤ کیا کروں؟"-ہانیہ نے تکیہ گود میں رکھ لیا-

"چلو بھر پانی میں ڈوب مرو آئی سمجھ"-عائشہ کہتے ساتھ ہی کمبل میں واپس گھس گئی-

"اور سنو خبردار جو اب مجھے اُٹھانے کی غلطی کی تو"-اُس نے ایک لمہے کے لیے منہ باہر نکال کر اُس کو وارننگ دی اور پھر منہ کمبل میں غائب کر لیا-

ہانیہ نے دل ہی دل میں اُس پر لعنت بھیجی اور دوپٹہ گلے میں ڈالتی کچن میں آگئی-ارادہ تھا کہ کافی بنا کہ پئیے شاید پھر نیند آجائے-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

اگلا دن بارات کا تھا-نائیٹ فنکشن تھا اس لیے سب آرام سے پورا دن تیاریوں میں مصروف رہے-رات تک سب لوگ تیار تھے-ہانیہ کا لہنگے کے ساتھ کا دوپٹہ نہیں مل رہا تھا-وہ پاگلوں کی طرح ہر کمرے کے چکر لگا رہی تھی-عائشہ نے گلابوں کے تازہ گجرے پہنتے ہوئے اُسے دیکھا جو بوکھلاہٹ کی حدوں کو چھو رہی تھی-

"اگر تمہاری پریڈ ختم ہو گئی ہو تو میں کچھ بولوں؟ "- عائشہ نے اُسے چوتھی بار کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بالاآخر پوچھ بیٹھی-

"ہاں بولو "-وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئی-الماری کے سارے کپڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے-عائشہ نے تاسف سے اُس کی حالت دیکھی-

"تمہارا دوپٹہ وہ آئرن سٹینڈ پہ پڑا ہوا"-اُس نے آئرن سٹینڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ہانیہ بجلی کی سی تیزی سے اُس طرف بڑھی-پریس شدہ دوپٹہ اس وقت سلوٹوں سے بھرا پڑا تھا-ہانیہ نے جلدی جلدی استری کا پلگ لگایا اور اُسے پریس کرنے لگی-شکر تھا کہ لائیٹ تھی-ورنہ ایسے ہی لینا پڑتا -

"پہلے نہیں بول سکتی تھی"-

"تم نے پوچھا کب تھا مجھ سے"-وہ گجروں کو ناک تک لے جاتے ہوئے بولی-تازہ گلابوں کی مہک نے اُس کی روح تک کو تازہ کر دیا تھا-

ہانیہ دوپٹہ پریس کرنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر سیٹ کرنے لگی-اُس نے دوپٹہ اس طرح سے پن اپ کیا تھا لہنگے کے اوپر کہ وہ لہنگا کم ساڑھی زیادہ لگ رہی تھی-نیچے تین انچ کی ہائی ہیل پہنے وہ کافی سے بھی ذیادہ لمبی لگ رہی تھی-لمبے بال جو اوپر سے سٹریٹ تھے مگر نیچے آکر کرل ہو جاتے اُس کی پشت پہ بکھرے ہوئے تھے-کانوں میں نیکلس کے ہم رنگ چھوٹے چھوٹے جھمکے پہنے اور پیشانی پر بندیا ٹکائے وہ بلکل ریڈی تھی-ناک میں چمکتی لونگ اُس کے میک اپ ذدہ چہرے کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی-عائشہ نے اوپر سے نیچے تک اُس کا جائزہ لیا-

"میران شاہ ایمپریس نہیں ہونے والا تم سے جتنی مرضی تیاری کر لو"-وہ شرارت سے بولی تو جواباً ہانیہ نے اُسے گھور کہ دیکھا-

"اپی آبھی جاؤ جلدی باہر"-باہر سے فلزا کی آواز آئی تو وہ دونوں باہر کی طرف لپکیں..

ہانیہ کو چلنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی....

ہانیہ ماریہ کے ہزبینڈ کو گفٹ دے کہ نیچے اُتری ہی تھی کہ کسی سے زوردار ٹکر ہوئی-ہانیہ کا دماغ گھوم گیا آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا-اِس سے پہلے کہ وہ گرتی دو مضبوط بانہوں نے اُسے کسی گڑیا کی طرح سنھال لیا-کئی منٹ تک تو اُس کے حواس ہی قابو میں نہ آئے-کچھ دور کھڑی عائشہ نے یہ منظر دیکھ کر بےساختہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا-اردگرد کافی لوگ تھے اِس لئے مقابل نے جلد ہی اُسے چھوڑ دیا-ہانیہ کے ہواس کچھ بحال ہوئے تو مقابل کی ٹھکائی کا خیال آیا-اُس نے اپنے چکراتے سر کو بمشک تھام کر سامنے والے کو دیکھا-میران شاہ کو دیکھ کر اُس کی سٹی گم ہو گئی-تمام الفاظ ہلق میں ہی دم توڑ گیے-بولنے کی ہمت جواب دے گئی-

"تم۔۔۔۔۔"-میران شاہ اُسے ایک سیکنڈ میں پہچان گیا-

"اگر پہلے پتہ ہوتا تو کبھی نہیں سنبھالتا۔۔۔بلکہ جان بوجھ کہ گرا دیتا"-وہ نخوت سے بولا-ہانیہ کا منہ اتنی عزت افزائی پہ پورا کھل گیا-دل چاہا سب کچھ بھول بھال کر اُس کو وہ سنائے کہ بس اُس کی عقل ٹھکانے آ جائے-مگر اگلے ہی لمہے اس خیال کو مسترد کر دیا-یہ رسک نہیں لینا تھا ابھی-

"آپ کو لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے"-اُس نے لہجے کو تھوڑا روکھا اور سخت بنانے کی کوشش کی-مقابل نے اُس کو گھور کہ دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئی-

"جی نہیں مجھے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اورآپ جیسی لڑکیوں سے بات کرنے کی تو بلکل نہیں ہے"-وہ اُس کے دائیں جانب کھڑا ہوتے ہوئے لاپرواہی سے بولا-وہ اسٹیج پر جانے کی غرض سے آیا تھا مگر وہاں رش دیکھ کر ارادہ ترک کر کہ وہیں کھڑا ہو گیا-

"مجھ جیسی لڑکی مطلب۔۔۔"-ہانیہ نے اُس کے سامنے ہوتے ہوئے غصے سے پوچھا-

"یہ تو آپ کو ہی پتہ ہو۔۔۔"-میران شاہ نے اُسے تپانے کی بھرپور کوشش کی-اُس کا سرخ انار جیسا چہرہ دیکھ کر اُسے مزہ آنے لگا-

"آپ بہت ہی بدتمیز قسم کے انسان ہیں"-ہانیہ ذیادہ دیر اپنے غصے پہ قابو نہیں رکھ پائی تھی-

"کل اسی بدتمیز انسان سے آپ کو محبت ہو گئی تھی شاید"- میران شاہ نے اُسے چھیڑا تھا-وہ اُس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا-

"ہنہہہہ آپ سے محبت۔۔۔۔مائی فٹ"-وہ منہ پھیرتے ہوئے بولی-میران شاہ کے لبوں پر دھیمی سی مسکان پھیل گئی-یہ لڑکی اُسے کافی دلچسپ لگی-

"کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا کیونکہ میں آل ریڈی انگیجڈ ہوں"-وہ بولا تو ہانیہ نے اُس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھا-میران شاہ نے فورا مسکراہٹ دبا لی تھی-

"آپ یہ بات مجھے کیوں بتا رہے ہیں"-وہ دل میں آئے جزبات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی-

"تاکہ آپ مجھ پر ٹرائی کرنے کی کوشش نہ کریں"-میران شاہ اُسے تپانے کے موڈ میں تھا اور وہ اچھی خاصی تپ بھی چکی تھی-مگر چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا-

"آپ کو بڑی خوش فہمیاں ہیں اپنے بارے میں۔۔۔"-ہانیہ کو وہ ہنستا ہوا زہر لگا تھا-اُس کا دل چاہا اُس کا سر پھاڑ دے-کتنے آرام سے وہ کہہ گیا تھا کہ میں انگیجڈ ہوں اِس بات کی پرواکیے بغیر کہ اُس کا نازک سا دل ٹوٹ گیا تھا-

"بس جی سب کو ہوتی ہیں مجھے بھی ہیں"- وہ ایک ادا سے بولا تھا-

"ویسے کیا آپ کو سچ میں مجھ سے محبت ہو گئی ہے"- میران شاہ نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے شرارت سے پوچھا-

"ہوئی بھی ہو گی تو آپ کو کیا مسئلہ ہے"-ہانیہ تڑخ کر بولی تھی-

"نہیں مجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا کہ اگر آپ اظہار کرنا چاہیں تو میں برا نہیں مانوں گا"-میران شاہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے شرارت سے پوچھا-

"ہانی کی محبت اتنی ارازاں نہیں ہے کہ وہ خود اظہار کرے۔۔۔بلکہ ایسی ہے کہ مقابل اظہار کرے گا"-وہ شان بے نیازی سے بولی تو میران شاہ بے ساختہ اُسے دیکھے گیا-

"اتنا یقین ہے خود پر۔۔۔۔"-وہ گھمبیر سے لہجے میں بولا تھا-

"اِس سے بھی ذیادہ۔۔۔۔"-ہانیہ اُس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھنے لگی-مگر یہ بس کچھ لمہوں کی بات تھی اگلے ہی لمہے وہ سر جھکا گئی-مقابل کی آنکھوں میں دیکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا-

"اپی آپ کو پھوپھو نے بلایا ہے"-فلزا نے اُسے آکر اطلاع دی تو وہ فورا وہاں سے بھاگی-

میران شاہ کتنے ہی لمہے وہاں سے ہل بھی نہیں پایا تھا-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

وہ سب کزنز بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے-وہاں ہونے والی بات چیت کا موضوع تھا میران شاہ کی شادی۔۔۔۔ہر کوئی اپنی عقل کے مطابق اُسے مشوروں سے نواز رہا تھا مگر وہ چپ چاپ اُن کی باتیں سننے اور مسکرانے پر اکتفا کر رہا تھا-تبھی اُس نے اپنے سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی ہانیہ کو دیکھا-ہانیہ نے ایک نخوت بھری نگاہ اُس پہ ڈالی تھی اور اُس کی طرف پشت کر کہ بیٹھ گئی-میران شاہ کے لبوں پہ پھیلنے والی مسکراہٹ بہت گہری اور معنی خیز تھی-

"ہاں تو آپ لوگ میری شادی کے بارے میں کیا باتیں کر رہے تھے"-وہ سیدھا ہو کہ بیٹھ گیا اور اُن سے پوچھا-اُس کی آواز خاصی بلند تھی-ہانیہ کا رواں رواں سماعت بن گیا-

"یہ سائکل کی فیل بریک نے اچانک کیسے کام کرنا شروع کر دیا"-چاند نے اُسے چھیڑا تھا-میران شاہ ڈھٹائی سے مسکراتا رہا-چاند کی بات پر باقی سب کے بھی قہقے ابھرے تھے-

"ہم کہہ رہے تھے کہ طلحہ بھائی کے بعد آپ کی شادی ہونی چاہیے ۔۔۔ کیونکہ اُن کے بعد آپ کا نمبر آتا ہے"-ایان نے مسکراتے ہوئے کہا-خدیجہ بیگم بھی اُن کی طرف متوجہ ہوئیں تھی-وہ پہلے کسی اور سے باتیں کرنے میں مگن تھیں-اب میران کی شادی میں دلچسپی دیکھ کر اُنہوں نے اپنا رُخ اُن کی طرف موڑا-

"بلکل یار میری شادی ہونی چاہیے اب۔۔۔۔مجھے خود بہت جلدی ہے۔۔۔"-وہ شرارت سے بولا تھا-نظریں مسلسل ہانیہ کی طرف تھیں-وہ بنا دیکھے جان سکتا تھا کہ دوسری طرف کیا صورتِ حال ہو گی-

"یہ ایک دم تمہیں شادی کی جلدی کیوں پڑ گئی-پچھلے آدھے گھنٹے سے ہم لوگ پوچھ رہے تھے تب تو تم مشرقی لڑکیوں کی طرح شرمانے میں مصروف تھے-اب اچانک سے کیا سوجھی"-چاند کچھ مشکوک ہوا تھا-

"بس یار کچھ لوگ مجھ جیسے ہینڈ سم بندے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور میں اُن کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔۔۔ اِسی لیے میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے"-میران شاہ نے معنی خیز مسکراہٹ لبوں پر سجائے اونچی آواز میں کہا تو سب شرارت سے اُس کی طرف دیکھنے لگے-خدیجہ بیگم نے بھی مسکرا کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا-

"اوئے ہوئے بڑی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں"-چاند نے اُسے چھیڑا تھا-

"سب کو ہوتی ہیں مجھے بھی ہیں"-وہ باتیں اُن سے کر رہا تھا مگر نظروں کے حصار میں مسلسل ہانیہ تھی-وہ یہ سب خاص اُس کو سنانے کے لیے کہہ رہا تھا-

"تمہیں تو کچھ ذیادہ ہی ہیں ۔۔۔انٹی اِس کی شادی کا سوچیں یہ واقعی مجھے سیریس لگ رہا ہے"-چاند نے خدیجہ بیگم سے کہا جو مسلسل مسکرا رہی تھیں-

کمینہ کہیں کا"-ہانیہ نے غصے سے کہا تو موبائل کے ساتھ لگی عائشہ نے حیرت سے اُس کو دیکھا-

"کون۔۔۔۔؟"-وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی-اُسے لگا شاید اُسے کوئی تنگ کر رہا تھا-مگر اردگرد سب لوگ اپنی باتوں میں مگن تھے-

"کوئی نہیں تم اپنا کام کرو"-وہ بے رُخی سے بولی تو عائشہ اُسے گھور کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی-

"ہاں ماما بتائیں پھر آپ میری شادی کب کر رہی ہیں؟"-میران شاہ نے ٹیبل پہ آگے کی طرف جھکتے ہوئے خدیجہ بیگم سے پوچھا-

"کیا بات ہے بڑی جلدی ہے شادی کی ۔۔۔کہیں کوئی لڑکی تو پسند نہیں آ گئی"-چاند کو اُس کی اچانک بےتابی کی یہی وجہ سمجھ میں آئی تھی-

"لڑکی کوئی ایسی ملی ہی نہیں کہ اُسے پسند کروں"-میران شاہ مسلسل شرارت پر آمادہ تھا-وہ جانتا تھا کہ اُس کی باتوں سے دوسری طرف زلزلے کے آثار تیز سے تیز ہوتے جارہے ہیں-

"نیہا سے کر دیں"-خدیجہ بیگم نے اُسے کی کلاس فیلو کا نام لیا تھا جس کے ساتھ اُس کی کافی دوستی تھی-بلکہ اُن دونوں کی بات بھی چل رہی تھی-وہ سب اُسے اکثر نیہا کے حوالے سے چھیڑتے تھے-

"ہاں بلکل اُسی سے کرنی ہے آخر کو وہ میری پہلی اور آخری محبت ہے"-اُس نے کہا تو چاند کو خواہ مخواہ ہی کھانسی شروع ہو گئی-پہلی اور آخری محبت والی بات اُس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی-

"حوصلہ رکھیں چاند بھائی"-ایان نے ہنستے ہوئے اُس کمر تھپتھپائی-

"ویسے اگر نیہا یہ بات سُن لیتی تو خوشی سے پاگل ہو جاتی"-چاند نے اس کے مُسلسل مسکراتے چہرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا-

"فکر نہ کرو جاتے ہی پاگل کر دوں گا اُس کو"-وہ اب بھی باز نہیں آرہا تھا-

"چلو اُٹھو کہیں اور چل کہ بیٹھتے ہیں"-ہانیہ کی برداشت جواب دے چکی تھی-اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جا کہ اُس کا منہ توڑ آتی-وہ جانتی تھی کہ وہ یہ سب بس اسے سنانے کے لئے ہی کہہ رہا تھا-

"کیوں۔۔؟"-عائشہ نے حیرت سے اُس کا سرخ چہرہ دیکھا جہاں غصے کے آثار نمایاں تھے-

"وجہ بتانا ضروری نہیں ہے"-وہ اُٹھتے ہوئے بولی-

"پھر میں نہیں جارہی"-عائشہ نے انکار کر دیا تو اُس نے اُس کا بازو پکڑ کر کھینچا-

"ہر وقت ہڈ حرامی نہ دکھایا کرو"-ہانیہ ایک منٹ سے بھی پہلے وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی-

"ہانی۔۔۔۔"-عائشہ نے اپنا بازو کھینچا-اُس کی کئی چوڑیاں اُس کے بے رحم ہاتھوں ٹوٹ چکی تھیں مگر اُسے پروا کب تھی وہ اُسے گھسیٹتی ہوئی وہاں سے لے گئی-میران شاہ اُسے تب تک جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی-

"تم واقعی سیریس ہو؟ "-چاند نے سنجیدگی سے پوچھا-اُسے ناجانے کیوں یقین نہیں آرہا تھا-

"کس بارے میں"-وہ انجان بنا تھا-

"شادی کے بارے میں ۔۔۔۔"-چاند حیران ہوا-اچانک سے وہ پھر پلٹی کھا گیا تھا-

"پاگل ہو گئیے ہو کیا"-میران شاہ نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تو سب نے اچنبھے سے اُس کی طرف دیکھا-

"لو جی سائکل کی بریک پھر فیل ہو گئی"-چاند سخت بدمزہ ہوا تھا-

"پگلا نہ ہو تو"-خدیجہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اُس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور وہاں سے چلی گئیں-وہ اُن کی سمجھ سے باہر تھا-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

"پتہ نہیں کیا سمجھتا خود کو۔۔۔۔باتیں تو ایسے کر رہا تھا جیسے کوئی پرنس ہو"-وہ گھر آتے ہی غصے سے بولی-

"کون؟ "-عائشہ کے خاک بھی پلے نہیں پڑا تھا-

ایک تو پہلے ہی اُس کے اچانک گھر آنے کی وجہ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور اب وہ جو بول رہی تھی وہ بھی اُس کی ننھی سی عقل میں نہیں سما رہا تھا-

"وہی میران شاہ۔۔۔۔"-وہ اب کمرے میں غصے سے اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی-اُس کو جب بھی غصہ آتا وہ یہی کرتی تھی-

"ہیںں۔۔۔۔یہ میران شاہ کہاں سے آگیا"-عائشہ نے پوری آنکھیں کھول کر اُس کو دیکھا جو جلے پیر کی بلی کی طرح چکر لگا رہی تھی-

"پتہ نہیں کہاں سے آگیا میری زندگی میں ۔۔۔"-اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ غصے کو کم کرنے کے لئے کیا کرے-

"ایک منٹ ایک منٹ وہی تو میران شاہ نہیں جس کے ساتھ تم ٹکرائی تھی"-عائشہ کو اچانک یاد آیا تو استفسار کیا-

"ہاں وہی نمونہ تھا"-وہ بولی تو اُس کے نمونہ کہنے پر عائشہ کی ہنسی نکل گئی-

"ویسے ہانی بندہ ہے بڑا ہینڈ سم۔۔۔۔"-اُس نے ہانیہ کے زخموں پہ مزید نمک چھڑکا تھا-

"اُتنا ہی بدتمیز اور سڑیل بھی ہے-خود کو ناجانے کونسی مخلوق سمجھتا ہے۔۔۔۔شوخا کہیں کا۔۔۔"-وہ بیڈ پہ دھڑام سے بیٹھتے ہوئے بولی تو عائشہ کا قہقہ کمرے کے درو دیوار میں گونجا-ہانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا-

"تو کس نے کہا تھا اُس سے محبت کرو"-وہ اُس کے گھورنے پر کچھ سنجیدہ ہوئی-

"مت جو میری ماری گئی تھی"-وہ ناک پھلاتے ہوئے بولی-

"اب کیا کرو گی؟ "-عائشہ نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی-

"اُس کو ناکوں چنے چبواؤں گی۔۔۔۔ہمیشہ یاد رکھے گا کہ کس بلا سے پالا پڑا تھا"-وہ اپنی بات کہہ کہ تن فن کرتی کمرے سے نکل گئی-

"افففف کیا چیز ہے یہ لڑکی۔۔۔۔"-عائشہ کتنی ہی دیر پیچھے اُس کی باتوں پر ہنستی رہی....

ہانیہ بڑے ریلکس انداز میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی-گود میں مونگ پھلی والی پلیٹ رکھی ہوئی تھی- ٹی وی میں اُس کا دیہان اِس قدر ذیادہ تھا کہ وہ مونگ پھلی کے چھلکے پلیٹ میں رکھنے کی بجائے بیڈ پر ہی رکھ دیتی-اُس کا فیورٹ سیریل چل رہا تھا-بیڈ پہ رکھا کمبل آدھابیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا-کرن کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر اُس کا پارہ ہائی ہو گیا-

"ہانی۔۔۔۔"-وہ اُس کے قریب آ کر چلائی-

"جج جی اپی۔۔۔۔"-وہ ڈر کے مارے اُچھل پڑی-مونگ پھلی والی پلیٹ گود سے بیڈ پر گر گئی-ساری مونگ پھلی بیڈ پر بکھر گئی تھی-کرن کے غصے میں مزید اضافہ ہو گیا-

"اپی کی کچھ لگتی یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے کمرے کی ۔۔۔ابھی آدھا گھنٹہ پہلے میں صفائی کر کے گئی تھی اور تم نے سارے کمرے کا ناس مار دیا۔۔۔پتہ نہیں کونسی مٹی لگی ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی۔۔۔ہر وقت بندروں کی طرح اچھل کود کرتی رہتی ہو۔۔۔۔غضب خدا کا اتنا گند تو پورے گھر میں سب مہمانوں نے نہیں ڈالا جتنا تم نے اس ایک کمرے میں ڈالا ہوا "-کرن بولنے پہ آئی تو بولتی چلی گئی-وہ اُس کی اچھی خاصی کلاس لینے کے بعد اب چیزیں درست کر رہی تھی-بیڈ پہ دبکی بیٹھی ہانیہ کی ہمت نہیں تھی کہ آگے سے کوئی جواب ہی دے دیتی-

"سوری اپی۔۔۔"-وہ منمناتے ہوئے بولی تو کرن نے اُس کو گھورا-

"چلو نکلو یہاں سے۔۔۔۔دادا جان نے بلایا تمہیں ۔۔۔"-کرن نے اُسے وہاں سے بھگایا-ہانیہ نے ایک لمہہ ضائع کیے بنا وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی-

وہ وہاں سے سیدھی دادا جان کے کمرے میں آئی-وہ صوفے پر بیٹھے کسی رسالے کے مطالعہ میں مصروف تھے-ہانیہ نے دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹایا تو وہ اُنہوں نے رسالہ سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اُسے اندر انے کو کہا-وہ دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتی اُن کے پاس چلی آئی-اِس وقت وہ ڈھیلے سے کرتے اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی-دوپٹہ بے ترتیبی سے ایک سائیڈ پہ لٹک رہا تھا-سر پہ لینے کی وہ کم ہی تکلیف اُٹھاتی تھی-بالوں کی ڈھیلی چوٹیا کی ہوئی تھی جس میں سے آدھے سے ذیادہ بال باہر تھے-وہ ایسی ہی تھی من موجی لاپرواہ قسم کی۔۔۔کسی بات کی ٹینشن نہیں لیتی تھی-ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتی-

"آپ نے بلایا مجھے دادا جان۔۔۔"-وہ اُن کے بائیِں طرف بیٹھتے ہوئے سعادت مندی سے بولی-

"ہاں میں نے بلایا ہے"-اُنہوں نے اپنا چشمہ اُتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا-

"عائشہ بتا رہی تھی کہ تم ماریہ کو لینے نہیں جا رہی"-وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے-آج ماریہ کا ولیمہ تھا-نائٹ فنکشن تھا سب لوگ اُس کو لینے جارہے تھے مگر ہانیہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اُن کے ساتھ نہیں جائے گی-عائشہ سمجھ گئی تھی کہ اُس کو پھر دورہ پڑا ہے اِس لئے اُس نے جانے کے لئے فورس نہیں کیا تھا بلکہ آکر دادا جان کو بتا دیا تھا-کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر اُس نے ایک بار منع کر دیا تو پھر ہزار منتوں کے بعد بھی نہیں مانے گی-

"جی وہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے"-وہ مسکین سی شکل بنا کر بولی-آواز کو بھی کسی حد تک مدھم کر لیا-ساتھ ہی دل میں عائشہ کو ڈھیروں گالیوں سے بھی نوازا جس نے یہ حرکت کی تھی-

"کیا ہوا طبیعت کو۔۔۔زیادہ تو نہیں خراب ۔۔اگر ہے تو میں حارث سے کہتا ہوں وہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے"-وہ فورا تشویش میں مبتلا ہوئے-

"نہیں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے میں آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی"-اُس نے فورامنع کر دیا-اُس حارث کے بچے کو وہ اچھے سے جانتی تھی وہ ایک سیکنڈ میں اُس کا جھوٹ پکڑ لیتا تھا-

"چلو جاؤ آرام کرو اور اب جب تک ٹھیک نہ ہو جاؤ ہلنا مت بستر سے"-اُنہوں نے اُسے ہدایت کی تو وہ جی اچھا کہہ کر وہاں سے چلی آئی-

"یاہو۔۔۔۔۔اب تو کوئی مجھے فورس نہیں کر سکتا۔۔۔۔اُس میران شاہ کو تو میں بتاؤں گی ناجانے کیا سمجھتا خود کو۔۔۔اُسے لگتا میں اُس کے بغیر مر جاؤں گی۔۔۔"-وہ دل ہی دل میں سوچتی ہوئی اپنے کمرے تک آئی-

"کیسے کہہ رہا تھا کہ اگر مجھ سے اظہار کریں گی تو میں برا نہیں مناؤں گا"-اُس نے اُس کی نقل اُتاری-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

شادی کے ہنگامے سرد پڑے تو حالات پھر سے پہلے والی ڈگر پر آگئے-ماریہ دو دن پہلے آئی تھی اور طلحہ بھائی اُسے چھوڑ کہ چلے گئے تھے-ہانیہ سارا دن ماریہ کے ساتھ باتوں میں لگی رہتی وہ آجکل کالج سے فری تھی-سیکنڈ آئیر کے پیپرز دے کہ رزلٹ کے انتطار میں تھی-

عائشہ اور کرن باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتی تھیں-وہ دونوں شام کو ہی آتی تھیں-اُن کے بغیر وہ بہت بور ہوتی تھی مگر اب ماریہ کے آنے سے اُس کا دل بہل گیا تھا-

ماریہ اپی نے اُسے ڈرائنگ روم میں کچھ لینے کے لئے بھیجا تو وہ اندھا دھند دوڑتی ہوئی آئی مگر ڈرائنگ روم کے دروازے پر ہی کسی سے ٹکر ہو گئی-اُس کا سر مقابل کے سینے سے اتنی شدت سے ٹکرایا تھا کہ درد کی لہریں فورا اُٹھی-غلطی سراسر اُس کی تھی-مقابل کا غصے سے برا حال ہو گیا-وہ جس طرح بھاگتی ہوئی آئی تھی وہ اُسے دیکھ چکا تھا-

"آپ کو شرم نہیں آتی یوں بچوں کی طرح بھاگتے ہوئے"-اُس نے غصے سے کہا-

ہانیہ نے سر اُٹھا کر آگ اگلنے والے کو دیکھا تھا-

"تم۔۔۔"-میران شان نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھا-

"تمہیں شرم کہاں آئے گی تمہارا تو کام ہی لوگوں سے ٹکریں مارنا ہے"-میران شاہ اُسے سامنے پاکر ایک دم سے آگ بگولا ہوا تھا-

"ہاہ۔۔۔۔"-ہانیہ نے پوری آنکھیں اور منہ کھول کر اُس کو دیکھا-"آپ اپنی غلطی کتنے آرام سے دوسروں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں"-وہ اُلٹا اُس پہ چڑ دوڑی-

"محترمہ ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔۔۔شیر سے ریس تو آپ نے لگائی ہوئی تھی میں تو انسانوں کی طرح اپنے دیہان سے باہر نکل رہا تھا"-میران شاہ کو وہ لڑکی پاگل لگی تھی-

"ہاں تو آپ سامنے سے ہٹ جاتے"-ہانیہ بنا شرمندہ ہوئے بولی تو میران شاہ نے ایک گہرا سانس بھرا-

"آپ نے ہٹنے کا موقع دیا کب تھا"-وہ شریر ہوا تھا-یہ لڑکی جب جب اُس سے ملی تھی اُس حیرت میں مبتلا کر گئی تھی-وہ اُس سے ملنے کے بعد بھی گھنٹوں اُسی کے بارے میں سوچتا رہتا-

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ "-اُسے اچانک یاد آیا تو سوال کیا-

"آپ سے ملنے آیا تھامگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ بھی میرے انتظار میں بیٹھی ہیں۔۔۔اور اتنی شدت سے منتظر ہوں گی کہ ملتے ہی گلے لگ جائیں گی"-میران شاہ نے شوخ نظروں سے اُس کو دیکھا تھا-

"مجھے آپ کا دماغ درست نہیں لگ رہا"-ہانیہ اُس کے اتنے بے باک انداز پر کنفیوز ہوئی تھی-

"آپ درست کر دیں"-میران شاہ کو اُس کی حالت مزہ دینے لگی-وہ اُس کے چہرے پر آئے دھنک رنگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگا-وہ جتنا بہادر بننے کی کوشش کر رہی تھی اُتنی وہ تھی نہیں۔۔۔وہ اُس کے نگاہیں جھکانے پر زیر لب مسکرایا-

ہانیہ نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی-وہ مڑی ہی تھی کہ میران شاہ نے اُس کی کلائی تھام لی-ہانیہ کی ساری جان اُس کلائی میں ہی اٹک گئی-

"آپ ولیمے والے دن کیوں نہیں آئی تھیں؟ "-وہ اُس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا اور یہ فاصلہ اُس نے خود رکھا تھا-

"میری مرضی آپ کو اس سے کیا"-اُس نے ایک ہی جھٹکے میں کلائی چھڑواتے ہوئے کہا-میران شاہ کا مقصد بس اُس کو روکنا تھا اِس لئے اُس نے ہانیہ کے ہلکے سے احتجاج پر ہی فورا اُس کا بازو چھوڑ دیا-

میں نے ویسے ہی پوچھا تھا"-وہ سنجیدگی سے بولا تھا-

ہانیہ نے ایک نظر مڑ کہ اُس کو دیکھا تھا-وہ اُسی کو دیکھ رہا تھا-چہرے پر پہلے والی شرارت اب نہیں تھی-شاید اُسے ہانیہ کی بات بری لگی تھی-ہانیہ بنا کچھ بولے وہاں سے آگئی-میران شاہ نے بھی سر جھٹک کر اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے-وہ ماریہ کو کچھ سامان دینے آیا تھا اور اب اُس کا کام ہو چکا تھا-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

دن سست روی سے گزر رہے تھے-کبھی کبھی تو وقت پر لگا کر اڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی رینگنا شروع کر دیتا ہے-ہانیہ کے پاس آجکل کرنے کے لئے کوئی کام نہیں تھا وہ پورا دن کسی بھٹکی ہوئی اتما کی طرح پورے گھر میں بوکھلائی بوکھلائی پھرتی تھی-ماریہ اپنے سسرال جا چکی تھی-گھر میں بس سناٹوں کا راج تھا-

ہانیہ کافی کا مگ لے کر ٹیرس پر آگئی-موسم کافی خوشگوار تھا-ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی-اُس نے اپنے بال کھول دیے-ہوا کے دوش اُڑتے بال بار بار اُس کے چہرے پر آنے لگے-

وہ سامنے پھیلے وسیع لان میں اِس قدر محو تھی کہ ہاٹ کافی کے کولڈ ہونے کا بھی پتہ نہ چلا-تبھی اچانک اُسے اپنے چہرے پر کسی کی گہری نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تو اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا-اُن کے برابر والے بنگلے کے لان میں کھڑا وہ اجنبی کیمرے سے کھٹا کھٹ اُس کی تصویریں لینے میں مگن تھا-ہانیہ کا دماغ بھک سے اُڑ گیا-وہ جتنی مرضی بولڈ سہی مگر یہ حرکت اُسے سخت ناگوار گزری تھی-

"اِس ارسطو کی اولاد کا دماغ تو میں ٹھکانے لگاتی ہوں"-وہ کافی کا کپ وہیں رکھ کر غصے سے بڑبڑاتی ہوئی سیڑھیاں اُترنے لگی-

اگلے دو منٹ میں ہانیہ اُس بنگلے کے داخلی دروازے پر کھڑی تھی-اُس نے بیل پہ ہاتھ رکھا تو پھر اُٹھانا ہی بھول گئی-پورے پانچ منٹ کے جان لیوا انتظار کے بعد آخر کار گیٹ کھل ہی گیا-

"جی کس سے ملنا ہے آپ کو؟ "-چوکیدار نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا-

"تمہارے باپ سے۔۔۔۔"-وہ اُسے ایک طرف کرتی اندر داخل ہو گئی-چوکیدار ہکا بقا کھڑا آنے والے طوفان کو دیکھتا رہا-

وہ تن فن کرتی اگلے ہی لمہے اُس اجنبی کے سامنے کھڑی تھی-جو ہاتھ میں کیمرہ لیے شوخ سی نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا-ہانیہ کا پارہ مزید ہائی ہوا-

"نہایت ہی بے شرم قسم کے انسان ہیں آپ"-وہ اُس کے پاس جا کر غصھ سے باز پرس کرنے لگی-اُس اجنبی کے لبوں کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی-وہ اب بھی بڑی دلچسپی سے اُس شعلے کو دیکھ رہا تھا-ہانیہ کا دل چاہا اُس کی آنکھیں نوچ لے-

"مسٹر میں آپ سے مخاطب ہوں"-اُس نے چٹکی بجاتے ہوئے اُس کی نگاہوں کے ارتکاز کو توڑا-چہرہ ہمیشہ کی طرح غصے کی وجہ سے انار بنا ہوا تھا-

"جانتا ہوں۔۔۔۔"-وہ سر کھجاتے ہوئے بولا-

"تو بولنے کی تکلیف بھی کریں۔۔۔۔"-وہ دانت پیس کر گویا ہائی-

"میرا تو بس آپ کو سننے کو دل کر رہا ہے ۔۔۔یقین مانیے میں نے اپنی پوری لائف میں آج تک کسی کو اتنا پیارا بولتے نہیں سنا۔۔۔۔پلیز اور بھی کچھ کہیں نہ"-وہ کھویا کھویا سا بولا تھا-

"او ہیلو مسٹر اپنی یہ چیپ ٹائپ گفتگو اپنے پاس ہی رکھیں اور مجھے بس اس بات کا جواب دیں کہ آپ نے میری پکس کیوں لی ہیں"-ہانیہ نے لڑاکا انداز میں ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر اُس سے پوچھا-

"میں نے آپ کی پک کہاں لی ہیں ۔۔۔۔میں نے تو قدرت کے ایک شاہکار کو اپنے کیمرے میں مقید کیا ہے"-وہ اب بھی سنجیدہ نہیں ہوا تھا-

"اب قدرت کے اُس شاہکار کا کارنامہ بھی دیکھیں پھر۔۔۔۔"-ہانیہ نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا تو وہ اجنبی پُر شوق نگاہوں سے رئیلی کہہ کر اُس کو دیکھنے لگا-

ہانیہ نے قریب ہی میز پہ پڑی موٹی سی بک اُٹھا کر سیدھی اُس کے ناک پہ دے ماری-

"اففففففففففف۔۔۔۔۔"-وہ اجنبی دردسے چلایا تھا-اُس نازک دھان پان سی لڑکی سے اُسے اس قسم کی توقع نہیں تھی-اُس کی ناک سے فورا خون نکلنے لگ گیا-بک پوری قوت سے ماری گئی تھی-

"میرا ہتھیار اور میں ہی شکار۔۔۔۔"-وہ اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو کارنامہ سرانجام دینے کے بعد اب دور کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی-اُس کی ناک سے خون نکلتا دیکھ کر ہانیہ کا رنگ اُڑ گیا-وہ بے تحاشہ ڈر گئی تھی-

اُس نے ہاتھ میں پکڑی بک وہیں پھینکی اور وہاں سے دوڑ لگا دی-پیچھے مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی-اُس نے وہاں کا سانس روکا اپنے گھر آکر ہی خارج کیا تھا-اب دل میں یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ گھر شکایت لگانے ہی نہ آجائے-وہ فورا کمرہ بند کر کے بیٹھ گئی-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

"ہانیہ شفیق حاضر ہوں ماہ بدولت نے یاد فرمایا ہے"-حارث کی یہ فریاد کوئی چوتھی بار ہانیہ کے کانوں میں پڑی تھی-وہ پورے لاؤنج میں اُس کے نام کی دہائیاں دیتا پھر رہا تھا-

"اِس نمونے کواب ناجانےکیا تکلیف ہے جو میرے نام کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے"-ہانیہ نے بڑبڑاتے ہوئے برتن سلیب پہ پٹخا-وہ اِس وقت کچن میں تائی اماں کے زیرِ نگرانی کام کر رہی تھی اور وہ کچھ دیر پہلے ہی کچن سے کسی کام کی غرض سے نکلی تھیں-ایک تو گرمی کے مارے پہلے ہی بُرا حشر ہو رہا تھا اور اوپر حارث کی ڈراؤنی آواز میں دہائیاں اُس کو مزید تپا گئیں-وہ کام وہیں چھوڑ کر کچن سے نکلی-لاؤنج میں آئی تو عائشہ اور حارث نے وہاں اودھم مچایا ہوا تھا-حارث صوفے پر چڑا ہاتھ کامائیک بنائے اُس کو آوازیں دینے میں لگا ہوا تھا جبکہ عائشہ دوسرے صوفے پر ترچھی لیٹی اُس کی باتیں سُن رہی تھی-

"آئیے آئیے محترمہ آئیے ماہ بدولت کب سے یاد کر رہے آپ کو"-حارث اُسے دیکھتے ہی چہکا-"بڑی دیر لگا دی مہرباں آتے آتے ۔۔۔"-ساتھ ہی اُس نے دکھی سا منہ بناتے ہوئے شعر والے سٹائل میں کہا-

"اِس ماہ بدولت کی میرے ہاتھوں چھترول ہوئے کافی دن بیت گئیے ہیں نہ اِسی لیے اِس کو چین نہیں آرہا آج کل"-وہ بدتمیزی سے بولتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی-حارث اُس سے چھ سال بڑا تھا مگر وہ پھر بھی ہر وقت اُس کی دادی اماں بنی رہتی تھی اور تو اورجب مرضی اُس کی ٹھکائی بھی کر لیتی تھی- 

عائشہ بھی فورا صوفے سے اُٹھ بیٹھی-اُن دونوں نے سرسے پاؤں تک اُس کا جائزہ لیا تو وہ حیرت سے اُن کو دیکھنے لگی-پھر ایک نظر خود پر بھی ڈالی۔۔۔اُس میں ایس کیا غیر معمولی، تھا جو وہ یوں ایکسرے کرتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے-بارہا دیکھنے پر بھی کچھ سمجھ نہ آئی-ایسا ویسا تو کچھ بھی نہیں تھا اُس میں پھر وہ لوگ کیوں ایسےدیکھ تھے-

"کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو کھا جانے کا ارادہ ہے مجھے کیا"-وہ کچھ پزل ہوئی تھی-دل کی بات زبان پر بھی آگئی-

"ہانی تم لگتی تو نہیں ہو ایسی۔۔۔۔"-عائشہ نے تھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر کچھ سوچتے ہوئے بولی-

"کیسی۔۔۔۔"-اُس نے ایک بار پھر خود کو دیکھا-اُس کے ایسے کونسے سینگ نکل آئے تھے-

"ویسی۔۔۔"-وہ پہیلیاں بجھانے کے چکروں میں تھی-ہانیہ کو شدید کوفت ہوئی-

"ہانی تمہیں پتہ ہمارے پڑوس میں آج کیا ہوا ہے"- حارث نے ہانیہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی کہا-ہانیہ نے بھنویں اُچکا کر سوالیہ انداز میں حارث کو دیکھا تھا-وہ دونوں اِس وقت از حد سسپنس کریٹ کیے ہوئے تھے-

"دن دیہاڑے کھلے عام ایک نوجوان پر تشدد ہوا۔۔۔ایک نامعلوم لڑکی اُس نوجوان کی ناک توڑ کر فرار۔۔۔۔۔"-حارث نے ڈرامائی انداز میں بتایا تو ہانیہ کا دل ایک دم رُک گیا-جس کا ڈر تھا وہی ہوا-سب کو پتہ چل گیا تو مطلب اُس نے شکایت لگا ہی دی تھی-

"اور ہانی ہمیں خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ اُس لڑکی کا تعلق ہمارے گھر سے ہے۔۔۔۔افففف مجھے تو ٹینشن لگی ہے کہ ایسا کس نے کیا"-عائشہ بھی حارث کے ڈرامے میں اُس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی-وہ دونوں کن آکھیوں سے اُس کو دیکھ رہے تھے جس کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جا رہی تھی-

"ہانی تم جانتی ہو کہ ایسا کون کر سکتا ہے"-حارث نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پھر اُس کو مخاطب کیا-

"کک کیا بک رہے ہو بھلا مجھے کیا پتہ ہو"-وہ فورا انجان بنی تھی-

"یار مگر جہاں تک ہمیں خبر ملی ہے اُس لڑکی کا حلیہ بلکل تمہارے جیسا تھا"-عائشہ نے اُس کے رنگ اُڑے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا-

"ہاں میں نے توڑی ہے اُس لمبو کی ناک۔۔۔۔تو"-وہ ذیادہ دیر اُن سے چھپا نہیں سکی تھی-لڑاکا انداز میں چلا کر پوچھا تو عائشہ نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے-

"ظالم لڑکی اتنا ظلم کیوں کیا بیچارے فہد بھائی پہ۔۔۔"-حارث کو فہد سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی-

"شکر کرو ابھی تک تو صرف ناک کی ہڈی توڑی ہے ورنہ تو میرا اُس کا سر پھاڑنے کو دل چاہ رہا تھا"-وہ دانت پیستے ہوئی بولی تو اُس کے ارادے جان کہ حارث نے کانوں کو ہاتھ لگائے-

"ہانی تمہیں پتہ فہد بھائی کی ناک سوج کر بلکل پکوڑے کی طرح ہو گئی ہے اور رنگ تو اُس کا سٹرابری کو بھی مات دے رہا ہے"-حارث کے تصور میں فہد کی سوجی ہوئی سرخ ناک آ گئی-اُس کے نزدیک فہد اِس وقت دنیا کا مظلوم ترین انسان تھا-وہ بڑھ چڑھ کر اُس کی حمایت میں بول رہا تھا-

"کیا واقعی۔۔۔۔۔"-وہ کچھ پریشان ہوئی تھی-مگر فہد کے لئے اِس طرح حارث کا اُس کی سائیڈ لینا اُسے ایک آنکھ نہیں بنایا تھا-

"ہاں یار تم نے خواہ مخواہ ہی بیچارے فہد بھائی پر اِتنا تشدد کیا ہے"-عائشہ بھی بولی تو اُسے سچ مچ افسوس ہوا-

"اب پھر میں کیا کروں؟ "-اُس نے مدد طلب نظروں سے اُن دونوں کو دیکھا-وہ جتنی باہر سے سخت نظر آنے کی کوشش کرتی اندر سے اُتنی ہی نرم تھی-بقول حارث کے چڑیا سے بھی چھوٹا دل ہے اسکا-

"تم اُن کو گھر بلا کر ایک اچھی سی کافی پلاؤ اور معافی مانگ لو"-عائشہ نے اُسے مشورہ دیا-وہ جانتی بھی تھی کہ ہانیہ ایسا کام کبھی نہیں کرے گی پھر بھی مفت کے مشورے سے نواز دیا-

"کافی کے حصے کا میں منہ نہ توڑ دوں اُس لمبو کا"-وہ پھر بگڑی تھی-اب وہ اُس لمبو سے معافی مانگے گی-بھلا یہ کہاں لکھا تھا-

"ناک توڑنے پہ تو اُنہوں نے تمہیں معاف کر دیا ہے مگر منہ توڑنے پہ سیدھا جیل میں ڈال دیں گے"-حارث نے اُسے ڈرایا تھا-

"کیوں اُس کے باپ کی جیل ہے جو اویں ڈال دے گا"-وہ بنا سوچی سمجھے بول گئی تھی-عائشہ نے بے ساختہ اپنا ماتھا پیٹا تھا-

"ہاہاہاہا۔۔۔۔اُن کے باپ کی نہیں بلکہ یوں سمجھ لو اُن کی اپنی جیل ہے"-حارث نے قہقہ لگاتے ہوئے بتایا-

"کیا مطلب؟ "-اُس نے ہونقوں کی طرح منہ کھولتے ہوئے پوچھا-

"مطلب یہ کہ فہد بھائی ڈی ایس پی ہیں"-حارث نے اُس کی انفارمیشن میں اضافہ کیا تھا-

"سچ میں ۔۔۔۔"-ہانیہ نے تصدیق چاہی تھی-وہ اب تک نے یقین تھی کہ وہ ایک ڈی ایس اپی کی ناک توڑ آئی تھی-

"جی جناب سو فیصد سچ۔۔۔۔فہد بھائی پولیس میں ہیں"-عائشہ نے ہنستے ہوئے اُسے بتایا-

"ویسے ہانی یہ تو بتاؤ تم نے اتنا بڑا ظلم اُن پر ڈھایا کیوں آخر؟ "- حارث کو اچانک یاد آیا تو فورا پوچھا-

"میں ٹیرس پہ کھڑی کافی پی رہی تھی تو اُس لمبو نے میری تصویریں بنائی تھیں"-اُس کے ذہن میں وہ لمحہ پھر تازہ ہوا تھا-

"ہاہاہا فہد بھائی کی نیچر سے محبت تو آج اُن کو بڑی مہنگی پٍڑی ہے"-حارث ہنسا تھا- "یار تم نے خواہ مخواہ اُن کے ساتھ ایسے کیا وہ تو اتنے اچھے ہیں"-

"ہاں اُن کی اچھائی تو میں نے دیکھ ہی لی ہے زرا سی چوٹ کیا لگ گئی فورا ہمارے گھر شکایت لے کہ آ گئیے-ہائے اب دادا جان میرا کیا حشر کریں گے"-ہانیہ کو نئی فکر لاحق ہوئی تھی-

"او نہیں یار تم غلط سمجھی ہو اُنہوں نے کسی کو تمہاری شکایت نہیں لگائی بلکہ وہ تو میں اُن کے گھر کسی کام سے گیا تھا-اُن کی ناک سوجھی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ یہ ایک ظالم حسینہ کا کارنامہ ہے-جب میرے بار بار پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ تمہاری کزن نے کیا ہے تو میں فورا سمجھ گیا کہ ایسی جراءت صرف ہماری ہانی ہی کر سکتی ہے-ویسے ہانی تمہاری ہمت پر میں اُس وقت عش عش کر اُٹھا تھا ایک پولیس افیسر کے گھر میں گھس کر تم نے اُس کی ناک توڑ دی۔۔۔۔تمہارے لیے تالیاں بنتی ہیں"-حارث نے ہنستے ہوئے اُسے ساری تفصیل بتائی تو وہ سچ میں پشیمان ہو گئی-اُس کی شرارتی شکل دیکھ کر بھی اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا- اُسے لگا وہ سچ میں لگا ہوا تھا-وہ اتنی بھولی اور بے وقوف تھی کہ وہ اُسے آسانی سے اُلو بنا لیتا تھا-ہانیہ کو آخر تک اُس کک شرارت سمجھ میں نہیں آتی تھی- وہ اُسے زچ کر کے رکھ دیتا-

"دفعہ ہو جاؤ تم"-وہ اپنی خجلت مٹانے کو بولی تو اُن دونوں کے قہقے پھوٹ پڑے اور وہ بیچاری شرمندہ شرمندہ سی اِدھر اُدھر دیکھنے لگی-اب کئی دنوں تک اُن دونوں نے اِس بات پہ اُس کا ریکارڈ لگانا تھا-ایک چٹخارے دار موضوع اُن کے ہاتھ لگ چکا تھا بیٹھے بیٹھائے وہ بھلا کیوں نہ فائدہ اُٹھاتے-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے-دن کو رات کی سیاہ چادر اپنے انچل میں چھپا رہی تھی-ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی اور یاسیت چھائی ہوئی تھی-عائشہ ٹیرس پہ بیٹھی جھولا جھولنے میں مگن تھی-ٹیرس اُس کی اور ہانیہ کی پسندیدہ جگہ تھی-وہ دونوں گھنٹوں وہاں بیٹھ کہ گزار دیتیں-یہاں سے ایک تو پورے لان کا منظر نظر آتا تھا اور دوسرا اِس جگہ جھولا لگا ہوا تھا-فارغ وقت میں جھولا جھولنا اُن دونوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا-عائشہ فون کے ساتھ لگی رہتی اور ہانیہ اِدھر اُدھر تانک جھانک کرتی-

ہانیہ کافی کے دو مگ ٹرے میں رکھ کہ وہاں اُس کے پاس چلی آئی-کافی کی وہ دونوں شیدا تھیں-دن میں جتنی پی سکتی تھیں اُتنی پیتی تھیں-گرمی ہو یا سردی وہ کافی کے بغیر ایک دن نہیں گزار سکتی تھیں-

"یہ لو۔۔۔۔"-ہانیہ نے ایک مگ عائشہ کی طرف بڑھایا-عائشہ نے جھولا روک کر کپ تھام لیا-شکریہ کہنے کی زحمت نہیں کی تھی-اُن دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا پھر بھی دونوں کی گاڑھی چھینتی تھی-

ہانیہ اپنا مگ لے کر ریلنگ کے پاس آن کھڑی ہوئی-عائشہ نے کافی کا ایک سپ لیا اور اُس کو دیکھا-ہانیہ کافی بنانے میں جتنی ایکسپرٹ تھی اُتنا شاید ہی کوئی اور گھر میں تھا مگر یہ بات بھی سچ تھی کہ اُسے کافی کے علاوہ انڈا بھی اُبالنا نہیں آتا تھا-وہ ہر کام میں پھوہڑ تھی-اُس کو کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی-وہ ایک نمبر کی کام چور تھی کام کا سن کے ہی اُس کو موت پڑ جاتی تھی-

"حارث کہاں ہے؟"-عائشہ کو یاد آیا اُس نے حارث کو دوپہر سے نہیں دیکھا تھا-ورنہ تو وہ یونی کے بعد کا سارا ٹائم اُن دونوں کا سر کھاتا تھا-آج وہ دوپہر سے غائب تھا تو عائشہ کو اُس کی کمی محسوس ہوئی-

"یار حارث کو کہہ کہ پزا منگواتے ہیں آج میرا پزا کھانے کو بہت دل کر رہا ہے"-عائشہ فاسٹ فوڈ کی دیوانی تھی-آئے روز اُسکا دل للچا رہاہوتا تھا-ہانیہ کو بھی اُس کے ساتھ کھا کھا کر اب ایک طرح سے عادت ہو گئی تھی-

"اُس کا میچ ہے آج یونی سے آتے ہی اُدھر چلا گیا تھا"-ہانیہ نے سرسری سے انداز میں جواب دیا-وہ اندھیرے میں ناجانے کیا کھوجنے کی کوشش کر رہی تھی-

"علی بھی اکیڈمی ہو گا اِس وقت ورنہ اُسی کو کہتے ۔۔۔۔"-عائشہ کچھ افسردہ ہوئی-

"عاشی ایک بات پوچھوں؟ "-ہانیہ نے کھوئے کھوئے انداز میں استفسار کیا-

"ہممممم پوچھو ۔۔۔۔"-وہ آدھی سے زیادہ کافی پی چکی تھی جبکہ ہانیہ نے بمشکل دو تین سپ ہی لئے تھے-

"کیا اُس لمبو کو واقعی ذیادہ زور سے لگی تھی"-اُس نے پلر سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا-

عائشہ فورا سیدھی ہوئی تھی-

"پہلے تو تم یہ لمبو لمبو کہنا بند کرو ۔۔۔۔اتنا پیارا نام ہے فہد بھائی کا تم وہ نہیں لے سکتی"-عائشہ کو اُس کا لمبو کہنا حیرت میں مبتلا کر گیا-اتنے ہینڈ سم اور خوبرو سے فہد کو اُس نے کیا نام دیا تھا-وہ اُن کی پرسنالٹی سے بہت مرعوب تھی-

"اچھا نہیں کہتی ۔۔۔۔اب بتاؤ"-وہ جرح نہیں کرنا چاہتی تھی اِس لیے بلا تردود مان گئی-

"ہاں یار چوٹ تو لگی تھی مگر اب کیا ہو سکتا ہے"-عائشہ نے ایک ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا تھا-کافی ختم ہو چکی تھی اُس نے جھک کہ کپ نیچے رکھ دیا-

"یار مجھے اُن کے لیے بہت برا لگ رہا ہے پتہ نہیں کتنی زور سے لگی ہو گی"-وہ مسلسل اندھیرے میں دیکھ رہی تھی-ہر گزرتے لمہے کے ساتھ اندھیرے میں اضافہ ہو رہا تھا-

عائشہ فورا اُس کے پاس آئی- "دیکھو ہانی خدا کے واسطے اب یہ مت کہنا کہ تمہیں فہد بھائی سے محبت ہو گئی ہے کیونکہ یہ صدمہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔ہو سکتا ہے سن کہ مجھے ہارٹ اٹیک بھی ہو جائے رحم کرنا مجھ معصوم پر پلیز ۔۔۔"-عائشہ نے باقاعدہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے-

ہانیہ نے ایک زور دار دھموکا اُس کے بازو پہ جڑ دیا-عائشہ اُسے گھورتے ہوئے اپنا بازو سہلانے لگی-

"مرو جا کہ کہیں تم۔۔۔۔اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ میں اُس لمبو سے ایک ہی دن میں محبت کرنے لگ جاؤں"-وہ برا مناتے ہوئے بولی- "ہانی کے دل میں بس ایک شخص ہے ۔۔۔۔اور اُسی سے وہ محبت کرتی ہے۔۔۔میران شاہ کی جگہ وہ لمبو تو کیا دنیا کا کوئی انسان نہیں لے سکتا"-میران شاہ کے نام پر دل دھڑکا تھا-آنکھوں میں ستارے چمکے تھے-چہرے پر دھنک رنگ بکھر گئے تھے-عائشہ اندھیرے کے باعث دیکھ نہیں پائی تھی-

"پھر ٹھیک ہے۔۔۔"-عائشہ کو کچھ تسلی ہوئی تھی- "اور سنو اتنا زیادہ نہ سوچا کرو ۔۔۔۔ننھا سا تمہارا دماغ ہے اُس پہ بلا وجہ بوجھ نہ ڈالا کرو"-عائشہ کو وہ انمول دل والی خوبصورت لڑکی بہت عزیز تھی-وہ اُسے کسی صورت دکھی نہیں دیکھ سکتی تھی-گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ سب کی لاڈلی تھی اِسی لیے تھوڑی سی بگڑ گئی تھی-اپنے سے کئی سال بڑوں کے بھی نام لیتی تھی-گھر میں سوائے کرن اور ماریہ کے وہ کسی کو اپی نہیں کہتی تھی-ماریہ کا بھی ذیادہ تر نام ہی لیتی تھی-

"نیچے بہت شور ہو رہا۔۔۔میرا خیال ہے حارث آگیا۔۔۔۔چلو آؤ میچ کے جیتنے پر اُس سے ٹریٹ لیتے ہیں"-عائشہ نے اُس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا تو وہ فورا تیار ہو گئی-وہ ایسی ہی تھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر دکھی اور خوش ہونے والی-اُس کا چہرہ ایک دم کھل اُٹھا تھا-عائشہ نے دل ہی دل میں اُس کی دائمی خوشیوں کی دعا مانگی-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

یونیورسٹی کے کیفے میں وہ سب بیٹھے گوش گپیوں میں مصروف تھے-ساتھ ساتھ کوک اور سموسوں سے بھی بھر پور انصاف ہو رہا تھا-میران شاہ البتہ وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھا-چاند نے ایک نظر اُس کے کھوئے کھوئے چہرے پر ڈالی-وہ سوچ سوچ کر ایک طرح سے پاگل ہو گیا تھا کہ آخر میران شاہ کی سوچوں کا سرا کس جگہ اٹک گیا-ہمہ وقت بولنے والے میران شاہ کو ایک دم چپ کیوں لگ گئی ہے-گروپ کے باقی میمبرز نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی مگر کسی نے پوچھا نہیں تھا-سب چپ چاپ اُس کے بدلے بدلے انداز نوٹ کر رہے تھے-

"مانی تمہارا برتھ ڈے کہاں سیلیبریٹ کرنا چاہیے تم بتاؤ"-نیہا نے اچانک اُس سے رائے مانگی-وہ چونکا تھا غائب دماغی سے نیہا کو دیکھا-کچھ دن بعد اُس کا برتھ ڈے تھا-وہ سب ٹریٹ کے لئے جگہ پلان کر رہے تھے-

"میں کیا بتاؤں"-وہ بے دلی سے بولا تو نیہا کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی چونکے-نیہا نے اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا جسے میران شاہ نے دھیرے سے نکال لیا-وہ سب سے نظریں چرا رہا تھا-

"تم ٹھیک تو ہو نہ"- نیہا کو تشویش ہوئی تھی-

"ہاں میں ٹھیک ہوں"-وہ مدھم سے لہجے میں بولا-

وہ سب کبھی اُس کو تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-میران شاہ کچھ شرمندہ ہوا-

"ایم ٹوٹلی فائن یار ڈونٹ وری۔۔۔"-اُس نے اُن کو پھر تسلی دی- "اور ٹریٹ کے لئے جو جگہ تم لوگ ڈیسائیڈ کرو گے ہم وہیں چلے جائیں گے"-وہ زبردستی مسکرا کر بولا تھا-کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہوتا-ناچاہتے ہوئے بھی وہ کام کرنے پڑتے ہیں جو دل لاکھ دفعہ چاہنے پر بھی نہیں کرنا چاہتا-اپنوں کی خوشی کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا اِس کا اندازہ اُسے آج ہوا تھا-میران شاہ نے ایک لمبا سانس خارج کیا-

"گائز اِس کو چھوڑو ہم خود ڈیسائیڈ کر لیتے ہیں"-چاند کو وہ بہت ڈسٹرب لگا تھا-

باقی سب نے پھر خود ہی مل کر سب کچھ فائنل کر لیا تھا-

"میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں آپ لوگ باتیں کریں"-میران شاہ کو اُس ماحول سے وحشت ہونے لگی تو اُس نے وہاں سے اُٹھنے کافیصلہ کیا-وہ اُن سب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی چلا گیا-نیہا نے حیرت سے چاند کو دیکھا تو اُس نے لا تعلقی سے کندھے اچکا دیے-وہ خود کچھ نہیں جانتا تھا-

"جاؤ پوچھو کیا ہوا اِس کو"- نیہا نے چاند کو بھی اُس کے پیچھے جانے کے لئے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی اگر کوئی بات ہوئی بھی تو وہ بس اُسی کو بتائے گا-باقی کسی کا جانا اور پوچھنا فضول تھا-چاند سر ہلاتے ہوئے اُس کے پیچھے بھاگا-کچھ دور ہی اُسے جا لیا-

"اُوئے ہیرو رکو تو۔۔۔"-اُس نے کچھ دور سے ہی اُسے آواز دی-میران شاہ البتہ چلتا رہا-چاند ہانپتا کانپتا اُس تک پہنچا-

"کیا ہوا ہے؟ "-وہ اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا-میران شاہ کے قدموں میں سستی آگئی تھی-

"نتھنگ۔۔۔"-وہ بیگ کو دوسرے کاندھے پر منتقل کرتے ہوئے سرسری انداز میں بولا-

"تو منہ پر بارہ کیوں بجائے ہیں۔۔۔۔"-چاند نے اُسے پکڑ کر روکا-وہ دونوں اب آمنے سامنے کھڑے تھے-

"ویسے ہی۔۔۔"-وہ لاپرواہی سے بولا تھا- 

"کون ہے وہ؟ "-چاند نے بنا اِدھر اُدھر کی بات کیے مطلب کی بات پوچھی-

"تیری ہونے والی بھابھی۔۔۔۔"-میران شاہ کچھ لمہے اُس کو دیکھتا رہا پھر سنجیدگی سے کہہ کہ آگے بڑھ گیا-

"ہیںں۔۔۔۔"-وہ ایک منٹ تو کچھ سمجھ ہی نہ سکا تھا۔۔۔اور جب سمجھ آئی تو اُس کے پیچھے بھاگا-

"یار رک تو سہی۔۔۔۔"-چاند نے اُسے آواز دی مگر وہ سنی ان سنی کرتا چلا گیا-

"کچھ نہیں ہو سکتا اس کا۔۔۔۔اب پتہ نہیں کیا نیا گل کھلایا ہے"-وہ بڑبڑاتا ہوا واپس مڑا-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

چوڑی جو کھنکی ہاتھوں میں 

ہائے چوڑی جو کھنکی ہاتھوں میں 

یاد پیا کی آنے لگی

ہائے بھیگی بھیگی راتوں میں

کپڑے نچوڑتی ہانیہ لہک لہک کر گا رہی تھی-ساتھ ساتھ ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں بھی کھنک رہی تھیں-اُس نے اور عائشہ نے مشین لگا رکھی تھی-عائشہ کپڑے پھیلانے لان میں گئی ہوئی تھی اور اُسے کنگھالے ہوئے کپڑے نچوڑنے کے لیے بول کر گئی تھی مگر ہانیہ بی بی کام کم رہی تھیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر گا زیادہ رہی تھیں-پورے گھر میں اُس کی آواز گونج رہی تھی-وہ ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی-

ٹھنڈی ٹھنڈی بون چلی

تن من میں ہائے آگ لگی

تیرے پیار کی چنگاری

انگ انگ میں ہائے میرےجلی 

رم جھم سی برساتوں میں 

یاد پیا کی آنے لگی 

ہائے بھیگی بھیگی راتوں میں 

چوڑی جو کھنکی۔۔۔۔ابھی یہ فقرہ اُس نے بولا ہی تھا جب کمر پر کرن کا زور دار تھپڑ پڑا-گیلے کپڑے ہاتھوں سے گر گیے-وہ شاکی نظروں سے اُسے دیکھنے لگی-

"ہاتھوں میں ۔۔۔۔"-گانے کا اگلا جملا اُس نے تھپڑ کھانے کے باوجود بھی منہ میں ادا کیا-

"کس کی یاد ستا رہی ہے تمہیں ۔۔۔۔"-اُس نے نیچے سے سفید کپڑے اُٹھاتے ہوئے غصے سے پوچھا-

"میران شاہ کی۔۔۔۔"-وہ صرف سوچ سکی تھی بولنے کی جرات نہیں کی تھی-

"اپی کسی کی بھی نہیں۔۔۔۔مم میں تو گانا گا رہی تھی بس۔۔۔۔"-اُس نے اپنی کمر سہلاتے ہائے منمنا کر جواب دیا-تھپڑ اچھا خاصا زور سے پڑا تھا-

"چوبیس گھنٹے تو منہوس انڈین گانے سنتی رہتی ہو تو وہی پھر زبان پر بھی رہیں گے نہ۔۔۔ہانی تم نے کسی دن میرے ہاتھوں قتل ہو جانا ۔۔۔سدھر جاؤ"-کرن نے سارے کپڑے ٹب میں رکھتے ہوئے کہا- "نہوست پھیلا رکھی ہے ہر طرف"-وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس جانے لگی-

"اور دیہان سے سنو اب تمہاری آواز آئی نہ تو میں بہت بری طرح پیش آؤں گی تمہارے ساتھ یاد رکھنا"-اُس نے جاتے جاتے وارننگ دی-

"جی اچھا"-وہ منہ بنا کر بولی تو کرن اُسے گھورتی ہوئی چلی گئی-

عائشہ واپس آئی تو اُسے بت بنا دیکھ کر حیران ہوئی-

"تمہیں کیوں سانپ سونگھ گیا"-اُس نے ہانیہ کو کہنی مارتے ہوئے پوچھا-

"سانپ نہیں کرن اپی سونگھ گئی ہیں"-دکھ سی آواز میں جواب آیا-

"ہائیں ۔۔۔کیا کہہ رہی ہو"-عائشہ کے کچھ بھی پلے نہ پڑا-

"سچ کہہ رہی ہوں"-وہ دوبارہ سے کپڑے نچوڑنے لگی-عائشہ بھی اُس کا ساتھ دینے لگی- "عاشی تم کرن اپی جیسی ہٹلر بہن کے ساتھ کیسے گزارا کر لیتی ہو؟"-اُس نے سفید کپڑے الگ کرتے ہوئے پوچھا-

"ہوا کیا یہ تو بتاؤ؟"-عائشہ نے ناسمجھی سے پوچھا-

"بس کچھ مت پوچھو۔۔۔۔میں اپنی سریلی آواز میں ایک خوبصورت گانا گا رہی تھی تو اوپر سے کرن اپی آگئیں-اُس کے بعد تمہیں پتہ ہی ہے پھر کیا ہوا ہو گا"-وہ معصومیت سے بولی تو عائشہ کی ہنسی نکل گئ-

"توبہ ہے ہانی ۔۔۔۔تمہیں کس نے کہا تھا کہ یوں سرِ عام گلا پھاڑو"-وہ مسکراتے ہوئے بولی تو ہانیہ نے اُسے گھورا-

"کسی کو میرے ٹیلنٹ کی قدر ہی نہیں ہے۔۔۔"-اُس کا چہرہ اتر گیا- "ارے مستقبل کی مشہور سنگر ہوں۔۔۔میں یعنی ہانیہ شفیق۔۔۔۔"-وہ کام چھوڑ کر پُرجوش انداز میں بولی-

"ہاہاہاہا۔۔۔جب تم نے گانا شروع کیا تو باقی سب سنگروں کی چھٹی ہو جائے گی"-عائشہ اُس کی خوش فہمیوں پر مسکرائی تھی-

"تم تو چپ ہی رہو۔۔۔ہٹلر کی بہن۔۔۔"-وہ منہ بنا کر بولی- "ہنہہ بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔۔۔تمہیں کیا پتہ اصلی سنگر کیسا ہوتا"-

وہ بھی کہاں ہار ماننے والوں میں سے تھی- اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے وہ گھنٹوں کسی سے بھی بحث کر سکتی تھی-

"ہاہاہاہا۔۔۔۔مستقبل کی سنگر ہانیہ صاحبہ پلیز کپڑےدھونے پہ فوکس کریں ورنہ کرن اپی آپ کی اچھی والی کلاس لیں گی-عائشہ کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا-اُس نے کپڑے بالٹی میں رکھے اور پھیلانے چلی گئی-

"ان سب کو کیا پتہ ہانیہ شفیق کیا چیز ہے۔۔۔۔دنیا کے موسٹ ٹیلنٹیڈ لوگوں میں میرا شمار ہوتا۔۔۔۔اور اِدھر کسی کو قدر نہیں"-وہ بڑبڑاتے ہوئے پھر کام کرنے لگی- "ٹینشن نہ لو ہانیہ اِن سب کو کیا پتہ میرے بارے ميں ۔۔۔۔"-اُس نے خود کو تسلی دی-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

ہانیہ کیاری میں پانی والا پائپ رکھے خود کرسی پر براجمان تھی-ٹانگیں سامنے میز پر پھیلا رکھی تھیں-پانی کیاری سے نکل نکل کر اب لان کی گھاس پہ گر رہا تھا-مگر ہانیہ کا دیہان اُس طرف ہوتا تو وہ دیکھتی نہ-

دھوپ کی وجہ سے چہرہ پسینے میں تر تھا-

گیٹ سے اندر داخل ہوتے فہد کی نظر اُس پڑی تو وہ وہیں رُک گیا-کتنے ہی لمہے اُس کی طرف دیکھتا رہا-تبھی دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُس تک آیا-ہانیہ خود میں اتنی مگن تھی کہ اُس کے آنے کی خبر ہی نہ ہوئی-فہد اُس سے کچھ فاصلے پہ کھڑا اُس کو یک ٹک دیکھ رہا تھا-تبھی اُسے اپنے پیروں پر گیلا پن محسوس ہوا-اُس نے چونک کر نیچے دیکھا-کیاری پانی سی بھر چکی تھی اور اب فالتو پانی باہر اِدھر اُدھر پھیل رہا تھا-آس پاس کوئی بھی موجود نہیں تھا-اُس نے آگے ہو کر پائپ پکڑ کر ساتھ والی کیاری میں ڈال دیا-ہانیہ اب بھی متوجہ نہیں ہوئی تھی- فہد نے ہلکا سا گلا کھنکارا-ہانیہ ایک دم سیدھی ہوئی-پھر بنا اِدھر اُدھر دیکھے ٹیک لگا لی-

"ملکہ عالیہ کے دربار میں حاضر ہوا جائے-وہ کب سے آپ کو یاد فرما رہی تھیں"-وہ ایک ہاتھ ہوا میں لہرا کر ایک ادا سے بولی-اُسے لگا حارث ہے-

فہد کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آگئی-وہ اُس کے سامنے آگیا-آنکھیں بند کیے وہ کسی ملکہ کی طرح بیٹھی تھی-رف سے حلیے میں بھی وہ بہت دلکش لگ رہی تھی-فہد مرتضی نے ایک پیار بھری نگاہ اُس پہ ڈالی-

"جی مادام۔۔۔۔"-وہ مودب ہو کہ بولا تھا-

"ہیںں یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا"-ہانیہ نے بھنویں اچکا کر حیرت کا اظہار کیا-دیکھنے کی زحمت اب بھی نہیں کی تھی- 

"کیا ہوا؟ "-فہد نے مسکراہٹ دبا کر اُلٹا اُسی سے پوچھا-

ہانیہ نے اب فورا آنکھیں کھولیں تھی-سامنے کھڑے فہد کو دیکھ کر وہ ایک دم گھبرا گئی-

"لمبو۔۔۔۔"-بے ساختگی میں منہ سے پھسل گیا؛ دوپٹہ فورا سیدھا کیا تھا-

"جج جی کیا کہا آپ نے۔۔۔۔میں سمجھا نہیں"-فہد کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تھا-

"اچھا ہوا نہیں سمجھے۔۔۔"-اُس نے منہ میں ہی آہستگی سے کہا اور کرسی سے اُٹھ کہ کھڑی ہو گئی-

"آپ یہاں کیسے آئے ہیں؟ "-اُس کی موجودگی کا خیال آیا تو فورا پوچھا-

"دروازے سے آیا ہوں۔۔۔۔دیورایں کافی اونچی ہیں ورنہ پھلانگ کر آجاتا"-وہ شوخ ہوا تھا-جیسا سوال آیا تھا ویسا ہی جواب دیا گیا تھا-ہانیہ گڑبڑا گئی-جلدی میں ناجانے کیا منہ سے نکل گیا تھا-

"نہیں میرا مطلب ہے کہ آپ کس کام سے آئے ہیں؟ "-اپنی بات کی وضاحت کی مبادا وہ کچھ غلط ہی نہ سمجھ لے-

"میں آپ کے دادا جان سے ملنے آیا ہوں"-اُس نے نرمی سے جواب دیا-

"تو جائے ملیے جا کہ۔۔۔۔"-وہ اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی-

فہد ایک مسکراہٹ اُس کی طرف اچھال کر آگے بڑھ گیا-

"سنیے۔۔۔۔"-اُس نے پیچھے سے پکارا-وہ رک گیا-

"جی جی سنائے۔۔۔"-فہد نے شرارت سے جواب دیا-

"آپ کی ناک صحیح ہو گئی؟ "-اُس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا- 

"جی ہو گئی۔۔۔آپ دوبارہ حملہ کر سکتی ہیں"-وہ شرارت سے بولا تو ہانیہ پر گھڑوں پانی آن پڑا-

"کیا ہوا؟ "-اُسے گم سم دیکھ کر فہد نے استفسار کیا-

کچھ نہیں آپ جائیے یہاں سے"-وہ رُخ موڑ گئی-

فہد کچھ دیر کھڑا اُس کی پشت کو دیکھتا رہا-اُس کی چوٹی کے بلوں میں اُس کا دل اُلجھنے لگا-جزبات پر قابو پانا جب مشکل ہو گیا تو اُس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیے-

!،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

ہانیہ کچن میں داخل ہوئی تو کرن اور عائشہ دونوں وہاں تھیں-وہ دبے پاؤں عائشہ کے پیچھے جا کھڑی ہوئی-عائشہ نے مڑ کہ دیکھا اور ہلکی سمائل دے کر پھر اپنےکام میں مگن ہو گئی ہو-کرن نے بھی ایک سرسری نگاہ اُس پر ڈالی تھی-

"کیا کر رہی ہو؟ "-ہانیہ نے اُس کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں پوچھا-

"فہد بھائی آئے ہوئے ہیں اُن کے لئے چائے بنا رہی ہوں"-وہ بھی جواباً اُسی سرگوشی میں بولی تھی-

"وہ لمبو کیوں آیا ہے؟ "-ہانیہ نے منہ بناتے ہوئے پوچھا-

"ایسے نہیں کہتے ہانی ۔۔۔وہ مہمان ہیں"-عائشہ نے اُسے پیار سے سمجھایا تو وہ آگے سے چپ رہی-

"ہانیہ یہ پیاز کاٹ دو شاباش "-کرن اپی نے چھیلے ہوئے پیازوں والی پلیٹ اُس کی طرف بڑھائی-

"مم میں ۔۔۔"-اُس نے منمناتے ہوئے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کر کے تصدیق چاہی-

"کیوں تمہیں کیا۔۔۔"-کرن نے اُسے گھورا تو ہانیہ گڑبڑا گئی-

"کک کچھ نہیں ۔۔۔۔لائیں میں کاٹ دیتی ہوں"-اُس نے فورا پلیٹ تھام لی-عائشہ زیرِ لب مسکراتی رہی-ہانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا اُس کو کچا کھا جاتی وہ اُس کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہی تھی-

"عائشہ چائے بن گئی؟ "-کرن اپی نے سینک پہ ہاتھ دھوتے ہوئے عائشہ سے پوچھا-

"جی اپی بن گئی"-وہ چائے کپ میں انڈیل رہی تھی-کرن دوپٹے کے پلو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اُس کے پاس آئی-اُس نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھ کر کرن کو تھمایا-ہانیہ بت بنی کھڑی تھی-پیاز کاٹنا اُس کے نزدیک دنیا کا مشکل ترین کام تھا-انسان بلا وجہ ہی اپنی آنکھوں پر اِتنا ظلم ڈھاتا ہے-یہ اُس کے اپنے نادر خیالات تھے-

"تم میرے آنے تک بریانی کا مصالحہ تیار کرو میں فہد کو چائے دے آؤں-کب سے بیٹھا ہے بیچارا"-اُنہوں نے ٹرے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو عائشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا-

"ہانی تم بھی زرا تیز ہاتھ چلاؤ"-جاتے جاتے اُسے بھی ہدایت کی جو چھری ہاتھ میں لیے دنیا کی مسکین ترین مخلوق نظر آرہی تھی-

"ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔"-کرن کے جاتے ہی عائشہ کی ہنسی کا فوارا چھوٹ گیا-ہانیہ نے چھری کا دستہ اُس کے بازو پہ دے مارا-عائشہ تھوڑا پیچھے ہوئی تھی-

"کچھ شرم کرو۔۔۔۔میرا مزاق اُڑا رہی ہو تم"-وہ قدرے ناراض ہوئی تھی-عائشہ پیٹ پکڑے مسلسل ہنس رہی تھی-

"تمہارا کیا بنے گا ہانی۔۔۔۔تمہیں کوئی کام نہیں آتا کرنا۔۔۔۔کیا کرو گی سسرال جاکر"-عائشہ نے اُس کو بڑی بوڑھیوں کی طرح طعنہ مارا-

"مجھے کافی بنانی آتی ہے"-اُس نے بڑے فخر سے بتایا-

"اپنے میاں کو پوری زندگی کافی ہی پلاتی رہو گی"-وہ اُس کے قریب آتے ہوئے بولی-

"کھانا ہم ہوٹل سے منگوا لیں گے"-وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی-اگلے بندے کو چپ کروا دیتی تھی خود نہیں ہوتی تھی-ہر سوال کا اُس کے پاس تیار شدہ جواب ہوتا تھا-

"تم خود کچھ مت سیکھنا"-عائشہ نے اُس کے خیالات پر تاسف کا اظہار کیا-

"جب میرا ٹائم آئے گا سیکھ لوں گی تو میری ٹینشن نہ لیا کر"-وہ اُسے تسلی دیتے ہوئے بولی-

"اور تیرا ٹائم کب آئے گا؟ "-عائشہ نے بھنویں اچکا کر پوچھا-وہ ساتھ ساتھ بریانی کے لیے مصالحہ جات گرینڈ کر رہی تھی-

"وہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی۔۔۔ابھی تم یہ پیاز کاٹ دینا"-اُس نے اُس کے ہاتھ میں موجود سامان کو لے کہ نیچے رکھا اور چھری پکڑا دی-پلیٹ بھی اُس کے آگے رکھ دی جس میں چھیلے ہوئے پیاز تھے-

"مگر تم کہاں جا رہی ہو؟ "-وہ حیران ہوئی-

"میرا فیورٹ شو آنے والا وہ دیکھوں گی"-اُس نے جلدی جلدی میں جواب دیا-

"ہانی پر میں بھی تو دیکھنا"-عائشہ نے منہ بنا کر کہا-

"تجھے میں سٹوری سنا دوں گی۔۔۔۔تو بس پیاز کاٹ دینا"-وہ اُس کا کاندھا تھپتھپا کر بولی- "اور سن کرن اپی کو کہنا ہانیہ نے کاٹا"-کچن کے دروازے میں رک کر اُسے یاد دہانی کروائی-

"ہاہ۔۔۔۔کام بھی میں کروں اور جھوٹ بھی میں بولوں۔۔۔۔یہ تو چیٹنگ ہے"-اُس نے دہائی دی مگر وہ سنی ان سنی کرتی بھاگ گئی-

!-------------------!

"ہانی سو گئی ہو؟ "-عائشہ نے آنکھوں پہ بازو رکھے اونگھتی ہانیہ سے پوچھا-

"اوں۔۔۔۔"-وہ آدھی نیند میں تھی-پتہ نہیں سنا بھی تھا یا نہیں-

"کیا اوں۔۔۔۔میں پوچھ رہی ہوں سو گئی ہو"- وہ اُسے دونوں ہاتھوں سے ہلاتے ہوئے بولی-

"کیا تکلیف ہے"- اُس نے سرخ ہوتی آنکھوں سے اُسے گھورا-

"مجھے تم سے بات کرنی ہے"-وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی-تکیہ اُٹھا کر گود میں رکھ لیا-

ہانیہ نے پھر آنکھوں پربازو رکھ لیا تھا-

"کرو باتیں میں سن رہی ہوں"-وہ جانتی تھی کہ اُس نے اپنی بات سنائے بغیر اُس کی جان نہیں چھوڑنی-چاہے کچھ ہو جائے-

"میں فارحہ کی مہندی کے لیے تمہارا ماریہ اپی کی مہندی والا لہنگا لے لوں؟ "-عائشہ کی آنکھوں کے سامنے پیلے اور سبز رنگوں کے امتزاج والا خوبصورت لہنگا آگیا-فارحہ اُس کی کلاس فیلو اور دوست تھی-جسکی کچھ دن بعد شادی تھی-

"ہاں لے لو"-وہ بنا کسی تردود کے مان گئی تھی-عائشہ ایک دم خوش ہو گئی-

"تھینک یو میری پری"-اُس نے چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا-

"ہاں مگر اُسے پہننا مت۔۔۔۔"-ہانیہ نے آنکھیں موندے موندے ہی کہا-

"اچھا ٹھیک ہے"-وہ جلدی میں بول گئی تھی-اُس کی بات پر غور نہیں کیا تھا-خوشی سے بیڈ سے نیچے اُترنے لگی تو دماغ میں اُس کا جملا دوبارہ گونجا-

"ہانی۔۔۔۔۔"-عائشہ چلائی تھی- ہانیہ نے قہقہ لگایا تو عائشہ نے اُس پرتکیے برسانے شروع کر دیے- "کتنی تم چالو چیز ہو"-وہ اپنے حملے سے بچتی ہانیہ کو دیکھ کر غصے سے بولی-

"یار تم نے لینے کا بولا تھا پہننے کا کب کہا تھا-ہانیہ اُس کے ہاتھ سے تکیہ کھینچ کر معصومیت سے بولی تھی-

"جاؤ میں تم سے بات نہیں کروں گی"- وہ اُس سے ناراض ہوئی-بیڈ سے اُترنے لگی تو ہانیہ نے فورا روکا-

"یار مزاق کر رہی تھی ۔۔۔سوری"- وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئےاُسے منانے لگی- "تم پہن لینا بیشک"-کھلے دل سے آفر کی-

"اچھا چلو معاف کیا مگر میں وہ لہنگا پکا پکا لوں گی"-عائشہ نے گویا اُس پہ احسان کیا تھا-

"تم ناراض ہی رہو"-وہ اُسے پرے دھکیلتے ہوئے بولی-

"ہانی میری پیاری بہن"- عائشہ نے اُس کی منت کی-

"کوئی بہن نہیں ۔۔۔تم پرے ہٹو نہ زرا"-وہ اُس کی چالاکی سمجھ گئی تھی-

عائشہ اُس کے گلے لگ گئی-ہانیہ نے اُس کو گھورا-کچھ دیر کے مسکوں کے بعد اُس نے ہانیہ کو بالاآخر راضی کر ہی لیا-

"میری چیزوں پہ ہی نظریں ہوتی ہیں تمہاری ۔۔۔بدتمیز کہیں کی"-وہ مصنوعی غصے سے بولی تو، عائشہ کھلکھلا پڑی-

"چلو اِسی خوشی میں تمہیں میں اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے کافی پلاتی ہوں"-عائشہ نے اُس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا-وہ جانتی تھی ہانیہ فورا خوش ہو جائے گی-اور وہی ہوا تھاوہ تیار ہو گئی تھی-

"سنو کافی پہ چاکلیٹ سے دل بھی بنا کر لانا"-اُس نے دوبار لیٹتے ہوئے کہا تو جوتا پہنتی عائشہ رک گئی-

"کس کا دل؟ "-عائشہ نے اُس کو گھورا-

"میران شاہ کا۔۔۔۔"-وہ شرارت سے بولی تو عائشہ تاسف سے اُس کو دیکھتی باہر نکل گئی-ہانیہ نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کیں تو چھم سے کسی کا چہرہ تصور میں اُتر آیا-

!------------------------!

فہد راکنگ چئیر پہ ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا ہوا تھا-تصور میں وہ آئی تو لب خود بخود مسکرا اُٹھے-ہمہ وقت سنجیدہ رہنے والے فہد مرتضی کو ہانیہ شفیق نے مسکرانا اور خوش ہونا سیکھا دیا تھا-وہ کرسٹل کی گڑیا اُس کے حواسوں پر چھاتی جا رہی تھی-فہد مرتضی کے دل و دماغ پر ہر طرف اُس کا قبضہ تھا-اُس کی آنکھوں میں ہانیہ شفیق کی تصویر بس گئی تھی-اُس کے دل پر ہانیہ شفیق کانام ہمیشہ کے لیے لکھا جا چکا تھا-اُس کے دماغ پر ہانیہ شفیق کک حکمرانی تھی-وہ اُس کی سوچوں پر مکمل طور پر قابض ہو چکی تھی-فہد مرتضی تو خود میں کہیں بھی نہیں تھا-ہر طرف ہانیہ شفیق ہی تو تھی-

مریم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں-حیرت سے اپنے پیارے بیٹے کے لبوں پہ سجی مسکان دیکھی-یہ مسکان کوئی ایسی ویسی نہیں تھی-کوئی بہت خاص بات تھی-

"یہ رہی تمہاری کافی"-مریم نے بلیک کافی کا بڑا سا مگ اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تو وہ چونکا فورا آنکھیں کھول کر اُن کو دیکھا-

"بیٹھیں نہ ماما۔۔۔۔"-اُس نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا-

مریم بیڈ پر بیڈ گئیں-فہد کافی کا کپ لے کہ نیچے قالین پر اُن کے قدموں میں بیٹھ گیا-مریم نے پیار سے بیٹے کو دیکھا-

"آپ اپنی کافی نہیں لائیں؟ "-وہ اُن کے گھٹنے سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھنے لگا-

"میں بلیک کافی نہیں پی سکتی تم ہی پیو یہ کڑوا زہر"-اُنہوں نے منہ بناتے رہے کہا تو فہد ہنس پڑا-مریم نے دل ہی دل میں ماشاء اللہ کہا-

فہد کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لینے لگا-مریم پیار سے اُس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں-فہد کے اندر تک سکون اُترتا گیا-دنیا میں اُسے دو چیزوں کی ہی بس ضرورت تھی ایک اپنی ماما کا پیار اور دوسرا بلیک کافی جس کے بغیر وہ کبھی رہ ہی نہیں سکتا تھا-

"کیا بات ہے بہت خوش رہنے لگے ہو۔۔۔۔۔"-اُنہوں نے محبت پاش نظروں سے بیٹے کو دیکھا-دنیا میں اُن کے جینے کی وجہ ہی بس وہ تھا-

"اچھی بات نہیں ہے یہ تو۔۔۔"-وہ دھیمی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولا تھا-

"اچھی نہیں بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔"-وہ اُس کے بالوں پر بوسہ دیتے ہوئے بولیں- "لیکن یہ تبدیلی اچانک کیسے آئی ہے ۔۔۔۔کون ہے وہ"-اُنہوں نے اُس کی آنکھوں میں وہ راز پالیا تھا جو اُس کے مسکرانے کا سبب تھا-

"حارث کی کزن ہے"-فہد اُن سے کچھ نہیں چھپاتا تھا-وہ واحد ہستی تھی اُس کی زندگی میں جس سے وہ اپنی ہر بات بلا جھجک شئیر کر لیتا تھا- 

"بہت پیاری ہے کیا؟ "-اُنہوں نے بیٹے کے چہرے پر پھیلے محبت کے رنگ دیکھتے ہوئے پوچھا-

"بلکل گڑیا جیسی ہے ماما"-اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ لمہہ آیا جب پہلی بار دیکھا تھا- "لیکن غصے والی بہت ہے۔۔۔۔اگلے بندے کو چپ کروا کہ رکھ دیتی ہے۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں پہ مرنے مارنے پہ تل جاتی ہے "- وہ اُس کے بارے میں اُن کو بتانے لگا-مریم مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اُس کو سن رہی تھیں-

"کیا خیال ہے پھر لے نہ آئیں اُسے اِس گھر میں ۔۔۔"- اُنہوں نے شرارت سے پوچھا تو فہد نے شرماتے ہوئے سر کھجایا-

"ابھی بہت چھوٹی ہے وہ ماما۔۔۔۔اُس کے گھر والے اتنی جلدی نہیں مانیں گے"-فہد کو یاد آیا ابھی تو وہ سیکنڈ ائیر کے پیپرز سے فری ہوئی تھی-

"چلو ٹھیک ہے تھوڑا انتظار کر لیتے ہیں لیکن میں کل ملنے جاؤں گی اُس سے اور دیکھوں گی کہ آخر کیسی ہے وہ گڑیا جس نے میرے بیٹے کو ہنسنا سکھا دیا"-مریم نے اُس کے ہاتھ سے کافی والا خالی مگ لے کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا-

"جی ضرور جائے گا"- وہ اُن کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولا-

"چلو اب سو جاؤ شاباش بہت رات ہو گئی ہے صبح ڈیوٹی پہ بھی جانا ہے تم نے"-اُنہوں نے اُس کا ماتھا چوم کر اُسے اُٹھایا- فہد سستی سے اُٹھ کر بیڈ پر لیٹ گیا-مریم نے اُس کے اوپر کمبل ڈالا-کھڑکی کے پردے برابر کیے اور اے سی آن کر دیا-

وہ گڈ نائٹ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں-فہد نے آنکھیں بند کر لیں-ہانیہ بند آنکھوں کے پیچھے مسکراتی ہوئی دکھائی دی-

"آئی لو یو سو مچ ہانی۔۔۔۔"-فہد نے بند آنکھوں سے ہی مسکراتے ہوئے کہا اور تکیا بانہوں میں لیتے ہوئے کروٹ لی-

!-------------------------!

کمپیوٹر کی کلاس ختم ہوئی تو وہ دونوں لان میں آگیے-گرمی کی شدت کل ہونے والی بارش سے کسی حد تک ٹوٹ چکی تھی-موسم بہت ذیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت تبدیل ہو رہا تھا-

"اففف کتنی بورنگ کلاس تھی"-میران شاہ گھاس پر بیٹھتے ہوئے بولا-

"کلاس بورنگ نہیں تھی سر بورنگ تھے"-چاند اُس کے سامنے ہی بیٹھ گیا-بیگ درمیان میں رکھ لیا-

"بات تو ایک ہی ہے"-میران شاہ کا موڈ کسی حد تک خراب تھا-

"اچھا خیر چھوڑو جیسی بھی تھی جو بھی تھی گزر تو گئی نہ-ایک ہفتے کے کیے جان چھوٹی"-چاند نے بالوں کو ہاتھ کی مدد سے ماتھے سے پیچھے کیا-

"تم مجھے یہ بتاؤ کل کیا بکواس کی تھی"-چاند نے سیدھے ہوتے ہوئے اُس سے پوچھا-

وہ آج اُس سے راز اگلوا کر ہی دم لینا چاہتا تھا-

"کونسی بات ۔۔۔۔"-وہ انجان بنا-

"ڈرامے نہ کرو انسانوں کی طرح بتاؤ"-وہ اُسے گھورتے ہوئے بولا تو میران شاہ سر کھجانے لگا-

"وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے یار ۔۔۔"-وہ گھاس کا تنکا نوچتے ہوئے بولا-

"کون۔۔۔۔؟"-چاند نے اِس آدھی ادھوری بات پر اُس کو گھورا-

"ظاہر سی بات ہے لڑکی ہی ہے"-میران شاہ کو اُس کی کم عقلی پر افسوس ہوا-

"مجھے بھی پتہ لڑکی ہی ہو گی۔۔۔۔مگر ہے کون؟ "-

"ماریہ بھابھی کی کزن ہے ہانیہ نام ہے اُسکا شاید"-اُسنے گھاس کا ایک اور تنکا نوچ کہ دور پھینکا-

"صاف صاف لفظوں میں یہ کہ تمہیں محبت ہو گئی ہے"-چاند نے سنجیدگی سے کہا-

"ہاں ۔۔۔۔"-وہ بلا تمہید اقرار کر گیا تھا-

چاند کتنے ہی لمہے اُس کی طرف دیکھتا رہا-

"تم سیریس ہو؟ "-اُس نے ایک لمبا سانس خارج کیا ناجانے کیوں کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا-مگر وہ کچھ بھی بولنے سے پہلے اُس کا جواب سننا چاہتا تھا-

"اف کورس یار سو فیصد سیریس ہوں"-وہ اپنے دیہان میں تھا-ورنہ چاند کی اتنی سنجیدگی ضرور نوٹ کرتا-اُس کی آنکھوں میں اُترنے والے رنگوں نے چاند کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا-

"چیٹنگ کر رہے ہو"-وہ اُس کو پرکھ رہا تھا-دل میں خیال تھا کہ شاید کہہ دے ہاں میں ایسا ہی کر رہا ہوں-کسی کی زندگی کا سوال تھا-کسی معصوم کے ساتھ ذیادتی ہو رہی تھی-بنا کسی جرم کے ہی کسی کو سزا ملنے والی تھی-

"تمہیں لگتا میں چیٹنگ کر سکتا ہوں؟"-اُس نے لفظوں پہ زور دیتے ہوئے اُسی سے اُلٹا پوچھا تھا-انگلی کی مدد سے اپنی طرف اشارہ کیا تھا-چاند کا الجھا انداز اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا- 

"تو پھر یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ "-چاند کے چہرے پر سنجیدگی ہنوز برقرار تھی-

"کیا مطلب"-وہ ناسمجھی سے اُسکو دیکھنے لگا-

"تم اچھی طرح جانتے ہو کہ نیہا تم سے کتنا پیار کرتی ہے پھر بھی تم یہ سب کر رہے ہو"-چاند کی بات پر وہ ایک لمہے کے لئے ساکت ہوا تھا-اِس بات سے وہ بہت اچھی طرح واقف تھا- نیہا کئی بار چھپے لفظوں میں اُس کو یہ باور کروا چکی تھی کہ وہ اُس کے لیے کیا ہے اُس کی زندگی میں میران شاہ کی اہمیت ہر چیز سے ذیادہ ہے-

"ہاں تو۔۔۔"-اُس کی پیشانی پر کئی بل پڑ گیے-چاند کو ایسے ری ایکشن کی امید نہیں تھی- 

"مانی میں مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں"-وہ ناگواری سے بولا تھا-

"ہاں تو میں نے کونسا مزاق کیا ہے-میں بھی تو سیریس ہوں "-میران شاہ نے اُس کے تنے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے جواب دیا-

"تم سب کچھ اچھی طرح جانتے ہو پھر بھی یہ سب کر رہے ہو-یہ تو سراسر غلط ہے"-چاند کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ ایک منٹ میں اُس کا دماغ ٹھکانے لگا دیتا-

"دیکھو میں نے نیہا کو ہمیشہ اپنادوست سمجھا ہے اِس سے ذیادہ فیلنگز نہیں ہیں میرے دل میں اُس کے لیے۔۔۔وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی ہے تو اِس میں غلط کیا ہے جو جزبات میرے دل میں اُس کے لیے ہیں وہ میں نیہا کہ لیے نہیں محسوس کرتا تو کیا اب اپنے ساتھ زبردستی کروں"-اُس کے لہجے میں ناگواری صاف واضح تھی- 

"گڈ یعنی کہ جب تک وہ لڑکی تمہاری زندگی میں نہیں تھی تب تک تمہارے لیے سب سے زیادہ نیہا اہم تھی اور آج اُس سے ملنے کے بعد تم اُس کے ساتھ ہو گیے ہو۔۔۔۔بہت اچھے"-چاند نے بھر پور طنز کیا تھا-میران شاہ کی تیوری چڑھ گئی-

"کیا فضول باتیں کر رہے ہو-تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔۔۔؟"-وہ غصے سے بولا تھا-"نیہا کو میں نے ہمیشہ اپنا دوست مانا ہے اور آج بھی مانتا ہوں-میں نے اس سے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی کہ کوئی مجھ پراُس کی وجہ سے الزام لگائے- میں نے اُس کے ساتھ اپنا ریلشن ہمیشہ لمٹس کے اندر رکھا ہے-اُس کے جزبات کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی-اگر وہ ایسا ویسا کچھ سوچتی ہے تو اِس میں میری کیا غلطی ہے"-میران شاہ کی ایک ایک بات میں سچائی تھی-چاند کچھ لمہوں کے لیے چپ ہو گیا تھا-

"بٹ مانی اُس کا دل ٹوٹ جائے گا یار جب اُسے یہ سب پتہ چلے گا"-چاند کسی حد تک اُس کی بات سے قائل ہوا تھا-

"اگر ہانیہ مجھے نہ ملی تو میرا دل ٹوٹ جائے گا"-وہ سفاکیت سے بولتے ہوئے اپنی چیزیں سمیٹنے لگا-

"میں گھر جا رہا ہوں"-اُس نے اُٹھتے ہوئے کہا-پھر بنا اُس کا جواب سنے وہاں سے چلا گیا-

"اپنے دل کی فکر ہے بس۔۔۔۔کمینہ کہیں کا"-چاند نے اُس کی پشت کو گھورتے ہوئے زیرِلب کہا-

وہ کچھ دیر وہییں بیٹھا رہا پھر وہاں سے اُٹھ کر کیفے چلا آیا-باقی لوگ وہیں موجود تھے-وہ خاموشی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا-

"مانی کہاں ہے؟ "-نیہا نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا-

"چوبیس گھنٹے مانی مانی کرتی رہتی ہو کوئی اور کام بھی کر لیا کرو"-وہ چلایا تھا-میران شاہ کا غصہ نیہا پہ نکل گیا-وہ آنکھیں پھیلائے حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی-یقین کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ چاند ایسی بات کر رہا تھا-

"میں نے کیا کر دیا"-وہ فورا رونے لگی تو چاند پریشان ہو گیا-باقی سب بھی اُس کو گھورنے لگے-

"سس سوری نیہا ۔۔۔میرا موڈ تھوڑا سا آف تھا اِس ایسے لیے بولا۔۔۔ایی ایم ویری سوری"-اُس نے فورا اُس کا ہاتھ تھام کر کہا تو وہ سوں سوں کرنے لگی-چاند اور نیہا دونوں کزنز تھے-

"کہاں ہے وہ؟ "- اُس کی سویی اب بھی وہیں اٹکی تھی-

"گھر چلا گیا-اُس کو شاید کوئی کام تھا"-اُس نے اُسے تسلی دیتے ہوئے اگلی بات خود سے بنائی تھی- 

"اُس دن کیا ہوا تھا اُسکو؟ "-وہ اُسے کے لیے پریشان نظر آرہی تھی-

"کچھ نہیں ویسے ہی تھوڑا سا ڈسٹرب تھا-اب ٹھیک ہے بلکل۔۔۔"-چاند نے ٹیک لگاتے ہوئے جواب دیا- "تم اس کی اتنی فکر کیوں کرتی ہو؟ "-چاند کو نیہا پر بھی غصہ آیا-اُس کے لیے وہ کچھ زیادہ ہی پاگل تھی-

"پتہ نہیں ایسا نیچرلی ہوتا-میں خود کچھ نہیں کرتی"-وہ معصومیت سے بولی تھی-

چاند کتنے ہی لمہے اُس کا چہرہ دیکھتا رہا-

!-----------------------!

دل نے یہ کہا ہے دل سے

محبت ہو گئی ہے تم سے

ہانیہ نے صوفے پہ لیٹے لیٹے اونچی آواز میں کہا تو ٹی وی دیکھتی عائشہ اور حارث دونوں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے-اُس نے جان بوجھ کہ اُن دونوں کو تنگ کرنے کے لئے ہی ایساکیا تھا-

"ہانی اپنا پھٹا ڈھول بجانا بند کر دو ورنہ میرے کان جواب دے جائیں گے"-عائشہ نے ایک کشن اُٹھا کہ اُس کو مارا جسے ہانیہ نے سرعت سے کیچ کر لیا تھا-

"مستقبل کی سنگر پریکٹس کر رہی ہے اگر کسی کو پرابلم ہے تو اُٹھ کہ جا سکتا ہے"-وہ بھی پوری ڈھیٹ تھی- اُن کو زچ کر کہ ہی دم لیتی-

"اِس سنگر صاحبہ سے مودبانہ درخواست کی جاتی ہے کہ اپنی پریکٹس سٹور روم میں دروازہ لاک کر کہ کریں۔۔۔۔یہاں اپنی ڈراؤنی آواز سے معصوم لوگوں کو نہ ڈرائیں"-حارث نے دانت پیس کر کہا تھا-ٹی وی پہ میچ چل رہا تھا اور وہ اُس کی وجہ سے بار بار ڈسٹرب ہو رہا تھا-

"دفعہ دور۔۔۔۔"-وہ منہ بنا کر بولی-اتنی عزت افزائی پہ اب اُس میں دوبارہ گانے کا حوصلہ نہیں تھا-

ہانیہ نے ڈائجسٹ کھول کہ منہ کے سامنے کر لیا-اِسی اثنا میں فون بجا تھا-وہ صوفے پر لیٹی ہوئی تھی-اور فون اُس کے بلکل پاس پڑا ہوا تھا-

"ہانی دیکھ تو کس کا فون ہے"-عائشہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے آواز لگائی-

ہانیہ نے لیٹے لیٹے ہی ریسور اُٹھا کر کان سے لگا لیا-

"جی فرمائے۔۔۔۔"-بڑے لٹھ مار انداز میں پوچھا گیا-

"آپ فرما دیں کچھ ۔۔۔میں نے آپ کی فرمائشیں سننے کے لیے فون کیا ہے"-دوسری طرف سے بڑے مزے سے جواب دیا گیا تھا-ہانیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی-یہ لہجہ۔۔۔۔۔یہ شوخی اُس کی دھڑکن تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی-ہانیہ بے ساختہ اُٹھ کہ بیٹھ گئی-

"کک کون۔۔۔۔؟"-وہ جان گئی تھی مگر پھر بھی پوچھ لیا-

"خاکسار کو میران شاہ کہتے ہیں ۔۔۔۔کچھ مہینے پہلے ہماری ملاقات بھی ہوئی تھی-کافی دفعہ ہم ٹکرا بھی چکے ہیں۔۔۔اور تعارف کی ضرورت ہے کہ سمجھ گئی ہیں آپ"-میران شاہ کی شوخیاں عروج پر تھیں-

"آپ نے فون کیوں کیا؟ "-زبان پھسل گئی- گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا- کوئی بھی نہیں تھا-وہ دونوں میچ میں گم تھے-

"آپ سے بات کرنے کے لیے"-آج تو میران شاہ کے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے-

"دیکھیے آپ پلیز آئندہ اِس نمبر پہ فون مت کیجیے گا۔۔۔یہ گھر کا نمبر ہے کوئی بھی اُٹھا سکتا ہے"-اُس نے چور نگاہوں سے پھر اِدھر اُدھر دیکھا-کہیں کوئی آ ہی نہ جائے-آواز حد سے بھی ذیادہ مدھم تھی-

"اچھا ٹھیک ہے نہیں کروں گا۔۔۔۔تم مجھے اپناسیل نمبر دو۔۔۔۔ہم اُدھر بات کریں گے "-

وہ کچھ سنجیدہ ہوا تھا- 

مگر میرے پاس سیل نہیں ہے"-ہانیہ نے آہستگی سے جواب دیا تو وہ ایک لمہے کے لئے چپ ہو گیا-

"اِتنی مشکل سے طلحہ سے یہ والا نمبر لیا تھا-اب اِس کے علاوہ کیسے بات کریں گے"-وہ تھوڑا پریشان ہوا تھا-

"مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔"-ہانیہ کے کہنے پر وہ سوچ میں پڑ گیا-وہ گھٹنوں پر سر رکھے ریسور کان سے لگائے بیٹھی تھی-

"اچھا ایک کام کرتے ہیں جب گھر میں سب لوگ بزی ہونگے تم مجھے ایک بار رنگ کر دینا میں خود فون کر لوں گا"-اُس کی بات ہانیہ کو بھی معقول لگی تھی- اُس نے ہامی بھر لی-

"اب میں رکھ دوں؟ "-وہ مدھم سے لہجے میں اجازت طلب کر رہی تھی-میران اُس کی پرابلم سمجھ گیا تھا-اِس لیے خدا حافظ کہہ کہ فون بند کر دیا-ہانیہ نے لرزتے ہاتھوں سے ریسور واپس رکھا-ہتھلیاں پسینے سے بھیگ گئی تھیں-

!------------------------!

ہانیہ لاؤنج میں بیٹھی عائشہ کے ساتھ مٹر چھیل رہی تھی جب حارث بڑی عجلت میں لاؤنج میں داخل ہوا-اُس کے چہرے پر پریشانی کے اثار صاف دکھائی دے رہے تھے-وہ بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں گیا-واپسی پر ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھی- 

"حارث کیا ہوا؟ "-عائشہ نے اُسے پیچھے سے آواز دی تو وہ رُک گیا-عائشہ اُٹھ کہ فورا اُس کے پاس گئی-اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں-

یار فہد بھائی کو گولیاں لگی ہیں-اُن کی حالت بہت سیریس ہے-میں دادا جان کو لے کر یاسپٹل جارہا ہوں-تم لوگ دعا کرنا اُن کے لیے پلیز۔۔۔۔"-وہ اپنی بات کہہ کہ رکا نہیں تھا- عائشہ سن کھڑی دروازے کو دیکھتی رہی-ہانیہ کے ہاتھ سے مٹروں کی پھلیاں نیچے گر گئیں-

"عاشی یہ کیا کہہ کہ گیا ہے"-ہانیہ فورا اُس کے پاس آئی-

"پتہ نہیں میں تو خود حیران ہوں-ابھی صبح تو میں نے اُن کو دیکھا تھا- جب وہ جارہے تھے"-عائشہ کی آنکھوں میں نمی تھی- جب کہ ہانیہ کی آنکھوں سے انسوؤں کی ندیاں جاری تھیں-

وہ دونوں وہیں کھڑی تھیں جب کرن لاؤنج میں آئی-اُن دونوں کو روتا دیکھ کہ وہ کچھ حیران ہوئی-

"تم لوگوں کو کیا ہوا؟ "-اُس نے نزدیک آنے پر حیرت سے استفسار کیا-

"اپی فہد بھائی کو گولیاں لگی ہیں اور وہ ہاسپٹل میں ہیں"-عائشہ نے روتے ہوئے بتایا-وہ ایسی ہی تھیں زرا سی تکلیف پر رونے بیٹھ جاتیں-

"یااللہ خیر۔۔۔۔"-کرن خود بھی پریشان ہو گئی تھی-"

"تمہیں کس نے بتایا؟ "-اُس نے سوں سوں کرتی عائشہ سے پوچھا-

"حارث نے ۔۔۔۔"-وہ مدھم سی آواز میں بولی تھی-

"میں امی لوگوں کو بتا کر آتی ہوں"-کرن اندر کی جانب بھاگی-

ہانیہ وہاں سے سیدھی اپنے کمرے میں آگئی-ناجانے کیوں رونا آرہا تھا-اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ مسکراتا ہوا آگیا-پچھلے دنوں سے وہ اُن کے گھر اکثر آتا رہتا تھا-گھر کے سب افراد کو وہ بہت پسند تھا-عائشہ تو کئی بار اُن کے گھر سے بھی ہو آئی تھی- البتہ ہانیہ کبھی نہیں گیی تھی- 

دوپہر سے رات ہو گئی-مگر اُس کی حالت نہیں سنبھل رہی تھی-گھر کے سب بڑے ہاسپٹل جا چکے تھے-ہانیہ ریلنگ کے پاس آن کھڑی ہوئی-اُس کی نظروں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب وہ اُس کی تصوریں لے رہا تھا-وہ مزید اُداس ہو گئی-

عائشہ چائے کا کپ تھامے اُس کے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی-

"تمہیں پتہ مریم انٹی کا فہد بھائی کے سوا اور کوئی نہیں ہے-فہد بھائی کے پاپا کی بھی ڈیتھ ہو چکی ہے-پتہ نہیں مریم انٹی کیسی ہونگی"-وہ اُداسی سے بولی-ہانیہ چپ چاپ سامنے دیکھتی رہی-اُن کے گھر کی سب لائٹس بند تھیں-پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا-اگر فہد کو کچھ ہو جاتا تو اُس کی ماما کی زندگی بھی ایسے ہی اندھیری ہو جانی تھی-

"اللّہ جی اُن کو ٹھیک کر دیں پلیز"-ہانیہ کے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی تھی-

اِسی اثنا میں حارث سیڑھیاں چڑتا ہوا اوپر آیا تو اُن دونوں کو وہاں دیکھ کر حیران ہوا-

"تم لوگ یہاں کیوں کھڑی ہو؟ "-وہ اُن کی طرف چلا آیا-

"ویسے ہی۔۔۔۔فہد بھائی کیسے ہیں اب"-عائشہ نے اُس کے تھکے تھکے چہرے کو دیکھا-

"اللہ کا شکر ہے خطرے سے باہر ہیں مگر ابھی تک ہوش نہیں آیا -کل تک انشاء الله آجائے گا"-وہ اپنی کنپٹیاں ہاتھ سے دباتے ہوئے بولا-

"عاشی پلیز ایک کپ چائے بنا دو اور ساتھ میں ایک ٹیبلٹ بھی لے آنا"-وہ عائشہ کو کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا-عائشہ فورا نیچے چلی گئی-ہانیہ کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی-

!-----------------------!

دن سست روی سے گزرنے لگے-وقت کچھ مزید آگے سرک گیا-زندگی کی کتاب سے دن بدن صفحے گھٹتے جارہے تھے-وقت کی سوئیاں ایک تواتر سے چل رہی تھیں-حالات خواہ کیسے بھی ہوں وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر جاتا ہے-بڑے سے بڑے حادثات بھی وقت کے مرہم سے کسی حد تک ٹھیک ہو ہی جاتے ہیں-زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں-کبھی خوشیاں ہوتی ہیں تو کبھی غم ڈھیرے جمانے آجاتے ہیں-کبھی تاریکی زندگی کو سیاہ کر دیتی ہے تو کبھی اجالا زندگی کو روشن کر دیتا ہے-حالات بدلتے رہتے ہیں-

ہانیہ کا رزلٹ آنے والا تھا-وہ آجکل کافی پریشان رہتی تھی پہلے کی طرح اچھل کود بھی نہیں کرتی تھی-دن بدن اُس کے رویے میں سنجیدگی کا عنصر شامل ہو رہا تھا-وقت کے ساتھ سب شوخیاں جاتی ہیں-وہ اب کام کاج میں بھی کسی حد تک دلچسپی لینے لگی تھی- 

اِس وقت بھی وہ کچن میں کھڑی عائشہ کے ساتھ سبزی بنا رہی تھی- جب اچانک اُسے فہد کے بارے میں یاد آیا-

"عاشی ایک بات تو بتاؤ؟ "-ہانیہ نے عائشہ کو مخاطب کیا-

"ہمممم پوچھو"-وہ مصروف سے انداز میں بولی تھی- 

"یہ فہد بھائی لوگ یہاں کب شفٹ ہوئے؟ "-وہ کیی دنوں سے یہ بات جاننا چاہ رہی تھی-

"تین مہینے پہلے فہد بھائی کی پوسٹنگ ہوئی تھی تب شفٹ ہوئے تھے"-وہ تیز تیز ہاتھ چلا رہی تھی-

"حیرت ہے مجھے پتہ ہی نہیں ۔۔۔۔"-وہ حیران تھی- 

"تمہارے ایگزامز ہو رہے تھے۔۔۔تب تمہیں اپنا ہوش نہیں تھا-اور فہد بھائی حارث کے سکول فیلو بھی رہ چکے ہیں۔۔۔وہ اُن کو کافی پہلے سے جانتا ہے"-عائشہ نے اُسے مختصراً بتایا-

"عاشی فہد بھائی کیسے ہیں اب؟ "-اُس نے ہاتھ روک کر عائشہ سے پوچھا-عائشہ اُس کے بھائی کہنے پہ حیران نہیں ہوئی تھی- کیونکہ وہ اب جب بھی اُس کے بارے میں بات کرتی تھی عزت سے ہی کرتی تھی- 

"پہلے سے کافی بہتر ہیں اب۔۔۔کل میں جب دوپہر میں گئی تھی تو بہت فرش لگ رہے تھے۔۔۔۔الله نے اُن کو نئی زندگی دی ہے"-عائشہ کام کرتے ہوئے سادگی سے بولی-

"ہانی تم ایک بار بھی اُن سے ملنے نہیں گئی"-عائشہ نے اُس کک طرف دیکھتے ہوئے افسوس سے کہا- "اگر چلی جاتی تو فہد بھائی کے ساتھ ساتھ مریم انٹی کو بھی بہت اچھا لگتا"-اُس نے سبزیاں دھو کہ رکھتے ہوئے کہا-

"ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ کسی دن جاؤں گی"-ہانیہ اچھل کر شیلف پہ بیٹھ گئی اور گاجر اُٹھا کر کھانے لگی-

"تو جاؤ چلی جاؤ۔۔۔۔اِس میں سوچنے والی کیا بات ہے"-عائشہ نے اُسے مشورہ دیا-

"ابھی۔۔۔۔"-وہ حیران ہائی-

"ہاں تو ابھی کیا۔۔۔۔کل کو تمہارا کیا پتہ پھر نیت بدل جائے"-عائشہ نے ہلکی سے مسکراہٹ سے جواب دیا-

"چلو آؤ چلتے ہیں"-وہ فورا نیچے اُتری-

"نہیں یار تم اکیلی چلی جاؤ۔۔۔مجھے کھانا بنانا ہے ۔۔۔ماریہ اپی اور طلحہ بھائی آرہے ہیں رات کے کھانے پر۔۔۔۔دیر ہو جائے گی"-عائشہ نے انکار کر دیا تو اُس کا منہ لٹک گیا-

"پر میں کبھی اُن کے گھر ہی نہیں گئی"-وہ کچھ جھجک رہی تھی اکیلے جانے پر۔۔

"کچھ نہیں ہوتا چلی جاؤ"-وہ برنر آن کرتے ہوئے بولی-

"ٹھیک ہے"-ہانیہ نے گلے میں بے ترتیبی سے لیے دوپٹے کو پھیلا کر سر پہ لے لیا-

"جلدی آنا"-عائشہ نے اُسے ہدایت کی تو وہ سر ہلاتی ہوئی باہر نکل آئی-

چوکیدار نے اُسے دیکھتے ہی گیٹ کھول دیا وہ اُسے پہچان گیا تھا-

"مجھے مریم انٹی سے ملنا ہے"-وہ ہولے سے بولی-چوکیدار سے شرمندہ نظر آرہی تھی اُس دن کی بدتمیزی کے لیے-

"میڈم صاحبہ اندر ہیں آئے میں آپ کو لے چلتا ہوں"-چوکیدار کے چہرے پر پرانی کسی بات کے کوئی آثار نہیں تھے-وہ اُسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے اندر کی طرف بڑھنے لگے-ہانیہ نے اردگرد دیکھا-گھر بہت خوبصورت تھا-اُس نے دل میں بے ساختہ تعریف کی-

وہ اندر داخل ہوا تو مریم اُسے لاؤنج میں ہی ملازمہ کو ہدایت دیتی مل گئیں-

"میڈم صاحبہ یہ لڑکی آپ سے ملنے آئی ہے"-چوکیدار نے اپنی پیچھے کھڑی ہانیہ کی طرف اشارہ کیا تو اُنہوں نے ایک نظر اُس کامنی سی لڑکی پر ڈالی-

"بیٹا میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔"-وہ کچھ دیر دیکھنے کے بعد بولیں-

"انٹی میں ہانیہ ہوں"-اُس نے اُس نفیس سی خاتون کو دیکھا-وہ بلکل ینگ تھیں ابھی ۔۔۔

"عائشہ کی کزن۔۔۔"-اُن کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ اُترے-

"جی۔۔۔۔"-وہ بمشکل یہی کہہ سکی-چوکیدار اُسے چھوڑ کر جا چکا تھا-مریم نے ایک پیار بھری نظر اُس پر ڈالی-اُن کے بیٹے کی پسند واقعی لاجواب تھی- 

"آؤ بیٹا بیٹھو ۔۔۔۔"-اُنہوں نے ہانیہ کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا-ہانیہ نے ایک ستائشی نظر چاروں طرف ڈالی- "عائشہ اکثر تمہاری باتیں کرتی ہے مجھ سے۔۔۔تمہاری شرارتوں کے بارے میں بتاتی ریتی ہے۔۔۔مجھے بہت شوق تھا تم سے ملنے کا مگر جب سے فہد بیمار ہے کہیں آنے جانے کا دل ہی نہیں کرتا"-وہ ہانیہ کو یہ سب یوں بتا رہی تھیں جیسے برسوں کی شناسائی ہو-

"عائشہ بھی اپکی بہت تعریف کرتی ہے"-وہ ہلکا سا مسکرائی تھی- 

"ماشاء اللہ وہ بچی بہت پیاری ہے۔۔۔۔اللہ اُس کا نصیب اچھا کرے"-اُن کے لہجے میں عائشہ کے لیے بہت پیار تھا-

"انٹی میں فہد بھائی سے ملنا تھا"-ہانیہ نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا-

"ہاں کیوں نہیں ۔۔۔۔اپنے کمرے میں ہے وہ آپ مل لو اُس سے۔۔۔۔"-اُنہوں نے خوشدلی سے کہا- "آپ کولڈ ڈرنک لو گی یا چائے کافی وغیرہ"-اُنہوں نے اُٹھتے ہوئے پوچھا-

کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔تھینک یو"-ہانیہ نے معزرت کر لی-

"بلکل نہیں آپ پہلی بار آئی ہو۔۔۔ایسے نہیں چلے گا۔۔۔۔کچھ تو لینا ہو گا"-اُن کے پیار بھرے انداز پر ہانیہ مسکرائی-

"کافی۔۔۔۔"-

"چلو ٹھیک ہے میں بھیجتی ہوں آپ مل لو اُس سے۔۔۔"-وہ دوپٹہ سنھالتے ہوئے بولیں-

"فہد کا کمرہ سیڑھیاں چڑتے ہی سب سے پہلے ہے"-اُنہوں نے اُسے اشارے سے بتایا تو ہانیہ نے سر اثبات میں ہلا دیا- ہانیہ کے جانے کے بعد وہ خود کچن میں آگئیں-

!---------------------!

ہانیہ دھیرے سے ڈور کھول کر اندر داخل ہوئی-کمرے میں زیرو پاورکا بلب جل رہا تھا-ہانیہ نے کمرے کا جائزہ لیا-وہ کسی شہزادے کی خواب گاہ معلوم ہو رہی تھی-ایک سے بڑھ کر ایک چیز۔۔۔۔کمرے میں ہر چیز آسمانی رنگ کی تھی- شاید اُس کمرے کے مکین کو آسمانی رنگ سے بہت پیار تھا-

اُس نے ڈور پر ہلکا سا ناک کیا-بیڈ پر نیم دراز کسی کتاب کے مطالعے میں غرق فہد چونکا تھا- نظریں اُٹھا کر ڈور کی طرف دیکھا مگر پھر پلٹنا بھول گئیں-اُس کی زندگی اُس کے کمرے کی دہلیز پر کھڑی سانس لے رہی تھی-

"ہانیہ۔۔۔۔"-وہ زیرِ لب بولا تھا- وہ خواب ہر گز نہیں تھا-سب کچھ حقیقت تھا-

"کم ان۔۔۔۔"-اُس نے سیدھے ہوتے ہوئے اُسے اندر آنے کے لیے کہا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اندر آگئی-فہد نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کر دی-

"بیٹھو نہ۔۔۔۔"-وہ اُسے کھڑے دیکھ کر بولا-شہزادے کو شہزادی کے بیٹھنے کے لائق اُس کمرے میں کوئی چیز نہ نظر آئی-اُس کا بس چلتا تو پلکوں پر بیٹھا لیتا-ہانیہ اُس کی دکی کفیت سے مکمل انجان تھی- 

وہ وہاں رکھی چئیر پر بیٹھ گئی-فہد اُس کو دیکھنے لگا-ہانیہ نے کچھ کنفیوز ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا-

"کیسی طبیعت ہے آپکی؟ "-مدھم سے لہجے میں پوچھا گیا-فہد کو یقین کرنے میں کافی دیر لگی کہ ہانیہ شفیق اُس سے یعنی فہد مرتضی سے اُس کا حال پوچھ رہی تھی- 

"میں بلکل ٹھیک ہوں "-وہ مسکرایا تھا-

ہانیہ نے ایک بار بھی اُس کی طرف نہیں دیکھا تھا- 

"عائشہ کہہ رہی تھی کہ آپ کی طبیعت کا پوچھ لوں"-اُس نے جتانا ضروری سمجھا-فہد کی ساری خوش فہمیوں پر پانی پھر گیا-

"چلیں آپ آئیں تو سہی جس کے کہنے پر بھی آئیں"-وہ اپنی اندرونی حالت اُس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا-زبردستی چہرے پر مسکان سجانے کی کوشش کی-

"ہانیہ چپ چاپ اپنی ہتھیلیوں پر نظریں ٹکائے بیٹھی رہی-اب اور کیا بات کرتی-

فہد کو پیاس محسوس ہوئی-گلا ایک دم جیسے خشک ہو گیا- اُس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی والا جگ اُٹھانے کی کوشش کی مگر اِس دوران بازو میں درد کی شدید لہر اُٹھی-ابھی زخم مندمل نہیں ہوئے تھے-چہرے پر تکلیف کے آثار نظر آنے لگے-ہانیہ نے اُس کی طرف دیکھا-

"آپ کو کچھ چاہیے؟ "-

"جی پانی چاہیے تھا"-وہ بازو کو دباتے ہوئے بولا- جہاں ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں-

"میں دے دیتی ہوں"-وہ فورا اُٹھ کہ اُس طرف بڑی-ٹیبل پہ رکھے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈالا-گلاس پکڑنے لگی تو وہاں پڑی تصویروں پر نظر پڑی-اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُن کو تھاما-وہ تو اُس کی تصویریں تھی- ہانیہ کے ہاتھ میں گلاس لرزنے لگا-اُس نے وہ تصویر رکھ کر ایک اور اُٹھا لی-رینگ سے جھانکتی وہ کھلے ہوئے بالوں میں مسکرا رہی تھی- ہانیہ کو یاد آیا یہ اُسی دن والی تصویریں تھی-اُس کا دل سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا-تصویر پہ لکھے وہ الفاظ اُس کی دھڑکن رک گئی-

"میری زندگی ۔۔۔۔میرا سب کچھ۔۔۔میری محبت ۔۔۔۔میری ہانی کے نام۔۔۔۔۔"-اُس نے زیر لب وہ الفاظ پڑے-نیچے ایک شعر لکھا ہوا تھا-ہانیہ کی ٹانگوں میں جان ختم ہونے لگی-پانی والا گلاس ہاتھ سے گر گیا-

فہد نے فورا اُس کی طرف دیکھا-اُس کے ہاتھ میں موجود تصویر دیکھ کر اُس کا جیسے سانس رُک گیا تھا-فہد مرتضی کو لگا سب کچھ ختم ہو گیا-

"ہانیہ لسن ٹو می ۔۔۔"-فہد نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر آج وہ چپ رہا اور کچھ غلط ہو گیا تو اُسے ہمیشہ کے لیے کھو دے گا-

"آپ اتنا گر سکتے ہیں ۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی"-وہ بے یقینی سے ہاتھ میں موجود تصویریں دیکھ رہی تھی-آنکھوں میں انسو کب آئے پتہ بھی نہ چلا-فہد نے بے بسی سے اُس کو دیکھا-

"ایک بار پلیز میری بات سن لو ۔۔۔۔میں سب سمجھا دوں گا"-فہد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اُس کی غلط فہمی کیسے دور کرے-وہ کیسے اُس کو بتائے کہ وہ اُس کے لیے کتنا پاگل ہے-

"یہ سب دیکھنے کے بعد بھی آپ کو کچھ سمجھانا ہے"-اُس نے تصویریں اُس کے سامنے کرتے ہوئے کہا-فہد نے زور سے آنکھیں میچ لیں- "آپ اس طرح سوچتے ہیں میرے بارے میں ۔۔۔۔"-وہ شاکڈ کیفیت میں تھی- 

"تم ایک بار مجھے بولنے کا موقع دو پلیز ہانیہ ۔۔۔بس ایک بار۔۔۔۔پلیز"-وہ اُس کی منتیں کر رہا تھا-اگر ہانیہ اُس کی بات سننے کے لیے اپنے پیروں میں گر کر گڑگڑانے کی شرط رکھتی تو یہ بھی فہد کو منظور تھا-مگر وہ ایسا کرتی تب نہ۔۔۔۔وہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی-

بن تیرے اگر جی سکتے 

یوں نہ کرتے منتیں تیری !

"آپ کو پتہ میں نے آپ کے بارے ميں اپنے خیال بدل دیے تھے- میں سمجھتی تھی آپ بہت اچھے ہیں مگر میں غلط تھی-آپ تو ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہیں- لوگوں کے سامنے اچھا ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں مگر حقیقت میں۔۔۔۔۔ حقیقت میں یہ ہیں"-اُس نے چلاتے ہوئے وہ تصویریں اُس کے منہ پر ماریں-وہ فہد مرتضی جس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بولتا تک نہیں تھا اس کی انسلٹ کرنا تو بہت دور کی بات تھی آج ایک معمولی سی لڑکی کے ہاتھوں اتنا ذلیل ہونے کے بعد بھی چپ تھا-کاش وہ دیوانی جان سکتی کہ فہد مرتضی کے لیے وہ کیا ہے-وہ اُس سے کتنی شدت سے محبت کرتا ہے-

"ہانی۔۔۔۔"-اُس نے لہجے میں جزبات کی شدت لیے ایک بار پھر پکارا تھا-

"شٹ اپ ۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔اپنی گندی زبان سے میرا نام بھی مت لیں۔۔۔نفرت ہے مجھے آپ سے بے تحاشہ، بے حساب۔۔۔ میں ہی پاگل تھی جو یہاں آگئی میری بلا سے آپ جیو یا مرو"-اُس نے پھنکارتے ہوئے کہا تھا-

اپنی بات کہہ کہ وہ وہاں رکی نہیں تھی-ایک قہر آلود نفرت بھری نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی تھی جس نے اُس کی روح تک کو گھائل کر دیا تھا- فہد کو لگا جیسے وہ اُس کا دل بھی جاتے ہوئے اپنےپیروں تلے بے رحمی سے کچل گئی ہو-اُس دن فہد مرتضی کی زندگی اُس سے روٹھ گئی-اُس کی مسکراہٹ اُس کی خوشیاں سب کچھ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا-

!-----------------------!

موسم بدل رہا تھا-گرمی کا زور اب تقریباً ٹوٹ چکا تھا-ہانیہ نے ایک نظر کافی دور تک پھیلے لان پر ڈالی-وہ اِس وقت لاؤنج میں جانے والے سیڑھیوں پر بیٹھی تھی- اچانک اُس کی نظر طوطے کے پنجرے پر پڑی-

یہ طوطا حارث کا تھا-اس کی جان تھی اس طوطے میں وہ اکثر اس سے باتیں کرتا تھا اور میٹھو اگے سے جواب بھی دیتا تھا-ہانیہ کو یہ طوطا دل و جان سے پسند تھا-وہ کئی بار حارث کی منتیں کر چکی تھی کہ وہ یہ طوطا اُس کو گفٹ کر دے-دیکھنے میں وہ بہت خوبصورت تھا مگ حد سے زیادہ نخریلا اور گمنڈی تھا ۔۔۔حارث کے علاوہ کم ہی کسی سے مخاطب ہوتا تھا-یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی اس کے قریب نہیں گئی تھی-

"میٹھو سنو ۔۔۔۔۔"-وہ بے ساختہ ہی ناجانے کس خیال کے تحت اسے پکار بیٹھی-اس نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ پھیر لیا-ہانیہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا-

"لو بھلا میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے-بدتمیزنا ہو تو"-وہ غصے سے بڑبڑائی-اُس کا دل چاہا اُس کا گلا دبا دے-

"دفعہ ہو ۔۔۔۔"-اُس نے اُس پر لعنت بھیجی اور اُس کی طرف سے رُخ پھیر کر بیٹھ گئی-تبھی نظر اپنے سے کچھ فاصلے پہ کھڑے فہد پہ پڑی-وہ وہاں کھڑا سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا-ہانیہ کی آنکھوں میں دو دن پہلے والا سارا منظر گھوم گیا-وہ ایک نخوت بھری نگاہ اُس پر ڈال کر اندر جانے لگی-

"ہانیہ پلیز میری بات سنو"-فہد نے اُس کی کلائی تھام لی-ہانیہ کو جیسے کرنٹ لگا-اتنی بے باکی پر وہ ششدر رہ گئی-

"آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی"-وہ کسی بھوکی شیرنی کی طرح اُس پر جھپٹی تھی- ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑا لی-آپ بہت ہی بے شرم انسان ہیں -اتنا کچھ ہونے کے بعد پھر آ گئے ہیں"-اُس نے فہد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا-

"کیا ہم آرام سے بیٹھ کہ دو منٹ بات کر سکتے ہیں؟ "-فہد کی برداشت اُس کے معاملے میں واقعی کمال تھی- وہ اب بھی سختی سے نہیں بولا تھا-اُس کا سر چکرا رہا تھا-کمزوری کی وجہ سے کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا-اپنے گھر سے وہاں تک آتے ہوئے اُسے کتنی تکلیف ہوئی تھی یہ صرف وہی جانتا تھا-مگر محبت کی تھی اب تو یہ سب برداشت کرنا پڑنا تھا-اگر اُس کو کوئی کہتا کہ کانٹوں کے اوپر سے گزر جاؤ تمہیں ہانیہ شفیق مل جائے گی تو وہ سوچتا بھی نہ اور عمل کر لیتا-مگر ایسا کوئی امتحان ہوتا تو۔۔۔۔وہاں تو وہ اُس کی بات سننے کو ہی تیار نہیں تھی-

وہ تو صدیوں کا سفر کر کہ یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کہ جس کو دیکھا بھی نہیں

"آپ کو لگتا کہ میں آپ کی بات سنوں گی؟ "-وہ اُلٹا اُسی سے پوچھنے لگی-

"ہاں کیونکہ صفائی کا موقع تو ہر کسی کو دیا جاتا ہے۔۔۔مجھے بھی چاہیے تاکہ میں اپنی بات کہہ سکوں"-اففف آخر اِس محبت کے سامنے اور کتنا جھکنا تھا- 

"اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو بہت غلط سوچتے ہیں ۔۔۔۔میں آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی آپ سے بات کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا"-وہ سفاکیت کی ساری حدیں پار کر گئی- "اور پلیز اب یہاں سے تشریف لے جائیں کیونکہ میں اپنے گھر میں کوئی تماشہ نہیں چاہتی"-وہ اُس کی حالت سے انجان اپنے لفظوں کے نشتراُس کے دل میں اُتار رہی تھی-

"میں جو سوچتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں۔۔۔۔اور تمہیں میرے بات سننی پڑے گی"-فہد نے آگے بڑھ کہ اُسے شانوں سے تھامتے ہوئے کہا-ایسا کرتے ہوئے اُس کے بازو میں جہاں زخم تھا از حد تکلیف ہوئی-مگر اُس سے کہیں ذیادہ تکلیف وہ اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا-ہانیہ ساکت نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی-

"چھوڑیں مجھے۔۔۔۔"-وہ چلائی-

"اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔"-فہد نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا-اُس کے شانوں پر دباؤ بڑھ گیا-وہ ایک لمہے کے لیے بھول گیا کہ اتنی سختی سے چھونے پر وہ کرسٹل کی گڑیا ٹوٹ بھی سکتی تھی-

"آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟ "-وہ پھٹ پڑی-

"تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔"-وہ اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو نگاہوں کے راستے اپنے اندر اُتار رہا تھا-وہ اُس کے بہت قریب تھی-اور یہ پل فہد مرتضی کی زندگی کے سب سے خوبصورت پل تھے-

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔"-وہ پھر مزاحمت کرنے لگی تو فہد کو غصہ آگیا-کب سے وہ اُس کی منتیں کر رہا تھا-

"آئی لو یو ڈیم اٹ۔۔۔۔تم یہ بات سمجھتی کیوں نہیں ہو''-اُس نے ہانیہ کو جنجھوڑ ڈالا-ہانیہ کے مزاحمت کرتے ہاتھ رُک گیے-اتنا کھلا اور واضح اظہار۔۔۔۔شرم کے مارے اُس کا سر جھک گیا-سارا غصہ اور ہمت کہیں اُڑن چھو ہو گئی-زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا-کوئی مرد اُس کے اتنا قریب آیا تھا- اور یہ سب کہا تھا- ہانیہ کے معصوم اور کچے دماغ پر یہ لفظ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیے-وہ اب کیا کر سکتی تھی- آنکھوں سے انسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے-فہد جیسے ایک دم ہوش میں آیا تھا-یہ کیاہو گیا تھا-جزبات میں آکراُس نے کتنی بڑی غلطی کر ڈالی تھی-وہ فورا اُس سے دور ہوا-اُس نے ہانیہ کو کیسے چھو لیا تھا-وہ یہ کیسے کر گیا تھا-وہ اُس کی محبت تھی وہ اُسی کا دامن داغدار کرنے چلا تھا-اگر کوئی دیکھ لیتا یا سن لیتا تو ہانیہ کی کیا عزت رہ جاتی-وہ معصوم سی لڑکی تو ٹوٹ جاتی-اُس سے آگے سوچنے کی ہمت نہیں تھی-مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے-فہد نے اپنے بال اضطراب کی حالت میں مٹھیوں میں جھکڑ لیے-ہانیہ اُس کے چھوڑتے ہی اندر بھاگ گئی-اور وہ خود وہیں سیڑھی پہ ہی گر گیا-ساری ہمتیں جواب دے گئیں-جسم میں صدیوں کی تھکن اُتر آئی-وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح ہو گیا جو اپنا سب کچھ خود اپنے ہاتھوں سے لٹا لیتا ہے-زندگی نے آج اُس کا بہت سخت امتحان لیا تھا- 

!---------------------------!

ہانیہ کچن میں داخل ہوئی تو عائشہ کو وہاں مصروف پایا-عائشہ کو بھی شاید کچن کے کاموں کا جنون تھا-ہر وقت وہیں پائی جاتی ہے-ہانیہ خاموشی سے فریج میں سے پانی والی بوتل نکال کر پانی پینے لگی-اُس کی آنکھوں میں رات بھر رونے سے مرچیں سی لگ رہی تھیں-سر بھی بھاری ہو رہا تھا- وہ دو تین گھونٹ لینے کے بعد لمبے لمبے سانس لینے لگی-جسم میں جیسے آگ جل رہی تھی-کل کی رات اُس کی زندگی کی سب سے بری رات تھی-وہ شاید ہی کبھی اتنا روئی تھی- قسمت بھی کیسے کیسے جھٹکے دیتی ہے انسان کو۔۔۔اُس کی طاقت سے ذیادہ اُس کو تکلیف مل رہی تھی-

"ہانی میکرونی پڑی ہے اوون کے پاس کھا لو"-عائشہ اُسے دیکھ چکی تھی- میکرونی ہانیہ کو بہت پسند تھی-کچھ دیر پہلے اُس نے حارث کے لیے بنائی تھی تو اُس میں سے کچھ نکال کر ہانیہ کے لیے بھی رکھ لی تھی-

"میرا دل نہیں چاہ رہا"-وہ بوتل واپس رکھ کہ اُس کے پاس چلی آئی-اُس کے کندھے سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں-

"کیا بات ہے ٹھیک تو ہو نہ۔۔۔"-عائشہ کو تشویش ہوئی-ہانیہ میکرونی کھانے سے منع کر رہی تھی اُس کی حیرت بجا تھی-

"ہاں ٹھیک ہوں"-وہ سکون کی خاطر اُس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بولی- "تم یہ اتنی ساری تیاری کس کے لیے کر رہی ہو؟ "-ہانیہ نے اتنے سارے لوازمات دیکھ کر کچھ حیرت کا اظہار کیا تھا- 

"فہد بھائی اور مریم انٹی آئیے ہوئے ہیں اُن کے لیے بنا رہی ہوں"-عائشہ نے سرسری سے انداز میں جواب دیا مگر ہانیہ کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی-وہ ایک جھٹکے سے اُس سے الگ ہوئی-

"یہ لوگ کیوں آئیں ہیں؟ "-اُس نے غصے سے پوچھا- چاہنے کے باوجود بھی اپنی آواز کو آہستہ نہ رکھ پائی-

"ویسے ہی آئیں ہیں۔۔۔تم کیوں اتنا چلا رہی ہو"-عائشہ نے مڑ کہ ایک نظر اُس پر ڈالتے ہوئے کہا-

"اتنی عزت افزائی کے بعد بھی اِس ڈھیٹ انسان کو اثر نہیں ہوا۔۔۔۔ناجانے کونسی مٹی سے بنا ہے"-اُس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا کہ عائشہ دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو گئی-

"کیا بولے جا رہی ہو۔۔۔ہواس تو نہیں کھو گیے کہیں"-وہ اُس کے تنے ہوئے چہرے کو دیکھ کر زرا سخت لہجے میں بولی تھی- 

ہاں تو اور کیا۔۔۔۔ہر دوسرے دن منہ اُٹھا کہ چلے آتے ہیں ۔۔۔اپنے گھر میں تو اُن کو چین ملتا نہیں دوسروں کا بھی چین حرام کرنے آجاتے ہیں"-اُس کی آنکھیں غصے کی شدت سے انگاروں کی طرح دہکنے لگی تھیں-

"ہانی۔۔۔۔کیا بکواس کر رہی ہو"-عائشہ نے اُس کو بازو سے پکڑ کر جھنجوڑا-وہ اُسے اِس وقت کوئی زخمی بپھری ہوئی شیرنی لگ رہی تھی-

"وہی جو تم سن رہی ہو۔۔۔"-وہ بدتمیزی سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی-عائشہ کو اُس سے خوف محسوس ہوا-

"تم پاگل تو نہیں ہو گئی"- عائشہ آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھ رہی تھی- 

"پاگل میں نہیں تم لوگ ہو گیے ہو جو اُن کے آنے پر خاطر مداریوں میں لگ جاتے ہو۔۔۔۔کنسی رشتے داریاں نبھا رہے ہو تم لوگ اُن سے"-وہ یقیننا اپنے ہواسوں میں نہیں تھی ورنہ وہ ایسی باتیں کبھی نہ کرتی-اُس کو شاید خود بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے-

"ہانی بی ہیو یور سیلف۔۔۔۔۔شرم آنی چاہیے تمہیں اِس طرح کی باتیں کرتے ہوئے"-عائشہ کی برداشت جواب دیتی جا رہی تھی- 

"ہنہہہ ۔۔۔۔مجھے کیوں شرم آئے ۔۔۔شرم تو اُن کو آنی چاہیے جو جب مرضی منہ اُٹھا کر ہمارے گھر آجاتے ہیں"-اُس نے نخوت سے جواب دیا-

"ہانی۔۔۔۔۔"-عائشہ نے کھینچ کہ ایک زوردار تھپڑ اُس کے منہ پہ مارا-

ہانیہ گال پہ ہاتھ رکھے حیرت اور صدمے سے عائشہ کو دیکھنے لگی-اُسے اِس بات کا یقین کرنے میں کئی پل لگے تھے کہ عائشہ نے اُس پر ہاتھ اُٹھایا-وہ اپنی جگہ فریز ہو چکی تھی-گال پہ اُس کی پانچوں انگلیوں کے نشان چھپ چکے تھے-ایک طویل خاموشی کے بعد وہ بولنے کے قابل ہوئی-

"عاشی تم نے مجھے مارا۔۔۔"-ہانیہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے-دونوں گالوں پہ چند لمحوں میں ہی ندیاں رواں دواں ہو گئیں-اُس کی آواز میں دکھ سے زیادہ حیرت تھی-

"ہاں میں نے تمہیں مارا کیونکہ تم اِسی لائق ہو"-وہ اپنے کیے پہ شرمندہ نہیں تھی-یہ بات ہانیہ کو مزید دکھی کر گئی-اُسے لگا تھا کہ وہ ابھی کہے گی سوری ہانی مجھ سے غلطی ہو گئی اور ہانیہ آگے سے تھوڑی دیر نخرے دکھائے گی مگر عائشہ ہمیشہ کی طرح اُسے ایموشنل بلیک میلنگ سے منا لے گی-ہانیہ نے یہ سوچا تھا مگر ایسا نہیں ہوا تھا-فہد مرتضی کے لیے اُس کے دل میں نفرت کا گراف اور بڑھ گیا-چند دنوں میں ہی وہ اُس کی زندگی کو جہنم بنا گیا تھا- 

"جتنی تمہیں ڈھیل دی ہوئی ہے تم اتنا ہی سر پہ چڑتی جا رہی ہو۔۔۔کم از کم کسی بڑے کا ہی لحاظ کر لیا کرو۔۔۔بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کرو کہ کیا بول رہی ہو۔۔۔۔ہمیشہ کی طرح منہ پھاڑ کہ کچھ بھی بول دیتی ہو۔۔۔اگر مریم انٹی یہ سب سن لیں تو سوچو کیا گزرے گی اُن کے دل پر۔۔مگر تم کیوں سوچو گی کسی کے بارے میں ۔۔۔تمہیں اپنے علاوہ کسی کی پروا ہو تب نہ۔۔۔۔"-عائشہ بولتی جا رہی تھی بنا یہ سوچے کہ اُس کا ایک ایک لفظ ہانیہ کے دل میں کسی نشتر کی طرح لگ رہا ہے-اُس کا مان کرچی کرچی ہو کر اُس کا اندر زخمی کر رہا ہے-

لفظوں کی مار سب سے سخت ہوتی ہے- ان کے ساتھ کانٹے نہیں ہوتے مگر یہ کانٹوں سے ذیادہ چبتے ہیں ....ان میں زہر نہی ہوتا مگر انسان کی نس نس میں زہر پھیلا دیتے ہیں ..یہ تلوار نہیں ہوتے مگر تلوار کی تیز دھار سے بھی ذیادہ لگتے ہیں - ان کاوجود زبان سےنکلنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے مگر جاتے جاتے ایسا گہرا گھاو دے جاتا ہے کہ زندگی بھر لہو رستا رہتا اس سے ....یہ انسان کی روح میں سرایت کر جاتے ہیں اس کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں انسان بکھر جاتا ....مر جاتا ....حالانکہ لفظوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا- جیسے نمک کو پانی میں گھولیں تو وہ اپنا وجودکھو دیتا مگر اس پانی میں اپنا اثر ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتا - لفظوں کے زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ اگر بظاہر مندمل ہو بھی جائیں تو بھی زندگی بھر کے لئےنشان چھوڑ جاتے ہیں -

ہانیہ اپنی صفائی میں کچھ بھی کہنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ صفائی وہاں دی جاتی ہے جہاں گنجائش ہو اور عائشہ نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی- ہانیہ کو اپنی وجود بکھرتا ہوا معلوم ہوا-وہ چپ چاپ وہاں سے جانے لگی مگر کچن میں کے دروازے پر ساکت کھڑے فہد کو دیکھ کر رک گئی-وہ ناجانے کب وہاں آیا تھا-ہانیہ نے اُس پر زخمی سی نظر ڈالی اور اُس نظر نے فہد مرتضی کا دل چیر کے رکھ دیا-

"ہانی۔۔۔۔۔"-فہد نے اُسے پکارا-اُس پکار میں تڑپ تھی-محبت تھی-فکر تھی-ہر وہ جزبہ تھا جو فہد مرتضی ہانیہ شفیق کے لیےمحسوس کرتا تھا-

"یہی چاہتے تھے نہ آپ کہ میرا سب کے سامنے تماشہ بنے۔۔۔میں سب کی نظروں میں گر جاؤں۔۔۔سب مجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں ۔۔۔"-وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کرب سے بولی- "آپ کامیاب ہو گئے اور اِس کا عملی نمونہ کچھ دیر پہلے آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو گا"-وہ انسووں کے درمیان بمشکل بول رہی تھی-کچھ فاصلے پہ کھڑی عائشہ حیرت سے سب دیکھ اور سن رہی تھی-ہانیہ اپنی بات کہہ کہ جا چکی تھی-

"فہد بھائی۔۔۔"-عائشہ نے اُس کے قریب آکر اُس کو پکارا-

"عائشہ آج کہ بعد اُس پر دوبارہ کبھی ہاتھ مت اُٹھانا ۔۔۔اسے میری پہلی اور آخری ریکوسٹ سمجھ لو"-وہ کہہ کہ رُکا نہیں تھا- لمبے لمبے ڈگ بھرتا لاؤنج کا دروازہ پار کر گیا-وہ دن اُس گھر میں فہد مرتضی کا آخری دن تھا-اُس نے وہاں سے نکلتے ہوئے قسم کھائی تھی کہ وہ اب کبھی اِس گھر میں قدم نہیں رکھے گا-اور آنے والے وقت میں یہ بات اُس نے سچ ثابت کر کے دکھائی تھی- 

گھر جاتے ہی اُس کا ضبط جواب دے گیا-ڈی ایس پی فہد مرتضی ہانیہ شفیق کے لیے کسی بچے کی طرح ٹوٹ کر رویا تھا- کانٹوں پہ سفر کرنا کیسا ہوتا ہے یہ اُسے آج پتہ چلا تھا- نظروں سے انسان کیسے مرتا ہے یہ اُس نے تب جانا تھا جب ہانیہ نے اُس کو وہاں دیکھ کر اُس پر پہلی نظر ڈالی تھی- وہ مر گیا تھا ہمیشہ کے لیے اندر سے مر گیا تھا-ہانیہ اُس کی نہیں تھی اور نہ کبھی ہو سکتی تھی-

**************

وہ تصویر ہاتھ میں لیے بار بار اُس کو چوم رہی تھی-آنکھوں سے اشک تھے کہ خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے-

"ماما اگر آپ آج میرے پاس ہوتی تو دیکھتیں آپ کی ہانی کتنی تکلیف میں ہے۔۔۔۔وہ رو رہی مگر اُس کو کوئی چپ نہیں کروا رہا۔۔۔آپ مجھے چھوڑ کہ کیوں چلی گئیں ۔۔۔۔کیا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے آپ بابا کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں اور میں بلکل اکیلی ہو گئی ۔۔۔"-وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی- 

کرامت حسن کے بس دو ہی بیٹے تھے-بڑے رفیق حسن اور چھوٹے شفیق حسن۔۔وہ بیٹی جیسی نعمت سے محروم تھے-ہانیہ کے بابا شفیق حسن اور اُن کی اہلیہ ملیحہ شفیق دونوں اُسے چھوڑ کر جا چکے تھے-

وہ دس سال کی تھی جب اُس کی ماما بلڈ کینسر کی وجہ سے اُسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئیں-تب وہ بچی تھی بہک گئی مگر جوں جوں بڑھی ہوتی گئی اُس کو اپنی ماما کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی-تب بابا نے اور باقی گھر والوں نے اُسے سنبھالا مگر جب وہ نائتھ کا لاسٹ پیپر دے کہ گھر آئی تو ایک قیامت اُس کی منتظر تھی- اُس کے پیارے بابا ایک روڈ ایکسڈینٹ کی وجہ سے اُسے چھوڑ کر چلے گئے ہانیہ شفیق اُس دنوں میں سہی معنوں میں یتیم ہو گئی-وہ تب بچی نہیں تھی-اُسے گہرے صدمے کی وجہ سے چپ لگ گئی-تب تائی اماں کرن اپی، ماریہ اپی، حارث، علی اور عائشہ نے اُس کا پھولوں کی طرح دیہان رکھا-بڑے ابو اُس کے منہ سے نکلنے سے پہلے اُس کی ہر خواہش پوری کر دیتے عائشہ نے ایک دوست اور بہن کی طرح اُس کا خیال رکھا-دادا جان اُس کا کسی چھوٹی بچی کی طرح دیہان رکھتے وہ آہستہ آہستہ سنبھل گئی-مگر آج جو ہوا تھا وہ ہانیہ کیسے بھولتی۔۔۔

دوپہر سے رات ہو گئی مگر وہ کمرے سے نہ نکلی۔۔۔۔ہر کوئی تقریباً ہو کہ جا چکا تھا مگر اُس نے دروازہ نہ کھولا-عائشہ نے دوپہر والی ساری بات سب کو بتا دی-رفیق حسن نے بیٹی کو بہت ڈانٹا وہ از حد پریشان تھے-تائی امی کی الگ جان نکلی جا رہی تھی-شکر تھا کہ دادا جان گھر پہ نہیں تھے- ورنہ طوفان آجاتا-کرن نے عائشہ کی الگ کلاس لی-جب سب حربے ناکام ہو گئے تو کرن نے فون کر کہ ماریہ کو بلا لیا-کیونکہ وہ واحد ہستی تھی جسکی بات ہانیہ نہیں ٹال سکتی تھی-وہ فورا چلی آئی-اُس نے پہلے تو عائشہ کی خوب کھنچائی کی پھر ہانیہ کے پاس آئی-اُس کی آواز سنتے ہی اُس نے کچھ لمہوں بعد ہی دروازہ کھول دیا تھا-

"ہانی میری جان۔۔۔۔"-ماریہ اُس کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئی-سوجی ہوئی آنکھیں خشک ہونٹ اور زردے کے طرح رنگ اُس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکھڑ لیا-ہانیہ اُس کی بانہوں میں بکھر گئی ماریہ سے سنبھالنا مشکل ہو گیا-

"ہانی پلیز چپ ہو جاؤ میرا دل بند ہو رہا ہے"-وہ اُس کے انسو صاف کرتے ہوئے بولی تو وہ کچھ سنبھلی-کرن نے اُسے پانی پلایا-

"اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ "-اُس نے اُس کا ہاتھ تھام کر پوچھا-تو ہانیہ نے روتے ہوئے سب کچھ بتا دیا-ماریہ نے عائشہ کی طرف گھور کر دیکھا جو پہلے ہی بہت شرمندہ تھی-اُسے ہانیہ پر غصہ نہیں آیا تھا کہ اُس نے ماریہ کو سب کچھ بتا دیا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ بہت حساس ہے-جن بچوں کو بچپن میں ہی اِتنے دکھ مل جاتے ہیں وہ دوسرے بچوں کی نسبت واقعی ذیادہ حساس ہوتے ہیں-زرا زرا سی بات پہ ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ نیچلی ہوتا اِس میں اُن کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا-

"تم فکر مت کرو میں تمہیں اپنے ساتھ کچھ دنوں کے لئے لے جاؤں گی"-ماریہ نے اُسے ساتھ لگا لیا-

"میں عاشی سے کبھی بات نہیں کروں گی اب"-وہ کسی چھوٹے کی طرح روٹھی ہوئی بولی-

عائشہ نے سب کے گھورنے پر پھر سر جھکا لیا-ماریہ نے چند گھنٹوں میں ہی اُس کا دل بہلا لیا-

**************

ہم نے سوچ رکھا ہے

چاہے دل کی ہر خواہش

زندگی کی آنکھوں سے 

اشک بن کے بہہ جائے

گھر کی ساری دیواریں 

چھت سمیت گر جائیں 

اور بے مقدر ہم

اُس بدن کے ملبے میں 

خود ہی کیوں نہ دب جائیں 

تم سے کچھ نہیں کہنا

کیسی نیند تھی اپنی

کیسے خواب تھے اپنے

اور اب گلابوں پر

نیند والی آنکھوں پر

نرم خو سے خوابوں پر

کیوں عزاب ٹوٹے ہیں 

تم سے کچھ نہیں کہنا

گھر گیے ہیں راتوں میں 

بے لباس باتوں میں 

اِس طرح کی راتوں میں 

کب چراغ جلتے ہیں 

کب عزاب ٹلتے ہیں 

بچ کہ نکلنے کا بھی

راستہ نہیں جاناں!!!! 

جس طرح تم کو بھی

لازوال لمہوں سے

واسطہ نہیں جاناں!!! 

ہم نے بھی سوچ رکھا ہے

تم سے کچھ نہیں کہنا

فہد نے اُس کے بعد ہانیہ سے ملنے اور بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی-اُس نے خود کو اپنے کام میں بہت مصروف کر لیا-وہ صبح کا گیا رات گیے ہی گھر آتا اور کبھی کبھی تو آتا ہی نہ۔۔۔۔مریم بیٹے کی حالت پر ازحد پریشان تھیں-اُن کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اُسے آخر ہو کیا گیا ہے-وہ پہلے کی طرح ہی سنجیدہ ہو گیا تھا-ہنسنا یا مسکرانا تو اس پر جیسے حرام تھا-وہ جب بھی پوچھتی تو کام کا بہانہ کر کے ٹال جاتا-وہ خود کو ہر طرح سے تکلیف دے رہا تھا-مریم کی راتوں کی نیند اُڑ گئی اور فہد تو شاید ہی اُس دن کے بعد کبھی سو سکا تھا-جب ذیادہ طبیعت خراب ہونے لگتی تو سلیپنگ پلز کا استعمال کرنا شروع کر دیتا-جب طبیعت سنبھل جاتی تو پھر وہی روٹین ۔۔۔پوری پوری رات اسموکنگ کرنا اُس نے اپنی روٹین بنا لی-وہ دن بدن اُس نشے کا عادی ہوتا جارہا تھا- 

دن ڈھلنے کے قریب تھا-وہ کچھ دیر پہلے ہی ڈیوٹی سے دو دن گھر واپس آیا تھا-مریم نے اُس سے بات کرنے کی ٹھان لی-وہ کافی بنا کر اُس کے کمرے میں ہی چلی آئیں-راکنگ چئر پہ جھولتا وہ آنکھیں نیم وا کیے اسموکنگ کر رہا تھا-سامنے رکھا ایش ٹرے بھرا پڑا تھا-مریم کا دل ایک لمہے کے لئے دھڑکنا بھول گیا-پہلے بلیک کافی اور اب اسموکنگ ۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے زہر اپنے اندر لے کہ جا رہا تھا-

وہ کافی کا کپ ٹیبل رکھ کہ قالین پر ہی گھٹنوں کے بل اُس کے پاس بیٹھ گئیں-

"فہد۔۔۔۔۔"وہ رو پڑیں-فہد نے آنکھیں کھول کر اُن کو دیکھا-ہاتھ میں پکڑا آدھ جلا سگریٹ ایش ٹرے میں ڈال دیا-

"ماما پلیز اُٹھیں۔۔۔۔"-وہ اُنہیں اُٹھا کر بیڈ تک لے آیا-ہمیشہ کی طرح ان کو اوپر بٹھایا اور خود اُن کے قدموں میں بیٹھ گیا-

"کیوں دے رہے ہو مجھے یہ سزا۔۔۔۔"-اُن سے بولا نہیں جا رہا تھا-

فہد نے اُن کی گود میں منہ چھپا لیا-مریم اُس کے بالوں پر پاگلوں کی طرح بوسے دینے لگیں-

"فہد تمہیں کچھ ہو گیا نہ تو میں بھی زندہ نہیں رہوں گی"-

"آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں "-وہ تڑپ کر سیدھا ہوا-اُن کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ لیا-

مریم نے ناجانے کتنی ہی بار اُس کا ہاتھ چوما-

"بتاؤ تو سہی آخر کیا ہو ہے ؟"- اُنہوں نے اُس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور فہد مرتضی ایک بار پھر ٹوٹ گیا-

فہد کے ضبط کی طنابیں ٹوٹ گئیں-وہ مریم کی گود میں منہ چھپا کر بچوں کی طرح رویا-اُس کا ایک ایک انسو مریم کے دل پر گرنے لگا-اُس کے بالوں میں اُن کا ہاتھ ساکت ہو چکا تھا-

"وہ مجھ سے پیار نہیں کرتی ماما۔۔"-وہ لمبا چوڑا مردایک لڑکی کے لیے رو رہا تھا- یہ محبت انسان کو کتنا ذلیل کرتی ہے اُس کے ضبط کے سارے بندھ توڑ دیتی ہے-یک طرفہ محبت انسان کو توڑ کہ رکھ دیتی ہے-

مریم کے پاس الفاظ ختم ہو گیے-اُن کی سجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کریں-اس کو کیسے چپ کروائیں-

تبھی اُن کے دل میں ایک خیال آیا-آنے والے وقت میں اُن کو اُس پر عمل کرنا تھا- اپنے بیٹے کی خوشیوں کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتی تھیں-ہر حد تک جا سکتی تھیں-

؛؛؛؛؛؛؛؛----------؛؛؛؛؛؛؛

وہ ماریہ کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر دل بہل نہیں رہا تھا-ماریہ کے سسرال والے بہت اچھے تھے-سب نے اُس کو کھلے دل سے ویلکم کہا-مگر اُس کا دل نہیں لگ رہا تھا-اُسے یہاں آئے تین دن ہو گیے تھے-ہر گزرتے دن کے ساتھ بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا-

ویک اینڈ چل رہا تھا-میران شاہ یونیورسٹی سے گھر آیا تو اُسے ہانیہ کے آنے کی اطلاع ملی-وہ حیرت اور خوشی کے تاثرات میں گر گیا-جس وقت وہ گھر آیا اُس وقت ہانیہ اپنے، کمرے میں سو رہی تھی اُس نے ڈسٹرب کرنا غیر مناسب سمجھا-

شام کو وہ لان میں سب کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا جب وہ چلی آئی-زرد رنگ کلر کے کاٹن کے سوٹ میں وہ کوئی سرسوں کا پھول لگ رہی تھی-میران شاہ نے دور سے اُسے دیکھا-وہ ماریہ کے ساتھ کسی بات پہ بحث کر رہی تھی-کچھ دیر بعد ماریہ چلی گئی تو وہ اکیلی کھڑی رہ گئی-میران نے چپکے سے طلحہ کو بیٹ پکڑایا اور اُس کے پاس چلا آیا-

"کیسی ہو؟ "-وہ اُس کے پیچھے اچانک آکر بولا تو وہ چونک گئی-میران شاہ کو دیکھ کر جیسے اُس کی موجودگی کا یقین ہی نہ آیا-دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہو گئی-مرجھائے ہوئے چہرے پر جیسے بہار آگئی-

"میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ "-ہانیہ کو لگا جیسے ساری بے چینی ایک دم سے ختم ہو گئی ہو-اُسے تپتے صحرا میں جیسے ٹھنڈا پانی مل گیا ہو-خزاں کے موسم میں ہی اچانک سے بہار آگئی ہو-کڑکتی دھوپ میں اچانک ٹھنڈی چھاؤں مل گئی ہو-کانٹوں کے سفر میں گلاب بچھا دیے گئے ہوںیسی ہی تو ہوتی ہے محبت کسی کو خون کے انسو رلاتی ہے اور کسی کو خوشیاں ہی خوشیاں دیتی ہے-ساری بات صرف قسمت کی اور تقدیر کی ہوتی ہے-کاتبِ تقدیر کسی کی زندگی کو پھولوں کی راہ بنا دیتا ہے اور کسی کو پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے-

"تمہیں دیکھ کہ میں ٹھیک سے بھی زیادہ ٹھیک ہو گیا ہوں"-وہ اُس کے چہرے کو نگاہوں میں لیتے ہوئے بولا تھا- حرف حرف میں سچائی تھی- 

"تم کب کی آئی ہو ویسے؟ "-میران شاہ نے اُس کی جھکی نظروں کے تاقب میں دیکھا-وہ گھاس پہ ناجانے کیا تلاش رہی تھی-

"بدھ کو آئی تھی"-وہ بہت مختصر جواب دے رہی تھی-نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں-مقابل کی لو دیتی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں تھی- 

"کیا بات ہے پریشان ہو"-جو محبت کرتے ہیں وہ اندر تک رسائی رکھتے ہیں-میران شاہ نے اُس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا دکھ دیکھ لیا تھا- حالانکہ اُس مختصر سے وقت میں ہانیہ نے بس ایک نظر اُس کو دیکھا تھا- 

"کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔"-وہ گڑبڑا گئی-تو کیا اُس کے چہرے پر لکھا تھا کہ وہ پریشان ہے-کوئی بھی اُس کا چہرہ دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ اُس کے اندر ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے-وہ اُس جنگ سے لڑتے لڑتے تھک سی گئی ہے-

"ہانیہ یو نو تم چھوٹ نہیں بول سکتی"-میران شاہ کے لہجے میں اُس کے کیے فکر تھی- "تمہیں اپنی آنکھوں میں راز چھپانے نہیں آتے۔۔۔اِن سمندر سی گہری آنکھوں میں بھی تمہارے راز تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں تم لاکھ جھٹلانے کی کوشش کرو مگر تم کامیاب نہیں ہو سکتی-تمہاری آنکھیں ہی تمہاری ہر بات کی نفی کر دیتی ہیں تمہارے جھوٹ کو جھٹلا دیتی ہیں"-وہ مدھم لہجے میں اُس کی حقیقت بتا رہا تھا-ہانیہ جو باتیں خود اپنے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی وہ اُسے وہ سب بتا رہا تھا-

"تم جانتی ہو مجھے تمہاری آنکھوں میں دیکھ کر یہ خدشہ ہو رہا ہے کہ کچھ تو ایسا ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو ۔۔۔۔جسے تم بتانا نہیں چاہتی۔۔۔ہانیہ اگر میں سب جھوٹ کہہ رہا ہوں تو مجھے ثبوت دو کہ میری باتیں بے بنیاد ہیں اُن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔میرے سب خیالات کو غلط ثابت کرو۔۔"-وہ عجیب سے لہجے میں اُس سے باز پرس کر رہا تھا- ہانیہ حیران سی اب اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور اُسی کا فائدہ اُٹھا کر میران شاہ اُس کو پرت در پرت کھول رہا تھا-اُس کی آنکھوں کے رازوں تک رسائی کر رہا تھا-

ہانیہ نے سوچا اُسے سب کچھ بتا دے-سارے رازوں سے پردہ اُٹھا دے-اس کے ہر خدشے کو سچ کر دے-مگر وہ کیا سوچے گا اُس کے بعد اُس کے بارے میں ۔۔۔اُس کو غلط سمجھے گا تو وہ اپنی صفائی کیسے دے گی-اُسے یاد آیا عائشہ نے ایک بار کہا تھا کہ مرد کبھی بھی قابل بھروسہ نہیں ہوتے-اُن پربھروسہ کر کہ اُن کو کوئی راز مت بتاو کیونکہ اُن کا ظرف بہت چھوٹا ہوتا-وہ کبھی بھی یہ بات برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کا جس عورت سے تعلق ہو وہ کسی اور کو پسند کرتی ہو یا اُسے کوئی پسند کرتا ہو پھر وہ اُن کی بیوی ہو یا محبوبہ دونوں کے لئے ہی اُنہیں یہ بات گوارا نہیں ۔۔۔۔اُن کی مردانہ آنا اُنہیں کبھی اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایسا کچھ جاننے کہ بعد پوزیٹولی ریکٹ کریں-ہانیہ نے اپنے خیال کو مسترد کر دیا-

"بولو ہانیہ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔تم مجھ پر اعتبار کرسکتی ہو"-وہ جواب جاننے کےلیے بے چین ہو رہا تھا-

"کچھ نہیں میری عائشہ سے لڑائی ہو گئی تھی"-وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولی-

"اتنی سی بات نہیں ہے ہانیہ کچھ اور بھی ہے جو تم اب بھی چھپا رہی ہو"-میران شاہ مطمئن نہیں ہوا تھا- 

"اُس نے مجھے تھپڑ مارا تھا"-وہ مزید گویا ہوئی-

"لڑائی کیوں ہوئی تھی؟ "-وہ پھر بولا-

"کچھ پرسنل ایشو کی وجہ سے ہوئی تھی"-وہ اپنی طرف سے اُسے مطمئن کر رہی تھی مگر میران شاہ نہیں ہوا تھا- البتہ اُس نے مزید کچھ نہیں پوچھا تھا-

"کرکٹ کھیلو گی ہمارے ساتھ۔۔۔۔"-مسکراتے ہوئے آفر دی تو وہ سر اثبات میں ہلا گئی-

"کم۔۔۔۔"-میران شاہ اُسے ساتھ لے کہ اُن سب کی طرف بڑھ گیا-میچ پورے عروج پر تھا-

؛؛؛؛؛------------؛؛؛؛؛؛؛؛

جہاں کوئی مسیحا نہ ہو

درد کا درماں نہ ہو

کوئی تیرے جیسا نہ ہو

یہ اُن ساحلوں پہ اُتار دیتی ہے

محبت مار دیتی ہے 

درد کے ماروں کو

گھر کی دیواروں کو

ہر ٹوٹے ہوئے لہجے کو

زندگی دیتی ہے

اعتبار دیتی ہے مگر

محبت مار دیتی ہے 

گر جدائی کا ہلکا سا بھی کانٹا چبھ جائے

تڑپ اُٹھتی ہے

رو پڑتی ہے

اپنی گود ماں سے اُتار دیتی ہے

محبت مار دیتی ہے

وہ کھڑکی سے ٹیک لگائے مسلسل برسنے والی بارش کو دیکھ رہا تھا اکتوبر کی یہ بارش موسم کی خنکی کو مزید بڑھا رہی تھی ۔۔۔اس کے دل میں دور دور تک اداسی اور ویرانی چھائی ہوئی تھی بارش اس کی اداسی کو مزید بڑھا رہی تھی اس کے اندر کی پیاس زور پکڑتی جا رہی تھی بارش کا موسم اس کی جان تھا مگر آج یہی موسم اس کی جان لے رہا تھا وہ یک ٹک برستی بارش پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی انسووں کو اندر اتار رہا تھا پچھلے دو گھنٹے سے اپنی سابقہ پوزیشن پہ کھڑے رہنے کے باعث ٹانگیں شل ہو چکی تھی مگر پروا کسے تھی ۔۔۔۔اس سے پہلے بارش جب بھی ایی تھی اس کے لیے ہمیشہ خوشیوں کا پیغام لائی تھی مگر اب اُس کی ساری خوشیاں روٹھ چکی تھیں-

تبی اُس کے سیل پر بپ ہوئی-وہ چونکا-اُس نے بیڈ پہ پڑا سیل اُٹھایا-کوئی انجان نمبر تھا-وہ کچھ حیران ہوا-یس کا بٹن پریس کر کہ فون کان سے لگا لیا-

"ہیلو۔۔۔۔"-اُس نے شائستگی سے پوچھا-

"ہیلو۔۔۔"-دوسری طرف سے بھی وہی لفظ دہرایا گیا-نسوانی آواز پر کچھ حیرانگی ہوئی-

"جی کون؟ "-اُس نے ایک لمبا سانس خارج کرتے ہوئے بے دلی سے پوچھا-

"فہد بھائی میں عائشہ بات کر رہی ہوں"-

"خیریت عائشہ اتنی رات گیے فون کیا"-فہد کچھ پریشان ہوا تھا-دل میں عجیب طرح کے وسوسے آنے لگے-دل نے دعا کی کہ وہ بلکل ٹھیک ہو-

"فہد بھائی مجھے آپ سے ملنا ہے-آپ بتائیں کب فری ہیں"-عائشہ نے اپنا مدعا بیان کیا-فہد سمجھ گیا کہ وہ کیوں ملنا چاہتی ہے-

"کل سنڈے ہے کل میں فری ہوں"-وہ مدھم سے لہجے میں بولا تھا- 

"اوکے میں آجاؤں گی"-عائشہ نے مختصر سی بات کے بعد فون بند کر دیا-فہد کتنے ہی لمہے فون کوہاتھ میں لیے پرُسوچ انداز میں کھڑا رہا-پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بیڈ تک آیا-سائیڈ ٹیبل سے دو سلیپنگ پلز نکال کر پانی کے ایک گلاس کے ساتھ نگل لیں-

!--------------------!

آج کافی دنوں بعد وہ مریم کے ساتھ لان میں بیٹھ کر چائے پی رہا تھا- کل رات اُن سے ساری بات شئیر کر کے اُسے جیسے سکون سا مل گیا تھا-مریم اُس سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھیں جن کا وہ کبھی ہوں ہاں اور کبھی مختصر جواب دیتا اُن کے لیے یہی کافی تھا-کم از کم اُس کی چپ تو ٹوٹی تھی- فہد کی نظریں سامنے گھاس کی کٹائی کرتے مالی پر تھیں-

تبھی عائشہ چلی آئی-مریم اُسے دیکھ کر بے تحاشہ خوش ہوئیں کیونکہ وہ آج کافی دنوں بعد آئی تھی-فہد نے البتہ ایک سرسری سی نظر اُس پر ڈالی تھی-

"ارے میری بیٹی آئی ہے"-مریم نے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا-عائشہ مسکراتے ہوئے اُن کے ساتھ ہیبیٹھ گئی-

"میں نے سوچا لوگوں کے پاس تو ٹائم ہے نہیں تو میں ہی مل آتی ہوں"-اُس نے فہد کو دیکھتے ہوئے طنز کیا تھا-مریم مسکرائیں-وہ سمجھ گئیں تھی- فہد کا اطمینان قابل دید تھا- 

"میں اپنی بیٹی سے ملنے آنے والی تھی مگر وہ خود آگئی"-مریم نے اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا-

"انٹی آپ کی محبت پر شک نہیں ہے"-وہ اُن کے اتنے پیار پر کھل سی گئی تھی- "لیکن کچھ اور بھی بے حس لوگ ہیں یہاں جن کو اپنی دنیا سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں ہے "-ایک اور طنز۔۔۔فہد نے اُس کو ایک نظر دیکھا اور پھر نظر انداز کر گیا-

"اچھا میں تمہارے لئے کافی بنا کر لاتی ہوں کیونکہ چائے تو تم پیو گی نہیں ۔۔۔۔"-مریم نے اپنا خالی کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے کہا- "آج کل کی نوجوان عوام ناجانے کیوں کافی کی اتنی دیوانی ہے خاص طور پر تم اور فہد"-وہ مسکراتے ہوئے بولیں-

"ہانیہ کو بھی کافی بہت پسند ہے اُسے تو جتنی مل جائے کم ہے ۔۔۔بلکہ اُس کا تو یہاں تک خیال ہے کہ وہ اپنے ہونے والے ہزبینڈ کو بھی ساری زندگی کافی ہی پلائے گی''- عائشہ نے کن آکھیوں سے فہد کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی-فہد کا منہ کی طرف جاتا کپ رُک گیا-عائشہ نے اُس کے تاثرات نوٹ کیے-یہی تو وہ دیکھنا چاہتی تھی-مریم بھی ایک لمہے کے لئے چپ سی ہو گئیں-ایک نظر ساکت بیٹھے بیٹے پر ڈالی جو بت بنا کپ کو گھور رہا تھا-ایک طویل وقفہ اُن تینوں کے درمیان حائل ہوا-

"میں تمہارے لیے کافی لاتی ہوں"-مریم نے ہی اِس خاموشی کو مزید طویل ہونے سے بچایا-عائشہ نے اُن کو روکا نہ کیونکہ وہ اُن کی غیر موجودگی میں فہد سے بات کرنا چاہتی تھی- 

"فہد بھائی آپ ویسے بہت تیز ہیں "-وہ اُٹھ کہ اُس کے سامنے والی چئیر بھی بیٹھ گئی-

"شکریہ۔۔۔۔"-وہ چائے ختم کر چکا تھا-کپ سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا-

اب آپ مجھے شرافت سے پوری بات بتا رہے ہیں یا کوئی ڈرامہ کرنے کا ارادہ ہے"-وہ اُس کی بے نیازی پر تپ گئی تھی مگر خود کو کنٹرول کر لیا-

"کونسی بات؟ "- وہ انجان بنا تھا-

"یہی کہ آپ اور ہانی کے بیچ کیا کھچڑی پک رہی ہے آجکل "-اُس نے اُسے گھورتے ہوئے کہا-فہد نے چند لمہے اُسے دیکھنے کے بعد ٹیک لگا لی-

"اپنی کزن سے پوچھ لینا تھا وہ تمہیں ذیادہ اچھی طرح بتاتی۔۔۔۔"-اُس کا چہرہ بے تاثر تھا-

"وہ محترمہ یہاں ہوں تو پوچھوں نہ۔۔۔۔"-وہ چڑ کر بولی- "وہ تو ماریہ آپی کے ساتھ جا چکی ہے"-

"جب آئے گی تب پوچھ لینا"-فہد کا اطمینان قابل دید تھا-وہ لاپرواہی کا بھر پور مظاہرہ کر رہا تھا-جتنا باہر سے بہادر نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا اندر اُتنا ہی توڑ پھوڑ کا شکار ہو رہا تھا-

"اگر مجھے اُس سے پوچھنا ہوتا تو یہاں تھوڑی آتی- وہ تو مجھ سے پکا بائکاٹ کر کہ گئی ہے-اس لیے اب آپ مجھے بتائیں"-عائشہ نے منہ بناتے ہوئے کہا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گیا-

"ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے"-فہد نے اُسے ٹالا-

"فہد بھائی۔۔۔۔"-وہ ناراضگی سے اُسے دیکھنے لگی- "صاف صاف کہہ دیں کہ مجھے بتانا ہی نہیں چاہتے فضول کے بہانے مت بنائیں"-

"میں نے اُسے پرپوز کیا تھا"-وہ دھیرے سے بولا تو عائشہ کا منہ حیرت کے مارے پورا کھل گیا-یعنی کہ جس بات کا شک تھا وہی بات تھی- 

"مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ معاملہ گڑبڑ ہے-اویں تو وہ اُس دن اتنا نہیں چلا رہی تھی"-وہ خود کلامی میں بولی تھی- 

"اور کچھ جاننا۔۔۔۔۔"-فہد نے اُس کو دیکھتے ہوئے پوچھا-

"ایک بات بتائیں؟ "- وہ سیدھی ہوکہ بیٹھ گئی-

"کیا؟ "-اُس نے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا-

"آپ کتنے پرسنٹ سیریس ہیں"-تجسس سے پوچھا گیا-

"جتنے پرسنٹ کوئی بھی پاگل انسان ہوسکتا ہے"- عجیب سا جواب آیا تھا-وہ عائشہ کو واقعی پاگل لگا-

اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھتی مریم آگئیں-اُن کی بات آدھوری ہی رہ گئی-مریم کے آنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلا گیا-عائشہ البتہ کافی دیر اُن کےپاس بیٹھی رہی-

!-------------------------!

میران شاہ آج ہانیہ کو اپنے ساتھ ریسٹورینٹ لے کہ آیا تھا-آج اُس کا برتھ ڈے تھا- مگر ہانیہ اِس بات سے انجان تھی-

"میران ہم کہاں جارہے ہیں ؟"-اُس نے کوئی چوتھی بار یہ سوال پوچھا تھا-اُس کی مسلسل چپ سے وہ جنھجلا گئی-

"آپ نے بتانا ہے یا نہیں ۔۔۔۔"-اُس اب کی بات نے غصے سے پوچھا تو میران شاہ کو اپنی چپ توڑنی پڑی-

"ایک سرہرائز ہے یار تھوڑا سا ویٹ کرو"-وہ مزے سے بولا-

"ایسا کونسا سرپرائز ہے"-وہ بے چینی سے بولی تو میران شاہ نے اُسے گھورا-

"تم پھوڑا سا صبر نہیں کر سکتی"-وہ گاڑی کو ریسٹورینٹ کے پارکنگ میں روکتے ہوئے بولا- "چلو اترو"-وہ باہر نکلتے ہوئے بولا-

ہانیہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو میران شاہ کو مجبوراً اُس کی طرف آنا پڑا-

"اتر بھی جاؤ یار"-اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے باہر نکالا-جسے باہر نکلتے ہی ہانیہ نے فورا چھڑوا لیا-

"اب تو بتا دیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ "-ہانیہ کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی- 

"اففف لڑکی تم کتنے سوال کرتی ہو"-وہ منہ بناتے ہوئے بولا-

"اچھا آؤ"-میران نے پھر اُس کا ہاتھ تھام کر کھینچا-

"میران میں گر جاؤں گی"-وہ اُسے روکتے ہوئے بولی-اِس وقت وہ لمبی ہیل پہنے ہوئے تھی- بار بار پیر لڑکھڑا رہا تھا- ہیل پہن کر اُس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتی تھی-

میران نے اُس کی بات سنی ان سنی کر دی اور اُسے لیے اندر آگیا-ہانیہ بے بسی سے اُس کے ساتھ چلتی آئی-

وہ اُس ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں وہ سب جمع تھے- 

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔"-سب نے اُسے دیکھتے ہی ایک ساتھ کہا تو ہانیہ نے حیرانگی سے اپنے ساتھ کھڑے میران شاہ کو دیکھا-

"آپ کا برتھ ڈے ہے آج؟ "-وہ سوالیہ انداز میں گویا ہوئی تو میران نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا-

"آپ نے مجھے بتایا تک نہیں ۔۔۔۔"-وہ ناراضگی سے بولی-

"سوچا سرپرائز دوں گا۔۔۔۔خیر چھوڑو آؤ میں تمہیں اپنےفرینڈز سے ملواؤں"-میران اُسے لیے اُن لوگوں کے پاس آگیا-ہانیہ کا سب سے تعارف کروایا-وہاں موجود سب لوگوں نے کھلے دل سے اُسے ویلکم کیا تھا- ہانیہ کو بھی اُن سب سے مل کہ بہت اچھا لگا-سب لوگ اُس سے مختلف سوال کرنے لگے-اگر وہاں کوئی چپ تھا تو وہ تھی نیہا درانی ۔۔۔۔جس نے میران شاہ کی آنکھوں سے وہ راز چرا لیا تھا جو پچھلے دنوں سے اُس کے اندر آنے والی تبدیلیوں کی وجہ بنا ہوا تھا-یہ بات جان کر اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا-اُسے وہاں دہشت ہونے لگی دل چاہا اُس لڑکی کو جادو کی چھڑی سے فورا وہاں سے گم کر دے جو اُس کی خوشیوں کے درمیان آگئی تھی- اُس کی محبت چھننے آگئی تھی- نیہا کو اُس سے بے تحاشہ نفرت محسوس ہوئی-

"تمہیں کیا ہوا"-میران شاہ نے اُسے چپ بیٹھے دیکھا تو استفسار کیا-

"کچھ نہیں مانی آئی تھنک میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے-میں گھر جا رہی ہوں اِدھر نہیں بیٹھ سکتی"-وہ ہانیہ کو نفرت ذدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی-انسو باہر آنے کو بے تاب ہو رہے تھے مگر وہ یہاں رونا نہیں چاہتی تھی-چاند اُس کی حالت سے واقف تھا- وہ سمجھ گیا تھا کہ اچانک سے اُس کو کیا ہو گیا-

"ہاں اوکے یار تم گھر چلی جاؤ اگر اچھا محسوس نہیں کر رہی تو"-میران شاہ کچھ پریشان ہوا تھا- 

نیہا کی ساری امیدیں ٹوٹ گئیں-میران شاہ کو اُس کے ہونے یا نہ ہونے سے واقعی فرق نہیں پڑتا تھا-وہاں رکنے کا اب کوئی جواز نہیں تھا- وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی-چاند کو میران شاہ کی اِس بے نیازی پہ بہت افسوس ہوا-

!--------------------!

رات کے ناجانے کس پہر ہانیہ کی آنکھ کھلی-پیاس کا احساس شدت سے ہو رہا تھا- اُس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے پانی والا جگ اُٹھا کر ایک گلاس پانی پیا-پانی والا جگ ماریہ رات کو رکھ گئی تھی- 

ہانیہ نے پانی پیا تو کچھ سکون ہوا-کمرے میں مدھم سی روشنی ہو رہی تھی- اُس نے جونہی رُخ موڑا تو حیران ہوئی-آنکھیں پھاڑ کہ اپنے ساتھ سوئے وجود کو دیکھا-ہانیہ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا-دل کی دھڑکن بھی ایک دم جیسے تھم سی گئی تھی-یہ کیسے ہو سکتا تھا-اُس کو یقین نہیں آرہا تھا-

"عاشی تم۔۔۔۔"-ہانیہ نے اُسے جھنجوڑ ڈالا تو وہ بڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی-

"کیا تکلیف ہے؟ "-وہ نیند سے بوجھل آنکھیں ملتے ہوئے غصے سے بولی-

"تم سچ میں عاشی ہو نہ"-ہانیہ کو یقین نہیں آرہا تھا-رات کو تو وہ اکیلی سوئی تھی پھر وہ کیسے اور کب آگئی-

"کہیں کوئی چڑیل تو نہیں ۔۔۔"-دل میں خیال آیا-اُس نے آنکھیں پھاڑ کر پھر اُس کو دیکھا-عاشی کے روپ میں چڑیل اُس کے کمرے میں گھس آئی تھی- اففف خوف سے ایک جھرجھری لی تو کیا وہ مرنے والی تھی- اُس کا آخری وقت آن پہنچا تھا- ابھی میری عمر ہی کیا ہے کیا میں اتنی جلدی مر جاؤں گی-طرح طرح کے خیالات ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگے-اُس نے تصور میں خود کو چڑیل کے بڑے بڑے اور نوکیلے ناخنوں سے شہید ہوتے دیکھا-وہ چڑیل بڑے مزے سے اُس کا خون پی رہی تھی-پھر اُس نے چڑیل کو اپنا گلا دباتے دیکھا-ہانیہ نے اپنے گلے پر دونوں ہاتھ رکھ لیے-وہ ابھی نہیں مرنا چاہتی تھی-کاش کوئی آجائے-اُس کے دل سے دعا نکلی-

"دیکھو پلیز مجھے مت مارو۔۔۔پلیز"-وہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کہ گڑگڑانے لگی-

"ہانی۔۔۔۔۔کیا ہوا؟ "-عائشہ نے اُس کو شانوں سے تھام کر زور سے ہلایا تو وہ چونکی-

"مجھے چھوڑ دو پلیز۔۔۔"-اُس نے التجا کی-

"یہ لو چھوڑ دیا۔۔۔۔اب بتاؤ کیا ہوا؟ "-عائشہ نے اُسے فورا چھوڑ دیا-

"تم یہاں کیوں آئی ہو؟ "-وہ اندھیرے میں اُسے دیکھتے ہوئے بولی-

"تمہارا قتل کرنے"-عائشہ چڑ کر بولی اور اُسے پھر شانوں سے تھام لیا-ہانیہ نے تصور میں خود کو ایک بار پھر مرتے ہوئے دیکھا-

"تم چڑیل ہو نہ۔۔۔۔"-چہرے پر پھیلی دہشت کے باوجود بھی بڑی معصومیت سے سوال کیا گیا-

"لعنت ہے تم پہ ہانی۔۔۔میں تجھے چڑیل لگتی ہوں۔۔۔۔میں یعنی عائشہ رفیق اتنی خوبصورت دوشیزہ تمہیں چڑیل نظر آرہی ہوں"-عائشہ کو تو اُس کی بات سے صدمہ ہی لگ گیا تھا- اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے دور کیا-ہانیہ گرنے سے بمشکل بچی-کتنی طاقت وار ہے یہ چڑیل۔۔۔اُس نے دل میں سوچا-"ناجانے کیا کھاتی ہے"-وہ بے وقوفی کی طرح الٹا سیدھا سوچی جارہی تھی-

"چڑیل کسی بھی پیاری لڑکی کا روپ لے سکتی ہے"-ہانیہ نے اُس سے زرا فاصلے پر ہوتے ہوئے کہا تو عائشہ کو اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا- 

"شکر ہے تمہیں میرے حسین ہونے پر تو یقین ہے"-عائشہ نے سکھ کا سانس لیا-

"پر تم مجھے مارنا کیوں چاہتی ہو؟ "-وہ پھر معصومیت سے گویا ہوئی-

"افففف اب بندہ اتنا بھولا اور بے وقوف بھی نہ ہو۔۔۔سہی کہتی ہیں کرن اپی تمہاری عقل ٹخنوں میں بھی نہیں ہے"-عائشہ نے اپنا سر پیٹ لیا-

"تم سو جاؤ صبح بات کریں گے کیونکہ اِس وقت تم اپنے ہواسوں میں نہیں ہو"-عائشہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی-ساتھ ہی سر سے پیر تک چادر تان لی-وہ مزید بکواس نہیں سن سکتی تھی- 

"تم چڑیل نہیں ہو کیا؟ "-وہ ڈرتے ڈرتے بولی تو عائشہ کا غصہ عروج پہ پہنچ گیا-

"اگر تم نے اپنی بکواس بند نہ کی تو میں سچ میں تمہارے ساتھ چوڑیلوں والا سلوک کروں گی یاد رکھنا"-عائشہ نے کمبل منہ سے ہٹا کہ اُس کو وارننگ دی تو ہانیہ کی جان میں جان آئی-ایسی وارنگز اُسے اصلی والی چڑیل ہی دے سکتی تھی- 

"تم کب اور کس کے ساتھ آئی؟"-ہانیہ کچھ ریلکس ہوئی-ٹانگیں پسارتے ہوئے پوچھا-

"اِس بات کا جواب میں سو کہ اُٹھ کہ دوں گی"-وہ چادر کے اندر سے ہی بولی-عائشہ کو اپنی نیند بہت عزیز تھی- ہانیہ نے اُسے دوبارہ مخاطب کرنا ضروری نہ سمجھا اور چپ چاپ اُس کی طرف پشت کر کہ لیٹ گئی-

!-------------------!

وہ صبح دس بجے کے قریب اُٹھی-کسلمندی سے ایک انگڑائی لی تو رات والا سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا-ہانیہ نے فورا اپنے برابر دیکھا مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا- کہیں وہ خواب تو نہیں تھا یا سچ مچ کی چڑیل تھی-وہ سوچتی ہوئی کچن میں آگئی-جہاں ماریہ بریک فاسٹ بنا رہی تھی-سب لوگ اپنے اپنے کاموں پہ جا چکے تھے-ماریہ لیٹ ہی ناشتہ کرتی تھی-ہانیہ اندر داخل ہوئی تو ماریہ کے ساتھ کھڑی عائشہ کو دیکھ کر اپنے سب خیالات کی منفی کر دی-وہ واقعی آئی ہوئی تھی کیونکہ خواب دن میں تو نظر آنے سے رہے-

ہانیہ نے اُس کو مخاطب نہیں کیا تھا- وہ دونوں اُسے دیکھ چکی تھیں-

"اِس نے کل رات مجھے چڑیل سمجھ لیا تھا"-عائشہ نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے ماریہ کو بتایا جو املیٹ بنارہی تھی-عائشہ کی بات پر مسکرائی-ہانیہ نے البتہ کوئی جواب نہیں دیا تھا- 

وہ چپ چاپ ٹیبل پر بیٹھ گئی-کھلے بالوں کو لپیٹ کر کیپچر لگا لیا-عائشہ ہاتھ دھو کہ اُس کے پاس ہی آن بیٹھی اور سوپٹے سے ہاتھ صاف کیے-

"ابھی تک ناراض ہو"-عائشہ نے اُس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر پیار سے پوچھا-وہ اُس کی طرف جھک کر اُس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگی-ہانیہ نے مزید منہ نیچے کر لیا-

"اچھا سوری نہ۔۔۔"-وہ اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تو ہانیہ نے فورا سے پیشتر اپنا ہاتھ چھڑوا لیا اور اُٹھ کہ ماریہ کے پیچھے کھڑی ہو گئی-عائشہ جانتی تھی اب وہ سو سو نخرے دکھائے گی-

"اپی اِس کو بولیں مجھ سے بات کرنے کی کوشش مت کرے"-وہ عائشہ کو گھورتے ہوئے ماریہ سے مخاطب ہوئی جو مسلسل اُن کی باتوں پر مسکرا رہی تھی- 

"میں تو کروں گی۔۔۔۔روک لو اگر روک سکتی ہو تو۔۔۔۔"-وہ اُسے تنگ کرتے ہوئے بولی-

"اپی آپ نے اِس کو یہاں کیوں بلایا یے؟ "-وہ ایک بار پھر ماریہ سے باز پرس کرنے لگی-

"ہانی میں نے اِس کو نہیں بلایا وہ خود تمہیں منانے آئی ہے"-ماریہ نے املیٹ تین پلیٹوں میں نکالا-

"اور واپس لے جانے بھی۔۔۔"-عائشہ نے لقمہ دیا-

"میں اِس کے ساتھ بلکل واپس نہیں جاؤں گی اور نہ اِس سے بات کروں گی"-وہ ضدی پن سے بولی-

"ہانی میری جان۔۔۔میری بہن"-عائشہ نے اُٹھ کہ اُس کے گلے میں بانہیں ڈال لیں-

"میں تمہاری بہن نہیں ہوں۔۔۔بہنوں کے ساتھ ایسے کرتے ہیں کیا"-وہ رونے والی ہو گئی تھی-عائشہ کو دل میں پھر افسوس ہوا-

"تم تو میری جان ہو۔۔۔ اُس دن تو بس غصے میں آکر غلطی ہو گئی تھی۔۔۔معاف کر دو پلیز"-وہ اُسے منانے لگی-

"چھوڑو مجھے۔۔۔"-وہ اُسے دور کرنے لگی مگر عائشہ نے مزید گھیرا تنگ کر دیا تو اُس نے بے بسی سے ماریہ کو دیکھا-

"ہانی چلو معاف کر دو بیچاری کو ۔۔دیکھو خاص تمہیں منانے آئی ہے"-ماریہ نے عائشہ کے اشارہ کرنے پر اُس کی سفارش کی-عائشہ اُسے چھوڑ کہ ماریہ کے پیچھے ہوئی-

"اِس نے مجھے تھپڑ کیوں مارا تھا"-وہ اب بھی اُس بات پر ہی آڑی ہوئی تھی-

"آئندہ نہیں ماروں گا پکا والا پرامس۔۔۔اب معاف کر دو پلیز"-عائشہ مسلس اُس کی منتیں کر رہی تھی- 

"نہیں۔۔۔"-وہ کسی صورت تیار نہیں تھی- عائشہ نے ماریہ کو کہنی ماری-

"ہانی میرے کہنے پر معاف کر دو اسے ایک بار۔۔۔اگر دوبارہ اِس نے تمہیں کچھ بھی کہا نہ تو ہم مل کہ اِس کی مرمت کریں گے"-ماریہ نے ایک اور کوشش کی-

"بس آپ کے کہنے پر کر رہی ہوں"-وہ احسان جتاتے ہوئے بولی-

"بہت شکریہ اِس نوازش کا ملکہ عالیہ ۔۔۔"-ماریہ نے شرارت سے اُس کے سامنے جھکتے ہوئے کہا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی-

"اب میں اپنی سزا ختم سمجھوں"-عائشہ جو ماریہ کے پیچھے کھڑی تھی آگے ہوتے ہوئے بولی-

"سوچ کر بتاؤں گی''-وہ مسکراہٹ دبا کر بولی تو عائشہ اُسے گھورتے ہوئے اُس کے گلے لگ گئی-ہانیہ بھی اُسی وقت سب بھول بھال گئی-

!------------------!

میران اُسے لنچ کروانے لایا تھا- وہ اُس کے ساتھ آنے پر راضی نہیں تھی مگر وہ زبردستی لے آیا تھا- ہانیہ کو اِس طرح روز روز اُس کے ساتھ باہر جانا پسند نہیں تھا- مگر میران شاہ اُس کی سنتا کب تھا-وہ تھوڑی سی کوشش کے بعد مان گئی تھی- 

"یار تم ہر وقت اتنی سڑی کیوں رہتی ہو؟ "-میران شاہ نے مینیو کارڈ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اُس سے پوچھا جو اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی- اُس کو محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر نظر اُس پر جمی ہو-وہ پتہ نہیں کونسا گناہ کر رہی تھی-ہانیہ کو وہاں وہشت ہونے لگی مگر مجبوری تھی وہ کچھ بول نہیں سکتی تھی- 

"ہانی ۔۔۔کہاں کھوئی ہو یار؟ "-میران شاہ نے اُس کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ اُس کو دیکھنے لگی-

"میران مجھے یہاں بیٹھ کہ اچھا نہیں لگ رہا"-اُس کو پسینہ آنے لگا-کل تک وہ ہوٹلوں میں بیٹھے جوڑوں پر تنقید کرتی تھی اور آج خود تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھی- 

"او پلیز یار یہ مڈل کلاس سوچ کو ختم کردو-ہم کونسا کوئی غلط کام کر رہے ہیں"-میران شاہ نے اُس کی بات چٹکیوں میں اُڑاتے ہوئے کہا-

"میران واپس چلتے ہیں"-ہانیہ کو لگا اگر وہ کچھ دیر اور اُدھر بیٹھی رہی تو یقیناََ ڈر کے مارے بیہوش ہو جائے گی-

"پاگل ہو کیا-ہم لنچ کرنے آئے ہیں اور کر کہ جائیں گے"-میران شاہ کو اُس کی دقیانوسی ٹائپ باتوں پہ سخت افسوس ہو رہا تھا- 

"ہم گھر جا کہ بھی تو کر سکتے ہیں"-ہانیہ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا- 

"اگر ایسی بات تھی تو تم آتی نہ۔۔۔میں زبردستی تو نہیں لایا تم اپنی مرضی سے آئی ہو"-اُس کا موڈ خراب ہو گیا- "اور ہانیہ تم اتنی چھوٹی سوچ رکھتی ہو مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔۔اِس طرح کے ڈرامے تو مڈل کلاس لڑکیاں بھی اب نہیں کرتی جیسے تم کر رہی ہو"-وہ ناگواری سے بولا تھا- 

"میران میرا وہ مطلب نہیں تھا"-ہانیہ تھوڑا گڑبڑا گئی-

"تم نے میرا موڈ خراب کرنا تھا اور وہ تم کر چکی ہو"-وہ غصے سے بولا-

آئی ایم سوری پلیز۔۔۔۔"-اُس نے فورا معزرت کی تو میران شاہ کا موڈ کچھ سیٹ ہوا-وہ خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرنے لگا-

"اٹس اوکے۔۔۔۔اب بتاؤ کیا کھاؤ گی؟"-اُس نے مینیو کارڈ اُس کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا تو ہانیہ نے ناچاہتے ہوئے بھی ایک دو ڈشز کا کہہ دیا وہ اب دوبارہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی- 

میران شاہ ویٹر کو آرڈر لکھوانے لگا-ہانیہ بے چینی سے اپنی انگلیاں مروڑتی رہی-

ریسٹورینٹ کے دروازے سے اندر داخل ہوتے فہد نے اُسے دیکھ لیا-وہ اتنی دور سے بھی پہچان گیا تھا کہ وہ ہانیہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتی-اُسے ازحد حیرت ہوئی وہ کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی- فہد کے ساتھ دو تین اور لوگ تھے-فہد اُن سے ایکسکیوز کرتا اُن کی طرف آیا-وہ لوگ اپنے ٹیبل کی طرف چلے گیے-

ہانیہ نے سر اُٹھایا تو سامنے کھڑے فہد کو دیکھ کر جیسے سانس ہی رک گیا-میران شاہ بھی اُس کو دیکھ چکا تھا- 

"آپ کون؟ "-میران شاہ نے اُسے مسلسل ہانی کی طرف دیکھتے ہوئے ناگواری سے پوچھا-

"تو یہ وجہ تھی ہانیہ شفیق تمہاری مجھے انکار کرنے۔۔۔۔میرا دل توڑنے کی"-فہد نے میران شاہ کی بات کو تو جیسے سنا ہی نہیں تھا- ہانیہ کو لگا وہ کبھی سر نہیں اُٹھا سکے گی-اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے تمسخر دیکھ کر اُس کی آنکھیں مارے شرم کے جھک گئیں-

"اے مسٹر کیا بکواس کر رہے ہو اور تم ہو کون؟ "-میران شاہ نے اُٹھ کہ اُس کا گریبان تھام لیا-وہ ایسا ہی تھا غصہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا-ہانیہ نے بے ساختہ منہ پہ ہاتھ رکھا-یہ کیا ہو گیا تھا-

"ڈی ایس پی فہد مرتضی"-اُس نے اپنا کالر چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی- بلکہ اُس کی بات سن کر میران شاہ نے خود چھوڑ دیا تھا-سارا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا- ریسٹورینٹ میں سب لوگوں نے دلچسپی سے یہ تماشہ دیکھا-فہد کے ساتھ جو لوگ آئے ہوئے تھے وہ فورا اُٹھ کہ اُن کے پاس آئے-

"فہد اینی پرابلم۔۔۔۔"-

"نو سر نتھنگ۔۔۔"-وہ اپنے اندر اُٹھتے اشتعال پر قابو پاتے ہوئے بولا-

"ہانیہ شفیق ایک بات یاد رکھنا ہوٹلوں میں سر عام گھومنے والی محبت ٹائم پاس کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔۔۔۔عزت کا تماشہ بنانا ہو تو لوگ یہ سب کرتے ہیں"-فہد نے ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی تھی اُس پر اور وہ اپنی بات کہہ کہ وہاں رکا نہیں تھا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا-ہانیہ شفیق کو اُس کی آنکھوں میں موجود اپنے لیے سرد سے جزبات دیکھ کر حیرت کا جٹکا لگا تھا اور اُس سے ذیادہ اُس کی بات سے لگا تھا- 

میران شاہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا ہانیہ کو بلانا بھی گوارا نہ کیا-وہ خود ہی اُس کے پیچھے اپنے بکھرے وجود کو گھسیٹتی ہوئی لپکی-

شک کا کیڑا جب دماغ میں کلبلانے لگتا ہے تو رشتے کھوکھلے ہو جانا شروع ہو جاتے ہیں-اُن میں خود بخود دوریوں کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے-مرد کبھی بھی عورت پر اعتبار نہیں کر سکتا-عورت کی طرف سے ہونے والی زرا سی کوتاہی بھی اُس کا دل عورت کے لیے بدظن کر دیتی ہے-وہ چاہ کر بھی پھر عورت کو وہ پہلے والا مقام نہیں دے سکتا-محبت میں جب بے اعتباری اور شک پیدا ہوتے ہیں تو پھر وہ محبت نہیں رہتی بلکہ ایک مجبوری بن جاتی ہے جس سے کوئی کبھی بھی پیچھا چھڑا سکتا ہے-

وہ لائبریری کے خاموش ماحول میں بیٹھا ہوا تھا مگر اُس کے دل و دماغ میں ایک شور برپا تھا- اور یہ شور بے اعتباری اور شک جیسے جزبات کا تھا اُس شور میں محبت کی آواز کہیں دب گئی تھی- 

سامنے رکھی کتاب پہ نظریں جمائے وہ کہیں دور سوچوں کی وادی میں بھٹک رہا تھا- 

چاند بیگ میز پہ رکھتے ہوئے اُس کے سامنے بیٹھ گیا-اُس نے کتابیں بیگ سے نکال کر میز پر رکھیں تو نظریں میران شاہ کے کھوئے ہوئے چہرے پر پڑیں-

"کیا ہوا تمہیں ۔۔۔۔؟کہاں کھوئے ہو۔۔۔؟"-وہ اُس کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا تو میران شاہ نے چونک کر اُس کو دیکھا-مگر کچھ بولا نہ-

"سب سیٹ ہے نہ باس۔۔۔"-وہ چاند کو کافی پریشان اور الجھا ہوا لگا-

"ہممممم ۔۔۔۔"-اُس نے لمبا ہنکار بھرتے ہوئے چہرے پہ ہاتھ پھیرا-

"کیا بات ہے؟ "-وہ اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولا-میران شاہ نے کچھ دیر بعد اپنا ہاتھ نکال لیا-بے چینی حد سے بڑھ رہی تھی- 

"ایک بات بتاؤ گے؟ "-وہ سیدھا ہو کہ بیٹھ گیا-

"کیا۔۔۔۔؟"-چاند نے بھنویں اچکاتے ہوئے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا-

"اگر ہم کسی سے پیار کرتے ہوں اور وہ پہلے کسی اور کو پسند کرتا ہو تو کیا کرنا چاہیے"-اُس نے سنجیدگی سے سوال کیا-ذہن میں موجود سوالوں کا کسی طرح تو جواب پانا تھا-

"اِس سوال کا جواب تو نیہا ذیادہ اچھی طرح دے سکتی ہے کیونکہ اُسے تھوڑا بہت تجربہ ہے اِس بارے میں۔۔۔ہم تو بلکل کورے ہیں اِس طرح کے معاملات میں ۔۔۔"-چاند نے شاید طنز نہیں کیا تھا مگر میران شاہ کو وہ طنز ہی لگا تھا- 

"تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے"-میران شاہ کو غصہ آگیا اُس نے اپنی کتابیں سمیٹی اور ایک گھوری اُس پر ڈالتا لائبریری سے نکل گیا-چاند نے پیچھے سے کئی آوازیں دی مگر وہ بنا سنے ہی چلا گیا-

"توپ کا گولا ہے پورا۔۔۔"- چاند واپس کتابیں بیگ میں رکھتے ہوئے بڑبڑایا-بیگ دائیں کندھے پہ لٹکاتے ہوئے اُس کے پیچھے ہی چلا آیا-

وہ لان میں ہی ٹہل رہا تھا چاند اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا-میران شاہ نے اُسے اگنور کر دیا-

"اب بتاؤ کیا کہہ رہے تھے؟ "-وہ شوز سے زمین کو کھرچتے ہوئے بولا-

"وہ  پہلے کسی اور کو بھی لائیک کرتی تھی"-اُس نے سیدھی مطلب کی بات کی-

"تمہیں کیسے پتہ"-وہ رک کے اُسے دیکھنے لگا-میران شاہ بھی رک گیا-

"بس مجھے پتہ ہے"-وہ ٹالتے ہوئے بولا-

"مجھے بھی تو بتاؤ نہ۔۔۔"-چاند نے ضد کی تو میران شاہ نے دو دن پہلے والا سارا واقع اُس کے گوش گزار دیا-

"اب کیا کرو گے"-وہ ساری بات سننے کے کافی دیر بعد گویا ہوا-

"میں اُسے چھوڑ رہا ہوں"-اُس نے بڑے آرام سے جواب دیا-چاند کتنے ہی لمہے بے یقینی سے اُسے دیکھتا رہا-

"تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو"-چاند کو لگا وہ مزاق کر رہا تھا- 

"اچھی طرح جانتا ہوں اور یہ فیصلہ میں بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے"-میران شاہ کا اطمینان باہر سے قابل دید تھا مگر اندر پھر بھی توڑ پھوڑ ہو رہی تھی- 

"اتنی چھوٹی سی بات پہ اتنا بڑا فیصلہ کچھ ٹھیک نہیں ہے"-چاند نے اُسے سمجھانا چاہا-

"چھوٹی سی بات۔۔۔۔"-وہ استہزائیہ انداز میں بولا تھا- "مجھ سے پہلے وہ اُس ڈی ایس پی کے ساتھ تھی-اُس سے کسی بات پہ بریک اپ ہوا تو میرے ساتھ ہو گئی-کل کو مجھ سے لڑ کہ وہ کسی اور کے ساتھ ہو گی۔۔۔۔ایسی لڑکیوں کا کام ہی یہی ہوتا"-محبت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والا ہی آج زہر اگل رہا تھا-

"اور مجھے اُس کی کزن کی آج بھی یہ بات یاد ہے کہ اُس نے کہا تھا کہ ہانی تمہیں کتنی دفعہ محبت ہونی ہے۔۔۔۔تم خود سوچو آخر کوئی بات ہو گی تو اُس نے یہ بات کہی ہو گی نہ"-سہی کہا ہے کسی نے کہ مرد کانوں کا بہت کچا ہوتا جو سنتا اُسی کو سچ مان لیتا-سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا-

"یہ سب تمہیں پہلے بھی تو پتہ تھا نہ تو کیوں کی تھی اُس کے ساتھ محبت"-چاند کو اُس کی تھرڈ کلاس سوچ پہ بہت افسوس ہوا-اگر وہ اُس کا دوست نہ ہوتا تو وہ کب کا ایسے انسان پہ لعنت بھیج کہ اُس سے دور جا چکا ہوتا-

"وہ محبت تھی ہی نہیں ۔۔۔۔شاید وقعتی جزبات تھے اِسی لیے اتنی جلدی ختم ہو گیے"-اُس نے انتہا کر دی تھی- 

چاند کے پاس بولنے کے لیے الفاظ ختم ہو گیے-وہ اِس حد تک سیلفش تھا چاند کو یقین نہیں آرہا تھا- 

"نیہا کہاں ہے؟ "-اُس نے نیہا کا پوچھا-اب نیہا پھر اُسے یاد آگئی تھی-

"پتہ نہیں ۔۔۔۔"-وہ دھیمے سے بولا تھا- 

"میں دیکھتا ہوں اُسے"-وہ اپنی بات کہہ کہ چلا گیا اور چاند کتنے ہی لمہے وہاں سے ہل بھی نہیں پایا تھا- 

                    !------------------!

زندگی اپنے معمول کے مطابق اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی- حالات خواہ کیسے بھی ہوں اُس کا کام ہے چلنا اور وہ چلتی رہتی ہے-کبھی ہمیں لگتا ہے کہ اُس کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور وہ بھاگنا شروع کر دیتی ہے،کبھی وہ حد سے ذیادہ مدھم ہو جاتی ہے اور رینگنا شروع کر دیتی ہے -جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا-وہ ہمیشہ ایک ہی رفتار سے چلتی ہے نہ حالات اُس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور نہ کوئی اور چیز۔۔۔جب ہماری زندگی میں برا وقت آتا ہے تو ہمیں لگتا کہ وقت رینگ رہا ہے مگر جب کبھی حالات ساز گار ہوں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وقت کو پر لگ گیے ہیں اُس کی رفتار تیز ہو گئی ہے اُس کی اُڑان میں اضافہ ہو گیا-جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا-اُس کی رفتار کا جو وقت شروع دن سے مقرر ہے آخر تک وہی رہنا ہے-

ہانیہ اگلے دن ہی عائشہ کے ساتھ واپس آگئی تھی- اُس نے میران شاہ سے کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی اُس کو کوئی صفائی دی تھی- میران شاہ کو اُس پر اعتبار نہیں تھا-بڑے بڑے دعوے کرنے والا جب کچھ کرنے کا وقت آیا تھا تو اپنے ہی دعووں میں ناکام ہو گیا تھا اپنے ہی وعدوں سے مکر گیا تھا-ہانیہ کو بہت افسوس تھا کہ اُس نے ایک غلط انسان کا انتخاب کیا اور ہمیشہ کی افسوس رہنا تھا- اُس نے عائشہ کو کچھ نہیں بتایا تھا-ایک مسلسل چپ تھی جو اُس کے ہونٹوں پر مقفل تھی- جب غلطی خود کرے تو سزا بھی تو خود بھگتے نہ کسی اور کو ذمہ دار کیوں ٹھرائے-

وہ لاؤنج میں آئی تو ٹیبل پر رکھی کسی چیز نے توجہ کھینچ لی-اُس نے قریب آکر دیکھا تو وہ سرخ رنگ کے کپڑے کے نیچے کوئی چیز تھی-وہ حیران ہوئی-پاس ایک کارڈ پڑا ہوا تھا اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُٹھا لیا-

"بہت پیاری لڑکی ہانیہ کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ۔۔۔۔"-کارڈ پر لکھے الفاظ زیر لب پڑھے گیے-وہ تحفہ اُسی کے لئے تھا-

ہانیہ نے وہ کپڑا اُٹھا کر دیکھا تو اُس کے نیچے مٹھو کا پنجرہ تھا- وہ ہقا بقا کھڑی رہ گئی-حارث کی طرف سے یہ گفٹ تھا- اگر پہلے یہ ملتا تو وہ خوشی سے پاگل ہو جاتی مگر اب دل میں کسی چیز کی خواہش نہیں رہی تھی- جب دل کے موسم خزاں میں بدل جائیں تو پھر باہر کی بہار بھی اثر نہیں کرتی-

"کیسا لگا گفٹ۔۔۔۔"-وہ دونوں کب اُس کے پیچھے آن کھڑے ہوئے پتہ بھی نہ چلا-

"حارث یہ تم ہی اپنے پاس رکھو مجھے نہیں چاہیے-ویسے بھی یہ طوطا تم سے زیادہ اٹیچ ہے اِس لیے یہ صرف تمہارا ہے"-اُس نے کارڈ واپس میز پہ رکھتے ہوئے کہا-عائشہ کا دل کٹ کر رہ گیا-

"ہانی تمہیں یہ پسند تھا نہ اِس لیے تمہیں دے رہا ہوں تم لے لو اسے۔۔۔"-حارث نے اُس کا اداس چہرہ دیکھا-

"ضروری نہیں جو چیز پسند ہو وہ مل جائے"-اُس نے سنجیدگی سے کہا اور اُن دونوں کو وہیں بت بنا چھوڑ کر باہر نکل گئی-

وہ لاؤنج کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی تھی-عائشہ بھی خاموشی سے اُس کے پاس بیٹھ گئی-

"کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں جب سے تم واپس آئی ہو اداس رہنے لگی ہو"-عائشہ نے اُس کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا-

"تمہیں غلط فہمی ہو گئی ہے ورنہ تو ایسی کوئی بات نہیں"-اُس نے عائشہ کو ٹالا-

"ہانی تم مجھ سے کب سے باتیں چھپانے لگی ہو"-اُسے دکھ ہوا-

"جب کوئی بات ہے ہی نہیں تو کیا بتاؤں"-وہ ناجانے کیوں چھپا رہی تھی-

"اوکے ٹھیک ہے"-وہ اُٹھ کر جانے لگی تو ہانیہ نے اُس کا ہاتھ تھام کر اُس کو واپس بٹھالیا-

"ناراض ہو گئی ہو "-ہانیہ نے اُس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھا-

"تمہیں کونسا فرق پڑتا"-وہ ہنوز غصہ تھی- 

"اُس دن ریسٹورنٹ میں جب میں میران کے ساتھ لنچ کرنے گئی تھی توفہد ملا تھا ہمیں۔۔۔"-اُس نے عائشہ کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے مدھم سے لہجے میں بتایا-

"پھر۔۔۔۔"-وہ سوالیہ انداز میں گویا ہوئی-

"اُس نے میران کے سامنے ہی کہہ دیا کہ میں نے اِس وجہ سے اُس کو ٹھکرایا تھا"- وہ اپنی انگلیاں مروڑنے لگی- "میران کو اُس کی بات شاید اچھی نہیں لگی تھی اُس نے بعد میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی-وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے"- وہ دھیرے دھیرے سب بتانے لگی-

"اِس میں ناراضگی والی کیا بات کے-میران پاگل تو نہیں کیا۔۔۔"-عائشہ کو جان کر افسوس ہوا-

"ہانی وہ شک کر رہا ہے اور اُسے کوئی حق نہیں کہ وہ تم پر شک کرے-کیا وہ نہیں جانتا کہ تم کیسی لڑکی ہو"-عائشہ غصے سے بولی-

"اسی بات کا تو افسوس ہے "-ہانیہ کا لہجہ بھیگنے لگا-

"افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم لعنت بھیجو اُس پر۔۔۔۔کتنی چیپ سوچ ہے اُسکی۔۔۔وہ تم پر اعتبار تو کر نہیں سکا محبت کیا خاک کرے گا"- اُسے میران شاہ کی سوچ پر ازحد حیرت ہوئی تھی- "ویسے مجھے تو لگتا وہ تمہارے ساتھ ٹائم پاس کر رہا تھا اگر سنجیدہ ہوتا تو اُسے تم پر ٹرسٹ بھی ہوتا-فہد کے بارے میں تم سے بات کر کے سب کلئیر کر لیتا"-

"یہ سب اُس لمبو کی وجہ سے ہوا میں اُسے کبھی معاف نہیں کروں گی-جب سے وہ میری زندگی میں آیا میرے ساتھ کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا "-ہانیہ کا دل چاہا اگر وہ سامنے ہو تو اُس کا حلیہ بگاڑ دے"-

"سوری ٹو سے ہانی پر فہد بھائی ایسے نہیں ہیں جیسا تم انہیں سمجھتی ہو۔۔۔۔وہ تو بہت ڈیسنٹ سے ہیں ۔۔۔"-عائشہ کو فہد کی برائی بری لگی تھی- 

"ایک نمبر کا لفنگا انسان ہے وہ"-ہانیہ کا پارہ ہائی ہو گیا-

"جیسا بھی ہے پر تم سے پاگلوں کی طرح پیار کرتا ہے"-عائشہ کو ہانیہ پر غصہ آنے لگا-

"لیکن میں اُس سے بے تحاشہ نفرت کرتی ہوں"-وہ کہہ کہ اندر چلی گئی-

               !--------------------!

آج تائی اماں اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی تھیں-کرن یونیورسٹی تھی-عائشہ نے آج چھٹی کی ہوئی تھی-گیارہ بجے کا ٹائم تھا- ہانیہ اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی- عائشہ نے اُسے کوئی ہزار بار اُٹھایا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنی سوئی ہوئی تھی- گھر پہ صرف وہ تینوں ہی تھے-

"آرام سے وہ جاگ جائے گی"-حارث نے عائشہ کو ہونٹوں پہ انگی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا-

حارث نے ٹھنڈے پانی کا بھرا ہوا جگ ہانیہ کے چہرے پہ انڈیل دیااور وہ جو بڑے مزے سے خوابوں کی وادی میں گھوم رہی تھی ایک دم ہڑبڑا کر اُٹھی-

"سیلاب آگیا۔۔۔۔بھاگو۔۔۔۔ہائے ٹھنڈا پانی۔۔۔"-وہ بیڈ سے چھلانگ لگا کر اُترتے ہوئے چلانے لگی-

حارث اور عائشہ کا ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا-حارث اُچھل کر اُس کے بیڈ پر لیٹ گیا-

"پانی کہاں گیا۔۔۔۔"-وہ کمرے میں حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی-سارا کمرہ تو سوکھا پڑا تھا-

"تمہارے بیڈ پہ ہے اِدھر آجاؤ۔۔۔"-حارث نے اُسے آواز لگائی تو وہ اُن کی طرف متوجہ ہوئی-اُن دونوں کے چہروں پر پھیلی شرارت دیکھ کر اُسے ساری صورتحال سمجھ میں آگئی-

"حارث کے بچے تم آج بچ کہ دکھاؤ میرے ہاتھوں سے ۔۔۔۔"-ہانیہ نے گلدان اُٹھا لیا اور اُسے مارنے کے لیے لپکی-وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف اُترا-

"ہانی میری بات سنو۔۔۔۔"-حارث نے اپنے بچاؤ کے لیے کشن سامنے کر لیا-

"تمہاری مرمت کے بعد سنوں گی۔۔۔۔بس تم ہاتھ آؤ میرے ایک بار۔۔۔۔"-وہ کھا جانے والی نظروں سے اُس کو دیکھتے ہوئے بولی-عائشہ اُن دونوں پر ہنس رہی تھی-

"تم نے مجھے صبح صبح اُٹھا دیا میں آج تمہاری ایک بھی ہڈی سلامت نہیں چھوڑوں گی"-وہ اُس پر وار کرنے کو آگے بڑھی-حارث بندر کی طرح اُچھل کر دوسری طرف ہوا-

"صبح صبح۔۔۔۔خدا کا خوف کرو گیارہ بج رہے ہیں"-حارث کو اُس کی یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی-

"جو بھی ٹائم ہو تم نے مجھے کیوں اُٹھایا"-وہ چیخی تھی-

"تمہارا رزلٹ آ گیا ہانی۔۔۔۔"-حارث کو بچنے کی کوئی امید نظر نہ آئی تو یہ جھوٹ بول دیا-

"کیا؟ "-ہانیہ کے ہاتھ سے گلدان گر کر چور چور ہو گیا-

ہاں تو اور کیا یہی بتانے کے لئے اُٹھایا تھا ہم نے تمہیں ۔۔۔۔"-وہ اُسے سنجیدہ دیکھ کر مزید گویا ہوا-

"تم سچ بول رہے ہو"-اُس نے بے یقینی سے حارث کو دیکھا-

"میں نے آج تک جھوٹ بولا ہے بھلا کبھی ۔۔۔۔"-وہ چہرے کو مزید سنجیدہ بناتے ہوئے بولا- عائشہ ہنس ہنس کے دہری ہو گئی تھی-

"تم فیل ہو گئی ہانی۔۔۔۔"-وہ سر تھام کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا تو ہانیہ کی ٹانگوں سے جیسے جان ختم ہو گئی-وہ وہیں بیٹھ گئی-

"میرے پیپر اتنے اچھے ہوئے تھے-ایگزامینر نے مجھے جان بوجھ کہ فیل کیا ہو گا"-اُس نے فورا رونا شروع کر   تو وہ دونوں گھبرا گئے-

"چھوڑو ہانی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ہو جاتا ہے کبھی کبھی۔۔۔۔"-حارث اُس کے پاس آ کر اُسے تسلی دیتے ہوئے بولا-

"کیوں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔تائی امی تو میری پکی چھٹی کروا دیں گی اب پڑھنے سے اور کچن میں میری کلاسز ہوں گی اب۔۔۔۔ہائے نہیں ۔۔۔۔"-وہ روتے ہوئے دہائیاں دینے لگی-

"ہاہاہا۔۔۔مطلب ہمارے برے دن شروع ہونے والے ہیں "-حارث نے اُسے چڑایا تو وہ اُٹھ کہ اُسے مارنے کے لیے لپکی مگر اس سے پہلے کہ وہ اُس تک پہنچتی ٹوٹے ہوئے کانچ کے اوپر پیر پھسلا اور وہ دھڑام سے نیچے گر گئی-ایک درد بھری چیخ ہلق سے بلند ہوئی- عائشہ اور حارث کے سانس رک گئے-

"ہانی ۔۔۔۔"-وہ دونوں اُس کی طرف بڑھے-کانچ کے چبنے سے کئی جگہ سے خون نکل رہا تھا- اُس کی ایڑھی میں کانچ کا بڑا سا ٹکڑا اندر تک گھس گیا تھا- پورا پیر خون سے سرخ ہو رہا تھا- وہ درد سے چلا رہی تھی- عائشہ نے بھی ساتھ ہی رونا شروع کر دیا-

"او ہو پلیز اب یہ عورتوں والا ڈرامہ نہ شروع کر دینا ۔۔۔کچھ نہیں ہوا اِسے"-حارث نے عائشہ کو دیکھ کر چڑتے ہوئے کہا-

"حارث کتنا خون نکل رہا ہے دیکھو تو"-عائشہ نے بے ہوش ہوتی ہانیہ کو دیکھا-

"ہانی۔۔۔۔آنکھیں کھولو"-وہ اُس کے گال تھپتھپانے لگی-

"اِسے ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں"-حارث نے اُس کی تشویش ناک حالت دیکھتے ہوئے کہا-

"میں چادر لے کہ آتی ہوں"-عائشہ الماری کی طرف بڑھی-

                  ************

وہ دونوں بے چینی سے کوریڈور میں ٹہل رہے تھے-پریشانی حد سے سوا تھی- گھر والوں کے ریکشن کے بارے میں سوچ سوچ کہ عائشہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا- 

"حارث اب کیا ہو گا"-وہ پریشانی سے گویا ہوئی-

"کچھ نہیں ہو گا تم پلیز میرا دماغ خراب مت کرو"-وہ پہلے ہی پریشان تھا اور اوپر سے اُس کی بار بار رونی شکل دیکھ کر اُس کو غصہ آگیا-

"یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے نہ تم وہ بکواس کرتے اور نہ یہ سب ہوتا"-عائشہ نے تڑخ کر جواب دیا-

"دیکھو تم۔۔۔۔"-اِس سے پہلے کہ وہ اگلی بات کرتا اُس کی نظر سیڑھیوں سے اُترتے فہد پر پڑی-

"فہد بھائی۔۔۔۔"-اُس نے کہا تو عائشہ بھی اُس طرف دیکھنے لگی-

فہد نے آواز کی سمت دیکھا تو اُن دونوں کو وہاں دیکھ کر وہ حیران ہوا-دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتا اُن کی طرف چلا آیا-

"حارث تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو ؟"-وہ عائشہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا-

"وہ ہانی گر گئی ہے ہم اُس کو لے کہ آئے ہیں"-حارث نے وارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا-

"ہانی گر گئی ہے" زیرِ لب وہ الفاظ دہرائے گیے-

وہ چار لفظ اُس کی دھڑکنیں مدھم کر گئے تھے-

"جی بھائی۔۔۔اور یہ سب اِس کی وجہ سے ہوا"-عائشہ نے کھا جانے والی نظروں سے حارث کو دیکھا-

"تم بھی تو ساتھ ہی تھی نہ۔۔۔میں نے اکیلے نے تو کچھ نہیں کیا نہ"-وہ دوبدو جواب دیتے ہوئے بولا-

آئیڈیا تو تمہارا ہی تھا نہ"-اُن کی بحث پر فہد نے اکتا کر اُن کو دیکھا-

"سٹاپ اٹ یار۔۔۔بند کرو یہ بچپنا اور یہ بتاؤ وہ کیسے گری ہے"-فہد کی جان پر بن رہی تھی- 

"ٹوٹے ہوئے کانچ پر پیر پھسلا ہے اُس کا۔۔۔۔"-عائشہ نے پریشانی سے بتایا-

"مائی گاڈ۔۔۔ایسا کیا محاذ سر انجام دے دہے تھے تم لوگ"-فہد نے حیرت سے اُن کو دیکھا-

"فہد بھائی آپ اُس کو چھوڑیں آپ پلیز ڈاکٹر سے ملیں اور پوچھیں کے ہانی کیسی ہے"-عائشہ نے اُس کو ٹوکتے ہوئے کہا-

"اوکے حارث تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔"-فہد نے حارث کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا-عائشہ وہیں بینچ کر بیٹھ کر دل ہی دل میں خیریت کی دعا کرنے لگی-

                   ***********

ڈاکٹر نے اُس کی حالت خطرے سے باہر قرار دے دی مگر ایک دو دن وہیں رکنے کے لئے کہا کیونکہ وہ اب چلنے کے قابل نہیں تھی- حارث نے فون کر کہ ساری سچائی بتا دی جس پرخوب عزت افزائی ہوئی- دادا جان اُسی وقت ہاسپٹل آگیے اور اب وہ تب سے یہیں براجمان تھے- گھر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے-

"دادا جان اب میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں"-ہانیہ نے اُن کو تسلی دی-

"ہاں الله کا شکر ہے کہ تم ٹھیک ہو- میں اب تمہارے پاس رہوں گا"-وہ سیدھے ہو کر بینچ کر بیٹھتے ہوئے بولے-

"حارث ہے نہ میرے پاس آپ فکر نہ کریں- آپ بس گھر جا کر آرام کریں-رات ہونے والی ہے آپکی اپنی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی"-ہانیہ اُن کووہیں ڈھیرا جماتے دیکھ کر پھر بولی-

"ارے بیٹا تم میری فکر مت کرو میں تو اچھا خاصا ہوں"-وہ پوتی کو پیار سے دیکھتے ہوئے بولے- "اور اِس ناہجار کی تو تم بات ہی چھوڑو اِس پر تو مجھے ایک فیصد بھی اب بھروسہ نہیں ہے یہ سب اِسی کی وجہ سے تو ہوا ہے"-اُنہوں نے سر جھکائے ہانیہ کے پاس بیٹھے حارث کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ جو پہلے ہی شرمندہ تھا مزید ہو گیا-

اِسی اثنا میں فہد کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا-اُن تینوں نے اُس کو دیکھا-اُسے دیکھتے ہی ہانیہ کی تیوری چڑھ گئی-

"السلام و علیکم۔۔۔!"-فہد نے مہذب انداز میں سلام کیا-

"وعلیکم السلام آؤ فہد ۔۔۔۔"-دادا جان اُسے دیکھ کر خوش ہو گیے-

فہد نے ہاتھ میں پکڑا بکے ٹیبل پر رکھ دیا-

"کیسی طبیعت ہے اب آپکی؟ "-وہ نرمی سے اُس کے کمزور چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا جس پر ذردیاں گھل رہی تھیں- ایک ہی دن میں وہ کیسے مرجھا گئی تھی- ہانیہ نے نفرت سے منہ پھیر لیا-اُس کی بات کا جواب دینا گوارا نہیں کیا تھا- دادا جان تو اُس کے لائے ہوئے بکے کی طرف متوجہ تھے مگر حارث نے یہ منظر حیرت سے دیکھا- ہانیہ کا ایسا ریکشن اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا-فہد نے شرمندگی سے سر جھکا لیا- اُسے شدید انسلٹ فیل ہوئی مگر وہ بھی کیا کرتا دل کے ہاتھوں مجبور تھا- 

تبھی نرس نے آکر اطلاع دی کے ڈاکٹر نے اُن کو بلایا ہے-

"حارث تم میرے ساتھ آؤ"- اُنہوں نے حیران پریشان حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا- "فہد بیٹا ہم کچھ دیر میں آرہے ہیں تم یہیں رکنا تب تک"-ہانیہ نے اُن کے اِس شاہانہ آرڈر پر غصے سے دانت پیسے-فہد اپنی جگہ چور بن کر رہ گیا-

وہ دونوں باہر نکل گئے- فہد نے منہ پھلائے بیٹھی اُس دشمنِ جاں کو دیکھا-

"آپ کیوں آئے ہیں ؟"- وہ اُسے سٹول پر بیٹھتے دیکھ کر غصے سے بولی-

"دماغ نے بہت روکا تھا مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلا آیا"- وہ اُسے نگاہوں کے راستے دل میں اتارنے لگا-

"اِس طرح کی چیپ حرکتیں کر کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں آخر۔۔۔۔"-ہانیہ کو اُس کی نظریں اپنے جسم میں گڑتی ہوئی محسوس ہوئیں-

"یہی کہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں"-وہ اُسے تپانے لگا-اُس کا سرخ چہرہ دیکھ کر فہد کو مزہ آنے لگا-

"مگر میں آپ سے سخت نفرت کرتی ہوں"-وہ رُخ موڑتے ہوئے بولی-کیونکہ اُس کی نظرو سے بچنے کاایک ہی حل نظر آیا-

"میں انتظار کروں گا اُس دن کاجب تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے گی"-اُس کا لہجہ پر امید تھا- 

اور وہ دن کبھی نہیں آئے گا"-ہانیہ نے اُس کی امیدوں پر پانی پھیرا-

"اپنی محبت پر پورا بھروسہ ہے"-وہ مسکرایا-ہانیہ کو وہ مسکراتا ہوا زہر لگا-

"خاصے ڈھیٹ ہیں آپ ۔۔۔مجھے سب کی نظروں میں گرا کر ہی دم لیں گے"-ہانیہ زچ ہوتے ہوئے بولی- 

ہانیہ ایسا دن کبھی نہیں آئے گا- میں اپنی ذات پر ہر درد سہہ سکتا ہوں مگر تمہیں چھونے والی گرم ہوا بھی مجھے منظور نہیں"-اُس کا لہجہ جزبات کی شدت سے چور تھا- ایک لمہے کے لیے ہانیہ بھی چپ ہو گئی- اتنی شدت تھی اُس کی محبت میں وہ بے ساختہ اُسے دیکھے گئی- عائشہ ٹھیک کہتی تھی وہ واقعی اُس کے لئے پاگل تھا- 

"کیا آپ سچ میں مجھ سے پیار کرتے ہیں؟ "-وہ اچانک بولی- فہد حیران ہوااُس کے اِس سوال پر-

"آزما کر دیکھ لو۔۔۔۔"-فہد نے دیوانگی سے اُس کو دیکھا-

"سوچ لیں۔۔۔۔"-وہ اُسے دیکھتے ہوئے بولی-

"سوچ لیا"-وہ اُس کی پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کرنے لگا-

"آپ آج کے بعد میرے سامنے نہیں آئیں گے"-پہلی پہیلی سلجھ گئی-

فہد کو اُس سے اتنی بے رخی کی امید نہیں تھی- 

"ٹھیک ہے ۔۔۔۔"-اپنے پیار کی آزمائش کے لیے پہلا کڑوا گھونٹ پی لیا-

"ہمارے گھر بھی کبھی نہیں آئیں گے -بھول کہ بھی نہیں ۔۔۔۔"-دوسرا پتا پھینکا گیا-

"منظور ہے"-وہ یہ بھی کر سکتا تھا- 

"آپ میران شاہ کو جا کر بتائیں گے کہ آپ کے اور میرے درمیان کچھ نہیں ہے- میرا امیج اُس کی نظروں میں پہلے کی طرح کلین کرنا ہو گا"-ہانیہ نے حد کر دی-

"یہ بھی منظور ہے اور کچھ۔۔۔۔"-وہ اپنے ضبط کو آزمانے کے چکروں میں آخری حد کو چھو رہا تھا-

میرے اور میران شاہ کے بیچ آنے کی کبھی کوشش نہیں کریں گے"- وہ اُس کو توڑ کر ریزہ ریزہ کرنا چاہتی تھی- 

"نہیں آؤں گا۔۔۔۔"-فہد کو لگا وہ اندر سے ٹوٹ گیا ہو- بھرم رکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا- 

"آپ یہاں سے چلے جائیں اب پلیز۔۔۔۔"-ہانیہ نے اُس کو دھواں دھار چہرہ دیکھتے ہوئے کہا-

فہد نے وہاں سے اُٹھنے میں لمہہ بھی نہیں لگایا تھا-وہ شاید اِسی انتظار میں تھا-اُس کے سامنے ٹوٹ کر بکھرنا نہیں چاہتا تھا- 

وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا-ہانیہ نے سر گھٹنوں میں دے لیا-دل پہ ایک بوجھ آن پڑا تھا- دروازے کی اوٹ میں سب سنتی عائشہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی- اُس انسان پہ اُسے بے تحاشہ ترس آیا-وہ نادان لڑکی اُسے کس جہنم میں دھکیل چکی تھی- عائشہ کو اُس کی اتنی برداشت پر حیرت ہوئی- عائشہ کو ہانیہ پر غصہ آیا۔۔

ہانیہ ٹھیک ہو کر گھر واپس آ چکی تھی مگر ابھی ڈاکٹر نے چلنے سے منع کیا تھا- جب تک ٹانکے نہ کھل جاتے وہ چل پھر نہیں سکتی تھی-وہ سارا دن کمرے میں پڑی بور ہوتی رہتی عائشہ اُس کی کھیچی کھیچی رہنے لگی تھی- ہانیہ پوچھ پوچھ کر تھک گئی تھی مگر وہ ہمیشہ ٹال مٹول سے مام لیتی-آج بھی وہ صبح سے کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی کوئی بھی گھر پہ نہیں تھا- عائشہ اپنے کاموں میں مصروف تھی- اُس نے بور ہو کر ٹی وی آن کر لیا تبھی وہ چلی آئی-

"ہانی تم سے کوئی ملنے آیا ہے"-اُس نے آکر سنجیدگی سے اطلاع دی-ہانیہ بے ساختہ اُسے دیکھے گئی-کتنی بدل گئی تھی وہ-

"کون آیا ہے؟ "-اُس نے آبرو اچکا کر حیرت سے استفسار کیا-

"میران شاہ آیا ہے"-وہ کہہ کر چادر درست کرنے لگی- بکھری چیزیں سمیٹی-ہانیہ کتنے ہی لمہے اُس کو دیکھتی رہی اُسے یقین نہیں آرہا تھا- 

"میں اُسے یہیں بھیج دیتی ہوں کیونکہ تم تو نیچے جا نہیں سکتی"-وہ کہہ کر جانے لگی تو   ہانیہ نے اُس کا بازو تھام لیا - وہ رک گئی مگر پلٹ کر نہ دیکھا-

"وہ کیوں آیا ہے؟ "-اُس نے عائشہ کو بٹھانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی-

"بتاؤ عاشی وہ کیوں آیا ہے"- اس نے دوبارہ پوچھا تو وہ غصے سے پھٹ پڑی-ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اُس کی طرف مڑی-

خود تو کہا تھا فہد بھائی کو کہ جا کہ تمہاری صفائی دیں اُسکو۔۔۔۔تو فہد بھائی نے اپنا کام کر دیا ہے اِسی لیے وہ تم سے ملنے آیا ہے"- 

"عاشی۔۔"-ہانیہ نے آنکھوں میں انسو لیے اُس کو دیکھا-

"ہانیہ میڈم پلیز اب یہ ڈرامہ بازی بند کر دیں-آپ جو چاہتی تھی وہی ہو رہا ہے اب کس بات پہ رونا آرہا ہے اپکو۔۔۔"-عائشہ اُس کے انسوؤں سے متاثر نہیں ہوئی تھی- 

"تم ہمیشہ اُس لمبو کی سائیڈ لیتی ہو- کبھی میری طرف کی بات نہیں کرتی "-اُس نے انسو صاف کرتے ہوئے کہا-

"ہانیہ پلیز سنبھل جاؤ اب بھی وقت ہے- ہیرے اور لوہے کی پہچان کر لو- ایسا نہ ہو کہ کل کو تمہیں پچھتانے کا موقع بھی نہ ملے"-وہ اُس کے پاس بیٹھ کر اُسے سمجھانے لگی-

"میران شاہ مجھ سے پیار کرتا ہے عاشی ۔۔۔۔وہ بہت اچھا ہے"-ہانیہ نے اُس سے ذیادہ خود کو تسلی دی-

"وہ اچھا ہے بلکہ بہت اچھا ہے پر فہد بھائی سے زیادہ اچھا نہیں ہے - ہانی فہد بھائی تم سے بہت پیار کرتے ہیں وہ تمہیں بہت خوش رکھیں گے"-عائشہ کو وہ نادان سی لڑکی بہت پیاری تھی وہ اُس کو غلط راستے پر جاتے نہیں دیکھ سکتی تھی- 

"تم میران کو اوپر بھیج دو"-اُس نے بات ہی ختم کر دی-عائشہ چپ چاپ نیچے چلی گئی-

کچھ ہی دیر میں وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا- ہانیہ نے سر جھکا لیا- دیکھنے کی ہمت نہیں تھی- 

"کیسی ہو؟ "-وہ قریب آکر گویا ہوا-

"کیسی ہو سکتی ہوں"-ہانیہ نے شکوہ کناں نظروں سے اُس کو دیکھا - وہ شرمندہ ہو گیا-

"ایم سوری ہانی۔۔۔۔ایم رئیلی رئیلی سوری۔۔۔پلیز فار گیو می"-وہ اُس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے بولا-

"آپ نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے"-اُس کا لہجہ بھیگ گیا- میران شاہ کے دل کو کچھ ہوا- وہ لڑکی واقعی بہت معصوم تھی- 

"سوری اُس دن کے لیے۔۔۔پلیز معاف کر دو"-وہ کان پکڑ کر بولاتو ہانیہ کا دل پل میں اُس کی طرف سے صاف ہو گیا-

"ٹھیک ہے۔۔۔مگر آپ آئندہ ایسا بیہو نہیں کریں گے مجھ سے پرامس کریں"-اُس نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا تو میران شاہ نے دونوں ہاتھوں میں اس کا وہ ہاتھ تھام لیا-

"ایک دم پکا پرامس۔۔۔"-

"اوکے معاف کیا"-ہانیہ نے اُس پہ احسان جتایا-

"یہ کیسے ہوا؟ "- میران شاہ کا اشارہ اُس کے پاؤں کی طرف تھا- 

"وہ میں پھسل گئی تھی"-اُس نے معصومیت سے بتایا تو وہ اُسے گھورنے لگا-

"دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی"-میران نے اُس کے پاؤں پر اپنا ہاتھ پھیرا تو ہانیہ کو لگا سارا درد اُس کے ہاتھ نے اپنے اندر چن لیا ہو-

زخم کو ایسی مسیحائی کی ہی ضرورت تھی- 

"اپنا دیہان رکھا کرو پلیز"- اُس نے پیار سے اُس کا چہرہ دیکھا-

"جی اچھا۔۔۔"وہ شرم سے لال ہو گئی-چہرے پر دھنک رنگ بکھرنے لگے- آنکھوں میں دیے جل اُٹھے-میران شاہ نے دلچسپی سے اُس کا مشرقی روپ دیکھا-

"اچھا ایک بات پوچھنی ہے تم سے اگر اجازت دو تو"- وہ اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا-

"جی پوچھیں ۔۔۔۔"-ہانیہ بمشکل یہی بول پائی-

"ہانیہ شفیق ول یو میری می"- بڑے پر امید لہجے میں پوچھا گیا-

ہانیہ کے کانوں کی لویں تک سرخ ہو گئیں- دل کی دھڑکن معمول سے کئی گنا بڑھ گئی-پلکوں کی جھالر گر گئی-

"بولو ہانی۔۔۔۔"-اُسے چپ پاکر وہ پھر گویا ہوا-

"ہانیہ سے بولنا محال ہو گیا- اُس کی خاموشی میں ہی اقرار چھپا تھا- میران شاہ مسکرایا تھا- 

"میں نے ماما سے بات کر لی ہے وہ ایک دو روز میں آئیں گی۔۔اب میں جلد سے جلد اپنے اِس رشتے کو نام دینا چاہتا ہوں تاکہ غلط فہمی کی دیوار پھر کبھی ہمارے درمیان حائل نہ ہو"- وہ مدھم سے لہجے میں سرگوشیاں کر رہا تھا- ہانیہ مدہوش ہوتی جا رہی تھی- 

"تم سن رہی ہو نہ۔۔۔۔"-میران شاہ نے اُسکا ہاتھ دباتے ہوئے پوچھا-

" جی۔۔۔۔"- وہ شرم سے بس یہی کہہ سکی تھی- 

اُس دن میران شاہ نے سارے اقرار اُسے سونپ دیے- ہانیہ خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کرنے لگی- وہ دن اُس کی زندگی کا یادگار دن تھا- اُس کا رزکٹ بھی آگیا تھا- وہ بہت خوش تھی- زندگی اتنی حسین ہو جائے گی اُس نے سوچا بھی نہیں تھا- اُسے لگا اب سب ٹھیک ہو جائے گا- اس خوش فہمی پر کاتب تقدیر دیرے سے مسکرایا تھا- وہ پاگلی کہاں جانتی تھی کہ تقدیر آگے کیا کھیل کھیلنے والی ہے-

                   *************

میران شاہ کی ماما تین دن بعد ہی اُسے منگنی کی انگھوٹھی پہنا گئیں- سب گھر والے حیران تھے- دادا جان اتنی جلدی اِن سب کے حق میں نہیں تھی- اُن کے نزدیک ابھی وہ بہت چھوٹی تھی- عائشہ کی شادی سے پہلے وہ اُس کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے- مگر ماریہ نے سب کو منا ہی لیا- پھر میران شاہ دیکھا بھالا تھا انکار کی کوئی وجہ نہیں تھی- وہ لوگ جلد سے جلد شادی کرنا چاہتے تھے- اس لیے میران شاہ کے فائنلز کے فورا بعد شادی کی تاریخ رکھنے کا فیصلہ ہوا- ہانیہ نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا- وہ اب باقاعدگی سے یونیورسٹی جا رہی تھی- وقت تیزی سے بیتنے لگا- میران شاہ کے پیپر ختم ہو گئے- شادی کی تاریخ دسمبر کی چوبیس فائنل ہوئی- ہانیہ بہت خوش تھی- وہ کافی کا مگ لے کر ٹیرس پر آگئی- آج ناجانے کتنے دن بعد یہاں آئی تھی- 

دسمبر کی ٹھٹھرا دینے والی سردی گودے میں گھس رہی تھی- دھند کی چادر نے تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا- اتنی سردی میں ہاٹ کافی بہت سکون دے رہی تھی ہر گھونٹ میں گرماہٹ تھی- 

عائشہ بھی اپنی کافی لے کر وہیں چلی آئی-

"کیا سوچ رہی ہو؟ "- وہ اُس کو کھویا دیکھ کر پوچھنے لگی-

"کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔"- اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دلگی-

"ہانی تم خوش ہو"- عائشہ نے اُس کو کھوجتی نظروں سے دیکھا-

"اف کورس یار بہت خوش ہوں"- اُس کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے-

"اچھا عاشی ایک بات تو بتاؤ؟"- ہانیہ کچھ یاد آنے پر بولی-

"کیا؟ "- 

"یہ سامنے والے بنگلے میں آج کل کافی انجان لوگ آتے ہیں خیریت ہے"- اُس کا اشارہ سامنے والے بنگلے کی طرف تھا-

"ہاں یہاں ایک نئی فیملی آئی ہے"- عائشہ نے نارمل سے انداز میں بتایا-

"مگر یہاں تو وہ لوگ رہتے تھے نہ ۔۔۔۔"- فہد کا نام زبان پہ آتے آتے رک گیا-

"وہ لوگ کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں"- عائشہ نے سنجیدگی سے بتایا- جس لہجے میں سوال آیا تھا اُسی لہجے میں جواب دیا گیا تھا- 

ہانیہ حیران رہ گئی- اُسے تو پتہ بھی نہ تھا- جس طرح وہ اُن کے آنے سے بے خبر تھی ویسے ہی اُن کے جانے سے بھی بے خبر تھی- ہانیہ کا دل ایک دم ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا- اور وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی- وہ کمرے میں آگئی- وحشت سی ہو رہی تھی- یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ کھو گیا ہو- وہ اپنی حالت سمجھ نہیں پا رہی تھی- یہ اُس کو کیا ہو رہا تھا- عائشہ بھی کچھ دیر بعد اُس کے پیچھے ہی چلی آئی-

"تمہاری ساس کا فون آیا تھا وہ تمہیں شادی کے ڈریس کے لیے ساتھ لے کہ جانا چاہتی ہیں اب بتاؤ کب فری ہو"- عائشہ اُس کی حالت سے انجان تھی- 

" کل مجھے آف ہے"- اُس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے بتایا-

"ٹھیک ہے میں امی کو بتا دیتی ہوں"- وہ اُس کا اور اپنا کپ لے کر کمرے سے نکل گئی-

ہانیہ کو گھٹن محسوس ہونے لگی- اتنی سردی میں بھی اُسے پسینہ آرہا تھا- 

"اللہ جی یہ مجھے کیا ہو رہا ہے"- وہ کمرے میں ادھر ادھر چکر لگانے لگی- 

جب کافی دیر نہ حالت سنبھلی تو رونے بیٹھ گئی-یہ سب اُس کی سمجھ سے باہر تھا- وہ کیوں اتنی بے چین ہو گئی تھی-

                ************

اگلے دن دو بجے کے قریب وہ اور عائشہ حارث کے ساتھ بازار آگئیں- میران شاہ اور اُسکی ماما بھی وہی تھے- پہلے وہ لوگ جیولر کے پاس گئے- ہانیہ غائب دماغی سے سب کام کر رہی تھی- کل سے بے چینی اپنے عروج پر تھی- میران کی نگاہوں کا حصار مسلسل اُسے گھیرے میں لیے ہوئے تھا- وہاں سے وہ لوگ برائڈل ڈریس کے لیے ایک شاپ میں آگیے- ہانیہ وہاں بھی دیہان نہیں دے رہی تھی- عائشہ جس ڈریس کے بارے میں اُس کی رائے پوچھتی وہ ہوں ہاں میں جواب دے دیتی-"تنگ آکر وہ بول ہی پڑی-

"ہانی کہاں ہے تمہارا دماغ۔۔۔۔میں کب سے دیکھ رہی ہوں تم کھوئی کھوئی ہو۔۔۔طبیعت تو سیٹ ہے نہ تمہاری"- عائشہ کو اُس کا زرد پڑتا رنگ دیکھ کر تشویش ہوئی-

"ہاں میں ٹھیک ہوں"- اُس نے خود کو سنبھالا-

عائشہ نے سر جھٹک کر اُس کو ریڈ کلر کا ایک لہنگا دکھایا- جس پر گولڈن کام ہوا تھا- وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا- 

"یہ کیسا ہے؟ "- عائشہ نے وہ اُس کو دکھایا-

"اچھا ہے۔۔۔"- وہ سرسری سا دیکھ کر بولی-

دیہان اُس طرف ہوتا تو وہ دیکھتی نہ- عائشہ اُس کو کھول کر دیکھنے لگی-

تبھی ہانیہ کی نظر کچھ دور کھڑے فہد پر پڑی- وہ یونیفارم میں ملبوس تھا- شاید ڈیوٹی پر تھا- ہانیہ یک ٹک اُس کو دیکھنے لگی- دل کی بے چینی ایک دم سے کم ہو گئی تھی- عائشہ کی نظر بھی اُس پر پڑ گئی-

"ارے یہ تو فہد بھائی ہیں"- وہ خوشی سے کہتے ہوئے اُس کی طرف بڑھی-

"فہد بھائی آپ یہاں۔۔۔"- اُس نے قریب جاکر کہا تو فہد ایک دم چونکا-

"عائشہ تم۔۔۔۔"- وہ حیرت سے بولا تھا- ایک مسکراہٹ لبوں کو چھو گئی- مگر جب نظر کچھ فاصلے پر کھڑی ہانیہ پر پڑی تو اُس کے مسکراتے لب سکڑ گئے-

"کیسے ہیں آپ؟ "- عائشہ اُسے دیکھ کر بہت پرجوش تھی- 

"اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیا حال چال ہیں"- وہ اُسے نظر انداز کر گیا- اور آج پہلی بار اُس کا یہ نظر انداز کرنا ہانیہ کو بہت چبھا تھا- وہ پورے چار مہینوں بعد اُسے دیکھ رہی تھی- فہد نے تو یوں منہ پھیرا تھا جیسے وہ اُسے جانتا تک نہیں تھا- 

"میں بھی ٹھیک ہوں مریم انٹی کیسی ہیں"- عائشہ ہانیہ کے تاثرات سے انجان تھی- 

"ماما بلکل ٹھیک ہیں تمہیں بہت مس کرتی ہیں کبھی چکر لگانا"- وہ اب عائشہ کو ہی دیکھ رہا تھا- 

"جی ضرور آؤں گی"- وہ اُسے یقین دلاتے ہوئے بولی-

شاپنگ کرنے آئے ہو"- فہد نے اس کے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگز دیکھ کر سرسری سا پوچھا-

"جی ہانیہ کی شادی ہے تو اُس کے لیے برائڈل ڈریس لینا ہے"- عائشہ نے دھماکا کیا تھا- جس میں فہد مرتضی کا وجود بھک سے اُڑ گیا- دل کی دھڑکن تھم سی گئی-اُس سے اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونا محال ہو گیا- وہ اتنے مضبوط اعصاب کا مالک انسان اس لمہے اتنا کمزور نظر آرہا تھا- مگر اُس نے خود کو سنبھال لیا- وہ دھیرے دھیرے چلتا ہواہانیہ کے قریب آیا-

"مبارک ہو شادی کی بہت بہت۔۔۔۔"- اُس کے کے لہجے میں طنز تھا- ہانیہ کا سر جھک گیا-

وہ کچھ نہیں بولی تھی- فہد کو مزید دکھ ہوا- ناجانے کیوں ہر بار دل خوش فہم ہو جاتا تھا کہ وہ اُس کے پیار کی شدت کو سمجھ لے گی-

پھر وہ کچھ دیر عائشہ سے باتیں کرنے کے بعد وہاں سے چلا گیا- وہ لوگ گھر واپس آگیے- ہانیہ کے اندر باہر ایک اگ لگی ہوئی تھی- وہ گھر آتے ہی کمرے میں گھس گئی-

"پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو۔۔۔۔ایٹی ٹیوڈ تو دیکھے کوئی"- وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں چکر لگانے لگی- ناجانے غصہ کس بات پر آرہا تھا-

مہندی رچے گی تیرے ہاتھ

ڈھولک بجے گی ساری رات

ڈھولکی کی تھاپ پہ لڑکیاں گا رہی تھی- پورا لان برقی قمقموں سے جگ مگ کر رہا تھا- اسٹیج کو گلاب اور گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا- ہر طرف شور برپا تھا- سب لوگ بہت خوش تھے- مگر اُس گھر میں دو مکین ایسے تھے جو اندر سے تو دور کی بات ہے باہر سے بھی خوش نہیں تھے- لڑکیوں کے جرمھٹ میں بیٹھی عائشہ اور اپنے کمرے کے آئینے کے سامنے کھڑی ہانیہ۔۔۔

"عائشہ اب تم کچھ سنا دو"- اُس کی ایک دور کی کزن بولی- تمام لڑکیاں خاموش ہو گئیں- 

"مجھے کچھ نہیں آتا"- وہ سنجیدگی سے بولی تھی- 

"لو جی اِس نے تو صاف منع کر دیا"- ایک دوسری نے منہ بناتے ہوئے کہا-

"لگتا اِس کو اپنی کزن کی شادی کی خوشی نہیں ہو رہی"- فرح جو اُس کی پھوپھو ذاد تھی نخوت سے بولی-

"ارے بھئی خوشی کیسے ہو گی - اِس کو تو اپنی شادی کا انتظار تھا مگر ہو پہلے اِس کی کزن کی گئی مطلب اِس کے ارمانوں پہ تو اوس پڑ گئی- تو پھر یہ خوش کیسے ہو سکتی ہے"- فرح کی چھوٹی بہن نے طنز کیا- اُسے عائشہ سے خدا واسطے کا بیر تھا- عائشہ کا چہرہ مارے توہین سے سرخ پڑ گیا- اتنی انسلٹ وہ بھی سب کے سامنے وہ کچھ بول ہی نہ پائی- سب لڑکیوں کے دبے دبے قہقے سنائی دیے-

"بس اپنی اپنی قسمت کی بات ہے- جس کی قسمت پہلے کھل گئی اُس کا ہو رہا ہے"- فرح نے تمسخر سے کہا- "فکر نہ کرو کوئی تمہارے لیے بھی آ ہی جائے گا- جس کو کوئی نہیں ملے گا وہ تمہارے پاس آجائے گا"- فرح اپنی بات کے اختتام پہ خود ہی ہنسی تھی- 

عائشہ سے وہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا- وہ چپ چاپ انسو پیتی وہاں سے اُٹھ گئی- دل پہلے ہی اداس تھا مزید ہو گیا- وہ ہانیہ کے پاس چلی آئی- آدھ کھلے دروازے کو اپنے پیچھے آہستگی سے بند کیا-عائشہ نے اُس کو دیکھا- ہرے اور پیلے لہنگے میں پھولوں کا زیور پہنے وہ بہت ہی خوبصورت اور معصوم لگ رہی تھی- بانہوں میں ہری اور پیلی چوڑیاں اُس کے حسن کو مزید چار چاند لگا رہی تھیں-

کسی بھی قسم کے میک اپ سے عاری اداس سا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا پتہ دے رہا تھا- ہانیہ نے اُس کو نظریں اُٹھا کر دیکھا- عائشہ حیران رہ گئی- جن آنکھوں میں خواب اور ارمان ہونے چاہیے تھے وہاں نمی چمک رہی تھی- وہ اُس کے پاس آگئی-

"کیا ہوا ہانی؟ "- اس نے اُس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا-

"کچھ بھی نہیں لیکن دل بہت اداس ہے"- وہ اُس کے کاندھے سے سر ٹکا کر بولی-

"طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمہاری ۔۔۔۔"-وہ تشویش سے بولی-

"پتہ نہیں عاشی دل گھبرا رہا ہے"- وہ رونے لگی تو عائشہ پریشان ہو گئی-

"ہانی کیا بات ہے بتاؤ مجھے "- وہ اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے بولی-

ہانیہ نے اپنے انسو صاف کیے-

"عاشی کیا میران شادی کے بعد بھی مجھ پر ویسے ہی شک کرے گا جیسے پہلے کرتا تھا"- اُس کے چہرے پر انسؤوں کے نشان اب بھی باقی تھے-

"تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو- ایسا کچھ نہیں ہو گا"-عائشہ نے اُسے تسلی دی مگر خود وہ اندر سے مطمئن نہیں تھی- 

"میرا دل کیوں نہیں مانتا"- وہ اپنی کلائیوں میں پڑی چوڑیوں سےکھیلنے لگی-

"تو مت کرو پھر شادی۔۔۔۔پلیز ہانی چھوڑ دو اُسکو"- عائشہ اپنے دل کی بات دل میں زیادہ دیر نہیں چھپا سکی تھی- 

"کیا کروں پھر میں ۔۔۔۔"- وہ رونے لگی-

"ہانی تم فہد بھائی سے شادی کر لو وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں"- عائشہ نے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا-

''وہ تو میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے اب"- ہانیہ کو اُس دن کا منظر یاد آگیا-

"وہ سب بھی تو تمہاری مرضی پر ہو رہا ہے نہ"- عائشہ نے اُسے یاد دلایا-

"نہیں چھوڑو تم بس اُس کو۔۔۔۔"- ہانیہ نے بات ختم کر دی- مگر دل اُس کے نام پہ ناجانے کیوں بے چین ہو اُٹھا-

عائشہ نے ایک تاسف بھری نگاہ اُس پہ ڈالی- تبھی کرن اپی نے اُن کو باہر بلایا- مہندی کی رسم کا وقت ہو چکا تھا-

******************

چٹا کوکڑ بنیرے تھے

کاسنی دوپٹے والیے

منڈا صدقے تیرے تے

لڑکے والے مہندی لے کر آچکے تھے- اور اس وقت اُن کا لڑکی والوں کے ساتھ گانوں اور ڈانس کا کمپیٹیشن جاری تھا- دونوں میں خوب مقابلہ ہو رہا تھا- ہانیہ کو اسٹیج پر لا کر بٹھا دیا گیا- لمبا سا گھونگھٹ اوڑھے وہ عورتوں کے درمیان بے بسی کا منہ بولتا ثبوت بنی بیٹھی تھی- عائشہ اُس سے کچھ فاصلے پر پلر سے ٹیک لگائے اداس سی کھڑی تھی- تبھی اُس کی نظر مریم اور فہد پر پڑی- عائشہ کا موڈ پل بھر میں خوشگوار ہوا- وہ فورا اُن کی طرف بڑھی-

"انٹی۔۔۔۔۔"- اُس نے بے تابی سے پکارا-

اُنہوں نے فورا اُسے گلے لگا لیا- عائشہ سے مل کہ اُن کی خوشی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا- 

"کیسی ہے میری بیٹی؟"- اُنہوں نے عائشہ کو پیار کیا-

"میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔پر تم سے ناراض ہوں تم ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئی"-اُنہوں نے مصنوعی گفگی کا اظہار کیا-

"سوری انٹی میں بس آنے ہی والی تھی"- وہ اُن کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیار سے بولی-

"رہنے دو تم۔۔۔۔بس بہانے ہیں سب"- وہ اُس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولیں تو وہ مسکرا دی-

"فہد بھائی آپ کیسے ہیں؟ "- عائشہ نے پاس کھڑے فہد کو چھیڑا-

"بڑی جلدی خیال آ گیا آپ کو پوچھنے کا"- وہ اُسے گھورتے ہوئے بولا-

مریم اُن کو وہیں چھوڑ کر اسٹیج کی طرف بڑھ گئیں-

"اب بتائیں کیا کہہ رہے تھے آپ"- وہ اُن کے جاتے ہی اُس سے لڑنے کے سٹائل میں بولی-

"تمہیں نا میری ماما کی بیٹی ہونا چاہیے تھا- تمہارا اُن کے بغیر اور اُن کا تمہارے بغیر دل نہیں لگتا"- فہد نے اُسے چھیڑا-

"آپ جیلس ہو رہے ہیں کیا"- وہ اُسے چھیڑنے لگی تو وہ اُسے گھور کر رہ گیا-

"چلو یار میں اب چلتا ہوں کل ایک میٹنگ ہے میری اُس سلسلے میں کچھ تیاری کرنی ہے"- فہد نے ریسٹ واچ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا-

"ہانیہ سے نہیں ملیں گے"- عائشہ اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی- فہد کا رنگ فق یوا- دل میں پہلے ہی ہلچل مچی ہوئی تھی اور وہ پھر اُس دشمنِ جاں کا نام لے رہی تھی- 

"تمہاری کزن کو میری شکل پسند نہیں ہے اور ویسے بھی اب وہ کہاں ہم سے بات کرنا چاہیں گی"- فہد نے دل میں اُٹھتی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا- ورنہ اِس وقت وہ جس تکلیف سے گزر رہا تھا وہ صرف وہ ہی جانتا تھا- 

"آپ کو دکھ نہیں ہو رہا"- عائشہ نے اُس کے تاثرات نوٹ کیے-

"یار میں اتنا دکھ برداشت کر چکا ہوں کہ اب تو پتہ نہیں چلتا کہ کس بات پہ دکھی ہوں"- وہ بولا تھا تو عائشہ نے اُس کی آواز میں نمی محسوس کی- اُس کادل دکھ سے بھر گیا-

"عائشہ میں تکلیف کی انتہا سے گزر رہا ہوں تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ اِس وقت یہاں کھڑے ہو کر مجھے کتنا درد ہو رہا ہے"- اُس کا چہرہ اُس کے جزبات کی عکاسی کر رہا تھا- 

"کاش میں آپ کے لیے کچھ کر سکتی"- عائشہ کو افسوس ہوا-

"تمہاری کزن بہت پتھر دل ہے عائشہ ۔۔۔۔کاش ایک بار صرف ایک بار وہ میرے پیار کی شدت محسوس کرتی اُسے پتہ چلتا کہ میں اُس دیوانی سے کتنا پیار کرتا ہوں"-وہ خود کو بمشکل سنبھال رہا تھا- 

"خیر چھوڑو اب کیا فائدہ ۔۔۔میں چلتا ہوں"- وہ جانے لگا تو عائشہ نے اُسے روک لیا-

"ایک بار اُس سے مل لیں پلیز"- 

"تم کیوں میرے صبر کو آزمانا چاہتی ہو"- فہد نے دکھ سے کہا-

"آپ میری خاطر ایک بار اُس سے مل لیں۔۔۔۔"- عائشہ نے اُسے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گیا-

"اوکے ۔۔۔۔"- وہ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ اکیلی تھی اِس وقت۔۔۔۔

"فہد بھائی میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ میں نےکیا محسوس کیا آج۔۔۔۔"- وہ بڑبڑائی-

فہد اسٹیج پہ بیٹھی ہانیہ کے پاس بیٹھ گیا- وہ سر جھکائے اپنی چوڑیوں سے کھیلنے میں مگن تھی- فہد کتنی ہی دیر اُس کے ہاتھوں کو دیکھتا رہا- اُن ہاتھوں اور ان میں پہنی چوڑیوں کو چھونے اُن کو چھیڑنے کا اُسے کس قدر جنون تھا- وہ پاگل سا ہو جاتا تھا اُن کی کھنک سن کر-

ہانیہ نے کسی احساس کے تحت سر اُٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی- مگر دوپٹہ کافی نیچے تک تھا- ناجانے کیوں دل میں اُس وقت ایک ہی خیال آیا-

"کیسی ہو۔۔۔۔؟"- وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا- نظر چاہ کر بھی نہ ہٹ پائی-

ہانیہ کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوئی- وہ اُس سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھا تھا- مگر وہ فاصلہ میلوں پہ محیط لگ رہا تھا- 

اُس کے دل کے ایک انوکھی سی خواہش کی کہ وہ گھونگھٹ اُٹھا کر پاس بیٹھے اُس انسان کا چہرہ دیکھے- فہد کتنی ہی دیر اُس کے جواب کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ بولی-

"اب تو ناراضگی ختم کر دو پلیز۔۔۔۔اب تو سب کچھ ٹھیک ہو گیا"- اُس نے اپنے اُدھم مچاتے دل کو سنبھالا- وہ اب بھی چپ تھی- مگر دو موتی پلکوں کی باڑ توڑ کر چپکے سے گالوں پر بکھرے تھے- وہ دونوں اب خاموش تھے- مگر دل دونوں کے دھڑک رہے تھے- محبت نے دونوں کے دلوں میں شور مچایا ہوا تھا- ہانیہ نے اپنی کلائی کو مٹھی میں لے لیا- وہ لمس آج بھی ویسے ہی دہک رہا تھا- مگر اِس وقت دل کی حالت عجیب سی تھی- بے ساختگی میں دل نے ایک اور خواہش کی کہ کاش وہ اُس کو پھر چھوئے- یہ سب کیا ہو رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی مگر ایک بات تو تھی کہ یہ پل بہت خاص تھے وہ انسان جس سے کبھی اُسے بے تحاشہ نفرت تھی اُس کے پاس بیٹھا تھا اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ چاہ رہی تھی کہ کاش وہ وہیں بیٹھا رہے- وہ اُسے مخاطب کرے مگر وہ چپ چاپ اُس کو سنے- وہ آواز اِس وقت دنیا کی خوبصورت ترین آواز محسوس ہو رہی تھی اُسے۔۔۔یہ دل بھی عجیب شے ہے عجیب سی خواہشات ہیں اسکی۔۔۔۔عجیب سے ضدیں کرتا ہے-

"شادی کی بہت بہت مبارک ہو ہانیہ ۔۔۔۔میں دعا کروں گا تمہاری زندگی میں کبھی کوئی غم نہ آئے-تمہارے حصے کے سب غم مجھے مل جائیں-تم اِس دنیا کی سب سے اچھی لڑکی ہو خدا کرےتمہارے چہرے کی مسکان ہمیشہ یونہی رہے"-وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو بمشکل اندر اتارتے ہوئے کرب سے بولا تھا-ہانیہ نے منہ پہ ہاتھ رکھ کہ اپنی چیخوں کو روکا تھا-اُس کے دل کے کئی ٹکڑے ہوئے تھے-یہ کیا ہو رہا تھا وہ کیا کر رہی تھی-وہ کتنی شدت سے محبت کرتا تھا اور محبت بھی ایسی تھی جس میں پانے کی چاہ نہیں تھی-بے لوث محبت جسکی کوئی حد نہیں ہوتی-یہ محبت بھی انسان کو کتنا بے بس اور لاچار کر دیتی ہے-

اُس کا دل چاہا وہ چیخے اور اُس کو کہے کہ وہ کیوں محبت کرتا اُس سے وہ اِس قابل نہیں ہے- 

فہد وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا- ہانیہ کا دل دھڑکنا بند ہو گیا- اُس کو لگا سب ختم ہو جائے گا-

کاش فہد اُس سے زبردستی کرتا اور کہتا کہ وہ صرف اُسکی ہے- کاش وہ اُس کو ایک بار اور منا لیتا- کئی کاش نے سر اُٹھایا- پھر اچانک ہر منظر تاریک ہونے لگا- اُس کا سر چکرانے لگا- فہد نے اسٹیج سے نیچے پیر رکھا تھا اور ہانیہ صوفے پر بائیں جانب گر گئی- فہد کے دل میں ایک دم سے طوفان آیا تھا- دل نے کہا کہ مڑ کہ دیکھ لے مگر پھر سب نظر انداز کرتا وہ آگے بڑھ گیا-

***************

دلہن بے ہوش ہو گئی تھی- ہر کوئی حیران تھا- کئی سوال لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرنے لگے- کیئ کیوں نے سر اُٹھایا-وہ اُس کے پاس بیٹھی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی- اچانک اُسکی نظر اُس کے چہرے پر پڑی اُسے لگا ہانیہ بے ہیہوشی میں کچھ بڑبڑا رہی تھی- عائشہ نے اپنا چہرہ فورا اُس کے قریب کیا-عائشہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اُس کا اندازہ صحیح ثابت ہو گیا-وہ بے یقینی سے اُسے دیکھ رہی تھی مگر اُس کا چہرہ اندرونی جزبات کی چغلی کھا رہا تھا-

"تم مجھے چھوڑ کے کیوں چلے گیے۔۔۔۔پلیز واپس آجاؤ۔۔۔میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔مجھے تمہارے ساتھ تمہارے پاس رہنا ہے پلیز آجاؤ''- وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھی- عائشہ حیرانگی سے اُس کو دیکھ رہی تھی- اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ جو اُس نے سنا تھا وہ سچ تھا یا جو ہانیہ خود اپنے ہواس میں کہتی تھی وہ سچ تھا-

اُس کا دماغ تیزی سے کچھ پلان کرنے لگا- اب جو بھی کرنا تھا اُسے ہی کرنا تھا- ہر مسئلے کا حل نکالنا تھا- 

اُس نے فہد کا نمبر ملایا-بیل جا رہی تھی مگر وہ اُٹھا نہیں رہا تھا-اُس نے پھر ملایا- کچھ دیر بعد کال ریسیو کر لی گئی-

"ہیلو۔۔۔۔! "- دوسری طرف سے فہد کی مصروف سی آواز سنائی دی- وہ شاید بزی تھا- 

"فہد بھائی مجھے آپ سے ملنا ہے"- اُس نے بنا سلام دعا کے فورا کہا-

"اِس وقت۔۔۔"- وہ حیران ہوا- رات کے تین بج رہے تھے- فہد حیران ہوا-

"جی اِس وقت ۔۔۔مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے"- عائشہ نے ایک نظر بیڈ پہ بے سُد پڑی ہانی پر ڈالی-

"خیریت یے کیا؟ "- وہ پریشان ہو گیا-

"بس یوں سمجھ لیں کے کچھ خیریت ہے اور کچھ نہیں ہے"- وہ بولتی دوسری طرف سنتے فہد کی پریشانی کو بڑھا رہی تھی- 

"عائشہ بتاؤ کیا ہوا"- فہد کا بے چینی سے برا حال تھا- 

"آپ گھر آ جائیں پھر سب بتا دوں گی"- وہ مدھم سے لہجے میں بولی تھی- 

"نہیں تم مجھے ایسے ہی بتا دو۔۔۔۔میں گھر نہیں آسکتا"- فہد نے صاف انکار کر دیا-

"لیکن کیوں فہد بھائی"- وہ حیران ہوئی-

"بس نہیں آسکتا نا۔۔۔۔"- وہ وجہ نہیں بتانا چاہتا تھا-

"لیکن کیوں ۔۔۔۔وجہ بھی تو بتائیں نا"- عائشہ کی سمجھ میں اُس کا انکار نہیں آرہا تھا- 

"میں نے ہانیہ سے وعدہ کیا ہے اور میں وہ توڑ سکتا"- فہد نے ناچاہتے ہوئے بھی وجہ بتا ہی دی-

"اگر وہ خود یہ سب چاہے تو۔۔۔۔"- عائشہ نے اُس کو مزید حیرت میں مبتلا کر دیا-

"عائشہ ۔۔۔۔"- فہد کو لگا اُسے سننے میں غلطی ہوئی ہو-

"شادی کریں گے اُس سے۔۔۔۔"- وہ بولی تو دوسری طرف فہد کے ہاتھ سے فون چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا-

اُسے اپنی سماعت پہ یقین نہ آیا- یوں لگا جیسے کانوں نے سننے میں غلطی کی ہو-

"یہ تم کیا کہہ رہی ہو''- فہد کو یہ بات مزاق لگی تھی- 

"آپ بتائیں کریں گے شادی۔۔۔۔"- وہ دوبارہ بولی-

"عائشہ پلیز ایسا مزاق برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں میں اِس وقت۔۔۔۔"- فہد رو دینے کوہو گیا- دل نے ضد شروع کر دی- یہ خواہش تو اُس کی زندگی تھی- اِس کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا تھا- دل نے شدت سے دعا کی کہ کاش یہ ہو جاتا-

"میں مزاق کروں گی وہ بھی آدھی رات کو ۔۔۔۔"- عائشہ نے اُلٹا اُسی سے پوچھا-

"عائشہ میں مر جاؤں گا۔۔۔۔پلیز مجھے ایسے مت تڑپاؤ۔۔۔بتاؤ کیا بات ہے"- وہ دیوانہ ہو رہا تھا- 

"اُس سے شادی کر لیں سب سمجھ میں آجائے گا"- وہ اُس کی حالت سے انجان نہیں تھی- 

"وہ نہیں مانے گی عائشہ ۔۔۔۔"- فہد رو پڑا- کتنی بے بسی تھی- 

"یہ سب آپ مجھ پہ چھوڑ دیں۔۔۔۔"- عائشہ نے اُسے کو یقین دلایا-

"اور میران شاہ۔۔۔۔۔"- فہد نے اچانک یاد آنے پر پوچھا-

"میں اُسے سب کچھ سچ سچ بتادوں گی۔۔۔اور ویسے بھی اُسے ہانیہ سے اتنی محبت نہیں ہے کہ وہ اُس کے بغیر مر جائے"- عائشہ فہد کو جان چکی تھی- وہ ہانیہ کے لیے کس حد تک سیریس تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی- 

"میں ماما سے بات کرتا ہوں ۔۔۔۔"- فہد کی آواز خوشی سے لڑکھڑا رہی تھی- 

"بائے۔۔۔۔"- عائشہ نے فون بند کر دیا-

**************

شادی کا دن کسی بھی لڑکی کی زندگی کا اہم ترین دن ہوتا ہے- وہ اِس دن کے حوالے سے کئی خواب آنکھوں میں سجا کہ رکھتی ہے- اگر شادی من پسند لڑکے سے ہو تو اُن خوابوں کو تعبیر مل جاتی ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو سب خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو جاتے ہیں- 

کطھ بیوٹیشن کے ہاتھوں کا کمال تھا اور کچھ وہ خود بہت خوبصورت تھی وہ غضب ڈھا رہی تھی- ایک سے دوسری نگاہ ڈالنے والا سوچتا کہ کہیں نظر ہی نہ لگ جائے-

عائشہ کمرے میں آئی- بیوٹیشن فری ہو چکی تھی- عائشہ اُسے باہر تک چھوڑ کر واپس اندر چلی آئی-ہانیہ سر جھکائے بیٹھی تھی- 

"بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاء اللہ ۔۔۔۔"- عائشہ نے اُس کا چہرہ اوپر کیا- بھوری آنکھوں میں انسو تھے- 

"کیا بات ہے۔۔۔"- وہ اُس کے پاس بیٹھ گئی-

"ماما اور پاپا بہت یاد آرہے ہیں آج۔۔۔کاش وہ میرے پاس ہوتے۔۔۔میری زندگی میں اُن کی دعاؤوں کی بہت کمی ہے عاشی۔۔۔۔اِسی لیے خوشیاں ہمیشہ مجھ سے روٹھی رہتی ہیں"-وہ رو رہی تھی- عائشہ کو بہت دکھ ہوا- یہ موقع ہی ایسا تھا ہر لڑکی کو اس موقعے ہر والدین کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے-

"ایسے کیوں سوچتی ہو ہانی۔۔۔۔ہم سب ہیں نا تمہارے اپنے۔۔۔۔تمہارے لیے دعا کرنے والے ۔۔۔تم کیوں ایسی باتیں کرتی ہو"- وہ اُسے تسلی دینے لگی-

"ایسا پیار مجھے اور کون کرے گا عاشی۔۔۔۔"- وہ مزید اُداس ہو گئی- "میں نے زندگی میں صرف محبت دیکھی ہے کسی کی بے رخی اور نفرت کیسے سہوں گی"-

"الله نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو ۔۔۔تمہیں کبھی کوئی دکھ ملے یا تم سے کوئی نفرت کرے"-وہ اُس کی رگ رگ سے واقف تھی- سمجھ گئی تھی کہ وہ ایسا کیوں بول رہی ہے-

"تم سے محبت ہے ہانی اسی لیے تو چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے کہ فہد بھائی سے ذیادہ پیار کوئی اور تم سے کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔وہ تمہیں بہت خوش رکھیں گے"- عائشہ اُس کا چہرہ دیکھتی دل میں سوچ رہی تھی- 

فہد کے لیے گھر والوں کو منانا اتنا آسان کام نہیں تھا- مگر عائشہ نے یہ رسک لیا تھا- دادا جان کو سب کچھ سچ بتا دیا تھا- وہ سب لوگ بھی ہانیہ کی خوشی ہی چاہتے تھے اور فہد سے دادا جان کو دلی لگاؤ تھا- وہ سلجھا ہوا ایماندار سا افیسر اُن کی نادان اور بے وقوف سے پوتی کے لیے واقعی بہترین تھا- باقی گھر والوں کو اُنہوں نے خود سمجھا لیا تھا- سب سن کے شاکڈ ہوئے تھے مگر دادا جان کے فیصلے سے اختلاف کی جرات کسی کی نہیں تھی- 

دادا جان نے ہی میران شاہ کے گھر والوں کو بڑی راز داری سے انکار کر دیا- اُن لوگوں کو بہت بری لگی یہ بات مگر عائشہ کے سب کچھ بتا دینے پر میران شاہ نے خود ہی اپنے گھر والوں کو سمجھا لیا- وہ اتنا ظالم نہیں تھا کہ ہانیہ کی خوشی کے لیے یہ سب نہ کرتا۔۔۔۔ہانیہ اگر فہد کے ساتھ خوش تھی تو وہ اُس کی خوشی میں خوش تھا- چاند نے اُسے نیہا سے شادی کرنے کا مشورہ دیا تو کچھ سوچ کر وہ مان گیا- ایک بات جو اُس نے بہت پہلے سنی تھی کہ شادی اُس سے کرو جو آپ سے محبت کرتا ہو نا کہ اُس سے جس سے آپ محبت کرتے ہوں- نیہا اُس کی اچھی دوست تھی- وہ دونوں خوش رہ سکتے تھے-

ہانیہ اِس سب سے بے خبر تھی- کسی نے بھی اُسے کچھ نہیں بتایا تھا- 

"ہانی اتنا مت سوچو جو ہو رہا ہونے دو۔۔۔"- عائشہ نے کہا تو وہ چپ چاپ انسو اندر اتارنے لگی-

تبھی دادا جان اور تایا ابو نکاح خواں کو لے آئے- ساتھ میں تائی اماں بھی تھیں- عائشہ نے بڑی سی چادر اُس پر اُوڑھا دی-

ہانیہ کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا- جب تایا ابو نے اُس کے ہاتھ میں پینسل تھمائی تو اُس کا پورا جسم پسینے میں بھیگ گیا-

"یہاں سائن کرو بیٹا۔۔۔۔"- اُنہوں نے ایک انگلی سے اُس کی گود میں رکھے رجسٹر پر اشارہ کیا-

تو وقت آگیا تھا کہ فیصلہ ہو جاتا- مطلب سب ختم ہونے والا تھا- 

"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی فہد۔۔۔۔تم نے میرے ساتھ بلکل اچھا نہیں کیا۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلے گیے"- وہ ہچکیاں لینے لگی- یہ سب سوچنے سے پہلے وہ بھول گئی تھی کہ وہ خود بھی یہی سب چاہتی تھی- اُس کی مرضی سے ہی ہو رہا تھا- 

"ہانیہ پتر سائن کرو۔۔۔۔"- دادا جان نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا-

ہانیہ نے لرزتے ہاتھوں سے جہاں وہ بتاتے گئے سائن کر دیے- پنسل ہاتھوں سے گر گئی- جسم سے جان ختم ہونے والی ہو گئی-

نکاح کے بعد کیا ہوا وہ نہیں جانتی تھی- مگر عائشہ کے گلے لگ کہ وہ بہت روئی تھی- یوں لگا جیسے زندگی میں سب کچھ کھو دیا ہو-

**************

ہانیہ کو اسٹیج پہ لا کہ بٹھا دیا گیا- سرخ لہنگے میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی- اُس کے ساتھ بیٹھا فہد بھی کوئی شہزادہ لگ رہا تھا- آج تو اُس کا ہر انداز ہی نرالا تھا- زندگی میں سب کچھ تو پالیا تھا اس سے ذیادہ کی خواہش وہ کہاں کر سکتا تھا- قسمت اتنی جلدی بازی پلٹے گی کب سوچا تھا- 

ہانیہ کسی بت کی طرح بیٹھی ہوئی تھی-تبھی عائشہ چلی آئی-

"جی تو سنائیں فہد بھائی کیسے ہیں آپ۔۔۔؟"- وہ شرارت سے بولی-فہد نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کہ اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور ساتھ میں گھورا- عائشہ نے اوپس کہہ کہ منہ پہ ہاتھ رکھا - یہ وہ کیا کر بیٹھی تھی- ہانیہ حیرت سے سر اُٹھا کر عائشہ کو دیکھنے لگی- فہد نے اپنا سر پیٹ لیا- عائشہ سے ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی- عائشہ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی-

ہانیہ نے گردن موڑ کر اپنے برابر بیٹھے فہد کو دیکھا تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا- یہ کیسے ہو سکتا تھا- اُس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا- وہ تو سکتے میں آگئی-

"ہانیہ۔۔۔۔"-فہد نے اُسے پکارا-

"تم۔۔۔۔"-وہ بولی نہیں چلائی تھی- فہد نے فورا ادھر ادھر دیکھا- شکر تھا کہ ابھی کوئی متوجہ نہیں تھا- مگر ہو سکتا تھا- فضول میں تماشہ بن جاتا-

"دیکھو پلیز چلانا مت۔۔۔میں تمہیں رات کو سب بتا دوں گا مگر پلیز ابھی چپ چاپ بیٹھی رہو۔۔۔۔"- وہ اُس کی منت کرتے ہوئے بولا-

"آپ نے مجھ سے چیٹنگ کی۔۔۔۔"- وہ شاکڈ تھی- 

"نہیں ہانی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔میں سب سمجھا دوں گا۔۔۔۔تم جو سزا دو گی مجھے منظور ہو گی مگر ابھی کچھ مت بولنا۔۔۔"- سرگوشی میں بولا-

"آپ نے ایسا کیوں کیا؟ "- بھوری آنکھوں میں پانی آگیا-

"سب گلے شکوے دور کر دوں گا آئی پرامس۔۔۔۔"- وہ دھیرے سے اُس کا ہاتھ تھام کر بولا مگر ہانیہ نے فورا چھڑوا لیا- البتہ اُس کے بعد وہ کچھ نہیں بولی تھی- اندر ہی اندر انسو پیتی رہی-

رخصتی کے وقت وہ اس قدر روئی تھی کہ وہاں ہر آنکھ اشک بار ہو گئی- اُس کا ایک ایک انسو فہد کے دل پر گر رہا تھا- 

"میں ان سب انسؤوں کا بدلہ چکا دوں گا ہانی۔۔۔۔۔"- وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا تھا...

فہد دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا- کمرے میں ملگجی سی روشنی ہو رہی تھی- اُس نے ایک نظر اپنے نفاست ذدہ کمرے پر ڈالی- کوئی بھی چیز اپنی اصلی حالت میں نہیں تھی- ہر چیز کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا- پھولوں کی لڑیاں جو بیڈ کے گرد پہلے بڑی خوبصورتی سے سجی ہوئی تھیں اِس وقت زمین پر بکھری اپنی حالت پر ماتم کناں تھیں- اُنہیں کس قدر بے دردی سے نوچ کر پھینکا گیا تھا یہ اُن کی حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا- کمرے کے سارے گلدان فرش پر کرچیوں کی صورت میں پڑے تھے- اور یہ سب کرنے والی خود اِس وقت بیڈ کے وسط میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی ہچکیاں لے رہی تھی- دوپٹے کو اتار کر صوفے پر پھینک دیا گیا تھا- فہد نے ایک تاسف بھری نگاہ ہر طرف ڈالی اور کانچ کے ٹکڑوں سے بچتا بچاتا بیڈ تک آیا- بیڈ کے ایک کنارے پر ٹک کر وہ کتنی ہی دیر اُس دشمنِ جاں کو دیکھتا رہا- سیاہ لمبے بالوں میں اُس کو چہرہ بلکل چھپا ہوا تھا- وہ اُسے مخاطب کرنے کے لیے الفاظ تلاشنے لگا-

"ہانی۔۔۔۔۔"- دھیرے سے اُسے پکارا- لہجے میں جزبات کی شدت بلکل واضح تھی- 

ہانیہ نے ایک جھٹکے سے سر اُٹھا کر اُس کو دیکھا- رو رو کر آنکھیں سوجھ چکی تھیں- کاجل پھیل چکا تھا- میک اپ کا ستیاناس مار چکی تھی وہ-

"خبردار جو مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔"- وہ چلاتے ہوئے بولی-

فہد کے دل کو کچھ ہوا- وہ فوراً اُس کے قریب ہوا-

"ہانی میری بات سنو پلیز۔۔۔۔"- اُس نے اُس کو شانوں سے تھامتے ہوئے کہا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی- پورے جسم میں بجلی سی کوند گئی تھی- 

"کہا نہ مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔"- وہ پھر رونا شروع ہو گئی-

"تو اور کس سے بات کروں پھر۔۔۔۔"- فہد بے بسی سے بولا-

"جس سے مرضی کریں ۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔"-وہ اُس سے کچھ فاصلے پر ہوئی-

"سوری۔۔۔۔"- فہد نے اپنے بالوں کو مٹھی میں جھکڑتے ہوئے کہا مگر وہ ہنوز ناراض رہی- اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا-

"ہانی میری جان۔۔۔۔۔"- فہد نے اُسے بانہوں کے گھیرے میں لے لیا-

"نہیں ہوں میں آپ کی جان۔۔۔۔اپنی جان کے ساتھ کوئی ایسے کرتا ہے"- وہ مزاحمت کرنے لگی- حصار کو توڑنے کی کوشش کی-

"کیا کر دیا میں نے ایسا۔۔۔۔۔"- فہد حیران ہوا-

"آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گیے تھے"- وہ سوں سوں کرتے ہوئے بولی تو فہد کا دل چاہا ایسی معصومیت پر فدا ہو جائے- کیا شان تھے محترمہ کے پہلے خود ہی دور رہنے کے لئے کہا اور اب شکوہ کر رہی تھیں کہ وہ اُس کو چھوڑ کر کیوں گیا-

"تم نے خود تو کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہے۔۔۔۔میں تمہارے سامنے نہ آیا کروں"- وہ اُس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولا- ہانیہ اُس کا چہرہ دیکھنے لگی-

"تو آپ نے سچ مچ ایسا کر دیا"-وہ مدھم سے لہجے میں بولی-

"تمہاری بات کیسے ٹال سکتا تھا ہانی۔۔۔"- فہد نے اُس کے انسو اپنی پوروں پر چن لیے- ہانیہ کو لگا جیسے زندگی سے سارے غم دور ہو گیے ہوں- اُس کے اندر تک سکون اتر گیا-

"میں نے آپ کو بہت مس کیا تھا۔۔۔۔"- وہ اُس کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے بولی- فہد نے کسی قیمتی متاع کی طرح اُسے سمیٹ لیا- یہ وہ لڑکی تھی جس کو اُس نے پوری شدتوں سے چاہا تھا- جس کو پانے کے لیے وہ لمحہ لمحہ تڑپا تھا- 

ہانیہ آنکھیں موندیں لمبے لمبے سانس لینے لگی- اندر کی ساری گھٹن باہر نکال دی-

"یار کیا حال بنا لیا اپنا۔۔۔۔ابھی تو میں نے ٹھیک سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا اور تم نے اپنا حلیہ بگاڑ دیا"- وہ اُس کی حالت دیکھ کر افسوس سے بولا-

"یہ سب آپ کی وجہ سے ہی ہوا ہے" - وہ اپنی غلطی کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی- 

"اچھا ایک بات تو بتاؤ؟ "- وہ اُس سے الگ ہوئی تو فہد سیدھا ہو کہ اُس کے سامنے بیٹھ گیا-

"کیا؟ "- ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا- 

"اب تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو اب تم مجھے خود سے دور ہونے کے لیے نہیں کہو گی نہ۔۔۔؟"- وہ معصومیت سے بولا-اُس کے مہندی اور چوڑیوں سے سجے ہاتھ تھام لیے-

"میں نے کب کہا کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں"- ہانیہ نے اُس کی چالاکی پر اُس کو مصنوعی گھوری سے نوازا-

"تو میڈم آپ نے یہ بھی تو نہیں کہا نہ کہ آپ نہیں کرتیں"- وہ اُس کی بات پر مسکرایا تھا- 

"اور یہ بھی نہیں کہا کہ کرتی ہوں"- وہ اُسے تنگ کرنے لگی-

"اوکے فائن۔۔۔"- فہد نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ چھوڑ دیے-

"ناراض تو نہیں ہوئے نہ۔۔۔۔"- وہ اُس کی طرف جھکتے ہوئے بولی-

"تمہیں کونسا فرق پڑتا۔۔۔۔"- وہ خفگی سے بولا تو ہانیہ کو اُس پر ڈھیروں پیار آیا- وہ روٹھا ہوا بہت معصوم لگ رہا تھا- اُس شخص کے لیے اُس کے دل میں کئی گنا پیار بڑھ گیا- وہ واقعی بہت خوش قسمت تھی-اتنی محبت بھی تو قسمت والوں کو ملتی ہے- اُسے خود پہ رشک آیا-

"بہت فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔"- وہ اُسے مزید ناراض نہیں کر سکتی تھی- 

"اچھا چلو پھر کہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے"- وہ اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا تو ہانیہ نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑوا لیا-

"یہ چیٹنگ ہے ۔۔۔"- اُس نے دہائی دی-

"کوئی چیٹنگ نہیں ہے۔۔۔۔چلو بولو"- وہ اُسے فورس کرنے لگا-

"میں نہیں بولوں گی"- اُس نے پھر نخرے دکھائے-

"پلیز بولو ہانی ۔۔۔۔بس ایک بار ۔۔۔۔پلیز"- وہ ضد کرنے لگا- 

"نہیں ۔۔۔"- ہانیہ کو اُسے تنگ کرنے میں مزہ آنے لگا-

"اچھا چلو یہ بتاؤ تمہیں اِس دنیا میں کس چیز سے سب سے ذیادہ پیار ہے؟"- فہد جانتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گی- اِس لیے اُسے ٹریک سے نیچے اتارتے ہوئے پوچھنے لگا-

"مجھے اِس دنیا میں سب سے ذیادہ پیارچوڑیوں سے ہے"- وہ اُس کو مزید تنگ کرنے لگی-

"واٹ۔۔۔۔"- فہد کو اِس جواب کی اُمید نہیں تھی- وہ حیرانگی سے بولا-

"ہاں سچی۔۔۔۔مجھے چوڑیوں سے بہت پیار ہے"- وہ اپنی کلائی میں پہنی سرخ چوڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی-

"آپ کو کس سے ہے؟ "- وہ جانتی تھی پھر بھی پوچھ لیا-

"مجھے پھولوں سے بہت پیار ہے"- فہد نے بھی اُسے وہ جواب نہ دیا جو وہ سننا چاہتی تھی- تھوڑا تو تنگ کرنے کا حق اُس کا بھی بنتا تھا- 

"اور مجھ سے۔۔۔۔"- ہانیہ صدمے سے بولی-

"تم سے۔۔۔۔"- وہ سوچ میں پڑ گیا- "تم بھی اچھی لگتی ہو مجھے"- وہ انجان بن رہا تھا- 

"بس اچھی۔۔۔"-ہانیہ نے حیرت سے اُس کو دیکھا- "جاؤ میں آپ سے بات نہیں کروں گی"- وہ ناراض ہوئی-اُٹھ کر جانے لگی-

"ارے یار یہ ظلم مت کرنا پلیز۔۔۔۔مزاق کر رہا تھا میں۔۔۔"- فہد نے اُس کو روکا-

"سچ بول رہے ہیں ۔۔۔"- وہ مشکوک ہوئی-

"تمہاری قسم۔۔۔۔"- فہد نے پیار سے اُس کو دیکھا-

"اچھا میں چینج کر کے آتی ہوں"- وہ اب اتنے ہیوی ڈریس سے تنگ آچکی تھی- 

"چلو ٹھیک ہے جلدی آنا۔۔۔۔"- فہد بیڈ پہ نیم دراز ہوتے ہوئے بولا تو وہ مسکراتے ہوئے چینج کرنے چلی گئی-

              **************

اگلی صبح بڑی چمکیلی اور روشن تھی- رات بھر ہونے والی بارش کے بعد مطلع صاف ہو گیا تھا- فہد شاور کے کر واپس کمرے میں آیا تو وہ ابھی تک سو رہی تھی- اُس کے بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے- اُس نے ایک پیار بھری نظر اُس پر ڈالی اور چلتا ہوا قریب آگیا- کتنی ہی دیر اُس کے چہرے کو دیکھتا رہا- پھر جھک کر اُس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے- وہ تھوڑا سا کسمسائی تھی مگر جاگی نہیں تھی- کروٹ بدل کر سو گئی-

"ہانی۔۔۔۔۔"- فہد نے اُسے ہلایا- وہ چیخ مار کر اُٹھ بیٹھی- فہد خود بھی ڈر کے تھوڑا پیچھے ہو گیا-

"کک کیا ہوا؟ "- اُس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا-

"صبح ہو گئی ہے میڈم اُٹھ جائیں ۔۔۔"- وہ ایک لمبی سانس خارج کر کہ اُس کے نزدیک بیٹھ گیا-

"کب ہوئی؟ "- وہ ابھی تک ہونقوں کی طرح اُسے دیکھ رہی تھی- 

"جب تم خوابوں کی وادی میں گھوم رہی تھی"- وہ دراز کھول کر کچھ دیکھنے لگا-

"ویسے تم دنیا کی پہلی دلہن ہو گی جو ایسے چیخ مار کر اُٹھی ہے"- فہد نے ایک مخملی ڈبیا نکالی- اُس میں ایک ڈائمنڈ رنگ تھی-

"سوری یار رات کو نہیں دے پایا- منہ دکھائی کا تحفہ ویسے تو رات کو ہی بنتا ہے مگر شادی اتنی جلدی میں ہوئی ہے کہ اِس کا ٹائم ہی نہیں ملا- ابھی منگوائی ہے"- وہ اُس کی انگلی میں پہناتے ہوئے بتانے لگا- ہانیہ حیرت سے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی- صفائی دینے کی ضرورت نہیں تھی مگر وہ پھر بھی دے رہا تھا- 

"کیسی لگی۔۔۔۔"- وہ اُسے چپ پاکر گویا ہوا-

"بہت پیاری ہے۔۔۔"- وہ بمشکل یہی بول پائی- اچانک سے ناجانے کیوں اتنی شرم آرہی تھی- 

"تم سے ذیادہ پیاری نہیں ہے۔۔۔۔"- فہد نے اُس کے ہاتھ کی پشت کو چوما تھا- ہانیہ کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا- پوری جان ہاتھ میں سمٹ آئی-

"اچھا اب بولو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے"- وہ پھر رات والی بات لے کر بیٹھ گیا-

"میں نہیں بولوں گی۔۔"- وہ پھر انکاری ہوئی-

"میں اب کی بار سچ میں ناراض ہو جاؤں گا"- فہد نے دھمکی دی-

"ہو جائیں ۔۔۔۔"- وہ شرارت سے بولی-

"پلیز ایک بار بول دو میں ترس گیا ہوں سننے کے لیے۔۔۔"- وہ اُس کی منت کرنے لگا-

"ابھی نہیں ۔۔۔"- اُس نے بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے-

"کب بولو گی۔۔۔۔"- وہ ناجانے کیوں اتنا فورس کر رہا تھا- 

"جب موڈ ہو گا"- ہانیہ بھی اپنے نام کی ایک تھی- 

"ابھی بنا لو نہ موڈ۔۔۔۔"- وہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بے چارگی سے بولا-

"پھر کبھی بولوں گی۔۔۔۔جب موڈ ہو گا"- ہانیہ ابھی بھی اُسے تنگ کرنے سے باز نہ آئی- ٹیبل پہ پڑا اپنا کافی کا مگ اُٹھا لیا جو اُس کے سونے کے دوران رکھا گیا تھا- فہد اپنی پی چکا تھا- 

"اور کیا پتہ جب تمہارا موڈ ہو تب میں تمہارے پاس ہی نہ ہوں ۔۔۔۔"- اُس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جس نے ہانیہ کو سن کر دیا- کافی والا مگ ہاتھ میں لرزنے لگا-

"فہد۔۔۔۔"- وہ بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی-

"ایک بار بول دو ہاں کیا جائے گا تمہارا۔۔۔۔"-وہ بے چینی سے بولا تھا- 

"میں نہیں بولوں گی آپ نے کیوں کہا ایسے۔۔۔۔"- اُس کی آنکھوں میں انسو آگئے-

"اچھا جاؤ میں اب بات نہیں کروں گا"-اُس نے ہانیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا-وہ ناراض ہو کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا-

ہانیہ نے اُسے پکارا مگر وہ نہ رکا-وہ فہد کے اتپُنے عجیب سے رویے پر حیران تھی- اچانک سے اُسے ناجانے کیا ہو گیا تھا-اُس کا دل گھبرانے لگا- عجیب سی بے چینی رگ رگ میں سما گئی- اُس نے کافی کا مگ ویسے کا ویسا ہی واپس رکھ دیا-فہد کچھ دیر بعد ہی ناراض ناراض سا کمرے سے نکل گیا- ہانیہ کو دکھ ہوا-

                ****************

ولیمے کی تقریب رات کو تھی- پورا دن اُس کے گرد فہد کی کزنز گھیرا ڈالے بیٹھی رہیں-ؤ ہانیہ کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا- فہد کی ناراضگی اُس کی جان نکال رہی تھی- پورا دن وہ اُس کو نظر نہ آیا- عائشہ شام سے زرا پہلے آئی تو اُسے کچھ حوصلہ ہوا- لڑکیاں ایک ایک کر کے کمرے سے نکل گئیں-

"عاشی فہد کہاں ہے؟ "- کمرہ خالی ہوتے ہی اُس نے عائشہ سے پوچھا تو وہ جو اُس کا ولیمے کا ڈریس سیٹ کر رہی تھی حیرانگی سے اُسے دیکھنے لگی-

"ہزبینڈ تمہارا ہے مجھے کیا پتہ ہو۔۔۔۔"- وہ اُسے گھور کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی-

"وہ مجھ سے ناراض ہے۔۔۔"- اُس نے افسردگی سے بتایا-

"اے لو۔۔۔۔ایک دن میں ہی ناراض بھی کر دیا۔۔۔کیا بنے گا تمہارا ہانی۔۔۔۔مجھے تو تمہارے فیوچر کی ٹینشن لگ گئی ہے"- عائشہ سر تھام کہ بیٹھ گئی-

"ذیادہ ڈرامے نہ کرو اب۔۔۔۔"- وہ اُسے گھور کر بولی-

"اچھا ویسے وہ ناراض کیوں ہوئے ہیں "- عائشہ پھر سے اپنے کام میں لگ گئی-

"یہ میں تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ہماری پرسنل بات ہے"- وہ ناک سکوڑ کر بولی-

"تو اپنا یہ پرسنل مجھے بتایا کیوں تھا"- عائشہ نے اُس کو بازو پہ چٹکی کاٹی-

"افففف ظالم۔۔۔۔۔دلہن ہوں میں اور دلہن کے ساتھ ایسے کرتے ہیں"- وہ اپنا بازو سہلانے لگی-

"تو دلہنوں والی حرکتیں کرو نہ تم بھی۔۔۔۔"- اُس نے بھی دو بدو جواب دیا- "ویسے ہانی تم بہت چھپی رستم ہو۔۔۔۔محبت کا ڈھنڈورا میران شاہ سے پیٹا اور شادی فہد بھائی سے کر لی۔۔۔۔واہ واہ۔۔۔۔آپ کی تو کیا ہی بات ہے"-وہ اُسے چھیڑنے لگی-

"یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے میں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔۔تم سے میں بہت اچھے سے نبٹوں گی۔۔۔ابھی تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں اُس کو کیسے مناؤں"- وہ یاد آنے پر پھر پریشان ہو گئی-

"ارے یار فہد بھائی تم سے ناراض ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔۔اویں ٹینشن لے رہی ہو"- عائشہ نے اُس کو تسلی دی-

"پتہ نہیں کہاں غائب سے صبح سے۔۔۔۔"- اُس کی پریشانی جوں کی توں تھی- 

تبھی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا-دونوں اُس کی طرف متوجہ ہوئیں-

"آئیے آئیے فہد بھائی آئیے ۔۔۔۔لوگ پلکیں بچھائے آپ کے منتظر ہیں ۔۔۔۔اپنا دیدار کروا دیں اُن کو"- اُسے دیکھتے ہی عائشہ شوخ ہوئی- وہ اُن کے پاس ہی چلا آیا- ہانیہ کے پاس بیٹھا تو وہ خود میں سمٹ گئی- 

"رئیلی۔۔۔۔ویسے لگ تو نہیں رہا ایسا کچھ۔۔۔۔"- اُس نے شرارت سے ہانیہ کو ایک نظر دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی- 

"ہاں بلکل۔۔۔۔بار بار آپ کو یاد کیا جا رہا"- وہ ہانیہ کے شرمائے لجائے کو دیکھ کر بولی- اُس کے چہرے پر دھنک رنگ بکھر گئے تھے- عائشہ نے دل میں اُس کی خوشیوں کی دعا مانگی-

"یقین تو نہیں آرہا مجھے۔۔۔۔"-وہ پھر بولا-

"میں چلتی ہوں آپ زرا یقین کر لیں پلیز۔۔۔۔"- عائشہ چیزیں سمیٹتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی-

"تھینک یو۔۔۔۔"- فہد نے شرارت سے کہا تو وہ اُسے گھورنے لگی-فہد مسکرایا-

"بہت تیز ہیں آپ ویسے۔۔۔۔۔"- وہ ہنستی ہوئی باہر نکل گئی-

"جی تو آپ بتائیں زرا محترمہ آپ کا دماغ ٹھکانے پر آیا کہ نہیں ۔۔۔۔"- وہ ہانیہ کی طرف مڑا-

"نہیں ۔۔۔۔"- وہ بڑے آرام سے بولی-

"یہی امید تھی تم سے مجھے ظالم لڑکی۔۔۔"- فہد نے منہ بناتے ہوئے کہا-

"ویسے آپ تھے کہاں صبح سے۔۔۔۔ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا۔۔۔۔"- وہ اُس کے کندھے سے سر ٹکاتے ہوئے بولی تو فہد نے بازو سے اُس کے گرد حصار بنا لیا-

"تم نے مجھے مس کیا تھا"- وہ اُس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا-

"بہت ذیادہ۔۔۔۔"-وہ بلا تردود اقرار کر گئی- فہد کو خوش گوار سی حیرت ہوئی-

"میں نے بھی تمہیں بہت مس کیا تھا سچی۔۔۔۔"- وہ ایک دم خوش ہو گیا- اُس کے لئے اتنا ہی کافی تھا- 

"آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں ۔۔۔۔"- ہانیہ نے سر اُٹھا کر اُس کی آنکھوں میں دیکھا- جہاں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا- 

"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔بھلا کوئی اپنی زندگی سے ناراض ہو سکتا"- وہ انسان واقعی سراپا محبت تھا- 

"ایک بات پوچھوں ؟"- ہانیہ نے کچھ سوچ کر ہوچھا-

"دو پوچھ لو۔۔۔۔"- وہ فراخدلی سے بولا-

"آپ میران شاہ کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔۔۔آپ کے دل میں اُس کے حوالے سے کوئی سوال تو نہیں ہے۔۔۔۔"- وہ پوچھتے ہوئے جھجک رہی تھی- 

"ہانیہ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میں تم پر خود سے بڑھ کر ٹرسٹ کرتا ہوں۔۔۔۔میران شاہ کے حوالے سے میرے دل میں نہ کل کوئی بات تھی نہ آج ہے۔۔۔۔اور تم میری بیوی ہو اب تو کسی شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے"- وہ دھیرے دھیرے اُس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا- 

"میران شاہ تمہارا ماضی تھا۔۔۔اس لیے کبھی بھی یہ مت سوچنا کہ میں تمہیں اُس کے حوالے سے کوئی طعنہ دوں گا یا کبھی تم پر شک کروں گا۔۔۔۔میری سوچ اتنی چھوٹی نہیں ہے۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم بہت معصوم اور پاکیزہ ہو"- مرد جب عورت کو اعتبار کی امید دلاتا ہے تو وہ خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتی ہے- عورت محبت سے ذیادہ عزت کی کرنے والے سے پیار کرتی ہے-ہانیہ کو لگا اگر اِس دنیا میں کوئی انسان لفظوں سے جادو کرتا ہے تو وہ فہد مرتضی ہے- وہ شخص اُسے اس وقت دنیا کا سب سے خوبصورت لگا-

"آئی لو یو فہد۔۔۔۔آئی رئیلی رئیلی لو یو۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں"- ہانیہ نے اُس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ جو کل سے اُس کی منتیں کر رہا تھا- وہ اتنی آسانی سے بول دے گی- اُس کو لگا اگر کچھ سچ تھا تو صرف وہ جو ہانیہ بول رہی تھی اور ہانیہ کے لیے وہ سچ تھا جو فہد بول رہا تھا باقی سب جھوٹ تھا- 

میران شاہ جیسا بھی تھا مگر اُس نے ایک چھوٹی سی بات پر ہانیہ پر شک کیا تھا- اور ہانیہ کے دل سے وہ اُسی دن اُتر گیا تھا- ہانیہ کو اُس سے محبت تھی مگر فہد مرتضی سے عشق تھا- وہ انسان جو اُس سے محبت کے ساتھ ساتھ اُس کی عزت بھی کرتا تھا- اُس پر اعتبار کرتا تھا اور ہانیہ کو اِس سے ذیادہ اور کس چیز کی خواہش تھی- 

"تھینک یو ہانی۔۔۔میری زندگی میں آنے اور اُسے مہکانے کے لیے"- فہد نے اُس کے بالوں پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا تو ہانیہ کے اندر باہر سکون چھا گیا-

خوشیاں اُن کی زندگی میں ڈھیرا جمانے آچکی تھیں- زندگی اب اُس کے سنگ بہت پرسکون گزرنی تھی- ہانیہ نے سکون سے آنکھیں موند لیں-

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Chori Jo Khanki Hatho Me   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Chori Jo Khanki Hatho Me  written by  Pari Chehra . Chori Jo Khanki Hatho Me by Pari Chehra  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages